قرآنی حوالے کے لیے پہلے سورہ نمبر ٹائپ کریں، پھر کولن [ : ] پھر اِسپیس دے کر آیت نمبر۔ اگر ایک ہی سورہ کے ساتھ ایک سے زیادہ آیات ہو تو پہلی آیت نمبر کے بعد اسپیس دے کر   تا   ٹائپ کرے پھر اسپیس دے کر آخری آیت نمبر ٹائپ کریں۔ مثال کے طور پر سورہ نمبر ۳۳ کی آیت نمبر ۴۵ تا ۴۶ کو اس طرح ٹائپ کریں   ۳۳: ۴۵ تا ۴۶   واضح رہے کہ سورہ نمبر اور کولن [:] کے بیچ میں اسپیس نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ کسی لفظ کو سرچ میں ٹائپ کریں تو اعراب نہ لگائے، مثال کے طور پر آخرت کو اخرت ، عقلِ کل کو عقل کل ٹائپ کریں۔
نہیں ہے تو اس لینک سے ڈاؤن لوڈ کریں (Urdu keyboard) اگر آپ کے کمپیوٹر میں اردو کی بورڈ
https://www.cle.org.pk/software/localization/keyboards/CRULPphonetickbv1.1.html

آٹھ سوال کے جواب

علم چشمۂ شیرین

ان لوگوں کی بہت بڑی ازلی سعادت ہے، جو علم کے چشمۂ شیرین کی لذّت کے دلدادہ ہیں، وہ اس آبِ زلال سے عالمِ شخصی کے ہر ملک و شہر اور ہر باغ و چمن کی آبادی وشادابی دیکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ ایک قرآنی حقیقت ہے کہ علم ہی کے پانی سے ہر چیز زندہ ہوسکتی ہے(۲۱: ۳۰) پس ایسی سعادت محترمہ کلثوم ناتھانی اور ان کی فیملی کو بہت بہت مبارک ہو۔

آمین!! ثم آمین!!!

ابتدائیہ

 

بِسمِ اللہِ الرَّحمنِ الرَّحِیمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ  وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ وَالصَّلَوٰةُ وَ السَّلَامُ

عَلَیٰ رَسُوْلِہٖ وَ عَلیٰ آلِہِ الطَّاھِرِیْنَ۔

 

اہلِ دانش کے سامنے یہ حقیقت روزِ روشن

کی طرح آشکار اور واضح ہے کہ متعلقہ علم کے سارے مضامین دین شناسی اور امام شناسی

میں سموئے ہوئے ہیں، اس لیے دین اور امام کی شناخت اسماعیلیت میں نہایت ہی ضروری

امر ہے، جس کے بغیر کسی اسماعیلی کو حقیقی سکون نہیں مل سکتا۔

 

علم و معرفت ہی سے مسائل حل ہوجاتے ہیں،

شکوک و شبہات کا ازالہ ہوجاتا ہے، ایمان کی روشنی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور جان و

دل کو تسکین ملتی ہے، اس سے مومن میں اولوالعزمی اور عالی ہمتی جیسی صفات پیدا

ہوجاتی ہیں غرض آنکہ علم و معرفت میں سب کچھ ہے۔

 

سوال کب پیدا ہوتا ہے؟ اس وقت جبکہ تعارف

نہ ہو یعنی جبکہ مذہب کی شناخت نہ ہو، جبکہ علم نہ ہو اور جبکہ لٹریچر نہ ملے،

سوال اُس وقت اُٹھتا ہے جبکہ دینی علم کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔

 

۱

 

 

خیر بہر حال اگر کوئی سوال پیدا ہوتا ہے

تو اس کے لیے جواب بھی مہیا کیا جاسکتا ہے، ایسا نہیں کہ سوال ہو اور جواب نہ ہو،

لیکن جو کچھ بھی ہو حق و صداقت پر مبنی ہونا چاہیے، ورنہ اس سے کوئی فائدہ حاصل نہ

ہوگا۔

 

چنانچہ اس کتابچہ میں آٹھ ایسے سوالات کا

جواب دیا گیا ہے جو ہمارے سٹوڈنٹ میں سے ایک نے پیش کیے تھے، جہاں اس کام کے لیے

ہم پر اعتماد کیا گیا تو وہاں یہ ہمارا فرض ہوتا ہے کہ متوقع خدمت کی انجام دہی کے

لیے کوشان رہیں اور اللہ تعالیٰ سے توفیق و یاری چاہیں۔

 

میرے عقیدے میں اسماعیلیت کی حقانیت میں

کسی بھی سوال کا جواب دینا مشکل نہیں بہت ہی آسان ہے، چنانچہ اگر لاکھوں سوالات

ہوں تو بھی کوئی مشکل نہیں، کیونکہ ہم یہ ثابت کرکے دکھا سکتے ہیں کہ اسماعیلی

مذہب سے متعلق جتنے بھی سوالات اُٹھتے ہیں، وہ سب باہم مل کر ایک بہت بڑے درخت کی

صورت اختیار کرلیتے ہیں، اس لیے ہم درخت کے تنا پر بحث کرکے ساری باتوں کو سمجھا

سکتے ہیں اور بڑی بڑی شاخوں کے بارے میں گفتگو کرکے تمام سوالات کا جواب بتا سکتے

ہیں کہ اسماعیلی مذہب اور امامِ زمان حق ہے، یعنی سمجھنے والوں کے لیے صرف یہی

بنیادی سوال کافی ہے جو پوچھنا چاہیے کہ امام کے حق ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ کیونکہ

متعلقہ تمام سوالات اِسی بڑے سوال کے تحت آتے ہیں، لیکن عوام الناس اس ترتیب کو

کہاں ملحوظِ نظر رکھتے ہیں، وہ پوچھتے ہیں جو بھی دل میں آئے، جو بھی چاہیں۔

 

کوئی شک نہیں کہ اسماعیلیوں کو ہمیشہ

اپنے امامِ برحقؑ کی طرف دیکھنا چاہیے کہ امام کا منشاء کیا ہے یا ان کی واضح

ہدایت کیا ہے، اور اسی اصُول کو قائم رکھتے ہوئے دینی علم کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

 

۲

 

جاننا چاہیے کہ سوال کا جواب یا تو

بلاواسطہ دیا جاتا ہے یا بالواسطہ بہر حال جواب دینا ضروری ہوتا ہے، ورنہ جماعت کے

بعض حلقوں میں بددلی پھیل جاتی ہے اور خاص کر نئی نسل کا عقیدہ متاثر ہو جاتا ہے۔

اگر اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق شاملِ حال رہی تو آئندہ بھی ہماری یہی کوشش جاری

رہے گی، اور کسی نہ کسی طریقے سے شکوک و شبہات کو دُور کردینے کی کوشش کی جائے گی۔

 

فقط جماعت کا علمی خادم

 

نصیرالدین نصیر ہونزائی

 

۳

 

Blank Page

 

آٹھ سوال

 

سوال نمبر ۱: جماعت خانے میں بعض دفعہ لڑکیاں کیوں

دُعا پڑھاتی ہیں، جبکہ شریعت میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی؟ صفحہ نمبر۷۔

 

سوال نمبر۲: مختلف مجالس کے عنوانات سے اور جدا جدا

مواقع پر جماعت خانے کے اندر جماعت سے کیوں پیسے لیے جاتے ہیں، کیونکہ وہ خدا کا

گھر ہے، جہاں صرف عبادت ہونی چاہیے؟  صفحہ نمبر ۱۰۔

 

سوال نمبر۳: جماعت خانے میں جب کبھی کوئی دوسرا مسلم

بھائی آنا چاہے، تو اسے کیوں نہ آنے دینا چاہیے؟ صفحہ نمبر۱۱۔

 

سوال نمبر۴: تمہارا شاہ کریم کس طرح امامِ برحق ثابت

ہوسکتے ہیں، جبکہ وہ یورپ میں مغربی طرزِ زندگی گزارتے ہیں؟ صفحہ نمبر۱۳۔

 

سوال نمبر۵: تمہاری زکات شرعی زکات سے کیوں مختلف ہے؟

اور وہ براہِ راست غُرباء و مساکین میں کیوں تقسیم نہیں ہوتی؟ صفحہ نمبر ۱۷۔

 

۵

 

سوال نمبر۶: تمہاری مذہبی رسومات کس حد تک درست اور

صحیح ہیں؟ خصوصاً ناندی کے بارے میں بتاؤ؟ صفحہ نمبر ۲۲۔

 

سوال نمبر۷: اسماعیلی جماعت میں صلاة پر کس حد تک عمل

ہوتا ہے؟ اور ان کے نزدیک صلاة کے کیا معنی ہیں؟ صفحہ نمبر۲۵۔

 

سوال نمبر۸: پوچھا گیا ہے کہ جماعت خانہ میں مرد و

عورت ایک ساتھ کیوں عبادت کرتے ہیں؟ صفحہ نمبر ۳۰۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

نوٹ : یہ سوالات ماہ دسمبر ۱۹۷۶ء میں ایک اسماعیلی سٹوڈنٹ نے پیش کئے

تھے۔

 

علامہ نصیرالدین نصیر ہونزائی

 

۲۴ ،  دسمبر ۱۹۷۶ء

۶

 

آپ کے آٹھ سوال

 

لڑکیوں کا دعا پڑھانا:

 

سوال نمبر ۱: جماعت خانہ میں بعض دفعہ لڑکیاں کیوں

دُعا پڑھاتی ہیں، جبکہ شریعت میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی؟

 

جواب (الف) : اسلام صراطِ مستقیم ہے یعنی

راہِ راست، جو اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کے لیے مقرر ہے، جب دینِ حق اس مثال میں

ایک راستے کے مشابہ ہے تو اس کی کچھ منزلیں بھی ہیں، جو کہ شریعت، طریقت، حقیقت

اور معرفت کہلاتی ہیں، چنانچہ جماعت خانہ اور اس کے آداب و رسومات اسی راہِ اسلام

پر چل کر آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی ایک زندہ مثال ہیں جس طرح کہ تصوف اسلام کے

ارتقاء کا ایک بین ثبوت ہے، اور ظاہر ہے کہ صوفیوں کے مسلک میں ہزاروں ایسی چیزیں

ہیں جو کہ شریعت میں نہیں ہیں، اور وہ چیزیں شریعت میں کیونکرہوسکتی ہیں، جبکہ وہ

طریقت کی چیزیں ہیں، اسی طرح جماعت خانہ کی چیزیں یعنی وہاں کے آداب و رسومات

حقیقت کی ہیں، لہٰذا ان کو کسی اور معیار سے پرکھنا سراسر غلطی اور لاعلمی کا

ثبوت ہے۔

 

۷

 

جواب (ب) : نیز یہ کہ اگر مقامِ شریعت پر

عورت شرعی نماز مردوں کو نہیں پڑھا سکتی ہے، تو اس کی وجہ ظاہر میں کچھ بھی نہیں

سوائے اس کی تاویل کے، اس کے برعکس جماعت خانہ میں جو عبادت و بندگی ادا کی جاتی

ہے، اس کی کوئی تاویل نہیں بلکہ وہ خود تاویل ہے، لہٰذا یہاں عورت دُعا پڑھا سکتی

ہے۔

 

اگر پوچھا جائے کہ عورت کی امامت شرعی

نماز میں جائز نہ ہونے کی کیا تاویل ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دین میں حضرت

پیغمبرﷺ مرد کے درجے پر ہیں، اور تمام افرادِ امت عورت کے مقام پر ہیں، نیز امامِ

عالی مقامؑ مرد ہیں اور مرید سب کے سب عورت ہیں، اسی طرح معلم مرد اور متعلم عورت

ہے، پس اگر کوئی عورت نمازِ شریعت میں پیشوائی کرے تو اس کی تاویل یہ بتلانے لگے

گی کہ (نعوذباللہ) رسولﷺ امت ہوکر پیچھے آئیں اور امت پیغمبر بن کر آگے بڑھیں،

امامؑ مریدی اختیار کریں اور مرید امام بن جائیں نیز معلم شاگرد بن کررہے اور

شاگرد اپنے استاد کے لیے استادی کرے، سو یہ تاویل ناممکن بات کی ترجمانی کرتی ہے،

اسی لیے نمازِ شرعی میں مردوں کی امامت عورت نہیں کرسکتی ہے۔ مگر مقامِ حقیقت میں

ایسی کوئی تاویل نہیں۔

 

جواب (ج) : اسلام دراصل نام ہے قرآن اور

معلمِ قرا ٓن کی تعلیمات و ہدایات کا، اور اِن تعلیمات و ہدایات کے مختلف مدارج کو

عملاً طے کرنا صراطِ مستقیم پر چلنا اور منزل بمنزل آگے بڑھنا ہے، پھر اِسی معنی

میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں، کہ اسلام اپنے مراتبِ علم و عمل کے اعتبار سے ایک

ایسی یونیورسٹی کی طرح ہے، جس کے تحت تعلیم کے بہت سے مدارج آتے ہوں، اب اِس مثال

سے ظاہر ہے کہ دینِ اسلام کے اِن تمام علمی اور

 

۸

 

عملی درجات کے لیے الگ الگ معیار مقرر

ہیں، اِسی لیے میں کہتا ہوں کہ اسماعیلیت کی رسومات کو غیر اسماعیلیت کی کسوٹی پر

پرکھنا ہرگز درست نہیں ہوسکتا۔

 

جواب (د) : اگر اسلام صراطِ مستقیم ہے تو

ماننا ہی پڑیگا کہ مسلم فرقے یا جماعتیں یکے بعد دیگرے اس طرح سے ہیں، جیسے کسی

رستے کی مختلف منزلوں پر پھیلے ہُوئے مسافر، اگر دینِ حق اللہ تعالیٰ کی رسی ہے

اور وہ خدا اور اس کے بندوں کے درمیان واقع ہے، تو اس میں بھی انکو درجہ وار اور

سلسلہ وار پکڑنے کی جگہ ہے، جہاں خدا کی معرفت کی بلندیوں کی طرف عروج کر جانے کی

مثال سیڑھیوں سے دی گئی ہے، (۷۰: ۳ تا ۴) وہاں اہلِ مذاہب الگ الگ زینوں پر ہیں، جس اعتبار سے دینِ

مبین ایک عظیم یونیورسٹی کی طرح ہے، اُس اعتبار سے اس کے ماننے والے علم و عمل کے

مختلف درجات پر ہیں اور جس وجہ سے دین فطرت کی تشبیہہ انسانی تخلیق اور زندگی کے

مختلف مراحل سے دی گئی ہے، اسی وجہ سے لوگ ایسے درجہ وار ہیں، جیسے انسانی خلقت اور

عمر کے جدا جدا مراحل ہوا کرتے ہیں، یعنی کچھ لوگ اس بچے کی طرح ہیں جو ماں کے پیٹ

میں ہوتا ہے، کچھ نومولود بچے کی طرح، کچھ طفلِ شیر خوار کے مانند، بعض طفلِ مکتب

جیسے، بعضے نوجوان کی طرح، کچھ تیس سال کے مکمل جوان کی طرح، کچھ چالیس سال والے

کی طرح اور کچھ اس سے بھی بڑی عمر والے کی طرح، اور یہ مثال اس لئے ہے کہ اسلام

دینِ فطرت ہے، اور اسے ایک انسان کی طرح رفتہ رفتہ درجۂ کمال کو پہنچنا ہے، اور

ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہُوا، کہ اسلام کی تعلیمات درجہ وار ہیں اور اس کی

ہدایات بھی تدریجی صورت میں ہیں، پس کسی کا کسی پر اعتراض کرنا اسلامی تعلیمات کے

مدارج سے نابلد ہونے کی وجہ سے ہے۔

 

۹

 

جماعت خانہ میں مالی قربانی:

 

سوال نمبر۲: مختلف مجالس کے عنوانات سے اور جدا جدا

مواقع پر جماعت خانے کے اندر جماعت سے کیوں پیسے لیے جاتے ہیں، کیونکہ وہ خدا کا

گھر ہے، جہاں صرف عبادت ہونی چاہیے؟

 

جواب (الف) : جماعت خانہ ہو یا کہ مسجد

اسمیں دنیاوی قسم کی تجارت وغیرہ جائز نہیں، مگر زکوٰة ، صدقہ اور ہر قسم کی مالی

قربانی کے علاوہ اور بھی بہت سے نیک کام ایسے ہیں جن کو خدا ہی کے گھر میں انجام

دینے میں زیادہ ثواب ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: وَ اِذْ جَعَلْنَا

الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا (۰۲: ۱۲۵

 

اے رسولﷺ)  وہ وقت بھی یاد

دلاؤجب ہم نے خانۂ کعبہ لوگوں کے ثواب اور پناہ کی جگہ قرار دی ۔ اس سے صاف طور

پر ظاہر ہے کہ خدا کا گھر مثابہ ہے یعنی ہر قسم کے ثواب کی جگہ اور خدا کا گھر سب

سے پہلے خانۂ کعبہ ہے اور اس کے بعد مسجد اور جماعت خانہ خدا کا گھر ہے، پھر جب

ثواب کا مرکز خدا ہی کا گھر ہے توبہت سے نیک کام وہاں کیوں نہ انجام دئیے جائیں۔

جبکہ یہ کام خدا ہی کے ہیں، تو خدا ہی کے گھر میں ہونے چاہئیں، جبکہ یہ عبادات میں

سے ہیں، جبکہ یہ مالی قربانیاں اور اعمالِ صالحہ ہیں، تو یہ خدا کے گھر میں سب کے

سامنے کیوں نہ ہوں تا کہ نیکی کرنے والے کو سب کی دعائیں حاصل ہوں، ساتھ ہی ساتھ

یہ ایک عملی تعلیم بھی ہے تاکہ جماعت کے افراد اسے دیکھ کر اپنے اندر ایسی مالی

قربانیوں کا جذبہ پیدا کرسکیں، اور یہی سبب ہے کہ آنحضرت ﷺ کے عہدِ مبارک میں اکثر

مالی قربانیاں مسجد ہی میں لی جاتی تھیں۔

 

۱۰

 

جماعت خانہ اور غیر اسماعیلی:

 

سوال نمبر۳: جماعت خانے میں جب کبھی کوئی دُوسرا مسلم

بھائی آنا چاہے، تو اسے کیوں نہ آنے دینا چاہیے؟

 

جواب (الف) : اس کے جواب کے لیے آپ

دیکھیں میرے ایک مقالے میں جو  اسلام کی بنیادی حقیقتیں“ کے عنوان سے ہے، جو

کتاب ”پنج مقالہ نمبر۱“ میں چھپ کر آنے

والا ہے، نیز یہ ہے کہ ایسا کوئی بھائی جب آئے تو کیاوہ جماعت خانہ میں آنے کے

تمام شرائط اور آداب و رسومات کو بالکل اسی طرح قبول کرے گا جس طرح کہ ایک

اسماعیلی کرتا ہے؟اور اگر یہ بات نہیں ہوسکتی ہے، تو اس کے جماعت خانہ آنے میں

کوئی فائدہ نہیں، لہٰذا اس کا نہ آنا ہی بہتر ہے۔

 

جواب (ب) : دینِ اسلام میں کچھ مقدس

عمارتیں سب مسلمانوں کے درمیان مشترک ہیں، اور کچھ عمارتیں مخصوص ہیں، جو مقاماتِ

مقدسہ مشترک ہیں، اُن میں سب سے پہلے خانۂ کعبہ ہے، پھر مسجد ہے کیونکہ وہ اُس

وقت سے ہے جس میں کہ سب مسلمان ایک تھے، تاہم بعض جگہوں میں مسجدیں بھی الگ الگ

جماعتوں کے لیے یا جدا جدا نظریات کی بناء پر مخصوص ہوجاتی ہیں، اسی طرح بلکہ اس

سے کہیں زیادہ سختی کے ساتھ خانقاہ، امام باڑہ اور جماعت خانہ مخصوص ہیں، جن کی

حرمت صرف وہی لوگ بجا لاسکتے ہیں جو بنیادی طور پر عقیدةً ان سے منسلک ہیں، اور

دوسرے کسی کی ان میں کوئی شرکت نہیں۔

 

۱۱

 

جواب (ج) : مسجد کے معنی ہیں جائے سجدہ،

محلِ عبادت اس لیے یہ لفظ گویا سب مسلمانوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہاں جائیں اور

اللہ تعالیٰ کے لیے سر جھکائیں اور عبادت کریں، مگر لفظِ جماعت خانہ میں عبادت کا

مفہوم و مطلب ظاہر نہیں بلکہ پوشیدہ رکھا گیا ہے، کیونکہ یہ جماعت خانہ (خانۂ

جماعت) یعنی جماعت کا گھرہے، جو سب کے لیے نہیں صرف ایک ہی جماعت کے لیے ہے، جس

طرح خانقاہ کے معنی میں یہی فلسفہ پایا جاتا ہے کہ خانقاہ مُعَرب ہے خانگاہ (خانہ

گاہ) کا اور خانگاہ کے معنی ہیں صوفیوں اور درویشوں کے رہنے کی جگہ، جس میں عبادت

کا مفہوم پوشیدہ رکھا گیا ہے، اور اگر وہ چاہتے تو بڑی آسانی سے اس مطلب کے لیے

کوئی ایسا نام منتخب کرتے جس سے کہ فوراً ہی عبادت و بندگی کے معنی ظاہر ہوجائیں،

مگر جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا گیا، کیونکہ وہاں تو اسلام کی تعلیمات کسی پیرِ

طریقت کے مخصوص نظریات و تشریحات کے مطابق دینی تھیں، اور اس میں عبادت و بندگی

اور ریاضت اپنی نوعیت کی کرنی تھی، اور وہ خانقاہ بھی صرف اسی پیر یا شیخ کے

مریدوں کے واسطے مقرر تھی، سو یہی مثال جماعت خانہ کی بھی ہے، اور جماعت خانہ شروع

شروع میں تھا ہی خانقاہ، جس طرح صوفیوں کے تذکرے میں ملتا ہے کہ ”خواجہ بختیار

کاکی کا جماعت خانہ“ پھر اس کے بعد جماعت خانہ اسماعیلیت میں اپنایا گیا، یہ

تاریخی واقعہ اس امر کی ایک روشن دلیل ہے کہ شریعت کے باطن سے طریقت پیدا ہوتی ہے

اور طریقت کے باطن سے حقیقت اور ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جماعت خانہ

صرف امام حاضر ہی کے مریدوں کے لیے مخصوص ہے۔

 

۱۲

 

امام کی جائے سکونت:

 

سوال نمبر۴: تمہارا شاہ کریم کس طرح امامِ برحق ثابت

ہوسکتے ہیں، جبکہ وہ یورپ میں مغربی طرزِ زندگی گزارتے ہیں؟

 

جواب (الف) : یہی تو آپ کا بنیادی سوال

ہونا چاہیے تاکہ ایک ہی جواب سے ثبوت یا عدمِ ثبوت ظاہر ہو کر ساری بحث ہی ختم

ہوجائے گی، کیونکہ اگر امام ثابت ہوگئے تو کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ امام کو

امام تسلیم کرتے ہوئے بھی اُن پر اعتراض اٹھائے، اور اگر امام ثا بت نہیں ہوئے تو

پھر آپ مزید سوالات کی زحمت کیوں اٹھائیں کہ بحث ہی ختم ہوگئی، مگر یہاں سوالات

دہرائے گئے ہیں، بہر حال آپ کا سوال کچھ اس طرح سے ہے کہ اگر ہم نے یہ ثابت کردیا

کہ یورپ میں امام کی رہائش جائز اور روا ہے تو آپ شاہ کریم الحُسینی کو امامِ برحق

مانیں گے، سوال کا مطلب یہی ہے نا؟

 

جواب ( ب) : اگر آپ کے نزدیک مغربی طرزِ

زندگی غیر اسلامی ہے، جس کی وجہ سے آپ نے یہ سوال اٹھایا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ

اُس حکمِ قرآنی کو بھی ظاہر کرنا تھا جس کی روشنی میں آپ نے یہ پوچھنا مناسب سمجھا

ہے، اور اب بھی آپ سے یہی سوال ہے کہ آیا قرآنِ حکیم میں کوئی ایسی آیت موجود ہے

جس میں عصرِ حاضر کے اسلامی معاشرہ اور اس کے لوازم کی کوئی متعیّن شکل پیش کی گئی

ہو؟ وہ اگر نہیں تو کیا کوئی قرآن سے یہ ثابت کرسکتا ہے کہ زمانہ نبوت میں مسلمان

جن گھروں یا خیموں میں رہتے تھے، جس قسم کی غذائیں کھایا کرتے تھے، جو لباس وہ

پہنتے تھے اور جیسے معاشرے میں زندگی گزارتے تھے

 

۱۳

 

اب بھی بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے؟ ظاہر

ہے کہ ایسی بات کا قرآن سے ثابت ہوجانا تو درکنار اسے عقلِ سلیم بھی قبول نہیں

کرتی ہے۔

 

جواب(ج): آپ کے سوال کے پس منظر میں کوئی

خاص منطق نہیں سوائے اس کے کہ عہدِ نبوّت کے مسلمانوں کی جو مادی حالت تھی، اسی پر

آپ کا قیاس ٹھہرا ہوا ہے، حالانکہ وہ دینِ حق کا آغاز ہی تھا، اور پورے دور میں

اسلام کی جو معاشی اور معاشرتی ترقی ہونے والی تھی وہ سب صرف ۲۳ سال کے عرصے میں کس طرح ہوسکتی تھی،

الغرض آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ظہورِ اسلام کے وقت عرب کی جو مالی حالت تھی، وہی

دنیائے اسلام میں اب بھی ہونی چاہیے، مگر افسوس ہے کہ آپ کے اس خیال کی مخالفت سب

سے پہلے عرب کے مسلمان کررہے ہیں کیونکہ آج ان کی مادّی حالت پہلے سے بہت بہتر

ہوگئی ہے، اور ویسے بھی آپ کا خیال ہے بڑا خطرناک، کیونکہ آپ نہیں چاہتے ہیں کہ

مسلمانوں کی دنیاوی اور مادّی ترقی ہو، یہاں تک کہ فی الوقت عالمِ اسلام میں جو

شہنشاہ، بادشاہ، حاکم، لیڈر، سربراہ،  امیر اور ترقی یافتہ لوگ ہیں وہ بھی آپ

کے اس اعتراض سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں اور نہ اس سے آئندہ ترقی کی

کوئی امید باقی رہتی ہے، اس لیے چلئے ہم قرآنِ مقدس کو پیشِ نظر رکھتے ہیں کہ اس

بارے میں کیا حکم ہے: سورہ اعراف (۷) کی آیت نمبر ۳۲ (۰۷: ۳۲) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ

الَّتِیْۤ اَخْرَ جَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ-قُلْ هِیَ

لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ

ترجمہ: آپ فرمائیے کہ کس نے حرام کیا

اللہ کی زینت کو جو اُس نے پیدا کی ہے اپنے بندوں کے واسطے اور رزق میں سے پاک

چیزیں تو کہہ دیجئے کہ

 

۱۴

 

یہ نعمتیں اصل میں ایمان والوں کے واسطے

ہیں دنیا کی زندگی میں خالص انہی کے واسطے ہیں دورِ قیامت میں۔ اس قرآنی حکم سے یہ

حقیقت صاف طور پر روشن ہوئی کہ آپ کا سوال بے بنیاد ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کی بنائی

ہوئی زینت اور رزق و روزی کی پاک چیزیں اس کے بندوں کے لیے ہیں اور دورِ قیامت میں

یہ چیزیں مومنین کے لیے بطور خاص ہوں گی، پس یہ حقیقت پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ

حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی امام برحق ہیں کہ وہ اپنے طرزِ زندگی کے ذریعے سے اس

بات کی خوشخبری دے رہے ہیں کہ عنقریب اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ بندگانِ خاص کے لیے

پورا ہونے والا ہے، جس کا ذکر آیۂ مذکورۂ  بالا میں ہے۔

 

جواب (د): شاہ کریم الحسینی صلوات اللہ

علیہ امام برحق ہیں، اور اس عظیم الشّان امر کے ثبوت میں ہمارے پاس ہزاروں ایسے

دلائل موجود ہیں، جن سے کوئی بھی حقیقت پسند انسان انکار نہیں کرسکتا، آپ اسماعیلی

کتب میں اثباتِ امامت کے موضوعات کا مطالعہ کریں، اور یہاں یہ بھی سن لیں کہ اسلام

میں تصورِ خلافت ایک مسلّمہ حقیقت ہے، اور یہ ہمارا ایمان ہے کہ خدا اور رسول کا

خلیفہ ہمیشہ دنیا میں موجود ہے اور وہ اس وقت نور مولانا شاہ کریم الحسینی صلو ات

اللہ علیہ ہیں، اگر اس حقیقت کی تردید ممکن ہو تو کوئی کہے کہ نہیں نہیں ایسا

خلیفہ تو فلان خاندان کا فلان شخص ہے جو اس وقت یورپ میں نہیں فلان جگہ پرہے یا

کہے کہ اسلام میں کوئی خلافت نہیں یا بتائے کہ خلافت شروع شروع میں تھی تو سہی مگر

بعد میں قرآن کے اس حکم کے بموجب خداوند عالم نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لی یا اسے

ختم کردیا، ایسی کوئی تردید ناممکن ہے۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ شاہ کریم امامِ

حاضرؑ ہیں۔

 

۱۵

 

جواب(ہ): میں کہتا ہوں کہ مولانا شاہ

کریم الحسینی برحق امام اس لیے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نورِ ہدایت ہیں،

اگر اس حقیقت کی تردید ممکن ہو تو کوئی شخص کہے کہ نہیں، نورِ ہدایت اور شمعِ

ولایت اس وقت تو فلان حضرت ہیں، جنہوں نے دینِ اسلام کی اشاعت و ترویج کی خاطر

فقروفاقہ کو اپنا شیوہ بنالیا ہے، جو دنیاوی ترقی سے گریزان ہیں، جن کا سلسلہ نسب

رسول اللہ سے جا ملتا ہے، جن کے آباؤاجداد اپنے اپنے وقت میں خدا کے نورِ ہدایت کے

درجے پر فائز تھے، میرے یقین میں ایسی تردید محال ہے، پس ظاہر ہے کہ شاہ کریم ؑ ہی

اس وقت سلسلہ امامت کے حقیقی جانشین اور امام برحق ہیں اور ان کے سوا اس درجے پر

کوئی نہیں۔

 

جواب(و): دنیا میں ایسے لوگوں کی کوئی

کمی نہیں جو دین کے کسی بڑے مرتبے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ اس میں بعض دفعہ

کچھ وقت کے لیے کامیاب بھی ہوجاتے ہیں مگر یاد رہے کہ باطل زیادہ وقت کے لیے ٹھہر

نہیں سکتا، اس لیے وہ چلا جاتا ہے لیکن حق ہمیشہ قائم رہتا ہے، دیکھئے قرآن: وَ قُلْ

جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ-اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا (۱۷: ۸۱) ترجمہ : اور (اے رسولﷺ) آپ کہہ دیجئے کہ

حق آگیا اور باطل چلاگیا یقیناً باطل جانے والا ہوتا ہے۔

 

اس آیۂ کریمہ میں بزبانِ حکمت فرمایا گیا

ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ کو جو خلافتِ الہٰیہ اور امامتِ عالیہ حاصل تھی وہ حق تھی، اس

لیے وہ دنیا میں ہمیشہ کے لیے رہے گی، اسی طرح اور اسی معنی میں حضورﷺ خدا کی طرف

سے نورِ ہدایت تھے، اور نور حق ہی حق ہے، اور حق ہمیشہ کے لیے قائم رہتا ہے تو کہاں

ہے وہ حق یعنی نورِ ہدایت بجز امامِ حق کے جو شاہ کریم الحسینیؑ ہیں

 

۱۶

 

اور اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ خدا کا نور

مخالفین کے بجھانے کی کوشش کے باوجود ہرگز نہیں بجھتا کیونکہ وہ حق ہے باطل نہیں،

تو میرے مولا کے برحق ہونے کے ثبو ت میں اس روشن دلیل کے علاوہ اور کیا ہو کہ وہ

خدا و رسول کی طرف سے سرچشمہ ٔہدایت ہیں اور اسلام میں ایسے سرچشمے کا ہونا حق ہے

جیسا کہ آنحضرتﷺ کے زمانے میں اور آپ کے بعد ہدایت کا یہی مرکز قائم تھا۔

 

زکوٰة

 

سوال نمبر۵: تمہاری زکات شرعی زکات سے کیوں مختلف ہے؟

اور وہ براہِ راست غرباء و مساکین میں کیوں تقسیم نہیں ہوتی؟ کہ جمع کرکے امام کو

دی جاتی ہے؟

 

جواب (الف): میں نے اس تحریر کی ابتدا ہی

میں سوال نمبر ۱ کے جواب دیتے ہوئے دلیل دی ہے کہ شریعت،

طریقت، حقیقت اور معرفت کے درمیان فرق ہے، مگر ان سب کا مقصدِ اعلیٰ ایک ہی ہے،

چنانچہ اگر کوئی باشعور انسان ذرا غور سے دیکھے تو اسے صاف طور پر معلوم ہوجائے گا

کہ زکوٰة کی جو روح اور جو آخری مقصد کی تکمیل اسلام میں ہونی چاہیے، وہ اسماعیلیت

میں کلّی طور پر ہوتی رہی ہے۔

 

جواب (ب): میں نے کہا کہ ہمارے یہاں

طریقِ زکوٰة اسلامی روح کے تقاضے اور مقصدِ اعلیٰ کے عین مطابق ہے، اور یہاں زکوٰة

سے جتنا فائدہ غربا ومساکین کو دلایا جاتا ہے اتنا کہیں بھی نہیں اور امام ایک

اعتبار سے زکوٰة لیتے ہیں اور دوسرے

 

۱۷

 

اعتبار سے نہیں لیتے، چنانچہ اسماعیلیوں

کے نظامِ زکوٰة کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق

چلتا ہے، یعنی جس زمانے میں اور جس ملک میں جیسا تقاضا ہوتا ہے ویسا نظام بھی اس

کے ساتھ مطابقت کرتا ہے اور محتاجوں کو زکوٰة سے زیادہ فائدہ دلانے کے یہ معنی ہیں

کہ بجائے اس کے کہ ان کو ایک وقت کا کھانا کھلایا جائے یا ایک جوڑا کپڑوں کا دیا

جائے یا کچھ نقد پیسے یا کوئی اور جنس ان میں تقسیم کر دی جائے یہ کوشش کی جاتی ہے

کہ جہالت و غربت کی لعنت کو بنیاد ہی سے ختم کرکے جماعت کے پس ماندہ افراد کو

ہمیشہ کے لئے علم و ہنر کی دولت سے مالا مال کردیا جائے اور اس مقصد کے حصول کے

لیے صحت اور تعلیم و تر قی کے مختلف اداروں کا قیام ضروری ہوتا ہے، لہذا امامِ

زمان کی سرپرستی و رہنمائی میں زکوٰة کی جمع آوری ہوتی ہے، اور بس اسی معنی میں

میں نے کہا تھا کہ امام ایک اعتبار سے تو زکوٰة لیتے ہیں اور دوسرے اعتبار سے نہیں

لیتے یعنی جماعت سے امام کا زکوٰة لینا صرف اتنا ہی ہے کہ اس کے نظام کی سر پرستی

کرتے ہیں، دعا دیتے ہیں اور جماعتی اداروں کے قیام و اجرا کے سلسلے میں اخراجات کی

منظوری و ہدایت دیتے ہیں۔

 

جواب (ج):مذہب کی یکجہتی اور اتفاق و

اتحاد کا فلسفہ یہی ہے کہ زکوٰة کی طاقت کو منتشر ہونے سے بچالیا جائے، وہ ایک ہی

جگہ پر جمع ہو اور اس کا استعمال ہادیٔ برحق کی ہدایت کے مطابق ہو، سو اسماعیلی

مذہب میں یہی ہوتا ہے۔

 

زمانۂ قدیم میں جن ثوابی کاموں کو ترجیح

دی جاتی تھی وہ اس زمانے کے مطابق ضروری تھے، مثلاً غلاموں اور کنیزوں کو خرید کر

آزاد کردینا، یتیموں، غریبوں اور محتاجوں کو کھانا کھلانا

 

۱۷

 

یا کپڑے دینا وغیرہ اب زیادہ سے زیادہ

ثواب اس میں ہے کہ ہر قسم کے کمزور اور مجبور انسانوں کو علم و ہنر کی لازوال دولت

سے مالامال کردیا جائے دینی اور دنیاوی فلاح و بہبود کے ادارے قائم کئے جائیں تاکہ

اس سے ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی میں اضافہ ہو اور اسلام کی عالمگیر روح کو

تقویت اور مدد ملے، امام عالی مقامؑ اسلام کے اسی منشاء کے مطابق زکوٰة سے کام

لیتے ہیں۔

 

رسومات:

 

سوال نمبر۶: تمہاری مذہبی رسومات کس حد تک درست اور

صحیح ہیں؟ خصوصاً ناندی کے بارے میں بتاؤ؟

 

جواب ( الف): ہماری مذہبی رسومات کے ثبوت

میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے، تاہم یہاں چند ہی نکات پر اکتفا کیا جائے گا، اس سلسلے

میں سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ دین اور دنیا کی اکثر اصلی اور قیمتی چیزیں

ایسی ہیں، جن کا وجود و قیام کچھ دوسری بہت معمولی چیزوں کے اندر ہوتا ہے، مثلاً

درخت کے تنا اور شاخوں کی حفاظت چھلکوں کی بدولت ہوتی ہے اسی طرح پھول پھل اور غلہ

جات کا بھی کوئی غلاف، چھلکا وغیرہ ہوتا ہے تاکہ اس میں اصلی چیز محفوظ رہے اگر

کوئی انجان آدمی تنا کے چھلکوں کو بیکار سمجھ کر چھیل پھینکے تو ظاہر ہے کہ درخت

بہت جلد سوکھ جائے گا، چنانچہ کوئی شک نہیں کہ مذہبی رسومات ایک نا واقف انسان کی

نظر میں عام اور معمولی چیزیں لگتی ہیں مگرجاننے والا ہی جانتا ہے کہ ان رسومات کے

چھلکوں کے اندر عقائد اور ایمان کا درخت کس

 

۱۹

 

شان سے محفوظ ہے اور جب تک پھل درخت پر

ہی تو ان کی پختگی اور حفاظت کے لیے چھلکے کی کتنی اہمیت ہوتی ہے۔ اس مثال سے ظاہر

ہوا کہ اگر مذہبی رسومات نہ ہوں تو عقیدہ ختم ہوجائے گا۔

 

جواب (ب):  ہماری مذہبی رسومات کلّی

طور پر صحیح اور حق و صداقت پر مبنی ہیں کیونکہ یہ سر تا سر امامِ زمان ؑ کے امرو

فرمان کے مطابق ہیں یا ان کے متعلق صاحبِ امر کی تصدیق کی سند موجود ہے، جبکہ

امامِ برحق خدا و رسول کی جانب سے مختارِ دین ہیں، کیونکہ آپ نہ صرف اللہ اور اس

کے رسولِ پاکﷺ کے فرمان گزار ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اولوالامر کی حیثیت سے خود

بھی ہدایت کرنے والے ہیں، لہٰذا ہماری مذہبی رسومات کے حق بجانب ہونے میں ذرہ بھر

شک نہیں۔

 

جواب (ج):  یہ حقیقت ہے کہ کسی ملک

و قوم کی جائز اور مناسب رسومات تشریع کی اصل و اساس ہوا کرتی ہیں، اس کے یہ معنی

ہیں کہ جب شریعت بنی تھی تو اس میں مفید رواج پیشِ نظر رہا ہے۔ اور جب بھی شریعت

کے کسی گوشے میں تبدیلی آتی ہے تو وہ رواج کے تغیر و تبدل کی وجہ سے یوں ہوتی ہے،

ملاحظہ ہو مولانا جعفر شا ہ پھلواروی کی کتاب” اسلام دینِ آسان”

اور”اجتہادی مسائل”۔

 

جواب (د):  ناندی (منادی) کا مطلب

ہے کسی نیک کام میں حصہ لینے کا اعلان، اور یہ رسم دینِ اسلام کے تصورِ مسابقت (

آگے بڑھنے میں مقابلہ کرنا) کے عین مطابق ہے، چنانچہ قرآن میں ہے کہ :

وَ  یُسَارِعُوْنَ  فِی  الْخَیْرٰتِ (۰۳: ۱۱۴)، اور وہ نیک کاموں میں

 

۲۰

 

دوڑ پڑتے ہیں، یعنی نیکی میں سبقت لے

جانے کی کوشش کرتے ہیں، نیز ارشاد ہوا ہے کہ: اُولٰٓىٕكَ یُسٰرِعُوْنَ فِی

الْخَیْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ (۲۳: ۶۱) یہی لوگ نیکیوں میں جلدی کرتے ہیں اور بھلا ئیوں کی طرف

(دوسروں سے) لپک کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ : فَاسْتَبِقُوا

الْخَیْرٰتِ (۰۵: ۴۸) سو تم نیکیوں میں سبقت لے جاؤ۔ نیک کاموں

میں سبقت لے جانا، ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا اور اپنے حسنِ عمل کے ذریعے سے

دوسروں کو نیکی پر اُبھارنا یہ سب قرآنی تعلیما ت میں سے ہیں، لہٰذا ان کی کچھ

مثالیں جماعت خانہ میں پیش کی جاتی ہیں تاکہ دین کی عملی صورت ہمیشہ جماعت کے

سامنے رہے، چنانچہ رسولﷺ اکثر دفعہ مسجد ہی میں اعلان فرماتے تھے کہ فلان کام کے

لیے مالی قربانی کی ضرورت ہے، جس میں اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم ایک دوسرے سے

بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔

 

صلاۃ:

 

سوال نمبر۷: اسماعیلی جماعت میں صلاة پر کس حد تک عمل

ہوتا ہے؟ اور ان کے نزدیک صلاة کے کیا معنی ہیں؟

 

جواب (الف):صلاة کے معنی ہیں نماز، دعا،

رحمت، درُود چنانچہ لفظ صلاة قرآن میں جہاں جہاں دعا، رحمت اور درُود کے معنی میں

آیا ہے، اس میں البتہ کوئی سوال نہیں، لیکن جن مقامات پر یہ لفظ نماز کے لیے آیا

ہے وہاں ایسی نماز بھی ہے، جس میں کوئی رکوع و سجود نہیں، جیسے نمازِ جنازہ اور

پرندوں کی نماز (۰۹: ۸۴، ۲۴: ۴۱) سو جہاں صلاة

 

۲۱

 

کے معنی نماز کے ہیں وہاں ہم نے نہ صرف

ماضی میں نماز قائم کی بلکہ حال میں بھی اس کا عملی نمونہ ، ثمرہ اور تاویلی حکمت

ہمارے مذہب میں موجود ہے اور جہاں صلاة کے معنی دعا کے ہیں تو ہم اس کے لیے ہمیشہ

جماعت خانہ میں دعا پڑھتے ہیں یا یوں کہنا چاہیے کہ جس طرح صلاة کے معنی میں نماز

بھی ہے اور دعا بھی، اسی طرح وہ عبادت و بندگی جو ہم جماعت خانے میں کرتے ہیں اگر

ایک اعتبار سے دعا ہے تو دوسرے اعتبار سے نماز ہے، کیونکہ اس میں نماز کی روح اور

غرضِ غایت پوری طرح سے موجود ہے اس سلسلے میں مزید معلومات کے لیے ملاحظہ ہو

کتاب” گُلستانِ حدیث” از مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی۔

 

جواب (ب): نماز کی روح اور مقصد کب تک

قائم رہ سکتا ہے، اس کے لیے سورہ ٔبقرہ کی آیت نمبر ۲۳۹ (۰۲: ۲۳۹) میں بغور دیکھا جائے اور اس ارشاد کا

ترجمہ یہ ہے

 

پھر اگر تم کو اندیشہ ہو تو کھڑے کھڑے

(یعنی چلتے چلتے) یا سواری پر چڑھے چڑھے (نماز) پڑھ لیا کرو۔ اب اس صورت میں ظاہر

ہے کہ نماز کی اصلیت و حقیقت اور مقصد اپنی جگہ پر قائم ہے باوجود اس کے کہ نماز

کے تقریباً سب ظاہری آداب ساقط ہوگئے کیونکہ پیدل چلتے ہوئے یا سواری پر جاتے ہوئے

نماز پڑھنے میں نہ تو قبلہ کی شرط پوری ہوسکتی ہے اور نہ رکوع و سجود وغیرہ کی اور

ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نمازِ خوف ہے جو کہا جاسکتا ہے کہ یہ حالتِ مجبوری

ہے، لیکن یہ دراصل جبر نہیں ہے بلکہ دین میں آسانی کی ایک صورت ہے، اور یہ اس حقیقت

کا ثبوت بھی ہے کہ نماز کئی قسم کی ہے، اور ان تمام قسموں میں جو اصل حصہ ہے وہ

دعا اور ذکرِ الٰہی ہے جس میں عبادت کی روح اور حصولِ مقصد کا جوہر پنہان ہے، یہی

وجہ ہے کہ نمازِ خوف میں وہ تمام چیزیں اٹھائی گئی ہیں کہ جن کے بغیر بھی نماز کی

روح اور مقصد برقرار رہ سکتا ہے، اب ایسی نماز کی صورت تقریباً

 

۲۲

 

تقریباً دعا، تسبیح اور ذکرِ الٰہی کی سی

ہوجاتی ہے، اسی لیے میں نے کہا تھا کہ جماعت خانے کی عبادت نہ صرف دعا ہی ہے بلکہ

وہ ایک طرح کی نماز بھی ہے۔

 

یہ حقیقت ہمیشہ کے لیے پیشِ نظر رہے کہ

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے حق میں آسانی و سہولت چاہتا ہے۔ دشواری و سختی نہیں

چاہتا، جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے: یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ

بِكُمُ الْعُسْرَ٘ (۰۲: ۱۸۵) مگر اس میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ

اگر حق تعالیٰ ہمارے واسطے آسانیاں اور سہولتیں مہیا کردینا چاہتا ہے اور دینی

احکام میں کوئی دشواری نہیں چاہتا تو اس کی مشیت و قدرت کے ظہورِ فعل کے لیے کون

سی چیز مانع ہوسکتی ہے؟ اور ایسی عظیم رحمت کے حصول کے لیے بندوں کو کیا کرنا

چاہیے؟ سو اس کا جواب بھی خود قرآنِ پاک ہی سے ملتا ہے اور وہ اس فرمانِ خداوندی

میں ہے

 

 

وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ یُسْرًا (۶۵: ۴)

 

اور جو خدا سے ڈرتا ہے خدا اس کے کام میں

سہولت پیدا کردے گا۔ آپ بھول نہ جائیں کہ یہ ارشاد زمانۂ نبوّت کا ہے اور اس میں یہ

بشارت ہے کہ جو لوگ دینی احکام کی بجاآوری میں خوفِ خدا اور تقویٰ کو ملحوظِ نظر

رکھیں ان کو آگے چل کر دین میں آسانیاں اور سہولتیں مہیا کردی جائیں گی، کیونکہ

عبادات و معاملات میں جہاں دشواری اور ریاضت و محنت ہے اس کا مقصد سوائے تقویٰ کے

کچھ بھی نہیں اور تقویٰ سب کچھ ہے۔

 

 

اسی مقصد کی تشریح اور وضاحت کے طور پر فرمایا گیا

 

 

سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًاً (۶۵: ۷)

 

خدا عنقریب ہی دشواری کے بعد آسانی پیدا

کرے گا۔ یعنی شریعت کے باطن سے

 

۲۳

 

طریقت اور طریقت کے باطن سے حقیقت ظاہر

کردے گا، اور تنزیل کے بعد تاویل کی حکمتوں سے روشناس کرے گا کیونکہ سب سے بڑی

آسانی یہی ہے اور اس کی دلیل وہ چھوٹی چھوٹی آسانیاں ہیں جن کا تجربہ ہر نیک

مسلمان اپنی روزمرہ کی زندگی میں کرسکتا ہے، مثلاً ہر قسم کی عبادت و ریاضت کی

بجاآوری اور پابندی کے سلسلے میں دشواری کے بعد اللہ تعالیٰ کی مدد ویاری سے آسانی

کا احساس ہوجانا، رفتہ رفتہ نیکی اور تقویٰ کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ رہنا

وغیرہ۔

 

جواب(ج): مجھے پھلواروی صاحب کی اکثر

باتیں بہت ہی پسند ہیں، وہ اپنی کتاب ” گُلستانِ حدیث” کے صفحہ نمبر ۵ پر” چند کلماتِ نماز” کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں

کہ :”ہم لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ نماز ایک بندھی ٹکی سی چیز ہے جس کے

کلمات معیّن اور حرکات مقرر ہیں، اس میں شک نہیں کہ نماز کا بہترین طریق ادا وہ ہے

جو حضور ﷺ نے بتایا ہے، لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ دوسرے طریقے غلط ہیں، آدمؑ سے

لے کر مسیحؑ بلکہ حضورﷺ تک جتنے پیغمبر بھی نماز ادا کرتے تھے ان کے طریقے خواہ

مختلف ہوں لیکن تھی وہ سب ہی نماز۔ ان کی شکلیں جداگانہ تھیں، لیکن روح سب کی ایک

ہی تھی، اور دراصل مطلوب و مقصود ہی روح ہے نہ کہ کوئی مخصوص شکل۔ یہ نماز جب با

جماعت ادا کی جائے تو نظم و ضبط اور ڈسپلن کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ سب کی نماز میں

یکسانی ہو، لیکن انفرادی نماز میں اگر ذوق و شوق عام اندازِ ادا پر غالب آجائے تو

وہ کوئی نقصان کا سبب نہیں ہوتا۔ بعض اوقات تو جماعت کے اندر بھی معمولی اختلاف

مضر نہیں ہوتا۔“ اس حقیقت بیانی کے بعد اور کوئی چیز قابلِ ذکر نہیں رہتی۔

 

۲۴

 

مرد عورت کی یکجا عبادت:

 

سوال نمبر۸: پوچھا گیا ہے کہ جماعت خانہ میں مرد و

عورت ایک ساتھ کیوں عبادت کرتے ہیں؟

 

جوا ب (الف): تم وہ قرآنی آیت دکھاؤ یا

پڑھ کر سناؤجس میں فرمایا گیا ہو کہ ایساکرنا حرام ہے یا ممنوع ہے یا مکروہ ہے، یا

یہ ثابت کرو کہ رسولﷺ کے عہدِ مبارک میں مسلمان عورتیں مسجد میں نہیں جاتی تھیں۔

 

جواب(ب): اسلام کے آداب و ارکان صرف

مردوں ہی کے لیے نہیں خواتین کے لیے بھی ہیں، جو لوگ عورت کو مقامِ عبادت سے دور

اس لیے رکھنا چاہتے ہیں کہ اس کی موجودگی کے سبب سے نفسِ انسانی کی سرکشی میں

اضافہ ہوجاتا ہے، تو ان کو تارک الدّنیا ہو کر کسی جنگل میں چلے جانا چاہئے، کیونکہ

عبادت میں خلل صرف عورت کی وجہ سے نہیں پڑتا، بلکہ اس کیلئے بہت سی چیزیں ہیں، جن

کا مجموعی علاج مجاہدۂ نفس اور تقویٰ ہے، یعنی نفسِ امارّہ کے خلاف جہاد کرتے ہوئے

پرہیزگاری اختیار کرنا ہے، نہ کہ کسی ایک چیز کو یا چند چیزوں کو اس دنیا سے خارج

کردینا۔

 

فقط جماعت کا علمی خادم

 

علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی

 

۹ جنوری ۱۹۷۷ء

 

۲۵

 

درجاتِ اسلام

 

(از قلم علاّمہ نصیرُالدّین نصیر ہونزائی)

 

دینِ اسلام صراطِ مستقیم (یعنی سیدھا راستہ) ہے اور ظاہر ہے کہ ہر طویل راستے کی چند منزلیں ہوا کرتی ہیں، جن کے نام ہیں: شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت، ہم ان چار منزلوں کو چار درجات بھی کہہ سکتے ہیں، مگر یہاں یہ اصول ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یاد رہے کہ ان میں سے ہر درجے میں دو سے تین درجوں کے اجزاء بھی کم و بیش شامل ہیں، مثال کے طور پر جس منزل میں حقیقت ہے اس میں خالص حقیقت نہیں ہوسکتی ہے لہٰذا ایک اندازے کے مطابق حقیقت میں ۲۰ فیصد شریعت، ۲۵ فیصد طریقت، ۳۰ فیصد حقیقت اور ۲۵ فیصد معرفت کی باتیں ہوتی ہیں، یہی مثل باقی تین درجوں کی بھی ہے، اس مطلب کو درجِ ذیل نقشہ میں ظاہر کیا گیا ہے:۔ :۔

اجزائے چہارگانہ

مجموعہ معرفت فیصد حقیقت فیصد طریقت فیصد شریعت فیصد منازل شمار
۱۰۰ ۱۵ ۲۰ ۲۵ ۴۰ شریعت ۱
۱۰۰ ۲۰ ۲۵ ۳۰ ۲۵ طریقت ۲
۱۰۰ ۲۵ ۳۰ ۲۵ ۲۰ حقیقت ۳
۱۰۰ ۴۰ ۲۵ ۲۰ ۱۵ معرفت ۴

 

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

اسمٰعیلی اصطلاحات

نعت

حضرتِ سیدُ الانبیاء و المرسلین

وہ بادشاہِ انبیاء وہ تاجدارِ اولیاء

محبوبِ ذاتِ کبریاء یعنی محمد مصطفیٰ

وہ رحمۃ للعالمین سلطانِ پاکِ ملکِ دین

وہ ھادیٔ حق الیقین یعنی محمد مصطفیٰ

اقدس ہے اسکا سلسلہ عالی ہے اسکا مرتبہ

قرآن ہے اس کا معجزہ یعنی محمد مصطفیٰ

وہ مفخرِ سب مسلمین وہ سرورِ سب کاملین

وہ رحمتِ دنیا و دین یعنی محمد مصطفیٰ

وہ پیشوائے مرسلین وہ ہے شفیع المذنبین

مقصودِ ربُ العالمین یعنی محمد مصطفیٰ

وہ تھا نبی وہ تھا صفی علمِ الٰہی میں غنی

محتاج اس کے ہیں سبھی یعنی محمد مصطفیٰ

جس شب گئے پیشِ خدا افلاک سب تھے زیرِپا

لولاک ہے اس کی ثنا یعنی محمد مصطفیٰ

 

۱

 

نورِ مجسم وہ نبی خود اسمِ اعظم وہ نبی

سب سے مقدم وہ نبی یعنی محمد مصطفیٰ

میں ہوں نصیرِ خاکسار اے سیدِ عالی وقار

راضی ہے تجھ سے کردگار جنت تجھی سے پربہار

یعنی محمد مصطفیٰ یعنی محمد مصطفیٰ

 

ن۔ن (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی(

کراچی

اتوار ۱۳ ؍ جنوری ۲۰۰۲ء

 

۲

 

آغازِ کتاب

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا نہ شمار ہوسکتا ہے اور نہ اِحاطۂ بیان، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: و اٰتکم من کل ما سالتموہ و ان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا (۱۴: ۳۴) ترجمہ: اور پھر ہر چیز سے جو کچھ تم نے اس سے مانگا اس نے تمہیں وہی کچھ دے دیا۔ اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گنو تو تم ان کا احاطہ نہ کر سکو گے۔

اس حقیقت میں کوئی شک ہی نہیں کہ ہم سب کے سب اس کی نعمتوں کے دریا میں مستغرق ہیں۔

اسماعیلی اصطلاحات کی یہ کتاب  یہاں تک مکمل ہوئی اگرچہ تمام اسماعیلی اصطلاحات اس میں موجود نہیں ہیں، اور یہ کام عرصۂ قلیل میں ہو نہیں سکتا تھا، جب جب کوئی خاص تاویلی راز کا انکشاف ہونے لگا تو میں نے اسی کی پیروی کو ضروری سمجھا، بہ ہر کیف یہ کتاب اب آپ کے سامنے ہے، یہ کتاب میرے ربّ اور عالمِ شخصی کے فرشتوں کی مدد سے تیار ہوئی ہے، فرشتے وہ جو باری باری سے حبل الورید کا کام کرتے ہیں، بفضلِ مولا میں کبھی کا اپنے

 

۳

 

عزیزوں سے قربان ہو چکا ہوں۔

؎ زھر کم کمترم گربی تو باشم

زگردون برترم گر با تو باشم

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار ۱۰، اگست ۲۰۰۳ ء

 

۴

 

اس کتاب کے دو نام

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ سورۂ اعراف (۷: ۱۸۰) کا ارشاد ہے: وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسنٰی فَادْعُوْہ بِھَا۔ واللہ! اسمِ اعظم ہی میں تمام اسماءِ حُسْنیٰ جمع ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا وہ بزرگ ترین اسم یقیناً امامِ زمانؑ ہے (ارواحنا فِداہٗ)!

اس کتابِ عزیز کے دو پیارے نام ہیں، اس کا ایک نام ’’اسماعیلی اصطلاحات‘‘ ہے، اور دوسرا نام ’’جنّت کی سیڑھی‘‘، جیسا کہ مولای روم نے کہا: نردبانِ آسمان است این کلام۔ شاید مثنوی کے بارے میں ہے: ترجمہ: یہ کلام آسمان کی سیڑھی ہے۔ سیڑھی زبردست پرحکمت مثال ہے (۷۰: ۱ تا ۴) معارج = معراج کی جمع۔

یہ بہت ہی پیاری کتاب ہمارے بیحد عزیز لٹل اینجلز کے اسمائے گرامی پر ہے، خواہ ہمارے عالمِ شخصی کے یہ فرشتے اور دوسرے فرشتے مشرق میں ہیں یا مغرب میں؟ اس سے باطن میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے، کیونکہ ہم سب کو حضرتِ قائم علیہ السّلام نے اپنی بے پایان رحمت سے یک حقیقت کے سانچے میں ڈھال کر یک جان بنا دیا ہے، جس طرح زرگر (سُنار) سونے کے بہت سے ذرّات کو پگھلا کر سونے

 

۵

 

کی ایک ڈلی بناتا ہے، ہماری ابدی سعادت، کامیابی اور جنّت اسی وحدت میں ہے۔

کتابِ ہذا کو لٹل اینجلز کی جانب سے شائع کرنے کی تجویز ہمارے بہت عزیز سابق کامڑیا حسن نے دی ہے، ہم اسی کتاب میں ان کی زرّین خدمات پر چند کلمات لکھنے والے ہیں، ان شاء اللہ العزیز۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ ۱۵، اگست ۲۰۰۳ ء

 

۶

 

انتساب

 

دانش گاہِ خانۂ حکمت نے شرق و غرب کے تمام اپنے لٹل اینجلز کے نیک بخت والدین کو ہائی ایجوکیٹرز کا باعزت نام دیا ہے، ’’ہم خرما و ہم ثواب‘‘ اپنے بچوں کو دین و دنیا کے زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا ایک ہمہ جہت عظیم کارنامہ ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

آپ اپنی گریہ و زاری کی خاص دعاؤوں میں یہ دعا بھی کریں کہ آنے والا زمانہ اور بھی زیادہ روشن اور بیش از بیش ترقی کا ہو! جس میں ہمارے ان فرشتوں کو ہماری توقعات سے کہیں زیادہ دین و دنیا کی عزت اور نیک نامی نصیب ہو! آمین!

سابق کامڑیا حسن ابنِ حیدر علی چارانیہ (مرحوم) اور سابقہ کامڑیانی کریمہ اہلیۂ حسن اور ان کا فرزندِ ارجمند سلمان ابنِ حسن، یہ تینوں عزیزان آئی۔ ایل۔ جی کا آنر رکھتے ہیں، کریمہ ڈالاس کے لئے سرپرستِ اعلیٰ کی پرسنل سیکریٹری ہے۔

ہمارے ہر عزیز کی زرّین خدمات کا آسمانی ریکارڈ اس کی نورانی مووی میں انتہائی خوبی کے ساتھ محفوظ ہے، ہمارے ساتھیوں کی گرانقدر خدمات اس قدر زیادہ ہیں کہ ہم ان کا قلمی احاطہ ہرگز نہیں کرسکتے ہیں، مگر کراماً کاتبین

 

۷

 

کی نورانی مووی سے کوئی ذرّہ بھر خدمت بھی باہر ہو نہیں سکتی ہے، اس یقینِ کامل کے ساتھ میں تمام علمی خدمت کرنے والوں کو مبارک باد! کہتا ہوں، آمین ! یارب العٰلمین!

 

الٰہی چارۂ بیچارگان کن                           الٰہی رحمتی بر مومنان کن

الٰہی رحمتت دریای عام است           وزانجا قطرۂ مارا تمام است

گناہ داریم بیش از کوہِ الوند                       گناہ ازبندہ و عوف از خداوند

خداوندا سعادت یارِ ماکن                          زرحمت یک نظر برکارِ ما کن

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر ۱۶، اگست ۲۰۰۳ء

 

۸

 

تحفۂ لازوال برائے لٹل اینجلز

 

لٹل اینجلز سب کے سب بفضلِ اللہ ہمارے ہیں

مجھے حُبِّ علی جیسے یقیناً سب پیارے ہیں

کیا یہ حور و غلمان ہیں مثالِ زندہ گلدستے ؟

کتابیں ہیں؟ نوشتے ہیں؟ نہیں اصلاً فرشتے ہیں

تمہارے ہر تبسم میں نرالی گل فشانی ہے

نباتی گل فشانی میں عزیزو! کیا نشانی ہے؟

تمہارے شہر میں دیکھا ہمیشہ موسمِ گل ہے

پرندے مستِ نغمے ہیں صدائی سوزِ بلبل ہے

کمالِ علم و حکمت کو طلب کر رب العزت سے

کہ مایوسی نہیں ہوتی خدا کے بحرِ رحمت سے

تیاری حربِ علمی کی نہ بھولو لشکرِ قائم!

جہان میں تادمِ آخر جہادِ علم ہے دائم

نصیر الدین کہتا ہے لٹل اینجلز ہمارے ہیں

مجھے حُبِّ علی جیسے یقیناً سب پیارے ہیں

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

روزِ یک شنبہ ۲۴، دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۹

 

اسماعیلی اصطلاحات پر کتاب کی سخت ضرورت

 

جناب محترم حاجی قدرت اللہ بیگ صاحب مرحوم اپنے وقت میں زبردست عالم اور بڑے معروف دانا شخص تھے، انہوں نے مجھ سے اسماعیلی اصطلاحات پرایک کتاب لکھنے کے لئے فرمایا تھا، لیکن مجھ سے یہ اہم کام بروقت نہ ہوسکا تھا، بعد میں مجھے شدّت سے محسوس ہونے لگا کہ یہ کام بے حد ضروری بھی تھا اور ازبس مفید بھی، لہٰذا عرصۂ دراز کے بعد اب میں اپنے ترقی یافتہ شاگردوں کی مدد سے ان شاء اللہ ازبس مفید کتاب لکھنا چاہتا ہوں، کیونکہ اب دانش گاہِ خانۂ حکمت میں بفضلِ خدا کافی اہلِ قلم پیدا ہوئے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات ۲۰، اپریل ۲۰۰۰ء

 

نوٹ:

اصطلاح کی جمع آوری کا طریقِ کار اورنمونۂ گوشوارہ وغیرہ جناب ڈاکٹر (پی۔ ایچ۔ ڈی) فقیر محمد صاحب ہونزائی بحرالعلوم آپ کو بتائیں گے، کیونکہ ہم اسماعیلی اصطلاحات پر ایک مستند کتاب موصوف ڈاکٹر کے مبارک ہاتھ سے لکھنا چاہتے ہیں، ان شاء اللہ العزیز!

 

۱۰

 

جدید مثالوں اور اصطلاحات کی ضرورت

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قرآن حکیم (۱۵: ۲۱) کو اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو یقین آتا ہے کہ زمانۂ آدمؑ سے لے کر آج تک جو کچھ علوم و فنون انسانوں کو حاصل ہوئے ہیں، وہ سب کے سب خزائنِ الٰہی سے آئے ہیں، پھر آج ہم جس روحانی حکمت کو روحانی سائنس کہتے ہیں وہ کوئی معمولی چیز کس طرح ہوسکتی ہے؟ اگر ہم نامۂ اعمال کو ’’نورانی مووی‘‘ سے تعبیر و تاویل کرتے ہیں تو بفضلِ خدا درست ہے۔ کیونکہ آپ پہلے قرآنِ پاک کا فیض صرف کاغذی صورت میں ہی حاصل کر سکتے تھے، آج ظاہری سائنس کی برکت سے جو ہمارے ربّ نے اپنے خزانوں سے نازل فرمائی ہے، کئی سمعی و بصری آلات بنے ہوئے ہیں جن کے ذریعے سے آپ بآسانی قرآنِ حکیم کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، پس ان شاء اللہ کل بہشت میں آپ کی کتابِ اعمال نورانی مووی کی صورت میں ہوگی، جس کو دیکھ کر آپ بیحد شادمان ہوں گے، اس کے بارے میں آپ جو بھی سوال اٹھائیں اس کا جواب قرآنِ عزیز میں موجود ہے۔

۶۹: ۱۹ کا ترجمہ ہے: پس رہا وہ شخص جس کو کتابِ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دی جائے گی تو وہ کہے گا لو میری کتابِ اعمال کو پڑھو۔

 

۱۱

 

یہ نورانی مووی ہے، جس کو ہر کوئی دیکھ سکتا ہے، اس کو دیکھنا ہی پڑھنا ہے۔

؎ زدنیا تا بعقبیٰ نیست بسیار

ولی در رہ وُجودِ تست دیوار

(حضرتِ پیر)

ترجمہ: دنیا سے عقبا =  آخرت تک کچھ زیادہ مسافت نہیں، لیکن تیری اپنی ہستی درمیان میں دیوار بنی ہوئی ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۱۳، اگست ۲۰۰۳ء

 

۱۲

 

دربارۂ توصیفِ کتاب

 

آفتاب و ماہتاب و چرخِ اخضر ہے کتاب

چشمۂ آبِ حیات و آبِ کوثر ہے کتاب

حسن وخوبی میں یگانہ دلکشی میں طاق ہے

باغ و گلشن کی طرح اک خوب منظر ہے کتاب

بے مثال و لازوال انمول تحفہ علم کا

اے عزیزان لے کے رکھنا گنجِ گوہر ہے کتاب

میں جہاں بھی رہ چکا دن بھر کتابوں میں رہا

بس مرا گھر ہے کتاب اور میرا دفتر ہے کتاب

اک جہانِ  علم و حکمت ہے کتابِ مُستطاب

ہے اگر قرآن سے پھر سب سے برتر ہے کتاب

آیۂ قَد جَاءَ کُم (۵: ۱۵) کو پڑھ لیا کر جانِ من!

نورِ حق کی روشنی میں سب کو رہبر ہے کتاب

تو ہے بھیدوں کا صحیفہ تو ہے کنزِ لامکان

قولِ مولانا علیؑ ہے: تیرے اندر ہے کتاب

ہے کتابِ حق تعالیٰ باتَکلُّم ہر جگہ

ظاہر و باطن میں دیکھو میرا حیدر ہے کتاب

 

۱۳

 

معجزے ہی معجزے قرآنِ ناطق سے سنو

آج مولائے زمانہ، روزِ محشر ہے کتاب

سربسر انوار کی دولت سے بھر کر ہے کتاب

اس بہشتِ معرفت میں کیا نہیں ہے جانِ من!

کانِ راحت جانِ لذّت شہد و شکر ہے کتاب

مِثلِ یارِدلنشین محبوب ہے مجھ کو کتاب

دِل کُشا ہے جانفزا ہے روح پرور ہے کتاب

جب قلم لیتا ہوں آتا ہے تجلّی بن کے وہ

یہ نوازش ہے اسی کی تب میسّر ہے کتاب

باغ و گلشن کی سیاحت میں ذرا سا حظ تو ہے

سیرِ علمی کے لئے بس سب سے بہتر ہے کتاب

اے نصیرالدّین تجھ کو سِرِّ اعظم یاد ہے؟

عالمِ عُلوی میں تنہا ایک گوہر ہے کتاب

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

ہفتہ ۷ جمادی الثانی ۱۴۲۰ ھ

۱۸؍ ستمبر ۱۹۹۹ء

۱۴

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۱)

 

اسلام کی اسماعیلی شاخ کی ازلی اور قدیم اصطلاح لفظِ ’’امام‘‘ ہے، اس کا ایک ترجمہ پیشوا  = راہنما (ھادی) ہے، یہ ھادی جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی جانب سے مقرر ہے امامُ الناس بھی ہے (۲: ۱۲۴، ۱۷: ۷۱) امام المُتقین بھی (۲۵: ۷۴)، نیز کلام اللہ کے ارشاد (۳۶: ۱۲) کے مطابق امامِ مبین لَوۡحِ مَحفُوظ بھی ہے کہ اس کے احاطۂ نور میں سب کچھ ہے، جیسا کہ مولا علیؑ کا ارشادِ مبارک ہے: اَنَا اللّوحُ المَحفُوظ = یعنی میں لوحِ محفوظ ہوں (کتابِ کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت ۸)۔

امام اپنی نورانیت میں ازلی اور قدیم ہے، بحوالۂ کتابِ سرائر، ص ۱۱۷ اور کتابِ خزینۂ جواھر، ص ۳، امام علیہ السّلام اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا الحیّ = زندہ اسمِ اعظم ہے، لہٰذا وہ نورِ ازل اور اللہ کے تمام اسمائے صفات کا جامع اور مظہر ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن ، ۶؍ جون ۲۰۰۳ ء

 

۱۵

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۲)

 

آدم، خلیفۃ، خلیفۃُ اللہ، ناطق، صفی اللہ (۳: ۳۳)، ھابیلؑ (اساس) شیثؑ (اساس)، آدمِ اوّل (اس آدم سے وہ بیشمار سال پہلے تھا)، مولاعلیؑ نے فرمایا آدمِ اوّل میرے ظہورات میں سے تھا، کیونکہ میں عالم میں قدیم یعنی ہمیشہ ہوں۔

اے عزیزان! آدمِ سراندیبی کے آئینہ میں بے شمار آدموں کو پہچان سکتے ہو، وہ ایک مستجیب تھا، یعنی اس نے حدودِ دین میں سے کسی کے ذریعہ سے دعوتِ حق کو قبول کر لیا، پھر اس کو ذکرِاعظم = اسمِ اعظم عطا ہوا تھا، وہ کارِ بزرگ میں بڑا سخت محنتی تھا، بحوالۂ کتابِ سرائر، ص ۲۲۔

اسماعیلی مذہب میں جو نورانی عبادت ہے وہ انبیاء و اولیاء کی قدیم سنت ہے، یہ نردبانِ آسمان ہے، یعنی آسمان پر چڑھنے کی سیڑھی ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن، ۷، جون ۲۰۰۳ء

 

۱۶

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۳)

 

خلیل، ہزار حکمت (ح: ۳۲۵)، (امامُ الناس اور امام المتقین)، امامِ مقیم، امامِ اساس، امامِ مستقر، امامِ متم، امامِ مستودع، امامِ قائم، حجتِ قائم، داعی، باب، ھادی، صاحبِ امر = ولیٔ امر، ولایتِ ولی (۵: ۵۵)، اھلِ بیت، پنجتنِ پاک، چہار مقرب، چہار کتبِ سماوی، صاحبِ امر، اور صاحبانِ امر کا حوالۂ قرآن (۴: ۵۹)۔

ھُنَالِکَ الوَلاَ یَۃُ لِلّہِ الْحَقِّ (۱۸: ۴۴) یہ مولاعلیؑ کی ولایت کا ذکر ہے، بحوالۂ سرائر، ص ۱۱۶ (ایک سو سولہ)، کلمۂ باقیہ (۴۳: ۲۸)، امامت جس میں اسمِ اعظم کا سب سے بڑا معجزہ ہے، تاکہ سب اس کی طرف رجوع کریں۔

یہ حدیثِ شریف کتابِ سرائر  ص ۱۱۵ پر ہے:

علیؑ تم میں خلیفۃ اللہ ہے، وہ تم میں اس کتابِ ناطق کا خلیفہ ہے جو خدا کے پاس ہے (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) اور اللہ کی اس کتاب کا خلیفہ ہے جو تم پر نازل ہو چکی ہے یعنی قرآن کا، اور علیؑ قرآن کا دروازہ اور حجاب ہے، جس کے سوا قرآن

 

۱۷

 

میں داخل ہونے کا کوئی راستہ نہیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۸، جون ۲۰۰۳ء

 

۱۸

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۴)

 

نامۂ اعمال = نورانی مووی، حظیرۂ قدس = عرفانی جنت، روحانی قیامت، ناقوری مناجات، فرشتۂ حبل الورید، ذکرِاعظم = نردبانِ آسمان، منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی، نفسانی موت قبل از جسمانی موت = عارفانہ موت۔ شبِ قدر (حجتِ قائم روحی فداہٗ) کے زمانے میں جو روحانی قیامت ہوئی اس کے ذریعہ سے تمام عیال اللہ = عالمِ انسانیت کو نجات مل گئی۔ کتابِ وجہِ دین میں شبِ قدر کی تاویل کو پڑھ لیں۔

قرآنِ حکیم میں جس کثرت سے قیامت کا ذکر آیا ہے وہ سب کی سب صرف روحانی قیامت ہی ہے، حکیم پیر ناصرِ خسرو کے فرمانے کے مطابق بے پایان قیامات ہیں، کیونکہ جسمانی موت نفسانی موت کی مثال اور دلیل ہے، پس  كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (۲۹: ۵۷) کی تاویل نفسانی موت اور روحانی قیامت ہے۔

عالمِ کبیر، عالمِ صغیر = عالمِ شخصی ، کائناتی بہشت، عالمِ ذرّ، ناسوت، ملکوت، جبروت، لاہوت۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن ۸، جون ۲۰۰۳ء

 

۱۹

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۵)

 

ازل، ابد، قلمِ اعلیٰ ، لوحِ محفوظ، عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، جد، فتح، خیال، عرش، کرسی، حاملانِ عرش، سفینۂ نوح، پانی پرعرش، عالمِ دین، عالمِ وحدت، نفسِ واحدہ، آدمِ زمانؑ، نورانی بدن = جسمِ لطیف، سرابیل، جثّۂ ابداعیہ، کتابِ مکنون، گوہرِعقل، کلمۂ باری = کُن = ہوجا، کُونُوا = ہو جاؤ۔

تصوف کے چار عناصر: شریعت، طریقت، حقیقت، معرفت، آفاق و انفس، ظاہر، باطن، ہفت ادوار، ہفت صاحبانِ ادوار۔

روحِ نباتی، روحِ حیوانی، روحِ انسانی، روحِ قدسی، روحِ اعظم، روح الارواح، روحِ کلّی = نفسِ کلّی، فلکِ اعظم = کرسی، عالمِ علوی = عالمِ بالا، عالمِ خلق، عالمِ امر، عالمِ روحانی، عالمِ آخرت، علمِ لَدُنّی، علمُ الآخرت (۲۷: ۶۶)۔

سلوک، سالک، عارف، انسانِ کامل، فنا فی الامام، فنا فی اللہ، بقا باللہ، سَیْر اِلَی اللہ، سَیْر فی اللہ، علمِ تاویل، مثال،

 

۲۰

 

ممثول۔

ناطق، اساس = وصی، امام، باب، حجّت، داعی، ماذون، مستجیب۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن، ۹؍ جون ۲۰۰۳ء

 

۲۱

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۶)

 

درجاتِ یقین، مَؤَوِّل، راسِخ فِی العِلم =امامؑ ، اسمِ اعظم لفظی، اسمِ اعظمِ نورانی = امامِ زمانؑ، وزیرِ موسیٰؑ، وزیرِ محمدؐ، آنحضرتؐ کے علم وحکمت کا دروازہ = علیؑ صالِحُ المومنین و یعسُوب المُسلمین وَ حبل اللہ المتین، اَلْعُرْوَۃ الْوُثْقیٰ (۲: ۲۵۶) = محکم کڑا، اَیّامِ اللہ (۱۴: ۵) = عارف کی روحانی قیامت کا عرصہ جس میں معرفت کے اسرار ہی اسرار ہیں، یعنی جس میں چھ ناطق اور قائم کے اسرار ہوتے ہیں، جو اللہ کے سات دن ہیں، نیز اَیّامٍ معلوماتٍ (۲۲: ۲۸) میں سوچیں۔

(۱۴: ۲۴) کی بے مثال حکمت کتابِ وجہِ دین میں پڑھو، اس آیۂ کریمہ میں پاک درخت سے مراد آنحضرتؐ ہیں، پاک کلمہ اسمِ اعظم ہے، درخت کی شاخ جو حظیرۂ قدس کے آسمان میں ہر وقت پھل دیتی رہتی ہے، امامِ زمانؑ کی نورانیت ہے۔

علوم التاویل المحض المجرد = مشاہداتِ اسرار و انوارِ حق الیقین، کتا بِ سرائر، ص ۲۸۔

آدمِ سراندیب  = آدمِ سراندیبی دارالضِّد (دشمن کے ملک)

 

۲۲

 

میں پیدا ہوا تھا، سرائر ص ۲۷، امام کے لاحِق اور حجّت اس کی روحانی پرورش کرتے تھے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۱۰؍ جون ۲۰۰۳ء

 

۲۳

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۷)

 

نامۂ اعمال = نورانی مووی انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی، چنانچہ جب جب امامِ زمان (ارواحنا فداہٗ) کی بابرکت اور پرحکمت تشریف جماعتِ باسعادت میں آرہی ہوتی ہے اور اس کی بے پایان خوشی کے جو بے مثال انتظامات ہوتے ہیں اس کی لاکھ درجہ بہتر نورانی مووی ہوتی ہے، تاکہ جنت الاعمال کے حسین مناظر کا طُرَّۂ امتیاز ہو، الغرض حضرتِ امامِ زمانؑ کی ہر سالگرہ، ہر خوشی، ہر علمی اجتماع اور ہر چھوٹی بڑی روحانی مجلس کی نورانی مووی ہوتی ہے، جس کی لازوال حسن و جمال کو دیکھ کر اہلِ بہشت حیرت زدہ ہوں گے۔

جس طرح مادّی مووی انسان کو کثیف سے لطیف کر دکھاتی ہے اسی طرح نورانی مووی انسان کو ظلمانی سے نورانی اور لافانی بناتی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور غالب معجزہ ہے۔

جب رحمتِ عالمؐ پر قرآن نازل ہوا اور اس میں خدا نے آفاق و انفس کے معجزات دکھانے کا وعدہ فرمایا تب ہی دنیا میں ظاہری سائنس کا انقلاب آیا، اس سے پہلے کوئی ایسا انقلاب کیوں نہیں آیا تھا؟ پھر کیا ظاہری سائنس اللہ کی نشانیوں میں سے نہیں ہے؟ کیا ہمیں اس کی

 

۲۴

 

مثالوں سے دین کی اعلیٰ حقیقتوں کو سمجھنا منع ہے؟ اگر اللہ کا منشا ایسا ہوتا تو وہ عَزّاِسمُہٗ پہلے انفس کی نشانیاں پھر بعد میں آفاق کی نشانیاں دکھاتا، ہم سوچ نہیں سکتے جس طرح سوچنے کا حق ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۱۲، جون ۲۰۰۳ء

 

۲۵

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۸)

 

یک حقیقت = مونوریالٹی، اَلَسْتُ؟ = اَلَسْت، تَجَدُّد ، سُنَّتِ اِلھٰی، لاتبدیل، فِطْرَت اللّٰہِ (۳۰: ۳۰)، قانونِ تسخیر (۳۱: ۲۰)، قانونِ خزائنِ (۱۵: ۲۱)، نُورِ منزل (۵: ۱۵)، نورِ مومنین وَمومنات (۵۷: ۱۲، ۵۷: ۱۹ ، ۶۶: ۸ )، دیکھو کتابِ سرائر، ص ۱۱۶: چہرۂ علیؑ (امامِ زمانؑ) کی طرف نظر کرنا عبادت ہے۔

قرآن میں جہاں جہاں اللہ کے نور کا ذکر آیاہے، وہ تاویلاً امامِ زمانؑ کے نور کا ذکر ہے، آپ ما قیلَ فِی اللہ کے ارشاد کو ہرگز فراموش نہ کریں۔

جو نور مومنین و مومنات سے منسوب ہے وہ بھی دراصل امامِ زمانؑ ہی کا نور ہے، حقیقتِ حال اس طرح سے ہے کہ جب جب کسی عالمِ شخصی کی روحانی قیامت برپا ہونے لگتی ہے تو اس میں امامِ زمان (ارواحنا فداہٗ) کا نور طلوع ہو جاتا ہے، کیونکہ ناقور امامِ زمان ہے، قیامت امامِ زمان ہے، اور قائم بھی امامِ زمان ہے، اور سب سے اول اللہ کا اسمِ اعظم امامِ زمان علیہ السلام ہے، الحمد اللہ۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن ۱۳، جون ۲۰۰۳ء

 

۲۶

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۹)

 

امام علیہ السلام لوگوں پر خدا کی حجّت ہیں، کتابِ وجہِ دین، کلام ؍۱، ص ۲۷۔ علم دراصل کس چیز کا نام ہے؟ اور اس کا حقیقی سرچشمہ کہاں ہے؟ کلام؍۳، ص ۵۱۔ عالمِ لطیف = عالمِ روحانی ، کلام ؍۴، ص ۵۳۔ بہشت، کلام ؍ ۵، ص ۶۱۔

اللہ تعالیٰ کی جانب سےچھ ناطق، چھ وصی، اور حضرتِ قائم آئے، اس کی یہ تاویل ہے کہ عَزَّ اِسْمُہٗ نے ان چھ دنوں میں عالمِ دین کو پیدا کیا، پھر اس کے عرش کا ظہور بحرِ علم پر ہوا (۱۱: ۷)، پھر وہ عرش سفینۂ نجات بن گیا = بھری ہوئی کشتی (۳۶: ۴۱) اور اس کشتی میں خود کشتیبان ہی اصل = حقیقی اور نورانی کشتی تھا، اعنی امامِ زمان (روحی فداہٗ) جس میں تمام روحیں طَوْعاً وَ کَرْھاً فنا ہوچکی تھیں، یہ ہوا عرش پر مساواتِ رحمانی کا کام، خوب یاد رہے کہ ہر روحانی قیامت میں بحرِ علم پر ظہورِ عرش کا معجزہ ہوتا ہے۔

کتابِ وجہِ دین میں تمام حدودِ دین کا بیان ہے، آپ اس کتاب کو عشقِ مولا کے ساتھ پڑھیں، اسی ریاضت سے اس کو آئینہ بنا کر اپنے آپ کو دیکھیں، عبادت عملی بھی ہے اور علمی بھی، دونوں ایک ساتھ

 

۲۷

 

ضروری ہیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۱۵؍ جون ۲۰۰۳ء

 

۲۸

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۱۰)

 

اللہ سُبْحَانہٗ و تعالیٰ کی سنتِ قدیم کی معرفت میں اُولُوالالباب = صاحبانِ عقل کے لئے بے پایان فائدے ہیں، اور ترجمۂ آیت: تم خدا کی عادت میں ہرگز تغیّرو تبّدل نہ پاؤ گے (۳۳: ۶۲)، اللہ کی سنت کی معرفت بھی عالمِ شخصی کی بہشت میں ہے (۴۰: ۸۵)۔

کتابِ سرائر ص ۱۳۴ پر حضورِ اکرم صلعم کا ایک مبارک نام قائم بھی ہے، اس میں عظیم و محیط حکمتیں اور اسرارِ غالب ہیں، بھلا یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ اسرارِ روحانی قیامت محبوبِ خداؐ کے احاطۂ علم ومعرفت سے باہر ہوں اور یہ کیوں کر ممکن ہو سکتا تھا جبکہ خدا نے اپنے انبیاء کے سردارؐ کو نورانی ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تھا تاکہ یہ دین دیگر تمام ادیان پر غالب کر دے (۹: ۳۳، ۴۸: ۲۸، ۶۱: ۹)، آیا ایسے میں کوئی عاقل مومن یہ کہہ سکتا ہے کہ حضرتِ خاتم الانبیاء کو اللہ نے جس مقصد کے لئے بھیجا تھا وہ حضورؐ کی پر حکمت زندگی میں پورا نہیں ہوا، نہیں نہیں، ایسا ہرگز نہیں، محمدؐ و علیؑ کا نور ایک تھا جس نے روحانی قیامت کو برپا کیا۔

آپ نے روحانی قیامت کے احوال کو بار بار سنا ہے، لہذا

 

۲۹

 

آپ کو یقین کرنا ہوگا کہ روحانی قیامت کا بارہا تَجَدُّدْ ہوتا رہتا ہے، جس میں باطِناً دینِ حق بار بار غالب آتا ہے اور ظاہراً یوں لگتا ہے کہ ابھی قیامت بہت ہی دور ہے، اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت بڑی عجیب و غریب ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۲۰، جون ۲۰۰۳ء

 

۳۰

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۱۱)

 

حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ کی شان میں ایک حدیثِ شریف از کتابِ سرائر ص ۱۱۴۔۱۱۵ کو چند مرتبہ خوب غور سے پڑھیں تاکہ علمی عبادت بھی ہو اور اس میں جو عظیم پرحکمت اصطلاحات ہیں وہ بھی خوب یاد ہوں، اور آپ میں جو فرشتے ہیں وہ بھی شادمان ہو جائیں۔

آنحضرتؐ کا ارشادِ مبارک ہے: تم میں سے ہر ایک راع = راجا = تھم = بادشاہ ہے، راع کے معنی مرحلہ وار ہیں: چَوپان = سردار = بادشاہ، اگر یہ حقیقت نہ ہوتی تو اس میں رعیت کا کوئی ذکر ہی نہ ہوتا، کیونکہ بھیڑ بکریاں رعیت کی مثال تو ہو سکتی ہیں لیکن انسانی رعیت نہیں ہوسکتی ہیں۔

اے عزیزان! اب ’’قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیت‘‘ کے حقائق و معارف کو سمجھنے کے بعد بہشت کے سلاطین کے بارے میں لاعلم رہنا بہت بڑی ناشکری نہیں تو پھر کیا ہے؟ آپ ہمارے مرکزِ علم و حکمت سے بھی ہمیشہ مدد حاصل کریں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۲۵، جون ۲۰۰۳ء

 

۳۱

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۱۲)

 

ناطقان، اساسان، امامان، حجّتان، داعیان، معلمان، مستجیبان، قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیت، ص ۱۵۵، قسط ۸۷ کو پڑھیں، ۳۱۳ کے سرِعظیم میں کما حقہٗ غوروفکر کریں، امامِ زمان علیہ السّلام کے نورِ اقدس کے معجزات بڑے عجیب و غریب ہیں۔

ز نورِ اُو تو ہستی ہمچو پَرتَو

حجاب از پیش بردار و تُو اُوشو

اس کا مطلب یہ ہے کہ تو سب سے پہلے آئینۂ خورشیدِ نور بن جا، بعد ازان آئینۂ خودی و دوئی کو توڑ دے تاکہ حجاب درمیان سے ہٹ جائے۔

اے عزیزان! مولا کو ہمیشہ یاد کرو تاکہ یہ بابرکت اور پرحکمت یاد دل کی عادت اورخاصیت بن جائے اور اس اساسی معجزے کے لئے آپ باربار گریہ وزاری کریں، آمین!

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۲۷، جون ۲۰۰۳ء

 

۳۲

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۱۳)

 

مولاعلیؑ کا نور عالم میں قدیم ہے، اللہ کا دین علیؑ ہے، علیؑ خلیفۃ اللہ اور خلیفۂ رسولؐ ہے، علیؑ وہ کتابِ ناطق ہے جو اللہ کے پاس ہے، علیؑ ہی ذالک الکتاب لَارَیبَ فِیہ ہے، علیؑ کا نور روحانی قیامت اور ناقور ہے، محمدؐ و علیؑ کا نور ازل سے ایک ہی تھا۔

مولانے فرمایا میں آدمِ اوّل ہوں، پھر فرمایا میں عالم میں قدیم = ہمیشہ ہوں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مولا آدمِ قدیم ہے، مولا وَجْہٗ اللہ ہے، یعنی مولا کی معرفت ہی حضرتِ ربّ کی معرفت ہے، علیؑ کا نور یقیناً امامِ زمانؑ میں جلوہ گر ہے، پس جو لوگ امامِ زمانؑ کو خود امام کے نورِ باطن کی روشنی میں پہچانتے ہیں ان کی سعادت کا کیا کہنا!

اے عزیزان! علم الیقین کو کمالِ عشق سے حاصل کرو اور عین الیقین کی جانب آگے بڑھو! آمین!!

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۲۹، جون ۲۰۰۳ء

 

۳۳

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۱۴)

 

حدیثِ قدسی کا ارشادہے کہ اے آدمِ زمان = امامِ زمانؑ کا فرزندِ روحانی ! میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی مثل بناؤں گا۔ اس حدیث قدسی میں صاحبانِ عقل کو یہ اشارہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے امامِ حقؑ کو ازل ہی میں اپنی مثل بنا لیا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم فرماتا ہے کہ اس کی مثل جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں (۴۲: ۱۱) یعنی اللہ نے امام کو بے مثال اور لاجواب پیدا کیا ہے۔

کتابِ سرائر ص ۱۱۶ پر بھی دیکھیں، یعنی جناب بحرالعلوم سے درخواست کریں ورنہ وہ کتاب آپ کے پاس کہاں ہے، شاید آن جناب حضرتِ شاہِ ولایت صلوات اللہ علیہ کے ان اسرارِ عظیم میں سے بعض اسرار کو بیان کریں، میں یہاں ان اسرارِ عظیم کی ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ شاہِ ولایت نے فرمایا ہے: وَاِنَّ وَلایَتِی وَلَایَۃُ اللہ = یقیناً میری ولایت اللہ کی ولایت ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: ھُنَالِکَ الْوَلاَیَۃُ لِلّٰہِ الْحَقِّ (۱۸: ۴۴) مولا نے فرمایا ہے کہ یہ میری ولایت ہے اور اسی طرح میری ولایت اللہ کی ولایت ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۲۹، جون ۲۰۰۳ء

 

۳۴

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۱۵)

 

آدمؑ صاحبِ فَترتِ اوّل، ادریسؑ صاحبِ فَترتِ دوم، سرائر ص ۶ (مقدمۃ) ۔ ھابیلؑ، شیثؑ اور ادریسؑ کی شریعت کی طرف نوحؑ اپنی قوم کو دعوت دیتے تھے، سرائر ص۶ (مقدمۃ) جعفربن منصور بابِ ابواب، ص ۷ (مقدمۃ)، امام کا حجت اور لاحق، ص ۲۸، غوامض العلوم، علوم التاویل المحض المجرد، ص ۲۸۔

اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً (۲: ۳۰) وَھٰذا الخطاب مِن امامِ الزمان، ص ۲۹۔

آدمِ سراندیبی کا اپنا خاص نام تخوم بن بجلاح بن قوامہ بن ورقۃ الرویادی تھا، ص ۳۱، قبیلہ کا نام ریاقۃ، صاحبِ زمان اور امام العصر کے حجّت کا نام ھُنید تھا، ص ۳۲۔

حدیثِ شریف ہے: اِنّ علم الدّین ھُوَ السَّحر الحلال، ص ۳۴۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۳۰، جون ۲۰۰۳ء

 

۳۵

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۱۶)

 

قابیل نے ہابیلؑ کو جسمانی طور پر قتل نہیں کیا تھا، جبکہ قتل کی اور بھی قسمیں ہیں، کتابِ سرائر ص ۴۶۔۵۲، اور ہابیلؑ نے ایک ستر (حجاب) کو قائم کیا اور سخت تقیہ سے کام لینے لگا، اپنےکام کو خدا کے دشمنوں سے مخفی رکھا، اپنے داعیوں کو سری طریقے سے پھیلا دیا، تاکہ اللہ کی توحید قائم ہو، اور آپؑ کے بعد شیثؑ جانشین ہوا جو آدم کے لئے اللہ کا عطیہ = ھِبۃ اللہ تھا۔

ہر انسان کے دل کے پاس ایک جنّ اور ایک فرشتہ ہیں یعنی نفس اور عقل ، چونکہ اللہ عَزَّاِسمہٗ کی ہر حکمت میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں، اس لئے نفس اور عقل گویا دوسِیٹ بھی ہیں، لہٰذا آپ اپنے ایمانی اورعلمی دوستوں کو باری باری سے عقلی = مَلَکی سیٹ پر دعوت دے سکتے ہیں، یعنی ایسی نیّت کر سکتے ہیں، میں بھی ایسا خیال کرتا ہوں، اسی طرح ہم اللہ کی قدرت و حکمت سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اَلحَمدُ لِلّٰہِ عَلیٰ مَنِّہِ وَ اِحْسانِہٖ۔

نوٹ: مَلَکی = فرشتہ گانہ ANGELIC SEAT۔ حَبلُ الورید بھی یہی فرشتہ ہے، قانونِ بہشت کی تاویلی آیات قرآن میں بہت ہیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۲، جولائی ۲۰۰۳ء

 

۳۶

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۱۷)

 

کتاب سلسلۂ نورٌعَلیٰ نُور، قسط ۳۸ میں مولانا علیؑ سے پہلے اماموں کے اسماء کو پڑھیں، کتابِ سرائر، ص ۸۰ پر یہ ذکر ہے کہ مولانا عبدالمُطلبؑ کے بارہ نقیبان تھے، ان میں سے پانچ آپؑ کے فرزند تھے: حارِث، حمزہ، الزبیر، ابو طالب = عبد مناف، اور عبد اللہ ، قرآنِ پاک (۵: ۱۲) میں بارہ نقیبان کا ذکر ہے۔

عالمِ شخصی، عالمِ خیال، عالمِ خواب، عالمِ بیداری، عالمِ امر، عالمِ خلق، ناسوت، مَلَکوت، جَبَروت، لاھوت، کتابِ مکنون، گوہرِ عقل، کلمۂ امر، نفسِ واحدہ، لفیف۔

تختِ سلیمانؑ روحانی تھا، انگوٹھی سے اسمِ اعظم مراد ہے، سلیمانؑ کی سلطنت روحانی تھی۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۴، جولائی  ۲۰۰۳ء

 

۳۷

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۱۸)

 

آدمِ سراندیبی، نفسِ واحدہ، خلیفۃ اللہ

تجدّد امثال کے بارے میں جاننا ازحد ضروری ہے، تجدّد کا اشارہ قرآن میں بھی ہے، اسرافیل و عزرائیل کی منزل میں بھی، حظیرۂ قدس کی عرفانی بہشت میں بھی، اور حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ (روحی فداہ) کے فرمان میں بھی، لہٰذا آپ کو اس عظیم راز کے باب میں جاننا بیحد ضروری ہے۔

مَجْمَعُ البَحْرَین، ذُوالقرنین، یاجُوج وَ ماجُوج (لشکرِ صاحبُ العصر) عالمِ ذرّ، علیین، مظہرِ نورِالٰہی = امامِ زمانؑ = اللہ کا زندہ اسمِ اعظم = نورِمنزل ، ولیٔ امر، امامِ آلِ محمدؐ، قرآنِ ناطق، مظہرالعجائب والغرائب، ہمارے محبوب امامِ زمان صلوات اللہ علیہ و علی آبائہٖ۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۷، جولائی  ۲۰۰۳ء

 

۳۸

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۱۹)

 

اسماعیلی تاریخ میں کس امام نے اعلان فرمایا تھا کہ قیامت روحانی ہے؟ یہ فرمانِ مبارک کس کتاب میں محفوظ ہے؟

بسم اللہ کے کل ۱۹ حروف ہیں، اس میں کیا اشارہ ہے؟ بسم اللہ کی تاویلی حکمت کس کتاب میں ہے؟

قرآنِ پاک میں ۱۹ فرشتوں کا ذکر کہاں ہے؟

مَا قِیلَ فِی اللہ کس امام کا ارشادِ مبارک ہے؟

خدا کی خدائی میں بے پایان قیامات ہیں، یہ کس حجت کا قول ہے؟ آیایہ پر حکمت قول حکیم پیر ناصر خسرو کا ہے؟

کتابِ مستطابِ سرائر کس بزرگ ہستی کی تصنیف ہے؟ بڑا نامور قاضی نعمان کی کسی مشہور کتاب کا نام بتاؤ۔

زنورِ اُو تو ھستی ۔۔۔۔۔۔۔۔ مکمل شعر کیا ہے؟

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۸، جولائی  ۲۰۰۳ء

 

۳۹

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۲۰)

 

اللہ تعالیٰ حکیم ہے، اس کا کلام قرآن بھی حکیم ہے، اس کا رسولِ پاکؐ بھی حکیم ہے، اور امامِ زمانؑ بھی حکیم ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دین کی تمام خاص باتیں حکمت کی زبان میں ہیں، لہٰذا اہلِ ایمان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ حکمت کو سیکھیں تاکہ ان کو دونوں جہان میں بے شمار فائدے حاصل ہوں۔

اللہ ہر وقت انسانوں کو آزماتا ہے اور اس کے قانون میں بار بار امتحان ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں بہشت کی تمام نعمتوں کا ذکر ہے، اور اس میں بہت بڑا امتحان ہے کہ کون کس نعمت کو زیادہ سے زیادہ چاہتا ہے؟ بہشت کی ان تمام نعمتوں کے تذکرے میں وہاں کی سلطنت کا بھی ذکر ہے، جب بہشت کی بادشاہی وہاں کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے تو پھر یہ نعمت کس طرح ناممکن ہوسکتی ہے؟ ہاں دنیا میں حقیقی ایمان اور حقیقی معنوں میں اعمالِ صالح ضروری ہیں۔

آپ نے براہِ راست قرآن میں یا میری کسی کتاب میں ضرور پڑھا ہوگا کہ حضرتِ موسیٰؑ کے مومنین بہشت میں مُلُوک = سلاطین ہوئے تھے (۵: ۲۰) اگر چشمِ بصیرت سے قرآن میں دیکھا جائے تو ہر پیغمبر اور ہر

 

۴۰

 

امامِ حق کے فرزندانِ روحانی کے لئے بہشت میں دعوتِ حق کی بادشاہی = سلطنت ہے۔

قرآنِ حکیم کا باطن اللہ سبحانہ و عزّاسمہٗ کے علم و حکمت کا تجلیاتی معجزہ ہے، تجلیات یا ظہورات بہت بڑی اصطلاح ہے، ہم ان شاء اللہ اس کا کچھ بیان کریں گے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۱۱، جولائی  ۲۰۰۳ء

 

۴۱

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۲۱)

 

تجلی= تجلیات = ظہورات کی حکمتوں سے قرآنِ حکیم ظاہر و باطن میں لبریز ہے، کیونکہ اللہ کی ذاتِ پاک اور اس کی ہر صفت قدیم ہے، لہٰذا آپ اللہ کے کلامِ قدیم کی لامحدود حکمت کو زمان و مکان کی کسی چیز میں ہرگز محدود نہیں کر سکتے ہیں، جبکہ اللہ خود ہی اپنی قدرتِ کاملہ سے لامحدود چیزوں کو محدود کر کے دکھانے کا معجزہ کر سکتا ہے، کیونکہ عارف کی بصیرت دَفعَۃً اللہ تعالیٰ کے لامحدود اسرار پر حاوی نہیں ہو سکتی ہے، لہٰذا اللہ جل جلالہ کائناتِ پُراسرار کو بصورتِ کتابِ مکنون = گوہرِعقل لپیٹتا ہے، اور اس کے سلسلۂ ظہورات و تجلیات سے ہر چیز عارفین کو سکھاتا ہے، الحمد للہ رب العٰلمین۔

جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ ذات و صفات میں قدیم ہے تو اس کا قول و فعل بھی قدیم ہے، حادث = نیا نہیں، مگر اس میں تجدّدِ امثال ہے، اس کی وضاحت بار بار کی گئی ہے، پس قرآن میں جس آدم کا ذکر آیا ہے وہ کوئی جدید آدم ہرگز نہیں، بلکہ وہ آدموں کے سلسلۂ بے پایان کی ایک کڑی ہے، یا نورِ خلافت وامامت کے لا ابتداء و لا انتہاء ظہورات میں سے ایک ظہور تھا، اور مولا علی علیہ السلام نے

 

۴۲

 

فرمایا ہے کہ میں آدمِ اوّل ہوں، اس کا مقصد آدم کی کوئی ابتداء ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ لوگ آدم شناسی کی جس تقلیدی دیوار کے پاس کھڑے ہیں اس دیوار کو گرانا ہے، تاکہ لوگ بہت آگے جائیں، اور اس ارشاد میں یہ اشارہ بھی ہے کہ خلافت و امامت ایک ہی منصب ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۱۲، جولائی  ۲۰۰۳ء

 

۴۳

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۲۲)

 

ذکرِ کثیر (۳۳: ۴۱) ، ایک ہی مقام پر آنحضرتؐ کے سات بابرکت اسماء: نبی، رسول، شاھد، بشیر، نذیر، داعی، سراجِ منیر (۳۳: ۴۵ تا ۴۶)، درود (۳۳: ۵۶)، آیۂ تطھیر (۳۳: ۳۳) آیتِ معرفتِ بہشت (۴۷: ۶)، آیۂ بیعت: (۴۸: ۱۰)، آیۂ اطاعت (۴: ۵۹)، آیتِ نورِ منزل (۵: ۱۵)، امامِ زمانؑ صاحبِ روحانی قیامت ہے (۱۷: ۷۱)۔

امامِ زمانؑ امامُ الناس بھی ہے (۲: ۱۲۴) اور وہ امام المتقین بھی ہے(۲۵: ۷۴)، امامِ زمانؑ (روحی فداہ) علیؑ کا نور ہے، لہٰذا علیؑ کی تعریف امامِ زمانؑ کی تعریف ہے، اور امامِ زمانؑ کی معرفت علیؑ کی معرفت ہے۔

کتابِ سرائر ص ۱۱۵ پر جو حدیثِ شریف درج ہے اس میں سے چند بیحد شیرین حکمتیں تحریر کر کے آپ کو دی گئی ہیں، اس کا اصل اشارہ: علی خلیفۃ اللہ فیکم، وخلیفۃ کتاب اللہ فیکم، وخلیفۃ کتاب المنزل علیکم، وبابہ و حجابہ الّذی لا یوتی الا منہ، والقائم من بعدی، و القائم فیکم مقامی۔

 

۴۴

 

خلاصہ : علیؑ خلیفۃ اللہ ہے، اور وہ اللہ کی کتاب ناطق کا بھی خلیفہ ہے (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹)، اور وہ اللہ کی اس کتاب کا بھی خلیفہ ہے جو تم پر نازل ہوئی ہے، یعنی قرآن، اور وہ اس کا دروازہ اور حجاب ہے جس کے بغیر کوئی شخص قرآن میں داخل نہیں ہو سکتا ہے، اور وہ میرے بعد قائم (یعنی قائمِ قیامت)، اور تمہارے درمیان میرا جانشین ہے۔۔۔۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۱۳، جولائی  ۲۰۰۳ء

 

۴۵

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۲۳)

 

جیسا کہ ذکر ہوا، قصّۂ آدم میں انتہائی عظیم اسرار پوشیدہ ہیں، پس آدم شناسی جتنی مشکل ہے اتنی ضروری اور فائدہ بخش بھی ہو سکتی ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ ہر حالت میں دین کا قصّۂ آدمؑ سے اور آدمؑ کا قصّہ خلافت سے شروع ہوتا ہے، آپ کو یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن و حدیث کی حکمت میں آدمؑ اور بنی آدم ساتھ ساتھ ہیں، آپ سب سے پہلے نفسِ واحدہ کے رازوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، بفضلِ مولا دانش گاہِ خانۂ حکمت کی کتابوں میں ہر قسم کی ضروری معلومات موجود ہیں۔

خداوند تعالیٰ اس ادارے کے فرشتہ خصلت عملداران اور ارکان سب کے سب پر نہایت مہربان ہے، ان نیک بخت لوگوں کو یہ خصوصی توفیق عطا ہوئی ہے کہ یہ حقیقی علم کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں، ہر نیک مراد کے موقع پر گریہ وزاری کے ساتھ بارگاہِ الٰہی سے رجوع کرتے ہیں، اسی لئے حق تعالیٰ نے ان کو آج عالمی = آفاقی نیک نامی اور لازوال شہرت و عزت عطا فرمائی ہے، اس کی دلیل ان کی وہ بے مثال شہرۂ آفاق کتاب ہے جو قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیت کے پُرحکمت اسم سے موسوم ہوکر عالمی سطح پر ابھر رہی ہے، یہ کتاب دراصل اس روحانی اور قرآنی

 

۴۶

 

سائنس کا انقلابی ثبوت ہے جس کا قبلاً اسلام آباد میں ذکر ہوا تھا، الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہٖ۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۱۴، جولائی  ۲۰۰۳ء

 

۴۷

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۲۴)

 

عالمِ شخصی میں روحانی قیامت کا نقطۂ آغاز سالک کے کان میں ایک باریک قدرتی آواز کے آنے سے شروع ہوتا ہے، جس کی مثال قرآن میں بَعُوضَۃً ہے ( ۲: ۲۶)، کتابِ کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت ۶۴ کے ارشاد کو پڑھیں کہ وہ مولاعلی علیہ السلام کی مثالوں میں سے ہے، آپ دانش گاہِ خانۂ حکمت کی کتابوں کو پڑھیں تاکہ آپ کو روحانی قیامت سے متعلق علم الیقین حاصل ہو۔

روحانی قیامت کے برپا ہونے میں بے پایان حکمتیں ہیں کہ ان کو صرف خدا ہی شمار کرسکتا ہے، اللہ نے اپنے جن حقیقی مومنین سے جس زمین کی خلافت کا وعدہ فرمایا ہے وہ بہشت میں دعوتِ حق کی زمین ہے، پس وہاں کا ہر خلیفہ بادشاہ ہوگا، اور ممکن ہے کہ وہ فرشتہ بھی ہو، اس میں غور کرنے کے لئے تین حوالے درج کئے جاتے ہیں: ۶: ۱۶۵، ۲۴: ۵۵، ۴۳: ۶۰۔

اس کے علاوہ قرآنِ حکیم (۴: ۵۴) میں آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کی عظیم سلطنت کا ذکر ہے اور انہی حضرات کی یہی عظیم سلطنت بہشت میں مُلْکاً کَبِیراً (۷۶: ۲۰) کےنام سے ہے، دنیا کی روحانیت میں بھی

 

۴۸

 

اور بہشت میں بھی حضرت امام علیہ السلام بادشاہوں کا بادشاہ یعنی شاہنشاہ ہے، لہٰذا (۴۰: ۱۶) میں بھی اسی شاہِ شاہان ہی کا ذکر ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۱۶، جولائی  ۲۰۰۳ء

 

۴۹

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۲۵)

 

سورۂ مریم (۱۹: ۹۶) کا ترجمہ ہے: یقیناً جو لوگ کَمَا کَانَ حَقَّہٗ ایمان لائے اور انہوں نے حقیقی معنوں میں نیک اعمال کئے، عنقریب رحمان لوگوں کےدلوں میں ان کی محبت پیدا کر دے گا۔

تاویلی حکمت: خوب توجہ اور غور سے سن لیجئے! جب اللہ حکیم نے حقیقی مومنین کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے تو دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے، ہاں حقیقت یہی ہے کہ کل بہشت میں جب انہی اہلِ یقین کو بہشت کی خلافت و سلطنت عطا ہو گی، جس کی وجہ سے دنیا اور زمانہ بھر کے لوگ جو وہاں ہوں گے وہ ان سے محبت کریں گے، کیونکہ دنیا میں بھی لوگ اپنے بادشاہ سے محبت کرتے ہیں۔

آپ کو یہ مفہوم قرآن میں جگہ جگہ ملے گا کہ اہلِ جنت جو نعمت چاہیں وہ وہاں ان کو مل سکتی ہے، بےشک وہاں درجات ہیں، کیونکہ وہاں کی بہت بڑی اکثریت روحانی قیامت کی زبردستی سے داخل کی گئی ہے، پس بہشت میں شاہِ شاہان کا کوئی روحانی فرزند بادشاہ ہونا چاہتا ہے تو ہوسکتا ہے۔

 

۵۰

 

جو لوگ روحانی قیامت کی زبردستی سے بہشت میں لائے گئے ہیں وہ بہشت کی رعیت ہیں مگر ان کو دعوتِ حق کی تعلیمات میں بہت ترقی کرنی ہوگی، بہشت کی رعیت کو کوئی تکلیف ہرگز نہیں، بہشت میں کیونکر کسی کو تکلیف ہو سکتی ہے، مگر ہاں حقیقی علم ان کو سکھایا جائے گا تاکہ رفتہ رفتہ یہ بھی علم کے بادشاہ ہو جائیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حّبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۱۷، جولائی  ۲۰۰۳ء

 

۵۱

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۲۶)

 

حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السلام کی روحانی قیامت میں حق سبحانہ و تعالیٰ نے اہلِ یقین کو جس درجۂ عالیہ سے نواز کر سرفراز فرمایا تھا، اس کا ذکر سورۂ اعراف (۷: ۱۱) میں ہے، حضرتِ نوحؑ کے حقیقی فرزندانِ روحانی کی فضیلت کو سورۂ ھود (۱۱: ۴۸) میں غور سے دیکھیں، حضرتِ ابراہیمؑ کے فرزندانِ روحانی کی روحانی عزت و برتری کو ان پُرحکمت الفاظ میں دیکھیں: فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ  (۱۴: ۳۶)، حضرتِ موسیٰؑ کے اہلِ یقین کو (۵: ۲۰) میں دیکھیں، حضرتِ عیسیٰؑ کے اہلِ یقین کو دیکھیں کہ فرشتے بن رہے ہیں ( ۳: ۴۹، ۵: ۱۱۰)، حضرتِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟ کیا آنحضرتؐ کے باطن میں تمام انبیا و رُسُل کے جملہ معجزات جمع نہیں تھے؟ کیوں نہیں!

امام المتقین کے فرزندانِ روحانی کے بارے میں (۲۵: ۷۴) کو غور سے پڑھیں کہ جس طرح حضرتِ امامؑ کا جسمانی فرزند آپؑ کی پاک آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسی طرح آپؑ کے ہر روحانی فرزند کے حق میں بھی یہی دعا ہے، پس اطاعت و فرمانبرداری بے حد ضروری ہے۔

 

۵۲

 

نورِ امامت کے ارشادات کو زمانۂ اساس سے لے کر آج تک پڑھیں، اور یہ علمی عبادت پابندی سے کریں، آمین!

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۱۸، جولائی  ۲۰۰۳ء

 

۵۳

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۲۷)

 

حدیثِ شریف ہے: کُلُّکُمْ راعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ۔ بحوالۂ ہزار حکمت (ح: ۳۷۱)۔ قرآن و حدیث کے کئی ارشادات میں یہ ذکر آیا ہے کہ فرمانبردار اور کامیاب نفوس بہشت میں بادشاہ ہوں گے، اور جن کو یہ مرتبہ نہ ملے۔۔۔۔۔

یہ فرمانِ رسولؐ دراصل فرمانِ الٰہی ہے، پس اگر دنیا کے سب لوگ حقیقی اطاعت کر کے خدا کے نزدیک بہشت اور اس کی سلطنت کے مستحق ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ سے ہر انسان کے عالمِ شخصی کو کائناتی بہشت بنائے گا، اور اس میں سب کچھ ہوگا۔

آپ ہزار حکمت ص  ۲۱۸۔۲۱۹ پر مذکورہ حدیث کو تاویلی حکمت کے ساتھ پڑھیں اور اپنے علمی دوستوں کے ساتھ مذاکرہ بھی کریں کہ رعیّت سے کیا مراد ہے؟ اور کس طرح دنیا کے لوگ رعیّت بھی اور بادشاہ بھی ہوسکتے ہیں؟

دیکھیں رحمتِ عالمؐ کے ارشاد میں کوئی ناممکن بات کیوں کر ہوسکتی ہے؟ آپ حقیقی علم حاصل کرتے جائیں اور اس کی اشاعت کرتے جائیں، اللہ کی رحمت سے مقصد حاصل ہوجائے گا، کیونکہ علم کا طریقہ بھی یہی ہے:

 

۵۴

 

حاصل کرنا، یاد کرنا، اور پھیلانا، یہ سب سے بڑا نیک کام انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقوں سے ہو سکتا ہے، اِنْ شَاءَ اللّٰہُ العَزیز!

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۲۰، جولائی  ۲۰۰۳ء

 

۵۵

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۲۸)

 

بحوالۂ ہزار حکمت ص ۳۹۷۔ ۳۹۸ حدیثِ شریف کا ترجمہ یہ ہے: تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک ساتھی جنّوں میں سے ہے اور ایک ساتھی فرشتوں میں سے، پوچھا گیا: یا رسول اللہؐ! کیا آپ کا بھی ایسا ہے؟ فرمایا: ہاں میرا بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر غلبہ بخشا، پس وہ تابعدار ہوگیا، یہی ہے بحقیقت سنتِ رسول اور یہی ہے آپ کی پاک زندگی کا بہترین نمونۂ عمل = اُسوَۂ حَسَنَہ (۳۳: ۲۱)۔

اللہ جل شانہ نے جس دن روحانی قیامت میں اپنے محبوب رسولؐ کے لئے سارا جہان اور جملۂ کائنات کو مسخر کرتے ہوئے دینِ حق کو باقی تمام ادیان پر غالب کر دیا تھا، اسی روز ہی شیطان بھی تابعِ فرمان ہوگیا تھا، کیونکہ شیطان کو جو مہلت دی گئی ہے وہ روحانی قیامت کے قیام پر ختم ہو جاتی ہے، آپ دورِ حضرتِ قائم القیامت = دورِ تاویل = دورِ حکمت سے بھر پور فائدہ حاصل کریں، ورنہ بہت بڑی ناشکری ہو سکتی ہے، مولا آپ کی مدد فرمائے! آمین!!

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۲۲، جولائی  ۲۰۰۳ء

 

۵۶

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۲۹)

 

جن ارضی فرشتوں کو مظہرِ نورِ خدا = امامِ حیّ و حاضر صلوات اللہ علیہ سے شدید محبت اور عشق ہے، وہ ہر وقت ظاہراً و باطناً اپنے پاک مولا کی بیحد شیرین اور پرحکمت یاد کرتے ہیں، جب آپ اور ہم جان و دل سے اس روشن حقیقت کو بصد احترام قبول کرتے ہیں کہ امام زمان علیہ السلام حق سبحانہ و تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم ہے تو پھر ذاتِ سبحان کی سب سے عظیم اور سب سے اعلیٰ عارفانہ یاد کس طرح ہوسکتی ہے؟

اے عزیزانِ من! دل کی زبان سے مولا کی یاد کرو، اسی میں بہت بڑی حکمت ہے، عاشقوں کے دل کی زبان روحانی اور آسمانی وائرلیس  WIRELESSہے، کیا آپ کو یاد نہیں لفظِ وائرلیس مولا کے پاک فرمان میں ہے؟ اس سے وہ فرشتہ مراد ہے جو آپ کے دو ساتھیوں میں سے ایک ہے، کیا فرشتہ وائرلیس سے کمتر ہے؟ نہیں نہیں، ہرگز ایسا نہیں، یہاں بہت بڑی ناشکری ہونے کا ڈر ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوسٹن

۲۴، جولائی  ۲۰۰۳ء

 

۵۷

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۳۰)

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ حضرتِ مولا علی المرتضیٰ صلوات اللہ علیہ باب و حجابِ قرآنِ حکیم اور نقطۂ باءِ (ب) بسم اللہ ہیں، یہ دونوں لاہوتی حکمتیں خود از خود مل کر ایک ہوجاتی ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ اس میں لاکھوں حکمتوں کی طرف اشارہ ہے، اور وہ کئی طرح سے ہے: اوّل یہ کہ ہر چیز عالمِ ذرّ میں ایک ذرّہ ہے اور اللہ قادرِ مطلق وہ ہے جو ایک ہی ذرّہ میں عالمِ ذرّ کو محدود کر سکتا ہے۔

دوسری مثال یہ ہے کہ صدہا آسمانی کتابوں کا علم قرآن میں ہے، قرآن کا جملہ علم ام الکتاب (الحمد) میں ہے، جس کا علم بسم اللہ میں ہے، اور اس کا جوہر نقطۂ باء میں اس طرح ہے، جس طرح عارفوں نے اللہ تعالیٰ کا یہ بے مثال و لاجواب معجزہ دیکھا ہے کہ ’’دستے از غیب بِرُون آید و کارے بکند‘‘ کا حظیرۂ قدس میں مشاہدہ ہوتا ہے، عالمِ غیب سے ایک ہاتھ ظاہر ہو کر کائنات کے باطن کو لپیٹ کر گوہرِعقل = کتابِ مکنون بناتا ہے، پھر اسے پھیلا کر ایک کائنات بناتا ہے۔

تیسری مثال روح کی ہے کہ ہر روح میں سب روحیں ہوسکتی ہیں، کیونکہ روح لامکانی ہے، اس لئے وہ جگہ کو نہیں گھیرتی ہے، اس کی مثال

 

۵۸

 

علمُ الحساب میں صفر ہے کہ اگر آپ سو کروڑ صفر کو جمع کریں تو جواب ایک صفر ہوگا، پس مولا کا یہ فرمانِ پاک و پُرحکمت حق ہے: ’’ مومن کی روح ہماری روح ہے۔‘‘

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

۲۷، جولائی  ۲۰۰۳ء

 

۵۹

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۳۱)

 

حضرتِ حکیم پیر ناصرِ خسرو (ق س ) کے دیوانِ اشعار میں ہے:

ھُوَ الاوّل  ھُوالآخر  ھُوَ الظّاھر  ھُو البَاطن

مُنَزَّہ مَالِکُ الملکی کہ بے پایان حشر دارد

اس پُرحکمت اور حیرت انگیز شعر کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ روحانی قیامات بے پایان ہیں، یعنی جس طرح اللہ کی ذات قدیم ہے اور اس کی ہر صفت قدیم ہے، اسی طرح اس کی سنّتِ جاریہ قدیم ہے، لہٰذا اللہ کی بے پایان بادشاہی میں بے پایان قیامات کا تصور بالکل درست ہے، پس مُوتُوا قبْلَ اَنْ تَمُوْتوا اور روحانی قیامت زندہ اسم اعظم = امامِ زمانؑ کے بغیر اصل اور کلی معرفت ممکن نہیں۔

یہاں یہ بنیادی حکمت خوب یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم ناطق تھا، اور اللہ کا زندہ دین بھی جس میں روحاً سب لوگ داخل ہو چکے تھے (۱۱۰: ۱ تا ۲)، ناطق کے بعد اساس اسمِ اعظم اور خدا کا زندہ دین تھا، اور یہی مرتبہ ہر امامِ زمان کو حاصل ہوتا ہے، اور یہ حقیقت آیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) سے عیان ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر، ۲۸؍ جولائی  ۲۰۰۳ء

 

۶۰

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۳۲)

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ قرآنِ حکیم کے ہزار ہا نورانی ظہورات اور تجلّیات ہیں کیونکہ وہ حق سبحانہ و تعالیٰ کے کلامِ قدیم کا معجزۂ بےمثال و لاجواب ہے، قرآن جس طرح مقاماتِ ظاہر پر ظاہر ہے، اسی طرح درجاتِ باطن میں بصورت تجلّیات حجاب میں ہے، کیونکہ قرآن جہاں لوحِ محفوظ میں ہے، جہاں امُ الکتاب میں ہے، کتابِ مکنون میں ہے، گوہرِعقل، اور کلمۂ امر میں ہے، تو ان نورانی درجات میں قرآن کسی ظاہری خاموش کتاب کی طرح نہیں، بلکہ نورانی تجلیات کی صورت میں اپنا کام کر رہا ہے۔

آیا جو کتابِ ناطق حضرتِ ربّ تعالیٰ کے پاس ہے اس کی مثال کوئی انسانی کتاب ہوسکتی ہے؟ نہیں نہیں، جو بولنے والی کتاب اللہ کے پاس ہے وہ ایک نور اور ایک فرشتہ ہے، مثال کے طور پر آفتابِ عالمتاب، مادّی نور ہے، اس کے دائرۂ خاص میں اگر کوئی چیز ہے تو وہ اس کا اپنا نور ہے اور کچھ نہیں، اسی لئے اس کتاب میں تجلّیات کی اصطلاح کی طرف بار بار توجہ دلائی جارہی ہے، یہاں یہ حکمت بھی خوب یاد رہے کہ خورشیدِ جہان آرا کی عندیت

 

۶۱

 

مکانی ہے، ذاتِ سبحان کی عندیت روحانی، نورانی اور لامکانی ہے۔

اَلحَمْدُ للّہ علیٰ منِہٖ و اِحْسَانہٖ۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

۲۹، جولائی  ۲۰۰۳ء

 

۶۲

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۳۳)

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اے عزیزانِ باسعادت! اے رفیقانِ فرشتہ خصلت! آپ پر مظہرِ نورِ خدا = علیِٔ زمان = ولیٔ امر صلوات اللہ علیہ وسلامہ کے بے شمار احسانات و انعامات ہوئے ہیں، ان میں یقیناً سب سے عظیم انعام وہ ہے جس سے ہم سب محوِ حیرت ہیں کہ اس کا شکرانہ کس طرح ادا ہوگا؟

’’اہلِ بیت‘‘ قرآن و حدیث کی خاص اصطلاحات میں سے ہے، اگر قرآنِ حکیم میں اسمِ ’’امام‘‘ واحد ہے تو وہ ادوار کے لحاظ سے جمع بھی ہے، جس طرح لفظِ روح واحد آیا ہے مگر افرادِ بشر کے پیشِ نظر وہ جمع بھی ہے۔

آلِ ابراہیم = آلِ محمد = اہلِ ذکر = اولوالامر = عالمون (۲۹: ۴۳) = اَلرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْم (۳: ۷) = اولولْعِلْم (۳: ۱۸) = آلِ یاسین = آلِ محمد (۳۷: ۱۳۰)۔

اسماعیلی اصطلاحات کے لئے جناب ڈاکٹر (پی۔ ایچ۔ ڈی) فقیر محمد ہونزائی بحرالعلوم کے تمام تراجم سے رجوع کریں، موصوف نے حال ہی میں حضرتِ مولاعلیؑ کے اپنے نورانی تعارف کے کلامِ حکمت نظام

 

۶۳

 

کا ترجمۂ لاثانی وغیرفانی یہاں کورس کے لئے عنایت کیا ہے، مرکزِ علم و حکمتِ لندن ہم سب پر مولائے پاک کے عظیم احسانات میں سے ہے، الحمد للہ رب العٰلمین و العاقبۃ اللمتقین!

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات ۳۱، جولائی  ۲۰۰۳ء

 

۶۴

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۳۴)

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ بیت المعور = بھرا گھر، آباد گھر، اصطلاحاً خانۂ کعبہ کے عین اوپر آسمانوں پر خانۂ خدا جہاں فرشتے کثیر تعداد میں طواف اور عبادت کرتے رہتے ہیں (فیروز الغات ص ۲۵۱)، اس کی تاویلی حکمت کے لئے کتابِ وجہِ دین میں دیکھیں، نیز وہ مقالہ پڑھیں جو سرائر ص ۱۱۵ کے حوالے سے آپ کے پاس ہے، جس کی یاد دہانی اس طرح ہے کہ حضورِ اکرم صلعم نے سفرِ معراج کے دوران آسمانِ چہارم پر مولا علی المرتضیٰ کو بہت سے فرشتوں کے درمیان کرسئ کرامت پر بیٹھے ہوئے دیکھا تھا۔

ہم کافی پہلے سے یہ مان چکے ہیں کہ معراج آنحضرتؐ کو اپنے پاک عالمِ شخصی کی نورانیت میں ہوئی تھی، پس ہم پر خود شناسی واجب ہوئی تاکہ ہم کو امامِ زمانؑ (ارواحنا فداہ) کی پاک معرفت حاصل ہو، جن عاشقوں کے عالمِ شخصی میں امامِ مبینؑ کا نور طلوع ہو جاتا ہے، یقیناً وہ معجزۂ اعظم اور معرفت کل ہے۔

آپ کے لئے کونسی دینی نعمت غیر ممکن ہو سکتی ہے؟ آپ سب سے پہلے امامِ زمان علیہ السّلام کے عشق و محبت اور حقیقی

 

۶۵

 

اطاعت کے ساتھ علم الیقین میں سعئی بلیغ کریں، ان شاء اللہ مولا کارساز و بندہ نواز ہے، اݹ منݳسن اپی = ناشُدنی نیست۔ آمین ! یاربَّ العالمین! قرآن (۳۱: ۲۰)۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ یکم اگست  ۲۰۰۳ء

 

۶۶

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۳۵)

 

حظیرۃُ القدس کی اصطلاح بڑی عالی قدر اور عظیم الشان حکمتوں سے مملو ہے، کیونکہ یہ عالمِ شخصی کا آسمان = عرش = عرفانی بہشت اور ظہورگاہِ نورِ امامِ مبین صلوات اللہ علیہ ہے۔ جملۂ قرآنِ حکیم میں اسی کی تاویلی حکمتیں بھری ہوئی ہیں، ہر حکمتِ کاملہ کو حکمتِ بالغہ اس معنیٰ میں کہتے ہیں کہ وہ حظیرۂ قدس تک پہنچتی ہے، ہر پیغمبر کو حظیرۃُ القدس میں معراج ہوئی تھی، یہاں مثال کے طور پر حضرتِ ادریسؑ کی معراج کا حوالہ درج کرتے ہیں: (۱۹: ۵۷) مَکَاناً عَلِیّاً حظیرۃ القدس کے ناموں میں سے ہے۔

ہر نفسِ واحدہ کی روحانی قیامت میں آپ سب روحاً موجود تھے، ملاحظہ ہو ہزار حکمت میں لفظِ ’’ارواح‘‘۔ فرمانِ پاک میں جہاں جہاں روح کا کوئی بیان ہو اس کو غورسے پڑھیں، اور اس کی تاویلی حکمت کو اخذ کرلیں، جو شخص امامِ آلِ محمدؐ کا حقیقی عاشق ہے، وہ حضرتِ امام علیہ السلام کے ارشادات کو عشق و محبت سے پڑھے گا، اور جہاں جہاں امام کا علم پھیلا ہوا ہے، اس کو حاصل کرے گا، الحمد للہ رب العٰلمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر۲، اگست  ۲۰۰۳ء

 

۶۷

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۳۶)

 

اے عزیزانِ سعادتمند و اہلِ علم الیقین! یہ اساسی اصطلاح خوب یاد رہے کہ دینی علم کی روشنی میں یہ حقیقت اظہرِ مِنَ الشمس ہےکہ صراطِ مستقیم امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کا نورِ پاک ہے، کیونکہ اسی نور کی ’’نورانیت‘‘ میں چلنا ان لوگوں کے راستے پر چلنا ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا ہے (۴: ۶۹)۔

ترجمۂ آیۂ شریفہ (۴: ۶۶) : اور اگر ہم ان پر یہ فرض کر دیتے کہ اپنے نفسوں کو مار ڈالو۔۔۔۔۔۔ (الخ)۔ اللہ نے اپنے محبوب رسولؐ کی زبان سے یہ عمل فرض کر دیا اور وہ حکم یہ ہے: مُوْتُوا قَبْلَ اَنْ تَمُوتُوا۔ پس مومنِ سالک کی نفسانی موت اور روحانی قیامت امامِ زمانؑ کی نورانیت کی صراطِ مستقیم ہے، جبکہ مولا علیؑ نے فرمایا: ’’ میں قیامت ہوں‘‘۔

دائم الذّکر ایک بیحد خوبصورت اصطلاح ہے، یہ اس حقیقی مومنِ عاشق کا نام ہے، جو ہمہ وقت یادِ مولا میں مشغول رہتا ہے، اس کی قلبی زبان گونا گون طریقوں سے بھی اور کسی ایک طریق سے بھی پاک مولا کی انتہائی شیرین یاد میں لگی رہتی ہے، جب امامِ زمانؑ اللہ کا اسمِ اکبر ہے تو اس میں ضرور بے شمار معجزات ہوں گے جو احاطۂ بیان سے باہر ہو سکتے ہیں، مگر

 

۶۸

 

حکمت کا تقاضا تو یہی ہے کہ اوّل اوّل اس میں لذّت و شیرینی ہو، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔

؎  گرتو صد خانہ کنی زنبور وار

من بیک دیدار ویرانت کنم

ترجمہ: اے عاشق اگر تو بھڑ کی طرح سو گھر بھی بناتا ہے تو میں اپنے ایک ہی دیدار سے ان سب کو ویران کردوں گا۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر۴، اگست  ۲۰۰۳ء

 

۶۹

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۳۷)

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ آیۂ تطہیر (۳۳: ۳۳) پنجتن = اہلِ بیت = اور أئمّۂ آلِ محمدؐ کی شان میں ہے۔ ھُوَ الَّذِی یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ ……. (الخ) (۳۳: ۴۳) اللہ تعالیٰ تم اہلِ ایمان پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص محمدؐ اور آلِ محمدؐ پر دس دفعہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر سو ۱۰۰ مرتبہ درود بھیجتے ہیں، اور جو شخص محمدؐ اور آلِ محمدؐ پر سو ۱۰۰ مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر ہزار مرتبہ درود بھیجتے ہیں۔ اسی کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت (۳۳: ۴۳) میں ذکر فرمایا ہے۔ بحوالۂ تفسیر المتقین ص ۵۴۹ حاشیہ۔ ۳۔

کشف = مُکاشَفہ۔ سِر، اسرار، سرِ اعظم، اسم، اسماء، اسمِ اعظم، ذکر، اذکار، ذکرِ اکبر، کل، کلیات، کلِ کلیات۔

عرش ایک عظیم نورانی فرشتہ ہے اور کرسی بھی وہی ہے آپ آیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کو عشق و محبت سے بار بار پڑھیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۵، اگست  ۲۰۰۳ء

 

۷۰

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۳۸)

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ أُوْلَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمْ الإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ (۵۸: ۲۲) ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں (اللہ تعالیٰ نے) ایمان لکھ دیا اور ان کی مدد اپنی ایک روح سے کی، تاویلاً یہ کام خلیفۃ اللہ = امامِ زمانؑ نے کیا، حضرتِ امام باقرؑ کا ارشاد یاد کریں۔ اِخوانُ الصّفاء وَخُلّانُ الوَفاء میں بار بار اس آیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

جب ہر شخص میں دو مخالف ساتھی مقرر ہیں: ایک جنّ = نفس = شیطان، اور ایک فرشتہ = عقل = نورِ ہدایت کی چنگاری (یعنی امامِ زمانؑ کے نور کی چنگاری ) تو پھر جس طرح انسان کے دل میں وسوسہ ممکن ہے، اسی طرح الہام بھی ممکن ہے،اگر دنیا اور عالمِ شخصی میں مُضِلّ = گمراہ کُن = شیطان ہرجگہ پہنچ سکتا ہے، تو پھر ھادیٔ برحق = امامِ زمانؑ کیونکر محدود ہوسکتا ہے؟ عدلِ خداوندی کا کیا تقاضا ہے؟

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۶، اگست  ۲۰۰۳ء

 

۷۱

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۳۹)

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۷) کی تاویلی حکمت دانش گاہِ خانۂ حکمت کی کتاب: ’’ قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیت‘‘ میں بفضلِ مولا بیان کی گئی ہے، یہ کتاب سرتاسر اسی آیۂ شریفہ کی حکمتی تفسیر و تاویل ہے،لہٰذا آپ تمام عزیزان اس میں کما کان حقہٗ غور وفکر کریں، اور جب جب عشقِ مولا میں گریہ وزاری ہو، تو اس حال میں دعا کریں کہ یہ کتاب عالمِ انسانیت کے لئے مفید ثابت ہو! آمین!

میں صرف اپنے عزیزوں اعنی شاگردوں سے سوال کرتا ہوں کہ جب حق سبحانہٗ و تعالیٰ شانہٗ نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ کو تمام عوالمِ شخصی کے لئے رحمت بنا کر بھیجا تو اس وقت اللہ کی رحمت کا یہ پروگرام مکمل ہوا یا کسی وجہ سے ادھورا رہا ؟ کوئی بھی صاحبِ عقل یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ کا یہ پروگرام نامکمل رہا، اگر یہ بات ہے تو آئیں ہم حکمتِ قرآن کے مطابق یہ مانیں کہ زمانۂ نبوّت ہی میں روحانی قیامت برپا ہوئی تھی جس میں ایک دیوار تھی اس میں ایک دروازہ تھا (۵۷: ۱۳) دروازے کے اندر رحمت تھی، اور اس سے باہر عذاب کا پہلو تھا، اور یہ روحانی قیامت کی ظاہری مشقت اور باطنی رحمت کا اشارہ بھی ہوسکتا ہے اور

 

۷۲

 

اس میں مزید حکمتیں بھی ہوسکتی ہیں۔

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیت کی کتاب بفضلِ مولا سینکڑوں سوالات کا جوابِ شافی ہے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات ۷، اگست  ۲۰۰۳ء

 

۷۳

 

اسمٰعیلی اصطلاحات

(۴۰)

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا (۴۸: ۱) یہی سورۂ فتح کا نام اور اس کا آغاز ہے، اسی ارشادِ مبارک کی حکمتِ بالغہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کے لئے عالمی اور کائناتی فتح و تسخیرِ باطن عنایت کردی، یقیناً روحانی قیامت کا یہ عظیم معجزہ غارِ حرا کے ذکرِ اسمِ اعظم کے سلسلے میں ہوا، اور حضورِ پاکؐ کی اسی روحانی قیامت کا ذکر سورۂ نصر (۱۱۰: ۱۔۲) میں بھی ہے۔

یہاں فتحِ مبین میں زبردست بلیغ اشارہ ہے جسکی وجہ سے فتح کے معنی فلکُ الافلاک سے بھی باہر جاتے ہیں۔ فَلَکُ الافلاک یا فَلَکِ اعظم کرسی ہے، جس میں سب آسمان اور زمین محدود ہیں (۲: ۲۵۵) ۔

روحانی قیامت، اللہ =القابض اور الباسط کی زبردست اور غالب قوّت کا نام ہے، پس زمانۂ نبوّت ہی میں روحانی قیامت کے ذریعے سے تمام لوگ اللہ کے زندہ دین = آنحضرتؐ میں روحاً داخل ہو گئے تھے، اور سورۂ نصر (۱۱۰: ۱ تا ۲) کے یہی معنی ہیں، اور مولا علی علیہ السّلام نے اسی معنیٰ میں فرمایا ہے اَناَ دِیْنُ اللّٰہِ حَقَّا، اَنَا نُفْسُ اللہ حَقَّا = یہ بات حق ہے کہ میں خدا کا دین ہوں، اور یہ بات حق ہے

 

۷۴

 

کہ میں نفسُ اللہ ہوں۔ کتابِ مستطابِ سرائر ص ۱۱۷۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعتہ المبارک ۸ ، اگست  ۲۰۰۳ء

 

۷۵

 

روحانی اصطلاحات

(۱)

 

عالمِ صغیر = عالمِ شخصی، خود شناسی = معرفتِ نفس، سالک، مومنِ سالک = اپنی ذات میں سفر کرنے والا مومن، ہجرت کرنا = اپنے باطن میں داخل ہوجانا، نفسِ حیوانی کی منزلِ تحلیل (۲: ۶۷ تا ۷۳)، کان بجنے کی منزل (بعوضہ ۲: ۲۶)، ابتدائی رنگ برنگ روشنیاں = رنگِ خدا (۲: ۱۳۸)، منزلِ نفخ = منزلِ اسرافیلی = منزلِ عزرائیلی = منزلِ قبضِ روح، منزلِ تسخیرِ کائنات = منزلِ حشرونشر = منزلِ قبض و بسط، منزلِ فنا = منزلِ موت و بعث، قریۂ ہستی کا زیرو زبر ہونا (۲: ۲۵۹)۔

واقعۂ قیامت کی روحانی اور تاویلی ہمہ رسی اور ہمہ گیری انتہائی عجیب وغریب اور بے حد حیرت انگیز ہے، یہ ایک بہت بڑی صاف و شفاف ندی کی طرح ہے، جس کا پانی قرآنِ حکیم کے ہر قصّہ اور ہر مثال کے ظرف میں بھر کر بالکل اس کا ہم شکل ہوسکتا ہے، یہ ایک طرف سے قیامت و روحانیت کا سب سے عظیم معجزہ ہے، اور دوسری جانب سے قرآنِ حکیم کا سب سے بڑا معجزہ۔

منزلِ اسمِ اعظم خود گو یا خود کار، منزلِ فنائے دوم، منزلِ فنائے سوم، عین الیقین ، حق الیقین، زلزلہ، برق، رعد۔

 

۷۶

 

عالمِ شخصی کی زمین، پہاڑ، آسمان، کوہِ طور، عالمِ بالا، حظیرۂ قدس، ظہورِ ازل و ابد، کنزِ مخفی، بہشت برائے معرفت، لقاءُ اللہ، معجزۂ صورتِ رحمان، عقلانی پیدائش ، ابداع و انبعاث، کتابِ مکنون۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر ۳، جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۷۷

 

روحانی اصطلاحات

(۲)

 

عالمِ ذرّ = یاجوج و ماجوج (۱۸: ۹۴ نیز ۲۱: ۹۶) = جنودِ روحانی (لشکرِ غیب ۷۴: ۳۱) = لشکرِ آسمان و زمین (۴۸: ۷)۔

اَلْاَرْوَاحُ جُنُودٌ مُّجَنَّدَۃٌ = روحیں ہمیشہ روحانی جنگ کے لئے تیار شدہ لشکر کی حیثیت سے ہوتی ہیں۔

ثمراتُ کُلُّ شیٍٔ = ہر چیز کا میوہ = روح = جوہر = رازِ حکمت۔

دآبَّۃُ الْاَرْض ( ۲۷: ۸۲)، ناقور = صور = نفخ، ساعت، آیاتُ اللہ = علیؑ، وجہُ اللہ = علیؑ = کتابِ ناطق (۲۳: ۶۲ نیز ۴۵: ۲۹)۔

لوحٍ محفوظٍ (۸۵: ۲۲) = علیؑ (کوکبِ دری)، قلم = نورِ محمدی، لوح = نورِ علی، عرش = نورِ محمدی، کرسی = نورِعلی، عقلِ کلّ = نورِ محمدی، نفسِ کلّ = نورِ علی، شمس = محمدؐ، قمر = علیؑ، اسمِ اعظم = محمدؐ وعلیؑ، مومنین و مومنات کے روحانی والدین = محمدؐ وعلیؑ۔

صاحبِ تنزیل = محمدؐ، صاحبِ تاویل = علیؑ، وزیرِ موسیٰؑ = ھارونؑ، وزیرِ محمدؐ = علیؑ، ہر امام کتاب، اور علیؑ ام الکتاب ہے۔

 

۷۸

 

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ مَنّہٖ وَ اِحْسَانِہٖ۔ اب ہماری روحوں کی اساسی پرورش کرنے والی کتابِ مستطاب ’’ گنجینۂ جواہرِ احادیث‘‘ زیورِ طبع سے آراستہ و پیرا ستہ ہو کر نورِ امامت کے پروانوں کو دستیاب ہو رہی ہے، جس مبارک ہاتھ نے اور جس بابرکت قلم نے ہمارے لئے یہ خزانۂ عشقِ امام جمع کیا ہے ہم اس کو صبح و شام بلکہ علی الدّوام سلامِ محبت و عقیدت کرتے رہیں گے۔ آمین یا ربّ العالمین!

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر ۳ ،جولائی ۲۰۰۰ء

 

۷۹

 

روحانی اصطلاحات

(۳)

 

روحانیت کا قریب ترین آسمان (۶۷: ۵)، اللہ تعالیٰ نے اس آسمان کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے، اور انہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنایا ہے۔

جسمِ لطیف = جسمِ مثالی = جسمِ فلکی = جثۂ ابداعیہ۔

جسمِ لطیف کی ستر ہزار (۷۰۰۰۰) کاپیاں = عالمِ شخصی کی کاپیاں = کائنات کی کاپیاں = جنّت کے ایک بازار میں صرف تصویریں ہی تصویریں ہیں۔

بہشت میں ہر دل خواہ نعمت مل سکتی ہے، اور کوئی بھی نعمت غیر ممکن نہیں۔

التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ (۲: ۲۴۸)۔

منزلِ خوشبو = ریحِ یوسف (۱۲: ۹۴) = قمیضِ یوسف (۱۲: ۹۳)۔

طیبات = اَلْمنّ و السّلویٰ (۲: ۵۷)، طیبات = روحانی غذا بصورتِ خوشبو (۲۳: ۵۱)، روحانی غذائیں بصورتِ خوشبو عظیم معجزات میں سے ہیں (۷: ۳۲)۔

تابوتِ سکینہ سے سرتا سر امام کے تمام روحانی معجزات مراد ہیں،

 

۸۰

 

مائدہ عیسیٰ بھی تمام روحانی معجزات کا مجموعہ تھا، کیونکہ انسان ایک ایسی مخلوق کا نام ہے جو جسمِ کثیف و لطیف بھی ہے اور روح وعقل بھی، پس اگر اسے خوانِ نعمت کے معجزے سے اطمینان دینا ہے تو وہ تین قسموں میں ہوسکا ہے، اوّل: ایسی جسمانی غذا جو غیر معمولی ہو، وہ ہرقسم کی خوشبوؤں کی صورت میں ہے، دوم: روحانی غذا جو اللہ تعالیٰ کے پوشیدہ بزرگ ناموں میں ہے، سوم: عقلی غذا وہ جو اعلیٰ سے اعلیٰ علم و حکمت اور عظیم اسرارِ معرفت میں ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۴ ، جولائی ۲۰۰۰ء

 

۸۱

 

روحانی اصطلاحات

(۴)

 

نفسِ لوّامہ = خود کو بہت ملامت کرنے والا نفس۔

جب ہم سورۂ قیامہ کے شروع (۷۵: ۲) میں نفسِ لوّامہ کی یہ فضیلت دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس طرح یومِ قیامت کی قسم کھاتا ہے، بالکل اسی طرح وہ علیم و حکیم نفسِ لوّامہ کی بھی قسم کھاتا ہے، اس سے کسی مومن شخص کو ضرور یہ شوق پیدا ہوسکتا ہے کہ کاش! وہ اپنے نفسِ امّارہ کو ملامت کرتے کرتے ایک دن نفسِ لوّامہ بنانے میں کامیاب ہو سکتا ! لیکن سوال یہ ہے کہ آیا تنہائی میں کسی کا اپنے آپ کو سخت سے سخت ملامت کرنے سے یہ مرتبہ حاصل ہوسکتا ہے؟ یا کسی مجلس میں گریہ وزاری اور مناجات کے بہانے سے اپنے آپ کی ملامت کافی ہوسکتی ہے؟ یا ان تمام کوششوں کے ساتھ ساتھ استادِ کامل کی پُرحکمت ملامت بھی بے حد ضروری ہے؟ تاکہ وہ اپنے شاگردوں کی اخلاقی بیماریوں کو چشمِ بصیرت سے دیکھتے ہوئے طبِ الٰہی سے علاج کر لیا کرے۔

جب مذکورۂ بالا باتیں حقیقت پر مبنی ہیں، اور اخلاقی ترقی کے بغیر روحانی ترقی غیر ممکن ہے تو آؤ ساتھیو! ہم سب کے سب اولوالعزم لوگوں کی طرح عالی ہمتی سے کام لیں، اور مرتبۂ نفسِ لوّامہ کو حاصل کرنے

 

۸۲

 

کی خاطر استادِ کامل کی تلخ ترین نصیحتوں کو بھی قبول کریں، ورنہ بعد میں ہم کو بہت ہی افسوس کرنا پڑے گا، جس سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا، والسلام۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۵ ،جولائی ۲۰۰۰ء

 

۸۳

 

چند اصطلاحات

 

عالمِ جمادات، عالمِ نباتات، عالمِ حیوانات، عالمِ انسان = ناسوت۔

عالمِ ملکوت = عالمِ ارواح و ملائکہ۔

جبروت = قدرت = بزرگی = عظمت = جاہ و جلال = اسمِ صفاتِ الٰہی۔

لامکان = وہ عالم جو مکان اور جہات سے مبّرا ہے۔

لاھوت (تصوف) = وہ عالمِ ذاتِ الٰہی جس میں سالک کو فنا فی اللہ کا مقام حاصل ہوتا ہے۔

عالمِ کبیر = عالمِ اکبر = کائنات = کل عالم۔

عالمِ اصغر = عالمِ صغیر = عالمِ شخصی ۔

عالمِ کثرت = جہاں لوگ بکھرے ہوئے ہیں۔

عالمِ وحدت = جہاں ایک میں سب ہیں۔

چہار ارکانِ تصوف = شریعت، طریقت، حقیقت، معرفت۔

چار آسمانی کتابیں = توراۃ، انجیل، زبور، فرقان۔

 

۸۴

 

کل آسمانی کتابیں = ایک سوچار (۱۰۴) ۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی، ۲۲ ،جولائی ۲۰۰۰ء

 

۸۵

 

Little Angels: Coolness of the Eyes

The book “Ismaili Istilahaat” has been written with special reference to the LA (Little Angels) which is an institution that was created by Allama Sahib on 24th May 1998 during his memorable visit to London. The reason he gave for this name was that each and every person has an angel in them, and in the beginning this is a little angel. Therefore the institution of LA is a reminder that each of those children in their batin is a little angel.

In general all children are attractive to us, but in particular our own children hold a very special place for us. In fact Allamah Sahib has mentioned that our children are the “coolness of our eyes”. In his writings he has given two reasons for this description. Firstly, that they have been born according to the law of religion (30:30). Secondly, that God has cast the shadow of His love not only on Hazrat Musa, but on all the Prophets and the awliya’. Since God has said that those who follow them will also receive the same blessings, then children in particular have been blessed with the love of God. Due to this natural attraction in Children, parents make a special effort to teach them true knowledge. In addition Allamah Sahib has also explained that in paradise pious parents will receive didar (the vision of God) in the image of their angelic children.

In 6:66 it is said: “O you who believe, save yourself and your families form the fire.” The wise know that this fire of hell is none other than ignorance. The means of saving and being saved from this fire is therefore only through true knowledge.

It is for this reason that Allamah Sahib has created not just the institution of the LA (which includes all the children) but also the institution of the High Educator (which consists of the parents of those children) so that the above-mentioned duty may be carried out: that is, the parents may, through the dissemination of true knowledge, save themselves and their families from the fire of ignorance. However, it is incumbent upon the High Educators to first agree to this responsibility, and then implement it.

 

۸۶

 

When the LA was first created, it was difficult to understand the rationale behind it. But gradually, as Allamah Sahib has explained the reasons behind this act, it has been made clear that its basis is nothing other than our own spiritual progress.

Mawlana Hazir Imam has emphasized on meritocracy in his Farmans i.e. everyone should aim for nothing but the best in their education. This Holy guidance is for both the worlds, which implies that we should not confine ourselves to just secular education but we should also get the best religious knowledge. Together with our children, we have a golden opportunity to acquire deep religious understanding by reading and understanding what our Ustad has been writing so tirelessly. This Balance of the secular and religious and the training of the LA from a very young age will help develop a holistic personality.

Eshrat Zahir

Maryam Kotadia

 

۸۷

 

Little Angels in USA
Names of Little Angels Father’s Name Mother’s Name
Hubb-i Ali Hunzai Aminuddin Hunzai Irfat Ruhi Aminuddin
Durr-i Alawi Hunzai Aminuddin Hunzai Irfat Ruhi Aminuddin
Durr-i Fatimah Hunzai Aminuddin Hunzai Irfat Ruhi Aminuddin
Nadia Momin Ghulam Mustafa Momin Mumtaz Momin
Nayab Ali Nizar Ali Momin Almas Nizar Ali
Hina Ali Nizar Ali Momin Almas Nizar Ali
Sabah Ali Nizar Ali Momin Almas Nizar Ali
Nasir Panjwani Naushad Panjwani Rozina Panjwani
Eesarali Panjwani Naushad Panjwani Rozina Panjwani
Azim Sultanali Sultan Ali Ladji Shaukat Bano Ladji
Zohaib Rahim Zahir Rahim Yasmin Rahim
Farah Rahim Zahir Rahim Yasmin Rahim
Salman Rahim Zahir Rahim Yasmin Rahim
Hina Khanjee Nasiruddin Khanjee Khairunnisa Khanjee
Kashif Khanjee Nasiruddin Khanjee Khairunnisa Khanjee
Komal Khanjee Nasiruddin Khanjee Khairunnisa Khanjee
Gulab Rafique Dr. Rafique Jannat Ali Dr. Shah Sultana
Shafique Rafique Dr. Rafique Jannat Ali Dr. Shah Sultana
Sakina Chagani Imaran Chagani Afroza Chagani
Zainab Akber Nathani Akber G. Ali Nathani Parveen Akber Nathani
Jafar Ali Jooma Shamsuddin Jooma Karima Jooma
Salman Hasan Hasan Haider Ali Kanma Hasan
Farah Gillani Barkat Ali Gillani Rukhsana Gillani
Zahra Gillani Barkat Ali Gillani Rukhsana Gillani
Sana Ali Mehboob Ali Zarin Mehboob Ali
Shoaib Ali Mehboob Ali Zarin Mehboob Ali
Karim Lakhani Siraj Ali Lakhani Shaheena Lakhani
Muizz Lakhani Siraj Ali Lakhani Shaheena Lakhani
Ali Shan Chandwani Aziz Chandwani Shamshad Chandwani
Arsalan Chandwani Aziz Chandwani Shamshad Chandwani
Shamim Rupani Anwer Ali Rupani Rozina Rupani
Rahim Rupani Anwer Ali Rupani Rozina Rupani
Noorie Hussain Mohammad Ali Hussain Rukhsana Hussain
Neha Hussain Mohammad Ali Hussain Rukhsana Hussain

 

۸۸

 

Narmeen Rajpari Aziz Rajpari Nafisa Rajpari
Akil Rajpanri Aziz Rajpari Nafisa Rajpari
Sitra Rajpari Aziz Rajpari Nafisa Rajpari
Asad Ali momin Zahir Ali Momin Saira Zahir Ali Momin
Sinaan Ali Momin Zahir Ali Momin Saira Zahir Ali Momin
Mahjabeen Momin Nizar Ali Momin Anis Nizar Ali Momin
Arrafa Momin Salman Momin Anila Salman Momin
Zaibunnissa Momin Karim Momin Zarina Momin
Kiran Momin Qurban Momin Noorbanu Momin
Neelam Momin Qurban Momin Noorbanu Momin
Hussain Momin Qurban Momin Noorbanu Momin
Noman Momin Mustafa Momin Yasmeen Momin
Salman Momin Mustafa Momin Yasmeen Momin
Fareed Momin Liaqat Momin Zubeda Momin
Rehan Momin Liaqat Momin Zubeda Momin
Zain Momin Noordin Momin Almas Momin
Sakina Amin Amin M. Ali Nusrat Amin
Ahsan Merchant Meheraly Merchant Shanshahi Merchant
Azeem Marchant Meheraly Marchant Shanshahi Merchant
Sufia Charania Akber Ali Charania Shamsha Charania
Kashif Amin Charania Akber Ali Charania Shamsha Charania
Little Angels in UK
Markaz-e Ilm-o Hikmat
Names of Little Angels Father’s Name Mother’s Name
Nasiruddin Khizr-Ali Zahir Zahir Lalani Eshrat Zahir
Durr-I Maknun Zahir Zahir Lalani Eshrat Zahir
Zuhaa Jamani Zulfikar Jamani Farhat Jamani
Raziyyuddin Jamani Zulfikar Jamani Farhat Jamani
Farid Rener Rehman Rener Nimet Rener
Khalil Ali Rener Rehman Rener Nimet Rener
Abuzarr Ali Kotadia Amin Kotadia Mariam Kotadia
Salman Karim Kotadia Amin Kotadia Mariam Kotadia
Shazia Chatur Mehboob Chatur Firoza Chatur
Sara Lalani Faizal Lalani Haseena Faizal

 

۸۹

امام شناسی

امام شناسی

امام شناسی ہی کائناتی بہشت ہے۔

اہلِ معرفت کے لئے یہ حقیقت روشن ہے کہ امامِ زمانؑ کی پاک معرفت اللہ تعالیٰ کا وہ زبردست معجزہ ہے، جس سے ساری کائنات بہشت بن جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث اور ارشاداتِ أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کے بعد بزرگانِ دین کی حکیمانہ کتابوں میں بھی امام شناسی کی ضرورت و اہمیّت کی طرف بار بار توجہ دلائی گئی ہے۔
انتسابِ جدیدی: میں بہت شکرگزار اور ممنون ہوں ان تمام عزیز ساتھیوں کا، جو کتابی اور علمی خدمت میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں، اور کتابوں کی سرپرستی کر رہے ہیں، نیک نام مومن مہدی علی قاسم علی دھنجی اور ان کے اہلِ خانہ نے جس طرح امام شناسی کی اس دینی کتاب کے موجودہ ایڈیشن میں بھرپور تعاون کیا ہے اس کا لازوال اجر و صلہ مولائے پاک عطا کرنے والا ہے، میں ایک خادم درویش کی حیثیت سے عاجزانہ دعا کرتا ہوں کہ خداوند قدّوس ایسے تمام علم پرور اور علم گستر مومنین و مومنات کو دونوں جہان کی کامیابی اور سربلندی عطا فرمائے!
میں آئی۔ ایل۔ جی، سینیئر ممبر پریسیڈنٹ کمیٹی دانشگاہِ خانۂ حکمت عزیزم نصر اللہ قمر الدّین کا بھی شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ایک ارضی فرشتے کو میرا دوست بنا دیا۔

املا از چیف ریکارڈ آفیسر                                          نصیر الدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
عرفت روحی امین الدّین                                             کراچی، جمعۃ المبارک، ۳ مئی ۲۰۰۲ء

ج

مہدی علی قاسم علی دھنجی اور اہلِ خانہ

مہدی علی قاسم علی دھنجی ڈھاکہ بنگلہ دیش میں ۱۹۶۴ء میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی، ۱۹۷۱ء کے بعد آپ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ کراچی منتقل ہو گئے، آپ کی والدہ کا نام نور بانو قاسم علی اور والد کا نام قاسم علی دھنجی ہے، مہدی علی نے کئی سال تک ناظم آباد جماعت خانے میں ایک والنٹیئر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، آپ گزشتہ ۸ سالوں سے نصر اللہ قمر الدین ، آئی۔ ایل۔ جی، سینیئر ممبر پریسیڈنٹ کمیٹی دانشگاہِ خانۂ حکمت ، کے بزنس پارٹنر ہیں اور انہی کے توسط سے آپ خانۂ حکمت کی علمی کلاسس اور استادِ گرامی کی عالی قدر شخصیت سے متعارف ہوئے، اپنی طبیعت کی پاکیزگی، عشقِ مولا اور علم دوستی کی بناء پر آپ بہت جلد اس علم سے قلبی طور پر وابستہ ہو گئے، اپنی ذات کو روحانی طور پر منور کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے اس علم کو جماعت کے لئے عام کرنے کی اہمیت کو بھی سمجھ لیا اور علمی خدمت میں سبقت لے جاتے ہوئے امام شناسی جیسی اہم کتاب کی بارِ نو اشاعت کی سرپرستی کی ذمہ داری قبول کی۔

آپ کی زوجۂ محترمہ ناہید مہدی علی کراچی میں ۱۹۷۲ء میں پیدا ہوئیں، آپ کے والد ماجد کا نام حیدر علی حسن علی لاکھانی اور والدہ کا نام حبیبہ حیدر علی ہے، ناہید مہدی علی نے ابراہیم علی بھائی اسکول کریم آباد سے میٹرک پاس کیا،

 

د

 

آپ کو گارڈن جماعت خانے میں کچھ سالوں تک بحیثیت لیڈی والنٹیئر خدمت انجام دینے کی سعادت بھی نصیب ہوئی ہے، خانۂ حکمت کی علمی محفل سے آپ کا تعارف آپ کے شوہرِ نامدار جناب مہدی علی قاسم علی کے توسط سے ہوا، اپنی سادہ، نیک اور مذہبی طبیعت کی وجہ سے آپ نے اس علم کی اثر پزیری کو قبول کیا اور امام کے حقیقی علم کے پھیلاؤ کے لئے مہدی علی کی کاوشوں کی بھرپور حمایت کی۔

آپ کے خاندان کے گلشن کو اپنی سدا بہار معصوم مسکراہٹوں اور فرشتگانہ احساسات سے معطر کرنے والا لٹل اینجل سولجر آپ کا ساڑھے تین سالہ فرزند رحیم مہدی علی ہے، رحیم ماما بے بی کیئر اسکول میں مونٹیسری کا طالبِ علم ہے۔

ہ

 

 

ایک مثالی خط

برادرِ بزرگ مہربان شاہ (مرحُوم) کے علمی ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ دن ہو یا رات آپ ہمیشہ دینی کتب کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور اپنے خیالات کو سپردِ قلم بھی کرتے تھے، ان کے جذبۂ دینداری اور اوصافِ مومنی کی کوئی مثال نہیں، وہ عشقِ مولا میں خود کو فنا کر دینا چاہتے تھے، موصوف کے انتقال پر میں نے ان کے فرزندِ ارجمند موکھی سرفراز شاہ اور جملہ خاندان کی خدمت میں ’’ایک مثالی خط‘‘ تحریر کیا ہے، جو اس کتاب میں شامل ہے۔

و

ایک مثالی خط
عزیز و محترم موکھی سرفراز شاہ اور جملہ معزّز خاندان

دلِ دردمند سے یاعلی مدد کہتا ہوں، میں آہ و افسوس سے کہہ رہا ہوں کہ میرے بزرگ و محترم اور مشفق و مہربان بھائی، جن کا پیارا نام بھی ’’مہربان شاہ‘‘ ہے، جو آپ کے دولت خانہ میں قیام پذیر تھے، وہ کہاں تشریف لے گئے؟ اس سے پیشتر کہ آپ کچھ فرمائیں، قرآنِ حکیم ہی سے اس سوال کا جوابِ باصواب مل جاتا ہے کہ: انا للّٰہ و انا الیہ راجعون ۔ ۰۲: ۱۵۶، ( ہم تو خدا ہی کے ہیں اور ہم لوٹ کر اسی کی طرف جانے والے ہیں)۔
ان کے پاکیزہ دل میں خدا، رسولؐ، اور امامِ زمانؑ کی کتنی اور کیسی شدید محبّت تھی! وہ قرآنِ پاک اور دینی علم کے بڑے شیدائی تھے، ایک شب خیز اور مناجاتی درویش، ایک باعمل اور پرسوز دعاگو، ایک مومنِ صادق، ایک عاشقِ مولا، ایک مخلص جماعتی عملدار، ایک بہادر سپاہی (ماضی میں) ایک متّقی خلیفۂ پیرِ روشن ضمیر، ایک ہوشمند اور جفاکش زمیندار،

 

ز

 

امامِ عالی مقامؑ کا ایک سرفروش اور جان نثار مرید، ایک دائم الذّکر عابد، شمعِ نورِ امامت کا ایک پروانہ، جہادِ علمی کا ایک مجاہد، اور اہلِ بیت علیہم السّلام کا ایک مُحِبّ۔
ان کا دل جذبۂ ایمانی سے سرشار، آنکھیں آسمانی عشق سے اشکبار، زبان ذکرِ الٰہی میں مشغول، جبینِ سجدہ بار بار بر زمین، ہاتھ میں اکثر اوقات تسبیح، پیروں کو خدا کے گھر چلنے میں راحت، کان منقبت سننے کے لئے مشتاق، جان ہمیشہ مائلِ جانان، روح متّصلِ جنان (بہشت) اور ان کی خوبیان اس تحریر سے بہت زیادہ ہیں۔
عزیزم سرفراز شاہ! دینی اعتبار سے یہی بہتر اور مفید تر ہے کہ آپ تمام عزیزانِ خاندان صبر اور شکر کے راستے پر ثابت قدم رہیں، کیونکہ آپ سب کا بہت بڑا امتحان ہوا ہے، اور سب سے بڑی عبادت اسی میں ہے، آپ ان شاء اللہ، انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں، الحمد للہ، مومن خدا پر توکلّ کرتا ہے، یعنی اللہ کو اپنا وکیل اور کارساز قرار دیتا ہے، آپ کو دین و دنیا کی سعادتیں حاصل ہو رہی ہیں۔
قانونِ روح کا مطالعہ کرکے دیکھیں کہ کوئی کہیں نہیں جاتا، سب موجود ہیں، مومن صرف کثیف سے لطیف ہو جاتا ہے، چنانچہ قرآن نے فرمایا کہ شہید دراصل مرتے نہیں ہیں (۰۳: ۱۶۹) رسولِ اکرم نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا

 

ح

 

کہ ہر مومن شہید کا درجہ رکھتا ہے، اور حضرتِ پیر نے فرمایا کہ دنیا سے آخرت تک کچھ زیادہ مسافت نہیں، لیکن درمیان میں تمہاری اپنی ہستی ہی دیوار بنی ہوئی ہے، وہ شعر یہ ہے:

ز دُنیا تا بعُقبیٰ نیست بسیار
ولی در رہ وجودِ تُست دیوار

پس اگر ہم اپنی ہستی کی دیوار کو درمیان سے ہٹائیں، یا اسے شیشہ کی مانند صاف شفاف بنائیں، تو ہم تمام روحوں کو اس وقت بھی دیکھ سکتے ہیں۔

آپ کا دعاگو
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی ، کراچی
اتوار، ۱۶ جمادی الاوّل ۱۴۱۲ھ
۲۴ نومبر ۱۹۹۱ء

ط

امام شناسی
حصہ اول

پیش گفتار

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ ان اللّٰہ و ملائکتہ یصلون علی النبی یایھا الذین اٰمنو صلوا علیہ و سلموا تسلیما ۔ (۳۳: ۵۶)۔ اللّٰھم صل علیٰ محمد و آل محمد ۔

۱۔ یہ کتابچہ اُن آیاتِ مقدسہ کی توضیحات و تاویلات پر مشتمل ہے جن میں امام اور امامت کا صراحت سے تذکرہ موجود ہے۔ اگرچہ باطناً قرآنِ حکیم کی کوئی آیت امامت کے موضوع سے خالی نہیں، تاہم ظاہراً اس سلسلے میں ایسی آیتوں سے بحث کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔

۲۔ سورۂ یٰسٓ (۳۶) آیت نمبر ۱۲  (۳۶: ۱۲) سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر عقلی، روحی اور مادّی چیز کو امامِ اکرم کے نور میں مستغرق کر کے گھیر رکھا ہے، پھر حکمتِ قرآن کے اصول سے ظاہر ہوا کہ جملہ موضوعات امامت کے موضوع میں اور سارے الفاظ امام کے لفظ میں سموئے ہوئے ہیں۔ پس ضروری اور لازمی تھا کہ ان آیاتِ کریمہ کا یکجا طور پر تاویلی بیان کیا جائے جن میں امام یا أئمّہ کے الفاظ آئے ہیں۔

۳

۳۔ جن حقیقی مومنین کا دیدۂ دل روشن ہوا ہو وہ اس حقیقت کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ کائنات و موجودات کی ہر چیز دنیا میں امام کے حیّ و حاضر ہونے کی گواہی دے رہی ہے، اور اس شہادت سے ظاہر و باطن کی کوئی شے خالی نہیں۔

۴۔ جب یہ ارشادِ الٰہی ظاہر ہے کہ ہر چیز امامِ مبین کے نورِ مقدس میں محدود و محصور ہے، پس یہ بات لازمی ہے کہ ہر شی امامِ عالی مقام کی نورانیت کے رنگ میں رنگی ہوئی نظر آئے چنانچہ دنیائے قرآن و حدیث کے علاوہ کائنات کی ہر چیز ایسی ہی رنگین نظر آتی ہے۔

۵۔ اگر بحکمِ حدیث یہ مان لیا جائے کہ خودشناسی کا نتیجہ خدا شناسی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو انسانِ کامل کی شناخت اس موضوع سے مستثنیٰ قرار نہیں دی جا سکتی۔ کیونکہ انسانِ کامل (امام) کی معرفت کے بغیر انسانِ ناقص کی اپنی معرفت خدا شناسی کا نمونہ نہیں بن سکتی۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ امام کی ابتدائی معرفت سے خود شناسی اور انتہائی معرفت سے خدا شناسی حاصل آتی ہے۔

۶۔ سورۂ قصص (۲۸) آیت نمبر ۸۸ (۲۸: ۸۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ کل شی ھالک الا وجھہ ۔ یعنی ہر چیز ہلاک و فنا ہونے والی ہے بجز اس کے چہرہ کے۔ جاننا چاہئے کہ خدا کے چہرہ سے اس کی معرفت مراد ہے، اور خدا کی معرفت وہ حقیقت ہے جو امام کی معرفت میں

 

۴

 

پوشیدہ ہے۔ چنانچہ مولانا علی علیہ السّلام نے فرمایا: انا وجہ اللّٰہ فی السمٰوٰۃ و الارض ۔ یعنی میں ہی آسمانوں اور زمین میں خدا کا چہرہ (معرفت) ہوں۔

۷۔ جب یہ حقیقت مسلّمہ ہے کہ امامِ عالی صفات کی معرفت خدا کی معرفت ہے، تو پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام علومِ الٰہی بھی اسی معرفت میں مجموع ہیں۔ یہی سبب ہے جو رسول اکرم صلعم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے امامِ وقت کی معرفت کے بغیر مر جائے وہ جاہلانہ موت میں مر جاتا ہے اور جاہل کا ٹھکانا آتشِ دوزخ ہے۔ یعنی وہ علمِ الٰہی کی جنت سے محروم ہو جاتا ہے۔

۸۔ دینِ اسلام خدا سے جا ملنے کا راستہ ہے۔ جسے صراطِ مستقیم یعنی راہِ راست کہتے ہیں۔ اس کی چار منزلیں ہیں۔ جو شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے ناموں سے مشہور ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں منزلِ مقصود اور درجۂ کمال معرفت ہے۔
۹۔ روایت ہے کہ شریعت بمثل رات کے ہے، طریقت ستاروں کی روشنی کی طرح ہے، حقیقت چاند کی روشنی کی طرح ہے اور معرفت سورج کی روشنی کے مثل ہے پس نورِ معرفت کی روشنی میں ہر چیز کی اصلیت کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

۱۰۔ معرفت اور یقین کا ایک ہی مطلب ہے اور

 

۵

 

یقین کے تین درجے ہیں۔ علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین۔ پس ابتدائی معرفت علم الیقین میں ہے۔ درمیانی معرفت عین الیقین میں اور ا نتہائی معرفت حق الیقین میں۔ اور اس مطلب کی وضاحت یہ ہے کہ امامِ مبین کی ابتدائی معرفت ایک ایسے علم میں ہے جو شک سے بالاتر اور بالکل یقینی ہو۔ درمیانی معرفت ایسے دیدار اور مشاہدے میں ہے جو دیدۂ باطن سے کیا جاتا ہے، اور انتہائی معرفت اس روحانی معجزاتی تجربے میں ہے جس میں حقیقی مومن کی خودی امام کے نور کے درمیان اس طرح گم ہو جاتی ہے جس طرح کہ ایک چھوٹے سے کوئلے کی تاریکی اور سیاہی انگاروں کے درمیان کھو جاتی ہے۔

۱۱۔ امام شناسی کے بغیر پیغمبر صلعم کے نور کی معرفت ناممکن ہے اور پیغمبر کے نور کے بغیر خدا کی معرفت محال ہے۔ کیونکہ نبوّت کا دروازہ امامت ہے اور اُلُوہیّت کا دروازہ نبوت۔

۱۲۔ زندہ موجودات کے لئے زندگی کے چار درجے مقرر ہیں۔ پہلا درجہ روحِ نباتی ہے، دوسرا روحِ حیوانی، تیسرا روحِ انسانی اور چوتھا روحِ قدسی۔ اور معرفت روحِ قدسی میں ہے، جو انسانِ کامل یعنی امامؑ کی مبارک روح ہے۔

۱۳۔ اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ جب معرفت امام

 

۶

 

کی روح یعنی نور دیکھنے کو کہتے ہیں تو پھر یہ کیوں فرمایا گیا کہ جس نے اپنے آپ کو یعنی اپنی روح کو پہچان لیا تو بے شک اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو روح بحدِّ فعل امام کی ہے وہی روح بحدِّ قوت حقیقی مومن کی ہے۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ مومن کی پہلی روح نباتات سے حاصل ہوتی ہے، دوسری روح حیوانات سے تیسری روح انسانوں سے اور چوتھی روح یعنی روحِ قدسی امام سے حاصل کی جا سکتی ہے اور حقیقی مومن کو چاہئے کہ اپنی اس آخری روح کو حاصل کرے اور کماحقّہٗ پہچان لیا کرے۔

۱۴۔ اگر مان لیا جائے کہ انسان کے لئے چار روحیں مقرر ہیں تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جسمِ انسانی میں ان کے آنے کے لئے راستے بھی چار ہی ہیں۔ یعنی روحِ نباتی اور روحِ حیوانی شروع شروع میں ناف کے راستے سے اور پھر منہ سے داخل ہوتی رہتی ہیں اور روحِ انسانی اور روح القدس پہلے سر کے کانوں سے پھر گوشِ ہوش سے داخل ہوتی رہتی ہیں۔

۱۵۔ جس طرح یہ بات قطعی ناممکن ہے کہ مادّی قسم کی غذاؤں کے بغیر روحِ نباتی اور روحِ حیوانی انسان کے جسم میں داخل ہو سکیں اسی طرح یہ امر بھی قطعی محال ہے کہ روحانی نوعیت کی غذاؤں کے بغیر روحِ انسانی اور روح القدس انسان کے دل و دماغ میں جاگزین ہوں اور روحانی غذا علم و حکمت کی باتیں ہیں۔

۷

۱۶۔ امام کے نورِاقدس سے فیوض و برکات حاصل کر کے اپنی ذات میں معرفت والی روح یعنی روحِ قدسی پیدا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ امامِ زمان کے علمی اور عملی فرامینِ مقدس پر عمل کیا جائے اور اس کی خوشنودی ہر چیز پر مقدّم رکھی جائے۔

۱۷۔ امام شناسی کی بنیادی شرط عقیدہ ہے، کیونکہ جس کا عقیدہ درست نہ ہو وہ امام کی معرفت ہرگز حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درست عقیدہ کے لئے عموماً بچپن میں مذہبی ماحول کا بہتر ہونا لازمی اور ضروری ہے۔

۱۸۔ امام شناسی کی دوسری شرط امام کی دوستی و محبت ہے۔ محبت عقیدہ کی ترقی یافتہ صورت کا نام ہے۔ اور ترقی امامِ زمان کی فرمانبرداری میں ہے۔

۱۹۔ امام شناسی کی تیسری ضروری شرط امامِ زمان کا عشق ہے جو محبت کی ترقی یافتہ شکل کا نام ہے اور اس کی ترقی اس بات میں ہے کہ امامِ زمان کی ظاہری اور باطنی خوبیوں سے آگاہی حاصل کی جائے۔ کیونکہ کوئی شخص کسی چیز پر عاشق نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے حسن و خوبی کو نہ دیکھے یا کسی سچ بولنے والے سے نہ سنے۔

۲۰۔ اگر مومن کے دل میں امامِ وقت کا عشق شعلہ زن ہونے لگے تو وہ خود ہی زبانِ حال اور زبانِ قال سے بتا دے گا کہ اب اس کے بعد امام شناسی کی راہ میں کس طرح

 

۸

 

آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

نکاتِ مذکورہ بالا کا ماحصل یہ ہے کہ امام شناسی کے بغیر اسماعیلیت سے روحانی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ اور اس پاک مذہب میں جو کچھ خوبیاں موجود ہیں وہ سب کی سب امام کی شناخت میں پنہان ہیں۔ نیز مذکورہ حقائق سے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ امام شناسی کا ذریعہ بھی خود امامِ حیّ و حاضر ہیں۔ کیونکہ مومن کی فرمانبرداری انہی کے لئے ہونا چاہئے۔

جیسا کہ بتایا گیا کہ کسی مومن کو امامِ وقت سے عشق اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ وہ امام کی بے مثال خوبیوں کو دیکھے یا کسی سچ بولنے والے سے سنے چنانچہ اس کتاب کو تصنیف کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حقیقی مومنین امامِ عالی مقام کے علم و فضل اور روحانیت و نورانیت سے آگاہ ہو جائیں تا کہ اس سے ان کو امامِ زمان علیہ السلام کا عشق حاصل آئے اور اس مقدس عشق سے امام شناسی حاصل کی جا سکے۔

اخیر میں پروردگارِ عالمین کے حضور عاجزانہ دعا ہے کہ ذاتِ کبریا اپنے بے پایان فضل و کرم سے جملہ مومنین و مومنات کو امام شناسی کی لا انتہا دولت سے مالامال فرمائے! ان کو فتنۂ آخر زمان سے بچائے رکھے! ان کو ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازے! اور دنیا و آخرت کی سرفرازی عنایت فرمائے!

۹

 

آمین یا رب العالمین!

فقط امامِ زمان کا ایک ادنیٰ غلام
نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی
بروز بدھ ۲۱ جمادی الثانی ۱۳۹۲ھ
۲ اگست ۱۹۷۲ء

 

۱۰

 

لفظِ امام کی قرآنی حکمت اور معنوی وسعت

’’امام‘‘ کا لفظ قرآنِ حکیم کے مختلف مقامات پر واحد اور جمع کے صیغوں میں کل بارہ دفعہ مذکور ہوا ہے، اگر ان تمام آیاتِ مقدّسہ کو، کہ جن میں لفظِ امام اور اس کے معنی و مقصد کا تذکرہ موجود ہے، یکجا طور پر عقل و دانش سے دیکھا جائے، تو اس سے یقیناًاس امر کا بخوبی اندازہ ہو گا، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ عزیز میں امام شناسی کی حقیقتیں کس جامعیّت کے ساتھ بیان فرمائی ہیں، اور اس نے امامت کے موضوع میں کس قدر بے پایان وسعتِ معنوی رکھی ہے، کہ قرآنی حکمت کی عظیم کائنات فی الاصل اسی امامت کے موضوع کے باطن میں واقع ہے، کیونکہ امامِ عالی صفات علیہ السّلام کا پاک نور حقیقت الحقائق ہے، اس لئے امام کی حقیقتِ عالیہ کے تحت تمام موجودات کی حقیقتیں جمع ہو جاتی ہیں، چنانچہ ہم یہاں علی التّرتیب ان بارہ آیتوں کی کچھ وضاحت کرتے ہیں، جن کے معانی و مطالب میں اسمِ امام کی بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

البقرہ (۲) کی آیت ۱۲۴ (۰۲: ۱۲۴) میں پروردگارِ عالم نے

 

۱۱

 

فرمایا ہے کہ: ’’ و اذا ابتلیٰ ابراہیم ربہ بکلمٰت فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماماً ۔ اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب کہ ابراہیم کے ربّ نے اس کا امتحان لیا چند کلمات سے تو اس نے انہیں پورا کر دیا تو خدانے فرمایا کہ میں تمہیں سب انسانوں کا امام بنانے والا ہوں۔‘‘

یہاں پر یہ سوال ضرور ہونا چاہئے، کہ اللہ تعالیٰ نے جن کلمات سے حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لیا تھا وہ کس نوعیت کے کلمے تھے اور یہ بھی پوچھنا چاہئے کہ آیا حضرت ابراہیم پیغمبر تھے یا کہ امام؟ اگر کہا جائے کہ آپ ان دونوں درجوں پر فائز ہوئے تھے، پھر سوال ہو گا، کہ آیا وہ پیغمبر پہلے ہوئے تھے یا امام؟ اگر جواب ملے کہ آپ پہلے پیغمبر پھر امام ہوئے تھے، تو پھر اس کی توجیہہ کرنی ہو گی، نیز یہ سوال بھی ہو، کہ حضرتِ ابراہیم دنیا بھر کے انسانوں کے امام کیسے ہوئے؟ یعنی سیّارۂ زمین کے تمام برِّاعظموں میں آپ نے کس طرح تبلیغ و دعوت کا کام انجام دیا، جب کہ اس زمانے میں پیغام رسانی کے ذرائع محدود تھے؟

جاننا چاہئے، کہ وہ کلمات، جن پر حضرتِ ابراہیمؑ کو آزمایا گیا، جسمانی اور روحانی حدود کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے اسمائےعظام تھے، مثلاً ابتدائی اسم میں حضرت آدم کی روحانیت تھی، دوسرے میں حضرت نوح کی روحانی

 

۱۲

 

مثالیں موجود تھیں، تیسرے میں خود حضرتِ ابراہیم کے ماضی و مستقبل پر روشنی ڈالی گئی تھی، چوتھے میں حضرتِ موسیٰ کے تمام روحانی واقعات و معجزات دکھائے گئے تھے، پانچویں اسم میں حضرت عیسیٰ کی روحانی زندگی مندرج تھی، چھٹے میں حضور اکرم کے روحانی کارنامے دکھائے گئے تھے اور ساتویں اسم یا کہ کلمہ میں حضرت قائم القیامت علیہ افضل التحیۃ و السلام کے روحانی معجزات پوشیدہ تھے، نیز ان میں سے ہر ایک اسم کے ساتھ ان حقیقتوں کی روحانی مثالیں بھی موجود تھیں، کہ عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، جد، فتح اور خیال کس معجزانہ طریق سے انبیاء و أئمّہ علیہم السلام کو تائید پہنچاتے رہتے ہیں۔

واضح رہے ، کہ خداتعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم کو پہلے نبوّت و رسالت کے منصبِ جلیلہ سے اور اس کے بعد امامت کے درجۂ عالیہ سے سرفراز فرمایا، چونکہ امامتِ عالیہ کے کئی درجات ہیں۔ جن میں سے بعض درجات نبوّت سے پہلے اور بعض اس کے بعد آتے ہیں، تا کہ امام علیہ السّلام مصلحتِ وقت کے مطابق ان میں سے کسی درجے میں ظہور فرمائے اور حاضر رہے۔

حضرتِ ابراہیمؑ کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سارے انسانوں کے لئے امام مقرر ہونے کے کئی معانی ہیں، اوّل یہ کہ آپ زمانۂ آدم سے لے کر اپنے وقت تک ماضی میں سارے لوگوں کے امام تھے، دوسرے یہ کہ اپنی زندگی کے دورانِ حال میں

 

۱۳

 

امام تھے، تیسرے یہ کہ اپنے سلسلۂ اولاد کی حیثیت سے مستقبل میں امام ہوئے، آپ زمانۂ ماضی میں اسی طرح امام تھے، کہ دورِ آدم اور دورِ نوح کے تمام پیغمبروں اور اماموں کی روحانیت میں آپ کی روحانیت بالکل اسی طرح شریک اور شامل تھی، جس طرح کہ آپ کی روحانیت میں ان سب کی روحانیّت ہمراز و ہمکار تھی، چنانچہ اسی معنیٰ میں ارشاد ہوا ہے: ’’ ان ابراہیم کان امۃ قانتا للّٰہ حنیفا و لم یک من المشرکین ۱۶: ۱۲۰، بے شک ابراہیم ایک فرمانبردار امّت تھا بالکل ایک طرف کے ہونے والا اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا‘‘۔ امّت کے معنی امام بھی ہیں اور امّت بھی، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے یہاں دونوں معنی درست اور موزون ہیں، کہ آپ راہنمائی کی حیثیت میں امام تھے اور حضراتِ انبیاء و أئمّہ کی روح و روحانیت کا جامع ہونے کی وجہ سے ایک پوری امت تھے۔

آپ زمانۂ حال یعنی اپنے وقت میں دنیا بھر کے لوگوں کے امام اس طرح تھے، کہ کرۂ ارض کے بارہ حصے مانے گئے ہیں، اور ہر حصہ کو جزیرہ کہا جاتا ہے، جس کی جمع جزائر ہے، چنانچہ ان بارہ جزائر میں سے ہر جزیرے میں ایک حجّتِ شب اور ایک حجّتِ روز کے علاوہ تیس داعی ہمیشہ موجود ہوا کرتے ہیں، اور ہدایت کے مرکز سے خواہ پیغمبر ہو یا کہ امام، کرۂ ارض کے بارہ جزیروں کے تمام حجّتوں کو معجزانہ ہدایت ملتی

 

۱۴

 

رہتی ہے، پس اسی معنی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے وقت میں دنیا کے سب لوگوں کے امام تھے، مگر پیغمبر اور امام کے ایسے معجزات کے لئے اقرار کرنا عوام النّاس کے بس کی بات نہیں، جب تک کہ یہ حقائق ان کے مشاہدے میں نہیں آتے ہیں، اور جب تک کہ اس دنیا میں روحانیت کا دور دورہ نہیں ہوتا۔

قرآنِ حکیم میں یہ ارشاد ہے کہ خنّاس (شیطان) جو جنّات اور انسان کی دونوں صورتوں میں ہے، وہ لوگوں کے سینوں میں وسوسہ (برے خیالات) ڈالا کرتا ہے، پس اگر یہ ممکن ہے، کہ شیطان دور و نزدیک کے لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈال کر گمراہ کر سکتا ہے، تو دوسری طرف سے یہ بھی ممکن ہے، کہ پیغمبر اور امام قریب و بعید کے کسی فرق کے بغیر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت پہنچا سکتے ہیں، کیونکہ شیطان مُضِل ہے یعنی گمراہ کر دینے والا، اور پیغمبر یا کہ امام ہادی ہے، یعنی رہنمائی کرنے والا، پس اگر قانونِ قدرت مُضِل کی آواز لوگوں کے دلوں تک پہنچا دیتا اور ہادی کی آواز کسی طرح سے بھی نہ پہنچا دیتا، تو اس صورت میں لوگوں پر بڑا ظلم ہوتا، اور قیامت کے روز لوگوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ پر یہ حجّت قائم ہوتی، کہ اس نے دنیا میں کیوں گمراہی کے ذریعے کو ہمہ رس اور ہدایت کے وسیلے کو محدود کر رکھا تھا؟ مگر حقیقت کچھ اور ہے، وہ یہی کہ پیغمبر اور امام بارہ جزائر کے حجتوں کو روحانی اور نورانی

 

۱۵

 

ہدایت پہنچاتے ہیں، اور حجج (یعنی حجّتان) اپنے اپنے داعیوں کے توسط سے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔

حضرتِ ابراہیمؑ مستقبل میں تمام لوگوں کے امام اس معنی میں تھے، کہ جس طرح آپ کی ذاتِ عالی صفات میں زمانۂ سلف کے انبیاء و أئمّہ علیہم السلام کی معجزاتی روحانیّت موجود تھی، بالکل اسی طرح آپ کے سلسلۂ اولاد میں آپ کی زندہ روحانیت موجود اور حاضر تھی، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے: ’’ واجعل لی لسان صدق فی الاٰخرین ۔ ۲۶: ۸۴ ، اور میرے لئے بعد میں آنے والے لوگوں کے درمیان سچائی کی ایک زبان مقرر فرما دے‘‘۔ یہ عرض حضرتِ ابراہیم نے خداوند عالم سے کی تھی، نیز ارشاد ہوا ہے کہ: ’’ و جعلھا کلمۃ باقیۃ فی عقبہ لعلھم یرجعون ، ۴۳: ۲۸۔ اور اس (یعنی ابراہیم) نے اسے (نبوّت اور امامت کو) اپنی اولاد میں باقی رہنے والا کلمہ قرار دیا تا کہ وہ (اللہ تعالیٰ کی طرف) رجوع کرتے رہیں‘‘۔

یہاں اس بات سے کہ ابراہیم نے اپنی نبوّت و امامت کو ایک پائندہ کلمے میں اپنی اولاد میں منتقل کر دی، اس حقیقت کی مزید تصدیق ہوئی، جو بتائی گئی تھی، کہ خداوند تبارک و تعالیٰ نے جن کلمات پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لیا تھا، وہ اللہ تعالیٰ کے زندہ نام تھے، جو انبیاء، أئمّہ اور ملائکہ کی روحانی صورت میں تھے۔

پس معلوم ہوا، کہ ابراہیم خلیل الرّحمٰن اسی معنی میں

 

۱۶

 

سب دنیا جہان والوں کے امام ہیں، جب یہ نظریہ مانا گیا، کہ نورِ امامت ایک شخصیت سے دوسری شخصیت میں منتقل ہوتے ہوئے ہمیشہ دنیا میں موجود ہے، تو یہ بھی ماننا لازمی ہے، کہ اسی نورِ امامت سے دنیا کے تمام حجّتوں کو، جو بارہ جزیروں پر منقسم ہیں، تائیدی ہدایت ملتی رہتی ہے۔

۱۷

لفظِ امام کے لغوی معنی

سورۂ توبہ (۹) کی بارہویں آیت کا ارشاد ہے کہ:
’’ و ان نکثوا ایمانھم من بعد عہدھم و طعنوا فی دینکم فقاتلوا أئمّۃ الکفر انھم لا ایمان لھم لعلھم ینتھون ۔ اور اگر انہوں نے اپنے عہد و پیمان کے بعد قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کی تو تم (بھی) کفر کے سرداروں کے خلاف جنگ کرو تا کہ وہ باز آجائیں، بے شک وہ ایسے ہیں، کہ ان کی قسم کچھ چیز نہیں‘‘ (۰۹: ۱۲)۔

اس ارشادِ الٰہی سے ظاہر ہے، کہ أئمّہ، جو امام کی جمع ہے، کفر کے سرداروں کے لئے بھی آیا ہے، چنانچہ معلوم ہوا، کہ امام کے لغوی معنی سردار کے ہیں، اور کسی گروہ کے سردار سے ایک ایسا شخص مراد ہے، جو سب سے مقدم اور بڑا ہو، مثلاً اگر کہا جائے کہ فلان شخص کافروں کا سردار ہے، تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اس سے بڑھ کر کوئی کافر نہیں، اور کفر و کافری کا سبب اور ذریعہ وہی ہے، اور کافروں کی ساری نافرمانیوں اور گمراہیوں کی مسؤلیت بھی اسی پر ہے، اس کے

 

۱۸

 

مقابل میں اگر کہا جائے ، کہ فلان شخص مومنوں کا سردار ہے، اور یہ بات صحیح ہو، تو اس کا مطلب یہ ہو گا، کہ اس سے بڑھ کر کوئی مومن نہیں، اور ایمان و مومنی کا وسیلہ و ذریعہ وہی ہے، اور ساری ایمانداری اور ہدایت اسی کی وجہ سے ہے، اور امامِ زمانؑ ہی ایسا شخص ہو سکتے ہیں۔

اس فرمانِ الٰہی کی تعلیم سے جب یہ حقیقت ثابت ہوئی، کہ کفر و کافری کے سردار ہوا کرتے ہیں، اور ان کے بغیر ظلمتِ کفر دنیا میں پھیل نہیں سکتی، تو دوسری طرف سے لازماً یہ بھی ماننا ہی پڑے گا، کہ ہمیشہ سے دین و ایمان کے بھی سردار ہوا کرتے ہیں، اور ان کے حاضر و موجود ہونے کے بغیر زمانے میں دین و ایمان کی روشنی جاری نہیں ہو سکتی ہے۔

حکمت کا ایک اور مفہوم اس آیۂ کریمہ میں یہ ہے، کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک ہی حاضر و موجود سردار (امام) کے حکم کے تحت منظم اور متّفق و متحد ہو جائیں، کیونکہ ارشاد ہے کہ ’’ تم (سب مسلمان) کفر کے سرداروں کے خلاف جنگ کرو‘‘۔ اور اس امرِ الٰہی پر عمل نہیں ہو سکتا، جبکہ کفر کے سردار کے مقابلے میں ایمان کے سردار موجود نہ ہوں اور دنیائے اسلام ان کے حکم کو قبول نہ کرے، اور اگر کہا جائے، کہ اس وقت ایمان کا کوئی ایسا سردار موجود نہیں جو سارے مسلمانوں کو منظم کر سکے، تو اس کے معنی یہ ہوں گے، کہ نعوذ باللہ منھا خدا خواہ مخواہ انہونی باتوں کے لئے بھی حکم دیتا ہے، یا اس

 

۱۹

 

کا مطلب یہ ہو گا کہ جہاد کا یہ حکم رسول اللہ کے زمانے سے متعلّق و محدود ہے، لیکن یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے، کہ خدائے حکیم نے جہاد جیسے ایک اہم رکن کے بنیادی ذریعے کو اب دینِ اسلام سے اٹھا لیا ہو، آپ خود خداوندی عدل و انصاف کی روشنی میں سوچئے!

ظاہری جہاد نہ سہی علمی جنگ سہی بہرکیف سب مسلمانوں کے لئے سردار یعنی امام کی ضرورت ہے، آپ اس کرۂ ارض کے تمام مسلمین کی خستہ حالی اور بے چارگی کا تصور کرکے کوئی بنیادی سبب بتائیے، کہ آج مسلمان ہر جگہ مجبور کیوں ہیں؟ اور آپ اس کے سوا اور کیا بتائیں گے، کہ جو مسلمان رسولِ اکرم صلعم کے زمانے میں متّفق و متحد تھے وہ آج متّفرق و منتشر ہیں، اور ان کے اس افتراق و انتشار میں صدیاں گزر گئیں، حالانکہ پروردگارِ عالم نے اس خطرناک نافرمانی سے بچنے کے لئے بروقت ارشاد فرمایا تھا کہ و اعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا و لا تفرقوا ۔ تم سب کے سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا اور فرقہ فرقہ نہ ہو جانا  (کیونکہ تمہارے ہاتھ اس رسی سے چھوٹ جانے کا خطرہ ہے)  اب فرقہ فرقہ ہو جانے کا الزام مسلمانوں ہی پر عائد ہوتا ہے، نہ کہ اللہ تعالیٰ کی رسی پر، کہ اس نے کیوں ان کو زور و زبردستی سے ایک مرکز پر نہیں لایا، کیونکہ خداوندِ عالم نے یہاں یہ نہیں فرمایا، کہ میری رسی! تم سارے

 

۲۰

 

مومنین و مسلمین کو اپنی ذات کی معرفت سے وابستہ کئے رکھنا اور ان کو فرقہ فرقہ نہ ہونے دینا، بلکہ اس نے تو یہ فرمایا کہ اے گروہِ مسلمین! تم سب یکجا طور پر خدا کی مضبوط رسی کو بڑی مضبوطی سے پکڑے ہوئے رہنا اور فرقہ فرقہ نہ ہو جانا۔

۲۱

کیا کوئی آسمانی کتاب امام ہو سکتی ہے؟

سورۂ ہود (۱۱) آیت ۱۷ (۱۱: ۱۷) میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : افمن کان علیٰ بینۃ من ربہ و یتلوہ شاہد منہ و من قبلہ کتٰب موسیٰ اماما و رحمۃ ۔ تو کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل پر ہو، اور اس کے پیچھے ہی پیچھے اسی سے ایک گواہ ہو اور اس کے قبل موسیٰ کی کتاب (توریت) جو (لوگوں کے لئے) امام اور رحمت تھی (اس کی تصدیق کرتی ہو وہ شخص بہتر ہے یا کوئی دوسرا)۔

اس آیۂ کریمہ کی تعلیم یہ ہے کہ آنحضرت صلعم اپنے ربّ کی طرف سے دلیلِ روشن پر ہیں یعنی آپ اللہ کے سچے پیغمبر ہیں، اور علیّ مرتضیٰؑ جو آپ کا جزو ہیں، آپ کے پیچھے ہی پیچھے حضور کی حقّانیت کا ایک گواہ ہیں، اور اس کے بارے میں ایک اور گواہ آنحضرتؐ کے قبل حضرت موسیٰؑ کی کتاب توریت ہے، جو لوگوں کے لئے امام اور رحمت تھی، اور یہ ساری حقیقتیں مسلّمہ ہیں مگر سوال کتابِ موسیٰ یعنی توریت کے بارے میں ہے، کہ وہ کس حیثیت میں امام تھی؟

۲۲

اس کا جواب یہ ہے، کہ یہ بات عربی زبان کے دستور میں شامل ہے، کہ بعض دفعہ کسی چیز کو دوسری ایسی چیز کے نام سے پکارا جاتا ہے، جو اکثر اس کے ساتھ ہو،مثلاً اس اونٹ کو، جو پانی کی مشکیں لادنے کے لئے مقرر ہو، مشک یا مشکیزہ کہا جاتا ہے، اور یہ مثال عربی کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی مل سکتی ہے، چنانچہ اہلِ علم اس حقیقت سے آگاہ ہیں، کہ آنحضرت صلعم کو قرآنِ مجید (۶۵: ۱۰ تا ۱۱) میں ذکر کے اسم سے موسوم کیا گیا ہے، حالانکہ ذکر قرآن کا نام ہے، اور اس معنی میں حضورِ اکرم صلعم کو قرآن کہا گیا ہے، اور یہ بات کئی وجوہ سے درست ہے، جن میں سے کچھ وجہیں ظاہری اور کچھ باطنی ہیں، پس ثابت ہوا، کہ روحانی پیشوا (پیغمبر یا امام) کو کتابِ الٰہی اور کتابِ سماوی کو پیشوا یا امام کہا جاتا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آسمانی کتاب یعنی توریت کو امام کے اسم سے موسوم کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے، کہ ہر الہامی کتاب فی الاصل ایک زندہ نور یعنی علم و حکمت کی روح کی حیثیت سے ہوتی ہے، اور وہ بحقیقت امام ہی کی روح ہے، الغرض مولانا ہارون علیہ السلام کی روحِ مقدّس حضرت موسیٰ پر بصورتِ روحانی کتاب وحی کی گئی تھی، پھر ان روحانی حالات و واقعات کی کچھ ترجمانی کرتے ہوئے کاغذی تحریر کی توریت لکھی گئی تھی۔ مگر اصل توریت روحانی اور نورانی صورت میں موجود تھی، یعنی حقیقی توریت تو امامِ عالی صفات کے نور

 

۲۳

 

سے جدا نہ تھی، جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ: قل من انزل الکتٰب الذی جاء بہ موسیٰ نورا و ہدی للناس تجعلونہ قراطیس تبدونھا و تخفون کثیرا ،۰۶: ۹۱۔ (اے رسول) آپ کہہ دیجئے وہ کتاب جسے موسیٰ لے کر آئے تھے کس نے نازل کی تھی جو لوگوں کے لئے نور اور ہدایت تھی جسے تم لوگوں نے کاغذات کی (تحریری) صورت دی ہے، جس میں کچھ تو ظاہر کرتے ہو اور اکثر چھپاتے ہو۔

اس آیۂ مقدسہ کی حکمت یہ بتاتی ہے، کہ توریت دو صورتوں میں موجود تھی، چنانچہ پہلی اور اصلی صورت میں توریت علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے معجزاتی نور اور ہمہ گیر مقدس روح کی حیثیت سے ہارون اور موسیٰ علیہم السّلام کے دل و دماغ میں موجود تھی، جس سے بمصداق ’’ ھدی للنّاس ‘‘ اس طرح لوگوں کو معجزانہ ہدایت ملتی تھی، کہ براہِ راست حجّتانِ جزائر کو الہامی روشنی حاصل ہوتی تھی، پھر وہ اپنے اپنے داعیوں کے ذریعہ لوگوں کی ہدایت کرتے رہتے تھے، دوسری صورت میں توریت جو کچھ بھی تھی، اس کا حال آیۂ مندرجۂ بالا میں ظاہر اور واضح ہے۔

اب اس قرآنی حکمت کی تفصیل سے یہ حقیقت پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی، کہ توریت یقیناًاپنی اصلی حالت اور نوری کیفیت میں امام تھی، جس سے حضرت مولانا ہارون علیہ السّلام

 

۲۴

 

کا پاک نور مراد ہے، اس حقیقت کی مزید تصدیق و توثیق کے لئے اس آیۂ مقدسہ پر ذرا غور کیا جائے کہ: ’’ و کذالک او حینا الیک روحا من امرنا ما کنت تدری ما الکتاب و لا الایمان و لٰکن جعلنٰہ نورا نھدی بہ من نشاء من عبادنا ، ۴۲: ۵۲۔ اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف (یہ کتاب بصورت) ایک روح نازل کی ہے، آپ کو نہ یہ خبر تھی کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ خبر تھی کہ ایمان (کا انتہائی کمال ) کیا چیز ہے لیکن ہم نے اس (روح) کو ایک نور بنایا جس کے ذریعے سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہیں ہدایت کرتے ہیں‘‘۔ اس ارشادِ الٰہی سے یہ حقیقت ظاہر ہے ، کہ قرآن حکیم کی بھی ایک ایسی روحانی اور نورانی اصلیت و حقیقت موجود ہے، جس کو پیغمبر اور امام کا نور کہا جاتا ہے۔

اگر کوئی شخص الہامی کتاب اور نور کے مذکورہ حقائق و معارف کے باوجود، جو قرآنِ حکیم کی روشنی میں بیان ہوئے، یہ سوال کرے، کہ آسمانی کتاب پیغمبر اور امام کے نور میں کس طرح موجود ہو سکتی ہے؟ تو اس کا مفصل جواب پھر عقلی طور پر دیا جائے گا، کہ دیکھو جب تم اپنے کسی عزیز کو ایک خط لکھتے ہو، تو وہ اپنے دل و دماغ کی معلومات سے لکھتے ہو، اس میں کبھی ایسا نہیں ہوتا، کہ جتنی معلومات لکھی گئی ہیں، وہ تمہارے ذہن سے خارج ہو کر خط میں اس طرح محدود ہو جائیں، جس

 

۲۵

 

طرح کہ کوئی مادّی چیز ایک برتن سے دوسرے برتن میں ڈالنے کے بعد پھر وہ چیز پہلے برتن میں پائی نہیں جاتی ہے، بلکہ وہ معلومات، جو خط میں تحریر ہوئی ہیں، تمہارے دل و دماغ میں اپنی اصلی حالت پر قائم ہیں، ان میں ذرا بھی کمی نہیں آئی، وہ جب تک انسانی ذہن میں ہیں، تو ان کی تحریری صورت نہیں ہوتی بلکہ وہ معلومات قلبی اور ذہنی کیفیت میں موجود ہوتی ہیں، اور یہ بات اس بحث سے علیحدہ ہے، کہ انسان اپنی قوتِ ارادی سے خیال میں بھی کوئی تحریر کر سکتا ہے۔ پس اس مثال و دلیل سے یہ حقیقت واضح ہو گئی، کہ قرآن کے علم و حکمت کا جو معجزاتی نور محمد و علی علیھما السّلام کی ذاتِ اقدس میں طلوع ہوا تھا، وہ قرآن کے لکھنے سے کم نہیں ہو سکتا تھا۔

اب اگر یہاں یہ سوال بھی ہو، کہ قرآن پیغمبر اور امام کی معلومات میں سے نہیں لکھا گیا تھا، بلکہ اسے اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ سے آنحضرتؐ پر نازل فرمایا تھا، تو اس کا یہ جواب دیا جائے گا، کہ بے شک قرآن آنحضرتؐ پر لوحِ محفوظ سے نازل کیا گیا ہے، لیکن یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے، کہ وہ کس طرح نازل ہوا ہے اور لوحِ محفوظ کیا ہے، چنانچہ جاننا چاہئے، کہ قرآن ایک زندہ روح کی حیثیت سے حضورِاکرمؐ کے قلبِ مبارک پر نازل ہوا ہے، اور نزولِ قرآن کا تذکرہ اسرارِ روحانیت سے مملو ہے، جس کے لئے جداگانہ کوئی مقالہ ہونا چاہئے، المختصر یہ ہے، کہ جو چیز دل میں نازل ہوتی ہے

 

۲۶

 

وہ معلومات اور معقولات کی صورت اختیار کر لیتی ہے، اور اگر دل پاک ہے تو معلومات و معقولات کا یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے، تا آنکہ ساری کائنات و موجودات اس میں سمو آتی ہیں، چنانچہ قرآن کی روح جو حضورِ اکرم صلعم پر وحی کی گئی تھی، آپ کی ذاتِ اقدس میں عالمِ ملکوت (فرشتوں کا عالم) بن کر آ گئی تھی، وہ علم و حکمت اور کشفِ حقیقت کی ایک جیتی جاگتی روشن دنیا تھی، جس کے مشاہدات اور تجربات کی ترجمانی عربی زبان میں حضورِ انور صلعم نے فرمائی، اور اسی طرح قرآنِ پاک کی تحریری صورت جمع کی گئی، لیکن قرآن کی روح یا کہ نور بلا کم و کاست حضور کی ذاتِ شریف میں آخری وقت تک موجود تھا۔

اب رہا سوال کہ پھر یہ روح علئ مرتضیٰؑ میں کس طرح آئی؟ اس کے لئے جواباً تحریر کی جاتی ہے، کہ (بحکم: و کل شیء احصینٰہ فی امام مبین ۔ ) نورِ علی، امامِ مبین، کتابِ مبین، ام الّکتاب اور لوحِ محفوظ ہے اور اس میں سب کچھ ہے، اور امام کے نور کے سوا دوسری کوئی چیز لوحِ محفوظ کے درجے میں نہیں ہو سکتی ہے، کیونکہ اگر لوح کے لفظی تصور سے یہ مان لیا جائے، کہ خدا کی ایک بہت بڑی تختی ہے، جس پر ہر چیز لکھی ہوئی موجود ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے، کہ اس ظاہری قسم کی تحریر اور لکھت میں ہر چیز نہیں آ سکتی ہے، مثلاً عقل، شعور، فہم، نطق، تمیز، خوشی،

 

۲۷

 

غم و غصہ، علم، حلم اور زندگی کے علاوہ عقول، نفوس، ملائکہ اور کائنات و موجودات کی ہر چیز نیز زمانہ اور اس کے بدلتے ہوئے حالات وغیرہ، یہ تمام باتیں ’’ کل شیء ‘‘ میں داخل ہیں، پس معلوم ہوا، کہ لوحِ محفوظ امام کے نور کا نام ہے، اور یہ نور کائنات و موجودات کے ظاہر و باطن پر محیط و حاوی ہے اور اسی طرح اس میں سب کچھ ہے۔

جاننا چاہئے، کہ عقلِ کل خدا کا زندہ قلم ہے اور نفسِ کل خدا کی زندہ تختی ہے، نیز یہ بھی جاننا چاہئے ، کہ عقلِ کل محمد کا نور ہے، اور نفسِ کل علی کا نور ہے، اور قرآن عقلِ کل کے قلم سے نفسِ کل کی لوح پر روحانی تحریر میں لکھا گیا ہے، اب آپ ہی بتائیے، کہ آنحضرتؐ کی شخصیت پر جو روحانی تحریریں منکشف ہوئیں یا جو قرآن نازل ہوا، وہ کہاں سے ہوا، علّئ عالی صفات کے نور سے، جو لوحِ محفوظ کے نام سے مشہور ہے، اگرچہ آنحضرتؐ کا نور قلمِ الٰہی کی حیثیت سے تھا، لیکن قلم نے تو ازل میں خدا کے امر سے لوح پر سب کچھ لکھ دیا ہے، اور اب ہر چیز لوحِ محفوظ پر موجود ہے، نیز ظاہر ہے، کہ لکھنے کے لئے قلم کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، اور پڑھنے کے لئے تختی کی طرف، پس معلوم ہوا کہ آنحضرتؐ نے علیؑ کے نور کو ام الکتاب اور لوحِ محفوظ سے خدائی تحریروں کی حکمت کا مشاہدہ کیا تھا، اور یہیں سے یہ پاک قرآن حاصل آیا ہے۔

۲۸

امامِ مبین

سورۂ حجر (۱۵) آیہ ۷۹ میں ارشاد ہے کہ:
’’ فانتقمنا مھم و انھما لبامام مبین ۔ ۱۵: ۷۹۔ پس ہم نے ان سے بدلہ لیا اور یقیناًوہ دونوں (اجڑی ہوئی بستیاں) کھلی شاہراہ پر ہیں‘‘۔

اس آیۂ کریمہ کا ظاہری پہلو قومِ لوط اور قومِ شعیب اور ان دونوں کی بستیوں سے متعلق ہے، کہ وہ لوگ اپنے پیغمبروں کو جھٹلانے کے انجام میں عذابِ الٰہی سے ہلاک ہوئے تھے، اور ان دونوں کی بستیاں تباہ و برباد ہو چکی تھیں، چنانچہ قومِ لوط کی بستیاں سدوم وغیرہ اور قومِ شعیب کی بستی مدین تباہ و برباد ہو جانے کے آثار نشانات عرب سے شام کو جاتے ہوئے اب بھی نظر آتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ یہاں لفظِ امام لغوی لحاظ سے رستے کے معنی میں آیا ہے، اس میں ذرا بھی شک نہیں، کہ حکمت کے اعتبار سے بھی امام رستہ ہیں، یعنی صراطِ مستقیم اور سبیلِ خدا، اور رستے کے دوسرے اور بھی نام ہیں، جیسے مذہب، مسلک، شریعت، طریقت، منہاج وغیرہ، تو ان تمام الفاظ سے امامِ

 

۲۹

 

عالی صفات مراد ہے، کیونکہ دنیاوی اور مادّی اعتبار سے راہ اور راہنما دو الگ الگ چیزیں ہوا کرتی ہیں، مگر دینی اور روحانی لحاظ سے ہدایت کے واحد نور کا نام راہ بھی ہے اور راہنما بھی، اس حقیقت کی ایک روشن دلیل قرآنِ پاک سے یہ ہے جو ارشاد ہوا ہے کہ: ’’ ان ربی علیٰ صراط مستقیم ۔ یقیناً میرا پروردگار سیدھی راہ پر ہے‘‘۔ یعنی چراغِ ہدایت اور نورِ معرفت کی روشنی میں خدا ملتا ہے، یا اس مطلب کو سادہ الفاظ میں یوں ادا کرنا چاہئے، کہ امامِ اقدس کا پاک نور ہی وہ سیدھا رستہ ہے جس پر کہ خدا ہے، اور بندگانِ خدا کے لئے خدا کا حقیقی تصور، دیدار و ملاقات اور معرفت اسی نور کے رستے پر یقینی ہے، اور نور کا یہ رستہ ہمیشہ کے لئے قائم و باقی ہے۔

اس آیۂ مقدسہ کی حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے، کہ امامِ مبین کا مطلب جیسا کہ ذکر کیا گیا صراطِ مستقیم ہے، جو نور کا راستہ ہے، چنانچہ جب حقیقی مومنین امامِ مبین کی روحانیت و نورانیت کے رستے پر چلتے رہتے ہیں، تو وہ دیدۂ دل سے سابقہ امتوں کی بے شمار مثالوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں، اور اس سلسلے میں قومِ لوط اور قومِ شعیب اور ان دونوں کی بستیوں کا حال بھی شامل ہے۔

نیز اس ارشادِ الٰہی میں ایک اور حکمت یہ بھی ہے، کہ عددی اصول کے اعتبار سے ’’ایک‘‘ کا عدد اللہ تعالیٰ

 

۳۰

 

کی وحدانیت پر دلیل ہے، اور اس کے بعد ’’دو‘‘ کا عدد آتا ہے، جو وحدت اور کثرت کے درمیان ہے، یعنی دونوں کے مابین واسطہ اور وسیلہ ہے، اور اس کی ایک خاصیت یہ ہے، کہ کثرت کو وحدت کے قریب لاتا ہے، پس دو کا عدد از روئے حکمت مخلوقات و موجودات میں سے ایسی دو ہستیوں کے لئے مقرر ہے، جو دونوں جہان میں خدا کے بعد انہی کا درجہ ہے، جس طرح اعداد و شمار میں ایک کے بعد دو آتا ہے، اور وہ دو ہستیاں ہیں عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ، چنانچہ اب اس لحاظ سے ’’ و انھما لبامام مبین ‘‘ کی تأویل یہ ہے کہ: عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ امامِ مبین کے ساتھ ہیں۔ کیونکہ عالمِ ہست و بود اور حدودِ روحانی میں سب سے عظیم دو فرشتے یہی ہیں۔

نیز جاننا چاہئے،کہ مراتبِ کائنات میں دو سب سے بڑی چیزیں عرش و کرسی ہیں، عالمِ علمِ الٰہی میں قلم و لوح ہیں، کونِ وحدت میں ربوبیت و عبودیت ہیں، دنیائے اسلام میں قرآن و حدیث ہیں، حدودِ جسمانی میں ناطق و اساس (محمد و علی علیہما السلام) ہیں، دائرۂ ہستی میں روحانیت و جسمانیت ہیں، مقاماتِ تعلیم میں مجمع البحرین یعنی دو ملے ہوئے سمندر ہیں، عرصۂ وجود میں دنیا و آخرت ہیں وغیرہ، چنانچہ ’’انھما‘‘ کی اس ضمیرِ تثنیہ میں مذکورہ دنیاؤں کی ان عظیم چیزوں کی طرف اشارہ ہے، کہ جن پر

 

۳۱

 

دو کے عدد کا بحقیقت اطلاق ہوتا ہے، پس یہ حقیقت واضح اور روشن ہوئی، کہ امامِ مبین اُس ہستی کا نام ہے، جس کی ذاتِ عالی صفات سے کوئی حقیقت جدا اور دور نہیں۔

 

 

۳۲

 

امامؑ کی دائمیّت کا تصوّر

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) آیت ۷۱ میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’ یوم ندعوا کل اناس بامامھم ۔ ۱۷: ۷۱۔ جس دن ہم تمام (زمانوں کے) لوگوں کو اپنے اپنے امام کے ساتھ بلائیں گے‘‘۔ یاد رہے، کہ یہ آیت لفظی معنی کے لحاظ سے اس قسم کی ہے، جس طرح کہ: قد علم کل اناس مشربھم ۔ ۰۲: ۶۰۔ سب قبیلوں نے اپنا اپنا گھاٹ جان لیا۔ چنانچہ اس آیۂ کریمہ کی حکمت کے سلسلے میں یہاں سب سے پہلے لفظ ’’اناس‘‘ کا مطلب سمجھنا ضروری ہے، اور وہ اس طرح سے ہے، کہ اناس انس کی جمع ہے، اور اس کی دوسری صورت اناسی ہے، جو کہ قرآنِ کریم میں لوگوں کی چھوٹی تقسیم کے لئے آیا ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ کے لوگوں کو امتِ موسیٰ یا کہ قومِ موسی کہا جاتا ہے، اور انہیں کسی اضافت و نسبت کے بغیر ناس بھی کہا جاتا ہے، مگر سب کو ملا کر اناس نہیں کہا جاتا۔ کیونکہ اناس قرآن میں لوگوں کی چھوٹی تقسیم کے لئے استعمال ہوا ہے، یعنی حضرت موسیٰؑ کی قوم کے بارہ قبیلوں میں سے ہر قبیلے کو اناس کہا گیا ہے۔ اس کا

 

۳۳

 

مطلب یہ ہوا، کہ امامِ وقت کی نسبت سے انسانوں کو اناس کہا گیا ہے۔ جس طرح کہ پیغمبر کی نسبت سے لوگوں کو امت یا قوم کہا جاتا ہے، چونکہ ہر ناطق پیغمبر کے دور میں کئی امام ہوا کرتے ہیں، پس ہر امام کے زمانے کے لوگ امت اور قوم نہیں کہلائیں گے بلکہ اناس کہلائیں گے۔

حقائق بالا مظہر ہیں، کہ امامِ عالی مقام ہمیشہ سے دنیا والوں کے درمیان موجود و حاضر ہیں، اور یہی سبب ہے، کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی عدالت گاہ میں ہر زمانے کے لوگوں کو ان کے امامِ وقت کے ساتھ بلا لے گا۔ یہ اس لئے کہ خدا نے امام کو دنیا والوں کے لئے سرچشمۂ ہدایت اور وسیلۂ نجات بنایا ہے، مگر لوگوں نے اسے نہیں پہچانا، نیز اس لئے کہ امام علیہ السلام لوگوں کے اعمال پر گواہ ہیں، چنانچہ خدا تعالیٰ لوگوں کے اچھے اور برے اعمال کا فیصلہ نہیں فرمائے گا، جب تک کہ امام علیہ السّلام ان کے اعمال کے متعلق گواہی نہ دے۔

اس اصول کا جاننا ضروری ہے، کہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات پیغمبر اور امام علیہما السّلام کی نسبت سے ہیں۔ اور ایسی صفات معلوم کر لینے کا طریقہ یہ ہے، کہ خدا تعالیٰ کے سو (۱۰۰) ناموں کو دیکھا جائے، پھر پیغمبر کے سو (۱۰۰) ناموں کو دیکھا جائے اور اس کے بعد امام کے سو (۱۰۰) ناموں کو دیکھا جائے، اب خدا کے جو جو اسمِ صفاتی پیغمبر اور امام کے اسماء میں آئیں

 

۳۴

 

گے، وہ خدا کے ایسے اسماء ہوں گے، جو پیغمبر اور امام علیہما السلام کی نسبت سے ثابت ہیں۔ مثلاً خدا کے اسمائے صفاتی میں سے ایک اسم الہادی ہے، یعنی ہدایت کرنے والا، یہی اسمِ صفت رسولِ اکرم کا بھی ہے اور امامِ اطہر کا بھی، پس دانشمندوں کے لئے ظاہر ہے، کہ خدا اس لئے ہادی ہے، کہ اس نے ہدایت کے لئے پیغمبر بھیجا اور پیغمبر اس لئے ہادی ہے، کہ اس نے اپنے وقت میں لوگوں کی ہدایت کی اور آئندہ لوگوں کی ہدایت کے لئے اپنی آل سے امام مقرر فرمایا، اور کارِ ہدایت امام پر آ کر مکمل ہوا۔

اسی طرح خدا کے ناموں میں سے ایک نام الشہید ہے، یعنی ’’گواہ‘‘ نیز پیغمبر اور امام علیہما السلام کا بھی یہی نام ہے، اور اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خدا نے پیغمبر کو گواہ کے طور پر بھیجا ہے، اور پیغمبر نے بحکمِ خدا امام کو اپنی جگہ میں لوگوں پر گواہ بنایا ہے، پس لوگوں کے اعمال پر گواہِ مطلق امامِ عالی مقام ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ خدا قیامت کے دن ہر زمانہ کے لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلا لے گا۔

۳۵

خدا امامؑ سے ہر وقت مخاطب ہے

سورۂ انبیاء (۲۱) آیت نمبر ۷۳ میں خدا تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ و جعلنٰھم ائمۃ یھدون بامرنا ۔ اور ہم نے ان کو (لوگوں کے ) ائمہ بنایا کہ وہ ہمارے امر کے بموجب لوگوں کو ہدایت کرتے تھے‘‘ (۲۱: ۷۳)۔

اس آیۂ کریمہ کی حکمت سے صاف طور پر ظاہر ہے، کہ أئمّۂ برحق کا تقرر اللہ تعالیٰ خود ہی فرماتا ہے، اور حضراتِ أئمّہ پروردگارِ عالم کے منشاء و امر کے مطابق لوگوں کو ہدایت کیا کرتے ہیں، نیز اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہے، کہ امر و ارشاد فرمانے کے لئے اللہ تعالیٰ ہر وقت أئمّۂ اطہار سے مخاطب ہوتا ہے، اس خطابِ الٰہی کو خواہ ہم توفیقِ خاص کہیں یا نورانی ہدایت یا وحی بہرحال امامانِ برحق کو خدا تعالیٰ کا امرو فرمان وقت اور جگہ کی ضرورت کے موافق تازہ بتازہ حاصل ہوتا رہتا ہے، چونکہ امرِ باری تعالیٰ انہی صاحبان کے لئے مخصوص ہے، یعنی یہ حضرات ایک طرف سے تو اللہ تعالیٰ کا امر و فرمان حاصل کرتے رہتے ہیں، اور دوسری طرف سے لوگوں کو نافذ کر دیتے ہیں اور اسی معنی میں یہ حضرات اولوا الامر کہلاتے ہیں۔

۳۶

ہر وہ دانشمند جو خدا کی ہستی کا قائل ہو، ذرا غور و فکر کرکے اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے، کہ خدا تعالیٰ کے قانونِ رحمت کی رو سے یہ بات قطعاً ناممکن ہے ، کہ خدا جو رحمان و رحیم ہے، کسی وقت دنیا والوں سے اپنا ذریعۂ امر و ہدایت (یعنی امامِ زمان) اٹھا لے، نیز یہ بھی محال ہے کہ دنیا والے کسی وقت خدا کے سرچشمۂ ہدایت سے بے نیاز ہو جائیں، پس واجب و لازم ہے، کہ ہر زمانے میں امام بلباسِ بشریت لوگوں کے درمیان حیّ و حاضر ہو، خواہ نبوّت کا دور ہو یا امامت کا۔

واضح رہے، کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک جو زمانہ گزر چکا ہے، اسے دورِ نبوّت کہتے ہیں، اور آنحضرتؐ سے قیامت تک جو زمانہ گرز رہا ہے اسے دورِ امامت کہا جاتا ہے، اور ان دونوں زمانوں میں یہ فرق ہے، کہ دورِ نبوّت میں بعض أئمّۂ کرام علیہم السلام خدا کے امر سے امامت کے ساتھ ساتھ کارِ نبوّت کو بھی انجام دیتے تھے، لیکن دورِ امامت چونکہ دورِ قیامت ہے اس لئے اس میں آلِ محمد کے أئمّۂ طاہرین صرف امورِ امامت سے متعلق فرائض کو انجام دیتے آئے ہیں۔

۳۷

پرہیزگاروں کے امام

سورۂ شعراء (۲۵) آیت نمبر ۷۴ میں لفظِ امام اس انداز میں آیا ہے کہ: و الذین یقولون ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرۃ اعین و اجعلنا للمتقین اماما ۔ اور وہ لوگ جو (ہم سے) عرض کیا کرتے ہیں، کہ پروردگار ہمیں ہماری بیبیوں سے اور ہماری ذریت سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا دے (۲۵: ۷۴)۔

اس آیۂ مقدسہ کی حکمتوں میں سے ایک نمایان حکمت یہ ہے، کہ اس دعا کا زیادہ تر تعلق أئمّۂ کرام علیہم السلام سے ہے، کیونکہ صرف وہی حضرات یہ شان رکھتے ہیں، کہ اپنی اولاد اور ذرّیات کی حیثیت میں بھی امام بن جائیں۔

اس آیۂ دعائیہ سے یہ حقیقت ظاہر ہے، کہ امامِ برحق اپنی اولاد و احفاد کی شخصیتوں میں بھی امام ہوتا ہے، چنانچہ اسماعیلیوں کا یہ عقیدہ درست ہے، جو کہتے ہیں کہ مولانا علیؑ شاہ کریم الحسینی حاضر امام کے جامۂ بشریت میں موجود و حاضر ہیں۔

آیۂ مذکورہ بالا کے حکیمانہ انداز میں عقل و دانش والوں

 

۳۸

 

کے لئے سلسلۂ امامت کی لا انتہائی کا ذکر موجود ہے، وہ اس طرح کہ نہ صرف زمانۂ ماضی میں بلکہ حال اور مستقبل میں بھی ہر امام مذکورہ ارشاد کے مطابق اپنے پروردگار سے یہی درخواست کرے گا، کہ وہ اپنی شخصیت کے علاوہ اپنے بیٹوں اور آئندہ نسل کی حیثیت میں بھی پرہیزگاروں کا امام بنتا رہے، اور بغیر کسی انتہا کے یہی سلسلہ ہمیشہ کے لئے جاری رہے گا۔ اگر بہت سے زمانوں کے بعد سیّارۂ زمین کی مدتِ عمر ختم ہو جائے تو اللہ تعالیٰ نورِ امامت کو کسی دوسرے سیارے پر منتقل کر لے گا۔ جیسا کہ شروع میں یہ نور دوسرے سیّارے سے نازل ہوا تھا جس کو ہبوطِ آدم کہتے ہیں۔

جاننا چاہئے کہ پرہیزگاروں کا امام بننے کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ امامِ عالی مقام کے وجودِ مبارک سے پہلے کچھ پرہیزگار لوگ موجود ہوں۔ پھر اس کے بعد امام پیدا ہو جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے، کہ امامِ زمان کی ہدایت کے نتیجے میں کسی کو پرہیزگاری حاصل آتی ہے اور پھر امام ان سے منسوب ہو کر ’’امام المتّقین‘‘ کہلاتا ہے۔ یا یوں کہنا چاہئے ، کہ جب امام دنیا میں ہمیشہ سے ہیں تو نتیجے کے طور پر پرہیزگار بھی ہیں اور پرہیزگاری بھی۔

ایک اور عظیم حکمت یہاں لفظ ’’ذرّیت‘‘ میں پنہان ہے، ویسے تو لفظ ذرّیت میں ایک نہیں بلکہ بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ مگر ہم یہاں اختصار سے کام لیتے ہیں، کہ

 

۳۹

 

ذرّیت اور ذرّہ ایک ہی مادہ کے الفاظ ہیں۔ جاننا چاہئے، کہ ذرّیت اور اولاد کے درمیان بڑا فرق ہے، اور وہ یہ ہے کہ ذرّیت نام ہے ذرّۂ روح یا نقطۂ روح کا، جو انسان کے خون و خلیات میں ہے اور ابھی تولید کے مراحل سے نہیں گزرا ہے، اور اولاد ایسے ذرّات کو اس وقت کہا جاتا ہے، جبکہ یہ تولید کے مراحل سے آگے گزر چکے ہوں، اس حقیقت کی ایک روشن دلیل، کہ جسمِ انسانی کے خون اور خلیات کے اندر جو زندگی یا روحِ حیوانی کے بے شمار ذرّات موجود ہیں، ان کا قرآنی نام ذرّیت ہے، :ارشادِ قرآنی کی صورت میں یہ ہے

’’ و اٰیۃ لھم انا حملنا ذریتھم فی الفلک المشحون ۔ ۳۶: ۴۱۔ اور ان کے لئے یہ بھی ایک معجزہ ہے، کہ یقیناً ہم نے ان کی ذرّیت (یعنی ان کی زندگی کے ذرّات) کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا”۔ یعنی جو مومنین کشتئ نوح میں بوقتِ طوفان سوار ہوئے تھے، ان کے خون و خلیات میں ان منکرین کی زندگی کے ذرّات یعنی ذرّیت موجود تھی۔ نیز کلامِ پاک میں یہ بھی ارشاد ہے: ’’ و اذ اخذ ربکم من بنی آدم من ظھورہم ذریتھم ، ۰۷: ۱۷۲۔ اور جب آپ کے ربّ نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذرّیت کو لیا”۔ اس آیۂ کریمہ سے ظاہر ہے، کہ حضرت آدم کے بیٹوں کی پشتوں سے جو روحیں لی

 

۴۰

 

گئی تھیں، ان میں دنیا بھر کے لوگوں کی روحیں شامل تھیں، کیونکہ اس موقع پر خوابِ غفلت میں سوئی ہوئی روحوں کو جس مقصد کے لئے بیدار کر دیا تھا، اس کا تعلق چند روحوں سے نہیں بلکہ ساری ارواح سے تھا، بہرکیف مذکورۂ بالا تینوں آیات کا خلاصہ یہ ہے، کہ ذرّیت ان بے شمار روحوں کا نام ہے، جو انسانی خون و خلیات کے اندر ایک قسم کی خوابیدہ حالت میں موجود ہیں، جن میں سے صرف چند روحیں قانونِ فطرت کے مطابق اولاد کی صورت میں نمودار ہوتی ہیں، اور باقی البتہ ویسے ہی خیال، توجہ، محبت، تعلیم ، دعائے خیر وغیرہ کی روحانی لہروں سے اپنوں اور بیگانوں میں منتقل ہوتی رہتی ہیں، یہی باتیں أئمّۂ طاہرین کی مذکورہ دعا میں بھی پائی جاتی ہیں کہ ان حضرات کے نزدیک آنکھوں کی ٹھنڈک (یعنی فرزند) دو صورتوں میں ممکن ہے، چنانچہ پہلی صورت جسمانیّت کی ہے، اور دوسری روحانیّت کی، پس ’’ و من ذریتنا = اور ہماری ذرّیت سے‘‘ میں جسمانی اولاد کا تذکرہ نہیں، بلکہ اس سے روحانی فرزند مراد ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس قسم کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے جو دعا کی گئی ہے، اس میں حضراتِ أئمّہ کی جسمانی بیبیاں شریک نہیں کی گئی ہیں۔

۴۱

امام کے روحانی فرزندوں کا درجہ

سورۂ قصص (۲۸) آیت نمبر ۵ میں لفظِ امام صیغۂ جمع میں اس طرح سے آیا ہے کہ: و نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلھم ائمۃ و نجعلھم الوٰرثین ۔ اور ہم چاہتے تھے کہ جو لوگ روئے زمین پر کمزور کر دئے گئے ہیں ان پر احسان کریں اور انہی کو (لوگوں) کے أئمّہ بنائیں اور انہی کو اس (سرزمین) کے وارث بنائیں (۲۸: ۰۵)۔

آیۂ مذکورۂ بالا ظاہراً حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون اور ان کے فرمانبردار مومنین کے بارے میں ہے، اور باطناً تمام أئمّۂ برحق اور ان کے سارے روحانی فرزندوں کے بارے میں ہے، اور اس آیت کا خلاصہ و نتیجہ یہ ہے، کہ دنیا میں امامِ عالی صفات اور اس کے ماننے والوں کو کمزور سمجھا جاتا ہے، ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جاتے ہیں اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر خداوندِ عالم منکرین کے ایسے ناپاک عزائم کو خاک میں ملاتا ہے، اور امام اور اس کے حقیقی پیروؤں پر احسان کرتا ہے، درختِ امامت کو پھلنے پھولنے کا موقع عنایت کرتا ہے، امام اور اس کے روحانی فرزندوں

 

۴۲

 

کو ظاہری و باطنی مال و ملک کا وارث بنا دیتا ہے، اور ان کو دین و دنیا کی سرداری عطا کر دیتا ہے۔

ذرا غور و فکر کرنے سے آپ کو معلوم ہو گا، کہ اس آیۂ کریمہ نے حقیقی مومنین یعنی امام کے روحانی فرزندوں کو درجۂ امامت میں شامل کر دیا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں، اوّل اس لئے کہ دنیا کی کوئی فاتح قوم اپنا کوئی سردار منتخب کرتی ہے، تو یہ سرداری ساری قوم کی ہے، بالفاظِ دیگر پوری قوم سردار ہے، دوسرا اس لئے کہ اگر ایک شخص بادشاہ بننے میں کامیاب ہو گیا، تو اس کامیابی میں اس کے عزیز و احباب بھی شریک ہیں، اور تیسرا اس لئے کہ اگر باپ بادشاہ ہے، تو یقیناً بیٹا بھی بادشاہ ہو گا، یا کسی بڑے عہدے پر فائز ہوگا، بشرطیکہ لائق اور فرمانبردار ہو۔

سوال: اگر ایک ہندو اسلام قبول کر کے امامِ برحق کا مرید بنتا ہے تو وہ کس طرح امام کا روحانی فرزند ہو سکتا ہے جبکہ اس کی روح ہندوانہ تعلیم سے بنی ہوئی ہے؟

جواب :
ا۔ وہ اس طرح امام کا روحانی فرزند بن سکتا ہے، جس طرح کہ سلمان فارسی پیغمبر کا یا امام کا روحانی فرزند بن گیا تھا۔ حالانکہ وہ شروع شروع میں آتش پرست تھا۔

۲۔ اگر کوئی تالاب گندہ اور ناپاک پانی سے بھرا ہوا ہے، تو اس کو بڑی آسانی سے صاف اور پاک کر دیا جا سکتا

 

۴۳

 

ہے، وہ اس طرح کہ نہر سے تالاب میں پاکیزہ پانی بہا دیا جائے اور کچھ وقت کے لئے پانی کو جاری رکھا جائے۔ تا کہ یہ تازہ پانی اس گندے پانی کو مُخرج اور نکاس سے نکال دے اور تالاب میں صاف و پاک پانی رہ جائے۔

۳۔ اس سے قبل یہ بات بتا دی گئی ہے، کہ روحیں خیال، توجہ، محبت، تعلیم، دعائے خیر وغیرہ کی روحانی لہروں سے بھی اپنوں اور بیگانوں میں منتقل ہوتی رہتی ہیں، جس میں تالاب کے گندے پانی کی جگہ صاف پانی بھر جانے کی طرح ناپاک روحوں کو نکال کر پاک روحیں قائم رہتی ہیں۔

۴۔ اگرچہ سب کے نزدیک یہ بات مشہور ہے، کہ انسان کے اندر تین روحیں ہیں، اور انسانِ کامل کے اندر چار روحیں ہوتی ہیں، تاہم یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے، کہ ان تینوں یا چاروں کے مجموعی ذرّات بے شمار ہیں، اور سوائے خدا کے کوئی انسان ان کا شمار نہیں کرسکتا، پس ان لاتعداد روحوں میں سے ایک روح انسان کی خودی اور انائیت کے مرکز پر کام کرتی ہے باقی روحوں کا تعلق جس عضو سے ہو، وہی کام کرتی رہتی ہیں مگر سب کے سب اس بات کی متمنی ہوتی ہیں کہ وہ مرکز پر قبضہ کریں چنانچہ ذکر و عبادت کے نتیجے میں ان ذرّات کو موقع میسر ہوتا ہے، کہ روح کا مرکزی ذرّہ خدا کے نور میں تحلیل ہو جاتا ہے، اور قریب کا کوئی دوسرا ذرّہ اسی وقت مرکز پر آتا ہے، اور عبادت سے ہی سلسلہ ہمیشہ کے لئے

 

۴۴

 

جاری رہتا ہے، اسی چیز کا نام صوفیوں کے نزدیک تحلیلِ نفس یا تزکیۂ نفس ہے۔

۴۵

امام سرچشمۂ ہدایت ہیں

سورۂ قصص (۲۸) آیت نمبر ۴۱ کا ارشاد ہے:
و جعلنٰھم ائمۃ یدعون الی النار و یوم القیامۃ لا ینصرون ۔ اور ہم نے ان کو پیشوا بنایا۔ جو آگ کی طرف بلاتے تھے اور قیامت کے دن ان کو کوئی مدد نہ دی جائے گی (۲۸: ۴۱)۔

اس فرمانِ الٰہی سے یہ حکمت ظاہر ہے، کہ فرعون و ہامان اور ان جیسے کافر سردار لوگوں کے ایسے پیشوا تھے، جو لوگوں کو آتشِ دوزخ کی طرف بلاتے اور راہنمائی کرتے تھے، اس سے صاف طور پر معلوم ہوا، کہ نافرمانی، گمراہی، اور کافری اگرچہ آسان ہے، لیکن یہ چیز بھی بغیر سردار اور پیشوا کے ممکن نہیں، پس فرمانبرداری، ہدایت اور ایمان پیشوا یعنی امام کے بغیر کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔

نیز جاننا چاہئے ، کہ اگر قانونِ قدرت کے لئے یہ بات ضروری ہے، کہ لوگوں کے درمیان کوئی ایسا شخص ہمیشہ موجود ہو، جو کہ انہیں راہِ راست سے گمراہ کر کے دوزخ کا راستہ بتائے، پھر اس کے مقابلے میں یہ امر زیادہ ضروری ہے، کہ

 

۴۶

 

دنیا میں کوئی ایسا شخص بھی ہمیشہ موجود رہے، جو کہ صراطِ مستقیم پر لوگوں کی راہنمائی کرتے ہوئے انہیں بہشت میں پہنچا سکتے، اور ایسا شخص امامِ زمان ہی ہیں۔

پروردگارِعالم جس شخص کو کفر کا سردار بناتا ہے، تو اس کو یوں ہی اور خالی خولی سردار نہیں بناتا بلکہ اسے ظاہری اور مادّی قسم کے سامانِ تجمل اور طرح طرح کے مال یا ظاہری علم و ہنر دے دیتا ہے، تب ہی وہ لوگوں کو راہِ حق سے گمراہ کر کے جہنم کے راستے پر چلانے میں کامیاب ہو سکتا ہے، جیسا کہ قولِ قرآن ہے: و قال موسیٰ ربنا انک اٰتیت فرعون و ملاہ زینۃ و اموالا فی الحیٰوۃ الدنیا ربنا لیضلوا عن سبیلک ۔ ۱۰: ۸۸۔ اور موسیٰ نے کہا اے ہمارے رب تحقیق تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو سامانِ تجمل اور مال دیا ہے، دنیوی زندگی میں اے ہمارے ربّ تا کہ وہ تیری راہ سے (لوگوں کو) گمراہ کریں۔ پس لازمی ہے کہ خداوندِ عالم ایمان کے سردار یعنی امام کو بھی کچھ مال و دولت عطا فرمائے، تا کہ وہ لوگوں کی ہدایت کر سکے، کیونکہ لوگ فطرتاً اس شخص کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، چنانچہ پروردگارِ عالم نے امامِ برحق کو روحانی مال و ملک سے نوازا ہے، جو علم و حکمت کی صورت میں ہے، جس کے سبب سے عقل و دانش والے امام کی طرف متوّجہ ہو جاتے ہیں۔

۴۷

 

آیۂ مذکورۂ بالا کی حکمتوں میں یہ بھی ارشاد ہے، کہ قیامت کے دن یعنی دورِ روحانیت میں کفر کے سرداروں کو کوئی مدد نہ دی جائے گی، پھر معلوم ہوا کہ اس حال کے برعکس ایمان کے سرداروں کو مدد دی جائے گی، یعنی فتح و نصرت اور غالبیّت أئمّۂ اطہار اور ان کے تابعین کی ہو گی۔

۴۸

 

 

امام کے صبر اور تیقّن کے معنی

سورۂ سجدہ (۳۲) آیت نمبر ۲۴ میں ارشاد ہے:
و جعلنا منھم ائمۃ یھدون بامرنا لما صبروا و کانوا باٰیٰتنا یوقنون ۔ اور ہم نے ان میں سے امام بنائے جبکہ انہوں نے صبر کیا جو ہمارے امر سے ہدایت کیا کرتے تھے اور وہ لوگ ہماری آیتوں (یعنی روحانی معجزات) کا یقین رکھتے تھے (۳۲: ۲۴)۔

اس آیۂ مقدسہ کی وضاحت یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کی جنس سے امام بنائے، جبکہ انہوں نے ظاہری اور باطنی امتحانات میں صبر اختیار کیا، پیغمبروں اور اماموں پر جو ظاہری امتحانات آتے ہیں، وہ سب کو معلوم ہیں، مگر ان سے جو باطنی امتحانات لئے جاتے ہیں، ان سے بہت کم لوگ واقف ہیں، جاننا چاہئے کہ وہ آزمائشیں خالص روحانی قسم کی ہوا کرتی ہیں، جو علم و حکمت اور رشد و ہدایت سے بھرپور ہیں، جن کے ذریعہ امام کا فرزند حدودِ دین کے مراتب سے ایک ایک کر کے عروج کرتا ہے، تا آنکہ درجۂ امامت پر فائز ہو جاتا ہے۔

اس ارشادِ الٰہی سے یہ بھی واضح ہے کہ امامِ برحق

 

۴۹

 

اللہ تعالیٰ کے امر سے لوگوں کو ہدایت کرتے ہیں جس کا یہ مطلب ہوا، کہ امام علیہ السلام جو کچھ ہدایت فرماتے ہیں، وہ دراصل خدا کی طرف سے ہے، اور اس طرح خدا تعالیٰ کا امر و فرمان دنیا میں جاری و ساری ہے۔

جاننا چاہئے، کہ جو ہدایت خدا کے امر سے ہو، وہی صحیح ہدایت ہوتی ہے، اس میں منزلِ مقصود کی طرف صحیح راہنمائی، ہر مشکل سوال کا درست جواب اور زمان و مکان کے پیدا کردہ مسائل کے یقینی حل موجود ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر ایمان لانے اور ان پر یقین رکھنے میں بڑا فرق ہے، کیونکہ ایمان عام بھی ہے اور خاص بھی، مگر یقین عام نہیں خاص ہی ہے، چنانچہ آیۂ مذکورہ بالا کا یہ ارشاد ، کہ أئمّۂ طاہرین اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا یقین رکھتے ہیں، اس امر کی دلیل ہے، کہ أئمّۂ کرام علیہم السلام پر علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین کی ساری حکمتیں اور حقیقتیں ظاہر اور روشن ہیں، اور خدا کی کوئی نشانی ان سے پوشیدہ نہیں۔

ان تمام باتوں کا تعلق امام شناسی سے ہے، یعنی یہ باتیں ان لوگوں کے لئے مفید ہیں، جو امامت کا عقیدہ رکھتے ہوں اور امام شناسی کی کسی نہ کسی منزل پر پہنچتے ہوں۔

۵۰

 

نورِ امامت میں تمام چیزیں محدود ہیں

سورۂ یاسین (۳۶) آیت نمبر ۱۲ میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: انا نحن نحی الموتیٰ و نکتب ما قدموا و اٰثارھم و کل شیء احصینٰہ فی امام مبین ۔ بے شک ہم مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم لکھتے جاتے ہیں وہ اعمال جن کو لوگ آگے بھیجتے جاتے ہیں اور ان کے وہ اعمال جن کو پیچھے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور ہم نے ہر (روحانی وعلمی) چیز کو امامِ مبین میں گھیر کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲)۔

اس فرمانِ الٰہی کی تاویل یہ ہے، کہ جہالت و نادانی کی موت سے علم وحکمت کی روح میں زندہ ہو جانا اور دنیا و آخرت کی نعمتوں سے متمتع ہو جانا اس وقت ممکن ہے، جبکہ کوئی شخص امامِ مبین کی معرفت تک رسا ہو جائے کیونکہ خداوندِ تبارک و تعالیٰ نے پہلے مردوں کو زندہ کرنے کا ذکر فرمایا پھر اعمالِ آخرت اور آثارِ دنیا کا، اور اس کے بعد فرمایا کہ یہ سب کچھ امامِ مبین کی ذاتِ با برکات میں مجموع ہے، پس معلوم ہوا، کہ امامِ مبین کی معرفت کی روشنی میں ان تمام حقیقتوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، کہ کس طرح مردہ زندہ ہو سکتا ہے،

 

۵۱

 

اور اعمالِ آخرت اور آثارِ دنیا سے کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

امامِ مبین کے معنی ہیں ظاہر امام اور بیان کرنے والا امام یعنی امامِ حیّ و حاضر، جس کے نورِ مقدّس نے عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کی صورت میں اپنے اندر دونوں جہان کو سموئے رکھا ہے، دونوں جہان میں سب کچھ ہے اور ان سے باہر کچھ بھی نہیں۔

مبین کے معنی میں امامؑ دو صورتوں میں ظاہر ہیں اور دو صورتوں میں بولنے والا ہیں، وہ دو صورتیں جسمانیّت اور نورانیت ہیں، یعنی امامِ عالی مقام بشری لباس میں بھی ظاہر ہیں اور پیکرِ نور میں بھی، وہ حدودِ جسمانی میں بھی بولنے والا ہیں اور درجاتِ روحانی میں بھی۔

۵۲

نورِ امامت خدا کی بولنے والی کتاب ہے

سورۂ احقاف (۴۶) آیت نمبر ۱۲ میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: و من قبلہ کتٰب موسیٰ اماما و رحمۃ و ھٰذا کتٰب مصدق لسانا عربیا لینذر الذین ظلموا و بشریٰ للمحسنین ۔ اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب تھی (لوگوں کے لئے) رہنما اور رحمت، اور یہ کتاب عربی زبان میں ہے اسی کی تصدیق کرنے والی، تا کہ ظالموں کو ڈرائے اور نیکوکاروں کو خوشخبری سنائے (۴۶: ۱۲)۔

حقیقی مومنین کو جاننا چاہئے، کہ حضرت مولانا امام ہارونؑ کا مقدس و مبارک نور ہی حضرت موسیٰؑ کی اصلی کتاب تھا، چونکہ آسمانی کتاب وحی کی کیفیت میں ایک زندہ نور ہوتی ہے، اور اسی معنی میں موسیٰ کی کتاب لوگوں کے لئے امام اور رحمت تھی، اور امامِ عالی مقام کی روحِ مقدس یعنی نور کے کتاب ہونے کا ذکر اس کتابچہ میں اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے۔

اسماعیلی مذہب کی تاویلی کتابوں کے مطالعے میں یہ بات بار بار آپ کے سامنے آ جائے گی کہ علمِ تاویل کی

 

۵۳

 

زبان میں کتاب امام یا اساس کو کہتے ہیں، چنانچہ ہر ناطق پیغمبر کا اساس اس کی نورانی کتاب ہے، اس طرح ’’کتابِ موسیٰ‘‘ کا مطلب حضرت مولانا امام ہارون علیہ السّلام ہیں، جن کے نورِ مبارک کا نام توریت تھا۔

مذکورہ حقیقت کے برعکس اگر ہم اس بات کو مانیں، کہ قرآن سے پہلے ظاہری توریت جس حالت میں بھی اپنے دور میں تھی، وہ لوگوں کے لئے پیشوا اور رحمت تھی، پھر اس کے یہ معنی ہوں گے کہ یہودیوں نے اپنی آسمانی کتاب میں جو جو تحریفیں کی تھیں، اس میں خدا کی خوشنودی اور ہدایت و رحمت تھی، لیکن یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ ایسی توریت جس کی آیتوں میں لوگوں نے ہیر پھیر کر دیا ہو، وہ لوگوں کے لئے امام اور رحمت نہیں ہو سکتی، نہ ہی قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے۔

 

۵۴

 

امام شناسی
حصہ دوم

حرفِ آغاز

جب عوام و خواص کے نزدیک یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے، کہ اس ظاہری کائنات کا نور باطنی عالَم کے نور کی مثال کی حیثیت سے ہے، تو پھر ہمیں یہاں سب سے پہلے ظاہری اور مادّی نور کی کچھ صفات بیان کرنا چاہئے، تا کہ سالکانِ راہِ حقیقت مثال میں غور و فکر کرنے کے نتیجے پر ممثول کی شناخت حاصل کر سکیں۔

چنانچہ سب جانتے ہیں، کہ جسمانی نور اس دنیا میں صرف ایک ہی ہے، اور اس کے سوا روشنی کا کوئی دوسرا سرچشمہ حقیقت میں ہے ہی نہیں، ایسا ظاہری اور مادّی نور سورج ہے، اب رہا چاند، ستاروں اور روشنی کے دوسرے تمام ذریعوں کی روشنیوں کا سوال، سو وہ فی الاصل سورج کی پیداوار ہیں، اور اس جہان میں کوئی ایسی مادّی چیز موجود نہیں ہو سکتی، جو سورج کی مختلف قوّتوں سے پرورش پائے بغیر روشنی یا گرمی کا کوئی ذریعہ بن سکے، مادّی نور یعنی سورج کے اوصاف صرف یہی نہیں، بلکہ یہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا وہ کارخانۂ قدرت ہے، جس کے عملِ تکوین ہی کے ذریعے اس عظیم کائنات میں

 

۵۷

 

ستاروں اور سیاروں کی دنیاؤں کو وجود دیا جاتا ہے، اور ان میں سے ہر دنیا میں مادّی طور پر جو کچھ ہے، وہ اسی نور کے وسیلے سے موجود ہوا ہے۔

اسی طرح روحانی نور بھی عالمِ دین اور کونِ حقیقت میں ازل سے ایک ہی ہے، جس کے واسطے سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی جملہ صفات کا ظہور ہوتا رہتا ہے، اور عالمِ روحانیت کی ہر چیز اسی نورِ مطلق کے ذریعے پیدا ہوئی ہے، مثلاً نور ہی سے حق تعالیٰ کا مقدس امر و فرمان صادر ہوتا رہتا ہے، نور ہی سے ربّانی رشد و ہدایت دی جاتی ہے، نور ہی کی ایک خاص صورت عقل و دانش اور علم و حکمت ہے، نور ہی کا نام دیدۂ دل اور چشمِ بصیرت ہے، نور ہی میں حضرتِ ربُّ العزّت کے اسرارِ عجائب و غرائب اور رموزِ حقائق و معارف پنہان ہیں، نور ہی کرامات و معجزات کا منبع و مخرج ہے، نور ہی روح الارواح اور عقلِ کامل یا کہ عرش و کرسی کہلاتا ہے، نور ہی کو کتابِ منیر اور تاویلِ نورانی کہا جاتا ہے، نور ہی کا ایک دوسرا نام عالمِ عُلوی اور بہشتِ حقیقی ہے، نور ہی میں ہر چیز موجود اور محدود ہے، اور یہی نورِ مطلق سب کچھ ہے۔

بیانِ مذکورۂ بالا سے جب یہ ظاہر ہوا، کہ آفاق میں جسمانی نور کی بادشاہی ہے اور انفس میں روحانی نور کی سلطنت، تو آئیے کہ اب ہم دنیائے قرآن کے سورج کو دیکھیں، چنانچہ امامِ عالی مقام علیہ الصّلوات و السّلام نے اشارہ فرمایا ہے، کہ قرآنی

 

۵۸

 

علم و حکمت کے عالم کا سورج آیۂ مصباح، چاند آیۂ سِراج اور ستارے دوسری آیاتِ نور ہیں، اور اس حقیقت کا جاننا ضروری ہے، کہ یہ تمام آیاتِ نور اپنے رشتۂ معنی میں آیۂ مصباح کے ساتھ ایسی منسلک ہیں، جیسے ستارے اور چاند روشنی کے سلسلے میں سورج سے وابستہ ہیں، اس حقیقت کی مثال یہ ہے، کہ رات کے وقت جب چمکتا ہوا چاند اور درخشان ستارے نظر آتے ہیں، تو اس وقت عام لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے، کہ شاید چاند اور ستاروں کی یہ روشنی ان کی اپنی ذات سے ہے، لیکن اہلِ بصیرت نے معلوم کر لیا ہے، کہ اس کی حقیقت کچھ اور ہے، وہ یہ کہ اگر ہم اسی وقت چاند اور ستاروں کی روشن دنیاؤں میں سے کسی ایک میں پرواز کر جائیں، تو اُس دنیا میں رات نہیں بلکہ دن کا کوئی وقت ہو گا، اور وہاں سے آسمان کی طرف دیکھنے سے آفتابِ منیر نظر آئے گا، اس کا مطلب یہ ہوا، کہ چاند اور تمام ستاروں کی روشنی دراصل سورج ہی کی روشنی ہے۔

بالکل اسی طرح جس وقت ہم آیاتِ نور پر نظر ڈالتے ہیں، تو فوری طور پر ہمیں ان کے عام معانی میں انوارِ کثیرہ کا تصور ہوتا ہے، یعنی ایسا لگتا ہے جیسے کتبِ سماویہ ، انبیائے کرام، ائمۂ عظام اور بزرگانِ دین جدا جدا اور مختلف انوار ہیں، مگر جب غور و فکر اور تحقیق و تدقیق کے بعد حقیقی مومن کا تصور ان آیات کی معنوی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے، تو وہاں یکایک شک و گمان کی رات ختم ہو کر یقینِ کامل کا دن نظر آتا ہے، یعنی حصولِ معرفت کے بعد معلوم

 

۵۹

 

ہوتا ہے، کہ دینی چاند اور ستاروں کا نور فی الاصل آیۂ مصباح کے سورج ہی کا نور ہے۔

جیسے نور کی ایک آیت میں ہے کہ: نورھم ، یعنی مومنین کا نور، تو اس کے ظاہری معنی یہ البتہ یہ گمان ہوتا ہے، کہ مومنین کا یہ نور خدا کے نورِ مطلق سے الگ تھلگ کوئی ذاتی نور ہو گا، جس طرح رات کے وقت درخشان ماہتاب اور چمکتے ہوئے ستاروں کے متعلق یہ گمان ہوتا ہے، کہ یہ روشنی ان کی اپنی اپنی ذات سے مہیا ہوتی رہتی ہے، حالانکہ ایسا نہیں، بلکہ روشنی کے اس بے پایان سمندر کا واحد منبع و مخرج سورج ہی ہے، یہی مثال اس نور کی بھی ہے، جو عالمِ دین کے چاند اور ستاروں سے منسوب کیا گیا ہے، کہ جب کوئی حقیقی مومن روحانی طور پر اپنے باطن کی روشنی کی بلندیوں تک رسائی حاصل کر کے مشاہدہ کرتا ہے، تو اس وقت معلوم ہوتا ہے، کہ مومن کا یہ نور اصلاً وہ نورِ مطلق ہے، جس کا ذکر آیۂ مصباح میں موجود ہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ: خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات و موجودات کے باطن کے لئے ایک ایسا واحد، ہمہ رس، کافی اور جامع صفات نور ہمیشہ اور ہر جگہ حاضر و موجود ہے، کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے نور کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ حقیقتاً اس میں دوئی کی گنجائش ہے۔

متذکرۂ بالا مثالوں اور شہادتوں سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیان و ظاہر ہے، کہ آفاق و انفس اور دنیائے قرآن میں نور کا درجہ سب سے اعلیٰ ، اس کی اہمیت سب سے زیادہ اور اس کی موجودگی

 

۶۰

 

انتہائی ضروری ہے، لہٰذا یہ امر کیسے ممکن ہو سکتا ہے، کہ ہر عالم میں تو اس کے تقاضوں کے مطابق نور موجود و حاضر ہو، اور عالمِ انسانیت میں نور کا کوئی مستقل وجود نہ ہو، اگر یہ بات ممکن ہوتی، تو ربّ العٰلمین کے معنی میں ایک خاص چیز کی کمی یہ رہ جاتی کہ خدا ہر ہر عالم کی پرورش تو کر ہی دیتا ہے، مگر دنیائے انسانیت یا عالمِ بشریت اور انسانی عقل و روح کی ہدایتی اور علمی پرورش و تربیت اس طرح سے نہیں کرتا جس طرح کہ کرنا چاہئے، ظاہر ہے کہ یہ امر محال اور خدا کی ہدایت و رحمت کے منافی ہے، پس معلوم ہوا، کہ اللہ تعالیٰ کا نور ہمیشہ عالمِ دین میں حاضر اور موجود ہے، اور وہ امامِ برحق صلوات اللہ علیہ کے جامۂ بشریت میں موجود اور حاضر ہیں۔

چنانچہ جب یہ بات مسلّمہ ہے، کہ امامِ عالی مقام نورِ مطلق کے مظہر کا درجہ رکھتے ہیں، تو یہ امر ہمارے لئے لازمی اور ضروری ہوا، کہ آیاتِ نور کی کچھ حقیقتیں بیان کر دی جائیں، تا کہ ان مقدس آیات کے یکجا مطالعہ اور مجموعی حکمت کی روشنی میں امام شناسی کی حقیقتیں ہر مومن کے لئے آسان اور قابلِ فہم ہوجائیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

فقط بندۂ احقر
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۶۱

لفظِ نور

اللہ تعالیٰ کی اس عظیم حکمت میں خوب غور و فکر کیجئے، کہ لفظِ نور قرآن حکیم میں کل انچاس دفعہ استعمال ہوا ہے، جبکہ آلِ نبیؐ و اولادِ علیؑ کے پاک سلسلۂ امامت میں ہمارے سرکار نامدار حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام علیہ الصلاۃ و السّلام بھی انچاسویں امام ہیں، چنانچہ خدا کی حکمت و قدرت میں یہ امر ناممکن نہیں، کہ لفظِ نور کی اس تعداد میں قرآنِ پاک کی یہ پیش گوئی ہو، کہ نورِ امامت کے انچاسویں جامہ کے مبارک زمانے میں باطنی اور ظاہری علم و حکمت سے دین بھی روشن ہو گا اور دنیا بھی، جیسا کہ ظاہر ہے، کہ موجودہ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کے عہدِ مبارک میں خاص طور پر ایٹمی دور کا آغاز ہوا اور تسخیرِ کائنات کے سلسلے میں انسان نے چاند پر فتح و کامیابی کا پرچم لہرایا۔

جب آیاتِ نور کی اس پیش گوئی سے ہمیں یقین ہوا، کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی روشنی کا زمانہ اور نور کا دور دورہ ہے،

 

۶۲

 

پس آئیے، کہ ہم حضرت پیر سیّد ناصر خسرو قدّس اللہ سرّہ کی حکیمانہ تعلیمات کے مطابق مذکورہ انچاس آیتوں کی کچھ وضاحت کریں، جن میں نمایان طور پر نورِ امامت کا تذکرہ موجود ہے

حقیقی نور اور خود ساختہ نور:
البقرہ۔ ۲۔ آیت۔ ۱۷۔  (۰۲: ۱۷)  میں حقیقی نور اور خود ساختہ نور یعنی اصلی ہدایت اور نقلی ہدایت کی جس طرح مثال دی گئی ہے، اس کا واضح مفہوم یہ ہے، کہ رات کی تاریکی میں دو مسافر جدا جدا کسی دور و دراز سفر کے لئے نکل گئے، ان میں سے ایک کے ہاتھ میں ایک بے مثال معجزانہ ٹارچ ہے، کہ اسے نہ کوئی ہوا بجھا سکتی ہے اور نہ کوئی بارش، دوسرے مسافر کے پاس صرف ماچس کی ایک ڈبیا ہے، اب ٹارچ والا بڑے اطمینان سے منزلِ مقصود کی طرف چلتا اور بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ وہاں پہنچ جاتا ہے، دوسرا شخص روشنی نہ ہونے کے سبب سے آگے نہیں بڑھ سکتا، وہ تاریکی سے تنگ آ کر بڑی مشقت سے بیابان میں ایک آگ جلاتا ہے، اور چاہتا ہے، کہ اس کی روشنی میں اپنے سفر کی کچھ مسافت طے کرے، مگر ایک ہی جگہ پر ٹھہری ہوئی آگ کی روشنی کہاں تک روشنی دے سکتی ہے، آخرکار وہ آگ بھی بجھ جاتی ہے اور وہ مسافر اندھیری رات میں پڑا رہتا ہے۔

۶۳

اس تمثیل کی تاویل یہ ہے، کہ اہلِ نجات کے لئے امامِ حیّ و حاضر کی معرفت اور نور ہی وہ بے مثال معجزاتی ٹارچ ہے، جس کو مخالفت و دشمنی کی کوئی ہوا اور حادثاتِ زمانہ کی کوئی بارش ہرگز ہرگز نہیں بجھا سکتی، کیونکہ یہ مقدّس و مبارک نور خدائے قادر و توانا اور اس کے رسولِ برحق کا ازلی و ابدی نور ہے، جو کہ ہر آسمانی کتاب اور ہر پیغمبر کے ساتھ موجود تھا، اور آنحضرتؐ کے بعد بھی اسی شان سے ہمیشہ کے لئے موجود و حاضر ہے، تا کہ اس کی روشنی میں صراطِ مستقیم کی ہدایت حاصل ہو سکے، اس حقیقی نور کے بغیر حصولِ ہدایت کے لئے جو بھی سعی و کوشش کی گئی ہے، اس کی مثال آیۂ مذکورۂ بالا میں بزبانِ حکمت بیان ہوئی ہے۔

نورِ ہدایت اور ظلمتِ گمراہی:
البقرہ۔ ۲۔ آیت ۲۵۷۔ (۰۲: ۲۵۷) میں حضرت احدّیت کا جو ارشاد ہے، اس کا خلاصۂ مطلب یہ ہے، کہ اگر دنیا میں ایک طرف گمراہی کی ظلمت ہمیشہ سے ہے، تو دوسری طرف ہدایت کا نور بھی ہمیشہ سے موجود ہے، اگر ایسا نہ ہوتا اور دنیا میں کفر و ضلالت کے کالے بادل چھائے ہوئے ہوتے اور ایمان و ہدایت کا کوئی سورج نہ ہوتا، تو وہ قانونِ قدرت کی طرف سے دنیا والوں پر بہت بڑا ظلم و ستم ہوتا۔

۶۴

روشن کتاب:
آلِ عمران۔ ۳۔ آیت ۱۸۴۔ (۰۳: ۱۸۴) میں نور کا تذکرہ ’’الکتاب المنیر‘‘ یعنی روشن کتاب کے عنوان سے کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے، کہ حقیقی اور روحانی کتاب رسول اکرمؐ اور امامِ برحقؑ کے نورِ واحد کی حیثیت میں ہے، جو کتابِ ناطق یعنی خودگو کتاب ہے، اس روشن کتاب یعنی انسانِ کامل کے نور کو تاویل یا حکمت کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے (ملاحظہ ہو کتاب وجہِ دین حصۂ اول ص ۸۲۔۸۳) تاویل کو روشن کتاب اس معنی میں کہا جاتا ہے، کہ وہ روحانیت کے اعلیٰ ترین مقام پر اور کشف و مشاہدہ کے عالم میں موجودات کے حقائق و معارف کو واضح اور روشن کر کے دکھاتی اور بتاتی جاتی ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ وہی نور جو امامِ عالی صفات کی ذاتِ اقدس میں موجود ہے قرآنِ پاک کی زندہ اور بولنے والی روح ہے، جس میں قرآنِ حکیم کی عملی تاویل کی ایک جیتی جاگتی وسیع دنیا سموئی ہوئی ہے، چنانچہ ہمارے نامور پیروں اور بزرگوں نے امامِ وقت کی بتائی ہوئی عبادت اور ریاضت کے نتیجے پر اپنے دل و دماغ میں اس نور یعنی روشن کتاب کا کافی مشاہدہ اور مکمل تجربہ کر لیا، جس سے انہیں دونوں جہان کی زندہ حقیقتیں معلوم ہوئیں۔

۶۵

نورِ مبین:
النساء۔ ۴۔ آیت۔ ۱۷۴۔ (۰۴: ۱۷۴) میں نورِمبین کا لفظ آیا ہے، جس کے دو معنی ہیں، ایک معنی ہیں ظاہر نور اور دوسرے معنی ہیں بولنے والا نور، اور اس آیت میں یہ دونوں معنی مناسب و موزون ہیں، جیسے سورۂ زخرف۔ ۴۳۔ آیت۔ ۱۸۔ میں مبین کا لفظ بولنے والے کے لئے استعمال ہوا ہے، پس معلوم ہوا کہ امامِ اطہرعلیہ السّلام کا پاک نور نہ صرف جسمانی صورت میں ظاہر اور بولنے والا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ وہ روحانی کیفیّت میں بھی معجزانہ ظہور اور کلام کرتا ہے۔

چنانچہ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں ارشادِ ربانی ہے کہ: اے لوگو یقیناً تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل آ چکی ہے اور ہم تمہارے پاس ایک ظاہر نور نازل کر چکے ہیں۔ پس یہاں مرتبۂ نبوّت کو دلیل اور منصبِ امامت کو نورِمبین کہا گیا ہے، اگر یہاں کوئی شخص یہ کہے کہ دلیل سے قرآنِ مجید مراد ہے اور نور کا اشارہ رسولِ اکرم کی طرف ہے، تو اس سے بھی نتیجے کے طور پر پھر وہی حقیقت ثابت ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کا نور بجھنے والا نہیں تھا، اس لئے وہ آنحضرتؐ سے سلسلۂ امامت میں منتقل ہوا، اور وہ آج بھی امامِ حیّ و حاضر کے جامۂ بشریت میں جلوہ گر ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا۔

۶۶

نور اور کتابِ مبین:
المائدہ۔ ۵۔ آیت۔ ۱۵، ۱۶۔ (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) میں پیغمبر اور امام علیہما السلام کو ایک ہی نور قرار دیا ہے، اور قرآن کو ظاہر کتاب کہا گیا ہے، یہاں پر شاید یہ سوال ہو سکتا ہے، کہ کبھی نور کو اور کبھی کتاب کو ظاہر کیوں کہا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے، کہ نور اور قرآن دونوں کی صفت یہ ہے کہ وہ ایک پہلو سے ظاہر ہیں اور دوسرے پہلو سے باطن، یعنی نور کی شخصیت اور قرآن کی تنزیل ظاہر ہیں، مگر نور کی روحانیت اور قرآن کی تاویل باطن ہیں، پس جہاں نور کی روشنی میں قرآن کی حکمت دیکھنے کی تعلیم دی گئی ہے وہاں شخصیت کے اعتبار سے نور کو ظاہر کہا گیا ہے اور اس کے برعکس جہاں قرآن کی مدد سے امام کی معرفت حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے، وہاں تنزیل کے لحاظ سے کتاب کو ظاہر کہا گیا ہے۔

توریت کا مقصد:
المائدہ۔ ۵۔ آیہ۔ ۴۴۔  (۰۵: ۴۴) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: تحقیق ہم نے توریت نازل کی، اس میں ہدایت اور نور ہے، انبیاء جو کہ اللہ تعالیٰ کے مطیع تھے، اس کے مطابق یہود کو حکم دیا کرتے تھے، اور (اسی طرح) اہلِ اللہ اور علماء بھی (حکم دیا کرتے تھے) جن کو اللہ کی کتاب کی حفاظت سپرد کی گئی

 

۶۷

 

تھی، اور وہ اس کے گواہ تھے۔

مذکورۂ بالا آیت سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے، کہ توریت کا مقصد و منشاء ہدایت اور نور تھا، یعنی توریت سے ایسی ہدایت مقصود تھی، جس سے نورِ معرفت کا راستہ ملے اور امامِ زمان کی معرفت حاصل ہو۔

نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا، کہ خدا کی طرف سے انبیاء، اولیاء اور علماء مقرر ہو جانے کا مقصد بھی یہی تھا، کہ وہ لوگوں کو توریت کی ہدایت کے مطابق حکم دیا کریں، تا کہ اس ہدایت پر عمل کرنے کے بعد وہ نور کی معرفت تک رسا ہو جائیں۔

انجیل کا مقصد:
المائدہ۔ ۵۔ آیہ۔ ۴۶۔   (۰۵: ۴۶) میں ارشادِ ربّانی ہے کہ: اور ہم نے عیسیٰؑ کو انجیل دی، جس میں ہدایت اور نور ہے اور وہ اپنے سے قبل کی کتاب یعنی توریت کی تصدیق کرنے والی ہے اور وہ پرہیزگاروں کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوا، کہ جو موضوع اور مقصد توریت کا تھا، وہی انجیل کا بھی ہے، اور وہ یہ کہ لوگوں کو ایسے قول و عمل کی ہدایت اور تعلیم دی جائے، کہ جس سے وہ نورِ امامت کا مشاہدہ کر کے معرفت حاصل کر سکیں۔

اس آیت کے اخیر میں حق تعالیٰ کا یہ فرمانا، کہ انجیل پرہیزگاروں کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے، اس حقیقت کی

 

۶۸

 

روشن دلیل ہے، کہ انجیل کی ہدایت و نصیحت پر صرف وہی لوگ عمل پیرا ہوتے تھے، جو تمام نفسانی اور دنیاوی اغراض سے اپنے آپ کو بچانے والے تھے، تا کہ ہدایت کے ذریعہ نورِ امامت کا مشاہدہ کر سکیں اور اسے پہچان سکیں، اور ہر آسمانی کتاب کا مقصد و منشاء یہی ہے۔

قرآنِ حکیم کا مقصد:
المائدہ۔ ۵۔ آیت۔ ۴۸۔ (۰۵: ۴۸) میں ربّ العزت کا فرمان ہے کہ: اور ہم نے یہ کتاب آپ کے پاس بھیجی ہے جو خود بھی صداقت سے بھرپور ہے، اور اس سے پہلے جو کتابیں ہیں ان کی بھی تصدیق کرتی ہے، اور ان کتابوں کی محافظ بھی ہے، تو آپ ان کے درمیان اسی بھیجی ہوئی کتاب کے مطابق حکم کیجئے۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے، کہ قرآنِ مجید کس طرح اگلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے؟ اور کس معنی میں ان کا محافظ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان اگلی آسمانی کتابوں کا جو مقصد تھا، وہی مقصد قرآنِ مجید کا بھی ہے، اس لئے قرآنِ پاک کے بنیادی موضوعات اور اصولی تعلیمات وہی ہیں، جو توریت، انجیل، وغیرہ کی تھیں، اسی طرح قرآنِ پاک نے اگلی سماوی کتابوں کی ایسی عملی تصدیق کی، کہ جس سے بڑھ کر کوئی دوسری تصدیق نہیں ہو سکتی۔

اب یہ بتائیں گے کہ قرآن کس معنی میں اگلی آسمانی

 

۶۹

 

کتابوں کا محافظ ہے، چنانچہ جاننا چاہئے ، کہ اگلی سماوی کتب میں جو حقائق و معارف بیان کئے گئے تھے، وہ سب کے سب قرآنِ پاک کے ظاہر و باطن میں محفوظ ہیں، پس ان دونوں باتوں سے کہ قرآن پاک اگلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، اور ان کا محافظ بھی ہے، یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس طرح توریت اور انجیل کا خصوصی موضوع ہدایت اور نور ہے، اسی طرح قرآنِ حکیم کا موضوع بھی ہدایت اور نور ہے، چنانچہ سورۂ نور۔ ۲۴۔ آیت۔ ۳۵۔  کے اس فرمانِ الٰہی پر ذرا غور و فکر کیجئے جو ارشاد ہوا ہے کہ: حق تعالیٰ جسے چاہے اپنے نور کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ جسے چاہے قرآن، پیغمبر اور امامِ زمانہ کے توسط سے (کہ یہی مقدّس ہستیاں مشیتِ ایزدی اور ہدایتِ الٰہی کے ذرائع ہیں) اپنے مبارک و مقدّس نور کی شناخت کرا دیتا ہے، پس معلوم ہوا، کہ توریت اور انجیل کی طرح قرآنِ مجید کا اصلی موضوع اور مقصدِ اعلیٰ ہدایت اور نور ہے۔

ظلمت کے مقابلے میں نور:
الانعام۔ ۶۔ آیت۔ ۱۔   (۰۶: ۰۱) میں ارشاد ہوا ہے کہ: تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں، جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں کو اور نور کو بنایا پھر بھی کافر لوگ اپنے ربّ کے برابر قرار دیتے ہیں۔

اس آیۂ مقدّسہ میں اللہ تعالیٰ کی تعریف اس بناء پر

 

۷۰

 

کی گئی ہے، کہ اس نے آسمانوں کو اور ان کے نیچے زمین کو پیدا اور ظلمتوں کو اور ان کے مقابلے میں نور کو مقرر فرمایا، جس کا مطلب یہ ہے، کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے عالمِ دین کو پیدا کیا، جو اس ظاہری کائنات کی طرح اپنے اندر آسمان، زمین، ظلمت اور نور رکھتا ہے، اور نور کی یہ اہمیّت ہے، کہ اگر یہ نہ ہو، تو عالمِ دین نیست و نابود ہو جائے گا، جیسا کہ یہ حقیقت سب جانتے ہیں، کہ اگر اس مادّی کائنات کے وسط میں یہ جسمانی سورج نہ ہو تو یہ جہان درہم و برہم ہو کر فنا ہو جائے گا، کیونکہ اس عالم کے قیام و نظام کا انحصار سورج پر ہے، بالکل اسی طرح عالمِ دین کے قرار و ثبات کا دارو مدار نورِ امامت پر ہے جو جہانِ دین کا سورج ہے۔

نور اور ہدایت:
الانعام۔ ۶۔ آیت۔ ۹۱۔  (۰۶: ۹۱) میں فرمایا گیا ہے کہ: اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی (قدرت و توانائی کی) قدر نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کا حق تھا، جبکہ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی چیز نازل نہیں کی، آپ کہیئے کہ وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ لائے تھے، جس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ نور ہے اور لوگوں کے لئے وہ ہدایت ہے، جس کو تم ورق ورق کرتے ہو (یعنی نورانی کیفیت سے منتقل کر کے کاغذی تحریر کی صورت میں لاتے ہو) اور بہت سی باتوں

 

۷۱

 

کو چھپاتے ہو۔

اس آیۂ کریمہ میں آسمانی کتاب کی زندہ روح کے متعلّق بہت سی حقیقتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں، جن کو سمجھنے کے لئے وحی و الہام کی حقیقت و کیفیت سے آگاہی ضروری و لازمی شرط ہے، چنانچہ وحی و تنزیل ایک علمی نور اور ایک زندہ روح کی صورت میں واقع ہوتی ہے، جس کو روح القدس یا روح الامین کا نزول کہا جاتا ہے، نیز اس عقل و دانش کے نور اور علم و حکمت کی روح کو، جو بے شمار عجائب و غرائب اور کرامات و معجزات سے مملو ہے، حقیقی معنوں میں آسمانی کتاب کہا جاتا ہے، اگرچہ پیغمبر کی مبارک زبان اور کاتب کے قلم سے گزر کر کاغذ پر تحریری صورت میں نہیں آئی ہو۔

یاد رہے کہ آسمانی کتاب تحریر میں آنے کے بعد بھی بلا کم و کاست اپنی اصلی صورت و حالت پر پیغمبر اور پھر امامِ عالی مقام کی عظیم الشان روحانیت میں ہمیشہ کے لئے برجا و قائم رہتی ہے اور یہی کتاب امام علیہ السلام کا زندہ نور اور حقیقی ہدایت کہلاتی ہے۔

جاننا چاہئے کہ باطنی کتاب کا موضوع پہلے نور پھر ہدایت ہے، اور ظاہری کتاب کا مضمون اوّل ہدایت اوراس کے بعد نور ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ امام کے مقدّس نور سے قرآن کے حقائق و معارف کا راستہ مل جاتا ہے، اور قرآن کے علم و حکمت کی ہدایت سے امام کے نورکی معرفت تک رسائی ہو سکتی ہے۔

۷۲

نور ملے تو ابدی زندگی ملتی ہے:
الانعام۔ ۶۔ آیت۔ ۱۲۲۔ (۰۶: ۱۲۲) میں پروردگارِ عالم کا ارشاد ہے کہ: ایسا شخص جو کہ پہلے مردہ تھا، پھر ہم نے اس کو زندہ بنا دیا اور ہم نے اس کو ایسا نور دیا کہ وہ اس کے ذریعہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے، کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کی حالت یہ ہو کہ وہ تاریکیوں میں ہے ان سے نکلنے ہی نہیں پاتا۔

اس آیۂ مقدّسہ کی حکمت یہ ہے، کہ مردہ سے جاہل مراد ہے، زندہ کر دینے کی تاویل ہے علمِ حقیقت دینا، نور مقرر کر دینے کے معنی ہیں امامِ برحق کی معرفت اور نور کا حصول، اور نور کے ذریعے سے لوگوں میں چلنے پھرنے کا اشارہ ہے ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جانا اور لوگوں کی روحانیت میں داخل ہو جانا وغیرہ۔

رسول کے بعد نور کی پیروی:
الاعراف۔ ۷۔ آیت۔ ۱۵۷۔  (۰۷: ۱۵۷) میں یہ ارشاد ہے کہ: پس جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں اور اس کی مدد کرتے اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو اس (نبی) کے ساتھ بھیجا گیا ہے وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

اس آیۂ مقدّسہ کی حکمت یہ ہے، کہ مومنین رسولِ اکرم پر ایمان لانے اور ان کی حمایت و مدد کرنے کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید پر بھی ایمان لاتے ہیں، کیونکہ رسول کی رسالت قرآن

 

۷۳

 

ہی کی صورت میں ہے اور اس سے ہرگز جدا نہیں، اب رہا نور کا سوال، جس کی مومنین نے پیروی کی، تو یہ امامت ہی کا نور ہے، کیونکہ اسلامی دور کے دو حصے ہیں، پہلے حصے میں عہدِ نبوّت ہے جس کا زیادہ تر تعلّق تنزیلی امور سے ہے، دوسرے حصے میں عصرِ امامت ہے، جس میں اکثر تاویلی امور پیشِ نظر ہوتے ہیں، پس یہی سبب ہے، کہ مومنین زمانۂ تنزیل میں پیغمبر کی اطاعت کرتے ہیں اور زمانۂ تاویل میں امام کی اطاعت کرتے ہیں۔

نیز جاننا چاہئے کہ اس آیۂ کریمہ میں رسولِ اکرمؐ کی اطاعت کے بعد نورِ امامت کی پیروی کا جو ذکر ہوا ہے، اس میں یہ پیشگوئی ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد غفلت و جہالت کی تاریکی پھیلنے والی ہے، جس کو صرف امامِ اطہر کا نور ہی دور کر سکتا ہے۔

نورِ الٰہی کے خلاف ناکام کوشش:
التوبہ۔ ۹۔ آیت۔ ۳۲۔   (۰۹: ۳۲) میں ارشادِ الٰہی ہے کہ: وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے مونہوں (کی پھونکوں) سے بجھا دیں اور اللہ تعالیٰ کو سوائے اس کے کچھ منظور نہیں کہ وہ اپنے نور کو پورا کر دے، اگرچہ کافروں کو برا لگے۔

اس آیۂ کریمہ کی حکمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ نورِ الٰہی کو بجھانے کی ناکام کوشش وہ شخص کرتا ہے، جو اس کو نہ پہچانے اور اس سے دشمنی کرے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا نور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

 

۷۴

 

کی طرح لباسِ بشریت میں لوگوں کے سامنے ظاہر ہے، مختصر یہ کہ پیغمبر اور امام علیہما السلام سے مخالفت و دشمنی رکھنے کا سبب سوائے اندھاپن اور جہالت کے کچھ بھی نہیں، کیونکہ دنیا میں کسی ایسے کافر کا ہونا ممکن نہیں، کہ وہ اوّل تو خدا کو مانے اس کے بعد کسی ہستی کے متعلق یہ باور کرے کہ خدا کا نور یہی ہے، اور پھر اس کو بجھا دینے کی کوشش کرے۔

اتمامِ نور:
یہاں پر ایک سوال یہ ہے، کہ خداوندِ تعالیٰ اپنے نور کو کس طرح پورا کرتا ہے؟ کیا اس کا نور ازلی و ابدی طور پر تمام و کمال کا درجہ نہیں رکھتا؟ اب اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بے شک خدا کا نور ہمیشہ سے تمام و کامل ہے اور فی نفسہٖ ہرگز ہرگز کوئی کمی نہیں، لیکن عالمِ دین میں خدا کی مصلحت کے مطابق چند ادوار مقرر ہوتے ہیں، ان میں سے ہر دور میں خدا کا مبارک و مقدّس نور علم و عمل کے ذریعے سے پاک روحوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنے ساتھ ایک کر لیتا ہے، پس تنویرِارواح کے اعتبار سے ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کرے گا۔

سورج اور چاند کی نورانی وحدت:
سورۂ یونس ۔ ۱۰۔ آیت۔ ۵۔  (۱۰: ۰۵)  کا یہ پاک ارشاد ہے کہ: اللہ وہی ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو نورانی بنایا

 

۷۵

 

اور اس کی منزلیں مقرر کیں تا کہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرو۔

اس ربّانی فرمان کی تاویل یہ ہے، کہ جس طرح سورج اور چاند جسم کے اعتبار سے دو اور روشنی کے لحاظ سے ایک ہیں اسی طرح پیغمبر اور امام جسمانیّت میں دو اور روحانیت میں ایک ہیں، نیز دورِ امامت میں امام اور حجتِ اعظم (باب) عالمِ دین کے سورج اور چاند ہیں، جن کی ظاہریت جدا جدا اور باطنیت ایک ہے۔

اس آیۂ مقدسہ کی ایک تاویلی حکمت یہ بھی ہے، کہ جس طرح ظاہری سورج اور چاند سے دنیاوی سالوں، مہینوں، ہفتوں اور دنوں کا حساب و شمار معلوم ہوتا ہے، اسی طرح باطنی سورج اور چاند سے، جو کہ پیغمبر اور امام یا کہ امام اور باب ہیں، دینی اوقات بنتے اور معلوم ہو سکتے ہیں۔

اندھیرے اور نور:
سورۂ رعد۔ ۱۳۔ آیت ۔ ۱۶۔   (۱۳: ۱۶) میں ارشاد ہوا ہے کہ:
آپ کہہ دیجئے کہ کیا اندھا اور بینا برابر ہوا کرتے ہیں؟ یا کیا اندھیرے اور نور برابر ہوتے ہیں؟
یہاں قرآنِ حکیم اپنی مخصوص تاویلی زبان میں اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتا ہے، کہ جو شخص دین کے حقائق و معارف سے اندھا ہے، وہ اس شخص کا ہم پلہ ہرگز نہیں، جو چشمِ بصیرت اور دیدۂ دل کی نعمت سے نوازا گیا ہے، اور نہ کفر و جہالت کے اندھیرے اور

 

۷۶

 

انوارِ ایمان و عرفان برابر ہیں۔

جاننا چاہئے، کہ یہ نابینائی اور بینائی انسان کے دل سے متعلق ہے، جیسا کہ  ۲۲: ۴۶ کا ارشاد ہے کہ: پس تحقیق آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں، پس معلوم ہوا کہ روحانی ظلمت و نور کا تعلق بھی دل ہی کی آنکھوں سے ہے نہ کہ سر کی آنکھوں سے۔

کتاب، پیغمبر اور نور:
اللہ تعالیٰ کی عادت و سنّت یہ ہے، کہ وہ جب چاہے آسمانی کتاب اپنے کسی پیغمبر پر نازل فرماتا ہے، تا کہ وہ پیغمبر اس کتاب کے ذریعے سے لوگوں کو غفلت و ناشناسی کی تاریکیوں سے نکال کر امام شناسی کے نور کی طرف لے آئے، پھر اس کے بعد بحکمِ خدا اپنے پورے دور میں اس نور یعنی امام کے توسط سے اللہ تعالیٰ کی طرف راہِ راست کی ہدایت کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلعم سے :فرمایا کہ
یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اس لئے اتاری ہے تا کہ آپ لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے اندھیروں سے نور کی طرف نکال کر زبردست لائقِ حمد اللہ تعالیٰ کے راستے پر لگائیں۔ ۱۴: ۰۱۔

۷۷

ہادی اور نور:
سورۂ ابراہیم۔ ۱۴۔ آیت۔ ۵ ۔ (۱۴: ۰۵) کی مقدّس تعلیم یہ ہے کہ: اور یقیناً ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نور کی طرف نکال اور انہیں اللہ تعالیٰ کے دن یاد دلا یقیناً اس میں ہر صبر کرنے والے شکر گزار کے لئے کئی نشانیاں ہیں۔

قرآن پاک کی اس تعلیم میں یہ حکمت پنہان ہے، کہ جب اس دنیا میں ہمیشہ سے ایک طرف کفر و جہالت کا اندھیرا پایا جاتا ہے تو دوسری طرف دائم الوقت ایمان و ایقان کا نور بھی موجود ہے، لیکن لوگوں کی فطرت و عادت ایسی ہے، کہ وہ اپنے آپ اس ظلمت سے نکل کر نور میں داخل نہیں ہو سکتے، اس لئے اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں دے کر پیغمبر یا امام کی حیثیت سے ایک ہادی مقرر فرماتا ہے، تا کہ لوگ اپنے زمانے کے ہادی کو پہچانیں اور اس کی ہدایت کے مطابق اندھیرے کو چھوڑ کر نور کے راستے پر چل سکیں۔

یہاں پر یہ ضرور پوچھنا چاہئے ، کہ حضرت موسیٰ کے اس تذکرہ میں جو نشانیاں بتائی گئی ہیں، وہ ہر شخص کے لئے عام کیوں نہیں ہیں؟ اور اس کا سبب کیا ہے کہ یہ نشانیاں صرف صبر و شکر کرنے والوں کے لئے مخصوص ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ صبر و شکر کرنے سے دیدۂ دل روشن ہو جاتا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کے مشاہدے سے اس کا مقصد و منشاء معلوم ہو سکے، اور اس کے نور یعنی امامِ زمان کی معرفت حاصل کر لی جائے، اس کے برعکس جو شخص خود غرضی، نفسانیت، بے صبری

 

۷۸

 

اور ناشکری کا شکار ہوچکا ہو، تو اس کی چشمِ بصیرت پر پردۂ غفلت پڑ جاتا ہے، پھر وہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو نہیں دیکھ سکتا، جو کتابِ سماوی میں ہیں یا پیغمبر اور امام کے ساتھ ہیں۔

امامِ زمان کا نور روشن کتاب ہے:
سورۂ حج (۲۲: ۰۸ تا ۰۹) میں پروردگارِعالم نے فرمایا کہ: اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بغیر علم اور بجز ہدایت اور بدونِ روشن کتاب جھگڑتا ہے، اپنی کروٹ موڑ کر تا کہ اللہ کی راہ سے بہکائے۔

اس تعلیمِ سماوی کی تاویل یہ ہے کہ کوئی شخص داعی، حجت، اور امامِ زمان علیہ السلام کی شناخت و معرفت کے بغیر خدا تعالیٰ کی معرفت کے بارے میں مباحثہ و مناظرہ نہیں کر سکتا، کیونکہ داعی علم، حجت ہدایت اور امام روشن کتاب ہیں، جبکہ داعی علم الیقین، حجت عین الیقین اور امام حق الیقین کے مراتب پر ہیں۔

اس حقیقت کی دلیل یہ ہے کہ داعی علم الیقین سے لوگوں کو دعوت کر کے حجّت کے حوالے کر دیتا ہے، حجّت عین الیقین سے انہیں ہدایت کر کے امام کی نورانی معرفت تک پہنچا دیتا ہے اور امام اپنے نور کی روشن کتاب سے ان پر ظاہری و باطنی موجودات کی تمام حقیقتیں واضح اور روشن کر دیتے ہیں۔

 

کائنات کا نور:
سورۂ نور (۲۴: ۳۵) میں حق تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:

۷۹

 

اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں چراغ روشن ہو وہ چراغ ایک شیشہ کی قندیل میں ہو وہ قندیل ایسی ہو گویا وہ چمکتا ہوا ستارہ ہے وہ زیتون کے مبارک درخت (کے تیل) سے روشن کیا جاتا ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی، قریب ہے کہ اس کا تیل (خود بخود) روشن ہو جائے، اگر اسے آگ نہ چھوئے وہ نور پر نور ہے اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنے نور کی راہ پر لگا دیتا ہے۔

مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ کی حکمت و تاویل یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ کا نور ظاہری و باطنی طور پر علم و حکمت اور رشد و ہدایت کی صورت میں موجود ہے، جو امامِ حیّ و حاضر کے مبارک وجود سے طلوع ہو کر حدودِ روحانی کے آسمانوں اور حدودِ جسمانی کی زمینوں کو منور کر رہا ہے، یہ نور خانۂ حکمت (یعنی نبوّت یا امامت کے گھر) سے تعلق رکھتا ہے، جس کے خاص افراد اہلِ بیت کہلاتے ہیں، جو اس نور کے لئے طاق (یعنی چراغ دان) کا درجہ رکھتے ہیں، آنحضرتؐ کی خاندانی اصالت اور علمی مرتبت قندیل کی مثال پر ہے، جو ایک درخشان ستارے کی طرح ہے، جس کے اندر امامِ اطہر کی جسمانیت گویا اس معجزانہ چراغ کا ظرف ہے، امام علیہ السلام کی روحانیت کو زیتون کے تیل سے تشبیہہ دی گئی ہے، درختِ زیتون کا مطلب حضرت ابراہیمؑ اور حضرت محمدؐ کا پاک خاندان ہے، اس چراغ کے تیل میں نفسِ کلّ اور عقلِ کلّ یعنی امام کی مقدّس روح اور ہمہ رس عقل بتی اور شعلے کی طرح ہیں، آگ کے معنی ہیں معجزانہ تائید اور

 

۸۰

 

نور پر نور کا مطلب ہے ایک امام کے بعد دوسرا امام ہونا۔

چنانچہ امامِ اطہر کی ہمہ گیر عقل کے شعلے سے جو ہدایت کی روشنی نکلتی رہتی ہے، وہ حدودِ روحانی و جسمانی کے توسّط سے کائنات و موجودات کے ظاہر و باطن میں پھیل جاتی ہے، تا کہ اس سے آسمان، زمین، عناصر، جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان کی ہستی و بقا کا راستہ بنے رہے اور موجودات و مخلوقات میں سے ہر ایک اپنی صلاحیت و قابلیت کے مطابق یہ ہدایت حاصل کر سکے۔

ان حقائق کے مختصر دلائل:
اللہ تعالیٰ نے اپنی ذاتِ پاک کو آسمانوں اور زمین کا نور یا کہ روشنی قرار دے دیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ جلّ شانہ اس کائنات کی بلندی و پستی کی کلّی ہدایت کی روشنی ہے، یعنی خدا تعالیٰ کے نور نے آسمان و زمین اور ہر چیز کو نیستی کے اندھیرے سے نکال کر ہستی کی روشنی میں لایا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ آسمانوں، سیاروں اور عناصر میں جیسی بھی حرکت پائی جاتی ہے، یا جو چیز جس طرح سے ٹھہری ہوئی ہے، اس کا اصل سبب اللہ تعالیٰ کے نور کی رہنمائی ہے، نیز اس کائنات کی تمام تکوینی، تخلیقی اور حفاظتی قوّتوں میں نور کی ہدایت کارفرما ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اس کائناتی نور کے معنی یہ بھی ہیں، کہ اس نور کی معرفت کی روشنی میں اسرارِ کائنات کا ظاہراً و باطناً مشاہدہ و مطالعہ کیا جا سکتا ہے، اور روحانی یا جسمانی طور پر کائنات کو مسخر کیا جا سکتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ خدا کا نور عقل و دانش ، علم و

 

۸۱

 

حکمت اور رشد و ہدایت کی صورت میں ہے، نہ کہ کسی مادّی روشنی کی کیفیت میں۔

جب خدا کے نزدیک یہ کوئی عیب نہیں کہ آسمانوں کے علاوہ زمین بھی خدا کے نور کی روشنی میں مستغرق رہے، جس میں زمین پر رہنے والے ہر قسم کے جانور اور بُرے بھلے انسان سب شامل ہیں، پھر اس میں کیا شک ہو سکتا ہے، کہ اس کے نور کا مرکز امامِ اقدس کی ذاتِ عالی صفات میں موجود ہے۔

اگر اللہ تعالیٰ کے نور کا دیدار اور معرفت ناممکن ہوتی، تو وہ اپنے نور کی مثال کسی ایسی چیز سے نہیں دیتا جو دنیا میں لوگوں کے سامنے ظاہر ہے، جب اس نے اپنے نور کی مثال ظاہری چراغ سے دی ہے تو ثابت ہوا، کہ نورانی دیدار اور اس کی معرفت ممکنات میں سے ہیں، اور یہ صرف امامِ اقدس ہی کے وسیلے سے ممکن ہے۔

اگر خدا کا نور ظاہر و باطن میں قریبی مشاہدہ سے برتر اور نارسا ہوتا، تو عدل و انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ خدا اپنے نور کو سورج سے تشبیہہ دے، مگر اس نے ایسا نہیں کیا ہے، بلکہ اس نے تو اپنے نور کی تشبیہہ گھر کے چراغ سے دی ہے، تو معلوم ہوا، کہ اس کا پاک نور انسانوں کے درمیان ہے جو انسانِ کامل یعنی امام حیّ و حاضر علیہ السلام کے جامۂ بشریت میں ہے۔

اگر خدا کا نور جسمانیت کا جامہ کبھی نہیں بدلتا اور سورج کی طرح ظاہر میں ایک حال پر رہتا، تو پھر اس صورت میں اس

 

۸۲

 

کی مثال سورج سے دی جاتی، اور چراغ سے نہیں دی جاتی۔

جس طرح اس کائنات کے لئے ایک سورج ہے، اور گھر کے لئے کوئی چراغ ہوتا ہے، اسی طرح دنیائے انسانیت کی تاریکی دور کرنے کے لئے انسانِ کامل یعنی امامِ زمان موجود ہے۔

اگر عقل و دانش کی نظر میں جہالت ایک قسم کی ظلمت و تاریکی اور علم و حکمت اس کے مقابلے میں نور ہے تو لازماً یہ بھی درست اور صحیح ہے کہ علم و حکمت اور رشد و ہدایت کا یہ نور بدرجۂ اتم انسانِ کامل میں موجود ہے۔

اگر دنیا ایک عالم ہے تو دین بھی ایک عالم ہے، اور اگر دنیاوی سورج مادّی قسم کا ہے کہ اس میں عقل و روح نہیں، تو عالمِ دین کا نور عقل و روح رکھتا ہے اور وہ امام ہی ہے۔

یہ حقیقت تقریباً سب کے نزدیک مسلّمہ ہے، کہ انسان انفرادی طور پر ایک چھوٹی سی دنیا ہے، اور اس میں روشنی کا ایک چھوٹا سا نمونہ بھی ہے، جو عقلِ جزوی کے نام سے مشہور ہے، چنانچہ سارے انسان بھی اجتماعی صورت میں ایک عظیم دنیا ہیں، اور اس میں ایک عظیم الشّان نور بھی ہے جسے انسانِ کامل یا کہ امامِ زمان کہا جاتا ہے۔

جب انسان نظریں جما کر چمکتے ہوئے سورج کو دیکھنے لگتا ہے، تو فوراً روشنی کے ذرّات کی تیز بارش کی زد سے اس کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، بالکل اسی طرح جو شخص امامِ عالی مقام کی ذات و صفات پر تبصرہ و تنقید کی نظر ڈالنے لگتا ہے، تو امام

 

۸۳

 

کی شخصیت سے طرح طرح کے خیالات پیدا ہو کر وہ عقل کی آنکھ سے اندھا ہو جاتا ہے۔

اگر انسان سورج کو براہِ راست دیکھنے کی بجائے علم و حکمت اور ظاہری سائنس کی نظر سے دیکھے تو وہ سورج کے متعلق بہت سی حقیقتیں سمجھ سکتا ہے، اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکتا ہے، اسی طرح جو آدمی امام علیہ السلام کو ظاہری نگاہ سے دیکھنے کی بجائے علم و معرفت کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش میں ہو، تو اس کی بہت بڑی سعادت مندی ہے۔

نور علیٰ نور:
اگر ہم یہ عقیدہ نہ رکھیں کہ امام کا نور ازل سے جامۂ بشریت میں اسی طرح موجود ہے جس طرح اس وقت ہے تو نورٌعلیٰ نور کا مطلب کچھ سمجھ میں نہیں آئے گا، کیونکہ نورٌعلیٰ نور میں ایک ایسا تصور ہے، جیسے ایک نور پہلے ہی سے موجود ہو اور دوسرا نور اس کے بعد وجود میں آئے، پھر یہ دونوں نور باہم مل کر ایک ہو جائیں، اور یہ ایک حقیقت ہے، پس معلوم ہوا، کہ ایک امام کے بعد دوسرا امام ہونے کا یہ سلسلہ ہمیشہ سے چلے آیا ہے، اور یہ ایک ایسی جامع حقیقت ہے، کہ جس میں تمام حقیقتیں سموئی ہوئی ہیں۔

جب نورٌعلیٰ نور کے تصور سے یہ معلوم ہوا، کہ نور بظاہر ایک سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں، مگر ان کی اصلیت و حقیقت ہمیشہ سے ایک ہی رہتی ہے، جیسے سورج کے علاوہ چاند اور تمام

 

۸۴

 

ستارے بھی مادّی قسم کے نور ہیں، مگر یہ تمام انوار مقامِ وحدت پر یعنی سورج کی ذات میں ایک ہیں اور ان کا آخری مقصد بھی ایک ہے۔

علاوہ برآن نور کی یگانگت و یک رنگی اور وحدت کی ایک واضح مثال یہ بھی ہے کہ جب ہم کسی مکان میں مختلف رنگ کے چند بلب روشن کرتے ہیں، تو ان سب کی روشنی اور رنگت ایک ہو جاتی ہے، یہ مثال ایک طرف سے انوارِ الٰہی کی وحدانیت کی ہے، اور دوسری طرف سے ارواحِ مومنین کی یگانگت کی۔

نورٌعلیٰ نور کی حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے، کہ سب سے پہلے امام کا مبارک و مقدّس جسم بنتا ہے، جو ظاہری اور جسمانی ہدایت کا نور ہے، اور وہ اس معنی میں نور ہے کہ ظاہری اور بنیادی ہدایت کی روشنی امام کے مبارک جسم کی بدولت ہے، پھر اس پر امام کی روحِ ناطقہ کا نور ہے، اس پر نفسِ کلّی کا نور ہے اور اس پر عقلِ کلّی کا نور قائم ہے، یہ ہوئے نور پر نور ہونے کے معنی۔

نور اور اللہ تعالیٰ کی مرضی:
سورۂ نور (۲۴: ۳۵) کی ربّانی تعلیم ہے، کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنے نور کی راہ پر لگا دیتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشاء کے بغیر کوئی انسان اس کے نور کی شناخت اور پیروی نہیں کر سکتا۔

یہاں ایک طرف سے یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نور

 

۸۵

 

دنیا میں ہمیشہ موجود ہے، اور دوسری طرف سے یہ معلوم ہوتا ہے، کہ ہدایت کے مرحلے دو ہیں، پہلے مرحلے پر خدا کی ہدایت ہے، جس کی پیروی کرنے سے خدا کا نور مل جاتا ہے، دوسرے مرحلے پر خدا کے نور کی ہدایت ہے، جس پر چلنے سے سلامتی اور ابدی نجات مل جاتی ہے۔

جس کے لئے خدا نور مقرر نہ کر دے اس کے لئے کوئی نور نہیں:
مذکورۂ بالا سورہ کی آیت ۴۰ (۲۴: ۴۰)  میں ارشاد ہوا ہے کہ: اور جس کے لئے اللہ تعالیٰ کوئی نور قرار نہ دے اس کے لئے تو کوئی نور ہی نہیں۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کا نور مقرر کر دینا اس طرح سے ہے، کہ وہ رسولِ اکرم صلعم سے فرماتا ہے اور آنحضرت جن لوگوں کے لئے اللہ کی مرضی ہو نور مقرر کر دیتے ہیں۔

اس آیۂ مبارکہ کے قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ منکرین ایسے نہیں کہ ان کے اعمال نہ ہوں، اعمال تو ہیں مگر بے فائدہ، کیونکہ حقائق ان سے پوشیدہ ہیں اس لئے کہ خداوندِ عالم نے ان کے لئے نور مقرر نہیں فرمایا ہے، پس ان کے اعمال کی مثال ایک چٹیل میدان میں چمکتا ہوا ریت کی طرح ہے، جس کو پیاسا آدمی دور سے پانی خیال کرتا ہے، مگر جب وہ قریب آ کر دیکھتا ہے تو کچھ بھی نہیں ریت ہی ریت ہے، یا ان کے اعمال کی مثال گہرے سمندر کے اندھیروں کی طرح ہے، کہ اس

 

۸۶

 

کو بڑی لہر نے ڈھانک لیا ہو جس کے اوپر دوسری لہر اور اس کے اوپر بادل ہیں غرض اوپر تلے اندھیرے ہی اندھیرے ہیں، کہ اگر ایسی حالت میں کوئی انسان ہاتھ نکالے تو اسے دیکھنے کا احتمال بھی نہیں۔

عالمِ دین کے سورج اور چاند:
سورۂ فرقان (۲۵) کی آیت ۶۱ (۲۵: ۶۱)  کی ہدایت یہ ہے: بہت برکت والا ہے جس نے آسمان میں بروج بنائے اور اس میں ایک چراغ یعنی سورج اور نورانی چاند بنایا۔

جاننا چاہئے کہ حقیقی برکت دنیاوی چیزوں میں نہیں بلکہ دینی چیزوں میں ہے، پس اللہ تعالیٰ بہت برکت والا اس معنی میں ہے، کہ اس نے عالمِ دین بنایا، جس کے آسمانِ روحانیت کے بارہ بروج بنائے یعنی بارہ حجّت، اور اس میں سورج اور چاند بنایا یعنی پیغمبر اور امام دورِ نبوّت میں، اور امام و حجّتِ اعظم دورِ امامت میں۔

بروج اگرچہ بارہ ہیں لیکن شب و روز کے دو حصوں کے حساب سے وہی بارہ کے چوبیس ہوتے ہیں اور منزلوں کے حساب سے اٹھائیس ہوتے ہیں، اسی طرح امام علیہ السلام کے حجتانِ جزائر بارہ ہیں، حجّتانِ لیلی و حجّتانِ نہاری چوبیس اور حجّتانِ مقرب کے ساتھ اٹھائیس ہوتے ہیں۔

۸۷

 

کتابِ منیر:
قرآنِ حکیم کی سورت ۳۱۔ آیت ۔۲۔ (۳۱: ۰۲) میں ارشاد ہے: اور لوگوں میں سے کوئی شخص ایسا بھی ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں بغیر علم اور بغیر ہدایت اور بغیر کتابِ منیر کے جدل کرتا ہے۔

یہاں علم سے مراد دورِ نبوّت میں حجّت، ہدایت کا مطلب امام اور روشن کتاب کے معنی آنحضرت صلعم ہیں، اور دورِ امامت میں علم داعی، ہدایت حجّت اور روشن کتاب امام علیہ السلام ہیں، جبکہ تاویلی درجات اور حدودِ دین زمان و مکان کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔

نیز اسی طرح جاننا چاہئے کہ دورِ امامت میں داعی علم الیقین ہے، حجت عین الیقین اور امام زمان علیہ السلام حق الیقین، پس ان حدودِ دین کے بغیر اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور اس کی معرفت و توحید کے بارے میں مباحثہ و مجادلہ کرنا باعثِ گمراہی ہے۔

ظلمات سے نور تک:
سورۂ احزات یعنی ۳۳ ویں سورت کی آیات ۴۱، ۴۲، ۴۳ اور ۴۴ میں ارشاد کیا گیا ہے کہ: اے ایمان والو! تم اللہ کو خوب کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو وہی ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تم پر

 

۸۸

 

رحمت بھیجتے ہیں، تا کہ خدا تم کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آوے، اور اللہ تعالیٰ مومنین پر بہت مہربان ہے، وہ (مومنین) جس روز اللہ تعالیٰ سے ملیں گے تو ان کی دعا سلامتی ہو گی، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بہت بزرگ اجر تیار کر رکھا ہے۔

(۳۳: ۴۱ تا ۴۴)۔

آیاتِ مذکورۂ بالا کی مجموعی حکمت یہ بتاتی ہے، کہ نور کی حقیقی پہچان اس وقت تک ناممکن ہے، جب تک انسان کا ایمان جیسا کہ چاہئے مکمل نہ ہو، اور کامل ایمان کی نشانی یہ ہے کہ مومن قلبی، زبانی اور عملی طور پر خدا کا ذکر کثرت سے کرتا ہے یہاں تک کہ وہ دائم الذّکر ہو جاتا ہے، بصورتیکہ یہ ذکر روحانی مسرتوں سے بھرپور ہوتا ہے، اور وہ صبح و شام زبانِ حال اور زبانِ قال سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتا ہے یعنی اس کا ظاہر و باطن اور گفتار و کردار سب پاک ہوتا ہے جبکہ وہ صبح و شام خدا کے حضور میں گریہ و زاری اور عجز و انکساری کرتے ہوئے اپنے نفس کا تزکیہ کرتا ہے، پھر نتیجے کے طور پر اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے فرشتے ایسے خاص بندوں پر رحمت فرماتے ہیں جس سے رفتہ رفتہ ان کی ذات سے غفلت، جہالت اور معصیت کی تاریکیاں دور ہو جاتی ہیں، اور نبی و علی (صلوات اللہ علیہما) کا نورِ واحد اپنے علمی و عرفانی عجائبات و معجزات کے ساتھ ان کے دل و دماغ میں جلوہ گر ہونے لگتا ہے، اللہ تعالیٰ کی یہ خاص رحمت صرف حقیقی مومنین ہی کے لئے مخصوص ہے، جس روز کسی حقیقی مومن

 

۸۹

 

کو خداوند تبارک و تعالیٰ کے اس نورِ مقدّس کا روحانی دیدار حاصل ہوتا ہے، اس وقت مومن زبانِ حال سے اپنی سلامتی کی دعا کرتا ہے، کہ وہ ابدی طور پر زندہ اور سلامت رہے جسے اللہ تعالیٰ منظور فرماتا ہے۔ بتوفیقِ الٰہی مذکورۂ بالا آیات کا تاویلی خلاصہ بتایا گیا۔

روشن چراغ:
سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۴۵ اور ۴۶ (۳۳: ۴۵ تا ۴۶) کا فرمانِ الٰہی یہ ہے کہ: اے نبی بے شک ہم نے آپ کو گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔

ان دونوں مقدّس آیتوں کی حکمت سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ یہاں حضورِ اکرم صلعم کی بعض دائمی اور زندہ صفات بیان کی گئی ہیں، جن کی دلیل سے آنحضرت کی دوسری تمام صفات بھی زندہ اور پائندہ ثابت ہو جاتی ہیں، مثلاً جب مانا گیا کہ آنحضورؐ اپنی تمام امت کے اعمال پر گواہ ہیں، جبکہ گواہ کا مطلب کسی معاملے کے سامنے حاضر و موجود ہونا ہے، تو سمجھ لینا چاہئے کہ آنحضرتؐ کی یہ صفت ہمیشہ کے لئے زندہ اور باقی ہے اور لازماً آپ کی دوسری بہت سی صفات بھی اسی طرح لازوال ہیں۔

نیز خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے کو بھی بندوں کے اعمال کے سامنے حاضر و موجود رہنا چاہئے، تا کہ

 

۹۰

 

نکوکاروں کو خوشخبری دے اور بدکاروں کو ڈرائے، اسی طرح نبئ اکرم صلعم کی ایک اور زندہ صفت یہ بھی ہے کہ آپ اب بھی اسی طرح خدا کے حکم سے زمانے کے مطابق راہِ حق کی طرف دعوت کرتے ہیں جس طرح عہدِ نبوّت میں اس وقت کے مطابق دعوت کرتے تھے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ حضور کی دعوت ہمیشہ سے وحئ الٰہی کی تابع ہوا کرتی ہے، جس کا لازمی نتیجہ صرف یہی نکلتا ہے، کہ پیغمبر صلعم کا مقدّس نور امامِ زمان کی بشریت میں حیّ و حاضر ہے۔

یہی مثال روشن چراغ کی بھی ہے، کہ خدا کے نور کے اس پاک چراغ کو ہرگز نہیں بجھنا چاہئے اور اس کی صفت میں کوئی کمی اور کوئی زوال نہیں آنا چاہئے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ یہ ارشاد ہوا ہے کہ خدا کا نور ایک لازوال حقیقت ہے، پس یہ تمام زندہ اور دائمی صفات آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد صرف آپ کے نور کی حیثیت میں باقی و برقرار ہیں، اور آپ کا یہ مقدّس نور حضرت مولانا علیؑ و آلِ علیؑ کے سلسلۂ امامت میں ہمیشہ کے لئے قائم ہے۔

سراجِ منیر (روشن چراغ) قرآنِ حکیم میں نورِ نبوّت و امامت کا ایک ایسا پرحکمت اور جامع اسمِ بزرگ ہے، کہ اس کی حقیقت و معنویت میں اللہ تعالیٰ کے تمام اسمائے صفات کی قدرت و مظہریت سموئی ہوئی ہے، اس حقیقت کے ثبوت میں صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے اسی نورِ جامع صفات کے

 

۹۱

 

اعتبار سے، جو انسانِ کامل کے چراغِ ہستی سے طلوع ہو کر عالمِ دین اور دنیائے دل کو منور کر رہا ہے، آیۂ نور میں فرماتا ہے کہ:
“خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں چراغ روشن ہو۔” اگرچہ حق سبحانہ و تعالیٰ کی ذاتِ بے چون کے اعتبار سے کوئی چیز اس کے مشابہ اور مثل نہیں ہو سکتی ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشاد کیا گیا ہے کہ: “کوئی چیز اس کی مثل نہیں اور وہی سننے والا دیکھنے والا ہے ۔ ۴۲: ۱۱۔”

ظلمتِ جہالت اور نورِ معرفت:
سورۂ فاطر (۳۵) کی ۱۹ تا ۲۲ (۳۵: ۱۹ تا ۲۲) آیات میں ارشادِ ربّانی ہے کہ: اور اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں اور نہ تاریکی اور روشنی، اور نہ سایہ اور دھوپ، اور زندے اور مردے برابر نہیں ہو سکتے۔ بے شک اللہ جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں۔

ان آیاتِ مقدسہ میں ایک طرف صحیح عقیدے کے اور دوسری طرف غلط نظریے کے نتائج کا تقابلی تذکرہ ہے، اور زبانِ حکمت میں فرمایا گیا ہے کہ غلط نظریہ کوردلی اور نادانی کا باعث بن جاتا ہے اور صحیح عقیدہ بصیرت و دانشمندی کا سبب ہوتا ہے، کور دلی یعنی دل کی نابینائی کا نتیجہ جہالت کی صورت میں نکلتا ہے اور قلبی بصیرت کا ماحصل نورِ معرفت ہے، نورِ معرفت کے نتیجے میں رشد و ہدایت کا سایۂ راحت حاصل ہوتا ہے اور جہالت کی

 

۹۲

 

تاریکی میں آوارہ گردی کے بعد گمراہی کا تپتا بیابان سامنے آتا ہے، نورِ معرفت اور رشد و ہدایت کے سایہ والے روحانی طور پر زندۂ جاوید ہو جاتے ہیں اور ضلالت کے سوزندہ ریگستان والے نفسانی طور پر ہلاک ہو جاتے ہیں، یہ جو سایۂ رحمت و ہدایتِ الٰہی میں روحانی طور پر زندہ ہو گئے وہ اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کی باتیں سن سکتے ہیں اور جو لوگ بیابانِ گمراہی میں ہلاک ہو گئے وہ نیستی و معدومیت کی قبروں میں دفنائے ہوئے ہیں انہیں علم و حکمت کی باتیں سنوائی نہیں جا سکتی ہیں۔

انبیاء کے معجزات، کتب اور تاویل:
مذکورہ سورہ کی پچیسویں آیت  (۳۵: ۲۵) میں ارشاد کیا گیا ہے: اور اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلا دیں تو جو لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں انہوں نے بھی جھٹلایا تھا ان کے پاس ان کے پیغمبر معجزات اور کتب اور روشن کتاب کے ساتھ آئے تھے۔

قرآنِ حکیم کی اس مقدّس تعلیم سے ظاہر ہے، کہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ تین قسم کی عظیم الشّان چیزیں ہوا کرتی ہیں، وہ ہیں معجزات ، کتابیں اور کتابِ منیر، لیکن اس باب میں یہ ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے، کہ پیغمبروں کے معجزات اور کتابوں کے علاوہ کتابِ منیر (روشن کتاب) کون سی ہے یا کیا چیز ہوتی ہے؟ کیونکہ آیۂ کریمہ کے عربی الفاظ کے لحاظ سے بینات کے معنی ہیں معجزات، زبر زبور کی جمع ہے جس کا مطلب ہے کتابیں اور کتابِ منیر کا ترجمہ ہے

 

۹۳

 

روشن کتاب۔

چنانچہ سوال تھا کہ روشن کتاب کون سی ہے؟ نیز یہ بھی سوال ہو سکتا ہے، کہ آیا وہ روشن کتاب اب بھی ہے یا نہیں، جبکہ آنحضرتؐ سے قبل کے جملہ پیغمبروں کے ساتھ ہمیشہ سے موجود تھی؟ ان سوالات کا سادہ اور آسان جواب یہ ہے، کہ روشن کتاب نورِ امامت کا نام ہے اور وہ پیغمبرِ آخر زمانؐ کے ساتھ بھی تھا اور اب بھی موجود ہے، اور یہی نور تمام پیغمبروں کے آسمانی کتب کی عملی تاویل و حکمتِ بالغہ کی حیثیت سے ہے، کیونکہ نورِ امامت ہی وہ نور ہے جس میں روحانیت کے جملہ اسرار اور تاویلات کے جملہ روشن حقائق و معارف موجود ہیں۔

شرحِ صدر:
سورۂ زُمُر کی بائیسویں آیت کا ارشاد ہے کہ: پس جس شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھول دیا اور وہ اپنے پروردگار کے نور پر ہے (کیا وہ شخص اور اہلِ قساوت برابر ہیں) پس جن لوگوں کے دل خدا کے ذکر سے متاثر نہیں ہوتے تو ان کے لئے بڑی خرابی ہے یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں (۳۹: ۲۲)۔

یہ پاک آیت سب سے پہلے انسانِ کامل یعنی پیغمبرِ آخر زمان اور امامِ برحق علیہما السلام کی شان میں ہے، ان کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے حدودِ دین کے بارے میں بھی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا شدہ وسعتِ قلبی، اسلام یعنی اطاعت اور خدا کا

 

۹۴

 

نور انسانِ کامل کے وسیلہ اور توسّط سے حدودِ دین کو بھی علیٰ قدرِ مراتب حاصل ہوتا ہے، اور انسانِ کامل کی ذاتِ اقدس میں یہ صفات اور دوسری تمام خوبیاں ہمیشہ کے لئے بدرجۂ اتم موجود ہوتی ہیں۔

اس آیۂ مقدسہ کی حکیمانہ تعلیم شرحِ صدر یعنی وسعتِ قلبی کے ذکر سے شروع ہو جاتی ہے، اور فرمایا جاتا ہے، کہ اسلام کو کماحقّہٗ قبول نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو وسعتِ قلبی عطا نہ فرمائے، نیز لفظِ اسلام کے دوسرے معنوی پہلو کے اعتبار سے ارشاد ہے، کہ اگر خدا کی طرف سے کسی کو کشادہ دلی عنایت نہ ہوئی تو اس شخص سے اطاعت و فرمانبرداری نہیں ہو سکتی، کیونکہ اسلام کے معنی اطاعت و فرمانبرداری کے ہیں، پھر اس کے بعد فرمان ہے کہ جب خدا نے کسی آدمی کے دل کو کھول دیا تو وہی حقیقی اسلام یا کہ فرمانبرداری بجا لا سکتا ہے، جب اس نے ہادئ برحق کی فرمانبرداری کر لی، تو اس کے دل و دماغ میں بتدریج خدا کا نور جلوہ گر ہونے لگتا ہے، اور ذکرِ الٰہی خود بخود جاری رہتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے قلب میں رقّت و نرمی پیدا ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی معجزانہ صوتی ہدایات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

اس صورتِ حال کے برعکس، جس میں حقائق و معارف کے زندہ معجزات موجود ہیں، جن لوگوں کے دل تنگ و تاریک ہوں، وہ حقیقی اسلام قبول نہیں کر سکتے، جس کے سبب سے

 

۹۵

 

ان کے دل خدا کے نور کے قابل نہیں ہو سکتے، نہ ہی وہ خدا کے ذکر کو جاری رکھ سکتے ہیں، پھر وہ قساوتِ قلبی کے روحانی مرض میں مبتلا ہو کر گمراہی اور ضلالت کے بیابان میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔

زمین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہو جائے گی:
سورۂ متذکرۂ بالا میں پروردگارِعالم کے نورِ مقدس یعنی نورِ امامت کے مختلف ظہورات کے بارے میں بطور پیش گوئی ارشاد ہوا ہے: اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہو جائے گی اور اعمال نامہ رکھ دیا جائے گا اور پیغمبروں اور گواہوں کو لایا جائے گا اور ان (یعنی لوگوں) کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہ ہو گا ۔ ۳۹: ۶۹۔

اس آیۂ مقدسہ میں نزولِ قرآن کے دوران نورِ امامت اور روحانی واقعات کے بارے میں جو پیش گوئی کی گئی ہے، اس کا تعلق چار حالات سے ہے، انفرادی روحانیت، اجتماعی روحانیت یا کہ روحانی دور، انفرادی قیامت اور اجتماعی قیامت۔

حقیقی مومن کی انفرادی روحانیت میں نورِ امامت سے جو فیضان حاصل ہوتا ہے، اس کے متعلق اس آیۂ کریمہ کی پیشگوئی اس طرح سے ہے کہ پیغمبر کی تنزیلی ہدایات اور امامِ وقت کی تاویلی ہدایات پر عمل کرنے کے نتیجے میں ہر حقیقی مومن کے دل کی زمین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہو جائے گی، اس کی روحانیت

 

۹۶

 

ایک زندہ کتاب کی حیثیت سے معجزانہ گفتگو کرے گی، پیغمبروں کی مقدّس روحیں اپنے اپنے معجزات اور جملہ واقعات کے ساتھ اس کے روحانی مشاہدے میں آئیں گی، نیز گواہوں یعنی أئمّۂ اطہار کے پاک انوار کے روحانی ظہورات ہوں گے اور اس مومن کے حق میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ ہو گا۔

اجتماعی روحانیت میں نورِ امامت اس طرح اثر انداز ہے، کہ اللہ تعالیٰ کا یہ نور جس ظاہری و باطنی ہدایت کی کیفیت میں پیغمبر صلعم کے بعد سلسلۂ امامت میں سے طلوع ہوتا رہا ہے اور جس انداز سے علم و حکمت کی مسلسل روشنی اس جہان والوں کو بخش رہا ہے اس کے نتیجے کے طور پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے، کہ اس میں دنیائے انسانیت، علم و ہنر، عقل و دانش اور شرافت و یگانگت کے اوجِ کمال پر پہنچ جائے گی، اور ہر قسم کی برائیاں نیست و نابود ہوجائیں گی، اسی وقت حق کو باطل پر فتح حاصل ہو گی اور حق و حقیقت کا دور دورہ ہو گا، غلط عقائد اور نظریات سب کے سب ختم ہو جائیں گے، اور جو سچا عقیدہ اور صحیح نظریہ ہے صرف وہی قائم رہے گا اور اسی کو فروغ حاصل ہوگا۔

یہ ہوا زمین کا اپنے ربّ کے نور سے روشن ہو جانا، کہ زمین کا مطلب یہاں انسانیت ہے، جو انبیاء و أئمّہ کے انوار کے فیوضات کے لئے ہر وقت محتاج ہے، اور یہ ہوا مختلف عقائد و نظریات کے اعمال ناموں کو سامنے رکھ کر قانونِ الٰہی

 

۹۷

 

کا فیصلہ کر دینا، پیغمبروں اور اماموں کا حاضر ہو جانا، کیونکہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا یہی ایک دین تھا، جس کی طرف ان تمام حضرات نے ظاہراً و باطناً لوگوں کو دعوت کی تھی، پس ایسا زمانہ انبیاء، أئمّۂ ھُداؑ اور ہر زمانہ کے مومنین کی فتح مندی اور کامیابی کا دن ہے، جس کی پیش گوئی قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ کی گئی ہے۔

انفرادی اور اجتماعی روحانیت کی مذکورہ دونوں حالتوں کو قیامت کے نام سے بھی ہم مان سکتے ہیں، ایسی قیامت انسان کی زندگی میں آتی ہے۔

اب رہا سوال نورِ امامت اور اس قیامت کے تعلق کا، جو انسان کی جسمانی موت کے بعد واقع ہونے والی ہے، جو انفرادی حالت میں بھی ہے اور اجتماعی صورت میں بھی، جس کی مثالیں مذکورۂ بالا تفصیلات سے مل سکتی ہیں، مگر اس میں یہ بات ضرور یاد رہے، کہ جسمانی زندگی میں جو بھی روحانیت یا قیامت پیش آتی ہے، وہ جُزوی قسم کی ہے، اور مرنے کے بعد جو قیامت واقع ہو گی، وہ کُلّی۔ غرض یہ کہ امامِ اطہر کا نور ہی ہے جس کی روشنی کے لئے دنیا و آخرت والے ہمیشہ محتاج ہیں۔

نور کے عظیم اسرار:
سورۂ شوریٰ کے آخری رکوع کی زبانِ حکمت کا ایک پرمغز اور جامع مطلب یہ ہے، کہ پاکیزہ بشریت کے اعلیٰ ترین مقام پر اللہ تعالیٰ کے مقدّس نور کا جلوۂ دیدار کچھ لمحات

 

۹۸

 

کے لئے حاصل ہوتا ہے، مگر اس اعلیٰ ترین دیدار کے ساتھ ساتھ کلامِ الٰہی میسر نہیں ہوتا، ہاں ایک حکمت آگین اشارہ ہو سکتا ہے، کلامِ الٰہی تو اس دیدار سے نچلے درجے میں حجاب کے پیچھے سے ہوتا ہے، اور اس ربّانی کلام سے نچلے درجے میں فرشتے کے توسط سے وحی ہوتی ہے۔

اس کے معنی یہ ہوئے کہ روحانیت کا جتنا لمبا سلسلہ ہے، وہ تین درجات پر مشتمل ہے، چنانچہ سب سے نچلے درجے میں جبرائیل علیہ السّلام وحی لاتا ہے، اس کے اوپر کے درجے میں نورِ الٰہی خود ہی حجاب کے پیچھے سے کلام فرماتا ہے اور سب سے اوپر کے درجے میں یہ نور رحمانی صورت میں چند سیکنڈوں کے لئے اپنا جلوہ دکھاتا ہے، مگر اس انتہائی دیدار کے موقع پر کلام نہیں ہوتا، ہاں ایک جامع قسم کا اشارہ ہوتا ہے۔

پس اسی قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ نے عالمِ امر سے ایک عظیم روح آنحضرت پر وحی فرمائی تھی، اور سرورِ کائنات اس واقعہ سے قبل آسمانی کتاب اور ایمان کے انتہائی درجات سے واقف نہ تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے حضورِاکرمؐ کی اس روحانیت کو، جو وحی بھی تھی اور روح بھی، نور بنایا، جس کی روشنی میں پیغمبرِخدا سب کچھ جاننے لگے، اور اسی نور کی روشنی سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے ہدایت کرتا ہے۔

اس بیان کا خلاصہ یہ ہوا کہ نورِ امامت ’’ اوحینا الیک روحا ‘‘ کے معنی میں نہ صرف وحی اور قرآنِ ناطق

 

۹۹

 

کی حیثیت سے ہے، بلکہ یہ ایک عظیم روح بھی ہے، اور جہاں ’’ جعلنہ نورا ‘‘ کا ارشاد آیا ہے، وہاں نورِ امامت آسمانی کتاب یعنی قرآنِ صامت کے اسرارِ مخفی کے لئے روشنی بھی ہے، اور جو ارشاد ہوا ہے کہ: ’’ نھدی بہ من نشاء من عبادنا ‘‘ اس کے اعتبار سے ظاہر ہے کہ یہ نور وہی ہے، کہ جس کے ذریعے سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضورِاکرمؐ سے قبل کے تمام انبیاءؑ کو بھی وحی کر کے رہنمائی کی تھی ’’ و انک لتھدی الیٰ صراط مستقیم ‘‘ کی تعلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب رسولِ خداؐ کو یہ نور حاصل ہوا تو آپ نے اپنے وقت میں اسی نور کے ذریعے سے راہِ راست کی ہدایت کی، اور مستقبل کی ہدایت کے لئے حضورؐ نے بحکمِ خدا امامؑ کو مقرر فرمایا پھر نور امام میں منتقل ہو گیا۔ الحمدللہ یہ حقائق و معارف قرآنی حکمت کی زبان سے اور روحانی مشاہدات و تجربات کی روشنی میں بتائے گئے۔

نورانی معجزات:
سورۂ حدید کی نویں آیت  (۵۷: ۰۹) میں نور کے بارے میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: وہ (اللہ) ایسا ہے کہ اپنے بندے پر واضح نشانیاں اتارتا ہے تا کہ وہ تم کو تاریکیوں سے نور کی طرف نکال دے اور بے شک اللہ تعالیٰ تم پر بڑا شفیق و مہربان ہے۔

یہاں عقل و دانش سے خوب سوچنے کا مقام ہے، کہ

 

۱۰۰

 

جن تاریکیوں میں سے ایک مسلمان یا ایک مومن ہادئ برحق کے بغیر بذاتِ خود نکل نہیں سکتا، وہ کس نوعیت کی تاریکیاں ہیں؟ کیا یہ بات درست ہو سکتی ہے، جو ہم کہیں کہ یہ وہی تاریکیاں ہیں جو جہالت و نادانی اور زمان و مکان کے پیدا کردہ مسائل کی الجھنوں سے انسان کے دل و دماغ میں پیدا ہوتی ہیں، ظاہر ہے کہ واقعاً ان تاریکیوں کا مطلب یہی ہے، پھر لازماً ہم کو یہ بھی ماننا ہی پڑے گا، کہ جہالت و نادانی اور مسائلِ نو کی تاریکیوں سے نکل جانے کا ذریعہ صرف ایک ایسی تازہ ترین ہدایت ہی ہو سکتی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہو، اور ایسی ربّانی ہدایت آنحضرت صلعم کے بعد صرف امامِ وقتؑ ہی کے وسیلے سے حاصل ہو سکتی ہے، پس یہی حکمت آیۂ مذکورہ بالا میں پوشیدہ ہے۔
قرآنِ حکیم کے ان مبارک الفاظ کی روشنی میں جو ارشاد ہوئے ہیں کہ: وہ (اللہ) ایسا ہے کہ اپنے بندے پر واضح نشانیاں نازل کرتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف خدا کا ایک خاص بندہ (انسانِ کامل) ہی ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ خدا کا یہ فعل بھی ہمیشہ کے لئے جاری رہتا ہے، کہ وہ اپنے بندۂ خاص پر بدلے ہوئے حالات کی ہدایت نازل کرتا ہے، اور خدا تعالیٰ کے حقیقی عدل و انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے نور کا سرچشمۂ ہدایت ظاہر و باطن میں ہمیشہ کے لئے جاری و ساری رہے، چنانچہ سرورِ کائنات صلعم پر عہدِ نبوّت کے دوران قرآن پاک کی ظاہری نشانیاں (آیات) نازل

 

۱۰۱

 

ہوتی رہی ہیں، جن کو تنزیلی نشانیاں اور ظاہری ہدایت کہتے ہیں، اور ہر زمانے کے امامِ برحق پر قرآنِ حکیم کی باطنی نشانیاں نازل ہوتی رہتی ہیں، جن کو تاویلی نشانیاں اور باطنی ہدایت کہتے ہیں، تا کہ قیامت کے دن کسی زمانے کے لوگوں کو یہ عذر و بہانہ نہ ہو سکے کہ ان کے زمانے میں اللہ کی ہدایت کا کوئی آسان ترین ذریعہ موجود نہیں تھا۔

اگر آپ ذاتی طور پر بھی اس حقیقت کی مزید تحقیق کر کے مطمئن ہو جانا چاہتے ہیں، کہ کس طرح آسمانی کتاب کے مکمل نزول کے بعد زمانۂ دراز تک اس کی تدریجی تاویل نازل ہوتی رہتی ہے، اور کس طرح اس تاویل کے مکمل طور پر آنے کے ساتھ ساتھ قیامت برپا ہو جاتی ہے، تو اس کے لئے قرآنِ حکیم کی ان تمام آیات کے معنی میں غور کریں، جو تاویل سے متعلق ہیں، خصوصاً ، ۱۰: ۳۹، ۱۲: ۰۶، ۱۲: ۲۱، ۱۲: ۱۰۰، ۱۲: ۱۰۱میں، اور سب سے بڑھ کر ۰۷: ۵۳ میں آپ غور کریں، پھر آپ کو یقیناًاس حقیقت کے متعلق اطمینانِ قلب حاصل ہوگا، کہ نہ صرف آسمانی کتاب کی نازل شدہ آیات کی تاویل بتدریج نازل ہوتی رہتی ہے، بلکہ دوسری بہت سی چیزیں بھی ایسی ہوتی ہیں کہ جن کی تاویل عرصۂ دراز کے بعد ظاہر ہوجاتی ہے۔

پس جاننا چاہئے کہ امامِ زمان علیہ الصّلوٰت والسّلام کی پاک ہدایات سے جب حقیقی مومن کے دل سے جہالت و نادانی کی تاریکی دور ہو جاتی ہے، تو اس وقت امامِ عالی مقام کے نور کے علمی و عرفانی معجزات اس کے دل و دماغ میں ظہور پذیر ہوتے

 

۱۰۲

 

رہتے ہیں، اور وہ ہمیشہ اپنے باطن میں ایک عجیب و غریب علمی دنیا کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے، یہ ہوا اللہ تعالیٰ کا اپنے خاص بندے پر واضح نشانیاں نازل کرنا اور انسانِ کامل کا مومنین کو تاریکیوں سے نکال کر نورِ معرفت کی طرف لے آنا۔

مومنین، مومنات اور نور:
سورۂ حدید کی بارہویں آیت (۵۷: ۱۲) میں انفرادی روحانیت اور دورِ قیامت کے اہلِ ایمان اور نورِ امامت کے بارے میں ارشاد ہے کہ: جس دن آپ مومنین اور مومنات کو دیکھیں گے، کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کی داہنی طرف سعی کرتا ہو گا، آج تم کو بشارت ہے ایسے باغوں کی جن کے نیچے سے نہریں چلتی ہیں، ان میں تم ہمیشہ رہنے والے ہو یہی بڑی کامیابی ہے۔

آیۂ مقدّسۂ بالا کا حکمت آگین اشارہ یہ ہے کہ ہر زمانے کی انفرادی روحانیت میں بھی اور دورِ قیامت میں بھی امامِ حیّ و حاضر کا پاک نور مومنین و مومنات کے ساتھ ان کی پیشانی یا داہنی طرف سے کلام کرتا رہے گا، اور “یسعیٰ” کے یہ معنی ہیں کہ اس وقت اہلِ ایمان کی روحانیت کی بے شمار منزلیں اس نور کی روشنی و رہنمائی میں بڑی تیزی کے ساتھ طے ہو جائیں گی، نیز اس لفظ کے یہ معنی بھی ہیں، کہ یہ نور حقیقی مومنین کے دین و دنیا سے متعلق ہر قسم کی بہتری اور بھلائی کے لئے سعی کرے گا۔

یہاں البتہ یہ بات قابلِ ذکر ہے، کہ مختلف اعتبارات سے

 

۱۰۳

 

نورِ مطلق کی مختلف اضافتیں اور جدا جدا نسبتیں ہوا کرتی ہیں، یعنی قرآنِ حکیم میں کبھی اس پاک نور کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کرتے ہوئے فرمایا جاتا ہے کہ “نور اللہ کا ہے‘‘ کبھی روشن چراغ وغیرہ جیسے الفاظ کے مفہومات کا اشارہ ہوتا ہے کہ ’’نور پیغمبر کا ہے” بعض آیات اپنی زبانِ حکمت سے بتاتی ہیں کہ “نور امام کا ہے” اور یہاں آیۂ مذکورۂ بالا سے ظاہر ہے کہ “نور مومنین و مومنات کا ہے” پس حقیقی مومنین کو نورِ مقدّس کے اس قانونِ وحدانیت اور نظامِ جامعیّت پر خوب غور و فکر کرنا چاہئے، کہ نورِ واحد کی اس کثرت نمائی میں کیا راز ہے؟

بہر حال جاننا چاہئے، کہ نور کی یہ مختلف نسبتیں اپنی اپنی جگہ پر بالکل صحیح اور درست ہیں، اور ان میں ذرّہ بھر بھی شک نہیں، نیز جاننا چاہئے، کہ ان جدا جدا اضافتوں کے باوجود نور ایک ہی ہے، اور اس میں کوئی دوئی نہیں، پس اس کے معنی، حقیقت اور صفاتِ کمالیہ بھی وہی ہیں جو ’’ اللہ نور السمٰوات والارض‘‘ کے مقام پر ہیں۔

منافقین، منافقات اور نور:
مذکورہ سورہ کی تیرہویں آیت (۵۷: ۱۳) میں منافقین، منافقات اور نورِ امامت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے کہ: جس روز منافقین اور منافقات مومنین سے کہیں گے کہ ہمارا انتظار کرلو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کر لیں ان کو جواب

 

۱۰۴

 

دیا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ پھر وہاں سے روشنی تلاش کرو۔

جاننا چاہئے کہ منافق لوگ نہ صرف دورِ قیامت (روحانی دور) میں اہلِ ایمان کی تیز رفتار روحانی ترقی پر رشک کریں گے، بلکہ ہر زمانے میں نورِ امامت کی شاندار رہنمائی اور مومنین کی ترقی اور کامیابی دیکھ کر منافقین کی روحیں زبانِ حال سے فریاد کرتی ہیں، کہ خدا کے لئے ذرا ٹھہرو تا کہ ہم بھی تمہارے امامؑ کے نور کی ہدایت میں ظاہری و باطنی کامیابی کی منزلیں طے کریں، مگر ان کو زبانِ حال سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ تم تواریخ اور عقائد کے راستے میں ازسرِ نو تحقیق کرتے ہوئے اپنے پیچھے چلو، اور تم نے جس دوراہے پر آکر نور کا پاک دامن چھوڑا تھا، اس کے متعلق سوچو اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے اپنے تمام عقائد کی اصلاح کرو پھر ممکن ہے کہ نور ملے۔

نور حاصل ہونے کا درجہ:
سورۂ حدید کی انیسویں آیت (۵۷: ۱۹) میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا مبارک فرمان یہ ہے کہ: اور جو لوگ اللہ اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لا چکے ہیں (جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے) ایسے ہی لوگ اپنے ربّ کے نزدیک صدّیق اور شہید ہیں ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے۔

اس آیۂ کریمہ کے باطن میں بہت سی عظیم حکمتیں پنہان

 

۱۰۵

 

ہیں، من جملہ ایک حکمتِ بالغہ یہ بھی ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، کہ شروع سے آخر تک ایمان کے بہت سے درجات ہیں، صداقت ایک ایسی صفت ہے جو ایمان کامل ہونے سے حاصل ہوتی ہے، اور صداقت کے بھی کثیر مراتب ہیں، جب صداقت درجۂ کمال پر پہنچے، تو اس وقت مردِ مومن میں جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت پیدا ہوتا ہے، اور شہادت کے بھی کئی رتبے ہیں، پھر اس کے بعد اجر و صلہ کے مراحل آتے ہیں اور اجر کی بھی بہت سی قسمیں ہیں، اور ان تمام خوبیوں کے نتیجے کی صورت میں نور کا دروازہ کھل کر رہتا ہے۔

پس معلوم ہوا کہ حقیقی مومن کی روحانیت کا سب سے اونچا درجہ وہ ہے جہاں اس کو امامِ برحق کے مبارک و مقدّس نور کا معجزاتی دیدار اور روح افزا مشاہدہ ہو سکتا ہے، یہ وہ مقامِ وحدت ہے، جہاں پر حقیقی مومنین کی روحیں امامِ اقدسؑ کے نور کے ساتھ مل کر ایک ہو جاتی ہیں، یہی سبب ہے، جو ارشاد ہوا ہے، کہ حقیقی مومنین، جنہوں نے خدا اور اس کے رسولوں پر جیسا کہ چاہئے ایمان لایا ہے، اپنے پروردگار کے نزدیک صدّیق اور شہید جیسے ہیں، یعنی ایسے مومنین اساسوں اور اماموں کے نور سے واصل ہو چکے ہیں، کیونکہ تاویلی زبان میں صدیقین اساسوں کو کہتے ہیں اور شہداء اماموں کا نام ہے، اسی معنی میں کہ چھ ناطق پیغمبروں میں سے ہر ناطق پیغمبر کا ایک اساس ہوا ہے، چنانچہ حضرت محمد مصطفیٰ صلعم کے اساس حضرت مولانا امام علیؑ تھے،

 

۱۰۶

 

جنہوں نے نہ صرف شخصی اور ذاتی طور پر قرآن و شریعت کی تاویل کر کے حضورِ اکرمؐ کی نبوّت و رسالت کی تصدیق کی، بلکہ اپنی پاک اولاد کے سلسلۂ امامت کے توسّط سے بھی تاویلات کا یہ دروازہ ہر بار کھول دیا، جس سے ہمیشہ کے لئے آنحضرتؐ کی مرتبۂ پیغمبری کی تصدیق ہوتی رہی، اور اسی تاویلی تصدیق کی ضرورت کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ناطق پیغمبر کے ساتھ ایک صدّیق مقرر ہوا تھا اور صدّیق کے معنی تصدیق کرنے کے ہیں، اور شہداء اماموں کا نام اس معنی میں ہے، کہ شہداء گواہوں کو کہتے ہیں، جس سے أئمّۂ اطہار مراد ہیں، کیونکہ یہی حضرات دنیا والوں کے اعمال پر گواہ ہیں، چونکہ وہ سلسلہ وار دنیا اور زمانہ میں حیّ و حاضر ہوتے ہیں۔

نور سرچشمۂ ہدایت:
خدا کے مقرّر کردہ نور کی موجودگی اور رہنمائی کے بغیر کوئی بھی نظریہ اور مذہب طولِ زمانہ کی پرخطر تاریکیوں سے سلامتی کے ساتھ گزر کر حوضِ کوثر پر وارد نہیں ہو سکتا، اور نہ کسی دین کا ابتدائی وجود ایک مجسّم نور کو مانے بغیر ثابت ہو سکتا ہے، اسی حقیقت کے باب میں سورۂ حدید کی اٹھائیسویں آیت (۵۷: ۲۸) کا یہ ارشاد ہے کہ: اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول (محمدؐ) پر ایمان لاؤ (تا کہ خدا) تم کو اپنی رحمت سے دو حصے عطا فرمائے گا اور تم کو ایسا نور مقرر کر دے گا کہ تم اس کے ذریعہ چل سکو گے اور تم کو بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

۱۰۷

اس متّبرک آیت کی تفسیر یہ ہے کہ: اے ایمان والو! جو دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکے ہو، اب خدا سے ڈرو، یعنی نیّات، اقوال اور اعمال میں تقویٰ کو ملحوظِ نظر رکھو اور خدا کے رسول حضرت محمد صلعم پر مکمّل طور سے ایمان لاؤ، یعنی حقیقی مومنین بنو، تا کہ اللہ تعالیٰ بذریعۂ رسولِ مقبولؐ تم کو اپنی رحمتِ بیکران سے دو حصے عطا کرے گا، یعنی ظاہری ہدایت اور باطنی ہدایت کا وسیلہ پیدا کرے گا، اور تم کو ایسا نور یعنی امام مقرر کر دے گا، کہ اس کا سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا، تا کہ تم دینی اور دنیاوی طور پر زمانے کے ساتھ ساتھ منزل بمنزل آگے بڑھ سکو گے، یہاں تک کہ تم سلامتی کے ساتھ حوضِ کوثر پر وارد ہو جاؤ گے۔

پیغمبرؐ اور امامؑ کا نور خدا کا نور ہے:
اس کتابچہ کے موضوعات کے سلسلے میں یہاں تک آیاتِ نور سے جو کچھ حقائق و معارف بیان کئے گئے، ان سے آپ پر یہ حقیقت واضح اور روشن ہوئی ہو گی، کہ خدا کے مقدّس نور کا مظہر انسانی ہدایت کے لئے بلباسِ بشریت ہمیشہ اس دنیا میں حاضر اور موجود ہے، جس کی حاضری و موجودگی کے بغیر عالمِ ادیان کی ہستی و بقاء قطعاً نا ممکن ہے، اس حقیقت کی ایک محکم اور روشن دلیل یہ ہے، کہ مادّی نور یعنی سورج کے وجود کے بغیر اس مادّی کائنات کا وجود او رنظام لمحہ بھر کے لئے بھی قائم نہیں

 

۱۰۸

 

رہ سکتا، کیونکہ یہ ساری کائنات اور اس کے اندر جو کچھ موجود ہے وہ سب سورج کی بے پناہ تکوینی قوتوں سے پیدا ہوا ہے، اور یہ سارا مادّی نظام سورج ہی کی ہمہ گیر طاقتوں پر قائم ہے، یہ سب کچھ مظہرِ نورِ خدا کی مثال ہے، جو کبھی پیغمبر کی حیثیت سے اور کبھی امام کی صورت میں ہوتا ہے، جس کے ازلی وجودِ مبارک سے بتدریج عالمِ ادیان پیدا ہوا، اور اسی مظہر کی ذاتِ شریف کی طرف سے تمام ادیان کو علیٰ قدرِ مراتب ہدایت حاصل ہوتی رہتی ہے، پس اگر بفرضِ محال عالمِ دین میں یہ مظہر نہ ہو، تو سارے ادیان نیست و نابود ہو جائیں گے، اسی معنی میں ارشاد ہوا ہے کہ: و کل شیء احصینٰہ فی امام مبین ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ امام کی نورانی ہستی کی بدولت ہر چیز محفوظ ہے، کیونکہ اس کی مقدّس ہستی لوحِ محفوظ کی حیثیت سے ہے، کہ ہر چیز کو امام کے نور نے گھیر کر رکھا ہے۔

چنانچہ نورِ امامت کی اسی دائمیّت اور اس کو بجھانے کے لئے کافروں کی ناکام خواہش و کوشش کے باب میں سورۂ صف کی آٹھویں آیت کا یہ ارشاد ہے کہ: وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے (پھونک مار کر ) بجھا دیں، حالانکہ اللہ اپنے نور کو کمال تک پہنچا کر رہے گا ہر چند کہ کافر لوگ ناخوش ہوں۔(۶۱: ۰۸)

جاننا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نور کا مظہر عالمِ ظاہر میں نہ ہوتا اور عالمِ باطن میں ہوتا، تو اس صورت میں کافر لوگ خدا کے

 

۱۰۹

 

نور کو بجھانے کا ارادہ ہی نہ کرتے، کیونکہ کافروں کا ارادہ صرف اس دنیا کی ظاہری چیزوں تک محدود ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کی خواہش کی تردید کرتے ہوئے یہ نہ فرماتا، کہ میں اپنے نور کو درجۂ کمال تک پہنچا کر ہی رہوں گا، پس معلوم ہوا کہ خدا کا یہ نور اس دنیا میں ظاہر ہے۔

خدا، رسول اور نورِ امامت:
سورۂ تغابن کی آٹھویں آیت میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ: پس تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے ایمان لاؤ اور اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے ۔ ۶۴: ۰۸۔

اس آیۂ کریمہ سے جو حقیقت صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے، اس سے کوئی بھی دانشمند انکار نہ کر سکے گا، کہ اس میں تین مقدّس ہستیوں کا جدا جدا ذکر کیا گیا ہے، اور ترتیب سے ان تینوں ذواتِ مقدّسہ پر مکمل ایمان لانے کے لئے فرمان ہوا ہے۔

چنانچہ سب سے پہلے امر ہوا، کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ، اس حکم کے تحت وہ تمام نیک باتیں آ گئیں، جو خدا پر ایمان لانے سے متعلق ہیں، مثلاً حق تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرنا، اس کے اسماء و صفات پر ایمان لانا، اس کے فرشتوں، کتابوں اور ان پیغمبروں پر ایمان لانا، جو آنحضرتؐ سے قبل دنیا میں

 

۱۱۰

 

بھیجے گئے تھے۔

پھر ارشاد ہے کہ اس کے رسول یعنی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر ایمان لاؤ، اس حکم میں مسلمانی کی تمام بنیادی باتیں آگئیں، جیسے آنحضرتؐ کی نبوّت و رسالت پر ایمان لانا، قرآنِ پاک کو برحق ماننا، اسلام اور آنحضرت کی تمام تعلیمات کو قبول کرنا وغیرہ۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ تم اس نور پر ایمان لاؤ، جو ہم نے نازل کیا ہے، ظاہر ہے کہ یہ پاک نور امامت ہی کا ہے، جو ازل سے موجود ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے ناطق کے آسمانِ نورانیت سے اساس کی زمینِ شخصیت پر نازل کر دیا، بالفاظِ دیگر یہ نور آنحضرتؐ کی ذاتِ والا صفات سے حضرت مولانا علیؑ کی مقدّس ہستی میں منتقل ہو گیا، اور اولادِ علیؑ کے سلسلۂ امامت میں تا قیامت قائم ہے، اور اس مبارک نور پر ایمان لانا یہ ہے، کہ مذکورہ سلسلے کے أئمّۂ طاہرین کو ’’من عند اللہ‘‘ مان لیا جائے، یعنی یقین ہو کہ یہ امام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہوئے ہیں، اور ان کی ظاہری و باطنی ہدایات پر عمل کیا جائے، اور نور کے اشارے سے یہ سمجھنا مقصود ہے، کہ انسانیت اور مذہب کے دور و دراز راستے میں طرح طرح کی تاریکیاں اور گوناگون ظلمتیں آنے والی ہیں، جن کے لئے نورِ امامت کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

جاننا چاہئے، کہ اس آیۂ مقدسہ کا مقصد و منشاء بھی ایسا

 

۱۱۱

 

ہی ہے جیسا کہ آیۂ اطاعت کا، جو فرمایا گیا ہے کہ: اے ایمان والو تم اللہ تعالیٰ کا کہا مانو اور رسول کا کہا مانو اور صاحبانِ امر کا بھی جو تم میں سے ہیں ۔ ۴: ۵۹۔

پس معلوم ہوا کہ امامِ برحق کو امر اور نور دونوں کا مرتبۂ عالیہ حاصل ہے، یعنی جس طرح خدا اور رسول نے امامِ عالی مقام کو صاحبِ امر مقرر فرمایا، اسی طرح نور بھی اسی کے سپرد کر دیا گیا، کیونکہ نور کے بغیر خدا کی مرضی و خوشنودی کے مطابق امر و فرمان نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی امر و ہدایت سے بڑھ کر نور کا کوئی اور مقصد ہوتا ہے۔

 

نور ایک زندہ ذکر:
جاننا چاہئے کہ معجزہ ہمیشہ انتہائی عجیب و غریب ہی ہوتا ہے، اگر وہ ایسا نہ ہوتا، تو معجزہ ہی نہیں کہلاتا، چنانچہ بعض حقیقی مومنین کو اپنی ذات کی معرفت کے ایک اعلیٰ درجے پر اس حقیقت کا علم ہوتا ہے، کہ نورِ امامت نہ صرف اپنی ذاتِ اقدس ہی میں ایک نہایت ہی درخشندہ اور تابناک جہان ہے، بلکہ یہ ہر عارف کے باطن میں بھی ایک ایسا نورانی عالم بن کر مشاہدے میں آتا ہے، جس کی عقل و روح تو کلّی، کائناتی اور ہمہ گیر و ہمہ رس درجے کی ہے ہی، مگر حیرت اس بات کی ہے، کہ اس عالمِ نور کی ہر چیز گویا ایک فرشتہ ہے، کہ اس میں ایک پاکیزہ روح بھی ہے اور ایک کامل عقل بھی۔

۱۱۲

بناء برین جاننا چاہئے، کہ نور کی لاتعداد صفات میں سے ہر صفت ایک عظیم زندہ فرشتے کی حیثیت سے ہے، چنانچہ اسی سلسلے میں نور کی ایک زندہ صفت ’’ذکر‘‘ بھی ہے، جس کے کئی معانی ہیں۔

اب ذکر جو نور کی صفت ہے، اس کے معانی یہ ہیں: ا۔ ذکر = یادِ الٰہی جس کی بہت سی قسمیں۔ ۲۔ ذکر = قوتِ ذاکرہ۔ ۳۔ ذکر = قرآنِ حکیم ۔ ۴۔ ذکر = نصیحت۔ ۵۔ ذکر = پیغمبر اور امام کا لقب۔

سوال: نور اگر ذکر ہے اور ذکر کے معنی یادِ الٰہی کے ہیں، تو بتاؤ کہ نور میں یادِ الٰہی کس طرح سے ہے؟ جواب: حقیقی مومنین کو یقین ہو، کہ نور کا سورج آسمانِ امامت میں بھی اور بحالتِ عکس عارف کے آئینۂ دل میں بھی ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کے معجزانہ ذکر کا حامل ہوتا ہے، یعنی یہ نور کے معجزات میں سے ہے، کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے عظام میں سے کوئی ایک اسم خود بخود ایک قدرتی آواز بن کر دائمی اور مسلسل ذکر کی صورت اختیار کرتا ہے، جس کی ایک ظاہری مثال ایسی ہے، جیسے کوئی خلا نورد انسان اپنے راکٹ کے ذریعے جب سیارۂ زمین کے دائرۂ کشش سے باہر نکلتا ہے، تو اس وقت وہ راکٹ کو اڑائے یا نہ اڑائے، بہر حال وہاں کی لاوزنی کیفیت اس کو اور اس کے راکٹ کو اڑائے ہوئے گھماتی رہتی ہے، پس یہی حال اس عارف کا بھی ہے، جس کا ذکر خواہشاتِ نفسانیت کے دائرۂ کشش سے نکل کر نورِ

 

۱۱۳

 

امامت کے خلا میں پہنچ چکا ہو۔

سوال: مانا گیا کہ نور کا ایک نام ذکر بھی ہے، مگر نور ذکر کے معنی میں قرآن کس طرح ہے؟ جواب: نور ذکر کے معنی میں قرآن اس طرح سے ہے، کہ ذکر اگر ایک طرف سے نور ہے، تو دوسری طرف سے قرآن کی روح ہے، پس نور، ذکر اور روحِ قرآن ایک ہی حقیقت کے مختلف نام ہیں، اس کا ثبوت یہ ہے کہ قرآنِ حکیم کی ۴۲: ۵۲ میں ارشاد ہوا ہے کہ قرآن وحی کی کیفیت میں اب بھی ایک عظیم روح اور نور ہے۔

نیز اسی روح اور نور کو ۲۲: ۵۴ میں ذکر کا نام بھی دیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے کہ: اور ہم نے قرآن کو ذکر کے لئے آسان کر دیا ہے تو کوئی ہے کہ ذکر کر لے۔ قرآن کو ذکر کے لئے آسان کر دینے کا مطلب یہ ہے، کہ قرآن کی زندہ روح اللہ تعالیٰ کے اسمِ بزرگ میں ہے جو امامِ زمان کا نور ہے، حضورِ اکرم نبوّت سے پہلے اسی بزرگ اسم کا ذکر کر لیا کرتے تھے، اور اسی سے قرآنِ پاک کا ظہور ہوا، اور اب بھی قرآنِ حکیم کی روحانیت و نورانیت اسی اسم اور اسی ذکر میں موجود ہے۔

جیسا کہ بتایا گیا، کہ نور کے ناموں میں سے ایک نام ذکر بھی ہے، اور بیان ہوا کہ ذکر کے یہ یہ معانی ہیں، پس اسی حقیقت کے بارے میں سورۂ طلاق کی دسویں اور گیارہویں آیت کا یہ ارشاد ہے کہ: تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف ایک ذکر نازل کیا ہے، ایک ایسا رسول جو تم کو واضح نشانیاں پڑھتا ہے تا کہ ایسے لوگوں

 

۱۱۴

 

کو جو ایمان لائے اور اچھے کام کریں تاریکیوں سے نور کی طرف لے آئے۔ ۶۵: ۱۰ تا ۱۱

اس آیۂ حکمت آگین کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ خداوندِ عالم نے دنیائے اسلام میں ایک ایسا زندہ اور مجسّم ذکر بھیجا، کہ اس میں ذکر کے تمام مذکورہ معانی اور اوصاف بدرجۂ اتم موجود تھے، جو رسولِ مقبولؐ تھے، دوسری طرف سے اس کے باطنی معنی یا تاویل یہ ہے، کہ حقیقی مومنوں اور عارفوں کے پاکیزہ دل و دماغ میں اسمِ اعظم کا ذکر ڈالا گیا ہے، جس میں رحمتِ عالمین اور امامِ مبین کا نورِ واحد موجود ہے، جو ہمیشہ روحانیت، ہدایت اور علم و حکمت کی روشن آیات پڑھتا ہے، تا کہ مومنوں اور نکوکاروں کو جہالت و نادانی کی تاریکیوں سے نکال کر اپنی ذات کی انتہائی معرفت کی روشنی کی طرف لے آئے۔

نور اور دورِ روحانیت:
سورۂ تحریم کے دوسرے رکوع کے شروع (یعنی ۶۶: ۰۸) میں ہے کہ: اے ایمان والو تم اللہ کی طرف خالص توبہ کرو، قریب ہے کہ تمہارا پروردگار تم سے برائیاں دور کر دے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کر دے گا، جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں، اس دن اللہ تعالیٰ نبی (صلعم) کو اور جو مومنین (تابعداری کی رو سے) ان (یعنی پیغمبر) کے ساتھ ہیں، ان کو رسوا نہ کرے گا، ان کا نور ان کے داہنے اور ان کے سامنے سعی کرتا ہو گا، کہیں گے کہ

 

۱۱۵

 

اے ہمارے ربّ ہمارے لئے ہمارے اس نور کو پورا کر دے اور ہمیں معاف فرما بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

اس آیۂ مقدسہ کی حکمتوں کے سلسلے میں یہ ہے، کہ عموماً سب مسلمانوں سے اور خصوصاً عہدِ نبوّت کے مسلمین سے فرمایا جاتا ہے کہ: “اے ایمان والو! تم اللہ کی طرف توبۂ نصوح کرو۔” یعنی اے لوگو! جنہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف خالص اور سچی توبہ کرلو، مطلب یہ کہ ظاہری اور باطنی گناہوں کو انتہائی ندامت کے ساتھ ترک کردو اور اپنی نیّت، قول، اور عمل کی واجبی طور پر اصلاح کرو، کیونکہ توبہ الی اللہ کے معنی دل و جان سے خدا کی طرف رجوع کرنے کے ہیں، جس کے لئے تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد جو الفاظ ارشاد ہوئے ہیں، ان میں نور اور روحانی دور کے انقلابات کی پیش گوئی کی گئی ہے، اور روحانی دور کی بابت یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کی دو صورتیں ہیں، ایک صورت یہ کہ وہ باطنی طور پر ہمیشہ جاری و ساری ہے، اور دوسری صورت یہ ہے، کہ وہ ایک مقررہ وقت میں ظاہر ہو کر دنیا والوں کو متاثر کرے گا۔

اب اس مقام پر قرآنِ حکیم کی حکمت کا یہ اصول قابلِ ذکر ہے، کہ قرآنِ مجید میں جہاں کہیں دنیا والوں کی اجتماعی حالت کے بارے میں کوئی پیش گوئی کی گئی ہے، اس کے اندر لوگوں کی انفرادی حالت کی بھی پیش گوئی پوشیدہ ہے،

 

۱۱۶

 

مثال کے طور پر جن آیاتِ کریمہ میں ایسی قیامت کا ذکر آیا ہے جو موت کے بعد واقع ہونے والی ہے، ان میں انسانی افراد کی شخصی قیامتوں کا بھی تذکرہ موجود ہے۔

چنانچہ خالص اور سچی توبہ کے حکم کے بعد فرمایا گیا ہے کہ “قریب ہے کہ تمہارا پروردگار تم سے برائیاں دور کر دے گا۔” اس ارشاد سے ایک تو یہ معلوم ہوتا ہے، کہ نافرمانیوں اور گناہوں سے توبۂ نصوح کرنے کے بعد بھی مومنوں میں کچھ ایسی برائیاں باقی رہتی ہیں، جنہیں وہ خود دور نہیں کر سکتے، دوسرا یہ پتہ چلتا ہے، کہ خالص اور قلبی طور پر توبہ کرنے کے بعد امامِ وقتؑ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا دروازہ کھل جانے کی امید ہے۔

یہاں پر یہ ضروری سوال پیدا ہوتا ہے، کہ وہ کون سی برائیاں ہیں، جن کو مومن اپنی ذات سے توبۂ نصوح کرنے کے باوجود بھی دور نہیں کر سکتا؟ اس کا جواب یہ ہے، کہ انتہائی حد کی توبہ کرنے کے بعد نفسانی گناہوں کی امکانیت البتہ ختم ہو جاتی ہے، مگر مذہب سے متعلق باطل خیالات اور غلط نظریات ایسی چیزیں ہیں، جن کو مٹانے کے لئے تنہا توبۂ نصوح کافی نہیں ہو سکتی، بلکہ اس کے ساتھ خصوصی ہدایت اور علمِ توحید کی ضرورت ہے، جو امامِ زمان کے وسیلے سے حاصل ہو سکتا ہے۔

بعد ازان ارشاد ہے کہ: “اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کر دے گا، جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں۔”  یہ بہشتِ روحانیت کے ان باغوں کا ذکر ہے، جن کا تعلق نہ صرف انسان کی دوسری

 

۱۱۷

 

ہی زندگی سے ہے، بلکہ اسی زندگی کی روحانیت میں بھی جزوی طور پر ان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، جن میں انسانی عقل و جان کے لئے ہر قسم کی نعمتیں اور لذّتیں موجود ہیں، ایسے باغوں کے نیچے تائیدِ الٰہی کی نہریں چلتی ہیں، یعنی ان روحانی درجات میں عقلِ کلّ کی تائید، نفسِ کلّ کی تخلیق، ناطق کی تنزیل اور اساس کی تاویل کی قوتیں جاری و ساری ہیں۔

پھر ارشاد ہوا ہے کہ: “اس دن اللہ تعالیٰ نبی (صلعم) کو اور جو مومنین (فرمانبرداری کی رو سے) ان کے ساتھ ہیں ان کو رسوا نہ کرے گا۔”  یہ واقعہ روحانی دور سے متعلق ہے، روحانی دور دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی، وقت سے پہلے انفرادی طور پر بھی ہے، اور وقت آنے پر اجتماعی حالت میں بھی، ایسے دور میں خدا تعالیٰ پیغمبر کو اور ان مومنین کو رسوا نہیں کرے گا، جو تابعداری، محبت اور روحانیت کے اعتبار سے اور نورِ امامت کی معیّت کے لحاظ سے ( کہ امام کا نور پیغمبر کا نور ہے) پیغمبر کے ساتھ ہیں۔

’’ان مومنین کا نور ان کے داہنے اور ان کے آگے سعی کرتا ہو گا‘‘۔ یعنی ایسے دور میں، جس کا اوپر ذکر کیا گیا نورِ امامت جو نورِ ایمان بھی وہی ہے، مومنین کے داہنے کان اور ان کی پیشانی سے خطاب کرے گا، جس میں ان کی دنیا و آخرت سے متعلّق رشد و ہدایت اور علم و حکمت ہو گی، کیونکہ تاویل کی زبان میں داہنی طرف ظاہر کو کہتے ہیں، جس سے یہ دنیا مراد ہے،

 

۱۱۸

 

اور آگے کا مطلب آخرت ہے، کہ آخرت انسان کے مستقبل میں ہے۔

’’کہیں گے کہ اے ہمارے ربّ ہمارے لئے ہمارے اس نور کو پورا کر دے اور ہمیں معاف فرما‘‘۔ یعنی اس وقت مومنین کو اس بات کا احساس ہو گا، کہ وہ باوجود کم علمی اور محتاجی کے قبلاً اس رحمتِ بے پایان سے غافل تھے، لہٰذا وہ خداوند تبارک و تعالیٰ سے یہ دعا کریں گے، کہ اے پروردگار! ہمارے اس نور کو درجۂ کمال تک پہنچا دے! یعنی ہماری ذاتی روحانیت کو نور کی اصل سے واصل کر دے! اور ہم جو اس امکانی رحمت سے قبلاً غافل رہے ہیں، اس کے لئے ہمیں معاف فرما! اور ہمارے آئندہ گناہوں کو بھی بخش دے!

’’بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ یعنی جب مومنین روحانی دور میں اللہ جلّ شانہٗ کے لاتعداد معجزات اور بے شمار قدرتوں کا مشاہدہ کریں گے، تو اس وقت وہ زبانِ قال اور زبانِ حال دونوں سے کہا کریں گے، کہ بے شک تو ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے، اور تیری قدرت میں ’’کوئی شیٔ ناممکن نہیں‘‘۔

۱۱۹

آفتاب و ماہتاب:
قرآن حکیم کی ۱۰: ۰۵، ۲۵: ۶۱ اور ۷۱: ۱۶ میں سورج اور چاند کی روشنی کا ذکر اس انداز سے یکجا طور پر آیا ہے، کہ سورج اس کائنات کے لئے ظاہری اور مادّی روشنی کا سرچشمہ ہے اور چاند اس کا مظہر ہے۔

یہ پرحکمت آیتیں ایک ہی موضوع یعنی نور کے مضمون اور بیان سے متعلق ہیں، جن کے مربوط مطالعہ اور غورو فکر کے نتیجے میں بہت سے حقائق و معارف سامنے آتے ہیں، جن سے نور اور مظہرِ نور کے تصور کے علاوہ توحید کے دوسرے انتہائی اعلیٰ تصورات جیسے ہمہ ازوست یا ہمہ اوست وغیرہ کے سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔

چنانچہ سورۂ نوح کی پندرھویں اور سولہویں (یعنی ۷۱: ۱۵ تا ۱۶) میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے سات آسمان کیسے اوپر تلے بنائے ہیں اور چاند کو نور قرار دیا ہے اور سورج کو چراغ ٹھہرایا ہے۔

جاننا چاہئے، کہ قرآنی حکمت کے اصولات میں سے ایک اصول یہ بھی ہے، کہ کسی بھی گوہرِ حقیقت کا مشاہدہ نہ صرف اس کے مختلف پہلوؤں سے کرایا جاتا ہے، بلکہ ہر پہلو کا مشاہدہ بھی مختلف زاویوں سے کرایا جاتا ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم کی ان آیاتِ کریمہ میں، جو سورج، چاند اور ان کی روشنی کے متعلق ہیں،

 

۱۲۰

 

کبھی ارشاد ہوا ہے، کہ سورج کی ذات چراغ ہے یعنی ایک خالی ظرف، کبھی ارشاد کیا گیا ہے، کہ وہ ایک روشن چراغ ہے اور کبھی فرمایا گیا ہے، کہ سورج گویا چراغ کا ظرف ہے اور چاند اس کا نور (یعنی شعلہ) ہے۔

پس حقیقی مومنین کے لئے واضح رہے کہ نور کی مذکورہ مثالوں کے ممثولات اس طرح سے ہیں، کہ قرآن پاک میں جہاں سورج کی مثال ایسے ظرفِ چراغ سے دی گئی ہے جس کو روشن کر دینے کے لئے تیل کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں نظریۂ ہمہ اوست (یک حقیقت) کی طرف اشارہ ہے، کہ جس طرح اجزائے کائنات کے تمام ذرّات باری باری سورج کے مقام پر پہنچ کر روشنی کی صورت اختیار کر لیتے ہیں، اسی طرح ہر چیز کی روح جب خدا کی ذات سے واصل ہو جائے، تو وہ فنا ہو کر اس کی صفات کی روشنی بن جاتی ہے، یہ ہمہ اوست اور یک حقیقت کا نظریہ ہے۔

جہاں ارشاد ہوا ہے کہ سورج ایک ایسا روشن چراغ ہے جو کائنات میں روشنی پھیلا دیتا ہے، تو اس کے معنی ہمہ ازوست اور یک الٰہیت کے ہیں، کیونکہ جس طرح ہر چیز کا مادّی وجود سورج سے بنتا ہے، اسی طرح ہر چیز کی روحانی ہستی خدا سے ہے۔ اور جہاں سورج کو چراغ اور چاند کو نور یعنی شعلۂ چراغ قرار دیا گیا ہے، اور یہ مثال رات کے لحاظ سے ہے، جس کا مطلب یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ برحق کی غیر مرئی صفات

 

۱۲۱

 

کا نور امامِ زمانؑ سے ظاہر ہوتا ہے، چونکہ یہی انسانِ کامل ہے اور یہی خدا کا مظہر ہے۔

روشنی بلا واسطہ سورج کی ہو یا بالواسطہ چاند کی، ہر حالت میں ایک ہی روشنی ہے، اس میں کوئی دوئی نہیں، مگر اس میں یہ فرق ضرور ہے کہ رات کے وقت جو روشنی چاند سے زمین پر پڑتی ہے، وہ براہِ راست نہیں آتی، بلکہ چاند کی سطح سے ٹکرا کر آتی ہے، اس لئے وہ سورج کی روشنی کی طرح تیز اور گرم نہیں ہوتی، جس کی وجہ یہ ہے، کہ ہم رات کے وقت نہ صرف یہی کہ سورج سے دور ہو جاتے ہیں، بلکہ چاند بھی ہم سے بہت ہی دور رہتا ہے، پس اگر ہم اس وقت چاند کی سطح پر جائیں، تو وہاں اس وقت رات نہ ہو گی بلکہ دن ہو گا، اس لئے وہاں ہم کو براہِ راست سورج نظر آئے گا، اس مثال کی تاویل یہ ہے کہ جو انسان امامِ زمانؑ کے لئے اقرار کرے، اس کے لئے امام کی شخصیت چاند ہے اور امام کی ہدایت چاند کی روشنی ہے، جب ایسا مومن منازلِ معرفت کو طے کر کے امام کی ذاتِ اقدس تک پہنچ جائے گا، تو اس وقت اس کے لئے امامِ زمان کی ہدایت خدا و رسول کی ہدایت ثابت ہو گی، جیسے چاند کی روشنی میں چاند پر پہنچ جانے کے ساتھ ساتھ چاندنی سورج کی روشنی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

۱۲۲

امام شناسی
حصہ سوم

 

حرفِ آغاز

حضرت آدم علیہ السّلام کی خلقت و بعثت سے قبل ربّ العزّت نے جو تمام فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ: انی جاعل فی الارض خلیفۃ ۔ ۰۲: ۳۰۔ یعنی میں (ہمیشہ ) زمین پر ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں۔ اس فرمانِ خداوندی کا اصل مطلب یہ پیش گوئی اور یہ اعلان تھا، کہ خلافت و نیابتِ الٰہیّہ کا مبارک و مقدّس منصب آدمؑ و اولادِ آدمؑ کے انبیائے کرامؑ اور أئمّۂ عظامؑ کے پاک سلسلے میں رہتی دنیا تک جاری و باقی رہے گا، چنانچہ اسی منشائے خداوندی کے مطابق پہلے دورِ نبوّت میں یہی خلافتِ الٰہیّہ پشت بہ پشت چلتی آئی تھی، اور اس کے بعد پھر دورِ امامت میں یہی ربّانی منصب آج تک جامہ بجامہ جاری ہے، اور ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی یہی سلسلہ چلتا رہے گا۔

اس حقیقت کے بارے میں اگر کوئی دانشمند ذاتی طور پر بھی تحقیق و تدقیق کرنا چاہے، تو اسے سب سے پہلے لفظ جَاعِلٌ کے معنی میں خوب غور کرنا چاہئے، کہ جاعل اسمِ فاعل ہے اور یہاں اس کی معنوی وسعت کا تعلق فی

 

۱۲۵

 

الارض کے ساتھ ہے، اور فی الارض سے وہ تمام لوگ مراد ہیں جو حضرت آدم علیہ السّلام کے زمانے سے لے کر قیامِ قیامت تک سیّارۂ زمین پر بستے جائیں گے، اور لفظِ خلیفۃ سے اس حقیقت کا دو طرح سے ثبوت ملتا ہے، کہ خلیفۃ کے معنی ہیں ایک جانشین یا ایک نائب، جو ایک اعتبار سے حضرت آدم علیہ السّلام خدا کا وہ واحد خلیفہ ہے، جس کی اولاد کے تمام انبیاء و أئمّہ علیہم السلام اپنے اپنے وقت میں اسی کی خلافت کے وارث، ولی اور نمائندے تھے، اور دوسرے اعتبار سے یہ بھی درست ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے زمانے میں خدا کا ایک خلیفہ ہے، اور یہ دونوں باتیں ایک ہی حقیقت کی حامل ہیں۔

اگر حضرت آدمؑ کی خلافت ان کی اولاد کے پیغمبروں اور اماموں کے سلسلے میں قیامت تک جاری و باقی رہنے والی نہ ہوتی، تو فرشتوں نے امرِ خلافت پر اعتراض کیوں اٹھایا، اگرچہ وہ فرشتے حقائقِ اشیاء سے واقف و آگاہ تو نہیں تھے، لیکن دنیا میں پیش آنے والے واقعات کی ظاہری حالت کو کسی ذریعے سے جانتے تھے، اور ان کا اعتراض اس انداز میں ہے کہ اس سے دنیا میں ہمیشہ لوگوں کے درمیان خلیفۂ خدا کی موجودگی ثابت ہو جاتی ہے، جیسے انہوں نے کہا کہ: کیا تو ایسے شخص کو زمین میں خلیفہ مقرر کرتا ہے، جو اس میں فساد اور خونریزیاں کرے گا۔ ۰۲: ۳۰۔ اس کے جواب

 

۱۲۶

 

میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: میں جانتا ہوں اس بات کو جس کو تم نہیں جانتے۔

دنیا میں لوگوں کی ہدایت و رہنمائی اور حق و انصاف کی تائید و حمایت کے لئے اللہ تعالیٰ کی خلافتِ صوری و معنوی ہمیشہ قائم ہے، اسی لئے پروردگارِ عالم نے فرمایا کہ: یا داؤد انا جعلنٰک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ۔ ۳۸: ۲۶۔ اے داؤد تحقیق ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ مقرر کیا ہے سو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکم کرتے رہنا۔ اس آیۂ کریمہ سے یہ مطلب صاف طور پر ظاہر ہوا، کہ خدائے حکیم نے وہ حکم، جو زمین والوں سے متعلق تھا، تمام معنوں کے ساتھ اپنے برگزیدہ خلیفہ کے حوالے کر دیا ہے، ورنہ خلیفہ کا یہ لقب بے معنی ہو جاتا، قرآنِ پاک کی اس تعلیم کے بموجب جب حکم دینا خلافتِ الٰہی کے بغیر روا نہیں، تو امر کرنا خدا کی خلافت کے سوا کس طرح جائز ہو سکتا ہے، پس یہ حقیقت یقینی الفاظ میں ثابت ہوئی، کہ قرآنِ حکیم نے أئمّۂ طاہرین صلوات اللہ علیہم کو اولوالامر اس لئے کہا ہے، کہ ان کو اللہ نے روئے زمین پر اپنی خلافت و نیابت کے شرف سے مشرف کر کے امر کا مالک اور مختار بنا دیا ہے۔

امام شناسی کی اس کتاب کے آغاز میں خلافتِ آدم کی بحث اس لئے کی گئی، کہ ان کی خلافت نہ صرف کارِ نبوّت کی بنیاد ہے، بلکہ یہ کسی شک کے بغیر امرِ امامت کی

 

۱۲۷

 

بھی اساس ہے، پس ہم نے اس بیان میں حضرت آدمؑ اور حضرت داؤدؑ کی خلافت کی قرآنی دلیل سے یہ حقیقت واضح کر کے بتایا، کہ امام خدا کے خلیفۂ معنوی کی حیثیت سے ہمیشہ دنیا میں حاضر اور موجود ہیں، اور ان کی معرفت کا حصول ہر دیندار آدمی کے لئے انتہائی ضروری شیٔ ہے، چنانچہ ہم نے اپنے اسماعیلی بھائیوں کے لئے امام شناسی کے مختلف موضوعات پر مشتمل کتابوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ہے، جس میں قبلاً دو کتابیں تیار ہو چکی تھیں، اب خدا کے فضل و کرم سے زیرِنظر کتاب اسی سلسلے کا تیسرا حصہ ہے، جو مکمل ہو کر آپ کے سامنے ہے۔

یہ کتاب ایسی آیاتِ قرآنی کی شہادتوں پر مبنی ہے، جن میں “کل” کا لفظ آیا ہے، ان آیتوں کو کلیّات یعنی عام قوانین کے درجے میں مانتے ہوئے ہر کلیّے کی حقیقتوں سے امام شناسی کی ضرورت و اہمیت ظاہر کر دی گئی ہے، اس کتاب میں مضامین کا یہ طریقہ اس لئے اختیار کیا گیا ہے، کہ قرآنِ حکیم میں امام شناسی کا ایک مشہور کلیّہ “و کل شیء احصینٰہ فی امام مبین” ہے اور اس کے معنی ہیں کہ ربّ العزّت نے ہر چیز کو امامِ مبین کی ذات میں گھیر کر رکھا ہے، جب یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ امام ہر چیز پر محیط ہے، تو ماننا پڑے گا، کہ امام شناسی کا موضوع تمام موضوعات پر حاوی ہے، پس ہم نے یہ ثابت کر کے

 

۱۲۸

 

دکھانا تھا، کہ امام شناسی کے مذکورہ کلیّے نے قرآن کے دوسرے تمام کلیّات کو کس طرح گھیر لیا ہے، چنانچہ آپ اس کتاب کے مطالعے سے یہ معلوم کر سکتے ہیں، کہ واقعاً تمام کلیّات امامِ مبین کے کلیّے میں داخل ہیں اور قرآنِ حکیم کی ساری آیات مختلف کلیّوں میں سموئی ہوئی ہیں۔

قرآن و حدیث کے علاوہ عقل بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے، کہ ہر چیز کا ایک دروازہ ہوا کرتا ہے، اسی طرح قرآن کی مختلف حکمتوں کے بھی خزانے ہیں، ان خزانوں کے مقفل دروازے ہیں اور ان قفلوں کی کلیدیں ہیں، جیسے قرآن پاک کا ارشاد ہے کہ: افلا یتدبرون القرآن ام علیٰ قلوب اقفالھا ۔ ۴۷: ۲۴۔ تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔چنانچہ ہم نے اس کتاب میں (ان شاء اللہ تعالیٰ) امامِ برحق صلوات اللہ علیہ و سلامہ کے نورِ معرفت کی روشنی میں جن خاص خاص کلیدوں کو درج کر لیا ہے وہ حقیقی مومنین کے لئے واقعی امام شناسی اور قرآنی علم و حکمت کے گنجینوں کی کلیدیں ہیں۔

میں یہ کہتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کرتا ہوں بلکہ اس سے مجھے بے اندازہ خوشی ہے کہ میں علم کا غنی نہیں، درویش ہوں اور امامِ عالی مقام کے دروازۂ روحانیت پر شب و روز شیء للہ کی صدا و صلا لگاتا رہتا ہوں، پس اگر میری تحریروں سے جماعت کی کوئی علمی خدمت ہو سکتی ہے،

 

۱۲۹

 

تو یہ اسی شاہِ ولایت و نورِ ہدایت کی مہربانی سے ہے، اور اگر ان قلمی کوششوں میں کچھ لفظی خامیاں ہیں، تو وہ میری اپنی نفسانی کدورتوں کے سبب سے ہیں۔

میں بالآخر گروہِ مومنین کی قلبی دعائیں چاہتا ہوں، تا کہ قادرِ متعال اپنے ولئ امر امامِ حیّ و حاضر کے وسیلے سے اس بندۂ ناچیز کو بیش از بیش علمی خدمت کی توفیق و ہمت عنایت فرمائے! آمین یا رب العالمین!!

فقط خاکسار مصنف
۷۴/۳/۱۲

۱۳۰

کلید نمبر ۱
قدرتِ کاملہ

اللہ تعالیٰ کی طاقت و توانائی کا نام قدرتِ کاملہ ہے، قرآنِ حکیم کے پر حکمت کلیّات کے سلسلے میں سب سے پہلے وہ کلیّہ آتا ہے، جو قادرِ مطلق کی قدرتِ کاملہ کے متعلق ہے، جو سورۂ بقرہ کی بیسویں آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ: ان اللّٰہ علیٰ کل شیء قدیر (۰۲: ۲۰) یعنی یقیناًاللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

یہاں کل شیء کی وضاحت سب سے ضروری ہے، کہ کل شیء یعنی ہر چیز سے نہ صرف ممکنات مراد ہیں، بلکہ اس میں غیر ممکنات کا بھی تذکرہ موجود ہے، کیونکہ قادرِ مطلق کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں، جس کی ایک واضح اور روشن دلیل یہ ہے، کہ زمانۂ قدیم کے دنیاوی حکماء کے نزدیک جتنی چیزیں نا ممکن تھیں، ان میں سے اب بہت سی چیزیں سائنسی انقلاب کی بدولت ممکن ہوچکی ہیں، اور اس قسم کے انکشافات و ایجادات کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، پھر یہ اندازہ شاید غلط نہ ہوگا، کہ آنے والی چند صدیوں کے اندر اندر بے شمار ناممکن چیزیں ممکنات میں شامل ہو جائیں گی،

 

۱۳۱

 

اسی طرح رفتہ رفتہ ہوسکتا ہے، کہ غیر ممکن اور محال کا نظریہ قطعی طور پر ختم ہو جائے۔

پس اللہ تعالیٰ کے ہر چیز پر قادر ہونے اور اس کے لئے کوئی چیز ناممکن نہ ہونے کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو، کہ انسان، جو اس کی ایک مخلوق ہے، آئے دن کسی نہ کسی ناممکن چیز کو ممکن ثابت کرتا جا رہا ہے، یہ سب کچھ اسی قادرِ مطلق کی قدرتِ کاملہ کی مہربانی سے ہے۔

اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کے بیان کے ضمن میں انسان کی طاقت و توانائی کی بحث بھی چھڑ گئی ہے، اور یہ مسئلہ ایسا نہیں، کہ اس کو پسِ پشت ڈال دیا جائے، کیونکہ ’’ناممکن‘‘ کا تصور وہی تو ہے، جس نے دنیا کی بہت سی قوموں کے لئے علم و حکمت کے دروازے بند اور کامیابی کی راہیں مسدود کر دی ہیں، اس لئے جاننا چاہئے، کہ انسان، خواہ وہ مادّیت کے میدان میں ہو یا روحانیت کے مقام پر، خدا تعالیٰ کی قدرت و توانائی کا مظہر ہے، کیونکہ خدائے حکیم کے سارے معجزات انسان ہی سے ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمانِ مبارک ہے کہ:

سنریھم اٰیٰتنا فی الاٰفاق و فی انفسھم حتیٰ یتبین لھم انہ الحق ۔ ۴۱: ۵۳۔ ہم عنقریب ان کو آفاق میں بھی اور ان کے نفوس میں بھی اپنے معجزات دکھائیں گے، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ برحق ہے۔

۱۳۲

قرآنِ حکیم کی اس پیش گوئی سے دانا کے لئے ظاہر ہے، کہ پہلے تو اس دنیا میں ظاہری اور مادّی قسم کے معجزات رونما ہونے والے تھے، جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے، اس کے بعد نفوسِ انسانی روحانی دور کی آمد سے متاثر ہونے والے ہیں، جس کے نتیجے میں روحانی قسم کے معجزات کا دور دورہ ہونے والا ہے، پس مومن کو چاہئے، کہ روحانیت کے انقلابی دور کے ساتھ سازگاری کے لئے اپنے آپ کو تیار کر کے رکھے، یہ تیاری کس طرح ہو سکتی ہے؟ یقینی درجے کے علم سے، امام شناسی کے علم سے اور ذاتی روحانیت کے تجربات سے، اس کے علاوہ قرآنِ حکیم کے ایسے کلیّات میں غور و فکر کرنے سے، جن میں ہر چیز کے قوانین کا علم و حکمت اور ہر شیٔ کی حقیقت و معرفت موجود ہے، تا کہ ایک طرف سے ’’ناممکن‘‘ کا تصور ختم ہوکر، ’’ممکن‘‘ کا نظریہ پیدا ہوسکے اور دوسری طرف سے روحانی دور کے اثرات کے متحمل ہونے کی اہلیت پیدا ہو سکے۔

جب تک کوئی انسان مادّیت کی تنگ و تاریک چاردیواری کے اندر مقید و محبوس، روحانی علم سے بے بہرہ اور امکانیت کی بے پناہ وسعتوں سے نا آشنا ہے، تو پھر وہ کیسے باور کر سکتا ہے، کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت اور علم نے انسان کے لئے ہر قسم کی امکانیت پیدا کر دی ہے اور کوئی چیز ناممکن نہیں، بلکہ ہر چیز، ہر بات اور ہر کام ممکن ہے، ہاں یہ بات

 

۱۳۳

 

ضرور ہے کہ ہر ممکن کے لئے ایک مناسب مقام اور ایک خاص موقع یا کہ کوئی ضروری شرط مقرر ہے، یعنی ازل سے ابد تک، دنیا سے آخرت تک اور مکان سے لامکان تک انسان کے لئے ہر چیز کی امکانیت کے بے شمار مواقع ملنے والے ہیں، اسی لئے ارشاد ہے کہ مایوسی کفر ہے اور اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ جو کچھ تم نے خدا سے مانگا تھا، اس نے وہ سب تم کو دے رکھا ہے۔

قدرتِ کاملہ اور ممکن و ناممکن کے اس بیان کے ساتھ ساتھ لازمی ہے، کہ انبیاء و أئمّہ علیہم السلام کے ظاہری و باطنی اور علمی وعملی معجزات کا بھی بطریقِ اجمال کچھ تذکرہ کر دیا جائے، چنانچہ یہ جاننا ضروری ہے، کہ قادرِ مطلق نے جن کامل انسانوں کو نبوّت یا امامت کے نورِ مقدّس کا حامل بنا کر بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے مقرر فرمایا ہے، ان کو اثباتِ حقانیت وصداقت کے طور پر طرح طرح کے معجزات کی روحانی طاقت سے بھی نوازا ہے، تا کہ ہادئ برحق کے متعلق باور کرنے والے مکمل طور پر باور کریں اور انکار کرنے والے یا تو باور کریں یا انتہائی حد کا انکار کریں، تاکہ ان کے بارے میں قانونِ الٰہی کوئی فیصلہ صادر کرے، ظاہری اور حسّی معجزات کی کیفیت و حقیقت بس ایسی ہے، مگر بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے، کہ جن لوگوں نے شروع شروع میں معجزات پر ایمان لایا تھا، وہ بھی رفتہ رفتہ ان معجزات کے ایسے ہی عادی بن

 

۱۳۴

 

گئے، کہ معجزات ان کی نظر میں معجزات ہی نہ رہے، انہوں نے معجزات کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا، ایسا کیوں ہوا؟ اس لئے کہ ان میں قساوتِ قلبی پیدا ہوئی، یعنی دل کی سختی، جس کی وجہ سے ان کا ایمان روز بروز کمزور ہوتا گیا، اس واقعہ کی ایک مثال بنی اسرائیل کے قرآنی قصے میں موجود ہے۔

ان حالات کے برعکس ہادئ برحق کی حقیقی فرمانبرداری اور اس کی محبت و عشق میں ایمان و ایقان، اور علم وحکمت کے جو جو عجائبات اور معجزات پوشیدہ ہیں، ان کے بار بار سامنے آنے سے مومن کے ایمان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور ان میں کوئی خطرہ نہیں۔

 

۱۳۵

 

 

کلید نمبر ۲
علمِ الٰہی

دوسرا قرآنی کلیّہ اللہ تعالیٰ کے علم کے باب میں ہے، جو البقرہ کی انتیسویں آیت میں ہے کہ: و ھو بکل شیء علیم ۔ ۰۲: ۲۹۔ اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

اس حقیقت کے بارے میں مومنین و مسلمین کو ذرّہ بھر شک و شبّہ نہ ہوگا، کہ اللہ پاک ہر چیز کو بخوبی جانتا ہے، اس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، نہ اس کے احاطۂ علمی سے کوئی چیز باہر ہے، لیکن جو اہلِ بصیرت خدا کی توحید ومعرفت سے واقف وآگاہ ہیں، ان کے نزدیک علم کی یہ صفت حضرت ربّ العزّت کے لئے کوئی بڑی بات نہیں، کیونکہ اس کی فرمانبرداری کے نتیجے میں قلمِ قدرت (عقلِ کلّ) اور لوحِ محفوظ (نفسِ کلّ) کو بھی ہر چیز کا علم اور ہر چیز کی قدرت دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک ایسی زندہ اور حقانیت وصداقت سے بولنے والی کتاب ہے، کہ اس میں دستِ قدرت نے روحانی اور نورانی تحریر سے ہر چیز کا احاطۂ علمی کر رکھا ہے، یہ حقیقت ان دونوں آیتوں کا

 

۱۳۶

 

ماحصل ہے: و لدینا کتٰب ینطق بالحق ۔ ۲۳: ۶۲۔ اور ہمارے پاس ایک ایسی کتاب ہے جو سچ سچ کہہ دیتی ہے۔ و کل شیء احصینٰہ کتابا ۔ ۷۸: ۲۹۔ اور ہم نے ہر چیز کو ایک کتاب میں گھیر رکھا ہے۔ جب یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے، کہ خدا کی اس نورانی کتاب میں تمام چیزیں موجود ہیں اور ایسی کوئی چیز نہیں جو اس کتاب سے باہر ہو، پھر یہ بات لازمی ہے کہ خدا کی اپنی مخصوص چیزیں بھی اس معجزاتی کتاب میں ہوں، جبکہ یہ کتاب خدا ہی کی ہے، خدا کی خاص خاص چیزیں کون کون سی ہیں؟ خدا کی جملہ خوبیاں، یعنی تمام صفات ہیں، جن میں سب سے پہلے حیات، علم، ارادہ اور قدرت ہے، اس بیان سے جب یہ حقیقت صاف طور پر ظاہر ہوگئی، کہ خدا کی زندہ اور بولنے والی کتاب میں اس کی ساری خوبیوں کے خزانے پنہان ہیں، تو پھر اس حقیقت کے لئے بھی تسلیم کرنا چاہئے، کہ اللہ تعالیٰ کے مقدّس نور کے سوا کوئی چیز ایسی کتاب نہیں ہوسکتی ہے، جو پروردگارِ عالم کی جملہ صفات سے متصف ہو۔

اللہ تعالیٰ کے نورِ پاک کے حامل صرف انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام ہی ہیں، جنہیں خدا نے روئے زمین کی خلافت و نیابت کے لئے برگزیدہ فرمایا ہے، اور ان حضرات کی برگزیدگی فقط اسی معنی میں ہے کہ ربّ العزّت نے ان کو اپنے اپنے وقت میں نورِ مطلق کا چراغ قرار دے دیا ہے

 

۱۳۷

 

تا کہ ان کی ہدایت و رہنمائی اور علم و حکمت کی ضیا پاشیوں سے عالمِ دین تابان و درخشان ہوتا رہے، جیسا کہ قرآن حکیم کی ۳۳: ۴۶ کے ارشاد سے ظاہر ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے وقت میں خدائی نور کے روشن چراغ تھے۔

یہ ہمارا اپنا عقیدہ اور ایمان ہے کہ خدا کے خلیفہ، قلمِ قدرت اور لوحِ محفوظ کا مظہر، کتابِ ناطق اور پیغمبرِ آخر زمان کا نور اور آپ کے جانشین امامِ مبین ہیں، یعنی امامِ زمانؑ، ہمارے نزدیک امامِ مبین کا نظریہ ایک ازلی وابدی حقیقت ہے، چنانچہ قرآنِ عظیم کا ارشاد ہے کہ: و کل شیء احصینٰہ فی امام مبین ۔ ۳۶: ۱۲۔ اور ہم نے ہر چیز کو امامِ ظاہر (کے نور) میں گھیر کر رکھا ہے۔

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ امامِ مبین سے لوحِ محفوظ مراد ہے، تو میں سوال کروں گا، کہ اچھا حضرت، یہ تو بتایئے کہ لوحِ محفوظ کس چیز سے بنی ہے؟ یعنی اس کے وجود کی کیفیت و حقیقت کیا ہے؟ کیا وہ قیمتی جواہرات میں سے کسی جوہر کی ہے؟ کیا وہ عقلی موجودات میں سے ہے یا روحانی موجودات میں سے؟ وہ ان تین باتوں میں سے کوئی ایک بات ضرور کرے گا۔

اگر کہے کہ لوحِ محفوظ وجودِ عقلی رکھتی ہے، تو اس کا یہ جواب غلط ہو گا، کیونکہ ’’کل شیء‘‘ میں جب عقل، روح اور جسم تینوں کا ذکر ہے، تو مجرّد عقل کی ایسی لوحِ محفوظ تمام

 

۱۳۸

 

چیزوں کی حامل کس طرح ہو سکتی ہے، جب تک کہ اس کی ہستی میں روح اور جسم کی شرکت نہ ہو۔

اگر وہ اپنے جواب میں کسی عظیم روح کو لوحِ محفوظ قرار دے، تو اس صورت میں بھی اس کا جواب درست نہیں ہو سکتا، کیونکہ عقل اور جسم کے بغیر خالص روح کی لوحِ محفوظ میں صرف روحانی چیزیں ہی ہوسکتی ہیں، مگر کل شیء میں صرف روحانی چیزوں کا ذکر نہیں بلکہ سب چیزوں کا بیان ہے۔

اگر وہ شخص اس طرح جواب دے، کہ لوحِ محفوظ جواہرات میں سے کسی جوہر کی بنی ہے، اور ایسی لوحِ محفوظ کی تاویل کا قائل نہ ہوجائے، تو پھر بھی اس کا جواب غلط ہو گا، کیونکہ جواہرات بغیر روح اور بغیر عقل کے ہوتے ہیں، اور خدا کے نزدیک ان کی کوئی کرامت وفضیلت نہیں، پس کوئی جوہر عقلی اور روحانی چیزوں کا حامل کس طرح ہو سکتا ہے۔

اس بیان سے یہ حقیقت پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی، کہ امامِ مبین کے معنی امامِ ظاہر کے ہیں، جن کی مبارک و مقدّس ہستی میں عقل، روح اور درجۂ کمال کے انسانی جسم کی شرکت ہے، جس کے سبب سے امامِ مبین ہر لطیف چیز کے حامل ہیں، اور حقیقت میں لوحِ محفوظ بھی آپ کی ذاتِ اقدس ہی ہے۔

۱۳۹

علمِ الٰہی کے سلسلے میں علمِ غیب کی کچھ وضاحت بھی ضروری ہے، تا کہ نفسِ مضمون ادھورا نہ رہ جائے، چنانچہ حق تعالیٰ کا فرمانِ مبارک ہے کہ: عالمُ الغیب فلا یظھر علیٰ غیبہ احدا۔ الا من ارتضی من رسول ۔ ۷۲: ۲۶ تا ۲۷، غیب کا جاننے والا وہی ہے پس اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اس شخص کے جس کو وہ رسولوں میں سے منتخب کرے۔

یہاں ’’علیٰ غیبہ‘‘ کے معنی قابلِ غور ہیں، جس کا مطلب ہے ’’اپنے تمام غیب پر‘‘ پس معلوم ہوا، کہ اللہ تعالیٰ اپنے تمام غیب پر کسی برگزیدہ پیغمبر کو بھی مطلع فرماتا ہے۔

علمِ الٰہی کے اس موضوع کے سلسلے میں یہاں تک جو کچھ بیان ہوا، اس کا خلاصہ یہ ہے، کہ علم کے بارے میں خداوند تعالیٰ کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے خاص خاص علوم کے عطیات سے اپنے برگزیدہ بندوں کو سرفراز فرماتا ہے، یہاں تک کہ علمِ غیب کو بھی اپنے لئے مخصوص نہیں رکھتا، جیسے و علم آدم الاسماء کلھا ۔ ۰۲: ۳۱  (اور خدا نے آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی) سے بھی یہ حقیقت ظاہر ہے، کہ خدا خود ہی حضرت آدم علیہ السلام کا معلّم ہے، اور علم الاسماء کوئی کتابی اور ظاہری علم نہیں، بلکہ یہ غیب ہی کا علم ہے، جس کو سوائے اللہ تعالیٰ کے ملائک بھی نہیں جانتے تھے، پس اللہ نے ابوالبشر کو غیب کا علم عطا کر دیا۔

۱۴۰

علمِ غیب کے بارے میں مزید حقائق کے لئے اس آیۂ کریمہ میں غور کیا جائے: و عندہ مفاتح الغیب۔۔۔ فی کتاب مبین ۔ ۰۶: ۵۹۔ اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اسے بحروبر کی سب چیزوں کا علم ہے اور کوئی پتا نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری یا سوکھی چیز نہیں ہے مگر وہ روشن کتاب میں (لکھی ہوئی) ہے۔ اس فرمانِ الٰہی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خداوند تعالیٰ کا علمِ غیب کتابِ ناطق میں ہے سب چیزوں کی زندہ اور بولتی تصویریں کتابِ مبین (بولنے والی کتاب یعنی ) نورِ امامت میں موجود ہیں۔

یاد رہے کہ آسمان و زمین اور ظاہر و باطن کی چیزوں کی پوشیدہ باتوں کا جاننا ہی علمِ غیب کہلاتا ہے، جب ایسا علم ظاہر ہوجاتا ہے تو وہ اس وقت علمِ غیب نہیں رہتا، بلکہ علمِ ظاہر کہلاتا ہے، مگر اس کی حکمت اور تاویل، جو ظاہر نہیں کی گئی ہو، وہ اب بھی علمِ غیب ہی ہے۔

چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السّلام حضورِ انور کو بحکمِ خدا غیب کی کوئی بات بتانے کے بارے میں کنجوسی نہیں کرتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا کلامِ حکمت نظام ہے کہ: و ما ھو علی الغیب بضنین ۔ ۸۱: ۲۴۔ اور وہ (جبرائیل) غیب کی باتیں بتانے میں بخیل نہیں۔

۱۴۱

کتابِ ناطق یعنی قرآنِ ناطق میں علمِ غیب کا خزانہ پنہان ہونے کے بارے میں ارشاد ہے کہ: و ما من غائبۃ فی السماء و الارض الا فی کتاب مبین ۔ ۲۷: ۷۵۔ اور آسمان و زمین میں کوئی ایسی مخفی چیز نہیں ہے مگر وہ بیان کرنے والی کتاب میں موجود ہے۔ اس بیان کرنے والی کتاب سے نورِ امامت مراد ہے۔

جاننا چاہئے کہ کتابِ ناطق یعنی امامِ مبین کے نور میں آسمان و زمین کی تمام چیزوں کی ایسی نورانی تصویریں موجود ہیں جو عقل و روح کی رنگینیوں سے بحکمِ صبغۃ اللہ (۰۲: ۱۳۸) بھرپور ہیں، اور خدا کے اذن سے ان میں سے ہر تصویر کائنات و موجودات کی متعلقہ چیز کی مثال پیش کر سکتی ہے اس حقیقت کا نام نورانی تاویل ہے، چنانچہ حضرت یوسف اپنے وقت میں کتابِ مبین کی حیثیت سے تھے، وہ اپنے باطن کی نورانی مثالوں سے کسی بھی مخفی چیز کا حال بتا سکتے تھے چنانچہ انہوں نے ہادئ برحق کے علمِ غیب کی طرف توجہ دلانے کے لئے قید خانے میں اپنے دونوں ساتھیوں سے فرمایا کہ: دیکھو جو کھانا تمہارے پاس آتا رہتا ہے، جو کہ تم کو کھانے کے لئے یہاں ملتا ہے میں اس کے آنے سے پہلے ہی اس کی حقیقت (تاویل) بتلا دیا کرتا ہوں یہ بتلا دینا اس علم کی بدولت ہے جو مجھ کو میرے ربّ نے تعلیم فرمایا ہے ۔ ۱۲: ۳۷۔

۱۴۲

علمِ تاویل دو قسم کا ہوتا ہے، ایک نورانی ہے اور دوسرا کتابی، انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام کے پاس علمِ تاویل نورانی صورت میں ہوتا ہے، جس کو علمِ لدّنی اور علمِ غیب بھی کہا جاتا ہے۔

۱۴۳

 

کلید نمبر ۳
ہر گروہ کا قبلہ

قرآن مجید کی ۰۲: ۱۴۸ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ: و لکل وجھۃ ھو مولیھا ۔ ۰۲: ۱۴۸۔ اس آیۂ پرحکمت کے کئی معنی ہیں، اوّل: اور ہر ایک فرقے کے لئے ایک سمت مقرر ہے جدھر وہ (عبادت کے وقت) منہ کیا کرتے ہیں، دوم: اور ہر قوم کے لئے ایک شریعت مقرر ہے جس کی طرف وہ متوجہ رہتی ہے، سوم: اور ہر شخص کے لئے ایک دینی استاد ہے، جس کی طرف وہ رجوع کرتا ہے، چہارم: ہر روحانی طالب کا ایک مطلوب ہوا کرتا ہے، وہ اس کی تلاش میں لگے رہتا ہے، پنجم: ہر دینی درجہ کے لئے ایک اوپر کا درجہ ہوا کرتا ہے، وہ اس کا خواہشمند رہتا ہے، ششم: شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت میں سے ہر منزل کے لئے ایک قبلہ ہوا کرتا ہے، جس کے اہل اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، یعنی اہلِ شریعت کا قبلہ خانۂ کعبہ ہے، اہلِ طریقت کا قبلہ پیرومرشد ہے، اہلِ حقیقت کا قبلہ پیغمبر اور امام ہیں، اور اہلِ معرفت کا قبلہ خدا کا نور ہے۔

۱۴۴

مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں اس ارشادِ مقدّس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ: پس تم نیکیوں میں سبقت حاصل کرتے رہو تم جہاں کہیں ہوگے خدا تم سب کو حاضر کرے گا، بے شک خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ ۰۲: ۱۴۸۔

اس آیۂ پاک کی حکمت کے اشارے نہ صرف ادیانِ عالم کی طرف ہیں، بلکہ افرادِ مذہب کی طرف بھی ہیں، کہ جس طرح ظاہری قبلہ کے بارے میں گروہوں کے حالات مختلف ہیں، اسی طرح باطنی توجہ کے باب میں بھی افراد کی کیفیت جدا جدا ہے، پس ان مختلف نظریات کو خدا کی توحید کے تصور کی طرف مرکوز کر دینے کا راز اس امر میں مضمر ہے کہ مسلمین و مومنین دوسرے ادیان والوں سے نیکی یعنی اعمالِ صالحہ میں سبقت لے جائیں، اور دنیا بھر میں نیکی کا نمونہ بن جائیں، تا کہ دعوتِ اسلام کا عملی صورت کارفرما ہوسکے، اور اس کے نتیجے میں دنیا والوں کو ضرور احساس ہوگا، کہ اسلام خدا کا آخری دین ہے اور حضرت محمد مصطفیٰ خدا کے سچے رسول اور آخری نبی ہیں۔

اجتماعی قبلہ کے بیان میں انفرادی توجہ کا ذکر اس لئے آیا ہے، کہ قرآنِ حکیم میں جو ہدایت جماعتوں کے لئے آئی ہے اس میں افراد کے لئے بھی ہر قسم کی رہنمائی ہے، چنانچہ یہاں نیکی کا جو راستہ قوم کے لئے مفید ہے، وہ ایک فرد کے لئے بھی مفید ہوسکتا ہے، مثلاً ایک شخص کے دل میں

 

۱۴۵

 

عبادت کے دوران یکسوئی نہیں رہتی ہے اور اس کو طرح طرح کے خیالات پیدا ہونے کا احساس ہوتا ہے، تو وہ قرآنِ حکیم کی اس حکمت کی روشنی میں محسوس کرے، کہ اس میں نیکی کا مادّہ کم ہو رہا ہے، پھر وہ اپنے آپ میں نیکیوں میں سبقت لے جانے کا جذبہ پیدا کرے اور عملاً ایسا کر کے دیکھے، پھر اس کے دل میں عبادت کی یکجہتی اور روحانی سکون پیدا ہوگا۔

۱۴۶

 

 

 

کلید نمبر ۴
موت کا تجربہ

ہم نے یہاں اس موضوع کو ’’موت کا تجربہ‘‘ کے عنوان سے معنون کیا ہے، لیکن موت کا تجربہ کس نے حاصل کر لیا ہے؟ جبکہ موت کے واقع ہوجانے کے ساتھ ساتھ متوفّی کے تمام تجربات بھی ختم ہوجاتے ہیں! ولیکن ہاں، اموات میں ایک ایسی خصوصی موت بھی ہے، جو روحانیت اور ایقان وعرفان کے مشاہدات وتجربات سے بھرپور اور علم وحکمت کے مغز سے مملو ہے، جس کی حقیقت سے آگہی کے لئے آپ موضوعِ ذیل کا بغور مطالعہ کریں:

چنانچہ قرآنِ کریم کی (۰۳: ۱۸۵) میں موت کا کلیّہ اس طرح ارشاد ہوا ہے کہ: کل نفس ذائقۃ الموت ۔ ۰۳: ۱۸۵۔ یعنی ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔

موت کے اس کلیّہ کے بارے میں دو اہم سوال پیدا ہو جاتے ہیں، ایک یہ کہ جب وجودِ انسانی تین چیزوں کا مجموعہ ہے، یعنی عقل، نفس اور جسم، تو ان تینوں میں سے صرف نفس ہی کو موت کے واقعہ سے کیوں متعلق کیا گیا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے، کہ موت واقع ہونے کی

 

۱۴۷

 

تشبیہہ کسی چیز کے چکھنے کی طرح کیوں دی گئی ہے؟

ان میں سے پہلے سوال کا جواب یہ ہے، کہ اگرچہ انسان کی ہستی عقل، نفس اور جسم کے مجموعے سے ہے، لیکن حقیقت میں عقل موت سے بالاتر ہے، کیونکہ وہ مرتی نہیں، جیسے فرشتوں کا حال ہے کہ وہ عقل ہیں اور کبھی نہیں مرتے، اس کے برعکس حیوان جو نفس ہے وہ مر جاتا ہے، مگر پتھر وغیرہ جو جسم ہے وہ نہیں مرتا، اس سے معلوم ہوا، کہ موت کا براہِ راست تعلق نفس کے ساتھ ہے، مگر جسم پر براہِ راست موت واقع نہیں ہوتی، بلکہ نفس کے واسطہ سے ہوتی ہے، یعنی جسم کا جینا اور مرنا نفس ہی کے ذریعے سے ہے، پس یہی وجہ ہے جو قرآنِ حکیم نے اس کلیّہ میں موت کو صرف نفس ہی سے متعلق کر دیا۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے، کہ موت کی مثال کسی مادّی چیز کے چکھنے سے اس لئے دی گئی ہے، کہ وہ فی الواقع روحانی نوعیت کا ایک مزہ ہے، جو زیادہ سے زیادہ شیرین بھی ہے اور انتہائی درجے کا تلخ بھی، اس جواب کا دوسرا پہلو یہ ہے، کہ قرآنِ حکیم نے موت کا تصوّر کسی چیز کے چکھنے کی طرح اس لئے پیش کیا ہے، کہ خصوصی موت اہلِ معرفت کے نزدیک روحانی واقعات اور علمی وعرفانی تجربات کی حامل ہے، جو بموجب: ’’موتوا قبل ان تموتوا‘‘ طبعی موت سے پہلے ہی عبادت و ریاضت کے

 

۱۴۸

 

ذریعہ قبول کر لی جاتی ہے، جس کا مقصد معرفت ہے، جس میں روحانی سکون اور ابدی نجات کے اسرار پوشیدہ ہیں، پس نفسانی موت کے عنوان کے تحت حقائق ومعارف کے جو معجزات سامنے آتے ہیں، ان کے لحاظ سے یہ حقیقت ہے، کہ موت کی مثال کسی چیز کو چکھ کر اس کے ذائقہ کا تجربہ حاصل کرنے سے دی جائے۔

نفسانی موت، جو ہادئ برحق کی ہدایات کی روشنی میں مخصوص عبادت وریاضت اور نفس کشی کرنے سے واقع ہوتی ہے، روحانی واقعات و تجربات کا عنوان اس معنی میں ہے، کہ اس سے معرفتِ ذات کے جملہ ابواب کھل جاتے ہیں، اور اسی طرح یہ اختیاری موت روح اور روحانیت کے حقائق و معارف اور اسرارِ خدا شناسی کے حصول کا وسیلہ بن جاتی ہے۔

عام اور اضطراری موت سے پہلے انسان پر ایک خاص اور اختیاری یا کہ تجرباتی موت واقع ہونے کے بارے میں قرآنِ کریم کے بہت سے حکیمانہ اشارات موجود ہیں، جن کی ایک مثال یہ ہے، کہ انسان کے وجود میں نفس یا کہ جان ایک نہیں، بلکہ بے شمار جانیں ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی ایک نہایت ہی عجیب قدرت ہے، کہ انسان کے دل و دماغ کے علاوہ اس کا خلیہ خلیہ روحوں کا مسکن ہے، اور ان لاتعداد روحوں کی وحدت انسان کی ’’انا‘‘ ہے۔

۱۴۹

اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت بھی انتہائی عجیب ہے، کہ مختلف موقعوں پر انسانی وجود کے یہ نفوس قبض ہوتے جاتے ہیں، یعنی فرداً فرداً نکل جاتے ہیں، اور دوسری طرف سے نفوس کے داخل ہونے کا سلسلہ بھی جاری ہے، یا یوں کہنا چاہئے، کہ انسان جیتے جی ایک طرف سے مرتا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دوسری طرف سے زندہ ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ ایک دن ایسا بھی آتا ہے، کہ اس میں وہ پوری طرح سے مر جاتا ہے۔

مذکورۂ بالا موت کو جزوی موت کے نام سے یاد کرنا چاہئے، اسی جزوی موت کی بدولت ہر وقت انسانی نفس اور شخصیت کی اصلاح و تجدید اور تعمیرِ نو ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ چالیس دن کے بعد انسان کے نفس اور جسم کا کوئی پرانا ذرّہ باقی نہیں رہتا، اس حساب سے وہ ہر سال اپنی ہی جگہ پر نو دفعہ پرانے جسم سے نئے جسم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

انسان کی زندگی و بقاء گویا ارواح و نفوس کی ایک ندی ہے، جو ملکوت کے پہاڑوں اور ناسوت کی گھاٹیوں سے آتی ہے اور ہر وقت بہتی رہتی ہے، مگر یہ بات ہے کہ یہ ندی کبھی کم اور کبھی زیادہ ہو جاتی ہے، بعض اوقات صاف و شفاف بہتی ہے اور گاہے بگاہے مکدر بھی ہو جاتی ہے۔

۱۵۰

اس مقام پر مجھے حضرت پیر ناصر خسرو قدس اللہ سرّہ کا ایک شعر یاد آیا، آپ اپنی کتاب روشنائی نامہ میں فرماتے ہیں کہ:

ز دنیا تا بعقبیٰ نیست بسیار
ولی در رہ وجودِ تست دیوار

یعنی دنیا اور آخرت کے درمیان کچھ زیادہ مسافت تو نہیں، لیکن تیری ہستی ان دونوں کے درمیان دیوار بنی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب خاص عبادت اور سخت ریاضت سے کسی حقیقی مومن پر اختیاری موت آئے گی، اس وقت اس کی ہستی کی یہ دیوار درمیان سے ہٹائی جائے گی، اور اس صورت میں اس کو قیامت و روحانیت کے واقعات کا تجربہ کرایا جائے گا۔

سبحان اللہ! پیر صاحب کی یہ پرحکمت مثال اور یہ ارشاد کہ تمہارا اپنا نفسِ امّارہ ہی دنیا اور آخرت کے درمیان دیوار اور پردہ بنا ہوا ہے، جب تم ہادئ برحق کے مقدّس امر و فرمان کے مطابق خصوصی عبادت و ریاضت اور تزکیۂ نفس کے امتحان میں کامیاب ہو جاؤگے، تو اس وقت تمہاری ہستی و خودی کی کثیف و مکدر دیوار سامنے سے ہٹا دی جائے گی یا صاف شیشے کی بنا دی جائے گی یا اس میں دروازہ بنے گا، پھر تمہیں اس حال میں نہ صرف موت ہی کے عجائبات کا تجربہ حاصل ہوگا بلکہ علمِ قیامت و روحانیت اور معرفتِ الٰہی کے خزانوں کے ابواب بھی ہمیشہ کے لئے کشادہ رہیں گے۔

۱۵۱

اب رہا یہ سوال، کہ آیا موت کے اس کلیّہ سے کوئی نفس مستثنا بھی ہے یا نہیں؟ اس کا جواب خود اس کلیّے میں موجود ہے، کہ کوئی نفس یعنی کوئی فردِ بشر موت کے اس قانون سے باہر نہیں جا سکتا، جبکہ اختیاری موت کے بغیر روحانیت کا کوئی دروازہ نہیں کھل سکتا، جبکہ قرآنی ارشاد کے مطابق نیند میں بھی ایک قسم کی موت پوشیدہ ہے (۳۹: ۴۲) اور جبکہ جسمانی موت مومن کی مکمل روحانی آزادی ہے پھر آپ خود اندازہ کریں، کہ حقیقی مومنوں کے لئے موت کس قدر ضروری ہے، پس معلوم ہوا کہ موت عالمِ روحانیت کا دروازہ ہے، جس سے داخل ہوئے بغیر نہ روحانی ترقی ممکن ہے اور نہ بہشتِ جاودانی میسر ہو سکتی ہے۔

۱۵۲

کلید نمبر ۵
ہر چیز سے روحانی ملاقات

قرآن حکیم کے آٹھویں پارے کا سرنامہ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ: اور اگر ہم ان پر فرشتے نازل کر دیتے اور مردے ان سے گفتگو کرتے اور سب چیزوں کو ان کے سامنے لا موجود کر دیتے تو بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے سوائے اس کے کہ اللہ کو منظور ہوتا لیکن اکثر ان میں سے جاہل ہیں۔ ۰۶: ۱۱۱۔

آپ حکمت کے اس اصول کو بھی ہمیشہ کے لئے یاد رکھیں، کہ قرآنِ حکیم انسان کے سامنے صرف انہی چیزوں کے تصورات پیش کرتا ہے، جو انسان کے لئے ممکنات میں سے ہیں، کیونکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا مقدس کلام ہے، اور اس میں انتہائی صداقت اور عدل کا سرمایہ موجود ہے، چنانچہ اگر فرشتوں، مردوں اور تمام چیزوں کی روحوں سے انسان کی روحانی ملاقات اور گفتگو ناممکن ہوتی، اور اللہ تعالیٰ نے کسی وقت میں بھی مومنوں اور کافروں سے واقعاً ایسے معجزات کا امتحان نہ لیا ہوتا، تو اندران حال اس معجزہ کے تذکرے میں (نعوذ باللہ)  نہ صداقت ہوتی، اور

 

۱۵۳

 

نہ عدل، پس ظاہر ہوا، کہ مذکورہ کلیّہ میں جو کچھ ارشاد ہوا ہے وہ ایک عملی حقیقت ہے، اور حقیقی مومنوں کے نزدیک کشفِ روحانیت اسی واقعہ کا نام ہے، البتہ خدا کی مصلحت سے بعض دفعہ کافروں پر بھی یہ معجزہ واقع ہوتا ہے، جس کا نام وہاں نزولِ عذاب ہے۔

جو حقیقی مومنین علم الیقین کی مدد سے روحانی ترقی کر کے عین الیقین کا درجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں روحانیت کی ان حقیقتوں پر باور کرنا پڑے گا، کہ روح ظاہری اور مادّی چیزوں کے برعکس ایک معجزاتی جوہر ہے، وہ عالمِ امر کے عجائبات میں سے ہے، جہاں ارادۂ “کُنۡ” سے ہر چیز ظہور میں آتی ہے، اس لئے روح میں تمام علمی عجائبات پیش کرنے کی خاصیت موجود ہے یہ ایک یقینی حقیقت ہے، کہ ہر خدا رسیدہ مومن کی روح کائنات و موجودات کی روحانی صورت اختیار کرکے قیامِ قیامت اور عالمِ آخرت کا نمونہ پیش کرسکتی ہے، ایسی حالت میں انسان اپنے آپ کو روحوں کے ایک طوفان خیز سمندر کے درمیان پاتا ہے، جو فرشتوں، مردوں، زندوں، یاجوج و ماجوج اور تمام چیزوں کی روحوں کے عنوان سے پیش آتی ہیں، یہاں تک کہ اس میں بے جان چیزوں کی روحیں بھی ہوتی ہیں، مگر یہ بات ضرور یاد رہے کہ روحانیت کے ایسے اعلیٰ تجربات حاصل کرنے کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔

۱۵۴

اگر یہاں یہ سوال ہو، کہ مومن کی روح اتنا بڑا کام کس طرح انجام دے سکتی ہے؟ اس کا جواب میرے پاس صرف ایک ہی جملے میں ہے، کہ مومن کی روح امام حیّ و حاضر کی حقیقی فرمانبرداری سے یہ عظیم کام مکمل کر سکتی ہے۔

پھر اگر سوال کیا جائے، کہ نورِامامت، روح القدس اور مومن کی روح ان تینوں کا باہمی تعلق کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام عالی مقام علیہ السّلام کے نور سے روح القدس جدا نہیں، اور نہ مومن کی روح بغیر روح القدس کے کوئی بڑا کام کر سکتی ہے، ان تینوں روحانی حقیقتوں کے باہمی تعلق کی مثال سورج، سمندر اور ندی کی طرح ہے، یعنی نورِ امامت سورج ہے، روح القدس سمندر اور مومن کی روح ندی ہے، ندی کا پانی کہاں سے آتا ہے؟ پہاڑوں سے جو برف اور بارش کا حاصل ہے، برف و بارش کا ذریعہ کیا ہے؟ بادل ہیں، جو سمندر سے پیدا ہوتے ہیں، سمندر سے بادل کس طرح پیدا ہوتے ہیں؟ سورج کی گرمی کے سبب سے۔

ندی کا پانی کم بھی ہو سکتا ہے اور اس کے زیادہ ہونے کا بھی امکان ہے، اس میں کمی اس وقت واقع ہوتی ہے جبکہ سورج کا نور اس کے پہاڑوں سے دور ہو، یا بغیر بارش کے بادلوں کے سائے پڑے رہیں، اسی طرح مومن کی روح میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، جو نورِ امامت سے دوری و نزدیکی کے سبب سے ہے۔

۱۵۵

جب سورج نزدیک آتا ہے اور آسمان صاف ہو جاتا ہے تو جگہ جگہ ندی پر سورج کی کرنیں پڑتی ہیں، اور اس کے پانی میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے، تاہم یہ سورج کا کوئی بڑا کرشمہ نہیں، ندی کو سورج کا ایک بڑا کرشمہ وہاں نظر آئے گا، جہاں یہ دریا کے ساتھ مل کر سمندر کی وحدت میں مدغم ہو جاتی ہے، کہ کس ہمہ گیر طریق پر بے پناہ سمندر سورج کی حرارت کی گرفت میں ہے، اور سمندر کا ایک عظیم حصہ، جو ساری دنیا کو سیراب کر کے فاضل دریاؤں کی صورت میں واپس بھی ہو، کس طرح بخارات اور بادلوں کی شکل میں آسمان کی بلندیوں کی طرف اڑتا رہتا ہے۔

چنانچہ ہر حقیقی مومن کی روح کسی نہ کسی درجے میں امامِ زمانؑ کا نورانی دیدار تو کرسکتی ہے، اور اس کی روحانیت میں ترقی بھی ہو سکتی ہے، مگر یہ کوئی بڑا دیدار اور کوئی عظیم معجزہ تو نہیں، ہاں، عظیم معجزہ اس مقام پر ہے، جہاں مومن کی روح پیروں اور بزرگوں کے علمی دریا پر سوار ہوکر روح القدس کے سمندر میں مل جاتی ہے، اس مقام کے بے شمار معجزات میں سے ایک یہ ہے، کہ ہادئ برحق کا نور روح القدس کے سمندر سے بے شمار ہدایتی روحیں اطرافِ عالم میں بھیجتا رہتا ہے، اور ہر گروہ، ہر طبقہ، ہر درجہ اور ہر فرد کی بدیہی اور فکری ہدایت اسی نہج پر ہوتی رہتی ہے، امامِ عالی صفات کے نورِ اقدس کو اس بات کی کوئی پرواہ ہی نہیں، کہ کوئی گروہ یا کوئی

 

۱۵۶

 

فرد اس کی عالمگیر ہدایت کا اقرار کرتا ہے یا نہیں، ہاں، اس میں یہ فرق ضرور ہے، کہ ہدایت حسبِ مراتب معرفت اور بمطابقِ ضرورت ہوا کرتی ہے، یا یوں کہنا چاہئے، کہ اس میں قبولِ ہدایت کی استطاعت لازمی شرط ہے۔

اس بیان کا خلاصہ یہ ہے، کہ تمام معجزات کا سرچشمہ روحِ قدسی ہے جو ہادئ برحق کے نور کے زیرِ اثر ہے، ہر معجزے کا نتیجہ دو طرح سے نکلتا ہے، یعنی اس میں روحوں کی آبادی بھی ہے اور بربادی بھی، اگر کوئی حقیقی مومن فرمانبرداری، عبادت، ریاضت اور علم الیقین سے اپنے آپ کو معجزات برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے، اور تدریجی معجزات میں آگے سے آگے بڑھتا جاتا ہے، تو اس کے لئے رحمت ہی رحمت ہے، اگر ایسا نہیں، بلکہ یکایک کوئی بڑا معجزہ کسی انسان کے سامنے آتا ہے تو یہ باعثِ ہلاکت ہے، ماسوائے اس کے کہ امامِ وقت ایسے حال میں بھی دستگیری کریں۔

۱۵۷

کلید نمبر ۶
انسی اور جنّی شیاطین

سورۂ انعام کی ایک سو بارہویں آیت میں انبیاء کے بارے میں ایک کلیہ مذکور ہے کہ: اور اسی طرح ہم نے انسی اور جنی شیاطین کو ہر نبی کا دشمن بنا دیا وہ فریب دینے کی غرض سے چکنی چپڑی باتیں (روحانی طریق پر) ایک دوسرے کے دل میں ڈالتے ہیں۔ ۰۶: ۱۱۲۔

اس ارشادِ الٰہی سے اوّل یہ تعلیم ظاہر ہے، کہ شیاطین دو قسم کے ہوتے ہیں، پہلی قسم کے شیاطین انسانوں میں سے ہیں اور دوسری قسم کے شیاطین جنّات میں سے، جو شیاطین انسانوں میں سے ہیں، ان کے متعلق عام طور پر یہ پتہ نہیں لگتا، کہ وہ واقعی شیاطین ہیں، کیونکہ وہ بظاہر کچھ عجیب شکل و صورت تو نہیں رکھتے، بلکہ وہ اپنی ظاہریت میں بالکل دوسرے انسانوں کی طرح انسان ہیں، لیکن وہ حقیقت کی نظر میں انسی شیاطین ہیں، مگر یہ ضروری نہیں، کہ وہ خود کو پہچانتے بھی ہوں، کہ وہ ابلیس کے لشکر میں شامل ہو چکے ہیں۔

جو شیاطین جنّات میں سے ہیں، وہ خاص خاص

 

۱۵۸

 

حالات کے سوا ہمیشہ ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں، کیونکہ وہ ایسے لطیف جسم کے لباس میں ملبوس ہیں کہ وہ نظر ہی نہیں آتا، مگر جب خدا کی مصلحت ہو۔

اس فرمانِ الٰہی کی دوسری تعلیم یہ ہے، کہ خدائے علیم وحکیم کی مصلحت وحکمت اسی امر میں پنہان تھی، کہ انسی اور جنّی شیاطین کو نہ صرف ہر پیغمبر کا دشمن بنائے بلکہ اس طاغوتی گروہ کو ہر امام کے ساتھ بھی عداوت ہو، تا کہ بنی آدم کی اس امتحانگاہِ عمل میں ایک طرف ہمیشہ کے لئے رشد وہدایت کے تمام وسائل مہیا رہیں، اور دوسری طرف اس کے مقابلے میں ضلالت و گمراہی کے سارے اسباب مکمل ہوں۔

اس کلیّۂ حکمت آگین کی تیسری تعلیم یہ ہے، کہ خیر و شر کی اس دائمی جنگ میں، جو دورِ آدم سے قیامِ قیامت تک جاری و ساری ہے، جس طرح حق وباطل کا مقابلہ ہوتا رہتا ہے، اس میں نہ صرف شیاطینِ انسی و جنّی ہی کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ وہ دنیا میں بدی پھیلانے کی غرض سے روحانی طریق پر ایک دوسرے کے دل میں چکنی چپڑی باتیں ڈال سکیں، بلکہ پیغمبر اور امامِ برحق کے علاوہ حجّت اور پیر جیسے مراتبِ عالیہ کو بھی اس بات کی امکانیت حاصل ہے، کہ وہ بھی روحانی طور پر ایک دوسرے سے مخاطبہ کرکے رحمانی طاقت اور نیکی کا ذریعہ بنائیں، اس بارے

 

۱۵۹

 

میں کسی عارف نے کیا خوب کہا ہے:

از دلِ حجت بحضرت رہ بود
او بتائیدِ دلش آگہ بود

یعنی حجّت اور پیر کے دل سے حضرت امام کی ذاتِ اقدس تک روحانی راستہ ہے، اور امامِ زمانؑ ان کے دل میں تائید وہدایت القاء کرنے سے غافل نہیں۔

۱۶۰

کلید نمبر ۷
آسمانی کتاب میں ہر چیز کی تفصیل

سورۂ انعام کے انیسویں رکوع کے اخیر میں حق سبحانہ کا ارشاد ہے کہ: پھر ہم نے موسیٰ کو ایسی کتاب عنایت کی جو نیکوکاروں کے لئے (ہر طرح سے) مکمل تھی اور ہر چیز کی تفصیل تھی اور ہدایت و رحمت تھی تا کہ وہ اپنے پروردگار کے دیدار پر ایمان لائیں۔ (۰۶: ۱۵۴)۔

اس ارشادِ الٰہی سے یہ حقیقت واضح اور روشن ہو جاتی ہے، کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی آسمانی کتاب (توریت) میں اس دور کے نیکوکاروں کے لئے دینی اور دنیاوی ہدایات کی کوئی کمی نہیں تھی، اس میں ہر چیز کا تفصیلی ذکر موجود تھا اور ہر قسم کی ہدایت و رحمت تھی، تا کہ وہ ان تمام چیزوں کے نتیجے میں اپنے پروردگار کی ملاقات کا یقین کریں۔

اب یہ اہلِ دانش کے لئے غور و فکر کا مقام ہے، کہ توریت کے مکمل و مفصل ہونے اور اس میں ہر قسم کی ہدایت و رحمت ہونے کے فوائد صرف نیکوکاروں کے لئے کس طرح مخصوص ہوسکتے ہیں، بجز اس کے کہ وہ حکمت اور تاویل کے بے پایان خزانے کی حیثیت رکھتی ہو، کیونکہ اگر

 

۱۶۱

 

اس میں حکمت وتاویل نہ ہوتی، تو وہ عوام وخواص کے لئے یکسان ہوتی، پس ظاہر ہوا کہ توریت حکمت وتاویل کی صورت میں مکمل، مفصل اور ہدایت ورحمت سے بھرپور تھی، اور یہ بات صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ خدا کی کتاب کے ساتھ ساتھ خدا کی طرف سے معلّم بھی مقرر ہو، چنانچہ توریت کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی، کہ اس کی زندہ روح حضرت ہارون علیہ السّلام کی ذاتِ شریف میں موجود تھی، جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے وزیر اور اس زمانے کے امام تھے۔

اب اس حقیقت کا کوئی واضح ثبوت چاہئے، کہ حضرت ہارونؑ حضرت موسیٰؑ کے وزیر تھے، اس لئے توریت کی مقدّس روح یعنی زندہ حکمتیں اور بولتی تاویلیں حضرت ہارون علیہ السّلام کی روحانیت میں پوشیدہ تھیں، وہ ثبوت قرآن پاک کے اس ارشادِ مبارک میں ہے کہ: و لقد اٰتینا موسیٰ الکتٰب و جعلنا معہٗ اخاہ ہارون وزیرا ۔ ۲۵: ۳۵۔ بہ تحقیق ہم نے موسیٰ علیہ السّلام کو کتاب (یعنی توریت) دی تھی اور ہم نے ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون علیہ السّلام کو ان کا وزیر بنایا تھا۔

اس فرمانِ خداوندی سے یہ حقیقت عیان ہوتی ہے، کہ حضرت ہارونؑ حضرت موسیٰؑ کے کسی اور کام میں وزیر ہو یا نہ ہو، مگر سب سے پہلے اور سب سے ضروری طور پر

 

۱۶۲

 

توریت کی روحانی ہدایت اور حکمت و تاویل کے معاملے میں وزیر تھے، کیونکہ آیۂ مبارکہ کے صوری و معنوی ربط میں کتاب کے ساتھ ساتھ وزیر کا ذکر آیا ہے، اور وزیر کے معنی بوجھ اٹھانے والے کے ہیں، اس ربط اور اس مناسبت کی دلیل سے توریت کی تنزیل وتاویل کا بارِگران حضرت ہارون علیہ السّلام اٹھا رہے تھے، چونکہ ہر آسمانی کتاب فی الاصل ایک زندہ اور بولنے والی روح کی حیثیت سے ہوتی ہے، بالفاظِ دیگر یہ ایک نور ہوتا ہے، پس یہ روح یا کہ نور جو حضرت موسیٰؑ کے زمانے میں توریت کے اسم سے موسوم تھا، حضرت ہارون علیہ السّلام کے باطن میں پوشیدہ تھا۔

جب یہ مانا گیا کہ توریت صرف وہی نہیں تھی، جو ظاہری تحریر کی صورت میں خاموش تھی، بلکہ توریت وہ بھی تھی جو حضرت ہارونؑ کی نورانیت ، روحانیت اور جسمانیت میں زندہ اور گویندہ تھی، پس یقین کرنا چاہئے، کہ انہی معنوں میں ارشاد ہوا ہے جو اس موضوع کے آغا ز میں درج ہے کہ: پھر ہم نے موسیٰؑ کو ایسی کتاب عنایت کی جو نیکوکاروں کے لئے (ہر طرح سے) مکمل تھی اور ہر چیز کی تفصیل تھی اور ہدایت و رحمت تھی تا کہ اپنے پروردگار کے دیدار پر ایمان لائیں۔ ۰۶: ۱۵۴۔

پھر اس کے بعد انہی حقائق سے مربوط ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:

 

۱۶۳

 

و ھذا کتٰب انزلنٰہ مبٰرک فاتبعوہ و اتقوا لعلکم ترحمون ۔ ۰۶: ۱۵۵۔ اور یہ کتاب (قرآن) جس کو ہم نے نازل کیا ہے برکت والی (کتاب) ہے تو تم اس کی پیروی کرو اور متقی بنو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔

چنانچہ “برکت والی کتاب” کے معنی میں پھر وہی تمام حقیقتیں موجود ہیں جو اوپر توریت کے بارے میں بیان ہوئی ہیں، یعنی قرآنِ حکیم میں علم وحکمت اور رشد و ہدایت کی فراوانی اور خیروبرکت کی کثرت اس طرح سے ہے کہ یہ تنزیل و تاویل کی حکمتوں سے بھرپور اور صلاح و فلاح سے مملو ہے، اور ہادئ برحق کے نورِ اقدس میں اس کے زندہ حقائق ومعارف موجود اور محفوظ ہیں، یہ پاک کتاب اسی صورت میں “تبیانا لکل شیء (۱۶: ۸۹)”  یعنی تمام چیزوں کا بیان کرنے والی ہے، پس معلوم ہونا چاہئے کہ آسمانی کتاب حقیقی معلّم کی معیت میں ہر چیز کا بیان کرنے والی ہے۔

۱۶۴

کلید نمبر ۸
ہر شخص کی شناخت

امامیہ کتب میں آنحضرت صلعم اور أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کے ارشاد کے حوالے سے مذکور ہے کہ:

و علی الاعراف رجال یعرفون کلا بسیماھم ( ۰۷: ۴۶) کا مطلب یہ ہے کہ معرفت کی بلندیوں پر ایسے مرد ہوں گے، جو سارے لوگوں کو ان کی پیشانیوں سے پہچان لیں گے، وہ مرد جو اعراف کی بلندیوں پر ہوں گے، حضرت مولانا مرتضیٰ علیؑ اور آپ کے فرزندوں میں سے اوصیاء یعنی أئمّۂ اطہار علیہم السّلام ہیں (ملاحظہ ہو کتاب دعائم الاسلام جزء اول عربی صفحہ ۲۵)۔

جب یہ ایک قرآنی حقیقت ہے، کہ قیامت کے روز ہر زمانے کا امام اپنے وقت کے ان تمام لوگوں کو ان کے چہروں کی نورانیت سے پہچان لے گا جو دنیا میں اس کو پہچانتے تھے، تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وسیلۂ رحمت وہدایت کا یہ قانون، یعنی دنیا والوں کے درمیان امام کا حاضر ہونا، نہ صرف پیغمبرِ آخر زمانؐ کے دور کے لئے مقرر ہے، بلکہ شفاعت و نجات کا یہ ذریعہ جملہ انبیاء کے ادوار

 

۱۶۵

 

کے لئے یکسان ہے، پس اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر زمانے کے لوگوں کے درمیان امامِ وقت حاضر اور موجود ہوتا ہے، چنانچہ آیۂ درجِ ذیل سے اس حقیقت کی تصدیق و توثیق ہوتی ہے۔

یوم ندعوا کل اناس بامامھم ۔ ۱۷: ۷۱۔ جس دن ہم ہر زمانے کے لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔ یعنی قیامت کے روز امامِ زمانہؑ کے بغیر لوگوں کے حق میں شہادت، عدالت، شفاعت اور نجات ممکن نہیں، پس معلوم ہوا، کہ آغازِ عالم سے حضرتِ آدمؑ تک، حضرتِ آدمؑ سے حضرت خاتم الانبیاءؐ تک اور آنحضرتؐ سے قیامِ قیامت تک امامت کا پاک سلسلہ قائم و دائم ہے۔

“یوم ندعوا کل اناس بامامھم”  کے یہ معنی بھی درست ہیں کہ خدا قیامت کے دن لوگوں کو ان کے امامِ وقت کے ذریعے سے بلائے گا، کیونکہ أئمّۂ ہدا علیہم السّلام خدا اور لوگوں کے درمیان واسطہ اور وسیلہ ہیں، یعنی خدا کا ہر کام جو امر وفرمان اور ہدایت سے متعلق ہو وہ صاحبِ امر کے توسط سے انجام پاتا ہے، اور لوگوں کا ہر کام جو خدا کی اطاعت اور اس کی خوشنودی کے بارے میں ہے وہ امام کے ذریعے سے مکمل ہوتا ہے۔

آیۂ اعراف کی تفسیر و تاویل کے ذیل میں جو حقیقتیں سامنے آئیں، ان سے ظاہر ہے، کہ امام شناسی ہی سے دونوں جہان کی سعادتمندی اور ابدی نجات کے دروازے

 

۱۶۶

 

کھل سکتے ہیں، جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ:

ان الذین کذبوا باٰیٰتنا و استکبروا عنھا لا تفتح لھم ابواب السمآء و لا یدخلون الجنۃ حتیٰ یلج الجمل فی سم الخیاط ۔ ۰۷: ۴۰۔ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا ان کے لئے نہ آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ بہشت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل جائے۔ جاننا چاہئے کہ خدا کی آیات معجزات کے معنی میں بھی اور نشانیوں کے معنی میں بھی أئمّۂ اطہار علیہم السّلام ہیں، اور جو لوگ ان حضرات کو نہیں پہچانتے وہ ان سے تکبر کرتے ہیں، اور لفظ ’’استکبر‘‘ میں دو متضاد معنی پوشیدہ ہیں، یعنی خود کو بڑا اور دوسرے کو حقیر سمجھنا اور ان دونوں کا موقعِ استعمال ہم جنسیت کا مقام ہے، اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آسمانی کتاب اور آفاقی آیات کی نسبت سے تکبر نہیں ہوسکتا، بلکہ لوگوں کو اپنے ہم جنس انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے بارے میں تکبر ہوتا رہا ہے، اور ابلیس نے جو تکبر کیا وہ بھی ایک انسان تھا، جو علم میں مرتبۂ فرشتگی پر فائز ہو چکا تھا، اس نے اپنے ہم جنس بشر حضرت آدم علیہ السّلام کو حقیر سمجھا اور خود کو بزرگ قرار دیا۔

اس کے علاوہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں ارشاد

 

۱۶۷

 

ہوا ہے، کہ فرشتے اپنے پروردگار کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے ہیں، اس کی تاویل یہ ہے کہ مومنین جو عالمِ معرفت کے فرشتے ہیں امامِ وقت کی فرمانبرداری سے، جو خدا کی عبادت ہے، سرتابی نہیں کرتے، کیونکہ امامِ زمانؑ خدا کا سب سے بڑا نام ہے اور اس کی فرمانبرداری تاویلی زبان میں عبادت ہے۔

 

۱۶۸

 

کلید نمبر ۹
ہر چیز کی مقدار

سورۂ رعد کے دوسرے رکوع کے آغاز میں ارشاد ہوا ہے کہ: و کل شیء عندہ بمقدار (۱۳: ۰۸) اور ہر چیز خدا کے نزدیک ایک مقدار میں ہے۔

اس کلیّہ کا یہ مطلب ہوا، کہ اگرچہ زمان و مکان کی بعض چیزیں انسان کو غیر محدود اور لاانتہا نظر آتی ہیں، مثلاً زمانہ اور کائنات، لیکن خدا کے نزدیک ہر چیز محدود اور ایک مقررہ مقدار میں ہے، اور ہر چند کہ دورِ جدید کے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ کائنات، جس میں لاتعداد سیّاروں اور ستاروں کی دنیائیں موجود ہیں، بے پایان اور غیر محدود ہے، مگر کلیّۂ مذکورۂ بالا کا ارشاد ہے کہ یہ عظیم کائنات بھی اس کی عظمت و وسعت کے باوجود قانونِ قدرت کی ایک معیّن مقدار کے مطابق ہے، اور زمانہ بھی اپنی بے پناہ طوالت کے باوصف ایک محدود مقدار میں ہے۔

چنانچہ اگر کوئی دانشمند اس کتاب کا چشمِ بصیرت سے مطالعہ کرے تو اس کے ہر کلیّہ سے صاف طور پر

 

۱۶۹

 

ظاہر ہوگا، کہ اس میں جتنے کلیّات درج ہوئے ہیں، وہ سب کے سب ایک دوسرے کی حقیقت پر دلیل ہیں، اسی طرح ان سب سے مذکورۂ بالا حقیقت کی بھی تصدیق و توثیق ہوتی ہے، کہ ہر چیز خدا کے نزدیک ایک معیّن مقدار میں ہے یعنی ہر چیز خدا کے نزدیک محدود ہے۔

جیسا کہ کلید نمبر ۱ میں ذکر ہوا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے، پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ خدا کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے اور ہر چیز خدا کی قدرت میں محدود ہے، یہی مثال خدا کے علم کی بھی ہے جہاں امامِ مبین کے نور میں ہر چیز کے محدود ہونے کا ذکر ہوا ہے۔

اگر ہر چیز خدا کے نزدیک ایک معیّن مقدار میں ہے، تو جاننا چاہئے، کہ یہ حقیقت بھی امامِ مبین کے احاطۂ نور اور دائرۂ علمی سے باہر نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو امامِ مبین کی ذاتِ اقدس میں محدود اور محصور کر دیا ہے۔

اس حقیقت کے بعد یہاں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اگرچہ ہر چیز اپنی جگہ پر محدود اور ایک مقررہ مقدار میں ہے، تاہم وہ فنا وبقا یا کہ تغیّروتبدّل کے دائرے پر جو چکر کاٹتی رہتی ہے، اس کے اعتبار سے یہ کہنا درست ہے کہ ہر چیز لامحدود ہے، مثلاً دن رات دونوں محدود تو ہیں مگر ان دونوں کے تغیّروتبدّل

 

۱۷۰

 

سے وقت کا جو دائرہ بنتا ہے وہ غیر محدود ہے، اسی طرح اس سے بڑا دائرہ سال کے چکر کا بنتا ہے، اس کے بعد بڑے بڑے زمانوں کے دائرے ہیں اور اخیر میں جا کر اس کائنات کے مٹ جانے اور پھر وجود میں آنے سے دائرہ بنتا ہے، جو لاانتہا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر چیز اگر ایک اعتبار سے محدود ہے تو دوسرے اعتبار سے غیر محدود ہے، اور یہی قانونِ قدرت کی تعریف ہے، کہ اس میں ابتدائی ولاابتدائی اور انتہائی و لاانتہائی کی سب خوبیاں موجود ہیں۔

قرآنِ حکیم میں ایسی بہت سی آیات موجود ہیں جن کی گہری حکمتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز ایک محدود مقدار میں ہونے کے باوجود غیر محدود ہے، وہ حقیقت اس طرح سے ہے کہ تمام چیزوں کے جوڑے ہیں یعنی ہر چیز کی ایک ضد یا مقابل ہے، مثلاً دن رات، روشنی و تاریکی، دنیا و آخرت، جسمانیت و روحانیت، ہستی و نیستی وغیرہ، پھر ہر جوڑے کے گھومنے سے ایک دائرہ بنتا ہے، جیسے شب و روز کا گردش کرنا اور ماہ و سال کا بار بار آنا، اسی طرح کائنات کا وجود ایک بہت بڑا دن ہے اور اس کا مٹ جانا ایک بہت بڑی رات ہے، ان دونوں کی بھی ایک گردش ہے، یعنی کائنات و موجودات کے وجود و عدم کا بھی ایک چکر ہے جو تمام دائروں میں سب سے بڑا دائرہ ہے، جس کی

 

۱۷۱

 

لاانتہا گردش کے سبب سے ہر محدود چیز لامحدود ہو جاتی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ ہم کلید نمبر ۲۲ میں اس حقیقت کی مزید وضاحت کریں گے۔

 

۱۷۲

 

 

 

کلید نمبر ۱۰
مؤمنین کو سب کچھ دیا گیا

سورۂ ابراہیم کے پانچویں رکوع کے اخیر میں ارشاد ہوا ہے کہ: اور جو کچھ تم نے خدا سے مانگا سب تم کو دیا اور اگر تم خدا کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو گن نہیں سکتے ہو اس میں تو شک نہیں کہ انسان بڑا بے انصاف ناشکرا ہے۔ ۱۴: ۳۴۔

اس فرمانِ الٰہی سے ظاہر ہے، کہ حقیقی مومنین نے جسمانیت میں یا روحانیت میں بزبانِ قال یا بزبانِ حال پروردگار سے جو کچھ طلب کیا وہ سب اس نے انہیں دے رکھا ہے، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ چیز کون سی ہے جس میں سب کچھ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی “جامع الجوامع” چیز جس میں تمام چیزیں موجود ہیں امامِ مبین کی معرفت ہے، کیونکہ امامِ مبین کے نورِ اقدس میں سب کچھ ہے۔

قرآنِ مجید میں ہے کہ جنت کا طول وعرض بھی کائنات کے طول وعرض کی طرح ہے، جس کا اشارہ عالمگیر روح کی طرف ہے، یعنی عالمگیر روح ہی روحانی جنت ہے،

 

۱۷۳

 

جس میں سب کچھ ہے، جو امام کی روح یعنی نور ہے، اس سے وہ سوال ختم ہوجاتا ہے کہ سب کچھ بہشت میں ملنا چاہئے، یا کہ امام کی روح میں؟ کیونکہ بہشت، امام کی روح اور اس کی معرفت ایک ہی حقیقت ہے۔

چنانچہ قرآنِ کریم کا یہ ارشاد مذکورۂ بالا مطلب سے جدا نہیں کہ: و سخر لکم ما فی السمٰوٰت و ما فی الارض (۴۵: ۱۳) اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو تمہارے لئے مسخّر کر دیا۔

یہ اصول ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ کسی بڑی چیز کے حاصل ہونے سے وہ تمام چھوٹی چھوٹی چیزیں جو اس سے وابستہ ہیں، خود بخود حاصل ہو جاتی ہیں، مثال کے طور پر اگر کسی شخص کو باغ و گلشن دیا گیا تو پھر اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام چیزیں خود بخود مل جاتی ہیں، جو باغ و گلشن میں ہیں، جیسے ہر قسم کے میوے، خوش منظر مقام، آرام دہ سائے، مہکتے ہوئے رنگ برنگ پھول وغیرہ۔

اسی طرح اگر کسی خوش نصیب انسان کو وہ سب سے عظیم خزانہ مل جائے، جس میں اللہ تعالیٰ کے تمام خزانوں کی کلیّدیں ہیں، تو پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے سعادت مند آدمی کو خدائے جلیل وجبار کے سارے خزانے مل گئے، اللہ تعالیٰ کے سب خزانوں کے کلیدی

 

۱۷۴

 

حیثیت کا خزانہ امامِ مبین کی معرفت ہے، جس کے حصول سے ہر چیز حاصل ہو جاتی ہے۔

حدیثِ شریف کا ارشاد ہے کہ: من کان للّٰہ کان اللّٰہ لہ ، یعنی جو شخص خدا کا ہو کر رہے تو خدا بھی اسی کا ہو کر رہتا ہے، یعنی جو آدمی خدا کے ارشادات کی پیروی کرتے کرتے تن من دھن سے خدا ہی کی ملکیت بن جاتا ہے، تو پھر نتیجے کے طور پر خدا بھی ایسے شخص کا بے بہا خزانہ بن جاتا ہے، بے شک خدا تعالیٰ خزانۂ مخفی ہے، اور بموجبِ حدیثِ قدسی یہ خزانہ معرفت کے راستے سے مل سکتا ہے، مگر سب جانتے ہیں کہ پیغمبر کی معرفت کے بغیر خدا کی معرفت ممکن نہیں ہے، اور امامِ وقت کی معرفت کے بغیر پیغمبر کی معرفت ناممکن ہے، پھر وہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ امامِ مبین میں سب کچھ ہے۔

قرآنِ مجید کا ارشاد ہے کہ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون ۔ یعنی ہم خدا کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ ایسا کہنے والے کون ہیں؟ صابرین ہی ایسا کہا کرتے ہیں، انہیں یقینِ کامل ہے، کہ وہ خدا کے حضور سے یعنی اس کے نور سے اس دنیا میں آئے ہیں، اس لئے وہ اس بات کے امیدوار ہیں، کہ وہ یہاں سے واپس جا کر پھر خدا کی وحدت میں مدغم ہو جائیں گے، اس حال میں ان کو روحانی بادشاہت کی صورت میں سب کچھ دیا ہوا

 

۱۷۵

 

ہوگا، لیکن یہاں یوں سوال ہے، کہ آیا کوئی شخص “اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم” کے فرمان پر عمل کئے بغیر صابر کہلا سکتا ہے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے، تو پھر ہمارا یہ دعویٰ حق بجانب ہو گا، کہ اسلام اور ایمان کی تمام خوبیاں امامِ مبین سے مل سکتی ہیں۔

انبیاء و أئمّہ علیہم السلام دنیا میں اس لئے آتے ہیں، کہ وہ دنیا والوں کی صحیح ہدایت کریں، تاکہ لوگ صراطِ مستقیم پر ثابت قدمی سے چل کر خدا کے حضور پہنچ جائیں، وہ حضرات نہ صرف قولی ہدایت کرتے ہیں، بلکہ ہدایت کی پیروی کا عملی نمونہ بھی پیش کرتے ہیں اور اس ہدایت پر عمل کرنے سے جو کچھ صلہ ملنے والا ہے، وہ بھی برملا دکھاتے ہیں، وہ صلہ کیا ہے؟ پیغمبر اور امامِ زمان ہیں، جن کے نورِ اقدس میں سب کچھ موجود ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

و یدخلھم الجنۃ عرفھا لھم (۴۷: ۰۶) اور ان کو اس بہشت میں داخل کرے گا، جس کا انہیں (پہلے سے ) شناسا کر رکھا ہے۔

۱۷۶

 

 

 

کلید نمبر ۱۱
ہر چیز کے خزانے

قرآنِ حکیم کی ۱۵: ۲۱میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : اور ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں اور ہم اس کو مقررہ اندازہ سے نازل کرتے رہتے ہیں۔

اس کلیّۂ مقدّسہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے، کہ البتہ مکانی لحاظ سے نہیں، بلکہ فضل و شرف اور علم و معرفت کے اعتبار سے خدا تعالیٰ کی کوئی قربت و نزدیکی ہے، جہاں ہر چیز کے خزانے موجود ہیں اور وہ خزانے امامِ مبین کے مقدس نور میں ہیں، اور اس حقیقت کی مثال ہم ظاہری سورج سے لے سکتے ہیں، کہ سورج میں اس عظیم کائنات کے تمام ستاروں اور سیّاروں کی تکوینی دولت کے بے پایان خزانے موجود ہیں، یعنی مادّی قسم کی دولت کے خزانے، کیونکہ نہ صرف ہر ستارہ اور ہر سیّارہ بحکمِ خدا سورج کے فعل سے پیدا ہوتا ہے، بلکہ عناصر، پہاڑ، جمادات، معدنیات اور نباتات کے علاوہ حیوانات اور انسان کا جسم بھی سورج کی بدولت مکمل ہو جاتا ہے، پس اسی طرح عالمِ روحانیت کی تخلیقی دولت کے تمام خزانے

 

۱۷۷

 

امامِ مبین کے نورِ اقدس میں موجود ہیں۔

سورج کی اس عمدہ مثال کے بعد یہ بھی ہمارا علمی فرض ہے کہ آپ کو ثابت کرکے بتائیں، کہ سورج کی بے پناہ طاقتوں کی محرّک روح کا سرچشمہ کہاں ہے، چنانچہ مذکورۂ بالا ارشاد سے ظاہر ہے کہ ہر چیز کے خزانے خدا کے پاس ہیں، جس کا مطلب بتایا گیا کہ اللہ کے یہ خزانے امامِ مبین کے نور میں موجود ہیں، اب جبکہ امامِ برحق علیہ السّلام کے پاک نور میں خداوند تعالیٰ کے تمام خزانے موجود ہیں، اور پروردگار کے ان خزانوں سے کوئی شیٔ باہر نہیں، تو معلوم ہوا کہ آفتابِ عالم تاب کی بے پناہ اور بے پایان طاقت کی محرّک روح بھی امام کے نور کے خزانوں سے جاری و ساری ہے۔

اس حقیقت کی دوسری دلیل یہ ہے، کہ قرآنِ حکیم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلعم کو تمام عالموں کے لئے نورِ مطلق اور رحمتِ کل کی حیثیت سے بھیجا تھا، پھر جب سرورِعالم ساری کائنات اور سب جہانوں کے حق میں نور اور رحمت تھے، تو لازمی طور پر آنحضرتؐ سورج کے لئے بھی اسی حیثیت سے تھے، کیونکہ سورج بھی ایک عالم ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ حضورِ اکرم کی ذاتِ اقدس سے آفتابِ جہان تاب کو نور کی صورت میں طبعی ہدایت اور رحمت کی حیثیت سے متعلقہ روح ملتی رہتی تھی، پھر آپ کے

 

۱۷۸

 

بعد آپ کے وارث اور جانشین یعنی أئمّۂ اطہارعلیہم السّلام سلسلہ وار اسی حیثیت سے ہیں، اور یہ اللہ تعالیٰ کی بے بدل عادت اور اس کا اٹل قانون ہے، کہ ہر زمانے میں اس کے نور اور رحمت کا ایک مظہر ہوا کرتا ہے، خواہ وہ پیغمبر ہو یا کہ امام، پس یہ حقیقت واضح اور روشن ہو کر سامنے آ گئی، کہ امامِ مبین کا نور سورج کے مادّی فیوض و برکات کا بھی سرچشمہ ہے۔

۱۷۹

 

 

 

کلید نمبر ۱۲
شہد کی مکھی کی مثال

سورۂ نحل کے نویں رکوع میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ: ثم کلی من کل الثمرات فاسلکی سبل ربک ذللا (۱۶: ۸۹) اور ہر قسم کے میوے کھا اور اپنے پروردگار کے مسخر راستوں میں چلی جا۔

پروردگارِ عالم کا یہ خطاب ظاہر اور تنزیل کے اعتبار سے شہد کی مکھی کے لئے ہے مگر باطن اور تاویل کے لحاظ سے اس خطاب کا تعلق حجّت اور پیر سے ہے، کہ وہی شخص جو امامِ زمان علیہ السّلام کی جانب سے حجّت، پیر، یا داعی کے لقب سے اور بعض دفعہ کسی اور نام سے بھی مقرر ہوتا ہے، شہد کی مکھی کا ممثول ہے، اور شہد کی مکھی اسی شخص کی مثال ہے، کیونک جس طرح شہد کی مکھی مختلف پھولوں اور پھلوں سے رس چوس کر اپنے بطن میں شہد بناتی ہے، اسی طرح امامِ برحق علیہ السّلام کا علمی نمائندہ روحانیت کے پھولوں اور پھلوں سے اپنے باطن میں علمِ تاویل کا شہد تیار کرتا ہے، اس کے لئے علم و حکمت کے راستے ایسے صاف، مسخر اور آسان ہیں، جیسے شہد کی مکھی

 

۱۸۰

 

کے راستے، کہ وہ بڑی آسانی سے ایک پھول سے دوسرے پھول پر اڑ سکتی ہے۔

شہد کی مکھی جن مختلف پھولوں اور جدا جدا پھلوں سے شہد بناتی ہے ان سب کا ذائقہ مل کر شہد کا ایک ہی مزہ بن جاتا ہے، اور اس میں دوسرا کوئی ذائقہ باقی نہیں رہتا، اسی طرح حجّت، جس کو امام حیّ و حاضر علیہ السّلام کی روحانی تائید حاصل ہے، مختلف تنزیلات کی ایسی موافق تاویل کر سکتاا ہے، کہ وہ عقل کے نزدیک شہد کی طرح خوشگوار اور یقینی ہوجاتی ہے اور اس میں کوئی تضاد نہیں ہوتا۔

آیۂ مذکورۂ بالا میں بصورتِ تنزیل شہد کی مکھی سے فرمایا گیا ہے کہ: “اور ہر قسم کے میوے کھا اور اپنے پروردگار کے مسخر رستوں پر چلی جا۔”  ہر دانا شخص اس مقام پر تاویل کی اہمیت سمجھ سکتا ہے ، کہ دنیا میں جہاں کہیں شہد کی مکھیاں ہوتی ہیں، وہاں ہر قسم کی میوے جمع تو نہیں ہوتے اور نہ ہر نوع کے پھول یکجا ہو سکتے ہیں، اس کے علاوہ پروردگار کے رستے باغوں اور جنگلوں میں ، جہاں شہد کی مکھیاں ہوں، نہیں پائے جا سکتے، پس اس سے ظاہر ہے، کہ ہم اس آیۂ مبارکہ کی جو تاویل کر رہے ہیں، وہ درست ا ور صحیح ہے، ہر چند کہ اس کی اور بھی تاویلیں ہیں۔

چنانچہ جسمانی اور ظاہری حالت میں یہ بات بالکل

 

۱۸۱

 

ناممکن ہی ہے کہ دنیا کے کسی ایک مقام پر ہر موسم اور ہر ملک کے تمام پھول اور پھل یکجا موجود ہوں، مگر اس کے برعکس روحانی اور باطنی صورت میں ہر قسم کے پھول اور ہر طرح کے میوے ایک ہی مرکز پر جمع ہوسکتے ہیں، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا پاک ارشاد ہے کہ:
کیا ہم نے ان کو امن و امان والے حرم میں جگہ نہیں دی جہاں ہر قسم کے پھل کھنچے چلے آتے ہیں جو ہمارے پاس سے کھانے کو ملتے ہیں ولیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔ ۲۸: ۵۷۔ جاننا چاہئے کہ حرم کی تاویل امامِ زمان ہے، کیونکہ امام ہی خدا کے پاک نور کا حقیقی گھر اور نہانخانۂ اسرارِ توحید ہیں، جہاں ہر قسم کے روحانی میوے کھنچے چلے آتے ہیں، اور یہ رزق دنیاوی نہیں بلکہ خدا کے حضور سے آتا ہے۔

اس سے یہ تاویل ظاہر ہوئی کہ مرتبۂ حجتی پر فائز ہونے والے سے فرمایا جاتا ہے کہ تم اپنے امامِ وقت کے روحانیت میں داخل ہو جاؤ اور تنزیل کے باغات کے پھولوں اور پھلوں کے ہر نمونے سے تاویل کا شہد بناؤ اور اپنے پروردگار کے علم و حکمت کے مسخر رستوں پر چلو پھرو۔

سورۂ نحل میں شہد کی مکھی کے بارے میں جو کچھ ارشاد ہوا ہے اس کی مجموعی تاویل یہ ہے کہ : اور آپ کے ربّ نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی، یعنی آپ کے پروردگار

 

۱۸۲

 

نے ہونے والے حجّت سے مخاطبہ فرمایا، کہ تو پہاڑوں میں گھر بنا لے، یعنی تم سے قبل جو دوسرے حجّت علم کے پہاڑ ہیں، ان کے ساتھ روحانی رابطہ رکھو، اور درخت میں بھی گھر بنا لے، یعنی حجّتوں کے بعد اپنے امامِ وقت کی معرفت تک رسائی کرو جو امامت کا سدا بہار درخت ہے، یعنی شجرۂ طیبہ جو ہر وقت پھل دیتا ہے اور اس چیز میں بھی گھر بنا لے جو وہ بلند کرتے ہیں، یعنی امامِ زمان کی معرفت کی روشنی میں حدودِ عُلوی کی حکمتوں سے بھی فیض حاصل کرو، پھر ہر قسم کے پھلوں سے کھا لے، یعنی روحانی اور علمی میوؤں سے کھا لو، پھر اپنے ربّ کے صاف اور مسخر رستوں پر چلی جا، یعنی اپنے ربّ کے علم وحکمت کے میدان میں چلو پھرو کہ تمہارے لئے کوئی رکاوٹ اور کوئی الجھن نہیں، اس کے پیٹ میں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے جس کی رنگتیں مختلف ہوتی ہیں یعنی حجّت کے باطن سے گوناگون تاویلات ظاہر ہوتی ہیں، جو روحانی غذا ہے، کہ اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے، یعنی حجّت کی تاویلات کی بدولت لوگ نادانی اور جہالت کی بیماری سے شفایاب ہو جاتے ہیں، یقیناً اس میں فکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں، یعنی جو لوگ عقل ودانش سے غوروفکر کرتے ہیں، وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں، کہ یہ تمام چیزیں، جن کا ذکر ہوا، امامِ برحق کے روحانی اور علمی معجزات ہیں۔

۱۸۳

کلید نمبر ۱۳
تمام تمثیلات

سورۂ کہف کے آٹھویں رکوع میں ہے کہ:

و لقد صرفنا فی ہٰذا القرآن للناس من کل مثل ۔ ۱۸: ۵۴۔ اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے طرح طرح کی مثالیں بیان فرمائی ہیں۔

اس کلیّۂ مقدسہ کا واضح مفہوم یہ ہے، کہ پروردگارِ عالم نے قرآنِ حکیم میں ایک ہی حقیقتِ جامعہ کی مثالیں پھیر پھیر کر بیان کر دی ہیں، چنانچہ ہر مثال میں اسی حقیقتِ واحدہ کی ایک گونہ صورت پنہان ہے، اور جہاں مثل الاعلیٰ ہے، وہاں حقیقتِ واحدہ یا کہ حقیقت الحقائق ہے، پھر اس بیان کے یہ معنی ہوئے، کہ ساری مثالیں مثل الاعلیٰ کی مختلف تفصیلات ہیں اور تمام حقیقتیں حقیقتِ واحدہ کی جدا جدا تشریحات۔

چنانچہ مثل الاعلیٰ کے بارے میں خداوندِ عالم کا ارشاد ہے کہ: و لہ المثل الاعلیٰ فی السمٰوٰت و الارض و ھو العزیز الحکیم ۔  ۳۰: ۲۷۔ اور آسمانوں اور زمین میں بلند ترین مثال اسی کی ہے اور وہ غالب حکمت والا ہے۔

۱۸۴

اس آیۂ مبارکہ سے یہ حقیقت ظاہر ہے، کہ ہر چند کہ باری سبحانہٗ کی ذاتِ بے چون کی کوئی مثال نہیں، تاہم اس نے جملہ مثالوں میں سے ایک مثال کو اپنی ذاتِ پاک سے منسوب کرنے کے لئے منتخب فرمایا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے کہ: لیس کمثلہ شیء و ھو السمیع البصیر ۴۲: ۱۱۔ اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سنتا دیکھتا ہے۔ اور اس کا تاویلی اشارہ ہے کہ حق تعالیٰ کی مثال جیسی کوئی شیٔ نہیں، یعنی اس کی ایک اعلیٰ مثال ہے مگر کوئی چیز اس اعلیٰ مثال کی مثال نہیں بن سکتی، اور یہ تمام اشارے کمثلہٖ میں پوشیدہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مثل الاعلیٰ تمام مثالوں میں سے ارفع واعلیٰ اس لئے ہے، کہ یہ اپنی تمام معنوی اور تاویلی خوبیوں کی وجہ سے دوسری سب مثالوں سے ممتاز اور مخصوص ہے۔

جاننا چاہئے کہ مثل الاعلیٰ کا ذکر سورۂ نور میں کیا گیا ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: اللّٰہ نور السمٰوٰت والارض مثل نورہ کمشکوٰۃ فیھا مصباح ۲۴: ۳۵۔ خدا سارے آسمان و زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثل ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے جس میں ایک روشن چراغ ہو۔

پس وہ مثل الاعلیٰ جو کائنات و موجودات پر حاوی اور محیط ہے، یہی ہے، جس کا ذکر ہوا، اس کی تمام معنوی

 

۱۸۵

 

اور تاویلی خوبیوں کو کوئی فردِ بشر ضبطِ تحریر میں نہیں لا سکتا، اور اس کی بنیادی خوبی اس حقیقت میں ہے، جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، کہ خدا، رسول اور امامِ مبین کا ایک ہی نور ہے، اور یہی ایک نور جملہ اوصافِ کمالیہ سے موصوف ہے، جبکہ حضرتِ باری تعالیٰ کی ذات ہر صفت سے پاک و منّزہ ہے، جیسا کہ ارشاد ہے کہ:

سبحٰن ربک رب العزۃ عما یصفون ۔ ۳۷: ۱۸۰۔ آپ کا ربّ جو عزت کا پروردگار ہے ان تمام اوصاف سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔ مطلب یہاں صاف طور پر واضح ہے، کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر صفت اور ہر وصف سے پاک و بے نیاز ہے، کیونکہ وہ عزت کا پروردگار ہے، یعنی حدودِ روحانی و جسمانی کی عزت کا بلند کرنے والا ہے، یہاں تک کہ عزت کی بلندی کی انتہا آئے مگر وہ خود ہر صفت سے پاک اور ہر چیز سے بے نیاز ہے۔

مذکورۂ بالا بیان کی روشنی میں اب یہ بتلا دینا آسان ہے ،کہ امامِ مبین کا نور کوئی محدود نور نہیں بلکہ وہی مطلق نور ہے وہی مثل الاعلیٰ کا ممثول اور وہی حقیقت الحقائق ہے، اور یہی مقدّس نور انہی معنوں کے ساتھ خدا کا نور کہلاتا ہے، جس میں وہ تمام صفات موجود ہیں، جو خدا تعالیٰ سے منسوب کی جاتی ہیں۔

۱۸۶

اب جبکہ یہ حقیقت واضح ہوچکی، کہ نورِ مطلق ایک ہی ہے، جس کا حامل ہمیشہ سے امامِ مبین ہے، تو پھر ہم بیان کر دیں گے، کہ ایک ہی حقیقت کی کئی مثالیں یا کئی اعتبارات کس طرح ممکن ہیں، چنانچہ خداوند عالم نے آیۂ بیعت میں آنحضرتؐ کے دستِ مبارک کو اپنا ہاتھ قرار دے لیا ہے، ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس مثال میں اس فعل کو بھی اپنا لیا ہے، جو حضورِ اکرمؐ کے مبارک ہاتھ سے مکمل ہوا تھا، جیسا کہ ارشاد ہے کہ:

ید اللّٰہ فوق ایدیھم ۴۸: ۱۰۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ یعنی پیغمبر صلعم کا ہاتھ، جس نے مسلمانوں سے بیعت لیا، خدا کا ہاتھ ہے، اور رسول اللہ کے بیعت لینے کا جو فعل ہے، وہ بھی اسی نسبت سے خدا کا فعل ہے، پس آیۂ بیعت کے ان مبارک الفاظ سے نہ صرف یہ معلوم ہوا، کہ ایک ہی حقیقت کے کئی اعتبارات ہو سکتے ہیں، بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا، کہ اللہ تعالیٰ انسانِ کامل کے قول و فعل کو اپنا قول و فعل قرار دے سکتا ہے۔

نیز ارشاد ہے کہ: و ما رمیت اذ رمیت و لٰکن اللّٰہ رمیٰ ۔ ۰۸: ۱۷۔ اور (اے محمد) جس وقت تم نے کنکریاں پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔ اس ارشاد میں بھی پھر وہی حقیقت ہے کہ خدا نے انسانِ کامل کے فعل کو اپنا فعل ٹھہرا لیا ہے۔

۱۸۷

اس کے بعد آپ اس حقیقت پر غور کریں، کہ آیا پیغمبر کی مثال مثل الاعلیٰ کے ساتھ مل کر ایک ہوسکتی ہے یا نہیں؟ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
و داعیا الی اللّٰہ باذنہ و سراجا منیرا ۔ ۳۳: ۴۶۔ اور آپ خدا کی طرف بلانے والے ہیں اس کے حکم سے اور روشن چراغ ہیں۔ نیز خدا نے قرآن میں یہ بھی فرمایا، کہ آنحضرتؐ ساری کائنات کے لئے رحمت تھے (۲۱: ۱۰۷) اب اگر ہم خدا کے اس روشن چراغ کی وسعتِ روشنی کا تصور کائناتی رحمت (رحمۃ اللعالمین) کے تقاضے کے مطابق کریں، تو سارے آسمانوں اور زمین میں اسی خدائی چراغ کی روشنی کے سوا اور کوئی روشنی تصور میں نہ آئے گی، پس معلوم ہوا، کہ پیغمبر اکرمؐ کی مثال مثل الاعلیٰ کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔

اب امامِ مبین کی مثال سنئے، جو ارشاد ہے کہ: اے ایمان والو خدا سے ڈرو اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت سے دگنا اجر عطا فرمائے گا، اور تمہارے لئے ایک نور مقرر کر دے گا، جس کی روشنی میں تم چل سکو گے اور تم کو بخش دے گا۔ ۵۷: ۲۸۔ جاننا چاہئے کہ یہاں خدا سے کماحقہٗ ڈرنے اور رسول محمدؐ پر جیسا کہ چاہئے ایمان لانے میں قرآن اور شریعت پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اب رہا اس کے اجر و صلہ کا سوال، جو ظاہر و باطن اور دنیا

 

۱۸۸

 

اور آخرت میں ملنا چاہئے، تو وہ اس طرح سے ہے کہ خدا اپنے پیغمبر کے توسط سے مومنین کی ہدایت و رہنمائی کے لئے امام مقرر کر دے، تا کہ وہ امام کے نور کی روشنی میں چل سکیں۔

خدا و رسول نے مومنین کے لئے جس نور کا تقرر فرما دیا ہے، اس کے ظاہری معنی تو یہ ہوئے، کہ گروہِ مومنین کے لئے امام مقرر کر دیا گیا، یہ تو مانا گیا، لیکن اب اس کی تاویل کا سوال ہے، تو بتائیے، کہ اس کی تاویلی حقیقت کیا ہے؟

الجواب: حقیقی مومنین کے لئے خدا و رسول کے نور مقرر کر دینے کی تاویل یہ ہے، کہ حقیقی محبت و فرمانبرداری کے نتیجے میں مومنین کے طاقِ دل میں مصباحِ امامت کا نور جلوہ گر ہونے لگتا ہے، پھر “نورٌ علیٰ نور” کے اصول کے مطابق اس کی علمی و عرفانی روشنی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ تمام کائنات و موجودات کو گھیر کر اپنے باطن میں محدود کر لیتا ہے، اسی معنی میں ارشاد ہوا ہے کہ: و کل شیء احصیناہ فی امام مبین ۔ ۳۶: ۱۲۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک پوشیدہ امر ہے کہ تم ہر چیز کے لئے امامِ مبین کی طرف رجوع کرو، پس ثابت ہوا، کہ مثل الاعلیٰ کی تاویل میں خدا، رسول اور امامِ برحق کا ایک ہی نور ہے۔

۱۸۹

 

کلید نمبر ۱۴
ذوالقرنین

ذوالقرنین کون تھا؟ کیا وہ ایک جہانگیر بادشاہ تھا، یا پیغمبر، یا اپنے وقت کا امام؟ اس سوال کا صحیح جواب نہیں دیا جا سکتا، جب تک کہ اس کے بارے میں ان قرآنی حقائق کا انکشاف نہ ہو، جو ذوالقرنین کے قصّے میں ہیں۔

چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: و یسئلونک عن ذی القرنین ۔ قل ساتلوا علیکم منہ ذکرا۔ ان مکنا لہ فی الارض و اٰتینٰہ من کل شیء سببا ۔ فاتبع سببا ۔ ۱۸: ۸۳ تا ۸۵۔ (اے محمد) وہ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں اس کے بارے میں کچھ بیان کر دیتا ہوں۔ بے شک ہم نے اس کو زمین (روحانیت) میں قدرت دی تھی اور ہم نے اس کو ہر چیز کا سبب (رستہ) دیا تھا پس وہ ایک رستہ پر ہو لیا۔

اللہ تعالیٰ کا یہ ارشادِ مبارک دانشمند مومنوں کو اس بات کی دعوت دیتا ہے، کہ وہ غور و فکر سے اس کی معنوی گہرائیوں تک رسا ہو کر اس کی حقیقتوں کو حاصل

 

۱۹۰

 

کر لیں، چنانچہ “و اٰتینٰہ من کل شیء سببا” کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ذوالقرنین کو آسمان و زمین اور ظاہر و باطن کی سب چیزوں کے وسائل و ذرائع مہیا کر دیئے تھے، پس حقیقی مومنوں کے نزدیک اس فرمانِ الٰہی کا مطلب بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ “و کل شیء احصینٰہ فی امام مبین”  کا ہے۔

جس طرح کہ اس کتاب کے تمام موضوعات میں ایسی قرآنی آیات سے بحث کی گئی ہے، جن میں لفظ “کل” آیا ہے، اور ایسی آیات کو جو کلیّات میں سے ہیں بطورِ ثبوت پیش کیا گیا ہے کہ ان میں جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ ظاہری اور باطنی قسم کی ساری چیزوں کے بارے میں ہے، اسی طرح آیۂ مذکورہ بالا میں ’’کل شیء‘‘ سے روحانیت اور جسمانیت کی تمام چیزیں مراد ہیں۔

یہاں اس حقیقت کی ایک اور مثال خود قرآنِ حکیم سے یہ ہے کہ: ام لھم ملک السمٰوٰت و الارض و ما بینھما فلیرتقوا فی الاسباب ۔ ۳۸: ۱۰۔ کیا ان کو آسمانوں اور زمین اور جو چیزیں ان کے درمیان ہیں ان کی بادشاہی حاصل ہے (اگر ایسا ہے) تو ان کو چاہئے کہ سیڑھیوں سے آسمان پر چڑھ جائیں۔

جاننا چاہئے کہ یہ مثال ظاہر اور باطن میں غیر امکانیت

 

۱۹۱

 

اور امکانیت کے دو معنی رکھتی ہے، اور اس کی امکانیت یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ جن حضرات کو چاہے آسمانوں اور زمین کی روحانی بادشاہی عطا کرتا ہے، اور جن اسباب سے کائنات کی روحانی سلطنت مل سکتی ہے، وہ اسباب گویا آسمانوں اور زمین کی کلیدیں ہیں، جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: لہ مقالید السمٰوٰت و الارض و الذین کفروا باٰیٰت اللّٰہ اولٰئک ھم الخٰسرون ۔ ۳۹: ۶۳۔ اور اسی کے اختیار میں ہیں کنجیاں آسمانوں اور زمین کی اور جو لوگ اللہ کی نشانیوں کو نہیں مانتے وہ بڑے خسارے میں ہیں۔ جاننا چاہئے کہ کسی مکان کا دروازہ، قفل اور کلید اس لئے ہوتی ہے کہ مالک جن کو چاہے اپنے مکان میں داخل کر دے اور جن کو نہ چاہے داخل نہ ہونے دے۔

چنانچہ قرآنِ پاک کی  ۰۶: ۷۵ میں ہے کہ: اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہی دکھاتے تھے تا کہ وہ اہلِ یقین میں سے ہو۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو آسمانوں اور زمین کی روحانی بادشاہی دیکھنے کی کنجیاں عنایت فرمائی تھیں، یا یوں کہنا چاہئے ، کہ خدا نے اسے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کے اسباب یعنی رستے بتا دیئے تھے۔ پس یہی مثال حضرت ذوالقرنین کی بھی ہے، کہ ان کو آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کے باطنی رستے بتائے

 

۱۹۲

 

گئے تھے، کیونکہ ذوالقرنین اپنے وقت کے امام تھے۔

قرآنِ حکیم میں حضرت ذوالقرنین کا مختصر قصہ ہے وہ دراصل تاویل طلب ہے، مثلاً وہ سورج ڈوبنے کی جگہ پر پہنچ گئے جہاں سورج ایک کیچڑ کے چشمے میں ڈوبتا تھا، اس سے صاف طور پر ظاہر ہے ، کہ یہ سورج مادّی اور دنیاوی سورج نہیں تھا، بلکہ یہ روحانی اور دینی سورج تھا جسے دوسرے الفاظ میں نورِ توحید کہا جاتا ہے، اور کیچڑ کے چشمے سے دو اصلِ جسمانی مراد ہیں، جو روحانی مغرب ہیں ، یعنی ناطق اور اساس، جیسے تخلیقِ آدم کے بارے میں ارشاد ہے کہ و لقد خلقنا الانسان من صلصال من حما مسنون ۔ ۱۵: ۲۶۔ اور ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑے ہوئے گارے کی بنی تھی پیدا کیا ۔ اور مشرق کی تاویل عقلِ کل اور نفسِ کل ہیں جہاں سے نورِ توحید طلوع ہو کر ناطق اور اساس میں غروب ہو جاتا ہے۔

کتاب ’’الامامۃ فی الاسلام‘‘ کے صفحہ ۱۴۸ سے معلوم ہوتا ہے، کہ حضرت ذوالقرنین علیہ السلام دورِ نوح کے سلسلۂ أئمّۂ مستقر میں سے ہیں چنانچہ آپ کا شجرۂ نسب یہ ہے: ذوالقرنین بن عابر بن شالخ بن قینان بن ارفکشاد بن سام بن نوح، یعنی آپ حضرت نوحؑ سے ساتویں پشت ہیں۔

مذکورۂ بالا حقائق سے ظاہر ہوا، کہ حضرت ذوالقرنین اپنے وقت کے امام تھے اور ان کے مشرق و مغرب کے سفر

 

۱۹۳

 

کا سارا قصہ روحانی اور تاویلی ہے۔
نیز حضورِ اکرم صلعم کے ایک مبارک ارشاد سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے کہ حضرت ذوالقرنین امام تھے، چنانچہ آنحضرتؐ نے مولانا علیؑ سے فرمایا کہ: یا علی ان لک کنزا من الجنۃ و انک لذوقرنینھا ۔ یعنی (یاعلی) جنت میں آپ کے لئے ایک مکان مخصوص ہے اور آپ اس امت کے ذوالقرنین ہیں۔ سبحان اللہ ارشادِ نبوی کی معنوی شان کس قدر بلند ہے، کہ اس مبارک حدیث میں امام شناسی کے جملہ اسرار موجود ہیں، ان میں سے ایک یہ کہ اگر علی ذوالقرنین کی طرح ہیں تو ذوالقرنین بھی علی کی طرح ہیں، پس اگر علی امام ہیں تو ذوالقرنین بھی اپنے وقت کے امام تھے، دوسرا یہ کہ قرآن کے تاویلی قصّے میں جو تعریف و توصیف ذوالقرنین کے متعلق ہے، اس کا تعلق علی سے بھی ہے، جبکہ علی ذوالقرنین کے ہمصفت ہیں، تیسرا یہ کہ جب تک دنیا میں آنحضرتؐ کی امت ہے، تب تک علی بھی انہی اوصاف کے ساتھ جو مذکور ہوئے حاضر اور موجود ہیں، کیونکہ آنحضرت نے مذکورہ ارشاد میں اس امت کے درمیان ایک ذوالقرنین کا مبارک وجود لازمی قرار دے دیا ہے۔

۱۹۴

 

کلید نمبر ۱۵
یاجوج و ماجوج

یاجوج و ماجوج کے بارے میں ظاہری کتابوں میں مختلف قسم کی روایتیں پائی جاتی ہیں، جن کی کثرتِ اختلاف کے سبب سے حقیقت پر جو پردہ پڑا ہے، اس کا ہٹانا کوئی آسان بات نہیں ہے، لیکن امامِ زمانؑ (جو خدا و رسول کی طرف سے ہادئ برحق ہیں) کی دستگیری اور تائید کے اعتماد پر اس موضوع کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔

قرآنِ حکیم میں یاجوج و ماجوج کا تذکرہ بطریقِ اجمال دو دفعہ آیا ہے، جو سورۂ کہف میں حضرت ذوالقرنین کے قصّے کے سلسلے (۱۸: ۹۱ تا ۹۸) میں ہے اور سورۂ انبیاء (۲۱: ۹۵ تا ۹۷) میں ہے۔

چنانچہ امامِ وقت کی حیثیت سے حضرت ذوالقرنین پر عالمِ روحانی کے تمام دروازے کھلے ہوئے تھے، انہوں نے اپنی نورانیت میں تمام خلائقِ عالم کی روحوں کا مشاہدہ کیا، یہ روحیں تین قسموں میں تھیں، یعنی اہلِ دنیا کی روحیں جن کا دوسرا نام یاجوج و ماجوج ہے، اہلِ ادیان کی روحیں اور اہلِ اللہ کی روحیں، پس حکمت کا تقاضا یہ تھا، کہ سب سے

 

۱۹۵

 

پہلے دین والوں کی روحوں کا مشاہدہ ہو، چنانچہ ذوالقرنین نے ایسی قوم کو نورِ ہدایت کے مغرب میں دیکھا، ان میں بھلائی اور برائی دونوں کی صلاحیت موجود تھی، اس کے بعد آپ روحانیت کے مشرق میں پہنچ گئے، جہاں ان کے مشاہدے میں ایسی روحیں آ گئیں، جن پر ہر وقت نورِ ہدایت کا سورج بلا واسطہ طلوع ہوتا رہتا تھا، یہ اہلِ اللہ کی روحیں تھیں، جن میں سوائے نیکی کے کچھ بھی نہیں تھا، اخیر میں حضرت ذوالقرنین علیہ السّلام روحانیت کے ایسے مقام پر پہنچے، جہاں خلیفۂ خدا یعنی پیغمبر اور امام کے لئے ممکن ہوتا ہے، کہ وہ اہلِ دنیا کی روحوں کے شر و فساد سے مومنوں کو محفوظ رکھیں، جس میں مومنین پر بھی انتہائی حد کی فرمانبرداری کا فریضہ واجب ہوتا ہے۔

چنانچہ اہلِ دنیا کی روحوں یعنی یاجوج و ماجوج کے شروفساد سے بچنے کے لئے اس وقت کے مومنین نے حضرت ذوالقرنین سے یعنی امامِ وقت سے درخواست کی، پس آپ کے علمِ روحانی اور مریدوں کے عملِ جسمانی سے حفظ و امان کی ایک مضبوط روحانی دیوار یاجوج و ماجوج کے سامنے کھڑی کر دی گئی، جس کے اوپر سے وہ چڑھ نہیں سکتے تھے، اور نہ اس میں سوراخ کر سکتے تھے، ذوالقرنین نے فرمایا کہ یہ میرے پروردگار کی ایک رحمت و مہربانی ہے پھر جب میرے پروردگار کا وعدۂ قیامت آئے گا اس کو ریزہ ریزہ کر

 

۱۹۶

 

دے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ سچ ہے۔

اس کے بعد قرآنِ حکیم کا یہ واضح اشارہ ہے، کہ دورِ قیامت یعنی دورِ روحانیت کے آغاز میں یاجوج و ماجوج (یعنی اہلِ دنیا کی روحوں) کو کچھ وقت کے لئے موقع دیا جائے گا، جس میں بعض روحیں جسمانی طریق پر اور بعض روحانی طور پر شر و فساد میں مصروف ہوں گی، پھر ایک زمانے کے بعد صور پھونکا جاوے گا، جس کی بدولت خلائقِ عالم کی جملہ ارواح ایک ہی ملی وحدت کے رشتے میں منسلک ہو جائیں گی

قرآنِ مجید کے دوسرے مقام پر یاجوج و ماجوج کا بیان اس طرح آیا ہے کہ: اور ہم جس بستی کو ہلاک کر چکے ہیں اس کے لئے ممانعت ہے کہ وہ رجوع کرے (یعنی جو لوگ عذابِ الٰہی سے روحانی طور پر ہلاک ہوئے ہیں ان کی روحوں کے لئے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ لوٹ کر پھر دنیا میں آئیں) یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوں گے (۲۱: ۹۵ تا ۹۶) یاد رہے کہ ہر بلندی کا مطلب یہاں ہر حقیقی مومن کی روحانیت ہے جو دنیا والوں سے بلند تر ہے، کیونکہ حضرت اسرافیل حقیقی مومنوں کی روحانیت میں سے صور پھونکے گا، اس لئے یاجوج و ماجوج اور دوسری تمام روحیں صور کی آواز کی طرف دوڑیں گی، جہاں سے وہ پھر دنیا میں منتشر ہو جائیں

 

۱۹۷

 

گی، جیسا کہ قولِ قرآن ہے کہ: و نفخ فی الصور فاذا ھم من الاجداث الیٰ ربھم ینسلون (۳۶: ۵۱) پھر جب صور پھونکا جائے وہ یکایک قبروں سے اپنے پروردگار کی طرف دوڑنے لگیں گے۔ یعنی تمام روحیں جو انسانی جسم کی قبروں میں مدفون ہیں، وہ وہاں سے بحکمِ خدا اٹھ کر صورِ اسرافیل کے پاس، جو حقیقی مومنین میں ہے، جمع ہو جائیں گی، جہاں ان کے پروردگار کا نور اسمِ اعظم کی صورت میں موجود ہے۔

 

۱۹۸

 

کلید نمبر ۱۶
ہر چیز کی خلقت و ہدایت

قرآنِ مقدس کی (۲۰: ۵۰) میں فرمایا گیا ہے کہ: قال ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقہ ثم ھدیٰ (۲۰: ۵۰) (موسیٰ نے ) کہا کہ ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو خلقت (یعنی مادّی شکل و صورت) بخشی پھر راہ دکھائی۔

اس کلیۂ مقدسہ کی ان گنت حکمتوں میں سے جو باتیں قابلِ فہم ہیں ان کی یہاں وضاحت کی جاتی ہے، اوّل یہ کہ یہ آیتِ پاک حکمت کی زبان میں فرما رہی ہے، کہ ہر چیز عالمِ امر یعنی عالمِ روحانی میں ازلی و ابدی طور پر موجود ہے، جس کا وجود و صورت محض عقلی اور روحانی کیفیت میں ہے۔

دوم یہ کہ عالمِ امر کی حقیقتیں اشیاء کہلاتی ہیں، یعنی چیزیں، بلکہ چیزیں دراصل وہی ہیں، کیونکہ دنیا کی ہر مادّی چیز آخرت کی اصلی چیز کا سایہ ہے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ “کل شیء” میں بحقیقت عالمِ امر کی چیزوں کا ذکر ہے، ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ جہاں کل شیء کا ذکر ہے وہاں تمام چیزوں کے سائے بھی شامل ہیں۔

سوم یہ کہ ہر چیز عالمِ امر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے

 

۱۹۹

 

موجود ہے ساتھ ہی ساتھ اس کو عالمِ خلق میں بھی ایک مادّی وجود دیا جاتا ہے، یہ ہوا خدا کی طرف سے ہر چیز کو خلقت بخشنا، درحالیکہ چیزوں کا مادّی وجود یعنی خلقی صورت بار بار مٹائی جاتی ہے اور بار بار بنائی جاتی ہے، جبکہ اشیاء کی امری صورت لافانی ہے۔

چہارم یہ کہ ہر چیز، جو بیک وقت دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی، اس کو اس کی ضرورت کے مطابق ہدایت دی گئی ہے یعنی راہ دکھائی گئی ہے، اور ان دونوں جہان کی اس ہمہ گیر و ہمہ رس ہدایت کا سرچشمہ خدا کا نور ہے، جیسے ارشاد ہوا ہے کہ: اللّٰہ نور السمٰوٰت والارض جس کا مفہوم ہے کہ خدا کائنات کے ظاہر و باطن کی ہر چیز کے لئے ہدایت کا نور ہے، مگر جسا کہ بتایا گیا، کہ ہدایت موجودات و مخلوقات کے درجات کے مطابق کارفرما ہوتی ہے۔

اب یہاں ہمیں عالمِ خلقی کی چیزوں کی ہدایت کے بارے میں کچھ مختصر بیان کرنا چاہئے، چنانچہ خدا کے اس نورِمطلق کی طرف سے، جس کی معرفت کے موضوعات پر یہ کتاب لکھی گئی ہے، سب سے پہلی ہدایت آسمانوں، سیّاروں اور ستاروں کو حاصل ہے، جس کی بدولت وہ نہ صرف وجود میں آئے، بلکہ اسی نورانی ہدایت کے بل بوتے پر وہ اپنے اپنے محدود دائروں میں گردش کرتے ہوئے مصروفِ عمل بھی ہیں۔

۲۰۰

دوسری ہدایت عناصرِ اربعہ کو ملی ہے، جو گرمی، سردی، خشکی اور تری کی طبعی کیفیت میں پنہان ہے، تیسرے درجے کی ہدایت موالیدِ ثلاثہ کو حاصل ہے، جو جمادات، نباتات اور حیوانات ہیں، اور ہدایت ان کے مختلف طبقات کے مطابق ہے، مثال کے طور پر جمادات کی ہدایت بھی ان کی طبعی کیفیت میں پوشیدہ ہے، نباتات کی ہدایت روحِ نامیہ کی قوتوں کی صورت میں ہے، حیوانات کی ہدایت روحِ حسی یعنی روحِ حیوانی کی حیثیت میں ہے اور انسانوں کی ہدایت روحِ ناطقہ کی شعوری طاقتوں کے توسط سے ہے۔

چونکہ روحِ ناطقہ یا کہ انسانی روح اگر ایک طرف سے حیوانی روح سے متصل ہے، تو دوسری طرف سے مَلَکی قوتوں سے بھی ملی ہوئی ہے، اس لئے انسانیت کے غیر معمولی وسیع دائرے میں مختلف نظریات کے بہت سے گروہ اور جدا جدا عادات کے بے شمار افراد داخل ہیں، پس یہ امر لازمی ہوا، کہ نورِ الٰہی کی طرف سے انسانوں کے لئے جس ہدایت کی ضرورت تھی، وہ لوگوں کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق درجہ بدرجہ حاصل ہوتی رہے اور امرِ واقعی ایسا ہی ہے۔

جب یہ بات حق ہے، کہ نورِ الٰہی کی جانب سے بنی آدم کے لئے جو ہدایت آتی ہے، اس کے بھی مختلف درجات ہوا کرتے ہیں، تو پھر اس بات کی تحقیق ضروری ہے، کہ

 

۲۰۱

 

ہدایت کا سب سے اعلیٰ درجہ کون سا ہے، اس کے بارے میں جب ہم قرآنِ حکیم کی طرف رجوع کرتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے، کہ سب سے اونچی ہدایت عرفانی ہدایت ہے، جو امامِ مبین کی حقیقی معرفت اور نورِ ہدایت کی انتہائی قربت کا مرتبہ ہے۔

۲۰۲

کلید نمبر ۱۷
ہر چیز کا فنا ہو جانا

سورۂ قصص کے اخیر میں ہے کہ: کل شیء ہالک الا وجھہ ۔ لہ الحکم و الیہ ترجعون ۔ ۲۸: ۸۸۔ یعنی اس کی ذات کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤگے۔

وجہ اللہ کے لفظی معنی ہیں خدا کا چہرہ، اور اس کا تاویلی اشارہ امامِ زمانؑ کی طرف ہے، جیسا کہ مولانا علیؑ کا مبارک فرمان ہے کہ: انا واللّٰہ وجہ اللّٰہ ۔ یعنی میں خدا کی قسم خدا کا چہرہ ہوں، نیز رسول اللہ کا ارشادِ گرامی ہے کہ: من رانی فقد رای الحق ، یعنی جس شخص نے مجھ کو دیکھا، اس نے خدا کو دیکھا۔

جب اس بات میں کوئی تعجب نہیں، کہ حق تعالیٰ نے نبوّت و امامت کے نور کو اپنی روح قرار دے دیا ہے، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے کہ خدا نے اپنی روح آدم علیہ السّلام میں پھونک دی، اور حضرت مریم علیہا السّلام کے قرآنی قصّے میں دیکھئے کہ اللہ نے روح القدس کو اپنی روح ٹھہرا لیا ہے، تو پھر اس امر میں کیا تعجب ہے، کہ خدا تعالیٰ امامِ

 

۲۰۳

 

زمان علیہ السّلام کو اپنا چہرہ قرار دے، اس معنی میں کہ امام کا دیدار خدا کا دیدار ہے اور امام کی معرفت خدا کی معرفت ہے، جیسا کہ امیر المومنین علی علیہ السّلام کا فرمانِ مبارک ہے کہ: انا وجہ اللّٰہ، انا جنب اللّٰہ ، انا ید اللّٰہ ، انا عین اللّٰہ، انا القرآن الناطق و انا البرہان الصادق و انا اللوح المحفوظ و انا القلم الاعلیٰ انا الٓمٓ، ذالک الکتاب، انا کھٰیٰعٓصٓ، انا طٰہٰ انا حاء الحوامیم و انا طاء الطواسین، انا الممدوح فی ھل اتیٰ۔ و انا النقطۃ تحت الباء ۔ میں خدا کا چہرہ ہوں، میری طرف متوجہ ہونا خدا کی طرف رخ کرنا ہے، میں ہی جنب اللہ ہوں، مجھ تک پہنچنا خدا کے پہلو میں بیٹھنا ہے، اور منتہائے قرب پر پہنچنا ہے، میں ید اللہ یعنی دستِ خدا ہوں، جو کچھ وہ کرتا ہے مجھ سے کرتا ہے، جو کچھ اس سے صادر ہوتا ہے، میرے ہاتھ سے ہوتا ہے، اور میں کرتا ہوں اس کا کہلاتا ہے، میں عین اللہ ہوں، اس کی آنکھ سے عالم کو دیکھتا ہوں، اور دنیا میرے لئے ایسی ہے جیسے کہ آنکھ میں تل، میں قرآنِ ناطق اور برہانِ صادق ہوں، میرا وجود حق اور دلیلِ وجود حق ہے، میں حاملِ اسرارِ الٰہی لوحِ محفوظ ہوں، میں ہی قلمِ اعلیٰ ہوں، جو کچھ صفحاتِ عالمِ امکان پر قدرت نے رقم کیا ہے وہ مجھ

 

۲۰۴

 

سے رقم کیا ہے، میں الم ذالک الکتاب ہوں، کتابِ فعلی اور کتابِ قولی دونوں میرا وجودِ حقیقی ہیں، میں ہی کھیعص ہوں، اور میں ہی طٰہٰ، میں ہی مبداء حوامیم ہوں، اور میں ہی راسِ طواسین ۔ میں ممدوحِ ہل اتیٰ ہوں اور میں نقطۂ تحتِ باء ہوں، جس میں کل کتاب جمع ہے۔ (کوکبِ دری)۔

جب خدا کے لئے یہ کوئی عجیب کام نہیں کہ اس نے آنحضرت صلعم کے دستِ مبارک کو اپنا ہاتھ قرار دے دیا ہے حالانکہ خدا کوئی بشر تو نہیں کہ اس کا ہاتھ ہو، تو یہ امر بھی عجیب نہیں کہ امامِ برحق کو اپنا چہرہ قرار دے، اس معنی میں کہ امام خدا کا نور ہے۔

قرآنِ حکیم میں خدا کی پنڈلی کا ذکر آیا ہے (۶۸: ۴۲)۔ اگرچہ خدائے پاک اعضاء و جوارح سے مبّرا و منّزہ ہے، جب مثال اور تاویل کے لئے یہ بات درست ہے تو یہ بھی حق ہے کہ امامِ زمان خدا کا چہرہ ہیں، کیونکہ امام کے تصور میں خدا کی معرفت کے اسرار پنہان ہیں۔

قرآنِ پاک کی ۲۹: ۵۶ میں لفظی طور پر جنب اللہ (خدا کا پہلو) مذکور ہے، جب پروردگارِ عالم کے لئے پہلو کی نسبت منظور ہے، تو امامِ حیّ و حاضر کے وجہ اللہ اور جنب اللہ ہونے میں کسی کو کیا شک ہوسکتا ہے۔

جب اس حقیقت کی وضاحت ہو چکی، کہ امامِ زمان وجہ اللہ ہیں، تو اب ہم بتوفیقِ الٰہی یہ بیان کر دیں گے

 

۲۰۵

 

کہ ہر چیز کے فنا ہو جانے کی تاویل کیا ہے، چنانچہ متعلقہ کلیّۂ مقدسہ یہ تھا کہ: وجہ اللہ کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔

خوب جاننا چاہئے، کہ اس فرمانِ الٰہی کی تاویل کے کم از کم چار مقام ہیں، سب سے پہلے مقام کی تاویل یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ایسے خاص خاص بندے بھی ہوا کرتے ہیں، کہ ان کے نورانی تصوّروتخیّل میں یا ان کی چشمِ بصیرت کے سامنے کائنات و موجودات کی ہر چیز اسرارِ نورِ الٰہی کی بے پناہ تجلّیوں میں فنا ہو جاتی ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے کہ: پس تم جس طرف بھی متوّجہ ہوجاؤ وہیں خدا کا نور موجود ہے۔  ۰۲: ۱۱۵۔ یہ ہوا کسی مومن کی انفرادی دنیا میں ہر چیز کا فنا ہوجانا، خدا کے نور کا باقی رہنا خدا کی بادشاہی کا دور آنا اور خدا کی طرف اس مومن کا لوٹ کر جانا۔

دوسرے مقام کی تاویل یہ ہے، کہ دنیا ہی میں ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے، جس میں روحانیت کا دور دورہ ہوگا، ہر جسمانی چیز روحانی طاقتوں کے نیچے مغلوب ہو کر نہ ہونے کے برابر رہے گی، وہ روحانی طاقت وجہ اللہ یعنی خدا کے نور کی ہو گی، اس وقت روئے زمین پر خدا کی ایک ہی حکومت ہو گی،اور اس حال میں مومنین خدا کی طرف رجوع کئے ہوئے ہوں گے، یہ ہوا مومنین کی اجتماعی دنیا میں

 

۲۰۶

 

ہر چیز کا فنا ہو جانا۔

تیسرے مقام کی تاویل یہ ہے، کہ جب بندۂ مومن اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے امامِ وقت کی روحانیت و نورانیت کی بہشت میں داخل ہوجاتا ہے ، تو اس وقت اس کے نزدیک امام کے نور کے سوا ہر چیز فنا ہو جاتی ہے، ایسے مومن کی اس ذاتی بہشت میں خدا ہی کی بادشاہی ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس حال میں وہ مومن خدا کی طرف رجوع کیا ہوا ہوتا ہے، یہ ہوا مومن کی انفرادی قیامت میں ہر چیز کا فنا ہوجانا۔

چوتھے مقام کی تاویل یہ ہے کہ کسی زمانے میں عالمِ جسمانی یعنی ساری کائنات کلّی طور پر فنا ہو جائے گی، جیسا کہ کلید نمبر ۹ میں بھی اس کا ذکر ہو چکا ہے، اور اس حال میں بندگانِ خدا اپنے آپ کو خدا کے نور میں زندہ پائیں گے، جو عالمِ روحانی اور بہشتِ جاودانی ہے، اس عالم میں خدا ہی کی بادشاہی ہوگی اور مومنین خدا کی طرف لوٹے ہوئے ہوں گے، یہ ہوا مجموعی قیامت میں ہر چیز کا فنا ہو جانا۔

مذکورۂ بالا تاویلات کی ایک واضح مثال یہ ہے، کہ ہر انسان جب خواب کے عالم میں ہوتا ہے، تو اس کے نزدیک عالمِ خواب کے سوا ہر چیز فنا ہو جاتی ہے، یعنی یہ ظاہری کائنات تمام موجودات اور مخلوقات کے ساتھ اس کی نظر سے غائب اور پوشیدہ ہو جاتی ہے، مگر اس کے

 

۲۰۷

 

خواب کی دنیا میں ہر چیز موجود ہوتی ہے، جس میں خواب کی حکمرانی ہے اور اس کا رجوع خواب کی طرف ہوتا ہے، یہی مثال انفرادی روحانیت و قیامت کے علاوہ اجتماعی روحانیت اور قیامت کی بھی ہے، لیکن بمصداق: چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک۔ کہاں خواب کی تاریک اور مردہ دنیا، اور کہاں روحانیت و قیامت کا تابان و درخشان عالم، جس کی ہر چیز روحِ قدسی کی حیات و دانش سے معمور ہے۔

۲۰۸

کلید نمبر ۱۸
ہر چیز امامِ مبین میں

سورۂ یاسین کے رکوعِ اوّل کے اخیر میں پروردگارِعالم کا یہ ارشاد ہے کہ: و کل شیء احصینٰہ فی امام مبین ۔ ۳۶: ۱۲۔ اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبین (کی نورانیت) میں گھیر لیا ہے۔

سوال: اگر ’’امامِ مبین‘‘ کا یہ اسم حاضرامام ہی کے لئے ہے، تو ہمیں سمجھا دیجئے، کہ کائنات و موجودات کی ہر چیز یعنی تمام اشیائے ظاہروباطن امام کی ذات میں کس طرح گھیری ہوئی ہیں؟

جواب: ہاں، امامِ مبین حاضرامام ہی کا اسمِ مبارک ہے، چونکہ آپ خدائے قدوس کے پاک نور کی مرتبت رکھتے ہیں، اور خدا کا نور وہ ہے، جس نے ارض و سماء کی وسعتوں کو اپنے اندر گھیر کر رکھا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے نورِ مطلق کی حیثیت سے امامِ زمان کون ومکان کی جملہ اشیاء پر کس طرح حاوی ہے، اس کے کئی تصورات ہیں، ان میں سے ایک یہ کہ امامِ برحق کے آئینۂ باطن میں اشیائے دو جہان کی عقلی و روحی (یعنی زندہ

 

۲۰۹

 

اور باشعور) قسم کی عکاسی ہوتی رہتی ہے، بالفاظِ دیگر امام پاک کے ضمیرِمنیر کی لوحِ محفوظ پر ہر چیز کا زندہ نقش وصورت موجود ہے۔

دوسرا تصور یہ ہے کہ امام علیہ السّلام اس عظیم کائنات کی روح اور عقل ہیں، وہ اس طرح کہ امام کی عقل عقلِ کلّی ہے اور آپ کی روح نفسِ کلّی، پس تمام عقول امام کی عقل میں مجموع ہیں اور ساری ارواح آپ کی روح میں محدود۔

تیسرا تصور یہ ہے، کہ امام خدا کی آنکھ ہیں، اس لئے ان کی نگاہ کے سامنے موجودات کے احوالِ ظاہر و باطن محدود و محصور ہیں، جیسے مولانا علی علیہ السّلام کا فرمان ہے کہ:انا عین اللّٰہ فی ارضہ و لسانہ الناطق فی خلقہ انا نور اللّٰہ الذی لا یطفیٰ انا باب اللّٰہ منہ یوتیٰ و حجتہ علیٰ عبادہ = یعنی میں زمین میں خدا کی آنکھ ہوں، اور اس کی مخلوق میں اس کی بولتی ہوئی زبان ہوں، میں وہ نورِ خدا ہوں جو نہیں بجھایا جا سکتا، میں باب اللہ ہوں کہ میرے ہی ذریعہ خدا تک پہنچا جاتا ہے اور اس کے بندوں پر اس کی حجّت ہوں۔

چوتھا تصور امامِ مبین کی ذاتِ اقدس میں ہر چیز محدود ہونے کے بارے میں یہ ہے کہ امامِ عالی مقام کی مقدس روح نفسِ کلّی، روحِ اعظم، روح الارواح اور عالمِ روحانی

 

۲۱۰

 

کی حیثیت سے ہے، اس لئے امامِ مبین تمام مخلوقات اور جملہ اشیاء کی روحوں کا سورج ہیں، اب ان روحوں کی مثال جو دنیا میں آئی ہیں، سورج کی ان کرنوں کی طرح ہے جو سطح زمین تک پہنچی ہوئی ہیں، اور جو روحیں دنیا میں آنے کے بعد اپنی اصل سے واصل ہوئی ہیں یا ابھی تک دنیا میں نہیں آئی ہیں، ان کی مثال روشنی کے اس مادہ کی طرح ہے جو سورج کے سرچشمے میں موجود ہے، پس جو روحیں امامِ مبین کے نورِ اقدس میں ہیں وہ بھی، اور جو روحیں دنیا میں آئی ہیں وہ بھی امامِ اکرم کی ذات میں محدود ہیں، جیسے سورج کی کرنوں کا حال ہے، کہ جو شعاعیں ابھی سورج سے نہیں نکلی ہیں وہ تو سورج کے نور میں محدود ہیں ہی، اور ان کے علاوہ جو کرنیں ایک بے پایان نورانی سمندر کی شکل میں کائنات و شش جہات میں پھیلی ہوئی ہیں وہ بھی سورج سے وابستگی کی وجہ سے سورج میں محدود ہیں۔

ان تصورات کے علاوہ اس سلسلے میں ایک اور قرآنی دلیل یہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں ارشاد ہوا ہے، کہ و ما ارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمین ۲۱: ۱۰۷۔ اور (اے رسول) ہم نے تم کو تمام عالموں (یعنی ساری کائنات) کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اس فرمانِ الٰہی سے ظاہر ہے کہ حضورِ اکرم

 

۲۱۱

 

خدا کی ہمہ رس اور ہمہ گیر رحمتِ کل کی حیثیت سے تمام کائنات و موجودات پر حاوی تھے، چنانچہ اگلے صفحات پر بھی اس حقیقت کا ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز یعنی کائنات کو اپنی رحمت اور علم میں سما لیا ہے، اور وہ قرآنی ارشاد یہ ہے: ربنا وسعت کل شیء رحمۃ و علما ۔ ۴۰: ۷۔ چونکہ امامِ مبین خلیفۂ خدا اور خلیفۂ رسول ہیں، اس لئے امام کی روحانیت خدا کی ہمہ رس رحمت ہے اور آپ کی نورانیت خدا کا ہمہ گیر علم ہے، پس معلوم ہوا، کہ امامِ مبین کی روحانیت اور نورانیت دونوں ارض و سماء کی وسعتوں پر محیط ہیں۔

اب ذیل میں اس حقیقیت کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں، کہ امامِ مبین کے نور میں کون و مکان کی تمام چیزیں کس طرح گھیری ہوئی ہیں:

۱۔ سورج نے اپنی روشنی کے بے پناہ سمندر میں تمام کائنات کو غرق کر لیا ہے، حالانکہ وہ خود کائنات کے درمیان ایک محدود جسم ہے۔

۲۔ یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ بائے بسم اللہ کے نقطے میں قرآنِ حکیم کا جملہ ظاہر و باطن پنہان ہے۔

۳۔ درخت کے بیج میں مغز ہوتا ہے اور مغز کے درمیان ایک چھوٹا سا نقطہ ہے اور اسی نقطے میں ایک عظیم درخت پوشیدہ ہے۔

۲۱۲

۴۔ حضرت آدمؑ کی پشت میں نفوسِ خلائق کی ایک بھرپور دنیا چھپی ہوئی تھی۔

۵۔ انسان کے دل و دماغ میں بہت سی لطیف دنیائیں سما گئی ہیں، مثلاً خواب کی دنیا، خیال کی دنیا، غور و فکر کی دنیا، عقل و دانش کی دنیا، تجربات کی دنیا، عشق و محبت کی دنیا وغیرہ۔

۶۔ بندۂ مومن کے قلب میں حکمت کا ایک نقطہ ہے، اور اس نقطے میں اس قدر زیادہ گنجائش ہے کہ حضرت رحمٰن اور اس کی تمام صفاتِ جلالیہ و جمالیہ کے لئے جگہ ہو سکتی ہے۔

۷۔ تمام پیغمبروں کے نفوسِ قدسیہ، کتبِ سماویہ، علمِ الٰہیہ اور ساری امتوں کی ایمانی روحیں آنحضرت کی ذاتِ بابرکات میں مجموع تھیں، ان تمام حقیقتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے، پس اس کا مطلب یہ ہوا، کہ حضورِ اکرمؐ کا نورِ مقدّس، جس میں سب کچھ تھا، امامِ مبین میں موجود ہے۔

۸۔ یہ عظیم کائنات بہ امرِ خدا کاف و نون (کُنۡ) کے دو حرف سے وجود میں آئی ہے، اور بالآخر پھر کاف و نون میں داخل ہونے والی ہے۔

۹۔ انسان نے اپنے دل و دماغ میں عقل اور علم کو

 

۲۱۳

 

گھیر لیا ہے اور عقل وعلم نے انسان کو گھیر لیا ہے، یعنی وہ اپنی معلومات کے دائرے میں محدود ہے۔

۱۰۔ قیامت کے دن ساری زمین خدا کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ ۳۹: ۶۷۔

۱۱۔ سیاہی کی ایک دوات میں امکانی طور پر دنیا بھر کے علوم سموئے ہوئے ہیں، یعنی اس میں سے ہر قسم کی تحریر اور ہر نوع کا علم ظاہر کیا جا سکتا ہے۔

پس مذکوۂ بالا دلائل اور مثالوں سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح اور ظاہر ہو گئی، کہ امامِ مبین کے احاطۂ نورانیت میں کائنات و موجودات کا ظاہر و باطن محدود ہے، اور یہ کلیّہ الحمد للہ اس واحد خزانے کی کلید کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں آسمانوں اور زمین کے جملہ مخفی خزانوں کی کلیدیں محفوظ ہیں، جن کا ذکر کلید میں کیا گیا ہے۔

۲۱۴

کلید نمبر ۱۹
ہر چیز کا ملکوت

سورۂ یاسین کی آخری آیت ہے کہ: فسبحٰن الذی بیدہ ملکوت کل شیء و الیہ ترجعون ۔ ۳۶: ۸۳۔ پس پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور اسی کی طرف تم کو لوٹ کر جانا ہے۔

ملکوت کے معنی ہیں بادشاہی، سلطنت، روحانیت، عالمِ ارواح، عجائبات اور فرشتوں کا عالم، اور ملکوت کل شیء کا مطلب ہے ہر چیز کی روحانیت، ہر چیز کے روحانی عجائبات اور ہر چیز کی وہ روحانی شکل و صورت جو عالمِ امر میں ہے، جس میں ہر چیز مادّی اور جسمانی کیفیت کے بغیر مجرّد روحانیت میں موجود ہے، جس کی ایک مثال عالمِ خواب ہے، کہ اس کی تمام چیزیں بغیر جسم اور بغیر مادّہ کے روحانی کیفیت میں ہوتی ہیں۔

نیز اس کے معنی ہیں ہر چیز کی ملکوتی بادشاہی اور روحانی سلطنت، کیونکہ کائنات و موجودات کی ہر چیز خدا کے قبضۂ قدرت اور اس کے اختیار میں تو ہے،

 

۲۱۵

 

لیکن وہ جسمانیت و مادّیت کے عالم میں ظاہر ہے، اور لوگوں کی نگاہیں اس تک رسا ہو سکتی ہیں، اس حال کے برعکس ہر چیز کا روحانی وجود ایسا نہیں، کہ ہر شخص اس کے عجائبات کا ادراک کر سکے، پس اسی اختصاص کے سبب سے ارشاد ہوا ہے، کہ ہر چیز کی روحانیت خدا کے ہاتھ میں ہے، اور خدا کے ہاتھ سے ولئ امر مراد ہیں یعنی امامِ زمان، کیونکہ خدا کی طرف سے مومنین سے بیعت لینے والا ہاتھ پیغمبر صلعم کے بعد امامِ برحق ہی کا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا، کہ نبوّت و امامت کے واحد نور کی روشنی میں تمام چیزوں کی روحانیت کا مشاہدہ ہوسکتا ہے، پھر ان اشیاء کی حقیقتوں اور معرفتوں کے نتیجے میں خدا کی طرف رجوع یعنی اس کی معرفت کا حصول ممکن ہے، آیۂ مذکورۂ بالا میں ربطِ الفاظ کا مطلب یہی ہے۔

اس کلیۂ مبارکہ میں خدا کے ہاتھ کا ذکر ہوا ہے، لیکن صاف ظاہر ہے کہ یہاں خدا کے تصورِ سبحانیت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے، اس لئے اگر ہم خدا کے ہاتھ سے خدا کا اختیار مراد لیں یا قبضۂ قدرت سمجھیں، بہرحال اس کی آخری تاویل ولئ امر ہی کو پہنچنے کے بغیر چارہ نہیں، چنانچہ صاحبِ امر یعنی امامِ مبین علیہ السّلام کے نور میں ہر چیز کا ملکوت موجود ہے، اور ان کے نور سے کوئی چیز

 

۲۱۶

 

باہر نہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے خدا کی جانب سے اپنے وقت میں ولئ امر ہونے کے ساتھ ساتھ آسمانوں اور زمین کے ملکوت کا مشاہدہ کیا تھا، چونکہ آپ اپنے زمانے کے امام تھے، اور انہوں نے اپنے نور ہی میں دیدۂ باطن سے عالمِ ملکوت دیکھا تھا، اور آپ نے حکمت کی زبان میں فرمایا کہ جو شخص میری پیروی کرے وہ بھی اپنی حیثیت کے مطابق ملکوت کا مشاہدہ کرسکتا ہے، یہ مطالب سورۂ انعام کے رکوع نہم اور سورۂ ابراہیم کے رکوع ششم میں ہیں۔ مگر ایمان و ایقان کی قوتوں کے بغیر ان حقیقتوں کے متعلق باور کرنا سخت مشکل ہے۔

قرآنِ حکیم کی کسی آیت کی حقیقتوں سے کوئی حقیقت اس وقت کماحقہٗ دلنشین ہوسکتی ہے، جبکہ اس حقیقت سے متعلق قرآنی موضوع کا بغور مطالعہ کیا جائے اور جبکہ امام کی نورانی تائید حاصل ہو۔

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی پیروی اور مشاہداتِ ملکوتی کے بارے میں ایک اور ارشاد یہ ہے کہ: بلاشبہ سب آدمیوں میں زیادہ خصوصیت رکھنے والے ابراہیم کے ساتھ البتہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ان کا اتباع کیا تھا اور یہ نبی (صلعم) ہیں اور یہ ایمان والے اور اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا حامی ہے ۔ ۰۳: ۶۸۔ یعنی سب لوگوں میں حضرت ابراہیم کے

 

۲۱۷

 

ساتھ زیادہ خصوصیت، زیادہ دوستی اور روحانیت اور نورانیت کا قریبی رشتہ رکھنے والے لوگ وہ تھے جنہوں نے حضرت ابراہیمؑ کی حقیقی معنوں میں پیروی کی تھی، جیسے آلِ ابراہیم کے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اور ان کے حقیقی مومنین، نیز نبئ اکرمؐ اور امتِ محمدیہ کے اہلِ ایمان۔

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اتباع کی اس تعلیم سے چند حکمتیں ظاہر ہوتی ہیں، چنانچہ پہلی حکمت یہ ہے: جناب ابراہیم خلیل اللہ کی حقیقی پیروی یہ ہے، کہ آپ کے پیچھے پیچھے روحانیت و نورانیت کے اس رستے پر چلا جائے جس میں کہ انہوں نے آسمانوں اور زمین کے ملکوتی عجائبات کا مشاہدہ کیا تھا، جس کا زندہ ثبوت آلِ ابراہیم کے جملہ انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام نیز نبئ محمد صلعم اور آپ کے خاندان کے تمام أئمّۂ اطہار علیہم السّلام ہیں۔

دوسری حکمت: حضرت ابراہیمؑ کی پیروی ہو یا کسی اور پیغمبر کی، بہرحال پیروی کی دو صورتیں ہوا کرتی ہیں، اور تیسری کوئی صورت نہیں، پہلی صورت بلا واسطہ پیروی کی ہے اور دوسری صورت بالواسطہ پیروی کی، پیغمبر کی زندگی ہی میں جو پیروی کی جاتی ہے وہ بلا واسطہ ہے اور جو پیروی پیغمبر کی وفات کے بعد اس کی کتاب اور حقیقی

 

۲۱۸

 

جانشین کے ذریعے سے کی جاتی ہے وہ بالواسطہ ہے۔

تیسری حکمت: حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی پیروی کے لئے آپ کے فرزندِ ارجمند حضرت اسماعیلؑ سے حضرت ابو طالبؑ تک سلسلۂ امامت جاری تھا، جس کے بغیر ابراہیمؑ کی حقیقی پیروی ناممکن تھی اور آپ کی آسمانی کتاب لوگوں کے سامنے موجود نہیں تھی۔

چوتھی حکمت: حضور اکرم صلعم اپنی بعثت سے قبل کے زمانے میں امامِ وقت کے توسط سے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی پیروی کر لیا کرتے تھے۔

پانچویں حکمت: مذکورہ ارشادِ قرآنی میں ہے، کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کا ولی ہے، پس ولی کے معنی یہاں کارساز، دوست، حامی، مددگار، مختار، وارث وغیرہ جیسے بھی ہوں بہرحال اس کا مطلب یہی ہے، کہ خدا نے مومنوں کو کسی بھی زمانے میں امامِ مبین کے بغیر نہیں چھوڑا ہے، کیونکہ اس نے امامِ مبین کو ہر چیز پر حاوی اور محیط فرما دیا ہے، اس لئے ہر زمانے میں امام کی موجودگی لازم آتی ہے، جبکہ ظاہریت و جسمانیت میں ہر چیز زمان و مکان کے سوا نہیں ہو سکتی ہے۔

اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے، کہ جب امامِ مبین اپنے نورِ مقدّس سے ہر چیز پر محیط ہے، تو یہ حقیقت ہے، کہ ہر چیز کا ملکوت بھی آپ کے پاک نور میں ہے، جیسے حضرت ابراہیمؑ کی مثال سے ظاہر ہے، اور کوئی شک نہیں کہ آپ

 

۲۱۹

 

اپنے وقت میں امامِ مبین تھے، پس یہی سبب ہے، کہ قرآن کے جملہ موضوعات حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے موضوع سے وابستہ کئے ہوئے ہیں، اور آنجناب کا موضوع امامِ مبین کے عنوان کے تحت ہے۔

۲۲۰


کلید نمبر ۲۰
ہر چیز کے لئے گنجائش رحمت اور علم میں

سورۂ مومن کی ساتویں آیت میں قرآنِ مقدّس کا ارشاد ہے کہ: ربنا وسعت کل شیء رحمۃ و علما ۔ ۴۰: ۰۷۔ اے ہمارے پروردگار تو نے ہر چیز اپنی رحمت اور علم میں سمو رکھی ہے۔

اس آیۂ کریمہ کا اشارۂ حکمت اس حقیقت کی طرف ہے، کہ اللہ تعالیٰ کی زندہ رحمت نفسِ کلّی کی روحانیت ہے اور اس کا ذی حیات علم عقلِ کلّی کی نورانیت، اور روحانیت و نورانیت کے دو سمندر میں کائنات و موجودات کی تمام چیزیں ڈوبی ہوئی ہیں، یہ امرِ واقعی اس طرح سے ہے ، کہ جسمِ کلّی، جو آسمانوں ، ستاروں، سیّاروں اور تمام مادّی چیزوں کا مجموعہ ہے، نفسِ کلّ کی روحانیت میں غرق ہے اور نفسِ کلّ بمع ان تمام چیزوں کے (یعنی جسمِ کلّ کے ساتھ) عقلِ کلّ کی نورانیت میں مستغرق ہے، پس یہ ہوا ہر چیز کا رحمت اور علم میں سمو جانا۔

نیز اشیائے کائنات و موجودات کے رحمت وعلم میں سمو جانے کی ایک خاص صورت بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ

 

۲۲۱

 

تمام چیزیں اپنی ظاہری اور مادّی ہستی کے علاوہ رحمت میں روحانی طریق پر اور علم میں عقلی طور پر زندہ اور موجود ہیں، بالفاظِ دیگر ہر چیز بیک وقت تین صورتوں میں یا کہ تین مقامات پر موجود ہے، وہ جسمِ کلّ میں جسمانی طور، نفسِ کلّ میں روحانی حیثیت سے اور عقلِ کلّ میں عقلی صورت میں موجود ہے۔

اس حقیقت کی ایک روشن دلیل (کہ جس طرح ہر چیز عالمِ جسمانی میں مادّی صورت میں موجود ہے، اسی طرح وہ عالمِ ارواح میں روحانی صورت میں اور عالمِ عقول میں عقلی صورت میں موجود ہے) یہ ہے کہ ازل میں عقلِ کلّ کے قلم نے بامرِ الٰہی اپنے وجود کے عالم کی جملہ اشیاء کی روحانی یعنی زندہ تصویریں نفسِ کلّ کی لوحِ محفوظ پر اتار دی تھیں، مگر عقلِ کلّ کے عالم کی چیزیں ویسی کی ویسی اپنی اپنی جگہ پر موجود تھیں، اسی طرح نفسِ کلّ یا کہ لوحِ محفوظ کے روحانی نقوش کے مطابق اس دنیا کی جسمانی چیزیں پیدا کی گئیں، بغیر اس کے کہ لوحِ محفوظ کی چیزوں میں کوئی کمی واقع ہو۔

بیانِ مذکورۂ بالا سے نہ صرف یہ ثبوت ملا، کہ ہر چیز رحمت اور علم میں سموئی ہوئی ہے، بلکہ اس سے یہ بھی معلوم ہوا، کہ رحمت نفسِ کلّ کی صفت ہے اور علم عقلِ کلّ کی صفت، نیز اس بیان سے یہ بھی ظاہر ہوا، کہ ہر چیز بیک وقت عقل، روح اور جسم میں موجود ہے، گویا عقل کا

 

۲۲۲

 

سایہ روح ہے اور روح کا سایہ جسم۔

امامِ عالی مقام علیہ السّلام کے مبارک فرمان میں ہے، کہ مومنین اپنی روحوں میں فرشتے ہیں اور جسموں میں انسان، پس یہ بات قابلِ یقین ہے کہ مومنوں کی روحوں کے فرشتوں کے بھی عقلی فرشتے ہیں، جس کا ثبوت انسان کا ظاہری وجود ہے، کہ اس میں تین چیزیں ہیں، یعنی جسم، روح اور عقل۔

جب یہ مانا گیا، کہ ہر وہ چیز جو جسمانی عالم میں ہے، وہ روحانی عالم میں بھی ہے اور عقلی عالم میں بھی، اور یہ بھی تسلیم کیا گیا، کہ روحانی عالم نفسِ کلّ ہے اور عقلی عالم عقلِ کلّ، پھر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عالمِ انسانیت کے سردار یعنی امامِ مبین کی روح وہ روحانی فرشتہ ہے، جو نفسِ کلّ کے اسم سے موسوم ہے، اور ان کی عقل وہ عقلی فرشتہ ہے، جس کو عقلِ کلّ کہا جاتا ہے، پس اس مضمون کا لبِ لباب یہ ہے کہ امامِ مبین کی روحِ اعظم کائنات کی رحمت کا سرچشمہ ہے اور آپ کی عقلِ کامل سارے جہانوں کے علم کا منبع ہے۔

۲۲۳

کلید نمبر ۲۱
ہر چیز کا بولنا

قرآنِ مجید کی ۴۱: ۲۱ میں فرمایا گیا ہے کہ: قالوا انطقنا اللّٰہ الذی انطق کل شیء ۔ ۴۱: ۲۱۔ وہ کہیں گے کہ جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اسی نے ہم کو بھی گویائی دی۔

اس کلیۂ مبارکہ کی وضاحت کرنے سے قبل ہمیں نطق یعنی قوتِ گویائی کی حقیقت کے متعلق کچھ کہنا چاہئے، چنانچہ یہ جاننا ضروری ہے کہ اگرچہ بعض حکماء کے نزدیک قوتِ ناطقہ انسانی روح کا خاصہ ہے، لیکن حقیقتاً اس میں سبقت عقل ہی کو حاصل ہے، اور عقل ہی کے ذریعے سے بولنے کی طاقت روحِ انسانی کو حاصل ہوتی رہتی ہے۔

اس حقیقت کی پہلی دلیل، کہ انسانی روح کی یہ قوتِ ناطقہ عقل کے توسط سے حاصل ہوتی رہتی ہے، یہ ہے کہ عالمِ دین کی ترتیب میں سب سے پہلے اور سب سے اوپر کلمۂ باری کا مقام ہے، جس کو کلمۂ “کُنۡ” اور امرِ کل بھی کہا جاتا ہے، یہ فی المثل عالمِ دین کی قوتِ گویائی ہے، کُن کے امر سے عقلِ کلُ کا فرشتہ وجود میں آیا، جو عالمِ دین کی عقل

 

۲۲۴

 

کی حیثیت سے ہے، عقلِ کلّ سے نفسِ کلّ کا فرشتہ پیدا کیا گیا، جو عالمِ دین کی جان یعنی روح کا درجہ رکھتا ہے، اس مثال سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ روحِ ناطقہ کی تعمیر عقل سے ہوتی ہے اور عقل کی تکمیل نطق سے۔

دوسری دلیل یہ ہے، کہ انسان کے جسم کا قیام روح پر ہے، روح کی محافظ عقل ہے اور عقل کا مربی نطق۔

تیسری دلیل: عقل نطق کے بغیر نہیں ہو سکتی، جس کا ثبوت فرشتہ ہے، مگر روح نطق کے بغیر ہو سکتی ہے، جس کی مثال حیوان ہے۔

چوتھی دلیل: علم خواہ لدنی مرتبت کا ہو یا اکتسابی قسم کا بہرحال نطق کی صورت میں آسکتا ہے اور جو وحی کا اشارہ ہوتا ہے وہ بھی ایک طرح کا نطق ہے، جس کو سب سے پہلے عقل و شعور قبول کرتا ہے پھر یہ روح تک پہنچتا ہے۔

پانچویں دلیل: اگر کسی بچے کے کان شروع ہی سے سن نہیں سکتے، تو وہ بہرا کہلاتا ہے، جب وہ بہرا ہو گیا، تو اس سے گونگا بھی ہوجاتا ہے، پھر وہ اس کے نتیجے میں عقل کی دولت سے بے نصیب رہ جاتا ہے، اس کا سبب کیا ہے؟ بس یہی کہ جب وہ قوتِ سامعہ سے محروم ہوگیا، تو قوتِ ناطقہ اور عقل ودانش سے بھی محروم رہتا ہے، اس سے معلوم ہوا، کہ عقل کی تکمیل کا ذریعہ ناطقہ ہے۔

مذکورۂ بالا دلائل سے اس حقیقت کا بین ثبوت ملتا

 

۲۲۵

 

ہے، کہ جس طرح عالمِ دین میں کلمۂ باری یعنی “کُنۡ” کے امر سے عقلِ کل وجود میں آیا اور جیسے عقلِ کلّ سے نفسِ کلّ پیدا ہوا، اسی طرح مومن کے شخصی عالم میں امامِ زمانؑ کے پرحکمت فرمان سے، جو کلمۂ باری کی مثال ہے، عقلِ جزوی کو کمال حاصل ہوتا ہے، پھر ایسی عقل سے روح الایمان پیدا ہوتی ہے۔

پھر اس کے نتیجے میں مومن کے حواسِ باطن زندہ ہو جاتے ہیں، تب وہ حقائقِ اشیاء کا مشاہدہ کر سکتا ہے، کہ تمام چیزوں کی جسمانی، روحانی اور عقلی تین تین ہستیاں ہیں، ہر چیز اپنے عقلی وجود اور روحانی وجود میں بولتی رہتی ہے، اس کے علاوہ اشیاء کا ظاہری وجود بھی معجزانہ نطق سے خالی نہیں۔

چنانچہ ظاہری اور جسمانی چیزیں دو طرح سے بولتی ہیں، یعنی زبانِ حال سے اور زبانِ قال سے، مگر یہاں زبانِ حال کی کیفیت بیان کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے، ہم صرف زبانِ قال کی بات کریں گے، کہ اس کی بھی دو صورتیں ہیں، اوّل یہ کہ چیزوں کی آواز اور صوت و صدا روح القدس کے تصرف سے معجزانہ گفتگو اور ذکر وتسبیح میں تبدیل ہوجاتی ہے، دوم یہ کہ جن چیزوں کی کوئی آواز نہ ہو، ان سے ایسی معجزاتی آواز پیدا ہوتی ہے کہ اس کی کماحقہٗ توجیہہ نہیں ہو سکتی۔

جب آواز والی اور بے آواز والی جملہ چیزیں زبانِ نطق سے خدا کے ذکر و تسبیح کرنے لگتی ہیں، تو اس میں ہم

 

۲۲۶

 

ایک اعتبار سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ان چیزوں کو نطق دیا، دوسرے اعتبار سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ مومن کی اپنی روحِ ایمانی کا کرشمہ ہے، تیسرے اعتبار سے یہ بھی مان سکتے ہیں، کہ یہ روح القدس کا معجزہ ہے اور چوتھے اعتبار سے یہ کہنا بھی حقیقت ہے ،کہ یہ سب کچھ امامِ مبین کے نور کی روشنی میں کشفِ روحانیت کا عالم ہے، پس یہ تمام باتیں اپنی اپنی جگہ پر حق اور صحیح ہیں اور ان میں سے کوئی بھی غلط نہیں، کیونکہ جہاں تمام حقیقتوں کی وحدت و یگانگت کا مقام ہے وہاں کی حالت و کیفیت کے مختلف اعتبارات ہوتے ہیں۔

۲۲۷

کلید نمبر ۲۲
تمام چیزوں کے جوڑے

قرآنِ عظیم کی ۵۱: ۴۹ میں حضرت تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: و من کل شیء خلقنا زوجین لعلکم تذکرون ۔ ۵۱: ۴۹۔ اور ہر چیز کو ہم ہی نے جوڑا جوڑا بنایا تا کہ تم یاد رکھو۔

جیسا کہ کلید ۹ میں بطریقِ اختصار یہ ذکر ہوا تھا، کہ تمام چیزیں جوڑی جوڑی پیدا کی گئی ہیں، چنانچہ اسی مطلب کو یہاں ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے، کہ ہر چیز کی ایک ضد یا ایک مقابل ہے، جیسے مرد عورت، دن رات، روشنی تاریکی، خشکی تری، آسمان و زمین ، روحانی و جسمانی، خوشی و غم، امیری و غربت، دنیا و آخرت، وجود و عدم یا کہ ہستی و نیستی ، خلق و امر وغیرہ۔

یہاں یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ چیزوں کے جوڑے دو قسم کے ہوا کرتے ہیں، ایک قسم وہ ہے جس کے ہر جوڑے کی دونوں چیزیں ایک ساتھ رہ سکتی ہیں، جیسے مرد عورت، دوسری قسم وہ ہے جس کے ہر جوڑے کی دونوں چیزیں یکجا نہیں ٹھہر سکتیں، جیسے دن رات۔

۲۲۸

چنانچہ اگر ہم اس کائنات کی بقا کو دن اور اس کی فنا کو رات قرار دیں، تو یہ بھی مذکورہ چیزوں کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا ہوگا، لیکن لازمی ہے کہ کائنات کی ہستی اور نیستی کے یہ دن رات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جاری ہوں، اور یہ حقیقت ہے کیونکہ دن رات تو ایک لا انتہا سلسلہ ہے۔

مذکورۂ بالا کلیّہ کی روشنی میں چشمِ بصیرت سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات و موجودات کے وجود و عدم کے سلسلے کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہا، بلکہ اس سے دائمیّت کا ایک نہایت ہی وسیع دائرہ بنا ہوا ہے، جیسے دن رات کی مثال میں کائنات کی بقا و فنا کی لاانتہا گردش کی حقیقت ثابت کی گئی، اس کے برعکس اگر ہم صرف اسی بات کو مانیں کہ پہلے خدا کے سوا کچھ بھی نہیں تھا، پھر اللہ پاک کے امر سے یہ جہان پیدا ہوا، پھر ایک دن یہ جہان فنا ہوجائے گا، تو اس عقیدہ میں تین چیزیں ہو گئیں، یعنی پہلے نیستی، اس کے بعد ہستی ، پھر نیستی، اور یہ بغیر جوڑے کی بات ہوئی، حالانکہ مذکورۂ بالا کلیے کے مطابق ایسا ہونا چاہئے، کہ ہر نیستی کے بعد ایک ہستی ہو اور ہر ہستی کے بعد ایک نیستی، کیونکہ ذاتِ سبحان کے سوا کوئی چیز بغیر جوڑے کے نہیں ہو سکتی۔

علاوہ برآن اگر ہم ہستی کو چھوڑ کر صرف نیستی کی کیفیت کے بارے میں غوروفکر کریں، تو پھر وہی حقیقت نکھر کر

 

۲۲۹

 

سامنے آتی ہے، کہ قانونِ قدرت کے تصرف سے کوئی چیز مستثنا نہیں ہو سکتی، یعنی خلقنا زوجین کے حکم کا اطلاق ہر جوڑے کی دونوں چیزوں پر برابر ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہستی خدا کی بنائی ہوئی (مخلوق) ہے اسی طرح نیستی بھی اسی کی بنائی ہوئی (مخلوق) ہے، پھر جب ہم نے بحقیقت یہ تسلیم کر لیا کہ نیستی کوئی ایسی چیز یا کوئی ایسی کیفیت ہے نہیں، جو فعلِ قدرت کے تصرف کے بغیر خود بخود پائی جائے، بلکہ وہ جس حالت و کیفیت میں بھی ہو خدا ہی کی بنائی ہوئی ہے، تو اب ہمیں لازمی طور پر یہ بھی ماننا پڑے گا، کہ نیستی دراصل ہستی کی بدلی ہوئی ایک صورت ہے، جس طرح رات ایک بدلی ہوئی شکل ہے دن کی، پس اس کا نتیجہ یہ ہوا، کہ ایسی کوئی نیستی نہیں جس سے پہلے ایک ہستی نہ ہو اور نہ ایسی کوئی ہستی ہے جس سے قبل نیستی نہ ہو، چنانچہ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ یہ ارشاد ہے کہ خدا کے امر سے جس طرح رات کے اندر دن پوشیدہ ہے اور دن کے باطن میں رات پنہان ہے، بالکل اسی طرح نیستی میں ہستی چھپی ہوئی ہے اور ہستی میں نیستی مخفی ہے۔

بعض لوگوں کے عقیدے کے مطابق عدم اور نیستی ایک لاشیٔ اور بے مسمّا اسم ہے، مگر حقیقتِ حال اس کے برعکس ہے، جیسے قرآنِ پاک کا ارشاد ہے کہ: الذی خلق الموت والحیٰوۃ لیبلوکم

 

۲۳۰

 

ایکم احسن عملا ۔ ۶۷: ۰۲۔ یعنی خدا وہ ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا (یعنی مخلوق) کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے کام کرتا ہے۔ اس فرمانِ الٰہی سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے، کہ نیستی اور ہستی دونوں خدا کی مخلوقات میں سے ہیں، پس معلوم ہوا کہ نیستی ایک قسم کی مخلوق ہے جس کو خدا نے ہستی سے پیدا کیا ہے۔

ہم نفی اور اثبات کی دونوں حقیقتوں کو تسلیم کر لیتے ہیں، وہ یہ کہ بلا شک وشبہ ہر چیز فنا تو ہوہی جاتی ہے، مگر فنا ہی سے پھر وہی چیز پیدا کی جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا پاک فرمان ہے کہ: کیف تکفرون باللّٰہ و کنتم امواتا فاحیا کم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون ۔ ۰۲: ۲۸۔ کیونکر تم خدا کا انکار کرسکتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے تم کو زندہ کیا پھر تم کو موت دے گا اور پھر زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔

اس آیۂ کریمہ کی حکمت میں آپ ذرا ذہنی اور فکری صفائی کے ساتھ سوچئے، تو معلوم ہو گا، کہ انسان کی روح قدیم ہے، اس کی روحانی اور جسمانی زندگی بے پایان ہے، چنانچہ مذکورۂ بالا ارشاد میں فرمایا گیا ہے، کہ انسان بارہا بقا و فنا کے تجربات سے گذرتا رہا ہے، وہ ایک

 

۲۳۱

 

زمانے میں خدا کے حضور میں تھا، جہاں اس کے لئے حقیقی بہشت تھی، مگر وہ وہاں سے حضرت آدمؑ کی طرح کسی بہانے سے نکل کر دنیا میں آیا، اور پھر آخر کار وہ لوٹ کر وہاں جانے والا ہے، خدا کے حضور جانا بہشت کے بغیر نہیں، اور نہ بہشت خدا کے حضور کے بغیر ہے۔

اس بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام چیزوں کے جوڑے ہیں اور ہر جوڑے سے ایک دائرہ بنتا ہے، جیسے دن رات کا ایک دائرہ ہے اسی طرح کائنات کی ہستی و نیستی کا بھی ایک دائرہ ہے جو سب سے بڑا دائرہ ہے، اور موجودات و مخلوقات اسی دائرے پر بقا و فنا سے گذرتی ہوئی گردش کرتی رہتی ہیں۔

الحمد للہ علیٰ احسانہ، کہ یہ تمام حکمت کی باتیں امامِ مبین کی معرفت کے خزانے میں موجود ہیں، اور اس معرفت سے کوئی چیز باہر نہیں، پس مومن کو چاہئے کہ وہ امام شناسی میں کامل ہو جائے، اور امام شناسی کی کتابوں کو اصول کے مطابق پڑھتا رہا کرے، تاکہ اس کے دل میں اسرارِ امامت کی روشنی پیدا ہو جائے۔

و السلام

 

۲۳۲

ایثار نامہ

انتسابِ جدیدی

خانۂ حکمت کی یہ روز افزون ترقی علی اللہ، خداوندِ قیامت کے بے پایان احسانات و نوازشات اور اسی کی توفیقات سے ہمارے تمام عزیزان کی درویشانہ دعاؤں کی وجہ سے ہے، ہمارے ادارے کی بے مثال ترقی اور لا زوال نیکنامی ہوئی ہے، اگرچہ ہمارے پاس شائع شدہ کتابوں کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ تو نہیں ہے، لیکن اندازہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں کتابیں پھیلائی گئی ہیں، ہماری علمی بیٹی کریمہ ناتھانی بھی اسی سردار خدمت میں، یعنی علمی خدمات میں شامل ہیں، یا علی اللہ! تمام قائم شناس علمی خدمت والوں کو بہشت میں حدودِ دین اور سلاطین بنانا! ان کو فنا فی القائم کر کے بہشت کے عظیم خلفا اور فرشتے بنانا! آمین!

نصیر الدین نصیر (حبِ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

بدھ ۲۹ ستمبر ۲۰۰۴ء

۱

انتسابِ کتابِ ہٰذا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

سورۃ الملک (۶۷) کے آغاز میں ارشاد ہے: تبرک الذی بیدہ الملک و ھو علی کل شی قدیر الذی خلق الموت و الحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا۔

تاویلی مفہوم: حظیرۂ قدس کے معجزات کے دوران حضرتِ قائم کے دستِ مبارک میں گوہرِ عقل ہوتا ہے، یہ بہشت میں سلطنت عطا کرنے کا اشارہ ہے، وہ بے پایان برکات کا مالک ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا اور موت کی تمام قسموں میں ایک سردار موت ہے، وہ موتوا قبل ان تموتوا ہے تا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے علم و عمل میں سب سے اچھا کون ہے؟ یہ ساری تعریف حضرتِ قائم (علی اللہ) کی ہے۔

میرے بہت ہی عزیز پسرزادے امین الدین ابنِ ایثار علی نے یہ مشورہ دیا کہ کتابِ ہٰذا کے ایڈیشن میں عائشہ بیگم (مرحومہ) کے حق میں دعاؤں کے ساتھ انتساب ہونا چاہئے، پس تمام اولین و آخرین کی دعاؤں کی سردار اور پادشاہ حاضر امام (روحی فداہ) کی دعا ہے، ملاحظہ ہو، کتابِ علمی بہار، ص ۴۔ محترمہ عائشہ بیگم (مرحومہ) کا آبائی نسب اس طرح ہے: عائشہ بیگم بنتِ اسد اللہ بیگ (عرف بلبل) ابنِ محمد رضا بیگ (فراج) ابنِ وزیر اسد اللہ بیگ ، ابنِ وزیر پونو۔ اور مادری شجرہ یہ ہے: عائشہ بیگم بنتِ تائفہ بانو، بنتِ ترنگفہ سلطان محمود، ابنِ غلامو، ابنِ سلطان بیگ، ابنِ خوش بیگ، ابن

۲

 جٹوری۔

عائشہ بیگم کا آبائی شجرۂ نسب ص ۶۶ پر ہے، از کتابِ تاریخِ عہدِ عتیقِ ریاستِ ہونزا از حاجی قدرت اللہ بیگ۔

نصیر الدین نصیر (حبِ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعہ ۲۸ مئی ۲۰۰۴ء

۳

حقوق کیا کیا ہیں

حقوق دو قسم کے ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد، جو حقوق بندوں کے ہیں ان میں ایک حق یہ بھی ہے کہ ہم اپنے آباؤاجداد کے لئے دعا کریں، کیونکہ اگر ہم ان کی ذریت ہیں تو وہ ہماری روح کے ذرات تھے۔ (۳۶:۴۱)

پس میں اپنے تمام آباؤاجداد، امہات اور حجای غریب کے لئے انتہائی عاجزی سے دعا کرتا ہوں کہ پروردگار ان سب کو غریقِ رحمت کر دے! حجای غریب کو خاص طور سے اس لئے یاد کیا گیا کہ اس نے اپنے خاندان کا نام روشن کر دیا ہے۔

الحمد للہ علیٰ احسانہ

۴

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

دیباچہ

زیرِ نظر کتاب حضرتِ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی صاحب کے ان پرحکمت خطوط کا مجموعہ ہے، جو ان کے فرزندِ دلبند جناب ایثار علی مرحوم کے سانحۂ ارتحال کے موقع پر زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے حضرات کی جانب سے بھیجے ہوئے تعزیت ناموں کے جواب میں لکھے گئے تھے، مرحوم کے نام کی نسبت سے اس کا عنوان ’’ایثار نامہ‘‘ رکھا گیا ہے، یہ عنوان اسم با مسمیٰ اور صوری و معنوی خوبیوں کا ایک بہترین مرقع اور آئینہ ہے۔ صوری لحاظ سے اس لئے کہ اس عنوان کے ذریعے مرحوم کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، اور معنوی لحاظ سے اس لئے کہ اس کتاب میں دنیا کی ناپائیداری، رنج و مصیبت کے روحانی پہلو، موت کی حقیقت، روحانی عالم کی عظمت، جزع و فزع کی مذمت، صبر و شکر کی فضیلت، اور سب سے بڑھ کر فلسفۂ ایثار و قربانی کو، جو قربِ خداوندی کا نزدیک ترین باعث ہے، جوابی خطوط کی صورت میں مختصر مگر جامع انداز میں پیش کیا گیاہے۔ ناچیز کی نظر میں کتابِ مذکور شدائد و مصائب میں مومنوں کے لئے ایک ایسی مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے، جس کی روشنی میں بندۂ مومن بے صبری و ناشکری کے دردناک ذہنی اور روحانی عذاب سے نکل کر صبر و شکر کی ابدی رحمتوں اور نعمتوں سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ ایک عام انسان کے لئے ایک وجیہہ و شکیل، نڈر، بے باک پچیس سالہ نوجوان بیٹے کی یکایک موت قیامتِ کبریٰ نہ سہی تو قیامتِ صغریٰ سے کم

۵

 نہیں، لیکن جہاں تک علامہ صاحب کا تعلق ہے، آپ کی روحانی مجالس میں شریک ہونے والوں، آپ کی وعظ و نصیحت کو گوشِ جان سے سننے والوں اور آپ کے دسترخوانِ علم و معرفت کی ریزہ چینی کرنے والوں کو یقینِ کامل تھا اور ہے، کہ آپ ایک فرزند کی جسمانی مفارقت کو کوئی ہنگامہ نہیں سمجھیں گے۔ اس لئے کہ آپ خاصانِ خداوند میں سے ہیں، اور علم و معرفت کے ایک ناقابلِ تسخیر پہاڑ کی حیثیت رکھنے کے باوجود جس منکسر المزاجی کے ساتھ جماعت کی روحانی اور علمی خدمت کرتے آئے ہیں، وہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں، حقیقت یہ کہ آپ ان مردانِ حق اور خاصانِ خدا میں سے ہیں، جن کی زندگی کا شعار یہ ہوتا ہے کہ:

درینجا مردانی کہ ایشان در رہِ فرمان

بکارِ دین، نیندیشند، ہیچ از جان و از کالا

نہ از جستن نہ از بستن نہ از کشتن نہ از مردن

نہ از خنجر نہ از زوبین نہ از سلطان نہ از غوغا

یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک اضطراری قربانی اور وہ بھی ایک جوان سال بیٹے کی قربانی پر راضی برضائے الٰہی رہ کر صبر و شکر کرنا پہلے سے ارادی طور پر تیار ہو کر خداوندی حضور میں قربانی پیش کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ اس لئے کہ پہلی صورت میں عالمِ روحانی کے اجرِ عظیم کو خوش کن تصویر سامنے رہتی ہے اور اس روحانی کیفیت میں دنیوی مال و متاع اور زن و فرزند کی چمک دمک کوئی اثر نہیں رکھتی، اس کے برعکس دوسری صورت میں یہ کیفیت نہیں ہوتی، لہٰذا دفعۃً اس پر قابو پانا زیادہ دشوار کام ہے، لیکن یہ بات بھی عام انسانوں کے لحاظ سے ہے، خاصانِ خدا اور عاشقانِ مولا ہمیشہ اپنے ارادے سے فانی اور ارادۂ حق میں باقی ہوتے ہیں، اس لئے ان کی باطنی اور روحانی

۶

 کیفیت باوجود بشری تقاضوں اور انسانی حالات کے لا خوف علیہم و لا ہم یحزنون کی رہتی ہے۔

علامۂ موصوف کی ذاتِ گرامی میں خاکسار کو ان معیاری صفات کا مشاہدہ رہا ہے، اور مجھے یقینِ کامل ہے کہ وہ تمام مومنین، جنہوں نے علامۂ موصوف کو دنیوی جاہ و حشمت، مال و متاع اور سیاسی و خاندانی تعلقات سے بالاتر ہو کر، محض دینی، علمی اور روحانی لحاظ سے پہچاننے کی کوشش کی ہے اور جو کریں گے ان کو یہ صفات اور یہ روحانی مرتبہ مشاہدہ کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں ہو گی اور نہ ہی آئے گی۔

موصوف کی زندگی ایک مردِ کامل کی حیثیت سے بڑی ہمہ گیر رہی ہے، آپ شبانی اور سپہ گری کی زندگی سے لے کر عالم، عاشقِ صادق اور عارف کی حیثیت تک گوناگون تجربات و معلومات کی زندگی گزارتے ہوئے آئے ہیں اور ان مختلف ادوار میں عشقِ حقیقی کا عنصر سب سے زیادہ کار فرما رہا ہے، اور چونکہ عشق نام ہی امتحانات کا ہے اور امتحان کا دوسرا نام قیامت ہے، لہٰذا آپ کی زندگی بھی بڑے بڑے امتحانات اور بار بار کی قیامات سے گزری ہے، جیسے خود فرماتے ہیں:

عشق دیدہ صد قیامت از قیامت پیشتر

از تو ہر دم صد قیامت نور مولانا کریم

لیکن عشقِ حقیقی میں ثابت قدمی کا اجرِ عظیم یہ ہے، کہ معشوقِ حقیقی کبھی اپنے عاشق کو بے نیل و مرام نہیں چھوڑتا، بلکہ زندگی کے ہرقدم میں اس کی رہنمائی کرتا ہے، اور اسی طرح عاشق عظیم سے عظیم امتحان میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے جیسا کہ خود علامہ صاحب فرماتے ہیں:

۷

عشقہ کاٹ لو منانکہ بیسنہ مہ کم

ای عقل میئمی مار امامِ زمان

یعنی اگر تم عشق کے عہد و پیمان پر ثابت قدم رہو گے تو تمہیں کسی چیز کی کمی نہ ہو گی، (اور اس حال میں) امامِ زمان خود تمہاری عقل کے استاد اور رہنما ہونگے۔

اکثر یوں ہوتا ہے کہ بزرگانِ دین کی اپنی زندگی کے دوران قدر شناسی کم ہوا کرتی ہے، لیکن اس لحاظ سے بھی علامہ صاحب نہایت سعادتمند ہیں، کہ آپ کی نہ صرف اسماعیلی جماعت میں قدر و منزلت ہے، بلکہ پوری مسلم برادری اور بالخصوص اہلِ علم حضرات آپ کو نہایت قدر و وقعت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور اسماعیلی جماعت میں خاص و عام کو آپ کے ساتھ جو والہانہ عقیدت و محبت ہے، اس کی مثال آپ خود ہیں۔ ذیل میں علامہ صاحب کی ہمہ گیر زندگی کے بارے میں چند اقتباسات خود آپ کے اپنے نوشتہ جات سے پیش کئے جاتے ہیں، جو سبق آموز بھی ہیں اور بصیرت افروز بھی۔

چنانچہ لکھتے ہیں ’’کہ میری زندگی کی کہانی انتہائی عجیب و غریب ہے جسمانی اور روحانی قسم کی آزمائشوں کا نتیجہ ! مسافرت و غربت کا قصہ! درویشی و فقیری کا خلاصہ! محنت و مشقت کا مجموعہ! گریہ و زاری کا سرچشمہ! اور صبر و شکر کا ایک ادنیٰ نمونہ!‘‘ ان گوناگون آزمائشوں کے دوران ان کے احساسات کیسے تھے؟ ان کی روحانی کیفیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ایک قسم کے احساسات وہ ہیں، جن کی اساس و بنیاد خدا و رسول اور ائمۂ برحق علیہم السلام کے مبارک و مقدس ارشادات پر ہے، دوسری قسم کے احساسات وہ ہیں، جن کا تعلق طبعی میلان، دنیاوی رسم و رواج اور ظاہری ماحول پر ہے، لیکن الحمد للہ ہمارے دینی احساسات ہر وقت دنیاوی احساسات پر غالب و

۸

 فاتح رہتے ہیں، یہ سعادت اس ذاتِ بابرکات کی تائید و نصرت کے بغیر ممکن نہیں جس کے قبضۂ قدرت میں سب کچھ ہے‘‘۔

سطورِ بالا یہ اندازہ لگانے کے لئے کافی ہیں، کہ امامِ زمانؑ اپنے خاص بندوں اور عاشقانِ صادق کے لئے بڑے بڑے امتحانوں اور ابتلاؤں میں کس طرح خود عقل بنتے ہیں، اور کس طرح ان کو ادنیٰ اور طبعی خواہشات و احساسات سے نکال کر اعلیٰ اور روحانی خواہشات کی طرف ہدایت فرماتے ہیں، اور بزرگانِ دین اور عاشقانِ مولا اس باطنی ہدایت و تائید کی بدولت مصائب و شدائد میں بھی مومنوں کے لئے صبر و شکر اور ہمت و استقامت کا مثالی نمونہ بن کر دینی امور کی انجام دہی میں کس طرح سینہ سپر ہو جاتے ہیں، چنانچہ علامہ صاحب کی ایسی ایسی مثال ملاحظہ ہو کہ موصوف ۱۳ دسمبر ۱۹۷۲ء کو سرکار مولانا حاضر امام کے مبارک یومِ ولادت کے موقع پر دوسرے لوگوں کی طرح اپنے عزیز فرزند کی رحلت کے غم میں خانہ نشین نہیں ہوئے بلکہ امامِ زمان کے مقدس فرمان یعنی کہ: ’’اگر کسی کا جوان بیٹا بھی فوت ہو جائے تو غم نہ کرے‘‘ کے مطابق جوانمردانِ دین کے ایک قائد کی حیثیت سے میدان میں نکل کر جماعت کی قیادت فرمائی اور یہ معلوم ہونے بھی نہیں دیا کہ جسمانی لحاظ سے ان کی زندگی کی عزیز ترین شے یعنی لختِ جگر ان سے جدا ہو گیا ہے، بے شک مردانِ حق اور بزرگانِ دین کا یہی شیوہ و شعار ہوتا ہے جو نہ صرف وعظ و نصیحت کرتے ہیں بلکہ عین موقع پر عملاً جماعت کو دکھاتے ہیں اور یہی فلسفۂ ایثار و قربانی ہے۔

جیسا کہ شروع میں کہا گیا ہے کہ یہ کتاب فلسفۂ ایثار و قربانی کا ایک آئینہ ہے، چنانچہ علامۂ موصوف اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’قربانی کا لفظ قرب سے نکلا ہے اور خدائے تعالیٰ کی قربت کے لئے قربانی کی ضرورت پڑتی ہے، اس

۹

 معنی میں قربانی ایک ایسی قیمتی چیز کو کہتے ہیں جو خدا کی راہ میں اس کی قربت و نزدیکی کی غرض سے نکالی گئی ہو‘‘۔ نیز قربانی کی قسموں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ مومنین سے دو قسم کی قربانی لیا کرتا ہے، ایک قربانی وہ ہے جو مومن سوچے سمجھے حال میں خدا کے حضور پیش کرتا ہے، دوسری قربانی وہ ہے جو خدا تعالیٰ اپنی مرضی سے مومن سے لیا کرتا ہے، اگر اس دوسری قربانی کے لئے مومن صابر و شاکر رہے تو یہ قربانی خدا کے نزدیک سب سے عظیم ہے‘‘۔

مجھے امید ہے کہ اس کتاب کو برابر پڑھنے اور سمجھنے کے بعد کوئی بھی حقیقی مومن مصیبت کو مصیبت نہیں بلکہ رحمتِ ایزدی ہی سمجھے گا، اس لئے کہ خدائے رحمان و رحیم ہماری اپنی جانوں سے زیادہ مہربان ہے اور وہ اپنے بندوں کے لئے جو کچھ کرتا ہے وہ یا تو سرزدہ گناہوں کے روحانی نقصان کی تلافی کے لئے کرتا ہے یا مزید روحانی ترقی کے لئے، اور ہر دو صورتوں میں رحمت ہی رحمت مقصود ہے، چنانچہ قرآنِ کریم میں آیا ہے: ۔۔۔ اولٰئک علیہم صلوٰت من ربھم و رحمۃ و اولٰئک ہم المھتدون (۲:۱۵۷)۔

فلسفۂ ایثار کی مزید وضاحت علامہ موصوف نے اس کتاب میں بار بار فرمائی ہے امید ہے کہ قاری جتنا زیادہ دقت کے ساتھ اس کو پڑھے گا اتنی زیادہ اس کی حقیقت کو پہنچے گا۔

اس کے علاوہ علامہ صاحب نے ’’سخنہائے گفتنی‘‘ میں بعض ناپسندیدہ اور مکروہ رسومات یعنی موت کے موقع پر زار و قطار رونا، مردے کی تعریف کرنا، خورد و نوش کی چیزیں لانے میں اسراف کرنا، ہفتوں مہینوں تعزیت کے لئے آنے وغیرہ سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے، امید ہے کہ اسماعیلی جماعت بالخصوص ان پر عقل و علم کی روشنی میں

۱۰

 عمل کرنے کی کوشش کرے گی، اس لئے کہ یہ رسومات اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں اور اندازہ ہوتا ہے، کہ ایسی رسوم اشاعتِ اسلام سے پہلے کے اثرات ہیں، اب جبکہ دن بدن امامِ زمان کے مبارک فرامین کے ذریعے دین کی حقیقت روشن سے روشن تر ہوتی جا رہی ہے تو جماعت کا فرض ہے  کہ بیہودہ رسومات کو ترک کرے اور امامِ زمانؑ کے مقدس فرامین پر عمل کرے، امید ہے کہ ان حقائق کو علامہ صاحب نے جس حکیمانہ انداز میں سمجھایا ہے، جماعت کماحقہ ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے گی۔

آخر میں دعا ہے کہ خداوندِ کریم و رحیم مرحوم کو اپنے جوارِ مغفرت و رحمت میں ابدی سکون و سعادت اور سرمدی مسرت و راحت نصیب کرے! مصنف کو صبر و شکر کا اجرِ غیر ممنون عنایت کرے اور جماعت کو ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تکالیف و شدائد میں صبر و شکر اور امامِ زمانؑ کی اطاعت و فرمان برداری میں ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا کرے!

فقیر محمد

معہد الدراساتِ الاسلامیہ

جامعۂ میکگل، مونتریال کنادا

۱۵ نومبر ۱۹۷۳ء

۱۱

آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

محترم و مکرم قبلہ و کعبہ ہمارے بہت ہی شفیق بزرگوار دادا جان علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی (ایس۔ آئی) کے منشا پر عمل کرتے ہوئے ہم نے چند الفاظ قلم بند کرنے کی جسارت کی ہے۔ علامہ بزرگوار نے کتاب ’’ایثار نامہ‘‘ میں اپنے فرزندِ جگر بند ایثار علی (مرحوم) سے جو محبت کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے وہ کئی اعتبار سے مثالی اور دعائے جاریہ ہے۔ یہ ایک مردِ مومن کی آپ بیتی کا حصہ بھی ہے جس نے اس مشکل امتحان میں مذہبی تقاضوں کو نبھاتے ہوئے صبر و تحمل کی ایک نئی روایت رقم کی ہے تا کہ اس مثال کو اپناتے ہوئے ہر ذی شعور اور ایماندار انسان حکمِ خداوندی پر کما کان حقہ سرِ تسلیم خم کرے۔

دل بدست آور کہ حجِ اکبر است

از ہزاران کعبہ یک دل بہتر است

اس کتاب کی افادیت کے کئی پہلو ہیں جن میں سرِ فہرست یہ کتاب ایک دینی درس بھی ہے اور ایک اعلیٰ ادبی نسخہ بھی، کہ جس کو پڑھ کر قارئینِ کرام اپنے ذہنوں کو عالی ہمتی کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔

اولاد کی نعمت ایک فطری کشش کی حامل ہوا کرتی ہے۔ یہ عطیۂ خداوندی کائناتی نعمتوں میں سب سے شیرین اور دلفریب ہے۔ وہ جگر گوشے جو ماں باپ کے نورِ نظر اور دل کی ٹھنڈک ہوں یقیناً ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں مگر صد

۱۲

 افسوس کہ ایسی اموات جو بھرپور جوانی میں واقع ہوں، پسماندگان کے لئے قیامتِ صغریٰ ثابت ہوتی ہیں جو بڑے سے بڑے مضبوط انسان کو بھی شکستہ خاطر اور بے بس کر دیتی ہیں۔ مغموم و دل سوز لواحقین آہ و نالہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے ہیں اور غمگین ہوتے ہیں۔ مگر یہ سوچنا اور سمجھنا از حد ضروری ہے کہ منشائے خداوندی کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ ہم سب اسی کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

اس کتاب کی مناسبت سے ہماری یہ دعا ہے کہ وہ تمام جانیں جو بھرپور جوانی میں دنیا سے چلی گئی ہیں، خداوندِ کریم و کارساز ان سب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور تمام بنی نوع انسان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے! آمین یا رب العالمین!!

مخلصان

امین الدین ابنِ ایثار علی ابنِ نصیر الدین ابنِ حبِ علی

عرفت روحی اہلیۂ امین الدین

حبِ علی ثانی ابنِ امین الدین ابنِ ایثار علی ابنِ نصیر الدین ابنِ حبِ علی

درِ علوی بنتِ امین الدین ابنِ ایثار علی ابنِ نصیر الدین ابنِ حبِ علی

درِ فاطمہ بنتِ امین الدین ابنِ ایثار علی ابنِ نصیر الدین ابنِ حبِ علی

پیر ۲۴ مئی ۲۰۰۴ء

۱۳

ہماری امہات کے خاندانوں کا تذکرہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

میری والدۂ محترمہ (مرحومہ) روزی بائی بنتِ حیدر محمد کے آبائی خاندان بختہ کد ہیں، شجرۂ نسب ملاحظہ ہو: ص ۷۱۔۷۲، از کتابِ تاریخِ عہدِ عتیقِ ریاستِ ہونزا۔ میری نانی فضہ سلطان محمد کی بیٹی تھیں، سلطان محمد ہکل کد خاندان کا تھا، جو التت اور احمد آباد میں ہیں۔ میری دادی صاحبہ کا نام بھی روزی بائی تھا، جو درس علی (درویش علی) ابنِ قلی لسکر کی بیٹی تھیں۔ قلی لسکر اپنے زمانے کا بڑا بہادر اور نامور شخص تھا، ملاحظہ ہو ص ۹۵، از کتابِ مذکور۔

میری پر دادی گل بی بی (Gal Bibi) بنتِ خوش حال، کے خاندان خروٹنگ ہیں اور ہماری ایک دادی میلی بنتِ بڈو چبوی بُتی کی نسل سے تھی، چبوی بُتی گنش میں تھا، اسی کے نام سے چبوی کشل ہے، ہماری ایک دادی بل التت اسیکد خاندان سے تھی، اور بشوکد خاندان سے یکے بعدِ دیگرے ہماری دو یا تین دادیاں ہوئی ہیں، بشو کا شجرہ ملاحظہ ہو: ص ۶۵، از کتابِ مذکور۔

نصیر الدین نصیر (حبِ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات ۲۷ مئی ۲۰۰۴ء

۱۴

حضرتِ قائم (ع۔س) کے عظیم احسانات

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

عائشہ بیگم کے لئے حضرتِ قائم (علی اللہ) کے حضورِ پر نور سے فوق العادہ عظیم انعامات ہوئے، ان کو کبھی کبھی خواب میں حضرتِ قائم علینا سلامہ کا حجابی دیدار ہوتا تھا یعنی کسی بزرگ کے عنوان سے دیدار ہوتا تھا (ملاحظہ ہو) کتاب علمی بہار ص ۱۶۔ ۲۰۔

عائشہ بیگم کے حق میں حضرتِ قائم (علی اللہ) کا ایک بہت بڑا معجزہ ہوا تھا، اب تک میں نے اس کی تاویل کو تو بیان کیا لیکن شخص کا نام نہیں بتایا، خوفِ بے جا لاحق ہوا تھا، اب میں اس امانت کو ادا کرنا چاہتا ہوں، کہ میں یارقند میں تھا اور میری اہلیہ عائشہ بیگم ہونزا میں تھی حضرتِ قائم علینا سلامہ کے نورانی معجزات جاری تھے، ایک دن ہمارے خداوند (علی اللہ) نے عائشہ بیگم کی نیک بخت روح کو اور نیک بخت مومنات کے ایک بڑے گروپ کا روحاً ملا کر ایک فرشتہ بنایا اور وہ فرشتہ کہہ رہا تھا: تھلا تھلا تھلا نی، تھلا تھلا تھلا ژو۔ یہ الہام حضرتِ خداوند کے حکم سے تھا، اس لئے یہ ایک تاویلی کلیہ بن گیا۔ (کتاب علمی بہار ص ۱۶ ۔ ۲۳ ملاحظہ ہو)

نصیر الدین نصیر (حبِ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

۲۸ مئی ۲۰۰۴ء

۱۵

شبِ قدر اور ایک وفات

۱۔ شبِ قدر کی تنزیلی و تاویلی دُہری اہمیت و فضیلت ہے، کیونکہ وہ ظاہر میں ماہِ رمضان کی سب سے افضل رات ہے، جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے، اور باطن میں حجتِ قائم (علینا منہ السلام) ہے، جس میں صاحبِ قیامت اور جملہ اسرارِ قیامت پوشیدہ ہیں، چنانچہ جس کو حجتِ قائم (ع۔م۔س) کی معرفت حاصل ہو جائے، اس کو حضرتِ قائم اور قیامت کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے، اور گنجِ اسرارِ مخفی اسی بندۂ مومن کے نام پر یا ایسے مومنین و مومنات کے نام پر ہو جاتا ہے۔

۲۔ آپ تمام عزیزوں کے لئے از حد ضروری ہے کہ سورۂ قدر (۹۷:۱۔۵) کو بغور بار بار پڑھیں، اور اس کی تاویل کتابِ ’’وجہِ دین‘‘ میں دیکھیں، خاص کر گفتار سی و سوم (۳۳) میں، جس کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ حضرتِ قائم القیامت (ع۔س) کی شناخت نہیں ہو سکتی ہے، مگر پانچ حدود کے توسط سے، جیسے اساس، امام، باب، حجت، اور داعی۔

۳۔ خدا کے بارے میں ہمیشہ حسنِ ظن سے کام لینا بہت بڑی دانشمندی ہے، چنانچہ ہم یہ کہیں گے کہ: عائشہ بیگم (علامہ نصیر الدین کی اہلیہ) پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہوئی کہ عرصۂ دراز تک بیماری کی بندگی، ریاضت اور آزمائش کے بعد دار الفنا سے دار البقا کی طرف اٹھا لی گئیں، زہے نصیب کہ اس نیک بخت کی وفات یومِ شنبہ ۲۳ رمضان المبارک (۱۴۱۴ھ) ، ۵ مارچ (۱۹۹۴ء) کو ہوئی، جبکہ تدفین کے چند گھنٹے بعد آفتابِ عالمتاب لیلۃ القدر کی مبارک رات کے لئے غروب ہوا، اور یہ بڑا

۱۶

 عجیب حسنِ اتفاق یا پرحکمت موت کا پروگرام تھا کہ شبِ قدر کی تاویل ہے، حجتِ قائم، اور سنیچر کی تاویل ہے، حضرتِ قائم (ع۔س) اور اس کا اشارہ یقیناً یہی ہے کہ ان کے گھر میں حجت اور قائم (ع۔س) کی شناخت ہے۔

۴۔ محترمہ عائشہ بیگم (مرحومہ) کا پدری نسب اس طرح ہے: عائشہ بیگم بنتِ اسد اللہ بیگ (عرف بلبل) ابنِ محمد رضا بیگ (فراج) ابنِ وزیر اسد اللہ بیگ ابنِ وزیر پونو، اور مادری شجرہ یہ ہے: عائشہ بیگم بنتِ تائفہ بانو بنتِ ترنگفہ سلطان محمود ابنِ غلامو ابنِ سلطان بیگ ابنِ خوش بیگ ابنِ جٹوری۔

۵۔ عائشہ بیگم کی پیدائش کا سال ۱۹۲۲ء ہے، تقریباً سات سال کی عمر میں وہ میرے نکاح میں لائی گئی تھیں، اور میں شاید اس وقت بارہ برس کا لڑکا تھا، بڑی عجیب بات ہے کہ ایسی نو عمری میں یہ شادی ہوئی، اس کی وجہ البتہ یہی ہے کہ میرے والدین کسی اچھے خاندان سے اپنی بہو کا انتخاب کرنا چاہتے تھے۔

۶۔ میری رفیقۂ حیات عائشہ بیگم (مرحومہ) ہونزا کی ان عالی ہمت خواتین میں سے تھیں، جو جذبۂ جان نثاری اور کامل وفاداری سے لوگوں کو ورطۂ حیرت میں ڈالتی ہیں، جبکہ ان کے شوہر عرصۂ دراز تک وطن سے دور کہیں ہوتے ہیں، ہونزا میں اس کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔

۷۔ میں نے اس واقعہ کو بہت غور سے سنا ہے، اور میں تصدیق کرتا ہوں کہ عائشہ بیگم کو کبھی کبھی نورانی خواب میں ایک باجلالت و باکرامت بزرگ کا دیدار ہوا کرتا تھا، میری تحقیق کے مطابق وہ نورِ امامت کی ایک تجلی ہوا کرتی تھی، لیکن میں اس معجزے کی بہت کم تعریف کرتا تھا، تا کہ بیگم غرور کا شکار نہ ہو جائیں، ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں یارقند (چین) میں تھا کہ عائشہ بیگم میرے متعلق لوگوں کی باتوں سے بہت

۱۷

 مغموم ہو رہی تھی، اندران حال انہوں نے خواب میں اپنے بزرگ کو دیکھا، جو فرما رہے تھے: ’’بیٹی! تم ہرگز غمگین اور مایوس مت ہو جاؤ، میرا بیٹا میرے دامنِ اقدس کے نیچے محفوظ و سلامت ہے، اور وہ آج سے تین مہینے کے بعد آنے والا ہے، تم کسی غریب عورت کو تین روز اپنا کھانا دینا‘‘۔ انہوں نے بزرگ کی ہدایت پر عمل کیا، اور یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔

۸۔ عائشہ بیگم نے زمانۂ غریبی کو دیکھ لیا تھا، اس لئے جب ہماری مالی حالت کچھ بہتر ہوئی تو آپ اپنی عادت کے مطابق گاہ و بے گاہ سخاوت کا مظاہرہ کرتی تھیں، یہاں تک کہ بعض دفعہ گھر کے استعمال کی کوئی ضروری چیز بھی کسی حاجت مند کو دینے سے دریغ نہیں کرتیں۔

۹۔ مرحومہ بڑی حد تک مذہبی ہونے کی وجہ سے جماعت خانہ اور روحانی مجلس کی شیدائی اور امامِ عالی مقام علیہ السلام کی منظومہ تعریف سننے کی دلدادہ تھیں، ان کے دل کو جوان سال فرزند (ایثار علی) کی اچانک موت نے مجروح اور بہت نرم بنا دیا تھا، بنا برین ذکر و مناجات کی محفل میں ان کی بہت گریہ و زاری ہوا کرتی تھی، بے شک دلِ مجروح کی مناجات حضرتِ قاضی الحاجات کو پسند آتی ہے، اور ہر مصیبت میں رجوع الی اللہ کی یہی حکمت و مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔

۱۰۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہر نیک عورت اپنے بچوں سے بہت زیادہ مادرانہ محبت رکھتی ہے، اسی طرح عائشہ بیگم اپنی ہر اولاد کو جانِ عزیز سے بھی زیادہ عزیز رکھتی تھیں، لیکن تعجب اس چیز میں ہے کہ وہ سیف سلمان خان کو بھی بڑی شدت سے چاہتی تھیں، ان کا سچے دل سے یہ کہنا تھا کہ آپ بے شک خدا کے دوست ہیں، لہٰذا یہ اسی کی توفیق اور حکمت تھی کہ آپ نے یارقند کی سخت مسافرت اور محبوس زندگی

۱۸

 میں دوسری شادی کا سہارا لیا، جس کا میوۂ شیرین آج ہمارے لئے ایثار علی کی جگہ پر سیف سلمان خان ہے، اور ہر وقت ان کا یہی اصرار ہوتا تھا کہ سلمان کو یہاں لائیں، چنانچہ خوش بختی سے گزشتہ سال سلمان مختصر وقت کے لئے پاکستان آیا، اور اس نے اپنی بیمار ماں کی پہلی اور آخری ملاقات کر لی، اور اس کو اس ادھوری خوشی سے زیادہ افسوس ہوا۔

۱۱۔ اب میں اجتماعی مفاد سے متعلق کوئی بات کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ میں ایسی رسمِ چراغ روشن کے حامیوں میں سے ہوں، جو سادہ، اور کم خرچ پر مبنی ہو، لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ ساتویں دن کی رسم کا پس منظر کیا ہے، اس لئے میں نے عائشہ بیگم کی وفات کے یومِ ہفتم (تھلے کد) کے اخراجات کو صدقۂ جاریہ کے طور پر پاک جماعت خانہ میں پیش کیا، اور امید ہے کہ (ان شاء اللہ) آئندہ ہوشمند لوگ ایسا ہی عمل کریں گے، موکھی صاحب نے اس مثالی کام کو بڑی فراخدلی سے سراہا، اور بہت ساری عمدہ دعائیں دیں، یہ مبارک دعائیں دراصل حضرتِ مولا کی تھیں، جو نامدار موکھی کی پاکیزہ زبان سے ادا ہوئیں، الحمد للہ۔

۱۲۔ مجھے پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ ہونزا وغیرہ سے بہت سے لوگ فاتحہ خوانی اور اظہارِ ہمدردی کے لئے گاڑیوں پر گلگت آئیں گے، جس کی وجہ سے جماعت یا قوم کے ہزاروں روپے خرچ ہوں گے، اور بالکل ایسا ہی ہوا، حالانکہ میں نے اعلان کیا تھا کہ ہم نے اس رسم کو محدود کرنا ہے، اس لئے دور سے لوگ نہ آئیں، میں نے علی آباد کے بعض اکابرین سے گزارش کی کہ اگر آپ حضرات گلگت آنے جانے کا ٹوٹل کرایہ کسی جماعتی کام میں خرچ کرتے، اور مجھے صرف ایک چھوٹا سا تعزیت نامہ لکھتے، تو بہت اچھی بات ہوتی، میں نے مزید عرض کی کہ آپ جماعت کو آئندہ کے لئے سمجھائیں کہ وہ بڑی تعداد میں دور دور تک فاتحہ خوانی کی غرض سے نہ جایا کریں (ہر قسم کی دعا اور فاتحہ

۱۹

 خوانی کی بہترین جگہ خدا کا گھر ہے) وہ دانا تھے، اس لئے یہ باتیں ان کو پسند آئیں۔

۱۳۔ انہی مجالس میں وقت کے موضوع پر بھی گفتگو ہوئی کہ وقت کیا ہے؟ وقت عمرِ عزیز کے ایک حصے کا نام ہے، اگر فرد کی زندگی انمول ہے تو قوم کی زندگی اس سے کہیں زیادہ انمول ہے، لہٰذا اجتماعی زندگی کے قیمتی ٹکڑوں (یعنی اوقات) کو غیر ضروری کاموں میں صرف نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ خرچ شدہ دولت مل سکتی ہے، لیکن صرف شدہ زندگانی واپس نہیں آ سکتی۔

۱۴۔ میں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ شمالی علاقہ جات میں ایصالِ ثواب کی یہ رسم بہت اچھی ہے، لیکن یہ کہاں کی ہمدردی ہے کہ غمزدہ خاندان کو ذرا بھی آرام کی اجازت نہیں ہے، صبح سے لے کر شام تک باادب اور ہوشیار بیٹھنا ضروری ہے، کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ دن کے تقریباً دو بجے تک لوگ آیا جایا کریں؟ ورنہ غمگین لوگوں کو حسبِ دستور تکلیف ہوتی رہتی ہے، پھر علم و ترقی اور ڈاکٹروں کے مشوروں کا کیا فائدہ، الغرض بعض روایات میں سوچ سمجھ کر ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔

۱۵۔ اس بندۂ عاجز نے ہونزا ریجنل کونسل کے صدر جناب ڈاکٹر اسلم صاحب کی خدمت میں ایک بہت اہم مسئلہ پیش کیا تھا، اب میں وہ دوسرے الفاظ میں عرض کرتا ہوں کہ ’’مومن آباد‘‘ کے نام کا مشورہ میں نے ہی دیا تھا، اور بفضلِ خدا وہ کامیاب ہو گیا، کیونکہ وہ ہمارے بہت ہی عزیز، روحانی بھائی، جو مومن آباد میں رہتے ہیں، بڑے راسخ العقیدہ مومنین ہیں، لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ ان کے ایمان اور اخلاص کی قدردانی نہیں کی جاتی ہے، کیا وہ اور ہم سب ایک ہی امام علیہ السلام کی روحانی اولاد نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو پھر ان کو ’’برادری اور برابری‘‘ کے حقوق کیوں حاصل نہیں ہیں؟ میں ان کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ پرامن طریقے سے نامدار کونسل سے

۲۰

 رجوع کریں، شاید اصلاحِ احوال کے لئے وقت لگے گا لیکن مسئلہ ان شاء اللہ حل ہو جائے گا۔

۱۶۔ خداوندِ قدوس کا شکر ہے کہ دعا کی غرض سے آئی ہوئی ہر جماعت کے سامنے علم کا کوئی نہ کوئی مناسب نکتہ بیان کیا، اور مجموعی طور پر البتہ علم و حکمت کی کافی باتیں ہوئیں، اس کے علاوہ بہت سے مومنین و مومنات کی پرخلوص دعاؤں کی سعادت و برکت بھی حاصل ہوئی، میں آخراً ان تمام افرادِ مومنین و مومنات کا قلبی گہرائی سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے عائشہ بیگم کی طویل علالت کے دوران بے مثال خدمات انجام دی ہیں، میں ان خواتین و حضرات کے حق میں عاجزانہ دعا کرتا ہوں جنہوں نے اس خدمت، عیادت اور تعزیت میں حصہ لیا، کہ رب العزت ان کو دین و دنیا کی لامحدود حسنات سے مالا مال فرمائے! آمین!! (بحوالۂ کتابِ علمی بہار، ص ۱۶ تا ۲۳)۔

نصیر الدین نصیر (حبِ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعرات ۴ شوال ۱۴۱۴ھ، ۱۷ مارچ ۱۹۹۴ء

۲۱

فدائے مک کے یاسمین ۔ می اوشمکد

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

ان دونوں عزیزوں نے میری بہت ہی عزیز پڑپوتی درِ علوی امین الدین کو بطورِ بیٹی گود میں لیا ہے، ہم تھم (راجہ) نہیں کہ قطعۂ زمین کا انعام دیتے، صرف دعا دی اور ان شاء اللہ درویشانہ دعائیں کرتے رہیں گے، اور علمی خدمت میں ان سے تعاون حاصل کیا، جس کا انعام ان کو اللہ کے حضور سے ملے گا۔ ایثار نامہ کے تیسرے ایڈیشن میں ان دونوں عزیزان نے ٹائپنگ کی خدمات انجام دی ہیں۔

تاریخِ عہدِ عتیقِ ریاستِ ہونزا، ص ۶۵ کے شجرہ کے مطابق جبلِ ایمان، جبلِ قوم، فاتحِ ایورسٹ، ستارۂ امتیاز جناب نذیر صابر صاحب، غلام قادر بیگ مومنِ عالی ہمت، میں، فدائے مک، اور یاسمین درم دلتس نامی شخص کی نسل میں سے ہیں، یعنی میری ایک دادی جو بشوکد کی بیٹی تھی وہاں میری نمائندگی کر رہی ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۳۰ جون ۲۰۰۴ء

۲۲

این سعادت بزورِ بازو نیست

ہدیۂ عقیدت و احترام

از: فدا علی سلمان البدخشانی

انسان فطری خصائص کا ایک سمند ہے اس سمندر میں اوصاف کے ان گنت انمول موتی پنہان ہیں جب تک حوادث کا کوئی طوفان اس سمندر میں تلاطم پیدا نہیں کرتا ان بے بہا موتیوں پر نظر نہیں جاتی۔ غالباً صدمۂ مرگ اور وہ بھی مرگِ جوانی طوفانِ حوادث میں قہرمان ترین صدمہ ہے اور انسانی اوصاف کے موتیوں میں ہمدری اور غم گساری کا وصف سرِ فہرست ہے جو ورود و اظہار کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں، مگر کبھی کبھی یہ تلازم کچھ اس انداز میں سامنے آتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ایسے مواقع دراصل متاثر شخصیت کی عظمتِ ذاتی اور معاشرے میں اس کی اعلیٰ قدر و منزلت کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ رشد و موعظت کا بھی ایک عظیم ذریعہ بن جاتے ہیں۔

عزیز مرحوم ایثار علی کی انتہائی جانکاہ حادثاتی جوانامرگی بھی ایک ایسا ہی صدمہ ہے جس نے دور و نزدیک کے تمام احباب، اعزا اور افرادِ جماعت کو جہاں ایک طرف متاثر کیا ہے وہاں دوسری طرف مرحوم کے عظیم والدِ بزرگوار جناب علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی صاحب کی عظمت و بزرگی کو بھی جو شروع سے صرف حلقۂ احباب و ارادت مندان میں ہی نہیں بلکہ محافلِ اغیار میں بھی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں

۲۳

’’نور علیٰ نور‘‘ کر دیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک اور خاص پہلو ہمارے سامنے آیا ہے کہ معمولاتِ عالم کے خلاف جس کے بارے میں زبان زدِ خاص و عام ہے کہ:

مصیبت کی گھڑی میں کون کس کے کام آتا ہے

کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا انسان بے رہتا ہے

آزمائش کی اس گھڑی میں پوری قوم نے مجموعی طور پر علامۂ موصوف کی ذات سے اپنی جس وابستگی کا اظہار کیا ہے اور ہمدردی کے جن انمول موتیوں کو بے دریغ نچھاور کیا ہے اسے موصوف کے کمالِ عظمت اور نیک بختی کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔ اس ذیل میں تاروں اور خطوط کے ایک بڑے انبار میں سے چند اقتباسات نمونتاً درج کئے جاتے ہیں۔

۱۔ مجھے آپ کے فرزند کے سانحۂ ارتحال کا سن کر بہت دکھ ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صبرِ جمیل عنایت فرمائے!

میر آف ہونزا (تار)

۲۔ مجھے آپ کے فرزند کی حادثاتی موت کا سخت صدمہ ہوا۔ دلی تعزیت قبول کیجئے۔ مولا مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دے!

وزیر غلام حیدر بندے علی کراچی (تار)

۳۔ آپ کے فرزند کی موت پر تمام جماعت غم و اندوہ کے ساتھ اظہارِ تعزیت اور مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کرتی ہے۔

اسماعیلیہ کونسل سکردو (تار)

۲۴

۴۔ عزیز ایثار علی کی شہادت کا سن کر سخت صدمہ ہوا۔ ہم سب کو مرحوم سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں یہ ہم سب کا غم ہے۔ تعزیت قبول کیجئے، اللہ تعالیٰ آپ کو یہ صدمہ سہنے کی قوت اور مرحوم کو جوارِ رحمت مرحمت فرمائے!

جملہ جماعتِ مسگر (تار)

۵۔ مجھے جان کر انتہائی صدمہ ہوا کہ حالیہ ہوائی حادثے کے المیے کا شکار ہونے والوں میں آپ کے جوان سال عزیز فرزند بھی شامل تھے۔

ہم سب کو راضی بہ رضائے مولا ہونا ہی پڑتا ہے۔ مولا پاک مرحوم کی روح کو دائمی سکون اور آپ کو بمعہ متعلقین اس ناقابلِ تلافی نقصان کو جھیلنے کی سکت بخشے! آمین!

وزیر کیپٹن امیر علی کریم ابراہیم

اسٹیٹ ایجنٹ مولانا حاضر امام

کراچی (مراسلہ)

۶۔ مجھے جمعہ ۸ دسمبر ۱۹۷۲ء کو آپ کے فرزندِ عزیز کے المناک حادثاتی سانحۂ ارتحال کا جان کر سخت صدمہ ہوا۔ جس کے لئے ہماری دلی تعزیت قبول فرمائیں۔

آپ ایک نور رسیدہ شخص ہیں مجھے امید ہے کہ آپ راضی بہ رضائے مولا کو اپنا شعار بنائیں گے۔ ہم سب یہاں پر مولانا حاضر امام کے حضور دست بہ دعا ہیں کہ مولا مرحوم کی روح کو دائمی سکون اور آپ کو یہ عظیم نقصان سہنے کی طاقت و ہمت عطا

۲۵

 فرمائے! مجھے امید ہے کہ آپ کو ہمارا ۱۱ ماہِ روان والا تار ملا ہو گا۔

فقط

یا علی مدد

قاسم علی ایم جے

پریذیڈنٹ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان۔ کراچی (مراسلہ)

۷۔ آپ کو معلوم ہے کہ کراچی میں مجھے والد صاحب کی وفات کی خبر ملی اس سے آنسو خشک نہیں ہوئے تھے کہ سعادت خان جدا ہوا۔ مگر کیا کریں۔ کہاں جائیں۔ کس کو سنائیں، چارہ نہیں۔ علاج نہیں۔ اجل معین ہے۔ تقدیر کے قاضی کا فیصلہ اٹل ہے۔ تسلیم و رضا آخری حل ہے۔ دل تھام کے کہنا پڑتا ہے مرضیٔ مولا از ہمہ اولیٰ۔

زندگی انسان کی ہے مانندِ مرغِ خوش نوا

شاخ پر بیٹھا کوئی دم چہچہایا اڑ گیا

کیپٹن میر باز خان (اقتباس از مراسلہ)

۸۔ اصحابِ علم و دانش جن کو فلسفۂ زندگی سے کافی حد تک شناسائی ہے اس زندگیٔ ناپائدار پر کم اعتماد رکھتے ہیں اور ہر حالت میں کل شیء ہالک الا وجھہ (۲۸:۸۸) کے ارشادِ ربانی پر لبیک کہتے ہیں۔ گویا زخم ناقابلِ اندمال ہے اور یہ عظیم نقصان ناقابلِ تلافی، مگر سوائے صبر کے اور کوئی چارۂ کار باقی نہیں۔

محبوب علی کراچی (اقتباس از مراسلہ)

۲۶

۹۔ مرحوم عزیزم شادی شدہ تھا اور اس کے بچوں کی پرورش و کفالت بھی اب آپ کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ ان مصائب و آلام کوبرداشت کرنے کی مولا پاک آپ کو ہمت و استقامت عطا فرمائے! (آمین!)

تمام جماعتِ اسماعیلیۂ لائل پور (پنجاب) آپ کو بصد خلوص ہدیۂ تعزیت پیش کرتی ہےاور بارگاہِ رب العزت میں دست بہ دعا ہے کہ الہ العالمین مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دے اور نورانی دیدار سے بہرہ ور فرمائے!

الواعظ عزیز علی فدائی لائل پور

(اقتباس از مراسلہ)

۱۰۔ اس اندوہناک حادثے نے ہمارے ہوش و حواس اڑا دئے ہیں اور اظہارِ ہمدردی اور قلبی کیفیت واضح کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں اگر ہوتے بھی تو ہم انہیں آپ کے پاس کیسے ادا کرتے کیونکہ آپ مصائب و آلام و ہمارے لئے ایک پناہ گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمارے دکھ سکھ کی گتھیاں آپ کے علم و عقل سے کھلتی ہیں۔ ہاں البتہ اتنا کہہ سکتے ہیں کہ آپ ابتلا کی کٹھن گھڑی میں ہمارے لئے صبر و شکر کا ایک اچھا معیار قائم کریں گے۔

(ہونزا کی مختلف جماعتوں اور کونسلات کے مراسلات سے اقتباس)

۱۱۔ آپ کے عزیز فرزند کی حادثاتی موت سے بہت دکھ پہنچا۔ یقین کیجئے اس آزمائش میں آپ تنہا نہیں ہیں ہم سب کے دل آپ کے ساتھ ہیں اگرچہ فاصلوں کے لحاظ سے ہم دور ہیں۔

(چند انفرادی مراسلات کا مجموعی تاثر)

۲۷

۱۲۔ دنیا دین سے وابستہ ہے آپ ایک عالمِ دین اور صاحبِ معرفت شخص ہیں ہم نے دینی شعور آپ ہی سے سیکھا ہے اور نیک و بد کی تمیز بھی۔ ایسے کڑے وقت کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے اس کے بہترین مظاہرے کی ہم آپ سے توقع رکھتے ہیں۔ ہم دلی اور روحانی طور پر آپ کے ساتھ شریکِ غم ہیں۔

(چند انفرادی خطوط کا مجموعی تاثر)

میں ذاتی طور پر علامہ صاحب کے مداحوں میں سے ہوں۔ جس وقت ہوائی حادثے کی خبر یہاں موصول ہوئی اور پھر جس وقت شہید ایثار علی کا جسدِ خاکی یہاں پہنچا ایک قیامت کا سماں تھا۔ میں تو یہی سمجھ رہا ہوں کہ جن راہوں سے جنازہ گزرا ہے پتھر بھی رو پڑے ہوں گے، مگر آفرین ہے اس مردِ جلیل کے صبر و استقامت پر۔ کیا مجال ہے جو ذرا کمزوری دکھائی ہو، تمام پروگراموں میں برابر شریک ہوتے رہے، نہ صرف یہی بلکہ عقیدت مندوں، احباب اور اعزا میں سے جو لوگ غم سے مغلوب ہوئے بزرگوارِ موصوف نے بطورِ پند ہر ایک کو حوصلہ دیا۔ اور صبر و شکر کی تلقین کرتے رہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ وابستگان، عقیدتمندان اور احباب نے جس والہانہ انداز میں اپنی وابستگی، عقیدتمندی اور محبت کا اظہار کیا ہے، وہ انہی کا حق ہے اور انہی کا حصہ۔

میری دعا ہے کہ مولائے کائنات متاثر خاندان کو ظاہری و باطنی عنایات سے نوازے اور تلافیٔ نقصان میں جسمانی و روحانی نعم البدل عطا فرمائے!

الشریک فی الغم و الداعی للنعم

فدا علی سلمان البدخشانی

۲۸

سخنہائے گفتنی

۱۔ مومنین میں سے جو افراد مشیتِ ایزدی کی لاتعداد حکمتوں کا یقین رکھتے ہیں، وہ البتہ دنیا کی کسی بھی بڑی مصیبت سے واویلا اور جزع و فزع نہیں کرتے۔

۲۔ مومن کی زندگی فی الواقع دہری ہے، یعنی ایک تو چھلکے کی طرح ظاہر ہے اور دوسری مغز کی طرح باطن، اب اگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی انسان کو باطن منظور ہو چکا ہے تو اس کے لئے چھلکے کو چھوڑنا اور ظاہر سے گزرنا پڑے گا، پھر اس پر کسی عزیز کو کوئی شکایت نہ ہونی چاہئے۔

۳۔ ہر انسان کی زندگی ہی میں کوئی نہ کوئی کارنامہ ہوا کرتا ہے، مگر اس عام اصول کے برعکس میرے عزیز فرزند ایثار علی کا ایک بڑا کارنامہ اس کی ناگہانی موت کے مکمل ہوا ہے، مثلاً ایک ایسے مردِ درویش کو اپنے عزیز بیٹے کی حادثاتی موت کے ابتلا و امتحان میں رکھنا جو صبح و شام کی عاجزانہ دعاؤں میں دوسرے مقاصد کے ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتا تھا کہ اس پر کوئی ایسا امتحان نہ آئے، سارے خاندان بلکہ پوری قوم کو خون کے آنسو رلانا، چند قیمتی جانوں کی اتفاقیہ موت سے اتفاق کر کے چہ ہونزا و چہ گلگت اور پاکستان بلکہ پوری دنیا کو یکبارگی ہمدرد بنا لینا، اور مردِ درویش کی اس مصیبت کے بارے میں بعض معتقدین کا پوشیدہ تعجب کہ جہاں خوفِ خدا سے ہمیشہ گریہ و زاری ہوتی رہتی ہے، وہاں بھی خدا کا امتحان آ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ اس درویش کے ہر قول و فعل کی طرف جماعت اور قوم کا متوجہ ہونا کہ اب دیکھیں کہ وہ عین مصیبت کے وقت کیا کرتا ہے، صبر و شکر کا مظاہرہ کر رہا

۲۹

 ہے یا خود بے صبری اور نا شکری کا نمونہ بن رہا ہے، یہ تمام باتیں میرے عزیز بیٹے کی موت سے پیدا ہوئی ہیں، اس لئے میں ایثار علی کی موت کو اس کے حق میں قدرتی کارنامہ قرار دیتا ہوں۔

۴۔ میں ایک مصیبت زدہ باپ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک درویش بھی ہوں، ان دونوں صورتوں کے نتیجے میں میرے دل کے اندر جیسی جیسی عجیب و غریب کیفیات واقع ہوئی ہیں، وہ میں نے تعزیت کے جوابی خطوط میں بالکل صحیح طور پر ظاہر کر دی ہیں، پھر ان جوابی خطوط کو کتابی صورت دی گئی ہے، تا کہ ایک طرف سے تو یہ کتاب مسلمین و مومنین کے لئے پند و نصیحت کا ایک ذریعہ بن کر موجبِ ثواب ہو اور دوسری طرف سے اس پیاری روح کی یادگار باقی رہے جو پیارے ایثار علی کے نام سے میرے غریب خانے میں رہ چکی ہے۔

۵۔ یہ بات تقریباً سب جانتے ہیں کہ اولاد کی محبت ایک فطری امر اور ایک پیدائشی حقیقت ہے، اور ایک جوان بیٹے کی ناگہانی موت انسان کے لئے سب سے بڑا صدمہ ہے، لیکن انسان کیا کر سکتا ہے، کیا وہ قانونِ قدرت کے خلاف احتجاج کر سکتا ہے؟ کیا وہ خدا کے امتحان سے راہِ فرار اختیار کر سکتا ہے؟ نہیں نہیں وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا، اس لئے بہتر تو یہی ہے کہ صبر و شکر جیسا کہ حق ہے اختیار کیا جائے تا کہ اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور دونوں جہان میں رحمتِ خداوندی شاملِ حال رہے۔

۶۔ جماعت اور مسلم برادری کی طرف سے جو گہری ہمدردی مجھ سے کی گئی ہے، میرے خیال میں اس کی کوئی مثال نہیں اور جس خلوص اور دلسوزی سے دور و نزدیک کے عوام و خواص نے مجھے تعزیت دی ہے، اس کا تذکرہ کرنا میرے بس کی

۳۰

 بات نہیں، اور تعزیت نامے اس قدر زیادہ موصول ہوئے کہ میں ان سب کو اس کتاب میں درج نہیں کر سکتا تھا، لہٰذا میں نے کوشش کی صرف ان کے مختصر جوابات شائع کئے جائیں، پھر بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید کچھ خطوط مجھے نہ مل سکے، لہٰذا ان کا جواب میرے لئے ناممکن تھا، نیز بعض خطوط اس کتاب کے مکمل ہو جانے کے بعد موصول ہوئے تھے۔

۷۔ اب مجھ پر واجب ہے کہ میں پھر ایک بار ان تمام حضرات کا قلبی طور پر شکریہ ادا کروں، جنہوں نے جلکوٹ کے جنگل میں میرے عزیز بیٹے کی لاپتا لاش کی تلاش کی، اسے یہاں لا کر سپردِ خاک کر دیا، مجھے اور تمام خاندان کو سہارا دیا اور سنبھالا، انہوں نے مجموعی طور پر اپنے قیمتی وقت سے ہزاروں گھنٹے ہماری تعزیت کی خاطر صرف کر دئے، مگر افسوس کہ ان میں سے بعض چیزیں حد سے بڑھ جانے کی صورت میں بت پرستی بن جاتی ہیں، میں نے اس سلسلے میں چند ایسی چیزیں بھی محسوس کی ہیں جو مذہبی نقطۂ نظر سے ناپسندیدہ اور مکروہ بلکہ بت پرستی ہیں، اگر میں یہاں ان کے تذکرہ سے گریز کروں تو نصیحت کی امانت میں خیانت ہو گی، وہ چیزیں یہ ہیں:

الف۔ بعض سادہ لوح مردوں اور خصوصاً عورتوں کا زار زار رونا اور آہ و فغان کرنا اور مردے کی تعریف و توصیف بیان کرنا، ب۔ دور دراز علاقوں سے تعزیت کے لئے آنا، ج۔ وقت گزر جانے کے بعد عرصۂ دراز تک تعزیت دیتے رہنا، د۔ زخم پر نمک پاشی کرنا یعنی لواحقین کے پاس بار بار متوفی کا تذکرہ کرنا، ہ۔ موت کی ناجائز رسومات کو جاری رکھنا اور اس سلسلے کی فضول خرچی یعنی وقت یا پیشہ بے جا طور پر استعمال کرنا۔

اب مجھے اخیر میں ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جن کو مجھ سے ہر قسم

۳۱

 کی جسمانی ہمدردی کے علاوہ علمی تعاون بھی ہے، ان میں سے جناب پروفیسر فقیر محمد صاحب بی۔ اے (آنرز) ایم۔ اے (فلسفہ) ایم۔ اے (عربی) ایم۔ اے (فارسی) ڈبلیوم (جرمن) سرِ فہرست ہیں، جن کے گوناگون احسانات کو میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا، ان کی رفاقت سے میرے حوصلے بلند ہوئے ہیں، ان کی دوستی سے میری روح کو قوت ملی ہے، ان کی علمی تصدیق سے میری دور اندیشی کا ثبوت ملا ہے، آپ کی مایہ ناز شخصیت قوم کے لئے محنت و جفا کشی اور پھر کامیابی کا عملی نمونہ ہے، آپ کی ایمانی ذات خود شرافت و اصالت کی بہترین مثال ہے، آپ تحریر و تقریر دونوں میدان کے شہسوار ہیں، الحمد للہ علی احسانہ کہ یہ سب کچھ اسی حقیقی مالک کی مہربانی سے ایسا ہے تا کہ قوم اورجماعت زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھ سکے۔ پس میں صاحبِ موصوف کا بطریقِ اخص شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کا ایک ایسا جامع اور دلکش دیباچہ تحریر فرمایا ہے کہ اس میں کتاب ’’ایثار نامہ‘‘ کے جملہ مطالب یکجا و واضح ہو چکے ہیں۔

پھر میں جناب فدا علی سلمان صاحب گوہر افشان کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنی انوکھی اور بے مثال قابلیت اور جذبۂ اخوت سے میری مصیبت کے دوران نہ صرف جوابی خطوط میں میری معاونت فرمائی ہے بلکہ انہوں نے تمام تعزیت ناموں پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک پرمایہ پیش لفظ بھی لکھا ہے جس کی بدولت اس کتاب کی قدر و منزلت میں اضافہ ہو گیا ہے۔

فدا علی سلمان صاحب کی علمی مرتبت کی مثال ایک ایسے گنجگاہ کی طرح ہے جس کے متعلق لوگوں کو کوئی گمان نہیں کہ وہاں ایک گرانقدر خزانہ چھپا ہوا ہے، مگر ایسا خزانہ بھی ہمیشہ کے لئے مخفی نہیں رہ سکتا، وہ ایک نہ ایک دن ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔

۳۲

میں اپنے پگھلے ہوئے دل میں یہ دعا کرتا ہوں کہ یا الٰہ العالمین ان دونوں صاحبانِ علم و ادب کو اور دوسرے تمام ہمدرد حضرات کو علم و ہنر کے فیوض و برکات عطا فرمائے اور انہیں دونوں جہان کی کامیابی اور رو سپیدی عنایت کیجئے !!

آمین یا رب العالمین!!!

فقط

ذرۂ بے مقدار

نصیر ہونزائی

۳۳

گلگت

۱۳ دسمبر ۱۹۷۲ء

برادرانِ روحانی

جماعت ۱۔ حیدرآباد

۲۔ مرتضیٰ آباد

یا علی مدد!

میرے نوجوان فرزند کی ناگہانی اور اتفاقی موت اور اس ناقابلِ تلافی نقصان پر جس قدر خلوص اور دل کی گہرائیوں سے آپ سب نے ہمدردی کا اظہار کیا اور تعزیت کے متعدد پیغامات بھیجے ہیں اس کا میں تہِ دل سے شکر گزار ہوں۔ خداوندِ تعالیٰ  کی شاید یہی مرضی تھی۔ اس کے حضور سرِ تسلیم خم ہے اور جیسا کہ آپ روحانی بھائیوں نے میرے لئے صبر و استقامت کی دعائیں مانگی ہیں مجھے یقین ہے کہ مولائے کریم آپ سب بھائیوں کی دعاؤں کے طفیل اس عظیم آزمائش میں مجھے ثابت قدم رکھے گا۔

ایک دفعہ پھر آپ سب روحانی بہن بھائیوں چھوٹے بڑے اور تمام خیرخواہوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میری عاجزانہ دعائیں ہیں کہ مولائے کریم تمام جماعت کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ظاہری و باطنی فیوض و برکات سے نوازے! (آمین!)

والسلام

آپ کا روحانی بھائی

نصیر ہونزائی

۳۴

گلگت

۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء

ملک جی!

سلام و دعائیں! واقعی انسانیت کا معیار غمخواری ہے، مبارک ہے وہ آدمی جو دوسروں کا درد محسوس کرتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کر و بیان

میرے عزیز لختِ جگر کی بے ہنگام مفارقت کا عظیم صدمہ اگر میں سہہ گیا ہوں تو محض اس برتے پر کہ آپ جیسے غم گسار موجود ہیں حکیم خیام فرماتے ہیں:

بیگانہ اگر وفا کند خویش من ست

ور خویش جفا کند بد اندیش من ست

گر زہر موافقت کند تریاق ست

ور نوش مخالفت کند نیش من ست

ایک وہ تھا چوتھائی صدی پہلے کا معصوم بے بس بچہ! میرے جگر کا ٹکڑا، میرے جوان بازوؤں کے مضبوط حصار میں شدائدِ ایام سے محفوظ پلتا رہا اور آج جبکہ اسے میرے بڑھاپے کی لاٹھی بننا تھا تو عین ضعیفی کی عمیق کھائی کے کنارے مجھے ہکا بکا چھوڑ گیا، نہ آگے کو سوجھتا ہے اور نہ پیچھے مڑ سکتا ہوں، ایک آپ ہیں سینکڑوں میل دور ہوتے ہوئے بھی میرا درد بانٹ رہے ہیں اس کا صلہ میں کیا دے سکتا ہوں وہ دے

۳۵

 دے جس کے در سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا! آمین!

خیام ہی نے فرمایا ہے:

مردانہ در آ ز خویش و پیوند ببر

خود را تو ز بندِ زن و فرزند ببر

ہر چیز کہ ہست سدِ را ہست ترا

با بند چگونہ رہ روی بند ببر

یہ دنیا اگر فانی ہے تو یہاں کی ہر چیز فانی ہے۔ آنی جانی چیزوں کا غم کرنا بے سود ہے اور لاحاصل۔ راہِ سلوک میں بڑے کڑے مقام آتے ہیں راستے میں آنے والے مقامات سے گزر کر ہی کوئی راہی منزلِ مقصود تک پہنچ سکتا ہے، یہ کیسے کہا جا سکتا کہ منزل بھی ملے اور راستہ بھی طے نہ کرنا پڑے۔ سپاہی کو میدانِ جنگ میں نہ بھیج کر جنگ جیتنے کی امید رکھنا دیوانے کا خواب ہے، ہاں البتہ ضروری اسلحہ مہیا کرنے سے نہ صرف جنگ جیتنے کی امید ہو سکتی ہے بلکہ یقین کی حد تک سپاہی کی حفاظت بھی ہو جاتی ہے۔ کیا حیاتِ انسانی خیر و شر کی جنگ نہیں ہے اس جنگ کو جیتنے کے لئے دو بڑے ہتھیار ہیں یعنی صبر و شکر۔ میں نے انہی ہتھیاروں سے کام لینے کا فیصلہ کیا ہے آپ میرے لئے ثبات کی دعا کیجئے۔ مولا اجر دے گا۔

فقط

آپ کا خیر اندیش

نصیر ہونزائی

۳۶

جناب محترم شاہ زمان صاحب ڈورکھنڈ، ہونزا

یا علی مدد! اگرچہ یہ سانحہ آپ اور آپ کے خاندان کے لئے بلکہ ساری قوم اور جماعت کے لئے بہت ہی بڑا ہے، کہ اس جہاز کے حادثہ میں بیک وقت آپ کے چھ عزیز افراد جان بحق ہو گئے، امرِ الٰہی کے سامنے انسان کی کیا تدبیر ہو سکتی ہے، پس بہتر یہی ہے کہ اب صبر و شکر کا راستہ اختیار کیا جائے اور اس آیۂ کریمہ کی حکمت پر عمل کیا جائے کہ: ’’قالوا انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ یعنی حقیقت میں ہم اپنی ذات کے لئے نہیں ہیں، بلکہ ہم اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہیں، وہ ہمیں جس طرح استعمال کرے، اسی میں حکمت اور بہتری ہے اور اسی سے ہم کو دنیا و آخرت میں حق تعالیٰ کی قربت و نزدیکی حاصل ہو سکتی ہے۔

خدا تعالیٰ کے قرب کے لئے قربانی کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ قربانی کا لفظ قرب سے نکلا ہے، اسی معنی میں قربانی ایک ایسی قیمتی چیز کو کہتے ہیں، جو خدا کی راہ میں اس کی قربت و نزدیکی کی غرض سے نکالی گئی ہو، چنانچہ اللہ تعالیٰ حقیقی مومنین سے دو قسم کی قربانی لیا کرتا ہے، ایک قربانی وہ ہے جو مومن سوچے سمجھے حال میں خدا کے حضور میں پیش کرتا ہے، دوسری قربانی وہ ہے، جو خدا تعالیٰ خود اپنی مرضی پر مومن سے لیا کرتا ہے، اگر اس دوسری قربانی کے لئے مومن صابر و شاکر رہے، تو یہ قربانی خدا کے نزدیک سب سے عظیم ہے۔

اس کے علاوہ اگر یہ حقیقت مان لی جائے، کہ روح کی لا انتہا زندگی کے مقابلے میں جسم کی دو روزہ زندگی نہ ہونے کے برابر ہے، ساتھ ہی ساتھ اگر اس بات پر بھی یقین رکھا جائے کہ مومن کے لئے دنیا میں رنج وغم کے سوا کچھ بھی نہیں اور آخرت میں اس کے لئے راحت ہی راحت ہے۔ پھر اس صورت میں ہمیں اس مختصر سی جسمانی زندگی

۳۷

 کی ناگوار تلخیوں کو ضروری طور پر برداشت کرنا ہو گا۔

پس دعا ہے کہ خدائے علیم و حکیم اس حادثہ میں گزرے ہوئے مومنین کی ارواح کو شہیدانِ اسلام کا درجہ عنایت فرمائے! اور پس ماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق و ہمت عطا فرمائے ! آمین ثم آمین !!

فقط

آپ کا خیر اندیش

نصیر ہونزائی

۱۸ دسمبر ۱۹۷۲ء

۳۸

جنابِ محترم ماسٹر سلطان علی صاحب غلکنی

یا علی مدد! میں آپ اور آپ کے جملہ خاندان کا نیز موکھی علی شفا صاحب اور غلکن کی نیک نام جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں، کہ آپ صاحبان نے مجھے اس جان گداز مصیبت پر ایک صبر آموز اور حوصلہ بخش تعزیت نامہ لکھا ہے۔

آپ اس حقیقت سے باخبر ہیں، کہ یہ دنیا دارالفنا ہے دارالبقا نہیں، اور ہم میں سے ہر ایک کو کسی بھی وقت یہاں سے کوچ کر جانا ہے، لہٰذا ہمیں موت کی اس تلخ حقیقت کو گوارا کرنا ہو گا۔

ہم پس ماندگان میں سے عزیزم ایثار علی کی والدہ کے لئے اپنے فرزندِ جگر بند کی مفارقت ناقابلِ برداشت نظر آ رہی تھی، مگر ہم نے بفضلِ مولا صد ہا نصیحتوں سے اس بارِ غم کو ہلکا کر دیا ہے۔

فقط

آپ کا مخلص

نصیر ہونزائی

۱۹ دسمبر ۱۹۷۲ء

۳۹

اس حادثہ کے جملہ مصیبت زدہ خاندانوں کی خدمت میں

السلام علیکم! حضرات میں آپ سے معذرت خواہ ہوں کہ ان جوابی خطوط کی تیاری میں اب تک تماماً اپنی ہی مصیبت کا ذکر کرتے آیا ہوں، حالانکہ یہ میرا اسلامی اور انسانی فرض تھا کہ سب سے پہلے ان تمام قیمتی جانوں کی مجموعی موت کے بارے میں کچھ تحریر کرتا، جو یکایک اس حادثہ کا شکار ہو چکی ہیں۔

بہر حال مجھے اپنے درد کے قیاس پر آپ صاحبان کے درد کا بھی احساس ہے، لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں، کہ ہم سب اپنے اس دردِ بے درمان کا کوئی دوسرا علاج نہیں کر سکتے، بجز آنکہ ہم صبر و شکر کا راستہ اختیار کریں، بے شک خلقِ اولین و آخرین میں یہی ایک نسخہ رہا ہے، جو مرضِ مصیبت میں نہایت ہی موثر ہے۔

صاحبان! آئیے ہم سب مل کر بارگاہِ ایزدی میں دعا و التجا کریں، کہ پروردگارِ عالم ہمارے ان عزیزوں کو، جو ہم سے جدا ہو کر عالمِ آخرت کو سدھارے ہیں، اپنے جوارِ رحمت میں مقام عنایت کرے! اور ہم سب پس ماندگان کو صبر و شکر اور عرفان و ایقان کی اعلیٰ توفیق و ہمت عطا کرے!! آمین ثم آمین!!!

فقط

نصیر ہونزائی

۱۹ دسمبر ۱۹۷۲ء

۴۰

جناب حاجی عزیز محمد خان صاحب راولپنڈی

یا علی مدد! آپ کے تعزیتی خط کا شکریہ! بے شک میرا عزیز فرزند آپ کو بھی بہت عزیز تھا، لیکن موت کے لئے کیا چارہ ہو سکتا ہے۔ دنیا کی مصیبتوں کا آپ کو بھی خوب تجربہ ہے، اور کوئی انسان مصائب و آلام سے خالی نہیں، پس ہمیں اس قانونِ قدرت میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے، بلکہ ایسے امتحانات کے وقت صبر و شکر کر کے روحانی طور پر فائدہ اٹھانا چاہئے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ اس مطلب کا تذکرہ موجود ہے۔

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہم یہ یقین کر سکتے ہیں، کہ جب ہم اس دنیا کی زندگی سے فارغ ہو جائیں گے، تو ہمیں روحانی عالم میں اپنے تمام عزیزوں کی ملاقات حاصل ہو گی، پھر ہم مایوسی میں کیوں روئیں۔

فقط

آپ کا روحانی بھائی

نصیر ہونزائی

۱۹ دسمبر ۱۹۷۲ء

۴۱

گلگت

۲۰ دسمبر ۱۹۸۲ء

عزیز الواعظ نظر شاہ صاحب گلمت

مولا آپ کو خوش رکھے! میرے عزیز فرزند کی حادثاتی موت پر آپ نے جس انداز سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے، میں اس سے آپ کی محبت کا اندازہ کر سکتا ہوں، ایک فقیر کے پاس محبت کے جواب میں دعا کے سوا اور کیا ہوتا ہے۔ سو میں دعا کرتا ہوں کہ مولا پاک آپ کو روحانی سکون عطا کرے!

جیسا کہ آپ نے آیتِ مبارکہ کا حوالہ دیا ہے، اگر ہمارا کوئی عزیز اپنے مرکز کی طرف لوٹتا ہے اور کامیاب لوٹتا ہے تو اس میں خوشی ہونی چاہئے نہ کہ رنج۔ آپ سب کو جو اس سانحہ کے وقت میری طرف نگران ہیں میرا پرخلوص مشورہ ہے کہ ایسے مواقع پر صبر و شکر اظہارِ عبودیت کا بہترین ذریعہ ہے، میں مولا کی مرضی پر راضی ہوں آپ میرے لئے استقامت کی دعا کیجئے، مولا پاک مجھ ناچیز کو اس عظیم نعمت کا اہل ہونے کی توفیق بخشے! مجھ فقیر کی دعا ہے کہ مولا پاک ہر درد مند دل کو حقیقی راحت عطا فرمائے!

فقط

دعا گو

نصیر ہونزائی

۴۲

گلگت

۲۰ دسمبر ۱۹۷۲ء

عزیزانِ محترم امیر گل صاحب و امیر احمد صاحب مسگر

آپ کا ہمدردیوں بھرا تار موصول ہوا۔ دلوں کی قربت فاصلوں کی دوری مٹا دیتی ہے یہ ایک امرِ واقعہ ہے۔ اس ابتلا کے وقت آپ جیسے احباب کی ہمدردیاں میرے صبر و تحمل کی گرتی دیوار کے لئے عظیم سہارا ہیں۔

خدا کی کمالِ مہربانی کا یہ بھی ایک عظیم اظہار ہے کہ قوموں پر آنے والی ابتلا کی خبر پہلے یا تو اجتماعی تکلیف کی صورت میں یا اس کے سرکردہ افراد پر ناگہانی آزمائشات کی شکل میں مل جایا کرتی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ قومیں جو وقت اور حالات سے نصیحت پکڑتی ہیں۔ میں نے مختلف مواقع پر اپنی قوم کو آنے والے کڑے وقت سے خبردار کیا ہے۔ اب بھی میں یہی کہتا ہوں اے  میری قوم ہوشیار! خبردار!! بندہ بہرحال بندہ ہے۔ مادی طمطراق اور خورد و نوش کی آسائشوں کی خاطر اپنا منشائے تخلیق مت بھولو۔ دیکھو ایک دن اچانک ہم میں سے ہر ایک کو موت کا کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔ اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا۔ اے عزیزو! وہ وقت بہت ہی کٹھن ہے۔ مولا ہر مومن کو اس روز اپنے دامنِ عفو و کرم میں جگہ دے! آپ کی ہمدردیوں کے لئے بہت ہی شکر گزار ہوں۔

فقط

دعا گو

نصیر ہونزائی

۴۳

گلگت

۲۰ دسمبر ۱۹۷۲ء

عزیز بھائی موکھی غلام قادر صاحب حیدرآباد

فرزندِ عزیز ایثار علی کی حادثاتی موت پر آپ نے جن دلی جذباتِ ہمدردی کا اظہار فرمایا ہے۔ اس پر میں آپ کا بہت ہی ممنون ہوں۔ اس خانۂ دودر میں جو آیا ہے اسے یہاں سے جانا لازمی ہے اس پر رنج و غم بے معنی ہے۔ انسانی فطرت کی کمزوری بعض دفعہ ناگہانی صدمات پر ہمیں دل برداشتہ ضرور کر دیتی ہے۔ تاہم عقل کی کسوٹی پر جو انسانی شرف کا واحد سبب ہے حالات کو پرکھا جائے تو حقیقتِ حال واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔ قرآن کہتا ہے: لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا ۔ ہم کیسے اس حقیقت کو جھٹلائیں نعوذ باللہ من ذالک۔ ابراہیم نبی سے اپنے نورِ نظر کی حلقوم پر چھری چلوائی اور فرمایا: انی جاعلک للناس اماما۔ اس حکیمِ مطلق کی حکمتوں کا شمار کون کرے۔ روحانی طور پر مجھے ایک گونہ طمانیت محسوس ہوتی ہے کہ میں بھی اپنے محبوب کی نظر میں ہوں۔ میرا محبوب یہ نذرانہ قبول فرمائے اور مجھے اس دریا کو عبور کرنے کی ہمت ودیعت فرمائے ! میرے ساتھ آپ نے جو ہمدردی فرمائی ہے، مولا آپ کو اس کا اجر بخشے ! آمین!

فقط

دعا گو

نصیر ہونزائی

۴۴

گلگت

۲۰ دسمبر ۱۹۷۲ء

عزیزِ من موکھی علی رہبر صاحب مرتضیٰ آباد

ارشادِ ربانی ہے: و کل نفس ذائقۃ الموت۔ جو پیدا ہوا ہے اسے آخر ایک دن مرنا بھی ہے۔ لیکن بعض دفعہ حیاتِ انسانی کا یہ لازمی نتیجہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ یہ جانتے ہوئے کہ ایسا ہونا تھا انسان کچھ دیر اچنبھے میں پڑ جاتا ہے کہ ’’ہائیں! یہ کیا ہوا؟‘‘ مگر عزیزِ من! ہمیں بحیثیتِ بندگانِ پروردگار یہ فرمانِ خداوندی ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ: لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:

دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کر

پیارے ایثار علی نے جس انداز سے داغِ مفارقت دیا وہ ایک گران بار صدمہ تو ہے مگر روحانیت کی نظر سے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا منزلِ حقیقت آنا ہی چاہتی ہے۔ اور محبوبِ حقیقی پردۂ مجاز کی اوٹ سے بنظرِ امتحان مشاہدہ کر رہا ہے کہ جسے میں نے اپنے لئے چن لیا ہے وہ میری طرف سے امتحان و ابتلا میں کتنا ثابت قدم رہتا ہے۔ میں راضی برضا ہوں آپ ہی میرے لئے استقامت کی دعا کیجئے۔

آپ نے اس عظیم ابتلا کے وقت جس اپنائیت کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے وہ میرے لئے بہت تقویت کا باعث ہے۔ مجھ دل شکستہ فقیر کی دعا ہے  کہ مولا پاک آپ کو اور تمام جماعت کو اپنے حفظ و امان میں رکھے! آمین!

اور درویش کی دعا کیا ہے

فقط

دعا گو

نصیر ہونزائی

۴۵

گلگت

۲۰ دسمبر ۱۹۷۲ء

عزیزانِ من ولایت خان و نیت شاہ مرتضیٰ آباد

اپنے روحانی بھائی کی ناگہانی مفارقت پر آپ نے جس اندازِ یگانگت سے اور جن خوبصورت الفاظ میں میری اور میری بیگم کی دلجوئی کی ہے۔ مولا پاک ہر دو جہان میں اس کا بدلا آپ کو مرحمت فرمائے!

یہ دنیا دارالفرار ہے دارالقرار نہیں۔ دل کی دھڑکن، گزرتے لمحات، بدلتے دن رات اور ماہ و سال کی گردش سے جو خاموش سبق ہمیں ملتا ہے جب ہم اس سے غافل ہو جاتے ہیں تو نظامِ قدرت جو بندوں پر بے انتہا مہربان ہے ایسے حوادثات کے ذریعے ہمارے سوتے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر جگانے کا بندوبست کرتا ہے۔ بڑی سے بڑی ابتلا قدرت کی طرف سے بڑے سے بڑا انعام ہے۔ ہاں! البتہ دنیاوی بندھنیں ایسے مواقع پر ہمارے اذہان کو قدرے مکدر ضرور کر دیتی ہیں۔ سو اس کے لئے ہمیں پروردگار سے معافی کا طالب ہونا چاہئے۔

میں اپنے تمام عزیزوں، دوستوں، شاگردوں اور عموم جماعت کو ایسے مواقع پر صبر و شکر کی تلقین کرتا آیا ہوں۔ آج جب کہ میں خود امتحان میں ہوں تو آپ مجھ سے بہتر رویہ اور مثالی کردار کی توقع کر سکتے ہیں میرے لئے دعا بھی کیجئے کہ مولا ہمت عطا فرمائے! مولا پاک آپ سب کو حقیقی راحت و دائمی سکون عنایت فرمائے!

فقط

دعاگو

نصیر ہونزائی

۴۶

گلگت

۲۰ دسمبر ۱۹۷۲ء

بہت ہی پیارے مجیب!

پیارے ایثار نے اچانک اس طرح ہمیں چھوڑ دیا کہ بے ساختہ کہنا پڑا:

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے!

کیا خوب! قیامت کا بھی ہو گا کوئی دن اور؟

آپ نے جس اندازِ یگانگت سے ہماری دلجوئی کی ہے میں اس کی بہت قدر کرتا ہوں اور مرحوم کے بارے میں آپ نے جن اچھے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ مولا پاک آپ کو اس کا اجر بخشے! مگر میں آپ پر واضح کر دوں کہ انسان یہی کچھ نہیں ہے کہ:

پیدا ہوا، کھایا پیا، اور مر گیا

بلکہ حقیقت میں انسان وہ ہے جو مر کر جیے، وہاں اس دائمی منزل میں جہاں ابدیت ہے، ایک لافانی عالم، جو انسان کی حقیقی آسودگاہ ہے۔ پھر یہ دنیا تو آنی جانی ہے اس کا کیا غم، اور جو عزیز اس دارِ محن سے جس قدر جلد چھٹکارہ پائے اسی قدر خوشی کا مقام ہے۔ البتہ بشر کی فطری کمزوری آڑے آتی ہے۔ آپ جیسے غمگساروں کی موجودگی میرے لئے بڑی تقویت کا باعث ہے۔ میرے لئے صبر و استقامت کی دعا کیجئے۔ مولا کی مرضی پر جان قربان! یہ میرے الفاظ نہیں ہیں بلکہ میرے دلی جذبات کا اظہار ہے میں نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا:

جا ھیرسٹہ مشغول گمنس با کہ یہ آور

ان خوش گمنس نا جہ یہ جا اسلوبم اکگو

۴۷

اگر میرے مولا کو میرے چمنِ زندگی کا بہترین پھول پسند آیا تو یہ میرے لئے فخر اور خوشی کا مقام ہے نہ کہ رنج اور افسوس کا:

بے وجہ نہیں گرمیٔ حالت میرے دوست

کچھ تو ہے پسِ پردہ نہان میرے لئے بھی

آپ کی ہمدردیوں کا ایک بار شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کی والدہ بھی بہت دعائیں دیتی ہے۔

فقط

دعاگو

نصیر ہونزائی

۴۸

میرے روحانی عزیزانِ مرتضیٰ آباد

یا علی مدد! آپ کی ہمدردیوں اور غمگساریوں کا بہت بہت شکریہ! کہ آپ نے میرے مرحوم فرزند کی مغفرت اور ہمارے صبر و استقلال کے لئے بارہا دعائیں کی ہیں۔

جاننا چاہئے کہ حق تعالیٰ اپنے دوستوں سے سب سے پیاری چیز کی قربانی چاہتا ہے، تا کہ اس امتحان سے اس کی سچی دوستی ثابت ہو جائے۔

ظاہر ہے کہ مومن اکثر اپنے آقا و مولا کے لئے فدا اور قربان جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے، لیکن جب کوئی قدرتی قربانی اور فدیہ واقع ہوتا ہے تو اس میں جزع و فزع کرنے لگتا ہے، پس کسی بھی موت پر کوئی افسوس نہیں، بلکہ انسان کی پست ہمتی پر بہت افسوس ہے۔

فقط

آپ کا استاد

نصیر ہونزائی

۲۱ دسمبر ۱۹۷۲ء

۴۹

بخدمتِ ممبران نامدار کونسل حیدرآباد۔ ہونزا

یا علی مدد! آپ صاحبان کی طرف سے مجھے نامۂ تعزیت موصول ہوا، ماتم پرسی اور اظہارِ افسوس کا بہت بہت شکریہ!

قرآنِ حکیم کے ارشادِ گرامی کے بموجب ہم اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، جب حقیقت یہی ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں، تو بندۂ مومن کے لئے کسی عزیز کی موت پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے، جبکہ مومن کی موت اللہ تعالیٰ کی قربت کے سوا کچھ بھی نہیں۔

آپ صاحبان نے جس خلوص و محبت سے میرے نورِ نظر کے لئے مقدس عبادت خانہ میں دعائیں مانگی ہیں، میں اس کا ممنون ہوں، یقین ہے کہ آپ کی دعاؤں سے میرے عزیز فرزند کو ثواب اور مجھے صبر و سکون ملے گا۔

فقط آپ کا دینی خادم

نصیر ہونزائی

۲۱ دسمبر ۱۹۷۲ء

۵۰

بخدمتِ موکھی صاحب، کامڑیا صاحب

اور جماعتِ خروکشل حیدرآباد

یا علی مدد! میرے فرزندِ دلبند کی جدائی پر آپ صاحبان نے جس دل سوختگی اور ہمدردی سے اظہارِ افسوس کیا ہے، میں اس کے لئے قلبی طور پر شکرگزار ہوں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس صدمۂ جانکاہ میں میرا سخت امتحان ہو رہا ہے لیکن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں، کیونکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ میں ایک حقیقی مسلمان اور امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے سچے مریدوں میں سے ہوں، لہٰذا میں حق تعالیٰ کی ذاتِ اقدس پر توکل کرتا ہوں۔

آپ نے میرے عزیز ایثار علی کے حق میں جو بار بار دعا کی اور تسبیح پڑھی، اس کا صلہ و بدلہ خداوندِ تعالیٰ دونوں جہان میں عطا فرمائے گا۔

فقط

آپ کا اپنا

نصیر ہونزائی

۲۱ دسمبر ۱۹۷۲ء

۵۱

میری عزیز جماعتِ بر بر حیدرآباد

یا علی مدد! آپ نے جناب غلام قادر کے توسط سے مجھے جو تعزیت نامہ لکھا ہے اور جس یگانگت سے اظہارِ ہمدردی کیا ہے، میں اس کا دل و جان سے احسان مند ہوں۔ جیسا کہ آپ میرے متعلق یہ توقع رکھتے ہیں، کہ میں اس ابتلا و آزمائش کے موقع پر صبر اور شکر سے کام لوں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ میں ایسا ہی کروں گا، کیونکہ میرے دین و دنیا کے فوائد اسی عمل میں پوشیدہ ہیں۔

معلوم ہوا کہ آپ نے اپنے پاک عقیدے کے مطابق میرے لختِ جگر کی مغفرت اور ثواب کے لئے دعائیں اور تسبیحیں پڑھی ہیں، یقین ہے کہ اس کے اجرِ عظیم میں سے آپ کو بھی ایک بڑا حصہ ملے گا۔

آپ کا دعاگو

نصیر ہونزائی

۲۲ دسمبر ۱۹۷۲ء

۵۲

بخدمتِ شاہین والنٹیئرز حیدرآباد، ہونزا

یا علی مدد! مجھے سب سے پہلے آپ کی دینی خدمات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ آپ کے کارنامے بے مثال ہیں، بعد ازان میں صمیمیتِ قلب سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اور حیدرآباد کی تمام جماعت نے میری اس مصیبت کے موقع پر نہ صرف دعائیں پڑھی ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ ہمدردی اور شرکتِ غم کے خطوط بھی بھیجے ہیں۔

میں آپ کی امید کے مطابق ان شاء اللہ تعالیٰ صابر و شکر رہوں گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے اسی میں مومن کی بہتری ہے، ہمیں دنیا کے مقابلے میں آخرت کی زیادہ ضرورت ہے، پس حصولِ آخرت کے لئے ایک عزیز پچیس سالہ جوان بیٹے کی قربانی ضروری ہوئی۔

آپ کا دعاگو فقیر

نصیر ہونزائی

۲۳ دسمبر ۱۹۷۲ء

۵۳

محترم عباد اللہ بیگ صاحب گلگت، ہونزا نیشنل گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی راولپنڈی

السلام علیکم و یا علی مدد! میں آپ کا نہایت ہی شکرگزار ہوں کہ آپ نے میرے ساتھ عملی ہمدردی میں کوئی کسر فروگذاشت نہیں کی، بے شک ایک حقیقی مومن کا شیوہ و شعار ایسا  ہی ہونا چاہئے، میں آپ کے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ جماعت اور بنی نوع انسان کی خدمت کرنا اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں۔

فی الواقع پیارے ایثار علی کی اچانک موت سے اس کے والدین اور اقربا کے لئے بہت بڑا صدمہ ہوا، لیکن جب ہم حقیقت کی روشنی میں دیکھتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ جسمِ خاکی فانی ہے اور روحِ پاک باقی ہے، اور طائرِ روح کے قفسِ عنصری کو چھوڑنے کا وقت کسی کو معلوم نہیں، پس اگر ہم روحانیت کے قائل ہیں، تو ہمیں اپنے عزیز فرزند کی روحانی ملاقات پر یقین رکھنا چاہئے۔

آپ کا روحانی بھائی

نصیر ہونزائی

۲۳ دسمبر ۱۹۷۲ء

۵۴

محترم میر جہان شاہ صاحب

نیشنل گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی

یا علی مدد! میں آپ کے مکتوب کا شکرگزار ہوں، جو میرے غم کو کم کرنے کی غرض سے لکھا گیا تھا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے کہ: لا تقنطوا من رحمۃ اللہ یعنی تم خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی سخت ترین مصیبت میں بھی خدا کی رحمت سے مایوسی نہ ہونی چاہئے، چنانچہ اگر ہم پس ماندگان میں سے کوئی فرد اس لئے روتا ہے کہ اب ایثار علی کا دیدار نہ ہو گا، تو یہ خیال آیۂ مذکورۂ بالا کی رو سے غلط ہے کیونکہ آیت بزبانِ حکمت اعلان کر رہی ہے کہ اللہ کی رحمت سے عزیزوں کی ملاقات ہونے والی ہے، اوروہ روحانی عالم میں ہو گی۔

فقط

آپ کا مخلص

نصیر ہونزائی

۲۴ دسمبر ۱۹۷۲ء

۵۵

بخدمتِ شناکی جماعت مقیم کراچی

ممبران شناکی ملٹی پرپز سوسائٹی کراچی

یا علی مدد! آپ روحانی بھائیوں نے جس ہمدردی اور اخوت سے میری ماتم پرسی کی ہے، میں اس کا واجبی طور پر شکریہ ادا نہیں کر سکتا ہوں، خداوندِ تعالیٰ خود آپ کو اس نیکی کا اجر عطا فرمائے گا۔

اگرچہ میرے نورِ نظر ایثار علی نے اپنی جدائی سے میرے ناچار دل کو پارہ پارہ کر دیا ہے، تاہم حکمِ مولا کے سامنے سرِ تسلیم خم کر رہا ہوں، البتہ یہ امتحان میرے لئے لازمی تھا، کیونکہ میں نے مولا کی عاشقی کا دعویٰ کیا تھا، اور میں نے یہ راستہ آسان سمجھا تھا، بقولِ حافظ شیرازی کہ عشق آسان نمود اول ولی افتاد مشکلہا۔

فقط

آپ کا دعاگو

نصیر ہونزائی

۲۴ دسمبر ۱۹۷۲ء

۵۶

بخدمتِ موکھی صاحب، کامڑیا صاحب اور

جماعتِ مرکزی جماعتخانہ ہونزا حیدرآباد

یا علی مدد! آپ کا تعزیت نامہ موصول ہوا، جس میں میرے جگر پارہ فرزند ایثار علی کے حادثۂ جان گسل پر اظہارِ افسوس کیا گیا تھا، میں آپ کے اس نامہ کا احسان مند ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیارے ایثار علی کی جدائی ہمیں بہت ستا رہی ہے لیکن اس زخمِ دل کا مرہم صبر اور شکر کی صورت میں ہے اس کے سوا اور کوئی دوا نہیں۔

صبر اور شکر حقیقی معنوں میں ہو، تو فی الواقع مرہم ہی ہے، ورنہ سطحی صبر و شکر سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔

آپ کا

ایک علمی خادم

نصیر ہونزائی

۲۴ دسمبر ۱۹۷۲ء

۵۷

میری روحانی بہنیں لیڈی والنٹیئرز حیدرآباد ہونزا

یا علی مدد! آپ مہربان بہنوں نے جن الفاظ میں مجھے تعزیت نامہ لکھا ہے، اور جس اخلاص سے دعا کی ہے، میں اس کا شکرگزار ہوں۔

اگرچہ جوان لڑکے کی اچانک موت ہر انسان کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ہے، تاہم حقیقی مومن کو تسلیم و رضا پر عمل پیرا ہونا چاہئے، چنانچہ میں اس بڑی آزمائش میں پروردگارِ عالم سے عاجزانہ دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور میرے خاندان کو صبر و ثبات کی توفیق و ہمت عنایت فرمائے! ہم میں سے کسی کی زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکلے جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنے!

شکر ہے کہ محبوبِ حقیقی نے میری مسرتوں کے گلشن سے ایک تازہ گلاب کے پھول کو پسند فرمایا۔

آپ کا

روحانی بھائی

نصیر ہونزائی

۲۴ دسمبر ۱۹۷۲ء

۵۸

بخدمتِ جناب صدر و سیکریٹری

نامدار لوکل کونسل علی آباد ہونزا

یا علی مدد! آپ صاحبان نے اپنی نامدار کونسل اور نیکنام جماعت کی جانب سے مجھے جس ہمدردی اور دلسوزی سے تعزیت نامہ لکھا ہے، میں اس کا شکرگزار ہوں۔

جیسا کہ آپ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، پس اگر خدا تعالیٰ اپنی کسی امانت کو واپس لیتا ہے، تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے، مجھے شکر کرنا چاہئے کہ ایک امانت پھول پچیس سال تک میری خوشیوں کے گلشن کی زینت بنا رہا۔

اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ روحانی عالم ایک ایسا مقام ہے جہاں ہمیں اپنے تمام عزیزوں کی ملاقات میسر ہونے والی ہے، پھر ہمیں اس ابتلا میں صبر و شکر کرنا ازبس ضروری ہے۔

فقط

آپ کا قومی خادم

نصیر ہونزائی

۲۴ دسمبر ۱۹۷۲ء

۵۹

عزیزم درویش علی حیدرآباد ایمان زیاد باد!

بعد دعائے یا علی مدد واضح آنکہ عزیز کا خط ملا اور آپ کی ہمدردیوں کا شکریہ ادا کیا، ظاہر ہے کہ آن عزیزان ہماری خوشی میں خوش اور ہمارے غم میں غمگین ہوتے ہیں، جس کی وجہ آپ کا دین اور ایمان ہے، خداوندِ عالم جملہ عزیزوں کے نورِ ایمان میں اضافہ فرمائے! آمین!!

ثانیاً معلوم ہونا چاہئے کہ جو شخص مومنی اور عاشقی کا دعویٰ کرتا ہے، خدا تعالیٰ اس سے طرح طرح کا امتحان لیا کرتا ہے، تا کہ ظاہر ہو جائے کہ وہ شخص فی الواقع مومن و عاشق ہے یا جھوٹا مدعی۔

فقط

آپ کا دعاگو

نصیر ہونزائی

۲۵ دسمبر ۱۹۷۲ء

۶۰

عزیزم صحت علی کراچی ایمان زیاد باد!

یا علی مدد! میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، نیز عزیزانم سلیمان شاہ، صفت خان، علی مدد، مولا مدد، شیر اللہ، شاہ غریب، محمد ضمیر، مبارک شاہ، احمد بیگ وغیرہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ عزیزوں نے میرے فرزندِ جگر بند کے انتقالِ پر ملال پر افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔

آپ عزیزان سے پوشیدہ نہیں کہ حقیقی مومنوں سے ایسے امتحانات لئے جاتے ہیں، تا کہ ظاہر ہو جائے کہ مال و اولاد پیاری ہے یا کہ خدا کی خوشنودی عزیز ہے۔

یہ مجھ سے نہ پوچھا جائے کہ ایثار علی مجھے کس قدر عزیز تھا، مجھے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا چاہئے کہ میرے خزانوں میں سے ایک گرانقدر خزانہ خدا کی راہ میں صرف ہوا، جبکہ اولاد سے بڑھ کر کوئی چیز قیمتی نہیں۔

فقط

آپ کا دعاگو

نصیر ہونزائی

۲۵ دسمبر ۱۹۷۲ء

۶۱

محترم کامڑیا ایوب صاحب مسگر

یا علی مدد! آپ نے جن پیارے الفاظ میں ہمیں تعزیت نامہ لکھا ہے اور جس ہمدردی سے اظہارِ افسوس کیا ہے، ہم اس کے شکرگزار ہیں، دعا ہے کہ پروردگارِ عالم آپ کو، آپ کے عزیزوں کو اور تمام جماعت کو دونوں جہان کی کامیابی عنایت فرمائے! آمین!!

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سانحہ ہمارے لئے بہت بڑا ہے، کیونکہ ایثار علی ہمارے جگر کا ٹکڑا تھا اور دل کا پیوند، لیکن اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ہمیں مولا کی خوشنودی اس سے زیادہ عزیز اور عظیم ہونی چاہئے۔

ایک دین شناس شخص کی حیثیت سے مجھے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا چاہئے، کہ اس نے امتحان کے لئے مجھے انتخاب فرمایا اور قربانی کے لئے میرے پیارے نوجوان بیٹے کو۔

فقط

آپ کا مخلص

نصیر ہونزائی

۲۵ دسمبر ۱۹۷۲ء

۶۲

جناب غلام محمد خان صاحب نمائندۂ جماعتِ مسگر

یا علی مدد! میرے اس غم و الم کے موقع پر آپ نے مسگر کی نیک نام جماعت کی طرف سے جس شانِ اخلاص و محبت اور ہمدردی سے خط لکھا ہے اور جس شفقت و الفت سے میری تسلی و تشفی کی گئی ہے، میں اس کے لئے شکر گزار ہوں۔

برادرِ محترم! جیسا کہ آپ پر یہ حقیقت روشن ہے، کہ معشوقِ حقیقی اپنے عاشقوں سے ایک محبوب ترین چیز کی قربانی طلب کرتا ہے، چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام سے اپنے عزیز اسماعیل علیہ السلام کی قربانی اسی اصول کے مطابق مانگی گئی تھی، پس مجھے شکرگزار رہنا چاہئے، کہ مجھ سے بھی اپنی حیثیت کے مطابق ایک قربانی طلب کی گئی۔

دعا ہے کہ خداوندِ عالم تمام جماعت کو دین و دنیا کی کامیابی اور سرخروئی عطا فرمائے! آمین یا رب العالمین!!

فقط

آپ کا بھائی

نصیر ہونزائی

۲۵ دسمبر ۱۹۷۲ء

۶۳

جناب صدر صاحب لوکل کونسل گلمت۔ ہونزا

یا علی مدد! میں آپ کا اور آپ کی کونسل کے جملہ اراکین کا نیز آپ کی متعلقہ جماعتوں کا شکرگزار ہوں، کہ آپ نے ان تمام کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے میرے دردِ فراق میں مجھ سے ہمدردی کا اظہار فرمایا ہے۔

اے میرے دیرینہ دوست! میرا دل تو فطری طور پر اپنے عزیز فرزند کی جدائی کے خنجر سے پارہ پارہ ہو چکا ہے، اور اگر میں اپنی اندرونی کیفیت بیان کروں، تو دنیا کا سب سے بڑا سنگ دل انسان بھی رونے پر مجبور ہو جائے گا، لیکن آپ یقین کیجئے کہ میں نے اس سانحہ سے بہت پہلے اپنے خداوند سے عہد کر لیا ہے کہ میں دنیا کی کسی بھی مصیبت پر ہرگز آنسو نہ بہاؤں گا، پس الحمدللہ میں اپنے عہد پر قائم ہوں، یہ مہربانی اس ذاتِ اقدس کی ہے، جس کے قبضۂ قدرت میں سب کچھ ہے، ہاں اس میں شک نہیں کہ میں جب بھی موقع ہو خدا کے حضور میں درویشانہ انداز میں گریہ و زاری کرتا رہتا ہوں، یہ میری روحانی آبادی کے لئے بارانِ بہار کا حکم رکھتی ہے۔

فقط

آپ کا مخلص

نصیر ہونزائی

۲۶ دسمبر ۱۹۷۲ء

۶۴

میرے عزیز ماسٹر صاحب علی پناہ گلمت ہونزا

یا علی مدد! آپ نے جو مجھے تسلی و تسکین کے لئے خط لکھا ہے۔ میں اس کا ممنون و شکرگزار ہوں، پروردگارِ عالم آپ کو دینی اور دنیاوی طور پر کامیابی عطا فرمائے!

امید ہے کہ آپ میری باتوں پر اعتماد کریں گے، کہ میں ایک درویش آدمی ہوں، اور سچے درویش کو اللہ تعالیٰ ہر قسم کی مصیبتوں کا متحمل بنا دیتا ہے، چنانچہ میں اپنے جوان اور خوبصورت بیٹے کی ناگاہ موت کے سنگین بوجھ کو صبر و شکر کے ساتھ اٹھا رہا ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میرے متعلق قوم و جماعت کی نیک دعا سن لی ہے۔

آپ اپنے قبلہ اورخاندان کے ہر فرد کو میری دعا اور تسلیم پہنچا دیں اور محترم غلام الدین صاحب کو بھی اسی طرح سے۔

خداوندِ تبارک و تعالیٰ جملہ جماعت کو دین و دنیا کی کامیابی اور سربلندی عطا فرمائے! کہ اس نے ہر موقع پر اس درویش سے تعاون کیا۔

آپ کا دعا گو

نصیر ہونزائی

۲۶ دسمبر ۱۹۷۲ء

۶۵

برادرِ محترم دولت شاہ صاحب بر بر حیدرآباد

یا علی مدد! آپ نے جس دلسوزی اور ہمدردی سے مجھے تعزیتی خط لکھا ہے اور جن ناصحانہ الفاظ میں خطاب کیا ہے، میں اس کے لئے بے حد ممنون ہوں، ہمشیرہ صاحبہ کو ہمارے متعلق یقین دلانا کہ ہم صابر و شاکر ہیں۔

واضح رہے کہ معشوقِ حقیقی نے میری خوشیوں کے باغ سے ایک ایسے خوبصورت اور خوشبودار پھول کو چن لیا، جو نہ تو غنچہ تھا اور نہ مرجھایا ہوا، بلکہ پوری طرح سے کھل گیا تھا، پھر کیا میں اپنے معشوق کے اس انتخاب پر کوئی اعتراض کر سکتا ہوں؟ نہیں نہیں ہرگز نہیں۔

اے پروردگار! میرے اس روحانی پھول کو جنت الفردوس کے پھولوں کے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تر و تازہ رکھنا! اور ہمیں فردائے قیامت اس کے رنگ و بو سے مستفیض ہونے کی سعادت بخشنا! اے خداوندِ عالم! جملہ جماعت کی نیک مرادیں پوری کر دے! آمین یا رب العالمین!

فقط

آپ کا بھائی

نصیر ہونزائی

۲۶ دسمبر ۱۹۷۲ء

۶۶

محترم کامڑیا دولت علی صاحب، بلتت ہونزا

یا علی مدد! آپ کا نوشتہ جو میرے زخم خوردہ دل کی تسکین کے لئے تھا، موصول ہوا۔ میں صمیمیتِ قلب سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، خدائے حکیم آپ کو نیک مقاصد میں کامیابی عطا فرمائے!

آپ نے مشہور انبیاء علیہم السلام کے حالاتِ زندگی کا خوب مطالعہ کیا ہے، جبکہ ان حضرات میں سے ہر ایک کی زندگی ہمارے لئے ہدایت نامۂ عمل کی حیثیت سے ہے، پس پیغمبروں کی مجموعی زندگی اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ انسان کی دنیاوی اور جسمانی زندگی مصائب و آلام سے کبھی خالی نہیں ہو سکتی ہے، لہٰذا ہمیں اس نقصان پر نالان نہ ہونا چاہئے، بلکہ صبر اور شکرجیسے اوصاف کو اپنانا چاہئے۔

میں پوری قوم اور جماعت کا شکرگزار ہوں، کہ میرے مرحوم بیٹے کے لئے جگہ جگہ دعائیں مانگی گئیں۔

آپ کا بھائی

نصیر ہونزائی

۲۶ دسمبر ۱۹۷۲ء

۶۷

عزیزم ولایت علی (برادرزادہ) کراچی

یا علی مدد! عزیز کا تعزیتی خط موصول ہوا، اظہارِ ہمدردی کا بہت شکریہ! جاننا چاہئے کہ درجۂ اول کی بلائیں انبیاء و ائمہ علیہم السلام پر آتی ہیں، اس کے بعد بزرگانِ دین اور حقیقی مومنین پر، الحمدللہ کہ اگر خدا کو منظور ہوا تو ہم بھی آج ان مومنین میں سے ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ امتحان لیا کرتا ہے، پھر صبر و شکر کے بعد ان کو نوازتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہت سی نعمتیں عطا فرمائی ہیں، آج اگر ان میں سے ایک نعمت امتحاناً ہم سے واپس لی گئی، تو پھر بھی ہمارے پاس بہت سی نعمتیں موجود ہیں، پس ہمیں شکر کرنا چاہئے تا کہ ان باقی ماندہ نعمتوں میں برکت پیدا ہو۔

فقط

آپ کا چچا

نصیر ہونزائی

۲۶ دسمبر ۱۹۷۲ء

۶۸

جنابِ عزت مآب وزیر امیر علی صاحب کریم ابراہیم کراچی

یا علی مدد! میرے جگر پارہ فرزند کے انتقالِ پرملال پر آپ نے جس شانِ شفقت و محبت اور جن معنی خیز الفاظ میں اظہارِ ہمدردی فرمایا ہے، میں اس کے لئے بہت ہی شکرگزار ہوں۔

جنابِ عالی! میں اپنے ان احساسات کی بابت جو اس وقت مجھ میں پائے جا رہے ہیں، اظہارِ خیال کرنا چاہتا ہوں کہ انسان تو انتہائی درجے کی ایک حساس مخلوق ہے، حیوان بھی اپنی اولاد کی جدائی سے رنج و غم محسوس کرتے ہیں، لہٰذا فطرتاً یہ لازمی تھا کہ اپنے عزیز جوان بیٹے کی اچانک موت سے ہم پر رنج و غم کا ایک عظیم پہاڑ ٹوٹ پڑے، لیکن اس کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنا کرشمہ دکھاتی رہتی ہے، چنانچہ ہم نے اس کمرشکستگی کے عالم میں تائیدِ غیبی کے لئے دعا کی، پس اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہماری اور جملہ مومنین کی دعا قبول ہوئی، کہ ہم بھی صحیح معنوں میں صبر و شکر کرنے لگے۔

امید ہے کہ ہم اپنی زندگی کے آخری ایام تک حسبِ معمول اپنے دینی فرائض کی انجام دہی کرتے رہیں گے، ہمارے لئے مزید دعا کیجئے۔

فقط

آپ کا تابعدار

نصیر ہونزائی

۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء

۶۹

گلگت

۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ء

برادر دوست و محترم آقای دارا بیگ صاحب روزگارتان خوش باد!

نمی توانم احوالِ خود را شرح دہم و مآل این صدمۂ جانکاہ را بیان کنم۔ آرے از وصالِ ناگہانیٔ لختِ جگرم جگرم لخت لخت شدہ و جنگ فلک نا ہنجار کہ ہموارہ پے جورِ بے سبب میگردد برجانِ منِ ناتوان سخت تر از سخت۔ مگر با اینکہ بر استخوان ہائے پیرم بارے بس گران افتادہ مطمننم، بدو وجہ، اول این کہ این دنیا را بقائے نیست ہر کہ درین خانۂ دودر آمدہ باید کہ روزے ازین جا برود و بقولِ سعدی:

من این جا دیر ماندم خور گشتم

عزیز از ماندنِ دانم شود خوار

ہر کہ دیر تر زید خوارتر گردد بقولِ خدائے تعالیٰ: و من نعمرہ ننکسہ فی الخلق۔ از روی عقل ہر کہ ازین جا زود تر برود از خواریٔ بسیار ایمن میگردد۔ من سپاس میگونم خداوندِ عالمین  را کہ عطیۂ کہ بصورتِ پسر بر من ارزانی فرمودہ بود۔ پیشتر ازین کہ ناشکریٔ درین خصوص از من سرزد گردد دادۂ خود را بخود باز گرفت و ہمچنین دو نعمت مزید برین بندۂ سر افگندۂ خود عنایت نمود کہ رہاند مرا از

۷۰

ناشکریٔ عطا و فرزندِ مرا از ازدیادِ خطا کہ بصورتِ زندگانی درین عالمِ فانی واجبِ انسان است۔

دوم اینکہ سرکار سلطان محمد شاہ روحنا فداہ فرمودہ است ’’خوش نصیب است کسے کہ اندرین عالم دوستانِ غمگسار دارد کہ ایشان وقت تنگی از حال او بے خبر نمی مانند و پیٔ چارۂ آن میکوشند‘‘۔ برادران و دوستان مثل شما برای یکی ہمچو منِ پامالِ غم عطائے الٰہی ہستند۔ من نمی توانم جزائے این غم خواری را بدہم۔ خدائے تان دہاد! و صد گونہ دہاد!! از شما دعائے صبر و استقامت را جویانم و ہمشیرۂ خویش را بیشتر ازین چہ گویم کہ:

درین دنیا کسی بے غم نباشد

اگر باشد بنی آدم نباشد

فقط

برادر غمزدۂ تان

نصیر ہونزائی

۷۱

محترم ایکس حوالدار شاہ زرین صاحب تمغۂ جرات بلتت

یا علی مدد! میں آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے میری اس مصیبت پر بڑی ہمدردی سے اظہارِ افسوس کیا ہے اور صبر و سکون کا مشورہ دیا ہے۔

آپ کا فرمانا بجا ہے، کہ چند سال قبل آپ سے بھی انتہائی سخت امتحان لیا گیا تھا، ایک بار نہیں دو بار، آپ کی دوسری مصیبت پر میں نے ذیل کے اشعار کہے تھے جن کی معنی میں میری طرح کے مصیبت زدہ انسانوں کے لئے کافی نصیحت و عبرت موجود ہے، وہ عنوان اور اشعار یہ ہیں: پیغام از زبانِ حالِ نیت زرین (۱۹۳۶ ۔ ۱۹۶۸) بہ پدرِ گرامی شاہ زرین صاحب تمغۂ جرات:

۱۔ روح را بشناس و تن را در گذار

تا شوی در ہر دو عالم کامگار

۲۔ من کہ روحم جسم را بگذاشتم

تا رسم در روضۂ دار القرار

۳۔ تو مرا فردا بہ بینی اے پدر

اشکِ غم از دیدۂ حسرت مبار

۴۔ نیستم امروز ہم از تو جدا

در خیال و خواب تو اے غمگسار

۵۔ پیش و پس اولادِ تو خدامِ تو

زان توئی در این و آن چون شہریار

۶۔ پس چرا غمگین شوی اے شیر مرد

رحمتِ حق چون بود انجامِ کار

۷۲

۷۔ ای پدر گر خیرِ ما خواہی مدام

در دعائے خیر ما را یاد دار

۸۔ از زبانِ حالتِ نیت زرین

این نصیحت باد دائم یادگار

ترجمہ: ۱۔ روح کو پہچان لے اور جسم کو چھوڑ دے، تا کہ تو دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جائے۔

۲۔ میں نے جو روح ہوں جسم کو چھوڑ دیا، تا کہ میں دارالقرار (جنت) کے باغ میں پہنچ سکوں۔

۳۔ اے میرے باپ! تو مجھے کل (قیامت کے دن) دیکھے گا، غم کے آنسو حسرت کی آنکھ سے نہ بہا۔

۴۔ آج بھی میں تجھسے جدا نہیں ہوں، تیرے خیال اور خواب میں اے غمخوار!

۵۔ تیرے آگے اورپیچھے یعنی دنیا و آخرت میں تیری اولادیں تیرے خدمتگار ہیں، اس لئے تو دونوں جہان میں پادشاہ کی طرح ہے۔

۶۔ اے شیر مرد! تو کیوں غمگین ہے، جبکہ اس کام کا نتیجہ خدا کی رحمت ہے۔

۷۔ اے باپ! اگر تو ہمیشہ ہماری بہتری چاہتا ہے، تو نیک دعا میں ہمیں یاد رکھنا۔

۸۔ نیت زرین کی زبانِ حال سے، یہ نصیحت ہمیشہ کے لئے یاد رہے۔

۷۳

خلاصۂ مطلب یہ ہے، کہ جسم کی کوئی اہمیت نہیں، اصل حقیقت روح ہے، روح ہی بہشت میں پہنچ سکتی ہے، کسی عزیز کی موت پر افسوس و غم کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ قیامت کی ملاقات برحق ہے، اس حیات میں بھی روح ہمارے ساتھ ہے، یہ مومن کی خوش بختی ہے کہ کچھ اولادیں اس کے آگے بھی جائیں، متوفی کے حق میں دعا ضروری ہے۔

فقط

آپ کا روحانی بھائی

نصیر ہونزائی

۳۰ دسمبر ۱۹۷۲ء

۷۴

محترم نائب صوبیدار صاحب نظر صاحب عطا آباد

یا علی مدد! آپ کی جانب سے تعزیت نامہ موصول ہوا، میری اس مصیبت کے متعلق آپ نے اظہارِ افسوس و ہمدردی کے لئے جو مشفقانہ الفاظ استعمال کیے ہیں اور جس محبت و یگانگت سے نیک مشورے اور دعائیں دی ہیں، میں ہمیشہ اس کا احسانمند رہوں گا۔ میں اس وقت اپنے ما فی الضمیر کو واضح کر دینا چاہتا ہوں، کہ انسانی فطرت کے نزدیک دنیا میں اولاد سے بڑھ کر کوئی چیز پیاری نہیں ہو سکتی ہے، خصوصاً ایک جوان، ہوشیار اور خوبصورت بیٹاۛ! لیکن حقیقی مومن کے نزدیک بموجب یہ قول: ’’امرِ مولا از ہمہ اولیٰ‘‘ مولا کا حکم ہر چیز سے برتر اور عزیز تر ہے، الحمد للہ میں خود بھی یہی عقیدہ رکھتا ہوں۔

دعا ہے کہ خداوندِ برتر و توانا ساری قوم اور جماعت کے افراد کو دونوں جہان کی سعادتمندی عطا فرمائے! کہ انہوں نے اس موقع پر میرے مرحوم فرزند کے ثواب کے لئے کچھ دعائیں کی ہیں۔

فقط

آپ کا مخلص

نصیر ہونزائی

۳۰ دسمبر ۱۹۷۲ء

۷۵

مومنینِ بایقینِ جماعتِ خیر آباد (رامنج)

یا علی مدد! آپ حقیقی مومنین نے میرے فرزندِ دلبند کی ناگہانی موت پر جس جذبۂ ہمدردی سے متاسفانہ پیغام بھیجا ہے اور جس خلوصِ ایمانی سے دعا و نصیحت کی ہے، میں اس کا ہمیشہ معترف اور شاکر رہوں گا۔

اے میری عزیز قوم! اس میں کوئی شک نہیں، کہ میرا ایثار علی مجھے بہت ہی عزیز تھا، اتنا عزیز کہ میں بیان نہیں کر سکتا، لیکن خدا و رسول صلعم اور ائمۂ اطہار علیہم السلام کی ان پرحکمت ہدایتوں سے میں کس طرح چشم پوشی کر سکتا ہوں، جو مصائب و آلام میں صابر و شاکر رہنے کے لئے فرمائی گئی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کی یہ مشہور ہدایت: انا للہ و انا الیہ راجعون یقیناً ہم اللہ کے ہیں اور یقیناً ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، یعنی ہم اللہ کی ملکیت ہیں وہ ہمیں جس طرح استعمال کرے اسی میں ہماری بہتری ہے اور اسی سے ہم دنیا اور آخرت میں اللہ کے نزدیک ہو سکتے ہیں۔

فقط

آپ کا دعاگو

نصیر ہونزائی

۳۰ دسمبر ۱۹۷۲ء

۷۶

گلگت

۳۱ دسمبر ۱۹۷۲ء

عزیز بھائی غلام محمد جی!

ہاں! ہونہار جوان سال بیٹا ایک باپ کے لئے جس پر بیک وقت کئی ذمہ داریاں لاگو ہوں نہ صرف عزم و ہمت کی ڈھال ہے آلامِ زمانہ سے مقابل ہونے کے لئے بلکہ ایک ایسی دو دھاری تلوار بھی ہے جو ایک طرف اغیار کی مخاصمانہ نگاہوں کو اپنی چمک سے خیرہ کر دیتی ہے تو دوسری طرف مختلف ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا کر ایک رو بہ پیری باپ کے لئے یادِ خدا کے لئے یکسوئی کے اوقات مہیا ہو جاتے ہیں، جو ایک انسان کے لئے حقیقی نعمت ہیں۔

مگر میرے عزیز! مالک فرماتا ہے: عسی ان تکرھوا شیئا و ھو خیر لکم (۲:۲۱۶)۔ میرے لختِ جگر کی نگہانی موت میری کمرِ ہمت پر ضرب کاری ضرور ہے مگر میں نے عزم کر لیا ہے کہ اس چوٹ کو سہا جائے نہ صرف یہ بلکہ صبر و شکر کے مرہم سے اس چوٹ کا مداوا بھی کیا جائے۔ الرحمٰن الرحیم خدا کو اپنے بندوں کا بھلا ہی مطلوب ہوتا ہے، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا میرا پیارا ایثار میرے آس پاس کہیں موجود ہے اور چپکے چپکے، ہولے ہولے، مجھے ایثار و قربانی کی تلقین کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے، ’’ابو! آپ نے ایک دن کہا تھا کہ سفرِ زندگی میں مرد کی نظر ہمالیہ کی چوٹی پر ہونی چاہئے۔ کہا تھا نا ابو! مجھے وہ بات ہمیشہ یاد رہی۔ دیکھیے نا! امی کی نرم اور گرم گود سے میں نے جس سفر کا آغاز کیا تھا، اسے یخ بستہ برف پوش پہاڑوں کے پتھریلے آغوش میں انجام کو پہنچایا۔ ابو! سچ ابو! اس دنیا میں میری آخری نظر نانگا پربت کی سب سے اونچی چوٹی پر تھی۔ ہاں! مجھے یاد ہے آپ نے پھر ایک دن کہا تھا انسان اس دنیا میں

۷۷

 سیکھنے اور سکھانے کے لئے آیا ہے۔ ابو! میری جانکاہ جدائی نے آپ کو جو سبق دیا ہے کیا اسے آپ صبر و استقلال کا مظاہرہ کرکے دوسروں کو جو اس وقت آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں نہیں سکھائیں گے؟ میرے اچھے ابو!‘‘ احساسات کے سمندر میں طوفان اٹھتا ہے جس میں ڈولتی ہوئی میرے صبر و ہمت کی کشتی ڈوبتے ابھرتے، ڈوبتے ابھرتے، دور، بہت دور جذبات کے افق کے اس پار نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے، اور سکوت کے اس عالم میں جبکہ دل کی دھڑکن تک سنائی دیتی ہے میری سوچوں کی رسی کا آخری سرا بھی گم ہو جاتا ہے۔ اور پھر دل کے ساز پر وہ لاہوتی دھن چھڑ جاتی ہے۔ جس سے روح جھوم اٹھتی ہے: و لنبلوکم بشی من الخوف و الجوع و نقص من الاموال و الانفس و الثمرات و بشر الصابرین الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوا انا للہ و انا الیہ راجعون (۲:۱۵۵۔۱۵۶)۔

جذبات کی رو میں مجھے یاد ہی نہیں رہا آپ کا تعزیتی تار ملا تھا۔ تار نہیں تھا، ہمدردیوں اور اظہارِ برادری کا ایک دیوان تھا جس سے میری بہت ہمت بندھی۔ مولا پاک آپ کو اجر بخشے! آمین!

فقط

آپ کا بھائی

نصیر ہونزائی

۷۸

گلگت

۳۱ دسمبر ۱۹۷۲ء

ضیاء

پیارے!

غالب نے کہا ہے:

کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیرِ نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

موت سے مفر نہیں مرے بغیر گذر نہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ زندگی کا انجام موت ہی ہے دل اس حقیقت کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ مرنے والا چین سے مر جاتا ہے مگر اپنے پیچھے غم و آلام کے وہ بگولے چھوڑ جاتا ہے جو آن کی آن برسوں کی بڑی محنت اور شوق و آرزو سے سجائی ہوئی زندگی کو تہ و بالا کر چھوڑتے ہیں۔ تمہارے ماموں زاد بھائی کی موت نے میری بوڑھی کمر پر جو لات ماری اس کا درد تم سے زیادہ کون محسوس کرے گا۔ تم میری ماں جائی کے نورِ نظر ہو نا آخر:

پیر میں جب چبھ جائے کانٹا آنکھ بچاری روتی ہے

پھانس سا جب لگ جائے دل میں آنکھ بچاری روتی ہے

سارے بدن کا درد اسی کو رونے پر مجبور کرے

ہر تکلیف میں ہر مشکل میں ۔۔۔ آنکھ بچاری روتی ہے

مگر میرے عزیز! جب انجامِ کار فنا ہے تو اس کے لئے آہ و بکا کیوں؟ غم پالنے

۷۹

 سے بڑھتا ہے اور پھر کوئی فائدہ بھی تو نہیں دیتا۔ کیوں نہ ایسی فضول چیز کو صحرائے نسیان میں دل بدر کر دیا جائے۔ سندِ فضیلت امتحان کا مرحلہ طے کر کے ہی ملتی ہے، اور و بشر الصابرین کی سند لینے کے لئے تو لازماً بڑا کڑا امتحان دینا ہو گا۔ دعا کرو مولا ثبات بخشے! ہاں! تمہارا تار ملا میری ہمت بندھی۔ سچ جانو تم مجھے اپنے مرحوم بھائی سے کم عزیز نہیں ہو اور مجھے تمہارا اتنا ہی مان ہے۔

فقط

تمہارا اپنا ماموں

۸۰

مقامی نامدار کونسل اور اسماعیلی نیک نام جماعت سکردو

یا علی مدد! آپ کی طرف سے ہمیں تعزیتی ٹیلیگرام موصول ہوا، ہم آپ کی اس ہمدردی اور تعزیت کے بے حد ممنون و شکرگزار ہیں۔

فی الوقت مناسب ہے کہ میں دین کی کوئی حقیقت بیان کروں، اور وہ یہ ہے کہ مصیبتیں یا کہ اللہ کے امتحانات پانچ ہیں: ہر قسم کا خوف، ہر قسم کی بھوک، ہر قسم کا مالی نقصان، ہر قسم کا جانی نقصان اور ہر قسم کے پھلوں کا نقصان، ظاہر ہے کہ ان سب میں سے جانی نقصان بڑا ہے، چنانچہ اس کے صبر و شکر کا ثواب و صلہ بھی انتہائی عظیم ہے، پھر اموات میں بھی فرق ہے، چنانچہ سب سے بڑی موت جوان کی موت ہے، پس آپ دعا کریں کہ میرے اس عظیم امتحان میں مجھے کامیابی حاصل ہو! آمین!

آپ کا

علمی خادم

نصیر ہونزائی

یکم جنوری ۱۹۷۳ء

۸۱

میرے عزیز ضعیف اللہ بیگ صاحب اورسیئر ای۔ ایم سکردو

یا علی مدد! آپ کا ٹیلیگرام اور خط موصول ہوا، آپ کی یہ انتہائی ہمدردی یقینی ہے کیونکہ ایثار علی اور اس کے مصیبت زدہ والدین آپ ہی کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ کو پیارے ایثار علی کی جوان سالی کی ناگاہ موت سے بڑا صدمہ ہوا ہے، اور میرے رنج و غم کے متعلق آپ کو فکر لاحق ہوئی ہے، لیکن اگر بہ نگاہِ حقیقت دیکھا جائے تو ماننا ہی پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ ہمارا روحانی اور حقیقی وکیل ہے، ہمارے لئے وہ جو کچھ کرے اسی میں ہماری سعادتمندی پوشیدہ ہے، وہ جو کچھ کرتا ہے اس میں ہماری اخروی فلاح اور ابدی نجات پیشِ نظر رہتی ہے۔ دعا ہے کہ ہر حقیقی مومن کو صبر و شکر کی حکمت سمجھنے کی توفیق نصیب ہو!

فقط

آپ کا دعاگو

نصیر ہونزائی

یکم جنوری ۱۹۷۳ء

۸۲

محترم غلام محمد خان صاحب اور محترم محمد رضا بیگ صاحب مسگر

یا علی مدد! آپ کی اور آپ کے خاندان کی طرف سے ہمیں تعزیتی تار موصول ہوا، جس کے لئے ہم آپ کے شکرگزار ہیں، خداوندِ تبارک و تعالیٰ آپ کو دونوں جہان کی کامیابی اور سرفرازی عطا فرمائے! آمین یا رب العالمین!!

آپ کو اس بات کا یقین ہے، کہ یہ فقیر امام علیہ السلام کے عاشقوں میں سے ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اور بسا اوقات جان قربان اور روح فدا کے نعرے لگاتا رہا ہے، اب جبکہ ایک جانی قربانی کا امتحان لیا گیا ہے، تو پھر گھبرانا عبث ہے، اس میں تو صبر اور شکر کی ضرورت ہے۔

فقط

آپ کا قومی خادم

نصیر ہونزائی

یکم جنوری ۱۹۷۳ء

۸۳

برادرِ محترم مجیب اللہ بیگ صاحب، کراچی

یا علی مدد! آپ کے حوصلہ بخش تعزیت نامہ کا بہت بہت شکریہ! ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ اور میری عزیز بھانجی اس رنج و غم میں ہمارے ساتھ برابر کے شریک ہیں، لیکن ہمیں صابر و شاکر رہنا چاہئے، تا کہ حق تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو۔

دعائم الاسلام جزء اول صفحہ ۲۲۶ پر شہادت کی قسموں کا تذکرہ کیا گیا ہے، جس میں ’’صاحب الھدم‘‘ کے عنوان سے اس شخص کو بھی شہید قرار دیا گیا ہے، جو کسی مکان، دیوار وغیرہ کے گرنے سے مر جائے، نیز یہی مطلب ’’لغات الحدیث‘‘ جلدِ ششم کتاب الھاء میں بھی مذکور ہے، پس خدا کا شکر ہے، کہ میرے عزیز! ایثار علی کو بھی شہادت کے درجات میں سے ایک درجہ ملا ہے۔

فقط

آپ کا بھائی

نصیر ہونزائی

۲ جنوری ۱۹۷۳ء

۸۴

جناب پریذیڈنٹ صاحب اسماعیلیہ ایسوسی ایشن کراچی

یا علی مدد! میرے فرزندِ دلبند کے انتقالِ پرملال پر آپ نے اپنی جمعیت کی طرف سے اور اپنی جانب سے ٹیلیگرام کے بعد جو تعزیت نامہ بھیجا ہے اور جس پرحکمت انداز سے مجھے حوصلہ بخش مشورہ دیا گیا ہے، میں اس کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شکرگزار اور احسان مند رہوں گا۔

آپ کی جمعیت کا ہر فرد اورآپ خود اولاد کی بے پناہ محبت کا تجربہ رکھتے ہیں، کہ اولاد اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے، لیکن اس تلخ حقیقت کے لئے کیا کیا جائے، کہ حقیقی مومنین سے بڑی بڑی قربانیوں کے امتحانات لیے جاتے ہیں، ہاں! بس یہی کہ صبر کیا جائے، اور صبر ہی سے یہ تلخی بھی شیرینی کی صورت میں بدل سکتی ہے:

’’صبر تلخ است و لیکن برِ شیرین دارد‘‘۔

فقط

آپ کا تابعدار

نصیر ہونزائی

۳ جنوری ۱۹۷۳ء

۸۵

میرے بہت ہی عزیز برکت علی۔ این۔ بھامانی، کراچی

یا علی مدد! آپ نے اپنی طرف سے نیز اپنے احباب اور ماں جی کے گروپ کی طرف سے جو تعزیتی پیغام بھیجا ہے اور جو دعا کی گئی ہے میں اس کا بے حد شکرگزار اور ممنون ہوں، مولائے حکیم آپ سب کو دونوں جہان کی کامیابی عطا فرمائے! ایک حقیقی اسماعیلی ہونے کی وجہ سے مجھے اپنے عزیز بیٹے کی ناگہان موت پر آنسو نہ بہانا چاہئے، بلکہ مجھے یہ یقین رکھنا چاہئے، کہ بحکمِ کلامِ مولانا علیؑ: کل مومن شہید (ہر مومن شہید کا درجہ رکھتا ہے) میرا عزیز ایثار علی آج (ان شاء اللہ) شہید ہے، چنانچہ مولا نے فرمایا ہے: ای میتۃ مات بھا المومن فھو شہید (مومن جس موت سے بھی مرے وہ شہید ہے) اور قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: و الذین امنوا باللہ و رسلہ اولٰئک ھم الصدیقون و الشھداء عند ربھم (۵۷:۱۹) اور جو لوگ خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے یہی لوگ اپنے پروردگار کے نزدیک صدیقوں اور شہیدوں کے درجے میں ہیں۔

فقط

آپ کا استاد

نصیر ہونزائی

۳ جنوری ۱۹۷۳ء

۸۶

میرے بہت ہی عزیز علی مدد سارجنٹ، کراچی

یا علی مدد! میرے فرزندِ ارجمند کے بارے میں آپ نے پریشانی سے تار دیا تھا، لیکن ہم کس زبان سے جواب دے سکتے تھے، کہ ایثار علی خیریت سے ہے، افسوس کہ یہ پیارا جملہ ۸ دسمبر ۱۹۷۲ء کے بعد ہم پھر کبھی استعمال نہ کر سکیں گے۔

اے میرے عزیز! مذکورہ باتیں جسمانیت سے تعلق رکھتی ہیں، مگر روحانی حقائق اس کے برعکس ہیں، جن کی طرف سابقہ ایک خط میں اشارہ کیا گیا ہے، امید ہے کہ میرے جملہ عزیز اب ایثار علی کی جسمانی حیثیت کے تصور کو بتدریج بھول جائیں گے، اور اس کو ایک روحانی مخلوق سمجھیں گے، پس بحکمِ حدیث: المومن حی فی الدارین (مومن دونوں گھروں میں، یعنی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی زندہ ہے) میرا ایثار روحانی کیفیت میں زندہ ہے، کاش میرے عزیزوں میں سے ہر ایک کو روحانیت کا وہ مقام حاصل ہوتا، جس میں کہ ارواح کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، آپ اور میری بیٹی فدا بی بی کو اس حقیقت کا یقینِ کامل ہونا چاہئے

فقط

آپ کا دعاگو

نصیر ہونزائی

۳ جنوری ۱۹۷۳ء

۸۷

جنابِ محترم و معظم فقیر محمد صاحب کراچی

یا علی مدد! اے میرے محسنِ عظیم! میں آپ کی بے مثال ہمدردیوں اور شفقتوں کی صحیح ترجمانی کے لئے ایسے بہترین الفاظ کا انتخاب نہیں کر سکتا، جیسے کہ چاہئیں، اور نہ میں آپ کے احسانات کا کوئی حساب و شمار کر سکتا ہوں، اے رب العزت! تو ہی میرے دل کی صداقت کا گواہ ہے۔

اے علم و فضل کے آسمان کے درخشندہ و تابان ستارے! یہ بات بہت پہلے ہی سے آپ کو معلوم ہے، کہ ایثار علی مجھے کس قدر عزیز تھا، لیکن میں نے شاید آپ سے اس بات کا تذکرہ ہی نہیں کیا تھا، کہ میرا نورِ نظر ایک خاص اسماعیلی عقیدے کے مطابق مہمانی نامزد کیا گیا تھا، یہ عظیم مہمانی ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۲ء کے اخیر تک میرے پاس امانت تھی، مگر اب بروزِ جمعہ ۸ دسمبر کو یہ امانت یکایک مجھ سے واپس لی گئی ہے، آپ خود جانتے ہیں، کہ ایثار علی کی معنوی نسبت بھی ایثار و قربانی سے لازمی تھی۔

اے پروردگارِ عالم! تو ہی میرے دل کی کیفیت کا گواہ ہے کہ میں اس عظیم ابتلا و امتحان میں صابر و شاکر ہوں، پس اے خداوندِ تبارک و تعالیٰ! تو ہی دونوں جہان میں ہمارا مددگار اور کارساز ہے۔

اخیر میں ایک بار پھر آپ کے احسانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اپنی طرف سے اور نامدار اسماعیلیہ ایسوسی ایشن کے بہت سے حضرات کی طرف سے مجھے اور میرے خاندان کے ہر فرد کو اس سانحہ کے موقع پر ہر قسم کی ہمت دہانی فرمائی ہے، دعا ہے کہ خداوندِ کریم آپ کو اور ان حضرات کو اپنے جملہ

۸۸

عزیزوں کے ساتھ دنیا و عقبیٰ کی کامیابی سے نوازے! آمین!!

فقط

آپ کا مخلص

نصیر ہونزائی

۴ جنوری ۱۹۷۳ء

۸۹

عزیز ترینِ من جوہر علی حیدرآباد ہونزا

یا علی مدد! آپ کے پیغامِ تعزیت کا بہت ہی شکریہ! اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو دین و دنیا کی سعادتوں اور برکتوں سے نوازے! آمین!!

اے میرے عزیز! میری مصیبت سے شاہ زمان صاحب کی مصیبت بہت بڑی ہے کہ اس کے خاندان کے چھ افراد اس بدقسمت جہاز میں سوار تھے، جن کی لاشیں اگر مل جاتیں اور سپردِ خاک ہو جاتیں، تو شاہ زمان اور ان کے خاندان کے افراد کس قدر شکرگذار رہتے، پس اگر میں اللہ تعالیٰ کا شکر نہ کروں اور ناشکری کروں، تو کافر بن جاؤں گا، اور کافر بن جانا کہیں دور نہیں بلکہ شکر نہ  کرنا ہی کفر ہے۔

فقط

آپ کا دعاگو

نصیر ہونزائی

۴ جنوری ۱۹۷۳ء

۹۰

برادرِ محترم پلشیر بیگ صاحب حیدرآباد

یا علی مدد! آپ کے تعزیتی پیغام اور گہری ہمدردی کا بہت ہی شکرگزار ہوں، فقیرانہ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو سعادتِ دارین عطا فرمائے! اور آپ کے عزیزوں کو بھی۔

یہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ میری زندگی کی کہانی انتہائی عجیب و غریب ہے، جسمانی اور روحانی قسم کی آزمائشوں کا نتیجہ! مسافرت و غربت کا قصہ! درویشی و فقیری کا خلاصہ! محنت و مشقت کا مجموعہ! گریہ و زاری کا سرچشمہ! اور صبر و شکر کا ایک ادنیٰ سا نمونہ!

الحمد للہ میری پرمشقت زندگی کی اس مرحلے میں مجھ سے جو عظیم امتحان لیا گیا ہے اس میں بھی صبر و شکر کر رہا ہوں۔

فقط

آپ کا قومی خادم

نصیر ہونزائی

۴ جنوری ۱۹۷۳ء

۹۱

محترم سیکریٹری سلطان پناہ صاحب اشکومن

یا علی مدد! آپ کا تعزیت نامہ موصول ہوا، آپ نے میرے فرزندِ جگر بند کے انتقالِ پر ملال پر جس اخوت و یگانگت سے اور جن محبت انگیز الفاظ میں افسوس و ہمدردی کا اظہار کیا ہے، میں اس کا قلبی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں، خداوندِ کریم آپ کو اپنے عزیزوں کے ساتھ دین و دنیا کی سلامتی و عافیت سے نوازے!! آمین یا رب العالمین! اے مہربان! قانونِ قدرت کی بالادستی اور موت کے بہانے کا حال ذرا سنیے، کہ شروع شروع میں ہمارے گھر کا معمول یہ رہا تھا، کہ جب کبھی ہمارا عزیز ایثار علی کسی سفر پر جانے لگتا، تو اسلامی عقیدہ اور اس کی والدہ کی خواہش کے مطابق میں اپنے فرزندِ دلبند کی سلامتی کے لئے خدا کے حضور میں گڑگڑاتے ہوئے دعا کرتا تھا، اور سب سے باہر کے دروازے کے سامنے تک ایثار علی کے آگے آگے قرآن نکالتا تھا، تا کہ اللہ تعالیٰ اس دعا کی برکت سے اور اپنی عزیز کتاب کی حرمت سے ہمارے بیٹے کو بخیریت و عافیت گھر واپس پہنچا دے، نیز ایثار علی کی ماں درِ بلا کی نیت سے کسی چیز کا صدقہ نکالتی تھی، مگر افسوس کہ بعد میں یہ معمول یکسر بدل گیا، جس کی وجہ یہ ہوئی کہ چند سالوں سے اس طرف عزیزم ایثار (احسان نصیر) ہر کام کو میری مصلحت کے بغیر اپنی مرضی سے کرنے کا عادی ہو گیا، اور سفر بھی اکثر مجھ سے چھپے چھپائے کرنے لگا، چنانچہ مرحوم کے اس آخری سفر کے متعلق بھی مجھے کوئی علم نہیں تھا، جس سے کہ بموجبِ قانونِ اجل میرا عزیز پھر کبھی واپس گھر نہیں آ سکتا تھا۔

ان تمام افسوسناک صدمات کے باوجود یہ درویش بتائیدِ الٰہی صبر و شکر کے راستے پر ثابت قدمی سے چل رہا ہے، آپ دعا کیجئے کہ آئندہ بھی اس کے قدم میں کوئی

۹۲

 لغزش نہ آئے!

فقط آپ کا خیر اندیش

نصیر ہونزائی

۷ جنوری ۱۹۷۳ء

۹۳

محترم محمد شفیع صاحب گرین جنرل سٹور چیلاس

یا علی مدد! آپ کے تعزیتی پیغام کا ممنون و احسان مند ہوں، جس میں آپ نے اپنی طرف سے اور اپنے خاندان کی طرف سے میرے جگر پارہ ایثار علی کی ناگہانی موت پر رنج و الم اور افسوس و ہمدردی کا اظہار کیا تھا، عاجزانہ دعا ہے کہ قادرِ مطلق آپ کو دونوں جہان میں سلامت اور خوش و خرم رکھے! آمین یا رب العالمین!! اے میرے مشفق و مہربان! میرے دل اور جگر کے زخموں پر صبر و شکر کی مرہم پٹی تو ہو رہی ہے، لیکن میری بیوی کے یہ زخم کچھ لاعلاج نظر آ رہے ہیں، ہر چند کہ میں اسے طرح طرح کی نصیحتوں سے علاج کے لئے کوشش کر رہا ہوں، تاہم مجھے مایوس بھی نہ ہونا چاہئے، آخرکار پروردگارِ عالم اسے بھی توفیق و ہمت عطا فرمائے گا۔

میں تو یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاؤں، کہ اس نے مجھے نیستی سے نکال کر ہستی میں لایا، پھر اس نے مجھے یکا بعد دیگرے طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا، یہاں تک کہ اس کی نعمتوں کا حساب و شمار نہیں ہو سکتا، اب اگر امتحاناً ایک نعمت ہم سے واپس لی گئی ہے تو ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ اس کے متعلق گلہ کریں۔

اے پروردگارِ عالم! ہمیں اور جملہ مومنین کو ہر آزمائش پر صابر و شاکر رہنے کی توفیق و ہمت عنایت فرما! آمین یا رب العالمین!!

فقط

آپ کا خیر اندیش

نصیر ہونزائی

۸ جنوری ۱۹۷۳ء

۹۴

محترم ماسٹر غلام حیدر صاحب مسگر

یا علی مدد! آپ کا رقیمہ جو میرے دردِ دل پر دل سوزی، ہمدردی، افسوس اور دعائے خیر کے معنوں سے مملو تھا، موصول ہوا، ان شاء اللہ تعالیٰ میرا دل آپ کی اس ہمدردی اور جذبۂ یگانگت کو ہرگز فراموش نہ کرے گا۔

اے میرے عزیز! اس مصیبت کے وقت ہمارے باطن میں دو طرح کے احساسات پائے جاتے ہیں، ایک قسم کے احساسات وہ ہیں، جن کی اساس و بنیاد خدا و رسول اور ائمۂ برحق علیہم السلام کے مبارک و مقدس ارشادات پر ہے، دوسری قسم کے احساسات وہ ہیں، جن کا تعلق طبعی میلان، دنیاوی رسم و رواج اور ظاہری ماحول پر ہے، لیکن الحمد للہ ہمارے دینی احساسات ہر وقت دنیاوی احساسات پر غالب و فاتح رہتے ہیں، یہ سعادت اس ذاتِ بابرکات کی تائید و نصرت کے بغیر ممکن نہیں جس کے قبضۂ قدرت میں سب کچھ ہے۔ میں اپنے تمام خاندان کی طرف سے ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں اور فقیرانہ دعا ہے کہ خداوندِ تبارک و تعالیٰ آپ کو اور جملہ جماعت کو دین و دنیا کی برکتوں اور سعادتوں سے نوازے! آمین یا رب العالمین!!

فقط

آپ کا استاد

نصیر ہونزائی

۹ جنوری ۱۹۷۳ء

۹۵

جناب کیپٹن میر باز صاحب حیدرآباد

یا علی مدد! آپ نے جن درد انگیز الفاظ میں تعزیت نامہ لکھا ہے، اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے، بے شک ایثار علی آپ کو بے حد عزیز تھا، لہٰذا آپ کے نزدیک ایسے دردمندانہ جذبات کا اظہار صحیح ہے۔

مگر میں جیسا کہ آپ کو یقین ہے ایک ایسا درویش آدمی ہوں، جس کے ہاتھ پاؤں رضائے مولا کی رسی سے بندھے ہوئے ہیں، اس لئے اس فیصلۂ الٰہی کے خلاف کوئی فکری حرکت تک نہیں کر سکتا ہوں، مجھے اب بس طوعاً یا کرھاً صبر اور شکر کرنا چاہئے۔

جہاں تک میرے ایثار کی غریب ماں کا سوال ہے، اسے تو میں نصیحت کر کر کے تھک جاتا ہوں، مگر وہ نالہ و فغان سے نہیں تھکتی، آپ دعا کریں کہ خدا اسے ہلاکت سے بچائے، کیونکہ اس کے نظامِ قلب میں خرابی پیدا ہو رہی ہے۔

فقط

آپ کا اپنا

نصیر ہونزائی

۲۵ جنوری ۱۹۷۳ء

۹۶

جناب میجر شاہ مکین صاحب نومل

یا علی مدد! آپ نے جو رقیمہ اظہارِ افسوس اور میری ہمدردی میں لکھا تھا، میں اس کی قدر اور آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، ہوائی جہاز کا یہ حادثہ واقعاً سب کے لئے بڑا درد ناک تھا۔

میجر صاحب! میں تو اپنے عزیز، جوان، اور ہنرمند فرزند کی ناگہانی موت کے بارِ غم کو صبر اور شکر کے ساتھ اٹھائے جا رہا ہوں، مگر افسوس صد افسوس کہ میری اہلیہ سے یہ سنگین بوجھ اٹھایا نہیں جا رہا ہے، حالانکہ میں شروع ہی سے اسے صد گونہ نصیحتیں کرتے آیا ہوں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:

ان اللہ اشتریٰ من المومنین انفسہم و اموالھم بان لھم الجنۃ (۹:۱۱۱)

بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے، کہ ان کو جنت ملے گی۔ پس معلوم ہوا کہ مومنین کی جانیں اور ان کے اموال اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں، اور اگر خدا تعالیٰ اپنی کوئی امانت واپس لیتا ہے، تو اس پر پشیمان و نالان ہونا سراسر نادانی اور جہالت کے سوا کچھ بھی نہیں۔

فقط

آپ کا مخلص

نصیر ہونزائی

۲۵ جنوری ۱۹۷۳ء

۹۷

جناب غازی جوہر خان صاحب

اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ خپلو

یا علی مدد! میں آپ کی روحانی اخوت و یگانگت اور دینداری کی بے حد قدر و تکریم کرتا ہوں، کہ آپ نے باندازِ کریمانہ قلمی طور پر اس بندۂ مصیبت زدہ کی دلجوئی فرمائی ہے۔

آپ اس فلسفے کو بخوبی جانتے ہیں، کہ غم حقیقت میں زوالِ نعمت کا تصور ہے، جس کا علاج دو طرح سے ہو سکتا ہے، یا ہمیں نعمت کا امانت سمجھنا چاہئے، تا کہ امانت کی واپسی پر ہمارا کوئی اعتراض نہ ہو سکے، یا نعمت کے زوال کو عارضی قرار دیتے ہوئے یوں سمجھنا چاہئے کہ اگر اس چند روزہ زندگی میں ہم سے کوئی نعمت اٹھائی جاتی ہے، تو پھر وہ ہمیں ابدی زندگی میں بصورتِ احسن واپس ملنے والی ہے۔

فقط

آپ کا مخلص

نصیر ہونزائی

۲۵ جنوری ۱۹۷۳ء

۹۸

محترم محمد شفیع صاحب

یا علی مدد! آپ نے میری شدتِ درد کو کم کر دینے اور مجھے تسلی و تسکین دینے کے لئے جو تعزیت نامہ لکھا تھا، وہ انسانی اور قومی ہمدردی کا ایک صحیح مظہر تھا، میں آپ کی اس ہمدردی کو ہرگز فراموش نہ کروں گا۔

اے دوستِ مہربان! جگرپارہ کی جدائی کا امتحان واقعی بڑا سخت ہے، لیکن اب اس خدائی امتحان سے میرے لئے گریز کی کوئی راہ نہیں ملتی، لہٰذا اس میں مجھے صبر و شکر جیسے اعلیٰ اوصاف سے کما کان حقہ فائدہ اٹھانا چاہئے، ورنہ گرانمایہ موتیوں کا خزانہ لٹ جانے کے ساتھ ساتھ اس کا ثواب بھی ضائع ہو جائے گا۔

آپ کا مخلص

نصیر ہونزائی

۲۵ جنوری ۱۹۷۳ء

۹۹

عزیزانِ من صدر و اراکینِ اسماعیلیہ ہونزا کواپریٹو کریڈٹ سوسائٹی کراچی

یا علی مدد! آپ کا تعزیتی خط، جس میں مشفقانہ الفاظ سے میرے زخمِ دل پر مرہم لگانے کی کوشش کی گئی تھی، موصول ہوا، میں آپ کی اس ہمدردی اور سعیٔ صالحہ کے لئے نہایت ہی شکرگزار اور ممنون ہوں۔

اگرچہ ظاہری طور پر میرا نوجوان اور خوبرو بیٹا میری مسرتوں کا خزانہ تھا، اور اس کی ناگاہ موت کے ہاتھوں میری مادی خوشیوں کا یہ خزانہ لٹ گیا، تاہم میں دینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا ہوں، کہ میں بدقسمت ہوں، بلکہ میں عرفان و ایقان کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں خوش قسمت ہوں، کہ خداوندِ تبارک و تعالیٰ کے عطا کردہ خزانوں میں سے ایک گرانقدر اور بیش بہا خزانہ حصولِ آخرت کے امتحان میں صرف ہوا، آپ سب اس عظیم امتحان میں میری کامیابی کے لئے دعا کیجئے۔

فقط

آپ کا دعاگو

نصیر ہونزائی

۲۵ جنوری ۱۹۷۳ء

۱۰۰

عزیزِ من حسام الدین

یا علی مدد! میرے پیارے ایثار نے بموجبِ امرِ الٰہی یکایک نوجوانی میں ہی اس دنیائے ناپائدار کو خیرباد کہا ہے، ایسے حال میں ظاہری طور پر ہمیں اور آپ کو صدمہ ہونا لازمی تھا، لیکن تعجب کی بات ہے، کہ اس موقع پر ہمارے ساتھ ایک وسیع دنیا شریکِ غم ہے اور سبھی دعا کرتے ہیں، اور دعا بھی ایسی کہ وہ زبان کی نوک سے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے ہے، پس بڑا نیک بخت ہے وہ مومن جوان جو اپنے داغِ مفارقت سے انسانی ہمدردی کا ایک عظیم الشان انقلاب لائے اور نیک دعاؤں کی ایک ابدی دنیا بسائے۔

بڑھاپے کی موت کے نتیجے میں نہ کسی کو کوئی درد ہوتا ہے نہ ہمدردی، نہ یہ کوئی خاص امتحان ہے نہ آزمائش، اور نہ اس کے صبر و شکر کا کوئی خاص پھل ہے، اس میں محدود دعائیں ہوتی ہیں وہ بھی صرف رسمی طور پر۔

فقط

آپ کا اپنا

نصیر ہونزائی

۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء

۱۰۱

عزیز جماعتِ حسین آباد

یا علی مدد! آپ کی ہمدردیوں اور دعاؤں کے لئے شکرگزار اور ممنون ہوں، خداوندِ تبارک و تعالیٰ آپ کو ان نیک خیالات کے عوض اجرِ عظیم عطا فرمائے! آمین یا رب العالمین!!

یہ حقیقت واضح رہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے امتحان و ابتلا کے لئے موت اور زندگی بنائی ہے، تا کہ یہ ظاہر ہو کہ خوبیٔ عقیدہ اور حسنِ عمل کے اعتبار سے کون آگے ہے اور کون پیچھے، پس مومنین پر واجب و لازم ہے کہ وہ حیات و ممات کے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائیں۔ آپ سب دعا کریں کہ خدا تعالیٰ جملہ مومنین کو نیک توفیق عنایت کرے!

فقط

آپ کا دعاگو

نصیر ہونزائی

۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء

۱۰۲

محترم الواعظ غلام الدین صاحب التت

یا علی مدد! آپ نے تعزیت نامہ میں جس خلوص و محبت سے افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے، وہ قابلِ قدر اور لائقِ تحسین ہے، خداوندِ تبارک و تعالیٰ آپ کو دونوں جہان کی سربلندی عطا فرمائے! آمین یا رب العالمین!!

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنین سے پانچ چیزوں میں امتحان لیا کرتا ہے، وہ ہیں خوف، بھوک، مال کا نقصان، جان کا نقصان اور ثمرات کا نقصان، ان میں سب سے بڑا امتحان جانی نقصان ہے، اور کامیابی کی صورت میں اس کا اجر و صلہ بھی انتہائی عظیم ہے، پس آپ ہمارے حق میں دعا کیجئے، کہ ہم اس عظیم ابتلا و امتحان میں کامیاب ہو سکیں۔

فقط

آپ کا مخلص

نصیر ہونزائی

۲۸ جنوری ۱۹۷۳ء

۱۰۳

محترم غلام الدین صاحب گلمت

یا علی مدد! آپ کا تعزیتی مراسلہ موصول ہوا، میں آپ کی اور آپ کے خاندان کی اعلیٰ انسانیت، سچی دینداری اور پرخلوص ہمدردی پر یقین رکھتا ہوں، خدائے برتر و توانا آپ اور جملہ مومنین کو دونوں جہان کی کامیابی عطا فرمائے! آمین ثم آمین!!

میرے عزیز فرزند ایثار علی کی بے ہنگام موت اگرچہ ایک ناقابلِ فراموش صدمہ ہے، تاہم مجھے اپنے مولا پر بھروسہ ہے، کہ اس نے مجھ سے یہ امتحان ایک عظیم اجر کے لئے لیا ہو گا، جیسے اس سے قبل مجھ سے طرح طرح کے امتحان لیے گئے ہیں۔

فقط

آپ کا دعا گو

نصیر ہونزائی

۲۹ جنوری ۱۹۷۳ء

۱۰۴

عزیزِ من حمید اللہ بیگ سکردو

یا علی مدد! میرا لختِ جگر ایثار علی یقیناً آپ کا بھی عزیز تھا لیکن موت کا پیغام ایسا ہے کہ اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا، لہٰذا اب ہمیں صبر و شکر کی حکمتوں کا سہارا لینا چاہئے اور ہمیں یقین رکھنا چاہئے، کہ ہماری جسمانی زندگی چند روزہ ہے، اور ہماری روحانی حیات لاانتہا ہے، جب ایسا یقینِ کامل ہمارے دنیاوی احساسات پر غالب آئے تو اسی وقت ہمیں تائیدِ الٰہی حاصل ہو سکتی ہے۔

فقط

آپ کا دعاگو

نصیر ہونزائی

۲۹ جنوری ۱۹۷۳ء

۱۰۵

محترم محبوب علی صاحب کریم آباد کراچی

یا علی مدد! میرے دل و دماغ کے درد سے آپ نے جو ہمدردی اور افسوس کا اظہار کیا ہے، میں اس کا قلبی طور پر شکرگزار ہوں، اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو اور آپ کے جملہ عزیزوں کو روحانی اور جسمانی سلامتی و کامیابی کی نعمتوں سے نوازے! آمین!!

آپ اس واقعہ کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ میرے سامنے صرف ایک نوجوان اور ہوشیار فرزند کی ناگاہ موت اور داغِ مفارقت کا امتحان نہیں ہے بلکہ اس امتحان نے کئی اور امتحانات جنم دئے ہیں، جن کی تفصیل کے لئے اس مختصر سے خط میں کوئی گنجائش نہیں ان تمام مصائب و آلام کے باوجود میں نے رب العزت کے حضور میں سر بسجود ہو کر مناجات کی ہے، کہ اگر وہ میری ان مصیبتوں سے خوش ہے تو میں بھی خوش ہوں، صرف اتنا ہے کہ وہ مجھے اس بارِ غم کو خندہ پیشانی سے اٹھانے کی قوت و ہمت عنایت فرمائے! آمین!!

فقط

آپ کا مخلص

نصیر ہونزائی

۲۹ جنوری ۱۹۷۳ء

۱۰۶

حضور امیر صاحب ہونزا

یا علی مدد! آپ نے ٹیلیگرام اور خط کے علاوہ بنفسِ نفیس تشریف لا کر جس عنایت و مہربانی سے میرے اس دردِ بے درمان پر افسوس و ہمدردی کا اظہار فرمایا ہے، اور جن شفقت آمیز الفاظ  میں دعا و نصیحت فرمائی ہے، میں اسے (ان شاء اللہ تعالیٰ) ہمیشہ ہمیشہ قدردانی سے یاد کروں گا۔

میرا مرحوم فرزندِ جگر بند کس قدر خوش نصیب تھا، کہ اس کی مغفرت اور روحانی سکون کی دعا کرنے کے لئے بادشاہِ وقت تشریف فرما ہوئے، شاہی خاندان کی بہت سی معزز ہستیوں نے اس میں حصہ لیا، جناب ریزیڈنٹ صاحب تشریف لائے، جناب پولیٹیکل ایجنٹ صاحب اور دوسرے بہت سے اعلیٰ افسروں نے شرکت کی، غرض کہ ہمدردی کی ایک بھرپور دنیا جوش و خروش کے ساتھ حرکت میں آ گئی، جس میں ہر نوع، ہر صنف اور ہر درجہ کے لوگ موجود تھے۔

جنابِ عالی! ہمیں ہر ابتلا و امتحان میں صبر اور ہر حالت میں شکر کرنا چاہئے کیونکہ ہم اپنے حقیقی مالک کے بندے یعنی غلام ہیں، اور ہماری روحانی اور جسمانی فلاح و بہبود صرف اسی امر میں پوشیدہ ہے کہ اپنے مالک و آقا کی فرمانبرداری اور غلامی کرتے ہوئے اس کی خوشنودی و رضا حاصل کریں۔

دعا ہے کہ خداوندِ تبارک و تعالیٰ آپ کو اور ہم سب کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق دینی اور قومی خدمت کا اعلیٰ ترین جذبہ و شوق اور توفیق و ہمت عنایت کرے! آمین یا رب العالمین!!

فقط آپ کا تابعدار

نصیر ہونزائی، یکم فروری ۱۹۷۳ء

۱۰۷

عزیزِ من امام یار بیگ لاہور

یا علی مدد! ایثار علی کے بے وقت موت سے مجھے جو طرح طرح کی تکالیف اٹھانا پڑی ہیں، ان میں آپ بھی شریک ہیں، لیکن میرا عقیدہ مجھے یہ بتاتا ہے، کہ اپنی انہیں تکالیف کو صبر اور شکر کی قوت سے اٹھانے میں حکمت ہے اب اس کے سوا فلاح و نجات کا کوئی راستہ نہیں۔

مومنین کے لئے مایوسی کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا، کہ اس دنیا میں مومن سے جو کچھ لیا جاتا ہے، آخرت میں وہ ہزار ہا درجہ بہتر بنا کر واپس کر دیا جاتا ہے۔

فقط

آپ کا اپنا

نصیر ہونزائی

یکم فروری ۱۹۷۳ء

۱۰۸

محترم الواعظ عزیز علی فدائی صاحب لائل پور (پنجاب)

یا علی مدد! آپ کا تعزیت نامہ، جو محبت و یگانگت اور اخوت و ہمدردی کا آئینہ دار تھا، موصول ہوا، میں آپ کی اس ناقابلِ فراموش ہمدردی و محبت کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔

واعظ صاحب! جیسا کہ آپ جانتے ہیں، کہ حقیقی مومنین کی موت دراصل شہادت کے سوا کچھ نہیں، اور شہادت کا نتیجہ خوشی ہونا چاہئے، نہ کہ غم، ہر چند کہ انسانی نفس اس امر کے لئے ہرگز تیار نہیں، کہ ایک نوجوان، عزیز اور ہر طرح سے مستعد بیٹے کی موت کے غم کو شہادت کی خوشی کی صورت دے کر مطمئن ہو جائے، مگر جس عقل کی صحیح پرورش امامِ برحق علیہ السلام کی مقدس ہدایات سے ہوئی ہے، اس کے لئے یہ امر مشکل نہیں، والسلام۔

فقط

آپ کا روحانی بھائی

نصیر ہونزائی

۷ فروری ۱۹۷۳ء

۱۰۹

محترم میجر مستی بیگ صاحب

یا علی مدد! آپ کا مکتوب جس میں آپ نے میرے نورِ نظر کے انتقالِ پرملال پر افسوس و ہمدردی کا اظہار کیا تھا، اور مہر و محبت سے میری دلجوئی کی تھی، موصول ہوا، خداوندِ تبارک و تعالیٰ آپ کو دین و دنیا کی سعادت مندی عنایت فرمائے! آمین ثم آمین!!

جیسا کہ آپ کو اس بات کا یقین ہے کہ میں ایک درویش آدمی ہوں، اور میرے نزدیک دنیا و ما فیہا کی چندان اہمیت نہیں، اور اگر اس کی کوئی اہمیت ہے، تو وہ صرف یہی کہ یہاں کی ہر چیز کو راہِ مولیٰ اور طریقِ عقبیٰ میں قربان کر دیا جائے، اور قربانی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر پیاری چیز سے دل اٹھا کر ذاتِ یگانہ کی طرف متوجہ کر دیا جائے۔

میرا ایثار علی مجھے نہایت ہی عزیز تھا، لیکن اب میں نے اپنے پیارے بیٹے کی محبت کو صبر اور شکر کی صورت میں فنا کر کے راہِ مولیٰ میں قربان کر دیا ہے۔

فقط

آپ کا دعاگو

نصیر ہونزائی

۱۰ فروری ۱۹۷۳ء

۱۱۰

محترم افتخار حسین صاحب اسسٹنٹ ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول بلتت ہونزا

یا علی مدد! آپ نے پیغامِ تعزیت میں جس دوستانہ طریق سے اور جن پیارے الفاظ میں میرے دردِ دل کے متعلق افسوس و ہمدردی کا اظہار کیا ہے، میں اس کا ہمیشہ شکرگزار رہوں گا، خداوندِ کریم دائم الوقت آپ کے لئے علم و حکمت کے ابواب کشادہ رکھے! اور آپ کو دونوں جہان کی سرفرازی و کامرانی نصیب ہو!!

آپ اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں، کہ پیارے ایثار علی کے چالیس دن ابھی پورے نہیں ہوئے تھے، کہ عزیزم شیر سلمان نے میرے داغے ہوئے دل کو پھر داغ دیا، مگر رضائے الٰہی کے خلاف کسی بندے کی مرضی لمحہ بھر بھی ٹھہر نہیں سکتی، اس لئے بہتر یہی ہے، کہ اس طوفانِ غم سے بچنے کے لئے صبر اور شکر کی کشتی بنا لی جائے۔

فقط

آپ کا مخلص

نصیر ہونزائی

۱۱ فروری ۱۹۷۳ء

۱۱۱

محترم موکھی عصمت اللہ صاحب چپورسن

یا علی مدد! آپ کا تعزیتی خط جو خلوص و محبت کے پیرایہ میں مرقوم تھا ملا، پروردگارِ عالم اس ہمدردی و دلسوزی کے عوض آپ کو اور تمام جماعت کو دین و دنیا میں ہزار ہا نیکیاں عطا فرمائے!

نیکنام موکھی صاحب! بظاہر میرا پیارا ایثار علی دینی و دنیاوی کاموں میں میرے ہاتھ بٹانے سے گریز کر گیا، مگر حقیقتِ حال کچھ اور ہے، وہ یہ کہ میرے فرزندِ دلبند کی روح ایک روحانی کیفیت بن کر میری حقیقی ہستی میں موجود ہے، اس روحانی کیفیت سے مجھے بہت مدد ملتی رہتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے فرمایا ہے: لا تقنطوا من رحمۃ اللہ (اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ)۔

فقط

آپ کا دعاگو

نصیر ہونزائی

۱۲ فروری ۱۹۷۳ء

۱۱۲

عزیزِ من دولت شاہ خروکشل حیدرآباد

یا علی مدد! ہاں عزیز مجھے خوف تھا کہ میرے اس غم کی وجہ سے جماعت کے بے شمار افراد کو دکھ ہو گا، لیکن اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے، تو غم کا کوئی مستقل وجود نہیں، کیونکہ عوام کے نزدیک غم کا سبب کسی پیاری چیز کا فوت ہو جانا ہے مگر خواص کے نزدیک ہر چیز امامِ برحق کے نور کی روشنی میں حاضر اور موجود ہے (بحکمِ: وکل شی احصینٰہ فی امام مبین)۔

جاننا چاہئے، کہ ہر چیز کی دو ہستیاں ہیں، ایک ہستی چیز ہے اور دوسری ہستی اس کا سایہ ہے، چنانچہ روح چیز ہے اور جسم اس کا سایہ، سایہ کا وجود کبھی ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا، مگر چیز سایہ نہ ہونے کی صورت میں بھی موجود ہوتی ہے، اسی طرح پیارے ایثار علی کی روح جسم کے سایہ نہ ہونے کے باوجود امامِ عالی مقامؑ کے نور کی روشنی میں موجود ہے۔

فقط

آپ کا دعاگو

نصیر ہونزائی

۱۳ فروری ۱۹۷۳ء

۱۱۳

جناب صوبیدار میجر عبد الحکیم صاحب سکردو

یا علی مدد! میرے دل و دماغ کے اس گہرے زخم پر آپ نے جو افسوس و ہمدردی کا اظہار کیا ہے، میں اس کا شکرگزار اور ممنون رہوں گا، خداوندِ تعالیٰ آپ کی عزتِ دینی و دنیاوی میں ہر دم اضافہ کرے! آمین ثم آمین!!

یہ ایک فطری امر ہے کہ عزیز جوان اور ہر طرح سے مستعد بیٹے کی یکایک موت سے ایک حساس انسان زندہ درگور ہو جاتا ہے، مگر چونکہ مجھے رحمت کے فرشتوں نے پہلے ہی سے اس بات کے لئے تیار کر رکھا تھا، کہ میں ہر آنے والی مصیبت کو برداشت کروں اور یہ سمجھوں کہ مصیبت میں ایک عظیم حکمت پنہان ہے، پس میں پیارے ایثار علی کے داغِ مفارقت سے اُف تک نہ کر سکتا ہوں۔

فقط

آپ کا علمی خادم

نصیر ہونزائی

۱۸ فروری ۱۹۷۳ء

۱۱۴

محترم رحمت اللہ بیگ صاحب بلتت

یا علی مدد! آپ کا تعزیت نامہ موصول ہوا، آپ کی ہمدردی اور دعا کا شکرگزار ہوں، اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو دونوں جہان کی کامیابیاں عطا فرمائے!

آپ جانتے ہیں کہ موت خاص کر ایک جوان بیٹے کی موت دنیاوی نظر کے سامنے ایک عظیم مصیبت ہے، لیکن اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے، تو موت روحانیت کا دروازہ ہے اور حقیقی مومن کے لئے یہ خوشی کے پھولوں کا گلدستہ ہے، نیز اس میں ایک سرِ مگو یہ بھی ہے، کہ روح خدا تعالیٰ کے نور کی کرن کی حیثیت سے قدیم ہے، یعنی یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، اس میں روح کے دنیا میں آنے اور یہاں سے جانے کی کوئی ابتداء و انتہا نہیں، جیسا کہ مولائے روم صرف ایک دور کے متعلق فرماتے ہیں:

گر ہمی پرسی ز حالِ زندگی

نُہ صد و ہفتاد قالب دیدہ ام

ترجمہ: اگر تو میری زندگی کا حال پوچھتا ہے، تو وہ یہ ہے کہ میں نے اس دفعہ نو سو ستر (۹۷۰) اجسام دیکھے ہیں، یعنی میں اس دور میں نو سو ستر مرتبہ دنیا میں پیدا ہوا ہوں۔

فقط

آپ کا مخلص

نصیر ہونزائی

۲۰ فروری ۱۹۷۳ء

۱۱۵

عزیزم غلام حیدر مسگر

یا علی مدد! آپ کا تعزیت نامہ جو دلسوزی و ہمدردی سے مملو تھا، موصول ہوا، میں آپ عزیزوں کی اس بے لوث و بے غرض محبت کا اعتراف کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ اس دردمند کے ہمدردوں کو ہر قسم کی سلامتی و کامیابی عطا فرمائے! آمین یا رب العالمین!!

میرے عزیز! اگر یہ فقیر صبر و شکر جیسا کہ چاہئے، کر سکے تو اس کے اپنے پیارے سے صبر و شکر کا وہ اجرِ عظیم بدرجہا افضل و اعلیٰ اور عزیز ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا اور آخرت میں اسے ملنے والا ہے۔

فقط

آپ کا دعاگو

نصیر ہونزائی

۲۴ فروری ۱۹۷۳ء

۱۱۶

برادرِ محترم جوہر بیگ صاحب راولپنڈی

یا علی مدد! آپ کے خط سے ظاہر ہے، کہ عین عالمِ شباب میں عزیزم ایثار علی کی ناگہانی اور حادثاتی وفات سے آپ کو ذہنی طور پر سخت تکلیف محسوس ہوئی ہے ہمیں اس میں ذرہ بھر شک نہیں، کیونکہ میرا فرزندِ جگر بند آپ کے عزیزوں میں سے تھا، لیکن اب ہمارے لئے صحیح راستہ یہ ہے کہ ہم صبر اور شکر پر عمل کریں، تا کہ بموجبِ ارشادِ الٰہی ہمیں صلوات، رحمت اور ہدایت حاصل ہو۔ اولٰئک علیہم صلوٰت من ربھم و رحمۃ و اولٰئک ہم المھتدون (۲:۱۵۷)۔

فقط

آپ کا بھائی

نصیر ہونزائی

۲۵ فروری ۱۹۷۳ء

۱۱۷

عزیزِ من امان اللہ خان لاہور

یا علی مدد! عزیز کا پیغامِ تعزیت موصول ہوا، اس میں کوئی شک نہیں کہ میرے نورِ چشم ایثار علی کے انتقالِ پرملال سے آن عزیز کو بھی بڑا رنج ہوا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے بعد نہ کسی کا کوئی چارہ ہے اور نہ کوئی اعتراض، چنانچہ حق تعالیٰ حدیثِ قدسی میں ارشاد فرماتا ہے کہ: ’’جو شخص میرے فیصلہ کے لیے راضی نہ ہو اور میری آزمائش پر صبر نہ کرے، تو اسے چاہئے، کہ میرے سوا کسی دوسرے پروردگار کو ڈھونڈ لے اور میرے آسمان کے نیچے سے نکل جائے‘‘۔

پس ہم اللہ تعالیٰ کی خوشنودی پر اپنی خوشنودی کو قربان کر دیتے ہیں اور وہ ہم سے جو کچھ امتحان لینا چاہے، ہم اس پر اس سے مدد چاہتے ہوئے صبر کرتے ہیں۔

فقط

عزیز کا اپنا

نصیر ہونزائی

۲۷ فروری ۱۹۷۳ء

۱۱۸

محترم غلام محمد صاحب و محترم محمد علی صاحب سکردو

یا علی مدد! آپ صاحبان کے اظہارِ افسوس اور ہمدردی کا بہت بہت شکریہ! آپ جانتے ہیں کہ عقل و نفس کے نام سے انسان کے باطن میں دو متضاد قوتیں موجود ہیں، عقل ہمیشہ دینی ہدایات کے مطابق عمل کرنے کی خواہان ہوتی ہے اور نفس ہر وقت عقل کے خلاف چلتا ہے، چنانچہ جب عقل صبر و قناعت اختیار کرتی ہے، تو نفس بے صبری اور طمع کو لیتا ہے، پس اگر میں اپنے عزیز فرزند کی موت پر صبر کروں تو یہ ہدایت کے مطابق عقل کا کام ہو گا اور اگر میں جزع فزع کروں تو یہ نفس کا عمل ہو گا، جو امرِ الٰہی اور عقل کے خلاف ہے۔

اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں اور جملہ مومنوں کا ہدایاتِ مقدسہ اور عقلِ سلیم کے مطابق عمل کرنے کی توفیق و ہمت عنایت کرے! آمین یا رب العالمین!!

فقط

آپ کا مخلص

نصیر ہونزائی

۲۷ فروری ۱۹۷۳ء

۱۱۹

میرے عزیز بھائی صوبیدار یوسف علی صاحب

یا علی مدد! ہاں، میرا نورِ چشم دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف کوچ کر گیا، اس فرزندِ ارجمند سے میری بہت سی امیدیں وابستہ تھیں، لیکن اللہ کو کچھ اور امر منظور تھا، لہٰذا اب ہمیں ماننا چاہئے، کہ امرِ مولیٰ از ہمہ اولیٰ۔

عزیز بھائی! میرا ایثار علی کتنا خوش قسمت تھا! کہ دنیا کی ہرگونہ الجھنوں سے فارغ ہو اور آزاد ہو کر جوانی ہی میں انتقال کر گیا، بے شمار ہمدردیاں اور لاتعداد دعائیں حاصل کر لیں، بہت سے جماعت خانوں میں تسبیحِ مغفرت پڑھی گئی، گھر میں قرآن خوانی اور دوسری ثوابی رسموں کے علاوہ روحانی مجلسیں منعقد کی گئیں، ہر درجہ کے بے شمار انسانوں اور بہت سی جلیل القدر شخصیتوں نے تحریری یا ذاتی طور پر ماتم پرسی کی اور بے حساب آنکھوں نے اس کے غم میں آنسو بہائے۔

فقط

آپ کا بھائی

نصیر ہونزائی

۲۷ مارچ ۱۹۷۳ء

۱۲۰

بخدمتِ نیکنام صدر صاحب و ممبران نامدار مقامی کونسل گلگت مرکز

یا علی مدد! آپ کی جماعت اور ملحقہ جماعتوں کے اولواالعزم اور فرمانبردار اسماعیلیوں نے ایک زندہ قوم کی حیثیت سے اپنے تاریخ ساز کارناموں کے سلسلے میں جہاں اسلام، پاکستان اور جماعت کی بے شمار و دور رس خدمات انجام دی ہیں، وہاں ان کی ایسی لاتعداد خدمتوں اور امدادوں کی مثالیں بھی موجود ہیں، جو ضرورت مند یا مصیبت زدہ خاندانوں اور مستحق افراد کے لئے کی گئی ہیں، میں اپنے اس مختصر خط میں ان حقیقی اسماعیلیوں کی ان گوناگون قربانیوں کا مفصل بیان نہیں کر سکتا، جو نہ صرف اسماعیلیوں کے جماعتی دائرے تک محدود ہیں، بلکہ ان کی بدولت اسلام اور پاکستان کی مقامی ضرورتوں کو بھی پورا کیا گیا ہے۔

چنانچہ آپ حضرات نے میرے فرزند ایثار علی کے انتقال پر جس گہری ہمدردی سے اظہارِ افسوس کیا، جس خلوص و محبت سے میرے ساتھ شریکِ غم ہوئے اور جس عزت و تکریم سے مجھے اور میرے خاندان کو سہارا دیا، میں اس کا شکریہ، جیسا کہ اس کا حق ہے ادا نہیں کر سکتا ہوں، اور نہ ہی یہ امر میرے لئے آسان ہے کہ میں ان جماعتی اداروں اور تمام افراد کی شب و روز کی انتھک خدمات کی تفصیلات بیان کروں، جو مقدس مذہب کو تقویت پہنچانے اور امامِ برحقؑ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر انجام دی گئی ہیں۔

چنانچہ مثال کے طور پر مرد اور خواتین والنٹیئرز کی بے لوث اور خالص خدمات کی طرف اشارہ کرتا ہوں، کہ انہوں نے شروع ہی سے نہ صرف مذہبی اجتماعات کی خدمت کو اپنا فریضہ سمجھا، بلکہ اپنی جماعت کے کسی گھر کو بھی اس بات کی فکر کرنے کا موقع ہی نہیں دیا، کہ اب ہم اپنے گاؤں اور برادری سے دور اس مصیبت

۱۲۱

میں کیا کریں گے، دونوں قسم کے والنٹیئرز کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں، امیدِ واثق ہے کہ جماعتی خدمت کی قدر و قیمت جہاں کہیں بھی ہو روز بروز بڑھتی جائے گی۔

اس کتاب کے آخر میں عاجزانہ اور درویشانہ دعا ہے کہ پروردگارِ عالم ان تمام جماعتی خدمت گزاروں کے دلوں کو اپنے پاک نور کی روشنی سے منور فرمائے! انہیں دونوں جہان کی سعادت مندی عطا ہو! اور جملہ جماعت کو نیک توفیق، بلند ہمت اور فلاحِ دارین عنایت ہو!!!

فقط

آپ کا دعاگو درویش

نصیر ہونزائی

۱۲۲

ترجمانیٔ زبانِ حالِ مجیب الدین (مرحوم = بہشتی) ابنِ علی یار خان مرتضیٰ آباد

رشتہ دارو! فضلِ مولا پر رکھو محکم یقین

میں تو ہوں الحمد للہ ساکنِ خلدِ برین

موت میری تھی شہادت میں مریدِ شاہ تھا

پس بہشت میں شادمان ہوں تم نہ ہو جانا حزین

میری طوفانی خوشی کا تم کو اندازہ نہیں

تم نے دیکھی ہی نہیں ہے باغِ جنت کی زمین

تم دعائیں کر کے مجھ کو کچھ تحائف بھیج دو

تا کہ راضی ہو ہمیشہ تم سے رب العالمین

ہر بہشتی شادمان ہے اور دائم ہے جوان

سب کو حاصل ہے لقائے حضرتِ سلطانِ دین

مجلسوں میں حور و غلمان لعل و گوہر کی طرح

ہیں مناظر سب حسین اور اہلِ جنت نازنین

۱۲۳

علم و حکمت کی مجالس نور کا دیدار بھی

نغمہ ہائے مدحِ مولا دل نواز و دل نشین

خواب میں اے کاش تم جنت کا منظر دیکھتے!

تا کہ تم ہرگز نہ ہوتے میرے بارے میں غمین

معرفت ہی معرفت ہے تیری باتوں میں نصیر!

اس لئے اشعارِ شیرین ہیں مثالِ انگبین

ذوالفقار آباد، گلگت

جمعرات ۲۴ مئی ۲۰۰۱ء

۱۲۴

پیغامِ روحانی بزبانِ حال

من جانبِ غزالہ مرحومہ

اے قبلہ! نہ کر غم کہ یہاں زندہ ہوئی میں

یہ اس کی نوازش ہے کہ تابندہ ہوئی میں

ہیں حور و پری ساتھ کہ میں خود بھی پری ہوں

اس انجمنِ نور میں خوشیوں سے بھری ہوں

میں دخترِ روحانیٔ مولائے زمان ہوں

شہزادیٔ عالم ہوں مگر سب سے نہان ہوں

ہم نور کی اولاد ابھی نور ہوئے ہیں

دنیا کی مصیبت سے بہت دور ہوئے ہیں

جنت میں عجب شاہی محل ہم کو ملا ہے

ہم زندۂ جاوید ہوئے فضلِ خدا ہے

شاہوں کی طرح شاد ہیں ہم اس کا کرم ہے

بیماری نہیں، موت نہیں اور نہ ہی غم ہے

۱۲۵

ہاں تیری غزالہ پہ علیؑ سایہ فگن ہے

وہ اس لئے جنت میں سدا زندہ چمن ہے

صد گونہ خوشی ہے ہمیں دیدارِ علیؑ سے

گنجینہ ملا ہے ہمیں اسرارِ علیؑ ہے

طوفانی خوشی ہے ہمیں، تم ہم پہ نہ رونا

ڈیڈی! ممی! تم کبھی بے صبر نہ ہونا

لینا ہے تمہیں علم و عبادت کا سہارا

ہے دینِ خدائی میں یہی شیوہ ہمارا

کس شان سے آیا ہے یہ پیغامِ غزالہ

روشن ہو زمانے میں سدا نامِ غزالہ

غزالہ بنتِ امام یار بیگ جنرل منیجر، آغا خان ہیلتھ سروسز، پاکستان، ناردرن ایریاز اینڈ چترال۔

غزالہ کی تاریخِ پیدائش: ۱۵ جولائی ۱۹۸۷ء

تاریخِ وفات: ۸ جنوری ۱۹۹۹ء

انا للہ و انا الیہ راجون (۲:۱۵۶)

۱۲۶

قانونِ بہشت

(ایک بہشتی کی زبانِ حال سے)

یہ رب کا کرم ہے کہ میں جنت میں گیا ہوں

اک نور یہاں ہے کہ مجھے اس نے لیا ہے

(س) ہو گی کہ نہیں کل کو ہمیں تیری ملاقات؟

اے جان! بتا ہم کو بتا جلدی یہی بات؟

(ج) وہ کیسی بہشت ہے کہ نہ ہو جس میں ملاقات

وہ کیسا سوال ہے! صد حیف ہے، ھیھات!

دانا ہیں وہی لوگ جو جنت کو سمجھتے

آیات کے باطن سے وہ حکمت کو سمجھتے

قانونِ بہشت دیکھ کہ وہ رحمتِ کل ہے

واں کوئی نہیں خار فقط غنچہ و گل ہے

جمعرات ۲۴ اگست ۲۰۰۰ء

نوٹ: قانونِ بہشت سے وہ آیاتِ کریمہ مراد ہیں جو بہشت کی توصیف میں وارد ہوئی ہیں۔

۱۲۷

پیر پندیات جوانمردی

 

پیر پندیاتِ جوانمردی

دیباچۂ طبعِ دوم

          پروردگارِ عالمین کے اس عظیم فضل و احسان کا شکر بجا لانے سے ہماری زبان عاجز و قاصر ہے، کہ اس نے اپنی لا انتہا رحمت سے ہمیں توفیق و ہمت عطا فرمائی، جس سے یہ مبارک و مقدس کتاب فارسی سے فہم اور سلیس اردو میں منتقل کر دی گئی، جو سرچشمۂ رشد و ہدایت اور گنجینۂ علم و حکمت کی حیثیت رکھتی ہے، اور اسی ذاتِ پاک کے خاص لطف و کرم سے وسائل و ذرائع مہیا ہوگئے، جن کی بدولت حضرتِ امامِ عالیمقام علیہ السلام کے پاک ارشادات کے اس پر حکمت مجموعے کو طباعت و اشاعت کی مختلف منزلوں سے گزار کر عاشقانِ نورِ ہدایت تک پہنچا دیا گیا۔

          أئمۂ طاہرینؑ کے علم کی اہمیت:

          اسماعیلی اصول کے مطابق أئمۂ آلِ محمد (صلی اللہ علیہ و علہیم اجمعین) صاحبانِ امر کہلاتے ہیں، اور یہ حضرات بحوالۂ قرآنِ حکیم (۴: ۵۹، ۴: ۸۳ ) اولی الامر ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدائے تعالیٰ اور اس کے رسولِ برحقؐ کے امر و فرمان کی مکمل وضا حت بمقتضائے زمان و مکان أئمۂ طاہرین کی ترجمانی سے ہوتی آئی ہے، یہی وجہ ہے، جو قرآنِ پاک میں فرمایا گیا ہے: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں (۴: ۵۹) ۔

          اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ اولوالامر أئمۂ آلِ محمدؐ ہی ہیں،

۷

 آپ پاک اماموں کے علم و حکمت سے بھر پور فائدہ اٹھائیں، اور امامِ زمان کے امرو فرمان کا کامل اطاعت کریں، اور قرآن و حدیث کی روشن و تابناک دلائل کبھی بھول نہ جائیں، جو بڑی کثرت سے ہیں، مثال کے طور پر: جب تک دنیا میں قرآنِ پاک موجود ہے، تب تک اس کے ساتھ نورِ منزل بھی موجود ہے (۵: ۱۵) لوگوں کو امام کی ضرورت نہ صرف ظاہر میں ہے، بلکہ باطن میں بھی ہے کہ خدا لوگوں کو امام ہی کے وسیلے سے بلاتا ہے (۱۷: ۷۱) لوگ نہیں سمجھتے ہیں کہ ان کو امام کی ضرورت ہے، لیکن حکمت والے خدا نے حضرتِ ابراہیمؑ سے جس طرح فرمایا کہ میں تم کو لوگوں کا امام بنانے ولا ہوں (۲: ۱۲۴) اس سے اہلِ دانش کو ظاہر ہے کہ اہلِ جہان کے لئے امام کا ہونا بیحد ضروری ہے، اگرچہ امامت کے مختلف درجات ہوتے ہیں، لیکن حضرتِ ابراہیمؑ کا مرتبۂ امامت عظیم تھا۔

          حضرتِ امام جعفر الصادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ خدا وند تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیمؑ کو نبی مقرر کرنے سے پہلے اپنا عبد مقرر فرمایا، اور رسول بنانے سے پہلے اپنا نبی بنایا، اور خلیل بنانے سے پہلے رسول مقرر کیا، اور امام بنانے سے پہلے اپنا خلیل بنایا (المیزان، جلدِ اول، ص ۲۷۶، بحوالۂ تفسیر کافی) اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرتِ ابراہیمؑ کا عظیم الشان قرآنی قضہ در اصل امامت ہے، جس کے ظاہر و باطن میں جواہر علم و معرفت ابھرے ہوئے ہیں، الحمدللہ یہ پر نور تصور علی زمانؑ کے عظیم علمی معجزات اور عجائب و غرائب میں سے ہے۔

اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اہلِ ایمان آیاتِ قرآنی میں غورو فکر سے کام لیا کریں، تاکہ ان کو قرآنِ حکیم کی پوشیدہ حکمتوں سے آگہی ہو، مثال کے طور پر: حضرتِ آدمؑ کے بارے میں فرشتوں سے فرمایا: إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً=میں ایک خلیفہ زمین میں بنانے والا ہوں (۲: ۳۰)

۸

اور حضرتِ ابراہیمؑ سے فرمایا: إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا: میں تم کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں (۲: ۱۲۴) اب آپ سے یہ سوال ہے کہ آیا خدا کے دین کا نظام خلافت ہے یا امامت؟ یا کبھی وہ ہے اور کبھی یہ؟ یا دونوں لفظوں کی ایک ہی حقیقت ہے؟ آپ خوب سوچیں اور درست جواب دیں۔

          قرآن و حدیث کی روشنی میں میرا یقین یہ ہے کہ خلافت اور امامت الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ خلافت ایک تشریح ہے کتابِ امامت کی، اور تمہید ہے، جیسا کہ آپ نے حضرتِ ابراہیمؑ کی امامت کا تذکرہ سنا، کہ اس میں بڑی زبردست جامعیت ہے، اور قانونِ قیامت (۱۷: ۷۱) کو دیکھا کہ لوگوں کی کوئی قیامت ہی نہیں، مگر امام کے ساتھ، نیز قلبِ قرآن میں دیکھیں کہ خداوند تعالیٰ کس طرح امامِ مبین میں کل کائنات کو لپیٹ لیتا ہے (۳۶: ۱۲ ) یہ بات ایسی ہے جیسے خدا نے قلمِ قدرت سے لوحِ محفوظ میں سب کچھ لکھ دیا ہے۔

          حدیثِ شریف ہے: اِنَّ اَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ الْقَلَمَ، فَقَالَ اکُتُبْ، قَالَ مَااَکْتُبُ؟ قَالَ اَکْتُبِ الْقَدْرَ مَا کَانَ وَ مَا ھُوَ کَائِنٌ اِلیٰ الْاَبَدٍ = اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور حکم دیا کہ لکھو، اس عرض کیا، کیا لکھوں؟ فرمایا: اندازہ، جو گزر چکا اور جو ابد تک ہونے والا ہے (جامعِ ترمذی، جلدِ اول، ابواب القدر)۔ اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ عالمِ شخصی کے اعتبار سے پہلے پہل انسان کی جسمانی تخیلق ہوتی ہے، بعد ازان روحانی پیدائش، اور آخر مین وہ عقلی طور پر پیدا ہو جاتا ہے، لیکن یہ آخر درحقیقت اول ہے، کیونکہ حقیقی زندگی اب شروع ہو گئی، اسی معنیٰ میں یہ ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم / عقل / نورِ محمدی کو پیدا کیا۔

۹

          س: قلم اندازۂ گزشتہ و آئندہ کو کب لکھتا ہے؟ ۔۔۔ ج: اس وقت جبکہ عارف صورتِ رحمان میں فناہو چکا ہوتا ہے، س: ایسے میں قلمِ عقل کی تحریروں سے عارف کو کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ ۔۔ ج: یہ کتابِ مکنون بھی ہے، جس میں مطالعۂ اسرارِ معرفت کے بے شمار فائدے ہیں، س: اس حدیث کا کیا مطلب ہے: جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا اَنْتَ لَاقٍ = اس چیز کو لکھ کر قلم سوکھ گیا جس سے تو ملنے والا ہے؟ ۔۔۔ ج: قلمِ قدرت حظیرۂ قدس کی بہشت میں لکھ رہا ہے، لہٰذا وہ بشارت ار علم و حکمت کے سوا اور کچھ نہیں لکھتا ہے۔

۱۰

چند اساسی حکمتیں

          سورۂ قلم کی آیتِ اول (۶۸: ۱) کی تفسیر و تاویل ہے جو حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے: قَالَ: وَاَمَّا’’ن‘‘ فَھُوَ نَہْرٌ فیِ الْجَنَّۃِ، قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَ جَلَّ: اُجْمُدْ فَجَمَد فَصَارَ مِدَادًا، ثُمَّ قَالَ لِلْقَلَمِ: اُکْتُبْ فَسَطَرَ الْقَلَمُ فِی اللَّوْحِ الْمَحْفُوْظِ مَا کَانَ وَمَاھُوَ کَائِنٌ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، فَالمِدَادُ مِدَادٌ مِّنْ نُوْرٍ، وَالْقَلَمُ قَلَمٌ مِّنْ نُوْرٍ، وَاللَّوْحُ لَوْحٌ مِّنْ نُوْرٍ = فرمایا کہ نون جنت کی ایک نہر (ندی) ہے، خداوند تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ جم جا، وہ جم گئی اور روشنائی بن گئی، پھر خدا نے قلم کو حکم دیا کہ لکھ پھر قلم نے جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا وہ سب لوحِ محفوظ میں لکھ دیا، پس وہ روشنائی نور کی روشنائی ہے، اور وہ قلم بھی نور کا قلم ہے، اور لوح بھی نور کی لوح ہے۔

          پوچھنے پر امام علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا: فَنُوْ نُ مَلَکٌ یُؤَدِّیْ اِلیَ الْقَلَمِ وَ ھُوَ مَلَکٌ، وَ الْقَلَمُ یُؤَدِّیْ اِلیَ اللَّوحِ وَھُوَ مَلَکٌ، وَاللَّوْحُ یُؤَدِّیْ اِلیَ جِبْرَائِیْلِ وَ جِبْرَائِیْلُ یُؤَدِّیْ اِلیَ الْاَ نِبْیَاءِ وَ الرُّسُلِ = نون ایک فرشتہ ہے جو قلم کو خبر یں دیتا ہے اور قلم بھی ایک فرشتہ ہے جو لوح تک حکم پہنچا دیتا ہے، اور لوح بھی فرشتہ ہے، جو اسرافیل کو

۱۱

پیغام دیتا ہے، اور اسرافیل میکائیل کو اور میکائیل جبرائیل کو اور جبرائیل نبیوں اور رسولوں کو اطلاع دیتے ہیں۔ (المیزان، جلد ۱۹، ص ۳۷۶)۔

          نمونۂ عالمِ دین:

          دین سب سے اہم اور سب سے عظیم عالم ہے، جو سات بڑے ادوار پر محیط ہے، وہ ادوار یہ ہیں: دورِ ناطقِ اول، دورِ ناطقِ دوم، دورِ ناطقِ سوم، دورِ ناطقِ چہارم، دورِ ناطقِ پنجم، دورِ ناطقِ ششم، اور دورِ حضرتِ قائم جو دورِ ہفتم ہے، یہ ایا م اللہ ہیں ( ۱۴: ۵) ،  ۴۵: ۱۴) یعنی خدا کے سات زندہ دین، ان میں سے اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں عالمِ دین کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور سنیچر کے دن اسرارِ عرش کا کام کیا، اور ان میں ایک بہت بڑا راز مساواتِ رحمانی ہے۔

          خداوندِ قدوس نے اپنی قدرت ِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے نہ صرف عالمِ دین بلکہ عالمِ ظاہر کو بھی عالمِ شخصی میں لپیٹ دیا ہے، تاکہ دینی معرف کی کوئی چیز مکانی اور زمانی مسافتوں کی وجہ سے دور نہ رہے، اور تمام قرآنی قصے، واقعات اور معجزات عارف کی چشمِ باطن کے سامنے ہوں، اسی معنیٰ میں یہ کہنا حقیقت ہے، کہ عالمِ شخصی نمونۂ عالمِ دین ہے، بلکہ یہ آئینۂ عالمِ دین ہے، بلکہ یہ اس کی روحانی اور نورانی مووی (MOVIE)ہے، جس کے زریعے سے دین شناسی جیسی سب سے بڑی سعادت نصیب ہو جاتی ہے۔

          سورۂ ھود کی آیتِ ہفتم (۱۱: ۷) کے سرِ اعظم کے بارے میں آپ نے سنا ہوگا، اس آیۂ کریمہ کی تین تفسیریں ہوسکتی ہیں: اول ظاہری کائنات کے پیشِ نظر ، دوم عالمِ دین کے اعتبار سے، سوم عالمِ شخصی کے لحاظ سے، تاہم حصولِ معرفت کی غرض سے تیسری تفسیر زیادہ ضروری ہے، وہ آیۂ مبارکہ یہ ہے: وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ

۱۲

أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً=اور وہ تو وہی (قادرِ مطلق) ہے جس نے (عالمِ شخصی کے) آسمانوں اور زمین کو چھ دین (چھ سب سے چھوٹے ادوار) میں پیدا کیا، اور اس کا تخت پانی (بحرِ علم) پر ظاہر ہوا، تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں بہ اعتبارِ (علم و ) عمل زیادہ اچھا کون ہے (۱۱: ۷) ۔

          عرش مثال در مثال ہے: عرش آسمان پر بھی ہے، اور زمین (پانی) پر بھی، مگر یہ مثال در مثال اور حجاب در حجاب ہے، جبکہ زمین پر سمندر ہے، سمندر پر ایک تخت ہے جو کشتی بھی ہے، اس میں شخصِ کامل ہے، اور اس میں سے خود بخود اسمِ اعظم کا معجزاتی ذکر ہو رہا ہے، اب آپ ٹھیک طرح سے سوچ کر بتائیں کہ ان حقائق و معارف میں اصل عرش کونسا ہے جو بھری ہوئی کشتی بھی ہے؟ شخصِ وحدت؟ یا نور (اسمِ اعظم)؟ کیا عرش ایک عظیم فرشتہ ہے؟ آیا کرسی دوسرا عظیم فرشتہ ہے؟ کیا یہ سچ ہے کہ شخصِ وحدت عرش و کرسی بھی ہے، قلم و لوح بھی، اور بھری ہوئی کشتی بھی؟

          انتسابِ جدید:

          میرے علمی سفر کے رفقاء، میرے دل کے احبا ٔ (واحد حبیب) میری روح کے عزیزان، اور میرے عالمِ شخصی کے فرشتے وہ ہیں، جو بار بار مجھے یاد آتے رہتے ہیں، ان کی لطیف و شیرین یادیں میری جانِ حقیر کے لئے ایسی فرحت انگیز اور مسرت بخش ہیں، جیسے عمدہ سے عمدہ پھول اپنی دل آویز خوشبوؤں سے روحانی غذاؤں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، مثلاً گلاب، گلِ سوری، گلِ داؤدی، گلِ سنجد (گنڈورے اسقر) وغیرہ، اس موقع پر مجھے روحانی انقلاب کا زمانہ بھی یا دآیا، جس میں

۱۳

روحانی خوشبوؤں کا دروازہ کھل گیا تھا، میرے جملہ عزیزان (تلامیذ) ظاہری اور باطنی عطریات کی طرح پسند یدہ اور پیارے ہیں، میری بے شمار جانیں ان سے فدا !

          اس شادمانی کے عالم میں ایک جانی اور ایمانی دوست کا ذکرِ جمیل کرنا چاہتا ہوں، جو حقیقی علم کے مثالی شیدائی اور عاشق ہیں، ان کا پاکیزہ چہرہ علم و عبادت کے خاموش معجزے سے ہر دم منور و تابان رہتا ہے، یہ خاندانی طور پر امامِ عالیمقام علیہ السلام کے جان نثار عاشق ہیں، علمی خدمت کے تقدس و عظمت کو جانتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہیں، ان کا بہت ہی پیارا نام طاہر علی ابنِ قاسم علی ہے، آپ ہمارے یوسٹین (امریکہ ) ہیڈکوارٹر کے آنریری خزانچی اور لائف گورنر ہیں، ظاہر علی بہت سی خداداد صلاحیتوں اور خوبیوں کے مالک ہیں۔

          ان کی نیک خصلت بیگم سارہ (سائرہ) بڑی مذہبی اور بہت دیندار خانون ہیں، مزاج میں سادگی، دل علم و عبادت کے نور سے منور، قلب و لسان ذکرِ الٰہی میں مصروف ، بار بار صلوٰت پڑھنے کی عادی، حضرتِ رب العزت کی ظاہری اور باطنی نعمتوں کے لئے شکرگزار، اور لائف گورنری کے عہدے سے سرفراز، یہ ہیں عزیزم ظاہر علی کی بیگم سارہ، ان کے دو بہت پیارے بچے بڑے باسعادت ہیں، اسد ظاہر علی کا تولد ۴ ؍ اگست ۱۹۹۳ ء کو ہوا، اور سنان ظاہر علی کی تاریخِ پیدائش ۷؍ اکتوبر ۱۹۹۵ ء ہے، ان لٹل اینجلز کی بڑی نیک بختی ہے کہ بوقتِ خفتن تسبیحات پڑھتے ہیں، اور دونوں لائف گورنرز ہیں، پروردگار اپنی رحمتِ بے پایان سے اس باسعادت فیملی اور دیگر تمام عزیزان کو دونوں جہان کی کامیابی، سرخروئی ، اور سرفرازی عنایت کرے! آمین!!

نصیر الدین نصیرؔ (حبِ علی ) ھونزائی۔ کراچی

بدھ ۱۰ ؍ جمادی الاول ۱۴۱۹ ھ    ۲ ؍ ستمبر ۱۹۹۸ ء

۱۴

پندیات

بسم اللہ الر حمٰنِ الر حیم۔

          ۱۔ [ یہ کتاب جو معرفت کا خزانہ ہے اور رحمت کا ٹھکانا ہے، پندیاتِ ؎ ۱ جوانمردی کے نام سے موسوم ہے، جس میں سرتا سر صرف حضرت مولانا مستنصر باللہ ثانی کے فرامین مبارک ہی درج کئے گئے ہیں، اور اس کتاب کو آنجناب نے اپنے عہدِ امامت میں جماعتِ ناجیہ کے لئے اپنے حجت (یعنی پیر ) کے مرتبے پر مقرر فرمایا ہے، حسبنا و کفیٰ مولانا۔

          ۲۔ یہ کتاب ایک پرانے نسخے سے نقل کی گئی، جو مقام تُنگ دارالخلافۂ سریقول میں لکھا گیا تھا، جس کے شروع اور اخیر کی چند سطور کہنگی و فرسودگی کی وجہ سے مٹ گئی تھیں]۔

          ۳۔ ۔۔۔۔ ابدی طور پر، آمین! اما بعد مولانا مرتضیٰ علی علیہ السلام کے راستے پر چلنے والوں کے آفتاب صفت نورانی ضمیر سے پوشیدہ نہ رہے، کہ امام ِ زمان حضرت مولانا شاہ مستنصر باللہ ( علیہ السلام ) کی درگاہِ معلی کے اس خادم کا کہنا ہے، کہ پندیاتِ جوانمردی کا سببِ تالیف یہ ہے، کہ مجھے جس مجلس، جس اجتماع اور جس اجلاس کے موقع

؎۱: پندیاتِ جوانمردی کے معنی ہیں عالی ہمتی کی نصیحتیں۔

۱۵

پر آنجناب کے حضور پر نور میں حاضر رہنے کا شرف حاصل ہوا ہے اور ان موقعوں پر امامِ عالیمقام علیہ السلام نے مومنین کی جماعت اور تمام پیروؤں کے لئے امر، نہی، اخلاق، صفات اور سلوک کے بارے میں جو پندیات و نصائح فرمایا کرتے تھے، اور انسانیت، دینداری، عبادت اور مومنین کے دنیوی فیض اور اخروی سعادت کے لئے محنت و ریاضت کے متعلق جو کچھ ارشاد فرماتے تھے، ان سب کو میں نے کتاب کی صورت میں لکھ دیا، تاکہ سننے اور عمل کرنے والوں کے لئے یہ کتاب و سیلۂ نجات ہو، اور میں نے اس کتاب کا نام ’’پندیات‘‘ رکھا، کیونکہ اس میں ایک طویل پند، دو مختصر پند اور عالی ہمتی کے بارہ اصول مندرج ہوئے ہیں۔

۱۶

حقیقی مومن کے اوصاف (۱)

بسمِ اللہ الرَّ حمٰنِ الرَّ حیم۔

          ۱۔ جان لے، کہ ہمارے آقا امام زمان حضرت مولانا شاہ مستنصر باللہ جلت حکمۃ  نےاپنی زبانِ مبارک سے فرمایا: ۔

          ۲۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنے مال (یعنی آمدنی) سے دسواں  ؎۱ حصہ جو امامِ حاضر کا حق ہے، صدقِ دل سے اور مکمل طور پر جدا کرتا ہے، اور اپنے امامِ زمان کےحوالے کر دیتا ہے، اس اصول سے، کہ وہ اپنی ان تمام مالی منفعتوں اور آمدنیوں کے، جو اسے حاصل ہوا کرتی ہیں، دس حصے کرتا ہے، اور اپنے اس رزق و روزی کے بھی، جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہے، اور ان دس حصوں میں سے ایک حصہ امامِ زمان  کی ملکیت ہے، جس کو حقیقی مومن جدا کر دیتا ہے، اور اس حصے کو حضرت مولانا شاہِ مردان مرتضیٰ علی علیہ السلام کے حضور میں، جو حی و حاضر ہیں، بلا کم و کاست پہنچا دیتا ہے۔

؎۱۔ دہ یک کا ترجمہ دسواں حصہ (۱۰/ ۱) ہے،  جو اب دسوند کہا جانے لگا ہے، اس موضوع کی فقہی اصطلاح ’’ زکوٰۃ‘‘ ہے، جس کے چند ذیلی موضوعات ہیں، مثلا: قرضِ حسنہ، صدقہ، نذرانہ وغیرہ، تفصیل کے لئے دیکھئے: دائم الاسلام جز ؤ اول ص: ۲۴۰۔ ۲۶۷، نیز وجہ دین حصہ دوم ( اردو) ص: ۳۴ ۔ ۸۱، اور ص: ۲۱۳ ۔ ۲۱۹۔

۱۷

 

          ۳۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو شریعت سے طریقت میں اور طریقت سے حقیقت میں، جو شریعت کا باطن ہے، داخل ہو جاتا ہے، کیونکہ شریعت ایک شمع کی مثال ہے، طریقت راستے کی مشابہ ہے، اور حقیقت منزلِ مقصود کی طرح ہے، مومن کو کوشان رہنا چاہئے، تاکہ شمع کی روشنی میں سیدھے راستے پر چل سکے، اور خانۂ حقیقت میں داخل ہو جائے، اور حقیقت کی بنیاد امامِ زمان علیہ السلام کو پہچاننا ہے، اور ہر چیز کا مقصد اس کی اندورنی اصلیت ہی ہے، کیونکہ چیز کا نچوڑ، مغز اور رس تو وہی ہے، پس شریعت سے پیغمبر صلعم کی غرض اس کا اندورنی مطلب ہی ہے، جس کا نام حقیقت ہے، جو امامِ وقت کی پہچان (معرفت پر قائم ) ہے۔

          ۴۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو عالی ہمت ہوتا ہے، اور حقیقی مومن وہی ہے جو بارہ مہینے یعنی سال بھر اچھے کام اور اعمالِ صالح بجا لا تا ہے، ہمیشہ حق تعالیٰ کی یاد میں رہتا ہے، حق بات کہتا ہے، حق بات سنتا ہے، حق پر قائم رہتا ہے، راہِ حق پر چلتا ہے، اس کا قلب پاک ہوتا ہے، اور اس کا دل سچا اور صاف ہوتا ہے۔

          ۵۔ حقیقی مومن وہی ہے، جس کا ضمیر (نفس) حق پسند ہوتا ہے، وہ برے کام کے پیچھے نہیں جاتا، اور حرام کا تعاقب نہیں کرتا ہے۔

          ۶۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو حق دیکھنے والی آنکھ رکھتا ہے، جس سے وہ جائز کو دیکھتا ہے، اور ناجائز کی طرف نظر نہیں کرتا ہے، جیسے لوگوں کا مال اور ان کی عورتیں۔

          ۷۔ حقیقی مومن وہی ہے، جس کے الفاظ سچ ہوتے ہیں وہ بدزبانی نہیں کرتا، غیبت نہیں کرتا ہے، گالی گلوچ نہیں بکتا اور جو کچھ اپنے لئے مناسب نہیں سمجھتا، تو وہی دوسرے کے لئے بھی مناسب نہیں

۱۸

سمجھتا۔

          ۸۔ حقیقی مومن وہی ہے، جس کی بات ایک ہوا کرتی ہے، جو سیدھی ہوتی ہے ار ٹیڑھی نہیں ہوتی۔

          ۹۔ حقیقی مومن وہی ہے، کہ جب وہ وعدہ کرتا ہے، تو وعدہ خلافی نہیں کرتا، اور اس کا وعدہ سچا اور پورا ہوا کرتا ہے، اور اس نے اپنے خداوند کے ساتھ جو عہد کیا ہوا ہے اس کو بھی پورا کرتا ہے۔

          ۱۰۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو جائز اور حلال کا لقمہ کھاتا ہے، حرام سے پرہیز کرتا ہے، اپنے حق پر قانع ہوتا ہے، اپنے حصے پر راضی رہتا ہے، وہ طمع نہیں رکھتا، حرام کا لقمہ اپنے منہ میں نہیں ڈالتا، اور اپنے منہ کو حرام خوری سے ناپاک نہیں کرتا۔

          ۱۱۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو سچا ہوتا ہے، اپنے دل میں دشمنی اور نفرت نہیں رکھتا، جلد ناراض نہیں ہوتا، غصہ نہیں کرتا اور اپنے دل کو صاف اور سچا ہی محفوظ رکھتا ہے۔

          ۱۲۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو نیکو کار اور مخلص ہوتا ہے، وہ لوگوں کے مال اور عورتوں کی طرف دست دارزی نہیں کرتا، اور اپنے ہاتھ کو ناجائز طور پر پھلانے سے روک لیتا ہے۔

          ۱۳۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنے نفس کو دوسروں کی بیویوں سے محفوظ رکھتا ہے اور ان کی طرف مائل نہیں ہوتا، جو شخص دوسروں کی بیویوں کی طرف مائل ہوتا ہے، وہ گویا اپنی ماں کی طرف مائل ہو جاتا ہے، اور جس شخص کی بیوی کی طرف دست درازی کرتا ہے، تو یہ ایسا ہے، جیسا کہ وہ اپنی ماں کی طرف دست درازی کرتا ہو، اور اگر وہ بد نظری کرتا ہے، تو اس کی بھی یہی مثال ہے، (یاد رکھو کہ) تم جس شخص

۱۹

کے حق میں جو کچھ کرو گے، تو تمہارے حق میں بھی وہی کیا جائے گا، ایسا معاملہ گویا تم نے خود ہی اپنے حق میں کیا ہے، اور جس راستے سے تم آئے ہو، پھر اسی راستے سے تمہیں واپس جانا ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اسی کو تم دیکھ پاؤ گے۔

          ۱۴۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو حقانیت کے راستے پر قدم رکھتا ہے، اور طریقِ حق پر سچائی اور حسنِ سلوک سے چلتا ہے، وہ لوگوں کے مال اور ان کی عورتوں کے پیچھے ہر گز نہیں جاتا۔

          ۱۵۔ حقیقی مومن وہی ہے جو سراپا سچا ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے ، کہ سچی بات کرتا ہے، سچی بات سنتا ہے، سچے راستے پر چلتا ہے، سچی مجلس میں بیٹھتا ہے اور سچے موقع پر اٹھتا ہے۔

          ۱۶۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو حق اور باطل کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے، حلال و حرام کے درمیان فرق و امتیاز جانتا ہے، اور ان کو ایک دوسرے سے جدا کر سکتا ہے۔

          ۱۷۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو نہیں ہنستا، کیونکہ ہنسی غفلت (یعنی خدا کی یاد بھول جانے) سے پیدا ہوتی ہے، اور قہقہہ مار کر ہنسنا تو شیطان کی صورت ہے، اور بے موقع ہنسنا حرام ہے، تو اس وقت ہنس لیا کر، جبکہ ہلاک کر دینے والے خطرات سے تجھے نجات مل چکی ہو، ورنہ جس شخص کو مرنا درپیش ہے، تو صحیح معنوں میں اس کی ہنسی کس طرح آسکتی ہے، اور اگر بھول سے وہ ہنس بھی لیا تو یہ کیا کام آسکتی ہے، اور اس خوشی سے فائدہ ہی کیا ہوا، جس (کے متعلق معلوم ہو، کہ اس ) کے بعد غم آرہا ہے، اور اس آسائش سے کیا حاصل ہوا، جس میں کچھ عرصہ کے بعد زوال آنے والا ہے۔

          ۱۸ ۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو ہمیشہ حق تعالیٰ کی یاد میں لگے رہتا

۲۰

ہے، اور ہمیشہ یا تو خدا کے ڈر سے یا اس کے دیدار کے شوق میں گریہ وزاری کرتا رہتا ہے۔

          ۱۹۔ حقیقی مومن وہی ہے، کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو اور جو کچھ بھی نیک کام کرتا ہو، تو سب سے پہلے اس کو رحمت والے خداوند کی یاد کرنا چاہئے، ہمیشہ حق تعالیٰ کے خیال میں رہنا چاہئے اور لوگوں کی بیویوں اور بیٹیوں کو اپنی بہنیں سمجھنا چاہئے۔

          ۲۰۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو ہمیشہ ذکر، فکر اور خداوندِ ذوالجلال کی شناخت سے خالی نہیں رہتا ، قیامت کے دن کا خوف رکھتا ہے اور روزِ محشر کی ہولناکی سے آگاہ رہتا ہے اور اس سے ڈرتا ہے۔

          ۲۱۔ حقیقی مومن وہی ہے، کہ روزِ قیامت کے حساب سے، جو حق تعالیٰ اس سے لینے والا ہے، ڈرتا ہے، اور اس حساب سے پیشتر روزانہ خود ہی اپنا حساب کرتا رہتا ہے۔

          ۲۲۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو ہمیشہ اپنی موت کو یاد کرتا ہے، اور قیامت کے دن کو اپنے نزدیک دیکھتا ہے، اور اس سے ڈرتا رہتا ہے۔

          ۲۳ ۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو خدا سے ڈرتا ہے، اس سے شرماتا ہے، کفر کی باتیں نہیں کرتا، اور حق تعالیٰ سے غافل نہیں رہتا ۔

۲۴ ۔ حقیقی مومن وہی ہے،  جو آخرت سے آگاہ رہتا ہے اور اپنی موت نہیں بھول جاتا ۔

          ۲۵۔ حقیقی مومن وہی ہے،  جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فرمان اور اس کے حکم کی تابعداری کرتا ہے۔

          ۲۶ ۔ حقیقی مومن وہی ہے جو خدائے غفار کو ہمیشہ اپنے سامنے حاضر و ناظر، روبرو اور اپنے آپ سے بھی زیادہ نزدیک سمجھتا ہے۔

          ۲۷۔ حقیقی مومن وہی ہے، کہ جو کام اور شغل کرے، اس میں وہ اپنے خداوند کو اپنے پاس حاضر سمجھتا ہے۔

۲۱

          ۲۸۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنے خداوند کو پہچانتا ہے، سچائی کے راستے پر چلتا ہے، اور اپنے دل میں اور زبان پر ایک ہی طرح کا قول رکھتا ہے۔

          ۲۹۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو مومنوں اور نیک لوگوں کی صحبت میں رہ کر علم کی باتیں سن لیا کرتا ہے اور انہیں یاد کرتا ہے۔

          ۳۰ ۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنے آپ کو مردہ اور نیست تصور کرتا ہے اور حقانیت و کمالیت کے ساتھ سر سے لیکر پاؤں تک اپنے تمام اعضا ٔ کو حق تعالیٰ کے فرمان کے تابع رکھتا ہے۔

          ۳۱ ۔ حقیقی مومن وہی ہے،  جو اپنے گناہوں پر نظر کر کے خدا سے ڈرتا ہے اور توبہ کرتا ہے۔

          ۳۲۔ ۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو جفاکش، محنتی، خاموش اور کم بولنے والا ہوتا ہے۔

          ۳۳۔ حقیقی مومن وہی ہے،  جو ہمیشہ صابر، سچا اور پرہیزگار ہوتا ہے، برے کاموں سے دور رہتا ہے، نیکو کار، پاک، صاف دل اور بے کینہ ہوتا ہے۔

          ۳۴۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنے اعمال و احوال سے باخبر رہتا ہے، غافل نہیں رہتا، موت کی تکلیف اور جان نکل جانے کی سختی سے بھی آگاہ رہتا ہے، عذاب اور نکیرو منکر کے سوال و جواب سے بھی ڈرتا رہتا ہے اور اسے نہیں بھول جاتا ہے۔

          ۳۵۔ حقیقی مومن وہی ہے،  جو حضرت امام مہدی عبد اللہ صاحب زمان علیہ السلام ( یعنی امامِ وقت  علیہ السلام ) کو جانتا پہچانتا ہے، کیونکہ آنجناب دنیا میں حاضر ہے، تمہیں اس کا طالب رہنا چاہئے، تمہیں اس کو ڈھونڈنا، دیکھنا اور پہچاننا چاہئے، اور اس مولا کے مالی حق کو

۲۲

آنجناب کے حضور پرنور میں پہنچا دینا اور حوالہ کرنا چاہئے، اور اس کی محبت اختیار کرنا چاہئے۔

          ۳۶۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو دائم خدا کی یاد میں رہتا ہے، اور اس کی زبان پر یادِ الٰہی کے سوا کوئی اور چیز، کوئی اور بات نہیں ہوتی۔

۲۳

حقیقی مومن کے اوصاف ۔۲

          ۱۔ جان لو اے ایمان والو اور اے صداقت والو! جس شخص کا دل صاف اور بے کینہ ہو، تو وہی ہمیشہ خدا کی فکر و ذکر میں رہا کرتا ہے، اور اس کی زبان ہر وقت خدا کی تعریف میں مصروف رہتی ہے، اور خدا کا مخلص بندہ وہی ہے، جو خوفِ خدا سے ہمیشہ گریہ وزاری اور عجز و انکساری کرتا رہتا ہے، یقیناً اس کے گناہ گرتے جاتے ہیں، (جس طرح موسم خزان میں کسی درخت کے پتے گرتے ہیں) جس طرح آسمان سے برف پڑتی ہے، اور سورج کی گرمی سے پگھل جاتی ہے، جو شخص قیامت سے ڈر جائے، تو اس کے گناہ اسی طرح گرتے جاتے ہیں، اور جو شخص بے ترتیب ، بے موقع اور بغیر سوچے سمجھے بات کرتا ہو، فحش باتیں کرتا ہو، فضول گوئی کرتا ہو، مسخرہ کرتا ہو، غفلت اختیار کرتا ہو، اوروں کی بیویوں کی خوبیان بیان کرتا ہو یا ان کے عیوب گنتا ہو، یا لوگوں کی بیویوں کی طرف دیکھاکرتا ہو، یا ان کا عاشق بنتا ہو، یا کوئی ایسی عورت بیگانہ مرد کی عاشق بنتی ہو، پس خدا کے غضب سے نعوذ باللہ! کہ ایسے شخص نے اپنی تمام عمر میں جو کچھ نماز اور عبادت کی ہے اور جو کچھ نیک کام کیا ہے، وہ سب برباد ہو جاتا ہے، اور سب ضائع ہو جاتا ہے، اس شخص کی طرح جس نے ایک پاک طعام میں چوہے کی لینڈی یعنی گوہ یا کوئی اور غلاظت ملادی ہو، اور سب کو ناپاک کر دیا

۲۴

ہو، خدائے تعالیٰ ایسے شخص سے ناراض اور ناخوش ہو جاتا ہے، اور اس شخص کے کام میں نقصان آتا ہے، اور وہ دربدر، حیران، پریشان اور سرگردان ہو گا، دنیا و آخرت میں اس کے لئے تاریکیاں اور ظلمتیں ہوں گی، اور آخرت میں عذابِ دوزخ میں گرفتار ہوگااور مایوسی کی آگ میں جلتا رہے گا، بد فعلی اور بد عملی ہی کی وجہ ہے، جو بہت سے لوگ ہمیشہ دنیا میں خوار و زار اور دربدر اور آخرت میں روسیاہ اور دوزخی ہو جاتے ہیں۔

          ۲۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو ہمیشہ صابر، نیکو کار، سچا، راست باز، دیندار، پرہیزگار، متقی، بے کینہ، بے بغض اور صاف دل ہوتا ہے، اور ہر ایک کام میں اپنے خداوند کو اپنے سامنے حاضر و ناظر سمجھتا ہے اور ہمیشہ حق تعالیٰ کی یاد میں رہتا ہے، اور جو بندہ ایسا ہو، تو اس کے لئے دنیا میں نور اور فیض حاصل ہو گا، اور آخرت کے دن بہشت میں اپنے آقاو مولا علی علیہ اسلام کے دیدار سے مشرف ہوگا۔

          ۳۔ حقیقی مومن وہی ہے، جس کا قول و قرار ایک اور سچا ہوتا ہے، اس بندے کے دل کا خیال بھی سچا ہوتا ہے، اس کا وعدہ بھی سچا ہوتا ہے، اس کی محبت و عاشقی بھی سچی ہوتی ہے، اور وہ بندہ سرتاپا مخلص اور سچا ہوتا ہے، وہ شیرین کلام اور نرم گو ہوتا ہے، اور اس کی روح صداقت ولی ہوتی ہے، اور وہ دائم الذکر ہوتا ہے، ہمیشہ خدا کے ذکر و فکر اور اس کے وصف، تعریف اور معرفت میں مصروف رہتا ہے، اور اس کے اعمال و کردار اچھے ہوتے ہیں، وہ اپنے خداوند اور پیر کی فرمانبرداری کرتاہے، اس کی زبان پر پنج تن کا نام جاری رہتا ہے، خدا کی یاد و تسبیح سے اس کی محبت ہوتی ہے، اپنے آقا حضرت صاحب الامر امامِ زمان کو پہچانتا ہے، اور آن جناب تک رسا ہو کر فرمانبرداری اور اطاعت کرتا

۲۵

ہے، اور اپنے آپ کو اور اپنے تمام دینی اور دنیوی امور کو آن مولا علیہ السلام، جو امامِ زمان اور جہان و اہلِ جہان کے مالک ہیں، کے حوالے کر دیتا ہے۔

          ۴۔ حقیقی مومن وہی ہے جو اپنے تمام کاروبار، تجارت اور آمدنی و منافع کو حساب کر کے دہ یک (یعنی دسواں حصہ) مالِ واجبات کے طور پر جدا کر دیتا ہے، اور سچے اعتقاد، کامل محبت، اخلاق، شوق اور عشق سے اس دسویں حصے کو اپنے امامِ وقت کے حضور میں پہنچا دیتا ہے، اور اگر پاک اعتقاد، سچائی اور کامل طور پر پہنچا دے، تو اس کو دنیا میں فیض و برکت اور آخرت میں سعادت حاصل ہوگی، اور حق تعالیٰ اس سے راضی ہوگا، کیونکہ اس نے خداوند کا حق ادا کر دیا، اور یہی مومنی، خدا دوستی اور اخلاص مندی کی علامت و نشانی ہوا کرتی ہے، اور صرف ایسا شخص ہی صابر، سچا، نکوکار، راست باز، پاک فطرت، پرہیزگار، منکسرالمزاج اور درویش صفت ہوتا ہے، اور اپنے آپ کو نیست سمجھتا ہے، اور اپنے آپ کو سراسر گناہ گار تصور کرتا ہے، وہ خود بینی اور غرور نہیں کرتا، نہ وہ خود نگر اور خود بین ہوتا ہے۔

          ۵۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو دل میں بغض و عداوت نہیں رکھتا، ہمیشہ اپنے پروردگار کے ذکر و فکر میں رہتا ہے، اس کے دل و زبان ایک ہوتے ہیں، تمام مومنین کے ساتھ ہمیشہ اس کی ملاقات اور محبت ہوتی ہے، وہ آخرت کی فکر میں رہتا ہے اور علم کی باتوں کو یاد کر لیا کرتا ہے، حق تعالیٰ کی راہ میں روز بروز آگے بڑھتا رہتا ہے، خدا کی راہ میں چلنے سے نہیں تھکتا، راہِ حق میں اسے جو تکالیف پیش آتی ہیں، ان سے رنجیدہ نہیں ہوتا، وہ دین میں ناشکری اور سستی نہیں کرتا، بلکہ شوق و محبت سے دینداری میں مصروف رہتا ہے، اور

۲۶

روز بروز اس کا یہ عشق و شوق بڑھتا جاتا ہے، اور دن بدن اس کے اخلاق، اوصاف، اقوال اور اعمال بہتر ہوتے جاتے ہیں، اور روز بروز اس کا ایمان کامل تر ہوتا جاتا ہے، جیسے کوئی مریض روز بروز صحت یاب ہو رہا ہو، یہاں تک کہ اسے شفائے کلی ملتی ہے، وہ ہمیشہ خدا کی راہ میں ہوشیار رہتا ہے، خدا کی محبت میں آنسو بہاتا ہے اور بہت کم ہنسا کرتا ہے، اور اپنے آپ کو غفلت اور شیطنت کی ہنسی سے بچاتا ہے، ہر وقت اپنے خدا کی طرف متوجہ رہتا ہے، دائم حق تعالیٰ کی یاد کرتا ہے، قیامت کے دن سے ڈرتا ہے، خدائے غفار کی، اپنے امام علیہ السلام کی، جو صاحب الزمان ہیں، اور اپنے پیر کی ہمیشہ یاد کرتا ہے، اور اپنے پیر کے دامن کو پکڑا ہوا ہوتا ہے، کیونکہ یہی پیر قیامت کے روز تم مومنین کی فریاد کو پہنچے گا، اور دوسرا کوئی شخص تمہارا عذر نہیں سنے گا۔

          ۶۔ اے مومنو! اور اے نکوکارو! حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنے آپ مومنین و صالحین کی خاکپا سمجھتا ہے، ایسا مومن ہی مخلص اور حقیقی ہوتا ہے، اور ایسا مومن ہی خدا تک پہنچتا ہے، خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے اور خدا اس سے کبھی جدا نہیں ہوتا۔

          ۷۔ اے مومنو اور اے صادقو! خاص بندوں کے لئے دین کا کام آسان ہے، بشرطیکہ کوئی بجالائے، خدا وند تعالیٰ کی محبت اور عشق مومنوں کے لئے آسان بھی ہے اور انتہائی پر لطف بھی، خدا کا عشق مومنوں کے لئے سہل بھی ہے اور پرلذت بھی، پروردگارِ عالم نے اپنے عشق کو پاکبازوں کی روحانی غذا بنائی ہے، اور غافلوں اور غفلت کے مارے ہوؤں کے لئے یہ امر بہت بھاری اور مشکل ہے، غفلت والے اور غفلت زدہ لوگ دنیوی عشق رکھتے ہیں، ان میں سے ہر شخص

۲۷

کسی نہ کسی دنیوی چیز کا عاشق بن کر اس کے پیچھے چلتا ہے، حالانکہ مجازی قسم کا عشق درحقیقت عشق نہیں، ایک مہلک شی ہے، بلکہ یہ ایک دائمی بیماری ہے، اور ایسی عشق بازی عاشق کو جہنم میں پہنچا دیتی ہے، اور جو کوئی اپنے پروردگار کے دیدار کا طالب اور اس کی ملاقات کا عاشق ہو، تو خدا وند عالم اپنے ذکر کو اس کے دل و زبان پر قرار دیتا ہے، اور ایسا بندہ حق تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے۔

          ۸۔ اے مومنو! سچا مذہب ہی صراطِ مستقیم ہے  ؎۱، یعنی امامِ وقت کی معرفت اور اس کی پیروی ہی سیدھی راہ (صراطِ مستقیم؎۱) ہے، سو جتنا بھی ہوسکے، تم راہِ راست پر آگے بڑھنے کی کوشش کرو، تاکہ منزلِ حقیقت میں، جو امام ِزمان علیہ السلام کی معرفت ہے، پہنچ سکو، اور تم جوانی میں ایسا کام کرو، کہ جس سے اپنے دین و ایمان کو کامل کرسکو، اور منزلِ مقصود میں پہنچ سکو، کیونکہ بڑھاپے میں حرص زیادہ اور عقل کم ہو جاتی ہے، اس وقت (اکثر لوگ) دنیا کے لئے حریص ہو کر غفلت میں رہ جاتے ہیں، پس اب تم اس فریضہ کو سمجھ سکتے ہو اور بجا لا سکتے ہو، اور جس وقت تم اس کو سمجھنے کے قابل نہ رہو گے، تو تمہاری کوشش لا حاصل اور بے سود ہوگی۔

؎۱ فالنبی، (ص) فی عصرہ ھو الصراط المستقیم و الوصی بعدہ کذالک، ثم ینتظم فی امام بعد امام، کل منہم یسند الیٰ من تقد مہ ویشیر الیٰ من تاء خرعنہ ۔۔۔ پس نبی (صلعم) خود ہی اپنے عصر میں ’’ صراط امستقیم‘‘ ہیں، ان کے بعد وصی ایسے ہی ہیں، پھر ایک امام کے بعد دوسرے امام میں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، اور ان میں سے ہر امام اگلے امام کی تصدیق و تائید کرتا ہے اور آنے والے امام کے متعلق اشارہ کرتا ہے۔

(المجالس المستنصریہ ص: ۱۶۹ ۔۱۷۰)

۲۸

          ۹۔ اے مومنو! غفلت سے خدا بچائے، کہ خدا سے غافل ہونا آفت ہے، جہاں تک تم سے ہوسکے، تو ذکرِ الٰہی سے غافل نہ ہونا، اور حق تعالیٰ کی یاد سے غفلت نہ کرنا، کیونکہ جو غافل ہوا، تو وہ ہار گیا، اور جو شخص حق تعالیٰ کو فراموش کرے، تو خدا اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے، اور خدا ایسے شخص کو قیامت کے دن فراموش کر دیتا ہے، پس تم غافل نہ رہنا، بلکہ اپنے تمام حالات سے باخبر رہنا۔

۲۹

سخاوت اور بخالت

نیز امام علیہ السلام نے فرمایا: ۔

          ۱۔ اے مومنو اور اے عزیزو! سخی و عالی ہمت شخص اور بخیل آدمی کے اوصاف سنو اور اپنے ذہن میں رکھ کر سمجھو کہ: ۔

          ۲۔ عالی ہمت اور بلند حوصلہ شخص وہ ہے، جو عالی ہمتی کرتا ہے، راست باز اور سچا ہوتا ہے، اس کے باطن میں ظاہر کی نسبت حقیقی محبت زیادہ ہوتی ہے، اور وہ ہر شخص سے دوستی اس لئے رکھتا ہے، کہ خدا کی خوشنودی حاصل ہو، نہ اس لئے کہ دنیا کا کوئی مطلب اور فائدہ حاصل ہو۔

          ۳۔ عالی ہمت اور بہادر شخص وہ ہے، جو نیک کاموں میں دوسروں سے سبقت لے جاتا ہے، بھلائی کے کاموں کے لئے کوشان رہتا  اور ان کا بانی ہوتا ہے، اپنے کام پر دینی بھائی کے کام کو ترجیح دیتا ہے، اور طعام و آرام میں دوسروں کو مقدم رکھتا ہے، جہاں تک ہو سکے دیتا ہے لیتا نہیں، اگر اس کا دینی بھائی کھائے، تو یوں سمجھتا ہے، جیسا کہ اس نے کھایا، اور مومن بھائی کی شادمانی سے شادمان ہوتا ہے، اور اس کی غمگینی سے غمگین۔

          ۴۔ عالی ہمت اور حوصلہ مند شخص وہ ہے، جو نہ دنیوی فائدے

۳۰

سے خوش ہوتا ہے، اور نہ نقصان سے غمناک، پتھر اور جواہر اس کے نزدیک ایک جیسے ہوتے ہیں، اس کے خیال میں کھانا اور نہ کھانا یکسان ہے، اس لئے کہ وہ عاقل اور دانشمند ہوتا ہے۔

          ۵۔ عالی ہمت اور سخی شخص وہ ہے جو مہمان نواز ہوتا ہے، نہ یہ کہ وہ ہمیشہ دوسروں کا مہمان بنے، وہ شیر کی طرح (دوسروں کو بھی کھلانے والا) ہوتا ہے، نہ لومڑی کی طرح (دوسروں) کا کھانے والا) وہ ہمیشہ ہنس مکھ ہوتا ہے، اس میں امامِ وقت کا حقیقی عشق اور کامل اعتقاد ہوتا ہے، وہ یہ کوشش کرتا ہے، کہ خود کہ لازوال دولت تک، جو امامِ زمان کی معرفت ہے، پہنچا دے، وہ خیر خواہ اور نیک خصلت ہوتا ہے، اور جناب مولا علیہ السلام کے دوستوں اور عاشقوں کے حق میں جو کچھ مہربانی اور حسنِ سلوک ممکن ہو، کر دیتا ہے۔

          ۶۔ عالی ہمتی اور فیاضی (کی برکت) یہ ہے، کہ ایسے مومن کے تمام کام وقت پر ہی انجام پاتے ہیں، تمام بلائیں اس سے دور رہتی ہیں، دشمن اس پر قابو نہیں پا سکتے، رزق و روزی کا دروازہ اس کے لئے کھلا رہتا ہے، وہ خیرو برکت سے بھرپور ہوتاہے، اس کے تمام کام حسبِ منشا تکمیل پاتے ہیں، اس کے فرزند سلامت رہتے ہیں اور نیکو کار ہوتے ہیں، اس کا گھر آباد ہوتا ہے، ہر نیک کام کے لئے اسے موقع ملتا ہے، اور خدائے غفار اس کا مددگار ہوتا ہے، اور خدا کا مددگار ہونا یہ ہے، کہ اس کے دل کا آئینہ صاف و روشن ہو جاتا ہے، اس کا ایمان مستحکم اور کامل ہوتا ہے، اس کی کمائی اور آمدنی حلال کی ہوتی ہے، اور حلال آمدنی کی علامت یہ ہے، کہ وہ خدا کی راہ میں صرف ہوتی ہے، جس کا ثواب حقیقی مومنوں اور نکوکاروں کی پاک ارواح کو ملتا رہتا ہے، اور حلال مال منافقوں کی قسمت میں نہیں، اور ( حرام مال خرچ کرنے

۳۱

سے) منافقوں کی ناپاک ارواح کو نہیں پہنچتا ہے، حلال مال ہی ہے، جو ایمان و یقین والے مومنوں کے مولائے حاضر کے حضور پر نور میں اور اس کی مبارک درگاہ و دربار میں پہنچ سکتا ہے، خداوند عالم ایسے بندے سے راضی ہوتا ہے، اور اس بندے کو خیروبرکت ملتی ہے، خدائے قادر و توانا اس بندے سے خوشنود ہوتا ہے، اس کا دین کامل ہوتا ہے، اس کے دل کا آئینہ درخشان اور معجز نما ہوتا ہے، اس کی جان و روح روشن ہوتی ہے، اس کی عقل و دانش بھی روشن ہوتی ہے، اور آخرت میں عزت والا خدا اسے اپنا عزیز دیدار عطا فرماتا ہے۔

          ۷۔ عالی ہمتی کی صفات سے حقیقی مومنوں کے لئے اتنے درجات و کمالات حاصل ہوتے ہیں، عالی ہمت کو چاہئے، کہ کم بولنے والا، سچا اور حلیم ہو، اسے اپنے تمام امور میں صبر و تحمل اور خدا وند تعالیٰ پر بھروسا ہونا چاہئے، اسے تمام کاموں میں صابر اور حوصلہ مند رہنا چاہئے، مگر دو کاموں میں صبر نہیں کرنا چاہئے، اور جلد از جلد ان کو انجام دینا چاہئے، اور صبر و تحمل نہیں کرنا چاہئے بلکہ صبر کرنا اس موقع پر حرام اور کفر ہے۔

          ۸۔ پہلا: پروردگار کے دیدار کی خواہش و آرزو کرنے اور اس کی ملاقات تک رسا ہوجانے میں، جو تمام کاموں سے زیادہ ضروری اور لازمی ہے ( صبر و تاخیر کرنا کفر ہے) کیونکہ ان امور میں صبر کرنا و بال ، گمراہی کی بنیاد اور ابدی نقصان کا سبب ہے۔

          ۹۔ دوسرا: حق تعالیٰ کے مبارک امر و فرمان کے بجالانے میں ، کہ خدا کی اطاعت واجب ہے اور اس میں صبر (تاخیر) و سستی کرنا کفر کا سرمایہ ہے۔

          ۱۰۔ مذکورہ دونوں کاموں میں صبر نہیں کیا جاسکتا ، اور نہیں کرنا چاہئے، پس تجھے چاہئے، کہ مولا کی محبت پر اکتفا ٔ کرے، اور اس کی

۳۲

محبت کے ماسوا سے اپنے آپ کو بچالے، کیونکہ دوسری چیزوں کی محبت (معجزانہ طور پر ) تیرے دل کو حقیقت کی طرف نہیں لے جاسکتی۔ نہ ہی اپنا طالب بنا سکتی ہے، جب حق تعالیٰ کی عبادت و بندگی کا وقت آئے، سو تو جس دنیوی کام میں بھی مصروف ہے، اور جو کچھ بھی کام تیرے ہاتھ میں ہو، خواہ وہ کام ضروری ہو یا غیر ضروری ، فوراً ہی اسے چھوڑ دے اور جلدی سے حق تعالیٰ کی بندگی کی طرف چلا جا، اور کسی تاخیر کے بغیر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر میں مصروف ہوجا، یہ ہیں عالی ہمتی کے اوصاف جو مذکور ہوئے۔

          ۱۱۔ اب بخیلوں کے حالات سنو، کہ بخیل کا دل ہمیشہ تنگ و تاریک اور سیاہ رہتا ہے، بخیل بدخصلت ہوتا ہے، اس کا خیال ہمیشہ لقمے پر رہتا ہے، وہ دائم تکلیفات اور مشکل کاموں میں گرفتار رہتا ہے، ہر وقت دنیوی نفع و نقصان کے حساب میں لگے رہتا ہے، ہمیشہ اس کے دل کا چراغ بجھا ہوا اور اس کا دل و دماغ بصیرت سے کورا رہ جاتا ہے، اس کی عقل قاصر اور فہم زائل ہو جاتی ہے، وہ نفسانیت کی تاریکی میں گرفتار اور جہالت کے کنوئیں میں اوندھا رہتا ہے، وہ دولت فراہم کرنے، کمانے اور اسے رکھنے کے سوا نیز دنیوی اعتبار سے اپنے آپ کو دیکھنے کے سوا کچھ بھی نہیں جانتا، وہ صرف اسی دنیا کو جانتا ہے، مگر دوسرے جہان سے بے خبر ہے، کسی ایسے کیڑے کی طرح، جو مٹی کے نیچے یا کسی اور جگہ ہوتاہے، جو اپنی محدود جگہ کے سوا دوسری جگہوں سے بے خبر ہے، اور جو رزق وہ کھاتا ہے، اس کے متعلق اس کا گمان ہے، کہ اس کے سوا کوئی رزق ہی نہیں، اور بخیل جس کا دل اکتا یا ہوا اور غمگین ہے، جو ہمیشہ منہ بنائے اور تیوری چڑھائے رہتا ہے، اس کی دعا خدا کے حضور میں مقبول و مستجاب نہیں ہوتی، اس کی روح تاریکی

۳۳

اور ظلمت میں ہے، بخیل کے دل میں مہر و محبت نہیں ہوتی، بخیل مومن سے دوستی نہیں رکھتا، اور اللہ تعالیٰ ایسا سبب بناتا ہے، کہ بخیل ظالموں اور بدکاروں سے دوستی رکھتا ہے، کیونکہ اس کی روح وہیں سے ہے۔

          ۱۲ ۔ بخیل سرگردان اور خوار و زار ہوتاہے، اس کے اخراجات (منشا سے ) زیادہ ہوتے ہیں، اس کو کوئی ثواب نہیں ملے گا، گناہ کے بغیر اس کا کوئی وقت نہیں گزرتا، چونکہ خداوند تعالیٰ اس سے راضی نہیں بلکہ ناراض ہے، اسے ظالموں سے آشنا کردیا ہے، اور یہ سب کچھ اس سبب سے ہے، کہ بخیل پروردگار کو نہیں پہچانتا ، جب بخیل کے دل میں حقیقی مہر و محبت اور عشق نہیں ، اور اس کا مال خدا کی راہ میں خرچ و استعمال نہیں ہوتا ہے، تو لازماً کسی منافق کی روح کے لئے صرف ہوتا ہے۔

          ۱۳۔ بخیل کا دل شیطان کا گھر ہے، اور شیطان لعین منافق کے دل میں ہے، اور جب منافق راضی ہوا، تو سمجھ لو، کہ شیطان راضی ہوا کیونکہ منافق ان چیزوں سے خوشنود ہوتا ہے، جن سے شیطان خوشنود ہوتا ہے، شیطان اور منافق کے دل ایک ہیں، یہ دونوں خوشی اور غم میں ایک دوسرے کے شریک ہیں، پس جب بھی تم منافق کو خوشحال دیکھتے ہو، گویا شیطان کو خوشحال دیکھتے ہو، اور جو شخص کوئی ایسا کام کرتا ہے، کہ جس میں شیطان کی خوشی ہے، تو ایسے شخص کے دل میں تاریکیاں اور ظلمتیں پیدا ہوتی ہیں اور اس کے دل کے مکانات میں تاریکی چھا جاتی ہے، اور اس کی عقل و دانش بھی تاریک ہو جاتی ہے، اور اس کے سب کام مشکل ہو کر اسے پریشانی و سرگردانی پیدا ہوتی ہے، اور اس کا منہ اداس ہو جاتا ہے، اور منافق وہ شخص ہے، جو اپنے ولی ٔ نعمت ؎۱

؎۱: ولی نعمت۔ نعمت کا مالک۔

۳۴

کو، جو امامِ وقت ہیں، نہیں پہچانتا، اور جو شخص اپنے حقیقی ولیٔ نعمت کو نہیں پہچانتا ہو، لوگوں کو تکلیف دیتا ہو، مومن کی دل آزاری کرتاہو، اور لوگوں کا بدخواہ ہو، تو منافق وہی ہے۔

          ۱۴۔ اگر کوئی شخص ہزاروں اعمالِ صالحہ کرے، اور دائم خدا کی یاد و فکر اور تعریف و توصیف کرے، ہمیشہ استغفار پڑھتا رہے اور ہزاروں عبادات کو بجا لائے، جب تک اپنے وقت کے امامِ عالی مقام کو، جو دنیا میں حاضر ہیں، نہ پہچانے، تو نہ اس کی نماز و طاعت قبول ہوتی ہے اور نہ اس کی کوئی نیکی۔

          ۱۵۔ اے مومنو اور اے صداقت والو! تم نے منافقوں کی صفات سن لیا، کہ منافق کا خوش ہونا اس کی تاریکی اور روسیاہی کا سبب ہو جاتا ہے، پس منافق کے خوش ہونے سے تاریکی پیدا ہو تی ہے، اور مومنوں کے خوش ہونے سے نور حاصل آتا ہے، کیونکہ منافق شیطان کا سپاہی ہے اور مومنین رحمان کے لشکر ہیں۔

          ۱۶۔ اے مومنو! تم متوجہ اور ہوشیار رہو، تاکہ تم راستہ غلط نہ کرو۔

          ۱۷۔ اے مومنو اے نیکوکارو اور اے عزیزو! بخیل اور سخی کے اوصاف ایسے ہیں جو بیان کئے گئے، اور جن کو تم نے سن لیا، ابھی تم کو چاہئے کہ راہ حق پر، جو صراطِ مستقیم ہے، ثابت قدم ہونے کے لئے کوشش کرو، تاکہ تم (اپنا راستہ) بھول نہ جاؤ، بخیل و منافق خدا کے دشمن ہیں، اور سخی مومن خدا کا دوست ہے۔

۳۵

بدنظری

         ۱۔ اے مومنو اے صداقت والو! وہ مرد جو دوسروں کی عورتوں کو تاکتا ہے، وہ گویا اپنی ماں بہن کو تاکتا ہے، ہم بتا چکے، کہ جب کوئی مرد دوسروں کی عورتوں کو نفسانی خواہش سے گھورتا ہے، تو وہ ایسا ہے جیسا کہ اس نے اپنی ماں بہن پر بد نظر کیا، بے شک دوسروں کی عورتیں اپنی ماں بہن جیسی ہیں، تمہیں بدنظر نہیں کرناچاہئے، تاکہ تمہاری آنکھ ناپاک و نجس نہ ہو، اور لوگوں کی عورتوں کو اپنی مائیں سمجھو۔

          ۲۔ بد نظری کے معنی یہ ہیں، کہ وہ غیر عورتوں کو نفسانی خواہش کی نظر سے گھورتا ہے، اور یہ نہیں جانتا کہ اگر وہ دوسروں کی عورتوں کو بری نظر سے گھورتا ہے، تو یہ ایسا ہے جیسا کہ وہ اپنی ماں بہن کو گھور رہا ہو، اور اس جیسا ایک غلط کار (بیہودہ) شخص پیدا ہو سکتا ہے، جو اس کی عورت کو بھی بری نظر سے گھورا کرے، یہ صفات بدعملی ہیں، اور بد نظری اسی کو کہتے ہیں، حق تعالیٰ اس آدمی پر یعنی اس ناپاک شخص پر قہر کی نظر ڈالتا ہے، دنیا میں اس کا کام تباہ اور آخرت میں وہ خود روسیاہ ہوگا، وہ گرفتار، سرگردان اور دربدر ہوگا، اور وہ ہمیشہ دنیا میں دل تنگ، لوگوں کے نزدیک خوار و شرمسار ہوتا ہے، اور اس کا کام حسبِ منشا نہیں بنتا، او راس کا چہرہ اداس اور بے نور ہوجاتا ہے، پس تم ہر گز ہرگز لوگوں کی عورتوں کو نفسانی خواہش سے نہ دیکھو، کیونکہ یہ بد عملی ہے، اور یہ شیطان

۳۶

کے وسوسے کی وجہ سے ہے، اور یہ سب کام شیطان کے ہیں، اور وہ شخص جہنمی ہے، اور بدنظری بہت بری شے ہے، نعوذ باللہ منھا، پس اس قوم اور اس شخص سے، جو ایسے کام کرتے ہوں، بچنا چاہئے۔

          ۳۔ اے مومنو اور اے عزیزو! اگر کوئی دختر چشمِ بد سے کسی نامحرم مرد کو دیکھے، تو یہ ایسا ہے، جیسا کہ اس نے اپنے باپ اور بھائی کو چشمِ بد سے دیکھا، اس لئے کہ نامحرم مرد اس کے باپ اور بھائی کے مانند ہے، پس اس کے دل کی کیفیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہونی چاہئے، کیونکہ اگر اس کی حالت بدل جائے، تووہ نادان حق تعالیٰ کی راہ سے بھٹک کر دور اور سرگردان ہو جاتی ہے، اور وہ اپنے (دینی) مقصد تک نہیں پہنچ سکتی، پس اگر وہ مردوں پر بدنظری کرتی ہے، تو گویا اس نے اپنے باپ اور بھائی پر بدنظری کی، اور ایسی عورت پر خدا وند قہر کی نظر ڈالتا ہے، اور وہ بیچاری سرگردان، دربدر اور کندذہن ہو جاتی ہے، اس کے دل کا آئینہ تاریک اور ناخوش رہتا ہے، وہ پریشان حال اور لوگوں کی نظر میں خوار و زار ہو جاتی ہے، اور وہ مفلس و تنگدست ہو جاتی ہے، یعنی وہ اپنی تمام عمر میں حسرت میں رہتی ہے، ہمیشہ اس کے کاموں میں مشکلات پیش آتی ہیں، اور دنیا میں حیران و سرگردان رہتی ہے، اور اس کے لئے کوئی ٹھکانا اور کوئی قرار نہیں اور آخرت میں اس کا ٹھکانا دوزخ ہوگا۔

          ۴۔ نعوذ باللہ بد عملی کا انجام یہی ہے، بد عملی اور برائی کے سب کاموں کا نتیجہ انتہائی برا ہوا کرتا ہے، خواہ وہ کسی مرد سے صادر ہوا ہو یا کسی عورت سے، اور جو شخص بد عملی کرتا ہے، حق تعالیٰ اس کے اس کام کے متعلق بڑا قہر کرتا ہے، اور ایسا شخص دنیا میں خوار و زار، سرشکستہ اور روسیاہ ہوتاہے، اور آخرت میں بھی روسیاہ اور دوزخی ہو تا ہے، اور لوگوں کے درمیان

۳۷

بھی ذلیل و رسوا، خوار و زار، سرشکستہ، حیران اور سرگردان ہوتا ہے، اور قیامت کی سختی میں ساتویں دوزخ کی آگ کے عذاب میں گرفتار ہو کر جلتا رہتا ہے، اور دوسری بات یہ ہے ، کہ جس گھر میں ایسی کسی عورت کا قدم پڑے، تو وہ گھر ویران اور اس کے اہل پریشان ہو جاتے ہیں، اور وہ گھر دوبارہ کبھی آباد نہیں ہو سکے گا۔

          ۵۔ اے مومنو، اے صداقت والو اور اے عزیزو! جان لو، کہ جس گھر میں برا کام واقع ہو جائے، تو اس گھر والوں کا زمانہ تاریک و تباہ ہو تا ہے، اور وہ خوار و زار اور ذلیل ہو جاتے ہیں، اور اپنی پیشمانی میں کچھ ایسے لوگوں کے مانند ہو جاتے ہیں، جن کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور وہ اسی طرح خوار ہوتے ہیں۔

۳۸

حقیقی مومن کے اوصاف ( ۳)

          ۱۔ اے مومنو، اے صداقت والو اور اے عزیزو! حقیقی مومن وہی ہے، کہ دائم الوقت حق تعالیٰ کے خیال میں رہتا ہے، اور ہمیشہ نیک کام کی فکر میں رہتا ہے۔

          ۲۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو علم و معرفت رکھتا ہے، اپنے امام زمان علیہ السلام کی اطاعت کرتا ، نافرمانی و خلاف و رزی نہیں کرتا، ہمیشہ نیک خصلت، خوش معاملہ، نیکو کار اور خوش سلوک ہوتاہے، دائم خداوند ِ کریم کی یاد میں رہتا ہے، اور ہر وقت پروردگار کے ذکر و فکر، ثناو صفت اور تمجید و شناخت میں لگے رہتا ہے، اور مدام الوقت اپنے گناہوں سے پشیمان ہو کر رویا کرتا ہے، اور خدا کے خوف یا اس کے  دیدار کےشوق میں گریہ وزاری کرنا موسمِ بہار کی بارش کی طرح ہے، جو باغ و چمن کے ہنسنے کا باعث ہوتی ہے، اور دوسرے موقعوں پر رونا بیجا اور بے موقع بارش کی مثال ہے۔

          ۳۔ حقیقی مومن کے دل میں ہمیشہ خوفِ خدا ہونا چاہئے، اور اسے (زندگی کی) راہ میں احتیاط سے چلنا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ اس سے کوئی گناہ و خطا صادر ہو جائے ، یا اس سے کوئی برا قول و فعل واقع ہو جائے۔

          ۴۔ حقیقی مومن کو ہمیشہ شیطان سے بچنا چاہئے، اس کے دل میں وسوسہ نہ ہونا چاہئے، فتنۂ آخرزمان سے خوف رکھنا چاہئے، اور کفر کے

۳۹

زمانوں سے، جو دنیا میں آتے ہیں، ڈرنا چاہئے، شیطان کے پیروؤں سے دور رہنا چاہئے، اور جو شخص شیطان کی مدد کرتا ہو، اسے شیاطینِ انس میں شمار کیا جاتا ہے، کیونکہ ( یہ شیاطینِ جن اور شیاطینِ انس) ایک دوسرے کی ہمت افزائی کرتے ہیں، اور یہ جہالت کی ہمت افزائی ہے، اس کام سے دور رہنا چاہئے اور ان سے دوستی و آشنائی نہیں رکھنی چاہئے، تاکہ وہ (خدا کے حفظ و) امان میں رہے، اور بہت سے لوگ ایسے ہیں، جو شکل و صورت سے آدمی نظر آتے ہیں، مگر باطن میں دیو ( یعنی شیاطین) ہیں، اور لوگوں کا تعاقب کر رہے ہیں، اور انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے، مگر جو مومن اپنے خدا، پیغمبر اور پیر کو پہچانے، اور ان کے حقوق ادا کرے، اور اپنے آپ کو خدا، پیغمبر اور پیر کے حوالے کر دے، اور امر و فرمان بجالائے، تو ڈاکو ( یعنی شیطان ) اس پر غلبہ نہیں پاسکے گا، اور جو شخص خدا وند تعالیٰ، پیغمبر اور اپنے پیر کی فرمانبرداری میں رہے، تو ہرگز وہ ڈاکو اور دشمن ( یعنی شیاطین) ایسے مومنوں کے نزدیک نہیں آسکیں گے، لیکن یہ ڈاکو ایسے لوگوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، جو اپنے خداوند، پیغمبر اور پیر کو اپنے سامنے نہیں دیکھتے ہیں، اور وہ جو کچھ کرتے ہیں، پیر کے امر و فرمان کے بغیر کرتے ہیں، پس یہ ڈاکو ایسے لوگوں کے تعاقب کر رہے ہیں۔

          ۵۔ اے مومنو اور اے نیکوکارو! اب یہ وقت آیا ہے، کہ تم دین کی مدد کرو، اور ایک دوسرے کی یاری کرو، حصولِ علم کے لئے کوشش کرتے رہو، دین ( کی ترقی) کے لئے کوشان رہو، ایمان کو کامل بنانے میں جدوجہد کرو، اور ایمان امامِ وقت کی اطاعت و پیروی کرنے سے کامل ہوتا ہے، اچھے کام کرو، اچھا کام یہ ہے، کہ تم امام کے فرمانبردار ہو، جو کچھ امام علیہ السلام کی مبارک زبان سے سنو، اسے بلا تاخیر بجالاؤ ، تبھی چھٹکارا ملے گا، پس اپنے

۴۰

پیرو پیغمبر کا دامن پکڑو، اور اپنے خدا کی اطاعت کرو اور اپنے امامِ وقت کا پاک دامن پکڑو، تاکہ امامِ زمان تمہیں اپنی پناہ میں رکھ کر مدد اور فتح و کشائش عطا فرمائیں، اور اپنے پیر کا دامن پکڑو، اور پیر کی ہمنیشنی کو غنیمت سمجھو، پیر اور امام علیہ السلام کے فرمان کو یاد رکھو اور ا س پر عمل کرو، جس تک رسا ہونا دوا میسر ہونے کی مثال ہے، اور پیرو مرشد یعنی امام کا قول سن کر اس پر عمل کرنا اور اس کی تعلیم حاصل کرنا اور اس کو بجالانا باطنی بیماریوں کے دفع ہونے، شفا پانے اور دل روشن ہونے کا سبب ہے، اور معلموں کی تعلیم دل کے آیئنے کو صاف اور روشن کر دیتی ہے۔

          ۶۔ اے مومنو، اے صداقت والو اور اے عزیزو! جب کوئی مومن خداوند کے ذکر میں مصروف ہوتا ہے، یا اپنے گھر میں کسی اور جگہ خداوند کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے، اس وقت ایک نادان، جو خدا کی عبادت میں شک رکھتا اور اس کو اس میں کوئی ذوق نہیں، کہتا ہے، کہ تم کس چیز میں مشغول ہو، اور اس بندے کو ذکر نہیں کرنے دیتا ، یا طنز کے طور پر کہتا ہے، کہ فلان شخص عابد ہوا ہے، یا شخ ہوا ہے، یا ان کی عبادت اور ملاقات سے دشمنی کرتا ہے اور طعنہ دیتا ہے، تو ایسے روسیاہ حاسد پر خداوند قہر کی نظر ڈالے گا، کیونکہ اس نادان نے اس عزیز بندے کو طعنہ دیا ہے، اور خداوند ایسے نادان گدھے کے لئے قہر کرتا ہے، کہ اے بدعمل اور مکار غافل ! میرے عزیز مومن بندے کے میری عبادت کرنے میں تم نے کیوں عیب جوئی کی، اور میرے بندے کو دل شکستہ کر کے ذکرو عبادت سے کیوں روک دیا؟ اور تم خود جبکہ عبادت نہیں کرتے ہو، اور منافق و دل سیاہ ہوگئے ہو، تو تمہیں خدا سے ڈرنا چاہئے اور شرمانا چاہئے کیونکہ خدائے تعالیٰ توانا و برتر (ایسے میں) سخت قہر کرتا ہے۔

          ۷۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے، کہ میں نے لوگوں کو اس لئے پیدا کیا ہے،

۴۱

کہ وہ مجھ کو یاد کرلیا کریں، اور اپنے دل و زبان پر میرا نام جاری رکھا کریں، اور پڑھتے رہیں، پس تم نے کیوں طنز اور عیب جوئی سے اس بندے کو عبادت میں ملامت کیا، اب جبکہ تم نے اس مخلص بندے کو عبادت کے متعلق طعنہ دیا، تو تم شیطان کی ظاہریت و صورت بن گئے ہو، اور دوزخ والوں سے ہو جاؤ گے۔

          ۸۔ یہ حالات و واقعات شیطان کے پیروؤں سے متعلق ہیں، جو خدا کی راہ سے بھٹک گئے ہیں، اور شیطان کے پیرو اور مطیع ہوئے ہیں، جو رحمان کی نعمت کھاتے ہیں اور شیطان کی اطاعت کرتے ہیں، لیکن جو لوگ اللہ والے ہیں، وہ تو خداوند کو پہچانتے ہیں۔

۴۲

منافق کی علم دشمنی

          ۱۔ اے مومنو اور اے عزیزو! دوسرا مطلب یہ ہے ، کہ جب عالم (ایک مجلس میں ) علم بیان کرتا تھا، تو اس میں اچانک ایک منافق آملا، اور وہ جاہل منافق خدا اور علم سے بےخبر تھا، اس نے کچھ نہیں سنا تھا، اور وہ اچھے اور برے میں تمیز نہیں کرسکتا تھا، ایسا شیطان صفت اور گمراہ شخص اس مجلس میں پیدا ہوا، اور اس کے خیال میں یہ بات تھی، کہ اس مجلس سے نکل جانے کے بعد اپنی طرف سے جھوٹ ملا کر اس عالم کی زبان سے کچھ باتیں کرے، تاکہ اس عالم پر ہنسی اڑائی جائے، اور وہ عالم صاف دلی سے علم کی باتیں سنا تا اور بیان کرتا تھا، اور بیچارہ عالم اس شیطان، منافق اور منکر شخص کے کھوٹے دل سے آگاہ نہیں تھا، اور نہیں جانتا تھا، کہ یہ شخص شیطان صفت ہے، اور دل میں حیلہ و مکر رکھتا ہے، اور اگر وہ منافق اسی گھڑی علم کا مسٔلہ اس عالم سے پوچھ لیتا، کہ علم میں یہ بات کہی گئی ہے، اس کے کیا معنی ہوتے ہیں، تو بہتر تھا، تاکہ اسی وقت فوراً ہی وہ عالم اس نادان کو لفظ کے معنی اور علم کا مطلب بتا دیتا، اور اسے آگاہ کرتا، اور اس گمراہ شخص کے دل کو روشن اور (علم کے لئے ) بیقرار کردیتا، لیکن چونکہ وہ بے وقوف نادان، پرکینہ اور گدھا تھا، اس لئے اس نے علم کا مسٔلہ عالم سے نہیں پوچھا، نہ وہ خود جانتا تھا، اور اس کے بعد کہ وہ عالم وہاں سے چلا گیا، اور

۴۳

مجلس والے سب کے سب اپنے اپنے کام کے پیچھے چلے گئے، یہ عام نادان گدھے کہیں بیٹھ گئے، اور دوسرے چند گدھوں (یعنی نادانوں) کو بھی اپنے گرد جمع کر لیا، اور ان تمام شیطان کے فوجیوں نے اس عالم کی غیبت کے لئے زبان کھولی، اور اس عالم کی بدگوئی اور عیب جوئی کرنے لگے۔

          ۲۔ اے مومنو اور اے عزیزو!جو شخص معلم کی عیب جوئی کرتا ہے، ایسا ہے جیسا کہ وہ خدا کی عیب جوئی کرتا ہو، وہ گناہِ کبیرہ میں داخل ہو جاتا ہے، اور جو شخص (اعتقاد سے) عالم کا کلام سنتا ہے، گویا خدا کا کلام سنتا ہے، اور جو لوگ عالم کی غیبت کرتے ہیں، اس کی وجہ دشمنی، کینہ اور حسد ہے، اور اپنے دلوں میں بغض رکھتے ہیں، خدا کی لعنت ہو شیطان پر اور شیطان صفت لوگوں پر اور اہلِ حسد پر۔

          ۳۔ اے عزیزو! اگروہ نادان اور بیوقوف دل میں حسد نہیں رکھتا اور حق کی طرف مائل ہوتا، تو اسی گھڑی اس معلم سے کلام کی حقیقت پوچھ لیتا ، اور معلم کلام کی حقیقت سے اس کو آگاہ کر دیتا ، اور اس حقیقت سے اس نادان کا دل روشن، ملائم اور نرم ہو کر راہِ حق کا طالب ہوجاتا، پھر وہ حقیقت سے آگاہ ہوجاتا، اس کے دل کو سکون و قرار آجاتا، اور وہ اہلِ حق میں سے ہوتا، کیونکہ وہ شخص نادان اور خرتھا، اس نے خود علم کی حقیقت نہیں سنی تھی، اور نہیں جانتا تھا، اور اسے گمان نہیں تھا، کہ وہ عالمِ حقیقت سے باخبر ہے، یہی سبب تھا، جو عالم سے نہیں پوچھا، اور عالم کے چلے جانے کے بعد اس کی غیبت شروع کی، اور وہ دل میں راہِ حقیقت کے علما ٔ کی دشمنی و کینہ رکھتا تھا، اسی سبب سے ایسے لوگوں سے آخر کار گناہِ کبیرہ سرزد ہو کر دوزخی ہو گئے، یہ لوگ بہت ہی نادان اور خر تھے، اور بسببِ جہالت راہِ حق

۴۴

سے بھٹک گئے، ورنہ شروع شروع میں سب لوگ راہِ حق پر تھے، اور اپنی جہالت کی بنا پر ہر زمانے میں ایک ایک فرقہ ہو کر جدا ہوتے گئے، حضرت خاتم الانبیا صلعم سے قبل اور بعد میں اب تک جو لوگ سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں، اس کا سبب جہالت، حسد اور دشمنی ہے، انہوں نے کتنے موقعوں پر حقیقی امام علیہ السلام کو چھوڑ کر غیر امام کی پیروی کی اور فرقہ فرقہ ہوگئے، اور اسی اپنی جہالت میں اب بھی سرگردان ہیں۔

          ۴۔ وہ حق کو چھوڑ کر باطل کے پیرو ہوئے، اور یہ دانشمندوں کا راستہ نہیں، اہلِ دانش تو امامِ علیہ السلام ہی کا راستہ اختیار کرتے ہیں، وہ یہ کہ تم اپنے امامِ وقت کے امرو فرمان کی اطاعت کرو، اور دائرۂ وجود کے اس مرکز کے حکم کے تحت رہو، اور یہ کہ امامِ وقت کی معرفت حاصل کرو، علم کی حقیقت جانو، دینی علما سے پوچھ لیا کرو، علمی مجلس میں بیٹھا کرو، عالم سے پوچھو، سنو اور اس پر عمل کرو، تب ہی علم کی حقیقت جاننے والے تم کو بتا سکتے ہیں، سمجھا سکتے ہیں ، اور کام حسبِ منشا ہو سکتا ہے، اور کوئی شخص گمراہ نہ ہوگا۔

          ۵۔  اے مومنو ، اے عزیزواور اے صداقت والو!تمہیں غافل نہیں ہونا چاہئے، حق بات کی طرف توجہ دو، سیدھی راہ اور سچی بات کے طلبگار رہو، تحقیق و تصدیق سے راہِ حق کو قبول کرو، حق و صدق کی باتوں میں بحث نہ کیا کرو اور کلام (یعنی قرآن) کے معنی و حقیقت سمجھ لیا کرو، اور اس کی تعلیم دو اور اس کو سنو۔

          ۶۔ اے مومنو! حقیقی مومنین، جو ایمان کے مکمل ہوتے ہیں، وہ ہیں، جو دینداری سے متعلق احکام اور مطالب یعنی کام، افکار، رفتار و سلوک اعمال و احوال، جو مومن کی صفات ہیں، دینی علما ٔ سے ، جو معلمانِ صادق ہیں، پوچھ لیا کرتے ہیں، اور واقفیت حاصل کرکے

۴۵

ان کو بجا لاتے ہیں، کیونکہ اول علم پھر عمل ہے، اور جو لوگ راہِ حق کے طالب ہیں، وہ روز بروز راہِ حق سے زیادہ مانوس ہو تے ہیں، اور آگے بڑھتے ۔

۴۶

دیدار کے لئے قربانیاں (۱)

                   ۱۔ اے مومنو!مومنین آخرت کے لئے ستم و سختی جھیلتے ہیں، اور مومنین پر یہ ظلم و سختی منافقین کی طرف سے آتی ہے، اور مومنین منافق لوگوں کے درمیان خوار و بیمقدار ہوتے ہیں، دشمنانِ دین مومنین کو اذیتیں پہنچاتے ہیں، اور مومنین ہر حالت میں صبر اختیار کرتے ہیں، نہ اذیت سے غمگین ہوتے ہیں، اور نہ ہی حمایت سے شادان، وہ دنیا کے غم اور خوشی سے متاثر نہیں ہوتے، کیونکہ نہ دنیا کا غم ہمیشہ رہ سکتا ہے اور نہ اس کی خوشی، اور مومن صرف اپنے پروردگار کی خوشنودی کا طالب رہتا ہے، اور مومنین نے اخروی نجات کے لئے محنت، مشقت اور زحمت اٹھائی ہے، اور گریہ وزاری کی ہے۔

          ۲۔ مومنین نے خداوند کے دیدار کی خاطر اپنی آمدنی کا دسواں حصہ، جو امام علیہ السلام کا حق ہے، بطورِ واجبات بلا کم و کاست اور پوری طرح سے حضور کو پہنچا دیا ہے، مومنین امام علیہ السلام کے دیدار کے لئے اپنے مال، بیوی، اولاد اور زندگی سے دست بردار ہوئے، مومنین نے دیدار کی غرض سے اپنے سر، فرزند، مال و ملک کو فروخت کر ڈالا، اور آنجناب کی راہ میں صرف و قربان کر دیا، مومنین نے حصولِ دیدار کے لئے دور و دراز خشکی اور دریائی راستوں کو طے کیا، طوفانوں سے گزرے، اخراجات اور تکالیف برداشت کیں، یہاں تک کہ مقصد کو پہنچ

۴۷

گئے، مومنین مولا کے دیدار کے لئے کس قدر دور ممالک سے آئے، کتنی تکالیف اٹھا کر اور کتنے اخراجات برداشت کر کے آئے اور مالِ و اجبات لائے، مومنین نے دیدار کی خاطر نیک کام انجام دیئے اور خیر خواہی کی، مومنین نے دیدار کی غرض سے نیک کام، سچائی، سادگی، امانت گزاری، پاک نظری، صاف دلی اور دینداری اختیار کی، مومنین نے دیدار کے لئے عبادت، بندگی اور ریاضت کی، جس سے مقصود کو پہنچ گئے، مومنین نے دیدار کے لئے خداوند کی یاد میں کوشش کی، دائمی ذکر اختیار کیا، وہ دن رات لحظہ بھر کے لئے بھی خدا کی یاد سے غافل نہ رہے اور انہوں نے ذوق و شوق سے بندگی کی، مومنین نے دیدار کی خاطر اپنے سرو جان کی کوئی پرواہ نہیں کی۔

          ۳۔ مومنین نے دیدار کے لئے حق تعالیٰ کے امرو فرمان کو بجا لایا، مومنین دیدار کی غرض سے حقیقی مومنین کی مجلس میں رہے اور دینی علما ٔ سے علمی سوالات کئے اور سن کر اس پر عامل ہوئے، مومنین نے دیدار کے لئے اپنے غریب دینی بھائیوں کی مالی امداد کی اور انہیں توانگر بنایا، مومنین نے دیدار کے لئے فیاضی کی اور راہِ دین میں بہت سے خیراتی کام کئے، مومنین نے دیدار کے لئے اپنے مال سے اپنے مومن بھائی کو حصہ دیا، اس کے ساتھ برادرانہ سلوک کیا، اسے شفقت کی نظر سے دیکھا، محتاج مومنوں کے لئے نیکی اور سخاوت کا دروازہ کھول رکھا، اور ان پر کسی دنیاوی غرض، طمع اور ریا کے بغیر مہربانی کی، اور مومنین نے دیدار کے لئے مومنین اور نادار دینی بھائیوں کی دلجوئی کی۔

          ۴۔ اے مومنو!راہِ حقیقت کی قدردانی کرو، کہ راہ نجات ہے، جو شخص اس راہ پر چلتا ہے، وہ منزلِ مقصود تک پہنچ سکتا ہے، جو دیدار کا مشاہدہ ہے، پس جہاں تک تم سے ہو سکے کوشان رہو، تاکہ منزلِ مقصود

۴۸

تک رسا ہوجاؤ، جو امام علیہ السلام کا پاک دیدار ہے، اور جو شخص امام علیہ السلام کا طلبگار ہو، تو امام علیہ السلام بھی اس کے طلبگار ہوتے ہیں، جو کوئی امام علیہ السلام کو سارے جہان پر برگزیدہ مانے، تو امام علیہ السلام بھی اس کو ممتاز کر دیتے ہیں، جو شخص امام علیہ السلام کے لئے قبول کرتا ہے، تو امام علیہ السلام بھی اسے قبولتے ہیں، لیکن جو شخص امام علیہ السلام کے لئے قبول نہ کرے، تو امام علیہ السلام بھی اس کی پذیرائی نہیں کرتے، نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں، اور جس شخص کا دل اور آنکھ پا ک ہو، اور وہ امام علیہ السلام کے دیدار کا طلبگار ہو، اور اسی خواہش کی بنا پر تمام دنیاوی خواہشات سے دست بردار ہو جائے، تو امام علیہ السلام اس کو دیدار بخشتے ہیں، خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی ہو۔

۴۹

خدا کا محل اور تخت

          ۱۔ اس کے علاوہ تم یہ جان لو، کہ جب کسی دیندار مومن کا دل خرسند، شادمان اور راضی ہوجاتا ہے، تو سمجھ لو، کہ خدا راضی ہوا، کیونکہ مومن کا دل خدا کا گھر ؎۱ ہے، اور خدا وندکریم کے نظر کرنے کی جگہ ہے۔

          ۲۔ اے مومنو اور اے پرہیزگارو! خداوند ہر اس شخص کے دل میں اپنا مقام رکھتا ہے، جو مومن اور پاکباز ہو، جس میں کینہ، عداوت اور دنیوی محبت نہ ہو۔

          ۳۔ اے مومنو! جن دلوں میں کینہ اور پلیدی بھری ہوئی ہے، جس کا سبب تاریکیوں اور باطل خیالات کے نتیجے پر شکوک کا پیدا ہونا ہے، ان دلوں میں شیطان اور جنات کی جگہ ہے، اس کے برعکس، وہ دل، جو صاف، پاک اور حقیقی محبت والے ہیں، جن میں کسی سے کینہ و عداوت اور دنیاوی محبت نہیں، اور خدا کے خیال کے سوا کوئی اور خیال نہیں، تو ایسے دل عرشِ الٰہی اور مقامِ ملائکہ ہیں۔

          ۴۔ پس اے مومنو اپنے دل ہی میں خدا کا مشاہدہ کر لیا کرو، اپنے

؎۱: حدیثِ قدسی ہے کہ: لا یسعنی ارضی ولا سمائی ولکن یسعنی قلب عبدی المومن۔

میں اپنی زمین اور آسمان میں نہیں سماتا ہوں، لیکن اپنے مومن بندے کے دل میں سماتا ہوں۔

نیز حدیثِ نبوی ہےکہ: قلب المومن عرش اللہ تعالیٰ۔ مومن کا دل اللہ تعالیٰ کا عرش یعنی تخت ہے۔

۵۰

دل کو ہمیشہ صاف و پاک رکھا کرو، آئینۂ دل سے شک اور نفاق کے زنگ و غبار کو یقین کے جھاڑن کے ذریعہ پونچھ لو، اور علم و حکمت کے پانی سے اسے دھولیا کرو، تاکہ تم اپنے دل کے آئینے میں خدا دیکھ سکو، اگر تم خدا سے دوستی رکھنا چاہتے ہو، تو تم سیاہ دل منافقوں کی طرف مائل نہ ہو جاؤ، ایسا نہ ہو، کہ منافق تمہیں اپنے مانند بنالیں، اور خدائے تعالیٰ نے منافقوں سے اپنا چہرہ پھیر لیاہے۔

۵۱

حاضر و ناظر کے معنی

          ۱۔ جو کوئی خدا سے دوستی رکھتا ہو، اسے چاہئے کہ بے ایمان منافقوں سے اپنا منہ موڑ لے، جس طرح مومنین خدا سے دوستی کرتے ہیں، اسی طرح خدا بھی مومنین سے دوستی کرتا اور ان کی مدد کرتا ہے، اور جو کوئی خدا سے دوستی کرتا ہو، اس کو پہچانتا ہو اور اس کی عبادت کرتا ہو، تو خدا وند اس کو ساری آفتوں سے محفوظ رکھتا ہے، اور وہ زمانے میں خدا کا خاص بندہ اور حقیقی مومن بن جاتا ہے، کیونکہ وہ ہر جگہ اپنے خدا کو حاضروناظر؎ جانتا ہے، اور غافل نہیں ہوتا، وہ جانتا ہے، کہ اس کے تمام حالات سے، خواہ وہ پوشیدہ ہوں یا ظاہر، خداوند مہربان باخبر ہے، وہ جس کام میں بھی مصروف ہو (یقین رکھتا ہے کہ ) خدا کے حضور میں اور اس کے روبرو ہے، اور خدا اس کے پوشیدہ اور ظاہر کاموں سے، اس کے دل کے خیالات سے اور اس کی نیت سے باخبر ہے، اور ذرہ بذرہ اس کی تمام چیزوں سے آگاہ ہے، اگرچہ تو خدا کو نہیں دیکھتا، تاہم خدا تجھے دیکھتا ہے ( بندے کو) یقین کرنا چاہئے، کہ وہ جو کچھ کام کرتا ہو، اور

؎۱: خدا کے حاضر ہونے کے معنی یہ ہیں، کہ وہ اپنے ظہورِ نور کے اعتبار سے لوگوں کے سامنے ہے، اور ناظر کے معنی یہ کہ وہ بندوں کے احوالِ ظاہر و باطن کو دیکھتا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: ’’فلنقصنّ علیھم بعلم و ماکنا غائبین ۷: ۷ اور ہم (قیامت میں ان کے احوال کے) علم کے ساتھ ان سے ضرور بیان کر دین گے اور ہم (کچھ ) غائب تو تھے نہیں۔‘‘

۵۲

ہر بد یا نیک خیال جو وہ دل میں رکھتا ہو، اس سے خدائے عادل کے سوا دوسرا کوئی آگاہ نہیں، اور خدائے تعالیٰ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے، اور اس کی تمام کمیت و کیفیت پر مطلع ہے، تو غافل اور بے خبر ہے، اور جو شخص بے خبر ہو، تو وہ ڈرتانہیں اور خدا کو فراموش کرتا ہے، اور شیطان اس کے دل میں برے کام کا وسوسہ ڈالتا ہے، اس وقت وہ غافل خدا کے سامنے ہی کسی برے کام میں مصروف ہوتا ہے، یا کسی کو تکلیف دیتا ہے یا کسی کی غیبت کرتا ہے، ایسا شخص آخرت میں رسوا ہوگا، حضرت باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ: ۔

          ۲۔ مخلص بندہ وہ ہے، کہ جو کچھ کام کرے، اور جہاں کہیں جائے، تو اس میں ہم کو اپنے سامنے حاضر و ناظر جانتا ہے، اور ہم سے شرمایا کرتا ہے، اگر کسی آدمی کے دل میں کوئی برا خیال پیدا ہو، یا وہ حرام خوری کی طرف مائل ہو، اور وہ اس وقت ہماری طرف التجا کرے، تو ہم اس کو اس وسوسۂ شیطانی سے، اور اس فعلِ بد سے، جو اس کے لئے عذابِ آخرت کا باعث ہے، نجات بخشیں گے، اور اس کے دل میں نیک کام ( کی خواہش) ڈالیں گے، جس سے وہ اچھے کام اور اعمالِ صالح انجام دے گا، جن سے وہ آخرت میں رستگار اور مسرور ہوگا، اور وہ خوشی سے دنیوی زندگی بسر کرے گا، اور آخرت میں بھی وہ خوش رہے گا۔

۵۳

حقیقی مومن کا درجہ

          ۱۔ مومن کو چاہئے، کہ ہمیشہ خدا کے خیال میں رہے، موت کو اپنے نزدیک سمجھے، آخرت کی فکر و کاروبار میں رہے، اس کی توجہ اس بات کی طرف ہو، کہ وہ اپنی آخرت کو آباد کرے، اور ہمیشہ صرف دنیا ہی آباد کرنے میں پا بہ زنجیر نہ ہو، قوت لایموت ؎۱ کی ضرورت کے مطابق صرف اس قدر کمائے، کہ جس سے لوگوں کے درمیان دینداری کر سکے، اور اپنے دین کو مکمل کرے نہ کہ دنیا کو۔

          ۲۔ مومن کو چاہئے، کہ اپنے وقت کے پیر کی پیروی کرے اور اس کا دامن پکڑے، خدا وندِ ذوالجلال نے فرمایا ہے، کہ جو شخص مجھے (دنیا میں) اپنا بزرگ اور مہربان برادر سمجھے، تو میں اسے آخرت میں اپنا چھوٹا بھائی قرار دوں گا، اور اپنا دیدار اسے نصیب کروں گا، وہ میرے نورانی دیدار کا مشاہدہ کرے گا۔

          ۳۔ اے مومنو! اپنی قدرو قیمت سمجھو، کہ تم کل قیامت کے دن (گزشتہ زمانے کے) مومنوں اور نیکوکاروں کے ہمسر ہوجاؤ گے، حوروں کی معیت میں بہشت کی نعمتوں سے حظ اٹھاؤ گے، ان کے ہمنشین بن جاؤ گے، اور تمہیں اپنے مولا کی دوستی و برادری حاصل ہوگی، اور وہ ہر جگہ تمہارا پشت پناہ رہے گا۔

؎۱: قوتِ لایموت۔ اس قدر قلیل خوراک ، جو صرف بھوک کی موت سے بچائے۔

۵۴

          ۴۔ اے مومنو! میں نے تم کو پیدا کیا ہے، تاکہ تم ہمیشہ میری ہی یاد میں رہو، اس صورت میں دوسرے کسی کی یاد تمہیں جائز نہیں، اور ہر قسم کی سختیوں میں میری ہی طرف التجا کرو اور مجھ ہی سے مدد چاہو، کیونکہ میرے ماسوا سے التجا کرنا اور کسی غیر سے حاجت طلب کرنا روا نہیں، تمہیں پوری طرح سے باادب رہنا چاہئے، تاکہ تم سے کوئی غلطی سرزد نہ ہو، اور میرا نام اپنے دل و زبان پر جاری رکھا کرو، تاکہ میں تم سے راضی رہوں، میں نے اپنی رحمانی صفت سے تم کو نیستی کے بھنور سے چھڑا کر وجود کے ساحل پر پہنچا دیا، زندگی کے تمام ذرائع مہیا کر دیئے، اور تمہاری سہولت کی خاطر میں نے تم کو راحت و آسائش بخشی، تاکہ تم میری عبادت کرسکو، اور جس کام کا میں نے امر ؎۲ کیا ہے، اسے بجا لا سکو ، اور جس کی نہی ؎۳ کی ہے، اسے ترک کر سکو، تاکہ تم بھی میرے مانند ہو سکو اور زندۂ جاوید رہو گے، اور تمہیں علم و قدرت عطا کر دوں ؎۴ گا، پس اگر تم میری فرمانبرداری کرو، تو اس کا فائدہ تم ہی کو حاصل ہوگا، مجھ کو نہیں، کیونکہ میں تو بے نیاز ہوں اور تم محتاج، پھر تم دیکھ لو اور سوچو، کہ میں تم سے بھی زیادہ تمہارا خیر خواہ ہوں ( اور تم جس قدر اپنا لحاظ و رعایت کرتے ہو) میں اس سے بھی بڑھ کر تمہارا لحاظ و رعایت کرتا ہوں، پس اگر فی الواقع تم خود اپنا دشمن نہیں بنتے ہو، اور اپنی ابدی راحت کے طلبگار ہو، تو

؎۱: امر۔ فرمان وہ حکم جو کسی کام کے کرنے کے لئے ہو۔

۲۔ نہی۔ منع، ممانعت، روک، وہ حکم جو کسی کام کے نہ کرنے کے لئےہو۔

۳۔ تورات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ( أطعنی یا بن آدم اجعلک مثلی حیاً لاتموت، عزیزاً لا تذل، غنیاً لا تفتقر) اے ابنِ آدم! میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو ایسا زندہ کروں گا کہ تو کبھی نہیں مریگا، ایسا معزز بناؤں گا کہ تو کبھی ذلیل نہیں ہوگا، اور ایسا امیر بناؤں گا کہ تو کبھی محتاج نہیں ہوگا (بحوالۂ تاویل الدعائم  ص ۴۲، تحقیق کردۂ محمد حسن الاعظمی)

۵۵

مجھے یاد کرتے رہا کرو، اور میری آشنائی اختیار کرو، کیونکہ کوئی دوسرا شخص تم کو خطرات و مہلکات سے چھڑا نہیں سکتا، بلکہ وہ خود تم سے بھی زیادہ عاجز ہوگا۔

          ۵۔ اے مومنو! جو کوئی میرا دیدار کرنا چاہتا ہو، تو اس کو چاہئے کہ وہ مجھے اپنے آپ سے بھی زیادہ قریب سمجھے اور مجھے حاضرو ناظر مانے، ہر حال میں اور ہر جگہ مجھے حاضر و موجود جانے، روزِ قیامت کے حسابات سے خوف رکھا کرے، اور اپنی موت سے غافل نہ ہو جایا کرے، اور جو شخص میری فکر میں رہے، تو میں بھی اس کی فکر کر لیا کروں گا۔

۵۶

پیر اور معلم

          ۱۔ اے عزیزو! سن لو، تمہیں حصولِ علم کے لئے کوشان رہنا چاہئے، تم عالم کی باتوں کی حاصل کرو، ان کو خوب اپنے ذہن و شعور میں رکھا کرو، خداوند کریم کے علم کی حقیقت معلم سے سیکھ لیا کرو، اور اس پر عمل کئے جاؤ، تاکہ تم درجۂ کمال تک پہنچ سکو، اور دنیا و آخرت کے فیوض و برکات حاصل کرسکو گے، اور معلم جو کچھ تمہیں تعلیم دیتا ہے، اسے بجا لایا کرو، اور دیکھو کہ علم کے مقام پر پیر نے کیا ارشاد فرمایا ہے، تم اسی پر عامل رہو، معلم تمہیں پیر شناسی اور دین شناسی سکھاتا ہے اور منزلِ معرفت تک پہنچا دیتا ہے، امامِ عالیمقام علیہ السلام جو کچھ فرماتے ہیں، اس پر ثابت قدم اور قائم رہو، اور آنجناب جو حکم فرمائیں، اسی کے مطابق عمل کرو، ہر لمحہ اس کے امر کے لئے منتظر رہو، اور ہر دم اس کے فیض کے لئے امید وار رہو۔

          ۲۔ اے مومنو! اگر تم خدا شناسی میں کامل ہونا چاہتے ہو، اور خدا کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہو، تو اپنے وقت کے پیر کے امر کو قبول کرو، اور پیر تمہیں جو کچھ فرماتے ہیں، اسی کے مطابق عمل کرو، امر سے تجاوز نہ کرو، اور ہمیشہ فرمانبردار رہو، تاکہ تم اہلِ کشف میں سے ہوسکو۔

          ۳۔ پیر وہ شخص ہے، جس کو امامِ زمان علیہ السلام ایک ایسا درجہ عطا فرماتے ہیں، کہ جس سے وہ لوگوں میں اشرف ترین ہو جاتا ہے،

۵۷

اور جب کبھی امام کسی پیر کا تعین و تقرر فرماتے ہیں، تو اس وقت تفصیلی معرفت لازمی ہوتی ہے، اور تجھے چاہئے کہ انہی ( پیر ) کے ذریعہ امام شناسی کو مکمل کرے، اور جب امام علیہ السلام پیر کا تقرر نہ فرمائیں، تو امام اہلِ علم میں سے جس کو ہدایت و دعوت کے لئے مامور فرمائیں، تجھے اس شخص کی دعوت و ارشاد سے امام کی معرفت حاصل کرنی چاہئے، تاکہ تو گمراہی میں نہ رہے، اور اس شخص کے علم کی روشنی سے تو امام کی معرفت میں پہنچ سکے، اور پیر کے ہونے سے یہ ہوتا ہے، کہ پیر اور امام علیہ السلام کے امرو فرمان کے بموجب اور پیر کی اجازت سے معلمین دعوت کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔

          ۴۔ پس اے مومنو! تم پر لازم ہے، کہ پیر کی پیروی کر لیا کرو، ان کی فرمانبرداری سے روگردان نہ ہو جاؤ، اور پیر تمہیں جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں، اس پر پابند رہو، اور اسے عمل میں لاؤ، پیر تم سے کوئی اجرو صلہ نہیں مانگتے ہیں، اور میں خود انہیں عوض دیا کرتا ہوں، اور تم پیر کی جتنی بھی اطاعت کرو گے، ان شاء اللہ پیر روزِ قیامت تمہاری سفارش کر ینگے۔

          ۵۔ قیامت کے دن اگلے اور پچھلے تمام لوگوں کا حساب مولانا علی ذکرہ الشفا ء ؎۱ کے ہاتھ میں ہوگا ، اور آنجناب علیہ السلام ہی اپنے بندوں کو طلب فرمائیں گے، ان کے طلبگار ہوں گے، دریافت فرمائیں گے اور مخلص مومنین کو نوازیں گے، اور نافرمان منافقین صحرائے محشر کی گرم دھوپ میں خود بخود گرفتار ہوں گے، وہ وہاں روسیاہ اور شرمسار ہونگے، عذاب جھیلتے ہوئے نالہ و فریاد کریں گے، ہر شخص خود بخود گرفتار ہوگا، اور جو کوئی دنیا میں پیر کا فرمانبردار رہا ہو، اس ہولناک روز اپنے

؎۱: ذکرہ الشفاء۔ اس کی یاد شفاء ہے، مراد یہ ہے، کہ مولانا علی علیہ السلام کی یاد روحانی بیماریوں کے لئے دوا و شفاء ہے (مترجم)

۵۸

وقت کے پیر کے سائے میں رہے گا، اور خوشیاں منائے گا۔

          ۶۔ روزِ قیامت (ہر شخص کے لئے ) بے شمار لوگوں کے سامنے اپنے سامان (یعنی اعمال ) ظاہر کرنے کا دن ہے، ہر شخص جو کچھ اچھی جنس رکھتا ہو، وہ بازارِ محشر میں حاضر کرے گا، اور اس بازار میں خود اللہ تعالیٰ ہی ان چیزوں کا خریدار ہوگا، پس اب تو نے سمجھ لیا اور حساب کے بارے میں آگاہ ہوا اور جان لیا کہ تیرا خریدار کون ہے، پھر عمدہ اجناس اور نفیس اشیا ٔ ( مہیا کرنے ) کی فکر میں رہا کر، جو انمول اور گرانمایہ ہوں، وہ کون کون سی چیزیں ہیں؟ پاک روح، پاکیزہ دل، امامِ وقت کا عشق، اور اس کی کلی معرفت، اس کے خوف و امید میں جان دینا اور اس کی رضاجوئی۔

          ۷۔ اے مومنو! قیامت کے دن پیرِ کامل کے سوا باقی سب پیر، امیر اور ان جیسے لوگ کاپنتے لرزتے ہوئے کھڑے رہیں گے، اور ان میں سے کوئی شخص بھی بولنے کی جرأت نہ کر سکے گا، اور اپنی بات کوظاہر نہ کر سکے گا، مگر تمہارا پیر ہی، جنہوں نے دنیا میں تمہاری دستگیری کی ہے، آخرت میں بھی تمہاری دستگیری اور سفارش کریں ؎۱گے، پس ان کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو، چونکہ تم دراصل اس جہان والے ہو، لازماً تم اس جہان میں خوشیاں کرو گے اور عیش و راحت سے رہو گے، پس تم اس دنیا کی خوشی، دولت، عزت، رتبہ اور بڑائی میں مقید نہ رہا کرو، تم روز بروز زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کی، اپنے پیر کی اور امام کی محبت اور خدمت کر لیا کرو، اور اس دنیا میں نہ پھنس جاؤ، کیونکہ یہ جہان فانی اور بے قدر و منزلت ہے، تم دنیوی آلائشوں سے بچکر رہو، کیونکہ یہ تمہیں غفلت

؎۱: جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے۔’’ يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلاَئِكَةُ صَفًّا لاَ يَتَكَلَّمُونَ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَقَالَ صَوَابًا(۷۸: ۳۸) جس دن روح اور فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہونگے، وہ بات نہیں کرسکیں گے، مگر وہ جسے رحمان اذن دے اور وہ ٹھیک بات کہے۔‘‘

۵۹

میں ڈال دیتی ہیں، جب تم غفلت میں پڑتے ہو، تو آپس میں جھگڑا فساد کر کے مرتے دم تک ایک دوسرے سے انتقام لینے کے درپے ہوتے ہو، اس وقت مفلس، شرمسار ار پشیمان ہو جاتے ہو، پس کوئی چیز آخرت میں کام نہیں آتی، صرف یہی، کہ اگر تم سے ہو سکے، تو اپنے مال کو اپنے امامِ وقت کی خوشنودی میں صرف کیا کرو، کیونکہ دنیوی طور پر جو کچھ خرچ کرتے ہو، یا خزانہ کر کے رکھتے ہو، اسے تم دوبارہ نہ دیکھ سکو گے، بلکہ وہ تمہارے لئے باعثِ عذاب ہوگا، اور جو کچھ تم راہِ مولا میں دیتے ہو، وہ تمہارے لئے آخرت میں باقی رہے گا، جس کی مثال گندم کی طرح ہے، کہ جو خرچ کئے جاتے ہیں، وہ تو ختم اور فانی ہی جاتے ہیں، اور جو تخم ریزی کے طور پر کھیت میں بکھیر دیتے جاتے ہیں، وہ غیر فانی ہیں، اور آخرت میں تمہارےلئے اپنے  ہی وقت کا پیر زیادہ کارآمد اور ہمدرد ہوں گے، جو شخص اپنے زمانے کے پیر کافرمانبردار نہ ہو، اور ان کا حکم نہ سنے، تو اس کے لئے آہ و افسوس! کہ وہ دنیا و آخرت میں ہمیشہ سرنگون و سرگردان ہوگا، پس لازمی ہے، کہ تم پیر کے دامن کو پکڑے رہو، کہ پیر ہی تم کو امام علیہ السلام کی تفصیلی معرفت سمجھا سکتے ہیں۔

          ۸۔ اگر تم چاہتے ہو، کہ اپنے دل کو حق تعالیٰ کے عشق و محبت سے پر مسرت اور زندہ کر سکو، اور خدا وند عالم کا عشق تمہارے دل میں ہمیشہ قائم رہے، اور یہ عشق تمہیں اپنے پروردگار کی ملاقات کے لئے بیقرار اور اس کے دیدار کے لئے طلبگار کرتا رہے تو اس کے لئے یہ ہے، کہ تم اپنا دل ماسوا ؎۲ اللہ سے پھر دو، خداوند کی طرف متوجہ ہو جاؤ، پروردگار،

؎۱۔: ما سوا اللہ ۔ خدا کے سوا جو کچھ ہے۔

۶۰

پیر اور رہنما سے التجا کرو، باطل اور غیر ممکن خیالات کو چھوڑو، اور دنیوی محبت کو قطعی طور پر دل سے نکال دو، تب ہی خدا وند تعالیٰ کا عشق تمہارے دل میں ٹھہرے گا، اور تمہیں حقیقی دیدار کے لئے بے قرار کر دے گا۔

۶۱

کشتیٔ نجات

          ۱۔ انہیں اپنے نوحِ وقت کی کشتی ؎۱ میں سوار ہونا چاہئے، کیونکہ دوسری سب کشتیاں غرق ہو جانے والی ہیں، پس تم اپنے رئیس اور سردار کا دامن پکڑو، خانۂ حقیقت میں رہا کرو، اورا پنے نوحِ زمان کی کشتی میں داخل ہو جاؤ، تاکہ تم سلامتی سے ساحلِ نجات پر پہنچ سکو، اور وہ رئیس اور نوحِ زمان تمہارے امامِ وقت شاہ عبد السلام شاہ علیہ السلام ہیں، انہی کی شناخت حاصل کرلو اور کشتیٔ نوح میں داخل ہو جاؤ، یعنی ان کے طریقِ دعوت میں، تاکہ تمہارا ایمان مکمل ہو اور تمہاری روح آفتوں سے سلامت رہے۔

          ۲۔ جو گھر روشن دان اور کھڑکی کے بغیر ہو، وہ تاریک رہتا ہے، اسی طرح جس شخص کا خانۂ دل امامِ زمان علیہ السلام سے، جو وقت کے سورج ہیں، مستفیض نہ ہو، تو وہ تاریک اور بے نور ہے، اس میں کوئی روشنی نہیں، اور کینہ و عداوت کی تاریکیوں میں ہے، پھر تاریکی میں کسی چیز سے ٹکرا جانا، راستے سے بھٹک جانا اور گمراہ ہو جانا لازمی ہے۔

؎۱: اس باب میں آنحضرت صلعم کا ارشاد یہ ہے: مثل اھل بیتی فیکم کمثل سفینۃ نوح فی قومہ من رکبہا نجیٰ و من تخلف عنہا غرق۔ تم میں میرے اہلِ بیت سفینۂ نور کی مثل ہیں، جو ان کی قوم کے لئے تھی، جو اس پر سوار ہوا نجات پا گیا اور جو اس سے مخالف ہوا غرق ہوا ( ارجح المطالب، ص ۳۲۹)۔

۶۲

          ۳۔ جو شخص راہ راست سے بھٹک گیا، تو وہ خواہ چلے یا ٹھہرے منزل میں نہیں پہنچ سکتا، اگر تو اسے راہِ راست بتائے، تو وہ باور نہیں کرتا، وہ شک و نفاق میں ہے، رد کیا گیا ہے، پر کھ نہیں سکتا، ایسے لو گ گمان کرتے ہیں، کہ وہ خود راہِ راست پر ہیں، حالانکہ وہ گمان کے پردے میں ہیں، وہ سرگردان رہے، اور نہیں جانتے ہیں، کہ سیدھی راہ ( اور دینِ حق) وہی ہے، کہ جس راہ کے پیشوا اور جس دین کے مالک امامِ حی و حاضر علیہ السلام ہیں۔

          ۴۔ پیغمبروں کے زمانے میں بھی جو شخص اپنے وقت کے نبی کی راہ پر چلا، تو وہ ناجی ہوا، اور جو شخص (اگلی) شریعت پر عامل رہا، اور اس نے اپنے وقت کے پیغمبر کی فرمانبرداری نہ کی، تو ایسے لوگ ضلالت و گمراہی میں رہے، ہر چند کہ انہوں نے اس شریعت کی رو سے خدا کے حکم اور گزشتہ زمانے کے انبیأ کے فتویٰ کے مطابق عمل کیا، اور اب بھی دورِ ولایت (میں ایسا ہی ) ہے۔

۵۔ جب کبھی کوئی شخص اپنے ولیٔ زمان کو نہیں پہچانتا ، نہیں مانتا، اور ان کے فرمان کو علمِ ظاہر کے ذریعہ پرکھتا، اور (آنجناب کے ) امام ہونے کے متعلق علمائے ظاہر سے تقلید کے طور پر پوچھتا ہو، اور اس پر عمل کرتا ہو، تو اس کا یہ عمل باطل اور اس کی تکلیف ضائع ہو گی، اور آخر کار وہ دوزخ والوں میں سے ہوگا، کیونکہ قرآن اور صحیح حدیث کے معنی امام علیہ السلام کے پاس ہیں، اور پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ جو شخص میری عترت (آل) اور خدا کی کتاب (قرآن) کو پکڑے رہے، تو وہ ہر گز گمراہ نہ ہوگا، اور میری عتر ت امام علیہ السلام ہیں‘‘ کہ (یہ حقیقت) ذریۃ بعضھا من بعض ؎۱ کے مطابق ہے، اور امام ہی کے ذریعہ امام کو پہچاننا چاہئے، امام خود ہی اپنی اولاد میں سے جس کو امام مقرر فرمائیں، وہی امام ہوگا،

۶۳

اور اس کے سوا کوئی امام نہ ہوگا، اور لوگ امام مقرر نہیں کر سکتے ہیں، اور (امامِ سابق) اپنی اولادوں میں سے جس کو نورِ امامت کے لئے مقرر فرمائیں اور جس کو اسرارِ امامت حوالہ کریں، تو وہی شخص امام ہے، اور وہی آلِ نبی ہیں، اور باقی سب دوسرے فرزند اگر (امام) کی اطاعت کریں، تو وہ اہلِ نجات میں سے ہیں۔

          ۶۔ پس امام کی پیروی کرو، تاکہ تم نسلاً بعد نسل امام کے راستے پر قائم رہ سکو، اور جو لوگ امام کے راستے پر نہیں، اس کا سبب یہی ہے، کہ انہوں نے امام علیہ السلام کی مخالفت کی اور آنجناب علیہ السلام سے عداوت کی، اور امام علیہ السلام نے اپنے آپ کو ان سے پردے  میں

؎۱: اس مطلب کی پوری آیت یہ ہے: إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ ۔ ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۳: ۳۳ تا ۳۴) بے شک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام اور آلِ ابراہیم علیہ السلام اور آلِ عمران علیہ السلام ( یعنی آل ابو طالب) کو تمام جہانوں پر مصطفیٰ (پاک و صاف) کیا ہے یہ ایک دوسرے کی نسل میں سے ہیں، اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا (اور ) جاننے والا ہے‘‘ اس آیۂ مقدسہ سے خوب واقف و باخبر ہونے کے لئے اس حقیقت کا سمجھ لینا ضروری ہے، کہ جب حضرتِ نوح علیہ السلام کے ایک بیٹے کنعان نے اپنے والد کے دینِ برحق میں داخل ہونے سے صاف انکار کیا، تو قانونِ الٰہی نے اسے حضرتِ نوح علیہ السلام کی اولادوں سے خارج قرار دیا، چنانچہ قرآن کا ارشاد ہے: ’’( خدانے ) کہا اے نوح یقیناً وہ (بیٹا) تیرے اہل میں سے نہیں، کیونکہ اس نے اچھا کام نہیں کیا (۱۱: ۴۶)‘‘ اب اگر کنعان کی کوئی نسل باقی رہتی، تو حقیقت میں نوح علیہ السلام کی زریت نہیں کہلاسکتی، چونکہ یہ ذریت صرف کنعان ہی کی نسبت سے نوح علیہ السلام سے منسوب ہوسکتی تھی، پس آدم علیہ السلام ، نوح علیہ السلام ، آلِ ابراہیم علیہ السلام اور آل عمران علیہ السلام ایک دوسرے کی اولاد سے ہونے اور پاک و صاف ہونے کے معنی یہ ہیں، کہ ان حضرات کے غیر منقطع سلسلۂ ذریت کے پاک اشخاص میں نورِ خدا تاقیامت جاری و باقی ہے۔

۶۴

رکھا، اور لوگوں نے ظاہری علما ٔ کی پیروی کی، اسی سبب سے یہ لوگ گمراہ ہیں، اور انہی علمائے ظاہری کے ساتھ باقی رہے، یہ لوگ تقلیدی طور پر عبادت و دینداری کرتے تھے، یہاں تک کہ یہی تقلیدی عمل ان کا موروثی دین بن گیا، جس طرح زمانۂ جاہلیت میں تھا۔

          ۷۔ علمائے ظاہر بھی جانتے ہیں، کہ دنیا امام سے ایک طرفۃ العین کے لئے بھی خالی نہیں اور نہ کبھی خالی ہوگی، کیونکہ اگر دم بھر کے لئے وہ امام موجود نہ ہو، تو زمین اور اس کے باشندے ہلاک ہو جائیں گے، مگر دینوی سرداری اور اقتدار نے ان کو اس بات پر مجبور کردیا ہے، کہ وہ اس حقیقت کو چھپالیں اور منکر ہو جائیں، آخر انہوں نے انبیا ٔ و اولیا ٔ سے جو تنازعات کئے، ان کا سبب بھی یہی تھا، کہ وہ لوگوں میں معزز و محترم ہو جائیں۔

۶۵

اصلی مسرت کا مقام

          ۱۔ اے مومنو! تعجب ہے ان لوگوں سے، جو امام کے رستے پر نہیں اور وہ ہنسی خوشی کر رہے ہیں، اور اس سے بھی زیادہ تعجب ان لوگوں سے ہے، جو امامِ وقت سے انکار اور دشمنی کرتے ہیں، ان کی مثال اس چھوٹی بچے کی طرح ہے، جو پن چکی کے پرنالے پر یا گھر کی چھت پر یا ہاتھ میں ایک سانپ لئے ہوئے خوش ہورہا ہے (حالانکہ وہ سخت خطرے میں ہے) یہ غیر مناسب ہنسی اور بیجا و بے موقع خوشی، جو عوام کرتے ہیں، تو دیکھے گا کہ یکایک یہ ان کی ہلاکت، عذاب اور غم کا سبب بن جائے گی۔

          ۲۔ اے مومنو اور اے صداقت والو! ہنسی خوشی اس وقت کرو، جبکہ تم خطرات و آفات سے نجات پا چکے ہو، اور غرقابی سے (بچکر) ساحل پر اور سفر سے (سلامتی کے ساتھ) منزل پر پہنچ چکے ہو، یہ اس وقت حاصل ہو سکتا ہے، جبکہ تم اپنے امامِ وقت  علیہ السلام کی معرفت میں پہنچ چکے ہو، امام علیہ السلام  کی غلامی (بندگی) و فرمانبرداری کر رہے ہو، آنجناب  علیہ السلام کی فرمانبرداری و یاد سے تم دم بھر کے لئے بھی غافل نہیں ہو، اور آنجناب علیہ السلام کی معرفت سے تمہارا ضمیر روشن ہو چکا ہو، ایسا وقت ہی تمہارے لئے مسرت و شادمانی کا وقت ہے۔

          ۳۔ پس قہقہہ مار کر ہنسنے سے، جو ناپائدار ملمع چیزوں کے سبب سے

۶۶

ہے، جن کی مثال بچوں کے کھلونوں کی طرح ہے، بہت ڈرا کرو، کیونکہ یہ ہنسی شیطان کی صورت ہے، اور یہ ہنسی بے ایمان شخص کا فعل ہے، ہنسی اپنے مالک کو خوار کر دیتی، انسان کو لوگوں کے نزدیک بے وقار، بے آبرو اور ھلکا کردیتی ہے، اور ہنسی غفلت سے ہے، اور غفلت بے وقوفی سے ہے، اگر ہنسنے والا بے وقوف نہ ہوتا، تو وہ یہ بات سمجھ لیتا، کہ امرأ، حکما یا کسی معزز شخص کے پاس لوگ نہیں ہنس سکتے ہیں، پس وہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہنسی، بے ادبی، فحش، غیبت اور فعلِ بد کرتا ہے، وہ اپنے کام کی سزا پائےگا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

۶۷

برائی کا انجام

          ۱۔ اے مومنو! تم اپنے قول، سلوک اور عمل میں سچے رہو، اور ہر گز جھوٹی، فضول اور بیجا باتیں نہ کیا کرو، اور کم گوئی اختیار کرو، اور جو باتیں نہ پوچھی جائیں، وہ نہ بتایا کرو، ہمیشہ خدا کی راہ میں رہو، خدا کی راہ سے دست بردار نہ ہوجاؤ، اور جو کچھ حضرت خداوند اور پیر فرماتے ہیں، اسے سنو اور عمل میں لاؤ، اگر تم حق تعالیٰ سے رحمت چاہتے ہو، تو خدا تعالیٰ کے کام میں حاضر رہو، اور دینداری کے شائق رہو، کیونکہ تمہارے لئے حق تعالیٰ کے عدل و انصاف کا ایک وقت آئےگا، اور فصل کاٹنے کا وقت آنے والا ہے، جس میں ہر شخص اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹے گا، اور ہرشخص کو اپنے عمل کا بدلہ ملے گا، پس آخرت کے حساب کے خیال میں رہو، اگرچہ بہت سے کام ایسے ہیں کہ جن کا بدلہ لوگوں کو صرف قیامت میں ملتا ہے، تاہم بدی دنیا میں بھی تین چیزوں میں سے کسی ایک کو تباہ کردیتی ہے، یا مال کو یا عمر کو یا ایمان کو پس برے کام انتہائی احتیاط کے ساتھ پرہیز کرو، کہ برائی بہت ہی خطرناک ہے، برائی سے بہت سی برائیاں پیدا ہو تی جاتی ہیں۔

۶۸

زندہ سمندر

          ۱۔ حقیقی مومن کو سمندر کی طرح ہونا چاہیے، جو کمی بیشی سے اس میں تغیر نہیں آتا، اور اس میں گد لایا گندہ پانی کے داخل ہونے سے، یا کسی نجاست کے پڑنے سے اس کے رنگ و بو اور طبیعت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی، پس مومن کو بھی چاہئے، کہ دنیوی مال کی کمی بیشی سے یا کس شخص کی برائی سے یا اس کی فحش باتوں سے یا ڈا کا مارنے سے یا بد زبانی و بدسلوکی سے متغیر نہ ہو جائے، ان چیزوں سے حقیقی مومن کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے، لہٰذا اس کا دل اپنے مولا کی محبت میں برقرار ہے، اور لوگوں کی برائی اور بھلائی اس ( امتحان کے) لئے ہے، کہ مومن غیض و غصہ نہیں کرتا، وہ اپنی قوتِ شہوانیہ اور قوتِ غضبیہ پر غالب آچکا ہے، اسی لئے مومن فحش گالی نہیں دیتا۔

          ۲۔ مومن بد زبان و تلخ کلام نہیں ہوتا، وہ بد معاملہ و بد سلوک نہیں ہوتا، بد فعل و بد کردار نہیں ہوتا، مومن بخیل نہیں ہوتا، وہ امامِ زمان  علیہ السلام سے غافل نہیں رہتا، ہمیشہ اپنے امام کا فرمان بردار اور اس کی رضا کا طلبگار رہتا ہے، مومن غیبت نہیں کرتا، وہ لوگوں کے مال اور عورتوں کی طرف خیانت کا ہاتھ نہیں بڑھاتا، اور شرم وحیا کے اوصاف رکھتا ہے۔

          ۳۔ پس اے مومنو! بری بات کرنے سے ڈرو، کیونکہ برائی آدمی کو بے ایمان بنا دیتی ہے، برائی لوگوں کے ایمان کو زائل کر دیتی ہے،

۶۹

اور ان کو دوزخی اور روسیاہ کر دیتی ہے۔

          ۴۔ اے مومنو! جس آدمی کی طبیعت میں غصے کا مادہ ہو، اس کے غصے کی آگ بھڑکتی ہے، جب وہ غصے کے زور سے گرم ہو جاتا ہے، تو اسی گرمی سے (اس کی ہستی میں) آگ لگ جاتی ہے، اور اس کے ایمان، نیک کام، ثواب، بندگی، دل کی روشنی، چہرے کی رونق، فہم و فراست کو یکسر جلادیتی ہے، اور اسی حرص کی آگ سے نفسانی خواہشات کی آگ بھڑک اٹھتی ہے، جو پرلذت غذاؤں کی خواہش، مال، عزت و اقتدار ، لوگوں کی عورتوں کی خواہش اور عمدہ غذا و نفیس لباس کی خواہش ہے، یہ حرص گویا دوزخ ہے، جو تجھے خوار اور کنویں میں نگو نسار (اوندھا) کرے گی، پس جس حد تک تم سے ہو سکے، اپنی غضبی قوت اور شہوانی قوت کو قابو میں کر رکھو، تاکہ یہ تم کو لغزش و حرکت نہ دے سکے، تم کو نہ گرمائے تم میں کوئی تغیر نہ لائے اور تمہاری طبعی حالت نہ بدلائے، کیونکہ جب حرص نے کسی کی انسانی طبیعت و خصلت بدل دی ، تو وہ انسان حیوانِ بےایمان بن جاتا ہے۔

۷۰

دیدار کے لئے قربانیاں (۲)

          ۱۔ اے مومنو اور اے عزیز و! حقیقی مومنین حصولِ آخرت کے لئے غلط راستے کو چھوڑ کر صحیح راستے پر گامزن ہوئے، اور ٹیڑھے راستے سے دست بردار ہو کر سیدھے راستے پر ہولئے، انہوں نے خود بخود آخرت کی خاطر دیندار مومن بھائی کی خدمت اختیار کر لی، اور روشن ضمیر پیروں کی خدمت اختیار کر لی، اور اپنے معلم سے حق باتیں پوچھ کر ان پر عمل کیا، نیک لوگ حصولِ آخرت اور امامِ وقت کے دیدار کے لئے تختِ شاہی سے دست بردار ہوئے، یہ سب کچھ ان کی فطرت کے تقاضے سے ہے، کیونکہ بہت سی فطرتیں اس قابل ہیں، جو دینوی چند روزہ بادشاہی، سرداری اور عزت سے دست بردار ہوسکتی ہیں، اور نیک لوگ امام کے دیدار کے لئے ظاہری سرداری سے گذر کر (باطنی اور) ابدی سرداری کو پہنچتے ہیں، اور بہت سی ایسی خبیث فطرتیں بھی ہیں، جو امام علیہ السلام کے دیدار کو چھوڑ کر دنیوی سرداری طلبگار رہتی ہیں، وہ لوگ نور چھوڑ کر ظلمت کے طلبگار ہوتے ہیں، اور پانی چھوڑ کر آگ میں چلے جاتے ہیں۔

          ۲۔ نیک لوگوں نے دیدار کے لئے اپنے رشتہ داروں اور قومیت والوں کو چھوڑ دیا، انہوں نے دیدار کی غرض سے مال، ملکیت، بیوی، اولاد، عزت اور اقتدار سب کچھ چھوڑ دیا، اور نیک لوگوں کے پاؤں

۷۱

میں، امام علیہ السلام کے عشق اور دیدار کی تلاش میں، چھالے پڑپڑ کر پھوٹ گئے، انہوں نے آخرت کے لئے مجالس میں دینی بھائیوں کی خدمت کی، اور نیک لوگوں نے ایمان مکمل کر لینے کے لئے مومنوں کی مجلس میں شرکت کی، اور عبادت و بندگی کی، اپنے معلموں سے علمِ حقیقت کے سوالات کئے، علم یاد کرلئے، علم سیکھ لئے، بیٹھے اور سن لئے، اور حفظ کر کے عمل کر لئے، اور وہ سب دینِ حق کے عاشق ہیں۔

          ۳۔ اے مومنو! تم سب علیہ السلام کے پاک دین کا عاشق بنو، کلام اور علم سے واقف ہو جاؤ اور اپنے احوال و افعال سے غافل نہ رہا کرو، کیونکہ حق سے غافل ہونا آفت ہے۔

۷۲

اسرار امامت

          ۱۔ اے حقیقی مومنو! جہاں تک ہوسکے، اپنے حضرتِ خداوند کے راز (بھید) کو پوشیدہ رکھو، تاکہ نااہل اس سے واقف نہ ہو، اور جواہرات کو نادان سے مخفی رکھنا چاہئے، چنانچہ خداتعالیٰ نے پیغمبر صلعم سے فرمایا، کہ حقیقت کے اسرار (بھیدوں) کو زمانہ کے جاہلوں سے پوشیدہ رکھ لیجئے۔

          ۲۔ اے حقیقی مومنو! حضرت مولانا شاہ مستنصر باللہ ( علیہ السلام )فرماتے ہیں، کہ تم میرے اور اپنے امام شاہ عبدالسلام شاہ  علیہ السلام کے نام کو بے ایمان جاہلوں کے پاس، جن کو رسالت اور امامت سے فطری دشمنی ہے، زبان سے ظاہر نہ کیا کرو، تمہیں دل میں اور نہایت آہستگی سے پڑھنا چاہئے، اور ہمارے راز کو زمانہ کے غیر دین والوں سے پوشیدہ اور مخفی رکھا کرو، تاکہ تم فیض اور حیاتِ طیبہ کے درجۂ کمال کو پہنچ سکو، اور خداوند کریم تم اخلاص والوں سے راضی ہوگا، تمہارے دل روشن اور پرنور ہوں گے، اور تم شادمان رہو گے۔

۷۳

باہمی امداد و اتفاق

          ۱۔ اے مومنو! حقیقی دیندار وہ شخص ہے، جو آخرت کی نجات چاہتا ہو، اسے چاہئے کہ اپنے حقیقی دیندار بھائی کی مدد کرے، تاکہ وہ اہلِ نجات میں سے ہو، حقیقی مومنین وہ ہیں، جو اپنے دینی بھائیوں میں باہمی مدد کرتے ہیں، ایک دوسرے کی یاری کرتے ہیں، جو کچھ میسر ہو مل کر کھاتے ہیں، غم اور خوشی میں ایک دوسرے کے شریک ہوتے ہیں، ان کے دل میں ہرگز کینہ اور عداوت نہیں، ہوتی، ان کا ظاہر و باطن ایک ہوتاہے، یہ مومن شکم سیر ہو، تو وہ مومن خود کو شکم سیر سمجھتا ہے، وہ بھوکا ہو، تو یہ اپنے آپ کو بھوکا متصور کرتاہے، جب یہ کھائے تو وہ خوش ہوتا ہے، اور جب وہ کھائے تو یہ خوش ہوتا ہے، ایسے مومنین دنیا میں بھی متحد ہیں، اور آخرت میں بھی خداوند کے حضور میں متحد ہوں گے۔

          ۲۔ جو شخص انسان ہو، وہ اپنے دینی بھائی کے ساتھ متفق و متحد ہے، کیونکہ انسانی روح متحد ہے، اور حیوانی روح متفرق ہے، اور ضدیت و مخالفت حیوانی روح کی وجہ سے ہے، حیوانی روح کی زندگی غذا سے میسر ہوتی ہے، اسے غذا نہ ملتے ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرتا، کہ وہ ہلاکت ہو جاتی ہے، اور انسانی روح امام علیہ السلام کی معرفت اور اہلِ حق کی محبت سے زندگی حاصل کرتی ہے، اگر یہ دونوں چیزیں میسر نہ ہوں تو

۷۴

یہ ہلاک ہو جاتی ہے۔

          ۳۔ پس اے مومنو! اگر تم چاہتے ہو، کہ دونوں جہان میں زندہ رہو، تو ایمان کو مکمل کرلو، کیونکہ نورِ ایمان کے ذریعہ ابدی حیات تک رسا ہوسکتے ہیں، اور ایمان امامِ وقت  علیہ السلام  کی شناخت و معرفت اور فرمانبرداری سے، اور آنجناب کے پیروؤں کی محبت سے حاصل اور کامل ہو جاتا ہے، پس اپنے امام کی پیروی کرو، اور ایک دوسرے سے راضی اور متحد رہو، تاکہ تم دونوں عالم میں زندہ ہو سکو، اور آخرت میں نیک لوگوں اور انبیا ٔ علیہم السلام و اولیا ٔ علہیم السلام کے ساتھ اور امام علیہ السلام کے حضور میں اٹھائے جاؤ گے، اور انتہائی مسرت سے ایک دوسرے کو دیکھو گے۔

          ۴۔ پس اے مومنو! آخرت کے کام خواہ اچھے ہوں یا برے، دنیا ہی میں مکمل ہو تے ہیں، پس تمہیں دنیا میں باہمی صاف دلی اور محبت ہونی چاہئے، اور ایک دوسرے سے دوستی ہونی چاہئے، تاکہ کل قیامت کے روز تم امامِ زمان صاحب الامر علیہ السلام کے مقدس حضور پُرنور میں اور آنجناب علیہ السلام کے تخت کے نزدیک انتہائی مسرت و شادمانی سے ایک دوسرے کے ساتھ رہو گے۔

          ۵۔ اے مومنو! کسی شرم کے بغیر ایک دوسرے کی خدمت کر لیا کرو، اور اس میں ننگ و ناموس نہ کیا کرو، کیونکہ (بیجا ننگ و ناموس کرنے کے باعث) تم فیض سے دور رہ جاتے ہو، تم ایک دوسرے کے حال احوال سے آگاہ ہو جاؤ، ایک دوسرے کے گھروں میں آیا جایا کرو، اور تمہارا خیال ایک دوسرے کا مال کھانے کے لئے نہ ہو، ایسا نہ ہو کہ تم منافقوں کی طرح ایک دوسرے کی برائی کرنے لگو، بلکہ تیرا خیال یہ ہونا چاہئے، کہ تو اپنا کھانا اپنے مومن بھائی کو کھلائے، اور وہ اس خیال میں ہو، کہ اگر اس

۷۵

سے ہوسکے، تو وہ تجھے کھلا دے، اگر تم سے ہو سکے، تو اس خیال میں رہو، کہ اپنے کام پر مومن بھائی کے کام کو ترجیح دو، ہمیشہ تم جس کام اور معاملہ میں بھی ہو، جب مومن بھائی مطمئن ہوا تو تم مطمئن ہو جاؤ، اگر تمہارا کام بن گیا اور مومن بھائی کا کام ادھورا رہا، تو تم اطمینان سے نہ رہا کرو، یوں سمجھو جیسا کہ تمہارا اپنا کام ادھورا رہا ہو، اور اگر مومن بھائی کا کام بن گیا، یا اسے زیادہ فائدہ حاصل ہوا، یا ( اس کا مالِ تجارت) زیادہ اور اچھی قیمت پر بک گیا، تو تم اسے اپنے کام بن جانے کی نسبت زیادہ خوش ہو جایا کرو، اور اگر مومن بھائی کو فائدہ ہوا، تو یوں سمجھ لو کہ گویا تمہیں فائدہ ہوا، اسی صورت میں تم سب کو برکت، سلامتی اور خوشحالی حاصل ہوگی، تمہارا دل روز بروز روشن تر ہو تا جائےگا، تمہاری خوشی بڑھتی جائےگی، اور تمہارا اعتقاد کامل تر ہوتا جائےگا، اور اگر تم نے اپنے کام کو (مومن بھائی کے کام پر) ترجیح دی، اور اس خیال میں رہے، کہ تمہارا اپنا منافع زیادہ ہو، یا اس کے مال کو کھانا اور لے جانا غنیمت سمجھے اور تمہارا خیال یہ ہو، کہ تم اس کے مال کو لے کر اپنا مال بڑھا سکو، ایسے میں لازماً تمہارے مال سے خیروبرکت اٹھ جاتی ہے، اور تم خدا کی رحمت کو نہیں پہنچو گے۔

          ۶۔ جب کبھی تم دینی بھائی ایک دوسرے کے دوست اور خیر خواہ ہوتے ہو، تو خدا بھی تم سے راضی اور خوش رہتا ہے، اور بدی ہر گز نہ دیکھو گے، اور اگر تم ایک دوسرے کے دشمن اور بدخواہ ہوگے، تو خدا تم سب سے بیزار ہے، اور اگر بدی صرف ایک ہی طرف سے ہو، تو صرف وہی ایک فریق برائی میں گرفتار اور نگونسار ہوگا۔

۷۶

کشت گاہِ آخرت ؎۱

          ۱۔ اے بھائیو اور اے عزیزو! اگر کوئی شخص بیج نہ بوئے، تو وہ کیا حصول اٹھائے گا، تم جو کچھ بوتے ہو وہی اگتا ہے، پس نیکی کے بیج بودو، یعنی نیک کام کرو، تاکہ آخرت میں تم کو اچھا حصول ملے، تم دنیا کے معاملے میں جو کچھ خرچ کرتے ہو، وہ فنا اور ختم ہو جاتا ہے، اور راہِ خدا میں جو کچھ دیتے ہو، تو اسی کے ذریعہ آخرت میں تمہاری دستگیر ی ہوتی ہے، جو کچھ تم اپنے مولا کی راہ میں دیتے ہو، اس کا عوض دنیا میں سو گنا اور آخرت میں ہزار گنا تمہیں حاصل ہو جاتا ہے، پس کوئی زراعت اور کوئی تجارت اس سے بہتر نہیں، کہ تم اپنے حلال مال کو اپنے مولا کی راہ میں صرف کرو، اور اس سے برتر کوئی دولت ہی نہیں، کہ تمہیں اپنے امامِ وقت علیہ السلام  کا راستہ مل جائے، اور اس سے بالاتر کوئی عبادت نہیں، کہ تم ہمیشہ اپنے امامِ زمان علیہ السلام کے ذکر میں لگے رہو، زہے نیک بختی، اس شخص کی، جس کو یہ مطلب حاصل ہو، جو ایسی لازوال نعمت کو پہنچے اور جس کو یہ ایسی دولت نصیب ہو۔

          ۲۔ جس کا دل اور زبان ایک ہو، تو صرف اسی کو خدا کے حضور میں کوئی قربت و منزلت میسر ہوسکتی ہے، اور جس کا دل و زبان ایک نہ ہو،

؎۱: آخرت کی کھیتی، چنانچہ حدیثِ شریف ہے: الدنیا مزرعۃ الاخراۃ۔ یعنی دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔

۷۷

تو وہ کسی مقام کو نہیں پہنچ سکتا، حقیقی مومن وہی ہے، جس کا دل اور زبان ایک ہو۔

          ۳۔ دیندار مومن وہی ہے، جو ہمیشہ خداوند کے ذکر میں ہو، اس کا دل خداتعالیٰ کے عشق میں اور اس کی زبان حق تعالیٰ کی توصیف و ثنا میں ہو، راہِ حق کے رہنماؤں کی نصیحت سنتا ہواور اس پر عمل کرتا ہو، اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا ہو، نیک کام کو اول خود انجام دیتا ہو اور اس کے بعد دوسروں کو اس کی ترغیب دیتا ہو۔

۷۸

خدا کی معرفت

          ۱۔ انسان اپنے پروردگار کی معرفت اس وقت حاصل کر سکتا ہے، جبکہ اس نے اپنے آپ کی معرفت حاصل کر لی ہو، اول؎۱ چاہئے کہ تو اپنے جسم کو جزو جزو پہچان لیا کرے، اس کےبعد تجھے جان لینا چاہئے، کہ تو خود بخود پیدا نہیں ہوا ہے، کسی دوسرے نے تجھے پیدا کر دیا ہے، پھر تجھے غور و فکر کرنا چاہئے ، کہ کس نے تجھے پیدا کر دیا ہے؟ اور اس دنیا میں کیوں لایا ہے؟ اور کہاں لے جانے والا ہے؟

          ۲۔ اس کے بعد تجھے معلوم ہوگا، کہ اگر تیرا بدن اعتدال پر ہے، تو وہ بیماریوں سے سلامت ہے، اگر اعتدال پر نہیں، تو بیمار پڑتا ہے، اس وقت انسان خود کو ناموافق غذاؤں سے بچاتاہے، اور وہ خود کو ظاہر سے باطن کی طرف لے جاتا ہے( یعنی جسم سے روح کی مثال لیتاہے) کہ اگر اپنے آپ کو افراط و تفریط ؎۲ سے بچائے، اس کا ہر کام اعتدال پر ہو، افراط و تفریط نہ کرے اور اخلاق کی اصلاح و درستی کرے،

؎۱۔ یہ اشارہ ہے، اس حدیثِ شریف کی طرف: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔ جس نے اپنے وجود یعنی چار نفوس: نفسِ نباتی، نفسِ حیوانی، نفسِ ناطقی اور روحِ قدسی کو پہچانا، پس اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔

۲۔ افراط: بیشی ، تفریط، کمی۔ پس افراط و تفریط کا مطلب ہے غیر معتدل حالت، یعنی جس میں کمی بیشی ہو۔

۷۹

یہاں تک کہ اپنی ذات سے چوپایوں اور درندوں کی عادات کا خاتمہ کرے، اور انسان صفات سے متصف ہو جائے اور اپنے نفس کو پاک و صاف کر دے، جونہی اس کا دل پاک ہوا، شک و نفاق اس کے دل میں نہ رہا، اپنے امامِ زمان علیہ السلام کی معرفت پر یقین کیا، اور امام علیہ السلام کو ہر جگہ اپنے روبرو حاضر و ناظر دیکھا، تو اس وقت وہ علم الیقین میں پہنچتا ہے، اور حق الیقین کے مرتبے میں اس وقت پہنچتا ہے، جبکہ اس کا قلب نورِ یقین سے روشنی ہو جاتا ہے، اور وہ اپنی جان کو نورِ یقین کی روشنی میں دیکھنے لگتا ہے، اس کے بعد جہاں (یعنی جس مرتبے میں) اس کا پروردگار ہے، عین الیقین سے اس کا مشاہدہ کرتاہے، یہ سب کچھ اس وقت حاصل ہوتا ہے، جبکہ تو اپنے پیر اور رہنما کے فرمان پر عمل کرے، اور ایسے لوگوں کی پیروی کرے، جو راہِ حق پر چلے ہیں، یہ وہ راہنماہیں، جو امام علیہ السلام کی راہ کے سوا از خود کوئی راہ نہیں دیکھاتے، راہِ حقیقت میں صادق اور باخبر ہیں، یہ دنیوی اغراض سے آزاد ہوئے ہیں، اور امام علیہ السلام ، پیر اور معلم کے معاملات میں سرکشی اور چون و چرا نہیں کرتے، کیونکہ دینی بزرگ اور باخبر حضرات یعنی امام علیہ السلام ، حجج، دعاۃ؎۲ اور طریقِ حق کے معلمین ؎۳ کی مثال طبیبوں، دانشمندوں، استادوں اور داناؤں کی طرح، شفیق ناصح کی طرح اور دایوں کی طرح ہے، اور باقی سب لوگ مریض اور شیر خوار بچوں کی مانند (محتاجِ پرورش) ہیں، مریض اور شیر خوار بچوں کو لازمی ہے، کہ وہ اپنے طبیب اور پالنے والے کی اطاعت کریں، اور ان کا سب سے بڑا فائدہ اسی میں ہے، اگر وہ مخالفت اور انکار کریں، تو اس طریقِ کار سے ان کو نہایت ہی نقصان پہنچے گا، اور آخرکار ان پر ملامت آئے گی۔

؎۳۔ حجج۔ حجت کی جمع، دعاۃ۔ داعی کی جمع

۴۔ معلمین۔ معلم کی جمع

۸۰

          ۳۔ پس راہرو کے لئے لازمی ہے، کہ وہ راہبر کی پیروی کرے، تاکہ سلامتی سے منزل میں پہنچ جائے، پس جو لوگ ہماری محبت میں رہنا چاہتے ہوں، تو ان کی زبان سچی ہونی چاہئے، وہ جھوٹ بولنے والے اور غیبت کرنے والے نہ ہوں، ان کی آنکھیں پاک ہوں، اور غیر عورتوں اور مالِ بیگانہ کی طرف حسرت و خیانت کی نگاہ سے نہ دیکھیں، ان کا دل پاک ہو، ان کے دل میں دنیا اور مال و متاع کی محبت، عزت و اقتدار کی آرزو اور میٹھے کھانوں کا شوق نہ ہو، وہ عمل میں راست باز ہوں، ان کا منہ پاک ہو، حرام لقموں کے کھانے سے اور دسواں (دہ یک) جو امام زمان علیہ السلام کا مال ہے، کے نہ دینے سے، اور یتیم کے مال پر قبضہ کرنے سے اپنے منہ کو گندہ نہ کرتے ہوں، خاموش رہتے ہوں، ان کا خیال دنیوی آرائشوں کی طرف نہ ہو، ان کا خیال اپنے امام حاضر الوقت علیہ السلام کی جانب ہو، امام زمان علیہ السلام کے دیدار کے سوا کوئی چیز ان کے دل میں اور ان کی نظر میں جلوہ گر اور جاذب نہ ہو، ان کا خیال دنیا و آخرت کی طرف نہ ہو، بلکہ امام علیہ السلام کے دیدار اور آنجناب کی خوشنودی کی طرف ہو، سچائی سے حقیقت کی راہ پر چلیں، کارِ حرام کے پیچھے نہ جائیں، اور پاکیزہ و پرہیز گار رہیں، یعنی (حرام و حلال) تمام چیزوں سے پرہیز کر کے امام علیہ السلام کی معرفت کی طرف بڑھ جائیں، اس لئے کہ امام علیہ السلام کے سوا محسوسات اور غیر محسوسات کی ہر چیز ، خواہ بری ہو یا اچھی، فی الواقع آگ کی سی آفت ہے، پس جس طرح تم کاٹنے اور پھاڑنے والے جانوروں سے پناہ کی طرف دوڑتے ہو، اور (جس طرح دوسری تمام) بلاؤں سے خود کو بچاتے ہو، اسی طرح تمہیں دنیا اور تمام اہلِ دنیا سے بچ جانا چاہئے، اور دنیا کے مالک کے حضور میں پناہ لینی چاہئے، کیونکہ مکمل امن و آسائش کا مقام یہی ہے۔

۸۱

          ۴۔ پس اے مومنو! حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنا منہ نافرمانیوں سے موڑ لیتا ہے، اور حقیقی بادشاہ کی اطاعت کرتا ہے، حق تعالیٰ کی طرف رخ کر لیتا ہے، پیر کے امر کو بجا لاتا ہے، جس طرح پیر مولا کے امر کو بجالاتے ہیں، جس طرح پیر امام علیہ السلام کے فرمان کے تحت ہیں اور امر سے تجاوز نہیں کرتے، اس طرح معلموں کو بھی پیر کے امر و فرمان کے تحت رہنا اور تجاوز نہیں کرنا چاہئے، تاکہ مراد کو پہنچیں، اور مومنین بھی معلم کے فرمان سے تجاوز نہ کریں، اور اس سے تعلیم حاصل کریں، امام علیہ السلام کی معرفت اور احکامِ دین سیکھ کر ان پر عمل کریں تاکہ مراد کو پہنچیں۔

          ۵۔ پس مرشد اور رہبر جو کچھ تمہیں تعلیم دیتا ہے، جو تم کو پند، وعظ اور نصیحت کرتا ہے، اور تمہیں صحیح و سلامت امامِ حاضر علیہ السلام کی حقیقت و معرفت میں پہنچا دیتا ہے، تم جان و دل سے اس کے لئے قبول کرو، اور اس نعمت کا شکر کرو، کہ اگر انسان ایک سیدھی راہ کے درمیان چل رہا ہو، اور اس کے ساتھ ایک روشن چراغ ہو، تو وہ نہایت ہی سلامتی اور آسائش سے اپنے وطن میں پہنچ جاتاہے۔

          ۶۔ پس ہر کاروبار اور ہر معاملے میں جب کوئی دانا اور تجربہ کار شخص موجود ہو، تو وہی معیوب اور غیر معیوب جنس میں فرق و امتیاز کر سکتا ہے، اصل و نقل کو پہچانتا ہے، وہ اس میں دھوکا نہیں کھاتا، اور بے عیب اصلی جنس خریدتا ہے، پس معلمِ صادق کی دانش، جو کامل اور باخبر مرشد ہے، تجھے غلط راستے سے صحیح راستے کی طرف ہدایت کرتی ہے، گمراہی  کے کنویں سے نکال دیتی ہے، ہلاکت کے بیابان سے بچاؤ کی آبادی میں منتقل کر دیتی ہے، گمراہی کے دریا سے نجات کے ساحل پر پہنچا دیتی ہے، اور پر آفت جگہ سے اور جانوروں، درندوں، گزندوں اور

۸۲

جنات کے دست و چنگل سے (چھڑا کر) مقامِ امن، جو امام علیہ السلام کی شناخت ہے، میں لے جاتی ہے۔

          ۷۔ اے مومنو! جب کوئی شخص مذاق اور بیہودہ باتیں کرتا ہو اور ہنسا نے کی باتیں کرتا ہو، اور دوسرے لوگ اس کے سامنے کھڑے (یا بیٹھے) ہوئے ہنس رہے ہوں، تو وہ سب کے سب شیطان ہیں۔

۸۳

تقلید کے نتائج

          اے مومنو! سنو اور حق بات کو اپنے دل و دماغ میں محفوظ رکھو، حق تعالیٰ کے فرمان کو یاد رکھو، اور حقیقی علم کی باتوں کو سن لو اور اپنے دل میں رکھو، کیونکہ بہت سے لوگ خود رائی، خود پسندی اور بے تعلیمی سے گمراہ ہو گئے ہیں، وہ قیل و قال، جھوٹے قول اور تقلید؎۱ میں رہ گئے ہیں، انجام سے بے خبر ہیں، وہ اپنی فرضی اور برائے نام دانش سے اور اپنی سرداری اور مالِ دنیا سے مغرور ہوچکے ہیں، روزِ قیامت میں جلادینے والا سورج ان پر طلوع ہوگا، اور سخت ترین حساب کی جگہ کھڑے کئے جائیں گے، اور یہ عوام علم کا کوئی حصہ نہیں رکھتے، تقلید میں گمراہ ہو جاتے ہیں، ان کی نکیل (یعنی اختیار) ڈاکو چھلاؤں؎۲ (جنات) کے ہاتھ میں ہے، جنہوں نے سب کو راہِ حق سے نکال دیا ہے، اور سب گمراہی کے سمندر میں غرق ہوئے ہیں، مگر وہ اپنی گمراہی کا کوئی احساس نہیں رکھتے، سب فرقہ فرقہ ہوئے ہیں، وہ اپنے غلط کام سے بے خبر ہیں، وہ نہیں جانتے کہ ان کے کام کا کیا انجام ہونے والا ہے، سب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، اور مرنے کے

؎۱: تقلید دینی معاملات میں ایسی پیروی کو کہتے ہیں، جو تحقیق کئے اور سوچے سمجھے بغیر کی جاتی ہے۔

؎۲: چھلاوہ غول بیابانی کا ترجمہ ہے، جو ایک قسم کا جن متصور کیا جاتا ہے۔

۸۴

بعد ان کو خبر ہوگی، مگر اس وقت ان کے باخبر ہونے میں کوئی فائدہ نہیں، اور وہاں پشیمانی و حسرت کے سوا ان کے لئے کوئی چیز نہیں۔

          ۲۔ مومن کو دنیا ہی میں قیامت سے اور اپنے کام کے انجام سے باخبر رہنا چاہئے، عوام اور ان کے پیشواؤں کی مثال بوڑھی گائیوں اور قصاب کی طرح ہے، کہ قصاب (آخر کار) چھری کی دھار سے ان سب کا چمڑا اتار لیتا ہے، اور وہ گائیں اس انجامِ کار سے بے خبر رہتی ہیں، پس ہر گز ہر گز تم اہلِ تقلید میں سے نہ ہوجانا، اور علمائے جور کی پیروی نہ کرنا جو علمائے ظاہری ہیں، جو امامِ وقت کے موجود ہونے سے، آنجناب کی  راہ پر چلنے سے اور ان کے حضور میں مشرف ہونے سے منکر ہیں، اور اگر کوئی شخص کہے کہ ’’امام حی و حاضر ہیں، تجھے اس کی راہ حاصل کرنی چاہئے‘‘ تو اس بیچارے استاد کے متعلق کفرو بے دینی کا فتویٰ دیتے ہیں، اور اسے سنگسار کرتے ہیں۔

          ۳۔ ان خود پرست علما سے خدا کی پناہ لو، کہ انہوں نے اپنے لئے عجیب قسم کا خیالی پلاؤ پکایا ہے، اور اپنے لئے عجیب طرح کا پانی نہر میں بہا دیا ہے، کہ انہوں نے اسی جملے کے ذریعے سے لوگوں کی زبان بند کرادی ہے، جو کہتے ہیں، کہ ’’تم کفر کی باتیں کرتے ہو‘‘ اور انہوں نے ایک عام نادان شخص کو اپنا پیر قرار دیا ہے، اور ہر پاکیزہ فطرت شخص، جو امام سے واقف ہوتا ہے، وہ ان خود پرست دشمنوں کے باعث کچھ کہہ نہیں سکتا۔

          ۴۔ ان ریاست و سرداری کے طلبگاروں نے یہ دیکھ لیا، کہ جس وقت بھی انہوں نے خدا کے نور کو بجھانے کے لئے امامِ وقت کو ایذائیں پہنچائیں اور آنجناب کے خلاف جنگیں لڑیں، تو وہ ناکام ہی رہے، آخر انہوں نے عاجز آکر مکر اور جھوٹ سے کام لیا، اور کتابوں میں لکھ

۸۵

دیا کہ امام صرف آخرزمان میں کچھ کہے گا، اور لوگ (اس وجہ سے) امام علیہ السلام کی راہ دیکھ پانے سے رہ گئے، اور سارے عوام نے اس جھوٹی بات پر باور کر لیا، یہاں تک کہ وہ سب امامِ وقت علیہ السلام کے دیدار سے بے نصیب ہو گئے، حالانکہ امام علیہ السلام سورج کی طرح دنیا میں ظاہر ہیں، اور وہ لوگ از خود امام علیہ السلام کے دشمن اور ظہور کے منتظر ہیں، انہوں نے علمائے ظاہر کی فرمانبرداری اور تقلید میں اپنی زندگی برباد و ضائع کر دی ہے۔

۸۶

سب سے بڑی دولت

          ۱۔ اے مومنو اور اے صداقت والو! شکر کرتے رہو، کہ تم اس دولت سے مستفیض ہو گئے ہو، اور تمہاری سعادتمندی اور خوش نصیبی تھی، جو یہ (لازوال دولت ) تمہارے ہاتھ آگئی، اور وہ لوگ تم پر غالب نہ آسکے، (یعنی وہ تم کو گمراہ نہیں کرسکے) اور محتاط رہو، اور ہمارے بھید کو ان نااہلوں سے پوشیدہ رکھو، اور ان آدمی نما جنات سے ڈرتے رہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کو ہلاک کر ڈالیں اور جس طرح وہ خود کھچے ہوئے ہیں اسی طرح تم کو بھی بدبختیوں کی تاریکیوں میں کھینچ نہ لے جائیں۔

          ۲۔ اے مومنو! خدا کا راستہ اختیار کرو، اور خدا کے راستے میں خیرات و عطیات دیا کرو، اور گریہ و زاری اور عبادت کرتے رہو، اور اس نعمت کی قدردانی کرو، مبادا کہ تم ہار جاؤ، اور بیش بہا موتی کی حفاظت کرنی چاہئے، تم دیکھتے ہو، کہ جس شخص کے پاس کوئی اچھا مال و متاع ہو، تو وہ کس قدر اس کا خیال رکھتا ہے، پس دینِ حق اور امامِ وقت علیہ السلام کی معرفت سے زیادہ بہتر کوئی چیز نہیں، اور اپنے پیرکا دامن پکڑو، تاکہ طوفانوں سے بچکر رہو، اور شیطان کا ہاتھ تم پر نہ پہنچ سکے۔ اور حرام خوری سے اپنے آپ کو بچاؤ، تاکہ تمہارا دل کالا نہ ہو، اور جس شخص کا دل ذکر کرتے وقت بھاری، سخت اور سیاہ محسوس ہوتا ہو، تو یہ اس کے شوق نہ ہونے اور سستی آنے کی وجہ سے ہے، جو حرام خوری اور مالِ واجبات

۸۷

نہ دینے کے سبب سے ہے، پس مالِ واجبات پہنچا دیا کرو، اور امام علیہ السلام کے امر کو قبول کرتے رہو، کسی سے بدی نہ کرو، خیرخواہی اختیار کرو، نیک افعال، نیکی اور پرہیزگاری کے لئے آپس میں امداد اور ترغیب دیتے رہو، تاکہ تمہارا دل روشن ہو، اور اپنے مولا کے ذکر سے تمہاری تمام مشکلات آسان ہو جائیں۔

۸۸

مالِ واجبات

          ۱۔ اے مومنو! جو شخص شاہ (یعنی امام علیہ السلام ) کے مال کو روک لیتا ہو، اور اس کو اپنے مال سے جدا نہ کر دیتا ہو، اور اس کی آنکھ اور دل میں یہ مال اچھا لگتا ہو، تو اس کا دل کالا ہو جاتا ہے، اور وہ بدکار و بد عمل ہو جاتا ہے، اور اخیر میں اپنے آپ کو دوزخی کر دیتا ہے۔

          ۲۔ اے مومنو! آگاہ رہو اور غافل نہ ہوجاؤ، کہ (مالِ واجبات کھانا) بہت ہی مشکل اور بھاری لقمہ ہے، اور بہت سی تکالیف اٹھانے کے باوجود بھی یہ لقمہ گلے سے نہیں اترے گا، یہ باطنی قسم کی بیماریوں کا باعث ہو جاتا ہے، مالِ واجبات کا کھا لینا آخر کار آدمی کو ہلاک کردیتا ہے، اور اس دہ یک (یعنی دسواں) کے حساب میں بہت سی حکمتیں اور بے شمار آزمائشیں پوشیدہ ہیں، اور اس کے نہ دینے میں بہت سی آفتیں اور بلائیں پنہان ہیں اور یہ بہت ہی مشکل کام ہے، تم اسے ہلکا اور آسان مت سمجھنا، کیونکہ یہ بڑا سنگین اور بھاری بوجھ ہے (واجبات) دینے اور لینے والے کو چاہئے، کہ سچائی سے اور مکمل طور پر مولانا کے دربار میں پہنچا دیں۔

۸۹

امام کی شناخت

          ۱۔ اے مومنو! خبردار ہو، تاکہ تم سے غلطی نہ ہو، کیونکہ اس راہ میں بہت ہی دقت اور باریک بینی سے (کام لیتے ہوئے) چلنے کی ضرورت ہے، یہ ایک مشکل نعمت ہے، جو آسانی سے نہیں دی جاتی ہے، جب ظاہری نعمت اتنی دشواریوں کے بعد حاصل ہوتی ہے، تو باطنی نعمت کیونکر آسانی سے ہاتھ آئے، پس باطنی نعمت کے لئے، جو امام علیہ السلام کی شناخت ہے، جان دینی چاہئے، پس تم اس لازوال اور بے پایان نعمت کی قدر دانی کرو اور اپنے مولا کے شکر گزار رہو، کہ اس نے تمہیں عطا فرمائی ہے اور اپنی معرفت کی تعلیم دی ہے، ورنہ ان جنوں، آفتوں اور بلاؤں کے ہوتے ہوئے اور اس تمام قذاقی اور ڈکیتی کے باوجود تم سے کہاں ہو سکتا تھا، کہ امام علیہ السلام کا راستہ دیکھ پاؤ، انہوں نے کوئی ایسی دیوار کھڑی نہیں کر دی ہے، کہ بیچارہ عوام اس سے آگے بڑھ سکیں، انہوں نے ایک ایسی گانٹھ لگا رکھی ہے، جس کے کھولنے سے عوام عاجز رہ گئے ہیں، انہیں حیران و سرگردان ہو کر حسرت و ارمان بھرے دل کو مٹی میں لے جانا پڑے گا، مگر ان کو امام علیہ السلام کا دیدار نصیب نہ ہوگا۔

۹۰

مشاہدۂ نور

          ۱۔ ہوشیار رہو، کہ میں نے تمہیں ایک بہترین راستہ دکھایا، اور جو کچھ تمہاری نجات، آخرت کی رستگاری اور تمہاری دنیا و عقبیٰ کی صلاح کا سبب تھا، وہ سب میں نے تم کو بتا دیا ، اور تمہاری عقل کے مطابق اور تمہاری سمجھ بوجھ کے موافق میں نے تم سے بات کی، اور جو کچھ تمہاری حدِ قوت میں تھا جسے تم حدِ فعل میں لا سکتے تھے، میں نے اس کے متعلق کوئی ہدایت فروگذاشت نہیں کی، اب تم پر فرمانبرداری لازمی ہے، اور تمہیں سیدھی راہ پر لایا، جو صراطِ مستقیم ہے، پس اپنی راہ پر گامزن ہو جاؤ، اپنے وقت کے امامِ حاضرعلیہ السلام کی خوشنودی کے طلبگار رہو، اپنے امام علیہ السلام کو دیکھا کرو، کہ وہ سورج کی طرح ظاہر ہیں، اور دل و دیدہ (آنکھ) کو کدورت و آلائش اور زمانہ کی رنگینیوں سے پاک کئے رکھو، تاکہ تم علیہ السلام کے پاک نور کا مشاہدہ کر سکو، اور ان کے جانشین کو، جو امام علیہ السلام کے وصی اور آل ہیں، قبول کرو، اور ان کے متعلق اختلاف نہ کیا کرو، جس طرح گزشتہ زمانے میں کیا، انہوں نے امام علیہ السلام کو چھوڑا، اور غیر امام کو امام علیہ السلام کی جگہ قرار دیا، آخر کار خالی ہاتھ رہ گئے۔

۹۱

بنیادی غلطی

          ۱۔ میرے بزرگوار دادا حضرت شاہ حسین (علیہ السلام)کے زمانے میں بعض لوگ امام علیہ السلام کو چھوڑ کر محمد حنفیہ کی طرف گئے، شاہ زین العابدین (علیہ السلام) کے زمانے میں بعض لوگوں نے امام علیہ السلام کو چھوڑ کر زید کو لیا، میرے جد شاہ جعفر الصادق ( علیہ السلام) کے زمانے میں کچھ لوگ امام علیہ السلام کو چھوڑ کر موسیٰ کاظم کے معتقد ہوئے، بعض عبد اللہ (کی امامت) کے قائل ہوگئے، اسی طرح میرے دادا شاہ مستنصر باللہ علیہ السلام کے عہد میں کچھ لوگ امام کو چھوڑ کر مستعلی کے پیرو ہوگئے، آخرکار یہ سب سرگردان اور امام علیہ السلام کے دیدار سے محروم رہ گئے، یہ سب کچھ ان کی غفلت کی وجہ سے اور اس قدر ان کی غلط روایات کے سبب سے ہوا، انہوں نے اپنے باطن اور اپنے دل کو صاف نہیں کیا اور قدردانی نہیں کی (اس لئے) ان کی نعمت زوال ہوگئی، ان کے لئے ایسے اسباب پیدا ہوئے کہ جن سے ان کی یہی صورتحال ہوئی۔

          ۲۔ پس ناشکرگزاری نعمت زوال ہو جانے کا باعث بن جاتی ہے، پس قدردانی کرو، اور جو کچھ فرمایا گیا وہ جواہر کی طرح اپنے کان میں لو، اور جو کچھ پیر امر کرتے ہیں، اس پر قائم رہا کرو، اور معلم کے فرمان پر عمل کرو، اور حاضر جامہ ؎۱ کی اطاعت، جو رائج

۹۲

سکے ؎۲ کی مثال ہے، شرعاً و عقلاً  ؎۳ واجب ہے۔

          ۳۔ یہ تمام پندیات حضرت مولانا شاہ مستنصر باللہ (علیہ السلام) نے مجلسوں اور محفلوں میں جماعت کو وعظ و بیان فرمائی ہیں، اور جماعتوں، خیر خواہوں اور طالبوں کو (یہ پندیات) بار بار نصیحت فرمائی ہیں، اس حقیر نے جو کچھ الفاظ سن لئے تھے، ان کو اپنے حفظ میں محفوظ رکھ لیا تھا، یہاں تک کہ یہ الفاظ رشتۂ تحریر میں آگئے، تاکہ ان شاء اللہ آنے والوں کے لئے باقی رہیں، کیونکہ ہر زمانے کے مومنین پڑھ لیا کریں گے، یا سن کر عمل کریں گے، تاکہ وہ اگلے مومنین کی طرح اہلِ نجات ہوں، بعون اللہ الملک المنان و علیہ التکلان۔؎۴۔

تمام شد پندیات بزرگ

؎۱: حاضر جامہ علیہ السلام ۔ نورِ امامت کا موجودہ لباس، یعنی حاضر امام علیہ السلام

؎۲: رائج سکہ۔ چلتا ہوا سکہ۔

؎۳: شرعاً و عقلاً۔ شرعی طور پر (بھی) اور عقلی طور پر (بھی)۔

؎۴: اللہ تعالیٰ کی مدد سے جو بہت احسان کرنے والا بادشاہ ہے اور اسی پر بھر و سہ ہے۔

۹۳

پندیاتِ کوچک

          ۱۔ دوسری یہ پندیات بھی مولانا شاہ مستنصر باللہ (علیہ السلام) نے مومنوں کی جماعت، طالبوں اور فرمانبرداروں کو وعظ فرمائی ہیں، جو کچھ ان کی زبانِ مبارک سے سن لیا تھا، میں نے اس کو بھی لکھ کر کتابی صورت میں لایا، تاکہ مومنوں، طالبوں اور عمل کرنے والوں کے لئے نجات کا سبب و سیلہ بن جائے، اور ایک یادگار رہے، اور قدر کرنے والے اہلِ دل نیکی کے بانیوں اور خیر خواہوں کے حق میں دعائے خیر فرمایا کریں گے، اور میں نے ان نصیحتوں کا نام ’’پندیاتِ کوچک‘‘ رکھا۔ و علیکم بالسسماع و المطاع و التشکر والتحمید بہٰذہ النعمتہ و ما توفیقی الا باللہ الملک المنان  ۱؎ علی الزمان۔

؎۱: اور اس کو سن کر عمل کرنا اور اس نعمت کی شکرگزاری میں خدا کی تعریف و توصیف کرنا تم پر واجب ہے، اور میری تائید تو خدا کے سوا اور کسی سے ہو ہی نہیں سکتی، جو بہت احسان کرنے والا بادشاہ ہے، علی الزمان۔

۹۴

فرمانبرداری کی برکات

اللّھم یا مولانا مددی

          ۱۔ فرمایا خداوندِ زمان، صاحبِ دوجہان اور امامِ عصرو زمان مولانا مستنصر باللہ (علیہ السلام) جلت حکمۃ و تعالیٰ شانہ العزیز نے:

          ۲۔ اے مومنو اور اے صداقت والو! مومن کو چاہئے، کہ حق تعالیٰ کے فرمان میں رہے، اور جو کچھ خدا کا فرمان ہے، اس کو احسان شناسی سے سر آنکھوں پر رکھنا چاہئے، ہر وہ بندہ جو حق بات سنتا ہے اور اسے بجالاتا ہے، دیکھ لینا کہ اس بندے کو کیسے کیسے فیوض پہنچتے ہیں، بلائیں اس بندے سے دور ہو جاتی ہیں، اس کے دشمن کو ر رہ جاتے ہیں، اس بندے کے لئے فتحمندی اور روزی کے دروازے کھل جاتے ہیں، خدا سے اس بندے کو فتح و نصرت ملتی رہتی ہے، اس کی نیکی اور عبادت و بندگی قبول ہو جاتی ہے، اس کی نیکی میں برکتیں پیدا ہو جاتی ہیں، اس کا تمام کام حسب منشا ہوتاہے، اس کے فرزند اور خویش و اقربا آفتوں، بلاؤں اور تکلیفوں سے سلامت رہتے ہیں، اس کا گھر آباد ہوتا ہے، وہ پریشان و سرگردان نہیں ہوتا، تمام کام میں اس کو فرصت ہوتی ہے، وہ خوشحالی میں مسرت و شادمانی سے رہتا ہے، خدائے مہربان اس کا یار، مددگار اور غمخوار ہوتا ہے، وہ خدا کے امان میں رہتا ہے، حق تعالیٰ اسکا دستگیر

۹۵

ہوتا ہے، وہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی فیوض و سعادات پاتا ہے، وہ ظاہری و باطنی اور دنیوی و اخروی دولت کو پہنچتا ہے، اور دنیا و آخرت کی دولت اسے میسر اور حاصل ہوتی ہے، آخرت کی دولت کا قصہ سنو جو اسے عطا کر دی جاتی ہے، مومنین آخرت میں حضرت پروردگار کے دیدار اور ملاقات سے مشرف ہوں گے، حق تعالیٰ مومن بندے کو آسمانوں میں سلطنتیں بخشے گا، وہ وہاں رنگ برنگ کے لباس پہنے گا، اور جس بندے نے عبادت و خدمت زیادہ کی ہو، اور (ثواب وصلہ کا) زیادہ حقدار ہوا ہو، تو وہ ساتویں آسمان میں خوشیاں منائے گا، اور سیر و سیاحت کرےگا، اور بخشش کے پروں کے ذریعہ پرواز کرے گا، تاجِ کرامت سر پر رکھے ہوئے اور عافیت کے لباس میں ملبوس ہو کر انبیأ علیہم السلام و اولیا علیہم السلام کے ساتھ سیر کرے گا، ساقی ٔ کوثر کے مبارک ہاتھ سے شرابِ طہور نوش کرےگا، اور وہ فضل و کمال کے محلات کی تصوراتی حوروں تک پرواز کرے گا، اور پاک دل اور دیندار مومنین سب ایک ہوں گے، وہاں کمی بیشی نہیں، اور مومن کے لئے کوئی اندوہ، غم، خرابی، درد، تکلیف، موت اور سختی نہیں۔

          ۳۔ اے مومنو! اس شخص کے لئے، جو دنیا میں اپنے امامِ وقت کے فرمان کو سمجھتا اور سن کر عمل کرتا ہے، آخرت میں اس قدر نعمتیں، دولتیں، راحتیں، اور آسائشیں میسر ہیں، پس مومن کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کے فرمان میں رہنا چاہئے، اور جو کچھ اس کے لئے امر ہو، تو اسی امر کو فوراً شوق سے بجالانا چاہئے، اور مومن کو دنیا میں اول چاہئے، کہ اپنے امامِ وقت علیہ السلام کو پہچانے اور اس کی اطاعت کرے۔

۹۶

حلال طعام و لباس

          ۱۔ پہلا فرمان، جو مومن کے لئے ارشاد ہوتا ہے، یہ ہے کہ اول چاہئے، کہ اس کا کھانا اور لباس پاک، حلال اور جائز ہو، اور ان چیزوں کا حلال ہونا اس بات سے ہے، کہ اول تجھے چاہئے، کہ ایمانداری سے اپنی تمام آمدنی اور منافع کو حساب کرے، اور اس کا دسواں حصہ، جو مالِ واجبات ہے، سچائی، درستی اور اخلاص سے امامِ زمان علیہ السلام کے دربار میں، جو دنیا و آخرت کے مالک ہیں، پہنچا دیا کرے، اور تو نہایت ہی کوشش کرے، کہ یہ پوری طرح سے ادا ہو جائے، اس مال سے ہر گز ہر گز نہ کھانا، کیونکہ اس فرض کی ادائیگی میں بہت سی حکمتیں اور بے شمار فیوض ہیں، اسی دسواں کے دینے سے تم بڑے درجے میں پہنچتے ہو اور اس کے نہ دینے سے گمراہی کی وادی میں رہ جاؤ گے، اور دسواں کے دینے سے عبادات قبول ہو جاتی ہیں، اور اس کے نہ دینے سے قبول نہیں ہوتی ہیں، یہ اس لئے کہ عبادت اس وقت مقبول ہو تی ہے، جبکہ غذائیں اور ملبوسات حلال، پاک اور جائز ہوں، وہ یہ کہ تو اپنے امامِ زمان علیہ السلام کو پہنچانے اور اپنے مال کا دسواں ٹھیک طرح سے دیدیا کرے، تبھی تیرا کھانا اور لباس حلال اور جائز ہو جاتا ہے، اور اس کے بعد دوسری تمام عبادات مقبول ہو جاتی ہیں، اور اس کے علاوہ دوستی کا امتحان مال میں ہوا کرتا ہے نماز میں نہیں، نماز تو آسان ہی ہے، جسے ہر بیوہ عورت بھی پڑھ سکتی ہے، پس نماز پڑھنا

۹۷

عورتوں کا کام اور صفت ہے، اور مرد کی صفت و تعریف یہ ہے، کہ حقیقی معشوق کے لئے مال و جان دینے سے دریغ نہ کرے، پس نماز بیوہ عورتوں کا کام ہے، اور مال دینا مردوں کا کام ہے، چنانچہ فنا ہونے والی چیزوں کے لئے جب تک تو قیمت ادا نہ کرے، تو تجھے کوئی چیز نہیں دی جاتی ہے، پس باقی رہنے والی نعمتیں بلا قمیت کس طرح مفت دی جاسکتی ہیں، پھر مالِ (واجبات) کو مقدم کرو نہ نماز کو، یعنی اول مال دو اس کے بعد عبادت کرو، تاکہ قبول ہو جائے۔

          ۲۔ اس عمل کے بعد لوگوں کے مال کو اپنے مال میں ہر گز شامل نہ کرو، غنیمت کے قصد میں لوگوں کا مال نہ کھاؤ اور خیانت نہ کیا کرو، اپنے حلال و جائز حقوق سے مال حاصل کر لیا کرو، اور لوگوں کے مال سے ایک دھاگا بھی اپنے لباس میں شامل نہ کیا کرو، اور اپنے مال کو (کوئی حرام چیز ملا کر) ناجائز نہ کردو، اور دشمنی و سزا کے طور پر کسی سے کوئی چیز نہ لیا کرو، اور اپنے بدن کو، جو روح کا لباس ہے، باطنی نجاستوں سے پاک کئے رکھو، مثلاً تکبر، کینہ، عداوت، حسد، دنیوی محبت، شیطانی صفات اور مردم آزاری سے، کیونکہ یہ سب نجاستیں ہیں، اور یہ باطن کو نجس کر دیتی ہیں، ان سب سے بچنا اور دور رہنا دانشمند پر واجب ہے۔

۹۸

نافرمانی کا انجام

          ۱۔ دوسرا یہ کہ فرمانبرداری میں چست اور ہوشیار رہو، اور خدمت گزاری میں حاضر و قائم رہو، اور خداوند نے وعدہ فرمایا ہے، کہ جو شخص خدمت میں بے دریغ اور بے ریاہو، تو آخرت میں لاانتہا دولت کو پہنچےگا۔

          ۲۔ حضرت مولانا مستنصر باللہ (علیہ السلام)نے فرمایا: افسوس ہے ان لوگوں کے لئے ، جو نافرمانی اور کاہلی کرتے ہیں، اور جو کوئی فرمانبرداری کے معاملے میں ٹیڑھا ہو، تو ایسے اشخاص کے لئے سخت عذاب اور آتشِ دوزخ میں ٹھکانا ہے، وہ دردناک عذاب میں گرفتار، روسیاہ اور شرمسار ہوں گے، اور اس سب سے بڑی گھبراہٹ ؎۱ میں وہ گناہگار پیاس کی شدت سے پانی کے لئے روئے گا، اس وقت ’’ویل‘‘ ؎۲ کے کنویں سے، جو دوزخیوں کے میل اور پیپ سے بھرا ہوا ہے، مالکِ دوزخ اس گناہگار کو مشروبہ دے گا، جس کو ماء حمیم؎۳ یعنی گرم پانی کہتے ہیں، جو

؎۱: سب سے بڑی گھبراہٹ سے قیامت کی ہولناکی مراد ہے، اس مطلب کا قرآنی لفظ ’’الفزع الاکبر‘‘ ہے (۲۱: ۱۰۳)۔

؎۲۔ ویل کے معنی بربادی و ہلاکت ہیں۔

؎۳: اس مطلب کا اشارہ قرآن کی ان آیات کی طرف ہے:

( ۶: ۶۰، ۱۰: ۴، ۳۷: ۶۷ ، ۳۸: ۵۷،  ۴۷: ۱۵، ۵۶: ۵۴، ۷۸: ۲۵)

۹۹

دوزخیوں کا میل، ذرداب اور خوناب ہے، جو دوزخ کی تپش سے ابلتا رہتا ہے، جس سے بدبو آتی ہے۔

          ۳۔ اس شخص کے لئے، جو امام کی فرمانبرداری نہ کرے، بہت سے عذاب ہیں اور اسے کوئی خوشی نہیں ملے گی، پس نافرمانی، تکبر اور غرور سے کنارہ کش ہوجاؤ، اور دیکھو کہ تکبر اور غرور کے سبب سے کیسی حقارتیں، مسخر گیاں، خواریاں اور مشقتیں عزازیل کے سر پر آگئیں، جو درگاہِ الٰہی کا معزز و مقرب فرشتہ تھا، اور تمام فرشتے اس کا احترام کرتے تھے، اور وہ خدا کی بندگی و عبادت میں مصروف رہتا تھا، اور گھڑی بھر کے لئے بھی بندگی سے غافل نہیں رہتا، اس اثنا میں لعنت کا ایک طوق معلق دیکھا گیا، اور خدا کی طرف سے فرشتوں کی ندا آئی، کہ اے فرشتو! یہ لعنت کا طوق اس شخص کے لئے ہے، جو فرمانِ الٰہی سے سرکشی کرے، اس کلام کے سنتے ہی تمام فرشتے کانپنے اور گریہ وزاری کرنے لگے، عزازیل نے ان سب کو تسلی دی، اور کہا، کہ تم میں سے جس کسی کو بھی (یہ طوقِ لعنت) آئے، تو میں اس کو نجات دلاؤں گا، وہ اپنی عبادت اور معرفت پر اس قدر مغرور تھا، کہ اپنے متعلق نافرمانی کا گمان ہی نہیں کرتا تھا، اور اس نے یہ نہیں سمجھا کہ ناشناس لوگ ہی غیر شعوری طور پر نافرمانی کرتے ہیں، یہاں تک کہ حضرتِ احدیت نے آدم ابوالبشر علیہ السلام کو پیدا کیا اور فرشتوں کو امر فرمایا کہ اس کو سجدہ کرو، تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے، جس نے سجدہ کرنے سے تکبر و انکار کر دیا، اور خدا وند نے فرمایا، کہ تو نے کیوں سجدہ نہیں کیا؟ عرض کی کہ تو نے فرمایا تھا، کہ میرے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرنا، نیز یہ بھی ہے کہ میں آدم علیہ السلام سے بہتر

۱۰۰

ہوں، کیونکہ وہ مٹی سے ہے اور میں آگ سے ہوں؎۱ ، پس تکبر و نافرمانی کی وجہ سے اس کے تمام اعمال اور عبادات برباد و ضائع ہو ئیں، اور پروردگارِ عالم کے استغنا و بے نیازی کی آگ میں جل کر نیست و نابود ہو گئیں، اور اس واقعہ کی بنیاد نافرمانی تھی، نافرمانی کی وجہ ناشناسی تھی (کسی عابد کی) وہ عبادت جو معرفت کے بغیر ہو، اس عابد کے لئے باعثِ جرمانہ ہے، اور اس کا کوئی خریدار نہیں، پس وہ عبادت، جو قبول ہو جاتی ہے، ایک ایسی عبادت ہے ، کہ جس میں تو دین کے مالک کو پہچانے اور اس کے فرمان کے بموجب عبادت کرے، اور جو کچھ امر ہو، تو اس کو کسی چون و چرا کے بغیر قبول کرے، کیونکہ معرفت کے بغیر عبادت غلطی و خطا کی ایک تقلید ہے، ہر چیز اور ہر شخص کی تقلید میں غلطی و خطا واقع ہوتی ہے، اور جو شخص تقلید میں رہے، تو وہ توحید میں نہیں پہنچتا ہے۔

          ۴۔ پس حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنے امامِ وقت علیہ السلام کی پیروی کرے، اس کے امر کے لئے منتظر رہے، جو کچھ زمانے اور امر کے مالک علیہ السلام فرماتے ہیں، اسی کو سنے اور عمل کرے، اور اسے اپنا مالِ واجبات ٹھیک طرح سے دینا چاہئے۔ اور وہ ہر رات سوچے، کہ مجھ پر کچھ مالِ واجبات باقی بھی ہے یا میں نے سب دے کر ادا کر دیا ہے؟ اور اگر اس کو یاد آئے، کہ مالِ واجبات میں سے کچھ اس کے مال کے درمیان اور اس کے ذمے میں باقی ہے، تو وہ اسے فوراً ادا کردے، اور جبکہ تم اپنے مال کا دسواں دیتے ہو، تو شکر گزار رہو اور خوشیاں مناؤ، کہ تم کو توفیق دی گئی اور تم نے امام علیہ السلام کے حق کو امام علیہ السلام تک پہنچا دیا۔

؎۱: حضرت آدم اور ابلیس کا پورا قصہ قرآن مجید کی ان آیتوں میں ہے: ۔

(۲: ۳۵ تا ۳۶، ۷: ۱۱ تا ۲۵، ۱۵: ۲۸ تا ۴۲، ۱۷: ۶۱ تا ۶۵، ۱۸: ۵۰، ۲۰: ۱۱۵ تا ۱۲۳، ۳۸: ۷۱ تا ۸۵)

۱۰۱

آخرت پر یقین

          ۱۔ اے مومنو! دنیا کی بے اعتباری اور بے قدری کے بارے میں ذرا سوچو تو سہی، کہ یہ کسی کی دلی مراد کے لئے کافی نہیں ہوسکی، بلکہ اس نے تو اپنے طلبگار کو ناکام ہی بنا دیا ، تم چلو پھرو اور دیکھو، کہ روئے زمین پر کیسے کیسے اشخاص تھے، جو دنیا کے طلبگار ہوئے، اور انہوں نے جنگیں لڑیں آخر کارگذر گئے اور ختم ہوگئے، مگر انبیا و اولیا علہیم السلام میں سے کسی نے بھی اپنے آپ کو دنیا سے آلودہ نہیں کیا، اور (اس کے برعکس) ظاہری بادشا ہوں نے سرداری کی غرض سے کتنی کوششیں کیں، کیا کچھ نہیں کیا اور آخرکار کس قدر حسرت و افسوس کے ساتھ مرکر ختم ہوگئے، اور تمہارے آباواجداد بھی چل بسے، اب یہ تمہاری باری ہے۔

          ۲۔ اے مومنو! تم کیوں غم کے موقع پر بے غم بیٹھے ہو، اور دنیا کے درمیان خوابِ غفلت میں مدہوش اور آخرت سے بے خبر ہو گئے ہو، اور بے فکری و نادانی کی وجہ سے خیال نہیں کرتے ہو کہ بہت سے لوگ تن پروری اور جسم کی فربہی کے خیال میں لگے رہتے ہیں، وہ آخرت اور بڑے عذاب؎۱ سے بے خبر ہیں، اور (تم دیکھتے رہنا کہ یہ لوگ) آخر کار خود کو خوب موٹا اور چکنا کردیں گے، پس حقیقی مومن وہی ہے، جو آخرت کی

؎۱: بڑے عذاب کی قرآنی اصطلاح ’’العذاب الاکبر‘‘ ہے (۳۲: ۲۱ )

۱۰۲

فکر میں رہتا ہے، اور غم و غصہ (برداشت کر کر کے) لاغر اور کمزور ہو جاتا ہے، تاکہ اس کے گناہ بخش دیئے جائیں، اور (خیال رکھنا کہ ایمان کی) راہ میں بہت سے حملہ آور اور دشمن موجود ہیں، پس تمہیں چاہئے کہ شب و روز آخرت کی فکر میں رہو، جو شخص آخرت پر اعتقاد اور یقین رکھتا ہو، وہ کوئی گناہ نہیں کرتا، جس کا سبب یہ ہے کہ وہ قیامت کے متعلق کوئی شک نہیں رکھتا، اور جو لوگ بڑے اور چھوٹے گناہوں سے کنارہ کشی نہیں کرتے ہوں، تو اس کی وجہ یہ ہے، کہ قیامت کے بارے میں شک رکھتے ہیں، اور وہ گمان کرتے ہیں، کہ (مرنا اور زندہ ہو جانا درست نہیں، بلکہ) وہ نیست اور معدوم ہو جانے والے ہیں، وہ جانتے نہیں کہ آخرت سے آگاہی اور اس پر یقین امام علیہ السلام ہی کے قول سے حاصل ہو جاتا ہے، جبکہ کوئی شخص عبادت و ریاضتِ کاملہ اور اشیا ٔ کی حکمت و حقائق سے آگاہی کے ذریعہ امامِ وقت علیہ السلام تک رسا ہو چکا ہو۔

          ۳۔ علمائے ظاہر نے سدِ سکندر کی طرح شریعت کی ظاہریت اپنی سرداری کے لئے ایک دیوار بنا رکھی ہے، اور یہ بیچارہ عوام یا جوج و ماجوج ؎۲ کی طرح بجز خرابی اور بگاڑ کے اور سوائے شب و روز کھانے، سونے اور دنیوی محبت کے کچھ بھی نہیں جانتے ، یہ لوگ تقلید کی کمند میں بندھے ہوئے ہیں، اور موت کے وقت تک اس واقعہ سے بے خبر ہیں، کہ صرف تقلید کے طور پر آخرت کا اقرار کرتے ہیں۔

          ۴۔ اے مومنو! تحقیق سے جان لو، کہ تم خدا کے حضور سے اور عالمِ باطن سے، جو پاک اور آسمانی عالم ہے، اس عالمِ فانی میں، جو عالمِ خاکی کہلاتا

؎۲۔ یاجوج و ماج اور سدِ سکندر کا مختصر سا قصہ قرآن کے (۱۸: ۹۳ تا ۱۰۱) میں موجود ہے، نیز یاجوج و ما جوج اور قیامت کا ذکر قرآن کے (۲۱: ۹۴ تا ۹۷) میں ہے۔

۱۰۳

ہے، آگئے ہو، اور پھر خداوند تعالیٰ کی طرف واپس چلے جاؤ گے، پس کچھ کام کرو، تاکہ دوست کی طرف جاتے وقت خالی ہاتھ نہ ہو جاؤ، سرفراز ہو جاؤ، خجل و شرمسار نہ ہو جاؤ، پس دنیا کی حرص چھوڑ دو، اور آخرت کے کام کو مکمل کرلو۔

          ۵۔ جس وقت اللہ تعالیٰ پوچھے؎۱ گا، کہ میں نے دنیا میں تمہیں جو نعمتیں عطا کردی تھیں، تم نے انہیں کہاں کہاں صرف و خرچ کردیں؟ میری شناخت اور میری عبادت کے سلسلے میں، یا تم میری نعمت کھا کر میری مخلوق کو اذیت دینےمیں مصروف رہے، اور شیطان کی اطاعت میں لگے؟ اور میں نے تم کو آنکھ، عقل، ہوش اور اعضائے صحیح دیئے تھے، ان سے تم نے کیسے کیسے کام لئے؟ کیا تم نے ہاتھ مال (کما کر) میری راہ میں صرف کرنے کے لئے استعمال کیا، یا لوگوں کے مال اور عورتوں میں خیانت کرنے اور لوگوں کو مارنے کے لئے؟ کیا تمہارے کان حق بات سن لیا کرتے تھے یا باطل؟ کیا تمہاری زبان میرا ذکر کرتی رہتی تھی یا میرے بندوں کی غیبت؟ کیا تمہارا دل میری محبت میں تھا یا دنیا کی محبت میں؟ کیا تمہاری خواہش میری طرف تھی یا دنیا کی طرف؟ کیا تمہاری آنکھیں حق دیکھنے والی تھیں یا باطل؟ کیا تم نے اپنے لئے یہاں نیک بختی لائی ہے یا بدبختی؟ تم کو وہاں جواب دینا پڑے گا، اور کوئی چیز وہاں سود مند نہ ہوگی بجز پاک قلب ؎۲ کے پس دل کو دنیوی محبت سے پاک کرلو۔

؎۱: قیامت میں انسان کے اعمال کے متعلق سوال و پرسش ہونے کا ذکر قرآن مجید کی ان آیتوں میں ہے: (۱۶: ۹۳، ۱۷: ۳۶، ۲۱: ۱۳ ، ۲۱: ۲۳، ۳۷: ۲۴، ۱۰۲: ۸۔

؎۲: اس کا اشارہ قرآن کے ۲۶: ۸۸ تا ۸۹ کی طرف ہے۔

۱۰۴

روحانی ترقی کا راز

          ۱۔ اے مومنو! یحییٰ پیغمبر علیہ السلام کا قصہ سنو، کہ آپ دن رات رویا کرتے تھے اور آرام نہیں لیتے، ایک دن حق تعالیٰ کی طرف سے یحییٰ پیغمبر علیہ السلام پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوا، اور کہا، اے یحییٰ پیغمبر علیہ السلام ! پروردگارِ عالمین فرماتا ہے، کہ تو اس قدر کیوں روتا ہے، مجھے تجھ پر بہت رحم آرہا ہے، اگر تو بہشت کے لئے روتا ہے، تو میں نے وہ تجھے عنایت کر دی، اور اگر تو دوزخ کے خوف سے روتا ہے، تو میں نے وہ تجھ پر حرام کر دیا، یحیٰ پیغمبر علیہ السلام نے عرض کی، کہ میں نہ تو بہشت کے لئے روتا ہوں اور نہ ہی دوزخ کے خوف سے، بلکہ تیری ملاقات اور دیدار کے لئے گریہ وزاری کرتا ہوں، اس وقت پروردگارِ عالم نے فرمایا، کہ اگر تو میرے دیدار کے لئے گریہ و زاری کرتا ہے، تو اس سے بھی زیادہ گریہ وزاری کرتا رہ، تاکہ تو اپنی مراد کو پہنچے، جب تک تو اس دنیائے فانی میں ہے، تو اطمینان سے نہ بیٹھ اور بہت سی گریہ و زاری؎۱ کر۔

          ۲۔ اے مومنو! دیدار و جلوہ دیکھنا مشکل ترین کام ہے، لیکن تم مومنوں

؎۱: مذکورہ قسم کی گریہ وزاری کی فضیلت و حکمت ان قرآنی آیات میں بیان کی گئی ہے:

۶: ۴۲ تا ۴۳، ۶: ۶۳، ۷: ۵۵، ۷: ۲۰۵ تا ۲۰۶، ۹: ۸۲، ۱۷: ۱۰۷ تا ۱۰۹، ۱۹: ۵۸، ۵۳: ۵۹ تا ۶۲

۱۰۵

کے لئے پیرِ حاضر نے دیدارِ الہٰی آسان کر دیا ہے، اے مومنو اس کی قدر دانی کرو، غافل نہ ہو اور اپنے حاضر علیٔ زمان علیہ السلام کو یاد کرو، تاکہ وہ تمہاری دستگیری کریں، اور ان کے نام کو اپنی جانی حفاظت کے لئے دل میں اور زبان پر جاری و ساری رکھا کرو، تاکہ بلاؤں سے خداوندِ زمان کے امن امان میں رہو گے۔

تمام شد پندیاتِ کوچک

۱۰۶

دوازدہ جوانمردی

(عالی ہمتی کے بارہ اصول)

          ۱۔ بارہ جوانمردی، جو حضرت صاحب الزمان مولانا شاہ مستنصر باللہ علیہ السلام نے اپنی مبارک زبان سے فرمائی ہیں، جو کچھ میں نے سن لیا تھا، اسے لکھ دیا، اور وہ یہ ہے، جو حضرت مولانا شاہ مستنصرباللہ نے فرمایا: ۔

          ۲۔ جو شخص اہلِ حقیقت ہو، اس کا قول و فعل حقیقی ہوتا ہے، اس کی توجہ ہماری طرف رہتی ہے، وہ دنیا ہی میں ہم کو (چشم)ِ معرفت سے دیکھتاہے، اور وہ آخرت میں بھی اپنے پروردگار کا دیدار و جلوہ دیکھے گا، اور حضرت مولانا مستنصر باللہ علیہ السلام نے فرمایا، کہ جو شخص مجھے دوست رکھتا ہو، تو اس کو چاہئے، کہ بارہ جوانمردی بجا لائیں، تاکہ عاقبت میں اسے فیوض و برکات حاصل ہوں اور اپنے دل کی مراد کو پہنچے۔

۱۰۷

دل کی پاکیزگی

          ۱۔ پہلی جوانمردی کا مطلب یہ ہے، کہ اول (وہ شخص) اپنے امامِ وقت، جو دنیا و آخرت کے مالک ہیں، کی فرمانبرداری میں کوشان رہے، شاہ (یعنی امامِ زمان علیہ السلام ) کی دوستی میں ثابت قدم، مستحکم اور قائم رہے، حق تعالیٰ کے فرمان کو بجالائے، اس کا دل پاک و صاف ہو، تم بخیل اور تنگدل نہ ہونا، اور کینہ و عداوت کو اپنے دل میں نہ رکھنا، کیونکہ امامِ زمان علیہ السلام، جو قلم و لوح اور ظاہر و باطن کے مالک ہیں (تم کو) دیکھتے ہیں، پس تم کوئی ایسا کام کرو، کہ جس سے تمہارے دلوں میں نقصان دہ باتیں اور فاسد خیالات جاگزین نہ ہوں، تم اپنے دل کو شیطان کا گھر نہ بناؤ، بلکہ اپنے قلب کو حقیقی علم کے پانی سے (دھو کر) پاک کرلو، تاکہ یہ رحمان کی جگہ ہوسکے، اور جس دل میں رحم ہو، وہ رحمان کی جگہ ہے، اور بے رحم و سیاہ دل شیطان کا ٹھکانا اور جنات کا مقام ہے۔

۱۰۸

دسواں حصہ

۱۔ دوسری جوانمردی کا مطلب یہ ہے، کہ تو اس کام اور فعل میں، کہ جس سے حق تعالیٰ راضی ہو، مشغول رہا کرے، خدا کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرے، اور جو کچھ تیری آمدنی ہو، اس کا دسواں، جو مالِ واجبات ہے، اپنے مال سے نکالے، اور اپنے مولا کی درگاہ میں، جو مرتضیٰ علی علیہ السلام  اور دنیا و آخرت کے مالک ہیں، بلاکم و کاست پہنچادے، انتہائی سچے عشق و محبت سے اور شگفتہ رو ہو کر خوشی سے، اس لئے کہ دسواں کا مال تمہارے مولا کے حضورِ انور میں پہنچا اور قبول ہوا ہے، اس وقت (تیری آمدنی کے) وہ باقی نو حصے تجھ پر حلال ہوتے ہیں، اور تجھے فیض و برکت ملے گی، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

          ۲۔ اگر تو مالِ واجبات نہ دے، تو یہ ایک ایسے شخص کی مثال ہوگی، جو (اپنے کھیت میں ہل تو چلا دیتا ہے مگر) تخم ریزی نہیں کرتا، اور اگر تو اپنا مالِ واجبات دوسرے شخص کو دیتا ہے، تاکہ وہ پہنچا دے، اور وہ شخص مولا علیہ السلام کے حضور میں نہ پہنچا دیتا ہو، تو اس کی مثال ایسے بیجوں کی طرح ہے، جو تو دہقان کو دیتا ہے، وہ ان بیجوں کو کھا لیتا ہے اور کھیت میں تخم ریزی نہیں کرتا، اس وقت دہقان اور زمین کا مالک دونوں خالی ہاتھ رہیں گے (یعنی ان کو زمین سے کوئی حصول نہیں ملے گا۔

          ۳۔ پس لازم اور واجب ہے، کہ تو مالِ واجبات کو فوراً مکمل طور پر

۱۰۹

اور سچائی سے امامِ وقت علیہ السلام کے دربار میں پہنچائے، اور اگر (کوئی شخص) دہ یک (دسواں) کو، جو مالِ واجبات ہے، اپنے مال سے نہ نکالے، تو یہ ایک ایسے گوسفند کی مثال ہے، جس کو ذبح کر کے خون نہ بہایا جائے، اور حرام، مردار ار ناپاک کر کے کھا لیا جائے، پس اگر تو نے دسواں دیا، تو وہ باقی ماندہ نوحصے تیرے لئے حلال ہوتے ہیں، اور اگر تو نے نہیں دیا تو وہ دہ یک (۱: ۱۰) آگ بن کر ان دوسرے نو حصوں کو جلا ڈالتا ہے، اور خیروبرکت اور سلامتی تجھ سے اور تیرے مال سے چلی جاتی ہے، اور دس حصوں میں سے ایک حصہ خداوند کا مال ہے، اور حق تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، کہ ہمیشہ بندوں کو یہ بتا دیا جائے، کہ وہ غافل نہ ہو جائیں، اور ہمیشہ حساب کر کے دہ یک کو، جو خداوند کا مال ہے، اداکریں، تاکہ وہ حلال کھانے والے رہیں اور یہ دہ یک کا اصول حضرت شاہ مردان مرتضیٰ ( علیہ السلام )نے مقرر فرمایا ہے، چنانچہ مولانا علی علیہ السلام نے اہلِ حقیقت کے لئے ارشاد فرمایا، کہ جو شخص اہلِ حقیقت میں سے ہو اور میرے دیدار کی آرزو رکھتا ہو، تو وہ اپنے مال کا دسواں ، جو میرا حق ہے، مجھے پہنچا دیا کرے، تاکہ وہ (میرا روحانی) دیدار کر سکے، اہلِ شریعت اس حکم اور اس رمز سے بےخبر ہیں، پس ہر زمانے میں جس شخص کو امامِ زمان کا راستہ مل جائے، تو اس پر واجب ہے، کہ اپنے مال کا دسواں، جو امامِ وقت کا حق ہے، پہنچا دیا کرے، اور امام کے فرمان کے بموجب اپنے مال و جان کو قربان کر دے۔

          ۴۔ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے، کہ میرے بندے مجھے جس قدر اور جو کچھ دیا کریں، تو میں جو کہ پروردگار ہوں، ایک کےعوض میں انہیں لاکھ دوں گا، اور اپنا دیدار ان کو عطا کروں گا، اور ان کو آسمانوں میں محلات، مقامات، سیاحتیں، نظارے اور خوبصورت مکانات دیدوںگا، اور جو شخص اس دنیا سے گزر جاتا ہے، وہ دراصل (غیر شعوری طور پر پلِ ) صراط سے گزرا ہوا ہوتا

۱۱۰

ہے، جو شخص حق تعالیٰ کے لئے کام کرتا ہو، وہ فی الواقع اپنے لئے کام کرتا ہے، اور جو شخص اپنے لئے کام کرتا ہو، تو وہ درحقیقت بے کار ہے، اور اس کی کوئی عزت نہیں، کیونکہ لوگوں کی خودی اور ان کی ہر چیز کا مالک خدا ہے، اگر (بندے نے) دہ یک دیدیا، تو وہ نو حصے جو باقی رہتے ہیں، اس پر حلال ہوتے ہیں، اور اگر اس نے دسواں نہیں دیا، تو اس کا تمام مال اس کے لئے حرام ہے۔

          ۵۔ حقیقت کے تمام امور پوشیدہ اسرار کی حیثیت سے ہیں، جو پیغمبر علیہ السلام نے وحدت شناس مومنوں کے لئے معراج سے بطورِ تحفہ لائے ہیں، یہ مطالب ان ہزار اسرارِ نا گفتنی میں سے ہیں، جن کے متعلق حق تعالیٰ نے رسول علیہ السلام سے فرمایا، کہ آپ ہمارے ان اسرار کو نا اہلوں پر ظاہر نہ کریں، اور یہ وہ نصیحتیں ہیں، جو پیغمبر علیہ السلام نے اہلِ حقیقت کے لئے معراج سے لائی ہیں، اور ان نصیحتوں کو، جو اہلِ شریعت کےلئے ہزار گفتنی باتوں میں سے تھیں، سارے لوگ سمجھ گئے، لیکن مومنِ موحد کے سوا حقیقت کے ان اقوال سے کوئی شخص واقف نہیں، پیغمبرعلیہ السلام نے (یہ اسرار) مومنین کے حوالے کردیئے، اور تاکید فرمائی کہ انہیں نااہلوں سے پوشیدہ رکھو، جس طرح میں نے ان کو پوشید ہ رکھا اور یہ بھی انہیں پوشیدہ باتوں میں سے ہیں، جو فرمایا، کہ حقیقی مجلس میں شامل ہو جایا کرو، اور یہ دینِ حقیقت خدا وندتعالیٰ نے پاک سیرت لوگوں کے لئے مقرر فرمایا ہے، جس شخص کو اس دین کی توفیق دی گئی ہے، اسے ضرور چاہئے، کہ اس کی قدردانی کرے، اور تم پیرکا دامن پکڑے رہو، اور تمہیں صاحبِ دین کے امر پر قائم رہناچاہئے۔

۱۱۱

تسلیم و رضا

          ۱۔ تیسری جوانمردی کا مطلب یہ ہے، کہ قضاو قدر؎۱ کے مالک کے حکم میں رضا و تسلیم ہونی چاہئے، اور حق تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ پیش آئے، اس پر تمہیں راضی ہونا چاہئے، جس کام سے حق تعالیٰ راضی ہوتا ہے، بندہ بھی اس میں راضی ہو، اور جس چیز سے خدا راضی نہیں، تو بندہ بھی اس میں راضی نہ ہو، اور امامِ حاضر علیہ السلام کی فرمانبرداری میں رہے، اور اپنے دل کو امام علیہ السلام کے عشق میں زندہ کر دے، تاکہ وہ دونوں جہان میں زندۂ جاوید ہو سکے۔

؎۱: قضافعلست در فطرت قدر منطق بامرحق

خرد عرشست درحکمت معانی و حی و کرسی آن

وضاحت: ’’قضا و قدر‘‘ کے معنی فعل و قول ہیں، جو حق تعالیٰ کے امر کے بموجب فطرت میں جاری ہے، ’’عرش‘‘ حکمت میں عقل و دانش کو کہتے ہیں اور ’’وحی‘‘ معنی و حقیقت کو، جو اس عرش کی کرسی ہے۔

                                                       دیوان ِ اشعار، ص: ۳۵۶

                                                از حکیم پیر ناصر خسرو (ق س)

۱۱۲

حق دیکھنے والی آنکھ

          ۱۔ چوتھی جوانمردی کا مطلب یہ ہے، کہ بندے کو چاہئے کہ وہ ہر جگہ خدا کو دیکھے (یعنی اس کو حاضر و ناظر جانے) اور کسی کی بھی برائی نہ کرے، جو لوگ کسی چیز کی یا کسی شخص کی برائی کرتے ہوں، تو اس کا سبب یہ ہےکہ وہ پردے میں ہیں، ان پر جہالت چھا گئی ہے ، اور حقیقتِ اشیا ٔ سے بے خبر ہیں، پس اے حقیقت شعار مومنو! خدا کو ہر جگہ حاضر و موجود جانو، خدا کی مخلوق کو اچھی سمجھو اور جن چیزوں کو دیکھتے ہو، ان سب کو اچھی نظر سے دیکھا کرو، اپنے آپ میں حق دیکھنے والی آنکھ پیدا کرو اور باطل دیکھنے والے نہ ہو جاؤ، دل میں اپنے خداوند کی تعریف و توصیف کرتے رہو، اور تم پر جو کچھ واقعہ گزرتا ہے، وہ اگر اچھا ہے، تو خدا کی طرف سے ہے، جو تمہاری عقل کی روشنی سے (پیدا کیا گیا) ہے، اور اگر واقعہ برا ہے، تو یہ تمہارے نفس کی تاریکیوں ؎۱ سے ہے، چنانچہ جو تکلیف تم پر آتی ہے، وہ قضا و قدر سے سمجھو، جس میں تمہارے برے اعمال کی سزا اور بلاؤں سے بچاؤ ہے، تاکہ (فیصلہ اور سزا و جزا کا یہ معاملہ) آخرت تک نہ آگے بڑھے، اور تم اپنے دل کو پاک کر رکھو، اور خدائے مہربان سے محبت کئے رہو،

؎۱: جو بھلائی تمہیں پہنچی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اور جو تکلیف پہنچی وہ تمہارے نفس کی طرف سے ہے (القرآن ۴: ۷۹)

۱۱۳

تاکہ وہ تم کو دوست رکھے، اور ہمیشہ دل میں اپنے امام کی محبت رکھو، تاکہ تمہار دل حق تعالیٰ کے نور سے روشن ہو۔

۱۱۴

نعمت اور اس کا زوال

          ۱ ۔ پانچویں جوانمردی کا مطلب یہ ہے، کہ تم دنیوی فائدے سے شادمان نہ ہوجاؤ، نہ ہی اس کے نقصان سے غمگین ہو جاؤ، بلکہ تمہارا دل ایک حال پر قائم رہنا چاہئے، اگر تمہیں کوئی تکلیف پیش آئے، تو شکر کرنا، کیونکہ یہ مصیبت تمہاری خطا کے بدلے میں ہے اور تمہاری گناہ کا کفارہ ہے، اور یہ خداوند تعالیٰ کی جانب سے اس کے بندوں پر اتری ہوئی نہیں، بدی خود بندے ہی کی طرف سے ہے، اور خدا تعالیٰ جب کوئی نعمت عطا کردے، تو وہ اس کو تغیر اور زائل نہیں کرتا، تغیر اور زوال بندے کی وجہ سے ہے، پس جو شخص راہِ حق میں گامزن ہوا، تو اس نے امام کی شناخت کو، جو عظیم ترین نعمت ہے، حاصل کرسکا ہے، تمہیں اس کی قدر دانی کرنی چاہئے، تاکہ تم کو نہ ہرا دیا جائے، اور جو بھی راحت یا مصیبت آتی ہو، تم اس میں صبر و سکون سے کام لیتے ہوئے حقیقی دوست کا طلبگار رہو، دنیا کی بھلائی اور برائی کو پیشِ نظر نہ رکھو، جب خداوند تعالیٰ تمام بندوں کے حال سے باخبر ہے، تو جو کچھ تیرے اخروی کام کی صلاح و بہبود ہو وہ تجھے عطا کر دیتا ہے، کچھ اس طرح کہ تو (آخرت میں) راضی ہو جائے۔

۱۱۵

خدا کی خوشنودی

          ۱۔ چھٹی جوانمردی یہ ہے، کہ اگر تم حق تعالیٰ کے طلبگار ہو، تو بزرگوں کے طلبگار رہو، کیونکہ خد ااپنے برگزیدہ بندوں کے پاک دل میں موجود ہے، تم کسی کے بھی دل کہ نہ دکھاؤ، کسی کی بھی دل شکنی نہ کرو، اور کسی کو بھی رنجیدہ اور دل آزردہ نہ کرو، کیونکہ مومن کا دل خدا کا گھر ہے، اور نادان (اس حقیقت سے) بے خبر ہے، اگر تم چاہتے ہو، کہ اپنی طرف سے خدا کو خوش اور راضی کر سکو، تو تم اپنی طرف سے مومن کو خوش اور راضی کر دو، کیونکہ مومن کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے، اگر مومن کو کسی شخص سے کوئی تکلیف پہنچتی ہو، تو خداتعالیٰ اس شخص سے راضی نہیں، حق تعالیٰ اس ظالم سے کس طرح اور کب راضی ہے، جس نے بندۂ مومن کو تکلیف دی ہو، پس جہاں تک تم سے ہوسکے، مومن کو اپنی طرف سے خوش کر دینا، تاکہ تمہیں فیوض و برکات ملیں۔

۱۱۶

دینی و اخلاقی مائیں اور بہنیں

          ۱۔ ساتویں جوانمردی یہ ہے، کہ تم بیگانہ عورتوں کو اپنی بہنیں سمجھ لینا، اور اگر کوئی بیگانہ عورت تیرے پاس آجائے، تو تیری حالت و کیفیت ہر گز دگر گون نہ ہو، تو ایسا خیال کرنا ( جیسا ) کہ تیری ماں اور بہن تیرے پاس آئی ہے، اور اگر کوئی شخص تیرے پاس کسی عورت کا نام لیتا ہے اور کچھ کہتا ہے، تو تیرا دل برے خیال کی طرف مائل نہ ہو اور اس میں کوئی تبدیلی نہ آئے، اور اگر کسی بیابان میں یا کسی ایسے مکان میں، جہاں کوئی بھی نہ ہو، تو نے کسی بیگانہ عورت کو دیکھا، تو ہر گز برا خیال مت کرنا، ہر چند کہ وہاں کوئی بھی نہیں، لیکن خدا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے، پس تو یوں سمجھ لے کہ یہ تیری ماں یا بہن ہے، اور اپنے دل کو پاک اور وسوسوں سے خالی رکھ، ایسی صورت میں تجھ پر خدا کی مہربانی و عنایت نازل ہوتی ہے، اور تیرا دل حق تعالیٰ کی وحی (اترنے) کا مقام بن جاتا ہے۔

۱۱۷

غیبت کی بدبو

          ۱۔ آٹھویں جوانمردی یہ ہے، کہ تمام گناہوں سے کنارا کشی کی جائے، اور کسی کی غیبت نہ کی جائے، خصوصاً مومن کی (غیبت نہ کی جائے) جو شخص مومن کی غیبت کرتا ہے، وہ (گویا) میت کا گوشت کھاتا ؎ ۱ ہے، اور جو کوئی غیبت کرتا ہے یا جھوٹ بولتا ہے تو اس کے گھورا ؎۲ جیسے منہ سے ایک قسم کی بد بو نکلتی رہتی ہے، جس سے فرشتوں کو تکلیف پہنچتی ہے، اور اس بدبو سے شیطان کے دل کو قوت ملتی ہے، اور آخرت میں ایک ایسی حالت میں اس کا حشر ہوتاہے، کہ اس کے منہ سے بد بو اور گندگی ظاہر ہوتی ہے، سب لوگ اس سے پرہیز کرتے اور اپنے قریب نہیں آنے دیتے، اور وہ اپنے منہ کی بدبوئی اور گندگی کے باعث اپنے آپ سے بیزار ہو جاتا ہے، جب کبھی کوئی شخص کسی کی غیبت کرتا ہے، تو وہ یہ گمان کرتا ہے، کہ (فلان شخص ) برا آدمی ہے، حالانکہ تمام لوگوں کے باطن کو صرف خدا ہی جانتا ہے، اور اگر ( جس کی غیبت کی گئی) وہ اپنے باطن میں اچھا آدمی ہو، تو اس صورت میں ( غیبت کرنے والنے سے دو گناہ سرزد ہوتے ہیں) کہ اس

۱؎: قرآن پاک کا ارشاد ہے کہ: اور (اے مومنین!)تم میں سے کوئی ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی اسے پسند کرتا ہے، کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے، پس تم اس سے (ضرور) نفرت کرو گے ۳۹: ۱۲۔

۲؎۔ گھورا۔ وہ جگہ جہاں کوڑا کرکٹ اور گندگی و غلاظت پھینکی جاتی ہے۔

۱۱۸

نے تہمت بھی کی اور غیبت بھی، پھر اس پر افسوس ہے، پس تجھے مومن کے حق میں اچھی بات کہنی چاہئے، اور اس کو اپنی طرف سے راضی کر دے، جس قدر بھی تو اپنے دل کی حفاظت اور صبر کرے، اس قدر تو آخر کا رشادمان ہو جائےگا، اس وقت آخرت میں تجھے معلوم ہوگا، کہ جس کام کے متعلق دنیا میں تیرا یہ خیال تھا، کہ اگر وہ کام بن جاتا یا اگر تو اسے کر سکتا، تو تیرے حق میں اچھا ہوتا ( مگر اس کے برعکس آخرت میں تو کہے گا کہ) اچھا ہوا جو فلان کام نہیں بنا اور میں نہیں کر سکا (پس سمجھ لے) کہ خدا تعالیٰ تیری صلاح و بہبود کو تجھ سے بہتر جانتا ہے، تجھے اپنے دل سے فضول اور بیہودہ خیالات کو نکال دینا چاہئے۔

۱۱۹

روزۂ باطن

          نویں جوانمردی یہ ہے، کہ تم سال بھر روزہ دار رہا کرو، جس طرح اہلِ ظاہر ایک ماہ کے لئے روزہ رکھتے ہیں، روزہ سے ریاضت مراد ہے (پس اپنے آپ کی ) نگرانی کرتے رہو، اپنے آپ کو بری صفات ، برے افعال، نازیبا حرکات اور شیطنت سے بچائے رکھو، تاکہ رفتہ رفتہ آئینۂ دل کو پاک و صاف کرسکو، دوسرا یہ جان لو، کہ ان تیس دنوں میں، جن میں اہلِ ظاہر روزہ رکھا کرتے ہیں، روزہ (دراصل) ایک روز کا ہے ( جس میں شبِ قدر پوشیدہ ہے) لوگ اسی ایک دن کے لئے تیس دنوں کا روزہ رکھتے ہیں، تاکہ وہ اس دن کو پاسکے، اور وہ (دن یعنی شبِ قدر) بھی ایک رمز و اشارہ ؎۱ ہے جس طرح لوگ اسی ایک روز کو پانے کے لئے تیس روز روزہ رکھتے ہیں، تمہیں چاہئے کہ دیدارِ الٰہی حاصل کرنے کے لئے عمر بھر زحمتیں اور تکلیفیں اٹھائیں، صبرو ریاضت کریں اور اپنے باطن کو زندگی بھر روزے میں رکھیں۔

          ۲۔ اما باطنی ؎۲ روزے کی تفصیل یہ ہے، کہ سرکا روزہ یہ ہے کہ اپنے سر کو لوگوں کا پاؤں شمار کرنا ہے، اور اپنے سر سے سرداری، بڑائی اور تکبر کی تمنا و

؎۱: شبِ قدر کا رمزو اشارہ اور تاویل کے لئے دیکھئے: وجہ دین حصہ اول ص: ۲۰۲، نیز حصہ دوم ص: ۱۱۰۔

؎۲: روزہ کے باطن اور تاویل کے لئے دیکھیں: وجہ دین حصۂ دوم ص: ۹۵ تا ۱۱۰۔

۱۲۰

خواہش نکال دینی ہے، کیونکہ سرداری اور بڑائی حق تعالیٰ کی ذاتِ کبریا کے لئے شایان ہے، اس لئے کہ خدا قائم اور بادشاہی کا مالک ہے، آنکھ کا روزہ یہ ہے، کہ بیگانہ عورت کی طرف بدنظری نہ کی جائے، کان کا روزہ یہ ہے، کہ کان کو غیبت سننے سے محفوظ رکھا جائے، زبان کا روزہ یہ ہے، کہ زبان کو فحش اور غیبت سے روک لی جائے، دل کا روزہ یہ ہے، کہ دل کو شکوک و شبہات سے بچالیا جائے، پاؤں کا روزہ یہ ہے، کہ پاؤں کو ناجائز جگہ جانے سے روک لیا جائے اور ہاتھ کا روزہ یہ ہے، کہ اس کو خیانت سے باز رکھا جائے، مومن اپنے تمام اعضا کو روزے میں رکھے، تاکہ ظالم نہ ہو، خصوصاً زبان کو جھوٹ بولنے سے، اور اس سے بڑھ کر کوئی جھوٹ نہیں، کہ امام کے بارے میں منکر ہیں اور انہوں نے دنیا کے دوروزہ اقتدار کی خاطر نادان لوگوں کو اپنا تابع بنا لیا ہے۔

۱۲۱

حقیقی عشق کی حکمت

          ۱۔ دسویں جوانمردی یہ ہے، کہ تم پرہیزگار رہو، گناہوں سے توبہ کر لیا کرو، اور کسی چیز پر اعتماد و فخر نہ کیا کرو، مگر اپنے امام کے کرم پر (بھروسہ اور فخر کرو) کیونکہ تمام اشیا ٔ ان کے امر سے قائم ہیں، دوسری سب چیزیں فنا و ہلاک ہو جاتی ہیں، بجز امام کے، جو باقی، حی اور قائم ہیں، پس تجھے امام ملنے کے باوجود کسی چیز کا طلبگار رہنا اور دنیا پر مغرور ہونا انتہائی نادانی ہے، تو دنیا میں جس چیز کے ساتھ مانوس ہوتا ہے، آخر کار موت تجھے ناکام کر کے اس سے جدا کر دیتی ہے، پس تو لازمی طور پر کسی ایسی ہستی کی محبت اختیار کر لے، جو دنیا و آخرت میں تیرے ساتھ ہو، اس کو کوئی زوال نہ ہو، وہ تجھے سب سے زیادہ نزدیک ہو، وہ تجھے تیری خودی سے بھی زیادہ نزدیک ہو، اور وہ تجھ پر سب سے زیادہ مہربان ہو، وہ تیرے امامِ وقت ہی ہیں، پس ان سے ذرا بھی غافل نہ ہوجا۔

۱۲۲

کون سی شے باعثِ فخر ہے؟

          ۱۔ گیارہویں جوانمردی یہ ہے، کہ اگر تم کو امام کی راہ مل گئی ہے، اور ان کی بندگی و عشق میں مصروف رہتے ہو، تو فخر و خوشی کرو، ورنہ دنیا کی کسی چیز پر فخر نہ کرنا، کیونکہ آخر کار ہر چیز کا زوال ہو جاتا ہے، اور (یہ واقعہ) تمہارے لئے باعثِ تکلیف ہوگا۔

۱۲۳

طہارتِ باطن

          ۱۔ بارہویں جوانمردی کا مطلب یہ ہے، کہ مومن کو اپنا ظاہر و باطن پاک و صاف رکھنا چاہئے، وہ اپنے لباس، جسم اور دل کو پاک رکھے، تاکہ اس کے ساتھ فرشتے رہ سکیں، کیونکہ اگر اس کا ظاہر و باطن ناپاک و نجس ہو، اور وہ خود کو پاک نہ رکھے، تو اس کے ہمراہ اور ہم خواب جنات و شیاطین ہوتے ہیں، اور اس کے دل میں بھوت اور شیاطین رہنے لگتے ہیں، پس تمہیں باطہارت رہنا چاہئے۔

          ۲۔ جس طرح اہلِ ظاہرظاہری عبادت کے لئے اپنے ظاہر کی طہارت اور وضو کرتے ہیں، اسی طرح اہلِ حقیقت کو چاہئے، کہ وہ باطنی طہارت اور حقیقی وضو کو جان لیا کریں اور بجالائیں؎۱، امام کی فرمانبرداری میں سر جھکانا سر کی طہارت و پاکیزگی ہے، امامِ وقت کو بیعت کا ہاتھ دینا ہاتھ کی طہارت و پاکیزگی ہے، امام کی راہ اور اس کی فرمانبرداری میں چلنا پاؤں کی طہارت و پاکیزگی ہے، امام کی محبت میں دل کو قائم رکھنا دل کی طہارت و پاکیزگی ہے امام کے ذکر میں زبان کو ہمہ وقت رکھنا زبان کی طہارت و پاکیزگی ہے، امام کی باتوں کو سن لینا کان کی طہارت و پاکیزگی ہے، اور امامِ وقت کا دیدار کر لینا آنکھ کی

؎۱: طہارت کے باطن یا تاویل کے متعلق مزید معلومات کے لئے دیکھئے ’’وجہ دین حصۂ اول‘‘ از صفحہ ۱۴۳ تا ۱۶۵۔ نیز ’’ تاویل الدعائم‘‘ عربی صفحہ ۷۲ تا ۱۳۳۔

۱۲۴

طہارت و پاکیزگی ہے۔

          ۳۔ جو شخص امام کے فرمان و کلام کا مطیع ہو، تو اس کے اعضا پاک ہو جاتے ہیں، اور جس کو امام تک راستہ گیا اور اپنے آپ کو ان کے امر کے حوالے کر دیا، تو اس کی جان پاک ہو جاتی ہے، اور اس کی روح پاک ہو جاتی ہے، اور جو شخص امام سے بے خبر ہو، اور منکر ہو، اور مام کی امامت کا قائل نہ ہو، یا ان سردار کی امامت میں شک کرے، تو اس کی مثال ایک ایسے فردِ بشر کی طرح ہے، جو ہمیشہ جنب یا ہمیشہ حیض سے خالی نہ ہو، پس خدا کی پناہ میں رہو، ان منکرین سے، جنہوں نے شریعت کو اسی ظاہری طہارت میں محدود کر رکھی ہے اور باطنی طہارت و پاکیزگی سے بے خبر ہیں حالانکہ انہیں ظاہر کی طرح باطن میں بھی پاک ہونا چاہئے۔

          ۴۔ عالی ہمتی کے بارہ اصول تمام ہوگئے، پس جو شخص ان صفات کا حامل ہو، تو وہ شاہِ دین کا خاص بندہ اور درگاہ کا حقیقی مومن ہے، اور یہ وہ اسرار ہیں، جو پیغمبر نے حقیقی مومنوں کے لئے معراج سے لائے ہیں، جو ( رسول کے فرمان کے بموجب) شاہ اولیا علی المرتضیٰ نے ( یہ اسرار ظاہر) فرمائے ہیں، کہ اپنے وقت کے امامِ حاضر کو، جو حاضر جامہ ہیں، پہچان لیا کرو، جس شخص نے اپنے امامِ وقت کو پہچان لیا، تو وہی وحدت شناس مومن ہے۔

۱۲۵

ہستی اور نیستی کے درمیان

          ۱۔ اے بھائیو! مولانا شاہ مستنصر باللہ (علیہ السلام) امامِ حاضر فرماتے ہیں، کہ جو کوئی دنیا میں اپنے آپ کو کوئی شخص خیال کرتا ہو یا ہست شمار کرتا ہو، تو وہ نیست ہو جائے گا، اور وہ ہستی سے بے بہرہ ہے، انسان کو نہ تو ہست کہا جاسکتا ہے، نہ ہی نیست، وہ نہ نور ہے، اور نہ تاریکی، اگر امام نے، جو صاحبِ ولایت ہیں، اس کی دستگیری کی، تو وہ ہست اور نور قرار دیا جاسکتا ہے، اور اگر وہ امام سے منکر ہو، اور اپنے امامِ زمانہ کو بیعت کا ہاتھ نہ دے، تو وہ نیست اور ظلمت ہو جائےگا۔

          ۲۔ اے مومنو! حضرت مولانا صاحب الزمان امام شاہ مستنصر باللہ فرماتے ہیں، کہ جس شخص نے دنیا میں ہماری راہ کی ہدایت حاصل کی ہو، اور اسی سبب سے دشمنوں سے تکلیف پاتا ہو، محنت کرتا ہو، اور ہماری محبت میں صاف دل پرتپاک ہو، تو اسے آخرت میں امن و آسائش ملے گی، اور اپنے پروردگار کے پاک دیدار میں مسرت و شادمانی سے رہے گا۔

          ۳۔ اے مومنو! حضرت مولانا شاہ مستنصر باللہ فرماتے ہیں، کہ جو شخص دنیا میں اہلِ حق کی مجلس میں بیٹھ کر علمِ دین حاصل کرے، تو اس بندے پر میری نظرِ رحمت ہوتی ہے، اور مرنے کے بعد اس کی جان سلامتی و عافیت سے حق تعالیٰ کے ساتھ مل جاتی ہے۔

۱۲۶

روحانی دیدار کی شرائط

          ۱۔ اے مومنو! حضرت مولانا امام شاہ مستنصر باللہ فرماتے ہیں، کہ حقیقی مومن وہی ہے، جو بے کینہ اور صاف دل ہو، جو شخص دنیا و آخرت میں ہمارا دیدار دیکھنا چاہے، تو اس کو چاہئے کہ ہر قسم کے عیب، مخالفت اور برائی سے اپنے آپ کو بچائے رکھے، یہاں تک کہ دل پوری طرح سے پاک و صاف ہو، اوراپنے پروردگار کو دنیا ہی میں دیکھ سکے، اس وقت وہ آخرت میں بھی خدا کو دیکھ سکے گا، مومن پر واجب و لازم ہے، کہ وہ اپنے پروردگار کو، جو دنیا میں ظاہر ہے اور بشری صورت میں ہے، پہچان لیا اور دیکھا کرے، تاکہ آخرت میں بھی دیدار کر سکے۔

          ۲۔ حضرت امامِ حاضر مولانا شاہ مستنصر باللہ فرماتے ہیں، کہ بری صفات سے دور رہو، کیونکہ تم نے یہاں جس چیز کو صفت و عادت اختیار کر لی ہو (مرنے کے بعد) تم اسی چیز کی صورت میں اٹھائے جاؤگے۔

          تمام ہوئی کتاب ’’ پندیاتِ جوانمردی‘‘ جو ایک قدیم نسخے سے نقل کی گئی۔ جس کے شروع اور اخیر کی چند سطور فرسودہ ہو چکی تھیں، بلتت ہونزہ میں تحریر ہوئی ۱۹۳۵۔

الحمد للہ کہ ’’پندیاتِ جوانمردی‘‘ کا یہ اردو ترجمہ بروز یک شنبہ ۱۵ شوال ۱۳۸۸ھ بمطابق ۵ جنوری ۱۹۶۹ء مکمل ہوا۔

المترجم بندۂ حقیر پرتو شاہ (المعروف نصیر الدین نصیر ہونزائی)

۱۲۷

خلیفۂ خدا کی صفاتِ کمالیہ

حقائق و معارف کو آسان طریقے پر سمجھانے کے لئے سوالات اور ان کے جوابات: ۔

          سوال ۱: خلیفہ کے کیا معنی ہیں؟

          جواب: خلیفہ کسی منصب دار کے قائم مقام، نائب مناب اور جانشین کو کہتے ہیں۔

          سوال ۲: یہ لفظ عام ہے کہ خاص؟

          جواب: یہ لفظ عام بھی ہے اور خاص بھی۔

          سوال ۳: لفظ خلیفہ جو خاص ہے، وہ قرآن مجید میں کن حضرات کے لئے استعمال ہوا ہے؟

          جواب: ظاہراً یہ لفظ حضرت آدم اور حضرت داؤد علیہماالسلام کے بارے میں استعمال ہوا ہے۔

          سوال ۴: حضرت آدم اور حضرت داؤد کس کے خلیفے یا جانشین تھے؟

          جواب: اللہ تبارک و تعالیٰ کے، جو خود ہر چیز اور ہر صفت سے بے نیاز ہے۔

          سوال ۵: وہ دونوں حضرات یہ خلافت کہاں کہاں کرتے تھے؟

          جواب: آفاق اور انفس میں، یعنی کائنات اور نفوسِ خلائق میں۔

          سوال ۶: وہ برگزیدہ شخص جو آفاق اور انفس میں خدا کا جانشین ہو سکے،

۱۲۸

کن اوصاف کی بنا ٔ پر لوگوں سے ممتاز اور مخصوص ہو جاتا ہے؟

          جواب: اس کے چند اوصاف یہ ہیں، کہ وہ علمِ لدنی کا حامل ہوتا ہے، جو ہر چیز پر حاوی ہے، اور علمِ لدنی کا سرچشمہ خدا کا وہ نور ہے، جو خدا کے خلیفہ میں ہوتا ہے، جس کا دوسرا نام خدا کی روح ہے، چنانچہ یہ قصہ مشہور ہے، کہ باری تعالیٰ نے حضرت آدم کے دونوں کانوں میں اپنی روح پھونک دی ، یعنی خدا نے ابو البشر کے باطن میں وہ روح ڈالی، جو عام انسانوں کی ارواح سے انتہائی بلند درجے پر ہے، اور وہ ازلیت و ابدیت کا زندہ نور ہے۔

          سوال ۷: خلافتِ الٰہیہ کا دوسرا نا م کیا ہے؟

          جواب: خلافتِ الٰہیہ کا دوسرا نام نبوت یا امامت ہے۔

          سوال ۸: حضرت آدم نبی تھا یا کہ امام؟

          جواب: حضرت آدم نبوت و امامت دونوں مرتبوں کا مرکز تھا، اور اس نے ناطقیت کے درجے پر پہنچ کر اپنے بیٹے حضرت شیث پر امامت کی نص کر دی۔

          سوال ۹: اگر ایک وقت میں چند پیغمبر موجود ہوں، اور امام ِزمان تو ہر وقت حاضر اور موجود ہے، تو ان سب میں سے خدا کا خلیفہ کون ہوگا؟

          جواب: خلافتِ الٰہیہ دینِ حق کی ظاہری و باطنی پوری تنظیم کا نام ہے، تاہم اس میں خلافت کا ظاہری مرکز وہ پیغمبر ہوتا ہے، جس پر ظاہری تبلیغ کی ذمہ داری عائد ہوئی ہو۔

          سوال ۱۰: فرشتوں نے جو خدا کے امر سے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا ، اس میں کیا حکمت پوشیدہ تھی، حالانکہ سجدہ خدا ہی کے لئے مخصوص ہے؟

          جواب: سجدہ میں مخلوق کے انتہائی عجز و نیاز اور خدا کی انتہائی تعظیم ہے،

۱۲۹

اور یہ عبادت کے آداب میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، پس خدا کے امر سے فرشتوں نے جو آدم کو سجدہ کیا، اور ابلیس نے جو اس سے انکار کیا، اور جس طرح نتیجے کے طور پر فرشتوں کا علمِ حقیقت ملا، اور جیسے ابلیس راندہ ہوا، ان تمام واقعات میں یہ حکمت پوشیدہ ہے، کہ جو شخص صاحبِ خلافتِ الٰہیہ کی فرمانبرداری کرے، تو اس کو وہی علم ملے گا، جو فرشتوں کو ملا تھا، اور جو خلیفۂ خدا کی فرمانبرداری سے روگردان ہو جائے، تو اس کا وہی حشر ہوگا، جو کچھ ابلیس کا ہوا تھا۔

          سوال ۱۱: کیا یہ خلافتِ الٰہیہ روئے زمین پر ہمیشہ کے لئے ضروری ہے، یا یہ کہ ایک ہنگامی ضرورت ہے؟

          جواب: جب تک دنیا میں لوگ باقی ہیں، تب تک خلافتِ الٰہیہ اور اس کی ضرورت و اہمیت بھی باقی ہے۔

          سوال ۱۲: آپ کے اس بیان کے بموجب آدم خدا کا خلیفہ اس لئے ہوا، کہ اس میں خدا نے اپنی روح پھونک دی، اور فرشتوں نے خدا کے امر سے اس کو سجدہ کیا، نیز اس کے اور داؤد کے خلیفہ ہونے کا بیان قرآن میں موجود ہے، لیکن ہم کس طرح سمجھ سکیں ، کہ ان دونوں حضرت کے علاوہ بھی دنیا میں خدا کے خلیفے مقرر ہوئے ہیں؟

          جواب: خدائے تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’ انّی جاعِلٌ فی الارضِ خلیفہ۔یعنی میں روئے زمین پر (اپنا) ایک جانشین مقرر کرہا ہوں‘‘ تو اس ارشاد میں روئے زمین سے سیارۂ زمین مراد نہیں، بلکہ زمین کے تمام باشندے مراد ہیں، کیونکہ خلافتِ الٰہیہ کی ضرورت و اہمیت کا تعلق زمین کے باشندوں سے ہے، نہ

۱۳۰

کہ سیارۂ زمین سے، پس اس دائمی ضرورت کے پیشِ نظر خدا نے ہمیشہ کے لئے لوگوں کے درمیان اپنا خلیفہ مقرر کر دیا ہے، جب یہ ثابت ہوا، کہ لوگوں کے لئے خلافتِ الٰہیہ کی ضروت ہے، تو لازماً یہ خلافت اس وقت تک باقی ہونا چاہئے، جب تک دنیا میں لوگ باقی ہیں، اور آدم میں جو ربانی روح پھونک دی گئی تھی، وہ ایک ایسے پاک سلسلے میں تا قیامت باقی اور جاری ہے، جو آدم، نوح، ابراہیم اور ابوطالب کی ذریات میں قیامت تک چل رہا ہے۔

          سوال ۱۳: کیا اس کا مطلب یہ ہوا، کہ بموجبِ آیۂ اصطفا ٔ خدا نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران (ابوطالب) کو دنیا والوں پر برگزیدہ کیا ہے؟

          جواب: بے شک آیۂ اصطفا ٔ میں لفظ ’’عالمین‘‘ سے دنیا کے تمام لوگ مراد ہیں، جو آدم کے زمانے سے لےکر قیامت تک پائے جاتے ہیں، اور ان کی برگزیدگی نبوت و امامت کا اختصاص ہے۔

          سوال ۱۴: خلیفۂ خدا اور خلیفۂ رسول میں کیا فرق ہے؟

          جواب: خلیفۂ خدا اور خلیفۂ رسول میں ظاہراً فرق ہے اور باطناً کوئی فرق نہیں، پس ظاہر میں جو فرق ہے وہ یہ ہے، کہ خلیفۂ خدا رسول کا نام ہے، جو صاحبِ تنزیل ہے، اور خلیفۂ رسول امامِ زمان ہے، جو صاحبِ تاویل ہے، اور باطن میں جو فرق نہیں، اس کی حقیقت یہ ہے، کہ جب امامِ زمان خلیفۂ رسول ہے، تو وہ بحقیقت خلیفۂ خدا ہے، کیونکہ یہ خلافت تو دراصل خدا ہی کی ہے۔

          سوال ۱۵: خلیفۂ خدا یعنی امام ِ زمان کی صفاتِ کمالیہ کیا ہیں ؟

۱۳۱

          جواب: امامِ زمان کی صفاتِ کمالیہ میں سے چند یہ ہیں، کہ اس کی وہی روح ہے، جو خدا نے آدم میں پھونک دی تھی، یعنی وہ نورِ الٰہی کے اوصاف سے موصوف ہے، اس کا وہی مرتبہ ہے، جو فرشتوں کے مسجود میں ہونا چاہئے، اس میں وہی علمِ لدنی ہے، جس کے لئے فرشتے محتاج ہیں، اور اس کی وہی عظمت و جلالت ہے، کہ اگر کوئی فرشتہ خدا کے فرمانے پر اس کو سجدہ نہ کرے تو بارگاہِ رب العزت سے راندہ ہوجائے، بلکہ اس کی صفات ان صفات سے بھی بڑھ کر ہیں، جس کا سبب حسبِ ذیل ہے: ۔

          ہر چند کہ خدا کا نور لم یزل و لایزال ہے، اور اس کے نقصان و کمال کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا، کیونکہ خدا کا نور ہمیشہ ایک حال پر ہے، تاہم یہ نور جس مقصد کے لئے دنیا میں آیا ہے، اس مقصد کے بتدریج پورا ہوجانے کے اعتبار سے ، یہ کہنا غلط نہیں کہ نور اب اپنے اوصاف میں درجۂ کمال کو پہنچا ہے، اور اس میں پہلے سے کہیں زیادہ معجزات پوشیدہ ہیں، اور یہ محض خدا کی ایک مصلحت ہے، کہ جوں جوں زمانہ ترقی کرتا ہے، اور انسانیت کی تکمیل ہوتی جاتی ہے، توں توں انسانِ کامل میں خدا کا وہ نور زیادہ سے زیادہ روشن ہوتا جاتا ہے، چنانچہ ’’و اللہ مُتِم نُورہ‘‘ کے یہی معنی ہیں، یعنی خدا اپنے نور کو آہستہ آہستہ درجۂ کمال تک پہنچا دیتا ہے۔

(از نصیر الدین نصیر ہونزائی)

۱۳۲

تجربات روحانی

[Page]

تجرباتِ روحانی

آغازِ کتاب

۱۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ تعالیٰ جل جلالہ و عم نوالہ سورۂ ہود (۷: ۱۱) میں فرماتا ہے: و ھو الذی خلق السمٰوٰت و الارض فی ستۃ ایام و کان عرشہ علی الماء لیبلوکم ایکم احسن عملا۔ ترجمۂ اوّل: وہ ایسی ذات ہے جس نے (عالمِ دین کے) آسمان اور زمین کو چھ دنوں (چھ ادوارِ بزرگ) میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر ظاہر ہوا تا کہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کس کا علم وعمل سب سے بہتر ہے۔ ترجمۂ دوم: وہ ایسی ذات ہے جس نے (عالمِ شخصی کے) آسمان اور زمین کو چھ دنوں (چھ ذیلی ادوار) میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر ظاہر ہوا تا کہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کس کا علم وعمل سب سے بہتر ہے۔

 

۲۔ خداوندِ قدّوس نے عالمِ دین کو جن چھ دنوں (چھ ادوارِ بزرگ) میں پیدا کیا، وہ یہ ہیں: دورِ آدمؑ، دورِ نوحؑ، دورِ ابراہیمؑ، دورِ موسیٰؑ، دورِ عیسیٰؑ، اور دورِ محمدؐ، اور جس دن خدا کا تخت (عرش) پانی پر ظاہر ہوا،

۷
[/page]

وہ دورِ قائمؑ ہے جو دین کا سنیچر ہے، یہی بیان ترجمۂ دوم کے مطابق عالمِ شخصی سے بھی متعلق ہے، مگر اس کے دن (ادوار) بہت ہی چھوٹے چھوٹے ہیں، کیونکہ کائناتِ ظاہر عالمِ شخصی میں لپیٹی ہوئی (یعنی مختصر) ہوتی ہے، پس عالمِ شخصی کے سمندر پر جو تختِ کشتی نما ہے، وہ کیونکر خالی ہو سکتا ہے، وہ اگر تخت ہے تو اس پر بادشاہ جلوہ گر ہوگا، اگر کشتی ہے تو اس میں کشتیبان ہوگا، اور اگر یہ دونوں معنوں میں ہے تو مالک بھی دونوں معنوں میں ہو گا۔

 

۳۔ سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں ارشاد ہے: و فی الارض اٰیٰت للموقنین۔ و فی انفسکم افلا تبصرون = اور کائناتی زمین (زمینِ نفسِ کل) میں اہلِ یقین کے لئے نشانیاں ہیں، اور (یہ ساری نشانیاں) تمہارے عالمِ شخصی میں بھی ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں؟ اس ارشاد سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو گئی کہ خدائے علیم و حکیم نے کائناتِ ظاہر و باطن اور عالمِ دین کو عالمِ شخصی میں گھیر کر رکھا ہے تا کہ مومنینِ با یقین خود شناسی اور خدا شناسی کی غرض سے ان تمام معجزات (آیات ) کا مشاہدہ اور مطالعہ کریں۔

 

۴۔ مذکورۂ بالا آیاتِ کریمہ کا ترجمہ اور تاویلی تشریح بفضلِ خدا امام شناسی کی روشنی میں ہے، یہ سچ ہے کہ بحرِ علم پر جب تخت ہے تو یہ کشتی نما تخت ہے، اور یہ بھی سچ ہے کہ ایسا باکرامت تخت یا ایسی عظیم الشّان کشتی ہرگز خالی نہیں، بلکہ اس پر یا اُس میں خلیفۂ خدا یعنی

۸

حضرتِ قائم علیہ افضل التحیۃ و السّلام ہے، کیونکہ خدائے سبحان بذاتِ خود جسم نہیں کہ تخت پر متمکن ہو، اور اگر تاویل کے بغیر دیکھا جائے تویہ عقدۂ مالا ینحل ہے، اور سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰) کے حوالے سے ’’ارض‘‘ کا ترجمہ: کائناتی زمین (زمینِ نفسِ کلّ) بالکل ٹھیک ہے، کیونکہ آیاتِ قدرت سب کی سب سیارۂ زمین پر محدود نہیں ہیں، اور کائناتِ ظاہر و باطن کے بغیر تنہا یہ زمین عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) کے برابر نہیں ہو سکتی ہے۔

 

۵۔ اس کتاب کا نام:

حضرتِ امامِ عالی مقام صلوات اللہ علیہ و سلامہ کے علمِ روحانی کی طرف توجہ دلانے کی غرض سے اس کتاب کا نام ’’تجرباتِ روحانی‘‘ مقرر ہوا، مجھے یقین ہے کہ ہمارے سکالرز ، گورنرز، علمی سولجرز، آفیسرز، اور ممبرز سب کے سب اس پیارے نام سے شادمان ہو جائیں گے، اور ان شاء اللہ تعالیٰ ہماری پیاری جماعت کی خوشنودی اور دعا بھی حاصل ہو گی، جس میں بہت سی برکتیں ہیں۔

 

۶۔ اس علمی خدمت کی برکت سے یہاں جتنی پاکیزہ ہستیاں یا پاک روحیں جمع ہوئی ہیں، وہ بے شک ہمارے عالمِ شخصی کے فرشتے ہیں، وہ فرداً فرداً میرے آئینۂ خیال میں آتے رہتے ہیں، یہ عالمِ خیال کا پرحکمت احساس و ادراک میرے لئے خدا کے احسانات

۹

میں سے ہے، یہ ہر شخص کے لئے بہشت کا ایک نمونہ ہے کہ آئینۂ خیال میں دوستوں کو دیکھ سکتا ہے، قوّتِ خیال انسان کے لئے اللہ کا عظیم عطیہ ہے، ذکرِ الٰہی کی کثرت سے خیال  میں طوفانی روشنی پیدا ہوتی ہے، حتیٰ کہ یہ ایک کائنات کی شکل اختیار کرتا ہے، آپ روشن خیال ہو جائیں، یہ کام حضرتِ امام علیہ السلام کے پاک عشق سے ہو سکتا ہے، مولا کا عشق تمام اخلاقی ، روحانی اور عقلی بیماریوں کی بڑی زبردست مؤثر دوا ہے۔

 

۷۔ قرآنِ حکیم اور امامِ آلِ محمدؐ کی مقدّس خدمت ہی اسلام کی خدمت ہے، الحمد للہ کہ یہی پاکیزہ اور پسندیدہ خدمت جماعت اور انسانیت کے لئے بھی ہے، پس اپنے جملہ خوش نصیب اور نیک بخت ساتھیوں سے گزارش ہے کہ وہ علم الیقین کی روشنی میں خدا کا شکر کریں اور شادمان ہوجائیں کہ اس نعمتِ عظمیٰ کی خوشی شکر گزاری کے معنی میں بہت مناسب ہے، رحمتِ الٰہی سے بعید نہیں کہ اس خدمتِ عالیہ کا کوئی بہت بڑا سا انعام ہو، جیسے دوستانِ عزیز کے لئے عالمِ شخصی کا مسخر ہو جانا، جس میں تسخیرِ کائنات کا راز مخفی ہے۔

 

۸۔ تجربۂ روحانیت کے فوائد:

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے (ترجمہ): یقینا اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو اپنی (ظاہری) خلقت کی مثال پر بنایا، تا کہ اس کی خلقت

۱۰

سے اس کے دین کی مثال و دلیل لی جائے اور دین سے اس کی وحدانیت کی دلیل مل سکے (وجہِ دین، حصۂ اوّل، ص ۱۰۹)۔

 

جب دین و دنیا کا اصل قانون یعنی قانونِ فطرت ایک جیسا ہے، جیسے مذکورہ حدیثِ شریف کا ارشاد ہے تو ہم اس حقیقت کو تسلیم کیوں نہ کریں کہ جس طرح مادّی سائنس کے تجربات سے تمام لوگوں کو بے شمار فائدے حاصل ہو رہے ہیں، اسی طرح آج نہیں تو کل روحانی سائنس کے تجربات سے بھی لاتعداد فوائد حاصل ہونے والے ہیں۔

 

۹۔ حج یا دعوتِ قیامت:

خداوندِ علیم وحکیم کا یہی منشا تھا کہ انبیاء و اولیا علیہم السّلام کی روحانی قیامتوں کو مختلف مثالوں میں پوشیدہ رکھا جائے، چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کی قیامت حج کی مثال میں مخفی ہے (۲۲: ۲۷ تا ۲۸) پس اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیلؑ سے فرمایا: و اذن فی الناس بالحج = اور لوگوں کو حج کے لئے پکارو۔ یعنی دنیا کے مختلف برِاعظموں میں جتنے بھی لوگ ہیں، ان سب کو اسرافیل کے توسط سے پکارو تا کہ وہ بشکلِ ذرّات تمہاری قیامت میں حاضر ہو جائیں۔۔۔ تا کہ وہ اپنے ان فائدوں کو دیکھ سکیں جو ان کے امامِ وقت میں محفوظ ہیں، اور ایامِ معلومات میں بطورِ شکرانہ اسمِ خدا کا ذکر کرتے رہیں کہ اللہ نے ان کو حدودِ دین کے علم سے

۱۱

فائدہ دلایا ہے۔

 

۱۰۔ قیامت کا تعلق امامِ زمانؑ سے ہے:

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۱) میں ارشاد ہے کہ اہلِ زمانہ کی قیامت امامِ زمان علیہ السلام میں برپا ہوتی ہے، یہی سبب ہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کی پاکیزہ شخصیت میں لوگوں کی مخفی ذرّاتی قیامت کا ذکر حج کی مثال میں ہوا ہے، یہ جاننا ضروری ہے کہ حدودِ دین میں سے جس حد (درجہ) میں قیامت قائم ہوتی ہے، اس میں حضرتِ امامِ عالی مقام کا نورانی ظہور ہوتا ہے، لہٰذا قیامت ایک اعتبار سے عارف میں بپا ہوتی ہے اور دوسرے اعتبار سے حضرتِ امام میں۔

 

۱۱۔ یعسوب المومنین:

روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے مولاعلیؑ سے فرمایا تھا: انت یعسوب المومنین =تم مومنین کے بادشاہ ہو۔ یعسوب (امیر النحل) کے معنی ہیں شہد کی مکھیوں کا بادشاہ یا ملکہ، پس اس مثال کے مطابق امامِ عالی مقام یعسوب اور امیر النحل ہے، اور روحانی علم و حکمت سے وابستہ مومنین و مومنات کی روحیں اس شہد کی مکھیاں ہیں، پس کتنی بڑی خوش نصیبی ہے ان لوگوں کی جو علمی خدمت کی وجہ سے روحانیت میں امام علیہ السلام کے ساتھ ہیں۔

۱۲

۱۲۔ احسان شناسی اور قدردانی:

یہاں کچھ ارضی فرشتوں کا تذکرہ ہے، کچھ پاکیزہ اور سعادتمند روحوں کا ذکرِجمیل ہے، اور کچھ پاک مولا کے سچے عاشقوں کی پیاری پیاری یادیں ہیں، وہ حضرات جو علمِ امام کے شیدائی ہیں، وہ صاحبان جو علمی مجلس کو جان و دل سے چاہتے ہیں، وہ عزیزان جو گریہ و زاری اور مناجات کی روح سے خوب واقف و آگاہ ہیں، وہ بہت پیارے دوست جو جماعت خانہ سے بے حد دل بستگی رکھتے ہیں، وہ احباب جو جماعتی خدمت کو اپنے لئے سعادتِ دارین سمجھتے ہیں، وہ عالی ہمت مومنین و مومنات جو ہمہ وقت روحانی ترقی کے لئے سعی کرتے رہتے ہیں، وہ آدمیت کے اعلیٰ نمونے جو زیورِ اخلاقِ حسنہ سے آراستہ و پیراستہ ہیں، وہ عسکرِ حقانی جو علمی جنگ میں بنیانِ مرصوص (سیسہ پلائی ہوئی دیوار ، ۶۱: ۴) کی طرح متحد و مضبوط ہیں۔

 

۱۳۔ وہ زبردست بہادر علمی سولجرز جو قرآن، امام، اسلام، اور انسانیت کی حربی خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ معزز حضرات جو علم الیقین کی دولتِ لا زوال سے مالامال ہیں، وہ دوستانِ خدا جن کے پاس طرح طرح کے علمی ذخائر موجود ہیں، وہ حقیقی مومنین و مومنات جو سیّارۂ زمین پر روحانی علم کو پھیلا رہے ہیں، وہ اقبالمند عزیزان جن کے لئے عالمِ شخصی کی سلطنت موعود ہے، وہ ہمارے بے حد پیارے علمی احباب جو پاکستان، برطانیہ، فرانس، امریکہ، کنیڈا،

۱۳

وغیرہ میں مقیم ہیں، ان کی مقدّس دینی عقیدت و محبت، پاکیزہ علمی خدمت، اور جذبۂ ایثار و قربانی کو ہزار در ہزار بار سلام کرتے ہوئے شکریہ ادا کرتے ہیں۔

 

۱۴۔ وہ اللہ کے نیک بندے جو عشقِ مولا میں مست و فنا ہو کر سجدۂ شکر بجا لاتے ہیں، وہ اہلِ ایمان جو آسمانی فرشتوں ہی کی طرح تمام اہلِ زمین کے حق میں خیر سگال اور دعا گو ہیں (شوریٰ  ۴۲: ۵) وہ محبانِ اہلِ بیت جو حدیثِ شریف ’’الخلق عیال اللہ‘‘ کی حکمت پر نظر رکھتے ہیں، وہ ہمارے بڑے محترم احباب جو اپنی پاکیزہ جبین میں خانۂ خدا (جماعت خانہ) تعمیر کر رہے ہیں (یونس، ۱۰: ۸۷) وہ نیک بخت مومنین و مومنات جن کو اپنے پاک مولا کے مقدّس فرمان سے والہانہ محبت اور عشق ہے، وہ ہمارے بہت ہی عزیز رفقاء جن کا عظیم ترین عرفانی خزانہ مونوریالٹی (یک حقیقت) ہے، وہ نیک بخت سٹوڈنز جو اپنے پیارے استاد کے تعاون سے حضرتِ قائم علیہ السّلام کے علمِ تاویل کو پھیلا رہے ہیں، وہ علیٔ زمان کے علمی لشکر جو جہالت و نادانی کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔

 

۱۵۔ جدید انتساب، اوّل:

س: آپ کے نزدیک عالمِ شخصی کا موضوع بہت ہی اہم بلکہ سب سے مفید مضمون ہے، آپ یہ بتائیں کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ ج: میں ناچیز کون ہوں

۱۴

کہ حقیقی علم کو درجہ وار کر سکتا ہوں، صرف اتنا ہے کہ ہم قرآنِ حکیم، حدیثِ شریف، اور أئمّۂ آلِ محمدؐ کے ارشادات کی طرف دیکھتے ہیں، پس اسی ہدایتِ حقّہ سے معلوم ہوا کہ عالمِ شخصی میں خود شناسی اور خدا شناسی کے سارے معجزات موجود ہیں۔

 

۱۶۔ س: عالمِ شخصی کن کن لوگوں کا ہوتا ہے؟ آیا اس کا تعلق ہر انسان سے ہے یا صرف مومن سے؟ عالمِ شخصی کا صدر مقام یا مرکز کہاں ہے؟ ج: ہر آدمی بحدِ قوّت ایک عالمِ شخصی ہوتا ہے، ہر نبی، ہر ولی، اور ہر عارف بحدِ فعل عالمِ شخصی ہوتا ہے، کوئی بھی انسان خدا، رسولؐ، اور ولیٔ امرؑ کی حقیقی اطاعت کرے تو یقیناً وہ عملی عالمِ شخصی ہو سکتا ہے، عالمِ شخصی کا صدر مقام یا مرکز جبین ہے، جہاں محیر العقول معجزات ہیں۔

 

۱۷۔ س: آپ نے کہا کہ عالمِ شخصی میں جبین وہ مرکز ہے جس میں انتہائی حیران کن معجزات ہیں، آپ ذرا یہ بتائیں کہ وہ کس نوعیت کے معجزات ہیں؟ وہ کیا کیا ہیں؟ ج: وہ معجزات روحانی، عقلی، علمی، عرفانی، تمثیلی، ازلی، ابدی، لامکانی، وغیرہ ہیں، مثال کے طور پر وہاں عالمِ وحدت ہے، جس کا قرآنی حوالہ نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) ہے، جس سے انسانِ کامل مراد ہے، پس اس دورِاعظم میں بچشمِ معرفت دیکھا جائے تو حضرتِ آدمؑ سے شروع کرکے ہر انسانِ کامل (نفسِ واحدہ) کو اپنی جبین میں انسانی صورت کا عالمِ وحدت نظر آتا رہا ہے،

۱۵

جس میں عرش، کرسی، قلم، لوح، قرآن، کتاب، سدرہ، اسم، مسمیٰ، فرشتہ، جنّ، پری، ہر چیز، ہر چیز، اور ہر چیز انسانی صورت میں ہے، جب عالمِ وحدت کی تمام چیزیں انسانی صورت پر تھیں تو وہ سب کی سب مل کر ایک ہو گئیں۔

 

۱۸۔ ان چند حکمتوں کے بعد جدید انتساب کی بات یہ ہے کہ ہمارے بے حد پیارے اور معزز محمد عبد العزیز صدرِ ادارۂ عارف، سیکنڈ گورنر کی سنہری خدمات اور زرین کارناموں کا زندہ قصّہ بڑا طویل ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی عمرِ گرانمایہ کا ایک اچھا خاصا وقت ادارے کی مضبوطی اور ترقی کے لئے صرف کیا ہے، ہمارا نامور ادارہ سکالرز اور عملداروں کی جملہ خدمات کو قلمبند کر رہا ہے، ان شاء اللہ، دانشگاہِ خانۂ حکمت سے متعلق تمام تر کارناموں کو ’’تاریخِ زرّین‘‘ میں درج کریں گے، صدر محمد عبد العزیز کی خوش خصال اور فرشتہ صفت بیگم یاسمین محمد ریکارڈ آفیسر اور سیکنڈ گورنر کی ذات میں بہت سی اخلاقی اور ایمانی خوبیاں جمع ہیں، ان کی ازلی سعادت اور اساسی خوبی تو یہ ہے کہ آپ کا دل ذکرِالٰہی اور مناجات کے وقت فوراً ہی پگھلنے لگتا ہے، اور بڑی آسانی سے مولا کی محبت کے آنسو برسنے لگتے ہیں، پس اصل وجہ یہی ہے کہ ریکارڈ آفیسر یاسمین محمد تمام خدمات میں اپنی مثال آپ ہیں، محمد اور یاسمین کے فرزندِ ارجمند شہزاد علمی لشکر امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کی دوسری

۱۶

با سعادت اولاد سیلینہ ایم۔ بی۔ بی۔ ایس سالِ سوم کی طالبہ ہیں، اور تیسری نیک بخت اولاد کا نام زہرا ہے، جو میٹرک میں زیرِ تعلیم ہے۔

 

۱۹۔ صدر محمد عبد العزیز کی والدۂ محترمہ شیرین خانو (خانم) بنتِ شکور بڑی نیک اور دیندار خاتون تھیں، انہوں نے تقریباً ۳۰ سال تک لیڈیز والنٹیئر تنظیم میں اپنے پاک امام اور پیاری جماعت کی بے لوث خدمات انجام دیں، حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر بھی بطورِ خاص خدمت کی، ان کے پاس مختلف خدمات کے کئی میڈلز موجود تھے، آپ کی وفات ۷۲ سال کی عمر میں ہوئی، موصوف صدر کے والد محترم عبد العزیز ابنِ قاسم بڑے مذہبی اور خدا پرست انسان تھے، انہوں نے عرصۂ دراز تک جماعتی والنٹیئرز کے ساتھ امامِ عالی مقامؑ کی مقدس خدمات کو انجام دیا، آپ کسی مجلس کے موکھی بھی تھے، انہوں نے بینڈ میں بھی حصہ لیا، ان کو دینی علم اور گنان سے بے حد دلچسپی تھی، مولائے پاک نے انہیں حضور موکھی کا ٹائٹل عطا کیا تھا۔

 

۲۰۔ جدید انتساب، دوم:

س: سورۂ مومنون (۲۳: ۵۰) میں ہے: اور ہم نے ابنِ مریم اور ان کی والدہ کو بھی اپنی نشانی (آیت = معجزہ) قرار دیا اور انہیں ایک بلندی پر جہاں ٹھہرنے کی جگہ بھی تھی اور چشمہ بھی تھا پناہ دی۔ آپ بتائیں ، اس میں کیا کیا

۱۷

حکمتیں ہیں؟ ج: حکمتِ اوّل: اللہ تعالیٰ نے حضرتِ عیسیٰؑ اور ان کی والدہ حضرتِ مریمؑ کو عالمِ شخصی کے جملہ معجزات کا مجموعہ بنا دیا، حکمتِ دوم: یہ بلند و بالا مقام جبین ہے جو عالمِ شخصی کی معراج ہے، حکمتِ سوم: یہ منزلِ مقصود ہے، اس لئے یہی قرار کی جگہ ہے، حکمتِ چہارم: یہاں علمِ لدنّی کا سرچشمہ ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے، حکمتِ پنجم: جملہ مومنین و مومنات تزکیۂ نفس سے اس مقامِ اعلیٰ تک پہنچ سکتے ہیں، کیونکہ یہاں ایک پرحکمت مثال موجود ہے کہ مریم سلام اللہ علیہا نبی نہ تھیں، لیکن ان کی روحانی ترقی ایک پیغمبر سے کم نہ تھی۔

 

۲۱۔ س: سورۂ فصلت (۴۱: ۲۱) کے حوالے سے سوال ہے کہ مرتبۂ روحانیت پر معجزات ہی معجزات ہیں، وہاں ہر چیز بولتی ہے، یہاں تک کہ بے جان چیزیں بھی خدا کے حکم سے کچھ بات کر سکتی ہیں، کیا آپ اس بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟ ج: (ان شاء اللہ) ہاں، ایسے معجزات بھی بہت ہیں، جیسے پرندوں کی آواز سے کچھ مختصر گفتگو، اسی طرح ہوا، پانی، اور دیگر آوازوں پر روح القدس کا تصرف، یعنی گفتگو بنانا، یہ زمانۂ انقلابِ روحانیت کی باتیں ہیں، ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ قریب کے کسی لاؤڈ سپیکر پر چینی زبان میں کوئی لیکچر ہو رہا تھا، اور معجزاتی روح اس کو بروشسکی میں تبدیل کر رہی تھی، اسی طرح مرغِ سحر کی اذان سے بھی ایک ندائیہ کلمہ بنتا تھا، ایک رات میں تن تنہا

۱۸

عبادت کر رہا تھا کہ یکایک جماعت خانہ کی چار دیواری، چھت، اور فرش کی تمام چیزیں اسی طرح ذکرِ جلی کرنے لگیں، جس طرح کہ میں جماعت کو ذکر کراتا تھا، ایسا لگ رہا تھا، جیسے جماعت خانے میں ذکر ریکارڈ ہو چکاتھا، پس اس نوعیت کے معجزات بھی بہت ہیں۔

 

۲۲۔ اور یہاں سے جدید انتساب کی بات اس طرح کی جاتی ہے کہ لفظِ ’’زہراء‘‘ حضرتِ فاطمہ سیدہ سلام اللہ علیہا کا مبارک لقب ہے، یہ زَہَرَ (چراغ یا چاند یا چہرے کا چمکنا) سے مشتق ہے، جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ تیمناً و تبرکاً اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کے مبارک اسماء و القاب میں سے کسی پر اولاد کا نام رکھا جاتا ہے، چنانچہ محترم جعفر علی اور ان کی بیگم زرینہ جعفر علی کو توفیق عنایت ہوئی یا مقدّس جماعت خانہ کی طرف سے عطا ہوا کہ ان نیک فطرت والدین نے اپنی باسعادت نومولود بچی کا پسندیدہ نام زہراء رکھا، یومِ تولد جمعۂ مبارک تھا، اور تاریخ ۹ ستمبر ۱۹۷۰ء۔

 

۲۳۔ یہ سچ ہے کہ آدمی کی آدمیت کا اولین سکول ماں کی گود ہے، پھر گھر اور ماحول، خدا کے فضل و کرم سے زہراء کی اخلاقی اور مذہبی پرورش بڑی خوبی سے ہوتی رہی، اور سنِ شعور میں قدم رکھتے ہی انہوں نے جماعتی خدمت کی غرض سے جونیئر گائیڈز میں شرکت کی، پھر گرل گائیڈز، پھر سینئر گائیڈز، پھر پانی اینڈ شو کمپنی میں پُرحکمت خدمات انجام دیں، یہاں مجھے یہ خیال آیا کہ حضرتِ مولانا

۱۹

امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ و سلامہٗ نے مذہبی خدمت سکھانے کے لئے کیسی کیسی مفید تنظیمیں بنا دی ہیں، میرے ماں باپ اور میری روح ان سے فدا! کاش اس زمانۂ قیامت کے عدیم المثال امام پر کماحقہٗ کوئی کتاب ہوتی!

 

۲۴۔ محترمہ زہراء (دخترِ) جعفرعلی چونکہ شروع ہی سے مذہبی میلانات رکھتی تھیں، اس لئے مذہبی مدرسۂ شبینہ سے ایڈوانس ریلیجس ایجوکیشن کی سند حاصل کر کے ٹیچنگ میں شامل ہو گئیں، آپ نے دنیوی تعلیم میں ایم۔ اے (فارسی) کی سند حاصل کر لی ہے، اور اب تقریباً گیارہ سال کا عرصہ ہوا، دانشگاہِ خانۂ حکمت کے روحانی علوم سے محترمہ زہرا کو شغف ہے، ہم ان کو عنقریب ’’سکالر زہرا‘‘ کہہ کر بہت ہی شادمان ہو جائیں گے، آپ حقیقی علم کی بڑی شیدائی ہیں، ہر وقت اسی کی خدمت میں لگی رہتی ہیں، انسانی، اخلاقی، مذہبی، اور علمی خوبیوں اور قدروں کا ایک خزانہ ہیں۔

 

۲۵۔ زہراء جعفر علی کے پاس اتنے عہدے یا اتنی ذمہ داریاں ہیں: پرسنل سیکریٹری، چیف سیکریٹری، پروف سیکشن انچارج، ریکارڈ آفیسر، فرسٹ گورنر، اور خزانچی، ان بھاری ذمہ داریوں سے آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ بیٹی زہراء کتنی بہادر اور عالی ہمت گورنر ہیں، آپ کے والدین بہت ہی نیکوکار اور بہت ہی ایمانی ہیں، یہ انہی دونوں ارضی فرشتوں کی پرسوز دعا، دلی خواہش، اخلاقی کوشش

۲۰

اور مذہبی پرورش تھی، جس کی بدولت آج محترمہ زہراء صاحبہ دانشگاہِ خانۂ حکمت کے عظیم گورنرز کے ساتھ بھی ہیں اور عظیم سکالرز کے ساتھ بھی۔

 

۲۶۔ کاملین میں صورِ اسرافیل کی گونج:

اصل راز کی بات تو یہ ہے کہ عرفانی قیامت پیغمبر اور امام کے بعد صفِ اوّل کے کسی مومن پر بھی واقع ہو سکتی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو خود شناسی اور خدا شناسی (معرفت) محال ہوجاتی، مگر یہ بات ہرگز نہیں، ہاں معرفت جس میں سب کچھ ہے وہ انفرادی قیامت کے سوا ممکن ہی نہیں، اور معرفت (خدا شناسی) ہی وہ واحد کلید ہے، جس سے قرآنِ حکیم کے اسرارِ باطن کا دروازہ کھل جاتا ہے۔

 

۲۷۔ کہتے ہیں کہ مٹی، پتھر، وغیرہ جیسی چیزیں بے جان ہیں، جن کو جمادات کہا جاتا ہے، یہ بات ظاہر میں درست ہے، ہم بھی اکثر اسی طرح لکھتے ہیں، لیکن باطنی حقیقت اس کے برعکس ہے، کیونکہ اپنے اپنے وقت میں کاملین کو یہ یقینی اور عرفانی تجربہ ہوچکا ہے کہ جب انسانِ کامل کی قیامت برپا ہو جاتی ہے تو اس وقت نفخۂ صور سے کائنات بھر کی چیزوں کی روحیں عالمِ شخصی میں جمع ہوکر ذاتِ سبحان کے لئے تسبیح خوان ہوجاتی ہیں، انہی روحوں کے ساتھ تمام پہاڑوں اور پرندوں کی ارواح بھی شامل ہوتی ہے، انکشاف کے لئے آیۂ

۲۱

شریفۂ دہم از سورۂ سبا (۳۴: ۱۰) پیشِ نظر ہو: ہم نے داؤدؑ کو اپنے ہاں سے بڑا فضل عطا کیا تھا۔ (ہم نے حکم دیا کہ) اے پہاڑو، اس کے ساتھ ہم آہنگی کرو ( اور یہی حکم ہم نے) پرندوں کو بھی دیا، ہم نے لوہے کو اس کے لئے نرم کر دیا۔ لوہے سے علم مراد ہے، لوہا انتہائی سخت ہے = علم بھی انتہائی سخت ہے، لوہے کو گرم کر کے کوئی استعمال کی چیز بناتے ہیں = علم کو سخت محنت سے حاصل کرکے کام میں لاتے ہیں، خدائے تعالیٰ نے حضرتِ داؤدؑ کے لئے لوہے کو نرم بنا دیا = یعنی سخت علم کو علمِ لدنی کی صورت میں بہت ہی نرم اور بہت ہی آسان بنا دیا۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

بدھ ۱۵ ربیع الثانی ۱۴۱۸ھ، ۲۰ اگست ۱۹۹۷ء

۲۲

ایک بے مثال کامیابی

 

۱۔ میرے بے حد پیارے ساتھیو! میرے بہت بہت بہت عزیز دوستو! آؤ آؤ، میری روح تمہارے لئے فرشِ راہ! میری جان تم سے بار بار فدا! آؤ آؤ، میں تم سب کے پاکیزہ دیدار کا منتظر ہوں، آ جانا تا کہ ہم سب کے سب مل کر جشنِ کامیابی منائیں، اس میں سب سے پہلے بعنوانِ شکر گزاری گریہ و زاری کریں، یہ عبادت بڑی پُرحکمت اور عظیم الشّان ہے، اسی میں دین و دنیا کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔

 

۲۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے عزیزان کی پرخلوص دعا اور ہر گونہ خدمت نے آج پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے لئے ایک کارنامۂ زرّین انجام دیا، الحمد اللہ، آج ہمارے بہت ہی معزز گورنرز اور علمی لشکر کو ایک بے مثال تاریخی کامیابی نصیب ہوئی، بلکہ بہت سی کامیابیاں، کیا عملی تصوّف اور روحانی سائنس ایک انقلابی کتاب نہیں ہے؟ آیا اس کی رسمِ رونمائی پاکستان کے دو وفاقی وزیروں کے دستِ مبارک سے ادا نہیں ہوئی؟ پھر ہزار حکمت

۲۳

کی کامیابی! پھر پچاس کتابوں کے انگریزی تراجم پر جناب پروفیسر ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی صاحب کا جشنِ زرین (گولڈن جوبلی) اور اب کتاب: ’’تجرباتِ روحانی‘‘ کی تصنیف اور کتابت، یااللہ ! ہم تیرے عظیم احسانات تلے دب گئے ہیں، اور تیری بے شمار نعمتوں کے طوفان میں غرق ہو چکے ہیں۔

 

۳۔ اے عزیزان! آپ نے بہت پہلے مونوریالٹی (یک حقیقت) کا درس پڑھا تھا، وہ آج اور ہمیشہ کام آئے گا، پس آپ میں سے ہرایک دل ہی دل میں بار بار کہتا رہے کہ میں علامہ نصیر ہوں، میں ڈاکٹر فقیر ہوں، میں دانشمند غلام قادر ہوں، میں نے اسلام آباد میں یہ یہ کام کیا، وغیرہ وغیرہ، اس وحدت سے عزیزم غلام قادر بیگ چیف ایڈوائزر، صدر الصدور ، اور دانشمند کو بے حد خوشی ہوگی، اور یہ حقیقت ہے کہ ہم سب غلام قادر صاحب میں موجود تھے، تب ہی انہوں نے ایسا بے مثال کارنامہ انجام دیا، اور اس کی کئی وجوہ ہیں، اوّل یہ کہ ہم سب کے نمائندہ ذرّات ان میں ہیں، دوم گریہ و زاری اور دعا بہت بڑی طاقت ہے، سوم دامے، دِرمے، قدمے، سخنے بھی ایک ضروری شے ہے، چہارم اچھے کام کرنے والے عملداروں کی ہمّت افزائی بھی ضروری ہے، پنجم کوئی بھی کام ہمارے یہاں گورنرز، علمی لشکر، وغیرہ کے تعاون کے سوا انجام پذیر نہیں ہوسکتا، تا آنکہ استاد نے بارہا کہا ہے کہ عزیزان ان کے خواب و خیال اور روحانیت کے

۲۴

ممد و معاون فرشتے ہیں۔

 

۴۔ پھر بھی دانشمند غلام قادر کی تعریف کے لئے بہت بڑی گنجائش ہے، آپ عابدِ شب خیز ہیں، ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ بڑی سخت ریاضت کر رہے ہیں، ان کی گریہ و زاری بے مثال اور مناجات لاجواب ہے، تمام عزیزان کو اس حقیقت پر یقین ہے کہ رات کی درویشانہ عبادت ہی سے رحمتِ الٰہی کا دروازہ مفتوح ہو جاتا ہے، عزیزم غلام قادر صدرِ صدور بے شمار خوبیوں کا ایک بھرپور خزانہ اور کمالات کا ایک انمول گنجینہ ہیں، صبوری، حلیمی، سنجیدگی، نرم دلی، نرم گوئی، اور خوش خلقی میں اپنی مثال آپ ہیں، قادر صاحب صفِ اوّل کے سکالرز میں شمار ہوتے ہیں، ان کے عاقلانہ لیکچرز اور مقالے بڑے دلنشین ہوا کرتے ہیں۔

 

۵۔ بہتر تو یہ ہے کہ میں اعتراف کروں کہ القلم کانفرنس اسلام آباد کی ہمہ گیر خوبیوں کی توصیف مجھ ایسے درویش سے کبھی ہوہی نہیں سکتی، لہٰذا میں ان تمام عزیزان سے درخواست کرتا ہوں جو اس تقریب میں حاضر تھے کہ وہ ازراہِ کرم کچھ تاریخی یادداشت بھی لکھیں، اور ساتھ ہی ساتھ قادر صاحب کے لئے کوئی ہمت افزا مکتوب بھی ہو، نیک کام کو آگے بڑھانے کا یہی ایک طریقہ ہے، میرا یقین ہے کہ میرے دوستوں میں نہ صرف علم وعمل کی روح پائی جاتی ہے، بلکہ اس چیز کی بھرپور قدردانی اور حوصلہ افزائی بھی ہے، مجھے امید ہے، کہ ہمارے عزیزان

۲۵

ایک دوسرے کی ہمت افزائی کرتے رہیں گے۔

 

۶۔ میں اس بے مثال کامیابی کے تاریخ ساز موقع پر شمالی علاقہ جات، اسلام آباد، کراچی، لنڈن، امریکہ، کنیڈا، اور فرانس کے عزیزان کو بصد شوق مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں کہ یہ سب کچھ آپ کی دم قدم کی برکت سے ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعہ ۹ جمادی اول ۱۴۱۸ھ ، ۱۲ ستمبر ۱۹۹۷ء

۲۶

تجرباتِ روحانی

 

۱۔ الٰہی، تیری آزمائشوں میں کیسی کیسی بے پایان رحمتیں اور برکتیں پوشیدہ ہیں! خداوندا، تیرے امتحانات میں کتنی بڑی بڑی حکمتیں پنہان ہیں! یااللہ، اس بندۂ عاجز و ناتوان کو کوئی علم ہی نہ تھا کہ آگے چل کر کیا ہونے والا ہے، جب میں مصائب و آلام سے تنگ آ کر روتا تھا، تب تیری رحمت گویا بہ اندازِ بشارت مسکراتی تھی، یا رب العالمین، تیرے نوازنے کے طریقے بھی کیسے عجیب وغریب ہوا کرتے ہیں! یا ربّ، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ تو ہی مسبب الاسباب اور مفتح الابواب ہے۔

 

۲۔ اے خداوندِ قدّوس، اپنے محبوب رسول حضرت محمدِ مصطفیٰ، احمدِ مجتبیٰ، خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حرمت سے ہماری جملہ تقصیرات سے درگزر فرما! کہ ہم تیری بے شمار نعمتوں کی شکرگزاری اور قدردانی نہیں کرسکتے ہیں، اسی لئے خوف ہے کہ ہمارے اعمال کا مآل کیا ہوگا؟ افسوس ہے کہ اب گریہ و زاری کے لئے جگر میں

۲۷

نمی نہیں، دل میں نرمی نہیں، اور غفلت و ناشکری کی کوئی کمی نہیں، ہم ہر وقت آسمانی عشق کی تعریف تو کرتے رہتے ہیں، لیکن کما کان حقّہٗ اس کو اپنے دل میں بسا نہیں سکتے، اسی وجہ سے ہمیں بڑی شرمندگی کا احساس ہو رہا ہے۔

 

۳۔ قارئینِ کرام! اگرچہ اس کتاب کا پرکشش نام “تجرباتِ روحانی” ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ روحانیت کے تمام تجربے اسی میں جمع کئے گئے ہیں، بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ بفضلِ خدا ہماری جملہ کتابیں انہی تجربوں کی روشنی میں لکھی گئی ہیں، ہر چند کہ یہ کتاب روحانی تجربات کے اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔

 

۴۔ اگر ہم روحانی تجربات کی تفصیل میں جائیں تو اس کے لئے ہمیں بہت کچھ لکھنا پڑے گا، جس کے لئے طویل وقت چاہئے، لیکن ایسا کام ہمارے منصوبے میں نہیں ہے، اور نہ ہی یہ کوئی آسان کام ہے، لہٰذا یہاں روحانی تجربات سے متعلق ایک مختصر تعارف پیش کرنا مقصود ہے، تاہم خوش بختی سے میں نے اپنی کئی تصانیف میں بعض تجربوں کا تذکرہ کیا ہے، پس کوئی محقق اس جہت سے بھی میری کتابوں پر ریسرچ کر سکتا ہے، میرا خیال ہے کہ اب دنیا میں ریسرچ کی بہت بڑی اہمیت ہو گی، اس کی کئی وجوہ ہیں، قرآن اور روحانیت کے بھیدوں کا زمانہ آگیا ہے، یعنی اب دورِ تاویل شروع ہوچکا ہے، خدا مسبب الاسباب ہے، وہی لوگوں سے کام لے کر اسلام کی عالمگیر خوبیوں

۲۸

کو بتدریج ظاہر کرے گا۔

 

۵۔ میں بعض اہم باتوں کو بار بار دہراتا ہوں، اور بار بار لکھتا بھی ہوں، چنانچہ نعمت شناسی کی اس بات کو بھی دہرانا ہے کہ خداوندِ تعالیٰ نے ہم سب پر بہت بہت بڑا احسان کیا کہ ہم کو بے شمار جمادات، بے شمار نباتات، بے شمار حیوانات، بے شمار لادینوں، اور بے شمار اہلِ ادیان سے آگے بہت ہی آگے لا کر مسلمانی کا درجہ دیا، اور پھر مزید ہزار در ہزار احسان کر کے اس نہایت مہربان خداوند نے ہم کو امام شناس بنا دیا، پھر مزید احسانات کر کے حضرتِ قائم القیامتؑ کا بھی شناسا کر دیا، ایسے میں اگر ہم سے قرآن، اسلام، اور انسانیت کی کوئی خدمت ہو سکتی ہے، تو ان شاء اللہ یہ ہماری سعادت مندی ہو گی۔

 

۶۔ تجربۂ روحانی کے دو پہلو ہیں، ایک پہلو میں کیفیات ہیں، اور دوسرے میں ثمرات، الحمد للہ، ہم نے اپنی بساط کے مطابق دونوں پر کام کیا ہے، کیفیات کا یہ مطلب ہے کہ آپ اپنے روحانی مشاہدات کا براہِ راست تذکرہ کریں، اور ثمرات اس علم وحکمت کو کہیں گے، جسے آپ روحانی مشاہدات و تجربات کی بنیاد پر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں، مثال کے طور پر ہمارے اکثر عزیزان منزلِ عزرائیلی وغیرہ کے بہت سے معجزات کا تذکرہ سن چکے ہیں، یہ اس تجربے کی کیفیت یا پس منظر یا حوالہ ہے، اب اگر ان کے سامنے نفسانی موت اور ذاتی قیامت کی کوئی مشکل بات بھی کی جاتی ہے تو یہ عزیزان بڑی آسانی سے

۲۹

سمجھتے ہیں اور کسی شک کے بغیر قبول بھی کر لیتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ روحانی علم کی عظمت و برتری کا ثبوت روحانی تجربہ ہے، اور تجربے کا ثبوت پس منظر ہے۔

 

۷۔ جو علم جیسا بھی ہے، اس کا تعارف ضروری ہے، لیکن روحانی علم کا تعارف بے حد ضروری ہے، تا کہ اس کی پہچان کی وجہ سے لوگوں کو زبردست فائدہ پہنچ سکے، آپ نے حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے روحانی ارشادات کو پڑھا ہوگا، لیکن قرآنِ ناطق کے کلمات کو یوں سمجھ کر پڑھنا ہے کہ یہ کلماتِ تامات کی روحانی تفاسیر ہیں، آپ امامِ برحق کے ارشادِ روحانی کے کلمات کا ورد کریں، یہ مظہرِ نورِ خدا اور جانشینِ رسولؐ کے مبارک الفاظ ہیں، اس لئے ان میں علم و حکمت کی کلیدیں پوشیدہ ہیں۔

 

۸۔ اگر میں یہاں یہ کہوں کہ امام علیہ السلام دنیا میں اس لئے حاضر اور موجود ہوتا ہے تا کہ لوگ اخلاقی ، مذہبی، اور روحانی ترقی سے اس کے علمی معجزات تک رسا ہو جائیں، کیونکہ امامؑ کا نور خدا و رسولؐ کا نور ہے، جو ہمہ رس اور عالمگیر ہونے کی وجہ سے ہر شخص کے دل میں طلوع ہوسکتا ہے تو اس بات سے شاید یہ سوال پیدا ہو کہ آپ کو امامِ عالی مقام کے جوجو معجزے ہوئے ہیں، ان کا تذکرہ کریں، تو اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے، سب سے پہلے اس امرِ واقعی کی طرف توجہ دلائی جائے گی کہ جس نوجوان نے صرف دس ماہ کے قلیل عرصے میں تیسری اور

۳۰

چوتھی جماعت پڑھ کر پرائمری سکول کو خیرباد کہا تھا، اسی شخص نے ۱۹۵۷ء سے آج تک تقریباً سو (۱۰۰) کتابیں تصنیف کی ہیں، ان کتابوں کے بارے میں بعض دانشوروں کا یہ کہنا ہے کہ ان کتب میں علم وحکمت کاایک حصہ بڑا عجیب وغریب، غیر معمولی، بے مثال، اور معجزانہ قسم کا ہے، پس وہ حضرات یقیناً یہ کہتے ہیں کہ: یہ تو امامِ عالی مقام علیہ السلام کا علمی معجزہ ہے، اور حضرتِ امام کا یہ دستور زمانۂ آدم سے چلا آیا ہے۔

 

۹۔ دوسرا جواب اس طرح سے ہے: س: کوئی خوش نصیب مرید کس طرح اپنے امامِ وقتؑ سے جوہرِ قرآن (روحانیت) کی تعلیم حاصل کر سکتا ہے؟ اس مقصد کے لئے کیا کیا شرطیں مقرر ہیں؟ ج: اس عظیم ترین مقصد کے پیشِ نظر کوئی باہمت مومن سب سے پیشتر امامِ زمان علیہ السلام سے اسمِ اعظم برائے خصوصی عبادت حاصل کرتا ہے، شرائط وہی ہیں، جو حقیقی مومنین کے لئے ہوا کرتی ہیں، جب ایسا مومن اللہ کے فضل و کرم سے کامیاب ہو جاتا ہے تو بحکمِ قرآن (۱۷: ۷۱) امام علیہ السلام نورانیت میں تشریف فرما ہو جاتا ہے، اور اس مومن کی ذاتی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ س: قیامت کی ہر گونہ سختی میں کس طرح مومن اپنے امامؑ سے روحانی تعلیم لے سکتا ہے؟ وہاں پڑھنے اور پڑھانے کا کیا طریقہ ہے؟ ج: سختی کے واقعات میں جتنی عظیم حکمتیں ہیں، وہ دل و دماغ میں اس طرح چبھ چبھ کر چسپان ہو جاتی ہیں کہ پھر وہ کبھی لوحِ حافظہ سے محو نہیں ہو سکتیں، وہاں پڑھنے

۳۱

اور پڑھانے کا طریقہ دنیا سے قطعاً مختلف اور طریقۂ آدمؑ کی طرح ہے، وہاں لسانی تعلیم بہت کم اور واقعات و اشارات کی عملی تعلیم بہت زیادہ ہے، اس میں طرح طرح کی مثالیں بھی شامل ہیں، دو ساتھی آپس میں گفتگو کرتے ہیں، اس میں بھی بہت سے اشارے ہیں، آواز کے بغیر الہام کثرت سے ہے (۹۱: ۸) اور بھی بہت سی چیزیں ہیں، لیکن روحانی احوال کے چند نمونوں کے علاوہ کلّی روحانیت کی صحیح صحیح عکاسی ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعہ ۳ ربیع الثانی ۱۴۱۸ھ، ۸ اگست ۱۹۹۷ء

۳۲

فنا فی اللہ

 

تو ھو میں فنا ہو جا تب گنجِ نہان تو ہے

یوں ہو تو سمجھ لینا وہ جانِ جہان تو ہے

اسرارِ خودی کو تو اے کاش سمجھ لیتا

اس عالمِ شخصی میں اک شاہِ شہان تو ہے                               ہر چیز تجھی میں ہے بیرون نہیں کچھ بھی

ہے ارض و سما تجھ میں اور کون و مکان تو ہے

تو ارض میں خاکی ہے افلاک پہ نوری ہے

یاں ذرّۂ گم گشتہ واں شمسِ عیان تو ہے                                   ناقدریٔ دنیا سے مایوس نہ ہو جانا

جا اپنا شناسا ہو جب گوہرِ کان تو ہے

اس آئینۂ دل میں اک چہرۂ زیبا ہے

اے عاشقِ مستانہ وہ چہرۂ جان تو ہے

اس عالمِ شخصی میں سلطانِ معظم ہے

تو اس میں فنا ہوجا پھر شاہِ زمان تو ہے

۳۳

آئینِ جہان دکھ ہے تو اس سے نہ گھبرانا

پیری سے نہ ہو غمگین جنت میں جوان تو ہے

تو چشمِ بصیرت سے خود کو کبھی دیکھا کر

جو حسن میں یکتا ہے وہ رشکِ بتان تو ہے

بھرپور تجلی سے باطن ہے ترا پر نور

ہر چہرۂ جنت تو، جب رازِ جنان تو ہے

تو ساری خدائی میں اعجوبۂ قدرت ہے

تو معجزۂ حق ہے اور اس کا نشان تو ہے

تو خامۂ لاہوتی تو نامۂ جبروتی

پھر اس کی زبان تو ہے اور شرح و بیان تو ہے

اشعارِ حکیمانہ! ہے دل میں کوئی استاد؟

اے جان و دلِ حکمت! ہے میرا گمان تو ہے

کہتا ہے نصیرؔ تجھ کو اے عاشقِ آوارہ

تو ھو میں فنا ہو جا تب گنجِ نہان تو ہے

 

پیر ۲ جمادی الاول ۱۴۱۷ھ، ۱۶ ستمبر ۱۹۹۶ء، کراچی

 

۳۴

 

سرمݣے برکݽ

 

۱۔ انے سرمݣے برکݽ بلݳ قرآن لو ئیڎم

ان جانِ جہان بݳی برینن جان لو ئیڎم

۲۔زندانے اُیَم یاد جݺ مݹ بیلٹے تلالجم

جنت نکݳ آر دین نمی زندانُ لو ئیڎم

۳۔ دنیݳولو شہنشان اَیَشے نورے فرشتان

بردیٹے سوکم یار چوک اسمانُ لو ئیڎم

۴۔ ئینن لݺ علیؑ، نورِ نبیے حکمتے ہا ہݣ

حکمتݣے غٹم زندہ کتاپ ہانُ لو ئیڎم

۵۔ تھم تھانے حلال میل دُمنس ممکن اکوغن

فردوسے شراب جا شلے شاہ سانُ لو ئیڎم

۶۔ ہر ماہ رُخن گلبدنن دلبرِ جانن

اُنے نورے ملاقاتنے ارمانُ لو ئیڎم

۷۔ مݹ عاشقے گنے ظاہری لعلݣ بݺ اواجی

بُٹ قیمتی لعل گنجِ ازلے کانُ لو ئیڎم

۳۵

۸۔ احباب! یݺ ژوین مݹ غتݳین حکمتِ قرآن

تل حکمتے تعریف علیے شان لو ئیڎم

۹۔ ہن نورے جہانن نمہ بݳی برچی بم انسان

جا عالمِ ملکوت کھن انسانُ لو ئیڎم

۱۰۔ فرمانِ مبارک لو بئین حکمتے چھیئمڎ

اِنے نورے نظر رحمتے فرمانُ لو ئیڎم

۱۱۔ روحانی ببا می مدتر ہول نُویا دیبم

روے برگݺ تمام عالمے میدانُ لو ئیڎم

۱۲۔ دلدادہ نصیرؔ!  دا کہ غتن رازݣے قرآن

مولا صفتݣ بُٹ بڎہ قرآن لو ئیڎم ‌

 

ترجمہ

۱۔ میں نے دیکھا کہ قرآنِ پاک میں اُس (مولا) کے اسرار کا خزانہ موجود ہے، میں نے اپنی جان (یعنی خود شناسی) میں دیکھا تم بھی دیکھو کہ وہ یقینا عالمگیر روح ہے۔

 

۲۔ قیدخانے کی یادِ شیرین کو میں کس طرح بھول سکتا ہوں، جب کہ میں نے اُس محبوب کو زندان خانے ہی میں دیکھا کہ میرے لئے بہشت لے کر آیا اور (دے کر) گیا۔

۳۶

۳۔ وہ دنیا میں ایک شاہنشاہ کی سی شان رکھتا ہے، اور آسمان پر ایک نورانی فرشتہ ہے، تعجب ہے کہ وہ محبوب جو آسمان سے زمین پر اتر آیا تھا اس کو میں نے ابھی ابھی آسمان میں دیکھا۔

 

۴۔ (بحکمِ حدیثِ شریف) مولاعلی کو نورِ نبی کے دارِ حکمت کا دروازہ مان لو، یہ سچ ہے کہ میں نے گہری حکمتوں کی زندہ (اور بولنے والی) کتاب ایک گھر میں دیکھی ہے۔

 

۵۔ یہ بات ممکن ہی نہیں کہ کسی اور جگہ شرابِ حلال مہیا ہو سکے، کیونکہ میں نے خمرِ بہشت (یعنی شرابِ طہور صرف) اپنے سلطانِ عشق ہی کے خم خانے میں دیکھی ہے۔

 

۶۔ ہر حسین، ہر نازک بدن اور ہر دلنواز محبوب کو میں نے دیکھا کہ وہ تیرے نورانی دیدار کا مشتاق ہے۔

۷۔ اب عاشق کے لئے ظاہری جواہر کی کوئی ضرورت نہیں، میں نے تو خزانۂ ازل کی کان میں انتہائی گرانمایہ گوہر کو دیکھا۔

 

۸۔ دوستانِ عزیز! ہاں آؤ، اب ہم سب مل کر قرآنِ حکیم کی حکمت کو پڑھ لیں، میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ ساری حکیمانہ تعریف مولا علی ہی کی شان میں ہے۔

 

۹۔ جو آدمی حقیقی معنوں میں فرمانبردار ہو، وہ اپنی ذات ہی میں ایک پرنور کائنات بن چکا ہوتا ہے، میں نے انسان ہی کے باطن میں عالمِ ملکوت دیکھا۔

۳۷

۱۰۔ (امامِ زمانؑ کے) بابرکت فرمان میں حکمت کی کلیدیں پنہان ہیں، میں نے یہ دیکھا کہ اس کا مقدّس فرمان ہی اس کی نظرِ فیض اثر کا باعث ہوتا ہے۔

 

۱۱۔ (جہادِ روحانی کا تذکرہ ہے کہ) روحانی باپ ہماری مدد کے لئے لشکرِ ذرّات لے کر آیا تھا، یہ حقیقت ہے کہ میں نے سراسر دنیا کے میدان میں روحانی جنگ کا مشاہدہ کیا۔

 

۱۲۔ اے عاشق نصیرؔ! اسرار والے قرآن کو اور بھی پڑھ لو (اور پڑھتے رہو) کیونکہ میں نے قرآن میں دیکھا کہ اس میں مولائے پاک کی تعریف و توصیف بہت زیادہ ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر ۲۶ ذیقعدہ ۱۴۱۶ھ، ۱۵ اپریل ۱۹۹۶ء

۳۸

نفسِ واحدہ کی مثال

ایک ، دو اور سب””

 

یہ روحانی سائنس کا ایک عمدہ مضمون ہے کہ نفسِ واحدہ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام ہے جو ایک، دو، اور سب ہے، یعنی باپ آدم، ماں حوّا، اور قیامۃ القیامات تک ہونے والی اولاد سب کا مجموعی نام نفسِ واحدہ ہے، کیونکہ لفظِ واحدہ (بروزنِ فاعلہ) کے دو معنی ہیں: ۱۔ فی نفسہٖ ایک ۔ ۲۔ اور ایک کر لینے والا، چنانچہ جب حضرتِ آدم پر ذاتی روحانیت کی قیامت گزر رہی تھی اس حال میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کے عالمِ شخصی میں تمام آدمیوں کو بشکلِ ذرّات جمع کرکے متحد کر دیا تھا، اور یہی انتہائی عظیم واقعہ ہر شخصِ کامل پر گزرتا ہے، جس کے بغیر کنزِ مخفی کی معرفت ممکن ہی نہیں۔

 

ہر آدمی نفسِ واحدہ (آدم) کی اولاد ہے لہٰذا وہ بحدِ قوّت اپنے باپ ہی کی طرح ایک، دو، اور سب ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر شخص کی ہستی میں وحدت، دوئی، اور کثرت کی علامتیں بنائی گئی ہیں، وحدت یہ کہ

۳۹

انسان اپنی مجموعی ہستی میں ایک ہے، دوئی یہ کہ اس کی آنکھیں وغیرہ تمام اعضاء دو دو ہیں، اور کثرت کی علامت یہ کہ وہ بے شمار خلیّات کا مجموعہ ہے کہ ان کی تعداد صرف خدا ہی جانتا ہے، پروردگارِ عالم کی بے پایان رحمت کے پیشِ نظر یہ بات ممکن ہے کہ ہر خلیہ (Cell) ایک کائنات کا نمائندہ ہو، اس معنی میں کہ ہر ایمانی روح کے لئے ازلی و ابدی بہشت میں لاتعداد کائناتوں کی بادشاہی ہے، ان میں سے ہر کائنات میں سب کچھ ہے۔

 

شاید آپ قرآنِ حکیم کی اس حکمت کو جانتے ہوں گے کہ اللہ پاک کائنات جیسی پھیلی ہوئی چیزوں کو سمیٹ کر محدود بناتا ہے، اور محدود چیزوں کو کائنات کی حدود تک پھیلا کر وسیع بنا دیتا ہے، پس آپ میں جتنے بے شمار خلیّات ہیں، اتنے لاتعداد عوالم ہیں، اور ہر عالم میں بحدِ قوّت آپ کی بادشاہی کی رعیت ہے، اگر آپ ’’فنا فی المرشد‘‘ کے قانون سے فائدہ اٹھا کر کام کرتے ہیں تو مبارک ہو! ورنہ روزِ قیامت آپ مسئول ہوں گے۔ جیسا کہ ارشادِ نبوی کا ترجمہ ہے: تم میں سے ہر ایک راعی (چوپان = حاکم= بادشاہ) ہے اور تم میں سے ہر ایک سے سوال ہوگا کہ اس نے اپنی رعیت کو کیا دیا؟

 

عربی زبان ان تمام زبانوں کی سردار اور بادشاہ ہے جو دنیا اور بہشت میں بولی جاتی ہیں، کیونکہ یہ قرآنِ حکیم اور رسولِ اکرمؐ کی لسان ہے، لہٰذا اس کی ہر چیز نہایت خوبصورت بنائی گئی ہے، اس کے اعداد کے کمال کو دیکھئے کہ گریمر کے اعتبار سے پہلے واحد ہے،

۴۰

اس کے بعد تثنیہ، اور آخر میں جمع ہے، یہ خوبی البتہ کسی اور زبان میں نہیں، خوبی اس معنیٰ میں ہے کہ قرآنِ پاک ذاتِ خدا کے سوا ہر چیز کی دوئی کا ذکر فرماتا ہے، اس کی پہلی حکمت یہ ہے کہ کوئی مخلوق طاق اور اکیلی نہیں، بلکہ اُس کی کوئی جفت ہوتی ہے، تا کہ یہ اس حقیقت کی عالمگیر شہادت ہو کہ خدائے واحد کی کوئی جفت نہیں، اور دوسری حکمت یہ ہے کہ ہر شیٔ اس امرِ واقعی کی گواہی دیتی ہے کہ دین میں خدا کے بعد سب سے بڑا مرتبہ رسولؐ کا ہے، اور وہ ظاہراً و باطناً ہرگز بے جفت نہیں، بلکہ آپؐ مومنین کے باپ ہیں، اور اساس (علیؑ) ماں۔

 

سورۂ بلد میں ارشاد ہے: کیا ہم نے نہیں بنائیں اس کے لئے دو آنکھیں؟ اور ایک زبان اور دو ہونٹ؟ اور ہم نے دکھادیں اسے (خیر و شر) کی دونوں راہیں، مگر اس نے دشوارگزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی، اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوارگزار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا (۹۰: ۸ تا ۱۶)۔

 

لوگ کثرت کو جانتے ہیں اور وحدتِ الٰہی کے لئے اقرار کر سکتے ہیں، لیکن دوئی کی عظیم حکمت کو نہیں سمجھتے ہیں، جس سے نبوّت اور ولایت مراد ہے، حالانکہ یہی راہِ ہدایت اور دروازۂ علم و معرفت ہے، بنا برین قرآنِ حکیم کے متعدد مقامات پر دو یا جفت کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، اور یہ حقیقت مختلف مثالوں میں ہے، جیسے قرآنِ پاک

۴۱

کا یہ ارشاد کہ انسان کو دو آنکھیں عطا ہوئی ہیں، کیسی دو بڑی نعمتیں ہیں کہ ان کی ہستی میں بے شک دوئی ہے مگر فعل میں وحدت، زبان ایک ہے مگر اس میں دوئی کی علامت، ہونٹ دو ہیں لیکن گفتگو میں وحدت و سالمیت، اور خیر و شر کے دونوں راستے الگ الگ ہیں تاہم خیر کی پیروی اور شر سے اجتناب کا اجر و صلہ مجموعی طور پر ایک ہی ہے، پس قرآنِ عظیم میں جہاں جہاں دو، جفت، اور دوئی کے اشارے آئے ہیں، وہ سب عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ نیز ناطق اور اساس کے لئے ہیں۔

 

اب دورِ تاویل ہے اس لئے آپ کو کوئی ظاہری غلام نہیں ملے گا کہ آپ اس کو آزاد کر دیتے، مگر یہ ہے کہ ہر عام شخص اپنے نفسِ امّارہ کا غلام ہے، وہ اپنی جہالت اور عاداتِ حیوانیہ کی غلامی کر رہا ہے، پس اس پر واجب ہے کہ وہ بذریعۂ علم و حکمت اپنے آپ کو اس بدترین غلامی سے چھڑا لے، اگر وہ سچ مچ ایسا کام کر سکے تو اس میں روحانی اور علمی انقلاب آئے گا، جس سے وہ اس قابل ہو جائے گا کہ اب وہ رشتہ دار یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلا سکتا ہے، اس کی تاویل بیان کرنے سے پیشتر ایک بڑی عالیشان مثال ملاحظہ ہو:

 

حدیثِ قدسی ہے کہ اللہ عزوجل نے (آنحضرتؐ سے) فرمایا: میں بیمار ہو گیا تھا ابنِ آدمؑ نے میری عیادت کیوں نہیں کی؟ اور مجھے پیاس لگی تھی ابنِ آدمؑ نے مجھے کیوں پانی نہیں پلایا؟ میں نے عرض کی کہ یا ربّ کیا تو بیمار ہو جاتا ہے؟ فرمایا: اہلِ زمین کے میرے بندوں

۴۲

میں سے جب کوئی بندہ بیمار ہو جاتا ہے تو اس کی بیمار پرسی نہیں کی جاتی ہے، پس اگر اس کی عیادت کی جاتی تو یہ عیادت میرے لئے ہوتی، اور زمین میں جب کسی کو پیاس لگتی ہے تو اسے پانی نہیں پلایا جاتا ہے، اور اگر اس کو پانی دیا جاتا تو یہ میرے لئے ہوتا۔ (مسندِ احمد بن حنبل، الجزء الثالث، ص ۱۲۱، حدیث ۸۹۸۹)۔

 

اس قانونِ رحمت کی روشنی میں اب ہم یہ کہیں گے کہ حضرتِ امام کا ایک قرآنی نام یتیم ہے جس کے معنی ہیں یگانۂ روزگار اور ’’یتیما ذا مقربۃ‘‘ کا مطلب ہے وہ یگانۂ روزگار (امام) جو اہلِ ایمان کا روحانی اور نورانی رشتہ دار ہے، اور اس کو فاقے کے دن کھانا کھلانا یہ ہے کہ آپ حقدار لوگوں کو حقیقی علم دیں، اور خاک نشین مسکین کی تاویل حجّت ہے کہ وہ امام کے مریدوں کے ساتھ رہتا ہے کہ مرید خاک ہیں، کیونکہ وہ علم کے پانی کو قبول کرکے زندۂ جاوید ہو جاتے ہیں، جس طرح مٹی (زمین) ظاہری پانی سے زندہ ہو جاتی ہے، خاک نشین مسکین کا ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ حجّت زمین پر رہ کر اپنا کام کرتا ہے اور امام کا عقلی مرتبہ عالمِ علوی میں ہے، پس مسکینِ خاک نشین کو بھوک کے دن کھانا کھلانے کی تاویل یہ ہے کہ آپ علمی قحط کے زمانے میں لوگوں کے لئے حقیقی علم کا دستر خوان بچھائیں، تب ہی آپ دشوار گزار گھاٹی سے گزر سکتے ہیں۔

 

ہر آدمی نفسِ واحدہ (آدم) کی اولاد ہے لہٰذا وہ بحدِ قوّت اپنے باپ آدم ہی کی طرح ایک، دو، اور سب ہے، یہ نکتۂ دلپذیر اہلِ دانش

۴۳

کے لئے قابلِ توجہ ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ عددی فارمولا (کلیہ = قانون = آئین) بڑا عالیشان اور موافق بقرآن ہے، جیسا کہ سورۂ سباء (۳۴: ۴۶) میں ارشاد ہے: اے نبیؐ ان سے کہو کہ میں تمہیں بس ایک حکمت کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم برائے خدا (روحانیت اور ذاتی قیامت میں پہلے دو دو پھر ایک ایک ہوکر کھڑے ہوجاؤ پھر سوچو۔ یعنی رجوع الی اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ تم کثرت کو چھوڑ کر دو میں فنا ہو جاؤ، اس کے بعد اللہ میں فنا ہوجاؤ، جو ایک ہے، پھر علم و معرفت کے نتائج میں سوچ لو تب کامیابی ہو گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

آپ سورۂ یاسین (۳۶: ۳۶) میں خوب غور سے دیکھیں: (ترجمہ) وہ خدا پاک ہے جس نے زمین کی نباتات کے اور خود ان کے اور جن چیزوں کی ان کو خبر نہیں سب کے جوڑے بنائے۔ یہاں اہلِ دانش کے لئے کئی واضح اشارے ہیں، اور ان میں سب سے خاص اشارہ یہ ہے کہ اہلِ ایمان روحانی والدین کے بغیر نہیں ہیں، جیسے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے:

 

انا و انت یا علی ابوا المومنین ۔ اے علی! میں اور آپ تمام مومنین کے (روحانی) ماں باپ ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات ۲۳ رجب المرجب ۱۴۱۷ھ، ۵ دسمبر ۱۹۹۶ء

۴۴

عالمِ شخصی میں پیشانی کا مرتبہ

 

آج (۹۷/۵/۱) ہم نے بفضلِ خدا ایک جدید مقام پر مناجات کی ہے، اس لئے (ان شاء اللہ) ہم کوشش کرتے ہیں کہ تحفۂ دوستان میں کچھ جدید چیزیں ہوں، چنانچہ آپ کو علم ہے کہ بہشت آٹھ ہیں، آٹھ کے چار جوڑے، چار کے دو جوڑے، دو کا ایک جوڑا، قرآن کی زبان میں زوجان، یعنی دو فرد، جیسے شوہر اور بیوی، اگر دو شخص عالمِ وحدت میں داخل ہوتے ہیں تو وہ قانونِ وحدت کی وجہ سے ایک ہو جاتے ہیں، پس بہشت ایک بھی ہے، دو بھی ہیں، چار بھی ہیں، اور آٹھ بھی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنت پھیلی ہوئی بھی ہے اور مرکوز و مجموع بھی۔

 

بہشت کائنات کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے (۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) اور یہ عارف کے عالمِ شخصی میں خدا کے حکم سے محدود ہو جاتی ہے، اور کچھ عرصے کے بعد بطورِ خاص پیشانی میں مرکوز ہو جاتی ہے، اس معنیٰ میں پیشانی گویا عرش ہے جہاں عقلی بہشت اور اس کی ہر نعمت موجود ہے، پیشانی کے لئے قرآنِ حکیم میں لفظِ ’’جبین‘‘ آیا ہے، اس کا ایک خاص ذکر سورۂ

۴۵

صافات (۳۷: ۱۰۳) میں ہے، پس جبین (پیشانی) کا مرتبہ عالمِ شخصی میں سب سے اعلیٰ ہے، ہاں یہ سچ اور حقیقت ہے کہ حضرتِ امامِ زمان علیہ السلام کا مرکزِ نور جبین میں ہوتا ہے، یقینا یہ بہت بڑا راز ہے کہ انسانِ کامل کی بابرکت جبین میں نور خود از خود بولتا رہتا ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

۱۔ جبین میں لپیٹی ہوئی بہشت ہے۔ ۲۔ یہ عالمِ شخصی کا عرشِ اعلیٰ ہے۔ ۳۔ یہ حظیرۃ القدس ہے۔ ۴۔ یہ نمونۂ معراج ہے۔ ۵۔ کوہِ طور کا سارا قصہ جبین ہی کا قصہ ہے۔ ۶۔ جبین میں پہنچ کر ہی ازل اور لامکان کا مشاہدہ ہوسکتا ہے۔ ۷۔ کنزِ مخفی جبین ہی میں پوشیدہ ہے۔ ۸۔ جبین ہی عالمِ شخصی کا آسمان اور عالمِ عُلوی ہے۔ ۹۔ پس جملہ مومنین و مومنات کے لئے یہ امر بے حد ضروری اور لازمی ہے کہ وہ بارگاہِ ایزدی میں بار بار گریہ و زاری کریں، اور آسمانی عشق میں بڑی کثرت سے جبین کے سجدے کریں۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی

اسلام آباد

جمعرات ۲۳ ذی الحجہ ۱۴۱۷ھ، یکم مئی ۱۹۹۷ء

۴۶

عملی شکر کی حکمت

 

۱۔ قرآنِ عظیم اللہ تعالیٰ کا کلامِ حکمت نظام ہے، لہٰذا اس کی کوئی مثال ممکن ہی نہیں، اس کے تمام مضامین جواہرِ حکمت سے لبریز ہیں، اس وقت توفیقِ الٰہی سے موضوعِ شکر کی عظمت و برتری کا تصور دل ودماغ پر محیط ہے، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ اسلام کی ہر مکمل چیز نیت، قول، اور عمل کا مجموعہ ہے، ساتھ ہی ساتھ قرآنِ حکیم جہالت و نادانی کی سخت مذمت کرتا ہے اور علم و حکمت کی بے حد تعریف فرماتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ عملی شکر حکمت کے بغیر نہیں۔

 

۲۔ شکر کا مضمون قرآن میں قصۂ نوحؑ سے شروع ہو جاتا ہے، جیسے سورۂ بنی اسرائیل کے آغاز (۱۷: ۳) میں ارشاد ہے: ذریۃ من حملنا مع نوح انہ کان عبدا شکورا ۔ معنیٔ اوّل: اے اُن لوگوں کے اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں ) سوار کیا تھا۔ بے شک نوح (ہمارے) شکر گزار بندے تھے۔ معنیٔ دوم: اے وہ ارواح جن کو ہم نے نوح کے ساتھ (اس روحانی کشتی میں) سوار کیا (جو علم کے پانی پر عرشِ الٰہ

۴۷

کی مثال تھی) یقینا نوح اس نعمتِ عالیہ کا عملاً شکر کرتے تھے۔

 

۳۔ عالمِ شخصی کی تکمیل کے بعد عرشِ الٰہی کا ظہور علم کے پانی پر ہوتا ہے، پانی پر ہونے کی وجہ سے اس عرش (تخت) کا نام کشتی بھی ہے، یہی عظیم مرتبہ حضرتِ نوحؑ کی روحانی کشتی کو حاصل تھا، اور ہر زمانے کا امام وہی کشتیٔ نوح ہے، جس میں اہلِ ایمان کی روحیں سوار ہو سکتی ہیں، قرآنِ حکیم اس قانون کی طرف پرزور توجہ دلاتا ہے کہ تمام چیزیں دو (۲) دو (۲) ہیں، چنانچہ عرش بھی دو ہیں، ایک عالمِ عُلوی میں ہے اور دوسرا عالمِ سفلی میں۔

 

۴۔ سورۂ سبا (۳۴: ۱۳) میں فرمایا گیا ہے: اعملوٓا اٰل داؤد شکرا و قلیل من عبادی الشکور۔ اس آیۂ کریمہ کا خلاصۂ حکمت یہ ہے کہ داؤدؑ امام تھا اور آلِ داؤد ان کے فرزندانِ روحانی تھے، یہ سب روحانیت کے بادشاہ تھے، اور سلیمانؑ ظاہر میں بھی بادشاہ تھا، لہٰذا ان سب پر عملی شکرگزاری واجب ہوگئی، یعنی اس نعمتِ عظمیٰ کی قدردانی کے طور پر اہلِ جہان کو روحانی فیض پہنچائیں، کیونکہ خدا کے بندوں میں سے ایسے خاص بندے بہت کم ہیں جو اس طرح کی عملی شکرگزاری کر سکیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی

اسلام آباد

ہفتہ ۲۵ ذی الحجہ ۱۴۱۷ھ، ۳ مئی ۱۹۹۷ء

۴۸

ظہورِ ازل و ابد

 

یہ حقیقت قرآن شناسی اور امام شناسی کی روشنی میں ہے کہ جب مومنِ سالک منزلِ مقصود میں پہنچ کر فنا بحق ہو جاتا ہے تو اس حال میں وہ چشمِ بصیرت سے ان اسرارِ معرفت کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے جو زمان و مکان سے ماورا ہیں، جیسے دھر (ٹھہرا ہوا زمانہ) جو وہی ازل بھی ہے اور ابد بھی، جس کی معرفت کا اشارہ خود سورۂ دھر کے آغاز ہی (۷۶: ۱) میں موجود ہے، پس عالمِ شخصی کے حظیرۃ القدس میں جہاں امامِ مبین کے نور میں ہر چیز کے محدود ہونے کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے (۳۶: ۱۲) وہاں ازل و ابد کا ظہور بھی ہوتا ہے۔

 

اہلِ بصیرت کے لئے قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ امام شناسی کے اسرارِ عظیم مخزون و محفوظ ہیں، چنانچہ ایک ایسا خزانہ قصۂ ذوالقرنین میں بھی ہے، کیونکہ بحکمِ حدیثِ شریف علیؑ (یعنی امامِ زمانؑ) اس امت کا ذوالقرنین ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذوالقرنین کا قصہ بباطن امامِ عالی مقام کا قصّہ ہے، پس آپ قصّۂ ہٰذا کو سورۂ کہف (۱۸: ۸۳ تا ۹۹) میں

۴۹

پڑھ لیں، اور تاویلی حکمت کی جستجو کریں، اس میں مطلع الشمس (سورج طلوع ہونے کی جگہ) کا ذکر ہے، یہ مصدرِ نورِ ازل ہے، آپ اسے مشرقِ خورشیدِ ازل بھی کہہ سکتے ہیں، اور بڑی عجیب حکمت تو یہ ہے کہ یہی مشرق خود مغرب بھی ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں آفتابِ قیامت مغرب سے طلوع ہو جاتا ہے۔

 

اے میرے علمی عزیزان! روحانی علم کی زندہ اور بولتی یونیورسٹی امامِ زمان علیہ السلام ہے، یہ مدرسۃ العلوم اس مقام پر ہے، جس کا نام قرآنِ حکیم میں مجمع البحرین ہے (۱۸: ۶۰) یعنی دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ، دو دو دریا یہ ہیں: ا۔ ازل و ابد۔ ۲۔ اوّل و آخر۔ ۳۔ ظاہر و باطن۔ ۴۔ لامکان و مکان۔ ۵۔ دنیا و آخرت۔ ۶۔ قبض و بسط۔ ۷۔ قلم و لوح۔ ۸۔ عرش و کرسی۔ ۹۔ عقلِ کلّ و نفسِ کلّ۔ ۱۰۔ آسمان و زمین۔ ۱۱۔ فرشتہ و بشر۔ ۱۲۔ غیب و شہادت۔ ۱۳۔ عقل و جان۔ ۱۴۔ قول وعمل۔ ۱۵۔ نبوّت و امامت۔ ۱۶۔ مثال و ممثول، وغیرہ وغیرہ، یقیناً امامِ مبین میں کل چیزیں محدود ہیں، اور وہ سب دو دو ہیں، یا جفت جفت ہیں، الحمد للہ رب العالمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

اسلام آباد

پیر ۲۷، ذوالحجہ ۱۴۱۷ھ، ۵ مئی ۱۹۹۷ء

۵۰

اعلیٰ نعمتوں کا ذکرِ جمیل

 

۱۔ اہلِ معرفت پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے انتہائی عظیم احسانات ہوا کرتے ہیں، جن کا ذکرِ جمیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، دین کی اعلیٰ نعمتوں کا تذکرہ عبادت و شکرگزاری بھی ہے اور احباب کے لئے علم و حکمت بھی، کیونکہ یہی تذکرے گلشنِ روحانیت کے گلدستے ہیں جو دوستانِ عزیز کو بطورِ تحفہ دئے جا سکتے ہیں، زہے نصیب جن جن کو بہشت کے سدا بہار اور خوشبودار پھول ملتے ہیں!

 

۲۔ قرآنِ حکیم میں ظاہری اور باطنی نعمتوں کا مضمون بڑا عالیشان ہے، آپ مضامینِ قرآن کو الگ الگ پڑھیں، اور نعمتوں کے مضمون کو بھی متعلقہ آیاتِ کریمہ کے ساتھ مربوط پڑھ لیں تا کہ اس کے اسرارِ عظیم کے جاننے سے آپ کو بے پایان خوشی کا راز معلوم ہو جائے۔

 

۳۔ اللہ تعالیٰ کی کبھی ختم نہ ہونے والی نعمتوں کا بے حد شیرین مضمون سورۂ فاتحہ سے شروع ہو جاتا ہے، جیسا کہ آیۂ مبارکہ ہے: (ترجمہ) اُن لوگوں کی راہ ( پر ہمیں چلا لے) جن کو تو نے اپنی نعمتوں سے نوازا

۵۱

ہے (۱: ۶) اگر کوئی پوچھے کہ وہ حضرات کون ہیں جن پر خدا تعالیٰ کے تمام بڑے بڑے انعامات ہوئے ہیں؟ تو اس کا جواب سورۂ نسا (۴: ۶۹) میں موجود ہے، وہ اس طرح سے ہے: اور جو شخص اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرے تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہدا اور صلحاء۔ یعنی پیغمبران، اساسان، امامان اور حجّتان، پس معلوم ہوا کہ آیۂ اھدنا میں حدودِ دین خصوصاً امامِ زمان کی پیروی کی حکمت پوشیدہ ہے۔

 

۴۔ جب حضرتِ ربّ نے خود ہی اہلِ ایمان کو مذکورۂ بالا دعا کی تعلیم دی، تو ظاہر ہے کہ تمام روحانی اور عقلی نعمتوں میں مومنین و مومنات بھی حدودِ اعلیٰ کے ساتھ ساتھ ہیں، آپ سورۂ نساء (۴: ۶۹) میں خوب غور سے دیکھ لیں، اس کے علاوہ حدیثِ نوافل میں بھی سوچیں کہ جب خدا اپنے پیارے بندے کا کان، آنکھ، زبان اور ہاتھ بن جاتا ہے تو پھر عارف کے لئے اس مقام پر کون سی نعمت ناممکن ہو سکتی ہے؟ الحمد للہ رب العالمین

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

جمعہ ۹ مئی ۱۹۹۷ء

۵۲

قرآنِ حکیم میں حقیقی مثالیں

 

۱۔ یہ بیان بعض حضرات کے لئے بڑا تعجب خیز ہو سکتا ہے کہ میری نظر میں قرآنِ حکیم کی تمام مثالیں واقعی اور حقیقی ہیں، اُن میں کوئی مثال فرضی نہیں، یعنی کسی غیر ممکن، اور ان ہونی (نا شدنی) چیز سے تشبیہہ و تمثیل نہیں دی گئی ہے، بلکہ قرآنِ عظیم کی ہر مثال اس طرح سے ہے کہ وہ ایک طرف سے کسی حقیقت کو سمجھانے کی خاطر مثال بھی ہے اور دوسری جانب سے خود اس میں کوئی بہت بڑا راز بھی پوشیدہ ہے۔

 

۲۔ اس نوعیت کی ایک پرحکمت اور عظیم الشّان مثال کے لئے سورۂ کہف (۱۸: ۵۱) میں دیکھ لیں: (ترجمہ) میں نے ان کو نہ تو آسمان اور زمین پیدا کرنے کے وقت گواہ بنایا اور نہ خود ان کے پیدا کرنے کے وقت (گواہ بنایا)۔ بظاہر یہ مثال ناممکن نظر آتی ہے کہ آفرینشِ عالم و آدم کے وقت کچھ لوگ حاضر اور گواہ ہوں، لیکن علم کی بہشت میں کوئی نعمت غیر ممکن نہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ عارفین و کاملین کے سامنے ہر لحظہ کائنات کو فنا کر کے از سرِ نو پیدا کرتا ہے، اس عمل کو

۵۳

تجدّدِ امثال کہتے ہیں، نیز یہ حضرات عالمِ شخصی میں اپنی روحانی اور عقلی پیدائش کو بھی دیکھتے ہیں، جبکہ بعض لوگ ایسے اسرارِ عظیم کا علم الیقین بھی نہیں رکھتے ہیں۔

 

۳۔ مذکورۂ بالا آیت کا ایک اور مفہوم بھی ہے وہ یہ کہ خداوندِ عالم نے اہلِ باطل کے بارے میں فرمایا: میں نے ان کے (غلط) نظریات کی شہادت نہ تو آسمانوں کی پیدائش سے دی ہے اور نہ خود ان کی تخلیق سے دی ہے۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ جو نظریہ حقیقت پر مبنی ہے، اس کی شہادتیں (دلیلیں) آفاق میں بھی ہیں اور انفس میں بھی۔

 

۴۔ سورۂ قارعۃ (۱۰۱: ۴) میں ارشاد ہے: یوم یکون الناس کالفراش المبثوث۔ جس روز لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گے۔ اس مثال میں اگر چشمِ ظاہر سے دیکھا جائے تو آدمی اور پروانہ کی جسمانیت اور بناوٹ میں کوئی مشابہت نہیں، مگر ہاں یہ درست اور حقیقت  ہے کہ جب انفرادی قیامت برپا ہو جاتی ہے اس حال میں دنیا بھر کے لوگ ذرّاتِ لطیف میں پروانوں کی طرح پرواز کرتے ہوئے آتے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد۔ گلگت

۱۲مئی ۱۹۹۷ء

۵۴

قصّۂ مریم = قصۂ حجّت

 

۱۔ قرآنِ حکیم میں مریم علیہا السلام کا جو قصّہ ہے، وہ حجت یا عارف کی مثال بھی ہے، کیونکہ علمی بہشت کا ہر پھل اگرچہ بظاہر ایک نظر آتا ہے، لیکن وہ حقیقت میں دو ہوتے ہیں (۵۵: ۵۲) جیسے ذوالقرنین ظاہراً ایک ہے اور باطناً دو ہیں، اسی طرح آدم دو ہیں، ایک گزشتہ تاریخ میں ہے اور دوسرا آپ کے عالمِ شخصی میں، کشتیٔ نوح ایک نہیں، مثال اور ممثول دو ہیں، جہان ایک نہیں صغیر و کبیر دو ہیں، الغرض تمام چیزیں دو دو ہیں۔

 

۲۔ قصّۂ مریم میں حجّت کا تذکرہ ہونے کی اوّلین وجہ یہ ہے کہ خود مریم کو مرتبۂ حجّتی حاصل تھا، دوسری وجہ یہ ہے کہ حجّت بمقابلۂ امام روحانیت میں عورت ہے، جس طرح مریم جسمانیت میں بھی اور روحانیت میں بھی عورت ہونے کے سبب سے حجّت کی نمایان مثال ہے، اور تیسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی طرح حجّتوں کے اسرار کو عامۃ الناس سے مخفی رکھنا چاہتا ہے۔

۵۵

۳۔ اسمِ اعظمِ لفظی اور اسمِ اعظمِ شخصی یہ بھی دو ہیں، چنانچہ شخصی اسمِ اعظم (امامِ زمان) نے مریم کو لفظی اسمِ اعظم عطا کیا، جس میں نور کا ظہور ہونے والا تھا، وہ ظہور کئی طرح سے ہوا، حجج اور عرفاء کے لئے انتہائی عظیم اور نہایت عجیب و غریب ظہورات ہوتے ہیں، مثلاً امامِ زمان کی ظاہری تجلّی جو نورانی بدن میں ہوتی ہے جو سب سے زیادہ حیران کن ہے، یہ مومنین اور مومنات کا نور ہے جو دوڑتا ہے یعنی اس کا معجزہ برق رفتاری سے ہوتا ہے۔

 

۴۔ صوم (روزہ) صائم (روزہ دار مرد) صائمہ (روزہ دار عورت) چنانچہ مریم صائمہ تھی، یعنی شروع شروع میں روحانی اسرار کے بارے میں خاموش رہنے کا حکم ہوا تھا، جیسا کہ ارشاد کا ترجمہ ہے: اگر تم کسی آدمی کو دیکھو تو کہنا کہ میں نے خدا کے لئے روزے کی منت مانی ہے پس آج میں کسی آدمی سے ہرگز کلام نہ کروں گی (۱۹: ۲۶)۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ روحانیت کے آغاز میں اسرار فاش کرنے کی اجازت نہیں ہے، مگر ہاں درجۂ تمامیت و کمالیت کے بعد اذن ہو سکتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: ربنا اتمم لنا نورنا = پروردگارا! ہمارے لئے ہمارا نور پورا کر (۶۶: ۸)۔ اس کا اشارہ یہ ہے کہ نور مکمل ہو جانے کے بعد تاویل کرنے کی اجازت ہو گی۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد ، گلگت

۱۵مئی ۱۹۹۷ء

۵۶

گورنرز اور علمی سولجرز

 

۱۔ دنیا میں صرف ایک ہی خدمت ایسی ہے جس کو خداوندِ تعالیٰ شرفِ قبولیت بخش کر زمین سے بلند کر کے آسمان پر لے جاتا ہے، وہ دینی خدمت ہے، خصوصاً علمی خدمت، جس کی بہت بڑی اہمیت ہے، جیسا کہ سورۂ محمد (۴۷: ۷) میں ارشاد ہوا ہے: یا آیھا الذین اٰمنوا ان تنصروا اللہ ینصرکم و یثبت اقدامکم = اے ایماندارو اگر تم خدا کی مدد کروگے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم بنائے گا۔ اس آیۂ کریمہ میں بہت بڑی حکمت ہے، بہت بڑا راز ہے۔

 

۲۔ اے عزیزانِ با سعادت! پروردگارِ عالم کی کتنی بڑی نوازش ہے کہ آپ کی علمی خدمت کو اتنا بلند درجہ نصیب ہوتا ہے کہ وہ گویا خدا کے لئے مدد قرار پاتی ہے اور اس کے عوض میں آسمانی تائید آتی رہتی ہے، وہ ہے سلسلۂ خدمت کو جاری رکھنے کا جذبہ، شوقِ عبادت، ذوقِ علم، روشن ضمیری، وسیع القلبی، دانائی (حکمت)، عشقِ مولا، آخرت کی اعلیٰ امیدیں، دین شناسی، نرم دلی، نیک توفیق وغیرہ۔

۵۷

۳۔ ثابت قدمی کے معنی ہیں لغزش کے بغیر ترقی کے راستے پر آگے بڑھتے چلے جانا، اس سے علمی ترقی مراد ہے، پس اگر ہم خدا کی مدد (یعنی دین کی مدد) کے لئے حقیر سی کوشش کریں تو یقیناً اللہ تعالیٰ کی نورانی تائید ہماری دستگیری کرے گی، اور ہمیں علم کے میدان میں بہت ترقی نصیب ہوگی، آمین!

 

۴۔ اے میرے معزز گورنرز اور علمی سولجرز! میں آپ کی دینی عزت و برتری کے لئے ہر صبح و شام سلام کرتا ہوں، میں آپ سب کو بہت چاہتا ہوں، ہم سب کو اس مقدّس خدمت اور نظریۂ یک حقیقت (مونوریالٹی) نے ایک کر دیا ہے، ہم سب کا نامۂ اعمال بھی ایک ہوچکا ہے، سو یہ کتنی خوشی کی بات ہے! ہم سب صرف تن نہیں ہیں، بلکہ جان بھی ہیں، ہم صرف جان نہیں ہیں، بلکہ جانان بھی ہیں، یہ نعرۂ انا الحق نہیں، بلکہ نعرۂ ’’یک حقیقت‘‘ ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد ، گلگت۔

۱۶مئی ۱۹۹۷ء

۵۸

فنا فی الامام

 

۱۔ حقیقت میں قانونِ فنا اس ترتیب سے ہے: فنا فی الامام، فنا فی الرسول، فنا فی اللہ، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: لکل شی باب = ہر چیز کا دروازہ ہوا کرتا ہے، کسی اور موقع پر فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ حضورؐ نے کبھی یہ بھی فرمایا: میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ چونکہ علی اپنے وقت کا امام تھا، لہٰذا مذکورہ دونوں حدیثوں میں باب (دروازہ) سے امامِ زمان مراد ہے۔

 

۲۔ اب یہ حقیقت روزِ روشن سے بھی زیادہ ظاہر ہوگئی کہ علم کے شہر اور حکمت کے گھر (یعنی رسول) میں فنا ہو جانے کی غرض سے اوّل اوّل دروازہ (امامِ وقت) میں فنا ہوجانا ضروری ہے، اور فنا فی اللہ سے پہلے فنا فی الرسول لازمی امر ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہاں ایک بڑا اہم سوال یہ ہے کہ آپ جس امام میں فنا ہو جانا چاہتے ہیں، آیا وہ خود رسول اور اللہ میں فنا ہوچکا ہے یا نہیں؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو ایسے امام میں اور تم میں کیا فرق ہے؟ اگر آپ علم الیقین کی روشنی میں کہتے ہیں کہ

۵۹

امامِ عالی مقام نورٌعلیٰ نور (۲۴: ۳۵) کی زندہ تفسیر ہے، یعنی اس میں نورِخدا، نورِرسول اور نورِامام کے معنوں میں ایک ہی نور ہے، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ امام یقیناً رسول اور اللہ میں فنا شدہ ہوتا ہے، لہٰذا فنا فی الامام خود فنا فی الرسول بھی ہے اور فنا فی اللہ بھی۔

 

۳۔ حضرتِ امامِ اقدس و اطہرعلیہ السلام کے پاک عالمِ شخصی میں تمام عوالم مجموع ہیں، آپ قلبِ قرآن (سورۂ یاسین ، ۳۶: ۱۲) میں خوب غور سے دیکھ لیں، آیا تمام روحانی، علمی، عقلی اور عرفانی چیزیں امامِ مبین کے حظیرۂ قدس (جبینِ مبارک) میں محدود و موجود نہیں ہیں؟ کیا یہ مقام بحقیقت بیت اللہ اور بیت المعمور نہیں ہے؟ آیا اس کلیّہ اور بہشتِ کل سے دیدارِ الٰہی باہر ہے؟ نہیں نہیں، عزیزِ من! ہرگز نہیں۔

 

۴۔ فنا فی الامام کا مرتبۂ عالیہ عشق ومحبت کے بغیر ممکن ہی نہیں، اور عشق و محبت کا انحصار اس علم پر ہے جس سے رفتہ رفتہ حضرتِ مولا کی بے مثال خوبیاں مکشوف ومعلوم ہو جاتی ہیں، پس ان لوگوں کی بہت بڑی سعادت ہے، جن کو قرآن وحدیث کی روشنی میں ہر سو جلوۂ جانان نظر آتا ہے، پھر عشق و فنا کا عالم کیوں نہ ہو، جیسا کہ ارشاد ہے: فاینما تولوا فثم وجہ اللہ = پس جہاں کہیں رخ کرلو وہیں خدا کا چہرہ ہے (۲: ۱۱۵) یعنی عارفِ کامل ہر جگہ خدا ہی کو دیکھتا ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

اتوار، ۱۰ محرم الحرام، ۱۴۱۸ھ، ۱۸ مئی ۱۹۹۷ء

۶۰

کیا ظلِّ خورشید ہوتا ہے؟

 

۱۔ سوال: کیا یہ کہنا درست ہے کہ ہر چیز کا ظل یعنی سایہ ہوتا ہے؟ یا یہ صحیح ہے کہ بعض چیزوں کا سایہ ہوتا ہے اور بعض کا نہیں ہوتا؟ اگر اس کے بارے میں قرآنِ حکیم میں کوئی ارشاد ہے تو یقیناً وہی جوابِ باصواب فیصلہ کن ہوگا، ہاں ایک پرحکمت ارشاد اس طرح ہے: و اللہ جعل لکم مما خلق ظلا = اور خدا ہی نے تمہارے لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے (۱۶: ۸۱)۔ اس ارشادِ مبارک سے معلوم ہوا کہ ہر مخلوق شیٔ کا سایہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ ہر روشن چیز کا بھی سایہ ہوتا ہے، جیسے سورج، چاند اور ستارے کا عکس صاف پانی اور آئینے میں نظر آتا ہے۔

 

۲۔ اگر ہم بجا طور پر سوچ نہیں سکتے ہیں تو یہ فرشِ زمین کے سائے ہیں، حالانکہ علم و معرفت کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عرشِ برین کے سائے ہیں، کیونکہ جن آیاتِ کریمہ میں اللہ کے عظیم احسانات کا تذکرہ ہو، اس کا تعلق صرف اہلِ ایمان سے ہوتا ہے، جیسے یہاں اس حقیقت کی دلیل “لکم” (تمہارے لئے) ہے، یعنی یہ وہ عظیم الشّان

۶۱

سائے ہیں جو صرف تمہارے لئے خاص ہیں، جیسے عالمِ شخصی میں ظلِّ عرش و کرسی، قلمِ اعلیٰ اور لوحِ محفوظ کا عکس، الغرض عالمِ عُلوی کی ہر عقلی اور روحانی چیز کا زندہ عکس، کیونکہ عالمِ بالا اور اس کی ہر شیٔ مخلوق ہے، اور مخلوقات کے درجہ بدرجہ سائے ہوا کرتے ہیں۔

 

۳۔ آدمی کا سایہ جب زمین پر پڑتا ہے تو وہ تاریک اور بے جان ہو جاتا ہے، لیکن جس وقت یہی سایہ قدِ آدم آئینے پر پڑتا ہے تو صاف روشن اور زندہ نظر آتا ہے، حالانکہ آئینۂ ظاہر بے جان اور بے عقل ہے، پھر بھی اس میں آدمی کا جو سایہ ہے وہ دراصل سایہ نہیں، بلکہ عکس اور کاپی (COPY) ہے، پس عالمِ شخصی میں جو آئینۂ باطن ہے جو عقل و جان کے اوصاف و کمالات سے آراستہ ہے، اس کا نورانی معجزہ بڑا عجیب وغریب ہے، اس میں تو عالمِ عُلوی کی چیزیں ہوبہو نظر آتی ہیں، اس کی ہر کاپی اصل ہی کی طرح ہوتی ہے، کیونکہ اس میں ہر چیز کا تجدّد ہوتا ہے۔

 

۴۔ اس بیان سے معلوم ہوا کہ عالمِ شخصی میں بہشت کی ہر نعمت کا سایہ = عکس = کاپی ہے، بلکہ بے شمار کاپیاں ہیں، مثال کے طور پر بازارِ جنّت میں جو تصویریں ہیں، اگر ان میں سے کسی تصویر کو لاکھوں آدمی چاہتے ہیں تو وہ سب کے سب صاحبِ تصویر کی باعقل و جان کاپیاں ہوجائیں گے، الحمد للہ رب العالمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

پیر ۱۱ محرم الحرام، ۱۴۱۸ھ، ۱۹ مئی ۱۹۹۷ء

۶۲

انتہائی عظیم راز

 

۱۔ علمی احباب کے لئے یہ ایک بڑا حیرت انگیز سوال ہو سکتا ہے کہ قرآنِ حکیم اور حدیثِ شریف کے ہر مقام پر اسرار ہی اسرار ہیں، ایسے میں کسی ایک راز کے بارے میں کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ یہی سب سے بڑا راز ہے یا انتہائی عظیم راز ہے؟ ہاں، حقیقتِ حال ایسی مشکل تو ہے، لیکن زمانۂ قیامت کے امامِ عالی مقام علیہ السلام جس راز کو آخری راز کے طور پر انکشاف کرے، وہی انتہائی عظیم راز ہے، اور وہ یک حقیقت (مونوریالٹی) ہے، تصورِ یک حقیقت ہی وہ سب سے آخری اور انتہائی عظیم راز ہے، جس کو عظیم الشّان امام حضرتِ مولانا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے تمام اہلِ جہان کے سامنے پیش کیا۔

 

۲۔ یک حقیقت کے معجزات حظیرۃ القدس میں رونما ہوتے ہیں، معجزے کچھ اس طرح سے ہیں: (الف) کائنات کو لپیٹنے اور پھیلانے کا مسلسل عمل (ب) بنی آدم کا بہشت (حظیرۃ القدس) میں داخل ہوتے ہی اپنے باپ آدم کی صورت پر ہو جانا، آدم کو خدا نے اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا تھا

۶۳

(ج) جس طرح سارے انسان ایک ہی آدم سے پیدا ہوکر پھیل گئے تھے، اسی طرح سب کا واپس مل کر ایک ہی آدم / نفسِ واحدہ ہو جانا (د) آفتابِ قیامت کا مغرب سے طلوع ہو جانا (ھ) سورج، چاند اور ستاروں کا مل کر ایک ہو جانا (و) عارف کا اپنے آپ کو خدا میں پانا (ز) تمام جنّوں، انسانوں اور فرشتوں کا فردِ واحد ہو جانا (ح) یہی انسانی شکل کا فردِ واحد عرش، کرسی، قلم اور لوح بھی ہے (ط) یہاں تمام مثالوں کی نمائندگی صرف ایک ہی مثال کرتی ہے (ی) اس مقام پر صرف ایک ہی قول / کلمہ اور ایک ہی فعل ہے۔

 

۳۔ یہاں نمائندہ درخت ایک ہی ہے جو انسانِ کامل کی شکل میں زندہ ہے، وہ کبھی تین ہے، کبھی زیتون، کبھی شجرۂ طیبہ، کبھی شجرِ طور، کبھی درختِ خرما، کبھی سدرۃ وغیرہ، یہاں بحروبر کے جملہ جواہر اور معدنیات کا نمائندہ گوہر ایک ہی ہے، یہی گوہر شمس و قمر اور انجم بھی ہے اور نور بھی، نور کس کا ہوتا ہے؟ اللہ تعالیٰ، انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اور مومنین و مومنات کا، پس یک حقیقت (مونوریالٹی) کی قابلِ فہم تعریف یہ ہے کہ نفسِ واحدہ کا نورانی ظہور جو حظیرۃ القدس میں ہے، اس کا ایک ہی نور، ایک ہی قول، ایک ہی فعل اور ایک ہی اشارہ (مثال) ہے، اور اسی کے ساتھ یہ سب کچھ ہے، اور کوئی حقیقت اس سے باہر نہیں، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

منگل ۱۲ محرم الحرام ۱۴۱۸ھ، ۲۰ مئی ۱۹۹۷ء

۶۴

زندہ شہید اور عارف

 

۱۔ یہ بات سچ اور حقیقت ہے کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں ظاہری شہیدوں کا ذکر آیا ہے، وہاں ساتھ ساتھ روحانی شہداء کا ذکر بھی موجود ہے، کیونکہ علمی بہشت کا ہر پھل دہرا ہوا کرتا ہے، یعنی اس کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہوتا ہے، اور کسی شک کے بغیر ہر آیۂ قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے۔

 

۲۔ سورۂ محمد کے اس ارشاد میں خوب غور سے دیکھ لیں: (ترجمہ) اور جو لوگ اللہ کی راہ (روحانی جہاد) میں مارے جائیں گے اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا، وہ ان کی رہنمائی فرمائے گا، ان کا حال درست کر دے گا، اور ان کو اس بہشت میں داخل کرے گا، جس سے ان کو شناسا کراچکا ہے (۴۷: ۴ تا ۶) اس ربّانی تعلیم میں زیادہ تر روحانی جنگ کے زندہ شہیدوں کا تذکرہ ہے، کیونکہ اعمال ضائع نہ ہونے کی یقین دہانی، رہنمائی کی ضرورت، اصلاحِ احوال اور بہشت کی پیشگی معرفت دنیا کی زندگی ہی میں ہو سکتی ہے۔

۶۵

۳۔ بہشت کی پیشگی معرفت ہو یا حضرتِ ربّ کی معرفت، وہ خود شناسی کے سوا محال ہے، خود شناسی یعنی معرفتِ ذات نفسانی موت اور تجربۂ قیامت کے بغیر ممکن ہی نہیں، پس بڑا مبارک ہے وہ مومنِ سالک جو جسمانی موت سے پہلے مرکر قیامت کا سر تا سر مشاہدہ کرتا ہے، چونکہ قیامت دینِ حق کی آخری دعوت اور روحانی جنگ ہے جو امامِ زمان علیہ السلام کے توسط سے ہوتی ہے (۱۷: ۷۱) لہٰذا اس جنگ میں جو شخص مر جاتا ہے، وہ زندہ شہید اور عارفِ کامل ہو جاتا ہے۔

 

۴۔ سورۂ آلِ عمران (۳: ۱۶۹) کی اس آیتِ کریمہ میں بھی سوچ لیں: (ترجمہ) جو لوگ اللہ کی راہ (روحانی جنگ) میں قتل ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے ربّ کے پاس رزق پا رہے ہیں۔ اس آیۂ مبارکہ کا زیادہ سے زیادہ تعلق روحانی شہداء سے ہے کیونکہ ظاہری شہید جسم سے تو مر جاتا ہے مگر روحانی شہید فی الحال جسم سے بھی نہیں مرتا، اور وہ اپنے ربّ کے پاس رزق یعنی روحانی علم پا رہا ہے، اس بیان سے معلوم ہوا کہ جو عارفِ کامل ہوتا ہے وہ زندہ شہید بھی ہوتا ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

ہفتہ ۱۶ محرم الحرام ۱۴۱۸ھ، ۲۴ مئی ۱۹۹۷ء

۶۶

کوئی نعمت ناممکن نہیں

 

۱۔ فرمایا گیا ہے: اݹ منسن اپݵ = کوئی چیز یا کوئی کام یا کوئی نعمت ناممکن نہیں۔ اس کلمہ کی اصل صورت یہ ہے: اݹ مناسن اپݵ ۔ اس کے دس حروف ہیں، جو دس حدود کی طرف اشارہ ہے، وہ یہ ہیں: مستجیب، ماذونِ اصغر، ماذونِ اکبر، داعیٔ مکفوف، داعیٔ مطلق، حجتِ جزیرہ، حجتِ مقرب، امام، اساس، ناطق، جیسا کہ ارشاد ہے: تلک عشرۃ کاملۃ (۲: ۱۹۶) یہ پورے دس ہوئے۔ یعنی عددِ کامل دس ہے۔

 

۲۔ اس پُرحکمت کلمے کا خاص تعلق بہشت سے ہے کہ اس میں ہر نعمت ممکن ہے اور کوئی چیز ناممکن نہیں، کیونکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان میں کسی نعمت کی خواہش تو پیدا کی جائے مگر وہ نعمت خود جنت میں موجود نہ ہو، ایسا ہونا محال ہے، بلکہ امرِ واقعی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں کسی طلب کو پیدا کرنے سے بہت پہلے ہی مطلوبہ شیٔ کو پیدا کیا ہے، پس مثال کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اہلِ ایمان کی ہر جائز خواہش بہشت کی کسی نعمت کا وہ پرتَو ہے جو ان کے دل و دماغ پر پڑتا ہے۔

۶۷

 

۳۔ اݹ منسن اپݵ (oo manasan api) = جو چیز غیرممکن ہے وہ نہ تو بہشت میں موجود ہے اور نہ ہی انسان کی خواہش میں آسکتی ہے، لیکن جو نعمت ممکن ہے وہ جنت میں بھی ہے اور مومنین کے علمی خیال میں بھی، اس صراحت سے معلوم ہوا کہ کلیۂ ہٰذا بڑا پرمغز اور حکمت آگین ہے۔

۴۔ اس مخاطبۂ روحانی میں وعدہ اور خوشخبری کا پہلو بھی ہے کہ بہشت میں اہلِ ایمان کے لئے سب کچھ ہے، جیسے سورۂ قمر کے آخر (۵۴: ۵۴ تا ۵۵) میں ہے: بے شک متقین باغوں اور نہروں میں ہوں گے، علم کی سچائی کی جگہ، صاحبِ قدرت بادشاہ کے پاس۔ عقلی اور روحانی بہشت کی چار نہریں یا چار دریا یہ ہیں: عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اساس، پس پرہیزگار لوگ ان دریاؤں میں مستغرق ہوں گے، یہ حقیقی علم کا مقام ہے، پھر وہ قدرت والے بادشاہ میں فنا ہوکر بڑے عجیب وغریب کام کر سکیں گے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

اتوار، ۱۷ محرم الحرام ۱۴۱۸ھ، ۲۵ مئی ۱۹۹۷ء

۶۸

علمِ شریف اور جسمِ لطیف

 

۱۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء و أئمّہ علیہم السلام کو تمام اہلِ جہان پر فضیلت دی ہے، ساتھ ہی ساتھ قرآنِ حکیم اور ارشاداتِ رسول سے یہ بھی ظاہر ہوجاتا ہے کہ خدا اور پیغمبر ہی امام کو دینی اور روحانی بادشاہ بناتے ہیں، آپ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۴۵ کے بعد امام طالوت کا پورا قصّہ غور و فکر سے پڑھیں، جیسا کہ ارشاد کا ترجمہ ہے: (اے رسول) کیا تم نے موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے سرداروں (حجّتوں اور داعیوں) کو نہیں دیکھا؟ جب انہوں نے اپنے نبی سے کہا: ہمارے لئے ایک (دینی اور روحانی ) بادشاہ مقرر کر دو (ابعث لنا ملکا)۔

 

۲۔ مذکورہ آیت کے لفظِ ابعث میں بہت بڑا راز ہے، وہ یہ ہے کہ اگرچہ امام کا ظہور اعلیٰ درجات میں بھی ہے ، لیکن اس کا ایک درجہ ایسا ہے کہ وہ نبی کے تحت ہوتا ہے، چنانچہ بنی اسرائیل کے حجّتوں اور داعیوں نے اپنے پیغمبر سے کہا: ابعث لنا ملکا = ہمارے لئے ایک (دینی اور روحانی ) بادشاہ مبعوث کر دو۔ یعنی ایسے

۶۹

بادشاہ کے پاس ذاتی قیامت، روحانیت، اور ابداع و انبعاث کا بھرپور تجربہ ہونا ضروری ہے۔

 

۳۔ (ترجمۂ آیت) اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ بے شک خدا نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ کے طور پر مبعوث کیا ہے، یہ سن کر وہ بولے: ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حقدار ہو گیا؟ اس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں، وہ تو کوئی بڑا مالدار آدمی نہیں ہے، نبی نے جواب دیا: اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے، اور اسے علم و جسم دونوں میں کشادگی زیادہ دی ہے۔ یعنی اس کو خدا نے علمِ شریف (روحانی علم) اور جسمِ لطیف عطا کیا ہے۔

 

۴۔ یہاں سے اس حقیقت کا ثبوت مل جاتا ہے کہ امامِ عالی مقام کے پاس کائناتی علم بھی ہے اور ہمہ گیر جسم بھی، ہمہ گیر جسم سے جسمِ کلّی مراد ہے، جو پوری کائنات کا جوہر ہے، یہی کائناتی جوہر دینی اور روحانی بادشاہ (امام) کا ہمہ گیر جسمِ لطیف ہے، کیونکہ جب عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) کے لئے دو جسم ہیں: ایک کثیف اور ایک لطیف، تو عالمِ کبیر کے لئے بھی یقیناً دو جسم ہیں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جسمِ لطیف کی وجہ سے انسان کائنات ہو جاتا ہے اور کائنات انسان ہو جاتی ہے، یہی سبب ہے کہ آدمی انسانِ صغیر کہلاتا ہے اور کائنات انسانِ کبیر۔

 

۵۔ ارشادِ نبوی ہے: یا بنی عبد المطلب، اطیعونی تکونوا ملوک الارض و حکامھا، ان اللہ لم یبعث نبیا الا جعل لہ وصیا و

۷۰

وزیرا و وارثا و اخا و ولیا = اے اولادِ عبد المطلب، میری فرمانبرداری کرو تا کہ تم سب روئے زمین کے سلاطین اور حکام ہو سکو، بے شک اللہ تعالیٰ نے جب بھی کوئی نبی مبعوث کیا اس کے لئے ایک وصی، وزیر، وارث، بھائی، اور ولی مقرر کیا ہے (دعائم الاسلام، جلدِ اوّل، ولایتِ امیر المومنین علیؑ)

 

۶۔ قرآن و حدیث دونوں جوامع الکلم ہیں، لہٰذا اس حدیث میں کئی عظیم حکمتیں پنہان ہیں، پہلی حکمت: ہر فردِ بشر اپنی ذات میں بحدِ قوت ایک بہت بڑا عالم ہے، جس کا آسمان و زمین بے حد کشادہ ہے، دوسری حکمت: ہر سیارہ اور ستارہ ایک جہان ہے، اور اس کا اپنا آسمان و زمین ہے، تیسری حکمت: عقلِ کلّی آسمان ہے اور نفسِ کلّی زمین، ہر آسمان اور زمین کی بے شمار کاپیاں ہیں، وہ اس طرح کہ اصل اور کاپی میں کوئی فرق نہیں، پس خدا کی خدائی میں بادشاہی کی بڑی گنجائش ہے، لہٰذا حضرتِ امام علیہ السلام کے بعد بے حساب لوگ بہشت کے بادشاہ ہو سکتے ہیں۔

 

۷۔ قرآن و حدیث کے ظاہر و باطن سے معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا و رسول نے مولا علی یعنی امام کو بادشاہ بنایا ہے، اور وہ اپنے تمام تابعدار روحانی بچوں کو بادشاہ بنا سکتا ہے، جبکہ دنیا کا کوئی بادشاہ اپنے جملہ شاہ زادوں اور شاہ زادیوں کو وارثِ تخت و تاج نہیں بنا سکتا، ہاں صرف ایک کو بنا سکتا ہے۔

 

۸۔ یہ تذکرہ بے حد ضروری ہے کہ عرفاء اپنی حیاتِ دنیوی ہی میں آخرت اور بہشت کی معرفت حاصل کرتے ہیں، جیسا کہ سورۂ محمد (۴۷: ۶)

۷۱

کے حوالے سے آپ نے پڑھا ہے، اور قرآنِ پاک کی یہی گواہی سورۂ دہر (۷۶: ۲۰) میں بھی ہے، وہ ارشاد یہ ہے: و اذا رایت ثم رایت نعیما و ملکا کبیرا = اور جب تم (دنیا میں) دیکھو گے تو پھر (آخرت میں کلّی طور پر) بہشت کی ہرگونہ نعمت اور عظیم الشّان سلطنت دیکھو گے۔

 

۹۔ سورۂ نمل (۲۷: ۳۴) میں حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام کی ایک پرحکمت مثال آئی ہے جو اس طرح سے ہے: (ترجمہ) بلقیس کہنے لگی: بادشاہوں کا قاعدہ ہے کہ جب کسی بستی میں (بزورِ فتح) داخل ہوتے ہیں تو اس کو اجاڑ دیتے ہیں اور وہاں کے معزز لوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور یہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے ۔ یعنی جب صاحبِ زمان کے لشکر (یاجوج و ماجوج) کسی عالمِ شخصی میں داخل ہوتے ہیں تو برائے تعمیرِ نو اس کو بگاڑ دیتے ہیں، اور مومنِ سالک پر بہت بڑی سختی گزرتی ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

بدھ ۲۰ محرم الحرام ۱۴۱۸ھ، ۲۸ مئی ۱۹۹۷ء

۷۲

نامۂ اعمال = نورانی موویز

 

۱۔ سوال: آیا نامۂ اعمال کسی ظاہری تحریر میں ہوتا ہے یا روحانی تحریر میں؟ وہ کس زبان میں ہے؟ جواب: کتابِ اعمال روحانی تحریر میں ہوتی ہے، ہم اس کو روحانی سائنس کی زبان میں نورانی موویز (MOVIES) بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ وہ بڑی عجیب و غریب معجزاتی کتاب ہے، جو زندہ ذرّات، متحرک تجلّیات اور بہشت آسا ماحول و مناظر کی زندہ تصاویر کے ساتھ ہے، نامۂ اعمال ہر شخص کی اپنی زبان میں ہوتا ہے۔

 

۲۔ کیا کوئی انسان جسمانی طور پر مرنے سے قبل اپنے نامۂ اعمال کو دیکھ سکتا ہے؟ اگر دیکھ سکتا ہے تو اس کا طریقِ کار کیا ہے؟ اور یہ کام کس علم کے تحت ہے؟ جواب: جی ہاں، جو آدمی جیتے جی روحانی قیامت سے گزرتا ہے وہ ضرور نامۂ اعمال کو دیکھتا ہے، طریقِ کار کے لئے کتاب ’’ذکرِ الٰہی‘‘ کو دیکھ لیں اور یہ کام علم الآخرت (معرفت) کے تحت ہے، اس حقیقت کی چند دلیلیں درجِ ذیل ہیں:

 

۳۔ پہلی دلیل: (۴۷: ۴) جو لوگ راہِ خدا (روحانی جنگ) میں قتل

۷۳

کئے جاتے ہیں (وہ زندہ شہید کہلاتے ہیں)۔۔۔ یعنی وہ حظیرۃ القدس کی بہشت کے عارف ہوتے ہیں (۴۷: ۶) یہ عظیم مرتبہ نامۂ اعمال کو علیین (۸۳: ۱۸) میں دیکھنے کے بعد حاصل ہو جاتا ہے، لہٰذا یہ کہنا حقیقت ہے کہ ہر عارف نامۂ اعمال کو دیکھتا ہے۔

 

۴۔ دوسری دلیل: سورہ تطفیف (۸۳: ۱۸) میں فرمایا گیا ہے کہ نیک لوگوں کا نامۂ اعمال علیین میں ہے، جس کو مقربین پیشگی طور پر دیکھ سکتے ہیں (۸۳: ۲۱)۔

 

۵۔ تیسری دلیل: سورۂ نمل کے اس ارشاد کو گہرائی سے دیکھ لیں: (ترجمہ) بلکہ آخرت کے بارے میں ان کے علم کا خاتمہ ہو گیا ہے، بلکہ اس کی طرف سے شک میں پڑے ہیں، بلکہ یہ لوگ اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں (۲۷: ۶۶) اس پرمغز ارشاد کا خلاصۂ بیان یہ ہے کہ یہ لوگ اگر نورانی ہدایت کی پیروی کرتے تو ان میں چشمِ بصیرت پیدا ہوتی، اور یہ آخرت سے متعلق سب کچھ دیکھ چکے ہوتے، اور آخرت کے اندھے نہیں کہلاتے۔

 

۶۔ چوتھی دلیل: آپ نے غور کیا ہو گا کہ جو آدمی شروع ہی سے سن نہیں سکتا وہ بول بھی نہیں سکتا ہے، اور جو بول نہیں سکتا ہو، اس میں عقل جیسی عظیم نعمت پیدا نہیں ہوسکتی ہے، اسی طرح جو شخص علم الیقین کی باتوں کو سننے سے گریز کرے، وہ اس علم میں گفتگو نہیں کر سکتا، اور جو اس علم میں گونگا ہو، اس میں چشمِ بصیرت پیدا نہیں ہوتی ہے، جیسا کہ

۷۴

ارشاد ہے: صم بکم عمی فھم لا یرجعون (۲: ۱۸)۔ بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں پس یہ رجوع نہ ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ حقیقی معنوں میں فرمانبردار ہیں، وہ چشمِ بصیرت رکھتے ہیں۔

 

۷۔ سائنسی عجائب وغرائب یقیناً آیاتِ قدرت میں سے ہیں، ان کی روشن مثالوں سے اسرارِ روحانیت کے سمجھنے میں بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے، بلکہ یہ دورِ قیامت اور زمانۂ تاویل کی علامات ہیں، پس نامۂ اعمال جو کتابِ ناطق ہے، اس کو نورانی موویز کہنا ایک روشن حقیقت ہے، اور کوئی شخص اس کی تردید نہیں کرسکتا۔

 

۸۔ اے عزیزانِ من! بھرپور توجہ اور محویت سے سن لو کہ عارفین و کاملین کی ذاتی قیامت قرآنی تاویل کا سب سے بڑا خزانہ ہے، اور اگر یہ  مانا جائے کہ اصل قیامت تو روحانی طور پر آتی ہے، مگر اس کا ایک مادّی نتیجہ بھی ہوتا ہے، جیسے اس دور میں سائنسی انقلاب ہے، تو مجھے یقین نہیں کہ سب لوگ قیامت کے ظاہری پہلو سے تاویلی فائدہ اٹھا سکیں گے، جبکہ لوگوں کی بہت بڑی اکثریت بہت پہلے ہی تاویل کو بھول چکی ہے۔

 

۹۔ سورۂ اعراف (۷: ۵۲ تا ۵۳) میں کافی دقتِ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے، چنانچہ اس ارشادِ مبارک کے مختصر مفہوم کے مطابق پہلی آیت میں قرآنِ پاک کی تعریف ہے، اور دوسری آیت میں یہ واضح اشارہ موجود ہے کہ بہت بڑی قیامت قرآنی تاویل کی صورت میں آنے والی

۷۵

ہے، اس کے سوا یہ لوگ کس چیز کے آنے کے منتظر ہیں؟

 

۱۰۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۱) میں قیامت کا یہ اساسی قانون مذکور ہے: یوم ندعوا کل اناس بامامھم = جس دن ہم اہلِ زمانہ کو ان کے پیشوا کے توسط سے بلائیں گے۔ (پوری آیت کے لئے قرآن میں دیکھ لیں) اس کے بعد ارشاد ہے: و من کان فی ہٰذہ اعمیٰ فھو فی الاٰخرۃ اعمیٰ و اضل سبیلا = اور جو شخص دنیا میں اندھا رہے گا سو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا، اور زیادہ راہ گم کردہ ہو گا (۱۷: ۷۲) ۔ اس کی چند حکمتیں یہ ہیں: (الف) ہر ناطق کے دور میں جتنے أئمّہ ہوئے ہیں، اتنی قیامات برپا ہو چکی ہیں، مگر آنحضرتؐ کے دور کے آخر میں قیامۃ القیامات آنے والی ہے (ب) امام ہر زمانے میں ہوتا ہے (ج) چشمِ بصیرت اور معرفت دنیا ہی سے لے کر جانا بے حد ضروری ہے، ورنہ آخرت میں محرومی ہو گی (د) یہاں پہلی آیت (۱۷: ۷۱) میں حضرتِ امامؑ کا ذکر ہے، اور دوسری آیت (۱۷: ۷۲) میں اسی صاحبِ قیامت کی پہچان کے لئے سخت تاکید آئی ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

جمعرات ۲۱ محرم الحرام ۱۴۱۸ھ، ۲۹ مئی ۱۹۹۷ء

۷۶

عقل اور عشق کی بحث

 

۱۔ یہ بحث و سوال بہت پہلے سے جاری ہے کہ عقل برتر ہے یا عشق؟ اگر عقل کو عشق پر فوقیت و برتری حاصل ہے تو اس کی کیا دلیل ہے؟ اور اگر اس کے برعکس عشق عقل سے افضل و اعلیٰ ہے تو اس کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے؟ اس کے بارے میں بعض حضراتِ علماء نے عقل کی اوّلیت پر زور دیا، اور فرمایا کہ قرآن اور حدیث دونوں میں کہیں لفظِ “عشق” نہیں آیا ہے، انہوں نے شاید خیال کیا کہ عشق محبت سے الگ شیٔ ہے۔

 

۲۔ اس باب میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ لفظِ عشق قرآنِ حکیم میں کسی بھی صورت میں موجود ہے یا نہیں؟ اس کے لئے بطریقِ حکمت دیکھنا ہو گا، تاہم عشق کو محبت سے الگ کرنا بڑی مشکل بات ہے، بلکہ ناممکن ہے، کیونکہ محبت ہی عشق کا دوسرا نام ہے، آپ المنجد میں دیکھ لیں، جو مستند لغات ہے: عشقہ عشقا ۔۔۔ محبت کرنا، محبت میں حد سے بڑھ جانا، پس یہ سچ ہے کہ قرآنِ عزیز میں عشق کا ایک ہم معنی لفظ حب

۷۷

(محبۃ) ہے، جیسے قرآنی ارشاد ہے: والذین اٰمنوا اشد حبا للہ (۲: ۱۶۵) اور جو مومن ہیں ان کو (صرف) اللہ کے ساتھ بہت سخت محبت (عشق) ہے۔

 

۳۔ یہ تاریخی واقعہ سب کو معلوم ہے کہ حضرتِ یوسف علیہ السلام کے حسن و جمالِ ظاہری و باطنی سے زلیخا کو بدرجۂ انتہا عشق ہوا تھا، جس کو قرآنِ حکیم نے حب (حبا ، ۱۲: ۳۰) کہا ہے پس ظاہر ہے کہ عشق کا دوسرا نام حب (محبت) ہے، جیسے ایک مستند ترجمہ ہے: اس غلام کا عشق اس کے دل میں جگہ کر گیا ہے (۱۲: ۳۰)۔

 

۴۔ کوئی تم میں سے اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا، جب تک اپنے باپ، بیٹے اور سب لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ رکھے (حدیث) یہی تو عشقِ رسول ہے جو دنیا کی ہر محبت اور ہر عشق سے افضل و اعلیٰ اور انتہائی پاک ہے، اور یہی عشق یقیناً عشقِ الٰہی کا وسیلہ بھی ہے یا بالواسطہ خداوند تعالیٰ کا عشق ہے۔

 

۵۔ آیۂ مبارکہ کی تفسیر میں کیا شک ہوسکتا ہے کہ قرآنِ کریم ایک ایسی کامل و مکمل اور بے مثال کتاب ہے کہ اس کے کلّی بیان سے کوئی چیز باہر نہیں (۱۶: ۸۹) پس یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ ’’عشق‘‘ جیسا ہمہ گیر مضمون قرآنِ حکیم میں موجود نہ ہو، یقیناً کئی مترادفات، اشارات، اور امثال میں خدا، رسول، اور امام کے پاک عشق کا تذکرہ پوشیدہ ہے، کیونکہ عشق ہی سرِ اسرار ہے، لہٰذا اس کا ذکرِ جمیل اکثر بطریقِ راز فرمایا گیا ہے، چنانچہ قرآنِ عظیم میں جہاں جہاں خمرِ بہشت کا تذکرہ آیا ہے، وہاں اسی آسمانی عشق

۷۸

کی مثال ہے، اسی وجہ سے عشاق کہتے ہیں کہ یقیناً عشقِ سماوی شرابِ جنت ہے۔

۶۔ آسمانی عشق و محبت کے تقدّس کی یہ شان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اسمِ اکبر اور عشقِ اقدس کو ایک دوسرے کے بالکل قریب لا کر دونوں کی عظمت کی قسم کھائی ہے، سورۂ شوریٰ کے آغاز میں دیکھئے: حٰمٓ (۱) عٓسٓقٓ (۲) ان حروفِ مقطعات کی ایک تاویل اس طرح ہے: ح م = الحی القیوم۔ ع س ق = عشق۔ یعنی اسمِ اعظم الحیّ القیوم کی قسم ہے (اور) عشقِ سماوی کی قسم ہے (۴۲: ۱ تا ۲)۔

 

۷۔ حدیثِ شریف ہے: اوّل ما خلق اللہ العقل = اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا۔ لیکن بہت سے لوگ یہ نہیں سوچتے کہ عقل کی تخلیق و تکمیل کا یہ عظیم الشّان کام کہاں ہوا؟ خدا کے کسی محبوب کے عالمِ شخصی میں؟ جی ہاں، یہی درست اور حقیقت ہے، آپ اس حدیثِ شریف میں بھی غور سے دیکھیں:

لما خلق اللہ العقل استنطقہ ثم قال لہ: اقبل فاقبل، ثم قال لہ: ادبر فادبر، ثم قال: و عزتی و جلالی ما خلقت خلقا ھو احب الی منک و لا اکملتک الا فی من احب، اما انی ایاک اٰمر و ایاک انہیٰ و ایاک اعاقب و ایاک اثیب۔

ترجمہ: جب اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا تو وہ بحکمِ خدا بولنے لگی، پھر خدا نے اسے فرمایا: آگے آ، تو وہ آگے آئی، پھر اسے فرمایا: پیچھے جا،

۷۹

تو وہ پیچھے گئی، پھر ارشاد ہوا: میری عزت و جلالت کی قسم! کہ میں نے کوئی ایسی خلق پیدا نہیں کیا ہے، جو تیرے مقابلے میں مجھ کو زیادہ محبوب ہو، اور بات یہ ہے کہ میں نے تجھ کو صرف ایسے شخص میں کامل و مکمل کر دیا ہے، جس سے میں محبت کرتا ہوں، ہاں میرے امر و نہی کا خطاب ہمیشہ تجھ ہی سے ہوتا رہے گا، اور عذاب و ثواب کا تعلق بھی تجھ ہی سے ہو گا۔

 

۸۔ مذکورۂ بالا حدیث میں عالمِ شخصی ہی کا قصہ ہے کہ انسانِ کامل سب سے پہلے جسمانی طور پر پیدا ہو جاتا ہے، پھر اس کی روحانی پیدائش ہوتی ہے، پھر محبوبِ خدا ہونے کی وجہ سے اس کی جبین (پیشانی) میں نورِعقل پیدا ہوتا ہے، پھر یہ نور رفتہ رفتہ مکمل ہوتا ہے، پھر خاص عقلی زندگی شروع ہوتی ہے، جس کی بنا پر فرمایا گیا کہ: خدا نے سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا۔

 

۹۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ عشق و محبت علت ہے اور عقل معلول، یہ ایک درخت ہے اور وہ (عقل) اس کا میوۂ شیرین، یہ گویا حضرتِ مریمؑ ہے اور وہ حضرتِ عیسیٰؑ ، عشق بحرِعمیق ہے اور عقل درِّ گرانمایہ، یہ کانِ گوہر ہے اور وہ گوہرِکان، یہ آسمانِ حکمت ہے اور وہ خورشیدِ انور، یہ کارخانۂ عشق ہے اور وہ اس کی پیداوار۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

سوموار، ۲۵ محرم الحرام ۱۴۱۸ھ، ۲ جون ۱۹۹۷ء

۸۰

اپنی روح کی کاپیوں سے سوالات

 

۱۔ سوال: آپ سب کو حضرتِ امامِ عالی مقام علیہ السلام کے دیدارِ مقدّس کی اوّلین سعادت کب اور کس شہر میں نصیب ہوئی؟ کیا اُس بے مثال موقع پر کسی عظیم معجزے کا ظہور ہوا تھا یا صرف دیدارِ پاک کی شرف یابی ہوئی تھی؟

 

۲۔ سوال: یہ کون سا بیحد پسندیدہ حسن آباد تھا؟ جہاں جماعت کے ایک بڑے گروپ کے ساتھ ہم عاجزان مولائے پاک سے شب خیزی اور خصوصی عبادت کی نورانی ہدایت حاصل کر رہے تھے؟

 

۳۔ سوال: وہ کون سا مقام یا کون سا جماعت خانہ تھا جس میں بارِ اوّل روحانی روشنی کا مشاہدہ ہوا؟ نیز یہ بتائیں کہ یہ کس سال کا واقعہ ہے؟

 

۴۔ سوال: سریقول کا نورانی اور معجزانہ خواب کتنا حسین، دلنشین اور نا قابلِ فراموش ہے! آپ علم الیقین کی روشنی میں سچ سچ بتائیں کہ وہ قربانی کس کی تھی؟ کون ذبح ہوا تھا؟ کس کے لئے؟ کس کی طرف سے؟ جسم کہاں تھا اور سر کہاں؟ اس حال میں انائے عُلوی کہاں سے یہ منظر

۸۱

دیکھ رہی تھی؟ کیا یہ شہادت تھی یا ذبح و قربانی؟ کیا آپ تھے یا میں؟ یا ہم سب؟ خوب سوچ کر جواب دینا ہے۔

 

۵۔ سوال: اگرچہ یہ ایک نورانی خواب تھا، لیکن قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھنا ہو گا کہ بعض رویا (خواب) روحانیت ہی کی طرح ہوا کرتے ہیں، پس عجب نہیں کہ اس قربانی میں بہت سی حکمتیں پنہان ہوں، اس کا بیان الگ ہونا چاہئے، تا کہ اہلِ دانش پر حقیقت روشن ہو جائے۔

 

۶۔ سوال: ہم نے کہا تھا یا میری روح کی کاپیوں نے کہا تھا یا یہ تمام مومنین و مومنات کا جذبۂ جان نثاری تھا: قربان امنݽ اُنے گنے صد بار ایم جار = تیرے لئے قربان ہو جانا مجھے بیحد شیرین ہے۔ الحمد للہ، یہ پرحکمت قربانی عمل میں آئی، اور یہ بے حد شیرین اس معنیٰ میں ہے کہ بکرے کی قربانی اہلِ خانہ کی طرف سے ہوتی ہے، خدا کی قسم یہ قربانی بہت سے لوگوں کی طرف سے ہوئی، لیکن اس میں میری کاپیاں بھی قربان ہو چکی ہیں۔

 

۷۔ سوال: یہ نعمت انتہائی شیرین ہے، اس لئے میں بار بار اس کا ذکرِ جمیل کرتا رہتا ہوں، قصّہ روحانی سفر اور منزلِ عزرائیلی کا ہے، لیکن کیا ابدان کی طرح ارواح بھی الگ الگ اور دور دور رہتی ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں، حدیثِ شریف میں ہے کہ روحیں ہمیشہ لشکر کی طرح یکجا اور جمع ہوتی ہیں= الارواح جنود مجندۃ ۔ خصوصاً روحانی جنگ میں حصہ لینا اور ذاتی قیامت گاہ میں حاضر ہو جانا اس لشکر کا کام ہے، اور

۸۲

جو لوگ علمی سولجرز ہیں، ان کی عظیم روحیں کیونکر روحانی جنگ سے گریز کر سکتی ہیں۔

 

۸۔ سوال: کیا آپ نے منزلِ عزرائیلی کا روحانی قصہ نہیں سنا ہے؟ کیا اس منزل میں سب روحیں جمع نہیں ہوتی ہیں؟ مجھے کامل یقین ہے کہ وہاں آپ سب موجود تھے، اور شاید یہ علمی دوستی وہاں سے شروع ہوئی، آپ سب سے پہلے ذرّاتِ لطیف کی شکل میں آئے تھے، آپ نے عالمِ شخصی کے بے شمار عجائب و غرائب کو دیکھا ہے۔

 

۹۔ سوال: کیا آپ نے کبھی عشق و محبت سے کہا: مولانا حاضر امام روحی فداہ (میری روح اس سے فدا ہو!) کیا آپ سچ مچ اپنی پیاری روح حضرتِ امام علیہ السلام سے قربان کر دینا چاہتے ہیں؟ یا یہ ایک مہمل بات ہے؟ اگر یوں کہنا مومن کی خوبیوں میں سے ہے تو وہ عملاً کہیں قربان بھی ہوتا ہوگا۔

 

۱۰۔ سوال: کیا یہ میرا نعرۂ پرجوش کھوکھلا ہے یا پرمغز؟ جو کہتا رہتا ہوں کہ: مولا ڎم جا جی فدا! (مولا سے میری جان فدا ہو!) جماعت ڎم فدا! عزیزان ڎم فدا! نہیں کھوکھلا ہرگز نہیں، آپ تو ہر طرح سے قربان ہو چکے ہیں، اور بہت سے عزیزان علم الیقین کی روشنی میں اس امرِ واقعی کو سمجھتے بھی ہیں۔

 

۱۱۔ سوال: کیا دینِ اسلام کے زرّین اصولوں میں سے ایک اصول یہ نہیں ہے کہ دوسروں کی آسائش کی خاطر قربانی دی جاتی ہے؟ جی بلم قربان ایتم ھل دݳ کے جݶ مݣ بٹ منݽ ۔ گنڎ کے ہن قربان

۸۳

ایچم ڎہ جا ݽݽائیے کان دیا۔ یہ شعر شروع شروع کا ہے، بعد میں انکشاف ہوا کہ ایک شخص کے پاس لاتعداد جانیں ہو سکتی ہیں، چنانچہ میں نے اپنی جانوں کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سی جانیں راہِ جانان میں قربان کر دیں، جو میری قیامت گاہ میں آئی تھیں۔

 

۱۲۔ سوال: اے عزیزانِ من! کیا ہم حقیقت میں ایک نہیں ہیں؟ کیا ہم ایک ہی علمی اور روحانی لشکر نہیں ہیں؟ کیا ہم منزلِ عزرائیلی میں سب ایک ساتھ نہیں مررہے تھے؟ اور ایک ساتھ زندہ نہیں ہوئے تھے؟ آیا ہم سب آدمِ زمانؑ کے ذرّاتی فرشتے نہیں تھے؟ کیا ہمارے آپس میں شدید اور بے مثال محبت نہیں ہے؟ ایسی محبت کس حقیقت کی علامت ہے؟ وحدت اور یک حقیقت کی، الحمد للہ ، ہم سب کا نامۂ اعمال ایک ہوچکا ہے، سو یہ کتنی بڑی خوشی کی بات ہے!

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

منگل ۲۶ محرم الحرام ۱۴۱۸ھ، ۳ جون ۱۹۹۷ء

۸۴

امتحان ہی امتحان

 

۱۔ سورۂ ملک کی دوسری آیت (۶۷: ۲) میں دیکھ لیں تاکہ یہاں یہ عجیب راز معلوم ہوجائے کہ خدا تعالیٰ نے حیات سے پہلے موت کو پیدا کیا، اور اس کے بعد حیات کو پیدا کیا ہے، حالانکہ بظاہر پیدائش پہلے ہے اور موت بعد میں آتی ہے، لیکن ہم یقین کرتے ہیں کہ اس ترتیب میں کوئی بہت بڑی حکمت پنہان ہے، اور وہ یہ ہے کہ اگرچہ حیوان کے مقابلے میں ایک عام انسان بہتر زندگی رکھتا ہے، کیونکہ اس میں عقلِ جزوی اور اختیار موجود ہے، لیکن روحانی اور حقیقی زندگی کے پیشِ نظر آدمی کی یہ عامیانہ زندگی موت کی طرح ہے، پس یہ حکمت ظاہر ہوئی کہ موت و حیات (عام زندگی اور خاص زندگی) دونوں امتحان کی غرض سے ہیں، آپ آیۂ محولہ کو قرآن (۶۷: ۲) میں پڑھیں۔

 

۲۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خداوند تعالیٰ تو ہمیشہ عالم الغیب ہے، وہ اپنے بندوں کے دلوں کی حالت و کیفیت کو دیکھتا ہے اور جانتا ہے، پھر کیوں ان سے امتحان لیتا ہے؟ نیز یہ پوچھنا ضروری ہے کہ بندے کو

۸۵

حضرتِ ربّ العزت کس مقام پر آزماتا ہے اور کس طرح؟

 

۳۔ بہشت میں چھوٹے بڑے لاتعداد درجات ہیں، لہٰذا امتحان ضروری ہوا تا کہ ہر شخص کو اس کے علم و عمل کے مطابق کوئی درجہ دیا جائے، انسان کی پوری زندگی شروع سے لے کر آخر تک آزمائش کا میدان ہے، جس میں کامل اطاعت و فرمانبرداری بے حد ضروری ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ نیّت، قول، علم ، اور عمل کی ہر چیز اللہ کی خوشنودی کے مطابق ہو تا کہ کامیابی نصیب ہو جائے۔

 

۴۔ جس طرح دنیا کی تعلیم درجہ بدرجہ بلند سے بلند تر ہوتی ہے، یعنی اس کے بہت سے درجات ہیں، اسی طرح دینی تعلیم کے بھی بہت سے درجات ہیں، چنانچہ قرآنِ حکیم میں آسان سے آسان ہدایات بھی ہیں، اور مشکل سے مشکل مقامات بھی، تاکہ اس طرح سے بہت سے مدارج ترتیب پائیں، اور ہر عالم اپنی علمیت کے مطابق درجہ حاصل کرے، جیسا کہ ارشاد ہے: ھم درجات عند اللہ (۳: ۱۶۳) یہ لوگ خدا کے نزدیک مختلف درجوں میں ہیں۔ یعنی کوئی درجہ جتنا بلند ہو، اس کے علم وعمل کا امتحان اتنا مشکل ہوتا ہے۔

 

۵۔ بڑے بڑے امتحانات سے متعلق اندازہ کرنے کے لئے اس زبردست حکمت والی آیت کو دیکھیں: و ھو الذی خلق السماوات و الارض فی ستۃ ایام و کان عرشہ علی الماء لیبلوکم ایکم احسن عملا ۔۔۔ (۱۱: ۷) اس کا ترجمہ عالمِ شخصی کے مطابق اس طرح ہے:

۸۶

وہ (خدا) ایسا ہے کہ اس نے (عالمِ صغیرکے ) آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا تب اس کا عرش (تخت) پانی پر ظاہر ہوا تا کہ تم کو آزمائے کہ تم میں اچھا عمل کرنے والا کون ہے۔ عالمِ شخصی کے چھ دن سے چھ ناطق مراد ہیں، اور ساتواں دن (سنیچر) حضرتِ قائم ہے۔

 

۶۔ یہ بہت بڑی آزمائش ہے، بلکہ بہت سے امتحانات ہیں کہ قرآنِ حکیم کے اکثر مضامین عالمِ شخصی کے بارے میں ہیں، یعنی آسمان، زمین، عرش، کرسی، قلم، لوح وغیرہ سب کچھ عالمِ شخصی میں محدود اور موجود ہے، بشرطیکہ اس پر نورِمعرفت کی روشنی پڑ رہی ہو، یعنی جب نورِ امامِ مبین کا عکس پڑ رہا ہو۔

 

۷۔ قرآنِ حکیم کی ایک بہت بڑی حکمت لفظِ احسن میں ہے، جس کے معنی ہیں: بہت اچھا=بہتر، آپ قرآنِ عزیز کے ۳۶ مقامات پر اس نعمتِ عظمیٰ سے لطف و لذّت حاصل کریں، الغرض اللہ تعالیٰ ہر چیز میں آزما کر یہ چاہتا ہے کہ اس کا بندہ نیّت، قول، علم، اور عمل میں حسین نہیں بلکہ احسن ہوجائے، کیونکہ خدا کے پاس بہت سے درجات ہیں، اور عظیم مرتبے بھی ہیں۔

 

۸۔ ہر امتحان وابتلا میں صبر و ثبات اور کامیابی کے لئے گریہ و زاری اور مناجات کرتے رہیں، عبادت، بندگی، کثرتِ ذکر، کثرتِ سجود، خیر خواہی ، نیکی، خدمت، عاجزی، اور نرم دلی سے فائدہ اٹھائیں، اور علم الیقین کی لازوال دولت سے مالامال ہوجائیں، کیونکہ علم ہی ہے جس سے ہر

۸۷

آزمائش آسان ہو سکتی ہے۔

 

۹۔ اگر خدا چاہے تو ہر مشکل آزمائش میں اہلِ ایمان کی مدد کرسکتا ہے، جیسا کہ سورۂ مجادلہ (۵۸: ۲۲) میں ہے: ایسے لوگوں کے دل میں خدا نے ایمان لکھ دیا ہے اور اپنی ایک خاص روح سے ان کی مدد فرمائی ہے۔

 

نصیر الدین نصیرّ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقارآباد، گلگت

جمعرات ، ۲۸ محرم الحرام ۱۴۱۸ ھ، ۵ جون ۱۹۹۷ء

۸۸

دعوتِ ظاہر اور دعوتِ باطن

 

۱۔ قرآنِ حکیم اور دینِ اسلام میں طاق کے بعد جفت کی بہت بڑی اہمیت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمام چیزوں کو جفت جفت یا دو دو یا اضداد کے قانون پر پیدا کیا ہے، آپ قرآنِ عزیز کے ان مقامات پر دیکھ سکتے ہیں: سورۂ ہود (۱۱: ۴۰) سورۂ رعد (۱۳: ۳) سورۂ مومنون (۲۳: ۲۷) سورہ یاسین (۳۶: ۳۶) سورۂ ذاریات (۵۱: ۴۹) اور سورۂ رحمان (۵۵: ۵۲) ، تا کہ آپ کو خدائے علیم و حکیم کی یہ عظیم حکمت معلوم ہوجائے کہ خدائے واحد طاقِ محض ہے، اور اس کی بنائی ہوئی چیزیں (مخلوقات) جفت جفت ہیں۔

 

۲۔ جیسا کہ سورۂ ذاریات میں ہے: و من کل شیء خلقنا زوجین لعلکم تذکرون = اور ہر چیز کی ہم نے دو قسمیں بنائیں تا کہ تم نصیحت پکڑو (۵۱: ۴۹) زوجین کی مثالیں یہ ہیں: (الف) شوہر اور بیوی (ب) نر اور مادہ (ج) اضداد: دنیا و آخرت، آسمان و زمین ، خیر و شر، ہستی اور نیستی، دوزخ و بہشت، مکان و لامکان، روشنی اور تاریکی، جسم و جان، علم و

جہل، دوری اور نزدیکی، ممکن اور محال، ظلم و عدل، وغیرہ۔

۸۹

۳۔ اسی طرح قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، یعنی اس کی ایک تنزیل ہے اور ایک تاویل، چنانچہ صاحبِ تنزیل رسولِ اکرمؐ ہیں اور صاحبانِ تاویل آپؐ کے جانشین ، یعنی أئمّۂ طاہرین ہیں، پس دعوتِ اسلام دو قسم کی ہے، ایک دعوتِ ظاہر ہے اور دوسری دعوتِ باطن، کیونکہ ہر رسول کا ایک وصی ہوا کرتا ہے جو وزیر کہلاتا ہے (۲۵: ۳۵) وہ دینِ حق کی باطنی اور تاویلی دعوت کرتا رہتا ہے۔

 

۴۔ ہر وہ آیۂ کریمہ اور حدیثِ نبوی جو مولاعلیؑ کی شان میں ہے، وہ دعوتِ باطن کی غرض سے ہے، ایسی آیات و احادیث بہت ہیں، تاکہ تاویلی دعوت کی اصل و اساس مستحکم ہو، کیونکہ اسی دعوتِ باطن سے ہر بار اسلام ادیانِ عالم پر غالب آتا ہے، چنانچہ وہ آیۂ شریفہ جو تمام ادیان پر دینِ حق کے غالب آنے سے متعلق ہے تین مقامات پر دہرائی گئی ہے: سورۂ توبہ (۹: ۳۳) سورہ فتح (۴۸: ۲۸) اور سورۂ صف (۶۱: ۹) پس ہر امام کے زمانے میں ایک روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے جو روحانی جنگ بھی ہے، اور دینِ حق کی آخری دعوت بھی، جس کے نتیجے میں اسلام دوسرے تمام ادیان پر غالب

آتا ہے، مگر لوگ اس عظیم معجزے کو دیکھ نہیں سکتے ہیں۔

 

۵۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۱) میں ارشاد ہے: یوم ندعوا کل اناس بامامھم = جس دین ہم زمانے کے لوگوں کو ان کے امام کے توسط سے بلائیں گے۔ یہاں لفظِ اناس (اہلِ زمانہ) سے معلوم ہوا کہ جس طرح امامت ایک سلسلہ ہے، اسی طرح قیامت بھی ایک سلسلہ

۹۰

ہے، جبکہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔

 

۶۔ آپ دین کا یہ قانون بھول نہ جائیں کہ عظیم چیزیں دو دو ہوا کرتی ہیں، جیسے قلم و لوح، عرش و کرسی، عقلِ کلّ و نفسِ کلّ، ناطق واساس، امام و باب، حجّت و داعی وغیرہ، دوسری مثال میں ناطق اور وصی (وزیر = امام) جیسے سورج اور چاند، کہ شمس و قمر کی تین تاویلیں ہیں: ناطق و اساس، اساس و امام، امام و باب۔

 

۷۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ قیامت دینِ اسلام کی آخری دعوت ہے، کیونکہ خدا نے فرمایا: ندعوا (ہم دعوت کریں گے = ہم بلائیں گے)، پس اللہ کا بلانا دینی دعوت کے سوا نہیں، لیکن یہ لوگوں کے لئے زبردستی کی دعوت ہے، جیسے سورۂ آلِ عمران میں ارشاد ہے: و لہ اسلم من فی السماوات و الارض طوعا و کرھا و والیہ یرجعون = حال آنکہ سب اہلِ آسمان و زمین خوشی یا زبردستی سے خدا کے فرمانبردار ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں (۳: ۸۳) پس یہاں کرھاً (زبردستی) سے باطنی قیامت مراد ہے، جو روحانی جنگ اور دینِ حق کی آخری دعوت ہے۔

 

۸۔ سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۰۸) میں ہے: یومئذ یتبعون الداعی لا عوج لہ = اس روز تمام لوگ ایک ایسے داعی کی دعوت کو قبول کریں گے جو سب زبانوں کو جانتا ہے۔ الداعی (دعوت کرنے والا، بلانے والا) حضرتِ امام علیہ السلام ہے کہ اسی کے توسط

۹۱

سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو بلاتا ہے (۱۷: ۷۱) اور امامِ عالی مقام ہی ہے جو جملہ خلائق کی زبانوں کو جانتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قیامت اور روحانیت کا خطاب ہر زبان میں ممکن ہے، الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

اسلام آباد

جمعرات ۶ صفر ۱۴۱۸ھ ، ۱۲ جون ۱۹۹۷ء

۹۲

چند اعلیٰ حکمتیں

 

حکمتِ اوّل: سورۂ جنّ کی آخری دو آیتوں (۷۲: ۲۷ تا ۲۸) کو اصولِ حکمت کے مطابق پڑھ لیں، اس ربّانی تعلیم کے آخر میں یہ اشارہ ہے کہ پیغمبروں کو خدا نے جو خزانۂ علم و معرفت عطا کیا تھا، وہ ہمیشہ عالمِ شخصی اور حظیرۃ القدس میں محفوظ ہے، اور کل چیزیں آخراً پہلے کی طرح ایک بنائی جاتی ہیں، یعنی سارے انسانوں کی وحدت و سالمیت نفسِ واحدہ میں ہوتی ہے، کیونکہ و احصیٰ کل شی عددا میں خصوصا انسانوں کا ذکر ہے۔

 

حکمتِ دوم: اے ہمارے بے حد عزیز گورنرز اور علمی سولجرز! آپ کو کسی تاخیر کے بغیر قرآنی حکمت کی لازوال دولت سے مالامال ہوجانا ہے، آپ کو حصولِ علم و حکمت کے لئے امامِ زمان علیہ السلام کے ساتھ ہو جانا ضروری ہے، جیسے سورۂ توبہ (۹: ۱۱۹) میں ارشاد ہے: اے ایمان والو خدا سے ڈرو اور سچوں (ائمہ) کے ساتھ ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بابرکت خطاب تمام زمانوں کے مومنین سے ہے، تا کہ ہر زمانے

۹۳

کے اہلِ ایمان اپنے امامِ وقت سے رجوع ہوجائیں، کیونکہ دنیا کی باتوں میں سچ بولنے والوں کی بات ہی نہیں، بلکہ دینی علم کے سچوں (الصادقین) کا ذکرِ جمیل ہے۔

 

حکمتِ سوم: پروردگارِ عالم نے حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کو نورِجبین اور حظیرۃ القدس کے اسرار سے واقف و آگاہ کر دیا تھا، آپ اُس مقام پر صالحین کی وحدت کے ساتھ مل گئے تھے، جیسا کہ ارشاد ہے: رب ھب لی حکما والحقنی بالصالحین (۲۶: ۸۳)۔

 

حکمتِ چہارم: حضرتِ ابراہیمؑ بحیثیتِ امام آئندہ لوگوں میں بھی علمی صداقت کی زبان استعمال کرنا چاہتے تھے، اور یہ کام آنجناب کے سلسلۂ اولاد کے وسیلے سے ہوسکتا تھا، جو آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ ہیں، متعلقہ آیۂ شریفہ یہ ہے: واجعل لی لسان صدق فی الاٰخرین (۲۶: ۸۴) اور میرے لئے آئندہ لوگوں میں (علم و حکمت) کی سچی زبان بنا دے۔

 

حکمت پنجم: قرآنِ حکیم میں جن لوگوں کو بنی آدم کہا گیا ہے، وہ حقیقت میں آدمِ زمان علیہ السّلام ہی کے روحانی بچے ہیں، چنانچہ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۰) میں انہی کے بارے میں ارشاد ہے: و لقد کرمنا بنی اٰدم = اور یقینا ہم نے اولادِ آدم کو کرامت (عزت) دی، یعنی اپنے ایک اسمِ بزرگ  الاکرم  کی تجلی کے ساتھ ان کو دیدارِ پاک سے نوازا، و حملنٰھم فی البر والبحر = اور خشکی و تری میں ان کو سواریاں دیں، یعنی ان کو حدودِ دین کے دوش پر بٹھا کر روحانیت کی

۹۴

خشکی و تری کا سیر و سفر کرایا، تا آنکہ بھری ہوئی کشتی میں سوار کر لیا جو عرش بر آب بھی ہے، و رزقنٰھم من الطیبٰت= اور پاکیزہ روزی عطا کی، یعنی ایسے مقام پر ان کو علمِ حقیقی کی دولت سے مالامال فرمایا، و فضلنٰھم علیٰ کثیر ممن خلقنا تفضیلا = اور بہت سی مخلوق پر ان کو ایسی فضیلت دی جیسا کہ فضیلت دینے کا حق ہے، یعنی کشتی میں سوار ہو جانا ابدی نجات کی دلیل ہے، اور تخت (عرش) پر بیٹھنا فنا فی اللہ و بقا باللہ کی دلیل ہے جو سب سے بڑی فضیلت اور سب سے عظیم سلطنت ہے۔

 

حکمتِ ششم: سورۂ یاسین جو قلبِ قرآن ہے، اس میں بھری ہوئی کشتی کا عظیم راز بڑا عجیب وغریب ہے (۳۶: ۴۱) یقیناً یہ مونوریالٹی کا بہت بڑا بھید ہے، آپ قرآن کی فکری اور علمی عبادت کریں اور ایسے اعلیٰ مقامات میں خوب دل لگا کر سوچیں، کہ بھری ہوئی کشتی کیا ہے؟ کیا کشتی میں نوحؑ ہے؟ یا نمائندۂ اہلِ بیت؟ یا ظلِ الٰہی؟ یا صورتِ رحمان؟ یا نفسِ واحدہ؟ یا مساواتِ رحمانی؟ یا مبداء و معاد؟ یا عقلِ کلّ و نفسِ کلّ؟ یا قلمِ اعلیٰ و لوحِ محفوظ؟ یا عرش و کرسی؟ یا خداوند تعالیٰ کی تجلّی؟ یا مونوریالٹی؟ یا امامِ مبین؟

 

حکمتِ ہفتم: عرش صرف عالمِ شخصی کی ایک روحانی مثال ہے، اس سے حقیقت میں ذاتِ سبحان بے نیاز و برتر ہے، مگر اس کا سارا تذکرہ محض بندوں کو نوازنے کی غرض سے ہے، پس عالمِ

۹۵

شخصی میں دو عرش ہیں: ایک آسمان میں اور دوسرا زمین پر، جو عرش زمین پر ہے وہ پانی پر ہونے کی وجہ سے کشتی بھی ہے۔ الحمد للہ رب العالمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

یک شنبہ ۹ صفر ۱۴۱۸ھ، ۱۵ جون ۱۹۹۷ء

۹۶

مہمان نوازی اور علم گستری

 

۱۔ اگر مولائے پاک کا کوئی جان نثار عاشق مہمان نوازی یا میزبانی علم گستری کے مقصد کے پیشِ نظر کرتا ہے تو یہ بہت بڑی قربانی بھی ہے اور دعوتِ بقا کا ایک عمدہ نمونہ بھی، سچ تو یہ ہے کہ ایسی پرحکمت دعوت جناب سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ عالیہ سے شروع ہوئی تھی، آپ سیرتِ طیبہ کی کتابیں پڑھیں۔

 

۲۔ ایک حقیقی مومن مختلف طریقوں سے علمِ امامت کی خدمت کرتا ہے وہ حضرتِ امام علیہ السلام کا عاشقِ صادق ہے، لہٰذا اپنے مولا و آقا کی تعریف و توصیف کو بار بار سننا چاہتا ہے، کیونکہ اسی علم میں اس کا قلبی سکون ہے، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ہوشمند مومنین و مومنات کے نزدیک زندگی کے بہترین لمحات وہ ہیں جو حقیقی علم و عبادت اور اعلیٰ خدمت میں صرف ہو جاتے ہیں۔

 

۳۔ یہ میرے دورۂ گلگت کی مختصر رپورٹ بھی ہے، اور ان تمام معزّز و محترم خاندانوں کا پرخلوص شکریہ بھی، گوناگون نعمتوں کے دسترخوان

۹۷

اور جذبۂ میزبانی سے یوں لگتا تھا کہ وہ سب حضرات روحانی علم کے شیدائی ہیں، حق بات تو ہے کہ ہم ہر مجلس کی خوبیوں سے پگھل گئے، یقینا عشقِ سماوی کے زیرِ اثر ہم مرغِ نیم بسمل کی طرح تڑپ رہے تھے، اے کاش وہ خنجرِ عشق اس غریب دل میں بار بار لگتا! وہ مقدّس محفل! وہ پاک ساز و آواز! وہ گریۂ عشاق! وہ دعائے دل سوز! وہ بارانِ رحمت!

 

۴۔ وہ پاکیزہ دینی محبت و دوستی! وہ مونوریالٹی کا یقین! وہ بہشتِ برین میں تمام عزیزان کی ملاقات کی پرمسرت امید! وہ مشترکہ نامۂ اعمال (نورانی موویز) کی طوفانی شادمانی! وہ کاملین کی کاپیوں کی زبردست خوشی! وہ عالمِ شخصی کی سلطنت کی بشارت! وہ اسرارِ جبین کی میٹھی میٹھی باتیں! وہ دانشمندوں کی پر مغز باتیں! وہ احباب کی مشتاقانہ ملاقات! ان نعمتوں کے علاوہ اور بھی روحانی نعمتیں ہیں، ان شاء اللہ، ہم سب ایک خاص مقام پر ملنے والے ہیں، اس وقت ہم بے حد شادمان ہوں گے، الحمد للہ رب العالمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر ۱۰ صفر المظفر ۱۴۱۸ھ ، ۱۶ جون، ۱۹۹۷ء

۹۸

علی علی علی

 

۱۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ آج کا عنوان بڑا عاشقانہ اور مستانہ ہے، شاید اس کی کچھ وجوہ ہوسکتی ہیں، اور ایک وجہ یقیناً یہ بھی ہے کہ بہشت میں لمبی لمبی نہریں بہہ رہی ہیں، کہ اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو بلاشبہ معلوم ہو جائے گا کہ وہ اس دنیا تک پہنچی ہوئی ہیں، ازان جملہ خمرِ جنت کی نہر بھی ہے، جس میں کیف و سرور اور مستیٔ عشقِ سماوی بھری ہوئی ہے، سماوی اس معنیٰ میں کہ اس مقدّس عشق کو دل میں جگہ دینے کا حکم آسمان سے آیا ہے، یہ وہی پاک و پاکیزہ عشق ہے، جس کی دل نشین تعلیم قرآن و حدیث میں موجود ہے، پس میرا کوئی ساقی ہے، جس کی ہر بار ایک نئی شان ہوتی ہے:

 

ہر غنچہ کہ گل گشت دگر غنچہ نہ گردد

قربان بلبِ یار گہی غنچہ گہی گل

 

۲۔ اہلِ دانش کی نظر میں یہ حقیقت روشن ہے کہ آسمانی عشق کبھی نار بن کر سارے گناہوں کو جلا دیتا ہے اور کبھی نورِ ہدایت بن کر رہنمائی

۹۹

کرتا ہے، پس عشقِ سماوی کی سیڑھی چار زینوں پر مبنی ہے: عشقِ الٰہی، عشقِ رسولؐ، عشقِ علیؑ، اور عشقِ امامِ زمان، کیونکہ بندوں کا امتحان زمانۂ ماضی سے متعلق نہیں بلکہ زمانۂ حال کے بارے میں ہوتا ہے، لہٰذا ہر مومن اور مومنہ کا یہ عقیدۂ راسخ ہونا ضروری ہے کہ امامِ وقت کا پرحکمت نام ’’علیٔ زمان‘‘ ہوتا ہے، کیونکہ اس میں علیؑ ہی کا نور ہوتا ہے۔

 

۳۔ جامعِ ترمذی ، جلدِ دوم میں ہے: ان علیا منی و انا منہ و ھو ولی کل مومن من بعدی = یقینا علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں، اور وہ میرے بعد ہر مومن کا ولیٔ امر ہے۔ یہاں اگر نورِ عشق ہے تو اس کی روشنی میں عقل خوب سے خوب تر کام کرسکے گی کہ علیؑ سے امامِ زمان مراد ہے، کیونکہ علیؑ اپنے زمانے کا امام تھا، جبکہ حضورؐ نے فرمایا: ’’میرے بعد‘‘ اور فرمایا: ’’ہر مومن‘‘ تو آج بھی اور کل بھی آنحضرتؐ کے بعد کا زمانہ ہے، اور ہر مومن اور مومنہ کو ایسے ولیٔ امر کی ضرورت اب بھی ہے اور آئندہ بھی ہو گی، کیونکہ حدیثِ صحیحہ جوامع الکلم میں سے ہوتی ہے، جس کا مطلب ہرگز ادھورا نہیں ہوتا، بلکہ اس میں زبردست معنوی بلاغت ہوا کرتی ہے۔

 

۴۔ علی علی علی۔ یہ عنوانِ گفتگو بھی ہے، اور نعرۂ عشق بھی، میں نے عشق کی مستی میں ’’ علی علی علی ‘‘ کا فلک شگاف نعرہ لگایا، اور مجھے یقین ہے کہ عشقِ علی کی یہ پرحکمت آواز اور گونج فرشتوں کی نورانی موویز میں امر اور لازوال ہوگئی، میں اپنی روحانی زندگی کے امامِ اقدس و اطہر علیہ السلام کا

۱۰۰

عاشق ہوں، کیونکہ اسی نے ازراہِ عنایت مجھے زندہ کر دیا، جب کہ میں سچ مچ مرا ہوا پڑا تھا، حضرتِ عیسیٰؑ مردگانِ جہالت کو زندہ کرتا تھا، اور اسی کی ہمیشہ ضرورت ہے، پس دینِ اسلام جو دینِ کامل ہے، اس میں معجزۂ عیسیؑ باقی و جاری ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام ہر معجزے کو نگاہِ ظاہر سے دیکھنا اور پرکھنا چاہتے ہیں اور یہ خیال بالکل غلط ہے، اگر دنیا میں اسلام کے غیر معمولی معجزات نہ ہوتے تو قرآنِ حکیم کبھی نہ فرماتا: صم بکم عمی فھم لا یرجعون۔ (۲: ۱۸) یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں سو وہ رجوع نہیں کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ دنیا ہی سے شروع کر کے سننے کے معجزے ہیں، بولنے کے معجزے ہیں، اور دیکھنے کے معجزے ہیں۔

 

۵۔ یقینا عشق ایک آسمانی نور ہے، اور نور کی چار نسبتیں ہیں: نورِ خدا، نورِ رسول، نورِعلی اور نورِ امامِ زمان، پس آپ نورِ عشق میں فنا ہو جائیں، اور زینہ بزینہ سیڑھی سے چڑھتے جائیں، اور دیکھئے کہ کیا ہوتا ہے، میرا خیال ہے کہ آپ اسی طرح فنا فی اللہ ہو جائیں گے، پس بڑا مبارک ہے ہر وہ شخص ، جس کو کمالِ عشق حاصل ہو، کہ:

این سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

 

۶۔ میں چاہتا ہوں اور میری عاجزانہ دعا ہے کہ تمام تر دلوں میں نورِعشق طلوع ہو! یہ عشق روحانی علم کی پیداوار ہے، یہ عشق قرآن و حدیث کا میوہ ہے، یہ عشق عقیدۂ راسخ کا نتیجہ ہے، یہ عشق مشاہدۂ حسن و جمال

۱۰۱

کا ثمرہ ہے، جس طرح وہ سب سے حسین ہے، اسی طرح اس کا پاک عشق سب سے شیرین اور سب سے اعلیٰ ہے، حافظ شیرازی کا شعر ہے:

ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق

ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما

۷۔ کوئی مومن علیٔ زمان کے عشق میں بہت کمزور بھی ہوسکتا ہے، جس کی وجہ البتہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں، اس کے لئے علاج بالضّد کرنا ہوگا، یعنی قرآن وحدیث اور بزرگانِ دین کی تعلیمات کی روشنی میں حضرتِ امامِ زمان علیہ السّلام کے اوصاف و کمالات کو اجاگر کرنا پڑے گا، تاکہ مومنِ ضعیف کو امامِ وقت سے عشق ہوسکے، اگر کوئی مومن یہ کہتا ہو کہ میں تو علی کو جان و دل سے امام مانتا ہوں مگر اب اُس جیسا کوئی امام نہیں، تو ایسے شخص کے پاس حقیقی علم نہیں، کیونکہ نورِ امامت ہی کی وجہ سے اہلِ زمانہ کی ظاہری اور باطنی ترقی ہوتی جاتی ہے، لہٰذا اب علیٔ زمان پہلے کی نسبت زبردست کام کر رہا ہے، جیسے قرآن میں ہے: و اللہ متم نورہ = اور خدا اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا (۶۱: ۸) یہ زمانۂ قائم کی طرف اشارہ ہے، الحمد للہ رب العالمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل ۱۱ صفر المظفر ۱۴۱۸ھ، ۱۷ جون ۱۹۹۷ء

۱۰۲

سنتِ الٰہی کے اسرار

 

۱۔ شب خیزی، بندگی، گریہ و زاری، مناجات، عشقِ سماوی، اور سجود کی کمی کے احساس کے ساتھ بڑی عاجزی اور ناچاری سے قرآنِ ناطق کی طرف رجوع ہو جاتا ہوں کہ وہ ہمیشہ کی طرح میری مدد فرمائے، تا کہ یہاں چند مفید باتیں درج ہوں، عزیزانِ من! شاید آپ سب کو یا بعض کو یاد ہو کہ آج سے پہلے بھی اس مضمونِ عالی کے بارے میں کچھ کچھ اظہارِ خیال کیا گیا ہے، لیکن موضوع بڑی زبردست اہمیت کا حامل ہے، لہٰذا مزید گفتگو کے لئے سعی کی جاتی ہے۔

 

۲۔ آپ کو میرا اوّلین مشورہ یہ ہے کہ ان تمام آیاتِ شریفہ کا خوب غور سے مطالعہ کریں، جن میں اللہ تعالیٰ کی سنتِ عالیہ کا ذکر آیا ہے، سنت کے معنی ہیں: عادت، دستور، آئین، راہ، معمول، طریقہ، قانون، جیسے سورۂ مومن کے آخر میں ہے: سنت اللہ التی قد خلت فی عبادہ = یہی اللہ کا دستور ہے جو اس کے بندوں میں گذر چکا ہے (۴۰: ۸۵) یعنی خدا کا معمول نہ آسمان میں ہے نہ زمین پر،

۱۰۳

بلکہ اس کے خاص بندوں (انبیاء و اولیاء ) میں گذرتا رہا ہے، بالفاظِ دیگر یہ ہے کہ اللہ کی سنت عالمِ شخصی میں پائی جاتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خداوند تعالیٰ کا قانونِ کل یا جملہ قوانین کا عمل عوالمِ

شخصی میں کسی ابتداء و انتہا کے بغیر ہمیشہ ہمیشہ جاری و باقی ہے۔

 

۳۔ قرآنِ حکیم فرماتا ہے کہ اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائی جاتی، اس کا اشارہ اساسی قوانین کی طرف ہے، مثلاً وہ الخالق ہے، جو ہمیشہ عوالم کو پیدا کرتا رہتا ہے، وہ القابض اور الباسط ہے، جو ہمیشہ کائنات کو لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے، الغرض جس طرح اس کی ذات قدیم ہے، اسی طرح اس کی ہر صفت بھی قدیم ہے، اور یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ اللہ کی کوئی صفت حادث (نئی) ہو۔

 

۴۔ جب حضرتِ رب العزت کی معرفت انسان کے عالمِ شخصی ہی میں ہے تو پھر سنتِ الٰہی کی معرفت بھی لازمی طور پر یہیں ہے، اس کے سوا اور کہیں بھی نہیں، آپ قرآنِ عظیم کی معنوی گہرائی میں دیکھیں کہ آیات و معجزاتِ الٰہی کی معرفت آفاق میں مکمل نہیں ہوتی، جب تک کہ جملہ معجزات کا مشاہدۂ باطن انفس میں نہ ہو (۴۱: ۵۳)، زمین (مکان و زمان) میں جو معجزات بکھرے ہوئے ہیں، وہ عالمِ شخصی میں منظم اور یکجا ہیں(۵۱: ۲۰ تا ۲۱)۔

 

۵۔ جب سنتِ الٰہی کا دائمی تعلق عالمِ شخصی سے ہے تو پھر معلوم ہوا کہ انسان اپنی لامحدود زندگی اور عالمِ بالا سے جو رابطہ تھا وہ سب

۱۰۴

بھول چکا ہے، وہ جسمانی پیدائش اور موت کے قیاس پر ہر چیز کی ابتداء اور انتہا کا قائل ہوگیا ہے، حالانکہ یہ جزئیات ہیں کلّیات نہیں، جیسا عالمِ انسانیت ہے کہ اس کا اگلا یا پچھلا سرا نظر نہیں آتا، اور سرا دراصل ہے بھی کہاں؟ جیسے فرمایا گیا: اݹ مش او (OO MUS OO) یعنی لاابتداء اور لاانتہا کا تصوّر رکھو، کیونکہ انسان کی حقیقت ازلی و ابدی ہے۔

 

۶۔ سورۂ دہر کے آغاز (۷۶: ۱) میں ایک عظیم خزانے کی کلید ہے: کیا انسان پر دہر (زمانِ ناگزرندہ) کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا؟ یعنی یہ انسان کی ازلی ’’فنا فی اللہ‘‘ کی حالت ہے، جس میں وہ بے نام و بے نشان تھا، اور اب بھی وہ انائے علوی کے اعتبار سے ایسا ہی ہے، سوال ہے کہ آیا انسان کو اپنی اس بے مثال مونوریالٹی کی معرفت حاصل ہوئی ہے؟ اس کے بعد انائے سفلی کا تذکرہ اس طرح سے ہے: ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تا کہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لئے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا (۷۶: ۲) آخری امتحان معرفت سے متعلق ہے، پس جب کوئی مومنِ سالک اپنی انائے علوی کو خدا میں فنا پاتا ہے تو یہی معرفت اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

 

۷۔ سنتِ الٰہی کے قرآنی ذکر میں عالمِ شخصی کے ہمیشہ موجود ہونے کا اشارہ ہے، کیونکہ اللہ کی ذات قدیم ہے، اس کی جملہ صفات بھی قدیم ہیں، اور کسی نہ کسی عالمِ شخصی میں اس کا قانون بھی قدیم ہے،

۱۰۵

اگرچہ عوالم شخصی کے سلسلے میں بار بار تجدّد ہوتا رہتا ہے، جیسے فرمایا گیا: تھوݽ گٹو جݹ، مݶن شرݸ جݹ، یعنی میری قدیم روح کو جدید لباس عنایت کر، اور قدیم رزق عطا فرما، تو اس میں بہت بڑی حکمت یہ ہے کہ خالقِ قدیم ہر لحظہ ایک جدید کائنات کو پیدا کرتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: کل یوم ھو فی شان= ہر آن وہ ایک نئی شان میں ہے (۵۵: ۲۹)۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات ۱۳ صفر المظفر ۱۴۱۸ھ، ۱۹ جون ۱۹۹۷ء

۱۰۶

روحانی بھونچال کی حکمت

 

۱۔ سورۂ ذاریات میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: و فی الارض اٰیٰت للموقنین۔ و فی انفسکم افلا تبصرون (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) اور اہلِ یقین (اہلِ معرفت) کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں (معجزات) ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی ہیں تو کیا تم کو دکھائی نہیں دیتا؟ اس فرمانِ الٰہی سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ جو چیزیں دنیائے ظاہر میں مادّی طور پر ہیں، وہ سب کی سب عالمِ شخصی میں روحانی طور پر موجود ہیں، چنانچہ یہ سچ ہے کہ مومنِ سالک کئی بار خواب، نیم خوابی، اور بیداری میں روحانی بھونچال کے شدید تجربے سے گزرتا ہے۔

 

۲۔ سورۂ حج کے شروع (۲۲: ۱ تا ۲) میں زلزلۂ قیامت کی جس شدّت کا ذکر آیا ہے، آپ خود اسے غور سے قرآنِ پاک میں پڑھ لیں، یہاں صرف چند حکمتیں درج کی جاتی ہیں: زلزلۂ قیامت کی سختی کی وجہ سے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے کو بھول جائے گی۔ حکمت: جب معلم کے عالمِ شخصی میں روحانی بھونچال آتا ہے تو وہ اس کی شدّت

۱۰۷

کے سبب سے اپنے شاگردوں کو بھول جاتا ہے۔ ہر حمل والی اپنے حمل کو گرا دے گی۔ حکمت: معلم کی ہستی میں جتنے ذرّاتِ روحانی ہیں، وہ سب اس کے حمل (بوجھ) اولاد اور شاگرد ہیں، یہ سب کے سب زلزلۂ قیامت کی شدّت کی وجہ سے باہر آتے ہیں۔ اے سالک تجھ کو لوگ مست و مدہوش نظر آئیں گے، لیکن یہ مستی نہیں بلکہ اللہ کا سخت عذاب ہے۔ حکمت: آدمی کی ظاہری مستی اس کیفیت کا نام ہے جس میں وہ عقلی اور فکری چیزوں کو بھول جاتا ہے، چنانچہ جب قیامت آتی ہے تو اپنے ساتھ اسرارِ معرفت کی سب سے عظیم کائنات کو لے کر آتی ہے، اور گزر جاتی ہے، درحالے کہ لوگ مست (بے خبر اور بے ہوش) پڑے رہتے ہیں، پس یہ مستی دراصل عقلی عذاب ہے، جو بڑا عذاب ہے۔

 

۳۔ سورۂ زلزال (۹۹: ۱ تا ۸) کو قرآنِ حکیم میں پڑھ لیں: جب زمین اپنی سخت جنبش سے لائی جائے گی۔ حکمت: عقل کے مقابل میں روح زمین ہے، اور روح کے مقابل میں جسم زمین ہے، چنانچہ قیامت کے دن زمین میں بھونچال آنے کے یہ معنی ہیں کہ مومنِ سالک کو جسماً و روحاً بڑی سختی سے ہلا دیا جاتا ہے۔ اور زمین اپنے بوجھ باہر پھینکے گی۔ حکمت: عالمِ شخصی اپنے ہر قسم کے بوجھ کو باہر پھینک دیتا ہے، تا کہ روحانی احوال کے لئے تیار ہو سکے۔ انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہو گیا ہے؟ حکمت: اس عظیم معجزے سے سالک کو بڑی حیرت ہوتی ہے۔

۱۰۸

اس روز زمین اپنی سب خبریں بیان کرے گی۔ حکمت: اس موقع پر عالمِ شخصی کی زمین روحانی باتیں کرتی ہے۔ اس سبب سے کہ تمہارا رب اس کو وحی کرے گا۔ حکمت: چونکہ یہ قیامت ہے، اس لئے اللہ حسبِ وعدہ کلام کرے گا۔ اس روز لوگ مختلف جماعتیں ہوکر رجوع ہوں گے، تا کہ اپنے اعمال کو دیکھ لیں۔ حکمت: عالمِ شخصی میں جو قیامت گاہ ہے اس کی طرف تمام لوگوں کو جانا لازمی ہے۔ پس جو شخص ذرّہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کو دیکھے گا، اور جو شخص ذرّہ برابر بدی کرے گا وہ اس کو دیکھے گا۔ حکمت: یہ اس نامۂ اعمال کی طرف اشارہ ہے جو روحانی ذرّات پر مبنی ہے۔

۴۔ یہاں بفضلِ خدا اہلِ دانش کے لئے معرفتِ ذات سے متعلق زبردست معلومات ہیں، آج کے دن تک آپ عزیزان پر جتنے اسرارِ قرآن منکشف ہوئے ہیں، وہ ایسے بے بہا اور انمول ہیں کہ دنیا کے تمام خزانے ان کے مقابلے میں ہیچ ہیں، پس یہ خزائنِ حکمت آپ کو مبارک ہوں، ہمیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ ناشکری نہ ہو، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ نیک توفیق عنایت فرمائے! آمین!

 

۵۔ سورۂ احزاب (۳۳: ۹ تا ۱۱) میں غور سے پڑھیں، جہاں روحانی جنگ اور نمائندہ قیامت کا ذکر ہے، کہ جب سالک اور ذرّاتِ مومنین پر ایک ذرّاتی لشکر حملہ آور ہوا تو اس پر خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت سے صورِ اسرافیل کی آندھی اور ایک نظر نہ آنے والی آسمانی فوج بھیجی، جیسا کہ قرآن مزید فرماتا ہے: جب دشمن کا وہ ذرّاتی لشکر تمہارے سر اور پاؤں

۱۰۹

سے حملہ کر چکا تھا، تب تمہاری نگاہیں کام نہیں کر سکتی تھیں، کیونکہ تمہاری جان نکل رہی تھی، اور تم لوگ خدا کے ساتھ طرح طرح کے گمان کر رہے تھے، اس موقع پر مومنین کا امتحان کیا گیا اور سخت زلزلہ میں ڈالے گئے۔

 

۶۔ سورۂ بقرہ (۲: ۲۱۴) میں ہے: کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ (آج روحانیت کی جنت میں اور کل مستقل) جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تمہیں اگلے زمانہ والوں کی سی حالت نہیں پیش آئی ؟ انہیں طرح طرح کی تکلیفوں اور بیماری نے گھیر لیا اور زلزلہ میں اس قدر جھنجھوڑے گئے کہ پیغمبر اور ایمان والے جو اس کے ساتھ تھے کہنے لگے: خدا کی مدد کب ہوتی ہے؟ دیکھو خدا کی مدد بہت قریب ہے۔

 

۷۔ یہ روحانی بھونچال یعنی زلزلۂ قیامت کی معرفت ہے، تا کہ اسی طرح رفتہ رفتہ بعض قرآنی حکمتیں اور اسرارِ روحانیت اہلِ دانش پر مکشوف ہو جائیں، کیونکہ مومن کے سامنے ہر جگہ امتحان ہے، اور سب سے بڑا امتحان بلکہ زبردست امتحانات قرآنِ عظیم میں ہیں، پس ہم بڑی عاجزی سے دعا کرتے ہیں کہ پروردگار اپنے نورِ منزّل کے وسیلے سے ہم سب کی مدد فرمائے تا کہ ہم قرآنِ حکیم سے بانصیب ہو جائیں! آمین!

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

ہفتہ ۱۵ صفر المظفر ۱۴۱۸ھ ، ۲۱ جون ۱۹۹۷ء

۱۱۰

جنگِ روحانی اور فتحِ اسلام

 

۱۔ آپ سب کو یہ جان کر بے حد شادمانی ہو گی کہ روحانی جنگ زمانۂ ابو البشر سے جاری و ساری ہے اور ہرعالمِ شخصی میں دینِ فطرت (اسلام) کو اس جہادِ اکبر میں برتری اور فتح حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ سورۂ فتح میں ارشاد ہے: و للہ جنود السماوات والارض (۴۸: ۴، ۴۸: ۷) اور سارے آسمان و زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں۔ اس آیۂ مبارکہ سے یہ مفہوم ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہ زبردست لشکر صرف اس غرض سے ہیں کہ ہر زمانے کے مومنین کی روحانی جنگ میں مدد کریں، اور ان کو غالب و فاتح بنائیں، کیونکہ جہادِ اکبر کی سعادت تمام مومنوں کے لئے ممکن ہے۔

 

۲۔ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں حربی (جنگی) الفاظ آئے ہیں، وہاں درپردہ روحانی جنگ کا تذکرہ ضرور موجود ہے، جیسے: جنود (لشکر) ، فتح،  غالب، جہاد، مجاہدین، حرب، شہید، شہدا، قتال، حزب اللہ، مغانم (غنیمتیں)، مَلک (بادشاہ)، محراب (قلعہ)، ضرب، لبوس (پوشش = زرہ)،

۱۱۱

سرابیل (کرتے)، بأس (جنگ)، غزیٰ، زحف، وغیرہ۔

 

۳۔ یہ ارشادِ مبارک سورۂ مجادلہ (۵۸: ۲۱) میں ہے: کتب اللہ لا غلبن ان و رسلی ان اللہ قوی عزیز۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات (ازل ہی میں) لکھ دی ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے بے شک اللہ تعالیٰ قوت والا اور غلبہ والا ہے۔ یعنی یہ خدا ہی کی مشیت اور مدد تھی کہ ہر رسولِ ناطق کے دور کے أئمّہ نے اپنے اپنے وقت میں بعنوانِ قیامت روحانی جنگ کی، جس میں ہر بار دینِ حق غالب ہوتا رہا۔

 

۴۔ مذکورۂ بالا آیت کی ایک تفسیر یہ ہے: یوم ندعوا کل اناس بامامھم (۱۷: ۷۱) اس دن (کو یاد کرو) جب ہم اہلِ زمانہ کو ان کے امام کے توسط سے بلائیں گے۔ اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ اللہ اور ہر دور کے رسول کی جانب سے زمانے کا امام روحانی جنگ کا سردار اور صاحبِ قیامت مقرر ہوا ہے، کیونکہ قانونِ اطاعت یہ کہتا ہے کہ سب سے پہلے اللہ کی اطاعت ہے، اس کے بعد رسول کی اطاعت، اور آخر میں ولیٔ امر یعنی امام کی اطاعت ہے، بعد ازان اور کسی کی اطاعت نہیں بلکہ اب یہاں قیامت کی باری آتی ہے جو روحانی جنگ کی صورت میں دعوتِ حق بھی ہے۔

 

۵۔ اسلام جو دینِ فطرت ہے، اس میں ہمیشہ تجدّد کا عمل جاری ہے، چنانچہ روحانی جنگ (جو قیامت اور باطنی دعوت بھی ہے) ہر امام کی سرداری میں ہوتی آئی ہے تاکہ حسبِ وعدۂ الٰہی تمام ادیان پر

۱۱۲

اسلام ہر زمانے میں غالب آئے، جیسا کہ سورۂ توبہ (۹: ۳۳) میں ارشاد ہے: ھو الذی ارسل رسولہ بالھدٰی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ = وہی تو (وہ خدا) ہے جس نے اپنے رسول (محمد) کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ (مبعوث کرکے) بھیجا تا کہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ الھدٰی سے مراد قرآنِ صامت اور قرآنِ ناطق (امام) ہیں، جن سے تنزیلی جنگ کے بعد تاویلی جنگ کا اشارہ ملتا ہے۔

 

۶۔ مذکورۂ بالا آیہ کریمہ سورۂ فتح (۴۸: ۲۸) اور سورۂ صف (۶۱: ۹) میں بھی ہے، اس کا مطلب یہ ہے یہ جہادِ اصغر ظاہر میں تھا، اور جہادِ اکبر باطن میں ہے جو نفسِ امّارہ کے خلاف جنگ کرنے سے شروع ہوکر نمائندہ قیامت اور عالمی روحانی جنگ کی صورت اختیار کرتا ہے، جس کا امیر اور سردار رسولِ پاک کی طرف سے امامِ زمانؑ ہوتا ہے، اور خداوند تعالیٰ کے حکم سے ادیانِ عالم کے تمام لوگ بشکلِ ذرّات دینِ حق میں داخل ہوجاتے ہیں۔

 

۷۔ سورۂ نساء (۴: ۵۴) میں دیکھ لیں: فقد اٰتینا اٰل ابراہیم الکتاب و الحکمۃ و اٰتینٰھم ملکاً عظیماً۔ ہم نے تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی ہے اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی ہے۔ آلِ ابراہیم کا سلسلہ محمد و آلِ محمد کے سلسلے کے ساتھ جڑا ہوا ہے، لہٰذا اب آلِ ابراہیم کا نام آلِ محمد بھی ہے، جن کو خدا نے اپنی کتاب (قرآن) کی روح و روحانیت اور حکمت عطا فرمائی ہے، اور روحانیت کی بہت عظیم سلطنت بھی دی ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ روحانی جنگ اّئمّۂ آلِ

۱۱۳

محمد کی سرپرستی میں ہوتی ہے، کیونکہ خدا نے ان کو تمام معنوں میں بادشاہ بنایا ہے، اور شاہی اختیار عطا فرمایا ہے۔

 

۸۔ حدیثِ شریف ہے: رجعنا من الجہاد الاصغر الی الجہاد الاکبر= ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ جب آنحضرتؐ سے پوچھا گیا کہ جہادِ اکبر کیا شیٔ ہے؟ تو فرمایا: الا وہی مجاہدۃ النفس = اچھی طرح سن لو! جہادِ اکبر مجاہدۂ نفس ہے۔ اگر مجاہدۂ نفس کا مقصد صرف ذاتی اصلاح و نجات تک محدود ہوتا، تو یہ اس ظاہری جہاد کے مقابلے میں ’’اکبر‘‘ نہ ہوسکتا جو تمام مسلمین و مومنین کے مفاد میں ہے، پس معلوم ہوا کہ مجاہدۂ نفس دینِ اسلام کی روحانی جنگ کا سری عنوان ہے، کیونکہ مجاہدہ سے جیتے جی نفس پر کل تجرباتی موت واقع ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ روحانی جنگ اور قیامت شروع ہو جاتی ہے، جس کا بیان تمام قرآن میں پھیلا ہوا ہے۔

 

۹۔ قرآنِ حکیم کی سب سورتوں یا بعض سورتوں کے آخر میں کوئی بڑا علمی خزانہ ہوتا ہے، اسی طرح کا ایک گنجِ گرانمایہ سورۂ عنکبوت کے خاتمہ میں ہے: و الذین جاہدوا فینا لنھدینھم سبلنا و ان اللہ لمع المحسنین (۲۹: ۶۹) اور جو لوگ ہماری خاطر (اپنے نفس کے خلاف) مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکوکاروں ہی کے ساتھ ہے۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ یہ آیۂ کریمہ جہادِ اکبر کے بارے میں ہے، کیونکہ اگر قرآنِ عزیز میں

۱۱۴

جہادِ اکبر کا کوئی ذکر یا کوئی اشارہ نہ ہوتا تو حدیثِ شریف میں اس کی یہ زبردست تعریف نہ ہوتی۔

 

۱۰۔ جہادِ اکبر (روحانی جنگ) اور نمائندہ قیامت ایک باطنی چیز ہے جو انبیاء و اولیاء (أئمّہ) علیہم السّلام کے عوالمِ شخصی میں پوشیدہ طور پر چلتی رہی ہے، چنانچہ جب کسی کامل انسان یا کسی عارف پر کلّی قیامت گزرتی ہے تو اس کے اور عوام کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے، جس میں ایک دروازہ ہوتا ہے، اس کے اندر کی جانب رحمت ہوتی ہے، اور باہر کی طرف عذاب (۵۷: ۱۳) یہاں عذاب کے بارے میں جاننا ضروری ہے کہ یہ عقلی عذاب ہے، یعنی علم و حکمت سے محرومی اور جاہلانہ زندگی۔

 

۱۱۔ حضرتِ قائم القیامت علیہ السّلام ایک فرد تھا اور ایک قوم بھی، چنانچہ قرآنِ حکیم میں جمع بصورتِ واحد اور واحد بصورتِ جمع کی نظیریں بہت ہیں، جیسے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی مبارک ہستی خود ایک امت تھی (۱۶: ۱۲۰) اسی طرح حضرتِ قائم کو روحانی لشکر کی نسبت سے قوم کہا گیا (۵: ۵۴) آپ غور سے سورۂ مائدہ کی اس آیت کا مطالعہ کرکے معلومات حاصل کریں۔

 

۱۲۔ سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں ہے: و سرابیل تقیکم باسکم = اور ایسے کرتے بنائے جو تمہاری جنگ سے تمہاری حفاظت کریں۔ یہ اجسامِ لطیف ہیں جو روحانی جنگ کے ضرر سے محفوظ رکھتے ہیں، یاد رہے کہ

۱۱۵

جب خدا مومنین کو اپنی کسی نعمت کا احسان جتلاتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ نعمت دوسروں کے پاس نہیں ہوتی، چنانچہ یہ کُرتے دنیا کی چیزیں ہرگز نہیں، بلکہ اجسامِ فلکی ہیں، جو زندہ اور با شعور ہیں۔

 

۱۳۔ روحانی جنگ کے اس مضمون میں یاجوج و ماجوج کا تذکرہ بھی لازمی ہے، حالانکہ ان کی اصل حقیقت اہلِ ظاہر سے ہمیشہ پوشیدہ رہی ہے، لیکن تجربۂ روحانیت یا روحانی سائنس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یاجوج و ماجوج ذرّاتی لشکر ہیں، جن میں سے بعض آپ کے اپنے ہیں اور بعض دشمن کے، جن کا نمایان ذکر قرآنِ پاک میں دو مقام پر ہے (۱۸: ۹۴، ۲۱: ۹۶) ان کے بارے میں قرآن میں ہے کہ یہ زمین میں فساد کرتے ہیں، اس سے روحانی جنگ اور اصلاح مراد ہے۔

 

۱۴۔ جہادِ اکبر (روحانی جنگ) کا تذکرہ قصّۂ آدمؑ سے شروع ہوتا ہے کہ فرشتوں نے کہا: آیا تو زمین میں ایسے شخص کو خلیفہ مقرر کرتا ہے جو اس میں فساد اور خونریزیاں کرے گا (۲: ۳۰) فرشتوں کے اس اعتراض کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اگلے آدمؑ کی روحانی جنگ کو دیکھا تھا، مگر وہ اس بات کو نہیں جانتے تھے کہ روحانی جنگ میں بے شمار فائدے پوشیدہ ہیں، الغرض حضرتِ آدمؑ کی روحانیت میں یاجوج و ماجوج کی لڑائی ہوئی تھی، کیونکہ لشکرِ ارواح وہی ہیں۔

 

۱۵۔ حدیثِ شریف ہے: الارواح جنود مجندۃ = تمام روحیں جمع شدہ لشکر تھیں/ہیں۔ یعنی ہر انسانِ کامل کی روحانی جنگ میں جملہ روحوں

۱۱۶

نے لشکرِ خیروشر کی حیثیت سے کام کیا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں مخفی ہیں، یہاں سے معلوم ہوا کہ روح ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں حاضر ہو سکتی ہے، جیسے عہدِ الست کا واقعہ ہے کہ عارفین و کاملین میں اس کا تجدّد ہوتا رہا ہے، کیونکہ اللہ کی سنت قدیم ہے، لہٰذا اس کے خاص بندوں کی روحانیت میں تمام بنیادی چیزیں ایک جیسی ہوا کرتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ روحانیت و قیامت اپنی نوعیت کے تجدّد کا ایک سلسلہ ہے، جس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہا۔

 

۱۶۔ چونکہ جہادِ اکبر نفس کے خلاف ہے، اس لئے یہاں شروع ہی میں یہ معلوم ہوا کہ یہ جنگ عقل اور علم کی فوقیت و فتح کی غرض سے ہے، پس روحانی جنگ میں عقل و دانش اور علم و حکمت کی بڑی زبردست اہمیت ہے، اور اس کے بغیر فتحمندی کا کوئی تصور ہی نہیں، لہٰذا آپ سب علم و حکمت کی بھرپور طاقت کے ساتھ جہادِ اکبر کریں، ان شاء اللہ، آپ کی کوشش رائگان نہیں جائے گی۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

بریسپت ، ۲۰ صفر المظفر ۱۴۱۸ھ ، ۲۶ جون ۱۹۹۷ء

۱۱۷

ربّانی نوازش کی عالی شان حکمتیں

 

۱۔ اگر آپ انبیاء علیہم السلام کے قرآنی قصّوں میں گہری نظر سے دیکھیں گے تو یقیناً آپ کو بڑی حیرت انگیز خوشی ہوگی کہ حضرتِ ربِّ جلیل و کریم نے اپنے پیارے انبیاء و اولیاء کے ساتھ ساتھ حقیقی مومنین کو بھی جملہ باطنی نعمتوں سے نوازا ہے، ہم ( ان شاء اللہ) اس کی چند مثالیں قصّۂ آدم سے شروع کرتے ہیں۔

 

۲۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا تھا (خلق اللہ اٰدم علیٰ صورتہ۔ الحدیث) اور حدیثِ شریف میں یہ ارشاد بھی ہے کہ جو شخص بھی جنّت میں جائے آدم علیہ السّلام کی صورت کے مطابق ہوکر جائے گا (کل من یدخل الجنۃ علیٰ صورۃ اٰدم۔ الحدیث) یعنی ایسے نیک بخت مومن کا عقلی تولد حظیرۂ قدس میں آدمؑ ہی کی طرح ہوجاتا ہے، کیا یہ آدمؑ اور اولادِ آدمؑ پر خداوندِ قدوس کا احسانِ عظیم نہیں ہے؟ دوسری بہت بڑی نوازش یہ ہے کہ جب فرشتوں نے حضرتِ آدمؑ کو سجدہ کیا تو اس حال میں

۱۱۸

بنی آدم اپنے باپ کے سانچے میں ڈھل ڈھل کر کاپیاں ہو گئے تھے (۷: ۱۱)۔

 

۳۔ آدم و بنی آدم پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات ہیں، کہ اس مہربان نے آدمؑ کو تاجِ خلافت سے سرفراز فرمایا، اور اس کی اولاد کے حقیقی مومنین سے وعدہ فرمایا کہ عنقریب ان کو بھی اگلے خاص مومنین کی طرح کائناتی زمین کی خلافت عطا کی جائے گی (۲۴: ۵۵) یاد رہے کہ روحانیت و نورانیت میں اس کائنات کی بے شمار کاپیاں ہیں، تا کہ بے شمار مومنین کو خلافتِ کبریٰ عطا ہو جائے، جو روحانی سلطنت بھی ہے۔

 

۴۔ حضرتِ نوح علیہ السلام کی کشتیٔ ظاہر مثال تھی اور کشتیٔ باطن ممثول، سفینۂ باطن ایک اسمِ اعظم اور اس کا ذکر تھا، اور اہلِ سفینہ ایک روحانی وحدت (یک حقیقت) تھے، چنانچہ یہ سفینہ عرشِ سماوی اور عرشِ ارضی (تخت بر آب) تک رسا ہو گیا، عرشِ سماوی تک رسائی اس معنی میں کہ طوفان تھم جانے کے ساتھ کشتی کوہِ جودی پر جا کر ٹھہر گئی تھی (۱۱: ۴۴) اور جودی گوہرِ عقل کا ایک نام ہے جو نورِ عرش ہے، اور عرشِ ارضی تک کشتی کی رسائی اس طرح سے ہے کہ سفینۂ نوح پانی پر خدا کا عرش ہے (۷: ۱۱) پس یہ بہت بڑا مسرت انگیز سوال ہے کہ آیا یہ خدائے بزرگ و برتر کا انتہائی عظیم احسان نہیں ہے کہ اس نے اہلِ ایمان کی روحوں کو نہ صرف بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا بلکہ عرشِ سماوی اور عرشِ ارضی پر بھی بٹھا دیا (۳۶: ۴۱، ۱۱: ۷)؟ اب یہ سوچنا ہے کہ سفینہ جو پہلے ہی سے بھرا ہوا تھا اس میں کون سے لوگ

۱۱۹

بیٹھے تھے؟ کیا یہ مونوریالٹی (یک حقیقت) کا سرِ اعظم نہیں ہے کہ یہی تمام مومنین اس کشتی میں پہلے ہی سے سوار تھے؟ الحمدللہ۔

 

۵۔ سورۂ صافات (۳۷: ۷۹) میں ارشاد ہے: سلٰم علیٰ نوح فی العالمین = عوالمِ شخصی میں نوحؑ پر سلامتی ہے۔ یعنی ہر عالمِ شخصی میں ہمیشہ نوح کی روحانی ہستی اور پرحکمت عملی زندگی ہو گی، تا کہ اہلِ ایمان اپنی روحانی زندگی میں انبیاء و اولیاء کی رفاقت سے مستفیض و مستفید ہوسکیں، سورۂ صافات میں اور بھی مقدّس ہستیوں پر اسی طرح کا سلام ہے، اور ایک بابرکت ارشاد یہ بھی ہے سلٰم علیٰ اٰل یاسین (۳۷: ۱۳۰) ہر عالمِ شخصی میں آلِ محمد پر سلامتی ہے۔ یعنی عارفین و کاملین کے عالمِ شخصی میں امامِ زمان علیہ السّلام موجود ہوتا ہے۔

 

۶۔ قرآنِ حکیم میں حضرتِ سید الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ذکرِ جمیل سب سے زیادہ بلکہ بڑی کثرت سے بلکہ تمام قرآن میں ہونا ہی تھا، وہ ہو چکا ہے، اور یہ روشن حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قرآنِ کریم جیسی بے مثال اور لاثانی کتاب آپ ہی کی ذاتِ اقدس پر نازل ہوئی ہے، لہٰذا حضورِ پاک کا اسمِ مبارک ’’محمد‘‘ قرآنِ عزیز میں صرف چار مرتبہ آیا ہے، اور باقی پانچ عظیم پیغمبروں کے بابرکت اسماء قرآنِ مجید میں اس طرح سے ہیں: آدمؑ ۲۵ دفعہ، نوحؑ ۴۳ دفعہ، ابراہیمؑ ۶۹ دفعہ، موسیٰؑ ۱۳۶ دفعہ، اور عیسیٰؑ ۲۵ دفعہ، میرا مضمون بہت مختصر ہے، اس لئے میں صرف حضراتِ ناطقوں کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

۱۲۰

۷۔ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے قصۂ قرآن میں اہلِ ایمان کے لئے بے پایان رحمتیں اور برکتیں ہیں، جیسے حضرتِ ابراہیمؑ کا یہ قول جو قرآن میں ہے: فمن تبعنی فانہ منی (۱۴: ۳۶)۔ پس جو شخص میری پیروی کرے تو وہ مجھ سے ہے۔ یعنی جو شخص راہِ دین اور طریقِ روحانیت پر میرے پیچھے پیچھے چلے تو وہ میرا روحانی فرزند ہے، وہ میری روحانی ہستی کا حصہ ہے یا آلِ ابراہیمؑ میں سے ہے، کیونکہ منازلِ روحانیت میں میرے پیچھے چل کر وہ وہی معجزات دیکھے گا جو میں نے دیکھے ہیں، اور بالآخر حظیرۃ القدس میں ایسے تمام لوگ میرے ساتھ ایک ہو جائیں گے۔

 

۸۔ حضرتِ ابراہیم اپنے وقت میں ایک عظیم فردِ پیغمبر بھی تھے اور ایک فرمانبردار امت بھی (۱۶: ۱۲۰) وہ سب لوگ جو اپنے پیغمبر کے عالمِ شخصی میں داخل ہو کر امتِ واحدہ ہو گئے کتنے خوش نصیب تھے! ہاں یہ سچ ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام کا عالمِ شخصی مومنین و مومنات کا روحانی وطن ہوتا ہے، اور یہ عالمِ شخصی جسمانی بھی ہے اور نورانی بھی۔

 

۹۔ ترجمۂ آیۂ کریمہ (۲: ۱۲۴): اور جب ابراہیم کو ان کے ربّ نے چند کلمات میں آزمایا اور انہوں نے پورا کر دیا تو خدا نے فرمایا میں تم کو سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں، ابراہیم نے عرض کی اور میری اولاد میں سے (خدا نے) فرمایا جو ظالم ہوں گے وہ میرے عہد سے فائدہ نہ اٹھائیں گے۔ سوال: چند کلمات کیا تھے؟ جواب: اسمائے عظام اور کلماتِ تامّات، سوال: حضرتِ ابراہیم کن کن لوگوں کے امام مقرر ہو گئے تھے؟ جواب:

۱۲۱

اوّلین، حاضرین، اور آخرین یعنی سب لوگوں کے امام ہو گئے تھے، کیونکہ جب کوئی شخص خدا کے حکم سے امام ہوجاتا ہے تو وہ سلسلۂ نورٌعلیٰ نور کے مطابق ہر زمانے کا امام ہوتا ہے، سوال: یہاں ظالم کے مقابلے میں عادل کا بھی اشارہ ہے تو منصبِ امامت میں عادل کون ہے اور ظالم کون؟ جواب: عادل حضرتِ ابراہیمؑ اور ان کی آل ہیں، کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ وار أئمّہ بنایا تا وقتی کہ دنیا میں لوگ ہیں (۳: ۳۳، ۴: ۵۴) اور امام ہمیشہ عادل ہی رہتا ہے، لیکن جو شخص از خود امام بن جاتا ہے وہ ظالم ہے، اس کی نسل میں یہ جعلی امامت نہیں ٹھہر سکتی ہے۔

 

۱۰۔ ترجمۂ آیۂ کریمہ (۲: ۱۲۵) اور جب ہم نے خانۂ کعبہ کو لوگوں کے ثواب اور پناہ کی جگہ قرار دی، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم کی جگہ کو نماز کی جگہ بناؤ۔ یعنی امام کی نورانی معرفت کو لوگوں کے ثواب اور پناہ کی جگہ قرار دی، اور اس معرفت کے سلسلے میں مرتبۂ عقل تک جانے کا حکم ہوا، جہاں حق الیقین کا مرکز ہے۔

 

۱۱۔ حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کے قصۂ قرآن میں ایمان والوں کے لئے جو جو بشارتیں ہیں، ان میں سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں، کہ عصائے موسیٰؑ سے اسمِ اعظم مراد ہے، حجرِ مکرم کی تاویل اساس (ہارونؑ) ہے، بارہ چشمے بارہ حجّت ہیں، چنانچہ حضرتِ موسیٰؑ نے جب حضرتِ ہارون کو اسمِ اعظم کی تعلیم دی، تو مولانا ہارونؑ کے مبارک دل سے بیک وقت بارہ حجّتوں کے لئے روحانی علم کا پانی جاری ہوا (۲: ۶۰) یہ علمی معجزہ ہر زمانے کے امام میں ہوتا ہے۔

۱۲۲

۱۲۔ سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) میں ہے، ترجمہ: اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی (ہارون) کے پاس وحی بھیجی کہ مصر (عالمِ شخصی) میں اپنی قوم کے لئے گھر بناؤ اور اپنے اپنے گھروں کو قبلہ بناؤ (یعنی خانۂ دل خانۂ خدا بناؤ) اور اسی میں نماز پڑھو، اور مومنین کو خوشخبری دے دو۔ یعنی جو کچھ تم نے دیکھا ہے اور جو معرفت حاصل ہوئی ہے اس کے وسیلے سے مومنین کو علمی قوّت اور بشارت دو تا کہ وہ بھی کوشش کر کے آگے بڑھیں، کیونکہ پیغمبر اور امام کی روحانی تعلیم نہ صرف زبردست مؤثر ہے بلکہ اس میں خوشخبری بھی ہے۔

 

۱۳۔ یہ سورۂ مائدہ کے ایک مثالی ارشاد (۵: ۲۰) کا ترجمہ ہے: اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم جو نعمتیں خدا نے تم کو دی ہیں ان کو یاد کرو جب کہ اس نے تم میں (یعنی تمہارے عالمِ شخصی میں) پیغمبر بنائے اور تم کو سلاطین بنایا اور تمہیں وہ دیا جو اہلِ زمانہ میں سے کسی کو بھی نہ دیا۔ یہ خطاب صفِ اوّل کے مومنین سے ہے، جن کے عالمِ شخصی میں انبیاء کا ظہور ہوتا ہے، جو امام کی روحانی اور عقلی کاپیوں کی وجہ سے بہشت میں بادشاہ ہوتے ہیں، کیونکہ امام ہی بادشاہ ہے اور اس کی باطنی کاپیاں بادشاہ ہیں، اور امامت ہی وہ بے مثال چیز ہے جو دنیا کی دوسری قوموں میں نہیں ہوتی ہے۔

 

۱۴۔ فاقتلوا انفسکم (۲: ۵۴) کی حکمت ہے: تم میں سے ہر ایک مجاہدہ سے اپنے نفس کو قتل کرے۔ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں معرفت

۱۲۳

کے عظیم اسرار موجود ہیں، وہاں سخت حجاب کی غرض سے بڑا حکیمانہ امتحان ہے، جیسے بنی اسرائیل کے ان لوگوں کے بارے میں ہے جو جیتے جی مر رہے تھے، یعنی وہ منزلِ عزرائیلی میں تھے، ترجمہ ہے: پھر تم کو موت نے آپکڑا اور تم (اس حالت کو) دیکھ رہے تھے (۲: ۵۵) پھر تمہیں تمہارے مرنے کے بعد ہم نے جِلا اٹھایا تا کہ تم شکر کرو (۲: ۵۶) یہ جسمانی موت نہیں بلکہ نفسانی موت تھی، جس سے روحانیت کا دروازہ کھل جاتا ہے، اور بڑے پیمانے پر باطنی نعمتیں شروع ہوتی ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ کا شکر واجب ہوتا ہے۔

 

۱۵۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قصے میں بھی مومنین کے لئے بہت سے علمی و عرفانی فائدے ہیں، ان سب کا بیان اس مختصر مقالے کی گنجائش سے باہر ہے، لہٰذا یہاں صرف چند مثالوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے، یہاں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ پیغمبر اور امام لفظی اور شخصی اسمِ اعظم ہیں، چنانچہ حضرتِ مریم سلام اللہ علیہا کو لفظی اسمِ اعظم (کلمہ) دیا گیا تھا، اسی میں حضرتِ عیسیٰؑ کا نور بحدِ قوّت موجود تھا (۴: ۱۷۱) یہی سبب ہے کہ حضرتِ امامِ عالی مقام بعض مریدوں کو اسمِ اعظم کی تعلیم دیتا ہے تا کہ خصوصی بندگی اور ریاضت سے ان میں امام کا نور طلوع ہو جائے۔

 

۱۶۔ سورۂ آلِ عمران (۳: ۴۹) اور سورۂ مائدہ (۵: ۱۱۰) میں ہے کہ حضرتِ عیسیٰؑ خدا کے اذن سے کچھ خاص پرندے بناتے تھے، یہ ان کی روحانی اور عقلانی ہستی کی بے شمار کاپیاں تھیں، جن کو فرشتے اور جامہ ہائے

۱۲۴

جنّت بھی کہہ سکتے ہیں، اور یہ باطنی معجزہ ہر انسانِ کامل کا ہے، تا کہ جنّت میں اس لباس کو پہن کر اہلِ ایمان پرواز کر سکیں، اس کے علاوہ ایسے مبارک لباس میں کون سا معجزہ نہیں ہوسکتا ہے، یقیناً یہی معجزاتی چیزیں بازارِ جنّت کی زندہ تصویریں بھی ہیں، جن کا ذکر حدیثِ شریف میں ہے، آپ ہزار حکمت میں دیکھ لیں۔

 

۱۷۔ فیضِ روح القدس ار باز مدد فرماید + دیگران ہم بکنند آنچہ مسیحا می کرد

حضراتِ انبیاء علیہم السلام کے تقریباً سب معجزات تاویلی ہوتے ہیں، لہٰذا یہ کہنا بجا ہوگا کہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کے اکثر معجزے بھی تاویلی اور باطنی تھے، مثال کے طور پر مادر زاد اندھے کو ظاہری بینائی بخشنا، اس کی تاویل یہ ہے کہ حضرتِ عیسیٰؑ اپنے پراثر علم کی تعلیم سے لوگوں کے باطن میں چشمِ بصیرت پیدا کر دیتا تھا اسی طرح مردۂ جسمانی کو زندہ کرنے کی تاویل ہے: مردۂ جہالت و نادانی کو حقیقی علم کی روح میں زندہ کرنا، وغیرہ۔

 

۱۸۔ حضرتِ محمد مصطفی رسول اللہ حبیبِ خدا سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ عالی صفات اوّلین و آخرین کے تمام عوالمِ شخصی کے لئے سرچشمۂ رحمت ہے، جیسا کہ اللہ جلّ شانہ نے ارشاد فرمایا: و ما ارسلنٰک الا رحمۃ اللعٰلمین (۲۱: ۱۰۷) اے رسول ہم نے تو تم کو تمام عوالمِ شخصی کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ عوالمِ شخصی کن کن

۱۲۵

خلائق کے ہوتے ہیں؟ جنّ، انس، ملائک، رسل، انبیاء، اولیاء، عرفاء، حکماء، علماء ، وغیرہ کے عوالمِ شخصی ہوتے ہیں، الغرض سب کے لئے رحمتِ کل آنحضرتؐ کا نورِ پاک ہے۔

 

۱۹۔ ترجمۂ ارشادِ مبارک از سورۂ احزاب: درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (۳۳: ۲۱) پیغمبرِاکرم کا اسوۂ حسنہ (بہترین نمونہ = بہت اچھا نمونہ) نہ صرف ظاہری علم وعمل میں ہے بلکہ یہ روحانی ترقی کے لئے بھی ہے، پس یقیناً اس پُرحکمت تعلیم میں شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا اشارہ ہے، رسولِ پاک کو دنیا (یعنی روحانی معراج) میں اللہ کا دیدار ہوا تھا، آیا نبیٔ اکرم کے اسوۂ حسنہ میں معرفتِ معراج یا معرفتِ ربّ کا اشارہ موجود ہے یا نہیں؟ مذکورہ آیۂ مبارکہ میں اللہ کی امید پہلے ہے، اور آخرت کی امید بعد میں، اس سے یہ معلوم ہوا کہ آخرت سے پہلے بھی خدا کا دیدار ہوتا ہے، اور یہ معرفت ضروری ہے، ورنہ قرآن کو سخت اعتراض ہے ۔۔۔۔(۱۷: ۷۲)۔ شروع شروع میں علم الیقین آپ کو عین الیقین کی نمائندگی کرے گا، یہ حقیقت قرآنِ عزیز (۱۰۲: ۵ تا ۷) میں ہے۔

 

۲۰۔ جب قرآن اور اسلام میں صراطِ مستقیم اور اس کے لوازم کی بہت بڑی اہمیت ہے تو منزلِ مقصود کی بڑی زبردست اہمیت کیوں نہ

۱۲۶

ہو؟ ہم اچھی طرح کیوں نہیں سوچتے کہ منزلِ مقصود کیا ہے؟ یا کون ہے؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضورِ اکرمؐ نے صراطِ مستقیم کی آخری منزل نہ بتا دی ہو؟ یقینا آنحضرتؐ نے اپنے قول و فعل دونوں سے اس کی رہنمائی اور نشاندہی فرمائی ہے، اور اس سے پہلے قرآنِ حکیم کی روشن ہدایت ہے، جیسے ارشاد ہے: انا للہ و انا الیہ راجعون (۲: ۱۵۶) ہم تو خدا ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم اللہ کے قربِ خاص سے آئے ہیں اور ہمیں لوٹ کر اسی قرب میں جانا ہے، اس میں دیدار اور معرفت کا اشارہ خود بخود موجود ہے۔

 

۲۱۔ رجوع الی اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی عظیم روح (نفسِ واحدہ) خدا کی طرف واپس جاتی ہے تو اس میں کائنات بھر کے لوگ روحاً فنا ہوچکے ہوتے ہیں، لہٰذا وہ خدا کے پاس دو معنوں میں جاتی ہے۔ (۱) وہ اکیلی جاتی ہے ۔ (۲) سب کو لے کر جاتی ہے یا سب ایک ساتھ جاتے ہیں، لیکن یہ بڑی عجیب بات ہے کہ یہ عظیم روح آخراً خود بھی خدا میں فنا ہوجاتی ہے، میرا خیال ہے کہ یہ معرفت کا بہت بڑا راز ہے، مگر ہاں، اس کی وضاحت الگ ہے۔

 

۲۲۔ اب یہ حقیقتِ عالیہ بڑی حد تک قابلِ فہم ہوگئی کہ جب رحمتِ عالمین روحانی معراج پر تشریف لے گئے تھے، اس وقت سارے جہان کی روحیں بحالتِ فنا آپ کے ساتھ موجود تھیں، یہ حضورِ اکرمؐ کا عالمِ

۱۲۷

اسلام اور عالمِ انسانیت پر بہت بڑا احسان ہے، اب اگر یہاں یہ سوال ہو کہ محبوبِ خدا کے علاوہ انبیاء و اولیاء وغیرہ مشاہدۂ معراج سے سرفراز ہوئے ہیں یا نہیں؟ اس کا جواب نفی میں نہیں، اثبات میں ہے، لیکن سوال در سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کائناتِ ظاہر و باطن اور خود معراج کس محبوبِ خدا کے نام پر ہے؟ صاحبِ لولاک کون ہے؟ وہ نورِ اقدس کس کا تھا جو سب سے پہلے پیدا کیا گیا؟ سید الانبیاء کس کا لقب ہے اور کیوں؟ تمام عوالم کے لئے خدا کی رحمت کون ہے؟ وہ محسنِ اعظم کون ہے جس نے سردارِ انبیاء کی مرتبت میں تمام پیغمبروں اور امتوں کو بحدِ قوّت معراج تک پہنچا دیا؟ ان جیسے بہت سے سوالات کا واحد جواب صرف اور صرف حضرتِ محمد رسول اللہ کے مبارک نام سے دیا جا سکتا ہے۔

 

۲۳۔ اب یہ بتانا آسان ہوگیا کہ معراج ہر پیغمبر، ہر ولی (امام) اور ہر عارف کے لئے بے حد ضروری ہے، کیونکہ حظیرۃ القدس مقامِ معراج کا نام ہے، جہاں خزائنِ الٰہی موجود ہیں، اور علم و معرفت کی کوئی ایسی چیز نہیں جہاں وہ نہ مل سکے، لہٰذا معراج کے بغیر کوئی علم، کوئی حکمت، اور کوئی معرفت مکمل نہیں، پس قرآنِ حکیم میں یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ کسی پیغمبر کی معراج کا اشارہ کہاں کہاں ہے، الغرض انسانِ کامل کی معراج کی نشاندہی ہوسکتی ہے، ان شاء اللہ اس کے لئے ایک الگ مضمون

۱۲۸

ہو گا، الحمد للہ ربِّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

اکۛارو ۲۵ صفر المظفر ۱۴۱۸ھ، یکم جولائی ۱۹۹۷ء

۱۲۹

معراج اور معارج

 

۱۔ حدیثِ شریف میں آیا ہے کہ: القراٰن ذلول ذو وجوہ فاحملوہ علیٰ احسن وجوھہ = یعنی قرآن بہت ہی رام ہونے والی چیز ہے، اور وہ متعدد پہلو (وجوہ) رکھتا ہے، لہٰذا تم اسے اس کی بہترین وجہ پر محمول کرو۔ (الاتقان، حصۂ دوم، نوع اٹھتر)۔ اس حدیثِ شریف میں نورِ نبوّت کی ایسی درخشندہ و تابندہ روشنی ہے کہ جس سے اہلِ علم و دانش کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں، اور یہ حقیقت کلّی طور پر واضح اور نمایان ہو جاتی ہے کہ تمام قرآنی الفاظ اور معانی و مطالب یقیناً ایسے انمول جواہر کی طرح ہیں، جن کے متعدد پہلووں کی چمک دمک سے ناظرین کو بڑی حیرت ہوتی ہو۔

 

۲۔ سورۂ معارج کی چار ابتدائی آیات کا ترجمہ: ایک پوچھنے والے نے (براہِ تجربۂ معرفت) کافروں کے لئے ہو کر رہنے والے عذاب کے بارے میں پوچھا جس کو کوئی ٹال نہیں سکتا جو سیڑھیوں والے خدا کی طرف سے ہے ملائکہ اور روح اس کے حضور چڑھ کر جاتے ہیں

۱۳۰

ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے (۷۰: ۱ تا ۴) یہ درپردہ روحانی قیامت کا تذکرہ ہے، جس میں عذاب اور رحمت کے دو پہلو ہیں، یہ شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر سوال کرنے والا شخص مومنِ سالک اور عاشقِ صادق ہے جو دیدار کے لئے جی رہا ہے اور دیدار کے لئے مر رہا ہے، خدائے تعالیٰ کی ایک صفت ذی المعارج ہے، یعنی سیڑھیوں والا، چونکہ لفظِ معارج جمع اور معراج واحد ہے، اس لئے ذی المعارج کا قابلِ فہم مطلب ہے ’’معراجوں کا مالک‘‘، یعنی خدا کی خدائی میں انبیاء ، اولیاء، اور عارفین کی بہت سی معراجیں ہیں۔

 

۳۔ اگرچہ ہر پیغمبر کا روحانی سفر یا اس کی ذاتی قیامت مختلف درجات کی ایک سیڑھی (معراج) ہے، جو حظیرۃ القدس تک پہنچ جاتی ہے، لیکن اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ حضرتِ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معراجِ شریف تمام معراجوں کی سردار ہے، جبکہ رسولوں کے فضائل کے درجات ہیں، جبکہ آنحضرتؐ بلاشبہ تمام پیغمبروں کے سیّد (سردار) ہیں، جبکہ آپ سب کے لئے سرچشمۂ رحمتِ الٰہی ہیں، پس یہ سچ ہے کہ محبوبِ خدا کی معراج سب سے افضل ہے، اور باقی معراجیں سردارِ رسل ہادیٔ سبل صلعم کے نقشِ قدم پر چل کر عملی معرفت کی غرض سے ہیں، اور اسی طرح یہ روحانی عروج نہ ہو تو خود شناسی اور خدا شناسی محال ہے۔

 

۴۔ ملائکہ اور روح اس کے حضور چڑھ کر جاتے ہیں، روح سے

۱۳۱

مراد انسانِ کامل یعنی نفسِ واحدہ ہے اور ملائکہ ذیلی روحیں ہیں، نورِ ہدایت کا بڑا زبردست معجزہ ہے کہ وہ منزلِ سعی (دوڑنا) سے ہر کامل کو بڑی سرعت کے ساتھ آگے لے جاتا ہے، اور اب کم وقت میں عارف حظیرۂ قدس میں پہنچ جاتا ہے، ورنہ یہ راستہ بقولِ قرآن پچاس ہزار (۵۰۰۰۰) سال کی مسافت پر مبنی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اہلِ معرفت سے عوام الناس پچاس ہزار سال پیچھے ہیں۔ ببین تفاوتِ راہ از کجاست تا بکجا۔

۵۔ سوال: قرآنِ مقدس میں ہے: فبعث اللہ النبیین (۲: ۲۱۳) اگر اس میں بھیجنے کے معنی ہیں تو اللہ پاک نے اپنے پیغمبروں کو کہاں کہاں سے بھیجا؟ اگر یہ مرکر زندہ ہو جانے کے معنی میں ہے تو یہ معجزہ کس مقام پر ہوا؟ جواب: دونوں معنی درست ہیں، چنانچہ یہ حضرات منزلِ عزرائیلی میں بھی مر کر زندہ ہو گئے تھے، اور مرتبۂ عقل پر بھی، پس ان کو مقامِ عقل (قربِ الٰہی) سے بھیجا گیا۔ سوال: عالمِ شخصی میں مقامِ عقل کہاں ہے؟ جواب: انسانِ کامل کی مبارک جبین میں۔

 

۶۔ ترجمۂ آیۂ دوازدہم از سورۂ یاسین (قلبِ قرآن ، ۳۶: ۱۲): ہم ہی یقینا مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور جو کچھ افعال انہوں نے کئے ہیں وہ سب ہم لکھتے جا رہے ہیں، اور جو کچھ آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ہم ثبت کر رہے ہیں، اور ہم نے ہر چیز کو ایک پیشوائے ظاہر میں گھیر کر رکھا ہے۔ خدا ہر قسم کے مردوں کو زندہ کرتا ہے، لیکن کاملین کی موت و

۱۳۲

حیات کا سب سے بڑا معجزہ منزلِ عزرائیلی اور منزلِ عقل میں ہے، پس یہ ایک ضروری سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا جس طرح انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کو زندہ کرتا ہے، اور جیسے ان کے پیغمبرانہ اور اولیائی کارناموں کو اور ان کے آثار کو ریکارڈ کرتا ہے وہ کہاں ہے؟ اس کا جواب دور نہیں، بلکہ ساتھ ہی ہے، اور وہ یہ ہے: اور ہم نے ہر چیز کو ایک پیشوائے ظاہر میں گھیر کر رکھا ہے۔

 

۷۔ بیانِ بالا سے معلوم ہوا کہ امامِ مبینؑ کا مرتبہ حظیرۃ القدس (احاطۂ مقدّس) ہے جس میں باطنی کائنات لپیٹی ہوئی ہے، پس امامِ مبینؑ میں سب کچھ ہے، ہر چیز ہے، پیغمبرانہ اور اولیائی کارنامے بھی ہیں، اور ان سب کی معراجیں بھی ہیں، یہ وصف ہر زمانے کے امام کے لئے ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ نے ہر امامِ برحق کو صاحبِ قیامت بنایا ہے (۱۷: ۷۱) اور قیامت وہ وقت ہے، جس میں ماضی ، حال، اور مستقبل کے سب لوگ امامِ وقت کے عالمِ شخصی میں جمع ہوتے ہیں (۵۶: ۴۹ تا ۵۰) اسی طرح ہر امام میں قیامت کا تجدّد ہوتا رہا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: و تلک الایام نداولھا بین الناس (۳: ۱۴۰) یہی (سات) دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ پس قیامت دین کا سنیچر ہے، جس کو بار بار آتے رہنا ہے۔

 

۸۔ حضرتِ آدم علیہ السّلام کی معراج کے ثبوت میں دو علمی وعرفانی شہادتیں پیش کی جاتی ہیں، پہلی شہادت یہ ہے کہ جس مقام پر خدا نے

۱۳۳

آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا تھا وہ معراج کا مقام تھا، کیونکہ یہ کام صرف بہشت میں ہوسکتا ہے اور مقامِ معراج بہشت کا حصہ ہے، دوسری شہادت یہ ہے کہ چیزیں دو دو ہیں، چنانچہ فرشتوں نے حضرتِ آدم کو پہلے عالمِ شخصی کی زمین پر سجدہ کیا، اس کے بعد جس وقت آدم عالمِ شخصی کے آسمان پر گیا اور حظیرۃ القدس میں داخل ہو گیا تو پھر وہاں فرشتوں نے اس کو دوسرا سجدہ کیا، اب سارے فرشتے مل کر ایک فرشتہ ہوگئے تھے، کیونکہ یہ مقامِ معراج تھا جو مقامِ وحدت ہے۔

 

۹۔ حضرتِ ادریس علیہ السّلام کی معراجِ روحانی کے بارے میں یہ آیۂ شریفہ ہے: ور فعنٰہ مکانا علیا (۱۹: ۵۷) اور ہم نے اسے (روحانیت کے) بہت اونچے مقام پر اٹھایا تھا۔ لوگ عالمِ شخصی کے اسرار سے بے خبر ہیں، جس کی وجہ سے انبیاء واولیاء علیہم السّلام کے بھیدوں کو اس مادّی کائنات میں ڈھونڈتے ہیں، حضرتِ ادریسؑ کو قرآنِ پاک میں صدّیق کے لقب سے یاد فرمایا گیا ہے (۱۹: ۵۶) صدّیق صاحبِ تاویل کو کہتے ہیں جو اپنی تاویل سے آسمانی کتاب یا کتب کی تصدیق کرتا ہے، کتاب کی تصدیق سے اس پیغمبر کی تصدیق ہوتی ہے جس کی وہ کتاب ہے اور آسمانی کتاب کی تاویل کوئی شخص نہیں جانتا، مگر پیغمبر، امام، اور حجّت، حجّت کی مثال مریم علیہا السّلام ہے، ہم ان شاء اللہ، معراجِ مریم کا بھی ذکر کریں گے۔

 

۱۰۔ حضرتِ ہود علیہ السّلام کی معراج کا اشارہ سورۂ ہود کے اس

۱۳۴

ارشاد میں ہے: ان اجری الا علی الذی فطرنی (۱۱: ۵۱) میرا اجر تو اس کے ذمّہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ یہاں فطرنی میں حظیرۂ قدس میں انسانِ کامل کے عقلی تولد کے معنی ہیں، جس میں وہ رحمان کی صورت پر پیدا ہوتا ہے، پس یہی آیۂ شریفہ حضرت ہودؑ کی معراج کی دلیل ہے، جیسے آیۂ کریمہ کا ترجمہ ہے: (اے رسول مقامِ عقل پر) اپنا چہرۂ جان دین کے لئے قائم کرو حنیف (موحّد) ہوکر، خدا کی (ازلی) آفرینش وہ ہے جس پر اس نے (ازل میں) لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی (اس) خلق میں کوئی تبدیلی نہیں، یہی دینِ قائم ہے، مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں (۳۰: ۳۰)۔

 

۱۱۔ حضرتِ صالح علیہ السلام نے قومِ ثمود سے کہا: انی لکم رسول امین (۲۶: ۱۴۳) میں تو یقیناً تمہارا امانتدار پیغمبر ہوں۔ امین کے تین معنی ہیں: امانتدار، امن والا، معتبر، جس کو قرآنِ حکیم میں امین کہا گیا ہے، وہ معراجی اسرار اور علم و معرفت کا امانتدار ہوتا ہے، وہ کلّی طور پر امن والا اور کاملاً معتبر ہوتا ہے، ہم یہ اس لئے کہتے ہیں کہ قرآن کے ہر خاص لفظ میں حکمتِ بالغہ مخفی ہوتی ہے، یعنی ایسی بلند ترین حکمت جو عرش، کرسی، قلم، لوح اور کلمۂ باری تک پہنچی ہوئی ہے، اور کتابِ مکنون کو چھو رہی ہے، کیونکہ یہ معراجی بہشت کی بلندی سے آئی ہے، پس اہلِ معرفت آپ کو حکمتِ بالغہ کی روشنی میں انبیاء و اولیاء (أئمّہ) علیہم السّلام کی معراجوں (معارج) کی نشاندہی کرسکتے ہیں، کیونکہ دینِ اسلام کی باطنی نعمتوں (۳۱: ۲۰)

۱۳۵

سے عرفانی نعمتیں مراد ہے۔ الحمد للہ۔

 

۱۲۔ سورۂ انبیاء (۲۱: ۷۱) میں حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ لوط علیہما السلام سے متعلق ارشاد ہے: و نجینٰہ و لوطا الی الارض التی برکنا فیھا للعٰلمین۔ اور ہم نے ابراہیم اور لوط کو اس زمین میں پہنچا کر نجات دی جس میں ہم نے تمام عوالمِ شخصی کے لئے برکتیں رکھی ہیں۔ یہاں ’’الارض‘‘ سے نفسِ کلّی مراد ہے، جو عقلِ کلّی کی نسبت سے زمین ہے، اور ناطق کی نسبت سے آسمان، جس میں ہر عالمِ شخصی کے لئے جسمانی، روحانی اور عقلانی برکتیں ہیں، اور مقامِ معراج نفسِ کلّ کے آسمان میں ہے۔

 

۱۳۔ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو خداوند تعالیٰ نے نبوّت، رسالت، خُلّت (دوستی) اور امامت جیسے مراتبِ جلیلہ سے مشرف و سرفراز فرمایا تھا، آیۂ کریمہ: انی وجھت (۶: ۷۹) میں یہ لطیف اشارہ موجود ہے کہ آپ معراجی بہشت میں داخل ہوکر اپنے باپ آدم کی طرح رحمان کی صورت پر ہوگئے تھے، کیونکہ خدا شناس (معرفت) کا آخری درجہ یہی ہے، اے نورِعینِ من! یہ قانون ہمیشہ یاد رہے کہ دین کی اساسی چیزیں دو دو ہوتی ہیں، چنانچہ حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل (ناطق و اساس) علیہما السلام دو تھے، انہوں نے خدا کے لئے دو گھر بنا دیئے تھے، ایک ظاہر میں تھا اور ایک باطن (جبین) میں، جیسا کہ ارشادِ مبارک ہے: و اتخذوا من مقام ابراہیم مصلی (۲: ۱۲۵) اور (ہم نے حکم دیا کہ) ابراہیم کی (اس) جگہ کو نماز کی جگہ بناؤ۔ یعنی ناطق اور اساس کے وسیلے سے عالمِ شخصی

۱۳۶

میں ترقی کرکے اپنی جبین میں خدا کا گھر بناؤ، یہی باطنی بیت اللہ اور مقامِ ابراہیم ہے، اسی میں نماز پڑھو اور علمی عبادت کرو۔

 

۱۴۔ سورۂ ذاریات کی دو آیتیں اس طرح کی حکمتیں بتاتی ہیں (ترجمہ): اور زمین میں اہلِ یقین (اہلِ معرفت) کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں، اور خود تم میں بھی ہیں تو تم کیا دیکھتے نہیں؟ (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) ۔  اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے دو گھر ہیں، ایک ظاہر میں ہے اور ایک باطن (جبین) میں، لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ خدا کا یہ گھر جس کے مجاور ہم ہی ہیں، وہ کس حالت میں ہے؟ بحدِ قوّت ہے یا بحدِ فعل؟ صفائی کی گئی ہے یا نہیں؟ اس میں کہیں بہت سے اصنام تو نہیں ہیں؟

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

ڎندورہ گنڎ ، یکم ربیع الاول ۱۴۱۸ھ ، ۷ جولائی ۱۹۹۷ء۱۳۷

باطنی نعمتوں کا تذکرہ

 

۱۔ سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں ارشاد ہے (ترجمہ): کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں؟ اور لوگ ایسے بھی ہیں جو خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں (حالانکہ ان کے پاس) نہ علم ہے اور نہ ہدایت ہے اور نہ کوئی روشن کتاب ہے۔ اس پرحکمت ربانی تعلیم میں بصد عجز و انکسار سوچنے کی ضرورت ہے کہ تمام کائنات کی چیزیں در حقیقت ظاہر میں مسخر کی گئی ہیں یا باطن میں؟ خداوندِ عالم کا یہ احسان و اکرام دنیا میں ہے یا آخرت میں یا دونوں میں؟ کیا یہ بہشت کی بہت بڑی سلطنت کا ذکر ہے (۷۶: ۲۰)؟

 

۲۔ مذکورہ آیت میں یہ سوال: ’’کیا تم لوگ نہیں دیکھتے؟‘‘ اِس غرض سے ہے کہ لوگ چشمِ معرفت کی ضرورت و اہمیت کو سمجھ لیں، جیسے اَلَم تَرَ (کیا تونہیں دیکھتا)؟ کا سوال قرآن میں ۳۱ دفعہ آیا ہے، جس کا مقصد چشمِ باطن (چشمِ بصیرت ) کی طرف توجہ دلانا ہے، تا کہ ہر ذی شعور مومن دل

۱۳۸

کی آنکھ حاصل کرنے کے لئے بیش از بیش سعی کرے، اور علم وعمل کی تمام شرطوں کے ساتھ گریہ و زاری اور مناجات کرتا رہے۔

 

۳۔ کائنات کا مسخر ہوجانا انتہائی عظیم نعمت ہے، لہٰذا یہ مرتبۂ فنا فی اللہ کے بغیر ممکن ہی نہیں، فنا خوشی سے بھی ہے اور زبردستی سے بھی، ماضی میں جو لوگ جسمانی زندگی ہی میں مرکر زندہ ہوچکے تھے، وہ علم و معرفت کے اعتبار سے کتنے ضروری تھے، حق بات تو یہ ہے کہ وہ آپ کو معرفت کی بے حد مفید باتیں بتا سکتے تھے، کاش ایسے لوگوں سے آپ کی اور ہماری ملاقات ہو سکتی! یا ان کی اصل اصل (ORIGINAL)باتیں ہم تک آئی ہوتیں! لیکن ہم مایوسی کا شکار کیوں ہوجائیں، جبکہ اسلام میں ناامیدی ممنوع ہے، کیونکہ اس زندہ اور پاک مذہب میں نہ صرف کل (آخرت) کی اعلیٰ امیدیں ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ آج دنیا میں بھی بہشت کی علمی وعرفانی نعمتیں اور روحانیت کی عملی بشارتیں موجود و مہیا ہیں۔

 

۴۔ آپ نے ترجمۂ آیۂ شریفہ (۳۱: ۲۰) میں خوب غور سے دیکھا ہوگا کہ ظاہری نعمتوں کے ساتھ ساتھ باطنی نعمتیں بھی مکمل اور تیار ہیں، لیکن یہ سوال سامنے آتا ہے کہ باطنی نعمتیں کیا ہیں؟ آیا یہ قرآنِ حکیم ہی کی باطنی نعمتیں ہیں؟ کیا اس سے علمِ باطن مراد ہے؟ کیا یہ باطنی ہدایت اور تاویل ہے؟ کیا روحانیت اور علمِ لدنی کی بات ہے؟ تائید ؟ دیدار؟ معرفت؟ حکمت؟ نور؟ علم الیقین؟ عین الیقین؟ حق الیقین؟ فنا فی اللہ؟

۱۳۹

بقاباللہ؟ چشمِ بصیرت؟ وہ تمام نعمتیں جن کا ذکر سورۂ رحمان میں ہے؟ وہ ساری نعمتیں جن کا تذکرہ تمام قرآن میں ہے؟ آیا یہ سب چیزیں باطنی نعمتوں میں سے نہیں ہیں؟ اگر جواب یہ ملتا ہے کہ بے شک قرآن اور اسلام میں باطنی نعمتیں بھری پڑی ہیں، تو آئیے ہم ہادیٔ برحق سے رجوع کریں تا کہ وہ ہماری رہنمائی اور مدد فرمائے تا کہ ہم قرآن اور اسلام کی کوئی چھوٹی سی خدمت کر سکیں۔

 

۵۔ اللہ جلّ جلالہ کی چیزیں عقل و جان کی اعلیٰ خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ہیں، لہٰذا کوئی بے جان سڑک خدا تک نہیں جاسکتی ہے، بلکہ راہِ خدا یعنی صراطِ مستقیم ہادیٔ زمان ہی ہے، اُسی کی معرفت اور اطاعت کی غرض سے یہ آسمانی مقدّس دعا سکھائی گئی ہے: اھدنا الصراط المستقیم۔ صراط الذین انعمت علیہم= ہم کو راہِ راست پر چلا، ان لوگوں کی راہ جنہیں تو نے (اپنی) نعمتیں عطا کی ہیں۔ اللہ کی بے بدل اور اٹل سنت کے مطابق ہمیشہ دنیا میں روحانی ہدایت کا مرکز نورِمنزّل کی صورت میں قائم ہے، جس کی پیروی کرنے والے درجہ بدرجہ حدودِ دین ہو گئے، جیسے زمانۂ آدم سے اِس طرف کے ناطقان، اساسان، امامان، اور حجّتان، جن پر اللہ نے بہت بڑا انعام فرمایا ہے، پس اہلِ ایمان میں سے جو جو اشخاص حقیقی معنوں میں اطاعت کریں گے، وہ بھی روحانیت میں ان حضرات کے ساتھ ہوجائیں گے (۴: ۶۹) ۔ الحمد للہ ربِّ العالمین۔

۱۴۰

۶۔ اے عزیزانِ من! یہ از بس مفید نکتہ یاد رہے کہ معرفت بہت ہی  ضروری شیٔ ہے، کیونکہ ہر نعمت کی تصدیق معرفت ہی سے ہوتی ہے، ورنہ تکذیب ہوتی ہے ، جیسے سورۂ رحمان (۵۵: ۱ تا ۷۸) میں کل ۳۱ بار یہ سوال دہرایا گیا ہے: پس اے جنّ و انس ، تم اپنے ربّ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاتے ہو؟ جھٹلانا ’’تکذیب‘‘ کو کہتے ہیں، جو تصدیق کی ضد ہے، اور تصدیق صرف علم و معرفت ہی سے ہوتی ہے، پس سورۂ رحمان میں جتنی نعمتوں کا ذکر ہوا ہے وہ سب مشاہدہ، معرفت، اور تصدیق کی متقاضی ہیں، اور یہ امر ممکن ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

بودو ، ۳ ربیع الاول ۱۴۱۸ھ ، ۹ جولائی ۱۹۹۷ء

۱۴۱

معرفت اور اس کی جامعیّت

 

۱۔ کسی عزیز کو یہ خیال ہرگز نہ ہو کہ نورِ معرفت صرف آنکھ ہی کے لئے کام کرتا ہے اور بس، میں کہتا ہوں کہ ہرگز ایسا نہیں، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک نور ہے، جس میں عقلِ کامل ، روحِ اعظم، اور کائناتی جسمِ لطیف کی تمامتر خصوصیات جمع ہیں، لہٰذا یہ نورِ اقدس مومنِ سالک کے نہ صرف حواسِ ظاہر و باطن ہی کو حیاتِ نو عطا کرتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ تمام ذرّاتِ ہستی کو بھی ارواحِ تازہ اور قیامت خیز فعالیت بخشتا ہے، آپ نورِ معرفت کی تعریف کی غرض سے کتاب قرآنی علاج میں مضمون: ’’امواجِ نور‘‘ کو خوب غور سے پڑھیں،جس میں دعائے نور کی وضاحت ہے۔

 

۲۔ قرآنِ حکیم میں معرفت کا ذکر عیان بھی ہے اور نہان بھی، یعنی اس کا بیان براہِ راست اور بالواسطہ دونوں طریقوں سے آیا ہے، کہنا یہ ہے کہ اہلِ معرفت کی نظر میں مضمونِ معرفت عجیب طرح سے تمام قرآن میں پھیلا ہوا ہے، ہم (ان شاءاللہ ) یہاں اس کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں:

۱۴۲

 

۳۔ مادّہ : ع ر ف:

اس کے مختلف صیغوں کو قرآنِ پاک میں دیکھ لیں، ان سب میں معرفت (پہچان) ہی کا ذکر ہے، جیسے سورۂ محمد (۴۷: ۶) میں ارشاد ہے: و یدخلھم الجنۃ عرفھا لھم = اور ان کو اُس بہشت میں داخل کرے گا جس کا انہیں شناسا کر رکھا ہے۔ خوب یاد رہے کہ یہ کلّی معرفت ہے، اور اس سے کوئی چیز باہر نہیں، کیونکہ جنّت میں سب سے بڑی نعمت حضرتِ ربّ کی ملاقات اور معرفت ہے، اور اس سے عظیم تر نہ کوئی معرفت ہے اور نہ ہی کوئی نعمت ہے۔

 

۴۔ مادّہ: ن ک ر:

سورۂ یوسف (۱۲: ۵۸) میں ہے: فعرفھم و ھم لہ منکرون =  پس حضرتِ یوسفؑ نے انہیں پہچان لیا اور وہ لوگ اس کو نہ پہچان سکے۔ اس مثال سے یہ معلوم ہوا کہ مادّۂ ہٰذا کے تمام الفاظ معرفت کے برعکس ہیں، جیسے انکار، منکر، منکرین، وغیرہ، لہٰذا ان جملہ الفاظ میں بالواسطہ معرفت کا ذکر موجود ہے، یعنی منکر کی مذمت اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ عارف نہیں ہے۔

 

۵۔ مادّہ: ی ق ن:

معرفت کا ایک مترادف یقین ہے، جس کا مادّہ ی ق ن ہے، اور اس کے تمام صیغوں میں براہِ راست معرفت کا بیان ہے، جیسے سورۂ انعام (۶: ۷۵) میں ہے: اور ابراہیم کو ہم اسی طرح آسمانوں اور زمین کا نظامِ سلطنت دکھاتے تھے تا کہ وہ یقین کرنے والوں

۱۴۳

میں سے ہو جائے۔ یعنی وہ عارفین میں سے ہو جائے۔

 

۶۔ مادّہ: ر ی ب:

ریب (شک) یقین کے خلاف ہے، چنانچہ ارشاد ہے: الٓمٓ۔ ذالک الکتٰب لا ریب فیہ = قرآنِ ناطق کی قسم، وہ کتاب ایسی ہے کہ اُس میں کوئی شک ہی نہیں ، جب شک نہیں تو یقین ہی یقین ہے، جب یقین ہے تو کامل یقین یعنی حق الیقین (معرفت) ہے۔

 

۷۔ مادّہ: ش ھ د:

اس مادّہ کے الفاظ میں معرفت کے معنی پوشیدہ ہیں، جیسے روحانی شہید، یہ وہ شخص ہے جو جہادِ اکبر میں جیتے جی نفسانی طور پر قتل ہوچکا ہوتا ہے، وہ اپنی قیامت کے جملہ واقعات کے دوران حاضر تھا، اس لئے وہ ان عظیم معجزات کا عینی گواہ (چشم دید گواہ) بھی ہے اور عارف بھی ہے، ایسے شہداء کا ذکر سورۂ حدید (۵۷: ۱۹) میں بھی ہے۔

 

۸۔ مادّہ: ع ی ن:

حدیثِ نوافل میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کی آنکھ ہوجاتا ہے، اس سے اہلِ دانش کو قرآنی حکمت سمجھنے کی بڑی حد تک امید مل سکتی ہے، اور علم الیقین کا سہارا لے کر عین الیقین کی جانب آگے جا سکتے ہیں، غرض عین سے چشمِ بصیرت مراد ہے، جس کا تعلق معرفت سے ہے۔

۱۴۴

۹۔ مادّہ: ن و ر:

نور = عقل، علم، حکمت، ہادیٔ برحق، کیونکہ امامِ مبین میں تمام معانی جمع ہوجاتے ہیں (۳۶: ۱۲)۔ خداوندِ تعالیٰ امامِ زمانؑ کے وسیلے سے مومنین کو حقیقی روح میں زندہ کرکے نورِ معرفت عطا کرتاہے، وہ اس نور کے ساتھ اپنے عالمِ شخصی میں لوگوں کے درمیان چلتے پھرتے ہیں (۶: ۱۲۲) اس سے مراد عالمِ شخصی کی بادشاہی ہے۔

 

۱۰۔ مادّہ: ر أ ی:

سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵) میں ہے: الم تر الی ربک کیف مد الظل = کیا تو نے اپنے ربّ کی طرف نہیں دیکھا کہ کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ یہ اُس دیدارِ پاک کا ذکر ہے جو روحانی قیامت کے بعد حظیرۂ قدس کی جنّت میں عارف کو حاصل ہوتا ہے، سایہ شبِ ازل ہے۔

 

۱۱۔ مادّہ: ع م ی:

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۲) میں ہے: و من کان فی ہٰذہ اعمیٰ فھو فی الاٰخرۃ اعمیٰ و اضل سبیلا۔ اور جو شخص اِس دنیا میں اندھا بنا رہا تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا اور راستہ سے بہت دور بھٹکا ہوا۔ یہ چشمِ معرفت حاصل نہ کرنے کی مذمت ہے۔

 

۱۲۔ مادّہ: و ج ھ:

سورۂ قصص کے آخر (۲۸: ۸۸) میں ہے:

۱۴۵

کل شیءٍ ھالک الا وجھہ = ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے وجہُ اللہ کے۔ اس میں فنا فی اللہ کا سرِاعظم مذکور ہے کہ جب سالک منزلِ فنائے عُلوی میں پہنچ جاتا ہے تو اس کی ہر چیز فنا ہوجاتی ہے، مگر وہ صورتِ رحمان میں باقی رہتا ہے، صورتِ رحمان امام ہے۔

 

۱۳۔ مادّہ: ف ن ی:

سورۂ رحمان (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) میں ہے: کل من علیہا فان و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال و الاکرام = وہ سب جو ان (کشتیوں) پر سوار ہیں فنا ہوجانے والے ہیں اور صرف تیرے ربّ کا جلیل و کریم چہرہ ہی باقی رہے گا۔ قال علی علیہ السلام انا وجہ اللہ فی السمٰوٰت و الارض۔۔۔۔ (کوکبِ دری، بابِ سوم) پس وجہ اللہ کا مضمون بطورِ خاص معرفت ہی کا مضمون ہے۔

 

۱۴۔ مادّہ: ب ص ر:

بصیرۃ = دل کی بینائی، دیدۂ دل، چشمِ باطن، سورۂ یوسف (۱۲: ۱۰۸) میں ہے: قل ہٰذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علیٰ بصیرۃ انا و من اتبعنی = تم یہ کہہ دو کہ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں (بھی) اور وہ (بھی) جس نے میری پیروی کی ہے بصیرت پر ہیں۔ یہ آیۂ شریفہ آنحضرت، علی، اور أئمّۂ آلِ محمد کے بارے میں ہے (صلی اللہ علیہ و علیہم اجمعین)۔

۱۴۶

۱۵۔ مادّہ: ل ق ی:

لقاء = ملاقات، دیدار، سورۂ کہف کے آخر (۱۸: ۱۱۰) میں دیکھیں: فمن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملا صالحا و لا یشرک بعبادۃ ربہ احدا= پس جو کوئی اپنے ربّ کی ملاقات (دیدار) کا امیدوار ہو اسے چاہئے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے ربّ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔ ایک شخص نے از روئے انکار مولاعلیؑ سے سوال کیا: ہل رایت ربک حتّٰی عرفتہٗ؟ کیا تو نے اپنے ربّ کو دیکھا ہے کہ اس کو پہچان لیا ہے؟ حضرتِ امیر نے فرمایا: لم اعبد ربا لم ارہٗ =میں نے ربّ کی عبادت نہیں کی، جب تک کہ اس کو نہیں دیکھا۔ اُس شخص نے پوچھا: کیف رایتہٗ؟ تو نے اس کو کس طرح دیکھا؟ فرمایا: ما راتہ العیون بمشاہدۃ العیان لٰکن راتہ القلوب بحقائق العرفان۔ اس کو سر کی آنکھوں نے نہیں دیکھا، لیکن اُس کو (اولیاء کے) دلوں نے عرفانی حقیقتوں کے ساتھ دیکھا ہے۔ (بحوالۂ کوکبِ دری، بابِ پنجم)۔

 

۱۶۔ مادّہ: ہ د ی:

سورۂ نور (۲۴: ۳۵) میں ہے: نور علیٰ نور۔ یھدی اللہ لنورہ من یشاء =وہ نور پر نور ہے، اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی راہ بتلا دیتا ہے۔ نور پر نور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حاملانِ نور (حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام) کا سلسلہ ہمیشہ جاری ہے، یہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ ہدایتِ ظاہر جو اللہ کی خوشنودی

۱۴۷

کے مطابق ہے، وہ اہلِ ایمان کو اللہ کے نور تک پہنچا دیتی ہے، پھر روحانی اور نورانی ہدایت جو باطن میں ہے وہ قدم قدم پر بڑے بڑے علمی معجزات کے ساتھ ہے، پس ہدایت دو قسم کی ہے: ظاہری اور باطنی۔

 

۱۷۔ مادّہ: ح ک م:

حکمۃ =حکمت، دانش، عقلمندی ، علمِ لدنّی، اسرارِ باطن کی معرفت، جیسا کہ سورۂ بقرہ (۲: ۲۶۹) میں ارشاد ہے: یوتی الحکمۃ من یشاء و من یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرًا کثیرًا = وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عنایت فرماتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی اسے (تو) بہت کچھ خیر و برکت دی گئی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس پاک ارشاد میں جس شان سے حکمتِ سماوی کی تعریف فرمائی گئی ہے، وہ بے مثال کیوں نہ ہو، جبکہ فرمانِ عالی ہوا کہ حکمت خیرِ کثیر ہے۔

 

۱۸۔ مادّہ: ع ل م:

علم ہر چیز پر محیط بھی ہے اور ہر چیز میں محاط بھی، یعنی وہ ہر شیٔ کا حجاب بھی ہے اور ہر شیٔ میں محجوب بھی، علم کا یہ قانون قرآن، کتابِ نفس، اور صحیفۂ کائنات میں ہے، اس کی ایک عظیم الشّان مثال یہ ہےکہ جب ربّ العزت نے حضرتِ موسیٰؑ کے سامنے اپنی تجلّی کوہِ طور پر ڈالی تو وہ ریزہ ریزہ ہوگیا، ان کلمات میں علم ہے، جو مثال اور حجاب ہے، اب اس حجاب کے اندر جو

۱۴۸

علم محجوب ہے وہ بڑا عجیب وغریب ہے، وہ یہ کہ طور (پہاڑ) سے حضرتِ موسیٰؑ کی مبارک ہستی مراد ہے، جس پر منزلِ اسرافیلی میں اللہ نے اپنی پاک تجلّی ڈالی تو یہ ہستی اس طرح ریزہ ریزہ ہوگئی کہ اس کے خلیات میں سے بے حد و بے حساب روحیں بکھر گئیں، اس حال میں حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام طورِ ہستی کو دیکھتا بھی تھا، اور حیرت زدہ بھی تھا، اور اس کی آخری تاویل مقامِ عقل پر ہے، الغرض یہ اس حقیقت کی چند روشن مثالیں ہیں کہ قرآنِ حکیم میں مضمونِ معرفت کی بہت بڑی اہمیت ہے، یہی سبب ہے کہ اہلِ دانش کو تمام دوسرے موضوعات میں بھی اسرارِ معرفت نظر آتے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر ۸ ربیع الاول ۱۴۱۸ھ ، ۱۴ جولائی ۱۹۹۷ء

۱۴۹

 

آیات، مشاہدات، تجربات

 

۱۔ آفاق و انفس میں آیات:

سورۂ حٰمٓ السجدہ (۴۱: ۵۳) میں یہ پرازحکمت ارشاد ہے (ترجمہ): ہم عنقریب ہی ان کو اپنے معجزات آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ یقیناً وہی حق ہے۔

 

یہ سچ اور حقیقت ہے کہ قرآنی الفاظ کے ایک سے زیادہ معنی ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے مختلف کتابوں میں اس آیۂ کریمہ کی کئی وضاحتیں ہوچکی تھیں تاہم بہت ہی عاجزی سے یہاں ایک اور وضاحت کی جاتی ہے کہ آفاق جمع ہے اُفق کی، اور اُفق میں تین اشارے ہیں: ۱۔ وہ جگہ جہاں زمین و آسمان ملے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ۲۔ وہ مقام جہاں زمینِ مادّیت اور آسمانِ روحانیت کا اتصال ہے ۔ ۳۔ وہ مرتبہ جہاں زمینِ روح اور آسمانِ عقل کا ارتباط ہے، پس یہ تین اُفق یا آفاق ہوگئے۔

 

اسی طرح انفس کے دو معنی ہیں: (الف) نفوسِ جزوی، جو
۱۵۰

لوگوں میں اب ہیں۔ (ب) نفوسِ کلّی جو لوگوں کو روحانی قیامت میں ملتے ہیں، نفوسِ کلّیہ سے انسانانِ کامل مراد ہیں، جو اہلِ ایمان کی اپنی اصل اور اعلیٰ روحیں قرار پاتے ہیں، اس مقصد کے لئے کاملین کی بے شمار کاپیاں ہیں، اور یہ خدا کی بہت بڑی عنایت ہے۔

 

۲۔ ہر اُفُق اور ہر نفس:

اُفُقِ ظاہری یا جسمانی ، اُفُقِ روحانی اُفُقِ عقلانی نفسِ جزوی، اور نفسِ کلّی یہ سب وہ مقامات ہیں، جہاں اللہ کے حکم سے ہمیشہ معجزات ہوتے رہتے ہیں، کیونکہ معجزے صفاتِ الٰہیہ کے مجموعی افعال ہیں، جن کو رکنا اور خاموش ہونا نہیں ہے، مثال کے طور پر اگر سورج اپنے قانون کے مطابق کام نہ کرے تو نظامِ شمسی پر کیا گزرے گا، الغرض خداوندِ عالم ہر وقت معجزات دکھاتا ہے، بلکہ بہت سی آیات پہلے ہی سے لوگوں کے سامنے موجود ہیں، لیکن اکثر لوگ ایسے ہیں کہ چشمِ باطن پیدا کرنے کی کوشش تو درکنار ، وہ چشمِ ظاہر سے بھی مطالعۂ قدرت کا کام نہیں لیتے ہیں۔

 

۳۔ روحانی قیامت کے تمام معجزات:

آیۂ مذکورۂ بالا میں روحانی قیامت اور اس کے تمام معجزات کا حوالہ یا ذکر ہے، اس قیامت میں ہر معجزہ رونما ہوتا ہے، جس کا مشاہدہ انسانِ کامل کے ساتھ سب اہلِ قیامت کرتے ہیں، لیکن یہ سب یا تو ذرّات میں یا بحالتِ

۱۵۱

فنا ہوتے ہیں، یعنی وہ انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں ہوتے ہیں، اور اسی کی روحانیت کی روشنی میں سب کچھ دیکھتے رہتے ہیں، مگر ان نمائندہ ذرّات (ارواح) اور دنیا والوں کے درمیان ایک دیوار حائل ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے لوگ اپنی روحانی سرگزشتوں سے بے خبر بیٹھے ہیں۔

 

۴۔ ہر پہلی قیامت سے دوسری قیامت تک:

قرآنِ حکیم بزبانِ حکمت یہ فرماتا ہے کہ ہر زمانے کے امام کے ساتھ ایک پوشیدہ قیامت ہے (۱۷: ۷۱) اور ہر قیامت کی آخری اور عرفانی چوٹی پر عہدِ الست کا تجدّد ہوتا ہے، آپ سورۂ اعراف (۷: ۱۷۲) میں حسن و خوبی سے غور کریں، س: جب ربّ العزت نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذرّیت کو لیا تو کہاں پر لیا اور کیوں؟۔ ج: انسانِ کامل کی مبارک جبین پر لیا، اس امر میں بہت سے اسرار مخفی ہیں، منجملہ ایک راز یہ بھی ہے کہ تمام روحوں کو علمی وعرفانی پرورش کا نظام دکھاکر ان سے یہ عہد لینا مقصود تھا کہ حضرتِ ربِّ کریم حق ہے، اور یہ کام صرف مرتبۂ جبین ہی پر ہوسکتا ہے، س: کیا یہ کسی ایک زمانے کا قصّہ ہے یا دورِاعظم کے تمام انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کی قیامتوں کا ذکر ہے؟ ج: یہ جملہ جدا جدا قیامات کا مجموعی اور یکجا ذکر ہے، س: آیا انسانِ کامل کی نورانی جبین میں ربّ العزت کا دیدارِ پاک بھی ہوتا ہے یا

۱۵۲

صرف کلامِ الٰہی سننے کی سعادت نصیب ہوتی ہے؟ ۔ ج: ہر نعمتِ عظمیٰ حاصل ہوتی ہے، مگر انسانِ کامل میں فنا ہوکر، کیونکہ وہاں عالمِ یک حقیقت ہے۔

 

۵۔ مزید عرفانی سوالات:

س: آپ تو مختلف حوالوں سے ہمیشہ عشقِ سماوی کی حیران کن تعریف کرتے رہتے ہیں، لیکن الست بربکم (کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟) کے عظیم الشّان سوال میں وجودِ عشق اور اس کی پرورش کا کوئی اشارہ کہاں ہے جبکہ روح و عقل کی پرورش کا حکیمانہ اشارہ اسم ’’ربّ‘‘ میں واضح ہے؟ ۔ ج: جنابِ عالی، ربّ العالمین ہر قسم کی اعلیٰ پرورش کرتا ہے، اور اس کا پاک دیدار علی الخصوص مربیٔ عشق ہے، لہٰذا عشق کی بلندی بڑی عجیب وغریب ہے، س: کیا سوالِ الست کا تعلق صرف ذرّیتِ بنی آدم سے ہے یا اس میں آدم و بنی آدم بھی شامل ہیں؟۔ ج: یہی تو بہت بڑی حکمت ہے کہ ہر آدم قبلاً ابنِ آدم اور اُس سے پہلے ذرّیت تھا، کیونکہ اس آیۂ شریفہ کا یہی اشارہ ہے، س: اس ارشاد کی خاص حکمت کیا ہے: و اشھد ھم علٓیٰ انفسھم (۷: ۱۷۲)؟ج: اور ان کو اپنی اپنی روح پر گواہ بنایا۔ یعنی انہوں نے بتوفیقِ الٰہی حدیثِ من عرف کے مطابق اپنی معرفت سے ربّ کی معرفت حاصل کر لی۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

۱۵۳

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

بریسپت ، ۱۱ ربیع الاول ۱۴۱۸ھ، ۱۷ جولائی ۱۹۹۷ء

۱۵۴

تلخ و شیرین تجربات

 

۱۔ موت کا مزہ چکھنا:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: کل نفس ذآئقۃ الموت = ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے (۲۱: ۳۵)۔ موت اگرچہ بحیثیتِ مجموعی ایک ہی ہے، لیکن وہ طرح طرح سے واقع ہوتی ہے، چنانچہ اس کی دو بڑی قسمیں ہیں: (الف) مرگِ طبیعی، یعنی قدرتی موت، جس کی بہت سی حالتیں ہیں، (ب) مرگِ مفاجات، یعنی اچانک آنے والی موت، اس کی بھی بہت سی صورتیں ہیں، لیکن یقیناً ان تمام اموات میں سے کوئی موت ایسی نہیں ہے، جس میں مرنے والے آدمی کو بمقتضائے حکمتِ قرآن موت کا حقیقی مزہ معلوم ہوجائے، ملک الموت اور اس کے لشکر کے عظیم اسرار سے آگہی ہو، اور وہ کوئی ایسی موت کی سچی کہانی جو سب کے لئے مشترک ہو من و عن (حرف بحرف) سنا سکے، ظاہر میں کوئی ایسی موت نہیں، اور نہ کوئی ایسا شخص ہے جو حقیقی معنوں میں آیۂ مبارکۂ بالا کا مصداق ہو۔

۱۵۵

۲۔ اضطراری موت اور اختیاری موت:

صوفیائے کرام کے نزدیک موت دو قسم کی ہوا کرتی ہے، ایک نفسانی (اختیاری) موت ہے اور دوسری جسمانی (اضطراری) موت، جب اسلام میں جہادِ اکبر بھی ہے تو لازمی طور پر باطنی شہادت بھی ہے، کیونکہ ہر ظاہری نعمت کے پیچھے ایک باطنی نعمت بھی ہے، اب سمجھ لیجئے کہ باطنی شہادت ہی وہ پرحکمت موت ہے، جس کا مزہ سالکین، عارفین اور کاملین چکھ لیتے ہیں، اور منزلِ عزرائیلی میں جیسے لاتعداد عجائب وغرائبِ حکمت کا انمول خزانہ ہے، اس سے اہلِ ایمان کو مستفیض کردیتے ہیں۔

 

۳۔ کیا موت بھی کوئی چکھنے کی چیز ہوتی ہے؟

یہ سوال معلوماتی بحث کی خاطر مناسب اور دلچسپ ہے، اس کا جواب عرض کرتا ہوں کہ ہاں، موت تجربۂ علم و معرفت کے معنی میں یقیناً چکھنے کی چیز ہے، لیکن خوب یاد رہے کہ ایسی تجرباتی موت صرف نفسانی موت ہی ہے، اس پُرحکمت اور عظیم الشّان موت کا لگاتار تجربہ سات رات اور آٹھ دن تک جاری رہتا ہے (۶۹: ۷) ایسے عظیم اسرارِ روحانی حجابات کے بغیر نہیں ہوتے ہیں، پس اگر آپ اس رازِ معرفت کے حجاب کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں تو سورۂ حاقہ (۶۹: ۶) میں قومِ عاد کا واقعہ پڑھ لیں۔

۱۵۶

۴۔ کیا ہرعارف راہِ روحانیت میں عذاب کو بھی دیکھتا ہے؟

جی ہاں، حصولِ معرفت کی غرض سے عذاب و ثواب دونوں کو دیکھتا ہے، کیونکہ اس کی شخصیت میں اہلِ جہان کی نمائندہ قیامت برپا ہوتی ہے، جس میں وہ سارے لوگوں کے ذرّاتِ روحانی کا مجموعہ بھی ہے اور اہلِ زمانہ کی طرف سے نمائندہ بھی، لہٰذا قیامت کے شدید امتحان سے اسی کو گزر جانا پڑتا ہے۔

 

۵۔ روحانیت کا ہر تلخ میوہ بعداً بے حد شیرین ہوتا ہے:

روحانیت کے جتنے بھی تجربات ہیں، ان میں سے بعض تو ہمیشہ ہی از بس شیرین و دل نشین ہوا کرتے ہیں، جبکہ بعض تجربے وقتی طور پر تو نہایت تلخ و تند ہوتے ہیں، مگر آگے چل کر علم و حکمت کی وجہ سے یہ بھی از حد لذیذ و شیرین ہوجاتے ہیں، اگر کوئی شخص یہاں یہ سوال کرے کہ روحانی سفر کی ساری تلخیاں کس قانون کی بنیاد پر لذّتوں اور شادمانیوں میں بدل جاتی ہیں؟ ۔ اس کا جواب یہ ہوگا کہ خدا کی خدائی میں قانونِ خیروشر اس طرح سے ہے کہ جو خیر ہے وہ مستقل ہے، لیکن جو شر ہے، وہ مستقل نہیں، بلکہ عارضی ہے، لہٰذا وقت آنے پر ہر شر کو خیر ہوجانا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: بیدک الخیر (۳: ۲۶) تیرے ہاتھ میں بھلائی ہے۔ اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ جب اللہ پوری کائنات کو لپیٹ لیتا ہے تو اس وقت خدا کے بابرکت ہاتھ میں

۱۵۷

صرف خیر ہی ہوتا ہے، اور شَر کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔

 

۶۔ قیامت گاہ میں خدا کا نور:

اللہ جلّ جلالہ نے امامِ زمانؑ کو صاحبِ قیامت بنا دیا ہے (۱۷: ۷۱) اسی طرح رسول کے بعد امام نورِ ہدایت بھی ہے (۵: ۱۵) اور مجموعۂ اسماء الحسنیٰ بھی ہے (۷: ۱۸۰) یہی سبب ہے کہ خداوندِ دو جہان اپنے حبیبِ پاک سے فرماتا ہے: (اے رسول) جس دن تم مومنین و مومنات کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور داہنی طرف دوڑ رہا ہوگا (۵۷: ۱۲) یہ امام ہی کا نور ہے جو رسول کا جانشین ہے، جو منازلِ قیامت کا رہنما ہے۔

 

۷۔ مولاعلیؑ نے فرمایا ہے:

انا الساعۃ التی لمن کذب بہا سعیرا = یعنی میں وہ قیامت ہوں کہ جو شخص اس کو جھٹلائے، اور اس کا منکر ہو، اس کے لئے دوزخ واجب ہے۔ انا الذی اقوم الساعۃ = یعنی میں وہ شخص ہوں کہ قیامت برپا کرتا ہوں۔ انا الناقور الذی قال اللہ تعالی فاذا نقر فی الناقور = یعنی میں وہ ناقور ہوں جس کا ذکر حق تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے (۷۴: ۸) ۔ انا الذی ان امت فلم امت و ان قتلت فلم اقتل = یعنی میں وہ شخص ہوں کہ اگر مجھے موت دی جائے تو نہیں مروں گا، اور اگر میں قتل کیا جاؤں تو میں (درحقیقت) قتل نہ ہوں گا (کوکبِ دری)۔

۱۵۸

۸۔ دو دفعہ غیر معمولی پیدائش:

حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کا قول ہے: لن یلج ملکوت السمٰوٰت من لم یولد مرتین =جو شخص دو دفعہ پیدا نہ ہو سکا وہ آسمانوں کی سلطنت میں ہرگز داخل نہیں ہوسکتا ہے۔ یعنی ہر عارف اپنی حیاتِ جسمانیہ ہی میں پہلے نفساً مر کر روحاً زندہ ہوجاتا ہے، پھر بہت آگے جا کر روحاً مر کر عقلاً زندہ ہوتا ہے، اور یہی ہے دو دفعہ خدا کے خاص دوستوں کی غیر معمولی پیدائش، اور یہی ذاتی قیامت بھی ہے، جیسا کہ حدیثِ شریف کا ارشاد ہے: من مات فقد قامت قیامتہ = جو شخص (نفساً) مر جاتا ہے اس کی قیامت برپا ہو جاتی ہے۔

 

۹۔ کیا امام صرف متّقین ہی کے لئے ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ہادیٔ زمان بالعموم امام النّاس بھی ہے (۲: ۱۲۴) اور بالخصوص امام المتّقین بھی (۲۵: ۷۴) تا کہ لوگ بہ اختیارِ خود امام کی ہدایت سے فائدہ اٹھائیں، اور متّقین اپنے امام سے براہِ راست روحانی علم حاصل کریں، کیونکہ نورانی آواز کے ذریعہ تعلیم دینے کا بے مثال طریقہ زمانۂ آدم سے چلا آیا ہے، پس جن لوگوں پر قیامت کا تلخ تجربہ گزرتا ہے، ان کے لئے عظیم ترین فائدہ یہ ہے کہ ان کی روح جو فرشتہ ہے اس کو آدمِ زمانؑ کی نورانی تعلیم مل سکتی ہے۔

۱۵۹

۱۰۔ ایک اہم سوال:

س: اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ نفسانی موت کا مزہ چکھنا اور ذاتی قیامت کے پر حکمت تجربات سے گزر جانا صرف عارفین و کاملین ہی کے لئے خاص ہے، پھر بھی سوال ہے کہ آیا اس کلّیہ میں اور کوئی راز نہیں ہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ ہر نفس (یعنی سب) کو موت کا مزہ چکھنا ہے؟ ۔ ج: جی ہاں، اس میں ایک عظیم راز ضرور پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ لوگ جس کارنامۂ روحانی کو خود انجام نہیں دے سکتے ہیں، اس کو امامِ عالی مقامؑ انجام دیتا ہے، اس مقصد کے لئے لوگوں کے روحانی ذرّات کو عارف کی نفسانی موت اور قیامت میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے، چنانچہ وہ تمام نمائندہ ذرّات یہاں آ کر تجرباتِ قیامت میں شریک ہوجاتے ہیں، مگر یہ سب کچھ ان کے حق میں غیر شعوری طور پر ہوتا ہے، جیسا کہ سورۂ بقرہ (۲: ۲۴۳) میں ارشاد ہے: فقال لھم اللہ موتوا ثم احیاھم ۔ پس خدا نے ان سے فرمایا کہ سب کے سب مر جاؤ (اور وہ مرگئے) پھر خدا نے انہیں زندہ کیا۔ یہ سب لوگوں کے نمائندہ ذرّات (روحیں) ہیں جو عارف کی منزلِ عزرائیلی میں بار بار مرتے ہیں اور بار بار زندہ ہو جاتے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر، ۱۵ ربیع الاول ۱۴۱۸ھ، ۲۱ جولائی ۱۹۹۷ء

۱۶۰

جشنِ زرّین

 

از برائے جشنِ زرّین ماہ و انجم آ گئے

جب پیا پے یارِ جانی کے تراجم آ گئے

دلکشی میں ترجمے ہیں تازہ دلہن کی طرح

پر بہار و جانفزا ہیں باغ و گلشن کی طرح

ترجمے کو خود پڑھیں تو رو رہا تھا میں کبھی

وادیٔ حیرت میں از خود کھو رہا تھا میں کبھی

سجدۂ شکرانہ تھا جب زار و گریان گر گیا                      میں فدایِ یارِ جانی مست و حیران گر گیا

ترجموں نے ان کتابوں کو تو مشہور کر دیا

دوستوں کے دل کو ازبس شاد و مسرور کر دیا

۱۶۱

ترجمے سے ان کتب کو روحِ جنّت مل گئی

یہ حقیقت ہے کہ مجھ کو اور عزّت مل گئی

وہ قلم سے گل فشان ہے اور زبان سے در فشان

علم و حکمت کے جہان میں کامیاب و کامران

اہلِ مغرب کے لئے اب گنجِ عرفان ہو گیا

جس نے دیکھا ہے خزانے کو وہ حیران ہو گیا

وصفِ مولا سے بھری ہے ہر کتابِ مستطاب

کیوں نہ ہو پھر یہ خزانہ کل جہان میں لاجواب

عشق و مستی کی قسم! سب ایک ہیں اے دوستان

فتحِ عالم ہے سنو اب شادمان ہو شادمان

ان کی ہر تحریر سے آتی ہے خوشبویِ گلاب

ہر عبارت دے رہی ہے عشقِ مولا کی شراب

فضل و احسانِ خدا ہے یہ فرشتہ آ گیا

ورنہ ہم ایسے کجا اور ایسے کارنامے کجا

۱۶۲


نامِ نامی ہے فقیر اور علم و حکمت میں امیر

تیرے اس علم و عمل کا صدقہ ہو جائے نصیرؔ

اک جہانِ علم ان کے ہاتھ سے آباد ہے

اس میں جو بھی بس رہا ہے شاد ہے آزاد ہے

جنگِ علمی میں نہ پوچھو ضربِ صمصامِ علی

علم شمشیرِ علی ہے دست ہے نامِ علی

“یک حقیقت” نے بتایا ہم سبھی ہیں ایک جان

سب میں اک ہے ایک میں ہیں سب نہان

میرے عالم میں عزیزان میری روح کی کاپیاں

اس سے بڑھ کر ہیں سبھی اُس پرفتوح[1] کی کاپیاں

 

 

 

۱۶۳

نور اور کتابِ مبین

 

۱۔ سورۂ مائدہ (۵: ۱۵) میں حق سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے: قد جاء کم من اللہ نور و کتاب مبین = بے شک تمہارے پاس خدا کی طرف سے نور اور کتابِ مبین آئی ہے۔ یعنی ربّانی معلّم اور قرآنِ پاک = قرآنِ ناطق اور قرآنِ صامت= رسولِ اکرم اور قرآنِ حکیم= جانشینِ رسول (امامِ برحق) اور کتابِ سماوی = نورِ منزّل اور قرآنِ عزیز، اس وضاحت میں صرف ایک ہی حقیقت جھلکتی ہے، وہ یہ کہ قرآنِ مقدّس کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہر وقت ربّانی معلّم بھی موجود ہے، بمقتضائے عدلِ خداوندی ایسا ہی ہونا چاہئے، تا کہ قیامت کے دن خدا پر لوگوں کی یہ حجّت نہ ہو کہ ان کے زمانے میں کوئی مظہرِ نور ہی نہ تھا (۴: ۱۶۵)۔

 

۲۔ قرآنِ حکیم میں جتنی آیاتِ کریمہ نورِ ہدایت کے بارے میں آئی ہیں، ان سب کی یقینی شہادت یہی ہے کہ خدا و رسول نے اہلِ ایمان کے لئے جس امام کو مقرر فرمایا ہے، وہ نسلاً بعد نسلٍ دنیا میں ہمیشہ

۱۶۴

موجود و حاضر ہے، تا کہ قرآن اور اسلام کی باطنی نعمتوں کا دروازہ بند نہ ہو، کیونکہ آیۂ مبارکۂ بالا کے مطابق نور اور کتاب (قرآن) لازم وملزوم ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو صرف کتاب ہی کے آنے کا ذکر ہوتا۔

 

۳۔ قرآنِ حکیم (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) میں ہے کہ اللہ کے پاس ایک بولنے والی کتاب بھی ہے، ایسے میں لازمی ہے کہ خدا کی یہ دونوں کتابیں ایک دوسرے سے مربوط ہوں، کیونکہ خدا کی چیزوں میں روحانی ربط ہوتا ہے، پس خداوندِ عالم کی کتابِ ناطق (نور = امام) اور کتابِ صامت (قرآن) دونوں اس طرح مربوط ہیں کہ یہ باطن میں نورٌ علیٰ نور (یعنی ایک ہی نور) ہیں، اور ظاہر میں ایک تو معلّم ہے اور ایک کتاب (قرآن) جیسے حدیثِ شریف میں ہے: علی مع القراٰن ، و القراٰن مع علی۔ (المستدرک، جلدِ سوم) اس حدیثِ شریف میں زبردست امتحانی حکمت پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ علی کا قرآن کے ساتھ ہونا اس طرح سے ہے کہ سر تا سر قرآن میں علی کا ذکرِ جمیل موجود ہے، اور قرآن کا علی کے ساتھ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ قرآن علی کے نور میں ہے، یعنی مولا علی کے عالمِ شخصی میں کل معجزاتِ قرآن کا تجدّد ہوا تھا، اور قرآن کا یہی تجدّد ہر امام میں ہوتا ہے، اور امامِ مبین میں ہر چیز کے محدود ہونے کے یہی معنی ہیں کہ ہر چیز کا مجموعۂ بیان قرآن ہے (۱۶: ۸۹) اور ایسا مجموعہ امامِ مبین میں ہے (۳۶: ۱۲)۔

 

۴۔ سورۂ بروج (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: بل ھو

۱۶۵

قراٰن مجید۔ فی لوحٍ محفوظٍ = بلکہ وہ کمالِ شرف والا قرآن ہے، ایسی لوح میں لکھا ہے جو محفوظ ہے۔ اس ارشادِ مبارک کی تاویل کرتے ہوئے حضرتِ امیر المومنین علی نے فرمایا: انااللوح المحفوظ یعنی میں ہی لوحِ محفوظ ہوں۔ (کوکبِ دری)۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ آنحضرتؐ کا نور قلمِ اعلیٰ اور مولاعلیؑ کا نور لوحِ محفوظ ہے، اور یہ دونوں سب سے عظیم فرشتے ہیں جو عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کہلاتے ہیں، کیونکہ عالمِ عُلوی کی چیزیں فرشتہ بشکلِ انسان ہوا کرتی ہیں۔

 

۵۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اوّل اوّل آدمِ دور میں آیا تھا، اس کا ذکر قرآنِ پاک میں برائے امتحان روح کے عنوان سے ہے (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) اسی نور کے لئے فرشتوں نے سجدہ کیا اور اسی میں علمِ حقائقِ اشیاء تھا، میں اس سے پہلے یہ انقلابی راز کہیں لکھ چکا ہوں کہ ملائکہ نے حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کو ابتداء ً منزلِ عزرائیلی میں سجدہ کیا، اس مقام کا نام عالمِ ذرّ بھی ہے، بعد ازان بہت آگے چل کر جہاں مقامِ عقل آیا، وہاں خلیفۂ کائنات کا عقلی تولد ہوا جس میں وہ رحمان کی صورت پر ہوگیا، اور فرشتوں نے وہاں بارِ دوم سجدہ کیا۔

 

۶۔ آپ یقین کریں تو بہت فائدہ ہوگا کہ اگر توفیقِ الٰہی سے قرآنِ عظیم کے باطن کا دروازہ کھل گیا تو اس میں اسرار ہی اسرار ہیں، جیسے سورۂ اعراف کے اس ارشاد میں ہیں: و لقد خلقناکم ثم صورناکم

۱۶۶

ثم قلنا للملٰئکۃ اسجدوالاٰدم (۷: ۱۱) اور بے شک ہم نے تم کو (آدمِ زمانؑ کے عالمِ شخصی میں ) پیدا کیا، پھر تمہاری صورت بنا دی (یعنی تم آدمِ زمانؑ میں فنا ہو چکے تھے، اس حال میں تم کو صورتِ رحمان عطا ہوئی) پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو (ایسے میں تم آدم کے ساتھ ایک بھی تھے اور اس کی کاپیاں بن بن کر الگ بھی ہو رہے تھے)۔ اسی طرح آپ ہر پیغمبر اور ہر امام کی روحانیت میں ساتھ ساتھ رہے ہیں، کیونکہ ان حضرات میں سے ہر ایک شخص نفسِ واحدہ کا مرتبہ رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ کی بے پایان رحمت یہ ہے کہ آپ سب پر ہر نفسِ واحدہ میں ایک غیر شعوری قیامت گزری ہے، تا کہ تم آج علم الیقین کی روشنی میں اور کل بہشت میں عین الیقین کی روشنی میں اپنے آپ کو انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی روحانیت میں دیکھ سکو، اور اس حکمتِ خداوندی پر یقین کرسکو کہ تم کو ہر اعلیٰ ہستی کی کاپی بطورِ جامۂ جنّت ملنے والی ہے، مثال کے طور پر جب کوئی شخص حضرتِ سلیمان علیہ السّلام سے لی گئی زندہ تصویر یا کاپی میں داخل ہوگا تو اس حال میں وہ خود کو سچ مچ سلیمان پائے گا۔

 

۷۔ یہ ایک زبردست پرحکمت حدیثِ شریف ہے: (ترجمہ) حضرتِ علیؑ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جنّت میں ایک بازار ہوگا جس میں خرید و فروخت نہیں ہوگی، ہاں اس میں عورتوں اور مردوں کی تصویریں ہوں گی، جو جسے پسند کرے گا، اسی کی طرح ہو

۱۶۷

جائے گا (جامع ترمذی، جلدِ دوم، ابواب صفۃ الجنۃ) اس میں اہلِ دانش کے لئے بہت سے اشارات اور بہت سے سوالات کے لئے تسلی بخش جوابات موجود ہیں، کیونکہ یہ حدیثِ شریف اپنے باطن میں بہت بڑی معنوی جامعیّت رکھتی ہے، اور یہ تصویریں کاغذی نہیں، ظاہری فلمی بھی نہیں، البتہ نورانی موویز ہوسکتی ہیں، جو زندگی اور شعور کی عمدہ عمدہ مثالیں ہوں، آپ ان کو انبیاء و اولیاء، اور بعد کے بہت سے درجات کے انسانوں کی زندہ اور بولنے والی کاپیاں کہہ سکتے ہیں، اجسامِ لطیف، لباسِ جنّت، حور وغلمان، جنّ و پری، فرشتہ وغیرہ کہہ سکتے ہیں۔

 

۸۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جنّت میں جتنی نعمتیں بنائی ہیں، ان میں ایک اعلیٰ نعمت یہ بھی ہے کہ وہاں روح کے لئے ظہورات ہیں، مثلاً اگر کوئی چاہے تو حضرتِ آدمؑ کی تصویر (کاپی) میں داخل ہوکر تجربہ کر سکتا ہے، اور اس نعمت کی امکانیت بہت پہلے ہی بنائی گئی تھی کہ تمام لوگ بشکلِ ذرّات شروع سے لے کر آخر تک آدمِ صفی اللہ کے ساتھ تھے، اور بہت سے معنوں میں خدمت کر رہے تھے، پس ان کا یہ حق بنتا ہے کہ بہشت میں اپنے باپ آدم کی طرح ہوجائیں، قس علیٰ ہٰذا۔

 

۹۔ سورۂ حشر کے آخر (۵۹: ۲۳ تا ۲۴) میں اللہ تعالیٰ کے چند خاص اسماء آئے ہیں، ان میں سے ایک اسم المصوّر (صورتوں کا بنانے والا)

۱۶۸

بھی ہے، حکماء کا کہنا ہے کہ اللہ بادشاہِ مطلق ہے، اس لئے وہ اپنے امر سے کام کراتا ہے، اور اس کی ذات کام کرنے سے بالاتر ہے، پس وہ اس معنٰی میں مصوّر ہے کہ اس کے حکم سے فرشتے، انبیاء، اور اّئمّہ نورانیت کی اعلیٰ تصویریں بناتے ہیں، جن کا اوپر ذکر ہوا، وہ حضرات اپنی اور دوسروں کی عقلانی، روحانی، اور لطیف جسمانی کاپیاں بناتے ہیں جو کاملاً انہی کی طرح زندہ اور دانندہ ہوا کرتی ہیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل ۲۳ ربیع الاول ۱۴۱۸ھ، ۲۹ جولائی ۱۹۹۷ء

۱۶۹

عرفانی سوال و جواب

 

سوال۔۱: سورۂ نمل (۲۷: ۱۶) میں ارشاد ہے: اور سلیمان نے کہا لوگو ہم کو (خدا کے فضل سے) پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز عطا کی گئی ہے۔ پرندوں کی بولی سے کیا مراد ہے؟ اور ہر چیز یعنی کل چیزیں ظاہری ہیں یا باطنی، یا دونوں مراد ہیں؟۔ جواب: پرندوں کی بولی کا معجزہ حق ہے، مگر مختصر اور محدود ہے، لہٰذا اصل اشارہ ارواح و ملائکہ کی طرف ہے، جن کی بولی تمام حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام جانتے ہیں، جیسا کہ اسی آیۂ کریمہ میں ہے: و ورث سلیمان داؤد= اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا۔ اس سے ظاہر ہے کہ حضرتِ سلیمان کی ہر چیز یعنی کل چیزیں روحانی اور باطنی تھیں جو آلِ ابراہیم کی میراث کے عنوان سے عطا ہوئی تھیں (۴: ۵۴)۔

 

سوال ۔ ۲: و حشر لسلیمان جنودہ = اور سلیمان کے لئے جنّ اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے تھے (۲۷: ۱۷)۔ کیا یہاں صیغۂ حُشِرَ میں حضرتِ سلیمان کی ذاتی قیامت کا کوئی تذکرہ یا اشارہ بھی موجود ہے یا صرف ظاہری قصّہ ہے؟ ۔ جواب: یہاں دونوں چیزیں ہیں، یعنی قصّۂ ظاہر بھی ہے اور قیامتِ  باطن بھی ، کیونکہ حُشِرکے لفظی اور اصطلاحی دو معنی ہیں، اور اصطلاحاً یہ قیامت کو ظاہر کرتا ہے، آپ قرآنِ پاک میں کم سے کم ایک مثال (۲۰: ۱۲۵) کو دیکھ سکتے ہیں۔

 

سوال۔ ۳:

جب کہا جاتا ہے کہ “روحانی لشکر” تو معلوم نہیں ہوسکتا کہ اس لشکر میں کن کن مدارج کی روحیں شامل ہوسکتی ہیں، کیونکہ ہر قسم کی نباتات اپنی اپنی نوعیت کی روحیں رکھتی ہیں حیوانات، حشرات اور جراثیم کی بھی روح ہے، پس آپ بتائیں کہ روحانی لشکر کس قسم کی روحوں کا نام ہے؟۔ جواب: یہ لشکر جنّوں ، انسانوں، اور فرشتوں پر مشتمل ہیں، اور بس، اس کی مثال حضرتِ سلیمانؑ کے لشکر ہیں (۲۷: ۱۷) کہ اس میں پرندوں سے فرشتے مراد ہیں۔

 

سوال ۔ ۴: قصّۂ ملکۂ سبا میں عرش عظیم کے کیا معنی ہیں؟ اور اس کو سلیمانؑ کے پاس لے جانے میں کیا حکمت ہے؟ ۔جواب: عرش کے کئی معنی ہیں، آپ لغات القرآن وغیرہ میں دیکھیں، ہم یہاں عرش کے صرف تین معنوں پر اکتفاء کرتے ہیں: تختِ شاہی، سلطنت، صورتِ عقل، پس بلقیس کے تخت کو حضرتِ سلیمانؑ کے پاس لے جانے کی چند حکمتیں ہیں، مثال کے طور پر دنیا کی ہر باطل بادشاہی اور حکومت روحانی طاقت سے مغلوب ہوکر حضرتِ امامِ عالی مقام کی

۱۷۱

باطنی سلطنت کا حصہ بن جاتی ہے، قرآن کہتا ہے کہ خداوند تعالیٰ کے پاس بہت سی روحانی غنیمتیں ہیں (۴: ۹۴، ۴۸: ۲۰) جب روحانی جنگ اور فتحِ اسلام ایک یقینی حقیقت ہے تو اس کے خوشگوار نتائج و ثمرات بھی یقینی ہیں۔

 

سوال ۔ ۵: وادیٔ نمل (چیونٹیوں کی وادی) کہاں ہے؟ سورۂ نمل کی آیت ۱۸ ، اور ۱۹ کو پڑھ کر بتائیں کہ وہ چیونٹی کس چیز کی مثال ہے؟ سلیمان کو کس بات سے تعجب ہو رہا تھا؟۔ جواب: ارواح کی ایک مثال چیونٹیوں سے دی گئی ہے، جیسے عالمِ ذرّ کے معنی ہیں، ان روحوں میں ایک داعی بھی ہے، اس کی آواز اتنی چھوٹی، لطیف، اور باریک ہے کہ سننے والے کو اس سے بڑا تعجب ہوتا ہے، اس آواز کا ہیولا (ہیولیٰ) کان کا بجنا ہے، اور وادیٔ نمل انسان کا کان ہے، جو روحوں کا عام راستہ اور مقام ہے۔

 

سوال۔ ۶: اکثر لوگ کان بجنے کی آواز کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے ہیں، اس کے بارے میں آپ کی روحانی معلومات کیا ہیں؟۔ جواب: یہ نفسِ انسانی کی آیاتِ قدرت میں سے ہے جن کی طرف قرآنِ پاک بار بار توجہ دلاتا ہے، چنانچہ کان بجتے بجتے صورِ قیامت کا عمل شروع ہوتا ہے، اسی آواز کو بعوضہ (۲: ۲۶) کہا گیا ہے، اور مولا نے فرمایا کہ وہ بعوضہ میں ہوں۔ نیز داعیٔ قیامت اسی آواز سے دعوت کا کام شروع کرتا ہے (۲۰: ۱۰۸) اور اسی آواز سے منادی پکارنے لگتا

۱۷۲

ہے (۴۱: ۵۰) اور یہ حکمت بھی سن لیں کہ حضرتِ عیسیٰؑ نے روحانی گہوارہ میں جس طفلانہ لہجے سے کلام کیا تھا، وہ بھی اسی لطیف آواز میں تھا، (۳: ۴۶، ۵: ۱۱۰، ۱۹: ۲۹) اور آپ کے دل کے پاس جو دو ساتھی ہیں (ایک جنّ اور ایک فرشتہ) وہ بھی اسی قسم کی آواز میں گفتگو یا بحث کرتے رہتے ہیں۔

 

سوال۔ ۷: کہا جاتا ہے کہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے پاس ایک معجزاتی انگوٹھی تھی، جس میں اس کی ظاہری اور روحانی سلطنت کا راز پنہان تھا، تو کیا یہ روایت درست ہے؟۔ جواب: یہ صرف ایک مثال ہے، اور اصل حقیقت اسمِ اعظم ہے، جس کے ظہورات میں سے ایک ظہور انتہائی گرانقدر نگینے کی طرح بھی ہے، اسمِ اعظم کا ذکر قرآنِ مقدّس میں کئی طرح سے آیا ہے، اور ایک مفید ذکر سورۂ اعراف (۷: ۱۸۰) میں بھی ہے، کیونکہ اسمِ اعظم شروع شروع میں ایک ہی ملتا ہے، اگر اس کی عبادت میں کوئی شخص کامیاب ہوسکا تو اس کو کئی مزید اسماء ُ الحسنیٰ عطا ہوتے ہیں، اور یہ جاننا بہت ہی ضروری ہے کہ ہر انسانِ کامل کے پاس اسمِ اعظم ہوتا ہے۔

 

سوال۔ ۸: قرآنِ مجید میں صرف دو دفعہ لفظِ کرسی آیا ہے، پہلے آیۃ الکرسی (۲: ۲۵۵) میں الحیُّ القیوم کی کرسی کا ذکر

۱۷۳

ہے، اور قرآن میں آگے چل کر سورۂ ص (۳۸: ۳۴) میں حضرتِ سلیمانؑ کی کرسی کا تذکرہ ہے، کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ پہلی کرسی سے کیا مراد ہے اور دوسری کرسی کیا ہے؟ ۔ جواب: آیۃ الکرسی میں خدا کی کرسی کا ذکر ہے، وہ نفسِ کلّی ہے (یعنی روح الارواح) اور سورۂ ص میں سلیمان کی جس کرسی کا تذکرہ ہوا ہے، وہ بھی ظاہری نہیں، بلکہ روحانی ہے، پس وہ ہر انسانِ کامل کی روح ہے۔

 

سوال۔ ۹: حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی مذکورہ کرسی سے متعلق آیۂ شریفہ کا ترجمہ ہے: اور ہم نے سلیمان کا امتحان لیا اور اس کی کرسی پر ایک جسد ڈال دیا پھر وہ رجوع ہو گیا۔ اس میں آپ یہ بتائیں کہ وہ کیسا جسد تھا جو سلیمانؑ کی کرسی پر ڈالا گیا؟ ۔ جواب: ابتدائی آزمائشی جسمِ لطیف تھا جو سلیمانؑ کی روحانی کرسی پر ڈالا گیا تھا، کیونکہ قانونِ روحانیت یہی ہے کہ روشنی سے پہلے ظلمت آتی ہے، امن سے پہلے خوف، خوبصورت سے قبل بدصورت، خوشبو سے پیشتر بدبو، اور فرشتہ جیسے جسمِ لطیف سے پہلے جانور جیسا جسمِ لطیف آتا ہے۔

 

سوال۔ ۱۰: حضرتِ سلیمان کے لئے جو ہوا مسخّر کی گئی تھی (۲۱: ۸۱، ۳۴: ۱۲، ۳۸: ۳۶) اس کی حقیقت کیا ہے؟ آیا وہ کوئی مادّی تخت تھا؟۔ جواب: یہ ہوا دراصل صورِ اسرافیل کی آواز تھی، آواز میں ہوا ہوتی ہے، کوئی مادّی تخت نہ تھا، بلکہ یہی جدّ (اسرافیل) کا معجزہ روحانی تخت کا کام کرتا ہے جو انبیاء و اولیاء کے لئے مسخّر ہے، جس سے ان حضرات کی روحانی پرواز بڑی آسان ہو جاتی ہے۔

 

سوال۔ ۱۱: وہ زمین کون سی ہے جس میں خدائے تعالیٰ نے تمام عالمین کے لئے برکتیں رکھی ہیں؟ کیا وہ سرزمینِ شام (بیت المقدّس)

۱۷۴

ہے؟ ۔ جواب: وہ برکتوں والی زمین نفسِ کلّی ہے کہ ساری کائنات کی برکات اسی سے ہیں، کیونکہ وہ زمین بھی ہے اور آسمان بھی، چنانچہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کی روحانی پرواز وہاں تک ہوتی ہے (۲۱: ۷۱)۔

 

سوال۔ ۱۲: خداوندِ عالم نے حضرتِ سلیمان کے لئے ایسے شیاطین (جنّات) کو بھی تابع بنا دیا تھا جو معماری اور غواصی کا کام کرتے تھے (۳۸: ۳۷) آیا اس میں کوئی تاویلی حکمت ہے؟ اگر ہے تو بیان کریں۔ جواب: جی ہاں، اس میں زبردست تاویلی حکمت پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ جب انسانِ کامل جہادِ اکبر میں کامیاب ہو جاتا ہے، اور اس کی ذاتی قیامت برپا ہو جاتی ہے تو اس وقت شیاطین مغلوب ہو کر تابع ہو جاتے ہیں، وہ بحرِ روحانیت میں غواصی کی خدمات انجام دیتے ہیں اور عالمِ شخصی میں معماری وغیرہ کا کام کرتے رہتے ہیں۔

 

سوال۔ ۱۳: کیا یہ بات درست ہے کہ قرآنِ حکیم نے فرعون کوکبھی مَلِک (بادشاہ) نہیں کہا؟ آیا ہم اسی صورتحال کی دلالت سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآنِ پاک نے کافروں کے شاہانِ باطل کو ردّ کر دیا ہے؟۔ جواب: جی ہاں، یہ بات حقیقت ہے کہ حضرتِ موسیٰ اور فرعون کے قصۂ قرآن میں ۷۴ دفعہ فرعون کا نام آیا ہے، لیکن اس سارے قصے میں جو سب سے طویل ہے، کسی طرح سے بھی لفظِ مَلِک اس کے لئے نہیں آیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ کسی کافر کا خود کو بادشاہ سمجھنا، یہ اُس کا گمان یا دعویٰ ہے، مگر حقیقت نہیں۔

۱۷۵

سوال ۔ ۱۴: یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، جس کے لئے مزید سوال و جواب کی ضرورت ہے، لہٰذا آپ یہ بتائیں کہ سورۂ یوسف میں پانچ مرتبہ جس بادشاہ کا ذکر آیا ہے وہ کون ہے؟ سورۂ نمل (۲۷: ۳۴) میں جن بادشاہوں کا تذکرہ ہوا ہے وہ کون ہیں؟ اور سورۂ کہف (۱۸: ۷۹) میں جس مَلِک کا بیان ہے، وہ کون ہے؟۔ جواب: سورۂ یوسف میں جس مَلِک کا ذکر ہوا ہے وہ تاویلاً امامِ مستقر ہے، جس کے زمانے میں حضرتِ یوسف امامِ مستودع تھا، ایسے میں امامِ مستقر خاموش رہتا ہے، سورۂ نمل میں حضراتِ أئمّہ کے بارے میں یہ بیان ہے کہ وہ اپنے عاشقوں کے عالمِ شخصی کو فتح کر لیتے ہیں، سورۂ کہف میں بھی امامِ عالی مقام ہی کا ذکرِ جمیل ہے، کہ وہ حجّتوں کی روحانی کشتی کو کبھی خود استعمال کرتا ہے اور کبھی ان کو دیتا ہے، مساکین حجّج ہیں، اگر تخت بر آب بنانے کے لئے کسی کی کشتی چھین لی جاتی ہے تو یہ اس شخص کی بہت بڑی سعادتمندی ہے۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعہ ، ۲۶ ربیع الاول ۱۴۱۸ھ، یکم اگست ۱۹۹۷ء

۱۷۶

حضرتِ ربّ العزّت کی تجلّیات

 

۱۔ تجلّیٔ حق در آئینۂ موسیٰؑ:

یعنی حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کے آئینۂ باطن میں حق سبحانہ و تعالیٰ کی تجلّی کا بیان، سب سے پہلے یہ اُصولی بات یاد رہے کہ انسان کی خود شناسی اور خدا شناسی کے لئے جتنے بھی روحی اور عقلی معجزات ضروری ہیں وہ سب کے سب صراطِ مستقیم پر مربوط اور سلسلہ وار (ترتیب وار) ہیں، لہٰذا ہم یقین سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ ظاہراً انبیائے قرآن کے معجزے الگ الگ بیان ہوئے ہیں،لیکن حقیقت میں سلسلۂ معجزات از اوّل تا آخر ایک ہی ہے، جس کو تمام انبیاء و اولیاء (أئمّہ) علیہم السّلام کے بعد عارفین و سالکین بھی دیکھ سکتے ہیں۔

 

۲۔ آپ مکمل آیۂ شریفہ اور ترجمۂ سورۂ اعراف (۷: ۱۴۳) میں پڑھ لیں، ہم یہاں اس کی صرف ایک حکمت بیان کرتے ہیں کہ جب حضرتِ موسیٰؑ کی روحانی قیامت برپا ہوئی اور اسرافیل وعزرائیل اپنا اپنا کام کرنے لگے تو اُس حال میں ربّ العزّت نے حضرتِ موسیٰؑ کے کوہِ روح پر اپنی تجلّی ڈالی، تو روح کا پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر بے شمار ذرّات میں بکھر گیا،

۱۷۷

اور جبلِ روح کا ہر ذرّہ تجلیٔ حق کا دائمی آئینہ بن گیا، موسیٰؑ کی روح اب روحوں کی ایسی کائنات بن گئی جس میں ہر سو تجلّی ہی تجلّی تھی، اس وقت حضرت موسیٰؑ کو نفسانی موت کا مکمل تجربہ بھی حاصل ہوا، کیونکہ صَعِقَ کے معنی ہیں: وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا، وہ مر گیا، میرے نزدیک دوسرے معنی نفسانی موت کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہیں، کیونکہ جو شخص بے ہوش ہو جاتا ہے وہ کچھ دیکھ نہیں سکتا، جب کہ اس آیت کے مطابق خدا نے موسیٰؑ کو یہ حکم دیا تھا کہ پہاڑ کی طرف دیکھتے رہنا، پس یقیناً نفسانی موت اگرچہ بڑی سخت چیز ہے، لیکن اس میں بے ہوشی نہیں ہے، کیونکہ وہ مشاہدہ اور معرفت کی غرض سے ہے۔

 

۳۔ تجلّیٔ دوم بر کوہِ عقل:

بیانِ بالا سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگرچہ حضرتِ موسیٰؑ کو بظاہر دیدار نہیں ہوا، لیکن ان کی روح تجلّیاتِ حق میں مستغرق ہوئی تھی، اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ عاشقانِ الٰہی کی روح کو ہر گریہ و زاری میں دیدارِ روحانی ہوسکتا ہے، در حالے کہ ان کو پتا بھی نہ ہو، اب حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کے بارے میں عرض ہے کہ ان کو کوہِ عقل پر سب سے اعلیٰ دیدار ہوا، اس رؤیت (دیدار) میں علم و معرفت کے جملہ اشارے جمع ہوتے ہیں، سرتاسر قرآن میں اسی دیدار کی علمی تجلیات ہیں، یہی دیدارِ پاک کنزِ مخفی ہے، جس کے حصول کی غرض سے عارف کی روحانی اور عقلی تخلیق ہوتی ہے۔

۱۷۸

۴۔ تجلّیٔ حق در آسمان و زمینِ عالمِ دین:

جیسا کہ سورۂ نور (۲۴: ۳۵) میں ہے: اللہ نور السمٰوٰت و الارض = حق تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ قرآن اور اسلام کی نظر میں سورج، چاند، اور ستارے نہ تو خدا ہیں، اور نہ ہی اس کے نور کے مظاہر ہیں، بلکہ یہ اللہ کی ظاہری مخلوقات میں سے ہیں، آپ ان کو دیگر بہت سی چیزوں کی طرح صرف مظاہرِ قدرت کہہ سکتے ہیں، اور ان کے بارے میں سب سے ضروری بات تو یہ ہے کہ ظاہری آفتاب، ماہتاب، اور ستارے اس حقیقت کی روشن مثالیں ہیں کہ عالمِ دین میں بھی شمس، قمر، اور انجم ہیں، جو ناطق، اساس، امام اور ذیلی حدود ہیں، لیکن ظاہری روشنی اور نورِ باطن کے درمیان بے پایان فرق ہے۔

 

۵۔ اب آپ کو یہ سرِعظیم جاننا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ عارف کی روحانی قیامت میں کائنات کو لپیٹ لیتا ہے تو وہ کون سی کائنات ہے؟ اور اس سمیٹی ہوئی کائنات کو کہاں رکھتا ہے؟ اس کا درست جواب یہ ہے کہ عالمِ ظاہر ہمیشہ اپنی جگہ پر قائم ہے خدا تو عالمِ باطن یعنی عالمِ دین کو لپیٹ کر عالمِ شخصی میں محدود کردیتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ تجلّیاتِ معرفت کے تمام ضروری آئینے عارف کے سامنے ہوا کرتے ہیں، مثلاً آئینۂ ازل و ابد، آئینۂ آدم ، آئینۂ نوح، آئینۂ ابراہیم وغیرہ۔

۱۷۹

: ۶۔ تجلّیٔ حق در آسمان و زمینِ عالمِ شخصی

سورۂ حدید (۵۷: ۳) میں ارشاد ہے: ھوالاوّل و الاٰخر والظاہر و الباطن و ھو بکل شیءٍ علیم = وہی اوّل بھی ہے اور آخر بھی، اور ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اگرچہ خدا کی کوئی اوّلیت و آخریت نہیں، لیکن عارف کے عالمِ شخصی کے پیشِ نظر وہی اوّل و آخر ہے، اور وہی اسی عالمِ شخصی میں ظاہر، نورِعیان، اور متجلّی ہے اور وہی اسی میں مخفی ہے۔

 

۷۔ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں آپ دیکھتے ہیں کہ الظّاہر اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفات میں سے ہے، اور تجلّٰی ربہ للجبل (اس کا ربّ پہاڑ کے لئے ظاہر ہوا، ۷: ۱۴۳) کا تعلق اسی اسمِ مبارک سے ہے، پس عالمِ شخصی کے آسمان و زمین میں نورِ خدا کے ظہورات و تجلّیات کے ہونے میں کوئی شک ہی نہیں، جبکہ وہ النور بھی ہے، پس میرا ایمان اور یقین یہ ہے کہ سب سے اوّلین دیدار اسی دنیا میں ہے، لیکن اس کی ایک بہت بڑی شرط بھی ہے، وہ یہ ہے کہ ہر مومنِ سالک جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مر جاتا ہے، تا کہ وہ راہِ روحانیت کے ہر قدم پر ظہورات و تجلّیات کو دیکھ سکے۔

 

۸۔ اپنے بے حد پیارے متعلمین سے سوال:

اے رفیقان و عزیزانِ من! بعض قسم کے سوالات بحث و مناظرہ اور آزمائش

۱۸۰

کی غرض سے نہیں ہوتے، بلکہ تقریر و تحریر کو منظم ، دلکش، قابلِ توجہ، آسان ، اور دل نشین بنانے کی خاطر ہوتے ہیں، چنانچہ میں بسا اوقات ایسے سوال و جواب کے لئے کوشش کرتا ہوں، پس اے عزیزان! میں بصد خلوص و محبت آپ سے پوچھتا ہوں کہ جب یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ انسان عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) ہے، تو اس کی روحانی، عقلانی، اور عرفانی روشنی کے لئے کوئی عظیم الشّان شمس یا نور موجود ہوگا یا نہیں؟ یقیناً آپ اپنے انمول ذخیرۂ علمی سے یہ جواب دیں گے کہ ہاں، عالمِ شخصی میں نور ضرور ہوگا، کیونکہ سورج (نور) کے سوا کسی عالم کا کوئی تصور ہی نہیں، تو میں کہتا ہوں کہ بالکل درست اور بجا ہے، عالمِ شخصی کے لئے جو خورشیدِ انور ہے، وہ بے مثال ہے، وہ کسی شک کے بغیر خدائے بزرگ و برتر کے نورِ اقدس کا مظہر ہے، اس لئے اس کی تعریف و توصیف کو احاطۂ تحریر میں محدود کرنا ہم جیسے کمزور انسانوں کے لئے محال ہے۔

 

۹۔ اوّل، آخر، ظاہر، اور باطن کی ایک تاویل:

یہ کہیں دور کی بات ہرگز نہیں، بلکہ عالمِ شخصی ، جبین اور احاطۂ مقدّس ہی کا ایک رازِ سربستہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے کل علمی و عرفانی اشیاء کو امامِ مبین کے نور میں اس طرح گھیر کر رکھا ہے کہ کوئی چیز اس پرحکمت جامع الجوامع سے باہر نہیں، حتّیٰ کہ یہاں ازل و ابد بھی ساتھ ساتھ چشمِ بصیرت کے سامنے موجود ہیں، اب اس مقام

۱۸۱

پر درجِ بالا چار اسماء کی تاویل اس طرح سے ہے: (الف) اسمِ اوّل: اس معنیٰ میں ہے کہ ازل نور کے ساتھ ہے (ب) اسمِ آخر: بمعنیٔ آنکہ ابد نور کے ساتھ ہے (ج) اسمِ ظاہر: بہ این معنیٰ کہ نور اس جگہ بار بار طلوع ہوتا رہتا ہے (د) اسمِ باطن: بہ این وجہ کہ نور یہاں بار بار غروب ہوتا رہتا ہے۔

 

۱۰۔ مجھے حضرتِ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کے علمی معجزات کو بیان بھی کرنا ہے، اور ڈرنا بھی ہے کہ کہیں ہم سے ناشکری اور ناقدری نہ ہو جائے، اے کاش! اے کاش! ہم مثلِ طفلِ شیر خوار یا مانندِ ابرِنوبہار بڑی آسانی سے آنسو بہا سکتے! اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل ۳۰ ربیع الاول ۱۴۱۸ھ ، ۵ اگست ۱۹۹۷  ء

۱۸۲

تاویلی سوالات

 

۱۔ س: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۱۰۱) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کونو کھلے معجزے عطا کئے تھے، آپ ہمیں بتائیں کہ وہ معجزات کیا کیا تھے؟۔ ج: وہ معجزات قرآنی ارشاد کے مطابق یہ ہیں: عصا (۷: ۱۰۷)، یدِ بیضا (۷: ۱۰۸)، قحط، پھلوں کی کمی (۷: ۱۳۰)، طوفان، ٹڈیاں، چچڑیاں، مینڈک، اور خون (۷: ۱۳۳)۔

 

۲۔ س: عصائے موسیٰ کس چیز کی مثال ہے؟ یدِ بیضا کی کیا تاویل ہے؟ قحط اور پھلوں کی کمی سے کیا مراد ہے؟ طوفان، ٹڈیاں، چچڑیاں، مینڈک اور خون کس طرح معجزات میں شمار ہوسکتے ہیں؟۔ ج: عصا بیک وقت چار چیزیں ظاہر کرتا ہے: اساس جو حضرتِ ہارونؑ تھا، اسمِ اعظم، روحانیت، اور علم، یدِ بیضا گوہرِعقل کا معجزہ ہے جو اپنے وقت میں ہر نبی اور ہر ولی کو حاصل ہوتا ہے، قحط اور پھلوں کی کمی کا اشارہ ہے کہ جو لوگ ہادیٔ برحق کو نہیں مانتے ہیں وہ روحانی قحط میں مبتلا ہو جاتے ہیں، یاد رہے کہ معجزہ دو قسم کا ہوتا ہے: معجزۂ رحمت، اور معجزۂ

۱۸۳

عذاب، چنانچہ حضرتِ موسیٰؑ کے بعض معجزات میں عذاب تھا تا کہ اہلِ انکار کو ڈرایا جائے۔

 

۳۔ س: عصائے موسیٰ اژدہا یعنی بہت بڑا سانپ بن جاتا تھا، اس میں کیا راز ہے؟ دوسرے جانوروں کو چھوڑ کر سانپ میں ایسی خوبی کی کون سی بات ہے؟۔ ج: لمبی بے جان لاٹھی سے لمبا جاندار اژدہا بن جانا بہت بڑا معجزۂ مناسبت ہے، اور سانپ جس طرح پیروں کے بغیر دراز ہو کر چلتا ہےاور جیسے کنڈلی مار کر بیٹھتا ہے وہ صرف اسی کا خاصہ ہے، پس اس معجزے میں ان حکمتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے: (الف) اسمِ اعظم شروع شروع میں عصائے موسیٰ کی طرح بے حس و بے حرکت ہوتا ہے، پھر علم وعمل اور سخت ریاضت سے اژدہا کی طرح ہوتا ہے تاکہ آفتوں ، بلاؤں، مخالفتوں ، اور عداوتوں کو نگل سکے، (ب) اسمِ اعظم سانپ کی طرح پیٹ کے بل بھی چلتا ہے (یمشی علیٰ بطنہ،۲۴: ۴۵) یعنی باطنی طور پر چلتا ہے، (ج) روحانیت اور علم کا اژدہا جب روان دوان ہو تو بہت ہی طویل ہوجاتا ہے، لیکن جب کنڈلی مار کر بیٹھ جاتا ہے تو محدود ہو جاتا ہے (ج) اسمِ اعظم کا علمی اژدہا دنیا والوں کے ہرعلم کو نگل لیتا ہے، اور اس کا عالمِ شخصی کائنات کو بھی نگل لیتا ہے۔

 

۴۔ س: انبیائے قرآن علیہم السّلام کے معجزات کی معرفت ممکن ہے یامحال؟ اگر ممکن ہے تو حاصل کرنے کا طریقِ کار کیا ہے؟ اگر محال ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟

۱۸۴

ج: یہ معرفت ممکن ہے، اور طریقِ حصول وہی ہے جو خود شناسی اور خدا شناسی کے لئے مقرر ہے، پس عارف اپنے عالمِ شخصی میں پیغمبروں کے معجزات کو دیکھتا ہے اور تصدیق کرتا ہے، اور یہی ہے ناطقوں، اساسوں، اماموں اور حجّتوں کے ساتھ ہو جانا (۴: ۶۹)۔

 

۵۔ س: معجزۂ یدِ بیضا کی جو تاویل ہے، اس کی وضاحت کریں۔ ج: یہ تو انتہائی راز کی بات ہے کہ ہر نبی، اس کے پیچھے پیچھے ہر ولی، اور اس کے نقشِ قدم پر چل کر ہر عارف گوہرِ مقصود یعنی گوہرِعقل کو ہاتھ میں لیتا ہے، یہ ہوا کتابِ مکنون کوچھونا، یدِ بیضا کا معجزہ کرنا ، وغیرہ، اب ایسے انسانِ کامل کا علم بھی غیر معمولی ہوگا، پس حضرتِ موسیٰؑ کے معجزۂ یدِ بیضا کے دو معنی ہوئے: باطن میں گوہرِعقل کو ہاتھ میں لینا، جس کے بے شمار معنی ہیں، اور ظاہر میں غیر معمولی علم بیان کرنا۔

 

۶۔ س: قصۂ یونس علیہ السّلام کے بارے میں پوچھنا ہے کہ آیا اس کا کوئی باطنی پہلو بھی ہے؟ اگر ہے تو بیان کریں۔ ج: یقیناً اس کا تاویلی پہلو ہے، وہ یہ کہ حضرتِ یونسؑ کو روحانیت کی سب سے بڑی مچھلی نے نگل لیا تھا، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں مچھلی کے لئے اسمِ معرفہ آیا ہے، یعنی النون (۲۱: ۸۷)، الحوت (۳۷: ۱۴۲) اسی مچھلی نے ان کو عالمِ شخصی کے سب سے بلند ترین مقام پر اُگل دیا اور یہاں ان کو معراج ہوئی۔

 

۷۔ س: سورۂ آلِ عمران (۳: ۵۹) میں ہے: (ترجمہ)عیسیٰ کی مثال خدا کے نزدیک آدم کی سی ہے، جسے خدا نے مٹی سے پیدا کیا پھر اس

۱۸۵

سے کہا ہوجا تو وہ فوراً ہوگیا۔ اس کی حکمت کس طرح سے ہے؟۔ ج: اللہ تعالیٰ عمل میں بھی اور علم میں بھی لوگوں کو آزماتا رہتا ہے، تا کہ ان کو درجات میں بڑھا دیا جائے، چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح حضرتِ عیسیٰؑ کے والدین تھے، اسی طرح حضرتِ آدمؑ کے بھی والدین تھے، آدم و عیسیٰؑ کی جسمانی تخلیق غیر معمولی نہ تھی، اللہ نے ان کو دوسرے انسانوں کی طرح مٹی سے پیدا کیا، بعد ازان ان کی روحانی تخلیق انبیاء و اولیاء علیہم السّلام ہی کی طرح شروع ہو کر مرتبۂ عقل پر مکمل ہوئی، جہاں کُن (ہو جا) کا اطلاق ہو جاتا ہے۔

 

۸۔ س: اس دن تیرے پروردگار کے عرش کو آٹھ (فرشتے) اپنے اوپر اٹھا لیں گے (۶۹: ۱۷) اس کی کچھ حکمتیں بیان کریں۔ج: یہاں عرش سے نورِعقل مراد ہے جو سرچشمۂ علم و حکمت ہے، یہ نور جو خدا کے علم و حکمت کا تخت ہے، قبلاً سات اماموں کی وحدت پر قائم ہوتا ہے، لیکن جب کسی عارف کی ذاتی قیامت برپا ہو جاتی ہے، تو اس وقت وہ بھی اسی وحدت کے ساتھ مل جاتا ہے، اور اسی طرح حاملانِ عرش آٹھ ہو جاتے ہیں، یہ عالمِ شخصی کا قصّہ ہے۔

 

۹۔ س: سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۵) میں ایک پاک کلمہ اور ایک پاک درخت کا ذکر آیا ہے، وہ کیا ہیں؟ ۔ ج: پاکیزہ کلمہ امامِ زمان کا وہ نور ہے جو عالمِ شخصی میں اسماء ُ الحسنیٰ اور کلماتِ تامّات کی صورت میں اپنا کام کرتا ہے، اور پاک درخت (شجرۂ طیبہ) محمد و أئمّۂ آلِ محمد ہیں (صلی اللہ علیہ

۱۸۶

و علیہم اجمعین) اس پاکیزہ درخت کی جڑ جو عالمِ دین کی زمین میں مضبوط ہے وہ حضورِ اکرمؐ ہیں، اور شاخ جو عالمِ عُلوی میں پہنچی ہے وہ امامِ وقت ہیں، آپ اس سرِاعظم کو جانتے ہوں گے کہ انفرادی عالمِ عُلوی جبین میں ہے۔

۱۰۔ س: سورۂ فرقان (۲۵: ۳۰) میں ہے: اور پیغمبر کہیں گے کہ اے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا ہے۔ اس آیۂ شریفہ کی تفسیر میں بین العلماء اختلاف ہے، بعض کا قول ہے کہ خداوندِ عالم کے حضور میں رسولِ اکرمؐ کی یہ شکایت صرف کافروں کے خلاف ہے، جبکہ بعض کہتے ہیں کہ یہ آیۂ کریمہ مسلمانوں کے بارے میں ہے، اس میں آپ کیا کہتے ہیں؟۔ ج: قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کا بے مثال کلام ہے، یہ آسمانی حکمتوں سے لبریز ہے، یہ اسرارِ الٰہی سے مملو ہے، یہ روحانیت و عقلانیت کا وہ بحرِعمیق ہے، جو درّرِ گرانمایہ سے بھرا ہوا ہے، لہٰذا نورِمنزل (۵: ۱۵) کے بغیر قرآنِ پاک کے جتنے حقوق ہیں، ان کی ادائیگی محال ہے۔

 

۱۱۔ س: کیا آپ نے جثۂ ابداعیہ کو دیکھا ہے؟ اگر دیکھا ہے تو وہ کیسا ہے؟ اس کی بعض خصوصیات بیان کریں۔ج: یقیناً میں نے جثۂ ابداعیہ کو دیکھا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے عجائب وغرائب کا مظہر ہے، دراصل وہ بہت کچھ ہے، بلکہ سب کچھ ہے، وہ مجموعۂ اسرارِ معرفت ہے، وہ مرئی بھی ہے اور غیر مرئی بھی، وہ جنّ و انس بھی ہے اور

۱۸۷

فرشتہ بھی، کیونکہ وہ کائنات کا خلاصہ اور جوہر ہے، اگر آپ ایک ہی چیز کا جوہر نکالتے ہیں تو اس میں ایک ہی خصوصیت ہوا کرتی ہے، اگر چند چیزوں کا جوہر ہے تو اس میں صرف چند خصوصیات موجود ہوتی ہے، لیکن جہاں جوہرِ کائنات ہو تو وہاں کیا نہیں ہے، پس ایک ہی وجودِ لطیف میں انسانِ کبیر، انسانِ صغیر، روح، ارواح، جنّ (پری)، فرشتہ، لشکرِ روحانی وغیرہ وغیرہ کے ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے۔

 

۱۲۔ س: الاتقان، حصۂ اوّل میں قرآنِ پاک کے ۵۵ نام درج ہیں، ان ناموں میں مبین، مبارک، نور، روح، ذکر اور شفا بھی ہیں، آپ قرآنِ عظیم کے ان اسماء کی حکمت بتائیں۔ ج: مبین کے معنی ہیں: ظاہر، واضح، اور بیان کرنے والا، مگر اس کی لازمی شرط نورِ منزل کی روشنی ہے (۵: ۱۵) کیونکہ اللہ کا نور اور قرآن ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، مبارک کے معنی ہیں: وہ شیٔ جس میں خدا کی طرف سے بہت سی برکتیں ہوں، یہ قرآن کی صفت ہے، قرآن رسولِ اکرم کی پاک و پاکیزہ شخصیت ہی میں نور تھا، اور أئمّۂ اطہارِ آلِ محمد کے سلسلے میں بھی حسبِ دستور قرآن نور تھا، اور اب بھی یہ اسی سلسلے میں نور ہی ہے، اسی طرح قرآن ہادیٔ برحق میں زندہ روح ہے جو نور کے معنی سے الگ نہیں، ذکر کے معنی ہیں: نصیحت ، یادِ الٰہی، رسول، اہلِ ذکر، پس قرآن ان تمام معنوں کے ساتھ ہے، اور قرآن چونکہ نور کے ساتھ ہے، اس لئے علی الخصوص روح اور عقل کی کل بیماریوں کے لئے شفا اور دوا ہے،

۱۸۸

الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

۱۳۔ س: سورۂ مریم کے ایک ارشاد (۱۹: ۷۱ تا ۷۲) کی تفسیر میں اختلاف ہے، بعض علماء کہتے ہیں کہ دوزخ کے اوپر جو پُل ہے، اس سے اہلِ ایمان کو گزر جانا ہے اور بعض کا قول ہے کہ سب کو ایک بار دوزخ میں اتر جانے کا قانون ہے، اس میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ ۔ج: آپ ان دونوں آیتوں کو لفظ بلفظ غور سے پڑھیں تو معلوم ہو جائے گا کہ مصلحت اور حکمتِ خداوندی اسی میں ہے کہ سب کو ایک بار دوزخ میں وارد ہونا (اترنا) ہے، پھر بعض کو جلدی نجات ملے گی، اور بعض کو تاخیر سے۔

 

۱۴۔ س: سورۂ بقرہ ، آیت ۳۰ کے حوالے سے سوال ہے : اللہ تعالیٰ نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو جس زمین میں اپنا خلیفہ (نائب) بنایا تھا، آیا وہ صرف یہی زمین ہے جس پر ہم بس رہے ہیں؟ یا کوئی اور زمین بھی ہے؟ جیسے عالمِ دین کی زمین؟ ستاروں کی زمین؟ کائناتی یا عالمِ کبیر کی زمین؟ عالمِ شخصی یا عالمِ صغیر کی زمین؟ نفسِ کلّی کی زمین؟۔ ج: یہ زمینِ نفسِ کلّی ہے، جس میں نہ صرف ہر زمین شامل ہے، بلکہ ہر آسمان بھی داخل ہے، کیونکہ وہ اللہ کی کرسی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وسع کرسیہ السمٰوات و الارض (۲: ۲۵۵) اس کی کرسی نے آسمانوں اور زمین کو (اپنے اندر) سما لیا ہے۔ پس حضرتِ آدم علیہ السّلام کو اللہ جلّ جلالہ

۱۸۹

نے اپنی ساری خدائی میں خلافت عطا کی تھی۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر ۲۰ ربیع الثانی ۱۴۱۸ھ ، ۲۵ اگست ۱۹۹۷ء

۱۹۰

قرآنی سائنس اور کائنات

 

۱۔ قرآنِ پاک کا پر از حکمت ارشاد ہے: فاقم وجھک للدین حنیفا فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا لا تبدیل لخلق اللہ ذالک الدین القیم و لٰکن اکثر الناس لا یعلمون (سورۂ روم، ۳۰: ۳۰) آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس آیۂ شریفہ کے پانچ اجزاء ہیں، ان سے متعلق چوٹی کا مفہوم یا جبینی حکمت = روحانی سائنس یہ ہے: جزوِ اوّل: (اے رسول، اے ولی، اے عارف) تم حظیرۂ قدس میں اپنا چہرۂ عقل و جان دینِ حنیف (یک حقیقت) کے لئے قائم کرو۔

 

۲۔ جزوِ دوم: فطرت کے معنی ہیں: صورتِ رحمان، دینِ حق، آفرینشِ ازل، یک حقیقت، اور قانونِ فطرت، پس جزوِ دوم کے جبینی اسرار یہ ہیں: اللہ کی آفرینشِ ازل وہ ہے جس کے مطابق اُس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا۔ یعنی خلاق ُ العلیم کی آفرینش عالمِ علوی میں بھی ہے اور عالمِ سفلی میں بھی، اور دونوں میں اصولی

۱۹۱

موافقت ہے، تا کہ ہر شخص دینِ حنیف کے ارشادات پر عمل کر کے خزانۂ جبین میں داخل ہو سکے۔

 

۳۔ جزوِ سوم: اللہ کی ظاہری اور باطنی آفرینش (تخلیق) میں کوئی تبدیلی نہیں۔ یعنی دائرۂ اعظم میں اگرچہ ذیلی طور پر بے شمار تبدیلیاں ہیں، لیکن کلّی طور پر دیکھا جائے تو کوئی تبدل و تغیر نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی صفتِ خلاقیت ہمیشہ ہمیشہ کسی تبدیلی کے بغیر اپنا کام کر رہی ہے، اور اس کام کی ابتداء و انتہا ممکن ہی نہیں، کیونکہ خدا کی بادشاہی قدیم (ہمیشہ) ہے۔

 

۴۔ جزوِ چہارم: قاموس القرآن میں لفظِ القیم کے یہ معنی ہیں: قائم رکھنے والا، نگرانی کرنے والا، سیدھا، صحیح، قیام سے ۔۔۔، پس جزوِ چہارم کا مفہوم ہے: یہی حضرتِ قائم القیامت کا دین ہے۔ جس کا تعارف مذکورہ آیۂ شریفہ میں موجود ہے، جس کی وضاحت کی گئی۔

 

۵۔ جزوِ پنجم: لیکن اکثر لوگ دینِ حق کے ان بھیدوں کو نہیں جانتے ہیں (جن کا یہاں ذکر ہوا)۔ پس انسان بہشت میں ہمیشہ ہمیشہ موجود ہے، یہ راز آپ کو قرآنِ حکیم کے بہت سے الفاظ میں مخفی طور پر ملے گا، مثلاً غلمان، جو بہشت کے ابدی نوجوان لڑکے ہیں، وہ ابدی بھی ہیں اور ازلی بھی، یہ کون ہیں؟ یہ کس کے زندہ اور معجزانہ لباس ہیں کہ جو بھی ان کو پہن لے تو اس

۱۹۲

کو یہ کامل یقین ہو جاتا ہے کہ وہ بہشت سے کبھی باہر نہیں آیا؟ یہ لباس آپ کے لئے ہیں، اور سب کے لئے ہیں۔

 

۶۔ اب ہم مذکورہ آیۂ فطرت کی روشنی میں کائناتِ ظاہر سے متعلق کچھ حقائق و معارف بیان کریں گے کہ ستارے اور لوگ ایک ہی قانونِ فطرت کے تحت پیدا کئے گئے ہیں، چنانچہ اس عالمی صورتِ حال میں بڑا حکمت آگین سبق ہے کہ دنیا کے تمام انسان کیوں ایک ہی ساعت اور ایک ہی دن میں پیدا نہیں ہوئے ہیں؟ سب کی طبیعی موت ایک ساتھ کیوں نہیں آتی ہے؟ یہی تو قانونِ فطرت کا زبردست اشارہ ہے کہ اسی طرح ستارے بھی دفعۃً (یکبارگی) وجود میں نہیں آئے، اور نہ ہی وہ ایک ساتھ فنا ہو جاتے ہیں، بلکہ آدمیوں ہی کی طرح ان میں بھی پیدائش اور موت کا لا ابتداء و لا انتہاء سلسلہ جاری ہے۔

 

۷۔ قرآنِ حکیم میں کائناتی قوانین یا کلّیات ہیں، جن کی روشنی میں کائنات کی ہر چیز کی معرفت ہو جاتی ہے، جیسے کلّیۂ آب کے بارے میں ارشاد ہے: و جعلنا من الماءِ کل شیءٍ حیٍ (۲۱: ۳۰) اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ یعنی مادّی پانی سے ظاہری زندگی بنتی ہے، اور روحانی پانی (علم) سے حقیقی حیات ملتی ہے، پس شروع شروع میں جب سیّارۂ زمین پر پانی کی برکت پیدا نہیں ہوئی تھی (۴۱: ۱۰) تو اس وقت یہ زمین ہنوز زندہ نہیں ہوئی

۱۹۳

تھی، اور زمانہائے دراز کے بعد جب سیارۂ زمین کے تمام آبی ذخائر (سمندر وغیرہ) ختم ہو جائیں گے (۱۸: ۷ تا ۸، ۲۳: ۱۸) اس وقت جملہ بناتات اور حیوانات نیست و نابود ہو جائیں گے، مگر انسان تب تک روحانی سائنس کی مدد سے نورانی قالب میں منتقل ہوکر کسی اور سیارے پر جا چکا ہو گا (ملاحظہ ہو: ہزار حکمت: قالب) کیونکہ قرآن فرماتا ہے: کہ تم طبقاتِ کائنات پر ضرور چڑھو گے (۸۴: ۱۹)۔

 

۸۔ س: آپ نے اپنی ایک کتاب ’’عملی تصوف اور روحانی سائنس‘‘ میں سورج کے وجود کے بارے میں زبردست مفید انکشافی بحث کی ہے، یہاں آپ یہ بتائیں کہ کائنات میں کوئی سیّارہ یا ستارہ کس طرح وجود میں آتا ہے؟ آیا اس باب میں قرآنِ حکیم کا کوئی اشارہ موجود ہے؟ اگر موجود ہے تو بتائیں۔ج: سورۂ انبیاء (۲۱: ۳۰) میں ارشاد ہے: کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ یعنی اب زمین کے جتنے ذرّات ہیں، وہ سب کے سب پہلے آسمان میں بکھرے ہوئے تھے، پس خدا کے حکم سے زمین کے لئے جو روح مقرر ہوئی، اُس نے رفتہ رفتہ تمام ذرّاتِ منتشر کو اپنے لئے جمع کرلیا، اور یہی قانونِ فطرت تمام اجرامِ سماوی کے لئے معین ہے۔ الحمد للہ۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

اسلام آباد

اتوار ، ۲۶ ربیع الثانی ۱۴۱۸ھ، ۳۱ اگست ۱۹۹۷ء

۱۹۴

کائناتی سائنس

سیارۂ زمین کی روح

 

لفظِ کائنات کی تحلیل:

الکون (مصدر) ہونا، الکائن، ہونے والا واقعہ، الکائنۃ (مؤنث) حادثہ، واقعہ جس کی جمع ہے کائنات، بمعنیٔ موجودات، نیز الکون کے معنی ہیں: کائنات، عالمِ وجود، جیسے کہتے ہیں: کونین، دونوں جہان، ہر دوعالم، دین و دنیا، ہر دو سرا۔ پس کائنات کے معنی میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ہمیشہ بحکمِ خدا حادثات (جدید اشیاء) واقعات، اور تخلیقات کا لاابتداء و لا انتہا سلسلہ جاری ہے۔ اب ہم ذیل میں سیّارۂ زمین کی روح کے ثبوت میں چند قرآنی دلائل پیش کرتے ہیں:

 

پہلی دلیل: یقیناً زمین کی اپنی ایک مخصوص روح ہے، جس کی وجہ سے اس کے بے شمار اجزاء و ذرّات کروی شکل میں

۱۹۵

مرکوز، مجتمع، اور یکجا ہیں، اس کی مثال آدمی کی سی ہے کہ جب تک انسان زندہ ہے، تب تک اس کا وجود قائم و برقرار رہتا ہے، لیکن جس وقت اس کی روح قالب کو چھوڑ جاتی ہے، تو اس حال میں قالب رفتہ رفتہ بوسیدہ، ریختہ اور منتشر ہو جاتا ہے، چنانچہ ہماری زمین فی الوقت بفضلِ الٰہ زندہ ہے، اور جب یہ خدا کے عظیم الشّان پروگرام کے مطابق مرنے کے قریب ہو جائے گی تو اُس حال میں سب سے پہلے بتدریج سارا پانی ختم ہو جائے گا، جیسا کہ قرآنِ حکیم (۱۸: ۷ تا ۸، ۲۳: ۱۸) میں اس کا ذکر ہے۔

 

دوسری دلیل: قرآنی ارشاد ہے کہ : اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کا نورِ ہدایت ہے (۲۴: ۳۵) یعنی وہ ذاتِ سبحان جو مادّیت اور جسم سے پاک ہے آسمانوں اور زمین میں سے ہر ایک کی روح کے لئے نورِ ہدایت ہے، کیونکہ اللہ سب سے بڑا ہے (اللہ اکبر) لہٰذا خدائے پاک و برتر جہاں اشرف المخلوقات (انسان) کے لئے انبیاء و الیاء علیہم السّلام ہی کے توسط سے نور ہے تو وہاں یہ امر کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ حضرتِ ربّ العزّت بلا واسطہ پتھر اور مٹی (زمین) کا نور ہو، مگر ہاں یہ بات درست اور حقیقت ہے کہ اللہ جلّ جلالہ روح الارض کا نورِ ہدایت ہے۔ پس اس روشن دلیل سے ثابت ہوا کہ زمین کی ایک بہت بڑی روح ہے۔

 

تیسری دلیل: سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں بنظرِ حکمت دیکھنے

۱۹۶

سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرتِ خدا کی جو جو نشانیاں اور معجزات انسان خصوصاً انسانِ کامل میں ہیں، وہی جملہ معجزات زمین کے ظاہر و باطن میں بھی ہیں، اس سے ظاہر ہوا کہ زمین عقل و جان کے بغیر نہیں ہے۔

 

چوتھی دلیل: یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی کوئی بات اور کوئی مثال ہرگز مہمل نہیں ہوتی، چنانچہ بعض منکرین کے بارے میں خداوندِ عالم نے اپنے رسول سے فرمایا: قل کونوا حجارۃً او حدیدًا =  (اے پیغمبر ان لوگوں سے ) کہو کہ تم پتھر یا لوہا بن جاؤ (یا کوئی اور چیز بن جاؤ جو تمہارے خیال میں بڑی سخت ہو، ۱۷: ۵۰ تا ۵۱) اس سے صاف طور پر یہ معلوم ہوا کہ پتھر ، لوہا، وغیرہ میں بھی اپنی نوعیت کی روح ہے، پھر یہ کہنا حقیقت ہے کہ زمین کی ایک عظیم کلّی روح ہے۔

 

پانچویں دلیل: سورۂ حدید (۵۷: ۲۵) میں ارشاد ہے: و انزلنا الحدید۔ اور ہم نے لوہا نازل کیا۔ یعنی لوہے کی روح نازل کی، جس نے بعض خاص مقامات پر مٹی یا پتھر سے لوہا بنایا، اس سے ہمیں یہ پتا چلا کہ جو چیزیں ظاہراً بے جان کہلاتی ہیں، ان میں بھی حسبِ ضرورت روح موجود ہوتی ہے، جیسے کوئی پہاڑ ہے، جس میں قیمتی پتھر وغیرہ بنتے ہوں تو ایسا پہاڑ زندہ ہے جس میں تخلیق و تکوین کا یہ عظیم کام خدا کے حکم سے روح ہی کرتی رہتی ہے، پس زمین کی روح ہے، جس کی وجہ سے پہاڑوں کی بھی روح ہے۔

۱۹۷

چھٹی دلیل: سورۂ لقمان (۳۱: ۱۶) میں یہ پرحکمت اشارہ موجود ہے کہ جب مومنِ سالک کی انفرادی اور نمائندہ قیامت برپا ہونے لگتی ہے تو اُس وقت بشکلِ ذرّات ہر طرف اور ہر مقام سے روحیں آ کر عالمِ شخصی میں جمع ہو جاتی ہیں، یہاں تک کہ چٹانوں (پہاڑوں)، آسمانوں ، اور زمین سے بھی طوفانِ ارواح اُمنڈتا ہے، اس سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ کوئی چیز روح کے بغیر نہیں۔

 

ساتویں دلیل: آیۃٔ الکرسی (۲: ۲۵۵) کی عظمت و بزرگی اور علوِّ شان دراصل اس کے بڑے بڑے اسرارِ معرفت کی وجہ سے ہے، آپ یہاں اس کے ان مبارک الفاظ کو غور سے دیکھیں: وسع کرسیہ السمٰوٰت والارض = اس کی کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے۔ یعنی نفسِ کلّی (روحِ اعظم = روح الارواح) کے بحرِ نورانیت میں ساری کائنات مستغرق ہے، جس کی مثال لوہے کے ایسے ٹکڑے کی طرح ہے جو دہکتے ہوئے انگاروں کے درمیان ہونے کی وجہ سے سرخ انگارا ہو چکا ہے، ایسے میں لوہے کا کوئی ذرّہ آگ ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا ہے، پس آسمان اور زمین کا ذرّہ ذرّہ خاموش روح کا مسکن ہے۔

 

آٹھویں دلیل: ’’قرآنی سائنس اور کائنات‘‘ کے مضمون میں جس طرح آیۂ فطرت (سورۂ روم ، ۳۰: ۳۰) کی حکمت درج ہوئی ہے، وہ بے حد ضروری ہے، جس کے مطابق کائنات اور انسان کی آفرینش میں

۱۹۸

بہت سی باتیں مشترکہ اور یکسان ہیں، سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ آدمی کا جسم ہے، جسم میں بے شمار خلیات ہیں، ہر خلیہ میں بہت سی روحیں رہتی ہیں، ان کھربوں بلکہ لاتعداد روحوں کی وحدت و سالمیت ہی کا نام روحِ انسانی ہے، پھر انسان کی عقل ہے، اسی طرح کائنات کا جسمِ کلّی ہے، اس کے ہر ذرّہ میں بہت سی روحیں موجود ہیں، ان کی کلیت نفسِ کل کا بحرِ محیط ہے، جو عقلِ کلّ کے تحت ہے، یہاں سے معلوم ہوا کہ سیّارۂ زمین دیگر اجرامِ سماوی کی طرح روحِ اعظم کے سمندر میں غریق (ڈوبا ہوا) ہے، جس کی مثال مچھلی کی سی ہے جو پانی میں پیدا ہوتی ہے، اور صرف اسی میں زندہ رہ سکتی ہے۔

 

نویں دلیل: سورۂ حدید (۵۷: ۴) میں دیکھ لیں: خدا ہر اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی ہے یا زمین سے خارج ہوتی ہے اور جو چیز آسمان سے نازل ہوتی ہے اور جو چیز آسمان کی طرف بلند ہو جاتی ہے۔ یعنی روحیں زمین میں داخل بھی ہوتی ہیں، اور اس سے خارج بھی، آسمان سے ان کا نزول بھی ہوتا ہے، اور آسمان کی طرف عروج بھی، کیونکہ کائنات میں روحوں کی دائمی حرکت جاری ہے۔

 

دسویں دلیل: سورۂ مومنون (۲۳: ۱۲) میں ارشاد ہے: و لقد خلقنا الانسان من سلٰلۃ من طین = ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ اس آیۂ شریفہ کی حکمت بڑی عجیب و غریب ہے کہ اس میں انسان کی ایک مکمل تخلیق کا ذکر بھی ہے، اور

۱۹۹

ساتھ ہی ساتھ یہ تخلیق کا آغاز بھی ہے، اس کی وضاحت یہ ہے کہ انسان ایک ہمہ گیر حقیقت ہے، چنانچہ یہ لطیف بھی ہے اور کثیف بھی، نوری بھی ہے اور خاکی بھی، عالمِ علوی میں بھی ہے اور عالمِ سفلی میں بھی، پس عالمِ سفلی کے اعتبار سے انسان مٹی کے جوہر سے پیدا ہوا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ زمین میں روح پوشیدہ ہے۔

 

گیارھویں دلیل: سورۂ نوح (۷۱: ۱۷) میں ہے: و اللہ انبتکم من الارض بناتاً = اور اللہ نے اُگایا تم کو زمین سے ایک طرح کا اُگانا۔ جیسا کہ ذکر ہوا کہ انسان ایک ہمہ گیر حقیقت ہے چنانچہ اس کی روحِ سفلی زمین سے اور روحِ علوی عالمِ بالا سے ہے۔

 

بارھویں دلیل: حدیثِ شریف ہے: ان لکل شیءٍ قلباً و قلب القراٰن یٰسٓ۔ بے شک ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۂ یاسین ہے (ہزار حکمت، ص ۷۱)۔ حضورِ اکرمؐ کا فرمایا ہوا ہر کلّیہ اور ہرارشاد بڑا زبردست پرحکمت، ہمہ گیر، اور کائناتی ہے، اس میں سے جو کچھ ہم سمجھ سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہر تخم (بیج) ، ہر جانور، اور آدمی کا دل ہوتا ہے، نظامِ شمسی کا بھی دل ہے، اور وہ سورج ہے، یقیناً ستاروں سمیت زمین کا بھی دل ہے، وہ اس کا مرکز ہے، اس میں اسی روح کا دل ہو سکتا ہے، جس نے بحکمِ خدا زمین کے بکھرے ہوئے ذرّات کو جمع کر لیا تھا۔

 

میرا خیال ہے کہ مذکورہ دلائل زمین کی روح کے ثبوت کے

۲۰۰

لئے کافی ہیں، صوفیوں کا یہ قول درست ہے جو کہتے ہیں کہ عالم انسانِ کبیر ہے اور آدمی اس کی نسبت سے انسانِ صغیر، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جہانِ ظاہر عالمِ کبیر ہے اور انسان عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) ، اور یہ حکمت بھی کتنی عجیب ہے کہ عالمِ اکبر انسان میں سماتا ہے، ہاں، تسخیرِکائنات اسی طرح ہوتی ہے۔

 

اہلِ معرفت نے چشمِ باطن سے اس حقیقتِ حال کو دیکھا ہے، اور وہ یقینِ کامل سے کہتے ہیں کہ حضرتِ نوح علیہ السلام کا اصل طوفان روحوں کا تھا، جس میں آسمان سے ذراتِ ارواح کی بارش برس رہی تھی، زمین سے گویا روحوں کے فوارے چھوٹ رہے تھے، اسی معنیٰ میں یہ ارشاد ہے: اور کہا گیا: اے زمین ! اپنا پانی نگل جا، اے آسمان رُک جا، پانی نیچے چلا گیا اور معاملہ ختم ہو گیا (۱۱: ۴۴)۔

 

روحانی سائنس ، قرآنی سائنس، اور کائناتی سائنس ایک ہی علم ہے، حق بات تو یہ ہے کہ اس کی دو بڑی شرطیں ہیں: قرآن شناسی اور امام شناسی ، یہی شیٔ خود شناسی اور خدا شناسی کا دروازہ ہے، بعد ازان ہر چیز کی معرفت ممکن ہو جاتی ہے، اگر ایک شخص ایسا کوئی بڑا کامیاب تجربہ رکھتا ہے تو اس پر واجب ہے کہ جذبۂ للہیت سے وہ اپنے تجربات کو قلمبند کرے، ورنہ اس کو وہی سزا ملے گی جو قارون کو ملی تھی، کیونکہ زکات نہ صرف مال پر واجب ہے، بلکہ علمی زکات اور بھی

۲۰۱

زیادہ ضروری ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

بدھ ، ۷ جمادی الاول ۱۴۱۸ھ، ۱۰ ستمبر ۱۹۹۷ء

 

۲۰۲

[1] پرفتوح، فتوح ، فتح کی جمع، پرفتوح، فتح پر فتح کرنے والا، یعنی امام جو ہمیشہ روحانی فتوحات کرتا ہے۔

۲۵جولائی ۱۹۹۷ء

تجہیز و تکفین

تجہیز و تکفین

دیباچۂ طبعِ اول

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
اللّٰھم صل علیٰ محمد و اٰل محمد کما تحب و ترضیٰ

خدائے قادرِ مطلق اور جوادِ برحق کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس کریمِ کارساز نے اپنی رحمتِ بے نہایت سے اس بندۂ عاجز و ناتوان کو رسالۂ ہٰذا کی ترتیب و طباعت اور اشاعت کے لئے توفیق و ہمت عنایت فرمائی۔ یقیناًیہ ربّ العزّت کے دائمی انعامات اور ہمہ رس احسانات میں سے ہے جس کے لئے شکر کرنا ہر دین دار پر فرض ہے۔

یہ رسالہ جو تجہیز و تکفین کے احکام پر مشتمل ہے کلیۃً اسماعیلی فقہ کی مستند و جامع اور مشہور و معروف کتاب دعائم الاسلام سے لیا گیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ میں نے اس کتاب کو اصل دعائم الاسلام عربی سے ترجمہ کر لیا ہے ساتھ ہی ساتھ مذکورہ کتاب کا اردو ترجمہ بھی ملحوظِ نظر رہا ہے اور وہ ترجمہ بھارت کے مشہور عالمِ دین یونس شکیب مبارک پوری نے کیا ہے اور واقعاً انہوں نے ایک عظیم خدمت انجام دی ہے۔

عربی دعائم الاسلام مصر سے شائع ہوئی ہے، وہ عام طور پر دستیاب نہیں ہوتی اور اگر وہ دستیاب ہو بھی آئے تو اس کو پڑھنا اور سمجھ لینا ہر شخص کے بس کی بات نہیں اور یونس شکیب کا اردو ترجمہ جو ہندوستان میں چھپ گیا ہے وہ تو عنقا ہو گیا ہے لہٰذا یہ امر ضروری تھا کہ فقہی مسائل کی اہمیت کے پیشِ نظر

 

۱

 

دعائم الاسلام کے بعض اہم اجزاء الگ الگ کتابچوں کی اور رسالوں کی صورت میں شائع کئے جائیں تا کہ علم کی اشاعت اور حصول کے ہر مرحلے پر سہولت و آسانی مہیا ہو سکے چنانچہ اس سلسلے میں “فصولِ پاک” کے بعد رسالۂ “تجہیز و تکفین” ہٰذا مرتب ہو کر شائع ہو رہا ہے۔

واضح رہے کہ تجہیز و تکفین کے جتنے امور ضروری ہیں اور جو احکام کتاب و سنّت کے مطابق ہیں وہ اس کتاب کی جامعیّت سے باہر نہیں اور جو اضافی اور غیر ضروری چیزیں رواجاً بعد میں پیدا کی گئیں ان سے یہاں بحث نہیں۔

بالآخر میں گلگت مرکز کی عقیدت مند مخلص، نیکوکار، خدمت گزار اور نامور و نامدار جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنی کریمانہ عادت کے مطابق اس دینی کتاب کے مصارف میں تعاون کیا پروردگارِ عالم اس قابلِ قدر اور عزیز جماعت پر ابوابِ!!فیوض و برکات ظاہراً و باطناً کشادہ کئے رکھے۔ آمین ، یا ربّ العالمین

فقط جماعت کا علمی خادم
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۱۷۔ ۷۔ ۷۵

۲

دیباچۂ طبعِ ثانی

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للّٰہ علیٰ منہ و احسانہ

یہ دیکھ کر رسالۂ “تجہیز و تکفین” اب بفضلِ خداوند تعالیٰ طباعت و اشاعت کے مرحلۂ دوم میں داخل ہو رہا ہے اس بندۂ ناتوان و خاکسار کو ازبس خوشی ہو رہی ہے اس علمی مسرّت و شادمانی کا اصل راز جذبۂ شکرگزاری ہے اس لئے کہ علمی خدمت کی یہ پیش رفت پروردگارِ عالم کی عظیم نعمتوں میں سے ہے۔ اور یہ حق بات ہے کہ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت و عنایت نہ ہوتی تو ہم ایسے مفلسوں کے یہاں علم کی کوئی چیز نہ ہوتی۔

مظہرِ نورِ خدا، آلِ محمد مصطفی، جانشین علئ مرتضیٰ، مصباح ہدیٰ اور سلطانِ با صفا یعنی امامِ وقت شاہ کریم الحسینی صلوات اللہ علیہ و سلامہ کے ہر مرید اور ہر دوستدار سے بصد عقیدت و اخلاص قربان ہو جاؤں کیونکہ اسی شہنشاہِ علم و حکمت کے مبارک دروازے پر جا کر میں ناچیز سائل اپنی جھولی کو خوب بھر لیتا ہوں اور اس پرحکمت دریوزہ کی کئی شرطیں ہیں۔ مثلاً عاجزی، انکساری، اظہارِ حاجت اور خاص کر امامِ زمان کے ہر مرید و روحانی فرزند کی حقیقی خیر خواہی اور اگر بدقسمتی سے دل میں عاجزی کی کیفیت نہ ہو اور کسی بھی ایک مومن کی رنجش پوشیدہ پوشیدہ باقی رہے تو یہ سچ ہے کہ باریکیوں اور نزاکتوں کی درگاہ سے درویش کی روح تہی دامن اور نامراد لوٹتی ہے۔

۳

یہاں اس سوال کا پیدا ہو جانا بعید از قیاس نہیں کہ اصولِ درویشی یا قانونِ روحانیت اتنا خاص و باریک اور ایسا نازک کیوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی حکمت و مصلحت اور لوگوں کی منفعت اسی میں ہے کہ مذہبی زندگی سے متعلق کامیابی کا راستہ ظاہراً و باطناً پل صراط کی طرح سخت مشکل اور انتہائی نازک ہو تاکہ یہ اسی طرح اپنی جانب سے نہایت دشوار بھی ہو اور نورِ خداوندی کی ہدایت و تائید کے وسیلے سے بہت آسان بھی۔

حقیقی راحت و سکون “انا” میں نہیں بلکہ “فنا” میں ہے اور فنا کے کئی مدارج ہیں۔ اور اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ہر دانشمند مومن انائیّت و خودی کو چھوڑ کر خود کو خاکِ پائے مومنین قرار دیتا ہے پھر وہ اس پُرحکمت عمل کے نتیجے میں خود نمائی کی تلخیوں سے نجات پاتا ہے کیونکہ کبر و فخر جیسی مہلک روحانی بیماری کے لئے کوئی جراثیم کش دوا چاہئے ورنہ یہ مرض رفتہ رفتہ آدمی کو ہلاک کر ڈالتا ہے۔

ہمارے مولائے مہربان اور آقائے زمانؑ کی کتنی بڑی عنایت و مہربانی ہے کہ آپؑ نے ان چند سالوں کے اندر اندر عالمِ اسماعیلیّت میں ایک عظیم اور دور رس علمی انقلاب لایا جس میں نہ صرف آپ کے نامدار ادارے عظیم الشّان خدمات انجام دے رہے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ امامِ عالی مقام کے دوسرے مرید بھی کسی نہ کسی صورت میں رضا کاری کر رہے ہیں۔ تاہم اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کا مرکز اور ہر علاقے کے ذیلی ادارے لائقِ تحسین اور قابلِ مبارکباد ہیں کیونکہ انہوں نے بموجب امرِ مولا مین پاور کے عنوان سے دینی علم کے ایک لشکرِ جرّار کو تیار کیا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف جماعتی سطح پر زیادہ سے زیادہ نورِ علم کی روشنی پھیلا دینا ہے۔ الحمد للہ کہ اب ہماری نیک

 

۴

 

بخت جماعت نے علم و عمل کے ہر میدان میں نمایان ترقی کی ہے۔

یہ رسالہ جو بڑا اہم اور بہت مفید ہے اس دفعہ ہماری پیاری جماعت کی ضرورت کے پیشِ نظر “خانۂ حکمت” اور ادارۂ عارف” کی جانب سے شائع ہو رہا ہے۔ لہٰذا یہ میرا فرض ہے کہ میں جان و دل سے ان دونوں عزیز اداروں کی گوناگون خدمات کا شکریہ ادا کروں اور ان کو سراہوں، میرا عقیدہ ہے کہ صدر محترم جناب فتح علی حبیب اور صدر محترم جناب محمد عبد العزیز گویا دو ایسے عظیم فرشتے ہیں جن کے اس دنیا میں آنے کا سب سے بڑا مقصد علمی خدمت کو انجام دینا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی اور دوسرے عملداروں کی خدمات جو جان نثاری سے کم نہیں، بے مثال ہیں۔ “خانۂ حکمت” اور “عارف” کا ہر عہدہ دار اور ہر ممبر جہاں کہیں بھی رہتا ہو، حقیقی علم کی خدمت میں فدا کار اور جان نثار ہے اور ان سب کا زرّین اصول یہ ہے “نورِ علم کو حاصل کرو اور پھیلا دو۔” یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ باقاعدگی سے دینی کتابوں، مقالوں اور علمی خطوط کو پڑھتے ہیں اور حصولِ علم کے ہر وسیلے سے کام لے کر اپنی مفید معلومات میں گرانقدر اضافہ کر لیتے ہیں، ان شاء اللہ، ہر ہوشمند اسماعیلی دینی علم میں کمال حاصل کرے گا۔

جماعت کا علمی خادم
نصیر الدین نصیر ہونزائی

جمعرات ۲۷ جمادی الاول ۱۴۰۴ھ
یکم مارچ ۱۹۸۴ء

۵

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بیماری، عیادت اور احتضار

بخار کی حکمت:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام آپ کے پدر بزرگوار امام باقر علیہ السّلام آپ کے آباء کرام علیہم السّلام اور حضرت علی صلوات اللہ علیہ سے روایت ہے کہ رسولِ خدا صلعم ایک مرتبہ ایک مردِ انصاری کی عیادت (بیمار پرسی) کو تشریف لے گئے اس شخص نے آنحضرتؐ سے بخار کی تکلیف کی شکایت کی ۔ آپ نے فرمایا “ان الحمیٰ طھور من رب غفور” یعنی بخار خدائے غفور کی طرف سے ایک پاکیزگی ہے یعنی اس سے گناہ دھل جاتا ہے اس شخص نے کہا بل الحمیٰ تفور بالشیخ الکبیر حتیٰ تحلہ القبور ، یعنی نہیں بلکہ بخار ضعیف بوڑھے کو بھون ڈالتا ہے یہاں تک کہ اس کو قبر میں اتار دیتا ہے۔ رسولِ خدا یہ سن کر غصہ ہوگئے اور فرمایا کہ ایسا ہی تمہارے ساتھ ہونا چاہئے چنانچہ وہ شخص اسی بخار میں مر گیا۔

مریض کا کراہنا:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ مریض کا صبر و تحمل کے ساتھ کراہنا آہ آہ کرنا، نیک اعمال میں شامل کر کے لکھا جاتا ہے اور اگر بے صبری و اضطراب کے ساتھ کراہتا ہے تو اسے بے صبر قرار دیا جاتا ہے، جس کے لئے کوئی اجر و صلہ نہیں۔

گناہوں کا کفارہ:
موصوف امام علیہ السّلام سے منقول ہے، آپ نے فرمایا کہ ایک دن کا بخار ایک سال (کے گناہوں) کا کفارہ ہے۔

 

۶

 

جب کسی طبیب نے یہ سنا اور اس کو اس حدیث کا تذکرہ کیا گیا تو اس نے کہا کہ یہ قول طبیبوں کی اس بات کی تصدیق ہے کہ ایک روز کا بخار ایک سال تک جسم کے لئے تکلیف دہ ہوتا ہے۔

خدا کا قید خانہ:
حضرت علی علیہ السّلام سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ بیمار خدا کے قید خانے میں ہوتا ہے اس کے گناہ مٹائے جاتے ہیں بشرطیکہ وہ عیادت کرنے والوں سے اپنی بیماری کی کوئی شکایت نہ کرے اور جو مومن بندہ بیماری کی حالت میں انتقال کر جاتا ہے وہ شہید ہو جاتا ہے اور یوں تو ہر مومن شہید کا درجہ رکھتا ہے اور ہر مومنہ عورت حوراء ہوتی ہے اور مومن جس موت سے بھی مرے وہ شہید ہے۔ آپ نے یہ آیتِ کریمہ: تلاوت فرمائی
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَ الشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْؕ (۵۷: ۱۹)۔ اور جو لوگ خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے یہی لوگ اپنے پروردگار کے نزدیک صدّیقوں اور شہیدوں کے درجے میں ہوں گے۔

ثوابِ عیادت:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے، آپ نے فرمایا کہ جب خدا بندے کو کسی مرض میں مبتلا فرماتا ہے تو اس کی بیماری کے مطابق اس کی خطائیں معاف کر دیتا ہے۔

آپؑ نے فرمایا کہ مریض کی بیمار پرسی تین دن کے بعد کرنی چاہئے اور عورتوں پر مریض کی عیادت فرض نہیں ہے۔

نیز آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلعم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ

 

۷

 

عیادت کرنے والا آدمی مریض کے پاس کوئی چیز کھائے کیونکہ بموجبِ قانونِ الٰہی اس کی بیمار پرسی کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے۔

حضرت امام حسین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آپ ایک دفعہ بیمار ہوئے اور عمرو بن حریث آپ کی عیادت کے لئے آیا تھا اتنے میں امیر المومنین علی علیہ السّلام باہر سے تشریف لائے۔ اور آپ نے اس سے فرمایا کہ اے عمرو! تم حسین کی عیادت کر رہے ہو مگر دل میں کچھ اور بات ہے؟ مجھے اس امر سے کوئی چیز مانع نہیں ہو سکتی ہے کہ تجھے ایک نصیحت کر دوں وہ یہ ہے کہ رسولِ خداؐ فرماتے تھے کہ کوئی بندہ مسلم کسی بیمار کی عیادت نہیں کرتا مگر ستّر ہزار فرشتے اس پر صلوات بھیجتے ہیں اگر دن ہو تو غروبِ آفتاب تک اور رات ہو تو طلوعِ فجر تک یہ صلوات جاری رہتی ہے۔

امیر المومنین علیؑ سے روایت ہے کہ آپ ایک مرتبہ زید بن ارقم کی عیادت کو تشریف لے گئے زید نے کہا کہ مرحبا ایسے امیر المومنین کو جو عیادت کو آئے ہیں حالانکہ وہ ہم سے ناراض تھے۔ امیر المومنین نے فرمایا کہ یقیناً ایسی کوئی چیز مجھے تیری عیادت سے نہیں روک سکتی تھی آپ نے فرمایا کہ جو شخص کسی مریض کی عیادت کو اس نیّت سے جاتا ہے کہ خدا کی رحمت حاصل ہو جیسا کہ اس نے وعدہ فرمایا ہے تو وہ اسی وقت جنّت کے پھل چننے کی کیفیت میں ہوتا ہے جب تک کہ مریض کے پاس بیٹھا رہے اور جب اس کے پاس سے نکل جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس روز اپنے فرشتوں میں سے ستّر ہزار فرشتوں کو مقرر فرماتا ہے جو اس شخص پر رات تک صلوات بھیجتے رہتے ہیں اور اگر شام کو عیادت کرے تو وہ اسی وقت جنّت کے پھل چننے کی کیفیّت میں ہوتا ہے تا وقتیکہ اس کے پاس بیٹھا رہے جب اس کے پاس سے چلا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ستر ہزار

 

۸

 

فرشتوں کو مقرر فرماتا ہے جو اس شخص پر صبح تک صلوات بھیجتے رہتے ہیں پس مجھے شوق پیدا ہوا کہ ایسے ثواب کے لئے جلدی کروں۔

استقبالِ قبلہ:
امیر المومنین علی علیہ السّلام سے روایت ہے کہ رسولِ خدا خاندانِ عبد المطلب میں سے ایک شخص کے گھر اس وقت تشریف لے گئے جب کہ وہ حالتِ نزع میں تھا، اور اس کا منہ قبلہ کی طرف نہ تھا آپ نے فرمایا کہ اس کو قبلہ رخ کر دو کیونکہ جب تم ایسا کرو گے تو فرشتے اس کی طرف متوجّہ ہو جائیں گے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنا چہرہ مبارک اس کی طرف کر دے گا پھر اس کو اسی طرح رکھا جائے حتیٰ کہ اس کی روح قبض ہو جائے۔

حضرت مولانا علی صلوات اللہ علیہ سے منقول ہے آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ امر فطرت میں سے ہے کہ جب مریض نزع کے عالم میں ہو تو اسے قبلہ کی طرف لٹا دیا جائے۔

کلمۂ شہادت وغیرہ:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ جب تم کسی میّت کے پاس اس کی موت سے قبل جاؤ تو اس کو کلمۂ شہادت کی تلقین و تفہیم کرو یعنی اس کے پاس “اشھد ان لآ الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ کو اس طرح پڑھے کہ وہ اسے سن کر ساتھ ساتھ پڑھنے کی کوشش کرے۔

اگر کلمۂ طیب اور کلمۂ شہادت دونوں پڑھے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں اور اسماعیلیّت میں مناسب ہے کہ شہادت یا شہادتین کے بعد أئمّۂ اطہار علیہم السّلام کے اسمائے گرامی جامۂ حاضر کے نامِ مبارک تک پڑھے جائیں۔

۹

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ محتضر یعنی مرنے والے کے سر کے پاس آیتُ الکرسی اور اس کے بعد والی دو آیتوں (یعنی اللّٰہ لا الٰہ سے لے کر :خٰلدون تک) کا پڑھنا مستجب ہے اور یہ آیت پڑھی جائے
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ۫-یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًاۙ-وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖؕ-اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُؕ-تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ (۰۷: ۵۴)۔

پھر سورۂ بقرہ کی یہ آخری تین آیتیں پڑھی جائیں:
لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ یُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُؕ-فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ-كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ۫-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۫-وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ﱪ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ-لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ عَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْؕ-رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَاۚ-رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَاۚ-رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖۚ-وَ اعْفُ عَنَّاٙ-وَ اغْفِرْ لَنَاٙ-وَ ارْحَمْنَاٙ-اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ (۰۲: ۲۸۶) ۔

اس کے بعد یہ دعا پڑھے:

 

۱۰

اللّٰھُّمَ اِن کَانَ حَضَرَ اَجَلُہٗ فَسَھِّلۡ علیہٍ اَمۡرَہٗ وَ اَخۡرِجہٗ الیٰ رضآءٍ مِنۡکَ وَالرِّضۡوَانِ وَ لقِۃٍ الۡبُشۡریٰ و اغفرلہٗ وَارۡحَمۡہٗ بِرَحۡمَتِکَ یٰآ اَرۡحَمُ الرَّاحِمِیۡنَ۔ اللّٰھُمَّ ھٰذا عَبۡدُکَ (اگر عورت ہے تو کہے ھذِہٖ اَمَتُکَ ) ان کان بقی اجلہ و رزقہ (+) و اثرہ(+) فعَجِّل شفآءہ(+) و عافیتہ(+) اگر عورت ہے تو جہاں جہاں یہ علامت (+) ہے وہاں “ہا” کی ضمیرِ تانیث پڑھی جائے)۔

خاتمہ بالخیر:
ابو ذر غفاری رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں رسولِ خدا صلعم کے پاس اس بیماری کے وقت موجود تھا جس میں آپ نے رحلت فرمائی تھی۔ آنحضرت صلعم نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابوذر! میرے قریب آؤ تاکہ میں تمہارا سہارا لے کر بیٹھوں چنانچہ میں آپ کے قریب ہوا تو آپ نے میرے سینے کا سہارا لیا۔ لیکن جب امیر المومنین تشریف لائے تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابوذر اٹھو علیؑ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ پس علیؑ بیٹھ گئے اور آنحضرتؐ نے ان کی چھاتی کا سہارا لیا۔ پھر حضورؐ مجھ سے فرمانے لگے کہ یہاں میرے سامنے بیٹھو جب میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا کہ خوب یاد رکھو کہ جس شخص کی زندگی کا خاتمہ لا الہ الا اللہ کے کلمۂ شہادت پر ہو وہ جنّت میں داخل ہو گا۔ جس کا خاتمہ کسی محتاج کو کھانا کھلانے کی حالت میں ہو، وہ بھی جنّت میں داخل ہوگا۔ جس کا خاتمہ فریضۂ حج کے سلسلے میں ہو وہ بھی داخلِ جنّت ہو گا۔ جس کا خاتمہ عمرہ کی حالت میں ہو وہ بھی جنّت میں داخل ہو گا اور جس شخص کا خاتمہ راہِ خدا میں جہاد کرتے ہوئے ہو وہ بھی جنّت میں جائے گا۔ اگرچہ تھوڑی ہی دیر جہاد کیا ہو۔ آپ نے باقی حدیث بیان فرمائی۔

۱۱

جنّت کی بشارت:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ جب موت کے وقت مومن کی زبان بند ہو جاتی ہے تو اس وقت رسولِ خدا صلعم اس کی دائیں طرف تشریف لاتے ہیں اور بائیں طرف امیرالمومنین تشریف فرما ہوتے ہیں۔ اس کے بعد رسولِ خدا صلعم اس مومن کو فرماتے ہیں کہ اے مردِ مومن تم جس چیز کے امیدوار تھے وہ تمہارے سامنے موجود ہے اور تم کو جس چیز کا خوف تھا اس سے محفوظ ہو۔ اس کے بعد جنّت کا ایک دروازہ کھول دیا جائے گا۔ پھر اس کو دکھا کر کہا جائے گا کہ جنّت میں یہ تیرا مقام ہے۔ اگر تم دنیا میں واپس ہو جانا چاہتے ہو تو وہاں بھی تمہارے لئے دنیاوی سونا اور چاندی کے ڈھیر ہوں گے۔ اس وقت مردِ مومن کہے گا کہ مجھے دنیا کی کوئی ضرورت نہیں اس وقت اس کا چہرہ سفید ہو جائے گا اور پیشانی سے پسینہ جاری ہونے لگے گا۔ اس کے دونوں ہونٹ سکڑ جائیں گے۔ اس کی ناک کے دونوں نتھنے پھیل جائیں گے اور بائیں آنکھ میں آنسو آجائے گا۔ جب تم یہ علامتیں دیکھو تو انہی پر اکتفا کرو کہ وہ جنّتی ہے۔ آپ نے باقی حدیث بھی بیان فرمائی آپ نے فرمایا کہ اس کی تصدیق کے لئے خدا کا یہ ارشاد ہے: لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا (۱۰: ۶۴) ان کے لئے دنیا ہی میں جنّت کی بشارت ہے۔

موت کی سختی و آسانی میں حکمت:
رسولِ خدا صلعم سے روایت ہے آپؐ نے فرمایا کہ جس بندے کے لئے جنّت میں مقام ہو وہ معمولی اور ذرا سی آزمائش کے سبب سے اس درجے پر نہیں پہنچ سکتا۔ یہاں تک کہ اس کی موت آ جائے اور جب وہ آخری وقت تک اس درجے پر

 

۱۲

 

فائز نہیں ہو سکتا تو اس کی موت سخت کر دی جاتی ہے پس وہ اس درجے پر پہنچ جاتا ہے۔

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت کی گئی ہے آپؑ نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کبھی کبھار ملک الموت کو امر فرماتا ہے کہ وہ مومن کی جان کو کچھ وقت کے لئے کھینچتے اور چھوڑتے رہے تا کہ اس کو آسان طریقے سے قبض کیا جائے مگر لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس کی جان سختی سے نکل گئی اور اللہ تعالیٰ بسا اوقات عزرائیل کو حکم دیتا ہے کہ وہ کافر کی جان نکالنے میں سختی سے کام لے تو اس کی جان وہ ایک ہی جھٹکے میں کھینچ لیتا ہے جس طرح کہ لوہے کی سیخ پرانے اونی کپڑے سے کھینچ لی جا سکتی ہے۔

۱۳

موت کو یاد کرنا

جنازہ کی خدمت:
امام جعفر الصادق، امام باقر، آپ کے آباء کرام اور حضرت علی صلوات اللہ علیہم اجمعین سے روایت ہے کہ رسولِ خدا صلعم نے فرمایا کہ جب تم کو جنازہ کی طرف بلایا جائے تو جلدی سے جاؤ کیونکہ جنازہ تم کو آخرت کی یاد دلاتا ہے۔

امام باقرعلیہ السّلام سے پوچھا گیا کہ ایک شخص کو بیک وقت جنازہ اور ولیمہ کی دعوت ہو تو ان دونوں میں کس کو قبول کرنا چاہئے۔ آپؑ نے فرمایا کہ جنازہ کے امور میں شرکت کرے کیونکہ جنازہ کے امور میں حاضر رہنے سے موت اور آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے اور دعوتِ ولیمہ میں شرکت ان دونوں سے غافل بنا دیتی ہے۔

دنیاوی حرص سے چھٹکارا:
رسول اللہ صلعم سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے انصار میں ایک شخص کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں موت کو یاد کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ موت کی یاد تمہیں دنیاوی امور کی نگرانی سے چھڑا دے گی۔

آنحضرتؐ سے منقول ہے، آپؐ نے فرمایا کہ “ھاذم اللذّات” کو کثرت سے یاد کرو۔ عرض کیا گیا کہ اے رسولِ خدا صلعم ہاذم اللذّات سے کیا مراد ہے؟ رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ ہاذم اللذّات (دنیاوی لذتوں کو نیست و نابود کرنے والی) موت ہے مومنوں میں سب سے زیادہ عقلمند اور ہوشیار وہ ہے جو موت کو ان سب سے زیادہ یاد کرتا ہے اور ان سب سے بڑھ کر اس کے واسطے تیاری کرتا ہے۔

ہوشیار شخص:
حضورِ اکرم صلعم نے ایک مرتبہ اپنے اصحاب کی ایک جماعت سے پوچھا

 

۱۴

 

کہ لوگوں میں سب سے زیادہ ہوشیار شخص کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ خدا اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جو شخص موت کو سب سے زیادہ یاد کرے اور اس کے لئے سب سے زیادہ تیاری کرے۔

دنیا سے بے رغبتی:
امام باقر علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آپ نے اپنے بعض اصحاب کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ موت کو کثرت سے یاد کیا کرو کیوں کہ جو شخص موت کو جس قدر زیادہ یاد کرتا ہے وہ اس قدر زیادہ دنیاوی معاملات سے بے رغبت ہو جاتا ہے۔

مومن کا گلدستہ:
رسولِ مقبول صلعم سے مروی ہے آپؐ نے فرمایا کہ موت مومن کا گلدستہ ہے نیز آنحضرتؐ نے فرمایا کہ موت میں دو قسم کی راحت ہے۔ ایک راحت وہ ہے جو خود مرنے والے کو حاصل ہوتی ہے۔ دوسری وہ ہے جو مرنے والے کو نہیں بلکہ دوسرے کو حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ جس مرنے والے کو راحت حاصل ہوتی ہے وہ نیکو کار بندہ ہے جو دنیا کے غم اور عبادت و ریاضت سے فراغت و راحت پا کر آخرت کی نعمتوں کو حاصل کرتا ہے اور جس شخص کی موت سے دوسرے کو راحت ہوتی ہے وہ فاسق و فاجر آدمی ہے کہ اس کے مر جانے سے اعمال لکھنے والے دونوں فرشتوں کو فراغت و راحت ملتی ہے۔

آخرت سے غافل ہو جانے کا نتیجہ:
رسولِ اکرمؐ سے روایت کی گئی ہے آپؐ فرماتے تھے کہ خبردار ہو بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ ایک انسان مسرور و شادمان رہتا ہے اور وہ نہیں سمجھتا کہ آخرت کے معاملے میں اسے نقصان ہو چکا ہے وہ کھانے پینے اور ہنسنے میں مشغول رہتا ہے حالانکہ

 

۱۵

 

خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ وہ جہنم میں داخل ہو گا۔

انسان، حیوان اور موت:
حضرت امیر المومنین علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ابنِ آدم کو احمق نہ بنایا ہوتا تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا اور اگر جانوروں کو معلوم ہوتا کہ وہ مرنے والے ہیں جیسا کہ تم انسانوں کو معلوم ہے تو وہ بھی تمہارے لئے موٹے تازے نہ ہو سکتے۔

اپنی موت کا باور نہ کرنا:
آپؑ نے فرمایا کہ میں نے کوئی ایسا ایمان نہیں دیکھا جو یقین کے درجے تک پہنچ چکا ہو لیکن وہ پھر بھی شک سے ملتا جلتا ہو سوائے اس انسان کے جو ہر روز مردوں کو الوداع کرتا ہے اور ان کو قبروں تک پہنچاتا ہے لیکن پھر بھی دنیا کے قریب کی طرف متوجّہ رہتا ہے اور شہوتوں اور لذّتوں سے نہیں رکتا۔ پس اگر بفرضِ محال ابنِ آدم مسکین کا کوئی گناہ اور حساب نہ بھی ہوتا اور صرف موت ہی ہوتی جو اس کی جمعیّت کو بکھیر دیتی ہے اور اس کی اولاد کو یتیم بناتی ہے تو پھر بھی اسے مناسب تھا کہ موت کی انتہائی سختی سے ڈرتا رہے ہم تو موت سے غافل رہتے ہیں اس قوم کی طرح جس کو گویا موت آنے والی ہی نہیں اور دنیاوی خواہشات کی طرف اس قوم کی طرح مائل ہوتے ہیں جس کو نہ حساب کی امید ہے اور نہ عذاب کا ڈر۔

زیادہ عقلمند:
حضرت امیر المومنین علیہ السّلام نے فرمایا ایک مرتبہ رسولِ خدا صلعم سے پوچھا گیا کہ کون سے مومنین زیادہ عقلمند اور ہوشیار ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ جو موت کو زیادہ یاد کرتے ہیں اور اس کے لئے خوب تیاری کرتے ہیں ایسے ہی مومنین عقلمند اور ہوشیار ہیں۔

۱۶

تعزیت، صبر اور رونے کی رخصت

جبرائیل اور اہلِ بیّت:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آپؑ نے فرمایا کہ جب رسولِ خدا صلعم کا وصال ہوگیا تو اہلِ بیّت کرام کے پاس ایک آنے والا آیا وہ حضرات اس کی آواز سن رہے تھے مگر اس کا جسم ان کو نظر نہیں آتا تھا پس اس نے کہا کہ:
السلام علیکم اھل البیّت و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ-وَ  اِنَّمَا  تُوَفَّوْنَ  اُجُوْرَكُمْ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَؕ-وَ  مَا  الْحَیٰوةُ  الدُّنْیَاۤ  اِلَّا  مَتَاعُ  الْغُرُوْرِ (۰۳: ۱۸۵)۔ ہر مصیبت کے وقت خدا کے لئے صبر سے کام لینا چاہئے ہر مرنے والا اپنے پیچھے جانشین چھوڑ جاتا ہے۔ لہٰذا خدا سے امید رکھو اور صرف اسی کی عبادت کرو اور یقین جانو کہ مصیبت زدہ دراصل وہی ہے جو ثواب سے محروم ہے اور تم پر سلام اور خدا کی رحمت اور برکات ہیں۔

پھر امام جعفر الصادقؑ سے پوچھا گیا کہ اے فرزندِ رسول! آپ حضراتِ اہلِ بیّتؑ کے خیال میں وہ بولنے والا کون تھا؟ آپ نے فرمایا کہ ہم اہلِ بیّتؑ اسے جبرائیلؑ خیال کرتے ہیں۔

صبر کا موقع:
امام جعفر الصادق ، امام محمد باقر ، آپ کے آباء کرام اور

 

۱۷

 

حضرت علی صلوات اللہ علیہم اجمعین سے روایت ہے کہ رسولِ خدا صلعم ایک عورت کے نزدیک سے گزرے جو ایک قبر پر رو رہی تھی آپؐ نے اس سے فرمایا کہ اے عورت تم صبر کرو اس عورت نے آپ سے کہا کہ اے مرد تم اپنی راہ لو کیونکہ یہ میرا فرزند ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ رسولِ خداؐ اس عورت کو چھوڑ کر آگے تشریف لے گئے اور وہ عورت آپ کو نہیں پہچانتی تھی۔ جب اس کو بتایا گیا کہ وہ تو رسولِ خدا صلعم تھے یہ سن کر وہ عورت اٹھ کھڑی ہوئی اور حضورؐ کو تلاش کرنے لگی یہاں تک کہ آپؐ کے پاس جا پہنچی اور عرض کی کہ اے رسولِ خداؐ میں اس وقت حضورؐ کو نہیں پہچانتی تھی آپؐ فرمائیے کہ اگر میں صبر کروں تو مجھے اس کا اجر ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا اجر و ثواب پہلے صدمے کے ساتھ ہے یعنی مصیبت کے پہنچتے ہی صبر اختیار کرنے سے اجر ملتا ہے نہ کہ رونے دھونے کے بعد صبر کرنے سے۔

استرجاع اور صبر:
امام جعفر الصّادقؑ سے روایت ہے کہ رسولِ خدا صلعم نے فرمایا کہ جس شخص میں یہ چار چیزیں ہوں گی وہ ضرور جنّت میں داخل ہو گا۔ وہ کلمۂ شہادت لا الہ الا اللہ میں گناہوں سے پناہ لیتا ہو، اگر خدا احسان کرے تو الحمد للہ کہے، اگر کوئی گناہ کرے تو استغفراللہ کہے اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو انا للہ و انا الیہ راجعون کہے۔

حضرت امیر المومنین علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ جزع (بے صبری) سے بچو، کیونکہ اس سے امید ختم ہو جاتی ہے، عمل میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور فکر و غم میں انسان گرفتار ہو جاتا ہے ۔ جاننا چاہئے کہ مصیبت کے لئے چارہ کار دو طرح سے ہو سکتا ہے وہ یہ کہ جس معاملہ میں کوئی تدبیر کام آسکتی ہو تو تدبیر کرو اور جس میں کوئی تدبیر کام نہ آ سکے تو صبر پر لازم رہو۔

۱۸

آپؑ نے فرمایا کہ صبر کا درجہ ایمان میں ایسا ہے جیسے کہ سر کا درجہ جسم میں۔

آگ سے بچانے کا ذریعہ:
رسولِ خدا صلعم سے روایت کی گئی ہے آپؐ نے فرمایا جس شخص کے تین فرزند انتقال کر جائیں اور وہ اس سے اجر و ثواب کی توقع کرے تو اس کے یہ فرزند اس کو آگ سے بچانے کا ذریعہ بن جائیں گے ۔ رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اگر کسی کے دو بچے انتقال کر جائیں تو؟ آپ نے فرمایا کہ وہ بھی ایسا ہی ذریعہ بن جائیں گے۔

صاحبِ ایمان کی نشانیاں:
رسولِ اکرم صلعم سے منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ انصار کے کچھ لوگوں سے دوچار ہوئے جو ایک گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے ان کو سلام کیا اور کھڑے کھڑے ان سے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کس حال میں ہو؟ انہوں نے جواباً عرض کیا کہ اے رسولِ خدا صلعم ہم سب اہلِ ایمان ہیں۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ کیا تمہارے پاس صاحبِ ایمان ہونے کی کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ، آپؐ نے فرمایا اس کو پیش کرو۔ انصار نے کہا کہ ہم راحت کے وقت خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ مصیبت میں صبر کرتے ہیں۔ اور قضا پر راضی ہیں۔ آنحضرتؐ نے ان کو فرمایا کہ تب تو تم ٹھیک کہتے ہو، یقیناً تم اہلِ ایمان ہو۔

صبر کا صلہ:
پیغمبرِ خدا صلعم سے روایت ہے آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دنیا بطورِ قرض عطا فرمائی ہے پس جس شخٰص نے اس دنیا سے تھوڑا سا حصہ لے کر اس پر صبر کیا تو خداوند تعالیٰ اس کو اس کے عوض تین ایسی بہترین چیزیں عطا کرے گا کہ ان میں سے اگر ایک چیز بھی خدا اپنے فرشتوں کو دیتا تو وہ خوش ہو جاتے وہ تین چیزیں درود، رحمت اور ہدایت ہیں جیسا کہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

۱۹

 

وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ  الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ  قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ  اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ  وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷) اور (اے رسول) ایسے صبر کرنے والے مومنین کو خوشخبری دے دو کہ جب ان پر کوئی مصیبت آ پڑی تو بے ساختہ بول اٹھے ہم تو خدا ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں کہ انہیں لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے صلوات اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

ام سلمہ کا قصّہ:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ جب ابو سلمہ بن عبد الاسد کا انتقال ہو گیا تو اس کی بیوی ام سلمہ نے اس پر جزع و فزع کیا۔ اس وقت آنحضرت صلعم نے اس سے فرمایا کہ اے ام سلمہ تم اس طرح سے دعا کرو:
اللّٰھم اعظم لی اجری فی مصیبتی و عوضتی خیراً منھا۔ یا اللہ! تو مجھے اس مصیبت کا بہت بڑا اجر و ثواب عطا فرما اور اس کا بہترین عوض مجھے عنایت کر دے۔

ام سلمہ نے آنحضرت صلعم کی خدمت میں عرض کیا کہ اے رسولِ خدا صلعم، ابو سلمہ ایسا مجھے کہاں سے ملے گا۔ لیکن آنحضرتؐ نے پھر وہی فرمایا جو کچھ آپؐ نے پہلے کہا تھا ام سلمہ نے بھی اپنی وہی پہلی بات کہی حضورِ اکرمؐ نے تیسری دفعہ وہی ہدایت فرمائی اس وقت ام سلمہ نے اپنے جی میں کہا کہ میں نے رسولِ خدا صلعم کی بات تین مرتبہ رد کر دی آخرکار اس نے رسولِ خدا صلعم کی ہدایت کے مطابق دعا کی پس پروردگارِ عالم نے اس کو ایک ایسا شخص عطا فرمایا جو ابو سلمہ سے بہتر تھا یعنی ام سلمہ آنحضرت صلعم کے عقد میں آئیں۔

۲۰

سب سے بڑا سانحہ:
رسولِ اکرم صلعم سے روایت ہے آپؐ نے فرمایا کہ میرے بعد اگر تم میں سے کوئی شخص کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو اس وقت جو مصیبت اسے میری وفات سے پہنچی ہے اس کو یاد کرے کیوں کہ اس کو میری وفات سے جو مصیبت پہنچی ہے وہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔

تعزیت میں نصیحت:
امام باقر علیہ السّلام سے مروی ہے آپؑ نے فرمایا کہ جب مسلمان کسی مسلمان کو تعزیت (ماتم پرسی) کرے اور اس وقت ایک ذمّی (دارالسّلام میں جزیہ دے کر رہنے والا غیر مسلم) موجود ہو تو”انا للہ و انا علیہ راجعون” پڑھے اور موت و آخرت وغیرہ کا تذکرہ کرے آپؑ نے فرمایا کہ اسی طرح تمہارا کوئی ذمّی پڑوسی کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو اس کے نزدیک بھی یہی کہو اور اگر وہ ذمّی تم کو کسی میت کی تعزیت کرے تو اس کو “ہداک اللہ”کہو یعنی خدا تم کو ہدایت دے۔

آنحضرت کی کیفیت ابراہیم کی وفات پر:
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ جب رسولِ اکرم کے فرزند جناب ابراہیم کا وصال ہو گیا تو آنحضرت صلعم نے مجھے غسل کا حکم دیا پس میں نے ان کو نہلایا اور آنحضرت نے ان کو کفن پہنایا اور حنوط لگایا اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اے علی میت کو اٹھا کر لے چلو پس میں جنت البقیع کی طرف لے آیا اور آنحضرت صلعم نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ پھر آپ نے جنازے کو قبر سے نزدیک کیا اور مجھ سے فرمایا کہ اے علی تم قبر میں اترو ۔ میں جب قبر میں اترا تو آپ نے جنازے کو قبر میں جھکا دیا۔ جب آپ نے جنازے کو قبر میں اترتے دیکھا تو آپ رو پڑے اور تمام مسلمان

 

۲۱

 

رسول اللہ صلعم کو دیکھ کر رونے لگے۔ حتیٰ کہ مردوں کی آواز عورتوں کی آواز سے بھی بلند تر ہو گئی۔ اس وقت رسول اللہ صلعم نے ان کو سختی کے ساتھ رونے سے منع فرمایا اور کہا کہ آنکھیں آنسو بہائیں اور دل رنجیدہ و مغموم ہو لیکن ہم ایسی بات نہ کہا کریں جس سے پروردگار ناراض ہو۔ اے ابراہیم ہم تمہاری وفات سے مصیبت میں پڑ گئے اور ہم تم پر محزون ہیں۔ پھر آپ نے قبر کو ہموار کر دیا اور اپنا ہاتھ سرہانے رکھ کر انگوٹھے کو مٹھی میں دھنسا دیا اور یہ دعا پڑھی: بسم اللّٰہ ختمتک من الشیطان ان یدخلک ۔ یعنی خدا کے نام سے میں نے اس بات کی مہر لگا دی کہ شیطان تمہارے پاس داخل نہ ہو آپ نے باقی حدیث تفصیل کے ساتھ بیان کی تھی۔

آنحضرتؐ کی رحلت کے وقت فاطمۂ زہراؑ:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ جب آنحضرت صلعم پر نزع کا وقت آیا تو آپ پر غشی طاری ہو گئی اس وقت جناب فاطمہ زہرا علیہا السّلام رونے لگیں جب آنحضرتؐ کو ہوش آیا تو اس وقت جگر گوشۂ رسولؐ اپنی زبان اقدس سے یہ فرما رہی تھیں کہ اے رسول اللہ آپ کے بعد ہمارا پرسانِ حال کون ہو گا؟ آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ خدا کی قسم میرے بعد تم (یعنی اہلِ بیتؑ) کو کمزور و ناتوان سمجھا جائے گا۔

واویلا کرنے کی ممانعت:
امیر المومنین علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ آنحضرتؐ اپنے کسی فرزند کے انتقال پر رو پڑے لوگوں نے عرض کیا کہ اے رسولِ خدا صلعم، آپؐ خود رو رہے ہیں حالانکہ آپؐ ہم کو رونے سے منع فرماتے ہیں؟ آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ میں نے تم کو رونے سے کبھی منع نہیں کیا ہے میں نے تم کو نوحہ کرنے یعنی پکار کے چلا کے رونے اور واویلا کرنے سے منع کیا ہے،

 

۲۲

 

یہ رونا ایک قسم کی رقت اور رحمت ہے کہ خداوند تبارک و تعالیٰ جس کے دل میں چاہے پیدا کر دیتا ہے اور خدا جس بندے کو چاہے رحم کرتا ہے اور یقین کرو کہ خدا صرف اپنے نرم دل اور رحیم بندوں پر ہی رحم کرتا ہے۔

رونے کی رخصت:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آنحضرت صلعم نے مصیبت کے وقت رونے کی رخصت دی ہے اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جان کو مصیبت پہنچتی ہے آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں اور وعدے کی گھڑی قریب ہے پس تم اپنے منہ سے ایسی بات کہو جس سے خدا خوش ہو اور بیہودہ باتیں منہ سے نہ نکالو۔

آہ کا نعرہ مارنا:
حضرت علی علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ آہ کا نعرہ مارنا اور خراٹے لینا شیطان کا کام ہے۔

زندوں کی باتوں سے مردوں کو عذاب:
جناب امیر المومنین علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلعم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اے رسولِ خدا صلعم! عبد اللہ بن رواحہ بیماری کی وجہ سے بارِ گران ہو چکا ہے۔ آپؐ اٹھے اور ہم بھی آپؐ کے ساتھ ہو گئے یہاں تک کہ ہم اور آپؐ عبدا للہ بن رواحہؓ کے پاس پہنچ گئے۔ آنحضرتؐ نے اس کو بے ہوشی کے عالم میں پایا وہ کچھ سمجھ نہیں سکتا تھا، خواتین نالہ و فریاد کر رہی تھیں۔ آنحضرتؐ نے اس کو تین مرتبہ آواز دی اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تو آپؐ نے یہ دعا کی:
اللّٰھم عبدک ان کان قد قضیٰ اجلٰہ و رزقہ و اثرہ نالیٰ جنتک و رحمتک و ان لم یقض اجلہ و رزقہ و اثرہ فعجل

 

۲۳

 

شفاۂ و عافیتہ
“اے الٰہی! تیرا بندہ ہے اگر اس کا وقت پورا ہو چکا ہے اور آب و دانہ ختم ہوا ہے تو اس کو اپنی جنّت اور رحمت کی طرف لے جا اور اگر اس کی مدتِ عمر پوری نہیں ہوئی ہے اور آب و دانہ باقی ہے تو پھر اس کو جلد شفا اور عافیت عطا فرما۔”

اتنے میں کسی نے عرض کیا کہ اے رسولِ خدا صلعم! عبدا للہ بن رواحہؓ کے لئے یہ تعجب کی بات ہے کہ اس نے اکثر جہاد میں بغرضِ شہادت اپنے کو پیش کیا تھا مگر اس کو شہادت کا درجہ نصیب نہیں ہوا۔ اور آج وہ اپنے بستر پر انتقال کر رہا ہے ۔ آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ میری امت میں کون لوگ شہید کہلاتے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ اے رسولِ خدا صلعم! شہید تو وہ ہے جو میدانِ جنگ میں فرار ہوئے بغیر قتل ہو جائے۔ آپؐ نے فرمایا کہ پھر تو میری امت کے شہید بہت تھوڑے ہیں۔ یقیناً وہ شخص شہید ہے جس کا تم نے ذکر کیا۔ لیکن شہید وہ بھی ہے جو طاعون (پلیگ) سے مرا ہو۔ شہید وہ بھی ہے جو پیٹ کے عارضہ سے مر جائے۔ شہید وہ بھی ہے جو کسی مکان، دیوار وغیرہ کے گرنے سے مر جائے۔ شہید وہ بھی ہے جو پانی میں ڈوب کر مر جائے اور وہ عورت بھی شہید ہے جو بچہ پیٹ میں لئے مر جائے یا جو کنواری مر جائے لوگوں نے عرض کیا کہ اے رسول اللہ کوئی عورت پیٹ میں بچہ لئے کیسے مر جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب بچہ پیٹ میں ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد آنحضرتؐ وہاں سے چلے آئے اتنے میں عبداللہ بن رواحہؓ کو جب کچھ آفاقہ ہوا تو آنحضرت صلعم کو خبر دی گئی۔ آپ پھر ٹھہر گئے اور آپ نے عبداللہ

 

۲۴

 

بن رواحہؓ سے فرمایا کہ اے عبد اللہ ابھی ابھی تم نے جو کچھ دیکھا ہے بیان کرو کیونکہ تم نے بڑے عجائب دیکھے ہیں۔ عبداللہ بن رواحہؓ نے کہا کہ اے رسولِ خدا صلعم! میں نے ایک ایسا فرشتہ دیکھا تھا جس کے ہاتھ میں لوہے کی ایک قمچی تھی جس میں سے شعلے بھڑک رہے تھے۔ جب ان عورتوں میں سے کوئی چیخنے والی چیخ کر “اے میرے پہاڑ یعنی پشت پناہ” کہتی تو وہ فرشتہ قمچی سے میرے سر کی طرف اشارہ کرتا اور کہتا کہ کیا تو ہی اس عورت کا پہاڑ یعنی آسرا ہے؟ میں کہتا کہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے پس وہ قمچی کو ہٹا لیتا اور کوئی چیخنے والی چیخ کر “اے میرے عزت والے” کہتی تو وہ فرشتہ میرے سر کی طرف قمچی سے اشارہ کرتا اور کہتا کہ کیا تو ہی اس عورت کو عزت دینے والا ہے میں کہتا کہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے پس وہ فرشتہ قمچی کو ہٹا لیتا۔ آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ عبد اللہ نے سچ کہا ہے۔ اے لوگو! تمہارے ان مردوں کا کیا حال ہو گا جو تمہارے زندہ لوگوں کی باتوں سے تکلیف میں مبتلا کئے جاتے ہیں۔

ایک وصیت:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے اپنی وفات کے وقت یہ فرمایا کہ میرے انتقال پر کوئی شخص اپنے رخساروں پر تھپڑ نہ مارے اور نہ کوئی گریبان چاک کیا جائے۔ اگر کوئی عورت اپنا گریبان پھاڑے گی تو جہنم میں اس کے لئے ایک کھڈا کھودا جائے گا۔ وہ جتنا زیادہ گریبان چاک کرے گی اتنا زیادہ بڑا کھڈا کھودا جائے گا۔

عورتوں سے نوحہ نہ کرنے کی بیعت:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ آنحضرت صلعم نے عورتوں سے اس امر کی بیعت لی تھی کہ وہ ہرگز ہرگز نوحہ نہ کریں گی۔ نہ اپنے رخساروں کو نوچیں گی اور

 

۲۵

 

نہ خلوت میں نا محرموں کے ساتھ بیٹھیں گی۔

جاہلیت کے اثرات:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم نے فرمایا کہ زمانۂ جاہلیّت کے یہ تین کام لوگوں کے درمیان قیامت تک باقی رہیں گے۔ ستاروں سے بارش مانگنا، ذات پات میں طعنہ زنی کرنا اور مردوں پر نوحہ کرنا۔

نوحہ ممنوع ہے:
حضرت علی علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آپ نے رفاعہ بن شداد کو جو شہرِ اہواز میں آپ کا قاضی تھا ایک خط میں یہ لکھا کہ اے رفاعہ خبردار تم جس شہر کا بھی سلطان ہو وہاں کسی میّت پر نوحہ نہ ہونا چاہئے۔

کونسی آواز ملعون ہے:
علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم صلعم نے فرمایا دو آوازیں ملعون ہیں ان سے خدا بغض و عداوت رکھتا ہے۔ مصیبت کے وقت واویلا کرنے کی آواز اور دولت و راحت کے موقع پر گانے بجانے کی آواز۔

۲۶

میّت کو غسل دینا

امام جعفر الصادق، آپ کے پدرِ بزرگوار امام باقر، آپ کے آباء کرام اور حضرت علی صلوات اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہے۔ امیر المومنین نے فرمایا کہ آنحضرت صلعم نے مجھ کو یہ وصیّت کی تھی کہ میں آپؐ کے غسل کی ذمہ داری لوں۔ پس جاننا چاہئے کہ مولا علیؑ ہی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو غسل دیا تھا۔ حضرت امیر المومنین غسلِ رسول اللہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

آنحضرتؐ کو غسل دینے کی کیفیّت:
جب میں آنحضرتؐ کو غسل دینے لگا تو میں نے بیت الشرف کی ایک جانب سے کسی کہنے والے کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے علی آنحضرت کے جسمِ اطہر سے قمیض نہ اتارو پس میں نے آپ کو قمیض کے ساتھ غسل دیا اور میں آپ کو غسل دے رہا تھا کہ میں نے اپنے ہاتھ کے ساتھ ایک اور ہاتھ محسوس کیا جو آپؐ کے جسمِ مبارک پر کام کر رہا تھا چنانچہ جب میں نے حضورؐ کو پلٹا تو اس میں میری مدد کی گئی جب میں نے آپؐ کو منہ کے بل لٹانا چاہا تا کہ آپؐ کی پشتِ مبارک کو غسل دوں تو مجھے آواز آئی کہ حضورؐ کو منہ کے بل نہ لٹاؤ پس میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہلو پر لٹا کر پشتِ مبارک کو غسل دیا۔

حضرت امیر المومنینؑ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرتؐ نے مجھے اس امر کی وصیّت فرمائی کہ میں آپؐ کو غسل دوں اور میرے ساتھ کوئی دوسرا غسل نہ دے تو میں نے اس وقت رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ کا جسمِ مبارک

 

۲۷

 

بھاری ہے، میں تنہا آپ کو نہیں پلٹ سکوں گا۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ جبرائیلؑ تمہارے ساتھ میرے غسل میں شریک ہوں گے۔ میں نے عرض کیا کہ مجھ کو پانی کون دے گا؟ آپؐ نے فرمایا کہ فضل (ابنِ عباس) تم کو پانی دے گا۔ لیکن تم اس سے اتنا ضرور کہہ دینا کہ وہ اپنی دونوں آنکھوں پر پٹی باندھ لے کیونکہ تمہارے سوا جو بھی میرے سرّ کی طرف دیکھے گا وہ اندھا ہو جائے گا۔

امام باقر علیہ السّلام سے روایت ہے، آپؑ نے فرمایا کہ فضل ابنِ عباس آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے امیر المومنینؑ کو پانی دیتے تھے اور علیؑ و جبرائیل علیہ السّلام رسالت مآبؐ کو غسل دے رہے تھے۔

تین غسل:
امام باقر علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السّلام نے آنحضرتؐ کو تین مرتبہ غسل دیا تھا، ایک غسل ایسے پانی سے، جس میں حرض یعنی اشنان کی گھاس ڈالی گئی تھی۔ دوسرا غسل اس پانی سے جس میں ذریرہ (ایک قسم کی خوشبو) اور کافور ڈالا گیا تھا۔ اور تیسرا غسل سادہ پانی سے اور یہ آخری غسل تھا۔ حرض یا کہ اشنان ایک خاص قسم کی گھاس ہے جس سے ہاتھ اور کپڑے دھوتے ہیں اس کو جلا کر سجی (شخارہ شقوی) بناتے ہیں۔ اس کا بروشسکی نام صبون شقہ ہے۔ یہ گھاس اور درخت سدر (بیری) بیری کی پتیاں دونوں میت کے غسل میں مستعمل تھیں مگر بعد میں البتہ سدر کے پتے زیادہ استعمال ہونے لگے۔

میّت کی خدمت کا عظیم ثواب:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ جس مردِ مسلم نے اپنے کسی مسلمان بھائی کو بغیر کسی کراہت کے غسل دیا۔ اس کی شرمگاہ پر نظر نہ ڈالی اس کی کسی برائی کا ذکر نہیں کیا اس کے

 

۲۸

 

جنازے کے ساتھ چلا اس پر نماز پڑھی اور اس کی تدفین میں وقت صرف کیا ایسا مسلمان بندہ جب وہاں سے چلے گا تو اپنے گناہوں سے خالی ہو جائے گا۔

جنب اور حائض میّت کو غسل نہ دیں:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ جنابت اور حیض دار دونوں کسی بھی میّت کو غسل نہ دیں۔

شوہر کا بیوی کو غسل دینا:
امام باقر علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ حضرت علئ مرتضیٰ نے فاطمۂ زہرا صلوات اللہ علیہا کو غسل دیا تھا کیونکہ خاتونِ جنّت نے اس امر کی وصیت فرمائی تھی۔

امیر المومنین سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ فاطمۂ زہرا علیہا السّلام نے مجھے اس بات کی وصیّت کی تھی کہ ان کو میرے سوا کوئی اور غسل نہ دے اور اسما بنتِ عمیس مجھے پانی ڈالے۔

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے، آپ سے پوچھا گیا کہ آیا کوئی مرد اپنی عورت کو غسل دے سکتا ہے؟ آپؑ نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ کپڑے کے اوپر سے غسل دے۔

بیوی کا شوہر کو غسل دینا:
امامِ موصوفؑ سے روایت ہے، آپؑ نے فرمایا کہ جب کسی عورت کا شوہر انتقال کر جائے تو وہ اس کو غسل دے سکتی ہے مگر قصداً اس کی شرمگاہ کو نہ دیکھے۔

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے، آپؑ نے فرمایا کہ جب میرے جدِ امجد

 

۲۹

 

امام زین العابدین علیہ السّلام کا انتقال ہو گیا تو اس وقت میرے پدرِ بزرگوار امام باقر علیہ السّلام نے فرمایا کہ میں آپؑ کی زندگی میں آپ کی شرمگاہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا نا پسند کرتا تھا تو اب آپؑ کے انتقال کے بعد میں کس طرح اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ سکتا ہوں؟ پس آپؑ نے کپڑے کے نیچے ہاتھ ڈال کر آپ کو غسل دیا۔ اور آپؑ کی ام ولد۱ کو بلایا انہوں نے بھی آپ کے ہاتھ کے ساتھ اپنا ہاتھ شریک کر دیا اور آپ کو غسل دیا۔

امام جعفر الصادق علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ جب میرے پدرِ بزرگوار امام باقر علیہ السّلام کا انتقال ہوا تو میں نے بھی اسی طرح سے آپؑ کو غسل دیا تھا۔

۱ام الولد وہ لونڈی ہے جس کے ہاں مالک کے نطفے سے کوئی بچہ پیدا ہو چکا ہو۔

جب میّت کو غسل دینے کے لئے کوئی محرم نہ ہو:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ اگر کوئی ایسا مرد عورتوں کے درمیان انتقال کر جائے جس کو ان عورتوں میں سے کوئی محرم نہ ہو اور اسی طرح کوئی ایسی عورت مردوں کے درمیان مر جائے جس کو (کپڑوں کے نیچے) غسل دینے کے لئے کوئی محرم نہ ملے تو ان دونوں کو بغیر غسل کے دفن کر دیا جائے۔

یہاں امامِ عالی مقام کی رائے گویا یہ ہوئی کہ میّت کو غسل دینا تو واجب تھا لیکن جب ایک ناجائز ذریعے کے بغیر اس کی تعمیل ممکن نہیں ہوئی تو جو کچھ واجب تھا وہ خود بخود ساقط ہو گیا۔

شہید کے متعلق حکم:
امامِ موصوف علیہ السّلام سے روایت ہے، آپؑ نے فرمایا کہ جو شہید اپنی شہادت گاہ پر ہی جان بحق ہو چکا ہو اس کو اپنے کپڑوں ہی میں دفن کر دیا جائے۔ اور اس کو غسل نہ دیا جائے

 

۳۰

 

اور اگر اس میں تھو ڑی سی جان باقی رہی ہو اور اسی حالت میں شہادت گاہ سے منتقل کر دیا پھر اس کا انتقال ہو جائے تو اس کو غسل دیا جائے پھر کفنایا اور دفنایا جائے آپؑ نے فرمایا کہ رسولِ اکرمؐ نے امیر حمزہ علیہ السّلام کو ان کپڑوں میں دفن کیا تھا جن میں وہ شہید ہوئے تھے اور صرف ایک چادر کا اضافہ کیا تھا۔

حضرت علی علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ جنگِ بدر میں جو مسلمان شہید ہو گئے ان کے جسموں سے پوستینوں کو آنحضرتؐ نے اتروا لیا تھا ان کو پہنے ہوئے کپڑوں میں دفن کر دیا تھا اور ان پر نماز پڑھی تھی۔

حضرت علی علیہ السّلام نے فرمایا کہ شہید کے جسم سے پوستین ، جوتے، ٹوپی، پگڑی، کمرپٹہ (کمر بند) اور پاجامہ اتار لئے جائیں بشرطیکہ ان میں خون نہ لگا ہو اور اگر ان میں سے کسی چیز میں خون لگا ہو تو اسے نہ اتارا جائے اور اس کے ساتھ کوئی چیز گرہ لگا ئی ہوئی نہ رکھی جائے مگر کھول کر۔

جو ڈوب کر مرے:
امام باقر علیہ السّلام سے مروی ہے آپؑ نے فرمایا کہ جو شخص پانی میں ڈوب کر مر گیا ہو اس کو غسل دیا جائے۔

جو جل کر مرے:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ جو شخص جل کر مر گیا ہو اسے جب غسل دیا جائے تو اس میں اوپر سے صرف پانی ڈالا جائے یعنی ہاتھوں سے اس کے جسم کو نہیں ملنا چاہئے۔

غریق:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص پانی میں ڈوب کر مردہ جیسا بے حس ہو جائے تو اس کو ایک دن اور ایک

 

۳۱

 

رات رکھ کر دفن کیا جائے۔

زندہ درگور سے احتیاط:
امام باقر علیہ السّلام سے روایت ہے، آپؑ نے فرمایا کہ جس شخص پر آسمانی بجلی گر پڑی ہو اس کو تین دن سے پہلے دفن نہ کیا جائے، مگر یہ ہے کہ اس کی موت کی علامتوں کا پورا یقین ہو چکا ہو۔

تدفین میں تاخیر نہ ہو:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص کا انتقال دن کے پہلے حصّے میں ہو جائے تو اس کا قیلولہ (دوپہر کو سونا) اس کی قبر میں ہونا چاہئے، اور اگر دن کے آخری حصے میں انتقال کر جائے تو اس کی رات قبر میں گزرنی چاہئے۔

ایک ہی غسل کافی ہے:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا اگر کوئی شخص جنابت کی حالت میں انتقال کر جائے تو اس کو ایک ہی غسل دینا کافی ہے اور حائضہ کو بھی ایک ہی غسل کافی ہے (نیز جو عورت نفاس کی حالت میں مر جائے اس کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ اس کو صرف میّت کا غسل دیا جائے گا)۔

میّت کو غسل دینے کی کیفیت:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ میّت کو تین مرتبہ غسل دینا چاہئے۔ ایک غسل تو پانی اور سدر (بیری کی پتیوں) سے دیا جائے، دوسرا غسل کافور ملے ہوئے پانی سے دیا جائے اور تیسرا غسل سادہ پانی سے دیا جائے اور ہر غسل جنابت کی حالت کے غسل کی طرح ہونا چاہئے۔ چنانچہ پہلے میّت کو اسی طرح وضو کرایا جائے جیسے نماز کے لئے وضو کیا جاتا ہے پھر میّت کے سارے بدن پر پانی بہایا جائے۔ اور اس کو پہلو پر لٹایا جائے مگر بٹھایا نہ جائے اور نہ منہ کے بل گرایا جائے کیونکہ اگر میّت کو بٹھایا گیا تو اس کی کمر ٹوٹ جائے گی اس لئے

 

۳۲

 

میّت کو باری باری دونوں پہلوؤں پر لٹا کر اس کی پیٹھ کو دھونا چاہئے اور اسی حال میں سارے بدن پر ہاتھ پھیرنا چاہئے۔ جس طرح کہ جنابت دار شخص اپنے تمام جسم کو دھو لیتا ہے۔

امام موصوف علیہ السّلام نے فرمایا کہ میّت کو غسل دیتے وقت اس کی ناف سے لے کر گھٹنوں تک ازار (پاجامہ)بنائی جائے اور اس کے نیچے سے پانی بہایا جائے اور غسل دینے والا اپنے ہاتھ پر ایک کپڑا لپیٹ کر اس کو ازار کے نیچے داخل کرے اور اس کی شرمگاہ اور سرّ کے تمام حصے کو جو ازار کے نیچے ہے دھوئے۔

اگر میّت کا کوئی جزو گر جائے:
آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر میّت سے کوئی چیز گر جائے جیسے بال، گوشت، ہڈی وغیرہ تو ایسی چیز کو اس کے ساتھ کفن میں رکھ کر دفن کر دینا چاہئے۔

دعائم الاسلام عربی حصّہ اوّل ص ۱۱۴ میں ہے کہ جو شخص میّت کو غسل دے وہ اس کام سے فارغ ہو کر غسل کرے اس کا یہ غسل فرض نہیں بلکہ سنت ہے۔

نیتِ غسل:
میّت کو غسل دیتے ہوئے نیت کرنا ضروری ہے نیت کسی بھی زبان میں جائز ہے مثلاً اغسل ہٰذا المیت بمآء السدر قربۃ الی اللّٰہ بسم اللّٰہ و اللّٰہ اکبر ۔ جب کافور کے پانی سے میت کو غسل دے رہا ہو تو کہے اغسل ہٰذا المیت بمآء الکافور قربۃ الی اللّٰہ بسم اللّٰہ و اللّٰہ اکبر ۔ جب خالص پانی سے غسل دے رہا ہو تو یوں کہے اغسل ہٰذا المیت بمآء الخالص قربۃ الی اللّٰہ بسم اللّٰہ و اللّٰہ اکبر ۔ اگر میّت عورت کی ہے تو ہٰذا المیت کی جگہ ہٰذہِ المیت کہے۔

اگر نیّت فارسی میں ہو تو اس طرح کہے: غسل می دہم این میت را بآبِ سدر

 

۳۳

 

قربۃ الی اللّٰہ بسم اللّٰہ و اللّٰہ اکبر ۔ دوسرے غسل میں کہے غسل میدہم این میت را بآبِ کافور قربۃ الی اللّٰہ بسم اللّٰہ و اللّٰہ اکبر ۔ تیسرے غسل میں اس طرح نیّت کرے: غسل می دہم این میت را بآبِ خالص قربۃ الی اللّٰہ بسم اللّٰہ و اللّٰہ اکبر ۔

اگر اردو میں نیت کرنی ہے تو اس طرح سے کہے: غسل دیتا ہوں اس میت کو آبِ سدر (یا آبِ کافور یا آبِ خالص) سے قربۃ الی اللّٰہ بسم اللّٰہ و اللّٰہ اکبر ۔

واضح رہے کہ غسلِ میّت کی نیّت کے لئے کتابوں میں مختلف کلمات مذکور ہیں ان میں سے کوئی کلمہ مخصوص نہیں اس میں صرف خدا کی نزدیکی یا خوشنودی کی نیّت لازمی ہے۔

۳۴

حنوط اور کفن

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ جب میّت کو غسل دینے والا غسل دے کر فارغ ہو جائے تو اس کو ایک کپڑے سے پونچھے اور اس کے سجود کے اعضاء یعنی پیشانی، ناک، دونوں ہاتھ، دونوں زانو اور دونوں پیروں پر کافور اور حنوط (خوشبو) لگائے اور اس میں سے کچھ آنکھیں، کانوں، منہ، داڑھی اور چھاتی پر لگا دے۔ عورت اور مرد کا حنوط یکسان ہے۔

امام جعفر الصادق، آپ کے پدرِ بزرگوار امام باقر، آپ کے آباء کرام اور حضرت علی صلوات اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہے کہ آپؐ حنوط کے لئے مشک (کستوری) کی آمیزش میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

میت کے لئے دھونی:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ کسی میّت کو زعفران اور ورس (ایک قسم کی گھاس، جس سے رنگائی کا کام لیا جاتا ہے) سے حنوط نہ لگایا جائے۔ آپؑ میّت کو دھونی دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اس کے کفن کو اور اس جگہ کو جہاں اسے غسل و کفن دیا جائے دھونی دی جائے۔

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہےکہ آپ کسی میّت کے پیچھے پیچھے دھونی لے کر چلنا مکروہ سمجھتے تھے البتہ کفن کو دھونی دینی چاہئے۔

اگر کوئی حالتِ احرام میں مر جائے:
امام باقر علیہ السّلام سے مروی ہے آپ سے اس شخص کے متعلق پوچھا گیا جو حجِ

 

۳۵

 

بیت اللہ کے لئے احرام باندھے ہوئے انتقال کر گیا ہو۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے کھلے ہوئے سر کو ڈھانک دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ پورا وہ عمل کیا جائے جو ایک بغیر احرام کی میّت کے ساتھ کیا جاتا ہے مگر خوشبو کو اس کے قریب نہ کیا جائے۔ (یعنی اس کو کافور کے پانی سے غسل نہ دیا جائے۔ نہ اس کو کوئی حنوط لگایا جائے اور نہ اس کے کفن وغیرہ کو کوئی دھونی دی جائے)۔

کفن میں تین کپڑے:
حضرت علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آپؑ نے آنحضرتؐ کو تین کپڑوں میں کفن دیا تھا۔ دو کپڑے مضافاتِ عمان کے بنے ہوئے تھے (یعنی قمیض اور افافہ) اور ایک یمنی چادر تھی، ان کے علاوہ اراز اور عمامہ تھا۔

امام جعفر الصادقؑ سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ کفن میں بہترین تین کپڑے ہیں۔ ایک بغیر بٹن کا اور بغیر سلا ہوا کُرتا۔ ایک چادر اور ایک تہبند۔ صادقِ آلِ محمد علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ میرے پدرِ بزرگوار امام باقر علیہ السّلام نے مجھے یہ وصیّت کی تھی کہ میں ان کو تین کپڑوں میں کفن دوں۔ ایک یمنی چادر جس میں آپؑ جمعہ کی نماز پڑھا کرتے تھے۔ ایک اور کپڑا (یعنی تہبند) اور ایک قمیض۔

امام باقر علیہ السّلام سے مروی ہے آپؑ نے فرمایا کہ میّت کو تہبند اور عمامہ پہنانا ضروری ہے لیکن یہ دونوں کفن میں شمار نہیں ہوتے ہیں اور میّت کو تین کپڑوں میں کفن دینا مستجب ہے اس میں کوئی چیز مخصوص اور فرض نہیں ہے۔

عمامہ، ران پیچ اور روئی کا استعمال:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ ایک ایسے شخص نے جو میّتوں کو غسل دیتا تھا آپؑ سے پوچھا کہ میّت کو کس طرح عمامہ پہنایا جائے؟ آپؑ نے فرمایا کہ اعرابی کے عمامہ کی طرح سے میّت کو عمامہ نہ پہناؤ لیکن عمامہ کو درمیان سے پکڑ کر میّت کے سر پر پھیلا دو اور داڑھی کے نیچے سے گزار کر عمامہ پہناؤ اور عمامہ کے

 

۳۶

دونوں سرّوں کو میّت کے سینے پر ڈال دو اور اس کی دونوں کوکھ پر تہنید کی طرح ایک کپڑا (یعنی ران پیچ) باندھو مگر اس کو ڈھیلا باندھو اور مقعد کے نیچے روئی رکھ دو تا کہ اس میں سے کوئی چیز خارج نہ ہو۔ عمامہ اور کوکھ سے بندھا ہوا کپڑا (یعنی ران پیچ) کفن میں شمار نہیں کفن تو وہی ہے جس میں میّت کے جسم کو کفنایا جاتا ہے۔

ریشمی کفن کی ممانعت:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میّت کو ریشمی کپڑے میں کفنانے سے منع فرمایا ہے۔

اوڑھنی اور غیر سفید کفن:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ میّت کی مقعد میں روئی لگا دو تا کہ اس میں سے کوئی چیز باہر نہ نکلے۔ فرج پر اور دونوں پیروں کے درمیان بھی روئی رکھی جائے۔ اگر میت عورت ہو تو اس کے سر پر اوڑھنی اوڑھائی جائے اور اگر مرد ہو تو اس کے سر پر عمامہ باندھا جائے۔ أئمّۂ اطہار علیہم السّلام نے کفنوں میں غیر سفید کی بھی اجازت و رخصت دی ہے۔ حضرت علی (صلوٰت اللہ علیہ و علیٰ الائمّہ من ولد) سے منقول ہے کہ آنحضرتؐ نے حضرت حمزہ علیہ السّلام کو اون کی سیاہ دھاری دار چادر میں کفنایا تھا۔

امام حسین علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ نے اسامہ بن زید کو سرخ چادر میں کفن دیا تھا۔

کفن، قرض اور میراث:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ میّت کے مال میں سے اوّل کفن خریدا جائے پھر قرض ادا کیا جائے پھر اس کی وصیّت پوری کی جائے اور اس کے بعد میراث تقسیم کی جائے۔

۳۷

جنازے کے ساتھ چلنا

اسلام میں پہلا تابوت:
امام جعفر الصادق، آپ کے پدرِ بزرگوار امام باقر، آپ کے آباء کرام صلوات اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہے کہ رسول اکرمؐ نے جناب فاطمہ زہرا علیہا السّلام کو یہ بھید بتایا کہ میرے اہلِ بیّتؑ میں سے تم سب سے پہلے مجھے ملو گی۔ جب آنحضرتؐ کا انتقال ہو گیا اور لوگ مبتلائے غم ہو گئے تو سیّدہ عالم فاطمہ زہرا علیہا السّلام بستر سے لگ گئیں ان کا جسم نحیف و زار ہو کر سایہ کے مانند ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد آپ صرف ستر دن تک زندہ رہیں۔ جب انتقال کا وقت قریب ہوا تو انہوں نے اسماء بنتِ عمیسؓ سے فرمایا کہ میں مردوں کے کندھوں پر مکشوف حالت میں کس طرح اٹھائی جاؤں گی میرے جسم میں صرف ہڈیاں اور کھال باقی رہ گئی ہے۔ جب میں سریر (جنازہ) پر رکھ کر اٹھائی جاؤں گی تو کس طرح سے لوگ میرے جثّہ کو دیکھیں گے؟ اسماء بنتِ عمیسؓ نے کہا کہ اے جگر گوشۂ رسولؐ اگر آپؑ پر قضائے الٰہی صادر ہو گئی تو میں آپ کے لئے ایک ایسی چیز بناؤں گی جسے میں نے شہرِ حبشہ میں دیکھی تھی۔ حضرت فاطمہ زہراؑ نے فرمایا کہ وہ کیا ہے؟ اسماء بنتِ عمیسؓ نے کہا کہ وہ نعش (تابوت) ہے، جسے تختۂ جنازے کے اوپر رکھا جاتا ہے اور یہ میّت کو اس طرح چھپاتا ہے کہ میّت نظر ہی نہیں آتی۔ جگر گوشۂ رسولؐ نے فرمایا کہ میرے لئے بھی نعش (تابوت) بنوا دینا ۔ جب آپؑ کا انتقال ہو گیا تو اسماء بنتِ عمیسؓ نے ان کے لئے نعش (تابوت) بنایا تھا۔ پس یہ پہلا تابوت تھا جو اسلام میں اٹھایا گیا۔

 

۳۸

حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نعش یعنی تابوت پر حنوط لگانے سے منع فرمایا ہے۔

تابوت پر رنگ برنگ کا کپڑا نہ ڈالا جائے:
علئ مرتضیٰؑ سے منقول ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ ایک ایسے تابوت کو دیکھا جس کو سرخ، سبز، اور زرد دوپٹوں سے مزیّن کیا گیا تھا۔ پس آپؑ کے امر سے انہیں اتارا گیا تھا۔

امیر و غریب کی قبر یکسان ہو:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے ، آپؑ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آخرت کا پہلا عدل (یعنی مساوات) قبریں ہیں، کیونکہ ان قبروں میں سونے والوں کے متعلق کوئی پتہ نہیں چلتا کہ شریف کون ہے اور رذیل کون ہے۔

جب قریب سے کوئی جنازہ گزرے:
امیر المومنین علیہ السّلام سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے پاس سے جنازہ گزر رہا تھا وہ لوگ کھڑے ہو گئے۔ آپؑ نے انہیں اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ یہ حکم ایسے لوگوں کے لئے ہے جن کے پاس سے جنازہ گزر جاتا ہے اور وہ اس کے ساتھ چلنے کا ارادہ نہیں کرتے ہوں لیکن جو شخص جنازے کے ساتھ جانے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اٹھ کر جنازے کے ہمراہ چلے اور جب تک جنازہ زمین پر نہ رکھا جائے اس وقت تک نہ بیٹھے۔

امام حسین علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آپ ایک مرتبہ جنازہ کے ہمراہ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے وہ لوگ اٹھنے لگے، آپؑ نے ان کو منع فرمایا اور آپؑ چلتے رہے جب قبر کے پاس پہنچے تو آپؑ وہاں رک گئے اور ابو ہریرہ اور ابن الزبیر کے ساتھ بات چیت کرنے لگے

 

۳۹

 

یہاں تک کہ جنازہ زمین پر رکھا گیا۔ اس وقت آپ بیٹھ گئے اور دوسرے لوگ بھی بیٹھ گئے۔

جنازہ لے جانے میں سست رفتاری نہ ہو:
حضرت علی علیہ السّلام سے روایت ہے، آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ جنازہ کو سرعت کے ساتھ لے جاؤ ، آہستہ آہستہ نہ لے جاؤ۔

جنازہ کو کندھا دینا:
علی مرتضیٰؑ سے منقول ہے آپؑ سے پوچھا گیا کہ آیا ہر اس شخص پر جنازہ کو کندھا دینا واجب ہے جو جنازہ کے ساتھ ساتھ ہے آپؑ نے فرمایا کہ واجب تو نہیں مگر بہتر ہے۔ پس جو شخص چاہے تو پکڑے اور جو نہ چاہے تو نہ پکڑے۔

جنازہ کو کسی سواری میں اٹھانا:
امیر المومنین علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے جنازہ کو سواری کے جانور پر اٹھانے کی رخصت و اجازت دی ہے مگر ایسا اس وقت کیا جائے جبکہ جنازہ اٹھانے کے لئے کوئی شخص نہ ملے یا کوئی عذر ہو لیکن سنّت اور حکم یہی ہے کہ جنازہ کو لوگ ہی اٹھائیں۔

جنازہ کو کندھا دینے کا طریقہ:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے آپ اس عمل کو مستجب سمجھتے تھے کہ جو شخص جنازہ اٹھانے میں مدد کرنا چاہتا ہے وہ تختہ تابوت کی بائیں جانب سے شروع کرے اور جس کے دونوں ہاتھوں میں تختہ کا پایہ ہو اس سے لے کر یہ شخص اپنے داہنے کندھے پر رکھے پھر باری باری سے چاروں طرف گھوم کر پچھلے، داہنے اور اگلے پایہ کے نیچے بھی کندھا دے۔

جنازہ کے پیچھے چلو:
امیر المومنین علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا ہے کہ تم لوگ جنازے کے پیچھے پیچھے چلو نہ کہ

 

۴۰

 

اس کے آگے آگے، تم اہلِ کتاب کے بالکل برعکس عمل کرو ۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے امیرالمومنین سے پوچھا کہ یاعلیؑ! آپؑ کی صبح کیسی گزری؟ آپؑ نے فرمایا کہ اس شخص سے بہتر گزری جو نہ کسی جنازہ کے پیچھے چلا، نہ کسی بیمار کی عیادت کی۔

جناب مرتضیٰ علی علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ سے ایک مرتبہ ابو سعید الخدری نے جنازہ کے ہمراہ چلنے کی بابت پوچھا کہ جنازہ کے آگے چلنا افضل ہے یا پیچھے؟ آپؑ نے فرمایا کہ اے ابو سعید! تم جیسا انسان اس قسم کی بات پوچھتا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں بخدا مجھ جیسا آدمی اس بارے میں پوچھتا ہے پس علی علیہ السّلام نے فرمایا کہ جنازہ کے پیچھے چلنے والے پر وہی فضیلت ہے جو فرض نماز کو نفل پر ہے۔ ابو سعید نے کہا کہ یہ آپ اپنی طرف سے فرما رہے ہیں یا اس بارے میں آپؐ نے کچھ رسولِ اکرمؐ سے بھی سنا ہے؟ امیر المومنین علیہ السّلام نے فرمایا کہ میں نے آنحضرتؐ کو یہی کہتے ہوئے سنا ہے جو میں نے تم سے ابھی کہا۔

جنازہ کے پیچھے ننگے پاؤں چلنا:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آپؑ حصولِ فضل و ثواب کی خاطر جنازہ کے پیچھے ننگے پاؤں چلا کرتے تھے۔

جنازہ کے پیچھے کوئی عورت نہ جائے:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتؐ ایک جنازہ کے ہمراہ تشریف لے جا رہے تھے کہ آپؐ کی نظر ایک عورت پر پڑی جو جنازہ کے پیچھے پیچھے چلی آ رہی تھی آپؐ ٹھہر گئے اور فرمایا کہ اس عورت کو لوٹا دو پس وہ لوٹا دی گئی۔ آپؐ ٹھہرے رہے یہاں تک کہ آپؐ سے یہ کہا گیا کہ اے رسولِ خداؐ وہ عورت تو مدینہ کی دیواروں سے بھی آگے چلی گئی ہے تب آپؐ وہاں سے چلنے لگے۔

۴۱

 

نمازِ جنازہ

آنحضرتؐ کے جنازہ پر نماز:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے آنحضرتؐ کی وفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت علی علیہ السّلام جناب رسالت مآب کو غسل و کفن دے چکے تو اس وقت عباس بن عبد المطلبؑ آپ کے پاس آئے اور آپ سے کہا اے علی علیہ السّلام! لوگ رسول اللہؐ پر نمازِ جنازہ پڑھنے کے لئے جمع ہو گئے ہیں اور ان کی یہ رائے ہے کہ آنحضرتؐ کو جنّت البقیع میں دفن کر دیا جائے۔ اور ان کی یہ بھی رائے ہے کہ انہیں میں سے ایک شخص رسولِ خداؐ پر نمازِ جنازہ کی امامت کرے۔ یہ سن کر امیر المومنین علیہ السّلام باہر تشریف لائے اور لوگوں سے فرمانے لگے کہ اے لوگو! یقیناً رسولِ خداؐ زندگی اور موت دونوں حالت میں امامؑ ہیں اور جو نبی جہاں وفات پاتا ہے اس کو وہیں دفن کیا جاتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپؑ کی رائے کے مطابق عمل ہو، چنانچہ امیر المومنین علیہ السّلام بیت الشرف کے دروازے پر کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ پر نمازِ جنازہ پڑھی اور آپؑ نے دس دس آدمیوں کو آگے کر دیا جو نماز پڑھ کر واپس آ گئے۔

اس نماز کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں:
امام باقر علیہ السّلام سے مروی ہے آپؑ نے فرمایا کہ آفتاب کے غروب اور طلوع کے وقت اور کسی وقت میں بھی نمازِ جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ تو محض استغفار یعنی مغفرت اور بخشش چاہنا ہے۔

۴۲

نیک عمل کی اہمیّت:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جب آپؑ کو کسی جنازے پر نماز پڑھانے کے لئے بلایا گیا تو آپؑ نے فرمایا ہم تو نمازِ جنازہ پڑھیں گے لیکن حقیقت میں متوّفی کا عمل ہی اس پر نماز پڑھتا ہے۔

چالیس مومنین:
امیر المومنین علیہ السّلام سے مروی ہے آپؑ نے فرمایا کہ جب مومن پر چالیس مومنین نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں اور اس کے لئے خوب دعا کرتے ہیں تو ان کی دعا متوّفی کے حق میں مقبول ہوتی ہے۔

سلطان:
مولا علیؑ نے فرمایا کہ جب سلطان خود بوقتِ نمازِ جنازہ حاضر ہو تو وہ میّت کے ولی سے اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس جنازے پر نماز پڑھائے۔

عورت کے خاندان والے:
علی مرتضیٰؑ سے پوچھا گیا کہ اگر کسی شخص کی بیوی انتقال کر جائے تو کیا وہ خود اس پر نمازِ جنازہ پڑھا سکتا ہے؟ آپؑ نے فرمایا کہ عورت کے خاندان والوں کو اس کے شوہر سے اس کام کا زیادہ حق حاصل ہے۔

نوزائیدہ بچہ:
امیر المومنین سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ اگر بچہ ولادت کے وقت زور سے روئے اور پھر مر جائے تو اس پر نمازِ جنازہ پڑھنا چاہئے۔

اگر کوئی بدکار ہو:
حضرت علیؑ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ایسی عورت اور اس کے بچہ کی نمازِ جنازہ پڑھائی تھی جو زنا کے نتیجے پر زچگی کی حالت میں مر گئی تھی۔ حضورِ اکرمؐ نے ہر نیک و بد مسلمان پر نمازِ جنازہ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔

۴۳

اگر جسم کا کوئی حصہ ہو:
امیر المومنین نے فرمایا کہ جسمِ انسانی کے ہر اس حصّے پر نمازِ جنازہ پڑھنی چاہئے جس کے متعلق معلوم ہو کہ اس کے جدا ہونے سے انسان مر جاتا ہے۔ (مثلاً جنگ یا کسی اور حادثے کے نتیجے میں ایک انسان کا سر یا سر کا کوئی حصہ ملتا ہے یا کوئی ایسا عضو ملتا ہے جس کے جدا ہونے سے ایک زندہ انسان مر جاتا ہے تو بدن کے ایسے حصّے اور عضو پر نمازِ جنازہ پڑھنی چاہئے اور اگر ہاتھ یا پاؤں وغیرہ کا کوئی ایسا حصہ مل گیا کہ جس کے کٹ جانے کے باوجود بھی انسان زندہ رہ سکتا ہے تو ایسے عضو پر نمازِ جنازہ کا پڑھنا واجب نہیں۔

بیک وقت کئی جنازوں پر نماز:
علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے روایت کی گئی ہے کہ جب بیک وقت کئی جنازے جمع ہو جاتے ہیں تو آپؑ ان تمام پر ایک ہی مرتبہ نمازِ جنازہ پڑھتے تھے۔ اس صورت میں مردوں کے جنازے اپنے سے اور عورتوں کے جنازے قبلہ سے قریب رکھتے تھے۔
اسی طرح جب مردوں، بچوں، ہیجڑوں اور عورتوں کے جنازے جمع ہو جائیں تو مردوں کے جنازے پیش نما زکے قریب رکھیں، ان کے قریب بچوں کے جنازے ، ان کے نزدیک ہیجڑوں کے جنازے اور ان کے پاس عورتوں کے جنازے رکھیں۔

پیش نماز کہاں کھڑا ہو:
امیر المومنین سے منقول ہے کہ آنحضرتؐ جب کسی مرد کے جنازے پر نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوتے تو آپؐ اس کے سینے کے مقابل کھڑے ہوتے تھے۔ جب جنازہ کسی عورت کا ہوتا تو آپؐ اس کے سر کے مقابل کھڑے ہوتے تھے۔
جب ایک ہی نمازِ جنازہ میں مردوں، بچوں، ہیجڑوں اور عورتوں کے جنازے جمع ہو جائیں تو ان کو اس حالت میں رکھیں کہ پیش نماز کے سامنے مردوں اور بچوں کی چھاتیاں ہیجڑوں

 

۴۴

 

کی گردنیں اور عورتوں کے سر ایک ہی سیدھ میں ہوں۔

اگر طہارت کے لئے پانی نہ ہو:
امام جعفر الصادقؑ سے منقول ہے کہ آپؑ سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جو نمازِ جنازہ کے وقت بغیر وضو کئے حاضر ہو اور پانی نہ ملتا ہو؟ آپؑ نے فرمایا کہ اگر نمازِ جنازہ کے فوت ہو جانے کا خطرہ ہو تو تیمم کر کے نمازِ جنازہ پڑھے۔

پانچ تکبیر:
امام جعفر الصادقؑ سے روایت ہے کہ آپؑ نمازِ جنازہ کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھاتے تھے اور جنازوں پر پانچ مرتبہ تکبیر کہتے تھے۔
ہر تکبیر میں ہاتھوں کو اوپر اٹھانا چاہئے، ملاحظہ ہو کتاب تاویل الدعائم ، ۲، ص ۶۹۔
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آپؑ سے نمازِ جنازہ کی تکبیروں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ جنازوں پر پانچ تکبیریں کہی جائیں کیونکہ پانچ وقت کی نمازوں سے ایک ایک تکبیر لی گئی ہے۔

نمازِ جنازہ میں تاخیر سے شامل ہونا:
امامِ موصوف سے روایت ہے، آپؑ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص نمازِ جنازہ میں اس حالت میں آن ملے کہ کچھ تکبیریں اس سے پہلے کہی گئی ہیں تو وہ ابتدائی تکبیر کہہ کر ان میں داخل ہو جائے۔ اور جب لوگ سلام پھیریں تو وہ اپنی باقی تکبیریں پوری کر لیں پھر سلام پھیرے۔ یعنی جب وہ ان میں داخل ہوتا ہے تو وہ تکبیر کہہ کر پانچ دعاؤں میں سے پہلی دعا شروع کرے۔ اور جب پیش نماز تکبیر کہے تو وہ دوسری دعا پڑھے۔ علیٰ ہٰذا القیاس۔ یہاں تک کہ پیش نماز سلام پھیرے۔ اب اس کو چاہئے کہ سلام نہ پھیرے بلکہ اپنی باقی دعاؤں کو پوری کر کے سلام پھیرے۔

نمازِ جنازہ کی صورت:
اہلِ بیّتِ اطہار صلوات اللہ علیہم سے یوں تو نمازِ جنازہ

 

۴۵

 

کے بہت سے الفاظ اور دعائیں منقول ہیں ۔ اس صورتِ حال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی دعا مخصوص نہیں ہے ۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ نمازِ جنازہ پڑھنے والا (پہلے نیّت کرے پھر) اللہ اکبر کہہ کر خدا جس حمد و ثناء کے لائق ہے وہ حمد و ثناء کرے۔ اور اس کی تعظیم کرے جیسا کہ اس کی تعظیم کرنے کا حق ہے۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر رسولِ خدا اور آپ کی آلِ پاک پر درود بھیجے پھر تکبیر پڑھ کر میّت کے حق میں دعا کرے جب کہ مومن ہو۔ اس کے بعد پھر تکبیر کہہ کر تمام مومنین و مومنات کے حق میں دعا کرے۔ پھر آخری تکبیر کہہ کر رسول اللہؐ اور آپؐ کی آلِ پاکؑ پر درود بھیجے (جس کی صورت ذیل کی طرح ہے) اگر ہر مرتبہ تکبیر میں مذکورہ تمام باتیں شامل ہوں تو وہ بھی بہتر ہے۔

نمازِ جنازہ کی نیت:
اصلی صلوٰۃ الجنازۃ خمس تکبیرات للّٰہ عز و جل ادآء مستقبل الکعبۃ الحرام
پہلی تکبیر:
اللّٰہ اکبر الحمد للّٰہ اہل المجد و الکبریآء و العظمۃ و القدرۃ و الثنآء
دوسری تکبیر:
اللّٰہ اکبر اللّٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد فی الاوّلین و صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد فی الآخرین
تیسری تکبیر:
اللّٰہ اکبر اللّٰھم اغفر لھٰذا المتوّفی ذنوبہ و احشرہ فی زمرۃ النبی محمد و اٰلہ الطاہرین
اگر عورت ہو تو اس دعا میں صرف اتنی ہی تبدیلی ہو گی ۔۔۔ لھٰذہ المتوفاۃ ذنوبھا و احشرھا
چوتھی تکبیر:
اللّٰہ اکبر اللّٰھم اغفر لی ولوالدی و للمومنین و المومنات

 

۴۶

 

الاحیآء منھم و الاموات انک وتی الحسنات و غافر السیئات
پانچویں تکبیر:
اللّٰہ اکبر اللّٰھم صلی علیٰ محمد و آل محمد کما تحب و ترضیٰ
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
اگر میّت نابالغ ہو تو تیسری تکبیر اس طرح پڑھی جائے۔
اللّٰہ اکبر اللّٰھم اجعلہ ھا لوالدیہ ھا سلفا و خلفا و فرطا و اجرا و زخرا بحق محمد و آلہ الطاہرین

۴۷

دفن اور قبر

لحد اور ضریح:
امام جعفر الصادقؑ، آپؑ کے پدرِ بزرگوار اور آپؑ کے آباء و اکرام اور حضرت علی (صلوات اللہ علیہم اجمعین) سے منقول ہے کہ آپؑ نے آنحضرتؐ کے لئے لحد کھودی تھی اور لحد اس جگہ کو کہتے ہیں جو قبر کے اندر میّت کے لئے قبلہ کی دیوار میں بنائی جاتی ہے اور ضریح اس جگہ کو کہتے ہیں کہ جس کے لئے قبر کے بیچ میں کھودا جاتا ہے۔
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ نے اپنے پدرِ بزرگوار امام باقر علیہ السّلام کے لئے بربنائے احتیاج ضریح بنائی تھی کیونکہ آپ کافی جسیم تھے۔

قبر میں کوئی چیز بچھانا:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ رسولِ خدا کی قبر مبارک میں چادر بچھائی گئی تھی کیونکہ وہ جگہ گیلی اور شورے والی تھی۔

میّت کو قبر میں کون اتارے:
امیر المومنینؑ سے روایت ہے کہ آپؑ نے فرمایا کہ عورت کو قبر میں وہی شخص اتارے جس نے اس کو اس کی زندگی میں دیکھا ہو اور وہی شخص دوسرے تمام لوگوں میں اولیٰ ہے کہ اس عورت کی میّت کو پیروں کی طرف سے پکڑے اور اگر میّت مرد کی ہے تو اس کا قریب ترین رشتہ دار اس کے اگلے حصے کو پکڑ کر اتارے اور مرد کے لئے مکروہ ہے کہ اپنے فرزند کو خود قبر میں اتارے یہ اس لئے کہ اس پر رقت قلب طاری نہ ہو جائے۔

قبر کی پائیننی:
امیر المومنین علی علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ رسول اللہ

 

۴۸

 

نے فرمایا کہ ہر گھر کا ایک دروازہ ہوتا ہے اور قبر کا دروازہ میّت کے دونوں پیروں کی طرف ہے لہٰذا اسی طرف سے قبر میں اترنا اور چڑھنا چاہئے۔

جنازہ کو قبر کے کنارے رکھنا اور قبر میں اتارنا:
حضرت علی علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ آنحضرتؐ ایک جنازہ میں حاضر تھے آپؑ نے لوگوں کو فرمایا کہ میّت کو قبر کے قبلہ والے کنارے پر رکھیں اور قبلہ رو کر دیں۔ اور اسے ہاتھوں میں لے کر قبر میں اتاریں اور اس کے بعد فرمایا کہ پڑھو: علیٰ ملۃ اللّٰہ و ملۃ رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم)

قبر پر پردہ کرنا:
علی مرتضیٰؑ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عثمان بن مظعون کی قبر پر کپڑے کا پردہ کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ پہلی قبر تھی جس پر کپڑے کا پردہ کیا گیا۔

میّت قبر میں رکھنے کا طریقہ:
علی علیہ السّلام سے منقول ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مرتبہ بنی عبد المطلب میں سے ایک شخص کے جنازے میں حاضر تھے جب لوگوں نے میّت کو قبر میں اتارا تو اس وقت آپؐ نے فرمایا کہ اس کو قبر میں داہنے پہلو پر قبلہ رو رکھو میّت کو نہ تو منہ کے بل رکھو اور نہ پشت پر پھر آپؐ نے اس شخص سے فرمایا جو قبر میں اترا تھا کہ تم اپنا ہاتھ میّت کی ناک پر رکھو تاکہ اس کے قبلہ رو ہونے کا یقین ہو، پھر آپؐ نے لوگوں سے فرمایا کہ اب یہ دعا پڑھو:
اللّٰھم لقنہ حجتہ و صعد روحہ و لقہ منک رضوانا
مطلب بارے الٰہا: جب فرشتے اس سے پوچھ گچھ کریں گے تو اس میں تو اس کو اپنی حجّت یعنی دلیل سمجھا دے اور اس کی روح کو بلند کر لے اور اپنی خوشنودی سے ملا دے۔

 

۴۹

اہلِ بیّتِ اطہار علیہم السّلام سے ایسی بہت سی دعائیں منقول ہیں جو میّت کو قبر میں رکھتے ہوئے پڑھی جاتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے لئے کوئی دعا مخصوص نہیں ہے۔

تین مٹھی مٹی:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی میّت کی تدفین میں حاضر ہوتے تو قبر میں تین مٹھی بھر مٹی ڈالتے تھے۔
حضرت علی علیہ السّلام سے مروی ہے کہ جب آپؑ کسی قبر میں مٹی ڈالتے تو یہ دعا پڑھتے تھے:
اللّٰھم ایمانا بک و تصدیقا لرسلک و ایقانا ببعثک ھٰذا ما وعد اللّٰہ و رسولہ و صدق اللّٰہ و رسولہ
آپؑ فرماتے تھے جو شخص اس پر عمل کرے گا تو اس کے لئے خاک کا ہر ذرّہ نیکی بن جائے گا۔

میّت کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر نہ لے جاؤ:
امیر المومنین علی علیہ السّلام سے منقول ہے ایک دفعہ آپؑ کی خدمت میں عرض کی گئی کہ کوفہ سے چند میل کے فاصلے پر دیہات میں ایک شخص انتقال کر گیا تھا پس لوگ اسے اٹھا کر کوفہ لے آئے آپؑ نے ان لوگوں کو سخت سزا دی اور فرمایا کہ میّتوں کو وہیں دفن کر دو جہاں ان کا انتقال ہوا ہے یہودیوں کا عمل اختیار نہ کرو جیسا کہ وہ ہر جگہ سے اپنے مردوں کو بیّت المقدّس لے جاتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے، آپؑ فرماتے ہیں کہ جنگِ احد میں جب انصار اپنے شہیدوں کو اپنے گھروں کی طرف لے جانے کے لئے آگے بڑھے تو اس وقت آنحضرتؐ نے ایک

 

۵۰

 

منادی کو یہ ندا کرنے کا حکم دیا کہ اجسام کو ان کے مقتل میں دفن کر دو۔

چوکور قبر:
حضرت علی مرتضیٰؑ سے مروی ہے کہ آپؑ جب رسولِ خدا کے جسمِ اطہر کو دفن کر چکے تو آپؑ نے قبر مبارک کو مربع یعنی چوکور بنا دیا تھا۔

قبر پر نشانی:
آپؑ سے یہ بھی روایت ہے کہ آنحضرتؐ جب حضرت عثمان بن مظعون کو دفن کر چکے تو آپؑ نے ایک پتھر منگا کر قبر کے سرہانے رکھ دیا اور فرمایا کہ یہ ایک نشانی کے طور پر ہے تا کہ میں اپنے اہلِ قرابت کو یہیں دفن کر سکوں۔

قبر کی گہرائی:
حضرت علی علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ تین ہاتھ (یعنی تقریباً ڈیڑھ گز) سے زیادہ گہری قبر کھودنا اور قبر سے نکلی ہوئی مٹی کے علاوہ دوسری مٹی قبر پر رکھنا یہ دونوں باتیں مکروہ سمجھتے تھے۔

قبر پر پانی چھڑک دینا:
آپؑ سے یہ بھی روایت ہے کہ آنحضرتؐ جب عثمان بن مظعون کی قبر پر مٹی برابر کر چکے تو آپؑ نے اس پر پانی چھڑک دیا۔

زیارت قبور کی رخصت:
حضرت علی علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آنحضرتؐ نے قبروں کی زیارت کی رخصت دی ہے، آپؑ نے فرمایا کہ قبروں کی زیارت سے آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔
امام باقر علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ سیدۂ عالم جناب فاطمۂ زہرا علیہا السّلام حضرت حمزہؑ کی قبر کی زیارت کرتی تھیں۔ قبر کے پاس کھڑی رہتی تھیں اور ہر سال خواتین کے ساتھ شہداء کی قبروں پر حاضر ہو کر دعا و استغفار کرتی تھیں۔

قبروں کو دیکھ کر سلام پڑھنا:
حضرت علی علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ جب قبروں کے پاس سے گزرتے تھے تو اس طرح سے تین مرتبہ سلام پڑھتے

 

۵۱

 

تھے: السّلام علیکم یا اہل الدارنا نا بکم لاحقون

قبروں پر چلنا اور ان کے پاس ہنسنا:
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ آپؐ نے قبروں پر چلنے سے اور ان کے پاس ہنسنے سے منع فرمایا ہے۔

قبر کے پاس مسجد بنانا:
حضرت علی علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آپؑ نے کسی قبر کے پاس مسجد بنانا مکروہ قرار دیا ہے۔

مصیبت والوں کے پاس کھانا لے جانا:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ جب حضرت جعفر بن ابی طالبؑ کی خبرِ وفات پہنچی تو آنحضرتؐ نے اپنے اہلِ بیّتؑ سے فرمایا کہ کوئی کھانا پکاؤ اور حضرت جعفرؑ کے گھر والوں کے پاس لے جاؤ جبکہ وہ جعفر کے غم میں مبتلا ہیں۔ اور ان کے ساتھ تم بھی کھانا کھاؤ کیوں کہ ان پر ایسی مصیبت آئی ہے کہ وہ اس کی وجہ سے اپنا کھانا خود نہیں پکا سکتے۔

 

۵۲

ثبوتِ امامت

ثبوتِ امامت

خدا کا تخت پانی پر تھا اور ہے

پانی پر عرش یا عرش کے نیچے پانی ہونے ۱۱: ۷ کی تاویل یہ ہے کہ گوہرِعقل جو عرشِ رحمان ہے وہ سرچشمۂ علم ہے، اس لئے بحرِعلم اس کے تحت ہے، یہ ہوا پانی پر عرش کا ہونا، پس صدر فتح علی حبیب اور ایڈوائزر گل شکر کے فرزندانِ دلبند نزار، رحیم اور فاطمہ کتنے نیک بخت ہیں کہ ان کو بچپن ہی سے تاویلی حکمت سکھائی جارہی ہے اور وہ بڑے شوق سے سیکھ رہے ہیں۔

دیباچۂ طبع سوم

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمدللہ وسلام علےٰ عبادہ الذین اصطفے۔

بندۂ خاکسار، ذرّۂ بے مقدار، مانندِ طفلِ شیر خوار، یا مثلِ ابرِنو بہار گریان ہو ہو کر بارگاہِ ایزدی میں سجدہ ریز ہوجانا چاہتا ہے تاکہ انتہائی عاجزی اور محویت و فنائیت کے عالم میں شکر گزاری کرسکے، اور اس حسنِ ظن سے کہ خدا کا شکر کیا دل کو تسکین ہوجائے۔

یہ سچ ہے کہ یہ حقیر بندہ (پرتوِ شاہ=نصیر الدین) حکیم پیر ناصر خسرو کا ایک ادنیٰ سا شاگرد ہے، لہٰذا یہ لازمی امر ہے کہ یہاں جتنی علمی کوششیں کی گئی ہیں ان میں سے جو عقلی اور منطقی چیزیں ہیں، یا جو حکمت کی باتیں ہیں وہ سب کی سب حضرتِ امامِ قدس و اطہر علیہ السلام اور پیرِ نامدار کی برکت سے ہیں، اور جو کچھ خام و ناتمام ہے، وہ یقیناً اس ادنیٰ غلام کا ہے۔

’’ثبوتِ امامت‘‘ اگرچہ ایک چھوٹی سی کتاب ہے اور یہ بہت پہلے ضبطِ تحریر میں آئی تھی، لیکن اہلِ علم حضرات اس کو بہت پسند کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کا ’’نظریۂ افضلیت‘‘ بڑا عجیب و غریب

۵

اور بے حد دلکش ہے، اس میں مطالعۂ فطرت اور مشاہدۂ قدرت کا ایک انقلابی تصور موجود ہے اور جو دلائل و براہین اس چھوٹی سی کتاب میں ہیں وہ بے مثال کیوں نہ ہوں، کیونکہ وہ آفاق و انفس کی شہادتوں اور حقیقتوں پر مبنی ہیں۔

 

یہاں اپنے اصول کے مطابق کچھ علمی باتیں بھی ضروری ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہر چیز بدرجۂ انتہا حیران کن ہوا کرتی ہے،جیسے اس کی کتاب (قرآن) میں سب آسمانی کتابوں کا خلاصۂ بیان موجود ہے کائنات میں بے شمار کائناتیں اور نفسِ انسانی میں لاتعداد نفوس پوشیدہ ہیں، اسی طرح ہر عالمِ شخصی میں تمام عوالمِ شخصی پنہان ہیں، اور اس میں بحدِّ قوت امامِ مبینؑ کا عالم بھی ہے، پس عقل و دانش والوں کے لئے خدا کے اس کام میں بہت بڑی خوشخبری ہے کہ اولادِ آدمؑ کو جو کچھ ازقسمِ امکانی دولت، خزانہ، سلطنت اور نور عطا ہوا ہے وہ حقیقت ہے اور ان تمام بڑی بڑی نعمتوں کو فعلاً دیکھنے کیلئے ہر مومن اور مومنہ علم و عبادت سے کام لیتے رہے۔

 

کرۂ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کے حق میں ہماری عملی خیر خواہی یہ ہوگی کہ اب ہم قرآن و اسلام کی ان پوشیدہ حکمتوں کو ظاہر کرنے کی سعی کریں، جن کی روشنی میں ہر دانش مند کو یہ یقین آتا ہے کہ خدا کسی بھی انسانی روح کو ضائع نہیں کرتا ہے، اگرچہ

۶

عارضی دوزخ بصورتِ جہالت موجود ہے اور اس کی مذمت بھی ضروری ہے، کیونکہ جہالت و نادانی خواہ دینی ہو یا دنیاوی، عقل و دانش کی دشمن ہے، پس علم والوں پر فرض ہے کہ وہ جہالت کے خلاف جنگ کریں، تاکہ عالمِ انسانیت میں علم و حکمت کی روشنی پھیل جائے۔

 

میں اس سال ؁۱۹۹۳ میں بفضلِ خدا اپنے بہت ہی عزیز و محترم دوست امام داد کریم کی پُرخلوص دعوت پر فرانس جیسے عظیم ملک کے مختصر دورہ پر جاسکا، میں ۲، اور ۷،جولائی کے درمیان اس خوبصورت شہر میں تھا، متعلقہ دلچسپ باتیں بہت زیادہ ہیں، جن کو کراماً کا تبین نے (۸۲: ۱۰ تا ۱۱) یقیناً ریکارڈ کرلیا ہوگا، لیکن ایک بات جو یہاں ضروری ہے، وہ بتادی جاتی ہے کہ جب فرانس کے ایک ریڈیو کے لئے میرا انٹرویو ہورہا تھا، تب میں نے سلسلۂ گفتگو کے دوران اپنا طریقِ کار ظاہر کرتے ہوئے یوں کہا:

میں ایک اسماعیلی خاندان میں پیدا ہوا ہوں، لہٰذا یہ قدرتی امر ہے کہ میں اسماعیلی جماعت کی کچھ خدمت کروں، میرا دین اسلام اور ملک پاکستان ہے، الحمدللہ مجھے دین و ملک کی خدمت بے حد عزیز ہے، اور بالآخر میں ایک انسان ہوں، پس میں عالمِ انسانیت کی حمایت اور خدمت کیوں نہ کروں۔

 

اسلام اور انسانیت کے درمیان کوئی تضاد کس طرح
۷

ہوسکتا ہے، چنانچہ جو کام دینی خدمت کے عنوان سے کیا جاتا ہے وہی کام دراصل عالمِ انسانیت کے لئے بھی مفید ہوتا ہے۔

 

قرآنِ پاک (۲: ۲۱۳) میں یہ حکمتی اشارہ اور مفہوم موجود ہے کہ انبیاء علیہم السّلام کی تشریف آوری سے قبل کے زمانے میں سارے لوگ ایک ہی امّت (جماعت) تھے، چاہے وہ واقعہ عالمِ شخصی میں ہوا ہو یا کرۂ ارض پر یا کسی دوسرے سیارے پر، خواہ یہ اجسامِ کیثف کا اتفاق و اتحاد ہو یا اجسامِ لطیف کی وحدت و سالمیت، بہر حال یہ دورِ انسانیت ہی کی بات ہوسکتی ہے۔

سورۂ بقرہ کے چوتھے رکوع میں حضرتِ آدمؑ و حضرتِ حوّاؑ اور ان کے بہت سے ساتھیوں کے بہشت سے ہبوط یعنی اترنے کا ذکر ہے، اس سلسلے میں اِھْبِطُوْا (تم سب اترو) کا حکم دو دفعہ (۲: ۳۶، ۲: ۳۸) آیا ہے، چنانچہ پہلے حکم پر وہ سب سیّارۂ بہشت سے پرواز کرکے زمین پر اتر آئے، اور ایک عرصے تک جسمِ لطیف ہی میں تھے، اس انتہائی عظیم خزانۂ اسرار کو حضرتِ قائم کے ظہور تک پوشیدہ رکھنے کی خاطر وہ سب کے سب جنّات کہلائے، اور پھر خدا کا دوسرا حکم (۲: ۳۸) ہوا، جس کی وجہ سے وہ جسمِ لطیف سے جسمِ کثیف میں تبدیل ہوگئے، یہ تھے وہ جنّات جو انسانوں سے قبل زمین پر رہتے تھے اور یہی تھے وہ لوگ جو دورِ انبیاء سے پہلے

۸

ایک جماعت کی حیثیت سے رہا کرتے تھے، جن کا اوپر ذکر ہوا۔

 

میں اسلام کی عظمت و جلالت کو جھک جھک کر سلام کرتا ہوں، میں انسانی شرافت کے لئے بے حد احترام کرتا ہوں، اور پھر اپنے تمام عزیزوں کو نہ معلوم کیوں اتنی شدّت سے اور ایسی کثرت سے یاد کرتا ہوں! شاید اس کے پس منظر میں خداوندِ قدوس کی مبارک ہدایات و رحمت ہے، تاکہ ہم سب جو اس مقدّس علمی خدمت سے منسلک ہیں خوشی اور شادمانی سے اپنا اپنا کام انجام دے سکیں۔

ہمارے عزیزان جو شرق و غرب میں رہتے ہیں وہ سب کے سب یہاں کی تصانیف و تراجم اور طباعت و اشاعت کو دیکھ کر بیحد مسرور و شادمان ہوجاتے ہیں، اس حقیقت کی ایک روشن مثال امریکا میں پیش آئی، چنانچہ عملداروں کی ایک خاص میٹنگ میں علمی خدمت کی زبردست تعریف کی گئی، اور چیف ایڈوائزر اکبر اے علی بھائی نے تجویز پیش کی کہ ان عظیم الشّان اور بے مثال علمی کارناموں پر اگر ہم آپ کو سونے یا چاندی کی ڈلیوں میں نہیں تول سکتے ہیں تو پھولوں میں ضرور تول سکتے ہیں، میں نے کہا عزیزِمن! اتنی بڑی عزّت اور شہرت کا بارِگران یہ درویش ہرگز نہیں اٹھا سکتا، اور یہ سارا کارنامہ تنہا اس ناچار کا نہیں، اس میں بہت سی اعلیٰ قوّتیں شریک ہیں، پس اگر آپ کوئی ایسا کام کرنا چاہتے

۹

ہیں تو ’’جشنِ خدمتِ علمی‘‘ کے عنوان سے کچھ کریں، جس میں تمام عملداروں اور ممبروں کو خوشی دینے کے لئے سعی کی جائے گی، اس کے لئے انہوں نے بخوشی منظور کیا۔

 

ایک درویش آدمی ، جو ؁۱۹۱۷ میں پیدا ہوا ہے، اس بیچارے کے لئے دور دراز ممالک کا جسمانی سفر کتنا سخت مشکل ہوگا، لیکن وہ بڑا عجیب وغریب سفر کتنا تیز، آرام دہ اور آسان ہے جو ہر شخص کے واسطے معجزانہ ہوسکتا ہے، درحالے کہ آج لوگ اس کی اہمیت کو نہیں سمجھ رہے ہیں، وہ خیال، تصور، ذہن اور فکر کا سفر ہے، چنانچہ یہ بندۂ کمترین اپنے تخیّل وتصور سے، جو تمام انسانوں میں موجود ہے، ہر اس شہر و دیار کا سفر کرتا رہتا ہے، جہاں اس کے عزیزان رہتے ہوں، جیسے شمالی علاقہ جات، جہاں اس غریب کی جائے پیدائش بھی ہے، اسلام آباد، کراچی، لنڈن، فرانس، شکاگو، ایلینوی، یوسٹن، ڈالاس اور کینڈا کے کئی شہر، یہ صرف ان عزیزان کی بات ہے جو ہمارے اداروں سے منسلک ہیں، اس برق رفتار تخیّل وتصوّر کی رسائی سے تمام تر ملاقاتیں تازہ اور لطیف ہوجاتی ہیں، الحمدللہ۔

 

نوٹ: ادارے سے باہر جتنے علم دوست حضرات

۱۰

ہیں وہ اس اصول سے باخبر ہیں کہ یہاں کی حوصلہ افزائی بالکل درست اور بجا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ علم کی روشنی پھیلائی جاسکے۔

 

 

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

کراچی

بدھ ۲۷، ربیع الاول ؁۱۴۱۴

۱۵ ، ستمبر ؁۱۹۹۳

۱۱

وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ (۳۶: ۱۲)

اصولِ افضلیّت

یعنی آفاق و انفس سے ثبوتِ امامت کے دلائل و براہین

 

اگر کوئی باشعور انسان اس عالمِ کثرت کے ربط و نظام پر ذرا غور کرے تو وہ یہ حقیقت ضرور معلوم کرسکے گا کہ کائنات اور اس کی مخلوقات مختلف قسموں یا کہ حصوں پر مشتمل ہیں، پھر مخلوقات کا ہر بڑا حصہ کئی چھوٹی چھوٹی قسموں پر منقسم ہے اور ان میں یہ اصول پایا جاتا ہے کہ جس طرح مخلوقات کی بڑی قسموں میں سے ایک قسم افضل و اعلیٰ ہے، اسی طرح چھوٹی قسموں میں سے بھی ایک افضل و اعلیٰ ہے، یہاں تک کہ بے جان اور جاندار مخلوق کے افراد میں بھی یہی اصول کارفرما ہے، ہم یہاں اس اصول کو ’’اصولِ افضلیّت‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں، اور اسی اصول کے مطابق امامِ زمان کے ثبوت، اس کی افضلیّت اور ہر زمانے میں اس مقدّس و

۱۲

متبرک ہستی کے حیّ و حاضر ہونے کی اہمیت کے دلائل پیش کرتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے کائنات و موجودات کے مجموعی عمل کے ذریعے سے انسان پیدا کیا، اس اعتبار سے یہ کہنا درست ہے کہ کائنات و موجودات ایک انتہائی عظیم درخت کی مثال ہے اور اس کا پھل انسان ہے، چنانچہ حضرت حکیم ناصر خسرو قدّس اللہ سرّہ ’’روشنائی نامہ‘‘ میں فرماتے ہیں:

درخت است این جہان و میوہ مائیم

کہ خرم بر درخت او برائیم

ترجمہ: (مثال کے طور پر) یہ کائنات ایک درخت ہے، اور ہم (انسان) ہی اس کا پھل ہیں، کیونکہ اس کائنات کے بہترین حاصل تو ہم ہی ہیں۔

 

پس کائنات میں جو کچھ مادّی طور پر پھیلا ہوا ہے، وہ انسان میں روحانی طور پر یکجا ہے، جس طرح درخت میں جو کچھ بالفعل ظاہر اور پھیلا ہوا ہے وہ پھل کے مغز میں بالقوّۃ پوشیدہ اور یکجا ہے، چنانچہ درخت سے پھل پیدا ہوتا ہے اور پھل سے درخت بنتا ہے۔

 

مذکورہ بالاحقائق کے انکشاف سے معلوم ہوا کہ کائنات اور انسان یا کہ آفاق و انفس کی تخلیقی صورت خدا کا قانون اور اس کی عملی کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، اس لئے کہ اس کی آیتیں عملی صورت میں اہلِ بصیرت کے لئے روشن اور واضح ہیں اور وہ کتاب، جس میں کوئی شک نہیں، بالآخر سب کے لئے ذریعۂ یقین ہو

۱۳

سکتی ہے، چنانچہ خدا وندِ عالم فرماتا ہے:

سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ  (۴۱: ۵۳)

(یعنی حق تعالےٰ نزولِ قرآن کے زمانے میں فرماتا ہے کہ) ہم آئندہ آفاق میں اور خود ان کے نفوس میں اپنی نشانیاں دکھاتے رہیں گے، یہاں تک کہ انہیں ظاہر ہوجائے کہ وہ برحق ہے۔

 

اب ہم خداوند جلّ وعلیٰ کی توفیق سے ذیل میں آفاق و انفس کی چند ضروری شہادتوں کا بیان کرتے ہیں کہ وہ کس حقیقت کے متعلق ہیں:

 

۱۔ آسمانوں کی شہادت

چنانچہ آسمان نو (۹) ہیں جو وسعت اور شرف دونوں اعتبار سے ترتیب وار اور درجہ وار ہیں، اور نواں آسمان سب سے وسیع اور سب پر مقدّم ہے، جو عرشِ الہی کہلاتا ہے، پس آسمانوں کے درجات میں سے ایک درجے کی افضلیّت کہ وہ مرتبۂ عرشِ الہی ہے، آفاق کی ایک ایسی آیت ہے جس کے معنی سے یہ شہادت روزِ روشن کی طرح ظاہر ہے کہ عالمِ انسان میں بھی ایک ایسا فرد ہے جو تمام انسانوں سے افضل و اشرف ہے، اور وہ اپنے علم و حکمت سے دوسرے تمام انسانوں پر اِس طرح حاوی ہے جس طرح فلکِ نہم دوسرے تمام آسمانوں اور کائنات کی ساری چیزوں پر محیط ہے،اور وہ شخص عالم انسان اور عالمِ دین میں خدائے

۱۴

تعالےٰ کا عرش ہے اور آفاق کی یہ آیت قرآنِ پاک کی اس آیت کے عملی معنی ظاہر کرتی ہے، وہ ارشاد یہ ہے:

وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ  (۳۶: ۱۲)

ترجمہ: اور ہم نے ہر چیز (  یعنی صورتِ کائنات اور اس کے تمام باشندوں کے متعلق کل علم و حکمت) کو امامِ ظاہر (امامِ ناطق) کی ذات میں محدود و ملفون کیا ہے۔

 

۲۔ اجرامِ فلکی کی شہادت

کائنات کی ترتیب میں آسمانوں کے بعد اجرامِ فلکی یعنی ستارے آتے ہیں، چنانچہ آسمان میں بہت سے ستارے ہیں، مگر ان میں ایک ایسا درخشان ستارہ ہے جو باقی تمام ستاروں کو اور پوری کائنات کو بے دریغ روشنی اور گرمی پہنچاتا رہتا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے روشن اور تابان ہے وہ نہ تو گھٹتا ہے اور نہ بڑھتا ہے، ایسا ستارہ سورج ہے جس نے اپنے بے پناہ نور میں تمام کائنات و موجودات کو مستغرق کردیا ہے، پس سورج آفاق کی آیتِ نور ہے، جس کے معنی سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ عالمِ دین میں بھی ایک ایسی پاک ہستی ہے جو خدا اور رسولؐ کا نور ہے اور وہ علم و حکمت اور حسن سیرت میں دنیا کے سارے لوگوں سے افضل و اعلیٰ ہے، جس طرح سورج دوسرے تمام ستاروں سے افضل و اعلیٰ ہے، یہ آسمانی حقیقت و شہادت قرآنِ پاک کی اُن آیتوں کی طرح ہے جن میں انسانِ کامل یعنی امامِ زمانؑ خدا کے نور ہونے کا ثبوت ہے۔

۱۵

۳۔ عناصرِ اربعہ کی شہادت

عناصرِ اربعہ مٹی، ہوا، پانی اور آگ کو کہتے ہیں، یہ چار عناصر بھی درجہ وار ہیں، چنانچہ مٹی سب سے نیچے اور سب سے کثیف ہے، پانی نے مٹی کو گھیر لیا ہے اور مٹی سے لطیف ہے، ہوا پانی پر محیط ہے، اور پانی سے لطیف ہے، آگ ہوا پر محیط ہے اور ہوا سے لطیف ہے اور روشنی و گرمی میں سورج کی خاصیت رکھتی ہے، پس آگ جو بجلی وغیرہ کی صورتوں میں بھی ہے، چار عناصر میں سے افضل ہے، اور یہ حقیقت کائنات کی ایسی آیت ہے جس کے معنی سے یہ مطلب ظاہر ہے کہ عالمِ دین میں بھی ایک ایسا مرتبہ ہے جو ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، جس طرح بجلی ظاہر بھی ہے اور پوشیدہ بھی، اور عالمِ دین کا وہ مرتبہ امام اور اس کی امامت ہے کہ اس میں نورِ رحمت بھی ہے اور آتشِ قہر بھی ہے، جس طرح آگ اور بجلی کی مثال ہے اور کائنات کی یہ آیت قرآن کی اُن آیتوں کی تفسیر کرتی ہے جو مذکور ہیں کہ موسیٰ نے ایک آگ دیکھی اور موسیٰؑ کی قوم کے چیدہ چیدہ ستر رجال پر بجلی گری وغیرہ۔

 

۴۔ موالیدِ ثلاثہ کی شہادت

موالیدِثلاثہ جمادات، نباتات اور حیوانات کو کہتے ہیں،

۱۶

جن میں سے حیوانات کا گروہ افضل ہے، جس کا سبب روحِ حیوانیہ اور اس کے احساسات ہیں، اور حیوانات میں سے حیوانِ ناطق افضل ہے جس کی وجہ نطق و شعور ہے، حیوانِ ناطق کا دوسرا نام انسان ہے، جو جمادات، نباتات اور حیواناتِ صامت پر حکمرانی کرتا ہے، اسلئے کہ اس کی عقل و شعور ہے جوعقلِ کل کے اثر سے ہے، مگر باقی موالید میں یہ عقل و شعور نہیں، پس انسان آفاق کی آیتوں میں سے ایک ایسی آیت ہے جس کے معنی سے یہ مطلب ظاہر ہوجاتا ہے کہ عالمِ دین میں بھی ایک ایسا فرد ہے جو صاحبِ علم و حکمت اور مظہر عقلِ کل و نفسِ کل ہونے کے سبب سے خدا کا خلیفہ ہے اور اسی مرتبہ میں وہ خلائق کا بادشاہ ہے، ہر چند کہ اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ امامِ زمانؑ ان کا دینی اور روحانی بادشاہ ہے، جس طرح انسان جمادات، نباتات اور حیواناتِ صامت کا بادشاہ ہے، اگرچہ حیواناتِ صامت وغیرہ اس امر واقعہ کو نہیں سمجھتے کہ ان پر کوئی شخص بادشاہی کررہا ہے اور انسان یعنی بنی آدم دوسری تمام مخلوقات سے افضل و اشرف ہونے کی یہ آفاقی اور عملی آیت قرآنِ پاک کی اس آیت کی تفسیر ہے جس میں بنی آدم کی فضیلت بیان کی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہے:

“بے شک ہم نے بنی آدم کو کرامت دی اور ان کو خشکی و تری میں اٹھایا اور انہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں اور اپنی بہت سی مخلوقات پر ان کو اچھی خاصی فضیلت دی‘‘۔ ۱۷: ۷۰

۱۷

اس آیت کی دلیل یہ ہے کہ لفظ ’’بنی آدم‘‘ کا اشارہ حضرت آدمؑ کی صَفوَت، علم و حکمت اور خلافت کی طرف ہے، دوسری طرف سے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص علم و حکمت میں آدم کے اوصاف سے قریب تر ہو وہی شخص صحیح معنوں میں ابنِ آدم کہلائے گا اور وہی شخص صحیح معنوں میں بنی آدم کی اس فضیلت کا حقدار ہوگا، پس وہ شخص پیغمبر اور امام علیہما السلام ہی ہیں۔

 

۵۔ مذاہبِ عالم کی شہادت

اس بات کی تحقیق کہ مذاہبِ عالم اپنی صورتِ حال سے کس حقیقت کی گواہی دے رہے ہیں؟ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں جس کا کوئی بانی نہ ہوا ہو، اور اہلِ مذہب اس پر اعتقاد نہ رکھتے ہوں اس کو نہ چاہتے ہوں اور انکے اعتقاد و رسوم میں یہ معنی پوشیدہ نہ ہوں، کہ اگر وہ بانی یا اس جیسا یا اس سے کمتر دوسرا شخص اب بھی زندہ اور موجود رہ کر اس مذہب کی رہنمائی کرتا تو اہلِ مذہب نسبتہً زیادہ فائدے میں رہتے، نیز یہ کہ دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں جس کی بنیادی ضرورتوں سے یہ دلیل نہ ملے کہ دین و دنیا کی ہدایت کے لئے ہادیٔ برحق کا موجود و حاضر ہونا انتہائی ضروری ہے، چنانچہ ہر مذہب میں اب بھی یہی اصول کار فرما ہے کہ لوگ دینی مسائل میں کسی نام نہاد دینی پیشوا کی طرف رجوع کرتے ہیں، پس مذاہبِ عالم کی یہ صورتِ حال

۱۸

اس حقیقت کی ایک روشن دلیل ہے کہ نظریۂ امامت بالکل صحیح ہے، اور اس میں وہ لوگ حق پر ہیں جن کا امام دنیا میں حیّ و حاضر ہے، اور ادیانِ عالم کا یہ قدرتی تقاضہ کہ ہادیٔ برحق کے وجود فائض الجود کا دنیا میں ہونا لازمی ہے، آفاق کی ایک ایسی آیت ہے جس کے معنی سے کوئی دانشمند انکار نہیں کرسکے گا، اور یہ آیت قرآن کی آیتِ ’’ھاد‘‘ کی تفسیر ہے، چنانچہ ارشاد ہے:

اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ   (۱۳: ۷)

(اے رسول!) آپ صرف انذار کے ذمہ دار ہیں، اور ہر قوم ( یعنی ہر زمانہ کے لوگوں) کے لئے ایک ہادی ہوا کرتا ہے۔

 

۶۔ سیاسی تنظیمات کی شہادت

دنیا کے ہر ملک میں ہمیشہ سے لوگوں کا کوئی نہ کوئی حاکمِ وقت ہوا کرتا ہے، خواہ وہ خود مختار سلطان ہو یا صدرِ جمہور، یا قبیلے کا سردار، خواہ دینی حیثیت کا ہو یا دنیاوی قسم کا، مگر ہر حال میں حاکمِ وقت کا ہونا لازمی ہے، ورنہ لوگوں کی عزت و آبرو، اہل و عیال، مال و جان اور ملک ہر وقت خطرے سے خالی نہ ہوگا، پس سیاسی تنظیمات کی ہستی اور اہمیت آفاق کی آیتوں میں سے ایک ایسی آیت ہے جس کی تفسیر یہ ہے کہ دینِ حق وہی ہے جس کا شاہنشاہ معجزانہ طور پر ہمیشہ حیّ و حاضر ہے، کیونکہ جب دنیا کی حفاظت دنیاوی حاکم کے بغیر ممکن نہیں، حالانکہ

۱۹

دنیا کے معاملات بہت آسان ہیں تو دین کی حفاظت دینی حاکم کے بغیر اس سے بھی زیادہ ناممکن ہے، اس لئے کہ دین کے معاملات بہت دشوار ہیں، پس یہ آفاقی آیت کی وضاحت کرتی ہے، جس میں روئے زمین پر خلیفۂ خدا موجود ہونے کا ذکر ہے، چنانچہ ارشاد ہے:

يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ  (۳۸: ۲۶)

ترجمہ: اے داؤد! ہم نے تجھے روئے زمین پر خلیفہ مقرر کیا، پس لوگوں کے درمیان بالکل ٹھیک فیصلہ کرلیا کر۔

 

۷۔ انبیاء کی شہادت

یہ روایت مشہور ہے کہ خدا کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کرنے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں آئے ہیں، مگر خدا کی حکمت اور زمان و مکان کی ضرورت کے سبب سے سارے انبیاء فضیلت و مرتبت میں یکسان نہ تھے بلکہ خداوند تعالیٰ نےبعض پیغمبروں کو بعض پر فضل و شرف دیا تھا، چنانچہ ارشاد ہے:

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ   (۲: ۲۵۳)

ترجمہ: ’’ یہ سب رسول (جو) ہم نے (بھیجے) ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی‘‘۔

۲۰

چنانچہ حبیبِ خدا سردارِ انبیاء حضرت محمد مصطفےٰصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پر یہ فضیلت و مرتبت بطورِ کلّی منتہی ہے اور اس حقیقت کے اثبات کے لئے بہت سی دلیلیں موجود ہیں، منجملہ ایک دلیل یہ ہے جو خدا تعالےٰ فرماتا ہے:

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ  (۲۱: ۱۰۷)

ترجمہ: ’’ اور (اے رسول) ہم نے تو آپ کو سارے دنیا جہان کے لوگوں کے حق میں ازسرتا پا رحمت بناکر بھیجا‘‘۔

 

چنانچہ تمام انبیاء میں سے صرف آنحضرتؐ ہی رحمتِ کل ہیں، اور رحمت کا دوسرا لفظ مہربانی ہے اور خد اور رسولؐ کی مہربانی سب سے پہلے ہدایت کی صورت میں ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آنحضرتؐ خلق اوّلین و آخرین کے لئے ہدایت کے مرکز تھے اور کسی کام کا مرکز درمیان میں ہونا درست ہے، اس لئے آنحضرتؐ دورِ نبوّت کے اخیر میں اور دورِ امامت کے شروع میں آئے اور ہدایت کے اس مرکز کی جانب سے خلقِ آخرین کی ہدایت أئمّہ علیہم السّلام نے کی، پس معلوم ہوا کہ آنحضرتؐ بلاشبہ سردارِ رسل اور ہادیٔ سبل ہیں۔

 

پس یہ حقیقت اظہرمن الشّمس ہے کہ ہر زمانہ کے لوگوں کے لئے ایک ایسے دینی اور روحانی سردار کا ہونا ضروری ہے جو خدا کی جانب سے مقرر ہو، کیونکہ اگر قانونِ الہی میں یہ امر مناسب اور ممکن ہوتا کہ

۲۱

انسانوں کی کسی جمیعت کو یا کسی زمانے کے لوگوں کو روحانی سردار سے بے نیاز رکھا جائے اور ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی جائے تو سب سے پہلے یہ امر جمعیتِ انبیاء ہی میں ممکن ہوتا، اس لئے کہ وہ خود ہدایت یافتہ اور لوگوں کے سردار ہیں۔

 

اگرکوئی شخص یہ کہے کہ اس معاملے میں کتابِ سماوی ہی لوگوں کی ہدایت کرنے کے لئے کافی ہے، کیونکہ اس دینی سرداری سے ہدایت مراد ہے نہ کہ کوئی اور شے مقصود ہے۔ تو اس کے لئے میرا جواب یہ ہے کہ قرآن پاک آخری سماوی کتاب ہے اور یہ صرف حکمتِ بالغہ کے اصول پر ہدایت الہیہ کی ایسی بے نظیر کتاب ہے جس کے برابر کوئی کتاب جنّ و انس باہم مل کر بھی نہیں بناسکتے، اور یہی قرآن انہی اوصاف کے ساتھ معنوی طور پر اگلی امتوں کی آسمانی کتابوں میں بھی تھا، چنانچہ ارشاد ہے:

وَاِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ    (۲۶: ۱۹۶)

ترجمہ: اور بے شک وہ (قرآن) اگلی امتوں کی آسمانی کتابوں میں (  بھی موجود) ہے۔

 

وہ کتابیں ان امتوں کی اپنی اپنی زبانوں میں تھیں، مگر اس کے باوجود ان امتوں کے جو علماء ہادیٔ برحق کی نورانی ہدایت کے بغیر کتبِ سماوی کے حقائق و معارف سمجھنے کی سعی وکوشش کرتے تھے تو ان کی وہ کوشش نہ صرف بے سود ہی ثابت ہوجاتی بلکہ دراصل

۲۲

وہ لوگ خدا کے پیغمبروں کو جھٹلانے کے مرتکب بھی ہوجاتے تھے، جس کے اسباب حسبِ ذیل ہیں:

 

جب وہ لوگ ذاتی کوششوں سے کتب سماویہ کے حقائق تک نہ پہنچ سکے، تو انہوں نے گویا منطقی طور پر یہ کہا کہ ’’ کتابِ سماوی کے معنی بس یہی ہیں اور اس سے زیادہ کوئی چیز نہیں،‘‘ یا انہوں نے نتیجے کے طور پر یہ کہا کہ ’’ کتابِ سماوی کے معانی تو بہت سے ہیں مگر بتانے والاکوئی نہیں۔‘‘

 

پس انہوں نے ان دوصورتوں میں سے کسی بھی ایک صورت میں پیغمبروں کو جھٹلایا، پہلی صورت میں اس طرح کہ انہوں نے سطحی علم کے سوا باقی تمام علوم کو نیست قرار دیا، جس کی وجہ سے ان کے نزدیک کتبِ سماوی معجزانہ حکمت کے خزانوں سے خالی ہوکر رہ گئے، اور ساتھ ہی ساتھ انبیاء بھی ان کے نزدیک عام انسانوں کی طرح علمی معجزات سے خالی ہوگئے، پس اسی طرح انہوں نے اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا، اور دوسری صورتِ حال یہ ہے کہ اگر انہوں نے یہ کہا ہوکہ اب کتب سماوی کے معنی بتانے والا کوئی نہیں تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ پیغمبروں نے اپنی آئندہ امتوں کے لئے ہدایت کا کوئی مستقل نظام قائم نہیں کیا، یعنی انہوں نے اپنی علمی پرورش سے کوئی ایسا شخص تیار نہ کرسکا جو کہ ان کے بعد امّت کی علمی پرورش کرسکے اور کتب سماویہ کے حقائق ومعارف سے لوگوں کو اُن کی حقداری کے مطابق واقف کرسکے۔

۲۳


چنانچہ پیغمبروں کو جھٹلانے والوں کے متعلق جو ارشاد ہے وہ حسبِ ذیل ہے:

وَكَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۙ وَمَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَآ اٰتَيْنٰهُمْ فَكَذَّبُوْا رُسُلِيْ  ۣ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ (۳۴: ۴۵)

ترجمہ: اور جو لوگ ان ( منکرین) سے پہلے گزر گئے انہوں نے بھی (پیغمبروں کو) جھٹلایا تھا (جس کی وجہ یہ تھی کہ) ہم نے ان کو ( پیغمبروں کے توّسط سے) جو کتابیں دی تھیں وہ ان کے دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے، پس (اسی طرح) ان لوگوں نے میرے پیغمبروں کو جھٹلایا، تو (آپ نے دیکھا کہ) میرا عذاب اُن پر کیسے انوکھے انداز میں تھا۔

 

۸۔ اعداد کی شہادت

اقوامِ عالم کے اس قدرتی اتفاق میں بہت سے اسرارِ الٰہی پوشیدہ ہیں، کہ اعداد وشمار کی اساسی شکلیں سب کے نزدیک بلا اختلاف دس ہیں، وہ اشکال حسبِ ذیل ہیں:

پس یہی اشکال خود اعداد ہیں، اور اعداد چیزوں کی کمیت

۲۴

ظاہر کرتے ہیں جس طرح حروف چیزوں کی کیفیت ظاہر کرتے ہیں۔ اعداد اور حروف میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ اعداد میں سے ہر ایک عدد اپنی انفرادی شکل ہی میں بھی کسی چیز کی کمیت یعنی مقدار ظاہر کرتا ہے، مگر حروف میں یہ امکانیت بہت کم ہے۔ اس بیان سے مقصود یہ ہے کہ حقائق کی تحقیق کے سلسلے میں اعداد کی دلیلیں بہت مستحکم ثابت ہوجاتی ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ اعداد کے تعیّن میں یقیناً قدرت کا ہاتھ ہے، اسی لئے اقوامِ عالم میں اس کی قدروں اور حساب کے اصولوں میں کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا ۔

 

چنانچہ اعداد میں سے صفر عالمِ روحانی کی مثال ہے، کیونکہ عالمِ روحانی کمیت سے بالاتر ہے، یعنی اس پر گنتی واقع نہیں ہوتی، کیونکہ روح ایک ایسا جوہر ہے جو قابلِ تقسیم نہیں، مگر اجسامِ مختلفہ سے متعلق ہونے کے بعد اس پر گنتی واقع ہوسکتی ہے، جس طرح صفر انفرادی طور پر کسی گنتی کو ظاہر نہیں کرتی، بلکہ اگر کوئی شخص گنتی کے کسی درجے کے بارے میں صفر کہے تو اس سے اس درجے کی کمیت کی نفی ہوجاتی ہے، ہاں جب یہ کسی دوسرے ہندسے کے ساتھ آجائے تو یہ اُس ہندسے کی مدد سے کسی مقدار کو ظاہر کرتا ہے۔ پس یہ حقیقت روشن ہوئی کہ صفر عالمِ روحانی کی مثال ہے۔

 

صفر کے بعد ایک آتا ہے جو نویں آسمان کی مثال ہے، کیونکہ نواں آسمان روحانیت اور جسمانیت کا درمیانی  درجہ ہے، یعنی فلکِ نہم

۲۵

سے باہر روحانی کیفیت ہے اور فلکِ نہم کے اندر جسمانی کمیت ہے، جس طرح ایک سے آگے صفر ہے، جو عالم روحانی کی مثال ہے اور ایک کے بعد آٹھ اعداد ہیں، جو فلکِ نہم کے اندر آٹھ آسمانوں کی مثال ہیں، جن کے مجموعے کو عالمِ جسمانی کہا جاتا ہے۔

 

اس بیان سے بھی یہی حقیقت ظاہر ہوئی کہ ہر نوع کی چیزوں میں سے ایک چیز کی افضلیت قدرتی امر ہے، چنانچہ نوعِ انسان میں بھی ایک ایسا شخص موجود ہے جو انسانی اوصاف کی کمالیت میں یگانۂ روزگار ہے، جو قدرتی اور معجزانہ طور پر دوسرے تمام انسانوں کے لئے سرچشمۂ عقل و روح ہے، جس طرح عددِ واحد دوسرے تمام اعداد کے لئے باعثِ ہستی اور سببِ وجود ہے، کیونکہ ہر عدد کی اکائیوں کو عددِ واحد کے معنی کا سہارا ہے، پس وہ شخص جو یگانۂ روزگار ہے اور جس کی افضلیت اعداد کی مثال سے ظاہر ہوئی، انسانِ کامل یعنی امامِ زمان ہے اور آفاق کی یہ شہادت قرآنِ پاک کی اس شہادت کی تصدیق کرتی ہے جو ارشاد ہے:

قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ  (۳۴: ۴۶)

(اے رسول) آپ کہہ دیجئے کہ میں تم کو ایک (حقیقت کے متعلق) نصیحت کرتا ہوں۔

 

۹۔ حروف کی شہادت

عربی زبان کے حروفِ تہجی اٹھائیس ہیں، ان میں سب سے پہلا

۲۶

حرف الف ہے، الف کی شکل ایسی ہے جیسے کوئی مرد حکیم اپنی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کرتا ہے، پس اُس حکیم کا یہ اشارہ حسبِ ذیل معنوں پر مشتمل ہے:

۱۔ اگرچہ خدا ہر جگہ موجود ہے، تاہم علوِشان کے اعتبار سے یہ اشارہ ذاتِ واجب الوجود کی طرف جائز ہے۔

۲۔ نیز اس اشارے میں واحد کے معنی ہیں۔

۳۔ اس اشارے سے راستی اور سچائی بھی مراد ہوسکتی ہے۔

۴۔ اس اشارے سے عالمِ بالا کی طرف توجہ دلانا بھی مقصود ہوسکتا ہے۔

۵۔ اوّلیت اور آغاز کے معنی بھی ہوسکتے ہیں۔ پس جس حرف کی شکل کا اشارہ ایسے اعلیٰ ترین حقائق کی طرف ہو، وہ تمام حروف پر مقدّم ہے اور ایسا حرف صرف الف ہی ہے۔

 

اس اصول کے مطابق کہ ہر نوع کی چیزوں میں سے ایک چیز افضل و اعلیٰ ہوتی ہے، حروف میں بھی یہی حقیقت موجود ہے، چنانچہ یہ امر واقعہ اس بات کی شہادت ہے کہ انسانی افراد میں بھی ایک فرد افضل و اعلیٰ ہے، جس میں الف کے تمام اشارے ذیل کی طرح صحیح ہوتے ہیں:

۱۔ وہ فرمانبرداروں کو ذاتِ واجب الوجود سے واصل کردیتا ہے۔

۲۔ وہ مومنین کو توحید کی حقیقت سے آگاہ کردیتا ہے۔

۲۷

۳۔ وہ راستی اور صداقت کی ہدایت کرتا ہے۔

۴۔ وہ تابعین کو آخرت کی توجہ دلاتا ہے۔

۵۔ وہ عقلِ اوّل کا مظہر ہے، اس لئے اس کو تمام لوگوں پر اوّلیت اور افضلیت حاصل ہے۔

 

پس آفاق کی یہ آیت قرآنِ پاک کی اس آیت کی طرح ہے جو ارشاد ہے:

وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ اُولٰۗىِٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَ  ۵۶: ۱۰ تا ۱۱

ترجمہ: ’’ اور جو لوگ ( نیکیوں میں) سبقت لے جاتے ہیں، وہی لوگ (درجات میں بھی) آگے ہیں، اور وہی خدا کے مقرب ہیں۔‘‘

 

پس الف سابقون کی مثال ہے، کیونکہ یہ حرف دوسرے تمام حروف سے ترتیب میں بھی آگے ہے اور اپنے وسیع معنی میں بھی۔

 

۱۰۔ کتبِ سماوی کی شہادت

جس طرح آنحضرتؐ تمام پیغمبروں کے سردار ہیں اسی طرح وہ آسمانی کتاب بھی جو آنحضرت پر نازل ہوئی، تمام کتبِ سماوی سے افضل و اکمل اور جامع ہے جس کے بارے میں مسلمانوں میں کوئی اختلاف ہی نہیں، چنانچہ ذخیرۂ کتبِ سماویہ سے بھی یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ ہر نوع کی چیزوں میں سے ایک چیز کی افضلیت قدرتی امر ہے، پس ظاہر ہے کہ نوعِ انسان میں بھی ایک فرد کی افضلیت کا یہی اصول کار

۲۸

فرما ہے، یعنی تمام انسانوں میں سے ایک شخص افضل و اعلیٰ ہے جو امام زمان اور ہادیٔ برحق ہے اور قرآنِ پاک کی طرح ذریعۂ ہدایت اور سرچشمۂ علم و حکمت ہے، بلکہ وہی قرآنِ کریم کی زندہ روح اور اس کا نور ہے اور یہ آنحضرتؐ کا ایک عظیم ترین معجزہ ہے کہ حضور کی کتاب کے ساتھ ساتھ زندہ نور بھی ہمیشہ کے لئے دنیا میں موجود ہے اور آفاق کی یہ آیت قرآنِ پاک کی اُس آیت کی تصدیق کرتی ہے جس میں ایک طرف سے آنحضرتؐ کی رسالت و نبوّت برحق ہونے کی شہادت ہے اور دوسری طرف سے اس حقیقت کا تذکرہ ہے کہ ہر زمانے میں ایک ایسے شخص کا موجود ہونا قدرتی امر ہے۔ جس کے پاس آسمانی کتاب کا علم ہے وہ ارشاد درج ذیل ہے۔

قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا  بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ۙ وَمَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ   (۱۳: ۴۳)

ترجمہ: (اے رسول) آپ ( کافروں سے) کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان (میری رسالت کی) گواہی کے واسطے خدا اور وہ شخص، جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا علم ہے، کافی ہیں۔

 

مذکورہ بالا آیت سے یہ حکمتیں ظاہر ہوجاتی ہیں کہ اسلامی قانون کی رو سے ہر ضروری معاملہ میں دو ایسے معتبر اور عادل گواہ مقرر کر لئے جاتے ہیں، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اس معاملہ کو تماماً دیکھ چکا ہو، چنانچہ آنحضرتؐ کی رسالت کے انتہائی عظیم واقعہ کا پہلا گواہ

۲۹

خود خدائے تعالیٰ تھا، اور دوسرا گواہ خدا و رسول کا نور تھا، جو آنحضرتؐ کے ان تمام عظیم روحانی واقعات کے رونما ہوتے وقت حاضر تھا، جو غارِ حرا سے مقامِ معراج تک اور معراج سے آخری وقت تک آنحضرتؐ پر گزر گئے تھے، وہ وہ مقدّس نور مولانا مرتضیٰ علی علیہ السّلام کی شخصیت میں جلوہ افروز تھا، اور وہی نور اب بھی بلباسِ امامِ زمان دنیا میں حیّ و حاضر ہے، اور یہ حکمت اسی آیت سے ظاہر ہے، کیونکہ اگر دنیا میں اب بھی آنحضرتؐ کی رسالت کے منکرین موجود ہیں تو حضورؐ کی رسالت کے وہ دونوں گواہ کیوں نہ ہوں، پس معلوم ہوا کہ امامِ زمان مولانا مرتضےٰ علی علیہ السّلام کا نور ہے، بس یہی نور قرآنِ پاک کی روح ہے، جس میں قرآن کے تمام علوم نورانی تصورات، مجرّد تخیلات، روحانی تمثیلات، بے دہن آواز اور کلماتِ تامّہ کے اشارات و رموز پر مشتمل موجود ہیں۔

 

پس مذکورہ تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات و موجودات کی کل چیزیں مختلف انواع و اقسام میں پائی جاتی ہیں، اور ان تمام اقسام میں سے صرف ایک ہی قسم اعلیٰ و افضل ثابت ہوجاتی ہے، جیسے تمام چیزوں کی قسموں میں سے صرف جاندار چیزوں کی قسم ہی افضل ہے، جس میں انسان بھی شامل ہے، پھر ان تمام اقسام میں سے ہر قسم کئی چھوٹی چھوٹی قسموں پر مشتمل نظر آتی ہے، اور ان چھوٹی چھوٹی قسموں میں سے بھی صرف ایک ہی قسم افضل ثابت ہوجاتی ہے، جیسے جاندار کہ وہ مخلوقات کے اقسام میں سے ایک بڑی قسم ہے، جس کی کئی چھوٹی

 

۳۰

چھوٹی قسمیں ہیں، جن میں سے انسانی قسم اعلیٰ و افضل ہے، چنانچہ اس کی مثال مندرجہ ذیل ہے:

۱۔ آسمانی کتابوں میں سے قرآنِ پاک افضل ہے اور قرآنِ پاک کی تمام سورتوں میں سے سورۃ فاتحہ افضل ہے، کیونکہ وہ ام الکتاب کے درجے میں ہے۔

 

۲۔ تمام عمارتوں میں سے مساجد و عبادت خانے افضل ہیں، اور ان میں سے خانۂ کعبہ افضل ہے، اس لئے کہ خدا نے اُسے بطورِ خاص اپنا گھر قرار دیا ہے۔

۳۔ تمام مہینوں میں ماہِ رمضان افضل ہے اور اس کے تیس دنوں میں شبِ قدر افضل ہے۔

۴۔ پتھروں سے جواہر افضل ہیں اور جواہر سے یاقوت افضل ہے۔

۵۔ چوپایوں میں سے حلال چوپائے افضل ہیں اور اُن سے اونٹ افضل ہے۔

۶۔ دانوں میں سے غلہ جات افضل ہیں اور اُن میں سے گندم افضل ہے۔

۷۔ درختوں میں سے پھل دار درخت افضل ہیں اور اُن میں سے کھجور افضل ہے۔

۸۔ پھولوں میں سے وہ پھول افضل ہیں جو خوشبودار ہیں، اور

۳۱

ان میں سے گلاب افضل ہے۔

۹۔ معدنیات میں سے دھات افضل ہیں اور ان میں سے سونا افضل ہے۔

۱۰۔ حیوانی جسم ڈھانپنے کے لئے اون، بال، رواں اور پروں کے مقابلے میں انسانی لباس افضل ہیں، اور ان میں ریشمی لباس افضل ہیں۔

۱۱۔ سونگھی جانے والی چیزوں میں سے خوشبویات افضل ہیں اور ان میں کستوری افضل ہے۔

۱۲۔ انسان کے باطنی اعضاء میں سے اعضائے رئیسہ افضل ہیں، جو دل، دماغ، کلیجہ، پھیپڑے، پتا، تلی اور گردے ہیں، اور ان میں دل افضل ہے۔

۱۳۔ انسان کے ظاہری اعضاء میں وہ اعضاء افضل ہیں جو حواسِ خمسہ کے مراکز ہیں اور ان میں آنکھیں افضل ہیں۔

۱۴۔ انگلی والے اعضاء میں دونوں ہاتھ افضل ہیں اور ان میں دایاں ہاتھ افضل ہے۔

۱۵۔ ہاتھوں کی انگلیوں میں سے دائیں ہاتھ کی انگلیاں افضل ہیں، اور ان میں انگوٹھا افضل ہے۔

۱۶۔ انسان کی باطنی قوّتوں میں عقلی قوّتیں افضل ہیں، اُن میں قوّتِ ذکر افضل ہے، کیونکہ روحانی معجزات اسی میں پوشیدہ ہیں اور اسی سے دوسری تمام قوّتیں پرورش حاصل کرتی ہیں۔

۳۲

پس معلوم ہواکہ کائنات وموجودات اصولِ افضلیت کے تحت قائم ہیں، چنانچہ خدائے تعالیٰ نے اسی اصول کے مطابق سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام کو ثبوت و امامت کے لئے برگزیدہ کیا، اور یہ سلسلہ حضرت آدمؑ کی نسل میں حضرت نوح علیہ السلام تک چلا، حضرت نوحؑ کی نسل میں حضرت ابراہیمؑ تک چلا، حضرت ابراہیمؑ کی نسل میں حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تک چلا اور آنحضرت پر نبوّت کا سلسلہ تمام ہوا۔ مگر سلسلۂ امامت آنحضرتؐ کی آلِ پاک میں تا قیامت جاری و باقی ہے، چنانچہ حق تعالےٰ کا ارشاد ہے:

فَقَدْ اٰتَيْنَآ اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاٰتَيْنٰھُمْ مُّلْكًا عَظِيْمًا  ۴: ۵۴

ترجمہ: ’’ بے شک ہم نے ابراہیمؑ کی اولاد کو (قیامت تک) کتاب اور حکمت (کی وراثت) دی اور ان کو ایک عظیم سلطنت دی۔‘‘

پس مذکورہ ارشادِ الہٰی سے آلِ ابراہیمؑ یعنی آلِ محمدؐ کی افضلیت ظاہر ہے، وہ یہ ہے کہ آسمانی کتاب کی تاویل اور حکمت تا قیامت انہی کے ذریعے سے کسی کو مل سکتی ہے اور وہ اسی سبب سے روحانیت کی عظیم سلطنت کے مالک ہیں، چونکہ آسمانی کتاب کی تاویل اور حکمت ہمیشہ کے لئے ضروری ہے، اس لئے امام جو ابراہیمؑ اور محمدؑ کے خاندان سے ہے دنیا میں ہمیشہ حیّ و ناضر ہوتا ہے ، اور خود مختار بادشاہ ایک ہوتا ہے۔ اس لئے امامِ مستقر جو دینی بادشاہ ہے ایک ہوتا ہے،

۳۳

اور دورِ نبوّت میں امام بظاہر اس روحانی سلطنت کے وزیر کی حیثیت سے ہوتا ہے، چنانچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے زمانے میں دینی بادشاہ تھے، اور مولانا مرتضےٰ علی علیہ السلام ان کے وزیر تھے۔

 

حقدار مومنین کے لئے اصولِ افضلیت کا ذکر کیا گیا ۔ بفضلہٖ ومنّہٖ والسّلام۔

۳۴

 

منقبتِ نورِ امامت

بصورتِ سوال و جواب

 

جواب                                        سوال

کون ہوا پیشوا بعدِ رسولِ امین؟

جس کو خدا نے دیا نامِ “امامِ مبین”

منبرِ روزِ غدیر کس کے لئے تھا بنا؟

سِرِّ خدا کے لئے تا کہ بنے جانشین

پرچمِ دینِ نبی کس نے کیا تھا بلند؟

حیدرِ کرار نے گونۂ شیرِ عرین

بعد خدا و رسول کس کی اطاعت ہے فرض؟

اسکی جو ہے نورِ حق صاحبِ دنیا و دین

نورِ امامِ مبین کب سے ہوا ہے طلوع؟

یہ تو ازل ہی سے ہے جبکہ نہ تھی ما و طین

کون ہے دلدل سوار؟ کون ہے وہ نامدار؟

سرورِ مردان علی قاضیٔ روزِ پسین

خازنِ علمِ خدا کون ہے اس دہر میں؟

رہبرِ راہِ ہدا ھادیٔ دینِ متین

باب  علوم نبیؐ کون ہے اے ہوشمند؟

نورِ علیؑ ہے سدا بابِ رسولِ امینؐ

سلسلۂ نور کی کب سے ہوئی  ابتدا؟

جبکہ ہوا بوالبشر نائبِ روئے زمین

فرض ملائک پہ کیوں سجدۂ آدم ہوا؟

آدمِ خاکی میں تھا نورِ علیؑ جاگزین

نفسِ رسولِ خدا کون ہے وہ ارجمند؟

والیٔ ملکِ ولا پیشروِ متقین

ہاں تو وہی ہے مگر جلوہ نما ہے کہاں؟

چشمِ بصیرت سے دیکھ دل میں ہوا ہے مکین

۳۵

عرشِ اِلہٰ کا قیام جس پہ ہے وہ کون ہے؟

سلسلۂ نور ہے حاملِ عرشِ برین

کس کو خدا نے دیا خاتمِ حکمت نگین؟

مملکتِ ملکِ دین جس کو ہے زیرِ نگین

کس کے احاطے میں ہے دائرہ کل شَی؟

ذاتِ امامت میں ہے عالمِ نورِ یقین

ہے کوئی ایسا چراغ جو نہ بجھے دہر میں؟

نور امامت ہے وہ نورِ دلِ مومنین

کس نے کہا اے نصیرؔ! شاہ بہت دور ہے؟

جسم سے ہاں دور ہے دل سے مگر ہے قرین

۳۶

آپ کے تعاون کا شکریہ

 

حق تعالےٰ کا فرمان ہے:

وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى  (۵: ۲)

ترجمہ:’’اور تم نیکی و تقویٰ (کے کاموں) میں ایک دوسرے کا تعاون کیا کرو‘‘۔

اس ارشادِ الہی سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ نیکی و پرہیز گاری کے تمام کاموں میں مومنین کی باہمی امداد دین کے ضروری فرائض میں سے ہے، مگر امکاناً یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ سب سے عظیم نیکی اور سب سے بڑی پرہیزگاری کون سی ہے کہ جس کی تعمیل میں مومنین باہمی امداد کرکے زیادہ ثواب حاصل کرسکتے ہوں؟

اس کا سادہ اور آسان جواب یہ ہے کہ سب سے عظیم نیکی وہ ہے جو تمام نیکیوں پر حاوی ہو اور سب سے بڑی پرہیزگاری وہ ہے جو ساری پرہیز گاریوں پر محیط ہو، اور ایسی نیکی و پرہیزگاری تو صرف علم ہی ہے۔

چنانچہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَسِعَ رَبِّيْ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا  ۭ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ   (۶: ۸۰)

۳۷

ترجمہ: میرے پروردگار نے علم کو ہر چیز پر حاوی کردیا ہے، تو کیا تم نہیں سمجھتے ہو۔

 

پس معلوم ہوا کہ دینی قسم کی علمی خدمت ہی سب سے عظیم نیکی اور سب سے بڑی پرہیزگاری ہے، اور جس میں مومنین کا باہمی تعاون کرنا عظیم ترین ثواب ہے، کیونکہ علم ہی کے ذریعہ بھلائی اور برائی میں فرق و امتیاز کرکے اپنے اور دوسروں کے حق میں بھلائی کی جاسکتی ہے اور برائی سے پرہیز کیا جاسکتا ہے، اور صرف علم ہی ایک ایسی لامحدود اور ہمہ رس دولت ہےجس سے حال اور مستقبل میں قوم ومذہب کے ہر فرد کو کافی حصہ مل سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ علم خدا کی رحمت ہے جس میں دین و دنیا کی سرخروئی، سر بلندی اور شادمانی پنہان ہیں۔

 

حق تعالےٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری قوم کے اکثر علم دوست اور ترقی پسند حضرات دینی علم کے احیاء و اشاعت کے سلسلے میں ہر قسم کا تعاون کرلیا کرتے ہیں، جن کی کثیر تعداد وادیٔ ہنزہ کے تقریباً تمام مقامات اور گلگت ایجنسی کے علاقہ جات میں ہے، جن میں اوشی کھنداس اور دنیور کے دینی احباب قابلِ ذکر ہیں، اسی طرح نومل اور رحیم آباد کے عزیزان بھی ہیں، پنیال، اشکومن، گوپس اور یاسین کے اسماعیلوں میں بھی علم گستری کی قدر کرنے والے بہت سے حضرات ہیں، جیسے میرے عزیز نوجوان واعظین جو فی الحال کراچی کے علمی مرکز میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، اور جیسے میرے دوست فقیر یاسین

۳۸

خلیفہ محمد آباد صاحب۔

 

گلگت میں الواعظ جناب شہزادہ سلطان خان صاحب (مرحوم) تھے، جنہوں نے بارہا اپنے شیرین اور پر اثر کلام سے اس خادم کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے، ان کے علاوہ وہاں میرے بہت سے ایسے عزیز دوست ہیں جن کی دینی اور روحانی دوستی کی مسرتیں میرے دل و دماغ کو قوت بخشتی ہیں۔

 

اوشی کھنداس اور دنیور کے علاوہ نومل اور رحیم آباد میں بھی ایسے حقیقی مومنین اور میرے پیارے شاگرد ہیں جن کی خوشی حاصل کرنے کی امید نے مجھ میں ایک خاص قسم کی بیداری پیدا کردی ہے، بالکل یہی تذکرہ خضر آباد، حسین آباد، مایون، خان آباد اور ناصر آباد کے حقیقی اسماعیلیوں کے متعلق بھی ہے کہ جب بھی میں ذرا اُن مومنین کے درمیان رہا تو میرے دل و دماغ میں ایمان و اخلاص کی ایک نئی روشنی آجاتی ہے اور میرے باطن میں علمی خدمت کا ایک تازہ ترین جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔

 

مرتضیٰ آباد بالاو پائین کے حقیقی مومنین اور میرے خاص شاگردوں نے کمالِ خلوص و محبت سے مجھے بہت کچھ متاثر کردیا ہے ان کا اور دوسرے مقامات کے بعض عزیزان کا یہ حال ہے کہ بس ان کی روحانی اور مادّی طاقتیں میرے بھیس میں علمی خدمت کرتی ہیں۔

 

حسن آباد کے مومنین بڑے مخلص اور عقیدت مند ہیں، اِس خوش نصیب گاؤں کے اسماعیلیوں میں بعض بڑی لائق و فائق ہستیاں پیدا ہوئی ہیں، جن سے ہم کو طرح طرح کی معاونت حاصل ہے۔

۳۹

علی آباد کے تذکرہ ہی سے میرا دل و دماغ باغ باغ ہوجاتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یقیناً یہی ہے کہ علی آباد علی کے مبارک نام کے طفیل سے ایک ایسا گاؤں ہے کہ دینی اتفاق و اتحاد میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، وہاں کے اہلِ علم حضرات جو ہر وقت اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کی جدوجہد کرتے رہتے ہیں، وہاں کے سوشل ورکرز، جو ہمیشہ اپنی قوم اور مذہب کی خدمت سے تھک نہیں جاتے، وہاں کے مدرسین جو انتہائی جانفشانی سے قوم کے بچوں اور بچیوں کو تعلیم دیتے ہیں، وہاں کے کاریگر اور تمام اسماعیلی افراد جو قومی عمارتوں کی تعمیر کی خدمت انجام دیتے ہیں وہ سب اپنی مثال آپ ہیں، بلاشبہ علی آباد نہ صرف میری ہی قوّتِ بازو ہے بلکہ علی آباد نے زمانۂ قدیم سے ہر اسماعیلی سید، ہر عالمِ دین، ہر فقیر اور ہر خادمِ دین کی حمایت و یاری کی ہے۔

 

ڈورکھن کی اسماعیلی جماعت بھی شاہراہِ ترقی پر گامزن ہورہی ہے اس کی سب سے بڑی خوش نصیبی یہ ہے کہ وہاں کے چند نوجوانوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے جو آگے چل کر نہ صرف اپنے گاؤں ہی کی ترقی کریں گے بلکہ پوری قوم اور مذہب کے لئے بھی کارہائے نمایان انجام دے کر ملک و ملت کو روشن کردیں گے، میں نے کئی دفعہ رسمی طور پر ڈورکھن کے اسماعیلیوں سے مذہبی گفتگوکی ہے، وہ بڑے ہوشیار، نکتہ شناس اور فہیم ہیں اور اپنے علماء کی عزت و تکریم میں کوئی بھی کمی نہیں کرتے۔

 

حیدر آباد کے عناصر سے میرا یہ ناتوان جسم بنایا گیا ہے، اس لئے

۴۰

میں اس گاؤں کے احسانات کا ممنون ہوں، کوئی شک نہیں کہ حیدرآباد کی اسماعیلی جماعت نے بھی مذہبی اور قومی امور میں کافی ترقی کرلی ہے، کیونکہ وہاں کے اسماعیلی افراد سب کے سب بڑے مخلص اور بڑے دیندار ہیں، ان کے قومی کارکنوں اور رضا کاروں نے مفید کاموں کی مثالیں پیش کرنے کے سلسلے میں بڑی جانفشانی دکھائی ہے۔

 

گنش اور گریلت کے اسماعیلیوں کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے مذہب پر انتہائی مضبوطی سے قائم ہیں، وہ اپنی خداداد قابلیت کی بناء پر دینی باتوں کے متعلق سوال و جواب کا اصول خوب جانتے ہیں، مجھے چند بارگریلت کے اسماعیلی جماعت کے جذبۂ ایمان سے لطف اندوز ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے۔

 

بلتت ریاستِ ہنزہ کا دینی اور دنیاوی مرکز ہے، جہاں بڑے بڑے صاحبِ منصب اور ذمہ دار حضرات رہتے ہیں، اس کے علاوہ بلتت کی آبادی بڑی گنجان ہے، ان اسباب کی بنا پر وہاں کی ترقی قدرتی امر ہے، بلتت میں کل آٹھ جماعت خانہ ہیں، مجھے وہاں کے اکثر جماعت خانوں میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی ہے اور بہت سے حقیقی مومنین کے نور ایمان سے میرے قلب میں اخلاص و یقین کا انعکاس و ادراک ہوا ہے، بلتت میں میرے بہت سے عزیز و احباب رہتے ہیں جن سے ہمیشہ میری علمی خدمت کی معاونت ہوتی رہتی ہے۔

 

التت کے اسماعیلی حضرات مذہبی عقائد میں بڑے مستحکم ہیں،

۴۱

اور خدا کے فضل و کرم سے اب ان میں چند علماء بھی پیدا ہوئے ہیں، کچھ نوجوانوں نے دنیا وی تعلیم میں بھی کافی ترقی کرلی ہے، میں نے کئی دفعہ التت کے اہلِ علم حضرات کے ساتھ مذہبی مذاکرہ کیا ہے، جس میں ان کی ذہانت و ہوشیاری دیکھ کر مجھے انتہائی خوشی حاصل ہوئی ہے، وہ بڑی سنجیدگی اور اخلاق سے بات کرتے ہیں، التت میں میرے بہت سے روحانی احباب ہیں جن کی محبت سے مجھے روحانی قسم کی تسکین ملتی ہے۔

 

احمد آباد کی جماعت بھی قابلِ تعریف ہے، خوش قسمتی سے مجھے وہاں کے تمام مومنین کے ساتھ ایک دفعہ شب بیداری اور عبادت کرنے کا شرف حاصل ہوا، مجھے وہاں کے چند خوش الحان قصیدہ خوانوں کی لطیف آواز نے بے حد مسرت بخشی اور میں جماعت کی دینداری سے بہت متاثر ہوا۔

 

گلمت علاقۂ گوجال کا صدر مقام ہے، وہاں کے حقیقی اسماعیلی دینی آداب کی بجا آوری میں بے مثال ہیں، علاقۂ گوجال کے اسماعیلیوں کے قلوب میں دینی اخلاص و محبت بھری ہوئی ہے، گلمت، حسینی، فاسو، خیبر، مورخون اور سوست بالاو پائین کی جماعتیں یکسان طور پر انتہائی دیندار اور بڑے حلیم الطبع ہیں،البتہ مورخون اور سوست بالاو پائین اور خدا آباد کی جماعتوں میں اس دفعہ ایک مزید خوبی دیکھی گئی، وہ خوبی عبادت اور ذکرِالہی میں اپنے آپ کو محو کردینے کے متعلق تھی۔

مسگار کے مخلص اور حقیقی مومنین کے دینی جذبات اور ذکر و عبادت

۴۲

کے نتیجے میں روحانی واقعات انتہائی حیرت انگیز اور ازبس تعجب خیز ہیں، یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میں مہینوں اور ہفتوں کے لئے مختلف موقعوں پر بار بارمسگار کے اسماعیلوں کے درمیان رہا، جس کی مجموعی مدت کم از کم تین ہزار گھنٹوں کی ہے اور حق بات یہ ہے کہ میں نے ہر بار ان کو دینی صلاح و فلاح میں روز افزون ترقی پر دیکھا، اور خصوصاً اس سال!

 

اس دفعہ مسگار کی جماعت کی جانب سے وہاں کے تعلیم یافتہ حضرات نے مجھے ایک ایسا سپاس نامہ عنایت کردیا ہے کہ جس سے میری بہت حوصلہ افزائی ہوئی، جس کے مضمون کی علمیت و قابلیت دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسگار پر علم و ادب کا کوئی ستارہ طلوع ہورہا ہے۔ اس کتابچے کی یہ ہزار جلدیں مسگار کی تمام حقیقی اسماعیلی جماعت کے قابل قدر تعاون کے ثمرات میں سے ہیں، میں انکی اس ہمہ رس دینی خدمت کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دل و جان سے اعتراف کرتا ہوں کہ مسگار کی جماعت کے خواندہ طبقہ اور حقیقی اسماعیلیوں نے ہر بار ’’خانۂ حکمت و ادارۂ عارف سے تعاون کیا ہے۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ مرتضیٰ آباد، اوشی کھنداس وغیرہ میں بھی کافی عرصے سے جدید قسم کے روحانی تجربات کے لئے ذکرِ جلی کی مخصوص مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ عام روحانی مجالس میں بھی کسی نہ کسی خوش نصیب مومن کو ذکرِ الہٰی میں مست و مدہوش یا عجزو نیاز میں لرزہ براندام دیکھا گیا ہے، مگر مسگار کے حقیقی مومنوں نے قدرتی

۴۳

اور معجزانہ طور پر سوز و گداز اور محویت کے جس انداز کا مظاہرہ کیا ہے وہ میرے لئے ایک ایسا فرحت بخش اور قابلِ یاد واقعہ ہے، جس کو بفرضِ محال اگر میں فراموش کردینا چاہوں تو غیر ممکن ہے کہ فراموش کرسکوں۔

 

چترال کے اسماعیلیوں نے قومی اور ملی اعتبار سے کافی ترقی کرلی ہے، انہوں نے تعلیم و تنظیم کے بہت سے ادارے قائم کئے ہیں اور وہاں ہیلتھ سینٹر کی شاخیں کھولی گئی ہیں، وہاں کے اسماعیلی اعلیٰ درجے کے عقیدتمند اور مخلص ہیں، ان کے قومی کارکنوں میں ہمت و جرات کا خاصہ موجود ہے چترال کے اسماعیلیوں میں بھی میرے بہت سے ایسے احباب ہیں جن سے میری ہر طرح کی ہمت افزائی اور معاونت ہوتی رہتی ہے۔

راولپنڈی اور سرگودھا کے اسماعیلیوں میں میرے چند خاص احباب ہیں جو علمی خدمت میں ہمیشہ میرا تعاون کرتے رہتے ہیں، جن کی دوستی سے مجھے فخر و خوشی حاصل ہے۔

 

کراچی کے اسماعیلیوں میں بھی میرے بہت سے عزیز و احباب ہیں جن سے مجھے طرح طرح کی امداد حاصل ہے، مجھے تعلیم یافتہ اور ترقی پسند حضرات بہت ہی عزیز ہیں، جن کی دوستی و محبت سے مجھے ہر وقت خوشی حاصل ہوتی ہے، اور اکثر یہی خوشی میرے کاموں میں ممد ومعاون ثابت ہوجاتی ہے۔ والسلام۔

 

فقط آپ کا مخلص: نصیرؔ ھنزائی

مورخہ ۷، ذیقعد ؁۱۳۸۷

۷، فروری ؁۱۹۶۸

۴۴

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سپاسنامہ

 

پنہان اسی میں جذبِ محبت کا راز ہے

اللہ کے عاشقوں کا یہی امتیاز ہے

اس عشق کا یہ جذبۂ سوزو گداز ہے

دردِ فنا کے جام سے جو بے نیاز ہے

 

محترم عالی قدر جناب علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی

یاعلی مدد

جنابِ والا! آپ اپنی گونا گون مصروفیات کے باوجود اپنا قیمتی وقت نکال کر مولانا حاضر امامؑ کے مقدس مذہب اور قوم کی دینی و دنیوی ہدایت اور بہتری کی خاطر ہمارے ہاں تشریف لائے اور مختصر سی مدت میں راہِ نجات دکھا کر اپنی پراثر صبحت سے مستفیض فرمایا، جس کے ہم نہایت شکر گزار ہیں۔ جناب یہ دینی خدمات آج سے نہیں بلکہ عرصۂ دراز سے سرانجام دیتے آئے ہیں، اور آپ کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ آپ دنیا کی رنگین لذّتوں کو خیرباد کہہ کر اپنی قوم بلکہ پورے اسماعیلی عالم میں ان لوگوں کو جو دورِحاضر کے روحانی نور سے بے خبر ہیں،

۴۵

مشعلِ راہ بن کر راہِ نجات دکھانے کیلئے کمربستہ ہیں، خدا کی قربت قلب و نظر کے سکون کے لئے بلاشبہ متاعِ گران کی ضمانت دیتی ہے، مگر یہ کس طرح حاصل ہو؟ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو بے علم انسان کے لئے ایک عقدۂ لاینحل کی حیثیت رکھتا ہے، اور جس کی عقدہ کشائی ایک ذی علم وعمل عارف کی بصیرت افروز وعظ و نصیحت ہی سے ممکن ہے یعنی دنیا کے جادو اثر فریبوں کی پردہ دری کرنا، بھلائی اور برائی کی سوجھ بوجھ پیدا کرنا اور تزکیۂ نفس کی کہکشانی راہوں پر چلنا سکھانا ایک باعمل اور روشن ضمیر عارف کا کام ہے۔

 

خدا کا شکر ہے کہ اس مصیبت بردوش وقت میں ایک صاحبِ علم وعرفان کی حضوری ہمیں گھر بیٹھے نصیب ہوئی، جن کی درویشانہ صفات کے اثر سے ہم جہالت کی تاریکیوں سے نورِ معرفت کی طرف آئے اور قلب و ذہن کے گوشے گوشے تک مقدّس نور کی روشنی پھیلتی ہوئی محسوس کررہے ہیں، جن کا حقیقت پر مبنی اور معرفت سے معمور کلام متین اور سخنِ شیرین ہماری روحوں کے لطیف پردوں سے ٹکرا ٹکرا کر ایک مقدّس و منزہ سرور کو جنم دے رہا ہے اور جن کے دل گداز اندازِ تخاطب سے فیوض کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں اور جن کی روح پرور روحانی کیفیت دیکھ کر اقبالؔ کا یہ شعر از خود زبان پر جاری ہوجاتا ہے کہ:

۴۶

نگاہ بلند، سخن دل نواز جان پرسوز

یہی ہے رختِ سفر میرِ کاروان کے لئے

 

یہ دیکھ کر خدا کے بے نیازی پر ہزار بار قربان ہونے کو جی چاہتا ہے کہ قدرت ہم جیسے گناہوں کی گہری دلدل میں پھنسے ہوئے انسانوں کی بھی اپنی رحمتِ بے پایان کے نورانی دامن تلے چھپالینا چاہتی ہے، کیا یہ اس کی شانِ بے نیازی نہیں؟ اور ہم جیسے جنم جنم کے مریضوں کے کے لئے حکیم بھی ایسا منتخب کیا ہے جو دورِ حاضر کے روحانی معالجوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتا، جیسا کہ شاعر کہتا ہے:

 

اہلِ نظر، اہلِ کمال، اہلِ قلم ہم جیسے

ڈھونڈ کے تم دیکھ لو دنیا میں کہاں ملتے ہیں

 

مولاناحاضرامامؑ کونین میں جناب کو اس خدمت کا صلہ عطا کرے سچ ہے کہ آپ بحیثیت ایک نامور دینی فقیر کے اپنی جان کی قربانی سے دریغ نہ کرکے اپنے شہنشاہِ دوعالم کی خدمات میں تکالیف جھیلتے ہیں۔ جناب یہ مذہبی اور قومی خدمات آپ کے شایانِ شان ہے آفرین صد آفرین، آپ کی ابتدائے پیدائش بھی سعادت مندی ہے اور آخری مرحلہ بھی!

 

عالیجاہ! آج ہمارے چہروں پر اداسی کی لکیریں کیوں پھیلتی جا رہی ہیں؟ آج ہماری روحیں اپنے دنیاوی ویران گوشوں ہی میں

۴۷

روحانی بہاروں کے دل آویز نشیمن بنانے کے باوجود کیوں غمناک ہیں! آج ہمارے ایمان کے نور سے چمکتے ہوئے قلب کیوں مدھم ہورہے ہیں؟ آج ہماری خوشی کے لبریز پیمانے غم کی تلچھٹ سے کیوں چھلک رہے ہیں؟ کیا اس لئے کہ ہمارے عظیم محسن ہمیں صراطِ مستقیم پر گامزن کرکے اور کسی تاریکی میں ڈوبی ہوئی بستی کو جگمگانے کے لئے جارہا ہے اور ہمیں ان کی جدائی گوارا نہیں، مگر اس پر تو ہمیں افسردہ خاطر نہیں ہونا چاہئے، بلکہ دین کی پھیلتی ہوئی روشنی کی ایمان افروز لہروں کو لب و نگاہِ عقیدت سے سو سو بار چومنا چاہئے۔ اے ہمارے عظیم میرِ کاروان! آپ ہم جیسے اور گم کردہ راہ قافلوں کو بھی صحیح رہگذر منزل کا پتہ بتانے کے لئے ضرور جائیے، مگر دیکھئے گا کہ اپنے اس قافلے کی خبر نہ بھولئے گا جو منزل کی سمت روان دوان ہے۔

یہ تمنا ہے کہ آئے آپ لاکھوں باریوں

جھوم کر آتا ہے جیسا ماہِ خندان ماہ بہ ماہ

 

آخرمیں جماعت بارگاہِ خداوندی میں دست بہ دعا ہیں، کہ مولانا حاضر امام آپ کو دین و دنیا میں سر فراز و سر بلندرکھے، آپ کو سکھی و آباد رکھے ! مولانا حاضر امام آپ کو دنیوی آفتوں سے محفوظ رکھے، ہمیشہ ان کی نظرِ رحمت آپ پر پڑےاور اپنے نورانی ظاہر و باطن دیدار سے مدام مشرف کرے! آمین!

 

(از طرفِ اہالیانِ مسگر ہونزہ سٹیٹ)

۲۷، اگست ؁۱۹۶۷

۴۸

تجلّیاتِ حکمت

دینی کتب کا مطالعہ

پئی علم چون شمع باید گداخت

کہ بے علم نتوان خدا را شناخت

ترجمہ: علم کی خاطر موم بتی کی طرح پگھل جانا چاہئے، کیونکہ جب تک علم نہ ہو تو خدا کی پہچان نہیں ہو سکتی ہے۔

عزیز و محترم (ریٹائرڈ) صوبیدار میجر شاہین خان ان بڑے خوش نصیب اور سعادت مند انسانوں میں سے ہیں جو بسا اوقات مطالعۂ دینی کتب جیسی علمی عبادت میں مصروف رہتے ہیں، آپ کو خداوندِ تعالیٰ نے تمام تر نیک عادتیں اور اعلیٰ صلاحیتیں عنایت کر دی ہیں، اسی وجہ سے آپ اپنی عسکری زندگی میں ہر بار اور ہمیشہ کامیاب، نیک نام اور سر بلند ہو گئے، الحمد للہ۔

آپ کا شجرۂ نسب یہ ہے: ریٹائرڈ صوبیدار میجر شاہین خان ابنِ محمد خان، ابنِ بائے خان، ابنِ رستم خان، ابنِ غلام خان، ابنِ لگشر خان، ابنِ عاشور خان، ابنِ دودار خان۔

آپ کے نیک بخت اور ایمانی اہلِ خانہ کے اسماء یہ ہیں: نیک خصلت زوجۂ محترمہ ثریا بانو، نورِ چشم بیٹا ریاض شاہین عمر ۱۰ سال، نورِ نظر بیٹی رضیہ شاہین عمر ۸ سال اور نورِ عین اعجاز شاہین عمر ۶ سال، عاجزانہ دعا ہے کہ پروردگارِ عالم

۳

اپنی بے پایان رحمت سے اس عزیز خاندان کو دین و دنیا کی کامیابی سے سرفراز فرمائے!آمین یا ربّ العالمین!!

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقارآباد، گلگت

۶ محرم الحرام ۱۴۱۵ھ

۱۷ جون ۱۹۹۴ء

۴

Blank Pages 5- 6  for Table of contents

افتتاحیہ

۔۱۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ الم تروا ان اللہ سخر لکم ما فی السمٰوٰت و ما فی الارض و اسبغ علیکم نعمہ ظاہرۃ و باطنۃ (۳۱: ۲۰) کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں، اور اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں (۳۱: ۲۰)۔ حقیقت کو سمجھنے اور سمجھانے کی خاطر دوستانہ سوال و جواب کا طریقہ ہمیشہ مفید رہا ہے، چنانچہ یہاں پوچھنا یہ ہے کہ یہ تسخیرِ کائنات کس قسم کی اور کس درجے کی ہے؟ مادّی ہے یا روحانی ہے؟ یا دونوں ہیں؟ کیا اس احسانِ خداوندی میں سب دنیا والے شریک ہیں؟ یا یہ کچھ خاص لوگوں کے لئے ہے؟ قرآن اور اسلام کی باطنی نعمتیں کیا کیا ہو سکتی ہیں؟ آیا یہ درست ہے یا نہیں، کہ مذکورہ نعمتیں مادّی نہیں ہیں؟ کیونکہ مادّی نعمتوں میں دوسرے لوگ ہم سے بہت آگے ہیں، پس تسخیرِ کائنات مومنین و مومنات کے لئے ایک باطنی راز اور روحانی احسان ہے، اور باطنی نعمتوں سے مراد باطنی علم و معرفت اور تاویلی حکمت ہے، اور معلوم ہے کہ ہر مثال میں ظاہر کے مقابلے میں باطن اعلیٰ و افضل ہوا کرتا ہے۔

۔۲۔ باطنی نعمتوں کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس حدیثِ شریف سے

۷

ہو سکتا ہے، ارشادِ نبوی ہے۔

ان للقراٰن ظھرًا و بطنًا و لبطنہ بطنًا الی سبعۃ ابطنٍ و فی روایۃ ٍ الیٰ سبعین بطنًا = یقیناً قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، اور باطن در باطن کا سلسلہ سات بواطن تک ہے، اور دوسری روایت کے مطابق ستر بواطن تک ہے۔ آیا اسی طرح قرآنِ پاک میں بے شمار نعمتیں موجود نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو آخر کس کے لئے ہیں؟

۔۳۔ اس نوعیت کی ایک اور حدیث صادقِ آلِ محمد علیہ السلام سے مروی ہے۔

کلام اللہ علیٰ اربعۃٍ: العبارۃ، و الاشارۃ، و اللطایف، و الحقایق، العبارۃ للعوام، و الاشارۃ للخواص، و اللطایف للاولیاء، والحقایق للانبیاء = کلامِ الٰہی چار وجوہ پر ہوا کرتا ہے: عبارت، ا شارت، لطائف (نکتہ ہائے مخفی) اور حقائق، پس عبارت عوام کے لئے ہے، اشارت خواص کے لئے، لطائف اولیاء کے لئے ہے، اور حقائق انبیاء کے لئے۔ مذکورہ دونوں حدیثوں سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ قرآن فہمی کے بہت سے درجات ہیں، جیسے خود قرآنِ کریم علمی درجات کا ذکر فرماتا ہے۔

نرفع درجٰت من نشاء و فوق کل ذی علم علیم (۱۲: ۷۶)۔ ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلندکردیتے ہیں، اور ہر علم والے سے دوسرا

۸

علم والا بڑھ کر ہے (۱۲: ۷۶)۔

۔۴۔ جیسا کہ آپ سب حقیقت سے باخبر ہیں کہ احادیثِ صحیحہ میں قرآن کی تفسیر ہے، چنانچہ امامِ زمان صلواۃ اللہ علیہ و سلامہ کی پاک نورانیت میں خزائنِ علم و حکمت کی حیثیت سے اللہ کے ’’کلمات التامات‘‘ ہوتے ہیں، جن کا تذکرہ دعائیہ حدیثوں میں ہوا ہے، کیونکہ وہ خزائنِ اسرار ہونے کی وجہ سے زبردست پُراثر ہیں، لہٰذا قرآنِ پاک میں ان کی اس طرح بے حد تعریف و توصیف ہوئی ہے:

و لو ان ما فی الارض من شجرۃ اقلام و البحر یمدہ من بعدہ سبعۃ ابحر ما نفدت کلمات اللہ (۳۱: ۲۷) زمین میں جتنے درخت ہیں، اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں، اور سمندر (دوات بن جائے) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کے کلمات التّامات کی علمی وضاحت ختم نہ ہوگی۔ ان کلماتی خزانوں میں اس قدر بے پایان علم و حکمت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ علمی کائنات کو لپیٹتا بھی ہے اور پھیلاتا بھی ہے، جس طرح ایک آدم سے بے حد و بے حساب انسانوں کو پھیلا دیتا ہے، اور دوسرے آدم میں بصورتِ ذرّاتِ ارواح سمیٹ لیتا ہے۔

۔۵۔ بفضلِ الٰہی ’’تجلّیاتِ حکمت‘‘ کے نام سے یہ ایک کتابچہ آپ کے سامنے ہے، جس میں ’’تصورِ آفرینش‘‘ کی لا ابتدائی و لا انتہائی کے ثبوت میں چالیس دائرہ نما حکمتیں درج کی گئی ہیں، کیونکہ قرآنی آیات ہوں یا آفاق و انفس

۹

کی آیات، ان میں کوئی ایسی آیت نہیں جس میں حکمتِ دائرہ نما کا کوئی اشارہ موجود نہ ہو، پھر یہ قانونِ فطرت کا بہت بڑا راز کیوں نہ ہو کہ ہر چیز پر بتحریرِ الٰہی حکمتِ دائرہ نما نقش ہے۔

۔۶۔ اب یہ سوال برمحل ہے کہ اس کتابچے کے تجلّیاتِ حکمت کن معنوں میں کہا گیا ہے؟ ان شاء اللہ اس کا جواب کافی دلچسپ اور مفید ہوگا، وہ یوں ہے کہ شیخ عطار نے کہا:

چشم بکشا کہ جلوۂ دلدار

متجلیست بر در و دیوار

ترجمہ: آنکھ کھول کہ معشوق (کے حسن و جمال) کا جلوہ درودیوار سے ظہور پذیر ہو رہا ہے۔ وہ اوّل بھی ہے، آخر بھی، ظاہر بھی ہے اور باطن بھی (۵۷: ۳) لہٰذا وہ لاحدّ ہے، یعنی وہ عالمِ غیب میں محدود نہیں، وہ کہاں نہیں، ہر جگہ موجودوحاضر ہے، وہ گویا دیدار دینے کے لئے منتظر ہے، مگر عاشقوں کی آنکھ کھل جانے میں دیر لگ رہی ہے۔

۔۷۔ محبوبِ جان کی کوئی بھی تجلّی علم وحکمت کے اسرار سے خالی نہیں، کیونکہ تجلّی میں ظہورِ صفات کا تصور ہے، جس کا ادراک عقل ہی بہتر طریقے سے کر سکتی ہے، جیسے تجلّیٔ طور ایک بار مقامِ روح پر ہوئی، اور دوسری بار مرتبۂ عقل پر، دونوں قسم کی تجلّیوں میں علم وحکمت کے خزانے ہیں، یہ سوچنا کیونکر درست ہو سکتا ہے کہ کوہِ طورِ ظاہر خدا کی تجلّی سے ریزہ ریزہ ہوگیا، حالانکہ آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کے مطابق اللہ تعالیٰ کائنات

۱۰

کی بلندی و پستی کا نور ہے، جس سے آسمان و زمین کے قیام و بقا وغیرہ کے بے شمار فائدے ہیں، اور نور سے بربادی کے معنی میں کائنات ریزہ ریزہ نہیں ہوتی۔

۔۸۔ ہر بار کسی بڑے عرفانی راز کا منکشف ہوجانا تجلّی اور عقلی دیدار ہے، جس میں بہت سی علمی نعمتیں ہیں، کیونکہ ایک حدیثِ قدسی کے مطابق اللہ گنجِ مخفی ہے، لیکن یہ خزانہ علم و حکمت اور اسرارِ معرفت ہی کا ہے، اور کسی دوسری چیز کا ہرگز نہیں، ہر عارف جب کنزِ مخفی کو حاصل کر لیتا ہے، تو اپنی حقیقت یا انائے عُلوی کو ازلی و ابدی طور پر اس کے ساتھ ایک پاتا ہے۔

۔۹۔ عالمِ عقل کے تمام اسرار دائرہ نما ہیں، جن کے زیرِاثر عالمِ روحانی اور عالمِ جسمانی کی ہر چیز دائرہ نما یا مستدیر ہے، یہی علامت لا ابتدائی و لا انتہائی کی ہے، کیونکہ یہ بات ممکن ہی نہیں کہ پہلے یا بعد میں کبھی خدا کی نعمتیں موجود نہ ہوں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ساری چیزیں ایک طرف خزائنِ الٰہی سے آتی ہیں (۱۵: ۲۱) اور دوسری طرف ان خزانوں میں جاتی ہیں، جس طرح دنیا کے ہر خزانے کا یہی نظام ہوا کرتا ہے، کہ ایک جانب سے سکہ وغیرہ شاہی خزانے میں جمع کیا جاتا ہے، اور دوسری جانب سے خرچ ہوتا ہے، اور یہ ایک ایسا گول سلسلہ ہے جو ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔

۔۱۰۔ حکیم سنائی کا یہ شعر قابلِ توجہ ہے۔

۱۱

بمیر اے دوست پیش ازمرگ اگرعمرِ ابد خواہی

کہ ادریس از چنین مردن بہشتی گشتہ پیش از ما

اے دوست! اگر تو ابدی زندگی چاہتا ہے تو (اضطراری) موت سےپہلے ہی مر جا، کیونکہ حضرتِ ادریس اسی طرح مر کر ہم سے پہلے بہشتی ہو چکا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے۔

و رفعنٰہ مکانا علیا (۱۹: ۵۷)

اور ہم نے ان (یعنی ادریس) کو اونچی جگہ (بہشتِ روحانیت پر) اٹھا لیا تھا۔

۔۱۱۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ’’القلم ایوارڈ کی دوسری تقریب توقع سے بہت زیادہ کامیاب ہوئی، روزِ جمعہ اپنے دامن میں ہمارے عزیزوں کے لئے بہت ساری برکتیں لے کر آیا تھا، ۲۹ ذوالحج ۱۴۱۴ھ، جون ۱۹۹۴ ء کا بڑا اہم تاریخی دن ہمیشہ یاد رہے گا، اس بابرکت جشن کو سب کے لئے مفید بنانے کی غرض سے جو ایڈوائزری بورڈ قائم ہوا ہے، وہ لائقِ تحسین ہے، ہماری ریجنل برانچ گلگت کے عملداران و ممبران کی بے مثال سوچ، سکیم، وقت کی قربانی اور جانفشانی کی تعریف و توصیف کا حق ادا نہیں ہوسکتا، شمالی علاقہ جات کی تمام نیک بخت روحیں مجھے از حد عزیز ہیں، خصوصاً ہر کامیابی کے موقع پر میں ارضی فرشتوں سے فدا ہو جانا چاہتا ہوں۔

۔۱۲۔ مذکورہ تقریب میں کوئی ایک خوشی نہ تھی، بلکہ خوشیوں اور شادمانیوں کا ایک طوفانی عالم تھا، میں خاص کر اُس وقت روحانی سرور سے مست و

۱۲

مغلوب ہوگیا، اور کپکپی کے زیرِ اثر آنے لگا، جبکہ میری ایک اردو نظم ترنم اور موسیقی کے ساتھ پڑھی جا رہی تھی، لیکن شرم کے مارے بصد کوشش اپنے آپ پر کنٹرول کیا، چونکہ ایک فرد کی خوشی کے مقابلے میں جماعت کی اجتماعی خوشی کا وزن بہت زیادہ ہے، اسی وجہ سے تذکرہ کرتا ہوں کہ شاید ہماری جماعت کی دلجوئی اور تمام اہلِ قلم کی ہمت افزائی کی خاطر اس بندۂ ناچیز کو ایک بہت بڑا ٹائٹل ’’حکیم القلم‘‘ عطا کیا گیا، یہ مہربانی جناب محمود خان صاحب، چیف کمشنر برائے شمالی علاقہ جات گلگت نے کی، ہر چند کہ میں اس قابل نہیں ہوں، لیکن جب رحمتوں کا طوفان آ جائے تو اس کے لئے یہ کہنا غیر ممکن ہے کہ میں تیار نہیں ہوں، مجھ میں ایسی کوئی اہلیت نہیں ہے۔

۔۱۳۔ آج کی یہ قابلِ رشک اور تاریخی کامیابی ہمارے تمام عزیزوں کی مجموعی کوشش کا ثمرہ ہے، کاش وہ سب کے سب اس زبردست خوشی کے موقع پر ہمارے ساتھ ہوتے! میں بڑے شوق سے فرداً فرداً سب کی دست بوسی کرتا! عاجزی سے شکریہ ادا کرتا! اور ہم سب مل کر بارگاہِ الٰہی میں سجدۂ شکرانہ بجا لاتے! کچھ مناجات، گریہ و زاری اور کچھ آنسوؤں کی درفشانی کرتے۔

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

اتوار یکم محرم الحرام ۱۴۱۵ھ، ۱۲ جون ۱۹۹۴ء

۱۳

توصیفِ قلم

۔۱۔ اے قلم! جنبشِ ازل ہے تو

قدرتِ ذاتِ لم یزل ہے تو

۔۲۔ تجھ سے تحریرِ کائنات ہوئی

اے خوشا! حق کی تجھ سے بات ہوئی

۔۳۔ ہے ہمارا قلم تیرا سایہ

اس کو تجھ سے ملا ہے سرمایہ

۔۴۔ وہ قلم اُس جہان میں سلطان ہے

ذاتِ حق کی دلیل و برہان ہے

۔۵۔ یہ قلم بادشاہِ دنیا ہے

جب سے علم وعمل کا چرچا ہے

۔۶۔ اک قلم برفرازِ عرشِ برین

اک قلم بر بسیطِ روئے زمین

۔۷۔ علم کا ایک جہان قلم میں ہے

رازِ کون ومکان قلم میں ہے

۔۸۔ کام میں سر کے بل یہ چلتا ہے

جس سے دنیا زمانہ پلتا ہے

۔۹۔ یہ سیاہی سے روشنی کر دے

دولتِ علم سے غنی کر دے

۔۱۰۔ اس کا قطرہ مثالِ بحرِعمیق

گنجِ گوہر رہا ہے جس میں غریق

۔۱۱۔ اسپِ تازی کہ تیز طوفان ہے

بلکہ یہ اک جہازِ پران

۔۱۲۔ چشمۂ علم و منبعِ حکمت

باعثِ فخر و مایۂ عزت

۔۱۳۔ ارضِ جنّت ہیں اس کے مکتوبات

کیف آور ہیں جس کے مشروبات

۔۱۴۔ چپکے چپکے قلم کلام کرے

ساری دنیا اسے سلام کرے

۔۱۵۔ تو نہ شمشیر ہے نہ شیرِ ببر

پھر بھی طاقت میں تو رہا برتر

۱۴

۔۱۶۔ یہ کتابیں اسی کی پیداوار

جن کی رونق ہے رشکِ باغ و بہار

۔۱۷۔ یہ قلم ہے کہ ہے عصائے کلیم

شر کو نگلے یہ اژدہائے عظیم

۔۱۸۔ ہیں مبارک تمام اہلِ قلم

جن پہ اللہ کا ہوا ہے کرم

۔۱۹۔ خدمتِ قوم ہے رضائے خدا

کام کر کام کر برائے خدا

۔۲۰۔ یہ قلم تیرے پاس امانت ہے

حق ادا گرنہ ہو، خیانت ہے

۔۲۱۔ اے نصیر خامہ بہت پیارا ہے

چونکہ اللہ نے اتارا ہے

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

۲۸ذی الحجہ ۱۴۱۴ھ، ۹ جون ۱۹۹۴ء

۱۵

فہرستِ دائرہ نما حکمتیں

حکمت۔۱: دائمی گردش کا دائرہ۔

حکمت۔۲: ہر چیز کا دائمی سفر گول ہے۔

حکمت۔۳: پانی کا چکر ہر چیز کی گردش کا نمونہ ہے۔

حکمت۔۴: درخت پہلے یا گٹھلی؟

حکمت۔۵: دائرۂ شب و روز۔

حکمت۔۶: نقطے سے کتاب، پھر کتاب سے نقطہ۔

حکمت۔۷: آدمی میں دائرے ہی دائرے۔

حکمت۔۸: گردشِ زمانہ اور مساواتِ رحمانی۔

حکمت۔۹: دائرے ہی پر دائمی ترقی۔

حکمت ۔۱۰: اسرارِ معرفت اور خزائنِ جنّت۔

حکمت۔۱۱:رفیقِ اعلیٰ کا راز۔

حکمت۔۱۲: روحِ مستقر اور روحِ مستودع۔

حکمت۔۱۳: بہشت کے ازلی و ابدی لڑکے۔

حکمت۔۱۴: اصل انسانی روح۔

حکمت۔۱۵: ثمرۂ لا مقطوعہ۔

۱۶

حکمت۔۱۶: مثال اور ممثول۔

حکمت۔۱۷: علمی و عرفانی مربّی۔

حکمت۔۱۸: پردۂ ازل میں اسرار۔

حکمت۔۱۹: کنزِ کل اور اس کا پھیلاؤ۔

حکمت۔۲۰: صورتِ آدم اور صورتِ اہلِ جنّت۔

حکمت۔۲۱: مردۂ زندہ نما اور قطعی مردہ۔

حکمت۔۲۲: حقیقی زندگی / حیاتِ طیبہ۔

حکمت۔۲۳: امامِ مبین / جسمِ لطیف، روحِ اعظم، اور عقلِ کامل۔

حکمت۔۲۴: قلم و لوح دو عظیم فرشتے۔

حکمت۔۲۵: پیراہنِ یوسف سے متعلق ایک سوال۔

حکمت۔۲۶: قرآن میں بہت سی کتابیں۔

حکمت۔۲۷: نفسانی موت کا تجربہ۔

حکمت۔۲۸: قانونِ آفرینش ایک ہی ہے۔

حکمت۔۲۹: کوئی بشر والدین کے بغیر نہیں۔

حکمت۔۳۰: سونے کے کنگنوں کی تاویل۔

حکمت۔۳۱: سفینۂ ظاہر اور سفینۂ باطن۔

حکمت۔۳۲: اہلِ بیت اور سلمان۔

حکمت۔۳۳: امام کا معجزۂ کثرت۔

حکمت۔۳۴: پانچ وسائطِ عُلوی۔

۱۷

حکمت۔۳۵: المؤمن /الامام۔

حکمت۔۳۶: المؤمنون/ الأئمّہ۔

حکمت۔۳۷: قیامتِ صغریٰ / زبردستی دعوت۔

حکمت۔۳۸: قصۂ ذوالقرنین / قصّۂ امام۔

حکمت۔۳۹: دو قسم کے اسمائے الٰہی۔

حکمت۔۴۰: قوانینِ کلّ / ہمہ گیر قوانین۔

۱۸

دائرہ نما حکمتیں

حکمت۔۱: اللہ جلّ جلالہ کی قدرتِ کاملہ کا ایک بہت بڑا راز اس امر میں مخفی ہے کہ اس حکیمِ مطلق اور دانائے برحق نے ہرچیز کو ایک دائمی دائرے پر پیدا کیا، اور گردش دیا (۲۱: ۳۳، ۳۶: ۴۰)۔

حکمت۔۲: آسمان، زمین، سورج، چاند، سیارے، ستارے اور دوسری تمام چیزیں نہ صرف شکل ہی میں مستدیر (گول) ہیں، بلکہ ان کا بے پایان سفر بھی ہمیشہ گول ہے۔

حکمت۔۳: زمین اور سمندر کے گرداگرد کرّۂ ہوا کی حرکت گولائی میں ہے، علی الخصوص اس سلسلے میں پانی کا سائیکل (دور، چکر) قابلِ دید مثال ہے، یقیناً اس میں تمام دور کی مثالوں کی قریبی نمائندگی ہے۔

حکمت ۔۴: درخت پہلے ہے یا گٹھلی ؟ گندم کی ہری فصلیں اوّل ہیں یا بیج؟ مرغی کو اوّلیت حاصل ہے یا انڈے کو؟ انسان مقدم ہے یا نطفۂ امشاج(نطفۂ مخلوط، ۷۶: ۲) ؟ ان سوالات، اور ان جیسے دوسرے بہت سے مسائل کے لئے ایک ہی جواب ہے، وہ یہ کہ ان میں سے ہر دو چیزیں مل کر ایک دائرہ بناتی ہیں، جس میں کلّی طور پر دیکھا جائے تو کوئی تقدیم و

۱۹

تاخیر نہیں ہے۔

حکمت۔۵: سورۂ فرقان کے اس مبارک ارشاد میں غور کیجئے: و ھو الذی جعل اللیل و النھار خلفۃ (۲۵: ۶۲) اللہ وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا۔ یعنی شب و روز میں سے ایک مقرر آگے اور ایک مقرر پیچھے نہیں ہے، بلکہ دونوں برابر برابر آگے پیچھے ہیں، بالفاظِ دیگر ان کا دائرۂ گردش ایسا نہیں، کہ اس کا ایک حصّہ مقدم اور ایک حصہ مؤخر ہو، جب دن رات کا دائرہ ثابت ہوا تو پھر معلوم ہوا کہ وقت سے متعلق ہر چھوٹی بڑی چیز کا دائرہ ہوا کرتا ہے، جیسے سیکنڈ، منٹ، گھنٹہ، ہفتہ، مہینہ، سال، زمانہ وغیرہ۔

حکمت۔۶: کسی شک کے بغیر سورۂ فاتحہ ام الکتاب یا ام القرآن ہے، جس کا خلاصہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہے، اس کا جوہر اور نقطۂ آغاز نقطۂ بائے بسم ہے، یہ وہ نقطۂ جامعۂ حقائق و معارف ہے جس کے بارے میں مولا علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: میں وہ نقطہ ہوں جو بائے بسم اللہ کے تحت ہے۔ مولائے پاک کے اس مبارک فرمان میں بہت سے اشارے پوشیدہ ہیں، اور ان میں سے چند ہی اشارے یہ ہیں۔

الف:) دائرۂ پرکار نقطۂ مرکز ہی کے سہارے پر بنتا ہے، چنانچہ علی دائرۂ دو جہان کا نقطۂ مرکز ہے۔

ب:) کسی بھی حرف یا تحریر کے سرے پر سب سے پہلے نوکِ قلم سے نقطہ بنتا ہے، جس کی روانی سے حروف و کلمات اور آیات کی ظاہری تحریر

۲۰

ہے، الغرض قرآنِ حکیم کی کوئی آیۂ کریمہ ایسی نہیں، جس میں ظاہراً و باطناً نقطے کی روانی و جلوہ نمائی نہ ہو، یعنی کوئی آیت ایسی نہیں جس کے جز جز میں مولا علیؑ  کا ذکرِ جمیل موجود نہ ہو۔

ج:) جس طرح شجر و ثمر کا دائرہ ہوا کرتا ہے، اور جیسے گوہرِعقل اور عالمِ شخصی کا دائرہ ہے، اسی طرح قرآنِ عظیم اور نقطۂ بائے بسم اللہ کا بھی معنوی اور حکمتی دائرہ ہے۔

د:) جسم اور روح کی چھوٹی بڑی چیزیں بے شمار ذرّات کے مجموعے ہوا کرتے ہیں، اور کوئی چیز اس قانون سے باہر نہیں، مثال کے طور پر انسانی بدن پر غور کیجئے، جس میں بے حد و بے حساب زندہ ذرّات ہیں اور ہر ذرّہ بحدِ قوّت ایک جداگانہ عالمِ شخصی اور ایک دائرہ ہے۔

حکمت۔۷: آدمی کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا رکنا، سونا جاگنا، بولنا چپ ہو جانا، رونا ہنسنا، بیماری صحت، بھوک شکم سیری، غصہ حلیمی، سکون بے قراری، سفر حضر، وغیرہ جیسے احوال میں سے ہر دو متضاد حالتیں مل کر ایک دائرے کو تشکیل کرتی ہیں، اس کے علاوہ انسان میں اور بھی دائرہ نما حکمتیں ہیں، مثلاً بدن میں دورانِ خون کا نظام، تنفس کا نظام، حرکتِ قلب کا نظام، پلک جھپکنے کا نظام، وغیرہ، الغرض ان تمام دائرہ نما حکمتوں کا زبانِ حال سے یہ کہنا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بادشاہی کی نہ تو کوئی ابتدائی حد ہے، اور نہ ہی کوئی انتہائی حد، بلکہ وہ ہمیشہ اور قدیم ہے۔

حکمت۔۸: سورۂ آلِ عمران (۳: ۱۴۰) میں ہے: و تلک الایام

۲۱

نداولھا بین الناس = اور یہی زمانہ ہے جس کو ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں (۳: ۱۴۰) اس سماوی تعلیم میں اہلِ بصیرت کے لئے انتہائی دور رس اشارے موجود ہیں۔

حکمت۔۹: اگر انسان لامحدود اور بے انتہا ترقی چاہتا ہے تو وہ ایک ایسے پرحکمت دائرے پر ممکن ہے، جس پر بحیثیتِ مجموعی عارضی مشقت برائے نام اور دائمی راحت بہت زیادہ ہے، کیونکہ آدمی ایک بڑی عجیب وغریب شے ہے کہ اس کی دو انائیں ہیں: ایک ہمیشہ بہشت میں رہنے کے لئے اور ایک دنیا میں آکر واپس جانے کے لئے، اسی وجہ سے حدیثِ قدسی میں خداوندِ عالم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’انسان میرا راز ہے اور میں اس کا راز ہوں‘‘۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انائے عُلوی کو ’’رفیقِ اعلیٰ‘‘ کے نام سے یاد کیا، وہ حدیث اس طرح ہے: اللھم اغفرلی و ارحمنی و الحقنی بالرفیق = اے میرے اللہ ! مجھ کو بخش دے، اور مجھ پر رحم کر اور مجھ کو رفیق (اعلیٰ) سے ملا دے! (صحیح بخاری، جلدِ سوم، کتاب المرضی، حدیث: ۶۳۴)۔

حکمت۔۱۰: ہادیٔ برحق، قائم القیامت علیہ افضل التحیۃ والسّلام کی خصوصی عنایات کا شکر دانشمندوں پر واجب ہے، کہ اُسی مہربان کے نورِ اقدس نے اسرارِ معرفت اور خزائنِ جنّت کی نشاندہی کی، جس کی بدولت جواہرِ حقائق و معارف اس قدرعام ہوگئے کہ اب قدردانی بہت مشکل ہوگئی ہے، اس معنیٰ میں ہم سب قصوروار ہیں، تاہم مایوسی نہیں، اگر

۲۲

توفیق عنایت ہوئی تو ہم اس کے حضور میں خوب آنسو بہائیں گے۔

حکمت۔۱۱: حدیثِ شریف کے حوالے سے ’’رفیقِ اعلیٰ‘‘ کا یہ تصور اور اس کی یہ تاویلی حکمت قیامت خیز انکشاف ہے، اب اس حدیث کے نور کی ضوفشانی سے بہت سے پیچیدہ سوالات خود بخود ختم ہوجاتے ہیں، کیونکہ اگر علم و معرفت کی روشنی میں دیکھا جائے تو آدمی انائے عُلوی سے بہشت ہی میں ہے، اور اکثر سوالات وہ تھے، جو مایوسی سے پیدا ہوئے،یا وہ مسائل نظامِ ہدایت پر اعتراض کی صورت میں تھے، لیکن جب ہوشمند لوگوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس انتہائی عظیم احسان کا علم ہوجائے گا، تو ان کی سوچ سمجھ میں انقلاب آئے گا، اور وہ ضرور اعتراف کریں گے کہ ان کے بہت سے سوالات غلطی پر مبنی تھے، اس لئے وہ ختم ہوگئے۔

حکمت۔۱۲: کاش ہماری جانیں راہِ جانان میں بار بار قربان ہوجائیں! کہ اس نے آدم و آدمی کو روحِ مستقر کی صورت دے کر ہمیشہ کے لئے بہشت میں رکھا، اور ان کی روحِ مستودع کو بشری لباس پہنا کر بطورِ سایہ بار بار دنیا میں بھیجتا رہا (۶: ۹۸) کیونکہ قرآنِ عظیم کا حکیمانہ اشارہ ہے کہ خداوندِ عالم نے انسانوں کے لئے ہر مخلوق کا ایک مفید سایہ بنا دیا ہے (۱۶: ۸۱) چنانچہ آپ کا ظاہری وجود آپ کی ہستیٔ باطن کا سایہ ہے، اور سائے کا بار بار نمودار ہو جانا ایک فطری امر ہے۔

حکمت۔۱۳: بہشتِ برین میں لوگوں کی انائے عُلوی اور روحِ مستقر کی موجودگی کی ایک روشن دلیل حور، غلمان، اور ولدان ہیں (۵۶: ۲۳، ۵۲: ۲۴، ۵۶: ۱۷)

۲۳

یہ لطیف مخلوقات بے شمار خوبیوں کے ساتھ ساتھ جنّت کے زندہ گھروں کی حیثیت بھی رکھتی ہیں، اور وہاں ان کا وجود و قیام ازلی و ابدی ہے، کیونکہ بہشت اور اس کی تمام نعمتیں ازل میں پیدا کی گئی تھیں، جس کی دلیل و شہادت قرآنِ حکیم کی ان پرحکمت کلمات میں موجود ہے۔

الف: یطوف علیہم ولدان مخلدون = ان کی خدمت میں ازلی و ابدی لڑکے چلتے پھرتے ہوں گے (۵۶: ۱۷)

ب: حور مقصورات فی الخیام = خیموں (پردۂ ازل) میں ٹھہرائی ہوئی حوریں (۵۵: ۷۲)

ج: سورۂ واقعہ (۵۶) کی آیاتِ کریمہ ۳۵ تا ۳۸ کا مجموعی مفہوم یہ ہے کہ اصحابِ یمین اور ان کی بیویوں کو جنّت میں بحالتِ لطیف ازلی و ابدی نوجوان، پیکرِ عشق اور ہم عمر بنا دیا جائے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے یہ کام ازل ہی میں کر دیا ہے۔

حکمت۔۱۴: یہ جہان، یہ کائنات، یعنی مکان و زمان گویا ایک قید خانہ ہے، جبکہ لامکان و لازمان (ازل) بہشت کی آزادی ہے، لامکان کا دوسرا نام عالمِ امر ہے، اور انسانی روح عالمِ امر سے آئی ہے (۱۷: ۸۵) جس کا بالائی سرا روحِ مستقر ہے، جس کا اوپر ذکر ہوا، مومن اور مومنہ کی اصل روح جنت میں رحمانی حسن و جمال کا خاص نمونہ ہے، کیونکہ حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: اے ابنِ آدم ! میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی زندہ نورانی کاپی بنا دوں گا۔۔۔۔ پس خدا نے مرتبۂ ازل پر ایسا ہی کیا ہے۔

۲۴

حکمت۔۱۵: ارشادِ خداوندی ہے: و فاکھۃ کثیرۃ لا مقطوعۃ و لا ممنوعۃ = اور کبھی ختم نہ ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے پھلوں کی کثرت ہوگی (۵۶: ۳۲ تا ۳۳) بہشت کی نعمتوں کا سلسلہ کسی لمبی لکیر کی طرح ہرگز نہیں، کیونکہ لکیر اپنے دونوں سروں پر مقطوعہ (کٹی ہوئی) ہوتی ہے ۔ جیسے مقطوعہ -مقطوعہ، مگر اس کے برعکس دائرہ لا مقطوعہ ہے، پس بہشت بشمولِ دنیا دائرہ نما ہے، اور دنیا ہی آخرت کی کھیتی باڑی ہے، اس لئے اس کی بہت بڑی اہمیت ہے، آپ ہمیشہ کلی طور پر سوچیں، جزوی سوچ کی عادت ترک کر دیں، یعنی ایسا خیال نہ کریں کہ موت کے بعد اس جہان کی حکمت ختم ہو جائے گی۔

حکمت۔۱۶: قرآنِ پاک کا یہ حکمت آگین قاعدہ و قانون خوب یاد رہے کہ ہر چیز کے ظاہری بیان کے ساتھ ساتھ پوشیدہ پوشیدہ علم و حکمت کا بیان فرمایا گیا ہے، اس میں ظاہر کو مثال اور باطن کو ممثول کہتے ہیں، جیسے ارشاد ہے: و یطوف علیہم غلمان لھم کانھم لو لو مکنون= اور ان کی خدمت میں وہ لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو انہی (کی خدمت) کے لئے مخصوص ہوں گے، ایسے خوبصورت جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی (۵۲: ۲۴) یطوف= وہ طواف کرتا ہے، گھومتا ہے، یعنی آفتابِ نورِ عقل اپنے طلوع و غروب کی گردش سے اسرارِ ازل و ابد کو ظاہر کرتا ہے، جس کی تمثیل یہاں غلمان سے دی گئی ہے۔

حکمت۔۱۷: یہ ارشاد سورۂ طور میں ہے: متکئین علی

۲۵

سرر مصفوفۃ و زوجنٰھم بحور عین = وہ آمنے سامنے بچھے ہوئے تختوں پر تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے، اور ہم خوبصورت آنکھوں والی حوریں ان سے بیاہ دیں گے (۵۲: ۲۰)۔ ان میں سے ہر متّقی عالمِ شخصی کے تختِ سلطنت پر جلوہ افروز ہوگا، اور ہم اس کو اہلِ بصیرت کا علمی وعرفانی مرّبی بنائیں گے، حورعین کا اشارہ ہے: اہلِ بصیرت، کیونکہ چشمِ ظاہر چشمِ باطن کی دلیل ہے۔

حکمت۔۱۸: سورۂ رحمان میں ارشاد فرمایا گیا ہے: حور مقصورات فی الخیام = خیموں میں ٹھہرائی ہوئی حوریں (۵۵: ۷۲) یعنی پردۂ ازل میں رکھے ہوئے اسرار، جن کے جاننے سے بےحد لذّت و شادمانی حاصل ہوتی ہے، کیونکہ جس مقام پر تجدّدِ ازل ہے، اور جہاں اسرارِ ازل ہیں، وہاں حظیرۃ القدس ہے، جس میں دین و دنیا کی تمام لذّتیں اور خوشیاں بصورتِ جوہر جمع اور یکجا ہیں، چونکہ یہ خزانہ دونوں جہان کی کل نعمتوں کا نچوڑ ہے، اس لئے اس کی عمدہ عمدہ مثالیں دی گئی ہیں۔

حکمت۔۱۹: میں نے حال ہی میں ’’جوہرِکائنات‘‘ کے عنوان سے ایک بہت مختصر مقالہ لکھا ہے، آپ اسے غور سے پڑھیں، اللہ تعالیٰ کے جس بزرگ ترین خزانے میں دونوں عالَم کی خوبی، خوبصورتی، حسن، جمال، کمال، قدر، قیمت، روح، عقل، علم، حکمت، نور، ضیاء، لذت، خوشی، اور دیگر تمام نعمتیں یکجا ہوں تو اس کی وضاحت کے لئے بے شمار تشبیہات و تمثیلات کی ضرورت ہے، اور خداوندِ قدوس نے اپنا کام کرکے رکھا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے۔

۲۶

و لقد صرفنا للناس فی ہٰذا القرآن من کل مثل= اور ہم نے لوگوں کے لئے اس قرآن میں سب مثالیں طرح طرح سے بیان کر دی ہیں (۱۷: ۸۹) یعنی خزانۂ حقائق و معارف ایک ہی ہے، اور اس کی مثالیں بے شمار ہیں۔

حکمت۔۲۰: حدیثِ شریف کا ارشاد ہے: خلق اللہ آدم علیٰ صورتہ= اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو اپنی (رحمانی) صورت پر پیدا کیا۔۔۔ فکل من یدخل الجنۃ علیٰ صورۃ آدم = ہر وہ شخص جو جنت میں داخل ہوگا، وہ آدم علیہ السّلام کی صورت پر ہوگا۔ (صحیح بخاری، کتاب الاستئذان، باب ۶۵۸) یہاں چند نکات ہیں۔

نکتۂ اوّل: مذکورہ حدیث اس آیۂ کریمہ کی ایک تفسیر ہے: و لقد خلقنٰکم ثم صورنٰکم ثم قلنا للملٰئکۃ اسجدوا لآدم = اور ہم نے تم کو (جسمانی طور پر) پیدا کیا، پھر تمہاری (روحانی) صورت بنا دی، پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے لئے سجدہ کرو (۷: ۱۱) اہلِ دانش کے سامنے یہ ایک تابناک حقیقت ہے کہ کاملین جملہ مدارجِ روحانیت میں حضرتِ آدم کے ہمراہ ہیں۔

نکتۂ دوم: آدم علیہ السّلام جب کامل روحانیت کی بہشت میں داخل ہوگئے تو ان کو رحمانی صورت عطا ہوئی، اس طرح جو شخص اس ابتدائی جنت میں داخل ہوگا، وہ اپنے باپ آدم کی صورت پر ہوگا، اور یہاں یہ اشارہ ہے کہ آدم کے توسط سے ہر مومن بہشت میں رحمانی صورت پر ہوگا۔

نکتۂ سوم: مکمل روحانیت ابتدائی اور جزوی بہشت ہے، مگر

۲۷

کلی بہشت نہیں۔

حکمت۔۲۱: نباتات بمقابلۂ جمادات روحِ نامیہ تو رکھتی ہیں، لیکن روحِ حیوانی سے محروم ہیں، حیوان حس و حرکت سے زندہ کہلاتا ہے، مگر روحِ ناطقہ نہ ہونے کی وجہ سے مردہ ہے، انسان بنسبت حیوان بولنے والی روح سے زندہ ہے، تاہم حیاتِ طیبہ اور روحِ قدسی نہ ہونے کے سبب سے مردہ شمار ہوتا ہے، کیونکہ وہ ابھی فنا فی المرشد نہیں ہوا ہے کہ اس کو روحِ قدسی مل جائے، پس مردے دو قسم کے ہیں: زندہ نما مردے (روحانی مردے) اور جسمانی مردے۔

حکمت۔۲۲: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: یایھا الذین اٰمنوا استجیبوا للہ و للرسول اذا دعاکم لما یحییکم = اے لوگو!جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو، جب کہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں (حقیقی) زندگی بخشنے والی ہے (۸: ۲۴) یحییکم کا لفظ بلفظ ترجمہ ہے: وہ تم کو زندہ کرے گا، گویا تم ایک طرح سے مردہ ہو، لیکن ہم کس روح کے نہ ہونے سے مردہ ہیں، حالانکہ انسانی روح تو رکھتے ہیں؟ جواب ملتا ہے کہ ہنوز وہ روح نہیں آئی جو انسانِ کامل میں ہے۔

حکمت۔۲۳: اللہ تعالیٰ نے کائنات و موجودات اور دنیا و آخرت کی تمام لطیف چیزوں کو امامِ مبین میں گھیر لیتا ہے، کیونکہ امام ہی اس کے نورِ اقدس کا گھرہے، چنانچہ دو قسم کے مردوں کوزندہ کر دینے کا خدائی کام اور

۲۸

اعمال و آثار کا ریکارڈ بھی امامِ مبین ہی میں ہوتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: انا نحن نحی الموتی و نکتب ما قدموا و آثارھم و کل شیءٍ احصینٰہ فی امام مبین = یقیناً ہم مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور جو کچھ وہ آگے بھیج چکے اور (جو) ان کے نشان پیچھے رہ گئے، ہم ان کو قلمبند کر لیتے ہیں، اور ہم نے ایک ظاہر پیشوا میں تمام چیزیں گھیر کر رکھی ہیں (۳۶: ۱۲) یعنی امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کے جسمِ لطیف، روحِ اعظم، اور عقلِ کامل کے احاطے سے کوئی لطیف شے باہر نہیں۔

حکمت۔۲۴: قلمِ الٰہی سے ایک عظیم فرشتہ مراد ہے، جس کا نام عقلِ کلّ ہے، اور لوحِ محفوظ دوسرا عظیم فرشتہ ہے، جس کو نفسِ کلّ کہا جاتا ہے، اور یہی دونوں فرشتے حضرت امامِ زمان علیہ السّلام کی عقلِ کامل اور روحِ اعظم ہیں، یہی نورِ واحد ہے، جو ہمیشہ عالمِ بالا میں قلم ولوح کا کام کر رہا ہے، اور قادرِ مطلق کی قدرتِ کاملہ کا کمال یہ ہے کہ ہر عارف کے عالمِ شخصی میں نورِ امامت کے باطنی معجزات سب کے سب عملاً دکھائے جاتے ہیں، تا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی روحانی نعمتوں کا سلسلہ جاری و ساری رہے۔

حکمت۔۲۵: گذشتہ علمی مجلس میں ہمارے گلگت کے جانی عزیزوں نے چند منتخب سوالات کئے، ان میں سے ایک یہ سوال ایسا تھا، جس پر مزید روشنی ڈالنے کی ضرورت تھی، سوال یہ ہے: بحوالۂ قصۂ قرآن (۱۲: ۲۱ تا ۲۹) حضرت یوسف علیہ السلام کا قمیض پیچھے سے پھٹ گیا تھا۔

۲۹

اس کی ظاہری وجہ تو سب کو معلوم ہے، لیکن ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس کی باطنی حکمت کیا ہے؟

جواب: اس واقعہ کی تاویل کچھ یوں ہے کہ روحانی معشوق جو دونوں جہان کے حسینوں کا شاہنشاہ ہے، جو ہمارا جانان اور سب کا سلطان ہے، وہ ہمارے اور آپ کے عشق سے بے نیاز ہے، نیازمند ہم ہی ہیں، وہ نہیں، لہٰذا ہم اس کو ذکر کے محل میں روک لینا چاہتے ہیں لیکن وہ رکتا نہیں، تاہم ایک نہ ایک دن اس کا دامنِ اقدس آگے سے نہیں پیچھے سے ہاتھ آتا ہے، اور ہمارے واپس لانے کی کوشش اور اس کے بھاگ جانے کے قصد کی کشاکش سے کرتۂ لطیف پیچھے سے پھٹ جاتا ہے، یہ ایک روشن دلیل ہے کہ سازِ عشق کو ہم نے چھیڑا تھا، ہم ہی وہ عشق کے غریب لوگ تھے، جو مل کر رویا کرتے تھے، تب بھی وہ متوجہ نہیں ہو رہا تھا، تاہم خدا کا شکر ہے کہ عشاق منازلِ امتحان سے آگے گئے، اور وہ کامیاب و کامران ہو گئے، اب بحمداللہ ثمرۂ عشق مل گیا، وہ بھی عجیب طرح سے کہ جس بے مثال و لازوال حسن و جمال کے خزانے کے لئے ہم مر رہے تھے، وہ واللہ! ہماری اپنی ہی روح کی روح (جانِ جان) اور انائے عُلوی ہے، ہم اب بھی روتے ہیں، کیونکہ بے پناہ خوشیوں کو ہضم کر لینے کا شاید یہی طریقہ بہتر ہے، الحمد للہ ربِّ العالمین۔

حکمت۔۲۶: اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآنِ حکیم کی ساری آیات یا بعض آیات ذیلی کتب (۹۸: ۳) کا حکم رکھتی ہیں، تاہم اس بندۂ ناچیز

۳۰

کی بہت محدود رسائی کے مطابق قرآنِ عظیم کے باطنی اور ظاہری معجزات ہوتے رہے، منجملہ ایک آیۂ کریمہ ایسی ہے کہ ہر بار اس کی ایک نئی حکمت دل و دماغ کو چھو کرگئی، جس سے مجھے بے حد حیرت ہوتی رہی، وہ آیۂ مبارکہ یہ ہے۔

خلق الانسان من عجل ساوریکم اٰیٰتی فلا تستعجلون (۲۱: ۲۷)۔ اس کی ایک مثالی حکمت: انسانِ خاص کو ذکرِ سریع سے پیدا کیا گیا ہے، میں تمہیں عنقریب عالمِ بالا اور مقامِ عقل کے خزائن کھول کر دکھا دوں گا، تا کہ تمہیں اس سے حظیرۃ القدس کی جنت و راحت نصیب ہو، اور تم آرام و سکون سے رہ سکو۔

حکمت۔۲۷: قرآنِ حکیم آسمانی اور خدائی حکمت کی کتاب ہے، اس لئے اس میں جو جو احکام ظاہر ہیں، وہ عوام و خواص سب کے لئے ہیں، لیکن جو احکام حکمتی اشارات میں پوشیدہ ہیں، وہ صرف خواص ہی کے لئے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا = خدا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا (۲: ۲۸۶) چنانچہ اہلِ طریقت اور اہلِ حقیقت کے لئے قرآنِ پاک کا یہ اشارہ ہے کہ وہ جسمانی موت سے پہلے ہی نفسانی موت کا تجربہ کرکے علم و معرفت کی غیر فانی دولت سے مالامال ہو جائیں۔

یہ ایسی چند آیاتِ مبارکہ کے حوالہ جات ہیں، جن میں نفسانی موت کا اشاراتی حکم موجود ہے۔

الف:) فاقتلوا انفسکم (۲: ۵۴) تم اپنے اپنے نفسِ امّارہ کو قتل کرو۔

۳۱

ب:) پھر نفسانی موت کے بعد ہم نے تم کو از سرِ نو زندہ کر دیا تا کہ تم احسان مانو (۲: ۵۶)۔

ج:) ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃ (۲: ۶۷) اللہ تم کو حکم دیتا ہے، کہ ایک بیل ذبح کرو۔ یعنی نفسِ حیوانی کی قربانی کرو۔

د:) فتمنوا الموت ان کنتم صٰدقین (۲: ۹۴) پس اگر تم سچے ہو تو (عملاً) موت کی آرزو کرو، یعنی نفسانی موت سے یہ ثابت کرو کہ تم سب سے پہلے بہشت میں داخل ہوچکے ہو۔

حکمت۔۲۸: قرآنِ مقدس کے بنیادی اور بڑے اہم موضوعات میں سے ایک سنتِ الٰہی کا موضوع ہے، جس کو خصوصی توجہ اور گہری نظر سے پڑھنے کی ضرورت ہے، تا کہ اس کی روشنی میں عامۃ الناس کا یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ خود بخود حل ہوسکے کہ آیا حضرتِ آدمؑ، حضرتِ عیسیٰؑ، دوسرے انبیاء، اور سب انسان ایک ہی قانونِ فطرت کے مطابق پیدا کئے گئے ہیں یا پیدائش کے الگ الگ طریقے مقرر ہیں؟ لیکن حقیقت میں پیدائش کا ایک ہی طریقہ ہے، کیونکہ اللہ کی ایک ہی سنت ہے، اور ایک ہی قانونِ فطرت، جیسا کہ فرمایا گیا ہے:

فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا لا تبدیل لخلق اللہ ذالک الدین القیم (۳۰: ۳۰) مفہوم: خدا کی فطرت یعنی قانونِ آفرینش وہی ہے، جس پر لوگوں کو پیدا کرتا رہا ہے (ایسا کوئی زمانہ نہ تھا اور نہ کبھی ہوگا، جس میں خدا کی ایسی مخلوق نہ ہو) اللہ کی آفرینش میں کوئی تبدیلی نہیں (اور نہ اس کی سنت میں کوئی تبدیلی ہے) اور یہی ہمیشہ قائم رہنے

۳۲

والا دین اور اس کے ماننے والے لوگ ہیں۔

حکمت۔۲۹: سورۂ دہر (۷۶: ۲) میں ارشاد ہے: انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج = ہم نے (ہر) انسان کو نطفۂ مخلوط سے پیدا کیا ہے۔ یہ ایک کلی قانون ہے، جس سے کوئی فردِ بشر مستثناء نہیں ہوسکتا، چاہے حضرت آدم ہو یا حضرت عیسیٰ، یا کوئی ایسا بشر جو جثۂ ابداعیہ میں زمین پر اترا ہو، کیونکہ سوائے اللہ کے کوئی بھی ماں باپ کے بغیر نہیں، آپ ہر چیز کو حکمتِ دائرہ نما کی روشنی میں دیکھیں۔

حکمت۔۳۰: قرآنِ مجید کے چار مقام (۱۸: ۳۱، ۲۲: ۲۳، ۳۵: ۳۳، ۷۶: ۲۱) پر یہ ذکر آیا ہے کہ نیکوکاروں کو بہشت میں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے، کنگن کلائی کا ایک زیور ہے، جس کو عربی میں اساور (واحد: سوار) فارسی میں دستینہ، اور انگریزی میں BANGLE  کہتے ہیں، جاننا چاہئے کہ یہ حکمتِ دائرہ نما کی ایک مثال ہے، جو کون و مکان کے تمام اسرار کو گھیر لیتی ہے، ورنہ عقل و جان کی بہشتِ برین میں سونے کے کنگن کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے، جیسا کہ سورۂ حج کا یہ ارشاد ہے:

 

یحلون فیھا من اساور من ذھب و لولوا و لباسھم فیھا حریر (۲۲: ۲۳) وہاں وہ سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کئے جائیں گے، اور ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔ یعنی ان کو ایسا علم و حکمت عطا ہو گا، جو دائرہ نما اور مستدیر (گول) ہے جس کی نہ کوئی ابتداء ہے، اور نہ کوئی انتہا، اور لولو گوہرِعقل ہے، جو ازلی و ابدی

۳۳

بھیدوں کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے، اور ریشمی لباس سے جثۂ ابداعیہ مراد ہے، جس طرح پوشاک میں سب سے عمدہ اور سب سے نفیس ریشمی لباس ہی ہوتا ہے، اسی طرح تمام اجسام میں سے اعلیٰ و افضل جسمِ لطیف (جثۂ ابداعیہ) ہے۔

حکمت۔۳۱: یہ ارشاد سورۂ یاسین (۳۶: ۴۱ تا ۴۲) میں ہے: و اٰیۃ لھم انا حملنا ذریتھم فی الفلک المشحون و خلقنا لھم من مثلہ ما یرکبون = اور ان کے لئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی ذرّیت (ذرّاتِ ارواح) کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا، اور پھر ان کے لئے ویسی ہی کشتیاں اور پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں (۳۶: ۴۱ تا ۴۲)۔

حضرت نوح علیہ السّلام کی دو بھری ہوئی کشتیاں تھیں، ایک ظاہری اور دوسری باطنی، باطنی کشتی سے امامِ وقت علیہ السّلام کی بابرکت ہستی مراد ہے، اور امامِ برحق ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے، جیسے مذکورہ آیۂ کریمہ میں ارشاد ہے: کہ کشتیٔ نوحؑ کے بعد بھی خداوندِ قدوس نے ویسی ہی کشتیاں پیدا کی ہیں، یعنی کشتیٔ امامت جو کشتیٔ نجات ہے، اس سے کبھی دنیا خالی نہیں ہو سکتی، جیسے حدیثِ شریف میں ہے:

منزلۃ اہل بیتی فیکم کسفینۃ نوح، من رکبھا نجا و من تخلف عنھا غرق = تمہارے درمیان میرے اہلِ بیت کا مقام کشتیٔ نوحؑ کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا اُس کو نجات مل گئی، اور جس نے

۳۴

اس سے مخالفت کی وہ غرق ہو گیا۔

حکمت۔۳۲: اللہ جل جلالہ اپنے خلیل حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں حکایۃً فرماتا ہے: فمن تبعنی فانہ منی (۱۴: ۳۶) پس جو شخص میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے ۔ یعنی میرا روحانی فرزند ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلمان فارسی کے بارے میں ارشاد فرمایا: سلمان منا اہل البیت = سلمان، ہم اہلِ بیت میں سے ہے۔ اور حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام نے اپنے بعض دوست داروں سے فرمایا: انتم منا اہل البیت= تم ہم اہلِ بیت میں سے ہیں۔ آپ بھول نہ جائیں کہ ایسی بے مثال اور اعلیٰ ترین روحانی ترقی کا وسیلہ اطاعت و محبت ہی  ہے۔

حضرتِ مولا علی صلوات اللہ علیہ نے سلمان کے بارے میں فرمایا: علم العلم الاول و العلم الآخر، و ھو بحر لا ینزف = (سلمان) علمِ اوّل اور علمِ آخر کا منارہ اور نشان ہے، اور وہ ایک ایسا سمندر ہے جو (استعمال کرنے سے) کبھی ختم نہیں ہوتا۔ (کتاب المجالس و المسایرات، ص۵۶، از سیدنا قاضی نعمان)۔

حکمت۔۳۳: انسانِ کامل کا عالمِ شخصی ربّانی علم و حکمت کے عجائب و غرائب اور تمام معجزات کا کارخانہ ہوا کرتا ہے، منجملہ ایک بہت بڑا معجزہ یہ بھی ہے کہ خداوندِ عالم شخصِ کامل کی ہستی کے سانچے میں ڈھال ڈھال کر فرشتے بنا دیتا ہے، یہ فرشتے اس عظیم المرتبت انسان کی کاپیاں بھی

۳۵

ہیں، یہ معجزہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اپنے وقت میں طیر (پرند) کی مثال پر کرتے تھے (۳: ۴۹، ۵: ۱۱۰) حضرت موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیہما السّلام کے نزدیک یہ رحمتِ الٰہی مومنین کو ملوک و سلاطین بنانے کے لئے ہے (۵: ۲۰) اور اللہ تعالیٰ کا یہ سب سے بڑا انعام ہر زمانے میں ممکن ہے۔

حکمت۔۳۴: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، اننی اخذ الوحی عن جبریل، و جبریل یاخذہ عن میکائیل، و میکائیل یاخذہ عن اسرافیل و اسرافیل یاخذہ عن اللوح و اللوح یاخذہ عن القلم= یقیناً میں وحی جبرائیل سے حاصل کر لیتا ہوں، جبرائیل میکائیل سے لیتا ہے، میکائیل اسرافیل سے لیتا ہے، اسرافیل لوحِ محفوظ سے لیتا ہے، لوحِ محفوظ قلم سے لیتی ہے۔ پس اسی طرح پانچ حدودِعلوی سے ناطقوں کو تائید حاصل ہوتی ہے، جن کا ذکر ہوا، پھر نطقاء اور مستجبین کے درمیان علم و ہدایت کے لئے پانچ حدودِ سفلی ہیں: اساسان، امامان، حجتان، نقیبان (صاحبانِ جزائر) اور داعیان (اجنحہ)۔ (کتاب اساس التاویل، ص ۷۰)۔

حکمت۔۳۵: مذکورہ کتاب کے ص ۳۴۱ پر یہ حدیث اور اس کی مختصر تاویل اس طرح درج ہے: اتقوا فراسۃ المومن فانہ ینظر بنور اللہ، یعنی الامام = مومن کی فراست سے ڈرتے رہو، کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا رہتا ہے، یعنی امام کی فراست سے (جامعِ ترمذی، جلدِ دوم، تفسیر سورۂ حجر)۔

یقیناً یہاں مومن سے امامِ عالی مقام ہی مراد ہے، کیونکہ وہ امیر المومنین ہے

۳۶

اس لئے زمانے میں اوّل المومنین وہی ہے، اور نورِ الٰہی کا حامل بھی وہی ہے، اس کے برعکس ہر عام مومن یہ سوچ بھی نہیں سکتا، کہ وہ خدا کے نور کی روشنی میں دیکھتا ہے، سمجھنے والوں کے لئے اس حدیثِ شریف کا پہلا اشارہ ہی کافی ہے کہ جن کو ڈرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ الگ ہیں اور زیادہ، اور جس کی فراست سے ڈرنا چاہئے، وہ الگ ہے اور صرف ایک، ہوشمندوں کے لئے اتنا کہنا کافی ہے۔

حکمت۔۳۶: سورۂ توبہ (۹: ۱۰۵) میں ارشاد ہے: و قل اعملوا فسیری اللہ عملکم و رسولہ والمومنون = اور ان سے کہہ دو کہ عمل کئے جاؤ، خدا اور اس کا رسول اور مومنین تمہارے اعمال کو دیکھ لیں گے۔ بقولِ حضرتِ امام جعفر الصادق علیہ السلام یہاں مومنون سے حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام مراد ہیں (ملاحظہ ہو: کتاب دعائم الاسلام، عربی، جلد اوّل، ص ۲۱)۔

قولہ تعالیٰ : یایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصٰدقین (۹: ۱۱۹)۔ اے ایمان والو! خدا سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔ اس قرآنی تعلیم کو غور سے دیکھ لیں، ایک طرف وہ سارے لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور دوسری طرف صادقین، یعنی أئمّۂ آلِ محمدؐ ہیں، ایسے میں قرآنِ پاک کا حکم ہے کہ اہلِ ایمان اللہ سے ڈرتے ہوئے سچوں کی پیروی کریں، اور علم و عمل میں ان کے ساتھ ہو جائیں۔

۳۷

حکمت۔۳۷: حدیثِ نبوی ہے: الخلق کلھم عیال اللہ فاحبھم الی اللہ انفعھم لعیالہ= مخلوق سب کی سب (گویا) اللہ کا کنبہ ہے، لہٰذا جو اس کے کنبے کو زیادہ فائدہ پہنچائے گا، وہی اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہو گا۔ (مجمع البحرین، ص ۷۰، بحوالۂ طبرانی و بیہقی)۔

جب حضرتِ ربّ العالمین اہلِ زمانہ کو ان کے امامِ وقت کے ساتھ بلا لیتا ہے تو اسی دوران اُن سب کو دوزخِ جہالت سے نجات مل جاتی ہے، کیونکہ یہ واقعہ: یوم ندعوا کل اناس بامامھم (جس دن ہم اہلِ زمانہ کو ان کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے) قیامتِ صغریٰ بھی ہے، اور دینِ حق کی طرف زبردستی دعوت بھی (۱۷: ۷۱) دنیا بھر میں جو عیال اللہ ہے، اس کے حق میں اس سے بڑا مفید کام کوئی اور ہرگز نہیں کر سکتا۔

حکمت۔۳۸: روی عن رسول اللہ (ص) انہ قال لعلی (ع): انت ربان ہٰذہ الامۃ، و ذوقرینھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے حضرت مولا علیؑ سے فرمایا: تم اس امت کا مرّبی ہو، اور اس کا ذوالقرنین ہو۔ (المجالس المویدیہ، المائۃ الاولی، ص ۳۳۵) آپ سب اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ ہر وہ آیۂ کریمہ اور ہر ایسی حدیثِ صحیحہ جو مولاعلی علیہ السّلام کی شان میں وارد ہوئی ہے، وہ ہر زمانے کے امام سے متعلق ہے، کیونکہ نورِعلی جو خدا و رسول کا نور ہے، وہ امامت کے پاک سلسلے میں جاری و ساری رہا ہے، جس سے لوگوں کی روحانی وعقلانی پرورش ہوتی رہتی ہے، اور

۳۸

یہ مرّبی جو اللہ و رسول کی جانب سے مقرر ہوا، وہ ہمیشہ دنیا میں موجود ہے۔

حکمت۔۳۹: مذکورہ کتاب کے صفحہ ۲۱۲ پر ہے: خدا کے اسماء دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک قسم کے اسماء وہ ہیں، جو ملفوظ اور حروفِ تہجی سے مرکب ہوتے ہیں، جن کو کوئی کاتب لکھتا ہے، اور کبھی کبھار کسی وجہ سے مٹاتا بھی ہے، اور دوسرے اسماء زندہ، گویندہ، دانا اور اشرف ہوا کرتے ہیں، جیسے انبیاء، اوصیاء، اور أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہیں، جو بیرق و نشانِ آخرت، دلائلِ توحید، اور عبد و معبود کے درمیان وسیلہ اور واسطہ ہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کے یہ اسماء الحسنیٰ (۷: ۱۸۰، ۱۷: ۱۱۰، ۲۰: ۸، ۵۹: ۲۴) کیسی کیسی بے شمار برکتوں کے خزانے ہیں! ان میں کتنی عجیب و غریب روح پرور اور ایمان افروز روشنیاں ہیں! پس کوئی شک ہی نہیں کہ خدائے رحمان و رحیم کا اسمِ اکبر، اسمِ اعظم، سب سے بڑا نام، اور نقشِ مکرم امامِ زمان صلواۃ اللہ علیہ و سلامہ ہے، الحمد للہ۔

حکمت۔۴۰: قرآنِ کریم کی جتنی آیاتِ مبارکہ ’’کُلّ‘‘ کے عنوان کے تحت وارد ہوئی ہیں، وہ یقیناً کلّیات (ہمہ گیر قوانین) ہیں، ان میں بار بار غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، جیسے ارشاد ہے: کل شیءٍ ہالک الا وجھہ لہ الحکم و الیہ ترجعون (۲۸: ۸۸) اس کے (پاک) چہرے کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے، اسی کا امر ہے، اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔

۳۹

آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ ہلاکت و فنائیت ایسی ہرگز نہیں، جس کو عدمِ محض کہا جائے، بلکہ یہ اشیائے کائنات کو دستِ قدرت سے لپیٹ لینے کے معنی میں ہے، ایسے میں ہر شیٔ وجہ اللہ کے سامنے غیر شعوری طور پر فنا ہو جاتی ہے، مگر صرف عارف ہی ہے، جو شعوری اور عرفانی طور پر فنا فی اللہ کی سب سے بڑی سعادت حاصل کر لیتا ہے، عزیز دوستو! آؤ، ہم سب مل کر دعا کریں کہ اللہ ہمیں توفیق و ہمت عطا فرمائے! تاکہ ہم قرآنِ عظیم کی کچھ خدمت کر سکیں، آمین!

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

پیر، ۲۵ ذوالحج ۱۴۱۴ھ، ۶ جون ۱۹۹۴ء

۴۰

قیامت اور معرفت

س۔۱: اے نورِعینِ من! مجھے اس کا جواب دو کہ اللہ تعالیٰ نے جنّ و انس کو کس مقصدِ عالی کے پیشِ نظر پیدا کیا؟

ج: حق سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کے لئے۔

س۔۲: اے عزیز! کیا تم یہ بتاسکتے ہو کہ حقیقی عبادت کے لئے سب سے ضروری شرط کون سی ہے؟

ج: جی ہاں! عرض کرتا ہوں کہ قابلِ قبول عبادت کی سب سے اہم شرط یقین یعنی معرفت ہے، جیسا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: لا عمل الا بنیۃ و لا عبادۃ الا بیقین، و لا کرم الا بالتقویٰ = نیت کے بغیر کوئی عمل نہیں، اور یقین (معرفت) کے بغیر کوئی عبادت نہیں، اور تقویٰ کے بغیر کوئی بزرگی نہیں۔ (دعائم الاسلام، جلد اوّل، عربی ص ۱۰۵)۔

س۔۳: اے نورِ چشمِ من! معرفت جو یقین کے معنی میں ہے۔ اس کے کتنے درجے ہیں؟ اور وہ درجات کن ناموں سے مشہور ہیں؟

ج: یقین کے تین درجے ہیں: علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین ۔

۴۱

س۔۴: اے عزیزانِ من! اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ زمانی اعتبار سے ہر مومن اور مومنہ کے لئے معرفت پہلے آتی ہے یا قیامت؟

ج: ایک معرفت قبل از انفرادی قیامت ہے، دوسری معرفت قیامت کے ساتھ ساتھ ہے، اور تیسری قیامت کے بعد ہے، یعنی علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین۔

س۔۵: اے میرے دل کے عزیزان ! آپ یہ سمجھائیں کہ انفرادی قیامت یا قیامتِ صغریٰ کب واقع ہوتی ہے؟ اس میں اور قیامتِ کبریٰ میں کیا فرق ہوتا ہے؟

ج: جو شخص اسمِ اعظم کی خصوصی عبادت و ریاضت کے ذریعہ سے قبل از جسمانی موت نفسانی طور پر مرجاتا ہے، اس کی قیامت برپا ہو جاتی ہے، جیسا کہ ارشادِ نبوی ہے: من مات فقد قامت قیامتہ = جو کوئی مرتا ہے، اس کی قیامت برپا ہو جاتی ہے (احیاء ُ العلوم، جلدِ چہارم، ص ۱۰۶) قیامتِ صغریٰ ہر امام کے زمانے میں ہوتی ہے (۱۷: ۷۱) اور قیامتِ کبریٰ حضرتِ قائم کے زمانے میں، تاہم روحانی اور باطنی طور پر ہر قیامت ایک جیسی ہوا کرتی ہے۔

س۔۶: اے نورِ نظر! تم قرآنِ پاک کی روشنی میں یہ تو بتاؤ کہ لفظِ یقین کس طرح معرفت کا ہم معنی (مترادف) ہو سکتا ہے؟

ج: ارشاد ہے: و کذالک نری ابراہیم ملکوت السمٰوٰت

۴۲

و الارض و لیکون من الموقنین (۶: ۷۵)۔ اور ہم اسی طرح ابراہیم کو زمین اور آسمانوں کا نظامِ سلطنت دکھاتے تھے، تاکہ وہ یقین کرنے والوں (اہلِ معرفت) میں سے ہو جائے۔

س۔۷: اے دوستانِ عزیز! کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ کن کن اسرارِ خفی کی معرفت ممکن ہے؟ اور وہ اشیاء کون سی ہیں جن کی معرفت غیر ممکن ہے؟

ج: جب حضرتِ ربّ کی معرفت ممکن ہے تو پھر ہر عظیم شے کی معرفت ممکن ہے، مثلاً عرش و کرسی، لوح و قلم، بہشت و دوزخ، کتبِ سماوی، ملائکہ، انبیاء و اولیاء (أئمّہ)،  ارواح، وغیرہ۔

س۔۸: عزیز ساتھیو! آپ میں سے کوئی سینیر یہ بتائے کہ ہر عظیم شیٔ کا مشاہدۂ باطن کس طرح ممکن ہو جاتا ہے؟

ج: جیسا کہ حدیثِ قدسیٔ نوافل کا ارشاد ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندۂ خاص کی آنکھ ہوجاتا ہے جس سے وہ مراحلِ روحانی اور مقاماتِ عقلانی کے حقائق و معارف کو دیکھتا ہے، اور یقیناً ایسی آنکھ جس میں خدا کا نور کام کر رہا ہو، اسرارِ ازل و ابد کو لوحِ محفوظ میں دیکھ سکتی ہے۔

س۔۹: اے برادران و خواہرانِ روحانی! خوش بختی سے آپ پر اسرارِ امامت منکشف ہو گئے ہیں، لہٰذا آپ میں سے کوئی عزیز یہ بتائیں کہ امامِ مبین کا نورِ اقدس جو زندہ و گویندہ لوحِ محفوظ

۴۳

ہے، اس میں قرآنِ کریم اور ہر چیز کس طرح محفوظ ہے؟

ج: (الف) قرآن ظاہراً ایک کتاب اور باطناً ایک نور ہے، وہ نور باطن میں نورِ امامت کے ساتھ ایک ہے۔

(ب) امامِ اقدس و اطہر کی عقل و جان عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کے نام سے دو انتہائی عظیم فرشتے ہیں، اور یہی قلمِ الٰہی اور لوحِ محفوظ بھی ہیں، چنانچہ ان میں قرآن اور ہر چیز اپنی ازلی صورت و حرکت کے ساتھ موجود و محفوظ ہے۔

(ج) عالمِ بالا کا دوسرا نام لامکان ہے، وہ اس مادّی کائنات کے برعکس ہے، اس میں ماضی بھی نہیں، مستقبل بھی نہیں، صرف حال ہی حال ہے، کیونکہ وہاں زمانِ ناگزرندہ (دہر) ہے، جس میں تمام ازلی وعقلی چیزوں کا تجدّد ہوتا رہتا ہے۔

س۔۱۰: اے میرے بہت ہی عزیز روحانی بھائیو اور بہنو! کیا آپ اس حقیقت کی کوئی روشن دلیل پیش کرسکتے ہیں کہ قرآن اور امام کے نورِواحد کا باطنی دیدار ممکن ہے، اور اس کے اسرارِ ازل کا مشاہدہ ہوسکتا ہے؟

ج: جی ہاں، ان شاء اللہ، سورۂ نمل کا پرحکمت خاتمہ اس طرح ہے: و قل الحمد للہ سیریکم اٰیٰتہ فتعرفونھا (۲۷: ۹۳) ان سے کہو، تعریف اللہ ہی کے لئے ہے، عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے گا، اور تم انہیں پہچان لوگے۔ یعنی

۴۴

عقلِ کلّ (الحمد = حمد) اللہ ہی کا ہے، وہ تمہیں اسی مرتبۂ عقل پر اپنی آیات (قلم، لوح، قرآن، وغیرہ) دکھا دے گا، اور تم ان کی روحانی اور عقلی معرفت حاصل کرو گے۔ آفاق و انفس کی تمام آیات (معجزات = نشانیاں، ۴۱: ۵۳) جو حصولِ معرفت کے لئے ضروری ہیں، وہ سب کی سب قرآن اور امام کے نورِ واحد میں محدود و مرکوز ہیں (۳۶: ۱۲)۔

س۔۱۱: اے برادران و خواہرانِ ایمانی ! آپ کو اس حقیقت کا علم ہے کہ حضرتِ مولا علی علیہ السّلام کی علمی فضیلت و برتری تقریباً سب مسلمانوں کے نزدیک مسلّمہ ہے، لہٰذا آپ ان کے اس منظوم کلام سے کوئی حکمت بیان کریں: و تحسب انک جرم صغیر + و فیک النطوی العالم الاکبر = اور تو خیال کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے۔ و انت الکتاب المبین الذی + باحرفہ یظھر المضمر = اور تو وہ کتابِ مبین ہے جس کے حرفوں سے پوشیدہ راز ظاہر ہوتے ہیں۔

ج: اگرچہ بنظرِ ظاہر یہ بیرونی کائنات عالمِ اکبر ہے، اور انسان عالمِ اصغر، لیکن حقیقت میں آدمی خود عالمِ اکبر ہے، کیونکہ آسمانوں اور زمین کو عالمِ شخصی میں لپیٹ لیا جاتا ہے، جیسے قرآنِ حکیم میں اس کا ذکر آیا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) اور یہ سب سے بڑا معجزہ اُس وقت ہوجاتا ہے، جبکہ مومنِ سالک امامِ برحق علیہ السّلام میں فنا ہو جاتا ہے، اسی حال میں مومنین و مومنات کو نور حاصل ہو جاتا ہے (۵۷: ۱۲، ۵۷: ۱۹، ۶۶: ۸)

۴۵

اور وہ بولنے والی کتاب ہو جاتے ہیں، جس میں اسرارِ معرفت ہیں۔

س۔۱۲: اے طالبانِ حقیقت! حضرت امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام جو کتابِ مبین کے لئے نور و معلم بھی ہے (۵: ۱۵) اور قرآنِ ناطق  بھی — بھی (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) اس سے بھرپور علمی و عرفانی فائدہ اٹھانے کے لئے کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟

ج: مکمل اطاعت و فرمانبرداری اور کامل محبت و عشق کے ذریعہ سے امامِ عالی مقام میں فنا ہو جانا، تا کہ قیامتِ صغریٰ برپا ہوجائے، اور مولائے پاک کا مقدّس نور کتابِ ناطق اور نامۂ اعمال کے طور پر کام کرے، یہ سب کچھ اسی زندگی میں ممکن ہے، تا کہ مومنین و مومنات کے لئے علم و معرفت کی لازوال دولت مہیا ہوسکے۔

س۔۱۳: میرے بہت ہی عزیز دیندار بھائیو اور بہنو! آپ اور تمام اہلِ ایمان پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کا درود نازل ہو! (۳۳: ۴۳) آپ یہ بتائیں، کہ ایسے درود کا نتیجہ و ثمرہ کیا ہے؟ اور وہ عظیم فرشتے کون ہیں جو ایمان والوں پر درود بھیجتے ہیں؟

ج: چونکہ یہ درود اہلِ ایمان کو جہالت و نادانی کی تاریکیوں سے نورِعقل کی طرف لانے کے لئے ہے، اس لئے یہ کہنا حقیقت ہے کہ درود کا میوۂ روح پرور علم و حکمت ہی ہے، اور خداوندِ بزرگ و برتر کے بعد صلوٰۃ بھیجنے والے فرشتے آسمان پر عقلِ کلّ

۴۶

اور نفسِ کلّ ہیں، اور زمین پر ناطق و اساس، جن میں دوسرے تمام آسمانی اور زمینی فرشتے جمع ہیں، پس امامِ زمان جو دعائے برکات فرماتے ہیں، وہ حقیقت میں درود ہے، جس کا ذکر سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) میں ہے۔

س۔۱۴: اے برادران و خواہرانِ حقیقی! روح ہر جا حاضر ہے، یعنی کائنات بھر میں موجود ہے اور آپ بھی بتائیں کہ روح کے اعلیٰ سے اعلیٰ اوصاف کیا ہیں؟

ج: انسانی روح نورِ الٰہی کا عکس ہے، جیسے آئینے میں آفتاب کا عکس ہوتا ہے، وہ ظلِّ الٰہی ہے، وہ کنزِ مخفی ہے، وہ مونوریالٹی ہے، وہ حقیقتِ حقائق ہے، وہ نفسِ واحدہ اور نفسِ کلّ ہے، وہ جانِ جان اور جانان ہے، وہ مولا ہے، اور مولا ہی ہماری آخری اور اصل روح ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

گلگت

۱۲ ذی الحجہ ۱۴۱۴ھ، ۲۴ مئی ۱۹۹۴ء

۴۷

جوہرِ کائنات

۔۱۔ دنیا کی ہر چیز قانونِ جوہر کی بدولت قائم ہے، مثال کے طور پر جمادات کا جوہر نباتات ہیں، نباتات کا نچوڑ حیوانات، حیوانات کا خلاصہ انسان ہیں، اور انسانوں کا جوہر انسانِ کامل، کیونکہ وہ فعلاً و عملاً عالمِ شخصی ہو چکا ہے، اور اس میں بطورِ خلاصہ ہر چیز آگئی ہے۔

۔۲۔ معدنیات اور قیمتی پتھر مٹی اور پہاڑوں کے جوہر ہیں، موتی سمندر کے جوہر، پھول پھل درخت کا نچوڑ ہیں، مغز پھل کا خلاصہ ہے، تیل مغز کا ست اور روشنی تیل کا جوہر ہے۔

۔۳۔ گھاس سے کہیں دودھ نہیں بن سکتا، مگر گائے وغیرہ کے کارخانۂ باطن میں پھولوں اور پھلوں سے اصل شہد کوئی نہیں بنا سکتا، مگر اس کام کی صلاحیت شہد کی مکھی کو عطا کی گئی ہے، الغرض دودھ کا خلاصہ مکھن اور پھولوں کا خلاصہ شہد ہے۔

۔۴۔ حقیقی مومنین اور اللہ کے دوست حلال ماکولات و مشروبات سے ذکر و عبادت اور علم و عمل کا جوہر بناتے ہیں، یہ جوہر کسی شک کے بغیر ایک نور ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ جو جو جواہر جمادات، نباتات، حیوانات، اور عام انسانوں سے بناتا رہتا ہے، ان سے کہیں زیادہ بہتر جواہر کاملین و مومنین

۴۸

سے بناتا ہے۔

۔۵۔ اب ہم نتیجے کے طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب آدمی روحانیت و عقلانیت کے درجۂ کمال کو حاصل کر لیتا ہے، تو وہ یقیناً جوہرِ کائنات ہو جاتا ہے، ایسے میں مکان و زمان کی تمام چیزیں اس کی طرف مرکوز ہو جاتی ہیں، جوہرِ کائنات کہیں یا گوہرِ کائنات مطلب ایک ہی ہے، اس گوہر یا جوہر میں بے شمار جواہر کی یک جائی اور وحدت ہے، اس لئے اس کے بے حساب اسماء و امثال ہیں، آپ قرآنِ حکیم میں گوہرِ کون و مکان کے زیادہ سے زیادہ ناموں اور مثالوں کو جاننے اور پہچاننے کے لئے سعی کریں، تا کہ اس عمل سے آپ کی تاویلی حکمت میں اضافہ ہو سکے، ان شاء اللہ۔

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

راول ہوٹل، راولپنڈی

جمعہ، ۸ ذی الحجہ ۱۴۱۴ھ، ۲۰ مئی ۱۹۹۴ء

۴۹

حکمت آموز نصیحت

۔۱۔ اے نورِعینِ من! اے عزیزِ من! نورِ حق کا عاشقِ صادق ہوجاؤ، کیونکہ تم کو اسلام کا ایک خاص مقام مل گیا ہے، اور اس مقصدِ عالی کے تمام تر وسائل مہیا ہیں، دیکھو، سوچو، دنیا کے بےشمار انسانوں میں تمہارا دینی مرتبہ کیا ہے؟ ذرا پیچھے کی طرف مڑ کر جائزہ لو، کتنے لوگ ہوں گے، جو تمہاری منزل سے بہت ہی دور اور بہت ہی پیچھے ہیں؟

۔۲۔ اے نورِ چشمِ من! میں مانتا ہوں کہ تم کئی اعتبار سے اچھے ہو، تمہاری خوش نصیبی اور سعادت مندی ہے، اسی لئے میں کہہ رہا ہوں کہ تم اپنی نیک بختی سے فائدہ اٹھاؤ، اور علم وعبادت میں خوب ترقی کرو، تم عالمِ اسلام کے ایک ایسے مذہب میں ہو کہ اس میں ترقی ہی ترقی ہے، پس سعی کرو اور آگے بڑھو، تا کہ آخرت میں کم ترقی ہونے کی وجہ سے کوئی افسوس نہ ہو۔

۔۳۔ اے نورِ نظر! لختِ جگر! ذکر وعبادت کی غرض سے شب خیزی کی عادت بنا لو، مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات کے پرنور وسیلے سے عشق و فنا کے سمندر میں غوطہ زنی کرو، تا کہ اس سے آئینۂ قلب پاک صاف ہو، پھر اس میں ان شاء اللہ عالمِ عُلوی کی تجلّیات دیکھو گے، اور اس کے نتیجے میں عشقِ سماوی مستحکم ہو گا۔

۵۰

۔۴۔ اے نورِ دیدۂ من! حقیقی علم نور و سرور کا راستہ ہے، تم اس پر گامزن ہو جاؤ، اور خداشناسی کے بھیدوں کو حاصل کرتے رہو، اگر روز بروز علمی دولت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، تو دل و جان سے شکر کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو جائے، اور اس کی عطا کردہ نعمتیں برقرار رہیں۔

۔۵۔ اے میرے دل کے عزیزان! یہ زمانہ جس میں آپ دنیا میں آئے دورِ قیامت اور دورِ تاویل ہے، اس میں آپ سب کو حضرتِ قائم علیہ السّلام کے علمی لشکر میں بڑی شکرگزاری کے ساتھ شامل ہوجانا ہے، کیونکہ اب تاویلی جنگ بڑے زوروں پر جاری ہے۔

۔۶۔ میرے بہت ہی عزیز ساتھیو! ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی جب سب سے بڑی طاقت علم و دانش ہی ہے تو علمی حرب سب سے بڑی حرب کیوں نہ ہو، اگر یہ بات حقیقت ہے تو یہ کہنا بھی درست ہوگا، کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا آسمانی لشکر معزز ہے، اسی طرح زمینی لشکر بھی معزز ہے، جیسے سورۂ فتح (۴۸: ۴، ۴۸: ۷) میں ارشاد ہے: و للہ جنود السمٰوٰت و الارض = اور لشکرِ سماوی و ارضی خدا ہی کے ہیں۔

۔۷۔ دوستانِ عزیز! کوئی ایک اکیلی خوشی کی بات نہیں، بلکہ خوشیوں اور شادمانیوں کا ایک طوفانی عالم ہے، اب بہت زیادہ شکرگزاری کی ضرورت ہے، اور وہ برستے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ ہونی چاہئے، تا کہ خداوندِ قدوس اپنی رحمتِ بے پایان سے ہم سب پر مہربان ہو جائے،

۵۱

اور ہم کو فخر وغرور کی بیماری سے بچائے، کیونکہ انسان از خود ہر حالت میں کمزور ہوتا ہے۔

۔۸۔ اے یارانِ طریق! آپ سب کے سب مل کر اپنی ظاہری و باطنی قوّتوں سے غریب استاد کو آگے بڑھا رہے ہیں، اور یہ بھی ایک بہت بڑی دائرہ نما حکمت ہے کہ استاد و شاگرد ایک دوسرے کو بنا رہے ہیں، جس طرح آدم سے حوّا کی تخلیق، اور حوّا سے آدم کی تکمیل ہوئی، نیز عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ایک دوسرے سے پیدا ہوئے، جیسا کہ حضرتِ پیر کا قول ہے: ز یکدیگر بزادند آن دو گوہر = وہ دونوں گوہر ایک دوسرے سے پیدا ہوگئے۔

۔۹۔ اے میوہ ہائے دلِ ما! جب آپ کو یقین ہے کہ آپ کی علمی خدمت قابلِ صد ستائش ہے، کیونکہ یہ مقدّس خدمت سب سے پہلے قرآن اور  اسلام کی ہے، پھر ملک، قوم، جماعت اور انسانیت کی ہے تو پھر آپ کسی بات کی پرواہ کئے بغیر اپنا کام کرتے جائیں، ان شاء اللہ، مزید ترقی اور نیک نامی ہوگی، اور خداوندِ قدوس کی خوشنودی سب سے بڑی ہے۔

۔۱۰۔ اے برادران و خواہرانِ روحانی! جس طرح پرندوں کے دو دو پر ہوتے ہیں، اسی طرح آپ کے طائرِ جان کے بھی دو پر (بازو) ہیں، ان میں سے ایک عبادت کا ہے، اور دوسرا علم کا، جیسے پرندے تلاشِ رزق کے لئے اپنے پروں کو کثرت سے استعمال کرتے رہتے ہیں، اسی طرح آپ بھی علم و عبادت کے دونوں پروں سے بکثرت پرواز کرتے رہیں، تا کہ

۵۲

بصورتِ تائیدی علم آپ کو رزق ملے۔

۔۱۱۔ اے میرے بہت ہی عزیز قلبی دوستو! آپ ازل کی حقیقت جاننے کے لئے کوشش کریں، ازل دراصل ماضیٔ بعید کا نام نہیں، بلکہ یہ روحانیت کی انتہائی بلندی پر مرتبۂ عقلانیت کا نام ہے، بالفاظِ دیگر عالمِ شخصی میں جو روحانی سفر ہے، اس کی منزل یا منزلِ مقصود ازل ہی ہے، جہاں ابد بھی ہے، یہ وہ عالی شان مقام ہے، جس میں انسان کی انائے عُلوی خدا کے نور سے کبھی جدا نہیں ہوئی۔

۔۱۲۔ اے دوستانِ حمیم! یقیناً آپ حصولِ علم اور اس کی خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں، زہے نصیب! آپ کو نور اور کتابِ مبین کے بھیدوں کا علم مل رہا ہے، آپ علم الیقین سے مطمئن ہیں، آپ چاہتے ہیں کہ یہ نعمتِ خداوندی دنیا میں عام ہو جائے، اسی معنیٰ میں آپ سب کے خیر خواہ ہیں۔

۔۱۳۔ اے قرآنِ پاک اور امامِ مبین کے عاشقو! یہ اسی بابرکت عشق ہی کا ثمرہ ہے کہ آپ ہر وقت علم و حکمت کے جواہر کو چاہتے ہیں، اور حاصل بھی کر لیتے ہیں، آپ کی کتنی فیاضی ہے کہ یہ انمول موتی اور یہ بیش بہا لعل و گوہر دوسروں کو بھی دے رہے ہیں، آپ بڑے خوش نصیب ہیں کہ نہ صرف قیمتی موتیوں کی جمع آوری ہی سے شادمان ہوجاتے ہیں، بلکہ ان کو بانٹتے ہوئے بھی ازحد خرسند ہو رہے ہیں۔

۔۱۴۔ اے پاک فطرت و راسخ العقیدت مومنین و مومنات! الحب للہ (خدا کے لئے یعنی خدا کی وجہ سے محبت کرنا) یہ ہے کہ ہم قرآنِ حکیم

۵۳

اور امامِ آلِ محمدؐ سے محبت کریں، اور اس پاک و پاکیزہ محبت کو ترقی دے کر درجۂ کمال پر کیمیائے عشق بنائیں، تا کہ اس سے ہر باطنی بیماری کا علاج ہو، میں نے کچھ درویشوں کو دیکھا جو بطرزِ گریہ و زاری ’’نورِ عشق‘‘، ’’نارِ عشق‘‘ کہتے ہوئے پگھل رہے تھے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ سماوی عشق سب سے بڑا انقلاب ہے، جس میں سب کچھ ہے، میرا عقیدہ یہ ہے کہ ۔۔۔ اشد حبا للہ (۲: ۱۶۵، اللہ کے لئے بہت سخت محبت = عشق) براہِ راست ممکن نہیں جبکہ حضرتِ ربّ کی ہدایت، اطاعت اور دوسری تمام چیزیں بالواسطہ ممکن ہوا کرتی ہیں۔

۔۱۵۔ اے ہمارے بہت ہی پیارے ارضی فرشتو! شیطان اور نفسِ کافر پر شعلہ ہائے سوزان برسانے کے لئے نورِ عشق اور نارِ عشق کی سخت ضرورت ہے، تا کہ جس سے وہ مغلوب ہو کر مسلمان ہو جائیں، یا ہم کو مزید نہ ستائیں، پھر اس جہادِ اکبر میں کامیابی کے بعد علم وعبادت کی حلاوت و مسرّت میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔

۔۱۶۔ اے سالکانِ راہِ حقیقت! قرآنی حکمتیں ہر زمانے کے لئے ہیں، چنانچہ بنی اسرائیل کے لئے خداوندِ عالم کا یہ حکم ہوا کہ تم اس گاؤں کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہو جاؤ (۲: ۵۸، ۴: ۱۵۴، ۷: ۱۶۱) اور اس میں سب کے لئے یہ اشارہ موجود ہے کہ بفرمودۂ رسول اسلام میں بھی ایک ایسا دروازہ ہے، جس میں سجدہ کرتے ہوئے خوش نصیب لوگ پیغمبرِ اکرم کے علم و حکمت میں داخل ہو سکتے ہیں۔

۵۴

۔۱۷۔ اے نورِ امامت کے پروانو! آپ سب کو یہ عظیم الشّان فتح مندی اور کامیابی ہزار بار مبارک ہو! کہ آپ کی علمی و ادبی کوششوں کے ثمرات دور دور تک پھیل رہے ہیں، اگر امامِ زمان کی خوشنودی اور پاک دعا حاصل نہ ہوتی تو یہ سچ ہے کہ ہم جیسے حقیر انسانوں سے اتنا بڑا کام ہرگز نہ ہوتا، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ احسانِ عظیم اسی کا ہے۔

۔۱۸۔ علیٔ زمان کے دوستدارو! جس طرح قیامِ بدن کے لئے ہر روز جسمانی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح روح کے لئے ذکر وعبادت اور عقل کے لئے علم و حکمت از حد ضروری ہے، اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ جسمانی نعمتوں کے مقابلے میں روحانی اور عقلی نعمتیں بدرجہ ہا لذیذ تر اور بالاتر ہوا کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ارضی و سماوی فرشتے ہمیشہ ذکر و عبادت اور علم و حکمت میں مصروف رہتے ہیں، اور اسی عمل سے وہ پرنور ہو جاتے ہیں۔

۔۱۹۔ اے اہلِ سعادت! حضرت مولانا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ و سلامہ نے ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم کو ایک دوستانہ خط لکھا تھا، جس کی تاریخ ۲۲ مئی ۱۹۵۰ء درج ہے، اس خط میں امامِ عالی مقام نے تصورِ یک حقیقت (مونوریالٹی) کی طرف توجہ دلائی ہے، اور یہی تصور ’’اسلام میرے مورثوں کا مذہب‘‘ میں بھی ہے، میرے خیال میں یہ دورِ قیامت اور دورِ تاویل کا سب سے بڑا انقلابی تصور ہے، لہٰذا اس میں بہت زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے، میرا عاجزانہ مشورہ یہ ہے کہ ’’یک حقیقت‘‘ کو

۵۵

سمجھنے کے لئے خود امام سلطان محمد شاہ علیہ السلام کے ان ارشادات کو خوب غور سے پڑھا جائے جو روحِ مومن کی امکانی ترقی سے متعلق ہیں۔

۔۲۰۔ میرے بے حد عزیز روحانی احباب! میرے ماں باپ آپ سے فدا! میری روح آپ سے قربان! آپ پگھلتے ہوئے دل سے دعا کریں کہ امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کی خوشنودی اور پاک دعا حاصل ہو! آمین یا ربّ العالمین۔

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

منگل ۲۴ محرم الحرام ۱۴۱۵ھ، ۵ جولائی ۱۹۹۴ء

۵۶

جماعت خانہ

جماعت خانہ

 

ترجمۂ فرمان مبارک

 

مورخہ ۹، اکتوبر ؁۱۹۶۱ء

 

میرے عزیز رُوحانی فرزند

 

مجھے تمہارا برقیہ موصول ہوا، اور میں تمہاری فداکارانہ خدمات کے عوض میں اپنی بہترین شفقت آمیز مبارک دعائیں دیتا ہوں۔ میں یہ جان کر بہت ہی خوش ہوا ہوں کہ تم نے ہونزائی زبان میں گنان کی کتاب مکمل کر دی ہے۔

تمہارا مشفق

آغاخان

الواعظ نصیر الدین نصیر ھونزائی

بمعرفت: ایچ۔ایچ۔آغاخان اسماعیلیہ کونسل

راولپنڈی

مغربی پاکستان

 

ج

 

حصۂ اول

 

 

مولا کس کو چاہتے ہیں؟

 

مولائے پاک اگرچہ سب کو چاہتے ہیں، لیکن دینی خدمت کیلئے جوانوں کو زیادہ پسند فرماتے ہیں، ایک ایسا عالی ہمّت جوان، جن سے علمی خدمت کی بھرپور توقع کی جا سکتی ہے، عزیزم غلام مصطفیٰ قاسم علی (مومن) ہیں، جن کا مختصر تعارف قبلاً ہوچکا ہے، ان سے نیک بختی اور علم دوستی کی علامات ظاہر ہوجاتی ہیں، باقاعدہ ملاقات سے پیشتر میں نے ان کی تعریف سنی تھی، سچ مچ وہ ایک ارضی فرشتہ ہیں، آپ سب اِس پُرخلوص دعا میں شامل ہوجائیں کہ خداوند تعالیٰ ان کے اور ان کے عزیزوں کے قلوب کو نورِعلم کی ضیأ پاشی سے منور کر دے! آمین یا ربّ العالمین!!

 

نصیر الدّین نصیر ھونزائی

کراچی

۲۷، رجب المرجب ۱۴۱۴ھ ۱۰ جنوری ۱۹۹۴ء

 

۳

 

دیباچہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا پاک و پُرحکمت ارشاد ہے: اللہ نور السمٰوٰت والارض ۔۔۔۔ بالغدو والاٰصال  (۲۴: ۳۵ تا ۳۶) خدا (عالمِ شخصی کے) آسمانوں میں زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق، جس میں ایک روشن چراغ ہو، اور چراغ شیشے کی قندیل میں ہو (اور) قندیل (اسقدر شفاف ہے کہ) گویا موتی کی طرح چمکتا ہوا ایک ستارہ ہے (وہ چراغ) زیتون کے ایک مبارک درخت (کے تیل) سے روشن کیا جاتا ہے کہ وہ نہ مشرق کی طرف واقع ہے اور نہ مغرب کی طرف، اس کا تیل (اس قابل ہے کہ) اگر اس کو آگ نہ بھی چھوئے تاہم معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہی آپ روشن ہو جائے گا (غرض ایک نور نہیں بلکہ) نورٌعلیٰ نور ہے (یعنی نور پر نور ہے) خدا اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے، اور خدا تو ہر چیز سے خوب واقف ہے (اور ہاں وہ چراغ) ان گھروں میں روشن ہے جن کی نسبت خدا نے حکم دیا کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے جن میں صبح و شام وہ لوگ اس کی تسبیح کیا کرتے ہیں۔

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ کائناتِ ظاہر اپنی صورتِ لطیف کے

 

۵

 

اعتبار سے عالمِ شخصی میں داخل و شامل اور محدود و مجموع ہے، اور خدائے بزرگ و برتر عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کا نور ہے، کیونکہ اسی میں ظاہر و باطن کی یک جائی ہے اور اسی کے تمام اسرارِ حقائق و معارف پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے، جبکہ مادّی آسمان، زمین، جمادات، نبادات اور حیوانات میں ایسی کوئی صلاحیت موجود نہیں کہ ان پر نورِایمان، نورِعلم، نورِ یقین، نورِعشق، نورِدیدار اور نورِ معرفت کی شعاعیں برسا دی جائیں، اور جبکہ دوسری جانب یہ حقیقت عیان ہے کہ عالمِ انوارِ الہٰی (لاہوت) سے بنیادی صلاحیت کے طور پر روحِ ناطقہ اور عقلِ جزوی کی روشنی صرف انسان ہی کو عطا ہوئی ہے۔

آئیے! ہم نورِ اقدس کی اس عظیم الشّان تعریف و تفسیر پر غور کرتے ہیں جو اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کی پاکیزہ تعلیمات میں سے ہے، اور وہ یہ پُرحکمت دعا ہے جو حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام ہر نمازِ فجر کے بعد پڑھا کرتے تھے: ۔

اللھم اجعل لی نوراً فی قلبی

ترجمہ: یا اللہ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کر دے۔

ان دعائیہ الفاظ میں سب سے پہلے دل کے لئے نورِ ایمان اور نورِعشق مطلوب ہے، کیونکہ ایمان ہر چیز سے مقدم ہے، اور وہ بہت سی خوبیوں کا مجموعہ ہے، اور ایمان کی حفاظت و ترقی کے لئے دل میں عشقِ الہٰی کی تپش بے حد ضروری ہے، اور یہ صرف نورِنبوت اور نورِامامت ہی کے وسیلے سے ممکن ہے۔

و نوراً فی سمعی

ترجمہ: اور میرے کان میں ایک نور (مقرر کر دے)۔

 

۶

 

یہاں یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ کانوں کے واسطے جس نور کی ضرورت ہے، وہ علمی اور عرفانی آواز کی صورت میں ہے، جو ظاہراً امام، حجّت، داعی اور باطناً جد، فتح، خیال کے ذریعے سے ہوسکتی ہے۔

و نوراً فی بصری

ترجمہ: اور میری آنکھ میں ایک نور۔

مقصود یہ ہے کہ ظاہری و باطنی ہر حِس اور ہر مدرکہ کے لئے ایک نور حاصل ہو، چنانچہ چشمِ عیان اور دیدۂ نہان دونوں کے لئے نور چاہئے، تاکہ اسرارِ خداوندی کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ و مطالعہ کیا جائے۔

و نوراً فی لسانی

ترجمہ: اور ایک نور میری زبان میں۔

جب زبان میں نور کا ظہور نہ ہو تو وہ نہ ذکرِجلی کرسکتی ہے اور نہ ذکرِخفی، اور اگر بصد مشقت کوئی ذکر وعبادت کر بھی لے تو اس سے کوئی حلاوت نہیں ملتی۔

و نوراً فی شعری و نوراً فی بشری و نوراً فی لحمی و نوراً فی دمی و نوراً فی عظامی و نوراً فی عصبی

ترجمہ: اور میرے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں اور رگوں میں بھی نور بنا دے۔

اس بابرکت دعا میں کُل سولہ مرتبہ لفظِ ’’نور‘‘ آیا ہے، اس سے یہ یقین آتا ہے کہ عالمِ شخصی میں روحانی عجائب وغرائب اور حقائق و معارف کی سولہ کائنات موجود ہیں، جن پر روشنی ڈالنے کے لئے سولہ قسم کے انوار مطلوب ہیں، مثلاً انسانی جلد پر بالوں کی دنیا قائم ہے، لیکن ان کی باطنی حکمتیں

 

۷

 

صرف اس وقت معلوم ہوسکتی ہیں، جبکہ نورِ خداوندی کے MICROSCOPE (خوردبین) سے دیکھا جائے کہ ان کے اندر روحِ نباتی کے کیسے کیسے کرشمے ہیں، اور ہر ذرّۂ روح کے باطن میں کیا کیا تجلّیات ہیں۔

و نوراً بین یدی، و نوراً فی خلفی، و نوراً عن یمینی، و نوراً عن یساری، و نوراً من فوقی و نوراً من تحتی

ترجمہ: اور میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر اور نیچے بھی نور مقرر فرما۔

اس میں یہ اشارہ ہے کہ عالمِ شخصی کی چھ اطراف سے چھ ناطقوں کے انوار داخل ہو جاتے ہیں، تفصیل کے لئے کتابِ وجہ دین، گفتار ۸ ملاحظہ ہو، پس اس بیان میں نور کی تعریف (DEFINITION) بھی ہے اور تفسیر بھی۔

اگر آیۂ مصباح کی تاویل حدودِ دین ہیں تو حدودِ دین کی روحانی اور عقلانی صورتیں امامِ مبین علیہ السّلام میں محدود ہیں، اس عظیم الشّان اور حکمت آگین مثال میں کشفِ سرِ لامکان کا اشارہ بھی موجود ہے، وہ اس طرح کہ جس بابرکت درختِ زیتون کے تیل سے یہ چراغ روشن ہوتا ہے وہ مشرق و مغرب میں نہیں، یعنی مکان میں نہیں بلکہ لامکان میں ہے، اور اس کے سرِ عظیم کا کشف و مشاہدہ عرفاء کو اس حال میں ہوتا ہے، جبکہ خداوندِ تعالیٰ بطریقِ باطن کائنات یعنی مکان کو لپیٹ کر فنا کر دیتا ہے، تاکہ کاملین کو ایسے میں عالمِ لامکان کے انتہائی بڑے بڑے اسرار کا علم ہو جائے، جیسا کہ سورۂ حاقہ میں ارشاد ہے:

اور فرشتے آسمان کے کنارے (حاشیۂ کائنات) پر ہوں گے، اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اس دن آٹھ فرشتے اپنے سروں پر اٹھائے ہوں گے (۶۹: ۱۷) اسرارِ عالمِ دین سب کے سب عالمِ شخصی میں پوشیدہ ہیں،

 

۸

 

چنانچہ عرش سے نورِ مطلق مراد ہے، اور ہر امام اپنے وقت میں تنہا حاملِ عرش ہوا کرتا ہے، کیونکہ اس کی مبارک پیشانی میں نورِعقل بنامِ عرشِ عظیم کام کرتا رہتا ہے، اسی طرح جب سات آئمہ علیھم السّلام کا دور مکمل ہوجاتا ہے تو باطنی طور پر ایک بڑی قیامت برپا ہوجاتی ہے، اور اس وقت مجموعۂ ارواحِ مومنین و مومنات کا آٹھواں فرشتہ بھی اس سلسلے میں شامل ہوجاتا ہے، جن کی پیشانی میں ظہورِ نور کا تذکرہ سورۂ حدید (۵۷: ۱۲، ۵۷: ۱۹، ۵۷: ۲۸) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۸) میں موجود ہے، الغرض درختِ زیتون کا ممثول لامکان میں نفسِ کُلّی ہے۔

وہی نورِ واحد چراغ کی مثال میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے باطنی گھروں میں روشن ہوتا رہا ہے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک اپنے وقت میں خدا کا زندہ گھر تھا، اور اسی سنتِ الہٰی کے مطابق جس میں کوئی تبدیلی نہیں، اِس وقت امامِ حیّ و حاضرعلیہ السّلام خدائے بزرگ و برتر کا پاک و پاکیزہ گھر ہے، جس کی حرمت و تعظیم کے لئے خدا نے حکم دیا ہے، اور کتنی بڑی رحمت ہے کہ پاک جماعت خانہ خدا کے گھر کا قائم مقام ہے، اور وہ اسماعیلی جماعت کے لئے بڑا بابرکت گھر ہے، جس میں روح و روحانیت کے بڑے سے بڑے معجزات پنہان ہیں۔

ہم ہر امامِ برحق کو مولا علیؑ ہی کی طرح مانتے ہیں، اور یہ حقیقت ہے، پس جو کچھ قرآن، حدیث، خطبۃ البیان وغیرہ میں ارشاد ہوا ہے، وہ نہ صرف مولانا علیؑ کے بارے میں ہے بلکہ یقیناً ہر امام کے بارے میں ہے، لہٰذا حضرتِ امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام خدا کے عجائب وغرائب کا مظہر ہے، چنانچہ دیکھنے والوں نے دیکھا ہے کہ مومنین و مومنات کے لئے نورِ امامت کا معجزہ جماعت خانہ ہی سے شروع ہوکر کائنات پر محیط ہو جاتا ہے، یعنی اس نور کے باطنی معجزات

 

۹

 

بے شمار ہیں۔

مولا کے بڑے بڑے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ ہے کہ اس کا مقدّس نور جثۂ ابداعیہ اور ہیکلِ نورانی کی صورت میں ہر جماعت خانہ میں موجود ہے، جیسا کہ امامِ عالی مقامؑ نے جامۂ سابق میں بارہا ارشاد فرمایا ہے کہ اس کا پاک نور جماعت خانہ میں حاضر ہوتا ہے، جیسے قرآنِ حکیم بزبانِ حکمت فرماتا ہے کہ نور دنیا بھر میں بلکہ کائنات میں چلنے کے لئے ہوتا ہے۔

(یمشی بہ، ۶: ۱۲۲، تمشون بہ، ۵۷: ۲۸)

عرشِ عظیم امام ہے، کیونکہ وہ حاملِ نورِعرش ہے، بیت المعمور امام ہے، کیونکہ وہ خدا کا آباد گھر ہے، بیت اللہ امام ہے، اس لئے کہ وہ قبلۂ حقیقت ہے، حرمت والی مسجد (خانۂ کعبہ) امام ہے کہ مسجد کے معنی ہیں سجدہ گاہ، اور امام کے عالمِ شخصی میں ارواح و ملائکہ اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ کرتے ہیں، اور جماعت خانہ امام ہے، کیونکہ وہ اس پاک گھر کی جان اور جماعت کا جانان ہے۔

چونکہ اسلام دینِ فطرت ہے، اس لئے یقیناً اسلام ہی آفاقی دین ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہاں علم و عمل کے اعتبار سے بہت سے درجات کی گنجائش ہے، اس کی بڑی عمدہ مثال صراطِ مستقیم ہے جس کی چھوٹی چھوٹی منزلیں بہت زیادہ ہیں، مگر بڑی اور معروف منزلیں صرف چار ہیں:

۱۔ شریعت

۲۔ طریقت

۳۔ حقیقت

۴۔ اور معرفت

یہ معنی آپ کو قرآنِ حکیم میں مل سکتے ہیں، جیسے ارشاد ہے:

 

۱۰

 

لکل جعلنا منکم شرعۃ و منھاجاً(۵: ۴۸)۔

ترجمہ: تم میں سے (اے اہلِ ملّلِ مختلفہ) ہر ایک کو ہم نے ایک شریعت اور ایک طریقت دی۔

سورۂ اعراف میں ارشاد ہے:

حقیق علیٰ ان لا اقول علی اللہ الا الحق  (۷: ۱۰۵)

ترجمہ: (اور موسیٰؑ نے کہا کہ میں) حقیقت شناس ہوں، تاکہ بجز سچ کے خدا کے بارے میں کوئی بات نہ کروں۔

پس قرآنِ پاک میں جہاں جہاں لفظِ حق آیا ہے وہاں حقیقت ہی کا ذکر ہے، اور اسی طرح قرآنِ مجید میں معرفت کے الفاظ آئے ہیں، جیسے:

فتعرفوا (۲۷: ۹۳)  یعرفون (۲: ۱۴۶، ۶: ۲۰، ۷: ۴۶، ۱۶: ۸۳)  یعرفونھم(۷: ۴۸) عرفھا (۴۷: ۶)۔

اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت، حقیقت اور معرفت بھی لازمی ہیں، اور اس خداوندی نظام و پروگرام کے مطابق یہ امر بھی ضروری تھا کہ مسجد اور خانقاہ کے بعد مقامِ حقیقت پر جماعت خانے کا عمل شروع ہوجائے، کیونکہ آنحضرتؐ کی رحلت کے ساتھ اگرچہ پیغمبرانہ وحی کا دروازہ بند ہوگیا، لیکن قرآنِ حکیم اور حضورِ اکرمؐ کی تعلیمات کے ثمرات و نتائج رفتہ رفتہ ظاہر ہونے والے تھے۔

خداوندِ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جماعت خانہ جیسے مقدّس مقام سے متعلق ایک چھوٹی سی کتاب تیار کی گئی، جس کے اکثر اجزاء خود بندۂ ناچیز کی بعض کتابوں میں پہلے ہی سے موجود تھے، اس کی تجویز گذشتہ سال ۱۹۹۲ء دورۂ امریکا کے دوران اُس وقت عمل میں آئی تھی جبکہ ہمارے عزیز دوست

 

۱۱

 

چیف ایڈوائزر اکبر اے علی بھائی کے گھر میں اُن کی فرشتہ خصلت بیگم ریکارڈ آفیسر شمسہ (اکبر۔اے۔علی بھائی) نے اس نوعیت کا ایک اہم سوال پیش کیا تھا، اس سوال سے کتنی بھلائی ہوئی، ہم اپنے تمام عزیزوں کے ممنون اور شکرگزار ہیں۔

دنیا بھر میں امامِ عالی مقام علیہ السّلام کے جتنے ادارے ہیں، خصوصاً دینی تعلیم سے متعلق ادارے، ہم ان کی خاکِ پا کے بھی برابر نہیں ہیں، وہ بڑے مقدّس ادارے ہیں، اس لئے ہم ان سے عملاً قربان ہوجانا چاہتے ہیں، اور ہماری یہ مفید قربانی علمی خدمت کی شکل میں ہوسکتی ہے، تاکہ اس سے جماعت کو بھی فائدہ حاصل ہو، مجھے یقین ہے کہ اس نیّت میں تمام عزیزان میرے ساتھ ہیں، اور ان میں سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔

جو حضرات یہاں اعزازی طور پر ہماری کتابوں کا ترجمہ کرتے ہیں، جو کمپیوٹر کا کام کرتے ہیں، جو ایڈٹ کرتے ہیں، اور جو کتاب سے متعلق دوسرے امور انجام دیتے ہیں، وہ اس بندۂ حقیر کو ہراس فرد کے عالمِ شخصی میں زندہ کر دینا چاہتے ہیں، جس کو کتاب سے دلچسپی اور فائدہ ہو، کیونکہ آخرت میں نہ صرف مشترک بہشت ہوگی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عالمِ شخصی کی جنّت بھی ہوگی، جس میں حسبِ منشاء ہر شخص اور ہر نعمت موجود ہے۔

الخلق عیال اللہ (مخلوق گویا خدا کا کنبہ ہے) جیسی سب سے اعلیٰ تعلیم جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے، تو پھر ہمیں انتہائی عاجزی سے یہ دعا کرنا چاہئے کہ اے پروردگارِ عالم! اپنے خاص نورِعلم سے دوزخِ جہالت کو ٹھنڈا کر دینا، اور تمام اولادِ آدم اور عالمِ انسانیت کو بہشت کی لازوال نعمتوں سے سرفراز فرمانا! الہٰی تیرے غضب پر تیری رحمت کو

 

۱۲

 

سبقت حاصل ہے، اس لئے عجب نہیں کہ تو سارے لوگوں کو معاف کر دے۔ آمین!

۳۱ اگست ۱۹۹۳ء

 

۱۳

 

خانۂ خدا ۔ خانۂ جماعت

(پہلی قسط)

 

اسلام اپنی روح میں کامل و مکمل دین ہے، اِس میں رشد و ہدایت اور علم و حکمت کی فراوانی ہے، اِس کا ہر قول وعمل اور ہر چیز ظاہراً و باطناً عقلی اور روحانی خوبیوں سے مالا مال اور یقین و معرفت کے اشارات سے بھرپور ہے، چنانچہ آج ہم یہاں عنوانِ بالا (خانۂ خدا ۔ خانۂ جماعت) سے بحث کرتے ہیں، اور یہ معلوم کرلینا چاہتے کہ آیا ذاتِ سبحان بحقیقت کسی گھر کے لئے محتاج ہے یا اس کی حاجت و ضرورت دراصل اہلِ ایمان کو ہے؟ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ جو کون و مکان کا خالق و مالک ہے، وہ مکان و لامکان سے بے نیاز و برتر ہے، سو اس حال میں یہ سوال ہوگا کہ اگر خانۂ خدا کا یہ تعیّن لوگوں کی دینی ضرورت کے پیشِ نظر ہے تو پھر بتائیے کہ اس سے ان کو کیا کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں؟ اور اس میں کیا کیا اسرار پنہان ہیں؟ اس کا مفصّل جواب ذیل میں درج ہے: ۔

۱۔ جاء و جہت یا مکان و زمان کے اعتبار سے خدا کا تصور تین درجوں ہر مبنی ہے، اوّل یہ گویا خداوند تعالیٰ ایک خاص گھر میں جلوہ نما ہے، جس طرح بیت اللہ کا تصور ہے (۲۲: ۲۶) دوسرا یہ کہ وہ ہر جگہ موجود ہے (۲: ۱۱۵) اور تیسرا یہ ہے کہ وہ مکان و لامکان سے بے نیاز و برتر ہے، کیونکہ وہ سبحان،

 

۱۴

 

قدوس، اور صمد ہے، اور یہ حقیقت مسلّمہ اور ناقابلِ تردید ہے، چونکہ اسلامی تعلیمات و ہدایات تدریجی صورت میں ہیں، لہٰذا یہ امر ضروری قرار پایا کہ ہر فردِ مسلم سب سے پہلے خانۂ خدا کے عقیدۂ راسخ کو اپنائے، اور اس سے وابستہ ہو جائے، تاکہ اس کو یہیں سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت حاصل ہو، اور اگر کوئی شخص اِس بنیادی تصور کی حکمت کو نہیں سمجھتا، اور اسے نظرانداز کرتا ہے، تو وہ دوسرے اور تیسرے تصور کے خزانوں کو براہِ راست حاصل نہیں کر سکتا، کیونکہ خدائی قانون کے خلاف چلنا باعثِ نامرادی ہے۔

۲۔ اسلام میں جس طرح عرشِ عظیم کا تصور ہے، وہ بھی دینِ حق کی جملہ حکمتوں کا مرکز ہے، اس سے نہ صرف خدا کے گھر کی عظمت و بزرگی کا ثبوت مل جاتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس سے بہت بڑی فضیلت کا یقین بھی ہو جاتا ہے کہ جو مومنین زمین پر خانۂ خدا کی آبادی و ترقی کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں، وہ عالمِ بالا کے ان پاکیزہ فرشتوں کی طرح ہیں، جو عرشِ الہٰی سے متعلق ہیں یا اِس کے گردا گرد طواف کرتے ہیں، اِس بیان سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ جس طرح خانۂ خدا کی نزدیکی اور شناخت سے انسانوں کو فائدہ ہے، اِسی طرح عرشِ اعلیٰ کی قربت و معرفت سے فرشتوں کو فضیلت حاصل ہوتی ہے، مگر اللہ سبحانہُ و تعالیٰ ہر شیٔ سے بے نیاز و برتر ہے۔

۳۔ خدائے واحد کی ذاتِ پاک و منزہ اُس وقت بھی تھی، جبکہ خانۂ کعبہ نہ تھا، اور بیت اللہ کی تعمیر اُس وقت ہوئی، جبکہ حضرت آدم علیہ السّلام کے سیّارۂ زمین پر اُترنے کا وقت آیا، چنانچہ خداوندِ عالم کے امر سے فرشتوں نے خانۂ خدا کی تعمیر کی، تاکہ آدمؑ و اولادِ آدمؑ اس سے رجوع کر کے روحانی

 

۱۵

 

فائدے حاصل کریں، اس سے معلوم ہوا کہ دین کی اصل و اساس خانۂ خدا ہے، اور یہی خدا کا گھر خانۂ دین اور خانۂ جماعت بھی ہے، جس کی اُردو عبارت’’جماعت خانہ‘‘ ہے، ’’خدا کا گھر‘‘ کہنے کا مطلب ہے کہ اس میں انوار و اسرارِ خداوندی کا ظہور اور فیوض و برکات کا نزول ہوتا رہتا ہے، تاکہ مومنین ہمیشہ خدا کے اِس گھر میں جا کر مستفیض ہوتے رہیں اور روز بروز علم و عمل میں ترقی کرتے جائیں۔

۴۔ خانۂ کعبہ جس میں عظیم تاویلی حکمتیں پوشیدہ ہیں اپنی جگہ بیحد ضروری ہے تاکہ جملہ مسلمانانِ عالم اس کی ظاہری اور باطنی حکمتوں کو سمجھتے ہوئے باہمی اتفاق و یکجہتی کی دولت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں، اور زمانۂ نبوت کے مسلمانوں کی طرح سب کے سب سالکِ وحدتِ ملّی سے منسلک ہی رہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی ضروری تھا کہ ذیلی طور پر ہر مسلم قریہ میں خدا کا ایک گھر بنایا جائے، کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ دور دراز ممالک کے مسلمین روزانہ عبادت کے لئے خانۂ کعبہ میں پہنچ جائیں چنانچہ سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد کے نام سے خدا تعالیٰ کا مقامی گھر بھی بنا دیا، یہ صرف ایک چاردیواری تھی، جس میں تین طرف دروازے تھے۔۔۔ آنحضرت کے بعد جتنی نئی مسجدیں تعمیر ہوئیں، سب کا بنیادی ڈھانچہ یہی رہا، رفتہ رفتہ مسجد کی تعمیر مسلمانوں میں ایک فن بن گئی، اِس طرح ایک خاص طرزِ تعمیر کا ارتقاء ہوا۔۔۔ (فیروز سنز۔ اُردو انسائیکلوپیڈیا)۔

۵۔ قبلۂ اسلام کے کئی نام ہیں، جیسے کعبہ، جس کے لفظی معنی ہیں چار گوشہ مکان (۵: ۹۵) البیت (گھر ۲: ۱۲۵) البیت العتیق (قدیم گھر ۲۲: ۲۹) بیت اللہ (خدا کا گھر ۲: ۱۲۵) بیت وضع للناس (وہ گھر جو لوگوں کے واسطے مقرر کیا گیا ۳: ۹۶) البیت الحرام (حرمت والا گھر ۵: ۲) المسجد الحرام (حرمت والی مسجد

 

۱۶

 

۲: ۱۴۴) وغیرہ۔

خانۂ خدا کے مذکورہ اسماء میں کسی ابہام کے بغیر یہ جواز موجود ہے کہ جس طرح مسلمانوں کی عبادت گاہ کا نام مسجد درست ہے، اسی طرح اس کا نام ’’جماعت خانہ‘‘ بھی درست ہے، یعنی جماعت کا مذہبی گھر، کیونکہ اللہ کا گھر لوگوں کا دینی گھر ہوا کرتا ہے، جبکہ بیت اللہ لوگوں کے لئے مقرر ہے (۳: ۹۶) جب ہم تاریخی تحقیقی (ریسرچ) کی روشنی میں زمانۂ نبوت کو دیکھتے ہیں، تو اس میں باعتبارِ شکل مسجد اور جماعت خانہ ایک ہی چار دیواری نظر آتی ہے، چنانچہ میرے نزدیک مسجدِ رسولؐ خدا کا مقامی گھر اور حال و مستقبل کا جماعت خانہ تھی، جس کو اللہ پاک کے مرکزی گھر کی نمائندگی حاصل تھی۔

۶۔ مسجد کے معنی ہیں جائے سجدہ (سجدہ کرنے کی جگہ) عبادت خانہ، نیز اس کے معنی ہیں عبادت، اور اس کی تاویل ہے اسمِ اعظم، اساسؑ اور امامِ زمانؑ، کیونکہ ربّ العالمین کا حقیقی اسمِ اعظم اور عقل و جان والا گھر ہادیٔ زمان ہوا کرتا ہے، جیسا کہ کتابِ دعائم الاسلام جلد اوّل (عربی) کتابِ حج کے سلسلے میں صفحہ ۲۹۲ پر ذکر ہے کہ فرشتوں نے خانۂ خدا کی تعمیر کی، اس کے یہ معنی ہیں کہ ملائکہ نے انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں بیت اللہ کی روحانی تعمیر کی، کیونکہ فرشتوں کا اصل کام روحانی قسم کا ہوتا ہے، اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ فرشتوں نے واقعی کعبۂ ظاہر کو بنایا تھا، تو اس کی تاویلی حکمت یہ ہوگی کہ مومنین نے جو جسمانی فرشتے ہیں عالمِ جسمانی میں ایک جماعت خانہ بنایا، اور ’’جیسا عمل ویسا بہترین ثواب‘‘ کے قانون کے مطابق ان کے ہاتھ سے روحانیت میں کعبۂ جان کی تعمیر کروائی گئی۔

۷۔ حضرت ابراہیمؑ نے بیت اللہ کی تعمیرِ نو اسی مقام پر کیا، جہاں یہ طوفانِ

 

۱۷

 

نوحؑ سے پہلے تھا، اس جگہ کی نشاندہی ایک ایسی ہوا نے کی جو حضرت ابراہیمؑ کی تسکین کے لئے خداوند تعالیٰ نے بھیجی تھی جس کا نام سکینہ تھا، اِس ہوا کے دو سر تھے، جو ایک دوسرے کے پیچھے گھومتے تھے، جس کی تاویل ذکرِ خدا اور اس کی روحانیت ہے، اس سے یہ حقیقت نمایان ہوجاتی ہے کہ اللہ کے خانۂ ظاہر کے تاویلی پسِ منظر میں خانۂ نورانیت کا تذکرہ موجود ہے، کیونکہ ہر ظاہر کا ایک باطن ہوا کرتا ہے، جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: و اسبغ علیکم نعمہ ظاہرۃ و باطنۃ (۳۱: ۲۰) اور اُس نے تم پر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی پوری کر رکھی ہیں۔

 

 

 

 

 

 

۸۔ اللہ تعالیٰ کا پاک فرمان ہے: و اذ جعلنا البیت مثابۃ للناس و امنا و اتخذوا من مقام ابراہیم مصلی (۲: ۱۲۵) اور جس وقت ہم نے خانۂ کعبہ کو لوگوں کے لئے جائے ثواب اور مقامِ امن مقرر کر رکھا اور مقامِ ابراہیمؑ کو جائے نماز بنا لیا کرو۔

اِس آیۂ کریمہ کی پہلی تاویل: جس طرح خدا کے حکم سے خانۂ کعبہ ظاہر میں ثواب اور امن کی جگہ ہے، اِسی طرح امامِ زمان صلوات اللہ علیہ باطن میں بیت اللہ کی حیثیت سے ہر قسم کے ثواب کا وسیلہ اور ہر طرح کے امن کا ذریعہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امامِ برحقؑ قبلۂ باطن ہیں، جس کی طرف قلبی توجہ ہر نیک کام میں لازمی ہے، اور طریقِ ثواب یہی ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ ثواب کا ذکر پہلے ہے اور امن کا ذکر بعد میں، اس کی حکمت یہ ہے کہ پہلے مومنین امامِ

 

۱۸

 

اقدس و اطہرؑ کی اطاعت و فرمانبرداری سے ثواب و نیکی کے مراحل طے کر لیتے ہیں، پھر نتیجے کے طور پر امامِ عالی مقامؑ کی روحانیت و نورانیت میں داخل ہو جاتے ہیں، اور یہی اللہ تبارک و تعالیٰ کا خانۂ باطن ہے، جس میں امن ہی امن ہے، یعنی کوئی خوف و خطر نہیں۔

جس طرح ظاہر میں مقامِ ابراہیمؑ خانۂ کعبہ کی ایک ایسی جگہ ہے، جہاں ایک پتھر تھا، اسی طرح خانۂ باطن یعنی امامِ مبینؑ کی نورانیت میں ایک عقلی گوہر ہے، اُس تک رسائی حاصل کر کے نماز کی حکمتوں کو حاصل کر لینے کے لئے فرمایا گیا ہے۔

دوسری تاویل: جس طرح خانۂ کعبہ اللہ کا مرکزی گھر ہے، اسی طرح جماعت خانہ خدا کا مقامی گھر ہے، یا یوں کہا جائے کہ جیسے بیت اللہ شریف مقامِ شریعت پر ہے، ویسے مقدّس جماعت خانہ مقامِ حقیقت پر ہے، لہٰذا مذکورہ آیۂ کریمہ میں جو فضائل بیان ہوئے ہیں، وہ خدا کے اِس گھر کے بارے میں بھی ہیں، جو جماعت خانہ کے نام سے مشہور ہے، چنانچہ عقیدۂ اسماعیلیت اور قرآنی حکمت کے مطابق جماعت خانہ جائے ثواب اور مقامِ امن ہے، اِس کے معنی یہ ہیں کہ دین کے کُل اوامر و نواہی کا جملہ ثواب جماعت خانہ میں مرکوز ہے، اور روحانی امن و سکون بھی اسی میں ہے، کیونکہ جماعت کے اِس خانۂ دین کو دُہری فضیلتیں حاصل ہیں کہ یہ اگر ایک جانب سے خانۂ کعبہ کا نمائندہ ہے، تو دوسری جانب سے امامِ برحقؑ کی مثال ہے، جبکہ امامؑ نے بمنشائے الہٰی اپنی شخصیت اور ظاہری و باطنی قربت کی جگہ جماعت خانہ دیا ہے، پس مرحلۂ اوّل میں جماعت خانہ کے لئے یہی مقامِ ابراہیم ہے۔

۹۔ سورۂ آلِ عمران (۳: ۹۶) میں ربِّ عزت کا فرمان ہے: ان اوّل

 

۱۹

 

بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبٰرکا و ھدی للعٰلمین (۳: ۹۶) یقیناً وہ مکان جو سب سے پہلے لوگوں کے واسطے مقرر کیا گیا، وہ مکان ہے جو کہ مکہ میں ہے جس کی حالت یہ ہے کہ وہ برکت والا ہے اور جہان بھر کے لوگوں کے لئے رہنما ہے۔ اِس آیۂ مبارکہ میں کئی حکیمانہ اشارات ہیں، منجملہ ایک اشارہ یہ ہے کہ ’’اوّل‘‘ اعدادِ ترتیبی (ORDINALS) کی بنیاد ہے، اور اس کا تقاضا ہمیشہ یہ ہوا کرتا ہے کہ اوّل (پہلا) کے بعد دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں وغیرہ بھی ہو، اس کا مفہوم یہ ہوا کہ اگرچہ لوگوں کا اوّلین اور مرکزی گھر مکہ میں ہے، تاہم زمانۂ نبوّت اور دورِ امامت میں ذیلی اور مقامی طور پر بہت سے گھر (جماعت خانے) ہوں گے۔

دوسرا اشارہ یہ ہے کہ جس طرح لوگوں کے واسطے اوّلین دینی گھر مکہ میں مقرر ہوا، اِسی طرح امامِ اوّل (مولا علیؑ) بھی مکہ میں مقرر ہوئے، جو لوگوں کے لئے روحانیت و نورانیت کا گھر ہیں، جس میں اُن لوگوں کے لئے برکات و ہدایات ہیں، جو عالمِ شخصی بن جاتے ہیں۔

تیسرا اشارہ یہ ہے کہ ’’ بَکَۃً ‘‘ کا ایک اشارتی قرأت گریہ وزاری کے معنی میں بھی ہے، سو اس کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کے لئے اوّلین روحانیت کا گھر عشقِ مولا کے تابناک آنسوؤں سے بنایا جاتا ہے، جو اہلِ دل کے لئے برکتوں اور ہدایتوں سے بھر پور ہے۔

چوتھا اشارہ یہ ہے کہ خانۂ کعبہ، امامؑ، اور جماعت خانہ اگر ایک طرف سے خدا کے گھر ہیں تو دوسری طرف سے لوگوں کے گھر ہیں، کیونکہ ان پاک گھروں میں جو برکتیں اور ہدایتیں ہیں، وہ لوگوں کے لئے ہیں، اور ان کا خدا تعالیٰ سے منسوب ہو جانا خصوصی ملکیت کی وجہ سے ہے۔

۱۰۔ سورۂ نور میں فرمایا گیا ہے: فی بیوت اذن اللہ ان ترفع و یذکر

 

۲۰

 

فیھا اسمہ یسبح لہ فیھا بالغدو و الاٰصال (۲۴: ۳۶) (وہ نور) ایسے گھروں میں روشن ہے جن کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے جن میں صبح و شام وہ لوگ اس کی تسبیح کیا کرتے ہیں۔ ان گھروں سے حضراتِ أئمّۂ طاہرین صلوات اللہ علیھم مراد ہیں، نیز یہ گھر جماعت خانے ہیں، جن میں نورِ خداوندی کا چراغ روشن ہوتا ہے، جس کا مشاہدہ اور عرفان یقینی ہے۔

۱۱۔ خانۂ کعبہ ظاہری علامت، مثال اور نمونہ ہے اُن آیاتِ کریمہ کا، جن کی تاویلی حکمت کا تعلّق خداتعالیٰ کے زندہ گھر یعنی امام علیہ السّلام سے ہے، اور امامِ عالیمقامؑ کی معرفت جو نہایت ہی ضروری ہے، وہ کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی، مگر اطاعت سے اور اطاعت و فرمانبرداری کا مرکز جماعت خانہ ہے، کیونکہ یہ جائے ثواب اور مقامِ امن ہے۔

جس طرح ہر چیز کی رُوح ہوا کرتی ہے، اِسی طرح جماعت خانہ کی ایک عظیم رُوح ہے، یہ امامِ زمانؑ کی رُوح یعنی نور ہے، جس میں جماعتی رُوح زندہ ہوجاتی ہے، پس اگر آپ باور کرتے ہیں کہ جماعت خانہ میں امامِ برحقؑ کا نور موجود ہے، تو یہ بھی جان لیں کہ یہی نور اللہ تعالیٰ کا زندہ گھر ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے:

قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراہیم و الذین معہ (۶۰: ۴) تمہارے واسطے تو ابراہیمؑ اور ان کے ساتھیوں (کے قول و فعل) کا اچھا نمونہ موجود ہے۔ اِس ربانی تعلیم سے یقینی طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ویسے تو ظاہر میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے ساتھ بہت سے لوگ تھے، مگر جو حضرات باطن میں آپ کے ساتھ تھے، وہ آپؑ کی پیروی میں درجۂ انتہا پر پہنچ گئے تھے، اگر ایسا نہ ہوتا

 

۲۱

 

تو ان کا اُسوۂ حسنہ حضرت ابراہیمؑ کے اُسوۂ حسنہ سے نہیں ملتا، اب پوچھنا یہ ہے کہ ایسے حضرات کون تھے یا کون ہیں؟ آلِ ابراہیمؑ ہیں، یعنی انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام، جن کا ظہور جناب خلیل اللہؑ کے نزدیک بہت ہی ضروری تھا (۲: ۱۲۴) اور خدائے مہربان نے آلِ ابراہیم کو سب کچھ دے رکھا تھا (۴: ۵۴) چنانچہ آنحضرتؐ نے بحکمِ خدا حضرت ابراہیمؑ کی پیروی کرتے ہوئے نہ صرف خانۂ کعبہ کو قبلہ بنایا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ مقامی طورپر بھی خدا کا ایک گھر (مسجد) بنایا، اور پاک اماموں نے بھی اپنے اپنے وقت میں مسجد یا جماعت خانہ کے نام سے اللہ کے ایسے گھروں کی تعمیر کی۔

۱۲۔ سورۂ قصص (۲۸: ۵۷) میں فرمایا گیا ہے: کیا ہم نے ان کو امن و امان والے حرم میں جگہ نہیں دی جہاں ہر قسم کے پھل کھنچے چلے آتے ہیں جو ہمارے پاس سے کھانے کو ملتے ہیں و لیکن ان میں اکثر لوگ نہیں جانتے (۲۸: ۵۷) اگر آپ غور کریں تو صاف طور پر معلوم ہوجائے گا کہ ثمرات کل شی یعنی تمام چیزوں کے ظاہری میوے کہیں بھی خود بخود کھنچ کھنچ کر نہیں آسکتے، مگر یہ حقیقت ہے کہ پیغمبر اور امام صلوات اللہ علیھما جس جگہ کو عبادت کے لئے مقرر فرمائیں، وہاں کُلّ اشیاء کے روحانی میوے کھنچ کھنچ کر خودبخود آتے رہتے ہیں، اور یہی روحانی معجزات جماعت خانہ سے متعلّق ہیں۔

جب قرآنِ حکیم نے کہا کہ ثمرات کل شی (جملہ اشیاء کے میوے) تو اِس خداوندی کُلّیّہ کے مطابق جمادات، نباتات، حیوانات، اور انسان سب کے سب درخت قرار پائے، تاکہ ان میں سے ہر ایک کا پھل خانۂ خدا کی طرف آئے، مگر یہ صرف اور صرف روحانی صورت میں ممکن ہے، چنانچہ جماعت خانہ وہ مقام ہے، جہاں امامِ زمانؑ کی عظیم المرتبت روح (یعنی نور) کام کرتی ہے، جس کی طرف دُنیا بھر کی چیزوں کی روحیں کھنچ کھنچ کر آتی ہیں، جیسا کہ امامِ مبین

 

۲۲

 

میں اشیائے کائنات جمع ہوتی ہیں (۳۶: ۱۲) پس حقیقی مومنین کے لئے جماعتخانہ سے متعلق یہ روشن دلائل کافی ہیں۔

۱۰ دسمبر ۱۹۸۴ء

 

۲۳

 

خانۂ خدا ۔ خانۂ جماعت

(دوسری قسط)

 

۱۔ اِس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ خانۂ خدا خانۂ جماعت ہے، اور نہ ہی اِس بات میں کوئی شُبہ ہے کہ جس طرح دین کا مرکزی گھر خانۂ کعبہ ہے، اسی طرح مقامی گھر جماعت خانہ ہے، اور یہ نظام اللہ تعالیٰ کی سنت اور قانونِ فطرت کے عین مطابق ہے، کہ ہمیشہ رحمتوں اور برکتوں کا مقام ظاہراً و باطناً بندوں سے قریب تر کردیا جاتا ہے، جیسے حضرت آدم علیہ السّلام کے اِس دُنیا میں آنے کے ساتھ ساتھ آپؑ اور آپؑ کی اولاد کی خاطر یہاں خانۂ خدا کی تعمیر کی گئی، جو اِس زمین پر عرشِ عظیم کا درجہ رکھتا ہے، کیونکہ خدا کے عرش (تخت) کا جو مفہوم ہے وہی مفہوم خدا کے گھر کا بھی ہے، اور جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینۂ منورہ میں اللہ پاک کا ایک دوسرا گھر بنایا، جس کو ہم پہلی مسجد بھی کہہ سکتے ہیں، اور اوّلین جماعت خانہ بھی، کیونکہ فی الاصل ان دونوں کی شکل اور حقیقت ایک ہی ہے، بہرحال وہ خدا کے قدیم گھر کا قائم مقام تھا، اِس کے یہ معنی ہوئے کہ خانۂ کعبہ کو عرشِ عظیم کی نمائندگی حاصل ہے، اور جماعت خانہ کو کعبۂ شریف کی نمائندگی۔

۲۔ آپ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ اسلام میں تقویٰ کی بہت اہمیت ہے، کیونکہ تقویٰ جملہ عبادات کی جان ہے، اور اس مقصد کے حصول کے لئے

 

۲۴

 

بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، مگر شعائر اللہ یعنی خدا کی نشانیوں کی شانِ رحمت دیکھئے کہ ان کی حرمت و تعظیم سے قلبی تقویٰ کا عمل بن جاتا ہے (۲۲: ۳۲) امامِ زمان صلوات اللہ علیہ و سلامہ جو قرآنِ ناطق ہیں، ان کی پاک و پاکیزہ شخصیت اور جماعت خانہ شعائر اللہ  میں سے ہیں، لہٰذا ان کی تعظیم کرنا قلبی تقویٰ کا نتیجہ بھی ہے اور درجہ بھی، کیونکہ ان میں سے ایک خدا کا باطنی گھر ہے اور دوسرا ظاہری گھر۔

۳۔ سورۂ حج کے ایک ارشاد (۲۲: ۲۶) کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو بیت اللہ قرار دیا تھا، تاکہ اِس مرتبہ کی روحانیت و نورانیت میں توحید کی معرفت حاصل ہو، اور خدا کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا جائے، ربّ العزّت نے آپؑ کو یہ بھی حکم دیا کہ آپ اللہ کے اِس زندہ گھر کی نظریاتی، روحانی اور عقلی پاکیزگی کریں، تاکہ اس میں تین قسم کے فرشتے آجائیں، اور وہ ہیں طواف کرنے والے، قیام یا اعتکاف کرنے والے، اور رکوع و سجود کرنے والے۔

۴۔ پیغمبر اور امام کی پاک شخصیت میں روحانی مسجد اور نورانی جماعت خانہ ہونے کا خدائی قانون ہمیشہ سے جاری ہے، جیسے نوح علیہ السّلام نے اِس خانۂ نورانیت کو بیتی (۷۱: ۲۸) کہا، اور مومنین میں سے جو افراد اس میں داخل ہوچکے تھے، وہ ’’اھلِ بیت‘‘ کہلاتے تھے وہ قرآنی ارشاد یہ ہے:

رب اغفر لی و لوالدی و لمن دخل بیتی مومنا و للمومنین و المومنات (۷۱: ۲۸) اے میرے ربّ مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو کمالِ ایمان سے میرے (روحانی) گھر میں داخل ہوگئے ہیں ان کو اور تمام مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بخش دے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ حضرت نوحؑ کی اس پُرحکمت دعا میں اہلِ ایمان دو درجوں میں ہیں، یعنی بعض مومنین کمالِ

 

۲۵

 

ایمان کی بدولت آپؐ کے خانۂ نورانیت (یعنی خانۂ خدا) میں داخل ہوچکے ہیں، اور بہت سے مومنین و مومنات ہنوز اِس درجے میں داخل نہیں ہوسکے ہیں۔

۵۔ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے وقت میں خدا تعالیٰ کا زندہ گھر (۲۲: ۲۶) اور نورانیت سے بھرپور معجزاتی جماعت خانہ تھے، جیسا کہ سورۂ احزاب (۳۳: ۳۳) میں فرمایا گیا ہے: انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت و یطھرکم تطھیرا (۳۳: ۳۳) اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اے (نورانیت کے) گھر والو تم سے آلودگی کو دور رکھے اور تم کو (ہر طرح سے ظاہراً و باطناً) پاک و صاف رکھے۔ یہ مقدّس گھر نورِ نبوّت و امامت تھا، اور اہلِ بیت (گھر والے) پنجتنِ پاک تھے، یعنی حضرت محمد مصطفیٰؐ، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت فاطمۃ زہرا، حضرت حسن مجتبیٰ اور حضرت حسین سیّد شہداء صلوات اللہ علیھم، یہی خانۂ نورانیت اللہ تعالیٰ کا بولنے والا گھر اور عقلی و روحانی جماعت خانہ ہے، اور یہی وہ حکمت کا گھر ہے، جس کے بارے میں آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’میں حکمت کا گھر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے‘‘۔ نیز یہ وہی مبارک و مقدّس گھر ہے جس میں بموجب آیۂ قرآن (۲۴: ۳۵) نورِ خداوندی کا چراغ روشن ہے۔

۶۔ یہاں متعلّقہ حقیقت کو دل نشین انداز میں پیش کرنے کی غرض سے یوں سوال کیا جاتا ہے کہ صراطِ مستقیم (راہِ راست) کس کی ہے؟ آیا یہ خدا کی ہے یا انبیاء کی؟ کیا یہ راہ آنحضرتؐ کی ہے یا امامؑ کی؟ کیا یہ مومنین کے لئے نہیں ہے؟ اِس کا جواب اِس طرح سے ہے کہ صراطِ مستقیم سب سے پہلے خدائے پاک و برتر کی ہے، کیونکہ راہِ راست کی منزلِ مقصود وہی ہے، یعنی سب کو اسی کے خانۂ نور میں جانا ہے (۴۲: ۵۳، ۲: ۱۵۶) نیز صراطِ مستقیم جملہ انبیاء علیھم السّلام کی ہے، کیونکہ وہ حضرات اس پر لوگوں کے رہنما تھے (۱: ۷، ۴: ۶۸) یہ راہِ راست پیغمبرِ

 

۲۶

 

آخر زمان صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہے، اِس لئے کہ حضورؐ سرورِ انبیاء و سردارِ رُسل ہیں (۱۲: ۱۰۸) نیز یہ رستہ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کا ہے، کہ آپ ہادیٔ برحق ہیں (۱۳: ۷) اور یہ بھی حقیقت ہے کہ صراطِ مستقیم مومنین کی ہدایت کے لئے بنائی گئی ہے (۴: ۱۱۵) بالکل اسی طرح وہ انتہائی پاک و پاکیزہ گھر جو ربّ العزّت کا ہے، وہ مذکورۂ بالا تمام درجات کا ہے، اگرچہ ذاتِ خدائے بے مثل مکان اور لامکان سے بے نیاز و برتر ہے، لیکن اس کی وحدانیت کی معرفت خانۂ نورانیت سے باہر ممکن نہیں (۲۴: ۳۵) یہ گھر جو رحمتوں اور برکتوں سے مملو اور نورِ معرفت سے منور ہے وہ انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کا نور ہے (۲۴: ۳۶) اور یہی نور سے معمور گھر مومنین و مومنات کا بھی ہے، جبکہ وہ مکمل پیروی کرتے ہیں (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۸)۔

۷۔ قانونِ فطرت (پیدائش) یہ ہے کہ ہر چیز ابتداءً ایک محدود سانچے میں بنتی ہے، اس کے بغیر کسی چیز کا وجود میں آنا غیر ممکن ہے، درختوں کا پھل چھلکے کے بغیر اور مغز  گٹھلی کے سِوا نہیں بن سکتا، اور جس طرح انسان کی ہستی و شکل اپنی ماں کی بچہ دانی سے باہر نہیں بن سکتی ہے، اور دوسری طرف سے آپ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بعض اشیاء موجود تو ہیں، مگر اُن کی کوئی مخصوص شکل و صورت نہیں، کیونکہ وہ سانچے کے بغیر بکھری ہوئی ہیں، جیسے عناصرِ اربعہ، یعنی مٹی، پانی، ہوا، اور آگ، چنانچہ بحکمِ خدا و رسول اللہؐ اور صاحبِ امر نے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک مقامی گھر بنا دیا، تاکہ اسی سانچے میں ڈھل کر ہر مرید بحقیقت مومن کہلائے، اور اس کی ایک خاص ایمانی اور روحانی صورت بن جائے۔

۸۔ جہاں رحمتِ کُل کے قانون کی رُو سے یہ ممکن ہے کہ عرشِ عظیم کا ایک نمونہ بصورتِ خانۂ کعبہ زمین پر اُتارا جائے، پھر زمانۂ طوفان میں آسمانِ چہارم پر اُٹھایا

 

۲۷

 

جائے، پھر زمانۂ ابراہیمؑ میں زمین پر اِس کی تعمیرِنو ہوسکتی ہو، اور پھر عہدِ نبوّت میں جہاں مقامی طور پر بھی خدا کا ایک گھر بنایا جا سکتا ہو، تو وہاں یہ بھی ممکن ہے کہ جماعت خانہ خدائے مہربان کے خانۂ ظاہر یعنی کعبۂ شریف اور خانۂ باطن (امامؑ) کی حقیقی نمائندگی کرے، اور یہ بات حق وحقیقت ہے، اور اس میں ذرّہ بھر شک نہیں۔

۹۔ جماعت خانے تین ہیں پہلا عالمی جماعت خانہ، جو امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کا مبارک وجود ہے، دوسرا مقامی جماعت خانہ، جو شہر یا قصبہ یا گاؤں یا محلے کا جماعت خانہ، اور تیسرا انفرادی جماعت خانہ جو بندۂ مومن کا دل ہے، مگر اِن تینوں کی مربوط حکمت مقامی جماعت خانے میں ہے، کہ وہیں پر رفتہ رفتہ روحانی ترقی ہوتی ہے، اور قلبی جماعت خانے کا دروازہ کھل جاتا ہے، پھر وہ نورِایمان سے منور ہو جاتا ہے، اور اسی میں امامِ اقدس و اطہرؑ کا پاک دیدار ہوتا ہے، جو نورانیت کا حقیقی جماعت خانہ ہے۔

۱۰۔ سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

و اوحینا الی موسی و اخیہ ان تبوا لقومکما بمصر بیوتا و اجعلوا بیوتکم قبلۃ و اقیموا الصلوٰۃ و بشر المومنین (۱۰: ۸۷) اور ہم نے موسیٰؑ اور ان کے بھائی (ہارونؑ) کے پاس وحی بھیجی کہ مصر میں اپنی قوم کے لئے گھر بناؤ اور اپنے اپنے گھروں ہی کو مسجدیں قرار دے کر پابندی سے نماز پڑھو اور مومنین کو خوشخبری دے دو۔ ہر ایسے شہر کو مصر کہتے ہیں جس کے گرداگرد صرف فصیل (شہرِپناہ) ہو، اس سے شہرِ روحانیت مراد ہے، کیونکہ اس کے گردا گرد نہ صرف فصیل ہے، بلکہ اس کا ایک دروازہ بھی ہے، چنانچہ اس آیۂ حکمت آگین میں انفرادی جماعت خانوں کی روحانی ترقی کا ذکر فرمایا گیا ہے،

 

۲۸

 

یعنی اللہ پاک نے پیغمبر اور امام علیھما السّلام کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کے حدودِ دین کے لئے شہرِ روحانیت میں گھر بنائیں، اور ان گھروں کو خانۂ خدا کا درجہ دے کر دعوتِ حق کا کام کریں، اور ایسے عروج و ارتقاء سے مومنین کو عملاً خوش خبری دے دیں۔

۱۱۔ سورۂ توبہ (۹: ۱۸) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: خدا کی مسجدوں کو بس صرف وہی شخص (جا کر) آباد کرسکتا ہے جو خدا اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور نماز پڑھا کرے اور زکوٰۃ دیتا رہے اور خدا کے سوا (اور) کسی سے نہ ڈرے تو عنقریب یہی لوگ ہدایت یافتہ لوگوں سے ہوجائیں گے (۹: ۱۸) اگر کہا جائے کہ یہاں مساجد اللہ سے دُنیا بھرکے جماعت خانے یا مسجدیں مراد ہیں، تو پھر ایک ہی شخص اُن سب کی آبادی میں کس طرح حصّہ لے سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ بات ناممکن ہے، چنانچہ یہ ارشاد تاویلی حکمت کا متقاضی ہے، اور وہ حکمت یہ ہے کہ خدا کی مسجدیں یعنی جماعت خانے تین درجوں میں ہیں، جیسا کہ ۹ میں بتایا گیا ہے، عالمی جماعت خانہ (یعنی امامِ وقتؑ)، مقامی جماعت خانہ، اور قلبی جماعت خانہ، اور ان تینوں کو ایک ساتھ صرف وہی شخص اپنی حاضری سے آباد کرسکتا ہے، جو خدا اور یومِ آخر (امامؑ) پر ایمان لائے اور نماز قائم کرے، یعنی کارِ دعوت کو انجام دے، اور ظاہری و باطنی زکات دیتا رہے۔

جب  بندۂ مومن عقیدت و محبت سے متعلقہ جماعت خانے میں جا کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتا ہے، تو اس پُرحکمت عمل سے نہ صرف جمات خانہ آباد ہوجاتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انفرادی اور عالمی جماعت خانہ بھی معمور ہوجاتا ہے، کیونکہ خدا تعالیٰ کے یہ تینوں گھر مربوط اور یکجا ہیں، جبکہ مومن

 

۲۹

 

جماعت خانے سے وابستہ ہے، اور جبکہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ جماعت خانے کی رُوح ہیں، اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو مومن جماعت خانے پر یقینِ کامل رکھتا ہے اس کی رُوح کے ذرّات میں سے ایک خاص ذرّہ ہمیشہ امامِ برحقؑ کی مبارک و مقدّس شخصیت کی خدمت میں رہتا ہے، آپ حقیقتِ رُوح کے بارے میں تحقیق کر سکتے ہیں، اور ذرّاتِ رُوح سے متعلق مضامین کا مطالعہ بھی کرسکتے ہیں، تاکہ رُوح کے بسیط و ہمہ جا ہونے کا حال معلوم ہو سکے۔

۱۲۔ فرمایا گیا ہے کہ: ’’مومن کا قلب (دل) اللہ تعالیٰ کا عرش ہے‘‘۔ لیکن یہاں پوچھنے اور جاننے کی ضرورت ہے کہ اس قول کی اصل حقیقت کیا ہے؟ کیونکہ لفظِ ’’مؤمن‘‘ کا اطلاق تو بہت سے لوگوں پر ہوتا ہے، مگر عرش کا تصور بہت بلند ہے، لہٰذا آپ اِس حکمت کو بخوبی دل نشین کر لیں، کہ مومن کا قلب امامِ زمان صلوات اللہ علیہ ہیں،ا ور اسی مقدّس ہستی میں خدا کا نور جلوہ گر ہے، جیسے قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: و اعلموا ان اللہ یحول بین المرء و قلبہ (۸: ۲۴) اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ آڑ بن جایا کرتا ہے آدمی اور اس کے قلب کے درمیان۔ یعنی حقیقی علم کی روشنی میں تم اِس قانونِ امتحان کو جان لو کہ آدمی اور اس کے دل (یعنی امامِ زمانؑ) کے درمیان خدا کیوں حائل ہو جاتا ہے؟ یقیناً اس میں حکیمانہ اشارہ اور کامیابی کا راز بس یہی ہے کہ ہر شخص اپنے حقیقی دل کے ساتھ اللہ سے رجوع کرے، وہ لوٹ کر اُس طرف سے آگے بڑھے، جس طرف اس کا دل ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ درحقیقت قلبی جماعت خانہ بھی امامِ زمان ہیں۔ و ما توفیقی الا باللہ۔

۲۰ دسمبر ۱۹۸۴ء

 

۳۰

 

جماعت خانہ سے متعلق سوالات

 

سوال نمبر ا: بزرگوار علامہ صاحب! کیا آپ براہِ کرم شمالی علاقہ جات میں جماعت خانوں کے بارے میں کچھ ارشاد فرمائیں گے کہ ان کا قیام کب عمل میں آیا؟ آیا اس بارے میں امامِ عالی مقام صلوات اللہ علیہ کا براہِ راست فرمان تھا یا کسی بزرگ کے توسط سے یہ حکم ملا؟

جواب: آج سے تقریباً ۷۲ سال پہلے ہمارے ملک کے شمالی علاقوں میں جماعت خانے تعمیر ہونے لگے، اور اس مقدّس کام کا حکم حضرتِ آغا عبد الصمد شاہ بزرگ کے ذریعہ موصول ہوا، اور مولائے پاک کے اس پُرحکمت فرمان پر جماعتوں نے جان و دل سے عمل کیا۔

سوال نمبر ۲: شمالی علاقہ جات میں اِس وقت کُل کتنے جماعت خانے ہیں؟

جواب: یہ بات ؁۱۹۷۳ء کی ہے، جبکہ میں اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برانچ گلگت کا انچارج آفیسر تھا، اس وقت میں نے تمام جماعت خانوں کا شمار اور مجموعہ کیا تھا، جس کے مطابق وہاں کے کُل جماعت خانے تقریباً ۳۰۰ (تین سو) تھے، ان میں اسماعیلی فوجیوں کے عارضی جماعت خانے بھی شامل ہیں۔

سوال نمبر ۳: کیا آپ نے روحانی روشنی دیکھی ہے؟ اگر دیکھی ہے تو کب اور

 

۳۱

 

کہاں؟ جماعت خانے میں یا اس سے باہر؟

جواب: الحمد للہ! اس بندۂ کمترین کو یہ سعادت نصیب ہوئی، یہ ؁۱۹۴۸ء کا موسمِ خزان تھا، اور کھارادر کے پُرانے جماعت خانے میں اس نورانی معجزے کا آغاز ہوا، اور منزل بہ منزل اس کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ ذاتی قیامت کا تجربہ ہوا۔

سوال نمبر ۴: کیا آپ قرآنِ شریف سے ثبوت پیش کر سکتے ہیں کہ جماعت خانے کی بہت بڑی فضیلت و مرتبت ہے؟

جواب: جی ہاں، ان شاء اللہ، جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ میں جماعت خانہ کے کمالات کا عاشق ہوں اور اسی کے بارِ احسانات کے نیچے دب گیا ہوں، لہٰذا میں نے فضائلِ جماعت خانہ کے باب میں براہِ راست اور بالواسطہ بہت کچھ لکھا ہے، مختصر یہ کہ خدا کا پہلا گھر خانۂ کعبہ ہے، دوسرا گھر امامِ زمانؑ ہے، جو بیت اللہ شریف کی تاویل ہے، تیسرا گھر جماعت خانہ ہے، جس میں امامِ وقتؑ کا باطنی دیدار اور نورانی معجزات ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا چوتھا گھر بندۂ مومن کا دل ہے، پس قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں بیت اللہ یا حرمت والی مسجد (مسجد الحرام) کی تعریف کی گئی ہے، وہ تاویلاً امامِ زمان علیہ السّلام کی توصیف ہے، جس کی معرفت جماعت خانہ ہی میں ہوسکتی ہے، کیونکہ امامِ عالی مقامؑ کی باطنی ملاقات جماعت خانہ میں ہے۔

سوال نمبر ۵: کیا آپ نے کسی جماعت خانے کی تعمیر میں عملاً حصّہ لیا ہے؟ اگر لیا ہے تو کس علاقے یا کس ملک میں؟

جواب: اس سلسلے میں مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ بڑا عجیب لگتا ہے کہ

 

۳۲

 

میں تین چار سال کا بچہ تھا، جبکہ ہمارے گاؤں حیدر آباد (ہونزہ) میں مرکزی جماعت خانہ کی تعمیر ہورہی تھی، میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ شاید کھیل رہا تھا کہ کسی شخص نے کہا: بچو چلو گود میں بھر بھر کر ریت لاؤ، میں چلا اور چند ننھے منے بچوں کے ساتھ مٹی بھر ریت لانے لگا، اُس وقت میرے ہاتھ میں ایک سُرخ مونگا (RED CORAL) تھا، جس سے میں محبت کرتا تھا، لیکن مجھے خیال آیا کہ اسے جماعت خانے کیلئے قربان کر دینا چاہئے، سو میں نے اس مرجان کو ایک دہری دیوار میں ڈال دیا، اُس عمر کے اعتبار سے یہ کام میرے حق میں ایک کرامت سے کم نہ تھا، آگے چل کر سچ مچ جماعت خانے سے عشق ہوگیا، جس قدر بھی ممکن ہوا جماعت خانوں کی تعمیر میں حصّہ لیا، خصوصاً یارقند (چین) کے جماعت خانے اس حال میں تعمیر کروائے جبکہ جماعت کے بعض بڑے لوگ اس امر کی شدید مخالفت کر رہے تھے، وہ اور کچھ غیر اسماعیلی مخالفین بار بار یہ کوشش کرتے رہے کہ مجھے جاسوس قرار دیں، ہاں وہ مجھے بار بار قید اور نظربند کروانے میں کامیاب تو ہوگئے، مگر ثبوتِ جرم اور مقصدِ قتل میں کامیاب نہیں ہوئے، کیونکہ میرا معاملہ صاف اور پاک تھا اور میں صرف جماعت خانوں کو چاہتا تھا۔

سوال نمبر ۶: جماعت خانے کے بارے میں حدیثِ شریف کا کیا ارشاد ہے؟

جواب: یہاں ایک حدیث شریف کی بات نہیں، بلکہ احادیث کے کلّیات کا کلّ یہ ہے جو ارشاد ہوا:

من کنت مولاہ فعلی مولاہ ۔۔۔ و ادر الحق معہ حیث دار  (میں جس کا سرپرست ہوں تو علی اس کا سرپرست ہے۔۔۔ اے اللہ!

 

۳۳

 

تو حق کو اس کے ساتھ گھما دے جہاں وہ گھومے)۔

یعنی زمانے کا علیؑ بفرمودۂ رسولؐ مومنین کا سرپرست اور مختار ہے، اور خدا نے حق کو اس کے ساتھ کر دیا ہے، پس جماعت خانہ بحکمِ امامِ مبینؑ حق پر مبنی ہے، لہٰذا اس کے بے شمار فضائل ہیں، کیونکہ یہ بیت اللہ شریف کی تاویل ہے۔

سوال نمبر ۷: کیا آپ نے جماعت خانے میں کوئی بڑا معجزہ دیکھا ہے؟ اگر دیکھا ہے تو کہاں اور کس جماعت خانے میں؟

جواب: میں نے قریۂ قرانگغو توغراق (QARANGU TUGRAQ) کے مبارک جماعت خانے میں انتہائی عظیم روحانی معجزے دیکھے، یہ بابرکت گاؤں یارقند (چین) میں ہے، میں نے آج تک جو کچھ لکھا ہے اور جو کچھ کہا ہے، اس کی ساری علمی اور عرفانی برکتیں انہیں معجزات میں سے ہیں، جو اس بندۂ ناچیز پر چین کے جماعت خانے میں ظاہر ہوتے رہے۔

سوال نمبر ۸: جماعت خانے کی عظمت و بزرگی پر عقلی دلیل کیا ہوسکتی ہے؟

جواب: ہر چیز کا ایک دل یا مرکز یا سنٹر ہوا کرتا ہے، اسی طرح عقیدہ اور مذہب کے عروج و ارتقاء کے لئے بھی کوئی خاص مقام ہونا چاہئے، تاکہ انسانیت اور آدمیّت کی تمام تر صلاحیتوں کو فروغ حاصل ہو، اور اجتماعی صورت میں خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا جائے، ورنہ اختلافات کا امکان ہے۔

سوال نمبر ۹: آپ کس عمر سے جماعت خانہ جانے لگے تھے؟

جواب: خدا کے فضل و کرم سے میں بچپن سے جماعت خانہ جاتا تھا، کیونکہ میرے لئے اس میں ایک قدرتی دل کشی پیدا ہوگئی تھی، ہمارے

 

۳۴

 

گاؤں کے بزرگ جب خدا کی عبادت اور حمد کی تسبیح کرتے تھے، اور جس وقت نعت و منقبت خوانی ہوا کرتی تھی، اس سے مجھے بیحد خوشی حاصل ہو جاتی تھی۔

سوال نمبر ۱۰: آپ شروع شروع میں جماعت خانہ کن کے ساتھ جاتے تھے؟

جواب: میں بچپن میں اپنے والدِ محترم کے ساتھ جماعت خانہ جایا کرتا تھا، آپ دین کے دلدادہ، عاشق اور اپنے پیر کے خلیفہ تھے، مجھے یقیناً انہی سے دینی روح ملی۔

سوال نمبر ۱۱: کیا آپ کے علاقے میں جماعت خانوں سے پہلے بھی ذکرِ جلی اور شب بیداری کی رسم جاری تھی؟

جواب: جی ہاں، ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ دینِ اسلام جو دینِ فطرت ہے، وہ شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کا مجموعہ ہے، تاکہ ہر شخص رفتہ رفتہ معرفت میں داخل ہوسکے، اور اس سلسلے میں ذکرِجلی طریقت کا ایک اہم عنصر ہے، لہٰذا حکیم پیر ناصر خسرو کے حلقۂ دعوت میں شب بیداری اور ذکرِجلی کی رسم چلی آئی ہے۔

سوال نمبر ۱۲: آپ نے کس علاقے یا کس جماعت خانے میں زیادہ سے زیادہ شب بیداری کی ہے؟

جواب: اگرچہ روحانی مجلس اور شب بیداری کی مذہبی رسم شمالی علاقہ جات میں بہت پہلے سے جاری ہے، جس میں اکثر و بیشتر میری شرکت ہوتی رہی، تاہم یارقند کے انتہائی شدید امتحانات نے مجھے جماعت خانہ سے وابستہ کرکے شب بیداری کی دولت سے مالا مال کر دیا، تب ہی مجھے پتہ چلا کہ کس طرح ظلمات میں آبِ حیات پوشیدہ ہے۔

 

۳۵

 

سوال نمبر ۱۳: استادِ گرامی! آپ نے تقریباً کتنے جماعت خانوں کو دیکھا ہے، اور ان میں عبادت کی ہے؟

جواب: ہر چند کہ میرے پاس کوئی خاص تعداد ریکارڈ نہیں، لیکن مشرق و مغرب کے ایک دائمی مسافر کی حیثیت سے مجھے بہت سے جماعت خانوں کی زیارت نصیب ہوئی ہے، اور اگر ہر ایسے مقام پر معبودِ برحق کی کچھ عبادت کی گئی ہو تو اس نعمت پر شکر کرنا چاہئے، نہ کہ فخر۔

سوال نمبر ۱۴: آپ کے تجربے کے مطابق کیا سارے جماعت خانے فضیلت و معجزے میں یکسان ہوتے ہیں، یا ان کے درجات ہوا کرتے ہیں؟ اگر درجات ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب: قرآن میں خانۂ خدا کو پاکیزہ رکھنے کا حکم ہے، تاکہ اس میں معجزاتی روحیں آجائیں (۲: ۱۲۵) اس کا آخری اشارہ یہ ہے کہ اہلِ جماعت خانہ ذکر وعبادت اور علم و معرفت کے ذریعہ اپنے باطن کو پاک کریں، تاکہ جماعت خانہ میں امامِ اقدس و اطہرؑ کا دیدار ہو، پس اس وجہ سے جماعت خانوں کے مختلف درجات ہوسکتے ہیں۔

سوال نمبر ۱۵: آپ کی تحریروں سے جماعت خانوں میں معجزات کا اشارہ ملتا ہے، سو آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ بڑے بڑے معجزات آپ نے کس جماعت خانے میں دیکھے ہیں؟

جواب: یہ صرف ذاتی تجربے کی بات ہے کہ میں نے قرانغو توغراق (یارقند) جماعت خانے میں انتہائی عظیم معجزات کا مشاہدہ کیا ہے، اور وہاں کے مختلف قید خانوں میں بھی، اگر ان کی تفصیلات درج کی جائیں تو بہت بڑی ضخیم کتاب ہوسکتی ہے۔

 

۳۶

 

سوال نمبر ۱۶: آپ کو اسمِ اعظم پر عبادت کرنے کی اجازت کہاں اور کب دی گئی تھی؟

جواب: یہ ۱۹۴۶ء کا زمانہ تھا، جبکہ امامِ عالی مقام حضرت مولانا سلطان محمد شاہ ڈائمنڈ جوبلی کے لئے بمبئی تشریف لائے تھے، اس موقع پر بمقامِ حسن آباد مولائے پاک نے اسمِ اعظم کے سرِ اسرار سے نوازا، اور اس گروپ کو تقریباً آدھا گھنٹے تک انمول ہدایات دیں، اس پاک دیدار میں میرے لئے بہت بڑی قیامت پوشیدہ تھی۔

سوال نمبر ۱۷: کیا آپ یہ بتائیں گے کہ جماعت خانے میں شیطان آسکتا ہے یا نہیں؟ اگر آسکتا ہے تو وہ کون سا شیطان ہے، انسی ہے یا جنّی؟ نیز یہ بتائیے کہ خدا کے گھر میں شیطان کس طرح داخل ہوسکتا ہے؟

جواب: شیطان جماعت خانے میں بڑے آرام سے آسکتا ہے، جبکہ درست حفاظت نہ ہو، چاہے انسی شیطان ہو یا جنّی، ایک ہی چیز ہے، خدا کا گھر روحانیت کی صراطِ مستقیم ہے، اور شیطان ہمیشہ یہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ لوگوں کو یہاں سے گمراہ کردے، قرآن (۷: ۱۴ تا ۱۷) میں دیکھ لیں کہ کس طرح شیطان کو قیامت تک مہلت اور آزادی دی گئی ہے۔

سوال نمبر ۱۸: جماعت خانے سے زیادہ سے زیادہ روحانی فائدہ اٹھانے کے لئے کیا کرنا چاہئے، اور کیسی شرائط کی تکمیل ہونی چاہئے؟

جواب: اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کے ان تمام ارشادات کا بغور مطالعہ کیا جائے جو جماعت خانہ سے متعلق ہیں، تاکہ جماعت خانہ سے عشق پیدا ہو جائے، جب یہ پاک عشق ہو تو پھر ہر

 

۳۷

 

مشکل آسان ہوجائے گی، کیونکہ پاک عشق نور ہے، اور نور میں ہر گونہ ہدایت موجود ہوتی ہے، ایسے میں ان شاء اللہ خدا کے گھر کے معجزات ظاہر ہوں گے۔

سوال نمبر ۱۹: کیا آپ جماعت خانہ کی حرمت کے بارے میں کچھ نصیحت کرسکتے ہیں؟

جواب: جی ہاں، ان شاء اللہ، جماعت خانہ، خانۂ کعبہ کی تاویل ہے، اور خدا کی نشانیوں میں سے ہے، (۲۲: ۳۲) اس کی حرمت و تعظیم سے دل کا تقویٰ بنتا ہے، اور جس کے دل میں تقویٰ ہو وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔

سوال نمبر ۲۰: جماعت خانہ اور کعبہ میں کیا رشتہ ہے؟

جواب: وہ مثال ہے یہ ممثول، وہ تنزیل ہے یہ تاویل، اور وہ ظاہر ہے یہ باطن، اسی طرح ان دونوں کے درمیان آسمانی رشتہ ہے۔

سوال نمبر ۲۱: اسماعیلی مذہب میں کتنی قسم کے جماعت خانے ہیں؟ اور وہ کون کون سے ہیں؟

جواب: تین قسم کے جماعت خانے (خدا کا گھر) ہیں: انفرادی جماعتخانہ یعنی قلبِ مومن، مقامی جماعت خانہ اور عالمی جماعت خانہ (امامِ زمانؑ) اور ان کے آپس میں وحدت ہے۔

۲۲ اگست ۱۹۹۲ء

 

۳۸

 

دعائے جماعت خانہ کے فیوض و برکات

 

مومن کو سدا رحمتِ رحمان دعا ہے

طاعت میں یہی مقصدِ قرآن دعا ہے

من احسن قولاً سے دعا ہی کو سراہا

اللہ نے، پس مایۂ ایمان دعا ہے

یہ میوۂ  توفیق ہے یہ مغزِ عبادت

بس حاصل ایمانِ مسلمان دعا ہے

مولا کی اطاعت میں جھکا دو سرِ تسلیم

سمجھو کہ تمہیں ثمرۂ  فرمان دعا ہے

تم راہِ حقیقت میں دعا ہی سے مدد لو

اس راہ میں جب شمعِ فروزان دعا ہے

گرجان میں ہے کوئی مرض یا کہ بدن میں

ہر درد و مرض کے لئے درمان دعا ہے

جب جلوۂ  انوارِ الہٰی کی طلب ہو

دیکھو کہ تمہیں دیدۂ  عرفان دعا ہے

 

۳۹

 

ہے عالمِ دل نورِ حقیقت سے منور

خورشیدِ ضیا بخشِ دل و جان دعا ہے

دنیا میں اگر رنج و الم ہے تو نہیں غم

صد شکر کہ یاں روضۂ رضوان دعا ہے

معلوم ہوئی توبۂ آدمؑ کہ دعا تھی

پھر نوحؑ کا وہ باعثِ طوفان دعا ہے

ہو جائے اگر آتشِ نمرود ہویدا

ہو کوئی خلیلؑ اب بھی گلستان دعا ہے

یونسؑ کو دعا ہی نے دلائی ہے خلاصی

ہر دور میں بس رحمتِ یزدان دعا ہے

ہاں خضرؑ ہوا زندۂ جاوید اسی سے

دنیا میں یہی چشمۂ حیوان دعا ہے

موسیٰ ؑ کو عصا اور یدِ بیضا کے نشانے

حاصل جو ہوئے وجہِ نمایان دعا ہے

عیسیٰؑ میں جو تھا معجزۂ روحِ مقدّس

اس معجزہ کی حکمتِ پنہان دعا ہے

احمد جو ہوئے گوشہ نشین غارِ حرا میں

مقصودِ نبیؐ شمعِ شبستان دعا ہے

مولائے کریم دہر میں ہے نورِ الہٰی

اس نور سے کچھ فیض کا امکان دعا ہے

 

۴۰

 

گر نورِ امامت بمثلِ راہِ خدا ہے

اس راہ میں بھی مشعلِ ایقان دعا ہے

عاشق نے جو کچھ دیکھ لیا دیدۂ  دل سے

صد گونہ یہاں جلوۂ  جانان دعا ہے

تو شام و سحر آکے یہاں ذکر و دعا کر

اخلاق و عقیدت کی نگہبان دعا ہے

جس راہ سے منزلِ وحدت کا سفر ہے

منزل کی طرف وہ رہِ آسان دعا ہے

اس نظمِ نصیری میں ہے اک گنجِ حقائق

گنجینۂ پُر گوہرِ رحمان دعا ہے

 

شوال ۱۳۹۵ھ۔ اکتوبر ۱۹۷۵

 

۴۱

 

جماعت خانہ

 

درونِ نقطۂ توحیدِ بای بسم اللہ

حقیقتیست نہان نکتۂ ولیٔ الٰہ

علیست رہبرِ راہِ خدا و پیغمبر

بگیر دامنِ او تا رسی بمنزلِ جاہ

امامِ جنّ و بشر صاحبِ لوایِ حشر

امیرِ ہر دو سرا بادشاہِ این درگاہ

سخیٔ جملہ خلائق کریمِ دشمن و دوست

علیٔ عالی و آمرزگارِ جرم و گناہ

بحکمِ حضرتِ مولایِ حاضر و ناظر

خوشا شریف مقامی کہ شد عبادت گاہ

مبصرانِ حقیقت شناسِ کونِ صفا

کنند کحلِ بصر خاکِ راہِ این درگاہ

ز ہویِ لشکرِ غمہا چرا تو می ترسی

بیا بخانۂ مشکل کشا تراست پناہ

بیا مریدِ شہنشاہِ دین امامِ زمان

ز بارگاہِ امامت ہر آنچہ خواہی خواہ

 

۴۲

 

بشو باشکِ ندامت اگر تو دانا ای

ترا کہ جامۂ جانِ عزیز گشتہ سیاہ

دلِ من و رہِ عشق تو بعد ازین جانا

اگر برون رود از راہِ تو بیار براہ

مرا بحضرتِ حق ہیچ طاعتی نبود

بجز وظیفۂ عشق و دعایِ نالہ و آہ

نقاب را بکشا ای فروغِ دیدۂ جان

کہ تا بچہرۂ زیبایِ تو کنیم نگاہ

زرنجِ ظلمتِ غم گر نجات می خواہی

بیا بخانۂ نورِ زمانہ شام و پگاہ

برین در است صلایِ نصیرِ بی سامان

دہند آنچہ بخواہد ز لطفِ حضرت شاہ

 

۴۳

 

ترجمہ

 

۱۔ بائِ بسم اللہ کے (خزانۂ) باطن میں ’’(علی) ولی اللہ‘‘ کا نکتہ ایک پوشیدہ حقیقت ہے۔

۲۔ (کیونکہ) علیؑ یقیناً خدا اور رسولؐ کی راہ (یعنی صراطِ مستقیم) کا راہنما ہے، تُو اس کے دامنِ اقدس کو تھام کر رہنا، تاکہ تجھے آخرکار منزلِ مقصود نصیب ہو۔

۳۔ وہ جنّ و انس کا امامِ عالی مقام اور لوائے قیامت (لواءِ الحمد) کا مالک ہے، دونوں جہان میں صاحبِ امر اور اس بارگاہِ عالی کا بادشاہ ہے۔

۴۔ تمام لوگوں کے لئے سخی اور دشمن و دوست کا کریم و فیاض ہے۔ عالی مرتبت علیؑ ہی کی وجہ سے جرم و گناہ کی بخشش مل جاتی ہے۔

۵۔ (چونکہ اللہ و رسولؐ نے امامؑ ہی کو ولیٔ امر بنایا ہے، اس لئے) حضرتِ مولائے حاضر و ناظر کے فرمانِ پاک کے مطابق جو مقام عبادت گاہ (جماعت خانہ) کی مرتبت رکھتا ہو، اس کی کتنی بڑی سعادت ہے۔

۶۔ جن لوگوں کو عالمِ صفا (عالمِ لطیف) سے خصوصی نسبت ہے، اور اہلِ بصیرت ہونے کی وجہ سے حقیقت شناس ہیں، وہ عقیدت و احترام سے اِس درگاہ کی خاکِ راہ کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنا لیتے ہیں۔

۷۔ تو دکھوں اور غموں کے لشکر کے شور و غوغا سے کیوں ڈرتا ہے، آجا مشکل کشا کے گھر میں تیرے لئے مستقل امن و پناہ ہے۔

 

۴۴

 

۸۔ اے شاہنشاہِ دینِ امامِ زمان کے مرید آجا، حضرتِ امامِ عالی مقامؑ کی بارگاہِ عالی سے جو کچھ چاہئے، طلب کر لے۔

۹۔ اگر تُو دانا ہے تو ندامت و پشیمانی کے آنسوؤں سے اپنی پیاری روح کے لباس کو دھو لے، جو (نافرمانی کے میل سے) کالا ہو گیا ہے۔

۱۰۔ اے جانِ جان! اب اس کے بعد میرا دل تیرے پاک عشق کے راستے پر چلتا رہے گا، اگر یہ کبھی بھٹک جائے تو تُو خود اسے (لطفاً) راستے پر لے آنا۔

۱۱۔ یہ سچ ہے کہ خداوند تعالیٰ کے حضور میں میری کوئی بندگی نہیں، ما سوائے مناجاتِ عشق اور گریہ وزاری بھری ہوئی دعا کے۔

۱۲۔ اے میری روحانی آنکھ کی روشنی! (اپنی نورانیت کا) نقاب کھول دے، تاکہ ہم تیرے حسین و جمیل چہرے کو دیکھ سکیں۔

۱۳۔ (اے طالبِ حقیقت!) اگر تو ظلمتِ غم کی تکلیف و اذیت سے چھٹکارا چاہتا ہے تو صبح و شام (یقین کے ساتھ) نورِ زمانہ کے گھر میں آیا کر۔

۱۴۔ اسی مقدّس دروازے پر بے سروسامان (مفلس) نصیر ہر بار (شیئاً لِلّٰہ کی) صدا لگاتا ہے، اور اس کو ہر باطنی نعمت حضرتِ شاہِ ولایت کی مہربانی سے عطا کر دی جاتی ہے۔

نوٹ: میں نے اپنے برادرِ روحانی اور دوستِ جانی محترم عزیز محمد خان (مرحوم) کے پیارے گاؤں قرانگغو توغراق (یارقند چین) کے پاک و بامعجزہ جماعت خانے کو کیسے بھول سکتا ہوں، درحالے کہ اس میں پیش آمدہ واقعات و معجزات میرے دل و ماغ میں کالنّقش فی الحجر (پتھر کے نقش کی مانند) ہو گئے

 

۴۵

 

ہیں، اگرچہ بحدِ قوّت ہر ملک اور ہر مقام کا جماعت خانہ انتہائی معجزاتی ہوا کرتا ہے، تاہم مخفی نہ رہے کہ علم و عمل بے حد ضروری ہے، اور سب سے بڑھ کر قانونِ رحمت بڑا عجیب و غریب ہے۔

میں بارہا عرض کرچکا ہوں کہ فی زماننادورِقیامت جاری ہونے کے ساتھ ساتھ دورِ تاویل بھی ہے، کیونکہ تاویل قیامت کے بہت سے ناموں میں سے ایک نام ہے، جی ہاں! اجتماعی قیامت کے اتنے سارے نام اس لئے ہیں کہ اس کے ظاہری و باطنی کئی پہلو اور بہت سے کام ہیں، یہاں شاید آپ میں سے کوئی عزیز یہ سوال کرے کہ لفظِ تاویل کے معنی میں واقعۂ قیامت کی کون کون سی باتیں پوشیدہ ہیں؟

جواب: تاویل لفظِ اوّل سے مشتق ہے، لہٰذا اس کے لغوی معنی ہیں: کسی چیز کو اوّل کی طرف لوٹا دینا، یعنی مثال میں سے ممثول (روحانی حقیقت) کو معلوم کر لینا، تاہم قرآن میں جس تاویل کے آنے کا ذکر ہے (۷: ۵۳) وہ خزائنِ الہٰی سے نازل ہو کر دنیا میں آنے والی تاویل ہے، جو آفاق و انفس کی آیات کی صورت میں ہے، جس کا ایک نمایان حصّہ سائنسی انقلاب ہے۔

 

۸ دسمبر ۱۹۹۳ء؁

 

۴۶

 

جائے ثواب

جائے ثواب و امنِ خدائی بگو کجاست؟

آن کعبۂ مبارک و آن خانۂ خداست

دانی مثالِ کعبۂ اعظم کہ چیست آن؟

این خانۂ شریف کہ درپیشِ روئے ماست

آن چیست خانۂ ز خدا آنچہ زندہ است؟

مولائے حاضر است کہ او نورِ کبریا ست

ایزد ولیٔ امر کرا خواند در کلام؟

آن را کہ او امامِ زمان است و رہنما ست

بنمائے از حدیث کہ بابِ نبی کہ بود؟

واللہ بابِ نبی ذاتِ مرتضا ست

مولائے مومنان کہ بود بعد مصطفا؟

آن نائب رسول کہ سرتاجِ ہل اتیٰ ست

آن کشتیٔ نجات کدام است در جہان؟

شخصِ امامت است کہ از آلِ مصطفا ست

نورِ خدا کجاست کہ تابانِ ہمی رود؟

در ہستیٔ امامِ بحق شاہِ اولیا ست

 

۴۷

 

آیا ہموست حبلِ خدا یا کسی دگر؟

انسانِ کامل است کہ در دہر پیشواست

آئینۂ خدائے نما کیست بر زمین؟

سلطانِ لا فتا و شہنشاہِ انما ست

شاہِ زمانہ کیست و سردارِ دین کجاست؟

مولا کریمِ عصر کہ سرچشمۂ ہداست

نوری کہ با کتابِ سماویست آن کجا ست؟

در جبہۂ مبارکِ مولا و مقتدا ست

آن مظہرِ خدا و امامِ زمانہ کیست؟

آقائے ما کہ از ہمہ رو پاک با صفاست

خود خازن و خزانہ و مفتاح و در کہ است؟

آن نورِ حق امامِ مبین میرِ دو سرا ست

 

سنگِ بنیادِ جماعت خانۂ سونی کوٹ نہادہ شد۔

چہار شنبہ، ۱۷ جمادی الآخر ۱۴۰۴ھ، ۲۱ مارچ ۱۹۸۴

سالِ موش۔

 

۴۸

 

ترجمہ

 

س۱: (۲: ۱۲۵) بتاؤ کہ لوگوں کے لئے جائے ثواب اور مقامِ امن کہاں ہے؟

ج: ایسا مقام وہ بابرکت خانۂ کعبہ اور وہ اللہ تعالیٰ کا گھر ہی ہے، جو مکہ میں ہے۔

س۲: آیا تم کعبۂ اعظم کی مثال جانتے ہو کہ وہ کیا ہے؟ ج: جی ہاں، یہ فضل و شرف والا گھر یعنی جماعت خانہ اِس کا نمونہ ہے، جو ہمارے سامنے ہے۔

س۳: خداوند عالم کا وہ گھر کون سا ہے، جو زندہ و گویندہ ہے؟

ج: خدائے تعالیٰ کا ایسا گھر مولائے حاضر یعنی امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی پاک و پاکیزہ ہستی ہے، کیونکہ نورِ الہٰی وہی تو ہے۔

س۴: اللہ پاک نے قرآنِ حکیم (۴: ۵۹) میں کس کو ’’صاحبِ امر‘‘ قرار دیا ہے؟

ج: اُس نے انسانِ کامل کو جو زمانے کا برحق امامؑ اور ہادی ہوا کرتا ہے۔

س۵: تم حدیثِ شریف کی روشنی میں یہ دکھاؤ کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علم و حکمت کا دروازہ کون تھا؟ ج: خدا کی قسم آنحضرتؐ کے علم و حکمت کا دروازہ مولا مرتضیٰ علیؑ کا نور ہے۔

س۶: حضرت محمد مصطفیٰ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد مومنین کا مولا و آقا کون ہے؟ ج: وہ بحکمِ حدیث: من کنت مولا ہُ۔۔۔ آنحضورؐ کے جانشین ہیں، یعنی حضرت علی علیہ السّلام، جو  مملکتِ

 

۴۹

 

ہل اتیٰ (۷۶: ۱ تا ۳۱) کے بادشاہ ہیں۔

س۷: اس دنیا میں وہ نجات والی کشتی کون سی ہے، جس کا ذکر حدیث میں فرمایا گیا ہے؟ ج: یہ شخصِ کامل صاحبِ مرتبۂ امامت ہے، جو آلِ حضرت محمد مصطفیٰؐ ہے۔

س۸: خدا تعالیٰ کا نور جس کا ذکر قرآن کے بہت سے مقامات پر موجود ہے، وہ کہاں ہے، جو ازل سے درخشان و تابان روان دوان ہے؟

ج: وہ نور امامِ برحق کی پاک ہستی میں ہے جو اولیاء کا بادشاہ ہے۔

س۹: کیا اللہ کی رسی (۳: ۱۰۳) بھی وہی یعنی امامِ عالی مقامؑ ہے یا کوئی دوسرا شخص؟ ج: وہی انسانِ کامل خدا کی رسی بھی ہے جو زمانے میں پیشوا ہے۔

س۱۰: کہتے ہیں کہ خلیفۂ خدا روئے زمین پر آئینۂ خدا کا کام انجام دیتا ہے، تو وہ کون ہے؟ ج: وہ سلطنتِ لافتیٰ کا سلطان اور ولایتِ انما (۵: ۵۵) کا شاہنشاہ ہے۔

س۱۱: زمانے کا بادشاہ کون ہے اور دین کا سردار کون؟ ج: وہ مولانا شاہ کریم الحسینی امامِ زمان ہی ہیں، جو سرچشمۂ ہدایت ہیں۔

س۱۲: جو نور ابتدا ہی سے آسمانی کتاب کے ساتھ ساتھ آیا ہے، وہ کہاں ہے؟ ج: وہ نور مولا اور پیشوا (امامؑ) کی مبارک پیشانی میں جلوہ گر ہے۔

س۱۳: وہ خدا کا مظہر اور زمانے کا امامِ اطہر کون ہے؟ ج: وہ مظہر ہمارے آقائے نامدار ہیں، جو ہر طرح اور ہر اعتبار سے انتہائی پاک و پاکیزہ ہیں۔

س۱۴: خود ہی خزانہ دار بھی ہے، خزانہ بھی، کلید بھی، اور دروازہ بھی، یہ کون ہو

 

۵۰

 

سکتا ہے جو ان تمام اوصاف کا مالک ہے؟ ج: وہ خدائے بزرگ و برتر کا نور، امامِ مبین، اور دونوں جہان کے امیر (صاحبِ امر) ہے۔

 

نوٹ: سونی کوٹ (گلگت) کی نیک نام جماعت کی خواہش بلکہ پُرزور فرمائش تھی کہ ان کے جماعت خانۂ نو کے کتبہ کے لئے کوئی پُر مغز نظم تیار کر دی جائے، چنانچہ بتائیدِ نورِ الہٰی یہ عالیشان نظم تیاری ہوئی، اور ان حضرات کے بخت سے بڑا تعجب ہوا کہ یہ نظم اپنی اعلیٰ خوبیوں کی وجہ سے کورس میں شامل ہوئی۔

۱۵ جمادی الثانی ۱۴۰۷ھ؁

۱۴ فروری ۱۹۸۷ء؁

 

۵۱

 

حصۂ دوم

 

 

انتسابِ جدیدِ حکمتی

 

کتابِ جماعت خانہ کا ایک حصّہ قبلاً چھپ کر شائع ہوچکا تھا، لیکن اب سفرِ چین کی رپورٹ لکھتے لکھتے کچھ ضروری مقالے ایسے جمع ہوگئے کہ ان کو کتابِ جماعت خانہ میں ہی شامل کرنا بہت مناسب تھا، پس ہم نے کتابِ جماعت خانہ حصّۂ دوم کے عنوان کے اِن خاص مقالوں کو کتابی شکل دی اور اس علمی خدمت کی سعادت عاشقِ مولا فتح علی حبیب اور ان کے نیک بخت افرادِ خاندان نے حاصل کرلی، فتح علی کی فرشتہ خصلت بیگم گُل شکر ایڈوائزر ہماری خداداد بیٹی ہے، ان کی دُختر نیک اختر فاطمہ فتح علی مثلِ فرشتہ ہے، عزیز نزار فتح علی دلدادۂ علمِ حقیقی ہے، ان کی شرافت والی بیگم شازیہ نزار اور لٹل اینجل دُرِ ثمین، عزیز رحیم مرچنٹ ہنرمند ہے اور انکی بیگم نسرین فرشتۂ جسمانی۔ ان میں سے چھ کے پاس آئی ایل جی کا اعزاز بھی ہے۔ مولا ان سب کا مددگار ہو!

دانشگاہِ خانۂ حکمت کے تمام عزیزان فردِ واحد ہوچکے ہیں یہ حظیرۂ قدس کی بات ہے، کل بہشت میں یہ سب اپنی نورانی مووی کو دیکھ کر حیران ہوجائیں گے۔ کیونکہ ان کے عظیم کارنامے بڑے عجیب و غریب ہوں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص معجزانہ طور پر سب میں ہے یعنی ہر روح کے ساتھ سب ارواح جمع ہیں جیسا کہ مولا (روحی فداہٗ) کا ارشاد ہے کہ روح ایک ہی ہے۔

 

۵۵

 

سُبحان اللہ کیسا عظیم الشّان فرمان ہے الحمدللہ!

اس پیاری کتاب کے حصّۂ اوّل میں ہمارے بیحد عزیز انٹرنیشنل لائف گورنر اور فرسٹ پریسیڈنٹ (BIG) بورڈ آف انٹرنیشنل گورنرز غلام مصطفیٰ مومن اور ان کے خاندان کا انتساب درج ہے۔

 

جمعہ یکم، نومبر ۲۰۰۲ء

 

۵۶

 

دیباچۂ کتابِ جماعت خانہ حصّۂ دوم

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) ترجمہ: ہم نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی (ھارونؑ) کو اشارہ کیا (وحی بھیجی) کہ مصر میں چند مکان اپنی قوم کے لئے مہیا کرو یعنی ظاہر میں چند عبادت خانے مراد ہیں، اور باطن میں حدودِ دین اور ان ظاہری اور باطنی گھروں کو ترقی دے کر قبلہ قرار دو یعنی خانۂ خدا قرار دو، اور نماز و عبادت کو قائم کرو، اور اسی طرح روحانی ترقی کے عمل سے مومنین کو خوشخبری دو۔

اِس ارشادِ مبارک میں اہلِ تاویل کے لئے بہت سی ظاہری اور باطنی حکمتیں ہیں جن کی طرف اشارہ کیا گیا۔ پس جماعت خانہ اللہ، رسولؐ، اور امامِ زمانؑ کے امر سے ہے جو خدا کا گھر ہے اور خدا کا باطنی گھر عالمِ شخصی میں ہے، پھر بڑا مبارک ہے ہر وہ شخص جو جماعت خانہ کی معرفت رکھتا ہے، عقل والوں کے لئے جماعت خانے کی معرفت بیحد ضروری ہے یہ اعلیٰ معرفت روحانی قیامت اور قرآن حکیم میں ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کتابِ جماعت خانہ حصّۂ دوم میں جماعت خانے کے بہت سے معجزات کا ذکر ہوا ہے، ان شاء اللہ اس طریق سے عاشقوں کو عرفانی فائدہ حاصل ہوگا، میں اب جماعت خانہ اور امامِ مبین کے معجزات کو چُھپا نہیں سکتا

 

۵۷

 

ہوں کیونکہ گواہی کا چُھپانا اپنے آپ پر بہت بڑا ظلم و ستم ہے (۲: ۱۴۰)۔ ترجمہ: اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا، جس کے ذمے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چُھپائے؟ آیۂ شریفہ یہ ہے:

و من اظلم ممن کتم شہادۃ عندہ من اللہ۔

 

جمعہ یکم، نومبر ۲۰۰۲ء

 

۵۸

 

رباب نے کیا کہا؟

 

۱۔ حضرتِ حکیم پیر ناصر خسرو قدّس اللہ سرّہٗ کے حلقۂ دعوت میں منقبت خوانی دف و رباب کی موسیقی کے ساتھ ہوتی ہے، اس کا رواج تقریباً ہزار سال قبل شروع ہوا، اس مقدّس روایت نے اتنے لمبے عرصے میں گویا مکتبِ عشق اور صورِ اسرافیل کا کردار ادا کیا ہے، جس کے وسیلے سے یہاں کے بے شمار اسماعیلیوں کو امامِ برحق علیہ السّلام سے عقیدت و محبت کی فضیلت حاصل ہوتی رہی، پس یہ اہلِ بصیرت کے نزدیک اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ایک خصوصی نعمت ہے، خدا ہمیں ایسا زمانہ کبھی نہ دکھائے، جس میں یہ پُرحکمت چیز ہم سے چھن گئی ہو۔

۲۔ یارقند (چین) کا ایک واقعہ ہے کہ جب یہ خاکسار درویش اپنے روحانی انقلاب کے مراحل سے گزر رہا تھا، اسی زمانے میں کسی شام کے وقت وہ گھر میں انفرادی ذکر کے دوران رباب کو چھیڑنے لگا (جس کے چھ ۶ تاروں میں سے ایک انتہائی زیر، دو درمیانی زیر، ایک انتہائی بم، اور دو درمیانی بم ہوا کرتے ہیں) خداوندِ تعالیٰ کی قدرت بڑی عجیب وغریب ہے، کہ میں نے جب مضراب سے رباب کے تاروں کو چھیڑا تو کچھ تار صاف آواز میں بولنے لگے، انتہائی بم نے کہا ’’برائے دین، برائے دین‘‘ (یعنی دین کی خاطر، دین کی خاطر) اور درمیانی زیر کے دونوں تار نے کسی معجزانہ شخصیت کے نام کو دہرایا، اس روحانی معجزہ کی

 

۵۹

 

دونوں باتوں سے مجھے بدرجۂ انتہا حیرت ہوئی، یقیناً اس معجزۂ امامِ زمانؑ میں عقلمندوں کے لئے بہت سے اشارے موجود ہیں، نیز اس میں میرے مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی بھی تھی۔

۳۔ صبح سویرے میں ٹھیک وقت پر جماعت خانہ گیا، ریاضت اور عبادت حسبِ معمول ادا ہوگئی، اور جماعت کے افراد اپنے اپنے گھروں کی طرف جا چکے تھے، مگر قبول آخوند جو ایک بڑا مومن شخص تھا، وہ میرے پاس جماعت خانے میں آ کر کہنے لگا: ’’غو جم! (میرے خواجہ!) باہر کچھ لوگ آئے ہوئے ہیں‘‘۔ میں نے اس کے مغموم لہجے اور چہرے سے اندازہ کیا کہ وہ لوگ کچھ اچھی نیت سے نہیں آئے ہیں، پس میں نے زائد دعا و تسبیح ختم کرلی اور آخری سجدہ بجا لا کر باہر نکلا، تو گیٹ کے سامنے مخالفین کا ایک گروہ موجود تھا، جس کی تعداد شاید چالیس اور پچاس کے درمیان تھی، یہ لوگ مجھے گرفتار کرنے کی غرض سے آئے تھے، جس کا سبب یہ تھا کہ وہاں ہمارے جانے سے قبل ہماری جماعت پوشیدہ تھی، کیونکہ کہیں کوئی جماعت خانہ نہیں بنا تھا، لیکن ہم نے جیسے ہی کئی مقامات پر چند جماعت خانے بنوائے، تو اسی کے ساتھ اسماعیلی جماعت ظاہر ہوگئی، جس سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہونے لگی کہ نصیر الدّین کوئی نئی تحریک چلانے کے واسطے یہاں آیا ہے، اس پر مزید مصیبت یہ ہے کہ خود ہماری جماعت کے بعض بڑے لوگ بھی تعمیرِ جماعت خانہ کے مخالف تھے، اسلئے وہ میری شدید مخالفت کرتے تھے۔

۴۔ خداوند تعالیٰ اس حقیقتِ حال کا گواہ ہے کہ جب سے میں نے امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کے روحانی معجزات دیکھے تھے، اور جب جب غلبۂ روحانیت کی مستی طاری ہوتی تھی تو اس حال میں کسی بھی خطرے سے نہیں ڈرتا

 

۶۰

 

تھا، چنانچہ میں نے بڑی دلیری اور بے باکی کے ساتھ ان کے پارٹی لیڈر سے چند سوالات کئے، اور کہا کہ آیا تم نے اسماعیلی جماعت اور جماعت خانے کے خلاف یہ یہ کام کیا ہے یا نہیں؟ وہ بڑی کمزور اور مضطرب آواز میں ’’نہیں نہیں‘‘ بول رہا تھا۔

۵۔ کچھ دیر بعد ایک رائفل مین بھی وہاں حاضر ہوگیا، بڑا موٹا اور لمبا جوان تھا، جس کو دیکھتے ہی سب لوگ احتراماً اُٹھ کھڑے ہوگئے، اور ہر شخص نے گرمجوشی سے اس کے ساتھ مصافحہ کیا، میرے ضمیر نے جو شرابِ روحانیت سے سرشار تھا، کسی آواز کے بغیر حکم دیا کہ اگر میری گرفتاری مطلوب ہے تو میں بکری کی طرح نہیں بلکہ شیر کی طرح گرفتار ہوجاؤں، چنانچہ میں اپنی جگہ سے اٹھا اور اُس سپاہی یا پولیس کی رائفل کو سنگین کے سامنے سے انتہائی سختی کے ساتھ پکڑ کر چھین لینے کی کوشش کی، اور قریب ہی تھا کہ رائفل میرے ہاتھ میں آئے لیکن جب ان لوگوں نے یہ بڑا خطرناک منظر دیکھ لیا، تو فوراً سب کے سب مجھ پر حملہ آور ہوگئے، اور بڑی مشکل سے بندوق میرے ہاتھوں سے چھڑا لی گئی، مجھے یہ واقعہ عجیب لگتا ہے کہ مجھ میں اتنی زبردست طاقت کہاں سے آ گئی؟ جس سے مقابلہ کرنے کے لئے اتنے سارے آدمیوں کی ضرورت ہو! اور یہ بھی بڑی حیرت کی بات ہے کہ اگر رائفل ہاتھ میں آتی تو میں اسے کیا کرتا! میرا کوئی منصوبہ ہی نہ تھا۔

۶۔ حملہ کرنے والوں نے بندوق کا مسئلہ حل کر کے فوراً ہی میرے دونوں ہاتھ میری پشت پر باندھ لئے، اب میں دشمنوں کے ہاتھ میں گرفتار ہوچکا تھا، وہ مجھے اپنے مقام سے کہیں دور لیجانے والے تھے، راستے میں ایک

 

۶۱

 

نابکار آدمی نے (جو انقلاب سے پہلے میرے روحانی بھائی اور دوست عزیز محمد خان کا نوکر تھا) میری پشت پر لات ماری اور گستاخی کی، لیکن دوسرے لوگوں نے اس حرکت کی مذمت کرتے ہوئے منع کیا، آپ باور کریں گے کہ اُس وقت میرا بدن اضافی روحوں کی طاقت سے بھرپور تھا، لہٰذا ایسی کوئی چوٹ اثر انداز تو نہیں ہوسکتی تھی، تاہم نجانے میں نے کیونکر اپنے آقا سے اس گرفتاری اور اہانت کی شکایت کرلی، جس کے جواب میں ایک مقدّس اور پُرجلال آواز نے فرمایا کہ: ’’تم صبر کرو تمہارے نہیں میرے ہاتھ باندھ لئے ہیں‘‘۔ سبحان اللہ! یہ کتنی بڑی عنایت ہے۔

۷۔ ہماری مقامی جماعت شاید اس مشکل مسئلہ کے حل کیلئے سوچ رہی تھی، مگر قبول آخوند جیسے عاشق کو کہاں صبر ہوسکتا تھا، وہ تو جان کی بازی لگا کر اُن لوگوں کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔

۸۔ دریائے زر افشان کے اس طویل پُل کے قریب (جہان سے یارقند کا راستہ قراغالیق اور خوتن کو جاتا ہے) مجھے ایک کھمبے کے ساتھ باندھا گیا، میں بار بار ’’اللہ اکبر‘‘ اور ’’یاعلی‘‘ کے حوصلہ مندانہ نعرے لگاتا رہا، اور دل میں خوف و ہراس جیسی چیز کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں تھی، ہر چند کہ رسی کی سخت بندش کے سبب سے ہاتھوں کی انگلیوں کے سروں سے خون ٹپکنا چاہتا تھا، مگر صبر و ہمت کا روحانی معجزہ ساتھ تھا، یہ بھی ایک آزمائش تھی کہ اس دوران مجھے شدّت سے پیاس لگی تو میں نے پانی مانگا، لیکن اہلِ کربلا کی طرح مجھے پانی سے محروم رکھا گیا، بیچارہ قبول آخوند اپنے بے مثال جذبۂ جان نثاری کے تحت میرے پاس آنا چاہتا تھا، مگر مخالفین پتھراؤ کرکے اسے ہٹا رہے تھے، اور وہ بھی جواباً اُن پر سنگ باری کرتا تھا۔

 

۶۲

 

۹۔ تقریباً چار یا تین گھنٹے تک یہ درویش اس جان گدازستون کے ساتھ باندھا ہوا رہا، درین اثناء مخالفین نے وہاں سڑک کے بیگار (رجاکی) کرنے والے بہت سے لوگوں سے سازباز کرکے میرے قتل کے لئے حکومت کو درخواست لکھ دی، پھر کچھ لوگوں نے مجھے پُل کے پار ایک پولیس چوکی کے حوالہ کر دیا، جہاں مجھے زندگی میں دوسری دفعہ گالی گلوچ اور ضربِ خفیف کا تجربہ ہوا، لیکن پوچھنے پر جب میں نے اپنی داستانِ ظلم و ستم اُن کو سنا دی تو بظاہر وہ خاموش ہوگئے۔

۱۰۔ پت جھڑ کا موسم تھا، اس لئے رات طویل، بڑی ٹھنڈی اور وحشتناک تھی، مگر مومنین اور مجاہدینِ اسلام پر اللہ تعالیٰ کے احسانات ہوا کرتے ہیں، چنانچہ اس ابتلا و امتحان کے دوران عالمِ روحانیت کی آوازیں اس ناچیز درویش کے ساتھ گفتگو کر رہی تھیں، اس حال میں مجھے یوں تصوّر ہونے لگا کہ گوناگون آوازوں اور صداؤں کا ایک طوفانی فوارہ یا ستون میری ہستی سے بلند ہوکر کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، اس میں وہ غضبناک آوازیں بھی شامل تھیں، جو بموجبِ قرآن دوزخ والوں کے لئے مقرر ہیں، اور وہ رحمت آمیز آوازیں بھی، جو اہلِ جنّت کو نوازنے کے لئے ہوتی ہیں، نہ معلوم میں نے یہ بچگانہ گستاخی کس طرح کی اور کہا کہ: اے روحوں کے سردار! اب اسی وقت جبکہ آپ پوری کائنات سے مخاطب ہیں تو فرصت ہی کہاں کہ آپ مجھ ناچیز سے کچھ خطاب فرمائیں۔ سو پاک آواز فرمانے لگی کہ ایسا ہرگز نہیں، ہمیں ہر وقت فرصت ہی فرصت ہے۔ اور آناً فاناً مرکز سے پاکیزہ اور شیرین آواز کی ایک شاخ پیدا ہوکر مجھ سے مصروفِ گفتگو ہونے لگی، درحالے کہ مرکز کسی فرق کے بغیر اپنا کام کر رہا تھا۔

 

۶۳

 

۱۱۔ جب صبح کا وقت ہوچکا تو مجھے واپس یارقند شہر کی جانب چلایا گیا، اور درمیان میں کسی دفتر میں رُکنا پڑا، شام کا وقت ہوچکا تھا، وہ موقع ہی ایسا تھا کہ اکثر اوقات روحانیت کے عظیم معجزات اور اسرار کا مشاہدہ ہوتا تھا، چنانچہ وہاں انگلیوں کے معجزے نمایان تھے، اس کا اشارہ یہ ہوا کہ جس طرح خدا کے دوستوں کی زبان کو تائید حاصل ہوتی ہے، اسی طرح ان کے ہاتھ کو بھی روحانی مدد حاصل ہوسکتی ہے، کچھ دیر کے بعد گاؤں کی جماعت کے دو مومن حکومت کی طرف سے رہائی کا حکم نامہ لیکر پہنچ گئے، اور خدا کے فضل و کرم سے میں بخیر و عافیت واپس گھر پہنچ گیا، جس گاؤں میں میرا قیام تھا، وہاں ہماری جماعت کے صرف ۴۵ گھر تھے، سب نے مل کر متفقہ طور پر حکومت سے درخواست کی تھی کہ ان کے عالمِ دین کو فوراً رہا کر دیا جائے، نیز یہ کہ گاؤں میں حکومت کے ذمہ دار افسران آ کر تفتیش کریں کہ تاجیک جماعت پر یہ ظلم و زیادتی کیوں ہو رہی ہے۔

لفظِ ’’تاجیک‘‘ تازی (عربی) کا مغیّر ہے، جو چین، روس، اور افغانستان میں اسماعیلیوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، القصّہ مقامی حکومت کے سنٹر سے کچھ ذمہ دار افسران ہمارے گاؤں ’’قرانگغو توغراق‘‘ آگئے، جنہوں نے مسلسل نو ۹ دن تک واقعات و حالات کی تحقیقات کی، اور نتیجے کے طور پر یہ حکم صادر کیا گیا کہ تاجیک (اسماعیلی) اپنے مذہب کے معاملے میں آزاد ہیں، وہ دوسروں سے جماعتی طور پر الگ ہیں، ان کے جماعت خانے کی بے حرمتی اور جماعتی سکول پر قبضہ کرنے کی کوشش سراسر ظلم و ناانصافی ہے، اور اگر کوئی شخص اس حکم کے باوجود ان کے عقائد کو نقصان پہنچاتا ہے تو حکومت اس سے خبر لے گی۔ (بحوالۂ کتاب زبورِ عاشقین ۷۶ تا ۸۳)۔

 

۶۴

 

فقط آپ کا خادم

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۰ نومبر ۱۹۸۰ء

 

۶۵

 

علامہ نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی سے ذاتی سوالات۔۱

 

س۔ (۱) حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے حضورِ اقدس میں خصوصی عبادت کی اجازت اور ہدایت کب ملی تھی اور کہاں؟

ج: ڈائمنڈ جوبلی کے زمانے میں (۱۹۴۶ء) اور بمبئی، حسن آباد زیارت کے مقام پر۔

س۔ (۲) آپ نے روحانیت کی اوّلین روشنی کب دیکھی تھی اور کس مقام پر؟۔ ج: یہ کراچی کھارادر کا پُرانا جماعت خانہ تھا، اور سال ۱۹۴۸ء۔

س۔ (۳) رسولِ کریمؐ کا ارشاد ہے تم علم کو طلب کرتے جاؤ، اگرچہ تمہیں اس کی خاطر چین جانا بھی پڑے، کیا آپ اپنے سفر چین کو اس حکم کی تعمیل قرار دیتے ہیں؟۔ ج: نہیں، نہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت تھی کہ اس نے ایک بندۂ ناچیز کو اس بارے میں حسنِ ظن کا موقع عطا کر دیا۔

س۔ (۴) کیا یہ پہلے ہی سے طے شدہ پروگرام تھا کہ ۴۸واں امام باطنی طور پر جزیرۂ صین میں جا کر سب سے بڑی روحانی قیامت برپا کرے گا؟۔

ج: جی ہاں، جی ہاں۔

س۔ (۵) آپ نے جو عظیم نورانی خواب سریقول میں دیکھا تھا، اس میں کیا کیا حکمتیں ہیں؟۔ ج: (الف) جسمانی موت سے قبل نفسانی موت کی بشارت، (ب) باطنی شہادت (ج) ذبیح اللہ کی معرفت (د) جسم سے ماورا زندگی کا مشاہدہ۔

 

۶۶

 

س۔ (۶) جسم سے ماورا زندگی کی کیا مثال تھی؟۔ ج: فضا میں کچھ بلندی پر عالمِ ذرّ جیسا منظر، جس میں چمکتے ہوئے ذرّات کا گویا ایک سمندر، اس میں آپ کی خودی (انا) کیلئے کوئی ایک ذرّہ مقرر نہیں، جبکہ آپ کسی بھی ذرّے میں ہوسکتے ہیں، چنانچہ وہیں سے میں نے زمین پر اپنے بے جان جسم کو دیکھا، سر جسم سے الگ کر کے دیوار سے لٹکایا گیا تھا۔

س۔ (۷) حسن آباد زیارت کے مقام پر امامِ اقدس و اطہرؑ نے کارِ بزرگ کی تعریف میں اور کیا فرمایا تھا؟۔ ج: مولائے پاک نے فرمایا تھا کہ کارِ بزرگ میں بہت سے فائدے ہیں۔

۲۸ دسمبر ۱۹۹۹ء

 

۶۷

 

ذاتی سوالات قسط۔۲

 

س۔ (۱) ڈائمنڈ جوبلی کے زمانے میں آپ کو اپنے محبوب امام کا دیدارِ پاک حاصل ہوا، اس وقت آپ کی کیا عمر تھی؟۔ ج: میں اس وقت تیس سال کا جوان تھا۔

س۔ (۲) آپ کے گاؤں میں جماعت خانہ کی تعمیر کب ہوئی تھی؟۔

ج: ۱۳۴۰ھ=۱۹۲۱ء سالِ مرغ میں۔ یہ مرکزی جماعت خانہ تھا، اب سات جماعت خانے ہو گئے ہیں۔

س۔ (۳) آپ نے تعمیرِ جماعت خانہ کے سلسلے میں کیا خدمت انجام دی؟۔ ج: میں اس زمانے میں ۵ سال کا بچہ تھا، چھوٹے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، کسی شخص نے کہا: چلو بچو! شاباش تم اپنے اپنے دامن میں بھر بھر کر ریت کو لو اور لے جاؤ وہاں سامنے جہاں جماعت خانہ بن رہا ہے، میں اپنے چھوٹے سے دامن میں چند مٹھی ریت لے کر وہاں گیا جہاں مقدّس عمارت کی دُہری دیوار بن رہی تھی، تو دل میں خیال آیا کہ یہاں کچھ نذرانہ پیش کرنا چاہئے، لیکن میرے پاس کچھ بھی نہ تھا، صرف ایک سُرخ مونگا (لڅم) تھا، جس کو میں نے نذرانہ کے طور پر دُہری دیوار کی بھرائی میں ڈال دیا۔

س۔ (۴) آپ پہلے پہل کس عمر میں جماعت خانہ گئے تھے؟۔

ج: میں پانچ سال کی عمر میں اپنے والد صاحب کے ساتھ جماعت خانہ جانے لگا

 

۶۸

 

تھا، پھر آگے چل کر اس نیک عمل میں بہت سی برکتیں پیدا ہو گئیں۔

س۔ (۵) آپ پر سب سے عظیم روحانی انقلاب کب آیا تھا؟ کہاں؟ کس عمر میں؟۔ ج: ۱۹۵۱ء کاشغر میں۔ عمر ۳۵ سال کی تھی۔

س۔ (۶) کیا وہ انفرادی قیامت تھی یا اجتماعی؟۔ ج: اس میں دونوں پہلو تھے، جبکہ انفرادی قیامت میں اجتماعی قیامت پوشیدہ ہوتی ہے۔

س۔ (۷) آپ کے نزدیک ہر جماعت خانہ روحانی معجزات کا مرکز ہے اور اس میں امامِ زمان/ مظہرِ نورِ خدا کا پاک دیدار ہوسکتا ہے، تاہم آپ کے روحانی انقلاب کا زیادہ سے زیادہ تعلّق کس جماعت خانے سے تھا؟۔ ج: میں جزیزۂ صین کے شہر یارقند کے قرانگغو توغراق جماعت خانے کے عظیم معجزات کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔

۲۹ دسمبر ۱۹۹۹ء

 

۶۹

 

ذاتی سوالات قسط۔۳

 

س۔ (۱) کسی بھی جماعت خانے میں امامِ زمانؑ کا نور اُس وقت روحانی معجزات کرتا ہے، جبکہ متعلّقہ جماعت انتہائی فرمانبردار، اور حقیقی عبادت گزار ہوا کرتی ہے، تو کیا آپ قرانگغو توغراق جماعت کی کچھ خوبیاں بتا سکتے ہیں؟۔ ج: جی ہاں، اوّل یہ کہ چین کی جماعت قابلِ تعریف ہے، دوم یہ کہ ان پر ظاہر میں بہت بڑا امتحان آیا تھا، سوم یہ کہ جب جب یہ درویش ان کے سامنے مناجات اور گریہ وزاری کرتا تھا تو وہ سب کے سب اس کے ساتھ برابر کے شریک ہوتے تھے، اور ساتھ ہی ساتھ زمانۂ قیامت بھی تھا، لہٰذا اس جماعت خانے کے روحانی معجزات حرکت میں آ گئے۔

س۔ (۲) کیا روحانی قیامت کے تمام معجزات ہی قرآنی تاویل ہیں۔ (۷: ۵۳)؟۔ ج: جی ہاں۔ آپ نے زلزلۂ قیامت کو کہاں کہاں دیکھا؟۔

ج: دیدارِ اوّل کے موقع پر، عالمِ شخصی میں، اور قرانگغو توغراق جماعت خانہ میں۔

س۔ (۳) کیا آپ نے یہ زبردست اور بے مثال معجزہ بھی دیکھا کہ جماعت خانۂ مذکور نے ذکرِ جلی کیا؟۔ ج: جی ہاں، الحمد اللہ وہ ذکر بڑا عجیب و غریب اور حکمت سے لبریز تھا۔

س۔ (۴) کیا وہ ذکرِ جلی یہ تھا؟: یا علی مولاعلی۔ سلطان محمد شاہ علی۔

 

۷۰

 

ج: جی ہاں۔ الغرض ق ت جماعت خانہ بے شمار روحانی معجزات کا مرکز تھا۔ الحمد اللہ ربّ العلمین۔

۳۰ دسمبر ۱۹۹۹ء

 

۷۱

 

ذاتی سوالات قسط۔۴

 

س۔ (۱) کیا آپ نے یہ معجزہ بھی دیکھا کہ ق ت جماعت خانہ کے گردا گرد کچھ روحیں طواف کرتی تھیں؟۔ ج: جی ہاں۔ یہ سچ ہے، یہ سچ ہے۔

س۔ (۲) کیا یہ سچ ہے کہ آپ نے مرغِ سحر (خروس) کو ہر صبح بروشسکی میں ایک جملہ بولتے ہوئے سنا تھا؟۔ ج: جی ہاں، یہ بات صحیح ہے۔

س (۳) کیا آپ کے نزدیک پرندوں کی بولی سمجھنا دو طرح سے ہے، اوّل ظاہری پرندوں کی بولی جو سرسری چیز ہے، دوم فرشتوں کی زبان سمجھنا جو بہت بڑی بات ہے؟۔ ج: جی ہاں یہ بالکل درست ہے۔

س۔ (۴) آپ جن معجزات کا ذکر کر رہے ہیں، آیا ان کا حوالہ قرآنِ حکیم میں موجود ہے؟۔ ج: جی ہاں، کیوں نہیں۔ آیتِ آفاق و انفس (۴۱: ۵۳) اور آیۂ معرفت (۲۷: ۹۳) کو غور سے دیکھیں، اور یاد رہے کہ آیات ہی معجزات ہیں۔

س۔ (۵) جماعت خانۂ ق ت کا ایک مومن عبدالاحد تھا کیا اس سے متعلّق ایک معجزہ تحریر نہیں ہوا ہے؟۔ ج: جی ہاں، درج ہوا ہے۔ بحوالۂ لعل و گوہر ص۴۱۔

س (۶) کیا قبول آخوند کا واقعہ معجزاتی نہ تھا؟۔ ج: کیوں نہیں۔ لعل و گوہر ص۴۴۔

س (۷) کیا رباب نے آپ سے کچھ کہا تھا؟۔ ج: جی ہاں۔

۳۰ دسمبر ۱۹۹۹ء

 

۷۲

 

ذاتی سوالات قسط۔۵

 

س (۱) کیا آپ کو شروع ہی سے شب بیداری، شب خیزی اور سحر خیزی سے بیحد شادمانی حاصل ہوتی تھی؟ کیا آپ قرآن سے کوئی حوالہ دے سکتے ہیں؟۔ ج: یقیناً زبردست مزہ آتا تھا، کیونکہ شب بیداری سخت ریاضت ہے، شب خیزی قدرے آسان ریاضت ہے، اور سحر خیزی زیادہ آسان ہے، قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ ان بابرکت اوقات کا تذکرہ آیا ہے، تاہم سورۂ مزمل (۷۳: ۱ تا ۲۰) میں ذکر و عبادت سے متعلق جملہ ضروری ہدایات موجود ہیں۔

س (۲) آپ نے بروشسکی نظمیں کب لکھی تھیں، روحانی انقلاب سے پہلے یا بعد میں؟۔ ج: کچھ پہلے لکھی گئی تھیں، اور کچھ بعد میں تصنیف ہوئیں۔

س (۳) آیا آپ نے روحانی انقلاب سے قبل کوئی نثری کتاب لکھی تھی؟۔ ج: نہیں، پہلے میں اس قابل ہی نہ تھا۔

س (۴) آپ کی اس بے مثال کامیابی میں آپ کے والدین کا کیا کردار رہا ہے؟۔ ج: شروع شروع میں میری مذہبی تربیت والدین سے ہوئی، اور بعد میں جب ساڑھے پانچ سال تک چین میں تھا، اس عرصے میں میرے والدین روتے رہے، اور خداوند تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کی گریہ وزاری کو بامقصد اور بابرکت بنا دیا۔ الحمد للہ۔

 

۷۳

 

س (۵) کیا آپ نے اپنی بیگم کی وفاداری اور جانثاری پر کچھ لکھا ہے؟ ج: جی ہاں، میں نے علمی بہار کے شروع میں ’’شبِ قدر اور ایک وفات‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے۔

۶ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۷۴

 

ذاتی سوالات قسط۔۶

 

س (۱) کیا آپ جزیزۂ صین کے لئے شکرگزار ہیں کہ اس میں آپ پر روحانی انقلاب آیا؟۔ ج: جی ہاں، میں جان و دل سے اس ملک کا شکرگزار ہوں۔

س (۲) قیامت کے بہت سے ناموں میں سے ایک نام ہے تاویلِ کتاب (۷: ۵۳) کیا آپ نے ذاتی قیامت کو قرآنی تاویل کی صورت میں دیکھا؟۔ ج: جی ہاں۔

س (۳) سورۂ واقعہ (۵۶: ۸۹) میں روح اور خوشبو کا ذکر ہے، آپ نے اس کا تاویلی معجزہ کس طرح دیکھا ہے؟۔ ج: میں نے روح پر جو کتاب تصنیف کی ہے، اس سے ہر دانا شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ میں نے بعون و عنایتِ الہٰی روح کا مشاہدہ کیا ہے، اور روحانی خوشبوؤں کا تجربہ معرفتِ کُلّی سے الگ نہیں ہے۔

س (۴) روحانی خوشبوؤں کے عجائب وغرائب کا کچھ ذکر کریں؟۔ ج: جو روحانی خوشبوئیں ہیں، وہی روحانی غذائیں بھی ہیں اور غذائی روحیں بھی۔ میری اسیری زندگی میں حضرتِ امام(ع) کے جتنے عظیم معجزات ہوئے ان سب کا اشارہ اس شعر میں ہے: زندانے ایم یاد جہ مݹ بیلٹے تلالجم ۔ جنت نکݳ آر دین نمی زندان لوئیثم۔ قیدخانے کی شیرین یاد کو اب میں کیسے فراموش کرسکتا ہوں، محبوبِ جان میرے لئے جنت لے کر آیا اور گیا، میں نے یہ معجزہ زندان میں دیکھا، الحمد للہ ربّ العلمین۔

۷ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۷۵

 

ذاتی سوالات قسط۔۷

 

س (۱) کیا آپ کے چلۂ اسیری میں روحانی وغیرہ آپ سے کلام کرتے تھے؟۔ ج: جی ہاں، الحمد للہ۔

س (۲) کیا وہ آپ کی مرضی کے مطابق ہر پھل، پھول، وغیرہ کی مجرّد خوشبو کو لا کر آپ کو سونگھا دیتے تھے؟۔ ج: جی ہاں، یہ سچ ہے۔

س (۳) اس عظیم معجزے سے آپ نے کیا نتیجہ اخذ کیا؟۔ ج: مجھے قرآنی ثمرات اور غذائی روح کی معرفت حاصل ہوئی اور یقین آیا کہ بہشت کی غذائے لطیف بھی ایسی ہی ہے۔

س (۴) آیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر چیز میں روح ہے، اور ہر خوشبو میں بھی روح ہے؟۔ ج: یقیناً یہی بات درست ہے، مگر مادّی خوشبو الگ ہے اور روحانی خوشبو الگ۔ قرآنِ حکیم میں اسی خوشبو کا نام رزق بھی ہے۔

س (۵) آیا مریم کے پاس خدا کی طرف سے ظاہری پھل آیا کرتے تھے (۳: ۳۷)؟۔ ج: نہیں یہ مثال ہے، مریم کو روحانی اور علمی میوے آتے تھے۔

س (۶) حضرت عیسیٰؑ کی دعا سے جو خوان آسمان سے نازل ہوا تھا، اس پر کس قسم کی نعمتیں تھیں؟۔ ج: اس پر سب کی سب باطنی نعمتیں تھیں، یعنی روحانی اور عقلی غذائیں تھیں۔

 

۷۶

 

س (۷) کیا چلۂ اسیری میں آپ حسبِ معمول کھانا کھاتے تھے؟۔ ج: ہر گز نہیں۔

س (۸) کیا اسی دوران ایک رات کو حضرتِ قائم القیامت کا پاک دیدار بھی ہوا تھا؟۔ ج: جی ہاں، الحمد للہ۔

۸ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۷۷

 

ذاتی سوالات قسط۔۸

 

س (۱) آپ دین کے خاص اور اعلیٰ اسرار کو کیوں ظاہر کرتے ہیں؟۔ ج: اگر میں اس ضروری شہادت کو چُھپائے رکھوں تو یہ بہت برا ظلم ہو گا (۲: ۱۴۰) اگر میں نے امامِ آلِ محمدؐ کے نور کی روشنی میں قرآن کے روحانی معجزات کو دیکھا ہے، تو میں کس طرح ان پر پردہ ڈال سکتا ہوں۔

س (۲) کیا آپ کی ان باتوں سے امام شناسی اور قرآن شناسی میں لوگوں کو مدد مل سکتی ہے؟۔ ج: ہاں ایسی امید ہے۔

س (۳) آپ قرآن فہمی کی جگہ قرآن شناسی کہتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ ج: کیونکہ قرآن کی معرفت بہت بڑی چیز ہے۔ یاد رہے کہ قرآن اور امام باطن میں دو باہم ملے ہوئے نور ہیں، لہٰذا ایک کو پہچاننے سے دوسرے کی پہچان خودبخود ہوجاتی ہے۔

س (۴) آیا یہ حقیقت ہے کہ آپ نے امامِ زمان کی معرفت میں قرآن کی معرفت حاصل کر لی؟۔ ج: یہ اسی کی بہت بڑی مہربانی ہے۔

س (۵) کیا خزانۂ خزائن (۳۶: ۱۲) سے کوئی بھی روحانی، عقلی اور علمی چیز باہر ہوسکتی ہے؟۔ ج: نہیں نہیں، بفضلِ خدا کلّیۂ امامِ مبین سے کوئی چیز باہر نہیں، پھر قرآن کی روحانیت و نورانیت کیونکر اس سے باہر ہو سکتی ہے۔

۸ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۷۸

 

ذاتی سوالات قسط۔۹

 

س۔ (۱) آفاق و انفس کی آیات و معجزات (۴۱: ۵۳) میں سے جو کچھ آپ کو دیکھایا گیا ہے، اس کو کسی خوف کے بغیر بلا کم و کاست بیان کریں، گھوڑے سے متعلق کیسا معجزہ ہوا؟۔ ج: اسیری چلّہ تمام ہوجانے کے بعد بندۂ درویش گھوڑے پر اپنے وطن کی طرف آنے لگا، اس نے اسماء الحسنیٰ میں سے ایک اسم کا ورد دل ہی دل میں شروع کیا تو چشمِ پوشی کے عالم میں محسوس ہوا کہ گھوڑا مست و رقصان ہوا میں چل رہا تھا، آنکھ کھول کر دیکھنے سے یہ معجزہ غائب ہوگیا، پھر تھوڑی دیر کے لئے آنکھیں بند کر کے اسی اسم کو دل میں پڑھنے سے وہی معجزہ ہوا، الحمد للہ۔

س۔ (۲) کیا آپ اس معجزے کی کوئی حکمت بتا سکتے ہیں؟۔

ج: ان شاء اللہ تعالیٰ، جاننا چاہئے کہ اسمِ بزرگ کا یہ معجزہ گھوڑے کے جسمِ لطیف پر ہوا تھا۔ حدیثِ شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ جنّت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت لطیف گھوڑا بھی ہے۔

س (۳) آیا آپ اس گھوڑے کی بولی سُن رہے تھے؟۔ ج: جی ہاں، منہ اور زبان سے نہیں، بلکہ پیشانی کی طرف سے کچھ باتیں سنائی دیتی تھیں۔

س (۴) کیا آپ کو روحانی انقلاب کی بدولت بے شمار علمی اور عرفانی برکتیں حاصل نہیں ہوئیں؟۔ ج: کیوں نہیں، میں تو اس سے پہلے بہت پس ماندہ

 

۷۹

 

اور علم و معرفت سے خالی تھا۔

س۔ (۵) ایک دفعہ درخت پر سے کوّے نے کیا کہا؟۔ ج: کوّا نے کہا: قار قار، میں نے خیال کیا، شاید یہ قہر قہر کہتا ہے، لیکن لفظ قار قار تھا، اور قار ترکی میں برف کو کہتے ہیں، شاید یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ بوقتِ واپسی مجھے مِنتکا کی گھاٹی میں برف سے بہت تکلیف ہوئی تھی۔

۱۲ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۸۰

 

ذاتی سوالات قسط۔۱۰

 

س۔ (۱) کیا آپ نے اپنے نفسانی موت کے دوران ملک الموت یعنی عزرائیل (۳۲: ۱۱) کو دیکھا تھا؟۔ ج: نہیں، مگر جس اسم کا ذکر کر رہا تھا، وہ صاف صاف سنائی دیتا تھا، اور لگاتار قبضِ روح کا عمل محسوس ہوتا رہتا تھا۔

س۔ (۲) کیا آپ نے عزرائیلی لشکر کو دیکھا ہے؟۔ ج: جی ہاں، ہر لشکر ذرّاتی شکل میں ہوتا ہے، اور وہ سب کے سب مل کر صورِاسرافیل کی ہم آہنگی میں تسبیح خوانی کرتے ہیں، اور سالک کے جسم میں ڈوب کر روح کے بے شمار ذرّات کو قبض کرتے اور واپس کرتے رہتے ہیں۔

س۔ (۳) یاجوج و ماجوج سے متعلّق انتہائی مشکل سوالات تھے، آپ نے امامِ آلِ محمدؐ کے تاویلی خزانے سے بیشتر سوالات کو حل کر دیا ہے، مگر پھر بھی چند سوالات باقی ہیں، آپ سورۂ انبیاء (۲۱: ۹۶) کے حوالے سے یہ بتائیں کہ حَدَبِ=بلندی سے کیا مراد ہے؟۔ ج: ہر بلندی سے حدودِ جسمانی مراد ہیں۔

س۔ (۴) قصّۂ ذوالقرنین (۱۸: ۸۳ تا ۹۹) میں کس کے اسرار ہیں؟۔ ج: علیٔ زمان کے اسرار ہیں۔

س۔ (۵) یاجوج و ماجوج کس کے لشکر ہیں؟۔ ج: صاحبِ زمان کے روحانی لشکر ہیں۔

 

سنیچر ۷ شوال المکرم ۱۴۲۰ھ

۱۵ جنوری ۲۰۰۰ء

۸۱

 

ذاتی سوالات قسط۔۱۱

 

س۔ (۱) کیا آپ اپنی زندگی کے پُرمشقت حالات، طرح طرح کی مشکلات، دوسری طرف سے خداوندی عنایات، اور عمر بھر کے گرانمایہ تجربات کو اس لئے بیان کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس سے بطورِ خاص آپ کے عزیز شاگردوں کی علمی ترقی میں مدد ملے؟۔ ج: جی ہاں، ان شاء اللہ العزیز۔

س (۲) حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے زمانے میں آپ پر ایک بہت بڑا روحانی انقلاب آیا تھا، جسکی وجہ سے کیا آپ کے پاس بے شمار بھیدوں کا بہت بڑا خزانہ نہیں ہے؟ وہ کسی خوف کے بغیر مجموعاً ظاہر کیوں نہیں کرتے ہیں؟۔ ج: الحمد للہ، یقیناً وہ خزانہ موجود بھی ہے، اور حکمت کے طریقوں سے وہ بیان بھی ہوتا رہا ہے، یاد رہے کہ روحانی بھیدوں کو ظاہر کرنے کا بہترین طریقہ قرآنی حکمت ہے۔

س۔ (۳) کیا آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ کی جملہ کتابوں میں وہ سب کچھ ہے جو کچھ آپ کو قرآن اور امام سے حاصل ہوا ہے؟ ج: جی ہاں، پھر بھی میں امامِ زمان کا ایک ادنیٰ مرید اور غلام ہوں۔

س (۴) آپ اور آپ کے تمام ساتھی یہ جو علمی خدمت کرتے ہیں، وہ کس کے لئے ہے؟۔ ج: امامِ زمان علیہ السّلام کے لئے ہے، کہ میں اسی کے

 

۸۲

 

پاک خاندان کا علمی زرخرید غلام ہوں، اسی کے ساتھ عزیز جماعت کا ذکر بھی آیا، نیز ہماری خدمت اسلام کے لئے ہے، مجھے ان تین خدمات پر مزید روشنی ڈالنی ہوگی۔

 

جمعہ ۱۳ شوال المکرم ۱۴۲۰ھ

۲۱ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۸۳

 

روحانی قیامت

 

روحانی قیامت اپنے ساتھ علم و معرفت کے بے شمار معجزات کو لے کر آتی ہے، لیکن کوئی بیچارہ درویش جو قیامت کی چکی میں پِس رہا تھا وہ کس طرح قصّۂ قیامت کو کما کان حقّہٗ بیان کرسکتا ہے؟ اگر تم عاشق ہو تو اس میں سے ہر بات کو سُن لو۔

شاید وہی رات تھی جس میں آتشِ سرد کے بہت سے اسرار ظاہر ہوئے تھے، یہ درویش جس کو ابھی ابھی بہت سے معجزات نے خوف زدہ کیا تھا کہ اس کو چھت کے درمیان بڑا شگاف نظر آیا اور اس کا بالائی آسمان، اور اس میں یو۔ایف۔اوز کے کئی جہاز مجھ پر بمباری کرنے کے لئے منڈلانے لگے، اب چھت میرے اوپر سے تقریباً غائب ہو چکی تھی، میں نے اپنے بیٹے سیف سلمان خان کو جو اُس وقت بہت چھوٹا تھا اور اس کی والدہ کو دوسرے رُوم میں رکھا تھا، تاکہ وہ ان جہازوں کی بمبارمنٹ سے محفوظ رہیں۔

کیا یہ خواب تھا؟ نہیں، کیا یہ بیہوشی کا عالم تھا؟ نہیں، نہیں، میں سب کچھ دیکھ رہا تھا، لیکن اس معجزے کو ناقابلِ فراموش کر دینے کا قدرتی ایک نظام تھا، اور کوئی روحانی آواز دے کر یو۔ایف۔اوز کو بتا رہا تھا کہ دیکھو ٹارگیٹ یہاں ہے، کسی بہت بڑے ملک کا نام لیا جا رہا تھا کہ یہ جہاز وہاں سے آئے ہیں۔

 

۸۴

 

آج یو۔ایف۔اوز نہ صرف سائنس دانوں ہی کے لئے بلکہ بڑے بڑے ممالک کے لئے بھی انتہائی حیران کُن سوال ہیں، مگر ان شاء اللہ ہم درویش لوگ خدائے علیم و حکیم کی ہدایت کی طرف دیکھتے ہیں، آپ قرآنِ حکیم سے رجوع کریں اور آفاق و انفس میں اللہ کی نشانیوں کی پیش گوئی کو بھول نہ جائیں۔ (۴۱: ۵۳)۔

جمعرات ۵ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۸۵

 

غیر معمولی سوالات

 

س: کیا گُڈُر کے دوسرے معنی بھی ہیں؟

جواب: جی ہاں، گُڈُرورد=گول چیز، البتہ یہ اصل معنی ہیں۔

س: آیا عارفانہ قیامت میں عالمِ ذرّ کا ظہور اور یاجوج و ماجوج کا خروج ایک ساتھ ہیں؟

جواب: جی ہاں۔

س: اور سُنو جس دن منا دی کرنے والا قریب ہی سے پکارے گا (۵۰: ۴۱)، قیامت کی منادی کرنے والا کون ہے؟ اور قریب ہی کی جگہ کونسی ہے؟

جواب: وہ عالمِ شخصی کا ایک اساسی فرشتہ ہے، اور وہ قریب ہی کی جگہ کان ہے۔

س: مومن اور مومنہ کے کان بجنے میں کیا اشارہ ہے؟

جواب: یہ صورِاسرافیل کی آواز کا نقطۂ آغاز ہے۔

س: سورۂ قمر (۵۴: ۶) کے مطابق داعیٔ قیامت لوگوں کو کس چیز کی طرف دعوت کرے گا؟

جواب: قیامت اور صاحبِ قیامت کی طرف، جس کی معرفت نہ ہونے کی وجہ

 

۸۶

 

سے بڑی عجیب اور ناگوار ہوگی۔

س: جس رات اُڑن طشتریاں آپ کو مرعوب کر رہی تھیں، اُس وقت آپ کے اوپر جو چھت تھی وہ نظر نہیں آ رہی تھی، کیا یہ معجزہ درست ہے؟

جواب: جی ہاں، میں نے اپنے شاگردوں کے لئے اس کو ضبطِ تحریر میں بھی لایا ہے۔

س: سورۂ نحل (۱۶: ۷۷) میں جس طرح قیامت کا بیان آیا ہے، وہ ہم کو سمجھا دیں۔

جواب: امرِ قیامت (واقعۂ قیامت) آسمانوں اور زمین میں چشمِ زدن سے بھی تیزتر رفتار سے جاری و ساری ہے، مگر حجاب کے پیچھے، اور حجاب حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن کے درمیان ہے۔

منگل ۱۰، اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۸۷

 

 

شاہنشاہِ جِنّات=صاحبِ جثّۂ ابداعیہ

 

قیدخانے میں اتفاق سے آخری چلّہ ہوگیا، جس میں بے شمار عجائب و غرائب کا مشاہدہ ہوا، جن کا بالترتیب بیان میرے لئے غیرممکن ہے، ایک دفعہ رات کے پہلے حصّے میں دروازہ غیرمعمولی طور پر دھماکے کے ساتھ کھل گیا اور اُسی آن وہ بند ہو گیا، اور شاہنشاہِ جِنّات میرے سامنے تشریف فرما ہوگیا، ایک ہاتھ میں رائفل سنگین کے ساتھ اور دوسرے میں ٹارچ، شاید یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ وہ حاملِ نور بھی ہے اور صاحبِ جنگ بھی، میری حالت خوف و حیرت کی وجہ سے دگرگون ہوئی تھی اور میں عجیب قسم کی موت کا شکار ہو رہا تھا، مگر کتنی اعلیٰ موت تھی، الحمد للہ۔

گر عشق نبودی سخن عشق نہ بودی

چندین سخنِ خوب کہ گفتی کہ شُنودی

ترجمہ: اگر عشق نہ ہوتا اور عشق کا بیان نہ ہوتا، تو اتنی عمدہ باتیں کون کہتا اور کون سُنتا۔

زندانہ اُیم یاد جہ مݹ بیلٹہ تل آلجم

جنت نُکَݳ آر دین نمی زندانُ لوئیڎم

قرآنِ حکیم میں بارہا جثۂ ابداعیہ کا ذکر آیا ہے، اور وہ تذکرہ

 

۸۸

 

مختلف مثالوں میں ہے، ان میں سے ایک مثال یسعیٰ نورھم (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۸)=مومنین و مومنات کا نور دوڑ رہا ہو گا، یہ معجزہ ظاہر میں جثۂ ابداعیہ ہے۔

فرعون کے محل میں موسیٰ کو قتل کرنے کے لئے جو میٹنگ ہو رہی تھی، اس سے موسیٰ کو کس نے آگاہ کیا تھا؟ جثۂ ابداعیہ نے، جو شہر سے باہر بیابان میں رہتا تھا، مگر خفیہ طور پر فرعون کے محل میں بھی آیا تھا (۲۸: ۲۰)

جو لوگ کہتے ہیں کہ جنّات نہیں ہیں، وہ قرآن اور روحانیت سے بالکل نابلد ہیں، ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ زمین کے دو حصّے ہیں، کہ اس کا ایک حصّہ آباد ہے جس میں بنی آدم رہتے ہیں، اور دوسرا غیرآباد حصّہ ہے جس میں جنّات بستے ہیں، اگر آپ سوال کرتے ہیں کہ انس و جنّ میں کیا رشتہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان اب جسمِ کثیف رکھتا ہے مگر جِنّ جسمِ لطیف ہے، جنّات بعض اچھے ہیں اور بعض بُرے ہیں، جو نیک جنّات ہیں وہ فرشتے بھی ہیں اور جو بُرے جنّات ہیں وہ شیاطین بھی ہیں اور جو انسان ہر طرح سے نیک ہو وہ لطیف ہو کر نیک جِنّ اور فرشتہ ہو جائے گا۔

اگر آپ کو لفظِ جنّ سے ڈر ہے یا نفرت ہے، تو اس کی وجہ لاعلمی کے سوا کچھ بھی نہیں، خدا کے واسطے جِنّ کو پری قوم سمجھو، اور یہ بات خوب یاد رکھو کہ نہ صرف پری قوم کی عورتیں ہی لطیف اور انتہائی خوبصورت ہوا کرتی ہیں، بلکہ اس قوم کے مرد بھی لطیف اور بدرجۂ انتہا حسین و جمیل ہوتے ہیں، پس اکثر لوگ جس طرح جِنّ کا تصوّر کرتے ہیں وہ بالکل غلط اور گمراہ کُن ہے، اس کی وجہ وہ بے حقیقت کہانیاں ہیں جو زمانۂ قدیم سے عوام النّاس میں چلی آئی ہیں۔

قرآنِ حکیم کی اعلیٰ سطحی حکمت یہ بتاتی ہے کہ خدا ضدّ سے ضدّ کو پیدا کرتا ہے،

 

۸۹

 

پس انسان جو کثیف ہے اس سے لطیف کو پیدا کرتا ہے، یعنی فرشتہ، حور، پری مرد یا عورت، نیک جِنّ وغیرہ۔ حضرتِ آدمؑ سے قبل اس زمین پر جِنّات رہتے تھے (بحوالۂ کتاب دعائم الاسلام، حصّۂ اوّل، عربی، ص۲۹۱)۔

آپ کو اس بھید کے جاننے سے ازحد خوشی ہوسکتی ہے کہ حدودِ جسمانی نہ صرف انسانوں میں سے ہوتے ہیں، بلکہ جِنّات سے بھی حدودِ جسمانی ہوتے ہیں، اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو کہ حضرتِ رحمتِ عالمؐ کے حدود جِنّات میں سے بھی تھے، سورۂ احقاف (۴۶: ۲۹ تا ۳۱) نیز سورۂ جِنّ(۷۲: ۱ تا ۱۵) میں غور کریں۔

 

یوم الاحد ۱۷، ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۹۰

 

حقیقی مومن کا نورانی خواب

 

کسی ملک میں ایک حقیقی مومن شدید تکالیف سے گزر رہا تھا، جن کی وجہ سے وہ بار بار قاضی الحاجات کی بارگاہِ اقدس میں گریہ وزاری کرتا رہتا تھا، اس نے ایک باسعادت رات میں بڑا عجیب نورانی خواب دیکھا کہ حضرتِ امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ اُس کے پاس تشریف فرما ہیں، حضرتِ امام کے جسمِ مبارک پر سفید اُونی چوغہ ہے، جس پر بہت سارے مڈل اس طرح سجائے ہوئے ہیں کہ کوئی جگہ خالی نہیں ہے، امامِ عالی مقام نے مومن سے پوچھا: جانتے ہو کہ میرے چوغے پر یہ کیا چیزیں ہیں؟ اس مُرید نے بصد عاجزی عرض کی کہ مولا بہتر جانتے ہیں، تب امامِ زمان نے جواباً فرمایا کہ یہ سب میرے ظاہری عملدار ہیں، پھر امامؑ نے اپنے چوغے کے اندر کی طرف کے بہت سے تمغوں کو دکھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ میرے باطنی عملدار ہیں، اور فرمایا کہ تم باطنی عملداروں میں سے ہو۔

جمعہ ۱۷، نومبر ۲۰۰۰ء

 

 

۹۱

 

ایک نہایت بابرکت اعتکاف=چلّہ

 

تقریباً چالیس دن تک اعتکاف یا چلّہ اور ترکِ خواب و خور کے بعد جسم میں بڑا انقلاب آیا، اُس اثنا میں غذائی روحانی عطا ہو رہی تھی، جس کا میں نے دوستوں کو زبانی اور تحریری ذکر کیا ہے، جو طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں سونگھا دی جاتی تھی، اور یہ کام عالمِ ذرّ کے جنّات انجام دیتے ہیں، یہ جنّات انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات کی شکل میں ہیں، اور ان کی پرواز کی رفتار برق سے بھی زیادہ تیز ہے، وہ آپ کو دنیا کے کسی بھی حصّے سے پھولوں، پھلوں، جڑی بوٹیوں اور درختوں کے خوشبودار پتوں کی خوشبو فوراً ہی لے آسکتے ہیں، جس سے آپ کے اندر ایک قسم کا جسمِ لطیف پیدا ہوتا ہے۔

خوشبو روح نہیں بلکہ جسم ہے، اس سے جسم کی غذا ہوجاتی ہے، خصوصاً ایسے جسم کی غذا ہوتی ہے جو کثیف سے لطیف ہو رہا ہو، یہی وجہ ہے کہ جنّ و پری پہاڑوں اور دشت و بیابان میں رہتے ہیں، کیونکہ ان کو صاف ہوا سے اوکسیجن وغیرہ ملتی ہے، انبیاء و اولیاء علیھم السّلام نے بہت پہلے ایسے بے شمار معجزات کا تجربہ کر لیا تھا۔

خدا کی خدائی میں ایک ساتھ دو عالم ہیں: عالمِ خلق اور عالمِ امر، ان دونوں میں بڑا فرق ہے، وہ یہ کہ عالمِ خلق میں چیزیں دیر سے تیار ہوتی ہیں، مگر

 

۹۲

 

عالمِ امر میں اللہ کے ’’ہو جا‘‘ فرمانے سے، یا صرف ارادہ فرمانے سے مطلوبہ چیز فوراً ہی سامنے آتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمِ امر میں تمام چیزیں ابداعی طور پر ہوتی ہیں، پس ممکن ہے کہ قیدخانے کی وہ تمام غذائیں جو طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں جنّات لایا کرتے تھے، دراصل ابداعی نعمتیں ہوں، اور یہ میری کمزوری تھی کہ ابداعی معجزات کو اچھی طرح سے نہیں سمجھ رہا تھا۔

چالیس دن تلک میں نے گندم کی روٹی کی شکل تک نہیں دیکھی تھی، ایک دن ایک اجنبی آدمی گندم کی ایک خوبصورت روٹی تھالی میں لے کر آیا اور غائب ہوگیا، کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا، یاد نہیں روٹی تھالی میں توڑی ہوئی تھی یا میں نے خود ٹکڑے ٹکڑے کئے تھے، کھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو روحانی نے منع فرمایا، لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ میں اس معجزے سے شک اور یقین کی کش مکش میں رہا کہ یہ ابداعی معجزہ تھا، یا یہ دنیا کی روٹی تھی؟

لیکن یہ نکتہ خوب یاد رہا کہ بعض معجزے ناقابلِ یقین باتوں میں ہوتے ہیں، اور اگر کسی معجزے میں شک ہوتا ہے تو اس میں بھی حکمت ہے کہ اس میں لوگوں کی آزمائش ہے۔

 

جمعرات ۲۸، ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۹۳

 

وہ بڑا عجیب و غریب تاویلی خواب جو تاشغورغان میں دیکھا!

 

ایک رات شاید مقررہ عبادت کے بعد یہ بہت بڑا حیران کُن خواب دیکھا کہ البتہ میری قربانی ہوچکی تھی، میرا ظاہری سر قریب کی ایک دیوار سے آویزان اور بدن شمالاً جنوباً زمین پر پڑا تھا، اور سب سے بڑی حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میں فضا کی ایک مخصوص بلندی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا، میں یعنی میرا شعور بے شمار ذرّات کے درمیان تھا جو چمکتے تھے، مگر یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ میں کس ذرّے میں ہوں یا ہوسکتا ہے کہ یہ میری روح ہی کے بیشمار ذرّات تھے اور ان سب کی وحدت میری انا تھی، پس میں نے ایک طرف زمین پر اپنے قربان شدہ بدن اور سر کو دیکھا اور دوسری طرف فضا میں اپنی روح کے بے شمار ذرّات کو دیکھا۔

کیا حدیثِ شریف کے مطابق ہر روح بذاتِ خود ایک جمع شدہ لشکر ہے؟ یا تمام روحیں مل کر ایک جمع شدہ لشکر ہیں؟ جب ایک فردِ بشر کا ایک عالمِ شخصی ہوسکتا ہے اور اس میں ایک عظیم سلطنت بھی ہے تو پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس بہت بڑی بادشاہی کا بے شمار روحانی لشکر (یعنی بے حساب ذرّاتِ روح) ہوں، اور ان کا مجموعی نام روح ہو، جس طرح کروڑوں خلیات کے مجموعے کا نام انسان ہے۔

اس نورانی خواب کی آئندہ تاویل عارفانہ موت اور روحانی قیامت تھی، جو دنیا بھر میں سب سے بے مثال اور سب سے عظیم واقعہ تھا، الحمد للہ ربّ العلمین!

 

جمعہ ۶، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۹۴

 

آخری چلّہ کے اَن مِٹ نقوش اور فیوض و برکات

 

قرآنِ حکیم کے زبردست حکمت والے کلّیات میں سے ایک کلّیہ یہ بھی ہے کہ ہر چیز ایک دائرے پر گردش کر رہی ہے، چنانچہ ہم نے بڑے بڑے کائناتی دائرے تو ابھی نہیں دیکھے، مگر بہت سے چھوٹے چھوٹے دائروں کو خوب غور سے دیکھا، مثلاً دائرۂ دانۂ گندم کو، دائرۂ درختِ خوبانی کو، دائرۂ مرغی اور انڈے کو، دائرۂ انسان اور نطفے کو، اور دائرۂ پروانۂ ریشم کو، ان تمام دائروں میں جہاں روح ہے (نباتی، حیوانی، انسانی) اُس میں قانونِ غذا ایک جیسا نظر آتا ہے، وہ ہے غذا کی تبدیلی اور کمی و بیشی۔

انسان کا مجرّد ذرۂ روح سب سے پہلے خزینۃ الارواح سے پشتِ پدر میں آتا ہے، جہاں اس کو نطفے میں ڈال کر جرثومۂ حیات بنایا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ ایسے بے شمار جرثومے ہوتے ہیں، ان میں سے کوئی خوش نصیب جرثومۂ حیات رحمِ مادر میں پہنچ سکتا ہے، اور اس کے بہت سے ساتھی ناکام ہوکر ضائع ہوجاتے ہیں، اہلِ زمانہ کے لئے روحانی پیدائش بھی بالکل اسی طرح مشکل بلکہ ناممکن ہے، مگر اللہ وہ بادشاہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔

بات غذا کی تبدیلی سے متعلق ہے، پس سوال ہے کہ جرثومۂ حیات کی پرورش رحمِ مادر میں کس غذا سے ہوتی رہتی ہے؟ اور یہ بھی پوچھنا ہے کہ جب عورت

 

۹۵

 

کے شکم میں کوئی حمل ٹھہرتا ہے تو اس کا حیض وقتی طور پر بند ہو جاتا ہے، اسکی کیا وجہ ہے؟ آیا یہ بات درست ہے کہ یہ خون گندہ ہو جانے سے پہلے ہی جنین=پیٹ کے بچے کے جسم کا حصّہ بن جاتا ہے۔

بدھ ۱۳، جون ۲۰۰۱ء

 

۹۶

 

کائناتی بہشت

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے امامِ مبین میں سب کچھ گھیر کر اور گن کر رکھا ہے اور اُس کو اپنی قدرت کا کارخانہ اور مظہرِ عجائب و غرائب بنایا ہے، پس جب امامِ زمان علیہ السّلام کے عشق میں مومنِ سالک پر عارفانہ موت اور روحانی قیامت واقع ہونے لگتی ہے تو حضرتِ امامؑ کے عظیم معجزات شروع ہو جاتے ہیں، مومنِ عاشق کو حیرت بالائے حیرت ہوتی رہتی ہے۔

صورِاسرافیل کا لاہوتی معجزہ ایسا ہرگز نہیں کہ دنیائے ظاہر میں اس کی کوئی تمثیل ہو، عزرائیلی معجزہ بھی بڑا حیران کُن ہے، ساتھ ہی ساتھ عالمِ ذرّ کا ظہور اور خروجِ یاجوج و ماجوج، اس کے ساتھ ساتھ کُلّ ارواح کا حشر اور پھر نشر، یعنی القابض اور الباسط کا عملِ مسلسل، اس میں مجھے قرآنِ حکیم میں امامِ وقت کی تائید حاصل تھی ورنہ میں ان عظیم معجزات کی جلالت و ہیبت سے نیست ونابود ہوجاتا، مگر خدا کے فضل و کرم سے اور رحمتِ عالم (صلعم) کی رحمت سے میں ناچیز مرمر کر زندہ ہوگیا۔

اب میں اُس عظیم ملکِ صین کو سلام کرتا ہوں، شہرِ یارقند کو سلام کرتا ہوں، قرانگغو توغراق جماعت خانہ کو بار بار ترکی سلام کرتا ہوں، عزیز محمد خان اور اسکے افرادِ خاندان کو سلام کرتا ہوں، اس گاؤں کی جماعت کو سلام و دعا کرتا ہوں، اس اپنے گھر کو سلام کرتا ہوں جو جماعت خانہ سے متّصل تھا، اور یارقند کی جماعت کو سلام کرتا ہوں، آمین!

ہفتہ ۲۱، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۹۷

 

چین میں اوّلین جماعت خانہ اور اس کے معجزات نمبر ۱

 

ارشادِ نبوی ہے: اطلبوا العلم و لو بالصین۔

ترجمہ: علم کو ڈھونڈو اگرچہ اس کے لئے تمہیں چین جانا پڑے۔ سعادتِ ازلی اور حسنِ اتفاق سے یہ بندۂ کمترین چین گیا: ۔

این سعادت بزورِ بازو نیست                     تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو بہت سی سعادتیں ایک ساتھ بھی حاصل ہوسکتی ہیں، ہاں ہاں، اُس کا فضل و کرم اور فیاضی بے مثال ہے۔

شہر یارقند کے ایک گاؤں کا نام قرانگغو توغراق تھا، اس بابرکت گاؤں میں ۴۵ اسماعیلی خاندان آباد تھے، ان میں ایک نامور اسماعیلی عزیز محمد خان کا خاندان بھی شامل تھا، عزیز محمد خان نہ صرف ایک بڑا دولت مند اسماعیلی تھا، بلکہ اس سے کہیں زیادہ عشقِ مولا میں امیر تھا، علم و حکمت کا شیدائی، ذکر وعبادت کا فدائی، شب خیز مومن، نیک کاموں کا مشتاق تھا، یہ وہ بڑا خوش نصیب مردِ مومن تھا جس نے ذاتی اخراجات سے ملکِ چین (یاقند) میں سب سے اوّلین جماعت خانہ تعمیر کیا جو باکرامت و معجزاتی جماعت خانہ قرار پایا، اس پاک جماعت خانہ میں جو کچھ دیکھا گیا تھا اگر میں کسی وجہ سے پوشیدہ رکھوں تو اپنے آپ پر بڑا ظلم ہو گا (۲: ۱۴۰) چونکہ تمام جماعت کیلئے بہت بڑا امتحان تھا، لہٰذا جماعت خانہ میں عاجزانہ عبادت اور گریہ وزاری ہوتی رہتی تھی، جس کی وجہ سے جماعت خانے کے بعض معجزے ظہور پذیر ہونے لگے۔

اتوار ۲۲، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۹۸

 

چین میں اوّلین جماعت خانہ اور اس کے معجزات نمبر ۲

 

قرانگغوتوغراق (یارقند) چین کا یہ جماعت خانہ ۱۹۴۹ء میں تعمیر ہوا، اور یہ بندۂ درویش بھی اسی سال وہاں پہنچا تھا، حکیم پیر ناصر خسرو (قدّس اللہ سرّہ) کے حلقۂ دعوت میں ذکرِجلی کی روایت بھی چلی آئی ہے اور گریہ وزاری بھی، قرآنِ حکیم (۷: ۱۸۰) میں اللہ تعالیٰ کا پاک ارشاد ہے کہ اسماء الحسنیٰ اُسی کے لئے ہیں پس جب بھی تم اللہ کو پکارو تو اس کو انہی ناموں سے پکارنا، ہم اس کی تفسیر و تاویل کے لئے ارشاداتِ أئمّۂ آلِ محمدؐ سے رجوع کرتے ہیں۔

چنانچہ اُس پاک جماعت خانے میں ہم سب دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے زندہ اسمِ اعظم پر عشق و محبت کے ساتھ ذکرِ جلی بھی کرتے تھے، کچھ عرصے کے بعد جبکہ میں رات کے وقت جماعت خانہ میں تنہا تھا تو قادرِ مطلق کی قدرت سے جماعت خانہ کی چار دیواری، فرش اور سِلِنگ نے یا جماعت خانہ کے تمام ذرّات نے یا نورِ جماعت خانہ نے یا اس کی روح نے اسی زور و شور سے ذکرِ جلی کیا، جس طرح ہم جماعت قبلاً ذکر کرتے رہتے تھے، معجزہ انسانی عقل سے ماوراء ہے، اس لئے ہم اس کی تحلیل نہیں کر سکتے ہیں۔

اسی طرح ایک اور رات صرف جماعت خانہ میں زلزلۂ روحانی آیا اور کہیں بھی نہیں، یہ ظاہری بھونچال ہرگز نہ تھا، ایک رات مجھے یہ احساس و ادراک بھی ہوا کہ کوئی

 

۹۹

 

روحانی لشکر جماعت خانے کے گردا گرد طواف کر رہا تھا، اس میں بڑی حیرت کی بات تو یہ تھی کہ وہ اللہ کے سپاہی زمین پر زور سے پاؤں مارتے ہوئے چلتے تھے، چال اور آواز سے معلوم ہوا کہ ان میں میرے والدِ محترم بھی شامل تھے، قرآنِ حکیم کا حکمتی اشارہ ہے کہ اللہ کے گھر سے تین قسم کے جسمانی اور تین قسم کے روحانی وابستہ ہیں (۲: ۱۲۵) وہ یہ ہیں: طواف کرنے والے، اعتکاف کرنے والے اور رکوع و سجود کرنے والے۔

 

اتوار ۲۲ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۰

 

چین میں اوّلین جماعت خانہ اور اس کے معجزات نمبر ۳

 

سوال: مبارک جماعت خانہ نے وہی ذکرِ جلی کر کے دیکھایا جو اس سے پہلے افرادِ جماعت کرتے رہتے تھے، اس کی حکمت یا تاویل کیا ہے؟

حکمتِ اوّل: یہ امامِ زمان کا نور تھا۔

حکمتِ دوم: یہ جماعت خانہ کی پاک روح تھی۔

حکمتِ سوم: جماعت کی متحدہ روح تھی۔

حکمتِ چہارم: یہ ایک زندہ معجزہ تھا۔

حکمتِ پنجم: یہ نامۂ اعمال کی ایک جھلک تھی، وغیرہ۔

سوال: زلزلۂ روحانی میں کیا حکمت تھی؟

جواب: یہ معجزاتِ جماعت خانہ میں سے ایک معجزہ تھا، حرکت زندگی کی علامت ہے، لہٰذا یہ اشارہ تھا کہ اس پاک گھر کی ایک پاک روح موجود ہے، وہ پاک روح امامِ زمان کا نور ہے۔

ایک دفعہ بوقتِ روز میں جماعت خانہ میں تھا، اس حال میں فاختہ جیسے بہت سے پرندے صحن میں تھے، کسی آواز نے ان کو جماعت خانے کی طرف بلایا اور وہ میری طرف آنے لگے اور مجھ پر ایک زبردست رعب طاری ہوگیا، حالانکہ ظاہر میں اس کی کوئی وجہ نہ تھی، کیونکہ وہ چھوٹے چھوٹے پرندے تھے، مگر ایسا

 

۱۰۱

 

لگتا تھا کہ ان پر کسی روح کا کنڑول تھا، تاہم یقیناً وہ اچھی روح تھی، کیونکہ وہ صاف اور ستھرے پرندے تھے جو اکثر جماعت خانہ کے صحن میں آیا کرتے تھے۔

خُرُوسانِ سَحَر گویند کہ قم یایھا الغافل

تواز مستی نمی دانی کسی داند کہ ہشیار است

ترجمہ: صبح سویرے بولنے والے مرغے بولا کرتے ہیں کہ اے غافل شخص اُٹھ جا (عبادت کے لئے) تو اپنی مستی کی وجہ سے اس پکار کو نہیں سمجھتا کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس کو صرف کوئی دانا سمجھ سکتا ہے، سبحان اللہ! مرغ کی اذان میں ایک بڑا راز ہے، خدا اس حقیقت کا گواہ ہے کہ قریب کا کوئی مرغا گاؤں والوں سے کچھ کہا کرتا تھا۔

اتوار ۲۲، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۲

 

چین میں اوّلین جماعت خانہ اور اس کے معجزات نمبر ۴

 

بحوالۂ کتابِ دعائم، عربی، جلدِ اوّل، کتابُ الحج، ص۲۹۲: ۔

زمین پر سب سے پہلے بحکمِ خدا فرشتوں نے اللہ کا گھر بنایا تھا، وہ زمانۂ طوفان میں آسمانِ چہارم پر اُٹھایا گیا، جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے زیارت کے لئے داخل ہو جاتے ہیں کہ پھر کبھی لوٹ کر نہیں آسکتے، اس کی حکمت یہ ہے کہ اللہ کے پاک گھر کی روح و روحانیت ہے، اسی حیثیت میں وہ مقدّس گھر آسمانِ چہارم پر مرفوع ہوا تھا، پس جماعت خانہ بیتُ اللہ شریف کی تاویل ہے، لہٰذا قرآن و حدیث میں جو کچھ بیت اللہ کی شان میں ہے تاویلاً جماعت خانہ کی شان میں ہے۔

خود ستائی کفر اور شرک ہے، اللہ ہر مومن کو اس سے بچائے! لیکن دینِ اسلام میں شہادت (گواہی) کی جو اہمیت ہے وہ سب پر عیان ہے، پس اگر میں نے اللہ کے زندہ اسمِ بزرگ کا کوئی معجزہ دیکھا ہے تو اس پر کونسا پردہ ڈال سکتا ہوں اور کیوں؟ شروع شروع میں میرے اپنے لوگوں میں سے بعض مجھے یہ نصیحت کرتے تھے کہ روحانیت کے بھیدوں کو ظاہر کرنے کی اجازت نہیں، لیکن وہ یہ نہیں سوچتے تھے کہ یہ حکم دورِ قیامت کے لئے نہیں ہے۔

پیر ۲۳، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۳

 

چین میں اوّلین جماعت خانہ اور اس کے معجزات نمبر ۵

 

اللہ تعالیٰ جلّ جلالہٗ و عمّ نوالہٗ کے عظیم اور سلسلہ وار احسانات اور انعامات کی شکرگزاری سے زبان قاصر ہے، اور یہ بات بالکل سچ اور حقیقت ہے کہ ہم اللہ کی نعمتوں کو کبھی شمار بھی نہیں کرسکتے ہیں، بہرکیف یہاں معجزات کا تذکرہ ہو رہا ہے۔

میری مذہبی زندگی کا سب سے بڑا یوم وہ تھا جس میں حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ ارواحنا فداہٗ نے برقی بدن (جثّۂ ابداعیہ) میں اپنا پاک ظاہری، نورانی، معجزاتی دیدارعطا فرمایا تھا، اس کا بیان میرے لئے سب سے مشکل اس لئے ہے کہ یہ سب سے بڑا معجزہ ہے، اس کو بیان کرنے کیلئے شایانِ شان الفاظ ہمارے پاس کہاں ہیں، مگر ہاں ایک چارۂ کار ہے، وہ یہ ہے کہ ہم آ ئینۂ قرآن میں دیکھیں، کیونکہ حضرتِ امام محمد باقر علیہ السّلام نے ہماری اس مشکل کو بہت پہلے ہی آسان کر دیا ہے، وہ ہے  ما قیل فی اللہ  کا ارشادِ مبارک، اب میں کئی آیاتِ قرآنی کی تاویلی زبان میں برقی بدن میں دیدار کی معرفت بتا سکتا ہوں۔

آپ اس شعر کو سُن لیں: ۔

آئینۂ خدائے نما مرتضیٰ بُوَد                     در چشمِ جان تجلّیٔ جانان کُند علی

ترجمہ: مرتضیٰ علی آئینۂ خدا نما ہے، اگر دل کی آنکھ سے دیکھا جائے تو علی ہی خدا کی تجلّی کرتا ہے۔

 

پیر ۲۳، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۴

 

ناقابلِ فراموش معجزات۔۱

 

جی ہاں، تقریباً سب معجزے ناقابلِ فراموش ہوتے ہیں، مگر پھر بھی انسانی یادداشت کی کمزوری اپنی جگہ پر ہے، میری بروشسکی شاعری کا اوّلین شعر کسی سوچے ہوئے منصوبے کے بغیر حاضر امامؑ کے مبارک اسم سے شروع ہوا، اور اُس اوّلین نظم کا موضوع امام کا عشق ہے۔

اس بندۂ مسکین کو حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا پاک ظاہری دیدار سب سے پہلے ۱۹۴۶ء میں شہر پونا میں حاصل ہوا: ۔

جار جلوہ اوّل غنم لو زلزلہ دیمی =  جب میں نے اس کا پہلا جلوہ دیکھا تومجھ کو ایک ذاتی زلزلہ ہوا۔

میں حسن آباد زیارت (بمبئی) کے اُس حکمت آگین دیدار کو کیسے بھول سکتا ہوں، جس میں میرے مولا نے مجھے تحفۂ لازوال عطا فرمایا تھا، اُس بابرکت تحفے میں ایک عالمِ شخصی پنہان تھا اور ایک کائناتی بہشت بھی تھی، میں مردۂ جہالت تھا میرے مولا نے مجھے حیاتِ سرمدی کا ایک بے مثال نسخہ لکھ کر سمجھا دیا۔

میں پرانا جماعت خانہ کھارادر کراچی کو ہمیشہ یاد کرتا ہوں، کیونکہ میں نے اس میں شب خیزی کی ریاضت کی اور تقریباًایک چلّہ کے بعد اسمِ اعظم کی پہلی روشنی کا مشاہدہ کیا، یہ ۱۹۴۸ء کا زمانہ تھا۔

میں نے تاشغورغان کے انتہائی عجیب و غریب نورانی خواب کو قبلاً لکھ دیا ہے، کیونکہ اس خواب میں ایک تاویلی خزانہ پوشیدہ ہے۔

منگل ۲۴، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۵

 

ناقابلِ فراموش معجزات۔۲

 

ایک شب میں نے بڑا عجیب صالح نوارنی خواب دیکھا، حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام روحی فداہٗ کا پاک دیدار بہت ہی قریب سے حاصل ہوا، آپؑ نے ایک صاف و سفید ہونزائی اُونی چوغہ زیبِ تن کیا ہوا تھا جس پر بہت سے تمغے (میڈلز) لگے ہوئے تھے جن کی طرف دستِ مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے بندۂ کمترین سے سوال فرمایا کہ جانتے ہو یہ کیا ہیں؟ میں نے عاجزی سے گزارش کی کہ مولا بہتر جانتے ہیں، پھر مولا فرمانے لگے کہ یہ سب میڈلز جو میرے چوغے پر بیرونی جانب سے ہیں وہ میرے ظاہری عملدار ہیں، پھر امامِ عالی مقام نے اس چوغہ کے اندر کی طرف لگے ہوئے بہت سے منڈلز کو دیکھاتے ہوئے فرمایا کہ میرے باطنی عملدار بھی ہیں، اور فرمایا کہ تم باطنی عملداروں میں ہو۔

شمالی علاقہ جات میں امامِ آلِ محمدؐ کے بہت سے ظاہری اور روحانی معجزات ہوئے ہیں جن کو چشمِ بصیرت سے دیکھا اور پہچانا جا سکتا ہے، منجملہ ایک معجزہ یہ بھی تھا کہ مولا نے جب میر غزن خان ثانی کو کارِ بزرگِ اوّل و دوم عطا فرمایا تو اس کے دل میں جو عشقِ مولا تھا اس میں زبردست اضافہ ہوا، اس نے اپنی تمام رعیت کو کارِ بیگار وغیرہ سے آزاد کر دیا، وہ ہر شبِ جمعہ از شام تا سحر دف و رباب کے ساتھ حضرتِ امام کی منقبت خوانی کو سنتا رہتا تھا، وہ میر محمد نظیم خان کا بیٹا اور میر محمد جمال خان کا باپ تھا۔

بدھ ۲۵، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۶

 

امامِ آلِ محمدؐ کے تاویلی معجزات۔۱

 

رسولِ اکرمؐ کا سب سے دُوررس ارشاد یہ ہے: ۔

اطلبوا العلم و لو با لصین۔  تم علم کو طلب کرو اگرچہ تمہیں اس کی خاطر چین جانا پڑے۔

اس حدیثِ شریف کا وہ تاویلی معجزہ جو انتہائی حیران کُن اور بے مثال ہے، حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ (روحی فداہٗ) نے کمالِ رحمت و مہربانی سے دکھایا، اور امامِ آلِ محمدؐ کے اس قیامت خیز اور طوفانی معجزے میں عجائب و غرائب کی لاتعداد کائناتیں موجود ہیں، علیِٔ زمان کے ان تاویلی معجزات میں وَاللہ ہر قسم کے مشکل سوالات کے لئے جوابات ہیں۔

قرآنِ حکیم اور دینِ فطرت (اسلام) کی بہترین خدمت سرمایۂ حکمت ہی سے ہو سکتی ہے، مادّی سائنس کی انقلابی ترقی سے تمام لوگ حیرت زدہ ہیں، اے دانا لوگو! ایسے میں ذرا روحانی سائنس اور قرآنی حکمت کے عجائب و غرائب کو بھی دیکھا کرو! اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قرآن ظاہری سائنس کے خلاف ہے، جب قرآن کا ایک اسمِ صفت حکیم ہے اور یہ اپنی کئی آیاتِ کریمہ میں حکمت کی شاندار تعریف فرماتا ہے تو اسی میں مادّی سائنس کی تصدیق و تعریف بھی ہے، کیونکہ حکمت کا کوئی ایک رُخ نہیں بلکہ وہ آفتابِ عالمتاب کی طرح ہمہ جہت روشنی پھیلانے والا گوہر ہے۔

 

جمعہ ۲۷، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۷

 

امامِ آلِ محمدؐ کے تاویلی معجزات۔۲

 

یارقند، قرانگغو توغراق جماعت خانہ کے صحن میں جس شام آتشِ سرد=ٹھنڈی آگ کا تاویلی معجزہ ہوا تھا وہ کئی عظیم معجزات کا جامع تھا، میں صحن میں کھڑا تھا کہ پانی کے بہاؤ کی طرح کوئی چیز میری طرف آنے لگی، قریب آنے پر معلوم ہوا کہ یہ ایک عجیب قسم کی آگ تھی، بعد میں پتا چلا کہ یہ وہ آگ تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے زمانے میں ٹھنڈی اور باعثِ سلامتی بنایا تھا (۲۱: ۶۹)۔

پس یہ آگ میرے جسم سے لپٹتی ہوئی سر سے بہت بلند ہو گئی، ایسا لگا کہ یہ آسمان کو چُھو رہی ہے، میرے ساتھ کچھ روحانی ساتھی تھے ان میں سے ایک نے کہا کہ تم اپنے سر کو جھٹکا دے کر اس کو پرے گرادو، تو میں نے ایسا ہی کیا اور وہ آتشِ سرد کا ٹاور گر کر چُور چُور ہو گیا، مگر فوراً ہی تمام ٹکڑے آپس میں مل گئے اور پھر وہی ٹاور سر سے بلند ہو گیا، مجھے روحانی ساتھی نے سر کو ہلا کر اس ٹاور کو گرانے کا حکم دیا اور میں نے اس کو گرا دیا۔

اب تیسری دفعہ یہ ٹاور پھر میرے سر سے بلند ہو کر آسمان کو چھونے لگا، اب کی میری کوشش سے اس ٹاور کو کچھ نہیں ہو رہا تھا وہ اپنی جگہ قائم تھا، اب مجھے بہت پریشانی ہونے لگی، میں نے طرح طرح کی دعائیں شروع کیں، پھر یہ ٹاور فوّارہ جیسا ہوا اور اس سے جو قطرات گِرتے تھے وہ چھوٹے چھوٹے جاندار بن

 

۱۰۸

 

جاتے تھے، لہٰذا بعد میں مجھے یہ یقین آیا کہ جِنّات آتشِ سرد سے پیدا کئے گئے ہیں، اور وہ کُرتے بھی جو گرمی سے بچانے کے لئے ہیں (حوالہ: ۱۶: ۸۱) میرے کانوں میں چھوٹے چھوٹے جانور داخل ہوئے تھے، لہٰذا بیقراری کا عالم تھا۔

ہفتہ ۲۸، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۹

 

امامِ آلِ محمدؐ کے تاویلی معجزات۔۳

 

آج کی زبردست ترقی یافتہ دنیا میں سب سے بڑا مسئلہ یو۔ایف۔اوز کے بارے میں ہے، جو کوئی بھی اسے حل نہیں کرسکتا ہے، سائنسدانوں نے ان کو جیسا نام دیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ وہ ان کو پہچاننے سے عاجز ہیں۔

معجزۂ آتشِ سرد کا بارِگران میرے لئے آسان نہ تھا، میں اپنے گھر داخل ہو آیا ہی تھا اتنے میں یو۔ایف۔اوز کا معجزہ شروع ہوا، کسی آواز نے کہا کہ تم اوپر دیکھو کہ رُوس کے جہاز تم پر بمباری کرنے کے لئے آگئے ہیں، میں اوپر دیکھنے لگا تو مکان کی چھت میں ایک بڑا شگاف پڑ گیا تھا، پھر رفتہ رفتہ چھت تقریباً غائب ہوگئی، اور سچ مچ میرے مکان کے اوپر کچھ جہاز منڈلاتے ہوئے نظر آئے، آواز کا پتا نہیں چلا، میں نے بالکل یقین کیا کہ اب بس میری جسمانی موت آن پہنچی۔

میں نے اپنے فرزند سیف سلمان خان اور اس کی والدہ کو ساتھ والے دوسرے کمرے میں رکھا، اس خیال سے کہ تنہا مجھے ہلاک ہو جانا ٹھیک ہے مگر خاندان تو بچ جائیں، میں مرعوب و مغموم ہوچکا تھا سُکڑ کر بیٹھ گیا، تب النعاس = غُنودگی (۸: ۱۱) کی صورت میں معجزہ ہوگیا، فوراً تمام خوفناک چیزیں یکسر ختم ہوگئیں، اور سامنے والی دیوار میں ایک روحانی ریڈیو بج رہا تھا، اور اس پر کوئی مذہبی جشن ہو رہا تھا۔

ہفتہ ۲۸، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۱۰

 

عالمِ عجائب و غرائب

 

ہاں بیشک یہ عالمِ شخصی ہی کا ذکر ہے، لیکن اس کے عجائب و غرائب کا بیان کما حقہٗ کوئی بھی نہیں کرسکتا ہے کیونکہ یہ وہ کارخانۂ قدرت ہے جس میں بے پایان اور لامحدود چیزیں پیدا ہوتی ہیں، یہ صرف عالمِ شخصی کی طرف توجہ دلانے کی ایک کوشش ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ عالمِ شخصی کا دوسرا نام بجا طور پر عالمِ عجائب وغرائب ہے، کیونکہ یقیناً اس کی ہر ہر چیز انتہائی عجیب وغریب، بے حد انوکھی اور ازبس نرالی ہے، مثلاً آپ جب عالمِ ذرّ کو دیکھیں گے تو آپ کو بے حد حیرت ہوگی۔

چنانچہ میں یہ قصّہ اپنے دوست عزیز محمد خان مرحوم (یارقند چین) کے حوالے سے بیان کرتا ہوں کہ ایک دفعہ کسی صوفی پر کشف ہوا، اس کو عالمِ ذرّ کے کچھ جِنّات دیکھائے گئے جو ذرّات کی شکل میں تھے، اس نے اپنے اِس کشف کا تذکرہ اپنے دوستوں سے بڑی حیرت کے ساتھ کیا اور کہا کہ میں نے تو یہ سُنا تھا کہ جنّات عظیم الجُثّہ ہوا کرتے ہیں، آج میں ذرّاتی جِنّات کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو گیا ہوں۔

الغرض عالمِ ذرّ ایک مکمل عالم ہے مگر اس کی تمام مخلوقات خدا کی قدرتِ عجیبہ سے ذرّات کے برابر ہیں اور انہی میں لشکرِ سلیمان اور یاجوج و ماجوج

 

۱۱۱

 

بھی ہیں، اور ذرّاتِ ارواح بھی ہیں۔

ہفتہ ۸، ستمبر ۲۰۰۱ء

 

۱۱۲

 

حضرتِ امامِ عالیمقامؑ (روحی فداہٗ) کے اِس غلامِ کمترین کا زندہ مذہبی مکتب

 

بندۂ خاکسار (پرتوِشاہ=نصیر الدّین) ابنِ خلیفہ حُبِّ علی ابنِ خلیفہ محمد رفیع مولائے برحق کے فضل و کرم اور سعادتِ ازلی سے ایک مذہبی خاندان میں پیدا ہوا ؁۱۹۱۷ء اور مقام حیدر آباد، ہونزہ ہے، خوش بختی سے میرے مشفق والدین میرے لئے ایک زندہ مذہبی مکتب کا کام کرتے تھے، میری والدۂ محترمہ اگرچہ حرف شناس تو نہیں تھیں، لیکن وہ میرے والدِ محترم کے ساتھ ساتھ ہر اُس فارسی نظم کو بڑی مہارت سے پڑھتی ہوئی ہم نوائی کرتی تھیں، جو امامِ زمان کی تعریف و توصیف میں ہوتی تھی، اور میں ہمیشہ غور سے سُنتا رہتا اور ہم نوا بھی ہوتا تھا، نہ تنہا میرے والد صاحب بلکہ تمام خلیفہ صاحبان رباب اور دف کی مقدّس موسیقی کا سہارا لیکر منقبت خوانی اور ذکرِ جلی کر لیا کرتے تھے، اور دعوتِ بقا کی رسم میں تو دف اور رباب لازمی ہیں۔ پس ایسے پاک مذہبی ماحول نے مجھے ایک مذہبی شاعر بنایا میں نے شروع شروع میں کچھ وقت تک شاعری کی صرف مشقیں کیں، بعد ازان ؁۱۹۴۰ء میں ایک باقاعدہ بُروشسکی نظم امامِ زمان کی شان میں تصنیف کی جس کے مطلع کا ترجمہ یہ ہے: حاضر امام کے عشق کی ایک آگ میرے دل میں لگ رہی ہے، حاضر امام میرے زخموں کا مرہم اور میرے دردِ دل کا درمان ہے۔ میں

 

۱۱۳

 

اس وقت گلگت سکوٹس=سکاوٹس میں بھرتی ہوچکا تھا۔ گلگت سکاوٹس میں اسماعیلیوں کی بہت بڑی تعداد تھی۔ حوالدار تحویل شاہ اور حوالدار حسن علی مولا کے عاشقوں میں سے تھے، اور ان کی آواز بھی مثالی تھی، انہوں نے اس نظم کو مجھ سے طلب کرکے خوب ترنم سے پڑھا اور مولا کا معجزہوا کہ لوگ حیرت زدہ ہو گئے، اور جگہ جگہ سے فرمائش ہوئی کہ یہ نظم مجھے لکھ کر دو۔ میں خود حیران ہوگیا، اُس زمانے میں کوئی فوٹوسٹیٹ مشین کہاں تھی؟ پس میں نے کچھ عرصے تک عاجز آکر اپنی نظموں کو مخفی رکھا اور جب ایک کتاب نظموں کی تیار ہوئی تو مولانا حاضرامامؑ کے حضور میں بغرضِ دعا ایک تارِ برقی بھیجا جس کا جواب مولا نے مرحمت فرمایا ہے، وہ فرمانِ پاک دیوانِ نصیری کے آغاز میں موجود ہے۔ الحمد للہ علی منہ و احسانہ

منگل، ۲۰ اگست ۲۰۰۲ء

 

۱۱۴

 

تاشغورغان کے عجیب و غریب خواب کی تاویل

 

اوّل: حضرت اسماعیل ذبیح اللہ کے خواب کی مثال، تاویل اور معرفت تھی (۳۷: ۱۰۲)۔ دوم: اس لڑکے کی مثال تھی جس کو خضر نے قتل کیا تھا (۱۸: ۷۴)۔ سوم: جسماً مر جانے سے قبل نفساً مرنے کا ایک نمونہ تھا، چہارم: باطنی شہادت تھی (۴۷: ۴ تا ۵)۔ پنجم: روحانی قیامت اور منزلِ عزرائیلی کا اشارہ تھا۔ ششم: فنافی الامام کا ایک نمونہ تھا۔ ہفتم: فضا میں بصورتِ چمکتے ہوئے ذرّات وہ روح تھی جس کے بارے میں مولا نے ارشاد فرمایا ہے کہ روح ایک ہی ہے، یعنی تمام روحوں کی وحدت ہی اصل روح ہے۔ جس طرح کروڑوں خلیات کی وحدت و سالمیت کا نام انسان ہے۔

تاشغورغان کا بڑا عجیب و غریب خواب اللہ کے زندہ اسمِ اعظم (امامِ زمانؑ) کے بے شمار معجزات میں سے ایک تھا پاک مولا نے فرمایا کہ اسماعیلی مذہب روحانیت کا تخت ہے، یعنی اس کے باطن میں تختِ سلیمان بھی ہے اور عرش بھی ہے اور عرش دو طرح سے ہے ایک تو پانی پر ہے، اور دوسرا حظیرۂ قدس عرش ہے۔ یاد رہے کہ نورانی خواب کوئی معمولی چیز ہر گز نہیں، بلکہ یہ انبیاء علیھم السّلام کے عظیم معجزات میں سے ایک

 

۱۱۵

 

ہے۔

امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے ایسے معجزات میں اسرارِ معرفت اور تاویلِ قرآن پوشیدہ ہوا کرتی ہے۔ الحمد للہ ربّ العلمین۔

۲۳، اگست ۲۰۰۲ء

 

۱۱۶

 

عبدالاحد کا اشارہ جانبِ آسمان

 

یہ اُس عجیب و غریب بابرکت وقت کا قصّہ ہے، جبکہ یہ عاجز بندہ ذاتی طور پر یارقند (چین) میں روحانی انقلاب=روحانی قیامت کے مراحل سے گزر رہا تھا۔

کتابِ لعل و گوہر ص۴۱ پر بھی نظر ہو، ۔۔۔ چنانچہ ظاہری انقلاب اہلِ ایمان کے لئے اللہ پاک کا وہی امتحان تھا جس کا ذکر سورۂ بقرہ (۲: ۱۵۵) میں فرمایا گیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نہ صرف عبدالاحد ہی بلکہ بہت سارے اہلِ ایمان قبل از عبادت، بعد از عبادت اور بعض دفعہ بندگی کے ساتھ ساتھ گریہ وزاری کر لیا کرتے تھے، اِس حال میں روحانی اعتبار سے خداوندِ قدوس کی کتنی بڑی رحمت تھی، ایک دن میں نے نورانی خیال اور نورانی خواب کے درمیان عبدالاحد کو دیکھا، وہ بڑا شادمان، خرسند اور راضی مگر خاموش کھڑا تھا، وہ ہاتھ سے آسمان اور ستاروں کی طرف کچھ ایسے اشارے کرنے لگا کہ ان کے مفہومات خود بخود میرے دل میں اترتے رہے، وہ اشاراتی زبان میں کہہ رہا تھا کہ ہم سیارۂ زمین پر اراضی اور اموال کے چھن جانے سے کیوں روئیں جبکہ ہمارے خداوند نے اِس عظیم

 

۱۱۷

 

کائنات کی وسعتوں میں بے شمار ستاروں کی دنیائیں اور ان میں بہشت کی بڑی بڑی سلطنتیں (خلافتیں) بنائی ہیں۔ (۲۴: ۵۵)، (۶: ۱۶۵)، (۴۳: ۶۰)۔ عبدالاحد کا باپ شاکر آخوند ایک اسماعیلی عالمِ شخص تھا، اِس لئے عبدالاحد مولائے برحق کے حقیقی عاشقوں میں سے تھا وہ مولا کے اِس کمترین غلام کی تعلیمات کو عشق سے سُنتا تھا، پس وہ شدید گریہ وزاری کے کورس کے بعد فرشتہ ہوگیا، پھر اُس نے قرآنِ حکیم کی تین محولۂ بالا آیات کی تاویل میں اہلِ ایمان کو بُشارت دی کہ ان کے لئے آسمانی بہشت میں خلافت=بادشاہی ہے۔ آپ آیاتِ خلافت کو بار بار پڑھیں وہ ہیں: سورۂ نور (۲۴: ۵۵)، سورۂ انعام (۶: ۱۶۵)، سورۂ زخرف (۴۳: ۶۰)۔ فرشتہ کبھی اشارہ=وحی کرتا ہے اور کبھی کلام کرتا ہے مگر کلام سے وحی=اشارہ بلند تر ہے، کیونکہ وحی=اشارہ کے معنی زیادہ وسیع ہوتے ہیں۔

اتوار ۲۵، اگست ۲۰۰۲ء

 

۱۱۸

 

مرحوم و مغفور عزیز محمد خان باے (غنی) ابنِ عزیزآخوند باے=غنی کی لازول مذہبی خدمات قسط۔ ۱

 

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے پونا میں ارشاد فرمایا: اگر صرف ایک ہی مومن ’’ہمت والا‘‘ ہو تو ہم اُس اکیلے (مومن) کو ایک لاکھ مومنوں کے برابر سمجھتے ہیں۔ پس یقیناً مولا کا عاشقِ صادق عزیز محمد خان اِس پاک فرمان کا مصداق تھا، امامِ عالی مقام علیہ السّلام نے ؁۱۹۲۳ء میں پیر سبز علی کے توسط سے اسماعیلی جماعت کے لئے بہت سی پُرحکمت ہدایات کے ساتھ تعمیرِ جماعت خانہ کا امر بھی فرمایا ہوا تھا، لیکن کیا مجبوریاں تھیں جن کی وجہ سے کہیں ایک جماعت خانہ بھی وجود میں نہیں آیا، خدا گواہ ہے کوئی مجبوری نہ تھی، مگر بات یہ ہے کہ موروثی لیڈرز جماعتی ترقی اور مضبوطی سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے وہ صرف ذاتی طور پر نمایان دولتمند ہو جانا چاہتے تھے تاکہ وہ اسی طرح حکومت اور عوام کی نظر میں بڑے معزز اور واجب الاحترام ہو سکیں۔

پس وہ جماعت کے دل میں یہ خوفِ بیجا ڈالتے رہے کہ ہمارے اِس ملک میں جماعت خانہ ناممکن ہے کیونکہ اس سے اسماعیلی مذہب جو اب تک پوشیدہ ہے، وہ ظاہر ہو جائے گا جس سے جماعت کو ہر قسم کی تکلیف ہوگی۔

 

۱۱۹

 

جب مولا کے حقیقی عاشق عزیز محمد خان کو ؁۱۹۴۹ء میں یہ خبر ملی کہ فتح علی اور نصیر الدّین تاشغورغان (سریقول) میں مولائے پاک کا ایک مبارک فرمان لے کر آئے ہوئے ہیں اس مقدّس فرمان میں ایک ضروری حکم تعمیرِ جماعت خانہ کے لئے ہے، پس امامِ زمان کے عاشقِ جان نثار عزیز محمد خان نے اپنے ایک نیک نام گاؤں قرانگغو توغراق میں عظیم ملکِ چین کا اوّلین مقدّس جماعت خانہ کلّی طور پر ذاتی اخرجات سے تعمیر کیا، اس بابرکت گاؤں میں کُل ۴۵ اسماعیلی گھر تھے کسی سے چندہ وغیرہ نہیں لیا گیا، اور جو لوگ تعمیر کا کام کرتے تھے ان کو امیرانہ طعام دیا جاتا تھا۔ اِس پاک جماعت خانہ کے یومِ افتتاح سے لیکر ایک سال کے مکمل ہونے تک ہر شبِ جمعہ کو پوری جماعت کیلئے رباب کے ساتھ منقب خوانی، ذکر و عبادت اور علمی مجالس اور ظاہری کھانے کی دعوت بھی جاری تھی، ایسی سال بھر کی بھاری مجلس کی تجویز میری طرف سے کیونکر ممکن ہوسکتی تھی، یہ تو عزیز محمد خان کا ذاتی معاملہ اور جماعت خانہ سے عشق تھا وہ البتہ جانتا تھا کہ تقریباً ایک سال کے بعد کروڑوں کی جائیداد اور دولت کہیں غائب ہو جانے والی ہے، اور جو عشقِ مولا کے تحت لازوال دینی نعمتیں ہیں وہی ہمیشہ ہمیشہ ساتھ رہیں گی۔

بدھ ۱۶ اکتوبر ۲۰۰۲ء

 

۱۲۰

 

عزیز محمد خان ابنِ عزیزآخوند ایک عظیم فرشتۂ ارضی تھا۔ ۲

 

جس مومنِ موحد کو بحقیقت فرشتۂ ارضی کہا جاتا ہے وہ بہت سی مذہبی خوبیوں کا مالک ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عزیز محمد خان اور ان کے افرادِ خاندان سب ارضی فرشتے تھے، یہی وجہ ہے کہ نیک نام قرانگغو توغراق گاؤں میں ان کی زمین پر دورِ قیامت کا مثالی اور قیامتی جماعتخانہ بن گیا اور اس میں ظہورِ قیامت کی عظیم معجزات رُونما ہوئے۔ جس طرح میں نے امامِ مبین کے بعض معجزات کو ذکر کیا ہے۔

جو میری سب سے گرانمایہ کتاب ہے: ’’قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیت‘‘ یہ جماعت خانۂ قرانگغو توغراق اوریارقند و کاشغر میں صاحبِ قیامت کے کئے ہوئے معجزات کے فیوض و برکات سے ہے، جس کا بڑا کامیاب انگلش ترجمہ مرکزِ علم و حکمت لندن کے علمی فرشتوں سے کیا ہے تو ماشاء اللہ کیا خوب ترجمہ ہے! خداوندِ قدوس نورِ امامت کے تمام نیک بخت پروانوں کو ارض و سماء کی خلافت والے عظیم فرشتے بنائے! آمین! (۴۳: ۶۰)

کتنی بڑی سعادت ہے ان درویشوں کی جن کو حجّتِ قائم اور حضرتِ قائم اور روحانی قیامت کی عملی معرفت حاصل ہوئی اور وہ عرفانی جنّت کے شناسا ہو گئے امامِ مبین=امامِ زمانؑ، اللہ کے زندہ اسمِ اعظم=کنزِ کُلّ

 

۱۲۱

 

کے چشم دید معجزات کے تذکروں سے کتابیں بھر گئیں ہیں۔ مجھے یقینِ کامل ہے کہ نہ صرف عزیز محمد خان ہماری روح کا حصّہ ہوگیا بلکہ اس روحانی حشر کی وجہ سے دنیا کے تمام اسماعیلی قانونِ یک حقیقت کے تحت نفسِ واحدہ ہو گئے۔ الحمد للہ علیہ منہ و احسانہ۔

بدھ ۱۶، اکتوبر ۲۰۰۲ء

 

۱۲۲

 

امامِ مبین=امامِ زمانؑ اللہ کا زندہ اسمِ اعظم اور کنزِ کُلّ ہے

 

ماہِ فروری ؁۱۹۴۹ء میں ہم تاشغورغان پہنچ چکے تھے، اس بندۂ درویش کو شب خیزی اور خصوصی عبادت کا موقع حاصل تھا۔ خواب و خیال میں عجائب و غرائب کا مبارک سلسلہ جاری تھا، تاہم ایک رات کو انتہائی عجیب و غیرب خواب دیکھا وہ نہ صرف بہت بڑا حیران کُن تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ تاویل کے عظیم اسرار سے بھی لبریز تھا، میں نے یکایک یہ انوکھا اور سب سے نرالا منظر دیکھا کہ میری قربانی ہوچکی تھی جسم جنازے کی طرح زمین پر پڑا تھا، سر قریب کی ایک دیوار کے ساتھ آویزان تھا میں (یعنی روح یا شعور) کچھ بلندی پر چمکنے والے بہت سے ذرّات کے درمیان تھا، یہ کس نے مجھے خواب میں ذبح کیا؟ میرے محبوبِ روحانی باپ (امامِ زمانؑ) نے، دیکھو قرآن (۳۷: ۱۰۲ تا ۱۱۰) اس قربانی کا فدیہ ذبحٍ عظیم (۳۷: ۱۰۷) وہ منزلِ عزائیلی کی قربانی سے جو بہت ہی عظیم ہے، جس میں سات رات اور آٹھ دن مسلسل مرنا اور جی اُٹھنا پڑتا ہے، (۶۹: ۷) اللہ تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے، اس میں انسان کے لئے بیشمار فائدے ہیں۔

سوال: وہ روشن ذرّات کیا تھے جن کے درمیان میرا شعور تھا؟ کیا وہ تمام روحوں کی یک حقیقت تھی؟ یا امامِ زمان کا نور تھا؟ کیا امامِ زمان

 

۱۲۳

 

کا نور ایک اکائی ہے یا ایک بے مثال وحدت ہے؟ ہمیں اس خواب پر مزید سوچنا ہو گا۔ ممکن ہے یہ روحانی شہادت اور فنافی الامام کا ایک نمونہ ہو۔ یہ حکمت قرآنی تاویل کی کلیدوں میں سے ہے۔ الحمد للہ ربّ العلمین۔

جمعرات ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء

 

۱۲۴

جنگ – خُصوصی انٹرویو

جنگ خصوصی انٹرویو

اعزازی خدمات

جو نیک بخت اور ہوشمند لوگ اپنی عزیز قوم کی آنریری خدمات انجام دیتے ہیں، وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے سایۂ رحمت میں ہیں، اور افرادِ قوم کے دلوں میں ان کے لئے ایک پیاری سی دعا جاری ہے، اور وہ یقیناً قابلِ صد احترام ہیں۔

عزیزم شیراللہ بیگ ابن پہلوان بیگ ابن رجب شاہ خانۂ حکمت ریجنل برانچ گلگت کے آنریری سیکریٹری ہیں اور وہ یہ گرانقدر خدمات عرصۂ دراز سے انجام دے رہے ہیں، ان کو علم وحکمت سے عشق ہے، وہ ہماری کتابوں کو گہری نظر سے پڑھتے ہیں، یہ بہت بڑی سعادت مندی کی علامت ہے، ایسے میں آپ اپنے استاد کو بیحد عزیز کیوں نہ ہوں۔

میں چاہتا ہوں کہ میرے تمام شاگرد اور رفقائے کار ہمیشہ ملک و ملت اور انسانیت کی خدمت کرتے رہیں تا کہ ان کو دونوں جہان کی حقیقی خوشی حاصل ہو، آمین!

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی
کراچی
پیر ۲۳ جمادی الثانی ۱۴۱۵ھ /۲۸ نومبر ۱۹۹۴ء

تمہید

۱۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یا اللہ! اپنے محبوبِ خاص حضرتِ محمد مصطفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حرمت سے اس بندۂ کمترین کے قلب و لسان اور قلم کو ہر گونہ لغزشوں سے بچنے کے لئے اعلیٰ توفیق، ہمت اور ہدایت عنایت فرما، تا کہ علم و عمل کی ہر چیز تیری خوشنودی کے مطابق ہو۔

۲۔ دوستو! آؤ یہاں آؤ، ہم سب مل کر آسمانی عشق کا تذکرہ کریں، نورِعشق اور نارِعشق کا نعرہ بلند کریں، چونکہ ہم مجانین ہیں، اس لئے ہم پر ’’با ادب، ہوشیار‘‘ ہونے کی کوئی پابندی نہیں، ہمارے لئے درویشی ہی سرمایۂ حیات ہے، یہی طرزِ زندگی ہمارے لئے سہل ترین ہے، ہم ان لوگوں میں سے ہو جانا چاہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لئے شدید محبت یعنی عشق (۰۲: ۱۶۵) رکھتے ہیں، یہی عشق اور اس کا وسیلہ نور بھی ہے اور نار بھی، اور اسی کا مبارک نام

۵

آسمانی عشق ہے، اگر قرآنِ حکیم میں (۲۷: ۰۸) نور کا دوسرا نام نار نہ ہوتا تو ہم ’’نورِ عشق، نارِ عشق‘‘ کا ذکرِ جمیل ہی نہ کرسکتے۔

۳۔ نورِعشق کی آفاقی اور کائناتی مثال نیرِاعظم (سورج) ہے، آفتاب جہان آرا بھی اور عالم سوز بھی، یعنی اسی سے باغ و چمن سرسبز و شاداب بھی ہوجاتا ہے، اور اسی سے وہ سب کچھ خشک و خراب بھی ہوجاتا ہے، یہ اس لئے ایسا ہے کہ حقیقی معنوں میں جان دِہ و جان ستان ایک ہی ہے، پس حکمت و دانائی اسی میں ہے کہ آپ معجزۂ عشق کے نور و نار دونوں پہلو سے فائدہ اٹھائیں، نورِ عشق کی روشنی میں شاہراہِ صراط المستقیم پر گامزن ہوتے جائیں، اور نارِعشق میں نفسِ امّارہ کو بار بار جلاتے رہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ سب سے بڑی کامیابی اسی سے ہوگی۔

۴۔ ان چند سالوں میں شمالی علاقہ جات کے محسنین، پی۔بی۔ سی گلگت اور پاکستان کے بعض موقر اخبارات نے اس بندۂ ناچیز پر ایسے بڑے بھاری احسانات کر دئے کہ کسی عمدہ سے عمدہ عبارت میں بھی ان نوازشات کا شکریہ ادا نہیں ہو

۶

سکتا، روزنامۂ جنگ راولپنڈی (پیر ۱۹ ربیع الثانی ۱۴۱۵ھ /۲۶ ستمبر ۱۹۹۴ء) میں جو خصوصی انٹرویو شائع کیا گیا، اس میں نہ تنہا میری ہمت افزائی کی گئی ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ تمام شمالی علاقہ جات کے ادبی سفر کا بھی ذکر کیا گیا ہے، پس میں جناب الطاف پیرزادہ صاحب، جناب شاہد محمود صاحب، جناب غلام قادر ہونزائی صاحب، اور جناب سعادت علی مجاہد صاحب کا شکرگزار اور ممنون ہوں، یہ ادبی ایڈیشن بڑی خوبصورت سرخیوں کے ساتھ شائع ہوا ہے۔

۵۔ ہم ان شاء اللہ ان سوالات و جوابات کو بطورِ یادگار ایک کتابچہ کی صورت میں شائع کریں گے، جس کا نام ’’جنگ خصوصی انٹرویو‘‘ ہوگا، اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا شکر کما کان حقہٗ ادا نہیں ہوسکتا، یہی ایک بہت بڑی حسرت ہے، جس کی وجہ سے کبھی کبھار یہ کوشش کی جاتی ہے کہ مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات کا سہارا لیا جائے، اور اگر خداوندِ قدّوس کی توفیق و تائید حاصل ہو جاتی ہے تو خونِ جگر سے کچھ آنسو بھی برسا دئے جاتے ہیں، تا کہ خداوندِ عالم کو ہماری حالتِ زار پر رحم آئے۔

۷

۶۔ مجھے وہ زمانہ خوب یاد ہے جب کہ صرف علم ہی کا قحط نہیں بلکہ کثیر چیزیں نایاب تھیں، مثال کے طور پر دیا سلائی ابھی ہونزہ تک نہیں پہنچی تھی، لہٰذا ہم اپنی قدیم روایت کے مطابق توّے کی کالک کو چمچے میں لے کر اس پر سنگِ چقماق اور فولاد کے ٹکڑے کے ٹکراؤ سے چنگاریاں گراتے اور اسی طرح آگ پیدا کرلیتے، صابون نہیں تھا، اس کی جگہ ایک قسم کی گھاس میں کپڑے دھو لیا کرتے تھے، جس کا نام بروشسکی میں ’’صبون ݽقا‘‘ ہے، ٹھوس نمک نہیں ملتا تھا، اور جب یہ پہلی بار کہیں سے قلیل مقدار میں لایا گیا تو اس کا نام بُماربیو رکھا (یعنی نمک جو بیمار کے لئے دوا ہے) شروع شروع میں ہم لوگ ݼل بیو (سیال نمک) استعمال کرتے تھے جو ایک قسم کی صحرائی مٹی سے بنایا جاتا تھا۔

۷۔ ہم اس زمانے میں چائے کو نہیں جانتے تھے، پھر پیتے کیسے، ہونزہ میں کہیں کھانے پینے کی کوئی دکان نہیں تھی، گلگت جا کر واپس آنے کے لئے چھ یا سات دن درکار ہوتے تھے، لوگ یہ سارا سفر پا پیادہ طے کرلیتے اور اس کے ساتھ ساتھ پشت پر کوئی بوجھ بھی اٹھا لیتے، موسمِ بہار اکثریت کے

۸

لئے بڑا دشوار وقت ہوتا تھا، کیونکہ اس وقت اشیائے خوردنی سب کی سب ختم ہوجاتی تھیں، لوگ شرم و ناموس کے مارے اپنی ناداری اور بھوک کی حالت دوسروں پر ظاہر نہیں کرتے تھے، اگر ہم اس تاریخی حقیقت سے نئی نسل کو آگاہ نہ کردیں تو وہ اپنے وقت کی نعمتوں کی شکر گزاری اور قدر دانی کس طرح کر سکیں گے۔

۸۔ روشنی کا کم سے کم ذریعہ مٹی کا تیل ہے، لیکن اس زمانے میں یہ کہاں سے مل جاتا، چنانچہ ہمارے لوگ بڑے دور جنگلوں میں جا کر خشک تنۂ عرعر (دفران =جونیپر = گل) کی لکڑیاں لایا کرتے تھے تا کہ ان کو جلا کر روشنی کا کام لیں، یا کچھ عام قسم کے بیجوں کو بھون لیتے، پھر انہیں کوٹ پیس کر مِنا بناتے، اور مِنا فلیٹو جلا کر تھوڑی سی روشنی حاصل کرلیتے تھے، الغرض یہ اس زمانے کی انتہائی پس ماندگی کی چند مثالیں ہیں، اب اگرچہ شمالی علاقہ جات کے حالات پہلے جیسے نہیں ہیں، پھر بھی بد قسمتی سے یہاں آج تک وہ ترقی نہ ہوسکی جو ہونی چاہئے۔

۹۔ ملک و ملت اور انسانیت کی خدمت بہت بڑی عبادت

۹

ہے، لہٰذا یہ دیکھنا اور سوچنا ہوگا کہ ہم اس سلسلے میں کیا کیا کام انجام دے سکتے ہیں، اگر آپ اجتماعی یا انفرادی طور پر ہمہ رس علمی خدمت کرسکتے ہیں تو یہ بہت ہی بڑا مبارک عمل ہے، اور اس میں بہت سی برکتیں پوشیدہ ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ، اس سے آپ کے علم میں زبردست اضافہ ہوگا، اور آپ کی عقل و جان کو بے حد شادمانی حاصل ہوتی رہے گی۔
۱۰۔ ارشاد فرمایا گیا ہے: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ = جس نے اپنے آپ (یعنی تمام مدارجِ روح) کو پہچان لیا یقیناًاس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔ اس میں کتابی معرفت کی بات نہیں، بلکہ عملی معرفت کا ذکر ہے، اور وہ روحِ علوی کے تمام درجات میں ہے، تا آنکہ فنا فی اللہ و بقا با اللہ کا مرتبہ آ جاتا ہے۔

۱۱۔ ظاہراً و باطناً اللہ تبارک و تعالیٰ کی جتنی بے شمار نعمتیں ہیں وہ سب کی سب اس کے بندوں کے لئے ہیں، اور سچ تو یہ ہے کہ وہ پاک و بے نیاز بڑی سے بڑی نعمت کو بھی اپنے دوستوں سے دریغ نہیں رکھتا، آپ قرآنِ حکیم میں سورۂ رحمان کو خوب غور سے پڑھیں، خصوصاً آیاتِ مبارکہ

۱۰

۲۶، ۲۷، ۲۸ کو، کیونکہ ان میں سب سے آخری اور سب سے عظیم نعمتوں کا اشارہ ہے، جو مرتبۂ فنا فی اللہ سے متعلق ہیں، اور یہ بڑی بڑی نعمتیں اسرارِ معرفت پر مبنی ہیں۔

۱۲۔ اللہ شاہد ہے کہ اب مجھے اپنی فکر نہیں بلکہ شاگردوں کے بارے میں بڑی حد تک فکر ہو رہی ہے کہ وہ کب لیلائے علم و حکمت کی خاطر مجنون ہو جائیں گے؟ کیونکہ جب تک کسی کو علم و دانش سے شدید محبت اور عشق نہ ہو تب تک اس کا حصول ناممکن ہی ہے، تا ہم میں اس باب میں مایوس نہیں ہوں، اس لئے کہ خدائے بزرگ و برتر کے فضل و کرم سے بعض عزیزان میں خزائنِ علم وعرفان کا یہ بے مثال جذبہ اور ولولہ پیدا ہو رہا ہے، ان شاء اللہ دوسرے عزیزان بھی ان کے پیچھے پیچھے چلیں گے۔
۱۳۔ ہر روز روح کے عجائب وغرائب کا تذکرہ ہونا چاہئے، روح عالمِ امر میں ایک ہی ہے، مگر عالمِ خلق میں ہزار و بے شمار ہو کر کام کر رہی ہے، جو صوفئ صافی اس راز کو بحقیقت جانتا ہے، وہ سب لوگوں کو عزیز رکھتا ہے، وہ غیر اور بیگانہ کا تصور ہی نہیں کرتا، کیونکہ چشمِ بصیرت سے دیکھا

۱۱

جائے تو پتہ چلتا ہے کہ خدا کی خدائی میں کوئی دوسرا نہیں ہے، جو بھی ہیں سب اپنے ہی ہیں۔

۱۴۔ قرآنِ عظیم کے اشارۂ حکمت (۴۲: ۰۵) کے مطابق تمام اہلِ زمین کے حق میں عفو و درگزر کی دعا اور خیر خواہی ضروری ہے، پھر مسلمین و مومنین کے لئے خصوصی دعائیں ہیں، اور اس کے بعد جو عزیزان ہمارے کاموں کو ہم سے بھی زیادہ آگے بڑھاتے ہیں، ان سے اگر ہم قربان بھی ہوجائیں تو کم ہے، کیونکہ یہاں جب آن جانب اتنا بڑا جذبۂ قربانی ہے تو این جانب کیوں نہ ہو، میں نے ایک مختصر عبارت میں مشرق و مغرب کے اپنے رفقائے کار اور ان کے زرین کارناموں کو یاد کیا، الحمد للہ ربّ العالمین۔

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی
کراچی
پیر ۲۶ ربیع الثانی ۱۴۱۵ھ، ۳ اکتوبر ۱۹۹۴ء

۱۲

توصیفِ قلم

 

اے قلم جنبشِ ازل ہے تو

قدرتِ ذاتِ لم یزل ہے تو
تجھ سے تحریرِ کائنات ہوئی

اے خوشا! حق کی تجھ سے بات ہوئی
ہے ہمارا قلم ترا سایہ

اس کو تجھ سے ملا ہے سرمایہ
وہ قلم اس جہان میں سلطان ہے

ذاتِ حق کی دلیل و برہان ہے
یہ قلم بادشاہِ دنیا ہے

جب سے علم و عمل کا چرچا ہے
اک قلم برفرازِ عرشِ برین

اک قلم بربسیطِ روئے زمین
علم کا ایک جہان قلم میں ہے

رازِ کون و مکان قلم میں ہے

۱۳

کام میں سر کے بل یہ چلتا ہے

جس سے دنیا زمانہ پلتا ہے
یہ سیاہی سے روشنی کر دے

دولتِ علم سے غنی کر دے
اس کا قطرہ مثالِ بحرِ عمیق

گنجِ گوہر رہا ہے جس میں غریق
اسپِ تازی کہ تیز طوفان ہے

بلکہ یہ اک جہازِ پرّان ہے
چشمۂ علم و منبعِ حکمت
باعثِ فخر و مایۂ عزت
ارضِ جنت ہیں اس کے مکتوبات

کیف آور ہیں جس کے مشروبات
چپکے چپکے قلم کلام کرے

ساری دنیا اسے سلام کرے
تو نہ شمشیر ہے نہ شیرِ ببر

پھر بھی طاقت میں تو رہا برتر

۱۴

یہ کتابیں اسی کی پیداوار

جن کی رونق ہے رشکِ باغ و بہار
یہ قلم ہے کہ ہے عصائے کلیم

شر کو نگلے یہ اژدہائے عظیم
ہیں مبارک تمام اہلِ قلم

جن پہ اللہ کا ہوا ہے کرم
خدمتِ قوم ہے رضائے خدا

کام کر کام کر برائے خدا
یہ قلم تیرے پاس امانت ہے

حق ادا گر نہ ہو خیانت ہے
اے نصیرؔ خامہ بہت پیارا ہے

چونکہ اللہ نے اتارا ہے

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی
ذوالفقار آباد، گلگت
۲۸ ذوالحج ۱۴۱۴ھ /۹ جون ۱۹۹۴ء

۱۵

 

 

علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی
ایک ہمہ گیر علمی شخصیت

ممتاز اسکالر، شاعر اور محقق و مفکر محترم علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کی تقریباً باسٹھ سالوں پر محیط ادبی اور تحقیقی خدمات کے اعتراف میں ’’بابائے بروشسکی‘‘ اور ’’لسان القوم‘‘ کے خطابات پانے کے بعد انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ شمالی علاقوں کی مقامی حکومت نے ۱۰ جون ۱۹۹۴ء کو گلگت میں منعقدہ ایک اعلیٰ سطح کی ادبی تقریب میں آپ کو ’’حکیم القلم‘‘ کے خطاب سے نوازا، آپ شمالی علاقوں میں بولی جانے والی قدیم زبان ’’بروشسکی‘‘ کے پہلے صاحبِ دیوان، صوفی شاعر، ۱۵۰ کتابوں کے مصنف، جن میں سے چالیس کا انگریزی میں اور متعدد کا فرانسیسی، سویڈش، فارسی، ترکی اور گجراتی میں ترجمہ ہوچکا ہے، بروشسکی زبان، اس کی گرائمر، لغت اور تاریخ و روایات کو معدوم ہو جانے سے بچایا اور قرطاسِ بقاء پر لا کر

۱۶

معروف غیر ملکی یونیورسٹیوں اور اپنی منفرد تخلیقات میں نہ صرف محفوظ کیا ہے بلکہ قدیم انسانی تہذیب و تمدن اور ثقافت کی علامات کے ساتھ اس زبان کو نئی زندگی سے ہمکنار کیا ہے، بروشسکی زبان اور اس کے ادب کو اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے دنیائے علم و ادب میں روشناس کروانے والی اس ہشت پہلو علمی شخصیت نے اپنے قلم کے ذریعے روایتی موضوعات کے علاوہ سائنس و مذہب، روح و مادّہ، مکان و لا مکان، اڑن طشتریوں اور روحانی سائنس جیسے عنوانات کا اس طرح احاطہ کیا ہے کہ دقیق نظر سے مطالعہ کرنے والے قاری ان کتابوں کے ہر ورق پر ’’علمی انکشافات‘‘ محسوس کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ شمالی علاقوں کے اس درویش صفت بطلِ جلیل کا نامِ گرامی جب بھی سننے یا پڑھنے میں آتا ہے تو دل میں یکدم احترام اور علمِ بیکران و عرفان کے جذبات و احساسات ابھرتے ہیں، قلب و نظر کو روشن کرنے والی آپ کی تخلیقات سے معاشرے کے ہر طبقۂ فکر کے افراد استفادہ کرتے ہیں اور اپنے عوالمِ شخصی کو علم و حکت، اسرارِ روحانیت اور بلند حقائق و معارف سے منور

۱۷

کرتے ہیں، یہ اس امر کی روشن دلیل ہے کہ آپ کی تائیدی تخلیقات میں معنوی گہرائی اور گیرائی بدرجۂ اتم موجود ہے۔

قاری جب علامہ صاحب کی تحریروں کا دقیق نظر سے مطالعہ کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک نئے علمی جہان میں پاتا ہے اور زمان و مکان کی بندشوں سے آزاد ہو کر کچھ دیر کے لئے یوں محسوس کرتا ہے جیسے وہ بحرِ بیکران میں غوطہ زن ہوکر علم و آگہی، عشق و محبت اور ایمان و ایقان کے وہ گوہرِ نایاب چن رہا ہو جو ابنِ آدم کا اصل مقصدِ حیات ہیں، آفاقی فکر و عمل رکھنے والی یہ پر تاثیر علمی بزرگ شخصیت موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے ایک ایسے روشن منارے کی حیثیت رکھتی ہے جس سے کائنات کی ازلی سچائیوں سے معمور قرآنی حکمت و روحانیت اور مکان و لامکان کی معنوی وسعتوں کو سمیٹ کر عرفانی اشعار کے قالب میں پیش کرنے والے آسمانی عشق و محبت کے سچے جذبوں کی پرنور کرنیں پھوٹتی ہیں۔

علامہ صاحب کی ہمہ رس شخصیت نے بڑی بڑی قدآور علمی، ادبی اور تنظیمی شخصیات کو وہ پالیسی ساز آفاقی سوچ دی جس نے انہیں بے لوث علمی خدمت کے ایک عالمگیر

۱۸

استقلالی عزم سے ہمکنار کیا اور اس نوعیت کی جہدِ مسلسل، ان کی زندگی کا اعلیٰ ترین نصب العین قرار پایا، جہاں تک غیر ملکی یونیورسٹیوں سے تحقیق کے میدان میں اشتراکِ عمل کا تعلق ہے آپ نے ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی کے پروفیسر ہرمن برگر کو پچاس ہزار بروشسکی الفاظ بغیر کسی معاوضے کے مہیا کر کے پہلی بروشسکی۔جرمن ڈکشنری کی اشاعت کی راہ ہموار کی اور مانٹریال یونیورسٹی کنیڈا کے پروفیسر ٹیفو کو بروشسکی گرائمر، پہیلیوں اور کہاوتوں کا مواد فراہم کیا جس کو تالیف کے مراحل سے گزار کر پروفیسر نے Hunza Proverbs نام سے نئی کتاب کی حال ہی میں اشاعت کی ہے، نتیجتاً علامہ صاحب اس ڈکشنری اور نئی کتاب کے شریک مصنف قرار پائے۔ مختصراً علامہ صاحب کے حکیمِ قلم اور شیرین لسان نے حریت فکر اور اعلیٰ حقائق و معارف سے آراستہ تحریروں اور تقریروں کے ذریعے لاتعداد شخصیات کے حوالہ سے ایک وسیع کائنات کو متاثر کیا ہے اور قارئین و سامعین کے ذہنوں پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔

علامہ صاحب نے اپنی کہن سالی کے باوجود اپنے علمی

۱۹

مشن کو پھیلانے کے لئے سفر کی بے شمار صعوبتیں بھی برداشت کیں ہیں اور مشرق و مغرب کے مابین اپنے تخلیقی خیالات و افکار کے ہمہ وقت بہاؤ کو یقینی بنانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے۔

اب یہ ہمارا فرضِ اوّلین ہے کہ آپ کی تخلیقات کو زبان زدِ خاص و عام کریں یہ انٹرویو اس فرض کی ادائیگی کی ایک کوشش ہے آئیے اس سلسلے میں پینل انٹرویو کے ذریعے علامہ صاحب سے ان کے خیالات دریافت کرتے ہیں۔

۲۰

* الطاف پیرزادہ: سوال نمبر ۱:
علامہ صاحب! ہم دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آپ کے مشکور ہیں کہ آپ نے اپنی گوناگون مصروفیات کے باوجود یہ قیمتی لمحات ہمارے اور قارئینِ کرام کے لئے مختص کئے، آپ کی شخصیت کے علمی پہلو اہلِ علم و قلم سے پوشیدہ نہیں، لیکن آپ کے بچپن، جوانی اور بعد کے حالات کے بارے میں ہمارے قارئین کو کچھ تفصیلات سے نوازیں۔

۔۔۔ علامہ نصیر: جواب:
جناب الطاف پیرزادہ صاحب انچارج میگزین روزنامہ جنگ راولپنڈی، آپ کی بہت بڑی نوازش اور ذرہ نوازی ہے کہ مجھے اپنے بارے میں کچھ عرض کرنے کا موقع دیا، میں ۱۵ مئی ۱۹۱۷ء کو قریۂ حیدرآباد، ہونزہ میں پیدا ہوا، چونکہ ہونزہ میں صدیوں سے صرف شخصی حکومت ہی کے مفادات مطلوب و مقصود تھے لہٰذا یہ امر اس ریاست کے لوگوں کے لئے ناممکن تھا کہ وہ اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم کے نعمت سے مستفید کر سکیں، جبکہ پوری ریاست میں گورنمنٹ پرائمری

۲۱

اسکول بلتت کے سوا کوئی اسکول ہی نہ تھا، نہ کہیں کوئی استادِ کامل فیضِ عام کا ذریعہ ہوسکتا تھا، اور نہ کوئی دینی مکتب، بس ہر طرف جہالت و لاعلمی کی ظلمت چھائی ہوئی تھی، سوائے میر اور وزیر خاندان کے باقی تمام لوگوں میں یہ عام روایت چلی آرہی تھی کہ اپنے بچوں سے بھیڑ بکریاں چرانے کا کام لیا کریں، ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی ضروری تھی کہ بچے ہر روز پہاڑ سے چھوٹی چھوٹی لکڑیوں کا بوجھ اٹھا کر لائیں۔

یہ وہ بڑا مشکل زمانہ تھا، جس میں رعیت کا کوئی فرد ریاست کی حدود سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا، اگر کسی کو گلگت جانے کی سخت ضرورت پیش آتی تو وہ شخص تازہ یا خشک پھلوں کی ٹوکری لے کر میر صاحب کے دروازے پر جاتا اور کسی خاص نوکر کے توسط سے زبانی درخواست بھیجتا کہ حضور بندہ پرور! فدوی کو گلگت کی عارضی راہداری (پاسپورٹ) چاہئے، اب بصورتِ منظوری اس کو ’’راہداری‘‘ کے نام سے کاغذ کا ایک ٹکڑا دیا جاتا، جس پر منشی صرف میر صاحب کے نام کا مہر ثبت کرکے دیا کرتا تھا، اور اس میں کچھ مزید تحریر نہیں ہوتی، شخصی حکمرانی کی اس پالیسی کا منشاء سوائے اس کے

۲۲

اور کیا ہو سکتا ہے کہ ریاست کا کوئی آدمی حصولِ علم کی خاطر باہر نہ جا سکے۔

اگر ہزاروں میں سے بمشکل کوئی ایک آخوند (استاد) مل جاتا تو وہ بھی کامل نہیں ہوتا، پھر بھی کچھ نوجوان حصولِ علم کی غرض سے اس کے پاس جایا کرتے تھے، لیکن زمانے کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ایسے معصوم طالبِ علموں سے نوکروں کی طرح کام لیا جاتا تھا، اس سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوا ہوگا کہ میرے بچپن اور نوجوانی کے زمانے میں اہلِ ہونزہ کے اجتماعی حالات کیسے مشکل تھے، اور اس وقت علم کی راہ میں کیسی کیسی رکاوٹیں اور دشواریاں حائل تھیں۔

* سعادت علی مجاہد انچارج نیوز بیورو برائے روزنامہ جنگ، راولپنڈی: سوال نمبر ۲:
گو کہ ہم جانتے ہیں کہ اہلِ شوق کے لئے نا موافق حالات بھی موافق ہوجاتے ہیں  لیکن :

یونہی چراغ لالہ روشن نہیں ہوا۔

ہمارا تجسس ہمیں مجبور کرتا ہے کہ۔
دیکھئے کیا گزرتی ہے قطرے سے گوہر ہونے تک۔

آپ کی ذات کے حوالے سے ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ شمالی علاقہ

۲۳

جات جیسے دور افتادہ علاقے میں علمی و ادبی درسگاہیں نہ ہونے کے باوجود آپ علم و ادب کی اس قابلِ رشک منزل تک کن دشوار مراحل سے گزر کر پہنچے اور آپ کو یہ بلند علمی مقام کیسے ملا؟

۔۔۔ علامہ نصیر: جواب:
یہ سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت نے میرے لئے عجیب و غریب طریقوں سے کام کیا، وہ یوں کہ میں ایک خلیفہ (نمائندۂ پیر) کا سب سے چھوٹا فرزند ہوں، لیکن علم کا سب سے بڑا شائق و شیدائی رہا، بالفاظِ دیگر میں علم کے فطری عاشقوں میں سے تھا اور اب بھی یہی حال ہے، یہ مبارک عشق گویا مجھ پر ایک مؤکل بٹھایا گیا تھا، جو مجھے تلاشِ علم کے بغیر چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ والدِ بزرگوار کے پاس جو کچھ علم تھا، اس کو حاصل کرتا رہا، لغات بینی کی عادت بنا لی، کچھ گھر کے باہر سے بھی دریوزہ کیا، جب جب بکریاں چراتا تو اس وقت کتابِ ’’پنج گنج‘‘ ساتھ ہوتی، جس وقت بھیڑ بکریوں کو لے کر چند مہینوں کے لئے یایلاق (تیر) جاتا، اس دوران مطالعے کی غرض سے قرآن پاک موجود ہوتا۔

۲۴

نوجوانی میں دس ماہ کے لئے گورنمنٹ پرائمری اسکول بلتت گیا، اس دوران تیسری اور چوتھی جماعت پڑھ لی، اس کے بعد نہیں جاسکا، اور ذاتی مطالعہ پر زیادہ سے زیادہ زور دیا، میرے نزدیک فوجی زندگی کا تجربہ بھی ضروری تھا، اس لئے میں ۸ اپریل ۱۹۳۹ء کو گلگت سکاؤٹس میں بھرتی ہوگیا، وہاں دیکھنے اور جاننے کے لئے ایک نئی دنیا تھی، پھر میں وہاں سے یکم ستمبر ۱۹۴۳ء کو مستعفی ہوکر ۵ اکتوبر ۱۹۴۳ء کو آرمی میں بھرتی ہوگیا، اب مشاہدات و تجربات کے لئے میری زندگی کا میدان کافی وسیع ہوچکا تھا، خدا کے فضل و کرم سے یہ بات میری عادت میں داخل ہوئی تھی کہ میں کتابوں کے علاوہ دوسری چیزوں میں بھی علم کی جستجو کروں، میں ۷ فروری ۱۹۴۶ء کو آرمی سے بھی بخوشی فارغ ہوگیا۔

 

اگرچہ علم ایک ایسی نورانی حقیقت کا نام ہے جو ہر قسم کی مادّیت سے مجرّد و مبرّا ہے، تاہم ظاہری اور مادّی اشیاء میں سے کوئی شیٔ علم کی آئینہ داری و نمائندگی کے بغیر نہیں، لہٰذا ہر شخص کو چشمِ بصیرت کی سخت ضرورت ہے تا کہ مختلف

۲۵

چیزوں میں نورِ علم کے گوناگون ظہورات کا مشاہدہ ہو سکے۔

* شاہد محمود ماہرِ بشریات: سوال نمبر ۳:
آپ کی علمی کاوشیں تین شعبوں پر مشتمل ہیں یعنی قرآنی علم و حکمت، شاعری اور بروشسکی زبان کی لغت، گرامر اور اس کے دیگر پہلوؤں پر تحقیق۔ آپ سے اس سوال کا جواب مطلوب ہے کہ تینوں قسم کے ان دریاؤں میں بیک وقت غوطہ زنی کر کے گوہرِ گرانمایہ نکالنے کے لئے آپ نے کس نوعیت کی ریاضت کی؟ اور اس مقصد کے لئے کون سے وسائل و ذرائع ہاتھ آئے؟

۔۔۔ علامہ نصیر: جواب:
قرآنی علم و حکمت وہ سب سے عظیم آسمانی معجزہ ہے، جس کی برکتوں سے انسان کا اصل جوہر کھل جاتا ہے، اور وہ بہت سے اعلیٰ کارناموں کو بڑی آسانی سے انجام دے سکتا ہے، ریاضت دو قسم کی ہوتی ہے: انسانی ریاضت اور خدائی ریاضت، ان دونوں میں آسمان زمین کا فرق پایا جاتا ہے، انسانی ریاضت کی جاتی ہے مگر ناتمام اور غیر مفید، اور الٰہی

۲۶

ریاضت بصورتِ مصائب و آلام کرائی جاتی ہے، جس کے نتائج و ثمرات بے انتہا مفید ہیں، ہر مومن کے پاس عمومی فرائض کے علاوہ ذکرِ کثیر یعنی اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا وسیلہ ہونا چاہئے، مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات اور گریہ و زاری سے ہر مشکل کام آسان ہوجاتا ہے، شب خیزی اور طویل عبادت ضروری ہے، ہر کامیاب سالک اپنے دل کو کینہ و کدورت سے پاک رکھتا ہے، قرآن و حدیث میں جس شدید محبت (عشق) کا ذکر آیا ہے وہی ہماری ہر اخلاقی اور روحانی بیماری کے لئے نسخۂ لاہوتی ہے۔

’’آورد‘‘ قسم کی شاعری میں تکلیف ہے، اور ’’آمد‘‘ قسم کی شاعری میں راحت ہی راحت ہے، کیونکہ اس میں خود از خود دل میں اور زبان پر آنے کا عنصر غالب ہے، پس ایسی شاعری الگ نہیں بلکہ روحانی علم کی ایک شاخ ہے، اسی طرح بروشسکی زبان کی لغت، گرائمر وغیرہ میں بھی تائیدِ الٰہی کار فرما ہے، کیونکہ ہر زبان کی ساخت و پرداخت اللہ کی نشانیوں میں سے ہے (۳۰: ۲۲) اور آفاق و انفس میں جس قدر بھی خدا کی نشانیاں ہیں، ان پر نورِ معرفت کی روشنی پڑنے والی ہے

۲۷

(۴۱: ۵۳)۔

* غلام قادر نیوز ایڈیٹر انچارج شعبۂ نیوز ریڈیو پاکستان، گلگت : سوال نمبر ۴:
آپ کی تخلیقات اور بروشسکی شاعری سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آپ کے تائیدی علم کے حصول کا گہرا اور منطقی تعلق ان صعوبتوں سے ہے جو تقریباً چالیس (۴۰) برس قبل چین میں آپ کے قیام کے دوران پیش آئی تھیں، اس سلسلے میں وضاحتاً بتائیے کہ آپ کی زندگی میں علمی و عرفانی انقلاب برپا کرنے میں ان غیر معمولی واقعات کا کیا کردار ہے؟

۔۔۔ علامہ نصیر: جواب:
تصوف میں ریاضت کی بہت بڑی اہمیت ہے، لیکن سب سے عظیم اور سب سے مفید ریاضت وہ ہے جو اللہ پاک خود اپنے کسی بندے کو کراتا ہے، یعنی اس پر پُرحکمت مصیبتیں ڈالتا ہے تا کہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی ریاضت کے ساتھ بھی اور بعد میں بھی روحانی علم و حکمت کا سلسلہ جاری و ساری رہ سکے، پس میں اُس ملک، اُس شہر، اور اُن مقامات کو

۲۸

شکرگزاری اور قدردانی کا سلام کرتا ہوں، جہاں مجھ پر ایسی عظیم الشّان، بے مثال اور با کرامت ریاضت مسلط کی گئی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادِ گرامی کا ترجمہ ہے: علم کو ڈھونڈتے رہو خواہ تمہیں اس کے لئے چین جانا کیوں نہ پڑے۔

یہ حسنِ اتفاق بڑا حیران کن ہے کہ مجھ جیسے ایک بندۂ خام و نا تمام پر مذکورہ حدیثِ شریف کا سرِعظیم منکشف ہوگیا، یہ اس انتہائی شدید ریاضت کی برکت تھی، جو مسبب الاسباب کے حکم سے کرائی گئی، تا کہ میں نورِ اسلام کے علمی وعرفانی عجائب و غرائب کو دیکھنے کے قابل ہو جاؤں۔

* الطاف پیرزادہ: سوال نمبر ۵:
علم وعرفان اور قرآنی حکمت کی آفاقی تعلیمات جن کا درس آپ نے دیا ہے، ان کے بنیادی اصول کیا ہیں؟ ان اصولوں کے فروغ کے لئے آپ نے کون سا طریقۂ کار اختیار کیا؟ اور درس دینے کے اس عمل کے ذرائع کیا ہیں؟

۔۔۔ علامہ نصیر: جواب:

۲۹

علم وعرفان اور قرآنی حکمت کی آفاقی تعلیمات تدریجی اور ہر شخص کی سعی و رسائی کے مطابق ہیں، کیونکہ دنیا کے لوگ عقل و شعور میں یکسان و برابر نہیں ہوتے، لہٰذا میرے درس دینے کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ میں مختلف درجات کی تعلیم پیش کرتا ہوں، تا کہ ہر شخص اپنی عقل کے مطابق علم سے بہرہ مند ہوسکے، ویسے بھی میرے سامنے کوئی ایک کلاس نہیں ہوتی، بلکہ ایسے لوگوں کا چھوٹا سا اجتماع ہوتا ہے، جس کے افراد علم و دانش کے مختلف مدارج پر فائز ہوئے ہوتے ہیں، اب یہی عزیزان میری تعلیمات کے لئے بنیاد بھی ہیں اور معیار بھی، میرے نزدیک اس تعلیمی اصول کا فروغ اس طرح ہو سکتا ہے، کہ مشرق و مغرب میں بہت ساری کتابیں پھیلا دی جائیں، آڈیو کیسیٹز بھی ہر جگہ پہنچ جائیں، بہت سارے اسکالرز پیدا ہوجائیں، اور یہی امور اصولات بھی ہیں اور ذرائع بھی۔

* سعادت علی مجاہد: سوال نمبر ۶:
آپ کی تصانیف کی مجموعی تعداد تقریباً ڈیڑھ سو ہے، ان تصنیفات کی دنیا میں آپ نے کب قدم رکھا؟ اور کس

۳۰

جذبے نے آپ کو قلمی دنیا میں داخل ہو جانے کی ترغیب دی؟

۔۔۔ علامہ نصیر: جواب:
یہ ۱۹۵۷ء کا زمانہ تھا، جس میں میری زندگی کے چالیس (۴۰) سال پورے ہوچکے تھے، تب میں نے اپنی اوّلین کتاب تصنیف کی، کیونکہ مجھے اس بات کا یقین تھا کہ میرے پاس خود شناسی کی ایک عظیم امانت ہے تو یہ امر ضروری ہوا کہ اس قسم کی امانت کو سینے سے سفینے میں منتقل کر دی جائے، اور مجھ کو جس طرح علم سے عشق تھا، اس کا بھی یہی تقاضا تھا کہ کچھ کتابیں تصنیف کی جائیں، علاوہ برآن بزرگانِ دین کی کتابیں ہر بار گویا کہتی رہتی تھیں کہ کوشش کرو کچھ لکھو، کچھ لکھو۔

* شاہد محمود: سوال نمبر ۷:
آپ کی تخلیقات کا علمی تجزیہ کرنے سے ایسے موضوعات پر بھی روشنی پڑتی ہے جنہیں دنیائے علم و ادب اور خود سائنس نے بھی ’’غیر دریافت شدہ اشیاء‘‘ قرار دے

۳۱

کر سمجھ اور تحقیق کے شعبے میں بے بسی کا مظاہرہ کیا ہے، جیسے اڑن طشتریوں کا سیارۂ زمین پر بار بار وارد ہوجانا، روحانی سائنس، جسمِ لطیف اور ستاروں یا سیاروں پر لطیف مخلوقات کا وجود، چنانچہ آپ سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں وضاحت کیجئے۔

۔۔۔ علامہ نصیر: جواب:
بیشک میں نے اپنی تحریروں میں اڑن طشتریوں کا ذکر کیا ہے، خصوصاً کتاب ’’میزان الحقائق‘‘ میں، کیونکہ مجھے اس نوعیت کے موضوعات سے بے حد دلچسپی ہے، جس کی وجہ مشاہدہ ہے، اور مقصد معلومات فراہم کرنا ہے، بڑی عجیب بات ہے کہ عوام کے نزدیک جنّ، پری، جسمِ لطیف، اڑن طشتری، وغیرہ الگ الگ مخلوقات ہیں، حالانکہ یہ ایک ہی لطیف مخلوق ہے، جو مختلف شکلوں میں ظاہر ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس لئے اس کے بہت سے نام ہیں، چنانچہ میں نے روحانی انقلاب کے دوران جس واحد مخلوق کو دیکھا تھا، اس کا تذکرہ کئی ناموں سے کیا ہے، یعنی کبھی اس کو جنّ (پری) کا نام دیا، کبھی جسمِ لطیف کہا، کبھی جثۂ ابداعیہ، کبھی اڑن طشتری، کبھی

۳۲

جسمِ مثالی، وغیرہ، حالانکہ وہ ایک ہی چیز ہے، اور روحانی سائنس روحانیت و قرآن میں ہے، اس کی ایک متعلقہ مثال حسبِ ذیل ہے:

جب کوئی آدمی اللہ تبارک و تعالیٰ کی عنایتِ خاص سے وہ آسمانی قمیص پہن لیتا ہے، جس کا ذکر سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں فرمایا گیا ہے تو وہ اس کے نتیجے میں جنّ / پری، فرشتہ، اڑن طشتری، جسمِ لطیف، وغیرہ کی طرح آسمان اور ستاروں میں پرواز کرسکتا ہے، اس سے پتا چلا کہ ہر ستارہ لطیف مخلوقات کی ایک دنیا ہے، آپ سورۂ شوریٰ (۴۲:  ۲۹) میں دیکھیں اس کی نشانیوں میں سے ہے یہ زمین اور آسمانوں کی پیدائش اور یہ جاندار مخلوقات جو اس نے دونوں جگہ پھیلا رکھی ہیں۔

* غلام قادر : سوال نمبر ۸:
علم و حکمت کا سرچشمہ قرآن پاک ہے، اس حوالے سے آپ نے قرآنی علاج، علمی علاج، اور روحانی علاج کے نام سے کتابیں تحریر کرکے گویا قرآنی شفا خانے یا آسمانی معالج

۳۳

کا خوبصورت تصور دیا ہے، ایسے میں ہم ان افراد کو کونسے دلائل دے کر قائل کرسکتے ہیں جو مادّیت زدہ ہونے کے باعث اس تصور سے دور ہیں؟

۔۔۔ علامہ نصیر: جواب:
قرآنی، علمی، اور روحانی علاج کے ثبوت میں بہت سی دلیلیں پیش کی جا سکتی ہیں، اور مذکورہ بالا کتابوں میں اس نوعیت کے کئی دلائل دئے گئے ہیں، تاہم ذیل میں مزید مثالیں درج کی جاتی ہیں:

۱۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ مادّی قسم کی دوا کے علاوہ کوئی اخلاقی یا نفسانی چیز بھی انسان کے دل و دماغ اور جسم و جان پر اثر انداز ہوسکتی ہے یا نہیں؟ ۲۔ سب جانتے ہیں کہ کبھی کوئی آدمی شرم کے مارے پسینے میں شرابور ہوجاتا ہے، یہ محض نفسیاتی اثر پذیری کی علامت ہے۔ ۳۔ اسی طرح انسان کی ہستی پر خوف کا زبردست اثر پڑتا ہے۔ ۴۔ اکثر لوگ اپنے ہی غیض و غضب سے دگر گون ہوجاتے ہیں۔ ۵۔ انسانی فطرت میں یہ بات بھی داخل ہے کہ غم کا بوجھ اس پر سنگین گزرتا ہے۔ ۶۔ کبھی کبھی شدید غم یا

۳۴

انتہائی خوشی آدمی کے لئے خطرناک ثابت ہوجاتی ہے۔ ۷۔ مایوسی سے انسان کا دل و دماغ نیم مردہ ہوجاتا ہے۔ ۸۔ بنی نوع انسان میں شدید محبت (عشق) کا اثر شدید ہے۔
ان مثالوں سے یہ معلوم ہوا کہ انسان نہ صرف دوسروں سے اثر لینے کی خاصیت رکھتا ہے، بلکہ وہ خود بھی ہمیشہ اپنے آپ پر اثر ڈالتا رہتا ہے، پس جو لوگ قرآنی، علمی، اور روحانی دواؤں کے کورس کو مکمل کئے بغیر یہ کہتے ہوں کہ ان میں کوئی شفا نہیں تو وہ صریح غلطی پر ہیں، وہ عقلی اور منطقی طور پر بیمار ہیں، مگر یہ بیماری پوشیدہ ہے۔

* الطاف پیرزادہ: سوال نمبر ۹:
’’روح کیا ہے؟‘‘ کے نام سے آپ کی نئی کتاب جدید تحقیقی میدان میں ایک نئی ’’علمی دریافت‘‘ سے کسی طرح بھی کم نہیں، لہٰذا قارئین کی دلچسپی کے پیشِ نظر آپ سے گزارش ہوگی کہ اس موضوع پر کچھ وضاحت کریں۔

۔۔۔ علامہ نصیر: جواب:

۳۵

روح کا علم جتنا بلند اور مشکل ہے اتنی اس کی معرفت ضروری بھی ہے، کیونکہ خدا شناسی کا کوئی درجہ روح شناسی ہی سے ممکن ہے، اور یہ بات اسلامی تصوف میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ خود شناسی کے لئے ریاضت اور نوافل کی سخت پابندی کی جائے، ساتھ ہی ساتھ مرشدِ کامل کی اجازت اور دعا شرطِ اوّلین ہے، ظاہر ہے کہ اسمِ اعظم کے بغیر ایسا کوئی کام ممکن ہی نہیں، اور وہ اسماء الحسنیٰ میں سے ہوگا، جسے مرشد خود تجویز کریں گے۔

اب یہ کوئی چلّہ ہرگز نہیں بلکہ نوافل (وہ زائد عبادات جو واجب نہ ہوں) کا سلسلہ شروع ہوگا، شب خیزی اس کا لازمی جزو ہے، ذکرِ الٰہی کے لئے راستہ ہموار کرنے کی غرض سے گریہ و زاری اور مناجات ازحد مفید ہے، اس مقدّس کام سے متعلق تفصیلات بہت زیادہ ہیں، میں مختصراً عرض کروں گا کہ اگر کوئی سالک جیتے جی موت کے دروازے سے داخل ہوسکا، اور تقریباً ایک ہفتہ تک حضرت عزرائیل ؑ نے اس کو موت وحیات کی انوکھی ریاضت کرائی تو ان شاء اللہ اب یہ طفلِ نوزائیدۂ روحانیت بتدریج آگے بڑھے گا، اور مراحلِ

۳۶

روحانی میں ترقی کرے گا، تا آنکہ وہ مقامِ عقل پر بھی اپنے آپ کو طفلِ نوزائیدہ پائے۔

* سعادت علی مجاہد: سوال نمبر ۱۰:
اللہ تعالیٰ کے ننانوے (۹۹+۱=۱۰۰) نام ہیں، ان میں ایک ذاتی اور باقی تمام صفاتی ہیں، روح اور عقل کے مقامات پر انسانی عروج و ارتقاء کے حوالے سے ان اسماء میں درجہ وار علم و معرفت ہونے سے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟

۔۔۔ علامہ نصیر: جواب:
وہ حدیثِ شریف یہ ہے: للّٰہ تسعۃ و تسعون اسما مائۃ الا واحداً (بخاری، جلدِ سوم، کتاب الدعوات، باب ۸۰۵) اس کا اشارہ یہ ہے کہ اسمائے الٰہی ننانوے بھی ہیں، سو بھی ہیں، اور ایک بھی ہے، جو ۹۹ اسماء ہیں وہ صفاتی ہیں، جہاں ۱۰۰ ہیں، وہاں ان میں ایک اسم نمائندۂ اسمِ ذات بھی ہے، اور جو ایک ہے وہ اسمِ ذات ہے، جو اسمِ ذات ہے وہی اسمِ اعظم بھی ہے، پس ہر اسم علم وحکمت کا ایک خزینہ ہے، اور اسمِ اعظم (اسمِ ذات /اسمِ اکبر) خزینۃ الخزائن ہے، یعنی اس میں تمام

۳۷

اسماء اور ان کے سارے خزانے جمع ہیں، جملہ اسماء میں لوگوں کے لئے درجہ وار علم و حکمت ہے۔

* شاہد محمود: سوال نمبر ۱۱:
صوفیانہ اور عارفانہ شاعری قوموں کی اخلاقی اور روحانی تربیت اور ان میں اجتماعی بیداری پیدا کرنے میں کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟ آپ نے اس حوالے سے کن کن زبانوں میں شاعری کی ہے؟ اور ان کے اثرات و نتائج کیا ہیں؟

۔۔۔ علامہ نصیر: جواب:
صوفی اور عارف کی پرحکمت شاعری میں صورِ صغیر اور قیامتِ صغریٰ کے زبردست مؤثر اجزاء ہوتے ہیں، کیونکہ ہر قسم کی چیزوں کا ایک کُلّ ہوا کرتا ہے، اور ہر کُلّ کے اجزاء ہوتے ہیں، چنانچہ ارشادِ نبوی کا مفہوم ہے: شعر گوئی کی ایک قسم وہ ہے جس میں حکمت ہے۔ (ان من الشعر حکمۃ) اور حکمت کی تعریف و توصیف قرآن حکیم سے سن لیں:

اور جس کو حکمت ملی، اسے حقیقت میں بہت سی خیر مل گئی (۰۲: ۲۶۹)۔ یقیناً صوفیانہ اور عارفانہ نظمیں قوموں کی جان

۳۸

ہوا کرتی ہیں۔

بندۂ ناچیز نے علی التّرتیب بروشسکی، فارسی، اردو اور ترکی میں شاعری کی ہے، اللہ کے فضل و کرم سے بحیثیتِ مجموعی نتائج و ثمرات بہت ہی اچھے ہیں، ایک زبردست خودکار اوپن یونیورسٹی کی طرح کام ہو رہا ہے، خصوصاً بروشسکی نظموں میں، الحمد للہ۔

* غلام قادر: سوال نمبر ۱۲:
سائنسی علوم سے اب یہ حقیقت قابلِ فہم ہوگئی ہے کہ کائنات یا کائناتوں کے مجموعی نظام میں وحدت کا اصول کارفرما ہے، قرآنی تعلیمات کے حوالے سے انسانی وحدت و سالمیت سے متعلق آپ کا نقطۂ نظر کیا ہے؟ کیا ایسے میں نسلِ انسانی کسی وقت مکمل طور پر متحد اور ایک ہو سکتی ہے؟ اگر ہاں، تو کب؟

۔۔۔ علامہ صاحب: جواب:
جی ہاں، کائنات کو خدائے واحد نے پیدا کیا ہے، اس لئے اشیائے عالم میں ازلی وحدت و سالمیت کے آثار موجود

۳۹

ہیں، اسی طرح بنی آدم ہیں، جو سب کے سب ایک ہی ابوالبشر کی پشت سے پھیل گئے ہیں، اور قرآن پاک میں تمام لوگوں کی یکجائی سے متعلق بہت سی پیش گوئیاں ہیں، قرآن اور اسلام میں جو فرمایا گیا ہے وہ حق ہے، اس لئے میں قرآن حکیم کے حوالے سے یہ عرض کروں گا کہ تمام لوگوں کی یکجا پیدائش اور یکجا قیامت کا نمونہ نفسِ واحدہ ہے (۳۱: ۲۸) روحانی عجائب و غرائب کے سلسلے میں سب لوگ خود نفسِ واحدہ بھی ہو جاتے ہیں۔

تصوف کی اصطلاح کے مطابق کائناتِ ظاہرعالمِ کبیر ہے اور انسان عالمِ صغیر، اور اس کی نئی اصطلاح عالمِ شخصی / پرسنل ورلڈ ہے، کیونکہ انسان میں بیرونی دنیا سمائی ہوئی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر شخص میں تمام اشخاص اور ساری چیزوں کی ذرّاتی نمائندگی ہے، یہی وجہ ہے کہ آدمی اپنی جسمانی و روحانی ہستی میں بے شمار ذرّات کا مجموعہ ہے، ذرّات اس طرح ہیں: جسم کے بے شمار خلیات، نفسِ نباتی (جو انسان میں ہے) کے لاتعداد ذرّات، نفسِ حیوانی (جو انسان میں ہے) کے بے حساب ذرّات، نفسِ انسانی کے لا تعداد ذرّات، اگر

۴۰

یہی ذرّات کی دنیا عین الیقین کے سامنے ہے تو وہ عالمِ ذرّ کہلاتا ہے، اسی طرح ہر فردِ بشر میں بحدِ قوّت عالمِ انسانیت کی وحدت موجود ہے۔

* الطاف پیرزادہ: سوال نمبر ۱۳:
بروشسکی زبان کی جو خدمات آپ نے سرانجام دی ہیں وہ علاقائی اور ملکی سطح کے علاوہ غیر ملکی یونیورسٹیوں سے اشتراکِ عمل کی شکل میں بھی ہیں، چنانچہ اس زبان کی ہیئتِ ترکیبی، اس کے پھیلاؤ، گرائمر، لغت اور تاریخ کے حوالے سے ان خدمات کے بارے میں قارئینِ کرام کو متعارف کیجئے کہ یہ سارا دشوار کام اپنی مدد آپ کے تحت کیسے سر انجام پایا؟

۔۔۔ علامہ نصیر: جواب:
میرا یقین ہے کہ ہر نیک کام اللہ تعالیٰ کی توفیق سے انجام پاتا ہے، ورنہ شروع شروع میں بروشسکی شاعری کے سامنے شدید مشکلات حائل تھیں، زبان کے متعلق بعض مقامی لوگوں کا تاثر اچھا نہیں تھا، کہتے تھے کہ ’’بروشسکی سراسر

۴۱

گالیوں کی زبان ہے‘‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چند عامیانہ الفاظ زبان کی بے شمار خوبیوں پر غالب آگئے تھے، گویا انمول جواہر کے خزانے پر اژدھا بیٹھا ہوا تھا، اور شہزادی دلہن برائے آزمائش پھٹی پرانی چادر میں چہرہ چھپا رہی تھی، جس کے سبب سے چند مقامی اہلِ قلم نے بروشسکی کو نظر انداز کرکے فارسی میں شاعری شروع کی تھی۔

اس زبان کا ایک تجزیہ اس طرح سے ہے: ہستو (ہاتھی)، گݳلجو (گیدڑ)، شدی (بندر)، یہ جانور شروع ہی سے علاقے میں موجود نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قدیم بروشو کسی ایسے بڑے ملک سے آئے ہوئے ہیں، جس میں زمانے کے مطابق سب کچھ تھا، وہ صرف زبان اور الفاظ اپنے ساتھ لے کر یہاں آ گئے، اور دوسری بہت سی چیزیں وہاں رہ گئیں، دوسرا تجزیہ: گرمنس (لکھنا)، غتنس (پڑھنا)، یہ دونوں مصدر اصلی ہیں، اس لئے یہ کہنا بجا ہو گا کہ زمانۂ قدیم میں بروشسکی ایک ایسی قوم کی زبان تھی، جس میں لکھنے پڑھنے کا رواج تھا، تیسرا تجزیہ: کر، کر کر، ککر، کِر کر، کِر کِر، کِکِر، کݳر، کِݶر کݳر، کݳر گبݹر، کور، کور کور، کو کور، کِݶر کݹر، کِرکور، یہ

۴۲

سب ایک ہی مادّہ کے الفاظ ہیں، جن میں چلنے پھرنے کے مختلف معنی ہیں، بروشسکی الفاظ کا مادّہ اکثر با معنی ہوتا ہے، جیسے کر (پھرنا) یہ دو حرفی الفاظ کے ذخیرے میں سے ہے جو بہت بڑا ذخیرہ ہے۔
چوتھا تجزیہ: ہر (بیل) اسی سے یہ الفاظ ماخوذ ہیں: ہرݽ (ہل)، ہرڅم (جوا= yoke) ہرکی (کاشت) ہرݽ (لکڑی کا بیلچہ) ہرکاݶ (بیلوں کی جگہ ہل کھینچنا) ہلا گون (ہل کی کھینچی ہوئی لکیر) یہ الفاظ قدیم، اصل اور سالم ہیں، کیونکہ اس کی تحقیق ہوسکتی ہے۔
ہونزہ، نگر اور یاسین میں بروشسکی زبان بولی جاتی ہے، اگر ان علاقوں کے آپس میں کچھ لہجہ اور الفاظ کا فرق ہے تو یہ اس زبان کی وسعت کی دلیل ہے، مثال کے طورپر: شکل (صورت) عربی کا ایک لفظ ہے، جس سے زمانۂ قدیم میں بروشسکی لفظ: اِشْکِل (اس کا چہرہ) بنا، جو نگر میں اپنی اصلیت کے ساتھ محفوظ ہے، اور ہونزہ میں اس کی تھوڑی سی ترقی ہوئی، یعنی یہ یہاں اِسْکِل ہوگیا، اسی طرح بعض مسائل یاسین کے طرزِ گفتگو سے حل ہو جاتے ہیں، ان شاء اللہ

۴۳

مستقبلِ قریب میں ہونزہ، نگر اور یاسین سے ایسے باکمال سکالرز پیدا ہوں گے جو آپس کے تعاون سے مشترکہ لغات اور گرائمر کو مکمل کرلیں گے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی غیر بروشن یا غیر برشو کو اس عظیم منصوبہ سے کامل دلچسپی پیدا ہوجائے، بہر حال خوشخبری ہے کہ آنے والا زمانہ امن و امان، صلح و آشتی، اور علم و ادب کا ہے۔

* سعادت علی مجاہد: سوال نمبر ۱۴:
کیا آپ کی ترجمہ شدہ تصانیف مغربی ممالک کے پیشہ ورانہ یا تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہیں؟ کونسے ادارے؟

۔۔۔ علامہ نصیر: جواب:
آج کی سائنسی دنیا میں ہر طرف ترقیوں کے طوفان امنڈ رہے ہیں، ایسے میں دنیا کے کسی بڑے علمی ادارے میں ایک حقیر شخص کی تصنیف کا تعارف کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، تاہم اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہی مسبب الاسباب ہے چنانچہ کنیڈا کی مونٹریال یونیورسٹی کے

۴۴

شعبۂ لسانیات میں میری بعض بروشسکی کتابیں ریسرچ کے لئے موجود ہیں اور حال ہی میں پروفیسر ای۔ ٹیفو نے ’’ہونزہ پرووربز‘‘ کے نام سے ۲۵۲ صفحات کی ایک کتاب شائع کروائی ہے، جس کے اندر والے ٹائٹل پیج پر پانچ مصنفین کے نام اس طرح درج ہیں:
۱۔ ای۔ ٹیفو، یونیورسٹی ڈے مونٹریال۔
۲۔ وای۔ سی۔ ایچ، مورین، یونیورسٹی ڈے مونٹریال۔
۳۔ ایچ۔برگر، یونیورسٹی ہائڈل برگ
۴۔ ڈی۔ ایل۔ آر، لاریمر لفٹنٹ کرنل
۵۔ نصیر الدین نصیر ہونزائی، خانۂ حکمت

میرے خیال میں بڑے بڑے پروفیسروں کی شرکت میں کسی تصنیف کا کام کرنا باعثِ نیک نامی و عزّت ہے، اب یہ کتاب نہ صرف یونیورسٹی ہی میں استعمال ہوگی، بلکہ اس سے باہر بھی پڑھی جائے گی، یہی مثال اس جرمن بروشسکی ڈکشنری کی بھی ہے، جس کو پروفیسر ہرمن برگر ہائڈل برگ یونیورسٹی سے شائع کر رہے ہیں۔

خاتون ڈاکٹر (پی۔ ایچ۔ ڈی) بوستان ہیرجی میدانِ علم و ادب میں بڑی قابل شخصیت ہیں، انہوں نے واشنگٹن ڈی۔

۴۵

سی (یو۔ ایس۔ اے) میں دی واشنگٹن ہاسپٹل سینٹر کے ایک شعبے میں ہیلتھ کورس کے دوران میری کتاب ’’قرآنی علاج‘‘ کے ترجمۂ انگلش ’’قرآنک ہیلنگ‘‘ کو بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کیا، اس کا تذکرہ ان کے اس تبصرے میں بھی موجود ہے جو انہوں نے قرآنک ہیلنگ کے بارے میں رقم کیا، جو اس کتاب کے نئے ایڈیشن کے آخر میں ہے۔

* شاہد محمود: سوال نمبر ۱۵:
علم و ادب کے فروغ کے لئے آپ نے کون سے ادارے قائم کئے ہیں؟ ان اداروں کی مجموعی کارکردگی اور مستقبل کا پروگرام کیا ہے؟ ساتھ ہی یہ بھی بتائیے کہ آپ کی علمی کاوشوں کے دائرے کو بین الاقوامی سطح پر خصوصاً مغربی دنیا میں وسیع تر کرنے میں کن کن شخصیات، ذرائع اور عوامل نے بنیادی کردار ادا کیا؟

۔۔۔ علامہ نصیر: جواب:
ہمارے علمی و ادبی ادارے تین ہیں: خانۂ حکمت، ادارۂ عارف، اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی، ان کی مجموعی کارکردگی

۴۶

قابلِ رشک ہے، اس وقت خدا کے فضل و کرم سے میرے شاگردوں میں تقریباً چالیس (۴۰) عملدار و اسکالرز ہیں، یہی عزیزانِ مشرق و مغرب آپس میں مل کر مستقبل کا پروگرام کریں گے، میری پہلودار علمی خدمت کے دائرے کو دنیا میں پھیلانے کے لئے سارے شاگرد کمربستہ ہیں، اور سب کے سب شب و روز عالی ہمتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، تاہم یہ سچ ہے کہ ترجمہ اور متعلقہ امور میں اگر موجودہ جذبۂ جان نثاری نہ ہوتا تو ہم خدمت میں بہت محدود رہ جاتے، اور ہماری کوئی شناخت ہی نہ ہوتی، میرا اشارہ جناب ڈاکٹر (پی۔ ایچ۔ ڈی) فقیر محمد ہونزائی صاحب، ان کے ساتھی، اور دوسرے مترجمین کی طرف ہے۔

*غلام قادر: سوال نمبر ۱۶:
آیا آپ قارئین کے لئے کوئی اہم پیغام دینا چاہیں گے؟

۔۔۔ علامہ نصیر: جواب:
جی ہاں، ان شاء اللہ، (۱) جس طرح حصولِ پاکستان کے سلسلے میں تمام مسلمان رہنما اور علمائے کرام ایک ہو گئے تھے،

۴۷

اسی طرح اب اس کی وحدت و سالمیت، اور حفاظت و ترقی کے لئے بھی ہم سب کو متفق و متحد ہو جانا ضروری ہے۔ (۲) اہلِ قلم اپنے وسیع میدانوں میں ملک و ملت اور انسانیت کے لئے بہترین خدمات کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ (۳) ہر مسلمان کو جذبۂ خیر خواہی سے سرشار ہو جانا چاہئے، کیونکہ بفرمودۂ حدیثِ شریف دین کی تعریف خیر خواہی ہے۔ (۴) میرا خیال ہے کہ مادّی سائنس کے بعد روحانی سائنس کا زمانہ آرہا ہے، اس کے لئے یقیناًاخلاقی اور روحانی تیاری کی ضرورت ہوگی۔ (۵) اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حرمت سے ہم سب کو نیک توفیق عنایت فرمائے! تا کہ ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں مخلص اور باہمت ہو جائیں، آمین!

علامہ صاحب! آپ احساسِ فکر کی بنیاد پر ایک ایسی عظیم علمی خدمت سر انجام دے رہے ہیں جس کا دائرہ اسلامی، ملکی اور انسانیت کی سطح پر محیط ہے، آپ جن رموزِ

۴۸

روحانی اور اسرارِ علمی کو بتدریج منظرِ عام پر لا رہے ہیں وہ تصنع اور بناوٹ سے پاک اور سچائی کے پاسدار ہیں، اس قدر علمی سربلندی کے باوجود آپ کا حقیقی درویشی کے اصولوں پر کاربند رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ، آپ کا قلم اور آپ کی تخلیقات عظیم اور باوقار ہیں، اور ان میں توازن اور استقامت کی کارفرمائی ہے۔
(غلام قادر)

۴۹

علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی قرآنی طریقِ علاج سے طب کی دنیا کو مالامال کر رہے ہیں

جائزہ: آئی ۔ یو۔ جیرل
ترجمہ: شہناز سلیم

اس ہفتے مجھے سو کتابوں کے نامور و قابلِ قدر مصنف اور مذہبی اسکالر علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی سے چار کتابیں موصول ہوئیں۔ انہوں نے اسلام اور انسانیت کے وسیع میادین میں اپنی صلاحیتوں کو علم کی خدمت میں وقف کرتے ہوئے ایک نئی تاریخ کی تشکیل کی ہے۔ ان کا متحمل اور عاجزانہ قلم دنیا کی مختلف زبانوں یعنی اردو، بروشسکی، انگریزی، فارسی (نظم و نثر) اور ترکی (نظم و نثر) میں علم کے عجائب وغرائب کو پیدا کررہا ہے۔ نیز ان کی ۳۳ کتب کا انگریزی ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔

۵۰

قرآنی علاج (Quranic Healing)
یہ علامہ صاحب کی ایک اہم اور نادر تخلیق ہے جس کا نام قرآنی علاج ہے، یہ کتاب روحانی سائنس اور قرآن کے ایسے تصورات کو بیان کرتی ہے جن کا بحسن و خوبی تعین کیا جاسکتا ہے اور نتیجتاً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ روحانی علاج ایک ایسا کثیر پہلودار سلسلہ ہے جس میں نئی دریافتوں کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔ ہر چند کہ کتاب میں باطنی صحت سے متعلق بصیرت افروز بیان ہے تاہم اس کتاب کا مقصد ظاہری و باطنی دونوں قسم کی بیماریوں سے بچاؤ کرنا ہے۔

کتاب میں کل ۲۶ مضامین کے علاوہ رئیس امروہوی مرحوم کا تحریر کردہ دیباچہ بھی شامل ہے۔ ہر چند کہ یہ کاغذی جلد میں ایک چھوٹی ضخامت والی کتاب ہے، تاہم علم اور حکمت کے لحاظ سے اس کا ہر مضمون ایک جامع اور مفید کتاب کے برابر ہے کیونکہ خداوند نے یقیناًعلامہ صاحب کو قرآنِ مبین کے لعل و گوہر کی دولت سے نوازا ہے۔
کتاب کا مقصد یہ ہے کہ ہر دانشمند مسلمان نبی اکرم صلی

۵۱

اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لائے ہوئے خدائی امر کی پیروی کرتے ہوئے اپنے آپ کو باطنی بیماریوں سے مکمل طور پر بچائے تاہم ذیلی اور ضمنی طور پر کتاب میں ظاہری بیماریوں کی روک تھام کے قوانین بھی مذکور ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ اس کتاب کا مقصد یقینی طور پر قرآن، اسلام، پاکستان اور انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔

یہ کتاب ۲۵ مقالوں پر مشتمل ایک جامع اکائی ہے جس سے کتاب کی خواندگی اور مطالعہ بہت آسان ہو جاتا ہے کیونکہ اس میں ایک قاری منتخب موضوعات کا مطالعہ کر سکتا ہے۔ علامہ صاحب کا یہ تحقیقی منصوبہ ہر مسلم اور مغربی قاری کے لئے اسلام کے اس تاریخی نقطۂ نظر کا نئے سرے سے تعارف کراتا ہے جس میں خدا، فطرت اور انسان کے مابین ایک ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ یہ نقطۂ نظر ایک ایسے علم کو جنم دیتا ہے جس میں مادّیت و روحانیت کا باہمی ارتباط ہے جو اسلام کی اساس ہے۔

مقالات ۱۰ ۔۱۴ ’’قرآنی علاج اور آواز‘‘ ، ’’خواب کے اشارات‘‘، ’’ذکرِ الٰہی‘‘، ’’خوفِ بے جا کا علاج‘‘ اور ’’دعا‘‘ میں

۵۲

جدید مغربی نفسیات اور نفسیاتی طریقِ علاج سے روحانی طب کے نقطۂ نظر سے بحث کی گئی ہے جو روحانی طبی تعلیم اور روحانی مشاورت کے لئے بہت مفید ہے۔

علمی علاج (Healing through Knowledge)
علامہ صاحب کی دوسری کتاب علمی علاج کا بھی انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ۳۱ مقالوں کے ساتھ مصنف کے تحریر کردہ دیباچے پر مشتمل ہے۔ ایک حدیث شریف کے مطابق ہر نیک عمل ایک صدقہ ہے اور اگر کوئی نیکی دائمی ہو تو اسے صدقۂ جاریہ کہتے ہیں جس کا شمار دائمی نیک عمل میں ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے (الباقیات الصالحات، ۴۶: ۱۸)۔

اسی لئے علامہ نصیر ہونزائی جیسے مومنین، جو خیرخواہی اور پرجوش محبت کے ساتھ خدا کی عظیم نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہیں یا ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ گویا شکرگزاری کی

۵۳

عبادت ہے جس سے اس (مالک) کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور موصوف نے جن تصورات کو اپنی تحریروں میں متعارف کروایا ہے اس سے علم کی محبت، فراخ دلی اور اسلام کی اخوت کی گوناگون برکتیں ظاہر ہورہی ہیں۔

علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی نے اردو اور دوسری زبانوں میں غیر معمولی طور پر قرآنِ حکیم کے انکشافات کے لئے ایک منفرد انداز اپنایا ہے جس میں وہ اس امر کو ثابت کرتے ہیں کہ علم روحانی بیماریوں کی دوا بھی ہے اور روح و عقل کی غذا بھی۔ کیونکہ دنیا میں علاج کا کوئی بھی طریقِ کار نہیں جو علم کا رہینِ منت نہ ہو یا جو حکمت، کتاب یا استاد کے بغیر جاری رہ سکتا ہو۔

علاج میں جو وسائل و ذرائع استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم وسیلہ ’’علم‘‘ ہے اور یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے۔

علامہ صاحب کی اس کتاب میں علم کے ذریعے علاج کے عنوان پر معقول دلائل اور جوابات تفصیلاً ملتے ہیں۔ یہ ہمارا پختہ یقین ہے کہ قرآن پاک شفا اور دوا ہے لیکن یہ بات یاد

۵۴

رکھنی چاہئے کہ اس کی مخصوص شفا کا تعلق انسانی وجود کے اعلیٰ پہلوؤں یعنی روح اور عقل سے ہے جب کہ اس سے جسمانی صحت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔

روحانی علاج (Spiritual Healing)
علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کی تیسری کتاب جس کا حوالہ دیا گیا ہے، وہ بھی کراچی ہی کے مذکورہ بالا پبلشر نے شائع کی ہے۔ یہ کتاب یقینی طور پر ایک بہت اہم، جامع اور ہمہ رس تخلیق ہے جسے اردو اور انگریزی کے موجودہ قارئین اور آنے والی نسلوں کے لئے مکمل و مہیا کردیا گیا ہے۔

اس کتاب میں ہر قسم کے خوفِ بے جا، ہرگونہ پریشانی، احساسِ کمتری، دنیاوی حرص، گھبراہٹ، برے خیالات یا وسوسوں کی اذیت، غمگینی، بے چینی، مایوسی، ناخواستہ غصہ، سبک مزاجی، زبان کی لغزش، کم ہمتی، بد باطنی، فخر، خودبینی، جہالت، کمینگی، غفلت، سستی، تنگ دلی، اضطراب، نسیان، ذہنی اختلال، کم ظرفی، ایسی کئی دوسری

۵۵

روحانی اور اخلاقی بیماریوں کا علاج ’’اطمینانِ قلب‘‘ کو قرار دیا گیا ہے جو ذکرِ الٰہی کی برکتوں سے حاصل ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں مذکور ہے ’’ الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب ‘‘ ہوشیار رہو کہ خدا کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔ (۱۳: ۲۸)۔ ایک اور آیۂ شریفہ ہے:

’’تمہارے پاس تمہارے ربّ کی جانب سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے‘‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں یہ نور خود رسول کی ذاتِ اقدس تھی اور اس کے بعد بھی اس نور کی موجودگی ضروری ہے۔

۲۲ مقالوں پر مشتمل یہ ایک شاندار کتاب ہے جس میں علامہ صاحب نے خاص طور پر قرآنی حوالہ جات کے ذریعے روحانی علاج کی تفصیلات کو مجمل طریقے سے مہیا کر دیا ہے اور ایسا کرتے ہوئے انہوں نے جدید طب کی دنیا میں ایک

۵۶

ایسا تاریخی ریکارڈ قائم کیا ہے جو ایک لمبے عرصے تک نہ صرف یاد رکھا جائے گا بلکہ آنے والی ان گنت نسلیں اس کا حوالہ دیں گی۔

روح کیا ہے؟ (What is Soul?)
زیرِ نظر کتاب میں علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی نے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں سو سوالات کے جوابات دئے ہیں۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی اور رشیدہ نور محمد ہونزائی نے کیا ہے اور خانۂ حکمت، ادارۂ عارف، ۳۔ نورویلا، ۲۶۹، گارڈن ویسٹ، کراچی نمبر ۳، پاکستان نے اسے شائع کیا ہے۔

یہ کتاب پانچ حصوں پر منقسم ہے اور سو مضامین کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب کو مصنف (علامہ صاحب) خدا کی نعمتوں کا ایک معجزہ قرار دیتے ہیں۔ یہ ہمارے بنیادی نظریات میں سے ہے کہ اخلاص اور خاکساری سے کی گئی دعائیں مومنین کے لئے روحانی تائید کا وسیلہ ہیں۔

۵۷

روح کے بارے میں یہ بحث انتہائی دلچسپ اور مفید ہے کیونکہ روح کا اعلیٰ و ارفع موضوع اتنا ضروری ہے کہ علم و حکمت سے وابستہ افراد اس پر جتنی بھی توجہ دیں، کم ہے۔

علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کی اغلاط سے مبرا مطبوعات کے لئے ہم ان کتب کے پبلشرز خانۂ حکمت کراچی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔

۲۸ اگست ۱۹۹۴ء

۵۸

روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی ۱۸ جون ۱۹۹۴ء
شمالی علاقہ کے تین محققین کو ۹۴۔۱۹۹۳ء کا ایوارڈ دیا گیا

تقریب کا اہتمام خانۂ حکمت، ادارۂ عارف اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی نے کیا تھا

گلگت (پ ر) شمالی علاقوں کے ممتاز سکالروں، ادیبوں اور شعراء میں ایوارڈ تقسیم کرنے کی دوسری سالانہ تقریب پبلک سکول و کالج جوٹیال کے آڈیٹوریم ہال میں منعقد ہوئی۔ تقریب کا اہتمام خانۂ حکمت، ادارۂ عارف اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی شمالی علاقہ جات نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ شمالی علاقوں کے چیف کمشنر محمود خان جو اس موقع پر مہمانِ خصوصی تھے۔ اپنی تقریر میں ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور اہلِ قلم کی حوصلہ افزائی کے لئے ایوارڈز کی تقریب منعقد کرنے پر خانۂ

۵۹

حکمت اور دوسرے ماتحت اداروں کی تعریف کی اور یقین دلایا کہ علاقہ کے اہلِ قلم حضرات کی حوصلہ افزائی کے لئے حکومت کی طرف سے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔ چیف کمشنر نے شمالی علاقہ جات کی تہذیب و تمدن اور اسلامی ادب کو ملک کے دوسرے حصوں اور غیر ممالک میں متعارف کرانے پر علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا اور ان کی غیر معمولی تحقیقی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’حکیم القلم‘‘ کا خطاب دیا۔ یاد رہے کہ علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کو اس سے پہلے بھی ’’لسان القوم‘‘ اور ’’بابائے بروشسکی‘‘ کا خطاب مل چکا ہے۔ علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی تقریباً ایک سو پچاس (۱۵۰) کتابوں کے مصنف کے علاوہ بروشسکی زبان کی پہلی لغت کے خالق ہیں اور ساتھ ہی اردو، فارسی اور مقامی زبان بروشسکی کے معروف شاعر بھی ہیں۔ پچاس ہزار بروشسکی الفاظ پر مشتمل یہ لغات عنقریب مارکیٹ میں آنے والی ہے۔ اس موقع پر چیف کمشنر نے نوجوان سکالر اور محقق غلام عباس کے اسلامی فلسفہ سے متعلق خیالات کی بھی تعریف کی۔ غلام عباس لندن میں شمالی

۶۰

علاقوں کی تہذیب و تمدن اور ادبیات پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ تقریب میں ڈگری کالج گلگت کے پرنسپل میر عبدالخالق نے ادبی اور تحقیق کے میدان میں علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی اور غلام نصیر بابا چیلاسی جو ’’تھگ کے پیر‘‘ کے نام سے مشہور ہے کی خدمات پر مقالہ پڑھا اور شمالی علاقوں کی انتظامیہ سے اپیل کی کہ گلگت کی چند سڑکوں کو جو بے نام پڑے ہیں شمالی علاقوں کے معروف علمی شخصیات کے نام پر منسوب کیا جائے تا کہ اہلِ قلم کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ بلتستان کے مشہور محقق، دانشور، سید عباس کاظمی، ڈاکٹر غلام عباس اور میکگل یونیورسٹی کنیڈا کی پروفیسر مسز بوستان ہیرجی نے اپنے الگ الگ مقالوں میں علامہ نصیر الدّین کی علمی، تخلیقی کام کو زبردست الفاظ کے ساتھ سراہا۔ اس موقع پر علامہ نصیر الدّین نے قلم کی عظمت کے عنوان پر اپنی تازہ نظم سنائی جسے حاضرینِ تقریب نے بہت سراہا۔ اس سے قبل غلام قادر چیف ایڈوائزر خانۂ حکمت نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے القلم ایوارڈز کے مقاصد بتائے اور کہا کہ اس کا بڑا مقصد علاقہ میں ادبی اور تحقیقی اشتراکِ عمل کو فروغ دینا

۶۱

ہے۔ اس موقع پر چیف کمشنر نے میزبان اداروں کی طرف سے ضلع دیامر کے غلام نصیر چیلاسی، بلتستان کے سید عباس کاظمی اور گلگت کے غلام عباس کو ان کی غیر معمولی ادبی خدمات کے اعتراف میں ۹۴۔۱۹۹۳ کے لئے القلم ایوارڈز دئے جب کہ ۹۳۔۱۹۹۲ کے لئے القلم ایوارڈ معروف محقق عثمان علی اور محمد امین ضیاء کو دیا گیا۔ تقریب میں ڈپٹی کمشنر گلگت اور دوسرے سرکاری حکام کے علاوہ عوامی نمائندے، ادیب، شعراء اور عمائدینِ شہر کے علاوہ خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کے کارکنوں نے حصہ لیا۔

۶۲

روزنامہ جنگ راولپنڈی ۲۱ جون ۱۹۹۴ء
علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی کو ’’حکیم القلم‘‘ کا خطاب دے دیا گیا

شمالی علاقوں کے اہلِ قلم کے مابین منظم خطوط پر ریسرچ کو آگے بڑھایا جائے گا، محمود خان

گلگت (نمائندۂ جنگ) شمالی علاقوں کے اہلِ قلم کے مابین منظم خطوط پر ریسرچ کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے اشتراکِ عمل کا ایک جامع پروگرام تشکیل دیا جائے گا تاکہ علاقے کے اہلِ قلم کو اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع میسر آسکے۔ ان خیالات کا اظہار چیف کمشنر شمالی علاقہ جات محمود خان نے ناردرن ایریا کے ممتاز محققین اور ادیبوں میں ’’القلم ایوارڈز‘‘ کی تقسیم کی دوسری سالانہ تقریب سے

۶۳

بحیثیت مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پبلک اسکول اینڈ کالج گلگت کے آڈیٹوریم ہال میں منعقدہ اس تقریب کا اہتمام خانۂ حکمت، ادارۂ عارف اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی شمالی علاقہ جات نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ چیف کمشنر نے ناردرن ایریا سے تعلق رکھنے والے ۱۵۰ کتابوں کے مصنف اور معروف بین الاقوامی سکالر و خانۂ حکمت اور دیگر ماتحت اداروں کے بانی علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کی ادبی و تحقیقی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ موصوف نے دنیا بھر بالخصوص جرمنی، برطانیہ اور امریکہ میں شمالی علاقوں کا تہذیبی و اسلامی ادب متعارف کرانے میں بے مثال کردار ادا کیا ہے۔ مہمانِ خصوصی نے علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کو حکیم القلم کا خطاب دیتے ہوئے علاقے کے عوام بالخصوص اہلِ قلم حضرات پر زور دیا کہ وہ اس عظیم دانشور کی خداداد صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کریں۔ تقریب سے ڈگری کالج گلگت کے پرنسپل میر عبد الخالق، بلتستان کے سکالر عباس کاظمی، گلگت کے دانشور ڈاکٹر غلام عباس، خانۂ حکمت کے چیف ایڈوائزر غلام قادر اور امریکن یونیورسٹی کی پروفیسر بوستان ہیرجی نے

۶۴

بھی خطاب کیا۔ انہوں نے علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کے فلسفہ اور تخلیقات اور تحقیقی خدمات اور کاوشوں کو سراہتے ہوئے مطالبہ کیا کہ علاقے کی مختلف اہم شاہراہوں کو علامہ کے نام سے منسوب کیا جائے اس موقع پر علامہ موصوف نے قلم کے عنوان سے اپنی تازہ نظم سنائی۔ تقریب کے اختتام پر مہمانِ خصوصی چیف کمشنر شمالی علاقہ جات محمود خان نے شمالی علاقوں کے دانشوروں میں ایوارڈز تقسیم کئے۔ ۹۴۔۱۹۹۳ء کا القلم ایوارڈ بابا نصیر چیلاسی عرف تھکے پیر، سید عباس کاظمی بلتستان، اور ڈاکٹر غلام عباس گلگت جب کہ ۹۳۔۱۹۹۲ء کا القلم ایوارڈ پرفیسر میر عثمان علی اور محمد امین ضیاء کو دیا گیا، بعد ازان چیف کمشنر نے بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کے زیرِ اہتمام کتابوں کی نمائش کا معائنہ بھی کیا۔

۶۵

ہفت روزہ سیاچن، اسلام آباد ۲۲۔۲۸ جون ۱۹۹۴ء

شمالی علاقوں کے ممتاز محققین اور ادیبوں کو القلم ایوارڈز دئے گئے

غلام نصیر، سید عباس کاظمی اور غلام عباس کو ۹۴۔۱۹۹۳ء ، میر عثمان اور محمد امین کو ۹۳۔۱۹۹۲ء کا ایوارڈ دیا گیا

تقریب کا اہتمام خانۂ حکمت، ادارۂ عارف اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی نے مشترکہ طور پر کیا،
چیف کمشنر مہمانِ خصوصی تھے

گلگت (پ ر) شمالی علاقوں کے ممتاز سکالروں، ادیبوں اور شعراء میں ایوارڈ تقسیم کرنے کی دوسری سالانہ تقریب پبلک سکول و کالج جوٹیال کے آڈیٹوریم ہال میں منعقد ہوئی۔

۶۶

تقریب کا اہتمام خانۂ حکمت، ادارۂ عارف اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی شمالی علاقہ جات نے مشترکہ طور پر کیا تھا شمالی علاقوں کے چیف کمشنر محمود خان اس موقع پر مہمانِ خصوصی تھے انہوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور اہلِ قلم کی حوصلہ افزائی کے لئے ایوارڈز کی تقریب منعقد کرنے پر خانۂ حکمت اور دوسرے ماتحت اداروں کی تعریف کی چیف کمشنر نے یقین دلایا کہ علاقہ کے اہلِ قلم حضرات کی حوصلہ افزائی کے لئے حکومت کی طرف سے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا چیف کمشنر نے شمالی علاقہ جات کی تہذیب و تمدن اور اسلامی ادب کو ملک کے دوسرے حصوں اور غیر ممالک میں متعارف کرانے پر علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا اور ان کی غیر معمولی تحقیقی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں حکیم القلم کا خطاب دیا۔ یاد رہے کہ علامہ نصیر ہونزائی کو اس سے پہلے بھی لسان القوم اور بابائے بروشسکی کا خطاب مل چکا ہے چیف کمشنر نے نوجوان سکالر اور محقق غلام عباس کے اسلامی فلسفہ سے متعلق خیالات کی بھی تعریف کی غلام

۶۷

عباس لندن میں شمالی علاقوں کی تہذیب و تمدن اور الٰہیات پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں تقریب میں ڈگری کالج گلگت کے پرنسپل میر عبدالخالق نے ادب و تحقیق کے میدان میں علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی اور غلام بابا چیلاسی جو ’’تھک کے پیر‘‘ کے نام سے مشہور ہیں کی خدمات پر مقالہ پڑھا اور شمالی علاقوں کی انتظامیہ سے اپیل کی کہ گلگت کی بے نام سڑکوں کو علاقوں کی معروف علمی شخصیتوں کے نام پر منسوب کیا جائے، بلتستان کے مشہور محقق و دانشور سید عباس کاظمی، ڈاکٹر غلام عباس اور میکگل یونیورسٹی امریکہ کی پروفیسر مسز بوستان ہیرجی نے اپنے الگ الگ مقالوں میں علامہ نصیر الدین نصیر کی علمی، تحقیقی کام کو زبردست الفاظ کے ساتھ سراہا اس موقع پر علامہ نصیر الدین نے قلم کی عظمت کے عنوان پر اپنی تازہ نظم سنائی قبل ازین غلام قادر چیف ایڈوائزر خانۂ حکمت نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے القلم ایوارڈز کے مقاصد بتائے اور کہا کہ اس کا بڑا مقصد علاقہ میں ادبی اور تحقیقی اشتراکِ عمل کو فروغ دینا ہے اس موقع پر چیف کمشنر نے میزبان اداروں کی طرف سے ضلع دیامر کے

۶۸

غلام نصیر چیلاسی، بلتستان کے سید عباس کاظمی اور گلگت کے غلام عباس کو ان کی غیر معمولی ادبی خدمات کے اعتراف میں ۹۴۔۱۹۹۳ کے لئے القلم ایوارڈ دئے جب کہ ۹۳۔۱۹۹۲ کے لئے القلم ایوارڈ معروف محقق عثمان علی اور محمد امین ضیاء کو دیا گیا۔

۶۹

روزنامہ ’’پاکستان‘‘ اسلام آباد ۲۸ جون ۱۹۹۴ء

تہذیبی ورثے کی بقاء کے لئے تحقیقاتی اداروں کو ہر ممکن سہولت دی جائے گی

حکومت شمالی علاقہ جات میں تہذیب و ثقافت کو تحفظ دینے کے لئے کوشان ہے، محمود خان

چیف کمشنر شمالی علاقہ جات نے تقریب القلم ایوارڈ میں معروف شاعر نصیر ہونزائی کو ’’حکیم القلم‘‘ کا خطاب دیا

گلگت (نامہ نگار) شمالی علاقوں کے چیف کمشنر محمود خان نے کہا ہے کہ حکومت علاقے کی تہذیب و ثقافت کی ریسرچ کرنے والے اداروں اور محققین کو ہر ممکن سہولتیں مہیا کرے گی تا کہ شمالی علاقہ جات کے تہذیبی ورثے کو تحفظ دیا جا سکے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پبلک اسکول آڈیٹوریم

۷۰

گلگت میں القلم ایوارڈز کی تقسیم سے متعلق دوسری سالانہ تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب کا اہتمام خانۂ حکمت، ادارۂ عارف اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی شمالی علاقہ جات نے کیا تھا۔ چیف کمشنر نے اپنی تقریر میں اسلامی ادب کو فروغ دینے اور اس سلسلے میں عملی خدمات سرانجام دینے پر معروف ادیب و شاعر علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا اور ان کی عملی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’حکیم القلم‘‘ کا خطاب دیا۔

۷۱

ہفت روزہ اخبارِ جہاں کراچی ۱۱۔۱۷ جولائی ۱۹۹۴ء
جنت نظیر ’’ہونزہ‘‘
تلخیص و ترجمہ: محمد نعیم اختر

علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی علاقے کے بہت مشہور شاعر اور عالمِ دین سمجھے جاتے ہیں کہا جاتا ہے کہ وہ بروشسکی زبان کے پہلے شاعر ہیں اور اس زبان کی تحقیق و تدوین میں انہوں نے اپنی ۶۲ سالہ زندگی گزار دی ہے۔ انہیں اس امر پر افسوس ہے کہ شاہراہِ قراقرم کی وجہ سے اصل بروشسکی زبان پر انگریزی اور اردو الفاظ کا غلبہ بڑھتا جا رہا ہے اور یہ زبان اپنی اصلیت کھوتی جارہی ہے۔ علامہ نصیر الدین اس قدیم زبان کو اپنی شاعری کے ذریعہ زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور ان کی شاعری کے کیسٹ ہونزہ کے تقریباً ہر شخص کے پاس دیکھے جاسکتے ہیں۔

۷۲

جنگ راولپنڈی، تعلیمی ایڈیشن ۱۶ جولائی ۱۹۹۴ء
شمالی علاقہ جات کے اہلِ قلم میں تقسیمِ اعزازات کی تقریب
غلام قادر

گلگت شمالی علاقہ جات کا انتظامی مرکز ہے اس شہر کی شہرت کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اعلیٰ تہذیبی اور ثقافتی قدروں کی پہچان رکھنے والا یہ شہر شمالی علاقوں کے اسکالروں، ادیبوں، محققین، شعراء اور دانشوروں کا مسکن ہے اور تقریباً دو درجن سے زائد حسین اور سرسبز وادیوں پر مشتمل شمالی علاقہ جات میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تہذیبی تحقیق اور تخلیقی عمل کا عکس گلگت میں ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی شکل میں نمودار ہوتا ہے اس صورتِ حال کی ایک روشن مثال گزشتہ دنوں گلگت میں پبلک اسکول میں القلم

۷۳

کی دوسری سالانہ تقسیمِ اعزازات کی تقریب کی شکل میں سامنے آئی جس میں شمالی علاقوں کے چیف کمشنر محمود خان نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شمالی علاقوں کے مختلف اضلاع کے معروف اہلِ قلم اور محققین میں علم و ادب اور ریسرچ کے میدان میں ان کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈز تقسیم کئے مہمانِ خصوصی نے اپنی تقریر میں اپنی مدد آپ کے تحت بہترین انتظام کے ساتھ القلم تقریب کا اہتمام کرنے پر خانۂ حکمت، ادارۂ عارف اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی شمالی علاقہ جات کو مبارکباد دی اور اداروں کے سرپرستِ اعلیٰ اور معروف اسکالر، ادیب و شاعر علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کی تریسٹھ سالہ طویل ادبی خدمات پر انہیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا اور ان کی ان یادگار خدمات کے اعتراف میں انہیں حکیم القلم کا خطاب دیا۔

چیف کمشنر نے کہا کہ علامہ نصیر الدین کی تمام زندگی جہدِ مسلسل اور بے لوث علمی خدمت سے عبارت ہے اور ان کی تخلیقات آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک قیمتی علمی اثاثہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علامہ نصیر الدین نے مختلف ممالک میں

۷۴

موجود بے شمار شاگردوں کے ذریعے بروشسکی زبان اور علاقائی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لئے بروشسکی لغت تیار کرنے کا جو منصوبہ شروع کیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے اس لئے کہ انہوں نے ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی اور مانٹریال یونیورسٹی کنیڈا کا تعاون حاصل کر کے اس کام کے دائرہ کو بین الاقوامی سطح تک پھیلا دیا ہے جو ایک خوش آئند امر ہے۔
ممتاز اسکالر ڈاکٹر غلام عباس نے اپنے مقالے میں اسلامی فلسفہ اور فکرِ جدید کے ارتقائی منازل اور مراحل پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ علامہ نصیر الدین کی منطق اور قانونِ فطرت سے ہم آہنگ افکار اسلامی فکر کا ایک اہم اور قابلِ ذکر حصہ ہیں جن میں روحانی عروج و ارتقاء کے لئے قاری کو اپنے قلب و نظر اور عالمِ شخصی پر توجہ دینے کی ترغیب ملتی ہے تا کہ وہ تسخیرِ نفس سے تسخیرِ کائنات کی منزل پا سکے۔

ممتاز اہلِ قلم میر عبد الخالق پرنسپل ڈگری کالج گلگت اور بلتستان کے معروف محقق و دانشور سید عباس کاظمی اور امریکی یونیورسٹی کی پروفیسر محترمہ بوستان ہیرجی نے اپنے

۷۵

مقالات میں شمالی علاقوں کی عملی اور ادبی تاریخ میں علامہ نصیر الدین کی ادبی تخلیقات کو سنگِ میل قرار دیا اور کہا کہ کٹھن حالات اور شدید دشواریوں سے عبارت اس پسماندہ معاشرے میں انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت جس علمی و عرفانی ادب کو جنم دیا ہے وہ آئندہ نسلوں کے لئے ایک روشن مثال ہے۔ محترمہ بوستان نے اپنے مقالہ میں علامہ نصیر الدین کی مشہور تصنیف قرآنی علاج میں شامل علاج سے متعلق اس تجربے کا ذکر کیا جو ایک امریکی ادارے میں ذہنی مریضوں کے علاج کے لئے ڈاکٹروں اور نرسوں کی پیشہ ورانہ تربیتی کورس میں شامل کیا گیا اور اس طرح یہ طریقۂ علاج اس لئے مؤثر اور مفید ثابت ہوا کہ اس سے کئی ذہنی مریض شفا یاب ہوئے۔ اس سے یہ امر روشن ہوا کہ آج کل سائنسی اور مادّی دور میں علامہ موصوف کی کتابوں میں انسانی عقل و جان کی صحت کے لئے کس قدر شفا اور فائدے ہیں۔

ان مقالہ نگاروں نے گلگت کی سڑکوں کو علامہ نصیر الدین اور دوسرے معروف اہلِ قلم کے نام وقف کرنے کی تجویز دیتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ قراقرم کی وادیوں کی منفرد

۷۶

تہذیب و ثقافت پر ریسرچ کو منظم خطوط پر استوار کرنے کے لئے ایک ٹھوس حکمتِ عملی وضع کرے اس موقع پر علامہ نصیر الدین ہونزائی نے توصیفِ قلم کے عنوان سے اپنی تازہ نظم ترنم سے پڑھی۔ جسے حاضرین نے بے حد سراہا نظم میں حاضرین کو عظمتِ قلم اور اس کی اہمیت سے متعلق قلب و نظر کو روشن کرنے والے جامع مفاہیم سننے کو ملے۔ تینوں میزبان اداروں کے چیف ایڈوائزر جناب غلام قادر نے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ القلم ایوارڈز کی تقریب سالانہ بنیاد پر منعقد کرنے کا سب سے بڑا مقصد علاقے کے اہلِ قلم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں شمالی علاقوں کی تہذیب و ثقافت پر معروضی تحقیق کے لئے دعوتِ فکر دینا ہے تاکہ ان میں خود اعتمادی کے ساتھ اشتراکِ عمل کا جذبہ اجاگر ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ موصوف تائیدی و عرفانی ادب اور علمی تحقیق کے لئے جس طرح انتہائی ناموافق ماحول میں پروان چڑھ کر معروف صاحبِ قلم بننے کی منزل سے ہمکنار ہوئے وہ ہم سب کے لئے ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔ خانۂ حکمت گلگت کے صدر سلطان اسحاق نے اس موقع پر

۷۷

ادارے کے جانب سے مہمانِ خصوصی کو تحفہ کے طور پر پھولوں کا ہار، روایتی چوغہ اور ٹوپی پیش کی اور اظہارِ تشکر کے کلمات ادا کئے۔

بعد میں مہمانِ خصوصی نے معروف لکھاریوں اور محققین میں ان کی ادبی اور تحقیقی خدمات کے اعتراف میں القلم ایوارڈز برائے سال ۹۴۔۱۹۹۳ء تقسیم کئے۔

۷۸

THE MUSLIM
Wednesday, June 15, 1994
Gilgit News
HUNZAI LAUDED

Chief Commissioner Norther Areas, Mehmood Khan has lauded the literary and research services of renowned scholar, poet and writer Allamah Nasiruddin Nasir Hunzai and said his books along with their translated versions have been equally admired in the country and .abroad

Addressing a big gathering of writers, researchers and intellectuals at Public School auditorium here in connection with the Northern Areas Second Al-Qalam Awards Distribution Ceremony 1993-94. The Chief Commissioner said Allamah Nasiruddin was embodiment and symbol of self-development, struggle, love and affection

Keeping his outstanding literary services, the Chief Commissioner presented a literary title Hakimu’l-Qalam to Allamah Nasir which was appreciated by the audience.

۷۹

THE PAKISTAN TIMES
ISLAMABAD, JUNE 17, 1994

Allamah Nasir Honoured
LITERARY SERVICES OF SCHOLAR LAUDED

PT Correspondent
Gilgit, June 16: The Chief Commissioner of Northern Areas, Mr. Mehmood Khan has lauded the literary and research services of renowned scholar, poet and writer Allamah Nasiruddin Hunzai. He said, his books along with their translated versions have been equally admired in the country and abroad

He was addressing a big gathering of writers, researchers and intellectuals at Public School auditorium here in connection with the Northern Areas second Al-Qalam Awards distribution ceremony 1993-94

 

The Chief Commissioner said Allama Nasiruddin was embodiment and symbol of self-development, struggle, love and affection.

The Chief Commissioner presented a literary title Hakimu’l-Qalam to Allamah Nasir, which was appreciated by the audience. The Allamah has already got titles of Baba-yi Burushaski and Lisanu’l-Qawm from .leading literary and social organizations

Prominent scholar Mir Abdul Khaliq, Principal Degree College, Giglit, Syed Abbas Kazmi from Baltistan and Dr. Ghulam Abbas in their papers, shed light on various aspects of literary services of Allamah Nasiruddin and renowned poet of Diamer district Mr. Ghulam Nasir Baba .Chilasi

۸۰

Mir Abdul Khaliq suggested Chief Commissioner to rename the new road after Allamah Nasir and other leading writers to encourage them

The ceremony was organized by Khanah-yi Hikmat, co Idarah-yi Arif and Burushaski Research Academy, Northern Areas

Earlier, Mr. Ghulam Qadir the chief advisor of the host organizations, in his welcome address said the prime purpose of awarding writers was to diversify culture and civilization of the area and bring them closer for mutual research co-operation

Allamah Nasiruddin, on this occasion, presented a poem titled “Tauseef-i Qalam”

Later, the chief guest distributed awards among prominent writers. They were Mr. Ghulam Naseer, who is popularly known as Pir of Thak, Syed Abbas Kazmi from Baltistan and Dr. Ghulam Abbas, from Hunza and literary organization Halqa-yi Arbab-i Zawq, Gilgit

Prominent writers and researchers, Mr. Usman Ali and Muhammad Amin Zia were also awarded for the year 1992-93

۸۱

FOUNDED BY QUAID-E-AZAM MUHAMMAD ALI JINNAH
DAWN DAILY NEWS KARACHI
(Thursday, June 30, 1994)

NASIR HUNZAI’S LITERARY WORKS PRAISED

Gilgit, June 29: The Chief Commissioner of Northern Areas, Mehmood Khan, and other writers have lauded the literary and research works of Allamah Nasiruddin Nasir Hunzai and said his over 200 books on Qur’anic and spiritual knowledge were equally admired in and outside Pakistan.

Addressing a gathering of writers, researchers and intellectuals to mark the second Northern Areas Al-Qalam Awards distribution ceremony 1993-94 here recently, the Chief Commissioner presented the title of “Hakimu’l-Qalam” to Allamah Hunzai and assured all Government help for accelerating his research projects

Prominent scholars and researchers, including Dr. Ghulam Abbas from Hunza, Syed Abbas Kazmi from Baltistan, Mir Abdul Khaliq, Principal, Degree College, Gilgit, and Prof. (Dr.) Boostan Hirjee and Shahnaz Saleem in their papers highlighted the various phases of Allamah’s intellectual achievements

They said thousands of people have benefitted from his books and lectures

۸۲

The ceremony was organized by Khanah-yi Hikmat, Idarah-yi Arif and Burushaski Academy, Gilgit

Earlier Mr. Sultan Ishaque, President, Khanah-yi Hikmat, presented traditional chowgha and cap to the Chief Commissioner as a token of gift

Mr. Ghulam Qadir, in his welcome address, explained the purpose of giving awards to writers and said it aimed at bringing writers and researchers closer for mutual cooperation in initiating research projects in the field of oral culture and civilization of Northern Areas. He said another purpose was to bring intellectuals of various schools of thought closer to help promote peace and sectarian harmony

The Chief Commissioner later distributed awards among writers and researchers of Gilgit, Baltistan and Diamar districts. The recipients of these awards were eminent researchers Syed Abbas Kazmi from Baltistan, Mr. Ghulam Nasser, Pir of Thak, Chilas and Dr. Ghulam Abbas from Hunza Valley

۸۳

SUDASIEN-INSTITUT DER UNIVERSITAT HEIDELBERG INDOLOGIE I – KLASSICHE INDOLOGIE
Professor emeritus Dr. Hermann Berger

Allamah Nasiruddin “Nasir” Hunzai
-C 27Radium Apartments
165, Garden East
Karachi – 3
Pakistan
Im Neuenheimer Feld 330
,69120 Heidelberg, Germany
Telefon 06221 / 562933, 562917
Telefax 06221 / 564998

28 July, 1994
,Dear Allamah Nasiruddin

The work of incorporating the old Burushaski words contained in your most recent dispatch into our Burushaski-German dictionary is now nearing completion. Despite the prolonged interruption of our domestic routine in the weeks following our removal to a new flat in Heidelberg, the fascination of your new material impelled me to carry on with the dictionary work, even amid the mountain ranges and valleys formed by the stacks of packing cartons containing our household goods. As in the case of previous word-lists, a number of questions have arisen regarding the meanings and contexts of usage of certain

۸۴

words. I would be grateful if you could find the time to reply to the queries .contained in the enclosed list

Well do I know the magnitude of your contribution to our common cause, the documentation of Old Burushaski. For some time now, I have considered various ways of giving recognition in an enduring form to your unselfish labours. Would you allow me to include your name on the title page of the dictionary in the following form?

A Burushaski-German Dictionary
by
Hermann Berger
in collaboration with
Allamah Nasiruddin Hunzai

In addition, I should like to mention the co-operation and support of the members of the Burushaski Research Academy in Karachi and Gilgit in the foreword to the dictionary. Please let me know if you approve of this proposal

۸۵

I trust this letter will find you well and happy, and remain for the present

With best wishes
Yours sincerely

sd/-
(Professor emeritus Dr. Hermann Berger)

۸۶

SUDASIEN-INSTITUT DER UNIVERSITAT HEIDELBERG INDOLOGIE I – KLASSICHE INDOLOGIE
Professor Dr. Hermann Berger

Allamah Nasiruddin “Nasir” Hunzai
-C 27Radium Apartments
165, Garden East
Karachi – 3
Pakistan
Im Neuenheimer Feld 330
,69120 Heidelberg, Germany
Telefon 06221 / 562933, 562917
Telefax 06221 / 564998

8 October, 1994
Dear Allamah Nasiruddin
I am happy that you have accepted my proposal to include your name on the title page of my forthcoming Burushaski-German dictionary

In the enclosed list of queries you may find a number of words that were items for clarification in previous lists. This is not the result of an over-sight. Please respond to these queries as well. Moreover, the present list contains a number of words from Nager-Burushaski. If you are familiar with these words, please comment on the contexts in which you know them

۸۷

When further queries have accumulated, I will send you another dispatch. Thank you for your kind help

With best wishes
Your sincerely

sd/-

(Professor Dr. Hermann Berger)

۸۸

چالیس سوال

چالیس سوال

بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

ایک خوش نصیب اور ہوشمند سٹوڈنٹ نے کراچی میں مورخۂ ۲۸جون ۱۹۸۳ء کو مندرجہ ذیل سوالات بغرضِ تحلیل پیش کردئے،  مجھے امید ہے کہ حضراتِ اہلِ علم ان کے اِس ذوقِ دین شناسی اور اعلیٰ ذہانت کی قدر کریں گے۔

سوال نمبر ۱: حجرِاَسوَد کیا ہے؟  یہ کہاں سے آیا، اور اِس میں کیا حکمت ہے؟

جواب : حجرِاَسوَد خانۂ خدا کی دیوار میں ایک انتہائی مقدّس پتھر ہے،  جسے بطریقِ روحانیّت حضرتِ جبرائیلؑ نے لایا ہے،  اور اس میں تاویلی حکمت یہ پنہان ہے کہ یہ گوہرِعقل کی مثال وعلامت ہے،  جس پر جا کر روحانی حج مکمّل ہوجاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ حجرِاَسوَد دراصل بہشت میں حجرِاَبیَض ( سفید پتھر) تھا،  مگر اِس دُنیا میں آنے کے بعد یہ مقدّس پتَھر کالا ہوگیا،  اِس بات کا اِشارہ یوں ہے کہ حجرِالاَسوَد کا ممثول جو گوہرِعقل ہے، وہ سفید ہے، یاد رہے، کہ عالمِ بالا یا بہشت سے کسی چیز کے دُنیا میں آنے کا یہ مطلب ہرگز

۱

نہیں کہ وہ وہاں سے مادّی اور جسمانی حالت کے ساتھ آتی ہے،  بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز عالمِ روحانیت ( بہشت ) میں بصورتِ لطیف روحانی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے موجود ہے،  اور اس کے اِس مادّی دُنیا میں آنے یا ظہور کے یہ معنی ہیں کہ اس کا یہاں ایک ثانوی اور جسمانی وجود بن جاتا ہے، پس گوہرِعقل یا حجرِاَبیَض خانۂ کعبہ کی تعمیر کے سلسلے میں یہاں اِس طرح آیا کہ وہ تعمیرِخانۂ روحانیت کے درجۂ اعلیٰ پر قائم ہی ہے، مگر یہاں بیتَ اللہ ظاہر میں ایک سنگِ سیاہ سے اس کے دُنیا میں آنے کی تشبیہ دی گئی۔

سوال نمبر ۲: ابراھیمؑ تم نے خواب سچاکر دکھایا، ہم ایک بہت بڑا ذبیحہ ( ذبحٍ عظیم) اس قربانی کا فدیہ قرار دیتے ہیں’’جو بعد میں آئے گا۔ ‘‘ اس سے کیا مراد ہے؟

جواب : ان الفاظ میں ترجمۂ قرآن ( ۳۷: ۱۰۴ تا ۱۰۸) کے پیش نظر اصلاح کی ضرورت ہے۔  تا ہم اس کے درست مفہوم کے مطابق جواب یوں ہے کہ انبیاء و أئمّہ علیھم اسلام پر جوجو روحانیت کے عظیم واقعات گزرتے ہیں،  وہ بحیثیتِ مجموعی ایک جیسے ہیں،  کیونکہ تمام روحانی معجزات صراطِ مستقیم پر واقع ہیں اور سب کو اسی راہ پر چلنا ہے،  مگران واقعات و معجزات کی مثالیں جُدا جُدا ہیں،  تاکہ اسی طرح لوگوں کو آزمایا جائے،  پس حضرت اسماعیلؑ کی جسمانی قربانی مثال تھی اور روحانی قربانی ممثول،  آپؑ کی جسمانی قربانی محدود تھی اور روحانی قربانی ہمہ رس وعظیم،  لہٰذا جسمانی ذبح کا فدیہ روحانی ذبح سے دیا گیا، جس کو تاویل کی زبان میں ’’عہد لینا ‘‘ کہتے ہیں،  چنانچہ آپؑ کے

۲

بھائی حضرت اسحاقؑ سے بھی یہ عہد لیکر مرتبۂ حجاب پر فائز کر دیا گیا،  جس سے حضرت اسماعیل ؑ کا روحانی فدیہ اور بھی عظیم ہوگیا۔  عہد لینا ایک روحانی اور نورانی معجزاتی عمل ہے،  جس کا مفصل ذکر کہیں اور ممکن ہے۔  اگر کسی زمانے میں امام مستقّر کے علاوہ امامِ مستودع بھی ہو تو اُس صورت میں امامِ مستقر پر ستر و حجاب ہُوا کرتا ہے ( قرآن میں) حجاب کے تصّور کو دیکھو  ۴۲: ۵۱

سوال نمبر۳: خدا وند تعالیٰ کے سو نام ہیں، جبکہ ننانوے ناموں کا علم ہے اور ایک نام معلوم نہیں، کیا وہی ایک نام ’’ اسم اعظم ‘‘ ہے یا تمام نام اسمِ اعظم کا درجہ رکھتے ہیں؟  کیا اسمِ اعظم کو پوشیدہ رکھنا ضروری ہے؟ اور کیوں؟

جواب : ﷲ تعالیٰ کے ظاہری اور لفظی یا صَوتی اسماء جتنے بھی ہیں وہ سب ظاہر ہیں،  ان میں سے کوئی ایک بھی پوشیدہ نہیں،  تاہم اگر یہ مان لیا جائے کہ اسمِ اعظم ان ہی میں سے ہے تو یوں کہنا پڑیگا کہ ان تمام ظاہری اسماء میں یہ پہچان نہیں ہوسکتی ہے کہ اسمِ اعظم کون سا ہے،  یہ بات ظاہری اعتبا ر سے ہے، مگر اصل جواب سُنئے : اسمِ اعظم اپنے اپنے وقت میں انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام ہوا کرتے ہیں، چنانچہ زمانے کا امامؑ  خدائے بزرگ وبرتر کا بزرگ ترین اسم ہوا کرتا ہے اور وہی مومنین کی خصوصی عبادت کے لئے اسمائے الٰہی میں سے کسی اسم کو منتخب کرتا ہے، ہاں اسمِ اعظم  اور اس کے بھیدوں کو پوشیدہ رکھنا ضروری ہے،  کیونکہ ﷲ کی سُنّت سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ اسمِ اعظم کو صیغۂ راز میں رکھنا چاہئے تاکہ اس کا تعلّق خواص کے ساتھ

۳

رہے،  اور قرآن کا ارشاد یہ بھی ہے کہ جو لوگ خدا ( کے بزرگ ناموں کو نہیں سمجھتے ہیں،  ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے ( ۰۷: ۱۸۰)۔

سوال نمبر ۴ : اصحابِ کہف کے بارے میں بتائیں،  نیز ان کی تاویل کیا ہے؟

جواب : قصّہ کے ظاہری پہلو کوقصّۂ قرآن میں دیکھ لینا،  ہم آپ کو صرف اس کے باطنی پہلو کے بارے میں کچھ باتیں بتائیں گے کہ اصحابِ کھف کا مطلب اصحابِ روحانیت ہیں،  کیونکہ روحانیت کی بہت سی مثالوں میں سے ایک مثال کہف ( غار) ہی ہے،  یعنی جس طرح لوگ بوقت ضرورت کسی غار میں پناہ لیا کرتے ہیں،  اسی طرح دُشمنانِ دین کے ستائے ہُوئے مومنین غارِ روحانیت میں جا کر خود کو محفوظ کرلیتے ہیں، آپ میرے ایک مقالہ کو جو اصحابِ کہف پر ہے پڑھیں۔

سوال نمبر ۵ : عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ میں کیا فرق ہے؟  یہ امام کی ہدایت کے سلسلے میں کس طرح تائید کرتے ہیں؟

جواب : ان دونوں عظیم فرشتوں میں جو کچھ فرق ہے،  وہ عرش و کرسی،  آدم وحوّا،  قلم ولوح اور پیغمبروامام کی طرح ہے،  اور یہ دونوں چونکہ روحانی ہیں اس لئے روحانی طور پر مومنین کی بالواسطہ مدد کر دیا کرتے ہیں۔

سوال نمبر ۶ : زیتون کے مبارک درخت اور تیل کی کیا تاویل ہے؟

جواب : اس کی کئی تاویلیں ہیں، جن کا مقصد ایک ہی ہے، اور ان میں سے ایک زیادہ قابلِ فہم تاویل یہ کہ ہادئ برحق کی پاک شخصیت زیتوں کا بابرکت

۴

درخت ہے، اور اس کی برکات سے وہ لا تعداد فائدے مراد ہیں جو مومنوں کے علاوہ دوسرے تمام انسانوں کو بھی حاصل ہوتے ہیں، اور تیل سے ان کی روحِ قدسی مراد ہے،  جس سے ان کی عالمگیر عقل کا شعلہ بن جاتا ہے،  لطیف شخصیت کا یہ درخت شرقی بھی نہیں اور غربی بھی نہیں،  یعنی اس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا،  بلکہ یہ ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔

سوال نمبر ۷ : ﷲ پاک کا فرمان ہے : تحقیق ہم نے تمہاری تخلیق کی پھر ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے لیے سجدہ کرو ( ۰۷: ۱۱) اس ترجمۂ آیت کی کیا تشریح  ہے؟

جواب: اس کی تشریح یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ نے عالمِ ذرّ میں سب سے پہلے تمام انسانوں کو جسمانی ذرّات میں پیدا کیا، پھر ان کی روحانی صورت بنائی گئی پھر اس کے بعد جمالی فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ آدم کے لیے سجدہ کریں، اس تصّور سے اَسرارِ تخلیق کا ایک انقلابی دروازہ کھل جاتا ہے،  آپ کتاب “روح کیا ہے” کو پڑھیں۔

سوال نمبر۸: تسبیحات وغیرہ کو طاق نمبر کی صورت میں کیوں پڑھتے ہیں؟

جواب: کیونکہ خداوند تعالیٰ واحد و یکتا اور طاقِ محض ہے۔  وہ جُفت نہیں۔

۵

سوال نمبر ۹ : آپ نے آنحضرتؐ کی ایک حدیث کو پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: اسلام کا آغاز ایک غریب ( اجنبی ) شخص کی طرح ہوا اور پھر مستقبل میں بھی یہ اجنبی ہوجائے گا،  اس کا کیا مطلب ہے؟  غریب و اجنبی کس معنیٰ میں ہے؟

جواب: جب بھی اﷲ تعالیٰ کا کوئی پیغمبر سچے دین کے ساتھ اس دنیا میں تشریف فرما ہوا،  تو اہلِ انکار کی نظر میں نہ صرف رسول ہی بلکہ اس کا دین بھی غریب یعنی اجنبی لگا، کیونکہ جو لوگ ہادئ برحق سے ہٹ کر ہیں،  وہ سمجھتے ہیں کہ سچا دین وہی ہے جس پر وہ لوگ اڑے ہوئے ہیں،  حالانکہ خدا کا دین خلیفۂ خدا کے ساتھ ہوا کرتا ہے،  پس جاہلوں کی نظر میں اسلام کا اجنبی ہوجانا کسی ایک وقت کے لیے خاص نہیں، بلکہ یہ ہر زمانے کے لیے ہے۔ یعنی امام کو نہ پہچاننا اسلام کو اجنبی قرار دیتا ہے، کیونکہ حق امام کے ساتھ ہے۔

سوال نمبر ۱۰: قرآن میں حضرت یوسفؑ اور بی بی زلیخا کا جو قصّہ مذکور ہے، اس کے پس منظر میں کیا تاویل پوشیدہ ہے؟  کیا بی بی زلیخا کا نام قرآن میں موجود نہیں ہے؟  کیوں؟

جواب : حضرت یوسفؑ کے قصّۂ قرآن میں تاویلات کی ایک دُنیا پوشیدہ ہے، جس کی تفصیلات کی گنجائش ان صفحات سے باہر ہے،  کیونکہ جناب یوسفؑ خود ہر قسم کی تاویلات کا عنوان ہیں، چنانچہ اس قصّۂ پُرحکمت میں امامِ مستقر

۶

اور امامِ مستودع کا ذکرہے،  حجتانِ شب و روز کا بیان ہے،  نورِ امامت کی منتقلی کا تذکرہ ہے،  اور زلیخا کی مثال کا ممثول یہ ہے کہ امامِ مستقر کا حجّتِ اعظم یوسفؑ (  امامِ مستودع ) کا ماتحت ہوجانا چاہتا ہے، کیونکہ حضرت یوسف کو قانوناً تمام حدودِ دین سے آگے گزر کر امامِ مستقر سے دوسرے درجے پر پہنچ جانا ضروری ہے، وغیرہ۔  ہاں قرآن میں لفظِ ’’ زلیخا ‘‘ موجود نہیں ہے۔

سوال نمبر ۱۱ : ہمارے موجودہ امام شاہ کریم الحسینی جو کہ ۴۹ ویں امام ہیں ان کی امامت کس لحاظ سے بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے، جبکہ تمام أئمّۂ طاہرین کا درجہ یکسان ہوا کرتا ہے؟

جواب : مرتبۂ امامت کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں،  باطنی پہلو سے تمام حضراتِ أئمّہ کا مرتبۂ عالی ایک جیسا ہے اور ظاہری پہلو سے وہ مختلف مراتب کے مالک ہوتے ہیں۔  اس کی وجہ وہ خدائی پروگرام ہے جو شروع سے لے کر قیامت تک پورے دور پر پھیلا ہوا ہے،  جس کے مطابق اماموں کو مختلف درجات پر کام کرنا پڑتا ہے، چنانچہ مولانا حاضرامام شاہ کریم الحسینی صلوٰت ﷲ علیہ نے کئی بڑی بڑی حیثیتوں میں کام کرنا ہے۔  ان حیثیتوں میں سے ایک تو یہ ہے کہ آپؑ   ۷ ضرب ۷ = ۴۹ کے مقام پر ہیں۔  دوسری حیثیت یہ ہے کہ آپؑ ایٹمی دور کے امام ہیں۔

سوال نمبر ۱۲ : “ہاروت و ماروت شروع میں دو فرشتے تھے،  لیکن بعد میں دنیا کی چاہ کے سبب سے شیطان بن گئے، جو اب تک شہر بابل کے کنویں میں قید ہیں، اور لوگ وہاں سے کالا علم سیکھتے ہیں۔” یہ کس طرح

۷

سے ممکن ہوسکتا ہے؟  آپ اس پر روشنی ڈالیں۔

جواب: اس تاویلی سوال کا تعلق قرآن حکیم کی ( ۰۲: ۱۰۶)  سے ہے،  چنانچہ متعلقہ خلاصہ یہ ہے کہ مملکتِ سلیمانی کا اشارہ امامِ زمانؑ کی روحانی سلطنت کی طرف ہے اور اسی روحانیت میں “بابل”  اصحابِ شمال کے امتحان کا ایک مقام ہے، جہاں دو فرشتے ہر وقت آپس میں متعلقہ شخص کی قلبی کیفیت پر بحث کرتے رہتے ہیں۔  جن کے نام قرآن اور شریعت میں مختلف اعتبارات سے مختلف ہیں۔ جیسے نکیر ومنکر، ہاروت وماروت وغیرہ، ان میں سے ایک فرشتہ ہر لحظہ دل کے ادنیٰ خیالات پر بڑی سختی کے ساتھ تنقید کرتا رہتا ہے اور دوسرا فرشتہ بڑی مہربانی کے ساتھ اس تنقید کی تردید کرتا ہے۔  مگر یہ مقام اصحابِ یمین کا نہیں، اس لیے مومن کو نہ تو اس سے دنیا کا فائدہ اٹھانا چاہیے اور نہ ہی اس منزل میں ٹھہرنا چاہیے۔ روایت کا باقی حصّہ قرآن سے باہر اور غیر منطقی ہے۔

سوال نمبر ۱۳ : حضرت عیسےٰؑ کے کان سے پیدا ہونے کا کیا مطلب ہے؟  کیا یہ صحیح ہے کہ وہ پیدائش کے فوراً بعد ظاہری زبان سے بولنے لگ گئے تھے؟

جواب: یاد رہے کہ خدا و رسولؐ اور امامِ زمانؑ کی اطاعت کرنے والے مومنین بموجبِ قرآن ( ۰۴: ۶۹) انبیاء، اساسان، أئمّہ اور حُجّت و داعی جیسے حضرات کی روحانی رفاقت میں ہوا کرتے ہیں،  اس کا یہ مطلب ہواکہ ہر حقیقی مومن شروع سے لے کر انتہائی منزلِ مقصود تک راہِ روحانیت

۸

کا بخوبی تجربہ کرسکتا ہے۔  جس کی مختلف مثالیں قرآنِ مقدّس میں مذکور ہیں، اب اسی آیۂ بالا کی روشنی میں توّجہ فرمائیں کہ بی بی مریمؑ کو اسمِ اعظم دیا گیا، جس میں بحیثیتِ زندہ اور حقیقی اسمِ اعظم کے حضرت عیسٰیؑ ہی تھا، اسی معنی میں عیسٰےؑ ایک کلمہ کی صورت میں کان کی راہ سے مریم ؑ میں داخل ہوگیا اور بہت کم عرصے میں اپنی ماں کے باطن میں بولنے لگا۔  جب کہ وہ نبوّت کا نوزائیدہ بچہ تھا، اور قصّۂ مریمؑ کا تمام تر تعلق باطنی اور روحانی پہلو سے ہے، چنانچہ جب کوئی خوش قسمت اسماعیلی مرید (مرد ہو یا عورت) اسمِ اعظم کے روحانی کورس میں بدرجۂ اعلیٰ کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ اپنی انفرادی دنیا میں مثلاً بی بی مریمؑ بن کر عیسٰےؑ جیسے نور کو جنم دیتا ہے۔  اُس صورت میں نور پر یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ حسنِ سلوک میں کوئی کسر فرو گذاشت نہ کرے۔

سوال نمبر ۱۴ : کیا پیغمبر بھی خدائی جلوے کی تاب نہیں لاسکتے،  جیسے حضرت موسٰیؑ کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ جلوۂ خدا کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہوگئے تھے؟

جواب : خدائی جلووں کے بہت سے مراتب ہیں اور آپ کا سوال سب سے بڑے اور آخری جلوے سے متعلق ہے، جس کی ایک عام مثال سورج کے سرچشمے سے دی جاسکتی ہے کہ قُرصِ خورشید کو براہِ راست دیر تک دیکھنے سے آنکھیں ضا ئع ہوسکتی ہیں۔  چنانچہ خدا کا سب سے عالیشان دیدار صرف چند سیکنڈ کے لیے حاصل ہوجاتا ہے، جس میں حیرت کی کوئی حدّ نہیں

۹

ہوتی اور یہی حیرت تاویل کی زبان میں بے ہوشی کہلاتی ہے، ایسے ظہورِ نور کا مبارک مقام اور وسیلۂ عظیم دیدار جُثۂ ابداع ہے،  جو امرِ “کُن” کا مرکزِ ظاہر ہے۔  پھر جب اس ابداعی ظہور کی عرفانی اور عقلی توجیہہ سمجھ میں آتی ہے، تو اس کو “ہوش میں آنا” کہتے ہیں۔

سوال نمبر۱۵ : “دجال” ایک کافر اور دشمن جس کی تیسری آنکھ ہوگی،  وہ لوگوں کو صراطِ مستقیم سے بھٹکائے گا اور اس کا ظہور امام مہدی کے دور میں ہوگا،  آپ اس پر روشنی ڈالیں۔

جواب: اس سوال کے الفاظ اصلاح طلب ہیں،  بہرحال دجال کی تاویل کتاب وجہ دین میں مذکور ہے،  آپ وجہِ دین کا مطالعہ کریں۔

سوال نمبر ۱۶ : روایت ہے کہ سِدرۃ المنتہیٰ وہ حدّ ہے جس سے آگے جبرائیلؑ فرشتہ نہیں جا سکتا، اس کی کیا تاویل ہے؟
جواب: مثال کے طور پر اﷲ تعالیٰ میزبان ہے، حقیقی مومن مہمان ہے اور جبرائیلؑ خادم، اور اس ربّانی مہمان نوازی کا خاص تعلق اسرارِمعرفتِ توحید سے ہے، لہٰذا جبرائیلؑ کو درجۂ جبروت پر رک جانا پڑتا ہے اور وہ لاہوت کی طرف آگے نہیں بڑھ سکتا۔ دوسری مثال: ۱ ( ایک) ۲(  دو ) ۳ ( تین ) سے لے سکتے ہیں کہ پہلے ایک ہے،  پھر دو،  پھر تین ہے اس میں ایک کا مطلب خدا ہے دو سے بندۂ مومن مراد ہے اور یہاں تین کا عدد جبرائیل کے لیے ہے،  کیونکہ اس کی اہمیت سفرِ روحانیت میں مومن کے بعد ہے کہ وہ حقیقی مومن کے نیک اعمال کے نتیجے ہی پر

۱۰

کچھ کام کرسکتا ہے، چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دو کا عدد ایک سے بالکل قریب ہے مگر تین دُور ہے، اس لیے جبرائیل فرشتے کو روحِ مومنِ مُوَحِدّ کے ساتھ خلوت خانۂ توحید میں داخل نہیں ہونا چاہیئے۔ تیسری مثال:

اب اگر فرض کر لیا جائے کہ ان اعداد کو فنا اور رجوع کی مدد سے اصل سے واصل ہوجانا ہے،  توقانون یہ ہے کہ نو آٹھ میں، سات چھ میں، چھ پانچ میں اور پانچ چار میں فنا ہوجائے اور اسی طرح چار تین میں اور تین دو میں مٹ جائے اور بالآخر صرف دو ہی وہ عدد ہے جو واحد ( یعنی ایک ) میں داخل ہوسکتا ہے۔ اسی لیے ارشاد ہوا ہے کہ تم کو ( ایک اکیلا ہوکر ﷲ کے حضور جانا ہے (۰۶: ۶۴)

سوال نمبر ۱۷ : جب ہم کہتے کہ : اَللہُ اکبر (خدا سب سے بڑا ہے) یا کہتے ہیں کہ سُبحان ﷲ (خدا پاک ہے) تو آیا اس بڑائی اور پاکیزگی کی کچھ حدود ہوتی ہیں یا یہ صفت لا محدود ہے؟

جواب : ہر چند کہ لفظِ اکبر تفصیلِ کلّ کے لیے آتا ہے، جو مخلوق کے عام استعمال میں ہے،  جیسے سب سے بڑا بھائی کو اکبر کہنا، مگر جب یہ وصف خالق کے لیے آتا ہے،  تو اس میں مقابلے کے لیے نہ تو کوئی ادنیٰ مخلوق کا تصوّر ہے اور نہ ہی ساری خلقت کا،  مگر ہاں اس میں دین کے درجاتِ عالیہ کا اشارہ ہے کہ خدا ان درجات سے بڑا ہے اور پھر اس کے معنی غیر محدود ہوجاتے ہیں۔

۱۱

سوال نمبر ۱۸ : حضرت موسٰیؑ کو جو معجزات عطا کئے گئے تھے،  ان کی تاویل کی ہے؟

جواب: عصائے موسٰیؑ ( ۰۲: ۶۰) کی تاویل: عملی اسمِ اعظم اور اس کے گوناگون معجزات،  حجرِمکرّم سے پانی کے بارہ چشموں کا جاری ہونا (۰۲: ۶۰): حضرت موسٰیؑ کی روحانیت سے بارہ حجّتوں کا علمی وجود اور ان کی ۱۲ درجے کی تعلیمات، بیل کو ذبح کرکے مُردے کو جلانا (۰۲: ۶۷ تا ۷۳): مومن کی حقیقی عبادت و ریاضت اور نفس کشی کے نتیجے میں حیاتِ طیبہ کا معجزہ دیکھنا، یدِ بیضا (۰۷: ۱۰۸): علمی فکر اور گوہرِعقل کا روشن نتیجہ، طوفان، ٹڈی، جوئیں، مینڈک اور خون (۰۷: ۱۳۳) روحانی ہلاکت، ٹڈی، جوں اور مینڈک جیسی مضر اور نفرت انگیز روحوں کا ظہور، علم میں شکوک وشبہات کا بھر جانا،  لاٹھی مار کر دریا میں خشک راستہ پیدا کر دینا (۲۰: ۷۷): دریائے روحانیت کے اس ساحل سے اُس ساحل پر قوم کو اس طرح باسلامت اتار دینا کہ روحانیت ان کو کوئی گزند نہ پہنچاسکے، فرعون اور اس کی قوم کا دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوجانا (۲۰: ۷۸): موسٰیؑ اور ہارونؑ کے دریائے روحانیت میں ان کا فروں کا ہلاک ہوجانا، فرعون کی لاش کا دریا سے برآمد ہو جانا  (۱۰: ۵۲): ہادیٔ برحق کے دشمن کا روحانی اعتبار سے مرجانا، مگر جسمانی لحاظ سے لاش کی طرح (  یعنی روح الایمان کے بغیر ) لوگوں کے سامنے موجود رہنا۔

سوال نمبر ۱۹: کائنات کب سے موجود ہے اور جب اس کا وجود نہ تھا،  تو اُس وقت اس کی کیا حالت و کیفیت تھی یا کیا کچھ تھا؟

۱۲

جواب: ( ا لف) : جب ہم اس کائنات کے نہ ہونے کا تصوّر کرتے ہیں تو اسی کے ساتھ ساتھ “کب” اور “کہاں” کا سوال بھی ختم ہو جاتا ہے کیونکہ “کب” کی بنیاد زمان پر قائم ہے، اور “کہاں” کا انحصار مکان پر ہے،  یعنی مکان اور اطرف خود یہ جہان ہے اور زمان اس کی گردش کا نام ہے اور سورج بھی مکان کا ایک روشن حصّہ ہے، نیز اس تصوّر کے نتیجے میں کائنات کی کوئی بھی مادّی شکل و کیفیت نہیں ہوسکتی ہے،  کیونکہ کائن (ہونے والا، بننے والا) کون کے مادّہ سے ہے اور “کائنات” کائن کی جمع ہے،  پس اگر کائنات (بننے والی چیزیں) نہیں،  تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔
( ب) : میرا یک مقالہ “تصوّرِ آفرینش”  کو پڑھ لیجئے،  تخلیق کا تصوّر خط کی طرح نہیں،  بلکہ دائرے کی مثال پر واقع ہے،  جس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، بلکہ خدا ہمیشہ کائنات کی تخلیق کرتا رہتا ہے۔

سوال نمبر۲۰: اگر فرشتے اعلیٰ ترقی یافتہ روحوں کو کہا جاتا ہے تو پھر ان کو پہلے ہی سے علمِ اسماء کیوں نہیں دیا گیا تھا؟  وہ حضرت آدمؑ کی تعلیم کے لیے کیوں محتاج ہوئے؟

جواب : یاد رہے کہ فرشتے یا ملائکہ دو درجوں پر منقسم ہیں: کائناتی ( جلالی ) اور ذاتی  ( جمالی ) آپ نے پہلی قسم کے فرشتوں سے متعلق سوال اٹھایا ہے۔  جبکہ ذاتی فرشتوں کی بات اس سے مختلف ہے،  جس کی مثال: آپ گویا لاتعداد آدموں میں سے ایک آدم ہیں،  تو دنیا بھر کے لوگ

۱۳

بصورتِ ذرّاتِ روحانی آپ کی ذرّیت بن کر آپ میں داخل ہوجائیں گے،  اب یہی ذرّاتِ لطیف آپ کے ذاتی فرشتے بھی ہیں،  جن کو بحکمِ خدا آپ کی روحانیت میں بذریعۂ اسمِ اعظم علمِ اسماء سکھایا جائے گا۔

سوال نمبر ۲۱ : نہرِ کوثر اور نہرِ تسنیم سے کیا مراد ہے؟

جواب : کوثر کی تاویل اساس ( وصئ رسولؑ یعنی علیؑ) ہے جو مردِ کثیرُالذّرّیت بھی ہے اور خیرِکثیر بھی،  یعنی کوثر مولاعلیؑ کا باطنی اور روحانی مرتبہ ہے، جس میں تمام نیکیاں اور ساری حکمتیں جمع ہیں، اور تسنیم روحانیت کی انتہائی بلندی پر بصورتِ کلمۂ تامّہ علم وحکمت کا ایک عظیم سرچشمہ ہے،  جسے کلمۂ باری کہا جاتا ہے۔

سوال نمبر ۲۲ : سورۃ برآٔۃ ( سورۂ توبہ ) کی تبلیغ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ آنحضرتؐ نے پہلے حضرت ا بوبکر کو تبلیغ کے واسطے بھیجا،  لیکن خدا کی طرف سے حکم ہوا کہ حضرت مولا مرتضیٰ علیؑ اس تبلیغ کے حقدار ہیں، آیا یہ روایت درست ہے؟  کیونکہ پیغمبرِ برحقؑ کسی چیز سے لاعلم تو نہیں ہوتے تھے۔
جواب : یہ بات تاریخی نوعیت کی ہے۔ لہٰذا آپ اس کی تحقیق مستند تاریخی کتاب سے کریں۔

سوال نمبر۲۳: خداوند تعالیٰ نے حضرت موسٰیؑ کو معجزاتی عصا عطا فرمایا تھا۔ جو زمین پر ڈالنے سے اژدھے کی صورت اختیار کرلیتا تھا۔ تو اس کی تشبیہ قرآن میں اژدھے سے کیوں دی گئی۔  جبکہ ظاہراً یہ (اژدھا) اچھی چیز کو ظاہر نہیں کرتا؟  اس کے پیچھے کیا حکمت پوشیدہ ہے؟

۱۴

جواب : یاد رہے کہ معجزہ کے دو رخ (پہلو) ہوا کرتے ہیں۔  ایک طرف رحمت اور دوسری جانب غضب ہوتا ہے، رحمت کو تو خوبصورت اور خوشگوار ہونا ہی ہے اور غضب کو چاہئے کہ وہ اس کے برعکس ہو، ہر بڑا پیغمبر بشیر و نذیر ہوا کرتا ہے،  یعنی خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا،  ڈرانے کے سلسلے میں اژدھا جیسی مثالیں مناسب ہیں۔  انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام میں اسمِ اعظم کا نور وہ معجزہ ہے جو ایک طرف سے خدا کے دوستوں کی روحانی آبادی کا وسیلہ بھی ہے اور دوسری طرف سے اس کے دشمنوں کی بربادی کا سبب بھی ہے۔

سوال نمبر ۲۴ : فرشتے سراپا عقل وعلم ہوا کرتے ہیں،  ان میں نفسِ امّارہ موجود نہیں ہوتا ہے،  پھر عزازیل فرشتہ شیطان کیسے بن گیا،  کیونکہ غرور تو صرف نفسِ امّارہ کی وجہ سے ہوجانا تھا؟

جواب: بحوا لۂ جواب نمبر ۲۰ فرشتے دو قسم کے ہوتے ہیں،  بحدِّ قوّت (جمالی) اور بحدِّ فعل (جلالی) چنانچہ جو شخص شیطان بن گیا، اگر اسے عام روایت سے ہٹ کر حقیقت کی روشنی میں دیکھا جائے۔  تو صاف طور پر معلوم ہوجائے گا کہ وہ بحدِّ فعل فرشتہ نہیں تھا،  وہ ایک جاہل و نادان شخص تھا،  جس کی وجہ سے وہ ہادئ برحقؑ کا دشمن بن گیا۔

سوال نمبر ۲۵ : آسمانی چیزیں مثلاً سورج، چاند، ستارے، سیّارے وغیرہ کیا ہیں؟ آیا یہ ہماری زمین کی طرح ہیں یا ترقی یافتہ روحیں ہیں؟  کیا ان کی بھی عمریں مقرّر ہوتی ہیں، جیسے کسی ستارے کا ٹوٹ کر گرجانا؟

۱۵

جواب : سورج کا وجود چاند ستاروں سے مختلف ہے۔ کیونکہ وہ جوشندہ روشن گیس کا طوفان ہے۔  ( میزان الحقائق میں اس کی تفصیل کے لیے دیکھا جائے۔ ) مگر اس کے برعکس چاند اور جملہ ستارے ہماری زمین کی طرح مختلف دنیائیں ہیں۔  لطیف جسم اور روحانی زندگی تمام ستاروں پر موجود ہے،  مگر اب تک سیّارۂ زمین کے سوا اور  کہیں کثیف جسم کے وجود کا کوئی علم نہیں، ہر ستارے کی ایک مجموعی روح بھی ہے، کتاب “روح کیا ہے” کو دیکھیں۔ وہ ترقی یافتہ اور بڑی روح ہے،  ہاں ستاروں کی عمریں ہوا کرتی ہیں۔  یعنی وہ بنتے ہیں اور اپنے اپنے وقت پر بگڑ جاتے ہیں، مگر جس چیز کو عام زبان میں ستارے کا ٹوٹ جانا کہا جاتا ہے، وہ کوئی اور چیز ہے۔

سوال نمبر۲۶: کسی بھی نیک کام کی انجام دہی کے وقت خدا کی رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ ہمارے اندر یہ بیداری روحوں کے ذرّات سے ہوتی ہے۔ یعنی نیک ارواح کے ذرّات سے، تو کیا یہ روحیں ہر وقت ہمارے ارد گرد موجود رہتی ہیں؟

جواب : جی ہاں، جس طرح مچھلیاں سمندر میں رہتی ہیں، اسی طرح ہم ذرّاتِ روح کے سمندر میں مستغرق ہیں، ہم میں ہر وقت روحوں کا آنا جانا ہوتا ہے۔ ہماری اپنی بھی لاتعداد روحوں ( ذرّات ) کا مجموعہ ہے اور اسی طرح ہم میں جُدا جُدا کثیر روحوں کے ہونے میں انتہائی عظیم حکمت پوشیدہ ہے۔

۱۶

سوال نمبر ۲۷: قرآن میں بہت ساری جگہوں میں

Codedحروف آئے ہیں، جن کو حروفِ مقطّعات کہا جاتا ہے، مثلاً: آلٓمٓ، الٓمٓرٓ، الٓمٓصٓ، طٰہٰ، یٰسٓ وغیرہ، ان کا مطلب کیا ہے؟  اور ان کو Code میں رکھنے میں کیا بھید ہے؟

جواب: ان حروف میں خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے اسرار پوشیدہ ہیں، مثال کے طور پر: ال م: قلم، لوح، مِداد(عقلِ کُلّ، نفسِ کُلّ، مخلوقات) جو ﷲ کی عملی کتاب ہے، ال م ر: قلم، لوح، مِداد، رقیم۱( عقلِ کُلّ، نفسِ کُلّ، مخلوقِ ظاہر، مخلوقِ باطن ۲ )وغیرہ، ان کو راز میں رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کا فائدہ خواص کو حاصل ہو، جس طرح قرآن میں اور بھی کئی طریقے ہیں۔  جن کے مطابق خدا اپنے بھیدوں کو صرف خاص بندوں پر ظاہر کرنا چاہتا ہے۔

( نوٹ: ۱: رقیم سے روحانی تحریر مراد ہے۔  ۲: مخلوقِ باطن کا مطلب روحانی تحریر ہے۔ )

سوال نمبر ۲۸ : کسی پاگل کی روح بدن میں کس طرح یعنی کس صورت اور کیفیت میں ہوتی ہے؟

جواب : جس طرح ظاہر میں پاگل کا قول و فعل ہے اسی طرح باطن میں اس کی روح کی حرکات ہیں۔

سوال نمبر۲۹: خداوند تعالیٰ نے عالمِ روحانیت میں عہدِ الست کس طرح لیا تھا؟

۱۷

جواب : یاد رہے کہ ﷲ تعالیٰ ہر کامل انسان کی انفرادی قیامت ( روحانیت ) میں  ذرّاتِ ارواح کو حاضر کرکے اُن سے پوچھتا ہے: الست بِربّکم (آیا میں تمھارا پروردگار نہیں ہوں؟) یعنی تمام بنی آدمؑ کی پشتوں میں سے ارواح کو اٹھا کر وہاں لائی جاتی ہیں، جہاں کسی کامل شخص میں جملہ روحانی واقعات کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے، تو یہ عمل ایک بار کا واقعہ نہیں بلکہ ہمیشہ روحانی معجزات کے ضمن میں آتا رہتا ہے۔

سوال نمبر۳۰: پاک روحوں کے ذرّات خوشبوؤں کی صورت میں کیوں ہوتے ہیں؟
جواب : ذرّاتِ روح سے تمام چیزوں کی روحیں مراد ہیں، یعنی ہر چیز کی روح ہوا کرتی ہے، چنانچہ خوشبو کی روح ہے، یعنی گلاب کی روح میں گلاب کی خوشبو ہے اور چنبیلی کی روح میں چنبیلی کی خوشبو، اس کے یہ معنی ہوئے کہ عالمِ ارواح میں ہر چیز کی روح ہے، یہاں تک کہ پتھر اور لوہے کی بھی روح ہے۔ آپ ان روحوں کو روحانی بیج بھی کہہ سکتے ہیں۔  پس جب آپ کے پاس کستوری کی روح آئے گی تو اس سے کستوری کی خوشبو آئے گی،  جب کسی پھل کی روح آئے گی تو اُس وقت اس پھل کی خوشبو آئے گی۔

سوال نمبر۳۱: صحیفوں اور آسمانی کتابوں کے درمیان کیا فرق ہے؟

جواب: ان دونوں کے آسمانی ہونے میں کوئی فرق نہیں مگر فرق اس بات میں ہے کہ صحیفۃ کا مطلب ورق ہے،  جس کی جمع صُحف ( اوراق) ہے،

۱۷

اور کتاب سے ایک مکمل کتاب مراد ہے اور اس میں ایک تاویلی اشارہ بھی ہے۔  کہ صحیفۃ سے ورقِ روحانیت مراد ہے صحیفۃ ہر چیز کے پھیلے ہوئے حصّے کو کہتے ہیں، چنانچہ جس طرح روحانیت باطن میں پھیلی ہوئی ہے،  اُس لحاظ سے یہ صحیفہ ہے جو کہ تحریری اور کتابی صورت میں لوگوں کے سامنے نہ لائی گئی ہو، اور کتاب وہ ہے جو مرحلۂ روحانیت (  صحیفہ ) سے کتابی شکل میں آچکی ہو اور یہ نظریہ اس لیے ضروری ہے کہ ہر پیغمبر صاحبِ روحانیت یعنی صاحبِ صحیفہ ہوا کرتا ہے مگر صرف بعض پیغمبر صاحبِ کتاب ہوتے ہیں۔  یعنی روحانیت تو سب پیغمبروں کی ہوتی ہے مگر اُن میں سے صرف بعض کی روحانیت کتابی شکل میں لوگوں کے سامنے آسکتی ہے۔

سوال نمبر۳۲: خداوند تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیمؑ کو چار پرندوں کی قربانی کا حکم دیا جو کہ نفس کے تحت آتے ہیں (یعنی مرغا، مور، بطخ اور کوا) لیکن دوسری طرف عالمِ روحانیت میں روحوں کے ذرّات کو بھی پرندوں سے تشبیہہ دی گئی ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب: اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ پرندوں کے تاویلی معنی ہیں روحیں، کیونکہ پرندے اچھے اور بُرے دو قسم کے ہوا کرتے ہیں۔  جس کی تاویل یہ ہوئی کہ روحیں اچھی بھی ہیں اور بُری بھی، پس ابراہیم علیہ السّلام کے چار پرندوں کی قربانی کی تاویل یہ ہے کہ آپ نے ذرّاتِ نفس میں سے چار (جو تاویل کی زبان میں چار پرندے کہلاتے ہیں) کو ذبح کردیا، تاکہ خدا تعالیٰ ان کو بہترین صورت میں زندہ کردے۔

۱۹

سوال نمبر۳۳: چند انبیاء پر جو آسمانی کتابیں نازل ہوئیں ان کی وجہِ تسمیّہ کیا ہے؟  جیسے توریت، زبور، انجیل اور قرآن، کیا تمام انبیاء پر کتابیں نازل نہیں ہوئیں؟ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟

جواب: کہتے ہیں کہ توراۃ ( توریت ) وَری کے مادّہ سے ہے جس کے معنٰی  آگ روشن کرنا ہیں، چونکہ اس کتاب میں بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کی روشنی تھی، لہٰذا توراۃ کہا گیا۔ زبور زبر۱ سے ہے،  بمعنی مذبور (لکھی ہوئی) انجیل اِونجَلیُون (EVANGELION) لفظ یونانی سے ہے، جس کے معنی مسرت انگیز خبر یا بشارت کے ہیں۔ اور قرآن کے معنی پڑھنے کے ہیں، کیونکہ یہ اسمِ اعظم پڑھنے کے نتیجے میں نازل ہوا۔ نیز ظاہر میں بھی یہ پڑھا جاتا ہے، سوال کے باقی حصّہ کے لیے نمبر ۳۱ کو دیکھیں۔ (۱۰۰ سوال حصّہ چہارم صفحہ ۳۵ پر “کتبِ سماوی”  کے مضمون کو بھی پڑھیں)۔

( نوٹ: ۱:  زبر = لکھنا)

سوال نمبر۳۴: ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ہو گزرے ہیں۔ ۔ ۔

جواب: آپ کا یہ سوال مبہم اور مغلّق ہے،  دوبارہ واضح کر کے لکھیں۔

سوال نمبر ۳۵ : نورِ امامت ازل سے موجود تھا یا نورِ نبوّت۔ ۔ ۔

جواب: نور ایک ہی ہے، اس میں تقدیم و تاخیر کا کوئی سوال نہیں اس نور کے مختلف ظہورات اور ظاہری و باطنی پہلو ہوتے ہیں،  نور ہمیشہ

۲۰

سے اپنے سر چشمۂ اعلیٰ میں ایک ہی ہے۔

سوال نمبر ۳۶ :۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جواب: سوال کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرتؐ  کو اسمِ اعظم کی تعلیم کس نے دی تھی؟ جواب عرض ہے کہ اما مِ مقیم نے، اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لیے امامِ مقیم حضرتِ ابو طالب علیہ السّلام تھے، ملاحظہ ہو کتاب “الامامۃُ فی الاسلام” جو عظیم امام کسی ناطق پیغمبر کی علمی پرورش کرتا ہے وہ امامِ مقیم کہلاتا ہے۔  ملاحظہ ہو کتاب الامامۃُ فی الاسلام۔

سوال نمبر ۳۷ : نمازِ جنازہ اور نمازِعید کی کیا حقیقت ہے؟  کیا ان کا تذکرہ قرآنِ پاک میں موجود ہے؟

جواب: کسی چیز کی حقیقت کا مطلب ہے اس چیز کی اصلیت،  مغز اور جوہر،  پس نمازِ جنازہ اور نمازِ عیِدَین کے علاوہ دیگر تمام نمازوں کا جوہر بھی ان کی تاویل ہے، جس کے لیے آپ کتاب “وجہِ دین” کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ دینِ اسلام کے تمام اقوال و اعمال کی تاویلات ہیں۔ جو صرف ایک ہی مرکز کو ظاہر کرتی ہیں اور اسی مرکز سے وابستہ ہیں، ہاں نمازِ جنازہ اور نمازِ عِیدَین کا اجمالی ذکر یا اشارہ قرآن میں موجود ہے۔

سوال نمبر۳۸: حدیثوں کی کتنی قسمیں ہیں، اور ان میں کیا فرق ہے؟

جواب : آپ کے اس سوال کا تقاضا یہ ہے کہ “علمِ حدیث” کا

۲۱

ایک خلاصہ پیش کیا جائے، مگر یہ کام کافی لمبا چوڑا ہے، لہٰذا “علمِ حدیث” کی کسی کتاب کو پیش نظر رکھیں۔

سوال نمبر۳۹: قرآنِ کریم ۲۳ برس کے عرصے میں مکمل ہوا۔ ۔ ۔

جواب: جہاں اور جب قرآنِ حکیم روحانی طور پر امامِ زمان سے اور آپؑ قرآن سے وابستہ ہیں تو قرآن ہر طرح سے کامل اور مکمل ہے۔ پھر قرآن کی سالمیت کے بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھانا چا ہئے، ہمارے اس نظریہ کا ثبوت رسولِ اکرمؐ کا وہ ارشادِ مبارک ہے جس میں آپؐ کے بعد اُمّت کی ہدایت کے لیے دو گرانقدر چیزیں موجود ہونے کا ذکر ہے،  اور اگر حدیثِ ثقلین نہ ہوتی، تو کوئی سوال پیدا ہوسکتا۔

سوال نمبر ۴۰ : گنانوں اور امام کے فرمان میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جواب : آپ نے کوئی حوالہ نہیں دیا ہے، تاکہ اس کی گہری حکمت تک رسائی کے لیے کوشش کی جاتی، بہرحال سوال دائرۂ روح کے بارے میں ہے، جس کو سمجھنے کے لیے اعلیٰ علم کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر پانی کا سرچشمہ جو سمندر ہے،  وہ اپنی جگہ پر ساکن بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک طرح سے اپنے دائرے پر گردش بھی کر رہا ہے،  یہی حال روح کا بھی ہے کہ وہ اپنے اصل سرچشمہ کے اعتبار سے عالمِ امر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم ہے، مگر وہ ارواحِ جزوی کے توسط سے دائمی طور پر دنیا میں آتی رہتی ہے، اس کا

۲۲

خلاصہ یہ ہوا کہ روح ایک تو خود ہے اور ایک اس کا سایہ،  وہ خود عالمِ امر میں ہمیشہ کے لیے ٹھہری ہوئی ہے، مگر اس کا سایہ اس دنیا میں لاانتہا بار آتا رہتا ہے۔ کتاب “روح کیا ہے” میں دیکھیں تو معلوم ہوجائے گا کہ روح مستقر بھی ہے اور مستودع بھی، یعنی مستقر اصل اور مستودع سایہ ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ  لنڈن
۸۳۔ ۷۔ ۷

۲۳

 

 

چراغِ روشن اور حکیم پیر ناصر خسرو ایک علمی کائنات

چراغ روشن

اور

حکیم پیر ناصر خسروایک علمی کائنات

کوہِ قاف کا راستہ

کوئی کہتا ہے کہ کوہِ قاف ہے اور کوئی کہتا ہے کہ دنیا میں کوہِ قاف کا کوئی وجود ہی نہیں، میں عرض کروں گا کہ کوہِ قاف اپنے بیشمار عجائب و غرائب کے ساتھ ایک ایسے مخفی مقام پر موجود ہے کہ اس کا کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔ مگر حقیقی علم اور روحانیت، پس کتنی بڑی نیک بختی ہے ایسے خاص مومینن کی جوہمیشہ حقیقی علم اور روحانیت کی مقدّس خدمت میں لگے ہوئے ہیں جیسے جناب کیپٹن محمد یاربیگ ابنِ حُرمت اللہ بیگ حیدرآباد (ہونزہ) جناب احمد حسین ابنِ نیت شاہ، کریم آباد (بلتت ) جناب عبدالمجید ابنِ نعمت خان ، حسن آباد اور جناب فرمان علی ابنِ علی حرمت آغاخان آباد (علی آباد)۔

 

پیش گفتار

ابنِ مریم(حضرتِ عیسٰی) علیہ السّلام نے بارگاہِ خداوندی میں یوں عرض کی: اللَّہُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَاء ِ تَکُونُ لَنَا عِیْداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَۃً مِّنکَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَیْرُ الرَّازِقِیْن(۰۵: ۱۱۴)۔

اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! ہم پر(روحانی اور عقلانی) آسمان سے ایک خوان (پرُاز نعمت) نازل فرما کہ وہ ہم لوگوں کے لئے، ہمارے اگلوں کے لئے اور پچھلوں کے لئے  عید کا دن (یعنی باربار آنے والا جشن،خوشی کے عود کرنے کا دن) قرار پائے، اور (ہمارے حق میں) تیری طرف سے یہ ایک معجزہ ہو، اور تو ہمیں (عقل و روح کی) روزی دے اور تو سب روزی دینے والوں سے بہتر ہے (۰۵: ۱۱۴)۔

اس میں اہل دانش کو ذرا بھی شک نہیں کہ آیۂ مذکورۂ بالا سُنّتِ الٰہی کے مطابق ایک کلّیہ ہے، جس کا تعلق تمام زمانوں سے ہے، جیسا کہ اس دعا میں ماضی، حال، اور مستقبل کے مومنین کا ذکر موجود ہے، کیونکہ حضرتِ عیسٰیؑ اپنے وقت میں خدا کا نور تھا (۶۱: ۶ تا ۸) اس لیے اُس نے ہر زمانے کے

 

۵

 

اہلِ ایمان کے حق میں یہ دعا کی تھی، اور ظاہر ہے کہ کشف و کرامت کی خوشیوں کی یہ عید اوّلین، حاضرین اور آخرین سب کے لئے ہے، اور لفظ’’عید‘‘ پر غور کریں کہ عید عَوۡد سے ماخوذ ہے، جس کے معنی لوٹنے کے ہیں، یہاں یہ قانون بھی یاد رہے کہ ظاہری عید اپنے وقت پر آتی ہے، مگر روحانی عید وقت سے بالاتر ہے۔

اگر چہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مائدۂ عیسٰیؑ ایک محدود وقتی معجزہ تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ہر انسانِ کامل کی مکمل روحانیت کا عرصہ ہے، جس کی چند دلیلیں یہ ہیں:

(الف:) اس دعا میں جس آسمان کا ذکر ہے، وہ آسمان عقلِ کلّی ہے، اس لئے یہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی روحانیت کا دستر خوان ہے (ب:) اس میں اطمینانِ قلبی مقصود ہے، جو مشاہداتِ روحانیت و عقلانیت کے سوا ممکن نہیں (ج:) اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جو کل کے لئے وعدہ کیا گیا ہے، اس کا یقین آج ہوجائے: صدقتنا ۰۵: ۱۱۳ (د:) یہاں جو لفظِ شاھدین آیا ہے (۰۵: ۱۱۳) وہ بتاتا ہے کہ روحانیت کا مشاہدہ کرنا مطلوب ہے، (ھ: ) لَنَا (ہمارے لئے) کی تشریح ہے: اوّلین و آخرین، یعنی تمام انبیاء و أئمّہ علہیم السّلام اور اہلِ ایمان(و:) آیات معجزہ کا نام ہے، اور خدا کا معجزہ عقل، روحانی اور دائمی ہوا کرتا ہے، وہ نقش بر آب نہیں کہ فوراً

 

۶

 

ہی مٹ جائے(ز:) یہاں رزق مطلوب ہے، اور وہ عقل و جان کی ہرگونہ غذا کا نام ہے۔

خداوند تعالیٰ کا ہر امر منتظر نہیں، بلکہ فرمایا گیا ہے، اس کا ہر کام کیا ہوا ہے، اور اس کا ہر وعدہ عمل میں آچکا ہے (۳۳: ۳۷، ۰۸: ۴۴) یعنی اللہ کا کوئی امر نافرمودہ نہیں، نہ کوئی کام ناکردہ ہے، تو پھردعا اور طلب کیوں ضروری ہوئی؟ آیا اس قانونِ ازل کے مطابق عقلی اور روحی نعمتوں کا دسترخواں نازل شدہ نہیں ہے؟ کیا خدا کا کوئی کام ناکردہ(UNDONE)  ہوسکتا ہے؟

جواب: بیشک پروردگارِعالم کا فرمان فرمایا ہوا ہے، اس کا کام کیا ہوا ہے، اور اس کا وعدہ پورا ہوچکا ہے، نیز باطنی نعمتوں کا دسترخوان ہمیشہ کے لئے نازل ہوچکا ہے، لیکن پھر بھی قول و فعل اور دعا کی سخت ضرورت ہے، خصوصاً ہادیٔ برحق کی دعا بے حد ضروری ہے، کیونکہ خداتعالیٰ نے تو ہر نعمت عطا کر رکھی ہے (۱۴: ۳۴) لیکن ہمارے اعمال کی وجہ سے پردے حائل ہوگئے ہیں، پس کشفِ غطا یعنی پردہ کھولنے کے لئے علم و عمل کی بہت بڑی اہمیت ہے۔

اس بحث کی روشنی میں ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پیر ناصر خسرو ان عظیم المرتبت حکماء و عرفاء میں سے ہیں، جن کے لئے روحانی اور عقلی نعمتوں کا دستر خوان ہمیشہ بچھا ہوا رہتا ہے، چنانچہ حضرتِ پیر

 

۷

 

نے اس سماوی دسترخوان سے ایک دوسرے دسترخوان کو سجایا اور وہ ان کی گرانقدر کتابوں کا پُرحکمت ذخیرہ ہے۔

حکیم پیر ناصر خسرو کے قلبِ مبارک پر امامِ زمنؑ کا نور طلوع ہوا تھا، یہی وجہ ہے کہ اُن پر قرآنِ حکیم اور دینِ اسلام کے بے شمار تاویلی اسرارمنکشف ہوگئے، اسی نورِ ہدایت کی صورت میں امامِ برحقؑ نے ان کو رسمِ چراغ روشن بطرزِ جدید جاری کرنے کا حکم دے دیا، چنانچہ آپ کے شاگردوں نے رفتہ رفتہ چراغنامہ تیار کیا، اور موصوف پیر کے حلقۂ دعوت میں اس کا خوب رواج ہوا۔

رسمِ چراغ روشن بے شمار خوبیوں کا مجموعہ ہے، اگر تفصیل سے اس کا ذکر کیا جائے تو اس سے ایک اور کتابچہ تیار ہوسکتا ہے، لیکن ہم اختصار سے کام لینا چاہتے ہیں، اور اس میں بڑے بڑے مذہبی فوائد پنہان ہونے کی روشن دلیل یہ ہے کہ مولانا حاضر امام صلوات اللہ علیہ اسے پُرازحکمت قرار دیتے ہیں، اسی لئے مولا نے اس درخواست کو نامنظور فرمایا، جو اس مقدّس رسم کو ترک اور ختم کرنے کے لئے لکھی گئی تھی۔

میرے خیال میں چراغ روشن فقہی مسئلہ ہرگز نہیں، یہ محض ایک خاص رسم اور ایک مخصوص عملی تاویل ہے۔ لہٰذا اس میں حلال و حرام کی

 

۸

 

بحث کی کوئی گنجائش نہیں، اور نہ اس میں متوّفی کی عمر کی کوئی حد مقرّر ہے، جبکہ دعوتِ بقاء کسی گھر کے افراد کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے، جن میں چھوٹے بڑے سب شامل ہوتے ہیں، کیونکہ یہ عظیم کارِثواب بھی ہے۔

 

فقط بندۂ عاجز

نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی

۹۳۔۴۔۲۲

 

۹

 

شمالی علاقہ جات میں اسماعیلی دعوت کا پسِ منظر

 

حکیم ناصر خسرو کی ابتدائی زندگی:

مولوی عبدالرّزاق کانپوری جو سفرنامۂ ناصر خسرو کے مترجم ہیں، حکیم موصوف کے”عہدِ طفولیت و تعلیم و تربیت” کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں، مدارجِ اربعہ کے بعد جب نفسِ ناطقہ میں ادراک کا مادّہ پیدا ہوگیا تو چھٹے سال ناصر کی مکتب نشینی ہوئی اور نو سال کی عمر میں حافظِ قرآن ہوگیا، اور پانچ سال کی محنت میں علمِ لغت صرف و نحو،  عروض و قافیہ اور حساب و سیاق حاصل کیا۔

تحصیلِ حبادیات کے بعد تین سال میں نجوم، ہیئت، رمل، اُقلیدس اور مجسطی کی تکمیل ہوئی،جب عمر کی سترہ (۱۷) منزلیں طے ہوگئیں تو علمِ ادب، فقہ، تفسیر اور حدیث کا درس شروع ہوا، اور اسی سِلسلے میں امام محمّد شیبانی کی کتاب جامع کبیر اور سیرِ کبیر بھی ختم ہوئی، اور قرآن کی تکمیل کے لئے تقریباً تین سو (۳۰۰) تفسیریں پٖڑھیں، ان میں کچھ تو داخلِ نصاب

 

۱۰

 

تھیں اور بقیہ کا بطورِ خود مطالعہ کیا، تفسیر اور علوم القرآن کے بعد فلسفۂ یونان کو پڑھا، چنانچہ پندرہ سال میں اس نصاب کی تکمیل ہوئی اور عالمِ شباب تک بلخ میں رہا، عربی کے علاوہ وہ ترکی، یونانی، عبرانی اور ہندوستانی (سندھی) زبان بھی جانتا تھا اور فارسی مادری زبان تھی، اور عبرانی کی تصدیق سفر نامہ سے ہوتی ہے۔۔۔۔۔

جب ناصر کی عمر۳۲ سال ہوگئی اس وقت تورات، زبور، انجیل کو یہودی علماء سے پڑھا، اس کے بعد بطورِ خود ہر سہ کتب کو کامِل چھ سال تک محققانہ اور مناظرانہ حیثیت سے دیکھا، اس کے بعد منطقِ الہٰی و طبیعی (مصنفۂ حکیم جاماسب) طب اور ریاضت کو ختم کیا، اور سب سے آخر میں تصوّف، روحانیت، علمِ تسخیر اور طلسمات کو حاصل کیا جس کے ماہر بابُل میں موجود تھے، اور تقریباً چوالیس (۴۴) سال کی عمر میں ناصر خسرو ایک عدیم  النظیرحکیم، فلسفی، عالم، مناظر اور شاعر بن گیا، اور یہ جملۂ علوم بلخ و بخارا، عراق اور اضلاع خراسان میں حاصل کئے جس کی تردید نہیں ہوسکتی ہے، جہاں ہر علم و فن کے باکمال علماء و حکماء موجود تھے، اور علمائے یہود و نصاریٰ نے ناصرسے اپنی مذہبی کتابیں پڑھی تھیں۔

 

۱۱

 

حکیم ناصر خسرو کا ایک پُرحکمت خواب:

آپ لکھتے ہیں: “میں شراب نوشی کرتا تھا، آنحضرت صلعم کا ارشادِ گرامی ہے: قولوالحقَّ وَ لَو عَلیٰ انفُسِکُم۔ سچی بات کہو اگرچہ وہ تمہارے حق میں مُضرّ کیوں نہ ہو۔

ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ کوئی بزرگ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ: ناصر! یہ شراب جو انسان کی عقل کو زائل کردیتی ہے کب تک پیتے رہو گے؟ اگر خودی میں رہو تو بہتر ہے۔

میں نے جواباً عرض کیا کہ “شراب کے سوا حکیموں نے کوئی ایسی شے ایجاد ہی نہیں کی ہے جو غم غلط کرنے والی ہو۔” بزرگ نے جواب دیا کہ “بے خودی اور بے ہوشی میں بھی کہیں راحت ملتی ہے؟ تم ایسے شخص کو حکیم مت کہو جو ہوشیاروں کو بے ہوش بنادے، بلکہ حکیم سے ایسی شے مانگو جس سے عقل و ادراک میں اضافہ ہو۔” تب میں نے سوال کیا کہ “وہ شے کہاں سے دستیاب ہوسکتی ہے؟” فرمایا “جو ڈھونڈتاہے وہ پاہی لیتا ہے۔‘‘ اور قبلہ کی طرف اشارہ کرکے خاموش رہا۔

 

۱۲

 

بعض سکالرز (عبدالوہاب طرزی، مؤلف کتاب “ناصر خسرو بلخی” ص۲۲، پروفیسر ہینری کوربن: مقدمہ جامع الحکمتین فرانسوی ص۳۰) کا خیال ہے کہ ناصر خسرو جس خواب کا ذکر کیا ہے وہ کسی اسماعیلی داعی سے متاثر ہونے کی مثال ہے، میرے نزدیک یہ خیال صحیح ہے، کیونکہ بسا اوقات حکیم ناصر خسرو رمزوکنایہ سے کام لیتا ہے، چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ کسی عظیم المرتبت داعی نے شراب نوشی کی مخالفت کی اور امامِ وقت کی نشاندہی کی جو عقلی راحت کاسرچشمہ تھا، ورنہ خواب جیسے بیان ہوا ہے وہ حالت شراب نوشی میں اتنا منظّم اور نورانیت سے بھر پور نہیں ہوسکتا ہے۔

 

پیر ناصر خُسر و یُمگان میں:

کتاب”ناصر خسرو و اسماعیلیان‘‘ صفہ ۱۸۴ پر درج ہے کہ درّۂ یمگان حجتِ خراسان (یعنی ناصرِخسرو) کی حقیقی کرسی بن گیا تھا، اور تحریر ہے کہ لوگوں کا شاہِ ناصر کہنا غلط نہیں ہے، یعنی جس طرح قریبی حلقۂ دعوت نے ان کو علم و حکمت کا بادشاہ مانا، وہ درست ہے، کتاب مذکورہ کے مؤلّف نے لکھا ہے کہ ناصر خسرو نے یمگان میں اپنے

 

۱۳

 

سِلسلہ دعوت کو جاری و ساری رکھا تھا، وہ اطراف میں دور دراز تک لوگوں کو اسماعیلی مذہب سے متعلق دعوت نامے بھیجا کرتے تھے،جیسا کہ ان کے دیوان میں ہے: (ص ۳۸۵)

ہر سال یکی کتابِ دعوت

با طراف جہان ہمی فرستم

تا داند خصم من کہ چون تو

در دین نہ ضعیف خواروستم

اپنے کئی قصائد میں فرماتے ہیں کہ: اگرچہ میں وطن مالوف سے مہجور و دور ایک غار میں مقیم ہوں، لیکن اپنے دوستوں کی نظر میں بہت معزز ومحترم ہوں، چنانچہ روشنائی نامہ میں فرمایا ہے:

زحجت این سخنہایاد میداد

کہ دریمگان نشستہ پادشہ وار

مذکورۂ بالا کتاب میں یہ بھی ہے کہ ناصر خسرو یُمگان سے مصر اپنے مرکز دعوت کے ساتھ خط و کتابت کرتے تھے،آپ نے اپنی اکثر فلسفی کتابیں یمگان میں لکھی ہیں، مثال کے طور پر روشنائی نامہ، جامع الحکمتین، زادالمسافرین وغیرہ۔

 

دعوتِ ناصری کا مرکزومنبع:

اہلِ دانش کے سامنے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیان ہے کہ چترال، شمالی علاقہ جات، سریقول اور یارقند میں جب بھی اسماعیلی دعوت

 

۱۴

 

کی روشنی پھیل گئی ہے، وہ بدخشان کی طرف سے آئی ہے، پیروں، داعیوں معلّموں اور نمائندوں نے علم و حکمت اور امام شناسی کے جیسے چراغ روشن کئے، ان کا سرچشمۂ نور ایک ہی تھا جسے پیر نامورحکیم ناصرخسرو نے بحکم امامِ عالیمقام بصد ہزار مشقت بدخشان میں تیار کیا تھا، اس بے پناہ روشنی کے ذخائر بڑی ضخیم کتابوں کی صورت میں تھے، اور ایک ایسے علمی لشکر کی شکل میں بھی، جو ناصری علم وحکمت کے اسلحہ سے لیس ہوکر ظلمتِ نادانی کے خلاف جنگ کرسکتا ہے۔

اس میں کیا شک ہوسکتا ہے کہ اگر حضرت حسن صباح نے ایک ظاہری قلعہ بنایا تو پیرناصر نے بدخشان میں علم و حکمت کا ایک اور قلعہ بنایا، جیسے ایک ہلاکوخان کیا ہزار ایسے ظالم بھی نہیں توڑسکتے، اس کا ثبوت حکیم ناصر کی وہ گرانمایہ کتب ہیں جو نہ صرف دنیائے اسماعلیت کے لئے باعثِ فخروناز ہیں، بلکہ اقوامِ عالمِ کے ہر علمی ادارے میں بھی موجود و محفوظ ہیں۔

حکیم ناصر خسرو نے بڑی جراتمندی اور بڑی حکمت سے دعوت کا فریضہ انجام دیا اور جیسی بھی حالت پیش آئی، اس سے فائدہ اٹھایا، یعنی جب آزادی اور موقع میسر آتا تو زبانی دعوت اور جہاد کرتے اور جب مخالفین کی وجہ سے عرصۂ حیات تنگ ہوجاتا، تو قلمی طور پر اس کام میں مصروف ہوجاتے تھے، تاکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دعوت و نصیحت کا سلسلہ جاری رہے۔

 

۱۵

 

ہُنزہ میں اثناعشری مذہب کا آغاز:

زمانہ قدیم میں باشندگانِ ہنزہ دینِ اسلام سے بیگانہ تھے، مردوں کو جلانا یا بعض وابستہ چیزوں کے ساتھ دفنانا ان کی رسومات میں شامل تھا، بعض قرائن سے ایسا لگتا ہے کہ پورے علاقے میں بُدھ مت اور زرتشتی مذہب کی روایات پھیلی ہوئی تھیں، لوگ بویو(BOYO) کی پرستش کرتے تھے، بوئن (BOYN) جس کی جمع بویو ہے، کتے کے پلّے(بچہ) کی طرح ایک چھوٹا سا جانور تھا،جو کسی درخت سرو کوہی(گل) کے نیچے یا سنگلاخ سے نکلتے تھے، ان کے لئے کوئی نذرانہ از قسم مکھن یا دودھ یا خونِ گوسفند رکھا جاتا تھا، اور اگر وہاں سے بویو پیدا ہوگئے اور اس نیازکو چاٹ لیا تو وہ لوگ اُسے شرفِ قبولیت سمجھتے تھے۔

کہتے ہیں کہ جب میوری تھم کا بیٹا عیݳ شݹ دوم سُخݳݷ ہنزہ کا حکمران ہوا تو اس نے  بلتستان سے ابدال خان کی بیٹی شہ خاتون سے شادی کی، اور اسی رشتہ و رابطہ کی بدولت  بلتستاب سے ہُنزہ میں بصورتِ اثنا عشری دعوتِ اسلام کا آغاز ہوا، اور وہاں بتدریج اثنا عشریت پھیل گئی، تاہم بعض لوگ عرصۂ  دراز تک بویو کو بھی مانتے تھے ہر چند کہ مبلغین و ناصحین انہیں اس بت پرستی سے باز لانے کی کوشش کرتے تھے ۔

 

۱۶

 

ہنزہ میں اسماعیلی دعوت کی روشنی کا آغاز:

ہنزہ میں عیݳ شݹ خاندان کا پہلا حاکم گِر کِس تھا، اس کے بعد پانچ نمبر پر عیݳ شݹ سُخݳݷ ابن مَیُوری تھم کا نام آتا ہے، جس نے بلتستان سے ابدال خان کی بیٹی شہ خاتون سے شادی کرلی، اور حاکمِ وقت کے اسی رشتے کی وجہ سے بلتستان سے ہنزہ میں اثنا عشری مذہب کی تبلیغ کی گئی، اور رفتہ رفتہ لوگ اس مذہب میں داخل ہوگئے، تاہم بعض لوگ اپنی پُرانی عادتوں سے باز نہیں آرہے تھے۔

اس کے بعد ۱۹ نمبر پر سِلُم خان کا نام آتا ہے، جس نے آخری عمر میں اسماعیلی مذہب کو صرف ذاتی طور پر قبول کرلیا، اور اس نے اس پاک مذہب میں تنہائی محسوس کرتے ہوئے سید حسین ابنِ شاہ اَردَبیل سے پوچھا کہ ’’میری تجہیز و تکفین وغیرہ کون کرے گا؟‘‘ پیر نے فرمایا کہ اِن شاء اللہ تعالیٰ اس وقت اسماعیلی داعیوں میں سے کوئی ضرور آئے گا۔

جب سِلُم خان قریب المرگ ہوگیا تو اسے اپنی تجہیز و تکفین اور نمازِجنازہ کی بڑی فکر ہوئی، اور وہ اس بات کا منتظر تھا کہ حسبِ وعدہ پیر آخری وقت میں کوئی آئے گا،لہٰذا وہ اپنے معتمدین سے کہتا

 

۱۷

 

رہتا تھا کہ دیکھو، کیا کوئی آرہا ہے، آخرکار خبر ملی کہ ہاں دور میدان سے کوئی سوار اس طرف آرہا ہے، وہ پیر شاہ حسین ابنِ اَردَبیل تھے، جنہوں نے حَسبِ وعدہ سِلُم خان کو تسلّی دی اور جب اس کا انتقال ہوگیا تو اس کی تجہیز و تکفین کی اور نمازِ جنازہ پڑھی۔

نوٹ: حضور موکھی خلیفہ مہربان شاہ(۱۹۱۰۔۱۹۹۱ء،ابنِ گل بہار شاہ)کھِسݣاݷ سید کے حوالے سے بتاتے تھے کہ مولانا قاسم شاہ علیہ السّلام کی امامت کے زمانے میں تاج مغل نے گلگت کے بعد ہونزہ کو بھی فتح کرکے اس کے باشندوں کو اسماعیلی بنایا تھا، تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس نے دعوتِ حق کا کوئی خاص انتظام نہیں کیا، اس لئے لوگ یہ پاک مذہب بھول گئے، یہ واقعہ تقریباً چھ سو۶۰۰ سال کا ہے۔

 

نصیر ہونزائی

۹۳۔۴۔۱۱

 

۱۸

 

چراغِ روشن ۔ عملی تاویل

 

عنوانِ بالا کا واضح مطلب ہے: ’’رسمِ چراغِ روشن ایک عملی تاویل۔‘‘ تاویل لفظاً کسی چیز کو اوّل کی طرف لوٹانے کو کہتے ہیں، اور اصطلاحاً باطنی حکمت کا نام ہے، جو منازلِ روحانی سے لے کر مراتبِ عقلانی کے آخر تک پائی جاتی ہے، تا آنکہ عُرفاء کو یقین آتا ہے کہ تاویلی حکمت کا اصل سرچشمہ آفتابِ  نورِ ازل ہی ہے، یعنی گوہرِعقل، اسی مقام پر جیسی عظیم الشّان اور بے مثال حکمت ہے، اسی کی قرآنِ مجید میں یوں تعریف کی گئی ہے:

یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا

جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی،اسے حقیقت میں خیر کثیر مل گئی (۰۲: ۲۶۹) حکمت تمام نعمتوں کی بادشاہ ہونے کی وجہ سے فوقانی ہے، اور دوسری ساری نعمتیں رعایا کی طرح تحتانی ہیں، اگر آپ یہ معلوم کرلینا چاہیں کہ براہِ راست باطنی حکمت یا تاویل کن مقدّس ہستیوں کو عطا ہوتی ہے؟ تو آپ قرآنِ پاک میں دیکھ سکتے ہیں

 

۱۹

 

کہ ایسے حضرٰت انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہیں:

نورِ نبوّت حکمت کا زندہ گھر ہے،اور نورِ امامت اس کا زندہ دروازہ، اس کا واضح اشارہ یہ ہوا کہ قرآن وحدیث کی حکمت ہمیشہ امامِ عالیمقامؑ کے توسط سے ملتی رہی ہے، اور اس پر عمل بھی ہوتا رہا ہے، کیونکہ حکمت کا مقصد ہی عمل ہے، جب کہ حکمت کے معنی ہیں دانشمندی سے کام کرنا، چنانچہ قرآن کا اشارہ ہے کہ لقمان کو حکمت اس لئے دی گئی تھی کہ وہ اللہ کا شکر حکمت کے ساتھ کرے، یعنی اس کا ہر نیک قول و فعل حکمت پر مبنی ہو، تاکہ حقیقی معنوں میں اس بے مثال نعمت کی شکرگزاری اور قدردانی ہو۔

عربی کا کوئی لفظ جہاں کسی لغات میں ہے تو عموماً اس کی کوئی تاویل نہیں ہوتی، اگر یہی لفظ قرآنِ حکیم میں آیا ہے، تو اس کی تاویل ہوسکتی ہے،جیسے ’’حبل‘‘ عربی میں رسی کا نام ہے، اور قرآن میں آنے سے قبل اس میں کوئی حکمت نہ تھی، لیکن جب یہی لفظ قرآنِ پاک میں داخل ہوکر اسمِ اللہ سے مضاف ہوگیا، اور حبل اللہ (خدا کی رسّی) کہلانے لگا، اور اس کو ایک زبردست تمثیلی حیثیت مل گئی، تو پھر اس میں بڑی تاویلی حکمتوں کی گنجائش پیدا ہوگئی، ورنہ رسّی وہی بے جان اوربےعقل چیز ہے، جسے لوگ اپنی مرضی سے استعمال کرتے رہتے ہیں،

 

۲۰

 

یہاں تک کہ اگر کوئی آدمی اس سے خود کشی کا پھندا بنالے، تو اس حال میں بھی وہ کچھ منع نہیں کرسکتی، اس کے برعکس خدا کی رسّی عقلِ کامل اور روحِ قدسی کے جملہ اوصاف سے موصوف اور ہر عیب سے پاک و برتر ہے، جو طولِ زمانہ پر محیط، ہمہ رس اور ہمہ گیر ہے، اس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں ہے، اور دوسرا سرا لوگوں کے سامنے تا کہ جو شخص چاہے وہ اس کو مضبوطی سے تھامے رہے، یہ تاویلی حکمت کا ایک ناقابلِ تردید نمونہ ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں مثالیں آئی ہیں، وہاں ان کی تاویلات ہوا کرتی ہیں۔

اب ہم اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں، اور سب سے پہلے یہ سوال خودبخود ہمارے سامنے آتا ہے کہ رسم چراغ روشن کے عملی تاویل ہونے کی دلیل کیا ہے؟ یہ تاویل کس آیۂ کریمہ سے متعلق ہے؟ آیا اس عمل کے بارے میں قرآن کا کوئی اشارہ ہے؟ جواباًعرض ہے کہ قرآن اور اسلام کی کوئی چیز تاویل کے بغیر نہیں، لہٰذا ہمارا مذہب تاویلی ہے، حکیم ناصرخسرو تاویل کے قائل تھے، اس لئے  آپ نے اپنے حلقۂ دعوت میں چراغِ روشن کو حضرتِ امام علیہ السّلام کے منشاء کے مطابق جاری کیا، حالانکہ یہ رسم محدود اور مخصوص طریق پر شروع سے چل کر ختم ہورہی تھی، جیسے کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے

 

۲۱

 

آنحضرت صلعم نے اپنے ایک صاحبزادے کی وفات پر بہت ہی مختصر چراغِ روشن کیا تھا، چنانچہ چراغ نامہ میں یہ قول ہے:

چراغِ اوّل بدستِ مصطفٰے بود

دلیلش با علیٔ مرتضٰی بود

مذکورہ روایت میرے نزدیک صحیح ہے، اور اس کی ایک شہادت یہ ہے: جب امام محمد باقر علیہ السّلام کا انتقال ہوا، تو امام جعفر صادق علیہ السّلام نے اس گھر میں چراغ جلانے کا حکم  دیا، جس میں حضرت (یعنی امام محمد باقرؑ) رہا کرتے تھے۔ (الشّافی،جلد سُوم،ص۲۱۴)

’’چراغِ روشن‘‘ کو عملی تاویل اس معنی میں کہا کہ یہ ایک پُرحکمت عمل ہے، جس کے توسط سے آیۂ مِصباح (۲۴: ۳۵) کی بے مثال کلیدی حکمتوں پر غور وفکر کرنا مقصود ہے، اس آیۂ مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے، خدا تو (عالمِ شخصی کے) آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے، نور پر نور ہے، خدا اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے، وہ لوگوں کو مثالیں بیان کرتا ہے اور

 

۲۲

 

خدا ہر چیز کو خوب جانتا ہے (۲۴: ۳۵)۔

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے مذ کورہ آیۂ مبارکہ کی طرف جس حکیمانہ انداز میں پر زور توجّہ دلائی ہے، اور جس شان سے اس کی تاویلی روح کی نشاندہی فرمائی ہے، وہ یقیناً ہمارے  لئے روشن ہدایات میں سے ہے۔ (ملاحظہ ہو: کتابچہ: اسلام میرے مورثوں کا مذہب، ص ۶۔۷)

آیۂ مصباح کے بعد جو ارشاد ہے، اس کا ترجمہ اور قوسین میں مفہوم اس طرح ہے: (مصباح = چراغِ روشن کا عملی نمونہ) ان گھروں میں ہے، جنہیں بلند کرنے کا اور جن میں اپنے نام کے ذکر کا خدا نے اذن دیا ہے، ان میں ایسے لوگ صبح وشام اس کی تسبیح کرتے ہیں (۲۴: ۳۶) اس کی کم سے کم حکمیتں دو ہیں: پہلی حکمت: انبیاء و أ ئمّہ علیہم السّلام اور مومنین کے ظاہری گھروں میں آیۂ مصباح  کا تاویلی چراغ روشن کیا جاسکتا ہے، کیونکہ وہ گھر ذکرِالٰہی کی وجہ سے بلند ہیں، کہ ان میں صبح و شام خدا کی تسبیح کی جاتی ہے، پس ایسے گھروں میں چراغِ روشن کا مقدّس عمل کیا جاسکتا ہے۔

دوسری حکمت: پیغمبرؐ اور امامؑ کی تعلیم و ہدایت کی روشنی میں اہلِ ایمان اپنے باطنی گھروں (قلوب) میں نورِ خداوندی کے چراغ

 

۲۳

 

کو روشن کرسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ خدائے علیم و حکیم نے اپنے پاک نور کی تشبیہ و تمثیل آفتابِ عالمتاب سے دینے کی بجائے گھر کے چراغ سے دی، کیونکہ جو جو اشارے چراغ میں ہیں، وہ سورج میں کہاں، جیسے علم، عمل، ریاضت، یعنی باطن میں ایک مقدّس گھر بنا کر اس کی دیوار کے طاق میں ایک روشن چراغ سجانے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، پھر دیکھنے اور سوچنے کی خاطر ظرفِ چراغ، تیل، بتی، آگ، شعلہ، دُھواں، پھیلی ہوئی روشنی اور ایک چراغ سے دوسرے چراغ کو روشن کرنا، اس میں انسانِ کامل کی معرفت کے لئے بہت سی حکمتیں ہیں، مگر سورج میں یہ حکمتیں نہیں۔

اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی سب سے روشن اور فیصلہ کن آیات کی شناخت حاصل کریں، تو آیاتِ نور کو لیں اور خوب غور سے ان کا مطالعہ کریں، تا کہ اس عمل سے بہت سی حقیقتیں منکشف ہوجائیں، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم ہو کہ ان سب خزانوں کی کُنجیاں تو آیۂ مصباح کے خزانے میں پوشیدہ ہیں، آپ وہاں سے ہر نورانی کنز کی کُنجی لے کر علم و حکمت کی لازوال دولت سے ابدی طور پر مالامال ہوسکتے ہیں، یہاں یہ بھی یاد رہے کہ آیاتِ نور کے تین درجے ہیں، جو اللہ، رسولؐ اور أئمّہؑ کے بارے میں ہیں،

 

۲۴

 

کائنات کی روشن آیات بھی تین درجوں میں ہیں: سورج، چاند اور ستارے، اور اسی قانون کے مطابق عالمِ شخصی میں بھی تین مراتب کی نشانیاں (آیات) ہیں، یعنی عقل، روح اور احساس وادراک کی بہت سی قوّتیں، جیسا کہ نقشۂ درجِ ذیل سے یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے:

نقشۂ آیاتِ نور

عالمِ شخصی کائنات قرآن
عقل سورج آیۂ مِصباح(۲۴: ۳۵)
روح چاند آیۂ سراجِ مُنیر(۳۳: ۴۶)
انسانی قوّتیں ستارے آیۂ کِفِلیَن(۵۷: ۲۸)

 

نقشۂ مرقومۂ صدر سے ظاہر ہوا کہ عالمِ قرآن کے خورشیدِ انور کا نام مِصباح (روشن چراغ) ہے، کیونکہ جو باطنی اور نورانی چراغ اپنی نوعیت کی کائنات کو منوّر کر رہا ہو، وہ آفتاب کیوں نہ کہلائے، یہ بات سب جانتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا چراغ ہے ہی نہیں، جو سورج کی طرح کام کرے، اور اس کا نام ایک جانب سے چراغ ہو، اور دوسری

 

۲۵

 

جانب سے سورج، لیکن نورِباطن ’’اصغر واکبر‘‘ سب کچھ ہے، اس لئے وہ چھوٹا بڑا ہر کام کرسکتا ہے، اور کثیر کاموں کی وجہ سے ناموں کی کثرت ہوسکتی ہے۔

سورۂ نبا (۷۸: ۱۳) میں ارشاد ہے: وَجَعَلْنَا سِرَاجاً وَہَّاجاً: اور ہم نے (سورج کو) روشن چراغ بنایا (۷۸: ۱۳) آپ خوب سوچ لیں، کہ اس میں سورج کی بہت بڑی تعریف کی گئی ہے، لیکن کس طرح؟ روشن چراغ کی تشبیہ و تمثیل دے کر، اس کی حکمت یہ ہے کہ قرآن اور روحانیت میں جہاں کہیں بھی سورج کا ذکر آئے، یا  خود سورج کا مشاہدہ ہو، تو جان لینا کہ یہ وہی روشن چراغ ہے، جس کی تعریف و توصیف آیۂ مصباح میں آئی ہے، اس سے پتا چلا کہ’’چراغِ روشن‘‘ میں مرکزِ انوارِباطن کی تاویل پوشیدہ ہے، بظاہر ایک رسم سہی، لیکن اس کی باطنی حکمتیں بڑی عجیب و غریب ہیں، ان شاء اللہ، امامِ زمان علیہ السّلام کی تائید سے ہم یہاں بعض حکمتوں کا تذکرہ کریں گے، تاکہ عزیزوں اور دوستوں کی معلومات میں گرانقدر اضافہ ہو۔

حکمت نمبر۱: چراغِ روشن کا تعلّق بالعموم تمام آیاتِ نور سے اور بالخصوص آیۂ مصباح سے ہے، بِنا برین اس میں نور کی مختلف مثالیں اور تاویلیں پنہان ہیں، چنانچہ اس کا ایک بڑا اہم نمونہ تجدّد

 

۲۶

 

ہے کہ شعلۂ چراغ میں لمحہ بہ لمحہ تبدیل و تجدید کا سلسلہ جاری ہے، اس سے یہ راز پردۂ خفی سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ نورٌعلیٰ نور(ایک روشنی پر دوسری روشنی) کی عمل میں کوئی تاخیر اور کوئی وقفہ نہیں، بلکہ وہ سلسلہ یعنی زنجیر اور رسّی کی طرح ہے، اور شعلے کے اس تجدّد میں بے شمار حکمتیں ہیں۔

حکمت نمبر۲: آیۂ مصباح میں نورونار کے دونوں لفظ آئے ہیں، چراغِ روشن میں بھی آگ اور روشنی لازم و ملزوم ہیں، پس اس کی حکمت یہ ہے کہ نار عشق ہے اور نور علم و معرفت، چنانچہ جب تک کوئی مومن آتشِ عشقِ مولا میں جلتا نہ رہے، اس کے دل میں علم و معرفت کی روشنی پیدا نہیں ہوگی، آگ کی یہ مثالیں بھی خالی از حکمت نہیں کہ اگر آتش زیرِخاکستر ہے تو یہ پوشیدہ عشق کی مثال ہے، چنگاری کا اشارہ ہے کہ کم عشق، انگاروں کے معنی ہیں خاموش عشق، اور شعلہ متحرک عشق کو ظاہر کرتا ہے۔

حکمت نمبر ۳: دعوتِ بقا ہو یا دعوتِ فناء  اس موقع پر حسبِ دستور جب کسی گھر میں مقدّس چراغ فروزان ہونے لگتا ہے، اور جب تک وہ روشن رہتا ہے، اس دوران چراغِ روشن کی روشنی کی موجودگی میں کسی اور روشنی کو استعمال کرنے یا رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی

 

۲۷

 

ہے، تا کہ اس گھر میں وہی روشنی منفرد اور یگانہ قرار پائے، اس کی تاویل یہ ہے کہ دراصل نور ایک ہی ہے اور وہی نورِ واحد عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کو منور کردینے کے لئے کافی ہے۔

حکمت نمبر۴: رسمِ چراغِ روشن کے آغاز میں یہ بات بھی ہے کہ خلیفہ صاحب کے سامنے قاضی بحالت اِستادگی اجتماعی درودِ شریف کے ساتھ ظرفِ چراق کو تین دفعہ زمین سے بلند کر کے رکھ دیتا ہے، اس کی حکمت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کا نور ایک ہی ہے، ہر چند کہ اس کی نِسبتیں تین ہیں: نسبتِ خدا، نسبتِ رسول اور نسبتِ امامِ زمان، اور جب چراغ کو فروزان کیا جاتا ہے، تو اس وقت بھی ایک بار کچھ دیر کے لئے چراغِ منوّر کو زمین سے ہاتھ میں اٹھا لیا جاتا ہے ، تاکہ اس حکمتی اِشارے سے یہ ظاہر ہو کہ اللہ کا نورِواحد آسمان میں بھی ہے اور زمین پر بھی۔

حکمت نمبر۵: چراغ روشن کرنے کا دوسرا نام دعوت ہے، جس کا اصل مقصد دو مرحلوں میں ہے، اوّل اسلام و ایمان کی طرف بلانا جس طرح ماضیٔ بعید میں ہوا اور دوم روحانیت کے درجاتِ عالیہ اور نورِ معرفت کی طرف بلانا، جیسے بعد کے دور میں یہ  کام ہونے لگا، مگر یہ بہت بڑا منصوبہ علم و حکمت اور ذکر و عبادت کے بغیر ممکن ہی نہ تھا،

 

۲۸

 

پس اس پُرحکمت رسم میں دوقسم کی موثر عبادات ضروری ہوئیں، ایک علمی عبادت اور دوسری عملی عبادت، تاکہ اس کی بجا آوری سے زندوں کو بھی اور مردوں کو بھی ثواب اور اجرِاعظیم حاصل ہو۔

حکمت نمبر ۶: اس دعوت کی غرض سے جو گوسپند ذبح کی جاتی ہے، وہ “دعوتی” کہلاتی ہے، جو قربانی کی طرح حرمت والی قرار پاتی ہے، ایسے جانور کے انتخاب کی ایک ضروری شرط یہ ہے کہ وہ لاغر(دُبلا) نہ ہو، بلکہ اس میں چربی ہو، تاکہ اس کو پگھلا کر تیل سے چراغ کو روشن کیا جاسکے، اس کا حکیمانہ اشارہ یہ ہے: جو مومنین عقیدہ، عبادت اور حقیقی علم میں کمزور ہیں، وہ مرتبۂ روحانیت کی گوسفندِ دعوت (دَعوَتی = قربانی) نہیں ہوسکتے، کیونکہ ان میں ہنوز ترقی و کمالیت کا وہ جوہر پیدا نہیں ہوا، جس سے نورانیت کا چراغ روشن ہو جاتا ہے، جس کی مثال چربی سے دی گئی ہے۔

حکمت نمبر۷: حضرتِ امام جعفرالصّادق علیہ السّلام کا یہ ارشادِ مبارک ایک عظیم نورانی خزانے کی حیثیت رکھتا ہے، جس کے عرفانی جواہر گرانمایہ اور انمول ہیں، وہ ارشاد یہ ہے، ماقیل فی اللہ فھوفینا،وماقیل فینا فھوفی البلغاء من شیعتنا: جو کچھ خدا کے بارے میں کہا گیا ہے وہ (تاویلاً) ہمارے بارے میں ہے، اور جو کچھ ہمارے

 

۲۹

 

بارے میں کہا گیا ہے وہ (تاویلاً) ہمارے دوستوں میں سے ان کے لئے ہے جو پہنچے ہوئے ہیں، اس کلیدی حکمت سے خزانے کھل سکتے ہیں، اور چراغِ روشن کی مثال میں بھی ایک خزانہ پوشیدہ ہے، یہاں یہ نکتہ دلپذیر یاد رہے کہ جس جگہ کوئی خزینۂ دفینہ ہوتا ہے، وہ جگہ اکثر دیدۂ ظاہر بین کے سامنے حقیر نظر آتی ہے۔

حکمت نمبر۸: حضرتِ امام جعفرالصّادق علیہ السّلام سے آیۂ مصباح یعنی اللَّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۔۔۔۔ کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: ھو مثل ضربہ اللہ لنا فالنبی و الأئمّۃ صلوات اللہ علیہم من دلالات اللہ و آیاتہ التی یھتدی بھا الی التوحید۔۔۔ وہ ایک مثل ہے جسے خدا نے ہمارے حق میں بیان فرمائی ہے، پس نبی اور أئمّہ صلوات اللہ علیہم خدا کی طرف سے وہ  رہنما اور معجزات ہیں جن کے توسط سے وہ توحید کی طرف لے جاتا ہے۔۔۔۔ (المیزان، جلد۱۵، ص۱۴۱)۔

حکمت نمبر۹: اس مضمون میں جو نقشہ ہے، اس کو غور سے دیکھ لیں، وہاں آیۂ مصباح، سورج اور عقل ایک دوسرے کے سامنے ہیں، جس کی وہاں توجیہ کی گئی ہے، یہاں ایک اور وجہ بیان کی جاتی ہے کہ لفظِ ’’مصباح‘ ‘ گرامر(GRAMMAR)  میں “صبح”

 

۳۰

 

سے اسمِ آلہ ہے، یعنی مصباح وہ چیز ہے جس سے صبح بنائی جاتی ہے، اور وہ سورج ہے، مگر یہاں عالمِ شخصی کا سورج مراد ہے، جو انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے بعد صفِ اوّل کے مومنین میں بھی طلوع ہوجاتا ہے، تاہم یہ بات خوب یاد رکھو کہ روحانیت کے آغاز میں جس روشنی کا مشاہدہ ہوتا ہے، وہ نہ تو سورج کی ہے اور نہ ہی چاند کی، صرف اور صرف ستاروں ہی کی روشنی ہے، پھر بھی اس کی رعنائی اور دلکشی ایسی زبردست مسحورکن ہے کہ بہت سے لوگ ان روشنیوں کو تجلّیاتِ الٰہی سمجھ کر گمراہ ہوجاتے ہیں  (۶۷: ۵ ،۷۲: ۸، ۳۷: ۶ تا ۷)۔

حکمت نمبر۱۰: ان نجوم، کواکب اور مصابیح (چراغوں) میں بہت بڑا امتحان ہوا کرتا ہے، کیونکہ یہاں بڑی گمراہی بھی ہے اورکامیاب ہدایت بھی، اس کے بعد چاند کی روشنی آتی ہے، اور آخر میں مرتبۂ ازل پر آفتابِ نورِعقل طلوع ہوجاتا ہے(۰۶: ۷۵ تا ۷۹) تب عالمِ شخصی میں صبحِ ازل اور شامِ ابد ہوجاتی ہے، اور دونوں کے درمیان صرف چند ہی سیکنڈ لگتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مقام پردستِ قدرت ہر وسیع اور پھیلی ہوئی چیز کو لپیٹ کر محدود کرلیتا ہے، جیسا کہ خداوندِعالم کا ارشاد ہے: وَکُلُّ شَیْءٍ عِندَہُ بِمِقْدَاراور ہر چیز اس کے پاس ایک مقدار میں ہے (۱۳: ۸) یہ ہے مِصباح (چراغِ

 

۳۱

 

روشن) جو ہمیشہ مرتبۂ ازل پر خورشیدِ عقل کی صورت میں طلوع وغروب ہوتا رہتا ہے۔

حکمت نمبر۱۱: اب اس ضروری سوال کا جواب بھی دینا ہوگا کہ مومن کی موت سے چراغِ روشن کا کیا تعلق ہے؟ آیا نجاتِ روحانی صرف اسی میں ہے کہ چراغ جلایا جائے؟ یا اس میں کوئی اور راز ہے؟ اگر چہ قبلاً اس قسم کے مسائل کے جوابات خود بخود آچکے ہیں، تاہم مزید گزارش ہے کہ جب رسمِ چراغِ روشن آیۂ مصباح کی مثال اور تاویل ہے تو اس سے حکمت اور معرفت کی بہت سی باتیں بتانا مقصود ہیں، ان میں ایک خاص بات یہ ہے کہ مومن اگرچہ جسماً مرجاتا ہے، لیکن روحاً نہیں مرتا، وہ جسمِ کثیف کو چھوڑ کر جسمِ لطیف کا بہشتی لباس پہن لیتاہے، پہلے تاریک تھا، اب وہ روشن ہوجاتا ہے، ساکن سے متحرّک، محدود سے وسیع ، اورپست سے بلند ہوجاتا ہے، یہ سارے اشارے چراغِ روشن کے عمل میں موجود ہیں، جیسے چراغ جلانا اِنبعاث کی طرح ہے، روغنِ کثیف سے شعلۂ لطیف بن جاتا ہے، تاریک ماحول روشن ہوجاتا ہے، تیل کا روشنی بن کر حرکت کرنا، اور پھیل کر وسیع ہوجانا، اور شعلۂ چراغ کا بلندی کی طرف جانا۔

حکمت نمبر۱۲: اہلِ ایمان کے باطن میں جو خدائی چراغ روشن ہو

 

۳۲

 

سکتا ہے، اس کے بارے میں حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے کئی مواقع پر حکیمانہ انداز میں ذکر فرمایا ہے، جیسے آپ کا ارشاد ہے: اسلام کے نزدیک ایک صحت مند انسانی جسم ایک ایسا عبادت خانہ (معبد TEMPLE=) ہے، جس میں روحِ قدسی کا شعلہ فروزان رہتا ہے۔۔ پھر امامِ عالیمقامؑ نورانی چنگاری(SPARK)  کی اہمیت وترقی پر زور دیتے ہیں، مولائے پاک کا ایک بابرکت فرمان یہ بھی ہے: آپ کی روح کے چراغ میں تیل کا ذخیرہ ہے، لیکن اگر آپ اس کو دیا سلائی سے نہیں سلگائیں گے تو روشنی کیسے ہوگی؟ آپ باقی ماندہ زندگی کو بے فائدہ اور بے خبری میں کتنے عرصے تک گنواتے رہیں گے؟ آپ باطنی علم سے آگاہ ہوجائیں۔

امامِ اقدس و اطہرؑ کے ایک خصوصی فرمان میں بھی بے حد دلنشین انداز میں روحانی اور عقلانی چراغ کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور اس کو روشن کرنے سے متعلق تمام ضروری ہدایت دی گئی ہیں۔

حکمت نمبر۱۳: چراغِ روشن اس امرواقعی کی علامت ودلالت ہے کہ ہر مومن زندہ شہید ہے، اور ایسے شہیدوں کے لئے دنیا میں بھی اور عقبیٰ میں بھی اجراور نور ہے۔ آیۂ کریمہ قرآن پاک (۵۷: ۱۹) میں پڑھ لیں، اور حدیثِ شریف یہ ہے: کُلُّ مومنٍ شھید: یعنی ہر مومن

 

۳۳

 

شہید کا درجہ رکھتا ہے۔

حکمت نمبر۱۴: چراغِ روشن ایک مادّی روشنی ہے، جو نورِ ہدایت (امامِ زمانؑ) کی مثال بھی ہے اور گواہی بھی، چنانچہ جب چراغ جلایا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ مومنین امامِ برحق وحاضر کو برحق مانتے ہیں، اور گواہی دیتے ہیں کہ یہی مولا مظہرِ نورِ الہٰی، نورِ نبیؐ، اور نورِ علیؑ ہیں۔

حکمت نمبر۱۵: خداوندِ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم ’’النّور‘‘ ہے، اورخدا کا یہی نام یعنی نور آیۂ مصباح میں آیا ہے، جیسے: اللَّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْض۔ اور اللہ تعالیٰ کے اسماءُ الحُسنٰی آنحضرتؐ اور أئمّہ طاہرینؑ ہیں، جیسا کہ مولاعلی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: انا اسمآءُ الحُسنٰی وامثالہ العُلیا و ایاتہ الکُبریٰ: میں اس کے اسماءِ حُسنیٰ اور امثالِ عُلیا اور اس کی آیاتِ کبریٰ ہوں۔ یعنی خدا کے بزرگ نام زندہ اور گویندہ ہیں (۰۷: ۱۸۰) اسی طرح اس کی اعلیٰ مثالیں (۳۰: ۲۷) اور بہت بڑے معجزات بھی زندہ ہیں (۵۳: ۱۸)۔

حکمت نمبر۱۶: چراغِ روشن، جس میں آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) اور آیۂ سراجِ مُنیر(۳۳: ۴۶) کا یکجا ذکرِ جمیل موجود ہے، وہ کتابِ روح و روحانیت اور نور و نورانیت کی مثال پر قائم ہے، اس لئے

 

۳۴

 

چراغِ روشن گویا ایک حکمت آگین کتاب ہے، جس کا سب سے بڑا مقصد نور کی معرفت ہے، چنانچہ نور کی تین نسبتوں کا قبلاً ذکر ہوچکا، اب ہم یہاں چوتھی نسبت کا تذکرہ کرتے ہیں کہ نور خدا، رسولؐ، اور امامؑ کے بعد مومنین و مومنات کا بھی ہے، جیسے سورۂ حدید (۵۷: ۱۲ تا ۱۳، ۵۷: ۱۹، ۵۷: ۲۸) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۸) میں ہے، اس بات کی شاندار تصدیق حضرتِ امام جعفرالصّادق علیہ السّلام کے ارشاد سے بھی ہوتی ہے، آپ نے فرمایا: فالمومن یتقلّب فی خمسۃ من النّور مدخلہ نور، و مخرجہ نور، و علمہ نور، وکلامہ نور و مصیرہ الی الجنّۃ نور = پس مومن پانچ مقام پر نور سے بہرہ اندوز ہوتا رہتا ہے: اس کے داخل ہونے کی جگہ نور ہے، اس کے نکلنے کی جگہ نور ہے: اس کا علم نور ہے، اس کا کلام نور ہے، اور اس کا جنّت کی طرف لوٹ جانا نور ہے۔ (المیزان،جلد۱۵،ص۱۴۰)۔

حکمت نمبر۱۷: جب کوئی مومنِ سالک جسمانی موت سے پہلے ہی علم و عمل سے امامِ زمانؑ میں فنا ہو جاتا ہے تو اس معنی میں وہ فنا فی الرسولؐ، اور فنافی اللہ بھی ہوچکا ہوتا ہے، ایسے میں خدا اور رسولؐ اور امام کا نورِ واحد اس کا نور ہوجاتا ہے، یعنی اس پر یہ سرِّعظیم منکشف ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی انائے علوی میں نورِ مطلق سے

 

۳۵

 

واصل رہا ہے، اور کبھی جُدا ہی نہیں ہوا، کیونکہ نور ایک ہی ہے، مگر آئینوں کی وجہ سے کثرت نظر آتی ہے، جیسے سورج کے لئے چاند اور بے شمار ستارے گویا آئینے یا مظاہر ہیں، پس ان کے اجرام میں فصل (جدائی) تو ہے، لیکن روشنی میں فصل نہیں، وصل ہی وصل ہے پھر بھی یہ چیزیں مادّی ہیں، اس لئے حقیقت کی کُلّی ترجمانی مشکل ہے۔

حکمت نمبر۱۸: عالمِ کثرت (دُنیا) میں آفتاب، ماہتاب اور بے حساب ستارے سب کے سب الگ الگ اور منتشر ہیں، جبکہ عالمِ وحدت کا قانون اس سے بالکل مختلف ہے، اس میں ایک ہی نور ہے، جو شمس و قمر اور نجوم سب کا کام کر رہا ہے، وہی مِصباح ومصابیح اور سِراجِ مُنیر بھی ہے، کیونکہ خدائے بزرگ و برتر کا یہ معجزۂ اکبر بڑا قیامت خیز ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی خدائی میں قبض و بسط کا کام کرتا رہتا ہے (۰۲: ۲۴۵) یعنی عالمِ کثرت کو دستِ قدرت میں لپیٹ کر عالمِ وحدت بنا لیتا ہے، حالانکہ یہ دونوں اپنی اپنی جگہ قائم بھی ہیں، پس اگر ہم یہاں یہ کہیں کہ عالمِ وحدت یا عالمِ لطیف یک حقیقت (MONOREALITY) ہے تو ان شاء اللہ یہ بات غلط نہ ہوگی۔

 

۳۶

 

حکمت نمبر۱۹: آپ کو اس حکمتِ خداوندی میں بجا طور پر غور و فکر کرنا ضروری ہے کہ قرآنِ حکیم میں نورِالٰہی کی مثل روشن چراغ (مصباح۲۴: ۳۵) ہے، اور نورِنبیؐ کی مثل بھی روشن چراغ (سِراجِ مُنیر۳۳: ۴۶) ہے، اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ اس چراغِ ہدایت کو اہلِ انکار نہیں بجھاسکتے ہیں (۹: ۳۲،۶۱: ۸) تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ بحقیقت عالمِ باطن میں دو نہیں ایک ہی روشن چراغ کافی ہے، کیونکہ جب خدا خود ہی اپنی کتابِ عزیز میں لفظِ “مُنیر” کو  اعلیٰ معنوں میں استعمال کرتا ہے (نورِازل = نورِعقلِ کُلّی = کتابِ مُنیر ۳: ۱۸۴،۲۲: ۸،۳۱: ۲۰،۳۵: ۲۵، عرش وکرسی = قلم ولوح: سِراجاً (وھّاجًا۷۸: ۱۳) قمراًمنیراً۲۵: ۶۱) تو اسی نورِ واحد میں عالمِ وحدت کی جملہ خوبیاں جمع ہوجاتی ہیں، اور امامِ حیّ و حاضرؑ کی پاک و پاکیزہ ہستی بمرتبۂ جانشینِ رسولؐ اسی نورِمطلق کی حامل ہے جس کا نام روشن چراغ ہے۔

حکمت نمبر۲۰: اگر کوئی عزیز مجھ سے یہ سوال کرے کہ جن اسمٰعیلی جماعتوں میں چراغِ روشن کا رواج نہیں ہے، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آیا وہ اس نعمتِ عُظمٰی سے محروم ہیں؟ یا اس جیسی نعمتیں ان کے پاس بھی ہیں؟ میں جواباً عرض کروں گا کہ دنیا میں

 

۳۷

 

امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کی کوئی ایسی جماعت موجود نہیں، جس کو کوئی خاص دینی نعمت حاصل نہ ہو، میں نے دُنیا کی کئی جماعتوں میں جاکر دیکھا اور جن ممالک میں نہیں جاسکا، ان کے بارے میں سُنا کہ مولا کے مرید دنیا کے جس حصّے میں بھی ہوں، ان کے پاس امامِ زمانؑ کی محبت اور وابستگی کے لئے کوئی نہ کوئی رسم ہوتی ہے، جس سے ان کو اعتقادی طور پر بڑا فائدہ ملتا ہے۔

حکمت نمبر۲۱: قانونِ فطرت اور فعلِ قدرت لوگوں کے ساتھ ساتھ ہے، جب کہ خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اور وہ آدمی کی شہِ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے(۵۰: ۱۶) تو پھر اس میں کیا راز پہنان ہے جو فرمایا گیا کہ خدا نے پیغمبروں کو بھیجا (اَرسَلَ)؟ کتابیں نازل کی گئیں؟ روح بھیجی گئی (۱۹: ۱۷)؟ اور اس نے نور نازل کیا (۰۴: ۱۷۴) آیا اس قسم کے خطابات میں مکانی دوری اور بلندی کا تصوّر موجود نہیں ہے؟ جواب: یہ مثالیں اور حجابات ہیں، اور ان کے ممثولات و محجوبات بڑے عجیب و غریب ہیں، چنانچہ قرآنِ حکیم میں عوام کو سمجھانے کی خاطر فرمایا گیا: اَرسَلَ، اور یہی مثال حقیقت پر حجاب بھی ہے، پس اس کا ممثول و محجوب ہے: بَعَثَ (۰۲: ۲۱۳) جس کے معنی ہیں: زندہ کیا، اور تاویل ہے: کاملین کو جیتے جی مقامِ روح پر بھی اور مرتبۂ عقل پر بھی موت و

 

۳۸

 

حیات کا مکمل عملی تجربہ کرانا، تاکہ ان کو ہرگونہ علم و معرفت حاصل ہو، اب ایسے میں خاصانِ الہیٰ کو ہر نعمت دست بدست سامنے سے دی جاتی ہے، بھیجی نہیں جاتی، اور نہ ہی نازل ہوتی ہے، تاہم مکانی اور جغرافیائی اعتبار سے نہیں، بلکہ روحانی اور شرفی لحاظ سے دوری و نزدیکی یا پستی و بلندی بھی ہے۔

تاریخی نوٹ نمبر۱: اس دفعہ سفرِ مغرب کے بعد یارقند (چین) جانے کا ارادہ مُصمم ہوا، اور ۳ ستمبر۱۹۹۲ کو گلگت سے روانہ ہوکر سوست پہنچ گیا، دوسرے دن یعنی ۴ ستمبر کو کاشغر گیا، اور پانچ تاریخ کو یارقند، جہاں زرافشان میں میرا فرزندِ عزیز سیف سلمان خان اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہے، یارقند اور کاشغر میں تقریباً ۲۲ دن رہنے کے بعد واپسی ہوسکی، پروردگارِعالم کے فضل و کرم سے سفر بہت کامیاب ہوا، ہر چند کہ طوفانی بارش کی وجہ سے ہمارے علاقے کا راستہ بڑی حد تک خراب ہوچکا تھا، جس کے سبب سے بہت کچھ تکلیف ہوئی، لیکن کامیابی کے بعد تکلیف کہاں یاد رہ کر ستاتی ہے؟

نوٹ نمبر۲: خدا کی قدرت انتہائی نرالی شیٔ ہوا کرتی ہے، چنانچہ نہ تنہا مجھے بلکہ بہت سے لوگوں کو بھی اس واقعہ سے بڑا تعجب ہوا کہ میرے بڑے بھائی سہرابی خان (جن کی عمر تقریباً ۹۷ برس کی تھی جو عرصے

 

۳۹

 

سے علیل تھے) ملاقات اور مختصر سی بات چیت کے بعد ہی رات کے وقت انتقال کر گئے، ایسا لگا ، جیسے اس میں خداوندِ عالم کی کوئی حکمت ہو، پھر ہم نے اپنی سی حقیر کوشش کی، تاکہ ان بے شمارلوگوں کوجو سات دن تک مسلسل آتے رہے، کچھ نہ کچھ علم کی باتیں بتائیں، ہمارے علاقے کا رواج بھی یہی ہے کہ اگر ایسی محفل میں کوئی عالم شخص ہو، تو اس کی باتوں سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں، خداوندِ قدوس کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ برادرِ بزرگ کی روح کے حق میں بہت سے مومنین و مومنات کی پُرخلوص دعاؤں کے علاوہ علمی گفتگو کا کارِ خیر بھی ہوا۔

نوٹ نمبر ۳: گلگت ہمارے علاقہ جات کا چھوٹا سا شہر اور مرکز ہے میں ۶اکتوبر ۱۹۹۲ کو گلگت آیا، یہاں عظیم اور عزیز دوستوں کی ملاقاتوں کی ایک تازہ بہار کی آمدآمد تھی، احباب بار بار پوچھے تھے کہ ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی، رشیدہ نور محمّد ہونزائی، اور مسٹر ظہیر لالانی کب تشریف لاتے ہیں؟ ان کی اور دوسرے احباب و رفقاء کی ملاقات کی حلاوت اس وقت نقطۂ وعروج پر پہنچ جاتی تھی، جب کہ ہم سب کسی روحانی مجلس میں جمع ہوتے تھے، چنانچہ چند بابرکت گھروں میں نورِ امامت کے بہت سے پروانوں کے ساتھ علم و ذکر کی محفلیں ہوئیں، جن میں ہر عاشقِ مولا مست و بیخود نظر آتا تھا، جیسے چیف ایڈوائزر

 

۴۰

 

غلام قادر صاحب، صدر سلطان اسحاق صاحب، صوبیدار میجرعبدالحکیم صاحب، اور رسیئردلدار صاحب، محبوب صاحب، الف خان صاحب، اور میں نے سنا کہ علی آباد میں ڈاکڑ اسلم صاحب کے گھر میں بھی سب پر  یہ کیفیّت گذری۔

نوٹ نمبر۴: میں حیرت زدہ اور مبہوت ہوں کہ کس  ملک کے عزیزوں کا ذکرِ جمیل کروں! حالانکہ یہ بات ایک طرح سے آسان بھی ہے کہ ہم ایک میں سب کے قانون کو مانتے ہیں، تاہم باطن سے قبل ظاہر کے بہت سے مراحل آتے ہیں، لہٰذا کسی وجہ یا بہانے سے دوستانِ حمیم کا کچھ تذکرۂ شیرین ہونا چاہئے، چنانچہ حسنِ اتفاق سے جب اس دلپسند مقالہ کی حکمتیں ۲۱ ہوگیئں، تو مجھے شکاگو (امریکہ) کا ایک خوشگوار وقعہ یاد آیا، وہ یہ ہے: ۔

 

میں ان دنوں عزیزانم حسن کامڑیا اور کریمہ حسن کے گھر آیا ہوا تھا، میرے دوسرے عزیزوں میں سے ایڈوائزر اکبر اے علی بھائی اور انکی بیگم شمسہ اے علی بھائی ملاقات کے لئے آئے، اور انہوں نے اکیس(۲۱) قسم کے پھلوں کا دسترخوان بچھادیا، میں نے کہا کہ اتنے سارے  پھل کیوں؟ کہنے لگے کہ آپ میں جو ریسرچ اور ہر چیزکو جاننے کا ذوق ہے اس کی تسکین کی خاطر، پھر میں نے شمسہ بیٹی سے کہاں کہ پلیز، آپ ان

 

۴۱

 

پھلوں کی لسٹ بنادیں، تو انہوں نے ۲۱ میوؤں کو انگریزی میں لکھ کر دیا، جو اب تک میرے پاس محفوظ ہے، اور اس کی تاریخ ہے،۱۹،جولائی ۱۹۹۲ء۔

نوٹ نمبر۵: علم کی اس مقدّس خدمت کے سلسلے میں جن جن عزیزوں کی جیسی قابل قدر شرکت ہے، اس کے باب میں ہم چند حقیر الفاظ لکھیں یا نہ لکھیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ خدائے علیم وحکیم کی طرف سے جو حافظین/ کراماً کاتبین مقرر ہیں، (۸۲: ۱۰ تا ۱۱) وہ تو کسی فروگذاشت کے بغیر ہر چیز کو لکھتے ہیں، لیکن قرآنِ پاک میں جس تاویل کے آنے کی پیش گوئی ہے (۰۷: ۵۳) اس کا سلسلہ جاری ہے، اس لئے ہمیں حافظین: کراماً کاتبین اور نامۂ اعمال کے بارے میں فکرِجدید کے تقاضوں اور روحانیت کے اصولوں کے مطابق سوچنا ہوگا، کیونکہ ہمارا یہ خیال درست نہیں کہ نامۂ اعمال کسی دنیوی کتاب کی طرح مادّیت میں ہوگی، جب کے فرشتوں کی تحریر دنیا کی لِکھت جیسی نہیں ہے، وہ تو اس سے قطعاً مختلف ہے، آپ کو کس طرح سمجھائیں کہ نامۂ اعمال ایسا ہے؟ تاہم ایک چھوٹی سی مثال ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ بتایا جاسکتا ہے، وہ متحرّک فلم (مووی  MOVIE) ہے، لیکن کتابِ

 

۴۲

 

اعمال جو روحانیت کی مووی ہے وہ معزز فرشتوں کی تیار کردہ ہوتی ہے، اس لئے وہ عقل و جان اور علم و حکمت کی خوبیوں سے آراستہ ہوا کرتی ہے، جبکہ دنیا کی فِلم میں نہ تو عقل ہوتی ہے اور نہ جان، پھر بھی وہ اخلاقی، مذہبی اور علمی قسم کی ہوسکتی ہے، تاکہ ہم اس کے پیشِ نظر یہ کہہ سکیں کہ روحانیت یا فرشتوں کی تحریر کچھ ایسی ہوا کرتی ہے۔

نوٹ نمبر۶: خانۂ حکمت ریجنل برانچ گلگت کے صدر سلطان اسحاق صاحب کی پُرخلوص فرمائش پر چراغِ روشن کا یہ مقالہ لکھاگیا۔ ان کا دل امامِ زمانؑ کے نورِ عشق سے معمور اور روشن ہے اور آپ پیاری جماعت کے خیرخواہ اور علم و حکمت کے بڑے قدردان ہیں، اسی وجہ سے ان کے مشورے پر ایسا پُرحکمت مضمون تیار ہوگیا، الحمداللہ! خداوندِعالم کا بہت بڑا احسان ہے،

نصیر حقیر۔ کراچی

۹۲۔۱۲۔۶

 

۴۳

 

حکیم پیر ناصرِخسرو ایک علمی کائنات

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ تو ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ جہانِ ظاہرعالمِ کبیر ہے اور انسان عالمِ صغیر، جیسا کہ پیر ناصرخسرو نے ’’روشنائی نامہ‘‘ میں ارشاد فرمایا:

مراین را عالمِ صُغراش گفتند

مرآن را عالمِ کُبراش گفتند

(ترجمہ) اس یعنی انسان کو عالمِ صغیر کا نام دیا گیا ہے، اور بیرونی جہان عالمِ کبیر یا عالمِ اکبر کہلاتاہے، دیکھئے قاموس القرآن، صفحہ۳۴۴ پر حضرتِ امام جعفرالصّادق علیہ السّلام کے حوالے سے لفظِ عالم اور عالمین کی تفسیر، تشریح، اورحقیقت۔

لیکن کیا اس معنٰی میں عوام و خواص بلافرق و امتیاز سب ایک جیسے ہوسکتے ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ امرِواقعی یوں ہے

 

۴۵

 

کہ انسان اگرچہ بحدِّ قوت ایک عالم ہے، تاہم یہ کاملین ہی کی مرتبتِ عُلیا ہے کہ صرف وہی حضرات اپنے آپ کو فِعلاً ایک روحانی اور علمی کائنات پاتے ہیں، اور بس، اور یقیناً یہی وصف بدرجۂ کمال حکیم ناصرِ خسرو کا ہے۔

 

آپ کا ایک عرفانی خزانہ: روشنائی نامہ:

اس مثنوی کا آغاز اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعریف و توصیف سے ہوتا ہے ، اس سلسلے میں پیر صاحب فرماتے ہیں:

ہزاران سال اگر گوُیند و پوُیند

در آخررُخ بخونِ دیدہ شوُیند

(ترجمہ): اگر وہ ہزاروں سال اسی طرح قیل و قال کرتے چلے جائیں، پھر بھی آخرکار وہ (ناکام ہوکر) خون کے آنسوؤں سے اپنا چہرہ دھولیں گے، اس کے بعد فرماتے ہیں:

چُنین گفتند رَو بشناس خود را

طریقِ کفر و دین ونیک و بد را

(ترجمہ): انھوں (یعنی پیغمر اور امام علی علیھماالسّلام) نے یوں ارشاد فرمایا کہ جا تو اپنے آپ کو پہچان لیا کر، تاکہ تو خود شناسی کے ذریعہ کفروایمان اور نیک و بد کی شناخت کرسکے۔ موصوف پیر کا اشارہ ’’اعرفکم بنفسہ اعرفکم بربّہ‘‘ اور ’’من عَرَفَ نفسہ فقدعرف ربّہ‘‘ کی طرف ہے۔ یہاں

 

۴۶

 

معرفت سے متعلق پہلا ارشاد آنحضرت صلعم کا ہے، اور دوسرا ارشاد مولا علیؑ کا، آپ اس کی حکمت پر خوب غور کریں: یعنی جو شخص تم میں سب سے زیادہ خود شناس ہو، وہی تم میں سب سے زیادہ خدا شناس ہے، جس شخص نے اپنے آپ کو پہچان لیا پس تحقیق اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔

اب یہ پوچھنا ضروری ہوا کہ حکیم ناصرِخسرو کے نزدیک انسان کی خودی، یا انا، یا حقیقت کیا ہے؟ یا یوں سوال ہونا چاہیے کہ آیا نفس سے روح مراد ہے؟ روحِ نباتی؟ روحِ حیوانی؟ روحِ انسانی؟ یا روحِ قدسی؟ آیا ایسی کتاب میں کہیں ہمارے  اس اہم ترین سوال کا تسلّی بخش جواب مل سکتا ہے؟ کیوں نہیں، وہ جوابِ باصواب حسبِ ذیل ہے:

۱۔ توئی جانِ سخن کوئی حقیقی

کہ باروح القدس دائم رفیقی

۲۔ بہ چشمِ سر جمالت دیدنی نیست

کسی کودید رُؤیت چشمِ معنیست

۳۔ زجای و از جہت باشی مُنزّہ

ببین تاکیستی انصافِ خود دہ

۴۔ نگر تادرگمان این جا نیفتی

قدم بفشار تا از پا نیفتی

 

۴۷

 

۵۔ صفت ہایت صفت ہای خدائیست

ترا این روشنی زان روشنائیست

۶۔ ہمی بخشد کزوچیزی نکاہد

ترا دادودہد آن را کہ خواہد

۷۔ زنورِ اُو تو ہستی ہمچو پرتَو

وجودِخود بپرداز وتو اوشو

۸۔ حجابت دور دارد گر نجوئی

حجاب ازپیش برداری تو اُوئی

۹۔ اگر دعوٰی کنم واللہ کہ جایست

حقیقت ناصرِ خسرو خدایست

ترجمہ: ۔

۱۔ تو دراصل وہ روح ہے جو حقیقی معنوں میں بولنے والی ہے، کیونکہ تو ہمیشہ روح القدس کی رفاقت میں ہے،

۲۔ تیرے روحانی حسن و جمال کو ظاہری آنکھ دیکھ نہیں سکتی، جس نے یہ دیدار دیکھا ہو وہ تو دیدۂ باطن ہی سے ہے،

۳۔ توبحقیقت مکان و اطراف کی قید سے پاک و برترہے، ایسے میں دیکھ کہ تو کون ہے اور اپنا انصاف خود کرلے۔

۴۔ اچھی طرح دیکھ لے تاکہ یہاں گمان میں نہ پھنس جائے قدم

 

۴۸

 

جما کر چلنا تاکہ تو گر نہ جائے،

۵۔ تیری اصل صفات خداوندِ عالم کی صفات ہیں (بحکمِ حدیثِ شریف: تُخلِّقوا باخلاق اللہ) تجھ کو یہ روشنی اسی روشنی سے حاصل ہے۔

۶۔ خدا تعالیٰ اس طرح نور عطا فرماتا ہے کہ اس سے کوئی شیٔ ہرگز کم نہیں ہوسکتی، تجھے دیا ہے اور جس کو چاہے دے سکتا ہے۔

۷۔ اس کے نور کا تو گویا زندہ عکس(تصویر) ہے، اپنی ہستی سے فارغ(فنا) ہوکر تو ”وہ” ہے۔

۸۔ اگر تو اس کو طلب نہ کرے تو تیرا حجاب تجھ کو اس سے دور رکھے گا، اور جب تو اپنے سامنے سے حجاب (پردہ) ہٹائے تو یقین ہوگا کہ تو” وہ” ہے۔

۹۔ اگر میں دعوٰی کروں تو خدا کی قسم بر محل ہے کہ حقیقت میں ناصرِ خسرو فنافی اللہ و بقا بااللہ کا ایک نمونہ ہے۔

ترکِ تقلید۔ دعوتِ فکر و تحقیق اور تاویل:

حضرتِ پیر فکرو تحقیق اور تاویل کی طرف پرزور دعوت دیتے  ہوئے تقلید کی مذمّت کرتے ہیں، جیسا کہ سورۂ محمد (۴۷: ۲۴) میں ہے: أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَی قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا = تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے

 

۴۹

 

(لگے ہوئے) ہیں، چنانچہ شاہ ناصر کا قول ہے:

سراسر پُر زتَمثالست تنزیل

تو زو تفسیر خواند ستی نہ تاویل

قرآن کا ظاہر (تنزیل) شروع سے لے کر آخر تک تمثیلات و تشبیہات سے پُر ہے، تو نے اس کی تفسیر پڑھی ہے، لیکن تاویل سے بے خبر ہے۔

 

خزانۂ دوم: خوانُ الأخوان:

یعنی برادرانِ دوستانِ کرام کے لئے علم و حکمت کی گوناگون نعمتوں کا دائمی دسترخوان، جس کی روحانی اور عقلی لذّتیں کبھی کم نہیں ہوسکتیں، جبکہ ہر مادّی نعمت یا تو ختم ہو جاتی ہے یا شکم سیری کی وجہ سے پھیکی ہونے لگتی ہے، لیکن علمی نعمت کا مزہ عقلی ارتقاء کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ بہشتِ روحانیتِ کی لافانی حلاوتوں کو چھونے لگتا ہے۔

دسترخوان کی مناسبت سے یہ بات یاد آگئی کہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کا ایک عظیم معجزہ یہ ہے کہ آپؑ کی درخواست پر خدائے بزرگ و برتر نے حواریوں کے  لئے مائدہ علمِ روحانی(۰۵: ۱۱۴) نازل فرمایا، جس کا بہت  بڑا  رازِ روحانیت اس طرح ہے: ۔۔۔۔۔ تَکُونُ لَنَا عِیْداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا (تا کہ یہ ہمارے اوّلین و آخرین کے

 

۵۰

 

حق میں عیدِ سعید ثابت ہو) یعنی اس میں اللہ کے اس لطفِ عمیم کا مظاہرہ ہوجائے، جو ہر زمانے میں حدودِ دین پر محیط ہے۔

نمو نٔہ نعمت از خوانِ نعمت:

علم و حکمت کے اس وسیع و عریض دسترخوان کی انتہائی شیرین و خوشگوار نعمتوں کی رعنائی اور دلکشی کا کیا کہنا، جس پر سو۱۰۰ صفوں میں قطار درقطار بہشتی غذائیں چُنی گئی ہیں، میں عالمِ حیرت میں دماغ پر زور دے دے کر سوچتا رہا کہ اس گنجِ گرانمایہ سے کس دُرِّ شہوار کو برائے نمونہ منتخب کروں، درحالے کہ یہاں علم و معرفت کا ہر موتی انمول اور تابناک ہے! پس میں نے تھوڑی دیر کے لیے کتابِ ہذا بند کرلی، اور نیّت کرکے دوبارہ کھولی، تو اس حال میں ص۷۹ پر”صفِ بیست۲۴وچہارم” کا عنوان میرے سامنے آیا، جس کے تحت ہمارے عظیم المرتبت اور نامور حکیم پیر نے اپنے مخصوص اندازِ تحریرمیں اسمِ بزرگِ ”اللہ” کی دلنشین تاویل بیان کی ہے، پیر فرماتے ہیں کہ: ۔

جان لو کہ یہ چار حروف (ال ل ہ) جو اس بزرگ اسم (اللہ) میں ہیں، وہ چار اصول کی دلیل ہیں، جن میں سے دو روحانی اور دو جسمانی ہیں، کیونکہ تمام روحانی اور جسمانی مخلوق کا قیام انہی کے نظام پر ہے، جیسے مقرّب فرشتوں اور نیک بندوں کی مثال سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے، چنانچہ ان حروف میں سے ہر حرف دونوں جہان کی خوبیوں کا

 

۵۱

 

سرچشمہ ہے، جیسے” الف” کہ وہ عقلِ کلّ کے مقابل ہے، جو سرچشمۂ تائید ہے، اسم ”اللہ” سے” لام” جو نفسِ کلّ کے مقابل ہے، جو ترکیب (تخلیق) کا سرچشمہ ہے، دوسرا لام جو ناطق کے مقابل ہے، جو تالیف (جمع آوری) کا سرچشمہ ہے، اور”ھا” کہ وہ مقابلِ اساس ہے، جو بیان وتاویل کا سرچشمہ ہے، پس خدا کے اس نام کے حروف برابر ہیں دونوں عالم کی خیر و خوبی کے سرچشموں کے ساتھ، (یعنی عقلِ کلّ / قلم، نفسِ کلّ / لوح، ناطق اور اساس)۔

 

خزانۂ سوم: گشائش و رہائش:

اس پُرحکمت رسالے میں حضرتِ پیر نے تیس۳۰ انتہائی پیچیدہ مسائل کے حکیمانہ جوابات مہیّا کردیئے ہیں، ان اُلجھے ہوئے اور شکوک و شبہات بھرے ہوئے سوالات کو زمانے میں سوائے حکیم ناصرخسرو کے اور کوئی حل نہیں کرسکتا تھا، لہٰذا آپ ہی نے یہ کام اپنے ذمّہ لیا، اور حجّتِ امامؑ کی مرتبتِ عالیہ میں ہر بیان اور جملے سے علمِ روحانی کے جواہر بکھیر دیئے، لیکن مجھے بڑا افسوس ہے کہ ایسی عزیز و عالیشان کتاب کے متن میں چند مقامات پر کُورانہ تقلید و تعصّب کی وجہ سے مخالفانہ جملے اس طرح داخل کردیئے ہیں کہ ان کی شناخت طالب علموں کے لئے مشکل ہوگئی ہے، کیونکہ ایسی باتیں فٹ نوٹ، حاشیہ، یا بریکٹ میں نہیں ہیں، تاہم اس پیاری کتاب کا وہ اردو ترجمہ جو

 

۵۲

 

اسماعیلیہ طریقہ بورڈ میں محفوظ ہے، مذکورہ آلائش سے پاک ہے، کیونکہ جب محترم دوست جون ایلیا صاحب “گشائش ورہائش”  کا ترجمہ کر رہے تھے، تو اس دوران یہ خاکسار ان داغوں کی نشاندہی کرتا تھا۔

بطورِ نمونہ: سولھواں مسئلہ:

اے برادر تم نے یہ پوچھا ہے کہ ”عالَم ” کیا ہے؟ اور جس شَیٔ کو عالَم کہتے ہیں، وہ کیا ہے؟ اسے عالَم کیوں کہا گیا؟ اور عالَم کتنے ہیں؟ بیان کرو، تا کہ ہمیں اس کی معرفت حاصل ہو۔

جواب: اے بھائی! جاننا چاہیے کہ ”عالَم” علم سے مشتق ہے، اس لئے کہ عالَمِ جسمانی کے اجزاء میں علم کے آثار نمایان ہیں، ہم کہتے ہیں کہ عالَم کی نہاد و بنیاد بطورِ خود ایک حکمت اور تمامتر حکمت ہے، مثلاً عناصرِاربعہ کا اجتماع، جن میں سے ہر ایک عنصر ایک اعتبار سے دوسرے کے موافق ہے، اور ایک اعتبار سے مخالف، جیسے آگ اور ہوا کہ یہ دونوں گرمی کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مُتحد ہیں اور خشکی اور تری کے  اعتبار سے مخالف اور جُدا، اسی طرح ہوا اور پانی تری کے اعتبار سے ایک دوسرے سے متحد ہیں، مگر گرمی و سردی کے اعتبار سے  جُدا، یہی صورت پانی اور مٹی کی ہے کہ یہ دونوں سردی کے اعتبار سے مُتحد ہیں، اور خشکی کے اعتبار سے جُدا،

 

۵۳

 

اسی طرح مٹی اور آگ خشکی کے اعتبار سے آپس میں مُتّحد ہیں اور سردی و گرمی کے اعتبار سے جُدا۔۔۔۔۔۔۔۔

 

خزانۂ چہارم: رسالۂ حکمتی:

ہر چند کہ یہ رسالہ صرف ۲۰ صفحات پر مشتمل ہے، لیکن یہ حجّتِ امامؑ کے تائیدی علم کی دولت سے مالامال ہے، اس لئے اہلِ دانش کے نزدیک یہ علمی کرامات کا مجموعہ ہے، اگر چہ ظاہری دریا کُوزے میں بند نہیں کیا جاسکتا، لیکن شاہ ناصر نے خدا کے فضل و کرم سے ہر بار دریائے علم و حکمت کو کوزے میں بند کردیا ہے، یہی سبب ہے کہ دنیائے علم و ادب میں آپ کی گرانمایہ کتابوں کا چرچا ہوتا رہا، جن پر بڑے شوق سے ریسرچ (تحقیق) کرتے ہوئے بہت سے محقّقین اپنی عمریں صرف کر رہے ہیں، ہمیں دیکھنا اور سوچنا ہوگا موصوف حکیم کی طرف ایک دنیا کیوں مائل نظر آرہی ہے؟ آخر اس میں کوئی بڑا راز ہوگا، ہاں، وہ عظیم راز سید شاہ ناصر کا “علمِ لدنّی”  ہے اور یہ آپ کے علمی ذخائر میں آج بھی درخشان و تابان موجود ہے۔

رسالۂ حکمت کے جواہر پارے:

رسالۂ ہذا چوٹی کے ۹۱ أسئِلہ کے جواب میں ہے، وہ سوالاتِ حذف شدہ فلسفی، منطقی، طبعی، نحوی، دینی، اور تاویلی ہیں، چنانچہ

 

۵۴

 

حکیمِ نامور سب سے پہلے ”دَھر” سے  بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دہر ارواحِ مجرّد کی بقائے مطلق کا نام ہے، جس کا تعلق ان موجودہ جسموں سے نہیں، دہر میں بگاڑ اور فنا کی کوئی گنجائش نہیں، نیزکہتے ہیں کہ دہر ایک ایسا زندہ وجود ہے جو اپنی ذات کو قائم رکھتا ہے، یعنی جس کی حیات اپنی ذات سے ہو وہ نہیں مرتا ہے ، اور جو چیز نہیں مرتی ہے، اس کی بقا خود دہر ہی ہے ، اور کہتے ہیں کہ دہر(ساکن ہے، یعنی اٹل، جس) سے زمان گردش کرتا ہے، ۔۔۔۔۔

 

خزانۂ پنجم: سفر نامہ:

دنیائے علم و ادب کے بڑے نامی وگرامی علماء، فُضلاء، ادباء، شُعراء، ڈاکٹرز، اور ریسرچ سکالرز نے جس شان سے حکیم ناصر خسرو کی پُرمغزو پُرمایہ کتابوں کی تعریف و توصیف فرمائی ہے، اورجیسے مرقوماتِ زرّین کی جگمگاہٹ ہے، اس کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں، اور شدید خجالت و شرمساری کا احساس ہوتا ہے، اور اس بندۂ ناچیز کا دل کہتا ہے کہ کاش! اے کاش، ہم بھی ایسی سنہری تحریروں سے ان عالیقدر کتب کا تعارف کراسکتے! جبکہ ہم بجاطور پر علمِ امامت کے دلدادہ عاشق ہیں، جو ہم کو اپنے حجّتوں اور پیروں کے توسط سے ملاہے، کیونکہ بحکمِ قرآن و حدیث مومینن کے روحانی ماں باپ ہوا کرتے ہیں۔

 

۵۵

 

سفرنامہ کا ایک کمال:

سلسلۂ مطبوعاتِ انجِمن ترقّیٔ اردو(ہند)نمبر۱۳۷۔ سفرنامۂ (حکیم) ناصرِخسرو۔ مترجمۂ: مولوی محمّدعبدالرّزاق، کانپوری۔ شائع کردہ: انجمنِ ترقّی اردو،(ہند)، دہلی۱۹۴۱ء

۱۔ تمہید: ۱۳۱۶ھ ۱۸۹۸ء میں دہلی جانے کا اتفاق ہوا، زمانۂ طالبِ علمی سے شمس العُلمَاء خان بہادر ذکاءُ اللہ دہلوی سے شَرفِ نیاز حاصل تھا، لہٰذا سلام و مزاج پرسی کے لئے مولانا کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔

اثنائے گفتگو میں عربوں کی سیروسیاحت کا تذکرہ شروع ہوگیا، اس کے بعد سیاّحانِ عجم کی باری آئی، تو شمس العُلَماء نے سفر نامہ فارسی حکیم ناصر خسرو کا ذکر کیا، اور یہ بھی ارشاد ہوا کہ ”خواجہ الطاف حسین حالی نے چند سال ہوئے کہ یہ سفر نامہ مع مقدمہ شائع کیا ہے تم اس کو ضرور پڑھو۔”

مولانا سے رخصت ہوکر دریبہ (دہلی کا مشہور بازار) کی سَیر کی اور مشہور کتاب خانوں کو دیکھا تو حسنِ اتفاق سے سفر نامہ مذکور جو۱۳۰۰ھ ۱۸۸۲ء میں شائع ہوا تھا مل گیا، یہ نادرالوجود سفرنامہ نواب ضیاء الدّین احمد خان بہادر، رئیسِ لوہارو کے قلمی نسخے

 

۵۶

 

کی نقل تھا، میں نے یہ سیاحت نامہ دورانِ سفر(ازدہلی اسٹیشن تا کانپور) میں پڑھا اور پڑھ کر بے انتہا مسرّت ہوئی، کیونکہ نہ صرف ادبی حیثیت بلکہ وقایعِ سیاحت اور عجائباتِ عالم کے لحاظ سے بھی نہایت جامع اور دل چسپ تھا، اس بناء پر تنقید کی نظر سے دو مرتبہ اور مطالعہ کیا، جب  مضامین اور طرزِ انشاء پر عبور ہوگیا تو نُدرت کے لحاظ سے ترجمے کا خیال پیدا ہوا، اور اس ضرورت سے خواجہ بزرگ حالی کو جنوری۱۳۱۸ھ؍۱۹۰۰ء میں ایک عریضہ لکھا،۔۔۔۔۔

 

خزانہء ششم: جامع الحکمتَین:

یعنی ایسی کتاب، جس کے موضوعات میں حکمتِ ظاہر(فلسفہ وغیرہ) اور حکمتِ باطن دونوں سے کام لیا گیا ہے، یہ پُرحکمت کتاب بھی ایسی بہت سے اسئلہ کے جواب میں تصنیف ہوئی ہے، جو انتہائی مشکل ہیں، لیکن جن حضرات کے ساتھ آسمانِ روحِ اعظم کی تائیدات کام کر رہی ہوں، ان کے نزدیک کوئی مسئلہ مشکل نہیں ہوسکتا، چنانچہ حجّتِ خراسان کی یہی عادت تھی کہ آپ ہمیشہ انتہائی مشکل سوالات اور عُقدہ ہائے ناکُشودنی کو لوگوں کے لئے حل کردیتے ہیں کہ اپنی پسند اور معلومات کے مطابق بولنا اور لکھنا بڑا آسان کام ہے، لیکن علم و حکمت کا سب سے بڑا امتحان اس وقت سامنے

 

۵۷

 

آتا ہے، جبکہ کسی مشکل سوال سے واسطہ پڑے، مگر ہم یہ بات یقین سے کہتے ہیں کہ حُجّتِ مستنصری وہ عظیم المرتبت شخصیّت تھے، جن پر ہر وقت علمِ لدُّنی کے ابواب مفتوح رہتے تھے۔

نمونۂ حکمت ازجامع الحکمتَین:

ص۱۰۹،امّااہلِ تاویل علیھم السّلام کا جواب عالمِ ابداع کے سات انوار کی نسبت یہ ہے جو فرمایا: جو کچھ عالمِ حسّی میں موجود ہے، وہ اس چیز کے اثر سے ہے جو عالمِ علوی میں موجود ہے، جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالمِ ظاہر میں سات ستارے ہیں، جن سے مخلوقات روشنی اور لطافت حاصل کر رہی ہیں، تو یہ موجوداتِ نورانی (یعنی ستارے) اس حقیقت پر دلیل ہیں کہ عالمِ علوی میں سات انوارِ اوّلی و ازلی ہیں، کہ وہ ازلی چیزیں  علِّتیں ہیں ان جسمانیوں کے انوار کے لئے، اور وہ سات ازلی انوار میں سے ایک تو ابداع ہے، دوسرا جوہرِعقل، تیسرا مجموعِ عقل، کیونکہ اس کے تین مرتبے ہیں، یعنی وہ عقل بھی ہے، عاقل بھی ہے ، اورمعقول بھی، اورکسی موجود کے لئے یہ خاصیّت نہیں سوائے عقل کے، کہ وہ (یعنی فرشتۂ عقل) اپنے آپ کو جاننے والا ہے، اوراس کی ذات جانی ہوئی ہے، چوتھا نور نفسِ کُلّ ہے، جوعقل سے مُنبعِث (برانگیختہ) ہوا ہے، پانچواں نور جدّ (اسرافیل) ہے، چھٹا فتح (میکائیل) ہے، اور ساتواں نور خیال

 

۵۸

 

(جبرائیل) ہے۔

 

خزانہ ہفتم: دیوانِ اشعار:

حضرتِ پیر کے ان القاب سے آپ کی روحانیّت و نورانیّت اور علم و حکمت کا پتا چلتا ہے: حجّت، حجّتِ خراسان، حجّتِ مستنصری، حجّتِ فرزندِ رسولؐ، حجتِ نائبِ پیغمبرؐ، سفیرِ امامِ زمانہؑ، مامور، امینِ امامِ زمانؑ، مختارِ امامِ عصرؑ، مُستعینِ محمّدؐ، اور برگزیدۂ علیّ المرتضیٰ (دیوانِ اشعار، چاپِ دوم، مقدمّہ و شرحِ احوالِ ناصرِ خسرو، بقلمِ آقای تقی زادہ، ص۱۴۔۱۵)۔

ایک بڑا اہم سوال:

قرآنِ حکیم میں شاعری اور شُعرا کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ہر شاعر کی یہ کوشش ضرور ہوتی ہے کہ وہ اپنی خیالی کائنات کی بلندیوں میں پرواز کرتا رہے، اور خود سِتائی کا مزہ بھی اڑائے، آیا ناصرِ خسرو کا شاعرانہ کلام عام شاعری سے بالاتر اور اپنی ذات کی ستائش سے پاک ہوسکتا ہے؟ وہ کیسے؟

اس کا جواب:

قرآن و حدیث کی حکمتوں سے ظاہر ہے کہ شاعری دوقسم کی ہوا

 

۵۹

 

کرتی ہے، ایک حق پر مبنی ہوتی ہے، اور دوسری برباطل، یعنی جو شاعر ہادیٔ برحق کی نورانی ہدایت سے مستفیض ہو، اس کے کلام میں خود ازخود حکمت داخل ہو جاتی ہے، اور جوشاعر صراطِ مستقیم سے ہٹ گیا ہو، وہ گمراہ ہوچُکا ہے، اس کی باتوں میں گمراہی کے سوا کچھ بھی نہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں گمراہ شاعروں کی پیروی کی مذّمت کی گئی ہے، (۲۶: ۲۲۴ تا ۲۲۵) پس اگر شاعری محض گمراہی کے سبب سے قابلِ مذّمت ہے، تو پھر یہ ہدایت کی وجہ سے لائقِ تحسین کیوں نہ ہو، جیسے رسولِ خداؐ حَسّان بن ثابت سے فرماتے تھے: ”پڑھو روح القدس تمھارے ساتھ ہے۔” اس سے ظاہر ہوا کہ جہاں حق کی حمایت میں شاعری ہو، وہاں فیضِ روح القدس  شاملِ حال رہتا ہے، اور یقیناً یہ بات پیر شاہ ناصر کی شاعری پر صادق آتی ہے، ایسے میں آپ کے پُرحکمت اشعار عالی اور پاک و پاکیزہ نظر آتے ہیں۔

خود سِتائی وہاں ہوتی ہے، جہاں آدمی صرف اور صرف اپنی ہی ذات پر نظر رکھتا ہو، لیکن جب کوئی شاعر کسی رشتہ و نسبت کی بنا پر اپنی توصیف کر رہا ہو، تو یہ وصف درحقیقت اس شخص کا ہوتا ہے، جس سے اس کو نسبت یا قربت حاصل ہے، جیسے خواجہ حافظ کا قول ہے:

 

۶۰

 

مصرع: اے دل غلامِ شاہِ جہان باش و شاہ باش

یعنی اے دل شاہِ جہان کی غلامی بہت بڑی عزت ہے، اس لئے تو اس کا غلام ہوکر ایسی عزّت کا بادشاہ ہوجا۔ آپ اس مثال میں خوب غور کرکے یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آیا یہ حافظ کی خود سِتائی ہے، یا بادشاہِ عالم کی مدح سرائی؟

دوسرا اہم سوال:

سورہ یاسین(۳۶: ۶۹) میں ارشاد ہے: وَ ما علمنہ الشعر و مَا یَنبَغِیْ لَہُ ۔۔۔۔اور ہم نے نہ اُن (پیغمبرؐ) کو شعر کی تعلیم دی ہے اور نہ یہ ان کی شان کے لائق ہے۔ یہاں یہ مسئلہ ہے کہ جس شاعری کی تائید (مدد) روح القدس سے ہوتی ہے، اس میں کیا کمی تھی، جس کی وجہ سے وہ آنحضرت صلعم کی شان کے لائق نہ ہوسکی؟

جواب:

روح القدس کی تائید کے مختلف مدارج ہوا کرتے ہیں، جبکہ پیغمبروں میں سے بعض پر فضیلت دی گئی ہے (۰۲: ۲۵۳) اسی طرح مراتب کا فرق اولیاء اور مومنین میں بھی پایا جاتا ہے (۰۳: ۱۶۳) درحالے کہ ان میں سے ہر ایک کو حسبِ مرتبہ تائید حاصل ہوسکتی ہے (۵۸: ۲۲) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگرچہ حضرتِ داودؑ اور حضرتِ سلیمانؑ کے مقدّس نغمے (مزامیر) خداوندی

 

۶۱

 

تعلیم کے بغیر نہ تھے، لیکن جس ذاتِ جامع الصّفات پر قرآنِ عظیم نازل ہورہا تھا، وہ اس قرآنِ عزیز کی بدولت شعرگوئی سے بے نیاز وبرتر تھی، پس آیۂ مذکورہ کا مفہوم یہ ہے کہ خداوندِ عالم جس کو چاہے روح القدس کے توسّط سے لاہوتی اشعار کی تعلیم سے نوازتا ہے، لیکن پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مرتبہ عالیہ اس سے بہت بڑا ہے۔

نمونۂ اشعار: ص۳۲۶:

مراحسّانِ اوخوانند ازیراک

من ازاحسانِ اوگشتم چو حسّان

(ترجمہ:) مجھے اس کا حسّان کہتے ہیں اس لئے کہ میں اس کے احسان سے حسّان (بن ثابت)کی طرح ہوچکا ہوں، پیر صاحب کے اس پرحکمت اور روح پرور شعر میں بتائیدِ الہٰی بہت سی اعلیٰ خوبیاں جمع ہیں، مثال کے طور پر دیکھ لیں:

(الف) اس میں حسّان بنِ ثابت کی شاعری اور ان سے متعلق ارشادِ رسول صلعم کی طرف اشارہ ہے۔

(ب) زمانۂ نبوّت اور اصحابِ کبار کی یاد دہانی ہے۔

(ج) اس حوالے سے دینِ حق میں شاعری کی اہمیّت و افادیت کی دلیل ہے۔

 

۶۲

 

(د)  اس میں یہ ذکر ہے کہ امامِ عالیمقامؑ ہی کے احسان سے پیر ناصر حسّان ہوگیا ہے۔

(ھ) حسّان کے معنی ہیں بہت خوبصورت، بہت نیکوکار۔

(و) پیر فرماتے ہیں کہ حضرتِ امام علیہ السّلام کے احسانات سے میری روح بیحد خوبصورت ہوگئی ہے، اور میں بہت نیکوکار ہوا ہوں، حضرتِ پیر نے دیوان کے چھ مقامات پر اپنے آپ کی تشبیہہ و تمثیل حسّان بن ثابت سے دی ہے، تاکہ ہم حقیقتِ حال کو سمجھ سکیں کی اُن کہ اشعار علمِ لَدّنی کے نور سے منوّر ہیں۔

حکیم ناصرِ خسرو کا گرانمایہ دیوان ایک ایسے بحرِعمیق کی طرح ہے کہ اس کی سطح پر اگرچہ مال و متاع اور سَیروسیاحت کی کشتیاں چلتی رہتی ہیں، تاہم انمول موتیوں کو صرف اس کی گہرائیوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے، جس کا سمجھنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں، مثال کے طور پر اس قصیدہ کو لیں، جس کا مطلع یہ ہے:

ای خواندہ بسی علم و جہان گشتہ سراسر

تو برزمی وازبَرَت این چرخِ مُدوّر

اس نظم میں آگے چل کے فرماتے ہیں کہ:

روزی برسیدم بدرِشہری کان را

اِجرامِ فلک بندہ بُد آفاق مسخّر

 

۶۳

 

(ترجمہ) میں ایک دن ایک ایسے شہر کے دروازے پر پہنچ گیا کہ اس کے لیے اِجرامِ سماوی (سورج، چاند، ستارے، اور سیّارے) غلامی کر رہے تھے، اور دُنیا مسخّر تھی۔ اب آپ ہی بتائیں کہ یہ دُنیائے ظاہر کے کس شہر کا دروازہ تھا؟ آیا یہ روحانی سفر اور امامِ زمانؑ کے نورِ اقدس تک رسائی کی مثال نہیں ہے؟ کیا یہ: “انا مدینۃ العلم و علی بابھا” کی عملی تفسیر و تاویل نہیں ہوسکتی؟ ہوسکتی ہے، اور یقیناً اس میں یہی حکمت ہے۔

حکیم ناصر فرماتے ہیں: وہ ایک ایسا شہر تھا کہ اس کے سارے باغات پھلوں اور پھولوں سے بھرے ہوئے تھے، تمام دیواریں نقش  و نگار سے آراستہ تھیں اور زمین پردرخت ہی درخت نظر آرہے تھے، اس کا صحرا سب کا سب پھولدار ریشمی کپڑے کی طرح مُنقّش تھا، اس کا پانی پاکیزہ اور کوثر جیسا تھا، ایسا شہر کہ اس میں بغیر(علم و) فصل کے کوئی گھر ہی نہیں ہے، ایک ایسا باغ کہ اس میں عقل کے سوا کوئی درخت صنوبر نہیں مل سکتا، وہ ایسا شہر ہے کہ وہاں حُکَماء ریشمی لباس پہنتے ہیں، جن کو نہ کسی عورت نے بُنا ہے اور نہ کسی مرد نے، ایسا شہر کہ جب میں اس میں داخل ہوگیا تو میری عقل نے کہا کہ: یہیں سے اپنی حاجت کو طلب کر اور اس منزل کو نہ چھوڑ، تب میں اس شہر کے محافظ (دربان، جس سے امامِ وقتؑ مراد ہیں) کے پاس گیا، اور گزارش کی، انھوں

 

۶۴

 

نے فرمایا کہ: اب غم نہ کر کیونکہ تیری کان جواہر سے بھر گئی، ۔۔۔۔۔۔۔۔

حق بات تو یہ ہے کہ حضرتِ پیر یہاں اپنی ابتدائی روحانیت کے واقعات و مشاہدات کو اس حدیثِ شریف کے مطابق پیش کر رہے ہیں، جس میں ارشاد ہوا کہ: انا مدینۃ العلم و علی بابھا (یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی (امامِ زمانہ) اس کا دروازہ ہے)، اس حکیمانہ نظم کے اس مقام پر آپ اچھی طرح دیکھ رہے ہیں کہ ہرعمدہ سے عمدہ تعریف و توصیف شہرِ علم کی ہورہی ہے، تاہم بڑا عجیب واقعہ ہے کہ شہر میں داخلہ ملنے کے باوجود گیٹ (باب، دروازہ، دربان، محافظ) ہی سے رجوع ضروری ہے، اور حکمت اسی میں ہے، حضرتِ پیر شاہ ناصر اپنے اسی قصیدہ میں آگے چل کر فرماتے ہیں:

دستم بکفِ دستِ نبی داد بیعت

زیرِ شجرِ عالی پُرسایہ و مُثمر

(ترجمہ) اس ( یعنی امامِ عصرؑ) نے میرے ہاتھ کو بیعت کے لئے دستِ پیغمبرؐ کی ہتھیلی میں دے دیا، اس عالیقدر اور بلندترین درخت کے نیچے جو وسیع سایہ رکھتا ہے اور بہت زیادہ میوہ دیتا ہے۔ یہ بیعتِ رضوان (۴۸: ۱۸) کی عملی تاویل ہے، جو روحانیت کی انتہا اور مرتبتِ عقل میں پیش آتی ہے، اس مقام کے بے شمار نام ہیں، چنانچہ درخت کی مثالیں جو صرف

 

۶۵

 

ایک ہی ہے، یعنی وہ درخت، جس کے نیچے روحانی اور عقلی بیعت لی جاتی ہے، لیکن آپ کو تعجّب ہوگا کہ یہی درخت شجرِ موسیٰؑ، درختِ زیتون، سِدرۂ منتہا وغیرہ بھی ہے۔

خزانۂ ہشتم: تحلیلِ اشعارِ ناصر خسرو:

یہ بیحد دلپسند کتاب مہدی محقّقِ استادِ دانش گاہِ تہران نے تألیف کی ہے، جس میں حضرتِ پیر کے ایسے اشعار کی تحلیل کی گئی ہے، جن پر براہِ راست قرآن و حدیث کی روشنی پڑتی ہے، یا وہ امثالِ عرب کے مطابق ہیں، اسی طرح خدا کے فضل و کرم سے یہ ایک اور گنجینہ مہیّا ہوا ہے۔

تحلیلِ اشعار کے نمونے:

پیر صاحب فرماتے ہیں کہ:

ہر کس کہ نیلفنجد اونصیرت

فرداش بہ محشر بصر نباشد

(ترجمہ) جو شخص یہاں (اپنے لئے) بصیرت جمع نہ کرتا ہو، کل قیامت میں اس کی آنکھ نہیں ہوگی۔ جیسا کہ ارشادِ قرآنی ہے: وَمَن کَانَ فِیْ ہَـذِہِأَعْمَی فَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ أَعْمَی وَأَضَلُّ سَبِیْلا ۱۷: ۷۲

 

۶۶

 

ایزد عطاش داد محمّد را

نامش علی شِناش و لقب کوثر

(ترجمہ) خداوندِ عالم نے حضرت محمّد صلعم کو عطا کردیا، (وہ شخص) جس کا نام علیؑ ہے، اور لقب کوثر۔ اِنا اعطینک الکوثر (۱۰۸: ۱)

تن تُرا گوُراست بی شک ہم چُنان چون وعدہ کرد

روزی ازگورت برون آردخدایِ دادگر

(ترجمہ) یقیناً جسم تیرے لئے قبر ہے (لہٰذا) جیسے اس نے وعدہ کیا  ہے، ایک دن خدائے عادل تجھے اس قبر سے نکال دے گا۔ (۲۲: ۷) اس سے ظاہر ہوا کہ قبر کی تاویل جسمِ انسانی ہے۔

بغارِ سنگین در نہ بٖغارِ دین اندر

رسول را بدلِ پاک صاحبُ الغاریم

(ترجمہ) پتھر کے غار میں نہیں، دین (یعنی روحانیت) کے غار میں ہم اپنے پاکیزہ دل سے پیغمبرؐ کے یارِ غار ہیں (۰۹: ۴۰) یہاں سے معلوم ہوا کہ غار سے روحانیت مراد ہے، پس اصحابِ کہف کچھ ارواح کا نام ہے۔

چو جانت قوی شد بایمان وحکمت

بیا موزی آنگہ زبانہای مرغان

بگویند باتوھمان مور و مرغان

 

۶۷

 

کہ گفتند ازین پیش تر با سلیمان

(ترجمہ) جب تیری روح ایمان اور حکمت کی بدولت مضبوط ہوجائے، تو اس وقت تو پرندوں کی بولی سمجھنے لگے گا، تجھ سے چیونٹیوں اور پرندوں کی وہی گفتگو ہو گی، جو اس سے پہلے حضرتِ سلیمان سے ہوئی تھی، (۲۷: ۱۶) صراطِ مستقم ہی راہِ روحانیت ہے، جو انبیاء، اولیاء، شہدا، اور صالحین کا راستہ ہے، اور انہی حضرات کے نقشِ قدم پر مومنین کو چلنا ہے (۰۴: ۶۹) جس میں معجزات ہی معجزات ہیں، تاکہ معرفت حاصل ہو۔

آلِ رسولِ خدای حبلِ خدایست

گرش بگیری ز چاہِ جہل  بر آئی

(ترجمہ) خدا کے پیغمبر کی آل (امام  عصرؑ) ہی خدا کی رسی ہے، اگر تو نے اسے مضبوطی سے تھام لیا، تو تُو نادانی کے کنویں سے نکل کر مرفوع ہو جائے گا، (۰۳: ۱۰۳) دنیا کی اچھی اور بری بہت سی مثالیں ہیں، اور ایک مثال تاریک کنواں ہے، جس سے لوگوں کو نکالنے کے لئے اللہ نے عالمِ بالا سے اپنے پاک نور کی رسی اتار دی ہے۔

رسول خود سخنی باشد ازخدای بخلق

چُنانکہ  گفت خداوند درحقِ عیسیٰ

(ترجمہ) (کتاب کے علاوہ) پیغمبرؐ خود بھی خدا کی جانب

 

۶۸

 

سے لوگوں کے لئے کلمہ اور کلام کا مرتبہ رکھتا ہے، جیسا کہ خداوندِ تعالیٰ نے حضرتِ عیسٰے کے بارے میں فرمایا (۔۔۔۔ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ ۰۳: ۴۵) اس دلیل سے حضرتِ رسولؐ اور حضرتِ امامؑ کے قرآنِ ناطق ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔

بسانِ طیرِ ابابیل لشکری کہ ھمی

بیوفتد گُھری زوبجای ہر حجری

(ترجمہ) جھنڈ کے جھنڈ پرندوں کی طرح ایک لشکر(آئے گا) کہ ( جہاں ہاتھی والوں پر پتھر گرائے گئے، وہاں) اس لشکر سے ہر پتھر کی جگہ ایک گوہر گرے گا (۱۰۵: ۳ تا ۴) بہت زیادہ سوچنے کا مقام ہے کہ حکمتِ قرآن بڑی عجیب و غریب ہوا کرتی ہے۔

قصّہ  سلمان شنید ستی  و قولِ  مصطفی

کوز اہل البیت چون شد با زبانِ پھلوی

(ترجمہ) تو نے سلمان فارسی کا قصّہ اور حضرتِ محمّد مصطفیؐ کا ارشاد سنا ہوگا، وہ (ایرانی تھا تو) فارسی زبان کے ساتھ کس طرح اہل بیت میں سے ہوگیا؟ حدیثِ شریف ہے: اِنَّ سلمانَ مِنّااھلَ البیتِ (بیشک سلمان (بلحاظِ روحانیّت) ہم اہلِ بیت میں سے ہے)۔

گرچت یکبار زادہ اند بیابی

عالمِ دیگر اگر دوبارہ بز ائی

 

۶۹

 

(ترجمہ) اگرچہ تجھے (فی الوقت) ایکبار جنم دیا گیا ہے، تاہم تو نے اگر دوبارہ جنم لیا تو تجھ کو دوسرا عالم مل جائے گا۔ جیسا کہ حضرتِ عیسیٰ کا قول ہے: لن یَلجَ ملکوتَ السّمٰوٰتِ من لم یُو لَد مَرَّ تَینِ (جو شخص (جیتے جی مر کر) دوبارہ پیدا نہ ہوجائے، وہ آسمانوں کی بادشاہی یعنی روحانیت میں داخل نہیں ہوسکتا)۔

بمیانِ قدر و جبر رہِ راست بجوی

کہ سُوی اہلِ خرد جبر و قدر دردوعناست

(ترجمہ) تقدیر اور جبر(اختیار کا نہ ہونا) کے درمیان سیدھا راستہ ڈھونڈلے، کیونکہ اہلِ دانش کے نزدیک جبر و قدر دکھ اور تکلیف ہے۔ جیسا کہ حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام کا فرمانِ عالی ہے: لاجبَر وَلا تفویضَ بَل امر بَینَ الا مَرَینِ (آدمی(اعمال میں) نہ تو مجبور ہے اور نہ ہی مختارِکلّ، بلکہ دونوں حالتوں کے درمیان ایک حالت ہے) کتابِ کُشائش و رہائش کے آخر میں ملاحظہ ہو۔

سُوی آن باید رفتنت کہ ازامرِ خدای

برخزینۂ خِرد وعلمِ خداوند وراست

(ترجمہ) تجھے اس شخص (یعنی امامِ برحقؑ) کی طرف جانا چاہئے۔ جو خدا کے حکم سے خداوندی عقل و علم کے خزانے پردرودربان کا مرتبہ رکھتا ہے۔ انا مدینۃ العلم و علی بابھا

 

۷۰

 

فمن اراد العلم فلیات الباب۔

پرت از پرہیز و طاعت کرد باید کزحجاز

جعفرِ طیّار بر عُلیا بدین طاعت پرید

(ترجمہ) تجھ کو پرہیز وبندگی سے اپنے پَربنا لینا چاہئے، کیونکہ حجاز سے جعفرِطیّار(بن ابی طالب) اسی طاعت (کے پروں) سے پرواز کرکے عالمِ عُلوی میں پہنچ گیا ہے۔ رایت جعفرا لہ جناحان فی الجنۃ  (میں نے جعفر کو بہشت میں دو پروں کے ساتھ دیکھا۔ حدیث)۔

بفرمود جُتن بچین علمِ دین را

محمّد شُدم من بچینِ محمّد

(ترجمہ) حضرتِ محمّد صلعم نے فرمایا: علمِ دین کی جستجو میں چین جانا چاہئے، اس لئے میں آنحضرتؐ کے چین (یعنی امامِ عالیمقامؑ کی نورانیت) میں گیا۔ اطُلبوٰالعلمَ وَلو بِالصِّینِ (تم علم کو طلب کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے)۔

اندک اندک علم یابد نفس چون عالی بُوَد

قطرہ قطرہ جمع گردد وانگھی دریا شود

(ترجمہ) جب کسی کی روح باسعادت اور عالیقدر ہو، تو اس کو ہر وقت تھوڑا تھوڑا (تائیدی) علم ملتا رہتا ہے، پانی قطرہ قطرہ جمع ہوجائے تو تب دریا بن جاتا ہے۔

 

۷۱

 

و قطر الیٰ قطر اذا اجتمعت نہر

و نہر الیٰ نہر اذا اجتمعت بحر

(گلستانِ سعدی)

 

خزانۂ نہم: زادالمسافرین:

یعنی طریقِ روحانیت اور سبیلِ آخرت کا تَوشہ (زادِ راہ) اس بیمثال و لاجواب کتاب کے بارے میں یہ کہوں کہ مجھ ناچیز سے اس کا حقِ تعریف ادا نہیں ہوسکتا، تو شاید یہ اپنی ہی جگہ بلند رہے گی، ورنہ میرے طفلانہ الفاظ سے اس پر ایک حجاب پڑے گا، تاہم اس کے لئے ایک چارۂ کار بھی ہے، وہ یہ کہ ہم حضرت پیر ہی کے قول سے اس حکیمانہ کتاب کی تعریف کریں، جیسا کہ موصوف نے اپنے دیوان میں فرمایا:

زتصنیفاتِ من زادُالمسافر

کہ معقولات رااصلست وقانون

اگر بر خاکِ افلاطون بخوانند

ثنا خواند مرا خاک فلاطون

(ترجمہ) میری تصانیف میں سے زادالمسافرین ایسی کتاب ہے، جو علمِ معقولات کی چیزوں (کو جانچنے اور پرکھنے) کے لئے ”اصولات و قوانین” کا درجہ رکھتی ہے، اگر (یونان کے

 

۷۲

 

مشہور حکیم) افلاطون کی قبر پر یہ کتاب پڑھی جائے، تو (اس کے عجائب و غرائب کے شدید اثر سے) افلاطون کی مٹی میری تعریف و ستائش کرنے لگے گی۔ یہ ہے اس گنجِ گوہر ہائے علم و حکمت کی تعریف۔

اس کتاب سے حکمت کے نمونے:

زادالمسافرین کے بڑے مضامین (اقوال) ۲۷ ہیں، اور ذیلی عنوانات یا فصلیں ۳۳۵، صفحات ۵۱۹۔ حکیم ناصر خسرو علوی نے یہ کتابِ شریف ۴۵۳ھ/۱۰۶۱ء میں تصنیف کی ہے، آپ کی بابرکت پیدائش۳۹۴ھ میں ہوئی تھی، اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ حکیم نے یہ کتاب ۵۹ برس کی عمر میں تحریر کی ہوگی، آپ زادالمسافرین کے قول شانزدھم (۱۶) میں ”مُبدِعِ حق ، اِبداع، اور مُبدَع” کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مُبدِع حق تعالیٰ کے اثر سے ہے، یہ نکتہ کلیدی اہمیّت کا حامل ہے، کیونکہ یہ علمِ اسرار میں سے ہے۔

اس کتابِ عزیز میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ معقولات (عقلی چیزیں) زمان سے برتر ہیں (ص۱۱۷) اور محسوسات زمان کے نیچے ہیں۔

کسی چیز کے ختم ہوجانے سے اس کا زمان ختم ہوجاتا ہے، لیکن دھر زمان نہیں، جیسے کسی آدمی کے مر جانے پر اس کا

 

۷۳

 

زمان اٹھایا جاتا ہے، پس اگر آسمان جس کی حرکت تمام حرکتوں پر محیط ہے ختم ہوجائے تو زمان کلّی طور پر ختم ہو جائے گا، امّا دہر زمان نہیں، بلکہ یہ اپنی ذات کو زندہ رکھنے والی چیز کی زندگی ہے، جس طرح زمان ایک ایسی چیز کی زندگی کا نام ہے، جس کو کوئی اور چیز زندہ رکھتی ہے، اور دھر کو گزر جانا نہیں، بلکہ وہ ایک ہی حال ہے، کیونکہ وہ ایسی شیٔ کی زندگی ہے، جس کا حال کبھی بدلتا نہیں، اور جب اس حقیقت کا تصوّر کیاجائے، تو اس وقت معلوم ہوگا کہ روحانین پر زمان کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔

انسان ہر اس چیز پر بادشاہ ہے، جو آفرینش میں ہے، اور یہ روئے زمین پر خدا کا خلیفہ اور نائب ہے (ص۴۶۲)۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو ملکِ باطن پر بھی بادشاہ بنا دیا ہے (ص۴۶۴)۔۔۔

انسان اس دنیا میں ایک مسافر کی طرح ہے، اور اس کی منزلِ مقصود حضرتِ خالقِ کائنات ہے (ص۴۶۵)۔

یہ دنیا ایک ابتدائی منزل ہے، اور آدمی کی عمر ایک راستہ کی مثال ہے، اور انسان کا سفر اس راستے پراسی منزلِ مقصود کی جانب ہے، تاکہ وہ حضرتِ صانع عالم تک پہنچ جائے۔۔۔۔۔

حضرتِ پیر ناصر خسرو(قدّس اللہ سِرّہ) کی اس کتابِ شریف و لطیف میں بے شمار حکمتیں ہیں، جن کا قلمی احاطہ کجا! اور میرا

 

۷۴

 

چھوٹا سا مقالہ کجا! یہ تو کئی کئی جلدوں کے دائرۃُ المعارف (انسائیکلوپیڈیا) کی صورت میں بھی انتہائی مشکل کام ہے۔

 

خزانہ دھم: وجہِ دین:

اگرچہ یہ ایک روشن اور مُسلّمہ حقیقت ہے کہ سیّدنا حکیم ناصرِخسرو علوی (قدّس اللہ سِرّہ) کی ہر کتاب بجائے خود علم و حکمت کا ایک گرانمایہ اور پائندہ گنجینہ ہے، تاہم کتابِ وجہِ دین کئی اعتبارات سے ان پیرِ کبیر کے جملہ کتب کا خلاصہ اور لُبِ لباب (COMPENDIUM) ہے، پس ہم بجاطور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتاب خزینۂ خزائن کا درجہ رکھتی ہے، کیونکہ کتابِ ہٰذا پیر شاہ ناصر کی آخری تصنیف ہے۔

اس کتاب کی حکمت کے نمونے:

میں کتابوں کا بیحد دلدادہ رہا ہوں، اور جس قدر بھی ہوسکا میں نے مختلف کتب کے مطالعے سے لطف اور فائدہ اُٹھایا، لیکن پیر ناصر خسرو کی کتابیں بڑی عجیب و غریب ہیں، خصوصاً وجہِ دین، کیونکہ یہ کتاب ایسی حیرت انگیز جامعیّت اور مغز حکمت سے بھر پور ہے کہ جہدِ مسلسل کے باوصف اس کی علمی برکتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ وجہِ دین کا خاص تعلق قرآن

 

۷۵

 

و حدیث کی تاویل اور علمِ امامت سے ہے، یہ سب کچھ طریقِ باطن اور راہِ روحانیت کا نتیجہ ہے، یعنی اس میں کشف و کراماتِ روحانی کا عالم ہے۔

اگر آپ عرصۂ دراز سے کتابِ وجہِ دین کو پڑھتے آئے ہیں، پھر بھی آپ باور کریں کہ ہنوز اس کے بہت سے تاویلی بھید پردۂ اخضا سے ظاہر نہیں ہوئے، مثال کے طور پر گفتار ہشتم کی متعلقہ عبارت کو غور سے پڑھ کر تجربہ کریں، اور جواب دیں کہ سیّارۂ زمین (جو ہمیشہ گھومتا رہتا ہے) کی شِش جہت یعنی آگے پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر، اور نیچے کا تعیّن کس طرح ہوسکتا ہے؟ تاکہ ہم یقین کرسکیں کہ زمین کے باشندوں کی چھ طرفیں ہیں، اور خدا نے ہر طرف سے ان کے پاس ایک عظیم پیغمبر بھیجا ہے؟ لیکن نقشۂ دنیا کے گلوب پر الگ الگ چھ نشانات لگا کر کوئی شخص یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ اسی طرح لوگوں کو چھ اطراف سے چھ بڑے پیغمبر آئے ہیں، کیونکہ لوگ کسی ایک شہر یا کسی خاص ملک میں نہیں، بلکہ مختلف بّرِاعظموں میں پھیلے ہوئے ہیں، اس لئے لوگوں کی مجموعی اطراف نہیں ہیں، سوائے اوپر کے۔

لوگوں کے لئے چھ پیغمبر چھ اطراف سے کیسے آگئے، اس کی روحانی مثال اور معرفت عالمِ شخصی (عالمِ صغیر) میں ہے، چنانچہ کسی شک کے بغیر انسانی جسم کی چھ اطراف ہیں: آگے،

 

۷۶

 

پیچھے، دائیں، بایئں، اوپر نیچے، پس حضرتِ پیر کا اشارہ ہے کہ: عالم شخصی میں حضرت آدمؑ کا نور سر کی بالائی جانب سے آتا ہے، حضرت نوحؑ کا نور بائیں کان سے، حضرتِ ابراھیمؑ کا نور پشت سے، حضرتِ موسیٰؑ کا نور پاؤں سے، حضرتِ عیسیٰؑ کا نور داہنے کان سے، اور آنحضرت صلعم کا نور پیشانی سے داخل ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت امام جعفر الصّادقؑ کا دعائیہ قول ہے:

۔۔۔۔ وَنوراً بَینَ یَدَیّ وَ نوراً مِن خلفی وَ نوراًعن یمینی وَ نوراً عن یساری وَ نوراً من فوقی وَنوراً من تحتی ۔۔۔ (ملاحظہ ہو: قرآنی علاج، ص۲۰۵)

وجہِ دین کے موضوعات:

اس مبارک و باکرامت کتاب کے بڑے بڑے موضوعات ۵۱ ہیں، اور ذیلی عنوانات ۲۴، تاہم سر تا سر کتاب میں پھیلے ہوئے مضامین اور بھی ہیں، جیسے خدا شناسی اور علمِ توحید، نبوّت، امامت، علمِ حدُود، روحانیّت، قیامت، حضرتِ قائم، حجّتِ قائم، علمِ تاویل، عددی تاویل، اسمِ اعظم، آفاق و انفس، پیش گوئی، اسرارِ روحانیت، اصولِ دین، فروعِ دین، کلید ہائے حکمت، خود شناسی، سلسلۂ

 

۷۷

 

ہدایت، قانونِ وصایت، اسرارِ قرآن، وغیرہ۔

وجہ دین کی ایک کرامت:

جناب فضیلت مآب سیّد منیر صاحب (مرحوم) بدخشان کا ایک راسخ العقیدت اور علم دوست شاگرد ہے، اس نے بہت پہلے مجھ سے یہ ذکر کیا تھا، کہ اس کو مطالعۂ وجہِ دین سے بیحد مزہ آنے لگا، جس کی بنا پر وہ روزانہ اسے پڑھا کرتا تھا، تا آنکہ یہ کام اس کا معمول بن گیا، اور زیادہ سے زیادہ خوشی محسوس ہونے لگی، اور نتیجے کے طور پر اس کی دیدۂ باطن کُھل گئی، یہ وجہِ دین پر علمی ریاضت کرنے کی کرامت تھی، یاد رہے کہ اگر علم وحکمت کی خوشی سے آپ کو جھٹکے لگتے ہیں، تو یہ فیضِ روح القدس کی بہت بڑی خوشخبری ہے۔

کلیدی تاویل:

کتاب وجہِ دین میں عملی اور کلیدی نوعیّت کی تاویل کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے، جس کی برکتوں سے قارئین کے نہ صرف شکوک و شبہات ہی کا اِزالہ ہو جاتاہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بے شمار سوالوں کے جوابات بھی مہیّا ہوجاتے ہیں، کیونکہ مرضِ جہالت و نادانی کا انتہائی موثّر علاج تاویل ہی سے ہوسکتا ہے،

 

۷۸

 

جبکہ تاویلی حکمت ہی وہ شہد ہے، جس کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے؛ فِیْہِ شِفَاء  لِلنَّاس (۱۶: ۶۹: اس میں لوگوں کی (بیماریوں کی)  شِفا ہے)۔

حُدودِ  د ین:

تاویل کی بنیاد حدودِ دین پر قائم ہے، جس کے بغیر تاویل نہیں ہوسکتی ہے، اور یہ حقیقت وجہِ دین سے ظاہر ہوجاتی ہے، اگرچہ اب دورِ قیامت ہے، جس میں صرف آفتابِ امامت کے سوا اور کوئی ستارا نظر نہیں آتا، لیکن ہم اپنے پاک مذہب کی روحانی تاریخ کیسے بھول سکتے ہیں، جس میں قلم، لوح، اسرافیل، میکائیل، ناطق، اساس، امام، حجّت، داعی وغیرہ کے کارناموں کا تذکرہ ہے، اور اسی کا نام تاویل ہے، اور معرفت کا راستہ بھی یہی ہے۔

امامِ عالیمقامؑ ۔۔ عالمِ شخصی:

حضرتِ امیرالمومنین علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: کیا تیرا یہ گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر سما گیا ہے؟ اور تو وہ بولنے والی کتاب ہے، جس کے حروف سے پوشیدہ اسرار ظاہر ہوجاتے ہیں۔ پس اس قول و معنیٰ کا اطلاق سب سے پہلے خود مولاعلیؑ اور ہر امامؑ پر ہوتا ہے کہ وہی عالمِ شخصیٔ نورانی ہے،

 

۷۹

 

اور ایسی بولنے والی کتاب، جس سے تاویلی بھید ظاہر ہوتے رہتے ہیں، اب بہت بڑا سوال یہ ہے کہ ناصر خسرو پر امامِ وقتؑ کا نور کس شکل میں طلوع ہوا؟ کیونکہ پیر صاحب اپنے دیوان میں کہتے ہیں: “جب میری روح پر امامِ زمان کا نور طلوع ہوگیا، تو میں جو قبلاً شبِ تاریک تھا روزِ روشن بن گیا۔ ”اس انتہائی عظیم سوال کا ازبس عجیب و غریب جواب یہ ہے کہ حکیم ناصر خسرو پر امامِ عصرؑ کا نور عالمِ شخصی اور عالمِ اکبر کی صورت میں طلوع ہوچکا تھا، جس میں سب کچھ تھا، اور وہی نورانی کائنات بولنے والی کتاب بھی ہے، اور حضرتِ شاہ ناصر کا علمِ تاویل اسی عالمِ لطیف سے متعلّق ہے، جس کا بیان وجہِ دین، کلام ۴ میں ہے۔

علمِ بیان ۔۔ علمِ تاویل:

پیر صاحب نے وجہِ دین کے بہت سے مقامات پر تاویل کا ایک دوسرا ہم معنی لفظ ”بیان” بھی استعمال کیا ہے، اور علمِ تاویل کو علمِ بیان کہا ہے، مثال کے طور پرملاحظ ہو: وجہِ دین اردو، کلام ۴۶ کا آخری حِصّہ، ص۲۰۹، نامور حکیم کی اس لطیف تعلیم سے ایک بیحد خوبصورت معنوی انقلاب رونما ہوجاتا ہے، وہ یہ ہے: ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہ (۷۵: ۱۹)، پھر یقیناً اس کی تاویل بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے) یعنی اے رسولؐ! قرآن

 

۸۰

 

کی تاویل کا کام ہم ہی آپ کے جانشین سے کرادیں گے۔ جیسا کہ حدیثِ شریف سے ظاہر ہے: (وجہِ دین اردو، کلام۔ ۳۵، ص۱۲۲)۔

امامِ مُبین(۳۶: ۱۲):

جب سیّدناحکیم ناصر خسرو کی شُہرۂ آفاق کتاب (وجہِ دین) میں تاویل کا دوسرا لفظ ” بیان” ، تو آئیے اب ہم قرآنِ حکیم میں لفظِ مُبین کو بھی دیکھتے ہیں ، چنانچہ معلوم ہے کہ سورہ زُخرف (۴۳: ۱۸) میں اس لفظ کے معنی ہیں بولنے والا، بیان کرنے والا، پس امامِ مُبین کے معنی ہیں وہ امام جو ظاہر ہے اور تاویل کرتا ہے، کیونکہ جس کی ذات میں تمام روحانی اور عقلی چیزیں محدود اور جمع ہوں، وہی صاحبِ تاویل ہوسکتا ہے۔

عددی تاویل:

حضرت سیّد شاہ ناصر خسرو حجّتِ خراسان کی اس پُرمایہ اور بیمثال کتاب (وجہِ دین) میں جابجا عددی تاویل کی حکمت بھی نمایان ہے، اس علمِ مخفی کا انتہائی اہم اور اساسی حوالہ کتابِ ہذا کے کلام ۴۸ میں ہے، جس میں مومنوں پر حقِ واجبات کا ذکر ہے، آپ وہاں اس روشن حقیقت کا بحسن و خوبی مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ خدا و رسولؐ کے منشا کے مطابق دینِ حق میں عددی تاویل کا آغاز سب سے پہلے  حضرتِ مولا علی علیہ السّلام نے کیا، آپ وجہِ دین ترجمۂ اردو، کلام

 

۸۱

 

۴۸ کو ازصفحہ ۲۱۳ تا ۲۱۹ اچھی طرح سے پڑھ لیں۔

ایک علمی کائنات:

میرے نزدیک سب سے پسندیدہ اور سب سے زیادہ قابلِ فہم بات یہ ہے کہ موصوف حکیم علم و حکمت کی ایک کائنات ہیں، لیکن یہ وصف محض آپ کے خزائنِ کتب ہی کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس میں اور بھی بے شمار چیزیں شامل ہیں، جو زمانے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہیں، مثال کے طور پر پیر ناصر کے حلقۂ دعوت کا پھیلاؤ کہاں کہاں تک ہے؟ اور دائرہ فیوضاتِ کتب کی وسعت کا کیا اندازہ ہے؟ تقریباً ایک ہزار سال کی اس دعوتِ حق کے نتیجے میں جتنے خوش نصیب لوگ امامِ برحقؑ کے دامنِ اقدس سے وابستہ ہوچکے ہیں، ان کے کیا تعداد ہوسکتی ہے؟ کیا ہر ایسا آدمی جو ناصر خسرو کا شاگرد ہو، بجائے خود ایک عالمِ شخصی نہیں ہے؟ اگر یہ تمام اثری وسعتیں اپنی اپنی جگہ درست اور حقیقیت ہیں، اور یہ سب کچھ دعوتِ ناصری کی کائنات میں ہورہا ہے، تو آئیے ان کے کچھ ایسے اشعار کو دیکھتے ہیں، جن میں ان تمام حقائق کی طرف اشارہ موجود ہے، وہ حکمت آگین اور دلنشین اشعار درجِ ذیل ہیں:

گر بایدت ہمی کی ببینی مرا تمام

چون عاقلان بچشمِ بصیرت نگر مرا

 

۸۲

 

منگر بدین ضعیف تنم ز آنکہ درسخن

زین چرخِ پُر ستارہ فزونست اثر مرا

ہر چند مسکنم بزمین است روزوشب

بر چرخِ ہفتمست مجالِ سفر مرا

(ترجمہ) اگر تو مجھ کو بطورِکلّی دیکھنا چاہتا ہے، تو داناؤں کی طرح مجھے چشمِ بصیرت سے دیکھ لے، میرے اس کمزور جسم کو نہ دیکھا کر کیونکہ میرے قول کا اثر اس فلکِ پُرانجم سے بھی زیادہ ہے، اگرچہ دن رات میری جائے سکونت زمین ہی پر ہے، تاہم میں آسمانِ ہفتم پر بھی سفر کرسکتا ہوں (اس سے آسمانِ روحانیت مراد ہے)۔

اہلِ دانش کے نظر میں ان پُرمغز و حکمت آگین اشعار کا مجموعی مطلب واضح اور روشن ہے کہ حکیم ناصر خسرو (ق ۔ س) ظاہراً و باطناً ایک علمی کائنات ہیں، اگر بات یہ ہوتی، تو آپ ہر گز یہ فرماتے کہ مجھے چشمِ بصیرت سے دانشمندوں کی طرح کلّی طور پر دیکھنا، میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی دینی حکیم جو حجّت یا پیر کا مرتبہ بھی رکھتا ہو، وہ کبھی مُبالغہ آمیز باتیں نہیں کرتا، اس کا قول صداقت، حقیقت، اور حکمت سے بھر پور ہوتا ہے، تاکہ اس کے توسط سے امامِ برحق علیہ السّلام کی روشن ہدایت مہیا ہوتی رہے، پس یقیناً حضرتِ پیر ناصر خسرو پر امامِ زمانؑ کا مقدّس نور اپنی تمامیّت و کمالیّت کے ساتھ طلوع ہوچکا تھا، جس سے حضرتِ پیر کا عالمِ شخصی (PERSONAL WORLD)

۸۳

 

منوّر و تابان ہوا، جس کا ذکر شروع میں بھی ہوا ہے۔

اختتام:

بڑی خوش آئند اور بیحد مفید بات ہے کہ گلگت میں حضرتِ پیر ناصر خسرو پر ایک دو روزہ سیمینارکا اہتمام ہوا ہے، یقیناً اس علمی کام سے پوری جماعت کو زبردست خوشی اور شادمانی ہونے کے ساتھ ساتھ دور رس فائدہ بھی حاصل ہوگا، اور ہر طرف امام شناسی کی خوشبو پھیل جائے گی، جب اہلِ دنیا چاہتے ہیں کہ ان کے ماحول میں پھول ہی پھول نظر آئیں، تو پھر دین میں علم کے پھولوں اور حکمت کے پھلوں کی کثرت و فراوانی کیوں نہ ہو۔

الحمدللہ کہ ہمارے نامدار طریقہ بورڈ کے اعلیٰ افسروں نے ازراہِ عنایت اس بندۂ کمترین کو بھی اس تاریخی سیمینار میں مدعو فرمایا ہے، ولایت نامہ کی تاریخ ۸ ستمبر۱۹۹۰ء ہے، مجھے یہ معززخط بمقامِ گلگت ۱۵ ستمبر میں موصول ہوا، اس خاکسار نے کراچی آکر۲۴ستمبر میں تَعمیلِ حکم کے لئے شروع کیا، پس قلیل وقت کی وجہ سے اس مقالے میں کوئی خامی رہ گئی ہو، تو میں معافی چاہتا ہوں، دعا ہے کہ خداوندِ قدّوس اپنی ہر ہر نعمت پر ہمیں شاکر بنائے! آمین!

نصیرُالدّین نصیر ہونزائی

بروزِ عیدِ میلادُالنبی۱۲۔ ربیع الاوّل ۱۴۱۱ھ ، ۳ اکتوبر ۱۹۹۰ء

 

۸۴

چہل حکمتِ جہاد

صبغۃ اللہ

پروردگارِعالم نے اپنی رحمتِ بے پایان سے تمام مومنین و مومنات کے لئے یہ بہت بڑی فضیلت ممکن بنا دی ہے کہ وہ علم، عبادت اور عشقِ مولا کے وسیلے سے صبغۃ اللہ (رنگِ خدا = نورِ خدا، ۰۲: ۱۳۸) میں رنگین ہوجائیں، الحمد للہ، ہمارے تمام ساتھی ایسے ہوسکتے ہیں، مثال کے طور پر ہمارے بہت ہی عزیز دوست شمس الدّین جمعہ صدر ادارۂ عارف امریکہ اور ان کی فرشتہ خصلت بیگم محترمہ کریمہ سیکریٹری کو دیکھئے کہ کس طرح ذکر و عبادت اور علم و حکمت کی لذّتوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں اور کس شان سے امامِ زمان علیہ السّلام کے پاک عشق کے نور کی شعاعوں سے مستفیض و مستنیر ہو جاتے ہیں، آپ دونوں عزیز صفِ اوّل کے علمی خادموں میں سے ہیں، اللہ کا شکر ہے۔

مؤرخہ ۲۵ دسمبر ۱۹۹۳ء

Table of contents

آغازِ سخن

۔۱۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ ایک انتہائی پُرکشش حقیقت ہے کہ خداوندِعالم کی توفیق و تائید کے بغیر بندۂ مومن کا کوئی نیک کام نہ تو شروع ہوسکتا ہے اور نہ ہی آگے بڑھ کر مکمل ہوسکتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس حکمت میں کتنا عظیم راز مخفی ہے کہ وہ علیم و حکیم اہلِ ایمان کو ہمیشہ اپنے حضور پرنور کی طرف متوّجہ رکھنا چاہتا ہے، تا کہ وہ ” لا حول و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم”  کے بموجب ہر وقت آسمانی تائید کے طالب رہیں۔

۔۲۔ وہ تمام نیک لوگ اور جملہ عزیزان جو علم اور دوسرے نیک کاموں میں ترقی چاہتے ہیں، اُن سب کو میرا پرخلوص مشورہ ہے کہ وہ اسلامی عبادات و اذکار سے کبھی غافل نہ ہوجائیں، عبادت، نماز جو کچھ فرض ہے، وہ تو فرض ہی ہے، اگر کسی مومن کو صراطِ مستقیم پر روحانی ترقی کرنی ہے، اور قرآن و اسلام کے نور اور اس کے روحانی اور عقلانی معجزات کو دیکھنا ہے، تو پھر نوافل کا سہارا لینا ہوگا، اور نوافل کے بارے میں یہ حدیثِ قدسی ہے:
(ترجمہ) “اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعہ مجھ سے قرب حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں، پس جب میں اس

۵

سے محبت کرتا ہوں، تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے۔”

۔۳۔ سبحان اللہ! نوافل (واحد نفل = زائد عبادت) کے انعامِ خداوندی کی شان دیکھئے! ایسے خوش نصیب بندے اللہ کے خاص دوست (اولیاء اللہ) ہی ہوسکتے ہیں، یہاں یہ تو پتہ چلا کہ اگر خدا کسی کے باطن میں نور ہوجائے، اور اسی نور کے ذریعہ سنا، دیکھا، پکڑا اور چلا جائے تو پھر علم و معرفت کے معاملے میں کوئی چیز غیر ممکن نہیں، یہ حدیثِ قدسی فنا فی اللہ و بقا باللہ کا سب سے روشن ترین ثبوت ہے، پس بقا باللہ یا کنزِ مخفی کا حاصل ہونا ایک ہی بات ہے، جو علم و معرفت کے اسرار سے مملو ہے۔

۔۴۔ میں عموماً سب کو اور خصوصاً علم دوست حضرات کو مذکورہ حدیثِ قدسی میں غور و فکر کی پرزور دعوت دیتا ہوں، کیونکہ یہی ایک اکیلی حدیث کئی کئی آیاتِ کریمہ کی تفسیر و توضیح کے علاوہ ایسے کثیر سوالات کے لئے جوابِ شافی بھی ہے، جو سخت مشکل ہوں، اس کی سب سے بڑی وجہ ظاہر ہے کہ خدا کا نورِ اقدس جس کامل شخصیت میں جلوہ فگن ہو، اس میں علم و حکمت کی ساری کائنات مرکوز ہوجاتی ہے، اور اس حدیث کا موضوع بس یہی ہے۔

۶

۔۵۔ “چہل حکمتِ جہاد”  کے مقالے کو تحریر کر کے مجھے اور میرے عزیز ساتھیوں کو زبردست خوشی حاصل ہوئی تھی، اس خوشی کی کئی وجہیں ہیں، اور اب مزید شادمانی ہے کہ ہم اس کو الگ بھی شائع کر رہے ہیں، تا کہ (ان شاء اللہ) ہمارے سب عزیزان کو مل سکے، کیونکہ یہ آرٹیکل بے حد ضروری ہے اور دائمی خوشیوں کا طوفان اس نعمتِ عظمیٰ سے ہے کہ اس پسندیدہ اور مفید مضمون کا انگلش میں بڑا عمدہ ترجمہ ہوچکا ہے، اور یہ عظیم احسان جناب غلام عباس صاحب ہونزائی نے کیا ہے، عزیز و محترم عباس صاحب کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ آپ کا علم و دانش سے مملو لیکچر بڑے بڑے اجتماعات میں سحرِحلال کا کام کرتا ہے، آپ کی گہری نظر اور نکتہ دانی سے نہ صرف عوام ہی کو بلکہ اہلِ علم کو بھی بڑی حیرت ہوتی ہے۔

۔۶۔ پاکستان بنانے کے سلسلے میں جن زعمائے اسلام نے فکری اور سیاسی جہاد کیا، ان میں ہمارے امامِ عالی مقام حضرت مولانا سلطان محمد شاہ علیہ السّلام نمایان تھے، جس کا واضح مفہوم حکمت نمبر۱ میں جھلک رہا ہے، اب امامِ عالی نسبؑ کے اس پرحکمت عمل کے بعد یہ سوال ہر اسماعیلی کے لئے خود از خود ختم ہو جاتا ہے کہ: “اسلام اور پاکستان کی کوئی دفاعی جنگ جہاد ہے یا نہیں؟”

۔۷۔ جہالت و نادانی بھی ملک و قوم کی ایک قوی دشمن ہے، لہٰذا (ان شاء اللہ) ہم اس دشمن کے خلاف بھی اپنے طور و طریق سے شدید

۷

جہاد کرتے رہیں گے، لیکن کوئی بھی بڑی ظاہری جنگ لشکر کے بغیر نہیں لڑی جا سکتی، اس لئے بفضلِ خدا ہمارے ساتھ نہ صرف ایک لشکر ہے، بلکہ اس میں بہت سے افسر بھی ہیں۔

۸۔ دنیائے اسلام کے طول و عرض میں جو لوگ نیک، خیر خواہ، اور دین کے سچے خادم ہیں، وہی فردائے قیامت بہشت میں مخدوم اور بادشاہ ہوں گے، کیونکہ قرآن اور اسلام کی خدمت اگر منشائے خداوندی کے مطابق ہے تو یہ تمام خدمات کی سردار اور بادشاہ ہوسکتی ہے، جس کا اجر و صلہ یقیناً بہشت میں عظیم سلطنت ہے (۷۶: ۲۰) کیونکہ دنیا میں اس سے کوئی بڑی بندگی اور خدمت نہیں، اور آخرت میں اس سے بڑا کوئی ثواب نہیں۔

۔۹۔ جہادِ اصغر میں بھی اور جہادِ اکبر میں بھی علم و حکمت کی حمایت اور جہالت و نادانی کی مخالفت مقصودِ اصلی ہے، چنانچہ عقل و دانش اور علم و حکمت کو جتنی بھی اہمیت دی جائے، اور جس قدر بھی اس کی تعریف و توصیف کی جائے، وہ کم ہے۔

۔۱۰۔ جہادِ جسمانی، جہادِ مالی، جہادِ نفسانی، جہادِ علمی وغیرہ، دراصل ایک ہی عظیم کارنامہ کے مختلف اجزاء ہیں، اس لئے تنہا ہر جزو دوسرے اجزاء کے بغیر نا مکمل ہے، یہی سبب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی غزوہ سے واپس ہوتے ہوئے اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا: ہم چھوٹے جہاد سے (فارغ ہوکر) بڑے جہاد کی طرف واپس

۸

ہو رہے ہیں (یعنی نفسِ امّارہ کے خلاف لڑنا جہادِ اکبر ہے)۔

۔۱۱۔ جو لوگ قرآنی حکمت اور روحانیت سے با خبر ہیں، وہ آپ کو بتا سکتے ہیں کہ دینِ حق کی حفاظت و حمایت میں لڑنے کی غرض سے اللہ تعالیٰ کے بے شمار لطیف لشکر بھی ہیں، لطیف کو نہ کوئی دیکھ سکتا ہے اور نہ روک سکتا ہے، کیونکہ وہ روح اور فرشتہ ہوا کرتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ لِلّٰہِ جنود السمٰوات والارض: زمین اور آسمانوں کے سب لشکر خدا کے قبضۂ قدرت میں ہیں (۴۸: ۴)۔

۔۱۲۔ ہر چند کہ اللہ تبارک و تعالیٰ قادرِ مطلق اور ہر چیز سے بے نیاز ہے، لیکن اُس جواد الکریم نے محض اپنے بندوں پر عظیم احسانات کرنے اور ان کو بدرجۂ انتہا نوازنے کی خاطر بڑے عجیب و غریب قوانینِ رحمت بنائے، جن کے مطابق وہ پاک و برتر فرماتا ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا (۴۷: ۷) نیز فرمایا: اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو (۷۳: ۲۰) پھر ارشاد ہوا: اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ (۰۹: ۴۱)۔ پس یہ سب کچھ اہلِ ایمان کی روحانی ترقی اور بہشت کی سلطنت کے لئے ہے۔

۔۱۳۔ جسمانی (جانی) جہاد اور مالی جہاد کی فضیلت ایک ہی آیۂ کریمہ میں بیان ہوئی ہے، اس ارشادِ خداوندی کا ترجمہ یہ ہے: اللہ نے خرید لی مومنوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر کہ ان کے لئے

۹

جنت ہے، لڑتے ہیں خدا کی راہ میں پھر مارتے ہیں اور مرتے ہیں (۰۹: ۱۱۱) یہ سودا جو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان بہت پہلے ہوچکا ہے، اس کا عہد و پیمان اتنا ضروری ہے کہ اس کی تجدید کے لئے بار بار بیعت لی جاتی ہے، کیونکہ بیعت کا لفظ “بیع”  سے ہے، جس میں خرید و فروخت کے دونوں معنی موجود ہیں، پس بیعت کے عمل میں جانی اور مالی جہاد کا راز مضمر ہے، آپ بیعتِ رضوان (۴۸: ۱۸) کے بارے میں معلوم کر سکتے ہیں، کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بیعت کس مقصد کے پیشِ نظر لی تھی؟

۔۱۴۔ عصرِ حاضر کی بات ہے، اگر آپ کسی اسلامی عسکر میں شامل نہیں ہیں، اس لئے پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ جسمانی جہاد کرنے کی قابلیت نہیں رکھتے ہیں، تو مایوس نہ ہو جائیے، کیونکہ مالی جہاد، علمی جہاد، اور نفسانی جہاد کے زرین مواقع بھی تو ہیں۔

۔۱۵۔ مالی قربانی کو جہاد کا درجہ کیوں کر حاصل ہوسکتا ہے؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ مال شرعی خون بہا (خون کی قیمت = دِیَت) کی صورت میں جان کا عوض ہوسکتا ہے (بحوالۂ قرآنِ کریم، سورۂ نساء آیت ۹۲) اور دنیاوی مثال میں بھی یہی بات ہے کہ اگر حکومت کی ذمہ داری میں کسی خاندان کا جانی نقصان ہوجائے، تو اس کو بطورِ معاوضہ کوئی مناسب رقم دی جاتی ہے، یہ اس حقیقت کی دلیل ثابت ہوئی کہ اگرچہ ظاہراً جانی قربانی سے مالی قربانی کمتر ہے، لیکن جب صرف اور صرف مالی قربانی ہی کی سخت ضرورت ہو، تو پھر مالی جہاد جانی جہاد ہی کی طرح مفید ہوسکتا ہے،

۱۰

یہ ایک جزوی مثال ہے۔

۔۱۶۔ ان شاء اللہ، ہم اپنے محدود دائرۂ رسائی میں علمی جہاد کرتے رہیں گے، جس میں ہمارے مشرق و مغرب کے تمام عزیز تلامیذ شامل ہیں، کیونکہ اس اجتماعی عمل میں کوئی ایک کام نہیں، بلکہ سینکڑوں کام ہیں، جن کو ہمارے بہت سے ساتھی انجام دیتے ہیں، اس دائرۂ کار میں ہم جتنے بھی افراد ہیں سب بے انتہا شادمان ہیں، جس کی وجہ خداوندِ قدوس کی رحمت اور کامیابی ہے، جس سے ہم ایک دوسرے کو اپنی جان کی طرح عزیز رکھتے ہوئے سچے دل سے کہتے رہتے ہیں کہ: “یہ ترقی آپ کی کوششوں کی برکت سے نصیب ہوئی۔”  اور اسی طرح مونوریالٹی (یک حقیقت) کی بات بنتی ہے۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی
جمعرات ۲ رجب المرجب ۱۴۱۴ھ / ۱۶ دسمبر ۱۹۹۳ء

۱۱

ستارۂ سعدِ اکبر

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یایھا الذین امنوا ان تنصروا اللہ ینصر کم و یثبت اقدامکم (۴۷: ۷) صدق اللہ العلی العظیم۔  اس آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔

مہمانِ خصوصی جناب محمد طاہر صاحب صدر ریجنل کونسل گلگت، میر مجلس جناب سرفراز شاہ صاحب چیئرمین مصالحتی بورڈ گلگت، جناب ظفر اقبال صاحب آنریری سیکریٹری ریجنل کونسل گلگت، جماعت کے دیگر عملداران، اکابرین اور معزز حاضرین! السلام علیکم!

ابھی ابھی آپ کے سامنے سورۂ محمد کی ایک آیۂ شریفہ (۴۷: ۷) پڑھی گئی، جو مغزِ حکمت سے مملو ہے، جس میں اہلِ ایمان کو حکم ہے کہ وہ اللہ کی مدد کریں، اور اس میں بزبانِ حکمت رسولِ خدا کی مدد کرنے کے لئے امر ہوا ہے، کیونکہ حقیقت میں خدائے بزرگ و برتر کسی کی مدد کے لئے ہرگز محتاج نہیں، تاہم پروردگارِعالم ہر عظیم شیٔ کو اپنی ذاتِ پاک سے منسوب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ میرے لئے ہے، تا کہ ایسی چیز کی اہمیت اور قدر و منزلت ظاہر ہوجائے، اسی قانون کے

۱۲

مطابق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امامِ عالی مقامؑ کے مقدّس ادارے اس لئے مقرر ہوئے کہ جماعتی ترقی کے کاموں میں امامِ زمانؑ کا ہاتھ بٹائیں، اور اس میں جماعت کا فرض ہے کہ تابعداری اور نیک کاموں کی صورت میں مولائے پاک کے اداروں کی مدد کرے، تا کہ یہ مدد امامِ زمانؑ کے لئے ہو، اور امام کے توسط سے رسولِ اکرمؐ کی مدد ہو۔

ستارۂ سعدِ اکبر (سب سے بڑا نیک ستارہ) مشتری کو کہتے ہیں، دراصل میرا اشارہ کسی اور ستارے کی طرف ہے، جو انتہائی عظیم سعادتوں کا سرچشمہ ہے، جو آسمانِ عقلانیت پر طلوع ہوجاتا ہے، پس ایسا لگتا ہے، جیسے آج اتوار ۱۰ اکتوبر ۱۹۹۳ء کو آسمانِ عقل پر ستارۂ سعدِ اکبر طلوع ہوگیا ہو۔

تحفہ یا خطاب کا تجزیہ:
یہ تحفہ (خطاب) جو مولائے پاک کے مقدّس ادارے کی جانب سے ملا ہے، وہ میری ناچیز ہستی اور حیثیت سے بڑھ  کر ہے، کیونکہ “لسان القوم”  کے معنی ہیں قوم کی بولنے والی زبان، اس میں ادب، علم، اور حکمت سے متعلق تمامتر اشارات موجود ہیں، اس کا ہم معنی لفظ “ترجمان القوم”  ہے، اس خطاب کی اصل خوبیاں پسِ پردہ پوشیدہ ہیں، وہ یہ کہ یہاں دینی اور روحانی قوتوں کی کارفرمائی کی پُرحکمت مثال موجود ہے، یعنی

۱۳

زبان پانچ حواسِ ظاہر میں سے ایک حس سے زیادہ کچھ بھی نہیں، کیونکہ وہ ازخود کچھ بول ہی نہیں سکتی، جب تک دل و دماغ جیسی باطنی قوتیں حکم اور مدد نہ کریں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری قوم روحانی وحدت و سالمیت میں فردِ واحد کی طرح ایک ہے، جس کے اعضاء اور ظاہری و باطنی قوتوں کا کام قوم کے لوگ ہی کرتے رہتے ہیں، پس جماعتِ با سعادت کی پاکیزہ روحوں کی نیک دعاؤں اور روحانی تائیدات کے لئے بندۂ کمترین سخت محتاج ہے۔

آج میرے حق میں امامِ زمان صلواۃ اللہ علیہ و سلامہ نے اپنی نامدار ریجنل کونسل کے توسط سے گویا مردۂ صد سالہ زندہ کر دینے کا معجزہ کر دیا، ہادئ برحقؑ کے اس قیامت خیز معجزے سے میں مسرّت و حیرت کی کشا کش میں ہوں، قومی خوشی اور شادمانی کے اس موسمِ گل میں جب تمام شرکاء شادمان ہیں، تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ، نامدار ریجنل کونسل کے کارنامہ ہائے زرّین سے جملہ جماعت کو بے حد خوشی ہوگی، محض اس وجہ سے نہیں کہ نصیر الدین کو ایک پُرحکمت تحفہ عطا ہوا، بلکہ اس لئے بھی سب کو شادمانی ہوگی کہ اب بحمداللہ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کے پاک ادارہ جات میں زیادہ سے زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات آ گئے، اور انہوں نے منشائے مولا کے مطابق ہر میدان اور ہر شعبے میں کام کرنے والوں میں ہمت و حوصلہ کی روح پھونک دینے کا

۱۴

منصوبہ بنا لیا۔

کس طرح شکریہ ادا کروں؟
یہی ہے طریقِ ذرّہ نوازی، یہی ہے ذرّۂ بے مقدار کو آفتاب بنانے کا عمل، اسی کا نام احسانِ عظیم ہے، اور یہی ہے سب سے بڑا انعام، لیکن میں آج، جبکہ میرے لئے آسمانِ عقلانیت پر ستارۂ سعدِ اکبر طلوع ہوچکا ہے، شش و پنج میں ہوں کہ کن شایانِ شان الفاظ میں اپنے تمام محسنوں کا شکریہ ادا کروں! میں اپنے دل و دماغ سے پوچھتا ہوں کہ آیا میں اس عظیم احسان کے لئے صرف قولی شکریہ پر اکتفاء کروں، یا اس کی کوئی عملی شکر گزاری بھی ہے؟ تاہم صرف اتنا ہی سوچنا اس مسئلے کا آخری حل نہیں، لہٰذا اب مجھے ہادئ ظاہر و باطن کے حضورِعالی میں شدید احساس کے ساتھ گڑگڑانا ہوگا، تا کہ وہ مہربان مجھے ازراہِ بندہ نوازی کوئی خاص ہدایت و توفیق عنایت فرمائے کہ جس سے میں بصد شکرگزاری کوئی نیک کام انجام دے سکوں۔

خیر خواہی کا عظیم عمل:
رحمتِ عالم فخرِ بنی آدم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: الدین نصیحۃ: دین ہر طرح کی خیر خواہی کا نام ہے، یعنی نیت میں بھی، قول میں بھی، اور عمل میں بھی خیر خواہی ضروری ہے، تا کہ اس سے اسلام اور ایمان کی ساری خوبیاں جمع ہوسکیں، چنانچہ اسی اسلامی خیر خواہی کے جذبے سے ہمارے نامدار ادارہ “آغا خان ریجنل

۱۵

کونسل گلگت”  نے علاقہ کے فرقہ ورانہ فسادات کے سدِ باب کی خاطر جو جو نمایان کارنامے انجام دیئے، وہ تاریخ کے اوراق پر آبِ زرّ سے لکھنے کے قابل ہیں، امامِ عالی مقام کے ان قابلِ احترام نمائندوں نے اپنے دونوں برادر فرقوں کو جذبۂ خیر خواہی سے اتنا متاثر کیا کہ بالآخر وہ حضرات جو آخری کانفرنس میں تھے ایک دوسرے سے بغلگیر ہوگئے، ایسا بڑا مشکل کام ایک دو دن میں کیسے مکمل ہو سکتا تھا، لہٰذا انہوں نے بڑی جانفشانی اور دانشمندی سے مرحلہ وار کئی میٹینگیں منعقد کیں، اپنے طور پر بھی، دوسرے بھائیوں کے ساتھ بھی، اور مقامی حکام کے ساتھ بھی۔

الغرض نامدار ریجنل کونسل گلگت نے جس ہمہ گیر خیرسگالی، امن پسندی، اور تصفیۂ باہمی کا کردار انجام دیا، اسے نہ صرف حکومت قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، بلکہ آرمی کی ہائی کمان، اور عوام و خواص کی اکثریت بھی اس مصالحتی کارنامے کی تعریف کرتی ہے، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آگ بجھائی گئی، ورنہ یہ آتش پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لیتی۔

جماعتی ترقی:
گلگت میں ہماری جماعتِ با سعادت کی ترقی موجودہ حد تک کس طرح پہنچ گئی، اور اس کے اسباب و ذرائع کیا کیا تھے، وہ قصّہ بڑا طویل ہے، لیکن ہم یہاں امامِ اقدس و اطہرؑ کے ان تمام مخلص

۱۶

اور جان نثار مریدوں کو سلامِ عزّت بھیجتے ہیں، جنہوں نے اس مجموعی ترقی کے سلسلے میں کسی بھی حیثیت سے کام کیا ہو، قومی ترقی کی خاطر نہ صرف دماغی قوّت اور پین پاور سے کام لیا جاتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ مالی قربانی اور جسمانی محنت و مشقت بھی ازحد ضروری ہوا کرتی ہے، پس موجودہ ترقی زبانِ حال سے یہ گواہی دے رہی ہے کہ مولائے برحق کے پاک اداروں اور نیک نام جماعت نے شروع سے لے کر اب تک بڑی گرانمایہ خدمات انجام دی ہیں۔

علم و ادب:
علم دینی بھی ہے اور دنیاوی بھی، ہمیں من حیث القوم دونوں کی سخت ضرورت ہے، ادب اگر علم کے بغیر ہے تو وہ صرف تیاری کا مرحلہ ہے، علم گویا آدمی ہے اور ادب اس کا لباس، کیونکہ پہلے مرحلے میں زبان ہے، دوسرے میں اس کا ادب، اور اس کے بعد علم کا درجہ آتا ہے، اگر ہم یہاں زبان کی بات کرتے ہیں، تو سب سے پہلے قرآن و حدیث کی زبان ہے، اس کے بعد فارسی زبان ہے، کیونکہ اس میں دینی کتب کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے، نیز یہ ہمارے اُن بھائیوں کی زبان ہے، جو ایران، افغانستان، تاجکستان، سریقول وغیرہ میں رہتے ہیں، اردو زبان کی اہمیت مسلّمہ ہے، جبکہ وہ ہماری قومی زبان ہے، جی ہاں، آج کی دنیا میں انگلش کی بھی بڑی اہمیت و ضرورت ہے، اس لئے کہ یہ عالمی زبان بن چکی ہے

۱۷

اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آپ اس سلسلے میں اپنے لوگوں کی بہترین خدمت کس طرح انجام دے سکتے ہیں، تاہم یہ بات یاد رہے کہ کوئی بھی لسان علم نہیں، یعنی زبان دانی کا نام علم نہیں ہوسکتا ہے، ہاں یہ بات درست ہے کہ ہر ایسی زبان علم کے لئے سیڑھی ہے، جس میں علمی کتابیں مہیا کی گئی ہوں۔

تاویلی حکمت:
پیغمبرِاکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: الحکمۃ ضالۃ المومن = حکمت مومن کی کھوئی ہوئی چیز ہے۔ یعنی جب مومن خدا کے نزدیک یا بہشت میں تھا تو اس وقت اس کے پاس علم و حکمت کے خزائن تھے، جب وہ اس دنیا میں آگیا، تو یہ دولت فراموش اور گم ہوگئی، لہٰذا اب ہر مومن اور مومنہ کے لئے اس متاعِ گمشدہ کی تلاش ضروری ہوگئی، یاد رہے کہ دین کی سب سے اعلیٰ باتیں سیم و زرّ، اور لعل و گوہر سے کہیں زیادہ گرانقدر ہیں، اس لئے وہ جہاں بھی ہوں صندوقِ حکمت میں مقفل ہیں، پس کلیدی حکمت کی بہت بڑی اہمیت ہے۔

ایک اہم مثال:
حضرتِ امیر المومنین علی علیہ السّلام نے فرمایا: سلونی عما دون العرش = پہلا ترجمہ: مجھ سے ہر اس چیز کے بارے میں پوچھو جو عرش (کی حد) کے نیچے ہے۔ دوسرا ترجمہ: مجھ سے ہر

۱۸

اس چیز کے بارے میں پوچھو جو نورِعقل (عرش) کے تحت ہے۔ اگرچہ لفظی اعتبار سے پہلا ترجمہ غلط تو نہیں، لیکن اس میں صندوقِ حکمت مقفل ہی ہے، اور وہ لفظِ “عرش”  ہے، جبکہ دوسرے ترجمہ میں یہ صندوق کھولا گیا ہے، اب اس وجہ سے دونوں ترجموں کے درمیان آسمان زمین کا فرق پیدا ہوگیا، پس علئ زمان صلواۃ اللہ علیہ اپنے نورِعقل کی ہمہ گیر روشنی میں ہر چیز کا علم رکھتا ہے، اور کوئی شیٔ نورِعقل سے باہر اور برتر نہیں۔

سلونی کا مطلب:
چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو ہر زمانے کا امام مولاعلیؑ کی طرح “سلونی عما دون العرش”  کا فرمان صادر فرماتا ہے، اور وہ قول سے بڑھکر ایک عملی ہدایت ہے، یعنی شاہراہِ صراطِ مستقیم پر گامزن کر دیا جاتا ہے، تا کہ آگے سے آگے چل کر مومنین و مومنات نورِعقل کا دیدار کریں، اور اس سے پوچھے بغیر ہر ہر سوال کا جواب حاصل کریں، (۵۷: ۱۳، ۵۷: ۲۸، ۵۷: ۱۲) اور آیۂ کریمہ: فسئلوا اہل الذّکر (۱۶: ۴۳) اہلِ ذکر سے پوچھو، کا مطلب بھی یہی ہے کہ جو لوگ پیغمبروں کی روحانیت کو نہیں جانتے ہیں، وہ اہلِ ذکر (امامِ وقتؑ ) سے اس طرح پوچھیں کہ اس کی ہدایت کے مطابق کامل و مکمل روحانیت کو حاصل کریں، تا کہ نورِ عقل کی روشنی میں ہر چیز کا علم حاصل ہو جائے۔

۱۹

گہوارہ اور قبر میں علم؟
آنحضرتؐ نے فرمایا: اطلبوا العلم من المہد الی اللحد = تم گہوارے سے لے کر قبر تک علم کی تلاش کرتے جاؤ۔ ظاہر ہے کہ طفلِ گہوارہ نہ تو علم کی تلاش کر سکتا ہے اور نہ ہی علم کو سمجھ سکتا ہے، اور قبر میں تو مردہ ہے، وہ کس طرح علم کو ڈھونڈ سکتا ہے، چنانچہ اس کی تاویلی حکمت لازمی ہے، وہ یہ ہے کہ ہوشمند مومن شروع شروع میں طفلِ شیر خوار کی طرح اپنے آپ کو دینی معلّم کے سپرد کر دیتا ہے، تا کہ وہ اسے گہوارۂ فرمانبرداری میں باندھ کر شیرِعلم سے پرورش کرے، پھر وہ آگے چل کر یا تو نفسانی موت کا مزہ چکھ لیتا ہے، یا جسمانی موت سے مرجاتا ہے، پس ان دونوں میں سے جو بھی صورت ہو، اس مومن یا مومنہ کو ایک زندہ قبر یعنی ایک اعلیٰ ہستی مل جاتی ہے، جس میں اس کو روحانی تعلیم دی جاتی ہے۔

علم کے ساتھ لفظِ “طلب”  کیوں؟
اس میں کیا راز پوشیدہ ہے کہ حدیثِ شریف میں حصولِ علم کے لئے جو حکم دیا گیا ہے، وہ اکثر لفظِ : “طلب”  سے شروع ہو جاتا ہے؟ یعنی فرمایا گیا ہے کہ علم طلب کرو (ڈھونڈو) یا علم تلاش کرو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ علم کی طلب و تلاش میں ذہنی اور خارجی ہر قسم کی حرکت اور جستجو لازمی ہے، خواہ وہ جسمانی مسافرت ہو یا روحانی سفر، چاہے وہ قرآن و حدیث کا گہرا مطالعہ ہو یا آفاق و انفس

۲۰

میں غور و فکر، غرض ان تمام حرکتوں کا نام طلبِ علم ہے، پس مومن اور مومنہ کی ہوشمندی اسی میں ہے کہ وہ ہمیشہ حصولِ علم کی خاطر اپنی ہر کوشش اور ہر گونہ حرکت کو جاری رکھے، تا کہ خداوندِ دو جہان اس کی پرخلوص حرکت میں علم کی گوناگون برکتیں پیدا کرے۔ آمین!

ایک بڑا مشکل سوال اور اس کا جواب:
ربّ العزت کا ارشاد ہے: و اعبد ربّک حتی یاتیک الیقین (۱۵: ۹۹) پہلا ترجمہ: اور تم اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہو تا آنکہ تمہارے پاس موت آئے۔ دوسرا ترجمہ: اور تم اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہو تا آنکہ تم کو یقین آئے۔ یہ بڑا مشکل مسئلہ رہا ہے کیونکہ اکثر علماء نے یقین سے موت مراد لی ہے، جبکہ دوسرے علماء کے نزدیک یقین کا مطلب موت نہیں، یقین ہی ہے، جسے آپ قلبی اطمینان بھی کہہ سکتے ہیں، تاہم دونوں ترجموں میں سوال باقی ہے، بلکہ کئی سوالات ہوسکتے ہیں، چنانچہ ترجمۂ اوّل سے یہ بحث ہے: ہر کام کا ایک آخری مقصد ہوا کرتا ہے، لیکن عبادت کا مقصد ظاہری موت نہیں، اگر کوئی کہے کہ یہ نفسانی موت ہے تو بھی درست نہیں، کیونکہ ایسی موت بھی عبادت کی آخری حد نہیں ہوسکتی، معلوم ہے کہ انبیاء و اولیاء پر زندگی ہی میں نفسانی موت واقع ہوجاتی ہے، اور وہ حضرات ذکر و بندگی کو ترک نہیں کرتے ہیں۔ ترجمۂ دوم سے بحث: آیۂ شریفہ کا خطاب آنحضرتؐ سے ہے۔

۲۱

پھر کیا حضورِ انورؐ کو اس حکم سے پہلے ہی سے یقینِ کامل حاصل نہیں تھا؟ یہ کس طرح ممکن ہے کہ رسول اللہ کی عبادت ذاتی یقین کی حد تک محدود ہو؟

آخری جواب:
آیۂ کریمہ کا خطاب اگرچہ نبئ اکرمؐ سے ہے، تاہم نمونۂ ہدایت اہلِ ایمان کے لئے ہے، اور اس قسم کا ارشاد بڑا خاص ہوا کرتا ہے، چنانچہ میں ولئ زمان صلواۃ اللہ علیہ کی تائید و یاری سے اس آیۂ مبارکہ کی کچھ حکمتیں بیان کرنے کے لئے سعی کرتا ہوں کہ یقین کے تین بڑے درجے ہیں: علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین، پھر ہر بڑے درجے کے بہت سے ذیلی درجات ہیں، چنانچہ حکم ہوا کہ اے مومنِ موَحِّد تو اپنے ربّ کی ہر عبادت اس معیار سے کر کہ نتیجے کے طور پر یقین کی روشنی اور اطمینانِ قلبی حاصل ہو جائے۔

دوسری حکمت یہ ہے کہ جس طرح ہرعبادت کے نتیجے میں ایک ذیلی یقین کی روشنی یعنی تائیدی علم وغیرہ ضروری ہے، اسی طرح مجموعی بندگی کا ثمرہ کسی بھی مرحلے میں بصورتِ حق الیقین مل سکتا ہے، کیونکہ جزو دلیل ہے کلّ کے لئے، اللہ تبارک و تعالیٰ چاہتا ہے کہ مومنین و مومنات اس درجہ سے بھی بہت آگے جائیں، جہاں ہر عبادت کے نتیجے میں یقین کی روشنی نظر آتی ہے، جیسا کہ حکم ہے: اے بنی آدمؑ ہر عبادت میں اپنی (روحانی) زینت سے آراستہ ہو جاؤ (۰۷: ۳۱)

۲۲

یعنی اے آدمِ زمانؑ کے بیٹو! تم ہر عبادت اس پاکیزگی سے کرو کہ اس کا نتیجہ روحانی روشنی اور علم ہو۔
تیسری حکمت: جنّ و انس کی تخلیق کا مقصد اللہ کی عبادت و معرفت ہے (۵۱: ۵۶) معرفت کا دوسرا لفظ یقین ہے، یقین کا آخری اور سب سے بڑا درجہ حق الیقین کہلاتا ہے، جہاں دوسری تمام حقیقتوں اور معرفتوں کے ساتھ ساتھ فنا فی اللہ کا مشاہدہ بھی ہے، چونکہ فنا فی اللہ کے بعد بقا باللہ کا مرتبہ آتا ہے، جس کو ہم عقلی جنم بھی کہہ سکتے ہیں، جہاں سے خدا کے دوستوں کی حقیقی زندگی کا آغاز ہوجاتا ہے، چنانچہ کل من علیہا فان (۵۵: ۲۶)میں بطریقِ حکمت فنا فی اللہ کا ذکر فرمایا گیا ہے، و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام (۵۵: ۲۷) میں بقا باللہ کا بیان ہے، اور اس کے بعد ارشاد ہے کہ اس انتہائی اعلیٰ مقام پر جو نعمتیں ہیں، ان کو تم دونوں (یعنی گروہِ جنّ و انس) کیسے جھٹلاؤ گے۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
تحریر: گلگت میں، تحقیق و اضافہ: کراچی میں
۳ جمادی الثانی ۱۴۱۴ھ
۱۸ نومبر ۱۹۹۳ء

۲۳

فہرستِ چہل حکمتِ جہاد

نمبر شمار حکمت ص
۱ سیاسی اور عقلی جنگ ۲۷
۲ اتحاد بین المسلمین ۲۷
۳ محاذِ جنگ پر روحانیت ۲۷
۴ سب سے بہترین موت ۲۸
۵ اللہ والے ۲۸
۶ چھوٹی جماعت ۲۸
۷ سب سے چھوٹا ہتھیار۔  فلاخن ۲۸
۸ جہاد میں تقویٰ اور صبر ۲۹
۹ صوفیانہ جہاد ۲۹
۱۰ سب سے بہترین زمانہ ۲۹
۱۱ ہوشمند مجاہد ۳۰
۱۲ جہادِ اکبر ۳۰
۱۳ جہاد اسلام کا ایک اہم رکن ۳۱
۱۴ سیف و قلم ۳۱
۱۵ خدا کا ہر وعدہ مشروط ہے ۳۱
۱۶ اسلام ایک عظیم درخت ۳۲
۱۷ قرآن کے علم الاشارہ میں ہر چیز کا بیان ۳۲
۱۸ قرآنی اشارات کی بہت بڑی اہمیت ۳۳
۱۹ قرآن اور تسخیرِ کائنات ۳۳
۲۰ فرشتوں کی مدد کی شرطیں ۳۳
۲۱ اجتماعی نافرمانی ۳۴
۲۲ بزرگی کا معیار کیاہے؟ ۳۴
۲۳ عبادت کی مشقیں اور جنگی مشقیں ۳۵
۲۴ صبر اور نماز ۳۵
۲۵ “فطرت”  اسلام کا نام ہے ۳۵
۲۶ دو بھلائیوں میں سے ایک ۳۶
۲۷ سب سے بڑی عبادت ۳۶
۲۸ خدا کے رنگ میں رنگین ہو جانا ۳۷
۲۹ مومن سپاہی کی ورزش بھی عبادت ہے ۳۷
۳۰ خوف کس روح میں ہے؟ ۳۸
۳۱ خوفِ بے جا اور خوفِ خدا ۳۹
۳۲ علاج کی تین کتابوں کا مطالعہ ۳۹
۳۳ قرآنی حکمت کا مطالعہ ۴۰
۳۴ درد و الم کس روح کی خاصیت ہے؟ ۴۰
۳۵ فنا کے تین مراتب ۴۰
۳۶ فنا اور حدیثِ قدسیٔ نوافل ۴۱
۳۷ بہشت میں شہید کی ایک تمنا ۴۱
۳۸ شہید روحاً نہیں مرتا ۴۲
۳۹ ایک کو زندہ کیا تو گویا سب کو زندہ کیا ۴۲
۴۰ اسلامی لشکر کے لئے دعا ۴۳

صفحہ ۲۴-۲۶

چہل حکمتِ جہاد
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حکمت نمبر ۱۔
پاکستان بنانے کے سلسلے میں جو سیاسی اور عقلی جنگ لڑی گئی، جیسی جانی اور مالی قربانیاں پیش کی گئیں، اور جس نوعیت کا عظیم جہاد کیا گیا، اس میں اسلام کے تمام مکاتبِ فکر کے رہنماؤں اور علماء نے عملاً حصہ لیا، لہٰذا، اب ہمارے لئے یہ امر ضروری بھی ہے اور باعثِ فخر بھی کہ ہم پاکستانی لشکر میں شامل ہوکر اپنے ملک و ملّت کی حفاظت و پاسبانی کریں۔

حکمت نمبر ۲۔۔
فرقہ واریّت اور انتشار کے تلخ تجربوں کے بعد اب اتحاد بین المسلمین کی انتہائی ضرورت محسوس ہو رہی ہے، اور یہ تحریک سب سے پہلے افواجِ پاکستان کی بدولت بڑی حد تک کامیاب ہوسکتی ہے، بشرطیکہ ملک و ملت کی مضبوطی کی خاطر ہر قسم کے تعصب سے گریز کیا جائے۔

حکمت نمبر ۳۔
حضراتِ اصحاب رضوان اللہ علیہم میں سے بعض نے محاذِ جنگ پر روحانیت کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ کیا تھا، اور ان کی روحانی ترقی ہوئی تھی، کیونکہ ایسے میں خدا کی یاد کثرت سے ہونے لگتی ہے، اور

نزولِ ملائکہ کا عالم ہوتا ہے۔

۲۷

حکمت نمبر ۴۔
سب سے بہترین موت شہادت ہے، جو ظاہری بھی ہے اور باطنی بھی، اور یہی شہادت دراصل حیاتِ طیبہ کہلاتی ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے، ترجمہ: اور جو لوگ خدا کی راہ میں شہید کئے گئے ہیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھنا، بلکہ وہ لوگ جیتے (جاگتے موجود) ہیں اپنے پروردگار کے ہاں سے (وہ روحانی اور عقلی) روزی پاتے ہیں (۰۳: ۱۶۹)۔

حکمت نمبر ۵۔
یہ ربّانی تعلیم سورۂ آلِ عمران میں ہے ( ترجمہ): اور ایسے پیغمبر بہت سے گزر چکے ہیں جن کے ساتھ بہتیرے اللہ والوں نے (راہِ خدا میں ) جہاد کیا اور پھر ان کو خدا کی راہ میں جو جو مصیبت پڑی ہے نہ تو انہوں نے ہمت ہاری اور نہ بوداپن کیا اور نہ (دشمن کے سامنے) گڑگڑانے لگے اور صبر کرنے والوں سے خدا محبت کرتا ہے (۰۳: ۱۴۶)۔

حکمت نمبر ۶۔
حضرتِ طالوت کے قصۂ قرآن میں ہے (ترجمہ): بہت دفعہ ایسا ہوا ہے کہ خدا کے حکم سے چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر غالب آگئی ہے اور خدا صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے (۰۲: ۲۴۹)۔

حکمت نمبر ۷۔
مذکورہ قصہ میں یہ بھی ہے: و قتل داؤد جالوت (۰۲: ۲۵۱) داؤد نے جالوت کو قتل کیا۔ قرآنِ کریم کی ہر آیۂ مقدّسہ میں اہلِ ایمان کے لئے بہت سی سبق آموز نصیحتیں ہیں، چنانچہ

۲۸

یہ قصّہ مشہور ہے کہ حضرتِ طالوت کے زمانے کا سب سے بڑا کافر پہلوان جالوت تھا، جس کو حضرت داؤدؑ نے اس طرح قتل کیا کہ فلاخن (مقلاع، گوپن، گوپھن) میں پتھر رکھا اور جیسا کہ معمول ہے کچھ دور رہ کر فلاخن کو گھمایا، اور اس کا پتھر جالوت کی پیشانی میں گولی کی طرح لگا اور دماغ کے وسط تک پہنچا۔

حکمت نمبر ۸۔
اگر مجاہدین نے پہلے ہی سے اپنی ذات میں تقویٰ اور صبر جیسے عالیشان اوصاف پیدا کر لئے ہیں، تو وعدۂ الٰہی کے مطابق میدانِ جنگ میں فرشتے ان کی مدد کرسکتے ہیں، اور وہ روحانیت کی روشنیوں اور کرامتوں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں، کیونکہ ایمانِ کامل اور جذبۂ جہاد سے روحانیت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔

حکمت نمبر ۹۔
جس شخص نے صوفیانہ جہاد کیا اور کامیاب ہوگیا تو وہ خدا کے فضل و کرم سے جہادِ ظاہر کے روحانی بھیدوں کے بارے میں گفتگو کرسکتا ہے، کیونکہ دونوں جہاد کا روحانی نتیجہ ایک جیسا ہوتا ہے تا کہ عالمِ شخصی میں علم و معرفت کی ہر چیز موجود ہو۔

حکمت نمبر ۱۰۔
زمانۂ نبوّت تاریخِ اسلام کا سب سے بہترین زمانہ شمار ہوتا ہے، اس میں آج کی طرح اسلامی عسکر کا ادارہ الگ تھلگ نہ تھا، بلکہ اہلِ ایمان (مرد و زن) سب کے سب اسلامی لشکر کے سپاہی تھے، اس سے  کئی ایک روشن حقیقتیں چشمِ بصیرت کے سامنے آتی ہیں۔

۲۹

الف: جہاد بڑا اہم فریضہ ہے، جس میں ہر تندرست مسلمان کا شامل ہو جانا ضروری ہے۔

ب: خدا و رسول کی سب سے بنیادی سنّت یہ رہی ہے کہ مسلمین ہمیشہ متحد و متفق ہو جائیں۔

ج: پاکستان آرمی کے علاوہ یہاں کے دوسرے مسلمانوں خصوصاً جوانوں کو بھی جنگی تربیت دینے کی سخت ضرورت ہے، کیونکہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں ہر مسلمان اپنے وقت کے آلاتِ حرب کو جہاد میں بخوبی استعمال کرسکتا تھا۔

حکمت نمبر ۱۱۔
ہوشمند مجاہد مقررہ نماز و عبادت کے علاوہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت ذکر میں مصروف رہتا ہے، تا کہ شیطان اپنے وسوسوں کے سلسلے میں اس کے دل میں خوفِ بے جا نہ ڈال سکے، اگر خدائے جلیل و جبار کی پرحکمت یاد مسلسل اور مکمل ہے تو وہ ایک سرچشمۂ نور ہے، جس سے بے شمار کرنیں پھوٹتی ہیں، ان میں کوئی کرن مسرت و شادمانی ہے، کوئی توفیق و ہدایت، کوئی علم و حکمت، کوئی ذوقِ عبادت، کوئی دینی محبت، کوئی شوقِ شہادت، وغیرہ۔

حکمت نمبر ۱۲۔
مجاہدین کے لئے محاذ اور میدانِ جنگ باعثِ رحمت ہے، کیونکہ آدمی کا نفسِ امّارہ اپنی سرکشی سے کبھی باز نہیں آتا، مگر میدانِ جہاد جیسے حالات میں، یہی سبب ہے کہ پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی غزوہ سے واپس ہوتے

۳۰

ہوئے اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ: ہم چھوٹے جہاد سے (فارغ ہوکر) بڑے جہاد کی طرف واپس ہو رہے ہیں۔ (یعنی نفسِ امّارہ کے خلاف لڑنا جہادِ اکبر ہے) اس کا مطلب یہ ہوا کہ نفسانی جہاد کے لئے بڑی آسانی جسمانی جہاد کے فوراً بعد ہی ممکن ہے، اور اگر موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا، اور وقت گزرتا گیا تو پھر مشکل ہے۔

حکمت نمبر ۱۳۔
اس کتاب میں بجا طور پر جہاد، مجاہد اور میدانِ جنگ کے بارے میں اسلامی ہدایات درج کی گئی ہے، اور یہ باتیں قابلِ ستائش ہیں، کیوں نہ ہوں، جبکہ ہر بات قرآنِ حکیم اور حدیثِ شریف کی روشنی میں کہی گئی ہے، اور جبکہ جہاد اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔

حکمت نمبر ۱۴۔
ایک ساتھ سیف و قلم جیسی دنیا کی دونوں سردار چیزوں کی مہارتِ تامّہ حاصل کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں، لیکن اس معاملے میں میجر جنرل فضلِ غفور صاحب اور ان کے ساتھ آفیسرز قابلِ مبارک باد اور لائقِ تعظیم ہیں کہ انہوں نے اللہ کی رحمت و مہربانی سے ایک ایسا علمی کارنامہ انجام دیا، جو ہمارے پیارے پاکستان کی نامور افواج کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوسکتا ہے۔

حکمت نمبر ۱۵۔
قرآنِ کریم میں خدائے بزرگ و برتر کا کوئی ایسا وعدہ موجود نہیں، جس کے متعلق ہم یہ سمجھ بیٹھیں کہ جہالت، بے عملی، اور تفرقہ کے باوجود ہم دنیا میں غالب و فاتح ہوتے چلے جائیں گے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ پاک کا ہر وعدہ علم و عمل سے مشروط ہے۔

۳۱

اور اس ضمن میں جو کچھ فرمایا گیا ہے، اس میں کوئی انوکھی اور نرالی بات نہیں، مثال کے طور پر اگر میدانِ جنگ میں آسمانی تائید کی شرط تقویٰ اور صبر ہے تو یہ کوئی نئی شرط نہیں، جبکہ یہ مومن کے ہر مقبول قول و فعل کی جان ہے۔

حکمت نمبر ۱۶۔
ہر عظیم اور کلّی چیز کا وجود اس حالت میں قائم و باقی رہ سکتا ہے، جبکہ وہ کامل و مکمل اور واحد و سالم ہو، تقسیم نہ ہو، ٹوٹ نہ جائے، اور اس کے اجزاء الگ الگ نہ ہوجائیں، چنانچہ مسلمان اس وقت فرقہ فرقہ تو ہوچکے ہیں، لیکن پھر بھی اس کا چارۂ کار باقی ہے، وہ یہ کہ ہم ایک ایسے عظیم درخت کی طرح متحد و متفق ہوجائیں، جس کی بہت سی شاخیں ہوتی ہیں، درخت کی شاخیں الگ الگ تو ہیں، لیکن منقطع نہیں، مربوط ہیں، اور درختِ اسلام کی یہی شان بڑی عظیم ہے۔

حکمت نمبر ۱۷۔
کتنی بڑی غفلت و نادانی سرزد ہوئی کہ ہم نے ہدایت نامۂ سماوی (قرآن) کی بے مثال حکمتوں میں بروقت غور و فکر نہیں کیا، جس کی وجہ سے ہم سائنس، ٹیکنالوجی اور مادّی ترقی میں دوسروں سے بہت پیچھے رہ گئے، حالانکہ اللہ کی پرحکمت کتاب کے علم الاشارات میں سب کچھ موجود ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: و نزلنا علیک الکتاب تبیاناً لکل شیء = اور ہم نے تم پر کتاب (یعنی قرآن) نازل کی جس میں ہر چیز کا بیان

ہے (۱۶: ۸۹)۔

۳۲

حکمت نمبر ۱۸۔
شاید اس بات سے کسی کو تعجب اور حیرت ہو کہ قرآنِ کریم میں دیگر بہت سے علوم کے ساتھ ساتھ “علم الاشارہ”  بھی موجود ہے، کیونکہ اشارہ خدائے علیم و حکیم کے نزدیک ایک پسندیدہ چیز ہے، جبکہ لفظِ “اشارہ”  وحی کا ہم معنی ہے، اس کی ایک مثال کے لئے ہم سورۂ انفال سے رجوع کرتے ہیں، فرمایا گیا: (ترجمہ) اور تم ان کفار کے (مقابلہ کے) واسطے جہاں تک تم سے ہوسکے قوّت اور بندھے ہوئے گھوڑے سے تیاری کرو (۰۸: ۶۰)۔ پس یہاں لفظِ قوّت (طاقت) ایک غیر محدود اشارہ ہے، جس میں ہر زمانے کی تمام جنگی قوّتوں کا ذکر ہے۔

حکمت نمبر ۱۹۔
آیا قرآنِ مجید میں تسخیرِ کائنات کا موضوع نہیں ہے (۲۲: ۶۵، ۳۱: ۲۰، ۴۵: ۱۳)؟ اگر ہے تو اس کا تعلق کن لوگوں سے ہے؟ اور قرآنِ عظیم کا خطاب کس قوم سے ہوا ہے؟ کیا اس موضوع کا بیان ایسا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایتِ بے نہایت اور اپنے محبوب رسول کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے کائنات کی تمام چیزیں بحدِ قوّت (potentially) مسخر کر دی ہیں؟ پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ اللہ کی یہ مادّی نعمتیں غیروں کے پاس ہیں، اور ہم ان کے دست نِگر ہیں؟

حکمت نمبر ۲۰۔
احکامِ دین کی بجا آوری کا سب سے اعلیٰ مقصد پروردگارِ عالم کی خوشنودی ہی ہے، جس میں دین و دنیا کی

۳۳

صلاح و فلاح مضمر ہے، اس کے علاوہ ہر حکم کی تعمیل میں بہت سے ذیلی اور ضمنی فائدے بھی ہیں، مثال کے طور پر اگر نماز حقیقی معنوں میں ادا کی جائے تو اس کا فوری ثمرہ یہ ہے کہ ایسا نمازی ہر بے حیائی اور برائی سے محفوظ رہتا ہے (۲۹: ۴۵) اور روزہ اس کی روح کے ساتھ رکھنے سے مومن میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوجاتی ہے (۰۲: ۱۸۳) اب اگر ایسا مومنِ مجاہد میدانِ جنگ میں جاتا ہے تو یقینی امر ہے کہ خدا کے حکم سے فرشتے اس کی مدد کریں گے، اور اگر مصلحتِ ربّانی اس کے شہید ہوجانے میں ہے تو پھر بھی فرشتے اس کے ساتھ ہوں گے (۴۱: ۳۰)۔

حکمت نمبر ۲۱۔
زمانہ بڑی تیزی سے بدل رہا ہے، دنیا کی بڑی بڑی قومیں آپس میں مل کر ایک ہو رہی ہیں، حالانکہ ان کے پاس کوئی ایسی آسمانی کتاب موجود و محفوظ نہیں، جیسے ہمارے پاس قرآنِ عظیم ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگ ملی وحدت و سالمیت کی بے شمار نعمتوں کو ضائع کرتے ہوئے فرقہ واریت کے فتنوں کو برپا کر رہے ہیں، یہ بہت بڑی اجتماعی نا فرمانی ہے۔

حکمت نمبر ۲۲۔
دینِ اسلام کے تمام قولی و فعلی عبادات کے جوہر کا نام تقویٰ ہے، اور تقویٰ کے معنی ہیں: خوفِ خدا، پرہیزگاری، پارسائی، اپنے آپ کو گناہ سے بچانا، اور قرآنِ حکیم نے خوفِ خدا (تقویٰ) کو خصوصی علم کے ساتھ مربوط (۳۵: ۲۸) کرکے اسے بزرگی کا معیار قرار دیا (۴۹: ۱۳) اس میں کوئی شک نہیں کہ تقویٰ کے معنی

۳۴

میں انبیاء و اولیاء کے اوصاف و کمالات کے جوہر کا تذکرہ ہے، کیونکہ دراصل یہ وصف انہی حضرات کا خاصہ ہے، اور انہی قدسیوں سے اس کا فیض اہلِ ایمان کو ملتا رہتا ہے۔

حکمت نمبر ۲۳۔
جس طرح ہر کامیاب اور نامور فوج اپنی جنگی مشقیں عملی جنگ سے پہلے ہی مکمل کر لیتی ہے، اور اسی پر اکتفاء نہیں کرتی، بلکہ انہیں جاری بھی رکھتی ہے، اسی طرح خدا کے شیروں یعنی مجاہدین کے لئے یہ امر بے حد ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی جملہ عبادات کو اسلام کی روح کے مطابق بجا لائیں، تا کہ میدانِ جنگ میں ان کی دعا قبول ہو، اور آسمانی تائید و نصرت ان کے ساتھ رہے۔

حکمت نمبر ۲۴۔
ارشادِ باری تعالیٰ کا ترجمہ ہے: اے ایمان والو! تم صبر اور نماز کے ذریعے سے (خدا کی) مدد مانگو (۰۲: ۱۵۳) لیکن یہاں یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ صبر جیسا اعلیٰ وصف ایک دن میں پیدا نہیں ہوسکتا، اور نہ مذکورہ نماز غافلوں کی نماز ہوسکتی ہے، جن کے بارے میں ارشاد ہوا ہے (ترجمہ): پس ان نمازیوں کے لئے تباہی ہے جو اپنی نماز سے غافل رہتے ہیں (یعنی وہ نماز تو پڑھتے رہتے ہیں، لیکن وہ ان کے دل کی گہرائی میں نہیں اترتی، کیونکہ ان میں عاجزی اور خوفِ خدا نہیں)۔

حکمت نمبر ۲۵۔
اسلام آفاقی دین ہے، اس لئے یہ دینِ فطرت کہلاتا ہے، بلکہ لفظِ فطرت خود اس دین کے ناموں میں سے ہے،

۳۵

جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے: کل مولود یولد علی الفطرۃ۔۔۔ہر بچہ اسلام پر پیدا ہوجاتا ہے۔۔۔ یہ بات اہلِ دانش کے نزدیک معمولی ہرگز نہیں، بڑی انقلابی ہے کہ دنیا بھر کے نوزائیدہ بچے پیدائشی مسلمان ہوا کرتے ہیں، مگر ان میں سے اکثر بچے والدین کی وجہ سے دوسرے ادیان میں چلے جاتے ہیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشادِ مبارک میں بڑی عجیب و غریب حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

حکمت نمبر ۲۶۔
ہمارے بہادر اور نامور مجاہدین کے لئے ایک خاص قابلِ توجہ نکتہ یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمت و مہربانی سے میدانِ جنگ میں دو بھلائیوں میں سے ایک کو حاصل کرنے والے ہیں، وہ فتح ہے یا شہادت، اور یہ نظام قرآنِ پاک (۰۹: ۵۲) میں احدی الحسنین (دو بھلائیوں میں سے ایک) کہلاتا ہے، اور یہ بہت بڑی سعادت صرف اہلِ ایمان کو نصیب ہوتی ہے۔

حکمت نمبر ۲۷۔
خداوند تعالیٰ حقیقی بادشاہ اور ہم سب اس کے عباد، غلام، اور بندے ہیں، اللہ کی عبادت، غلامی، اور بندگی دراصل ایک ہی چیز ہے، تاہم اردو ادب میں لفظِ غلامی زیادہ قابلِ فہم ہے، اس لئے ہم یہاں کچھ دیر کے لئے عبادت کو اللہ کی غلامی کہیں گے، چنانچہ دینِ اسلام میں نیت، قول، اور فعل کے سلسلے میں ہم خدا کی غلامی کرنے کے پابند ہیں، اب ہم سوال کرتے ہیں کہ حقیقی بادشاہ کی نظر میں اپنے غلاموں کی کون سی غلامی زیادہ سے

۳۶

زیادہ پسند ہے؟ قرآنِ کریم اور حدیثِ شریف کی روشنی میں اس کا جواب بڑا آسان ہے، وہ اس طرح کہ جو غلامی سب سے زیادہ مشکل ہو، اور جس میں مسلمانوں کا اجتماعی فائدہ ہو، وہی غلامی اللہ کو زیادہ پسند ہے، اس مثال سے ظاہر ہے کہ مجاہدین سب سے بڑی عبادت میں مصروف ہیں، اور ہر وہ شخص بھی ایسی عبادت کر رہا ہے، جو حقیقی معنوں میں قوم کا خادم ہو۔

حکمت نمبر ۲۸۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہرگز کسی چیز کا محتاج نہیں، لیکن اس کی رحمت و نوازش کی شان کتنی انوکھی اور نرالی ہے کہ وہ ہمیں جان و مال عطا کر دیتا ہے، پھر اس عظیم احسان پر انتہائی عظیم احسان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ: یقیناً اللہ نے مومنین سے ان کی جانوں اور ان کے اموال کو بہشت کی قیمت پر خرید لیا (۰۹: ۱۱۱) پھر اس کی عنایات کا کیا کہنا کہ اللہ کا کیا ہوا سودا جہاد کے دن تک مومنین ہی کے پاس امانت رہتا ہے، تا کہ وہ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں، یہاں ایک نکتۂ دل نشین یہ ہے کہ اگر جہاد کے بیشتر قرآنی فضائل اشاراتِ حکمت میں نہ ہوتے، اور ہر شخص ان کو سمجھ سکتا تو کوئی مومن بسترِ علالت پر مرنا پسند نہ کرتا، وہ اپنی شہادت کے خون سے رنگین ہونے کو صبغۃ اللہ (۰۲: ۱۳۸) قرار دیتا۔

حکمت نمبر ۲۹۔
دنیا کے نامور کھلاڑیوں اور مشہور پہلوانوں کو دیکھ کر کوئی آدمی دل ہی دل میں یوں کہتا ہوگا کہ کاش میں بھی ایسا ہوتا!

۳۷

لیکن اس دنیوی شہرت کی کوئی اہمیت ہی نہیں، اگر مومن سپاہی طرح طرح کے مردانہ کھیلوں سے اپنے آپ کو جہاد میں سختی برداشت کرنے کا عادی بنا لیتا ہے تو یہ بھی عبادت ہے، ورنہ کھیل اور پہلوانی صرف دنیا کا ایک تماشا ہے، اور دین کی نظر میں وہ کوئی بہادری نہیں، شجاعت، دلیری، بہادری، اور مردانگی میدانِ جہاد میں ظاہر ہوتی ہے، اسی لئے فوجی اعزازات مقرر ہیں، اور ان میں چوٹی کا اعزاز “نشانِ حیدر”  ہے۔

حکمت نمبر ۳۰۔
انسانِ کامل میں چار روحیں ہوتی ہیں، چوتھی روح کا نام روحِ مقدّس ہے، باقی انسانوں میں تین ہیں، جن کے نام یہ ہیں: روحِ نباتی، روحِ حیوانی، اور روحِ انسانی، اب ایک بڑا دلچسپ اور مفید سوال کرنا ہوگا، بتائیے کہ خوف ان تینوں میں سے کس روح کا خاصہ ہے؟ اور غصہ کس روح کا ؟ اس کا جوابِ شافی یوں دیا جائے گا کہ ہم درخت، جانور، اور آدمی پر نظر ڈال کر ریسرچ کرتے ہیں، تو اس میں ہمیں پتا چلتا ہے کہ خوف اور غصّہ درخت میں نہیں، جب ہم حیوان پر آتے ہیں، تو یہ دونوں خاصیتیں اسی میں پائی جاتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خوف اور غصے کا مقام نہ تو روحِ نباتی ہے اور نہ ہی روحِ انسانی، بلکہ یہ روحِ حیوانی میں موجود ہے، اب مذکورہ سوال کا جواب مہیا ہوگیا، اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم ہوگیا کہ بیماری کی جڑ کہاں ہے۔

۳۸

حکمت نمبر ۳۱۔
خوف جو ہماری روحِ حیوانی میں ہے، اس کا کلّی خاتمہ نہ تو مصلحت ہے اور نہ ممکن، بلکہ اس کو قرآن اور اسلام کے نسخۂ لاہوت کے زیرِ اثر خوفِ بے جا سے خوفِ خدا بنانا چاہئے، اور یہ بات ناممکن نہیں، اسی علاج کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب (۱۳: ۲۸) یاد رکھو کہ خدا ہی کے ذکر سے دلوں کی تسلی ہوا کرتی ہے۔ انسانی قلب میں بہت سی اخلاقی اور روحانی بیماریاں ہوتی ہیں، ان سب کا علاج اللہ کی یاد میں ہے، جس کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہنا چاہئے، تب ہی دل خوفِ بے جا اور دوسری تمام کمزوریوں سے پاک صاف ہوکر اللہ تعالیٰ کی توفیق و ہدایت کی روشنی سے منور ہوجائے گا، آپ اپنے دینی اور دنیوی فرائض کے ساتھ ساتھ ذکرِ کثیر کا طویل سلسلہ شروع کرکے دیکھیں، ان شاء اللہ، توقع سے زیادہ کامیابی ہوگی۔

حکمت نمبر ۳۲۔
کیا کوئی عزیز یہ خیال کرے گا کہ میں اس سلسلے میں جہاد کے موضوع سے ہٹ کر بات کر رہا ہوں؟ ہرگز ایسا نہیں، بلکہ یہ ایک مزید مفید تجویز ہے کہ میری تین کتابوں کا مطالعہ کیا جائے، جو قرآنی علاج، علمی علاج، اور روحانی علاج کے نام سے ہیں، یہ تجویز اس لئے ہے کہ ان کتابوں میں میری پوری زندگی کے خاص خاص تجربات نام لئے بغیر درج ہوئے ہیں، اور یہ خدا کے فضل و کرم سے مشرق و مغرب میں پھیل رہی ہیں۔

۳۹

حکمت نمبر ۳۳۔
اگر ہوسکے تو آپ قرآنِ حکیم کو حکمت کے ساتھ پڑھیں، کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: الحکمۃ ضالۃ المومن (حکمت مومن کی گم شدہ چیز ہے) پس ہر مومن کی ہوشمندی یہ ہے کہ غور و فکر کے ذریعے سے قرآنی حکمت کی تلاش میں لگے رہے، اور قرآنِ پاک میں حکمت کی تعریف اس طرح فرمائی گئی ہے: و من یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا (۰۲: ۲۶۹) اور جس کو (خدا کی طرف سے) حکمت عطا کی گئی تو اس میں شک ہی نہیں کہ اسے خوبیوں کی بڑی دولت ہاتھ لگ گئی۔

حکمت نمبر ۳۴۔
قبلاً ہم نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ خوف اور غصہ انسان کی کس روح میں ہے؟ اب ہم ایک اور مفید سوال کرتے ہیں: سو بتائیے کہ درد و الم کس روح کی خاصیت ہے؟ کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں جنگ میں کوئی خوف نہ ہو، اور اگر ہم زخمی ہوجاتے ہیں تو درد نہ ہو یا کم سے کم ہو، چنانچہ مذکورہ سوال کا جواب یہ ہے کہ درد کا احساس بھی روحِ حیوانی ہی میں ہوتا ہے، پس اس کا علاج بھی ذکرِ کثیر ہی میں ہے، یعنی ہماری عادت ایسی ہو کہ ہم کثرت سے خدا کو یاد کریں، تا کہ محویت و فنائیت کا کوئی مقام حاصل ہو، جس کی برکت سے درد ختم ہوجائے، یا کم ہوجائے۔

حکمت نمبر ۳۵۔
صوفیوں کا تصورِ فنا حقیقت کی طرف جانے کے لئے پل کا کام دے رہا ہے، وہ اس طرح ہے: فنا فی الشیخ / فی المرشد / فی الامام،

۴۰

پھر فنا فی الرسول، اور آخر میں فنا فی اللہ و بقا باللہ، میں سمجھتا ہوں کہ وہ سالک جو شیخ یا مرشد یا امام میں فنا ہوجاتا ہے، وہ روحانیت کا غیر معمولی تجربہ اور علم رکھتا ہوگا، ورنہ ایسی فنا کے کیا معنی ہوسکتے ہیں۔

حکمت نمبر ۳۶۔
فنا صرف آخرت میں حاصل ہوتی ہے یا دنیا میں بھی؟ جواب کے لئے اس حدیثِ قدسی میں غور کریں (ترجمہ): “اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعہ مجھ سے قرب حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو میں اس کے کان ہوجاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں ہوجاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے۔”  (صحیح بخاری، جلدِ سوم، کتابِ رقاق) اس حدیثِ قدسی میں بہت سے کلیدی مسائل کے جوابات موجود ہیں۔

حکمت نمبر ۳۷۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: ما احد یدخل الجنّۃ یحب ان یرجع الی الدّنیا و مالہ علی الارض من شیءٍ الا الشھید یتمنی ان یرجع الی الدنیا فیقتل عشر مرَّات لما یری من فضل الشّھادۃ۔
(ترجمہ): جنت میں پہنچنے کے بعد کوئی شخص بھی دنیا میں لوٹنا پسند نہیں کرتا کیونکہ زمین پر اس کا کچھ نہیں رہ جاتا، مگر شہید جب شہادت کے انعامات کو دیکھتا ہے تو یہ تمنا کرنے لگتا ہے کہ کاش وہ دنیا

۴۱

میں لوٹا دیا جائے اور دس بار قتل ہو۔ (گلستانِ حدیث، ص ۲۸)۔

حکمت نمبر ۳۸۔
شہید جسماً قتل تو ہو جاتا ہے، لیکن روحاً نہیں مرتا، کیونکہ جہادِ اصغر اور جہادِ اکبر کے شہداء کی ارواح حضرتِ ربّ العزت کے سرچشمۂ نور میں پہلے ہی سے زندہ ہیں، ان کو وہاں بہشت میں عقلانی، روحانی اور لطیف جسمانی نعمتیں مل رہی ہیں، وہ ان بے مثال نعمتوں سے بے حد شادمان ہیں، ان کی وجہ سے ان کے پس ماندگان وغیرھم پر جس طرح اللہ مہربان ہو رہا ہے، اس سے بھی وہ پھولے نہیں سماتے ہیں۔

حکمت نمبر ۳۹۔
سورۂ مائدہ (۵: ۲۷ تا ۳۲) میں قصّۂ ہابیل و قابیل کو خوب غور سے پڑھ لیں، اور اس حکمت کو جاننے کے لئے کوشش کریں کہ جس نے ایک آدمی کو ناحق قتل کیا اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا، اور جس نے ایک شخص کو زندہ کیا (جان بچا دی یا علمی طور پر زندہ کیا) تو اس نے گویا سب لوگوں کو زندہ کیا۔ آدم علیہ السّلام اپنے وقت میں ایک فرد تھے، مگر آج آپ اپنی نسل کی وجہ سے دنیا بھر میں پھیل گئے، اگر ہابیل کو قتل نہ کیا جاتا تو وہ بھی آدم کی طرح ایک فرد سے بے شمار افراد ہو جاتا، پس قابیل نے تنہا ہابیل کو قتل نہیں کیا، بلکہ ایک عالمِ انسانیت کو مار ڈالا، جو اس سے پیدا ہونے والا تھا، چنانچہ اگر ہمارے سرفروش مجاہدین ملک اور علاقے کو دشمن کے حملوں سے بچاتے ہیں، تو وہ گویا ہر مسلمان کے عالمِ شخصی میں سے آنے والی بے حساب

۴۲

نسلوں کو زندہ کردیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں جہاد کے اتنے بڑے فضائل بیان ہوئے ہیں۔

حکمت نمبر ۴۰۔
انتہائی عاجزی سے دعا ہے کہ پروردگارِ دانا و بینا عالمِ اسلام کو توفیقاتِ غیبی اور فتوحاتِ لاریبی کی لازوال دولت سے مالامال فرمائے! ربّ العزت دنیا بھر کے مسلمانوں کو شاہ راہِ مستقیم پر ایک کر دے! اور اسلامی لشکر کو ہر مقام پر آسمانی تائید و نصرت نصیب ہو! آمین!!

علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
جمعرات ۲۷ ذیقعدہ ۱۴۱۳ھ / ۲۰ مئی ۱۹۹۳ء

۴۳

علامہ نصیر ہونزائی کی شہرۂ آفاق تصنیف ” قرآنی علاج”  پر ڈاؤسن کالج مانٹریال کی سکالر بوستان کا تبصرہ

کتاب کا نام:                    قرآنی علاج
مصنف:                علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی
شائع کردہ:                     خانۂ حکمت، ادارۂ عارف، کراچی
انگریزی ترجمے کا عنوان : Quranic Healing
مترجمین:                        ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی اور رشیدہ نور محمد ہونزائی
صفحات کی تعداد:             ۱۳۴

یہ کتاب ۲۵ ابواب پر مشتمل ہے جن میں سے ہر باب اپنے تئیں ایک جامع اکائی کی حیثیت رکھتا ہے، کتاب کی یہ وحدت اس کے مطالعے اور تحقیق کو اس معنی میں بہت سہل بنا دیتی ہے کہ موضوعاتی سانچے میں ڈھلی اس کتاب کو قاری بآسانی سمجھتا چلا جاتا ہے۔

عام طور پر صحت اور بیماری کے موضوع کو جسمانی اور ذہنی دو قسموں پر تقسیم کیا جاتا ہے، جس میں جسمانی صحت اور بیماری کا تعلق جسم سے اور ذہنی صحت و علالت کا تعلق ذہن سے ہے، کتابِ ہٰذا صحت اور بیماری کے اس موضوع میں روحانی پہلو کو شامل کرنے کی غرض سے تحریر کی گئی ہے جس کا ذکر خود مصنف نے کتاب کے صفحہ ۳ پر کیا ہے۔

در حقیقت صحت اور بیماری کے موضوع کا یہ تیسرا اہم پہلو، جو روحانی صحت و علالت سے متعلق ہے۔ مغربی تشخیص کے طریقۂ کار میں اکثر و بیشتر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے تاہم اب علاج کے اس

۴۴

روحانی پہلو کے ناگزیر کردار و اثرات کی طرف توجہ مغربی طب اور خالص علمی میادین میں امتیازی حیثیت حاصل کر رہی ہے اور اس حقیقت کے پیشِ نظر نصیر ہونزائی صاحب کی اس کتاب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

یہ کتاب اپنے مغربی اور مسلمان دونوں قارئین کو نئے سرے سے اسلام کے اس ہمہ گیر (wholistic) نظام سے متعارف کرواتی ہے جس میں بندے، خدا، اور کائنات کی ہم آہنگی کا تصور مسلّمہ ہے، دوسرے لفظوں میں یہ ایک ایسا “نظریۂ علم”  ہے جس میں اسلام کے بنیادی تصور کے مطابق روحانی عالم جسمانی عالم سے باہم ملا ہوا ہے، ایک ایسا ہمہ گیر نظریہ جس کی بنیاد مختلف عناصر کے مربوط عمل پر رکھی گئی ہو، اس نظریۂ ذرّیت یا جوہریت (Automistic approach) کی جگہ لے لیتا ہے جس کو مغربی روایات نے آج تک برقرار رکھا ہے۔

کتاب کے ابواب دہم تا چہاردہم “قرآنی طب اور آواز،” “خواب کے اشارات،”  “ذکرِ خدا۔  اکسیرِ اعظم،” “خوفِ بے جا کا علاج،”   اور “ایک آسمانی دوا۔ دعا” ہیں، ان مقالوں میں ایسے مسائل سے بحث کی گئی ہے جو آج جدید مغربی نفسیات اور روحانی نوعیت کے نفسیاتی معالجے (Psychotherapy of a  Pastoral Nature )  کے بنیادی موضوعات ہیں، یہ مباحث روحانی علاج کی تعلیم اور روحانی علاج کے لئے مشاورت (Clinical Pastoral Ed. and Pastoral Counselling) جیسے موضوعات کے لئے خاص طورپر مفید ہیں۔ اسی طرح اس کتاب

۴۵

میں دل کی بیماریوں کی نشان دہی اور درجہ بندی سائیکو تھراپی میں انتہائی مفید ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ وہ “شعور کی رکاوٹوں”  اور “توانائی کی رکاوٹوں”  (Blocks in Consciousness & Energy blocks) کی نشاندہی کرتی ہیں۔
مذکورہ بالا ابواب میں انسدادی (Preventive) اور شفا بخش (Curative) تدابیر اتنی مفصل اور واضح ہیں کہ ہر انفرادی قاری کو سائیکوتھراپی کے عمل میں شرکت کے لئے کچھ ٹھوس اور مثبت طریقے پیش کرتی ہیں۔

بابِ ششم “سورۂ شفا میں طبی اشارات”  میں صحت و علالت کی جو درجہ بندی کی گئی ہے وہ انسانی ذات کی مرکزیت کے نظریے کو خدائی ذات کی مرکزیت کے نظریے کی طرف تبدیل کرنے کی اہمیت کو نمایان کرتی ہے، اگرچہ مصنف نے ایسا کرتے ہوئے مکمل طور پر کوئی نیا تصوّر تو پیش نہیں کیا ہے تاہم اس نے یقیناً روحانی نظام کی تجدید اور از سرِ نو تفسیر کی ہے اور اس نئی تفسیر کی مدد سے ہماری زندگی میں مادّیت کی مرکزیت (Material Centeredness)  سے پیدا ہونے والی روحانی بیماریوں کی تشریح کرتے ہوئے ان کے علاج پیش کئے ہیں۔

کتاب کے ابواب ۱۸ تا ۲۱ میں “معیارِ صحت،” “حقیقی صحت،” “انسان دنیا میں دنیا انسان میں،” “خدا کن سے محبت کرتا ہے اور کن سے محبت نہیں کرتا،”  جیسے موضوعات میں عمومی مسائل سے بحث کی گئی ہے، اگرچہ یہ کتاب بنیادی طور پر ایک مسلمان قاری سے مخاطب نظر آتی ہے

۴۶

تاہم اپنے عمومی اطلاق (Applicability) اپیل اور فائدے کے اعتبار سے دوسروں تک بھی اس کی رسائی ہے، عمومی اطلاق، اپیل اور فائدے تک یہ رسائی صحت و بیماری کے ایسے عام تصورات کو زیرِ بحث لا کر حاصل کی گئی ہے جو کسی بھی حدود سے بالاتر ہیں۔

اس کتاب میں ایک اختتامی باب کی کمی محسوس ہوتی ہے جو کتاب میں پیش کئے گئے علم کی وسعت کو خلاصۃً پیش کرے، نئے ایڈیشن میں اجنبی اصطلاحات کی فرہنگ اور اشاریہ کو شامل کرنا ایک خوش آئند امر ہوگا۔

تبصرہ نگار: بوستان ہیرجی، ڈاؤسن کالج
شعبۂ مذہبیات، مانٹریال

نوٹ: تبصرہ نگار نے واشنگٹن ڈی۔ سی۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے واشنگٹن ہاسپٹل سینٹر میں روحانی علاج کی تعلیم (Clinical Pastoral Education) کے ایک کورس کو مرتب کرنے اور پڑھانے کے لئے کتابِ مذکورہ کو استعمال کیا۔

چہل حکمتِ شکر گزاری

ریکارڈ  آفیسرز

اب بفضلِ خدا تین ہیں: عزیزانم  روبینہ برولیا، ظہیرلالانی  اور عشرت رومی، ویسے تو ہر ایمانی روح کی تعریف و توصیف پھیلانے کے لیے صفحۂ  کائنات بھی کم ہے، لیکن یہاں بات بہت ہی مختصر ہوگی، اور وہ بھی ایسی جو مشترک ہو کہ یہ پاکیزہ روحیں ایمان کی لازوال دولت سے مالامال، ذکروعبادت اور مناجات کی حلاوتوں سے آگاہ، علم و حکمت کی لذّتوں سے باخبراور سب سے عظیم خدمت کی فضیلت سے واقف ہیں۔

الحمد للہ ربّ العالمین

۷ اپریل ؁۱۹۹۳ء

دیباچہ

بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم

دوستانِ عزیز! آو ہم سب مل کر اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں پر شکرگزاری کی مناجات کرتے ہوئے خوب آنسو بہائیں، یہاں تک کہ ہم منزلِ فنا سے انتہائی قریب ہوجائیں، کیونکہ اللہ، رسولؐ اورصاحبِ امرؑکے نورِہدایت نے اتنے معجزے کئے ہیں اور ایسے عظیم احسانات ہوئے ہیں کہ ان کی کثرت اور جمال وجلال سے عجیب قسم کا ڈرلگ رہا ہے۔

عزیزساتھیو! میں آپ سب سے بصد شوق قربان ہوجاؤں! یہ  آپ کی عاشقانہ گریہ وزاری اور پاکیزہ آنسوؤں کی درّفشانی کی قیمت تھی، جس سے میں اپنے محبوبِ جان (امامِ زمانؑ) کے شہر و مقام تک جا سکا، الحمدللہ!بندۂ ناچیز کوجماعت کے ایسے ایسے عملداران وارکان سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی جو امامِ زمان علیہ السّلام کے قربِ خاص میں شب وروز خدمت کررہے ہیں، خدا اس حقیقت کا گواہ ہے کہ میں اس زبردست مسرّت وشادمانی سے مغلوب اور بے حال ہورہاتھا، میں نے اُن باسعادت آنکھوں میں معشوقِ روحانی کے دیدار کا تصور کیا، جو امامِ اقدس و اطہرؑ کے نورانی چہرے کو بار بار دیکھتی رہتی ہیں۔

۱

میرا ایک بروشسکی شعر ہے:

جے اتݽقلتݺ کݺ گوڈِ گاری طوافر مولا!

انݺ محّبتݺ مݶلݺ اورشم سِسݺ پروانہ میام

ترجمہ: اے(میرے)مولا! اگر میں تیرے گرداگرد طواف کرنے کی سعادت کو حاصل نہیں کرسکتا ہوں، تو یہ بات میرے لئے ضروری ہے کہ میں ان لوگوں کا طواف کروں جو تیری محبت کی شراب سے مست و مخمور ہوئے ہیں۔

حضرت عیسیٰؑ کی ایک قرآنی مثال (وَجَعَلَنِی مُبَارَکاً أَیْنَ  مَا کُنتُ، ۱۹: ۳۱) کے پیشِ نظرہم یقین سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانِ کامل کی ذاتِ بابرکت جہاں ہو وہاں سے ہمیشہ بے شمار ظاہری اور باطنی برکتیں پھیلتی رہتی ہیں، جس طرح سورج اپنے مرکز سے ہمیشہ مسلسل روشنی بکھیرتا ہے۔ اور جیسے کوئی سدا بہار چمن ہر لحظہ اطراف میں عطرافشانی کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح امامِ عالی مقامؑ کی مقدّس نورانیّت، روحانیت اورشخصیت سے فیوض و برکات کا سِلسلہ جاری رہتا ہے۔

دوستانِ عزیز! آپ کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں کہ انسان عالمِ صغیر ہے، یعنی ہر آدمی بحدِّقوّت ایک عالمِ شخصی ہے۔ پس ہر فردِ بشر میں آسمان و زمین کی تمام چیزیں موجود ہیں، پھر اس کلّیے کی یہ تشریح کیونکر غلط ہوسکتی ہے کہ ہر شخص کی روح علم وعبادت کے وسیلے سے کائناتی روح (روحِ اعظم) میں فنا ہوکر ہمہ رس اور عالمگیر ہوسکتی ہے؟

۲

فرشتۂ عقلِ کامل (عقلِ کُلّ) کے بہت سے ناموں میں سے ایک نام “حمد” ہے۔ چنانچہ “الحمدللہ رب العٰلمین” کی تاویل ہے کہ: فرشتۂ عقل کلّ خدائے بزرگ وبرتر ہی کا ہے جس کے توسط سے وہ پاک عوالمِ شخصی کی پرورش کرتا ہے، اور یہ اس کی خاص تعریف ہے۔

سُورۂ شوریٰ کی آیت پنجم(۴۲: ۵) میں قرآنی قانون کے مطابق ایک عظیم حکمت پوشیدہ ہے، جس کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ: کچھ بعید نہیں کہ آسمان اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں اور فرشتے اپنے پروردگار کے عقلِ کلّ کی نورانیت میں تسبیح کرتے ہیں اور اہلِ زمین کے لئے معافی مانگتے ہیں۔ یہ تاویلی حکمت لفظِ “حمد” میں پنہان ہے، یہاں یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ عظیم فرشتے انہونی (غیر ممکن) چیزوں کے لئے دعا نہیں کرتے اور نہ ہی وہ ناقابلِ معافی مجرموں کے لئے بخشش طلب کرتے ہیں، اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ بالآخر سب کو نجات اور بہشت مِلنے والی ہے، ہر چند کہ بہت سے لوگ عارضی طور پر دوزخِ جہالت میں داخل ہیں۔

خدائے جلیل وجبّار کا ارشاد ہے (ترجمہ) اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہوجائے گی اور نامٔہ اعمال رکھ دیا جائے گا، اور پیغمبروں اور گواہوں کو حاضر کیا جائے گا (۳۹: ۶۹) خواہ عالمِ شخصی کی انفرادی قیامت ہو یا عالمِ ظاہر کی اجتماعی قیامت، ہر صورت میں یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ یہاں زمین سے کیا مراد ہے؟ کرۂ ارض؟ یا اس کے باشندے؟ ظاہری زمین کومادّی روشنی کی جتنی ضرورت ہے وہ تو شروع ہی سے

۳

مہیا ہے، تو کیا اس قرآنی پیش گوئی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ زمانۂ روحانیت میں تمام لوگوں پر نورانی علم کی بارش ہونے والی ہے؟ اور یہ سوال الگ ہے کہ آیا ایسے زبردست علم کی بارش عالمِ شخصی میں ہوگی؟ یا عالمِ ظاہر میں؟ یا دونوں میں؟

ہر شخص میں بصورتِ ذرّاتِ لطیف تمام اوّلین و آخرین موجود ہوا کرتے ہیں، لہٰذا جب کسی مومنِ سالک پر انفرادی قیامت گزرتی ہے، تو یہ جملہ خلائق کی نمائندہ قیامت قرار پاتی ہے، یعنی ذاتی قیامت میں اجتماعی قیامت پوشیدہ طور پر واقع ہوتی ہے، اوردوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہی انفرادی قیامت اس مومنِ سالک کی اور سب کی کتابِ اعمال بھی ہے۔

قرآنِ حکیم میں ہر علمی سوال کے لئے مکمل جواب موجود ہے۔ مثال کے طور پر یہ سوال ہو کہ بہشت میں اہلِ بہشت کے لئے کیا کیا چیزیں یعنی نعمتیں ہیں؟ اس کا جواب متعدد آیاتِ مقدسہ سے مِل سکتا ہے، اور ان میں سے ایک یہ ہے: لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِیْهَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ (۵۰: ۳۵)

ترجمہ: ان کو بہشت میں سب کچھ مِلے گا جو جو چاہیں گے، اور ہمارے پاس اور بھی زیادہ ہے۔

اب فرض کرلو کہ ایک مومن جنّت میں ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کا حشر آنحضرتؐ کے ساتھ ہو، تا کہ وہ حضورِانورؐ کی معراج کے انتہائی عظیم اسرار کا مشاہدہ کرسکے تو یقیناً اس مومن کو یہ بہت

۴

بڑی  نعمت ملے گی، کیونکہ ” ہر ایک میں سب” کے قانون کے مطابق رحمتِ عالم صلعم میں سب لوگ موجود تھے، اور اللہ تعالیٰ کا قانون یہ بھی ہے کہ ہر شخض کو طوعاً یا کرھاً سرِتسلیم خم کرکے اس کی طرف لوٹ جانا ہے(۰۳: ۸۳) اور خدا کی طرف لوٹ جانا صراطِ مستقیم (پیغمبراور امام) ہی سے ممکن ہے، اور دینِ حق کا یہ راستہ معراج تک جاتا ہے۔

میرے روحانی بھائیو اور بہنو! مجھے معلوم ہے کہ آپ سب روحانی ترقی کو جان و دل سے چاہتے ہیں، اور اس کے لئے جدوجہد بھی جاری ہے، تاہم میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ چوٹی کی روحانی ترقی کے لئے عام و خاص عبادت کے ساتھ ساتھ علم الیقین سے بھی کام لیں، کیونکہ حقیقی علم کے بغیر تنہا عبادت سے کوئی خاص روحانی ترقی نہیں ہوسکتی ہے۔

“چہل حکمتِ شکرگزاری”  کا یہ مقالہ بالعموم سب کے لئے ہے، اور بالخصوص ان کے لئے،  جن کی روحیں، دعائیں اور یادیں میرے دل و دماغ کو ہر بار تازہ دم کرتی رہتی ہیں، ان عزیز دوستوں کی عظیم الشّان امیدوں کی کیا تعریف کروں،  جو مونوریالٹی پر یقین رکھتے ہیں، ہم سب عشق و محبت کے ساتھ اس پاک وپاکیزہ ہستی سے قربان جائیں جس نے کمالِ کرم سے ہم کو یہ انقلابی تصور دیا۔ الحمدللہ۔

سب سے ادنیٰ خادم

نصیر الدّین نصیرؔہونزائی

لنڈن۔   ۹۳۔۷۔۹

۵

چہل حکمتِ شکر گزاری

حکمت۱: الحمدللہ! ہم اسماعیلی زمانۂ آدمؑ سے قیامت تک نورِامامت کے حاضر و موجود ہونے کے قائل ہیں، اور یہ عقیدہ ہمارے حق میں اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے۔

حکمت ۲: الحمد للہ! پیغمبرِاکرمؐ کے ارشادِ گرامی کے بموجب اہلِ بیت یعنی امامِ زمان علیہ السّلام ہمارے لئے کشتیٔ نوحؑ ہیں، اسی وجہ سے  ہمیں جہالت و گمراہی کے طوفان سے نجات حاصل ہے۔

حکمت ۳: الحمدللہ! قرآنِ حکیم میں جس  طرح آلِ ابراھیمؑ کی تعریف و توصیف کی گئی ہے(۰۴: ۵۴) وہ اب آلِ محمد یعنی امامِ وقتؑ کی تعریف و توصیف ہے، اس معنی میں ہم پر شکر واجب ہے کہ ہم قرآنی حکمت کے خزانے سے وابستہ ہیں۔

حکمت ۴: الحمدللہ! مولا علیؑ مثیلِ ہارونؑ تھے، اور امامِ زمانؑ میں علیؑ کا نور موجود ہے۔

حکمت ۵: الحمدللہ! دینِ اسلام آنحضرتؐ پر آکر مکمل ہوا، اور حضورِ انورؐ کے برحق جانشینوں (أئمّۂ طاہرینؑ) کی وجہ سے دین کا یہ کمال برجا و برقرار ہے، اور جو نعمت درجۂ تمامیت کو پہنچی تھی وہ بھی موجود ہے۔

حکمت ۶: الحمدللہ! ہم مسلمان ہیں، محمد رسول اللہؐ اور علی مرتضٰیؑ کے

۶

جان نثار، دوست دار اور شاہ کریم الحسینی حاضر امام کے مخلص مرید ہیں، اور یہ ہماری سب سے بڑی ازلی سعادت ہے۔

حکمت۷: الحمدللہ! مومن ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اور اس کے دنیا میں آنے کا مقصد معرفت ہے، تا کہ وہ آخری مقصد کے طور پر گنجِ مخفی کو حاصل کرسکے۔

حکمت ۸: الحمدللہ! ہر مومن اور مومنہ کی روح و روحانیت میں کائناتِ ظاہر کے برابر ایک عالم پوشیدہ ہے، جس میں بہشت کی ذاتی سلطنت موجود ہے، اور وہ کون سی نعمت ہے جو وہاں موجود نہ ہو۔

حکمت ۹: الحمدللہ! دین کے ظاہر و باطن میں خدا کی نعمتیں اس کثرت سے ہیں کہ ان کو ہم شمار نہیں کرسکتے اور نہ ہم کماحقہٗ ان کا شکر بجالاسکتے ہیں، پس بہتر یہ ہے کہ ہم  اپنی عاجزی کا اعتراف کریں، اور کچھ آنسو بہائیں۔

حکمت۱۰: الحمدللہ! نورِ امامت کا سلسلہ خدا کی رسی ہے جس کو ہم اسماعیلیوں نے مضبوطی سے تھام لیا ہے، اور یہ عمل ایسا بنیادی اور ضروری ہے کہ اس میں تمام اصولی احکام کی تعمیل پوشیدہ ہے۔

حکمت ۱۱: الحمدللہ! اس کی حکمت بڑی عجیب و غریب ہے، وہ اپنی چیزوں کو نہ صرف پھیلاکر رکھتا ہے بلکہ جب چاہے لپیٹ بھی لیتا ہے، جیسے قرآن ۱۱۴ سورتوں میں پھیلا ہوا ہے، اور اُم الکتاب(سورۂ فاتحہ) میں لپیٹا ہوا ہے، لہٰذا سُورۂ فاتحہ پڑھنے کا ثواب تمام قرآن پڑھنے کے برابر ہے۔

۷

حکمت ۱۲: الحمدللہ! قرآنی ارشاد ہے کہ: اگر تم شکر کروگے تو تم کو زیادہ نعمت دوں گا(۱۴: ۷)  ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ شکر گزاری سے نعمت پر روشنی پڑے اس کی قدروعظمت بڑھ جائے، جبکہ ناشکری سے نعمت پر تاریکی چھا جاتی ہے۔

حکمت ۱۳: الحمدللہ! قرآنِ حکیم کی نمائندہ آیات ہیں جن میں تمام قرآنِ پاک کا خلاصہ بیان فرمایا گیا ہے، جیسا کہ سورۃ یاسین کا ارشاد ہے: اور ہم نے( عقل و جان اور علم و حکمت کی) ہر چیز امامِ مبین میں محدود کر رکھی ہے۔(۳۶: ۱۲)

حکمت۱۴: الحمدللہ! قرآن علیؑ کے ساتھ ہے اور علیؑ قرآن کے ساتھ، اس کے معنی یہ ہوئے کہ جب ہم قرآن میں جاتے ہیں تو علیؑ کا نور بھی مِل جاتا ہے اور جب ہم علیؑ کو پہچانتے ہیں تو قرآن کی معرفت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔

حکمت ۱۵: الحمدللہ! امامِ برحق نور کا سرچشمہ ہیں، اگر ظاہری سورج میں نظامِ شمسی کی مخلوقات کے لئے سب کچھ ہے تو پھر مظہرِ نورِ خدا میں کس کس چیز کی کمی ہوسکتی ہے۔

حکمت۱۶: الحمدللہ! باطنی نعمتوں کی عظمت و بزرگی اور قدرو منزلت کا یہ عالم ہے کہ حکمت کے بغیر نہ ان کی شناخت ہوسکتی ہے اور نہ شکرگزاری، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور ہم نے لقمان کو

۸

حکمت عطا کردی کہ اللہ کا شکر کرتے رہو(۱۲: ۳۱)

حکمت ۱۷: الحمدللہ! روحانی سمندر اپنے قطرے میں سما سکتا ہے، جبکہ مادّی سمندر نہ تو قطرے کے پاس جاسکتا ہے اور نہ ہی اس میں سما سکتا ہے۔

حکمت۱۸: الحمدللہ! ہمارا مذہب خیرخواہی کا ہے، ہم اسلام اور انسانیت کی بہتری اور بھلائی چاہتے ہیں، کیونکہ خلق گویا خدا کا کنبہ ہے لہٰذا اللہ کے نزدیک سب سے محبوب و پسندیدہ شخص وہ ہے جو اس کے کنبے کو زیادہ فائدہ پہنچائے اور اس کے اہلِ خانہ کو مسرورکردے۔

حکمت ۱۹: الحمدللہ! ہمارے پاک مذہب میں شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے اعلیٰ نمونے موجود ہے۔

حکمت ۲۰: الحمدللہ! اسلام آفاقی دین ہے، اس کی مثالیں اور دلیلیں اسماعیلی مذہب میں ملتی ہیں، کیونکہ یہاں بالآخر سب کی نجات کا تصور موجود ہے، اس لئے تمام انسانوں کی خیر خواہی مطلوب ہے۔

حکمت۲۱: الحمدللہ! امامِ زمان کی ظاہری و باطنی ہدایت کا نظام بے مثال اور لاجواب ہے، جس کی بدولت ہماری نیک بخت جماعت دین و دنیا کی کامیابی و سرفرازی حاصل کر رہی ہے۔

حکمت ۲۲: الحمدللہ! ا مامِ برحقؑ نے ہمارے عظیم پیروں کے توسط سے ہم پر بہت بڑا احسان کیا کہ انہوں نے ہمیں آبِ حیاتِ معرفت پلاکر زندہ کردیا، ورنہ ہم اب تک مُردہ رہتے۔

۹

حکمت ۲۳: الحمدللہ! امامِ اقدس و اطہرؑ نے خوش نصیب اسماعیلی جماعت کی دینی اور دنیاوی خدمت کے لئے جیسے اور جتنے منظّم ادارے دیئے ہیں، ایسے اور اتنے ادارے کسی اور جماعت میں نہیں ملتے، امامِ عالی مقام کے ان اداروں سے نہ صرف جماعت ہی کو فائدہ حاصل ہوتا ہے بلکہ اس میں عملداروں اور ممبران کی بہت بڑی عزت بھی ہے۔

حکمت ۲۴: الحمدللہ! جسمانی تکلیف عارضی ہے، روحانی راحت دائمی، دنیا چند روزہ ہے، آخرت پائندہ اور ہمیشہ، اور خدا کی رحمت ہر چیز پر محیط ہے۔

حکمت۲۵: الحمدللہ! دین میں سب سے بڑا ہنر عاجزی اور نرم دلی ہے اور سب سے بڑی سائنس گریہ وزاری، کیونکہ اس عمل سے دل و جان کی پاکیزگی ہو جاتی ہے، جس میں بے شمار فائدے پوشیدہ ہیں۔

حکمت۲۶: الحمدللہ! جو نور کے سچّے عاشق ہیں وہ نورانی عبادت کے لئے رات کو اٹھا کرتے ہیں۔ وہ دل میں کہتے ہیں کہ ہمیں محبوبِ جان کے دیدار کے لئے جانا ہے، ان کی روحانیت میں روزافزون ترقی ہوتی جاتی ہے۔

حکمت ۲۷: الحمدللہ! مولا کے پاک عشق کی برکت سے ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے، اور جس کو یہ پُرحکمت عشق نہ ہو، اس کو دین کی ہر بات بھاری لگتی ہے، پس مومن کو امامِ زمان کے مقدّس عشق کے لئے پگھل جانا چاہئے۔

حکمت ۲۸: الحمدللہ! نور کا عشق دراصل مومن ہی کے لئے خاص ہے،

۱۰

بڑی خوشی کی بات ہے کہ علم و عبادت سے آتشِ عشق تیزتر ہوجاتی ہے، اور معشوق کا حُسن و جمال ہر بار بصورتِ دیگر سامنے آتا ہے۔

حکمت ۲۹: الحمدللہ! ہم سب امامِ عالی مقام کے روحانی بچے ہیں، اس میں خوب غور و فکر کرنے سے معلوم ہو جائے گا، کہ یہ کتنی بڑی فضیلت ہوسکتی ہے، اور اس کے ساتھ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں۔

حکمت ۳۰: الحمدللہ! دعا کو مغزِعبادت کا درجہ حاصل ہے، پس جن لوگوں کو دعا پڑھنے کا حکم دیاگیا ہے، ان کو فرشتوں کی عبادت عطا ہوئی ہے، کیونکہ فرشتے دعا اور ذکرکرتے رہتے ہیں۔

حکمت۳۱: الحمدللہ! امام عالی مقامؑ کے دو دروازے ہیں، دروازۂ ظاہر اور دروازۂ باطن۔ تاکہ دورونزدیک کے مُریدوں کے لئے حضرت امامؑ تک رسائی ممکن ہوسکے۔

حکمت۳۲: الحمدللہ! نورِامامت کا سرّالاسرار یہ ہے کہ یہاں نورانی عبادت کا حکم دیا جاتا ہے، تاکہ پاکیزہ روحوں کو علم الاسماء کی تعلیم حاصل ہو۔

حکمت ۳۳: الحمدللہ، مومن راحت میں ہو یا تکلیف میں، ہر وقت خدا کو کثرت سے یاد کرتا ہے، جس کی بدولت اس کا دل مطمئن رہتا ہے، اس کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ ہمیشہ ذکرِ خدا وندی میں مصروف رہنا ہے۔

حکمت ۳۴: الحمدللہ! مومنین کی عبادت عرشِ اعلیٰ تک پہنچ جاتی

۱۱

ہے اور کلمۂ “کُن” میں فنا ہوکر فرمانِ الہٰی کی طاقت بن جاتی ہے، اور اس سے اصلاحِ احوال ہوجاتی ہے۔

حکمت۳۵: الحمدللہ! اسماعیلی مذہب کی بنیادی اور کلیدی حکمت یہ ہے کہ ہر فرد جماعت خانے کی حاضری سے روحانی ترقی کرے، کیونکہ جماعت خانہ بڑا مقدّس اور بابرکت مقام ہے۔

حکمت ۳۶: الحمدللہ! جماعت خانہ کارخانۂ نور ہے، جہاں ذکر و عبادت سے نور بنتا ہے، علم و نصیحت سے نور بنتا ہے، امامِ زمانؑ کی محبت سے نور بنتا ہے، ہر قسم کی نیکی اور خدمت سے نور بنتا ہے، بول، بیت الخیال اور نقش سے نور بنتا ہے۔

حکمت۳۷: الحمدللہ! جماعت خانے میں فرشتوں اور نیک روحوں کا نزول ہوتا ہے، کیونکہ وہاں امامِ اقدس و اطہرکا نور موجود ہے، جس طرح شمع کے گرداگرد پروانے ہوا کرتے ہیں اور پھولوں پر تتلیاں  بیٹھتی ہیں، اسی طرح نورِ امامت کے ساتھ ہمیشہ لشکرِ ارواح و ملائکہ موجود رہتے ہیں۔

حکمت۳۸: الحمدللہ! امامِ زمان علیہ السّلام کے پاس علم و حکمت کے خزائن موجود ہیں، پس ہر فردِ مومن کی دانش مندی اس بات میں ہے کہ وہ اپنے امامِ وقت کو روحانی طور پر پہچان لے اور اس سے علم و حکمت کو حاصل کرے۔

حکمت۳۹: الحمدللہ! ہم سب کی بہت بڑی سعادتمندی ہے کہ ہم روحانی

۱۲

دور کے زیرِاثر ہیں، یعنی حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ اور مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امامؑ کا زمانہ روحانی اور نورانی علم کا زمانہ ہے جس سے فیض حاصل کرنے میں مومنین کی زبردست نیک بختی ہے۔

حکمت ۴۰: الحمدللہ! ہر مومن اس حقیقت کو جانتا ہے کہ اسلام کی اصل نعمت کون سی ہے؟ اور وہ اس کے لئے شکرگزار بھی ہے، پس دعا ہے کہ پروردگارِ عالم دینی نعمتوں کی شناخت کے لئے ہمّت و توفیق عنایت فرمائے!آمین یاربّ العالمین!!

نصیرُالدّین نصیرؔ ہونزا ئی

لندن ۹۳۔۶۔۲۹

بیادِ دورۂ فرانس

۱۳

اَنا اور فنائیت

ہزاروں لعل و گوہر ہیں درونِ سنگِ ہستی میں

نہ کر تاخیر اے نادان طریقِ خود شکستی میں

درختِ  سربلندی سے تُجھے گر بہرہ  لینا ہے

خودی کے تخم کو اوّل گرادے خاکِ پستی میں

پذیرائی نہ کر ای نُورِ آتش ہیزمِ ترکی

کہ وہ مغرورِ ظلمت ہے فریبِ خود پرستی میں

بہ شرطِ دین و دانش سعی کر تو زربکف ہوجا

وگرنہ گنجِ لقمانی نہان ہے تنگ دستی میں

عصائے دین توانگر کے لئے ازبس ضروری ہے

کہ گر جاتا ہے انسان نشّۂ دولت کی مستی میں

۱۴

اگر تو ہو نہیں سکتا فنا فی ہستیٔ اعلیٰ

بحالِ خود رہے گا تا قیامت اپنی ہستی میں

خودی کے دشتِ وحشت سے تعلّق اب نہیں باقی

نصیرا! ہم تو رہتے ہیں “انا” سے پار بستی میں

۱۵

 

 

چہل کلید

چہل کلید

دیباچہ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم  یا ربّ بحقّ محمّد وآلِ محمّد(صلوات اللہ علیھم)۔ اِس بندۂ حقیرومحتاج کونعمت شناسی، قدردانی اورشکرگزاری کی توفیق وہمت عنایت فرما! اے خداوندِعالم! یہ بے چارہ دل تیرے نورِاقدس کی پاک محبت کی تشنگی سے خشک وسخت ہو رہا ہے، رحم فرما اوربارانِ رحمت برسادے، تاکہ قلب میں رقت ونرمی پیدا ہو، کیونکہ جب تک تیرے مقدّس عشق کی نورانی تائید نہ ہو، تب تک نہ توذکروعبادت سے کوئی مزہ آتا ہے، اورنہ ہی کوئی روح والی مناجات ہوسکتی ہے، اے خدائے دانا و بینا! اے حکیم آسمانی! اے طبیبِ روحانی! دراصل ہم سخت مریض ہیں، اس لئے اپنے پاک عشق اور پرحکمت دیدار باطن کے شفاخانے میں داخل کرلے، تاکہ ہمیں بہت جلد شفاءِ کلّی نصیب ہو۔

۵

خدمتِ قرآن

اللّٰہ تعالیٰ کی وہ پاک کتاب جوعلم وحکمت کے خزائن سے مملواورانتہائی جامعیّت کے اوصاف میں بے مثال ہے وہ قرآن حکیم ہی ہے، جوظاہرمیں بھی اور باطن میں بھی دائمی طورپرعقلی معجزات کا سرچشمہ ہے، جس کا نزول حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پرہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے وقت میں قرآن کے معلّم اورنورتھے  (۰۵: ۱۵)  اورخدا کے حکم سے یہ زندہ نور پیغمبرکے بعد حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے برحق جانشین میں منتقل ہوگیا، یعنی امام زمانؑ ہی بحقیقت اوربمرتبہ نورانیت معلّم قرآن ہیں، چنانچہ ہم نے اپنی علمی وادبی کمزوری کے باوجود بہت ساری امیدوں کا سہارا  لے کرقرآن اوراس کی معلّم کی خدمت کیلئے کوشش کی، آپ سب دعا کریں کہ یہ کوشش کامیاب اورسب کے لئے نافع ہو!

اس رسالہ کانام

علم الاسرار کے خزانے، دروازے، تالے، اورکلیدیں ہوا کرتی ہیں، چنانچہ اس یقین سے کہ یہاں جوچالیس منتخب نکات درج ہوئے ہیں، وہ کنوز علم وحکمت کی کلیدوں کا کام کریں گے، اس رسالے کا نام’’چہل کلید‘‘رکھا گیا، اگرکوئی عزیزجیسا کہ چاہئے ان کلیدوں کا مطالعہ کرے، اورساتھ ہی ساتھ ہماری دوسری تمام کتابوں سے بھی خوب فائدہ اٹھائے، توان شاء اللّٰہ تعالیٰ، وہ قرآن حکیم اورنورامامت کے بہت سے بھیدوں سے واقف و آگاہ  ہوسکتا ہے، اور یہ  سب سے بڑی سعادت ہے۔

۶

ایک بڑا یادگار دورہ

اعزّہ واحبّا کی پرخلوص دعا اورخداوند قدّوس کے فضل وکرم سے اگرچہ ہر دورہ کامیاب اوریادگار رہا ہے، جس کا ثبوت کتابوں، مقالوں، خطوط، کیسیٹوں وغیرہ سے مل سکتا ہے، تاہم  لنڈن، امریکہ اورکینیڈا کا دورہ، جو گزشتہ سال (۱۹۹۱ء)  ہوا تھا، بڑا یادگار ہو سکتا ہے، جس کی کئی وجوہ ہیں، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز نے ہم پراور ہمارے دوستوں پر بے شماراحسانات کئے ہیں، جن کا حق شکرگزاری ہزارسالہ زندگی میں بھی ہم سے ادا نہیں ہوسکے گا۔

مجموعی ترقی

امامِ اقدس واطہر صلوات اللہ علیہ وسلامہ کی ظاہری و باطنی دعائے برکات اورنورانی تائید کے صدقے سے چند ہی سالوں میں ہمارے ادارے کی زبردست ترقی ہوئی ہے، دراصل یہ امامِ زمانؑ ہی کا باطنی اور روحانی معجزہ ہے، ورنہ یہاں ذرا غورسے دیکھا جائے توکچھ بھی نہیں، نہ علم ہے، نہ ادب، نہ ہنر ہے نہ سند اور نہ کوئی دوسری طاقت، بس صرف ایک بہت ہی حقیربندہ، جوکسی قطار و شمارمیں نہ تھا، ہاں یہ بالکل سچ ہے اورسچائی کونہیں چھپانا چاہئے کہ اس زمانے میں وہ علاقہ بہت ہی پیچھے تھا، چنانچہ وہ غیرمعروف اورگمنام لڑکا اپنے باپ

۷

کی بکریاں چرایا کرتا تھا، قانون رحمت کے مطالعے سے اب یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ شاید رحمتِ خداوندی نے اس چوپان کے دل کے کان میں بارباربعنوان توفیق یہ سرگوشی کی ہوگی کہ اب تم بھیڑبکریوں کی محبت دل سے نکالو، ان کے پیچھے پیچھے چلنا چھوڑ دو، علم کی پیروی کرو، اوراسی سے عشق ومحبت رکھو، پس ایسا ہی ہوا، اور وہ چوپان میں خود تھا، الحمدللہ، جب بھی مجھے کسی قسم کے فخرکا خطرہ ہوتا ہے، تومیں اپنے ماضی کے احوال میں سے کسی حال کو پیش نظر رکھتا ہوں۔

علمی لشکر

خانۂ حکمت اورادارۂ عارف کے عملداران و ارکان امام زمانؑ کے رضا کارعلمی لشکرمیں سے ہیں، ان کی بہت بڑی سعادت مندی یہ ہے کہ جہالت ونادانی کے خلاف جوعلمی جہاد ہے، اس میں توقع سے کہیں زیادہ کامیابی ہو رہی ہے، اورانہیں معتبر ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ علیٔ زمانؑ اس خدمت سے بے حد خوش ہیں، لہذا یہ سب عزیزان بدرجۂ انتہا شادمان اورشکرگزار ہیں، اورامامِ وقت کی یہی خوشنودی و رضا ان سب کے آپس میں اتحاد واتفاق کا باعث ہے، کیونکہ یہ سارے نیک بخت عزیزان حضرت امامؑ کے سرفروش اورجان نثارمرید ہیں، لہذا ان کے نزدیک ہرخدمت کو پرکھنے کے لئے صرف ایک ہی کسوٹی ہے، اور وہ ہے امام اقدس واطہر صلوات اللہ علیہ کی پاک خوشنودی۔

۸

خاموش خدمت کی اہمیت

یہ فخرہرگزنہیں، بلکہ مولائے پاک کی مبارک دعا اورنورانی ہدایت کی شکرگزاری ہے، بحمداللہ، کہ ہماری خاموش علمی خدمت اورآوازمیں جذب شدہ آوازعزیزشاگردوں اوردوستوں کے توسط سے پیاری جماعت میں جاری وساری ہے، بہت ہی مقدّس خدمت کی یہی نمائندگی اورعلم کی دلی آوازہماری پیاری پیاری کتابوں میں بھی ہے، جن کا دائرہ بفضل خدا روز بروز وسیع سے وسیع ترہوتا جا رہا ہے، اوراسی مقصد کے پیش نظرایک ہزارسے زیادہ آڈیوکیسیٹوں کی کاپیاں بھی بتدریج پھیل رہی ہیں، لیکن ان تمام خدمات کی بادشاہ وہ سب سے عظیم خدمت ہے، جو باطن کے علاوہ ظاہرمیں بھی امامِ وقتؑ کے دست مبارک میں پہنچ جانے کی سعادت حاصل کرے، وہ کتابوں کے ایسے ترجمے کی خدمت ہے، جسے ہمارے مولا و آقا بہت پسند فرماتے ہیں، پس میں بصدِ شوق ان تمام حضرات سے فدا ہوجانا چاہتا ہوں، جو ہماری کتابوں کا کسی بھی اہم زبان میں ترجمہ کرتے ہیں، اوراُن عزیزان سے قربان ہوجانے کا جذبہ رکھتا ہوں، جوترجمہ وغیرہ میں معاونت کرتے ہیں۔

زبان حال سے دعا

دعا دوقسم کی ہوا کرتی ہے: ایک زبانِ قال سے ہے، اور دوسری زبانِ حال سے،

۹

قال میں الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں، مگرحال میں الفاظ نہیں ہوتے، صرف کوئی خاموش کیفیت ہوتی ہے، مثال کے طورپرتم کسی مستحق محتاج آدمی کی مالی مدد کرتے ہو، وہ زبان سے تمھارے حق میں دعا کرے یا نہ کرے، لیکن وہ بہت ہی خوش ہوجاتا ہے، اوراس کی خوشی کی کیفیت میں تمھارے لئے ایک عمدہ دعا پوشیدہ  ہوتی ہے، یہ “زبانِ حال سے دعا” کی ایک قابلِ فہم مثال ہے، اب یہاں  یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اگرافلاس وتنگدستی بری چیزہے، تویہ بھی سچ ہے کہ دینی جہالت ایک عذاب ہے، جس سے بچنے اوربچانے کا خدا نے حکم دیا ہے (۶۶: ۶)  پس آئیے ہم سب مل کر نورقرآن (امامؑ)  کے علم کی روشنی پھیلائیں، اوربے شمارلوگوں کی زبانِ حال سے پرخلوص دعائیں حاصل کریں۔

عزیزوں کا ذکرجمیل

انسانی قلب راڈار = Radar(لاسلکی آنکھ)  کی طرح گھومتا ہوا کام کرتا ہے، مگراس کا دائرۂ کارانتہائی وسیع ہے، یہاں تک کہ مکان ولامکان پراس کوعبورحاصل ہوسکتا ہے، اور راڈار یہ کام کبھی نہیں کرسکتا، چنانچہ میراقلب بڑی سرعت سے ان تمام ممالک، علاقوں، شہروں اورمقامات کی طرف متوّجہ ہوجاتا ہے، جہاں میرے عزیزان رہتے ہیں، اسی طرح اگرچہ میں اُن سب کویاد کرتا ہوں، جن کومیں پہچانتا ہوں، لیکن اعِزّہ واحِبّا کی یاد قوّی اور زور آور

۱۰

ہوتی ہے، اور اس سے بھی زیادہ پرکشش اورتمام بشری یادوں پرغالب یاد ان عزیزوں کی ہے، جوہمارے ساتھ شانہ بشانہ علمی خدمت کا مقدّس فریضہ انجام دے رہے ہیں، ہم ان کی بے حد پیاری یاد کوذکرِجمیل کہیں گے، کیونکہ عقل وجان کی نظرمیں یہ یاد نہایت ہی خوبصورت اوردل آویز ہے، اے برادر! ہم ان عزیزوں کوکیسے یاد نہ کریں، جوحصۂ دل اور پیوند جان ہوگئے ہیں، ہمارے یہاں “یک جان و دو قالب” کی جگہ “یک جان و کثیرقالب” کی مثل درست ہے، کیونکہ ہم کوامام برحقؑ نے یک حقیقت (حقیقتِ واحدہ)  کی تعلیم دی ہے، جو سب سے بڑی انقلابی اور سب سے آخری قیامت خیز تعلیم ہے، اس کا قرآنی تصور نفسِ واحدہ ہے (۳۱: ۲۸)۔

سیسا پلائی ہوئی دیوار

سورۂ صف (۶۱: ۴)  میں ارشاد ہے: خدا توان لوگوں سے محبت رکھتا ہے جواس کی راہ میں اس طرح قطار باندھ  کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں (۶۱: ۴)  یہ جہاد ظاہرکے لئے مثال ہے، اورجہاد باطن کے لئے حقیقت، کیونکہ صرف حقیقی مومنین کی ارواح ہی ذکروعبادت اورعلم ومعرفت کے زیراثرصحیح معنوں میں سیساپلائی ہوئی دیوار کی طرح ایک ہوسکتی ہیں، جس کی علامت زبردست  اور غالب علمی جہاد ہے، جو ولیٔ امرکی نورانی تائید

۱۱

سے ہوتا ہے یہ نکتہ اچھی طرح یاد رہے کہ صف (قطار)  باندھنا قرآنی حکمت اور روحانیت میں ارواح وملائکہ کے ایک ہوجانے کا نام ہے، جیسا کہ سورۂ فجر(۸۹: ۲۲) میں ارشاد ہے: وَجَائَ ربُّک والملکُ صفّاًصفّاً = اورتمھارا پروردگاراورفرشتے قطارکی قطار آجائیں گے۔  چونکہ یہ عالمِ وحدت (دارالابداع)  کی سب سے اعلیٰ حقیقت ہے، جوعالم کثرت کی مثال میں پیش کی گئی ہے، لہذا اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ یہ حضرت قائم القیامت علیہ افضل التّحیۃ والسّلام کے ظہور نورانی ہی کا  تذکرہ  ہے، جس میں نہ صرف فرشتوں ہی کی نمائندگی ہوتی ہے، بلکہ اس میں ربّ کریم کی تجلّی بھی ہے، جس طرح امام مبین(۳۶: ۱۲)  میں کلِّ شَی یعنی ہر چیزکا تصوّر ہے، مگراشیائے معرفت کے بغیرہرچیز(کُلَّ شَیْ)  کس طرح ہوسکتی ہے، پس اگرامام مبینؑ کی ذات اقدس میں دیگراعلیٰ چیزوں سے بھی کہیں زیادہ ضروری عرفانی چیزیں ہیں، تو پھراس میں حضرتِ ربّ کے ظہورات وتجلّیات لازمی ہیں، کیونکہ اس کے سوا معرفت ممکن ہی نہیں۔

ایک بے حد مفید تجویز

آج بوقت شام بعد ازجماعت خانہ جمعرات۱۰ رجب المرجب۱۴۱۲ھ ۱۶جنوری ۱۹۹۲ ء کوکلاس میں ایک نہایت پرسوزمناجات کا آڈیوکیسیٹ

۱۲

پلے  ہورہا تھا، نورِامامت کے عشق ومحبت کے طفیل اورپاکیزہ  روحوں کی حاضری و موجودگی کی برکت سے کیسیٹ میں بہت ساری خوبیاں آئی ہوں گی، اس لئے سامعین کے ہرفرد پریہ حال طاری ہوا کہ وہ یا تودریائے مستی میں مستغرق ہو یا سیلابِ گریہ وزاری میں بہہ جائے، میں خود بھی ورطۂ حیرت میں سوچ رہا تھا کہ یہ کس محفل کا کیسیٹ ہے؟

بالآخرچند تجاویز ذہن میں آگئیں، اوران میں سے ایک بے حد مفید تجویز یہ بتائی گئی کہ جن عزیزوں کوروحانی ترقی کا زبردست شوق اورلگن ہو، وہ  ہمارے کیسیٹوں میں سے، جوایک ہزارسے بھی زیادہ ہیں، چالیس۴۰ کا انتخاب کریں، جوعلمی بھی ہوں، اورمناجاتی بھی، پھر۴۰ دن تک ہرصبح بعد ازجماعتی عبادت ایک ایک کیسیٹ کوبھرپور توجہ سے سنتے جائیں، توان شاء اللہ اس عجیب وغریب پوشیدہ چلّہ سے روحانی لذّتوں کا بڑا تجربہ اورعلمی انقلاب کے لئے راستہ ہموارہوسکتا ہے، اسی طرح دینی کتب میں سے چالیس منتخب مضامین پربھی چلّہ ہوسکتا ہے، لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رہے کہ ایسے بابرکت اعمال کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ان مومنین کوحاصل ہوسکتا ہے، جو پرہیزگار، عبادت گزاراوردائم الذّکر ہوتے ہیں۔

۱۳

سلام ودعا کا مقدّس فریضہ

میں آخراً شرق وغرب کے جملہ عہدہ داران وارکان کوصمیمیّتِ قلب سے سلام ودعا کرتا ہوں، وہ سب مجھے بے حد عزیزہیں، کیونکہ امام عالیمقامؑ کے اس علم کی روشنی پھیلانے کی خاطر وہ میری روح کی کاپیاں ہوگئے ہیں، کوئی شاید تعجب سے سوال  کریگا کہ آیا ایسا بھی ممکن ہے؟ میں جواب دوں گا کہ جی ہاں، ممکن ہے، نہ صرف وہ میری کاپیاں ہیں، بلکہ میں خود بھی ان میں سے ہرایک کی کاپی ہوں، اس کی پہلی مثال سیسا پلائی ہوئی دیوارہے، (۶۱: ۹۴) اوردوسری مثال سدّ یاجوج (۱۸: ۹۴)  یعنی ذکروعبادت، علم اوراعلیٰ خدمت کے وسیلے سے ایمانی روحوں کے ذرّات امام زمانؑ کے نوراقدس کے سانچے میں ایک ہوجاتے ہیں، اور یہی نفسِ واحدہ ہے(۳۱: ۲۸) جس کی کاپیاں مومنین کے اجسام میں ہوتی ہیں۔

 

نصیرالدّین نصیرؔہونزائی

کراچی

۱۱؍ رجب المرجب۱۴۱۲ھ ؍

۱۷جنوری ۱۹۹۲ء

۱۴

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

کلید نمبر۱: سلامتی کی راہیں:

دین فطرت (اسلام) کا سب سے اہم اورسب سے بنیادی نکتہ جس کوتسلیم کرلینے میں بے شمارعلمی وعرفانی فائدے ہیں، یہ ہے کہ خداوندِ تبارک و تعالیٰ کی مکمل اور روشن ہدایت نورِ منزّل اورکتاب مبین (قرآن) میں ہے، (۰۵: ۱۵) اسی سے خدائے پاک وبرترسلامتی کی راہوں پران لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے، جواس کی خوشنودی کی پیروی کرتے ہیں، آپ ہرگز ہرگز یہ بات بھول نہ جائیں کہ اللہ جلّ جلالہ کی خوشنودی (رضوان ۰۵: ۱۶) سب سے بڑی چیز ہے (۰۹: ۷۲)  اور یہی خود سب سے بڑا راز بھی ہے، جس کی معرفت امامِ زمان صوات اللہ علیہ وَسلامہ کی کامل اطاعت و فرمانبرداری ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔

اگرکوئی پوچھے کہ سلامتی کی راہیں (سُبُل السّلام ۰۵: ۱۶ )  کیا ہیں؟

۱۵

ان میں اورصراط المستقیم میں کیا فرق ہے؟  توآپ اس کو یوں جواب دیں کہ: سلامتی کی راہیں شریعت، طریقت، حقیقت اورمعرفت ہیں، چونکہ یہ خود صراط مستقیم کی چاربڑی منزلیں ہیں، لہٰذا اس میں فرق کا سوال خود بخود ختم ہوجاتا ہے، آپ متعلقہ آیۂ کریمہ(۰۵: ۱۶ )  میں دیکھ سکتے ہیں کہ پہلے سلامتی کی راہوں کی ہدایت کا ذکرفرمایا گیا ہے، اورپھرصراطِ مستقیم کی ہدایت کا، کیونکہ تمام منزلوں کی رہنمائی پوری راہ کی رہنمائی قرارپاتی ہے، تاہم یہاں یہ سوال ہے کہ صراط مستقیم کی منزل مقصود کیا ہے؟  اورکوئی شخص یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ علیٰ صراطٍ مّستقیم اور اِلیٰ صراطٍ مّستقیم میں کیا فرق ہے؟  میں جواباً یہ عرض کرونگا کہ اس راہ راست کی منزلِ مقصود خدا ہی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: اورجوشخص خدا کومضبوطی سے پکڑے تووہ ہدایت یافتہ ہوگیا (۰۳: ۱۰۱ )۔

نیزارشاد ہے: خدانے فرمایا کہ یہی راہِ راست ہے کہ مجھ تک (پہنچتی )  ہے(۱۵: ۴۱ )  اورسورۂ نساء ۰۴: ۱۷۵ میں بھی دیکھ لیں، اب علیٰ اور اِلیٰ کے بارے میں جوسوال ہوا تھا، اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی صورت میں صراطٍ مستقیم پرہدایت کی بات ہے، اوردوسری صورت میں منزل مقصود کا اشارہ ہے، کیونکہ راستے کی مراد منزل ہی ہوتی ہے، اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گنجِ عقل میں جہاں تمام چیزوں کی حقیقتیں اورمعرفتیں لپیٹی ہوئی ہیں، وہاں صراطِ مستقیم کی عقلی صورت بھی ہے۔

۱۶

کلید نمبر۲: ہرچیزکی علمی صورت:

قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ خداوندِ عالم نے ہرچیزکے ظاہر و باطن میں حقیقی علم رکھا ہے(۰۶: ۸۰؛ ۰۷: ۸۹؛  ۲۰: ۹۸ )  اوراس کلّیہ سے ہرگزکوئی شیٔ خارج نہیں ہوسکتی، پھراس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن وحدیث کے جتنے الفاظ ہیں، ان میں سے ہرلفظ کے ظاہری معنی اپنی جگہ درست ہونے کے ساتھ ساتھ اسی مناسبت سے ایک پوشیدہ معنی بھی ہیں، اوراس میں وہ علم ہے، جس کوعلم باطن یا تاویل کہا جاتا ہے، مثال کے طور پر”سلام” ایک قرآنی لفظ ہے، جوقرآن میں متعدد بارآیا ہے، اس کے ظاہری معنی ہیں: سلامتی، دعا، سلام، امان، سالم، اللہ تعالیٰ کا نام، اوراس کے باطنی معنی ہیں: روحانی اورنورانی تائید، جس میں عقل وجان کی سلامتی پوشیدہ ہے، جیسا کہ سورۂ یاسین میں ہے: سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبِّ رّحیم (۳۶: ۵۸ ) (اوراہل جنت کو )  مہربان پروردگار کی طرف سے ایک قول (یعنی کلمہ باری باعث )  تائید ہے تاکہ اس نورانی تائید سے ان کے علم اسرارمیں اضافہ ہو۔

سورۂ ھود (۱۱: ۶۹ )  میں ہے کہ: فرشتوں نے حضرت ابراہیمؑ کوسلام کیا اورآپؑ نے سلام کا جواب دیا۔  اس سے روحانی مخاطبہ (گفتگو)  مراد ہے، کیونکہ فرشے کی آواز روحانیت میں ہوتی ہے، اس لئے

۱۷

دل کی زبان سے اس سے گفتگوکی جاتی ہے، یاد رہے کہ مخاطبِ روحانی کا دوسرا نام سلام ہے، جس کو تائید بھی کہتے ہیں، جیسا کہ اہلِ جنّت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ: وہ لوگ وہاں سلام کے سوا کوئی بےہودہ بات سنیں گے ہی نہیں (۱۹: ۶۲ ) اس کی تاویل یہ ہے کہ بہشت کی ساری گفت وشنید ہمیشہ روحانیت ہی میں ہوا کرتی ہے، کیونکہ جنّت میں ظاہری قسم کا سلام نہیں ہوسکتا، جس کے معنی میں بطوردعا یہ کہا جائے کہ تم پرسلامتی ہو! جبکہ اہل جنّت خود سلامتی کے گھر (دارالسّلام )  میں رہتے ہیں (۰۶: ۱۲۷ ) دارالسّلام بہشت بھی ہے اورخدا کا گھر بھی، اس لئے کہ “السّلام” اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ہے (الملک القدّوس السّلام ۵۹: ۲۳ ) پس بہشت میں پروردگارعالم اورفرشتوں کے سلام سننے کے معنی ہیں: نورانی تائید، روحانی کلام، علم اسراراورمعرفت، جس سے خدا کے دوستوں کی ازلی وابدی سلامتی اورہمیشہ ہمیشہ اصل سے واصل رہنے کی حقیقت روشن ہوجاتی ہے۔

کلید نمبر۳: نفسانی موت:

سورۂ جمعہ (۶۲: ۶ ) میں ارشاد ہے: (اے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تم ) کہہ دوکہ اے یہودیو! اگرتم یہ خیال کرتے ہوکہ تم ہی خدا کے دوست ہو اورلوگ نہیں، تواگرتم  (اپنے دعوے میں) سچے ہوتو (نفسانی) موت کی تمنا کرو (۶۲: ۶ ) کیونکہ خدا کے اولیاء کی علامت یہی ہوتی ہے، اور

۱۸

اسی تمنا کے نتیجے میں انہیں فنا فی اللہ و بقا باللہ کی سب سے بڑی سعادت حاصل ہوجاتی ہے، ورنہ ظاہری اورجسمانی موت کی آرزو کوئی ایسا آدمی بھی کرسکتا ہے، جواپنی غلط کاریوں کی بنا پر زندگی سے تنگ آچکا ہو، اوراس سلسلے میں بعض دفعہ انسان خودکشی کا ارتکاب بھی کرتا ہے، پس ظاہر ہے کہ حصولِ روحانیت کے لئے بدنی موت نہیں بلکہ نفسانی موت ضروری اورلازمی ہے۔

“تم اپنے نفس کو قتل کرو (۰۲: ۵۴ ) “یہ حکم صرف بنی اسرائیل ہی کے لئے نہ تھا، بلکہ آج بھی لوگوں سے ظاہراً یا باطناً بچھڑے کی پرستش جیسے مشرکانہ گناہ سرزد ہوسکتے ہیں، لہذا جو شخص توبہ کرکے مومنِ مُوَحِّد ہوجانا چاہتا ہو، تواُس پرواجب ہے کہ وہ علم وعمل کے ذریعے سے اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے، کیونکہ یہی جہاد اکبر ہے، جو بےحد ضروری ہے، اوراس کے بغیرموت کی تمنا کرنے کا کوئی مطلب نہیں۔

بچھڑا نہ توگائے کی طرح فائدہ دے سکتا ہے اورنہ بیل کا کام کرسکتا ہے، کیونکہ یہ ابھی ناتمام ونارسیدہ ہے، چنانچہ روحانی سفرکے سلسلے میں وہ آزمائشی مقام بھی آتا ہے، جہاں سامری (شیطان)  روحانی مسافرکے خلاف ایک ایسی آوازکا حربہ استعمال کرتا ہے، جو بےعلم اورغیرمفید ہونے کی وجہ سے بچھڑے کی آوازجیسی ہوتی ہے، اورسامری یہ تأثردیتا ہے کہ دیکھو یہی خدا ہے، لیکن

۱۹

توحید کا اصل مقام کئی فناؤں کے بعد ہے، لہٰذا اس امتحان سے گزر کرآگے جانے کی ضرورت ہے، سامری اوربچھڑے کا قصہ ملاحظہ ہو: ۲۰: ۸۵؛  ۲۰: ۸۷؛  ۲۰: ۹۵ اور۰۲: ۵۱؛ ۰۲: ۵۴؛ ۰۲: ۹۲؛ ۰۲: ۹۳؛ ۰۴: ۱۵۳؛ ۰۷: ۱۵۲؛ ۰۷: ۱۴۸؛  ۲۰: ۸۸، تاکہ آپ قرآنی حکمت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکیں۔

متعلقہ سوال وجواب: س نمبر۱ : اس کی کیا تاویل ہے کہ بنی اسرائیل کا گوسالہ (بچھڑا ) زیورات سے بنا گیا تھا؟

ج: خاموش روحانیت کے مراحل میں ہرطرف تصوراتی سیم  و زر اور لعل و گوہرکی کثرت کا مشاہدہ ہوتا ہے، اورجوشخص ان چیزوں پرفریفتہ ہوجاتا ہے، اس کے لئے آوازکا ایک بچھڑا بنایا جاتا ہے۔

س نمبر۲: قر آن حکیم (۲۰: ۸۸ )  میں اس بچھڑے کے جسمانی ہونے کا ذکرہے، اس میں کیا راز ہے؟

ج: کیونکہ یہ بچھڑا ان چیزوں میں سے ہے جوذرّات جسمِ لطیف سے ہوتی ہیں۔

س نمبر۳: فرشتے کے نشان قدم کی ایک مٹھی (۲۰: ۹۶ ) سے کیا مراد ہے؟

ج: جسم لطیف کے ذرّات کی مٹھی۔

س نمبر۴: لامِساس  (۲۰: ۹۷ )  کے کیا معنی؟

ج: اس کے معنی ہیں: نہ چھونا، ہاتھ نہ لگانا، یعنی سامری کوآخربڑی ذلت سے یہ کہنا پڑا کہ مجھ کونہ چھونا، جس کی تاویل ہے:

۲۰

مجھ سے تعلیم نہ لو، نیز اس کا اشارہ ہے کہ جوسامری جیسے پیشوائے باطل کی پیروی کرے، وہ گوہرمقصود کوکیسے پہنچ سکتا ہے۔

س نمبر۵: توبہ کے لئے نفس کشی کا حکم کیوں دیا گیا (۲: ۵۴ ) ؟

ج : کیونکہ حقیقی توبہ لوٹ کرفنافی اللہ ہوجانا ہے، جس کے لئے جسمانی موت سے قبل نفسانی موت ضروری ہے۔

س نمبر۶: شیطان چھوکریا لپیٹ کرکسی کومخبوط الحواس یعنی دیوانہ بنا سکتا ہے (۰۲: ۱۷۵) اس میں کیا رازہے؟

ج: جب کوئی شیطانِ انسی یا شیطانِ جنّی کسی آدمی کوگمراہ کرکے غلط باتیں سکھاتا ہے، تواس کا قول وفعل اہل بصیرت کے نزدیک دیوانے کی طرح لگتا ہے، اگرچہ وہ ظاہرمیں ایسا ہرگزنہیں کہ اسے دیوانہ کہا جائے، لیکن یہ اس کے عقائد و نظریات کے اعتبارسے ہے۔

کلید نمبر۴: حدیثِ قدسی:

حدیث قدسی میں ہے: اے آدم کی اولاد! میں ہمیشہ زندہ رہنے والا ہوں، مروںگا کبھی نہیں، توعمل کرجس کا میں نے تجھے حکم دیا ہے اورجس چیز سے تم کومنع کیا ہے اس سے رک جا، تاکہ میں تجھے زندہ رہنے والا بنا دوں کہ تومرے نہیں، اے آدم کے بیٹے! میں بادشاہ ہمیشہ رہنے والا ہوں، جب میں کسی چیزکوکہتا ہوں کہ ہوجا، تو وہ ہوجاتی ہے، تومیری اطاعت کر، جن چیزوں میں مَیں نے تجھے حکم دیا ہے اورباز رہ جس سے تم کومنع کیا ہے، تاکہ توبھی

۲۱

جس چیزکو کہے کہ ہوجا تو ہو جائے۔

یہ حدیث قدسی بھی حکمتوں سے مملوہے: اے آدم کی اولاد!میری اطاعت کر، تاکہ میں تجھ کوخود جیسا زندہ اورلافانی  بناؤں گا‘ اور ایسا معزز بناؤں گا کہ توکبھی ذلیل نہ ہوگا، اورایسا دولت مند بناؤں گا کہ توکبھی مفلس و نادار نہ  ہوگا۔

اس قسم کے پرحکمت اشارات سے قرآنِ حکیم بھرا ہوا ہے، مثال کے طورپر: فنا فی اللہ وَبقا با اللہ کا اشارہ (۵۵: ۲۶ تا ۲۷ ) کیونکہ سورۂ رحمان میں انتہائی عظیم نعمتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، جودوستانِ خدا کوعطا ہوجاتی ہیں، نیزعنایتِ الٰہی سے ہرمومن ومومنہ کا بادشاہ ہوجانا (۰۵: ۲۰؛ ۰۳: ۲۶؛ ۶۷: ۰۱؛  ۷۶: ۲۰ ) اہل ایمان کو پروردگارسب کچھ عطا کردیتا ہے (۱۴: ۳۴ ) اہل بہشت کو ان کی خواہش کے مطابق ہرنعمت عنایت ہوتی ہے (۱۶: ۳۱؛ ۲۵: ۱۶؛  ۳۹: ۳۴؛ ۴۲: ۲۲؛ ۵۰: ۳۵ ) قرآن پاک میں فنا فی اللہ اوربقا باللہ کے اوربھی بہت سے اشارے موجود ہیں، بلکہ لاتعداد اشارات ہیں، کیونکہ جس  طر ح منزل فنا (مقامِ عقل) میں پہنچ کرہرچیزہلاک و فنا ہوجاتی ہے (۲۸: ۸۸ ) اسی طرح تمام الفاظ کے معانی بھی فنا ہوکر”یک حقیقت” بن جاتے ہیں، ، مثلاً جوشخص منازِل روحانی کے پیش نظرمقرب کہلاتا ہو، وہی تجربۂ فناکی وجہ سے اصل سے واصل بھی ہے، تاہم ایسے اسرارپرامتحانی حجاب ہے کہ علم کے دعوٰی کرنے والے لوگ مقربین کو

۲۲

واصلین (۰۴: ۱۷۲؛ ۵۶: ۱۱؛ ۸۳: ۲۱؛ ۸۳: ۲۸؛ ۰۳: ۴۵؛ ۵۶: ۸۸ ) مانتے ہیں یانہیں؟

قرآن کریم میں “رجوع اِلی اللہ” کا موضوع زبردست اہمیت کا حامل ہے، جس سے بہت سی آیاتِ مقدّسہ متعلق ہیں، لیکن آخری رجوع فنا اور وصال کے معنی میں ہے، اگرچہ یہ معنی ظاہرنہیں، پوشیدہ ہیں، کیونکہ حقائق ومعارف کتاب مکنون (۵۶: ۷۷ تا ۷۹ ) میں پوشیدہ ہوا کرتے ہیں، اوراس میں کوئی شک نہیں کہ جولوگ روحانیت اورعلم وحکمت کے ذرائع سے پاک کئے گئے ہیں، وہی کتابِ مکنون کوچھوسکتے ہیں اورپڑھ سکتے ہیں اوریہی حضرات قرآنِ حکیم کی گہری حکمتوں کے اسرارسے واقف وآگاہ ہوتے ہیں۔

کلید نمبر۵: اہلِ قرآن:

قال صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: من ارادان یّتکلّم مع اللّٰہ فلیقرء القراٰن۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ: جوشخص خدا سے کلام کرنا چاہے وہ قرآن کوپڑھے (جیساکہ پڑھنے کاحق ہے ) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ: اہل قرآن ہی خدا والے ہیں اوراس کے مقرب ہیں۔ (اہل القراٰن ھم اہل اللّٰہ وخاصّتہٖ ) دراصل یہ وصف اُن لوگوں کا ہے، جوقرآن پاک کو منشائے الٰہی کے مطابق نورکی روشنی میں حکمت کے ساتھ پڑھتے ہیں، کیونکہ اہل قرآن حضرات أئمّہؑ ہی ہیں، وہی خدا والے اورخاصانِ الٰہی ہیں، اورانہی لاہوتیوں

۲۳

کی ہدایت وتعلیم کے مطابق کوئی شخص قرآن پڑھ کرخدا سے کلام کرسکتا، اورجو پروردگارسے کلام کرے، وہ جہالت ونادانی کی نجاست سے پاک وپاکیزہ ہوجاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کاعظیم مرتبہ بھرپورعلم وحکمت کے معنی میں ہے۔

حدیث شریف ہے کہ: جوشخص (نفسانی طورپر ) مرجائے اس کی  (ذاتی ) قیامت برپا ہوجاتی ہے (من مات فقد قامت قیامتہ ) یہ کوئی عام اورمعمولی بات ہرگزنہیں، بلکہ انتہائی مشکل کام ہے، خدا کے ایسے دوست جن پرذاتی قیامت کی سختیاں اورآزمائشیں گزرتی ہیں، کیسے کیسے علمی وعرفانی عجائب وغرائب اورمعجزات کا مشاہدہ کرتے ہوں گے؟ قرآنی علوم میں وہ علم جوسب سے مشکل اورانتہائی مخفی ہے، علم قیامت ہی توہے، آیا وہ لوگ (عارفین وکاملین )  جن کی قیامت قائم ہوچکی ہوقیامت کے بھیدوں سے ناواقف ہوں گے؟  آپ قرآن کریم (۰۲: ۱۷۴؛ ۰۳: ۷۷؛ ۴۲: ۵۱) کی روشنی میں یہ بتائیں کہ ایسے حضرات سے (جن کی ذاتی قیامت برپا ہوچکی ہے ) خداوندِ تعالیٰ کلام کرتا ہے یا نہیں؟ اوریہ بھی پوچھنا ہے کہ یہی نفسانی موت اورانفرادی قیامت فنافی اللہ کا باعث ہوسکتی ہے یا نہیں؟

کلید نمبر۶: دوسمندر:

خالق اکبرنے اپنی قدرتِ کاملہ اورحکمت بالغہ سے خیروشرّ کواس طرح پیدا کیا کہ اس

۲۴

علیم وحکیم نے خیرکودائمی بنایا اورشر کوعارضی، خیرگویا میٹھے اورخوشگوارپانی کا سمندر ہے، اورشرکھارا اورتلخ پانی کا سمندر، لیکن یہ دونوں سمندرمچھلیوں اورموتیوں سے یکسان طورپربھرے ہوئے ہیں (مفہوم: ۳۵: ۱۲ )  چنانچہ کوئی قرآنی مثال چاہے خیرسے متعلق ہو یا شرسے، مگراس میں ہمیشہ بھرپورمغز حکمت پوشیدہ ہوا کرتا ہے، اوریہی قانون قرآن کا ایک عظیم رازہے، جیسا کہ ارشاد خداوندی کا ترجمہ ہے: (قوم ) عاد بہت شدید وتیز آندھی سے ہلاک کئے گئے خدا نے اسے سات رات اورآٹھ دن لگا تاراُن پرچلایا (۶۹: ۷ )  یہ شراورنافرمانی کی سزا توہے ہی، تاہم اس مثال کے حجاب میں یہ حکمت بھی پنہان ہے کہ سات رات اورآٹھ دن کی یہی مدّت وہ خاص وقت ہے، جس میں مومنِ سالک اسرافیل اورعزرائیل کے فعل سے مسلسل مرتا اورزندہ ہوتا رہتا ہے۔

اگرچہ مومنِ صادق روحانی سفرکے دوران منزل عزرائیلی میں باربارمرتا اورباربارزندہ ہوجاتا ہے، جس کا اوپرذکرہوچکا، اورمقام عقل پربھی اسی طرح فنا وبقا کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، کیونکہ جزوی حیات وممات کی اس کثرت میں بے شمارحکمتیں پوشیدہ ہیں، تاہم عارفِ کامل بحیثیت مجموعی مقامِ روح اورمرتبۂ عقل پردو دفعہ مرجاتا ہے اوردو دفعہ زندہ ہوجاتا ہے، اوریہ دُرِّگرانمایہ پہلے سمندرسے نہیں، بلکہ دوسرے سمندرسے ہیں (۴۰: ۱۱ )۔

۲۵

قانون قدرت کے صاف وشفاف آئینے میں ہمیشہ سے یہی حقیقت جھلکتی آئی ہے کہ ہرکل کے بہت سے اجزا ہوا کرتے ہیں، ہرروشنی بہت سی کرنیں رکھتی ہے، ہربیج میں بحدِّ قوّت لاتعداد بیجوں کا ذخیرہ مخفی ہوتا ہے، ہرخاص وعام کتاب کی ہزاروں کاپیاں ہوسکتی ہیں، ہرآدمی کی بہت ساری تصاویر ممکن ہیں، اورآج ایک ہی شخص کی ہزارہا فلمی کاپیاں بنتی ہیں، توکیا قادرِمطلق کے لئے یہ امرکوئی مشکل ہے کہ و ہ نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸ ) سے بے شمارارواح و ملائیکہ پھیلائے اور ا س میں  سب کولپیٹے (۳۹: ۶۷ ) یقیناً وہ ایسا ہی کرتا ہے، پس انسان ایک اکیلا بھی ہے، اورایک عالم بھی ہے، آپ اِ س سرِّعظیم میں بار  بارسوچیں۔

کلید نمبر۷: سورۂ فاتحہ تفسیرِ قیامت:

انفرادی قیامت کے بارے میں گفتگواورسوال وجواب بے حد ضروری ہے، کیونکہ اس کی بہت بڑی اہمیت کا یہ عالم ہے کہ یہ اجتماعی قیامت ہی کی طرح واقع ہوتی ہے، جبکہ ایک شخص کی قیامت میں سب کی قیامت پوشیدہ  ہے، اورجبکہ ہرکامل انسان میں قیامت کا تجدّد ہوتا ہے، اس لئے کہ روحانی ترقی، باطنی علم اورخدا کی معرفت کے لئے تجربۂ قیامت انتہائی ضروری ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ قیامت روحانی انقلاب کا نام ہے، اوراس انقلاب کے بغیر کوئی روحانی ترقی نہیں، پس یہ حقیقت

۲۶

ہے کہ ذاتی اورانفرادی قیامت سے کوئی زمانہ خالی نہیں، یہ حدودِ جسمانی کے اگلے درجوں میں برپا ہوجاتی ہے۔

قرآن پاک شروع سے لیکرآخرتک کس طرح قیامت کے تذکروں سے بھرا ہوا ہے، اس کی ایک روشن مثال سورۂ فاتحہ سے عیاں ہوجاتی ہے، وہ یہ ہے: الحمدللّٰہ ربّ العٰلمین = سب تعریف خدا ہی کے لئے  (سزاوار ) ہے جوسارے جہانوں کا پالنے والا ہے (۰۱: ۱ ) اللہ کی تعریف یہاں اس بناء پر ہے کہ وہ ہرعالم شخصی کی پرورش کرتا ہے، لیکن جس تربیت وپرورش کی وجہ سے اللہ کی حمد وستائش کی گئی ہے، وہ پرورش ان عظیم الشّان روحانی اورعقلی نعمتوں سے ہے، جومنازلِ روحانیت اورمراحل قیامت کے آخرتک پائی جاتی ہے، پس جوشخص خدا، روزقیامت، باطنی نعمتوں اوراعلیٰ پرورش کاعارف ہو وہی بہتر طریقے سے اللہ کی حمد کرسکتا ہے۔

الرّحمٰن الرّحیم =  بڑامہربان  (اور) نہایت رحم والا ہے (۰۱: ۲ ) رحمان اورحیم کی تفسیروتاویل کے لئے کتاب وجہِ دین گفتار (کلام ) نمبر۱۴ ملاحظہ ہو، خلاصہ یہ کہ رحمان خدا کا ایک خاص نام ہے، اس کے معنی میں جن رحمتوں اورنعمتوں کا ذکر ہے، وہ دنیا میں سب کے لئے عام ہیں، اوررحیم کے معنی میں جورحم وبخشش ہے، وہ قیامت کے دن صرف مومنین ہی کے لئے خاص ہے۔

۲۷

مٰلک یوم الدّین = روزجزا کا حاکم  ہے (۰۱: ۳ ) اس میں براہِ راست روزِ آخرت کا ذکر ہے۔ ایّاک نعبدوایّاک نستعین = خدایا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اورتجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں (۰۱: ۴ ) یہ عارفانہ عبادت ہے، جس کے نتیجے میں خدا کی مدد شامل حال ہوجاتی ہے، اورمرتبۂ معرفت قیامت کے بعد ہے۔

اھدنا الصّراط المستقیم = توہم کو سیدھی راہ پرچلا (۰۱: ۵ ) یعنی زندہ ہدایت کی روشنی میں ہمیں روحانیتِ اسلام اورذاتی قیامت کے مراحل میں آگے سے آگے لے جا، تا آنکہ ہم تجھ میں فنا ہوجائیں۔ صراط الّذین انعمت علیھم = ان کی راہ جنہیں تونے نعمتیں عطا کی ہیں (۱: ۶ ) یعنی ناطقوں، اساسوں، اماموں اورابواب کا راستہ (۴: ۶۹ ) جن کی لاتعداد نعمتیں انفرادی قیامت میں پوشیدہ ہیں، پس اگرکسی مومین کی ذاتی قیامت قائم ہوئی تویہ تمام نعمتیں بوسیلۂ تجدّد اس کے سامنے آتی ہیں، تاکہ وہ معرفت کاملہ کوحاصل کرے۔ غیرالمغضوب علیھم ولاالضّآلّین= نہ ان کی راہ جن پرتیراغضب ہوا، اورنہ ہی گمراہوں کا (۰۱: ۷ ) غضب الٰہی میں گرفتار اورگمراہ ہوجانے کی مثال وہ لوگ ہیں، جن کوشدید نافرمانی کی وجہ سے خدا نے مسخ کرکے بندراورخِنزیربنا دیا تھا (۰۵: ۶۰ ) پس ایسی مستقل سزا ذاتی قیامت کے بغیرنہیں ہوسکتی ہے، توآپ نے اس مثال کواچھی طرح سے دیکھ لیا کہ سورۂ فاتحہ کی کوئی آیت تذکرۂ قیامت

۲۸

سے خالی نہیں، پس یہی حال اوریہی مثال قرآن عظیم کی تمام دوسری سورتوں کی بھی ہے۔

کلید نمبر۸: دو بھلائیوں میں سے ایک:

قرآن حکیم کی بے شماراعلیٰ اوربے حد مفید حکمتوں میں سے ایک پرکشش حکمت سورۂ توبہ (۰۹: ۵۲)  میں ہے، اور وہ ہے: اِحْدَالْحُسْنَیْنِ (دوبھلائیوں میں سے ایک ) یعنی خداوند تعالیٰ اس دنیا میں اہلِ ایمان کے ہرفرد کوآمنے سامنے کی دواچھی چیزوں میں ایک نہ ایک ضرورعطا کردیتا ہے، جیسے زمانۂ نبوت کے جہاد میں یا تو فتح حاصل ہوتی تھی، یا شہادت کی سعادت، اسی طرح نہ صرف جسمانی راحت ہی نعمت ہے، بلکہ دوسری جانب ظاہری تکلیف بھی عقل وجان کے لئے نعمت ہے، مگراس میں سوچنے کی ضرورت ہے۔

دنیا میں علمی، فنی، اورعسکری امتحانات لوگوں کی ترقی ہی کے لئے ہوا کرتے ہیں، ہرمیدان میں جوشخص جتنے امتحانوں سے کامیابی کے ساتھ گزرتا ہے، اتنی اس کی عزت ہوتی ہے، مگر یہ دیکھنا ہوگا کہ لفظ “امتحان” کے اصل معنی کیا ہیں؟ اورقرآن مجید میں اس کا دوسرا لفظ کیا ہے؟  امتحان مَحَنْ سے ہے، مَحَنْ کے معنی ہیں: آزمانا، چاندی کوتپا کرصاف کرنا، کپڑا پہن کرپرانا کرنا، دینا، کنویں کی مٹی نکالنا، اونٹنی کوچلا کرتھکانا، اورچمڑے کونرم

۲۹

کرنا، پس اس کا مجموعی مطلب ہے: محنت، مشقت، ریاضت اوراس کا دوسرا لفظ قرآن میں بَلاء ہے (امتحان، آزمائش، غم، تکلیف ) سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷ ) میں دیکھیں کہ ہرقسم کا خوف، ہرنوع کی بھوک، ہرطرح کا مالی نقصان، جانوں کی کوئی کمی اورپھلوں (پیداوار ) کی کمی مومن اورمومنہ کی آزمائش یعنی امتحان ہے، اورایسی مصائب میں جولوگ جذبۂ دینداری سے صبرکریں، توان کونورِہدایت کی جانب سے کامیابی کی عملی (یعنی روحانی ) خوشخبری ملتی ہے، اورایسے ہی لوگوں کے دل میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اورامام زمانؑ کا ادب اورعشق پیدا ہوتا ہے۔

سورۂ حجرات ۴۹: ۱ تا ۸  آیات کریمہ کوغورسے پڑھیں، آیا پیغمبراکرام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اورحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے برحق جانشین کی مبارک ہستی اللہ کی وہ کسوٹی نہیں ہے، جس سے مومنین کے ایمان، اخلاص، تقوٰی اورعشق کو پرکھ لیا جاتا ہے؟ کیا خدا کی بے بدل سنت یہ نہیں کہ وہ ہمیشہ قلوب میں کلمۂ تقوٰی کے روحانی معجزات کے لئے جوبھی امتحان لیا کرتا ہے، وہ ہادیٔ برحق کی اطاعت اورمحبت کے تحت ہوتا ہے؟

کلید نمبر۹: علّیّین:

جس طرح قرآن حکیم کی ہرہرآیت اسرارِ حکمت سے مملوہے، اسی طرح سورۂ مطَفِّفِین (۸۳) کی آیاتِ مقدسہ ہیں، آپ ان تمام کی حکمت کے لئے غور و فکر کریں،

۳۰

اوریہ دیکھیں کہ نیک لوگوں (ابرار ) کا مشترکہ اورمتّحدہ نامۂ اعمال کہاں ہے؟ عِلِّیّیِن میں ہے (۸۳: ۱۸ ) عِلِّیّین یاعِلّیّیون کیا ہے؟ وہ خود بھی لکھی ہوئی زندہ کتاب اورچاراصول دین کی وحدت ہے، اوریہی کائناتی کتاب بھی ہے، جوآسمانوں کولپیٹ کربنائی جاتی ہے (۲۱: ۱۰۴ ) اوراسی میں نیکوکاروں کااعمال نامہ درج ہوتا ہے، آیا نیک لوگ اپنے اس عالیشان نامۂ اعمال کوآج دیکھ سکتے ہیں؟ نہیں، مگران میں سے جومقربین ہیں، وہی چشم باطن سے ان اسرار سربستہ کا مشاہدہ  کرسکتے ہیں (۸۳: ۲۱) اس کا مطلب یہ ہوا کہ مقربین وہ حضرات ہیں، جن کی ذاتی قیامت جسمانی زندگی ہی میں برپا ہوچکی ہوتی ہے، کیونکہ وہ تمام نیک کاموں میں سب سے آگے آگے ہوتے ہیں۔

وحدتِ محض خدا کے لئے ہے، اور وحدتِ متَکثّرمخلوق کے لئے، چنانچہ اسی کثرت پذیروحدت کی وجہ سے ہم نے عالمِ عقل کوعالمِ وحدت کہا، یقیناً عالمِ وحدت میں سب ایک ہیں، یعنی ایک ہے، جوآدم کی طرح رحمانی صورت میں ہے، جس میں کون ومکان کی تمام چیزیں موجود ومحدود ہیں، مگرسب سے بہترین شکل میں، اوروہ انسانی شکل ہے، جوعقلِ کامل اورروحِ قدسی کے زیورِ بہشت سے آراستہ وپیراستہ ہے، پس عالم وحدت یعنی عِلِّیِّین میں نیک لوگوں کا نامۂ اعمال وہی شخصِ واحد ہے، جو

۳۱

انتہائی عظیم فرشتہ، انسان کامل، امام مبین (۳۶: ۱۲)  اورخدا کے حکم سے سب کچھ ہے۔

کلید نمبر۱۰: عقل کی ترجمانی:

عالمِ عقل جوعالمِ وحدت ہے، اس میں ہرچیززبان حال اورعقل کی ترجمانی سے خدا کی تسبیح کرتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: اورکوئی چیزایسی نہیں جواس کی حمد کے ذریعہ تسبیح نہ کرتی ہو مگرتم لوگ اس کی تسبیح نہیں سمجھتے  (۱۷: ۴۴ ) تسبیح کے معنی ہیں: ذات سبحان کومخلوقات کی صفات سے پاک وبرترقراردینا، جیسا کہ خداوندِ عالم کا ارشاد ہے: سبحٰن ربِّک ربِّ العزّۃِ عمّایَصِفون (۳۷: ۱۸۰ ) تمھارا ربّ عزّت کا پروردگاراس وصف سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔ یعنی خدا بذاتِ خود ہرچیزسے بے نیاز و پاک ہے، وہ دین کے ہرمعززکی عزت میں اضافہ کرتا ہے، اوراس کا درجہ عرش تک پہنچا دیتا ہے، قولہ تعالٰی: رفیع الدَّرَجٰتِ ذوالعرشِ (۴۰: ۱۵ ) درجوں کا بلند کرنے والا صاحب عرش۔  اس میں واضح اشارہ ہے کہ فنافی اللّٰہ وَ بقا باللّٰہ کامرتبہ عرش ہی پرہے۔

عرش کے ایک معنی ہیں: چھت، جمع عروش  (چھتین) اس کی تاویل ہے: ازل اورنورازل، کیونکہ عالم دین اورعالم شخصی کی چھت یا سقفِ مرفوع  (۵۲: ۵ ) یا سقفِ محفوظ (۲۱: ۳۲ ) مرتبۂ ازل ہی

۳۲

ہے، جومقام عقل ہے، یہ اس چھت کی تعریف ہے جس کواللہ تعالیٰ نے مرفوع (بلند ) ومحفوظ کیا ہے، اور اس کے سوا وہ  چھتیں (عروش  ۰۲: ۲۵۹ ؛  ۱۸: ۴۲ ؛  ۲۲: ۴۵ ) جوگرجاتی ہیں، وہ روحانیت کے نچلے درجات کی مثال ہیں، جیسے عملِ عزرائیل کے دوران سرسے روح کی چھت باربارگرجاتی ہے۔

علم ومعرفت کے انتہائی عظیم میوہ ہائے اسرارکے باغات جومرتبۂ ازل اورمقام عقل پرتیارہوتے ہیں، وہ جَنّاتٍ معروشات (۰۶: ۱۴۱ ) کہلاتے ہیں، لفظ معروش عرش سے ہے، یعنی بلند کیا ہوا، نورِازل اوردرجۂ عقل تک پہنچایا ہوا، اوردوسرے روحانی باغوں کا ذکرفرمایا گیا، جوان سے کم درجوں پرہیں، اوروہ ہیں: غیرمعروشات (۰۶: ۱۴۱ ) جن میں حقائق ومعارف ازل وابد کا تجدّد نہیں ہے۔

اب رہا سوال حاملان عرش (۴۰: ۷ ؛  ۶۹: ۱۷ ) کا، تو وہ حضرات حاملان نورِ ازل ہیں، جونورِعقل ہے، یعنی أئمّۂ طاہرینؑ، جوایک کے بعد دوسرا، حاملِ نوراورامام ہوتا ہے، یقیناً جوشخص کامل خدا کا زندہ گھرہے، وہی نورِعرش کا حامل بھی ہے، اوریہ اللہ تعالیٰ ہی کی شان ہے کہ اس نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے امام مبین (۳۶: ۱۲ )  کے عالمِ شخصی کونہ صرف عالمِ ذرّ بنایا، بلکہ اس میں تمام ازلی، ابدی، نورانی، عقلی، علمی، عرفانی، اور روحانی چیزوں کوبھی لپیٹ کر (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷ ) محدود

۳۳

کردیا، پس امام زمانؑ ہی مرتبۂ عقل پرعالمِ وحدت اورعِلِّیّین ہے۔

کلید نمبر۱۱: حضرت آدمؑ کی کاپیاں:

اگرانسان کسی حقیقت کونہیں جانتا ہو، یا جاننے کے بعد بھول چکا ہو، تواس کی وجہ سے وہ حقیقت ختم نہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنی جگہ قائم ہی رہتی ہے، اس کی مثال واقعہ الست (۰۷: ۱۷۲ ) ہے، جس کولوگ یکسربھول چکے ہیں، لیکن قرآن مجید اس کی گواہی دیتا ہے، قرآن کریم کا  فرمانا ہے کہ: خدانے تم کونفسِ واحدہ (یعنی آدمؑ ) سے پیدا کیا (اس سے یہ مراد ہے کہ مرتبۂ روح اورمرتبۂ عقل پرتم سب آدمؑ کی کاپیاں ہو (۰۷: ۱۸۹؛ ۳۱: ۲۸؛ ۳۹: ۶ ) پھرانہی روحوں میں سے ایک زوجہ آدم بنائی گئی، یہی پُرحکمت مفہوم سورۂ اعراف (۰۷: ۱۱)  میں بھی ہے: ہم نے تم کومقامِ روح پرپیدا کیا اورمقامِ عقل پرمکمل کرکے اپنی رحمانی صورت دی پھرفرشتوں سے کہا کہ تم سب کے سب آدم کے لئے سجدہ کرو۔ ۔ ۔ میں پوچھتا ہوں، کیا یہ سرگزشت آپ کویاد ہے؟ نہیں، پھرآپ کوایک ایسے علم الیقین کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی درستی اورصفائی کی وجہ سے آپ کومشاہدے کی طرح کام کرے۔

جب خداوندِ جہان نے نفسِ واحدہ (انسان کامل)  سے لوگوں کوپیدا کیا تو ان  کی دودوانائیں، یا دودو بقائیں مقرر ہوئیں، مستقر یا مستودع  (۰۶: ۹۸ )  مستقرکا دوسرا نام حدیث شریف کی روشنی میں “رفیقِ اعلیٰ” ہے، اوریہی وہ زندہ کرتۂ ابداعیہ ہے، جس کا ذکرسورۂ نحل (۱۶: ۸۱ ) ۔

۳۴

میں فرمایا گیا ہے، اوریہ کرتے روحانی اورعقلانی دوقسم کے ہوا کرتے ہیں، جوہادیٔ برحق کے نورسے بنتے ہیں، جن کا ذکرہوچکا ہے۔

خدا ایک ہے، اورانسان دو، بلکہ تمام مخلوقات دودو ہیں (۳۶: ۳۶ ) پس انسان کی تخلیق وہستی کی بنیاد دوئی پرہے، اوراسی میں سب سے بڑی حکمت پوشیدہ ہے، آدمی اوراس کے سایہ کے درمیان آسمان زمین کا فرق پایا جاتا ہے، کچھ ایسا فرق حیاتِ ابداعی اورظاہری زندگی کے مابین بھی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کُرتۂ ابداعیہ میں ہرمومن اورمومنہ کی روح امامِ اقدس واطہرؑ کی کاپی اوربہشت کی بادشاہ ہے (۷۶: ۲۰ ) اورجسم خاکی میں انسان ضعیف البُنیان، مصرع: ببین تفاوتِ راہ ازکجاست تابکجا۔

کلید نمبر۱۲: سلیمان زمانؑ:

حقیقت صرف ایک ہی ہے، مگراس کی گوناگون مثالیں بہت زیادہ ہیں (۱۷: ۸۹؛ ۱۸: ۵۴ ) چنانچہ حضرت سلیمانؑ کا قصۂ قرآن انہی مثالوں میں سے ہے، وہ اس طرح کہ شاہنشاہِ دین سلیمان زمان ہے، جملہ دنیوی بادشاہی ملکۂ سبا کی حکمرانی ہے، اورجس طرح تختِ بلقیس حضرت سلیمانؑ کے حضورلایا گیا، وہ محض روحانی عمل ہے، کیونکہ اسلام کی حقیقی غالبیت اورفتح باطن اورروحانیت ہی میں ہے،

۳۵

پس جنوں، انسانوں اورپرندوں کا روحانی (سلیمانی یا اسلامی )  لشکراب بھی موجود ہے، جن کا کوڈ (خفیہ code =) نام یاجوج وماجوج (۱۸: ۹۴؛ ۲۱: ۹۶ ) ہے اورحدودِ مقرّب دربارسلیمان کے سردارہیں، جن سے ملکۂ سبا کے تخت کوحاضرکرنے کے بارے میں سوال ہوا تھا سورۂ نمل (۲۷: ۱۵ تا ۴۴ ) میں غورکریں۔

حشرکے معنی ہیں: جمع کرنا، اکٹھا کرنا، یومُ الحشرقیامت کے دن کوکہتے ہیں، کیونکہ اس دن لوگوں کواکٹھا کیا جاتا ہے، اب اس آیۂ کریمہ میں غورکریں: وَحُشِرَلِسُلیمانَ جُنودُہ مِنَ الْجنِّ والاِ نسِ وَالطیّرِ۔ ۔ ۔ اورسلیمان کے لئے ان کے لشکرجنّات اورآدمی اورپرندے سب (بطور ذاتی قیامت ) جمع کئے گئے (۲۷: ۱۷) چونکہ حضرت سلیمانؑ دینی اور روحانی بادشاہ تھے، اس لئے بہت ممکن ہے کہ یہ انفرادی قیامت ان کے حدود جسمانی میں سے کسی میں برپا ہوئی ہو، کیونکہ بادشاہ وہ سب سے معزز اور مختار شخص ہوتا ہے، جوحکم دے کر لوگوں سے کام کراتا ہے، مگرضروری نہیں کہ وہ بھی اس طرح کام کرے۔

قرآنی حکایت ہے: ترجمہ: ملکہ نے کہا بادشاہوں کا قاعدہ ہے کہ جب کسی بستی میں (بزورِ فتح ) داخل ہوتے ہیں تواس کواجاڑدیتے ہیں وہ وہاں کے معزز لوگوں کوذلیل و رسوا کردیتے ہیں، اوریہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے (۲۷: ۳۴ ) تاویلی مفہوم: بلقیس

۳۶

نے کہا اماموں کا دستور ہے کہ جب کسی عالمِ شخصی میں (روحانی لشکرکے ساتھ ) داخل ہوتے ہیں تو (تعمیرِنو کی غرض سے) اس کو بگاڑ دیتے ہیں، وہ وہاں کے سخت دل لوگوں کونرم دل بناتے ہیں اور وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو: اذِلّتہ (نرم دل ) اعزّتہ (سخت دل ) سورۂ مائدہ (۰۵: ۵۴ )۔

۳۶

کلید نمبر۱۳: روحانی لشکر:

قرآن حکیم شروع سے آخرتک علم وحکمت اوررشد و ہدایت کی نعمتوں سے بھرا ہوا ہے، اس لئے یہ اہلِ ایمان کے لئے اوّلین بہشت ہے، اس کے حکیمانہ ثمرات اساسی اورمثالی اہمیت کے حامل ہیں، چونکہ یہ خدائے بزرگ وبرترکا کلامِ حکمت نظام ہے، اس لئے اس کی ہرہرآیت معنویت کا ایک ایسا معجزہ ہے کہ اس کی برکتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں، پس اس میں جگہ جگہ رحیقِ مختوم کا نمونہ اورکستوری کی خوشبوکیوں نہ ہو (۸۳: ۲۵ تا ۲۶ )۔

سورۂ مائدہ (۰۵: ۵۴ ) کی اس ربّانی تعلیم میں دیدۂ دانش سے دیکھنا ہے: اے ایمان والو! تم میں سے جوکوئی اپنے دین سے پھرجائے توعنقریب ہی خدا ایسے لوگوں کولائے گا جن سے اللہ محبت کریگا، اوروہ اللہ سے محبت کریں گے، مومنین پرنرم دل ہوں گے اورکافروں پرسخت دل ہوں گے، اورخدا کی راہ میں جہاد کریں گے، اورملامت کرنے والوں کی ملامت سے

۳۷

نہیں ڈریں گے، یہ خدا کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ ۔ ۔  (۰۵: ۵۴ ) یہ ایسے لوگ نہیں جو بشری لباس میں ظاہر ہوں، بلکہ اسلام کے روحانی لشکرہیں، فرمایا گیا کہ وہ مومنین پرنرم دل یعنی مہربان ہیں، اس سے پتہ چلا کہ وہ جسمانی مومنین سے الگ ہیں۔

خداوندعالم کے روحانی لشکردوبڑی قسموں میں ہیں: سماوی اورارضی (۴۸: ۴؛ ۴۸: ۷ ) ان کوکوئی نہیں دیکھ سکتا، مگرپیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اورامامؑ اوروہ شخص جس پرذاتی قیامت گزررہی ہو (۰۹: ۴۰؛ ۳۳: ۹ ) ان میں سے زمینی (ارضی ) لشکروہ ہیں، جو یاجوج و ماجوج کہلاتے ہیں، اوروہ انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات کی شکل میں ہیں، وہ حدّ و حساب سے باہرہیں، اورجوآسمانی لشکر ہیں وہ کوکبی لطیف بدن (Astral Body) میں ہیں،  مگران کی سب سے عجیب بات تویہ ہے کہ وہ ایک کی وحدت وسالمیت میں پوشیدہ ہو کر سب آتے ہیں، آپ یہاں ایک بہت ضروری نکتہ یاد رکھیں کہ بڑے فرشتوں کی قطاراورصف بندی ایسی منظم ہے کہ اس میں سب کے سب مل کرایک ہی فرد ہوجاتے ہیں، اس صورت میں ان کو قرآنی حکمت کی زبان میں محراب (قلعہ ) کہا جاتا ہے (۳۴: ۱۳ ) کیونکہ جس طرح دنیا کے قلعے میں بہت سے فوجی یا سپاہی رہتے ہیں، اسی طرح ایک آسمانی فرشتے میں اس جیسے بے شمار فرشتے پوشیدہ ہوتے ہیں، آپ ان کو کاپیاں کہہ سکتے ہیں۔

۳۸

کلید نمبر۱۴: رفاقت روحانی:

اب ہم مذکورۂ بالاحقیقت کی روشنی میں یہ بتا سکتے ہیں کہ جب خدا کے حکم سے فرشتوں نے حضرت آدمؑ  کو سجدہ  کیا، تو تم  بھی آدمؑ کی وحدتِ  مُتکثّر میں پوشیدہ پوشیدہ موجود تھے (۰۷: ۱۱ ) اوراسی طرح قرآن پاک کا حکیمانہ اشارہ ہے کہ تم ہرعظیم پیغمبرکے ساتھ  تھے، جیسا کہ حضرت نوحؑ کے بارے میں ارشاد ہوا: کہا گیا اے نوح! اترو ہماری طرف سے سلامتی اوربرکتیں تم پرنازل ہوں گی، اوران جماعتوں پربھی جوتمھارے ساتھ ہیں (۱۱: ۴۸ ) جماعتوں کے سرپرست انبیاء وأئمّہؑ  ہیں، جس طرح حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں فرمایاگیا: بیشک ابراہیم ایک امت، خدا کے فرمانبردار اورباطل سے کترا کے چلنے والے تھے (۱۶: ۱۲۰ ) نیزاس عظیم الشّان قانون میں دیکھیں، قولہ تعالیٰ: اورجوخدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (اورصاحبانِ امر )  کی اطاعت کرتے ہیں، وہ صراط مستقیم پر)  ان کے ساتھ ہیں جنہیں خدا نے اپنی نعمتیں دی ہیں، یعنی انبیاء اورصِدّیقین اورشہدا اورصلَحاء اور یہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں (۰۴: ۶۹ ) یعنی کامیاب مومنین قبل ازجسمانی موت اپنے روحانی سفرمیں حجتوں، اماموں، اساسوں اورناطقوں سے جا ملتے ہیں۔

جس مومن کے عالمِ شخصی میں انفرادی قیامت قائم ہوتی ہے، اس میں درِپردہ  تمام لوگوں کی غیرشعوری قیامت واقع ہوجاتی ہے،

۳۹

پھراللہ تعالیٰ اس باشعورمومن میں سب کوسمیٹتا ہے، اورفردِ واحد کے طورپراس کا انبعاث ہوتاہے (۱۷: ۱۰۴؛ ۱۹: ۹۵ ) قرآن پاک نے بڑے واضح الفاظ میں فرمایا کہ لوگوں کو اللہ کے پاس تنہا تنہا جانا ہے، جیسے قرآن حکیم میں ہے: ولقد جئتمونافرادٰی کماخلقنٰکم اوّل مرّتہٍ۔ ۔ ۔  (۰۶: ۹۵ ) اورتم ہمارے پاس تنہا تنہا آگئے، جس طرح ہم نے پہلی بارتم کو پیدا کیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ اور یہی روشن دلیل سورۂ مریم میں بھی ہے: ترجمہ: اورجوکچھ یہ کہتا ہے ہم اس کے وارث ہوں گے، اوریہ ہمارے پاس اکیلاہی آئے گا (۱۹: ۸۰ )۔

اس کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی قدرت وحکمت سے اونٹ کو سوئی کے ناکہ سے گزارتا ہے یا پِروتا ہے (۰۷: ۴۰ ) وہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگوں کوبعنوان قیامت فردِ واحد میں داخل کردیتا ہے، تاکہ اس وسیلے سے سب کونجات ملے، اوریہی رحمتِ کلّ کا سرِّعظیم ہے، اونٹ کوعربی میں جَمَلْ کہتے ہیں، ج م ل میں جمع کے معنی بھی ہیں، جیسے جَمَل، جمع کیا یا جمع کرنا، جُمْلَتہ، مجموعہ، جُمُلْ، لوگوں کا گروہ، یعنی لاحق سوئی بھی ہے اوردرزی بھی، کیونکہ وہی روحانی لباس تیارکرتا ہے، لہٰذا قیامت صغرٰی کے موقع پرلوگ اسی کی شخصیت میں داخل ہوجاتے ہیں۔

۴۰

کلید نمبر۱۵: حدیث شریف کی پیش گوئی:

سید امیرعلی کی کتاب “روح اسلام” صفحہ۳۰۵ تا ۳۰۶ پرحوالۂ جامعِ ترمذی یہ حدیث شریف درج ہے: وعن ابی ھُرَیْرَۃَ قال قا ل رسول اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیہ وَسلّم: اِنَّکم فی زمانٍ مَّن تَرَکَ مِنکم عُشرَمااُمِرَ بِہٖ ھلک ثمّ یاتی زمانٌ مّن عَمِلَ مِنہم بِعُشۡر ما اُمِرَ بہٖ نجا۔ تم لوگ ایک ایسے دورسے گزررہے ہوکہ اگرتم احکام کے دسویں حصے سے بھی تغافل برتو تو برباد ہوجاؤگے اس کے بعد ایک ایسا وقت آئے گا کہ اس وقت جواحکام دیئے گئے ہیں اگرکوئی ان کے دسویں حصے پربھی عمل کرے گا تواسے نجات نصیب ہوجائے گی۔ ملاحظہ ہو: جامعِ ترمذی، جلد دوم، باب الفتن، نیزمشکٰوۃ، جلد اوّل، کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتٰب والسّنّۃ فصل دوم۔

کلید نمبر۱۶: مرتبۂ فنا:

اگرچہ ہماری تحریروں میں’’فنا‘‘ کا تذکرہ اس کی بہت بڑی اہمیت کی وجہ سے باربارہوا ہے، لیکن یہ تصورچونکہ منزلِ مقصود سے متعلق ہے، اس لئے ہمیشہ اس کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے، چنانچہ آپ کو یاد ہوگا کہ عالم شخصی میں عرفانی سفرکی آخری منزل “فنا فی اللہ” ہے، جس کا دروازہ  رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں، اورآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دروازہ امام زمانؑ،

۴۱

تاہم آپ کوتعجب نہ ہوکہ یہ دراصل ایک ہی فنا ہے، ہرچند کہ اس کی تعبیریں الگ الگ ہیں۔

اگرکوئی پوچھے کہ روحانیت کیا ہے؟ توآپ جواب دیں کہ وہ کائنات وموجودات کا نچوڑ، خلاصہ اورجوہر ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ روحانیت وہ سب سے بڑی حیران کن چیز (عجوبہ ) ہے جس میں تمام معانی (خواہ متضاد کیوں نہ ہوں ) جمع ہیں، ان  بے شمارمعنوں اورحقیقتوں میں شروع سے لیکرآخرتک فنا و بقا کا سلسلہ بھی چلتا رہتا ہے، اورابدی زندگی کا پیش خیمہ یہی ہے، یہاں تک کہ اپنی ذات کا اندرونی سفرآفتاب نورکے سامنے جاکرختم ہوجاتا ہے، جہاں سب سے عظیم الشّان دیدار کا مخفی خزانہ موجود ہے۔

مذکورہ بیان سے آپ نے ضروریہ نتیجہ اخذ کرلیا ہوگا کہ سلسلۂ فنا کے چھوٹے سے چھوٹے اوربڑے سے بڑے بہت سے درجات ہیں، مثال کے طور پرجب آپ مخلصانہ عبادت اورعاشقانہ گریہ وزاری سے پگھل جاتے ہیں، تو یہ ایک قسم کی امید افزا فنا ہے، اورجس وقت آپ علم ومعرفت کی باتوں سے بے حد مسرور و شادمان ہوتے ہیں، تویہ بھی ایک بڑی مفید فنا ہے، اورہرفنا تبدیلی کا نام ہے، مگرمذہبی فنا کا مقصد یہ ہے کہ قلب کی حالت وکیفیت پہلے سے بہترہو، اور یہ انقلابی عمل

۴۲

آگے بڑھ جاتا ہے، جیسے قانون فطرت میں ہرچیزکی مثبت فنا یہ ہے کہ وہ بلندی کی طرف حرکت کرے، مثلاً جماد، نبات، حیوان، انسان اور فرشتہ، کہ ان میں سے ہر ایک کی مفید فنائیت اس بات میں ہے کہ وہ اپنے اوپرکے درجے میں فنا ہوجائے۔

کلید نمبر۱۷: مصدر نورِ ازل:

دوات میں جو روشنائی (سیاہی ) ہے، اس میں بحدِّ قوّت دنیا بھرکی قدیم وجدید زبانوں کے تمام الفاظ اوران کے سارے معنی جمع ہیں، درحالے کہ اس میں کوئی ایک لفظ بھی ظاہر نہیں، لیکن جب تم قلم اوردوات (سیاہی ) سے کچھ لکھنا چاہو تو بڑی آسانی سے لکھ  سکتے ہو، یہ مثال ہے اس دوات کی، جومقامِ عقل اورعالمِ علوی میں موجود ہے، جس میں سب کچھ مجموع ومخزون ہے، جیسا کہ قرآ ن کریم کا ارشاد ہے: نٓ والقلمِ وما یسطرونَ (۶۸: ۱) قسم ہے نون (دوات ) کی اورقلم کی اوراس چیزکی جولکھتے ہیں۔

نٓ سے مصدرنورِازل مراد ہے، یعنی نورِعقل کا مشرق ومغرب، کہ وہاں شرق وغرب ایک ہی ہے، پس مشرقِ ازل سے آفتابِ عقل کا طلوع ہوجانا ایسا ہے، جیسے دوات سے قلم کچھ لکھنے کے لئے برآمد ہوجاتا ہے، القلم کی تاویل نورِعقل (یاآفتابِ عقل) ہے، اورمرتبۂ عقل پرجوکچھ لکھتے ہیں (و ما یسطرون )۔

۴۳

وہ کلماتِ التّامات ہیں، وہ عارف میں ایک ہے اورعارفین میں کثیر ہیں۔

قرآنِ حکیم نے اپنی کئی پُرحکمت مثالوں میں درختوں کی طرف توجہ دلائی ہے، یہ آپ کا اورہمارا ایمان ہے کہ اس میں کچھ بھید ہوں گے، آئیے ہم نور الٰہی کی تائید کے لئے درخواست کرتے ہوئے اس میں سوچتے ہیں، اگرچشمِ بصیرت سے کسی پُرثمرشجرکا مطالعہ کیا جائے، تومعلوم ہوجاتا ہے کہ یہ نہ صرف ایک آیۂ قدرت ہے، بلکہ اس کا وجود ایک کامل صحیفۂ آسمانی کی طرح  ہے، اگرچہ اس کی تفسیرلکھنے سے ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے، لیکن ہمارا مقصد صرف اتنا بتانا ہے کہ میوہ داردرخت میں تین اساسی مثالیں ہیں: پھول اورپھل کے بغیر درخت مادّیت کی مثال ہے، درخت کے پھول اورپھل روحانیت کی مثال ہیں، اور مغزعقلانیت کی مثال ہے، اب قدرت خدا کے عجیب وغریب نظاروں کو دیکھئے کہ درخت کی گیلی لکڑی سے پھول اورپھل اپنی تمامترخوبیوں کے ساتھ کیسے بنے! اور میوے میں جومغزہیں، اس میں خوب غورکیجئے، مغز گویا قلم بھی ہے اور دوات بھی، تاکہ اس سے کتابِ شجر کوفعلاً رقم کردیا جائے۔

کلید نمبر۱۸: لپیٹی ہوئی کائنات:

درخت اپنی جگہ موجود بھی ہے، اور اس کو گٹھلی (مغز )

۴۴

میں دستِ قدرت نے لپیٹ بھی لیا ہے، پس اسی حقیقت کا یقین کرنا ہوگا کہ جب اورجہاں درخت کا وجود مغزمیں مانا جائے، تواس وقت درخت کے جملہ اجزا مغز ہی مغز کی وحدت وسالمیت میں نظرآئیں گے، یعنی جڑیں، تنا، چھلکے، شاخیں، غنچے، پتے، وغیرہ سب کے سب مغز کی صورت میں موجود ہیں، اسی طرح آسمانوں اورزمین یعنی کائنات وموجودات ظاہراً برجا بھی ہیں اورباطناً مرتبۂ عقل پرلپیٹی ہوئی بھی ہیں، جس میں ہرچیزعقل کے ساتھ ایک ہوگئی ہے، جیسے درخت کے چھلکے، پتے اوردیگراجزا گٹھلی میں جاکر مغز بن جاتے ہیں اورجب گٹھلی زمین میں بوئی جاتی ہے، تواس کے مغزسے پودا پھردرخت بن جاتا ہے۔

اس سلسلے میں قرآ ن حکیم کے ان بابرکت الفاظ میں گہری نظرسے دیکھیں: واللّٰہ یقبض ویبسط (۰۲: ۲۴۵ ) پہلا ترجمہ: خدا ہی (رزق و روزی)  میں تنگی کرتا ہے اورکشائش کرتا ہے، دوسرا ترجمہ: خدا ہی (چیزوں کودستِ قدرت کی ) مٹھی میں لیتا ہے اور پھیلاتا ہے۔  یہ کائناتی کلّیہ ہے، جس میں ایک طرف سمیٹنے کا ذکر ہے، اور دوسری طرف پھیلانے کا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم “القابض” ہے، اوردوسرا “الباسط” ان دونوں میں سے جولفظ آپ کے نزدیک آسان ہو، اسی پر پہلے غور کریں، چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ قرآن مجید میں”باسط” پھیلانے کے

۴۵

معنی میں آیا ہے (۰۵: ۲۸؛ ۱۳: ۱۴؛  ۱۸: ۱۸ ) پس الباسط  کے معنی ہیں پھیلانے والا اوراسی نام کے پیش نظر القابض کے معنی ہوئے سمیٹنے والا، پس اللہ قابض ہے کہ عالم اکبر کی عقلی اور روحانی صورت کوعالمِ شخصی میں لپیٹ لیتا ہے، اور باسط  ہے کہ اسی کائنات کے سانچے میں ہرمومنِ صادق کے لئے ایک باطنی کائنات اور بہت بڑی سلطنت کو پھیلاتا ہے، یعنی بہشت تیار کرتا ہے (۰۳: ۱۳۳؛ ۵۷: ۲۱؛ ۷۶: ۲۰ )۔

کلید نمبر۱۹: حشر و نشر:

قرآن عظیم کے پُرحکمت اور برعکس الفا ظ میں سے دو اورلفظ حشراورنشر ہیں، یعنی کسی چیزکوجمع کرنا اور پھیلانا، اصطلاحاً روحوں کو قیامت میں یکجا کر دینا، پھر ان کو منتشر کرنا، یہاں ایک اہم سوال سامنے آتاہے، وہ یہ کہ جب ارواحِ خلائق قیامت کے دن اکٹھی کی جاتی ہیں، تو پھر کہاں پھیلائی جاتی ہیں؟ اور کیون؟ اس کا جواب یہ ہے: ذاتی قیامت زمانۂ نبوّت کے جہاد کی طرح  ہے، جس کی غرض سے لشکراسلام کو اکٹھا کیا جاتا تھا، اور فتح  و کامیابی کے بعد ان کو منتشر ہونا پڑتا تھا، حشرونشر کی دوسری مثال نمازجمعہ سے دی گئی ہے (۶۲: ۹ تا ۱۰ ) کہ اس کی اذان کی تاویل صورِاسرافیل کی آواز ہے، نمازِجمعہ قیامت ہے، جس کی طرف روحیں دوڑتی  ہیں، کیونکہ وہاں اسم اعظم کا خصوصی ذکر چل رہا ہوتا ہے، اورنماز ادا

۴۶

ہوجانے کے بعد زمین میں پھیل جانے کے لئے فرمایا گیا ہے، یعنی ذاتی قیامت کے بعد روحیں دنیا پرمحیط ہوجاتی ہیں، تاکہ خدا کے فضل وکرم سے روحانی سلطنت قائم  ہو، اور کثرت سے خدا کو یاد کرنے کا حکم  ہے، تاکہ قیامت کے تاویلی فائدے حاصل ہوں۔

ذاتی حشرونشرکی تیسری مثال حج بیت اللہ ہے، جس سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے اہل اسلام جمع ہوجاتے ہیں، اورپھر واپس ہوکردنیا میں پھیل جاتے ہیں، جیسا کہ ان حکیمانہ الفاظ کا اشارہ ہے: واذِّن فی النّاسِ بِالحجّ۔ اورتُو (اسرافیل کے توسط سے) دنیا بھرکے لوگوں کوحج کے لئے پکار۔۔۔ (۲۲: ۲۷ ) یعنی ذاتی حشر جو باطنی حج  ہے۔ سورۂ اِنشِقاق (۸۴: ۷ تا ۹ ) میں بھی غورسے دیکھ لیں: پھر (اس دن) جس کا نامۂ عمل اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، اس سے توحساب آسان طریقہ سے لیا جائے گا، اورپھر وہ اپنے (مومنین کے) قبیلہ کی طرف خوش خوش پلٹے گا (۸۴: ۷ تا ۹) آیا یہ انفرادی حشر نہیں ہے کہ حساب دینے والا  (یعنی نفسانی موت سے آگے جانے والا سالک) اپنے لوگوں سے الگ بھی ہوجاتا ہے، پھران کی طرف واپس بھی آتا ہے؟

۴۷

کلید نمبر۲۰: بہشت کی ہمیشگی:

سوال: بہشت میں نیک لوگوں کے ہمیشہ رہنے کا تصورکس طرح ہے؟ کیا جنت میں لوگ اپنے اپنے وقت پرداخل نہیں ہوتے، جبکہ جنت بہت پہلے سے بنی بنائی موجود ہوتی ہے؟ اوردوسرے اعتبار سے یہ سوال بھی ہے کہ آیا بہشت و دوزخ کی ایک مقررہ عمرنہیں ہے، جو کائنات کی مدت عمرکے برابر ہے؟  پھراہلِ بہشت کس طرح ہمیشہ بہشت میں رہ سکتے ہیں (۱۱: ۱۰۷ تا ۱۰۸ ) ؟

جواب: انسان جہاں اپنی انائے علوی میں ازلی طور پراصل سے واصل ہے، اور وہاں ہمیشہ بہشت میں رہتا ہے، مگر انائے سفلی کے اعتبار سے وہ ہنوز جنت میں داخل نہیں ہوا ہے، سورۂ ھود (۱۱: ۱۰۷ تا ۱۰۸) میں جس طرح دوزخ، اور بہشت کا دوام (ہمیشگی) کائنات کے دوام سے وابستہ کیا گیا ہے، اور پھریہ اشارہ بھی فرمایا گیا ہے کہ وقت آنے پرآسمانوں کو لپیٹ لیا جائے گا، اس سے بظاہر یوں لگتا ہے، جیسے عالمِ جسمانی کی کوئی خاص عمرہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سورۂ ھود کے مذکورہ ارشاد کا تعلق عالمِ شخصی کے احوال سے ہے، کیونکہ جس وقت عارف کی ذاتی کائنات لپیٹ لی جاتی ہے، تواس وقت نہ صرف دوزخ اورذیلی بہشت دستِ قدرت کی گرفت اورلپیٹ میں آکر وجہ اللہ  کے سامنے فنا ہوجاتی ہے، بلکہ ہرچیزپراس قانونِ کلّ کا اطلاق ہوجاتا ہے،

۴۸

لیکن یہاں یہ دیکھنا بے حد ضروری ہے کہ وہ فنا کس مقام کی ہے؟ اورکس نوعیت کی؟

یہ حکمت ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ سے عالمِ شخصی کولپیٹ لیتا ہے، توخدا کے اس فعل سے دوزخِ جہالت جو شر ہے، وہ ختم  ہوکر خیر بن جاتا ہے، کیونکہ خدا کے ہاتھ  میں شر ٹھہر ہی نہیں سکتا (۰۳: ۲۶ ) اسی طرح دوزخ کی عمرعارف کے نزدیک ختم ہوجاتی ہے، مگربہشت کی عمرختم ہوجا نے کی کوئی وجہ نہیں، کیونکہ اس کے بارے میں ارشاد ہوا: عَطَائً غیرَ مجذوذ (۱۱: ۱۰۸) وہ غیرمنقطع بخشش ہے۔ اورجہاں تک فنا کا تعلق ہے، وہ تو  دارالابداع  میں امرِکُن (ہوجا ) کے تحت ہے، اورخدا جس چیزکو”ہوجا” فرمائے، وہ بجائے بہترسے بہتر ہونے کے کس طرح نیست و نابود یا معدوم  ہوسکتی  ہے۔

کلید نمبر۲۱: علمی دیدار:

ہماری تقریروں اورتحریروں میں جس قدربھی اصل اورخاص چیزیں ہیں، وہ بلاشبہ سب کی سب درِّامامت کے دریوزے (بھیک ) سے ہیں، چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ “علمی دیدار” ایک انقلابی تصوّر ہے، اور ازلی حقیقت پرمبنی ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست مفید ہے، پس یہاں حقیقی راز کو منکشف کرنا چاہئے کہ کسی عارف کے لئے خدا کا سب سے بڑا  اور ازلی و ابدی علمی دیدار وہ  ہے،

۴۹

جس میں وہ پاک وبرتراپنے دستِ قدرت سے کائنات  و موجودات کو لپیٹ لیتا ہے (۲۱: ۱۰۴؛ ۳۹: ۶۷ ) یہ خلاصۂ کائنات، مجموعۂ موجودات، ملفوفۂ مصنوعات، اورجوہرِاشیاء ایسا جامعِ جوامع اورکُلِّ کُلّیّات ہے کہ ہرمسما اور ہراسم کی نمائندگی کرتا ہے، پس یہ خدا کے ہاتھ میں کوہِ عقل اورطورِموسیٰؑ بھی ہے، جو ہرعالمِ شخصی میں خدا کی تجلّی سے ریزہ  ریزہ  ہوجاتا ہے۔

دلائل و براہین اورغور و فکرکے بعد ہی کسی کو یقین آسکتا ہے کہ حقیقی علم میں سرتا سر خداوندِ تعالیٰ کے اسی ظہورِنوراوردیدارکا تصوّر اورتذکرہ  ہے، جومرتبۂ عقل پرخدا کے خاص دوستوں کوحاصل ہوجاتا ہے، ہرآیۂ قرآن میں اسی تجلّی کا اشارہ، ہرمثال میں اسی ظہورکی تاویل، ہرجملہ میں وہی سرِاعظم پنہان، ہر حکمت اسی دیدارسے متعلق، ہرقصّہ میں اسی ملاقات کی خوبیاں، ہرعلم کا سرچشمہ وہی گوہر، ہرخزانے کا سرمایہ وہی لُولُوئے مکنون، وہی گنج، وہی گنجور (گنج ور )  وہی طور، وہی جبلِ نور، وہی جلوۂ حور، وہی بہشت کے محلات و قصور، وہی کتاب مسطور، وہی رَقِ منشور، وہی بیت المعمور، اور وہی سب کچھ۔

آپ آیۂ کریمہ کوازسرِنو غورسے دیکھیں کہ اس میں لفظ لِلْجَبَل ہے عَلَی الْجَبَل نہیں، کیونکہ خدا پہاڑ پر نہیں بلکہ کوہِ عقل ہاتھ میں لیے ہوئے ظاہر ہوا تھا، تاکہ اس کو ریزہ  ریزہ  کرکے حقائق و

۵۰

معارف کی ایک کائنات کو وجود میں لائے (۰۷: ۱۴۳ ) اوراس قادرِمطلق نے عالمِ شخصی میں ایسا ہی کیا، پس اہلِ بصیرت کے نزدیک حقیقی علم کی ہربات آئینۂ خدا نما ہے، اورعلمی دیدارکے یہی معنی ہیں، جیسا کہ خود قرآن کریم کا ارشاد ہے: فاینما تُولّوافثمّ وجہُ اللّٰہ (۰۲: ۱۱۵ ) سو جس طرف تم منہ کرو وہاں ہی اللہ کا چہرہ (اوردیدار )  ہے۔

کلید نمبر۲۲: جامۂ  جنت:

قرآن کریم کی ہرآیۂ مقدّسہ کے ظاہری معنی کے ساتھ ساتھ باطنی حکمت بھی ہے، جیسا کہ یہ ارشاد ہے: اے آدمؑ کی اولاد ہم نے تمھارے لئے پوشاک نازل کی جوتمہاری شرمگاہوں کوچھپاتی ہے اورزینت کے کپڑے اور (اس کے علاوہ ) پرہیزگاری کا لباس اور یہ سب سے بہتر ہے (۰۷: ۲۶ )  حکمت: اے آدم کی روحانی اولاد! ہم نے تمھارے بدن کو لباس کے طور پر بنایا جوتمہاری باطنی شرمگاہوں (خاص بھیدوں ) کو چھپاتا ہے، اورہم نے تمہارے لئے جسم فلکی (ریش ) بنایا، جس میں زینت اور پرواز کی طاقت ہے، اس کے علاوہ  ہم نے تمھارے واسطے جامۂ تقوٰی  بنایا، یعنی وہ جثّۂ ابداعی، جوروحانی جنگ میں ہرطرح سے محفوظ اورغالب رہتاہے، اوریہی سب سے بہترین ہے، کیونکہ اس کا براہِ راست تعلق حضرت قائم القیامت علیہ افضل التّحیّۃ والسّلام  سے ہے۔  سورۂ نحل (۱۶: ۸۱ ) میں بھی دیکھ  لیں۔

۵۱

جثّۂ ابداعی یا فرشتہ روحانی لشکرکا قلعہ ہوا کرتا ہے، اس لئے ایک فرشتہ میں بہت سے فرشتے پوشیدہ ہوتے ہیں، مثلاً ایک ہزار یا تین ہزار یا  پانچ  ہزار، کیونکہ فرشتوں کا جوہر ایک ہی ہے، آپ ایسے فرشتوں کا تذکرہ جنگِ بدر سے متعلق آیات کریمہ (۰۸: ۹؛ ۰۳: ۱۲۴؛ ۰۳: ۱۲۵)  میں پڑھیں، اوریہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ مُسَوِّمین (۰۳: ۱۲۵ علامات والوں ) کے یہ معنی ہیں کہ ایسے فرشتے جنگی علامت کے طور پر ہاتھ میں کوئی ہتھیار لئے ہوئے ہوتے ہیں، مگریہ صرف اشارہ  ہے، جبکہ روحانی طریق پرلڑتے ہیں۔

کلید نمبر۲۳: ظہورِ ازل:

خود شناسی اورخدا شناسی صرف کہنے کے لئے نہیں، بلکہ وہ ایک امرِ واقعی بھی ہے، چنانچہ قرآنِ مجید وہ ہدایت نامۂ سماوی ہے، جو دوسری تمام ضروری تعلیمات کے ساتھ ساتھ باطنی مشاہدہ، دیدار، اورمعرفت کے تذکروں سے بھی بھرا ہوا ہے، جیسا کہ سورۂ ملک (۶۷: ۱ ) میں ہے کہ جملہ برکات کا سرچشمہ ظہورِازل ہے، یہی ازل جو دوسرے اعتبارسے ابد ہے، عالمِ شخصی میں مخفی ہے، یہی ظہورِازل وہ گنجِ مخفی ہے، جس میں تمام اسرارِ عرفان پوشیدہ ہوتے ہیں، یہ خزینۂ خزائن خدا کے ہاتھ میں ہے، اس میں سب چیزیں بصورت جوہرجمع اوریکجا ہیں، اس لئے اس کے اتنے اسماء ہیں جتنے دونوں جہان کے مُسمّا ہیں، اس سے ایسا لگتاہے کہ یقیناً حضرت آدمؑ

۵۲

کواسی مقام پرعلم اسماء کی آخری تعلیم دی گئی تھی، پس وہ اعجوبہ جواللہ کے ہاتھ میں ہے، ہرچیزکا نمائندہ ہے، اورمُلک وملکوت کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔

انسان پہلے زندگی گزارتا ہے، اوراس کے بعد ہی موت کے دروازے سے داخل ہوجاتا ہے، لیکن سورۂ ملک (۶۷: ۲ ) میں یہ ترتیب اس کے برعکس ہے، وہ یہ کہ خدا نے (پہلے ) موت اور (پھر ) زندگی کو پیدا کیا۔ یہ کس طرح ہے؟

ج : انسان کی جسمانی زندگی دراصل موت ہے، اوراس میں ہمارا زبردست امتحان ہے کہ ہم کواپنی زندگی نما موت کا بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے یا نہیں؟ اگرکسی خوش نصیب آدمی کواِس بات کا یقین ہو کہ حقیقی زندگی یہاں سے بہت دورآگے چلنے سے مل سکتی ہے، اوروہ اس کے ساتھ ساتھ علم وعمل کا سہارا لے کرآگے بڑھتا ہو تو ان شاء اللہ وہ اسی جسم میں ہوتے ہوئے بحقیقت زندہ ہوجائے گا، اوراُس حال میں بھی علم وعمل کا امتحان ہے۔

کلید نمبر۲۴ : سات آسمان:

خداوندِ تعالیٰ نے عالمِ عقل کے سات آسمانوں کوایک دوسرے کے مطابق اورموافق بنایا ہے، جس کی وجہ سے وہ سب ایک ہوگئے ہیں، یعنی ایک ہی آسمان کی حیثیت میں سات آسمان ہیں، کیونکہ عالم وحدت میں ایسا ہی ہوتا ہے، مثال کے طور پرتم عدد واحد (۱)

۵۳

کوایک ہی جگہ پرسات باراس طرح لکھتے ہو کہ پہلی شکل میں ذرا بھی فرق نہیں پڑتا، تواس حال میں یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ وہ عدد ظاہراً ایک ہے، اورباطناً سات، اسی طرح کسی ایک روحانی یاعقلی چیز میں اپنی نوعیت کی ہزار بلکہ بے شمارچیزیں سما سکتی ہیں، جبکہ غیرمادّی اورلامکانی اشیاء کے لئے جگہ اورگنجائش کا مسلہ ہے ہی نہیں۔

خدا کی خدائی میں مخلوقات کے لئے درجات بھی ہیں اور مساوات  (برابری) بھی، چنانچہ عالمِ ظاہراورعالمِ روحانی میں بے شماردرجات ہیں، اور عالمِ عقل (عالمِ وحدت )  میں مساوات ہی مساوات ہے، کیونکہ مراتب کی سیڑھی صرف چھت (عرش)  تک جاتی ہے، اورچھت جو ہموار ہے، اس پرکوئی سیڑھی نہیں، یا یوں کہا جائے کہ دور و درازسفر کے مراحل و منازل ضرور ہوا کرتی ہیں، مگرمنزلِ مقصود کے بعد نہ توسفرہے اورنہ ہی کوئی منزل، اورقرآنِ پاک کا ارشاد ہے کہ ابداع وانبعاث کے مقام پرسب لوگ ایک جان کی طرح (مساوی اور یکسان ) ہیں (۳۱: ۲۸ ) پس جن لوگوں پرآفتابِ نورِعقل کسی حجاب کے بغیرطلوع ہوتا ہے، (۱۸: ۹۰ ) وہ خدا کے معزز بندے ہم مثل اوربرابرہیں (۲۱: ۲۶ )۔

بہشت کی سب سے بڑی عزت وہاں کی بادشاہت ہے، جس کا ذکرقرآن حکیم کی بہت سی آیات میں موجود ہے، اورجہاں جہاں سُرُرْ (واحد، سریر=تخت )  اور ارائک (واحد، اریکۃ= تخت )

۵۴

جیسے الفاظ آئے ہیں، وہاں بھی فردوسِ برین کی بادشاہی کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، کیونکہ تخت نشین صرف وہی شخص ہوسکتا ہے، جوبادشاہ ہو، جیسا کہ سورۂ حجرمیں ہے: اورجوکچھ ان کے دل میں رنج تھا اس کوبھی ہم نکال دیں گے اوریہ باہم ایک دوسرے کے آمنے سامنے (شاہی ) تختوں پر برادرانہ محبت سے بیٹھے ہوں گے (۱۵: ۴۷ ) پس ان سب بہشت کے بادشاہوں کے آمنے سامنے اور بھائی بھائی جیسے ہونے کا مطلب برابری ہے، یہ جنت کا وہ سب سے اعلیٰ مقام ہے، جہاں پرنچلے تمام درجات رفتہ رفتہ پہنچ کرمساواتِ رحمانی میں بدل جاتے ہیں۔

کلید نمبر۲۵: نورانی عشق:

خدا، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اورامام زمانؑ کا پاک و پاکیزہ عشق وہ لاہوتی عطرہے، جس کی جان پرور اور ایمان افروزخوشبو اہلِ ایمان کے لئے طبِّ سماوی کے معجزے دکھاتی ہے، کیونکہ یہ عشق دراصل ایک کامل ومکمل نور ہے، اورنورکا کام ہے تمام ترمشکل حالات میں رہنمائی اوردستگیری کرنا، ہرنبی اورہرولی میں ہاہو (شور)  کے بغیرخاموش اورسنجیدہ مگر زبردست عشق الٰہی پوشیدہ ہوا کرتا ہے، اوراسی عشق سے ہمیشہ اخلاقی اور روحانی امراض کاعلاج ہوتا رہا ہے، جیسے قرآن حکیم کا ارشاد ہے: وَالّذین اٰمنواشدُّ حُبّاً للّٰہِ (۰۲: ۱۶۵ ) اورمومنین توخدا ہی سے قوّی محبت رکھتے ہیں۔

۵۵

یہ خدا اوراس کے مظہرکے لئے بڑی شدید محبت اورعشق ہے، چونکہ خدا کی محبت اورعشق کوقرآنِ حکیم نے شدّت کے معنی میں بیاں فرمایا، اورشدّت طاقت ہوا کرتی ہے، اس لئے ہم تسلیم کریں گے کہ حقیقی عشق ومحبت سب سے بڑی اصلاحی طاقت ہے، جس کی بدولت بڑی حد تک اخلاقی اور روحانی ترقی ہوسکتی ہے، اگریہ بات بالکل درست ہے، توپھرآسمانی عشق سے بھرپورفائدہ اٹھانے میں لَیت ولَعَلُ (ٹال مٹول ) نہیں کرنا چاہئے، درحالے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت ومحبت خدا کی اطاعت ومحبت ہے، اورامام زمانؑ کی اطاعت ومحبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت ومحبت، یہ محبت یعنی عشق ایک مخفی اورقلبی معجزہ ہے، جس سے زندگی کی ہرتلخی شرینی میں تبدیل ہوسکتی ہے، اگرعشق سچ مچ معجزہ ہے، توپھردین کی کون سی نعمت ہے جواس کے ذریعہ حاصل نہ ہو؟

عشق نوربھی ہے اورنار (آگ) بھی، چنانچہ آپ اگرعلم وعمل کے وسیلے سے عشق امام کے لئے ایندھن ہو جائیں، توآپ اپنے عالم شخصی میں نوراور اس کے جملہ کمالات ومعجزات کا مشاہدہ کرسکیں گے، اوراسی طرح اپنی ذات کی معرفت سے پروردگارکی معرفت حاصل ہوجائے گی، جبکہ اسی مقصد کے حصول کی خاطرانسان دنیا میں آیا ہے۔

۵۶

کلید نمبر ۲۶: گریہ وزاری:

سب جانتے ہیں اورسب کومعلوم ہے کہ قرآن اوراسلام میں بڑی سختی سے تکبّرکی مذّمت کی گئی ہے، مذّمت ہی پراکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ اس کے دفعیّہ اورتوڑکے کئی طریقے بھی بتائے گئے ہیں، وہ ہیں: توضع، عاجزی، کسرِ نفسی، نرم دلی اورسب سے بڑھ  کر گریہ وزاری کا طریقہ ہے، جس کی عادت ہونے سے تکبّر کی بدترین بیماری کا بڑی حد تک علاج ہوسکتا ہے، کیونکہ گریہ وزاری خوفِ خدا سے ہوسکتی ہے، یاعشقِ الٰہی سے، یا برسبیل دعا ومناجات، یا بعنوانِ توبہ، یا بربنائے عبادت وغیرہ، پس بہرحال اس میں یادِ خداوندی کے طوفانی عالم ہونے کی برکت سے فخروتکبرکے خیالات یکسر مٹ جاتے ہیں، اورمومن کا قلب عکسِ آفتابِ ہدایت کے لئے مثالِ آئینہ پاک وصاف ہوجاتا ہے، اور بہت سے معنوں میں گریہ وزاری بے حد مفید ثابت ہوجاتی ہے۔

انسان کے ظاہری اقوال واعمال کا انحصارخیالات پر ہے، کیونکہ اچھے خیالات فرشتے ہیں اوربرے خیالات شیاطین، شیطانوں کو دور کرکے فرشتوں کو بلانے کا طریقہ ذکرِالٰہی کی کثرت ہے، اورسب سے بہترین اورانقلابی ذکر گریہ وزاری اورمناجات ہے، چنانچہ جب بندۂ مومن بارگاہِ خداوندی میں تضّرع اور گڑگڑاہٹ کے ساتھ دعا کرتا ہے، تواس پرخدا کی رحمت برستی ہے، اور

۵۷

اس کاعالمِ دل منور ہوجاتا ہے، اوراس کے مزاج میں بے حد نرمی، سنجیدگی اورعاجزی پیدا ہوتی ہے، اوراس سے روحانی ترقی کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔

گریہ و زاری خواہ انفرادی ہو، یا اجتماعی، اس کے لئے قرآنی آداب مقرر ہیں اورادب کے بغیرکوئی عبادت و بندگی خدا کو پسند نہیں، ملاحظہ ہو (ترجمۂ آیۂ کریمہ ): تم اپنے ربّ سے دعا کیا کرو، گڑگڑا کراورآہستہ آہستہ، بے شک وہ حد سے تجاوزکرنے والوں کودوست نہیں رکھتا (۰۷: ۵۵ ) نیز سورۂ بنی اسرائیل میں دیکھیں: اوریہ لوگ (سجدے کے لئے ) ٹھوڑیوں کے بل گرپڑتے ہیں اور روتے جاتے ہیں اور یہ قرآن ان کی عاجزی بڑھاتا جاتاہے  (۱۷: ۱۰۹ )۔

کلید نمبر ۲۷: امام مبینؑ میں ہرچیز:

یہی توکمالِ قدّرت اورزبردست معجزے کی بات ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی پیدا کردہ ایک ہی چیز اپنی تمامیّت، کمالیت، اورکفایت کی وجہ سے ہرچیز ہوسکتی ہے، یا ایک ہی شیٔ سب کچھ ہے، یا ایک ہی مخلوق میں تمام مخلوقات محدود ہیں، خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ خداوندِعالم نے تمام حقیقی اوراعلیٰ چیزیں (ازقسم روحانی، عقلانی اورعلمی ) امام مبینؑ میں گھیرکر رکھی ہیں (۳۶: ۱۲) مگریہاں یہ نکتہ اچھی طرح یاد رہے کہ مذکورہ چیزیں عقل وجان کے

۵۸

نورسے معمور و منوّر ہیں، اس لئے وہ زندہ و گوئندہ ہیں اور ان سے ہر وقت علم و حکمت کی ضوفشانی ہوتی رہتی ہے، ان تمام چیزوں میں سب سے پہلے یہ نام آتے ہیں: نورمحمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، عقل، قلم، لوح، عرش، کرسی، کتابِ مکنون، خزانۂ ازل، آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، سمندر، باغ، شہر، لوگ وغیرہ اوراسی طرح ان انتہائی عظیم چیزوں میں اسماء الحسنیٰ بھی ہیں  (۰۷: ۱۸۰؛ ۱۷: ۱۱۰؛ ۲۰: ۸؛ ۵۹: ۲۴ )۔

قرآنی الفاظ کے معنی اصل لغت سے ہٹ کرنہیں ہوتے، چنانچہ اسماءُ الحسنیٰ کے معنی ہیں اللہ کے بہت خوبصورت نام، یعنی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اورأئمّۂ طاہرین ؑ، خداوندِ دوجہان کے یہ اسمائے عظام سچ مچ انتہائی خوبصورت ہیں، کیونکہ ان بزرگ اسماء میں سے ہراسم اپنے وقت میں زندہ بہشت کا مرتبہ رکھتا ہے، اوربہشت وہ مقام ہے، جس کا ہر منظر بےحد حسین، ہر شیٔ نہایت خوبصورت، ہرمخلوق بدرجۂ کمال جمیل، ہرجلوہ حیران کن، ہرصورت مایۂ زیبائی و رعنائی، ہرچہرہ رشکِ آفتاب و ماہتاب، ہرملاقات مسرّت انگیز، ہردیدارجان پرور، ہرنعمت نشاط افزا، ہرروح  پیکرِحسن وجمال، ہرقطرۂ باران درّ ثمین، ہردریا بحرِگوہر زا، ہرپانی اَبِ کوثر، ہر پہاڑ کوہِ طور، ہر پھتر حجرِ مکرم، اورہرفرد رنگِ خدا سے رنگین ہے، یہ اسماءُ الحسنیٰ کی ایک بہت مختصر وضاحت ہے۔

۵۹

کلید نمبر۲۸ـ : کتاب لاریب:

قرآن مجید کے مقاصد میں سے ایک خاص مقصد یہ ہے کہ یہ اگلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اورساتھ  ہی ساتھ  کتاب لاریب (۱۰: ۳۷)  کی تفصیلات بیان کرتا ہے، الکتاب لاریب فیہ (۱۰: ۳۷) کیا ہے؟  ج: وہ روحانی اورعقلانی کتاب ہے، آپ اسے کتابِ مکنون (۵۶: ۷۸ ) یا نورِعقل یا نورِامامت بھی کہہ سکتے ہیں، جس میں کوئی شک نہیں، یعنی وہ توعینُ الیقین اورحقُ الیقین کے مقام پر ہے، اس لئے اس کا نام کتاب لاریب ہوا، لیکن وہ امثال واشارات سے بھری ہوئی ہے، لہٰذا وہ مُجَمل ہے، مُفَصَّل نہیں، اورقرآن کریم اس کی تفسیرو تفصیل ہے، جیسا کہ سورۂ انعام (۰۶: ۱۱۵ ) میں ہے: وھوالّذی انزل الیکم اِلکتٰاب مُفَصَّلاً۔ وہ وہی خدا ہے جس نے تمہارے پاس مفصل (واضح )  کتاب نازل کی۔

کامل ومکمل روحانیت وعقلانیت جودرجہ بدرجہ بلند ہوکراسرارِ ازل تک پہنچ جاتی ہے الکتاب کہلاتی ہے، اُس میں کوئی شک نہیں، کیونکہ اس میں یقین ہی یقین ہے، جیسا کہ اوپرذکرہوا، اورروحانی واقعات کا یہی سلسلہ دوسرے الفاظ میں یوم القیامۃ لاریب فیہ (روز قیامت جس میں شک نہیں ۰۴: ۸۷؛ ۰۶: ۱۲؛ ۴۵: ۲۶ ) بھی ہے، کیونکہ عالمِ لطیف میں چیزیں آپس میں مل کرایک ہوتی ہیں، جبکہ عالمِ کثیف کی اشیاء الگ الگ ہوا

۶۰

کرتی ہیں، پس قرآن حکیم میں قیامت کے جتنے نام آئے ہیں، وہ سب کے سب امام اقدس و اطہرؑ کی روحانیت ونورانیت کے ناموں میں سے ہیں، ملاحظہ ہو: کتاب کوکب دری، ص۲۲۶، منقبت۲۷ تا ۲۸ کہ امامؑ السّاعہ (قیامت ) بھی ہیں اورکتاب لاریب فیہ بھی۔

جانشین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (امامؑ)  پریقین رکھنا آخرت پریقین رکھنا ہے  (۰۲: ۴)  کیونکہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد جس نور پرایمان لانا واجب ہے، وہ امام عالیمقام ؑ ہی ہیں  (۰۷: ۱۵۷ ) جو ہراعتبارسے یوم الآخرہیں، جیسے مولاعلیؑ نے ارشاد فرمایا: اناالّذی اقومُ السّاعۃ (میں ہوں وہ شخص کہ قیامت برپا کرتا ہوں۔  مذکورہ کتاب، ص۲۲۹، منقبت ۵۳ )۔

کلید نمبر۲۹: اصل سے واصل:

حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صَلَوات اللّٰہ علیہ کا ارشاد گرامی  ہے کہ: دنیا میں رہ کر مومن کے کام کرو، اس دنیا میں بھی مومن اصل میں واصل ہوسکتا ہے، اپنے مذہب میں رہتے ہوئے اصل میں واصل ہونا آسان معاملہ ہے۔  (دارالسلام۹۔ ۳۔ ۱۹۲۵ء ) میں آپ کو اس فرمان مبارک کی معنوی گہرائی اورحکمت کی طرف دعوتِ فکرکی غرض سے چند سوالات کرتا ہوں کہ آیا “اصل سے واصل ہونا” روحانی سفراورترقی کی آخری منزل

۶۱

نہیں ہے؟ کیا اس میں نفسانی موت سے گزرجانے کا اشارہ نہیں ہے؟ اصل سے واصل اورفنا فی اللہ میں کیا فرق ہے؟ آیا امامِ عالیمقامؑ  کے اس فرمان مقدّس میں ذاتی یا انفرادی قیامت کا واقعہ پوشیدہ  نہیں؟ آپ کے نزدیک اصل سے کیا مراد ہے؟ نفسِ واحدہ؟ یا مُبدِع؟ یا نورالانوار؟ یا روحِ کُلّی؟ یا بہشت؟ یا امامِ زمانؑ؟ یا کوئی اورمرتبہ؟ یا رفیقِ اعلیٰ؟ یا انائےعلوی؟ یا عِلّیّین؟ یا گنجِ ازل؟ یا خداوندِ تبارک وتعالیٰ؟ الغرض آپ کو حضرت اما مؑ کے ایسے اہم اور پرازحکمت ارشادات میں اچھی طرح سے غور کرنا ضروری  ہے۔

کلید نمبر۳۰: قصۂ قارون:

حدیث شریف میں ہے کہ: آیاتِ قرآن میں سے ہرآیت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن..، پھرقصۂ

قارون  (۲۸: ۷۶؛ ۲۸: ۷۹؛ ۲۹: ۳۹؛  ۴۰: ۲۴ ) کس طرح باطنی حکمت کے بغیرصرف ظاہری معنی میں محدود ہوسکتا ہے، جبکہ خود قرآن حکیم ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے، جواسے اساطیر الاوّلین (اگلوں کی کہانیاں ۰۶: ۲۵ ) قراردیتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حکایات قرآن کی نصیحت وعبرت اورعلم وحکمت کو ذرا بھی نہیں سمجھتے، القصۂ قارون حضرت موسیٰؑ کے قرابتداروں میں سے تھا، اس کوظاہری دولت اس کثرت سے حاصل ہوئی کہ اس کے کثیرخزانوں کی کنجیاں ایک طاقت ورجماعت کوتھکا دیتی تھیں، جب اس کوادائے زکات کا حکم دیا گیا، تواس نے صریحاً انکارکیا،

۶۲

اورکہا کہ یہ (مال ودولت ) تومجھے اپنے علم کی وجہ سے حاصل ہوا ہے (۲۸: ۷۸ ) پس یہ ہرایسے شخص کے لئے تنبیہی مثال ہے، جومادّی یاعلمی دولت کے خزانوں سے مالامال ہو، اور وہ ہادی برحق کی اطاعت نہ کرے، اورمالی یاعلمی زکات نہ دے۔

قرآن پاک اپنی نوعیت کا ایک عالم ہے، اس میں گویا دو سمندر (بحران ۳۵: ۱۲ )  ہیں، ایک کا پانی پینے کے لئے شرین وخوشگوار ہے اوردوسرے کا کھارا اور کڑوا ہے، لیکن یہ دونوں مچھلیوں اورموتیوں کی فراوانی میں یکسان ہیں (۳۵: ۱۲ ) چنانچہ قصۂ قارون کا ظاہر واضح اورمعلوم  ہے، لیکن اس کا باطن ایک پوشیدہ اشارہ  ہے جو روحانی علم کے خزانوں، کلیدوں اورکلید برداروں (خزانچیوں  ) کا تصوّر دیتا ہے، وہ علم طوفان نوحؑ جیسے بے پناہ اورمنتشرمثال میں ہونے کے باوجود منظم  کُنُوز و مفاتح اور ایک  قوّی خزانچی جماعت کے تحت ہے۔

کلید نمبر۳۱: فعل خدا کی نمائندگی:

سورۂ صٓ (۳۸: ۱۷) سے دیکھیں: اللہ تعالیٰ کا اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ فرمانا کہ تم ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشاہدۂ باطن اورمراحل نورِعقل کے حوالے سے ہے، کیونکہ اس آیۂ کریمہ میں حضرت داؤدؑ کو”ذاالاید” اور”اوّاب” یعنی ہاتھوں والا اور رجوع کرنے والا کہا گیا ہے، اورہاتھوں کی یہ تعریف نہ

۶۳

صرف کتاب مکنون کوچھونے کی وجہ سے ہے، بلکہ یہ دستِ خدا اورفعلِ الٰہی کی نمائندگی کے سبب سے بھی ہے، اورکسی پیغمبرکا خدا سے رجوع  یا  توبہ  (لوٹ جانا ) یہ ہے کہ وہ انتہائی عظیم دیدارتک پہنچ جائے، جس میں فنا ہوجانا ہے۔

عالم انسانیت میں دو قسم کے نفوس (ارواح) ہیں: منجمد اور ذرّات، نفوسِ منجمد گویا جبال (پہاڑ) ہیں، اورذرّات پرند (طیور) پس حضرتِ داؤدؑ کی انفرادی قیامت میں پہاڑوں کواپنی جگہ مسخرکرکے پرندوں کوجمع کیا گیا اور وہ سب حضرتِ داؤدؑ کے ساتھ  ملکر صبح  و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح  پڑھا کرتے تھے  (۳۸: ۱۸) عالمِ ابداع  میں دنیائے ظاہر کا وقت سمیٹا ہوا ہوتا ہے، اس لئے وہاں شام کی تسبیح صبح کی تسبیح سے ملی ہوئی ہے۔ دنیا کی سلطنتوں کا نچوڑاور جوہر روحانی بادشاہی میں ضم کیا جاتا ہے، جس طرح ملکۂ سبا کی سلطنت حضرت سلیمانؑ کی مملکت میں ملائی گئی تھی، یہاں حکمت سے لُولُوئے عقل مراد ہے، اور “فصل الخطاب” کلمۂ باری ہے (۳۸: ۲۰ )۔

کلید نمبر ۳۲: دُ نبیوں کا مسئلہ:

دروازے سے آنا ان حدود کی علامت ہے، جوجسمِ لطیف (آسٹرل باڈی ) میں دین کا کام کررہے ہیں، اور دیوار سے آنا حدودِ  روحانی  کی نشانی ہے، چنانچہ حضرتِ داؤد نبیؑ کے پاس

۶۴

جوحدودِ دین دیوارکوچیرکرآئے، وہ جبرائیل اورمیکائیل جیسے روحانی تھے (۳۸ : ۲۱) ۹۹+۱=۱۰۰ دُنبیاں خدا کے اسمائے صفاتی کی مثال ہیں، جوعلم وحکمت کے خزانے ہیں (۳۸: ۲۳) مگرتمام خزانوں کی کلیدیں اسم اعظم میں ہیں، جوخزانۂ اعظم اورکنزالکنوز ہے، جس کی تشبیہ وتمثیل مذکورہ قصہ میں ایک ایسی دنبی سے دی گئی ہے، جس کا نر (دنبہ ) موجود ہے، اس لئے یہ نسل پھیلانے کے اعتبارسے ان ننانوے دنبیوں سے زیادہ فائدہ بخش ہے، جودوسرے بھائی کے پاس ہیں، کیونکہ وہ سب کی سب نرکے بغیرہیں۔

ذاتِ سبحان کے سوا کوئی بھی شیٔ ایک اکیلی نہیں، کیونکہ خداوندِ عالم نے تمام چیزوں کوجفت جفت پیدا کیا ہے (۳۶: ۳۶ ) اورقرآنِ عظیم میں بارہا اس قانونِ دوئی کا ذکروبیان فرمایا گیا ہے، اس روشن حقیقت میں ذرہ بھرشک وشبہ نہیں کہ کائنات و موجودات کی جملہ اشیاء دو دو یعنی جوڑی جوڑی ہیں، یہ قاعدہ کئی طرح سے ہے، جیسے نر و مادہ کا نظام، اضداد کا طریقہ، وغیرہ، ہم نے بارباراس کا تذکرہ کیا ہے، پس اسم اعظم بھی اسی قانونِ فطرت کے مطابق دو ہیں، ایک اسم لفظی ہے، جوصامت (خاموش ) ہے، اوردوسرا شخصی، نورانی ہے، جو ناطق یعنی بولنے والا ہے، اس سے زمانے کا نورِمجسّم مراد ہے۔

حرفی اسمِ اعظم دلیل ہے، شخصی اسمِ اعظم مدلول، وہ گویا

۶۵

آسمانی کتاب ہے، یہ ربّانی معلّم اورنور، وہ روحانی خزانہ ہے، تو یہ اس کا خزانہ دار، وہ جسم کی طرح ہے، یہ روح کا درجہ رکھتا ہے، وہ حیاتِ سرمدی کا اشارہ ہے، یہ مُشارٌ اِلیہ اور خود اسی حیات کاسرچشمہ، وہ طالب کی طلب ہے، تویہ مطلب اور مطلوب، وہ ایک چراغ ہے، مگرہنوزروشن نہیں ہوا، یہ ایک ایسا روشن چراغ ہے، جواس کوبھی فروزان کرسکتا ہے، وہ آسمان روحانیت کے لئے نردبان  (سیڑھی )  ہے، تویہ روحانیت ونورانیت کا آسمان ہے، وہ ایسا درخت ہے جس میں علمی درخت کا پیوند لگ سکتا ہے، یہ علم کا زندہ شجرہے، لہذا اپنے نورانی علم کا پیوند اس درخت میں لگا سکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ زندہ اسمِ اعظم (امام زمانؑ ) کا نور لفظی اسمِ اعظم کے توسط سے قلوب مومنین میں طلوع ہوسکتا ہے۔

کلید نمبر ۳۳: کوہِ قاف:

حضرت امیرالمومنین علیؑ کا ارشادِ گرامی ہے: انا لولوالاھداف، اناجبل قاف، یعنی میں ہی وہ گوہریک دانہ ہوں، جس میں تمام اعلیٰ مقاصد جمع ہیں، اورمیں ہی کوہِ قاف ہوں، جس پرعالمِ عقل کے عجائب وغرائب موجود ہیں، درّیتیم یا گوہریکدانہ (لُولُوئےعقل) کے بارے میں اگرچہ بہت کچھ لکھا گیا ہے، تاہم یہاں اس میں اضافہ کرتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہے

۶۶

کہ گوہرِعقل میں کائنات ومخلوقات کے آثار متَحجّرات [fossils]  پائے جاتے ہیں، یعنی جس طرح سائنسی تحقیق سے اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ زمانۂ قبلِ تاریخ کی بہت سی نباتی اورحیوانی چیزیں پتھربن کرپہاڑ میں محفوظ ہوچکی ہیں، جسے رکازی ریکارڈ [Fossil Record]  کہا جاتا ہے، اسی طرح کوہِ عقل میں تمام باطنی چیزوں کا نورانی ریکارڈ موجود ہے۔

سورۂ قٓ (۵۰: ۱ ) کا ارشاد مبارک ہے: قٓ۔ والقراٰنِ المجید (۵۰: ۱ ) قسم ہے قاف کی اورباعظمت قرآن کی۔ حرف “ق” کی ابجدی قیمت ۱۰۰ ہے، اورسو۱۰۰ کا جملِ اصغرایک ہوتا ہے، جس کی عددی تاویل عقلِ کلّ ہے، جوقلمِ قدرت اورکوہِ عقل ہی کا نام ہے، اوریہی عالمِ شخصی میں نورِازل بھی کہلاتا ہے، اس مقام پرقرآن مجید سے لوحِ محفوظ مراد ہے، جس میں عظمت والا قرآن درج ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲ ) اورلوحِ محفوظ ہی نفسِ کلّ ہے، چونکہ دنیائے ظاہرکے ارتقاء کا آغاز جمادات سے ہوجاتا ہے، اس لئے ظہوراتِ عقل میں پہاڑ کی مثال کو بہت بڑی اہمیت حاصل تھی، پس کوہِ عقل کا نام ایک اعتبارسے کوہِ قاف ہوا، قاف کے بہت سے معنی ہیں، جیسے قدرت، قلم، قدیم، قرآن وغیرہ اورکوہِ قاف کی وجہ تسمیہ یہ بھی ہے کہ عالمِ شخصی کے اس پُرنور پہاڑ پرعربی کے ایسے بہت سے الفاظ درج ہیں، جن میں سے ہرلفظ کے آخر

۶۷

میں “ق” آتا ہے، اوریہاں یہ نکتۂ دلپذیر بھی سن لیجئے کہ قرآن حکیم میں اس نوری تحریرکا نام الرّقیم  (۱۸: ۹ ) ہے، جس کے معنی ہیں نوشتۂ روحانی، اورہرلفظ کے آخرمیں “ق” ہونے کا البتہ یہ اشارہ ہے کہ ہم ایسے الفاظ مقدّس کوقرآنِ کریم میں دیکھیں، اور ان میں کوہِ قافِ عقل کے اَسرارِمعرفت کی جستجو کریں۔

کلید نمبر ۳۴ : اصحاب فیل:

سورۂ فیل کوقرآن  (۱۰۵: ۱ تا ۵ ) میں پڑھ لیں: (اے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمھارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا اس نے ان کی تدبیر غلط نہیں کردی؟ اوران پرپرندوں کے غول کے غول بھیجے، جوان پرسنگ گِل کی کنکریاں پھینکتے تھے، پس اللہ نے ان کو کھائے ہوئے بھوسا کی طرح کردیا (۱۰۵: ۱ تا ۵ )  ترجمہ وتفسیراورتاریخی واقعہ کے بعد اس ربّانی تعلیم کی حکمت اس طرح  ہے کہ شروع میں عالمِ شخصی کے حوالے سے مشاہدۂ روحانیت کی طرف بھرپور توجہ دلائی گئی ہے، جس میں اقتدار والے مخالفین (ہاتھی والے) بصورتِ ذرّات خدا کے باطنی گھرکو ڈھانے کی غرض سے حملہ آور ہوئے تھے، مگراللہ نے ان پرایک زبردست روحی لشکر کو بھیجا جس نے منجمد روح کی کنکریاں برسا کران کوکھائے ہوئے بھوسا جیسا کردیا، جس سے وہ روحانی طور پر ہلاک ہوگئے، کھایا ہوا بھوسا وہ ہے جوگائے بیل،

۶۸

وغیرہ کے پیٹ میں متغیر ہونے لگتا ہے، تاکہ اس کا کچھ حصہ حیوانی جسم کے ساتھ ملکرایک ہو، اورکچھ حصہ گوبرکی صورت میں خارج ہوجائے، یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ حملہ آور روحیں ہلاک ہوکرعارف کے نفسِ حیوانی کے لئے خمیر بھی  ہوجاتی ہیں، اورپھوک کی طرح خارج بھی۔

کلید نمبر۳۵ : نور کا ذکرِجمیل:

سورۂ حدید کی پانچ آیات کریمہ میں جس شانِ حکمت سے نورکا ذکرِجمیل آیا ہے، اس کا مجموعی مطالعہ بےحد ضروری ہے، تاکہ دنیا ہی میں نورکی شناخت کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے، چنانچہ اِ س باب میں سب سے پہلے (۵۷: ۹ ) میں ذرا غورسے دیکھ  لیں، اوریہ بتائیں کہ آیا نزول قرآن اوراس کی بابرکت تعلیمات کا مقصد یہ نہیں ہے کہ لوگوں کوکفروجہالت کی تاریکیوں سے نکال کرنورکی طرف لایا جائے؟ تاکہ نورانی ہدایت اورعلم وعمل کے نتیجے میں دنیا ہی میں مومنین ومومنات پر روحانی ترقی کا وہ وقت بھی آئے، جس میں ان کا نور ان کے آگے اورداہنی طرف دوڑنے لگتا ہے(۵۷: ۱۲) روحانی ترقی ہی قیامت صغرٰ ی ہے، جوعالمِ شخصی میں واقع ہوتی ہے، جس میں بعض حدودِ دین کی نیابت ونمائندگی سرِّعظیم ہے، ایسی انفرادی قیامت میں جہاں تمام روحوں کی  حاضری ہوتی ہے، وہاں منافقین ومنافقات کی روحیں کیا کہتی ہیں،

۶۹

اس کوبھی سورۂ حدید (۵۷: ۱۳ ) ہی سے پڑھ  لیں۔

اس کے بعد نورکا ایک اورعظیم الشّان تذکرہ یہ ہے: اورجولوگ خدا اوراس کے رسولوں پر (حقیقی معنوں میں ) ایمان لائے ہیں یہی لوگ اپنے پروردگارکے نزدیک صدّیقوں اورشہیدوں کے درجے میں ہیں، ان کے لئے اپنا اجراور (زندہ ) نور ہے (۵۷: ۱۹)۔ یقین کے ساتھ جاننا چاہئے کہ جس طرح دنیا کے چھوٹے بڑے بے شمارکام شمس اورنظام شمسی سے وابستہ ہیں، اسی طرح جملہ اموردینی کی وابستگی نوراورنظام نورانی سے ہے، پس یہاں یہ حقیقت اور زیادہ روشن ہوجاتی ہے کہ دنیا ہی کی روحانیت میں مومنین ومومنات کا نوران کے آگے اورداہنی طرف سعی کرتا ہے، یعنی بڑی سرعت سے ظہورات ابداع و اِنبعاث کے نمونے پیش کرتا رہتا ہے۔

سورۂ حدید کی وہ آیۂ مقدسہ، جونورِامامت کی معرفت سے متعلق بنیادی اہمیت رکھتی ہے، اس طرح ہے (ترجمہ): اے ایماندارو! خدا سے ڈرو  (جیسا کہ ڈرنا چاہئے ) اوراس کے رسول  (محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ) پرایمان لاؤ  (جیسا کہ حق ہے ) توخدا تم کواپنی رحمت کے دوحصے اجرعطا فرمائے گا اور تم کوایسا نور (یعنی نورِامامت ) مقررفرمائے گا، اورخدا توبڑا بخشنے والا مہربان ہے (۵۷: ۲۸ ) الغرض نہ صرف سورۂ حدید

۷۰

ہی میں بلکہ سر تا سر قرآن میں جتنی آیات نور ہیں، ان سب کا مجموعی اور مربوط  و یکجا مطالعہ بےحد ضروری ہے، تاکہ موضوعِ نور زیادہ سے زیادہ  قابل فہم ہوسکے، ان شاء اللہ، خدا، رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اورامام زمانؑ کے عشق سے ہرعلمی مشکل آسان ہوجائے گی۔

کلید نمبر۳۶: سجدۂ تفویض:

سورۂ یوسف (۱۲: ۱۰۰) میں ارشاد ہے: ورفع البویہ علی العرش وخرّوالہ سجّداً (اور یوسفؑ نے اپنے ماں باپ کوتخت پر بٹھایا اور یہ سب کے سب یوسفؑ کے سامنے سجدہ میں گر پڑے ) اور یوسفؑ نے کہا: اے ابا یہ تاویل ہے میرے اس پہلے خواب کی کہ میرے پروردگار نے اسے سچ کر دکھایا۔

تاویل ظاہرمیں نہیں باطن میں ہوتی ہے، چنانچہ حضرت یوسفؑ نے جو وارثِ امامت تھے، منازلِ روحانیت اورمراحلِ عقلانیت کوطے کرلیا، اور اپنے روحانی ماں باپ/ امام اور باب کوعالمِ شخصی کے تختِ عقل (عرش )  پربٹھا دیا، پھروہ سب وہاں یوسفؑ کے لئے سجدہ میں گر پڑے، یعنی خدا کے حکم سے مرتبۂ امامت حضرت یوسفؑ کوحاصل ہوا، اوران کی اطاعت کی گئی، اوران کے خواب کی تاویل یہی تھی۔

کلید نمبر۳۷: دو دفعہ پیدا ہو جانا:

حضرت عیسیٰؑ کے ایک ارشاد کاعربی

۷۱

ترجمہ ہے: لَنْ یَلِجَ مَلَکو تَ السّمٰواتِ مَنْ لم یُوْلَدْ مَرَّتَیْنِ (وہ شخص آسمانوں کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہیں ہوسکتا، جو دو دفعہ پیدا نہ ہوجائے) اس کی وضاحت یہ ہے کہ سب سے پہلے بتائیدِ الٰہی نفسِ حیوانی سے مرجائے اور روح انسانی میں زندہ ہوجائے، اوراس کے بعد روح انسانی سے بھی فنا ہوکرروح مَلکی (نورِعقل )  میں زندہ ہوجائے، مگریہ سب کچھ اسی زندگی میں کرنا پڑے گا، دوسر ے الفاظ میں نفسِ امّارہ سے مرکرنفسِ لوّامہ میں جینا ہے، پھرنفسِ لوّامہ سے بھی مرجانا ہے، اورآخرمیں نفسِ مطمئنہ میں زندہ ہوجانا ہے، پس یہی ہے زندگی ہی میں دو دفعہ مرجانا، اوردو دفعہ زندہ ہوجانا، جیسا کہ سورۂ مومن (۴۰: ۱۱ ) میں بزبانِ حکمت اس واقعہ کا ذکرفرمایا گیا ہے۔

کلید نمبر ۳۸: خدا کے سات دن:

حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراھیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ، اورحضرت محمد مصطفیٰ علیھم السّلام اللہ تبارک وتعالیٰ کے چھ دن ہیں، جن میں اس قدرت والے نے عالمِ دین کو پیدا کیا، یعنی ان چھ ناطقوں کے چھ بڑے ادوارمیں عالم دین مکمل ہوا، اورحضرت قائم علیہ السّلام ساتواں دن  (دَور) ہے، یعنی سینچر، جس میں پروردگار عالم نے وہ تمام امورانجام دیئے، جونورِعرش (نورِعقل )  سے متعلق ہیں، اوریہی خدا کے سات

۷۲

دن ہیں، جوایّام اللہ  (۱۴: ۵؛ ۴۵: ۱۴) کہلاتے ہیں، اورانہی دنوں کا نام ایّامٍ معلومات (۲۲: ۲۸ ) بھی ہے، کیونکہ یہ روحانی علم وحکمت سے پُر ہیں۔

اگرخداوندِ جَلّ جلالہ اپنی قدرت سے چیزوں کوایک طرف پھیلاتا ہے، تو دوسری طرف لپیٹتا بھی ہے، چنانچہ سات بڑے ادوارمیں سے ہر دَورِ بزرگ کے سات ذیلی ادوار مقرر ہوگئے، اوریہ أئمّۂ ھُداعلیھم السّلام کے چھوٹے چھوٹے ادوار ہیں، اب آئیے عالمِ شخصی کی بات کرتے ہیں کہ اس میں بھی ۶+۱=۷ دن یا سات مختصرادوار ہیں، ان میں انبیائے کرام اورأئمّۂ عِظام صَلَوات اللہ علیھم کی نورانی معرفت کے خزائن پوشیدہ ہیں، اور معارف کا گنجِ آخرین جو خزینۃ الخزائن ہے، وہ حضرت قائم القیامت علیہ افضل التّحیّۃ والسّلام سے متعلق ہے۔

کلید نمبر ۳۹: ظہورِ قائم:

قرآن حکیم نے ابتداءً اپنی مخصوص زبانِ حکمت میں یہ فرمایا تھا کہ دنیا میں قائم القیامت کاحجاب دارظہور ہوگا، اِ س لئے کسی کو پتہ نہیں چلے گا کہ قائم تشریف لاچکے ہیں اورقیامت برپا ہورہی ہے، جبکہ قیامت باطنی اور روحانی واقعہ ہے، جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے: ھَل ینظرون الّاالسّاعۃ ان تاتیھم بغتۃً وھم لایشعرون (۴۳: ۶۶ ) کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر بیٹھے ہیں کہ اچانک ہی ان پرآجائے اوران کوخبرتک نہ ہو۔ پس

۷۳

حضرت قائم القیامت علیہ افضل التّحیّۃ والسّلام کوکوئی نہیں پہچان سکتا، مگرپانچ حدود کے ذریعے سے، اوروہ یہ ہیں: اساس، امام، باب، حجت، اورداعی۔

کلید نمبر۴۰ : خلافت صغرٰی:

اگرمومنین خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی خوشنودی کے مطابق نورِہدایت کی پیروی، ایمان کامل، اعمالِ صالحہ، اورنورانی عشق میں کامیاب ہوگئے، تو ربِّ کریم ان کوحسبِ وعدہ عالمِ شخصی کا خلیفہ بنائے گا (۲۴: ۵۵ ) جس میں تمام مراتب جمع ہیں، یعنی وہ خلیفہ بھی ہیں، بادشاہ بھی (۰۵: ۲۰ ) نوربھی (۵۷: ۱۲ ) اور اصل کی کاپی بھی ہیں (۵۵: ۲۷ ) کیونکہ خلافتِ الٰھیہ میں سب کچھ ہیں، یہ اگرچہ عالمِ شخصی کی بات ہوئی، لیکن یہ نفسِ کلّ سے ملکرکل کائنات پرمحیط ہوجاتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کے سارے وعدے خلافتِ عظمیٰ سے متعلق ہوجاتے ہیں، وَمَا توفیقی اِلّا بِاللّٰہِ۔

نصیرالدّ ین نصیرؔ ہونزائی،

کراچی

جمعرات، ۳، رجب المرجب ۱۴۱۲ھ

۹، جنوری ۱۹۹۲ء

۷۴

تاریخی تحفہ

۱۔ یہ حقیقت مرتبۂ ازل اورگنج عقل کے عظیم اسرار میں سے ہے کہ تمام انسان سرچشمۂ روح میں ایک تھے، اب بھی عالمِ علوی میں ایک ہیں، اور کثرتِ اجسام سے فارغ ہوجانے کے بعد بھی ارواح کی یہی یکجائی اور وحدت سامنے آئے گی، مگراس میں جیسے بے شمار لوگ جمع ہیں، ویسے بے حساب ظہورات ہوں گے، تاکہ وحدت و کثرت کے دونوں دریا ہمیشہ اس طرح متصل بہتے رہیں کہ دونوں کا وجود اپنی اپنی جگہ قائم وباقی رہے، (قرآن پاک کے چارمقام پراَلْبَحْرَیْن کی حکمت کودیکھ لیں )۔

۲۔ عزیزانِ من!امام عالیمقامؑ کی خواہش ہے کہ ہردانشمند مرید قرآنی حکمت کی طرف بھرپورتوجہ دے، اس سلسلے میں میری ایک عاجزانہ گزارش یہ ہے کہ آپ قرآن حکیم کوبہت سے طریقوں سے پڑھیں، اورحصولِ حکمت کے لئے اس کے کلّیات کوسمجھنا بےحد

۷۵

ضروری ہے، مثال کے طور پر تسخیرِ کائنات و موجودات کے موضوع کو لے کردیکھیں کہ اس میں سب سے بڑا کلّیہ کونسا ہے، شاید آپ میں سے جن کے پاس زیادہ علم ہو، وہ یہ بتائیں گے کہ اِس مضمون پر کل ۳۱ آیات ہیں، اوران میں سب سے بڑا کلّیہ وہ ہے، جس کا ترجمہ اس طرح ہے: اوراسی نے وہ سب جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اپنی طرف سے تمھارے کام میں لگا رکھا ہے، اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جوغورکرتے ہیں (۴۵: ۱۳)۔

۳۔ ارشادِ ربّانی کی حکمت یہ ہے کہ سماواتِ عقلِ کلّ اورارضِ نفسِ کلّ میں جوکچھ ہے وہ سب تم میں سے ہرایک کے لئے مسخرکیا گیا ہے، اوراس قانون سے کوئی چیز، کوئی طاقت اورکوئی نعمت باہرنہیں، جبکہ عقلِ کلّ، نفسِ کلّ اوردوسرے تمام درجات اس تسخیرمیں شامل ہیں، اس کامطلب یہ ہوا کہ خداوندِ تعالیٰ ہرکامیاب مومن کو اپنی اُس خلافت عالیہ سے سرفراز کردینا چاہتا ہے، جس سے حضرت آدمؑ کوسربلند فرمایا تھا، مگریہ عظیم کائناتی سلطنت روحانیت اور بہشت میں حاصل ہوسکتی ہے۔

۴۔ ہرشخص دین میں خوشخبری کی باتیں توسنتا رہتا ہے، لیکن درحقیقت علم وحکمت ہی کی روشنی میں بہشت کی ذاتی بشارت کسی کے لئے روشن اوریقینی ہوسکتی ہے، جس کے تین درجے ہیں: علم الیقین، عین الیقین، اورحق الیقین، آپ پہلے پہل درجۂ

۷۶

علم الیقین پردینی اورروحانی بشارتوں کا مکمل اطمینان حاصل کرلیں، پھران شاء اللہ، دیدۂ باطن کے کھل جانے سے اور روحانی معجزات کے مشاہدے سے مرتبۂ عین الیقین کی عملی خوشخبری ملے گی، ورنہ اجتماعی اورقولی بشارت میں کسی نافرمان اورلاعلم شخص کو یہ گمان اور قیاس ہوسکتا ہے کہ یہ سب کچھ اسی کے لئے ہے، پس یاد رہے کہ دنیا میں دوستانِ خدا کوآخری عملی مژدہ مرتبۂ حق الیقین پرملتا ہے۔

۵۔ قرآن حکیم کا خطاب نہ صرف زمانۂ نبوّت ہی کے مومنین سے ہے، بلکہ یہ آئندہ مسلمانوں کے لئے بھی ہے، چنانچہ آپ اس حکم میں غور کریں: اور ہم تم کو آزمائیں گے کبھی خوف سے، کبھی بھوک سے، کبھی مال میں نقصان سے، کبھی جان کے نقصان سے، اورکبھی پھلوں میں نقصان سے، اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم! تم بشارت  سنا دوصابرین کو (۰۲: ۱۵۵ ) اس ارشاد کا یہ مطلب توصاف ظاہر ہے کہ اب اس وقت یا آئندہ جب اللہ کسی مومن کو ہرمصیبت میں آزمائے، اوروہ بندہ اس پرصبرکرے، توتب اس کوپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی طرف سے تین مقامات کی عملی تہنیت ملے گی، اوراس سے پہلے ذاتی خوشخبری نہیں، پس معلوم ہوا کہ خوشخبری ایک عملی حقیقت ہوا کرتی ہے، یعنی نیک کاموں کے بعد ہی کسی مومن کوبشارت دی جاتی ہے۔

۷۷

۶۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنی حکمت میں سوچنے کی اعلیٰ ہمت اورتوفیق عطا فرمائے! ورنہ بڑی آسان بات بھی شدید مشکل ہوسکتی ہے، اوراس کی لا تعداد مثالیں موجود ہیں۔

۷۔ خوب غوراوربڑی ذمہ داری سے سن لیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نہ صرف اپنی عقلِ کامل اورروحِ اقدس ہی سے نورِ ھدایت تھے، بلکہ جسمِ اطہرسے بھی نورتھے، کیونکہ اہلِ بصیرت کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی پاک وپاکیزہ شخصیت کے ہرقول وفعل سے نورِ ھدایت کی ضیا پاشی ہوتی تھی، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اپنے نورکے باطنی پہلو (عقل و روح )  کے اعتبارسے خدا کے نزدیک تھے، اورنورکے ظاہری پہلو (شخصیت) کے لحاظ  سے لوگوں کے پاس آئے، اور قدجاء کم مِنَ اللّٰہ نور (تمھارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نورآیا ہے (۰۵: ۱۵ ) کی حکمت یہی ہے، یعنی اس آیۂ کریمہ میں حضورانور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی مبارک شخصیت کا ذکر ہے، پس یہ پاک نور بحکم “نورعلٰی نور” دَور نبوّت کے اختتام پراشخاص امامت کے سلسلے میں منتقل ہوگیا، اورآج الحمدللّٰہ یہ نورمنَزَّل امامِ حیّ و حاضرصلوات اللہ علیہ میں جلوہ گرہے۔

۸۔ المعجم الصّوفی ص۱۲۵۸پردرج ہے: اِنَّ اللّٰہَ خلق مِائَۃَ الف آدم۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ آدموں کوپیدا

۷۸

کیا ہے۔ اگریہ قول احادیث صحیحہ میں سے ہے تواس میں ایک بڑے دَور کی بات ہوسکتی ہے، کیونکہ تصورِآفرینش یہی درست ثابت ہوا ہے کہ خدا کے فعلِ خالقیت کسی ابتدا و انتہا کے بغیر ہمیشہ جاری ہے، لہٰذا بے پایان ادوار میں ایسے لاتعداد آدموں کا سلسلہ چلتا رہا ہے کہ ان کا شمارممکن نہیں۔

۹۔ سیدنا جعفربن منصوریمن فرماتے ہیں کہ آدم کسی ذاتی شخص کا نام نہیں بلکہ یہ خدا کی جانب سے ایک دینی لقب ہے، جوہرناطق کے لئے اس کے وقت میں اورہرامام کے لئے اس کے عصرمیں استعمال ہوتا ہے، موصوف سیدنا کی کتابِ سرائرکے مطابق اس دَورِاعظم کا آدمؑ، جس کا ذاتی نام  تخوم بن بجلاح بن قوامۃ بن ورقۃ الرّویادی تھا، سراندیب (سیلون )  کے مضافات میں سے جزیرۂ بوران کے شہرسوباط میں پیدا ہوا، قدیم ترین تاریخ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ تخوم کا ایک اورنام  یا لقب عبداللہ بھی تھا۔

۱۰۔ اللہ تعالیٰ کے ہر پیغمبرمیں درجۂ کمال کی نیک عادات ہوا کرتی ہیں، اورقرآن کریم میں ان کا ذکرجمیل اس مقصد کے پیش نظرفرمایا گیا ہے کہ اس سے نیک بخت مومنین بھرپورفائدہ اٹھائیں، چنانچہ حضرت ابراھیمؑ کا تذکرہ  ہے کہ آپؑ بڑے نرم دل اور بے حد ہمدرد تھے، آپؑ بہت گریہ وزاری کرتے اور آہیں بھرتے تھے، جیسا کہ ارشاد ربّانی  ہے: اِنّ ابراھیمَ لَاَوّاہٌ حلیم (۰۹: ۱۱۴ )

۷۹

بیشک ابراھیم بہت آہیں کرنے والا اورمتحمل تھا۔ نیزسورۂ ھود (۱۱: ۷۵ )  میں ہے: بیشک ابراھیم تحمل والا بہت آہیں کرنے والا اور رجوع  کرنے والا تھا۔

۱۱۔ علم بہت بڑی دولت ہے، جس کا ایک بہت چھوٹا سا حصہ کسی بد نصیب انسان کو مست ومغروربنا سکتا ہے، لہذا قرآنی حکمت کا یہ اشارہ  ہے کہ اہل علم حضرات اوردرویش صفت مومنین غرورکی مہلک بیماری سے بچنے کی خاطرخدا کے حضورگریہ وزاری کریں، مگرانتہائی ادب اور بڑی عاجزی سے یہ عمل ہونا چاہئے، کیونکہ کوئی بھی گستاخانہ آواز اورحرکت اللہ کو پسند نہیں، سورۂ بنی اسرائیل کے آخرمیں دیکھئے، یہ کون حضرات ہیں، جن کو نزولِ قرآن سے پہلے ہی علم دیا گیا ہے؟ پھروہ کیوں روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گرتے ہیں؟ کوئی دانشمند اس کا جواب با صواب اس طرح دے گا:۔

۱۲۔ چونکہ اسلام میں با ادب، خاموش یا کم آواز گریہ وزاری چوٹی کی عبادت ہے، لہذا اس میں ایسے اعلیٰ معانی پوشیدہ ہوا کرتے ہیں، جیسے: استغفار، عبادت کی کمی، توبہ، رجوع، پناہ بخدا، طلب رحمت، محویّت، فنائیت، شکرگزاری، نعمت شناسی، شوقِ دیدار، خوفِ الٰہی، عاشقانہ عبادت، روحانی ترقی، دعائے خاص، مناجات، سب کے لئے دعا، وغیرہ، جس طرح کوئی طفلِ

۸۰

شیرخوار مختلف اوقات میں جدا جدا ضرورتوں کی غرض سے صرف روتا رہتا ہے، اورالفاظ میں کچھ کہہ نہیں سکتا، تاہم مجموعی طور پراس کے رونے میں بہت سے معنی کارفرما ہیں۔

۱۳۔ اے عزیزانِ من! اس مقالے میں جتنا حصہ علم وحکمت کا ہے، وہ توسب کے لئے ہے، اورجونصیحت کی تلخ دوا اوراظہارتشکرکے سدابہار پھول ہیں، وہ آپ کے لئے ہیں، نصیحت یہ ہے، جس کی کاپی نامدارکونسل کے ریکارڈ میں بھی رہے گی کہ : ۔

الف: ہمارا مقصد اصلی علمی خدمت ہے۔

ب: ہمارے لئے عبادت کی بہترین جگہ جماعت خانہ ہے۔

ج: دن کو یا رات کو ادارے کی میٹنگ اورکامیابی کے لئے مناجات بھی ہوسکتی ہے۔

د: دعوتِ بقا میں جس طرح علمی باتوں کے علاوہ منقبت خوانی اورذکربھی ہوتا ہے، اسی طرح مگربغیرخرچ اورآسان روحانی مجلس بھی مفید ہوسکتی ہے، تاہم آداب وقواعد کا پابند ہونا ضروری ہے، اس کے لئے ہرشخص مسئول اورجواب دہ ہوگا۔

ہ: ہرمقام پرعملداردیکھا کریں کہ کوئی شخص یا اشخاص خانۂ حکمت کوغلط استعمال نہ کریں۔

۱۴۔  اور وہ سدا بہار پھول یہ ہیں کہ آپ بڑی سعادت مندی سے صحراؤں اوربیابانوں میں باغ وچمن لگا رہے ہیں، یہ کتابیں

۸۱

تیار کرنے اورعلم پھیلانے کی مثال ہے، کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہاں جوعمدہ سے عمدہ کام ہو رہا ہے، وہ آپ سب کے تعاون سے اورادارے کی صورت میں ہو رہا ہے؟  کیا آپ کو باور نہیں کہ میں آپ میں سے ہرفرد کواپنی جان ہی کی طرح عزیزرکھتا ہوں، اورشاگردوں کو”عزیزان” کے پیارے نام سے یاد کرتا ہوں؟ کیونکہ آپ سب اس علمی درخت کی مضبوط جڑیں ہیں، پیارے ساتھیو! یہ قوّت خیال ہرشخص کے لئے اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے کہ میں عالمِ خیال میں گاہ و بیگاہ مسگارکی مقدّس محفلوں کو دیکھتا ہوں، اورپاکیزہ روحوں کوخدا اورسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اورامامؑ کے عشق میں سرشار پاکر بےحد شادمان ہوجاتا ہوں، تمام ایسی مجالس کا تصور، جوجگہ جگہ ہوتی رہی ہے، کیسے نہ کروں، اوراُ ن مبارک چہروں کوکس طرح فراموش کروں، جن پر رحمتِ خداوندی کی بارش برس رہی تھی!

۱۵۔ میں دنیا کے تمام مومنین کو جان و دل سے چاہتا ہوں، خصوصاً ان پیاری پیاری روحوں کو، جوپیش قدمی کرکے میری نظم ونثر کے خزائن د رّ و مرجان کو لوٹتی رہتی ہیں، اِ س خوانِ یغما کے لے جانے میں عزیزان بھی ہیں، اوردوست بھی، رشتہ داربھی ہیں، اوراہل زمانہ بھی، الحمدللہ۔

۱۶۔ ہرچیزکے وجود میں آنے اورقائم ہوجانے کے لئے ابتدائی قوّتیں ازحد ضروری ہوتی ہیں، چنانچہ خداوند قدوس کے فضل و کرم

۸۳

سے شمالی علاقہ جات میں میرے لئے شروع ہی سے وسیلۂ دوستان پیدا ہوا ہے، احباب نہ صرف خانۂ حکمت ہی میں ہیں، بلکہ اِس سے باہربھی ہیں۔

۱۷۔ شمالی علاقہ جات میں خانۂ حکمت کی یہ برانچز ہیں  ۱۔ مسگاربرانچ  ۲۔ التت، اورکریم آباد برانچ  ۳۔  حیدرآباد اورعلی آباد برانچ  ۴۔ مرتضیٰ آباد برانچ  ۵۔ گلگت برانچ، جس میں اوشی کھنداس اورنومل کے حلقے بھی شامل ہیں، ان شاخوں میں ہمارے بہت ہی پیارے عملداران اوراراکین بڑی سرگرمی اورلگن سے کام کر رہے ہیں، علاوہ برآن گلگت میں ادارۂ عارف اوربروشسکی ریسرچ اکیڈمی بھی ہیں، جن کے عہدہ داران وارکان کئی کئی حیثیتوں میں کام کررہے ہیں، الغرض ادارہ  ہو یا اس سے باہر، ہمارے روحانی باپ کے بچوں میں سے ایسی ایسی نیک بخت اورپاکیزہ روحیں بھی ہیں، جن کو ہم عالم شخصی کے فرشتے قرار دے کر بےحد شادمان ہوجاتے ہیں۔

۱۸۔ خداوندعالم کا لاکھ لاکھ شکرہے کہ مناسب وقت پرخانۂ حکمت کی برانچ اسلام آباد میں بھی قائم ہوئی، چونکہ یہ مقام ہمارے ملک کا مرکز ہے، اور یہاں اعلیٰ سطح کے لوگ رہتے ہیں، اس لئے ہماری برانچ کوبڑے بڑے لوگوں کی حمایت حاصل ہے، جن میں ڈاکٹرز، پروفیسرز، انجیئرز، جماعتی عملداران، وغیرہ شامل ہیں، پس امید واثق ہے کہ ہماری اس شاخ کی بہت جلد ترقی ہوگی۔

۸۳

۱۹۔ کراچی میں خانۂ حکمت اورادارۂ عارف کا مرکزہے، ہاں مرکزتو ہے ہی، لیکن کوئی جدا گانہ دفترنہیں، تاہم سنئے رحمتِ خداوندی اورعلم سے عشق ہونے کی بات کہ یہاں ہرعملدارکا گھراپنی نوعیت کا دفترہے، اورایسے دفتراورسٹورتقریباً نو ہیں، جن میں دفترکے ضروری سامان کے علاوہ کتابوں کے ذخائر رکھے ہوئے ہیں، اگرہمارے یہ رفقائے کار درویش صفت اورمولائے پاک کے نورِ علم کے عاشق نہ ہوتے، تواپنے صاف ستھرے گھروں کو سٹور جیسے نہ ہونے دیتے، لیکن میں سچ کہہ رہا ہوں کہ ہمارے تمام عزیزوں کوعلم سے شدید محبت یعنی عشق ہے، کیوں نہ ہوجبکہ علم امامِ اقدس واطہرؑ کا نورِمنتشر ہے، جیسا کہ میں نے بارہا دیکھا ہے کہ ہرعزیزمقالۂ نو اورنئی کتاب کوبھرپورعقیدت ومحبت سے چومتا ہے، اوراحتراماً آنکھوں سے لگا لیتا ہے۔

۲۰۔ مرکز کی دیگرشاخوں کی طرح کراچی شہرمیں بھی خانۂ حکمت کی دو برانچ ہیں، ایک “شاہ بی بی برانچ” اوردوسری کریم آباد برانچ، “شاہ بی بی برانچ” ہیڈ مسٹریس شاہ بی بی کی تحویل میں ہے، آپ ہمارے ادارے کی ایک بہت سینئیر رکن اورایک ایڈوائزر ہیں، ان کی انسانی اورایمانی خوبیوں کی وجہ سے سب عزت کرتے ہیں، وہ گویا زمین پرایک فرشتہ ہیں، پروردگارِعالم ان کودوجہان کی کامیابی اورسربلندی عنایت فرمائے!

۸۴

۲۱۔ کریم آباد برانچ پرخدا کی طرف سے رحمت وعلم کی بارش برس رہی ہے، اس لئے یقین آتا ہے کہ اس خوش نصیب برانچ کی بہت ترقی ہوگی، اس میں ہمارے ہیڈ آفس کی بھی بہت بڑی سعادت ہے کہ کریم آباد برانچ میں بہت کام ہورہا ہے، خوشی کی بات تویہ ہے کہ سبھی روحانی تائید پریقین رکھتے ہیں، اس لئے یہ اکثراوقات ذکر و عبادت  اورگریہ وزاری سے عقل و روح کی قوّتیں حاصل کرتے ہیں۔

۲۲۔ ہمیں نعمت شناسی کے بہت سارے آنسو بہاتے ہوئے اور ٹھوڑی کے بل گرتے ہوئے عاجزانہ سجدۂ شکرگزاری بجا لانا چاہئے کہ خداوندعالم کے فضل وکرم سے ہمارے ادارے میں کئی بدنی ڈاکٹرز بھی ہیں، جن میں سے بعض علم دوست اورفرشتہ صفت ڈاکٹروں نے اپنے اپنے کلینک کا نام اپنے علمی استاد کے نام پررکھا ہے، اوروہ میڈیکل ایڈوائزر بھی ہیں، یعنی محترم ڈاکٹر رفیق جنت علی، جوخانۂ حکمت کے اعزازی سیکریٹری بھی ہیں، اوران کی بیگم محترمہ ڈاکٹرشاہ سلطانہ، اورمحترمہ ڈاکٹر زرینہ اہلیہ حسین  (مرحوم )۔

۲۳۔ دراصل یہ مظہرِنورِ خدا، ہادیٔ زمان، امام برحق صلوات اللہ علیہ کا علمی معجزہ ہے کہ ہماری کتابیں ایسی تیزی سے دنیائے اسماعیلیت میں پھیل رہی ہیں، اب ان شاء اللہ تعالیٰ روس کی

۸۵

جانب بھی جا رہی ہیں، آپ نے یہ نویدِ جانفزا پہلے ہی سنی ہوگی کہ مولا اِن کتابوں  سے اور اس علمی خدمت سے بہت ہی راضی اورخوشنود ہیں، یہ میرا ایمان ہے کہ حاضرامامؑ کی اِس خوشنودی میں تمام عمدہ سے عمدہ  دعائیں جمع ہیں، پس ہمارے جملہ عزیزوں کوامامِ اقدس و اطہرؑ کی پرحکمت رضا اورخوشنودی مبارک ہو! ہزاربارمبارک ہو! لاکھ بارمبارک ہو! آمین!!

۲۴۔ آپ کوقرآن حکیم اورمعرفت کی روشنی میں یہ نکتہ جاننا ہے کہ قولاً وَ فِعْلاً رَ بُّنَا اللّٰہ  (۴۱: ۳۰ ) کہنا ہے، اور اِ ستقامہ  (۴۱: ۳۰ ) کے معنی اختیاری قیامت کے ہیں، اورفرشتے جو مومنین کے اولیاء (دوست، مددگار۴۱: ۳۱) ہیں، وہ آپ کی دو طرح سے مدد کرتے ہیں، آپ میں آکر، اوردوسرے مومنین میں جاکر، الحمد للہ۔

یہی کچھ ہورہا ہے، اوراس رحمتِ خداوندی کی سب سے نمایان مثال یعنی جسمانی فرشتے (۱۷: ۹۵ ) ڈاکٹرفقیرمحمد ہونزائی، ان کی پاکیزہ سیرت بیگم رشیدہ (صمصام ) اوروہاں کے ہمارے جملہ عزیزان ہیں، یہ لنڈن کا روحانی اورعلمی قصہ ہے۔

۲۵۔ ادارۂ عارف کراچی کے صدر محمد عبد العزیز آج کل امریکا میں ہیں، چیئرمین نورالدّین راجپاری اورچیف ایڈوائزر شمس الدّ ین جمعہ، ان تینوں عملداروں کی اوردوسرے تمام عزیزوں کی خواہش اورپرخلوص دعوت پرمیں پہلی بارامریکا  گیا تھا، عجیب بات ہے

۸۶

کہ وہاں کے عزیزان شوقِ ملاقات سے بیتاب تھے، جیسے بہت پہلے ہی سے ہم آپس میں یکجان اورکثیرقالب دوست ہوچکے ہوں، جی ہاں یہ حقیقت ہے، ان کے اس جذبۂ دینداری اورعلم دوستی سے میں زبردست متاثر ہوا، اورمجھے بے حد خوشی ہوئی، اورآگے سے آگے اس روحانی خوشی میں اضافہ ہوتا گیا، یہاں تک کہ ان کی یادیں دل پرنقش اورناقابلِ فراموش ہوگئیں، خدا کرے کہ میٹھی میٹھی یادیں خاموش دعائیں ہوجائیں! اورہرعزیزکے حق میں ایسا ہو!علم وہنراورامریکا جیسے عظیم ملک کا تقاضا یہ ہے کہ وہاں کے عزیزان اس دورہ کے بارے میں ایک مکمل رپورٹ لکھیں کہ کن کن گھروں میں مجالس ہوئیں، اوردیگرضروری احوال۔

۲۶۔ دو بہت سینیئر لیڈی ممبرزایسی خوش نصیب ہیں کہ انہوں نے علم پھیلانے کے سلسلے میں نہ صرف امریکا ہی میں بلکہ قبلاً پاکستان میں بھی طویل اوربے شمارخدمات انجام دی ہیں، اس کا جزوی اورکلّی اجروصلہ توخداوندِعالم ہی عطا فرمائے گا، ہم صرف ان کی گرنمایہ خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے ناموں سے دو برانچز قائم کرتے ہیں: یاسمین نورعلی برانچ اورماہِ محل بدرالدّ ین برانچ امید ہے کہ میرا یہ مشورہ تمام عزیزوں کومنظورہوگا۔

۲۷۔ امریکا کے احباب کی اخلاقی جاذبیّت اورایمانی کشش

۸۷

سے باہرنکل جانا اگرچہ بڑامشکل کام تھا، تاہم طے شدہ پروگرام کے مطابق یہ بندہ ایڈمنٹن (کینیڈا ) گیا، تووہاں بھی ہمارے دوست جامِ عشقِ مولاسے مست ومدہوش تھے، قربان ہوجائیں علیٔ زمانؑ کے جان نثارمریدوں سے کہ ہرجگہ فرشتوں کی طرح کام کررہے ہیں، ادارۂ عارف کی ایڈمنٹن برانچ کے عملداریہ ہیں: ڈاکٹرنوراللہ جمعہ چیئرمین، تیریزکانجی سیکریٹری، اورنسیم جمعہ ایڈوائزر، ان شاء اللہ وہ عزیزان پروگرام کے مطابق اپنا کام کرتے رہیں گے، اوران کی بہت ترقی ہوگی۔

۲۸۔ فرانس میں ہمارے عزیز امام داد کریم بہت ہی ضروری امور کوانجام دے رہے ہیں، ان کا ایمان پہاڑ کی طرح مضبوط ہے، وہ علم کی روشنی پھیلانے میں حکمتی مدد کر رہے ہیں، پروردگار ان کو دونوں جہان کی عزت و آبرو عنایت فرمائے!

۲۹۔ جس طرح بفضل خدا ہر کامیاب دَورہ کے بعد مجھے کراچی آنا پڑتا ہے، اسی طرح اس تحریرمیں بھی آخراً کراچی میں واپس ہوکریہاں کے تمام عزیزوں کو پرخلوص سلام کرتا ہوں، اوران کی انمول خدمات پردل وجان سے مبارکباد دیتا ہوں، یعنی صدرفتح علی حبیب، نائب صدرنصراللہ قمر الدّین، صدر محمدعبدالعزیز، نائب صدرمحیُّ الدّین شاہ صوفی، اعزازی سیکریٹری ڈاکٹر رفیق جنّت علی، جائنٹ سیکریٹری الامین، اوران سب کی بیگمات، نیزچیف

۸۸

ایڈوائزرخان محمد، اوردوسرے تمام عہدہ داران وارکان کوبعد از سلام عاجزانہ دعا کرتا ہوں کہ خدائے رحمان و رحیم ان کو اور شرق وغرب کے جملہ عزیزوں کو ہرنیک کام میں تائیدِ روحانی اورعلمی خدمت میں کامیابی عطا فرمائے!آمین یاربّ العٰلمین!!

 

نصیرالدّ ین نصیرؔ ہونزائی، کراچی

اتوار،۴ربیع الثّانی ۱۴۱۲ ھ

۱۳، اکتوبر۱۹۹۱ ء

۸۹

سپاسنامہ

بخدمتِ جناب علّامہ نصیرالدّ ین نصیرؔ ہونزائی صاحب

برموقعِ واپسی ازامریکہ، ماہِ اگست ؁۱۹۹۱ء

مشک آنست کہ خودببوید۔ نہ آنکہ عطّار بگوید

کستوری وہ ہے جوخود ہی خوشبو پھیلا کراپنی پہچان کراتی ہے، یہ ایسی چیزنہیں کہ جسے عطارکے تعارف کی حاجت ہو، اس مثال سے کہیں بڑھ  کر ہمارے بزرگوار استاد علّامہ نصیر الدّ ین نصیرؔ ہونزائی صاحب کی شخصیت ہے، جو ہرگز کسی تعارف کی محتاج نہیں، پھربھی اگرہم خلوص ومحبت کی وجہ سے آپ کے متعلق کچھ  بیان کرنا چاہیں، توموصوف کی ہستی کے پہلو ارفع واعلیٰ اورغیرمحدود ہیں، درحالے کہ ہماری سوچ  کی پرواز نہایت ہی محدود ہے، تاہم جس طرح طفلِ نوآموزجب ماں باپ کی محبت سے بے قابو ہوکر

۹۰

ٹوٹے پھوٹے لفظوں کے سہارے سے باتیں کرتا ہے، توایسے میں اُس بچے کے والدین پھولے نہیں سماتے، اوربسا اوقات خوشی اورشادمانی سے ایسی اولاد کو سینے سے لگا لیتے ہیں۔

صاحب!ہم سب آپ کے شاگرد، جوامریکہ میں رہتے ہیں، سچ مچ علمی اطفال ہیں، لیکن اس کے باوجود اِس خواہش سے بیتاب ہیں کہ ہمارے  قلوب میں آپ کے لئے جیسا جذبۂ عقیدت ومحبت ہے، اورجس طرح ہم آپ کے احسان مند و ممنون ہیں، اس کا اظہار بیان کریں، تاہم کوشش بسیارکے باوصف ہم الفاظ ومعانی کی تنگ دامنی کے سبب سے اپنے دلی جذبات کواحاطۂ تحریرمیں لانے سے عاجز ہیں۔

جناب عالی! جولوگ آپ کی شخصیت سے واقف وآگاہ ہیں، وہ ہرگزاس حقیقت سے انکارنہیں کرسکتے، کہ آپ کے پاکیزہ دل میں امامِ عالیمقام صلوات اللہ علیہ کا جو دریائے علم موجزن ہے، وہ  دنیاوی اور اکتسابی نہیں، بلکہ وہ عطائے ربّانی سے ہے، اس لئے اسے عطائی اورلدّنی کہا جاتا ہے، جس کی خاطر یقیناً آپ نے بے شمارمصائب وآلام کونہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا، یہاں تک کہ آپ نے قید و بند کی صعوبتیں بھی دیکھیں، آپ کوبارہا نظربند کیا گیا، آپ کے ساتھ اکثربڑے لوگوں نے ہمیشہ مخالفت اوردشمنی کی، آپ بعض دفعہ ایسے شدید مشکل حالات سے بھی گزرے

۹۱

کہ بس ایسے میں موت ہی موت نظرآتی تھی، آخریہ سب کچھ کیوں؟ اورآپ کا کیا قصورتھا؟ بس یہی کہ آپ حق کی حمایت کیوں کررہے تھے؟ اورکیوں اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ علم کی روشنی پھیلائیں؟

ان تمام نا مساعد حالات میں آپ نے عالی ہمتی سے کام لیتے ہوئے خدا پرتوکّل کیا، کیونکہ آپ عشقِ مولا سے سرشار ہوکراپنی ہستی کوفنا یا قربان کر دینے کے آرزومند تھے، اسی وجہ سے گاہ وبیگاہ امامِ برحقؑ کے نورانی دیدارکی چاہت میں مرغِ نیم بِسمل کی طرح تڑپتے رہتے، بالآخرسرکارِ عالی وقارکی دعائے برکات سے رحمتِ خداوندی جوش میں آگئی، اورآپ کو گنجینۂ ہائے عرفان سے مالامال کیا گیا، اوراس وقت سے لے کرآج تک آپ نے میدانِ علم وحکمت میں ایسے ایسے نقوشِ جاویدان ثبت کردئیے ہیں، جن کی درخشانی وتابانی رہتی دنیا تک برقرار رہے گی، یعنی یہ جوآپ کے علم وحکمت کے سدا بہار چمنستان اورباغات ہیں، ان کے مہکتے ہوئے پھول اورپُرلذّت پھل ہمیشہ کون ومکان میں پھیلتے رہیں گے۔

جناب والا! آپ کی انتہائی گرانقدر علمی کاوشوں اورخدمات سے خاوران (مشرق ومغرب ) میں لاتعداد اہلِ ایمان، سکالرز، اورعلم جُو (طالبان)  مستفیض ومستفید ہو رہے ہیں، آپ نے جس شان سے حقیقی علم کی تبلیغ و اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا ہے، اس کی مثال کے لئے ڈائمنڈ کاعمل کیا خوب ہے کہ جب اس سے روشنی کی لہر

۹۲

گزرنے لگتی ہے، تو ڈائمنڈ اپنی خاصیت سے ایک ہی رنگ کی روشنی کومختلف ابوان اورنوع بنوع رنگوں میں تقسیم کرتا ہے، چنانچہ اُ ستاذِ مکرم کا طغرائے امتیاز بھی ایسا ہی ہے کہ آپ نے علمِ روحانی کومختلف النّوع حیثیتوں میں پیش کیا ہے، جیسے آپ کے روحانی علم پرمبنی پیاری پیاری کتابوں میں اچھوتے، نرالے اوراعلیٰ موضوعات کی گوناگونی اوررنگارنگی کا پُربہاراوردلکشش منظردکھائی دیتا ہے، اِسی طرح ایک ہزارسے زائد آڈیوکیسیٹوں کا پُرمغز ذخیرہ علمی عجائب وغرائب کا بہت بڑاخزانہ ہے، اس کے علاوہ تقریباً ۱۰۰ نقوشِ حکمت ہیں، ان میں سے ہرنقشہ کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ علامہ صاحب ہی کا خاصہ ہے کہ کوزہ میں دریا کو بند کیا ہے، مزید برآن آپ کی پُرحکمت نظموں کا خزانہ ہے، جوروحانی مشاہدات وتجربات کے عرفانی بھیدوں سے بھرا ہوا ہے۔

آپ کے کلام (حصۂ نظم ) کومورخۂ ۱۹،اکتوبر ؁۱۹۶۱ء میں امامِ زمان صلوات اللہ علیہ نے گنان کا مرتبہ مرحمت فرمایا، یہ کلام بروشسکی، فارسی، اردو اورشرقی ترکی میں ہے، شمالی علاقہ جات کے جماعت خانوں میں جب استادِ معظم کا کلام پڑھا جاتا ہے، تواس میں نورِ امامت کے عشق کی جومقدّس روح ہے، اس کے زیراثرعاشقانِ مولا پرمستی، مسرت، وجد، محویت، فنائیت، مشاہدہ اورگریہ وزاری جیسی روحانی کیفیات گزرتی ہیں۔

۹۳

یہ روحانی اورعلمی نعمتیں جولازوال اورغیرفانی ہیں، ہمارے لئے میسرآئی ہیں، اورہراُس مومنِ صادق کے لئے ہیں، جوچراغِ امامت کا پروانہ ہو، جو دیدارِ باطن کا طالب اورشیدائی ہو، اورجس خوش نصیب مومن کوگنجِ معرفت کی طلب ہو۔

علامۂ موصوف نے جن خاص الخاص موضوعات پرروشنی ڈالی ہے، ان میں سے چند نمونے یہ ہیں: قرآنیات، اسلامیات، توحید، نبوّت، امامت، آسمانی محبت، طریقۂ اسماعیلیّت، تقوٰی، ذکروعبادت، گریہ وزاری، اطاعت، نور، روح، تصوف، حکمت، باطنیت، خدا کی ہرچیز (عرش، کرسی، قلم، لوح وغیرہ ) زندہ ہے،  سنت الٰہی، مطالعۂ قدرت، علمِ حدودِ دین، علم الاشارات، علم الاعداد، علم التّاویلات، علم الاسرار، علم نقوش (ڈایاگرامز) اَسرارِانبیاء وأئمّہ، یک حقیقت، عالمِ خیال، عالمِ خواب، عالمِ ذرّ، عالمِ شخصی، حکمتِ تثنیہ، انائے عُلوی، انائے سفلی، قیامت، ابداع و اِنبعاث، تخلیق درتخلیق، ازل وابد، لامکان و دھر، انسان، وحدتِ انسانی، اڑن طشتریاں، جسمِ لطیف، روحانی مشقیں، قصۂ معجزات، روحانی خوشبوئیں، روحانی سائنس، مذہب اورسائنس، علاج، زندہ بہشت، سوال وجواب، روح اورمادّہ، دائرے، لاابتدا اورلاانتہا، وغیرہ وغیرہ۔

آج کے اس دگرگون زمانے میں مذہب سے متعلق ایسے

۹۴

پیچیدہ سوالات سامنے آتے ہیں کہ جن سے عقل سربگریبان رہ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ مذاہبِ عالم کے علماء نہایت مضطرب و پریشان ہیں، اس پرستم یہ کہ دنیا کی آبادی کا بیشترحصہ مادّیت کی یلغارسے خائف ہوکر زندگی کے مادّی پہلوکوسب کچھ سمجھنے لگا ہے، ایسے میں بزرگواراستاد علم وحکمت کے اسلحہ سے لیس ہوکرہمہ وقت مستعد ہیں، تاکہ ہرگونہ سوال کاجواب دے کردین وایمان اورعقیدۂ روحانیت کا دفاع  کیا جائے۔

مذہب، فلسفہ، سائنس وغیرہ الغرض کسی بھی موضوع سے سوال ہو، آپ بلا تاخیر اس کا نہایت تسلی بخش جواب مہیا کردیتے ہیں، باآنکہ بسا اوقات ہم کم علمی سے غیرمنطقی اور مبہم سوالات بھی کرتے ہیں، لیکن آپ ہمیشہ خندہ پیشانی اورمہروشفقت کے ساتھ عقدہ کشائی فرماتے ہیں، آپ کی تقریروتحریر کی امتیازی خوبی یہ ہے کہ اس کے مطالب صاف وصریح، تضادات سے پاک اورعلم وحکمت سے آراستہ و پیراستہ ہوا کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ کے پیش کردہ دلائل و براھین تسکین بخش و خاطر نشین ہوا کرتے ہیں، کہ جس میں کوئی شائبہ نہیں ہوتا، جیسا کہ کہا گیا ہے:۔

این سعادت بزورِ بازونیست۔ تانہ بخشد خدائےبخشندہ

یعنی یہ نیک بختی قوّتِ بازو سے حاصل نہیں کی جا سکتی، جب تک کہ خداوندِ مہربان کسی کوعطا نہ کرے۔

۹۵

آخراً عالی جناب ہم سب آپ کے عزیزشاگرد جوامریکہ میں رہتے ہیں تہِ دل سے ممنون وشکرگزارہیں کہ آپ نے اپنی مصروفیات کی کثرت کے باوجود اوراس سے بڑھ کر کہن سالی کے تقاضوں کو پسِ پشت ڈال کرہماری ناچیزدعوت کوشرفِ قبولیت بخشا، اورہمیں اپنی ہمنشینی کی سعادت سے نوازا، اب ہم چشمِ پُرنم کے ساتھ اپنے قلبی احساسات کی ترجمانی کے لئے مولائے رومی کی اس رباعی کا سہارا لیتے ہیں، فرماتے ہیں:۔

نی آبِ روان زماہیان سَیر شود

نی ماہی ازان آبِ روان سیر شود

نی جانِ جہان زعاشقان تنگ آید

نی عاشق ازانِ جانِ جہان سیرشود

ترجمہ: نہ کبھی بہتا پانی مچھلیوں سے رنجیدہ ہوجاتا ہے، نہ کسی وقت مچھلیوں کا جی اس آبِ روان سے بھر جاتا ہے، نہ توحقیقی معشوق عاشقوں سے بیزار ہو جا تا ہے، اورنہ ہی عاشقوں کو کسی حال میں محبوب کے دیدارسے سیرچشمی ہوجاتی ہے۔

استاد معظم! واللہ، ہم بھی جان ودل سے آپ کوچاہتے ہیں، اورآ پ کے شیدائی ہیں، توپھریہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم آپ کی ملاقات اورعلمی مجلس سے سیرہوجائیں، ہم تودائم الوقت آپ کی عرفانی صحبت میں رہنا چاہتے  ہیں، مگرہماری ایسی بڑی خوش بختی کہاں! پھربھی ہم باادب دست بستہ خواستگار ہیں کہ براہِ کرم آپ بہت جلد دوبارہ ہمارے درمیان تشریف لائیں اورہماری تشنہ لب

۹۶

روحوں کوعلمِ امامؑ کے آبِ زلال سے سیراب فرمائیں۔

پروردگارِعالم کی بارگاہِ عالی میں ہم بصد عاجزی دعا کرتے ہیں کہ جس طرح اس مسبّب الاسباب نے آپ کوعلمِ روحانی کے بے پایان خزانوں سے مالامال فرمایا ہے، اورجیسے ہمہ رس علمی خدمت کے زرین مواقع عنایت کردیئے ہیں، اسی طرح وہ مہربان آپ کی زندگی بھرکی تمام خدمات کوقبول فرمائے! اور دونوں جہان کی سرخروئی و سرفرازی عطا فرمائے!آمیں!یاربّ العٰالمین!

ازطرف اراکین ادارۂ عارف امریکہ

۱۸؍اگست ؁۱۹۹۱ء

۹۷

الوداعی پیغام

بزرگواروعالی وقاراستاذ! آپ نے جس شان سے بذریعۂ علم امامت، جس میں روشنی ہی روشنی ہے، ہمارے تاریک دلوں کومنوّرکردیا، اورجیسے آپ کے روشن دلائل سے ہمیں اپنے پاک مذہب کے باطنی جوہرکاعلم ہوا، ان تمام اعلیٰ نعمتوں کا رسمی شکریہ توہم مختصرالفاظ میں ادا کرسکتے ہیں، لیکن حقیقی معنوں میں انتہائی مشکل بلکہ نا ممکن ہے، چنانچہ اس اعتراف کے ساتھ ہم آپ کے جملہ عزیزان “جوادارۂ عارف امریکہ” سے وابستہ ہیں، آپ کی مہربانیوں اورنوازشوں کے لئے سرِ تعظیم خم کرتے ہوئے شکریہ ادا کرتے ہیں، اورسپاس گزارہیں۔

صاحب! جب پہلی مرتبہ آپ سے ہماری ملاقات ہوئی توہمارے دلوں سے مجموعاً یہ صدا بلند ہوئی: چشمِ ما روشن، دلِ ماشاد (آپ کی تشریف آوری سے ہماری آنکھیں روشن ہوئیں، اور

۹۸

ہمارے دل خوشی وشادمانی سے معمور ہوئے ) اب جبکہ آپ ہمارے درمیان سے تشریف لے جارہے ہیں، توحالت وکیفیت اس کے برعکس ہے، وہ یہ کہ سچ مچ اس وقت ہماری آنکھیں تاریک اوردل آفسردہ ہو رہے ہیں، اس صورتِ حال کے پیش نظراجازت ہوتومیں آپ سے عاجزانہ گزارش کروں کہ آپ فی الحال یقیناً ہم ایسے سبزۂ نوخاستہ کوچھوڑ کر جانے والے تو ہیں، لیکن خدارا! ہم سقیم الحال اورافتادۂ راہ ہیں، ہمیں آپ کے اُس خاص علم کی بے حد ضرورت ہے، جوامام عالیمقامؑ سے ملا ہے، آپ کا حالیہ دورۂ امریکہ دراصل سلسلۂ ملاقات کے لئے ایک مستحکم اورمفید بنیاد ثابت ہوا، پس ہم بہت ہی آرزومند ہیں اورامید قوّی رکھتے ہیں کہ ان شاء اللہ آپ سالِ آئندہ بھی اسی طرح یہاں تشریف فرما ہوں گے، اورہم توابھی سے آپ کے آنے کا دلکش تصورکرتے رہیں گے۔

استادِ مکرم! جب آپ واپس پاکستان جائیں تو اُس وقت ہماری طرف سے تمام عزیزساتھیوں کوسلام ودعا اورعقیدت ومحبت کا پیغام دیجئے گا، کتنی بڑی سعادت ہے کہ وہ ارضی فرشتے عرصۂ دراز سے آپ کی علمی مجلس میں رہتے آئے ہیں، اورخدمت میں بھی وہ بہت سینئیر ہیں، چنانچہ ہم اُن سب کے جذبۂ خدمت کودل وجان سے سلام کرتے ہیں، کاش! ہمیں ان کی ملاقات کا شرف حاصل ہوتا، تو ہم بڑے شوق سے ان کی دست بوسی کرتے،

۹۹

ان شاء اللہ وہ دن بھی دور نہیں، جس میں ہم سب یکجا ہوکرسب سے بڑی فتح مندی اورکامیابی کی عید منائیں گے، آمین!

استادِ محترم! اگرہم آپ کی بابرکت زندگی پرغوروفکرکریں، توبڑاتعجب ہوگا کہ آپ نے روحانی ترقی اوردینی خدمت کی خاطر کیسی کیسی شدید مشقیتں اٹھائی ہیں، کن کن ممالک کا سفرکیا ہے، اورآج تک آپ کے دور دراز دَ ورے جاری ہیں، حالانکہ آپ کی عمرِشریف اس وقت تقریباً ۷۴ برس کی ہے، ہمیں لنڈن کے احباب کی نیک بختی پررشک آتا ہے کہ شاید حسنِ کارکردگی کی کشش سے آپ اکثران حضرات کے پاس جاتے رہے ہیں، ہم آخر میں دست بستہ معذرت خواہ ہیں کہ شاید آپ کے طعام  و قیام کا شایانِ شان انتظام  ہم سے نہ ہو سکا، ہم اپنی ہرغلطی اور کوتا ہی پرآپ ایسے عظیم درویش سے معافی چاہتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ آپ کی درویشانہ دعا کے لئے بھی درخواست کرتے ہیں کہ آپ اپنے خاص خاص اوقات میں ہماری دینی اوردنیاوی صلاح وفلاح کے حق میں دعا فرماتے رہیں، آمین!

از طرف خاکسارانِ ادارۂ عارف امریکا

۱۸، اگست؁۱۹۹۱ء

۱۰۰

 

 

حظیرۃ القدس – عالمِ شخصی کی بہشت

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

 

 

آغازِ کتابِ حظیرۃ القدس

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے ’’حظیرۂ قدس‘‘ کی پیاری کتاب تقریباً ایک سو قسطوں میں مکمل ہوچکی تھی، اور پھر کم عرصے میں دوسری پیاری کتاب ’’کنوز الاسرار‘‘ بھی، خداوندِ قدّوس کے ان علمی معجزات و احسانات کی شکرگزاری سے زبان قاصر اور قلم عاجز ہے، لہٰذا یہ بندہ یعنی غلام اپنے مولا و آقا کے سامنے ازبس خجل = شرمندہ ہے، یہی وجہ ہے کہ میں اپنے تمام عزیزانِ شرقی و غربی کو وقتاً فوقتاً گریہ و زاری کی دعوت دیتا ہوں۔

 

امامِ زمانؑ جو خدا اور رسول کا نور ہے، مجھ ناچیز اور تمام عزیزان پر بدرجۂ انتہا مہربان ہے، اُس کارساز نے ہم سب کو علم کی سب سے اعلیٰ بہشت عطا کر دی ہے، الحمد للہ۔

 

اس علمی بہشت میں جتنے بھی ہیں وہ سب کے سب فرشتے ہیں، خدا کی قسم، اگر وہ فرشتے نہ ہوتے تو ان کی آواز میں ایسی شادمانی والی روح نہ ہوتی! کل سیکنڈ پریسیڈنٹ شمس الدین جمعہ اور اُن کی فرشتہ خصلت بیگم سیکریٹری کریمہ نے یہ درخواست کی ہے کہ وہ دونوں فرشتے اس کتابِ حظیرۂ قدس کو شرق و غرب کے اپنے کل ساتھیوں کی طرف سے طبع و نشر کرانا چاہتے ہیں، ان کی نیّت اور ساتھیوں

 

ط

 

کے لئے خیرخواہی قابلِ ستائش تھی، لہٰذا میں نے ان کی درخواست منظور کر لی، آپ سب ان کے لئے دعا کریں، آمین!

 

ہر کسی کے دنیا میں آنے کا کوئی مقصد ہوتا ہے، آپ عزیزوں کے دنیا میں آنے کا مقصد عظیم، بلکہ انتہائی عظیم ہے، کیونکہ آپ سب کو حجّتِ قائم اور حضرتِ قائم سلام اللہ علیہما کے علمی لشکر کے طور پر کام کرنا ہے، یہ بہت بڑی سعادت آپ سب کو مبارک ہو! آمین!!

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اسلام آباد، پیر ، ۶ مئی ۲۰۰۲ء

 

ی

 

 

حظیرۃ القدس = عالمِ شخصی کی بہشت

 

سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰): کیا تم لوگوں نے (چشمِ بصیرت = چشمِ معرفت سے) نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں؟

 

اس آیۂ کریمہ کی باطنی حکمت میں حظیرۂ قدس = عالمِ شخصی کی بہشت کا قصّہ ہے، جس میں اگر چشمِ معرفت سے دیکھا جائے تو اس نمائندہ آیت کی تاویلی حکمت سمجھ میں آتی ہے۔

 

میں آپ کو ایک خاص الخاص راز بتانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ قرآنِ حکیم بہت مشکل بھی ہے اور بہت آسان بھی ہے، مجھے احساس ہے کہ میرا یہ قول آپ کے لئے ایک عجیب سا سوال بن گیا کہ قرآن بیک وقت بہت مشکل بھی ہے اور بہت آسان بھی ہے، آئیے ہم قرآن ہی کی روشنی میں اسکی وجہ معلوم کر لیتے ہیں۔

 

سورۂ الم نشرح (۹۴) فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ۔ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ ترجمہ: سو بےشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے، بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ آپ نے سورۂ انشراح (۹۴: ۰۵ تا ۰۶) کو پڑھا کہ ہر عظیم کام میں پہلے مشکل ہے پھر بعد میں آسانی ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم اپنی اصل صورت میں علم و حکمت کی انتہائی بلندی پر ہونے کی وجہ سے بہت مشکل ہے،

 

ک

 

مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتِ بے پایان سے اسے آسان کر دیا ہے، ذکر و عبادت کے لئے بھی اور علم و حکمت کے لئے بھی۔

 

سورۂ قمر (۵۴: ۱۷، ۵۴: ۲۲، ۵۴: ۳۲) کو دیکھیں، اللہ تعالیٰ نے بہت مشکل قرآنِ حکیم کو اس طرح سے آسان کر دیا ہے کہ اپنا نورِ منزّل  = زندہ اسمِ اعظم = امامِ زمانؑ کو قرآن کے ساتھ کر دیا ہے، اور جو مومن امامؑ سے قرآن کی حکمت کو سیکھنا چاہتا ہو اس کو امامِ زمانؑ اسمِ اعظم کے اسرار بتاتے ہیں، اور ایسا مومن اسمِ اعظم کے ذریعے سے فنا فی الامام ہو جاتا ہے، اور جب وہ فنا فی الامام ہو جاتا ہے تو اسی کے ساتھ ہی فنا فی القرآن بھی ہوجاتا ہے کیونکہ باطن میں قرآن کو کس طرح آسان کر دیا ہے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار، ۲۸  اپریل ۲۰۰۲ء

 

ل

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۱

 

حظیرۂ قدس = احاطۂ پاک = عالمِ شخصی کی جنّت ہے، جہاں کلیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کے تمام معجزات اور جملہ اسرارِ معرفت جمع ہیں، یہاں آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کی جنّت ہے، اور اسی میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کو صورتِ رحمان پر پیدا کیا تھا، اسی مقدّس مقام پر عظیم فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا، تم سب اُس دن ساجدین میں بھی اور مسجود میں بھی موجود تھے (۰۷: ۱۱) دیکھو قرآنی حکمت = قرآنی سائنس کو خوب غور سے پڑھو اور قرآنِ حکیم سے روحانی فائدہ حاصل کرتے جاؤ۔

 

حقیقی مومنین کے لئے وہ مقدّس بیوت (گھر، ۲۴: ۳۶) بھی حظیرۂ قدس ہی میں ہوتے ہیں، جن میں خدا کے نور کا چراغ روشن ہوسکتا ہے۔

 

حضرتِ نوح علیہ السّلام کے روحانی طوفان = روحانی قیامت، میں کشتی کوہِ جودی = کوہِ عقل پر جا کر ٹھہری تھی (۱۱: ۴۴)، اور کوہِ عقل = گوہرِعقل حظیرۂ ہٰذا میں ہے، یہیں سے نوح سلامتی اور برکتوں کے ساتھ اتر گیا تھا (۱۱: ۴۸)، گویا روحانی طوفان اور روحانی قیامت کا مقصد حظیرۂ قدس میں پہنچ جانا تھا۔

 

حضرتِ ادریسؑ جب جسمانی موت سے قبل روحانی طور پر مر گیا تو خدا نے

 

۱

 

اسے حظیرۂ قدس پر مرفوع کیا (۱۹: ۵۶ تا ۵۷)۔

 

قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے کہ تمام چیزیں دو دو ہیں پس حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السلام نے نہ صرف ظاہر میں خدا کا گھر بنایا تھا، بلکہ باطن یعنی حظیرۂ قدس میں بھی ایک بیت اللہ بنایا تھا۔

 

ن۔ ن (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار، ۹ دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۲

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۲

 

قرآنِ حکیم میں مشارق و مغارب والی سرزمین کا ذکر آیا ہے (۰۷: ۱۳۷)، اس سے حظیرۃ القدس مراد ہے، کیونکہ وہاں اگرچہ ایک ہی مشرقِ نور ہے جو مغرب بھی ہے، لیکن وہی واحد بھی ہےاور جمع بھی، اللہ تعالیٰ نے حدودِ دین کے ذریعے سے بنی اسرائیل کو حظیرۂ قدس کا وارث بنایا تھا آپ اس آیت کو قرآن میں دیکھیں۔

 

سورۂ انبیاء (۲۱: ۷۱) کے مطابق حظیرۂ قدس وہ سرزمین ہے، جس میں خدا نے عوالمِ شخصی کے لئے بےشمار برکتیں رکھی ہیں آپ اس آیت کو باترجمہ قرآن میں پڑھیں۔

 

سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۲) میں ارشاد ہے:

وَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآىٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِ ۔ وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ۔  وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔  وَ فِی السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ

 

ترجمہ: زمین میں بہت سی نشانیاں (معجزات) ہیں اہلِ یقین کے لئے، اور خود تمہارے اپنے وجود (عالمِ شخصی) میں ہیں، کیا تم دیکھتے نہیں؟ آسمان (حظیرۂ قدس) ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز (بہشت) بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔

 

اس ارشاد کی روشنی میں آپ دیکھتے ہیں کہ عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس میں

 

۳

 

سب کچھ ہے، یہاں آسمان سے حظیرۂ قدس مراد ہے، رزق علم و حکمت اور معرفت ہے، وہ چیز جس کا وعدہ کیا جاتا ہے بہشت ہے، جب امامِ زمانؑ کا نور عالمِ شخصی میں طلوع ہوجاتا ہے تو تب یہ سارے حقائق و معارف روشن ہوجاتے ہیں۔

 

پس دانائی اور حکمت یہ ہے کہ تم بوسیلۂ عشق امامِ زمانؑ میں فنا ہوجاؤ تا کہ تمہیں عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس کے عظیم معجزات کی حقیقی معرفت حاصل ہو۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر، ۱۰ دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۴

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۳

 

قصّۂ موسیٰ میں جو طور ہے، اس کی باطنی تاویل حظیرۂ قدس ہے، حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ کا ارشاد ہے:

 

انا النور الذی اقتبس منہ موسیٰ فھدیٰ۔

 

یعنی میں وہ نور ہوں، جس سے موسیٰؑ نے روشنی طلب کی تو ہدایت پائی۔ (بحوالۂ کتاب کوکبِ درّی، بابِ سوم، ص ۔ ۲۲۶)۔ اس ارشاد سے یہ حقیقت ظاہر ہو رہی ہے کہ امامِ زمانؑ کا نور حضرتِ موسیٰؑ کے عالمِ شخصی میں طلوع ہوا تھا۔

 

سورۂ نمل (۲۷: ۰۷ تا ۰۸) میں ارشاد ہے:

اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًاؕ-سَاٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ  فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِیَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَاؕ-وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

 

ترجمہ: جب موسیٰؑ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ مجھے ایک آگ سی نظر آئی، میں ابھی یا تو وہاں سے کوئی خبر لے کر آتا ہوں یا کوئی انگارا چن لاتا ہوں تا کہ تم لوگ گرم ہوسکو، وہاں جو پہنچا تو ندا آئی کہ مبارک ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور جو اس کے ماحول میں ہے، پاک ہے اللہ جو عوالمِ شخصی کا پروردگار ہے۔

 

۵

 

یہ اللہ کے نورِمنزل کی تجلّی تھی نہ کہ ذاتِ سبحان کی تجلّی، یعنی یہ نورِالٰہی کا مظہر تھا، جس آیت میں کوئی سوال پیدا ہوتا ہے اس کے آخری حصے میں حکمتی جواب موجود ہوتا ہے، چنانچہ یہاں سبحان اللہ ربّ العالمین میں، پیدا ہونے والے سوال کا جواب ہے، نیز بُوْرِكَ = وہ برکت دیا گیا، یہ تعریف ذاتِ سبحان کے لئے نہیں ہو سکتی ہے کہ کسی نے اُس کو برکت دی ہو۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔

پیر، ۱۰ دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۶

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۴

 

سورۂ مومنون (۲۳: ۵۰) میں ارشاد ہے:

وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗۤ اٰیَةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ ۔

 

ترجمہ: اور ابنِ مریمؑ اور اس کی ماں کو ہم نے ایک آیت = نشانی = معجزہ بنایا، اور ان کو ایک سطحِ مرتفع پر رکھا جو اطمینان کی جگہ تھی اور چشمے اس میں جاری تھے۔ یہ حظیرۂ قدس کی تعریف ہے۔

 

چونکہ عالمِ شخصی کی بہشت حظیرۂ قدس ہی ہے لہٰذا یہ عارفوں کے لئے اعلیٰ اطمینان کی جگہ ہے، اور اس میں علم و حکمت اور اسرارِ معرفت کے چشمے جاری ہیں جن کی تعریف و توصیف قرآنِ حکیم میں ہے، کیا اس جنّت میں رازِ ازّل و ابد بھی ہوسکتا ہے؟ کتابِ مکنون؟ کلمۂ باری کی معرفت؟ گوہرِعقل کا سرِّاعظم؟ لقاء اللہ؟ کنزِ مخفی؟؟؟؟؟ وغیرہ۔

 

بقعۂ مبارکہ = خطۂ مبارکہ = حظیرۂ قدس (۲۸: ۳۰)، وہاں جس درخت پر آگ نظر آئی تھی وہ نفسِ کلّی تھا۔

 

زیتون کا مبارک درخت جو نہ شرقی ہے نہ غربی (۲۴: ۳۵) نفسِ کلّی ہے جو کائنات گیر اور لامکانی ہے۔

 

۷

 

حضورِ اکرم صلعم کے قصّۂ معراج (۵۳: ۱۵ تا ۱۶) میں سدرۃ المنتہیٰ نفسِ کلّی تھا جو گوہرِعقل کا مظاہرہ کر رہا تھا۔

 

سورۂ مومنون (۲۳: ۲۰) ترجمہ: اور وہ درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طورِسینا سے نکلتا ہے تیل لئے ہوئے اگتا ہے اور کھانے والوں کے لئے سالن بھی۔ اس سے نفسِ کلّی کے وہ فیوض و برکات مراد ہیں جو عرفاء کے لئے حظیرۂ قدس میں ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۱۱ ، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۸

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۵

 

سورۂ ق (۵۰: ۳۱ تا ۳۵) میں ارشاد ہے:

وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ  هٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِكُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍ  مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَ جَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِﹰ  ادْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍؕ-ذٰلِكَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ  لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِیْهَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ ۔

 

ترجمہ: اور (روحانی قیامت میں) جنّت متقین کے قریب لے آئی جائے گی (یعنی عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس = جبین میں بہشت ہوگی) کچھ بھی دور نہ ہوگی، ارشاد ہو گا: یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اس شخص کے لئے جو بہت رجوع کرنے والا اور بڑی نگہداشت کرنے والا تھا جو بے دیکھے رحمان سے ڈرتا تھا اور جو دل گرویدہ لئے ہوئے آیا ہے، داخل ہوجاؤ جنّت میں سلامتی کے ساتھ، وہ دن خلود کا ہوگا (یعنی یہ راز معلوم ہوگا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ بہشت میں ہیں) وہاں اس کے لئے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے، اور ہمارے پاس اس سے زیادہ بھی بہت کچھ ان کے لئے ہے۔

 

بحوالۂ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲ تا ۱۷۳) واقعۂ الست کا تعلق حظیرۂ قدس سے ہے، جہاں ربّ العزّت نے تمام روحوں سے پوچھا تھا کہ آیا میں تمہارا

 

۹

 

پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے پروردگار ہیں ہم نے دیکھا اس لئے ہم گواہی دیتے ہیں۔ لیکن آج کسی آدمی کو یہ عظیم واقعہ یاد نہیں پھر بھی یہ قرآنی شہادت اور روشن دلیل ہے کہ مومن روحانی ترقی میں حظیرۂ قدس تک جاسکتا ہے اگر روحوں کا یہ عروج کسی وسیلے سے ہوا تھا تو اب بھی وہ وسیلہ موجود ہوسکتا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۱۱ دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۱۰

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۶

 

علم الیقین کی ایک عجیب و غریب مثال: دو دوست کسی دور شہر میں گئے تھے جس میں دونوں نے بہت سے عجائب وغرائب کا مشاہدہ کیا، جب یہ دونوں اپنے وطن واپس آگئے تو ایک دوست تمام عجائب کو بھول چکا تھا، جبکہ اس کے ساتھی کو ہرہر واقعہ یاد تھا، مگر یہ دونوں دوست بڑے نیک اور ایک دوسرے کے عزیز اور خیر خواہ تھے لہٰذا دونوں نے مل کر قصّۂ سفر کو یاد کیا جس میں ذہین دوست نے اپنے دوست کی بہت مدد کی۔

 

اس میں میرا مطلب صرف اور صرف یہی ہے کہ علم الیقین آپ کے روحانی سفر کا ساتھی اور گویا ذہین دوست ہے، آپ اس سے پوچھیں کہ آیا آپ روحاً دربارِ الست میں موجود تھے یا نہیں؟ اور یہ بھی پوچھیں کہ بارگاہِ الٰہی اُس وقت حظیرۂ قدس میں تھی یا اور کہیں؟

 

طور = پہاڑ، حضرتِ موسیٰؑ کے لئے ظاہراً و باطناً دو تھے طورِ باطن آپ کی جبینِ مبارک میں تھا، جس میں امامِ زمان علیہ السّلام کا نور طلوع ہوگیا تھا، یہ زندہ نور خدا کا اسمِ اعظم ہوتا ہے جو خودگو ذکرِاکبر ہے یہ از خود روشن ہونے والا کائناتی چراغِ نور ہے۔

 

قصّۂ موسیٰؑ میں دونوں دریاؤوں کا سنگم (۱۸: ۶۰) عظیم امتحانات میں

 

۱۱

 

سے ہے کیونکہ معلوم ہوا ہے کہ عالمِ شخصی میں جگہ جگہ سنگم ہیں، چنانچہ روحانی قیامت کے آغاز ہی میں اسرافیل اور عزرائیل کا سنگم ہے، پھر خیر و شر (فرشتہ اور جنّ) کا سنگم ہے، یہی نفس اور عقل کا سنگم بھی ہے، قصّہ دراصل حظیرۂ قدس کا ہے: کلمۂ امر اور عقلِ کلّی کا سنگم ہے، قلم اور لوح کا، مشرق اور مغرب کا، گوہرِعقل اور کتابِ مکنون کا، عرش اور کرسی کا، آسمانِ عقلِ کلّ اور زمینِ نفسِ کلّ کا، ازل و ابد کا، ابداع و انبعاث کا، مکان ولامکان کا، اور ناسوت و ملکوت کا سنگم ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ، ۱۲، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۱۲

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۷

 

سالکین اور عارفین کے لئے عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس میں علمِ لدّنی کے بہت سے خاص خاص مقامات ہیں، جن کی نشاندہی اور معرفت کا حکیمانہ رہنما اصول مجمع البحرین (۱۸: ۶۰) اور مرج البحرین (۵۵: ۱۹ تا ۲۰) ہے، قسط نمبر ۶ کے مطابق ہر سنگم پر خضرِ وقت = امامِ زمانؑ کی نورانی تائید کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور رسولِ پاکؐ کی طرف سے نورِ ہدایت وہی ہے، جبکہ امامِ مبین میں بحکمِ نورٌ علیٰ نورٍ تمام انوار جمع اور ایک ہیں۔

 

اے عزیزان! اس بیان کے سلسلے میں یہ حقیقت بھی سن لو کہ:

حضرتِ موسیٰؑ کا قصّۂ ظاہر از (۱۸: ۶۰) تا (۱۸: ۸۲) تاویلِ باطن پر حجاب ہے، کیونکہ حضرتِ موسیٰؑ کا یہ سفر اپنے عالمِ شخصی ہی میں تھا۔

 

نیز دیکھو:

ترجمۂ آیۂ مبارکہ (۲۵: ۳۵) ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو وزیر (مددگار) بنایا پس یہاں اشارۂ حکمت یہ ہے کہ بحکمِ خدا ہارونؑ موسیٰؑ کے باطنی امور میں وزیر =  مددگار تھا اور خدا ہی کی مرضی ایسی تھی کہ ہارونؑ = امامؑ کا نور موسیٰؑ کے عالمِ شخصی

 

۱۳

 

میں نورانی تاویل کا کام کرے اور قصّۂ موسیٰؑ میں یقیناً خضرؑ سے امامِ زمانؑ مراد ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات، ۲۷ ، رمضان المبارک ۱۴۲۲ھ

۱۳ دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۱۴

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۸

 

سورۂ انعام (۰۶: ۱۶۵) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىٕفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْؕ-اِنَّ رَبَّكَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ ۔ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔

 

ترجمہ: (اللہ) وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیئے، تا کہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے، بے شک تمہارا ربّ سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔

 

سوال: خلیفہ اور خلافت کی مناسبت سے یہ پوچھنا ضروری ہے، کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو کس زمین میں خلیفہ بنایا تھا؟

جواب: اوّل سیّارۂ زمین کے لوگوں = ناسوت میں، دوم عالمِ شخصی میں، سوم حظیرۂ قدس میں، چہارم کائناتی بہشت کی زمین میں، پنجم نفسِ کلّی کی زمین میں۔

 

لفظِ الخلیفۃ = جانشین = قائمِ مقام= سب سے بڑا بادشاہ، ج۔ خلفاء = خلائف (المنجد)۔

 

۱۵

 

اللہ تعالیٰ نے جس طرح موسیٰؑ اور ہارونؑ کی قوم میں روحانی ملوک = سلاطین بنایا (۰۵: ۲۰) اسی طرح اس نے محمدؐ اور علیؑ کے مومنین کو کائناتی بہشت کی زمین کے خلفاء = بادشاہ = سلاطین بنا دیا، اس آیۂ شریفہ کو آیتِ استخلاف (۲۴: ۵۵) کے تناظر میں پڑھیں کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے عالمِ شخصی میں حقیقی مومنین سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کو کائناتی بہشت کی زمین میں خلیفہ = بادشاہ بنانے والا ہے۔

 

اے عزیزان! آپ حدیثِ اطیعونی تکونوا ملوک الارض کو ہرگز نہ بھولیں، اس میں شاہانِ بہشت کا ذکر ہے، یعنی رسولِ پاک صلعم کی حقیقی اطاعت وہ ہے جو اہلِ ایمان کو سلاطینِ بہشت بنا دیتی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعۃ المبارک، ۱۴، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۱۶

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۹

 

حظیرۂ قدس حق سبحانہ و تعالیٰ کے عظیم معجزات کی جنّت ہے جس میں اللہ کے معجزاتی خزانے ہیں، اور خزینۃ الخزائن = امامِ مبینؑ کا نور بھی ہے، آپ آیۂ خزائن (۱۵: ۲۱) اور آیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کو حکمت کی روشنی میں پڑھیں تاکہ آپ کو صاف صاف معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام خزائن، جملہ اسماء الحسنیٰ اور ہرہر خاص چیز کو امامِ مبین کے نور میں گھیر کر اور شمار کرکے رکھا ہے اگر آپ امامِ زمانؑ کو بحقیقت پہچاننا چاہتے ہیں تو اپنے عالمِ شخصی کا سفر کرکے حظیرۂ قدس کی منزلِ مقصود میں پہنچ جائیں اور چشمِ بصیرت سے وہاں اپنے امامؑ کی کامل معرفت کو حاصل کریں، چونکہ وہ مقام مرتبۂ حق الیقین ہے، لہٰذا آپ امام کو پہچان لیں گے جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے۔

آپ کی بنیادی امام شناسی قرآن و حدیث کی روشنی میں ہونی چاہئے، تا کہ آپ ہر طرح سے کامیاب ہوجائیں اللہ جلّ جلالہ نے حضرتِ آدمؑ کو عالمِ ناسوت کے لئے خلیفہ بنایا تھا، آپ یہ بتائیں کہ فی الوقت سیّارۂ زمین پر ناسوت موجود ہے یا نہیں؟ اگر ناس (لوگ) ہیں تو ناسوت (عالمِ انسانیت) بھی ہے، اگر ایسا ہے تو پھر تین باتوں میں سے ایک بات بتا کر اس پر قائم رہو، کیا

 

۱۷

 

خلافتِ الٰہیہ صرف شخصیتِ آدمؑ ہی کے لئے مخصوص و محدود تھی؟ کیا اللہ نے اپنا یہ مرتبۂ ناسوت سے واپس لیا؟ کیا عالمِ ناسوت میں بعد از آدمؑ کوئی انسانِ کامل وارثِ آدمؑ ہوا کرتا ہے؟ کیا داؤدؑ کوئی نیا خلیفہ تھا یا وارثِ آدمؑ (۳۸: ۲۶)، سلیمان اپنے باپ داؤد کا وارث ہوا (۲۷: ۱۶) وہ اپنے وقت میں وارثِ آدم ہوا یا نہیں؟

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر، ۱۵، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۱۸

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۱۰

 

سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) کی یہ آیۂ شریفہ حظیرۂ قدس کے الٰہی خزانوں کی شان میں ہے: وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘- وَمَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ۔

ترجمہ: کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے (حظیرۂ قدس میں) ہمارے پاس نہ ہوں، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں وہ لوگوں کی علمی رسائی کے مطابق ہوا کرتی ہے۔

 

اس سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ حضرتِ ربّ العزّت اور اس کے خزانوں کی معرفت اور خزانۂ خزائن = نورِ امامِ مبین کی معرفت حظیرۂ قدس میں ہے، اور وہ اہلِ ایمان کو درجہ بدرجہ حاصل ہوتی ہے۔

 

اس آیۂ کریمہ میں ظاہری چیزیں مثال ہیں اور باطنی چیزیں ممثول، بارش کا خزانہ سمندر ہے، اگرچہ وہ حظیرۂ قدس میں موجود نہیں، لیکن کلمۂ امر = کُنۡ = ہوجا جو ارادۂ الٰہی کا خزانہ ہے، وہ ہمیشہ حظیرۂ قدس کی جنّت میں ہے، اللہ کا ارادہ کلمۂ کُنۡ سے عبارت ہے، کُنۡ (ہوجا) کی عبارت کسی اور لفظ میں بھی ہوسکتی ہے۔

 

کلمۂ امرِ کُنۡ (ہوجا) = ارادۂ باری تعالیٰ کا خزانہ قدیم = ہمیشہ کا ہے جس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہا، اس سے تصورِ آفرینش سمجھ میں آسکتا ہے، جیسا کہ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ (روحی فداہ) کا ارشادِ مبارک ہے کہ خداوندِ تعالیٰ ہمیشہ تخلیق کرتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر، ۱۵، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۱۹

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۱۱

 

بحوالۂ ہزار حکمت (ح: ۷۰۱) من مات فقد قامت قیامتہ۔ ترجمہ: جو شخص (نفسانی = روحانی) موت سے مر جائے تو اُس کی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔

 

اس حدیثِ شریف میں عارفانہ موت اور انفرادی قیامت کا ذکر ہے، جس میں باطناً اجتماعی قیامت کا منظر ہوتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کلی قیامت کی معرفت سے عارف بے خبر رہتا جس کا ذکر سر تا سر قرآن میں ہے، مگر یہ بات نہیں، بلکہ عرفاء کو تمام اسرارِ قیامت سے آگاہ کیا جاتا ہے۔

 

سوال: آیا قرآنِ حکیم میں موتوا قبل ان تموتوا کا حکم یا اشارہ موجود ہے؟

جواب: جی ہاں، سورۂ بقرہ (۰۲: ۵۴) میں خوب غور سے دیکھو، قرآنِ حکیم کے ہر لفظ میں حکمتِ بالغہ ہوتی ہے۔ ترجمۂ آیت: جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو! تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو۔

 

یہاں لفظی توبہ مراد نہیں، بلکہ عملی اور حقیقی توبہ مقصود ہے، اور وہ حظیرۂ قدس میں اپنے خالق سے رجوع ہے، جو نفس کشی، یعنی موتوا قبل ان تموتوا سے ممکن ہے جس کا حکم اس آیت میں موجود ہے: تم میں سے ہر ایک اپنے نفس کو پرحکمت ریاضت سے قتل کرے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار، ۱۶، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۲۰

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۱۲

 

اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے قرآنِ حکیم میں سر تا سر حکمتیں ہی حکمتیں ہیں لہٰذا حکمت ہی کی امید پر یہ سوال ہے کہ بحوالۂ قرآن (۳۲: ۱۱) فرشتۂ موت (عزرائیل) ہر انسان پر مقرر اور مؤکل ہے، اس میں کیا رازِ حکمت ہے؟ حالانکہ اور بھی چھوٹے بڑے فرشتے ہیں ان کی طرف کوئی ایسی توجہ نہیں دلائی گئی ہے؟

 

جواب: اس میں دانا لوگوں کے لئے بہت بڑی حکمت ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہر دانا شخص موتوا قبل ان تموتوا پر عمل کرکے روحانی قیامت اور سب فرشتوں کو دیکھے، اور جیتے جی حضرتِ ادریسؑ کی طرح حظیرۂ قدس کی جنّت میں داخل ہوجائے، اگر اللہ کی رحمت سے ایسا ہوسکا تو یہ حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام ہی کی برکت سے ہوگا، اگر تم عاشقانہ موت یا عارفانہ موت کے لئے بالکل تیار ہو تو سنو کہ تنہا عزرائیل نہیں آئے گا بلکہ اسرافیل اور دیگر تمام فرشتے بھی آئیں گے، اس سے یہ معلوم ہوا کہ فرشتۂ موت ملکوت کا دروازہ ہے جب یہ دروازہ کھلتا ہے تو سب فرشتے آجاتے ہیں، پس خدائے علیم و حکیم نے ملک الموت کی صورت میں تمام فرشتوں کو ہر انسان پر مقرر کیا ہے، اور اس سے زیادہ بڑی رحمت اور حکمت اور کیا ہوسکتی ہے۔

 

۲۱

 

قرآنِ عزیز (۰۲: ۹۴) میں موت کی آرزو کی حکیمانہ تعریف ہے، ایسی با سعادت اور پرحکمت موت کون سی ہوسکتی ہے؟

جواب: صوفیانہ موت، عاشقانہ موت، اور عارفانہ موت، جس میں روحانی قیامت اور معرفت ہے اور جس کا آخری نتیجہ حظیرۂ قدس = جنّت ہے جہاں جیتے جی بہشتِ جاویدانی کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے (قرآن، ۴۷: ۰۶) الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بموقعِ عید الفطر، پیر، ۱۷، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۲۲

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۱۳

 

سورۂ انشقاق (۸۴) روحانی قیامت اور عالمِ شخصی کے عظیم اسرار سے لبریز ہے لہٰذا آپ تیاری کے طور پر اسے پہلے ترجمۂ قرآن میں بغور پڑھ لیں پھر ان شاء اللہ ہم آپ کو اس کی کچھ حکمتیں بیان کریں گے۔

 

ترجمۂ آیات (۸۴: ۰۱ تا ۱۱): جب آسمان پھٹ جائے اور سن لے حکم اپنے ربّ کا، اور وہ آسمان اسی لائق ہے اور جب زمین پھیلا دی جائے اور نکال ڈالے جو کچھ اس میں ہے اور خالی ہو جائے اور سن لے حکم اپنے ربّ کا اور وہ زمین اسی لائق ہے، اے آدمی تجھ کو تکلیف اٹھانی ہے اپنے ربّ تک پہنچنے میں سہہ سہہ کر، پھر اُس سے ملنا ہے، سو جس کو ملا اعمالنامہ اُس کا داہنے ہاتھ میں تو اُس سے حساب لیں گے آسان حساب، اور پھر کر آئے گا اپنے لوگوں کے پاس خوش ہو کر، اور جس کو ملا اُس کا اعمالنامہ پیٹھ کے پیچھے سے، سو وہ پکارے گا موت موت۔

 

اگرچہ کائناتِ ظاہر عالمِ اکبر ہے، اور انسان عالمِ اصغر، لیکن جب روحانی قیامت برپا ہوتی ہے تو اُس وقت اللہ تعالیٰ ساری کائنات کو عالمِ صغیر = عالمِ شخصی میں محدود کر دیتا ہے، جیسا کہ حضرتِ علیؑ کے دیوان میں ہے:

 

و تحسب انک جرم صغیر

و فیک انطوی العالم الاکبر

 

۲۳

 

ترجمہ: اور تو خیال کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے۔

 

پس یقیناً اللہ روحانی قیامت میں جملہ کائنات کو مومنِ سالک کے عالمِ شخصی میں لپیٹتا ہے، لہٰذا یہاں باطنی اور روحانی قیامت کے جن معجزات کا ذکر ہوا ہے ان کا تعلق سالک کے مشاہدۂ باطن سے ہے، کائناتِ ظاہر یہاں صرف مثال کے طور پر ہے، آپ میری ایک کتاب: عملی تصوف اور روحانی سائنس میں، از صفحہ ۱۴۱ تا ۱۵۰، روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کو پڑھیں تا کہ آپ کو روحانی قیامت اور عالمِ شخصی کے معجزات کی خبر ہو۔

 

آپ کو علم ہے کہ آسمان ٹھوس اور یک لخت نہیں، بلکہ ایک لطیف گیس ہے، لہٰذا آسمان کا پھٹ جانا سالک کے لئے مثالی معجزہ ہے، اور زمین کی توسیع یہ ہے کہ عالمِ شخصی کو حدودِ کائنات تک پھیلا کر کائناتی بہشت بنائی جاتی ہے، ممکن ہے کہ اس کائنات کے باطن میں ستر ہزار روحانی کائناتیں ہوں، اور ہر کائنات بہشت ہو۔

 

آپ قرآنِ حکیم کو حکمت کے ساتھ پڑھیں تو ایسے اسرار کا علم ہوجائے گا۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۱۸، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۲۴

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۱۴

 

سورۂ انشقاق (۸۴) یقیناً صاحبِ روحانی قیامت = امامِ زمان اور عالمِ شخصی کے عظیم عرفانی اسرار سے لبریز ہے یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ ذاتِ سبحان نے کون و مکان کی تمام اصل اور اعلیٰ چیزوں کو امامِ مبین میں گھیر کر اور عددِ واحد میں شمار کر کے رکھا ہے، ہر عارف کی روحانی قیامت میں خدا اپنے اس عظیم معجزے کا تجدّد کرتا ہے، تا کہ عارف چشمِ بصیرت سے اس کو دیکھ کر کامل معرفت حاصل کرسکے، امامِ زمان علیہ السّلام کی مہربانی سے ہماری کتابوں میں حکمت اور معرفت کے جواہر پارے بکھرے ہوئے ہیں آپ دیکھ سکتے ہیں۔

 

اس حقیقت میں کسی شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ مومنِ عاشق ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی بے شمار تکالیف کو برداشت کرنے کے بعد ہی حظیرۂ قدس میں اپنے ربّ سے مل سکتا ہے۔

 

جو شخص جیتے جی عرفانی موت سے مر کر حظیرۂ قدس تک پہنچ جاتا ہے اور کتابِ مکنون اس کے داہنے ہاتھ میں ہوتی ہے، تو یہ اس کا نامۂ اعمال ہے جو اس کے داہنے ہاتھ میں دیا گیا، تو اس کا آسان حساب ہوگیا، اب وہ اپنے لوگوں کی طرف شادان و فرحان لوٹ آئے گا۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔

منگل ۱۸، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۲۵

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۱۵

 

آج کے اس مقالے میں ایک بے حد پیارے قرآنی لفظ کو حفظ = یاد کرنا ہے وہ ہے: لفیفا (۱۷: ۱۰۴) تم اس کو قانونِ لفیف بھی کہہ سکتے ہو۔

 

لفیف = لپٹا ہوا = سمٹا ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ارحم الراحمین ایک ہی عاشق و عارفِ مولا کی روحانی قیامت میں سب لوگوں کو لپیٹ کر = سمیٹ کر حظیرۂ قدس میں اپنے پاس لے جاتا ہے، ایسے میں تمام لوگ نفسِ واحدہ ہوجاتے ہیں، یعنی ایک ہی جان = ایک ہی روح۔

 

پس مبارک ہیں وہ جملہ عزیزان جو مل کر علمی خدمت کرتے کرتے خود بھی علمی ہو جاتے ہیں، میرا خیال ہے کہ آپ تمام عزیزان کی خوش نصیب روحیں حجتِ قائم کے زمانے میں حظیرۂ قدس میں پہنچ گئی تھیں اور جملہ جماعت بھی۔

 

اسرارِ معرفت پر بہت سے حجابات ہیں، آپ علم الیقین کے ذریعے سے ایک ایک کر کے حجابات کو ہٹاتے جائیں تا آنکہ آپ کو کامل یقین ہو کہ آپ امامِ مبین کی نورانی بہشت = حظیرۂ قدس میں ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ، ۱۹ ، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۲۶

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۱۶

 

حظیرۂ قدس، وادیٔ مقدسِ طویٰ (۲۰: ۱۲) بھی ہے، طورِ سینا (۲۳: ۲۰) بھی ہے، یہ وہ جبل (پہاڑ) ہے (۰۷: ۱۷۱) جو بنی اسرائیل پر ظلۃ = چھتری کی طرح بلند کیا گیا تھا (۰۲: ۶۳)، (۰۴: ۱۵۴) یہاں انتہائی عظیم معجزات ہیں کہ اللہ اپنے دستِ مبارک سے کائنات کو لپیٹتا ہے اور پھیلاتا بھی ہے (۲۱: ۱۰۴) یہاں مطویات ہیں (لپیٹی ہوئی کائناتیں) (۳۹: ۶۷)۔

 

اے عاشقانِ امامِ زمان علیہ السّلام، تم کو اپنے پاک مولا کا مقدس عشق مبارک ہو ! علم و عبادت اور حقیقی اطاعت سے آگے بڑھو بہت آگے بڑھو تا آنکہ امامِ مبین کا نور تمہاری جبین (پیشانی) میں طلوع ہوجائے، لیکن اتنا کارِ بزرگ = عظیم کام چند دنوں میں کیسے ہو سکتا ہے؟ محنت، محنت، محنت، مشقت، بہت زیادہ مشقت، دائم الذّکر ہوجاؤ، ہمیشہ گریہ و زاری کرو، دیکھو جیتے جی حظیرۂ قدس کی جنّت کی معرفت ممکن ہے۔

 

قرآن میں دیکھو، اللہ نے اپنی آیات = معجزات دکھانے کا وعدہ فرمایا ہے یا نہیں؟ کیا قرآن و حدیث میں امام شناسی بے حد ضروری نہیں ہے؟

 

۲۷

 

اگر یہ چیز بہت ہی ضروری ہے تو آخر کیوں؟ یہ خدا ہی کی مرضی ہے کہ اُس نے امامِ مبین میں سب کچھ رکھا ہے (۳۶: ۱۲) پس یہ آپ کی بہت بڑی دانائی ہوگی کہ خدا و رسول کی خوشنودی کو امامِ زمانؑ کی اطاعت سے حاصل کریں۔ آمین ! ثم آمین !

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات، ۲۰، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۲۸

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۱۷

 

سوال: آیا حظیرۂ قدس سے امامِ مبین کا احاطۂ نور مراد ہے جو عالمِ شخصی کی جنّت ہے؟ جواب: جی ہاں۔

 

پس اللہ تعالیٰ کا وہ ارشادِ مبارک جو امامِ مبین کی شان میں ہے (۳۶: ۱۲) وہ عالمِ شخصی کی بہشت میں گوناگون الٰہی تجلیات و معجزات کی صورت میں ہے۔

 

امامِ مبین کے احاطۂ نور = حظیرۂ قدس میں کل اشیاء تو محدود ہیں مگر امام خود لامحدود ہے پھر بھی اُس کی معرفت ہوسکتی ہو، یہ معرفت عارف کی خود شناسی کی چوٹی پر ہے، چونکہ امامِ آلِ محمد مظہرِ نورِ الٰہی ہے لہٰذا امامِ زمانؑ کی معرفت خدا کی معرفت ہے۔

 

حظیرۂ قدس = جنّت کا ہر ہر معجزہ تجلّیاتی ہے مثال کے طور پر وہاں کتابِ مکنون ایک غالب تاویلی معجزہ ہے، جس میں قرآنِ کریم کے تمام اسرار = بھید جمع ہیں، اس کی ہر تجلّی سے امامِ زمان (روحی فداہ) آپ کو ایک قرآنی بھید بتاتا ہے، نہ تو تجلّیات کا سرچشمہ بند ہو جاتا ہے اور نہ ہی اسرارِ قرآنِ کریم ختم ہو جاتے ہیں۔

 

کتابِ مکنون (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) کتابِ مکنون کے اور بھی بہت سے اسماء ہیں اور ہر اسم میں بہت سی معنوی تجلّیات ہیں، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ  ۲۱، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۲۹

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۱۸

 

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا پرحکمت فرمان ہے: “ہم علی اور نبی دونوں کے نور ہیں۔” امامِ عالی مقام کا یہ جامع الجوامع ارشاد آیاتِ نور کی ایک حکیمانہ تفسیر ہے، اس میں امامِ زمانؑ کے عاشقوں کے لئے حظیرۂ قدس = جنّت کی بشارت ہے، کیونکہ امامِ زمان علیہ السّلام اللہ کا زندہ اسمِ اعظم اور زندہ بہشت ہے۔

 

جو مومنین و مومنات اپنے امامِ وقت کو علم الیقین کی روشنی میں پہچانتے ہیں وہ بڑے مبارک ہیں، اگرچہ عین الیقین اور حق الیقین کے مراحل ہنوز طے نہیں ہوئے ہیں، تاہم مولائے مہربان کارساز اور بندہ نواز ہے اور اس کے پاس حدودِ دین کا وسیلہ بھی ہے، اور وہ مسبب الاسباب ہے، آمین !

 

ارشادِ قرآنی کے مطابق ہر امام کے زمانے میں ایک مخفی = روحانی قیامت برپا ہوتی ہے، جو سب لوگوں کے لئے باعثِ رحمت ہے، کیونکہ امام اوّل متقین کے لئے ہے، اور دوم تمام لوگوں کے لئے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ، ۲۱، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۳۰

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۱۹

 

حضرتِ رحمان نے بوسیلۂ اسمِ اعظم قرآنِ حکیم کی باطنی = نورانی تعلیم دی اور اسی ذریعے سے اس نے ہر انسانِ کامل کو بعد از جسمانی تخلیق و تکمیل روحاً و عقلاً پیدا کیا، اور علم البیان = علمِ تاویل سکھایا، حظیرۂ قدس میں شمس و قمر ایک ہیں اس لئے ان کا طلوع و غروب اور گردش کا ایک ہی حساب ہے، وہاں نجوم (تارے) اور درخت ایک ساتھ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں، خدا ہی نے عالمِ شخصی کی زمین سے آسمان کو الگ کرکے بلند کیا، اور علم و حکمت کی میزان حظیرۂ قدس کے آسمان ہی میں قائم کر دی تا کہ تم یہاں تک پہنچ جانے کے بعد ہی حقائق و معارف کو ٹھیک ٹھیک تول سکو۔

 

قرآنِ حکیم کی ہر آیت میں حکمتِ بالغہ، یعنی حظیرۂ قدس تک پہنچ جانے والی حکمت ہے، پس مضامینِ قرآن گویا حظیرۂ قدس = جنّت کے چشموں سے آئی ہوئی نہریں ہیں، یا اس بہشت کے قابلِ تعریف اور پرسکون لمبے لمبے سائے = ظلِ ممدود (۵۶: ۳۰) ہیں۔ مثلاً توبہ، رجوع ، لقاء اللہ، دیدار، کلام، اشارہ، صورتِ رحمان کا سرِّ اعظم، فنا فی اللہ، انبیا علیہم السّلام کی معراجوں کے اسرار، نورِ محمدیؐ = قلم، نورِ علیؑ = لوح، الغرض تمام اسرار اسی عرفانی جنّت = حظیرۂ قدس میں ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر، ۲۲ ، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۳۱

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۲۰

 

صحیح بخاری جلدِ سوم کتاب الرقاق باب ۸۵۶ میں یہ حدیثِ شریف ہے:

 

یدخل الجنۃ سبعون الفاً بغیر حساب۔

ترجمہ: جنّت میں ستر ہزار بلا حساب داخل ہوں گے۔

 

ہر زمانے کا امامِ آلِ محمد وارثِ علی بحکمِ خدا (۱۷: ۷۱) عالمِ شخصی میں ایک مخفی اور روحانی قیامت برپا کرتا ہے، جس میں دنیا بھر کے تمام لوگوں کا روحانی حشر ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ ان سب میں سے ستر ہزار خاص ایمانی روحوں کو فرشتہ بناتا ہے، یہی ستر ہزار فرشتے بیت المعمور کی زیارت کرتے ہیں جو حظیرۂ قدس کے آسمان میں ہے اور وہ مرتبۂ امامِ زمان علیہ السلام ہے، یعنی امامِ زمان کا نور ہی بیت المعمور یعنی خدا کا وہ گھر ہے جس میں خدا کا دیدار اور اس کے جملہ خزائن ہیں ان ستر ہزار فرشتوں میں سے ہر فرشتہ ایک عالمِ شخصی بھی ہے اور ایک روحانی کائنات بھی، ان تصورات میں خوب غور کرنے کی ضرورت ہے۔

 

سوال: جو حقیقت قرآنِ پاک میں ہے، وہی حدیثِ شریف میں بھی ہے، پس وہ آیت کون سی ہے، جس میں یہ ذکر ہے کہ خدا کی رحمت سے بعض لوگ

 

۳۲

 

حساب کے بغیر بھی بہشت میں داخل ہو سکتے ہیں؟

 

جواب: اِنَّ اللّٰهَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ  (۰۳: ۳۷) ترجمہ: اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے (یعنی خدا جسے چاہتا ہے روحانی قیامت کی سختی کے بغیر حظیرۂ قدس کی بےشمار نعمتیں عطا فرماتا ہے) یہاں حساب سے روحانی قیامت کی سختی مراد ہے، یہ قصّہ مریم سلام اللہ علیہا کا ہے کہ اس کے پا س علمِ لدّنی آ رہا تھا حالانکہ وہ روحانی قیامت کی سختی سے ہنوز نہیں گزری تھیں، نیز دیکھو (۰۳: ۲۷) (۰۲: ۲۱۲)۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر ۲۲، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۳۳

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۲۱

 

مذکورۂ بالا بہشت دو مقام پر ہے، اوّل جبینِ مبارک امامِ مبین دوم کائنات گیر کرسی کا دائرۂ اعظم = نفسِ کلّی جو امامِ مبین کا نورِ محیط ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی ہے کہ اگر تم امامِ زمانؑ میں فنا ہوجاتے ہو جیسا کہ فنا ہوجانے کا حق ہے تو خدا کی قسم تمہاری باسعادت جبین میں بھی نورِ امامِ مبین طلوع ہوکر ہر طرح سے حظیرۂ قدس کا منظر ہوگا، اور وہ سارے معجزات ہوں گے جن کا ذکر ان قسطوں میں ہوچکا ہے، اس حقیقت پر بہت سی قرآنی شہادتیں پیش کی جاسکتی ہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ میرے عزیزان اس حقیقت کو جان چکے ہیں ان کو حجتِ قائمؑ کی اعلیٰ روحانی تعلیمات یاد ہیں، اعنی حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ (روحی فداہ) کے ارشادات جو روحانی ترقی سے متعلق ہیں۔

 

حجتِ قائمؑ نے بڑے رازدارانہ طریق سے فرمایا ہے کہ تم زندگی ہی میں روح کو بدن سے ایک بار باہر نکال کر تجربہ کرو، یہ بات ہرگز معمولی نہیں، یہ تو روحانی قیامت اور منزلِ عزرائیلی ہی کا پرحکمت قصّہ ہے، ایک اور ارشاد میں یہ مفہوم ہے کہ کوئی بھی مومن جیتے جی اپنے امام سے واصل نہیں ہوسکتا، مگر مر جانے کے بعد، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ جو مومن جیتے جی عارفانہ موت سے مر جاتا ہے وہ حظیرۂ قدس = احاطۂ نورِ امامِ مبین سے واصل ہو جاتا ہے۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار، ۲۳، دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

۳۴

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۲۲

 

سورۂ بروج (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) میں ارشاد ہے: بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ  فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۔ ترجمہ: بلکہ وہ قرآنِ مجید ہے (بلند مرتبہ قرآن ہے) اُس لوح میں (نقش ہے) جو محفوظ ہے۔ رسولِ اکرمؐ کے علم وحکمت کا باب (دروازہ) کون تھا؟ جواب: مولا علیؑ۔ پس یہ مولا علیؑ ہی کا ارشاد ہے: انا اللوح المحفوظ یعنی میں لوحِ محفوظ ہوں (کوکبِ درّی) یقیناً آنحضرتؐ کا نور قلم اور علیؑ کا نور لوحِ محفوظ ہے۔ پس امامِ مبینؑ کا نور لوحِ محفوظ ہے جس میں قرآنِ مجید ثبت ہے۔

 

سورۂ ق (۵۰: ۰۱) میں ارشاد ہے: قٓ-وَ الْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ= قسم ہے قلم کی اور لوحِ محفوظ = قرآنِ مجید کی، یعنی نورِ محمدؐ اور نورِ علیؑ کی قسم ہے۔ اس کے بعد جو ارشاد ہے، وہ جوابِ قسم ہے، پس قرآن کی تاویلی حکمت محمدؐ و علیؑ کے نور کی اس معرفت میں ہے، جو حظیرۂ قدس کے خزانوں میں ہے۔

 

سورۂ طور (۵۲: ۰۱ تا ۰۷) میں ارشاد ہے: ترجمہ اور حکمت: قسم ہے طور (کوہِ عقل) کی اور کتابِ مسطور (یعنی ذرّاتِ لطیف پر لکھی ہوئی کتاب) کی اور بیت المعمور (آباد گھر) کی اور اونچی چھت (حظیرۂ قدس) کی اور بھرا ہوا سمندر (یعنی بحرِعلم جس پر عرشِ اعلیٰ ہوتا ہے) کی قسم ہے کہ تیرے ربّ کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے (یعنی روحانی قیامت جس کے ابتدائی مراحل میں سخت تکلیف ہے)۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر ۲۴، دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

۳۵

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۲۳

 

سورۂ بقرہ کے آغاز ہی (۰۲: ۰۱ تا ۰۲) میں ارشاد ہے: الٓمّٓ، ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ۔ هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ ترجمہ: وہ کتاب (ایسی ہے کہ)اُس میں کوئی شک ہی نہیں، (یعنی اُس میں یقین ہی یقین ہے) ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لئے۔

 

مولا علی علیہ السلام مؤوّلِ قرآن نے فرمایا: اَنَا ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ یعنی میں وہ کتابِ ناطق ہوں جس میں کوئی شک نہیں (۴۵: ۲۹) اس میں متقین کے لئے روشن ہدایت ہے۔

 

حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: انا خازن علم اللہ۔ یعنی میں ہوں علمِ الٰہی کا خزانہ دار، یعنی قرآنِ حکیم کے علم و حکمت کا خزانہ میرے پاس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولا خزانہ بھی ہے اور خزانہ دار بھی ہے۔

 

اے عزیزان آپ جان و دل اور عشق و محبت سے مولا علی علیہ السّلام کے پرحکمت ارشادات کو پڑھیں اور مطالب کو یاد کریں، تا کہ قرآنی حکمت کے سمجھنے میں اس طریقِ کار سے مدد ملے، کیونکہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے، قرآنِ عزیز بھی حکیم ہے، اور مولائے پاک بھی حکیم ہے۔

 

مولا علیؑ کے ارشادات کے لئے کوکبِ دری میں دیکھیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر ۲۴، دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

۳۶

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۲۴

 

سورۂ مطففین (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) میں ارشاد ہے: وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا عِلِّیُّوْنَ  كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ  یَّشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُوْنَ ۔ ترجمہ: ہرگز نہیں، بےشک نیک آدمیوں کا نامۂ اعمال عالی مرتبہ ہستیوں کے دفتر (کتاب) میں ہے اور تمہیں کیا خبر کہ کیا ہے وہ عالی مرتبہ ہستیوں کا دفتر؟ ایک لکھی ہوئی کتاب، جس کومقرّب لوگ چشمِ بصیرت سے دیکھ سکتے ہیں (یعنی وہ حظیرۂ قدس ہے) جو عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اساس، اور امامِ مبین کے انوار کی وحدت کا مقامِ اعلیٰ ہے، یہی حظیرۂ قدس ہے، جو عالمِ شخصی کی بہشت ہے، مقربین = عارفین، جس کا مشاہدہ کرکے کامل معرفت حاصل کرتے ہیں، یہ ہے حظیرۂ قدس کی ایک خاص تعریف، یہ فضل و کرم اللہ تعالیٰ ہی کا ہے وہ جسے چاہے عطا کرتا ہے۔

 

سوال: کیا روحانی قیامت کے شروع شروع میں تجربۂ عذاب بھی ہے؟ جواب: جی ہاں۔

 

سوال: ایسا کیوں ہے؟

جواب: اس میں بہت بڑی حکمت اور بہت بڑی مصلحت ہے، یہ بہت بڑی قربانی ہے، بہت ہی بڑی قربانی، اور باطنی شہادت بھی۔

 

۳۷

 

سورۂ مریم (۱۹: ۷۱) وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا ۔

ترجمہ: تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو جہنم پر وارد نہ ہو، یہ تو ایک طے شدہ بات ہے جسے پورا کرنا تیرے ربّ کا ذمہ ہے۔ (پھر ہم ان لوگوں کو بچا لیں گے جو دنیا میں متّقی تھے اور ظالموں کو اسی میں گرا ہوا چھوڑ دیں گے)۔

 

عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اساس اور امامِ مبین کے انوار کی وحدت کا مقام، سبحان اللہ!

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔

منگل ۲۵، دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

۳۸

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۲۵

 

عالمِ شخصی کی مذکورہ بہشت کائناتی بہشت کے ساتھ مربوط ہے، جس کو حاصل کرنے میں سبقت کا حکم دیا گیا ہے (۵۷: ۲۱) اور (۰۳: ۱۳۳) یہ عالمی اور کائناتی سبقت انتہائی مشکل عمل ہے، جس کی تفصیلات ہم بیان نہیں کر سکتے ہیں، الغرض جو متقی لوگ تمام شروط کے مطابق عالمِ شخصی اور کائناتی بہشت کے حصول میں سبقت کریں گے، تو جنّت بحقیقت انہی کو عطا ہوگی، تاہم سلاطینِ بہشت کی سلطنت لوگوں کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا سب لوگ بہشت میں داخل کئے جائیں گے، کیونکہ امامِ آلِ محمد علیٔ زمان امام المتقین بھی ہے اور امام الناس بھی، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

آپ قرآنِ حکیم میں سبقت کے مضمون کو اچھی طرح سے پڑھ لیں اور سابقون ہی مقرب لوگ ہوتے ہیں (۵۶: ۱۰ تا ۱۱) اس حکمت کو بھی سمجھ لیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔

منگل ۲۵، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۳۹

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۲۶

 

سورۂ نمل (۲۷: ۶۵ تا ۶۶) قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُؕ-وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ  بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ ﱄ بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْهَا-بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ ۔

 

ترجمہ: ان سے کہو، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا، اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کب مبعوث کئے جائیں گے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ آخرت کے بارے میں ان کے علم کا خاتمہ ہوگیا ہے، بلکہ اس کی طرف سے شک میں پڑے ہیں، بلکہ سچ یہ ہے کہ اس سے یہ لوگ اندھے بنے ہوئے ہیں۔

 

اگر علمِ قیامت اور علمِ آخرت کسی بھی وسیلے سے ممکن الحصول نہ ہوتا تو یہاں بعض لوگوں پر یہ اعتراض نہ ہوتا مگر ظاہر ہے کہ یہ کام غیر ممکن نہیں بلکہ ممکن ہے، پس اہلِ دانش پر واجب ہے کہ وہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی خصوصی ہدایت کی روشنی میں عالمِ شخصی میں داخل ہوجانے کے لئے سخت ریاضت کریں تا کہ ان شاء اللہ نفسانی موت اور روحانی قیامت کا دروازہ ان کے لئے مفتوح ہوجائے اور قیامت و آخرت کا علم ان کو حاصل ہو۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۲۶، دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

۴۰

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۲۷

 

قسط ۲۶ کو بار بار پڑھیں تا کہ آپ کو علم القیامت اور علم الآخرت کی اہمیت کی خبر ہو، قرآنِ پاک نے عمون (اندھے) کے لفظ میں باطنی اندھا پن کی مذّمت برائے مذّمت نہیں کی بلکہ یہ برائے عبرت و ہدایت ہے تا کہ عقل والے قرآنی حکمت سے فائدہ حاصل کریں، یہی مقصد ہر اُس آیت کا ہے، جس میں باطنی نابینائی کی مذّمت کی گئی ہے، جیسے سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۲) میں ارشاد ہے: وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا۔ ترجمہ: اور جو شخص اس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ راستہ پانے میں اندھے سے بھی زیادہ ناکام۔

 

قرآنِ حکیم طبیبِ لاہوتی کا شفا خانہ ہے جس میں عالمِ ناسوت کے ہر باطنی مریض کے لئے شفائے کلّی کا انتظام ہے لہٰذا ہر ہوشمند انسان کو قرآنی حکمت سے فائدہ اٹھانے کی سخت ضرورت ہے، جس طرح ظاہر میں اگر ایک بیماری کا بروقت علاج نہ کیا گیا تو دوسری بیماری بھی ہوسکتی ہے، یہی مثال باطن میں بھی ہے۔

 

اے عزیزان ذکر و عبادت، گریہ و زاری اور علم و حکمت ہی سے روحانی زندگی میسر ہوسکتی ہے، اللہ تعالیٰ سب کو نیک توفیق عطا فرمائے، آمین!

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۲۶، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۴۱

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۲۸

 

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ (ح ق) صلوات اللہ علیہ کے پاک ارشادات میں ہے: جہاں (باطنی) دیدار ہے وہاں ہی بہشت ہے (کلامِ امامِ مبین حصۂ اول۔ منجیوڑی۔ ۲۵۔ ۱۲۔ ۱۸۹۳)۔

تم نورانی بدن کے لباس میں ملبوس ہوکر بہشت میں جاؤ گے (کلامِ امامِ مبین حصّۂ اوّل۔ منجیوڑی۔ ۲۸ ۔ ۱۲۔ ۱۸۹۳)۔

 

نورانی بدن = جسمِ لطیف = لبوس (۲۱: ۸۰) سرابیل (۱۶: ۸۱) جثۂ ابداعیہ۔ حدیثِ شریف ہے: روح المومن بعد الموت فی قالب کقالبہ فی الدنیا = مومن کی روح بعد از موت ایک قالب (نورانی بدن) میں رکھی جاتی ہے جو اُسی صورت کا ہوتا ہے جیسے دنیا میں اس کا قالب (بدن) تھا صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں قالب کثیف تھا، مگر یہ جدید بدن لطیف اور نورانی ہوتا ہے (ہزار حکمت، قالب، ح: ۶۷۲)۔

 

سوال: جو مومن جیتے جی مرکر زندہ ہو جاتا ہے، اس کی روح جسمِ لطیف میں ہوتی ہے یا جسمِ کثیف میں؟ جواب: دونوں میں ہوتی ہے، یعنی بہشت میں بھی ہوتی ہے اور دنیا میں بھی، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

ن۔ ن۔ (حّبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات ۲۷ دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۴۲

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۲۹

 

سورۂ رعد (۱۳: ۱۲) میں ارشاد ہے:

هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ ۔ ترجمہ: وہی ہے جو تمہیں برق (جثۂ ابداعیہ = نورانی بدن) دکھاتا ہے، جس سے تم ڈرتے بھی ہو، اور تم کو طمع بھی ہوتی ہے (کہ تم اس میں منتقل ہو جاؤ) وہی ہے جو پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھاتا ہے۔

 

آفاق و انفس کے معجزات ظاہری بھی ہیں اور باطنی بھی، اور جتنے ظاہری ہیں ان میں سب سے زبردست معجزہ برقی بدن = نورانی بدن = جثۂ ابداعیہ ہے، جی ہاں عارف کے لئے یہاں بھی جیتے جی ایک پرحکمت موت ہے، مگر منزلِ عزرائیلی کی موت کی طرح نہیں، بلکہ یہ صرف ایک خوف یا رعب کی کیفیت میں ہے، کیونکہ یہ امامِ زمان کا نورانی دیدار ہے۔

 

حدیثِ شریف کے حوالے سے بار بار اس حقیقت کا ذکر ہوچکا ہے، کہ قرآن حکیم کی ہر آیت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ پاک کے ہر قصّے کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، اور یقیناً قصّۂ موسیٰؑ بھی اسی قانونِ ظاہر و باطن کے مطابق ہے، اور آیت کے باطن سے تاویلی حکمت مراد ہے، اب آپ کو ایک سچے عاشقِ مولا کی حیثیت سے اس بات کا پختہ یقین آئے گا کہ قرآنِ حکیم

 

۴۳

 

کی تاویل حضرت مولانا علی صلوات اللہ علیہ کے پاک ارشادات سے شروع ہوکر سلسلۂ نورِ امامت کے ساتھ ساتھ جاری و ساری ہے، کیونکہ یہ بات قانونِ رحمتِ الٰہی سے بعید ہے کہ دنیا میں قرآن بھی ہو اور سلسلۂ نور بھی ہو مگر قرآنی حکمت غائب ہو جائے یہ بات ہرگز نہیں ہے بلکہ جس طرح دنیا میں اللہ کی کتاب اور اللہ کا نور موجود ہے اسی طرح قرآن کی حکمت بھی عاشقوں کو حاصل ہوتی رہتی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ ۲۸ ، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۴۴

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۳۰

 

ان للقرآن ظھرا و بطنا و لبطنہ بطنا الی سبعۃ ابطن۔ ترجمہ: یقیناً قرآن کا ایک ظاہر ہے، اور ایک باطن، اور باطن کا بھی باطن ہے سات بواطن تک (کتابِ احادیثِ مثنوی از بدیع الزمان فروزانفر استادِ دانشگاہِ تہران)۔

 

سورۂ بقرہ (۰۲: ۵۵ تا ۵۶) میں خوب غور سے دیکھیں، یہ لوگ حدودِ دین یا صفِ اوّل کے مومنین تھے لہٰذا یہ جیتے جی معجزاتی موت سے مرکر زندہ ہوگئے تھے اور یہ مظہرِ نورِ خدا = امامِ مبین کا معجزہ تھا، حصولِ معرفت کی غرض سے جس کو دیکھنا ضروری ہے، اور یہ حقیقت و انتم تنظرون (اور تم دیکھتے تھے) سے ظاہر ہوجاتی ہے، اگر ان کی موت عرفانی نہ ہوتی، ظاہری اور جسمانی ہوتی، تو وہ کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے، کیونکہ حادثاتی موت میں آدمی کے دل و دماغ کا چراغ فوراً ہی گل ہو جاتا ہے، جیسے منزلِ عزرائیلی میں مومن کی روح بار بار قبض کی جاتی ہے مگر سالک بے ہوش نہیں ہوتا، بلکہ وہ حضرتِ عزرائیل کے ذکرِ اسمِ اعظم کو اور حضرتِ اسرافیل کی آوازِ صور کو نیز عالمِ ذرّ کی تسبیحات کو سنتا رہتا ہے، اور یہ بھی دیکھ رہا ہوتا ہے کہ روح کائنات میں پھیلائی جا رہی ہے، وغیرہ، حالانکہ اس کی روح کا صرف نچلا سرا دماغ میں باقی

 

۴۵

 

رہ کر اس کے لئے شعور کا کام کر رہا ہوتا ہے، تو یہ بڑی عجیب بات ہے کہ یہاں بھی حیات و ممات کا ایک سنگم ہے، جس میں بھید ہی بھید ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ ۲۸، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۴۶

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۳۱

 

یہ حدیثِ شریف، گنجینۂ جواہرِ احادیث، ص ۶۶ پر ہے، ان فاطمۃ و علیا و الحسن و الحسین فی حظیرۃ القدس فی قبۃ بیضاء سقفھا عرش الرحمان۔

ترجمہ: یقیناً فاطمہ اور علی اور حسن و حسین علیہم السلام حظیرۂ قدس = جنّت کے ایک ایسے سفید قبہ (گنبد) میں ہوں گے جس کی چھت عرشِ رحمان ہے۔

 

ہم مذکورہ کتابِ مستطاب کے ترجمۂ اردو کے لئے بھی درخواست کرتے ہیں، اس ایمان افروز اور روح پرور کتاب کے ص ۲ پر صاحب جوامع الکلم کا یہ ارشادِ مبارک بھی ہے: یا علی انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی = اے علیؑ مجھ سے تم کو وہ نورانی منزلت حاصل ہے، جو موسیٰؑ سے ہارونؑ کو حاصل تھی، مگر یہ ہے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔ اس حکمتِ بالغہ کی رو سے حضرتِ امام ہارونؑ وزیرِ موسیٰؑ کے تمام ظاہری و باطنی اوصاف و کمالات مولا علیؑ سے بھی متعلق ہو جاتے ہیں۔

 

قرآنِ حکیم میں ۱۲۶ دفعہ حضرتِ موسیٰؑ کا نام ہے اور ۲۰ دفعہ حضرتِ مولانا

 

۴۷

 

ہارونؑ کا نام ہے، پس اسمِ موسیٰؑ اور اسمِ ہارونؑ محمدؐ و علیؑ کے نور کی آئینہ داری کرتے ہیں اور ہر دانا مومن کو حکمت کے اس عجیب و غریب پل کو عبور کرکے علم و حکمت کے عجائب و غرائب کا نظارہ کرنا چاہئے، ہم ان شاء اللہ اس پُرحکمت عمل کی کوئی مثال پیش کریں گے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر، ۲۹، دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

۴۸

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۳۲

 

سورۂ انبیاء (۲۱: ۴۸) میں ارشاد ہے:

وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ ترجمہ: پہلے ہم موسیٰ اور ہارون کو فرقان = معجزہ = توراۃ اور نور، اور ذکر = اسمِ اعظم عطا کر چکے ہیں۔

 

سید الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادِ مبارک کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس آیۂ کریمہ میں کئی عظیم اساسی حکمتیں ہیں، یعنی موسیٰؑ اور ہارونؑ رسولِ اکرمؐ اور مولا علیؑ کی مثال ہیں، اور متّقی لوگ وہاں بھی ہیں اور یہاں بھی، اور عجیب و غریب حکمت تو یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ پیغمبر اور امام کو جو فرقان = معجزہ، نور، اور ذکر = اسمِ اعظم عطا فرماتا ہے، وہ متقین کے لئے ہے۔

 

پس ہر مومن کی دانائی اس بات میں ہے، کہ وہ موسیٰؑ اور ہارونؑ کے قصّے میں محمدؐ و علیؑ کے اسرار کے لئے تلاش کرے، ان شاء اللہ کامیابی ہوگی، اور حدیثِ مماثلتِ ہارونی کا مقصد یہی ہے، اور یہاں یہ سوال ہونا چاہئے کہ حدیثِ منزلت میں جس طرح لفظِ منزلت آیا ہے، اس کا اشارۂ حکمت کیا ہے؟ جواب: منزلت دراصل منزل سے ہے، یعنی جائے

 

۴۹

 

نزول یا اترنے کی جگہ، کیونکہ اللہ سے جو وحی موسیٰؑ پر نازل ہوتی تھی، اس کی روحانی اور نورانی تاویل براہِ راست یا بالواسطہ ہارونؑ پر نازل ہوتی تھی، لہٰذا موسیٰؑ سے ہارونؑ کو نورانی تاویل کی منزلت حاصل تھی، اور بحکمِ حدیثِ نبوی نورانی تاویل کی یہی منزلت آنحضرتؐ سے مولا علیؑ کو حاصل تھی، اسی نورانی تاویل کے حامل ہونے کے معنی میں مولا علیؑ قرآنِ ناطق = نور برائے کتاب (۰۵: ۱۵) اور صاحبِ تاویل ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر ۲۹، دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

۵۰

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۳۳

 

سوال: کیا آپ ذوالقرنین کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟

جواب: ان شاءاللہ، میں امامِ آلِ محمد صلوات اللہ علیہ کی یاری سے چند حکمتیں بیان کر سکتا ہوں، اوّل یہ ہے کہ ذوالقرنین دنیا کا کوئی بادشاہ ہرگز نہیں بلکہ یہ حضرتِ امام علیہ السّلام ہی ہے، جیسے مولا علیؑ قرآنِ ناطق نے فرمایا: انا ذوالقرنین۔ یعنی میں ذوالقرنین ہوں (کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت۔ ۴) ذوالقرنین کے لفظی معنی ہیں دو سینگوں والا، اس سے ناقور مراد ہے جو آواز کے دو حصوں پر مبنی ہے چونکہ دین کی ہر بڑی چیز دو دریاؤں کے سنگم کے اصول پر ہے، لہٰذا صورِ قیامت بھی اسی طرح سے ہے، پس ذوالقرنین سے صاحبِ صورِ قیامت = امام مراد ہے، ذوالقرنین کا سفر عالمِ شخصی میں تھا مگر وہ اکیلا نہ تھا، بلکہ کسی مومنِ سالک = عارف کی رہنمائی فرما رہا تھا۔

 

قصّۂ ذوالقرنین کے آغاز (۱۸: ۸۴) میں ارشاد ہے: اِنَّا مَكَّنَّا لَهٗ فِی الْاَرْضِ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ سَبَبًا۔

 

ترجمہ: ہم نے اس کو زمینِ عالمِ شخصی میں اقتدار عطا کر رکھا تھا، اور اسے ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے یہ یقیناً کلّیۂ امامِ مبین کی ایک

 

۵۱

 

تفسیر ہے نہ کہ یہ کسی دنیوی بادشاہ کی تعریف ہے۔

 

پس ذوالقرنین یعنی حضرتِ امام علیہ السّلام نے سالک = عارف کو حظیرۂ قدس تک رہنمائی فرمائی اور اسی مقام پر منزلِ مقصود تھی، چونکہ یہاں اسرار ہی اسرار بھی ہیں اور حجابات ہی حجابات بھی اس لئے فرمایا گیا کہ وہ پہلے مغرب میں گیا اور دیکھا کہ سورج ایک کالے پانی میں غروب ہوتا تھا، یہ سخت حجاب اور زبردست امتحان نہیں تو اور پھر کیا ہے؟

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار ۳۰، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۵۲

 

 

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۳۴

 

المستدرک جلدِ سوم ص ۱۳۳ پر یہ حدیثِ شریف ہے، رسولِ پاک نے فرمایا: یا علی ان لک کنزاً فی الجنۃ و انک ذوقرنیھا ۔ ترجمہ: اے علی تمہارے لئے جنّت میں ایک (عظیم) خزانہ ہے، اور یقیناً تم اس (جنّت) کا ذوالقرنین ہو۔ یہ کنز حظیرۂ قدس = جنّت = کلّیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کا خزانہ ہے۔

 

قصّۂ ذوالقرنین میں جس مغرب و مشرق کا ذکر ہے وہ سیّارۂ زمین کے شرق و غرب نہیں ہیں، وہ تو حظیرۂ قدس، یعنی عالمِ شخصی کی جنّت ہے جس میں ایک ہی مقام مشرق و مغرب بھی ہے اور جمع و واحد بھی ہے، وہاں دنیا کا سورج ہرگز نہیں بلکہ وہ نورِ ازل ہی ہے جس میں ہر ہر روشن چیز کی نمائندگی ہے یعنی وہ شمس بھی ہے، قمر بھی ، نجم بھی ہے، انجم بھی، نور بھی ہے، انوار بھی، اور اس کے صد ہا اسماء ہیں، الغرض ذوالقرنین سے امامِ مبین مراد ہے، اور ذوالقرنین کا مطلب صاحبِ ناقور ہے۔

 

ناقور یا صورِ قیامت کے بارے میں ایک اعرابی نے آنحضورؐ سے پوچھا کہ یا حضرت صور کیا چیز ہے؟ رسولِ پاک نے فرمایا کہ وہ ایک قرن (سینگ) ہے یعنی وہ سینگ جس میں پھونکنے سے ایک زوردار آواز نکلتی

 

۵۳

 

ہے، قرآن (۳۹: ۶۸) میں دیکھیں کہ صور دو دفعہ پھونکا جاتا ہے، پس یہ گویا دو قرن (قرنین) دو سینگ ہیں، میں نے قرآنِ حکیم کے حوالے سے ہر خاص اور عظیم چیز کے سنگم کا بار بار ذکر کیا ہے، کیونکہ ذاتِ سبحان کے سوا ہر چیز کا جوڑا ہوتا ہے (۳۶: ۳۶)۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔

اتوار ۳۰، دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۵۴

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۳۵

 

کتابِ کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت ۸۱ میں حضرتِ امیر المومنین علی قرآنِ ناطق علیہ السلام کا ارشادِ مبارک ہے: انا ذوالقرنین ہٰذہ الامۃ، یعنی میں اس امت کا ذوالقرنین ہوں۔ انا الذی انفخ فی الناقور، یعنی میں وہ شخص ہوں کہ روحانی اور عرفانی قیامت کو برپا کرتے وقت صور پھونکتا ہوں اور عالمِ شخصی کی مخفی روحانی قیامت برپا کرتا ہوں (منقبت ۸۲)۔

 

مذکورہ کتاب کے بابِ دوم ، منقبت ۶۷ میں ارشادِ رسولِ اکرم صلعم ہے: یایھا الناس ان منکم من یقاتل عَلیٰ تاویل القرآن کما قاتلت عَلیٰ تنزیلہ فقلنا من ھو یا رسول اللہ، فقال ذاک خاصف النعل۔

 

ترجمہ: اے لوگو! تم میں سے ایک شخص ہے کہ وہ تاویلِ قرآن پر جنگ کرے گا، جیسا کہ میں نے تنزیلِ قرآن پر جنگ کی ہے۔

 

سوال: قرآنی تاویل پر علیٔ زمانؑ کس طرح جنگ کرتا ہے، اس کی کوئی خاص مثال کیا ہے؟ جواب: زمانے کا امام علیہ السّلام بحکمِ خدا (۱۷: ۷۱) اپنے حدودِ دین کے عالمِ شخصی میں ایک مخفی روحانی قیامت

 

۵۵

 

قائم کرتا ہے، یہ روحانی قیامت بھی ہے، تاویلِ قرآن کی جنگ برائے دعوتِ اسلام بھی ہے، اب سب لوگ اس تاویلی جنگ = قیامت کی زبردستی سے دینِ حق میں داخل ہو جاتے ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر ۳۱ دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

۵۶

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۳۶

 

سنّتِ الٰہی میں تبدیلی ہرگز ہرگز نہیں، ہاں اس میں مسلسل تجدّد ہے، چنانچہ کاملین و عارفین کے لئے مخفی روحانی قیامت کا تجدّد اللہ کی سنّت ہے، کیونکہ علم و حکمت اور معرفت کے تمام انمول خزانے حجاباتِ قیامت ہی کے پیچھے پوشیدہ ہیں، لہٰذا مخفی روحانی قیامت کا قیام ہر امامِ حق کے زمانے میں بے حد ضروری ہے، جیسا کہ حکیم پیر ناصر خسرو کے دیوان میں ہے:

 

ھو الاوّل ، ھو الآخر، ھو الظّاہر، ھو الباطن

منزّہ مالک الملکی کہ بے پایان حشر دارد

 

ترجمہ: وہی اوّلین سے اوّل ہے، آخرین سے آخر ہے، وہی سب سے آشکار ہے، اور سب سے باطن ہے، وہ ہر چیز سے پاک اور پادشاہی کا ایسا مالک ہے، کہ اس کی پادشاہی میں بے پایان قیامات ہیں۔

 

بے پایان حشر کا مطلب ہے کہ سلسلۂ قیامات کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، اس کے معنی یہ ہوئے کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں قیامت کے برپا ہونے کا ذکر ہے وہ دراصل قیامت کے تجدّد کا ذکر ہے اور یہ نکتۂ دل پذیر خوب یاد رہے کہ نزولِ قرآن کے بعد جب بھی کسی کامل یا

 

۵۷

 

عارف پر روحانی قیامت آئی تو وہ تاویلِ قرآن کی صورت میں آئی، کیونکہ قیامت کا سب سے عظیم اور ہمہ رس اور ہمہ گیر فائدہ قرآنی تاویل ہے، اور یہ حظیرۂ قدس میں جمع ہے، الحمد للہ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل، یکم جنوری ۲۰۰۲ء

 

۵۸

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۳۷

 

قرآنِ حکیم کی تاویل، مخفی روحانی قیامت کی صورت میں آتی ہے، سورۂ اعراف (۰۷: ۵۲ تا ۵۳)۔

 

اللہ تعالیٰ نے حضرتِ یوسف علیہ السّلام کو علمِ تاویل سکھانے کے لئے منتخب کیا تھا، (۱۲: ۰۶) حضرتِ یوسفؑ امامِ مستودع کو علمِ تاویل عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس میں عطا ہوا تھا (۱۲: ۲۱)۔

 

اللہ تعالیٰ کا ارشادِ پاک ہے: فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا۔ ترجمہ: ہم نے تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملکِ عظیم بخش دیا، یعنی عظیم روحانی سلطنت۔ (۰۴: ۵۴)۔

 

پس جب تک دنیا میں قرآن اور حکمت ہے تب تک آلِ ابراہیم = آلِ محمد کی روحانی سلطنت (امامت) بھی جاری اور باقی ہے، پس قصّۂ یوسفؑ میں ملک (بادشاہ) سے امامِ مستقر مراد ہے ، مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ ظاہراً مصر ہی میں موجود ہو، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جملہ قرآن میں لفظِ ملک خدا کے بعد صرف حضرتِ امامؑ ہی کے لئے آیا ہے، اور مذکورہ آیۂ کریمہ کا یہی فیصلہ ہے۔

 

۵۹

 

کتاب ہزار حکمت میں لفظِ تاویل کو دیکھیں: از حکمت ۱۸۴ تا ۲۰۴ یعنی ۲۱ حکمتیں۔

 

آلِ ابراہیم سے متعلق ایک مختصر اور جامع بیان ہزار حکمت (ح: ۵) میں بھی دیکھ لیں، اور کتابِ دعائم عربی جلدِ اوّل ص ۲۱ پر بھی، بلکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ آپ دعائم میں سے کتاب الولایۃ کو خوب غور سے پڑھیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ، ۲، جنوری ۲۰۰۲ء

 

۶۰

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۳۸

 

امیر المومنین علی ابنِ ابی طالب علیہ السّلام سے یہ روایت منقول ہے آپ فرماتے ہیں کہ جب آیتِ کریمہ: وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ (۲۶: ۲۱۴) ترجمہ: اور آپ اپنے قریب ترین کنبہ والوں کو ڈرائیے، نازل ہوئی تو آنحضرت صلعم نے ایک پیالہ دودھ اور بکری کی ایک ران دسترخوان پر رکھ کر خاندانِ بنی عبد المطلب کو جمع کیا جو چالیس مردوں پر مشتمل تھا، مگر دس نوجوان تو ایسے تھے کہ ان میں سے ہر ایک، میمنہ اکیلا ہی کھا سکتا تھا اور ایک مشک دودھ پی سکتا تھا، پھر بھی ان لوگوں نے خوب پیٹ بھر کر کھایا پیا، اس روز ابولہب بھی ان کے ساتھ تھا، جب خورد و نوش سے فارغ ہوچکے تو رسولِ اکرم صلعم نے ان سب سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اے بنی عبد المطلب! میری اطاعت کرو تو تم سب زمین کے بادشاہ اور حکمران بن جاؤگے، اور میں تم سے پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اب تک پروردگارِعالم نے دنیا میں جتنے پیغمبر بھیجے ہیں ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک وصی اور وزیر بھائی اور وارث اور ولی مقرر فرمایا تھا تو آج تم میں کون ایسا جوان مرد ہے جو میرا وارث میرا ولی میرا بھائی اور میرا وزیر بنے گا؟ اتنا سننا تھا کہ سب پر خاموشی چھا گئی، مگر آنحضرت صلعم نے اتمامِ حجّت کے طور پر ان میں سے ایک ایک کے سامنے

 

۶۱

 

فرداً فرداً یہ دعوت پیش کی لیکن کسی نے آپ کی اس دعوت کو قبول نہ کیا الا آنکہ میں باقی رہ گیا تھا اس وقت میں سب سے کمسن تھا مگر جب رسول اللہ صلعم نے میرے سامنے اپنی یہ دعوت پیش کی تو میں نے مؤدّبانہ عرض کیا کہ اے پیغمبرِ خدا میں آپ کا وصی، وزیر، بھائی، وارث اور ولی بنوں گا آپ نے فرمایا کہ ہاں ! اے علی تمہیں میرے وصی میرے وزیر میرے بھائی اور میرے ولی ہو۔

 

جب بنی عبد المطلب مجلس سے باہر نکلے تو ابولہب نے ان سے کہا کہ تم نے آج جو کچھ دیکھا ہے کیا اس سے تم کو اپنے صاحب محمدؐ کی جادوگری کا ثبوت نہیں ملتا کہ اس نے تمہارے سامنے دستر خوان پر بکری کی ران رکھی اور دودھ کا ایک پیالہ جس سے تم لوگ خوب شکم سیر ہوگئے، پھر کیا تھا وہ سب کے سب ابولہب کی اس بات کو سن کر ٹھٹھا کرنے لگے اور حضرتِ ابوطالب سے کہنے لگے کہ تمہارا بیٹا تم پر مقدم ہوگیا۔ از کتابِ دعائم الاسلام حصّۂ اوّل ص ۳۱ تا ۳۲۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔

جمعرات ۳، جنوری ۲۰۰۲ء

 

۶۲

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۳۹

 

قسط ۳۸ میں حدیثِ بنی عبد المطلب کا ذکر ہوا، کیا یہ حدیثِ شریف دین کی حقیقی بنیاد کا حصہ نہیں ہے؟ جواب: کیوں نہیں، یہ تو عاشقانِ نور کے لئے ایک ایسا چراغِ ہدایت ہے جو کبھی بجھنے والا نہیں ہے، سبحان اللہ! صاحبِ جوامع الکلم کی تعریف و توصیف خدا کے سوا کوئی نہیں کر سکتا، اللہ ہمیں اپنے محبوب رسول صلعم کے کلامِ حکمت نظام سے اور زیادہ حیرت اور عشق نصیب کرے!

 

اس حدیثِ شریف میں دینِ حق کی اساسی حقیقتیں اپنی جگہ پر ہیں، ساتھ ہی ساتھ یہ ذکر بھی ہے کہ حقیقی اطاعت کے انعام میں بہشت کی بادشاہی ملتی ہے، جس کے بارے میں کئی مقالے لکھے گئے ہیں۔

 

حقیقی مومنین سے اللہ تعالیٰ نے عالمِ شخصی میں یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا، جس طرح اگلے لوگوں کو خلیفہ بنا چکا ہے (۲۴: ۵۵) اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو کثیف سے لطیف بنائے گا، یعنی وہ جثّۂ ابداعیہ میں کائناتی بہشت کے بادشاہوں میں سے ہوں گے، جثّۂ ابداعیہ کو کائناتی بہشت کی سلطنت حاصل ہے، وہ تمام سیّاروں، ستاروں ، اور فضاؤوں کی سیاحت کرسکتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کا

 

۶۳

 

تعلق عالمِ روحانی سے بھی ہے جس کی بہت بڑی اہمیت ہے، اور اصل بہشت تو وہی ہے، اور مضمونِ خلافت میں آپ (۰۶: ۱۶۵) کو ہرگز فراموش نہ کریں، اس میں آپ کو بڑی بشارت اور مبارکبادی ہے۔ آمین آمین !!

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ ۴، جنوری ۲۰۰۲ء

 

۶۴

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۴۰

 

اے برادران و خواہرانِ روحانی! قرآن اور امامِ مبین کے تمام اسرار کا سب سے عظیم خزانہ عالمِ شخصی ہی میں مخفی ہے، اگر آپ عالی ہمت اور عاشقِ صادق ہیں تو امامِ زمان صلوات اللہ علیہ عالمِ شخصی کی رہنمائی کرسکتا ہے، سب سے پہلے امامِ مبین نے بذریعۂ اسمِ اعظم آدم کو عالمِ شخصی میں پہنچا دیا تھا۔

 

ہر مخفی روحانی قیامت میں کاملین اور عارفین کو امامِ زمان (روحی فداہ) حظیرۂ قدس کی منزلِ مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔

 

اگر تم کثرتِ ذکرِ اکبر کے زیرِ اثر مخفی روحانی قیامت کے آغاز ہی میں مرتے ہو تو یہ تمہاری روح کی موت ہرگز نہیں، بلکہ نفس ہی کی موت ہے، جس کی وجہ سے تم کو ذات و کائنات کی کلّی فتح حاصل ہوئی، اب تم شکرگزاری میں گریہ و زاری کرتے رہو، کہ اللہ و رسول کا ہر وعدہ تمہارے حق میں پورا ہوا، اب ناشکری سے ڈرتے رہو۔

 

سوال: آلِ ابراہیم اور آلِ محمد کی عظیم سلطنت (۰۴: ۵۴) اور بہشت کی ملکِ کبیر (بڑی بادشاہی) (۷۶: ۲۰) میں کیا فرق ہے؟ جواب: عظیم اور کبیر کے ایک ہی معنی ہیں، لہٰذا یہ حضرتِ امامؑ کی ایک ہی بہت بڑی بادشاہی،

 

۶۵

 

بلکہ شاہنشاہی ہے۔

 

جب حضرتِ موسیٰؑ اور حضرتِ ہارونؑ کے خاص مومنین کو خدائے مہربان نے ملوک = سلاطین بنایا (۰۵: ۲۰) تو اپنے محبوب رسول صلعم اور آپ کے وارث (امام) کے حقیقی مومنین کو بھی بہشت کے سلاطین بنا سکتا ہے، اور اس حقیقت میں اہلِ دانش کو کوئی شک ہی نہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر ۵، جنوری ۲۰۰۲ ء

 

۶۶

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۴۱

 

انبیا و اولیا علیہم السّلام اور ان کے حدودِ جسمانی کے عالمِ شخصی میں سنّتِ الٰہی کا تجدّد ہوتا ہے، یہاں یہ راز یاد رہے کہ باطنی اور اصولی معجزات سنّتِ الٰہی کے مطابق یکسان ہوا کرتے ہیں، چنانچہ حضرتِ عیسیٰؑ کے معجزات کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، مثال کے طور پر آیت (۰۳: ۴۹) اور (۰۵: ۱۱۰) کو پڑھیں، حضرتِ عیسیٰؑ مٹی کے گارے سے پرندے کی صورت کا ایک مجسمہ بناتا تھا اور اس میں پھونک مارتا تو وہ خدا کے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا، اس کی ایک عظیم الشّان تاویل ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب حدودِ جسمانی میں مخفی روحانی قیامت قائم ہوتی ہے تو اس وقت دنیا بھر کے لوگوں کی ارواح حاضر ہوتی ہیں، یہ منزلِ اسرافیلی اور عزرائیلی کا قصّہ ہے، جس میں کسی مومن پر سخت روحانی قیامت گزرتی ہے، اس کی روح بار بار قبض کرکے واپس بدن میں ڈال دی جاتی ہے، ایسی حالت میں صاحبِ قیامت بحکمِ خدا ستر ہزار ایماندار روحوں کو فرشتے بناتا ہے، مٹی کی تاویل مومن ہے، اور مٹی سے پرندہ بنانے کی تاویل ہے، مومن سے فرشتہ بنانا۔

 

بخاری جلدِ سوم باب ۸۵۶ میں یہ حدیثِ شریف ہے: یدخل الجنۃ سبعون الفا بغیر حساب ۔ ترجمہ: جنّت میں ستر ہزار بلا حساب داخل ہوں گے۔ البتہ یہی ستر ہزار فرشتے ہیں جو حظیرۂ قدس کے بیت المعمور کی ایک بار زیارت کرتے ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر ۵ جنوری ۲۰۰۲ء

 

۶۷

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۴۲

 

ستر ہزار فرشتوں کا ذکر ہوا، وہ جس قیامت گاہ = عالمِ شخصی سے مرفوع ہوئے ہیں، یعنی بلند کئے گئے ہیں، اسی کی کاپیاں اور کائناتیں ہیں، اعنی ہر فرشتہ ایک کائناتی بہشت، اور ایک خلافت = سلطنت ہے، جس کا وعدہ قرآنِ پاک میں موجود ہے (۰۶: ۱۶۵) اور (۲۴: ۵۵)۔

 

حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ  (۰۳: ۲۷)۔ ترجمہ: اور تو جس کو چاہتا ہے قیامت کا حساب لئے بغیر بہشت کا بے شمار رزق عطا کرتا ہے۔ یہ ستر ہزار حقیقی مومنین و مومنات ہیں جو نہ صرف حساب کے بغیر بہشت میں داخل ہوئے، بلکہ اللہ نے ہر ایک کو ایک فرشتہ اور ایک زندہ کائناتی بہشت بنایا، اور اس میں ایک دینی خلافت و سلطنت قائم کی تا کہ اس میں علم و حکمت اور معرفت کی نعمتوں کی فراوانی ہو، الحمد للہ علی منہ و احسانہ۔

 

یہ حقائق و معارف اپنی اپنی جگہ پر بدرجۂ اعلیٰ یقینی ہیں، تاہم بحکمِ الخلق عیال اللہ سب لوگ بہشت میں جائیں گے کیونکہ بہشت کی سلطنتیں لوگوں کے مختلف درجات پر قائم ہوتی ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار ۶ جنوری ۲۰۰۲ء

 

۶۸

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۴۳

 

حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کو اللہ تعالیٰ نے جو معجزات دیئے تھے ان کا ذکر قرآنِ حکیم کے دو مقام پر ہے: (۰۳: ۴۹) اور (۰۵: ۱۱۰) ان معجزات میں اساسی معجزہ یہ ہے کہ حضرتِ عیسیٰ اسمِ اعظم کا ایک جسمانی ظہور تھا، کیونکہ آپ کی والدہ مریم صدیقہ سلام اللہ علیہا کو اسمِ اعظم عطا ہوا تھا اور وہ لفظ کلمۃ ہے (۰۳: ۴۵) اور (۰۴: ۱۷۱) اور آپ کو یقین ہے کہ امامِ زمان خود ہی اللہ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم ہے، اور جب امامِ مبین میں خدا کی ہر ہر چیز محدود ہے، تو پھر پیغمبروں کے معجزات کیوں کر امامِ مبین سے باہر ہوسکتے ہیں، پس آئیے ہم امامِ زمانؑ کی نورانی معرفت کی روشنی میں حضرتِ عیسیٰؑ کے معجزات کی تاویلِ باطن کو دیکھتے ہیں، آپ نے گہوارے میں لوگوں سے کلام کیا، اس کی تاویل یہ ہے کہ جب مومنِ سالک کی روحانی قیامت کا آغاز ہوتا ہے تو امامِ زمانؑ کا نور طفلِ نو مولود کی آواز میں کلام کرتا ہے۔

 

قرآن (۰۲: ۲۶) میں یہ معجزہ بعوضہ کی مثال ہے، مولا علی علیہ السّلام نے فرمایا: وہ بعوضہ میں ہوں۔ کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت ۶۴۔

 

یہاں نور کی یہ آواز برائے امتحان مچھر کی آواز کی طرح ہے یا کان بجنے کی آواز کی طرح ہے، نیز یہ ناقورِ قیامت کی بنیاد بھی ہے، اور مولا علیؑ خود

 

۶۹

 

ناقور ہے، منقبت ۵۶۔ اور امامِ زمانؑ کا یہ سمعی نور جو کان بجنے کے حجاب میں ہے وہ فرشتہ بھی ہے جو ایک جنّ کے خلاف مقرر ہے۔

 

حضرتِ عیسیٰؑ کے دوسرے معجزات کی تاویل ان شاء اللہ قسط ۴۴ میں بیان کریں گے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر ۷، جنوری ۲۰۰۲ء

 

۷۰

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۴۴

 

حضرتِ عیسیٰؑ خدا کے حکم سے مادر زاد اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے، یہاں یہ سوال ہے کہ آیا باطن میں بھی مادرزاد اندھے ہوتے ہیں؟ جواب: جی ہاں بہت زیادہ بلکہ بے شمار، کیونکہ جو حضرات نورٌعلیٰ نور ہیں وہ تو اس بحث سے بالاتر ہیں باقی سب لوگ چشمِ باطن کے بغیر پیدا ہوتے ہیں، اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آئی کہ حضرتِ عیسیٰؑ کے اس معجزے کی تاویل ہے، اور وہ یہ ہے کہ آپ باطنی اندھوں کا علاج کرتے تھے اور خدا کے اذن سے ان کی چشمِ باطن روشن ہوتی تھی، آپ مردوں کو زندہ کرتے تھے، مردے دو قسم کے ہوتے ہیں، جسمانی مردے ، اور غفلت و جہالت کے مردے۔

 

انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ وہ غافلوں اور جاہلوں میں علم و حکمت کی روح پھونک کر حقیقی معنوں میں زندہ کرتے ہیں، پس حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم تاویلِ باطن کو دیکھتے ہیں تو حضرتِ عیسیٰؑ نے کوئی انوکھا معجزہ نہیں کیا بلکہ ہر پیغمبر اور ہر امام کے باطنی معجزات کی نشاندہی ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

سوال: ابنِ مریم کوڑھی = جذامی کو بھی شفایاب کرتے تھے، اس کی

 

۷۱

 

کیا تاویل ہے؟ جواب: روحانی سفر میں ذرا آگے چلنے کے بعد ایک آزمائشی روشنی آتی ہے جو غیر مفید ہے، اس کو چھوڑ کر آگے جانا چاہئے، لیکن ہادیٔ برحق کی مدد کے بغیر یہاں سے نکل کر آگے جانا غیر ممکن ہے، لہٰذا بہت سے لوگ وہاں سے ناکام ہوکر واپس ہوجاتے ہیں، مگر جس کو ہادیٔ برحق کی رہنمائی حاصل ہوئی وہ آگے سے آگے جاتا ہے اور رفتہ رفتہ حظیرۂ قدس کی منزلِ مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔

پیر ۷، جنوری ۲۰۰۲ء

 

۷۲

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۴۵

 

سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۱۲ تا ۱۱۵) کے حوالے سے مائدہ (خوانِ آسمانی) کی کیا تاویل ہے؟ جواب: اسمِ اعظم کے نتائج و ثمرات = علمی و عرفانی معجزات اور حظیرۂ قدس کا مشاہدہ۔

 

سوال: آیا یہ معجزہ صرف حضرتِ عیسیٰؑ اور اس کے شاگردوں (حواریوں) کے لئے مخصوص تھا؟ جواب: نہیں نہیں یہ تو امامِ مبین علیہ السّلام کا باطنی معجزہ ہے، جس سے ہر زمانے کے عارفین و سالکین فائدہ حاصل کرسکتے ہیں، اور حدودِ دین کے وسیلے سے اس معجزۂ علمی کا دائرۂ برکات وسیع تر ہوسکتا ہے۔

 

حضرتِ عیسیٰؑ نے حواریوں کی درخواست پر ربّ العزّت کے حضور میں یوں دعا کی:

 

اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَۚ-وَارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ (۰۵: ۱۱۴)۔

 

ترجمہ: خدایا، ہمارے ربّ، ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو، ہمارے لئے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لئے عید (خوشی کا موقع) ہو، اور تیری طرف سے ایک نشانی (ایک معجزہ) ہو، ہم کو رزق دے اور تو بہترین رازق

 

۷۳

 

ہے۔

 

حضرتِ عیسیٰؑ کی اس دعا میں صاحبانِ عقل کے لئے بہت سی حکمتیں ہیں ظاہر ہے کہ یہ باطنی عیدِ سعید زمانۂ عیسیٰؑ سے پہلے بھی آتی تھی اور بعد میں بھی آتی رہے گی، اللہ خیر الرازقین ہے، اس میں عقلی اور روحانی رزق دینے کا واضح اشارہ ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔

منگل، ۸ جنوری ۲۰۰۲ ء

 

۷۴

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۴۶

 

حدیثِ شریف ہے: خلق اللہ اٰدم علیٰ صورتہ۔ ترجمہ: اللہ نے آدم کو اپنی (رحمانی) صورت پر پیدا کیا (بخاری، جلدِ سوم، باب ۶۵۸) اور یہ ارشادِ نبوی بھی ہے: فکل من یدخل الجنۃ علیٰ صورۃ آدم۔ پس جو شخص جنت میں جائے آدم علیہ السلام کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا۔

 

سوال: اللہ تعالیٰ نے کب اور کہاں آدم کو اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا تھا؟

 

جواب: جب آدم حظیرۂ قدس = جنّت میں داخل ہوا، اب یہاں آدم کی دو صورتوں کا تصور ہوتا ہے، ایک وہ صورت جو حظیرۂ قدس سے باہر اور فنا فی اللہ سے پہلے تھی اور ایک یہ صورت، یعنی صورتِ رحمان، جو بعد میں عطا ہوئی۔

 

دوسرا اہم سوال یہ ہے، کہ جو شخص بھی جنّت میں جائے وہ آدم کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا، لیکن پوچھنا یہ ہے کہ آدم کی بشری صورت؟ یا رحمانی صورت؟ اگر بات رحمانی صورت کی ہے تو قرآنی شہادت ضروری ہے۔

 

قرآنی شہادت (۰۷: ۱۱) میں اس طرح ہے: وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ

 

۷۵

 

صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ۔

 

ترجمہ: ہم نے تم کو (نفسِ واحدہ = آدم کی وحدت میں) جسماً و روحاً و عقلاً پیدا کیا پھر تم کو حظیرۂ قدس میں صورتِ رحمان پر پیدا کیا پھر فرشتوں کو حکم کیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ اور فرشتوں نے خدا کے حکم سے آدم کو دو مقام پر سجدہ کیا ہے، پہلا سجدہ منزلِ اسرافیلی کے آغاز میں، دوسرا سجدہ حظیرۂ قدس میں، دونوں مقام پر تم فرشتوں میں بھی تھے اور آدم میں بھی۔

 

ایک بہت بڑی قرآنی شہادت یہ بھی ہے: مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍؕ۔ مفہوم: تم سب کو پیدا کرنا اور پھر بعد از موتِ نفسانی دوبارہ جِلا اٹھانا نفسِ واحدہ (آدم) کی طرح ہے (۳۱: ۲۸)۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۹ جنوری ۲۰۰۲ ء

 

۷۶

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۴۷

 

حدیثِ شریف ہے: ان لکل شیءٍ قلبا و قلب القرآن یٰسٓ۔ ترجمہ: ہر چیز کا دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۂ یس ہے۔

 

صاحبِ جوامع الکلم صلعم کے اس پاک و پرحکمت ارشاد میں ضرور کوئی بہت بڑا راز مخفی ہوسکتا ہے، اور وہ راز یقیناً یہی ہے کہ خدائے علیم وحکیم نے اس سورہ میں کلّیۂ امامِ مبین کا بیان فرمایا ہے (۳۶: ۱۲) یہ کلّیہ دراصل کلِّ کلّیات ہے، یعنی قوانینِ قرآن کا جامع الجوامع قانون ہے، اور اس میں صاحبانِ عقل و دانش کے لئے ہر ہر علمی و عرفانی سوال کا شافی جواب موجود و مہیا ہے، اور اس حقیقت میں کسی دانا کے لئے کیا شک ہو سکتا ہے کہ قرآنِ حکیم کلامِ الٰہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی سنّت کا مظہر ہے، سنتِ الٰہی کی کامل اور مکمل معرفت تو خدا شناسی سے الگ نہیں ہے، تاہم علم الیقین کی مدد سے آپ اس حقیقت کا یقین حاصل کریں کہ اللہ الباسط بھی ہے اور القابض بھی، یعنی وہ چیزوں کو پھیلاتا بھی اور لپیٹتا بھی ہے، پس اسی سنّتِ الٰہی کے مطابق قرآنِ حکیم بیک وقت پھیلایا ہوا بھی ہے، اور لپیٹا ہوا بھی ہے، الحمد میں سارا قرآن جمع ہے، اسمِ اعظم میں قرآن مخزون ہے، ام الکتاب میں، لوحِ محفوظ میں، خزائنِ الٰہی میں، اور اس بولنے والی کتاب میں، جو خدا کے پاس

 

۷۷

 

ہے، وغیرہ، اگر ان حقائق کے باؤجود ہم قرآن کی وحدت و سالمیت کو نہیں جانتے ہیں تو ہم ان لوگوں میں سے ہوجائیں گے، جنہوں نے اپنے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے، (۱۵: ۹۱) قرآنِ عزیز کے جو جو خزائن اور مراکز اور درجات ہیں ان سب کی وحدت و سالمیت امامِ مبین ہی میں ہے، لہٰذا امامِ زمان کا نور قرآن کا زندہ قلب = دل ہے اور سورۂ یٰسٓ کے قلبِ قرآن ہونے کا رازِ اعظم یہی ہے۔

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات ۱۰ جنوری ۲۰۰۲ء

 

۷۸

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۴۸

 

آپ حضرتِ مولا علی صلوات اللہ علیہ کے پاک و پرحکمت ارشادات کو کامل عشق و محبت سے پڑھا کریں، خود مولا کی نورانی تاویل کا کہنا ہے کہ امامِ مبین قرآنِ ناطق ہے، اسی مناسبت سے سورۂ یٰسٓ قلبِ قرآن ہے، اور یہ خداوندِ تعالیٰ ہی کا ارشاد ہے کہ اللہ کی طرف سے نور بھی آیا ہے اور کتاب بھی آئی ہے (۰۵: ۱۵)۔ یہی زندہ نور قرآنِ ناطق ہے، پہلے رسولِ اکرمؐ، اور پھر آپ کا وصی = امامِ مبین، قرآنِ ناطق ہے، نیز اسی زندہ نور کا بالائی سرا کتابِ ناطق کے نام سے اللہ کے پاس ہے (۲۳: ۶۲) (۴۵: ۲۹) اور یہی نور اللہ کی رسی بھی ہے، جس کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور دوسرا سرا لوگوں کے سامنے ہے، اور یہی نور وہ امامِ مبین ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے کل اشیاء کو گھیر کر اور عددِ واحد میں گن کر رکھا ہے، اور خدا وہ قادرِ مطلق ہے جو بےشمار کائناتوں کو دستِ قدرت میں لپیٹ کر گوہرِ نورِ ازل بناتا ہے، پھر اسی نور سے لاتعداد کائناتیں بناتا ہے، جب نورِ محمدی، عقلِ کل = قلم = عرش ہے، اور نورِعلی، نفسِ کلّی = لوح = کرسی ہے، تو کرسی کی تعریف قرآن میں پڑھیں:

ارشاد ہے: وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ۔

ترجمہ: اُس کی کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا

 

۷۹

 

ہے (۰۲: ۲۵۵)۔ اللہ کی یہی کرسی امامِ مبین کا ہمہ رس اور ہمہ گیر نور ہے جو فرشتۂ عظیم = نفسِ کلّی ہے، جس کے باطن میں ستر ہزار سے زیادہ کائناتیں ہیں۔

 

پس سورۂ یس (۳۶: ۱۲) میں جو کلیۂ امامِ مبین ہے، وہ دراصل کلِ کلیات اور تمام قوانینِ قرآن کا جامع الجوامع قانون ہے، جس میں اہلِ بصیرت کے لئے قرآنِ حکیم کی نورانی تاویل کا سب سے بڑا خزانہ موجود ہے، قرآنِ عزیز کی نورانی تاویل سے کاملین و عارفین کا عالمِ شخصی معمور و پرنور ہوتا ہے، اور یہ سب کچھ مخفی روحانی قیامت کی برکت سے ہے، جس کو امامِ مبین ہی برپا کرتا ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ، ۱۱، جنوری ۲۰۰۲ء

 

۸۰

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۴۹

 

سوال: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا؟ جبکہ اوّلیت سے متعلق رسولِ اکرم صلعم کی تین پاک حدیثیں ہیں۔ جواب: ان اسرارِعظیم میں لوگوں کا بڑا امتحان ہے، اور امرِ واقعی یہ ہے کہ نورِ محمدیؐ، عقل، اور قلم ایک ہی چیز ہے، محمدؐ و علیؑ کا نورِ واحد ہی نورِ ازل اور سب سے اوّل ہے، یہی پاک نور قلم اور عقل ہے، ایک ہی اعظم چیز کے بہت سے نام اور بہت سے کام ہوا کرتے ہیں، جیسے اللہ کے اور اس کے پاک رسولؐ اور علیؑ کے بہت سے اسماء ہیں۔

 

سوال: حظیرۂ قدس میں بہت سے انوار ہیں یا نورِ واحد ہے؟ جواب: وہاں نورِ یک حقیقت ہے، چونکہ ح۔ ق عالمِ وحدت ہے۔

 

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ حجتِ قائم صلوات اللہ علیہ نے یک حقیقت کا انقلابی تصوّر دیا ہے، آیا اس غالب تصوّر کے اسرارِ عظیم حظیرۂ قدس میں مکشوف ہوسکتے ہیں؟ جواب: جی ہاں، بہت زیادہ تسلی بخش طریق پر۔

 

سوال: رجوعِ روح کس طرح ہے؟ کیا یہ انفرادی اور ذاتی ہے، یا اجتماعی؟ یا نفسِ واحدہ کے ذریعے سے ہے؟ جواب: انسان دنیا میں ازخود نہیں آیا ہے، بلکہ نفسِ واحدہ کے ذریعے

 

۸۱

 

سے آیا ہے، پس لازمی ہے کہ نفسِ واحدہ ہی کے ذریعے سے وہ واپس جائے گا، یعنی ہر شخص خوشی سے یا زبردستی سے امامِ مبین ہی میں فنا ہوکر خدا کے پاس جاسکتا ہے، پس اسی معنیٰ میں وجہ اللہ امام المتّقین بھی ہے اور امام النّاس بھی ہے۔

 

خدا کے دین میں سب سے زبردست طاقت روحانی قیامت ہے، جس کو برپا کرنے کے لئے اللہ نے امام کو مقرر فرمایا ہے (۱۷: ۷۱)۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر ۱۲، جنوری ۲۰۰۲ء

 

۸۲

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۵۰

 

کتابِ دعائم الاسلام عربی، جلدِ اوّل ص ۱۵ تا ۱۶ پر حدیثِ بنی عبدالمطلب کو خوب غور سے پڑھیں اس میں چند عظیم اساسی حکمتیں ہیں، اس حدیثِ شریف کے مطابق حضرتِ مولا علیؑ آنحضرتؐ کا وصی، وزیر، وارث، بھائی اور ولی ہے، اس بارے میں آپ کو کئی اور احادیثِ صحیحہ مل سکتی ہیں۔

 

آپ یقیناً اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ ہر حدیثِ صحیحہ قرآنِ حکیم کی کسی آیت کی ترجمانی کرتی ہے، چنانچہ ہم یہاں خداوندِ قدّوس کی توفیق سے اس بات کی تحقیق کرتے ہیں کہ مولا علیؑ حضورِ اکرمؐ کی کس چیز کا وارث ہے، اور وہ آیۂ شریفہ کون سی ہے، جس میں پیغمبر کے وارث ہونے کا حکم یا اشارہ ہے؟

 

جواب: سورۂ فاطر (۳۵: ۳۲) میں یہ ارشاد ہے:

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاۚ۔ ترجمہ: پھر ہم نے کتاب کا وارث ان لوگوں کو بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا تھا۔ اس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ علیؑ = امامِ مبین وارثِ نبی کے معنی میں وارثِ کتاب یعنی وارثِ قرآن ہے، کہ قرآن کی جو نورانی تاویل امامِ آلِ محمد کے پاس ہے، وہ کسی کے پاس نہیں، اور قرآن کی نورانی تاویل عظیم باطنی معجزات کی صورت میں اُس عالمِ شخصی

 

۸۳

 

اور حظیرۂ قدس میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ جس میں بعنوانِ روحانی قیامت امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہو جاتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر ۱۴ جنوری ۲۰۰۲ء

 

۸۴

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۵۱

 

مولا علی صلوات اللہ علیہ کا یہ فرمانِ اقدس عاشقانِ امامِ مبین کے لئے ایک عظیم نورانی خزانہ ہے:

 

انا و محمد نور واحد من نور اللہ ۔

ترجمہ: میں اور محمد ایک ہی نور ہیں، اللہ کے نور سے

 

انا اللوح المحفوظ = میں لوحِ محفوظ ہوں۔

و انا القرآن الحکیم = اور میں قرآنِ حکیم (قرآنِ ناطق) ہوں۔

انا محمد و محمد انا = میں محمد ہوں، اور محمد میں (علی) ہے۔

 

فآدم، و شیث، و نوح، و سام، و ابراہیم، و اسماعیل، و موسیٰ ، و یوشع، و عیسیٰ، و شمعون، و محمد و انا کلنا واحد = پس آدم، اور شیث، اور نوح، اور سام، اور ابراہیم، اور اسماعیل اور موسیٰ، اور یوشع، اور عیسیٰ ، اور شمعون، اور محمد اور یقیناً ہم سب ایک ہیں۔

 

انا ملک ابن ملک = میں بادشاہ کا بیٹا بادشاہ ہوں (یعنی امام کا بیٹا امام ہوں)۔

 

۸۵

 

انا النباء العظیم انا الصراط المستقیم = میں وہ سب سے بڑی خبر ہوں، جس کے بارے میں لوگوں میں اختلاف ہے، میں صراطِ مستقیم ہوں یعنی وہ نورانی راہِ راست جو آسانی سے خدا تک جاتی ہے۔

 

انا و اللہ وجہ اللہ = خدا کی قسم!  میں وجہ اللہ ہوں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر ۱۴ ، جنوری ۲۰۰۲ ء

 

۸۶

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۵۲

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ (۴۰: ۰۱، حم)، (۴۱: ۰۱، حم)، (۴۲: ۰۱، حم)، (۴۳: ۰۱، حم)، (۴۴: ۰۱، حم)، (۴۵: ۰۱، حم)، (۴۶: ۰۱، حم)۔

 

یہ قرآنِ حکیم کے حروفِ مقطعات میں سے ہیں ان میں سے ہر ٹکڑا حٰمٓ کہلاتا ہے، اور جمع حوامیم ہیں، ان کی تاویل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولاعلیؑ نے ارشاد فرمایا: انا امانۃ یاسین، انا حاء الحوامیم۔ مفہوم: میں یاسین (سورہ یٰسٓ، نیز حضرتِ محمدؐ) کی امانت ہوں، میں حوامیم کا حرفِ حا = حجت= الحی ہوں۔ ح =۸، م = ۴۰ =  ۴۸، یہ اشارہ ہے کہ حجتِ قائم کے زمانہ میں ایک عظیم مخفی روحانی قیامت برپا ہوگی، جس میں سورۂ قدر (۹۷: ۰۴) کے ارشاد کے مطابق عالمِ امر سے ملائکہ و ارواح کا نزول ہوگا، مگر اہلِ معرفت کے سوا کسی کو اس قیامت کی خبر نہ ہوگی۔

 

حٰمٓ، میں اللہ تعالیٰ کے دو بزرگترین نام ہیں: الحیّ ، القیوم۔ اور حٰمٓ قرآنِ عزیز میں سات دفعہ وارد ہوا ہے، اس کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ زمانۂ نبوّت اور زمانۂ قائم کے درمیان سات روحانی قیامات ہیں۔

 

۸۷

 

وجہِ دین، ص ۱۹۷ پر یہ حدیثِ شریف درج ہے: بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ = میری قبر اور منبر کے درمیان باغاتِ بہشت میں سے ایک باغ ہے۔

 

قبر = اساس = علی، منبر = حضرتِ قائم، یعنی میرے اساس اور قائم کے درمیان ظاہری اور باطنی دعوت کا سلسلہ جاری رہے گا، اور باطنی دعوت روحانی قیامت ہے، اس سے معلوم ہوا کہ روحانی قیامت ہر امام کے زمانے میں برپا ہوتی چلی آئی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۱۵ جنوری ۲۰۰۲ء

 

۸۸

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۵۳

 

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کا پاک ارشاد ہے: ان للقرآن ظھراً و بطناً و لبطنہ بطنا الی سبعۃ ابطن او الیٰ سبعین بطنا۔ ترجمہ: اس میں شک نہیں کہ قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے اور اس کے باطن کا بھی باطن ہے یہ سلسلہ سات بواطن یا ستر بواطن تک جاتا ہے۔ ہزار حکمت (ح: ۶۸۸) بحوالۂ المیزان ، جلدِ اوّل، ص ۷۔

 

قرآن کے باطن سے تاویل مراد ہے، اور نورانی تاویل امامِ مبین کے نورِ اقدس میں ہے، اور یقیناً قرآن خود بھی باطن میں روح اور نور ہے (۴۲: ۵۲) یعنی قرآن جہاں امامِ مبین علیہ السّلام میں ہے، وہاں یہ امام کی روحِ مقدّس میں روح اور اس کے نورِ پاک میں زندہ نور ہے۔

سورۂ اعراف (۰۷: ۵۳) کے مطابق روحانی قیامت ہی کی صورت میں قرآن کی نورانی تاویل آتی ہے، بالفاظِ دیگر جب امامِ مبین کا نور مومنِ سالک کے عالمِ شخصی میں طلوع ہو جاتا ہے تو یہ سورج کی طرح خاموشی سے طلوع نہیں ہوتا بلکہ قیامت برپا ہو جاتی ہے، جس کا تذکرہ تمام قرآن میں موجود ہے، پس اسی مخفی روحانی قیامت کے واقعات و معجزات میں امام کے نور کی وجہ سے قرآن کی نورانی تاویل آتی ہے۔

 

۸۹

 

مولا علیؑ کے ارشادات میں دیکھیں: مولا ناقورِ قیامت ہے (۷۴: ۰۸)، مولا الساعۃ = قیامت ہے (۲۵: ۱۱) مولا ہی قائم القیامت ہے (۱۷: ۷۱)، پس سر تا سر قیامت میں مولا ہی کا نور کام کر رہا ہوتا ہے، لہٰذا قرآن کی نورانی تاویل امام کے نور کی نورانیت ہے۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ، ۱۶، جنوری ۲۰۰۲ء

 

۹۰

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۵۴

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) میں ارشاد ہے: وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۪-وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖؕ-سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ ترجمہ: اور اللہ کے بہت ہی اچھے نام = اسمائے عظام ہیں، اس کو انہی اسمائے عظام ہی سے پکارو، اور ان لوگوں کو چھوڑ دو، جو اس کے اسماء کی معرفت میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں جو کچھ وہ کرتے ہیں، اس کا بدلہ وہ پا کر رہیں گے۔

 

کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت ۲۹ کو دیکھو مولاعلیؑ (یعنی امامِ مبین) اسمِ اعظم اور اسماء الحسنیٰ ہے، یاد رہے کہ امامِ زمانؑ اپنے جن روحانی بچوں کو نمائندہ اسمِ اعظم عطا فرماتا ہے، وہ اگرچہ واحد ہوتا ہے، پھر بھی وہ جمع ہے، کیونکہ کامیابی کی صورت میں اس میں سے کئی اسماء کا ظہور ہوتا ہے اسی وجہ سے مذکورہ آیۂ کریمہ میں اسمِ اعظم اسماء الحسنیٰ سے عبارت ہے، نیز یہ مثال ایسی ہے جیسے امامِ زمان میں سب امام ہوتے ہیں، پس امامِ زمان واحد بھی ہے اور جمع بھی، جیسے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام امام تھا، جو واحد بھی تھا اور جمع بھی، وہ آیۂ شریفہ یہ ہے: اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ۔ ترجمہ: واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم

 

۹۱

 

ایک امت تھا اللہ کا مطیعِ فرمان اور یک سو (۱۶: ۱۲۰) اسی طرح امامِ زمان اللہ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم ہے اور اپنے سلسلۂ نور میں اسماء ُ الحسنیٰ ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۱۶، جنوری ۲۰۰۲ ء

 

۹۲

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۵۵

 

گنجینۂ جواہرِ احادیث ص ۱۳ پر یہ حدیثِ شریف ہے:

علی مع القرآن و القرآن مع علی، لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض ۔ رسولِ کریمؐ کا پاک ارشاد ہے: علیؑ (باطن اور نورانی میں) قرآن کے ساتھ ہے، اور قرآن اُسی صورت میں علیؑ کے ساتھ ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے تا آنکہ یہ دونوں حوضِ کوثر پر مجھ سے مل جائیں۔ یعنی ان دونوں کی رہنمائی حجتِ قائم اور قائم تک ضروری اور لازمی ہے۔

 

اس کے بعد صاحبِ تاویل سے متعلق جو مشہور حدیث ہے اس کا ترجمہ یہ ہے: یقیناً تم میں وہ شخص بھی ہے جو قرآن کی تاویل پر جنگ کرے گا، جس طرح میں نے قرآن کی تنزیل پر جنگ کی۔ یہ حضرتِ علی علیہ السّلام کی شان میں ہے۔

 

پس جس طرح حضورِ اکرمؐ تنزیلی جنگ کے لئے ظاہر میں لشکر کو منظم اور تیار کرتے تھے، اسی طرح امامِ مبین تاویلی جنگ کے لئے لشکر کو باطن اور نورانیت میں تیار کرتا ہے کیونکہ قرآنِ حکیم کی نورانی تاویل عالمِ شخصی کے باطن میں بشکلِ معجزاتِ روحانی قیامت پائی جاتی ہے، جس کے حصول کے لئے عالمِ شخصی کا

 

۹۳

 

روحانی سفر ضروری ہوتا ہے، بشرطیکہ عالمِ شخصی میں امامِ زمانؑ کا مقدّس نور طلوع ہو چکا ہو، ورنہ ظلمت میں نہ تو صراطِ مستقیم کا سفر ممکن ہے، اور نہ ہی کوئی تاویلی معجزہ نظر آئے گا۔

 

شبِ تاریک اور روزِ روشن کے درمیان جو آسمان زمین کا فرق ہے، اس کو کون نہیں جانتا؟ مجھے حکیم پیر ناصر خسرو کا شعر یاد آیا:

 

بر جانِ من چو نورِ امامِ زمان بتافت

لیل السرار بودم و شمس الضحیٰ شدم

 

میری جان پر جب امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہوا میں گھپ اندھیری رات تھا (اب) روزِ روشن ہوگیا۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات ۱۷، جنوری ۲۰۰۲ء

 

۹۴

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۵۶

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۵۲ تا ۵۳) مفہوم: ہم ان لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب (قرآن) لے آئے ہیں جس کو ہم نے ایک خاص علم یعنی علمِ تاویل کی بناء پر مفصل بنایا ہے، اور جو حقیقی معنوں میں ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے، کیا وہ لوگ کسی اور بات کے منتظر ہیں مگر یہ ہے کہ (مخفی روحانی قیامت کی صورت میں) اُس کی (یعنی قرآن کی) تاویل آئے گی۔

 

سوال: مخفی روحانی قیامت کا قرآنی ثبوت کیاہے؟ ج: جواب کے لئے ویسے تو بہت سی آیاتِ کریمہ ہیں، مگر مقالہ بہت ہی مختصر ہے، لہٰذا صرف ایک ہی آیۂ شریفہ کا ترجمہ پیش کرتے ہیں، جو سورۂ نمل (۲۷: ۶۶) ہے: بلکہ آخرت کا علم ہی ان سے گم ہوگیا ہے، بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں، بلکہ یہ اُس سے اندھے ہیں۔

 

ہزار حکمت (ح: ۶۲۶) اور (ح: ۶۲۷) کو دیکھو، وہاں، لفظِ عمون کی حکمت بیان ہوئی ہے۔

 

آپ کو یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ اللہ کا کلامِ حکمت نظام صدق و عدل میں بدرجۂ انتہا کامل و مکمل اور ہر طرح سے بے مثال ہے (۰۶: ۱۱۵) ایسے میں قرآنِ حکیم کا یہ اعتراض کہ آخرت کا علم ہی ان لوگوں سے گم ہوگیا ہے، یعنی

 

۹۵

 

یہ لوگ سرچشمۂ علمِ آخرت سے ہٹ گئے ہیں، پھر اعتراض ہے کہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں، اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ کام (امر) ممکن تھا کہ وہ علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین سے شکوک کو ختم کرسکتے تھے، آخری اعتراض ہے: بلکہ یہ اس (قیامت اور آخرت) سے اندھے ہیں، اگر دنیا ہی میں قیامت اور آخرت کا مشاہدۂ عرفانی ممکن نہ ہوتا تو قرآنِ حکیم ان لوگوں کو اندھے قرار نہ دیتا، اس آیۂ کریمہ کی حکمتِ بالغہ سے صاحبانِ عقل پر یہ حقیقت روشن ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا امتحان علم الآخرت میں ہے اور علمِ قیامت کا نتیجہ علمِ آخرت ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ ۱۸، جنوری ۲۰۰۲ ء

 

۹۶

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۵۷

 

سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۵) میں ارشاد ہے: اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ اَكَادُ اُخْفِیْهَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا تَسْعٰى ۔ ترجمہ: قیامت ضرور آنے والی ہے، میں اُس کو مخفی رکھنا چاہتا ہوں تا کہ ہر شخص اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے۔ ایک اور ترجمہ: یقیناً قیامت آنے والی ہے، میں اُس کو (تمام خلائق سے) پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں، تا کہ ہر شخص کو اس کی کوشش کے مطابق بدلہ مل جائے۔

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے یقیناً قیامت کو تمام خلائق سے برائے امتحان پوشیدہ رکھا ہے، ساتھ ہی ساتھ اُس قادرِ مطلق نے امامِ مبین کو صاحبِ قیامت بنایا ہے، پس امام کا لوگوں کو قیامت کے لئے بلانا گویا خدا کا بلانا ہے (۱۷: ۷۱) امامِ زمانؑ اپنے روحانی لشکر کے کسی عالمِ شخصی سے بذریعۂ اسرافیل سیارۂ زمین کے تمام لوگوں کو بلاتا ہے، لوگ ظاہری جسم میں نہیں، بلکہ ذرّاتِ روحانی میں محشور ہوتے ہیں سوائے عارف کے باقی سب لوگوں کی یہ مخفی روحانی قیامت غیر شعوری حالت میں ہوتی ہے، کیونکہ سب لوگ شعوری قیامت کی شرائط سے غافل تھے اور انہوں نے صاحبِ قیامت سے رجوع نہیں کیا جیسا کہ رجوع کرنے کا حق ہے، امامِ زمان علیہ السّلام ہی بحکمِ خدا ارواحِ خلائق کو مخفی روحانی قیامت

 

۹۷

 

کے لئے بلاتا ہے، جیسے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے بمرتبۂ امامت حج کی مثال میں دنیا بھر کے لوگوں کو روحانی قیامت کے لئے بلایا تھا، (۲۲: ۲۷ تا ۲۹) خدا نے حضرتِ ابراہیمؑ کو حکم دیا: وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ (۲۲: ۲۷)۔

 

ترجمہ: اور دنیا بھر کے لوگوں کو حج کے لئے پکارو۔ پہلا سوال: آیا زمانۂ ابراہیم میں سب لوگ مسلمان تھے؟ دوسرا سوال: اس زمانے میں دنیا بھر کے لوگوں کو بلانے کے لئے کیا ذریعہ تھا؟ ظاہر ہے کہ یہ صرف اور صرف روحانی قیامت کے لئے بذریعۂ اسرافیل روحانی دعوت تھی، جس کا حکم خدا نے حضرتِ ابراہیمؑ ہی کو دیا تھا۔

 

اُس روز صور پھونکا جائے گا اور وہ سب بے ہوش ہوجائیں گے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، سوائے ان کے جنہیں اللہ باہوش رکھنا چاہے (۳۹: ۶۸)۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔

سنیچر ۱۹ جنوری ۲۰۰۲ء

 

۹۸

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۵۸

 

قرآنِ عزیز کی متعدد آیاتِ کریمہ میں کائنات یا اجزائے کائنات کی تسخیر کا ذکر آیا ہے، اگر ان آیاتِ مقدسہ کا باطنی اور تاویلی پہلو بھی ہے، تو بتائیں کہ سفرِ عالمِ شخصی کی کس کس منزل میں سالکین و عارفین کے لئے تسخیری معجزات ہوتے ہیں؟ ج: سوال انتہائی عظیم اور سخت مشکل ہے، اور میری معلومات بہت ہی محدود، چلو مولائے پاک سے تائید کی درخواست کرتے ہیں، روحانی سفر کا مکمل قصّہ نہ صرف بڑا طویل ہے، بلکہ ازبس نازک اور انتہائی دشوار بھی ہے، لہٰذا ہم، مخفی روحانی قیامت کے آغاز میں جو جو عظیم معجزاتِ اسرافیلی اور عزرائیلی ہیں، ان کا اشارہ کرتے ہیں، ان دونوں عظیم فرشتوں کے تمام معجزات تسخیری ہیں، یعنی تسخیر سے متعلق جتنی بھی آیاتِ شریفہ ہیں، ان سب کی ایک بار تاویل اسی منزل میں مکمل ہو جاتی ہے، اگر تم حجتِ قائم میں اور حضرتِ قائم میں فنا ہوجاتے ہو تو کائنات اور اجزائے کائنات کی تسخیر کا سب سے بڑا مقصد حاصل ہوسکتا ہے، اور آخری بار ہر چیز کی تسخیر تو حظیرۂ قدس ہی میں ہے، جبکہ تم اُس میں داخل ہوسکتے ہو۔

 

آپ میری کتابوں کو غور سے پڑھیں اور اس سوال کے جواب کے لئے عملی تصوف کو بھی، خاص کر روحانی سائنس کے عجائب و غرائب ص ۱۴۱ تا ۱۴۶۔

 

قرآنِ حکیم میں آیاتِ تسخیر کو پڑھیں، خصوصاً (۳۱: ۲۰) کو۔

 

۹۹

 

معجزاتِ اسرافیلی و عزرائیلی سے پہلے عالمِ خواب اور عالمِ خیال کے معجزات اور عجائب و غرائب ہیں، حق الیقین کے سب سے عظیم معجزاتِ تسخیری تو حظیرۂ قدس ہی میں ہیں کیونکہ ح۔ ق تو بہشتِ برین ہے، سبحان اللہ و الحمدللہ و لا الٰہ الا اللہ و اللہ اکبر و لا حول و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔

اتوار، ۲۰ جنوری ۲۰۰۲ ء

 

۱۰۰

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۵۹

 

سورۂ رعد (۱۳: ۰۱ تا ۰۲) میں ارشاد ہے: الٓـمّٓرٰ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِؕ-وَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ۔

 

مفہوم: الف۔ لام۔ میم۔ را۔ الف= اوّل = عقلِ اوّل = نورِ محمدی = قلم = عقلِ کلّ ۔ لام = ثانی = نفسِ کلّ = لوحِ محفوظ = نورِ علی ۔ میم = مرقوم = مکنون = مقامِ محمود۔ را = رویت = دیدار = لقاء اللہ = وجہ اللہ۔ یہ اُس کتابِ ناطق کی آیات ہیں جو اللہ کے حضور میں ہے (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) اور جو کچھ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے (یعنی قرآن) وہ عین حق ہے مگر (تمہاری قوم کے) اکثر لوگ مان نہیں رہے ہیں۔

 

اَللّٰهُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَؕ-كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّىؕ-یُدَبِّرُ الْاَمْرَ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ۔

مفہوم: وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو غیر مرئی ستونوں پر مرفوع (قائم) کیا پھر وہ عرش (تخت) پر جلوہ فرما ہوا اور سورج اور چاند کو مسخر کر دیا ہر

 

۱۰۱

 

چیز ایک مسما حقیقت (ظاہر کرنے کے) لئے چل رہی ہے، وہ کلمۂ امر (کن = ہو جا) کا ہمیشہ اعادہ فرماتا ہے، یعنی ہمیشہ تخلیق کا کام کرتا ہے، وہ اپنی آیات کی تفصیل بیان کرتا ہے، شاید کہ تم اپنے ربّ کی ملاقات کا یقین کرو۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر ۲۱، جنوری ۲۰۰۲ ء

 

۱۰۲

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۶۰

 

مقامِ محمود (۱۷: ۷۹) = علیین (۸۳: ۱۸) = کتاب مرقوم (۸۳: ۲۰) = کتابِ مکنون (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) = وجہ اللہ (۰۲: ۱۱۵، ۵۵: ۲۷، ۲۸: ۸۸)۔

 

قرآنِ حکیم کے بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ کی پاک ملاقات کا ذکر ہے، رسولِ اکرمؐ کا ارشاد ہے: من رانی فقد را اللہ = جس نے مجھ کو دیکھا اُس نے (گویا) خدا کو دیکھا۔ اور یہاں فرمانِ امام محمد باقرؑ (ما قیل فی اللہ) بھی پیشِ نظر ہو، پس ممکن ہے کہ خدا کے دیدار کی تاویل امامِ مبین کا دیدار ہو، جبکہ امامِ زمانؑ وجہ اللہ ہے = آئینۂ خدائے نما ہے، مظہرِ نورِ الٰہی ہے، اللہ کا زندہ اسمِ اعظم ہے، خدا کے حکم سے حظیرۂ قدس میں امامِ مبین ہی کا نورِ اقدس طلوع ہوتا ہے۔

 

سوال: وہ سرزمین کون سی ہے، جس کے بہت سے مشارق و مغارب ہیں اور جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے لاتعداد برکتوں سے مالامال فرمایا ہے (۰۷: ۱۳۷)؟ جواب: یہ حظیرۂ قدس کی خوبصورت اور پرحکمت مثالوں میں سے ایک بڑی عمدہ مثال ہے، ح۔ ق کا صرف ایک ہی مشرق ہے، جو خود مغرب بھی ہے، اور بہت بڑی عجیب بات یہ ہے کہ یہی بہت پاک مقام بہت سے مشارق و

 

۱۰۳

 

مغارب کا کام کر رہا ہوتا ہے، پس ان کثیر مشارق و مغارب کے ذریعہ آفتابِ نورِ امامِ مبین کثرت سے طلوع و غروب ہوتا ہے، ہر طلوع اور ہر غروب ایک بے نام حقیقت کی طرف اشارہ ہے، اب خدا کی جانب سے صرف امامِ زمانؑ ہی بتا سکتا ہے کہ وہ حقیقت کس نام سے ہے، اسی طرح بہت سے اشارے، بہت سے اسماء اور بہت سے مسمّا ہوگئے، اور یہ خزانۂ نورِ امامِ زمان کے اسرار میں سے ایک سرِعظیم ہے جس کے مطابق حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کو امامِ زمانؑ نے علم الاسماء کی تعلیم دی تھی۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۲۲، جنوری ۲۰۰۲ء

 

۱۰۴

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۶۱

 

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ حجتِ قائم (روحی فداہ) کا مبارک ارشاد ہے: دنیا میں ہمیشہ تین سو تیرہ (۳۱۳) مومن ہوتے ہیں اگر وہ نہ ہوں تو دنیا کا نظام نہ چلے۔ (کلامِ امامِ مبین۔ حصّۂ اول۔ منجیوڑی۔ ۲۷۔ ۱۲۔ ۱۸۹۳ء)۔

 

کہتے ہیں کہ اصحابِ طالوت اور اصحابِ بدر کی تعداد برابر تھی (تین سو تیرہ = ۳۱۳) اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ حضرتِ امامِ عالی مقامؑ کا ایک خاص روحانی لشکر ہے، جس کی تعداد امام علیہ السّلام نے خود ہی بتا دیا، اور مولائے پاک نے ہر طرح سے روحانی ترقی پر بہت ہی زور دیا ہے، یقیناً امامؑ کا یہ لشکر بطریقِ روحانی فاتحِ عالم = فاتحِ کائنات ہوسکتا ہے۔

 

سورۂ توبہ (۰۹: ۳۳)، سورۂ فتح (۴۸: ۲۸) اور سورۂ صف (۶۱: ۰۹) میں ایک ہی ارشاد ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: اللہ وہی تو ہے، جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

 

اس انتہائی عظیم آسمانی پروگرام کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اس بندۂ ناچیز کو بفضلِ خدا اس کی یہ معرفت حاصل ہوئی ہے کہ جانشینِ

 

۱۰۵

 

رسولؐ = امامِ آلِ محمدؐ = امامِ زمانؑ = امامِ مبینؑ بحکمِ خدا اپنے روحانی لشکر اور روحانی قیامت کے ذریعے سے دینِ حق کو دیگر ادیان پر غالب کر دیتا ہے، اور اسی طرح سب لوگ بوسیلۂ امامِ آلِ محمدؐ خدا کے دین میں زبردستی سے لاکر بہشت میں داخل کئے جاتے ہیں، تا کہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ سلاطینِ بہشت کون ہیں اور شاہنشاہِ بہشت کون ہے، آپ اس حقیقت کو ہرگز فراموش نہ کریں کہ ہر زمانے کا امام روحانی قیامت کا تجدّد (Revival, Renew)  کرتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ، ۲۳، جنوری ۲۰۰۲ء

 

۱۰۶

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۶۲

 

امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے خاص روحانی لشکر کا تعلق اجسامِ لطیف سے بھی ہوسکتا ہے، جن کا ذکر قرآنِ حکیم میں موجود ہے، جیسے سرابیل (۱۶: ۸۱) ظلال = اجسامِ مثالی (۱۶: ۸۱) لبوس (۲۱: ۸۰) جثّۂ ابداعیہ یا قالبِ نورانی۔

 

خاص روحانی لشکر کا گہرا تعلق فرشتوں سے بھی ہے اور جنّات سے بھی ہے (۰۳: ۱۲۴ تا ۱۲۵) چونکہ امامِ آلِ محمدؐ کی روحانی سلطنت حضرتِ سلیمانؑ ہی کی روحانی سلطنت جیسی ہے، لہٰذا سورۂ نمل (۲۷: ۱۷) میں جس طرح لشکرِ سلیمانؑ کا ذکر آیا ہے بالکل اسی طرح امامِ مبینؑ کے بھی لشکر ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ لشکرِ سلیمانی میں انس و جنّ اور فرشتے تھے، اور پرندے اس میں فرشتوں کی مثال ہیں ورنہ پرندے جنگ نہیں کر سکتے ہیں جبکہ روحانی جنگ کے لئے صرف تین قسم کی مخلوقات درکار ہیں، وہ انسانان، جنّات، اور فرشتے ہیں۔

 

وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ وَ الطَّیْرِ فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ (۲۷: ۱۷)۔ ترجمہ: اور سلیمان کے لئے جنّات اور انسانان اور پرندوں (فرشتوں) کے لشکر جمع کئے گئے تھے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ، ۲۳، جنوری ۲۰۰۲ء

 

۱۰۷

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۶۳

 

از کتاب عملی تصوّف اور روحانی سائنس، ‎بعنوان “جنّات کے بارے میں چند سوالات:” روحانی سائنس کے سلسلے میں یہ بھی ایک اہم موضوع ہے کہ ہم قرآنِ حکیم کی روشنی میں جنّات سے متعلق بطریقِ سوال و جواب کچھ معلومات فراہم کریں، کیونکہ بعض لوگ اس مخلوقِ لطیف کے وجود ہی سے انکار کرتے ہیں، اور بعض کو انکار تو نہیں، لیکن وہ جنّ کی اصل حقیقتوں سے نا آشنا اور نابلد ہیں، لہٰذا ہماری کلیدی معلومات درجِ ذیل ہیں:

 

۱۔ س: جنّ اور پری قوم کے درمیان کیا فرق ہے یا کیا رشتہ ہے؟ لفظی لحاظ سے جنّ کے کیا معنی ہیں؟ اور پری کو کس معنیٰ میں پری کہا گیا؟ ج: جنّ اور پری ایک ہی قوم ہے، اس لئے فرق اور رشتے کا سوال خود بخود ختم ہوجاتا ہے، کیونکہ ایک ہی قوم اور ایک ہی مخلوق ہے، جس کا نام عربی میں جنّ اور فارسی میں پری ہے، لفظِ جنّ پوشیدہ ہونے اور نظر نہ آنے کے معنی کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ پری (پریدن سے) اڑنے کو کہتے ہیں۔

 

۲۔ س: سورۂ نمل (۲۷: ۱۷) میں ایک آیۂ کریمہ و حشر ۔۔۔ تا یوزعون ہے، جس کا ترجمہ ہے: سلیمان کے لئے جنّ اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے۔

 

۱۰۸

 

یہاں یہ ایک فطری سوال ہے کہ پرندے آدمیوں سے بھاگتے ہیں اور آدمی جنّات سے ڈرتے ہیں، پھر ان لشکروں کی یکجائی کیوں کر ممکن ہوسکتی ہے؟ ج: عالمِ ذرّ میں تمام مخلوقات اور جملہ اشیاء ایک جیسے ذرّات ہیں، لہٰذا ماننا ہوگا کہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے یہ تمام لشکر ذرّاتی اور روحانی صورت میں تھے۔

 

۳۔ س: یہ تو معلوم ہی ہے کہ ابلیس سجودِ آدمؑ سے انکار کرنے پر راندہ ہوگیا، اس سے قبل وہ فرشتوں میں سے تھا (۰۲: ۳۴) یہ شہادت چند آیاتِ کریمہ میں موجود ہے، اور سورۂ کہف کے ایک ارشاد (۱۸: ۵۰) میں ہے کہ وہ اس نافرمانی سے پہلے جنّات میں سے تھا، آپ یہ بتائیں کہ اس میں کیا راز ہوسکتا ہے؟ جواب: اس میں بہت بڑا راز یہ ہے کہ مومن جنّ ہی فرشتہ ہوتا ہے، اور فرشتہ ہی مومن جنّ ہوتا ہے۔

 

۴۔ س: کہا جاتا ہے کہ انسان میں عاجزی اور حلیمی اس وجہ سے ہے کہ اس کی سرشت مٹی سے ہوئی، اور جنّ میں سرکشی اس سبب سے ہے کہ وہ شعلۂ آتش سے پیدا کیا گیا ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ج: خیر و شر کی یہ توجیہہ بڑی عجیب ہے، کیونکہ سارے انسان عاجز و حلیم نہیں ہیں، اور نہ ہی تمام جنّات سرکش ہوسکتے ہیں، آپ سورۂ جنّ (۷۲) میں آیت ۱۱ اور ۱۴  (۷۲: ۱۱، ۷۲: ۱۴) کو ذرا غور سے پڑھ لیں، مزید برآن نکتۂ راز تو یہ ہے کہ جنّ کو خداوند تعالیٰ آدمی کی روحانی ترقی سے پیدا کرتا ہے، یعنی جنّ انسان کا جسمِ لطیف ہی ہے کہ جب کوئی مومن عشقِ سماوی کی آگ میں جلتے رہنے کی سعادت حاصل کرتا ہے تو اسی حال میں شعلۂ عشق سے جنّ (فرشتہ = جسمِ لطیف) کا ظہور ہوتا ہے۔

 

۵۔ س: آپ سورۂ رحمان (۵۵) کی آیاتِ شریفہ ۱۴ تا ۱۶  (۵۵: ۱۴ تا ۱۶) کی حکمت

 

۱۰۹

 

بیان کریں۔ ج: اسی (خدا) نے انسان کو ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی ہوئی مٹی (یعنی صورِ اسرافیل کی ابتدائی آواز) سے پیدا کیا اور اسی نے جنّات کو آگ کے شعلے (یعنی سالک کے نورِ عشق) سے پیدا کیا۔ پس اے جنّ و انس! تم اپنے ربّ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اور جنّات قانونِ کثرت کے تحت الگ الگ بھی ہیں، اور قانونِ وحدت کے مطابق ایک بھی ہیں۔

 

۶۔ س: اے گروہِ جنّ و انس! اگر تم سے ہوسکتا ہے کہ تم آسمانوں کے اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو (چلو) نکل جاؤ حالانکہ بغیر غلبہ تم نکل نہ سکوگے (۵۵: ۳۳) کیا آپ اس ارشاد کی کوئی حکمت بتا سکتے ہیں؟ ج: (ان شاء اللہ تعالیٰ) یہ بہت بڑا امتحان روحانی سفر سے متعلق ہے جو انسان کی اپنی ذات میں ہے کہ اگر کوئی مومنِ سالک علم و عبادت کے زور سے ذاتی کائنات کی چھت پر چڑھ سکتا ہے تو وہ یقیناً ان خزائنِ معرفت کو حاصل کر لیتا ہے جو زمان و مکان سے بالاتر ہیں، کیونکہ تمام تر مشکل مسائل قید خانۂ کائنات ہی میں ہیں۔

 

۷۔ س: آپ قرآنِ پاک کے حوالے سے یہ بھی کہتے ہیں کہ بہشت کائنات کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے، اور ستاروں پر لطیف زندگی ہے، ایسے میں کائنات سے باہر جانے کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ ج: کائنات بہشت معرفت سے مشروط ہے، معرفت کے خزانے لامکان میں ہیں، آپ اس کائنات کو دماغ میں رکھتے ہوئے ازل کا تصوّر نہیں کرسکتے ہیں، نہ لامکان کو پہچان سکتے ہیں، اور حظیرۃ القدس کے اسرار سے آگہی ہوسکتی ہے، پس سالک کے لئے یہ سفر ضروری ہے کہ وہ اپنے جنّات یعنی فرشتوں میں مدغم ہوکر عالمِ شخصی

 

۱۱۰

 

کی چھت پر چڑھ کر ایک بار دیکھے تا کہ تمام علمی و عرفانی عقدے کھل سکیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر ۱۷ ، رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ

۲۷ ، جنوری ۱۹۹۷ء

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ، ۲۵، جنوری ۲۰۰۲ ء

 

۱۱۱

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۶۴

 

سورۂ احقاف (۴۶: ۲۹ تا ۳۲) میں ایماندار جنات کے بارے میں ارشاد ہے جو حدودِ دین ہیں: وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ۔قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ۔يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ۔وَمَن لَّا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ وَلَيْسَ لَهُ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءُ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ۔

 

ترجمہ: (اور وہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے) جب ہم جنّوں کے ایک گروہ کو تمہاری طرف لے آئے تھے تا کہ قرآن سنیں۔ جب وہ اُس جگہ پہنچے (جہاں تم قرآن پڑھ رہے تھے) تو انہوں نے آپس میں کہا خاموش ہو جاؤ پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ خبردار کرنے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے انہوں نے جا کر کہا: “اے ہماری قوم کے لوگو، ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے، تصدیق کرنے والی ہے اپنے سے پہلے آئی ہوئی

 

۱۱۲

 

کتابوں کی رہنمائی کرتی ہے حق اور راہِ راست کی طرف۔ اے ہماری قوم کے لوگو، اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول کرلو اور اُس پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں عذابِ الیم سے بچا دے گا”۔ اور جو کوئی اللہ کے داعی کی بات نہ مانے وہ نہ زمین میں خود کوئی بل بوتا رکھتا ہے کہ اللہ کو زچ کر دے، اور نہ اُس کے کوئی ایسے حامی و سرپرست ہیں کہ اللہ سے اُس کو بچا لیں، ایسے لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ، ۲۵، جنوری ۲۰۰۲ ء

 

۱۱۳

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۶۵

 

قاموس القرآن ص ۲۴۹ پر انبیاء کی تعداد ، ایک لاکھ چوبیس ہزار ، اور رسولوں کی تعداد تین سو تیرہ ہے، لغات الحدیث کتابِ ن ، ص ۴ پر ہے: دنیا میں ایک لاکھ بیس ہزار پیغمبر آئے ہیں، ان میں رسول (جو صاحبِ شریعت ہوں) تین سو تیرہ گزرے ہیں۔

 

کتابِ سرائر و اسرار النّطقاء جو جعفر بن منصور الیمن الداعی الاجل = عظیم داعی کی کتاب ہے اس کے ص ۲۰۰ پر انبیاء علیہم السّلام کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔

 

سورۂ انعام (۰۶: ۱۳۰) کے حوالے سے کسی کو فوری طور پر یہ گمان ہوسکتا ہے کہ شاید جنّات میں بھی نبی ہوئے ہوں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنّوں میں سے کوئی نبی نہیں ہوا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل و اساس انسان ہی ہے، یہی افضل اور برتر ہے، انسان ہی ایک دیندار جنّ ہوکر فرشتہ ہوسکتا ہے، اور انسان ہی نافرمانی سے ایک نافرمان جنّ اور شیطان ہو سکتا ہے، پس اصل پیغمبر انسان میں سے ہوتا ہے، اور جنّات میں سے جو مومن ہیں وہ مرکزِ ہدایت کی طرف سے قاصد یا ایلچی یعنی حدودِ دین ہوسکتے ہیں۔

 

شروع شروع میں ہم نے اپنی کم علمی کی وجہ سے یہ خیال کیا تھا کہ دو

 

۱۱۴

 

دریاؤں کا سنگم صرف ایک ہی جگہ پر ہوسکتا ہے، مگر عرصۂ دراز کے بعد معلوم ہوا کہ خدا کی خدائی میں جگہ جگہ دو دریا اور سنگم ہے، پس انس و جنّ کے دو دریاؤں کا سنگم دیکھنا ہے تو سورۂ رحمان کو غور سے پڑھیں۔

 

پہلا سوال ہے کہ سورۂ رحمان کو کس وجہ سے عروس القرآن کہا گیا ہے؟ دوسرا سوال ہے کہ اس سورہ کے حوالے سے انس و جنّ اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں میں کیوں ایک ساتھ ہیں؟ بالفاظِ دیگر اللہ کی نعمتیں انس وجنّ میں مشترک کیوں ہیں؟

 

کیا ہر انسان میں ایک جنّ اور ایک فرشتہ نہیں ہیں اگر ہیں، تو سنتِ رسول کے مطابق ہر عالی ہمت مومن ذاتی جنّ کو مسلمان بنائے تا کہ تمام جنّات کی برائی یکسر ختم ہو جائے، جو لوگ ذاتی جنّ کو مسلمان نہیں بنا سکتے ہیں، وہ بیرونی جنّات کو گالیاں دیتے ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر ۲۶، جنوری ۲۰۰۲ ء

 

۱۱۵

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۶۶

 

سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اَسْبَغَ عَلَیْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّ بَاطِنَةًؕ۔

ترجمہ: کیا تم لوگ (چشمِ بصیرت سے) نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں، اور اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں؟

 

یہ آیۂ شریفہ عاشقانِ نورِ معرفت کے لئے ایک عظیم خزانہ ہے، اور اس کی حکمت درجہ بدرجہ ہے، اور اس کی آخری درجے کی حکمت حظیرۂ قدس میں ہے، آپ فنا فی الامام کی حقیقت کو تو مانتے ہوں گے، مگر روحانی قیامت کے ذریعے سے اسرافیل اور عزرائیل کا سہارا لے لیں اور بار بار امام کے لئے قربان ہو جائیں اور اس کے معجزات و انعامات کو دیکھیں، پھر قرآنِ حکیم کی تاویلی حکمت کی خدمت کریں۔

 

تجربۂ روحانی قیامت اور حصولِ معرفت کی خاطر جیتے جی مر جانا انتہائی سخت مشکل کام ہے، مگر امامِ مبین کوئی وسیلہ بنا سکتا ہے۔

 

جب اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایان رحمت سے تمہیں ظاہری اور باطنی

 

۱۱۶

 

نعمتیں اور قوتیں عطا کر دی ہیں، تو کیا یہ ممکن نہیں کہ تم ایک دن جسمِ لطیف میں جہاز کے بغیر پرواز کرو گے، فون کے بغیر دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے دوستوں سے بات کر سکوگے، ٹی وی کے بنا مناظرِ عالم کو دیکھ سکو گے، کیا یہ قانونِ تسخیر اور رحمتِ خداوندی سے بعید ہے؟ قرآنِ حکیم میں ایسی بہت سی بشارتیں موجود ہیں، صرف سمجھنے کا فرق ہے، ورنہ قرآن میں کیا نہیں ہے؟ الحمد للہ علی منہ و احسانہ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)۔

اتوار، ۲۷، جنوری ۲۰۰۲ ء

 

۱۱۷

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۶۷

 

امامِ مبین ارواحنا فداہ کے خزانۂ باطن سے علم و حکمت کی ہر ہر نعمت ملتی ہے، الحمد للہ ربّ العالمین، العاقبۃ للمتقین۔

 

اݹ منݳسن اپݶ یعنی کائناتی بہشت میں ہر نعمت ممکن ہے، دنیا آخرتہ ہرکݽ بلا = دنیا آخرت کی کھیتی باڑی ہے، لہٰذا نیک اعمال کا اجر و صلہ دنیا میں جزوی طور پر اور آخرت میں کلی طور پر ملتا ہے، کیونکہ کلی بہشت آخرت میں ہے۔

 

سوال: کیا دنیا میں اللہ کا دیدار ہو سکتا ہے؟ جواب: جی ہاں، لیکن دیدار اور کلام دونوں انتہائی عظیم معجزے ایک ساتھ نہیں ہوتے، لہٰذا جب کسی بشر کو دیدار ہوتا ہے تو اس حال میں کلام کی بجائے کوئی پرحکمت اشارہ ہوتا ہے (۴۲: ۵۱)۔

 

حدیثِ شریف ہے: اعرفکم بنفسہ اعرفکم بربّہ = تم میں جو سب سے زیادہ اپنی روح کا عارف ہو، وہی تم میں سب سے زیادہ اپنے ربّ کا عارف ہے۔ یہ عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس کا حوالہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ عارف اپنی روح ہی میں حضرتِ ربِّ تعالیٰ کا دیدار کر کے اس کی معرفت

 

۱۱۸

 

حاصل کرتا ہے، جیسے مولا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ = جس نے اپنی روح کو پہچان لیا، جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے، تو اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ کیونکہ روح عالمِ امر سے آئی ہے، اور وہ وہاں خدا سے واصل ہے (۱۷: ۸۵)۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔

پیر ، ۲۸، جنوری ۲۰۰۲ ء

 

۱۱۹

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۶۸

 

سوال: آیا سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵ تا ۴۶) میں دیدارِ خداوندی کا ذکر ہے؟ جواب: جی ہاں، وہ مقامِ حظیرۂ قدس کا دیدار ہے، وہاں ظلِّ الٰہی = سایۂ خدا کی تمثیل ہے، خدا کا سایہ نہیں ہوتا ہے، بلکہ عکسِ نور ہوتا ہے، مثال کے طور پر آئینے میں سورج کا عکس یعنی تصویر۔

 

دنیا میں جو لوگ حقیقی اطاعت اور علم و عبادت سے مرآتِ قلب = آئینۂ دل کو پاک و پاکیزہ کرتے ہیں، وہ یقیناً چشمِ باطن سے اپنے دل ہی میں خدا کا دیدار کرتے ہیں، اور ایسے ہی لوگوں کو شمسِ ہدایت اللہ سے ملا دیتا ہے، اور آیۂ شریفہ کا مفہوم اسی طرح سے ہے۔

 

حضرتِ حکیم پیر ناصر خسرو کا پر از معرفت شعر ہے:

ز نورِ او تو ہستی ہمچو پرتو           (عکس)

حجاب از پیش بردارو تو او شو

 

ترجمہ: تو اس کے نور کا عکس ہے، پردہ سامنے سے ہٹا کر تو وہ ہو جا۔

 

بحوالۂ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۵۵) حضرتِ موسیٰؑ نے اپنی قوم سے جن ستر رجال کو اپنے ساتھ کوہِ طور پر لے جانے کے لئے منتخب کیا تھا، ان کو دیدار

 

۱۲۰

 

ہوا تھا یا نہیں؟ ج: یقیناً ان کو دیدار ہوا تھا۔

 

سوال: خود حضرتِ موسیٰؑ کو ربِّ تعالیٰ کا پاک دیدار ہوا تھا یا نہیں؟ ج: حضرتِ موسیٰؑ کو ربّ العزت کا دیدار ہوا تھا درحالے کہ خدا کے دستِ مبارک میں لپیٹی ہوئی کائنات تھی یا کتابِ مکنون، یا گوہرِعقل تھا، یا نور الانوار، اور یہ اُس آیت کی تاویل ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر، ۲۸، جنوری ۲۰۰۲ء

 

۱۲۱

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۶۹

 

حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کی تخلیقِ روحانی کے سلسلے میں چالیس (۴۰) صبحیں ایسی خاص اور کامیاب تھیں کہ حدیثِ قدسی ہے: خمرت طینۃ آدم بیدی اربعین صباحا ۔ ترجمہ: میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے آدم کی مٹی کو چالیس صبحوں میں گوندھ لیا۔

 

سوال: اللہ تبارک و تعالیٰ وہ قادرِ مطلق ہے، جو اپنے ہر کام کو صرف کن (ہو جا) فرما کر یا کن کا صرف ارادہ کر کے انجام دیتا ہے، پھر آدم کی تخلیق میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ جواب: ایک ہے عالمِ خلق = عالمِ جسمانی، اور دوسرا ہے عالمِ امر = عالمِ روحانی، پس عالمِ خلق میں ہر چیز کے پیدا ہونے میں وقت لگتا ہے، اور اس کے برعکس عالمِ امر میں ہر چیز اللہ کے فرمانِ کن (ہو جا) ہی سے کسی تاخیر کے بغیر موجود و مشہود ہو جاتی ہے۔

 

سوال: اللہ کے دونوں ہاتھوں سے کیا مراد ہے؟ جواب: اللہ کے دونوں ہاتھ عالمِ سفلی میں ناطق اور اساس ہیں، اور عالمِ علوی میں، عقلِ کل اور نفسِ کل ہیں۔

 

سورۂ مائدہ (۰۵: ۶۴) میں ارشاد ہے: بَلْ یَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِۙ یعنی اللہ کے دونوں ہاتھ تو فیاضی میں بڑے کشادہ ہیں۔ اس آیت کی تاویل کو وجہِ دین میں بھی پڑھیں۔

 

سورۂ ص (۳۸: ۷۵) سے بیانِ بالا کی تصدیق ہو جاتی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۲۹، جنوری ۲۰۰۲ء

 

۱۲۲

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۷۰

 

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: تم نورانی بدن = جسمِ لطیف کے ساتھ بہشت میں جاؤ گے، تمہارے پاس جو اسمِ اعظم = بول ہے، وہ دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے، ہمارا مذہب روحانیت کا مذہب ہے، اس لئے تمہیں اس کا پورا پورا علم ہونا چاہئے۔ (کلامِ امامِ مبین، حصۂ دوم۔ زنجبار۔ ۱۹۔ ۲۔ ۱۹۲۵ء)۔

 

ایک بھائی نے امام کے حضور عرض کی کہ مجھے دنیا میں رہنا اچھا نہیں لگتا ہے، اس لئے مجھے اصل میں واصل فرمائیں، تو امام نے فرمایا: دنیا میں رہو، یہاں رہتے ہوئے مومن کے کام کرو۔ تو اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی تم اصل سے واصل ہوسکتے ہو، ہمارے مذہب میں دنیا میں رہ کر اصل میں واصل ہونا بہت آسان ہے، آپ بیت الخیال میں داخل ہوئے تو اس وقت ہم نے جو فرمان فرمایا تھا اس کے مطابق عمل کرو گے تو دل میں عشق پیدا ہوگا اور ہر چیز ممکن ہو سکے گی۔ (کلامِ امامِ مبین، حصۂ دوم۔ دار السلام۔ ۹۔ ۳۔ ۱۹۲۵ ء)۔

 

تمہارے دل میں خداوند تعالیٰ کا نور ہے، اگر دین پر سچے دل سے چلو گے تو یہ نور ظاہر ہوگا (کلامِ امامِ مبین، حصّۂ اول، جامنگر۔ ۹۔ ۴۔ ۱۹۰۰ ء)۔

 

تم ہماری روحانی اولاد ہو اور یاد رکھنا کہ ’’روح ایک ہی ہے‘‘۔ (کلامِ

 

۱۲۳

 

امامِ مبین ، حصّۂ اول۔ ممباسہ۔ ۱۲۔ ۱۱۔ ۱۹۰۵ء)۔

 

سبحان اللہ! سبحان اللہ! اور یاد رکھنا کہ “روح ایک ہی ہے۔” سبحان اللہ شاید یہاں سب سے بڑا انقلابی راز ہے، یعنی یک حقیقت۔ میں تو اس سے جیسے بے ہوش ہوگیا، مجھے ہوش میں آنے دو اور سوچنے دو، میرے لئے ایک نیا معجزہ ہے!

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ، ۳۰، جنوری ۲۰۰۲ء

 

۱۲۴

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۷۱

 

مخفی روحانی قیامت کے معجزات کا ذکر قرآنِ حکیم میں ہے ان کو نہ تو کوئی شمار کر سکتا ہے اور نہ ہی علی الترتیب بیان کرسکتا ہے، کیونکہ روحانی قیامت کے ناموں میں سے ایک نام طوفانِ نوح ہے (۲۹: ۱۴) اگر کسی غریب و ناچار نے اسے دیکھا بھی ہو تو وہ اس کی کامل و مکمل عکاسی کس طرح کر سکتا ہے؟ اے برادران و خواہرانِ روحانی ! تم سب ان شاء اللہ بہشت میں جا کر کسی نامۂ اعمال = نورانی مووی میں سر تا سر روحانی قیامت اور اس کے تمام معجزات کو دیکھو گے، آمین! عزیزانِ من! معجزۂ زلزال بڑا بابرکت ہے، جو روحانی قیامت کے معجزات میں سے ہے، اس کے قرآنی حوالے یہ ہیں: (۹۹: ۰۱)، (۰۲: ۲۱۴)، (۳۳: ۱۱) اور (۲۲: ۰۱) معجزۂ زلزال کے اس بیان میں حقیقت بھی ہے اور حکمت بھی، واللہ، میں نے بارہا یہ معجزہ ظاہراً و باطناً دیکھا، اور جماعت کے بعض افراد پر ظاہراً واقع ہوتے ہوئے بھی جبکہ ذکرِ جلی کی محفلیں ہوتی تھیں، کنیڈا میں جناب بحرالعلوم بھی تشریف رکھتے تھے بعض جماعت خانوں میں ہمیں درویشانہ ذکرِ جلی کی اجازت ملی تھی درویشانہ ذکرِ جلی قدیم ہے یہ دراصل دف و رباب کے ساتھ ہے، یہ رسم درویشانہ ہے تو لازماً صوفیانہ ہے، اور اس کی تاریخ حضرتِ داؤد نبی، خلیفۃ اللہ اور

 

۱۲۵

 

امامِ مستودع اور ان کی آسمانی کتاب زبور تک جاتی ہے۔ قرآنِ پاک میں زبور کا ذکر ہے: (۲۱: ۱۰۵)، (۰۴: ۱۶۳)، (۱۷: ۵۵)، (۲۶: ۱۹۶)، (۰۳: ۱۸۴)، (۱۶: ۴۴)، (۳۵: ۲۵)، (۵۴: ۴۳)۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۳۰، جنوری ۲۰۰۲ء

 

۱۲۶

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۷۲

 

اے برادران و خواہرانِ عزیزِ روحانی! آپ کو دین کی یہ اساسی حکمت بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی چیزیں دنیا کی چیزوں سے نہایت پاک و برتر ہیں، جیسے اللہ کا قلم، جو فرشتۂ عقلِ اوّل = عقلِ کلّ = نورِ محمدی = زندہ عرش ہے، لوحِ محفوظ = ثانی = نفسِ کلّ = نورِ علیؑ = زندہ کرسی ہے۔

 

اللہ کے چھ دن جن میں اس نے عالمِ دین کو پیدا کیا، چھ ناطق ہیں، اور خدا کا ساتواں دن = سنیچر، جس میں اللہ نے عرش پر مساواتِ رحمانی کا کام کیا، حضرتِ قائم ہے، اللہ کا دین = رسولِ پاک صلعم تھا، بحوالۂ سورۂ نصر (۱۱۰: ۰۲) اور آپ کے بعد مولاعلیؑ خدا کا دین ہے، جیسا کہ مولا کا پاک ارشاد ہے: انا دین اللہ حقا = یہ حقیقت ہے کہ میں خدا کا دین ہوں۔ انا نفس اللہ حقا یعنی میں نفس اللہ ہوں۔ (کتابِ سرائر ص ۱۱۷)۔

 

نفس اللہ کا حوالہ: (۰۶: ۱۲، ۰۶: ۵۲ تا ۵۴) پہلی آیت میں ہے: کتب علیٰ نفسہ الرحمۃ = اس نے اپنے نفس = مظہرِ نور = امام میں قانونِ رحمت لکھا ہے۔ دوسری آیت میں: کتب ربکم علیٰ نفسہ الرحمۃ یعنی تمہارے ربّ نے اپنے نفس = مظہرِ نور = امامِ مبین میں قانونِ رحمت درج کیا ہے۔

 

۱۲۷

 

سورۂ مومن (۴۰: ۸۵) کا تاویلی مفہوم بےحد ضروری ہے: اللہ کی سنت نورٌعلیٰ نور کے پاک اشخاص کے سلسلے میں بارہا گزر بھی چکی ہے، اور کسی تبدیلی کے بغیر اس کا تجدّد سلسلۂ مذکور میں جاری بھی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات ۳۱، جنوری ۲۰۰۲ء

 

۱۲۸

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۷۳

 

بحوالۂ کتابِ کوکبِ دری بابِ سوم: امامِ مبین صلوات اللہ علیہ اپنی نورانیتِ باطن میں لوحِ محفوظ ہے، جس کی کامل معرفت حظیرۂ قدس میں ہے، اسی لوحِ محفوظ میں قرآنِ مجید محفوظ ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) اور اسی وجہ سے امامِ مبین قرآنِ ناطق کہلاتا ہے، مزید صراحت کے لئے قرآنِ حکیم میں کتابِ ناطق یعنی بولنے والی کتاب کی تعریف کو بھی پڑھیں (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) حضرتِ امامؑ اپنے پاک نور میں ساعت = قیامت ہے، اور مضامینِ قرآن میں قیامت کا مضمون اپنے کثیر ناموں کے ساتھ بڑا زبردست اور سر تا سر قرآن میں پھیلا ہوا ہے، اسی طرح امامِ مبین کا ہر اسم، ہر لقب، اور ہر وصف جملۂ قرآن میں محیط ہے، اسی لئے مولا نے ارشاد فرمایا: و انا وجہ اللہ الذی ذکرہ بقولہ (فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِؕ ، ۰۲: ۱۱۵) (کتابِ سرائر ص ۱۱۷)۔ پس میں ایک عاشق درویش کہتا ہوں: مکان و لا مکان، اوّل، آخر، ظاہر، باطن، آسمان و زمین، عالمِ شخصی، اور قرآنِ حکیم میں جہاں بھی دیکھو اور جس طرف بھی توّجہ کرو، وہیں وجہ اللہ = امام کا نور موجود ہے یعنی عارفِ حق پرست کے لئے ہر طرف اور ہر جگہ دیدار ہی دیدار ہے، کیونکہ خدا خود ہی اس کی آنکھ ہوچکا ہے۔

 

۱۲۹

 

حجتِ قائم القیامت نے فرمایا کہ حقیقت میں صرف ایک ہی روح ہے اور وہی سب ہے، یہ یک حقیقت کی بڑی خوبصورت صراحت ہے، ہر شخص ڈرتے ڈرتے اسے قبول کرے، مبادا کوئی شخص تکبر کا شکار ہوجائے۔

 

اللہ نے چھ دن = چھ ادوارِ بزرگ میں عالمِ دین کو پیدا کیا، اور ساتویں دن اُس نے حظیرۂ قدس میں مونوریالٹی = یک حقیقت کا کام کیا، آج یکایک یہ سرِّاعظم بھی عزیزوں پر ظاہر ہوا کہ ان تمام قسطوں کا ایک ہی عنوان (حظیرۂ قدس) کیوں ہے؟

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ ، یکم فروری ۲۰۰۲ ء

 

۱۳۰

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۷۴

 

بحوالۂ کتابِ کوکبِ درّی، بابِ سوم: امامِ مبین ہی اپنی پاک نورانیت میں وہ کتاب ہے، جس میں کوئی شک ہی نہیں ، بلکہ یقین ہی یقین ہے (۰۲: ۰۱ تا ۰۲)۔ امامِ زمان علیہ السّلام ہی اللہ کے اسماء الحسنیٰ ہے (۰۷: ۱۸۰) جنّ کے بارے میں اللہ کا حکم ہے کہ انہی اسماءُالحسنیٰ سے اس کو پکارا جائے۔ امامِ مبینؑ مقامِ نورانیت پر قرآن کا ترجمان اور مؤول ہے، وہی علمِ الٰہی کا خزانہ دار ہے، وہی ناقور بھی ہے، قیامت بھی ہے، اور قائمِ قیامت بھی۔ مولا نے فرمایا کہ وہ نورِ کوہِ طور ہے، اس کا ارشاد ہے کہ وہ ذوالقرنین ہے۔

 

امامِ مبینؑ لوگوں پر خدا کی حجت ہے۔ دابۃ الارض امام کا ایک معجزہ ہے (ہزار حکمت، ح: ۳۳۳)۔ امام کے پاس فصل الخطاب ہے (۳۸: ۲۰) = ایک فیصلہ کن کلمۂ تامّہ۔

 

امامِ مبین نورانیتِ باطن میں حاملِ عرش اور عالمِ تاویل ہے۔ امام خدا کا زندہ اسمِ اعظم ہے۔ اور آیات اللہ = خدا کی نشانیاں= معجزات کہلاتا ہے۔

 

امامِ عالی مقام صاحبِ جثۂ ابداعیہ ہے، حضرتِ امامؑ

 

۱۳۱

 

پانی پر اللہ کا عرش بھی ہے اور اسی حال میں سفینۂ نوح بھی ہے، بحوالۂ تاویل (۱۱: ۰۷) ہزار حکمت (ح: ۵۶۸)۔

 

اگر دنیا کی ہزار زبانوں میں سے ہزار اشخاص عارف بن کر عالمِ شخصی میں جائیں تو امامِ مبینؑ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اُس کی زبان میں کلام کرے گا۔ بحوالۂ تاویلِ آیت (۱۴: ۰۴)۔ امام رسولِ پاک کے علم و حکمت کا دروازہ ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ، یکم فروری ۲۰۰۲ ء

 

۱۳۲

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۷۵

 

چہار مرغِ خلیل علیہ السّلام (۰۲: ۲۶۰) سے متعلق سوال ہے: جب اللہ نے چار مذبوح پرندوں کو زندہ کر دیا، تو کیا اُس وقت حضرتِ ابراہیمؑ کے عالمِ شخصی میں روحانی قیامت برپا ہوئی تھی؟ جواب: جی ہاں۔ سوال: یہ چار پرندے جو قدرتِ خدا سے زندہ ہوکر ابراہیمؑ کے پاس آ گئے وہ تاویلاً کون تھے؟ جواب: جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل، اور یہ حضرتِ ابراہیمؑ کے مومنین میں سے تھے، یہ پہلے گویا مردہ تھے اب بحقیقت زندہ ہوگئے، یہ جسماً چار حجتانِ حضوری تھے اور روحاً چار مقرب فرشتے، کیونکہ عالمِ شخصی عالمِ دین کا نمونہ ہوتا ہے۔

 

بحوالۂ کتاب نورِ مبین اردو ص ۳۹۹ کے آخر میں حضرتِ امام حسن علیٰ ذکرہ السّلام کا یہ فرمان ہے: دنیا قدیم ہے، زمانہ جاودانی ہے، قیامت صرف روحانی ہے، بہشت و دوزخ معنوی (باطنی) ہیں، ہر ایک شخص کی موت اس کی قیامت ہے۔ جیسا کہ حدیثِ شریف کا ارشاد ہے: من مات فقد قامت قیامتہ یعنی جو شخص نفسانی طور پر مرتا ہے، اس کی روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے اور جو شخص کامیاب ریاضت نہیں کرسکتا ہے اس کی غیر شعوری قیامت ہوتی ہے، اور بہشت میں کسی کی غیر شعوری قیامت بھی شعوری قیامت ہو

 

۱۳۳

 

سکتی ہے۔

 

سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍؕ اس میں یہ اشارۂ حکمت ہے کہ نفسِ واحدہ کی روحانی قیامت میں سب ہوتے ہیں، مگر شعوری اور غیر شعوری کا بہت بڑا فرق ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر، ۲ ، فروری ۲۰۰۲ ء

 

۱۳۴

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۷۶

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے ہر شخص کے لئے اسی دنیا ہی میں چار عالم بنا دیئے ہیں، اور ان کے نام یہ ہیں: اوّل: عالمِ بیداری، دوم: عالمِ خواب، سوم: عالمِ خیال، اور چہارم: عالمِ روحانیت۔ پس انسانی زندگی کی یہ بےقیاس وسعت محض اس مقصد کے پیشِ نظر ہے کہ انسان وقت کی اس فراوانی سے فائدہ اٹھا کر ذکر و عبادت اور علم و حکمت کی تیاری سے روحانی قیامت میں داخل ہو جائے، تا کہ وہ اپنی روح اور اپنے ربّ کو پہچان سکے، اس طریقِ کار کی خصوصی اور کلی ہدایت صرف اور صرف امامِ زمانؑ ہی (روحی فداہ) کے پاس ہے۔

 

آپ نے روحانی قیامت کا ایک نام طوفانِ نوح بتایا ہے، تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ایسی قیامت انسان کو ہر طرف سے گھیر لیتی ہے یعنی بیداری، اور خواب و خیال میں قیامت محیط ہو جاتی ہے؟ جواب: جی ہاں۔

 

اطلبوا العلم و لو بالصین۔ صاحبِ جوامع الکلم کا یہ ارشادِ پاک ایک بہت ہی خاص معجزہ بھی ہے اور یاد آورِ تمام معجزاتِ چین بھی ہے۔

 

سورۂ مجادلہ (۵۸: ۲۱) کا یہ ارشاد: كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ

 

۱۳۵

 

رُسُلِیْؕ-اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔ ترجمہ: اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسل ہی غالب ہوکر رہیں گے، فی الواقع اللہ زبردست اور زور آور ہے۔

 

آپ بھول نہ جائیں، کہ غالب آنا ایک حربی اصطلاح ہے، جس کا اشارہ یقیناً روحانی قیامت کی جنگ کی طرف ہے، اور اس روحانی جنگ کا نورانی سردار یعنی صاحبِ قیامت امامِ زمان علیہ السلام ہی ہے (۱۷: ۷۱)۔ الحمد للہ علی منہ و احسانہ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار، ۳ ، فروری ۲۰۰۲ء

 

۱۳۶

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط۔ ۷۷

 

آیا یہ بات درست ہے کہ قرآنِ حکیم کی جن آیاتِ کریمہ میں شہیدانِ ظاہرکی تعریف آئی ہے، ان کی تاویل میں شہیدانِ باطن کی تعریف ہے؟ جواب: جی ہاں یہ قول درست اور حقیقت ہے۔

 

پہلی مثال: سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۶۹ تا ۱۷۱) ۔ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ۔ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ۔ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ۔

 

ترجمہ: جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے ربّ کے پاس رزق پا رہے ہیں، جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اُس پر خوش و خرم ہیں، اور مطمئن ہیں کہ جو اہلِ ایمان ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لئے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے، وہ تو اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شادان و فرحان ہیں اور ان کو معلوم ہوچکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع

 

۱۳۷

 

نہیں کرتا۔

 

دوسری مثال: سورۂ محمد (۴۷: ۰۴ تا ۰۶): وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ۔ وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ۔

ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں گے اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا، وہ ان کی رہنمائی فرمائے گا، ان کا حال درست کر دے گا اور ان کو اس جنّت میں داخل کرے گا جس سے وہ ان کو شناسا کرا چکا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار، ۳، فروری ۲۰۰۲ ء

 

۱۳۸

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۷۸

 

سوال: شہیدانِ باطن کا تعلق کس جہاد سے ہوتا ہے؟ جواب: یہ لوگ جہادِ اکبر کے شہید ہوتے ہیں جس کے بارے میں ایک مشہور حدیث یہ ہے: رجعنا من الجہاد الاصغر الی الجہاد الاکبر = ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ صحابۂ کرام نے پوچھا: حضور جہادِ اکبر کیا چیز ہے؟ فرمایا: الا وہی مجاہدۃ النفس = اچھی طرح سے سن لو! جہادِ اکبر مجاہدۂ نفس ہے۔ (کتاب کشف المحجوب)۔ یہ بھی ایک مشہور حدیث ہے: موتوا قبل ان تموتوا = تم جسماً مر جانے سے قبل نفساً مر جاؤ (المعجم الصوفی ص ۱۰۳۳) ۔ امامِ مبین علیہ السّلام (روحی فداہ) اپنے جن مریدوں کو ان کی درخواست پر اسمِ اعظم عطا فرماتا ہے، ان میں سے جو موتوا قبل ان تموتوا کے مطابق روحانی قیامت کے زیرِ اثر مر کر زندہ ہو جاتے ہیں، وہی باطنی شہید ہوتے ہیں، دراصل ان کی روحانی قربانی بھی ہوتی ہے، اور باطنی شہادت بھی۔

 

حضرتِ آدمؑ کے دو بیٹوں کی قربانی کی مثال بھی ہے اور ممثول بھی، اور ممثول یہ ہے کہ حضرتِ ہابیل باطن میں ذبیح اللہ بھی ہو گیا تھا اور شہید فی سبیل اللہ بھی۔ بحوالۂ سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۷)۔ اگر حضرتِ اسماعیل

 

۱۳۹

 

ذبیح اللہ سے پہلے اللہ کی کوئی ایسی سنّت نہ ہوتی تو حضرتِ ابراہیمؑ بحکمِ خدا خواب میں اپنے فرزند کو ذبح نہ کرتے۔ سورۂ صافات (۳۷: ۱۰۲ تا ۱۰۵)۔ قرآنِ حکیم کے کتنے تاویلی اسرارِ عظیم اب تک ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں! اب ہم مانتے ہیں کہ مولانا ہابیلؑ کے گوسفند کی قربانی مثال ہے، اور روحانی قیامت کے تحت جان کی قربانی ممثول ہے۔

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر، ۴، فروری ۲۰۰۲ ء

 

۱۴۰

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۷۹

 

دائرۂ درودِ شریف کا تصوّر ایک ایسی نورانی رسی کی طرح ہے، جو عرشِ برین اور فرشِ زمین کے درمیان گول شکل میں قائم کی گئی ہو، جی ہاں یہ مثال اور تصوّر قرآن و حدیث ہی کی روشنی میں ہے، پس آپ جب جب محمد و آلِ محمد پر درود پڑھتے ہیں تو یہ پاک نورانی رسی جو دراصل درود ہی کی رسی ہے حرکت میں آتی ہے، جس کی وجہ سے آپ کی درخواست جو درود کے الفاظ میں مخفی ہے، وہ عرشِ اعلیٰ کی طرف بلند ہو جاتی ہے، پھر اللہ اپنے فضل و کرم سے اس درخواست کو اپنے الٰہی درود میں فنا کر لیتا ہے، اور حسبِ ارشادِ سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے فرشتے اہلِ ایمان پر درود بھیجتے ہیں، جو رسولِ پاکؐ یا جانشینِ رسولؑ = امامِ زمانؑ کی مقدس دعائے برکات کی صورت میں یہ آسمانی درود جملہ مومنین و مومنات کو ہر وقت حاصل ہوتا رہتا ہے۔

 

آپ درودِ شریف کی پر نور حکمت کو سرچشمۂ قرآن و حدیث سے عشق و محبت کے ساتھ دلنشین کر لیں، مضمونِ صلوات میوۂ بہشت کی طرح بےحد شیرین، ایمان افروز اور روح پرور ہے ، درودِ شریف = صلوات کا ایک مختصر اور جامع مضمون ہزار حکمت میں بھی ہے (ح: ۵۰۶ تا ۵۱۰)۔

 

۱۴۱

 

سوال: درودِ شریف کی زبردست فضیلت کا اصل راز کیاہے؟ یہ سوال بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے، جس کی وجہ سے اس کا جواب اور بھی زیادہ ضروری ہے، لہٰذا میں ان شاءاللہ ولیٔ امر کی یاری سے قسط ۸۰ میں یہ جواب لکھنے کی سعی کروں گا کیونکہ اس قسط کی ظرفیت میں مزید گنجائش نہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۵، فروری ۲۰۰۲ء

 

۱۴۲

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۸۰

 

یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ درودِ شریف کی زبردست اہمیت و فضیلت کا اصل راز کیا ہے؟ الجواب: سورۂ احزاب (۳۳: ۵۶) کا ترجمہ ہے: یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے (سب کے سب) نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔ حکمائے دین کہتے ہیں کہ عقلِ کلّ زندہ نور اور سب سے عظیم فرشتہ ہے، اور اسی طرح نفسِ کلّ بھی، قلم اور لوح بھی فرشتے ہیں، عالمِ ذرّ میں فرشتے ہیں، عالمِ ملکوت اور عالمِ جبروت میں فرشتے ہیں، کائنات کی ایک بالشت جگہ بھی فرشتوں سے خالی نہیں، سورج، چاند، اور تمام  ستارے بھی اپنی نوعیت کے فرشتے ہیں، اللہ کے تمام سماوی اور ارضی لشکر فرشتے ہیں، وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (۴۸: ۰۷) اور اللہ کے ایسے بےشمار نیک بندے ہیں جو کائناتی بہشت میں جا کر فرشتے ہو گئے ہیں، الغرض اللہ تعالیٰ اور یہ سب فرشتے محمدؐ و آلِ محمدؐ پر درود بھیجتے ہیں، جب اصحابِ کبار نے آنحضرتؐ سے درود کے بارے میں پوچھا تو حضورؐ نے فرمایا: فقولوا اللّٰھم صل علی محمد و علیٰ آل محمد ۔۔۔ بحوالۂ حدیثِ بخاری جلدِ سوم کتاب الدعوات باب ۷۶۹ ، نیز دیکھیں ہزار حکمت (ح ۵۰۶ تا ۵۱۰)۔

 

سورۂ نور (۲۴: ۴۱) میں ارشاد ہے: ترجمہ: کیا تم دیکھتے نہیں ہو

 

۱۴۳

 

کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہیں؟ ہر ایک اپنی صلاۃ (نماز = درود) اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے۔

 

اس مدّلل بیان سے اُس پیدا شدہ سوال کا جواب کلی طور پر مہیا ہو گیا جو درودِ شریف کی زبردست فضیلت سے متعلق پیدا ہوا تھا اور اب خلاصۂ جواب یہ ہے کہ خدا اور اس کی خدائی کی ہر چیز کی طرف سے محمدؐ و آلِ محمدؐ پر درود کا سلسلہ جاری ہے، لہٰذا ہر شخص کی دانائی یہ ہے کہ وہ خود کو اس کل کائناتی درود کے طوفانی ثواب میں شامل کر دے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ ، ۶، فروری ۲۰۰۲ء

 

۱۴۴

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۸۱

 

سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) کا ارشاد ہے: هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَ مَلٰٓىٕكَتُهٗ لِیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِؕ-وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا۔ ترجمہ: وہ (اللہ تعالیٰ) وہی ہے، جو تم پر درود بھیجتا ہے، اور اُس کے (جملہ) فرشتے بھی، تا کہ تمہیں (غفلت و نادانی کے) اندھیروں سے نور کی طرف نکالے، اور وہ مومنین پر بہت رحم کرنے والا ہے۔

 

بحوالۂ حاشیۂ تفسیر المتقین ص ۵۴۹۔ تفسیرِ صافی ص ۴۰۷ پر بحوالۂ کافی امام جعفر صادق علیہ السّلام سے منقول ہے، کہ جو شخص محمدؐ اور آلِ محمدؐ پر دس دفعہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر سو مرتبہ درود بھیجتے ہیں، اور جو شخص محمدؐ و آلِ محمدؐ پر سو مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر ہزار مرتبہ درود بھیجتے ہیں۔ اسی کا خدا تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے۔

 

سوال: وہ آیۂ کریمہ کون سی ہے جس میں بمقتضائے حکمت درود اور رحمت دونوں معنوں کا ذکر ہے؟ جواب: وہ آیت (۰۲: ۱۵۷) کی ہے، جس میں ارشاد ہے:
اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ

 

۱۴۵

 

اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ۔

 

سوال: اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ کا درود مومنین تک کس طرح پہنچ سکتا ہے؟ جواب: زمانۂ نبوّت میں بوسیلۂ رسولِ پاک، اور ختمِ نبوّت کے بعد امامِ آلِ محمدؐ کے توسط سے۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی

جمعرات ، ۷، فروری ۲۰۰۲ء

 

۱۴۶

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۸۲

 

از دعائم الاسلام عربی، جلدِ اوّل، بعنوان ذکر ایجاب الصلاۃ علیٰ محمد و علیٰ آلِ محمد صلی اللہ علیہ وعلیہم اجمعین و انھم اہل بیتہ، و انتقال الامامۃ فیھم و البیان علیٰ انھم امۃ محمد صلی اللہ علیہ و علیہم (کتابُ الولایۃ ص ۲۸ تا ۲۹):

 

قال اللہ عز و جل: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (۳۳: ۵۶)۔

و روینا عن رسول اللہ (صلع) ان قوما من اصحابہ سالوہ عند نزول ہٰذہ الآیۃ علیہ فقالوا: یا رسول اللہ، قد علمنا کیف نسلم علیک، فکیف نصلی علیک؟ فقال: تقولون: اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد کما صلیت علی ابراہیم و علیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید ، فبین لھم رسول اللہ (صلع) کیف الصلوٰۃ علیہ التی افترض اللہ عز و جل علیہم ان یصلوھا علیہ، و انھا علیہ و علیٰ آلہ کما علمہم و بین لھم سائر الفرائض التی انزل ذکرھا علیہ مجملا

 

۱۴۷

 

فی کتابہ، کالصلوۃ و الزکوٰۃ، و الصوم، و الحج، والولایۃ الجہاد کما انزل ذکر الصلوٰۃ علیہ مجملا ففسرلھم رسول اللہ (صلع)۔

 

ترجمہ از دعائم الاسلام اردو، جلدِ اوّل بعنوان محمدؐ و آلِ محمدؐ پر صلوات کا بیان، محمدؐ و آلِ محمدؐ پر صلوات بھیجنا واجب ہے اور آلِ محمدؐ سے اہلِ بیتِ رسولؐ مراد ہیں، اور منصبِ امامت انہیں میں منتقل ہوا ہے اور آلِ محمدؐ ہی رسولِ اکرم صلعم کی (خاص) امت ہیں (کتاب الولایۃ، ص : ۵۷ تا ۵۸)۔

 

ترجمۂ آیت (۳۳: ۵۶): اس میں شک نہیں کہ خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر اور ان کی آل پر درود بھیجتے ہیں تو اے ایماندارو تم بھی درود بھیجتے رہو اور برابر سلام کرتے رہو۔

 

رسولِ اکرم صلعم سے روایت ہے کہ جب آنحضرتؐ پر مذکورۂ بالا آیتِ کریمہ نازل ہوئی تو آپ کے اصحابِ کرام میں سے بعض نے پوچھا کہ اے پیغمبرِ خدا ہمیں آپ پر سلام پڑھنے کی کیفیت کا علم تو ہے لیکن آپ پر صلوات بھیجنے کی کیا صورت ہے؟ اس وقت رسالتمآب نے فرمایا کہ مجھ پر اس طرح سے درود بھیجا کرو: اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم و علیٰ آل ابراہیم انک حمیدٌ مجید۔ چنانچہ آنحضرت صلعم نے اپنے اصحاب کو کھلے لفظوں میں یہ بتا دیا کہ ان پر کس طرح صلوات بھیجنا چاہئے اور یہ واضح رہے کہ پروردگارِ عالم نے صرف محمدؐ و آلِ محمدؐ ہی پر صلوات بھیجنا اہلِ ایمان کے لئے واجب قرار دیا ہے۔

 

رسولِ اکرم صلعم نے اپنے اصحاب کو محمدؐ و آلِ محمدؐ پر صلوات بھیجنے کی

 

۱۴۸

 

کیفیت سے اس طرح آگاہ کر دیا تھا جس طرح کہ آپؐ نے نماز پڑھنے، زکوٰۃ دینے، روزہ رکھنے، حج کرنے اور ولایت و جہاد کی تمام تفصیلات سے واقف کر دیا تھا کیونکہ یہ تمام فرائض قرآنِ حکیم میں مجمل نازل ہوئے تھے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعرات، ۷، فروری ۲۰۰۲ء

 

۱۴۹

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۸۳

 

سورۂ توبہ (۰۹: ۱۰۳ تا ۱۰۴) میں خوب غور کر کے چشمِ بصیرت سے دیکھنا ہوگا کیونکہ یہ ارشادِ مبارک اُن ارشاداتِ عالی میں سے ہے، جن کے آئینۂ حکمت میں نمائندۂ خدا (رسول اور بعدہ امام) کا قول و فعل لا ریب خدا ہی کا قول و فعل ہوتا ہے۔

 

اس کی ایک روشن مثال آیۂ بیعت (۴۸: ۰۱) میں ہے کہ رسولِ پاکؐ کا دستِ مبارک گویا اللہ کا ہاتھ تھا، اس دلیلِ محکم سے بیعت کی بہت بڑی اہمیت ، اور امامِ آلِ محمدؐ کی امامت اور خلافت کا ثبوت مل گیا، زمین پر ہمیشہ نورِ منزل موجود ہونے کے بارے میں اہلِ دانش کو کوئی شک ہی نہیں، اس لئے ہم اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں، اور وہ صلوات کا موضوع ہے، آپ سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳ اور ۳۳: ۵۶) کو اس طرح مربوط پڑھیں کہ اس میں ایک آیت دوسری کی تفسیر ہو، مثلاً آپ نے اوّل آیت ۴۳ کو پڑھا، پھر آیت ۵۶ کو تو اس کا مختصر مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے جو آسمان و زمین میں ہیں، مومنین پر درود بھیجتے ہیں، آپ یہاں خوب سوچ کر بتائیں کہ زمانۂ نبوّت میں رسولؐ اور امامؑ زمین پر دو عظیم فرشتے بھی تھے اور خدا کے دو نمائندے بھی، لہٰذا ان دونوں عظیم فرشتوں نے بھی کماحقہ مومنین

 

۱۵۰

 

و مومنات پر درود بھیجا یا نہیں؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ پیغمبر اور اساس (امام) جب زمین پر دو عظیم فرشتے بھی تھے، اور زمین پر آسمانی صلوات کے دو نمائندے بھی تو پھر لازمی طور پر انہوں نے خدا اور اس کے تمام فرشتوں کا صلوات اہلِ ایمان کو پہنچا دیا جیسا کہ اس کا حق ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعہ، ۸، فروری ۲۰۰۲ ء

 

۱۵۱

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔۸۴

 

سورۂ احزاب ہی میں (۳۳: ۴۳ اور ۳۳: ۵۶) مضمونِ درود کی دو بنیادی آیتیں ہیں، آپ نے قسط ۸۳ میں پہلے آیت ۴۳ کو پڑھا ہے، لہٰذا اب یہاں آیت ۵۶ کے مفہوم کو بیان کرتے ہیں کہ یقیناً اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے (سب کے سب) نبیؐ اور آلِ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے ایماندارو، تم بھی محمدؐ اور آلِ محمدؐ پر درود بھیجتے رہو، اور تسلیم یعنی اطاعت و فرمانبرداری کرتے رہو، تا کہ یہ اللہ کی فرمانبرداری بھی ہو، اور محمدؐ و آلِ محمدؐ کی تعظیم و تکریم بھی ہو، اور تم پر آسمانی درود کے لئے ایک درخواست بھی، کیونکہ مومنین کا ہر پاک کلمہ خدا کی طرف چڑھتا ہے اور نیک عمل اس کو بلند کرتا ہے (۳۵: ۱۰)۔

 

اس قرآنی ارشاد کے مطابق درودِ شریف کے کلمات بہت ہی پاک ہیں اور وہ یہ ہیں: اللّٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ آلِ محمد۔ اللّٰھم خدا کا ایک خاص اسم ہے، جو ساٹھ اسماء کے برابر ہے، محمد و آلِ محمد اسماء الحسنیٰ اور اسمِ اعظم ہیں، پس درود جو ان پاک کلمات پر مبنی ہے یقیناً عرشِ برین تک جاتا ہے اور پھر وہاں سے آسمانی درود کی صورت میں زمین کی طرف آتا ہے، آپ درود پر یقین رکھیں جیسا کہ حق ہے۔

 

سورۂ احزاب (۳۳: ۴۱ تا ۴۳) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو اللہ کو

 

۱۵۲

 

کثرت سے یاد کرو، اور صبح و شام اُس کی تسبیح کرتے رہو، اللہ وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے، اور اس کے (سب) فرشتے بھی، تا کہ تمہیں تاریکیوں سے انوار کی طرف لے آئیں، یعنی نورِعلم، نورِایمان، نورِیقین، نورِحکمت، نورِدیدار، نورِمعرفت، نورِوحدت، وغیرہ، کیونکہ ایک ہی نورمیں بہت سے انوار ہوتے ہیں، اگرتم بہشت میں انوار کو الگ الگ دیکھنا چاہو تو بےشک دیکھ سکتے ہو۔ الحمد للہ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ، ۸ ، فروری ۲۰۰۲ء

 

۱۵۳

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۸۵

 

بحوالۂ صنادیقِ جواہر۔ سوال: ۲۰۶: آپ نے سورۂ نجم کی مذکورہ آیاتِ کریمہ کے اسرار میں جبرائیل کا کوئی ذکر نہیں کیا، اس کی کیا وجہ ہے؟ جواب: (۱) یہاں دراصل جبرائیل کا کوئی ذکر نہیں ہے (۲) جبرائیل اکیلا نہیں، بلکہ وحی کے فرشتے پانچ ہیں، سب سے اوپر وہ فرشتہ ہے، جو قلم کے نام سے مشہور ہے، اس کے بعد جو فرشتہ ہے، وہ لوح کے نام سے ہے، پھر اسرافیل ہے، پھر میکائیل، اور سب سے نیچے جبرائیل ہے (۳) جیسا کہ حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے: فنون ملک یودی الی القلم و ھو ملک، و القلم یودی الی اللوح و ھو ملک  و اللوح یودی الی اسرافیل و اسرافیل یودی الیٰ میکائیل و میکائیل یودی الی جبرائیل و جبرائیل یودی الی الانبیاء و الرسل (المیزان: ۱۹، ص ۳۷۶)۔

 

سوال: ۲۰۷: مسند احمد بن حنبل، جلدِ سوم، حدیث ۸۹۲۱ میں ہے لا تقوم الساعۃ حتیٰ تطلع الشمس من مغربھا = قیامت برپا نہیں ہو گی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو جائے۔ اس حدیثِ شریف میں کیا حکمت ہے؟ کیا ابھی تک کوئی قیامت نہیں آئی ہے؟ جواب: اس کی

 

۱۵۴

 

تاویلی حکمت یہ ہے کہ قیامت روحانی واقعات کا ایک سلسلہ ہے، اور یہ اس وقت مکمل ہو جاتا ہے، جبکہ حظیرۂ قدس کا سورج مغرب سے طلوع ہو جاتا ہے، کیونکہ وہاں مشرق و مغرب ایک ہی ہے، اس حدیثِ شریف میں روحانی قیامت کی حدِ تکمیل کا ذکر ہے کہ قیامت کے مکمل ہو جانے کا مقام وہ ہے جہاں تک پہنچ کر یہ مشاہدہ ہو جاتا ہے کہ سورج کا مشرق و مغرب ایک ہی جگہ پر ہے، اور قرآنِ حکیم نے بزبانِ حکمت بتا دیا کہ ہر امام کے ساتھ ایک روحانی قیامت ہے (۱۷: ۷۱)۔

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر، ۹، فروری ۲۰۰۲ء

 

۱۵۵

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۸۶

 

بحوالۂ کتابِ مستطابِ گنجینۂ جواہرِ احادیث ص ۶۸: اللھم انک جعلت صلواتک و رحمتک و مغفرتک و رضوانک علیٰ ابراہیم و آل ابراہیم، اللھم! انھم (یعنی اہلِ بیت) منی و انا منھم فاجعل صلواتک و رحمتک و مغفرتک و رضوانک علی و علیہم۔ یعنی علیا و فاطمۃ و حسنا و حسینا۔

 

The holy Prophet said: “O Allah! Verily You sent Your blessing, Your mercy, Your forgiveness and Your pleasure upon Ibrahim and his progeny. O Allah! They are from me, and I am from them. So, send Your blessings, mercy, forgiveness and pleasure upon me and them, namely Ali, Fatimah, Hasan and Husayn.”

 

یا اللہ، یقیناً تو نے اپنا درود اور رحمت، اور مغفرت و خوشنودی کو ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر نازل کیا تھا، اے اللہ تعالیٰ یہ مجھ سے ہیں، اور میں ان سے ہوں، پس (تو اپنی عنایتِ بے نہایت سے) اپنا درود اور رحمت اور اپنی مغفرت و خوشنودی مجھ پر نازل فرما! اور ان پر بھی، یعنی علی، فاطمہ، اور حسن و حسین۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر ، ۹، فروری ۲۰۰۲ء

 

۱۵۶

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۸۷

 

سورۂ انفال (۰۸: ۲۹) میں ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ۔

 

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم خدا ترسی اختیار کروگے تو اللہ تمہارے لئے ایک فرقان = معجزہ = کسوٹی = معیار = (نور، ۵۷: ۲۸) مقرر کرے گا۔ لفظِ فرقان کی قرآنی حکمتوں کی معرفت کے لئے قرآن میں دیکھیں: ۰۲: ۵۳، ۰۲: ۱۸۵، ۰۳: ۰۴، ۲۱: ۴۸، ۰۸: ۲۹، ۰۸: ۴۱۔

 

لفظِ فرقان کی قرآنی معرفت کے لئے یہی چھ مقامات ہیں، اور ہاں آپ لغاتِ قرآن کو بھی دیکھیں، فرقان کے جتنے معانی ہیں، ان میں نور کے معنی بھی ہیں، اور شاید یہ آپ کے لئے آسان ہیں، پس آپ عالمِ شخصی کی طرف توجہ دیں، اور اس میں نور کا مشاہدہ کریں اور ذکر و عبادت، اور علم و حکمت میں غیر معمولی ترقی کریں تو یہ نور جو دراصل امامِ زمانؑ ہی کا نور ہے، آپ کو حظیرۂ قدس تک لے جائے گا۔

 

اگر آپ کو اسمِ اعظم نہیں ملا ہے، امامِ زمانؑ کے پاک عشق کے معجزات کا تجربہ نہیں ہے، آپ کو نفس کے خلاف جہادِ اکبر کرنے کی ہمت نہیں ہے اور آپ دوسرے حقیقی مومنین و مومنات کی طرح عبادت میں گریہ و زاری بھی نہیں

 

۱۵۷

 

کرسکتے ہیں تو پھر آپ کو دیکھنا اور سوچنا پڑے گا کہ کس وجہ سے ایسا ہے۔

 

لفظِ فرقان کی لغوی وضاحت کے لئے دیکھو: قاموس القرآن، ص ۳۹۹۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار، ۱۰ ، فروری ۲۰۰۲ء

 

۱۵۸

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۸۸

 

سورۂ حدید کے آخر میں بھی ایک زبردست انمول نگینہ ہے:

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔ (۵۷: ۲۸)۔ ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو، اور اس کے رسول (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ) پر کماحقہ ایمان لاؤ، اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دہرا حصہ عطا فرمائے گا اور تمہیں وہ نور مقرر کرے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے، اور تمہارے قصور معاف کر دے گا، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔

 

سوال: کیا رحمت کے دہرے حصے کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ ظاہر و باطن اور دنیا و آخرت میں رحمت ہوگی؟ جواب: ان شاءاللہ۔ سوال: یہ کون سا نور ہے؟ جواب: یہ امامِ زمان علیہ السلام کا نور ہے۔ سوال: ایک حساب کے مطابق قرآنِ حکیم کی آیات ۶۶۶۶ = چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ ہیں، آپ نے اب سے بہت پہلے یہ کہا تھا کہ آپ ان شاءاللہ قرآنِ حکیم کی ہر آیت کے باطن میں سے ثبوتِ امامت کی کوئی حکمت بناسکتے ہیں، کیا آپ اس طریقِ کار کا کوئی راز بتا سکتے ہیں؟ جواب: جی ہاں، اصل راز

 

۱۵۹

 

حضرتِ امامِ آلِ محمدؐ کی مدد ہی ہے، جس سے اس غلامِ کمترین کو یہ معلوم ہوا ہے کہ قرآن کی ۶۶۶۶ آیات میں کیونکر اختلاف ہوسکتا ہے؟ ان میں تو ہم آہنگی اور یکرنگی ہے، وہ سب کی سب کتابِ مکنون میں ہیں، وہ گوہرِعقل میں ہیں، وہ امامِ مبین میں ہیں، وہ سب کلمات ہیں، اور کلمات میں حروف ہیں، حروف میں نقطے ہیں، نقطے سب یکسان ہیں، لہٰذا صرف ایک ہی نقطے کی معرفت ضروری ہے اور وہ نقطہ بائے بسم اللہ ہے، جس کی تاویل علی ہے، پس ہر آیت میں بشکلِ نقطہ علی ہے، یہ نقطہ جو علی ہے، وہ گوہرِعقل ہے، = کتابِ مکنون = لپیٹی ہوئی کائنات = نورِ ازل = نورِ محمدیؐ = نورِعلیؑ۔ مجھے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار، ۱۰، فروری ۲۰۰۲ء

 

۱۶۰

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۸۹

 

بحوالۂ کتابِ وجہِ دین، اردو، کلام ۔۱ ، ص ۳۱ پر سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۵) کی پرحکمت آیۂ شریفہ درج ہے جس میں رسولِ اکرم کی مثال ایک ایسے پاک درخت کی طرح ہے، جس کی جڑیں زمین میں محکم و مضبوط ہیں، اور اس کی شاخیں آسمان میں پہنچ گئی ہے، یعنی فرزندِ رسول = امامِ مبین کا نورِ اقدس حظیرۂ قدس کے آسمان میں ہر وقت اپنے ربّ کے اذن سے علم و حکمت کا روح پرور پھل دیتا رہتا ہے اور حظیرۂ قدس کے تمام اسرارِ عظیم کا تعلق بھی امامِ مبین کے نورِ مبارک ہی سے ہے یعنی کلیۂ امامِ مبین کے انتہائی عظیم حیران کن اور ہوش رُبا معجزات، ظہورِ ازّل و ابد، عہدِ الست کا تجدّد، فنائے مطلق کا سرِ اعظم!

 

سوال: کیا آدم خلیفۃ اللہ جنّت میں جا کر ہی صورتِ رحمان پر پیدا ہوا تھا؟ ج: جی ہاں۔ سوال: حضرتِ داؤد نبی، امامِ مستودع اور خلیفۃ اللہ تھا (۳۸: ۲۶) اُس میں اور آدم میں کیا فرق تھا؟ جواب: کوئی فرق نہ تھا۔ سوال: اُس کو فرشتوں نے سجدہ کیا تھا یا نہیں؟ جواب: کیا تھا۔ سوال: وہ حظیرۂ قدس میں جا کر صورتِ رحمان پر پیدا ہوا تھا یا نہیں؟ جواب: ہوا تھا۔

 

سورۂ انعام (۰۶: ۱۶۵) کے مطابق اللہ تعالیٰ نے جن کو خلیفہ بنایا

 

۱۶۱

 

ہے، وہ ظاہری ہیں یا باطنی؟ اگر وہ باطن میں ہیں، تو کیا وہ سلاطینِ بہشت ہیں؟ یہی سوال سورۂ نور (۲۴: ۵۵) سے بھی متعلق ہے، ایسے سخت مشکل سوالات کے جوابات کے لئے حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے پرحکمت ارشادات کو پڑھیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

پیر، ۱۱، فروری ۲۰۰۲ ء

 

۱۶۲

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۹۰

 

سوال: حضرتِ ربّ تعالیٰ کی پاک و پرحکمت معرفت کا اوّلین دل نشین اشارہ قرآنِ عزیز کے کس مقام پر ہے، اور کس طرح؟ جواب: یہ سب سے اوّلین اشارۂ معرفتِ الٰہی سورۂ فاتحہ کی ربّانی تعلیم میں ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت اور توحید کے اشارے پر مبنی تعلیم میں اپنے عارفوں کی زبان سے کہا کہ ہم تجھ کو پہچانتے ہیں اور واحد و یکتا مانتے ہیں اور تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ قرآنِ حکیم کے مبارک الفاظ یہ ہیں۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین۔ کیونکہ معبودِ برحق کی عبادت کے لئے معرفت ضروری ہے۔

 

سورۂ ذاریات (۵۱: ۵۶) میں ارشاد ہے: وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ۔ ترجمہ: اور میں جنّوں اور انسانوں کو اپنی عبادت = معرفت کے لئے پیدا کیا ہے۔ یہ ابنِ عباس کی تفسیر ہے، بحوالۂ المعجم الصوفی ص ۱۲۶۷۔

 

حدیثِ قدسی ہے: کنت کنزا لا اعرف فاحببت ان اعرف فخلقت خلقا فعرفتھم فبی عرفونی۔ (ص ۱۲۶۶) ترجمہ: میں ایک ان پہچانا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ میری معرفت ہو، تو میں نے ایک خلق کو پیدا کیا، پس میں نے ان کو اپنا عارف بنایا، پس انہوں نے میرے ہی وسیلے سے مجھ کو پہچان لیا۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر، ۱۱، فروری ۲۰۰۲ء  کراچی

 

۱۶۳

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۹۱

 

کتاب دعائم الاسلام عربی، جلدِ اوّل ص ۲۵ پر یہ حدیثِ شریف ہے: من مات لا یعرف امام دہرہ حیا مات میتۃ جاہلیۃ = یعنی جو شخص اپنے زندہ امامِ زمانہ کی معرفت کے بغیر وفات پا گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرگیا۔

 

کتابِ وجہِ دین ص ۳۴۳ پر بھی اس حدیثِ شریف کو پڑھیں: من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیۃ و الجاہل فی النار =  جو شخص مرے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے اور جاہل جیتے جی دوزخِ جہالت میں گرفتار ہے۔

 

امام شناسی کے تین بڑے درجے ہیں، علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین۔ علم الیقین وہ سلسلۂ یقینی علم ہے، جس سے بتدریج = رفتہ رفتہ آپ کے سوالات اور شکوک و شبہات کم سے کم ہوتے جاتے ہیں، کامیاب اور حقیقی عین الیقین اُس وقت ممکن ہے، جب امامِ زمان اپنے کسی مرید کو اسمِ اعظم عطا فرماتا ہے، اگر کسی مومنِ سالک پر مخفی روحانی قیامت واقع ہو جاتی ہے، تو یہ اس کی بہت بڑی سعادت ہے، اب وہ بحکمِ خدا اپنے نفسِ امّارہ کے خلاف جہادِ اکبر میں فتح یاب ہو سکتا

 

۱۶۴

 

ہے، تاہم حق الیقین = حظیرۃ القدس تک سخت امتحانات جاری ہیں، کیونکہ قیامِ قیامت کا عمل اُس وقت پورا ہوتا ہے، جب حظیرۂ قدس کا آفتابِ نور مغرب سے طلوع ہوتا ہے، اور یہ مقامِ حق الیقین ہے، الحمد للہ۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

منگل، ۱۲، فروری ۲۰۰۲ء

 

۱۶۵

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۹۲

 

حضرتِ امیر المومنین علی علیہ السّلام کا ارشادِ مبارک ہے: اسمی فی القرآن حکیما ۔ یعنی میرا نام قرآن میں حکیم ہے۔ بمعنیٔ صاحبِ حکمت، یہ اسم اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفاتی میں بھی ہے، حکیم قرآن کے ناموں میں بھی ہے، اور رسول کے ناموں میں بھی، اس کا اشارہ یقیناً یہ ہے کہ خدا و رسول اور قرآن کی حکمت علیؑ = امامِ مبینؑ سے عاشقوں اور عارفوں کو مل سکتی ہے، جب علیؑ = امامِ زمانؑ اللہ کا حقیقی اور نورانی اسمِ اعظم اور مجموعۂ اسمائے حسنیٰ ہے تو اللہ کے تمام اسمائے صفات اُس کے اسمِ اعظم میں جمع ہو سکتے ہیں حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ کے پاک ارشادات کا اشارہ یہی ہے۔

 

آپ کو اور ہمیں راہِ معرفت میں آگے سے آگے جانے کی سخت ضرورت ہے، تا آنکہ ہم حظیرۂ قدس میں داخل ہو جائیں، تا کہ ہم وہاں امامِ زمان کو حقیقی معنوں میں پہچان سکیں، کیونکہ حظیرۂ قدس ہی علم و حکمت اور معرفت کے معجزات کی بہشت ہے، آپ نے جتنے معجزات کے بارے میں سنا ہے، وہ سب زمانۂ ماضی میں ہوسکتے ہیں، لیکن آپ نے وعدۂ الٰہی (۴۱: ۵۳) کے باوجود اپنے عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس میں امامِ آلِ محمدؐ کے معجزات کو نہیں دیکھا، چلو

 

۱۶۶

 

آپ اور ہم سب امامِ عالی مقام کے عاشق مرید ہیں، یہ دل کی آنکھ کا مشاہدہ ہے کہ امامِ مبینؑ کا ہر معجزہ علم و حکمت اور معرفت کا سرچشمہ ہوا کرتا ہے۔

 

کیا یہ سب سے عجیب و غریب اور سب سے عظیم معجزہ نہیں ہے کہ امامِ مبینؑ کائنات کو بار بار لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے، حالانکہ یہ اپنی جگہ قائم ہے، آپ امام میں فنا ہوکر اس کے معجزات کو دیکھیں، حضرتِ امامِ اقدس و اطہر کے تمام عظیم معجزات حظیرۂ قدس میں ہیں۔ الحمد للہ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ، ۱۳ ، فروری ۲۰۰۲ء

 

۱۶۷

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۹۳

 

جب عالمِ اسلام میں تصوف کا ایک خاص مقام ہے، تو پھر عملی تصوف کی بہت بڑی اہمیت کیوں نہ ہو، پس آپ عملی تصوف کی کتاب کا مطالعہ ضرور کریں، اور ایسا کوئی حقیقی صوفی دنیا میں نہیں ہوگا جو حدیثِ قدسیٔ نوافل پر یقین نہ رکھتا ہو، پس آپ کتابِ عملی تصوف میں معجزۂ نوافل قسطِ اوّل اور دوم کی حکمتوں کو پڑھ لیں، پھر آپ عالمِ شخصی کی بہشتِ برین = حظیرۂ قدس کا تصور کریں، اب آپ اس تصوّر میں دیکھیں کہ ایک لطیف نورانی ہاتھ ہے، جو باطناً کائنات کو لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے، یہ کس کا ہاتھ ہے؟ کیا یہ آپ کے پاک امام کا دستِ مبارک ہے؟ جواب: جی ہاں، یقیناً، کیونکہ یہاں امامِ مبین کا نورِ اقدس کام کر رہا ہے، قلبِ قرآن (۳۶: ۱۲) میں جو کلیۂ امامِ مبین ہے، اس کے عملی معجزات اور ظہورات کا مقام جبین =حظیرۂ قدس = عالمِ شخصی کی بہشت ہے جس میں بوقتِ روحانی قیامت امامِ مبین کا پاک نور طلوع ہوجاتا ہے، اور سب سے عظیم معجزات کرتا ہے، جن میں ناقابلِ فراموش علم و حکمت اور معرفت کے اسرارِ عظیم ہیں، امامِ مبین اللہ تعالیٰ کے نورِ قدیم کا حامل ہے۔

 

پروانہ اگر ایک بار شعلۂ چراغ کی زد میں آکر جلتا ہے، تو پھر وہ مر کر

 

۱۶۸

 

ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے، اس کے برعکس اگر تم کو امامِ برحقؑ کے نورِ عشق میں ستر ہزار مرتبہ جلاتے اور زندہ کرتے رہتے ہیں تو تم کو اور تمہارے تمام دوستوں کو بہت بہت مبارک ہو کہ تم کو ازلی اور ابدی حیات عطا ہوئی۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ، ۱۳، فروری ۲۰۰۲ ء

 

۱۶۹

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۹۴

 

جو شخص حظیرۂ قدس میں امامِ زمانؑ کا عارف ہو جاتا ہے، وہ اپنی روح اور اپنے ربّ کا عارف ہوجاتا ہے، خدا کی قسم نورِ امامِ زمانؑ اور نورِ قرآن الگ الگ نہیں، اور نہ ہی جنّت کے کل معجزات اس سے جدا ہیں (۴۷: ۰۶) ہاں یہ سچ اور حقیقت ہے کہ جنّت بنا بنایا ہوا دنیا کے کسی باغ کی طرح نہیں ہے، بلکہ وہ حضرتِ باری تعالیٰ کے کلمۂ کن (ہوجا) کے بےشمار عجیب و غریب معجزات کی صورت میں ہے جس کی معرفت عالمِ شخصی خصوصاً حظیرۂ قدس میں ہے۔

 

سورۂ نمل کی آخری آیت (۲۷: ۹۳) بھی ایک بڑا انمول نگینہ ہے: ارشادِ خداوندی ہے: و قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ سَیُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ فَتَعْرِفُوْنَهَاؕ-وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ۔ ترجمہ: ان سے کہو، تعریف اللہ ہی کے لئے ہے، عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں (معجزات) دکھا دے گا اور تم انہیں پہچان لوگے، اور تیرا ربّ بےخبر نہیں ہے ان اعمال سے جو تم لوگ کرتے ہو۔

 

تاویلی حکمت: حمد = عقلِ کلّ، اور یہی فرشتۂ عظیم، اللہ کی سب سے بڑی زندہ تعریف ہے، اللہ کی آیات = معجزات = امامِ زمانؑ ہے، ارشاد ہوا کہ عنقریب روحانی قیامت میں تم کوآیات و معجزاتِ الٰہی یعنی

 

۱۷۰

 

امامِ زمانؑ کا نور دکھا دیا جائے گا، اور تم کو اس کی معرفت ہوگی، پس آیات اللہ = خدا کے معجزات امامِ زمان علیہ السلام ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ، ۱۳، فروری ۲۰۰۲ء

 

۱۷۱

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۹۵

 

شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا ص ۱۳۱۶ پر نزولِ قرآن کی تخمینی مدت ۲۲ سال ۵ ماہ اور ۱۴ دن ہے، نیز اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلدِ دوم ص ۱۱۳۵ پر بھی یہی مدت درج ہے، ان دونوں کے مطابق کل آیاتِ قرآن ۶۶۶۶ ہیں، جیسے جار اللہ کے اس قول پر یہ شعر ہے:

 

گفت جار اللہ ہمہ آیاتِ قرآنِ مجید

شش ہزار و شش صد و شصت و شش آمد در شمار

 

جار اللہ نے کہا: قرآنِ مجید کی تمام آیات شمار میں ۶۶۶۶ ہیں۔

 

حکیم پیر ناصر خسرو کی شہرۂ آفاق کتاب وجہِ دین میں حجتِ قائم اور قائم علیہما السلام کے بارے میں معرفتِ کتابی حاصل کریں، یہ کتاب تقریباً ایک ہزار سال پہلے تصنیف کی گئی ہے، اور یہ اسرارِ امام شناسی کا ایک عظیم خزانہ ہے، اس عظیم الشان کتاب میں حدودِ دین کی معرفت اور علمِ تاویل کا بہت بڑا سرمایہ ہے، اس میں جا بجا حجتِ قائم اور حضرتِ قائم کا ذکر آیا ہے، اس کتاب کے مطابق سورۂ قدر کی تاویلِ باطن میں حجتِ قائم اور نورِ قائم کا ذکر ہے، جس میں شبِ قدر سے حجتِ قائم مراد ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کو مخفی روحانی قیامت بنانا چاہتا تھا (۲۰: ۱۵) اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ

 

۱۷۲

 

فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ (۹۷: ۰۱) = ہم نے اُس (قائم) کو شبِ قدر (حجتِ قائم) میں نازل کیا۔ تا کہ یہ قدر والی رات قائم اور قیامت کو چھپا لے، اور تمام لوگوں کے لئے بہت بڑا امتحان ہو۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات ، ۱۴، فروری ۲۰۰۲ء

 

۱۷۳

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۹۶

 

یہ حدیثِ شریف کتابِ سرائر ص ۲۴۳ پر بھی موجود ہے: من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیۃ۔ اس کا ترجمہ قبلاً ہو چکا ہے۔

 

سوال: اس ارشادِ نبوی میں، امامِ زمان کی کون سی معرفت مقصود ہے؟ اقرار؟ ظاہری شناخت؟ کتابی معرفت = علم الیقین؟ عین الیقین؟ یا کلی معرفت = حق الیقین؟ جواب: امام شناسی گویا حظیرۂ قدس کی سیڑھی ہے، لہٰذا سیڑھی اوپر جانے کے لئے ہوا کرتی ہے۔

 

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ (ارواحنا فداہ) نے اپنے زمانے کی روحانی قیامت برپا کر کے تمام انسانوں اور جنات پر بہت بڑا ابدی احسان کیا ہے، ان کی امامت کا زمانہ ظاہراً و باطناً خداوندی پروگرام کے مطابق بڑا انقلابی زمانہ تھا، اے کاش ان کے پرحکمت ارشادات سے ہم سب بھرپور فائدہ اٹھا سکتے! اے کاش ہم سب ان کو قرآن و روحانیت کی روشنی میں پہچان سکتے! ان کے وارث و جانشین نور مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام صلوات اللہ علیہ کی شانِ اقدس میں اس بندۂ درویش نے کئی مدحیہ نظمیں تصنیف کی ہیں، جو فارسی، اردو اور بروشسکی میں ہیں، آپ ان کا گہرا مطالعہ کر کے دیکھیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات، ۱۴، فروری ۲۰۰۲ ء

 

۱۷۴

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۹۷

 

از کتاب سراج القلوب ص ۱۰۰، بعنوانِ سورۂ کوثر کی حکمت:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَر فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ = (اے رسول) بے شک ہم نے تمہیں کوثر  ؎۱  عطا کیا ہے، تو تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو، اور قربانی کرو، یقیناً تمہارا دشمن ہی مقطوع النسل ہے۔ (۱۰۸: ۰۱ تا ۰۳)

 

؎۱ کوثر بروزنِ فوعل صیغۂ مبالغہ ہے، جو کثرت سے مشتق ہے، کثیر زیادہ، اکثر بہت زیادہ، کثار بہت ہی زیادہ، اور کوثر بے حد زیادہ، جو خلق کی عقل و فہم سے ورا ء ہے، اس سے عالمِ ذرّ مراد ہے، جو حضورِ اکرمؐ سے آپ کے وصی مولا علیؑ میں منتقل ہو گیا، اسی طرح سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پاک ذرّیت جاری و باقی رہی، جیسے ارشادِ نبوی ہے:

 

ان اللہ تعالیٰ جعل ذریۃ کل نبی فی صلبہ و جعل ذریتی فی صلب علی بن ابی طالب = خدا نے ہر نبی کی اولاد اس کے صلب سے قرار دی ہے، لیکن میری اولاد صلبِ علیؑ سے ہے۔

 

کوثر کے ایک معنی مردِ کثیر اولاد کے ہیں، اور وہ حضرتِ علی علیہ السّلام ہی ہیں، کیونکہ ان کی پشتِ مبارک میں عالمِ ذرّ آیا، جس میں کثیر ذرّیت اور کوثر

 

۱۷۵

 

کے دوسرے تمام معانی شامل ہیں۔

 

حکیم پیر ناصر خسرو ق س کے دیوانِ اشعار میں ہے:

 

ایزد عطاش داد محمد را

نامش علی شناس و لقبش کوثر

 

خداوندِ قدوس نے حضرتِ محمد صلعم کو جانشین عطا کر دیا، جس کا اسمِ گرامی علیؑ اور لقب کوثر ہے، کتاب وجہِ دین، کلام ۱ میں سورۂ کوثر کی یوں تفسیر و تاویل کی گئی ہے۔

 

(اے محمد صلعم) ہم نے آپ کو بہت سی اولاد والا مرد عطا کر دیا ہے (جس سے اللہ تعالیٰ کی مراد اساس یعنی علی ہیں) پس آپ اپنے پروردگار کے لئے نماز قائم کیجئے (یعنی دعوتِ حق برپا کیجئے) اور نحر کے طریقے پر اونٹ ذبح کیجئے (یعنی اساس کا عہد لیجئے) کیونکہ آپ کا دشمن دم بریدہ ہے (یعنی وہ بے اولاد ہے، اس لئے امامت اس میں نہ رہے گی، بلکہ وہ آپ ہی کی ذرّیت میں باقی رہے گی)۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

منگل ۲۲ شعبان المعظم ۱۴۱۵ھ

۲۴ جنوری ۱۹۹۵ء

کراچی

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ، ۱۵ ، فروری ۲۰۰۲ ء

 

۱۷۶

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۹۸

 

حکیم پیر ناصر خسرو ق س کے دیوانِ اشعار ص ۱۴۸ پر یہ پرحکمت شعر ہے:

 

ایزد عطاش داد محمد را

نامش علی شناس و لقب کوثر

 

یعنی خداوندِ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول حضرت محمد صلعم کو بطورِ فرزند و جانشین وہ شخصِ کامل عطا کر دیا، جس کا نامِ مبارک علیؑ اور لقب کوثر ہے، یہ سورۂ کوثر کا تاویلی راز ہے، آپ کتابِ وجہِ دین میں بھی لفظِ کوثر کو دیکھیں، اور سراج القلوب ص ۱۰۰ کو بھی۔

 

سورۂ احزاب (۳۳: ۴۰) کا ترجمہ ہے: محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس فرمان میں یہ چاہتا ہے کہ حضرتِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے خاندانی شرف و اصالت اور سیادت کو نمایان اور مستند کیا جائے اور آلِ ابراہیمؑ و آلِ محمدؐ کی معرفت میں کسی کو کوئی غلط فہمی نہ ہو جائے۔

 

قرآنِ حکیم میں حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کا نام کل ۲۵ بار آیا ہے، جس میں کبھی عیسیٰ اور کبھی عیسیٰ ابنِ مریم کہا گیا ہے، البتہ اس میں کوئی بڑا سا راز ہے، ورنہ والدہ کے اسم کے بغیر بھی قرآن میں اسمِ عیسیٰ موجود ہے۔

 

المیزان، جلد، ۱۹، ص ۳۷۶: امام جعفر صادق علیہ السّلام کا ارشاد ہے: و اما نون فھو نھر فی الجنۃ قال اللہ عز و جل: اجمد

 

۱۷۷

 

فجمد فصار مدادا ثم قال للقلم: اکتب فسطر القلم فی اللوح المحفوظ ما کان و ما ھو کائن الیٰ یوم القیامۃ فالمداد مداد من نور و القلم قلم من نور و اللوح لوح من نور۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ، ۱۵، فروری، ۲۰۰۲ء

 

۱۷۸

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۹۹

 

آیۂ شریفۂ الست بربکم (۰۷: ۱۷۲) کے معجزۂ اعظم کا ہر تجدّد حظیرۂ قدس ہی میں ہوتا ہے، اس معجزے کا اوّلین تعلق انبیاء و اولیاء اور عرفاء سے ہے، یاد رہے کہ ایک میں سب ہوتے ہیں، لہٰذا روحانی قیامت صرف فردِ واحد کی ہوتی ہے، جو سب کی نمائندگی کے لئے کافی ہے، اور اسی طرح ہر روحانی قیامت میں صرف ایک ہی روح اللہ کے حضور جاتی ہے، جس میں سب کی ازلی وحدت پوشیدہ ہوتی ہے، پس آیۂ الست کی حکمت کے لئے زیادہ سے زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

 

اس آیتِ مبارکہ میں بنی آدم سے انبیاء و اولیاء اور عارفین مراد ہیں، اور ان کی پشتوں میں سے ان کی ذرّیت کو لینا روحانی قیامت کا عمل ہے، اور خدا کا یہ پوچھنا کہ آیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ عوام النّاس سے متعلق نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق ان خواص سے ہے، جنہوں نے اپنی روح اور اپنے ربّ کو پہچان لیا ہے، یہاں یہ حضرات اپنی روح کو خدا کے نور سے واصل پاتے ہیں، یا اپنی انائے علوی کو خدا میں فنا پاتے ہیں۔

 

و اشھدھم علیٰ انفسھم = اور ان کو اپنی جانوں = روحوں پر گواہ بنایا۔ کسی واقعے کا گواہ وہ شخص ہوتا ہے جو حاضر ہو کر پوری

 

۱۷۹

 

طرح سے واقعے کو دیکھ لیتا ہو، تو کیا اس ارشاد میں مشاہدۂ روح اور دیدارِ خداوندی کا ذکر نہیں ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ، ۱۵، فروری ۲۰۰۲ء

 

۱۸۰

 

حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت

قسط ۔ ۱۰۰

 

کتاب زاد المسافرین ص ۱۸۳ پر جو عظیم الشّان حدیثِ قدسی ہے، یہ اسی کا مفہوم ہے کہ اے ابنِ آدم = آدمِ زمانؑ کا حقیقی مومن، میری کلی اطاعت کر تا کہ میں تجھ کو اپنی مثل بناؤں گا، کہ تو ہمیشہ زندۂ جاوید رہے گا اور کبھی نہیں مرے گا، اور ایسا عزت والا بناؤں گا کہ تجھ کو کبھی کوئی ذلت ہی نہ ہو، اور ایسا غنی کہ کبھی مفلسی تیرے قریب ہی نہ آسکے ۔ حضرتِ پیر نے اس حدیثِ قدسی کی قرآنی شہادت کے لئے جس آیۂ کریمہ کو لیا ہے، وہ (۰۴: ۱۲۵) ہے، یعنی: وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ وَّ اتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاؕ-وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا ۔

 

آپ علمائے کرام کے مستند تراجم کو بعد میں خوب غور سے دیکھ لینا کیونکہ اس آیۂ کریمہ کے باطن میں اسرارِ معرفت کا ایک عظیم خزانہ ہے، جس کے دروازے کی نشاندہی اس حکمت میں ہے: “جس نے اپنے چہرۂ جان کو اللہ کے سپرد کر دیا، جس طرح حضرتِ ابراہیم نے یہ عمل کیا تھا (۰۶: ۷۹) تو ایسا شخص حظیرۂ قدس میں فنا فی اللہ بھی ہو جاتا ہے اور اپنے باپ آدمؑ کی طرح صورتِ رحمان پر پیدا بھی ہو جاتا ہے۔” یہاں اتنی تاویل صاحبانِ عقل کے لئے کافی ہے، صوفیاء کے درجۂ اعلیٰ کے مطابق فنا فی اللہ

 

۱۸۱

 

و بقا باللہ کا سرِاعظم حق ہے، اور یہ سب سے بڑا معجزہ حظیرۂ قدس میں ہوتا ہے، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ روح شناسی اور ربّ شناسی کا یہ انتہائی عظیم معجزہ انبیاء و اولیاء اور عرفا کے لئے خاص ہے اور امامِ زمان علیہ السّلام کے عاشق مریدوں میں سے جو بھی اسمِ اعظم کی تمام شرائط پر عمل کرتا ہے وہ بھی فنا فی الامام کی سب سے بڑی سعادت حاصل کر سکتا ہے، اور فنا فی الامام کا مرتبہ دراصل مرتبۂ فنا فی اللہ ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر، ۱۶ ، فروری ۲۰۰۲ ء

 

۱۸۲

حقائقِ عالیہ

دیباچۂ طبعِ ثانی

بِسْمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔ اللّٰھم اجعل لی نوراً فی قلبی، و نوراً فی سمعی و نوراً فی بصری، و نوراًفی لسانی، ونوراًفی شعری،  و نوراً  فی بشری، و نوراً فی لحمی، و نوراً فی دمّی، و نوراً فی عظامی، و نوراً فی عصبی،  و نوراً من بینَ یدی، و نوراً من خلفی، و نوراًعن یمینی،  ونوراً عن یساری، و نوراً من فوقی، ونوراً من تحتی، اللھم عظم لی نوراً و نعمتہ و سروراً (دعائم الاسلام، جلد اول، ص۱۶۷) ۔

حکمتِ اوّل: آنحضرتؐ کی یہ بابرکت دعا ایک خزانۂ اَسرار ہے، بلکہ یہ ایک جہانِ علم و حکمت ہے جو انتہائی جامع الفاظ میں سمیٹا ہوا ہے،  یہ چوٹی کی دعا بھی ہے، چوٹی کی تعلیم بھی ہے، نور کی کارکردگی کی معرفت بھی ہے، رحمتِ الہی کی امکانیت بھی ہے، اور حقیقتِ حال کی تصویر کشی بھی ہے کہ نور کس طرح پیغمبرؐ اور امامؑ میں محیط ہوکر کام کرتا ہے۔

۵

حکمتِ دوم: نور میں انوار ہوا کرتے ہیں،  جیسے نورِ ہدایت، نورِ علم، نورِ ایمان، نورِ یقین، نورِ عشق، نورِ عقل، نورِ معرفت وغیرہ، اور اسی طرح بہت سے انوار کا مجموعہ نور کہلاتا ہے، جیسے مذکورۂ بالا دعائے نور میں الگ الگ انوار کا ذکر ہے، اور وہ سب مل کر ایک نور بھی ہے، جس کی دلیل قرآنِ پاک میں نورٌعلیٰ نور ہے۔

حکمتِ سوم: نور آنکھ بھی ہے، آنکھ کی روشنی بھی، دور بین بھی ہے، خردبین بھی، خودبین (خود شناس)  بھی ہے، اور خدا بین بھی، جب نور عارف کے دل میں آتا ہے تو وہ خالی خولی نہیں آتا، بلکہ مکان و لا مکان کو اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔

حکمتِ چہارم: دل کے مراکز تین مقام پر ہیں: سینہ، جان اور عقل، اس سے یہ راز بھی معلوم ہوا کہ اس پاک دعا میں جو نور مطلوب ہے، وہ نہ صرف جسمانی بہتری کے لئے ہے، بلکہ نور کی زیادہ سے زیادہ ضرورت روح اور عقل کے لئے ہے، تاکہ منشائے الٰہی کے مطابق انسان کنزِ مخفی کو حاصل کر سکے۔

حکمتِ پنجم: میں سمجھتا ہوں کہ اس دعا میں روحانی طب بھی ہے اور روحانی سائنس بھی، طب اس معنیٰ میں ہے کہ جب بال، کھال، گوشت، خون وغیرہ میں نور موجود ہوگا، تو پورے بدن میں کوئی بھی خطرناک بیماری نہ ہوگی، اور اس بھر پور نورانیت

۶

میں روحانی سائنس کیوں نہ ہو، نور کی روشنی میں بے شمار غیر معمولی چیزوں کا بار بار مشاہدہ اور کامل تجربہ ہوتا ہوگا۔

حکمتِ ششم: حضرتِ محمد مصطفیٰ رسولِ خدا سراجِ منیر اور نورِ منزل تھے، آپ کی مبارک ہستی کا ذرّہ ذرّہ پُرنور ہوا تھا، اور اس ہمہ گیر طوفانی روشنی کا آغاز غارِ حرا ہی سے ہوا تھا، پھر دعائے نور کا مطلب آنحضرتؐ کے نزدیک سوائے تعلیم اور دعوت کے اور کیا ہوسکتا ہے۔

حکمتِ ہفتم: آپ نے نبیؐ اور ولیؑ (امامؑ)  کے جثۂ ابداعیہ کے بارے میں سنا ہوگا، وہ سر تا پا  نور ہی نور ہوتا ہے، یہ خلقِ جدید ہے، اس میں ہمیشہ ہمیشہ جدّت اور تازگی قائم رہتی ہے، یہ نور ہے اور فرشتہ،  لہٰذا اس کا عکس انسانِ کامل میں بھی ہوسکتا ہے۔

حقائقِ عالیہ: یہ کتاب اس لئے بھی بہت ہی  پیاری ہے کہ اس کی تصنیف لنڈن میں ہوئی تھی، جہاں میری نمائندہ روحیں اور کائناتیں ہیں، اور کہاں نہیں ہیں؟ لوگ کہتے ہیں کہ ایک شخص کی ایک ہی جان ہوا کرتی ہے، میں کہتا ہوں کہ نہیں نہیں، ایسا نہ کہا کرو، یہ بہت بڑی ناشکری ہے، جبکہ تم میں سے ہر فرد ایک عالمِ شخصی ہے، جس میں بے شمار جانیں یا روحیں ہیں، جہالت کی وجہ سے بہت سے لوگ علم و معرفت کی

۷

بہشت کی لذّتوں اور خوشیوں سے محروم ہوگئے ہیں۔

حقائقِ عالیہ واقعاً بڑی عمدہ کتاب ہے، آپ حقیقی معنوں میں اسے پڑھ کر دیکھیں، اس کے عنوانات اب گیارہ ہوگئے ہیں، میں نے کبھی غلطی سے یہ خیال بھی کیا ہوگا کہ میں کوئی چیز ہوں، حالانکہ میں ناچیز ہوں، کیونکہ میں جب اپنے ماضی کی طرف جانے لگتا ہوں تو قدم قدم پرخود کو کم سے کمتر دیکھتا جاتا ہوں،  تاآنکہ میرا کوئی نام و نشان بھی نہیں ملتا۔

انتسابِ جدید: اگرچہ جہادِ اکبر کی بہت بڑی اہمیت ہے اور بہت بڑی تعریف بھی ہے،  لیکن جب تک اس کے نتیجے میں گنجِ علم اور پھر جنگِ علم میں فتح حاصل نہ ہو تو پھر جہادِ اکبرکا اصل مقصد حاصل نہ ہوا، الحمد للہ، جب بعض نیک بخت مومنین و مومنات کو یہ معلوم ہوا کہ یہاں آلِ محمدؐ کے امامؑ نے ایک علمی چراغ کو روشن کردیا ہے، تو یہ سب پروانہ وار عشق کے ساتھ اس روشنی کے گردا گرد جمع ہوگئے، تاکہ جذبۂ پروانہ اور عقلِ انسانی کے مطابق نورِعلم کی خدمت کریں، پس شمعِ محفلِ علم و حکمت کے پروانوں میں سے ایک پروانۂ جان باز محترم کریمہ ناتھانی بھی ہیں، ان کے دل میں ہمیشہ علم کے لئے تڑپ اور بے چینی جاری رہتی ہے، یہ ان خوش نصیب افراد میں سے ہیں جو علم و حکمت کی باتوں سے زبردست اثر لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ محترم کریمہ نا تھانی علمی خدمت

۸

کو اپنی جانِ شیرین سے بھی زیادہ شیرین سمجھتی ہیں۔

آپ کے والدِ محترم کا اسمِ گرامی غلام علی حبیب ناتھانی ہے، جو ۲۰ستمبر۱۹۳۰کو گجرات (انڈیا) کے گاؤں پوربندر میں پیدا ہوئے، آپ نے ۱۹۵۷تا ۱۹۶۰گارڈن لائبریری میں آنریری خدمات انجام دیں، ۱۲ دسمبر۱۹۹۸ کو آپ کا انتقال ہوا۔

کریمہ کی والدۂ محترمہ کا نام مسز کلثوم غلام علی نا تھانی ہے، آپ ۲ دسمبر۱۹۳۵ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں، دین و مذہب اور علم سے بے انتہا دلچسپی ہے، آپ گارڈن جماعت خانہ میں آبِ شفا کے برتنوں کی صفائی اور ان کی تنظیم کی کمیٹی میں ایک عرصے سے خدمت کر رہی ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی)  ہونزائی

جمعہ۱۹ صفر المظفر۱۴۲۰ھ۴جون۱۹۹۹ء

۹

پیش لفظ

۱۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ یاربّ العزّت! تو اپنی رحمتِ بیکران سے اس بندۂ عاجز و کمترین کو ایسی توفیق و ہمت عنایت فرما، کہ وہ براستۂ لطف و کرم اس خاکسارِ ہیچ مدان کی دستگیری و رہنمائی کرے، اور ایک انتہائی دلپذیر روش سے قدم بقدم اور منزل بمنزل آگے سے آگے لیجا کر تیرے محبوب پیغمبر حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم،  اور أئمّۂ آلِ پاکِ محمدؐ کے دریائے عشق و معرفت میں سراپا ڈبو دے، تاکہ اس بحرِ عجائب و غرائب میں، جو آبِ رحمت بھی ہے، اور آب و تاب بھی، یہ دلِ سخت و سنگین مسکۂ ملائم کی طرح بآسانی  پگھل جائے، اور اس حال میں اشک فشانی کے ساتھ تیری ہر ہر نعمتِ عظمٰی کی پرخلوص اورعاجزانہ شکر گزاری ہو، بیشک اس نیک عمل سے ایک گونہ تسکینِ خاطر اور راحتِ جان ضرور ہوگی، لیکن اے میرے بیحد مہربان پروردگار! تیرے احسانات و انعامات ایسے عظیم اور اتنے کثیر ہیں کہ اس دل خواہ سعی کے باوجود تیرے حقوقِ سپاس کی کائنات کا ایک ذرّہ بھی ادا نہیں ہوسکتا۔

۱۰

۲۔ اے خدائے بزرگ وبرتر! اے ملیکِ مقتدر (۵۴: ۵۵) اے بادشاہِ بندہ نواز! تیرے نورِ اقدس کے عاشقانِ صادق سے میری مسکین روح فدا ہو! اگرچہ میں صرف ایک مُٹھی خاک ہوں، اور تو شاہنشاہِ افلاک ہے اور بہت ہی پاک،  پھر بھی اس خاکِ پائے مومنان پر تیری نگاہِ جود و احسان ہے، کہ تو نے اپنے اولیائے کرام (أئمّۂ طاہرینؑ)  کی دوستی سے سرفراز فرمایا، اور انہی حضرات کے نورِ ولایت کی روشنی میں خزائنِ قرآن مل سکتے ہیں، الحمد للہ۔

۳۔ اما بعد گزارش یہ ہے کہ ۱۹۸۶ء کو بار دوم سفرِ چین کی سعادت نصیب ہوئی، ہر چند کہ یہ دورہ محدود اور مختصر تھا،  لیکن بفضلِ خداوندِ تعالٰی اس میں توقع سے بہت ہی زیادہ کامیابی اور بیحد شادمانی ہوئی، چنانچہ سب سے پہلے جو قابلِ تعریف چیز مشاہدے میں آئی، وہ چین کی موجودہ ترقی ہے، یارقند میرے لئے بڑا بابرکت شہر ہے، کیونکہ یہ سچ اور حقیقت ہے،  کہ اس خاکِ پائے مومنان نے وہاں صرف چند کرامات نہیں بلکہ نورِ اسلام کے بھر پور معجزات کی ایک کائنات دیکھی ہے، آپ قرآنِ حکیم میں مادّہ: ک۔ ت۔ م کے تحت دیکھ لیں کہ آیا علم و حکمت کی زبان میں ان معجزات کی طرف اشارہ نہیں کرنا چاہئے؟ کیا حق اور شہادت کو چھپا لینا چاہئے؟  (۰۲: ۱۴۰،  ۰۲: ۴۲،  ۰۲: ۲۸۳ )  ہرگزنہیں،  ہرگز نہیں۔

۱۱

۴۔ دورۂ یارقند کے بعد اس خاکسار خادم کو لنڈن کے عزیزوں سے ملنے کا لائحہ طے ہوا تھا، وہ چراغِ امامت کے پروانے نورِ معرفت کی روشنی میں ایک بڑی تابناک اور کامیاب مذہبی اورعلمی زندگی گزار رہے ہیں، ان کو اعلیٰ سطح پر یہ زرّین موقع میسر ہے کہ دینِ اسلام اور اسماعیلیّت کی قلمی اور علمی خدمت کریں، وہ ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں، جہاں ظاہری علوم اور مادّی ترقیوں کا طوفان چل رہا ہے، اور نتیجے کے طورپر بہت سے سوالات پیدا ہو سکتے ہیں،  جن پر وہ وقتاً فوقتاً مل کر روشنی ڈالتے ہیں، اور کبھی کبھار اس بندۂ درویش کو بھی اس علمی محفل میں شرکت کیلئے دعوت دیتے ہیں۔

۵۔ یہ تو سب کو معلوم ہی ہے کہ جہاں علم کی سطح زیادہ سے زیادہ بلند ہو، وہاں حقیقی علم کا ظہور قدرتی طور پر اسی معیار کے مطابق ہو جاتا ہے۔ اس علم کی ایک دوسری شرط عاجزی اور کثرتِ ذکر و بندگی ہے، اگر آپ چاہیں تو جذبۂ علم سے سرشار اور ہمہ تن گوش ہوکر جلوہ ہائے علم کے لئے مقناطیسیت پیدا کرسکتے ہیں، پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم بندے روحانی اور علمی بھوک اور پیاس کے مارے گریہ و زاری اور فریاد و فغان کرتے رہیں، اور خداتعالیٰ کو اس درد ناک حالت کی خبر ہی نہ ہو، حالانکہ قرآنِ کریم بار بار فرماتا ہے کہ: خدا تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے (۱۱: ۱۲۳) ۔

۶۔  الغرض اگر یہ مانا جائے کہ یہ خادم ایک ٹیچر (استاد)  ہے، تولازمی طور پر یہ مثال بھی بالکل درست ہو جاتی ہے کہ ہر معلّم ایک شیر دار

۱۲

خاتون کی طرح ہے، اور اس کی ذاتی معلومات علمی دودھ کہلاتی ہیں، مگر اس میں ایک بڑا فرق بھی ہے، وہ یہ کہ ظاہری عورت اور مادّہ جانور کا دودھ محدود مقدار میں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مقررہ وقت کے لئے ہوا کرتا ہے، لیکن علم کا دودھ غیر محدود بھی ہے اور دائمی بھی، چنانچہ مثال کے طور پر اگر آپ کسی قابل ٹیچر کو گھرمیں محبوس کر دیتے ہیں، تو اس غریب خاتونِ علم کا قیمتی دودھ ہمیشہ کے لئے سوکھ جائیگا، درین صورت اس کا انفرادی اور قوم کا اجتماعی نقصان ہوسکتا ہے۔

۷۔ الحمد للہ! میرے نہایت ہی مہربان امامِ زمان صلوت اللہ علیہ و سلامہٗ کی پاک نورانی دعا اور زبردست تائید سے میرے مشرق و مغرب کے بہت سے دوستوں،  عزیزوں،  اور شاگردوں نے اس شیرِ شیرین کو نہ صرف جاری ہی رہنے دیا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس میں اضافے اور ترقی کے لئے بھی مواقع فراہم کر دیئے، جیسے ادارے کی شکل میں مل کر کام کرنا، جس میں تصنیف، ترجمہ، درس و تدریس، اور لیکچرز کا اہتمام، مفید علمی سوالات، دورہ کے فرائض، جماعت اور اداروں کی خاموش خدمت، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں، پس اس علمی خدمت کا سارا ثواب میرے عزیزوں کو حاصل ہے، اور اس سے مجھے بیحد خوشی ہے۔

۸۔ امامِ اقدس و اطہرؑ کی نورانی دعا کس طرح کام کرتی ہے، اس کے بارے میں ایک مستقل مضمون ہونا چاہیے،  کیونکہ ہر مومن کی کامیابی اسی

۱۳

مبارک دعا کی برکتوں سے حاصل ہوتی ہے، چنانچہ لنڈن جیسے عظیم اور انتہائی حسین و جمیل شہر کے کسی پاکیزہ مکان میں تنہائی، ریاضت، عبادت اور مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات کی سعادت نصیب ہوئی، اس کے علاوہ ہم نے اپنے فرشتہ خصلت عزیزوں کے ساتھ بھی بارہا آنسوؤں کے تابناک موتی برساتے ہوئے مناجات و دعا کی، جس سے سکونِ قلب حاصل ہوا، اور یہ روح پرور سلسلہ تقریباً ایک ماہ تک جاری رہا، اسی اعتکاف جیسی مدت میں یہ عزیز رسالہ جو “حقائقِ عالیہ” کے اسم سے موسوم ہے مرقوم ہوا، اور کتاب کا یہ نام ہمارے عظیم دوستوں کی تجویز سے مقرر ہوا۔

۹۔  قرآنی حکمت کا فرمانا یہ ہے کہ ہر چیز میں علم ہے، یعنی ہر مثال میں علم ہی کا ذکر موجود ہے (۰۶: ۸۰،  ۴۰: ۰۷) پس وہ صلوٰۃ جو اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتے اہل ایمان پر بھیجتے ہیں علم کی ایک صورت ہے، تاکہ ان کو ظلمتِ جہالت سے نکال کر نورِ معرفت کی طرف لائیں (۳۳: ۴۳) اور وہ صلوٰۃ بھی علم ہی کی ایک کیفیت ہے، جو رسول اکرمؐ کی جانب سے مومنین کو حاصل ہوتی تھی (۰۹: ۱۰۳) اور اب یہی علم امامِ وقتؑ سے مل سکتا ہے، کیونکہ اسی مقصد کے لئے خدا و رسولؐ نے امامؑ کو مقررفرمایا ہے (۵۷: ۲۸) ۔

۱۰۔  خداوندِ تبارک و تعالیٰ نے امامؑ کی تعریف و توصیف چار۴ مقامات پر فرمائی ہے، وہ لاھوت، جبروت، ملکوت، اور ناسوت ہیں،

۱۴

عالَمِ ناسوت میں امامِ عالی مقامؑ کی جو معرفت ہے،  اس کے تین درجے ہیں۔ یعنی امام کی تعریف پیغمبروں کے ساتھ بھی ہے، ان کے بعد بھی، اور مومنین کے ساتھ بھی، سوال: نورِ نبوّت اور نورِ امامت کے ایک ہی مقام پر ہونے کی مثال و دلیل کیا ہے؟ جواب: الف: دیکھئے اس خلافتِ الٰہیہ کے اعلانِ اوّل کو،  جس میں نبوّت و امامت دونوں مقصودِ خدا ہیں (۰۲: ۳۰) ۔ ب: حضرت ابراہیمؑ پیغمبر بھی تھے اور امام بھی، جس سے نبوّت و امامت کی یکجائی کا ثبوت مل جاتا ہے (۰۲: ۱۲۴) ۔ ج: حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ دونوں پر وحی نازل ہوتی تھی، ان میں سے پہلی وحیٔ جلی ہے، اور دوسری وحیٔ خفی، اور سب جانتے ہیں کہ حضرت ہارونؑ امام تھے (۰۲: ۲۴۸،  ۲۱: ۴۸) ۔

۱۱۔  سوال: پیغمبر کے بعد امام کا ہونا کیوں ضروری ہے؟ اور اس کا کیا ثبوت ہے؟ جواب: الف: ہر پیغمبر کا ایک وزیر اور جانشین ہوا کرتا ہے، تاکہ لوگوں کو آسمانی کتاب کی حکمت سے آگاہ کر دیا جائے (۲۵: ۳۵،  ۰۷: ۱۴۲) ب: ہر آسمانی کتاب کا ایک خاص وارث ہوتا ہے، اور وہ امام ہی ہے۔ (۳۵: ۳۲) ج: رسول کے بعد اولوالامر کا سلسلہ جاری ہے (۰۴: ۵۹) ۔ د: کتابِ سماوی کے ساتھ ہمیشہ کے لئے نورِمنزّل کا ہونا بھی از بس ضروری ہے (۰۵: ۱۵) ۔

۱۲۔  سوال: جو امام انبیاؑ کے ساتھ ہو، اور ان کے بعد

۱۵

بھی ہو،  وہ مومنین کی قطار میں کیسے آ سکتا ہے؟  جواب: الف: حضرت امامؑ صاحبِ امر (ولیٔ امر)  یعنی امیرِ مومنان ہیں (۰۴: ۵۹) لہٰذا ظاہراً و باطناً اہلِ ایمان کی صفِ اوّل میں بلکہ اس سے بھی آگے ان کا ہونا لازمی ہے تاکہ امت پیغمبر کے بعد امامِ وقت کی پیروی کرسکے۔ ب: قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں خداوندِ عالم نے ہر زمانے کے مومنین سے خطاب فرمایا ہے، جیسے  یَآ اَیُّھَا الّذین اٰمنوا (اے ایمان والو!) وہاں امامِ عالی مقامؑ بحیثیتِ امیرالمومنین پیش پیش ہیں۔ ج: سورۂ حدید میں ارشاد ہے (ترجمہ) “جس دن آپ مومنین و مومنات کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور داہنی طرف دوڑتا ہو گا۔” یہ حکم حضراتِ أئمّہؑ،  مومنین، اور مومنات میں مشترک ہے، یعنی اس نورانی تعلیم میں اہلِ ایمان کے مردوں اور عورتوں کے ساتھ امام بھی ہے جس کی وجہ سے اہلِ نجات کا یہ مرتبۂ نورِعقل باعث صد افتخار نظر آتا ہے، امامِ اقدس و اطہرؑ کی جو معرفت ناسوت میں ہے، وہ بنیادی ہونے کے سبب سے بیحد ضروری ہے، اور جو تعریف و توصیف ملکوت، جبروت، اور لاہوت میں کی گئی ہے، وہ بعد کی چیز ہے، اور وہ اسی کی تابع ہے، نیز اس پیشِ لفظ میں اس کی تفصیلات کیلئے گنجائش بھی نہیں۔

۱۳۔  اس خادم کی تحریریں اکثر ان موضوعات سے متعلق ہیں: قرآنِ حکیم، اسلام، توحید (خداشناسی)  نبوّت (پیغمبر شناسی) امامت (امام شناسی) آسمانی محبت، یعنی خدا، رسول اور امامؑ کی محبت، طریقۂ اسماعیلیت، تقویٰ،

۱۶

ذکر و عبادت اور گریہ و زاری، اطاعت و فرمانبرداری، نور اور نورانیت، روح اور روحانیت، تصوف، حکمت، باطنیت، خدا کی ہر چیز زندہ ہے، سنتِ الٰہی، مطالعۂ قدرت، علمِ حدود (حدودِ دین)  علم الاشارات، علم الاعداد، علم التاویلات، علم الاسرار، علم النقوش (ڈایاگرامز)  اسرارِ انبیاء و أئمّہ، یک حقیقت

، (Monoreality)، عالمِ خیال، عالمِ خواب، عالمِ ذرّ، عالمِ شخصی (عالمِ صغیر)  حکمت تثنیہ (دو۲کی حکمت) انائے علوی اور انائے سفلی، قیامت، ابداع و انبعاث، تخلیق درتخلیق، ازل و ابد، لامکان اور دہر، انسان اور انسانیت، وحدتِ انسانی، اڑن طشتریاں، (Flying Saucers)، جسمِ لطیف، روحانی مشقیں، قصّۂ معجزات، روحانی خوشبوئیں، روحانی سائنس، مذہب اور سائنس، قرآنی اور علمی علاج، زندہ بہشت، سوال و جواب، روح اور مادّہ، دائرۂ دائمیت، لا ابتداء اور لا انتہاء، وغیرہ وغیرہ۔

۱۴۔ مذکورۂ بالا مضامین میں سے بعض منظم اور یکجا ہیں، بعض ایسے نہیں، بلکہ ان کے اجزاء دوسرے موضوعات میں بکھرے ہوئے ہیں، جیسے قصّۂ معجزات، جو یکجا مضمون نہیں، مگر جگہ جگہ کثرت سے، نہ صرف اشارات میں بلکہ واضح الفاظ میں بھی، ان کا ذکر کیا گیا ہے، لہٰذا قارئین کیلئے معلومات فراہم کرنے کی غرض سے موضوعات کی یہ فہرست یہاں درج کی گئی۔

۱۵۔  جیسا کہ ہر ادارے کا یہی اصول رہا ہے کہ ہر پروگرام اور ہر کام افسر اعلٰی یعنی پریزیڈنٹ کی تجویز یا حکم، یا منظوری اور نگرانی کے بغیر انجام نہیں

۱۷

پا سکتا، تاہم حق بات تو یہ ہے کہ ہمارے دونوں پریزیڈنز صاحبان اس رسمی صفت سے بڑھ کر کارہائے نمایان انجام دیتے آئے ہیں، ان کو خشک بزرگی بالکل پسند ہی نہیں، یہ آج کے مشرق و مغرب کے ترقی یافتہ انسانوں کی طرح زبردست سوشل ورکرز ہیں، بلکہ یہ علمی مجاہدین کے سردار ہیں، اور خدا کے علم میں یہ بات روشن ہے کہ میں جان و دل سے ان کے ہزاروں احسانات و خدمات کا اعتراف کر رہا ہوں، یعنی جناب فتح علی حبیب صدرِ خانۂ حکمت، اور جناب محمد عبدالعزیز صدرِ ادارۂ عارف کا بیحد شکر گزار ہوں کہ ان امامِ عالیمقامؑ کے عاشقوں نے اپنے شرق و غرب کے تمام ساتھیوں کی بھرپور مدد سے میری محدود علمی خدمت کو غیر محدود اور لازوال بنا کر عالمِ اسلام اور اسماعیلیّت میں پھیلا دیا، نیز محترمہ ایڈوائزرگل شکر فتح علی، اور محترمہ سیکریٹری یاسمین محمد کا بھی ازحد ممنون ہوں کہ ان چار جسمانی فرشتوں نے دوسرے عملداروں اور ممبروں کے تعاون سے جیسے انتہائی مفید علمی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ انکی کہیں مثال نہیں ملتی، ان کے اخلاقِ حسنہ اوراوصافِ کمال بیان کرنے کے لئے کئی مہینوں کا عرصہ بھی کم ہے، مختصر یہ کہ ان مشکل اور پیچیدہ حالات میں اس مشکل ترین کام (یعنی علمی خدمت)  کو انجام دینے کے لئے نگاہِ خداوندی نے دنیا بھر کے لوگوں سے ان کو اور ان کے مشرق و مغرب کے ہمکاروں (Colleagues) کو منتخب فرمایا ہے، ساتھ ہی ساتھ ان سب کو عالی ہمتی اور اولوالعزمی بھی عطا ہوئی ہے۔

۱۸

۱۶۔  ہمارے عزیزان جو امامِ اقدس و اطہرؑ کے نورانی علم کی برکت سے ذرّاتِ روح کے بھیدوں سے خوب واقف و آگاہ ہیں، چنانچہ وہ اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم سب ذرّاتی طور پر اپنے ہر فرد میں موجود ہیں، لہٰذا کسی ایک کی تعریف درحقیقت سب کی تعریف ہے، تاہم اس کے باوجود یہاں یہ مناسب ہے کہ ادارۂ عارف کی برانچ لنڈن کے چیئرمین امین کوٹا ڈیا اور سیکریٹری مریم کوٹاڈیا کا بطورِ خاص شکریہ ادا کریں، کہ رسالۂ “حقائقِ عالیہ” میں جو موتیوں کا خزانہ ہے، وہ اس ابرِ رحمت کی دُرفشانی سے جمع ہوا ہے، جو عشقِ مولا کے سمندر سے اٹھ اٹھ کر سرِ عزیزان کی فضاؤں میں چھائے ہوئے برستا رہتا تھا، سبحان اللہ! شاہِ ولایت کی نورانی کرامت دیکھئے کہ پورے لنڈن میں موسمِ سرما زور آزمائی کر رہا ہے، لیکن اس کا ایک گوشہ ایسا ہے کہ اس میں چند درویشوں کی قلبی شادابی کی خاطر بہارِ روح پرور کی بارش برس رہی ہے۔

۱۷۔  آخر میں ہم سب عارف کی برانچ امریکہ کے چیئرمین نور الدین راج پاری کی علم دوستی اور گرانقدر خدمات کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں، اسی طرح کوآرڈینیٹر ماہِ محل بدرالدّین، اور کوآرڈینیٹر یاسمین نورعلی کے بھی قلبی طور پر شکر گزار ہیں کہ یہ عزیزان اپنے مولائے برحقؑ کے حقیقی علم کی روشنی دور دور تک پھیلانے کے لئے بلند و بالا اور مستحکم منارے (Light-houses) ہیں، خداوندِ عالم سب مومنین کو دوجہان

۱۹

کی سلامتی اور کامیابی عنایت فرمائے! آمین!!

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

پیر۴جمادی الاول؁۱۴۰۷ھ

۵ جنوری؁۱۹۸۷ء

۲۰

گلہائے معنوی

۱۔ ہمارے دونوں فرشتہ خصلت پریذیڈنز فتح علی حبیب اور محمد عبد العزیز جو احسانات و انعاماتِ خداوندی میں سے ہونے کی وجہ سے ہمیں بیحد عزیز و محترم ہیں، اور ہمارے دوسرے تمام عملدار و ارکان جو انہی معنوں میں بہت ہی پیارے ہیں، ان سب کواور شمالی علاقہ جات کے تمام دوستوں کو دل کی گہرائیوں سے یاد کرتے ہوئے یاعلیؑ مدد کی مقدّس دعا کرتا ہوں، پروردگار اسے قبول فرمائے!

۲۔ خداوندِ قدّوس کے فضل و کرم اور آپ جملہ عزیزان کی پُرخلوص اور بامعرفت دعا سے یہ بندۂ درویش ۲۴نومبر؁۱۹۸۶ء کی شام کے چھ بجے تقریباً ۱۸ گھنٹے کے بعد لنڈن ائرپورٹ پر وارد ہوگیا، ہر چند کہ سفر ہذا خاصا طویل تھا، لیکن خدا کا شکر ہے کہ کوئی تکلیف نہیں ہوئی، اس مسکین کے استقبال کے لئے یہ عزیزان آئے تھے، ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی، ان کی بیگم محترمہ رشیدہ، صدرامین کوٹاڈیا، ان کی بیگم محترمہ

۲۱

مریم، ان کے عزیز فرزند سلمان کریم، عزیزم عبد الرحمان، اور محترمہ گلشن،  یہ حضرات مغرب کے سارے شاگردوں کی نمائندگی کر رہے تھے، انہوں نے توفیقِ خداوندی کے بے آواز اشاروں سے ایک انتہائی پرحکمت تحفے کو پیش کیا، یہ تھا گلِ یاسمین کا ایک حسین و جمیل گلدستہ، جو ایک خوبصورت کاغذ کے قیف نما غلاف میں محفوظ تھا، تاکہ یاسمین کی خوشبو سے بھری ہوئی نرم و نازک اور صاف شفاف پنکھڑیاں تروتازہ رہیں، میں نے شاید زندگی میں پہلی بار یاسمین کے پھول کو اسی حالت میں تازہ بتازہ نوبنو دیکھا۔

۳۔ اگرچہ چشمِ بصیرت سے کام لیا جائے تو اس کائنات کی چیزوں کے باہمی ربط و ضبط اور نظامِ وحدت کو دیکھ کر بہت تعجب ہونے لگے گا اور ایسا کیوں نہ ہو، جبکہ دستِ قدرت بار بار آسمانوں اور زمین کو تمام اشیاء سمیت لپیٹتا اور سمیٹتا رہتا ہے، اور خدا کے اس فعل میں اتنی کثیر حکمتیں ہیں کہ ان کو جنّ و مَلک اور بشر شمار ہی نہیں کرسکتے، چنانچہ میرا یہ یقین ہے کہ مہکتے ہوئے گلہائے یاسمین کی صورت میں یہ بندۂ عاجز شرق و غرب کی بہت سی پاک و پاکیزہ روحوں کو سونگھ سونگھ کر دل و دماغ کو معطر بنا رہا تھا، یہ ایک بہت ہی ضروری سوال ہے، جس کے بارے میں بڑی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے،  کہ رحمتِ عالم  خوشبو کو مادّی چیزوں میں اتنی زیادہ اہمیت کیوں دیتے تھے؟ ہمارا ایمان یہ کہتا ہے کہ اس میں کئی عظیم حکمتیں

۲۲

پوشیدہ ہوں گی، اور ان میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ جب روحِ مقدّس کے  ظہورات ہوتے ہیں، تو ان میں سے ایک ظہور مختلف خوشبوؤں کی شکل میں ہوتا ہے، ایسی خوشبوئیں جسمِ لطیف ہیں، لہٰذا وہ جسم بھی ہیں اور روح بھی، تاکہ جسم و جان دونوں کے لئے باعثِ مسرت و شادمانی اور وسیلۂ قوّت  ثابت ہو جائیں۔

۴۔ ہم قرآنِ حکیم کی ہر آیتِ کریمہ کو ایک کلّیہ تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ پیراہنِ یوسفؑ میں پیغمبر اور امام صلوات اللہ علیھما کے جسمِ لطیف کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، جس میں بہشت کی گونا گون خوشبوئیں ہواکرتی ہیں، پس آنحضرتؐ کی سنتِ مطہرہ میں خوشبو کی اہمیت کا مقصد یہی ہے کہ ہر ہوشمند روح اور ریحِ یوسفؑ (۱۲: ۹۴) کی  حقیقت کو پہچان لے۔

۵۔ اس عالمِ رنگ و بو میں بظاہر خوبصورت دکھائی دینے والے پھول تو بہت ہیں، لیکن برتری ان پھولوں کی ہے جو رنگینی کے علاوہ عطریات کے خزانے بھی رکھتے ہیں، پس لوگ ایسے پھولوں کے دلدادہ ہوا کرتے ہیں، مگر وجہ ظاہر نہیں کہ کیوں؟ کس لئے؟ اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ تاہم اہلِ  دانش جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے، وہ جانتے ہیں کہ انسان جس فطرت پر پیدا کیا گیا ہے وہ ایک کامل و مکمل فطرت ہے، جس کی بزبانِ حکمت تعریف و توصیف فرمائی گئی ہے (۳۰: ۳۰) یہ فطرت وہ سرشت ہے جو بہشت کی پاک مٹی سے گوندھی گئی ہے، اور جنّت کی زمین سے پھولوں کا براہِ راست

۲۳

رشتہ تھا، جس کی یاداشت انسانی فطرت میں دفنائی ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ آدمی پھولوں سے محبت تو کرتا رہتا ہے، لیکن وہ اس کا سبب بیان نہیں کر سکتا۔

۶۔ دوسری مثال یہ ہے کہ جس طرح لوگ بصورتِ ذرّاتِ روحانی کشتیٔ  نوحؑ میں سوار تھے (۱۷: ۰۳،  ۳۶: ۴۱) اسی طرح وہ پشتِ آدمؑ سے وابستہ ہوکر باغِ بہشت میں بھی رہ چکے ہیں (۰۷: ۱۱،  ۰۷: ۱۸۹) مگر یہ عظیم الشّان واقعہ ان کو یاد نہیں، جیسے واقعۂ  “الست” آج کسی کو یاد نہیں، مگر قرآنِ حکیم یاد دلاتا ہے، کیونکہ انسان سے عالمِ ذرّ کی طویل زندگی سراسر فراموش ہوچکی ہے، تاہم اس کی فطرت میں اس عالَم کی نعمتوں سے ایک خاموش اور پوشیدہ مانوسیت باقی ہے، جس کی بناء پر یہ ان چیزوں کو چاہتا ہے، لیکن وہ اس کی توجیہہ نہیں کرسکتا۔

۷۔ علم کا وہ حصّہ آسان ہے، جو عملی اور تاریخی نوعیت کا ہو، یعنی احباب کو علم کی ایسی باتیں خوب ذہن نشین ہوکر یاد رہتی ہیں، جو اہم مواقع اور ان کی نیک کوششوں کی ترجمانی کرتی ہیں، پس ہمارا فرض ہے کہ اپنے تمام عزیزوں کے پیش کردہ پھولوں اورگلہائے حسین وجمیل جیسے نیک کاموں کو نہ صرف زبانی یاد کریں، بلکہ علم و حکمت کی زبان میں اس کی ترجمانی کرنے کے لئے کوشش بھی کریں، کیونکہ مسگار، ہونزہ، گلگت، کراچی، لنڈن، کینیڈا، امریکا، وغیرہ میں ہمارے عزیزان علمِ امامت کے پھول

۲۴

اگا رہے ہیں، تاکہ ایک دنیا شہدِ شیرین اور عطر کی دولت سے مالامال ہو، یہی سبب ہے کہ ہمارے احباب بعض مواقع پر ظاہری پھولوں کو بھی بطور تحفہ پیش کرتے ہیں تاکہ اصل حقیقت کی علامت اور دلیل ہو، اور جاننے والے حضرات ان معنوں اور اشاروں کو سمجھ سکیں۔

۸۔ دنیائے فانی مجموعاً عالمِ باقی کی دائمیّت کی روشن ترین دلیل ہے، یہاں کے مرجھانے والے پھول زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ علم اور روحانیت کے پھول سدا بہار ہوا کرتے ہیں، جن کی عطر افشانی کبھی کم نہیں ہوسکتی، وہ پھول صرف ایک ہی ہے، مگر ہزار بلکہ بے شمار پھولوں کی شکل میں جلوہ نمائی کرتا ہے، تاکہ ظہورِ کثرت از وحدت، اور رجوعِ کثرت بوحدت کی حقیقت پر روشنی پڑے، جیسے دستِ خدا کائنات و موجودات کو ہر لحظہ پھیلاتا بھی ہے اور مٹھی میں لپیٹتا بھی ہے، تاکہ رجوع اور ہدایت کا سلسلہ ایک ساتھ جاری رہے۔

۹۔ ہر چیز اور ہر چہرہ اپنی ہلاکت کے پیشِ نظراس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا رہتا ہے کہ ہر شیٔ ہلاک ہوجاتی ہے مگر چہرۂ خدا ہلاکت و فنا سے پاک و برتر ہے، اورلوگوں کی ہلاکت دو طرح سے ہے: جہالت و نادانی کی تاریکی میں، اور علم و معرفت کی روشنی میں،  پس جہاں ظلمت ہے، تو وہاں کچھ بھی

۲۵

نظر نہیں آئیگا، اور جس مقام پر نور ہو، وہاں چہرۂ خدا میں ہر چہرہ فنا ہوتا ہوا دکھائی دے گا، اور اس سے بڑھ کر کوئی سعادت ہو نہیں سکتی، کہ کوئی شخص اسی طرح اپنی اصل سے واصل ہوجائے، اور اپنی انا کو مرتبۂ ازلی میں پائے۔

۱۰۔ “ازل” بظاہر ایک سہ حرفی لفظ ہے، مگر اس کی حقیقت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا سب سے بڑا خزانہ پوشیدہ ہے، جس میں تمام گوہر ہائے معرفت جمع ہیں، جس طرح کسی بادشاہ کے سب سے بڑے خزانے میں بصورتِ سکہ اور زر و گوہر سب کچھ سمیٹا ہوا موجود ہوتا ہے، چنانچہ اسرارِ ازل سے بالاتر کوئی سِر (بھید) نہیں، مگر بڑی عجیب بات تو یہ ہے کہ وہاں جتنے الفاظ و اصطلاحات مقرر ہیں وہ سب کے سب چہرۂ خدا اور اس کی گونا گون تجلیوں کے لئے ہیں، کیونکہ وہ مقام ایسا نہیں کہ وہاں وجہ اللہ کے سوا کوئی چیز ٹھہر سکے (۲۸: ۸۸،  ۵۵: ۲۷) پس ازل، ابد، اور دہر وجہِ خدا کی حقیقتِ دائمیت کے نام ہیں، جسمیں انسان کو اس طرح فنا ہوجانا ہے کہ اس کی بشریت کا نام  و نشان ہی مٹ جائے، اور وہ بالکل شیءِمذکور ہی نہ رہے (۷۶: ۰۱)

۱۱۔ اگر ازل بعید سے بعید ترین ماضی کا کوئی بے پایان زمانہ ہوتا، تو وقت گزر جانے کے ساتھ ساتھ لوگ اس سے دور ہوتے چلے جاتے، مگر خدائے مہربان نے ایسا نہیں کیا، چنانچہ قرآنِ حکیم کا فرمانا ہے کہ اللہ تعالٰی

۲۶

انسان کی رگِ جان سے بھی نزدیک تر ہے (۵۰: ۱۶) پس جہاں خدا اس قدر نزدیک ہو، وہاں ازل اوردہر کس طرح دور ہوسکتا ہے، کیونکہ ظاہر ہے کہ جس منزلِ آخرین میں دیدارِ خداوندی کا سب سے عظیم شرف حاصل ہوجاتا ہے، اسی منزل میں سب کچھ موجود ہے، اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی بڑا یا چھوٹا بھید مقامِ دیدار سے ہٹ کر ہو، جبکہ حکمتِ قرآن یہ فرماتی ہے کہ ہر چیز کو علمی و عرفانی طور پر چہرۂ خدا سے قربان کر دو (۲۸: ۸۸،  ۵۵: ۲۷)، تاکہ تم اس کے ظہورات و تجلّیات میں ہر چیز دیکھ سکوگے اور سورۂ رحمان کا واضح مفہوم اور مقصد و منشاء یہی ہے۔

۱۲۔ دیکھئے اور توجہ سے سنیے کہ قرآنِ حکیم میں ازل کا تذکرہ موجود ہے، چنانچہ جب حضرت موسٰیؑ نے ربِّ کریم کے سب سے بڑے دیدار کے لئے درخواست کی، تو اس وقت بحالتِ روحانی مقامِ ازل آپؑ کے سامنے تھا، آپ اسرارِ ازل کا مشاہدہ کر رہے تھے، اور بحرِ حیرت میں ڈوب رہے تھے، پس اللہ جل شانہٗ نے اپنی بے مثال تجلّی کا بارِگران کوہِ عقل پر ڈال دیا، جس سے وہ پارہ پارہ ہوکر بے شمار جواہر میں تقسیم ہوگیا، تاکہ حضرت موسٰیؑ کے لئے یہ علمی دیدار جو بہت سی قسطوں میں ہے آسان ہوجائے، پس حقیقی علم میں خدائے بزرگ و برتر کا رنگِ نور اور حسن و جمال موجود ہے، اور ہر عرفانی بھید میں اس کا ایک دیدار پوشیدہ ہے۔

۱۳۔ حضورِ اکرم فخرِ بنی آدم رحمتِ عالم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم

نے جس شان سے حقائق و معارفِ ازل و ابد کا مشاہدہ کیا، اس کا ایک حکیمانہ بیان سورۂ نجم (۵۳: ۰۱ تا ۱۸) میں فرمایا  گیا ہے، ان اٹھارہ آیاتِ مقدّسہ میں جس طرح سردارِ رسل کی معراج مرتبۂ ازل کے ساتھ  واصل نظر آتی ہے، وہ انتہائی حیرت انگیز ہے، جیسے  ستارے کا گرنا، یعنی مظاہرۂ گوہرِعقل، اور دوسری مثال میں قلمِ قدرت کی حرکتِ ازلی، پھر آنحضرتؐ کی انفرادی راہ یابی اور اجتماعی راہ نمائی کی تعریف و توصیف، جس میں نہ صرف حضورِ انورؐ کی ازلی و ابد تک رسائی کا اشارہ موجود ہے، بلکہ آپ کی کامیاب ہدایت و رہنمائی کا تذکرہ بھی ہے، کیونکہ اللہ تعالٰی نے اس منزلِ آخرین کی نسبت سے اپنے محبوب پیغمبر کو  مومنین کا رفیقِ روحانی (صاحبکم)  کہہ کر یاد فرمایا ہے، اور کوئی شک نہیں کہ حضورِ اکرم کے اس نامِ مبارک میں اور اس آیۂ کریمہ میں اہلِ ایمان کے لئے یہ بشارت ہے کہ وہ رسول اللہ کی پیروی میں گنجِ ازل تک رسا ہوسکتے ہیں، جو گوہر ہائے اسرارِ نبوّت وامامت سے مملو ہے۔

۱۴۔ آنحضرتؐ کی معراجِ روحانی اور مقامِ ازل کا دوسرا تذکرہ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۰۱) میں فرمایا گیا ہے، جس میں المسجد الاقصا (انتہائی دور کی مسجد یا آسمانی مسجد) سے درجۂ ازل مراد ہے، جو علم وحکمت کی بے پایان برکتوں کا منبع و مخرج ہے، اور وہ مرتبہ مسجد ان معنوں میں ہے، کہ وہاں پیغمبرانہ، اولیائی، اور عارفانہ عبادت ہواکرتی ہے۔  (دور کی مسجد کی ایک اور تاویل آخری اسمِ اعظم ہے) ۔

۲۸

۱۵۔ انبیاء و اولیاء (أئمّہ) کی ذواتِ مقدّسہ جس طرح اسرارِ ازل و ابد تک رسا ہو کران کا عرفانی مشاہدہ کرلیتی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن یہ سوچنا اورجاننا انتہائی مشکل کام ہے کہ آیا مومنین کو کبھی ان حقائق و معارف کا مشاہدہ اور تجربہ ہوسکتا ہے یا نہیں؟ تو آئیے ہم اس کے بارے میں قرآنِ حکیم میں دیکھتے ہیں:۔

۱۶۔ قرآنِ کریم کی سب سے زیادہ فیصلہ کن آیات وہ ہیں، جن میں نمایان طور پر نور کا ذکر موجود ہے، چنانچہ نور تو خدا، رسول اور امامؑ کا ہے، لیکن شرطِ اطاعت کی بجا آوری کے بعد یہی نور مومنین کا بھی ہو جا تا ہے، ملا حظہ ہو سورۂ حدید (۵۷: ۱۲،  ۵۷: ۱۹) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) اب آپ سے برائے مکمل توجہ یہ سوال کرتا ہوں کہ نور کے دائرہ کار میں کیا کیا افعال داخل ہیں؟ اور کون کون سے کام اس دائرے سے باہر ہیں؟ آپ ہر گز یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نور ازل اور ابد کے بھیدوں پر روشنی نہیں ڈال سکتا، اورنہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ نور کا دائرہ محدود ہے، جبکہ نور کی روشنی ہمہ رس اور ہمہ گیر ہے، اس بیان سے ظاہر ہے کہ نور ہر سطح کے مشاہدات اور ایک کامل معرفت کیلئے مقرر ہے۔

۱۷۔ نور کے بہت سے درجات ہیں، تاہم آسانی کی خاطر اس کے تین بڑے درجوں کے نام بتائیں گے، اور وہ یہ ہیں: علم الیقین، عین الیقین

۲۹

اور حق الیقین، جیسے نورِ خورشید کے تین مراتب ہیں: الف: صبحِ صادق، بادلوں کے ساتھ روشنی، درختوں کے نیچے روشنی۔   ب: دھوپ، جس میں کوئی سایہ نہیں۔ ج: سورج خود جو روشنی کا سرچشمہ ہے، یہاں اصل بحث حق الیقین کے بارے میں ہے، کہ اس تک مومنین پہنچ سکتے ہیں یا نہیں؟ لیکن مُحَوَّلۂ بالاآیاتِ مقدّسہ میں اچھی طرح سے غور کرنے سے معلوم ہوجائے گا کہ جو نور مومنین کے آگے اور داہنی طرف دوڑتا ہے وہ نورِ حق الیقین ہے، یعنی وہ دھوپ نہیں، بلکہ سورج خود ہی ہے، اعنی روحانیت کے عالمِ علوی میں نورِ وحدت کا طلوع و غروب ہو رہا ہے، تاکہ صبحِ ازل سے لیکر شامِ ابد تک جو کچھ حقائق و معارف اور عظیم اسرار ہیں، ان پر روشنی پڑے، یعنی یہی ہے نورِعقل کا وہ مظاہرہ، جس میں تمام لامکانی اور لا زمانی اسرار (بھید) محفوظ ہیں۔

نوٹ: گلہائے معنوی نہ صرف ایک تاریخ ساز مضمون ہے بلکہ علم و عرفان کے اعتبار سے بھی اس کی بہت بڑی اہمیت ہے، لہٰذا آپ اس کے مطالب کو خوب ذہن نشین کر لیں۔

نوٹ: مُحَوَّلہ آیات کو قرآنِ مجید میں دیکھئے۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

لنڈن

۲۷ نومبر۱۹۸۶ء

۳۰

عالمِ لامکان

۱۔ دونوں جہاں میں سے ایک تو مکان ہے، یعنی عالمِ جسمانی، جس کے ابعادِ ثلاثہ (طول، عرض، عمق) ہوتے ہیں، اور دوسرا لامکان/ عالمِ روحانی ہے، جو بہت سی صفات میں عالمِ ظاہر کے برعکس ہے، کیونکہ وہ غیر مادّی، غیر مکانی، اور لطیف ہے، لہٰذا اس کے بارے میں درحقیقت ایسا کوئی سوال پیدا نہیں ہوسکتا، جس کا تعلق جسم سے یا مکان و زمان سے ہو، جیسے کسی یہ پوچھنا کہ لامکان کہاں ہے؟ یہ سوال نا درست اور غیر منطقی ہے، جبکہ “لامکان” کے معنی میں مکانیّت (جگہ) طرف، وغیرہ کی نفی موجود ہے، نیز لامکان کے متعلق یہ پوچھنا بھی درست نہیں کہ وہ کب پیدا ہوا؟ یا کب سے موجود ہے؟ اس لئے کہ یہ سوال مادّی چیزوں سے تعلق رکھتا ہے، مگر مجازاً ایسا کوئی بیان ہوسکتا ہے، اور اس نوعیت کی تشبیہات و تمثیلات ہوسکتی ہیں۔

۲۔ اگر ہم تھوڑی دیر کے لئے آنکھیں بند کرکے اس کائنات کے

۳۱

ختم و فنا ہوجانے کا تصوّر کریں، تو اسی کے ساتھ ساتھ وجودِ زمانہ کا تصوّر بھی ختم ہوجائے گا، اس لئے کہ زمانہ اور وقت بحیثیتِ مجموعی آسمان اور سیّاروں کی گردش سے بنتا ہے، اس کے بغیر دن رات، ماہ وسال کا کوئی وجود ہی نہیں، پس ظاہر ہے کہ جس طرح یہ دنیا جسم اور مکان و زمان ہے، اسی طرح اس کے مقابل میں دوسرا عالم روح اور لامکان و لازمان ہے،  یعنی وہ مادّیت کی کوئی جگہ نہیں، اور نہ ہی اس میں ماضی، حال، اور مستقبل ہے، مگر بیشک اس میں “دھر” ہے، یعنی زمانۂ ساکن (ٹھہرا ہوا زمانہ) کہ وہ گزرتا نہیں۔

۳۔ صبحِ صادق کے کچھ دیر بعد جب سورج نظرآتا ہے، تو لوگ عادتاً کہنے لگتے ہیں کہ سورج طلوع ہوگیا، یا کہتے ہیں کہ سورج نکل آیا، اور شام کے وقت جب دکھائی نہیں دیتا، تو کہاجاتا ہے کہ سورج ڈوب گیا، جبکہ حقیقتِ حال کچھ اور ہے، وہ یہ کہ سورج خود نہ طلوع ہوجاتا ہے، اور نہ غروب، کیونکہ وہ اپنی جگہ پر ساکن ہے، بلکہ زمین ہی گردش کرتی رہتی ہے، جسکی وجہ سے دن رات کا تعیّن اور مختلف اوقات کا ظہور ہوتا ہے، چنانچہ حقائق و معارف سے متعلق لوگوں کے نظریات دو قسم کے ہوا کرتے ہیں، ایک وہ نظریہ جو عادت، روایت، اور چشمِ ظاہر کے مطابق ہوتا ہے، اور دوسرا وہ نظریہ، جو اصل حقیقتِ حال کے مطابق ہو، پس قرآنِ حکیم نے بطریقِ حکمت نظریۂ اوّل کو مثال کے طور پر لیا، اور نظریۂ دوم کو ممثول کا درجہ عطا کر دیا، جیسا کہ سورۂ رحمان کا

۳۲

ایک ارشاد (۵۵: ۰۵) ہے: سورج اور چاند ایک مقرر حساب سے (چل رہے)  ہیں، ظاہر ہے کہ سورج اس طرح نہیں چلتا، جس طرح چاند چلتا ہے، پس یہ عالمِ دین کے تین درجوں کے شمس و قمر کی مثال ہے، یعنی درجۂ اوّل کے سورج اور چاند عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ہیں، درجۂ دوم کے سورج اور چاند ناطق و اساس اور درجۂ سوم کے آفتاب و ماہتاب امامؑ اور باب (حجتِ اعظم) ہیں، کیونکہ خورشید و ماہ کے مقامات تین ہیں: عالمِ روحانی، زمانۂ نبوّت، اور دورِ امامت۔

(اس مقالے میں درجۂ اعلٰی کے بہت ہی مشکل سوالات کیلئے درست جوابات مہیا کئے گئے ہیں۔ الحمد للہ علی منہٖ واحسانہٖ)

۴۔ جس طرح معرفتِ نفس (روح/ذات)  حضرتِ ربِّ عزّت کی معرفت کا وسیلۂ واحد ہے، اسی طرح یہی پہچان اسرارِ لا مکان کی شناخت کا ذریعہ بھی ہے، چنانچہ تذکرۂ عالمِ شخصی کے بغیر حقائق و معارفِ لامکان و لازمان کو کما حقہٗ سمجھنا اور سمجھانا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے، پس یہاں اس انتہائی اہم موضوع کے سلسلے میں لازمی اور ضروری طور پر پرسنل ورلڈ (عالمِ شخصی) کا حوالہ دیا جاتا ہے،  جس میں اللہ تعالٰی کی تمامتر نشانیاں،  عظیم معجزات، اور اسرارِ ازل و ابد مخفی ہیں (۴۱: ۵۳،  ۵۱: ۲۱) جیسے قرآنِ کریم کا ایک بہت ہی عالی شان مضمون “عالمین” ہے، جو قرآنِ پاک میں ۷۳ دفعہ

۳۳

مذکور ہے،   اور حضرتِ امامِ جعفر الصّادقؑ کا ارشاد ہے کہ عالمین سے انسان مراد ہیں، کیونکہ ہر شخص اپنی ذات (روح) میں ایک مستقل عالم (دنیا)  ہے، جس میں اگر چشمِ حقیقت بین سے دیکھا جائے، تو عقلی، علمی، اور روحانی کیفیات میں خدا کی بادشاہی کا سب کچھ موجود ہے، اور کائنات وموجودات کی کوئی چیز ایسی نہیں، جس کا نمونہ عالم شخصی میں نہ ملتا ہو۔

۵۔ اب ہم یقینِ کامل سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ آدمی کی عقل و روح عالمِ لامکان ہے، جو مکان و زمان سے بالاتر ہے، جس کی ایک عام مثال دنیائے خیال ہے اور عالمِ خواب،  کہ وہ مکان نہیں، اور نہ وہ زمانۂ  ظاہر کی طرح کوئی زمان ہے، بلکہ یقیناً خیال بھی اور خواب  بھی لامکان و لازمان کا ایک واضح نمونہ ہے، کیونکہ یہ دونوں حالتیں بشرطِ علم وعمل مرتبۂ روحانیت کے ساتھ مدغم ہو جاتی ہیں، جیسے انبیاءؑ کے خیال و خواب، کہ اگر اس حال میں روحِ قدسی کی روحانیت ممکن نہ ہوتی، تو ان حضرات کو سوتے میں کوئی آسمانی اشارہ نہ ہوتا۔

۶۔ یاد رہے کہ دینِ اسلام کا اساسی اور بنیادی قانون اللہ تعالٰی کی سنّت ہے، اور اس کی پاک و منزہ سنّت کی ایک خاص وضاحت یہ ہے کہ خداوندِ عالم “تخلیق درتخلیق” کرتا ہے (۳۹: ۰۶) خلقاً مِّنْ بعدِ خلقٍ (۳۹: ۰۶) نیز ملاحظہ ہو: پہلی تخلیق: سلالہ،  دوسری تخلیق: نطفہ،  تیسری تخلیق: عَلَقہ، چوتھی تخلیق: مضغہ، پانچویں تخلیق: عظام، چھٹی تخلیق: لحم، اور ساتویں تخلیق: خلقِ آخر (۲۳: ۱۲ تا ۱۴) یہی وہ قانونِ الہٰی ہے، جس کو قرآنِ حکیم

۳۴

نے فطرت کا نام دیا (۳۰: ۳۰) آپ اسے فطرت اللہ (۳۰: ۳۰) کہیں یا سنۃ اللہ (۱۷: ۷۷) بہرحال جو پیغمبرؑ خدا کی طرف سے مبعوث ہوئے تھے، ان حضرات کی تکمیل جسم میں بھی اور روح میں بھی سنتِ تخلیق در تخلیق کے مطابق ہوئی تھی (۱۷: ۷۷) اور اگر کسی عزیز کو اس بیان میں کوئی شک ہو، تو وہ متعلقہ آیاتِ مقدّسہ میں سنجیدگی سے غور کرسکتا ہے، تاکہ اسی بنیاد پر یہاں اب جو حقائق و معارف بیان ہونے والے ہیں، ان کے سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ ہو۔

۷۔ کائناتِ ظاہر ہو، یا عالَمِ دین، یا عالَمِ شخصی، کوئی عالَم چاہے خلقی ہو یا امری (عالم امر میں تخلیق در تخلیق کا صرف مظاہرہ ہوتا ہے)، ہر حال میں وہ قانونِ فطرت کے تحت ہوتا ہے، اور اس میں تخلیق در تخلیق کا عمل یا نمونہ جاری رہتا ہے، جس کی وجہ سے اس میں کئی طرح کی وسعت پیدا ہوجاتی، مثال کے طور پر اس کے واقعات اور علم میں کشادگی پیدا ہوجاتی ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم کا ارشاد ہے: اور ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور بیشک ہم وسعت والے ہیں (۵۱: ۴۷) اس آیۂ پُرحکمت میں ذات و کائنات کے بہت سے بھید پوشیدہ ہیں، من جملہ ایک اشارہ یہ ہے کہ تخلیق در تخلیق کی بدولت ہر عالم میں معنوی اور علمی فراخی پیدا ہوجاتی ہے، جیسے عالَمِ دین زمانۂ آدمؑ میں پیدا ہوا تھا، لیکن بعد کے ناطقوں کی شریعتوں سے بھی اس کی تخلیق ہوتی چلی آئی، اسی طرح حضورِ اکرم صلّی اللّٰہ علیہ و سلّم

۳۵

کے ظہورِ اقدس تک عالمِ دین میں کُل چھ دفعہ تخلیق درتخلیق ہوئی، جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ (۰۷: ۵۴،  ۱۰: ۰۳،  ۱۱: ۰۷،  ۲۵: ۵۹،  ۳۲: ۰۴،  ۵۰: ۳۸،  ۵۷: ۰۴ )۔

۸۔ پروردگارِ عالم نے اپنے محبوب رسولؐ کو نہ صرف قرآنِ عظیم کی دولتِ پائندہ سے مالا مال فرمایا، بلکہ آپ کو سبعِ مثانی بھی عطا کر دیا (۱۵: ۸۷) تاکہ حضورِ انورؐ کی دعوتِ حق کا کام قیامت تک جاری رہے، یہ سبعِ مثانی (سات دُہرائی جانے والی چیزیں) جو قرآنِ پاک کے علاوہ ہیں، وہ آلِ محمدؐ  کے أئمّۂ طاہرینؑ ہیں، جو بحکمِ خدا اپنے سلسلے میں سات سات کے ادوارِ کہین (ادوارِ کہین، چھوٹے ادوار، جن میں سے ہر  ایک میں سات اماموں کا ایک دور ہوتا ہے ) بناتے آئے ہیں، چنانچہ رسولِ خداؐ کے علم و حکمت سے، جس کا دروازہ مرتبۂ امامت ہے، آخری بارعالمِ دین کی تخلیق ہوگئی، چونکہ آنحضرتؐ مرکزِ انبیا وأئمّہ ہیں، لہٰذا آپ کا دین ماضی اور مستقبل کے تمام ادوار پر محیط ہوگیا، اور آپ کا دور دراصل دورِاعظم قرار پایا، اس اعتبار سے سردارِ انبیا و رسلؐ کا عالَمِ دین جو زمانۂ آدم سے لیکر قیامت تک ہے، وہ آٹھ دنوں میں مکمل ہوگیا، جیسا کہ قرآنِ پاک (۴۱: ۰۹ تا ۱۲) میں اس کا ذکر موجود ہے۔

۹۔ حضرت آدمؑ اور حضرت نوحؑ کی شریعتیں ان دو دنوں کی مثال ہیں، جن میں عالمِ دین کی زمین بنائی گئی، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ،

۳۶

اور آنحضرتؐ کی شرائع وہ چار دن ہیں، جن میں زمینِ دین پر پہاڑ پیدا کئے گئے اور ان میں گونا گوں برکتیں اور قوّتیں رکھی گئیں، اور مرتبۂ امامت و قیامت وہ دو دن ہیں، کہ ان میں روحانیت کے سات آسمان وجود میں آگئے۔

۱۰۔ عالمِ شخصی کا سب سے مکمل نمونہ انسانِ کامل ہے، جس کے بابرکت وجود کے دو رُخ (پہلو)  ہوا کرتے ہیں، یعنی وہ جسم و جسمانیت کے اعتبار سے مکان و زمان کے تحت بھی ہے، اور روح و روحانیت کے لحاظ سے لامکان و لازمان بھی ہے، تاکہ اس کی پاک و پاکیزہ ہستی مکان و لامکان کے درمیان پُل کی طرح، اور عالمِ سفلی سے عالم علوی تک سیڑھی کی طرح کام کرسکے، شروع سے لیکراب تک جتنے بھی انسانانِ کامل ہوئے ہیں، وہ سب جسمانی طور پر الگ الگ زمانوں سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن عقل و روح کے جس مقام پر مکان و زمان کی تمام مسافتیں ختم ہو جاتی ہیں، وہاں وہ سارے نفسِ واحدہ کی طرح ایک ہو جاتے ہیں (۳۱: ۲۸)

۱۱۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ سب انسان مقامِ ازل پر ایک ہی نورانی شخص کی صورت میں چہرۂ اصل سے واصل تھے، پھر اس چہرے کی بے شمار تصویریں بنا کر اس دنیا میں لائی گئیں، تو یہ بات ایک روشن حقیقت ہوگی، تاہم اس کے ساتھ یہ بھی جاننا ہے کہ عکاسی اور تصویر کشی سے اصل (Original) میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی ہے، لہٰذا لوگ مرتبۂ ازل میں اب بھی ویسے متحد اور شخصِ واحد ہیں، جیسے دنیا میں آنے سے پہلے تھے،

۳۷

اور یہ نکتہ ان حضرات کے لئے زیادہ سے زیادہ دلنشین ہوسکتا ہے، جو اس کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں، الغرض انسان کا اپنی اصل کی طرف رجوع صرف علمی اور عرفانی صورت میں ممکن ہے، اور یہ بات خودشناسی کے تحت آتی ہے۔

۱۲۔ یہ ہمارے لئے پہلا سبق ہے کہ عقلِ کلّ سے نفسِ کلّ پیدا ہوگیا، یہ دوسرا سبق ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے پیدا ہوگئے، اور یہ تیسرا اور آخری درس ہے، کہ کوئی بھی کسی سے پیدا نہیں ہوا، کیونکہ پیدائش عالمِ خلق میں ہے اور عالمِ امر میں  نہیں، لہٰذا وہاں جو کچھ مشاہدے میں آتا ہے، وہ صرف ایک نورانی مظاہرہ (Demonstration) ہے، جو عرفانی مقصد کے پیش نظر دکھایا جاتا ہے، جس میں تمام حقیقتوں اور معرفتوں کی مثالیں جمع ہیں۔ اور یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اس حکمتِ مُدَوَّر (Globular Wisdom) میں کبھی فعلِ خدا پہلے نظر آتا ہے، کبھی گوہرِعقل، اور کبھی کلمۂ کُنۡ، اس کا سبب دائرۂ دوائِر۱ ہے، جس پر مسلسل یہ ظہورات ہوتے رہتے ہیں، جس کو اگربنظرِ کلی دیکھا جائے تو اس میں کوئی تقدیم و تاخیر نہیں، کیونکہ یہ سب لامکان و لازمان کے مظاہرات ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

لنڈن

۲/۱۲/۸۶

۱دائرۂ دوائر، سب سے آخری دائرہ، جس میں تمام دائرے داخل ہیں، جو حکمتِ مدوّر کے دائمی فعل سے بنتا ہے۔

۳۸

روح اور مادّہ

کیایہ تصوّر درست ہے کہ روح اور مادّہ (جسم) دو الگ الگ چیزیں ہیں؟ یا یہ دراصل ایک ہی شیٔ ہے؟ اگر یہ دونوں جدا جدا ہیں، اور ان کی حقیقی وحدت کا کوئی مقام ہی نہیں، تو پھر ان کے درمیان جو حدِّ فاصل ہے، وہ کہاں واقع ہے؟ اور کیاہے؟ اور اگر یہ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں، تو وہ حقیقیت کیا ہے؟ آیا ازل میں روح تھی؟ یا جسم تھا؟ جب چہرۂ خدا کے سامنے ہر چیز ہلاک ہو جائے گی، تو اس وقت روح اور مادّہ کا کیا عالم ہوگا؟ کیا عالَمِ ذرّ میں جمادات کی روحیں بھی حاضرہوتی ہیں؟ آیا پتھر اور لوہا جیسی چیزوں میں بھی روح پوشیدہ ہوسکتی ہے؟ اگر ان میں روح موجود ہے، تو وضاحت کیجئے۔ ان جیسے  مسائل و مباحث سے بحث کرنے کے لئے (ان شاء اللہ) ذیل میں چند دلائل درج کئے جاتے ہیں: ۔

دلیل۱: روح اورمادّہ اگرچہ ظاہراً دو چیزیں ہیں، اور عمومی تصوّر بھی یہی ہے، تاہم حقیقت میں یہ ایک ہی شیٔ ہے، مثال کے طور پر اگر یخ (برف)

۳۹

اور پانی ظاہری شکل اور کیفیت میں مختلف اور جدا نظرآتے ہیں، تو کیا ہوا، جبکہ یخ کے پگھل جانے سے پانی بن جاتا ہے، اور پانی کے منجمد ہونے سے یخ بن جاتی ہے، اس کے علاوہ ان کی اصل وحدت و سالمیّت بادلوں میں موجود ہے، چنانچہ مادّہ روحِ منجمد ہے، اور روح مادّۂ محلول اوران دونوں کا مرکزِ وحدت وہ جسمِ لطیف ہے، جس نے ساری کائنات کو اپنے اندر ڈبو لیا ہے، جس کو حکمائے قدیم نے ھَیُولیٰ کہا، اور جدید سائنس میں اس کا نام ایتھر ہے۔

دلیل۲: بفرمودۂ قرآنِ حکیم (۲۴: ۳۵) نورِ خدائے برحق روشنیوں کا ایک ایسا انتہائی عظیم سمندر ہے کہ اس میں آسمان و زمین کا ذرّہ ذرّہ اندرسے بھی اور باہر سے بھی مستغرق ہے، پس کون کہتا ہے کہ اس نورِ جان و جانان میں حرارتِ حیات نہیں، اور یہ ہمیشہ ہر چھوٹے سے چھوٹے ذرّے کو ایک مخفی اور خاموش زندگی کی تب و تاب عنایت نہیں کرسکتی ہے، وہ کیسا انسان ہوگا، جو یہ خیال کرسکے کہ الحیُّ القیّوم کا نور بلندی و پستی کے ہر ایٹم اور ہر ریزے کو منور نہیں کرسکتا، سو اس بیان سے ظاہر ہے کہ کائنات کے ہر ذرّے میں روح بصورتِ نور پنہان ہے۔

دلیل۳: یہ جہان کیا ہے؟ اور کس مقصد کے لئے بنا ہے؟ یہ گویا قدرت کا ایک زندہ کارخانہ ہے، جس میں مختلف درجات کے ذی حیات کی تخلیق ہوتی رہتی ہے، دنیا والوں نے ابتک کوئی ایسی مِل (MILL) نہیں بنائی، جو خام مال کی محتاج نہ ہو، اور ہمیشہ خود بخود کام کرتی رہے، لیکن صرف کارخانۂ فطرت

۴۰

ہی ایسا ہے، جو بحیثیتِ مجموعی خود ہی زندگی کی مِل بھی ہے، اور خود ہی مواد بھی، اور یہ کارگاہ بحکمِ خدا خودبخود ہمیشہ چلتی رہتی ہے، اگر کارخانۂ کائنات سر تا سر زندہ اور روح سے بھرپور نہ ہوتا، تو حکمائے قدیم اس کے اجزاء کو زندہ مخلوق سے تشبیہ نہ دیتے، جیسے انہوں نے کہا: نو۹باپ (نو آسمان) چار (۴) مائیں (چار عناصر) اور تین۳ بچے (جماد، نبات، حیوان) اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ یہ جہان اندرونی طور پر زندہ ہے، اور اسی وجہ سے یہ کارخانۂ زندگی کا درجہ رکھتا ہے۔

دلیل۴: سورۂ حدید (۵۷: ۲۵) میں قرآنی ارشاد ہے کہ اللہ تعالٰی نے لوہے کو نازل کیا۔ لیکن اہلِ دانش جانتے ہیں کہ آسمان سے لوہے کے چٹان نہیں گرائے گئے، مگر جگہ جگہ لوہے کی روح نازل کی گئی، جس سے لوہا پیدا ہوا، اسی قانونِ روح کے مطابق روح ہی سے تمام معدنیات اور جواہر پیدا ہوئے، جیسے آپ کو علم ہے کہ موتی اور مونگا دونوں پتھر کی طرح ہوتے ہیں، حالانکہ ان میں سے پہلا روحِ حیوانی کی پیداوار ہے، اور دوسرا روحِ نباتی کی، اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہر چیز کی روح ہے، لہٰذا معدنیات کی بھی روح ہے۔

دلیل۵: قرآنِ حکیم میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو کُنۡ (ہوجا) فرماتا ہے تو وہ ہوجاتی ہے، جیسے اُس پاک وبرتر نے آتشِ نمرود سے فرمایا:  كُوْنِیْ بَرْدًا (۲۱: ۶۹) تو ٹھنڈی ہوجا، تو وہ ٹھنڈی ہوگئی،

۴۱

اسی طرح خداوندِ تعالٰی  نے بنی اسرائیل کے کچھ نافرمان لوگوں سے کہا: كُوْنُوْا قِرَدَةً  (۰۲: ۶۵) تم بندر بن جاؤ، تو وہ بندر بن گئے، اور یہ سب کچھ روحانی طور پر زیادہ صحیح ہے، پس اگر خدا کسی کی روح کو پتھر یا لوہا بنانا چاہے تو یہ امر کس طرح ناممکن ہوسکتا ہے، جیسے سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۵۰) میں اس کا ایک واضح اشارہ موجود ہے، پس جسم نہیں بلکہ روح مسخ  ہوجاتی ہے، یعنی روح پتھر، لوہا، وغیرہ بن جاتی ہے۔۱

دلیل۶: حضرت نوحؑ کا سب سے بڑا اور عالمگیر طوفان روحانی شکل میں برپا ہواتھا، چنانچہ خداوندِ عالم نے بروقت آپؑ کو حکم دیا کہ اے نوحؑ ہر قسم کی چیزوں (یعنی جمادات، نباتات، اور حیوانات کے ذرّاتِ ارواح)  سے نرومادہ کا جوڑا یعنی دو لے لو (۱۱: ۴۰) چنانچہ حضرت نوحؑ نے اپنی کشتیٔ ہستی (عالَمِ ذرّ)  میں کُل چیزوں کی ہر گونہ روحوں سے دو دو جوڑوں کو لیا، تاکہ اس طوفانِ ہلاکت کے بعد ایک نئی دنیا بسا لی جائے کہ اس کی ہر چیز خدا کے خزانے سے ہو (۱۵: ۲۱) جو اُس وقت حضرت نوحؑ میں رکھا ہوا تھا، اور یہ بڑی عجیب بات ہے کہ اسی طرح تمام چیزوں کی نمائندہ روحیں انسانِ کامل میں جمع ہوجاتی ہیں کہ وہی خزانۂ الٰہی ہے (۱۵: ۲۱) اور وہاں سے

 

۱(ارشاد ہوا ہے: قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِیْدًا (۱۷: ۵۰)  (اے رسول)  آپ کہہ دیجئے کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔ )

۴۲

ہر چیز دنیا میں پھیل جاتی ہے۔

دلیل۷: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۴۴) میں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ آسمان و زمین میں کوئی چیز ایسی نہیں جو خداتعالٰی کی حمد و ثنا کی تسبیح نہ کرتی ہو، بے شک خدائے پاک کی یہ تسبیح چیزیں ایک طرح سے اپنی اپنی جگہ پر بھی کرتی ہیں، لیکن ان کے ذرّاتِ ارواح جس طرح انسانِ کامل کے عالَمِ شخصی/ عالَمِ ذرّ میں تسبیح پڑھتے ہیں، وہ ایک عظیم روحانی معجزہ ہے، یہی تسبیح خوانی ہے، جس کو معجزۂ لحنِ داؤدی کہا جاتا ہے۔ (۲۱: ۷۹،  ۳۴: ۱۰،  ۳۸: ۱۸) اور ہاں، اس میں صورِ اسرافیل کا کمال بھی ہے۔

دلیل۸: سورۂ حج کے ایک ارشاد (۲۲: ۱۸) کا یہ مفہوم ہے کہ جو لوگ آسمانوں میں ہیں، اور جو لوگ زمین میں ہیں،  اور آفتاب،  ماہتاب،  ستارے،  پہاڑ،  درخت،  چوپائے، اور بہت سے لوگ اپنے اپنے مقام پربھی اور بصورتِ ذرّاتِ روحانی عالمِ شخصی میں بھی خدا کو سجدہ کرتے ہیں۔ چونکہ آیۂ کریمہ کا خطاب، جیسا کہ اَلَمْ تَرَ (کیا تم نے اس کو نہیں دیکھا) سے ظاہر ہے، آنحضرتؐ سے فرمایا گیا ہے، لہٰذا ہم یہ حقیقت یقینِ کامل سے بیان کریں گے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے عالمِ ذرّ میں مذکورہ خلائق کے ذرّاتِ ارواح خدائے برحق کو سجدہ کرتے تھے، اور یہ سجدہ خصوصاً اطاعتِ و فرمانبرداری کے معنی میں ہے۔

دلیل ۹: آپ نے قبل ازین دو۲ کی حکمت کو ذہن نشین کرلیا ہوگا،

۴۳

کہ کُل چیزیں دو۲ دو۲ کے جوڑوں میں ہیں، اور اس قانونِ دوئی سے کوئی چیز مستثنا نہیں (۱۳: ۰۳،  ۳۶: ۳۶،  ۵۱: ۴۹) سو جس طرح سجدہ کے دو مقام ہیں، اسی طرح تسخیرِ کائنات بھی دو جگہوں پر ہوتی ہے، جن میں سے ایک تو عالَمِ ظاہر ہے، اور دوسرا عالَمِ ذرّ یا عالَمِ شخصی، عالَمِ شخصی میں کائنات بصورتِ ذرّاتِ روح مسخر ہوجاتی ہے، اور یہ واقعہ بحدِ فعل بھی ہے اور بحدِ قوّت بھی، متعلقہ آیاتِ مقدّسہ کے لئے س۔ خ۔ ر کے تحت قرآنِ مجید کے الفاظ کو دیکھئے، جیسا کہ سورۂ جاثیہ کا ایک فرمان (۴۵: ۱۳) ہے: اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کوخدا نے تمہارے کام میں لگا دیا ہے، جو لوگ غور کرتے ہیں، ان کے لئے اس میں (قدرتِ خدا کی)  بہت سی نشانیاں ہیں۔ پس امام شناسی کے سلسلے میں اس حقیقت کا جاننا بیحد ضروری ہے۔

دلیل۱۰۔ چونکہ جمادات میں بحدِّ قوّت روح ہے، اور نباتات کی جڑیں مٹی میں مضبوط ہیں، اس لئے ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ یہاں مادّہ اور روح کے درمیان حدِ فاصل ہے، جب گوسفند کو ذبح کیا جاتا ہے، تو اس کی جان/ روح نکل جاتی ہے، اور کچھ دیر کے بعد بالکل ٹھنڈی ہوجاتی ہے، اس حالت کو دیکھ کر شاید کوئی یہ خیال کرے کہ یہ جسم اور روح کے درمیان ایک واضح حدِّ فاصل ہے، لیکن ایسا نہیں، کیونکہ پھر بھی اس گوسفند میں بحدِّ قوّت روح ہے، جس کو فعلاً روح بنانے کے لئے گوشت کھایا جاتا ہے، اور اگر کسی وجہ سے یہ گوشت زیادہ عرصے تک پڑا رہے، تو اس میں کیڑے پیدا ہوں گے، کیوں کہ

۴۴

اس میں ظہورِ زندگی کی صلاحیت موجود ہے، اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ مادّہ اور روح کے درمیان کوئی حدِ فاصل نہیں۔

دلیل۱۱: تخلیقِ عالَم کے بارے میں دو نکتے ہیں، وہ یہ کہ اگر جزوی طور پر دیکھنا ہے توآفرینش کی ابتداء بھی ہے اور انتہا بھی، اور اگر کُلّی حیثیت سے مشاہدہ کرنا ہو، تو اس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہاء اور قرآنِ حکیم کا یہی فیصلہ ہے، اب بات یوں ہے کہ جس اعتبار سے پیدائش کا ایک سرّا ملتا ہے، اس لحاظ سے یہ کہنا درست ہے کہ مقامِ ازل پر خدا نے سب سے پہلے نورِعقل کو پیدا کیا، پھر اس نے عقل سے نفسِ کُلّ کو اور اس سے جسمِ کُلّ کو وجود میں لایا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے جس طرح یہ کائنات پھیلائی ہے، وہ اس کو اسی طرح لپیٹ بھی لیتا ہے، یعنی جسم روح میں فنا ہو جاتا ہے، اور روح عقل میں، پس معلوم ہوا کہ روح اور مادّہ اگرچہ ظاہراً دو ہیں، لیکن در حقیقت یہ ایک ہی چیز ہے۔

دلیل۱۲: انسانِ کامل بحدِّ فعل اور دوسرے سب لوگ بحدِّ قوّت خدا کی ایک ایسی زندہ اور بولنے والی کتاب ہیں، کہ اس میں دونوں جہاں کے جملہ حقائق و معارف کی ساری مثالیں گھیر کر درج کی گئی ہیں (۷۸: ۲۹) یہی کتاب مجموعۂ نامہ ہائے اعمال بھی ہے (۱۷: ۱۳،  ۱۸: ۴۹) اور اس سے کوئی مثال باہر نہیں، چنانچہ اس کتاب/ عالَمِ شخصی پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ جس طرح عالَمِ کبیر ایک گوہر سے بنایا گیا ہے، اسی طرح عالَمِ صغیر ایک جوہر سے پیدا ہوا، وہاں

۴۵

پہاڑوں میں روح منجمد بھی ہوئی ہے، اور معدنیات کی تکوین میں مصروفِ عمل بھی ہے،  یہاں ہڈیوں کے خلیات میں ساکن بھی ہے اور متحرک بھی،  جیسے درختوں کی زندگی روحِ نباتی سے ہے، ویسے انسانی بالوں کی ہستی بھی اسی سے ہے۔

دلیل۱۳: اگرچہ روح زندہ ہے اور مادّہ مردہ، لیکن قرآنِ حکیم بار بار کہتا ہے اور اہلِ دانش دیکھتے ہیں کہ خدا وہ ہے جو تمام اضداد کو ایک دوسرے سے پیدا کرتا ہے، اور اسی قانون کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا گیا۔ (ترجمہ): اور کون (ہے وہ جو)  مردے سے زندہ کو نکالتا ہے اور زندہ سے مردے کو نکالتا ہے (۱۰: ۳۱) چنانچہ زمین مادّہ ہے اور مردہ (۳۰: ۱۹،  ۳۶: ۳۳) جو روح سے بنائی گئی ہے، اور جب یہ کُلّی طور پر فنا ہوجائیگی، تو روح بن کر زندہ ہوجائیگی، جس طرح وہ ہر سال موسمِ خزان میں جزوی طور پر مر جاتی ہے اور موسمِ بہار میں زندہ ہو جاتی ہے (۲۲: ۰۵)

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

لنڈن

۶/۱۲/۸۶

۴۶

چہرۂ خدا کی روشنی میں

۱۔ عنوانِ بالاکے کئی اعلٰی مطالب ہیں، من جملہ ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہاں قرآنِ حکیم کی اُن عظیم الشّان اور حکمت آگین آیات کی روشنی میں بعض خاص حقائق و معارف بیان کئے جائیں، جو موضوعِ وجہ اللہ اور لقائے خداوندی سے متعلق مذکور ہوئی ہیں، کیونکہ ان نورانی آیتوں میں اسرارِ معرفت اور انوارِ وحدت کا سب سے بڑا خزانہ پنہان ہے، جس کی تلاش میں ادیانِ عالم کے تمام لوگ شعوری یا غیر شعوری طور پر لگے ہوئے ہیں، اور اس گنجِ مخفی کو کون نہیں چاہتا۔

۲۔ اس باعظمت موضوع کی اہمیت و ضرورت کو اجاگر کرنے، اور اس کی طرف کما حقہٗ مکمل توجہ دلانے کی خاطر یہاں یہ چند سوالات درج کئے جاتے ہیں: الف: اساسی طور پر “وجہ” کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ ب: وجہ اللہ کا اصل

۴۷

مطلب کیا ہے؟ آیا اس سے ذاتِ خدا مراد ہے، یا اس کے اصلی معنی (چہرۂ خدا)  بجا ہیں؟ جب لفظِ “ذات” بھی عربی ہے، تو وہ خود اس آیۂ کریمہ میں داخل ہو کر”ذات اللہ” کیوں نہیں کہلایا؟ ج: اگر آپ کے نزدیک وجہ اللہ کا مطلب چہرۂ خدا ہے، تو پھر بتائیے کہ ذاتِ سبحانِ بیچون وبیچگون کا چہرہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے؟ اگر کوئی شخص چہرۂ خدا کا قائم مقام ہے، یا اس کی نمائندگی کرتا ہے، تو دلیل کی روشنی میں دکھائیے کہ وہ کون ہے؟ د: دیدارِ خداوندی کے باب میں قرآنِ پاک کا کیا ارشاد ہے؟  سورۂ قیامت (۷۵)  کی اس آیۂ مبارکہ کا کیا مطلب ہوسکتا ہے: اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (۷۵: ۲۳)  اپنے پروردگار کو دیکھ رہے ہوں گے۔ سورۂ قیامت (۷۵: ۲۳) ۔

۳۔ یہ دینِ اسلام کا بنیادی عقیدہ بھی ہے اور حقیقت بھی، کہ حق سبحانہ وتعالٰی اعضاء و جوارح سے پاک وبرتر ہے، لیکن یہ امرِعظیم سب پر روشن ہے کہ قرآنِ حکیم اور دینِ فطرت (اسلام)  میں خلیفۂ خدا کا انتہائی بلند مرتبہ بھی ایک اساسی حقیقت ہے، اور اسی اصولِ خلافت اور قانونِ نیابت میں یہ واضح و صریح حکم موجود ہے کہ جس طرح خلیفۂ خدا روح اللہ،  ید اللہ، لسان اللہ، وغیرہ کہلاتا ہے، بالکل اسی طرح وہ وجہ اللہ (چہرۂ خدا) بھی ہے، جیسے حدیثِ شریف: مَن راٰنی فقد رَأَ الحق (جس نے مجھے دیکھا تحقیق اس نے خدا کو دیکھا)۔

۴۸

سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ یقیناً آنحضرتؐ خدا کا مبارک چہرہ تھے، اس تصور کے بغیر آیاتِ وجہ اللہ کی حقیقی تفسیر ممکن ہی نہیں، مثال کے لئے ملاحظہ ہو:

۴۔ ایک پُر ازحکمت آیۂ کریمۂ وجہ اللہ کا ترجمہ یہ ہے: چہرۂ خدا کے سوا ہر چیز فنا ہو جانے والی ہے (۲۸: ۸۸) اب اگر چہرۂ خدا سے خلیفۂ خدا، یا خلیفۂ رسول مراد لیا جائے، تو اس کی تفسیر و تاویل دونوں اپنی اپنی جگہ پر صحیح و درست ہوں گی، ورنہ اس کا مطلب و مفہوم یہ ہوگا کہ ہر چیز فانی ہے، یہاں تک کہ خدا کے اعضاء بھی (نعوذ باللہ) فنا پذیر ہیں، مگر صرف اس کا چہرہ ہی باقی رہے گا، لیکن دوستو! یہ نظریہ کیسے درست ہوسکتا ہے؟ نیز اگر ہم یہ کہیں کہ صرف ذاتِ خدا ہی باقی ہے، تو پھر اس کی منطق یہ ہوگی کہ دوسری جملہ اشیاء کے ساتھ صفاتِ الٰھیہ بھی (نعوذ باللہ) ہلاک ہو جاتی ہیں، لیکن یہ عقیدہ کس طرح صحیح ہوسکے گا۔

۵۔ یقیناً ہر پیغمبر اورہرامام اپنے زمانے میں چہرۂ خدا کا کام کرتا ہے، اور یہ کسی دوسرے کا اصول ہرگز نہیں، بلکہ اللہ تعالٰی کا مقرر کردہ قانون ہے، چنانچہ حضرت نوحؑ اپنے وقت میں چہرۂ خدا ہونے کا درجہ رکھتے تھے، آپ کے طوفان

۴۹

کے پس منظر میں ایک روحانی قیامت برپا ہوئی تھی، جس نے نہ صرف بے شمار نا فرمان لوگوں ہی کو غرق و ہلاک کر ڈالا، بلکہ آیۂ وجہِ خدا کے ارشاد کے مطابق اس سے ہر مخلوق اور ہر شیٔ فنا ہوگئی، مگر جو مومنین سفینۂ ظاہر و باطن میں سوار ہوئے تھے، اور جتنے ذرّاتِ روحانی چہرۂ خدا کی کشتی ٔ حکمت (عالمِ ذرّ)  میں داخل ہوگئے تھے (۱۱: ۴۰،  ۲۳: ۲۷) وہ سب کے سب ہر طرح سے سلامت رہے، چونکہ اللہ تعالٰی کی اس پُرحکمت اور خزائنِ اسرار سے مملو سنت و عادت میں کوئی تبدیلی رونما ہونے والی نہیں تھی (۱۷: ۷۷،  ۳۳: ۶۲)  لہٰذا خدائے علیم و حکیم بقانونِ روح و روحانیت اپنی یہی عادت ہر دور اور ہر زمانے میں دہراتا رہا ہے، اور کوئی وقت اس قانونِ خداوندی سے مستثناء نہیں۔

۶۔ جب قرآنِ کریم کی ہر آیت بموجبِ ارشادِ نبوّی ایک  ظاہر اور ایک باطن کے بغیر ممکن ہی نہیں، تو پھر جن آیاتِ کریمۂ قرآنی میں ظاہری طوفان کا قصّہ ہے، ان کے باطن میں روحانی طوفان/قیامت کا تذکرہ کیوں نہ ہو، چنانچہ یہ بات یاد رہے کہ ظاہری مثال باطنی ممثول کے لئے حجاب کا کام دیتی ہے، تاکہ جتنے بھی عظیم اسرارِ سربستہ ہیں، وہ سب کے سب صیغۂ راز ہی میں بیان ہو سکیں، الغرض قرآنِ مجید میں جتنی بھی سرکش و نافرمان قوموں کی تباہی و بربادی کا ذکر آیا ہے، اگرچہ ان کی ہلاکت کی ظاہری

۵۰

مثالیں مختلف ہیں، لیکن باطن میں ان سب پر ایک ہی عذاب نازل ہوا، اور وہ روحانی قیامت کا عذاب تھا۔

۷۔ خلیفۂ خدا، خواہ کوئی پیغمبر ہو یا امام، کس معنیٰ میں چہرۂ خدا ہوسکتا ہے؟ کیونکہ ان مبارک و مقدّس ہستیوں کا بابرکت دیدار حضرتِ ربِّ کریم کے دیدار کا نمائندہ ہے، ان کی نورانی معرفت میں توحیدِ باری تعالٰی کی معرفت پنہان ہے، وہ سفینۂ نوحؑ کی طرح وسیلۂ نجات ہیں، ان کا وجود کلامِ الٰہی کا ترجمان ہے، جیسا کہ حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے، نورِخداوندی ان کے لئے حواسِ ظاہر و باطن کا کام کرتا ہے، (صحیح بخاری، جلدِ سوم، کتابِ رقاق باب۸۴۴، حدیث۱۴۲۲) اور جو لوگ ان میں فنا ہوجاتے ہیں، ان کے لئے مرتبۂ فنا فی اللہ یقینی ہو جاتا ہے۔

۸۔ سورۂ قصص کی آخری آیت (۲۸: ۸۸) میں فرمایا گیا ہے: کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلّاَوَجْھَہٗ اس کے چہرۂ پاک (یعنی مظہرِ نور) کے سوا ہرچیز فنا ہو جانے والی ہے۔ اوراس فنا کی ایک خاص تعریف یہ ہے کہ جب انسانِ کامل (پیغمبر اور امام) کی روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے، تو اس وقت جماد، نبات، حیوان، اور انسان

۵۱

جیسی تمام چیزوں کے ذرّاتِ لطیف شخصِ کامل کے عالمِ شخصیت میں داخل ہو جاتے ہیں، جیسے حضرت نوحؑ کے بارے میں ذکر ہوا ہے، اور ہاں، اس دوران عالمِ شخصی میں مسلسل صورِ اسرافیلؑ بجتا رہتا ہے (قیامت اور فنا کے لئے صورِاسرافیل کا ہونا ضروری ہے) ،  اور ہر چیز یہاں غیر شعوری طور پر نمائندۂ چہرۂ خدا میں فنا ہو جاتی ہے، مگر وہ کامل انسان جو عظیم المرتبت ہے، ان ذروں کی طرح فنا نہیں ہوتا، کیونکہ وہ اگرچہ جسمانی اعتبار سے فنا پذیر اشیاء میں شامل ہے، لیکن نورانی مرتبت کے لحاظ سے ان سے بدرجۂ انتہاء اعلٰی اور پروردگارِ عالم سے اقرب و واصل ہے۔

۹۔ مذکورۂ بالا بیان غیر شعوری فنا یا ہلاکت کے بارے میں ہے، اب شعوری اور نورانی فنا کے باب میں کچھ عرض کی جاتی ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام شروع شروع میں اپنے مقدم کی نورانیت میں فنا ہوکر چہرۂ خدا ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے، آپ سورۂ رحمان (۵۵: ۲۴ تا ۲۸)  میں غور کریں، صوفی حضرات کا جو نظریۂ فنا ہے، وہ یہی ہے، یعنی فنا فی الشیخ، یا فنا فی المرشد، فنا فی الرسول، اور فنا فی اللہ، مگر ہمارے یہاں امامِ زمانؑ ہی کامل اور حقیقی مرشد ہیں، پس اگرچہ نورانی فنا کے درجات تین ہیں، لیکن وہ ایک ساتھ ہیں۔

۱۰۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بنیادی

۵۲

سنتِ مطہرہ یہ تھی، کہ آپ اپنی جس نورانیت، اور علم و حکمت کی طرف لوگوں کو مدعو کیا کرتے تھے، اس کے لئے مولا علیؑ کو دروازہ قرار دیتے تھے، اور اس کا مقصد یہ تھا کہ خدا تعالٰی کا دروازہ پیغمبرہیں اور پیغمبر کا دروازہ امامِ زمانؑ، کیوں کہ ہر چیز کا ایک دروازہ ہوا کرتا ہے، پس اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص بحقیقت امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے در سے داخل ہو جاتا ہے، اس کے لئے خدا و رسول کے جملہ خزانے کُھل جاتے ہیں، اور انہی خزانوں میں گنجِ حقائقِ ازل بھی ہوتا ہے،  سو لوگوں کے لئے امامِ عالی مقامؑ کی فرمانبرداری سب سے بڑی سعادت ہے۔

۱۱۔ یہ انتہائی عالیشان مرتبہ، جس کو چہرۂ پُرنورِخدا یا صورتِ رحمان کہا گیا ہے، وہ آج سے نہیں، بلکہ ازل سے ہے، یعنی ہمیشہ موجود ہے، مگر مقامِ ازل پر اس کا دوسرانام کیا تھا؟ اس ازلی اور ابدی حقیقت کا دوسرا نام “نفسِ واحدہ” ہے، ویسے تو اس نور کے بہت سے اسماء ہیں، مگر ہم یہاں اسی نام سے آیاتِ قرآنی کا بیان پیش کریں گے، چنانچہ سورۂ انعام (۰۶: ۹۸)  میں جس شان سے ارشاد ہوا ہے، اس کی حکمت اس طرح ہے: اور وہ وہی خدا ہے جس نے تم لوگوں کو عالمِ روحانی میں اور مقامِ ازل پر نفسِ واحدہ (ایک شخص)  سے پیدا کیا، پھر اس حکیمِ مطلق نے اپنی رحمتِ بے پایان سے قانونِ دوئی

۵۳

کو بنایا (۳۶: ۳۶،  ۵۱: ۴۹)  اور سب کے لئے دودو انائیں مقرر کی گئیں، ایک انا بحکمِ خدا مستقر کے نام سے ازلی اور ابداعی حالت میں وہاں رہی، اور دوسری انا بنامِ مستودع اس دنیا کے میدانِ امتحان میں وارد ہوئی، پس وہ اصل ہے اور یہ اس کا سایہ۔

۱۲۔ سوال: کیا یہ آدم وحواؑ کا قصّہ نہیں؟ آیا ہم ان کی اولاد نہیں ہیں؟ فردِ واحد یا نفسِ واحدہ سے بہت سے نفوس کس طرح پیدا ہوسکتے ہیں؟ جواب: یہ ظاہری اور جسمانی آدم و حواؑ اور ان کی بدنی اولاد سے پہلے کی بات ہے، تاہم اگر آپ نفسِ واحدہ کو آدمِ معنی یا آدمِ روحانی کہیں، تو ہر گز غلط نہ ہوگا، نفسِ واحدہ سے نفوسِ خلائق پیدا کئے جانے کی دو روشن مثالیں موجود ہیں، ایک یہ ہے کہ نفسِ واحدہ، جو چہرۂ خدا بھی ہے، اور صورتِ رحمان بھی، اس کی بے شمار جیتی جاگتی تصویریں بنائی گئیں، دوسری مثال یہ ہے کہ اس کو ابداعی قالب (سانچا)  بنا کر اسمیں ھَیُولائے نور ڈھالا گیا، اور اس کی اتنی ساری کاپیاں ہوئیں، جتنے کہ سب انسان ہیں، ان دونوں مثالوں میں صرف الفاظ کا فرق ہے، مگر حقیقت میں کوئی فرق نہیں۔

۱۳۔ قرآنِ حکیم کے تمام الفاظ میزانِ حکمت میں تُل کر آئے ہیں، چنانچہ لفظ واحدہ فاعلہ کے وزن پر ہے، لہٰذا نفسِ واحدہ فعلِ توحید

۵۴

کا فاعل ہے، کہ یہ  نفوس کو اپنے ساتھ ایک کر لیتا ہے، کیونکہ ازل میں سب کے سب اس کے ساتھ ایک تھے، اور قادرِ مطلق نے یہ کام اس کے  لئے آسان بنادیا ہے، چنانچہ جو لوگ اسلامی تعلیمات کے مطابق تزکیۂ نفس کا عمل انجام دیتے ہیں، وہ صرف کل ہی نہیں،  بلکہ آج دنیا میں بھی نفسِ واحدہ سے واصل ہوسکتے ہیں، اگر کلّی طور پر نہیں، تو جزوی طور پر، اور عملی طور پر نہیں، تو علمی طورپر، پس اس سلسلے میں قرآنی حکمتوں میں غور و فکر، اور عرفانی بھیدوں کی تلاش بہت بڑی عبادت ہے۔

۱۴۔ وہ سب سے بڑے مقام، جہاں آدم و آدمی کی تخلیق ہوتی ہے، دو ہیں، عالمِ امر اور عالمِ خلق، عالمِ امر میں انسانوں کی جیسی پیدائش ہوتی ہے، وہ تولید نہیں، بلکہ ابداع ہے، جوکلمۂ کُنۡ سے ظہور پذیر ہوتی ہے، لہٰذا وہاں انسان کی والدہ ہے نہیں، اور جہاں تک باپ کا تعلق ہے، وہ بھی ایک اعتبار سے ہوتا ہے، اور دوسرے لحاظ سے نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی امری پیدائش نفسِ واحدہ سے ہوئی، جس کی مثال اس دنیا میں وہ لا تعداد جراثیمِ حیات ہیں، جو ایک جوان مرد کے وجود میں پائے جاتے ہیں، حالانکہ ان کی ماں ہنوز پردۂ غیب میں ہے، اسی طرح عالمِ ذرّ اور مقامِ عقل پر لوگ موجود تھے، پھر وہ عالمِ خلق میں آدم و حواؑ سے جسمانی طور پر بھی پیدا ہوگئے۔

۵۵

۱۵۔ جیسا کہ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۹) میں ارشاد ہے: هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَاۚ (۰۷: ۱۸۹) وہ خدا ہی تو ہے جس نے تم کو (عالمِ امر میں)  ایک شخص سے پیدا کیا اور (عالمِ خلق میں) اس سے اس کا جوڑا بھی بنا ڈالا، تاکہ اس سے تسلی ہو (حضرت آدمؑ کو اس اہتمام سے تسکین ہوئی کہ اس سے دنیا میں سلسلۂ نور جاری و باقی رہنے والا تھا۔ (۰۷: ۱۸۹) ۔ یہاں ایک اور سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ حضرت آدمؑ سے بی بی حواؑ کس طرح پیدا ہوئی؟ آپ آیۂ بالا میں غور کرسکتے ہیں کہ ایک لفظ خَلَقَ ہے اور دوسرا جَعَلَ، اور ان دونوں کے درمیان بڑا فرق ہے، آخر یہ فرق کیوں؟ اس لئے کہ لفظِ اوّل تخلیق کے لئے ہے، اور لفظِ دوم میں تقرر کے معنی ہیں، اور اگر یہ بات نہ ہوتی، اور پہلوئے آدمؑ سے حواؑ کا جسمانی وجود بن جاتا، تو یہی امر قانونِ فطرت بن جاتا، اور آج ہر عورت اپنے والدین سے نہیں، بلکہ اپنے شوہر سے جنم لیتی، مگر یہ بات نہیں، حقیقت کچھ اور ہے، وہ یہ کہ کوئی مرد شوہر نہیں کہلا سکتا، جب تک کہ اس کی بیوی نہ ہو، اور کوئی عورت بیوی نہیں بن سکتی، تاوقتیکہ اس کا شوہر نہ ہو، پس جس طرح بیوی کی حیثیت شوہر سے بنتی ہے، اسی طرح شوہر کی یہ اضافی قدریں،

۵۶

اور معنویت بیوی سے حاصل آتی ہے، لہٰذا ان کا تقرر یکطرفہ نہیں، بلکہ دو طرفہ ہوتا ہے اور اس میں روحانی میاں بیوی کی مثال بھی ہے۔

۱۶۔ سوال: انائے مستقر اور انائے مستودع میں کیا حکمت ہے؟ اس دوئی میں کیا راز ہے؟ آیا یہ روح کے دو۲ سرے ہیں؟ ہم اس حقیقت کوکن مثالوں کے ذریعہ سمجھ سکتے ہیں؟ آپ اس کی مزید وضاحت کریں۔ جواب: الف: قرآنِ پاک کا اشارہ ہے کہ ہر چیز کا سایہ ہوا کرتا ہے (۱۶: ۸۱،  ۲۵: ۴۵) پس انسان کی انائے علوی گویا ایک آفتاب ہے، اور انائے سفلی اس کا سایہ، یعنی عکس ہے۔ ب: قرآنی حکمت کا کہنا ہے کہ روح دراصل کوئی ایسی چیز نہیں، جو محدود ہو، بلکہ وہ ایک ہمہ رس و ہمہ گیر حقیقت ہے، لہٰذا اسے بیک وقت دونوں جہاں میں ہونا چاہیے۔ ج: انبیاء واولیاء (أئمّہؑ) انہی دو اناؤں کی وجہ سے عالمِ روحانی کو بھی دیکھتے ہیں، اور اس دنیا کو بھی، اور ان کی یہ صفت اس حقیقت کی دلیل ہے کہ ہر شخص کی دو انائیں ہوا کرتی ہیں۔ د: مکان ہوتو آنا جانا ہوتا ہے، لامکان ہو تو ایسا نہیں ہوتا، روح اگرچہ لامکانی ہے، تاہم مثال کے طور پر یہ کہنا جائز ہے کہ یہ انا اوپر جا سکتی ہے، اور وہ انا نیچے آسکتی ہے، تاکہ دونوں ایک ہو جائیں (قرآن میں روح اور فرشتوں کے عروج و نزول کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، مثال کے طور پر دیکھیے: ۳۵: ۱۰،  ۰۷: ۴۰،  ۵۳: ۰۷،  ۱۵: ۱۴،  ۹۷: ۰۴،  ۵۸: ۲۲،  ۴۲: ۵۲)

۵۷

۱۷۔ اگرچہ قرآنِ مجید  کی ہر ہر آیت آسمانی علم و حکمت کے لعل و گوہر سے لبریز ہے، تاہم آئیے ایک انتہائی حیرت انگیز بھید کو دیکھتے ہیں، جو عظمتِ انسانی کے سب سے بڑے خزانے سے متعلق ہے،  اس مبارک و مقدّس ارشاد میں سب سے پہلے تو یہ فرمایا جاتا ہے کہ مومنین خدا و رسول کی خصوصی دعوت کو قبول کریں، تاکہ وہ روحانی زندگی میں زندہ ہو جائیں، پھر ان کو علم و عرفان کی روشنی میں یہ جاننا ہوگا کہ خدائے علیم وحکیم برائے امتحان و آزمائش کس طرح آدمی اور اسکے قلب کے درمیان حائل ہوگیا ہے، یعنی حقیقی قلب کسے کہتے ہیں؟ وہ کہاں ہے؟ اور اس کا مرتبہ کیا ہے؟ یہ تمام اسرارِ پنہانی اس وقت منکشف ہوں گے، جبکہ کوئی مومن عالمِ شخصی میں اپنے پروردگار کو پہچانتا ہو، یادرہے کہ اس قلب سے امامِ زمانؑ مراد ہے، جو مومن کی انائے علوی بھی ہے (۰۸: ۲۴)

۱۸۔ جب کسی خوش نصیب اور کامیاب مومن کو خدا، رسول، اور امامِ وقتؑ کی حقیقی فرمانبرداری کے نتیجے میں روحانیت کا سب سے بڑا دیدار حاصل ہو جاتا ہے، تو وہ شاہنشاہِ دیدار کون ہوتا ہے؟ خدا؟ رسول؟ امامؑ؟ فرشتۂ عظیم؟ اپنی روح؟ انائے علوی؟ کتابِ ناطق؟ ازل یا دہر؟ ایک یا سب؟ ابداع یا انبعاث؟ اوّل یا آخر؟ بتائیے کہ وہ کون ہے، جو دیدار دے رہا ہے؟ و اللہ!۔

۵۸

 

وہ سب کچھ ہے، اور صوفیوں کی زبان میں”ہمہ اوست” اسی کو کہتے ہیں، چہرۂ خدا کی روشنی یہی ہے، جس میں تمام حقیقتیں یکجا نظر آتی ہیں،   بلکہ سب کی ایک ہی حقیقت ہو جاتی ہے، جو حقیقتِ حقائق کے نام سے ہے، اور یک حقیقت بھی یہی ہے۔

۱۹۔ دنیا کی کوئی چیز اشاراتی زبان سے کچھ کہے بغیر نہیں رہتی چنانچہ جب دو آدمی روبرو ہو جاتے ہیں،  تو اس حال میں وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں نظر آتے ہیں، یہ آنکھ کی پُتلی ہے، جو بزبانِ اشارہ کہہ رہی ہے کہ جب روحانی دیدار ہوتا ہے، تب انائے علوی اور انائے سفلی ایک دوسرے میں داخل و شامل ہو جاتی ہیں۔

نوٹ: یہ مضمون از بس ضروری ہے، اسے خاص توجہ سے پڑھیں، اور بار بارپڑھ کر اس کی گہرائیوں کو سمجھنے کیلئے سعئی بلیغ کریں۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

لنڈن

۱۱/۱۲/۸۶

۵۹

حجاب اور مظہر

(حجاب، پردہ، مظہر، جائے ظہور،  ظاہر ہونے کی جگہ)

۱۔ اس صحیفۂ کائنات اور کتابِ موجودات میں اگرچہ صرف ایک ہی قانون کی بالادستی اور کارفرمائی ہے اور وہ قانونِ قدرت یا نظامِ فطرت کہلاتا ہے، لیکن یقیناً اسی کی مختلف شکلیں یا جدا جدا ظہورات مانیے کہ اس عالمِ کثرت کے کارخانۂ بو قلمونی اور رنگارنگی میں بہت سے قوانین باہم مل کر کام کر رہے ہیں، جن میں انتہائی اہمیت کے ساتھ دستورِ حجاب بھی ہے، اور آئینِ مظہریت بھی، لیکن جہاں یہ دونوں قانون خداوند تعالٰی کے لئے خاص ہیں،  تو وہاں سے یہ اپنے دامنِ مقدّس میں دین و دنیا کی جملہ سعادتیں اور برکتیں سمیٹ کر اور علمِ الہٰی کی حسین و جمیل تجلّیات کا سرچشمہ بن کر آتے ہیں، پس ان لوگوں کی سب سے بڑی سعادت مندی ہے، جو اس خدائی حجاب و مظہر کو کعبۂ جان اور قبلۂ ایمان سمجھے ہیں۔

۲۔ نورِ مطلق خود حجاب بھی ہے، اپنے آپ میں محجوب (پوشیدہ)۔

۶۰

بھی، مظہر بھی ہے، ظاہر بھی، عاشق بھی ہے، اور معشوق بھی، اس حقیقت کی ایک روشن مثال سورج ہے، کہ وہ مادّیت میں سب کچھ ہے، چنانچہ موسمِ سرما خورشیدِ جہان آرا  کی تمازت و حرارت سے دوری اور اس کی کمی کا نام ہے، جس میں زمین ایک بار مر جاتی ہے، لیکن نورِ آفتاب کا یہ کتنا بڑا کارنامہ اور کیسا احسانِ عظیم ہے کہ بہارِ رفتہ کو واپس لاتے ہوئے زمینِ مردہ کو از سرِ نو زندہ کر دیتا ہے، حجابِ خاک سے نباتات کی عروسانِ سبز پوش کو نمایان کرکے ان کے جلوہ ہائے حسنِ زمردین (زمردین، سبز رنگ کا، زمرد کی طرح سبز) دکھلاتا ہے، اب غنچہ ہائے چمن کے بارے میں سن لیجیے کہ وہ نہ صرف خوبصورت پھولوں کے حجابات ہی ہیں، بلکہ ان دل آویز گلوں کے مظاہر بھی ہیں، پس نیرِ اعظم نے نسیمِ بہار کو ایک معتدل مزاج عطا کرتے ہوئے کہا کہ اب تم گلستان کی تمام کلیوں کو گد گدا کر ہنسا دو، تاکہ رنگ برنگ پھول جو شہکارِ قدرت ہیں وہ پردۂ خلوت سے جلوت میں آئیں، اور بیدریغ رنگ و بو کی دولت لٹا دیں، اور یہ نورِ شمس ہی تو ہے، کہ طیورِ خوش الحان کو پھر سے باغ و چمن کی بزمِ موسیقی کے لئے مدعو کرتا ہے، جو شدتِ سردی کی وجہ سے نگاہوں سے غائب اور محبوب ہوگئے تھے۔

۶۱

۳۔ غنچہ اگر حجابِ گل ہے، تو گل میوۂ خام کا پردہ ہے، خام و نا تمام میوے ہی میں پختہ و تمام ثمر تیار ہو جاتا ہے، جس میں گھٹلی مخفی ہوتی ہے، اس میں مغز پوشیدہ رہتا ہے، جس کے اندر تیل، اور تیل روشنی کا حجاب بھی ہے، اور مظہر بھی، یہ سارا قصّہ کیا ہے؟ حجاب درحجاب کی ایک خوبصورت مثال ہے، نیز پہاڑ کے بارے میں ذرا غور کیجیے، کہ اس کی ساخت کس طرح تہ بہ تہ ہوتی ہے، اور ان تہوں کے بہت سے پردوں کے پیچھے بیش بہا جواہر پنہان ہوتے ہیں، سمندر کے گوہر ہائے گرانمایہ پُرخطر حجابات کے بغیر کہاں حاصل ہوسکتے ہیں، غرض دنیا کی کوئی چیز، خواہ گرانمایہ ہو یا کم مایہ، حجاب کے بغیر نہیں، جی ہاں،  حجابات کئی طرح کے ہوا کرتے ہیں، مثلاً مادّی اشیاء کا درمیان میں حائل ہو جانا، زمان یا مکان کی مسافتیں، ہر قسم کی رکاوٹیں،  مشکلات،  لاعلمی،  غفلت،  ناشکری،  جہالت،  وغیرہ۔

۴۔ آپ سورۂ شوریٰ (۴۲: ۵۱) کی تہ بہ تہ حکمتوں میں بنظرِ غائر دیکھ کر معلوم کر سکتے ہیں کہ خداوندِ دوجہان کا نہ صرف حجاب ہی ہے، بلکہ مظہر و ظہور بھی ہے، اور اس کے حجابِ اکبر کے لئے بہت سے حجابات بھی ہیں، اور یہ قانون یاد رہے کہ حجابِ اعظم  ہی ہے جو مظہریّت کا مقدّس ترین فریضہ بھی انجام دیتا ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی جاننا ہے کہ خدا نور ہے، لہٰذا نورِ اقدس کا حجابِ متصل یعنی حجابِ اکبر کوئی اور چیز نہیں، بلکہ

۶۲

صرف نور ہی ہوسکتا ہے، جیسے سورج مادّی نور ہے، اور اس کا بیرونی حصّہ اندرونی حصّے کا پردہ و نمائندہ ہے، اس کے سوا اس مادّی دنیا میں کوئی ایسی انتہائی طاقتور چیز ہے ہی نہیں، جو آفتاب جہانتاب کی قیامت خیز نوری امواج کے بالکل سامنے ٹھہر کر حجابِ متصل یا خول کا کام کرسکے۔

۵۔ مُحَوَّلۂ بالا آیۂ کریمہ میں جملہ روحانیت کے تین مدارج کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، ان میں سب سے اعلیٰ درجہ ظہورِ نورانی، رویّت،  مشاہدہ، اور اشاراتِ جوامع سے متعلق ہے، جس میں ابداع و انبعاث،  ازل و ابد، اور دوسرے تمام انتہائی عظیم معجزات شامل ہیں،  دوسرا درجہ وہ ہے، جس کے معجزے حجاب کے پیچھے سے سنائی دیتے ہیں، اور تیسرا درجہ جو سب سے نیچے ہے، اس میں ارواح و ملائکہ کے سارے عجائب و غرائب کا مشاہدہ ہوتا ہے۔

۶۔ اب سے تقریباً چودہ۱۴۰۰ سو سال قبل نزولِ قرآن کے دوران مستقبل کے ظاہری و باطنی انقلابات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا تھا کہ آگے چل کر قرآنِ کریم کی تاویل آنے والی ہے (۰۷: ۵۲ تا ۵۳) اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنی تاویل جو پہلے چند اعلیٰ درجات کے لئے خاص تھی، وہ سب کے لئے عام ہوجائے گی، چنانچہ اس بارے میں میرا پختہ یقین یہی ہے کہ جس طرح عصرِ حاضر میں مادّی

۶۳

ترقیوں کا ایک بہت بڑا طوفان آیا ہے اسی طرح روحانیت میں بھی ایک عظیم انقلاب آچکا ہے، اور وہی تاویل ہے، اب آپ خود سورۂ اعراف کی آیت۵۲۔ ۵۳ میں بغور دیکھ کر بتائیں کہ ہمیں اس معاملے میں کیا کرنا چاہیے، آپ البتہ یہی کہیں گے کہ تاویل جب بھی ہوااور جہاں بھی ہو، حکمت اور خیرِ کثیر ہے (۰۲: ۲۶۹) لہٰذا بڑی قدردانی سے اسے قبول کرنا چاہیے، تاکہ قرآن اور اسلام کی لازوال عظمتوں کا ثبوت ہو۔

۷۔ اللہ جل جلالہ نے سورۂ نور (۲۴: ۳۵) میں جس شانِ علم وحکمت سے اپنے نورِ پاک کی تشبیہ و تمثیل بیان فرمائی ہے، اس میں عرفان و ایقان کی ایک روشن دنیا موجود ہے، اور وہاں یہی قانونِ حجاب و مظہریت دوسرے بہت سے حقائق کے ساتھ درخشان ہے، وہ یہ کہ چراغِ نور”زُجاجہ” (شیشے کی قندیل) میں ہے، آیا یہ زجاجہ یا شیشہ بھی نور نہیں ہے، تاکہ نور کا پردہ اور مظہر بھی نورانیت سے بھر پور ہو؟  یقیناً ایسا ہی ہے، کیونکہ وہ شیشہ مادّیت کی کوئی بیجان و بیعقل چیز تو نہیں ہوسکتا، بلکہ وہ ایک مبارک و مقدّس ہستی ہے، کوئی شک نہیں کہ وہ انسانِ کامل ہے، جب اسے نورِ انوار کے قرب و اتصال کا یہ بلند ترین مرتبہ حاصل ہے، تو اس کو خود بخود نور ہوجانا اور ہمیشہ روشن رہنا ہے۔

۸۔ میرے بہت ہی عزیز دوستو! کیا آپ نے کبھی نورٌعلٰی نور (۲۴: ۳۵)

۶۴

کے بارے میں گہرائی سے سوچا ہے؟ کیونکہ اس سے بڑے بڑے بھید ہیں، مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: الف: نورٌعلٰی نور (ایک نور کے بعد دوسرا نور ہوتا رہتا ہے) یعنی انبیاء وأئمّہؑ، جو اپنے اپنے زمانے میں نورِ خدا کے مظاہر اور انوار تھے، جبکہ اللہ نورالانوار ہے اور بحکمِ نورٌعلٰی نور ھادیٔ زمانؑ میں انوار کی وحدت ہوتی ہے۔ ب: اپنے خیال کی تختی پر عددِ واحد (۱) لکھئے، اب بالکل اسی شکل کے اوپر یہی ایک کا عدد ہزار بار تحریر کریں، پھرتصور میں دیکھیں، کہاں ہے وہ ہزارکا ہندسہ؟ کچھ نہیں بس صرف ایک ہی ہے، یہ نورٌ علی نور کی وحدت ہے۔ ج: نور کے چار درجات ہیں: نورِ الوہیت (۲۴: ۳۵)  نورِ نبوّت (۳۳: ۴۶)  نورِ امامت (۵۷: ۲۸)  اور نورِ مومنین (۵۷: ۱۲)  مگر نورٌعلٰی نور کا اشارہ یہ ہے کہ تمام انوار ایک ہو جاتے ہیں (جیسے فنا فی اللہ اور بقا با اللہ کا تصور ہے) ۔

۹۔  حضرت موسیٰؑ نے جس درخت سے نورِخدا کو دیکھا تھا، وہ درخت درحقیقت کیا تھا؟ مظہر اورحجاب کا وجودِ مبارک، یعنی حضرت موسیٰؑ کا عالمِ شخصی نیز امامؑ کی پاکیزہ شخصیت،  کیونکہ قرآنِ حکیم کے کئی مقامات پر پیغمبرؐ اور امامؑ کی تمثیل درخت سے دی گئی ہے۔ اس لئے کہ اُن کی پاک و پاکیزہ ہستی وہ شجرۂ طیبہ ہے، جس کا ذکر سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۴ تا ۲۵)

۶۵

میں فرمایا گیا ہے، یہ بہشتِ روحانیت کا سدا بہار درخت ہے، جوہر وقت اپنے پروردگار کے حکم سے پھل دیتا رہتا ہے۔

۱۰۔ سوال: حجاب کا سایہ کس پر پڑتا ہے؟ آیا یہ حجابِ بصری ہے، یا سمعی؟ یا دونوں ہیں؟ سورۂ شوریٰ (۴۲: ۵۱) میں کس قسم کے حجاب کا ذکر ہے؟ جواب: حجاب کا سایہ نور پر نہیں، بلکہ نافرمان انسانوں پر پڑتا ہے، زمین اور بادلوں کے سایے سورج پرنہیں، بلکہ اہلِ دنیا پر پڑجاتے ہیں، کیونکہ کوئی ظاہری اور مادّی تاریکی سورج کی طرف نہیں جاسکتی ہے، ہاں، حواسِ ظاہر و باطن میں سے ہر حس کے لئے ایک حجاب ہوا کرتا ہے، سورۂ شوریٰ میں بصری حجاب کا تذکرہ ہے، کیونکہ اس درجے سے اوپر رویّت و دیدار کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

۱۱۔ سورۂ معارج (۷۰) کی ۹ (۷۰: ۰۱ تا ۰۹) ابتدائی آیاتِ مبارکہ پیشِ نظررکھیں، اور سب سے پہلے لفظِ معارج کو لیجئے، جس کے معنی ہیں سیڑھیاں، درجے، واحد معراج، اللہ تعالٰی شانہٗ کو “ذی المعارج” (درجوں والا) اس لئے کہا گیا کہ اس کی بارگاہِ قرب تک پہنچنے کے لئے انسانوں اورفرشتوں کو بہت سے درجات طے کرنے پڑتے ہیں (قاموس القرآن) یہاں جیسے ارشاد ہوا ہے، اس کے مطابق ایک جانب کوئی دن ہے، اور دوسری جانب پچاس ہزار (۵۰۰۰۰) برس ہیں، اور سیڑھیوں کے اشارے سے یقین ہو گیا کہ یہی پچاس ہزار برس دوسری مثال میں پچاس ہزار

۶۶

درجات و حجابات بھی ہیں، جن سے گزرے بغیر خدا کے حضورِ خاص تک نہ کوئی بشر پہنچ سکتا ہے اور نہ کوئی فرشتہ، لیکن قرآنی حکمت کہتی ہے کہ قادرِ مطلق کے ایک ہی دن نے ان پچاس ہزار سالوں کو سمیٹ کر اپنے اندر محدود و مختصر کر لیا ہے، اور وہ اللہ تعالٰی کا یَومْ (۷۰: ۰۴)   امامِ زمانؑ ہیں، جیسے اصولِ  تاویل کے مطابق چھ۶ ناطق علیہم السّلام خداوندِ عالم کے چھ۶ دن ہیں، اور ساتواں دنِ حضرت قائم القیامتؑ ہیں، آپ کو اس حقیقت کا علم ہے کہ خدا وہ ہے، جو اپنی قدرتِ کاملہ سے زمان و مکان کی مسافتوں اور وسعتوں کو لپیٹتا بھی ہے اور پھیلاتا بھی ہے (۲۱: ۱۰۴،  ۳۹: ۶۷،  ۳۶: ۱۲)  جیسے وہ علیم و حکیم بے شمار چیزوں کو ایک (۱) کرکے گنتی کر لیتا ہے، یعنی اللہ تعالٰی کا لوگوں کو اور تمام چیزوں کو شمار کرنا یہ ہے کہ وہ اپنے دستِ قدرت سے سب کو لپیٹ کر عددِ واحد (۱) میں ایک کرکے رکھتا ہے (۱۹: ۹۴،   ۷۲: ۲۸) ۔

۱۲۔ امامِ اقدس و اطہر صلوت اللہ علیہ ظاہراً حجاب اکبر، اور باطناً آئینۂ خدا ہیں، وہ یوم الآخر اور یوم القیامۃ ہیں، اور قرآنِ مجید میں قیامت سے متعلق جتنے نام ہیں، وہ سب امامِ عالی مقامؑ کے تاویلی اسماء ہیں، جن میں سے ہر ایک اسم متعلقہ آیۂ کریمہ کے خزانۂ علم و حکمت کے لئے دروازہ، قفل، اور کلید کا کام کرتا ہے، کیونکہ ہر ایسی آیۂ پاک بطورِ خاص اسرارِ قیامت سے مملو ہوتی ہے، آپ کو یقین ہے کہ پیغمبرِ اکرم کا

۶۷

روحانی مرتبہ شہرِ علم اور دارِ حکمت ہے،  جہاں قرآن کی روح و روحانیت محفوظ و موجود ہے، جس کا دروازہ، یعنی حجاب و مظہر حضرتِ امام زمانؑ ہیں، اور یہ قرآنی قانون ہر گز بھول نہ جائیں کہ یہی وہ دروازہ ہے، جس سے بحکم خدا کوئی شخص ظاہرسے باطن میں جاسکتا ہے (دیکھیے سورۂ حدید، ۵۷: ۱۳) تاکہ روزِ قیامت کسی کو یہ عذر نہ ہو کہ اس کے زمانے میں کوئی ایسا وسیلہ موجود نہ تھا، جس سے اس کی قرآنی مشکلات اور جدید مسائل کی تحلیل ہوسکے۔

Nasiruddin Nasir Hunzai

London 15-12-86

۶۸

اسرارِ انبیاء وأَ ئمّہ

۱۔ حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے بیش از بیش خزائنِ اسرار حضرتِ آدمؑ کے زمانے اور قصّۂ قرآن میں مخفی ہیں، اور اس امرِ واقعی کا ثبوت یہ ہے کہ ابوالبشر سے متعلق ایسے کثیر سوالات ہیں، جو بڑے اہم ہونے کی وجہ سے ان کے جوابات انقلابی نوعیّت کے ہوسکتے ہیں، مثال کے طور پر ملا حظہ ہو:

۲۔ حضرتِ آدمؑ کی تخلیقِ جسمانی اورتکمیلِ روحانی کس طرح ہوئی؟ سورۂ روم (۳۰: ۳۰) میں کما حقہٗ غور و فکر کرکے بتائیے کہ آیا سنتِ الٰہی اور قانونِ فطرت (پیدائش)  میں کوئی تغیر و تبدل ہوسکتا ہے؟ سیّارۂ زمین کب پیدا ہوا؟ اس سیّارے پر انسانِ اوّل کہاں سے اور کیسے وارِد ہوگیا؟ کیا وہ صرف ایک ہی آدم تھا؟ پھر مختلف براعظموں میں کس طرح اس کی نسل پھیل گئی؟ حضرتِ آدمؑ کی خلافت کس عالم میں تھی؟ کائنات میں؟ یا عالمِ دین میں؟ یا عالمِ شخصی میں؟ اگر ابوالبشر کی

۶۹

خلافت صرف روئے زمین پر تھی، تو پھر فرشتوں نے ان کو سجدہ کیسے کیا؟ اور ان سے ملکوتی علم و عرفان کس طرح حاصل کر لیا؟ آیا یہ حقیقت ہے کہ شیطان سجدۂ آدمؑ سے منکر ہونے کی وجہ سے اس علمِ الٰہی سے محروم رہا، جو خلیفۂ خدا کے پاس تھا؟ بتائیے کہ خلافتِ خداوندی دائمی ہوتی ہے، یا ہنگامی؟ اگر خلافت تمام زمانوں پر محیط ہوکر قیامت تک پائی جاتی ہے، تو وضاحت کیجئے کہ وہ کس طرح ہے؟

۳۔ اللہ تعالٰی کی ذاتِ پاک اور ہر صفت قدیم ہے، اُس کا قول و فعل بھی قدیم ہے، اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ کسی ابتداء و انتہا کے بغیر ہمیشہ خالق ہے،  جس طرح خدا ہمیشہ بے شمار لوگوں کو پیدا کرتا ہے، اسی طرح بے حساب دنیاؤں کو پیدا کرتا ہے (مفہوم: ۳۰: ۳۰) ، چنانچہ تصورِ آفرنیش ایک ایسے دائرے کی طرح ہے، کہ اس کا کوئی سرا نہیں، جس کی ایک روشن دلیل خود قصّۂ آدمؑ میں موجود ہے، کہ آپؑ اس دنیا میں پیدا ہوئے تھے، جیسا کہ قانونِ فطرت ہے (۰۳: ۷۷،  ۱۷: ۷۷،  ۳۰: ۳۰)  پھر خدا کے حکم سے بہشت میں چلے گئے، پھردنیا میں آئے، اور پھر جنّت میں داخل ہوگئے، کیا یہ صرف ایک ہی آدم کی بات ہے؟  پھر دو قانون ہوگئے؟ ایک حضرت آدمؑ کے لئے، اوردوسرا باقی سب کیلئے، نہیں ہر گز نہیں، خدا کی

۷۰

سنت ایک ہی ہے، جس کے مطابق یقیناً یہ بے شمارآدموں کا قصّہ ہے، کہ بہشت کے آخری درجے میں پہنچ کر ہر آدم انائے علوی کے اعتبار سے تو رہتا ہے، مگر انائے سفلی کے لحاظ سے اس دنیا میں آتا ہے۔

۴۔ حضرت آدمؑ قانونِ فطرت کے مطابق پیدا ہوگئے تھے، جس کو سمجھنے کے لئے آیاتِ قرآنی کا حوالہ درج ہوگیا، اور باقی جتنے اسرارِعظیم کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ ان کی روحانی تخلیق کے بارے میں ہے، وہ بھید سب کے سب جملہ انبیاء وأئمّہ صلوات اللہ علیہم  کی روحانی تمامیت و کمالیت کے سلسلے میں مشترک ہیں، کیونکہ حضرت آدمؑ کی ساری عظمت و بزرگی اور علم وفضل محض خلافتِ الٰہیہ کے سبب سے حاصل تھا، لہٰذا جب تک یہ ربّانی منصب لوگوں کے درمیان موجود ہے، تب تک اسے کسی کمی کے بغیر پوری شان سے رہنا ہے، پس سلسلۂ انبیاء و أئمّہ کا ہرعالی مرتبت فرد وارثِ آدمؑ، خلیفۂ زمان، اور خزینۂ علمِ لدّنی ہوا کرتا ہے، اور اگر پروردگارِعالم کی یہ حکمت و مصلحت نہ ہوتی تو فرشتوں کا وہ اعتراض، جو انہوں نے شروع میں کیا تھا (نعوذ باللہ)  درست ثابت ہو جاتا، کہ خداتعالٰی نے اپنی انتہائی دور رس اور عالمگیرخلافت کا اعلان تو کردیا، مگر وہ کچھ زمانے کے بعد خاموش ہوگئی، اس کا فائدہ نہ ظاہر میں ہوا، اور نہ باطن میں، لیکن یہ خیال کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔

۷۱

۵۔ سائنسدانوں کے بقول سیّارۂ زمین اب سے تقریباً۴۵۵۰ملین سال قبل پیدا ہوگیا ہے، یعنی چار ارب پچپن کروڑ (۴۵۵۰۰۰۰۰۰۰) برس پہلے ہماری دنیا وجود میں آئی تھی، تاہم اس پر آبادی زمان ہائے دراز کے بعد ہوئی ہوگی، انسانِ اوّل محض موجودہ سیّارے کی نسبت سے دنیا میں کس طرح آیا؟ یہ انتہائی مشکل سوال ہے، لیکن قرآنِ حکیم اور آلِ محمدؐ کے امامِ پاکؑ اس لئے موجود ہیں کہ اگر ہم ان سے پوچھنے کی قابلیت رکھتے ہیں، تو ہم کو بتائیں، چنانچہ ہر کامل انسان اپنے جسمِ لطیف میں ایک عالمِ ذرّ ہوا کرتا ہے، جس میں نوع بنوع چیزوں کے ابتدائی ماں باپ کے ذرّات یعنی تخمہائے ابداعی ہوتے ہیں، جیسے حضرت نوحؑ کے روحانی طوفان میں دنیا کی ہر چیز ہلاک ہوگئی تھی، مگر آپؑ کے عالمِ شخصی میں کل چیزوں کی ہر قسم کے جوڑے (یعنی نرو مادہ)  موجود تھے (۲۳: ۲۷،  ۵۱: ۴۹) لہٰذا یہ دنیا حضرت نوحؑ سے ازسرِ نو آباد ہوئی۔

۶۔ انسانِ اوّل جو شروع شروع میں سیّارۂ زمین پروارد ہوا وہ بہشت، عالمِ لطیف، عالمِ امر، یا ایسے سیّارے سے آیا، جہاں جسمِ لطیف کی جنّت معمور تھی، وہ ایک عالمِ ذرّ تھا، وہ کائنات و موجودات کا نچوڑ اور خزانۂ الٰہی تھا، اس میں تمام چیزوں کے ابداعی بیج موجود تھے، جس طرح سائنسی مشاہدات و تجربات کے مطابق آدمی خلیات و جراثیم سے بھرا ہوا ہوتا ہے، اسی طرح روحانیت کا تجربہ کہتا ہے کہ انسانِ کامل عالمِ ذرّ کا

۷۲

مرتبۂ اعلیٰ رکھتا ہے، جس کے ذرّات کسی سیّارے کی تخلیق، تعمیر، اور ترقی کے لئے ابتدائی بیج بھی ہیں، اورآخری پھل بھی، جس طرح میوۂ درخت میں یہی دو باتیں ہوتی ہیں کہ وہ کسی شجر کا ثمر بھی ہے، اور کسی درخت کو پیدا بھی کرسکتا ہے۔

۷۔ کائنات اور انسانی ذات کے آپس میں ایک زبردست مضبوط اور اٹوٹ ازلی اور ابدی رشتہ موجود ہے، وہ یہ کہ انسان شجرۂ کائنات کا میوۂ گرانمایہ ہے، اور کائنات میوۂ کمالِ انسانیت کے بیج سے اگایا ہوا درخت ہے، دوسری مثال میں یہ عالم ایک خاموش آدم ہے، اورآدمی ایک بولتا عالم ہے، اور تیسری مثال میں یہ جہان ایک ایسے مقام کی طرح ہے، جس میں جگہ جگہ زر و گوہر جیسی بیش بہا چیزیں بکھری ہوئی ہیں، اور انسان ایک ایسا خزانہ ہے، جس میں یہ ساری دولت منظم طور پر جمع کی گئی ہے، پس عالم اور آدم کی وحدت و سالمیت اسی طرح ہے۔

۸۔ آپ نے رفعِ  زمان کا مقالہ پڑھا ہوگا، وہ ایک بہت بڑا انقلابی راز ہے (واقعۂ الست کا قرآنی ذکر رفعِ زمان کے طور پر ہے، یعنی اس میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی روحانیت و نورانیت کا یکجا ذکر فرمایا گیا ہے، اور زمانے کو درمیان سے اٹھا لیا ہے)، سورۂ اعراف میں جہاں (۰۷: ۱۷۲) واقعۂ الست کا ذکر ہے، وہاں دیکھئے، اس آیۂ مقدسہ میں یہ “بنی آدم” کونسے حضرات

۷۳

ہیں؟ انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام، کیونکہ جملہ فضائل و کمالاتِ آدمؑ انہی نفوسِ قدسیہ میں موجود ہیں، اورخلافتِ الٰہیہ کے نورانی تاج سے یہی انسانانِ کامل سرفراز ہیں، یہاں یہ بہت ضروری سوال ہے کہ عہدِ الست کب، کن سے، کہاں، اور کس طرح لیاجاتا ہے؟ عرض ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام کے روحانی انقلاب کے دوران تمام اہلِ زمانہ کو بذریعۂ صورِ اسرافیلؑ عالمِ ذرّ میں حاضر کر لیا جاتا ہے، جبکہ لوگ ذرّاتی شکل  میں ہوتے ہیں، اور وہاں پروردگار ان سب سے اپنی ربّوبیت کا اقرار لیتا ہے۔

۹۔ سوال: “واشھدھم علٰی انفسھم” کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ جواب: الف: اور ان کو اپنی ارواح کا مشاہدہ کرایا۔ ب: اور ان کو اپنے آپ پر گواہ بنا دیا۔ ج: اور ان کو اپنی انائے علوی کا دیدار کرایا۔ د: اور ان کو چہرۂ خدا میں فنا کر ڈالا، کیونکہ پروردگار کی پرورش کا درجۂ کمال یہی ہے، یہ عارفین تھے۔

۱۰۔ سورۂ نساء کے اُس ارشادِ مبارک (۰۴: ۵۴) کو پیشِ نظر رکھیں، جس میں اللہ تعالٰی کی جانب سے آلِ ابراہیمؑ کے پاس کتاب، حکمت، اورملکِ عظیم موجود ہونے کا ذکر ہے، زمانۂ نبوّت میں آلِ ابراہیمؑ سے کون سے حضرات مراد تھے؟ اب کون ہیں؟ اور ان کے پاس کس طرح کتاب، حکمت، اور ملکِ عظیم موجود ہے؟ کسی شک و شبہہ کے بغیر یہ حقیقت ظاہر و عیان ہے کہ اولادِ ابراہیمؑ سے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم،  اور آنحضرتؐ

۷۴

کی آل، یعنی أئمۂ طاہرینؑ مراد ہیں، اور کتاب یقیناً قرآنِ پاک ہے، حکمت اس کی زندہ روح ہے، جو ہمیشہ معلّم ربّانی میں پوشیدہ رہتی ہے، اور ملکِ عظیم مرتبۂ امامت کی دینی اور روحانی سلطنت ہے، اس میں ہوشمندی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ قرآنِ مقدّس کے کئی مقامات پر حکمت کا ذکر کتاب سے متعلق مگر ایک جدا شیٔ کے طور پر کیوں فرمایا گیا ہے، حالانکہ بظاہر حکمت کتاب ہی کے اندر ہوتی ہے؟ یہ روحِ روشن ہے (۴۲: ۵۲)  اور نور برائے قرآن ہے (۰۵: ۱۵،  ۰۷: ۱۵۷،  ۵۷: ۲۸)  جو رسول کریمؐ کے بعد امامِ برحقؑ کی پیشانیٔ پاک میں ضوفگن ہے، تاکہ اس کی تائیدی روشنی میں قرآنِ حکیم کی گہری سے گہری حکمتیں بھی اجاگر ہوجائیں۔

۱۱۔ جس مملکت کو خداوندِ تعالٰی نے عظیم کہا ہے، وہ دنیا کی کوئی بادشاہی ہر گز نہیں، بلکہ روحانیت کی انتہائی بڑی سلطنت ہے، جو خدائے بے نیاز و برتر کی جانب سے ہر زمانے کے امامِ برحق کو عنایت ہوتی رہتی ہے یہ وہی خلافتِ کبریٰ ہے، جس کا ذکرِ جمیل قصّۂ آدمؑ میں فرمایا گیا ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے کہ حضرت داؤدؑ خلیفۂ وقت تھے (۳۸: ۲۶) اورپھر حضرت سلیمانؑ آپ کے وارث ہوئے (۲۷: ۱۶) اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ حضرت سلیمانؑ نہ صرف ملکِ روحانیت کے بادشاہ تھے، بلکہ مرتبۂ خلافت بھی انہی کو حاصل تھا۔

۱۲۔ آپ یہ قبول کرسکتے ہیں کہ حضرت امامِ زمانؑ کی

۷۵

باطنی اور روحانی سلطنت بہت سے معنوں میں ملکِ سلیمانؑ کی طرح ہے، مگر یہ بات یاد رہے کہ جناب سلیمانؑ کی اصل بادشاہی روحانیت میں تھی، اور ظاہر میں جو کچھ تھا، وہ حجاب کے طور پر تھا، آپ کو شاید آج یہ تو معلوم ہو گیا کہ امامِ عالی مقامؑ کو کیوں”شاہ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اب ایسا ہونا چاہیے کہ آپ آئینۂ قرآن میں چشمِ بصیرت سے دیکھا کریں کہ اس سلطانِ روحانیت کے فضل و کمال اور جاہ وجلال کا کیا عالم ہے، جو خلیفۂ خدا بھی ہے، نائبِ رسولؐ بھی، اور امامِ زمانؑ بھی۔

Nasiruddin Nasir Hunzai

London 18-12-86

۷۶

قرآنی علم الاعداد [۱]

صفر: اعداد کی ترتیب میں سب سے پہلے صفر(zero) کا مقام ہے، کیونکہ اگرچہ یہ تنہا کسی مقدار کو ظاہر نہیں کرتا، لیکن ہر مقدار و مسافت کا نقطۂ آغاز یہی صفر ہوتا ہے، اس نقشے کو دیکھیے: ۰ ۱ ۲ ۳ ۴  ۵ ۶ ۷ ۸ ۹  ۱۰ چنا نچہ قرآنِ حکیم کے علم الاشارات کے مطابق صفر نیستی (Non-being) کی علامت ہے، اور حکمائے دین کے نزدیک نیستی سے ابداع مراد ہے، کیونکہ وہ ہر چیز سے مجرّد اور ادراک سے ماورا ہے، مگر ارادۂ کلمۂ “کُنۡ” سے اس کے ہر گونہ ظہورات و تجلّیات ہوتی رہتی ہیں، اور “ہو جا” فرمانے والا شاہنشاہ جس چیز کو چاہے، وہی شیٔ سامنے آتی ہے، اب صفر کے بارے میں مزید بحث یہ ہے کہ یہ کس طرح نیست یا ابداع کے بالمقابل ٹھہرا ہو ا ہے، اس کے لئے ملاحظہ ہو: و کنتم امواتاً فاحیاکم (۰۲: ۲۸)  اور تم بے جان تھے تو اسی نے تم کو زندہ کر دیا۔ یعنی حالتِ ابداع میں تم سب حرکتِ زندگی کے بغیر

۷۷

خاموش پڑے تھے، جس طرح کوئی صفر جہاں اکیلا ہوتا ہے، تو اس کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی، پس اس نے تم کو زندہ کیا، مثال کے طور پر کسی شخص نے قلم کی نوک سے صفر لکھا (۰) اور اسی کو نیچے کی طرف کھینچ کر ایک بنا دیا (۱) ابداع کا ایک دوسرا نام قرآنِ  حکیم میں غیر شی ہے (۵۲: ۳۵) ۔

ایک: اگرچہ ایک کا اشارہ اللہ تعالٰی کی ذاتِ پاک کے لئے ہو سکتا ہے، لیکن وہ ایسا ایک ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں، چنانچہ اس نے نفسِ واحدہ کو پیدا کیا، اور اسی سے سب کو پیدا کیا، وہ اس طرح کہ اسی شخص میں سب کی ابداع ہو کر انبعاث ہو گیا (۳۱: ۲۸)  تاکہ اس کا عالمِ شخصی ہر طرح سے مکمل ہو، کیونکہ جو آدمی بہشت میں داخل ہو جاتا ہے، وہ اکیلا نہیں ہوتا، بلکہ اس کے بے شمار ذرّاتِ روح ساتھ ہوتے ہیں، جن میں لوگوں کی ایک بہت بڑی دنیا موجود ہوتی ہے، جس طرح جب آپ عالمِ خواب میں جاتے ہیں، تو اکیلا نہیں جاسکتے۔

بنا برین ایک کا عدد نفسِ واحدہ کی دلیل ہے، کیونکہ وہ سب کو اپنے ساتھ ایک کر لیتا ہے، یہ نفسِ کلّی ہے، اور آدمِ معنی، نیز ایک مبدع ہے، اورحضرتِ قائمؑ، نیز عقلِ کلّی ہے، جس میں عالمِ عقول کی وحدت ہے۔

دو: قانونِ وحدت کے بعد قانونِ دوئی (Duality) ہے، جسے

۷۸

خداوند تعالٰی نے خود بنایا ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم کا فرمانا ہے کہ حق سبحانہٗ و تعالٰی نے تمام چیزوں کو جفت جفت پیدا کیا ہے اور اس قانون سے کوئی چیز مستثنا نہیں (۳۶: ۳۶)  نیز سورۂ زخرف (۴۳: ۱۲)  میں ایک پُرحکمت ارشاد کا اشارہ ہے کہ خدا نے ساری چیزیں دو دو بنائی ہیں اور تمہارے لئے کشتی اور سواری کے چوپائے بھی ظاہری اور باطنی دو دو بنائے ہیں (۴۳: ۱۲)  پس دو کے معنی عالمِ روحانی میں عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ہیں، دورِ نبوّت میں ناطق اور اساسؑ، اور دورِ امامت میں امامؑ اور حجت، اور ہر ظاہر کے ساتھ ایک باطن ہوا کرتا ہے۔

تین۔  عالمِ روحانی میں تین بلند ترین درجات ہیں، اور وہ یہ ہیں، کلمۂ باری، عقلِ کلّی، اور نفسِ کلّی، عالمِ جسمانی میں بھی سب سے بڑے درجے تین ہیں، ناطق، اساس، اور امامؑ، موجودات تین قسم کی ہیں: عقلی، روحانی، اور جسمانی، پس روشنی اور تاریکی بھی تین نوع کی ہے۔ (۳۹: ۰۶،  ۷۷: ۳۰)  حضرت زکریاؑ نے عالمِ عقل کی تین راتوں میں کمالِ صحت کے باوجود لوگوں سے بات نہ کر سکنے کا معجزہ دیکھا (۱۹: ۱۰)  جس میں ان کے لئے بزبانِ حکمت یہ حکم دیا گیا کہ کلمۂ کن، گوہرِعقل، اور نفسِ کلّ،  جو خاموش رات کی طرح مخفی ہیں، ان کے اسرار کے بارے میں لوگوں سے گفتگو نہ کریں، اور آپؑ نے اسی مقام پر دوسرا معجزہ یہ دیکھا کہ تین دن تک ماسوائے اشارے کے آپ لوگوں سے بات نہیں کر سکتے تھے، (۰۳: ۴۱)۔

۷۹

جس کا مطلب یہ تھا کہ ناطق، اساس، اور امامؑ جو دن کی طرح ظاہر ہوتے ہیں، ان کے بارے آپ لوگوں سے اشارہ و کنایہ سے بات کریں۔

چار۔ اصولِ دین چار ہیں: عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اور اساسؑ، جن کی طرف چار کا عدد اشارہ کرتا ہے، پروردگارِ عالم نے چار دن میں عالمِ دین کے پہاڑ بنائے، اور ان کو برکتوں اور قوّتوں سے بھر دیا، یہ چار دن حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسٰیؑ اور حضرت محمد مصطفٰیؐ ہیں اور وہ پہاڑ ان حضرات کے قرآنی قصّے ہیں، جن میں علم وحکمت کی گونا گون برکتیں مخفی ہیں (۴۱: ۱۰)  سورۂ فاطر کے شروع ہی (۳۵: ۰۱)  میں ہے کہ خدائے پاک وبرتر فرشتوں کو اپنا قاصد بناتا ہے، جن کے دو دو تین تین اور چار چار پر ہوا کرتے ہیں (۳۵: ۰۱)  اس میں ارواحِ مومنین کے مختلف درجات کا ذکر ہے، جو کثرتِ ذکر و بندگی، حسنِ عمل، اور حقیقی علم سے مرتب ہو جاتے ہیں۔

پانچ ۔  حدودِ روحانی پانچ ہیں: قلم، لوح، اسرافیل، میکائیل، اور جبرائیل، حدودِ جسمانی بھی پانچ  ہیں: ناطق، اساس، امام، حجت، اور داعی، نیز حواسِ ظاہر و باطن بھی پانچ پانچ ہیں، یاد رہے کہ حدودِ دین میں سے کسی کو روحانی علم مل جانے کی تین مثالیں ہیں، وہ راہِ اسلام میں جہاد کر رہا تھا، اس میں کافروں کو شکست ہوئی، اور بہت سا مالِ غنیمت

۸۰

اس کے ہاتھ آیا، یا اس کو ایک بہت بڑا دفینہ (خزانہ)  مل گیا، یا اس نے کہیں جواہر کی کان دریافت کرلی، اب ایسے مال سے خمس یعنی پانچواں حصّہ نکالنا ہوگا، اور اللہ تعالٰی کی خوشنودی کی خاطر پانچ حدودِ جسمانی کے دینی مقصد کے لئے استعمال کرنا پڑیگا (۰۸: ۴۱) ۔

چھ ۔  قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے چھ دن میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا (۱۰: ۰۳،  ۱۱: ۰۷)  جاننا چاہیے کہ یہ حکم عالمِ دین اور عالمِ شخصی کے بارے میں خاص ہے کہ چھ ناطق اپنے ادوار سمیت دینی عالم کے چھ دن ہیں، اور پرسنل ورلڈ میں ان کے نمونوں کے طور پر روحانیت کے چھ مراحل ہیں، تاکہ انسان کو اپنی ذات ہی میں خدا اور اس کے عظیم پیغمبروں کی شناخت حاصل ہو، انسانی جسم  کی تخلیق کے بھی چھ مرحلے ہیں، سلالہ، نطفہ، علقہ، مضغہ، عظام، لحم، اور خلقِ آخر میں کمالِ روحانیت کا ذکر ہے، نیز چھ شریعتیں ہیں، اورچھ اطراف ہیں۔

سات ۔  سورۂ طلاق کے آخر (۶۵: ۱۲)  میں قرآن فرماتا ہے کہ: خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور انہی کی طرح زمین کو بھی  (۶۵: ۱۲)  بڑے دور کے دینی آسمان یہ ہیں: حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسٰیؑ، حضرت محمد مصطفیٰؐ  اور حضرت قائمؑ، اور سات زمین چھ اساس اور خلیفۂ قائم ہیں، اور چھوٹے

۸۱

دور کے سات آسمان، سات أئمّہ ہیں، اور سات زمین ان کے ابواب ہیں۔

ایک بڑا اہم سوال: روحانیت کے یہ سات آسمان کس طرح ہیں؟ کیا وہ مادّی چیزوں کی طرح الگ الگ ہیں؟ یا ایک ہوگئے ہیں؟ اگر وہ ایک ہوگئے ہیں، تو اس کی کیا مثال ہوسکتی ہے؟ جواب: وہ الگ الگ نہیں، کیونکہ خدا نے ان کو تہ بہ تہ پیدا کیا ہے، ان کی وحدت کی مثال نورٌعلٰی نور ہے، جس کا ذکر “حجاب اور مظہر” کے موضوع میں ہوچکا ہے، اور یہاں بھی ایک مثال درج ہے، ملاحظہ ہو، ۱، ۱، ۱، ۱، ۱، ۱، ۱

یہ عددِ واحد کی سات جدا جدا شکلیں ہیں، ان سب کو تیر کے رُخ آگے لے جاکر آخری شکل پر اس طرح رکھ دیں کہ یہ تہ بہ تہ (طباق: ۶۷: ۰۳،   ۷۱: ۱۵)  ہو کر “ایک” نظر آنے لگیں، جیسے یہ شکل ہے: “۱” کہ یہ ایک بھی ہے، اور سات بھی، اس کا ایک ہونا ظاہر ہے، مگر سات ہونے کی دلیل چاہیے، اور وہ دلیل یہ ہے کہ قانونِ وحدت نے سات کو ایک کرلیا ہے، مثال سامنے ہے، اور ہم سب نے دیکھا ہے۔

آٹھ ۔  آپ نے مقالے میں پڑھا کہ اللہ تبارک و تعالٰی حجاب سے بھی کام لیتا ہے، چنانچہ خدائے پاک کا یہ ارشاد مثال کے حجاب میں ہے: وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍؕ (۳۹: ۰۶)  اور اسی نے تمہارے

۸۲

لئے چوپایوں کے آٹھ جوڑے نازل کر دیئے۔ اگر آپ پوری آیۂ کریمہ کے ربط کو دیکھیں، اور لفظِ نازل (یعنی انزل) پر غور کریں، تو یقین کریں گے کہ اس میں حدودِ دین کے خدا کی طرف سے ہونے کا ذکر ہے، یعنی ناطق، اساس، امام، اور حجتِ اعظم کا کام اور مرتبۂ نورانیت ظاہر میں بھی ہے، اور باطن میں بھی، لہٰذا ان حضرات کے آٹھ جوڑے ہوگئے، سورۂ انعام (۶) آیت۱۴۲۔ ۱۴۴۔ دیکھیے، اور کتابِ وجہِ دین کو بھی پڑھیے۔

سورۂ قصص (۲۸: ۲۷) کو دیکھیے، حضرت موسیٰؑ نے حضرت شعیبؑ کے ہاں آٹھ یا دس سال تک بکریاں چرانے کی خدمت انجام دی، اور اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ اس دوران آپؑ ذرّاتِ روح کی بکریاں بھی چراتے تھے، اب سورۂ کہف (۱۸: ۰۹ تا ۲۶)  پیشِ نظر ہو، چنانچہ اصحابِ کہف سات تھے، اور آٹھواں ان کا کتا تھا، اس کی تاویلی مثال میں یہ انتہائی عظیم راز پوشیدہ ہے کہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے نورانی درجات سات ہیں، اور ہر وہ مومن جو خدمت، غلامی، اور وفاداری میں امام کا کتا ہو، وہ ان درجات کا آٹھواں شمار ہوتا ہے، اسی طرح اصحابِ کہف آٹھ ہوگئے، یہ مومنین کی ذاتی دنیا کی بات ہے کہ اس میں بہت سی زبردست صلاحیتیں خوابیدہ ہیں، جب یہاں روح کلّی طور پر جاگتی ہے، تو معلوم ہوجا تا ہے کہ عالمِ شخصی میں سب کچھ موجود ہے،

۸۳

اگرچہ باور کرنا کوئی آسان کام تو نہیں، آخر میں ہم یہ ضرور کہیں گے کہ جس مومن کا نام سگِ علی یا کلبِ علی (علی کا کتا)  ہے تو وہ نام حکمت سے خالی نہیں۔

Nasiruddin Nasir Hunzai

London 21-12-86

۸۴

قرآنی علم الاعداد [۲]

آٹھ: بہشت آٹھ ہیں، وہ زندۂ جاوید اور عقل و جان کی اعلٰی قدروں سے آراستہ ہیں (۲۹: ۶۴)  وہ جنتیں انبیاء وأئمّہؑ ہیں، یعنی چھ ناطق، حضرت قائم، اور حجتِ قائم، نیز سات أئمّہ، اور خلافتِ صغرا دیکھیے سورۂ نور (۲۴: ۵۵)  اور اس میں خوب غور و فکر کیجئے، نیز اصحابِ کہف اور حاملانِ عرش کے بارے میں بھی سوچ لیجیے، اگر مومن امامِ زمانؑ میں فنا ہوسکتا ہے، تو پھر وہ بفضلِ خدا کیا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ بہشت کا کام دینے کے لئے اللہ تعالٰی نے انسانِ کامل سے بہتر کوئی مخلوق پیدا نہیں کیا، اور کوئی بھی دانا ایسی جنّت میں جانا نہیں چاہتا، جو عقل و جان کے اوصافِ کمال سے عاری ہو، اور آدم و آدمی کے دوسری تمام مخلوقات سے اشرف و افضل ہونے اور صورتِ رحمان کا سب سے اعلیٰ مرتبہ رکھنے سے متعلق بہت سے دلائل پیش کئے جا سکتے ہیں، مثال کے طور ملاحظہ ہو:۔

۸۵

الف: ربّ العزّت نے چار بار قسم کھا کر فرمایا کہ اس نے انسان کو بہترین تقویم یعنی کھڑا کر دینے اور مرتبۂ اعلیٰ تک پہنچا دینے کے نہج پر پیدا کیا ہے (۹۵: ۰۱ تا ۰۴) ۔  ب: خدا نے کائنات و موجودات کی ہر گونہ تخلیق و تیاری کے بعد انسان کو پیدا کیا، اور اسے”خلقِ آخر” یعنی درجۂ کمال کی مخلوق قرار دیا، اور اسی مناسبت سے اپنے آپ کو احسن الخالقین کہا  (۲۳: ۱۴) ۔  ج: بیشک خدا نے ہر چیز کو خوبصورت بنائی، لیکن آدمی کو ہر طرح کی صلاحیتوں سے ممتاز و سرفراز کرکے اس میں اپنی روح پھونک دی (۳۲: ۰۷ تا ۰۹) ۔ د: اللہ تعالیٰ نے اولادِ آدمؑ کو دوسری جملہ مخلوقات پر جیسی کرامت و فضیلت عنایت کر دی ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ پروردگار نے اس کو پشتِ قدرت پر اٹھا کر ظاہری اور باطنی خشکی اور سمندر کی سیر و سیاحت کرادی ہے، اور جسم و جان کے لئے پاکیزہ رزق دیا ہے، پس ظاہر ہے کہ بہشت انسانی شکل کی ہے، یعنی ہر کامل انسان بحدِّ فعل بہشت ہے، اور دوسرے سب لوگ بحدِّ قوّت بہشت ہیں۔

قیامت کے دن حاملانِ عرش آٹھ ہوں گے (۶۹: ۱۷)  عرش کے معنی یقیناً تخت ہیں،  لیکن اللہ سبحانہٗ  و تعالیٰ کا تخت نور ہے، چنانچہ امامِ اوّل سے لیکر امامِ ہفتم تک عرش کے اٹھانے والے علی التّرتیب  سات ہوگئے، اور وہ جملہ مومنین جو نورِ ہدایت سے وابستہ ہیں، وہ عالمِ شخصی

۸۶

میں انفرادی طور پر اورعالمِ دین میں اجتماعی طور پر حاملِ ہشتم کی حیثیت سے ان حضرات میں شامل ہوں گے (۵۷: ۱۲،  ۵۷: ۱۹،  ۶۶: ۰۸) یہاں یہ سرِ عظیم یاد رہے کہ عرشِ اعلیٰ ہمیشہ حرکت میں ہے، اور اس نورانی حرکت کی بدولت دونوں جہان زندہ ہیں۔

نو: اللہ تعالٰی نے حضرتِ موسیٰؑ کو نو۹ کھلے معجزے عطا کر دئیے تھے (۱۷: ۱۰۱)  ان کی تفصیل یہ ہے: عصا، یدِ بیضاء (۰۷: ۱۰۸،  ۰۷: ۱۰۹)  قحط، پھلوں کی کمی (۰۷: ۱۳۰)  طوفان،  ٹڈیاں، جوئیں، مینڈک، اور خون (۰۷: ۱۳۳)  ان معجزات کے اشارات یہ ہیں: عصا (لاٹھی)  سے اسمِ اعظم مراد ہے، یدِ بیضاء مرتبۂ عقل کا مظاہرہ ہے، قحط روحانی علم کا نہ ہونا ہے، پھلوں کی کمی حدودِ دین سے فیض کا نہ ملنا ہے، طوفان روحانی انقلاب ہے، ٹڈیوں کا اشارہ ایسی روحوں کی طرف ہے، جو دینِ حق سے متعلق عقائد کی فصل کو تباہ کر دیتی ہے، جوؤں سے اذیّت ناک روحیں مراد ہیں، مینڈکوں کا عذاب بھی روحانی تھا، جس میں نہ صرف ان کی آوازیں بلکہ شکلیں بھی ستاتی تھیں، صاف ستھرا پانی فرعون اور اس کی قوم کے لئے خون کی شکل میں بدل جاتا تھا، یعنی حضرت موسٰی اور حضرتِ ہارون علیہم السّلام  کا پاک و پاکیزہ علم ان کو شکوک و شبہات کا مجموعہ بن جاتا تھا۔

دس:  دس جو عددِ کامل ہے (۰۲: ۱۹۶)  وہ حضرت ناطق صلّی اللّٰہ علیہ و سلم کے لئے ہے،

۸۷

کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم حدودِ جسمانی کے درجۂ کمال پر ہیں، اور وہ ترتیب اس طرح ہے: ۱۔ مستجیب، ۲۔ ماذونِ اصغر، ۳۔ ماذونِ اکبر، ۴۔ داعیٔ مکفوف، ۵۔ داعیٔ مطلق، ۶حجتِ جزیرہ، ۷۔ حجتِ اعظم، ۸۔ امامؑ، ۹۔ اساسؑ، اور ۱۰۔ ناطق۔

قرآنِ پاک میں ہے کہ: جو شخص نیکی کرے گا تو اس کو ایسی دس نیکیاں ملیں گی (۰۶: ۱۵۹)  یعنی جو دعوتِ حق کو قبول کرے، اس کو مذکورۂ بالا دس درجات بطور خزانہ ملیں گے، اور یہ حکمت بھی سن لیجئے کہ حدودِ جسمانی دس ہیں، اور مستجیب اس عدد (۱۰)  کا دسواں حصہ ہے، یعنی قرآن کی زبان میں معشار ہے (۳۴: ۴۵)  پس اللہ تعالٰی نے ظہورِ اسلام سے پہلے لوگوں کو جو کتاب اور حدود دیئے تھے، وہ اس کے دسویں حصے  کو بھی نہیں پہنچے، یعنی وہ مستجیب نہ بن سکے، اور اسی وجہ سے انہوں نے خدا کے پیغمبروں کو جھٹلایا (مفہوم: ۳۴: ۴۵)  سورۂ  طٰہٰ (۲۰: ۱۰۳)  میں فرمایا گیا ہے، کہ روزِ قیامت مجرمین آپس میں چپکے چپکے کہتے ہوں گے کہ (دنیا میں) ہم لوگ تو بس دس دن ٹھہرے ہوں گے، اس سے دس حدود کے عوالمِ شخصی مراد ہیں، جو ان میں سب سے زیادہ ہوشیار ہے وہ بول اٹھےگا کہ تم تو بس ایک دن ٹھہرے ہوگے (۲۰: ۱۰۴)  چونکہ حضرت ناطقؑ جسمانی حدود کا مجموعہ ہیں، اور امامِ موجودؑ آپ کا جانشین، لہٰذا اس اعتبار سے صرف ایک ہی عالمِ شخصی ہے، پس امامِ اطہرؑ کی شخصیت ایک دن کی مثال

۸۸

ہے، جیسا کہ سورۂ روم (۳۰: ۵۶)  میں ارشاد ہوا ہے کہ لوگ انبعاث تک خدا کی (بولنے والی)  کتاب میں رہتے ہیں، یعنی امامِ وقتؑ کے عالمِ شخصی میں بشکلِ ذرّات مقیم ہوتے ہیں۔

گیارہ: حضرت یوسفؑ نے شروع شروع میں خواب دیکھا تھا کہ گیارہ ستارے اور شمس و قمرآپؑ کو سجدہ کر رہے ہیں،  (۱۲: ۰۴)  اس کی تاویل یہ ہے کہ اس وقت آپؑ بھی ایک ستارہ تھے، چنانچہ حضرت یعقوبؑ اپنے وقت کے امامِ مستودع تھے، آپؑ کے بارہ فرزند بارہ ستارے، یعنی بارہ حجت تھے، ان میں سے ایک ستارے (حضرت یوسفؑ)  کو خداوندِ تعالٰی نے چاند پھر سورج (یعنی باب اور پھر امام) بنا دیا، اس لئے گیارہ حجتوں، سابق امام، اور حجتِ اعظم نے ان کی اطاعت بجا لائی، لیکن یہاں چند ضروری سوالات پیدا ہوجاتے ہیں:

الف: آیا اس میں لیلی حجتوں کا ذکر ہے؟ یا نہاری حجتوں کا؟  یا دونوں کا؟ کیا دنیا کے بارہ جزائر نہیں ہوتے؟ اور ہر جزیرے میں حدودِ دین؟ ۔ ب: آیا تمام حجتانِ شب و روز امام ہی کے گھر سے ہوتے ہیں،  جیسا کہ قصّۂ یوسفؑ سے ظاہر ہے؟ ۔ ج: حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے کب سجدہ کیا؟

جواب: اس میں لیلی اورنہاری دونوں حجتوں کا تذکرہ ہے، جی ہاں، سیّارۂ زمین کے بارہ جزیرے ہیں، اور ہر جزیرے پرحدودِ دین

۸۹

ہوا کرتے ہیں، وہ جسمِ کثیف میں بھی ہوسکتے ہیں اورجسمِ لطیف میں بھی، وارثِ تختِ امامت تو امام کے خاندان سے ہوا کرتا ہے۔ باقی حدود کیلئے جگہ اور خاندان شرط نہیں، ویسے تو قرآنِ حکیم سراسر احسن القصص ہے،  تاہم یہ ارشاد سورۂ یوسفؑ  (۱۲: ۰۳)  میں ہے، اور یہ اشارہ بھی ہے کہ اس میں حدودِ دین کے نظام اور قانونِ تاویل سے متعلق ہر سوال کے لئے جواب موجود ہے (۱۲: ۰۷)  پس ہم یقین کریں گے کہ مرکزِ امامت سے تمام حجتانِ جزائر کو ہر وقت نہیں تو کچھ خاص وقتوں میں روحانی رابطہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قصّۂ یوسفؑ میں سب حجتوں کو امام سے مربوط کرکے پیش کیا گیا ہے، یعنی ظاہری واقعہ کچھ ایسا لگتا ہے، جیسے یہ سب حضرتِ یعقوبؑ کے گھر کا معاملہ ہو، مگر یہ بات نہیں، بلکہ دراصل یہ حدودِ دین کا قصّہ ہے، جس میں تمام حجتوں کی منفی اور مثبت حکمتوں کا یکجا ذکر فرمایا گیا ہے۔

بارہ: بنی اسرائیل کے باب میں ارشاد ہے: وَ بَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًاؕ (۰۵: ۱۲)  اور ہم نے ان میں سے بارہ سردار مقرر کئے۔ یہاں روحانی اورعرفانی نقطۂ نگاہ سے لفظِ بعث زیادہ سے زیادہ قابلِ توّجہ ہے، کیونکہ اسی سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ حضرات کس عظمت و مرتبت کے سبب سے سردار تھے، چنانچہ بعث کا اصل مطلب انبعاث ہے، جو روحانیت کا درجۂ کمال ہے، جہاں ابداع کے معجزات بھی ہیں، اور آپ

۹۰

نے پڑھا ہے کہ ابداع و انبعاث کیا ہوتا ہے، پس وہ بارہ سردار حضرت موسیٰؑ کے حججِ کرام تھے، ان میں سب سے پہلے اساسؑ، امامؑ، اور باب تھے، چنانچہ حضرت موسٰیؑ نے بحکمِ خدا ان نقیبوں میں سے ہر فرد کے سنگِ عقل میں اسمِ اعظم کی لاٹھی مار کر علم و حکمت کا ایک پاک و پاکیزہ اور شیرین چشمہ بہادیا، اور اسی طرح بارہ حجتوں کے عوالمِ شخصی میں کل بارہ چشمے ہو گئے (۰۲: ۶۰،  ۰۷: ۱۶۰) اس ربّانی تعلیم میں اہلِ دانش کے لئے بہت سی عظیم حکمتیں موجود ہیں، اس لئے آپ یہاں آپس میں اچھی طرح سے مذاکرہ کریں،  اور پوچھیں کہ آیا آنحضرتؐ کے زمانے میں یہ حدود اور یہ چشمے نہیں تھے؟ اور بعد میں بھی؟

جس طرح دنیائے ظاہر کے ایک سال میں بارہ مہینے ہوا کرتے ہیں، اسی طرح عالمِ دین کا ایک سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، مگر دین کی ہر چیز حیات و دانش کے بغیر نہیں، اس لئے دین کے مہینے زندہ و گویندہ ہیں، وہ زمانۂ نبوّت کے حجج ہیں، نیز دورِامامت کے حجتان ہیں، بارہ میں سے چارحجتانِ مقرب کہلاتے ہیں، وہ حرم (ادب و حرمت والے)  ہیں کہ وہ روحانی جہاد سے فارغ ہوچکے ہیں، جب دنیائے شخصی بنی، اور جب عالمِ دین پیدا ہوا، تب سے بارہ مہینوں کا یہی قانون جاری ہے، دیکھئے سورۂ توبہ (۰۹: ۳۶) بارہ حجتوں کے علاوہ بارہ درجات بھی ہیں، جن کے اسماء اور اعدادِ حکمت درجِ ذیل ہیں:۔

۹۱

اسم عدد اسم عدد
حجتِ اعطم  یا باب ۷ مستجیب ۱
امامؑ  ؂۱ ۸ ماذونِ اصغر ۲
اساسؑ ۹ ماذونِ اکبر ۳
ناطقؐ ۱۰ داعیٔ مکفوف ۴
نفسِ کُلّ ۱۰۰ داعیٔ مطلق ۵
عقلِ کُلّ ۱۰۰۰ حجّتِ جزیرہ ۶

؂۱ خداتعالیٰ نے امامِ مبین کو اپنے علم کا شہر بنا کر اس میں حدودِ دین سمیت تمام چیزوں کو محدود کر دیا ہے (۳۶: ۱۲)  پس نورِ امامت کی روشنی میں علمِ حدود کا مطالعہ کرنا حکمتِ قرآن کے لئے ازبس ضروری ہے، اور اس کے بغیر قرآنی تاویل ممکن ہی نہیں۔

Nasiruddin Nasir Hunzai

London 24-12-86

۹۲

رجوع الی اللہ

یقیناً ہر دانشمند انسان اس بات کو جانتا ہے کہ رجوع الی اللہ کا موضوع جتنا ضروری ہے، اتنا مشکل بھی ہے، تاہم قرآنِ کریم اور نورِ امامت کی روشنی میں ہر علمی مشکل ان شاء اللہ آسان ہوسکتی ہے، لہٰذا اسی امید پر ذیل کی چند مثالوں میں عاجزانہ کوشش کی جاتی ہے۔

مثال۱: جملہ خلائق یعنی تمام اشیاء درجات پر موجود ہیں، اور ہر درجے کی ضرورت کے مطابق ایک ہدایت مقرر ہے، اسی طرح جمادات، نباتات، حیوانات، اور انسان میں سے کوئی مخلوق ہدایتِ الٰہیہ کے بغیر نہیں، جیسا کہ سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۵۰)  میں ارشاد فرمایا گیا ہے (مفہوم: ) موسیٰؑ نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے، جس نے عالمِ امر کی ہر چیز کو عالم خلق میں ایک مادّی صورت عطا کر دی، پھر منزلِ مقصود تک اس کی رہنمائی فرمائی، یعنی عالمِ امر میں لوٹا دیا، اس کلّیہ سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے، کہ ہر چیز جہاں سے آئی تھی، آخر کار لوٹ کر وہاں جاتی ہے۔

۹۳

مثال۲: قیامت کے دن اوّلین و آخرین سب کے سب عالمِ شخصی میں جمع ہو جاتے ہیں (۵۶: ۴۹ تا ۵۰)  لیکن اس سب سے بڑے اجتماع میں بابصیرت اور بے بصیرت دو قسم کے لوگ ہوں گے (۱۷: ۷۲،  ۲۰: ۱۲۴)  چنانچہ اہلِ بصیرت کو اس روز خدا کا دیدار ہوگا، جس کی علمی اور عرفانی برکتوں سے ان پر یہ سب سے بڑا راز منکشف ہوگا کہ وہ ازلی اور ابدی طور پر اصل سے واصل ہی ہیں، پس رجوع الی اللہ (خدا کی طرف لوٹ جانا)  علمی صورت میں ہے۔

مثال۳: سورۂ انعام (۰۶: ۱۰۳) میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ: اس کو آنکھیں نہیں پا سکتیں، اور وہ (لوگوں کی)  آنکھوں کو پاسکتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا کا دیدار نہیں ہوتا، بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ جب پروردگار کا نورِ اقدس کسی کے دیدۂ دل کو چھو لیتا ہے، تو ایسے شخص کو دیدار ہوتا ہے، یعنی اللہ اپنی رحمت سے آدمی کی آنکھ بن جاتا ہے، جیسے حدیثِ تقرب کا ارشاد ہے، جس کو آپ نے بارہا سنا ہے، کہ خدا اپنے عاشق کے حواسِ ظاہر و باطن کا کام خود کرنے لگتا ہے، اور یہ رجوع ہے۔

مثال۴: اصل رجوع زندگی ہی میں ہے، جسے پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عملاً کرکے دکھایا، اور وہ واقعۂ معراج ہے، جس کا ذکر قرآنِ  مجید میں کئی طرح سے فرمایا گیا ہے، معراج کا لفظی ترجمہ سیڑھی ہے اور سیڑھی درجات، یعنی حدودِ دین کی ہوا کرتی ہے (۳۲: ۰۵،  ۷۰: ۰۴،  ۰۳: ۱۶۳) ۔

۹۴

جس طرح مادّی مثال میں ماضی سے حال تک اور دیہات سے شہروں تک قانونِ ترقی کو دیکھا جائے، تو پہلے بہت ہی معمولی سیڑھیاں نظر آتی ہیں، اور اس کے بعد ایسی سیڑھیاں دکھائی دیتی ہیں، جو خود حرکت میں آ کر آدمی کو اوپر تک پہنچا دیتی ہیں،  جن کو لفٹ Elevator  [مِصْعد] یا Escalator کہا جاتا ہے ؂۱

اسی طرح روحانیت کے ابتدائی مراحل میں شدید محنت کی ضرورت ہوتی ہے  اور پھر رفتہ رفتہ آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں،  یہاں تک کہ خدا کی زندہ سیڑھیاں روحانی مسافروں کو اٹھانے لگتی ہیں۔

مثال۵: سورۂ فجر کی ایک آسمانی تعلیم (۸۹: ۲۷ تا ۳۰)  یہ ہے: اے اطمینان یافتہ روح! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جا تو اس سے خوش وہ تجھ سے راضی، سو میرے (خاص)  بندوں میں شامل ہو جا، اور میری بہشت میں داخل ہو جا (۸۹: ۲۷ تا ۳۰)  یہاں فادخلی فی عبادی (میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا)  کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے: میرے انبیاء و أئمّہ کے عالمِ شخصی میں داخل ہوجا کہ میری جنت یہی ہے، اور رجوع بھی یہی ہے۔

مثال۶: اللہ تعالٰی کی بارگاہِ عالی تک آدمی کا جسم نہیں پہنچ

۹۵

سکتا، بلکہ حقیقی علم اور نیک عمل سے وابستہ ہوکر قلب ہی وہاں تک جا سکتا ہے، جس کے لئے عملِ صالح کا ایک تخت بن جاتا ہے، ا س پر ایک پاکیزہ قول جا بیٹھتا ہے، جس میں علم و عبادت اور قلبی حقیقت موجود ہوتی ہے، اب اس چیز کو بلند ہوکر خداوندِ تعالٰی کے قول و فعل سے واصل ہو جانا ہے، دیکھئے سورۂ فاطر (۳۵: ۱۰) ۔

مثال۷: جسمانی موت سے قبل زندہ شہیدوں کی موت مر جانا اور نور سے واصل ہو جانا رجوع ہے (۵۷: ۱۲،  ۵۷: ۱۹،  ۶۶: ۰۸)  اور یہی وہ سعادتِ عظمٰی ہے، جس کا ذکر قرآن کی مختلف مثالوں میں موجود ہے، جیسے سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۱)  میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالٰی نے مومنین سے ان کی جانوں اور اموال کو اس قیمت پر خرید لیا ہے کہ ان کو جنّت دی جا رہی ہے، اب اس حکم کے تحت جس طرح اسلام کا ظاہری جہاد واجب اور شہادت ممکن ہے، اسی طرح باطنی جہاد لازم اور روحانی شہادت ممکن ہے۔

مثال۸: کسی بھی مومن کو اس حقیقت کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ قرآنِ حکیم نہ صرف دنیائے ظاہر میں موجود ہے، بلکہ قرآنِ مجید بحالتِ روح و روحانیت لوحِ محفوظ میں بھی ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲)  اسی طرح یہ کتابِ مکنون میں بھی ہے (۵۶: ۷۵ تا ۸۰)  جس کو صرف وہی لوگ چھوسکتے ہیں، جو پاک کئے گئے ہیں، اب آپ قرآن ہی کی روشنی میں بتائیں کہ زمانۂ نبوّت کے مومنین کوکون پاک و پاکیزہ کرتا تھا؟ اور کس طرح؟ آپ یقیناً یہی

۹۶

کہیں گے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  علم و حکمت سکھا کر اوردیگر ذرائع سے مومنین کو پاک کر دیتے تھے  (۰۲: ۱۵۱،  ۶۲: ۰۲،  ۰۹: ۱۰۳)  اور آنحضرتؐ کے بعد اس انتہائی ضروری کام کو کون انجام دے سکتے ہیں؟  کیا اب کوئی نہیں ہے؟ یہ خاص کام صرف اور صرف انہی حضرات کا ہے، جن کو اللہ تعالٰی نے اسی مقصد کے پیش نظر اپنے محبوب پیغمبر کے ساتھ ساتھ ہر طرح سے پاک و پاکیزہ کرکے رکھا ہے (۳۳: ۳۳)  اور وہ أئمّۂ اہلِ بیتِ اطہارؑ ہیں، جن کا نمائندۂ نورانی امامِ زمان صلوات اللہ علیہ ہیں، پس نتیجے کے طور پر جو مومنین کتابِ مکنون کو چھوتے ہیں، وہ رجوع کئے ہوئے ہیں۔

مثال۹: رجوع دو طرح کا ہے، ایک رجوع وہ ہے جو انائے علوی میں مرتبۂ ازل پر ہوچکا ہے، دوسرا رجوع انائے سفلی سے متعلق ہے، جس کو زندگی ہی میں انجام دینا ضروری ہے، ورنہ خوشی کا رجوع نہ ہو گا، بلکہ زبردستی کا رجوع ہو گا (۰۳: ۸۳) ۔

مثال۱۰: جب سورج مشرق میں یا  مغرب میں ہوتا ہے، تو اس حال میں آدمی کا سایہ دور جا پڑتا ہے، لیکن جب آفتاب ٹھیک سر کے اوپر ہوتا ہے تو اس وقت سایہ اپنے مرکز کی طرف رجوع کر جاتا ہے، اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ نور کی قربت و نزدیکی کے بغیر انائے سفلی کا رجوع نا ممکن ہے۔

مثال۱۱: خدائے بزرگ و برتر نے لوگوں کے اناہائے سفلی کو

۹۷

پھیلا دی ہے، جو نفسِ واحدہ کے اجزاء (ذرّات)  اور سائے ہیں، جب خدا چاہئے تو ان سایوں کو انسانِ کامل میں جمع کر دیتا ہے، پھر بڑی آسانی سے دستِ قدرت کی مٹھی میں لیکر اپنی طرف بلند کر لیتا ہے (۲۵: ۴۵ تا ۴۶)  اس اعتبار سے انسانوں کے تین مقام ہوئے، اوّل یہ کہ وہ اجسام میں پھیلے ہوئے ہیں، دوم انسانِ کامل میں بشکلِ ذرّات اکھٹے ہیں، اور سوم نورِعقل میں ایک ہوگئے ہیں، پس یہ بشرطِ مشاہدہ رجوع ہے۔

مثال۱۲: آپ قرآنِ حکیم میں بغور دیکھیں کہ رجوع الی اللہ کیسا انتہائی عظیم کام ہے، اور اس کی شرطیں کتنی بڑی مشکل ہیں، مثلاً خداکی جانب سے بندوں کی یہ آزمائش: ہر قسم کا خوف، مال و جان کا نقصان، اورپھلوں کی کمی، ان احوال اور دوسری بہت سی مصیبتوں میں صبر کرتے ہوئے خدا کو یاد کرنا، اور یہ کہنا کہ: ہم تو خدا ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷) ۔

مثال۱۳: خدا کے نزدیک ہر چیز کی ایک مقررہ مقدار ہے (۱۳: ۰۸)  چنانچہ رجوع کے لئے علم و عبادت اور نیک اعمال کی ایک خاص مقدار ہے، لہٰذا جب تک کسی مومن میں وہ مقدار مکمل نہ ہو، تو اس بندے پر امرِ کن (ہو جا)  کا اطلاق نہیں ہوتا، اور اگر مذکورہ شرط کے مطابق اسے کن فرمایا گیا، تو وہ شخص بقولِ قرآن امور میں سے ایک امر ہو جاتا ہے، یعنی ایسی مخلوق، جو کلمۂ کن سے بطریقِ ابداع پیدا ہوجاتی ہے، اور ایسے

۹۸

امور ہی خدا کی طرف رجوع ہو جاتے ہیں (۰۲: ۱۱۷،   ۰۳: ۱۰۹) ۔

مثال۱۴: ہر کامل انسان زندگی ہی میں اس طرح رجوع ہوجاتا ہے کہ وہ جیتے جی روحانیت کی پر اسرار موت کا مکمل تجربہ کر لیتا ہے، اور کچھ مراحل کے بعد وہ مقامِ عقل پر فنا فی اللہ ہوکر اپنے آپ کو عالمِ وحدت میں پاتا ہے، جس میں خداوندِ تعالٰی کے وہ تمام ظہورات و تجلّیات ہیں، جن کا ذکر ازل، ابد، اور بہشت کے عنوانات کے تحت فرمایا گیا ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ جو حضرات بحرِ رویّت میں ڈوب کر فنا ہوجاتے ہیں، وہ پھر تعجب ہے کہ صورتِ رحمان یا چہرۂ خدا کے ساتھ بقا پاتے ہیں۔

مثال۱۵: جیسا کہ حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے کہ خداوند تبارک و تعالیٰ ایک مخفی خزانہ تھا، اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب بھی  یہ خزانہ بہت پوشیدہ ہے، یعنی اس کے حجابات انتہائی مشکل مگر بیحد مفید اسرار پر مبنی ہیں، اور جو خوش بخت انسان ان عظیم بھیدوں کی معرفت حاصل کریگا تو یہ خزانہ اسی کی اور اس جیسوں کی “انا” ہو جائے گا، کیونکہ اس پوری حدیث کا خلاصہ اور اشارہ یہی ہے، ورنہ خدا اپنی ذاتِ پاک کو خزانے کا نام نہ دیتا، جبکہ ہر گنج اپنے لئے نہیں، بلکہ دوسروں کے فائدے کی خاطر ہوتا ہے، اور یہ حقیقت “اللہ الصمد” کی معنوی شان کے مطابق ہے، کہ وہ ہر طرح سے بے نیاز ہے، پس اس کے پاس جو بھی خزائن ہیں، یا وہ بذاتِ خود جیسا خزانہ ہے، وہ سب کچھ اسکے بندوں کیلئے ہے، اور یہ رجوع کی آخری حقیقت ہے۔

Nasiruddin Nasir  Hunzai

London 28-12-86

۹۹

 

 

حقیقی دیدار

حقیقی دیدار

تلاشِ معرفت

جی ہاں، روحِ انسانی تلاشِ معرفت کی غرض سے دنیا میں بھیجی گئی ہے، لیکن اس گنجِ گرانمایہ کے راستے میں عجیب و غریب طلسمات سامنے آتے رہتے ہیں ، کیونکہ یہ خزانہ انتہائی انمول اور نایاب ہے، اسی لئے آزمائش کا سلسلہ بڑا طویل اور بے حد دشوار ہے، تاہم ہادیٔ برحق کے دامنِ اقدس سے وابستگی اور علمی خدمت سب سے بڑی سعادتمندی ہے، یہ پُرمغز اور شایانِ شان الفاظ جان نثار سیکریٹری آنسہ زہرا جعفر علی اور ان کے نیک بخت خاندان کے لئے بہت ہی مناسب ہیں۔

 

۱

 

اظہارِ تشکر

 

بزرگو، بھائیو، بہنو، دوستو اور عزیزو! سب سے پہلے مجھے ضرور یہ کہنے دیجئے کہ آج وہ زمانہ نہیں رہا، جسے زمانۂ قدیم کہا جاتا ہے، ہر چند کہ اُس میں بھی کئی مفید پہلو پوشیدہ و پنہان ہیں، آپ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ زمانہ جس میں آپ اور ہم سب زندگی گزار رہے ہیں، علم و فن اور حکمت و فلسفہ کی انتہائی ترقی کا ہے، لہٰذا اس میں یہ امر نہایت ہی ضروری ہوا ہے کہ اپنی عزیز قوم اور پیاری جماعت کی نئی نسل کو ایسے مفید اور کارآمد علم سے آراستہ کر دیا جائے، جو عقل و دانش اور تحقیق و تدقیق سے کام لے کر مہیا کیا گیا ہو، مگر ہاں، میں اس بات کو ضرور مانتا ہوں کہ اس کام کے لئے انتہائی سخت محنت اور جانفشانی کی بہت ہی ضرورت ہے اور اتفاق و اتحاد اور باہمی تعاون لازمی ہے۔

 

عزیز بھائیو اور بہنو! یہ ایک چھوٹی سی کتاب آپ کے سامنے ہے، جو “حقیقی دیدار” کے نام سے لکھ کر صرف اسماعیلی جماعت کے درمیان

 

۳

 

شائع کی گئی ہے، اگرچہ یہ کام کوئی بڑا کارنامہ تو نہیں، تاہم چھوٹی چھوٹی کتابیں شائع کرنے کا یہ طریقہ اس لحاظ سے بہتر ہے کہ ہر خواندہ اسماعیلی اس کو کاملاً پڑھنے کے لئےوقت نکال سکے گا، اب رہا سوال اس کتابچہ کی علمی اہمیّت و افادیّت کے متعلق، تو یہ آپ خود ہی کتاب کو بغور پڑھ کر فیصلہ فرمائیں اور اگر ممکن ہوا تو اپنے اس علمی خادم کو کوئی مفید مشورہ بھی دے دیا کریں تا کہ مجھے اپنے کام میں مزید تقویّت حاصل ہو۔

 

“حقیقی دیدار” کی اس کتاب کے بارے میں حق بات تو یہ ہے کہ مجھے بہت ہی عمدہ اور بہت ہی پیارے الفاظ میں شکریہ ادا کرنا چاہئے اُن عزیزوں کا جن کی وجہ سے یہ کتاب مکمل ہوکر شائع ہوئی ہے، وہ ہیں میرے مستقل معاونین جن کے تعاون سے میں کچھ علمی خدمت کرسکتا ہوں، مجھ سے میری اخلاقی اور ایمانی طاقت باصرار یہ تقاضا کرتی ہے کہ میں ان تمام عزیزوں کا پرخلوص شکریہ ادا کروں جن سے مجھے ہر وقت حوصلہ افزائی ہوتی رہتی ہے، بلکہ وہ اس مقدّس خدمت میں میری پشت پناہی کرتے ہیں، مگر افسوس کہ اُن سب کے نام بتانے کے لئے یہاں گنجائش نہیں، ہاں اس دفعہ یہ چھوٹی سی کتاب کس طرح وجود میں آئی اس کا مختصر تذکرہ ضروری ہے، اور وہ یہ ہے کہ غالباً ماہِ جنوری ؁۱۹۷۶ء کی سولہویں تاریخ تھی کہ کسی نیک مجلس کے بعد برسبیلِ تذکرہ میرے محسن اور انتہائی عزیز روحانی بھائی فتح علی حبیب نے مجھ سے ایسی کتاب تیار کرنے کی فرمائش کی، اور میرے جانی دوست نصر اللہ راعی قمر الدین کو بھی یہ مشورہ

 

۴

 

بہت ہی پسند آیا، بعد ازان دونوں عزیزوں نے اس بارے میں جناب شمس الدین اور میرے عزیز برکت علی سے بھی گفتگو کی، کہ اس کام کی کیا اہمیّت و افادیّت ہے اور دیدار کے موضوع پر کچھ حقائق و معارف پیش کرنا کس قدر ضروری ہے، وغیرہ۔

 

چنانچہ میں ان تمام اسماعیلیوں کا قلبی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں جو علم دوست اور حقیقت شناس ہیں، اور درویشانہ دعا ہے کہ خداوندِ عالم ان سب کو اور ساری جماعت کو حقیقی علم کی دولت سے مالامال فرمائے اور دونوں جہان کی نیکی و سعادت مندی عطا کرے۔

 

فقط آپ کا علمی خادم

 

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

۲۱ جنوری ؁۱۹۷۶ء

 

۵

 

دیدارِ مبارک

 

نہ جانے میرے عزیز دوستوں نے مجھے آج یکایک یہ پیارا سا مشورہ کیوں دیا، کہ میں دیدار کے موضوع پر کچھ اپنے خیالات کا اظہار کروں، اُن کی یہ قابلِ قدر تجویز اور دل پسند و مفید مشورہ شاید اس لئے تھا کہ ہمارے محبوب روحانی پیشوا و مقتدا حضرت مولانا دھنی سلامت داتار شاہ کریم الحسینی حاضر امام علیہ الصّلات و السّلام عنقریب یہاں ہمارے پیارے ملک پاکستان میں تشریفِ مبارک لا کر ہم سب اسماعیلیوں کو اپنے مقدّس دیدار کے شرف سے مشرف کرنے والے ہیں، چنانچہ قبل اس کے کہ میں زمانے کے امام علیہ السّلام کی ملاقات و دیدار کے فیوض و برکات اور نتائج و ثمرات کا کچھ بیان کروں، مناسب سمجھتا ہوں، کہ دنیائے ظاہر سے چند عام فہم مثالیں پیش کروں، تا کہ ہر شخص بآسانی ظاہریت و مادیّت کے اس پل سے گزر کر حقیقت و حکمت کے شہر میں پہنچ سکے۔

 

اس سلسلے میں اولاً اس سوال کا معقول اور آسان جواب

 

۶

 

مہیا ہونا چاہئے کہ پانچ حواس یعنی دیکھنے، سننے، سونگھنے، چکھنے اور چھونے کی قوّتوں میں سے کون سی قوّت افضل ہے؟ اور دیکھنے کی قوّت کی کیا اہمیّت و فضیلت ہے؟ اور اس حاسہ (یعنی حس) کی وساطت سے انسان کس قدر مسرت و شادمانی حاصل کرسکتا ہے؟

 

چنانچہ اس بارے میں سب سے پہلے لفظ “دیدار” کی طرف توّجہ مبذول کرائی جاتی ہے کہ دیدار ایک فارسی لفظ ہے دید اور دیدن سے، جو درشن اور ملاقات کے معنی میں مستعمل ہے، لیکن میرے نزدیک اور یقیناً سب کے نزدیک یہ بہت ہی پسندیدہ اور پیارا لفظ ہے، بہت ہی پیارا، اور کیوں نہ ہو، جبکہ یہ اپنے وسیع معنوں میں قدرت و فطرت کے ظاہری و باطنی حسن و جمال کے مشاہدات پر بولا جاتا ہے، جبکہ یہ عجائباتِ خلقت اور آثارِ رحمت کے نظارے کا نام ہے، جبکہ یہ عالمِ خواب، عالمِ خیال اور دنیائے تصوّر و تفکّر کے علاوہ عالمِ روحانیت کی تجلّیات و مشاہدات کے لئے استعمال ہوتا ہے، جس میں ہر حسین و جمیل چیز صبغۃ اللہ (۰۲: ۱۳۸) (خدا کے رنگ) میں رنگی ہوئی نظر آتی ہے، اور جبکہ دیدار کا لفظ اپنے انتہائی معنوں میں خدا تعالیٰ کی پاک ملاقات کے لئے مستعمل ہے۔

جاننا چاہئے کہ اگرچہ ہمارے حواسِ ظاہری پانچ ہیں اور سب سے پہلے ان تمام کا تعلّق مادّی چیزوں سے ہے، لیکن پھر بھی ماننا پڑے گا، کہ ان میں سے بعض افضل ہیں، اور قوّتِ باصرہ

 

۷

 

(یعنی دیکھنے کی طاقت) سب سے افضل ہے، کیونکہ اس کی رسائی بے پناہ اور اس کی لذّت گیری لا انتہا ہے، یعنی عجائباتِ قدرت کی رعنائیوں پر نظر ڈالنے اور دنیا کے خوبصورت و دلکش مناظر کے مشاہدہ کرنے سے جو لذّت و مسرّت حاصل ہوتی ہے اس کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا، باغ میں جاکر طرح طرح کے لذیذ پھلوں میں سے کھائیے، آخر کتنے کھائیں گے؟  گلشن کی طرف قدم بڑھا کر حسین و رنگین پھولوں کی خوشبوؤں کو سونگھ لیجئے، آپ اور زیادہ کتنی خوشبو کو دماغ میں جذب کرسکیں گے، تھوڑی دیر کے بعد ممکن ہے کہ دردِ سر شروع ہوجائے، کیونکہ دماغ کی کوٹھڑی مادّی لحاظ سے محدود جگہ ہے اور اس میں خوشبو کے مزید ذرّات نہیں سما سکتے، لیکن باغ و گلشن کے خوبصورت منظر کا نظارہ و مشاہدہ ایسا تو نہیں کہ وہ آپ کو تھکا دے یا آپ اس سے سیر اور دل برداشتہ ہوجائیں، اس کے علاوہ آنکھ کے عجائب و غرائب میں سے یہ بھی ہے کہ زمین کی تو بات ہی کیا آنکھ آسمان کو بھی اپنے اندر سما لیتی ہے اور یہ بڑی سے بڑی چیز کو چھوٹی اور محدود کرسکتی ہے، پس اس سے معلوم ہوا کہ آنکھ کی قوّت روحانی قوّتوں کے بہت ہی قریب ہے۔

 

جو افراد حقیقی علم والے ہیں ان کو یہ بات معلوم ہے کہ انسان میں حواسِ ظاہر کے ساتھ ساتھ حواسِ باطن بھی ہیں اور ان میں بھی بصیرت یعنی چشمِ باطن کی قوّت سب سے اعلیٰ و افضل ہے، اور یہی سبب ہے کہ قرآنی حکمت میں بہشت کی تمام روحانی لذّتوں کی طرف اشارہ

 

۸

 

کرنے کے لئے جو عنوان منتخب کیا گیا ہے وہ لقاء اللہ (خدا کا دیدار) ہے، خواہ دیدارِ الٰہی کی کیفیت و حقیقت کچھ بھی ہو، بہرحال دیدارِ خداوندی میں جنت بمع تمام نعمتوں اور مسرّتوں کے سموئی ہوئی ہے، اور قرآن میں جہاں جہاں بہشت کی تعریف و توصیف بیان ہوئی ہے، وہ دیدارِ روحانی اور تجلّیاتِ ربّانی کی تمثیلی وضاحت ہے، اس بیان سے کسی کو یہ خوف بھی نہ لاحق ہو جائے کہ پھر جنّت کا وجود ہی نہیں، یعنی بہشت ایسی نہیں جیسا کہ اس کا تذکرہ ملتا ہے، نہیں بابا نہیں، روٹھو مت، فکر نہ کیا کرو، وہاں عقل و جان کے لئے سب کچھ ہے، مگر روحانی اور نورانی طور پر نہ کہ مادّی اور جسمانی حیثیت میں، کیونکہ وہاں کی ہر چیز، ہر نعمت اور ہر لذّت نورِالٰہی کی رنگینی میں رنگی ہوئی ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ جنّت نورِمطلق کے گوناگون ظہورات و تجلّیات کا مسکن ہے۔

 

چنانچہ دیدار پیغمبرِ اکرم صلعم کا ہو یا امامِ زمان علیہ السّلام کا وہ ہر حال میں دیدارِ آخرت اور ملاقاتِ جنّت کے لئے واحد وسیلہ اور یکتا ذریعہ ہے، یہ دیدار مریدوں کے لئے باعثِ تسکینِ قلب اور موجبِ راحتِ جان ہے، کیونکہ یہ عقیدہ اور یہ تصور وجودِ باری تعالیٰ کے عقیدہ کے تحت ہے، اور اس کی قربت و نزدیکی کے لئے ہے، اس کا مقصد ہے کہ دینِ خدائی سے رجوع اور وابستگی ہو، الٰہی ہدایت حاصل ہو اور اس کی اطاعت عمل میں آئے، خدائے رحمان و رحیم اور حضرتِ رحمتِ عالم کی رحمتوں اور شفقتوں کا کوئی حصّہ ملے، کیونکہ اس کے حصول کا یہی وسیلہ ہے۔

 

۹

 

عرش اور امام:

جاننا چاہئے کہ کسی مقدّس مقام کا طواف کرنا یعنی اس کے گرداگرد عقیدت و محبت اور تعظیم و تکریم سے چکر لگانا، جیسا کہ خانۂ کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے، بہت بڑی عزّت و حرمت ہے، چنانچہ کتاب “دعائم الاسلام” میں اس کا ذکر ہے کہ فرشتے عرشِ عظیم کا طواف کر لیا کرتے ہیں، اب یہاں پر ایک معنی خیز سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا فرشتوں کا یہ طواف فقط عرش کی تعظیم کے طور پر ہے یا کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و بزرگی کے لئے؟ اس میں اگر جواب یہ ہو کہ یہ طواف خدا کی تعظیم یا بندگی کے طور سے ہے، تو پھر بھی سوال ہوگا، کہ وہ فرشتے عرش کو اور حملۃ العرش (عرش کو اٹھانے والے فرشتوں) کو چھوڑ کر صرف خدا ہی کا طواف کیوں نہیں کرتے، کیونکہ ظاہر ہے کہ رحمان خدا ہے اور عرش خدا نہیں، لہٰذا تعظیم وعبادت کسی کی شرکت کے بغیر خدا ہی کی ہونی چاہئے؟ اس کا جواب کوئی شخص نہیں دے سکتا، مگر اہلِ حقیقت یعنی اہلِ تاویل، اور اس گوہرِعالی صفات کے ایک پہلو کی تاویلی جھلکیاں یہ ہیں کہ أئمّۂ طاہرین حاملانِ عرشِ عظیم ہیں، نورِمطلق جو ان پر قائم ہے عرشِ الٰہی ہے، حقیقتِ توحید رحمان ہے جو نور پر قائم ہے، اور مومنین کی روحیں وہ ملائکہ ہیں جو اس نورانی عرش کا طواف کرلیا کرتے ہیں، جیسا کہ مولانا علی علیہ السّلام کا ارشادِ گرامی ہےکہ:

 

۱۰

 

انا الذی ھو حامل عرش اللہ مع الابرار من ولدی:

ترجمہ: میں وہ شخص ہوں جو اپنی اولاد کے نیکوکاروں (یعنی اماموں) کے ساتھ عرشِ خدا کا اٹھانے والا ہے۔

 

آدم اور امام:

قرآنِ عزیز سے یہ حقیقت صاف طور پر ظاہر اور واضح ہو جاتی ہے کہ اس دور کے انسانِ اوّل یعنی حضرت آدم علیہ السّلام میں خدائے حکیم نے جو اپنی روح پھونک دی تھی، وہی پاک روح بی بی مریم علیہا السّلام میں بھی پھونکی گئی تھی (دیکھئے قرآنِ مجید کی ۱۵: ۲۹، ۲۱: ۹۱، ۳۲: ۰۹، ۳۸: ۷۲، ۶۶: ۱۲) اس سے معلوم ہوا کہ جو قدسی روح آدم صفیؑ میں جلوہ گر ہوئی تھی، وہی روح تمام انبیاء و أئمّہ (صلوات اللہ علیہم اجمعین)  کے مقدّس سلسلے میں جاری رہتی ہوئی چلی آئی ہے، بلکہ ان کے علاوہ صفِ اوّل کے بزرگانِ دین کو بھی اس پاک روح کی روشنی حاصل ہوتی رہی ہے جیسا کہ حضرت مریمؑ کی مثال سے ظاہر ہے کہ آپ نہ تو پیغمبر تھیں اور نہ ہی امام، بلکہ ایک صدّیقہ یعنی دینی بزرگ تھیں، پھر آپ یہ ضرور باور کریں گے بلکہ یقینی طور پر مانیں گے کہ وہی خدائی روح جس کی وجہ سے آدمؑ مسجودِ ملائکہ ہوا تھا اب بھی انسانِ کامل میں موجود ہے، لہٰذا ہر پیغمبر اور امام تعظیم و تکریم کے لائق ہوتا ہے، اور کسی بھی ہوشمند کی طرف سے ہرگز ہرگز یہ نہیں

 

۱۱

 

کہا جاسکتا کہ انبیاءو اولیاء (أئمّہ) کے لئے جو تعظیم کی جاتی ہے، وہ کفر و شرک ہے، جبکہ خدا کی وہ فرمودہ تعظیم اس سے کہیں بڑھ کر تھی، جسے آدمؑ کے لئے فرشتوں نے انجام دی تھی، یہ انسانِ کامل کی عظیم مرتبت کی ایک بنیادی دلیل تھی، اور اس کے بعد قرآن و حدیث اور عقل و نقل کے چند دلائل و براہین آتے ہیں جو پیغمبرِ  اکرمؐ اور امامِ زمانؑ کی عظمت و بزرگی اور توقیر و حرمت سے متعلق ہیں۔

 

انبیاء و امام:

ہمارے عقیدے کے مطابق زمانہ دو حصّوں پر منقسم ہوتا ہے، پہلا حصّہ نبوّت کا ہے اور دوسرا حصّہ امامت کا، امامت کے دور میں کوئی امام نبی یا رسول نہیں ہوتا، مگر دورِ نبوّت میں بعض پیغمبر امام بھی ہوئے ہیں، چنانچہ ہم یہاں ان مشہور پیغمبروں کے اسمائے مبارک درج کرتے ہیں، جو اپنے اپنے زمانے میں امام بھی تھے:

۱۔ حضرت شیثؑ

۲۔ حضرت ہودؑ

۳۔ حضرت ابراہیمؑ

۴۔ حضرت اسماعیلؑ

۵۔ حضرت اسحاقؑ

۶۔ حضرت یعقوبؑ

۷۔ حضرت یوسفؑ

۸۔ حضرت ایوبؑ

۹۔ حضرت شعیبؑ

۱۰۔ حضرت ہارونؑ

۱۱۔ حضرت یوشع بن نونؑ

۱۲۔ حضرت الیسعؑ

 

۱۲

 

۱۳۔ حضرت داؤدؑ

۱۴۔ حضرت سلیمانؑ

۱۵۔ حضرت زکریاؑ

۱۶۔ حضرت یحییٰؑ، اور

۱۷۔ حضرت شمعون الصفاؑ

(ملاحظہ ہو کتاب “الامامۃ فی الاسلام” صفحات: ۱۴۵، ۱۴۷، ۱۴۹، ۱۵۱ ، ۱۵۳)

 

چنانچہ مقصد یہ ہے کہ امام کو پیغمبر کی انتہائی قربت و نزدیکی حاصل ہے اور جو مرتبہ رسول سے امام کو ملا ہے وہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوا، اس سے یہ ثابت ہوا کہ قرآنِ حکیم میں انبیائے کرامؑ کے جن اوصافِ کمالیہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ أئمّۂ طاہرینؑ سے بھی متعلق ہیں، پس یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ امامِ زمانؑ کے مبارک دیدار میں بہت سے فیوض و برکات مضمر ہیں، جن سے ہر مومن بقدرِ ہمت مستفیض ہوتا ہے۔

 

قرآن اور امام:

قرآنِ مقدّس اللہ تعالیٰ کا کلامِ حکمت نظام ہے، جس کی تعظیم و حرمت ہر دیندار مسلمان پر واجب ہے، اور اس سلسلے میں جو بھی مناسب آداب قولاً و فعلاً انجام دیئے جائیں وہ مستحسن قرار پائیں گے، بالکل اسی طرح امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی تعظیم و تکریم بھی واجب اور ضروری ہے، کیونکہ آپ بحکمِ ربّ العزّت نہ فقط معلمِ قرآن کی مرتبتِ عظمیٰ پر فائز ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ آنجناب خدائے حکیم

 

۱۳

 

کی کتابِ ناطق بھی ہیں۔

 

جس طرح قرآنِ عزیز کے تقدّس و شرف کے متعلق یہ ایک صریح گستاخی ہوگی، کہ اگر کوئی شخص یہ کہہ کر اس کی عزّت و حرمت کا عقیدہ نہ رکھے کہ قرآن اُس مکھی کو بھی نہیں اڑا سکتا جو اس پر جا بیٹھے، اسی طرح امامِ عالی مقامؑ کی بشریت کے کسی پہلو پر اعتراض اٹھانا، اور آنجنابؑ کی تعظیم و تکریم کا قائل نہ ہوجانا کسی انسان کی عقلی کمزوری بلکہ بہت بڑی غلطی ہے۔

 

قرآن کی مثال از روئے اسلام یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کو بڑی عقیدت و محبّت سے اپنانا چاہئے، سفر و حضر میں ساتھ رکھ لینا چاہئے، اس کو پڑھنا اور سمجھنا چاہئے اور پھر اس کے ارشادات کے مطابق عمل کرنا چاہئے، اسی طرح پہلے پہل امامِ عالی مقامؑ کو اخلاص و یقین سے اپنایا جاتا ہے، اپنے اندر اس کی دوستی و محبّت اور دیدار کا بھرپور جذبہ پیدا کیا جاتا ہے، پھر اس عقیدت مندی و اخلاص کیشی کے نتیجے میں امامِ برحق علیہ السّلام کی تعلیمات و ہدایات کا نور حاصل ہوتا ہے جس کی روشنی میں خدا و رسول کے احکام پر عمل کر کے ابدی نجات حاصل کی جاتی ہے۔

 

خانۂ کعبہ اور امام:

خانۂ کعبہ خدا تعالیٰ کا مقدّس گھر ہے، جس کی دلیل بس یہی کافی ہے، کہ پروردگارِعالم نے اسے اپنا گھر قرار دے کر بہت بڑی عزّت

 

۱۴

 

و حرمت بخشی ہے (۰۲: ۱۲۵، ۲۲: ۲۶، ۱۰۶: ۰۳)، اب اگر کوئی آدمی اپنی ہی عقلِ جزوی اور اپنی سی ناقص منطق کے معیار پر پرکھ کر خانۂ کعبہ کی حرمت و تعظیم کو بت پرستی سمجھتا اور اس کی تاویلی حکمتوں کا اقرار نہیں کرتا ہے، تو یہ اس کی کج فہمی اور بہت بڑی جہالت ہوگی، کیونکہ وہ کم از کم یہ باور نہیں کرتا ہے کہ اس میں اللہ کی کوئی حکمت و مصلحت ہوگی۔

 

اسی طرح امامِ زمان علیہ السّلام ہیں، کہ آنجناب مقامِ حقیقت پر خانۂ خدا کا رتبۂ عالی رکھتے ہیں، جس کے ثبوت میں قرآن و حدیث اور عقل و دانش کے متعدد روشن دلائل موجود ہیں، اور ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ بموجب: هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ (۵۷: ۰۳) اللہ تعالیٰ کا درجہ ہر عالَم میں ثابت اور موجود ہے، چنانچہ عالَمِ شریعت میں خدا کا گھر خانۂ کعبہ ہے اور عالَمِ حقیقت میں امامِ زمان علیہ السّلام کی پاک شخصیت حق تعالیٰ کا گھر ہے، کیونکہ شریعت ظاہر ہے اور حقیقت اس کا باطن، اور یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ ظاہر میں خدا کا ایک مخصوص گھر ہو اور باطن میں کوئی خاص گھر نہ ہو، بلکہ امرِ واقعی یہ ہے کہ خانۂ کعبہ مثال ہے اور امامِ عالی مقامؑ اس کا ممثول، اور کوئی شک نہیں کہ خدا کی حقیقت کی مثال اور اس کا ممثول دونوں چیزیں انتہائی مقدّس و متبرک اور لائقِ صد تعظیم ہیں۔

 

۱۵

 

آنحضرتؐ اور امامؑ:

یہاں حکمتِ خداوندی کا یہ خاص اصول خوب یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں جہاں کہیں بھی امورِ دین کے متعلق آنحضرتؐ سے کوئی ارشاد فرمایا ہے، تو اس میں آنحضورؐ کے علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے وہ تمام وسائل و ذرائع بھی خدا کے پیشِ نظر رہے ہیں، کہ جن سے کام لے کر رسولِ اکرمؐ حال و مستقبل میں دنیا والوں کی ہدایت و رہنمائی کرنے والے تھے، جس کی چند مثالیں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:

 

۱۔ حق تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے کہ:

وَ اِنَّكَ لَتَهْدِیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (۴۲: ۵۲)۔

اور یقیناً (اے رسول!) آپ راہِ راست کی طرف ہدایت کرتے ہیں۔ اللہ پاک کے اس فرمان سے یہ حقیقت قطعی طور پر فیصل ہوکر واضح ہوجاتی ہے کہ دینِ اسلام کی مستقل ہدایت کا مقدّس فریضہ تا قیامت آنحضرتؐ کے ذمّہ ہوگا، اور ظاہر ہے کہ یہ امر صرف اس صورت میں ممکن تھا کہ حضور نبیٔ کریمؐ قرآنِ مقدّس اور اپنے جانشین یعنی امامِ عالی مقامؑ کے توّسط سے دینی ہدایت کے اس فرضِ منصبی کو انجام دیتے رہیں، الحمد للہ ایسا ہی کیا گیا، اور یہی سبب ہے کہ اسماعیلی امامِ زمان علیہ السّلام کے امر و فرمان کے ذریعے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔

 

۲۔ سورۂ توبہ کی آیت نمبر ۷۳ میں فرمایا گیا ہے کہ: اے رسول

 

۱۶

 

کفار کے ساتھ (تلوار سے) اور منافقوں کے ساتھ (زبان سے) جہاد کرو اور ان پر سختی کرو (۰۹: ۷۳)۔ ظاہر ہے کہ جہاد کا یہ حکم (جاھد الکفار: کفار کے ساتھ جہاد کر) لفظی اعتبار سے صرف آنحضرتؐ ہی کو ہے، مگر اس کا مطلب خدا کے نزدیک یہ ہرگز نہیں کہ پیغمبرِاکرم یکہ و تنہا کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کریں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جہاد کے اس فرمان میں وہ تمام جنگی وسائل اللہ پاک کے پیشِ نظر ہیں جن سے کہ آنحضرتؐ جہاد کرسکتے ہیں، خصوصاً سردارانِ لشکر جو رسولِ خدا صلعم کی جانب سے مقرر ہوئے تھے، اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ خلیفۂ رسولؐ یعنی امامِ برحقؑ کا ذکرِ جمیل بہت سے قرآنی ارشادات میں اس طرح آنحضرتؐ کے ساتھ ساتھ ہے کہ عوام کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس میں نمائندۂ رسولؐ کا بھی تذکرہ ہے، پس نتیجہ یہ نکلا کہ دینِ اسلام میں پیغمبرؐ کے بعد امامؑ کی تعظیم واجب ہے۔

 

۳۔ آیۂ نور کا ایک پرحکمت ٹکڑا جو صرف تین لفظوں پر مشتمل ہے، نورٌ علیٰ نور (۲۴: ۳۵) ہے، اور اس کے اندر اتنی حکمتیں پوشیدہ ہیں کہ ان کے جاننے سے نور کی بہت سی حقیقتیں واضح ہوجاتی ہیں، چنانچہ “نورٌ علیٰ نور” میں سب سے پہلے یہ اشارہ ہے کہ نور ایک شخصیت کے بعد دوسری شخصیت میں منتقل ہوجاتا ہے، کیونکہ ایک روشنی پر دوسری روشنی کے یہی معنی ہیں، اور یہ بات نہ صرف اس لئے صحیح ہے کہ پیغمبرؐ اپنے وقت میں نور تھے اور آپ کے بعد امامِ برحقؑ نور قرار پائے، بلکہ یہ اس لئے بھی درست ہے کہ زمانۂ آدمؑ سے نور کی شخصیتوں کا یہ سلسلہ جاری ہے، پس ظاہر ہوا کہ قرآن اور اسلام کی رو سے امامِ زمانؑ کی عظمت و بزرگی

 

۱۷

 

مسلّمہ ہے، لہٰذا یہ عقیدہ حقیقت ہے کہ امامِ حاضرؑ کا دیدار پیغمبرؐ کے دیدار کی نمائندگی کرتا ہے اور پیغمبرؐ کا دیدار خدا کے دیدار کا قائم مقام ہے۔

 

وسیلۂ ہدایت:

جس طرح مذکورۂ بالا مثالوں میں اس قانونِ الٰہی کی وضاحت کی گئی کہ محمد رسول اللہ نے نہ صرف ذاتی طور پر دینِ الٰہی کی سرپرستی و رہنمائی فرمائی ہے، بلکہ حضورؐ نے بحکمِ خدا کتابِ سماوی اور امامِ برحقؑ کے وسیلے سے بھی اپنے علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے سرچشمے کو دنیا میں جاری و ساری رکھا ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ امامِ زمانؑ کی ہدایت رسولؐ کی ہدایت ہے اور رسولؐ کی ہدایت خدا کی، جیسا کہ اس آیۂ کریمہ سے ظاہر ہے:

وَ كَفٰى بِرَبِّكَ هَادِیًا وَّ نَصِیْرًا (۲۵: ۳۱)

اور ہدایت کرنے اور نصرت دینے کے لئے آپ کا پروردگار ہی کافی ہے۔

قرآنِ مقدّس کی اس پرحکمت تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سنّت و عادت کے مطابق بنی نوعِ انسان کی ہدایت کے لئے جو نظام مقرر فرمایا ہے، وہی نظامِ ہدایت اللہ کا پسندیدہ ہے اور اسی کی یہاں تعریف کی گئی ہے، اور وہ یہ ہے کہ خدا کی ہدایت و تائید ہمیشہ ہادیانِ برحقؑ کے وسیلے سے آتی رہی ہے پھر یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی ہدایت خدا کی ہدایت ہے، کیونکہ وہ

 

۱۸

 

حضرات مامور من اللہ (خدا کی طرف سے امر کئے گئے) اور واصل باللہ (خدا سے ملے ہوئے) کا عظیم مرتبہ رکھتے ہیں۔

 

اہلِ بیت اور امام:

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اہلِ بیتِ اطہار کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

و الذی نفسی بیدہ لا یدخل قلب رجل الایمان حتیٰ یحبکم للہ و لرسولہ:

ترجمہ: قسم ہے اس ذاتِ پاک کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ کسی آدمی کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ تم (اہلِ بیت) سے خدا اور اس کے رسول کے لئے دوستی و محبت نہیں کرتا۔ (مفتاح کنوز السنۃ، بحوالۂ ترمذی و مسند احمد بن حنبل)۔

اس حدیثِ شریف سے نہ فقط یہی کہ پنجتن پاکؑ یعنی اہلِ بیتؑ کی دوستی و محبت ضروری و لازمی قرار پاتی ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ زمانے کے امامؑ کی ولایت و دوستی بھی واجب ہوتی ہے، کیونکہ رسولِ کریمؐ کے بعد اہلِ بیتؑ کا مقصد ہی امامِ زمانؑ ہے، ہادیٔ زمانہؑ کی دوستی و محبت کے اس ثبوت کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس حقیقی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ امامِ برحقؑ کا مبارک دیدار حاصل ہو تاکہ اس پاک و پاکیزہ دینی محبت میں روز افزون ترقی ہوتی رہے۔

 

۱۹

 

اسی طرح حضورِ انورؐ نے مولانا علیؑ کے بارے میں فرمایا:

لا یحبہ الا مؤمن و لا یبغضہ الا منافق

ترجمہ: اس سے دوستی و محبت نہیں کرتا مگر کوئی مومن اور اس سے دشمنی و عداوت نہیں رکھتا مگر کوئی منافق (مفتاح کنوز السنۃ، بحوالۂ ترمذی، ابنِ ماجہ، مسند احمد بن حنبل) یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ جس طرح قرآن حق و باطل کے درمیان فرق و امتیاز پیدا کرنے کے لئے فرقان کی حیثیت سے ہے، اسی طرح علیٔ عالیؑ وہ معیارِ حقیقت ہیں، جس کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کون ہے اور منافق کون۔

 

آنحضرتؐ کا فرمانِ اقدس ہے کہ:

علی یحب اللہ و رسولہ و اللہ و رسولہ یحبانہ:

ترجمہ: علی خدا اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور خدا و رسول علی سے محبت کرتے ہیں (مفتاح کنوز السنۃ، بحوالہ مسند احمد بن حنبل)۔

نیز ارشاد ہے کہ:

انا دارالحکمۃ و علی بابھا:

ترجمہ: میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ (مذکورہ کتاب بحوالۂ ترمذی)۔

پس جاننا چاہئے کہ جو مرتبت علیؑ کی ہے وہی مرتبت امامِ زمانؑ

 

۲۰

 

کی ہے، کیونکہ وہی نورِ ولایت جو علیؑ میں تھا اب امامِ حیّ و حاضر میں جلوہ گر ہے۔

 

متذکرہ بالا احادیثِ شریف اور ان کے علاوہ دوسری بہت سی حدیثوں سے اہلِ بیتِ اطہارؑ اور امامِ زمانؑ کی عظمت و بزرگی اور فضیلت و کرامت ثابت اور مسلّمہ ہے، اور ان احادیث سے ولایتِ علیؑ سے متعلق آیاتِ قرآنی کی وضاحت ہوتی ہے، پھر اس میں کسی دیندار کو کیا شک ہو سکتا ہے کہ امام علیہ السّلام کی محبّت و دوستی اور دیدارِ پاک کے نتائج و ثمرات کے باب میں پوچھے، مگر ہاں، پوچھنا کچھ اس انداز میں صحیح اور مفید ہے کہ جس سے اس کے علم و معرفت میں اضافہ ہو، بہرحال الحمد للہ کہ حقیقی مومنین اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے محبوب رسول صلعم کے منشاء و مقصد کے مطابق امامِ زمانؑ سے جیسا کہ چاہئے دوستی و محبت رکھتے ہیں، اور ہر وقت اس شاہِ ولایت اور نورِ ہدایت کے مبارک و مقدّس دیدار کے بے حد خواہشمند اور مشتاق رہتے ہیں۔

 

مومن کا دل اور امام:

ارشادِ نبوّی کے مطابق بندۂ مومن کا دل خدا تعالیٰ کا عرش (یعنی تخت) ہے، لیکن یہاں سوچنے کی خاص بات یہ ہے کہ مومنین نورِ ایمان کی کمی بیشی کے لحاظ سے مختلف مراتب پر ہیں، اور اس سلسلے میں یہ کہنا بالکل حقیقت ہے کہ پیغمبر اور امام (صلوات اللہ علیہما)

 

۲۱

 

نورِ ایمان کے درجۂ کمال پر ٹھہرے ہوئے ہیں، لہٰذا ان دونوں انتہائی بزرگ ہستیوں کا قلبِ مبارک صحیح معنوں میں اور جیسا کہ چاہئے خداوندِ عالم کا عرش ہے، اور واقعاً اللہ پاک کا روحانی، نورانی اور عرفانی عرش یہی ہے، پس اس سے ظاہر ہوا کہ امامِ زمانؑ کے دیدارِ مقدّس میں بہت سی برکتیں پوشیدہ ہیں۔

 

اطاعت، محبت اور دیدار:

جیسا کہ آیۂ اطاعت (۰۴: ۵۹) سے ظاہر ہے کہ سب سے پہلے خدا کی اطاعت ہے، پھر رسول کی، اور اس کے بعد اولوالامر (یعنی أئمّۂ طاہرینؑ) کی، مگر سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری پیغمبر کے بغیر محال و ناممکن ہے، اور حقیقت میں پیغمبرؐ کی اطاعت امامِ زمانہؑ کے بغیر غیر ممکن ہے، اسی لئے زبانِ حکمت سے فرمایا گیا ہے ، کہ خدا کی محبت پیغمبر کے توسط سے اور آنحضرتؐ کی محبت امامِ وقتؑ کے ذریعے سے حاصل آتی ہے۔ پھر اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف اطاعت و محبت کی یہ مثال ہے، بلکہ خدا کی ملاقات اور دیدار کا سبیل بھی یہی ہے، کہ امامِ حیّ و حاضر کے مبارک دیدار کے وسیلے سے پیغمبرؐ اور خدا کی ملاقات و معرفت حاصل ہوسکتی ہے۔

 

۲۲

 

وسیلہ اور دعا:

۱۔ سورۂ نساء کی آیت نمبر ۶۴ میں زمانۂ حیاتِ رسول کے کچھ لوگوں کے متعلق ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:

اور اگر یہ لوگ اُسی وقت جبکہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا تمہارے پاس آتے پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگتے اور رسول بھی ان کے لئے بخشش طلب کرتا تو یہ ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا اور بہت مہربان پاتے (۰۴: ۶۴)۔

 

۲۔ اس حکمِ الٰہی سے یہ مطلب صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ ہادیٔ برحقؑ کے حاضر و موجود ہونے کی کیا اہمیت ہے اور مومنین کے لئے ان کی پاک و پاکیزہ دعا کا وسیلہ کس قدر ضروری ہے، اور یہ ایک واضح اشارہ ہے اس حقیقتِ حال کی طرف کہ جب مرشدِ کامل یعنی امامِ زمانؑ کا دیدار میسر ہوتا ہے تو اس وقت بعض مومنین کے دل معجزانہ طور پر پگھل جاتے ہیں، اور بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگتے ہیں، ایسے خوش قسمت مومنین کی یہ ظاہری و باطنی کیفیت خدا کے حضور میں نہ صرف توبہ اور خصوصی دعا کی حیثیت سے پیش ہوتی ہے، بلکہ پروردگارِ عالم کی اس عظیم الشّان نعمت کے لئے شکرگزاری کی عملی صورت بھی یہی ہے، اور یہ تمام برکتیں اور سعادتیں دراصل دیدارِ پاک کی وجہ سے ہیں۔

 

۲۳

 

۳۔ جب بندۂ مومن حق تعالیٰ کی عبادت و بندگی میں مصروف ہو جاتا ہے، تو وہ اللہ پاک کی حمد و ثنا اور ذکر و عبادت کے لئے بہت عام اور معمولی چیزوں کا سہارا لیتا ہے، مثلاً اس کی آواز کی یہ کیفیت ہوتی ہے، کہ وہ سب سے پہلے سانس کے ذریعے سے ہوا کو پھیپھڑے میں بھر لیتا ہے، پھر حلق، زبان، تالو، دانتوں اور ہونٹوں کی مدد سے اس جمع آوردہ ہوا کے حروف اور الفاظ بنا کر اُن کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کرتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان جو خود بھی مخلوق ہے وہ مذکورہ طریق پر سانس یعنی ہوا اور آواز سے حروف کی تخلیق کرکے اس کے وسیلے سے خدا کی عبادت کرتا ہے، اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ وہ دین و دنیا کے ہر ہر مقام پر وسیلہ کے لئے سخت محتاج ہے، اور اس کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا، لہٰذا دینی امور میں اسے ہادیٔ برحقؑ سے ہمیشہ رجوع ہونا چاہئے۔

 

دیدارِ خداوندی:

۱۔ اگرچہ یہ بات قرآنِ حکیم کی ایک اساسی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس بے چون و بے چگون ہے، تاہم یہ بھی خداوندِ تبارک و تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے، کہ نہ صرف عالمِ آخرت ہی میں بلکہ دنیا کی اونچی روحانیت میں بھی خدائے رحمان کے دیدارِ پاک تک رسائی ہو سکتی ہے، اور ہم یہاں اس مسئلہ سے بحث نہیں کرتے ہیں

 

۲۴

 

کہ ایسا ربّانی دیدار کس طرح حاصل ہوتا ہے؟ کسی وسیلے اور واسطے سے یا براہِ راست؟ بہرحال دیدارِ خداوندی حق ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم کا ارشاد ہے کہ:

 

۲۔ اُس دن کچھ چہرے ہشاش بشاش ہوں گے اپنے پروردگار کی طرف دیکھتے ہوں گے (۷۵: ۲۲ تا ۲۳)، پس قرآنِ حکیم کی اس بابرکت تعلیم کی روشنی میں یہ حقیقت نکھر کر سامنے آئی کہ دینِ اسلام میں پیغمبر اور امام (صلوات اللہ علیہما) کے مبارک دیدار کی اہمیت اس لئے ہے ، کہ جس طرح ان کی اطاعت و محبت خدا کی اطاعت و محبت ہے، اسی طرح ان کا مقدّس دیدار بھی خدا تعالیٰ کا پاک دیدار ہے، اور اسی معنیٰ میں حضورِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:

من رانی فقد را اللہ (یعنی جس نے مجھے دیکھا تحقیق اُس نے خدا کو دیکھا)۔

 

۳۔ سورۂ اعراف کی آیت ۷۹ میں بزبانِ حکمت ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ہادیٔ برحق سے دوستی و محبت نہ کرنا نصیحت و ہدایت سے انکار کرنے کا سبب بن جاتا ہے (۰۷: ۷۹)، کیونکہ انسان کی فطرت کی یہ خاصیت ہے، کہ کوئی آدمی کسی معلّم کی تعلیم یا کسی ناصح کی نصیحت کو اور خصوصاً مذہبی باتوں کو صرف اسی وقت قبول کرسکتا ہے، جبکہ یہ اُس سے عقیدت و محبت رکھتا ہے، اور اگر رشد و ہدایت کے سامنے مخالفت و عداوت کی دیوار کھڑی کر دی گئی ہو تو تعلیم و نصیحت آگے

 

۲۵

 

نہیں بڑھ سکتی ہے۔

 

۴۔ یہ وضاحت دینی تعلیمات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبّت براہِ راست حاصل نہیں ہوتی، بلکہ یہ پیغمبرؐ کے وسیلے سے میسّر ہوتی ہے، اور آنحضرتؐ کی اطاعت و محبّت کے لئے بھی وسیلہ چاہئے، اور وہ وسیلہ امامِ زمانؑ ہیں، جو دنیا میں حاضر اور موجود ہیں، جن کی محبّت تمام دینی محبتوں کی اصل و اساس کی حیثیت سے ہے، کہ اس کے نتیجے میں رسولؐ کی پھر خدا کی محبت حاصل ہوتی ہے۔

 

۵۔ قرآن کہتا ہے کہ خدا نے مومنین کو ایمان کی محبت عطا کی ہے، یعنی ایمان مومنین کے لئے بہت ہی عزیز اور محبوب قرار دیا ہے، اور اس کا اشارہ یہ ہے کہ پیغمبر اور امام (صلوات اللہ علیہما) جو ایمانِ مجسّم ہیں، ان سے دوستی اور محبت کی جائے۔

 

۶۔ سرورِ انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ:

من رانی فقد را اللہ : یعنی جس نے مجھے دیکھا اُس نے گویا خدا تعالیٰ کو دیکھا، حضورِ اقدس کا یہ مبارک ارشاد عظیم حکمتوں سے پُر ہے، منجملہ ایک یہ کہ اس فرمانِ نبوّی سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ رسولِ اکرمؐ اپنے وقت میں خدا کا چہرہ تھے، جس طرح آیۂ بیعت (۴۸: ۱۰) کی روشنی میں آپ کے دستِ خدا ہونے میں کوئی شک نہیں، اسی طرح بلا شک حضرت وجہ اللہ (چہرۂ خدا)

 

۲۶

 

کا بزرگ درجہ رکھتے تھے، اور آپ کے بعد أئمّۂ طاہرینؑ بھی اپنے اپنے زمانے میں چہرۂ خدا کے درجے میں ہیں، پس اس روشن حقیقت کے جاننے سے حقیقی مومنین کو بے حد خوشی ہوگی کہ امامِ زمانؑ کے مقدّس دیدار کے لئے وہ جس قدر مشتاق رہتے ہیں اس قدر ان کے ایمان کی روشنی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

 

۷۔ خطبۃ البیان یعنی کلامِ مولا علیؑ میں ارشاد ہے کہ:

انا وجہ اللہ فی السمٰوات و الارض۔ یعنی میں خدا کا چہرہ ہوں آسمانوں میں بھی اور زمین پر بھی، اس ارشاد کی تاویلی وضاحت اس طرح سے ہے کہ رسول اور امام (صلوات اللہ علیہما) خدا کا چہرہ اس معنیٰ میں ہیں، کہ وہ حضرات عالمِ دین میں خدا کے خلیفہ اور نائب ہیں، انہی کی شناخت و معرفت سے خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے، کیونکہ انہی کے دیدار کے وسیلے سے حق تعالیٰ کا دیدار ہوتا ہے اور انہی کی محبت میں پروردگارِعالم کی محبت پنہان ہے، پس دیدارِ الٰہی کا یقینی وسیلہ لقاءِ اللہ کا پہلا مرحلہ ہے، لہٰذا یہ مرحلۂ دوم کا نائب مناب ہے، یعنی پیغمبرؐ اور امامؑ کا دیدار حق تعالیٰ کے دیدار کا قائم مقام ہے۔

 

۸۔ اگر یہ حقیقت تسلیم کرلی جائے، کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، کیونکہ اسے کائنات و موجودات کی تمام چیزوں پر فضیلت و کرامت دی گئی ہے، پھر لازماً یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انسانِ کامل بنی نوعِ انسان

 

۲۷

 

میں سب سے اشرف و افضل ہے اور نیک انسانوں کی روحیں حسبِ مراتب فرشتے اور روحانئین ہیں، تو اس صورت میں یہ بھی ایک حقیقت ہوگی، کہ پیغمبرؐ اور امامؑ جو انسانِ کامل ہیں، وہ حق تعالیٰ کی قربت و نزدیکی کے درجۂ انتہا پر ہیں، بالفاظِ دیگر یوں کہنا چاہئے کہ وہ حضرات تو فنا فی اللہ اور بقا با للہ کی کیفیت میں ہوا کرتے ہیں، اگر وہ صاحبان اس طرح خدا سے واصل نہ ہوئے ہوتے اور راہِ خدا کی تھوڑی سی بھی مسافت باقی رہی ہوتی تو پھر اس صورت میں وہ کس طرح لوگوں کے حقیقی رہنما بن سکتے، پس ظاہر ہوا کہ انسانِ کامل کو کلّی طور پر خدا تک رسائی حاصل ہوتی ہے، لہٰذا امامِ زمانؑ کے دیدارِ فیض آثار کی سعادت لازمی شے ہے، تا کہ مومنین بطورِ کامل اپنے مولا و آقا کے حضور سے دعائے برکات حاصل کر سکیں۔

 

۲۸

 

“انا” اور “فنا”

 

حقیقی دیدار کے اس دلکش و دلپسند موضوع کے آخر میں مناسب ہے کہ “انا” اور “فنا” کے بارے میں بھی چند حقیقتوں کی وضاحت کر دی جائے، کیونکہ روحانی معشوق کے مبارک و مقدّس دیدار اور ملاقات کا مفید ترین نتیجہ تو یہ ہونا چاہئے کہ محبِ صادق کی انا (خودی) محبوبِ حقیقی کی حقیقت میں محو اور فنا ہوجائے، اور یہ سب سے عظیم سعادت صرف اس صورت میں میسر اور حاصل ہوسکتی ہے، جبکہ کوئی دانشمند مومن علم و عمل کا پورا پورا سہارا لیتا ہے۔

 

انا و فنا کے موضوع کے کئی پہلو ہیں، لہٰذا اس سلسلے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، لیکن ہم یہاں اپنے قارئین کی سہولت و آسانی اور دلچسپی کو مدِّنظر رکھتے ہوئے موضوع کے اس رخ کو سامنے رکھنا چاہتے ہیں، جس کی وضاحت کے دوران سخت الفاظ اور مشکل اصطلاحات کے استعمال کی ضرورت نہ ہو، چنانچہ انا یا انائیت کا مطلب ہے انسان کی خودی، جس کی طرف “میں” کہہ کر اشارہ کیا جاتا ہے، اور فنا کی مراد ہے اس انائیت و خودی کو مذہب کے خصوصی احکام کے تحت مٹا دینا، تاکہ مومن ہر قسم کی خامیوں اور کوتاہیوں سے نجات پاکر “رفیقِ اعلیٰ” سے

 

۲۹

 

واصل ہو جائے۔

 

آدمی کی انائے سفلی صرف اس وقت فنا ہو سکتی ہے، جبکہ وہ حقیقی محبت سے سرشار ہو کر دینی مقاصد کی تکمیل کی خاطر جسم و جان اور عقل کی قربانیاں پیش کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، کیونکہ انا کا قیام و بقا انسان کی ہستی پر ہے اور یہ ہستی انہی تین چیزوں کا مجموعہ ہے، لہٰذا قربانی و فنائیت اس اعتبار سے تین قسموں میں ہے، یعنی جسمانی، روحانی اور عقلی فنا۔

 

اگر حقیقی مومن کسی قسم کے دکھاوے کے بغیر ہمیشہ اپنے جسم کے ذریعے پرخلوص جسمانی خدمات سے دین کو تقویّت پہنچاتا ہے، تو نتیجے کے طور پر اس کی انا، خودی اور خودنمائی ختم یا کمزور ہوجاتی ہے، اسی طرح عبادت و ریاضت، ذکر و فکر اور حقیقی محبت میں گریہ و زاری کرنے سے بھی انا کی محویّت و قربانی ہوجاتی ہے اور یہ روح کے وسیلے سے ہے، اور عقل و دانش کی مخلصانہ قربانیوں سے بھی یہی مقصد حاصل ہوسکتا ہے، جس کے معنی ہیں دماغی اور ذہنی طور پر قوم اور جماعت کی خدمات انجام دینا اور خود کو عاجز و ناچیز سمجھ لینا، تاکہ انائے سفلی کا تصوّر ختم ہوکر جماعتی اور کلّی روح کی زندگی حاصل ہو۔

 

دینِ اسلام میں اللہ تعالیٰ کی جو بے پناہ رحمتیں میسر ہیں ان میں ایک عظیم اور خاص رحمت یہ ہے کہ مذکورہ قربانیوں ہی کی طرح مومن کی بے لوث مالی قربانی سے بھی انائیت و خودی کو مٹانے یا پاک و پاکیزہ کرنے کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے، اور اس قربانی کی اتنی بڑی اہمیت

 

۳۰

 

اس لئے ہے کہ اس کے برعکس کثرتِ مال کی خواہش اور بخالت کی وجہ سے انسان کے اندر خود پسندی ، خود نمائی، خود غرضی، دنیا پرستی، عیاشی اور معصیت جیسی بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں، جن کے نتیجے پر اس میں جذبۂ ایثار و قربانی اور محویّت و فنائیت کا کوئی مادّہ پیدا نہیں ہوسکتا، لہٰذا ان نفسانی بیماریوں کا سدِباب اور علاج صرف اور صرف مالی قربانیوں ہی سے ممکن ہے۔

 

قرآنِ حکیم کا مقدّس ارشاد ہے کہ:

كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗؕ-لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ (۲۸: ۸۸)۔

اس کی ذات کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے اسی کی حکومت ہے اور تم لوگ اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔

 

اہلِ دانش کے نزدیک اس آیتِ پرحکمت کا مفہوم یہ ہے کہ مومن صرف اس وقت اپنی اصلیت و حقیقت یعنی انائے علوی میں زندہ ہوکر دیدارِالٰہی (وجہ اللہ) کے قابل ہوجاتا ہے، جبکہ فنائے اختیاری یا فنائے اضطراری (موت) سے اس کے وجود و ہستی کی ہر چیز فنا ہوجاتی ہے، ورنہ ہر شیٔ (جیسے جسم، روح اور عقل، جو تزکیہ و تحلیل کے بغیر ہو) اس کے سامنے پردہ بنی ہوئی رہتی ہے، اور اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ: تم (طبعی طور پر) مرنے سے پہلے ہی (نفسانی طور پر) مرجاؤ۔ تا کہ اس اختیاری فنائیت کے وسیلے سے تم خدا سے واصل ہوسکو۔

 

صوفیوں کے بقول محویت و فنائیت کے لئے تین درجات مقرر ہیں: اوّل فنا فی الشّیخ، دوم فنا فی الرّسول، سوم فنا فی اللہ، یہ تصور اہلِ

 

۳۱

 

حقیقت کے نزدیک بھی بہت پسندیدہ ہے، مگر اس میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ جس پاک و پاکیزہ شیخ (پیر و مرشد) میں مومن کو فنا ہوجانا چاہئے، وہ صرف اور صرف زمانے کا امام علیہ السّلام ہی ہے، جس طرح آیۂ اطاعت کا پاک حکم ہے کہ: اے ایمان والو! خدا کی اطاعت کرو اور پیغمبر کی اطاعت کرو اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں (۰۴: ۵۹) ۔ چنانچہ اسی اطاعت کے حکم میں انہی تین مراتب کی پرحکمت محبت اختیار کر لینے اور درجہ بدرجہ ان میں فنا ہوجانے کا واضح منطقی اشارہ موجود ہے، کیونکہ فنائیت محبّت کا اور محبت اطاعت کا لازمی نتیجہ ہوا کرتی ہے۔

 

سورۂ رحمان جو عروس القرآن ہے اس کے دوسرے رکوع کے شروع ہی میں فنا کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ روئے زمین کی ہر مخلوق کے فنا ہو جانے اور پروردگار کی ذات (جو عظمت و بزرگی والی ہے) کے باقی رہنے کو جنّ و انس کے لئے عظیم ترین نعمت قرار دی گئی ہے، اس سے یہ حقیقت صاف طور پر روشن ہوگئی کہ عجز و انکساری سے انائیت و خودی کو مٹا مٹا کر فنا کر دینا اور محبوبِ حقیقی میں زندہ ہوکر ابدی طور پر باقی رہنا ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔

 

حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے اپنی کتاب “آپ بیتی” کے خاتمہ پر مختصراً مگر انتہائی جامع اور پُرمغز و پُرحکمت انداز میں محبّت، محویّت، خود فراموشی اور فنائیّت کا تذکرہ فرمایا ہے، آپ کے اس مبارک و مقدّس ارشاد کی روشنی میں غور سے دیکھا جائے تو مقصدِ حیات کے عظیم بھیدوں کا پتہ چلتا ہے اور منزلِ مقصود کی نشاندہی ہوتی ہے۔

 

۳۲

حقیقی عشق

حقیقی عشق

یکے از تصنیفاتِ
علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

حقیقی عشق

حقیقی عشق کے باب میں کچھ اظہارِ خیال کرنے کے لئے کوئی اور چیز نہیں بلکہ خود حقیقی عشق ہی چاہئے، وہی ہو تو کچھ دلکش باتیں ہوں گی، وہی ہو تو کوئی مطلب کسی کے دل میں اتر سکے گا، اس کے بے پناہ بیان میں سے جس قدر بھی تحریر میں آ سکے، خود حقیقی عشق کی روشنی میں ہونا چاہئے، کیونکہ جب وہ خود ہی ایک نور ہے، تو اس کو اس کی اپنی ہی روشنی میں کیوں نہ ظاہر کیا جائے۔

حقیقی عشق کب سے ہے؟ کہاں سے آیا؟ کیوں ہے؟ کس طرح ہے؟ کب تک ہوگا؟ کہاں کہاں ہے؟ کیا یہ مجسّم ہے یا مجرّد؟ اس کے حصول سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ اور اس کے نہ ہونے سے کیا نقصان ہوتا ہے؟ عشقِ حقیقی کی عظمت و مرتبت کیا ہے؟ اور اس کا پھیلاؤ کہاں سے کہاں تک ہے؟ اس قسم کے سوالات کے حل کے طور پر یہ کتاب لکھی گئی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے بہت دلچسپی اور بہت فائدہ ہوگا۔

۱

 

وہ نور ہے:

یعنی عشقِ حقیقی انوارِ الٰہی میں سے ایک نور ہے، ایک ایسا عظیم نور کہ اس سے بڑھ کر کوئی نور نہیں، کیونکہ جسم سے روح کا مرتبہ اونچا ہے، روح سے عقل کا درجہ بلند تر ہے اور عقل سے عشق ارفع و اعلیٰ ہے۔

ہم نے یہ دعویٰ تو کر ہی لیا کہ عشقِ حقیقی سب سے عظیم نور ہے، مگر ایمانداری تب ہوسکتی ہے، جبکہ یہ بھی سوال کیا جائے کہ ایسے نور کی روشنی کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟ اور یہ روشنی کس قسم کی تاریکی کو دور کر دیتی ہے؟

چنانچہ میں اس کا بیان ربّ العزّت کی توفیق سے کروں گا، مگر مجھے احساس ہے کہ یہ بہت بڑی بات ہے اور بہت اونچی بات ہے، اس لئے نہ صرف مجھے اِس رازِ حقیقت کو انتہائی ادب اور حرمت کے ساتھ بیان میں لانا چاہئے، بلکہ آپ کو بھی نہایت ہی قدردانی کے ساتھ ایسی باتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے، تا کہ حقائق و معارف کی قدر و قیمت قائم رہ سکے، اے میرے عزیزو! یہ جان رکھو کہ نور یعنی روشنی کسی چیز کے جل جانے سے پیدا ہوتی ہے اور اس کے بغیر کوئی نور ہے ہی نہیں، کہ جلنے جلانے کے سوا نور ہو، سو نورِ عشق عاشق کے جل جانے سے پیدا ہوتا ہے، اس میں جسم، روح اور عقل تینوں چیزیں مسلسل جلتی رہتی ہیں، یعنی ان کی تحلیل ہوتی چلی جاتی ہے، ہاں درست ہے یہ کام ترتیب سے اور اصول کے

۲

مطابق ہوتا ہے، کہ جسم جل کر ایکدم سے نورِ عشق نہیں بن سکتا، بلکہ جسم کی تحلیل سے روح کا احاطہ بڑھ جاتا ہے اور اس مطلب کو عام الفاظ میں ظاہر کرنے کے لئے ہم کہہ سکتے ہیں، کہ جسم کے حقیقی معنوں میں جلنے سے روح کا شعلہ بن جاتا ہے، روح کے جلنے سے عقل کا وجود بنتا ہے اور عقل کو اُس بے مثال محبوب کے حسن و جمال اور اوصافِ کمال کی محبت و حیرت کی آگ میں جلانے سے نورِ عشق پیدا ہو جاتا ہے۔

اِس مقام پر ہوشیار قاری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مجھ سے یہ سوال کرے، کہ اگر ہم یہ مان لیں، کہ عشق کی تحریک و تحلیل ہی سے روح اور عقل کا وجود بن جاتا ہے، تو پھر ہم اس کی کیا توجیہہ کر سکتے ہیں، کہ چھوٹے بچوں میں عقل کا مایہ اور روح ہے، اور جانوروں میں بھی روح ہے، لیکن ان میں عشق نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بچوں میں اگرچہ کوئی کامل عشق نہیں، تاہم عشق کا سایہ ہے یعنی عشق کی ایک خفیف صورت یا صلاحیت موجود ہے مگر یہ ابتدائی شکل میں ہونے کی وجہ سے کھانے پینے اور سونے جاگنے میں محدود ہے اس کے علاوہ یہ بھی ایک عام مشاہدے کی بات ہے، کہ بچے پیدا ہونے کے چند دن بعد روشنی کو حیرت سے دیکھنے لگتے ہیں، کچھ آگے چل کر وہ کھلونوں سے محبت کرتے ہیں، انسان کی یہی صلاحیت رفتہ رفتہ نشونما پا کر عشق کی صورت اختیار کر

۳

لیتی ہے۔

اب رہا جانوروں میں عشق کی کسی صورت کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں سوال، تو عرض یہ ہے کہ جانوروں میں بھی عشق کی مختلف ادنیٰ (یعنی کم سے کم تر) صورتیں موجود ہیں، مثلاً باہمی میل جول اور بچوں سے محبت، غذا کی خواہش اور حرص، اور ایسی عادتوں کی طرف ہر وقت مائل رہنا جو فطری طور پر جانوروں میں پائی جاتی ہیں۔

الغرض یہ بات حقیقت ہے کہ عشقِ حقیقی نور ہے جس کی روشنی عقل کی روشنی سے بڑھ کر ہے، کیونکہ جہاں انسانی روح فکری مشقت کی آگ میں جل کر عقل کی روشنی بن جاتی ہے وہاں عاشقِ صادق کی عقل جمالِ جانان کی تجلیوں کی سوزش سے نورِ عشق کی کیفیت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

نورِ عشق کی کیفیت و حقیقت کماحقہٗ بیان نہیں ہو سکتی ہے، اس لئے کہ عشق عاشق کے اُس بھرپور جذبے کو کہا جاتا ہے، جس میں سچا عاشق ماسوائے معشوق کے ہر چیز کو اور سب سے پہلے خود کو ہیچ سمجھتا ہے، یعنی وہ ہر چیز کو اور اپنی خودی کو ارادے کی انتہائی شدّت سے اپنے معشوق پر قربان کر دیتا ہے، اس کیفیت کی مثال کسی چیز کو جلا کر روشنی پیدا کرنے کی طرح ہے، ایسی حالت میں یقیناً ایک حقیقی مومن میں نورِ عشق کی روشنی پیدا ہوتی ہے، جس کی

۴

تجلّیوں کی تعریف و توصیف کے لئے مناسب الفاظ نہیں ملتے، اور حق بات یہ ہے کہ حقیقی عشق کی کیفیت احاطۂ بیان سے باہر ہے، تاہم یہاں قریب قریب کی مثالیں بیان کی جاتی ہیں۔

اُس روشنی کی مثال:

یعنی وہی سوال کہ نورِ عشق کیسا ہے؟ اس کی مثال کیا ہے؟ اور اس کو کس طرح سمجھ لیا جائے؟ جاننا چاہئے، کہ انسان اپنی باطنی حیثیت اور قلبی حالت میں ایک بہت ہی عظیم دنیا ہے، اور اس میں عشق سورج ہے، عقل چاند ہے، روح ستاروں کا مجموعہ ہے اور جسمانیّت و نفسانیّت رات کی طرح ہے، دوسری مثال میں عشق بادشاہ ہے، عقل وزیر، روح امیر اور جسم رعیّت ہے۔

عشق دنیائے دل کا نور اس لئے ہے، کہ جن جن تاریکیوں کو عقل دور نہیں کر سکتی ہے، ان کو عشق دور کر سکتا ہے، عشق ہر خام کو پختہ اور ہر نا تمام کو مکمل کر دیتا ہے، عشق وہ ہے جو جسم، روح اور عقل تینوں کو بیداری اور حقیقی زندگی بخشتا ہے، یہ انسان کی خرابیوں اور بری عادتوں کی اصلاح کرتا ہے، عبادت و بندگی اور روحانی ترقی کی مشکلات کو آسان کر دیتا ہے، مصائب و آلام کی تلخیوں کو خوشگوار بناتا ہے، خوف و ہراس کو امید و یقین کا رنگ دیتا ہے، یہ

۵

بعید کو قریب لاتا ہے، پرائے کو اپنا اور دشمن کو دوست بنا لیتا ہے، نفرت کو محبّت کی صورت دیتا ہے، بُرے کو اچھا قرار دیتا ہے، بد صورت کو خوبرو سمجھتا ہے۔

عشق کا مذہب و مسلک بھی ازبس عجیب ہے، یہ مذہب ایسا ہے کہ یہ ہونے کو ہے بھی اور نہ ہونے کو نہیں بھی، کیونکہ قانونِ عشق مذاہب کے تعصبات اور اختلافات و انتشارات سے بالا و برتر ہے، چونکہ عشق رحمتِ خداوندی کا نام ہے، جبکہ رحمت مہر و مہربانی اور محبّت و عشق کو کہتے ہیں۔

 

یہ وضاحت عشق کی روشنی میں ہے اور یہ خود بھی عشق کی اتنی روشنی ہے جتنی کہ تحریر میں آ سکتی ہے، اور جو عشق کی عملی روشنی ہے وہ اس سے الگ ہے اس کو عین الیقین سے دیکھنے کے لئے یہ پہلا زینہ ہے جو علم الیقین کا زینہ ہے، اس کے بغیر کوئی شخص عین الیقین کے زینے پر نہیں چڑھ سکتا۔

جس طرح روحانی روشنی مادّی روشنی سے مختلف ہوتی ہے، اور علم و عقل کی روشنی اس سے بھی مختلف ہوتی ہے، اسی طرح عشق کی روشنی بھی بالکل جدا اور قطعی نرالی چیز ہے، یہ محسوس ہوتی ہے دکھائی نہیں دیتی، مگر ہاں اس کے تحت عقل و روح کی روشنی جو خادم کی طرح کام کرتی ہے، وہ عشق کے زیرِ اثر تیز تر اور نمایان تر ہو جاتی ہے۔

۶

عشق کی پیدائش:

یہ عنوان اپنے اندر یہ سوال رکھتا ہے کہ عشق کب پیدا ہے؟ اور مومن میں کس طرح پیدا ہوسکتا ہے؟ اور اس میں اضافہ کیسے ہو؟ اس کے لئے جواب ہے کہ عشق ازل سے ہے، یعنی اس کی کوئی ابتداء نہیں، بلکہ یہ ابتداء و انتہا کے بغیر ہمیشگی کی ایک حقیقت ہے، کیونکہ یہ رحمان و رحیم کا وصف ہے، اور آپ ضرور باور کریں گے، کہ خدا کی ہر صفت قدیم ہوا کرتی ہے، یعنی جس طرح ذاتِ خداوندی ہمیشہ سے ہے اسی طرح اس کی صفات بھی ہمیشہ سے ہیں۔

اب یہ سوال بہت ضروری ہے کہ بندۂ مومن میں حقیقی عشق کا وصف کس طرح پیدا ہوتا ہے؟ اور کس طرح اس کی ترقی ہوسکتی ہے؟ جاننا ضروری ہے کہ عشقِ حقیقی پیدا نہیں ہوتا، مگر محبوب و معشوق کے حسن و جمال اور اوصافِ کمال کے مشاہدہ و مطالعہ سے ، یا اس کی گوناگون خوبیوں اور رعنائیوں کی تعریف و توصیف کے سننے سے، یعنی عشق کی پہلی شرط یہ ہے، کہ معلوم ہو کہ دلبر و دلدار ایسا ہے اور ایسی ایسی صفاتِ عالیہ کا مالک ہے۔ اس مطلب کو شناخت اور معرفت کہا جاتا ہے، اب معشوق کی شناخت جتنی مکمل اور زیادہ ہوگی اتنا عشق مضبوط اور وسیع ہوگا۔

۷

دوسری شرط تقویٰ ہے، یعنی پرہیزگاری کا ہونا لازمی ہے، کیونکہ حقیقی عشق ایک انتہائی مقدس معجزہ اور ایک نہایت ہی عالی شان صفت ہے، جو صرف پاک و پاکیزہ مومنین میں پیدا ہوتا ہے، اور جس دل میں ذرہ بھر گناہ ہو، عشق اس کے قریب بھی نہیں آتا۔

تیسری شرط خوش خلقی ہے، یعنی مومن کو نیک عادات اور اعلیٰ صفات کا حامل ہونا چاہئے، تا کہ اس قریبی نسبت سے حقیقی معشوق سے مومن کی دوستی، محبّت اور عشق ہوسکے، کیونکہ دوستی و محبّت جانبَین کے اوصاف کی موافقت و یک رنگی ہی سے ہوتی ہے اور مخالف و متضاد عادات والوں کے آپس میں ہرگز عشق پیدا نہیں ہوتا۔

ایک سوال اور اس کا جواب:

آپ کبھی تو کہتے ہیں کہ گریہ و زاری اور عجز و انکساری اختیار کرو، اور کبھی کہتے ہیں کہ جب تک اپنے اندر خدا کے اوصاف نہ پیدا کئے جائیں، عشقِ حقیقی نہیں ہوسکتا، حالانکہ اِس وضاحت میں تضاد پایا جاتا ہے، کیونکہ گریہ و زاری اور عجز و انکساری سے اللہ تعالیٰ بہت بالاوبرتر ہے، وہ تو عظمت و بزرگی اور قدرت و توانائی کا مالک ہے، اور یہ بھی ہے اگر ہمارے لئے ممکن ہے کہ ہم اپنے اندر

۸

خدا کی سی عادتیں پیدا کر لیں، تو پھر دوستی و عشق کی کیا ضرورت، کیونکہ جو کچھ وہاں ہے وہ یہاں بھی ہے، آپ ہی بتائیں کہ یہ سوال ہے یا نہیں؟ اور اس کا کیا جواب ہونا چاہئے؟

جواب: جاننا چاہئے کہ گریہ و زاری اور عاجزی و انکساری فی نفسہٖ مراد نہیں بلکہ اس کا نتیجہ مراد ہے، یعنی دل و دماغ کی صفائی اور روح کی پاکیزگی مقصود ہے اور روح کا پاک ہونا کسی قدر یعنی کسی حد تک خدائے پاک کی صفت کے مشابہ ہے۔ جس طرح شبنم کا ایک قطرہ کسی حد تک سمندر کی صفائی کے مشابہ ہوتا ہے، قطرہ اپنی محدود صفات میں جو کچھ بھی رکھتا ہے، وہ سمندر کی خاصیت کے مخالف اور متضاد نہیں، وہ سمندر سے دوستی رکھنے کا محتاج ہے، ان دونوں کے آپس میں دوستی ممکن ہے کیونکہ جانبَین میں یک رنگی اور ہم جنسیت و موافقت ہے، لہٰذا کوئی دانشمند نہیں کہہ سکتا کہ قطرہ سمندر کے برابر ہوگیا اب اسے سمندر سے محبت رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔

عشق طبیب ہے:

قرآنِ پاک کے پُرحکمت اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ جسم کی طرح روح بھی قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہے، بلکہ جسم کے مقابلے میں روح

۹

بہت زیادہ بیمار رہتی ہے اور اس کی بیماری بھی بڑی خطرناک ہوتی ہے، کہ اگر وقت پر علاج نہ کیا گیا تو انسان جہالت و گناہ کی موت ہلاک ہو جاتا ہے، اور بہت بڑی دانشمندی یہ ہے کہ ہر نوع کی روحانی بیماری کا علاج عشقِ حقیقی سے کیا جائے، کیونکہ اخلاقی، مذہبی اور روحانی بیماریوں کے لئے حقیقی عشق سے بڑھ کر کوئی علاج نہیں، ان معنوں میں عشق خود دوا بھی ہے اور خود طبیب بھی، جبکہ عشق خاموشی کی زبان سے کلام کرتا ہے، بتاتا ہے، سمجھاتا ہے اور سکھاتا ہے، کیونکہ نورِ عشق میں نورِ ہدایت کی روشنی ہے، جس میں نیک توفیق بھی ہے اور اعلیٰ ہمت بھی اور سچ پوچھو تو اس میں کیا نہیں سب کچھ ہے۔

عشق طبیب ہے اور معشوق طبیب ہے، میرے نزدیک دونوں باتیں ایک ہیں، کیونکہ عشق نمائندہ ہے معشوق کا، عشق قائم مقام ہے محبوب کا، جب عشقِ حقیقی ہماری روحوں کا علاج کرسکتا ہے تو ہم اسے کیوں نہ طبیب مانیں، اور جب بھی دل میں جانان کا کوئی ظہور ہوگا، تو عشق میں سے ہوگا پھر ہم یہ کیوں نہ کہیں کہ عشق چراغ کی روشنی ہے اور معشوق چراغ ہے، اگر تمہارے دل میں اُس دلبر و دلدار کا مکمل عشق ہے، تو مبارک ہو کہ عنقریب تم کو جانِ جان کا جلوہ دکھائی دینے والا ہے، وہ یار جانی تم کو اپنا مقدّس دیدار دینے والا ہے، اس کے پاک عشق نے ہی پہلے پہل تم کو اس قابل بنایا، کہ اب تم خود کو روحانی دیدار کے

۱۰

مستحق سمجھ رہے ہو، شروع شروع میں تمہیں روحانی بیماریوں کی شکایت رہتی تھی، اب یہ بات نہیں رہی، تو معلوم ہوا کہ عشق طبیب ہے جس نے دوا دی اور علاج کیا پھر شفا ملی۔

یہ نسخہ ہزار بار آزمودہ اور کامیاب ہے، کہ حقیقی محبّت اور دینی عشق کی دستگیری اور مدد حاصل کئے بغیر کوئی مومن ایمان اور ایقان میں آگے نہیں بڑھ سکتا، راہِ روحانیت میں ترقی نہیں کرسکتا اور نہ اس کی عبادت و بندگی اور ذکر و فکر میں کوئی جان ہوتی ہے، حقیقت میں ایسے شخص کی زندگی کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔

مرضِ روحانی کی علامتیں:

روحانی بیماری کی عام علامتیں یہ ہیں: شوقِ عبادت کا فقدان، ذکر و بندگی میں سستی و کاہلی، دل میں طرح طرح کے وسوسوں کا آنا، خوفِ بے جا، بے چینی، ذکر و عبادت کا سلسلہ قائم نہ رہنا، عبادت کے الفاظ ادا کرنے میں لغزش، قساوتِ قلبی (دل کی سختی) یعنی بندگی اور وعظ و نصیحت کے درمیان دل کا نرم نہ ہو جانا، اور گریہ و زاری کے فیض سے بے بہرہ رہ جانا وغیرہ۔

 

غیبت، شکایت، بدگوئی اور بیہودہ باتوں میں مصروف رہنے کی عادت، جھوٹ

۱۱

بولنا، معمولی باتوں میں بار بار قسمیں کھانا، نیک صحبت اور علم کی باتوں سے گریز کی خواہش، دینی قسم کی مایوسی، علمائے دین سے بغض رکھنا، غیروں کی باتوں سے دلچسپی، اور حرام کو چاہنا، خواہ وہ حرام صرف دل کی نیّت تک محدود ہو یا وہ قول حرام ہو یا کوئی حرام عمل ہو، ہر حالت میں حرام ہی ہے اور اس کی خواہش روحانی بیماری ہے جو بنیادی قسم کی ہے۔

غرض یہ ہے کہ خدا و رسول اور صاحبانِ امر کے حکم کے مطابق جو چیزیں ممنوع ہیں ان کو چاہنا اور ان سے دوستی رکھنا روحانی بیماری کی علامت ہے، جبکہ دوسری طرف سے دینی حکم کے موافق اعمالِ صالح سے دوستی ہونا روح اور دل کی صحت کی علامت ہے۔
مذکورۂ بالا تمام روحانی بیماریوں کا علاج عشق ہی سے کیا جا سکتا ہے، کیونکہ عشق ہی طبیب ہے، عشق ہی دوا اور علاج ہے اور عشق ہی شفا ہے، جبکہ عقیدہ، اخلاص، محبت، ایمان، یقین اور معرفت عشق کے بغیر نہیں، اگر دینی امور میں عشق ہے تو کوئی چیز مشکل نہیں، عشق وہ معجزہ ہے جس سے مشقت راحت بن جاتی ہے، عشق وہ ہے جو عاشق کو معشوق سے ہمکنار کر دیتا ہے بلکہ خود عاشق کو معشوق بنا دیتا ہے۔

عشق کے درجات:

۱۲

 

قرآنِ حکیم میں دینی قسم کی محبت و دوستی اور ولایت فرض کی گئی ہے، جس کا ہم یہاں عشق کے عنوان سے ذکر کر رہے ہیں، اگرچہ لفظِ عشق قرآن میں بظاہر موجود نہیں، لیکن مترادفات میں اس کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور حروفِ مقطعات میں بھی، اور اگر دقتِ نظر سے کام لے کر دیکھا جائے، تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آئیگی، کہ دنیائے قرآن کی تمام چیزیں عشقِ خدائی کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں، جس کا اشارہ  ۰۲: ۱۳۸  میں ہے، اور اس قول میں کیا شک ہو سکتا ہے، جبکہ خداوند عالم نے ارشاد فرمایا کہ:
وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ (۴۹: ۰۷) لیکن خدا نے تمہیں ایمانِ حبیب و عزیز قرار دیا اور اس کی خوبصورتی و عمدگی تمہارے دلوں میں ظاہر کر دی، یعنی ایمان نہ صرف محبّت و جاذبیّت و دلکشی کی تاثیر ہے بلکہ اس میں یہ خاصیت بھی ہے کہ جب ایک حقیقی مومن کے دل کی آنکھ کھل جاتی ہے تو اس وقت ایمان اس کے روحانی مشاہدے میں تجلّیاتِ نورانیّت کی جنّت بن کر سامنے آتا ہے، اس کا مختصر مطلب یہ ہوا کہ ایمان پیارا ہے، وہ پیار چاہتا ہے، ایمان ہر چیز سے حسین اور خوبصورت ہے، کیونکہ حکمت میں ایمان ہی بہشت ہے، اور اسی میں تمام لذّتیں پوشیدہ و پنہان ہیں، اس میں کسی چیز کی کمی نہیں۔

جب ایمان پیار اور محبت کا سرچشمہ ہے، جب یہ حقیقی محبت کی دعوت کرتا

۱۳

ہے، جب اس کی ہر بات اور ہر کام میں مہر و شفقت ہے اور جب اس کا انجام حقیقی عشق ہے کیوں نہ مانیں کہ دین محبت ہی محبت ہے۔ اس قول کی مراد یہ ہے کہ قرآن و سنّت کی تعلیمات میں ہمیشہ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دین کے تمام امور خوشی اور محبت سے انجام دیئے جائیں، کیونکہ دین میں اکراہ (زبردستی، ۰۲: ۲۵۶) نہیں، یعنی دین میں ہر بات اور ہر کام خوشی اور محبت کے تصور سے کرنا ہے اور یہی طریقہ سب سے بہتر اور یہی تصوّر سب سے ارفع و اعلیٰ ہے، اور خدا کی خوشنودی کا سبیل بھی یہی ہے، اگرچہ دین میں جہاد اور خوفِ خدا جیسی چیزیں بھی ہیں، لیکن انجام میں ۔

اب ہم یہاں حقیقی محبّت اور نورانی عشق کے مراتب و درجات کے باب میں کچھ تذکرہ کرنا مناسب سمجھتے ہیں، کہ اس کا سب سے اونچا درجہ اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے، پھر حضرت رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپؐ کے اہلِ بیت اطہار و أئمّۂ پاک علیہم السّلام کے عشق کا مرتبہ ہے، پھر گروہِ مومنین کی محبّت ہے، اور اس کے بعد نیک باتوں اور اچھے کاموں سے محبّت رکھنے کا رتبہ ہے، ظاہر ہے کہ خدا و رسولؐ سے محبّت و عشق رکھنے میں کوئی اختلاف نہیں، اور نہ ہی مومنوں کے آپس میں ایمانی دوستی و محبّت رکھنے کی بابت کوئی شک ہے، لیکن مقامِ تعجب ہے کہ امیرالمومنین یعنی امامِ زمانؑ کی محبت کے باب میں لوگوں

۱۴

کو کیوں سوال پیدا ہوتا ہے! اور بعض دفعہ اہلِ بیتِ اطہارؑ کی محبّت کے متعلّق بھی تأمل کیا جاتا ہے، حالانکہ اہلِ بیتِ رسول اور امامِ زمانؑ کی دوستی و محبّت مایۂ ایمان اور ذریعۂ عرفان ہے۔

عشق کے مقاصد:

یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ عشق کے بہت سے مقاصد ہیں، جو ابتداء سے لے کر انتہا تک ترتیب وار اور درجہ وار ہیں، اور ان کے آخر میں جو سب سے عظیم مقصد ہے، وہی اس سلسلے کا مقصدِ اعلیٰ ہے، اور وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا مبارک عشق ہے۔

ذاتِ سبحان کا مقدّس عشق بلا واسطہ حاصل نہیں ہوتا، یہ صرف پیغمبر برحقؐ ہی کے وسیلے سے ممکن ہے، پیغمبر علیہ السّلام کی جانب سے عشقِ الٰہی کے رستے کی ہدایت اس وقت مل سکتی ہے، جبکہ ہم رسول و اہلِ بیت اور أئمّۂ ہدا علیہم السّلام سے دوستی و محبت رکھیں، قانونِ الٰہی یہی ہے، اسی میں دین کی تمام حکمتیں پوشیدہ ہیں، یہیں سے اسرارِ معرفت کا ظہور ہوتا ہے، یہی راستہ صراطِ مستقیم کہلاتا ہے، اسی مقام پر نور ملتا ہے، اور یہی طریقہ اسلام کی اصل اور روح کے عین مطابق ہے۔
۱۵

دینی محبّت اور حقیقی عشق اس لئے ضروری ہے کہ اس سے فرائضِ منصبی کی ادائیگی میں بڑی حد تک آسانی پیدا ہو جاتی ہے، دین کی لگن اور وابستگی اسی میں ہے، جذبۂ ایثار و قربانی اس کے بغیر نہیں پیدا ہوسکتا، اسی حقیقی عشق کے حاصل ہونے سے دنیا کی محبّت اور خواہشاتِ نفس پر قابو پانا ممکن ہے، یعنی اسی کے ذریعے سے باطل چیزوں کی محبّت زائل یا کم ہوسکتی ہے، اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے، کہ دوزخ کے خوف اور بہشت کی طمع سے بالاتر ہوکر خدا و رسولؐ اور صاحبِ امرؑ کی حقیقی اطاعت اسی وسیلے سے کی جا سکتی ہے، یہی تسلیم و رضا کا اصل طریقہ ہے، یعنی خود کو خدا کے سپرد کر دینے اور اس کی خوشنودی کا طالب رہنے کا راستہ یہی ہے، اور تائیدِ غیبی و نصرتِ خداوندی بھی اسی حقیقی عشق میں کارفرما ہے۔

عشق کا ذریعہ:

اگر کوئی پوچھے کہ عشق کا ذریعہ کیا ہے؟ تو بتا دینا کہ عشق کا اصل ذریعہ اور بنیادی وسیلہ خود معشوق ہی ہے، کیونکہ عشق کی علتِ اولیٰ وہی ہے، یہ اسی کی وجہ سے ہے کہ عاشق دردِ عشق میں مبتلا ہوا ہے، اور اس پر طرہ یہ کہ میں اکثر عاشقوں کی محفل میں جا کر انکے دل کے زخموں پر نمک پاشی اس طرح

۱۶

سے کرتا ہوں، کہ نظم و نثر کی صورت میں یار جانی کے حسن و جمال کی تعریف و توصیف کرتا ہوں، اگر چہ یہ میرے بس کی بات تو نہیں ہے، کہ اس شاہِ خوبان کی لاتعداد خوبیوں میں سے کسی ایک خوبی کی درست نقشہ کشی کرسکوں، لیکن تذکرۂ حسنِ جانان کی تاثیر کا یہ عالم ہے، کہ جوں ہی محبوب کا نام لیا گیا، ادھر عاشقوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کے آبدار موتی برسنے لگے، میں نہ سہی کوئی اور سہی، مگر حق بات یہ ہے کہ میرے دلبر و دلستان کی بے مثال و لازوال زیبائی و رعنائی کی پیاری باتیں کرنے سے اہلِ عشق کی عاجزی و انکساری کی حد ہو جاتی ہے، جس سے اُن کا عشق اور بھی قوّی ہو جاتا ہے، کیونکہ ان کے آئینۂ دل میں اس گریۂ و زاری سے صفائی اور جِلا پیدا ہو جاتی ہے، اور اس میں یارِ دل نشین کے چہرۂ زیبا کا عکس جھلکتا رہتا ہے۔

اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ عشق کے ذریعے کی عملی وضاحت کر دی جائے، تا کہ معلوم ہو، کہ کس طرح حقیقی عشق میں اضافہ ہوسکتا ہے، جس کے متعلق واضح طور پر مثال پیش کر کے بتایا گیا کہ عشق حسن و جمال کی دلکشی و جاذبیّت کا نام ہے، چنانچہ اگر عشق میں اضافہ کرنا ہے تو بار بار خصوصی طور پر یعنی نورانیت میں دیدارِ یار چاہئے، لیکن ایسا دیدار ہر عاشق کو کہاں حاصل ہوتا ہے، کوئی اور عام دیدار کا سہارا لیا جائے، مثلاً چند ہم خیال عاشق باہم مل کر

۱۷

خلوت و فراغت میں عشق اور معشوق کی پیاری پیاری باتیں کر لیا کریں، یہ ایک طرح کا دیدار ہے یعنی اس ذریعے سے روحانی محبوب تصور اور خیال میں آسکتا ہے، یہ کام مجمع کے علاوہ تنہائی میں بھی ہو سکتا ہے۔

حقیقی محبّت کے فوائد:

حقیقی محبّت جب شدید ہو، تو اُسے عشق کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں، کہ عشق ایک نور ہے، اور جاننا چاہئے کہ روحانی یعنی باطنی نور کے اوصاف ظاہری اور مادّی نور کے مقابلے میں ارفع و اعلیٰ اور افضل و اکمل ہوا کرتے ہیں، مگر یہ بیان، جس میں ہم نے نورِ عشق کی مثال سورج سے دے کر دونوں کے فرق کو اعلیٰ اور ادنیٰ سے ظاہر کیا، میری مجبوری اور بے چارگی کا ثبوت ہے، چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک۔

بہرحال نورِ محبّت میں عشق اور عقل و روح کی روشنی ہے، یعنی اس کی بدولت عاشقِ صادق کے باطن میں دنیائے محبّت، دنیائے دانش اور دنیائے روحانیّت روشن ہو جاتی ہیں، اِس نور میں جیسا کہ ہونا چاہئے گرمانے، پگھلانے، جلانے اور ہمرنگ و ہم صفت بنا لینے کی خاصیتیں موجود ہیں، جن کی بدولت ایک خام و ناتمام انسان پختہ اور کامل ہوجاتا ہے، دل میں رقت و نرمی کی کیفیت پیدا ہو جاتی

۱۸

ہے، جس میں بہت سی رحمتیں اور برکتیں پوشیدہ ہیں، گناہوں کے ڈھیر میں آگ لگائی جا سکتی ہے، جس طرح دنیا کی آگ لکڑی ہو یا کوئلہ ہر قسم کے ایندھن کو اپنا رنگ اور اپنی صفت عطا کرکے اپنا لیتی ہے، اسی طرح نورِعشق، جس میں آتشِ محبّت ہے، نیک انسانوں کے علاوہ کسی سیاہ کار کو بھی جلا جلا کر انگارا اور شعلہ بنا سکتا ہے، اِس حالت کو فنائے عشق کہا جاتا ہے۔

ایک عظیم حکمت:

قرآنِ حکیم کی ۲۷: ۰۸  میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: پس جب موسیٰؑ اُس آگ کے پاس آئے تو ان کو آواز آئی کہ مبارک ہیں جو اس آگ کے اندر ہیں اور جو اس کے گرد ہیں اور وہ خدا جو سارے جہان کا پالنے والا ہے پاک و پاکیزہ ہے۔ (۲۷: ۰۸)۔

آپ غالباً سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ قرآنی قصّہ حضرت موسیٰؑ اور وادئ ایمن کا ہے، جہاں ان کو (پہلے پہل) کچھ دور سے آگ کی روشنی نظر آئی تھی، مذکورۂ بالا ارشاد میں اسی مطلب کا تذکرہ ہے، اب یہاں چند اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں، کہ وہ آگ کس نوعیّت کی آگ تھی؟ کیا وہ آتشِ عشقِ الٰہی تھی یا ذاتِ خدا کی تجلّی؟ اس کے اندر کون تھے اور اس کے گرد کون؟ اگر آپ یہ کہتے ہیں،

۱۹

کہ اُس روشنی کے اندر ذاتِ سبحان مخفی تھی، تو پھر سبحان کا کیا مطلب ہوا؟ اس کے علاوہ یہ بھی ایک بہت بڑا سوال ہے کہ جو کوئی اُس مقدّس آگ کے اندر ہے اور جو اس کے گرد ہیں ان کو اِس وجہ سے برکت دی گئی ہے کہ وہ آگ میں اور اس کے قریب ہیں، تو کیا آپ یہ بات ماننے کے لیے تیار ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی دوسری چیز کی بدولت “برکت دیا گیا” کہلاتا ہے؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔

میں نے اس کتابچہ کے شروع ہی میں یہ بتا دیا ہے کہ عشق انوارِ الٰہی میں سے ایک نور ہے، ایک ایسا عظیم نور کہ اس سے بڑھ کر کوئی نور نہیں، جس کا مظہر انسانِ کامل ہے، جو عشقِ خداوندی کا معجزاتی آئینہ ہے، تم سورج سے کہو کہ وہ تمہارے پاس آجائے اور اس کے لئے بہت کچھ منت سماجت کرو پھر بھی نہیں آئے گا، لیکن تم اس کو جیسے ہی آئینہ دکھاؤگے وہ اس میں ایک طرح سے تمہارے پاس اُتر آئے گا، یہ اس مطلب کی مثال ہے، کہ ہادئ برحقؑ اوصافِ ربّانی کے ظہور کا آئینہ ہے، چنانچہ خدا کی اُس سنّت کے مطابق جس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی، موسیٰؑ سے پہلے بھی ہادی تھا، جس کے وسیلہ اور توسط سے موسیٰ علیہ السّلام نے عشقِ الٰہی کی تجلّی دیکھی، جب سورج کی تجلّی آئینے سے ظاہر ہوتی ہے، تو اُس وقت آئینہ روشنی کے اندر ہوتا ہے اور دیکھنے والا اس کے گرد رہنے والوں میں سے ہوتا ہے، مذکورہ آیت کا اشارہ اِسی عظیم حکمت کی طرف تھا۔

۲۰

معشوق میں عشق:
آپ تو یہ کہتے ہیں کہ عشق صرف عاشق کا وصف ہے، کیونکہ یہ اُسی سے ظاہر ہوتا ہے، اور یہ کیفیّت و حقیقت اُسی کے دل و دماغ میں پائی جاتی ہے، لیکن میں کہتا ہوں کہ عشق کا اصل سرچشمہ خود معشوق ہی ہے، لہٰذا عشق سب سے پہلے معشوق کی ذات میں ہوتا ہے، اس کا ابتدائی ظہور محبوب ہی سے ہونے لگتا ہے، اور عشق یا دعوتِ عشق کا یہ ظہور ظاہری اور باطنی اوصاف کے حسن و جمال کی تجلّیات کی حیثیت میں ہے، جو ہر وقت اہلِ بصیرت اور اصحابِ وفا کو اپنی طرف متوّجہ کئے رکھتا ہے، اور عشق و محبّت سب سے پہلے معشوق کی ذاتِ عالی صفات میں موجود ہونے کا ثبوت یہ ہے جو حدیثِ قدسی میں ارشاد ہوا ہے کہ:

 

کنت کنزاً مخفیاً فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق ، میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا سو میں نے اِس بات سے محبت کی کہ میرا تعارف ہو پس میں نے خلق کو پیدا کیا۔
آپ نے دیکھا کہ محبّت سب سے پہلے کہاں پیدا ہوئی، یا یہ کس ذات میں موجود تھی، یہی نا کہ محبّت پہلے پہل خدا تعالیٰ میں تھی، اور وہ کچھ اِس طرح کہ اللہ تعالیٰ کی دوسری تمام صفات سے پیشتر محبّت کا ظہور ہوا، یعنی ربّ العزّت کو اس امر سے محبّت ہوئی کہ اُس کی شناخت و معرفت ہو، پھر ہمیں کسی جھجک کے

۲۱

بغیر یہ بھی کہنا چاہئے کہ خدا کو ازل ہی سے اپنے عاشقوں اور عارفوں سے محبّت اور عشق ہے، اس لئے کہ اس کو اپنے تعارف کرانے سے عشق ہے اور اس لئے کہ اس کو اپنے جلال و جمال سے عشق ہے۔

خدا میں عشق:
عشق اگر ہم میں ہے تو ناتمام و نامکمل ہے، اور اگر یہ کسی کامل انسان میں ہے تو مکمل اور ہر قسم کی خوبیوں سے بھرپور ہے اور جہاں یہ خدا میں ہے، تو وہاں پر یہ ایک مقدّس نور ہے، ایک خداوندی صفت ہے، بلکہ جملہ صفاتِ الٰہی میں عشق کے معنی پائے جاتے ہیں، کیونکہ عشق و محبّت رحمت کے معنی سے مختلف نہیں، یہ خود رحمت ہے یعنی مہر۔ اور رحمت یا کہ مہرِ الٰہی نے کائنات و موجود کو ظاہراً و باطناً گھیر لیا ہے، اور ہر چیز رحمت کے بے پایان سمندر میں ڈوبی ہوئی ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ عشق خدا کے اوصاف میں موجود ہے، مگر اس طرح سے نہیں جس طرح کہ ہم میں اور تم میں ہے، وہاں تو شانِ بے نیازی اور بڑائی اور بزرگی کی انتہا پر ہے، ہم عشق میں گریہ و زاری کرتے ہیں، ہم میں اضطراب اور بے قراری و بے تابی کی کیفیت ہوتی ہے، مگر خدا کی شان میں ایسا کوئی تصوّر درست نہیں، سمندر کا پانی انتہائی پروقار اور خاموش ہوتا ہے، مگر ایک چھوٹی سی ندی کے

۲۲

سامنے جہاں کوئی نشیبی علاقہ آتا ہے اور جہاں پتھر آتے ہیں وہاں وہ شور مچاتی ہے، کیونکہ اُس کو چوٹ آتی ہے، دھکا لگتا ہے اور صدمہ پہنچتا ہے، مگر سمندر کو کچھ نہیں ہوتا۔

خام عشق اور پختہ عشق:

اگر کوئی آدمی ایسا ہو کہ وہ عشقِ حقیقی کا دعویٰ کرتا ہے اور شاید یہ سمجھتا ہے کہ وہ عاشقِ صادق ہے، تو اسے اپنے آپ کو آزمانا چاہئے ، اور یہ بات ہمیشہ کے لئے پیشِ نظر رکھنا چاہئے، کہ عشق کا پھل شروع شروع میں خام و ناتمام ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ کچا پھل پختہ ہو جاتا ہے یعنی یہ پک جاتا ہے، کچے اور پکے میں فرق و امتیاز رنگ، بو اور ذائقہ سے ہوسکتا ہے، ویسے تو رنگینی اور خوشبو اس وقت میں عمدہ قسم کی ہوتی ہے جب کہ درخت میں پھل لگنے کے لئے پھول کھلتا ہے، مطلب یہ ہے کہ حقیقی عشق کا ثبوت اخلاق کی بلندی اور علم و حکمت کی پختگی کے بغیر ممکن نہیں۔

حقیقی عشق اور مجازی عشق:

جب یہ کتابچہ عشق کی پیاری پیاری باتوں پر مبنی ہے، تو لازمی ہے کہ

۲۳

کچھ مختصر سا بیان عشقِ مجازی کا بھی کر دیا جائے۔ چنانچہ جاننا چاہئے ، کہ عشقِ حقیقی کے مقابلے میں عشقِ مجازی ایسا ہے جیسے نور کے مقابلے میں ظلمت، خیر کے سامنے شر، کیونکہ یہ عدل ہے اور وہ ظلم، یہ جنّت کا رستہ ہے اور وہ دوزخ کی راہ، اس میں انسان کی عزّت و شرافت اور روسپیدی ہے اور اُس میں ذلت و کمینگی اور روسیاہی، اِس کا نتیجہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کی صورت میں نکلتا ہے اور اُس کا انجام غضبِ الٰہی اور عذابِ جہنم ہے، حقیقی عشق سے علم و حکمت کے سرچشمے پھوٹتے ہیں اور مجازی عشق ہر قسم کی ظاہری اور باطنی بیماریوں کی جڑ ہے۔ پس دانشمند کو چاہئے کہ وہ ان دونوں باتوں کے نفع و نقصان کے بارے میں لوگوں کو سمجھا دے اور نصیحت کرے۔

 

حکمتِ تسمیہ اور اسمائے اہلِ بیت

حکمتِ تسمیہ اور اسمائے اہلِ بیت

فرمانِ مبارک

بذریعۂ رادیو، بنامِ جماعۂ ہونزہ و گلگت

بمبئی ۱۰ مارچ ۱۹۴۰ء

تمام جماعۂ شمالی سرحداتِ ہندوستان مثلاً چترال، ہونزہ، گلگت، و بدخشان تمام دوستداران و مخلصان رابد عائے خیر یاد میکنم، یقین دارید کہ نورِ محبت و لطفِ من برسائرِ جماعۂ ہونزہ مثلِ خورشید خواہد رسید۔ مرد و زن، صغیر و کبیر برنا و پیر ھمہ فرزندانِ روحانیٔ من ہستید، ہرگز ازشما فراموش نیستم و نخواہم کردہم در دنیا و ہم در آخرت۔

بہ آموختنِ علمِ فرزندانِ خود سعی نمائید و دانستنِ زبانہائے یورپ و زبانِ انگلیسی جہد کنید، اطاعتِ حاکمِ وقت کنید، برکوچکان و زیر دستان مہربان شوید۔

 

ارشاد از حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ

 

۱

 

ترجمہ

 

فرمانِ مبارک بذریعۂ ریڈیو بنامِ جماعتِ ہونزہ و گلگت

بمبئی ۱۰ مارچ ۱۹۴۰ء

شمالی سرحداتِ ہندوستان کی تمام جماعتوں مثلاً چترال، ہونزہ، گلگت، اور بدخشان کے تمام دوستداروں اور اخلاص مندوں کو نیک دعا میں یاد کرتا ہوں، یقین رکھو کہ میری محبت و عنایت کا نور ہونزہ کی پوری جماعت پر سورج کی طرح طلوع ہوجائے گا۔

مرد، عورت، چھوٹے، بڑے، جوان اور بوڑھے سب میرے روحانی فرزند ہیں، میں تم کو ہر گز فراموش نہیں کرتا، اور نہ کبھی فراموش کروں گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

اپنی اولاد کو علم سکھانے کے لئے کوشش کرتے رہنا، یورپ کی زبانیں اور انگلش سیکھنے کے لئے کوشان رہنا، اپنے وقت کے حاکم کے حکم کو ماننا، چھوٹوں اور ماتحتوں پر مہربان ہوجانا۔

ارشاد از حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ

 

۲

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

دیباچہ

 

زیرِ نظر کتابچہ حضرت علامہ نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی صاحب کی پُرحکمت کتابوں میں سے ہے۔ اگرچہ ضخامت کے اعتبار سے مختصر ہی سہی لیکن عِلمی برتری کے اعتبار سے جتنا اہم ہے، اس کا اندازہ پڑھنے والے حضرات خود ہی کریں گے۔ أئمّۂ ھُدا علیھم السّلام کے اسمائے مبارک کی تعریف و توصیف کے اعتبار سے اس کتابچہ کا عنوان “حکمتِ تسمیہ اور اسمائے اہلِ بیتؑ” رکھا گیا ہے جو صوری و معنوی خوبیوں کا ایک بہترین مرقع اور آئینہ ہے۔ صوری لحاظ سے اس لئے کہ اس عنوان کے ذریعے اہلِ بیتِ اطہار صلوات اللہ علیھم کے اسمائے عظام کے معنی اور حکمتِ تسمیہ یعنی نام رکھنے سے متعلق بنیادی باتوں کو واضح کیا گیا ہے اور معنوی طور پر اس لئے کہ أئمّۂ پاک علیھم الصلوۃ والسّلام کے اسمائے مقدّسہ میں پوشیدہ علم و معرفت کے خزانوں کو حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

 

۳

 

چنانچہ اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ جاننا از بس ضروری ہےکہ دینِ حق میں اہلِ بیتِ اطہار علیھم السّلام انتہائی پاکیزگی، تقدّس، روحانیت اور نورانیت کے مالک ہیں، قرآن و حدیث میں جا بجا ان کی عظمت و بزرگی اور بشری کمالات کی شہادتیں ملتی ہیں اور یہ پاک و نورانی ہستیاں حضرت محمدؐ، حضرت علیؑ، حضرت فاطمۃ الزہراؑ، حضرت حسنؑ اور حضرت حسینؑ ہیں، جن کے پاک و پاکیزہ گھر میں قرآن نازل ہوا اور جن کی برکت سے دنیا میں اسلام کی روشنی پھیل گئی۔

 

اہلِ بیت کے اس تصوّر میں عجیب طرح کی حکمت ہے، وہ یہ کہ پیغمبرِ اکرمؐ کے دو گھر تھے، ایک ظاہری و جسمانی اور دوسرا باطنی و روحانی، رسولِ خدا صلعم کے خانۂ ظاہر میں وہ سب افراد حاضر تھے، جو ظاہری لحاظ سے اہلِ خانہ تھے، مگر خانۂ روحانیت و نورانیت میں سب سے پہلے وہ حضرات موجود و حاضر ہوا کرتے ہیں جن کو خدائے بزرگ و برتر ہر طرح سے برگزیدہ فرماتا ہے، لہٰذا بحقیقت اہلِ بیت پنجتن پاک اور ان کی نسل سے أئمّہؑ ہیں۔

بالفاظِ دیگر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہر پیغمبرؑ و امامؑ خانۂ روحانیت ہے جس کا اشارہ قرآنِ حکیم میں بیت یا بیوت کے عنوان سے کیا گیا ہے، یہی وہ حرمت والا گھر ہے جس میں نورِ خدا کا چراغ روشن ہے اور جو عظیم فرشتوں اور مقدّس روحوں کے لئے خانۂ خدا اور عبادت گاہ ہے۔

جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کا گھر زندہ ہے اسی طرح اس کے اسمائے

 

۴

 

مبارکہ بھی زندہ و گویندہ ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ انبیاء و أئمّۂ علیھم السّلام ہی ربّ العزّت کے زندہ و گویندہ اسماء ہیں۔ جس طرح کسی کا نام اس کی شخصیّت کی پہچان ہوا کرتا ہے، اسی طرح انبیاء و أئمّۂؑ جو خدا کے زندہ نام ہیں، خدا تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہیں۔

پس اسمائے اہلِ بیت روحانیت میں نورِ علم و حکمت کے سرچشموں کی حیثیت سے ہیں، جو اسرارِ خداوندی کے جواہر سے مملو اور ایقان و عرفان کی دولت سے بھرپور ہیں اور ان میں سے ہر ایک اسم اپنی ہمہ گیر و ہمہ رس معنویّت اور جامعیّت کی وجہ سے ایک مکمل صحیفۂ آسمانی کی طرح ہے۔

کتابچۂ ہٰذا میں محترم علامہ بزرگوار نے نہ صرف ان اسماء کی لفظی تحلیل کی ہے بلکہ ان میں پوشیدہ باطنی حکمتوں کو بھی بڑے حسن و خوبی کے ساتھ بیان فرمایا ہے، جن کی چند مثالیں درجِ ذیل ہیں:

حضرت مولا مرتضیٰ علیؑ کے نام کی تشریح کرتے ہوئے موصوف اس طرح رقم طراز ہیں:

“علی کے معنی ہیں بلند، شریف، بلند مرتبہ، بلند قدر، “علی” کا یہ بابرکت نام خدا تعالیٰ کے اسمائے صفاتی میں سے ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں (انبیاء و أئمۂؑ) کو اپنی صورتِ رحمانی پر پیدا کرتا ہے، اپنا کوئی نام دیتا ہے، اپنازندہ اسمِ اعظم قرار دیتا ہے، اپنی

 

۵

 

مقدّس روح ان میں پھونک دیتا ہے اور اپنی خلافت سے ان کو سرفراز فرماتا ہے، پس یہ حقیقت ہے کہ محمدؐ و علیؑ کے پاک نام خدا کی طرف سے عطا ہوئے ہیں”۔

چونکہ مولا علیؑ امامت کا عنوان ہیں یعنی تمام أئمّہ مولاعلیؑ میں جمع ہیں اس لئے اس پاک نام کی باطنی حکمتوں کا اطلاق ہر امام پر ہوتا ہے۔ حضرت امام محمد مہدی علیہ السّلام جو خلافتِ فاطمیہ کے بانی بھی تھے، کے مبارک اسم کی تشریح میں بزرگوار نے اس طرح قلم رانی کی ہے:

“مہدی: ہدایت یافتہ، وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ حق کی طرف رہنمائی کرے، امامِ عالی قدرؑ کے اس نامِ مبارک کا عنوان ہدایت ہے، اور اس کی وضاحت یہ ہے کہ ہر امامِ برحق سب سے پہلے مہدی (ہدایت یافتہ) ہے، اور اس کے بعد ہادی (رہنما) ہے، اگرچہ تمام حضراتِ أئمّۂ طاہرینؑ باطنی طور پر نور کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں تاہم خدائی پروگرام کے مطابق بعض اماموں کے زمانے میں بڑے بڑے واقعات رونما ہوجاتے ہیں جیسے حضرت امام محمد مہدیؑ کے زمانے میں ہوا تھا”۔

 

سلسلۂ نورِ امامت میں اڑتالیسویں امام کا دور ظاہری و مادّی لحاظ سے، سائنس و تکنالوجی کی ترقی اور باطنی اعتبار سے، روحانی و عرفانی انقلاب کا دور تھا۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر موصوف نے “سلطان محمد شاہ” کے اسم کی تشریح میں اس طرح خامہ آرائی کی ہے:

 

۶

 

“اس عظیم الشّان اور بابرکت نام میں سلطنتِ محمدیؐ کے معنی موجود ہیں، اور یقیناً حضرتِ مولانا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ وسلامہ کی بیمثال شخصیّت روحانی بادشاہی کی مالک تھی، ویسے تو ہر امام اپنے وقت میں روحانی بادشاہ ہوا کرتا ہے، مگر خدا کے عظیم پروگرام کے مطابق تمام زمانے ایک جیسے نہیں ہوتے، چنانچہ حضرتِ امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام کا زمانہ بڑا اہم اور بہت خاص بلکہ سب سے عظیم تھا، کیونکہ قرآنی تاویل کی زبان میں آپؑ کی ذاتِ عالی صفات شبِ قدر تھی، جس میں تمام عالمِ امر کے فرشتوں اور روحِ اعظم اور دیگر ارواح کا نزول ہوتا ہے۔”

 

أئمّۂ طاہرین علیھم السّلام کے نام جہاں صوری لحاظ سے عقیدہ کے باعث مومنین کے لئے بے حد پسندیدہ ہوا کرتے ہیں وہاں ان ناموں کی بوقلمونی میں پوشیدہ رموز ان کے لئے خدا کے زندہ اسمِ اعظم کی معرفت کے گونا گون ذہنی و عقلی دروازے کھول دیتے ہیں، پس اسمائے اہلِ بیتؑ کی حکمت پر مسلسل غور و فکر ایک مومنِ عاقل کے لئے صبحِ روحانی کی نویدِ جانفزا لاسکتی ہے۔

 

مزید برآن ہر وہ مومن، جس نے عقیدت کی بناء پر اپنی اولاد کا نام انبیاء و أئمّۂ علیھم السّلام کے نام پر رکھا ہے یا رکھنا چاہتا ہے وہ ان اسماء میں پوشیدہ باطنی معنوں کو کما حقہٗ جان کر، اپنی اولاد کو انبیاء و أئمّہؑ کے پیچھے

 

۷

 

پیچھے صراطِ مستقیم پر گامزن کرنے کے لئے، اپنی عقیدت کو ایک مضبوط علمی بنیاد فراہم کرسکتا ہے۔

 

علمی خدمت گزار

یاسمین حبیب

یکم نومبر، ۱۹۸۹ ء

 

۸

 

حکمتِ تسمیہ۱ اور اسمائے اہلِ بیتؑ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ یہ بندۂ عاجز و ناتوان، غلامِ غلامانِ امامِ زمانؑ، خاکِ پائے دوستان اس خاص موضوع کی صورت میں اپنے چند عظیم المرتبت، علم پرور اور دانشمند دوستوں کی اس تحریری فرمائش کی تعمیل کے لئے سعی کرتا ہے، جس میں انھوں نے ازراہِ علم گستری اہلِ بیتِ اطہار صلوات اللہ علیھم کے اسمائے مبارک کے معنی اور حکمتِ تسمیہ بیان کرنے کے لئے فرمایا تھا، چنانچہ بڑی انکساری سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں سب سے پہلے تسمیہ یعنی نام رکھنے سے متعلق کچھ بنیادی باتوں کا تذکرہ ضروری ہے، جو درجِ ذیل ہیں:

۱۔ اکثر دفعہ روایت یا دستور یا مذہبی عقیدہ کے بموجب لوگ

 

۱: تسمیہ: نام رکھنا

 

۹

 

اپنی اولاد کا نام کسی دینی یا خاندانی بزرگ یا کسی مشہور و معروف شخصیت کے نام پر رکھتے ہیں، اور اس عمل کا مقصد و منشا یہ ہوتا ہے کہ شاید بحکمِ خدا ان کی اولاد اسم با مسمیٰ ہوجائے۔

۲۔ اگر اتفاقاً کسی بڑی ہستی کا نام لغوی اعتبار سے عام یعنی معمولی نوعیت کا ہے، تو پھر بھی اصولی طور پر شخصیت کی خوبیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بڑے شوق سے ایسے نام کا انتخاب کرلیتے ہیں، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا با برکت نام ہے، کہ لفظِ “موسیٰ” اگرچہ ظاہراً اپنی اصل (یعنی قبطی زبان) میں عام معنی رکھتا ہے، جیسے “مو” بمعنیٰ پانی، اور “سا” درخت ہے، یعنی “موسیٰ” کامطلب ہے درخت کے نیچے پانی سے لیا گیا، تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ حصولِ برکت کی نیّت سے اس عظیم الشّان پیغمبر یعنی موسیٰؑ کے نام پر رکھا جاتا ہے، کیونکہ اس مثال میں نام کے لفظی معنی پر شخصیّت کی خصوصیات اور خوبیاں غالب آگئی ہیں۔

۳۔ اس سلسلے میں ایک رواج یہ بھی ہے کہ نومولود کے لئے کوئی ایسا نیا یا پرانا نام منتخب کیا جائے، جس کے معنی میں بچے یا بچی سے کوئی اچھی صفت منسوب ہوجائے، جیسے “شیر دل” اور “آفتاب بانو”۔

۴۔ بعض اوقات بچے کا نام زمان و مکان اور دیگر واقعات کی مناسبت سے رکھا جاتا ہے، جیسے نوروز علی، گلشن، حج بی بی

 

۱۰

 

وغیرہ، تاہم سب سے عمدہ بات تو یہ ہے کہ مومنین اپنے بچوں کے نام اہلِ بیت علیھم السّلام کے مبارک ناموں پر رکھیں، اور ہاں لڑکیوں کے ناموں کے لئے البتہ اجازت ہے کہ ستاروں، جواہر، اور پھولوں جیسی دلکش چیزوں میں سے کسی نام کو پسند کریں۔

 

اگرچہ ظاہر میں حضراتِ انبیاء و أئمّۂ علیھم السّلام کے اسمائے گرامی میں بھی یہی اصول کار فرما نظر آتا ہے، لیکن خدا تعالیٰ کے مقرب بندوں کی حیثیت سے ان حضرات کے مبارک ناموں میں علم و معرفت کے بڑے بڑے اسرار پوشیدہ ہیں، سو عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کے نام میں بھی ایک خاص تاویل سما دی ہو، کیونکہ علمِ تاویل اپنی لطافت و سازگاری کی قوّت میں پانی کی طرح ہے، اور الفاظ مختلف شکل کے ظروف جیسے ہیں، چنانچہ تاویل کا پانی ہر لفظ کے ظرف میں حسبِ شکل و صورت ہمیشہ سے موجود ہوا کرتا ہے، اب ہم اس تمہید کے بعد اصل موضوع کی طرف لوٹ آتے ہیں:

 

محمدؐ:

اس لفظ کا مادّہ ح م د ہے، محمد کے معنی ہیں نہایت تعریف کیا گیا، سراہا گیا، قرآنِ پاک میں لفظ محمدؐ چار دفعہ آیا ہے، اور احمدؐ ایک بار مذکور ہے، ویسے تو جملہ قرآن رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعریف و توصیف سے بھرا ہوا ہے، مصرع: “قرآن تمام وصفِ کمالِ محمدؐ است”۔

 

۱۱

 

قرآن کلی حیثیت میں کمالِ محمدی کی تعریف ہے، لیکن یہاں صرف اسمِ “محمدؐ ” کے معنی مقصود ہیں، لہٰذا یہ کہنا مناسب ہے کہ اس لفظ کا براہِ راست تعلق “مقامِ محمود” سے ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا (۱۷: ۷۹)

بعید نہیں کہ تمھارا پروردگار تمھیں مقامِ محمود پر فائز کردے۔ یعنی تمھارا انبعاث مقامِ محمود پر ہوگا، جو کلمۂ باری اور سرچشمۂ عقل ہے، جو تعریف کیا گیا اور سراہا گیا ہے۔

 

محمدؐ کی عددی تاویل علیؑ ہے، وہ اس طرح: محمد = م (۴۰) + ح (۸) + م (۴۰) + د (۴) = ۹۲ = ۲ + ۹ = ۱۱ = ۱ + ۱ = ۲: جواب، علی= ع (۷۰) + ل (۳۰) + ی (۱۰) = ۱۱۰ = ۰ + ۱ + ۱ = ۲: جواب، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ محمدؐ کا جملِ اصغر ۲ ہے، جس سے علیؑ مراد ہے، کیونکہ علیؑ کا جملِ اصغر بھی ۲ ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ محمد و علی صلوات اللہ علیھما نورِ واحد ہیں، اس لئے کہ نور ہمیشہ ایک ہی ہوا کرتا ہے، وہی ایک نور ہمہ رس، ہمہ گیر اور کافی ہے، اور دو نور کے تصوّر سے کمالِ نور کی نفی ہوجاتی ہے۔

مصطفیٰؐ:

اس کا مادّہ ص ف و ہے، اور اس کے معنی ہیں چنا ہوا، انتخاب کیا ہوا، برگزیدہ، پسندیدہ، مقبول، اور یہ آنحضرتؐ کا لقبِ مبارک ہے۔

 

علیؑ :

مادّہ ع ل و ہے،معنی ہیں بلند، شریف، بلند مرتبہ، بلند قدر، “علیؑ” کا یہ بابرکت نام خدا تعالیٰ کے اسمائے صفاتی میں

 

۱۲

 

سے ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک اپنے برگزیدہ بندوں (انبیاء و أئمّہ) کو اپنی صورتِ رحمانی پر پیدا کرتا ہے، اپنا کوئی نام دیتا ہے، اپنا زندہ اسمِ اعظم قرار دیتا ہے، اپنی مقدّس روح ان میں پھونک دیتا ہے، اور اپنی خلافت سے ان کو سرفراز فرماتا ہے، پس یہ حقیقت ہے کہ محمدؐ اور علیؑ کے پاک نام خدا کی طرف سے عطا ہوئے ہیں، کیونکہ یہ اس کا ایک اٹل فیصلہ تھا کہ نورِ علم و ہدایت ہمیشہ کے لئے آلِ ابراہیمؑ سے وابستہ رہے گا (۰۴: ۵۴)۔

 

مرتضیٰؑ:

مادّہ ر ض ی ہے، اس کے معنی ہیں پسندیدہ، برگزیدہ، مقبول، چنا ہوا، منتخب، یہ مولاعلیؑ کا لقب ہے، جو خدا و رسولؐ کے منشا کے مطابق ہے۔

 

فاطمہؑ:

مادّہ ف ط م ہے، فاطمہ کے لغوی معنی ہیں وہ عورت جس نے مقررہ وقت پر بچے کا دودھ چھڑایا ہو، مگر جنابِ سیدہ سلام اللہ علیھا کا یہ پاکیزہ نام فاطمہ بنتِ اسد کے نامِ گرامی پر رکھا گیا ہے، اور اس میں لفظی معنی کی بجائے فاطمہ بنتِ اسد زوجۂ حضرت ابوطالبؑ کی شخصی خصوصیات ملحوظِ نظر ہیں، آپ اسد کی بیٹی، حضرت ہاشمؑ کی پوتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی پھوپھی تھیں، آپ میں کیا کیا خوبیاں تھیں اور آنحضرتؐ کی کفالت کے سلسلے میں کتنی محبّت و دلسوزی سے دیکھ بھال کی ہے، اس کا اندازہ متعلقہ تاریخ سے ہوسکتا ہے۔

 

۱۳

 

زہراؑ:

مادّہ ز ہ ر ہے، معنی ہیں درخشان، چمکیلا، روشن، تابان، زَہَرَ کہتے ہیں چراغ یا چاند یا چہرے کے چمکنے اور روشن ہونے کو، ازہر بھی یہی معنی رکھتا ہے، مگر وہ مذکر کے لئے بولا جاتا ہے، اسی مادّہ سے ایک دوسرا لفظ زُہْرَہْ ہے، جو حسن و جمال کے معنی میں مستعمل ہے، یہی زُہۡرَہ ایک ستارہ ہے، جس کو بعض قدیم لوگوں نے حسن و جمال کی دیوی مانا، غرض یہ ہے کہ فاطمۂ زہرا صلوات اللہ علیھا کی پاک و پاکیزہ ذات میں وہ تمام خوبیاں اور کمالات موجود تھے، جو خواتینِ جنّت کی ایک سردار خاتون میں ہونے چاہئیں، آپؑ عقلی، روحانی اور جسمانی طور پر بدرجۂ انتہا پاک و پاکیزہ تھیں، کیونکہ خداوندِ عالم نے آیۂ تطہیر میں اہلِ بیتِ رسولؐ کی کامل و مکمل طہارت و پاکیزگی کی ضمانت دی ہے (۳۳: ۳۳) اس دنیا میں مادّی چیزوں کی پاکیزگی کئی طرح سے ہوتی ہے، مگر سب سے اعلیٰ پاکیزگی سورج کی شعاعوں سے اور دوسرے درجے کی صفائی پانی سے ہوتی ہے، جب پانی سمندر تک پہنچتے پہنچتے آلودہ ہوجاتا ہے تو سورج اسے لطیف و پاک بناکر اٹھا لیتا ہے اور پاک پانی (۲۵: ۴۸) کی حیثیت میں دوبارہ برسا دیتا ہے، اس مثال سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ اہلِ بیتؑ کی پاکیزگی نور کی بارش سے ہوا کرتی ہے، جو سب سے اعلیٰ درجے کی پاکیزگی ہے۔

 

۱۴

 

حَسَنْؑ:

مادّہ ح س ن ہے، ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز، خوبصورت، جمیل، ارشادِ نبوّی ہے کہ : اَلْحَسَنُ والحسین اِماما حقٍّ قاما أو قَعَداوابوھُما خیرٌ منھما = حسن اور حسین دونوں برحق امام ہیں خواہ وہ کھڑے ہوجائیں یا بیٹھ جائیں، اور ان کے والد دونوں سے بہتر ہیں۔ یعنی حضرت حسنؑ اور حضرت حسینؑ خواہ دعوت کریں یا نہ کریں امامِ مستودع اور امامِ مستقر ہیں، اور ان کے والد ان سے افضل ہیں اس لئے کہ وہ اساس ہیں۔

 

امام برحق کا نام جہاں علیؑ ہے، وہاں نورِ خدا کی بلندی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، اور جب یہ نور حَسَنؑ کے روپ میں ہے تو تب اس کے باطنی حسن و جمال کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے، حضرت یوسفؑ امامِ مستودع تھا، جس کو خدائے علیم و حکیم نے نورِ امامت کے روحانی جمال و جلال کی مثال بناکر پیش کیا ہے، تاکہ اہلِ ایمان میں حقیقی عشق کا غلبہ پیدا ہو۔

 

حُسَیْنْؑ:

مادّہ ح س ن ہے،اس کے معنی وہی ہیں جو لفظ حَسَنْ کے ہیں، مگر اس میں صرف لفظی فرق اتنا ہے کہ یہ اسمِ مصغّر ہے، جو پیار کی وجہ سے ہے، اس پُرحکمت نام سے اشارہ ملتا ہے کہ کچھ لوگ آلِ نبیؐ اولادِ علیؑ کو حقیر سمجھیں گے اور کچھ لوگ ان سے محبت کریں گے، کیونکہ اسمِ تصغیر کے یہی دو پہلو ہوا کرتے ہیں۔

 

۱۵

 

زین العابدینؑ:

مادّہ زی ن اور ع ب د ہے،آپؑ کا اصل نام علیؑ تھا، اور زین العابدین لقب، اس کے معنی ہیں عبادت گزاروں کی زینت، امامِ عالیمقامؑ کے اس مبارک لقب سے خدائے واحد کی عبادت کی اہمیت اجاگر ہوجاتی ہے، ساتھ ہی ساتھ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ عبادت کی روح تصوّرِ امامت میں ہے، کیونکہ امامِ زمانؑ ہی معرفت کا دروازہ ہوا کرتا ہے، اور معرفت عبادت کی جان ہے، قرآن میں لفظ “زین” نورِ ایمان کے لئے آیا ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے: وَلٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَهٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ (۴۹: ۰۷) مگر خدا نے تمھیں ایمان محبوب کردیا اور اس کو تمہارے دلوں میں مزّین و منّور کر دکھایا۔

 

محمد باقرؑ:

اس کا مادّہ ہے ب ق ر،بَقَرَہ (ن) بَقْراً=پھاڑنا، کھولنا، وسیع کرنا، تَبقّرَ الرّجلُ =کسی کا وسیع العلم یا کثیر المال ہونا، انہی اصل الفاظ کے مطابق باقر کے معنی ہیں علومِ مخفی اور اسرارِ باطن کا کھولنے والا، اسی سبب سے آپؑ “باقر العلوم” کہلاتے تھے، مختصر یہ کہ آپؑ کے نام اور کام کی مثال سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ نورِ امامت ہمیشہ باطنی اور عرفانی حکمتوں کو ظاہر کرتا رہتا ہے۔

 

جعفر الصادقؑ:

مادّہ ج ع ف اور ص د ق ہے، جعفر کے معنی ہیں دریا، ندی، اور صادق

 

۱۶

 

سچ بولنے والے کو کہتے ہیں، اس مبارک نام سے یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ امامِ اقدس و اطہرؑ  حقیقی علم کا دریائے روان ہوا کرتا ہے، ہر امام اپنے زمانے کا “الصادق” ہوتا ہے، اور تمام حضراتِ أئمّہ “صادقین” کہلاتے ہیں، چنانچہ تمام زمانوں کے لوگوں سے فرمایا گیا: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ   (۰۹: ۱۱۹)۔اے اہلِ ایمان! خدا سے ڈرتے رہو اور راست بازوں کے ساتھ ہوجاؤ۔ یعنی اپنے امامِ وقتؑ کے ساتھ منسلک ہوکر رہو، تاکہ تم کو حقائق و معارف کے خزائن سے مالا مال کردیا جائے۔ آپ اگر چاہیں تو یہاں خوب غور کرسکتے ہیں کہ ایک طرف سب ایمان والے ہیں، جن کو حقیقی ایمان اور تقویٰ سے کام لے کر صادقین کے ساتھ ہوجانا چاہئے، دوسری جانب صادقین ہیں، جو ایمان، تقویٰ اور صدق کے درجۂ کمال پر ٹھہرے ہوئے ہیں۔

 

اسماعیلؑ:

یہ لفظ عبرانی میں “شماع ایل” ہے، شماع (سماع)سننا اور ایل (اللہ) لفظی معنی خدا کا سننا، امامِ برحقؑ کا یہ بابرکت نام حضرتِ ابراہیمؑ کے فرزندِ ارجمند حضرتِ اسماعیلؑ کے نام پر ہے، اس پر حکمت نام میں یہ اشارہ فرمایا گیا ہے کہ سلسلۂ امامت آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ ہے، نیز اس سے ظاہری اور باطنی قربانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

 

محمد بن اسماعیلؑ:

امامِ پاکؑ کا یہ مبارک نام پیغمبرِ اسلامؐ کے اسمِ گرامی پر ہے، تاکہ أئمّۂ آلِ محمدؐ

 

۱۷

 

کی نورانی اور خاندانی نسبت لوگوں پر واضح رہے، خداوندِ عالم نے اپنے محبوب پیغمبرِ اسلامؐ کو الکوثر (۱۰۸: ۰۱) یعنی مردِ کثیر ذریّہ عطا فرمایا ہے، اور وہ یقیناً مولاعلیؑ ہے، تاکہ رسول اللہؐ کے پیارے دین (اسلام) کا نظامِ ہدایت ہمیشہ کے لئے قائم رہے، چنانچہ امیرالمومنین علیؑ کی ذاتِ عالی صفات میں کوثر کے جملہ معانی مخفی تھے، کوثر کے دوسرے معنی حکمت ہیں، جس میں خیرِ کثیر ہے (۰۲: ۲۶۹) اور اس کے تیسرے معنی حوضِ کوثر ہیں، اور یہ سب حقیقتیں نورِ امامت میں پوشیدہ ہیں، حوضِ کوثر کی تاویل مرتبۂ قیامت ہے، جس کا مالک ہر امامِ ہفتم ہوا کرتا ہے، چنانچہ حضرت امام محمد بن اسماعیلؑ سات سات اماموں کے چھوٹے چھوٹے ادوار کے سلسلے میں پہلا صاحبِ قیامت تھا، یہی وجہ ہے کہ آپؑ میں نورِامامت غیر معمولی طور پر منتقل ہوا تھا۔

 

وفی احمدؑ:

مادّہ و ف ی اور ح م د، وفی: کامل، بہت وفا کرنے والا، حق دینے والا اور حق لینے والا، احمدؐ: بڑا سراہا ہوا، محمود، بہت تعریف کیا گیا، یہاں “احمدؐ” آنحضرتؐ کا پاک اسم ہے، چنانچہ “وفی احمدؐ” کے معنی ہیں آنحضرتؐ کی جانب سے حق دینے والا اور حق لینے والا، اور بہت وفا کرنے والا، اس متبرک نام سے یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ امامِ برحقؑ خدا و رسولؐ کی جانب سے ہوا کرتا ہے، یاد رہے کہ وفی کی صفت

 

۱۸

 

“وفا” بہت بڑی ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ جیسے جلیل القدر پیغمبرؑ کے تمام ظاہری اور باطنی کارناموں اور علم و معرفت کی تعریف اسی ایک لفظ سے فرمائی ہے، وہ ارشاد یہ ہے: وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ (۵۳: ۳۷) اور ابراہیم کے (صحیفوں میں) جنھوں نے پورا (وفا) کیا۔

 

تقی محمدؑ:

مادّہ و ق ی، تقی:صاحبِ تقویٰ، متقی، پرہیزگار، خدا ترس، باتقویٰ، یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نورِ امامت ہمیشہ سے ایک ہی ہے، صرف اس کے اسم و جسم کے ظہورات مختلف ہوا کرتے ہیں، لہٰذا درحقیقت ایک امام کے نام میں جو معنوی اشارے ہیں، وہ سب اماموں سے متعلق ہیں، جیسے تقی محمدؑ (محمدؐ کا متقی) اگرچہ ایک امام کا اسمِ مبارک ہے، لیکن اس لفظ کے معنی تمام أئمّہ علیھم السّلام میں مشترک ہیں، نیز یہاں یہ بھی یاد رہے کہ تقویٰ جس کی قرآن اور اسلام میں بہت بڑی اہمیّت ہے، وہ امامِ عالیمقامؑ کی ذاتِ بابرکات سے وابستہ ہے۔

 

رضی عبداللہؑ:

مادّہ ر ض ی اور ع ب د، رضی عبداللہ: وہ بندۂ خدا جو خوشنود یعنی راضی ہے، امام علیہ السّلام کے اس پاکیزہ نام کا موضوع رضا اور رضوان اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے، کیونکہ دینِ اسلام میں خداوند کی رضا سب سے بڑی چیز ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خاصانِ الٰہی ہر عبادت

 

۱۹

 

و اطاعت نہ تو دوزخ کے خوف سے کرتے ہیں اور نہ ہی بہشت کے شوق سے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کرنے کے لئے بجا لاتے ہیں، نیز وہ ہر حال میں راضی برضائے الٰہی رہتے ہیں، چنانچہ قرآنِ حکیم کہتا ہے کہ: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَه ابْـتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ (۰۲: ۲۰۷) اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو رضائے الٰہی کی طلب میں اپنی جان بیچ دیتا ہے اور خدا تعالیٰ ایسے بندوں پر بڑا ہی شفقت کرنے والا ہے۔ اس آیۂ کریمہ کے خاص و عام دو پہلو ہیں، اس کا خاص پہلو یہ کہ یہ امیر المومنین علی علیہ السّلام کی شان میں ہے، اور عام پہلو یہ ہے کہ اس میں سب کے لئے ہدایت ہے، تاکہ سمجھ لیا جائے کہ خدا کی خوشنودی کی خاطر بڑی سےبڑی قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔

 

محمد مہدیؑ:

مادّہ ھ د ی، مہدی: ہدایت یافتہ، وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ حق کی طرف رہنمائی کرے، امامِ عالیقدرؑ کے اس نامِ مبارک کا عنوان ہدایت ہے، اور اس کی وضاحت یہ ہے، کہ ہر امامِ برحقؑ سب سے پہلے مہدی (ہدایت یافتہ) ہے، اور اس کے بعد ہادی (رہنما) ہے، اگرچہ تمام حضراتِ أئمّۂ طاہرینؑ باطنی نور کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں، تاہم خدائی پروگرام کے مطابق بعض اماموں کے زمانے میں بڑے بڑے واقعات رونما ہوجاتے ہیں، جیسے حضرت امام محمد مہدیؑ کے زمانے میں ہوا تھا۔

 

۲۰

 

قائم بامراللہؑ:

مادّہ ق و م اور ام ر،قائم بامراللہ: وہ شخص جو بحکمِ خدا کارِ دین کے لئے کھڑا ہوا ہو، ولیٔ امر، صاحبِ اختیار جو امام علیہ السّلام ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ (۰۳: ۱۸) خدا نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور تمام فرشتوں نے اور صاحبانِ علم (انبیاء و اولیاء) نے جو عدل پر قائم ہیں (یہی شہادت دی ہے)۔ اس آیۂ مقدّسہ میں شہادتِ توحید کے بارے میں خدا اور فرشتوں کے بعد جن حضرات کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام ہیں، جو علم والے ہیں اور اپنے اپنے وقت میں عدل پر قائم ہیں، چنانچہ حضرت امام قائم بامراللہ علیہ السّلام خدا کے حکم سے روحانی علم و عدل کے لئے استادہ تھا، اور ہر امام ایسا ہے۔

 

نورِ خدا کا چراغ ہمیشہ کے لئے روشن ہے، وہ کبھی نہیں بجھتا، اس کا مطلب یہ ہے کہ علم و ہدایت کا یہ چراغ ایک پاک سلسلے میں قائم ہے،وہ سلسلہ دورِ نبوّت میں انبیائے کرامؑ پر اور دورِامامت میں أئمّۂ طاہرینؑ پر مبنی ہے، اور اسی پاک و پاکیزہ سلسلے کے مقدّس اشخاص اولوالعلم ہیں جو عدل پر قائم ہیں، اس کے برعکس اگر ایک زمانے میں علم و عدل کے کئی ذرائع ایک ساتھ موجود ہوتے اور دوسرے زمانے میں کوئی وسیلہ نہ ہوتا، تو اس صورت میں خدا کا علم تمام زمانوں پر محیط نہ ہوتا، اور اس کے

 

۲۱

 

عدل میں نقص پیدا ہوجاتا، مگر یہ بات نہیں۔

 

منصور باللہؑ:

مادّہ ن ص ر، منصور باللہ: وہ شخص جس کو خدا سے مدد مل گئی ہو، امامِ برحقؑ اپنے اس بابرکت نام کے معنوی اشارے سے یہ فرماتا ہے کہ ہر زمانے کے امام کو خداوند تعالیٰ سے مدد ملتی رہتی ہے، یہاں لفظ “مدد” کی وضاحت ضروری ہے، کیونکہ یہ کم سے کم بھی ہے اور زیادہ سے زیادہ بھی، لہٰذا ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ امامِ عالی مقام صلوات اللہ علیہ کو خدائے برتر و بے نیاز سے جو مدد ملی ہے وہ انتہائی عظیم ہے، اور وہ یہ کہ امامِ اقدس و اطہر میں خدا کا نور ہے، اور نور میں سب کچھ ہے۔

 

معزالدین اللہ:

مادّہ ع زز اور دی ن،معزالدین اللہ: وہ شخص جو خدا کے دین کو عزّت و تقوّیت دے، امامِ آلِ محمد علیہ السّلام کا یہ اسمِ گرامی عزّت کا موضوع بنا ہے، اور اس میں کسی مومن کو کیا شک ہوسکتا ہے، جبکہ ساری عزّت خدا و رسولؐ اور أئمّۂ طاہرینؑ کے لئے ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے: وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ  (۶۳: ۰۸) حالانکہ (اصلی) عزّت خدا کی اور اس کے رسول کی اور مومنین (یعنی أئمّہّ) کی ہے، مگر منافق (اس بات سے) واقف نہیں۔ یہ نکتہ قرآنی حکمت کے اصولات میں سے ہے، کہ قرآن میں جہاں جہاں بطرزِ تعریف مومنین کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، وہاں اس تعریف

 

۲۲

 

کا مقصودِ اصلی حضراتِ أئمّہ ہوا کرتے ہیں، کیونکہ ایمان کے درجۂ کمال پر وہی صاحبان ہوتے ہیں، غرض یہ کہ دین کا ایک باطن ہے اور ایک ظاہر، دین کے باطن کو خدا نے امام سے وابستہ کرکے رکھا ہے، اور دین کے ظاہر کو لوگوں پر چھوڑ دیا، تاکہ فردائے قیامت ان سے پوچھا جائے۔

 

عزیزباللہؑ:

مادّہ ع ز ز، عزیز باللہ: وہ شخص جس کو خدا نے عزّت اور غلبہ عطا کردیا ہو، حضرت امام عزیزباللہ کے اس شاہانہ نام کے ساتھ ساتھ ایک درویشانہ نام بھی تھا، اور وہ “نزار” تھا، جو فارسی لفظ ہے، جس کے معنی عاجز و ناتوان ہیں، یہ نام سب سے پہلے حضرت مولانا امام قائم بامراللہؑ کی ذات سے متعلق نظر آتا ہے، امامِ حق کے ایسے دو متضاد ناموں کی حکمت یہ کہتی ہے کہ یقیناً ہمیشہ امامِ عالی مقامؑ کی مبارک ہستی کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں، ایک نورانیّت اور دوسرا جسمانیّت، نور بیشک عزیز (غالب) اور محیط ہے، اور جسم نور کے بغیر عاجز و ناتوان ہے، چنانچہ جو لوگ امام کی نورانیّت کو سمجھتے ہیں، جیسا کہ سمجھنے کا حق ہے، تو ان کو جسمانیّت کا قانون کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا، او رجو لوگ امام کی جسمانیّت و بشریت میں محدود ہوجاتے ہیں، تو وہ شکوک و شبہات کے طوفان میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔

 

امامِ عالی وقار کے ایسے نام میں یہ حکمت بھی ہے کہ اگرچہ مومن کو ہر وقت عاجز ہی رہنا ہے، تاہم کامیابی کے وقت اس کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، تاکہ دل میں فخر کا کوئی دخل نہ ہو، اور شرطِ ادب کے

 

۲۳

 

ساتھ شکر گزاری ادا ہوسکے۔

 

حاکم بامراللہؑ:

مادّہ ح ک م،حاکم بامراللہ: خدا کے امر سے حکم اور فیصلہ کرنے والا، خدا کے امر سے حکومت کرنے والا، اس مقام پر یہ بات قابلِ غور ہے کہ کہنے کو تو بہت سے لوگ کہا کرتے ہیں کہ وہ جو حکم یا فیصلہ کردیا کرتے ہیں خدا کے امر سے کرتے ہیں لیکن اس سیّارۂ زمین پر صرف امامؑ ہی ایک ایسا حاکم ہے، جو بحقیقت خدا اور رسولؐ کے امر و منشا کے مطابق فیصلہ کیا کرتا ہے، اور بس، چنانچہ ارشاد فرمایاگیا ہے: اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللّٰهُ (۰۴: ۱۰۵) اے پیغمبر! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو کچھ (روحانیّت میں) اللہ نے تمھیں دکھایا ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔  بِمَآ اَرٰىكَ اللّٰه (جوکچھ اللہ نے تمھیں دکھایا ہے) کا اشارہ قرآن کی روح اور روحانیّت کی طرف ہے، جو صرف پیغمبرؐ اور امامؑ کے لئے خاص ہے، لہٰذا خدا کے امر سے معلمِ قرآن اور فیصلہ کرنے والا امام ہی ہے۔

 

ظاہرؑ:

مادّہ ظ ہ ر، ظاہر: آشکار، مددگار، غالب، حضرت امام علیہ السّلام کا یہ حکمت آگین نام ان معنوں کے ساتھ دینِ خدا کی عزّت و تقویّت کے لئے تھا، اہلِ دانش جانتے ہیں کہ “الظاہر” خدا کے اسمائے صفاتی میں سے ہے، چنانچہ

 

۲۴

 

اگر کوئی شخص امامِ برحقؑ کو اللہ کا وہ نور مانتا ہے جو اس کی طرف سے دنیا میں ہدایت کے لئے مقرر ہے، تو پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ امامِ عالیمقامؑ خدا کا وہ نام ہے جیسے “النور” کہا جاتا ہے، اور اگر یہ صحیح ہے تو یہ بھی درست ہے کہ امامِ برحقؑ اللہ کا اسمِ صفت “الظاہر” ہے، کیونکہ نور اور ظاہر کا مطلب ایک ہی ہے۔

مستنصر باللہؑ:

مادّہ ن ص ر، مستنصر باللہؑ: خدا سے مدد چاہنے والا، مستنصر بامراللہؑ: اللہ کے امر سے مدد چاہنے والا، پاک و پاکیزہ امام علیہ السّلام کا یہ نام جو ہر طرح کی برکتوں سے پر ہے “تائید” کا عنوان ہے، اللہ تعالےٰ سے مدد چاہنے کے عام و خاص بہت سے مختلف درجات ہیں، یہاں تک کہ ایک ایسا مقام بھی آتا ہے، جہاں تائید پہلے ہی سے موجود ہے اور وہ خود بخود کام کرتی ہے، اور ایسا مقامِ عالی حضرت امام اقدس و اطہرؑ کا نور اور نورانیّت ہے۔

 

نزارؑ:

یہ لفظ فارسی ہے،اور اس کے معنی ہیں ناتوان، کمزور، عاجز، حضرت مولانا امام نزار صلوات اللہ علیہ کے اس بابرکت اور حکمت آگین نام سے ہدایت کی یہ روشنی ملتی ہے کہ بندۂ مومن کو عجز و انکساری کا شیوہ اختیار کرلینا چاہئے، کیونکہ صلاح و فلاح کی جملہ حکمتیں اسی میں پوشیدہ ہیں، مثال کے طور پر:

۱۔ جہاں دعا عبادت کا مغز ہے، وہاں اظہارِ عاجزی دعا کا ایک

 

۲۵

 

اہم عنصر ہے۔

۲۔ غرور سب سے بڑا اخلاقی اور روحانی روگ ہے اور اس کی پیش بندی صرف عجز و انکساری ہی سے ہوسکتی ہے۔

۳۔ توبہ روحانی طہارت (پاکیزگی) ہے، مگر اس کی جان عاجزی ہے۔

۴۔ نفس بڑا قوّی دشمن ہے اور اس کو صرف عاجزی ہی سے شکست دی جاسکتی ہے۔

۵۔ اگر کوئی چیز مومن کو فنائے نورانیت کے قریب لے جاسکتی ہے تو وہ عاجزی ہے وغیرہ۔

 

ہادیؑ:

مادّہ ہ د ی، ہادی: ہدایت کرنے والا، راہنما، رہبر، پیشوا، امام، حضرت مولانا امام ہادی علیہ السّلام کا مبارک نام نورِ امامت کے بڑے اہم اسماء میں سے ہے، کیونکہ ہدایت جو ہادیٔ برحقؑ  کی صفت ہے، وہ قرآن اور اسلام کا سب سے وسیع موضوع ہے، اس لئے کہ ہدایت علم بھی ہے اور نور بھی، یہ قول بھی ہے اور فعل بھی، یہ ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی، یہ چھوٹے درجات پر بھی ہے اور بڑے درجات پر بھی، اس میں خدا کی نمائندگی بھی ہے اور رسولؐ کی نمائندگی بھی۔

 

مہتدی  ؑ:

مادہ ہ د ی، مہتدی  ؑ: ہدایت پانے والا، ہدایت شدہ، ہدایت حاصل کردہ، حضرت امام مہتدی

 

۲۶

 

علیہ السّلام کا اسمِ گرامی بھی ہدایت سے متعلق ہے، یاد رہے کہ جس طرح ہر کام کا ایک آخری مقصد ہوا کرتا ہے اسی طرح ہدایت کا بھی ایک آخری مقصد ہے، اور وہ ہے صراطِ مستقیم کی انتہائی منزل یعنی منزلِ مقصود، جہاں مومن امرِکل سے واصل ہوجاتا ہے۔

 

قاہرؑ:

مادّہ ق ہ ر، قاہر: غالب، زبردست، خدا کے صفاتی ناموں میں سے ہے، جیسے ارشاد ہے: لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (۴۰: ۱۶) آج کس کی بادشاہی ہے؟ خدا کی ہے جو ایک (اور) زبردست ہے۔ اس میں زبردستی سے سب کو آخری مقام پر ایک کردینے کا اشارہ ہے، یعنی جس روز خدا کی روحانی سلطنت قائم ہوگی، اس وقت تمام لوگوں کو خدا کی زبردستی سے ایک کردیا جائے گا۔

یہاں امامِ عالی مقام صلوات اللہ علیہ کا پورا نام القاھِر بِقوّۃِ اللہ ہے، یعنی خدا کی قوّت سے غالب ہونے والا، خدا کی جانب سے زبردست، اس کا مطلب یہ ہے کہ امامِ برحقؑ اللہ کا زندہ نام ہوا کرتا ہے، لہٰذا امامؑ جملہ صفاتِ خداوندی کا مظہر اور آئینۂ انور ہے۔

 

حسن علیٰ ذکرہ السلامؑ:

نام حسن اور لقب علیٰ ذکرہ السّلامؑ ہے،حسن کے معنی جیسا کہ شروع میں بتایا گیا ہے، عقل، روح اور جسم میں انتہائی خوبصورت اور جمیل

 

۲۷

 

کے ہیں، علیٰ ذکرہ السّلام کا مطلب ہے: اس کی یاد پر سلام ہو، جیسے ہر امام کا اسم لیتے ہوئے کہا جاتا ہے: “صلوات اللّٰہ علیہ وسلامہ”۔ یعنی اس پر خدا کی صلوات و سلام ہو، سلام کی تاویل تائیدِ اعلیٰ ہے، یعنی نور کی بھر پور مدد۔

 

اعلیٰ محمدؑ:

مادّہ ع ل و، اعلیٰ: سب سے بلند، بلند ترین، اعلیٰ ۔ محمدؐ: وہ شخص جو خدا اور محمد رسول اللہؐ کی جانب سے اہلِ دنیا میں سب سے سربلند و ممتاز ہو، یعنی امامِ اقدس و اطہر صلوات اللہ علیہ، جو حاملِ نور ہونے کے سبب سے سب سے اعلیٰ و افضل ہے، جیسے امامِ آلِ محمدؐ و اولادِ علیؑ کو ہونا چاہئے۔

 

جلال الدین حسنؑ:

مادّہ ج ل ل، جلال الدین: دین کی عظمت و بزرگی، حضرت امامؑ کا نامِ مبارک حسن تھا اور لقب جلال الدین، اس لئے جلال الدین حسن کا مطلب ہے، ظاہر و باطن کی تمام خوبیاں رکھنے والا جو دین کی بزرگی ہے، یا یوں کہا جائے: حسن جو دین کی عظمت ہے، یہ بات سب ہی مانتے ہیں کہ اسلام دینِ فطرت ہے، مگر لوگ یہ نہیں سوچتے کہ اس کا مطلب کیا ہے، مطلب یہ ہے کہ آنحضرتؐ درختِ اسلام کے بیج کی طرح تھے، لہٰذا آپ ہی کی ذاتِ عالی صفات سے درختِ اسلام پیدا ہوکر پھلا پھولا چنانچہ آپؑ کی ذاتِ اقدس میں جتنی خوبیاں تھیں، وہ سب شجرۂ اسلام میں پھیل گئیں، اور پھر امامؑ اس درخت کا پھل تھا، اس لئے دینِ اسلام

 

۲۸

 

کی جملہ خوبیاں امامؑ کی ذات میں جمع ہوگئیں۔

 

علاء الدینؑ:

مادّہ ع ل و، علاء:بلندی، شرافت، علاء الدین: دین کی بلندی و شرافت، بلندی دوطرح کی ہوتی ہے: مادّی اور روحانی، یہاں جس بلندی کا ذکر ہے، وہ روحانی بلندی ہے، جو نورِعقل اور علم و عرفان کی بلندی ہے، امامِ اقدس و اطہر کا پورا نام علاء الدین محمدؑ ہے، جس کے معنی ہیں دین کی بلندی و شرافت محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ہیں، نیز اس کے معنی ہیں وہ شخص جو خدا اور محمد رسول اللہؐ کی طرف سے دین کی بلندی ہے، یعنی امامِ عالی مقام۔

 

رکن الدین خورشاہؑ:

مادّہ ر ک ن، رکن: سہارا، ستون، قوّت کا سرچشمہ، رکن الدین: جس پر دین کا اعتماد ہو، یعنی دینی قوّت کا سرچشمہ، ستونِ دین، خور (خورشید=آفتاب) شاہ: بادشاہ جو سورج کی طرح ہے، یعنی امامِ عالی وقارؑ، جو دینی قوّت کا سرچشمہ اور بادشاہ مثلِ آفتاب ہے، سورج جو نورِ ہدایت کی مثال ہے دو طرح سے کام کرتا ہے، ایک یہ کہ براہِ راست روشنی بکھیرتا ہے، دوسرا یہ کہ چاند کے توّسط سے روشنی پھیلاتا ہے، چنانچہ زمانۂ نبوّت میں پیغمبرؐ  سورج اور اساسؑ چاند ہیں، عہدِ اساسؑ میں اساسؑ سورج اور امامؑ چاند ہیں، اور زمانۂ امامت میں امامؑ سورج اور باب (وارثِ امامت) چاند ہیں، اسی معنیٰ میں قرآن نے

 

۲۹

 

سورج کو ضیاء اور چاند کو نور کہا ہے (۱۰: ۰۵، ۷۱: ۱۶) یہاں ضیاء اور سراج اصل روشنی ہے، اور نور سے وہ روشنی مراد ہے جو منعکس (REFLECTED) ہو جاتی ہے۔

 

شمس الدین محمدؑ:

مادّہ ش م س، شمس: سورج، آفتاب، شمس الدّین: دین کا سورج- شمس الدّین محمد: محمدؐ دین کا سورج ہیں، نیز اس کے معنی ہیں وہ شخص جو خدا اور محمد رسول اللہؐ کی طرف سے دین کا سورج ہو، یعنی امامِ عالی مقامؑ، ہادیٔ برحقؑ کا یہ بابرکت نام ان آیاتِ قرآنی کے مطابق ہے، جن میں نورِ ہدایت کی تشبیہہ سورج سے دی گئی ہے، اس نوعیت کی آیات صرف لفظ “شمس” ہی کے ساتھ نہیں، بلکہ مشرق، مغرب، سماء، نور وغیرہ کے ساتھ بھی ہیں۔

 

قاسم شاہؑ:

مادّہ ق س م، قاسم: تقسیم کرنے والا، قاسم شاہ: وہ بادشاہ جو تقسیم کرتا ہے، یعنی امامِ برحقؑ جو بحکمِ خدا خزائنِ الٰہی کی تمام اشیاء تقسیم کرتا ہے، جیسے ارشاد فرمایا گیا ہے: کیا ان کے پاس تمھارے پروردگار کے خزانے ہیں یا وہ داروغہ ہیں (۵۲: ۳۷) اس کا مقصد یہ ہے کہ حضراتِ أئمّہ صلوات اللہ علیھم خدا کے خزانہ دار ہیں، اور اس معنیٰ میں ہر امام قاسم یعنی تقسیم کرنے والاہے۔

 

اسلام شاہؑ:

مادّہ س ل م، اسلام شاہ: بادشاہِ اسلام، شہنشاہِ دین، امامِ پاک صلوات اللہ علیہ کے لئے بادشاہ کی مثال ایک روشن حقیقت ہے، اس مطلب کا قرآنی لفظ

 

۳۰

 

مَلِکْ ہے، اور دوسرا لفظ مُلکْ ہے، نیز ملکوت وغیرہ ہے، خدا کے دین میں اگر زمانۂ نبوّت ہے تو پیغمبرؐ بادشاہ ہے اور امام وزیر، اور اگر زمانۂ امامت ہے تو امام بادشاہ اور اس کا وارث وزیر ہے۔

 

محمد بن اسلام شاہؑ:

حضرت امام صلوات اللہ علیہ کا یہ اسمِ گرامی سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے بابرکت نام پر ہے، کیونکہ امامؑ خدا و رسولؐ کا نور ہوا کرتا ہے، اس مقدّس نور کی کئی نسبتیں ہیں، جیسے نورِ قرآن، نورِ اسلام، نورِ ہدایت، نورِ علم، نورِ معرفت، نورِ وحدت، نورِ ایمان، وغیرہ، ایک ہی نور کے بہت سے نام ہونے میں کسی کو کیوں شک ہو، جبکہ خدا و رسولؐ کے بھی بہت سے نام ہیں۔

 

مستنصر باللہؑ:

مولانا امام مستنصر باللہ علیہ السّلام کا یہ مبارک نام اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے، یہاں صرف اتنا بتائیں گے کہ اللہ کی مدد رسولؐ اور امامِ عالی مقامؑ کے توّسط سے کسی کو مل سکتی ہے، اور خدا کی نصرت و تائید دین اور آخرت کے کاموں میں چاہئے، چنانچہ اللہ کی زندہ اور بولنے والی مدد امامِ زمان صلوات اللہ علیہ ہے۔

 

عبدالسلامؑ:

مادّہ ع ب د، عبد: بندہ، غلام، سلام: سلامت، سلامتی، خدا تعالیٰ کا نام، عبدالسلام: بندۂ خدا، سلامتی والے کا غلام، اگر کسی دوسرے شخص کا نام عبدالسّلام

 

۳۱

 

ہو، تو وہ لغوی معنی میں عبدالسّلام ہوگا، لیکن اس کے برعکس امام حقیقی معنی میں عبدالسّلام ہے، وہ یہ کہ امامِ برحقؑ خدا کا برگزیدہ بندہ ہے، لہٰذا وہ خدا کی سلامتی کو لوگوں تک لاتا ہے اور لوگوں کو خدا کی سلامتی تک پہنچا دیتا ہے، اس کے علاوہ امامِ عالی مقامؑ اپنی مبارک شخصیّت میں بدرجۂ انتہا عارف ہے، لہٰذا اس کی عبادت باکمال اور نورانیّت سے بھرپور ہے۔

 

غریب مرزاؑ:

مادّہ غ ر ب،غریب: اجنبی، وطن سے دور، انوکھا، عجیب، مرزا=امیر زادہ: شہزادہ، غریب میرزا: انوکھا شہزادہ، اجنبی شہزادہ، یقیناً امامِ اقدس و اطہرؑ اہلِ دنیا سے نرالا بھی ہے اور اجنبی بھی، کیونکہ لوگ اسے نہیں پہچانتے ہیں جیسے ارشادِ حدیث ہے کہ اسلام انوکھی صورت میں (غریب) شروع ہوا، اور آخر میں جاکر پھر غریب (انوکھا) ہوگا، پس اسلام اور امامؑ عجیب و غریب ہیں، یعنی ان کا باطن نورِ علم و حکمت کے عجائب و غرائب سے مملو ہے، اور امامؑ اجنبی اس معنیٰ میں ہے کہ اس کا وطن عالمِ بالاہے، نیز وہ اجنبی اس لئے ہے کہ لوگ اسے نہیں پہچانتے ہیں، جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے، اسی لئے فرمایا گیا: سلمان غریبم قلبِ تو۔۔۔۔

 

 

ابوذر علیؑ:

مادّہ اب و اور ذرر، ابو:باپ، ذرّ: ذرّہ، جس کی جمع ذرّات ہے، ابوذرعلیؑ: علیؑ جو ذرّات کا باپ ہے، یعنی امامِ اطہرؑ جو ذرّاتِ ارواح کا باپ ہے، جس کی ذات عالمِ ذرّ ہے یعنی جس میں تمام روحیں بصورتِ ذرّاتِ لطیف جمع ہیں، تاکہ روحوں

 

۳۲

 

کی وحدت و کثرت کی مثال ہو، یاد رہے کہ انسان میں تین بنیادی مثالیں موجود ہیں، عقل میں وحدت کی مثال ہے جو سب سے اوپر ہے، جسم میں کثرت کی مثال ہے جو سب سے نیچے ہے، اور روح میں دونوں کی مثالیں (یعنی وحدت بھی اور کثرت بھی) ہیں، کیونکہ یہ درمیان میں ہے، لہٰذا روح ایک بھی ہے اور کثیر بھی۔

 

مراد مرزاؑ:

مادّہ ر و د، مراد:ارادہ کیا گیا، چاہا گیا، مطلوب، مقصود، مراد مرزا: وہ شہزادہ جو مطلوب ہو، یعنی امامِ اقدس و اکرمؑ جو سب کا مطلوب و مقصود ہے، اس میں کوئی شبّہ ہی نہیں کہ مومن مرید (چاہنے والا)ہے، ارادتمند ہے اور پاک امامؑ مراد (چاہاگیا) ہے، یعنی مقصودِ جان ہے، ویسے تو اہلِ ایمان کی دینی اور دنیوی مرادات بہت زیادہ ہیں اور ان کی ترتیب بھی ہے، مگر جملہ مرادوں کی مراد یا سب سے آخری اور اعلیٰ مراد امامِ زمانؑ ہے، کیونکہ وہی اسرارِ الٰہی کا جامع الجوامع خزانہ ہے۔

 

ذوالفقار علیؑ:

مادّہ ذو اور ف ق ر،ذو: والا، صاحب، ذوالفقار: وہ تلوار جس کی پشت ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہو، جیسے کہا جاتا ہے: سیف مفقّر = وہ تلوار جس کی پشت پر ہموار خراشے ہوں، ذوالفقار علیؑ : علیؑ کی ذوالفقار، امامِ آلِ محمدؐ کا یہ پاک نام تنزیلی اور تاویلی جہاد کی علامت ہے، تنزیلی

 

۳۳

 

جہاد کو تو سب جانتے ہیں، مگر تاویلی جہاد کو اس کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ سمجھنا عوام کے بس کی بات نہیں، جبکہ یہ ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی، عقلی بھی ہے اور علمی بھی، جانی بھی ہے اور مالی بھی، آسمانی لشکر کی مدد سے بھی ہے اور زمینی لشکر کے ذریعے سے بھی۔

نورالدّین علیؑ:

مادّہ ن و ر، نور: روشنی، نورالدّین:دین کی روشنی، نورالدّین علیؑ: علی دین کی روشنی ہے، وہ شخص جو علی کی طرف سے دین کی روشنی ہے، یعنی آلِ محمدؐ و اولادِ علیؑ کا امامؑ، حضرت امامِ عالی مقامؑ کا یہ پُرحکمت نام بڑا اہم ہے، کیونکہ “نور” قرآن میں سب سے روشن موضوع ہے، جس میں مجموعی طور پر ایک ہی نور کا ذکر ہے، تاہم حقیقتِ نور کے مختلف پہلوؤں کے اعتبار سے آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) میں اللہ کا تصوّر ہے، آیۂ سراج (۳۳: ۴۶) میں رسولؐ کا اور آیۂ مصابیح (۴۱: ۱۲، ۶۷: ۰۵) میں حضراتِ أئمّہ کا تصوّر ہے۔

 

خلیل اللہ علیؑ:

مادّہ خ ل ل، خلیل:فقیر، محتاج، خالص دوست، خلیل اللہ: خدا کا فقیر، یعنی ایسا شخص جس کو خدا نے اپنی عنایات کے لئے خاص فقیر ٹھہرایا ہو، خدا کا خالص دوست، حضرت ابراہیمؑ کا لقب، خلیل اللہ علیؑ: علیؑ جو خدا کا فقیر اور خالص دوست تھا، وہ امامؑ جو علیؑ کی اولاد سے خدا کا فقیر اور خالص دوست ہے، ہر امامِ حقؑ عطیاتِ نورانیّت کا فقیر اور

 

۳۴

 

اللہ کا مخلص دوست ہے، جیسے حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: وَاتَّخَذَ اللّٰه اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا  (۰۴: ۱۲۵) اور خدا نے ابراہیمؑ کو اپنا فقیر قرار دیا، نیز یہ ترجمہ بھی درست ہے: اور خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بنالیا۔ حضرت موسیٰؑ کے بارے میں فرمایا گیا ہے: رَبِّ اِنِّىْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ (۲۸: ۲۴) اور (موسیٰ نے) دعا کی کہ پروردگار! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کردے میں اس کا محتاج ہوں۔ پس خدا کے فقیر کے معنی اسی سطح کے مطابق ہیں۔

 

نزارؑ:

اس سے پیشتر لفظ نزار کے بارے میں عرض کی گئی ہے کہ ہادیٔ برحقؑ کا یہ مبارک نام اہلِ ایمان کو عجز و انکساری کا درس دیتا ہے، کیونکہ ساری حکمت کسرِ نفسی میں ہے، نفس کی شکست اور عقل کی فتح اسی میں ہے، کہ تواضع اور فروتنی اختیار کی جائے، چنانچہ فرمایا گیا ہے: اور (اے پیغمبر!) عاجزی کرنے والے بندوں کو (روحانیّت) کی خوش خبری سنا دو (۲۲: ۳۴)۔

 

سیّد علیؑ:

مادّہ س ا د، سیّد: سردار، پیشوا، حضرت فاطمہ صلوات اللہ علیھا کی اولاد اور نسل والے، آلِ رسولؐ، سید علیؑ: علیؑ سردار ہے، وہ شخص جو علیؑ کی طرف سے سید و سردار یعنی امام ہے، لفظ “سیّد” کے یہ معنی دینی علم کے علاوہ مستند کتبِ لغت کے بھی مطابق ہیں، اور مستند لغات بڑی منطقی چیز ہوا کرتی ہے، چنانچہ جب یہ بات مسلّمہ ہے کہ سیّد یعنی سردار اور آلِ رسولؐ صرف اس

 

۳۵

 

شخص کو کہا جاتا ہے، جو جناب فاطمہ زہراؑ کی اولاد ہو، تو پھر کیا ایسے حضرات جو آلِ محمدؐ ہیں، وہ آیۂ اصطفا (۰۳: ۳۳) کی برگزیدگی میں شامل نہیں ہوسکتے ہیں؟ ضرور ہوسکتے ہیں، کیونکہ “آلِ محمدؐ”  کی یہ اصطلاح آلِ ابراہیمؑ اور آلِ عمرانؑ کی توضیح و تشریح ہے۔

 

حسن علیؑ:

حسن:خوبصورت، جمیل، حسن علیؑ: علیؑ یہ حسن ہے جو نورِ خدا کی خوبیوں کے ساتھ انتہائی خوبصورت ہے، اور یہ حسن، علیؑ کی طرف سے ہے، اور نور کے اعتبار سے خود علیؑ ہے، ربّانی حُسن و جمال کا سرچشمہ نور ہے، پھر روح ہے اور جسم صرف ایک سایہ ہے۔

 

قاسم علیؑ:

قاسم: تقسیم کرنے والا، قاسم علی: تقسیم کرنے والا علیؑ ہے، یعنی بحکمِ خدا علیؑ دوزخ اور بہشت کے درکات و درجات کا تقسیم کرنے والا ہے، نیز آج دنیا میں بھی علیؑ ہی ہے جو نورِ خداوندی کی حیثیت میں عقلی اور علمی رزق بانٹتا ہے، پس حضرت امام قاسم علیؑ کا بابرکت نام اسی نظریہ کو تازہ کرتا ہے۔

 

ابوالحسن علیؑ:

ابوالحسن علیؑ: علیؑ ابوالحسن ہے، یہ امام ابوالحسن علیؑ کا تقرر علیؑ کی طرف سے ہے، اور علیؑ کی اولاد سے ہے، نیز ابوالحسن کی کنیت بھی مولا علیؑ کی ہے، چونکہ علیؑ ہی مرکزِامامت ہے، لہٰذا یہ امر ضروری ہے کہ أئمّۂ اولادِ علیؑ کے مبارک اسماء اصل اور مرکز کی طرف لوٹ جائیں، اور ہر اسم میں نور کے کسی پہلو کا ذکر ہو۔

 

۳۶

 

خلیل اللہ علیؑ:

اس پاک نام میں سب سے پہلے اللہ کی یاد ہے جس کا مقصد تصوّرِ وحدانیّت ہے، پھر خدا کی تعریف ہے کہ اس نے حضرت ابراہیمؑ کو اپنا خلیل بنا کر نور کی دولت سے مالا مال فرمایا، پھر علیؑ کے ذکر میں یہ اشارہ ہے کہ نور کا سلسلہ ابراہیمؑ کی آل میں تاقیامِ قیامت جاری ہے اور وہ آلِ محمدؐ اور اولادِ علیؑ میں ہے، حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے وقت میں یوں دعا کی تھی: اے میرے ربّ! مجھ کو حکمت عطا فرما، اور صالحین سے میرا الحاق کردے، اور میرے لئے آئندہ لوگوں میں ایک سچ بولنے والی زبان بنادے (۲۶: ۸۳ تا ۸۴) قانونِ حقیقت یہ کہتا ہے کہ خدا نے ابراہیمؑ کو حکمت دے کر اپنی آل کے سلسلۂ نورِ ہدایت سے واصل کردیا، وہ اس نور میں زندہ ہے، اور ہادیٔ برحقؑ کو اس کی زبان قرار دیا گیا ہے، اور سچ بولنے والی زبان کا مقصد علم و حکمت بیان کرنا ہے۔

 

حسن علی شاہؑ:

شاہ کا یہ پسندیدہ اور پیارا لقب تقریباً سب اماموں کے لئے استعمال ہوتا ہے، کیونکہ امام بحقیقت بادشاہ ہے، اور تختِ روحانیت کے بادشاہ کی محبت بڑی پُرلطف ہوتی ہے، شاہ کا قرآنی لفظ “مَلِک” ہے، جس کی جمع ملوک ہے، اور حقیقی مومنین کے لئے امامؑ کے بادشاہ ہونے کے تصوّر سے بیحد خوشی اس لئے ملتی ہے کہ اس میں ایک بہت بڑا راز ہے، جو اس آیۂ کریمہ میں پوشیدہ ہے: یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا

 

۳۷

 

تھا کہ اے میری قوم کے لوگو اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تمھیں عطا کی تھی، اس نے تم میں نبی پیدا کئے اور تم کو ملوک (بادشاہ) بنایا (۰۵: ۲۰) یہ راز اس طرح سے ہے کہ امتِ موسیٰؑ کے سچے مومنین اپنے اپنے امامِ وقتؑ کے نور میں بادشاہ تھے، کیونکہ امامِ زمانؑ مومنین کی روحِ اعظم کا نام ہے، جو انسانِ کامل کی حیثیت سے مجسم ہے اور یہ عظیم نعمت تمام زمانوں کے لئے یکسان ہے۔

 

نورِ مقدّس کے اسی جامۂ مبارک سے “آغا خان” کا لقب شروع ہوا ہے، اس لفظ کی ایک صورت “آقا خان” بھی ہے، آقا: بزرگ، سرور، خان: رئیس، امیر، لفظ کے دونوں حصّے ترکی ہیں، آقا خان کے اصطلاحی معنی بہت اعلیٰ اور بے مثال ہیں، جس کی وجہ ظاہر ہے کہ امامؑ نے اسے بطورِ لقب اپنایا ہوا ہے۔

 

علی شاہ داتارؑ:

اس مقدّس نام کا مطلب یہ ہے: حضرت امیر المومنین علیؑ بڑا سخی بادشاہ ہے، یہ امامِ عالی مقام جس کا نامِ نامی “علی شاہ داتارؑ” ہے بحقیقت مرتضیٰ علی بادشاہؑ ہے جو بڑا فیاض تھا، داتار: فیاض، سخی، داتا: عطا کرنے والا، بخشنے والا، چونکہ امام اور پیغمبر صلوات اللہ علیھما خدا کے ہاتھ ہیں، اس لئے خدا تعالیٰ اپنے ان ہاتھوں سے لوگوں کو انعامات دیتا ہے، سو امامؑ بمرتبۂ دستِ خدا جو کچھ عنایت کردیتا ہے، وہ سب چیزوں سے اعلیٰ اور لازوال ہوا کرتا ہے، جیسے ایک قرآنی مفہوم (۰۲: ۲۴۸) ہے کہ: امام کے روحانی بادشاہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ تمھارے پاس صندوقِ روحانیت آئے

 

۳۸

 

گا جس میں تمہارے ربّ کی طرف سے سکونِ قلب کی چیزیں ہیں، نیز اس میں آلِ موسیٰؑ اور آلِ ہارونؑ (نبوّت و امامت) کا علم و حکمت ہے، صندوق کو فرشتے اٹھاکر لائیں گے، یعنی یہ صرف ایک روحانی چیز ہے، مادّی نہیں، یہ ہے امامِ برحقؑ کی روحانی سلطنت کی ایک روشن دلیل، جو آیۂ آلِ ابراہیم (۰۴: ۵۴) کے مطابق ہے۔

 

سلطان محمد شاہؑ:

مادّہ س ل ط، سلطان:دلیل، حجّت، زور، غلبہ، بادشاہ، سلطان محمد: اس عظیم الشّان اور بابرکت نام میں سلطنتِ محمدیؐ کے معنی موجود ہیں، اور یقیناً حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ وسلامہ کی بے مثال شخصیّت روحانی بادشاہی کی مالک تھی، ویسے تو ہر امام اپنے وقت میں روحانی بادشاہ ہوا کرتا ہے، مگر خدا کے عظیم پروگرام کے مطابق تمام زمانے ایک جیسے نہیں ہوتے، چنانچہ حضرت امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام کا زمانہ بڑا اہم اور بہت خاص بلکہ سب سے عظیم تھا، کیونکہ قرآنی تاویل کی زبان میں آپؑ کی ذاتِ عالی صفات شبِ قدر تھی، جس میں تمام عالمِ امر کے فرشتوں اور روحِ اعظم اور دیگر ارواح کا نزول ہوتا ہے، ملائکہ اور ارواح کے نزول کا مقصد دو طرفہ ہوا کرتا ہے، ایک یہ کہ لوگوں کے ماضی سے حساب لیا جائے، دوسرا یہ کہ مستقبل کے لئے ایک عظیم پروگرام بنایاجائے، سو اس “زندہ شبِ قدر” کے زمانے میں اللہ کا وہ وعدہ عمل میں

 

۳۹

 

آچکا ہے جس کا ذکر قرآن (۹۷: ۰۱ تا ۰۵) میں فرمایا گیا تھا۔

 

یاد رہے کہ فرشتہ ہو یا روح، وہ کئی سطحوں پر پائی جاتی ہے، یعنی ملائکہ اور ارواح مقامِ معرفت پر اپنی حقیقی صورت میں ہوتی ہیں جنھیں کوئی عارف وہاں دیکھ کر پہچان سکتا ہے، مگر نچلی سطحوں پر اہلِ دنیا کو جیسے فرشتے آتے ہیں اور جو روحیں ملتی ہیں وہ منجمد ہوا کرتی ہیں، یعنی دنیاوی علم و ہنر اور سائنس کی ہر چیز اپنی اصل اور بنیاد میں ایک منجمد فرشتہ یا روح ہوا کرتی ہے، جیسے پانی اپنے دائرۂ کل کے ہر مقام پر پانی نہیں ہوتا، وہ بھاپ یعنی بخارات، بادل، برف و بارش، یخ وغیرہ بھی ہے، چنانچہ آج کے زمانے میں سائنس دانوں نے ذرّہ (ATOM) کا تجزیہ کرکے برق پاروں کی صورت میں منجمد روح کو پایا ہے، اسی طرح اڑن طشتریاں ایک قسم کے منجمد فرشتے ہیں، اور یہ سب کچھ اس انتہائی عظیم خدائی پروگرام کے مطابق ہے جس کا ذکر قرآن میں جگہ جگہ فرمایا گیا ہے، جو شبِ قدر اور حضرت قائم القیامت علیہ افضل التحیتہ والسّلام سے متعلق ہے۔

 

شاہ کریمؑ:

مادّہ ک ر م، کریم: بخشش کرنے والا، درگزر کرنے والا، مکرّم و معظّم، معزّز، خدا کا ایک نام، اور متعلقہ ایک پوشیدہ بزرگ نام: “الاکرم الاکرم الاکرم …..” نور مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امامؑ: نور کے معنی ہیں عقلی، روحانی اور اخلاقی روشنی، مولانا کا مطلب ہے ہمارے آقا و مولا، شاہ کریم الحسینی کی وضاحت ہے حسینی نسل کا فیاض بادشاہ، حاضر امام کا مطلب ہے، وہ امام جس کی پہچان اور اطاعت اہلِ زمانہ پر فرض ہے، اور اس

 

۴۰

 

کے بغیر اگلے اماموں کی ولایت کا م نہیں آسکتی ہے، یہ امام اکرم و اعظم جو سلسلۂ پاکِ امامت میں ساتواں ہفتم ہے ایٹمی دور کا امام ہے، جس کی امامت کے پس منظر میں ایک عظیم قیامت برپا ہوچکی ہے، جس کو اہلِ جہان نے صرف عالمِ ذرّ میں دیکھا، مگر دنیائے ظاہر میں نہیں دیکھا، جس کی وجہ وہ دیوار ہے جو ظاہر و باطن کے درمیان قائم کی گئی ہے۔ والسّلام …..۔

 

فقط خادمِ ناتوان

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

۲۴۔ستمبر، ۱۹۸۳ ء

 

۴۱

حکیم پیر ناصر خسرو اور روحانیت


حکیم پیر ناصر خسرو اور روحانیّت

باطنی پاکیزگی

نورعلی مامجی اور یاسمین نور علی مامجی کے دونوں فرزند  نادرعلی اور نسرین کتنے پیارے ہیں، زہے نصیب کہ ان عزیزوں نے امریکا میں رہتے ہوئے ایک علمی نہر کی تعمیر میں تعاؤن کیا، تا کہ اس سے روحانی آبادی اور باطنی پاکیزگی ہو۔

بِسم اللہ الرّ حمٰنِ الرّ حیْم

حرفِ اوّل

 

یہ کتابچہ یعنی “پیر ناصر خسرو اور روحانیت” ایک ایسی اہم تقریر پر مشتمل ہے جو “اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان” کے ماہانہ لیکچروں کے سلسلے میں مرتب ہوکر بمورخہ یکم اگست ؁۱۹۷۰ء اہلِ علم کے ایک خاص اجتماع میں سنائی گئی تھی، جس میں بعض اہلِ بصیرت نے اس مقالہ کی اہمیّت و افادیّت کے پیشِ نظر یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اس کو فوری طور پر شائع کردیا جائے۔

اگرچہ “پیر ناصر خسرو اور روحانیت” جیسے دشوار اور بے پایان موضوع کو ایک محدود اور مختصر مقالہ میں سمودینا ایک انتہائی مشکل بلکہ ناممکن کام تھا، تاہم اس میں بقدرِ امکان یہ کوشش کی گئی ہے، کہ روحانیّت کے ان رہنما اصولوں کو واضح کردیا جائے، جو حجتِ خراسان پیر ناصر خسرو قدّس اللہ سرّہٗ کے نظریئے اور تجربے کے مطابق ہیں، جن کی روشنی میں غور و فکر کرنے کے بعد قاری کو نہ صرف حکیم پیر ناصرکے علوم و معارف کے خزانوں کا راستہ مل سکتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اسماعیلی مذہب کے علومِ مخفی اور امام شناسی کا دروازہ بھی کھل سکتا ہے۔

۷

جن حضرات نے تاریخِ عالم کا بغور مطالعہ کیا ہے، وہ اس بات سے بخوبی واقف و آگاہ ہیں کہ ابتدائی انسان اس سیّارۂ زمین پر آئے زمانہائے دراز گزر چکے تھے، کہ دنیا میں یکے بعد دیگرے مختلف علوم و فنون ظاہر ہوئے، مگر علمِ روحانیّت وہ علم ہے جو تاریخِ انسانیّت سے بھی زیادہ قدیم ہے، جس کی خاص اہمیّت و ضرورت ہر زمانے میں رہی، خصوصاً موجودہ اور آئندہ زمانے میں سب سے زیادہ ضرورت اس کی ہے، جبکہ آفاقی (یعنی مادّی) ترقی کے معجزات ظاہر ہوچکے ہیں، اور روحانی ترقی کے معجزات ظہور پذیر ہونے والے ہیں جیسا کہ آیۂ کریمہ  سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا (۴۱: ۵۳) کا اشارہ ہے۔

اس انقلابی دور میں اسماعیلیوں کے لئے روحانی تعلیم کی اہمیّت و ضرورت ہونے کی سب سے بڑی دلیل امامِ زمان حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی صلوات اللہ علیہ و سلامہ کا وہ خصوصی ارشادِ گرامی ہے، جس میں انھیں اس امر کی تاکید فرمائی گئی ہے کہ وہ موجودہ دور میں ضروری طور پر اپنے مذہب کی روحانیّت و معرفت کو کما حقہ سمجھ لیا کریں۔

دعا ہے کہ خدا وندِ تبارک و تعالیٰ ان سب کو روحانیّت و معرفت سمجھنے اور حاصل کرنے کی توفیق و ہمت عطا فرمائے! آمین یاربَّ العالمین!

 

فقط احقرالعباد

نصیر ہونزائی

۱۸ ؍ ستمبر ؁۱۹۷۰ء

 

۸

 

حکیم پیر ناصر خسرو ق س اور روحانیّت

 

روحانیّت

ظاہری فلسفیوں میں سے جنھوں نے روحانیّت کی جو کچھ تعریف کی ہے اور جس انداز میں روحانیت کا نظریہ پیش کیا ہے اس میں بہت سا اختلاف اور اضطراب پایا جاتا ہے، جس کی وجہ اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ عملی اور حقیقی روحانیّت ظاہری علوم کی رسائی سے برتر و بالا تر ہے، لیکن چونکہ اسماعیلی مذہب کی بنیادیں باطنی اور روحانی امور پر قائم اور مستحکم ہیں اور اس میں عملی روحانیّت اور معرفت کے تمام ذرائع اور مواقع ہر وقت مل سکتے ہیں، لہٰذا اس مذہب کی ساری تعلیمات روحانیّت و معرفت سے معمور اور روحانی لذّتوں سے بھر پور ہیں، پس یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ روحانیّت کا اصلی نام معرفت ہے۔

چنانچہ اس موضوع میں حضرت پیر ناصر خسرو قدّس اللہ سرہٗ کی روحانیّت سے ان کی وہ معرفت مراد ہے، جو نورِ امامت کے پہچاننے سے ان کو حاصل ہوئی تھی اور یہ جاننا ضروری ہے کہ انسانِ کامل کی روح ہی نورِ مطلق ہے، یہ

۹

 

روح دوسری عام انسانی روحوں سے ارفع و اعلیٰ ہوتی ہے، جو روح القدّس یا کہ روح الامین کے نام سے موسوم ہے اور کسی شک و شبہ کے بغیر پیر ناصر خسرو کے نزدیک اسی روح کی روحانیّت حقیقی اور اصلی روحانیّت ہے اور اسی روحانیّت کے ذریعے سے خدا کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے اور پیر صاحب نے اپنی تخلیقات و تصنیفات میں اسی روحانیت کا ذکر فرمایا ہے، چنانچہ آپ اپنی گرانمایہ اور عظیم الشّان کتاب “زادالمسافرین” کے کئی صفحات پر اسی جامع حقیقت کا تذکرہ فرماتے ہیں کہ پیغمبر اور امام علیھما السّلام میں انسانی روح کے علاوہ ایک عظیم و برتر روح بھی ہوا کرتی ہے جس کے بہت سے نام ہیں، مثلاً روح القدّس ، روح الامین، روح اللہ ، روح الاعظم، روح الوحی، روح الارواح، روحِ الٰہی، روحِ عالم، روحِ ملکوتی، روحِ محمدی، روح القرآن، نور، کلمہ ، رسول، ذکر وغیرہ۔

پیر صاحب مذکورہ کتاب زادالمسافرین میں فرماتے ہیں کہ پیغمبر اور امام علیہما السّلام کی فرمانبرداری اور اطاعت کرنے سے حقیقی مومنین بھی روح القدّس میں زندہ ہوسکتے ہیں اور اس بیان کی صداقت پر آپ یہ قرآنی دلیل پیش کرتے ہیں کہ: یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااسْتَجِیْبُوْالِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ(۰۸: ۲۴)۔

اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول کی دعوت کو قبول کرو جبکہ رسول تمھیں اس چیز کی طرف بلاتے ہیں جو تمھیں زندہ کردینے والی ہے۔

واضح رہے کہ یہاں جس دعوت کا ذکر آیا ہے وہ دعوتِ حق ہے، یعنی

۱۰

آلِ نبی اور اولادِ علی علیہم السّلام کی ظاہری و باطنی دعوت اور وہ چیز جو مومنین کو روح القدّس کی زندگی میں زندہ کردینے والی ہے، اسی سلسلے کے أئمّۂ اطہار علیہم السّلام کی ولایت و امامت ہے، پس معلوم ہوا کہ روح القدّس ہی وہ حقیقی روح ہے جس کی روحانیّت میں خدا کی معرفت اور ابدی نجات پنہان ہے۔

۱۱

حضرتِ آدمؑ میں خدا کی روح

 

روح اور روحانیّت کا تذکرہ بظاہر حضرتِ آدم علیہ السّلام کی تخلیق کے ساتھ ساتھ شروع ہوجاتا ہے، لہٰذا ہم اپنے اس مقالے کا آغاز بھی حضرتِ آدمؑ ہی سے کرتے ہیں، تاکہ اس سے نہ صرف نفسِ مضمون کے بیان کرنے اور سمجھنے میں مدد مل سکے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ آپ کو اس سلسلے میں کہیں نہ کہیں پیر ناصر خسرو کی تعلیمات کی معنوی گہرائیوں کا اندازہ بھی ہو، کہ پیغمبروں کے جوجو قصّے آپ نے سن رکھے ہیں ان کے متعلق علمائے ظاہر کا اندازِ فکر کیسا ہے اور پیرناصر خسروکس طریق اور کیسی گہری نظر سے ان قصّوں کی تاویلی حکمتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔

چنانچہ حجتِ خراسان حکیم ناصر خسرو قدّس اللہ سرّہٗ کی تعلیمات کی روشنی میں اس مسئلہ سے بحث کی جاتی ہے کہ حضرتِ آدمؑ میں اللہ تعالیٰ نے کس طرح اپنی روح پھونکی؟ اور قرآنِ حکیم کا وہ ارشاد، جس سے یہ سوال پیدا ہوا ہے، یہ ہے:

فَاِذَاسَوَّیْتُہ‘ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہ‘ سٰجِدِیْنَ (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲)

۱۲


(یعنی تخلیقِ آدمؑ سے قبل اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے مخاطب ہو کر فرمایا): پس جب میں اسے درست کروں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کو سجدہ کرتے ہوئے گرجانا۔

چنانچہ مذکورہ سوال کا مفصل جواب یہ ہے کہ اس آیۂ مقدّسہ میں حضرتِ آدمؑ کی جس تخلیق کا ذکر آیا ہے، اس سے آدمؑ کی جسمانی پیدائش مراد نہیں، بلکہ وہ اس کی روحانی تکمیل ہی ہے اور روحانی تخلیق و تکمیل کے دو مرحلے ہوا کرتے ہیں: پہلا مرحلہ خدا کی روح (یعنی روح القدّس) حاصل کرنے کی اہلیت سے متعلق ہے، جسے تزکیۂ نفس یا روحانیّت کی عام ترقی کہنا چاہئے اور دوسرا مرحلہ وہ ہے جس میں خدا کی روح پھونکی جاتی ہے، مذکورہ آیت سے یہی مطلب ظاہر ہے کہ حضرت آدمؑ نے پہلے تو عام روحانی ترقی کی اور اس کے بعد روح القدّس حاصل کرلی۔

اب رہا یہ سوال کہ آدمؑ میں خدا نے کس طریق سے اپنی روح پھونک دی؟ اور یہ سوال اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ روح ایک غیر مادّی حقیقت ہے،اس لئے وہ ہوا کی طرح ایک سے دوسرے میں پھونکی نہیں جاسکتی، پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدم میں خدا کا روح پھونک دینا تاویلات میں سے ہے اور اس کی تاویل ذیل میں بیان کی جاتی ہے:

روح ایک لطیف اور بسیط جوہر ہے، جس کی ہمہ گیر و ہمہ رس حقیقت کے مختلف پہلوؤں کو سمجھانے کے لئے اگر اس کائنات کی تمام چیزوں کو ایک ایک کر کے بتادیا جائے کہ روح ایسی ہے تو پھر بھی روح کی مثالوں کی ضرورت

۱۳

پوری نہ ہوسکے گی، کیونکہ روح کی حقیقت و کیفیت ایک ایسے عظیم سمندر کی طرح ہے جو نہ صرف اپنے مرکز پر ہے، بلکہ اس نے اپنی مختلف شاخوں کی صورت میں ایک وسیع دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو، جیسے: بادل، بارش، برفِ یخ، چشمہ، ندی، نالہ ، دریا، ہوا کی نمی، نباتات، حیوانات وغیرہ کہ یہ تمام چیزیں پانی کی بدولت جاری و ساری ہیں، بلکہ یہ پانی کی مختلف شاخیں ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ موقع کی موزونیّت و مناسبت کے مطابق روح اور روحانیّت کی مثالیں مادّی چیزوں سے دی گئی ہیں، تاکہ بقدرِ امکان روحانی معارف و حقائق سمجھائے جاسکیں، چنانچہ آیۂ مذکورۂ بالا میں روح القدّس کی مثال ہوا سے دی گئی ہے اور ویسے بھی “روح” اور “ریح” کے دونوں لفظ ایک ہی مادّہ کے ہیں، اور اہلِ دانش کے لئے اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ پھونکنے کا ذریعہ سانس ہے اور سانس لینے کا ذریعہ ہوا ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ پھونکنا ہوا کے سوا کچھ بھی نہیں۔

اب اللہ تعالیٰ کی توفیق و یاری سے حکیم ناصر خسرو کے علم و حکمت کی روشنی میں یہ دیکھنا ہے کہ جب حق تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو ایک اعلیٰ ترین روح عنایت فرمائی، تو اس کی مثال کن کن وجوہ کی بنا پر پھونکنے سے دی؟ اس کے جواب کی تفصیل اس طرح سے ہے کہ آدمؑ خدائی روح حاصل کرنے سے پہلے روایات کے ظاہری پہلو کے مطابق مٹی کا ایک بے جان پتلا نہ تھے، بلکہ وہ جیتا جاگتا ایک برگزیدہ انسان تھے، چنانچہ مولانا ھنید علیہ السّلام (جو اس وقت کے امام تھے) کے جسمانی اور روحانی کلام کے ذریعہ حضرت

۱۴

آدمؑ کا دل و دماغ علمِ الٰہی سے بھر پور ہوا، کیونکہ کسی شخص میں روح پھونکنے کی بہترین صورت یہی ہے کہ ہوا اور سانس سے آواز بنائی جائے اور آواز کے ذریعہ اس شخص کو علم و حکمت سنادی جائے، کیونکہ علم و عرفان کی غذا کے بغیر کسی کو حقیقی روح نہیں دی جاسکتی، جس طرح جسمانی خوراک کے بغیر حیوانی روح کی تکمیل ناممکن ہے۔

آدم علیہ السّلام میں روحِ قدسی پھونک دینے کا دوسرا اشارہ یہ بتاتا ہے کہ آدم میں خدا کے نور کی جو معمولی سی چنگاری تھی، جو فطری طور پر ہر انسان میں ہوا کرتی ہے، اسی کو روح القدّس کی قوّت سے ایک مکمل نور کی صورت دے دی گئی، جس طرح پھونک اور ایندھن کے ذریعہ ذرّہ بھر چنگاری سے ایک عظیم آگ روشن کردی جاتی ہے، جو مادّی قسم کا نور ہے۔

 

۱۵

اس مثال کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ روح القدّس کے ذریعہ آدمؑ کے باطن کو پاک و پاکیزہ کردیا گیا، جس طرح سطحِ زمین کی ساری صفائی پانی سے ہوتی ہے اور پانی کی پاکیزگی ہوا کے ذریعہ ہوا کرتی ہے، اور کئی طرح سے ہے مثلاً: جب ہوا سمندر کے کھارے پانی سے بخارات کو اٹھاتی اور ان کو بادلوں کی شکل میں تبدیل کرتی ہے، تو ان سے جو بارش برستی ہے اس کا پانی نہ تو کھارا ہوتا ہے اور نہ ہی کسی طرح کا ناصاف رہتا ہے، بلکہ وہ پاک و پاکیزہ ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں اس کا اشارہ ہے کہ:

وَاَنْزَلْنَامِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَھُوْرًا (۲۵: ۴۸)۔

“اور ہم نے بلندی سے پاک و صاف پانی اتارا”۔

اس مثال کا چوتھا ممثول یہ ہے کہ حضرت آدمؑ ابوالبشر تھے لہٰذا ان میں بشری خواہشات کا چراغ پایا جانا کوئی عجیب بات نہ تھی جس میں روشنی کم اور دھواں زیادہ ہوا کرتا ہے، پس حق تعالیٰ نے اپنی رحمت کی پھونکوں سے اس چراغ کو بجھا دیا اور اس کی جگہ پرملکوتیّت کا پُرنور چراغ روشن کردیا۔

اب یہ ایک اور سوال ہے کہ حق تعالیٰ نے فرشتوں سے جو فرمایا کہ تم آدم کے لئے سجدہ کرتے ہوئے گرجانا، اس کے کیا معنی ہیں؟ کیونکہ یہی فرمانا کافی تھا کہ تم آدم کے لئے سجدہ کرنا، جبکہ سجدہ کی حالت میں زمین پر سرجھکایا جاتا ہے، خود کو گرایا نہیں جاتا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ آدمؑ اپنے وقت کے انسانِ کامل تھے اور جب انسانِ کامل میں روح القدّس داخل ہوتی ہے، تو خدا تعالیٰ کے امر سے وہ وحدت و کثرت کا بہترین نمونہ بن کر آتی ہے، یعنی وہ ایک بھی ہے اور بے شمار بھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ روح القدّس اپنی ذات میں ایک ہونے کے باوجود تمام کائناتی فرشتوں اور کُلّ انسانی روحوں کے نمونوں کوکچھ عجیب قسم کے زندہ ذرّات کی صورت میں اپنے ساتھ لاتی ہے اور یہ معجزانہ ذرّات انسانِ کامل کے دونوں کانوں اور نتھنوں کی راہ سے اس کے سارے جسم میں گرتے جاتے ہیں، پس فرشتے آدم کے لئے سجدۂ  (فرمانبرداری) کرتے ہوئے اسی طرح گرے تھے۔

اب اس حقیقت کی دلیل پیش کی جاتی ہے کہ روح القدّس میں کائنات کے سب فرشتوں اور تمام انسانی روحوں کے زندہ نمونے موجود ہوا کرتے

۱۶

ہیں، یہ ہے، کہ انسان کی تخلیق کے سلسلے میں سب سے پہلے جب روحِ نباتی انسانی جسم بنانا شروع کرتی ہے، تو اس میں اُگانے اور نشونما دینے کی تمام قوّتیں موجود ہوتی ہیں، اس کے بعد جب انسانی جسم میں روحِ حیوانی داخل ہوکر مکمل ہوجاتی ہے، تو وہ دنیا بھر کے حیوانات کی خاصیتوں کی آئینہ دار ہوتی ہے، پھر جب اس میں انسانی روح کا اضافہ ہوجاتا ہے، تو یہ روح رفتہ رفتہ بہت سی انسانی صلاحیتوں کا مجموعہ ہوتی ہے، اور اپنی ذات میں دنیا بھر کے لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے، جیسا کہ انسان کے خواب کی کیفیت سے ظاہر ہے کہ وہ حالتِ خواب میں جس عظیم عالم کو اور اس میں جتنی بے شمار مخلوقات کو دیکھتا ہے وہ دراصل کوئی بیرونی عالم نہیں، بلکہ اپنی روحِ انسانی کی بے شمار صلاحیتوں کا ایک معمولی سا مظاہرہ ہے۔

مذکورہ بیان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہر عام انسان میں تین ارواح ہیں اور ہر درجہ کی روح اس درجے کا ایک عالم ہے، یعنی روحِ نباتی نباتات کا ایک عالم ہے، جو جمادات پر حاوی ہے، روحِ حیوانی حیوانات کا ایک عالم ہے جوعالمِ نباتات پرمحیط ہے،اور روحِ انسانی انسانوں کا ایک عالم ہے جو عالمِ حیوانات کو گھیرے ہوئے ہے، چنانچہ ہر کامل انسان (پیغمبر اور امام) میں ان تین روحوں کے علاوہ اور ان سے برتر ایک اور روح ہوا کرتی ہے، جس کا نام روح القدّس یا روح الامین ہے اور وہ بھی بذاتِ خود ایک عظیم عالم ہے، جس کو عالمِ ملکوت یا کہ فرشتوں کا عالم کہتے ہیں، جو انسانوں کے عالم کو گھیرے ہوئے ہے، پس معلوم ہوا کہ جب انسانِ کامل میں روح القدّس داخل ہوتی

۱۷

ہے تو وہ فرشتوں اور انسانوں کے عالم کی زندہ اور باشعور تصویریں لے کر آتی ہے۔

۱۸

بنی آدم کی ذرّیت

 

سورۂ اعراف (۷) آیہ ۱۷۲ (۰۷: ۱۷۲) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولادوں کو لیا اور انھیں ان کی اپنی اپنی ذات پر گواہ قرار دیا اور ان سے پوچھا کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ انھوں نے کہا ہاں تُو ہمارا پروردگار ہے ہم گواہی دیتے ہیں۔

اس ارشادِ الٰہی کے متعلّق چند اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ یہ واقعہ خلقتِ آدمؑ سے پہلے کا ہے؟ یا بعد کا؟ اگر یہ واقعہ آدمؑ کے پیدا ہونے سے پہلے کا ہے تو اس میں آدمؑ، بنی آدم اور ان کی پشتیں کہاں تھیں؟ اور اگریہ قصّہ تخلیقِ آدم کے بعد کا ہے، تو بنی آدم سے سب لوگ مراد ہیں؟ یا بعض؟ اگر سب لوگ مراد ہیں تو خدا تعالیٰ نے بنی آدمؑ کی اولادوں سے یہ اقرار کہاں اور کب لیا؟ وغیرہ

مذکورہ سوالات کے جوابات یہ ہیں کہ عہدِ الست کا یہ واقعہ خلقتِ آدم کے بعد کا ہے اور بنی آدم سے مراد بالخصوص انبیاء و اولیاء اور ان کے حقیقی

۱۹

پیرو ہیں اور بالعموم سب لوگ، اور ان کی پشتوں سے ان کی اولادوں کو ہر اس موقع پر لیا جاتا ہے، جبکہ ہونے والے پیغمبریا امام میں روحِ قدسی پھونکی جاتی ہے، یعنی جبکہ روحانی طور پر نبی یا امام میں نور منتقل ہوا کرتا ہے، جس میں روح القدّس کائنات بھر کے فرشتوں اور روحوں کے نمونوں کو زندہ ذرّات کی صورت میں لے کر داخل ہوتی ہے، اسی موقع پر بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولادوں کو بھی لیا جاتا ہے، تاکہ تمام فرشتے اور ارواح اپنے وقت کے پیغمبر یا اپنے عصر کے امام کے نور کا مشاہدہ کریں، کیونکہ اسی مشاہدہ میں حق تعالیٰ کی معرفت کے اسرار پوشیدہ ہیں اور روح القدّس کا یہ قیامت خیز عظیم واقعہ انبیاء و اولیاء کے وسیلہ سے کامل پیروں اور حقیقی مومنوں کو بھی پیش آتا ہے۔

بیانِ مذکورۂ بالا کی تفصیل یہ ہے کہ جس طرح حضرت آدمؑ کی روحانیت کے بارے میں بتایا جا چکا ہے، کہ جب روح القدّس کسی کامل انسان میں داخل ہوتی ہے تو وہ اس وقت تنہا نہیں آیا کرتی، بلکہ اس کے ساتھ تمام ملائکہ اور ساری روحیں بھی آتی ہیں، پھر یہ سب نفوس پہلے تو انسانِ کامل کے جسم میں گرتے ہیں، اس کے بعد اسمِ اعظم کے ذکر، جبرائیل کی تعلیم، میکائیل کی تفہیم، اسرافیل کی موسیقی اور عزرائیل کی تسبیح سے یہ تمام نفوس بلند ہوتے ہوئے پیشانی پر یکجا اور مرکوز ہوجاتے ہیں، جہاں پر روح القدّس کی روشنی میں یہ نفوس اپنے آپ کو زندہ اور خدا کے حضور میں حاضر پاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کی نورانیّت کا مشاہدہ کرکے اس کی قدرت و ربوبیّت کا

۲۰

اقرار کرتے ہیں۔

۲۱

انسانی روحیں آدمؑ کے ساتھ

 

سورۂ اعراف (۷) آیہ نمبر ۱۱ (۰۷: ۱۱) میں ارشاد ہے کہ اور یقیناً ہم نے تمھیں پیدا کیا پھر تمہاری صورت بنادی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو پس سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا۔

اس آیۂ کریمہ کی حکمت سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب فرشتے آدمؑ کو سجدہ کررہے تھے، تو اس وقت سب انسان روحانی طور پر آدمؑ کی پیشانی میں حاضر کئے گئے تھے، کیونکہ اس ارشاد میں سب سے پہلے تمام انسانوں کی خلقت کا ذکر ہے، پھر ان کی روحانی تخلیق کا اشارہ ہے اور آخر میں آدمؑ کو فرشتوں کے سجدہ کرنے کا تذکرہ ہے۔

۲۲

خلقتِ آدمؑ

 

ایک حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ:

خَمَّرْتُ طِیْنَۃَ اٰدَمَ بِیَدَیَّ اَرْبَعِیْنَ صَبَاحاً۔

یعنی میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے (مسلسل ) چالیس یوم تک ہر صبح تخلیقِ آدم کی مٹی گوندھی۔

ظاہر ہے کہ اس سے آدمؑ کی روحانی تخلیق مراد ہے، جو آدمؑ کی مسلسل عبادت و  بندگی کا نتیجہ تھی، خصوصاً اس وقت کی عبادت کا جو پچھلی رات اور صبح سویرے کرلیا کرتے تھے، جس میں خدا کے دونوں ہاتھ یعنی عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ ان کی روحانی تخلیق کے لئے کام کرتے تھے اور اسی طرح تخلیقِ آدم کا روحانی گارا چالیس صبحوں میں گوندھا گیا تھا، کیونکہ چالیس کا عدد نہ صرف پیغمبروں کی حیاتِ طیّبہ میں روحانی انقلاب کا پیش خیمہ ہے، بلکہ یہ عام انسانوں کی زندگی میں بھی بڑی بڑی تبدیلیاں آنے کی علامت ہے، اور انبیاء

۲۳

علیہم السّلام کے متعلق چالیس کے عدد کی مثال یہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ چالیس راتوں کے اعتکاف کے لئے کوہِ طور پر گئے تھے، اعتکاف کے معنی ہیں مسلسل عبادت پر لگے رہنا، اور آنحضرت صلعم اپنی عمرِ شریف کے چالیسویں سال میں درجۂ نبوّت و رسالت پر فائز ہوئے تھے۔

مذکورہ تفصیلات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدم کی جس تخلیق کے لئے دستِ قدرت نے چالیس یوم تک مٹی کا گارا بنایا تھا، وہ تخلیقِ روحانی تھی، کیونکہ تاویل کی زبان میں مٹی ایمان اور مومن کو کہتے ہیں، یعنی کہنا یہ ہے کہ حضرتِ آدمؑ مومنین میں سے ایک مومن تھے، جو حق تعالیٰ نے ان کو برگزیدہ فرما کر روئے زمین پر اپنا خلیفہ (نائب) مقرّر کیا، اور فرشتوں نے قبلاً اسی وجہ سے اعتراض کیا تھا کہ ایک مومن کو نبوّت و امامت جیسے منصبِ جلیلہ پر کیوں فائز کردیا جائے، اور ابلیس نے اسی سبب سے آدمؑ کے لئے سجدہ (یعنی فرمانبرداری) کرنے سے انکار کیا تھا۔

حضرت آدمؑ کے قرآنی قصّے میں انتہائی باطن کے اسرارِ الٰہی پوشیدہ ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ خداوندِعالم کی مصلحت بینی اسی میں تھی، کہ آدم کو دنیائے انسانیت کا ایک ایسا نمونہ اور مثال قرار دیا جائے، کہ جس کی شخصیّت ایک اعتبار سے دورِ جدید کا پہلا انسان ثابت ہو اور دوسرے اعتبار سے بقائے بشری کی لاانتہائی اور دائمی عروج و نزول کی نمائندگی کرے، پس یہی وجہ ہے کہ، قرآنِ حکیم میں حضرت آدمؑ کے جو حالاتِ زندگی بیان ہوئے ہیں، ان کے دوہرے معنی ہیں جن کو صرف اہلِ توفیق ہی سمجھ سکتے ہیں۔

۲۴

روح القدّس

 

روح القدّس کے لفظی معنی ہیں پاک روح، یہ روح حق تعالیٰ کے اسمِ قدّوس کی مظہر ہے، اس لئے یہ خود بھی ہر طرح سے پاک وپاکیزہ ہے، اور ان حضرات کو بھی ہر قسم کی  بُرائی سے پاک رکھتی ہے، جن سے یہ بموجبِ فرمانِ الٰہی علم و حکمت اور رشد و ہدایت کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی رہتی ہے، یہی مطلب اس آیۂ کریمہ میں موجود ہے جو اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کی شان میں ارشاد ہے کہ اے: (پیغمبر کے) اہلِ بیت خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو (ہر طرح کی)  بُرائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک وپاکیزہ رکھے (۳۳: ۳۳) پس اسی روحِ قدسی کی وجہ سے ان حضرات کو پنج تنِ پاک کہا جاتا ہے اور ان برگزیدہ ہستیوں کو پاک رکھنے میں اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ انھیں وحیٔ آسمانی اور علمِ الٰہی کے مراتبِ عالیہ سے سرفراز فرما کر دنیا والوں کے لئے ذریعۂ ہدایت اور نمونۂ رحمت بنا دیا جائے اور اس بات کا ایک اور قرآنی ثبوت، کہ اللہ تعالیٰ پیغمبرؐاور امامؑ  کے

۲۵

ساتھ خواصِ اہلِ بیتؑ کو بھی روح القدس کے ذریعہ  ب بُرائیوں سے دور اور پاک رکھتا ہے۔ یہ ہے جو خدا تعالیٰ حضرت مریمؑ کے  بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ: اور (وہ وقت قابلِ ذکر ہے) جبکہ فرشتوں نے کہا کہ اے مریم بلاشک تم کو اللہ نے برگزیدہ فرمایا ہے اور  بُرائیوں سے پاک رکھا ہے اور کُلّ جہان کی عورتوں پر برگزیدہ کیا ہے (۰۳: ۴۲) اس کے علاوہ قرآنِ حکیم میں جتنی آیتیں حضرت عیسیٰؑ کی شان میں آئی ہیں ان میں سے اکثر آیات ایسی ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے “عیسیٰ ابنِ مریم” کہہ کر خطاب فرمایا ہے اور حضرت عیسیٰؑ کی یہ مادری نسبت محض تعریف و توصیف کے طور پر نمایان کی گئی ہے، کہ ماں اور بیٹا دونوں روح القدّس کی پاک و پاکیزہ زندگی گزارتے تھے اور اسی پاک روح کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو تمام روحانی نعمتیں حاصل تھیں، جیسا کہ قولِ قرآن ہے کہ: جبکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ : اے عیسیٰ ابنِ مریم! میرا انعام یاد کرو جو تم پر اور تمہاری والدہ پر ہوا ہے جبکہ میں نے تم کو روح القدّس سے تائید دی (۰۵: ۱۱۰)۔

اہلِ دانش پر یہ حقیقت واضح اور روشن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی روح (یعنی روح القدّس) نہ صرف حضرت آدمؑ میں پھونکی تھی، بلکہ یہ امر خدا کے نزدیک ایک ایسا کلّیہ ہے کہ جس میں انبیاء و اولیا علیہم السّلام کے علاوہ حقیقی مومنین بھی شامل ہیں، اس کی ایک مثال سورۂ انبیاء (۲۱) آیت ۹۱ (۲۱: ۹۱) او رسورۂ تحریم (۶۶) آیت ۱۲ (۶۶: ۱۲) میں یہ ہے کہ حضرتِ مریمؑ میں بھی خدا نے اپنی روح پھونکی تھی، حالانکہ حضرتِ مریم پیغمبراور امام کے بعد کے کسی درجے پر

۲۶

تھیں۔

جب ہم مذکورۂ بالا ارشادات کی روشنی میں غور و فکر اور تحقیق و تدقیق سے کام لیتے ہوئے یہ معلوم کرلینے کی کوشش کرتے ہیں، کہ آیۂ تطہیر میں پنج تنِ پاک کو “اہلِ بیت” کے خطاب سے مخاطب کرکے گھر کی نسبت کو جس انداز میں نمایان کردیا گیا ہے، اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں، کہ اہلِ بیت کا مطلب ہے نبوّت کے گھر والے، یعنی پنج تنِ پاک، یہاں گھر سے رسول اللہؐ کا وہ روحانی مقام اور درجہ مراد ہے، جس میں آپ پر ہمیشہ وحی نازل ہوا کرتی تھی، پس اہلِ بیت کے حقیقی معنی ہیں وہ پانچ حضرات جو خانۂ روحانیّت میں ہم نشین اور علمِ الٰہی میں ہم راز تھے، وہ سب روح القدّس کے ذریعہ پاک و پاکیزہ اور یکجان تھے، اور ان کے یک دل و یک جان ہونے کی مثال “آلِ عبا” کے معنی سے ظاہر ہے، کہ آلِ عبا کے معنی ہیں چادر والے، اور یہ پنج تنِ پاک کا لقب ہے، اس لقب کی وجہ یہ ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے بموجبِ فرمانِ الٰہی آیۂ تطہیر کے نزول کے موقع پر اہلِ بیت کو اپنے ساتھ ایک ہی چادرمیں سلایا تھا، جس کے معنی یہ ہیں کہ اگرچہ یہ حضرات جسم کے اعتبار سے پانچ ہیں، لیکن روح کے لحاظ سے ایک ہیں، اور وہ روح القدّس ہے، پس پنج تن کے ایک ہی چادر میں لیٹنے اور اسی وقت ان کی شان میں آیۂ تطہیر کے نازل ہونے کی تاویل یہی ہے کہ پنج تن روح القدّس کی روحانیّت میں سموئے ہوئے ہیں اور ہر طرح کی بُرائی سے پاک و پاکیزہ ہیں۔

۲۷

روح القدّس اور حزب اللہ

 

قرآنِ حکیم کے دو مقام ایسے ہیں، جہاں اگر کوئی صاحبِ بصیرت مومن غور و  فکر سے دیکھے، تو اسے معلوم ہوگا کہ روح القدّس کے فیضِ روحانیّت اور نورِ تائید حاصل کرنے کے لئے مومن میں کیا کیا اوصاف ہونے چاہئیں، اور گزشتہ مومنین نے کیسی کیسی عظیم قربانیاں دے کر اس مقصدِاعلیٰ کو حاصل کرلیا تھا، وہ دو مقام سورۂ مائدہ (۵) کا آٹھواں رکوع اور سورۂ مجادلہ (۵۸) کا آخری رکوع ہیں، یہ دونوں رکوع باہم مل کر ایک ہی موضوع کی تعلیمات پیش کرتے ہیں جو حزب اللہ (یعنی خدا کے گروہ) کا موضوع ہے، اس موضوع میں حزب اللہ ان حقیقی مومنین کو قرار دیا گیا ہے جو صرف خدا، رسولؐ، صاحبِ امرؑ اور مومنین سے سچی محبت اور حقیقی دوستی رکھتے ہیں، جس کے نتیجے پر وہ روح القدّس کی روحانیّت و نورانیّت سے مستفیض ہوجاتے ہیں چنانچہ اس موضوع کے مؤخرالذّکررکوع میں اللہ کا ارشاد ہے:

اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَ ھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ(۵۸: ۲۲)۔

۲۸

یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا نے ایمان لکھ دیا ہے اور اپنی روح سے ان کی تائید فرمائی ہے، ان کے دلوں میں ایمان لکھنے اور انھیں اپنی روح سے مدد دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے ان مومنین کے دل میں نورِ ایمان اور فیضِ روح القدّس کو ایک زندہ اور بولنے والی کتاب کی حیثیت سے مکمل کردیا ہے، جس کی برکت سے حقیقی مومنین، غالب و فاتح اور دین و دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں، جیسا کہ خواجہ حافظ شیرازی کا قول ہے:

فیضِ روح القدّس ار باز مدد فرماید

دیگران ہم بکنند آنچہ مسیحا میکرد

ترجمہ: روح القدّس کافیض اگر پھر سے مدد کرے، تو دوسرے لوگ بھی وہی کچھ (معجزات) کرکے دکھائیں گے جو کچھ حضرت عیسیٰؑ نے “معجزات” کرکے دکھائے تھے۔

۲۹

روح الامین

 

روح الامین، روح القدّس اور جبرائیل کا مطلب ایک ہی ہے، اس الٰہی روح کو روح الامین اس لئے کہا گیا ہے، کہ یہ اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کے بے پایان خزانوں کی امانت دار ہے، جیسے سورۂ یوسف میں لفظِ امین کے یہ معنی ظاہر ہیں کہ: بادشاہِ مصر نے حکم دیا، کہ اسے (یعنی یوسفؑ کو) میرے پاس لاؤ میں اس کو خاص اپنے (کام کے) لئے رکھوں گا، جس وقت بادشاہ نے یوسفؑ سے باتیں کیں تو بادشاہ نے کہا، کہ تم میرے نزدیک آج (سے) بڑے معزّز اور امین (معتبر) ہو، یوسفؑ نے کہا اس ملک کے سب خزانوں پر مجھے متعیّن کردو (اور دیکھو کہ) میں کیسا حفاظت کرنے والا اور وجوہِ مصارف جاننے والا ہوں (۱۲: ۵۴ تا ۵۵) ان دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہے، کہ جو شخص قابلِ اعتبار ہو وہی امانت دار بھی ہے اور امانتداری کی مثال مذکورہ دونوں آیتوں سے ظاہر ہے، کہ حضرت یوسفؑ امین کے معنی میں مملکتِ مصر کے کُلّ خزانوں پر متعیّن تھے۔

اب یقیناً روح الامین کے معنی سمجھنے کے لئے آسانی ہوئی، کہ اس

۳۰

مقدّس روح میں علمِ روحانی اور اسرارِ سبحانی کے تمام خزانے امانت ہیں، تاکہ دنیا والے اپنے وقت کے پیغمبر اور امام کے ذریعے سے اس روحانی علم تک رسا ہوجائیں، یہی سبب ہے، کہ ہر اس پیغمبر نے جس کی تبلیغِ رسالت کا قرآنِ پاک میں ذکر آیا ہے: “تحقیق میں تمہارے لئے رسولِ امین ہوں” کہہ کر اپنی قوم سے خطاب فرمایا (سورہ ۲۶ کی آیات ۱۰۷، ۱۲۵، ۱۴۳، ۱۶۲، ۱۷۸، ۱۹۳، (۲۶: ۱۰۷، ۲۶: ۱۲۵، ۲۶: ۱۴۳، ۲۶: ۱۶۲، ۲۶: ۱۷۸، ۲۶: ۱۹۳،) اور ۴۴: ۱۸) کیونکہ وہ حضرات اپنی روح یا، کہ نور کی نسبت سے علمِ الٰہی اور اسرارِ کماہی کے امین اور خزانہ دار تھے۔

اب اس حقیقت کا ثبوت کہ خدا تعالیٰ کی مختلف چیزوں کے مختلف خزانے ہوا کرتے ہیں، یہ ہے جو خود اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ:

وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّاعِنْدَنَا خَزَآئِنُہ‘ وَمَا نُنَزِّلُہ‘ ٓاِلَّابِقَدَرٍمَّعْلُوْمٍ (۱۵: ۲۱)۔

اور کوئی چیز ایسی نہیں مگر یہ، کہ ہمارے پاس اس کے خزانے موجود ہیں اور ہم اسے جانے بوجھے ہوئے انداز کے مطابق اتارتے ہیں۔

سورۂ احزاب (۳۳) (۳۳: ۷۲) کے آخری رکوع میں ارشادِ خداوندی ہے، کہ یقیناً ہم نے امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تو ان سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈرگئے اور اسے انسان نے اٹھالیا، یقیناً وہ بہت تاریک اور بہت نادان تھا۔ اس آیت میں دنیا اور زمانہ بھر کے تمام انسانوں کو ملا کر ایک انسان قرار دیا گیا ہے، جس میں انبیاء و اولیاء اور

۳۱

سب عوام شامل ہیں، کیونکہ انسان کے نام میں بشر کے تمام افراد داخل ہیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے، کہ کیا یہ امانت سب انسانوں نے اٹھالی؟ نہیں نہیں صرف انسانِ کامل نے اپنے نور یعنی روح الامین کے ذریعہ اٹھالی، تاکہ وہ خدا کے امر سے دنیائے انسانیت کی تاریکی اور جہالت کو دور کریں۔

پیغمبر اور امام علیہما السّلام کے نور یعنی روح الامین کی روحانیّت سے مستفیض ہونے کی لازمی شرط یہ ہے، کہ اس نور کے لئے دل و جان سے اطاعت و فرمانبرداری کی جائے، جیسے قرآن میں روح الامین (جبرائیل) کے بارے میں ارشاد ہے کہ: مُطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ(۸۱: ۲۱)اس کی اطاعت کی جاتی ہے پھر وہ امانت دار ہے۔ اس فرمانِ الٰہی میں علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے خزانۂ امانت سے مستفیض ہونے کی شرط تابعداری اور فرمانبرداری بتائی گئی ہے، جو پیغمبرؐ اور امامِ وقتؑ کے لئے کی جانی چاہئے کیونکہ روح الامین کے مظہر وہی حضرات ہیں۔

اس کے علاوہ روح الامین کے معنی ہیں امن والی روح، جیسے قرآنِ پاک میں یہ لفظ اس معنی میں بھی آیا ہے کہ: وَہٰذَا الْبَلَدِالْاَمِیْنِ(۹۵: ۰۳) اور اس امن والے  شہر کی قسم۔ نیز ارشاد ہے کہ : اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ مَقَامٍ اَمِیْنٍ(۴۴: ۵۱)یقیناً پرہیزگار امن والے مقام میں ہوں گے۔ یہ ارشاد بہشت کی تعریف و توصیف کے سلسلے میں ہے، یہاں امن کے معنی ہیں بے خوفی اور اطمینان، پس اس اعتبار سے روح الامین کے معنی ہیں اطمینان والی روح یا کہ مطمئن کردینے والی روح، چنانچہ بزرگوں کے قول کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید کا

۳۲

اشارہ بھی ہے، کہ اگر نفسِ امّارہ کی اصلاح و تزکیہ کیا جائے تو یہ نفسِ لوّامہ بن جاتا ہے اور اگر نفسِ لوّامہ کی بھی تطہیرو تحلیل ہوئی تو اس سے نفسِ مطمئنّہ بن جاتا ہے اور بس یہی نفسِ مطمئنّہ بہشت میں داخل ہوسکتا ہے، اس کے معنی یہ ہوئے،  کہ نفس کو اس درجے پر جو اطمینان حاصل ہوتا ہے، وہ اس کے روح الامین سے مل جانے کی صورت ہے، کیونکہ اطمینان اور سکون کا سرچشمہ تو وہی ہے۔

۳۳

جبرائیل امینؑ

 

جبرائیل یا کہ جبریل امین علیہ السّلام حق تعالیٰ کا ایک مقرّب فرشتہ ہے،یہ جلیل القدر فرشتہ قرآنِ حکیم میں روح القدّس اور روح الامین کے نام سے مشہور ہے، جبرائیل عبرانی لفظ ہے جس کے معنی ہیں عبداللہ یعنی بندۂ  خدا، جبرائیلؑ کی ایک عجیب صفت یہ ہے، کہ وہ مقرّب فرشتوں میں سب سے زیادہ مہربان اور شفیق ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے، کہ جب کوئی حقیقی مومن روحانیّت کے رستے پر چلتا رہتا ہے، تو اس میں سب سے پہلے جبرائیلؑ اس کا ہمراہ بن جاتا ہے، پھر میکائیلؑ، اس کے بعد اسرافیلؑ اور سب سے اخیر میں عزرائیلؑ اس کے ساتھ ہوجاتا ہے، اب یہ چاروں مقرب فرشتے اپنی اپنی عجیب و غریب قوّتوں کو بروئے کار لاکر مومن کو نہایت ہی آسانی کے ساتھ معراجِ یقین پر پہنچا دینے میں مصروف ہوتے ہیں، یعنی جبرائیلؑ تعلیمی قوّت کو استعمال کرتا ہے، میکائیلؑ تاویلی اثر ڈالتا ہے، اسرافیلؑ معجزانہ موسیقی سے محویّت طاری کردیتا ہے اور عزرائیلؑ ذریعۂ فنائیت سے کام لے کر روح

۳۴

کو پیشانی پر مذکور کردیتا ہے، اسی طرح حقیقی مومن رسول اللہؐ اور امامِ حیّ و حاضر کی ہدایت کے بموجب اپنے پیروں اور بزرگوں کے نقشِ قدم پر روحانیّت کی منزلوں کو طے کرتا جاتا ہے، یہاں تک کہ سب سے پہلے عزرائیلؑ رستہ میں پیچھے رہ جاتا ہے، پھر اسرافیلؑ اور اس کے بعد میکائیلؑ رہ جاتے ہیں، مگر جبرائیلؑ عالمِ جبروت تک مومن کا ساتھ نہیں چھوڑتا، بلکہ انتہائی مہربانی اور شفقت سے اس کی مدد کرتا رہتا ہے، جب حق تعالیٰ کے حکم سے روحانیّت کا طالب عالَمِ لاہوت کی طرف آگے بڑھنے لگتا ہے، تو اس وقت جبریل امین بھی اس کی ہمراہی سے رہ جاتا ہے، یہ صرف مومن کی پہلی معراج کا قصّہ ہے اور اس کے لئے ایسی کئی معراجوں کا امکان ہے۔

حکیمِ ربّانی حضرت پیر ناصر خسرو کے نزدیک انسانی عقل ہی وہ فطری صلاحیّت ہے، جو ہادیٔ برحق کی ہدایت کے مطابق تعلیم و تربیت پانے کے بعد جبریل امین بن کر خدا تعالیٰ کے حضور سے وحی لاسکتی ہے، چنانچہ پیر نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب زادالمسافرین اور دوسری تصنیفات میں قرآنِ پاک اور آفاق وانفس کی روشن دلیلوں سے یہ ثابت کردیا ہے، کہ پیغمبر اور امام علیہما السّلام کی اپنی روح ہی جبریل ہے، جس کو روح القدّس اور روح الامین بھی کہتے ہیں اور یہی ان کی پاک روح وہ نور ہے، جس کو  خداوندِعالم نے اپنی روح اور اپنا نور قراردیا ہے، جس کی وجہ سے یہ دونوں حضرات سارے انسانوں سے ممتاز اور مخصوص ہیں، یہی سبب ہے جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جس وقت سے وہ روح (یعنی جبرائیل) آنحضرت صلی

۳۵

اللہ علیہ وآلہٖ و سلم پر نازل فرمائی، وہ پلٹ کر نہیں گئی اور وہ ہم (اماموں)  میں موجود ہے۔

یہاں پر یہ بات قابلِ ذکر ہے، کہ اگرچہ جبرائیل پیغمبر اور امام علیہما السّلام کی اپنی روح کی حیثیت سے ہے، تاہم وہ اپنی خاص ہدایت کے ذریعہ حقیقی فرمانبرداروں میں بھی ان کی کوشش کے مطابق یہ قوّت عمل میں لاسکتے ہیں، جیساکہ صفحۂ عالَم پر بھی یہ حقیقت ثبت ہے، کہ روحِ نباتی جمادات کو اپنا کر نشوونما پانے کے قابل بناتی ہے، حیوان نباتات کو اپناکرروحِ حیوانی کی زندگی بخشتی ہے اور انسان حیوان کو غذا کے طور پر استعمال کرنے کے بعد اپنے ساتھ انسانی روح کی زندگی میں شریک کرلیتا ہے، بالکل اسی طرح پیغمبرؐ اور امامؑ فرمانبردار مومنین کو عبادت و بندگی اور علم و عمل کے ذریعہ اپنے ساتھ ایک کرکے جبریل امین یعنی اپنی روح اور نور کا روحانی مشاہدہ اور تجربہ کراتے ہیں۔

۳۶

کلیم اللہ

 

کلیم اللہ کے معنی ہیں خدا سے کلام کرنے والا اور یہ بظاہر حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا لقب ہے، کہ آپ اکثر سینا کے پہاڑ پر جاکر اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوا کرتے تھے، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں، کہ کسی دوسرے پیغمبر کو یہ شرافت و سعادت نصیب ہی نہ ہوئی ہو، کیونکہ اور بھی بہت سے پیغمبر ایسے ہیں جو حق تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے بلکہ انبیاء کے علاوہ اولیاء، پیروں اور حقیقی مومنین کو بھی خدا وندِعالم سے ہمکلامی کی عزّت حاصل ہوتی رہی ہے، چنانچہ اس امرِ واقع کے متعلق جو کچھ سورۂ شوریٰ کے آخری رکوع میں ارشاد ہے، اس کا آسان مفہوم یہ ہے کہ: حق تعالیٰ ان لوگوں سے کلام نہیں فرماتا جو روحانیّت میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور جو لوگ روحانیّت کی ترقی پر ہیں، ان سے خدا تعالیٰ اس طرح کلام کرتا ہے کہ روحانیّت کا روشن عالم صاف طور پر نظر آنے کے کچھ عرصہ بعد ان کے پاس کوئی فرشتہ (یعنی روح) رسول کے طور پر بھیجتا ہے، وہ رسول خدا کی طرف سے روحانی طور پر ان سے کلام

۳۷

کرتا ہے یا وحی کرتا ہے، پھر اس کے بعد حجاب (پردہ) کے پیچھے سے اللہ تعالیٰ کا نور خود ہی ان سے کلام کرتا ہے اور آخری درجوں پر نورِ الٰہی اپنی اصلی صورت میں ان کے سامنے ظاہر ہوکر ایک مخصوص طریق پر وحی (اشارہ) کرتا ہے، جو حکمتِ بالغہ سے بھرپور اور اسرارِ معرفت سے مملو ہے۔

مذکورہ ارشاد کے بعد آنحضرت صلعم کے بارے میں فرمایا گیا ہےکہ:

وَکَذَالِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحاً مِّنْ اَمْرِنَاطمَاکُنْتَ تَدْرِیْ مَاالْکِتٰبُ وَلَاالْاِیْمَانُ وَلٰکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًانَّھْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآئُ مِنْ عِبَادِنَاطوَاِنَّکَ لَتَھْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (۴۲: ۵۲)۔

اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے امر سے ایک روح وحی کی آپ کو نہ یہ خبر تھی کہ کتابُ اللہ کیا چیز ہے اور نہ یہ خبر تھی، کہ ایمان کا (آخری درجہ) کیا چیز ہے لیکن ہم نے اس (روح) کو نور قرار دیا جس کے ذریعہ سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہیں ہدایت کرتے ہیں اور یقیناً آپ سیدھا راستہ کی ہدایت کررہے ہیں۔

اس فرمانِ خداوندی کی وضاحت اس طرح ہے، کہ اے رسول! جس طریق سے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں سے کلام فرماتا ہے، جس کا اوپر ذکر ہوا، اسی طریق پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف بھی عالمِ امر سے ایک خاص روح یعنی روح القدّس وحی کردی ہے، اس سے پہلے آپ نہ تو کتابِ کائنات جانتے تھے اور نہ ہی ایمان کے یہ درجات، لیکن ہم نے اس روح القدّس کو جو ہمیشہ آپ کے پاس ہے نور بنایا ہے اور یہی وہ نور ہے جس کے ذریعہ ہم ہمیشہ

۳۸

سے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہیں روحانی طور پر ہدایت کرتے ہیں، پھر وہ بندے ہمارے اذن سے پیغمبر، امام، پیر وغیرہ کی صورت میں لوگوں کو ہدایت کرتے رہتے ہیں، اسی طرح آپ بھی ذاتی طور پر اور اپنے وصی اور اس کے سلسلۂ اولاد کے ذریعہ سیدھا رستہ کی ہدایت کرتے رہے ہیں۔

۳۹

روح ُاللہ

روح اللہ کے معنی ہیں خدا کی روح، یعنی وہ خاص روح جو امرِ باری سے ہے، کیونکہ سیدنا پیر ناصر خسرو کے نزدیک امر ہی خدا کا تصوّر اور اس کی وحدانیّت ہے اور امر ہی موجوداتِ روحانی و جسمانی کے وجود کا باعث ہے، یہی امرفی نفسہٖ ایک خاص عالم ہے جو عالمِ  امر یا عالمِ وحدت کہلاتا ہے، پس خدا کی روح کہنے کا مطلب یہی ہے، کہ یہ روح جو خاص الخاص ہے عالمِ امر سے آئی ہے۔

قرآنِ حکیم میں جہاں روح کی کیفیّت و حقیقت کے متعلق سوال کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں اس کا مختصر اور جامع جواب بھی موجود ہے اور وہ اس ارشاد میں ہے کہ: (اے رسول!) وہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، آپ بتا دیجئے کہ روح میرے پروردگار کے امر سے ہے اور تمھیں تو علم میں سے بہت ہی تھوڑا حصّہ دیا گیا ہے(۱۷: ۸۵)۔ اس جواب میں یہ فرماکر، کہ روح میرے پروردگار کے امر سے ہے، یہ اشارہ کیا گیا ہے، کہ اگر روح کی

۴۰

حقیقت سمجھنا ہے تو قرآنِ حکیم میں امر کے متعلق جو جو آیات وارد ہوئی ہیں ان کا غور و فکر سے مطالعہ کیا جائے، کیونکہ قرآن میں لفظِ امر کے جو معنی آئے ہیں، ان سب کا مفہوم روح کی روحانیّت میں موجود ہے۔

روح اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا بھی لقب ہے، مگر حقیقت تو یہ ہے، کہ دوسرے بڑے پیغمبر بھی روحانیّت کے اس مقام پر نظر آتے ہیں جیسا کہ قرآنِ کریم کا ارشاد ہے کہ: رَفِیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُوْالْعَرْشِ یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ لِیُنْذِرَیَوْمَ التَّلَاقِ (۴۰: ۱۵) بلند کرنے والا درجوں کو عرش والا اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے امر سے روح ڈال دیتا ہے تاکہ ملاقات کے دن (یعنی قیامت) سے ڈرائے۔ ظاہر ہے، کہ یہ ارشاد تمام پیغمبروں کے حق میں ایک لازمی اصول اور ایک ضروری قانون کی حیثیت رکھتا ہے، کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنے امر سے “الرّوح” یعنی روح القدّس ڈال کر اس کا درجہ بلند کردیتا ہے اور اسے پیغمبر بناتا ہے، تاکہ وہ اپنی اُمت کو قیامت کے دن سے ڈرائے۔

چنانچہ یہی مفہوم اس ارشاد میں بھی ہے، جو انفرادی طور پر حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ:

اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗۚ-اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ٘ (۰۴: ۱۷۱)۔ ماسوا اس کے نہیں ہے، کہ مسیح عیسیٰ ابنِ مریم اللہ تعالیٰ کا رسول اور اس کا کلمہ ہے، جو اللہ تعالیٰ نے مریم کی طرف القا کیا اوراس کی طرف سے ایک روح ہے۔

۴۱

شرحِ صدر

 

شرحِ صدر کے لفظی معنی ہیں سینے کو کشادہ کردینا، یعنی وسعتِ قلبی اور فراخدلی پیدا کردینا، جس سے انسانی نفس کی وسعت مراد ہے کیونکہ نفس کا مرکزدل و دماغ ہے، ہر چند کہ کشادگی اور تنگی روح اور نفس کی صفت نہیں جسم کی صفت ہے، تاہم عالمِ مثال جو لطیف اور روحانی ہے، پھیلاؤ اور کشادگی کے لحاظ سے اس کائنات کی طرح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

وَ  سَارِعُوْۤا  اِلٰى  مَغْفِرَةٍ  مِّنْ  رَّبِّكُمْ  وَ  جَنَّةٍ  عَرْضُهَا  السَّمٰوٰتُ  وَ  الْاَرْضُۙ-اُعِدَّتْ  لِلْمُتَّقِیْنَ (۰۳: ۱۳۳)۔

اور اپنے پرودگار کی مغفرت اور اس جنّت کی طرف جلدی کرو جس کا پھیلاؤ سب آسمان اور زمین ہیں وہ پرہیز گاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

اس ارشاد سے یہ حکمت ظاہر ہے کہ مذکورہ بہشت اس کائنات کی روحانی صورت ہے، بالفاظِ دیگر یہ بہشت اس عظیم کائنات کی روح یعنی نفسِ کُلّ کی صورت میں ہے یا اس مطلب کو اس طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ ہر

۴۲

جسمانی چیز کی ایک روحانی لطیف صورت ہوا کرتی ہے، اسی طرح اس عظیم کائنات کی بھی ایک لطیف روحانی صورت ہے اور وہی عالمِ مثال اور مذکورہ بہشت ہے اور روحانی قسم کی انتہائی وسعت و کشادگی بھی وہی ہے۔

جب روحانی پھیلاؤ  کا تصوّر معلوم ہوا، تو اب ہم شرحِ صدر کی مزید وضاحت کرتے ہیں، کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:

اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِؕ-اُولٰٓىٕكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (۳۹: ۲۲) بھلا جس شخص کا سینہ خدا نے اسلام کے لئے کھول دیا ہو اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نور (کی ہدایت) پر ہو ( تو کیا وہ کسی گمراہ کے برابر ہوسکتا ہے) پس جن لوگوں کے دل خدا کے ذکر سے متاثر نہیں ہوتے ان کے لئے بڑی خرابی ہے، یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔

اس آیۂ کریمہ سے یہ معلوم ہوا ہے، کہ مومن جب حقیقی محبّت کی آگ میں پگھلتے ہوئے ذکرِ الٰہی میں ایسا مگن رہتا ہے، کہ وہ سوائے خدا کی یاد کے ہر چیز بھول جاتا ہے، یہاں تک کہ اسے اپنے آپ کی بھی خبر نہیں رہتی، کہ وہ بیدار ہے یا عالمِ خواب میں ہے، تو اس وقت اس کی روح میں وسعت پیدا ہونے لگتی ہے اور اس وسعت کے بعد نور نظر آنے لگتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں قرآنِ پاک کا ارشاد ہے:

اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ (۹۴: ۰۱)کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھول دیا؟  اس کا مطلب یہ ہوا کہ آنحضورؐ  کا قلبِ مبارک یعنی پاک روح کو انتہائی حد تک

۴۳

وسیع کردی گئی تھی اور نتیجتاً آپؐ کی پاک روح میں ساری کائنات کی روحانی صورت نظر آتی تھی۔

۴۴

کلمہ

 

یوحنا کی انجیل کے آغاز میں ہے کہ ابتداء میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا، یہی ابتداء میں خدا کے ساتھ تھا، سب چیزیں اس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اس میں سے کوئی چیز بھی اس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی، اس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھی۔

انجیلِ مقدّس کی مذکورہ آیت میں کلام یعنی بول کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے، فرمایا گیا ہے کہ اس عالم کے پیدا ہونے سے پہلے بول تھا، جس کو قرآن کی اصطلاح میں کلمہ کہا گیا ہے، انجیل کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے، کہ وہ بول ایک اعتبار سے خدا کے ساتھ تھا اور دوسرے اعتبار سے بول خود ہی خدا تھا، کیونکہ نور کی یہی صفت ہوا کرتی ہے، چنانچہ قرآنِ پاک کی آیت ِ نور “اَللّٰہُ  نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ”  کی حکمت میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ خود ہی آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے، پھر “مَثَلُ نُوْرِہٖ” کے ارشاد سے ظاہر ہے، کہ یہ نور خدا سے منسوب ہے، جبکہ آیت کے اگلے حصّے میں فرمایا گیا ہے،

۴۵

کہ خدا خود ہی نور ہے، پس معلوم ہوا، کہ کلمہ میں خدا کی صفات کا مشاہدہ اور معرفت موجود ہے، دوسرے الفاظ میں کلمہ خدا کے نور کا مظہر ہے یا یہ وہ خزانہ ہے جس میں خدا کے جمال و جلال کے گرانمایہ جواہر پوشیدہ ہیں۔

یہ کلمہ وہی ہے جس کا ذکر قرآنِ پاک کی بہت سی آیات میں موجود ہے، جیسا کہ سورۂ ابراہیم(۱۴) آیات  ۲۴ تا ۲۵ میں ارشاد ہوا ہے کہ: اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِ تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَاؕ-وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ (۱۴: ۲۴ تا ۲۵)۔

کیا آپ نے نہیں دیکھا، کہ اللہ تعالیٰ نے پاک کلمے کی مثال کیسی بیان فرمائی ہے، کہ وہ ایک پاکیزہ درخت کے مشابہ ہے، اس کی جڑ محکم ہے اور اس کی شاخ آسمان میں (پہنچی) ہے وہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا ہے۔

انجیلِ مقدّس اور قرآنِ حکیم کے مذکورہ ارشادات سے اس بات کی تحقیق ہوئی، کہ انبیاء و اولیاعلیہم السّلام اور حقیقی مومنین کی روحانیّت و نورانیّت کا سرچشمہ ایک ایسا کلمہ (بول) ہے، جو حق تعالیٰ کے علمی خزانوں کے لئے کلید کی حیثیت سے ہے، یہی کلمہ تھا جو حق تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو عطا فرمایا اور جس کی مثال آدمؑ میں خدا کی روح پھونکنے سے دی گئی ہے۔

یہی کلمہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبروں کو عطا ہوا تھا، جس میں ان کے لئے نورِ ہدایت اور فتح و نصرت کے اسرار پوشیدہ تھے جیسا کہ فرمانِ الٰہی میں ہے: وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ(۳۷: ۱۷۱) اور یقیناً

۴۶

ہمارے بھیجے ہوئے بندوں (پیغمبروں) کے لئے ہمارا کلمہ (یعنی بول) پہلے عمل میں آچکا ہے۔ پس انبیاء علیہم السّلام کے لئے اللہ جلّ جلالہ کا کلمہ وہی ہے جس کا یہاں ذکر ہورہا ہے۔

قرآنِ کریم میں نہ صرف یہی ذکر ہے، کہ حق تعالیٰ نے سب پیغمبروں کو کلمۂ پاک (یعنی بول) عطا فرمایا تھا، بلکہ بعض پیغمبروں کے قصّے میں اس کا نمایان طور پر بھی تذکرہ ہوا ہے، جیسے حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں ارشاد ہے کہ : وَاِذِابْتَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ رَبُّہ‘ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ(۰۲: ۱۲۴) اور (وہ وقت یاد کیجئے) جبکہ ابراہیم کے ربّ نے اس کا امتحان لیا چند کلمات سے تو اس نے انھیں پورا کردیا۔ وہ کلمات اللہ تعالیٰ کے اسمائے عظام (بڑے بڑے نام) تھے۔

نیز حضرت مریمؑ کے بارے میں ارشادِ باری ہے کہ:  فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُوْحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا وَ کُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ (۶۶: ۱۲) پس ہم نے اس میں اپنی روح پھونکی اور اس نے اپنے پروردگار کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور فرمانبردارں میں سے تھی۔ اس آیۂ مقدّسہ کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے کلمات اور ہیں اور اس کی کتابیں اور ہیں، چنانچہ یہاں پر ظاہر ہے، کہ حضرت مریم علیہا السّلام میں پہلے روحِ الٰہی پھونکی گئی تھی، وہ یہ کہ اس کو کلمہ (بول) دیا گیا تھا اور اس نے چند کلمات کی صحیح عبادت مکمل کرلی تھی، جس کے نتیجے میں اس کو روشنی مل گئی، پھر ان کلمات کی اس روشنی میں حضرت مریمؑ نے آسمانی کتابوں کی

۴۷

حقیقت سمجھ لی، یہ ہوا خدا کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کرنا اور خدا کی فرمان برداری کرنا، کیونکہ خدا کے نزدیک کسی چیز کی تصدیق وہ نہیں جو اس چیز کی حقیقت سمجھے بغیر محض زبانی طور پر کہا جائے، کہ یہ چیز درست اور صحیح ہے، بلکہ حقیقی معنوں میں اس کی تصدیق یہ ہے کہ اس کی حقیقت سمجھ لی جائے، پس معلوم ہوا کہ روحانی طریق پر علمِ الٰہی سے بہرہ اندوز ہونے کے لئے پہلے تو کلمہ کی حقیقی عبادت ہے اور اس کے بعد آسمانی کتاب۔

یہی کلمہ جو علمی عجائبات و معجزات سے بھر پور ہے، نبوّت و امامت کے نور یعنی روح القدّس کا حامل ہوا کرتا ہے، اور اس حقیقت کی قرآنی مثال یہ ہے کہ جو حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں ارشاد ہوا ہے، کہ: اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗۚ-اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ٘ (۰۴: ۱۷۱)۔ ماسوا اس کے نہیں کہ مسیح عیسیٰ ابنِ مریم اللہ تعالیٰ کا رسول اور اس کا کلمہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے مریم کی طرف القا کیا اور اس کی طرف سے ایک روح ہے۔

اگر کوئی صاحبِ بصیرت اس آیت کی حکمت پر ذرا غور کرے تو اسے یقیناً یہ حقیقت معلوم ہوگی، کہ جو عظیم معجزاتی کلمہ حضرت مریم کو بتایا گیا تھا، اس میں حضرت عیسیٰؑ روحانی اور نورانی حیثیت سے موجود تھا اور یہیں سے کئی بنیادی حقیقتوں کا انکشاف ہو جاتا ہے، جن میں سب سے پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ جب یہ مانا گیا کہ حضرت عیسیٰؑ کا حقیقی وجود ایک معجزانہ کلمے میں پوشیدہ تھا، پھر یہ کہنا قطعاً غلط ہی ہوگا کہ بعد میں عیسیٰؑ کو یہودیوں نے قتل

۴۸

کردیا تھا یا سولی پر چڑھایا تھا، کیونکہ حضرت عیسیٰؑ اپنے تمام معجزات کے ساتھ ایک پاک کلمے کے اندر محفوظ تھا، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے کہ :  وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْ ہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ (۰۴: ۱۵۷)انھوں نے نہ اس (حضرت عیسیٰؑ) کو قتل کیا اور نہ ہی اسے سولی دی ، لیکن ان کو شبہ ہوگیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ حقیقت میں کلمہ اور روحِ قدسی تھا، پس یہود روح کو کس طرح قتل کرسکتے تھے، مگر ہاں انھوں نے حضرت عیسیٰؑ کے جسم کو قتل کیا، اسی لئے ان کو یہ شبہ ہوگیا تھا کہ انھوں نے خود حضرت عیسیٰؑ ہی کو قتل کردیا ہے، جس طرح عوام النّاس شہیدوں کے متعلق یہ گمان کرتے تھے کہ وہ مرے ہوئے ہیں، لیکن قرآنِ حکیم نے ان کا یہ گمان ممنوع قرار دیا اور انھیں بتایا کہ شہید حقیقت میں مرے ہوئے نہیں ہیں، بلکہ وہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور قرآن کی یہ تعلیم آلِ عمران (۳) آیت ۱۶۹ (۰۳: ۱۶۹) میں موجود ہے۔

دوسری حقیقت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ ہی کی طرح دوسرے سب انبیاء و اولیاء علیہم السّلام بھی کلمہ (اسمِ اعظم، بول وغیرہ) میں پوشیدہ ہوا کرتے ہیں اور وہیں سے ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں، یعنی حق تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام کا نور یا کہ روح القدّس مومنین کے لئے جو روحانی طور پر علم و حکمت کا سرچشمہ بنتی ہے، وہ اس معجزاتی کلمے کے توسط سے ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک کے متذکرۂ بالا ارشاد سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰؑ اس وقت بھی خدا کا رسول تھا، جب کہ وہ ایک خاص و پاک کلمہ اور روح کی صورت میں حضرت مریمؑ کی طرف القا کیا گیا تھا۔

۴۹

اب اس حقیقت کی ایک اور دلیل، کہ کس طرح انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا نور یعنی ان کی اصلی ہستی کلمہ (بول) میں پوشیدہ ہوا کرتی ہے، یہ ہے جو حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں ارشاد ہے کہ: وَجَعَلَہَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً فِیْ عَقِبِہِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ (۴۳: ۲۸) اور ابراہیمؑ نے اس (نورِ نبوّت و امامت) کو اپنی اولاد میں باقی رہنے والا کلمہ قرار دیا، تاکہ وہ (اللہ تعالیٰ کی طرف) رجوع کرتے رہیں۔ یعنی حضرت ابراہیمؑ نے اپنی نبوّت و امامت کے تمام اوصاف و خواص کو ایک پاک  پُر حکمت کلمے کی حیثیت میں اپنی اولاد کے سپرد کردیا اور آلِ ابراہیمؑ میں یہ معجزاتی کلمہ تا قیامت باقی ہے۔

نیز اسی سلسلے میں توضیح کی جاتی ہے کہ آنحضرتؐ کا روحانی و نورانی وجود بھی پاک کلمہ میں پوشیدہ ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا پاک قول ہے کہ: فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۚ-قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكُمْ ذِكْرًا۔ رَّسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ مُبَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِ جَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِؕ (۶۵: ۱۰ تا ۱۱)۔

پس اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اے عقل والو! جو ایمان لاچکے ہو یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف ذکر کو اتارا ہے جو رسول ہے وہ تم پر اللہ تعالیٰ کی واضح آیتیں پڑھتا ہے تاکہ ان لوگوں کو جو ایمان لاچکے اور انھوں نے نیک اعمال کئے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے۔

اس آیۂ کریمہ کا خطاب أئمّۂ اہلِ بیتؑ سے ہے، کیونکہ عقل اور ایمان کے درجۂ کمال پر وہی حضرات فائز ہیں اور آنحضرتؐ کا نور ذکر کی حیثیت سے

۵۰

انہی میں نازل کیا گیا ہے اور اسی لئے ان حضرات کو “اہلِ ذکر” کہا گیا ہے، یہی ذکر یا کہ کلمہ نبوّت و امامت کا نور ہے، جس میں قرآن کی روشن اور زندہ حقیقتیں موجود ہیں اور یہ نور بصورتِ ذکر أئمّۂ اطہارؑ میں اس لئے نازل ہوا ہے، تاکہ ان مومنین کو جو اچھے کام کرتے ہوں، اندھیروں سے نور کی طرف لایا جائے، پس اس بیان سے صاف طور پر یہ ظاہر ہوا کہ آنحضرتؐ کا مقدّس نور جو ایک امامؑ سے دوسرے امامؑ میں منتقل ہوتا ہوا چلا آیا ہے، وہ ذکریا کہ کلمہ کی صورت میں کار فرما اور جلوہ فگن ہے۔

اس کلمے کے سلسلے میں عہدِ نبوّت کے مومنین کے متعلق ارشاد ہے کہ: فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہ‘ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی وَکَانُوْآ اَحَقَّ بِھَا وَاَھْلَھَا (۴۸: ۲۶) ۔

پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر او ر مومنین پر تسکین نازل فرمائی اور تقویٰ کا کلمہ ان پر لازم کردیا اور وہ اس کے بہت حقدار اور اس کے اہل تھے۔ اس آیت میں بطریقِ حکمت ارشاد ہوا ہے کہ جب مومنین عبادت و بندگی کے علاوہ دین کے سلسلے میں انتہائی عظیم خدمات بھی انجام دیتے ہیں تو اس وقت اللہ تعالیٰ ان پر ایک خاص قسم کا روحانی سکون نازل فرماتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ معجزاتی کلمہ جو ان کو دیا گیا ہے، مومنین کے دل و دماغ میں خود بخود بولنے لگتا ہے، یعنی مومنین کے باطن میں شب و روز خود بخود ذکرِالٰہی ہوتا رہتا ہے اور وہیں سے بے شمار معجزات کا سلسلہ جاری ہونے لگتا ہے۔

۵۱

روح یا نور

 

روح القدّس اور نور فی الاصل ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں، اس لئے ہم روحانیّت کو نورانیّت بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ روح اپنی ذات اور جوہر میں ہرگز تاریک نہیں، بلکہ یہ اپنے آپ میں ایک روشن عالم ہے جس کو عالمِ روحانی کہا جاتا ہے، روح کا نورانی عالم کی شکل و صورت میں ہونا ایک ایسی جامع حقیقت ہے، جس کی تشبیہہ و تمثیل اس عظیم کائنات اور اس کی ساری چیزوں سے دی گئی ہے، چنانچہ اسی روح القدّس کی نسبت سے انسان عالمِ صغیر کہلاتا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ انسان کا عالمِ کبیر ہے اور ان دونوں عبارتوں کا فرق اسی طرح سمجھ لیجئے کہ انسان کا عالمِ صغیر ہونا یہ ہے کہ وہ اس کائنات کے اندر ہونے کے باوجود اپنی ذات یا کہ روحانیّت میں ایک عالَم ہے اور اس کے عالمِ کبیر ہونے کے یہ معنی ہیں، کہ اگر چہ وہ ظاہراً اس کائنات کے اندر محدود ہے، لیکن فی الحقیقت وہ اپنی اصلی روح (یعنی نفسِ کلّی) میں ساری کائنات پر محیط ہے۔

۵۲

روح کی دوسری تشبیہہ و تمثیل کتاب سے دی گئی ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی جیتی جاگتی روشن کتاب ہے، کہ اس میں دنیا و آخرت کے جملہ احوالِ واقعی کی چلتی پھرتی تصویروں کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور اسی معنی میں روح القدّس کو کتابِ منیر (روشن کتاب) کہا گیا ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِعِلْمٍ وَّلَاھُدًی وَّلَا کِتٰبٍ مُّنِیْرٍ(۲۲: ۰۸، ۳۱: ۲۰) اور لوگوں میں سے ایسا شخص بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بغیر علم، بغیر ہدایت اوربغیر روشن کتاب کے جھگڑا کرتا ہے۔

اس فرمانِ خداوندی میں خدا کی شناخت و معرفت کے متعلق یقین کے تین درجات کا ذکر آیا ہے، جن میں پہلا درجہ علم الیقین کا، دوسرا عین الیقین کا اور تیسرا درجہ حق الیقین کا ہے، یعنی اس آیت میں جس علم کا ذکر کیا گیا ہے، وہ علم الیقین ہے، ہدایت کا مطلب عین الیقین ہے اور کتابِ منیر سے حق الیقین مراد ہے اور وہی یقین کا آخری درجہ ہے، پس معلوم ہوا کہ روح القدس جس مرتبے میں دونوں جہان کی زندہ اور روشن حقیقتوں کی حیثیت سے ہے، وہ مرتبۂ علم و ہدایت سے بھی برتر ہے، جس کی دلیل یہ ہے کہ علم کا مطلب راستہ اور منزل کے متعلق صحیح معلومات فراہم کرنا ہے، ہدایت کے معنی راستے پر منزلِ مقصود کی طرف چلنا ہے اور کتابِ منیر فی نفسہٖ منزلِ مقصود ہی ہے۔

روحانیّت کے متذکرۂ بالا درجات کا تجربہ کسی انسان کو صرف اسی صورت میں ممکن اور میسر ہوسکتا ہے، جس میں کہ وہ پیغمبرؐ اور امامِ زمانؑ کی

۵۳

صحیح طور سے فرمانبرداری کرے، کیونکہ وہی حضرات روح القدّس کے مظہر یا نورِ مجسم ہیں اور یہ بات قطعاً ناممکن ہے کہ ایک شخص روح القدّس کے فیوض و برکات کو کماحقہٗ حاصل کرسکے، جبکہ وہ اس کے مظہر سے منہ موڑ رہا ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ: جو اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو تو بے شک اللہ (بھی ان) کافروں کا دشمن ہے(۰۲: ۹۸)۔

واضح رہے کہ اس دنیا میں ایسا کافر کہیں بھی نہیں جو خدا، ملائک، انبیاء، جبرائیل اور میکائیل کے وجود کو مانتے ہوئے ان پاک ہستیوں سے دشمنی کرتا ہو، یہ بات ناممکن ہی ہے، بلکہ وہ کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے جو مذکورۂ بالا مقدّس ہستیوں کے مظاہر کو نہ پہچانے اور ان کی نافرمانی کرتے ہوئے دشمن بن جائے۔

۵۴

قرآنی سوال و جواب

 

حصّۂ اوّل

۵۵

بِسم اللہ الرّحمٰنِ الرّحیْم

 

سوال نمبر ۱

محترم برکت علی صاحب مقیم گارڈن ایسٹ، کراچی، سوال کرتے ہیں کہ :

آپ نے ایک خط میں جو دینی باتوں پر مشتمل تھا، ہمیں یہ لکھا ہے کہ قرآنِ حکیم میں کوئی آیت ایسی نہیں جو اپنی مخصوص زبانِ حکمت سے امامِ حیّ و حاضر کی تعریف و توصیف نہ کرتی ہو اور اسماعیلیّت کی تعلیم و تربیت نہ دیتی ہو۔ اگر فی الواقع آپ کا یہ دعویٰ حق بجانب ہے، تو سب سے پہلے آپ اس حیرت انگیز حقیقت کے ثبوت میں چند روشن دلیلیں پیش کریں، اس کے بعد آپ یہ بتائیں کہ قرآنِ حکیم کی آخری سورت کی آخری آیت “مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاس” (۱۱۴:۰۶) میں امامِ زمانؑ یا اسماعیلیّت کے متعلق اس نوعیت کی کون سی حکمت پوشیدہ ہے؟

 

جواب

دلیل نمبر۱: قرآنِ مجید چار حصوں میں نازل ہوا ہے، ان میں سے ایک

 

۵۶

 

 

حصّہ ظاہراً و باطناً مولانا مرتضیٰ علی علیہ السّلام (یعنی نورِامامت) کی شان میں ہے، دوسرا حصّہ نورِعلیؑ کے دشمنوں کی مذمت میں ہے، پس اس میں بھی اساسی طور پر شاہِ ولایت کی محبّت و دوستی کی اہمیّت مذکور ہے، تیسرے حصّے میں قصّے اور مثالیں ہیں، ان میں بھی جناب مرتضیٰ سرِّ خداؑ کا تذکرہ بطریقِ حکمت موجود ہے، کیونکہ یہ قصّے اگرچہ ظاہراً پیغمبروں کے بارے میں ہیں، لیکن باطناً نورِعلیؑ کی شناخت کے متعلق ہیں، چنانچہ آنحضرتؐ کی حدیث ہے کہ: “اے علیؑ آپ دوسرے تمام پیغمبروں کے ساتھ مخفی تھے اور میرے ساتھ آشکار ہوئے” اس طرح مثالوں میں بھی گوہرِامامت کے حقائق و معارف بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ خدا کی رسّی، پاک درخت، خدا کانور، سیدھی راہ، ام الکتاب، وغیرہ جیسی بے شمار مثالوں کا مقصد و منشاء علیؑ ہی کی ولایت و معرفت ہے، چوتھے حصّے میں فرائض و احکام ہیں اور اس آخری حصّے میں بھی نورِامامت کا ذکرِجمیل موجود ہے، کیونکہ فرائض واحکام کی بجا آوری ہی خدا، رسولؐ اور اولواالامرؑ کی اطاعت و فرمانبرداری ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ قرآن کے اس حصّے میں اولواالامر (یعنی أئمّۂ برحقؑ) کی فرمانبرداری فرض کی گئی ہے، جیسے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: “اے ایمان والو! خدا و رسول کی اطاعت کرو اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو(۰۴: ۵۹)۔” تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو، میرا ایک مقالہ “قرآن اور حقیقتِ شیعیّت” جس کو اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان نے یومِ امامت ۱۹۶۹ء کے موقع پر شائع کیا ہے۔

دلیل نمبر۲: جب آنحضرت صلعم علم کا شہر اور حکمت کا گھر ہیں اور جناب

۵۷

علیٔ مرتضیٰؑ اس شہر اور اس گھر کا دروازہ ہیں، تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ ہر آیت و حدیث کے علم و حکمت کو کوئی دانشمند صرف اسی صورت میں سمجھ سکتا ہے، جبکہ وہ ایمان و ایقان کے ساتھ نظریۂ امامت کی روشنی میں اس پر غور و فکر کرتا ہے، پس یہ حقیقت صاف طور پر ظاہر ہوئی کہ نظریۂ امامت قرآن و حدیث کے علم و حکمت کی کلید ہے۔

دلیل نمبر۳: یہ آپ کا اور ہمارا یقین ہے کہ بموجبِ ارشادِ قرآنی (۳۶: ۱۲) حق تعالیٰ نے ہر چیز امامِ مبینؑ میں محدود کر رکھی ہے، وہ اس طرح کہ امامؑ  کی عقل تمام عقول پر حاوی ہے، امامؑ کی روح ساری ارواح پر محیط ہے اور امامؑ کا نورانی جسم کُلّ اجسام پر غالب ہے، بالکل اسی طرح امامت کے موضوع میں جملہ آسمانی کتابوں کے موضوعات سموئے ہوئے ہیں، پس اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر قرآنی آیت کی حکمت نظریۂ امامت کی تعلیمات کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

دلیل نمبر۴: مولانا علی علیہ السّلام کا فرمانِ مبارک ہے کہ: انا نقطۃ تحت باء بسم اللّٰہ یعنی میں باءِ بسم اللہ کا نقطہ ہوں (جس میں جملہ قرآن کا علم و حکمت پوشیدہ ہے) اب اگر غور سے دیکھا جائے، تو بس یہی ایک نقطہ ہے، جس کو مختلف شکلوں میں کھینچ کر سارے حروف بنائے گئے ہیں، مثلاً الف کی ساخت کو دیکھئے کہ اس کے لکھنے میں اوّلاً قلم کی نوک سے نقطہ بنتا ہے، پھر اسی نقطہ کے کھینچنے سے الف کی شکل بنتی ہے اور دوسرے تمام حروف کا بھی یہی حال ہے کہ ان سب کی شکلیں اسی طرح نقطہ ہی سے بنی ہوئی ہیں۔

۵۸

چنانچہ مولانا علی صلواۃ اللہ علیہ کے اس کلام کی تاویل کہ آپ بائے بسم اللہ کا نقطہ ہیں، یہ ہے کہ جس طرح نقطہ ہر حرف کی شکل و صورت میں پوشیدہ ہے، اسی طرح مولانا علیؑ کا ذکرِ جمیل ہر آیت کی حکمت میں پنہان ہے، نیز جس طرح بسم اللہ کے بغیر قرآن کا پڑھنا جائز نہیں اور باء کے بغیر بسم اللہ درست نہیں، اسی طرح نظریۂ ولایتِ علیؑ کے بغیر قرآنِ شریف کی تاویلیں کرنا جائز اور درست نہیں۔

دلیل نمبر۵:  حق تعالیٰ کے ایک ارشاد کا خلاصہ یہ ہے کہ کتابِ سماوی کا علم نورِعلیؑ کے پاس ہے (۱۳: ۴۳)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص قرآن کا علم و حکمت حاصل کرنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ جان و دل سے امامِ وقتؑ ہی کی طرف رجوع کرے، تاکہ امامِ عالی مقامؑ اپنی مخصوص ظاہری و باطنی ہدایت کے ذریعے سے قرآنی علم و حکمت کا دروازہ اس کے لئے کھول دیں، پس اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام قرآنی آیات کے علم و حکمت کی کلید اسماعیلیّت اور امام شناسی ہی ہے۔

دلیل نمبر۶: قرآنِ حکیم علم و حکمت کی دنیا ہے اور نورِ امامت اس علمی دنیا کا سورج ہیں (۰۵: ۱۶) ۔ جس طرح اس ظاہری سورج کی روشنی کے بغیر مادّی دنیا کی کوئی شے نظر نہیں آسکتی ، اسی طرح روحانی سورج کے بغیر علمی دنیا کی کوئی حقیقت و حکمت ظاہر نہیں ہوسکتی ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر امام شناسی کی آنکھ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا، کہ ہر قرآنی آیت کے ظاہر و باطن میں نورِامامت ضیاء پاشی کررہا ہے، کیونکہ ظاہری سورج کی روشنی

۵۹

صرف مادّی چیزوں کی سطح تک محدود ہے، مگر روحانی سورج کی روشنی دنیائے علم و حکمت کے ظاہر و باطن کو جگمگا رہی ہے۔

دلیل نمبر۷: قرآنِ پاک کی یہ تعلیم ہے کہ آسمانی کتاب کی وراثت ان حضرات ہی کے لئے مخصوص ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے برگزیدہ فرمایا ہے(۳۵: ۳۲)۔ اور مولانا علیؑ کا کلام ہے کہ: نحن اولٰٓئِک، یعنی ہم (أئمّۂ برحق) ہی وہ گروہ ہیں، چنانچہ معلوم ہوا کہ امامِ زمانؑ ہی آسمانی کتاب کے وارث و مالک ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ نظریۂ امامت کے سہارے کے بغیر قرآنی آیات کی گہری حکمتوں تک رسائی ناممکن ہے۔

مندرجۂ بالا دلائل سے یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ نظریۂ امامت اور اسماعیلیّت کی تعلیمات ہر قرآنی آیت کی حکمت میں موجود ہیں۔

اب قرآنِ مجید کی آخری سورت کی آخری آیت “مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاس” کی حکمت بیان کی جاتی ہے: چنانچہ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاس کے معنی ہیں جنّوں میں سے اور انسانوں میں سے یعنی شیطان جس کا دوسرا نام خنّاس ہے جو انسانی سینوں میں وسوسہ ڈالا کرتا ہے، وہ جنّوں میں سے بھی ہے اور انسانوں میں سے بھی۔

اس آیت کی تاویل (حکمت) یہ ہے کہ شاید آپ نے مذہبی کتابوں میں کہیں یہ قصّہ پڑھا ہوگا کہ حضرت آدم خلیفتہ اللہؑ کے زمانے میں حارث مرّہ کے نام سے ایک شخص تھا جو آدمؑ کی فرمانبرداری سے روگردان ہونے کی وجہ سے خلیفۂ خدا کا دشمن اور اس دور کا شیطان و خنّاس مقرر ہوا تھا، چنانچہ اللہ

۶۰

تعالیٰ کا یہی قانون ہر زمانے میں جاری و باقی ہے کہ جو شخص خلیفۂ وقت یعنی امامِ زمانؑ سے دشمنی کرے وہی شخص شیطان اور خنّاس ہے، خواہ وہ جنّوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے اور یہی خنّاس مکرو فریب اور جھوٹی باتوں کے ذریعہ آدمیوں کے سینوں میں وسوسہ ڈال کر امامِ برحقؑ کی معرفت کی راہ سے گمراہ کر دیتا ہے، جس کی  بُرائی سے مومن کو لوگوں کے پروردگار کی پناہ لینی چاہئے کہ لوگوں کا بادشاہ اور معبود ہے۔

اس مطلب کی مزید تفصیل کے لئے دیکھئے کتاب “پیر پندیاتِ جوانمردی” ص ۳۸ پیرا ۴۱ اور وجہ ِدین حصّۂ اوّل ص ۱۴۸ تا ۱۵۱ نیز “رسالۂ درحقیقتِ دین” میں جگہ جگہ اس کا ذکر موجود ہے۔

۶۱

سوال نمبر ۲

اسی طرح کراچی سے محترم عبدالعزیز صاحب “الٓمّٓ” کے متعلق پوچھتے ہیں، اور وہ اس کے تاویلی خزانے سے کچھ حکمت جاننا چاہتے ہیں تاکہ ظاہر ہوجائے کہ امامِ حیّ و حاضر کی صفاتِ کمالیہ قرآنِ پاک کی حکمت میں موجود ہیں۔

جواب

نمبر۱:  “الٓمّٓ” نورِ امامت کے بے شمار ناموں میں سے ایک نام ہے اور یہ نام کتابِ حق الیقین کا درجہ رکھتا ہے، چنانچہ اس کے بعد ارشادِ خداوندی ہے “ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ” یعنی وہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں، ظاہر ہے کہ جس کتاب میں کوئی شک نہ ہو اس میں یقین ہی یقین ہے، یعنی علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین، کیونکہ شک کے مقابلے میں یقین

۶۲

ہے، جس طرح تاریکی کے مقابلے میں روشنی ہے، پھر یہ صفت کتابِ صامت (خاموش) کی نہیں، بلکہ کتابِ ناطق (بولنے والی) یعنی نورِ امامت کی ہے، جس کے ذریعہ لاعلمی کے شکوک و شبہات دور ہوسکتے ہیں، جیسا کہ مولانا مرتضیٰ علی صلوات اللہ علیہ کا ارشادِ گرامی ہے کہ: “اَنَاذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ” یعنی مولانا علیؑ فرماتے ہیں کہ “الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ” کا اشارہ میری ذات (نور) کی طرف ہے۔

نمبر۲: الٓمّٓ کا بسطِ ملفوظی یہ ہے: الف لام میم، اس کا بسطِ حرفی یہ ہے: ا ل ف ل ا م م ی م، ان حروف کے اعداد اور مجموعہ یہ ہیں: ۱+۳۰+۸۰+ ۳۰+ ۱+ ۴۰+ ۴۰+ ۱۰+۴۰ برابر ہے ۲۷۲ ۔ دوسو بہتر کا  جُملِ اصغر یہ ہے: ۲+۷+۲برابرہے ۱۱۔ گیارہ کا جملِ اصغر یہ ہے: ۱+۱ برابر ہے ۲ جواب۔

اسمِ مبارک محمدؐ کے اعداد یہ ہیں: م ح م د برابر ہے ۴۰+۸+۴۰+۴برابر ہے ۹۲۔ بیانوے کا اصغر : ۲+۹ برابر ہے ۱۱۔ گیارہ کا اصغر ہے ۱+۱برابر ہے ۲ جواب۔

اسمِ مبارک علیؑ کے اعداد یہ ہیں: ع ل ی برابر ہے ۷۰+۳۰+۱۰ برابر ہے ۱۱۰۔ ایک سو دس کا اصغر ۰+۱+۱ برابر ہے ۱۱۔ گیارہ کا اصغر ۱+۱ برابر ہے ۲ جواب۔

پس اس کے معنی ہیں کہ محمدؐ و علیؑ  کا نور ہی الٓمّٓ ہے اور یہ وہ کتاب ہے کہ جس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔

۶۳

نمبر ۳:   الٓمّٓ (الف لام میم)یعنی ال ف ل ا م م ی م۔ ان حروف کا عملِ تخلیص کیا یعنی ان کے اساسی حروف لیے تو یہ ہوئے ا ل ف م ی، ان کا لفظ یہ بنتا ہے: الفمی، اس کے معنی ہیں زبانی یعنی الٓمّٓ جو ایک کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں وہ تحریری نہیں بلکہ زبانی ہے یعنی وہ محمدؐ و علیؑ کا زندہ نور ہے۔

نمبر۴:  الٓمّٓ کا عملِ تقلیب اس طرح سے ہے: الم۔ امل۔ لام۔ لما۔ مال۔ ملا۔ “ملا” سب سے وسیع المعنی ہے، جس کی دوصورتیں ہیں: مَلَا اورمَلَا ٔ۔ ملا کا مطلب کائنات اور ملاء کے معنی سردار ہیں اور سردار سے أئمّۂ برحق علیہم السّلام مراد ہیں۔ پس اس اعتبار سے الٓمّٓ کی تاویل کائنات اور نورِامامت ہے، یعنی أئمّۂ برحق علیہم السّلام کی تعلیمات اور ان کے نور کی روشنی میں کائنات ایک زندہ کتاب کی حیثیت رکھتی ہے، جس کے حقائق و معارف ایسے یقینی ہیں کہ ان میں ذرّہ بھر بھی شک نہیں۔ یہی سبب ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:  اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے، یعنی خدا کے نور کی روشنی میں کتابِ کائنات کے حقائق و معارف کا ظاہراً و باطناً مطالعہ و مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

نمبر ۵: الٓمّٓ کے حروف تین ہیں ا ل م، ان کے اعداد اور اصغر یہ ہیں: ۱+ ۳۰+ ۴۰ برابر ہے۷۱،۱+۷برابرہے ۸ جواب۔

اب حدودِ دین اور ان کے اصولی اعداد ملاحظہ ہوں۔ مستجیب ۱، ماذونِ محدود ۲، ماذونِ مطلق ۳، داعیٔ محدود ۴، داعیٔ مطلق ۵، حجتِ جزیرہ ۶، حجتِ

۶۴

اعظم ۷، امام۸، اساس ۹، ناطق ۱۰، نفسِ کُلّ ۱۰۰، عقلِ کُلّ ۱۰۰۰۔ اس اصول میں آٹھ کا عدد امام کے لئے مقرر ہے۔ پس اس کی تاویل یہ ہے کہ الٓمٓ  کا اشارہ امامِ عالی مقامؑ کی طرف ہے۔

نمبر ۶: جیسے جواب نمبر ۲ سے ظاہر ہے کہ الف لام میم کے حروف کے اعداد کے مجموعے کا اصغر ۲ ہے، اسی طرح “الامام الوقت” کا اصغر بھی ۲ ہے چنانچہ ملاحظہ ہو۔

الامام الوقت: ا ل ا م ا م ا ل و ق ت : ۱+۳۰+۱+۴۰+ ۱+۴۰+۱ +۳۰+ ۶+۱۰۰ +۴۰۰ برابر ہے ۶۵۰، ۰+۵+۶ برابر ہے ۱۱، ۱+۱ برابر ہے ۲ جواب۔

پس معلوم ہوا کہ الٓمّٓ کے معنی الامام الوقت یعنی امامِ حاضر ہیں۔

نمبر۷:  الٓمّٓ کے حروف تین ہیں یعنی ا ل م ۔ ان میں الف کا اشارہ امام علیہ السّلام کی عقل کی طرف ہے، لام کا ایماء امام کے نفس کی طرف ہے اور میم کا رمز امام کے جسم کی طرف ہے، کیونکہ امامؑ عقلِ کُلّ، نفسِ کُلّ اور جسمِ کُلّ کا مظہر ہیں، چنانچہ امامؑ کی جسمانیّت علم الیقین، روحانیت عین الیقین اور عقلانیت حق الیقین کی حیثیت رکھتی ہے، اسی لئے امام علیہ السّلام وہ کتاب ہیں کہ جس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔

۶۵

سوال نمبر۳

محترم غلام عباس ساکن مرتضیٰ آباد بالا، ہونزا۔ فی الحال مقیم کراچی ۔ سورۂ اعراف کی آیت نمبر ۴۰ کی حکمت پوچھتے ہیں:

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ تحقیق جن لوگوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا، تو ان کے واسطے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور وہ بہشت میں داخل نہ ہوں گے۔ یہاں تک سوئی کے ناکے میں سے اونٹ گزرجائے اور ہم اسی طرح گناہگاروں کو سزادیتے ہیں۔(۰۷: ۴۰)

جواب

جاننا چاہئے کہ آیۂ مذکورۂ بالا میں “آیات اللہ” کا ذکر آیا ہے اور آیات اللہ یعنی خدا کے معجزات یا خدا کی نشانیوں کی مراد أئمّۂ آلِ محمد علیہم السّلام ہیں، چنانچہ روئے زمین پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے معجزات اور نشانیاں یہی أئمّۂ طاہرین علیہم الصلوات والسّلام ہیں، جیسا کہ مولانا مرتضیٰ علی علیہ السّلام کا ارشادِ گرامی ہے کہ :  اَنَا اٰیَاتُ اللّٰہِ وَاَمِیْنُ اللّٰہ یعنی میں خدا کے معجزات اور

۶۶

اس کے علم و حکمت کا امانتدار ہوں۔  (مناقبِ مرتضوی فارسی ص ۷۷) یہ ارشادِ مبارک نورِ امامت کا ہے، جو اس وقت مولانا مرتضیٰ علیؑ میں جلوہ گرتھا اور یہی نورِالٰہی جملہ أئمّۂ کرامؑ کے سلسلے میں جلوہ فگن ہوتے ہوئے آیا ہے ۔

اب اس حقیقت کا ثبوت کہ أئمّۂ برحق علیہم السّلام آسمانِ روحانیّت اور نورِالٰہی کے ابواب ہیں، یہ ہے جو حضرت مولانا علی صلوات اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ:   اَنَابَابُ اللّٰہِ الَّذِیْ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْابِاٰیٰتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْاعَنْھَا لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ۔ (مناقبِ مرتضوی فارسی ص ۷۶)۔ یعنی میں خدا کا وہ دروازہ ہوں کہ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے۔

دوسرا ثبوت ان دومشہور حدیثوں سے ظاہر ہے کہ حضورِ اکرمؐ  علمِ الٰہی کا شہر ہیں اور مولانا علیٔ مرتضیؑ اس کا دروازہ ہیں، نیز سرورِ کائنات حکمتِ لم یزلی کا گھر ہیں اور جناب مرتضیٰؑ اس کا دروازہ ہیں، پھر اس سے یہ معلوم ہوا کہ امام ہی کے دروازے سے داخل ہونے کے بعد خدا اور رسولؐ کا علم و حکمت اور نورِ ازل ضرور مل جاتا ہے، پس ظاہر ہے کہ أئمّۂ برحقؑ اپنے اپنے وقت میں آسمانِ روحانیّت (یعنی نورِالٰہی) کے دروازے ہیں، جن کے کھل جانے سے مومنین بہشتِ برین میں داخل ہوجاتے ہیں اور ان کے ماسوا کو بہشت میں داخل ہوجانا اتنا ناممکن ہے، جتنا کہ اونٹ کو سوئی کے ناکے سے گزرجانا۔

۶۷

سوال نمبر۴

اسی طرح محترم امین مہروانی صاحب سورۂ فلق کی حکمت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔

 

جواب

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

قُلْ۔ کہئے یعنی اے رسولِ اکرمؐ آپ ذاتی طور پر نیز اولواالامر (یعنی أئمّۂ برحق) علیہم السّلام کے توسط سے ظاہراً اور باطناً لوگوں کو بطورِ تعلیم بتلا دیجئے۔

اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ کہ میں صبح کے پروردگار کی پناہ لیتا ہوں یعنی نور کے مالک کی پناہ میں اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہوں۔

مِنْ شَرِّ مَاخَلَقَ۔  بُرائی سے جو پیدا کی ہے یعنی ہر اس  بُرائی سے جو موجود ہے اور دینی اعتبار سے مضر اور نقصان دہ ہے۔

۶۸

وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَاوَقَبَ۔ اور تاریکی کردینے والی چیز کی  بُرائی سے جب چھپ جائے یعنی اس شخص کی   بُرائی سے بھی نور کے مالک کی پناہ لیتا ہوں، جو اپنی طرف سے دین میں جھوٹی روایتوں کی تاریکی پھیلاکر کہتا ہے، کہ یہ پیغمبرؐ  کی حدیث ہے، یا کہتا ہے کہ یہ فلان امام کا قول ہے وغیرہ اور اسی طرح وہ اس قول میں اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتا، جب ایسی باتیں پیغمبرؐ اور امامؑ کی نہیں، بلکہ یہ اس شخص کی جھوٹی باتیں ہیں تو یہ جہالت اور نافرمانی کی تاریکی ہے اور وہ شخص دین میں ایسی روحانی تاریکی پھیلا کر خود چھپ جاتا ہے، پس ایسے آدمی کی  بُرائی سے بھی نورِامامت کی پناہ لینی چاہئے۔

وَمِنْ شَرِّالنَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ ۔ اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کی  بُرائی سے۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ صاحبِ امر علیہ السّلام دینی اور علمی اعتبار سے مرد کے درجے پر ہیں اور دوسرے تمام لوگ عورت کے درجے پر ہیں (ملاحظہ ہووجہِ دین حصّۂ دوم ص ۲۰۱-۲۱۰) جس طرح جادوگر عورتیں دھاگوں کی گرہوں میں منتر پھونک کر کسی پر جادو چلاتی ہیں، اسی طرح صاحبِ امرؑ کے مخالف علماء جو دین میں عورت کے مقام پر ہیں، دین کی آسان اور سادہ باتیں الجھا الجھا کر پیچیدہ مسائل بناتے ہیں اور ایسے مسائل کی گرہوں میں یہ مقصد پھونکتے ہیں کہ لوگ اس جادو کے اثر سے یہ ماننے کے لئے مجبور ہو جائیں کہ ایسے مسائل کا جاننے والا دینی علم میں یگانۂ روزگار ہے، اسی طرح مخالف علماء امامِ برحقؑ کی معرفت سے لوگوں کو بھٹکا دیتے ہیں۔ پس ان دینی جادوگروں کی  بُرائی سے بھی نورِامامت کی پناہ لینی چاہئے۔

۶۹

وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍاِذَاحَسَد۔ اور حسد کرنے والے کی  بُرائی سے جب حسد کرتا ہے  یعنی جب پیغمبرؐ یا امامِ برحقؑ نورِ ہدایت کی روشنی میں کامیابی سے مومنین کی رہنمائی کرتے ہیں تو اس وقت ان کے دشمن حسد کرتے ہوئے ہر طرح کے مکرو حیلہ اور ہر قسم کی  بُرائی سے کام لینے لگتے ہیں اور ایسا وقت بھی بڑا خطرناک ہوتا ہے، پس مومن کو چاہئے کہ ایسے وقت میں بھی اپنے آپ کو نورِامامت کی ہدایت میں محفوظ رکھے۔

۷۰

سوال نمبر۵

محترم فتح علی حبیب آدم کالونی لسبیلا ہاؤس کراچی نمبر ۵ کی معرفت میری ایک روحانی بہن آیۂ درجِ ذیل کی حکمت پوچھتی ہیں:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُاَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ط وَ مَنْ یُّشْرِکْ بِا للّٰہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً بَعِیْدًا(۰۴: ۱۱۶)۔

بے شک اللہ تعالیٰ نہیں بخشتا یہ کہ اس کے ساتھ شریک لایا جائے اور بخشتا ہے سوائے اس کے جس کو چاہے اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شریک لائے پس تحقیق گمراہ ہوا گمراہی دور کی۔

 

جواب

اس آیۂ کریمہ سے یہ مطلب صاف طور پر ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک لانا ایک ایسا گناہِ کبیرہ ہے جو بخشا نہیں جاسکتا اور یہ ایک ایسی دور کی گمراہی ہے جس سے واپس سیدھی راہ پر کوئی انسان آ ہی نہیں سکتا، جب اس ارشادِ الٰہی کے بموجب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ شرک کا نتیجہ صراطِ مستقیم سے گمراہی اور حق تعالیٰ کی بخشش سے محرومی ہے، تو اس کے معنی یہ

۷۱

ہوئے کہ توحید کا نتیجہ راہِ راست کی ہدایت اور اللہ تعالیٰ کی بخشش ہے، پس جو لوگ سرچشمۂ ہدایت یعنی امامِ حاضرؑ کے امرو فرمان سے وابستہ ہوں تو وہ اہلِ توحید ہیں اور شرک سے یہ بہت دور ہیں اور امام علیہ السّلام کے سرچشمۂ ہدایت ہونے میں مومن کو کوئی شک نہیں، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے کہ:

اِنَّمَا اَنْتَ مُنْذِر’‘وَ لِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ(۱۳: ۰۷)۔

یعنی اے رسول اکرمؐ آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم (یعنی ہر زمانے کے لوگوں) کے لئے ایک ہادی ہوا کرتا ہے اور معتبر سندوں سے یہ حقیقت ثابت ہے کہ یہ آیۂ کریمہ نورِ امامت کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

چنانچہ جاننا چاہئے کہ شرک کی بہت سے قسمیں ہیں اور ان میں سب سے بڑا شرک یہ ہے کہ کوئی شخص خلیفۂ خدا یعنی امامِ زمانؑ کے ساتھ شریک ٹھہرائے۔ دیکھئے وجہ ِ دین حصّۂ دوم ص ۱۸۱- ۱۸۸، جیسا کہ ابلیس نے اپنے آپ کو خلیفۂ خدا یعنی حضرت آدم علیہ السّلام کے ساتھ شریک ٹھہرایا اور کہا کہ میں آدم سے بہتر ہوں۔ پس اس کا یہ گناہ یعنی شرک ایسا سنگین تھا کہ نہیں بخشا گیا۔

یہی واقعہ حضرت نوح علیہ السّلام کے زمانے میں بھی ہوا کہ جو لوگ غرقابی کی وجہ سے ہلاک ہوئے وہ دراصل مشرک تھے، کیونکہ انھوں نے اپنی عقل کو خلیفۂ خدا کی عقل پر ترجیح دی اور اس کو دنیا والوں سے بے نظیر نہیں مانا، پس وہ لوگ ہادیٔ برحقؑ کی ہدایت سے انکار کرکے گمراہی میں اس قدر دور

۷۲

گئے، کہ ان کا دوبارہ راہِ راست پر آنا ناممکن تھا اور سب سے بڑا شرک کی علامت بس یہی تھی کہ اس کے بعد ہدایت اور مغفرت کا کوئی ذریعہ باقی نہ رہا۔

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے زمانے میں نمرود اور اس کی قوم جو مچھروں کے تباہ کن حملے سے ہلاک ہوگئی، اس کا سبب بھی یہی تھا کہ انھوں نے اپنے خلیفۂ وقت یعنی ابراہیم خلیل اللہؑ کو عقل و دانش کے اعتبار سے حقیر سمجھا۔ پس یہ بات حقیقت میں ایسی تھی جیسے انھوں نے (نعوذ باللہ) خدا کو حقیر سمجھا، آخر کار یہ لوگ ہدایت کے مرکز سے جدا ہوکر بہت دور کے گمراہ اور سب سے بڑے گناہ کے مرتکب ہوگئے، پس شرک کے معنی یہی ہیں۔

چنانچہ یہی انجام ان تمام امتوں کا بھی ہوا جو دوسرے پیغمبروں کے زمانے میں تھیں، جنھوں نے اپنے پیغمبروں کو خلافت و نیابتِ الہٰیّہ میں بے شریک اور رشد و ہدایت میں یکتا نہیں مانا، پس وہ لوگ مشرک ہوگئے۔

اب اگر کوئی شخص مذکورۂ بالا حقائق کے باوجود بھی یہ اعتراض اٹھائے کہ شرک کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ خلیفۂ خدا یعنی پیغمبرؐ یا امامؑ کو لوگوں میں بے نظیر اور یکتا نہیں ماننا، بلکہ اس کے معنی ہیں خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانا، جیسے آیۂ درجِ بالا سے یہ مطلب ظاہر ہے تو اس کے لئے میرا جواب یہ ہے کہ:

انبیاءُاللہ کے تذکروں سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ جس ملک اور جس قوم میں  بُت پرستی کا آغاز ہوا یا جہاں کسی کافر بادشاہ نے “میں خدا

۷۳

ہوں” کا نعرہ لگانا شروع کیا، تو اللہ تعالیٰ نے وہاں اپنی رحمت سے کسی پیغمبر کو مبعوث فرمایا، تاکہ  بُت  پرستوں اور خدائی کے دعویٰ گروں کو ہدایت کردی جائے، پس اگر یہ شرک وہ آخری شرک ہوتا جس کے بعد کوئی بخشش نہیں اور یہ گمراہی وہ انتہائی دور کی گمراہی ہوتی جس کے بعد ہدایتِ الٰہی کا کوئی ذریعہ باقی نہیں، بلکہ ایسے مجرموں کو کسی مہلت کے بغیر ابدی عذاب میں داخل کر دینا ہے، تو اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت اور بخشش کے لئے پیغمبر مبعوث نہ فرماتا، چنانچہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ نمرود نے جب خدائی کا دعویٰ کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے پاس حضرت ابراہیمؑ کو بھیجا اور جب فرعون نے خدا ہونے کا دعویٰ کیا تو اس کے پاس حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ بھیجے گئے، پس معلوم ہوا کہ

بُت پرستی، خود پرستی وغیرہ شرک ضرورہیں، مگر یہ آخری اور سب سے بڑا شرک ہرگز نہیں، چنانچہ  بُت پرست اور خود پرست کافروں کا آخری فیصلہ قانونِ الٰہی کی رو سے اس طرح ہونا تھا کہ ان میں سے جو کوئی خلیفۂ خدا کے فرمان کو قبول کرے تو اس کے سب اگلے گناہ معاف کئے جائیں اور جو اس کے امر سے روگردان ہو تو اسے انتہائی دور کا گمراہ اور پرلے درجے کا مشرک قرار دے کر داخلِ جہنم کردیا جائے۔

سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر۱۵ (۱۷: ۱۵) کے ارشاد کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم یا فرد کو اس کے کسی گناہ کی وجہ سے عذاب میں مبتلا نہیں فرماتا، جب تک کہ کسی پیغمبر کے ذریعے سے اسے ہدایت نہ پہنچادے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک انسان خدا کی ہستی سے منکر ہوجائے یا  بُت پرستی کرے یا خدا

۷۴

کے ساتھ شریک ٹھہرائے تو پھر بھی قانونِ الٰہی کی رو سے اس کا یہ گناہ آخری حد کا نہیں ہوتا، کہ اس کو کسی تاخیر و مہلت کے بغیر دائمی عذاب میں گرفتار کر دیا جائے، بلکہ پیغمبرؐ یا امامؑ یا پیر یا داعی وغیرہ کے توسط سے ایسے شخص کو ہدایت پہنچادی جاتی ہے، کیونکہ یہ ممکنات میں سے ہے کہ وہ اس ہدایت کے باعث اپنے گناہ سے باز آئے اور اگر اس نے پیغمبر اور امام علیہما السّلام کے امر سے سرکشی کی تو بس اسے قطعی مشرک قراردے کر داخلِ جہنم کردیا جاتا ہے۔

۷۵

سوال نمبر ۶

میری خواہرِ روحانی مس زرینہ محمد مہر علی کراچی نمبر۵ سے لکھتی ہیں: “معزّز و محترم نصیر صاحب یاعلی مدد! براہِ کرم آپ ہمیں سورۂ فلق کی آیت: وَمِنْ شَرِّالنَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ (۱۱۳: ۰۴) کی حکمت سمجھا دیجئے۔”

 

جواب

میری روحانی بہن! مولا علی مدد! واضح ہو کہ سوال نمبر ۴ میں میرے عزیز امین حاجی مہروانی صاحب نے پوری سورۂ  فلق کے متعلق پوچھا تھا، لہٰذا میں نے ان کے جواب میں سورۂ فلق کی تفسیر و تاویل لکھی ہے، جس میں آپ کے اس سوال کا جواب تفصیلاً موجود ہے تاہم یہاں بھی اختصار سے لکھ دیتا ہوں کہ:

وَمِنْ شَرِّالنَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ: اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کی  بُرائی سے (بھی نور کے مالک کی پناہ لیتا ہوں) اس کی تاویل یہ ہے کہ صاحبِ امرؑ دینی و علمی اعتبار سے مرد کے درجے پر ہیں اور دوسرے تمام لوگ عورت کے درجے پر ہیں (ملاحظہ ہو: وجہِ دین حصّۂ دوم ص ۲۰۱-۲۱۰) جس طرح جادوگر عورتیں دھاگوں کی گرہوں میں منتر پھونک کر کسی پر جادو چلاتی ہیں، اسی طرح صاحبِ امرؑ کے مخالف علماء جو دین میں عورت کے مقام پر ہیں، دین کی آسان اور سادہ باتیں الجھا الجھا کر پیچیدہ مسائل بناتے ہیں اور ایسے مسائل کی گرہوں میں یہ مقصد پھونکتے ہیں، کہ لوگ اس جادو کے اثر سے یہ ماننے کے لئے مجبور ہوجائیں، کہ ایسے مسائل کا جاننے والا دینی علم میں زبردست عالم ہے اور اس کا کوئی ثانی نہیں، اسی طرح مخالف علماء امامِ حقؑ کی معرفت سے لوگوں کو گمراہ کردیتے ہیں، پس ان دینی جادوگروں کی  بُرائی سے بھی نورِ امامت کی پناہ لینی چاہئے۔

۷۶

سپاسنامہ

 

آج ہم اس مجلس میں اپنے علمی و روحانی معلمِ خصوصی علّامہ نصیرالدّین نصیرؔہونزائی صاحب ( جو کہ ایک طویل مدّت ہمارے درمیان رہ کر ہمیں روحانیت کی ہر اعلیٰ قسم کے علم کی روشنی سے منوّر کرنے کے بعد طبیعت کی ناسازگی کی وجہ سے کچھ وقت کے لئے ہم سے رخصت ہو رہے ہیں) کی خدمت میں نذرانۂ عقیدت و محبت پیش کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔

اہلِ دانش اور علم دوست حضرات میں بہت ہی کم افراد ایسے ہوں گے جو علّامہ نصیر الدّین صاحب کی شخصیّت سے ناواقف ہوں اور ان کے روحانی علوم و معارف سے فیضیاب نہ ہوئے ہوں، چنانچہ گزشتہ چھ سات سال سے اسماعیلیہ ایسوسی ایشن کے زیرِ تربیت واعظین جس کامیاب طریق پر علمِ حقیقت کی روشنی سے منوّر ہوئے ہیں، اس کا سہرا بالخصوص علّامہ نصیرالدّین کے سر پر ہے۔

علّامہ نصیرالدّین صاحب نے اسماعیلیہ ایسوسی ایشن کے زیرِ نگرانی واعظین کو جس بہتر اصول سے تعلیم دی ہے، اس کی ایک زندہ مثال وہ

۷۷

واعظین ہیں جو آج سے پہلے تقریباً تین سال تک آپ کے زیرِ تعلیم رہے، اور اس وقت وہ تمام اعلیٰ پائے کے واعظین میں اپنا درجہ رکھتے ہیں، یہاں ان سے میرا مطلب وہ طالبِ علم ہیں جو بمبئی، مڈغاسکر، ڈھاکہ اور مغربی پاکستان کے دیگر علاقوں سے آئے تھے، جو علّامہ صاحب کی صحبت میں رہ کر بہت ہی کم عرصے میں عدیم المثال ترقی کرکے علم کے آسمان کے روشن ستاروں کی طرح چمکنے لگے۔

علّامہ نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی صاحب کی شخصیّت کے مختلف پہلوؤں کے متعلق کچھ کہنا کوئی نئی بات نہیں ہے، کیونکہ ایک خوشبودار پھول کے بارے میں جبکہ  اس میں سے ہمیشہ خوشبو مہک رہی ہو، یہ کہنا کہ اس میں خوشبو ہے کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ اس کے متعلق کچھ بیان کئے بغیر بھی لوگ اس کی خوشبو کو محسوس کرلیتے ہیں اور اس کے بارے میں یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ اس میں خوشبو ہے، اسی طرح علّامہ صاحب جو کہ مولائے زمین و زمان کی روحانیّت اور عشق کے باغ کے پھول کی حیثیّت سے ہیں اور جس سے ہمیشہ معرفت کی خوشبو مہک اٹھتی ہے ان کے متعلق جو بھی تعریف و توصیف کے طور پر کہا جائے وہ  ان کی شخصیّت کو عیان نہیں کرسکتا، جو صاحبان پندرہ سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے علّامہ صاحب کی علمی صحبت میں رہے ہیں، وہ بھی ان کے علم کی گہرائیوں تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔

حجتِ خراسان پیر ناصر خسرو قدّس اللہ سرّہ‘ کے علوم اور فلسفے (جو اسماعیلی دین کے بنیادی فلسفے کی حیثیّت سے ہیں) کو جس حد تک آپ حضرت

۷۸

نے سمجھا ہے، شاید ہی کوئی اور سمجھا ہواور یہی وجہ ہے کہ آپ کا طریقِ تعلیم و تصانیف کافی حد تک حکیم ناصر خسرو قدّس اللہ سرّہ‘ سے مشابہ ہے، اس میں کوئی مبالغہ نہیں، جبکہ ہماری موجودہ اسماعیلی جماعت جو ہندوستان، پاکستان اور افریقہ کے مختلف علاقوں میں بستی ہے، ناصر خسرو کی تعلیمات سے بالکل بے بہرہ ہے، بلکہ اس حد تک کہ ہماری جماعت کی اکثریت حکیم ناصر خسرو حجتِ خراسان کے نام سے بھی واقف نہیں، ایسی حالت میں علّامہ صاحب کا یہ ایک عظیم کارنامہ ہے، کہ انھوں نے حکیم ناصر خسرو کی گرانمایہ تصنیف “وجہِ دین” جیسی ضخیم کتاب کا اردو ترجمہ کرکے اسماعیلی مذہب و قوم کی ایک عظیم خدمت انجام دی ہے، اس کے علاوہ آپ کی دیگر تصنیفات بھی حکیم ناصر خسرو (ق س) کے فلسفے کو سمجھنے میں بڑی مدد دیتی ہیں، آپ کی چند تصنیفات جیسے میزان الحقائق، سلسلۂ نورِ امامت اور مفتاح الحکمت ایسی کتابیں ہیں، جن میں موجودہ سائنسی انکشافات کے بعد پیدا ہونے والے تمام سوالات کے جوابات سمودیئے گئے ہیں، آپ نے اپنی ایک کتاب “فلسفۂ دعا” میں ہماری مقدّس دعا کے فلسفے اور حکمت کو جس خوش اسلوبی سے اجاگر کردیا ہے، اس کو دیکھ کر ایک علم شناس شخص بے ساختہ یہ کہہ اٹھتا ہے کہ آج تک کسی بھی اسماعیلی عالم کی نگاہ اس گہرائی تک نہیں پہنچی ہے۔

بعض اوقات جماعت کے چند افراد آپ حضرت کی تصنیفات کے متعلق پریشانی اور الجھن کا اظہار کرتے ہیں، کہ نصیر کی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں لیکن حقیقت یہ ہے آپ کی تعلیمات و تصنیفات سے کما حقہٗ

۷۹

مستفیض وہی شخص ہوسکتا ہے جو آپ کے طریقِ تعلیم اور طرزِ تصنیف سے مانوس ہو، چنانچہ جو شخص جتنا زیادہ وقت آپ کی صحبت میں گزارے وہ بہتر طریقے سے آپ کے علم سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، کیونکہ علمِ حقیقت اور تاویل کے میدان میں کوئی نووارد آپ کے علم سے فوراً کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا، بلکہ طریقہ یہ ہے کہ پہلے آپ کی صحبت میں رہ کر یا آپ کی تمام کتابوں کو بار بار پڑھ کریا آپ کی جملہ تقاریر میں حاضر ہوکر، ان کو سن کر، ان پر غور و فکر کرے یا آپ سے تعلیم حاصل کرنے والے کسی طالبِ علم کے ساتھ کچھ وقت رہ کر نصیر صاحب کے طرزِ تعلیم کا مطالعہ کرے، تب ہی وہ اپنے دل میں علمِ حقیقت کی کوئی بات اتار سکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ علّامہ نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی صاحب ایک بہت بڑے عالم ہیں، لیکن ان کے علم کو کتاب کی طرف منسوب کرنا یعنی یہ کہنا کہ آپ نے اس علم کو ہزاروں کتابیں چھان مارنے کے بعد حاصل کیا ہے، آپ کی علمی حیثیّت کے ساتھ بڑی بے انصافی ہے، چونکہ آپ کا یہ علم کتابی نہیں ہے چنانچہ جو حضرات برسوں سے آپ کے زیرِ تعلیم رہے ہیں، وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ حقائق و معارف کے سمجھانے میں آپ نے نہ تو کبھی کسی غیر اسماعیلی مصنف کی کتاب سے کوئی مدد لی ہے اور نہ ہی قرآن و حدیث اور چند اسماعیلی کتب کے سوا کسی اور کتاب کا حوالہ دیا ہے، آپ کا یہ علم عطائی علم ہے اور یہ تو آپ سے تعلیم پانے والا کوئی شاگرد ہی سمجھ سکتا ہے کہ آپ ایک پیرِ کامل اور روحانی بزرگ کی طرح وہی کچھ بتاتے ہیں، جو

۸۰

عبادت اور ریاضت کے درمیان آپ کے تجربات میں آئے ہیں۔

علّامہ نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی صاحب کے اخلاقِ حسنہ کے متعلق کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، کیونکہ آپ سرتا پا اخلاقِ حسنہ کے جواہر سے مزّین ہیں، ایک طویل مدّت تک آپ کی علمی صحبت میں رہنے والے کسی بھی شاگرد نے کبھی آپ کو ناراض، چین بجبین یا کسی کو علمی یا روحانی مشورہ دیتے ہوئے تھکاوٹ یا بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے، آپ چاہے کتنے بھی مصروف کیوں نہ ہوں، جسمانی طور پر اپنی عمر کے تقاضے کے مطابق کتنے تھکے ہوئے کیوں نہ ہوں، جب کبھی آپ سے کسی شاگرد نے علمی یا روحانی مشورہ چاہا، تو آپ اس کے ساتھ پدرانہ شفقت سے پیش آتے اور جب تک وہ شاگرد مطمئن ہوکر خود رخصت نہ ہوجائے، آپ اسے رخصت ہونے کو نہیں فرماتے۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ آپ اپنی کچھ جسمانی تکلیف اور نادرستیٔ صحت کی وجہ سے کچھ مدّت کے لئے ہم سے جدا ہورہے ہیں، لیکن ہم اپنے محترم استاد کو یقین دلانا چاہتے ہیں، کہ اس مختصر عرصے میں بھی ان کے بغیر ہمیں علمی طور پر بہت کچھ کمی محسوس ہوگی اور ہماری روح آپ کے علم سے مستفیض ہونے کے لئے پھر سے ملنے تک بے چین رہے گی، پھر بھی ہم امید کرتے ہیں کہ جیسا کہ آپ حضرت نے ہمیشہ کیا ہے، ایسا اس مرتبہ بھی بوقتِ ضرورت خط و کتاب کے ذریعہ ہماری رہنمائی فرماتے رہیں گے۔

اخیر میں مولائے زمین و زمان کی بارگاہ میں دل کی گہرائیوں سے ہماری دعا

۸۱

ہے، کہ مولا آپ کو جلد از جلد صحت یاب کردے! لمبی سے لمبی  پُرصحت عمر عطا فرمائے! قوم اور مذہب کی خدمت کرنے کی اور بھی توفیق و ہمت عطا فرمائے اور ہمیں آخری دم تک آپ سے تعلیم حاصل کرنے کا موقع عنایت فرمائے! آمین!

 

منجانبِ واعظین کلاس، اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان

ماہِ اگست ؁۱۹۷۰ء

 

۸۲

ابجد کے اعداد

 

ا         ب       ج       د        ھ        و        ز

۱       ۲       ۳       ۴       ۵       ۶       ۷

ح       ط       ی       ک      ل       م        ن

۸       ۹       ۱۰     ۲۰     ۳۰     ۴۰     ۵۰

س      ع       ف      ص     ق       ر        ش

۶۰     ۷۰     ۸۰     ۹۰     ۱۰۰   ۲۰۰   ۳۰۰

ت       ث       خ       ذ        ض     ظ       غ

۴۰۰   ۵۰۰   ۶۰۰   ۷۰۰   ۸۰۰   ۹۰۰   ۱۰۰۰

 

نوٹ:  بسلسلۂ “قرآنی سوال و جواب” سوال نمبر ۲ میں یا دیگر اسماعیلی کتب میں جہاں کہیں بھی عددی تاویل اور علمِ جفر کی روشنی میں جو دلائل یا جوابات دیئے گئے ہیں، ان کو سمجھنے کے لئے اس جدول کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔

۸۳

چند علمی سوالات

 

(اسی کتاب کو بار بار پڑھ کر یہ اور اسی قسم کے دوسرے بے شمار سوالات حل کئے جا سکتے ہیں)۔

۱۔ سیّارۂ زمین کا اوّلین انسان کس نام سے مشہور ہے؟

۲۔ علمِ روحانیّت کی تاریخ انسانیت سے بھی زیادہ قدیم ہونے کا ثبوت کیا ہے؟

۳۔ کیا آنے والے زمانے میں علمِ روحانیّت کی زیادہ سے زیادہ ضرورت پیش آئے گی اور کیوں؟

۴۔ نظریۂ اسماعیلیّت کے مطابق روحانیّت کی تعریف کیا ہے؟

۵۔ نورِ مطلق کسے کہتے ہیں؟

۶۔ روح الاعظم، روح الوحی، روح الارواح، روح الایمان، روح الرّوح، روحِ عالم، روح القرآن، اور روح الذّکر میں سے ہر ایک کی جدا جدا تشریح کیجئے۔

۸۴

۷۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پاک نور سے حضرت آدم علیہ السّلام کی ذات کو کس طرح منوّر کردیا؟

۸۔ روح کے لطیف و بسیط ہونے کا مطلب سمجھاؤ۔

۹۔ قرآنِ حکیم میں زیادہ سے زیادہ کتنی آیتوں میں روح اور روحانیّت کا تذکرہ آیا ہے؟ ان کے حوالے دیجئے۔

۱۰۔ پانی اور سمندر کی مثالوں سے روح کی کچھ حقیقتیں سمجھا دیجئے۔

۱۱۔ کیا حقیقت کی رو سے سارے انسان بنی آدم کہلا سکتے ہیں؟ یا ان میں کچھ تخصیص بھی ہے؟

۱۲۔ عزرائیلؑ کس طرح روحوں کو قبض کرلیتا ہے؟

۱۳۔ کیا پنج تنِ پاکؑ میں مجموعاً ایک روح تھی یا پانچ روحیں؟

۱۴۔ حزب اللہ پر ایک چھوٹا سا مضمون لکھئے۔

۱۵۔ روح الامین کے بارے میں پانچ سوال ایسے لکھئے جو اس کتاب کے پڑھنے سے پیدا ہوئے ہیں۔

۱۶۔ حق تعالیٰ کے کلام اور وحی میں کیا فرق ہے؟ نیز بتائیے کہ وحی کی کتنی قسمیں ہیں؟

۱۷۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ظاہراً کوئی عورت پیغمبر نہیں ہوئی ہے، لیکن اگر کوئی شخص یہ منطقی سوال پیش کرے، کہ پیغام بر (پیغمبر) کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم لانے والے کو، چنانچہ حضرت مریمؑ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم بطورِ اشارہ لوگوں سے کہہ دینا کہ میں نے آج نہ بولنے کا روزہ رکھا

۸۵

ہوا ہے، اس لئے میں تمہارے ساتھ گفتگو نہ کروں گی اور یہ حکم اس نے پہنچا دیا۔ ایسے سوال کا مناسب اور موزون جواب کیا ہونا چاہئے؟

۱۸۔ بتائیے کہ حضورِ اکرمؐ کے سینۂ مبارک کو کس طرح پاک وصاف اور کشادہ کردیا گیا تھا؟

۱۹۔ حق تعالیٰ نے آیۂ نور میں فرمایا ہے، کہ میں خود بلندی و پستی کا نور ہوں پھر اسی آیت میں مثال دیتے ہوئے بہ اندازِ حکمت یہ ارشاد فرماتا ہے کہ ایسا نور میرا نور ہے، کیا آپ اس کی عظیم ترین حکمت کو سمجھ سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو آپ اپنی ذات کے متعلق سوچ کر بتایئے کہ “میں” اور “میرے” کے درمیان کیا فرق ہے؟ مثلاً آپ جب کہتے ہیں کہ میری عقل، میری روح اور میرا جسم ، پھر ان الفاظ کے کہنے کے بعد بتایئے کہ “میں” کس حقیقت کا نام ہے؟

۸۶

دُعا مغزِ عبادت

دعا مغزِ عبادت

ایک خاص حسین عالم

عزیزانِ علمی، محترم جنت علی (حسینی غلام) ان کی فرشتہ جیسی نیک سیرت اہلیہ محترمہ شاہ بی بی، اور معزز افرادِ خاندان کی یہ ایک بہت بڑی سعادت ہے کہ ایک نامور علمی ادارے کی تاریخ میں ان کے حسنِ عمل کا ذکرِ جمیل (ان شاء اللہ) ہمیشہ زندہ اور تابندہ رہے گا۔

مولائے پاک و مہربان کے فضل و کرم سے اس مشترکہ دنیا میں ہمارے عزیزوں کی پیاری پیاری کتابوں کا ایک انتہائی حسین عالم بھی ہے، اس میں جب اور جہاں “شاہ بی بی برانچ” یا کسی دوسری برانچ یا کسی عظیم کارکن کا نام اور تذکرہ آتا ہے تو اس مقام پر ہر ذی شعور انسان نہ فقط محوِ حیرت ہو جاتا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کے دل میں حقیقی عزت و احترام کا ایک بےمثال جذبہ بھی ابھرتا ہے۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

نصیر الدین ہونزائی ’’لسان القوم‘‘

۲۰ اکتوبر ۱۹۹۳ء

 

دیباچۂ طبعِ سوم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ یا اللہ! اپنی قدیم ذات و صفات کی حرمت سے، یا الٰہی! اپنے اسماء الحسنیٰ اور کلماتِ التّامات کی حرمت سے، یا ربّ العزت! اپنے جملہ سماوی و ارضی فرشتوں کی حرمت سے، یا خداوندا! اپنی ساری آسمانی کتابوں اور نوشتوں کی حرمت سے، اے معبودِ برحق! اے دانائے مطلق! اپنے انبیائے کرام علی الخصوص حضرتِ محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی حرمت سے، اے خالقِ انس و جان! اے پروردگارِ عالمیان! آلِ محمدؐ کے أئمّۂ ھُدا کی حرمت سے۔

 

اے خلاقِ کون و مکان! دارندۂ زمین و آسمان! دانندۂ اسرارِ نہان! تیری ذاتِ پاک سے ہماری کوئی حالت پوشیدہ نہیں، تیرے عظیم احسانات و انعامات کی عاجزانہ شکرگزاری ہم سے کب اور کہاں ادا ہوگی، ہم آئینۂ دل کو تیرے ذکرِ جمیل کی تجلّیوں کے سامنے سے ہٹا کر اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں، اے آسمانی طبیب! اے عرشی ڈاکٹر! آ جا، آ جا، ہم ظاہراً و باطناً مریض ہیں، ازراہِ عنایت ہمارا علاج کر، اگر ہم سچ مچ مریض نہ ہوتے تو ذکر و عبادت کے دوران وسوسوں کے اژدھے کا لقمہ نہ بن جاتے، یا اللہ! اپنے نورِ منزل کے پاک عشق سے ہماری کل بیماریوں کا علاج کر، اے خداوندِ کریم! جب تو نے اپنے اس نورِ اقدس کو زمین پر نازل کر دینے سے دریغ

 

الف

 

نہیں فرمایا تو اب بےحد ضرورت اس بات کی ہے کہ ازراہِ بندہ پروری اس نورِ ہدایت سے ہمارے تنگ و تاریک دلوں کو وسیع و منور کر دے!

 

یا ربِّ غفور! تیری رحمت کا بحرِ بیکران کائنات و موجودات پر محیط ہے اور تیرے علم کا سمندر بحرِ رحمت پر حاوی ہے، اس سے ہمیں یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اگرچہ دوزخ (آتشِ جہالت) حق ہے، لیکن تو بالآخر سب کو بخشنے والا ہے، اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دعا اور خیرخواہی کا دائرہ ہمہ رس اور ہمہ گیر ہو جائے، کیونکہ ہم نے قرآنِ پاک کی روشنی میں یہ دیکھا کہ فرشتے علم میں جتنے عظیم تر ہوتے ہیں، ان کی دعا کا دائرہ اتنا وسیع تر ہوتا ہے۔

 

یا ربّ العالمین! ہمیں ذکر و عبادت اور دعا کی بڑی سے بڑی حکمتوں کو سمجھنے کی ہمت و توفیق عطا کر دے، تا کہ اس کی خوبیوں سے جاذبیّت و کشش پیدا ہو سکے، کیونکہ حکمت دینِ حق کی سب سے بڑی دولت ہے، اور خیرِ کثیر (تمام تر خوبیاں) حکمت ہی سے وابستہ ہے، اور قرآنِ عظیم نے بڑی شان سے عقل و دانش کی تعریف کی ہے، پس مناسب نہیں کہ ہم کچھ سمجھے بغیر تقلید کی بندگی کریں، اس میں کوئی خاص فائدہ نہیں۔

 

میرے عزیز روحانی بھائیو اور بہنو! جملہ عبادات ضروری ہیں، لیکن دعا بےحد ضروری ہے، اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں بڑی کثرت سے دعا کا ذکر موجود ہے، اور اس میں اللہ کے برگزیدہ بندوں کی مقبول دعائیں بھی مذکور ہیں۔ دوسری دلیل: سورۂ فاتحہ کی اہمیّت و فضیلت سب پر عیان ہے کہ وہ ام الکتاب ہے جس کا نصفِ اوّل خدا کی حمد و ثنا

 

ب

 

پر مبنی ہے، اور نصفِ آخر میں نورِ ہدایت سے متعلق نہایت اہم دعا کی تعلیم دی گئی ہے۔

 

تیسری دلیل: اہلِ ایمان کے لئے بطورِ خاص حکم دیا گیا ہے کہ وہ امید و یقین کے ساتھ اللہ کو پکارا کریں۔ جیسے ارشاد ہے: وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ (۴۰: ۶۰) اور تمہارا ربّ کہتا ہے “مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا”۔ چوتھی دلیل: (ترجمہ:) اور (اے رسول!) جب میرے بندے تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتا دو کہ میں ان کے پاس ہی ہوں، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں، پس انہیں چاہئے کہ میرا ہی کہنا مانیں، اور مجھ پر (کماحقہ) ایمان لائیں، تا کہ وہ راہِ راست پر چل سکیں (۰۲: ۱۸۶)۔

 

پانچویں دلیل: قرآنِ حکیم کی دو پُرحکمت آیتوں (۰۶: ۵۲، ۱۸: ۲۸) کی روشنی میں یہ حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ دینِ اسلام میں شروع ہی سے کچھ ایسے درویش صفت لوگ بھی موجود ہیں، جو دیدارِ خداوندی (وجھہ) کی غرض سے اجتماعی دعا پڑھتے ہیں، دیدارِ پاک کے اس انتہائی عظیم مقصد کی مناسبت سے ان کی درویشی اور صراطِ مستقیم پر روحانی ترقی کا ثبوت ملتا ہے۔ چھٹی دلیل: حدیثِ شریف ہے: الدعا مُخُّ العبادۃ = دعا مغزِ عبادت ہے (ترمذی: دعا)۔

 

ساتویں دلیل: کتاب الشّافی، جلدِ پنجم، کتاب الدّعا میں ہے: حضرتِ امام محمد باقر علیہ السّلام نے فرمایا: ۔۔۔۔۔ افضل العبادۃ الدعا = دعا

 

ج

 

سب عبادتوں سے افضل ہے، آپ سے اس آیۂ کریمہ کے بارے میں پوچھا گیا: اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ (۱۱: ۷۵) بے شک ابراہیم بڑا حلیم اور بہت آہیں بھرنے والا اور رجوع کرنے والا تھا۔ آپ نے جواب دیا کہ: وہ بہت زیادہ دعا کرنے والے تھے۔

 

الغرض اگر ہم دعا کی فضیلت پر دلائل لکھتے جائیں تو یہ دیباچہ اپنی حد سے زیادہ طویل ہو جائے گا، تاہم یہاں یہ ضروری سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ دعا میں اصل راز کیا ہے کہ قرآن و حدیث میں اس کی اتنی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دعا میں مناجات اور عاجزی کا موقع ہے، اور گریہ و زاری والی تسبیح پڑھی جاتی ہے، یہ بات الگ ہے کہ ہم آج کی مادّی ترقی کے طوفان میں دعا کی تمام شرطیں بھی پوری کر سکتے ہیں یا نہیں۔

 

دعا کی سب سے بڑی فضیلت یقیناً اس وجہ سے ہے کہ اس کا حکم اللہ، رسول، اور صاحبِ امر نے دیا ہے، اور یہی دین کا وہ حکم ہے، جس کے تحت ذکر و عبادت اور علم و عمل کی تمام خوبیاں آجاتی ہیں۔

 

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ دینِ فطرت (یعنی اسلام) کی ہدایات و تعلیمات قانونِ فطرت کے مطابق ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نہ صرف علوم ہی بلکہ عبادات بھی درجہ بدرجہ ہیں، کیونکہ قرآنِ کریم کی بہت سی آیاتِ مبارکہ میں صراطِ مستقیم کا ذکر ہے، اور اسی طرح دوسری متعدد آیات میں درجات کا تذکرہ ہے، پھر یہ امر لازمی ہے کہ درجات اور

 

د

 

کہیں نہیں بلکہ صراطِ مستقیم ہی پر ہوں، اس سے معلوم ہوا کہ دینِ فطرت میں یقیناً ترقی ہے، جیسے درجِ ذیل حدیث سے ظاہر ہے:

 

“الشریعۃ اقوالی، و الطریقۃ افعالی، و الحقیقۃ احوالی، و المعرفۃ سری = شریعت میرے اقوال کا نام ہے، طریقت میرے اعمال کا، حقیقت میری باطنی کیفیت کا، اور معرفت میرا راز ہے”۔

 

سید امیر علی کی مشہور کتاب “سپرٹ آف اسلام” کا اردو ترجمہ “روحِ اسلام” ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ نے شائع کر دیا ہے، اس کے صفحہ ۳۰۵ کے آخر میں ایک حدیثِ نبوّی کا ترجمہ اس طرح سے درج ہے: “تم لوگ ایک ایسے دور سے گزر رہے ہو کہ اگر تم احکام کے دسویں حصے سے بھی تغافل برتو تو برباد ہو جاؤ گے، اس کے بعد ایک ایسا وقت آئے گا کہ اُس وقت جو احکام دیئے گئے ہیں اگر کوئی ان کے دسویں حصّے پر بھی عمل کرے گا تو اُسے نجات نصیب ہو جائے گی۔”

 

صفحہ ۳۰۶ پر اصل حدیث اس طرح ہے: عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انکم فی زمان من ترک منکم عشر ما امر بہ ہلک ثم یاتی زمان من عمل منھم بعشر ما امر بہ نجا۔ رواہ الترمذی۔ (بحوالۂ ترمذی و مشکوٰۃ)۔

 

اس کتاب کا نام اب “دعا مغزِ عبادت” مقرر ہوا ہے، یہ اس حدیثِ شریف سے لیا گیا ہے: الدعاء مخ العبادۃ (دعا عبادت

 

ہ

 

کے مغز کا درجہ رکھتی ہے) قبلاً فلسفۂ دعا کے نام سے شائع ہوئی تھی، میں یہاں اپنی جماعتِ باسعادت کے ہوش مند قارئین کو عاجزانہ و مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں کہ وہ مقدّس دعا سے متعلق وسیع تر معلومات کی خاطر دو اور مفید کتابوں کو بھی پڑھ لیں، وہ جناب ڈاکٹر (پی۔ ایچ۔ ڈی) فقیر محمد صاحب ہونزائی کی کتاب “برکاتِ دعا” اور جناب الواعظ عالیجاہ کمال الدین صاحب کی کتاب “حکمتِ دعا” ہیں۔

 

علیٔ زمان صلواۃ اللہ علیہ و سلامہ کا مقدّس عشق تمام آسمانی محبتوں کا مرکز ہے، یعنی نور الانوار، آئینۂ حق و حقائق، مظہرِ عجائب و غرائب، غالب علیٰ کلِ غالب، میں سچ سچ بتاتا ہوں کہ گاہے گاہے یہ دل اس محبوبِ لاثانی و غیر فانی کے غلبۂ عشق سے مغلوب و بےچارہ ہو جاتا ہے، ایسے میں جی چاہتا ہے کہ نثر ہی میں شاعرانہ باتیں لکھوں، تا کہ جو کچھ خیال میں آئے وہ ظاہری ربط و ضبط کے بغیر بول سکوں، کیونکہ دائرۂ کائنات میں جتنی چیزیں موجود ہیں، ان میں ربط ہی ربط ہے، اسی طرح بحرِ علم و حکمت میں جیسے بھی نکات ہیں، ان میں کلّی طور پر ربط و وحدت ہے۔

 

میرے عزیزان جو مغرب میں رہتے ہیں، وہ امامِ عالی مقام کے اس علم سے کتنے خوش و خرسند ہیں، اس کی ایک زندہ مثال اس گفتگو سے مل سکتی ہے، کہا گیا: “آپ کو مولا نے ایسا رفیع الشّان علم دیا ہے کہ اس کے احترام میں اکیس توپوں کی سلامی بھی کم ہے، ہم اگر آپ کی

 

و

 

طویل علمی خدمات پر گولڈن جوبلی نہیں منا سکتے ہیں تو فلاور جوبلی ضرور منا سکتے ہیں”۔ میں نے گزارش کی خدارا، ایسی باتیں مت کیجئے، میں جماعت میں سب سے چھوٹا آدمی ہوں، اگر کچھ کرنا ہے تو “جشنِ خدمتِ علمی” کے عنوان سے کوئی کام کریں، تو اس کے لئے وہ راضی ہوگئے۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

میں ہوں: اہلِ جماعت خانہ کی خاکِ پا

ن۔ ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی رہائش گاہ

جمعرات ۱۸ شوال ۱۴۱۴ھ

۳۱ مارچ ۱۹۹۴ء

 

ز

 

دعا مغزِ عبادت

کے ساتھ یہ کتابچہ بھی ضروری ہے۔

 

حکمتِ تسمیہ اور اسمائے اہلِ بیّت

 

یکے از تصنیفاتِ

 

علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی

 

شائع کردہ

 

خانۂ حکمت ۔ ادارۂ عارف

۳۔ اے نور ویلا، ۲۶۹۔ گارڈن ویسٹ

کراچی ۳

 

 

تشکر

طبعِ دوم

 

اہلِ ایمان کے لئے اس حقیقتِ ثابتہ میں کوئی شک ہی نہیں کہ قادرِ مطلق اور حکیمِ برحق کی صفاتِ عالیہ میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ “مسبب الاسباب” ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ خدائے تعالیٰ خود ہی اپنی قدرتِ کاملہ سے اپنے بندوں کے نیک کاموں کے ذرائع و اسباب یکے بعد دیگرے مہیّا کر دیتا ہے، کیوں نہ ہو، کہ وہی حقیقی کارساز ہے، اور وہی اپنے قبضۂ قدرت سے خاص اور حقدار مومنوں کو ایسے نیک، مفید، اور ہمہ رس کاموں کی توفیق عطا فرماتا ہے کہ جن سے تمام اہلِ مذہب کو (خواہ وہ حال و مستقبل میں کہیں بھی ہوں) ہمیشہ ہمیشہ کے لئے طرح طرح کے فوائد حاصل ہوتے رہتے ہیں، مگر اس قسم کا کوئی عظیم کارنامہ، کہ جس سے ہمیشہ کے لئے دنیا بھر کے دینی بھائیوں اور بہنوں کو بلا فرق و امتیاز فائدہ ہی فائدہ ہو، صرف دینی علم کی تخلیقی یا تالیفی صورت میں ہو سکتا ہے، اور کسی ایسے کارنامے کی نیک نامی اور ابدی ثواب میں بحقیقت وہ خوش نصیب حضرات بھی شامل ہوسکتے ہیں، جو اس کی انجام دہی کی کسی بھی منزل میں امداد و معاونت کرتے ہوں، یعنی امداد کی علی التّرتیب بہت سی

 

۷

 

صورتیں ہوا کرتی ہیں، کہ وہ خیرخواہی زبانی حوصلہ افزائی، عاقلانہ مشورہ، نیک دعا، قلمی تعاؤن اور ضروری عمل میں سے کسی بھی امکانی صورت میں ہوسکتی ہے۔

 

چنانچہ ربّ العزّت کی عنایتِ بےنہایت سے اس پُرمعلومات اور ضروری کتاب کی طبعِ ثانی کے لئے بھی ایک ایسا بہترین وسیلہ و ذریعہ پیدا ہوا، وہ اس طرح کہ ۱۹۶۷ء کے ماہِ نومبر میں جب کہ سرکارِ اقدس نور مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام پاکستان تشریف لائے، تو کراچی کھارادر کے مقام پر حضور پرنورؑ نے بالعموم تمام اسماعیلی جماعت کو اور بالخصوص اسماعیلی طلبا و طالبات کو پُرزور اور تاکیدی الفاظ میں فرمایا، کہ وہ اپنی اس موجودہ دعا کے معانی و مطالب کو اچھی طرح سے سمجھ لیا کریں، جو بطریقِ عبادت جماعت خانوں میں پڑھی جاتی ہے، نہ صرف اسی موقع پر بلکہ اس سے پیشتر بھی امامِ عالی مقام نے کئی دفعہ مختلف مقامات پر دعا کے معنی و حقیقت کی اہمیت کے بارے میں اسی طرح کے تاکیدی ارشادات فرمائے تھے۔

 

بنا برین اس کتاب کی طبعِ ثانی کی ضرورت زیادہ سے زیادہ محسوس ہونے لگی، اور اس بارے میں ہم اپنے علمی احباب کے ساتھ مشورہ کر رہے تھے، اس وقت علاقہ چترال کے اسماعیلی اہلِ علم حضرات اور واعظینِ گرامی میں سے ایک حقیقی مومن کراچی آئے ہوئے تھے، جنہوں نے قبلاً کتاب “فلسفۂ دعا” (دعا مغزِ عبادت) کا بغور مطالعہ و ملاحظہ کیا تھا، نیز انہوں نے امامِ زمانؑ کے مذکورہ ارشادِ گرامی کو سنتے ہی اپنے دل میں یہ ارادہ کر لیا تھا، کہ اگر خداوندِ عالمین کو منظور ہوا تو وہ اپنے امامِ برحقؑ کے مذکورہ ارشاد

 

۸

 

پر عمل کرنے کے سلسلے میں ذاتی مصارف سے کتاب “فلسفۂ دعا” کی طبعِ ثانی کرا دیں گے، کیونکہ امامِ زمانؑ کے فرمان کے بموجب دعا کے معانی و حقائق سمجھنے اور سمجھانے کا بہترین ذریعہ صرف کتاب ہی ہوسکتی تھی، پس انہوں نے ذاتی اخراجات سے اس کتاب کی دوسری طباعت و اشاعت کی ذمّہ داری لے لی، اسی طرح بحمد اللہ اس کتاب کا یہ دوسرا ایڈیشن آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔

 

لہٰذا مناسب، حق، اور خدمت شناسی کا اصول یہ ہے کہ میں قارئینِ کرام کو ان کا تعارف کرا دوں، چنانچہ وہ حقیقی مومن، جنہوں نے ایسی برمحل اور ہمہ رس دینی خدمت انجام دی، جناب عالی قدر الواعظ حاجی جنّت خان صاحب، ابنِ غلام حیدر خان، ابنِ رستم علی خان، ابنِ نصیر خان ہیں، ان کی پیدائش ماہِ دسمبر ۱۹۰۱ء میں ریاستِ ہونزہ کے صدر مقام بلتت میں ہوئی، انہوں نے سنِ شعور میں آتے ہی بلتت میں ابتدائی تعلیم شروع کی، پھر گلگت گورنمنٹ مڈل سکول میں تعلیم حاصل کرکے آٹھویں کی سند حاصل کر لی، اس زمانے میں وہاں یہی تعلیم کافی سمجھی جاتی تھی، جنّت خان صاحب اس کے بعد گلگت سول ہسپتال میں کمپاؤنڈری سیکھنے کے شوق میں ملازم ہوئے، مگر چار سال کے بعد کسی خاص ترقی کی امکانیّت نہ ہونے کی وجہ سے وہ وہاں سے مستعفی ہوکر بمبئی چلے گئے، اُس وقت اسماعیلی مذہب کا مرکز بمبئی میں تھا، وہ وہاں تقریباً تین سال تک خاندانِ امامت کی خدمتِ اقدس کا شرف حاصل کرتے رہے، ازان بعد وہ دربارِ امامت کی طرف سے بدخشان بھیج دیئے گئے، اور وہاں چند سال تک مرحوم جناب فضیلت مآب سید شاہ ابو المعانی صاحب ابنِ پیر سید شہزادہ لیث صاحب

 

۹

 

کی علمی و عرفانی صحبت سے مستفیض ہوتے رہے، اس کے بعد جناب موروثی موکھی سید عبد الجبار خان صاحب، ابنِ سید ابو المعانی صاحب کی جانب سے چترال کے متعلقہ اسماعیلیوں میں نمائندگی کرنے لگے۔

 

یہ امرِ واقعی ہے کہ صاحبِ موصوف نے اپنے امام اور مذہب کی صمیمانہ خدمات انجام دی ہیں، ان میں صبر و ضبط، سنجیدگی اور مردم شناسی کے اوصاف نمایان ہیں، وہ بطورِ خاص دینی کتب کے مطالعہ سے دلچسپی رکھتے ہیں، وہ بروشسکی، اردو، فارسی اور چترالی چار زبانوں میں مہارت سے گفتگو کر سکتے ہیں، واعظِ موصوف ہمارے چترال کے ان علمی اور دینی احباب میں سے ہیں، جن کی دوستی سے ہمیں دائمی فخر و خوشی محسوس ہوتی ہے۔

 

میں بحیثیتِ نمائندہ “دار الحکمت الاسماعیلیہ، ہونزہ، گلگت” (موجودہ خانۂ حکمت) اپنے اراکین و معاونین کی جانب سے موصوف کے اس قابلِ قدر تعاون کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اور ہم سب کی طرف سے مخلصانہ دعا ہے کہ خداوندِ قادرِ متعال انہیں دین و دنیا میں سرخروئی و سربلندی عطا فرمائے! آمین یا ربّ العالمین!! ثم آمین!!!

 

فقط دعا گو، نصیر ہونزائی، نمائندہ:

“دار الحکمت الاسماعیلیہ۔ ہونزہ۔ گلگت”

یوم عید الفطر، یکم شوال ۱۳۸۷ھ

بمطابق ۲ جنوری ۱۹۶۸ء۔ کراچی۔ پاکستان۔

 

۱۰

 

عرضِ حال اور شکریہ

 

کسی بھی دینی خادم کے متعلق اس کے مذہب اور قوم کے تمام افراد کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی ہے کہ وہ ان کے لئے بہترین اور مفید ترین خدمات کرتا رہے، خصوصاً علما سے ان کے اہلِ مذہب کی یہی امید وابستہ ہوتی ہے، ہرعالمِ دین کو اس کے دین والے علمی خدمت کے مواقع دیتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ ہر قسم کا تعاون کرتے رہتے ہیں، تب کہیں وہ عالم کوئی علمی خدمت پیش کر سکتا ہے، ورنہ یہ مشکل ترین کام ہے، خصوصاً اس زمانے میں جبکہ اقوامِ عالم کے آپس میں اتفاق و اتحاد زان بعد ترقی کا مقابلہ ہو رہا ہے، تاہم بحمد اللہ اس خادم کو کسی قسم کی مایوسی ہرگز نہیں، جس کی وجہ واللہ خدا کے نور کی خاص عنایت ہے، اس کے بعد تمام میرے پیارے دینی بھائیوں اور بہنوں کی ان نیک دعاؤں کا اثر ہے، جو اپنی حقیقی طاعت و بندگی دنیا بھر کے “دینی بھائیوں اور بہنوں” کے نام کر دیتے ہیں، اس کے علاوہ مخصوص دعائیں بھی میسر ہیں، پھر ان تمام تعلیم یافتہ اور ترقی پسند اسماعیلی حضرات کی طرف سے تحریری صورت میں یا زبانی طور پر اس خادم کی حوصلہ افزائی ہے، اور اس فقیر کے ہمکاروں، رفیقوں اور پیارے شاگردوں کی ہر طرح سے عملی امداد مہیا ہے، ان عزیزوں میں سے بعض تو “دار الحکمۃ” کی تشکیل میں اور بعض اس سے باہر رہ کر اس درویش کی

 

۱۱

 

ہر طرح سے مدد کر لیا کرتے ہیں، ان تمام حضرات کے نام ظاہر کرنے کے لئے ہمیں موقع اس وقت ملے گا، جب کہ ہم کوئی “نمبر” شائع کر سکیں گے، اور ان شاء اللہ یہ کام کیا جائے گا۔

 

چنانچہ مذکورہ اصول کے مطابق بتوفیق و تائیدِ خداوندی ایک جوانمرد، علم دوست اور حقیقی اسماعیلی نے، جن کی پرورش خاندانی طور پر دینی علوم کے ماحول میں ہوئی ہے، اس کتاب کی طباعت کے لئے کمربستہ ہوئے، انہوں نے علاقہ شیر شاہ کراچی کے صرف چند اسماعیلی عزیزوں سے ایک بہت چھوٹا سا چندہ جمع کیا، اور اس سے سات گنا زیادہ رقم اپنی طرف سے مخصوص کرکے اس کتاب کی کتابت، کاغذ، طباعت، اور بائنڈنگ کے اخراجات پورے کر دیئے، بلاشبہ ان کی اخلاقی خصوصیات قابلِ تعریف ہیں، میں نے ان کی اس دینی خدمت سے پیشتر ہی اپنے احباب کے کئی حلقوں میں ان کی روحانی صلاحیت کا ذکر کر دیا تھا، ہمیں اس کا تجربہ اس وقت ہوا جبکہ ہم کسی عزیز کی صحت یابی کے لئے فقیرانہ ذکر کر رہے تھے، جس میں وہ عزیز اور دوسرے چند عزیزان موجود تھے، وہ اس ذکر سے سوز و گداز کے ایک عجیب عالم میں تھے، اور دوسرے چند عزیزان بھی ان کے ساتھ شریکِ حال تھے۔

 

اس کے علاوہ کچھ عرصے سے ہمارے حلقۂ شاگردی میں بھی ہیں، بنا برین ہم ان کے دینی جذبات اور اخلاقی خصوصیات سے خوب واقف ہوچکے ہیں، مذکورہ خصوصیات کے حامل میرے دینی برادر بجانم برابر محترم عالمگیر ابنِ قلندر شاہ ابنِ علی موجود صاحب ہیں۔

 

۱۲

 

بیت:

بالائی سرش ز ہوشمندی

می تافت ستارۂ بلندی

 

پس میں ادارۂ “دار الحکمۃ الاسماعیلیہ، ہونزہ۔ گلگت” (موجودہ خانۂ حکمت) کی طرف سے اور اپنی طرف سے موصوف کی اس ضروری امداد کا شکریہ ادا کرتا ہوں، نیز جناب الواعظ میر باز خان صاحب کا بھی، کہ انہوں نے ازراہِ دین شناسی و علم دوستی اس کتاب کا ایک عالمانہ دیباچہ لکھا ہے، کسی کتاب کا اس طرح دیباچہ لکھنے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اس کے نزدیک اس کتاب کے تمام نظریات بالکل درست اور صحیح ہیں، اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے، جبکہ کتاب کے مسوّدہ کو کمالِ تدقیق و تحقیق سے پڑھا جائے، اور اس کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھ لیا جا سکے، یا یہ کہ مصنف کے عقائد و نظریات کے متعلق ذرّہ بھر بھی شک واقع نہ ہو، کیونکہ اگر کتاب میں کچھ نقائص پائے جائیں، تو اس صورت میں نہ صرف مصنف ہی کو ملامت کے تیروں کا نشانہ بنا لیا جاتا ہے، بلکہ ایسی کتاب کا دیباچہ لکھنے والے کو بھی انہی تیروں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس کے علاوہ اور بھی دشواریاں ہوتی ہیں جنہیں وہ قبول کرتا ہے۔

 

پس معلوم ہوا کہ جناب الواعظ فقیر محمد صاحب اور جناب الواعظ میر باز خان صاحب نے خود میری گزارش پر جس طرح میری دو کتابوں کا دیباچہ لکھا ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ میرے ہمکاروں کی اگلی قطار میں میرے ساتھ کام کرتے ہیں، اس لئے وہ میرے متعلق بڑی آسانی کے ساتھ اظہارِ خیال کرسکتے ہیں، اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی ہے کہ جب بھی ضرورت پڑے تو

 

۱۳

 

میں اپنے تعلیم یافتہ اور ترقی پسند احباب سے خط و کتابت کے ذریعہ یا زبانی طور پر اپنے علمی کام کا مشورہ لے لیا کرتا ہوں، چنانچہ اس سلسلے میں بھی یہ دونوں صاحبانِ موصوف میرے ساتھ ہیں، بلکہ امرِ واقع یہ ہے کہ میں نے جو بھی کتاب اب تک کراچی کے اندر رہ کر مکمل کرلی، اور چھپوائی ہے، اس میں ہر ضروری مشورہ جناب فقیر محمد صاحب سے لیا جاتا تھا، اور اکثر صاحبِ موصوف مسودہ کی خوشخطی میں بھی مدد فرماتے تھے، اب بحمد اللہ ہمیں ایک اور لائق و فائق ہمکار ملا ہے، وہ جناب میر باز خان صاحب ہیں، ہمیں اپنے دین کے ہر تعلیم یافتہ فرد پر فخر ہے، خصوصاً ایسے افراد پر جو کسی نہ کسی طریقے سے دینی خدمت کرتے ہوں، ان شاء اللہ تعالیٰ اپنے اپنے وقت پر سب کی قدردانی کی جائے گی۔

 

فقط آپ کا دینی خادم نصیر ہونزائی

مورخہ ۲۱ مارچ ۱۹۶۷ء

 

۱۴

 

حرفِ آغاز

 

“It is the duty of the local people to see that every word of our prayer is understood by every member of our jamaat, such as for instance Qul Huwa’llahu Ahad”.

 

بنامِ خداوندِ بخشندۂ مہربان۔

 

لیجئے! علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی صاحب “فلسفۂ دعا” (دعا مغزِ عبادت) کے نام سے ایک اور اسم با مسمّیٰ کتاب اپنے مذہب اور دین سے دلچسپی رکھنے والے بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

 

میں نے اس کتاب کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے، جلیل القدر مصنف نے مذہب کے دلدادگان کے لئے اردو زبان میں اپنی نوعیت کی پہلی اور واحد کتاب لکھی ہے، جس میں شیعہ امامیہ اسماعیلیہ جماعت کی رائج الوقت دعا کی تشریح و توضیح کی ہے۔

 

دعا کی اہمیّت، قدر و قیمت اور ہماری روحانی زندگی میں اس کی ضرورت کے سلسلے میں مولانا حاضر امامؑ کے ان فرامین مبارک کو ذہن میں

 

۱۵

 

رکھنا چاہئے:

 

“There is only one sure key for happiness, that is prayer”.

 

’’خوشی و مسرت کے لئے صرف ایک ہی یقینی کلید ہے، اور وہ دعا ہی ہے۔‘‘

 

“A man without prayers is a man who has no use on this earth”.

 

’’وہ آدمی جو بغیر دعا کے ہو، ایک ایسا آدمی ہے، جس کے اس زمین پر ہونے کا کوئی فائدہ نہیں‘‘۔

 

لیکن جہاں تک حقیقت شناسی کا تعلق ہے، اس کے لئے ہمیں مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امامؑ کے اس فرمانِ مبارک کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے: “یہ دیکھنا مقامی لوگوں کا فرض ہے کہ ہماری جماعت کا ہر ممبر ہماری دعا کے ہر لفظ کو جانتا ہے، مثال کے طور پر “قل ھو اللہ احد”۔ اس فرمانِ مبارک کی رو سے اسماعیلی جماعت کے ہر فرد کو دعا کے حقیقی معنی کو کامل طریقے سے سمجھنا چاہئے۔”

 

یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ کسی چیز کے ترجمہ اور معنی میں بہت فرق ہے، مثلاً قرآن شریف کا ترجمہ ہر خواندہ آدمی پڑھ سکتا ہے، مگر ہر خواندہ آدمی قرآن کے اصلی معنی کو نہیں سمجھتا، اس لئے کہ حکمت کی بات

 

۱۶

 

کو سمجھنے اور اس کی حقیقت کو جاننے کے لئے اس بات کے معنی کی تہ تک پہنچنا ضروری ہے۔

 

مولانا حاضر امامؑ نے دعا کی حقیقت کو جاننے کے لئے ایک مثال “قل ھو اللہ احد” سے دی ہے، سورۂ اخلاص کا لفظی ترجمہ ہر خواندہ مسلمان جانتا ہے، مگر ہر خواندہ مسلمان اس کے حقیقی معنی کو نہیں سمجھتا، اس لئے کہ یہ سورت بظاہر نہایت مختصر ہے، مگر حقائق و معارف کا ایک اتھاہ سمندر ہے، اور دُرِّ معانی کا ایک بحرِ بےکنار ہے، اسی میں توحید کے اسرار و رموز مخفی ہیں، اور اسی میں تصوّف کا عظیم نظریۂ وحدت الوجود ہے، جس میں تمام حقائق پنہان ہیں، ایسے دقیق مگر ہمہ گیر مسائل پر خیال آرائی اور خامہ فرسائی کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، اس کے لئے دینی علوم سے کامل واقفیت، ذہن رسا، قوتِ فکر و تخلیق اور قوتِ استدلال کی ضرورت ہے۔

 

علامہ نصیر الدّین نصیر ہونزائی صاحب نے مولانا حاضر امامؑ کے فرمانِ مبارک کے مطابق آیاتِ دعا کی عالمانہ تشریح و توضیح کر کے حقائق کو منظرِ عام پر پیش کیا ہے، اور جماعت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے۔

 

چونکہ نصیر صاحب نے اس کتاب میں حقائق و قرآن و حدیث اور دینی ہادیوں کے اقوال کی روشنی میں واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ذاتی اجتہاد سے بھی کام لیا ہے، اور دلائل و براہین کو اپنے حسنِ استدلال کے ذریعے منطقی انداز میں اس قدر جاذبیّت اور دلآویزی سے پیش کیا ہے کہ قاری کے قلب و نظر میں ایک طرح کی وسعت پیدا ہوتی ہے، اور نکات کی موشگافی یکے

 

۱۷

 

بعد دیگرے کچھ اس انداز سے کی گئی ہے کہ قاری کا دل چاہتا ہے کہ بس پڑھتا جائے، اور فی الواقع یہ کتابِ نو تعلیم یافتہ طبقہ کے لئے اپنے اندر جاذبیّت اور دلکشی کا کافی سرمایہ لئے ہوئے ہے۔

 

ترتیبِ نکات اور معانی کا ضابطہ نہایت مشکل اور اہم کام ہے، لیکن قابلِ قدر مصنف نے یہ فرض کمال و خوبی سے ادا کیا ہے۔

 

زیرِ نظر کتاب کے اندر عقائد سے متعلق آیات ہیں، اور ہر آیت اپنے اندر حقائق و معارف کا ایک مخفی خزانہ رکھتی ہے، ان آیات کی حکمت کو کماحقہ سمجھنا، پھر سہل طریقے سے اسے سمجھانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے، لیکن قابلِ قدر مصنف نے ہر عقدۂ لاینحل کی عقدہ کشائی کی ہے، اور ہر سربستہ راز کو منکشف کیا ہے، موصوف نے آیت کی تشریح کچھ اس قدر وسعت سے کی ہے کہ گویا وہ اپنی جگہ پر ایک تفسیر ہے، جہاں ایک طرف انہوں نے کثرتِ تشریح سے قطرے کو سمندر میں تبدیل کیا ہے، وہاں دوسری طرف حاشیہ نویسی کے ذریعے خلاصۂ تشریح کی نشاندہی کر کے پھر سمندر کو کوزے میں بند کیا ہے۔

 

نصیر صاحب دل و دماغ کی خداداد قابلیت کے مالک ہیں، وہ بیک وقت چار زبانوں: اردو، فارسی، بروشسکی اور ترکی کے قادر الکلام، اور شیوا بیان شاعر ہونے کے علاوہ ایک فصیح و بلیغ واعظ، بلند پایہ مصنف اور کامیاب مبلغِ دین بھی ہیں، موصوف کے افکار نے ریاستِ ہونزہ اور چینی ترکستان کی جماعت کے قلوب و اذہان میں ایک زبردست انقلاب پیدا

 

۱۸

 

کیا ہے، ان کے گنان ہر ایک کے وردِ زبان ہیں، اور ہر روحانی محفل میں نہایت ذوق و شوق اور سوز و گداز سے پڑھے جاتے ہیں، موصوف نے نظم و نثر دونوں پر یکسان قلم اٹھایا ہے، کئی منظوم اور منثور کتابیں قارئین کی نظر سے گذری ہیں، زیرِ نظر کتاب اس سلسلے کی ایک کڑی ہے، قابلِ قدر مصنف نے زیرِ نظر کتاب کو اپنی خداداد، ذہنی اور فکری صلاحیت سے اسقدر اچھوتے اور دلکش انداز میں لکھا ہے، کہ دل و دماغ تازہ ہو جاتے ہیں۔

 

یہ کتاب خوبیٔ انداز کے علاوہ اپنی جامعیت، افادیت، اور دینی معلومات کے لحاظ سے ایک بیش بہا خزانہ ہے، جلیل القدر مصنف نے اسے دلچسپ، پرمغز اور پر از معلومات بنانے میں نہایت دقت اور کاوش سے کام لیا ہے۔

 

مجھے امید ہے، کہ مذہب کے دلدادگان اور دین کے پرستار اس کتاب کو ہر پہلو سے مفید پائیں گے، اور اس سے کماحقہ فائدہ اٹھا کر قابلِ فخر مصنف کے ذوقِ محنت اور شوقِ خدمت کی دل کھول کر قدردانی کریں گے، تا کہ آئندہ بھی قابلِ قدر مصنف سے اس سے بھی بڑھ کر دینی و علمی تصنیفات کی توقع ہو۔

 

اخیر میں میری دعا ہے کہ مصنف کے فکر و نظر میں وسعت اور قلمی کارناموں میں برکت پیدا ہو، اور ان کی زندگی سے قوم و ملت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو! آمین!!

 

دعاگو

الواعظ میر باز خان، کراچی

۲۰ مارچ ۱۹۶۷ء

 

۱۹

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

تعوذ کے حقائق کا انکشاف

 

طالبانِ علم و حکمت کے لئے یہ حقیقت واضح ہو کہ تعوذ یعنی “اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم” قرآنِ پاک کی تلاوت وغیرہ کے آداب میں سے ہے، اس کلمے کے علاوہ تعوذ کی چند دوسری صورتیں بھی منقول ہیں، مثلاً:

 

۱۔ استعیذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم

۲۔ اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم

۳۔ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، ان اللہ ھو السمیع العلیم

۴۔ استعیذ باللہ من الشیطان الرجیم

 

مگر ان تمام کلمات کا آخری مطلب اور مفہوم ایک ہی ہے، وہ یہ کہ ان کلمات کے پڑھنے والے سب کے سب شیطانِ رجیم کی برائی سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے ہیں، اور یہ ایک ایسے ارشاد پر عمل پیرا ہونے کے لئے کوشش ہے، جس میں حکیمِ مطلق

 

۲۰

 

) جلّ جلالہ) حضرت نبی محمد مصطفیٰ (صلعم) سے یوں مخاطب ہے:

 

” فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ” (۱۶: ۹۸(

ترجمہ: “جب قرآن کی قرأت کرو تو اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کر لیا کرو، راندے ہوئے شیطان سے۔” مذکورہ آیت کا یہ ترجمہ تعوذ کے اس روایتی پہلو کے مطابق ہے، جس کے پیشِ نظر اکثرمفسرین نے اپنا خیال ظاہر کیا ہے، کہ تعوذ قرآنِ حکیم کی تلاوت و قرأت سے پہلے پڑھنا چاہئے، لیکن اس کے برعکس بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ تعوذ قرآن پڑھ چکنے کے بعد پڑھ لینا چاہئے، ان میں ابنِ کثیر بھی شامل ہے، جو سنّتِ رسولِ مقبولؐ سے متعلق ایک روایت کی دلیل کے ساتھ اس طرف مائل ہو جاتا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ ہم اس باب میں آپ کے سامنے کچھ حقائق پیش کریں گے، تا کہ آپ بآسانی سمجھ سکیں کہ مذکورہ ارشاد کا مقصد کیا ہے، اور اس پر عمل کرنے کے متعلق اختلاف کس وجہ سے پیدا ہوا، وغیرہ۔

 

جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فرامین اُس کے بندوں پر واقع ہونے کے تین مقاصد ہوتے ہیں: یا تو کسی عمل کے لئے فرمایا جاتا ہے کہ تم یہ کام کر لیا کرو، یا کسی قوّل کے لئے ارشاد ہوتا ہے کہ تم یہ بات کہا کرو، یا کسی علم کے لئے فرمان ہوتا ہے کہ تم اس واقعہ کے علم تک رسا ہو جایا کرو، کیونکہ بندے کا دائرۂ اختیار اپنی ہی ہستی کے ظاہر و باطن میں صرف عمل، قول، اور علم تک محدود ہے، جس میں عمل کا تعلق اس کے جسم سے، قول کا تعلق نفسِ ناطقہ سے اور علم کا تعلق عقل سے ہے۔

 

اب ہم مذکورہ بالا آیت کی تحقیق کرتے ہیں، کہ اس ارشاد کا اصلی مقصد کیا ہے، چنانچہ امرِ “فاستعذ” کے معنی ہیں “پناہ طلب کرو” جس کا اصلی مقصد ایک خاص عمل ہے، اور وہ بھی علم و حکمت کی صورت میں، کیونکہ اگر ہم یہ مانیں کہ امرِ “فاستعذ” کی تعمیل صرف کلمۂ “اعوذ باللہ” ہی کے پڑھ لینے سے ہوسکتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا، کہ یہ کلمہ اس سلسلے میں ایک دعا کی حیثیّت سے ہے، دران حال ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جس دعا میں فعل کی نسبت بندے کی طرف دی گئی ہو، تو اس کا اشارہ یہ ہوتا ہے کہ، اس دعا کی قبولیت کے لئے کوئی خاص علم و عمل لازمی ہے، مثلاً جب ہم اپنی مقررہ دعا میں یہ کہا کرتے ہیں، کہ “ایاک نعبد و ایاک نستعین۔ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔” تو ظاہر ہے کہ اس دعا میں شرطِ قبولیت کا ذکر لفظِ دعا سے پہلے آیا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اس حقیقت کو سمجھ لیا کریں، کہ کس طرح بلا شرکتِ غیر صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کر لی جا سکتی ہے، تو یہاں اس حقیقت کی کلید ملنے کا اشارہ عبادت کی طرف کیا گیا ہے گویا استعانت کی شرط عبادت بتائی گئی ہے، اور یہ عبادت بھی تو عامیانہ و جاہلانہ قسم کی عبادت نہیں، بلکہ اس مقام پر عبادت کی انتہائی درست صورت کا ذکر ہے، اور وہ عارفانہ طرز کی عبادت ہے، پس معلوم ہوا کہ ہر دعا کی قبولیت کے لئے کوئی نہ کوئی عملی شرط ہوا کرتی ہے، اس کا

 

۲۲

 

نتیجہ یہ نکلا کہ “فاستعذ” کے امر کا اصلی مقصد یہ نہیں کہ ہم صرف قول ہی کو اپنائے بیٹھیں، اور اس کے معنی میں جو علم و عمل مطلوب ہے، اس کو انجام نہ دیں۔

 

اب اس وضاحت کے بعد مذکورہ آیۂ استعاذہ کے اصلی ترجمہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، اور وہ یہ ہے: “پس جب تو قرآن پڑھ چکے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کر لیا کر شیطانِ رجیم سے” اس ترجمہ کے متعلق آپ دو سوال کر سکتے ہیں: پہلا سوال یہ کہ قرآن پڑھ چکنے کے بعد شیطان سے واسطہ پڑنے اور اس سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے کے کیا معنی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ شیطان راندے ہوئے کو اصل معنی ہی کی طرح رجیم کہنے کا مطلب کیا؟ تو پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ جس طرح وزن اور فعل کی واقعیّت ” فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْۙ” (۹۴: ۰۷) (پس جب تو فارغ ہو جائے تو نصب کر لیا کر) میں ہے، اسی طرح فاذا قرات القرآن فاستعذ (جب پس تو قرآن پڑھ چکے تو پناہ طلب کر لیا کر) میں ہے، اور اس آیت کا یہی ترجمہ صحیح ہے، جس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ جس امر میں اللہ تعالیٰ خاص طور پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مخاطب ہوا ہے، تو اس کے معنی میں انسانوں کی انتہائی نجات کی ہدایت پوشیدہ ہوتی ہے، پس اس خطاب میں (جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول سے کیا ہے) شیطان کی تمام برائیوں سے قطعی طور پر بچ کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابدی پناہ حاصل

 

۲۳

 

کرنے کی ہدایت موجود ہے، اور اس اعلیٰ ترین مقصد میں کامیاب ہو جانے کی کلّی شرط یہ ہے کہ پہلے تو قرآن پڑھ لیا جائے، یعنی اس کی ضروری حقیقت کو اچھی طرح سے سمجھ لیا جائے۔

 

دوسری دلیل یہ ہے کہ لفظ “قرآن” کے معنی “پڑھنے” کے ہیں، جیسے ارشادِ خداوندی ہے: ” اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗ  فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِـعْ قُرْاٰنَهٗ (۷۵: ۱۷ تا ۱۸) یقیناً ہمارے ذمّہ ہے (آپ کے قلب میں) اس کا جمع کر دینا اور اس کا پڑھنا، پھر جب ہم اس کو پڑھ چکیں تو آپ اس کے پڑھنے کے تابع ہو جایا کیجئے۔”پس اگر ہم آیۂ تعوذ کے یوں معنی کر لیں: فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پس جب تو پڑھنا پڑھ چکے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کر لیا کر، شیطانِ رجیم سے” تو اس کا مطلب بھی ہوا کہ انسی و جنّی شیطان کے خطرات اور وسوسوں سے مومن عارضی طور پر اس وقت بچ سکتا ہے، جب کہ وہ اپنی روزانہ عبادت کی عام دعائیں یا خاص کلمات، اسماء وغیرہ پڑھ چکا ہو، کیونکہ “قرآن” کے معنی “پڑھنے” کے ہیں، چنانچہ اگر آج اس کلامِ الٰہی کا نام “قرآن” ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوا ہے، تو اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے، کہ جناب سیدِ کونین پر نبوّت کے آثار ظاہر ہونے سے پہلے حضور اسمِ اعظم پڑھا کرتے تھے، جس کا نتیجہ کلامِ الٰہی کی صورت میں ظاہر ہوا، لہٰذا کلامِ اقدس کا مبارک نام “قرآن”  یعنی “پڑھنا” ہوا، تا کہ رسولِ مقبولؐ کی اس نتیجہ خیز عارفانہ

 

۲۴

 

عبادت کی ایک لازوال یادگار باقی رہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غارِ حرا اور دوسرے مقامات پر کر لیا کرتے تھے۔

 

کچھ عرصے کے بعد ان پر عجیب و غریب روحانی قسم کے پرحکمت واقعات گزرنے لگے، اور یہی سلسلہ جاری رہا، مگر ان عجیب واقعات پر خاطر خواہ غور و فکر کرنے کے لئے آنحضرتؐ کو اس لئے وقت نہیں ملتا تھا، کہ مکاشفہ اور مشاہدہ کا ایک بھرپور عالَم ان کے سامنے موجود تھا، یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے جبرئیل علیہ السلام باقاعدہ وحی لے کر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہونے لگا، بعد ازان کسی وقت میں آنحضرتؐ کو اپنی روحانیّت کی ابتدائی منازل کے متعلق ان حکمت آگین معلومات کے ضائع ہونے کی فکر ہوئی، تو اللہ تعالیٰ نے حضورِ پرنورؐ کو یہ فرما کر مطمئن کر دیا کہ یقیناً ہمارے ذمّہ ہے، اس سارے کلام کا (جو آپ کی روحانیّت کا نتیجہ ہے) آپ کے قلب یعنی نور میں یکجا کر دینا، اور اس کا پڑھنا۔ پس اس بیان کے نتیجے سے یہ ثابت ہوا کہ حقیقی مومن شیطان کے مسلسل حملوں سے بچ کراللہ تعالیٰ کی ابدی پناہ میں اُس وقت محفوظ رہ سکتا ہے، جبکہ وہ قرآنِ حکیم کی حقیقت و حکمت اور نورِ محمدیؐ کی معرفت تک رسا ہو چکا ہو۔

 

دوسرا سوال لفظِ “رجیم” کے متعلق پیدا ہوا تھا، جس کا مفصل جواب یہ ہے کہ رجیم کے حقیقی معنی ہیں: سنگ سار کرنے والا یا پتھراؤ

 

۲۵

 

کرنے والا، یعنی لوگوں کو صراطِ مستقیم سے ہٹانے میں شیطان اپنی پوری طاقت کے ساتھ سوالات کی بوچھاڑ کرتا رہتا ہے، جن سے صرف قرآنی علم و حکمت کی سپر ہی کسی مومن کو بچا سکتی ہے، اور قرآنی علم و حکمت کی کلید رسولِ خدا کی حقیقی فرمانبرداری میں پوشیدہ ہے، اور جاننا چاہئے کہ سب سے بڑے رجیم کا نام ابلیس ہے، جس کی لاتعداد ذرّیات ہیں، ان میں سے کچھ تو جنّات (نادیدہ مخلوق) کی صورت میں پوشیدہ ہیں، اور کچھ حیوان و انسان کے بھیس میں ظاہر ہیں۔

 

اب فرض کیجئے کہ ایک شیطان صفت انسان کسی حقیقی مسلمان کو سیدھے راستے سے ہٹانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، اور وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے اُس حقیقی مسلمان پر بناوٹی علم کا اثر ڈال رہا ہے، جس میں جھوٹ، فریب، اور مکر کے سوا کچھ بھی نہیں، اب اس نمائندۂ ابلیس کی باتیں ظاہر میں خواہ کتنی نرم، میٹھی، اور خوش آئند کیوں نہ ہوں، مگر ان باتوں سے اُس حقیقی مومن کی “روح الایمان” جس طرح مجروح ہو رہی ہے، اس کے اعتبار سے حقیقت میں اس شیطان الانس کو رجیم یعنی پتھراؤ کرنے والا کہا جائے گا، ظاہر ہے کہ اس موقع پر مومن کے لئے صرف علمِ حقیقت ہی کام آسکتا ہے، اور ذکر و عبادت ہی اُسے فائدہ دے سکتی ہے، کیونکہ عبادت سے نہ صرف علمِ حقیقت کا جوہر کھلتا ہے، بلکہ معجزانہ قسم کا روحانی علم بھی اسی کے وسیلے سے ملتا

 

۲۶

 

رہتا ہے۔

 

پس یہ حقیقت پایۂ ثبوت پر آگئی کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا اصلی اور آخری مقصد، جس میں فرمایا گیا ہے کہ “پس جب تو قرآن پڑھ چکے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کر لیا کر شیطانِ رجیم سے” یہ ہے کہ خدا کے نور اور اس کی کتاب کے ذریعہ ہمیں یہ علم ہوا کہ ابلیس، شیطان وغیرہ کون ہیں؟ اور یہ کہاں کہاں سے حملہ آور ہو سکتے ہیں؟ اور کن کن ہتھیاروں سے ان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟ یا یہ کہ ان سے بچ کر خدا کی پناہ میں آنے کا راستہ کون سا ہے؟ اور شیطان سے جنگ کرنے یا اس سے دور بھاگ کر خدا کی پناہ میں آنے کی باتیں اس لئے لازم آتی ہیں، کہ وہ بقولِ قرآن ہمارا کھلا دشمن ہی ہے، اور اس کے پاس لاتعداد فوج ہے۔

 

والسّلام

 

۲۷

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

تسمیہ کے حقائق کا انکشاف

 

پروردگارِ عالمین سے توفیقِ خاص طلب کرتے ہوئے بیان کیا جاتا ہے کہ تسمیہ اس کلمۂ بسم اللہ کا نام ہے جو قرآنِ پاک کے ہر سورے کے آغاز میں لکھا ہوا موجود ہے، اور یہ پورا کلمہ یعنی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم یقیناً اللہ تعالیٰ کے ان بابرکت کلماتی ناموں میں سے ہے، جو مفصل ہیں، اور معنوی فیوض و برکات سے بھرپور ہیں، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے: ” تَبٰرَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِی الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ (۵۵: ۷۸) بڑا بابرکت نام ہے، آپ کے ربّ کا جو جلالت و کرامت والا ہے۔” یہاں برکت سے خاص مراد علم و حکمت کی لاانتہائی ہے، یعنی مطلب یہ کہ پروردگار کے خاص ناموں کے مسلسل ذکر کرنے سے جو علمی عجائبات کا سلسلہ جاری رہتا ہے وہ کبھی ختم نہیں ہوتا، اور اسی اعلیٰ ترین برکت کے تحت دوسری تمام روحانی و مادّی برکات بھی پائی جا سکتی ہیں، اور لفظِ برکت کے لغوی معنی بڑھاؤ اور زیادتی کے ہیں۔

 

۲۸

 

کتبِ تفاسیر و احادیث میں بسم اللہ کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں، اسی طرح دوسری متعلقہ کتب میں بھی اس قسم کی بہت سی روایات منقول ہیں، چنانچہ تفسیر بحرالدّر اور ریاض القدس کے حوالے کی بنا پر کوکبِ درّی بابِ پنجم کے شروع میں ابنِ فخری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز امیر المومنین علیہ السّلام نے فرمایا: “لو شئت لا وقرت بباء بسم سبعین بعیرا ۔ یعنی اگر میں چاہتا تو باء بسم اللہ کی تفسیر سے ستر اونٹ لاد دیتا۔”

 

پس معلوم ہوا کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے کئی معنی ہیں، اور ان تمام معنوں کے خلاصے میں معبودِ برحق کے مبارک نام کی تعریف اور اس کے ذکر کی ہدایت ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ” وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ (۰۶: ۱۲۱) اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر (بوقتِ ذبح) اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔” اب دو حقائق ہمارے سامنے آ گئے: ایک حقیقت یہ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے لفظی نام ہوتے ہیں، اسی طرح اس کے کلماتی نام بھی ہوا کرتے ہیں، اس لئے کہ حلال جانوروں کو ذبح کرتے وقت جو کلمہ (بسم اللہ و اللہ اکبر) پڑھا جاتا ہے، اس پورے کلمے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا نام قرار دیا، جس میں اس کا لفظی نام بھی ہے، اور ناموں کے ذکر کرنے کی ہدایت بھی ہے، اس حقیقت کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ نزولِ قرآن کے آغاز میں جبرئیل نے آنحضرت سے کہا کہ: “اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ (۹۶: ۰۱(

 

۲۹

 

اپنے ربّ کا نام لے کر پڑھا کیجئے۔” تو اس کی تعمیل بہرحال کلمۂ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی صورت میں کی گئی۔ پس معلوم ہوا کہ بسم اللہ کی پوری آیت اللہ تعالیٰ کے کلماتی ناموں میں سے ایک ہے، اس لئے کہ قرآنِ پاک کی اوّلین سورت پڑھنے سے پہلے پروردگار کے جس نام کا پڑھنا مقصود تھا، وہ یہی بسم اللہ ہے۔

 

دوسری حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کو ایک محدود اختیار دیا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ جبکہ اپنی اصلی اور قدرتی فطرت میں ہو تو نیکی اور بدی کے درمیان اس طرح ٹھہرا ہوا ہوتا ہے، جس طرح ایک منصف مزاج سنار سونا تولنے سے پہلے ترازو کی برابری دیکھنے کے لئے، اور سونا تولنے کے نتیجے پر سونے اور بٹے کی برابری دیکھنے کے لئے انتہائی ہوشیاری اور عدل سے ترازو کی سوئی کو بالکل سیدھی کر دیتا ہے، تا کہ سونے کے لین دین میں نہ لینے والے پر ظلم ہو، اور نہ دینے والے پر۔ اس مثال سے یہ معلوم ہوا کہ انسان جبکہ اپنی اصلی فطرت پر ہو، اپنی ارادی قوّت کی ذرا سی حرکت سے بڑی آسانی کے ساتھ نیکی اور بدی میں سے کسی ایک کی طرف جھک سکتا ہے، اب اس نے یہ ارادی حرکت اپنی ہی پسند سے کی، پس پسند کا دوسرا نام اختیار ہے۔

 

پھر اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ جب انسانی ارادے کی مثال ایک ایسے ترازو کی طرح ہے جس کے دونوں پلے آخری حد تک برابر

 

۳۰

 

کئے گئے ہیں، تو ایسے متوازن اور مساوی ارادے کے اندر اختلاف اور تضاد کہاں سے واقع ہوا، کہ ارادے کا یہ ترازو کبھی تو نیکی کی طرف جھکتا ہے، اور کبھی بدی کی طرف؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کا یہ ارادہ دو برابر کی مخالف اور متضاد طاقتوں کے زیرِ اثر ہے، اور وہ دو طاقتیں انسان کی عقل اور نفس ہیں، اس لئے اس کے ارادے پر کبھی تو عقل کا اور کبھی نفس کا تصرف ہوتا رہتا ہے۔

 

اسی طرح انسانی عقل و نفس کی یہ پوشیدہ جنگ ہمیشہ جاری رہتی ہے، اور یہ جنگ نہ صرف کسی ظاہری قول و عمل کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں واقع ہوتی ہے، بلکہ تفکّرات، تصوّرات، اور خالص ارادے میں بھی عقل و نفس کی جنگ یا کہ رسہ کشی ہوتی رہتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی رحمتِ کلّ کا یہ تقاضہ ہوتا ہے کہ عقل و نفس کی اس خانہ جنگی میں عقل کی مدد کی جائے، اور نفس کو ہر معاملہ میں عقل کا تابع بنا دیا جائے، اور جن لذّتوں کی طمع سے وہ عقل کی مخالفت کر رہا ہو، اس کو ان سے بےرغبت کر کے روحانی قسم کی بہترین لذّتوں اور مسرّتوں کی طرف راغب کر دیا جائے۔

 

پس اللہ تعالیٰ نے جو قادرِ مطلق اور حکیمِ برحق ہے، اپنے اسما ہی کو جن میں عقل کے لئے نورانی مدد اور نفس کے لئے روحانی مسرّت موجود ہے، انسان کے سامنے رکھ دیا، تا کہ انسان کو ان کے ذکر سے سکونِ قلب حاصل ہو سکے، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: “اَلَا بِذِكْرِ

 

۳۱

 

اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ (۱۳: ۲۸) آگاہ ہو، کہ اللہ تعالیٰ کی یاد ہی سے (جو اس کے حقیقی ناموں کے ذریعہ کی جا سکتی ہے) دلوں کو تسلی ملتی ہے۔” دل نفس کا دوسرا نام ہے، پس یادِ الٰہی سے انسانی نفس کو روحانی مسرّت ملتی رہتی ہے، اور وہ مزید خوشیوں اور مسرّتوں کی امید پر عقل کی تابعداری کرنے لگتا ہے۔

 

ایسے نفس کو جس نے عقل کی تابعداری میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور حقیقی ذکر سے آخری اطمینان اور روحانی سکون حاصل کر لیا ہو، اللہ تعالیٰ سے یہ ندا آتی ہے کہ: “یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ  ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً  فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) اے اطمینان یافتہ نفس! اب تو اپنے پروردگار کی طرف رجوع کر، درحالیکہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش ہے پھر تو میرے (خاص) بندوں میں شامل ہو جا، اورمیری جنّت میں داخل ہو جا۔”

 

حضرت آدم علیہ السّلام کے بارے میں قرآنِ پاک کا یہ قصّہ مشہور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے علم الاسماء (ناموں کا علم) سکھایا، مگر اس حقیقت کو اہلِ حکمت کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ اسے یہ تعلیم کس طریقے پر دی گئی؟ کیا آدم علیہ السلام کا وہ علم اکتسابی (ظاہری) نوعیّت کا تھا یا عطائی (معجزانہ) قسم کا؟ کیا اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو البشر کو اسماء الاشیاء (چیزوں کے ناموں) کی تعلیم

 

۳۲

 

دی یا اسماء اللہ الحسنیٰ (اللہ تعالیٰ کے بزرگ ناموں) کی؟ کیا یہ درست نہیں کہ کائنات و موجودات کی ساری چیزوں کے نام اور ان کے متعلق تمام علوم اللہ تعالیٰ کے ناموں میں پوشیدہ ہیں؟ کیا یہ درست نہیں کہ آسمان و زمین کے علمی خزانوں میں داخل ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کے سارے نام ہی نورانی کلیدوں کی حیثیت رکھتے ہیں؟ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ” لَهٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (۳۹: ۶۳) اسی کے اختیار میں ہیں آسمانوں اور زمین کی کنجیاں۔”

 

اگر حقیقت یہی ہو کہ اللہ تعالیٰ کے نام (اسماء) ہی آسمانوں اور زمینوں کے خزانوں کی کلیدیں ہیں تو اصولًا یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تمام کنجیوں کا بھی ایک علیٰحدہ خزانہ ہوگا، جس کی نایاب، گرانقدر اور واحد کلید نہ تو وقف ہوگی کہ جو شخص چاہے ان تمام خزانوں کو لٹا سکے، نہ یہ کسی اور خزانہ میں رکھی ہوگی، کیونکہ اگر یہ کلید کسی اور خزانے میں رکھی ہوئی ہوتی، تو پھر اس خزانے کی بھی ایک کلید لازم آتی، اور یہ سلسلہ یعنی کلید کی کلید ہونا کبھی ختم نہ ہوتا، اور نہ یہ کسی دوسرے کھلے مقام میں رکھی ہو گی، بلکہ یہ ایک ایسے شخص کے پاس رکھی ہوئی ہوگی جو حیّ و حاضر ہونے کے باوجود (بقول مولائی روم) سات سو پردوں کے اندر رہتا ہے، پس ایسا شخص انسانِ کامل یعنی امامِ زمانؑ ہے۔

 

پس یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے سارے نام جو

 

۳۳

 

بلندی و پستی (آسمان و زمین) کے علمی خزانے ہیں، اسمِ اعظم کے تحت ہیں، نیز یقین رکھنا چاہئے کہ ابو البشر کی تعلیم اسمِ اعظم کے ذکر کے نتیجہ میں معجزانہ طریقے پر ہوئی تھی، اور یہی طریقۂ تعلیم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور دوسرے تمام انبیاء و اولیاء کے لئے مقرر تھا، اور مقرر ہے، تو معلوم ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا حقیقی نام ہی علم و معرفت کی کلید ہے، یہی وجہ تھی کہ جبرئیل علیہ السّلام نے سب سے پہلی بار وحی لاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ: ” اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ۔ یعنی اپنے پروردگار کے نام کے ذریعے پڑھا کیجئے۔” (۹۶: ۰۱)

 

جب حضرت نوح علیہ السّلام کے زمانے میں طوفان شروع ہوا، تو انہوں نے اپنے فرمانبردار مومنوں کو کشتی میں سوار کرنے سے پہلے جو دعا زبان پر لائی وہ “بسم اللہ” کی صورت می تھی، چنانچہ قرآن کا ارشاد ہے: “وَ قَالَ ارْكَبُوْا فِیْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖؔىهَا وَ مُرْسٰىهَاؕ (۱۱: ۴۱) اور حضرت نوح نے فرمایا کہ اس کشتی میں سوار ہوجاؤ، اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا اللہ ہی کے نام سے ہے۔”

 

اس موقع پر یہ حقیقت سامنے لائی جاتی ہے کہ جو دعا، کلمہ یا اسم ذکرِ الٰہی کے طور پر پڑھنے کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہو تو اس کے اندر کچھ ایسے معانی اور حقائق مخفی ہوتے ہیں جن کا سمجھ لینا دوسرے حقائق کے بہ نسبت اتنا ضروری ہے، جتنا کہ دوسری عبادت کے

 

۳۴

 

بہ نسبت اس ذکرِ الٰہی کا پڑھنا ضروری ہے۔

 

مذکورۂ بالا بیان سے بسم اللہ کے معنی و حقیقت سمجھنے کی ضرورت و اہمیّت ظاہر ہوئی، چنانچہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے معنی ہیں:

 

“شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔” لیکن یہ اس کے سطحی معنی ہیں، اور اس کی تحقیق کرنے کے لئے ہمیں بسم اللہ کے متعلق ضروری آیات کو سامنے رکھ کر چشمِ بصیرت سے دیکھنا ہوگا، کہ بسم اللہ کی معنوی تعلیم اور امرِ آخرین کس چیز کے متعلق ہے، چنانچہ یہ حقیقت تو بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبرئیل علیہ السّلام نے جب پہلی بار پیغام لایا، تو اس کے شروع میں کلمۂ بسم اللہ جزوِ کلام کی حیثیت سے لگا ہوا نہیں تھا، اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر بسم اللہ اس سورۃ کے آغاز ہی میں لگی ہوئی ہوتی، تو یہ نہ فرمایا جاتا کہ “اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھا کیجئے،” بلکہ صرف یہی فرمایا جاتا کہ “پڑھا کیجئے۔” چونکہ بفرض بسم اللہ اس سورہ کا حصہ تھی، جس کو پڑھنے کے لئے فرمایا گیا تھا تو پھر اس کا علٰحیدہ ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی، پس معلوم ہوا کہ کلمۂ بسم اللہ کسی بھی سورت کے شروع میں نہیں آیا ہے، بلکہ یہ کلمہ قرآنِ پاک کے متن کی ایک آیت ہے جس طرح کلمۂ اعوذ باللہ قرآنِ پاک کے متن کی ایک آیت ہے، مگر آداب کے طور پر قرآنِ مجید پڑھنے سے پہلے پڑھا جاتا ہے، اسی طرح بسم اللہ

 

۳۵

 

ہر سورے کے آغاز میں لکھی گئی، جس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ آنحضرتؐ سے فرمایا گیا کہ پروردگار کا نام لے کر قرآنِ پاک کی قرأت کیجئے، اور دوسری وجہ بسم اللہ کی معنوی اہمیّت ہے۔

 

پس بسم اللہ کہنے یعنی پروردگار کا نام لے کر قرآنِ پاک کی سب سے پہلی تنزیل پڑھنے کے بارے میں آنحضرتؐ کو جو کچھ ارشاد ہوا ہے ہم اسی سے بحث کرتے ہیں، چنانچہ خدائے تعالیٰ کا ارشاد ہے: ” اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ (۹۶: ۰۱) (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) آپ پر (جو قرآن نازل ہونے لگا ہے) اسے اپنے ربّ کا نام لے کر پڑھا کیجئے۔” یعنی اپنے اس پروردگار کے “اسمِ اعظم” کے ذکر کی روشنی میں حقیقتِ تنزیل کو سمجھ لیجئے، جس کی پرورش سے آپ کی یہ روحانی تخلیق مکمل ہوئی ہے۔ “خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (۹۶: ۰۲) اسی نے انسان کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔” یعنی ذکر کے ایک ایسے سلسلے سے انسانِ کامل کو پیدا کیا جس کے الفاظ ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح جمے ہوئے تھے، جس طرح خون کے قطرات کے آپس میں جمنے سے گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے، اور اس سے انسان پیدا ہوتا ہے۔ ’’اقرا و ربک الاکرم الذی علم بالقلم (۹۶: ۰۳ تا ۰۴) (اس قرآن کو) پڑھا کیجئے، اور آپ کا پروردگار بہت بزرگ ہے، جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا۔” یعنی اسی ذکر کی روشنی میں حقیقت تنزیل

 

۳۶

 

کو پھر پڑھ لیجئے، کیونکہ آپ کا پرورگار بہت بزرگ ہے، جس نے آپ کو گوہرِعقل (قلم) کے ذریعے چند غور طلب رموز سکھائے ہیں۔ ” عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ (۹۶: ۰۵) جس نے انسان کو سکھایا، جو کچھ وہ نہیں جانتا تھا۔” یعنی اس نے روحانیّت کے انہی خاص طریقوں سے انسانِ کامل کو وہ ساری چیزیں سکھا دیں، جن کو وہ نہیں جانتا تھا۔

 

اب مذکورہ بالا حقیقت کی روشنی میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے حقائق و اسرار ملاحظہ ہوں: حرف “ب” استعانت کے لئے آیا ہے، جس کے معنی “ذریعہ” یا “سے” کے ہوتے ہیں، اور حرف “ب” کا اصلی نام “بیت” یعنی گھر تھا، کیونکہ اس حرف کی شکل ایک گھر کی شکل تھی، جس کے دروازے پر ایک کھڑا شخص ظاہر کر دیا گیا تھا، جیسے ، پھر رفتہ رفتہ بیت کا نام “با” سے بدل گیا، اور مکان کی شکل پڑی لکیر جیسی ہو گئی، اور وہ آدمی نقطہ بن کر رہ گیا۔

 

پس قرآن پاک کے شروع میں، ہر سورے کے آغاز میں، اور بسم اللہ جیسے خدا کے ایک بہت بڑے کلماتی نام کی ابتدا میں حرف “با” (ب) کے آنے کا اشارہ یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی جو مقدّس کتاب حقائقِ کائنات اور اسرارِ موجودات سے بھری ہوئی ہے، اس کی حکمت ایک خاص گھر سے مل سکتی ہے، اور اس مبارک گھر میں داخل ہونے کی اجازت ایک خاص شخص

 

۳۷

 

سے مل سکتی ہے، وہ مبارک گھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں، وہ عظیم ترین شخص جو اس پاک گھر کے دروازے پر دربان کی حیثیت سے ہے، حضرت مولانا مرتضیٰ علی علیہ السّلام ہیں، چنانچہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: “انا دار الحکمۃ و علی بابھا۔ میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔” نیز فرمایا: “انا مدینۃ العلم و علی بابھا فمن اراد العلم فلیات الباب۔ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے، پس جو شخص علم کا طالب ہو اُسے چاہئے کہ شہر کے دروازے سے آئے۔” اور مولانا علی علیہ السلام نے اسی معنی میں فرمایا: “انا نقطۃ تحت باء بسم اللہ۔ میں وہ نقطہ ہوں جو باء بسم اللہ کے نیچے ہے۔”

 

بسم اللہ میں حرف “ب” کے بعد اسم آتا ہے، جس کی مراد اسمِ اعظم ہے، اللہ کے معنی معبودِ برحق کے ہیں، الرحمٰن خدائے تعالیٰ کا وہ اسمِ صفت ہے، جس میں وہ سارے انسانوں کے لئے جسمانی رحمتیں مہیا کر دیتا ہے، اور “الرحیم” خدائے تعالیٰ کا ایک ایسا نام ہے جس میں وہ صرف مومنوں کے لئے روحانی رحمتیں عطا کر دیتا ہے، اور یہ دونوں قسم کی رحمتیں دل کی نرمی سے شروع ہوا کرتی ہیں، کیونکہ رحمت (مہر) کے معنی رقتِ قلب یعنی دل کی نرمی کے ہیں، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بسم اللہ اس معنی میں پڑھا کرتے تھے: “بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ معبودِ برحق کے اسمِ اعظم کے ذریعہ قرآن پڑھتا، اور

 

۳۸

 

سمجھتا ہوں جو رحمت والا ہے، جسمانی احتیاجات کے لئے، اور رحمت والا ہے روحانی ضروریات کے لئے۔”

 

اس بیان کا خلاصہ یہ ہوا کہ بسم اللہ کی معنوی واقعیّت ہر شخص کی علمیّت کے مطابق ہے، اور حقیقت یہی ہے کہ سب سے پہلے اس ارشادِ الٰہی پر غور کیا جائے، جس میں بسم اللہ پڑھنے کی تعلیم دی گئی ہے، یعنی “اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ” کے منشا و مطلب کو سمجھ لیا جائے، وہ یہ ہے کہ آنحضرتؐ سے فرمایا جاتا ہے کہ اپنے ربّ کے اُس نام کے ذریعہ قرآن پڑھا کیجئے، جس کے ذکر کی بدولت آپ کی روحانی پرورش و تخلیق مکمل ہو چکی ہے، پس یہ اشارہ اسمِ اعظم کی طرف ہے، پھر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسمِ اعظم کے ذکر کو نزولِ قرآن کے دوران بھی اسی طرح قائم و جاری رکھا، جس طرح یہ اس سے پہلے تھا، اور کلمۂ بسم اللہ کو جس میں اسمِ اعظم کی عملی تعریف موجود تھی، قرآن پاک کا سرنامہ بنایا، اور یہی سرنامہ ہر سورۃ کے آغاز میں رکھا گیا، تاکہ قرآنِ پاک کی ترتیب میں اسمِ اعظم کا ذکر سب سے پہلے آجائے۔

 

اس سے قبل بتایا جا چکا ہے کہ بسم اللہ قرآنِ حکیم کے متن کی ایک آیت ہے جو سورۂ نحل (۲۷) کی تیسویں (۳۰) آیت (۲۷: ۳۰) ہے، جو حضرت سلیمان علیہ السّلام کے قصّے کے سلسلے میں آتی ہے، چنانچہ ملکۂ بلقیس نے کہا کہ سردارو! میری طرف ایک باکرامت کتاب ڈالی گئی ہے

 

۳۹

 

وہ سلیمان کی جانب سے ہے، اور وہ “بسم اللہ الرحمٰن الرحیم” ہے۔ حکیمِ مطلق نے اس قصّے میں ملکۂ بلقیس کے عالمِ مکاشفہ کو “کتابِ کریم” قرار دیا، اور اس معجزاتی تصوّر و خیال کا دوسرا نام “بسم اللہ الرحمٰن الرحیم” بتایا، جو حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی جانب سے اسمِ اعظم کے ذکرِ خفی کا ایک ذیلی معجزہ تھا، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بسم اللہ (اللہ کے نام کے ذریعے) جس موقع پر بھی کہا ہو تو اس سے آنحضرتؐ کی مراد اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا معجزاتی نام یعنی اسمِ اعظم ہی تھا جو ہمیشہ زندہ اور ظاہر و باطن میں نورِ ہدایت کا سرچشمہ ہے، کیونکہ غور و فکر کرنے سے ہر دانشمند کے لئے یہ حقیقت روشن ہو سکتی ہے کہ لفظ “اللہ” اگرچہ اسم ہے، لیکن یہ یہاں دوسری بہت سی مثالوں کی طرح مسمّا کے طور پر آیا ہے، مثلًا اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ  میں “ربّ” مسمّا ہے، اس لئے اس ارشاد کی تعمیل میں یا ربّ یا ربّ نہیں کہا جائے گا، بلکہ دوسرا کوئی اسم پڑھا جائے گا، جس کا ذکر ہو چکا ہے، اسی طرح بسم اللہ میں اسم کی مراد اسمِ اعظم ہے، اور لفظ “اللہ” مسمّا کے طور پر آیا ہے، یعنی اس حکمت میں جو بسم اللہ ہے، لفظ “اللہ” کا کوئی بیان نہیں، کیونکہ وہ ذاتِ خدا کا قائم مقام ہے، بلکہ خدا کے نام کا بیان ہے، یہاں تک کہ “الرحمٰن الرحیم” میں بھی سر تا سر اسی نام یعنی اسمِ اعظم کی تعریف و توصیف سموئی ہوئی ہے، اس بیان کو ہر قسم کی تقلید سے بالاتر رہ کر پڑھنے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت

 

۴۰

 

ہے، ورنہ اس کا مطلب سمجھ لینا دشوار ہے، مگر اس شخص کو اس حقیقت کا سمجھ لینا کوئی مشکل نہیں، جس کو خدائے تعالیٰ نے حقیقت پسندی کی توفیق عنایت فرمائی ہے۔

 

والسّلام

 

۴۱

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

دعا حصّۂ اوّل

 

اُم الۡکتاب کے رموز و اسرار

 

سورۂ فاتحہ کے ناموں میں سے ایک نام “ام الکتاب” ہے، جس کے معنی ہیں “کتاب کی اصل۔” اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ حکیم اور کتابِ کائنات کی ساری حکمتیں مختصر سے مختصر کر کے اس سورے میں سمو دی گئی ہیں، یا یہ کہ سارا قرآن سورۂ فاتحہ کی خدائی تفسیر و تشریح ہے، اور یہ دونوں واقعات صحیح ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “وَ اِنَّهٗ فِیْۤ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَكِیْمٌ (۴۳: ۰۴) اور وہ (قرآنِ پاک) ام الکتاب (سورۂ فاتحہ) میں ہے (اور وہی ام الکتاب نوری وجود میں) ہمارے پاس علی ہی ہے، حکمت والا” پس اہلِ دانش کے لئے

 

۴۲

 

یہ حقیقت مسلّمہ ہے کہ قرآن اگر ایک طرف سے سورۂ حمد میں سمویا ہوا ہے، تو دوسری طرف سے حضرت مولانا علی علیہ السّلام کے نور میں یکجا ہے، کیونکہ بقول نبیٔ اکرمؐ سورۂ فاتحہ تو ظاہری ام الکتاب ہے، اور مولانا علیؑ کا نور باطنی ام الکتاب ہے، اس مطلب کی مزید توثیق کے لئے کتابِ “وجہِ دین” گفتار ۱۹ کا آخری حصہ ملاحظہ ہو۔

 

سورۂ فاتحہ کے ام القرآن ہونے کے یہ معنی ہیں کہ یہ سورۃ تمام قرآن کا خلاصہ ہے، یعنی قرآنِ پاک میں جس مطلب کی تشریح کی گئی ہے سورۂ فاتحہ میں اسی مطلب کا اختصار کیا گیا ہے، بالفاظِ دیگر سورۂ حمد کتابِ مجمل اور قرآن کتابِ مفصل ہے، سورۂ فاتحہ ہدایتِ الٰہی کی ایک جامع اور ہمہ رس مثال ہے، اور تمام قرآن اسی ہدایت کی ذیلی مثالوں کا مجموعہ ہے، نیز سورۂ فاتحہ حکیمانہ انداز پر مطلوبہ حقائق کی ایک ایسی فہرست ہے، جس کو بغور دیکھنے سے ہر خوش نصیب دانشمند یہ سمجھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو اپنی پیاری کتاب میں کن کن ضروری حقائق کی تعلیم دینا چاہتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ سورۂ فاتحہ کی جملہ خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ قرآنی مضامین کی ایک مکمل فہرست کی حیثیت رکھتا ہے، چنانچہ ذیل میں اس امرِ واقع کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے:

 

۱۔ معرفتِ الٰہی کا بیان

۲۔ اللہ تعالیٰ کی تعریف و ستائش

 

۴۳

 

۳۔ الوہیت

۴۔ ربوبیّت

۵۔ دنیائیں

۶۔ جسمانی رحمت

۷۔ روحانی رحمت

۸۔ خدا کی بادشاہی

۹۔ زمانہ

۱۰۔ دین اور قیامت

۱۱۔ اخلاص

۱۲۔ عبادت

۱۳۔ استعانت

۱۴۔ دعا سب سے پہلے کس چیز کے لئے ہو؟

۱۵۔ ہدایت

۱۶۔ سیدھا راستہ

۱۷۔ مختلف راستے

۱۸۔ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام

۱۹۔ وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا

۲۰۔ غضبِ الٰہیہ کسے کہتے ہیں؟

۲۱۔ گمراہی

 

ان مضامین کے علاوہ سورۂ فاتحہ میں اور بھی بہت سے عنوانات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، مثلًا نقطہ الف سے پہلے کیوں آیا؟ یعنی قرآن بسم اللہ کے نقطے سے کیوں شروع ہوا؟ حالانکہ الحمد الف سے شروع ہوئی ہے؟ قرآنِ حکیم کا سب سے پہلا لفظ “بسم” کیوں آیا؟ قرآنی حروف کی ترکیب میں سب سے پہلے “ب” اور “س” مل کر “بِس” ہونے میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ بسم اللہ میں جو انیس حروف آئے ہیں ان کا کیا اشارہ ہے؟ سورت فاتحہ کی سات آیتیں کس حقیقت پر دلیل کرتی ہیں؟ اس کے شروع میں جو پنج حرفی لفظ “الحمد” آیا ہے، اس کا کیا اشارہ ہے؟ وغیرہ۔ لیکن یہ حقائق جس طرح حکمت کی گہرائیوں میں پنہان ہیں، اسی طرح عوام کے لئے ان کی فوری تلاش و تحقیق کی ضرورت بھی نہیں، نہ اس مختصر سی کتاب میں اس سے زیادہ تفصیل کی گنجائش ہے، پس اس باب میں سورۂ فاتحہ کے مذکورہ بالا مطلوبہ مضامین کی کچھ تشریح پر اکتفا کیا

 

۴۴

 

جاتا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

۱۔ معرفتِ الٰہی کا بیان:

 

الف لام عربی زبان میں “حرفِ تعریف” یا کہ “علامتِ معرفہ” ہے، کیونکہ ہر وہ اسم جس کے شروع میں یہ علامت لگی ہو، اسمِ معرفہ کہلاتا ہے، معرفہ کے معنی ہیں پہچانا ہوا، اور نکرہ کے معنی ہیں انجان جس کی عربی مثال الرجل اور رجل ہے، الرجل سے ایک ایسا مرد مراد ہے، جو مشاہداتی یا تحریری یا زبانی طور پر پہچانا ہوا ہو، اس کے برعکس رجل سے ایک ایسا مرد مراد ہے جو کسی طرح بھی نہ پہچانا گیا ہو۔ اب اگر حقیقت پسندی اور اسلامی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے اور عقل و انصاف سے سوچا جائے تو اس حقیقت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکے گا، کہ اللہ تعالیٰ کی ستائش اور تعریف مسلمانوں کے لئے بصورتِ حمد نکرہ نہیں رہی، بلکہ اس میں الف لام لگ کر الحمد ہوئی اور معرفہ ہوئی، تو یقیناً خدا کی حمد کا تعارف حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی نے کرایا، اور یہی تعارف ان کے بعد ہر زمانے میں ان کے وصی نے کرایا۔ اندران صورت خدا کی حمد جو معنوی طور پر نکرہ سے معرفہ کی صورت میں آ کر بحقیقت الحمد ہوئی، تو گویا الحمد کے اس الف لام کے لانے والے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور علی علیہ السّلام ہیں، کیونکہ یہ دونوں حضرات اپنی تنزیل و تاویل کے

 

۴۵

 

ذریعے اگر لوگوں کو خدا کی ستائش سے تعارف نہ کراتے تو لوگ اگرچہ بظاہر الحمد للہ کہہ سکتے، لیکن بحقیقت ان کی یہ تحمید ناشناختہ ہو جاتی، یعنی اس کی معنوی صورت تو نکرہ ہی کی طرح رہتی، پھر لازماً ان کے اس تلفظ کے الف لام معنوی طور پر موجود ہی نہ ہوتے، مگر اب امرِ واقع ایسا نہیں، بلکہ دینِ اسلام میں خدا کی حمد شناختہ ہے، کیونکہ نبی و علی (علیہما و علیٰ آلِ ہما السّلام) نے جب خدا کی حمد کا تعارف کرایا، تو الحمد لفظی اور معنوی دونوں صورتوں میں معرفہ ہوئی اور وہ دونوں حضرات الف لام کے حقیقی معنی ہوئے، اس لئے کہ جس طرح ظاہری الف لام نے لفظِ حمد کو نکرہ سے معرفہ بنا دیا ہے، اسی طرح ان دونوں حضرات نے معنوی الف لام کی حیثیت سے حمد کے ناشناختہ معنی کو شناختہ کرا دیا ہے، پس اس دلیل سے الحمد کے الف لام کے معنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت علی علیہ السّلام ہوئے، اور سورۂ فاتحہ میں جو قرآنِ پاک کے ابواب کی فہرست کی حیثیت رکھتا ہے، سب سے پہلے معرفتِ الٰہی کا عنوان (ال) آیا، جس سے خدا شناسی کی اہمیّت اور اس کے وسیلے کی ضرورت ظاہر ہوئی۔

 

۲۔ اللہ تعالیٰ کی تعریف و ستائش:

 

الحمد کے معنی میں اللہ تعالیٰ کی جملہ صفات اور اس کی ساری خوبیوں کا ذکر ہے، اور اسی اعتبار سے الحمد کا ترجمہ “سب تعریفیں”

 

۴۶

 

لکھتے ہیں، اور ان میں سے ہر صفت اور ہر خوبی عربی زبان میں اپنے خاص موقع پر الف لام کے ساتھ آتی ہے، مثلًا الخالق، الرّزاق، العلیم، السّمیع، وغیرہ، اور ہر خوبی کی بھی یہی مثال ہے، چنانچہ الجمال، الکمال، الثنا، البقا، وغیرہ، اور ان تمام معارف (شناختہ صفات اور خوبیوں) میں وہی الف لام کی علامتِ معرفہ موجود ہے، اور اس علامت کے حقیقی معنوں کے اسباب و علل بھی وہی حضرت محمد اور حضرت علی علیہما السّلام ہیں، اور اس امرِ واقع کی مثال قبلًا بیان کی گئی ہے، اب یہ سوال ہمارے سامنے آتا ہے کہ کیا یہی معرفت پروردگار کی آخری معرفت ہے جس کا ذکر ہوا؟ تو کہنا ہو گا کہ نہیں بلکہ یہ عام اور ابتدائی نوعیّت کی معرفت ہے، جو مذاہبِ عالم کے مقابلے میں دینِ اسلام کو حاصل ہے، جس کے بعد جماعتی معرفت اور اخیر میں انفرادی معرفت آتی ہے، لیکن معرفت کے ان تمام مراحل میں مذکورۂ بالا مثال کے مطابق وہی نبیٔ اکرمؐ اور اس کے وصیٔ برحقؑ باعثِ معرفت ہوتے ہیں، اور ہر اگلے مقام پر الحمد کے معنی اور الف لام کی معرفت خاص سے خاص تر ہوتی جاتی ہے، اس لئے کہ معرفت کے معنی پہچان اور شناخت کے ہیں، جس کے بہت سے درجات متعیّن ہیں، جن کے سلسلے میں سارے انسانوں کو آگے بڑھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کو اپنے آخری نبی کی حیثیت سے

 

۴۷

 

بھیجا ہے، اور آنحضرتؐ نے خدا کے امر سے مولانا علی علیہ السّلام کو اپنا وصی مقرر فرمایا ہے، تا کہ اس کا لازوال نور امامِ زمانہؑ کی حیثیت سے قیامت تک سرچشمۂ ہدایت اور ذریعۂ معرفت ہو جائے۔

 

۳۔ الوہیّت:

 

سورۂ فاتحہ کا تیسرا باب الوہیّت کے متعلق ہے، یہ مطلب لفظ “اللہ” میں پوشیدہ ہے، لفظ “اللہ” فی الاصل الالٰہ تھا جو الٰہ کا معرفہ ہے، لیکن کثرتِ استعمال کی وجہ سے یہ لفظ “اللہ” ہوا، اس لئے یہ اسم جامد نہیں بلکہ الٰہ سے نکلا ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ لفظ “اللہ” اکثر ذاتِ واجب الوجود کے لئے مخصوص ہو جاتا ہے، اور بعض اوقات یہ لفظ معبود کے معنی رکھتا ہے، اور اس کے اصلی معنی تو یہی ہیں، چنانچہ ارشاد ہے:

 

“وَ هُوَ اللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِؕ (۰۶: ۰۳) آسمانوں اور زمینوں میں صرف وہی معبود ہے۔” پس لفظِ اللہ الوہیّت یعنی معبودیّت اور عبودیّت کا موضوع ہے، یعنی اس میں خدائی اور بندگی کا بیان پوشیدہ ہے، وہ اس طرح کہ اللہ کے معنی معبود کے ہوئے، اور معبود وہ ہے جس کی عبادت کی جاتی ہے، پھر لازماً یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ معبودِ برحق کی معرفت کا ذریعہ کیا ہے؟ اور اس حقیقی عبادت کی طریقہ کیا ہے جس سے خدا کی رضا حاصل

 

۴۸

 

ہو سکتی ہے؟ پھر اس اہم سوال کے مفصل جواب کی ضرورت سے ان تمام آیاتِ قرآنی کا تعلق ثابت ہو جاتا ہے، جن میں الوہیّت، معرفت اور عبودیّت کی تفصیل آئی ہے، اور ہر تفصیل کی کلید ان حضرات سے مل سکتی ہے، جن کی طرف الف اور لام اشارہ کر رہے ہیں، جن کا ذکر ہو چکا ہے۔

 

۴۔ ربوبیّت:

 

ربوبیّت ربّ کی صفت ہے، اور یہ لفظ فارسی میں پروردگاری ہے، اس لئے کہ ربّ کے معنی پروردگار اور مالک کے ہیں، اور ربوبیّت کے معنی پروردگاری اور مالکیّت کے ہیں، اور ربّ ایک ایسا اسمِ صفت ہے جو خاص بھی ہے اور عام بھی، یعنی یہ اسم عربی زبان میں حق تعالیٰ کے لئے بھی آتا ہے، اور موقع پر انسان کے لئے بھی، مگر یہ اسم سورۂ فاتحہ میں بطورِ خاص آیا ہے، کیونکہ اس میں باری سبحانہٗ کی اس صفت کا ذکر ہے جو موجودات و مخلوقات کی پرورش کی مقتضی ہے، حق تعالیٰ کی جانب سے مخلوقات کی یہ پرورش یا تربیت تین درجوں میں پائی جاتی ہے: پہلے درجے کی پرورش عقلانی ہے، جس سے ذی عقل موجودات کی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں، دوسرے درجے کی پرورش روحانی ہے جس سے ذی روح مخلوقات کی احتیاجات پوری ہو جاتی ہیں، اور تیسرے درجے

 

۴۹

 

کی پرورش جسمانی ہے جس سے جمادات، نباتات، اور حیوانات کے اجسام کی تخلیق و تکمیل ہو جاتی ہے۔ پرورش کے ان تینوں درجات میں سے ہر ایک میں بےشمار ذیلی درجات ہیں، جن کے تحت بےشمار قسم کی موجودات و مخلوقات پلتی ہیں۔

 

۵۔ دنیائیں:

 

ام الکتاب کی پہلی آیت “العالمین” پر تمام ہو جاتی ہے، اور الحمد للہ ربّ العالمین” کا مفہوم اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب تعریف و ستائش اللہ ہی کے لئے شایان ہے، اس لئے کہ وہی تمام دنیاؤں کی پرورش کرتا ہے، خدا کی اس تعریف و ستائش سے لوگوں کو متعارف کرانے والے محمدؐ اور آلِ محمدؐ ہی ہیں، جو الحمد کے الف لام کے حقیقی معنی ہیں، اور تعریف و معرفت کے حقائق کی طرف جانے کا راستہ وہ عبادت ہے، جو انہی کی ہدایت کے مطابق کی جائے، اس لئے کہ الفاظ کی ترتیب میں چوتھا لفظ اللہ ہے، جو عبادت کا مقتضی ہے، کیونکہ اس کے معنی معبودِ برحق کے ہیں، اور عبادت کا پھل علم و معرفت کی صورت میں ملنا چاہئے، کیونکہ آیت کا پانچواں لفظ ربّ ہے، جس کے خاص معنی عقلانی و روحانی پرورش کرنے والے کے ہیں، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علم و معرفت کے بارے میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ علم و معرفت اس تحقیق کا نام ہے

 

۵۰

 

جس میں چشمِ دل سے یہ دیکھا جائے کہ پروردگار کس طرح انسانی عقل اور روح کی پرورش کر رہا ہے؟ وہ مشہور حدیث یہ ہے: “من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ۔ جس نے اپنی ذات یعنی عقل و نفس کی حقیقت اور ان کی پرورش دیکھ پائی تو اس نے تحقیق کے اس سلسلے کے اخیر میں اپنے پالنے والے کو پہچان لیا۔”

 

پس یہاں ظاہر ہوا کہ حصولِ علم و معرفت کے لئے حق تعالیٰ کی اس صفت کا حوالہ دیا گیا ہے، جو اسم “ربّ” میں موجود ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسانی نفس یا خودی کی معرفت (پہچان) اور علم، عقلانی و روحانی قسم کی تربیت و پرورش کی صورت میں حاصل ہوا کرتا ہے، دران حال عارف چشمِ سِرّ سے خدائے تعالیٰ کی تمام صفات کی ایک ایک مثال دیکھ پاتا ہے، اور یہ مثالیں نہایت پرنور، انتہائی دلکش، بےحد عشق انگیز، ازبس عجیب اور ناقابلِ فراموش ہوا کرتی ہیں، اس لئے عارف اپنے نفس (خودی) اور اپنے پروردگار کوپہچاننے کے بعد پھر کبھی اس علم و معرفت کو بھلا نہیں سکتا، اور ربّانی پرورش کا اطلاق سب سے پہلے انسان پر ہوتا ہے، اس لئے کہ عقلانی، روحانی اور جسمانی پرورش کا اوّلین مستحق اور سب سے زیادہ ضرورتمند تو انسان ہی ہے۔ مزید برآن اللہ تعالیٰ کی جس تعریف و ستائش کا یہاں تذکرہ ہو رہا ہے، اس کی وجہ کائنات و موجودات کی پرورش ہے، یعنی عوالم کی پرورش کرنا ہی اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی صفت

 

۵۱

 

ہے، جس میں اس کی دوسری تمام صفات بھی شامل ہیں، کیونکہ خدا کے سارے ناموں میں خدائی رحمت کی بےدریغ فیاضی اور انسان کی حاجت مندی کے معنی پائے جاتے ہیں۔

 

ربّ العالمین یعنی عالموں یا دنیاؤں کا پروردگار کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ربّ العزّت کے لاتعداد عوالم ہیں، اور بعض حکمائے دین کے قول کے مطابق ان کی تین بڑی قسمیں ہیں، یعنی عوالمِ لطیف (خالص روحانی دنیائیں) عوالمِ کثیف (خالص جسمانی دنیائیں) اور عوالمِ تالیف (جسم اور روح سے مرکب دنیائیں) یعنی انسانی شخصیتوں کی دنیائیں۔

 

اب جو خالص روحانی دنیائیں ہیں، وہ زمان و مکان سے برتر اور زندۂ جاوید فرشتے ہیں، کیونکہ اس قول کے مطابق اگر انسانی روح و جسم سے مرکب ایک عالم ہو سکتا ہے، تو لازماً فرشتہ بھی ایک خالص روحانی عالم ہو سکتا ہے، اور خالص جسمانی دنیاؤں کے بارے میں کوئی شک ہی نہیں کہ وہ تو سیارات اور کواکب ہی ہیں، پھر عناصر، نباتات، اور جانور ہیں، جن میں جسمانیّت کا حصہ زیادہ ہے، اس لئے وہ جسمانی عوالم ہی میں شامل ہیں۔

 

پس معلوم ہوا کہ ربّ العالمین کے معنی میں خصوصاً انسانی عوالم کی عقلانی، روحانی اور جسمانی پرورش کا ذکر ہے، کیونکہ مذکورہ تین قسم کے عوالم میں سے خالص روحانی عوالم یعنی فرشتے تو پرورش کی اتنی ضرورتیں نہیں رکھتے جتنی کہ انسان رکھتے ہیں، اور خالص جسمانی

 

۵۲

 

عوالم جن میں عقل و شعور نہیں، ربّانی پرورش حاصل کرنے کی اتنی صلاحیت نہیں رکھتے، جتنی کہ انسان میں پائی جاتی ہے۔

 

مزید برآن یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ لفظِ عالمین قرآنِ پاک میں لوگوں کے معنی میں زیادہ مستعمل ہوا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: “وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (۲۱: ۱۰۷) اور ہم نے آپ کو اور کسی بات کے واسطے نہیں بھیجا، مگر انسانی عوالم کے لئے ایک رحمت کی حیثیت سے بھیجا۔” تو معلوم ہوا کہ “ربّ العالمین” میں جس ربّانی پرورش کا ذکر آیا ہے، وہ خاص طور پر انسانی عوالم کی پرورش ہے، اور عام طور پر دوسرے عوالم کی پرورش ہے، کیونکہ اگر ہم صرف یہی مانیں کہ اس کائنات کو خدائی پرورش حاصل ہے، تو اس پرورش کے نتیجے میں کائنات کا کوئی پھل ہونا چاہئے، اور وہ پھل اگر ہے تو انسان ہی ہے، پھر اس صورت میں بھی ربّانی پرورش کا ثمرہ انسان ہی ہوا، اور ربّانی پرورش اسی کے لئے مخصوص ثابت ہوئی، جس طرح درخت کی پرورش بحقیقت پھل کی پرورش ہے۔

 

ام الکتاب کے پُرحکمت الفاظ جو قرآنی تفصیلات کے عنوانات کے درجے میں بےپایان معنی رکھتے ہیں، جن کی اس سے زیادہ تشریح اس چھوٹی سی کتاب میں سموئی نہیں جا سکتی ہے، لہٰذا جن الفاظ کے مطالب میں اختلاف پایا نہ جاتا ہو، تو ہم ان کی تشریح بہت مختصر کر دیتے ہیں۔

 

۵۳

 

۶۔ جسمانی رحمت: ۷: روحانی رحمت۔ ۸: خدا کی بادشاہی:

 

چنانچہ جسمانی رحمت اور روحانی رحمت کے بارے میں کسی کو کوئی شک ہی نہیں، جو الرحمٰن الرحیم کے معنی ہیں، نہ خدا کی بادشاہی سے کوئی اہلِ دین انکار کر سکتا ہے۔

 

۹۔ زمانہ: ۱۰۔ دین اور قیامت:

 

مگر “مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ” (۰۱: ۰۳) کے معنی میں یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ “یومِ دین” کے ساتھ خدا کی بادشاہی یا مالکیّت کی تخصیص کرنے میں کیا راز پوشیدہ ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ ساری کائنات و موجودات کا حقیقی مالک اور یکتا بادشاہ ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ بےشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حقیقی مالک ہے، اور کائنات و موجودات کا یکتا بادشاہ ہے، لیکن اس کے باوجود اس قادرِ مطلق اور دانائے برحق کی یہ صفت ہے کہ وہ ہر نو آباد سیّارے کے باشندوں کو ایک خاص زمانے تک کچھ اختیار بھی عطا فرماتا ہے، جب ان کی یہ مہلت ختم ہو جائے تو قادرِ مطلق اپنی طرف سے ان پر روحانی طاقتیں مسلط کر کے ان کے اس جزوی اختیار کو اپنے قبضۂ قدرت میں واپس لیا کرتا ہے۔

 

پس معلوم ہوا کہ نو آباد سیّارے کے باشندوں پر دو قسم کے

 

۵۴

 

زمانے گزرتے ہیں: پہلا دور وہ ہے جس میں ان کو ایک محدود اختیار دیا جاتا ہے، اور دوسرا دور وہ ہے جس میں یہ اختیار ان سے واپس لیا جاتا ہے، کیونکہ مالک کے آخری معنی صاحبِ اختیار کے ہیں، یوم ایک خاص وقت یعنی روحانی دور کے لئے آیا ہے، اور دین کے چند معنوں میں سے یہاں زیادہ موزون مذہب بدلہ اور حساب ہیں، پس روحانی دور میں، جو مذہب، بدلہ اور حساب کا دین ہے، لوگوں کے تمام اختیارات جو ان کو بطورِ امانت دیئے گئے تھے، حقیقی مالک کے تصرّف میں لئے جائیں گے، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگوں کے درمیان جو نظریاتی اختلافات پائے جاتے ہیں، وہ سب اٹھ جائیں گے، چنانچہ ارشاد ہوا ہے: “لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَؕ-لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (۴۰: ۱۶) آج کے روز کس کی حکومت ہو گی؟ بس اللہ ہی کی ہو گی، جو یکتا (اور) غالب ہے۔” اللہ کی حکومت سے مراد حقیقی اسلامی حکومت ہے، یکتا کا اشارہ عالمی وحدت اور ملی سالمیّت کی طرف ہے، اور غالب کا ایماء روحانی طاقتوں کے انکشاف کے لئے ہے۔

 

۱۱۔ اخلاص:

 

سورۂ فاتحہ کی چوتھی آیت میں سب سے پہلے اخلاص کا بیان آتا ہے، یعنی وحدانیّت کے متعلق اپنے عقیدے کو ماسوا اللہ سے خالص اور پاک کر دینے کا ذکر ہے، اور اخلاص کے معنی کسی چیز

 

۵۵

 

کو آمیزش اور ملاوٹ سے صاف اور خالص کر دینے کے ہیں، چنانچہ ہر وہ چیز خالص کہلاتی ہے جس میں ملاوٹ اور کھوٹ تو ممکن ہو، مگر وہ واقعاً صاف اور پاک ثابت ہو جائے، جیسے خالص سونا، چاندی وغیرہ، مگر دینی اصطلاح میں اخلاص دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس میں انسان کی قلبی توجہ صرف خدا ہی کی طرف لگی رہے، اور اس کیفیّت میں ذرّہ بھر بھی دوسرے خیالات و افکار کی آمیزش نہ ہو، اس بارے میں خود قرآنِ حکیم کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے: “فَاِذَا رَكِبُوْا فِی الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَﳛ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ یُشْرِكُوْنَ (۲۹: ۶۵)۔ پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خالص اعتقاد کر کے اللہ ہی کو پکارنے لگتے ہیں، پھر جب ان کو نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو وہ فوراً ہی شرک کرنے لگتے ہیں۔” اس آیۂ کریمہ کا مطلب صرف حکمت ہی سے واضح ہو سکتا ہے، کیونکہ خدا کے ماننے والوں میں سے اکثر لوگ جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں، تو ظاہراً خالص اعتقاد کر کے اللہ ہی کو پکارنے نہیں لگتے ہیں نہ وہ خشکی پر اترنے کے بعد فوراً خلافِ معمول بت پرستی کرنے لگتے ہیں، مگر یہ ضرور ہے کہ جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں، تو خوف و ہراس کے نتیجے میں فطری طور پر وہ دل ہی دل میں خدا کی طرف کچھ ایسے متوّجہ ہوتے ہیں کہ ان کی اس قلبی توّجہ کو دنیا کی کوئی چیز خدا سے اس طرف

 

۵۶

 

موڑ نہیں سکتی۔ پھر جب یہ لوگ خشکی پر اتر جاتے ہیں تو ان کے قلب کی وہ کیفیت، جس کا نام خدا کے نزدیک “خالص اعتقاد” تھا، فوراً ہی غائب ہو جاتی ہے، اور ان کے دل میں طرح طرح کے دنیاوی خیالات و افکار جاگزین ہونے لگتے ہیں، اور دل کی ایسی کیفیت بقولِ خدا شرک کہلاتی ہے، پس اخلاص دل کی اس کیفیّت کا نام ہے، جس میں انسان کی قلبی توجہ صرف خدا ہی کی طرف لگی رہے، بالکل اسی طرح جس طرح کسی خطرناک سمندر پر چلنے والے کشتی کے سوار خدا کی طرف متوّجہ ہوتے رہتے ہیں۔

 

۱۲۔ عبادت:

 

عبادت، دعا اور ذکر کی پہلی شرط اخلاص ہے جس کا ذکر ہو چکا، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: “اِیَّاكَ نَعْبُدُ” (۰۱: ۰۴) ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ یعنی ہم تیری عبادت کو فکری بت پرستی کی آلائشوں سے پاک و خالص کرتے ہوئے گزارتے ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں عارفانہ طریقِ عبادت کی تعلیم دی گئی ہے، تاکہ بتدریج ہر مومن عبادت و معرفت کے اس اعلیٰ ترین مقام پر پہنچ سکے، مگر یہاں پر سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ کون سی چیز ہے جس کے ذریعے مومن کا اخلاص اتنی ترقی کر جائے کہ عبادت کے وقت اس کے دل میں صرف خدا ہی کی توجہ قائم رہے، اور باقی سب کچھ

 

۵۷

 

بھول جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے سرکش نفس کو اس کی عقل کے تابع و فرمانبردار بنانے کے لئے دو ذرائع پیدا کئے ہیں، ایک ذریعہ خوف ہے اور دوسرا ذریعہ امید ہے، جس طرح ایمان کی تعریف میں فرمایا گیا کہ: “الایمان بین الخوف و الرجا۔ ایمان خوف اور امید کے درمیان پایا جاتا ہے۔” اب جس طرح خوف کے معنی میں وحشت و نفرت پوشیدہ ہے، اسی طرح امید کے معنی میں محبت و عشق مضمر ہے، چنانچہ ذریعۂ خوف کی ایک قرآنی مثال میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس سے انسان کا سرکش نفس کس حد تک مرعوب ہو کر عقل کے مشورے پر کام کرنے لگتا ہے، اور اس کے نتیجے میں انسان کا عملی اخلاص کس طرح نفس کی دنیاوی خواہشات کو رد کر دیتا ہے، اور خدا کی طرف انسان کی قلبی توّجہ اور دعاؤں کا سلسلہ کس قدر مضبوط اور اٹوٹ ہو جاتا ہے، جب تک کہ خوف باقی ہے۔

 

یہی حال ذریعۂ امید یعنی حقیقی محبت و عشق کے نتیجے کا بھی ہے، بلکہ مومن کا وہ اخلاص جو حقیقی محبت و عشق پر مبنی ہو، زیادہ مستحکم اور زیادہ فائدہ بخش ہوتا ہے، بہ نسبت اُس اخلاص کے جس کی اساس خوف و ہراس پر قائم ہوئی ہو، مگر پھر بھی سوال کا ایک پہلو باقی ہے، وہ یہ کہ مومن کے لئے خدا سے حقیقی محبت و عشق پیدا ہونے کا ذریعہ کیا ہے؟ تو اس بنیادی اور اہم ترین سوال کا تسلی بخش

 

۵۸

 

جواب سب سے پہلے قرآنِ کریم ہی سے ہونا چاہئے، وہ یہ ہے جو خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۰۳: ۳۱) آپ فرما دیجئے کہ اگر تم خدائے تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میری پیروی کرو، کہ خدا بھی تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کر دے گا، اور خدائے تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا بڑی عنایت فرمانے والا ہے۔”

 

پس ظاہر ہوا کہ جو لوگ اپنے طور پر خدا سے محبت رکھتے ہیں تو خدا ان سے محبت نہیں رکھتا، جبکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی اور اس سے محبّت نہ کرتے ہوں، اور جب وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی اور اس سے محبت کرنے لگیں تو خدا بھی ان سے محبت کرنے لگتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے سارے گناہ اسی زندگی میں معاف کر دیئے جاتے ہیں، تا کہ وہ اس حد تک پاک ہو سکیں کہ خدائے تعالیٰ کی پاک محبّت و عشق کا ان سے ظہور ہونے لگے، پس معلوم ہوا کہ خدا سے حقیقی محبّت و عشق کا ذریعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی اور اس کی محبّت ہی ہے۔

 

اب اگر کوئی شخص یہ پوچھے کہ بقولِ قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حقیقی پیروی کا ذریعہ کیا ہے؟ تو اسے یہ بتا دیا جائے

 

۵۹

 

کہ حضرتِ رسولؐ کی پیروی کا واحد ذریعہ آنحضرتؐ کے قرابت داروں کی محبّت اور دوستی ہے، چنانچہ خدائے تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے: “قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ (۴۲: ۲۳) ۔ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس (تبلیغِ رسالت) کا کوئی صلہ نہیں مانگتا، سوائے قرابت داروں کی دوستی کے۔”

 

اس آیۂ کریمہ کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قرابت داروں سے دوستی رکھنا، اگرچہ ہر دیندار پر ایک ضروری فرض ہے، تاہم اس حقیقت پر عقل و دانش سے غور کرنا چاہئے کہ رسول اللہ کے قرابت داروں کی یہ دوستی ایسی نہیں کہ تبلیغِ رسالت کے بعد یہ دوستی کسی گروہ یا کسی فرد پر بطورِ اجرت زبردستی سے لازم کر دی جائے، یا کوئی شخص حقیقت و منفعت سمجھے بغیر اس کو اپنائے اور قبول کر سکے، اور یہ دوستی وہی ثابت ہو سکے جسے خدا و رسول چاہتا ہے، بلکہ یہ دوستی ایسی ہے کہ تبلیغِ رسالت کے آغاز ہی سے رسولِ خدا کے ساتھ ان کے قرابت داروں کی نورانی قرابت اور روحانی نزدیکی کی حقیقت سمجھ لی جائے، کیونکہ رسول اللہ سے علی، فاطمہ، حسن، حسین اور ان کی اولادِ پاک یعنی ائمۂ برحق علیہم السّلام کی یہ قرابت داری نہ صرف جسمانی ہی ہے، بلکہ اس سے پیشتر اور اس سے اعلیٰ مقام پر ان کی قرابت نورانی اور روحانی قسم کی ہے۔

 

پھر رسول اللہ کے ان نورانی قرابت داروں کی محبّت اور دوستی

 

۶۰

 

کے یہ معنی ہوئے کہ خدا اور رسول کے درجے کے بعد ان کی فرمانبرداری اور پیروی کی جائے، کیونکہ دینی مراتبِ عالیہ سے محبّت رکھنے کے معنی ان مراتب کی فرمانبرداری کرنے کے ہیں، اور ان مراتبِ عالیہ کی مومنوں سے محبت و دوستی رکھنے کے معنی مومنوں کو ہدایت دینے اور ان پر رحمت کرنے کے ہیں، چنانچہ آیۂ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ ۔۔۔ (۰۳: ۳۱) کے حقائق کا ایک مفہوم یہ ہے: “آپ فرما دیجئے کہ اگر تم بزعمِ خود خدائے تعالیٰ سے دوستی رکھتے ہو تو اس کی صورت یہ ہونی چاہئے کہ تم لوگ میری پیروی کرو، جس کے نتیجے میں خدا بھی تم سے محبّت کرنے لگے گا اور تم سے خدا کی دوستی یہ ہو گی کہ وہ تمہارے سب گناہ معاف کر دے گا۔”

 

پس معلوم ہوا کہ خدا، رسول اور اس کے قرابت داروں سے مومنوں کی محبّت اور دوستی فرمانبرداری کی صورت میں ہو سکتی ہے، اور اسی وجہ سے رسولؐ کی محبّت حاصل ہونے کا ذریعہ رسولؐ کے قرابت داروں سے محبت رکھنا ہے، اور خدا کی محبت حاصل ہونے کا ذریعہ رسولؐ سے محبّت رکھنا ہے، اور خدا کی حقیقی محبّت اور عشق کا یہ معجزانہ اثر ہے کہ حقیقی معنوں میں خدا کی عبادت کرنے کے لئے اس سے مومن کو بہت بڑی مدد ملتی ہے، اور یہی حقیقی محبّت مومن کے لئے ذریعۂ امید اور وسیلۂ اخلاص ہے، جس سے بوقتِ عبادت مومن کی قلبی توجہ خدائے تعالیٰ کی طرف مرکوز رہتی ہے، اس لئے

 

۶۱

 

کہ اس قسم کی عبادت اور توّجہ میں اعلیٰ قسم کی روحانی مسرّت اور نورانی تسکین موجود ہوتی ہے۔

 

۱۳۔ استعانت:

 

مذکورۂ بالا عارفانہ قسم کی عبادت کے بیان کے بعد سورۂ الحمد میں استعانت یعنی خدائے تعالیٰ سے ہر نیک کام میں مدد طلب کرنے کا ذکر آتا ہے، اس لئے کہ خدائی مدد بڑے پیمانے پر اور نمایان طور پر عبادت کے بعد مل سکتی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ: وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ (۰۱: ۰۴) اور ہم صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ یعنی اے اللہ! ہم تیری وحدت کو کثرت کی شرکت سے مجرّد کر کے، اور تیری معرفت کو یکتا کر کے صرف تجھ ہی سے روحانی قسم کی معجزانہ مدد طلب کرتے ہیں، جو تیرے خاص بندوں کے ساتھ ہمیشہ شاملِ حال رہتی ہے۔

 

۱۴۔ سب سے پہلی دعا:

 

اللہ تبارک و تعالیٰ سے عملی طور پر روحانی مدد طلب کرنے کے بعد حقیقی مومن خدائی تعلیم کے مطابق سب سے پہلے جس چیز کے لئے دعا کرتا ہے، وہ ہدایت ہے، کیونکہ “اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ” (۰۱: ۰۱) میں حقیقی مومن نے خدا کی تعریف و توصیف کی، “الرَّحْمٰنِ

 

۶۲

 

الرَّحِیْمِ” (۰۱: ۰۲) میں اس نے خدا کی جسمانی اور روحانی رحمت کا اقرار کر لیا، “مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ” (۰۱: ۰۳) میں اس نے قیامت یعنی روحانی دور کے آنے اور اس میں مومنوں کے سربلند ہونے کے متعلق امید ظاہر کی، اور “اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ” (۰۱: ۰۴) میں اس نے عارفانہ قسم کی عبادت کی، اور عملی طور پر روحانی مدد طلب کر لی۔ اب ہدایت کے لئے جس طرح وہ دعا کرتا ہے، اس سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ خاص ہدایت مومن کے اختیار سے بالاتر ہے، کیونکہ وہ صرف خدا کے اختیار میں ہے، نیز یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ قرآنِ پاک کی سب سے پہلی دعا ہدایت طلب کرنے کے لئے ہے، اور اس حقیقت کی دلیل کہ خاص ہدایت خدا کے اختیار میں ہے، یہ ہے کہ الحمد سے لے کر نستعین تک تقریباً نصف سورے میں جو امور تھے، ان کے متعلّق مومن کو کچھ اختیار دیا گیا تھا، جن پر اس نے اپنی طاقت کے مطابق عمل کیا، نیز اس نے ان امور کی اصلاح کرنے کے لئے خدا سے عملی مدد طلب کر لی، مگر اھدنا سے لے کر الضالین تک جو امور مذکور ہیں، ان میں مومن کو اختیار حاصل نہیں، اس لئے ان میں سے بعض چیزوں سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے اور بعض سے بچنے کے لئے دعا کر رہا ہے۔

 

۱۵۔ ہدایت:

 

یاد رہے کہ عربی زبان دنیا کی وسیع ترین زبان ہے، قرآنِ حکیم

 

۶۳

 

اسی زبان کے چیدہ چیدہ الفاظ میں نازل ہوا ہے، اور ام الکتاب یعنی سورۂ فاتحہ قرآن کے چنے ہوئے الفاظ میں ہے، الفاظ کے ان انتخاب کا مطلب معنوی وسعت ہے۔ مزید برآن حکمت کا ایک خاص طریقہ یہ بھی ہے کہ جب کسی لفظ کے معنی میں زیادہ سے زیادہ وسعت پیدا کرنا مقصود ہو، تو اس لفظ کے لغوی معنی کو ایک موزون ترین مثال کی صورت دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ایسے لفظ کے معنی زیادہ سے زیادہ ہو جاتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ کائنات و موجودات کے بہت سے حقائق ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں، اندران حال یہ مثال یکسان طور پر بہت سے حقائق کی طرف اشارہ کر سکتی ہے۔

 

اسی طرح لفظِ ہدایت بھی ایک مثال ہے، جس کے لغوی معنی کسی شخص کو دنیاوی طور پر ایک مقام سے دوسرے مقام تک راستہ دکھانے کے ہیں، چنانچہ دین میں بھی ایک ایسی کیفیّت ہے، جو اس دنیاوی راستہ دکھانے کی کیفیّت سے ملتی جلتی ہے، وہ دین و دنیا کے متعلّق ایک ایسی باطنی یا ظاہری تعلیم ہے، جس کے ذریعے انسانوں کو ایک درجے سے دوسرے درجے میں بڑھاتے ہوئے آخری حد تک خدا سے ملا دیا جاتا ہے، پس دینِ حق کی مثال سیدھے راستے سے دی گئی، حقیقی تعلیم دینے والے کی مثال راستہ دکھانے والے سے دی گئی، اور تعلیم کی مثال راستہ دکھانے سے دی گئی۔

۶۴

 

۱۶۔ سیدھا راستہ:

 

قرآنِ حکیم کی وہ اوّلین مثال، اور سب سے پہلی دعا، جس میں سارے مسلمین اللہ تعالیٰ سے یہ تعلیم و توفیق طلب کرتے ہیں کہ انہیں دینِ حق کی معرفت حاصل ہو جائے، اور وہ اس میں آگے بڑھ سکیں، انہی الفاظ سے شروع ہو جاتی ہے:

” اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (اے اللہ) ہمیں سیدھا راستہ دکھائیے۔” (۰۱: ۰۵) یعنی اے اللہ! ہمیں حقیقی اسلام کی تعلیم و توفیق کے ظاہری و باطنی ذرائع سے بہرہ مند فرمائیے، تا کہ ہم ان تمام نئے مسائل کو حل کرتے ہوئے آگے بڑھ سکیں، جو زمانہ کے حالات اور واقعات سے یا ذہنی ترقی سے پیدا ہوتے ہیں، سیدھا راستہ دیکھ پانے اور اس پر چل سکنے کے لئے اس مقام پر جو تعلیم، توفیق، اور ہمت طلب کی جا رہی ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ فی الواقع دینِ حق ایک انتہائی سیدھے راستے سے ملتا جلتا ہے، جس کی طول و مسافت باعتبارِ روحانی ارتقاء ازل سے ابد تک ہے، باعتبارِ جسمانی ارتقاء دورِ آدم سے قیامت تک ہے، باعتبارِ ہر امت ایک صاحبِ شریعت سے دوسرے صاحبِ شریعت کے آنے تک، اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد سے قیامت تک ہے، شخصی زندگی کے پیشِ نظر سیدھے راستے کی طول و مسافت ہر شخص کی پیدائش سے اس کی موت تک، اور تصوّف و حقیقت کے پیشِ نظر ہر شخص کی پیدائش سے اس کی خود شناسی کے وقت تک ہے۔

 

۶۵

 

پس معلوم ہوا کہ دینِ حق ایک سیدھے راستے سے مشابہت رکھتا ہے، جس کو دیکھ پانا اور اس پر چلنا جس قدر آسان ہے اسی قدر مشکل بھی ہے، آسان اس لئے ہے کہ اس ذاتِ یگانہ نے جس کی مہربانیوں کی تعریف و توصیف الحمد سے لے کر نستعین تک کی گئی ہے، اپنی عنایت و رحمت سے اس سیدھے راستے کو دیکھ پانے اور اس پر چلنے کے تمام ذرائع پیدا کئے ہوئے ہیں، اور اس سلسلے میں ذرہ بھر بھی کوئی کمی نہیں، اور مشکل اس لئے ہے کہ ایک بڑا زبردست مکار، پرحیلہ اور جادوگر دشمن یعنی شیطان جو کبھی تو انسان کے بھیس میں نظر آتا ہے، اور کبھی جنّات کے لباس میں چھپ جاتا ہے، اسی سیدھے راستہ پر ہی تاک لگا کر بیٹھا ہے، تا کہ وہ اپنی بےشمار سوار اور پیادہ افواج کی مدد سے اس راستے کی طرف رخ کرنے والوں پر، نیز اس پر چلنے والوں پر یکایک حملہ کر سکے، اور ہر گروہ اور ہر فرد کو اس راستے سے بھگا سکے، اس مطلب کے لئے سورۂ الاعراف رکوع دوم (۰۷: ۲۰۲) اور سورۂ بنی اسرائیل رکوع ہفتم کی تعلیم پر غور کیجئے۔

 

جب یہ حقیقت مانی گئی کہ شیطان ہمیشہ دنیا میں موجود ہے، اور وہ قیامت تک لوگوں کو سیدھے راستے سے گمراہ کرتا رہے گا، تو عدلِ الٰہی کے قانون سے یہ لازم آتا ہے کہ اس کے برعکس ہمیشہ دنیا میں ایک ایسا ذریعہ بھی موجود ہو، جو لوگوں کو قیامت تک راہِ راست کی ہدایت کرتا رہے، یہ ذریعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، اور

 

۶۶

 

اس کی آل یعنی امامِ زمانؑ ہے، جو نبیؐ و علیؑ کا نور ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (۱۳: ۰۷) اے محمد! آپ صرف ڈرانے والے ہیں، اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہوا کرتا ہے۔” تو ظاہر ہے کہ ڈرانا (جو ظہورِ معجزات اور نزولِ بلیات یا خالص تبلیغ کے ذریعے ممکن ہوتا ہے) پیغمبروں کا کام ہے، اور ظاہر و باطن کی پوشیدہ ہدایت اماموں کا کام ہے۔ پس معلوم ہوا کہ جب تک دنیا میں کوئی قوم رہتی ہے، تب تک ہادی موجود اور حاضر ہے، اس لئے کہ مذکورہ آیت کے بموجب ہادی اور قوم یعنی اہلِ زمانہ ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں، اور اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ آپ تو صرف قرآن اور اپنی سنّت کے ذریعے اپنی قوم کو قیامت تک ڈرانے والے ہیں، مگر اس قوم کی ہدایت تو ہادی ہی کرے گا، یعنی علیؑ اور اس کی اولاد کے أئمّۂ کرام یہ کام انجام دیں گے۔

 

۱۷۔ مختلف راستے:

 

صراطِ مستقیم یعنی سیدھے راستے کے سوا جو دوسرے مختلف راستے ہیں، وہ ٹیڑھے اور تکلیف دہ ہونے کے علاوہ منزلِ مقصد کی طرف بھی نہیں جاتے ہیں، مگر اس کے باوجود ان راستوں پر چلنے والوں کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ ان راستوں سے ہٹ کر

 

۶۷

 

شاہراہِ مستقیم پر گامزن ہو جائیں، چنانچہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: ” وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَ مِنْهَا جَآىٕرٌؕ-وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ (۱۶: ۰۹) اور سیدھا راستہ اللہ تک پہنچتا ہے، اور اسی سے (نکل جانے کے) ٹیڑھے راستے بھی ہیں، اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو مقصود تک پہنچا دیتا۔”

 

۱۸۔ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام:

 

ام الکتاب میں خدا کی جس بڑی نعمت کا یا جس بڑے انعام کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے وہ سیدھے راستے کی ہدایت ہے، اس لئے کہ ہدایت کے معنی میں علم، معرفت، حکمت، اور خدا کی خوشنودی پوشیدہ ہیں، ہدایت عقل اور روح کی روشنی کا نام ہے، اور ہدایت خدا کے نور تک راستہ پانے کا نام ہے، چنانچہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے: ” یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ (۲۴: ۳۵) اللہ تعالیٰ اپنے نور تک جس کو چاہتا ہے راہ دے دیتا ہے۔” یعنی اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے امامِ زمانؑ کی معرفت عطا فرماتا ہے، کہ امامِ زمانؑ ہی خدا کا نور ہے، اور امامِ زمانؑ ہی کے ذریعے خدا کی ظاہری و باطنی ہدایت لوگوں کو مل سکتی ہے۔

 

۶۸

 

۱۹۔ وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا:

 

یہ سیدھا راستہ اور اس کی ہدایت ان لوگوں کے لئے ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے، اور وہ پانچ گروہ ہیں:

 

۱۔ نبیّین

۲۔ صدّیقین

۳۔ شہداء

۴۔ صالحین

۵۔ تابعین

(النساء کی آیت ۶۹ ملاحظہ ہو، ۰۴: ۶۹)

 

یعنی ناطقان، اساسان، أئمّہ، حجّتان اور داعیان، یہی ہیں وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے، اور یہی لوگ دوسروں کے لئے سیدھے راستے کی ہدایت کر سکتے ہیں، کیونکہ جو لوگ خود ہدایت یافتہ ہیں، وہی لوگ دوسروں کی بھی ہدایت کر سکتے ہیں، اس آیت میں جس کا یہاں صرف خلاصہ لیا گیا ہے، پہلے ناطقوں کا نام آیا ہے، ان کے بعد صدّیقین یعنی اساسوں کا نام لیا گیا ہے، اس لئے کہ ہر ناطق کی تنزیل کی تصدیق کے لئے ایک صدیق یعنی اساس ہوا کرتا ہے، جو اپنی تاویل کے ذریعے اس تنزیل کی تصدیق کرتا ہے، ان کے بعد اماموں کا ذکر کیا گیا ہے، اور اماموں کو یہاں گواہ (شہداء) کہا گیا ہے، کیونکہ ہر امام اپنے زمانے کے لوگوں پر

 

۶۹

 

گواہ ہوتا ہے، اور کوئی وقت ایسا نہیں جس میں امامِ زمانؑ حاضر اور گواہ نہ ہو، پھر حجّتوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ صالحین سے مراد روئے زمین کے بارہ حجّت ہیں، جو دنیا بھر میں امامِ زمانؑ کی ہدایت کے بموجب اصلاح کرتے ہیں، پھر دعاۃ کا ذکر ہوا ہے، کیونکہ تابعین سے مراد دعاۃ ہیں، جو ان چاروں جسمانی حدود کی تابعداری کرتے ہیں، نیز یہی دعاۃ ہی ہیں جو لوگوں سے امامِ زمانؑ کی تابعداری اور بیعت لیتے ہیں۔

 

پس یہی لوگ ہیں جو راہِ راست پر ہدایت یافتہ ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مقرر کئے گئے ہیں، اور اس دعا میں لوگوں کو انہی سے ہدایت حاصل کرنے اور انہی کے راستے پر چلنے کی تعلیم دی جاتی ہے: “صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ۔ (۰۱: ۰۶) ہمیں ان لوگوں کا راستہ دکھا دیجئے جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے۔”

 

۲۰۔ غضبِ الٰہیہ کسے کہتے ہیں؟

 

ام الکتاب میں دوسرے بہت سے ضروری عنوانات کے ساتھ خدا کے غیض و غضب کا عنوان بھی ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ قرآنِ حکیم کے مضامین میں سے ایک اہم مضمون خدا کے غصہ و غضب کے متعلق ہے، پھر ہمیں یہاں اس کے بارے میں کچھ مختصر بیان کر دینا چاہئے، وہ یہ ہے کہ خدا کا غضب خدا کی ذاتِ پاک

 

۷۰

 

سے وابستہ نہیں، بلکہ وہ قانونِ الٰہی میں شامل ہے، اور قانونِ الٰہی کائنات و موجودات کی مجموعی فطرت کا نام ہے، اور اسی فطرت کا خلاصہ انسان ہے، پس انسانی فطرت قانونِ الٰہی کے ایک نمونے اور ایک کتاب کی حیثیت سے ہے، بالفاظِ دیگر انسان کے اندر قانونِ الٰہی موجود ہے، اور یہ قانون خودکار قسم کا ہے، یعنی یہ “Automatic Law” ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے اختیار سے جو کچھ نیت کرتا ہے، جو کچھ کہتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے تو اس کے اچھے یا برے اثرات اور نتائج سب سے پہلے اور اخیر میں خود اسی پر واقع ہوتے ہیں۔

 

پھر آپ لازماً یہ سوال کریں گے کہ اگر حقیقت یہی ہے کہ انسان کو نیکی اور بدی دونوں پر برابر اختیار حاصل ہے، اور وہ اپنی مرضی سے نیکی یا بدی جو کچھ کرتا ہے، قانونِ الٰہی اس کو اس نیکی اور بدی کا بدلہ دیتا جاتا ہے، تو پھر خدائے تعالیٰ کی ننانوے یا کہ سو صفات کے افعال کس مخلوق پر واقع ہوتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ انسان اس اختیار سے جو خدا نے اسے عطا کر دیا ہے جتنی نیکی کر سکتا ہے اتنی بدی بھی کر سکتا ہے، اندران حال مناسب یہ تھا کہ اس کو نیکی اور بدی دونوں کا برابر بدلہ ملے، مگر فی الواقع ایسا نہیں ہوتا بلکہ بدی کا بدلہ اس کی بدی ہی کے برابر دیا جاتا ہے، اور نیکی کا بدلہ اس کی نیکی سے دس گنا زیادہ دیا جاتا ہے، تو ظاہر

 

۷۱

 

ہے کہ اس میں نو گنا بدلہ اللہ کی صفات کی بدولت ہے، اور باقی ایک بدلہ انسان کے اختیار کی وجہ سے ہے، چنانچہ قولِ قرآن کی شہادت ہے: “جو شخص نیک کام کرے گا اس کو دس گنا بدلہ ملے گا، اور جو شخص برا کام کرے گا سو اس کو اس کے برابر سزا ملے گی، اور ان پر ظلم نہ ہو گا (۰۶: ۱۶۰)۔

 

اس بیان سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفات میں غیض و غضب کا کوئی مستقل نام نہیں، اور جو قاہر یا قہار کا اسم ہے اس میں غضب و غصے کے معنی نہیں بلکہ اس کے معنی غالب آنے کے ہیں، اور اگر لوگ لفظِ قہر کو غصہ یا غضب کے معنی میں استعمال کرتے ہیں، تو یہ لوگوں کی غلط عادت کی بات ہے۔

 

اب یہ حقیقت پایۂ ثبوت پر آ گئی کہ غضبِ الٰہیہ ایک اٹل قانون کی حیثیت سے انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہے، اور وہ انسان کی اپنی جہالت اور غفلت کی صورت میں ہے، چنانچہ جو فرد یا قوم خدا کے امر کی تابعداری نہ کرے، اور اس کی بندگی سے منہ موڑے، تو اس کو لازماً وہ علم نہیں ملے گا جو اس امر میں پوشیدہ تھا، اور اس کی روح کو وہ خوراک نہیں ملے گی جو اس عبادت میں پنہان تھی، پس اس کی جہالت اور غفلت بڑھ جائے گی، یہاں تک کہ اس کی عقل اور روح مسخ ہو جائے گی، یعنی اس میں حقیقی علم و دانش حاصل کرنے کی، اور ذکر و عبادت سے حظ اٹھانے کی جو

 

۷۲

 

صلاحیت موجود تھی، وہ یکسر ختم ہو جائے گی، درحالیکہ وہ شکل و صورت میں انسان ہی رہے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “وَ لَوْ نَشَآءُ لَمَسَخْنٰهُمْ عَلٰى مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوْا مُضِیًّا وَّ لَا یَرْجِعُوْنَ (۳۶: ۶۷) اور اگر ہم چاہتے تو ان کو اپنی جگہ پر ہی مسخ کر ڈالتے، جس سے یہ لوگ نہ آگے کو چل سکتے، اور نہ پیچھے کو لوٹ سکتے۔” یعنی اگر ہم چاہتے تو ان کو انسانی جسم ہی میں مسخ کرکے کسی جانور کی خاصیت و عادت میں بدل ڈالتے، جس سے وہ لوگ نہ تو انسانیت کی کوئی ترقی کر سکتے، اور نہ اپنے بچپن کے اس مقام کی طرف لوٹ سکتے، جہاں پر ان کی فطری صلاحیتیں کھو گئی ہیں۔

 

۲۱۔ گمراہی:

 

سورۂ فاتحہ کا یہ بیان ہے کہ ہر زمانے کے لوگ دین و آئین کے اعتبار سے چار بڑے گروہوں میں منقسم ہوتے ہیں، جن میں سے پہلا گروہ وہ ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی خاص عنایتوں سے ہدایت یافتہ ہے، صراطِ مستقیم پر خود چلتا ہے، اور دوسروں کو بھی اس سیدھے راستہ پر چلنے کی ہدایت کر سکتا ہے، دوسرا گروہ وہ ہے جو صراطِ مستقیم پر چلنے کی اہلیت رکھتا ہے اور اس کے لئے ہمیشہ دعا کرتا رہتا ہے، تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جن پر خدا کا غصہ و غضب واقع ہوا ہے، اب انہوں نے جو راستہ اختیار کر

 

۷۳

 

لیا ہے وہ ایسا نہیں کہ صراطِ مستقیم سے جا ملے، اور چوتھا گروہ ان لوگوں کا ہے جو راہِ راست سے گم ہو گئے ہیں، اور اب وہ جس راستے پر چل رہے ہیں، وہ اس قابل نہیں کہ منزلِ مقصود تک پہنچ جائے۔

 

چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: “غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۔ نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کا غضب کیا گیا ہے، اور نہ ان لوگوں کا جو راہِ راست سے گم ہو گئے ہیں۔” (۰۱: ۰۷)

 

فصل صلوٰۃ کے الفاظ کے بارے میں

 

“سجد وجھی الیک۔ اے اللہ! میری نیت، توجہ، اور چہرے نے تیرے حضور میں عاجزی اور خاکساری سے سجدہ کیا۔” سجدہ کے معنی عاجزی و خاکساری سے جھکنے کے ہیں۔ وجہ کے معنوں میں سے یہاں نیّت، توجہ، اور چہرہ مقصود ہے، اور الیک کا ترجمہ یہاں “تیرے حضور میں” درست ہے۔ “و توکلت علیک۔ اور میں نے تجھ پر ہی توکل کیا” یعنی اپنے اختیار سے بالاتر امور کو تیرے ہی سپرد کر دیا، اور تجھ پر ہی بھروسہ کیا۔ “منک قوّتی۔ تجھ ہی سے میری قوّت مہیا ہوتی ہے۔” یعنی اگر میں اپنے دائرۂ اختیار میں روحانی و جسمانی طور پر کچھ کر سکتا ہوں، تو یہ بھی تیرے ہی دیئے

 

۷۴

 

ہوئے ذرائع سے ہے۔ “و انت عصمتی یا ربّ العالمین۔ اور تو ہی میری پناہ اور بچاؤ ہے، اے پروردگارِ عالمین!” یعنی اپنی روحانی و جسمانی ہدایت اور معجزانہ قدرت کے ذریعے گناہوں اور بلاؤں سے مجھے محفوظ رکھنے والا تو ہی ہے، کیونکہ تو عالموں کا پالنے والا ہے، اور پالنے والے کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جو زیادہ حاجت مند ہو اور جو زیادہ رویا کرے، وہ اسی کی زیادہ پرورش و حفاظت کرتا رہتا ہے۔

 

“اللھم صل علیٰ محمد المصطفیٰ ۔ اے اللہ! تو رحمت نازل فرما، اپنے برگزیدہ محمد (رحمت للعالمین ۲۱: ۱۰۷) کے وسیلے سے” جس کو تو نے دنیا جہان والوں کے لئے رحمتِ کل کی حیثیت سے بھیجا ہے۔ “و علیٰ علی المرتضیٰ۔ اور اپنے پسندیدہ علی کے وسیلے سے۔” جس کو تو نے الکوثر کا خطاب دے کر حضرت محمدؐ کا فرزند قرار دیا ہے۔ “و علی الائمۃ الاطہار۔ اور سارے پاک و برحق اماموں کے وسیلے سے” جو حضرت محمدؐ اور الکوثر (علیؑ) کی نورانی و جسمانی اولاد ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہی أئمّہ علیہم السّلام کو رسولِ اکرمؐ کی اولاد، اس کے حقیقی وارث و جانشین، اور اس کے نورِ ہدایت کے حامل قرار دیتے ہوئے سورۃ الکوثر میں اس کافر کے قول کی تردید فرمائی ہے، جس نے کہا تھا کہ محمدؐ کی کوئی مردانہ اولاد نہیں ہے، اور اس کافر کا نام بعض روایتوں میں عاص

 

۷۵

 

بن وائل تھا، بعض میں ہے کہ یہ شخص عقبہ بن ابو معیط تھا، اور ابنِ عباس وغیرہ کا قول ہے کہ یہ بات کعب بن اشرف اور جماعتِ قریش سے تعلق رکھتی ہے۔

 

“و علیٰ حجۃ الامر صاحبِ الزمان و العصر امامنا الحاضر الموجود مولانا شاہ کریم الحسینی۔ اور رحمت نازل فرما ہمارے حاضر و موجود امام مولانا شاہ کریم الحسینی کے وسیلے سے، جو تیرے امر کی حجت (دلیل) اور زمانہ ظاہر و عصرِ باطن کے مالک ہیں” امر کی حجّت کی تشریح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی زمانے میں بھی اس جہان کو ہادی سے خالی نہیں رکھا ہے، کیونکہ خدا اہلِ زمانہ کے درمیان اگر کوئی ہادی مقرر نہ فرماتا تو قیامت کے دن لوگ یہ کہا کرتےکہ اے پروردگار! ہمارے زمانے میں آپ کی طرف سے کوئی ہادی حاضر و موجود نہ تھا، اور ہم آپ کی کتاب کا آخری مقصد نہیں سمجھ سکتے تھے، تو اس صورت میں ان کا یہ کہنا از روئے عدل صحیح ہو گا، اور اس کی دلیل و حجّت (جواب دہی) خدا پر رہے گی، مگر حقیقت یہ ہے کہ دلیل و حجّت تو لوگوں ہی پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے میں لوگوں کی ہدایت کے لئے کوئی نہ کوئی رسول بھیجا ہے، پھر اس کا کوئی حقیقی جانشین مقرر کر دیا ہے، تا کہ رسولوں کے بھیجے جانے، یا ان کے جانشین مقرر کئے جانے کے بعد خدا پر لوگوں کی کوئی دلیل و حجّت (جواب دہی) باقی نہ رہ جائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

۷۶

 

“لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ (۰۴: ۱۶۵) تا کہ رسولوں کے بھیجے جانے کے بعد خدا پر لوگوں کی کوئی جواب دہی باقی رہ نہ جائے۔” چنانچہ رسولِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد سے قیامت تک ہر زمانے کا امام اپنے وقت میں حجّۃ الامر ہے، یعنی امامِ زمانؑ لوگوں پر خدا کے امر اور ہدایت کی حجّت ہے، اس لئے فردائے قیامت خدا پر لوگوں کی کوئی حجّت باقی نہیں۔ عصرِ باطن اس روحانی وقت کا نام ہے جو اس زمانۂ ظاہر سے بحیثیتِ روح وابستہ ہے، بالفاظِ دیگر عصر اس روحانی دور کا نام ہے، جو اس جسمانی دور کے اندر پوشیدہ ہے، اور جب یہ دور ختم ہو جائے تو وہ دور ظاہر ہونے لگے گا، جس طرح رات ختم ہونے پر دن ظاہر ہو جاتا ہے، عصر کی کچھ حقیقت سمجھانے کی مثال یہ ہے کہ غالباً آپ نے کسی وقت کسی بڑی نیکی یا کسی اچھی عبادت کے نتیجے پر کوئی نہ کوئی نورانی خواب دیکھا ہو گا، جس میں آپ نے ضرور دیکھا ہو گا کہ آپ کے عالمِ خواب کا وقت اس دنیا کے ظاہری وقت سے قطعاً مختلف تھا، ہو سکتا ہے کہ آپ نے ایسے کسی نورانی خواب میں بغیر موسم کے بہار دیکھی ہو، وہ عصر ہی ہے، اب بیداری کی ایک مثال سے عصر کی حقیقت سمجھائی جاتی ہے، فرض کیجئے کہ ایک سچا درویش یا ذاکر فقیر ہے، یا کوئی صوفیٔ حقیقت یا حقیقی مومن ہے، اور اس نے نیک کاموں کے ساتھ ساتھ عبادت اور معرفت میں یہ کمال

 

۷۷

 

حاصل کر لیا ہے کہ وہ جب بھی ظاہری آنکھیں بند کر کے باطنی آنکھوں سے دیکھنے لگتا ہے، تو ایک نورانی عالم اس کے سامنے موجود پایا جاتا ہے، اب اس نورانی عالم میں جو وقت ہو گا، وہ یہ وقت نہیں ہو گا، جو اس شخص کے جسم پر گزر رہا ہے، پس وہ وقت عصرِ باطن ہی ہے جس کی جلالت و عظمت کا یہ عالم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی قسم کھاتا ہے: وَ الْعَصْرِ  اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۲) قسم ہے عصر کی کہ انسان (بوجہِ غفلت عصر کے معاملے میں) بڑے خسارے میں ہے۔”  “اللھم لک سجودی و طاعتی۔ اے اللہ! میرے سجدے اور طاعت و فرمانبرداری تیرے ہی لئے ہیں۔”

 

فصلِ صلوٰۃ کے معنی کے بارے میں

 

صلوٰۃ کی تفسیر میں اختلافات پائے جاتے ہیں، اس سلسلے میں ہم اپنے خیالات ظاہر کرنے سے پہلے یہاں پر فرمان علی صاحب کے ترجمۂ قرآن کے حاشیے کی ایک نقل درج کرتے ہیں، وہ یہ ہے:

 

۷۸

 

“میں نے ترجمہ میں لفظِ آل بڑھا دیا ہے (یعنی شک نہیں کہ خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر اور ان کی آل پر درود بھیجتے ہیں) اس کی چند وجہیں ہیں:

 

۱۔ امام رازی نے اس کا اقرار کیا ہے کہ حضرت کے اہلِ بیت پانچ چیزوں میں آپ کے برابر ہیں، منجملہ تشہد میں ان پر درود بھیجنا۔

 

۲۔ شجرِ اسلام کی شادابی سے قبل ملائکہ نے حضرت علیؑ پر مدتوں درود بھیجا۔

 

۳۔ مناقبِ مرتضوی میں انس بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ آپ فرماتے تھے مجھ پر اور علی پر ملائکہ نے سات مرتبہ درود بھیجا۔

 

۴۔ سنن ابی داؤد میں ابن ابی شیبہ سے روایت ہے، اور اس کی تصحیح ترمذی حاکم ابو القاسم، ابنِ خزیمہ اور ابنِ مسعود بدری نے کی ہے، کہ لوگوں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا، آپ کو سلام کرنا تو ہم جانتے ہیں، مگر ہم آپ پر درود کیونکر بھیجیں؟ آپ نے فرمایا یوں کہو:

 

اللھم صل علی محمد و علیٰ آل محمد کما

 

۷۹

 

صلیت علی ابراہیم و علیٰ آل ابراہیم ۔

 

۵۔ مواہبِ لدنیہ میں ہے کہ حضرت رسول نماز میں یوں فرماتے تھے: اللھم صل علی محمد و آل محمد کما صلیت علی ابراہیم و آل ابراہیم۔

 

۶۔ صواعقِ محرقہ میں ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: لا تصلوا علیٰ صلوٰۃ بترا۔ مجھ پر ناقص درود نہ بھیجا کرو، لوگوں نے عرض کی، ناقص درود کیا ہے؟ فرمایا: اللھم صل علیٰ محمد کہا کرنہ رہ جاؤ، یہ ناقص ہے، بلکہ یوں کہو: اللھم صل علی محمد و آل محمد۔

 

۷۔ ان سب سے قطع نظر کر کے خود قرآن میں “سَلٰمٌ عَلٰۤى اِلْ یَاسِیْنَ (۳۷: ۱۳۰) موجود ہے، اور یہ واضح ہے کہ یاسین حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خطاب ہے۔ لہٰذا آلِ یاسین سے مراد آلِ محمدؐ ہے۔

 

۸۔ اس کے علاوہ آیۂ هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَ مَلٰٓىٕكَتُهٗ لِیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِؕ-وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا (۳۳: ۴۳) اور علامہ زمخشری کے

 

۸۰

 

قول کے مطابق جب عام مومنین پر درود بھیجنا چاہئے تو حضراتِ اہلِ بیتؑ ان سے زیادہ اولیٰ ہیں۔

 

۹۔ امام شافعی نے کیا خوب کہا ہے: قطعہ

یا اہل بیت رسول اللہ حبکم

فرض من اللہ فی القرآن انزلہ

کفاکم من عظیم القدر انکم

من لم یصل علیکم لا صلوٰۃ لہ

 

ترجمہ: اے اہلِ بیتِ رسولؐ! خدا نے تمہاری محبّت قرآن میں فرض کر دی ہے، تمہارے مرتبہ کی بزرگی میں اسقدر کافی ہے کہ نماز میں جو شخص تم پر درود نہ بھیجے، اس کی نماز ہی صحیح نہیں۔ دیکھو تفسیرِ درِ منثور جلد ۵ صفحہ ۲۱۶ مطبوعہ مصر وغیرہ۔”

 

یہاں تک فرمان علی صاحب کا مذکورہ حاشیہ درج ہوا۔

 

صلوٰۃ کے بارے میں میرا کہنا یہ ہے کہ بے شک مذکورہ اقوال سے آلِ رسول کی فضیلت و مرتبت کی تصدیق ہوئی، اور حضرتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام کی معیّت میں ان کے نام پر صلوٰۃ پڑھنا فرض ثابت ہوا، مگر اب یہ سمجھ لینا باقی ہے کہ ہم حضرتِ رسولؐ اور آلِ رسولؐ کے لئے کن معنوں میں صلوٰۃ پڑھیں؟ کیا یہ صحیح ہے کہ ہم صلوٰۃ کے معنی میں ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے ایک ایسی رحمت طلب کرتے ہیں جو صرف ہماری ہی طلب سے ان کو میسر آ سکتی ہے؟

 

۸۱

 

اگر یہی صحیح ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس عالمگیر ارشاد اور دور رس فرمان کا مطلب کیا ہو گا؟ “وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (۲۱: ۱۰۷) اور ہم نے آپ کو اور کسی بات کے لئے نہیں بھیجا، مگر دنیا جہان کے لوگوں پر رحمت (مہربانی) کرنے کے لئے۔” حق بات تو یہ ہے کہ جب ہم حبیبِ خدا، سرورِ انبیا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، رحمۃ للعالمین اور آنحضرتؐ کی پاک آل کے نام پر بطورِ تعظیم صلوٰۃ پڑھا کرتے ہیں، تو ان کے وسیلے سے ہم اپنے ہی لئے خدا کی رحمت طلب کرتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (۳۳: ۵۶) بےشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی محمدؐ (اور اس کی آلؑ) کے وسیلے سے رحمت بھیجا کرتے ہیں، ایمان والو! تم (بھی) انہی کے وسیلے سے رحمت طلب کر لیا کرو، اور (اس مقصد کے لئے) پوری طرح سے ان کی تابعداری کرتے رہو۔”

 

آیۂ بالا کی معنوی تحقیق اس طرح کی جا سکتی ہے کہ ہم سب سے پہلے یصلون اور صلوا دونوں الفاظ کے مصدر “صلوٰۃ” کو سامنے رکھیں، جس کے معنی نماز، دعا، اور رحمت کے ہیں، پس اسی مصدر کی اساس پر یصلون کے معنی یہ ہوں گے: وہ نماز پڑھتے ہیں، دعا کرتے ہیں، یعنی مانگتے ہیں، رحمت طلب کرتے ہیں، رحمت

 

۸۲

 

بھیجتے ہیں، لیکن اس پر سب لوگ متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ تو کسی کے لئے نماز پڑھتا ہے، نہ کسی سے دعا کرتا ہے، اور نہ کسی سے کوئی رحمت طلب کرتا ہے، بلکہ اس کے یہی معنی درست ہیں کہ وہ اپنی طرف سے فرشتوں کے ساتھ اور محمدؐ و آلؑ کے وسیلے سے مومنین پر رحمت بھیجا کرتا ہے، پس یصلون میں یہی مطلب پوشیدہ ہے، اس کے برعکس اگر ہم یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ رحمت بھیجتا ہے، اور اس کے فرشتے بھی اللہ ہی کی طرح رحمت بھیجتے ہیں، تو سوال پیدا ہو گا کہ فرشتوں کی یہ رحمت کہاں سے آئی؟ نیز یہ کہ فرشتے یہ رحمت کس کے ساتھ بھیجا کرتے ہیں؟ جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت فرشتوں کے ساتھ بھیجا کرتا ہے۔

 

جب یہ ثابت ہوا کہ یصلون کے معنوں میں سے یہاں صرف وہی معنی مراد ہیں، جو خدا کے فعل کے عین مطابق ہیں، پھر اسی دلیل پر یہاں صلوا سے بھی وہی معنی مراد ہیں، جو ایمان والوں کے عقیدے کے عین مناسب ہیں، پس یہاں صلوا کا امر رحمت طلب کرنے کے لئے ہے، رحمت بھیجنے کے لئے نہیں، کیونکہ آیۂ مذکورہ کے شروع میں یہ ذکر آ چکا ہے، کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے کسی کی درخواست یا سفارش کے بغیر ہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اس کی آلِ پاکؑ کی طرف رحمت کافیّہ بھیجتے ہیں، تا کہ ایمان والے ان کی پوری طرح سے فرمانبرداری کرتے ہوئے یہ رحمت

 

۸۳

 

طلب اور حاصل کر سکیں۔

 

اب لفظِ “علیٰ” کو لیجئے، جس کے معنی مختلف محاورات میں مختلف ہوا کرتے ہیں، یعنی بعض دفعہ یہ نہیں ہوتا کہ “علیٰ” کے معنی “پر” ہو کر مطلب اسی پر ختم ہو جائے، جس کے آگے لفظ “علیٰ” آیا ہے، بلکہ مطلب جاری رہتا ہے، چنانچہ اس ارشاد میں “علیٰ” کی ایک مثال ملاحظہ ہو:

 

“ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَهُمْ (۸۸: ۲۶) پھر ان کا حساب ہمارے ذمہ ہے۔” اس مثال میں اگرچہ “علیٰ” اسمِ ضمیر “نا” کے ساتھ آیا ہے، مگر یہ یہاں لفظِ حساب کے معنی کو “ھم” کی طرف جاری رکھتا ہے، یعنی اس آیت کا ترجمہ یوں نہیں: “پھر ان کا حساب ہم پر ہے” صلوٰۃ کے بارے میں اتنا کہنا کافی ہے۔

 

۸۴

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

حصۂ دوم

 

آیۂ اطاعت کے رموز

 

“یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا۔ اے ایمان والو!” یعنی اے امتِ محمدیہؐ کے خواص و عوام! جو نزولِ قرآن سے قیامت تک کے زمانوں میں ہو۔ “اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ (۰۴: ۵۹) اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرو، اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور اولی الامر کی فرمانبرداری کرو، جو تم میں سے ہیں۔” اس آیۂ مقدّسہ کے رموز کی توضیح یہ ہے کہ مذکورہ آیت کے اعتبار سے اطاعت تین طرح کی ہے، چنانچہ ارشادِ الٰہی کے خلاصے سے اطاعتِ خدا، اطاعتِ رسول اور اطاعتِ اولی الامر ظاہر ہیں، اطاعتِ خدا

 

۸۵

 

(اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری) کائنات کے اٹل قوانین، نظامِ فطرت کے اصولات اور انسانوں کے مشترکہ ضابطۂ حیات پر مشتمل ہے، اندران حال دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب والے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے ہیں، یا یہ کہو کہ اس اخلاقی فرمانبرداری کے لئے تو سب لوگ قائل ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو پسندیدہ امور اسلام سے پہلے بھی موجود تھے، ان پر ایمان والوں کاعمل کرنا ہی قرآنی اصطلاح میں خدا کی اطاعت ہے، پھر یہ اخلاقی فرمانبرداری ہوئی، اطاعتِ رسول ان خاص دینی امور میں ہے، جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے دینِ اسلام کے نام سے اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وساطت سے دنیا والوں کے لئے نافذ فرمایا، جن پر عمل کرنا خدا کی ایک ایسی اطاعت ہے جس کو لوگ صرف رسول ہی کی وساطت سے کر سکتے ہیں، پس اطاعتِ رسول کا دوسرا نام دینی فرمانبرداری ہوا۔ اطاعتِ اولی الامر اس نورانی اور دائمی ہدایت سے وابستہ ہے، جو ہر زمانے کے امام میں پائی جاتی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکمت کے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا: “اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (۱۳: ۰۷) اے محمد! آپ صرف ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہوا کرتا ہے۔” یعنی آپ کا کام صرف ظاہری اور وقتی طور پر ڈرانا ہے اور ہر قوم میں ایک ہادی ہوا کرتا ہے، چنانچہ آپ کی قوم میں بھی ہمیشہ

 

۸۶

 

کے لئے ہادی ہوا کرے گا، پس ہادی یعنی صاحبِ امر کی اطاعت روحانی فرمانبرداری ہوئی۔

 

اس حکمت آگین آیت سے اب یہ نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں:

 

۱۔ مذکورہ ارشاد نے دینی امور کو دو قسموں میں منقسم کر دیا، جن میں سے ایک قسم کے امور کا تعلّق انذار یعنی ڈرانے سے ہے، اور دوسری قسم کے امور کا تعلق ہدایت سے ہے۔

 

۲۔ منذر یعنی پیغمبر جو خدا کی طرف سے لوگوں کو ڈراتا ہے، ڈرانے کے ظاہری و باطنی ذرائع سے کام لے سکتا ہے، خصوصاً ظہورِ معجزات اور نزولِ بلیّات سے، اور یہ سب کچھ اعلانیہ طور پر ہو سکتا ہے، مگر ہادی یعنی امام جو خدا کی طرف سے لوگوں کی روحانی ہدایت کے لئے مقرر ہے، نہ کسی طرح سے لوگوں کو ڈراتا ہے، نہ ہی کوئی ظاہری معجزہ اپنے نام پر ظہور میں لاتا ہے، اور نہ ہی بڑے پیمانے پر اعلانیہ تبلیغ کرتا ہے۔

 

۳۔ جس طرح منذر لوگوں کو پہلے دوزخ سے ڈرایا کرتا ہے، اس طرح ہادی ان کو بعد میں بہشت سے امید دلاتا ہے۔ پس اس اعتبار سے یہ معلوم ہوا کہ سب سے پہلے اخلاقی فرمانبرداری آتی ہے، جو خدا کی عام اطاعت ہے، اس کے بعد دینی فرمانبرداری ہے، جو رسول کی وساطت سے کی جا سکتی ہے، اور یہ اس عام اطاعت کے مقابلے میں خدا کی خاص اطاعت

 

۸۷

 

ہے، اور اخیرمیں روحانی اطاعت آتی ہے، جو ہادی یعنی صاحبِ امر کی وساطت سے کی جا سکتی ہے، اور یہ خدا کی خاص ترین اطاعت ہے۔

 

یہی وجہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: اے ایمان والو! خدا کی فرمانبرداری کرو، اور رسول کی فرمانبرداری کرو، اور اولی الامر کی فرمانبرداری کرو، جو تم میں سے ہیں۔ یعنی سب سے پہلے قرآنِ پاک کی ان سادہ اور آسان باتوں پر عمل کرنا چاہئے، جو واضح ہیں، جو ہر قوم اور گروہ کے نزدیک مسلّم اور واجب العمل ہیں، اور جن کے فائدہ بخش ہونے میں لوگوں کو کوئی شک ہی نہیں، تا کہ انسان اخلاقی طور پر آگے بڑھ سکے، اور دینِ اسلام کی بنیاد اس کی فطری صلاحیتوں اور اخلاقی قابلیتوں پر مستحکم ہو سکے، اور وہ اخلاقی قوانین کی مدد سے دینی قوانین کی حکمت کو اچھی طرح سے سمجھ سکے، اس طرح کی اخلاقی درستی کے بعد قرآنِ پاک کے ان ارشادات پر عمل کیا جائے، جن کا خاص تعلق دینِ اسلام اور حضرتِ رسول سے ہے، جن کی تشریح آنحضرتؐ نے اپنی سنتِ مطہرہ اور خاص حدیثوں سے کی ہے، اس کے بعد انسان کو چاہئے کہ قرآن کے ان فرمودات پر عمل کرے، جن کا خاص تعلق روحِ اسلام اور ہادی سے ہے، اور جن کی تشریح یعنی تاویل ہادیٔ زمانؑ کی روحانی و جسمانی ہدایت میں پائی جاتی

 

۸۸

 

ہے، مگر قرآن پاک کے ایسے فرمودات پر عمل اس وقت ہو سکتا ہے، جبکہ ہادی یعنی امامِ زمانؑ کی شناخت حاصل ہو، اور اس کی حقیقی فرمانبرداری کی جائے، چنانچہ اخلاقی فرمانبرداری خدا کی ہستی کے اقرار سے شروع ہو جاتی ہے، اور حضرت محمدؐ کی رسالت کا اقرار کرنا دینی فرمانبرداری کی ابتدا ہے، اسی طرح ہادیٔ زمانؑ کی شناخت اور اس کی ہدایت کے اقرار سے روحانی فرمانبرداری کا آغاز ہوتا ہے۔

 

امامِ زمانؑ کی روحانی فرمانبرداری کے سلسلے میں حقیقی مومن کو حضرت محمدؐ کے اس نور کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے، جس کی مثال آنحضرتؐ نے علم کے شہر اور حکمت کے گھر کے دروازے سے دی ہے، اسی طرح امامِ زمانؑ کی روحانی فرمانبرداری میں حقیقی مومن بحقیقت رسول کی فرمانبرداری کرتا رہتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کو علم و حکمت اور خدا کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے، کیونکہ امامِ زمانؑ ہی علیؑ کا نور اور حضرت محمدؐ کے علم و حکمت کا دروازہ ہے، پس معلوم ہوا کہ امامؑ ہی کی ہدایت سے خدا اور رسول کی حقیقی فرمانبرداری ہو سکتی ہے، یہی سبب تھا کہ آیۂ اطاعت میں خدا کی عام اور ظاہری فرمانبرداری یعنی اخلاقی فرمانبرداری سب سے پہلے لازم کر دی گئی، اس کے

 

۸۹

 

بعد رسولؐ کی دینی فرمانبرداری واجب ہوئی، اور اخیر میں أئمّۂ برحق کی روحانی فرمانبرداری فرض ہوئی، اور یہ تین قسم کی اطاعتیں ظاہری اور عام قسم کی تھیں، مگر باطنی اور خاص قسم کی اطاعت امامِ زمانؑ کی روحانی فرمانبرداری سے شروع ہو جاتی ہے، جو روحانی اور نورانی ہدایت کی صورت میں ہے، جس کی روشنی میں رسولِ برحقؐ کی وہ اطاعت کی جا سکتی ہے، جس کا تعلق علم و حکمت سے ہے، اور اخیر میں خدا کی اطاعت کی جا سکتی ہے، جس کا تعلق علمِ وحدت اور خدا شناسی سے ہے۔

 

“وَكُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے تمام چیزیں امامِ ظاہرؑ کی ذات (نور) میں محدود کر دی ہیں۔” یعنی امامِ برحقؑ کے نورمیں کائنات و موجودات کی ہر چیز علمی صورت اور روحی وجود میں موجود ہے، نیز یہ کہ اس نور میں جو خدا اور اس کے رسول کا نور ہے، آسمان و زمین سموئی ہوئی ہے، چنانچہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے: “وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ (۰۲: ۲۵۵) اس کی کرسی سب آسمانوں اور زمینوں کو گھیرے ہوئے ہے۔”کرسی سے مراد نورِ ہدایت ہے، جس کے بارے میں ارشاد ہے: “اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (۲۴: ۳۵) اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے۔” جب ہر چیز کے ظاہر و باطن میں خدا کا نور ہے تو انسانی عالم میں بھی خدا کا نور ہے، اور یہی نور

 

۹۰

 

امامِ مبین ہے، اور فرمایا: “وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ كِتٰبًا (۷۸: ۲۹) اور ہم نے ہر چیز کو ایک کتاب میں گھیر رکھا ہے۔” کتاب سے بھی وہی امامِ مبین مراد ہے، جس کے نورِ ہدایت میں سب کچھ موجود ہے، اور فرمایا: “رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّ عِلْمًا (۴۰: ۰۷) پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔” اور اس رحمت و علم سے امامِ مبین کی روح اور اس کی عقل مراد ہے، جو نفسِ کلّ اور عقلِ کلّ کے نام سے ہے۔

 

اب ذرا عقل اور منطق کے اصول سے سوچئے اور انصاف سے بتائیے کہ کسی ایک بڑی سے بڑی چیز میں سب چیزیں آ جانی چاہئیں یا ہر چیز میں سب چیزیں آ جانی چاہئیں؟ اگر حقیقت یہی ہے کہ ہر چیز اپنے اندر تمام چیزوں کو سمو نہیں سکتی ہے، بلکہ ایک ہی چیز اپنے اندر تمام چیزوں کو سمو سکتی ہے، اور ایسی چیز سب سے بڑی اور سب سے زیادہ وسیع ہونی چاہئے، تو سمجھ لیجئے کہ روحانی موجودات کی بھی یہی مثال ہے، اور ان میں ایک انتہائی عظیم چیز ہے، یعنی ایک نہایت وسیع حقیقت ہے، جس میں دوسری تمام حقیقتیں سموئی ہوئی ہیں، چونکہ یہ اعلیٰ ترین حقیقت اپنے اندر بہت سے حقائق اور بہت سی مثالیں پوشیدہ رکھتی ہے، اس لئے کلام کے موضوع میں جس قسم کی مثال اور جیسا اشارہ مقصود ہو، اسی قسم کے الفاظ یا کلمے میں اس حقیقتِ کلّ کا ذکر آتا ہے، تا کہ عقل و دانش والے اس حقیقتِ واحدہ کے تحت

 

۹۱

 

دوسرے تمام ضروری حقائق بھی سمجھ سکیں، اور دوسرے بہت سے لوگ صرف ان مثالوں کے ماحول ہی سے خوش ہوتے رہیں۔

 

بعض لوگ امامِ مبین کے معنی لوحِ محفوظ بتاتے ہیں، لیکن ان کا یہ ترجمہ صحیح نہیں، کیونکہ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ لفظِ امام کے معنی لوح اور مبین کے معنی محفوظ کے ہیں، اس لئے امامِ مبین کا ترجمہ لوحِ محفوظ ہوا تو یہ کسی بھی لغوی اصول سے درست ہو نہیں سکتا، جس کی نمایان وجہ لفظی تضاد ہے، وہ یہ کہ محفوظ کے معنی نگاہ داشت اور پوشیدہ داشتہ (پوشیدہ رکھا ہوا) کے ہیں، چنانچہ کہتے ہیں حفظ السرّ = بھید چھپایا، مگر اس کے برعکس مبین کے معنی ظاہر و آشکار اور بیان کرنے والے کے ہیں، پس یہی بات حقیقت ہے کہ امامِ مبین کے معنی امامِ ظاہر کے ہیں، نیز امامِ مبین کے معنی امامِ گوئندہ یعنی امامِ ناطق کے ہیں، جس کا ذکر اس ضمن میں آئے گا۔

 

لفظِ امام نزولِ قرآن سے پیشتر حضرتِ آدمؑ کے زمانے میں اور نمایان طور پر حضرتِ ابراہیمؑ کے دور میں، پھر بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل کی قوم میں ایک خاص دینی اصطلاح کی حیثیت سے استعمال ہوتا رہا ہے، کہنا یہ ہے کہ لفظِ امام ہمیشہ سے لغوی طور پر دنیاوی سردار کے لئے اور اصطلاحی صورت میں اس دینی سردار اور پیشوا کے لئے مخصوص رہا ہے، جس کا منصب بظاہر ہر بڑے پیغمبر سے دوسرے درجے پر ہے، اور وہ ہر ایسے پیغمبر کے ساتھ معجزانہ

 

۹۲

 

قسم کا وزیر رہا ہے، پھر اس کے بعد ہمیشہ کے لئے اس کا وارث، وصی اور جانشین مقرر ہوتے آیا ہے، چنانچہ یہاں اس اعلیٰ ترین مطلب کی تفہیم کے لئے قرآنِ حکیم کی ایک پرحکمت آیت پیشِ نظر رکھی جاتی ہے، وہ یہ ہے: “وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّؕ-قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ-قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْؕ-قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ (۰۲: ۱۲۴) اور جس وقت حضرت ابراہیمؑ کو اس کے پروردگار نے کلماتِ (تامّہ اور اسمِ اعظم وغیرہ) میں آزمایا، اور اس نے ان کو (نورانی ذکر کے طور پر) پورا کر دیا، (تو اس وقت) پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میں تم کو (تمام) لوگوں کے لئے امام مقرر کروں گا، ابراہیم نے عرض کی کہ میری ذرّیّت میں سے بھی (یہ سلسلہ جاری رکھئے) ارشاد ہوا کہ (فکر نہ کرو) میرا یہ عہدہ (جس کے اندر عدل کی خاصیت ہے) ظالموں کو ملنے والا نہیں یعنی تیری ذرّیّت ہی میں عہدۂ امامت تا قیامت جاری رہے گا، اور دوسروں کو نہ ملے گا۔”

 

معلوم ہونا چاہئے کہ مذکورہ کلماتِ تامّہ سے مراد اسمِ اعظم اور اس کے طفیلی اسماء ہیں، جس میں نورِ نبوّت و امامت موجود ہوتا ہے، اور اس کی غرض لوگوں کی ہدایت ہے، اور یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ مسجودِ ملائکہ ہونے سے قبل حضرتِ آدمؑ کو اسماء کی تعلیم دی گئی تھی، اور جب وہ بہشت سے واپس روئے زمین پر آیا تو

 

۹۳

 

اس کو کلماتِ تامّہ کی تعلیم دی گئی، اور یہ دونوں باتیں فی الاصل ایک ہی حقیقت ہے۔ حضرت آدم علیہ السّلام کے ان کلمات سے نورِ نبوّت و امامت طلوع ہونے لگا، پس حضرتِ ابراہیمؑ کے سب سے بڑے امتحان میں انہی کلمات و اسماء اور ان کے نتائج (نبوّت و امامت) کا ذکر ہو رہا ہے۔

 

اس پرحکمت آیت کے نتائج میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امامت کا عظیم درجہ معمولی وحی و الہام اور عام روحانی گفت و شنید کے بعد شروع ہو جاتا ہے، اور اس کا یہ درجہ درجۂ ناطق سے قریب تر ہے، چنانچہ ظاہر ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ بلاواسطہ یا بالواسطہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے کلام کر رہا ہے، حضرت ابراہیمؑ یہ پاک کلام سن رہے ہیں، اور اپنی عرض پیش کر رہے ہیں، اور یہ سب کچھ امامت کی تیاری کے سلسلے میں ہے، یعنی حضرتِ ابراہیمؑ ان تمام روحانی واقعات کے بعد امام مقرر ہونے والا ہے، تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ روحانی کلام مرتبۂ امامت سے بہت پہلے شروع ہو جاتا ہے، اور وہ اپنے خاص مرتبے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خزائنِ توفیق و ہدایت کا مالک ہوتا ہے، اور اس

 

۹۴

 

بیان میں امامت کے متعلق پیدا ہونے والے تمام سوالات کا تسلی بخش جواب موجود ہے، بشرطیکہ کوئی خوش نصیب عقل و دانش سے کام لے اور اس کو توفیق و ہدایت ملی ہو۔

 

اب لفظِ مبین کے بارے میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس قول پر غور کیجئے: “علی باب علمی و مبین لامتی ما ارسلت بہ من بعدی ۔ علی میرے علم کا دروازہ ہے، اور میرے بعد میری امت کے واسطے اس چیز کو بیان کرنے والا ہے، جس کے ساتھ مجھ کو بھیجا گیا ہے۔” یعنی علیؑ علمِ حقیقت اور تاویلِ قرآن کا مالک ہے، اس حدیث سے نہ صرف یہ معلوم ہوا کہ مبین کے معنی ظاہر اور بیان کرنے والے کے ہیں، بلکہ یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ حدیث مذکورہ آیت و کل شیء احصینٰہ فی امام مبین کی تشریح کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ یہاں صاف طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا علم و حکمت جو قرآن و حدیث کے نام سے ہیں، حضرت علیؑ کی ذاتِ با برکات میں داخل ہیں۔ اس لئے بابِ علمِ نبی کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت محمدؐ اور اس کے تمام علوم اور حکمتیں حضرت علیؑ میں اس طرح محدود اور مجموع ہیں، جس طرح ایک آبادان اور منظم شہر اپنی مضبوط فصیل (چہار دیواری) اور مستحکم دروازے کے اندر محدود اور گھرا ہوا ہوتا ہے، پس معلوم ہوا کہ حضرت محمدؐ کا نور، قرآنِ پاک کی روح اور حدیث کی حقیقت

 

۹۵

 

علیؑ یعنی امامِ مبین کے نور میں داخل ہے، پھر محمدؐ کے نور، قرآن کی روح، اور حدیث کی حقیقت سے باہر کون سی چیز پائی جا سکتی ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ خدا کی خداوندی کے آخری عظیم اسرار بھی ان ہی حقائق میں پوشیدہ ہیں، اور یہیں سے وہ اسرار کسی عارف پر منکشف ہو سکتے ہیں، پس اس کتاب میں امامِ مبین کی یہی تشریح کافی ہے۔

 

“اللھم یا مولانا انت السلام۔ اے اللہ اے ہمارے مولا! تو خود بذات و صفات، خود ابدی حیات اور لازوال سلامتی ہے، ومنک السلام۔ اور وہ لازوال سلامتی (کسی غیر کی طرف سے نہیں بلکہ) تجھ ہی سے ہے۔ و الیک یرجع السلام۔ اور تیری ہی طرف سلامتی لوٹتی ہے۔ حینا ربنا بالسلام۔ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں حقیقی سلامتی کی حیات عطا فرما۔ و ادخلنا دارالسلام۔ اور ہمیں مرکزی بہشت کے گھر (نورِ مشخص) میں داخل فرما۔ تبارکت ربنا و تعالیت یا ذالجلال و الاکرام۔ اے صاحبِ جلالت و کرامت! تو بڑا بابرکت اور برتر ہے۔”

 

سلام کے لغوی معنی جسم و جان دونوں کی صحت، درستی اور سالمیّت کے ہیں، اور اس کے اصطلاحی معنی تائید کے ہیں، یعنی وہ روحانی اور نورانی مدد جو معجزانہ قسم کے علم و حکمت کی صورت میں انبیاء و أئمّہ اور چوٹی کے مومنوں کو ملا کرتی ہے، جس میں ان

 

۹۶

 

سے روحانین مخاطبہ کرتے ہیں، اور بصری و سمعی رموز و اشارات کے ذریعہ ان کو علم و حکمت اور ضروری ہدایت دی جاتی ہے، ان تمام حقائق و صفات کا جامع “السلام” ہے، جو اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ میں سے ایک اسم ہے، اس مقام پر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر نام دوسرے نام سے جدا اس وقت ہو سکتا ہے، جبکہ اس میں جداگانہ معنی اور خصوصیات موجود ہوں، چنانچہ خدا کے ناموں میں سے ایک نام “الظاہر” ہے، جس کے معنی آشکار کے ہیں، پھر اگر اس نام میں ظہورِ نور، ظہورِ قدرت، ظہورِ علم، ظہورِ معجزہ اور ظہورِ کلام میں سے کوئی ایک واقعہ بھی نہ ہوتا، تو اللہ تعالیٰ اس نام کو اس قسم کے معنوں کے ساتھ کیوں اپناتا۔ پس معلوم ہوا کہ خدائے تعالیٰ کا ہر نام دوسرے نام سے اس لئے جدا ہوتا ہے کہ اس میں جداگانہ معنی اور علیٰحدہ خصوصیات ہوتی ہیں، بنابرین مذکورہ دعا میں اسم “السلام” کی خصوصیات اور ذکر و دعا میں اس کی اہمیّت و ضرورت کے متعلق بیان ہے، مختصر یہ کہ اس اسم کا تعلق امامِ زمانؑ کے نوری (فلکی) جسم سے ہے، جس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے موکّل، مظاہر اور خزانہ دار ہوا کرتے ہیں، اس بارے میں حقیقی مومنوں کے لئے یہی بیان کافی ہے۔

 

“اللھم یا مولانا منک مددی۔ اے اللہ! اے ہمارے

 

۹۷

 

مولا! تجھ ہی سے میری (روحانی) امداد ہوتی رہتی ہے۔ و علیک معتمدی۔ اور تو ہی میرا بھروسہ اور سہارا ہے۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین۔ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے امداد طلب کرتے ہیں۔ یا علی بلطفک ادرکنی۔ یا علی (جو خدا ہی کا ہے، جس کے فعل کی خاص نسبت خدا ہی سے ہے) اپنے لطف و عنایت سے میری امداد کے لئے پہنچئے۔ لا الہ الا اللہ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ محمد رسول اللہ۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے رسول ہیں، علی امیر المومنین علی اللہ۔ اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السّلام خدا ہی کے مقرر کردہ ہیں۔ مولانا شاہ کریم الحسینی الامام الحاضر الموجود۔ اور ہمارے مولانا شاہ کریم الحسینی امام حاضر الموجود ہیں۔”

 

“اللّٰھم لک سجودی و طاعتی۔ اے اللہ! میرے سجدے اور عبادت تیرے ہی لئے ہیں۔”

 

۹۸

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

حصۂ سوم

 

قرآنی تبلیغ کا آخری مقصد

 

“یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ-وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗؕ-وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِؕ (۰۵: ۶۷) اے رسول! جو امر تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے، تم اسے پہنچا دو، اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو (سمجھ لو کہ سرے سے) تم نے اس کا کوئی پیغام ہی نہیں پہنچایا، اور (تم ڈرو نہیں) خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ ”

 

۹۹

 

جب پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجۃ الوداع سے فارغ ہو کر مدینہ منوّرہ کی طرف مراجعت فرما ہوئے تھے، تو اثنائے راہ میں مقامِ حجفہ پر جو غدیرِ خم سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر واقع ہے، جبرئیلِ امین مذکورۂ بالا آیت لے کر نازل ہوا، چنانچہ شیعوں کے علاوہ بعض حقیقت پسند سنی علماء کی کتابوں میں بھی یہ روایت مشہور ہے، ہم اس بارے میں فرمان علی صاحب کے ایک حوالے کو یہاں درج کرتے ہیں، وہ اپنے ترجمۂ قرآن صفحہ ۱۸۸ کے حاشیے پر یوں لکھتے ہیں: “ابنِ ابی حاتم نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ یہ آیت غدیرِ خم میں حضرت علیؑ کے بارے میں نازل ہوئی، اسی وجہ سے ابنِ مردویہ نے ابنِ مسعود سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ کے زمانے میں اس آیت کو یوں پڑھتے تھے:

 

یا یھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک ان علیا مولی المومنین و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ و اللہ یعصمک من الناس۔ اے رسول! جو حکم اس بات کا کہ “علی تمام مومنین کے حاکم ہیں” تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے پہنچا دو، اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو سمجھ لو کہ تم نے اس کا کوئی پیغام ہی نہیں پہنچایا۔ اور (تم ڈرو نہیں) خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ دیکھو تفسیر

 

۱۰۰

 

درِ منثور، جلال الدین سیوطی جلد ۳، صفحہ ۳۹۸ سطر ۸، غیر مطبوعہ۔ سچ تو یوں ہے کہ جناب رسالتمآب ایک عرصہ سے چاہتے تھے کہ علی بن ابی طالبؑ کو اپنا خلیفہ نامزد کر دیں، مگر کچھ اپنے ساتھیوں کی مخالفت کے خوف سے اس پر اقدام نہ کرتے تھے، آخر خدا نے آخری حج کے بعد راستے میں تاکیدی حکم نازل کیا، تب تو حضرتؐ مجبور ہو گئے اور ایک مقام پر جس کا نام غدیرِ خم تھا، ایک لاکھ آدمیوں کے سامنے اپنا خلیفہ نامزد کیا، اور پھر لوگوں نے حضرت علیؑ کو ان کی خلافت و ولایت کی مبارک باد دی، شعراء نے قصیدے نذر کئے، چنانچہ حسان کا یہ شعر مشہور ہے:

 

فقال لہ قم یا علی فاننی

رضیک من بعدی اماما و ہادیا

 

ترجمہ: پس رسول نے فرمایا اے علی! کھڑے ہو جائیے کہ یقیناً میں نے آپ کو اپنے بعد امام اور ہادی مقرر کر دیا۔”

 

“لا الہ الا اللہ الحی القیوم۔ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے جو ہمیشہ بذاتِ خود زندہ اور قائم ہے۔ لا الٰہ الا اللہ الملک الحق المبین۔ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے جو ظاہر کا حقیقی بادشاہ ہے۔ لا الٰہ الا اللہ الملک حق الیقین۔ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے جو یقین کا حقیقی بادشاہ ہے۔ لا الٰہ الا اللہ مالک یوم الدین۔ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے جو روزِ جزا کا مالک (صاحبِ اختیار) ہے۔”

 

۱۰۱

 

“لا فتیٰ الا علی لا سیف الا ذوالفقار۔ کوئی بہادر نہیں سوائے علی کے، اور کوئی جوہردار تلوار نہیں سوائے ذوالفقار کے۔ توسلوا عند المصائب بمولاکم الحاضر الموجود شاہ کریم الحسینی۔ تم مصیبتوں کے وقت اپنے حاضر اور موجود مولا شاہ کریم الحسینی کا وسیلہ اور تقرب حاصل کرو۔”

 

“اللھم لک سجودی و طاعتی۔ اے اللہ! میرے سجدے اور عبادت تیرے ہی لئے ہیں۔”

 

کلمۂ لا الہ الا اللہ، قرآنِ حکیم کے کلماتِ تامّہ میں سے ہے، کلماتِ تامّہ سے مراد وہ مختصر اقوال (باتیں) ہیں، جن میں حقائقِ کائنات و موجودات کے متعلق بہت سے معانی سمو دیئے گئے ہوں، مثال کے طور پر کلمۂ کن بھی انہی کلمات میں سے ہے، جس کا ترجمہ بظاہر یہی ایک لفظ “ہو جا” ہے، مگر اس کے اندر بےپایان حقائق پوشیدہ ہیں، چنانچہ حضرت حکیم پیر ناصر خسرو (قدّس اللہ سرّہ العظیم) نے کتابِ “وجہِ دین” کلام ۱۱ میں کلمۂ لا الہ الا اللہ کی تاویل بیان کر دی ہے، جو ۲۹ صفحات پر مشتمل ہے۔

 

۱۰۲

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

حصۂ چہارم

 

حقیقی بیعت کے لئے پیغمبر یا امام کی موجودگی لازمی ہے

 

“اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَؕ-یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْۚ-فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا یَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَیْهُ اللّٰهَ فَسَیُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا (۴۸: ۱۰) ۔ (اے رسول!) جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں، تو وہ (واقع میں) اللہ تعالیٰ سے بیعت کر رہے ہیں، خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے، پھر (بیعت کے بعد) جو شخص عہد توڑے گا، تو اس کے عہد توڑنے کا وبال اسی پر پڑے گا، اور جو شخص اس بات کو پورا کرے گا، جس پر (بیعت میں) خدا سے عہد کیا ہے، سو عنقریب خدا اس کو

 

۱۰۳

 

بڑا اجر دے گا۔”

 

لفظ “بیعت” بیع (خرید و فروخت) سے بنا ہے، جس کے اصطلاحی معنی ہیں، حضرتِ رسولؐ یا اس کے قائم مقام کے ذریعہ خدا سے مومنوں کا عہد و پیمان کر لینا، کہ وہ خدا کی خوشنودی اور نجات حاصل کرنے کی خاطر ہر قسم کی جانی و مالی قربانی دینے کے لئے راضی اور تیار ہوئے، نیز خدا، رسول، اور صاحب الامر کی حقیقی فرمانبرداری کرنے کے لئے بری خواہشات سے دستبردار ہوئے، کیونکہ قرآنِ پاک میں تین جگہوں پر بیعت کا ذکر آیا ہے، جس کا مجموعی مطلب یہی ہے، جو یہاں مذکور ہوا، وہ جگہیں الفتح کی دسویں اور اٹھارہویں آیت، نیز الممتحنہ کی بارہویں آیت ہیں۔

 

یہاں اس حقیقت کا ذکر کر دینا لازمی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مصلحت بینی اور اختیار کے اعتبار سے قرآنِ پاک کے فرامین دو طرح سے واقع ہوئے ہیں، جن میں سے ایک طرح کے فرامین وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی ارادے سے یا رسولِ مقبولؐ کی خواہش سے صادر فرمایا، بعد ازان ان پر عمل ہونے لگا، دوسری طرح کے فرامین وہ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا پوشیدہ اشارہ تھا، یا رسول اللہ نے جن کو مصلحتِ وقت کے مطابق اپنے اختیار سے عمل میں لایا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نزولِ وحی سے ایسے اعمال کی

 

۱۰۴

 

تصدیق و توثیق فرمائی، چنانچہ بیعتِ رضوان کے واقعہ سے ظاہر ہے کہ ۶ھ میں صلحِ حدیبیہ کے موقع پر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیک وقت چودہ سو اصحاب سے بیعت لی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفتح کی دو آیتوں میں اس پرحکمت عمل کی توثیق فرمائی۔

 

پس حقیقی بیعت اور اس کی شرائط پر عمل کرنا اسلام اور ایمان کا ایک آخری امتحان ہے، جس کے لئے رسولِ خداؐ یا امامِ زمانؑ کی موجودگی لازمی ہے، کیونکہ مومنوں سے حقیقی بیعت لینے کے لئے دنیا میں ایک ایسی شخصیّت کا حاضر اور موجود رہنا ضروری ہے، جس کی ذاتِ شریف کی نسبت سے یہ بیعت خدا کی بیعت کہلا سکے، اور اس کا مبارک ہاتھ جس پر مومنوں نے بیعت کی خدا کا ہاتھ قرار دیا جا سکے، تا کہ مومنوں کو اپنے کئے ہوئے عہد و پیمان بار بار یاد آ جائیں کہ انہوں نے گویا خدائے تعالیٰ ہی سے بیعت کی ہے، اور اس کے روبرو ہو کر اس کی حقیقی فرمانبرداری کا عہد و پیمان کر لیا ہے۔

 

’’اللھم اغفرلنا ذنوبنا۔ اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے گناہوں کو بخش دے۔ وارۡزقنا وارۡحمنا۔ اور ہمیں روحانی و جسمانی رزق عطا فرما، اور ہم پر رحم فرما۔ بحق رسلک المقربین و ائمتک المطھرین ۔ اپنے

 

۱۰۵

 

مقرّب پیغمبروں اور اپنے پاک اماموں کی حرمت سے۔ و بحق مولانا و امامنا شاہ کریم الحسینی۔ اور ہمارے مولا و امام شاہ کریم الحسینی کی حرمت سے۔”

 

“اللھم لک سجودی و طاعتی۔ اے اللہ میرے سجدے اور عبادت تیرے ہی لئے ہیں۔”

 

۱۰۶

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

حصۂ پنجم

 

قرآن اور امامت، خدا اور رسول کی امانات ہیں

 

’’یایھا الذین اٰمنوا لا تخونوا اللہ و الرسول و تخونوا اماناتکم و انتم تعلمون (۰۸: ۲۸) اے ایمان والو! نہ تو خدا اور رسول کی (امانت میں) خیانت کرو، اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو، حالانکہ تم سمجھتے بوجھتے ہو۔”

 

اس ارشاد کا خلاصہ یہ ہے کہ حقیقتِ قرآن اور رتبۂ آلِ محمدؐ

 

۱۰۷

 

(امامت) خدا اور رسول کی امانتیں ہیں، پس ایمان والوں کوچاہئے کہ وہ ان امانتوں میں خیانت نہ کریں، یعنی وہ ان مقدّس امانتوں کے مالک ہونے کا دعویٰ نہ کریں، بلکہ ان کو خدا و رسول کی ملکیّت سمجھیں، چنانچہ قرآن کے متعلق یہ عقیدہ رکھیں کہ قرآن کی حقیقت اللہ تعالیٰ جانتا ہے، اور اس کا رسول جانتا ہے، اور وہ شخص جانتا ہے جس کو خدا اور رسول نے مقرر کر دیا ہے، اور رتبۂ امامت کے بارے  میں یہ عقیدہ رکھیں کہ امامت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہے، اور اس کے ‎بعد یہ امانت اس کی آلِ پاکؑ کی ہے، اور امت کو اس میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں، اس عقیدہ اور تصوّر کی مثال ایسی ہے جیسی کہ خدا اور رسولؐ کی امانتیں ادا کر دی گئیں، اور خدا و رسولؐ کی منشا کے مطابق ان سے فائدہ اٹھایا گیا، اور آیت کے آخری حصّے کا اشارہ حسبِ ذیل ہے:

 

یہ جو فرماتا ہے کہ “اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو۔” اس سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ اگر تم خدا و رسول کی امانتوں میں خیانت کرو گے، تو تم میں سے ہر ایک شخص دانستہ طور پر اپنی ہی امانت میں خود خیانت کرنے لگے گا، وہ اس طرح کہ جب کسی شخص نے قرآنِ پاک کے علم و حکمت کوسمجھنے کا دعویٰ کیا، بغیر اس کے کہ اس نے آلِ رسولؐ یعنی امامِ زمانؑ سے علم حاصل کیا ہو، تو اس نے خدا و رسول کی امانتوں میں خیانت کی، اور اس خیانت کے نتیجے میں وہ اپنی اس امانت میں بھی

 

۱۰۸

 

خیانت کر رہا ہے، جو امامِ زمانؑ کے پاس ہے، جس کی حجّت اس شخص پر رہے گی جس نے اپنی امانت میں خود خیانت کی ہے، حالانکہ وہ یہ جانتا تھا کہ ایسے غلط راستے پر چلنے سے وہ شخص علمِ الٰہی کے خزانہ دار کو نہ دیکھ پا سکے گا، اور علم و حکمت کے شہرستان میں داخل نہ ہو سکے گا، چنانچہ مولاناعلی علیہ السّلام نے فرمایا ہے: “انا ترجمان وحی اللہ ۔ میں ہوں وحیٔ خدا کی تفسیر و بیان کرنے والا۔” نیز فرمایا: “انا خازن علم اللہ۔” میں ہوں علمِ الٰہی کا خزانچی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے: “انا مدینۃ العلم و علی بابھا فمن اراد العلم فلیات الباب۔ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے، پس جو شخص علم کو چاہتا ہے، تو اس کو لازم ہے کہ شہر کے دروازے سے داخل ہو جائے۔” اور اللہ تعالیٰ نے اسی بارے میں فرمایا ہے:

 

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاۚ (۳۵: ۳۲) پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے خاص اُن لوگوں (یعنی أئمّہؑ) کو قرآن کا وارث بنایا جنہیں (قدرتی قابلیت کی بنا پر) ہم نے منتخب کیا ہے، کیونکہ (عام) بندوں میں سے کچھ تو (نافرمانی کر کے) اپنی جان پر ستم ڈھاتے ہیں، اور کچھ ان میں سے نیکی و بدی کے درمیان ہیں، اور ان میں سے کچھ لوگ خدا کے اختیار سے نیکیوں میں (دوسروں سے) گویا سبقت لے گئے ہیں، یہی (انتخاب و سبقت) تو

 

۱۰۹

 

خدا کا بڑا فضل ہے۔”

 

“ربنا اغفرلنا ذنوبنا و سھل امورنا و ارزقنا و ارحمنا انک علیٰ کل شیء قدیر۔ اے ہمارے پروردگار! تو ہمارے لئے ہمارے گناہوں کو بخش دے، ہمارے کاموں کو آسان کر دے، ہمیں روحانی و جسمانی رزق عطا فرما، اور ہم پر رحم فرما، یقیناً تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔”

 

“یا علی یا محمد۔۔۔ یا محمد یا علی۔۔۔”

“یا امام الزمان یا مولانا انت قوّتی و انت سندی و علیک التکالی یاحاضر یا موجود یا شاہ کریم الحسینی انت الامام الحق المبین ۔ اے امامِ زمانؑ! اے ہمارے مولا! آپ ہی میری قوّت اور آپ ہی میرا سہارا ہیں، اور آپ ہی میرا توکّل (اعتماد و بھروسہ) ہے، اے حاضر! اے موجود! یا شاہ کریم الحسینی آپ ہی برحق اور ظاہر امام ہیں۔”

 

“اللھم لک سجودی و طاعتی۔ اے اللہ! میرے سجدے اور عبادت تیرے ہی لئے ہیں”

 

۱۱۰

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

حصۂ ششم

 

سورۂ اخلاص کے معارف

 

’’قل ھو اللہ احد۔ (اے محمد) کہہ دیجئے کہ وہ اللہ (وحدۃ الوجود) ایک ہے۔ اللہ الصمد۔ اللہ بےنیاز ہے‘‘۔ یعنی وحدت الوجود اپنی صفات کے صوری و معنوی ظہورات میں سب کچھ ہے۔ ’’لم یلد۔ اس کی کوئی اولاد نہیں‘‘۔ اس لئے کہ وحدتِ وجود خود ہی ایک ابدی اور ہمہ رس حقیقت ہے، پس اسے اولاد کی ضرورت ہی نہیں، کیونکہ اولاد کی ضرورت ایک ایسے موجود کو ہو سکتی ہے، جو فانی ہو، اور ہمہ رس نہ ہو، مطلب یہ ہے کہ وحدتِ وجود سے کوئی اور اس طرح کی وحدت

 

۱۱۱

 

پیدا نہیں ہوئی۔ ’’و لم یولد ۔ اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے‘‘۔ کیونکہ فی الحقیقت یہ وحدت خود ہی ازلی ہے، یعنی ہمیشہ سے ہے، اور ہمیشہ رہے گی، پھر کس طرح یہ وحدت کسی کی پیدا کردہ مانی جا سکتی ہے۔ ’’و لم یکن لہ کفوا احد (۱۱۲: ۰۱ تا ۰۴) اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے۔” کیونکہ یہ وحدت اپنی ضروری صفات، گوناگون ظہورات اور رنگ برنگ تجلیات کے ساتھ اپنے اندر جیسا کہ چاہئے انتہائی تمامیّت و کمالیّت رکھتی ہے۔

 

اس مطلب کو واضح کرنے کے لئے ایک مثال ریاضی سے پیش کی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر ہم تمام اعداد کو عددِ “واحد” کے مظاہر مانیں تو پھر یہ بھی کہنا درست ہو گا کہ اعداد و شمار کے عالم میں فی الاصل عددِ “واحد” ہی سب کچھ ہے، اس لئے کہ اعداد میں سے کوئی عدد ایسا نہیں، جس کے وجود کا قیام صرف چند اکائیوں پر ہی منحصر ہو، پس معلوم ہوا کہ شمار و حساب کی ترجمانی کرنے کے لئے عددِ “واحد” درحقیقت کسی دوسرے عدد کا محتاج ہی نہیں، نہ “عددِ واحد” سے بحقیقت کوئی دوسرا عدد پیدا ہوا، نہ عددِ واحد کسی دوسرے عدد سے پیدا ہوا، اور نہ کوئی دوسرا عدد اس کے برابر کا ہے، چونکہ تمام اعداد دراصل خود واحد ہی کی مختلف صورتیں ہیں، اور تمام قرآن میں اسی حقیقتِ واحدہ کی مختلف مثالیں بیان کی گئی ہیں، چنانچہ ارشاد ہے:

 

۱۱۲

 

“فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِؕ (۰۲: ۱۱۵) پس تم جس طرف بھی متوّجہ ہو جاؤ، وہاں ہی خدا کی ذات موجود ہے۔” اس ہمہ گیر حقیقت کا اطلاق نہ صرف اطراف و جوانب ہی پر ہوتا ہے، بلکہ اس سے یہ بھی مراد ہے کہ ہر چیز کی ذات میں وحدت کی کوئی نہ کوئی جلوہ نمائی موجود ہے، کیونکہ اس پُرحکمت تعلیم کا اشارہ ذاتِ وحدت کی لامحدودیّت کی طرف ہے، اور لفظ “این” لا انتہا زمانہ، وسیع کائنات اور لاتعداد موجودات کی ذات کی نشاندہی کرتا ہے، نیز متوّجہ کا تعلق بھی زمان و مکان اور متمکن ہی سے ہے، پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر چیز کی ذات میں وحدت کی ایک خاص جلوہ نمائی موجود ہے، بالفاظِ دیگر ذاتِ ذوات کا نام وحدت الوجود اور اللہ ہے۔

 

اس حقیقت کی مزید وضاحت اس آیت سے ہو سکتی ہے: “كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗؕ (۲۸: ۸۸) اس کی ذات کے سوا ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے۔” اب اس آیۂ مقدّسہ میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ حرفِ استثنا (الا) کسی جملے میں اس وقت آتا ہے، جبکہ بیان میں ایک جنس کی چند اشیا میں سے کسی ایک شے کو مستثنا رکھنا مقصود ہو، یعنی جب وہ چیز ہم جنسیّت کے اعتبار سے اپنی ہم جنس چیزوں میں شمار ہو، مگر اس بیانِ حال کے اعتبار سے ان میں شمار نہ ہو، یہی مثال خدا کی ذات یعنی وحدتِ وجود کی ہے کہ یہ وحدت اشیا کی باطنی بقا سے جدا نہیں، لیکن اشیا کی ظاہری فنا سے اس کی فنا لازم

 

۱۱۳

 

نہیں آتی، اور نہ کُل اشیا بیک وقت ہلاک ہو سکتی ہیں، اور جو چیزیں بظاہر فنا بھی ہو جائیں، تو پھر بھی ان کی نورانی صورت اور ازلی پیکر وحدتِ وجود میں باقی رہتی ہیں، لہٰذا اس وحدت میں کسی بھی قسم کی کمی واقع نہیں ہوتی، اس کے برعکس اگر ہم یہ عقیدہ رکھیں کہ ازل میں ذاتِ باری تعالیٰ و تقدّس تو موجود تھی، مگر اس کی کوئی مخلوق نہ تھی، تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ایک خالق تھا، مگر اس نے ابھی کوئی مخلوق پیدا نہیں کی تھی، پھر کھربوں سال کے بعد اس نے مخلوقات پیدا کیں، اندرین حال خدا حادث ہوا، یعنی وہ ایک حال سے دوسرے حال میں بدل گیا کہ پہلے اس نے کوئی چیز پیدا نہیں کی تھی، اور اب اس نے اتنی مخلوقات پیدا کیں، مگر یہ واقعہ ناممکن ہے، اور حقیقت اس کے برعکس ہے، وہ یہ ہے کہ خدا خود اپنی ذات و صفات میں سب کچھ ہے، اور یہ تشریح “ھو الکل” اور “ہمہ اوست” کی ہے، جو یہاں وحدتِ وجود کے عنوان سے کی گئی، پس “قل ھو اللہ احد” کا اشارہ وحدتِ وجود کی طرف ہے، نہ کسی جداگانہ ذات کی انفرادیت کی طرف، کیونکہ وحدتِ محض سے بحقیقت کثرت کا پیدا ہونا محال ہے، چنانچہ حکیم ناصر خسرو علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہے:

 

مکن در صنع مصنوعات رہ گم

ز جو جو روید و گندم ز گندم

 

۱۱۴

 

یعنی حقیقتِ مصنوعات کی تلاش میں راستہ نہ بھول جا (اور یہ اصول یاد رکھنا) کہ جَو سے جَو ہی اگتا ہے اور گندم سے گندم ہی اگتا ہے، یعنی وحدت سے بحقیقت کثرت پیدا نہیں ہوئی، مگر مجازاً یہ سب کچھ مانی گئی ہے، اور نہ وحدتِ وجود کو ایک ازلی حقیقت ماننے کے بعد کوئی شے پیدا ہونے کا سوال اٹھ سکتا ہے، بجز آنکہ اس امرِ واقع کے لئے تسلیم کر لیا جائے کہ وحدتِ وجود ہی ایک کثرت نما وحدت ہے، جس طرح سمندر، بادل، بارش، ندی، چشمہ، اور ہر قسم کی تری کی وحدت کا نام پانی ہے، خواہ وہ تری ہوا میں ہو یا نباتات و حیوانات میں، مگر پانی کے نام، صفت، خاصیّت، رنگ اور ذائقہ میں فی الاصل یہ سب چیزیں ایک ہیں، اور اگر ان کے افعال میں کچھ فرق ہے، تو وہ ان کی مقدار کی کمی بیشی کی وجہ سے ہے، چنانچہ اگر سمندر اپنے بادلوں کے ذریعے ساری زمین پر بارش برسا دیتا ہے، اور کوئی قطرہ یہ کام ہرگز نہیں کر سکتا تو اس کی وجہ سمندر کی وہ عظیم مقدار ہے جس میں بہت سے قطرے مل کر یہ کام کر رہے ہیں، اور یہ مثال پانی کی اس وحدتِ وجود کی ہے جو دائرے کی شکل میں ہے، اور ایک کثرت نما وحدت ہے۔

 

“اللھم بحق محمد المصطفیٰ و علی المرتضیٰ و فاطمۃ الزہراء و الحسن و الحسین۔ اے اللہ! حضرت محمد مصطفیٰؐ اور حضرت علی مرتضیٰؑ، اور

 

۱۱۵

 

حضرت فاطمۃ الزہراؑ، اور حضرت حسنؑ اور حضرت حسینؑ کی حرمت و وسیلے سے۔”

 

“اللھم بحق مولانا علیؑ (تا حاضر جامہ) و بحق مولانا و امامنا الحاضر الموجود شاہ کریم الحسینی ارحمنا و اغفرلنا انک علیٰ کل شی قدیر۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

اللھم لک سجودی و طاعتی۔

اے اللہ! ہمارے مولا علی کی حرمت و وسیلے سے، مولانا الحسین، مولانا زین العابدین، مولانا محمد الباقر، مولانا جعفر الصادق، مولانا اسماعیل، مولانا محمد بن اسماعیل، مولانا وفی احمد، مولانا تقی محمد، مولانا رضی الدین عبداللہ، مولانا محمد المہدی، مولانا القائم، مولانا المنصور، مولانا المعز، مولانا العزیز، مولانا الحاکم بامر اللہ، مولانا الظاہر، مولانا المستنصرباللہ، مولانا نزار، مولانا ہادی، مولانا مہتدی، مولانا قاہر، مولانا علیٰ ذکرہ السلام، مولانا اعلیٰ محمد، مولانا جلال الدین حسین، مولانا علاؤالدین محمد، مولانا رکن الدین خور شاہ، مولانا شمس الدین محمد، مولانا قاسم شاہ، مولانا اسلام شاہ، مولانا محمد بن اسلام شاہ، مولانا المستنصر باللہ، مولانا عبدالسلام، مولانا غریب میرزا، مولانا ابو ذر علی، مولانا مراد میرزا، مولانا ذوالفقار علی، مولانا نورالدین علی، مولانا خلیل اللہ علی، مولانا نزار، مولانا السید علی، مولانا حسن علی، مولانا قاسم علی، مولانا ابو الحسن علی، مولانا خلیل اللہ علی، مولانا شاہ حسن علی، مولانا شاہ علی شاہ، مولانا

 

۱۱۶

 

سلطان محمد شاہ، اور ہمارے مولا و امام حاضر و موجود شاہ کریم الحسینی کی حرمت و وسیلے سے تو ہم پر رحم فرما، اور ہمیں بخش دے۔ بےشک تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اور ہر ستائش و تعریف اللہ کی ہے، جو تمام عالموں کا پروردگار ہے۔

 

اے اللہ! میرے سجدے اور عبادت تیرے ہی لئے ہیں۔”

 

۲۸ صفر المظفر ۱۳۸۶ھ

بمطابق ۱۸ جون ۱۹۶۶ء

 

۱۱۷

 

دعائے جماعت خانہ کے فیوض و برکات

 

مومن کو سدا رحمتِ رحمان دعا ہے

طاعت میں یہی مقصدِ قرآن دعا ہے

من احسن قولاً سے دعا ہی کو سراہا

اللہ نے، پس مایۂ ایمان دعا ہے

یہ میوۂ  توفیق ہے یہ مغزِ عبادت

بس حاصل ایمانِ مسلمان دعا ہے

مولا کی اطاعت میں جھکا دو سرِ تسلیم

سمجھو کہ تمہیں ثمرۂ  فرمان دعا ہے

تم راہِ حقیقت میں دعا ہی سے مدد لو

اس راہ میں جب شمعِ فروزان دعا ہے

گرجان میں ہے کوئی مرض یا کہ بدن میں

ہر درد و مرض کے لئے درمان دعا ہے

جب جلوۂ  انوارِ الہٰی کی طلب ہو

دیکھو کہ تمہیں دیدۂ  عرفان دعا ہے

ہے عالمِ دل نورِ حقیقت سے منور

خورشیدِ ضیا بخشِ دل و جان دعا ہے

دنیا میں اگر رنج و الم ہے تو نہیں غم

صد شکر کہ یاں روضۂ رضوان دعا ہے

 

۱۱۸

 

معلوم ہوئی توبۂ آدمؑ کہ دعا تھی

پھر نوحؑ کا وہ باعثِ طوفان دعا ہے

ہو جائے اگر آتشِ نمرود ہویدا

ہو کوئی خلیلؑ اب بھی گلستان دعا ہے

یونسؑ کو دعا ہی نے دلائی ہے خلاصی

ہر دور میں بس رحمتِ یزدان دعا ہے

ہاں خضرؑ ہوا زندۂ جاوید اسی سے

دنیا میں یہی چشمۂ حیوان دعا ہے

موسیٰؑ کو عصا اور یدِ بیضا کے نشانے

حاصل جو ہوئے وجہِ نمایان دعا ہے

عیسیٰؑ میں جو تھا معجزۂ روحِ مقدّس

اس معجزہ کی حکمتِ پنہان دعا ہے

احمد جو ہوئے گوشہ نشین غارِ حرا میں

مقصودِ نبیؐ شمعِ شبستان دعا ہے

مولائے کریم دہر میں ہے نورِ الہٰی

اس نور سے کچھ فیض کا امکان دعا ہے

گر نورِ امامت بمثلِ راہِ خدا ہے

اس راہ میں بھی مشعلِ ایقان دعا ہے

عاشق نے جو کچھ دیکھ لیا دیدۂ  دل سے

صد گونہ یہاں جلوۂ  جانان دعا ہے

 

۱۱۹

 

تو شام و سحر آکے یہاں ذکر و دعا کر

اخلاق و عقیدت کی نگہبان دعا ہے

جس راہ سے منزلِ وحدت کا سفر ہے

منزل کی طرف وہ رہِ آسان دعا ہے

اس نظمِ نصیری میں ہے اک گنجِ حقائق

گنجینۂ پر گوہرِ رحمان دعا ہے

 

شوال ۱۳۹۵ھ۔ اکتوبر ۱۹۷۵ء

 

۱۲۰

دیوانِ نصیری

 

 

دیوانِ نصیری

(اردو)

کتاب کے حقوق

بسمِ اللہ الرحمٰنِ الرحیمِ ۔اللّٰھم انی اسئلک باسمائِک الحسنی

اس کتاب ــ “دیوانِ نصیری (اردو)” کے جملہ حقوق محفوظ ہیں، بنامِ عزیزترازجانم حُبِّ علی ثانی ابنِ امین الدین ہونزائی ابنِ ایثار علی (مرحوم) ابنِ علاّمہ نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی (ایس۔آئی) ابنِ خلیفہ حُبِ علی اوّل ابنِ خلیفہ محمد رفیع ابنِ فولاد بیگ ابنِ شمشیر بیگ۔

دیوانِ ہٰذا کی تمام نظموں میں عشقِ سماوی کی دولتِ لازوال بھری ہوئی ہے، الحمدُ للہ ! حضرتِ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ نے اپنے ایک پاک فرمان میں جماعت کی اس مدح خوانی کو شَرفِ قبولیت عطا فرمایا ہے، اور اہلِ دانش کے نزدیک یہ مولائے پاک کے نورِ لطف و محبت کی روشنی ہے جس کی پیش گوئی بمبئی ۱۰ مارچ ۱۹۴۰ء میں ہوئی تھی، امامِ عالی مقامؑ کی ہر پیش گوئی ظہور پزیر ہوکر رہتی ہے، حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا یہ فرمانِ مبارک کتابچۂ حکمتِ تسمیہ کے آغاز میں محفوظ ہے۔

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل ۳،اپریل ۲۰۰۱ء

 

 

ISBN 190344032-7

Published by:

International Book House Gilgit

 

شاہِ  شاہانِ  دو عالم  قائمِ  آلِ نبی

پرنس علی سلمان یقیناً نورِ یکتا بای علی

 

کراچی،ہفتہ ۱۰،اپریل۲۰۰۴ء

 

ج

 

حضرتِ قائم  ؑ=جانانِ عاشقان

 

کیا خوب ہے بہارِ دل و جانِ عاشقان!

از نورِ پاکِ حضرتِ جانانِ عاشقان

 

قائم شناس جو بھی ہے وہ کامیاب ہے

اجر و ثواب اُس کے لئے بے حساب ہے

 

کراچی،بدھ،۱۴،اپریل ۲۰۰۴ء

 

د

 

آغازِ کتاب

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر کہ دیوانِ نصیری (اردو )بھی بارِاوّل منظرِ خاص و عام پر آگیا، ہم علیُّ الوقتؑ کی عنایاتِ بے نہایت کے لئے ہمیشہ محتاج ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ وہ صاحبِ فضل و کرم اسے اہلِ ایمان کے لئے نافع بنائے آمین! آج کل ہمارے عزیزان نئی کتابوں میں بہت زیادہ محنت سے کام کرتے ہیں،مجھے یقین ہے کہ حضرتِ قائم علیٰ ذکرہ السّلام انہیں علمِ لدنّی کی دولت سے مالا مال فرمائے گا، کیونکہ علمی خدمت کرنے والوں پر وہ شاہِ شاہان بے حد مہربان ہے۔

 

خانۂ حکمت میں خدمت کرنے والے، ان شاء اللہ بہشت کے تاجدار ہوں گے، یہ حضرات بہشت میں دعوتِ حق کا کام کریں گے۔یہ قرآنی تاویل ہے۔(۲۴: ۵۵)۔

 

اے عزیزان!آپ قائمؑ شناسی میں کامل ہوجانا، سلمان غریبم قلبِ تو اللہ ُ مولانا علیؑ کی حکمتوں کو سمجھ لینا۔ یہ وہ نورانی خزانہ ہے جس کی طرف سے دوستوں کو گویا اعلان ہوا کہ ہر حقیقی عاشق اس خزانے کو حاصل کرے کیونکہ یہ خزانہ بڑا عجیب و غریب ہے کہ یہ قلب بھی ہے اور

 

ہ

 

نورِ قلب بھی اور اللہ ُ مولانا علیؑ کا سِرِّ اعظم بھی ہے۔

 

ز نورِ اُو تُو ہستی ہمچو پرتو

حجاب از پیش بردار و تو اُو شَو

آن دشمنِ خورشید ، برآمد بر بام

دودیدہ ببست و گفت خورشید بِمرد

گلشنِ خودی صفحہ ۲۳۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی

بدھ،۷ ،اپریل ۲۰۰۴ء

 

و

 

حضرتِ آدم  ؑ اور بنی آدم کا تجدُّد

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ دیوانِ نصیری (اردو) کا انتساب اپنے آباوامَّہات کے اسماء پر لکھنے کے لئے سوچ رہا تھا پھر اچانک ایک انقلابی خیال آیا، وہ یہ کہ عظیم روحانی قیامت کی وجہ سے آدمؑ اور بنی آدم کا تجدّد ہوچکا ہے ، جس سے بہت سے اسرار کا انکشاف ہوا ہے۔

 

دیوانِ نصیری (اردو) کی اشاعت سے دانش گاہِ خانۂ حکمت کی نیکنامی میں (ان شاء اللہ) مزید اضافہ ہوگا، اور سب کچھ علیُّ الوقتؑ کا علمی معجزہ ہے، حضرت قائم علی ذکرہ السّلام اس باطنی ادارے پر بے حد مہربان ہیں۔ ایچ۔ڈی۔ برانچ حضرت قائمؑ کا ایک خاص معجزہ ہے، میں نے اس نوروز کے قریب ایک نورانی خواب دیکھا ہے، جس کا تاویلی خلاصہ یہ ہے کہ حضرتِ قائم علیہ افضل التحیۃ و السّلام خواتین وغیرہ کی گریہ و زاری سے ایک بڑا مفید عالمی پاور کا معجزہ بنانے والے ہیں۔

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیت نیز کتابِ قائمؑ شناسی “اللہ ُ  مولانا علیؑ” کے عظیم معجزات میں سے ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی

منگل ،  ۶ ، اپریل ۲۰۰۴ء

ز

 

انتساب

 

نورالدّین مومن ابنِ قاسم علی ابنِ وزیر علی

والدۂ ماجدہ لاڈچی بائی زوجۂ قاسم علی

۵ جون ۱۹۶۲ء

 

الماس مومن بنتِ کریم ابنِ ولی محمد

والدۂ ماجدہ نور بانو زوجۂ کریم

۱۲، دسمبر ۱۹۶۷ء

 

زین العابدین ابنِ نورالدّین ابنِ قاسم علی

۷ اپریل ۱۹۹۱ء

کتابِ لعل و گوہر کے شروع میں بھی انہی ارضی فرشتوں کے نام پر انتساب ہے، خانۂ حکمت کے تمام عزیزان کو حضرتِ قائمؑ سلاطینِ جنّت بنارہے ہیں، بہشت کی خلافت و سلطنت کے مقابلے میں دنیا کی سلطنت ہیچ ہے۔

 

خانۂ حکمت کے مومنین و مومنات سے حضرتِ قائم علی ذکرہ السّلام نے عالمِ شخصی میں جو کچھ وعدہ فرمایا ہے، اس کے لئے دیکھ لو (۲۴: ۵۵) وغیرہ۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعرات، ۸ اپریل ۲۰۰۴ء

 

ح

 

نذرانۂ عقیدت

بموقع تشریف آوریٔ امامِ زمان شاہ کریم الحسینی صلوات اللہ علیہ

 

اے مظہرِ نورِ خدا اھلاً و سہلاً مرحبا

اے آلِ پاکِ مصطفیٰ اھلاً و سہلاً مرحبا

خورشیدِ انوارِ ہُدا سلطانِ ملکِ انّما

اے جانشینِ مرتضیٰ اھلاً و سہلاً مرحبا

تشریف فرما جب ہوئے قرآنِ ناطق اس طرف

روح الامین کہنے لگا اھلاً و سہلاً مرحبا

دیدارِ اقدس کیلئے ہم دیر سے تھے تشنہ لب

اے چشمۂ آبِ بقا اھلاً و سہلاً مرحبا

جب یارِ جانی آ گئے جانیں ہوئیں سب فرشِ راہ

نکلی دلوں سے یہ صدا اھلاً و سہلاً مرحبا

سلطانِ عزت آ گیا دریائے رحمت آ گیا

با صد عنایات و سخا اھلاً و سہلاً مرحبا

خورشیدِ راحت آ گیا اب ظلمتِ غم مٹ گئی

اے دلِ کہا کر برملا اھلاً و سہلاً مرحبا

کرتے ہیں سر خم ہو کے سب تسلیم و تعظیم و ادب

پڑھتے ہوئے صَلِ علیٰ اھلاً و سہلاً مرحبا

اے علم و حکمت کے چراغ اب آپ کی تشریف سے

ہر دل منور ہو گیا اھلاً و سہلاً مرحبا

امید کے غنچے کھلے ارمان کے موتی ملے

احسان ہے یہ آپ کا اھلاً و سہلاً مرحبا

مسرور و نازان ہو گئے شادان و خندان ہو گئے

یہ آپ کے اہلِ وفا اھلاً و سہلاً مرحبا

جب آپ گویا ہو گئے موتی بکھر جانے لگے

اے گنجِ اسرارِ خدا اھلاً و سہلاً مرحبا

یہ کیا کرشمہ ہو گیا مٹی سے سونا بن گیا

یہ کیمیائے عشق تھا اھلاً و سہلاً مرحبا

اک دل نیا سا مل گیا اک جان نئی سی آ گئی

اب ہم میں اے نورِ خدا اھلاً و سہلاً مرحبا

۱

 

 

سب اہلِ دل مخمور ہیں اس وصلِ نورانی سے اب

اے رہبرِ صدق و صفا اھلاً و سہلاً مرحبا

یہ دل ہے یا گلشن ہے یہ ، اتنی خوشی ایسی خوشی

اے جانِ جان ، روحی فدا اھلاً و سہلاً مرحبا

میری خوشی کا یہ سماں بیدار ہوں یا خواب میں!

یا یہ کہ میں بے خود ہوا اھلاً و سہلاً مرحبا

مستی ہے یا پستی ہے یہ ، ،ہستی ہے یا کیفِ فنا!

یہ ارض ہے یا ہے سماء اھلاً و سہلاً مرحبا

یہ وصلِ جانان کی شراب فکر و نظر کا انقلاب

یہ دردِ الفت کی دوا اھلاً و سہلاً مرحبا

یہ محفلِ بزمِ لقا یہ منظرِ نور و ضیا

یہ جامِ عشقِ جانفزا اھلاً و سہلاً مرحبا

دیدار کی گفتار کی یہ لذّتیں یہ راحتیں

سب آپ ہی کی ہیں عطا اھلاً و سہلاً مرحبا

مقصودِ رب العالمین محبوبِ شاہِ مرسلین

اے ہادیٔ راہِ ھدا اھلاً و سہلاً مرحبا

اے سرورِ روئے زمین اے بادشاہِ ملکِ دین

اے دل نشین و دل رُبا اھلاً و سہلاً مرحبا

حبلِ خدائی آپ ہیں اے مقتدائے مومنان

اے شہسوارِ لافتیٰ اھلاً و سہلاً مرحبا

اے پیکرِ حسن و جمال اے صورتِ وصفِ کمال

آئینۂ ایزد نما اھلاً و سہلاً مرحبا

اے وارثِ دینِ نبی اے والیٔ ملکِ وصی

اے صاحبِ حوض و لوا اھلاً و سہلاً مرحبا

تو کون ہوتا ہے نصیرؔ جو شاہ کی مدحت کرے

چپ ہو کے سن سب کی ذرا اھلاً و سہلاً مرحبا

 

صفر ۱۳۹۶ ھ،  فروری ۱۹۷۶ء

۲

 

دعوتِ غوروفکر

 

مقصدِ کائنات کیا ہو گا ؟

سِرِّ سِرِّ حیات کیا ہو گا ؟

کب سے دونوں جہان ہوئے قائم ؟

پھر  کبھی   یہ   ثبات  کیا   ہو  گا  ؟

جز خدا کلِّ شئ تو ہالک ہے

عالم شش جہات کیا ہو گا ؟

کیا ہلاکت فنائے کلّی ہے؟

یا فنائے صفات ، کیا ہو گا ؟

ہے تصوّر میں کوئی ایسی مثال ؟

منظرِ کائنات کیا ہو گا ؟

عدل و رحمت کا کیا تقاضا ہے ؟

حق کا وہ التفات کیا ہو گا ؟

خود شناسی ہے گر فنائے “انا”

ماورائے ممات کیا ہو گا ؟

۳

 

معرفت ہی رہے گی یا عارف ؟

یا فقط ذاتِ ذات ، کیا ہو گا ؟

معرفت کی کوئی بقا بھی ہے ؟

ورنہ یہ تُرّہات ، کیا ہو گا ؟

کیا دران حال بھی دوئی ہو گی ؟

ہے کوئی ایسی بات ؟ کیا ہو گا ؟

کیا بتوں کو دکھائے جائیں گے ؟

حالِ لات و منات کیا ہو گا ؟

حالِ مطلق جواب کلّی ہے

حالِ بعدِ وفات کیا ہو گا ؟

اپنے انجام کی خبر ہے نصیر ؟

سرِّ سرِّ نجات کیا ہو گا ؟

 

۴

 

تجلّیات

 

دل میں جب میں نے وہ صنم دیکھا

جسمِ کلّی کا کیف و کم دیکھا

میرے چشم و چراغ جب آئے

ہستی و نیستی بہم دیکھا

جب مرے دل کی آنکھ میں وہ بسے

لوحِ محفوظ تا قلم دیکھا

میری ہستی پہ برقِ نور گری

میں ہوا نیست پھر عدم دیکھا

میں نے اس نیستی پہ غور کیا

نہ کوئی خوف ہے نہ غم دیکھا

مایۂ علم ہے حصولِ فنا

ایسے عشاق میں نے کم دیکھا

ہے کوئی اہلِ دل تو سن لے حال

میں چلا دو قدم حرم دیکھا

ہے کوئی داستانِ رنج و عنا

جس طرح میں نے وہ ستم دیکھا

پھر ستم ہی سے میری آنکھ کھلی

محفلِ دل میں جامِ جم دیکھا

نغمۂ روح تھا کہ بادۂ جان

جس کی مستی میں زیر و بم دیکھا

جب سے نورِ نبیؐ طلوع ہوا

حلقۂ فقر نے کرم دیکھا

میں نے علم و عمل کی دنیا میں

ہر جگہ شاہِ محتشم دیکھا

عاشقِ نور کیوں نہ شاد رہے

جب تخیّل میں ہی اِرم دیکھا

یہ تعجب ! کہ  ذاتِ  قطرۂ  ہیچ

چشمِ باطن سے میں نے یم دیکھا

عکسِ خورشیدِ نورِ عالمِ دل

جس نے دیکھا ہے صبحدم دیکھا

۵

 

مُصحفِ عشق میں تو کیا پڑھتا

خود حروف و نُقط میں فم دیکھا

جس طرف بھی مری نگاہ گئی

عشق کا خیمہ و عَلم دیکھا

جب مجھے ذوقِ عشقِ نور ملا

دل میں فردوس کے نِعَم دیکھا

سایۂ عشق ہے نصیر نہیں

دل میں جب اس نے وہ صنم دیکھا

 

 

۶

 

ایک تازہ جہان

 

عارف نے سنو دل میں اک تازہ جہان دیکھا

ہے جس کی طلب سب کو وہ گنجِ نہان دیکھا

یہ رازِ نہانی ہے اور ربّ کی نشانی ہے

آئی ہے جہاں سے جان وہ عالمِ جان دیکھا

ہاں نورِ ازل ہے وہ اور سِرِّ ابد ہے وہ

واں سب سے نہان دیکھا یاں سب سے عیان دیکھا

اسرارِ کتابُ اللہ انوارِ دلِ عارف

قرآنِ مقدّس میں اک گنجِ نہان دیکھا

جب آنکھ کھلی دل کی اسرار نظر آئے

حیرت زدہ ہوں بیحد جب گوہرِ کان دیکھا

میں اس میں؟کہ وہ مجھ میں؟ یہ سرِّ قیامت ہے!

ہاں برقی بدن میں تھا جب شاہِ شہان دیکھا

جب برق سوار آیا تب باب کھلا از خود

میں مرکے ہوا زندہ جب شاہِ زمان دیکھا

 

۷

 

عشاق سے میں اس کے قربانِ مسلسل ہوں

روحانی قیامت میں جب جانِ جہان دیکھا

اشعارِ نصیری میں اسرارِ نہانی ہیں

شاید کہ کبھی اس نے وہ نورِ قران۱ دیکھا

گزشتہ تاریخ: ہفتہ ۲۶، مئی ۲۰۰۱ء

موجودہ تاریخ: پیر ۲۲، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

فٹ نوٹ: ۱وزن کو برابر کرنے کی غرض سے مدِّ الف کو حذف کیا گیا ہے۔

۸

 

ظہورات و تجلّیاتِ علیؑ

 

میں نے ہاں صِین میں علیؑ دیکھا

شکرِ حق چین میں علیؑ دیکھا

اس کا ہمسر نہیں ہے دنیا میں

نورِ یکتا ہے دین میں علیؑ دیکھا

نہ فقط ظاہراً علیؑ دیکھا

بلکہ حق الیقین میں علیؑ دیکھا

تو غریقِ بحرِ قرآن ہو کے دیکھ

حکمتِ برترین میں علیؑ دیکھا

عرش اک نور ہے کہ ہے وہ مَلک

سرِّ عرش برین میں علیؑ دیکھا

سین کو سر جھکا جھکا کے سلام!

میں نے اس سین میں علیؑ دیکھا

سین ہی ہے ہمارے دل کا سراج

میں نے پھر سین میں علیؑ دیکھا

شین کا شکریہ کروں گا سدا

میں نے حقّا کہ شین میں علیؑ دیکھا

۹

 

کون ہے نورِ جَبہۂ عارف

عارفوں نے جبین میں علیؑ دیکھا

وہ شہنشاہ ہے دونوں عالم میں

میں نے ہاں صین میں علیؑ دیکھا

رازِ نورِ مبین میں علیؑ دیکھا

رمزِ حبل المتین میں علیؑ دیکھا

عرش پانی پہ اس پہ مولا تھا

ایسے خوابِ حسین میں علیؑ دیکھا

اے نصیرِ ضعیف سب کو بتا

“میں نے ہاں چین میں علیؑ دیکھا”

 

ذوالفقار آباد، گلگت

منگل ۲۸،اکتوبر ۲۰۰۳ء

 

۱۰

 

ڈائمنڈ جوبلی

!(۱۹۴۶) کی رنگین و پر بہار یادیں

 

جس گھڑی شاہ علیؑ جانبِ میدان آیا

میرا دل کہنے لگا دیکھ کہ جانان آیا

رسنِ نورِ خدا سلسلۂ آلِ رسولؐ

شاہ علیؑ نام رکھا پھر شہِ مردان آیا

کثرتِ نورِ خدا کوئی تصور نہ کرے

نورِ یکتا ہے علیؑ بہرِ مریدان آیا

غمِ دل دور ہوا اُن کے تبسم سے مجھے

چمنِ آلِ نبیؐ کا گلِ خندان آیا

محوِ دیدار ہوئے اہلِ حقیقت یکسر

وارثِ مسندِ دین عالِمِ قرآن آیا

ان کے قدموں سے فدا کاش مری جان ہوتی!

جانبِ غرب سے اب یوسفِؑ کنعان آیا

مٹ گئی دل کی عنا اب غمِ وحشت نہ رہا

خانۂ دل میں مرا خضرؑ ہے مہمان آیا

۱۱

 

مست و بیخود ہیں مرید جامِ عقیدت پی کر

نورِ چشمِ شہِ دین حضرتِ سلطان آیا

عالمِ حسن و جوانی کو مُسخر کر کے

شاہِ خوبانِ جہان پرنس علی ایس خان آیا

لذّتِ عشق میں ہے حکمتِ عالم پنہان

دردِ الفت ہے مجھے مایۂ درمان آیا

سرِ تسلیمِ نصیرؔ خاک پہ تھا بہرِ نیاز

مجلسِ خاص میں جب اشرفِ انسان آیا

 

ایڈیٹنگ کی تاریخ: ۵، مئی ۲۰۰۱ء

 

۱۲

 

امامِ حاضرؑ کی تشریف آوری

 

مبارک سرورِ آلِ نبیٔ آخرین آیا

زمانے کا امامِ حق علیؑ کا جانشین آیا

ہوا جس نور سے عالَم برنگِ علم و فن روشن

مجسم بن کے عقلِ کلّ بشکلِ شاہِ دین آیا

وہ تاج و تختِ ملت کا شہِ مختارِ بااِجلال

حسینِ ظاہر و باطن ، نگارِ دل نشین آیا

لقب ہے نور مولانا کریم و اکرم و مکرم

جو حا و قاف و جیم و کاف کا حق الیقین آیا

یہ ان کا دورِ روحانی مبارک اے جہان والو

یہی ہے مہدیٔ موعود امام المسلمین آیا

کلامِ جانفزا ان کا جو سن سکتا مبارک ہو

وہ گنجِ گوہرِ علمِ حقائق کا امین آیا

صفاتِ کبریائی کا وہی آئینۂ مظہر

تجلّائی خدائی کا وہی عکسِ مبین آیا

۱۳

 

کمالِ عزِ انسانی ہے نورِ پاک سبحانی

جبین سے نور چمکاتا ہوا وہ مہ جبین آیا

دو عالم کے حسینوں کا شہنشاہِ سرور انگیز

جمال و حسن کا یکتا وہ رشکِ حورِ عِین آیا

یہ وہ نورٌ علیٰ نور اس خدائے پاک و یکتا کا

بلااوّل بلاآخر امامِ آخرین آیا

سُرورِ عیشِ روحانی یہیں سے ابتدا کر لوں

وہ شمعِ بزمِ وحدت ، ساقیٔ خلدِ برین آیا

خدا کا نور ہے الحق نہیں کوئی نظیر اس کا

وہ نورِ لامکانی جانِ عاشق کا مکین آیا

ہمارے رہبرِ دانا امامِ حیّ و حاضر ہے

دلوں کو خود قرین ہی تھا عیاناً بھی قرین آیا

ترا دامانِ اطہر ہے مثالِ عُروۃ الوثقیٰ

بلا فصلِ نسب تو معنیٔ حبل المتین آیا

نیازی میں نصیر الدین فتادہ ہے تیرے در پر

حصولِ عیش سرمد کا یہیں سے ہے یقین آیا

۱۴

 

دربارۂ توصیفِ کتاب

 

آفتاب و ماہتاب و چرخِ اخضر ہے کتاب

چشمۂ آبِ حیات و آبِ کوثر ہے کتاب

حسن و خوبی میں یگانہ دلکشی میں طاق ہے

باغ و گلشن کی طرح اک خوب منظر ہے کتاب

بے مثال و لازوال انمول تحفہ علم کا

اے عزیزان لے کے رکھنا گنجِ گوہر ہے کتاب

میں جہاں بھی رہ چکا دن بھر کتابوں میں رہا

بس مرا گھر ہے کتاب اور میرا دفتر ہے کتاب

اک جہانِ علم و حکمت ہے کتابِ مُستطاب

ہے اگر قرآن سے پھر سب سے برتر ہے کتاب

آیۂ قَد جَائَ کُم (۰۵: ۱۵) کو پڑھ لیا کر جانِ من!

نورِ حق کی روشنی میں سب کو رہبر ہے کتاب

تو ہے بھیدوں کا صحیفہ تو ہے کنزِ لامکان

قولِ مولانا علیؑ ہے: تیرے اندر ہے کتاب

ہے کتابِ حق تعالیٰ باتَکَلم ہر جگہ

ظاہر و باطن میں دیکھو میرا حیدر ہے کتاب

۱۵

 

معجزے ہی معجزے قرآنِ ناطق سے سنو

آج مولائے زمانہ ، روزِ محشر ہے کتاب

نورِ ایمان نورِ ایقان نورِ علم و معرفت

سر بسر انوار کی دولت سے بھر کر ہے کتاب

اس بہشتِ معرفت میں کیا نہیں ہے جانِ من!

کانِ راحت جانِ لذّت شہد و شکر ہے کتاب

مثلِ یارِ دلنشین محبوب ہے مجھ کو کتاب

دل کشا ہے جانفزا ہے روح پرور ہے کتاب

جب قلم لیتا ہوں آتا ہے تجلّی بن کے وہ

یہ نوازش ہے اسی کی تب میّسر ہے کتاب

باغ و گلشن کی سیاحت میں ذرا سا حظ تو ہے

سیرِ علمی کے لئے بس سب سے بہتر ہے کتاب

اے نصیر الدین تجھ کو سرِّ اعظم یاد ہے ؟

عالمِ علوی میں تنہا ایک گوہر ہے کتاب

 

ہفتہ  ۷ جمادی الثانی ۱۴۲۰ھ  ۱۸، ستمبر ۱۹۹۹ء

۱۶

 

زمزمۂ خدمت

 

یارو ! نہ فراموش کرو آیۂ خدمت

کونین میں ملتا ہے سدا میوۂ خدمت

خدمت کا شجر میوۂ شیرین سے لدا ہے

اور راحتِ جان سے ہے بھرا سایۂ خدمت

احباب ہزاروں کو میں تحفہ کیا دوں ؟

اک تحفۂ کلّی ہے خوشا ! تحفۂ خدمت

سردار جو دانا ہے وہ قوم کا خادم ہے

ہر شخص نہیں جانتا یہ مرتبۂ خدمت

جنّت کا خزانہ ہے جنت کا ترانہ ہے

یہ ولولۂ خدمت یہ زمزمۂ خدمت

خدمت جو عبادت ہے تو تب قبلہ بھی ہو گا

مولائے زمانہ ہے مرا قبلۂ خدمت

ہر چند کہ دنیا میں نعمات بہت سی ہیں

لیکن مزۂ خدمت ! یکتا مزۂ خدمت

کہتا ہے نصیر الدین اے لشکرِ ایمانی!

جاری ہی رکھو دائم یہ سلسلۂ خدمت

 

بدھ یکم اگست ۲۰۰۱ء

 

نوٹ: آیۂ خدمت =سورۂ محمد ۴۷: ۷

۱۷

 

اِستِمداد

 

المدد یا شاہِ مردان المدد!

المدد اے سرِّ یزدان المدد!

مظہرِ حق بادشاہِ ملکِ دین

اے کلیدِ گنجِ قرآن المدد!

تو امامِ حیّ و حاضر ہے بحق

نورِ سلطان نورِ سلمان المدد!

علم پانی اور تو ہی عرش ہے

اے سفینۂ نورِ رحمان المدد!

یا علیُ الوقت مولانا کریم

المدد یا شاہِ دوران المدد!

اے شہنشاہِ دُو عالم تاجدارِ نورِ حق

گنج بخشِ اسمِ اعظم جان و جانان المدد!

اسمِ اکبر ہے خدا کا تو امامُ المتقین

اے تو قرآنِ مجسم شاہِ شاہان المدد!

تیرے در پر سر رکھا ہے یہ نصیرِ بیقرار

عذر خواہان ہوگیا ہے اور گریان المدد!

 

منگل۱۸، نومبر ۲۰۰۳ء

۱۸

 

یہ تیرا عشق

 

یہ تیرا عشق مجھے ہے شراب سے بہتر

شمیمِ کوچۂ جانان گلاب سے بہتر

تم آ کے دل میں رہو میں حجاب ہو جاؤں

تو پھر بھی کیسے بنوں اس حجاب سے بہتر؟

وہی ہے گنجِ کرم اور وہی ہے کانِ عطا

نہیں ہے کوئی سخی آن جناب سے بہتر

ترا خیالِ حسین مجھ کو خوابِ راحت ہے

ہے کوئی خواب کہیں میرے خواب سے بہتر؟

جمال و حسن ترا اک کتابِ قدرت ہے

نہیں ہے بشری کتاب اس کتاب سے بہتر

اگرچہ چاند ستاروں میں مثلِ سلطان ہے

ہے میرے دل کا حسین ماہتاب سے بہتر

سوال ایسا کیا جس میں گنجِ حکمت ہے

کہ عقل جس کو کہے : ہر جواب سے بہتر

۱۹

 

زوالِ عہدِ جوانی سے مجھ کو غم نہ ہوا

کہ فکر و عقلِ کُہن سال شباب سے بہتر

خطابِ عشق و فنا گر کرے زراہِ کرم

یہی خطاب مجھے ہر خطاب سے بہتر

یہ دردِ عشق کی تلخی عجیب شیرین ہے

شرابِ عشق ہے یہ ہر شراب سے بہتر

عتاب میں بھی تجلّی تری عجیب و غریب

نہیں ہے کوئی عطا اس عتاب سے بہتر

وہی ہے نورِ ازل آفتابِ عالمِ دل

ہزار درجہ وہ اس آفتاب سے بہتر

حبابِ دل چہ عجب بحر اس پہ عرشِ خدا!

نہیں ہے بحر کوئی اس حباب سے بہتر

سنو کہ میرا صنم ہے بتوں کا شاہنشاہ

نہیں ہے کوئی مرے انتخاب سے بہتر

بگڑ گیا ہے اگر باغ پھر خراج نہیں

خرابِ عشق ہوں میں ہر خراب سے بہتر

عذابِ عشق نصیرا چہ خوب جنّت ہے!

یہی عذاب مجھے ہر ثواب سے بہتر

 

کراچی

گزشتہ تاریخ: جمعرات ۲۰، اگست ۱۹۹۸ء

موجودہ تاریخ: بدھ ۲۴،مئی ۲۰۰۳ء

 

۲۰

 

نوروزنامہ

مژدۂ  نوروز

مارچ ۱۹۸۶ء

 

یہاں یہ نورِ یزدان ہے یہی ہے مژدۂ نوروز

کہ یہ خود روحِ قرآن ہے یہی ہے مژدۂ نوروز

یہ وہ نوروز ہے گویا خدا نے کر دیا برپا

اسی دن خیمۂ خضرا یہی ہے مژدۂ نوروز

ہوئی جس دن زمین پیدا وہی نوروزِ ارضی تھا

کہ ہر تارا ہے اک دنیا یہی ہے مژدۂ نوروز

ازل نوروزِ عقلی ہے الست نوروزِ روحی ہے

جنم نوروزِ ذاتی ہے یہی ہے مژدۂ نوروز

بمنشائے خداوندی پیمبرؐ نے علیؑ کو دی

امامت بھی نیابت بھی یہی ہے مژدۂ نوروز

علیؑ نورِ امامت ہے شہنشاہِ ولایت ہے

وہ بابِ علم و حکمت ہے یہی ہے مژدۂ نوروز

۲۱

 

وہی نوروز کا سلطان وہی ہے جان اور جانان

وہی ہے مایۂ ایمان یہی ہے مژدۂ نوروز

فروغِ صبح صادق ہے بہارِ جانِ عاشق ہے

وہی قرآنِ ناطق ہے یہی ہے مژدۂ نوروز

امامِ انس و جان ہے وہ ضیائے لامکان ہے وہ

کہ مولائے زمان ہے وہ یہی ہے مژدۂ نوروز

ظہورِ عالمِ ملکوت وہ نورِ عالمِ جبروت

وہ گنجِ گوہرِ لاہوت یہی ہے مژدۂ نوروز

قبائے انما اس کی ردائے ھل اتٰی اس کی

عطائے کبریا اس کی یہی ہے مژدۂ نوروز

وہی ہے بحرِ گوہر زا جمال و حسن کی دنیا

کتابِ عالمِ بالا یہی ہے مژدۂ نوروز

جہاں محبوبِ جان آیا وہ بن کر اک جہان آیا

اسی میں لامکان آیا یہی ہے مژدۂ نوروز

ترا دل جب منور ہو درخشان مثلِ خاور ہو

نشیمن گاہ مظہر ہو یہی ہے مژدۂ نوروز

خیال و فکر روشن ہو نظر اک باغ و گلشن ہو

طلب بھی گل بدامن ہو یہی ہے مژدۂ نوروز

۲۲

 

نویدِ جان فزا آئی امامت کی دعا آئی

مسرّت کی ہوا آئی یہی ہے مژدۂ نوروز

جو اک خورشیدِ تابان ہے وہی سلطانِ خوبان ہے

وہی پیدا و پنہان ہے یہی ہے مژدۂ نوروز

اگر مولا سے الفت ہے اگر اعزازِ خدمت ہے

یہی توفیق و ہمّت ہے یہی ہے مژدۂ نوروز

اطاعت کر عبادت کر درِ مولا کی خدمت کر

اسی سے تو محبّت کر یہی ہے مژدۂ نوروز

اگر وہ تجھ کو خدمت دے اسی کے ساتھ ہمّت دے

محبّت دے بصیرت دے یہی ہے مژدۂ نوروز

اسی خدمت میں حکمت ہے اسی میں تیری عزّت ہے

یہی اک زندہ دولت ہے یہی ہے مژدۂ نوروز

نصیرا! تو نہیں تنہا گدائے کوچۂ مولا

یہاں ہے اک جہان شیدا یہی ہے مژدۂ نوروز

مارچ ۱۹۸۶ء

 

۲۳

 

رازِ عشق

 

یا الٰہی! تو عطا کر دے مجھے فیضانِ عشق

تا کہ ہو جاؤں ہمیشہ بندۂ  سلطانِ عشق

میں گدا ہوں اس کے در کا اور مریضِ عشق بھی

یا طبیبِ آسمانی! دے مجھے درمانِ عشق

اے حسینِ بے مثال! اے نورِ عشقِ باکمال!

جان فدا ہو تجھ سے ہر دم چونکہ تو ہے جانِ عشق

شاہِ خوبانِ دو عالم! نورِ چشمِ عاشقان!

غیرتِ حور و پری ہے جانِ عشق جانانِ عشق

ماہِ من! اے شاہِ من! تو حکم فرما دیجئے

ہے قبولِ جان و دل تیرا ہر فرمانِ عشق

یہ نہیں معلوم مجھ کو راز کیا ہے؟ رمز کیا؟

اس لئے ہوں میں ہمیشہ والہ و حیرانِ عشق

میں نہیں تنہا غریق تیرے بحرِ عشق میں!

ہیں سبھی غرقاب تجھ میں دیکھ اے طوفانِ عشق!

۲۴

 

عشق سے مر کر اسی میں زندہ ہے، ہاں زندہ ہے

یہ نصیرؔ تیرا گدا اے جانِ عشق جانانِ عشق!

 

 

اسلام آباد،

گزشتہ تاریخ: منگل ۲۹،مئی ۲۰۰۱ء

ایڈیٹنگ کی تاریخ: منگل ۲۳، ستمبر ۲۰۰۳ء

۲۵

 

شاہ! سلامٌ علیک

 

نام ہے تیرا کریمؑ شاہ سلام علیک

شان ہے تیری عظیم شاہ سلام علیک

تیرے سوا کون ہے آلِ نبیؐ و علیؑ

نورِ خدائے حکیم شاہ سلام علیک

ذکرِ خفی بن کے آ دیدہ و دل فرشِ راہ

مالکِ ملکِ قدیم شاہ سلام علیک

باغ و چمن کی بہار سَرو و سمن کا نکھار

تو ہے گلوں کی شمیم شاہ سلام علیک

برقِ تجلّیٰٔ طور حسنِ خدا کا ظہور

نور بچشمِ کلیم شاہ سلام علیک

مصحفِ ناطق ہے تو علمِ لدن تجھ سے ہے

تو ہی الف لام میم شاہ سلام علیک

تابشِ دیدار سے ظلمتِ غم ڈھل گئی

تیرے کرم سے کریم شاہ سلام علیک

 

۲۶

 

مظہرِ نورِ خدا آئینۂ حق نما

مصدرِ لطفِ عمیم شاہ سلام علیک

تیرے محبّت سے میں دیکھ کے پامال ہوں

رحم کر اے بو رحیم شاہ سلام علیک

عشق کا ہوں میں قتیل نفخۂ جان بخش بھیج

ہمرہِ بادِ نسیم شاہ سلام علیک

تجھ سے شفا پا گئے دردِ جہالت سے ہاں

ہم جو ہوئے تھے سقیم شاہ سلام علیک

پیکرِ نورِ خدا تو ہی تو ہے رہنما

سوئے رہِ مستقیم شاہ سلام علیک

مطلعِ رحمت ہے تو گوہرِ حکمت ہے تو

تو ہے صبور و حلیم شاہ سلام علیک

کون ہے تجھ سا شفیق ہم پہ یہاں اور وہاں

حامی و یارِ حمیم شاہ سلام علیک

اس دلِ ویران میں آ، کہ وہ آباد ہو

چونکہ ہے تیرا حریم شاہ سلام علیک

وصل ہے گویا بہشت راحتِ جان سے بھری

ہجر، عذابٌ الیم شاہ سلام علیک

نقطۂ بسمل میں ہے عارفِ حق کے لئے

ایک کتابِ ضخیم شاہ سلام علیک

۲۷

 

معجزۂ عشق سے مردہ دلوں کو جِلا

کون ہے تجھ سا حکیم شاہ سلام علیک

جب سے کہ آیا نصیرؔ تیری غلامی میں بس

ہے ترے در پر مقیم شاہ سلام علیک

 

۲۸

 

یارِ بدیعُ الجمال

 

جانِ جہان کون ہے؟ یارِ بدیعُ الجمال

دل میں نہان کون ہے؟ یارِ بدیعُ الجمال

جلوہ نما ہے ادھر حیرتِ اہلِ نظر

غیرتِ شمس و قمر یارِ بدیعُ الجمال

چہرہ مجھے یاد ہے حور و پری زاد ہے

شاد ہے آزاد ہے یارِ بدیعُ الجمال

پیکرِ حسن و جمال با ہمہ وصفِ کمال

دہر میں ہے بیمثال یارِ بدیعُ الجمال

جانِ بہار جانِ من رونقِ باغ و چمن

غنچہ دہن گلبدن یارِ بدیعُ الجمال

جلوہ دکھا جا ذرا دل میں سما جا ذرا

روح میں آ جا ذرا یارِ بدیعُ الجمال

سب میں اسی کا مکان سب ہیں اسی کے نشان

سب کی وہی جانِ جان یارِ بدیعُ الجمال

۲۹

 

نورِ سحر تجھ سے ہے علم و ہنر تجھ سے ہے

لعل و گہر تجھ سے ہے یارِ بدیعُ الجمال

عشق و فنا کی قسم! وصل عطا کر صنم

کل کو رہیں گے نہ ہم یارِ بدیعُ الجمال

عشق میں اک ساز ہے جس میں ترا راز ہے

اس پہ مجھے ناز ہے یارِ بدیعُ الجمال

اے مرے ماہِ منیر یاد تری دلپذیر

تجھ سے فدا ہے نصیرؔ یارِ بدیعُ الجمال

 

“حلقۂ اربابِ ذوق”  گلگت کی خدمت میں۔

کراچی، جمعہ ۱۳، ربیع الثانی ۱۴۱۹ھ،  ۷، اگست ۱۹۹۸ء

 

۳۰

 

علمی سفر کی تعریف و ترغیب

 

ہے دور بہت علمی سفر تیز چلا چل

پر امن ہے یہ راہ نہ ڈر تیز چلا چل

تو ربّ سے سدا ہمتِ عالی کو طلب کر

تاخیر نہ کر دیر نہ کر تیز چلا چل

ہے عمرِ گرانمایہ فقط علم کی خاطر

کر علم کی راہوں میں سفر تیز چلا چل

اس علمِ حقیقی کو سمجھ گنجِ خدا ہے

تاخیر نہ کر اس کا سفر تیز چلا چل

بے رنج کوئی گنج نہیں سارے جہان میں

گنجینۂ حکمت ہے جدھر تیز چلا چل

ہر علمی مسافر سے نصیرا تو کہا کر

اے نیک نصیب نیک سفر تیز چلا چل

 

کراچی، بدھ ۶، نومبر ۲۰۰۲ء

 

۳۱

 

اس نے کہا:

“میں تیرا دل ہوں”

 

سچ ہے کہ کہا اس نے اک گنجِ خدا ہے دل

جب عشقِ حقیقی سے ویرانہ پڑا ہے دل

ہر گونہ تسلی ہے دیدار کی دولت سے

ہر چند کہ ظاہر میں آہوں سے بھرا ہے دل

اس قالبِ خاکی میں دل عالمِ اکبر ہے

دل دائرۂ کل ہے اور ارض و سما ہے دل

اسرارِ شہِ خوبان اس دل کے خزانے ہیں

صد بار فدا ہے جان صد بار فدا ہے دل

در پردہ کہا اس نے دل میرے حوالے کر

اے جانِ جہان، واللہ! یہ لے کہ تیرا ہے دل

اس مرتبۂ دل کو عارف ہی سمجھتا ہے

گر پاک کرے کوئی تب عرشِ خدا ہے دل

دلدادۂ  الفت ہوں اب مجھ میں کہاں ہے دل؟

دلبر نے لیا دل کو عاشق میں کجا ہے دل؟

۳۲

 

صد شکر کہ اب جانان خود میری خودی ہوگا

جب جان ہے فدا اس سے جب اس میں فنا ہے دل

اشعارِ نصیری میں اسرارِ نہانی ہیں

دل عقدۂ  لاینحل اور عقدہ کشا ہے دل

 

بموقعِ  ’علامہ نصیر الدین کے ساتھ ایک شام‘  زیرِ اہتمام حلقۂ اربابِ ذوق گلگت ،

۲۸ ، جوالائی ۱۹۹۸ء بمقامِ ریویریا ہوٹل۔

 

۳۳

 

السّلام یا نورِ یزدان السّلام

 

السّلام یا شاہِ شاہان السّلام!

السّلام یا نورِ یزدان السّلام!

السّلام! وا گنجِ پنہان السّلام!

السّلام وا جیندو قرآن السّلام!

السّلام می دین و ایمان السّلام!

السّلام می جان و جانان السّلام!

السّلام می نورے آسمان السّلام!

السّلام می عشقے سلطان السّلام!

اُن خدائے اسمِ اعظم با حضور!

بُٹ معظم بُٹ مکرم با حضور!

ذکرِ اعلیٰ ہم خفی و ہم جلی!

جانشینِ مصطفیٰ نورِ علی!

 

کراچی، منگل، ۲۰، جنوری ۲۰۰۳ء

 

۳۴

 

سلکِ مروارید

(موتیوں کی لڑی)

بموقعِ تشریف آوریٔ مولانا حاضر امام شاہ کریم الحُسینی صلوات اللہ علیہ و سلامہ

 

وہ مقدّس وہ مطّہر وہ امام

جانشینِ مصطفیٰ عالی مقام

دیکھ لو ! اس کو خدا کے حکم سے

عالمِ ملکوت کرتا ہے سلام

نورِ یزدان ہے وہ اولادِ علیؑ

جس کا دنیا کر رہی ہے احترام

شاہِ دین جس کو کہا جاتا ہے وہ

جو جہان میں ہے نہایت نیک نام

جو نگاہِ عشق میں اک جلوہ ہے

آسمانِ حسن کا ماہِ تمام

جو مسیحائے زمان ہے وہ طبیب

جس کا درشن زخمِ دل کا اِلتیام

وہ خدائے پاک کا ہے زندہ گھر

حاجیانِ عشق کا بیت الحرام

وارثِ علم نبی سلطانِ دین

بعدِ احمد ہے وہی خیرالانام

باتجمل باکرامت باوقار

وہ خدا کا چہرہ ہے مالاکلام

گنجِ قرآن کا جو ہے خازِن وہی

رہنما ہے جانبِ دارالسّلام

جس کی مِدحت ہے کلامِ پاک میں

کیوں نہ اس کو یاد کرلوں صبح و شام

بات اس کی حکمتوں سے ہے بھری

قابلِ صدہا ستائش اس کا کام

۳۵

 

علم زر ہے میں ہوں اس کا زرخرید

وہ مرا آقا ہے میں اس کا غلام

محفلِ عشاق ہے بزمِ طراب

یاد اس کی ہے شرابِ لالہ فام

میں بھی اِک سائل ہوں مولا اک نظر

اس طرف کر اے کریمِ خاص و عام

کچھ چہل قدمی کرو اور مسکراؤ

میرے باغِ دل میں آ کر خوش خرام!

یہ تبسّم ہے کہ جادوئے حلال!

پھول ہیں یا آ گئے جنّت کے جام

تیری الفت بھی کیا اکسیر ہے!

جس سے ہم کندن ہوئے اور شاد کام

منزلِ مقصود آئی ہے قریب

ساتھیو! آگے چلو بس چند گام

صبحِ انورکا طلوع ہے اے نصیرؔ

جاگ اٹھنا اب ہوا وقتِ قیام

 

۲۴،صفر ۱۴۰۶ھ۔ ۸،نومبر ۱۹۸۵ء

۳۶

 

مرکزِ علوم

(لائبریری)

 

قائم ہوا بفضلِ خدا مرکزِ علوم

راہِ عمل کی شمعِ ہُدا مرکزِ علوم

تھا نور مصطفیٰ و علیؑ مایۂ عقول

جب اس جہان میں کوئی نہ تھا مرکزِ علوم

اس نور سے جہان میں ہوا علم کا ظہور

پھر رفتہ رفتہ بن کے رہا مرکزِ علوم

توضیحِ راز علمِ سماوی فروغِ دین

میراثِ پاک آلِ عبا مرکزِ علوم

شاہنشہِ علوم و حِکَم ہے کریمِؑ دہر

الحق اسی نے ہم کو دیا مرکزِ علوم

روشن ہو دہر علمِ امامت سے دن بدن

یاں اس لئے ہوا ہے بِنا مرکزِ علوم

آثارِ علمِ ناصرِ خسرو قدس سرہُ تلاش کر

ہاں اس لئے ہوا ہے بپا مرکزِ علوم

 

۳۷

 

ناصر ق س کے علمِ دین سے دنیا بدل گئی

وہ تھا قرینِ نورِ خدا مرکزِ علوم

اس در سے آ کہ حکمتِ ناصر تجھے ملے

کوئی نہیں ہے اس کے سوا مرکزِ علوم

سرچشمۂ حیاتِ دوامی ہے علمِ دین

یعنی یہی ہے آبِ بقا مرکزِ علوم

علم و ہنر سے کوئی نہیں بے نیاز اب

مرجع برائے شاہ و گدا مرکزِ علوم

مانا کہ مرضِ جہل ہے دنیا میں بدترین

اس مرض کی یہی ہے دوا مرکزِ علوم

جس منزلِ مراد میں ہے نورِ کبریا

اس راہ کا ہے راہ نما مرکزِ علوم

ہے باعثِ سعادتِ دنیا و آخرت

اللہ کا ہے جود و عطا مرکزِ علوم

مانا کہ علمِ دولت پایندہ ہے مگر

آتا نہیں ہے علم بلا مرکزِ علوم

کرتا ہو کوئی علمِ حقیقت کی جستجو

تو اس کو روز روز دکھا مرکزِ علوم

علم و ادب کا گنجِ گراں مایہ مل گیا

اس وقت سے کہ ہم کو ملا مرکزِ علوم

 

۳۸

 

آنکھیں ہوئی ہیں خیرہ فروغِ علوم سے

جب سے ہوا ہے جلوہ نما مرکزِ علوم

قائم کیا ہے قوم نے امیدِ خیر میں

یا ربّ رہے ہمیشہ بجا مرکزِ علوم

مردِ حکیم کا ہے یہی قولِ مختصر

گنجینۂ گہر ہے سدا مرکزِ علوم

دیکھا نصیرؔ زار ہوا علم کا چراغ

زینت فزائے ارض و سما مرکزِ علوم

 

۳۹

 

توصیفِ لطیفِ مولانا حاضر امامؑ

 

مظہرِ نورِ خدا مولا کریم

جانشینِ مصطفیٰؐ مولا کریم

معدنِ جود و سخا کانِ کرم

چشمۂ آبِ بقا مولا کریم

وہ چراغِ کائناتِ عقل و جان

وہ ستون، زیرِ سماء مولا کریم

وہ ظہورِ نورِ شاہِ اولیاء

یعنی خود ہے مرتضیٰ مولا کریم

وہ خلیفہ ہے خدائے پاک کا

حیّ و حاضر ہے سدا مولا کریم

عالمِ شخصی میں جا کر دیکھ لے

کنزِ اسرارِ خدا مولا کریم

وہ امامِ عصرِ حاضر ہے بحق

بادشاہِ دُو سرا مولا کریم

تو کتابُ اللّٰہِ ناطق ہے ہمیں

تجھ سے حکمت ہے عطا مولا کریم

عاشقان تھے منتظر دیدار کے

مرحبا صد مرحبا مولا کریم

جان فدا کر اپنے آقا سے نصیرؔ!

جان و دل تجھ سے فدا مولا کریم

 

سنیچر۱۵، نومبر ۲۰۰۳ء

۴۰

 

ہمتِ مردان مددِ خدا

 

تائیدِ الٰہی ہے سدا ہمتِ مردان

ہے باعثِ انعامِ خدا ہمتِ مردان

مشکل ہی سہی منزلِ مقصود کی راہیں

ہے سہل جو ہو راہ نما ہمتِ مردان

آسان ہے ظلماتِ حوادث سے گزرنا

ہوجائے اگر نورِ ہدیٰ ہمتِ مردان

اقوام کے اس معرکۂ علم و عمل میں

دیکھو گے سدا قلعہ کشا ہمتِ مردان

گنجینۂ اقبال و سعادت تو یہی ہے

اللہ کا ہے جود و عطا ہمتِ مردان

کب جاگتی تعمیرِجہان خوابِ عدم سے

دیتی نہ اگر اس کو جگا  ہمتِ مردان

یہ رونقِ تہذیب و تمدّن بھی نہ ہوتی

ہوتی نہ اگر جلوہ فزا ہمتِ مردان

معشوقِ ہنر بزمِ ثقافت میں نہ آتا

دیتی نہ اگر بانگِ درا ہمتِ مردان

ہمت سے گئے اہلِ ہنر سوئے کمالات

تم بھی تو بڑھو کرکے ذرا ہمتِ مردان

سمجھو گے اگر معجزۂ ہمتِ مردان

کرلو گے طلب کرکے دعا ہمتِ مردان

اے ہمتِ مردان کہ تو ہے دمِ عیسیٰ

ہر درد کی ہے تو ہی دوا ہمتِ مردان

اس گلشنِ امید میں تو موسمِ گل ہے

جو غنچہ کھلا تجھ سے کھلا ہمتِ مردان

سرمایۂ ایجاد ہے تو رُوئے زمین پر

تجھ ہی سے گئے سوئی سما ہمتِ مردان

ہر عارفِ کامل جو ہوا واصلِ یزدان

لاریب کہ وہ تجھ سے ہوا ہمتِ مردان

ہمت سے ہوئے جو بھی ہوئے زندۂ  جاوید

مانا کہ تو ہے آبِ بقا ہمتِ مردان

۴۱

 

وہ عقدۂ مشکل کہ نہ کھلتا تھا کسی سے

فی الفور وہ تجھ ہی سے کھلا ہمتِ مردان

ہمت کے ترانے ہیں یہ اشعارِ نصیری

خود آکے ہوئی نغمہ سرا ہمتِ مردان

مرقوم ہے بس صفحۂ عالم پہ یہی قول

“تائیدِ الٰہی ہے سدا ہمتِ مردان”

۴۲

 

نشانہائے امامِ زمان علیہ السّلام

 

شہ کریم نورِ حق امامِ زمان

قدوۂ کاملانِ کون و مکان

سبطِ ختمِ رسل وہ آلِ علیؑ

نائبِ مرتضیٰ ؑ ولیٔ زمان

حیّ و حاضر ہے اس جہاں میں مدام

چونکہ ہے عقلِ عقل و مایۂ جان

فائض النّور دونوں عالم کا

مثلِ خورشید ہے عیان و نہان

مجھ سے گر پوچھے کوئی اس کا نشان

بے مثل ہے، کہ ہے خدا کا نشان

بے نشان بھی ہے بانشان بھی ہے

مظہرِ حق کی ذاتِ عالی شان

اک نشان یہ کہ حیّ و قائم ہے

از ازل تا ابد شہِ دوران

اک نشان یہ کہ ہے وہ آلِ نبیؐ

ہادیٔ دین قسیمِ نار و جنان

اک نشان یہ کہ جہد کرتا ہے

تاکہ ہو اس جہاں میں صلح و امان

علم و حکمت ہے اک نشان اس کا

چونکہ ہے پیشوای اہلِ جہان

حسنِ سیرت ہے اک نشان اس کا

جس کا ثانی نہیں چہ انس و چہ جان

بے نیازی ہے اک نشان اس کا

وہ نہیں مدّعی چنین و جنان

کشفِ باطن ہے اک نشان اس کا

تاکہ ظاہر ہو ہم پہ گنجِ نہان

۴۳

 

اک نشان یہ کہ ہے وہ دنیا میں

مثلِ کشتیٔ نوح و کشتیبان

اس کے صدہا نشان ہیں ایسے

جن کا مجھ سے نہ ہوسکا ہے بیان

حقِ توصیفِ شہ ادا نہ ہوا

معترف ہے نصیرِ بے سامان

ایڈیٹنگ کی تاریخ:۲۳،جولائی ۲۰۰۱ء

 

۴۴

 

 

لامکان کی کیفیّت

 

گرچہ برتر ہے مکان سے حدِ کیفِ لامکان

جلوہ گر ہے صورتِ عالم میں پیدا و نہان

ہے تصور لامکان کا بس عجیب و دلفریب

لاہیولیٰ و مسافت اک جہانِ جاودان

لوح و کرسی لامکان ہے رحمتِ کل لامکان

جانِ عالم لامکان ہے جانفزا و جانستان

جوہر حسن و تجمل مایۂ نقش و نگار

ذاتِ عرفان و حقائق اصلِ لذاتِ جنان

لامکان نورِ مجرد ہے محیطِ کل ہے وہ

غرقۂ صورت ہے اس سے کائنات اندر میان

جسمِ کلّی ہے مکان و نفسِ کلّی لامکان

پس مکان ہے لامکان اور لامکان میں ہے مکان

اب جہان کی زندہ صورت کو مجرّد مانیے

لامکان و لازمان ثابت ہوئی جانِ جہان

۴۵

 

اصل اوّل میں نقوشِ جملہ اشیا زندہ ہیں

پس اسی کو لامکان اور عالمِ تجرید جان

جیسے ہوتا ہے بشر کا اک جدا جسمِ لطیف

اس طرح ہے جانِ عالم بے مکان و بے زمان

عکس عالم ہے تخیّل میں ہیولیٰ کے بغیر

باجمالِ صورت و معنی و حیّ و بازبان

عالمِ خواب و تخیّل ہے مثالِ لامکان

پر نہیں یہ زندگی و روشنی مانند آن

مختلف درجات ہوتے ہیں مگر اس خواب کے

خوابِ غافل، خوابِ عاقل، خوابِ پاکِ عارفان

خوابِ عارف لامکان کا نسخۂ تحقیق ہے

خوابِ غافل ہے مثالِ ظلمتِ روح و روان

عالمِ خواب و تخیل ہے کتابِ ممکنات

اس میں سب کچھ ہے سمجھ لے اے حکیمِ نکتہ دان

لامکان کا ہر نمونہ آخرت کی ہر مثال

کچھ مناظر خوف کے اور کچھ مسرّت کے نشان

صورتِ کون و مکان و نقشۂ دہر و زمان

حالتِ روی زمین و کیفِ جوفِ آسمان

ماضی و مستقبل اس میں حال ہو کر رہ گئے

صورتِ پیری و طفلی دیکھ سکتا ہے جوان

۴۶

 

مردِ عارف کے خیال و خواب جب روشن ہوئے

قدرتِ حق نے دکھایا صد جہان اندر جہان

پھر خیال و خواب سے اک ایسی بیداری بنی

جو حقائق کے لئے ہوتی رہی ہے ترجمان

پس بشر کی ذات ہے آئینۂ ممکن نما

جب مُصَفّا ہو حقائق اس میں ہوتے ہیں عیان

اس طرح وہ واقفِ اسرارِ قدرت ہو گیا

کام اس نے وہ کیا جس کا نہ تھا وہم و گمان

اس نے یہ جانا کہ کوئی کام ناممکن نہیں

چونکہ وہ خود مظہرِ قدرت ہے بہرِ امتحان

گرچہ وہ اک قطرہ ہے لیکن سمندر ساتھ ہے

گرچہ وہ اک ذرّہ ہے سورج ہے اس میں ضوفشان

مقصدِ علمِ ضروری سِرِّ وحدت ہے نصیرؔ

علمِ فاضل ہے مثالِ آبِ بحرِ بیکران

دیکھنا یہ ہے کہ اس پانی پہ ہے عرشِ اِلہٰ؟

یا اسے اب چرخِ اعظم پر لئے ہیں حاملان

پوچھنا گر شرطِ دانش ہے تو سنیے اک سوال

قادرِ مطلق مَلک پر کیوں ہوا بارِ گران؟

 

۴۷

 

 

منقبتِ نورِ امامت

بصورتِ سوال و جواب

 

جواب                                        سوال

کون ہوا پیشوا بعدِ رسولِ امین؟

جس کو خدا نے دیا نامِ “امامِ مبین”

منبرِ روزِ غدیر کس کے لئے تھا بنا؟

سِرِّ خدا کے لئے تا کہ بنے جانشین

پرچمِ دینِ نبی کس نے کیا تھا بلند؟

حیدرِ کرارؑ نے گونۂ شیرِ عرین

بعد خدا و رسول کس کی اطاعت ہے فرض؟

اسکی جو ہے نورِ حق صاحبِ دنیا و دین

نورِ امامِ مبینؑ کب سے ہوا ہے طلوع؟

یہ تو ازل ہی سے ہے جبکہ نہ تھی ما و طین

کون ہے دلدل سوار؟ کون ہے وہ نامدار؟

سرورِ مردان علی قاضیٔ روزِ پسین

خازنِ علمِ خدا کون ہے اس دہر میں؟

رہبرِ راہِ ھُدا ہادیٔ دینِ متین

باب  علوم نبیؐ کون ہے اے ہوشمند؟

نورِ علیؑ ہے سدا بابِ رسولِ امینؐ

سلسلۂ نور کی کب سے ہوئی  ابتدا؟

جبکہ ہوا بوالبشر نائبِ روئے زمین

فرض ملائک پہ کیوں سجدۂ آدم ہوا؟

آدمِ خاکی میں تھا نورِ علیؑ جاگزین

نفسِ رسولِ خدا کون ہے وہ ارجمند؟

والیٔ ملکِ ولا پیشروِ متقین

ہاں تو وہی ہے مگر جلوہ نما ہے کہاں؟

چشمِ بصیرت سے دیکھ دل میں ہوا ہے مکین

عرشِ اِلہٰ کا قیام جس پہ ہے وہ کون ہے؟

سلسلۂ نور ہے حاملِ عرشِ برین

کس کو خدا نے دیا خاتمِ حکمت نگین؟

مملکتِ ملکِ دین جس کو ہے زیرِ نگین

۴۸

 

کس کے احاطے میں ہے دائرہ کل شَیۡ؟

ذاتِ امامت میں ہے عالمِ نورِ یقین

ہے کوئی ایسا چراغ جو نہ بجھے دہر میں؟

نور امامت ہے وہ نورِ دلِ مومنین

کس نے کہا اے نصیرؔ! شاہ بہت دور ہے؟

جسم سے ہاں دور ہے دل سے مگر ہے قرین

 

۴۹

 

ترجمانیٔ زبانِ حالِ

مجیب الدین (مرحوم=بہشتی) ابنِ علی یار خان مرتضیٰ آباد

 

رشتہ دارو! فضلِ مولا پر رکھو محکم یقین

میں تو ہوں الحمدللہ ساکنِ خلدِ برین

موت میری تھی شہادت میں مریدِ شاہ تھا

پس بہشت میں شادمان ہوں تم نہ ہوجانا حزین

میری طوفانی خوشی کا تم کو اندازہ نہیں

تم نے دیکھی ہی نہیں ہے باغِ جنّت کی زمین

تم دعائیں کرکے مجھ کو کچھ تحائف بھیج دو

تاکہ راضی ہو ہمیشہ تم سے ربّ العالمین

ہر بہشتی شادمان ہے اور دائم ہے جوان

سب کو حاصل ہے لِقائے حضرتِ سلطانِ دین

مجلسوں میں حور و غلمان لعل و گوہر کی طرح

ہیں مناظر سب حسین اور اہلِ جنّت نازنین

علم و حکمت کی مجالس نور کا دیدار بھی

نغمہ ہائے مدحِ مولا دل نواز و دل نشین

خواب میں اے کاش تم جنّت کا منظر دیکھتے!

تاکہ تم ہر گز نہ ہوتے میرے بارے میں غمین

معرفت ہی معرفت ہے تیری باتوں میں نصیرؔ!

اس لئے اشعارِ شیرین ہیں مثالِ انگبین

 

ذوالفقار آباد، گلگت، جمعرات ۲۴ ۔مئی ۲۰۰۱ء

 

۵۰

 

تجسسِ فکر و نظر

 

کیا راز فتنہ ہے رخِ حسن و جمال میں؟

ہنگامہ ہوگیا ہے جہانِ خیال میں

اس رنگ و بوئے گل میں یہ سحرِ ستم ہے کیوں؟

بلبل کی زندگی ہے پڑی صد وبال میں

یہ ہے فنائے عشق جو پروانہ جل گیا؟

کیا رمز ہے چراغ کے اس اشتعال میں؟

آوازِ ساز کیسی بنی مستیٔ شراب؟

جو صوفیوں پہ چھائی ہے اس وجد و حال میں

گاتے ہیں جب طیورِ چمن نغمۂ بہار

آتے ہیں کیوں ادیب و سخنور جلال میں؟

اس آرزوئے منظرِ قدرت سے کیا مراد؟

کس کا ہے یہ پیام نسیمِ شمال میں؟

وہ سیرِ جوئبارِ شبِ ماہتاب میں

نقشِ فلک ہو جلوۂ آبِ زلال میں

 

۵۱

 

آنکھوں کو سیرِ باغ سے کیوں واسطہ پڑا

کانوں کو کیا ہے پردۂ  حسنِ مقال میں؟

ذوقِ نگاہِ طفل کا عالم بھی دیکھئے!

مبہوت ہے نمونۂ رنگ و جمال میں

ان دلبرانِ دہر کا یہ فنِ دلبری؟

جادویٔ دل کشی تو نہیں خد و خال میں

عالم ہے رنگ برنگیٔ تصویرِ حسنِ یار

ہے جلوۂ  صفات کچھ اور عینِ حال میں

کچھ آگے جاکے دیکھ جمالِ صفاتِ ذات

مت پوج ان بتوں کو جہانِ مثال میں

دیکھا نصیرِ زار کمالِ جمالِ دوست

ہر شے سے جلوہ گر ہے مقامِ وصال میں

۵۲

 

انا اور فنا

 

ہزاروں لعل و گوہر ہیں درونِ سنگ ہستی میں

نہ کر تاخیر اے نادان طریقِ خود شکستی میں

درختِ سربلندی سے تجھے گر بہرہ لینا ہے

خودی کے تخم کو اوّل گرا دے خاکِ پستی میں

پذیرائی نہ کر اَی نورِ آتش ہیزمِ تر کی

کہ وہ مغرور ظلمت ہے فریبِ خود پرستی میں

بہ شرطِ دین و دانش سعی کر تو زر بکف ہو جا

و گرنہ گنجِ لقمانی نہان ہے تنگ دستی میں

عصائے دین توانگر کے لئے از بس ضروری ہے

کہ گر جاتا ہے انسان نشۂ دولت کی مستی میں

اگر تو ہو نہیں سکتا فنا فی ہستیٔ اعلیٰ

بحالِ خود رہے گا تا قیامت اپنی ہستی میں

خودی کے دشتِ وحشت سے تعلق اب نہیں باقی

نصیرا! ہم تو رہتے ہیں ’’انا‘‘ سے پار بستی میں

۵۳

 

جمیلِ کلّ

 

جہان میں میرے صنم کی کوئی مثال نہیں

“جمیلِ کلّ” ہے وہی اور کہیں جمال نہیں

یہ دیکھ شمس و قمر کو زوال ہوتا ہے

جہانِ حسن کے خورشید کو زوال نہیں

کمالِ دلبری اس کو بہشت سے آیا

تو پھر جہاں میں کہیں اور یہ کمال نہیں

وصالِ شاہِ بتان اس جہاں میں مشکل ہے

جو کل بہشت میں ہے آج وہ وصال نہیں

مجھے ملالِ مسلسل نے خوب روند لیا

خدا کے فضل سے اب تو کوئی ملال نہیں

جوابہائے “حکم” سے بھرا خزانہ ہے

جوابہا تو بہت ہیں مگر سوال نہیں

وہ شاہِ “کونِ” حسینان حجاب دل میں ہے

حجاب کیسے ہٹاؤں مری مجال نہیں

 

۵۴

 

جہان میں اہلِ قلم کوئی بھی غریب نہیں

امیرِ علم و ادب ہے اگرچہ مال نہیں

خیال “طائرِ برقی” ہے اے نصیر الدین!

عظیم عطیۂ رحمان ہے خیال نہیں

 

گزشتہ تاریخ: بدھ ۲۳،مئی ۲۰۰۱ء

موجودہ تاریخ: بدھ ۲۴،ستمبر۲۰۰۳

 

۵۵

 

نعت

حضرتِ سیدالانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

 

وہ بادشاہِ انبیاء وہ تاجدارِ اولیاء

محبوبِ ذاتِ کبریاء یعنی محمد مصطفیٰ

وہ رحمتہ للعالمین سلطانِ پاکِ مُلکِ دین

وہ ہادیٔ حقُ الیقین یعنی محمد مصطفیٰ

اقدس ہے اس کا سلسلہ عالی ہے اس کا مرتبہ

قرآن ہے اس کا معجزہ یعنی محمد مصطفیٰ

وہ مفخرِ سب مسلمین وہ سرورِ سب کاملین

وہ رحمتِ دنیا و دین یعنی محمد مصطفیٰ

وہ پیشوائے مرسلین وہ ہے شفیعُ المذنبین

مقصودِ ربّ العالمین یعنی محمد مصطفیٰ

وہ تھا نبی وہ تھا صفی علمِ الٰہی میں غنی

محتاج اس کے ہیں سبھی یعنی محمد مصطفیٰ

جس شب گئے پیشِ خدا افلاک سب تھے زیرِپا

لولاک ہے اس کی ثناء یعنی محمد مصطفیٰ

۵۶

 

نورِ مجسّم وہ نبی خود اسمِ اعظم وہ نبی

سب سے مقدّم وہ نبی یعنی محمد مصطفیٰ

میں ہوں نصیرِ خاکسار اے سیدِ عالی وقار

راضی ہے تجھ سے کرد گار جنّت تجھی سے پر بہار

یعنی محمد مصطفی یعنی محمد مصطفی

اتوار ۱۳،جنوری ۲۰۰۲ء

۵۷

 

علمِ روحانی

 

عزیزو! جان و دل کرنا فدائے علمِ روحانی

کہ ہم آئے ہیں دنیا میں برائے علمِ روحانی

ہماری زندگانی کی غرض ہاں معرفت ہی ہے

مگر یہ آ نہیں سکتی سوائے علمِ روحانی

خودی کو اشکِ الفت میں ہمیشہ دھو لیا کرنا

اسی سے سن سکے گا دل صدائے علمِ روحانی

مریضِ جہل کا ہمدرد ہو جانا اگر چاہو

تو ہر قیمت پہ کر دینا دوائے علمِ روحانی

اسی میں رازِ قرآن ہے اسی میں نورِ یزدان ہے

کہ ہے سب سے بڑی رحمت عطائے علمِ روحانی

اسی کی قدر و قیمت ہے خداکی بادشاہی میں

بہائے دین و دینا ہے بہائے علمِ روحانی

غبارِ دہر اس کی رفعتوں کو چھو نہیں سکتا

فلک سے بڑھ کے عالی ہے فضائے علمِ روحانی

۵۸

 

فلک پر تم نہ جاسکتے، اسی کا شکر کرنا ہے

کہ خود جھک جھک کے آیا ہے سمائے علمِ روحانی

علاجِ دردِ نادانی نہیں ہوتا ہے دنیا میں

مگر یہ ہے کہ حاصل ہو شفائے علمِ روحانی

عروسِ روح کا سنگارِ کامل کس طرح ہوگا

نہ ہو جب تک اسے حاصل ردائے علمِ روحانی

وہ اک دنیا پہ مرتا ہے یہ اک عقبیٰ پہ مرتا ہے

تمہیں ہونا ہے جیتے جی فنائے علمِ روحانی

طلوعِ نورِ یزدان ہو فروغِ صبحِ عرفان ہو

ضیا پاشی کرے دل میں ضیائے علم روحانی

بہت ہیں نعمتیں لیکن نہیں ہے کوئی شی ایسی

کہ عاقل منتخب کر لے بجائے علمِ روحانی

وہ اک گنجینۂ دولت وہ اک سر چشمۂ لذت

وہ اک کانِ حلاوت ہے غذائے علمِ روحانی

خدا کی اک رضا صدہا رضائیں لے کے آتی ہے

عظیم ُ الشّان ہے سب سے رضائے علمِ روحانی

دلِ سنگین سے جاری ہوئے ہیں علم کے چشمے

مرے مولا نے مارا ہے عصائے علمِ روحانی

کہاں یہ دولتِ دنیا کہاں گنجینۂ عرفان

زہے قسمت کہ مل جائے غنائے علمِ روحانی

۵۹

 

تعجب ہے کہ اس محبوب کی از بس لقائیں ہیں

لقائے جانفزا اس کی لقائے علمِ روحانی

برسنے کو تلی بارش دلوں کے باغ و گلشن پر

وہ دیکھو بدلیاں لائیں ہوائے علمِ روحانی

امامِؑ وقت کے در کی غلامی کر نصیرالدین

یہیں پر بن کے رہنا ہے گدائے علمِ روحانی

 

۱۶۔ اگست ۱۹۷۹ء

 

۶۰

 

مناجات بدرگاہِ قاضیُ الحاجات

 

الہٰی شکرِ نعمت کے لئے اب چشمِ گریان دے

“فنائے عشق ہوجاؤں” یہی ہر لحظہ ارمان دے

اطاعت آنسوؤں سے ہو عبادت آنسوؤں سے ہو

محبت آنسوؤں سے ہو مجھے اک ایسا ایمان دے

مجھے یہ گریہ و زاری ہمیشہ تازہ رکھتی تھی

خدایا میری علّت کی یہی ہے کہنہ درمان دے

مناجاتوں میں سب احباب اکثر گڑگڑاتے ہیں

تو اپنے فضل سے ان کو الہٰی گنجِ قرآن دے

بھلی لگتی ہے بیحد آنسوؤں کی گوہر افشانی

خداوندا کرم کر ہم کو چشمِ گوہر افشان دے

ترے قرآنِ اقدس میں جواہر ہی جواہر ہیں

اسی دریائے رحمت سے خدایا درو مرجان دے

حبیبِ کبریا ہے وہ کہ تاجِ ابنیاء ہے وہ

محمد مصطفیٰؐ ہے وہ اسی کا ہم کو فرقان دے

۶۱

 

علیؑ قرآنِ ناطق ہے علیؑ ہی بابِ حکمت ہے

اسی کی رہنمائی سے دلوں کو نورِ عرفان دے

امام و حجتِ قائمؑ کہ سلطان بھی ہے جانان بھی

نصیرالدین کو یا ربّ ہمیشہ وصلِ جانان دے

 

ذوالفقار آباد، گلگت،۷۔ جون ۱۹۹۹ء

 

۶۲

 

 

وحدتِ انسانی اور امنِ عالم

 

جان فدا کردوں گا میں خود امنِ عالم کے لئے

تاکہ قربانی ہو میری ابنِ آدمؑ کے لئے

دل ہے زخموں سے بھرا اس انتشارِ قوم سے

میں کہاں جاؤں گا یاربّ! دل کے مرہم کے لئے

پرچمِ امن و امان دنیا میں کب ہو گا بلند؟

کون جان دیتا ہے دیکھو ایسے پرچم کے لئے؟

صلحِ کلّ کا اک زمانہ کب جہان میں آئے گا؟

کیا جہان پیدا ہوا ہے جنگ و ماتم کے لئے؟

اتحاد و امن کی کوشش کرو اہلِ قلم!

آگئے ہیں ہم جہاں میں سعیٔ پیہم کے لئے

عالمِ انسانیّت جب اس قدر بیمار ہے

رحم کیوں آتا نہیں ہے ابنِ مریمؑ کے لئے؟

اتفاقِ قوم میں ہیں برکتیں ہی برکتیں

نوجوانو! عہد کر لو صلحِ محکم کے لئے

 

۶۳

 

آبیاری ہے نہ بارش باغِ دل بس خشک ہے

رات بھر رونا پڑے گا اب تو شبنم کے لئے

عشق کا غم چاہیے مجھ کو نہ کوئی اور شے

میں تو پیدا ہوگیا ہوں عمر بھر غم کے لئے

اک نرالا یار ہمدم ہے وہی ہم راز ہے

مررہا ہوں جیتے جی میں اپنے ہمدم کے لئے

اے نصیرالدین اب دنیا کو یہ پیغام دو

“جان فدا کر دوں گا میں خود امنِ عالم کیلئے”

۱۲،اکتوبر ۱۹۹۹ء

 

۶۴

 

 

دعائے جماعت خانہ کے فیوض و برکات

 

مومن کو سدا رحمتِ رحمان دعا ہے

طاعت میں یہی مقصدِ قرآن دعا ہے

من احسن قولاً سے دعا ہی کو سراہا

اللہ نے، پس مایۂ ایمان دعا ہے

یہ میوۂ  توفیق ہے یہ مغزِ عبادت

بس حاصل ایمانِ مسلمان دعا ہے

مولا کی اطاعت میں جھکا دو سرِ تسلیم

سمجھو کہ تمہیں ثمرۂ  فرمان دعا ہے

تم راہِ حقیقت میں دعا ہی سے مدد لو

اس راہ میں جب شمعِ فروزان دعا ہے

گرجان میں ہے کوئی مرض یا کہ بدن میں

ہر درد و مرض کے لئے درمان دعا ہے

جب جلوۂ  انوارِ الہٰی کی طلب ہو

دیکھو کہ تمہیں دیدۂ  عرفان دعا ہے

 

۶۵

 

ہے عالمِ دل نورِ حقیقت سے منور

خورشیدِ ضیا بخشِ دل و جان دعا ہے

دنیا میں اگر رنج و الم ہے تو نہیں غم

صد شکر کہ یاں روضۂ رضوان دعا ہے

معلوم ہوئی توبۂ آدمؑ کہ دعا تھی

پھر نوحؑ کا وہ باعثِ طوفان دعا ہے

ہو جائے اگر آتشِ نمرود ہویدا

ہو کوئی خلیلؑ اب بھی گلستان دعا ہے

یونسؑ کو دعا ہی نے دلائی ہے خلاصی

ہر دور میں بس رحمتِ یزدان دعا ہے

ہاں خضرؑ ہوا زندۂ جاوید اسی سے

دنیا میں یہی چشمۂ حیوان دعا ہے

موسیٰؑ کو عصا اور یدِ بیضا کے نشانے

حاصل جو ہوئے وجہِ نمایان دعا ہے

عیسیٰؑ میں جو تھا معجزۂ روحِ مقدّس

اس معجزہ کی حکمتِ پنہان دعا ہے

احمد جو ہوئے گوشہ نشین غارِ حرا میں

مقصودِ نبیؐ شمعِ شبستان دعا ہے

مولائے کریم دہر میں ہے نورِ الہٰی

اس نور سے کچھ فیض کا امکان دعا ہے

۶۶

 

گر نورِ امامت بمثلِ راہِ خدا ہے

اس راہ میں بھی مشعلِ ایقان دعا ہے

عاشق نے جو کچھ دیکھ لیا دیدۂ  دل سے

صد گونہ یہاں جلوۂ  جانان دعا ہے

تو شام و سحر آکے یہاں ذکر و دعا کر

اخلاق و عقیدت کی نگہبان دعا ہے

جس راہ سے منزلِ وحدت کا سفر ہے

منزل کی طرف وہ رہِ آسان دعا ہے

اس نظمِ نصیری میں ہے اک گنجِ حقائق

گنجینۂ پر گوہرِ رحمان دعا ہے

 

شوال ۱۳۹۵ھ۔اکتوبر ۱۹۷۵ء

 

۶۷

 

نورِ مجسمؑ

 

خدائے ذوالجلال اپنے ارادوں پر جو قادر ہے

خدا کا نور امامِ حقؑ جہان میں حیّ و حاضر ہے

بچشمِ نور بین دیکھے اگر کوئی، علیٔ دہرؑ

درخشاں مہر کی مانند اس دنیا میں ظاہر ہے

کتاب اللہ کے علم و عمل کا ضامن و عالم

زمانے کے تقاضے پر وہ فرمانے کا ماہر ہے

کتاب اللہ میں احکام ہیں ہر اک زمانے کے

زمانے کا امامؑ اسرارِ قرآنی پہ قادر ہے

نبیوں کی شریعت کا وہی مقصودِ کلّی ہے

زمین و آسمان اس اشرف و اکمل کی خاطر ہے

خدا کا نور ہے وہ اس لئے ہر شیٔ پہ قادر ہے

وہی دانائے کلّ ہے عالِمِ ما فی الضمائر ہے

صلاحِ خلقِ عالم کے لئے آیا ہے دنیا میں

ہے جس کا آشیان عرشِ الہٰی پر وہ طائر ہے

 

۶۸

 

خدا کی آنکھ ہے وہ اس سے کوئی شے نہیں مخفی

وہ کل موجودِ کونین پر مدام الوقت ناظر ہے

خدا کی معرفت ہی ہے امامِ وقتؑ کی پہچان

جسے حاصل ہو اس کی معرفت شادان و فاخر ہے

نصیرؔ اپنا قلم رکھ اعترافِ عجز ہی بہتر

ثنا و مدح مولا کی تری طاقت سے باہر ہے

 

۶۹

 

علم و عمل کی افضلیّت

 

خورشیدِ عیان عالمِ جان علم و عمل ہے

معمارِ جہان گنجِ نہان علم و عمل ہے

تحقیق یہی ہو گئی ہے فکر و نظر سے

سرمایۂ اقوامِ جہان علم و عمل ہے

ہر فرد کی معراجِ ترقی بھی یہی ہے

ہاں مرتبۂ کون و مکان علم و عمل ہے

یہ خاصۂ انسان ہے یہ فضلِ خدا ہے

عزّت کے لئے روحِ روان علم و عمل ہے

پتھر کی نہ قیمت ہے نہ سودا کبھی ہوگا

بس بیش بہا گوہرِ کان علم و عمل ہے

فردوسِ برین جانِ چمن چہرۂ  جانان

در عالمِ دل جلوہ کنان علم و عمل ہے

ہے اشرف و اعلائے خلائق وہی انسان

ہوجائے اگر اس سے عیان “علم و عمل” ہے

 

۷۰

 

جو چیز سدا باعثِ صد فخر و خوشی ہے

وہ میوۂ  دل راحتِ جان علم و عمل ہے

اک بھید ہے اس عالمِ شخصی میں بڑا سا

وہ سرِّ ازل رازِ جنان علم و عمل ہے

اک نغمۂ قدسی ہے نہان ذاتِ بشر میں

وہ زمزمۂ پیر و جوان علم و عمل ہے

علیین میں اک زندہ کتاب بول رہی ہے

وہ معجزۂ  شرح و بیان علم و عمل ہے

کچھ اور خزانہ نہیں مطلوب نصیرا!

دنیا میں فقط گنجِ گران علم و عمل ہے

 

گزشتہ تاریخ: ۳۰ جولائی ۱۹۹۵ء ، کراچی

موجودہ تاریخ: جمعہ ۱۹، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۷۱

 

 

انسان کے گونا گون اوصاف

 

سرِّ یزدان ہے تو انسان ہے

گنجِ پنہان ہے تو انسان ہے

حاصلِ معرفت حقیقتِ روح

رازِ قرآن ہے تو انسان ہے

زُبدۂ  کائنات و اشرفِ خلق

جان و جانان ہے تو انسان ہے

صورتِ علم و پیکرِ حکمت

جانِ عرفان ہے تو انسان ہے

بانیٔ دین و کافرِ مطلق

کفر و ایمان ہے تو انسان ہے

عالمِ برزخ و جہیم و جنان

حور و غلمان ہے تو انسان ہے

جس کو سجدہ کیا فرشتوں نے

نورِ رحمٰن ہے تو انسان ہے

۷۲

 

نازنین و حسین و سرو بدن

ماہِ کنعان ہے تو انسان ہے

شاہِ وحش و طیور و جنّ و پری

گر سلیمانؑ ہے تو انسان ہے

عامۃ الناس تا ولیؑ و نبیؐ

نوعِ انسان ہے تو انسان ہے

رندِ بے باک و صوفیٔ صافی

ریب و ایقان ہے تو انسان ہے

دہری و بت پرست و صاحبِ دین

یا مسلمان ہے تو انسان ہے

حسنِ روئے جہان و جلوۂ  جان

کونِ امکان ہے تو انسان ہے

اوّل و آخر و عیان و نہان

ملک و سلطان ہے تو انسان ہے

گر چہ یہ راز ہے کہ جنّ و مَلک

یا کہ شیطان ہے تو انسان ہے

الغرض اس بقائے کلّی کا

بحرِ عمان ہے تو انسان ہے

منقسم ہے بقا مدارج میں

ان کا پایان ہے تو انسان ہے

۷۳

 

یا بقا فی المثل ہوئی شب و روز

اس میں گردان ہے تو انسان ہے

فانی و باقی و عتیق و جدید

ذکر و نسیان ہے تو انسان ہے

وہ کہیں نور ہے کہیں ظلمت

راہ و رہدان ہے تو انسان ہے

وہ کہیں رنج ہے کہیں راحت

درد و درمان ہے تو انسان ہے

ہے حقیقت یہی بقولِ نصیرؔ

سرِّ یزدان ہے تو انسان ہے

 

موجودہ تاریخ: جمعہ ۱۹، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۷۴

 

ڈائمنڈ جوبلی

 

جشنِ ڈائمنڈ جوبلی کا ماہِ انور کون ہے؟

جس کو ہم ہیروں میں تولیں گے وہ دلبر کون ہے؟

سر پہ ہے تاجِ امامت علم گویا ذوالفقار

رونقِ تختِ خلافت زیبِ منبر کون ہے؟

نورِ حق آیا زمین پر تاکہ ہو فضل و کرم

ورنہ اس عالم میں ایسا بندہ پرور کون ہے؟

چودہ طبقوں کے نفوس اور عالمِ ارواح بھی

دیکھئے سجدے میں ہیں اللہ اکبر کون ہے؟

باغِ عالم میں تو وہ گل ہے جو مرجھاتا نہیں

جلوۂ  نورِ خدائی! تجھ سے بڑھ کر کون ہے؟

آفتابِ نور ہے یا طور کی بجلی ہے تو

کون ہے پوچھو ذرا یہ پاک گوہر کون ہے؟

ہاں علیؑ اب بھی علیؑ ہے نورِ باطن دیکھ لو

میں بتاؤں دوستو اس وقت حیدرؑ کون ہے؟

 

۷۵

 

پہلے چاندی بعد میں سونے میں مولا تل گیا

اب تو ہیروں میں تلے گا ان کا ہمسر کون ہے؟

خلد میں ہرگز نہ جاؤں حشر کے دن میں کبھی

گر ترا در چھوڑ جاؤں مجھ سا کافر کون ہے؟

پردۂ دل سے سکھاتا ہے مجھے طرزِ غزل

کیا بتاؤں میں تمہیں اس دل کے اندر کون ہے؟

اس جہاں سے اس جہاں تک سب مراحل طے ہوئے

ہم کو شہ کی رہبری میں ایسا رہبر کون ہے؟

بزمِ شاہی میں نصیرا تو کیوں خاموش ہے؟

شعرِ رندانہ سنا تجھ سا سخنور کون ہے؟

 

ایڈیٹنگ کی تاریخ: ہفتہ ۵ مئی ۲۰۰۱ء

 

۷۶

 

 

 

فنا فی اللہ

 

تو ھو میں فنا ہو جا تب گنجِ نہان تو ہے

یوں ہو تو سمجھ لینا وہ جانِ جہان تو ہے

اسرارِ خودی کو تو اے کاش سمجھ لیتا

اس عالمِ شخصی میں اک شاہِ شہان تو ہے

ہر چیز تجھی میں ہے بیرون نہیں کچھ بھی

ہے ارض و سما تجھ میں اور کون و مکان تو ہے

تو ارض میں خاکی ہے افلاک پہ نوری ہے

یاں ذرّۂ گم گشتہ واں شمسِ عیان تو ہے

ناقدریٔ دنیا سے مایوس نہ ہو جانا

جا اپنا شناسا ہو جب گوہرِ کان تو ہے

اس آئینۂ دل میں اک چہرۂ زیبا ہے

اے عاشقِ مستانہ وہ چہرۂ جان تو ہے

اس عالمِ شخصی میں سلطانِ معظم ہے

تو اس میں فنا ہوجا پھر شاہِ زمان تو ہے

 

۷۷

 

آئینِ جہان دکھ ہے تو اس سے نہ گھبرانا

پیری سے نہ ہو غمگین جنّت میں جوان تو ہے

تو چشمِ بصیرت سے خود کو کبھی دیکھا کر

جو حسن میں یکتا ہے وہ رشکِ بتان تو ہے

بھرپور تجلّی سے باطن ہے ترا پرنور

ہر چہرۂ جنّت تو، جب رازِ جنان تو ہے

تو ساری خدائی میں اعجوبۂ قدرت ہے

تو معجزۂ حق ہے اور اس کا نشان تو ہے

تو خامۂ لاہوتی تو نامۂ جبروتی

پھر اس کی زبان تو ہے اور شرح و بیان تو ہے

اشعارِ حکیمانہ! ہے دل میں کوئی استاد؟

اے جان و دلِ حکمت! ہے میرا گمان تو ہے

کہتا ہے نصیرؔ تجھ کو اے عاشقِ آوارہ!

تو ھو میں فنا ہوجا تب گنجِ نہان تو ہے

 

پیر ۲، جمادی الاول ۱۴۱۷ھ۔  ۱۶، ستمبر ۱۹۹۴ء

 

۷۸

 

یہ خواب ہے یا بیداری؟

جواب: خواب نہ تھا، مدہوشی تھی

 

میں نے کل ظاہراً علی دیکھا

اس خفی نور کو جلی دیکھا

وہ امامِ مبینِ آلِ رسولؐ

قبلۂ عاشقانِ اہلِ قبول

سر جھکا کر غریب نے سلام کیا

آنسوؤں کی زبان سے کلام کیا

اے سر تو سجدہ کر کہ ترا فرض سجدہ ہے

انکارِ سجدہ جس نے کیا وہ تو راندہ ہے

اے آنکھ کہاں ہیں ترے اشکوں کے وہ گوہر

اب شاہ کے قدموں سے کرو انکو نچھاور

اے نارِ عشق تجھ کو سلام ہو ہزار بار

تیرے کرم سے عاشقِ بیدل کو مل گیا قرار

ہم مردہ تھے کہ اس نے ہمیں زندہ کر دیا

چہرے اداس تھے کہ تابندہ کر دیا

نورِ رحمت کی سخت بارش تھی

ہر طرح کی بڑی نوازش تھی

ہم کو اِک نئی حیات ملی

علم و حکمت کی کائنات ملی

دستِ پرنور میں کمالِ معجزہ ہے

خاک کو چھو کے زر بناتا ہے سنگ کو وہ گہر بناتا ہے

نورِعشقِ مرتضاؑ! ہر لحظہ ہو تجھ پر سلام

بندگانِ ناتمام تجھ ہی سے ہوتے ہیں تمام

میں ہوں نصیرِ خالی وہ ہے نصیرِ معنی

میں ہوں غلام و ناکس وہ ہے امامِ اقدسؑ

 

مرکزِ علم و حکمت، لندن

جمعرات ۲۱،جون ۲۰۰۱ء

ایڈیٹنگ کی تاریخ : بدھ ۲۹، اکتوبر ۲۰۰۳ء

 

۷۹

 

فکرِ قرآن

 

اس جہان میں جبکہ قرآن کنزِ رحمان آ گیا

رحمتوں اور برکتوں کا ایک طوفان آ گیا

بحرِ قرآن بحرِ گوہر زا ہے عقلا کے لئے

تاکہ ہر عاقل یہاں سے اپنے دامن کو بھرے

دین و دانش علم و حکمت فکرِ قرآنی میں ہے

راہِ جنت رازِ لذت فکرِ قرآنی میں ہے

برکتیں ہی برکتیں ہیں فکرِ قرآن میں سدا

عاشقانِ فکر را گو مرحبا صد مرحبا

یہ دوائے ہر مرض ہے آزما کر دیکھ لے

دور مت ہوجا عزیزا! اندر آکر دیکھ لے

چشمۂ لذّاتِ عقلی فکرِ قرآنی میں ہے

منبعِ نعماتِ روحی فکرِ قرآنی میں ہے

تا نہ بردی رنج ہا را کَی بیابی گنج را

عاقلان از فکرِ قرآن گنج ہا را یافتند

 

۸۰

 

فکرِ قرآنی سے لذّت گیر ہونا ہے تجھے

جب نہ ہو ایسا تو پھر دلگیر ہونا ہے تجھے

فکرِ قرآن ہے طریقِ کنزِ اسرارِ خدا

کنزِ اسرارِ خدا ہے گنجِ انوارِ خدا

فکرِ قرآن ہے یقیناً کلِّ کلّیاتِ علوم

ذرّۂ از علم و حکمت ہے نہیں باہر کہیں

راحتِ روح میوۂ جان فکرِ قرآنی میں ہے

چشمہ سارِ علم و عرفان فکرِ قرآنی میں ہے

فکرِ قرآن ہے تصوّف، اور اسی میں سائنس ہے

اور یہی ہے فیض بخشِ مکتبِ روحانی سائنس

تو تہی دامن ہے اب تک اے نصیرِ بے نوا

جبکہ قرآن درّ و مرجان کا سمندر ہے سدا

 

بدھ ۸، اکتوبر ۲۰۰۳ء

 

۸۱

جشنِ علمی

 

غنچۂ دل مسکرا کر کہہ رہا ہے بار بار

موسمِ گل سے ہوا ہے شہرِ گلگت لالہ زار

باغ و گلشن کے پرندے نغمہ ساز و نغمہ ریز

شاہِ مرغانِ چمن ہے یہ میون سب کو عزیز

نام اس کا اوریول اور بول اس کا پیچا پیچ

اسکے نغمے کے مقابل سارے نغمے ہیچ ہیچ

اک نرالی شان ہے اس جشنِ علمی کی یہاں

اجتماعِ اہلِ دانش پر ہے جنّت کا گمان

یول میں اک بار آتا ہے ہمارا اوریول

آگیا جشنِ بہاران تو خوشی کا چوغہ یول

علم ہے فضلِ خدا، ہاں علم ہے، نوروضیاء

علم ہے دائم یقیناً چشمۂ آبِ بقا

علم و حکمت کے لئے یہ جان بھی قربان ہو!

یا الہٰی یہ طلب عشاق کو آسان ہو!

 

۸۲

 

علم کی رنگینوں سے مست و حیران ہے نصیرؔ

عشقِ شاہنشاہِ حکمت نے کیا اس کو اسیر

 

ذوالفقار آباد، گلگت، پیر، ۱۳ مئی ۲۰۰۲ء

 

۸۳

 

مَستِ اَلَست

 

کثرتِ ذکرِ خدا سے قلب کو پُرنور کر

علم وحکمت کی ضیاء سے روح کو مسرور کر

عالمِ شخصی کو اپنا دن بدن آباد کر

نفس کے چنگل سے خود کو اے جری آزاد کر

خدمتِ خلقِ خدا! صحرائے اعظم درمیان

سر کے بل چلنا ہے تجھ کو اے قلم اے پہلوان!

گل فشانی ہو بطرزِ باغِ فردوسِ برین

تاکہ جس سے شادمان ہوں سب کے سب اہلِ زمین

روح کی پہچان میں جنّت بھی ہے دیدار بھی

تاج و تختِ سلطنت بھی علم کا دربار بھی

ہے شہنشاہِ دو عالم “نور” مولانا کریم

تو فنا ہو کر اسی میں دیکھ اسرارِ عظیم

میرے مولا نے مجھے لوگوں سے قربان کردیا

اس “خلیلی” کام سے دنیا کو حیران کردیا

میں نے نیّت کی عِیالُ اللہ کی خدمت کروں

گر رضائے حق ہے اس میں پھر یہی طاعت کروں

 

۸۴

 

چشمِ ظاہر میں نصیرالدین ہے شخصِ حقیر

باطناً مستِ ازل بھیدوں سے پُر ہے یہ فقیر

نصیرݺ عشقݺ کتاب عالمر فریش میمی

سروشݺ غیبݺ جہان ڎم خبر سوݳی لہ سبور

 

جمعہ ۱۹، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۸۵

 

جان نثارانِ علیؑ

 

دوستدارانِ علیؑ سے جان فدا کر اے نصیر!

جان نثارانِ علیؑ سے جان فدا کر اے نصیرؔ!

جان ہی کو روح سمجھ لے اے عزیزِ ہوشمند!

جان ہی ہے کنزِ عرفان اے حبیبِ ارجمند!

جان ہی ہے اک جہان اور جان ہی ہے آسمان

جان میں ہے عرشِ اعلیٰ اور خدائے ذوالجلال

خود شناسی معرفت ہے اے برادر آگے آ

جان میں جنّت ہے دیکھو، جان میں ملکِ خدا (۱)

عالمِ شخصی میں آ جا اے عزیزِ محترم!

تاکہ حاصل ہو یہاں سے گنجِ اسرارِ خدا

کس غرض سے آگئے ہو اس جہان میں یاد ہے؟

معرفت مقصودِ کلّی ہے نہ بھولو ساتھیو!

گنجِ اسرارِ خدا ہے عارفوں کے واسطے

کامیابی منتظر ہے عاشقوں کے واسطے

ذکرِ دائم ہے طریقِ سالکانِ راہِ حق

دامنِ مولا ہے یہ اس کو نہ چھوڑ اے نورِ عین!

 

۸۶

 

نورِعینی ہے اگر تو عالمِ شخصی میں آ

تاکہ دیکھے گا کہ اصلاً کس کا ہے تو نورِ عین

روح کو پہچان لو اور اسی سے عشق ہو!

دین و دانش کا تقاضا بس یہی ہے دوستو!

حق تعالیٰ کی تجلّی اے خوشا حکمت میں ہے

اس لئے حکمت یقیناً ہوگئی خیرِ کثیر (۲)

نورِ حق ظاہر نہ ہو جب عالمِ انسان میں

کوئی اندھا کس طرح کہلائے گا قرآن میں (۳)

ایک تن میں ایک جان کہنا غلط ثابت ہوا

جبکہ جانیں ہیں یقیناً بے حساب و بے شمار

شعرِ پر حکمت کہا کر اے نصیرِ دل فگار

تجھ پہ مولا کا کرم ہے اور تو ہے جان نثار

 

پیر، یکم مئی ۲۰۰۰ء

 

۱۔  (خدا کی بادشاہی)

۲۔  (۰۲: ۲۶۹)

۳۔ (۱۷: ۷۲)

 

۸۷

 

پیغامِ روحانی بزبانِ حال

مِن جانب ِغزالہ مرحومہ

 

اے قبلہ! نہ کر غم کہ یہاں زندہ ہوئی میں

یہ اس کی نوازش ہے کہ تابندہ ہوئی میں

ہیں حور و پری ساتھ کہ میں خود بھی پری ہو ں

اس انجمنِ نور میں خوشیوں سے بھری ہوں

میں دخترِ روحانیٔ مولائے زمان ہوں

شہزادیٔ عالم ہوں مگر سب سے نہان ہوں

ہم نور کی اولاد ابھی نور ہوئے ہیں

دنیا کی مصیبت سے بہت دور ہوئے ہیں

جنّت میں عجب شاہی محل ہم کو ملا ہے

ہم زندۂ جاوید ہوئے فضلِ خدا ہے

شاہوں کی طرح شاد ہیں ہم اس کا کرم ہے

بیماری نہیں، موت نہیں، اور نہ ہی غم ہے

ہاں تیری غزالہ پہ علیؑ سایہ فگن ہے

وہ اس لئے جنّت میں سدا زندہ چمن ہے

 

۸۸

 

صد گونہ خوشی ہے ہمیں دیدارِ علیؑ سے

گنجینہ ملا ہے ہمیں اسرارِ علیؑ سے

طوفانی خوشی ہے ہمیں، تم ہم پہ نہ رونا

ڈیڈی! ممی! تم کبھی بے صبر نہ ہونا

لینا ہے تمہیں علم و عبادت کا سہارا

ہے دینِ خدائی میں یہی شیوہ ہمارا

کس شان سے آیا ہے یہ پیغامِ غزالہ

روشن ہو زمانے میں سدا نامِ غزالہ

 

غزالہ بنتِ امام یاربیگ جنرل مینجر، آغاخان ہیلتھ سروسز، پاکستان، ناردرن ایریاز اینڈ چترال۔

غزالہ کی تاریخ پیدائش: ۱۵ جوالائی ۱۹۸۷ء، تاریخِ وفات: ۸، جنوری ۱۹۹۹ء

اِنا للہ و انا الیہ راجعون  (۰۲: ۱۵۶)

 

۸۹

 

تحفۂ لازوال برائے لِٹل اینجلز

 

لٹل اینجلز سب کے سب بفضل اللہ ہمارے ہیں

مجھے حبِّ علی جیسے یقیناً سب پیارے ہیں

کیا یہ حور و غلمان ہیں مثالِ زندہ گلدستے؟

کتابیں ہیں؟ نوشتے ہیں ؟ نہیں اصلاً فرشتے ہیں

تمہارے ہر تبسم میں نرالی گل فِشانی ہے

نباتی گل فشانی میں عزیزو! کیا نشانی ہے؟

تمہارے شہر میں دیکھا ہمیشہ موسمِ گل ہے

پرندے مست نغمے ہیں صدائی سوزِ بلبل ہے

کمالِ علم و حکمت کو طلب کر ربُّ العزت سے

کہ مایوسی نہیں ہوتی خدا کے بحرِ رحمت سے

 

۹۰

 

تیاری حربِ علمی کی نہ بھولو لشکرِ قائمؑ!

جہان میں تادمِ آخر جہادِ علم ہے دائم

نصیرالدین کہتا ہے لٹل اینجلز ہمارے ہیں

مجھے حبِّ علی جیسے یقیناً سب پیارے ہیں

 

روزِ یک شنبہ ۲۴، دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۹۱

 

لِٹل اینجلز کاترانہ

بموقع سالگرۂ حبِّ علی ثانی

تاریخِ ولادت: جمعۃ المبارک ۱۶ جنوری ۱۹۹۸ء

 

تم دہر میں آباد رہو میرے فرشتو!

خوش حال بنو شاد رہو میرے فرشتو!

مولائے کریم تم پہ سدا سایہ فگن ہو

گلزار ہو تم خانۂ حکمت کا چمن ہو

تم شمس و قمر جیسے حسین میری نظر میں

تم لعل و گہر جیسے حسین میری نظر میں

تم اپنے گھروں میں بخدا سکّۂ زر ہو

ڈیڈی و ممی کے لئے تم نورِ نظر ہو

تم ہی تو ہو مکتب کے گلوں میں گلِ رعنا

تم زیورِ حکمت سے سدا خود کو سجانا

تم شمس و قمر ہو کہ ستاروں کا فلک ہو!

بجلی کی چمک ہو کہ ست رنگی دھنک ہو!

آئینۂ قائمؑ ہو زمانے میں مبارک!

گنجینۂ دائم ہو زمانے میں مبارک!

 

۹۲

 

تم علم و عمل ہی سے بنو ایک نمونہ!

قائمؑ کی اطاعت سے بنو ایک نگینہ!

مولا کے کرم سے کبھی مایوس نہ ہونا

تم نیک دعاؤں میں کنجوس نہ ہونا

تم ہو گلِ سوری! کہ ہو تم گلِ میری؟

تم سیکھو نصیری اور سیکھو فقیری!

بدھ ۱۴، جنوری ۲۰۰۴ء

 

۹۳

 

توصیفِ قلم

 

اے قلم جنبشِ ازل ہے تو

قدرتِ ذاتِ لم یزل ہے تو

تجھ سے تحریرِ کائنات ہوئی

اے خوشا! حق کی تجھ سے بات ہوئی

ہے ہمارا قلم ترا سایہ

اس کو تجھ سے ملا ہے سرمایہ

وہ قلم اس جہان میں سلطان ہے

ذاتِ حق کی دلیل و برہان ہے

یہ قلم بادشاہِ دنیا ہے

جب سے علم و عمل کا چرچا ہے

اک قلم برفرازِ عرشِ برین

اک قلم بربسیطِ روئے زمین

علم کا اک جہان قلم میں ہے

رازِ کون و مکان قلم میں ہے

کام میں سر کے بل یہ چلتا ہے

جس سے دنیا زمانہ پلتا ہے

یہ سیاہی سے روشنی کر دے

دولتِ علم سے غنی کر دے

اس کا قطرہ مثالِ بحرِ عمیق

گنج گوہر رہا ہے جس میں غریق

اَسپِ تازی کہ تیز طوفان ہے

بلکہ یہ اک جہازِ پران ہے

چشمۂ علم و منبعِ حکمت

باعثِ فخر و مایۂ عزت

ارضِ جنّت ہیں اس کے مکتوبات

کیف آور ہیں جس کے مشروبات

چپکے چپکے قلم کلام کرے

ساری دنیا اسے سلام کرے

تو نہ شمشیر ہے نہ شیر ببر

پھر بھی طاقت میں تو رہا برتر

 

۹۴

 

یہ کتابیں اسی کی پیداوار

جن کی رونق ہے رشکِ باغ و بہار

یہ قلم ہے کہ ہے عصائے کلیم

شر کو نگلے یہ اژدھائے عظیم

ہیں مبارک تمام اہلِ قلم

جن پہ اللہ کا ہوا ہے کرم

خدمتِ قوم ہے رضائے خدا

کام کر کام کر برائے خدا

یہ قلم تیرے پاس امانت ہے

حق ادا گر نہ ہو خیانت ہے

اے نصیرؔ خامہ بہت پیارا ہے

چونکہ اللہ نے اتارا ہے

 

ذوالفقار آباد، گلگت، ۲۸، ذوالحج ۱۴۱۴ھ،   ۹ جون ۱۹۹۴ء

 

۹۵

 

حاضر امام علیہ السّلام کی ایک پُر حکمت توصیف

 

اے نورِ الہٰی تو ہمیں اپنی لقا دے

اے خضرِ زمانؑ! بہرِ خدا آبِ بقا دے

اے آلِ نبیؐ نورِ علیؑ ساقیٔ کوثر

حقا کہ تو ہے اسمِ خدا اعظم و اکبر

اے وارثِ آدمؑ  کہ تو ہے ربّ کا خلیفہ

تو معجزۂ عرش ہے اور سرِّ سفینہ

درویش کو یہ معجزۂ نور ہوا ہے

احباب گواہ ہیں کہ یہ مسطور ہوا ہے

آدمؑ سے یہی سلسلۂ نور چلا ہے

ہے دائم و قائم کہ یہی نورِ خدا ہے

قرآنِ مجسّم ہے یہی شاہِ زمانہ

خالق نے بنایا ہے اسے اپنا خزانہ

اسرارِ الہٰی کا یہی گنجِ نہان ہے

اولادِ علیؑ آلِ نبیؐ سب کو عیان ہے

یہ علمِ لدّنی کا معلم ہے یگانہ

تو نور سے خالی نہ سمجھ کوئی زمانہ

 

۹۶

 

اے جانِ جہان شکر کہ حاصل ہے ترا عشق

ہر شخص مسافر ہے کہ منزل ہے ترا عشق

یہ بندہ نصیرؔ تجھ سے شب و روز فدا ہے

مولائے زمانؑ جبکہ تو ہی نورِ خدا ہے

 

 

سنیچر ۲۵  اکتوبر ۲۰۰۳ء

 

۹۷

 

جشنِ یومِ تکبیر

 

بلبل کو اگر عشق و محبّت ہے چمن سے

قربان نہ ہوجاؤں کیوں اپنے وطن سے

یہ پاک زمین قائدِ اعظم کا وطن ہے

یہ قلعۂ اسلام ہے یہ باغِ عدن ہے

افواجِ وطن! تم ہی تو ہو اس کے نگہبان

ہے تم کو وراثت میں ملی “ہمتِ مردان”

تم نعرۂ تکبیر سے دنیا کو ہلانا

اور لشکرِ ارواح و ملائک کو بلانا

ہوکر رہے آزاد اُدھر خطۂ کشمیر

جب معجزۂ فتح رہا نعرۂ تکبیر

بس میرے “دھماکے” کو فلک کہہ گیا آمین!

اور میرے دعاؤں کو ملک کہہ گیا آمین!

ہم اہلِ وطن لشکرِ جرارِ وطن ہیں

لوہے کی طرح سخت ہیں دیوارِ وطن ہیں

اس نعرۂ تکبیر میں ہے وحدتِ ملی

وحدت کے سوا کچھ بھی نہیں غیرتِ ملی

ہے نظمِ نصیرؔ ترجمۂ غلبۂ ملی

اور یہ بھی سہی اس کو کہیں نغمۂ ملی

 

کراچی،  پیر ۲۳،محرم الحرام ۱۴۲۰ھ۔ ۱۰،مئی ۱۹۹۹ء

۹۸

 

ایک عارفانہ کلام

مولائے زمانؑ کی شانِ اقدس میں

 

وہ اسمِ خدا ہے تو وہی ذکرِ خدا ہے

عارف نے یہی مکتبِ باطن سے پڑھا ہے

وہ سلسلۂ نورِ ہدایت ہے ازل سے

وہ پاک و منزہ ہے سدا عیب و خلل سے

معراجِ فلک عرشِ الہٰ کرسیٔ اعظم

مسجودِ ملک مظہرِ حق قبلۂ آدمؑ

صد شکر کہ مولائے زمانؑ آلِ نبیؐ ہے

اولادِ علیؑ واحد و یکتا ولی ہے

اللہ کا ہے نورِ عیان چشمۂ اسرار

عشاق کے دل میں ہے سدا مطلعِ انوار

وہ دینِ خدا، کاشفِ اسرارِ قیامت

ہے مَصحفِ ناطق کہ سنیں اہلِ سعادت

اے اسمِ خدا آنکہ تو ہے اعظم و اعلیٰ

حقا کہ تو ہے نورِ علیؑ از ہمہ بالا

اے وارثِ سلطانِ محمد شہِ اکرمؑ

اے ابنِ علیشاہؑ شہنشاہِ دو عالم

 

۹۹

 

اے نورِ خلافت کہ تو ہے نورِ امامت

آدمؑ سے چلی آ گئی ہے تیری وراثت

خداوندا نصیرؔ اُنے ہݣ ڎم ھُکن بݳی

جماعتݺ غُم اݼݸݣ لُم تکݺ فکن بݳی

 

جمعۃ المبارک ۷،نومبر۲۰۰۳ء

 

۱۰۰

 

قانونِ بہشت

( ایک بہشتی کی زبانِ حال سے)

 

یہ ربّ کا کرم ہے کہ میں جنّت میں گیا ہوں

اک نور یہاں ہے کہ مجھے اس نے دیا ہے

(س) ہوگی کہ نہیں کل کو ہمیں تیری ملاقات؟

اے جان! بتا، ہم کو بتا جلدی یہی بات؟

(ج)وہ کیسی بہشت ہے کہ نہ ہو جس میں ملاقات

یہ کیسا سوال ہے! صد حیف ہے، ھیھات!

دانا ہیں وہی لوگ جو جنّت کو سمجھتے

آیات کے باطن سے وہ حکمت کو سمجھتے

قانونِ بہشت دیکھ کہ وہ رحمتِ کل ہے

واں کوئی نہیں خار فقط غنچہ و گل ہے

گزشتہ تاریخ:جمعرات ۲۴، اگست ۲۰۰۰ء

موجودہ تاریخ: بدھ ۲۴، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

نوٹ: قانونِ بہشت سے وہ آیاتِ کریمہ مراد ہیں جو بہشت کی توصیف میں وارد ہوئی ہیں۔

 

۱۰۱

 

ابرِ گوہر ریز

 

کامیابی کا سبب یہ ہے کہ وہ شب خیز ہے

گریہ و زاری میں گویا ابرِ گوہر ریز ہے

حق تعالیٰ نے ہمیں جب دوستِ اعظم دے دیا

علم و حکمت کا نرالا ایک عالم دے دیا

علم کی نہریں بہا دو جا بجا بحرالعلوم!

تا کہ اک علمی قیامت ہو بپا بحرالعلوم!

تجھ کو مولا نے بنایا ساقیٔ آبِ بقا

تا نہ ہو کوئی کہیں بھی جہل و غفلت سے فنا

جو بھی ہو تیری نظر میں تشنۂ آبِ حیات

جام بھر بھر کر پلا دے ساقیٔ عالی صفات

یار کے مشکین قلم سے بوئے جنّت آ گئی

دل کی آبادی کی خاطر جوئے جنّت آ گئی

آبشارِ لعل و گوہر ہے مثالِ کلک یار

گنجِ گوہر میں جواہر آ گئے ہیں بے شمار

 

۱۰۲

 

ترجموں میں شک نہیں صمصام کا بھی ہاتھ ہے

شکر ہے صد شکر ہے ہاں وہ فرشتہ ساتھ ہے

جو فرشتہ ہو زمین پر معجزانہ کیوں نہ ہو

رحمتوں اور برکتوں کا اک خزانہ کیوں نہ ہو

اک فرشتہ ہے ظہیر بالقب “جانِ نصیر”

خوب خادم علم کا ہے، خوب ہے دانش پذیر

جو علی کی شان میں ہیں ان حدیثوں کی کتاب

رہتی دنیا تک رہے گا یہ خزانۂ لاجواب

اے فقیرِ نامور یہ آپ کا احسان ہے

ان حدیثوں میں ہماری جان ہے ایمان ہے

اے فقیر، روشن ضمیر! اے علم و حکمت کے شہیر!

اے عزیزوں کے عزیز اے دین و دانش کے امیر!

عاشقانِ مرتضیٰؑ سے کیوں نہ ہو جاؤں فدا

تو تو قربان ہوچکا ہے اے نصیرِ بے نوا

 

۳۰، ستمبر ۱۹۹۹ء

 

۱۰۳

 

جشنِ زرّین

 

از برائے جشنِ زرّین ماہ و انجم آ گئے

جب پیاپے یارِ جانی کے تراجم آ گئے

دلکشی میں ترجمے ہیں تازہ دلہن کی طرح

پُربہار و جانفزا ہیں باغ و گلشن کی طرح

ترجمے کو خود پڑھیں تو رو رہا تھا میں کبھی

وادیٔ حیرت میں از خود کھو رہا تھا میں کبھی

سجدۂ  شکرانہ تھا جب زار و گریان گر گیا

میں فدای یارِ جانی مست و حیران گر گیا

ترجموں نے ان کتابوں کو تو مشہور کردیا

دوستوں کے دل کو از بس شاد و مسرور کردیا

ترجمے سے ان کتب کو روحِ جنّت مل گئی

یہ حقیقت ہے کہ مجھ کو اور عزّت مل گئی

وہ قلم سے گل فشان ہے اور زبان سے درفشان

علم و حکمت کے جہان میں کامیاب و کامران

اہلِ مغرب کے لئے اب گنجِ عرفان ہوگیا

جس نے دیکھا ہے خزانے کو وہ حیران ہوگیا

 

۱۰۴

 

وصفِ مولا سے بھری ہے ہر کتابِ مستطاب

کیوں نہ ہو پھر یہ خزانہ کل جہان میں لاجواب

عشق و مستی کی قسم! سب ایک ہیں اے دوستان

فتحِ عالم ہے سنو اب شادمان ہو شادمان

ان کی ہر تحریر سے آتی ہے خوشبوی گلاب

ہر عبارت دے رہی ہے عشقِ مولا کی شراب

فضل و احسانِ خدا ہے یہ فرشتہ آ گیا

ورنہ ہم ایسے کجا اور ایسے کارنامے کجا!

نامِ نامی ہے فقیر اور علم و حکمت میں امیر

تیرے اس علم و عمل کا صدقہ ہوجائے نصیرؔ

اک جہانِ علم ان کے ہاتھ سے آباد ہے

اس میں جو بھی بس رہا ہے شاد ہے آزاد ہے

جنگِ علمی میں نہ پوچھو ضربِ صمصام علیؑ

علم شمشیرِ علیؑ ہے دست ہے نام علیؑ

“یک حقیقت” نے بتایا ہم سبھی ہیں ایک جان

سب میں اک ہے ایک میں ہیں سب نہان

میرے عالم میں عزیزان میری روح کی کاپیاں

اس سے بڑھ کر ہیں سبھی اس پرفتوح (۱) کی کاپیاں

۵۔ جولائی ۱۹۹۷ء

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ پر فتوح،فتوح،فتح کی جمع، پر فتوح،فتح پر فتح کرنیوالا یعنی اما مؑ جو ہمیشہ روحانی فتوحات کرتا ہے۔

 

۱۰۵

 

مخمس درشانِ شہیدانِ کارگل

 

یہ ہمّت و جرأت کے چٹان لشکرِ ایمان

یہ غیرت و عظمت کے نشان لشکرِ ایمان

شیروں کی طرح حملہ کنان لشکر ایمان

منزل کی طرف روان دوان لشکرِ ایمان

ہیں زندۂ جاویدِ دو کون میرے شہیدان

یہ شوقِ شہادت ہے کہ بس تم کو ملا ہے

یہ لطف و نوازش ہے یہی فضلِ خدا ہے

اس جامِ شہادت میں بتاؤ کیسا مزا ہے

تم جان چکے ہو کہ یہی رازِ بقا ہے

ہیں زندۂ جاویدِ دو کون میرے شہیدان

یہ موت نہیں، موت یہاں زندہ ہوئی ہے

ہر موت اسی موت سے شرمندہ ہوئی ہے

ہاں جانِ شہید نور سے تابندہ ہوئی ہے

یہ فرطِ خوشی ہے کہ رخشندہ ہوئی ہے

ہیں زندۂ جاویدِ دو کون میرے شہیدان

اللہ رے! یہ مردِ مجاہد کی دلیری

خائف نہیں کرتی اسے شمشیر و اسیری

اللہ کے شیروں کی صفت کیوں نہ ہو شیری

درویشِ درونی ہیں بے دلقِ فقیری

ہیں زندۂ جاویدِ دو کون میرے شہیدان

جب ارض و سما لشکرِ غیبی سے بھرا ہے

ایسے میں اگر ڈر گئے ہم پھر یہ خطا ہے

ہوتا ہے وہی کام جسے حکمِ خدا ہے

آج جسمی بقا ہے تو کل روحی بقا ہے

ہیں زندۂ جاویدِ دو کون میرے شہیدان

 

۱۰۶

 

قربانِ وطن ہو گئے ہیں اہلِ سعادت

اک بندگیٔ خاصِ خدا ہے یہ شہادت

ہم کو بھی نصیب ہو کبھی ایسی عبادت

اللہ کرم کر کہ یہی ہے تری عادت

ہیں زندۂ جاویدِ دو کون میرے شہیدان

غازی ہے کوئی، کوئی شہید میرے جوانان

اللہ کا احسان ہے اللہ کا احسان

دشمن ہے پریشان انگشت بدندان

تم فاتحِ عالم ہو سنو لشکرِ ایمان

ہیں زندۂ جاویدِ دو کون میرے شہیدان

یہ نظمِ نصیری ہے شہادت کا ترانہ

یہ ملتِ اسلام کی وحدت کا نشانہ

یہ لشکرِ ایمان کی الفت کا خزانہ

گلدستۂ خوش رنگ ہے از باغِ زمانہ

ہیں زندۂ جاویدِ دو کون میرے شہیدان

۸۔ ستمبر ۱۹۹۹ء

 

۱۰۷

 

نعتِ حضرتِ خاتم الانبیاء

مُخمس

 

وہ پیغمبرِ خاصِ خدا          وہ بادشاہِ انبیاء

وہ نورِ پاکِ اولیاء          یعنی محمد مصطفاء

صلوا علیہ وآلہ

وہ رحمۃ للعالمین          وہ ہادیٔ دنیا و دین

وہ سب حسینوں سے حسین          وہ مَہ جبین وہ نازنین

صلوا علیہ وآلہ

خیرُ البشر ان کا لقب          اور ہاشمی ان کا نسب

شاہِ عجم  فخرِ  عرب          یعنی محمد مصطفا

صلوا علیہ وآلہ

قرآن کَونِ معجزات          ہے چشمۂ آبِ حیات

تیری ہے ساری کائنات          اے سیّدِ عالی صفات!

صلوا علیہ وآلہ

اے تاجدارِ دو جہان!          تو نور کا ہے آسمان

ہر لحظہ تو ہے ضو فشان          یعنی محمد مصطفا

صلوا علیہ وآلہ

 

۱۰۸

 

جانِ نصیرِ بے نوا          تیرے غلاموں سے فدا

محبوب ذاتِ کبریا          یعنی محمد مصطفا

صلوا علیہ وآلہ

 

یک شنبہ ۱۰، جون ۲۰۰۱ء

 

۱۰۹

 

مُسَدَّس

 

درویشِ ضعیف و بیمار ہوں

مظلوم و حزین و ناچار ہوں

کس کو سناؤں اپنا دکھ مولا؟

ظاہر میں بے یار و مددگار ہوں

اَلمَدَد یَا عَلِیُ الاَ علیٰ

اَلمَدَد یَا عَلِیُ الاَ علیٰ

خامہ عصائے پیری

قرطاس دشتِ اعظم

میرا سفر ہے جاری

دن ہو کہ رات ہر دم

اَلمَدَد یَا عَلِیُ الاَ علیٰ

اَلمَدَد یَا عَلِیُ الاَ علیٰ

کب ہوگی وہ قیامت

اے صاحبِ کرامت؟

ہے کوئی شرط اس کی ؟

یا ہے کوئی علامت؟

اَلمَدَد یَا عَلِیُ الاَ علیٰ

اَلمَدَد یَا عَلِیُ الاَ علیٰ

معلوم نہیں مجھ کو کس احمق نے دھکیلا

مولا نے کبھی مجھ کو نہ چھوڑا ہے اکیلا

یہ ارضی فرشتے ہیں سبھی میرے عزیزان

یہ فضل و کرم تجھ سے ہوا ہے شہ دوران!

اَلمَدَد یَا عَلِیُ الاَ علیٰ

اَلمَدَد یَا عَلِیُ الاَ علیٰ

 

پیر یکم دسمبر ۲۰۰۳ء

۱۱۰

 

www.monoreality.org

 

ذکرِ الٰہی

ذکرِ الٰہی

پیش لفظ

اے ربّ العزّت ! تیرے رسُولِ مقبول مُحمّد مصطفےٰ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم اور آنحضورؐ کی آلِ پاک کے أئمّۂ ہُدا صلوات اللہ علیہم کا میں ایک ادنیٰ سا غلام ہوں، لہٰذا اس پاک و پاکیزہ خاندان کی نسبتِ شریف کے طفیل سے اور اِسی مقدّس سلسلے کے وسیلے سے مجھے نصرت و تائید اور نورانی ہدایت دیجئے، تاکہ میری ہر نیّت قول اور عمل تیری رضا کے موافق ہو۔

 

میرے روحانی بھائیو اور بہنو! پروردگارِ عالم تمہارے دلوں کو نورِ معرفت کی روشنی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منوّر کردے! جیسا کہ بعض عزیزوں کو اس بات کا علم ہے کہ ذکر و عبادت میں کامیابی اور روحانی ترقی کی ضرورت کے پیشِ نظر حلقۂ احباب میں یہ گفتگو ہوئی تھی کہ ذکرِ الٰہی کے موضوع پر کوئی ایسی مفید کتاب لکھی جائے کہ اس میں متعلقہ مسائل سے بحث کی گئی ہو، یعنی اس میں

 

۵

 

ان سوالات کا تسلّی بخش حل بتادیا جائے کہ کس طرح ذکر میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے؟ عبادت میں یکسوئی کیوں نہیں ہوتی؟ خدا کی یاد شروع کرنے کے فوراً بعد طرح طرح کے دُنیاوی خیالات کیوں آتے ہیں، حالانکہ ہم نہیں چاہتے کہ ایسے خیالات پیدا ہوں؟ وغیرہ وغیرہ۔

 

چنانچہ وہ کتاب جس کی ضرورت شدّت سے محسوس کی گئی تھی، خُدائے علیم و حکیم کے فضل و کرم اور مُحمّد و آلِ مُحمّد صلوات اللہ علیہم کی ہدایت کی برکت سے مکمل ہو کر آپ کے سامنے ہے، میں اس کتاب کی تکمیل کے دوران تائیدِ خدا وندی کا سخت محتاج تھا اور حال و مستقبل میں بھی میری یہی حاجت اور دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس کتاب میں کچھ ایسی برکتیں رکھیں کہ جن کہ وجہ سے اس کے پڑھنے والے مومنین کو روحانی اور علمی قسم کی مسرت و شادمانی حاصل ہو، ورنہ میں کیا ہوں اور میری کوشش کیا چیز ہوسکتی ہے۔

 

ذکرِ الٰہی کا موضوع جتنا ارفع و اعلیٰ ہے اتنا نازک اور مشکل بھی ہے، لہٰذا اس پر کچھ لکھنے کی ذمہ داری بارِ گران ثابت ہوسکتی ہے، لیکن میں زبانِ حال سے اپنے آقا و مولا کا بے حد شکر گزار

 

۶

 

ہوں کہ اُس شفیق و مہربان نے مجھے درویشی کی ایک بہت بڑی نعمت عطا کرکے میری ہر قسم کی مشکلات کو سہولتوں کا رنگ دے دیا ہے، یہ اسی مقدّس اور معجزانہ ہستی کی مہربانی ہے۔

 

اِس ضمن میں اپنے اُن عزیزوں کو جو اس کتاب کو پڑھیں گے یہ مشورہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ اس کتاب کو خُوب غور سے پڑھیں، ایک بار نہیں بلکہ کئی کئی بار اس کا گہرا مطالعہ کریں، اس میں سوچیں، اس کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں، شاید میرے احباب میں سے کوئی مجھ سے یہ سوال کرے کہ اس کتاب کو ایک دو دفعہ پڑھ چکنے اور اس کے مطالب کو سمجھ لینے کے بعد اور کیا چیز اس میں باقی رہ جاتی ہے، کہ اس کے حصُول کے لیے بار بار مطالعہ کیا جائے؟ اس کا جواب ذیل کی طرح ہے:

۱۔ چونکہ یہ کتاب ذکرِ الٰہی کا موضوع ہے، اور اس میں ذکرِ الٰہی کے متعلق ہدایتیں درج ہیں، ان کو ذہن نشین کرلینے کے لیے مسلسل مطالعہ اور متواتر کوشش کی سخت ضرورت ہے۔

۲۔ اس میں اخلاقی اور روحانی بیماریوں کا علاج بتایا گیا ہے، اوریہ گویا اِس قسم کا ڈاکٹر ہے، تو مریض کو چاہئے کہ جب

 

۷

 

تک مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوتا، وہ اپنے مہربان ڈاکٹر سے رجوع کرتا رہے۔

۳۔ یہ ایک آئینہ ہے روح اور روحانیّت کا، سو مومن بار بار اس کو دیکھتا رہے گا کہ اس کے چہرۂ جان کے حسن و جمال کا کیا حال ہے؟ ترقی ہے یا تنزّل؟

۴۔ ذکرِ الٰہی کا احساس، ذکر کا کورس، ذکر کی باتیں، ذکر کی تیاری، اس کے متعلق اپنی کمزوریوں پر نادم ہوجانا اور ترقی کی امکانیّت دیکھ کر اس کے لیے عزمِ مصمّم کرلینا یہ سب چیزیں ذکر اور عبادت میں شامل ہیں، لہٰذا اسے بار بار پڑھنا چاہئے۔

۵۔ علمِ لدُنّی کی کوئی جھلک دیکھنے کے مختلف مواقع ہوتے ہیں اور ایک موقع یہ بھی ہے کہ مومن اپنے اندر مذہبی علم کا عشق پیدا کرے اور کسی اعلیٰ مطالب کی دینی کتاب کو بار بار پڑھتا رہے پھر یکا یک اس کو روحانی فیض کا تجربہ ہونے لگے گا، اور اس کے دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑے گی، اور یہ کیفیت خاص کر اُس وقت ہوگی جبکہ وہ کسی جامع لفظ کے معنی اور حکمت کے لیے سنجیدگی سے غور کررہا ہو۔

۶۔ اکثر حضرات کو یہ شکایت رہتی ہے کہ وہ ذکر و ریاضت

 

۸

 

تو خوب کرتے رہتے ہیں، مگر ان کی کوئی خاص روحانی ترقی نہیں ہورہی ہے، جس کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ وہ ذکر و عبادت کے علم سے نابلد ہوتے ہیں، وہ عملی ریاضت نہیں کرتے اور وہ ریاضت یہ ہے کہ دینی کتابوں کے مغزِ حکمت تک پہنچنے کے لیے غور و فکر سے کام لیا جائے، خصوصاً ایسی کتاب پر یہ ریاضت کی جائے جو خود ذکر و عبادت کا موضوع ہے۔

۷۔ یہ بات تقریباً سب مانتے ہیں کہ”مرنے سے پہلے مرو” لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بہت کم لوگ اس کے مطلب کو سمجھتے ہوں گے، کیونکہ اس کے معنی کافی پیچیدہ ہیں، اور وہ یہ ہیں کہ اسی دنیا میں دوقسم کی زندگی ہے، عام زندگی جو نفسِ امّارہ میں جینے کا نام ہے، اور خاص زندگی جو روح الایمان میں حیات گزارنے کو کہتے ہیں مگر عملاً یہ بات اور زیادہ مشکل ہے کہ صرف عبادت ہی کے ذریعے نفسِ امّارہ کے ظالم دشمن کو شکست دی جاسکے، جب تک کہ حقیقی مومن علمِ حقیقت کے اسلحہ سے خود کو لیس نہ کرے، خصوصاً اس میں ایسے علم کی ضرورت ہے جو اسی مقصد کے لیے تیار کیا گیا ہو۔

۸۔ جس طرح دنیا کا کوئی کام جان کے بغیر جسم نہیں کرسکتا ہے

 

۹

 

اور جسم کے بغیر جان بھی کوئی کام نہیں کرسکتی، اسی طرح دین میں عمل جسم ہے اور علم اس کی روح، چنانچہ جاننا چاہئے کہ عبادت عمل ہے اور یہ جسم کے درجے میں ہے جس کے لیے علم و حکمت کی روح چاہئے، تاکہ جسم و روح کے باہم ملنے سے مومنین کا دینی مقصد حاصل ہوجائے۔

۹۔ کتابِ ہٰذا کو بار بار پڑھنے کی مذکورۂ بالا ضرورتوں کے علاوہ ایک اور ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ اس میں ذکر و عبادت سے متعلق قرآنی حکمت کے بہت سے اشارے درج کیے گئے ہیں، اس صورت میں اگر کوئی مومنِ مخلص عبادت و بندگی کے ساتھ ساتھ اس کا مطالعہ بھی کرتا رہے تو بہت ممکن ہے کہ ان اشارات کی روشنی میں وہ اپنی عبادت کی کمزوری ایسی بخوبی سمجھ پائے جو پہلے نہیں سمجھ سکتا تھا۔

 

میرا یقین ہے کہ اگر خدا و رسُولؐ اور امامِ زمانؑ کی روحانی تائید شاملِ حال رہی تو اِس کتاب سے قارئین کو کافی دلچسپی ہوگی اور مومنین کو اس سے علمی اور روحانی فوائد حاصل ہوں گے، یہی مقصد اِس کتاب کے مقاصد میں سب سے اعلیٰ و ارفع ہے، اور اگر یہی کچھ ہوا، جس کی میں قوّی امید رکھتا ہوں، تو خداوند عالم

 

۱۰

 

کے حضور میں انتہائی عجز و انکساری سے ایک بار پھر سجدۂ شکرانہ بجا لانے کی کوشش کروں گا، کیونکہ میں اور میرے تمام کام جو مکمل ہُوئے ہیں وہ بھی اور جو نامکمل ہیں وہ بھی رحمتِ خداوندی کے سخت محتاج ہیں۔

 

اس کتاب کا نام “ذکرِ الٰہی” رکھا گیا ہے، یعنی کتاب کو خود موضوع سے موسوم کیا گیا ہے، جس کے چھ حصّے بنائے ہیں، جن میں سے ہر حصّے کا ایک باب ہے اور ہر باب چند ذیلی عنوانات میں تقسیم ہوا ہے، تاکہ مضمون کے معانی و مطالب کے سمجھنے میں اُلجھن اور پیچیدگی نہ ہو، اور عنوانات کی مدد سے ہر مطلب کو الگ اور جدا کرکے سمجھ لیا جائے۔

 

عبارت کو ہر قسم کی لفّاظی اور غیر ضروری مشکل الفاظ کے تصنّع سے بچا کر سلیس اور عام فہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ پڑھنے والوں کے لیے اصل مطلب مبہم اور نارسا نہ ہو، اور کتاب کے حقائق و معارف سے بآسانی استفادہ کیا جاسکے۔

 

خیال تھا کہ اس ذکرِ الٰہی کے حِصّۂ دوم کو بھی لکھ کر تیار کیا جائے، لیکن چونکہ اس کے موضوع کا زیادہ تر تعلق ذکرِ الٰہی کے نتائج و ثمرات اور روح و روحانیّت کے عجائب و غرائب سے

 

۱۱

 

تھا، لہٰذا فی الحال مصلحتاً یہ کام زیرِ غور رہا، تا آنکہ حصّۂ اوّل کے تاثّرات سے یہ اندازہ ہوجائے کہ روحانی غذائیں کس حد تک ہضم ہوسکتی ہیں۔

 

اس مقام پر آکر میں اپنے اُن تمام روحانی بھائیوں اور بہنوں کو یاد کرتا ہوں جو اس کتاب کو پڑھیں گے یا سُنیں گے اور اُن عزیزوں کو تصوّر میں لاتا ہوں جو میری علمی خدمت میں میرے ساتھ ہیں، خواہ ان کی یہ حوصلہ افزائی نیک دُعاؤں، عمدہ خیالات اور روشن تصوّرات کی کیفیت میں ہویا ظاہری قول و عمل کی شکل میں، بہرحال میں ان کی اس طرح طرح کی ہمّت افزائی کے لیے جان و دل سے شکرگزار ہوں اور میری درویشانہ دُعا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر سب کو سعادتِ دارین کی دولت عنایت فرمائے! اور حقیقی علم کی لذّت و راحت نصیب ہو!

 

فقط جماعت کا علمی خادم

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۲۲۔ فروری ۱۹۷۶ء

 

۱۲

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

باب اوّل

ذکر کے معانی و مطالب

 

ذکر کے کئی معانی و مطالب ہیں، جن کی یہاں الگ الگ توضیح و تشریح کی جاتی ہے تاکہ اس سے ہمارے ان بھائیوں، بہنوں، دوستوں اور عزیزوں کو ذکر کی گہری حقیقتیں سمجھنے میں کافی حد تک مدد مل سکے، جو اس عظیم الشّان، پُر اسرار اور مقدّس کام سے دلچسپی اور وابستگی رکھتے ہیں، جن کے لیے یہ کتاب تصنیف کی گئی ہے۔

 

ذکر کے لغوی معنی:

ذکرعربی لُغت میں یاد کو کہتے ہیں اور “یاد” ایک ایسا لفظ ہے، جس کا استعمال کسی چیز کے لیے صرف اور صرف اسی صورت میں درست اور صحیح ہوتا ہے، جبکہ وہ چیز انسان کے دائرۂ معلومات میں آنے کے بعد فراموش ہوگئی ہو، یا صرف توجّہ اِس سے ہٹ گئی

 

۱۳

 

ہو، اس کے برعکس اگر کوئی شے ایسی ہوکہ وہ نہ تو محسوس ہُوئی ہے اور نہ ہی معقول و معلوم، یعنی وہ اب تک انسان کے علم و معرفت میں نہیں آئی ہے، تو ایسی چیز کے متعلق “یاد” کا لفظ نہیں بولا جاتا، یہی مثال بُھول جانے کی بھی ہے کہ کسی شے کو بھول جانا ہرگز نہیں کہتے، جو سرّے ہی سے انسان کے علم و معرفت سے باہر ہو۔

 

یاد کی پانچ صورتیں:

۱۔ مثال کے طور پر زید کے نام سے ایک چھوٹا سا لڑکا تھا، اس نے اپنے استاد سے چار الفاظ کا ایک نیا سبق لے کر کچھ دیر تک دہرایا اور بزعمِ خود حفظ اور یاد کرلیا۔

۲۔ دوسرے دن جب اس نے کتاب کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس کو صرف ایک ہی لفظ مکمل یاد تھا۔

۳۔ ایک اور لفظ بھول جانے کے بعد خود بخود اسے یاد آیا۔

۴۔ تیسرا لفظ اس کے غور کرنے کے نتیجے میں یاد آیا۔

۵۔ چوتھا لفظ بالکل ہی بھول چکا تھا، غور کرنے کے باؤجود بھی یاد نہیں آیا، اِس لیے اُس نے معلّم سے پوچھ کر اسےدوبارہ یاد کرلیا۔

 

۱۴

 

اِس مثال سے یہ حقیقت ظاہر ہُوئی کہ ذکر یعنی یاد کی کل پانچ صورتیں ہُوا کرتی ہیں، اب ہم ذیل میں ان پانچ صورتوں کی علیٰحدہ وضاحت کردیتے ہیں۔

 

یاد کی پہلی صورت:

انسان جو کچھ دیکھتا ہے، جن آوازوں کو سُنتا ہے، جیسے سونگھتا ہے، جو چیزیں چکھتا ہے اور جن اشیاء کو چُھو لیتا ہے، ان سب کے نتائج، تجربات اور معلومات کا ذخیرہ اس کی قوّتِ حافظہ کی تحویل میں محفوظ رہتا ہے، اس کے علاوہ فکری اور روحانی قسم کی معلومات بھی حافظہ ہی کی سپردگی و نگہداشت میں ہوتی ہیں، اس سلسلے میں قوّتِ ذاکرہ کے عمل اور یاد کی اوّلین صورت کی وضاحت یہ ہے کہ کسی چیز کو حواسِ ظاہری یا حواسِ باطنی کے توّسط سے محسوس اور معلوم کرکے قوّتِ حافظہ کے سپرد کردینا حفظ کہلاتا ہے اور پھر وہاں سے حفظ و یاد داشت کی پختگی اور تسلّی کے لیے قوّتِ ذاکرہ کے ذریعے اُسے دہراتے ہُوئے دل و زبان پر لانا یا صرف اس کا تصوّر کرنا ذکر اور یاد کی سب سے پہلی صورت ہے، جیسے زید نے پہلے دن اپنے سبق کو دہرا کر یاد کرنے کی کوشش کی تھی۔

 

۱۵

 

یاد کی دُوسری صورت:

کچھ باتوں کو پہلی بار حافظہ اور ذاکرہ کے ذریعے سے دہرا دہرا کر جب یہ سمجھا جاتا ہے، کہ اب یہ باتیں حافظہ کے ریکارڈ آفس میں محفوظ ہوگئیں، تو پھر انسان وہاں سے توجہ ہٹا کر دوسری مصروفیات میں لگ جاتا ہے، اور جس وقت بھی اسے ضرورت ہو تو وہ فوراً ہی اپنی قوّتِ ذاکرہ کو حافظہ کی طرف متوّجہ کرکے حکم دیتا ہے کہ کچھ وقت پہلے جو باتیں حفظ کی گئی تھیں وہ دل و زبان پر لاؤ، چنانچہ ذاکرہ حافظہ سے پوچھ لیتی ہے یا خود جھانک کر دیکھتی ہے اگر وہاں مطلوبہ باتیں محفوظ ہیں، تو وہ اس حکم کی تعمیل کرسکتی ہے، یہ عمل یاد کی دوسری صورت ہے، جس طرح مذکورۂ بالا مثال میں زید نے جب ذاکرہ سے کام لیا تو اسے ایک لفظ صحیح طور پر یاد آیا۔

 

یاد کی تیسری صورت:

بعض دفعہ آدمی اپنی یاد داشت کی کچھ باتیں بھول جاتا ہے اور حیرت ہے کہ کبھی کبھار ان میں سے کوئی بات خود بخود یاد آتی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ حافظہ، ذاکرہ وغیرہ کی قوّتوں کے کام پر انتہائی چھوٹے چھوٹے شعوری یا کہ نورانی ذرّات متعیّن ہیں،

 

۱۶

 

جن میں چھوٹی چھوٹی حیوانی روحیں کارفرما ہیں، ان میں سے وہ ذرّہ جس پر متعلقہ بات ریکارڈ کی گئی تھی، اپنی جگہ سے غیر حاضر ہوجانے کے بعد یکایک حاضر ہوتا ہے یا لاشعوری کے بعد شعور میں آتا ہے جس کے ساتھ وہ بات بھی دفعۃً یاد آتی ہے، جو اس ذرّہ کے ریکارڈ میں تھی، یہ یاد کی تیسری صورت ہے جس طرح کہ زید کو سبق کے بُھولے ہُوئے الفاظ میں سے ایک لفظ بغیر کسی غور کے خود ہی یاد آیا تھا۔

 

یاد کی چوتھی صورت:

یہ بھی ایک عام تجربے کی بات ہے کہ انسان غور و فکر کرکے بعض بھولی ہُوئی باتوں کی یاد تازہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اس کا سبب بھی جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے یہی ہے کہ دماغ میں مختلف قوّتوں کے کام کرنے کے لیے جو الگ الگ خانے بنے ہُوئے ہیں، ان کے شعوری ذرّات کسی سبب سے یا تو غیر حاضر ہوتے ہیں یا ان پر لاشعوری کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، چنانچہ جب غور و فکر کے ذریعے سے سارے دماغ میں شعوری و آگہی کی حرکت پیدا ہوتی ہے تو اس سے وہ ذرّات اپنے مقام پر آکر یا بیدار ہوکر کام کرنے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں بُھولی ہُوئی

 

۱۷

 

باتیں دوبارہ یاد آتی ہیں، یہ یاد کی چوتھی صورت ہے جیسے زید کو غور کرنے کے بعد چوتھا لفظ یاد آیا تھا۔

 

یاد کی پانچویں صورت:

بھولی ہوئی باتوں کی بابت غور و فکر کرنے سے ہر بار کامیابی تو نہیں ہوسکتی کہ دماغ پر زور دے کر اُن کی یاد داشت بحال کی جائے کیونکہ کسی بات کے بھول جانے کی ایک وجہ نہیں بلکہ کئی وجوہ ہیں اور وہ یہ ہیں کہ بعض حالات میں حاضر دماغی نہ ہونے کی وجہ سے یا توجہ نہ دینے کے سبب سے یا مشکل ہونے کی بنا پر شروع ہی سے وہ بات حافظہ میں نہیں ٹھہرتی یا وہ ذرّہ ہمیشہ کے لیے غائب ہوجاتا ہے جس کی روح میں اس بات کا ریکارڈ تھا، بہر حال جب سوچنے کے باوجود بھی وہ بات یاد نہیں آتی تو پھر سوائے اس کے کوئی چارہ ہی نہیں کہ اسی شخص سے رجوع کیا جائے جس نے پہلے وہ بات بتائی تھی تاکہ وہ ازسرِ نو اس بات کی یاد دلائے، یہ یاد کرنے کی پانچویں صورت ہے، جس کی مثال زید سے ملتی ہے کہ اس نے وہ لفظ جسے بالکل ہی بُھلا دیا تھا اپنے استاد سے پُوچھ کر دوبارہ یاد کرلیا۔

 

۱۸

 

ذکرِ الٰہی:

ذکرِ الٰہی کے معنی خُدا کی یاد ہیں جس کے کئی پہلو اور بہت سے درجات ہیں اور ان میں سب سے اونچا درجہ وہ ہے جہاں یادِ الٰہی معرفت کی روشنی میں کی جاتی ہے، خدا کی معرفت کا نظریہ تو تقریباً سارے مذاہب میں ہے البتہ اس کی تشریح میں اختلاف پایا جاتا ہے، بہرکیف خدا کی معرفت کے بارے میں قرآنِ حکیم کا جامع الجوامع ارشاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم کی روحوں سے پوچھا:

اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ  ۭ قَالُوْا بَلٰي (۰۷: ۱۷۲)

آیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ انہوں نے عرض کیا کہ (یا خداوند) کیوں نہیں۔

 

اِس سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ ربّ اور رُبوبیّت کا بڑا اہم اور سب سے نازک اقرار لاعلمی، ناشناسی اور بے معرفتی کی تاریکی میں تونہیں ہوسکتا تھا، اور نہ ہی عدلِ خداوندی کی رُو سے یہ امرمنا سب تھا کہ ان کی جسمی، روحی اور عقلی ہر گونہ پرورش عمل میں لائے بغیر رُبوبیّت کی اَن دیکھی حقیقتوں کے بارے میں ان سے گواہی لی جائے، بلکہ قَا لُوْا بَلٰی کا یہ اقرار نورِ معرفت ہی کی روشنی میں کیا گیا تھا۔

 

۱۹

 

ذکر اور ہدایت:

اگر انسان نے ازل اور الست کے ان حقائق و معارف کو فراموش کردیا ہے جن میں اللہ تعالیٰ کی حقّانی معرفت پنہان تھی، تو اس کا چارۂ کار یہی ہے کہ وہ خدا و رسُولؐ اور اولو الامرؑ کی اطاعت کو بجالائے تاکہ ان مراتبِ اطاعت کی ظاہری و باطنی ہدایات کی روشنی میں ذکر و عبادت اور حصولِ معرفت کرنے سے رفتہ رفتہ ہر چیز دوبارہ یاد آئے جیسا کہ قرآن پاک کا ارشاد ہے:

فَذَكِّرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ (۸۸: ۲۱)

پس (اے رسُولؐ) آپ یاد دلا دیجئے آپ تو بس یاد دلانے والے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ آنحضرتؐ اِس بات کے لیے مامور تھے کہ تمام اہلِ جہان کو راہِ حق کی دعوت و نصیحت کریں اور اپنی اُمّت کے افراد کو ہر وہ ضروری بات ان کی حیثیت کے مطابق یاد دلائیں، جو یہ بھول چکے ہیں یہاں تک کہ روزِ الست کی حقیقتوں اور معرفتوں کو بھی، مگر قانون یہ ہے کہ اسرارِ معرفت کا علم درجہ بدرجہ دیا جاتا ہے۔

 

اہلِ ذکر:

ذکر یادِ الٰہی کے علاوہ قرآنِ حکیم کا بھی نام ہے اور یہ رسولِ کریمؐ کا بھی اسمِ مبارک ہے، لہٰذا اہلِ ذکر

 

۲۰

 

کے تین معنی ہُوئے:

۱۔ وہ حضرات جو ذکر والے ہیں یعنی جو ذکر کا وسیلہ ہیں۔

۲۔ جو قرآن والے ہیں، یعنی جو قرآن کے علم و حکمت کے حامل ہیں۔

۳۔اور جو آلِ رسُولؐ ہیں۔

 

یہ تینوں خصوصیات صرف أئمّۂ آلِ محمّدؐ  علیہم السّلام ہی کی ہیں، بناء برین سرورِ کائنات صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے بعد صرف أئمّۂ اطہارؑ ہی اس اعلیٰ درجے پر فائز ہیں کہ رُشد و ہدایت اور علم و حکمت کے جملہ مسائل میں ان سے رجوع کیا جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا مقدّس فرمان ہے:

فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (۱۶: ۴۳)

پس اہلِ ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ہو۔

 

اِس سے صاف طور پر یہ معلوم ہوا کہ اہلِ ذکر حاملانِ نُورِ امامت ہی ہیں، کیونکہ یہی حضرات ہر سوال کا درست جواب دینے والے ہیں، ہر پوشیدہ حقیقت بتا سکتے ہیں اور ہر بھولی ہوئی بات خواہ کتنی بلند کیوں نہ ہو یاد دلاسکتے ہیں، چونکہ یہ حضرات ذکر اور مُذکِّر یعنی رسولؐ کے جانشین اور اہلِ ذکر ہیں، یعنی أئمّۂ

 

۲۱

 

طاہرین علیہم السّلام جو حضور انورؐ کے تمام علوم کے خزانہ دار اور امین ہیں جو ذکر و معرفت کے ذریعے خدائے قدوس کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔

 

ذکر اور خود شناسی:

دینِ اسلام کے بموجب انسان کی خود شناسی کےسوا پروردگار کی معرفت ناممکن اور محال ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ معرفت نہیں کہتے ہیں، مگر اس شناخت اور پہچان کو جو عارف کو چشمِ باطن کے مشاہدے سے حاصل ہوتی ہے، جبکہ پروردگار اپنی نورانی صفات کی تجلّیوں سے اس کی روحانی پرورش کرتا ہے اور یہ اُس صورت میں ممکن ہے کہ ایسا عارف اس مادّی دُنیا میں زندگی گزارے، کیونکہ اگر اس دنیا کے بغیر خدا کی بندگی کی آزمائش ہوسکتی اور حصولِ معرفت ممکن ہوتا تو یہ جہان بے حکمت اور فضول ہوجاتا۔

 

یہاں پر یہ مطلب بالکل واضح ہوگیا کہ ذکرِ الٰہی یعنی خدا کی یاد کا قرآنی مفہوم یہ ہے کہ دیدۂ دل کے سامنے سے پردۂ غفلت کو ہٹا کر واقعۂ الست کی ربّانی تجلّیوں کو عملی صورت میں یاد کیا جائے، کیونکہ ذکر و معرفت کی عملی صورت یہی ہے،

 

۲۲

 

اور ذکر کا اصل مقصد بھی یہی ہے۔

ہم نے یہاں واقعۂ الست کی طرف بار بار توّجہ دلائی ہے کیونکہ وہ ایک ایسا عام فہم تصوّر اور ایک ایسی مسلّمہ حقیقت ہے کہ اس کے بارے میں کسی کو شک نہیں ہوسکتا، چنانچہ اُس حال میں انسان اپنی روح کو کُلّی طور پر پہچانتا تھا اور اس کے نتیجے میں خدا کو بھی پہچانتا تھا، مگر بعد میں یہ وہ معرفت بھول گیا ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم کا یہ مبارک قول ہے کہ:

وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَهٗ (۳۶: ۷۸)

اور اُس نے ہمارے لیے مثال دی اور اپنی خلقت بھول گیا۔ اس آیۂ مقدّسہ کا اشارہ یہ ہے کہ انسان اس سے بہت پہلے خود شناسی کی دولت سے مالا مال تھا، وہ اپنی خلقت کی حقیقتوں کو جانتا تھا، لیکن بعد میں وہ یہ سب کچھ بھول بیٹھا، اب اس کا علاج ذکرِ الٰہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔

قرآن شریف کا ارشادِ مبارک ہے کہ:

وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ڰ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ (۰۷: ۱۱)

اس میں تو شک ہی نہیں کہ ہم نے تم کو پیدا کیا پھر

 

۲۳

 

تمہاری (روحانی) صورتیں بنائیں پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو سب کے سب جُھک پڑے سوائے ابلیس کے۔

 

اِس قرآنی حکمت کی تعلیم یہ ہے کہ انسان آج سے نہیں بہت پہلے سے موجود ہے اور یہ اس وقت بھی موجود تھا جبکہ فرشتوں نے آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا اور ابلیس منکر ہوگیا، مگر یہ واقعہ سوائے کامل انسان کے کسی کو یاد نہیں رہا، اور بہت کم لوگ ہیں جو عقیدہ کی حد میں اس کے متعلق باور کرسکیں مطلب یہ ہے کہ یہ معرفت کے بلند مقامات کی باتیں ہیں جن کا جاننا انسان کی اپنی ذات کی شناخت ہے، جس میں خدا کی معرفت پوشیدہ ہے، اور اس درجے کی تمام تر باتیں انسان بھول چکا ہے، جنہیں ذکرِ الٰہی کی روشنی میں دوبارہ یاد کرسکتا ہے اور ذکرِ خدا کا قرآنی مفہوم یہی ہے۔

 

قرآنِ حکیم میں فرمایا گیا ہے کہ: اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو خدا کو بُھلا بیٹھے پھر خدا نے ایسا کردیا کہ وہ اپنے آپ کو بھول گئے (۵۹: ۱۹) اس کے یہ معنی ہُوئے کہ جو شخص ذکرِ الٰہی سے دور ہوچکا ہو وہ اپنی روح کی ازلی حقیقتوں کو بھی بھول گیا ہے

 

۲۴

 

اور جو حضرات ذکر کے مختلف درجات پر ہیں وہ اپنے درجے کے مطابق اپنی روح کی گزشتہ اور آئندہ حقائق و معارف کا نورانی تصوّر کرسکتے ہیں۔

 

قانونِ الٰہی:

عالمِ روحانیّت کے بھولے ہوئے اسرار اور معرفت کے کھوئے ہوئے خزانے کس طرح دوبارہ حاصل کیے جاسکتے ہیں، اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اٹل سُنت و عادت اور قانون ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ہی ہے، یعنی جو قانون قرآنِ حکیم سے متعلق ہے وہی آفاق و انفس میں بھی کارفرما ہے، چنانچہ نہ صرف قرآنی آیات کے بارے میں بلکہ تمام کائنات اور جملہ موجودات کے ظاہر و باطن کی نشانیوں کی بابت بھی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: جب ہم کوئی نشانی منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اِس سے بہتر یا ویسی ہی نشانی لادیتے ہیں (۰۲: ۱۰۶)

 

اِس مقام پر بڑی سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، کہ کسی آیت یا نشانی کے منسوخ کرنے اور بُھلا دینے میں کیا فرق ہے، جبکہ قرآن کی کوئی آیت نازل ہوکر لوگوں کے سامنے آنے کے بعد پھر واپس نہیں لی گئی ہے کہ لوگ اسے بھول

 

۲۵

 

جائیں، اب اِس سے یہ حقیقت ناگزیر ہوگئی کہ منسوخ کا واسطہ قرآن کی تنزیل سے ہے، اور بھلا دینے کا تعلق تاویل سے ہے کہ خداوند حکیم بتقاضائے زمان و مکان ایک تاویل کو اُٹھا کر دوسری تاویل القاء فرما دیتا ہے، نیز منسوخ کرنا آسمانی کتب کی آیات کے لیے ہے، اور بُھلا دینا آفاق و انفس کی نشانیوں کے واسطے ہے، چنانچہ اگر خدائے علیم و حکیم کے اِس قانون کی رُو سے انسان حیات و کائنات کے بہت سے اسرار کو بھول چکا ہے، تو اس میں کوئی تعجب نہیں، کیونکہ وہ قادرِ مطلق ہے، لہٰذا وہ پھر اُن اسرار کی بہتر معرفت سے انسان کو آشنا کرسکتا ہے، یا سابقہ معرفت جیسی معرفت عطا کرسکتا ہے جس کا انحصار ذاکر کے ذکر پر ہے، پس ذکرِ الٰہی کے قرآنی معنی ہیں اُن اسرارِ معرفت کی بازیابی جو انسان کی یاد سے نکل گئے ہیں، جو ربّانی صفات کی تجلّیوں کے مشاہدے سے متعلق ہیں۔

 

۲۶

 

باب دوم

ذکر کی برکتیں

 

اِس باب میں ذکرِ الٰہی کی برکتوں کے بارے میں چند جامع مثالیں درج ہورہی ہیں، اِس سلسلے میں سب سے پہلے یہ بات ضروری ہے کہ لفظ برکت کے معنی کو بخوبی سمجھ لیا جائے، چنانچہ برکت کے معنی ہیں زیادتی، افزونی، افزائش، یعنی نعمت کی ترقی اور نیک بختی خواہ ظاہری ہو یا باطنی، جسمانی ہو یا رُوحانی۔

 

سرچشمۂ برکات:

ذکر حضرت ربّ العزت کے مبارک و مقدّس اسم کے ذریعے سے کیا جاتا ہے اور ارشادِ قرآنی کے مطابق پروردگارِ عالم کے بابرکت نام میں خیر و برکت، علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے بے پایاں خزانے اور لامحدود نعمتیں پوشیدہ و پنہان ہیں، برکت کے ایسے تمام معنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآنِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ:

 

۲۷

 

تَبٰرَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ (۵۵: ۷۸)

(اے رسولؐ)آپ کا پروردگار جو صاحبِ جلالت و کرامت ہے اس کا نام بڑا بابرکت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ساری کائنات اور تمام موجودات کو ظاہراً و باطناً جو جو رحمتیں اوربرکتیں مل رہی ہیں یا ملنے والی ہیں، اور جو انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اور مومنین کے لیے مخصوص ہیں، ان سب کا لاانتہا سرچشمہ اور بے پایان خزانہ اللہ تعالیٰ کا پاک اسم اور اس کا ذکر ہے، چنانچہ ذیل میں اس حقیقت کے ثبوت کے طور پر نیز ذکر کے اوصاف و فوائد ظاہر کرنے کی غرض سے قرآن مجید کی چند پُرحکمت آیات کی طرف توّجہ دلائی جاتی ہے۔

 

ذکر اور حضرت آدمؑ:

یہ خدا تعالیٰ کے مبارک نام کے ذکر ہی کی برکتیں تھیں، کہ حضرت آدم علیہ السّلام علمِ اسماء اور حقیقتِ اشیاء کی دولت سے مالا مال ہوکر خلیفۂ روئے زمین اور مسجودِ ملائک ہوگئے، کیونکہ آپ کو جن اسماء کی تعلیم دی گئی تھی، وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی کے اسماء تھے، یہ تعلیم ان اسمائے بزرگ کے روحانی معجزات کی صورت میں مل رہی تھی، اور ان تمام برکتوں

 

۲۸

 

اور سعادتوں کا انحصار اسمِ اعظم کے ذکرِ اقدس پر تھا، جو حضرت آدمؑ کو سکھایا گیا تھا۔

 

علاوہ برآن جنّت سے ہبوط کے بعد بھی حضرت آدمؑ نے اپنے ربّ سے چند کلمات یعنی اسمائے بزرگ سیکھ لیے اور ان کا ذکر جیسا کہ چاہئے مکمل کرلیا، جس کی برکت سے آپ کی توبہ قبول ہوئی اور توبہ قبول ہونے کے یہ معنی ہیں کہ قبلاً جو آپ کی روحانیّت و نورانیّت تھی، وہ بالکل بحال ہوگئی، اور آپ نے سیّارۂ زمین پر اللہ تعالیٰ کی خلافت و نیابت کا عظیم الشّان فریضہ انجام دیا۔

 

ذکر اور حضرت نوحؑ:

اگر آپ سورۂ ہود (۱۱) کی آیت نمبر ۴۸ کا غور سے مطالعہ کریں تو یقیناً معلوم ہوگا کہ حضرت نوح علیہ السّلام کے ظاہری طوفان کے پس منظر میں روحانیّت کا ایک باطنی طوفان بھی تھا، چنانچہ قصّۂ قرآن میں ہے کہ:

فرمایا گیا کہ اے نوح (اب روحانیت کے طوفان سے) اترو ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو تم پر ہیں اور ان لوگوں پر بھی جو تمہارے ساتھ ہیں (۱۱: ۴۸)۔

 

۲۹

 

یہ تو اصول کی بات ہے جو ہم یقین کریں کہ حضرت نوحؑ کو یہ برکتیں خدا کے بزرگ ناموں کے ذکر کے نتیجے میں حاصل ہوئی تھیں نہ کہ ظاہری قسم کے طوفان کے انجام میں کیونکہ پروردگار کے اسم اور ذکر کے بغیر کوئی سلامتی اور برکت نہیں ہوسکتی، اور یہ امر لازمی ہے کہ خدا کی سلامتی اور برکات نوح علیہ السّلام پر اس وقت سے ہوں، جب سے کہ انہیں نبوّت ملی تھی۔

 

ذکر اور حضرت ابراہیمؑ:

حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام کے بارے میں بھی یہی قرآنی ثبوت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چند کلماتِ تامّات پر آزمایا تھا، اور اُن کلمات سے اسمائے الٰہی مراد ہیں، یعنی حضرت ابراہیمؑ نے خدا کے اسمائے عظام کے مبارک ذکر کو کما حقّہٗ انجام دیا جس کے نتیجے میں آپؑ ذاتی طور پر اور اپنے سلسلۂ اولاد کی حیثیت میں دنیا بھر کے لوگوں کے لیے امام مقرر ہوئے اور تمام خداوندی برکتوں کا سرچشمہ قرار پاگئے، یہ سورۂ بقرہ کی آیت ۱۲۴ کا واضح مفہوم ہے (۰۲: ۱۲۴)۔

 

ذکر اور حضرت موسیٰ  ؑ:

سورۂ نمل (۲۷) کی آیت نمبر ۸ میں ارشاد ہے کہ: غرض جب موسیٰ

 

۳۰

 

اس آگ کے پاس آئے تو ا ن کو آواز آئی کہ برکت دی گئی ہے اس کو جو اس آگ (یعنی نور) میں ہے اور اس کو جو اس کے گرد ہے اور وہ خدا جو جہانوں کا پروردگار ہے پاک و پاکیزہ ہے (۲۷: ۰۸)۔ یہ وہ نورِ ہدایت تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے ذکرِ الٰہی کے نتیجے پر چشمِ باطن سے دیکھا تھا، جس میں عقل و دانش، علم و حکمت اور رشد و ہدایت کی برکتیں موجود تھیں اور اسی نور کے حضور سے موسیٰ علیہ السّلام کو بھی رحمتیں اور برکتیں حاصل ہوئی تھیں۔

 

ذکر اور حضرت عیسیٰ  ؑ:

سورۂ مریم (۱۹) کی آیت نمبر ۳۱ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا:

وَّجَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ(۱۹: ۳۱)

اور خدا نے مجھے جہاں بھی رہوں برکت والا بنایا۔ یہاں یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ یہ پاک آیت بڑی پُرحکمت ہے اور اس میں بہت سی حقیقتوں کی کلیدیں پنہان ہیں ا س میں لفظ “اَیْنَ” کی اینیت کا اشارہ ظاہر و باطن کی دونوں حالتوں کی طرف ہے یعنی “میں جہاں بھی رہوں” میں حضرت عیسیٰؑ یہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی نبوّت کے پورے دور میں جسمانی طور پر یا روحانی کیفیت میں

 

۳۱

 

جن لوگوں کے درمیان رہونگا ان کے لیے مجھے برکت کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔

 

اس ارشادِ قرآنی سے ایک تو یہ حکمت ظاہر ہے کہ اسمِ اعظم اور آسمانی کتاب سے خیر و برکت حاصل کرنے کا جو طریقہ مقرر ہے اس کی عمومی اور خصوصی ہدایت کا حصول ہادیٔ زمانؑ کے بغیر ناممکن ہے، اس کی دُوسری حکمت یہ ہے کہ جو دینی پیشوا اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر ہے، اس کی قربت و نزدیکی اور صحبت و ہم نشینی دو طرح کی ہوا کرتی ہے، ایک جسمانی اور دوسری روحانی کیونکہ اگر ہم صرف یہی خیال کریں کہ حضرت عیسیٰؑ صرف انہیں لوگوں کے واسطے باعثِ برکت تھے، جو جسمانی طور پر ہمیشہ آپ کی صحبت میں رہا کرتے تھے، تو اس سے خداوندی فیوض و برکات پر مکان و زمان کی حد بندی لازم ہوگی، اور جس کے نتیجے میں ان رحمتوں اور برکتوں سے ایسے لوگ محروم ہوجائیں گے، جو بہت ایماندار اور تابعدار ہیں، مگر جسمانی طور پر اپنے پیشوا اور ہادی سے کہیں دُور رہتے ہوں اور تیسری حکمت اِس آیت میں یہ ہے کہ اسمِ اعظم، آسمانی کتاب اور ہادیٔ وقت کی روحانیّت و نورانیّت حقیقت میں ایک ہی ہے

 

۳۲

 

یہی سبب ہے کہ برکت کا سرچشمہ بعض دفعہ خدا کے نام کو قرار دیا گیا ہے بعض اوقات آسمانی کتاب کو اور بعض صورتوں میں ہادیٔ برحقؑ کو اور ان تینوں باتوں کا مطلب ایک ہی ہے کیونکہ روحانیّت کا یہی اصول ہے کہ ایک ہی حقیقت کے کئی نام ہوا کرتے ہیں۔

 

اس بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی جانب سے حضرت عیسیٰؑ کا برکت والاہونا اس حقیقت کا ایک روشن ثبوت ہے، کہ ان کو یہ مرتبۂ اعلیٰ ذکرِ الٰہی کے نتیجے میں دیا گیا تھا کیونکہ خدا کے نامِ بزرگ اور ذکرِ مقدّس کے بغیر کوئی رحمت و برکت نہیں مل سکتی۔

 

ذکر اور حضرت محمد صلعم:

قرآنِ حکیم کے متعدّد ارشادات سے یہ حقیقت ثابت ہے کہ حضرت رسُولِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کو اپنے پروردگار کے بابرکت اسمِ اعظم کے ساتھ روحانی تعلق اور نورانی وابستگی تھی، آپؐ نبوّت سے پہلے بھی اور بعد میں بھی خدا کے اسی عظیم ترین اسم اور اس کے ساتھ والے اسمائے عظام کا ذکر کرلیا کرتے تھے، اور آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بزرگ ناموں کی روحانیّت

 

۳۳

 

و نورانیّت اور علم و حکمت کا خزانہ دار بنا دیا تھا۔

 

جاننا چاہئے کہ ذکر قرآن کو بھی کہا گیا ہے، جس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ قرآن کے معنی ہیں پڑھنا (۷۵: ۱۷ تا ۱۸) اور ذکر کا مطلب ہے خدا کو یاد کرنا، آن حضورؐ اسمِ اعظم پڑھا کرتے تھے اور خدا کو یاد کیا کرتے، جس کے نتیجے میں آپؐ پر اللہ کی آخری کتاب نازل ہوئی، چنانچہ آنحضرتؐ کے نامِ خدا پڑھنے کی نسبت سے اِس پاک کتاب کو قرآن اور خدا کو یاد کرنے کی وجہ سے ذکر کے اسم سے موسوم کیا گیا۔

 

نیز قرآن مجید کو ذکر کہنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی ساری نصیحتیں، ہدایتیں، روح اور زندہ حقیقتیں مومنوں کی سہولت و آسانی کے لیے خدا کے مبارک نام اور پاک ذکر میں سمو دی گئی ہیں، جیسا کہ سورۂ قمر (۵۴: ۱۷) میں فرمایا گیا ہے کہ:

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ

اور ہم نے قرآن کو ذکر کے لیے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے جو ذکر کرے۔ قرآنِ حکیم کو انتہائی حد تک آسان کردینا یہ ہے کہ قادرِ مطلق نے اسے ایک زندہ روح اور ایک کامل

 

۳۴

 

نور قرار دے کر اپنے معجزاتی اسم کی روحانیّت میں سمو رکھا ہے اور یہ ارشاد اِس سورہ میں بار بار فرمایا گیا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ اہلِ علم و دانش اس عظیم حکمت کی طرف ضرور توّجہ دیں کہ قرآن مقدّس اپنے ظاہری و باطنی معنوں اور جملہ خوبیوں کے ساتھ اسمِ اعظم کے ذکر میں سموگیا ہے اس مثال سے مومنوں کو یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کے مبارک اسم اور پاک ذکرمیں کیسی لاتعداد رحمتیں اور برکتیں موجود ہیں۔

 

ذکر کے متعلق بحوالۂ قرآن (۶۵: ۱۰ تا ۱۱) یہ بھی ایک قرآنی حقیقت ہے کہ ذکر رسول اکرمؐ کے پاک ناموں میں سے ہے، کیونکہ حضورِ انورؐ اپنے مبارک عہد میں خدائے رحمان و رحیم کا زندہ اسمِ اعظم اور معجز نما یاد تھے، اور اس لیے بھی کہ آپؐ کا پاک نور اور قرآن کی قدسی روح کی حقیقت ایک ہی تھی۔

 

آنحضرتؐ کی دُعائے برکات:

خدائے رحمان و رحیم کی یہ شان ہے کہ اُس نے حضرت عیسیٰؑ کو اپنے وقت میں تابعدار لوگوں کے لیے مبارک یعنی برکتوں کا ذریعہ بنایا تھا، اسی طرح اللہ پاک نے

 

۳۵

 

سرورِ انبیاء صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کو اپنے عہد میں ذاتی طور پر اور مستقبل میں اپنے جانشین کے توّسط سے رحمتوں اور برکتوں کا سرچشمہ اور وسیلہ قرار دیا ہے، تاکہ دُنیا خدا کی رحمت و برکت سے خالی نہ ہوجائے۔

 

چنانچہ آنحضرتؐ کی دُعائے برکات کی ایک قرآنی مثال یہ ہے جو ارشاد ہوا ہے کہ: ہے کوئی جو خدا کو قرضِ حسنہ دے تاکہ خدا اس کے مال کو اس کے لیے کئی گنا بڑھادے (۰۲: ۲۴۵)۔

 

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک لوگوں سے قرضِ حسنہ کے عنوان سے کچھ مال لینا چاہتا ہے، اور ان کی اِس مالی قربانی کے عوض دین و دُنیا کی رحمتوں اور برکتوں سے انہیں نوازنا مقصود ہے، مگر ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ بذاتِ خود کوئی مادّی چیز نہیں لیتا، بلکہ اپنے رسولؐ کے ذریعے سے اور ادائے زکوٰۃ وغیرہ کے عوض میں کسی کو دعائے برکات بھی پیغمبر اکرمؐ ہی کے توّسط سے ملا کرتی ہے، چنانچہ سورۂ توبہ (۹) کی آیت نمبر ۱۰۳ میں ارشاد ہوا ہے کہ:

(اے رسولؐ) آپ ان کے مال کی زکوٰۃ لیجئے تاکہ آپ

 

۳۶

 

ان کو (گناہوں سے) پاک صاف کردیں گے اور ان کے لئے دُعائے خیر و برکت کیجئے کیونکہ آپ کی دُعا ان لوگوں کے حق میں اطمینان (کا باعث) ہے (۰۹: ۱۰۳)۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہر قسم کی خیر و برکت کا سرچشمہ بحکمِ خدا حضور اقدس کی مبارک دُعا ہے، اور آنحضرتؐ کے جانشینؑ کی دُعا بھی یہی شان رکھتی ہے۔

 

قرآن (۱۳: ۲۸) میں حضرت ربّ العزّت کا یہ فرمان ہے کہ: یاد رکھو کہ خدا ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہوا کرتا ہے۔ اب اِس آیۂ پُرحکمت کے متعلق یہ سوال ضرور پیدا ہوجاتا ہے کہ اگر کسی شرط کے بغیر صرف خدا کے ذکر ہی سے کسی کے دل کو اطمینان حاصل ہوسکتا تھا، تو پھر خدا نے آنحضرتؐ سے یہ کیوں فرمایا کہ آپؐ کی دُعا میں ان کے لیے اطمینان ہے؟ اس کا واحد جواب یوں ہے کہ یہاں اللہ کے جس ذکر کو دلوں کا اطمینان قرار دیا گیا ہے، وہ صرف اور صرف وہی ذکر ہے، جس کے متعلق حضور اکرمؐ نے یا آپؐ کے جانشینؑ نے اذن، ہدایت اور دعائے برکات دی ہو، ورنہ حقیقی اطمینان مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔

 

ذکر اور أئمّۂ اطہارؑ:

جیسا کہ بابِ اوّل میں مختصراً بتایا گیا، کہ اہلِ ذکر أئمّۂ اہل بیت

 

۳۷

 

علیہم السّلام ہی ہیں، اور یہ نام ان حضرات کے قرآنی القاب میں سے ہے، چنانچہ اہلِ ذکر کی معنویّت و حقیقت کے کئی پہلو ہیں،

۱۔ جیسے اہلِ رسُولؐ یا آلِ رسولؐ، یعنی وہ حضرات جو اہلِ بیتِ رسُولؐ ہیں، جو مدینۂ علمِ نبوّی کے باب کی حیثیت سے ہیں، جو خانۂ حکمتِ مُحمّدیؐ کے دروازے کا درجہ رکھتے ہیں اور جو اسرارِ دینیّہ سے کما حقّہٗ واقف و آگاہ ہیں۔

۲۔ اہلِ قرآن، یعنی وہ حضرات جنہیں خدائے پاک نے “الراسخون فی العلم” کے پیارے نام سے یاد فرمایا، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی محمد صلعم کے توّسط سے قرآن کی تنزیل و تاویل کا علم عطا فرمایا ہے اور جو آفاق و انفس کے تمام حقائق و معارف کے خزانہ دار ہیں۔

۳۔ نصیحت و ہدایت کرنے والے، جو خدا و رسولؐ کے بعد اولا الامر کی حیثیت سے لوگوں کی رہبری و رہنمائی کرنے والے ہیں، جن کی اطاعت لوگوں پر فرض کی گئی ہے۔

۴۔ ذکرِ الٰہی والے، یعنی خدا کی یاد کرنے والے اور خدا کی یاد دلانے والے، اسمائے عِظام سکھانے والے، ذکر کے تمام طریقوں کے پیشوا، ان کے جملہ رموز و اسرار کے واقف کار،

 

۳۸

 

منازلِ روحانیّت اور مراحلِ نورانیّت کے شناسا اور سبیلِ معرفت کے نورِ ہدایت۔

أئمّۂ پاک علیہم السّلام میں سے ہر امامؑ اپنےزمانے میں خداوند تعالیٰ کے اسمِ بزرگِ حیّ و حاضر اور ذکرِ خفی و قلبی کا خزانہ دار اور محافظ ہوا کرتا ہے، کیونکہ حضرت امام علیہ السّلام خدا اور رسولؐ کی خلافت و نیابت کے درجے پر ہوتا ہے، لہٰذا خدا و رسولؐ کی رحمتوں اور برکتوں کے بے پایان خزانے امامِ عالی مقامؑ ہی کے سپُرد ہوتے ہیں۔

 

خلافتِ جزوی:

حقیقی مومن کو اس بات کا جاننا از حد ضروری ہے کہ بنی نوع انسان کی اجتماعی اور انفرادی کیفیت کےاعتبار سے خدا کی دو خلافتیں ہوا کرتی ہیں، ایک تو کُلّی خلافت ہے، جس کا تعلق پوری دنیا سے ہے، جیسے حضرت آدم علیہ السّلام کی خلافت، اور دُوسری جزوی خلافت ہے، جو ایک مومن فرد کی اپنی ذات سے متعلق ہے، کُلّی طور پر خلیفہ اپنے اپنے زمانے میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہوا کرتے ہیں، اور جزوی طور پر خلیفہ ہر وہ حقیقی مومن ہو سکتا ہے، جو اپنے وقت کے ہادیٔ برحقؑ کی

 

۳۹

 

نورانی ہدایت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے پاک اسم کا ذکر کرتا ہے، اور اس میں جیسا کہ چاہئے کامیابی ہوئی ہو، تو ایسا کامیاب و بامراد مومن اپنی ذاتی روحانیّت کی دُنیا میں خدا تعالیٰ کی خلافت و نیابت سے سرفراز ہوجاتا ہے، جس کا ظاہری نتیجہ علمِ حقیقت و معرفت کی صورت میں ہوتا ہے، یہ ذکرِ الٰہی کی برکات میں سے ہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تم میں سے جن لوگوں نے ایمان لایا اور اچھے اچھے کام کیے اُن سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انکو روئے زمین پر ضرور (اپنا) خلیفہ مقرر کرے گا جس طرح ان لوگوں کو خلیفہ بنایا جو ان سے پہلے گزر چُکے ہیں (۲۴: ۵۵)۔

یہ جو فرمایا “تم میں سے” اس سے ظاہر ہے کہ یہ خطاب ان سب لوگوں سے ہے جنہوں نے ایمان لایا، مگر جن سے خلافت کا وعدہ کیا گیا ہے وہ سب نہیں بلکہ ان میں سے بعض ہیں، وہ وہی ہیں جو صحیح معنوں میں ایمان لائے اور جو حقیقی معنوں میں اچھے کام کریں، ان کو زمینِ روحانیّت کی خلافت دی جائے گی، جس طرح سابقہ اُمتوں کے مومنوں کو یہ خلافت دی گئی تھی جو

 

۴۰

 

ظاہر نہیں، اسی طرح اب بھی ظاہر نہ ہوگی، کیونکہ یہ خلافت ذاتی ہے۔

 

برکت کی ایک مثال:

پرور دگارِ عالم کے مقدّس ذکر کی خیرات و برکات کی مثال اس صاف و شفاف پانی کی طرح ہے، جو آسمان یعنی بلندی سے برستا ہے، کیونکہ سورۂ قٓ (۵۰) کی آیت ۹ (۵۰: ۰۹) کے مطابق پانی جسمانی برکتوں کا سرچشمہ ہے، آپ اندازہ کریں کہ پانی کی بدولت کس طرح پوری دنیا آباد و سرسبز ہوتی رہتی ہے، کیسے کیسے عمدہ اور دلکش باغ و گلشن پیدا ہوتے ہیں اور کس طرح لہلہاتے ہوئے کھیتوں سے لوگوں کی روزی کے لیے اناج کا ذخیرہ جمع ہوتا ہے، نیز یہ بھی دیکھنا ہے کہ پانی کی برکت سے وہ شہر کس طرح زندہ ہوجاتا ہے، جو موسمِ سرما میں مرچکا تھا، پانی کی یہ مثال ذکرِ الٰہی کے فیوض و برکات کی حقیقتیں سمجھنے کے لیے ہے، جن سے ایمانی روح کی آبادی ہوتی ہے، اور مومن کی حقیقی زندگی بنتی ہے۔

 

آسمان و زمین کی برکات:

سورۂ اعراف کی آیت ۹۶ میں فرمایا گیا ہے کہ: اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور پرہیز گار بنتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں (کے ابواب) کو کھول

 

۴۱

 

دیتے (۰۷: ۹۶) جاننا چاہئے کہ اس آیۂ کریمہ کے معنی کا تعلق مادّی برکتوں سے کم اور روحانی برکتوں سے زیادہ ہے، اور ہر حالت میں فیوض و برکات کی کلیدیں اسمائے الٰہی میں ہیں اور ضروری ہدایات صاحبِ امر سے حاصل ہوسکتی ہیں۔

 

دونوں جہان کی برکات:

قرآن (۰۷: ۵۴) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: آگاہ رہو کہ عالمِ خلق اور عالمِ امر (دونوں) اسی (خدا) کے ہیں وہ خدا جو عالموں کا پروردگار ہے بڑا برکت والا ہے۔ اس آیۂ مقدّسہ میں بطورِ اشارہ یہ فرمایا گیا ہے کہ پروردگارِ عالمین کی لاانتہا رحمتیں اور برکتیں عالمِ جسمانیّت اور عالمِ روحانیّت دونوں میں پھیلی ہوئی ہیں، جن کی کلید خداتعالیٰ کے مبارک و مقدّس اسم کے ذکر میں پوشیدہ ہے جس کا بیان ہوا۔

 

اس باب کے سلسلے میں شروع سے یہاں تک قرآن پاک کی روشنی میں جو خاص باتیں بتائی گئیں، اُن کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھاکہ اللہ تعالیٰ کے مبارک و مقدس اسم کے ذکر میں دین و دنیا اور ظاہر و باطن کی جملہ رحمتیں اور برکتیں سموئی ہوئی ہیں، لہٰذا کوئی دیندار یادِ الٰہی سے غافل نہ رہے اور جو ذکرِ الٰہی میں مصروف ہے،

 

۴۲

 

وہ اس کے تمام فوائد سے آگہی کے ساتھ عمل کرے تاکہ علم اور عمل دونوں کے یکجا ہونے سے جلد ہی کامیابی حاصل ہو۔

 

۴۳

 

باب سوم

ذکر کی قسمیں

 

یہ امر حقیقی مومنین کے فرائضِ ضرور یہ میں سے ہے، کہ وہ ذکرِ الٰہی کی مختلف قسموں کی کچھ مثالیں سمجھ لیں تاکہ وقت اور جگہ کے تقاضا کے مطابق ان سے دینی اور روحانی فائدہ اُٹھایا جاسکے کیونکہ قدرت و فطرت کا یہی قانون ہے کہ دین و دُنیا کی کوئی بھی چیز کُلّی طور پر مفید اور سود مند ثابت نہیں ہوسکتی، جب تک کہ اس کے متعلق پُورا پُورا علم حاصل نہ کیا جائے، لہٰذا یہ جاننا ضروری ہے، کہ مختلف اعتبارات سے ذکر کی کئی قسمیں ہیں، جن میں سے بعض اہم قسموں کو ہم یہاں بطور مثال زیرِ بحث لاتے ہیں، چنانچہ ذکرِ فرد، ذکرِ جماعت، ذکرِ جلی، ذکرِ خفی، ذکرِ کثیر، ذکرِ قلیل، ذکرِ لسانی، ذکرِ قلبی، ذکرِ بصری، ذکرِ سمعی، ذکرِ بدنی اور ذکرِ خواب۔

 

اقسامِ ذکر کا ثبوت:

اگر سنجیدگی سے غور و فکر کیا جائے تو مذکورۂ بالااقسام کے ذکر کی واضح مثالیں اِس آیۂ کریمہ سے ملتی ہیں، جو ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:

 

۴۴

 

فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَاۗءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا (۰۲: ۲۰۰)

پس تم اس طرح ذکرِ خدا کرو جس طرح تم اپنے باپ داداؤں کا ذکر کرتے ہو بلکہ اس سے بڑھ کے۔

 

چنانچہ سب سے پہلے اس ارشاد مبارک سے ایک شخص کے انفرادی ذکر کی مثال ملتی ہے کیونکہ اپنے باپ کی یاد کوئی ایک فرد بھی کرسکتا ہے، پھر اس سے جماعتی ذکر ثابت ہے، جبکہ چند بیٹے مل کر بھی اپنے آبا و اجداد کو یاد کرتے ہیں، اس کے بعد ذکرِ جلی کا اشارہ ہے، چونکہ کوئی شخص اپنے باپ داداؤں کی یاد و تعریف ترنّم اور قصیدہ خوانی کی صورت میں بھی کرتا ہے، جیسا کہ عرب کے لوگ شروع شروع میں کرتے تھے، بعد از ان ذکرِ خفی کا ثبوت ہے اس لیے کہ آدمی اپنے دل میں پوشیدگی سے بھی باپ دادا کو یاد کرتا ہے، ذکرِ کثیر اور ذکرِ قلیل کی مثال تو زیادہ واضح ہے، کہ انسان اپنے باپ کو زیادہ یاد کرتا ہے یا کم یاد کرتا ہے، ذکرِ لسانی کی مثال ذکرِ جلی کے ساتھ اور ذکرِ قلبی کی مثال ذکرِ خفی کے ساتھ ہی آگئی، ذکرِ بصری کی دلیل یہ ہے کہ ہر بیٹا اپنے باپ کو اور اس کی خاص چیزوں کو محبّت کی نگاہ سے دیکھتا ہے یا باپ کے دیدار

 

۴۵

 

کا مشتاق رہتا ہے، ذکرِ سمعی کا ثبوت یہ ہے کہ ہر انسان اپنے آباواجداد کی تعریف و تذکرہ شوق سے سُنتا ہے، ذکرِ بدنی کی مثال یہ ہے کہ ہر وہ آدمی جسے اپنے باپ کے پاس جانا ضروری ہو، جسمانی حرکت کرتا ہے اور محنت و مشقت برداشت کرتا ہے، اور ذکرِ خواب کی مثال یہ ہے کہ ہر نیک دل انسان اپنے پدرِ بزرگوار کو کبھی کبھار خواب میں دیکھتا ہے، جس کی وجہ سے باپ کی یاد و محبّت اور بھی قوّی ہوجاتی ہے۔

 

 

ذکرِ فرد:

ذکرِ فرد سے انفرادی ذکر مراد ہے، خواہ ذاکر کسی جماعت کے ساتھ ہو یا کہیں الگ، ہر حال میں جب وہ جماعت کی کسی پابندی اور ہم آہنگی کے بغیر اپنی مرضی اور آزادی سے ذکر کرتا ہو، تو یہ اس کا انفرادی ذکر کہلاتا ہے، بندۂ ذاکر کا انفرادی ذکر ہر جگہ اور ہر موقع پر مفید اور سود مند ثابت ہوتا ہے، لیکن جماعتی ذکر چھوڑ کر اس کو اختیار نہ کیا جائے، کیونکہ جماعتی ذکر کی فضیلت انتہائی عظیم ہے۔

 

ذکرِ جماعت:

جماعتی ذکر یا اجتماعی ذکر کی صورت یہ ہے کہ اس میں ایک سے زیادہ جتنے بھی ہوں مومنوں کی مجلس ہوا کرتی ہے، جس میں سب ہم آواز ہوکر ذکر کرلیا کرتے

 

۴۶

 

ہیں، اگر مجلسِ ذکر سے متعلق تمام شرائط اور آداب بجالائے جائیں تو اس میں ذکر و عبادت کے دوسرے طریقوں کی نسبت روحانی ترقی کے زیادہ امکانات موجود ہوتے ہیں، جس کی حکمت یہ ہے کہ ذکر خدا تعالیٰ کی نورانی رسّی ہے اور اس کو اجتماعی طور پر مضبوطی سے پکڑنے کے لیے فرمایا گیا ہے۔

 

ذکرِ جلی:

ذکرِ جلی ایک فرد یا چند افراد کے اُس ذکر کا نام ہے، جو مؤثر آواز کے ساتھ کیا جاتا ہے، جس کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ انسان کا دل غفلت اور غلط کاریوں کے سبب سے بہت جلد زنگ آلود اور تاریک ہوجاتا ہے اور ایسے دل میں ذکرِ خفی نہیں اُترتا، تاوقتیکہ ذکرِ جلی اور گریہ و زاری سے دل کی مکمل صفائی نہ ہو۔

 

یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے تمام اجزاء میں سے جو بھی جُز ہو جب اسے بلند اور پُر اثر آواز سے پڑھا جاتا ہے، تو وہ ذکرِ جلی کہلاتا ہے، مثلاً کسی جماعت کا بآواز بلند سبحان اللہ کی تسبیح پڑھنا وغیرہ، غرض جو بھی عبادت اونچی آواز کے ساتھ ہو وہ ذکرِ جلی ہے۔

 

ذکرِ خفی:

ذکرِ خفی کا مقصد پوشیدہ اور پنہان طریق پر ذکر کرنا ہے، جو کہ ذکرِ قلبی سے بہت قریب ہے۔ اس کا فائدہ

 

۴۷

 

یہ ہے کہ اس میں درویشی کی کوئی نمائش نہیں ہوتی، اور نہ ہی لوگ ایسے ذاکر کے خلاف چہ میگوئیاں کرسکتے ہیں، اس کے علاوہ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ بتدریج دل میں اُتر کر ذکرِ قلبی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔

 

ذکرِ کثیر:

ذکرِ کثیر کا مطلب ہے خدا کو کثرت سے یاد کرنا، خواہ وہ یاد مختلف اذکار و عبادات کی حیثیت سے ہو یا ایک ہی ذکر کی صورت میں، وقفہ وقفہ سے ہو یا مسلسل طور پر، جلی ہویا خفی، بہرحال وہ ذکرِ کثیر ہی کہلائے گا، جبکہ مجموعی طور پر اس کی مقدار بہت زیادہ ہو۔

 

اس سلسلے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن پاک کی ایک آیت میں نہیں بلکہ متعدد آیات میں ذکرِ کثیر کا حکم دیا گیا ہے، جس سے یہ امر واجب اور لازم ہوتا ہے کہ مومن کو شب و روز زیادہ سے زیادہ یادِ الٰہی اور نیک کاموں میں مصروف رہنا چاہئے، کیونکہ انسان کے دل میں دو مخالف طاقتیں کار فرما ہیں، ایک تو خیر کی طاقت ہے اور دوسری شر کی، چنانچہ بندۂ مومن درست طریقے سے جتنی دیر تک خدا کو یاد کرتا رہتا ہے، اتنی مدّت کے لیے شر کی کارفرمائی بند اور خیر کی فرمائش آزاد ہوجاتی ہے، اس کے برعکس

 

۴۸

 

جب بھی انسان خدا کو بھول جاتا ہے، اس وقت خیر کی صلاحیت دب کر شر کی قوّت اُبھر آتی ہے، پس اگر شیطان اور نفسِ امّارہ کی تمام بُرائیوں کے جراثیم سے بچ کر رہنا مطلوب ہو تو اس کا چارۂ کار ذکرِ کثیر ہے۔

 

ذکرِ قلیل:

ذکرِ قلیل کا مطلب ہے بہت کم ذکر کرنا، اگر کم ذکر کرنے کی وجہ محض سُستی ہی ہے، تو یہ اچھی علامت نہیں، کیونکہ قرآن میں سُستی و کاہلی کی مذمت کی گئی ہے، اگر کوئی اور سبب سے کم ذکر کیا جاتا ہے اور اس میں اضافہ ہوجانے کا یقین ہے، تو خیر ہے۔

 

ذکرِ لسانی:

ذکرِ لسانی سے ہر وہ ذکر مراد ہے، جو زبان کی حرکت سے کیا جاتا ہے، خواہ اس میں آواز بلند ہو یا پست، اِس ذکر کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے نہ صرف ذاکر کا دل حقیقی محبّت کی طرف متوّجہ اور منتظر ہوجاتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ دوسروں کے سوئے ہوئے دلوں کو بھی خوابِ غفلت سے جگا دیتا ہے۔ کیوں نہ ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے زبان اس لیے دی ہے کہ اس سے جتنا ہوسکے اس کا ذکر کیا جائے۔

 

۴۹

 

ذکرِ قلبی:

ذکرِ قلبی کا مطلب ہے دل کا ذکر، یہ ذکر تمام اذکار میں مخصوص ترین اور عجائباتِ روحانیّت کا حامل ہے، لیکن یہ جتنا خاص، معجزانہ اور پُرحکمت ہے، اتنا نازک اور مشکل بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ دوسرے تمام اذکار و عبادات اور نیک کاموں کے ذریعے سے اس کی مدد کی جاتی ہے، تاکہ اس کی ترقی ہو، اس کے لاتعداد فائدے ہیں اور بنیادی طور پر اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی باقاعدہ اور مسلسل مشق سے دل کی زبان کُھل جاتی ہے، جس کے نتیجے میں روحانیّت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کشادہ رہتا ہے۔

 

ذکرِ بصری:

بصری ذکر بندۂ مومن کی آنکھ کا ذکر ہے اور یہ کئی طرح سے ہوتا ہے، مثلاً خداوند تعالیٰ کے کسی بزرگ اسم کی دلکش تحریر کو آنکھوں کے سامنے اس غرض سے رکھنا کہ اس پر مسلسل نظر جمائے رکھنے کی مشق سے یہ مبارک اسم دل پر نقش ہوجائے، یا براہِ راست ایسے کسی اسم کا تصوّر کرنا یا قرآنِ پاک اور درجۂ اعلیٰ کی دینی کتابوں کا بغور مطالعہ کرنا نیز آیاتِ کائنات کا محقّقانہ مطالعہ کرنا آنکھوں کے اذکار میں سے ہیں۔

 

۵۰

 

ذکرِ سمعی:

یہ متبرک ذکر کان سے متعلق ہے، مثلاً اگر ایک شخص ذکر کررہا ہے اور دُوسرا شوق سے سُن رہا ہے تو یہ دونوں ذکر کررہے ہیں، اس میں پہلے کا ذکر لسانی ہے اور دوسرے کا سمعی، نیز اگر ایک مومن حسنِ قرأت کے ساتھ قرآن شریف پڑھتا ہے یا کسی بھی زبان میں خواہ منظوم ہو یا منثور، خدا کی حمد و ثنا کرتا ہے، تو یہ روح پرور آواز ایسے فرد یا افراد کے حق میں ذکرِ سمعی کا درجہ رکھتی ہے جو توّجہ اور انہماک سے سنتے رہتے ہیں۔

 

ذکرِ بدنی:

یعنی ایسا ذکر جس کا تعلق بدن سے ہے، اس کی بھی چند قسمیں ہیں، مگر یہاں صرف اتنا ہی بتا دینا ضروری ہے کہ ہر قسم کے ذکر اور ہر طرح کی عبادت کے سلسلے میں جو بھی محنت و مشقت لازمی طور پر اُٹھانی پڑتی ہے، وہ سب جسم ہی برداشت کرتا ہے اور خاص کر قوم اور جماعت کے حق میں جو فائدہ بخش دینی خدمت بجالائی جاتی ہے، وہ جسم ہی کی قوّتوں سے انجام پاتی ہے، جو ذکر کی ترقی کی جان ہے، بشرطیکہ یہ خدمت دنیاوی مقاصد کی تکمیل کے لیے نہ ہو، بلکہ محض خداوند تعالیٰ کی رضا جوئی کی نیت سے ہو۔

 

۵۱

 

ذکرِ خواب:

بعض دفعہ مومن ایسا نیک خواب بھی دیکھتا ہے کہ وہ اس میں ذکر و عبادت کرتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس کیفیّت میں ایسی کوئی بندگی کرتا ہے، درست یا غلط؟ چنانچہ اگر وہ بحالتِ خواب کچھ وقت کے لیے مسلسل ذکر کرتا رہتا ہے اور اسے خوشی بھی محسوس ہوتی ہے، تو یہ اُس کی روحانی ترقی کی بشارت ہے، اگر اس کے برعکس خواب کے ذکر میں یا عبادت میں اسے دِقّت پیش آتی ہو اور سلسلہ بار بار ٹوٹ جاتا ہو تو سمجھنا چاہئے کہ وہ ذکر کے معاملے میں ہنوز کمزور ہے۔

 

۵۲

 

باب چہارم

ذکر کے عام شرائط

 

ذکر کے عام شرائط کی تعمیل و تکمیل یہ ہے کہ مردِ درویش اوّلًا اسلام و ایمان کی واضح اور ظاہری تعلیمات و ہدایات کے بموجب اخلاقِ حسنہ اور دینداری کی صفات سے خود کو آراستہ و پیراستہ کرلیتا ہے، یہ سب کچھ صرف نیک قول اور نیک عمل کی صورت میں کیا جاسکتا ہے، چنانچہ اِس باب میں اِسی سلسلے کے بعض اہم امور سے بحث کی جاتی ہے۔

 

نیکی کا ذریعہ:

جاننا چاہئے کہ نیکی کا ذریعہ ذاتی لحاظ سے نیّت ہے، پھر قول ہے اور آخر میں عمل ہے، چنانچہ ان تین ذریعوں سے ہر وہ نیکی انجام پاسکتی ہے، جو احکامِ دین کے حدود میں ہے، جو روحِ اسلام اور حکمتِ دین کے عین مطابق ہے، جس کا مقصد و منشاء حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی اور خدا وند تعالیٰ کی رضا جوئی ہے، جس سے دین و ایمان کو تقویّت، علم کو فروغ، دل کو سکون اور روح کو راحت

 

۵۳

 

میسر ہو، جو نہ صرف فرد کی اخلاقی بلندی کا باعث ہے، بلکہ یہ قومی عزّت و آبرو اور ترقی و خوشحالی کا بھی ذریعہ ہے، جسے نیک نیتی، نیک قول اور نیک عمل کہا جاتا ہے، اور ایمان و عملِ صالح بھی یہی ہے، یہی تقویٰ اور عدل و احسان ہے اور اسی میں دین و دُنیا کی صلاح و فلاح پوشیدہ ہے، پس بندۂ ذاکر کو ہمیشہ نیکی پر لازم رہنا چاہئے، جس کا ذریعہ نیّت اور قول و عمل ہے۔

 

قول و عمل:

آپ اگر دین کی تشریح و تفصیل میں جانا چاہتے ہیں، تو اس کے سلسلے میں بہت سی باتوں کو پیشِ نظر رکھنا پڑے گا اور اگر آپ دین کی تعریف مختصر سے مختصر طور پر کرنا چاہتے ہیں تو وہ صرف دو لفظوں میں سمٹ جائے گی وہ یہ کہ دین قول و عمل ہے، یعنی پاکیزہ قول اور نیک عمل کا نام دین ہے، جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے:

اسی (خدا) کی طرف پاکیزہ قول چڑھ جاتا ہے اور نیک عمل ہی اسے اُٹھالے جاتا ہے (۳۵: ۱۰) یعنی عقیدہ و ایمان، عبادت، ذکر اور علم یہ سب قول ہیں، اور قول خواہ کچھ بھی ہو اس کا یہ حال ہے کہ وہ نیک عمل کے بغیر خدا کے حضور تک نہیں پہنچ سکتا، اس کے معنی یہ ہوئے کہ مومنِ ذاکر خدا کے ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ

 

۵۴

 

ضروری طور پر نیک کاموں کو بھی انجام دے تاکہ وہ خدا کے پاک نور کا تقرب حاصل کرسکے۔

 

قرآن حکیم میں ایسے بہت سے ارشادات ہیں جن سے اس حقیقت کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ دینِ اسلام کے تمام احکام قول و عمل میں مجموع و محدود ہیں، اور قول و عمل سے باہر کوئی چیز نہیں، اور اگر نیّت ہے تو وہ دل کے ارادے کا نام ہے، جو ان دونوں سے متعلق ہے یعنی پاکیزہ قول اور نیک عمل میں نیّت (دلی ارادہ) خود بخود شامل ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے:

اور بات میں اس شخص سے بہتر کون ہوسکتا ہے جو خدا کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں (۴۱: ۳۳) یہاں “خدا کی طرف بلانے” میں دین کی تمام باتیں شامل ہیں، کیونکہ اسلام کی تمام باتوں میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں جس میں بلاواسطہ یا بالواسطہ خدا کی طرف بلانے کا کوئی پہلو نہ ہو، اسی طرح “نیک عمل” میں دین کے بتائے ہوئے تمام کاموں کا تذکرہ ہے، غرض یہ کہ دین دو بڑی چیزوں کا مجموعہ ہے وہ قول اور عمل ہیں، چنانچہ ذکر نہ صرف اس معنی میں دعوت ہے کہ اس میں خدا کو پکارا جاتا ہے بلکہ یہ اس اعتبار سے بھی دعوت

 

۵۵

 

ہے، کہ اسکے ذریعے انسان اپنے نفس کو خدا کی طرف بُلاتا ہے، مگر یہ دعوت جس مقصد کیلئے بھی ہو اس وقت مقبول اور کامیاب ہوجاتی ہے، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ نیک عمل بھی ہو۔

 

عمل اور خدا کی مدد:

ظاہر ہے کہ ذکر کے معنی میں خدا کو پکارا جاتا ہے۔ اب ضرور یہ دیکھنا ہے کہ مومنِ ذاکر خدا تعالیٰ کو کس مقصد سے پکارتا ہے، اگر وہ کسی قسم کی مدد کے لیےپکارتا ہے، تو قانونِ قدرت لازماً اسے یہ جواب دے گا کہ تم پہلے اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام تو کرو، پھر اس کے بعد مدد کے لیے پکارو، کیونکہ دنیاوی طور پر بھی یہی اصول ہے کہ کسی آدمی کی مدد اس وقت کی جاتی ہے، جبکہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر انتہائی کوشش کے باوجود متعلقہ کام نہیں کرسکتا ہو۔

 

عمل اور خدا کی محبّت:

اگر ذکرِ الٰہی کا مقصد خدا کی دوستی و محبت ہے تو پھر بھی اعمالِ صالحہ کے بغیر ناممکن ہے، کیونکہ دوست کی دوستی و محبت صرف اسی صورت میں حاصل ہوسکتی ہے، جبکہ اس کے حکم کے مطابق عمل کیا جائے، وہ جس کام کے لیے فرماتا ہے اسے بجا لایا جائے اور جس چیز کی ممانعت کرتا ہے اس کے پیچھے

 

۵۶

 

نہ چلا جائے، پس معلوم ہوا کہ ذکر سے پہلے یا اس کے ساتھ ساتھ دین کے تمام احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔

 

عمل اور خدا کی خوشنودی:

یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص اللہ کا ذکر کسی اور غرض سے نہیں بلکہ محض اس کی خوشنودی ہی کی نیّت سے کرتا ہو لیکن اسے یہ ضرور جاننا چاہئے کہ خدا کی خوشنودی اس کے امروفرمان پر عمل کرنے ہی سے حاصل ہوتی ہے، لہٰذا مومن کا قول اور عمل دونوں آئینِ دین کے مطابق ہونے چاہئیں۔

 

عمل اور عبادت:

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک سادہ لوح انسان ذکرِ الٰہی میں اس خیال سے مصروف رہا کرے کہ خدا کی جملہ عبادات بس اسی میں ہے اور صرف قول (ذکر) ہی کو لے کر گوشہ نشین ہو جائے، حالانکہ عبادت غلامی کو کہتے ہیں، اور کسی غلام کی صحیح غلامی وہ ہے جس میں وہ اپنے آقا کے حکم کے مطابق گھر اور باہر کا سب کام کرتا رہتا ہے، اسی طرح خدا کی عبادت بھی قول و عمل دونوں سے کی جاتی ہے، اس مثال سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی دین کے سارے اقوال اور تمام اعمال پر مشتمل ہے۔

 

۵۷

 

عمل اور روحانی ترقی:

یہ بالکل درست ہے کہ ذکرِ الٰہی کے بہت سے مقاصد میں سے ایک خاص مقصد روحانی اور اخلاقی ترقی ہے جس میں ہر اعلیٰ چیز خود بخود شامل ہوجاتی ہے، یعنی اس میں خدا کی مدد اور حقیقی محبت بھی ہے اور اس کی خوشنودی و عبادت بھی، لیکن یہاں پر بھی پھر وہی عمل کی بحث سامنے آجاتی ہے، کیونکہ روحانی ترقی جو دین کا سب سے بڑا کام ہے اعمالِ صالحہ کی انجام دہی کے بغیر ناممکن ہے، چنانچہ فرض کیجئے کہ ایک شخص معاشرہ اور خاندان سے الگ تھلگ ہوکر گوشۂ تنہائی میں چالیس سال تک ذکرِ الٰہی میں مصروف رہتا ہے، تو ہم نے یہ مان لیا کہ ایسے آدمی نے خدا کے حقوق میں سے صرف ایک بڑے حق کو ادا کیا اور خدا کے باقی حقوق اس کی گردن پر رہ گئے، اور دوسری طرف سے خدا کے بندوں کے حقوق تو ویسے کے ویسے ہی رہ گئے، یعنی اس شخص نے بندگانِ خدا کے بہت سے حقوق میں سے ایک بھی ادا نہیں کیا، مثلاً والدین کا حق، بیوی بچّوں کے حقوق، گھر والوں کے حقوق، خویش و اقربا اور پڑوسیوں کے حقوق، یتیموں، غریبوں، محتاجوں اور بیماروں کے حقوق، زندوں اور مُردوں کے حقوق، معاشرہ،

 

۵۸

 

جماعت، قوم اور ملک و ملّت کے حقوق، پس کسی ایسے شخص کی روحانی ترقی کس طرح ہوسکتی ہے، جس نے ان تمام حقوق سے گریز کیا ہے جن کو خدا و رسولؐ نے مقرر فرمایا تھا، جن کی ادائیگی سے اعمالِ صالح مرتب ہوتے تھے۔ اس سے نہ صرف نیک کاموں کی اہمیّت و افادیّت ظاہر ہوئی، بلکہ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام میں رہبانیّت اس لیے ممنوع ہے کہ اس سے روحانی طور پر اتنا فائدہ نہیں جتنا کہ جماعت کے ساتھ مل جُل کر مذہبی زندگی گزارنے سے حاصل ہوسکتا ہے۔

 

عمل جسم ہے اور قول روح:

اس عالمِ ظاہر میں وجودِ انسانی کی تکمیل دو چیزوں کے یکجا ہونے سے ہوسکتی ہے، اگر ایسا نہ ہو تو نہ تنہا روح کوئی کام کرسکتی ہے اور نہ خالی جسم، اسی طرح اگر پاکیزہ قول دین کی روح کا درجہ رکھتا ہے تو نیک عمل اس کے جسم کی حیثیت سے ہے، پس بندۂ مومن کو چاہئے کہ ذکرِ الٰہی کی رُوح جتنی پاکیزہ ہے، اس کے مطابق نیک عمل کو بھی انجام دے تاکہ اس کے ملکوتی وجود کی تکمیل ہوکر ایک فرشتہ بن سکے۔

 

دینِ حق ایک انتہائی دانش مند، سالم الاعضاء اور

 

۵۹

 

صحت مند انسان کی مثال پر ہے، اب ہم یہ حقیقت واضح کریں گے کہ ذکرِ الٰہی جثّۂ دین کے دل و دماغ اور عقل و دانش کا مرتبہ رکھتا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ دل کو سینہ ہی محفوظ رکھتا ہے اور دماغ کی حفاظت سر کرتا ہے، اسی طرح سینہ و سر بھی ہمیشہ دُوسرے تمام اعضاء کے لیے محتاج رہتے ہیں، جن میں سے ہر عضو اپنے مقام پر بڑی اہمیّت کا حامل ہوتا ہے، اس مثال سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ دین کے تمام اقوال و اعمال اسی طرح باہم مربوط اور ملے ہوئے ہیں، جس طرح انسان کی روحانی اور جسمانی قوّتیں اور حواسِ ظاہر و باطن ایک دوسرے کے ساتھ مربوط اور منظّم ہیں، چنانچہ اگر دین کے کسی قول کو یا کسی عمل کو نظر انداز کردیا گیا تو دین کا سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، اس لیے دین کی ہر ہدایت پر عمل ضروری ہے۔

 

دین کی کوئی چیز فضول نہیں:

ایک ہوشیار انسان جب کسی جہاز یا گاڑی یا کسی مشین کے نظامِ ساخت پر غور کرتا ہے، تو وہ کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس میں فلان پرزہ یا فلان چیز فضول یا زائد ہے، کیونکہ اسے یقین ہے، کہ اس کے تمام چھوٹے بڑے اجزاءاپنی اپنی جگہ پر ضروری ہیں

 

۶۰

 

اور ان میں سے کوئی ایک چیز بھی غیر ضروری نہیں، یہی مثال امورِ دین کے اِس مقدس مجموعے کی بھی ہے، کہ اس میں چھوٹی بڑی جتنی چیزیں رکھی گئی ہیں وہ سب کی سب نتیجہ خیز اور مُفید ہیں اور ان میں سے کوئی چیز فضول نہیں، لہٰذا دین کے ہر حکم پر عمل کرنا واجب ہے۔

 

معلوم ہوا کہ دین کی کوئی چیز فضول نہیں، تاہم اسی حقیقت کی مزید تفہیم کے لیے دین کی ایک اور واضح مثال درخت سے دی جاتی ہے، چنانچہ درخت اپنے تمام اجزاء کا مجموعہ ہوتا ہے، اور پھل اس کا مقصد اعلیٰ ہے، لیکن پھل چھوٹی چھوٹی اور نازک نازک شاخوں میں لگتا ہے، جن کا قیام بڑی شاخوں پر ہے بڑی شاخوں کو تنا قائم رکھتا ہے، اور تنے کا انحصار جڑوں پر ہے، درخت کے نہ تو پتّے بیکار ہیں اور نہ ہی چھلکے فضول، جبکہ پھل پتّوں کے توڑنے سے ٹھیک طرح سے نہیں پکتا اور جبکہ چھلکے درخت کے لباس کا کام دیتے ہیں، اگر چھلکے نہ ہوں تو درخت سردی اور گرمی سے سوکھ جاتا ہے، یہی حال درختِ دین کا بھی ہے کہ اگرچہ ذکرِ خدا اس کا پھل اور مقصدِ اعلیٰ ہے، لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پُورے درخت کی پرورش و حفاظت کے بغیر عمدہ اور خوشگوار پھل حاصل کیا جائے، دینی درخت کا پھل مطلوب ہو یا

 

۶۱

 

پھول اور سایہ، ہر حالت میں اِس درخت کے تمام اجزاء کی محافظت و نگہبانی واجب ہوتی ہے۔

 

کشتی کی مثال:

اگر ایک انسان دین کے قول و عمل میں سے ایک کو بجا لاتا ہے اور دُوسرے کو پسِ پشت ڈالتا ہے تو اس کی مثال ایک ایسے ناواقف اور انجان ملاح کی طرح ہے جواپنی کشتی کو منزل کی طرف لے جانے کی غرض سے ایک ہی چپّو کو چلاتا ہے اور دوسرے کو استعمال نہیں کرتا، جس کے نتیجے میں کشتی آگے بڑھنے کی بجائے چکّر کاٹتی رہتی ہے وہ اس گمان میں مبتلا ہے کہ کشتی منزل مقصود کی طرف بڑھ رہی ہے، آپ اس مثال سے بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ قول و عمل میں سے ایک کو لیے بیٹھنا اور دوسرے کو چھوڑ دینا کتنی بڑی غلطی اور ناکامی ہے، لہٰذا دانش مند مومن وہ ہے جو دین کی ہر بات اور کام کی قدر و قیمت کو سمجھ لیتا ہے اور اسے جیسا کہ چاہئے انجام دیتا ہے۔

 

۶۲

 

باب پنجم

ذکر کے خاص شرائط

 

ذکرِ الٰہی امورِ دین میں سے ایک ایسا امر ہے جو عوام میں عام اور خواص میں خاص ہے، یہی وجہ ہے جو گزشتہ باب میں ذکر کے عام شرائط درج کیے گئے اور اب اس باب میں خاص شرائط بیان کیے جاتے ہیں تاکہ ہر مومنِ ذاکر کو اِس عظیم الشّان کام کی باریکیوں اور نزاکتوں کا پختہ علم حاصل ہو، اور علم ہی کی روشنی میں حصولِ مقصد کے لیے عمل کیا جائے۔

 

ذکر اور اذن:

مومنین کو اس حقیقتِ ثابتہ پر مکمل یقین رکھنا چاہئے کہ ذکرِ الٰہی کی ترقی و کامیابی کا اصل راز اذن و اجازت میں پنہان ہے، اور اس کے سوا حقیقی روحانیت کا دروازہ نہیں کُھلتا، جیسے قرآن پاک کی پُرحکمت تعلیمات سے یہ مطلب ظاہر ہوتا ہے کہ اذن دینِ اسلام کے خاص اصولات میں سے ہے، چنانچہ خدائے پاک کا ارشاد ہے:

 

۶۳

 

(ترجمہ) سوائے اس کے نہیں کہ مومن وہ لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسُول پر ایمان لائے ہیں اور جب کسی مجمع کے موقع پر رسول کے ساتھ ہوتے ہیں تو جب تک رسول سے اجازت نہ لے لیں چلے نہیں جاتے۔ بیشک جو لوگ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں وہی تو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں پھر جب وہ تم سے اپنے کسی خاص کام کے لیے اجازت چاہیں تو ان میں سے تم جس کو چاہو اجازت دے دیا کرو اور ان کے لیے خدا سے مغفرت طلب کیا کرو۔ (۲۴: ۶۲)

 

اس ارشاد مبارک سے یہ حقیقت صاف طور پر روشن ہوجاتی ہے کہ مرکزِ ہدایت سے اذن لینا نہ صرف حقیقی مومنوں کے اوصاف میں سے ہے، بلکہ یہ پروردگارِ عالم کا ایک خاص امر بھی ہے کہ آنحضرتؐ ایسے مومنوں میں سے جن کو چاہیں مخصوص قسم کے دینی کاموں کی اجازت دے دیا کریں، اور اس کے علاوہ ان کے گناہوں کی بخشش کے لیے خدا سے دُعا بھی مانگیں، تاکہ خداوند تعالیٰ انہیں ان کاموں میں کامیابی اور برکت عطا فرمائے۔

 

ظاہر ہے کہ یہ اجازت ایسے اقوال و اعمال سے متعلق ہے جو دائرہ دینِ متین کے اندر ہیں اور جن کے کرنے میں خدا و رسولؐ

 

۶۴

 

کی مرضی ہو اور اس سے یہ تخصیص بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہ چیز سب کو میّسر نہیں بلکہ یہ صرف ان مومنوں کے واسطے ہے جو صحیح معنوں میں ایمان لائے ہیں اور دل و جان سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی تابعداری کرتے ہیں، پس عجب نہیں کہ اس اجازت میں ذکرِ الٰہی جیسے عالی شان امر کی طرف بھی اشارہ ہو اور یقیناً ایسا ہی ہے، کیونکہ صرف ایسا ذکر سکونِ قلب کا ذریعہ بن سکتا ہے، جس میں رسُولِؐ خدا کی اجازت اور دُعا شاملِ حال رہے۔

 

قرآنِ حکیم (۵۸: ۱۲ تا ۱۳) میں اللہ تعالیٰ کا جو ارشاد ہے، اس کا مختصر مطلب یہ ہے کہ عہدِ نبوّت میں حضور انورؐ سے مومنین انفرادی طور پر خلوت میں یا سرگوشی کے انداز میں راز کی باتیں پوچھ لیا کرتے تھے، چنانچہ اس امرِ واقع سے کئی حقیقتوں پر روشنی پڑتی ہے ان میں سے ایک تو یہ کہ یہاں سے شریعت کے علاوہ طریقت، حقیقت اور معرفت کے مدارج کی تعلیمات بھی ثابت ہوجاتی ہیں کیونکہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو اُن عمومی ہدایات و تعلیمات کے لیے جو ایک بار قانونِ شریعت کی حیثیت سے علی الاعلان تمام مسلمانوں کے سامنے رکھی گئی ہیں، آنحضرتؐ کو دوبارہ تکلیف دینے کی ضرورت ہی نہ ہوتی، لیکن چونکہ حضور اقدسؐ ہر شخص کو اجتماعی تعلیم کے

 

۶۵

 

علاوہ اس کے علم و عمل کی کیفیت اور اس کی طلب کے مطابق طریقت، حقیقت اور معرفت کی تعلیمات سے سرفراز فرما دیا کرتے تھے، اگر یہ خصوصی اور انفرادی تعلیم و ہدایت ان مومنوں کو اِس طرح کی راز داری کی صورت میں نہ دی جاتی، تو اس سے نہ صرف یہی کہ بعض ذہین اور مستعد افراد کی علمی اور روحانی پرورش ادھوری رہ جاتی بلکہ ساتھ ہی ساتھ رسُول محمد مصطفےٰ صلعم کے علم و حکمت کا ایک گران مایہ حصّہ نایاب ہوجاتا۔

 

چنانچہ حضرت مولانا امیر المومنین علی علیہ السّلام کے بارے میں معتبر تفاسیر کی یہ روایت ہے کہ آن جنابؑ اکثر رسُول اکرمؐ سے اِس راز جوئی کے طور پر خاص علوم دینیہ کی تعلیم لیا کرتے تھے، اِس سے یہ حقیقت واضح اور روشن ہوگئی کہ جو حقائق و معارف سرورِ انبیاءؐ سے مولانا علی علیہ السّلام نے حاصل کرلیے تھے، وہ أئمّۂ آلِ محمّد علیہم السّلام کے پاک سلسلے میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے آج بھی اس دُنیا میں موجود ہیں، اور ذکرِ الٰہی کی خصوصی ہدایت و اجازت بھی انہی اسرار میں سے ہے۔

 

اگر کوئی شخص آیۂ نجوٰی کے بارے میں یہ خیال رکھتا ہو کہ اصحابِ رسُولؐ  تخلیہ میں آنحضرتؐ سے جو راز کی باتیں پوچھ لیا

 

۶۶

 

کرتے تھے، وہ سب دُنیاوی صلاح و بہبود کی باتیں ہوتی تھیں، کیونکہ آنحضرتؐ نہ صرف اخروی نجات کے لیے مبعوث ہوئے تھے، بلکہ دُنیاوی صلاح و فلاح کی ہدایت بھی آپؐ ہی سے مل سکتی تھی تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کی دُنیاوی بہتری اور ترقی بھی دین کی ظاہری اور عمومی ہدایات سے الگ نہیں ہوسکتی تھی، کیونکہ وہ تو ایک اجتماعی اور قومی مسئلہ تھا، تاہم اس سے انکار نہیں کہ اس رازداری کے سلسلے میں بہت تھوڑی مثالیں دُنیاوی قسم کی بھی ہوسکتی ہیں، مگر آیۂ نجویٰ کے نفسِ مضمون کی حکمت کے علاوہ اس کے ترجمہ و تفسیرسے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا زیادہ تر تعلق دینی امور سے ہے، خصوصاً اس کا اشارہ اسرارِ علوم اور مدارجِ روحانیت کی طرف ہے۔

 

اسی سلسلے میں اس آیۂ پُرحکمت پر غور کیا جائے، جو ارشاد ہے کہ:

فَذَكِّرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ (۸۸: ۲۱)

تم تو نصیحت کرتے رہو تم تو بس نصیحت کرنے والے ہو۔

یعنی اے رسُولؐ آپ تو انہیں یاد دلاتے رہیے آپ تو بس یاد دلانے والے ہیں، چنانچہ اس حکم کے مطابق یہ امر لازم آتا ہے کہ آنحضرتؐ اپنے عہد مبارک میں بعض خواص

 

۶۷

 

کو ذکرِ الٰہی کی اجازت دے کر کماحقہٗ عملی طور پر یاد دلائیں جن حقائق و معارف کی یاد مقصود تھی، کیونکہ “ذَکِّر” کا مطلب ہے یاد دلائیے، ذکر کرائیے اور ذکر کی اجازت کا ذریعہ مہیّا کیجئے، کیونکہ عدلِ خداوندی کا تقاضا یہ ہے کہ عہدِ نبوّت کے بعد جو زمانہ قیامت تک آنے والا تھا اس میں بھی آنحضرتؐ  کا یہ فیض جاری و باقی رہے، اور وہ صرف اسی صورت میں ممکن تھا کہ حضور اقدسؐ ذکرِ الٰہی کی ہدایت و اجازت اپنے جانشین کے سپرد کردیں تاکہ لوگوں کی طرف سے خدا و رسولؐ پر کوئی ایسی حجت قائم نہ ہوسکے کہ خدا تعالیٰ اور اس کے پیغمبرؐ نے صرف زمانۂ نبوّت ہی کے لوگوں کو سب کچھ عنایت کردیا تھا۔

 

سورۂ ابراہیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: (اے رسُولؐ) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے پاک کلمے کی کیسی مثال بیان کی ہے کہ (پاک کلمہ) گویا ایک پاکیزہ درخت ہے کہ اس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی ٹہنیاں آسمان میں لگی ہوں اپنے پروردگار کی اجازت سے ہمہ وقت پھل دیتا رہتا ہے اور خدا لوگوں کے واسطے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں (۱۴: ۲۴ تا ۲۵)۔

 

۶۸

 

اِس آیۂ کریمہ میں جو عظیم الشّان حکمتیں پوشیدہ ہیں، ان کی کلید لفظ “اذن” یعنی اجازت کے معنی میں پنہان ہے، وہ اس طرح کہ یہ پاک و پاکیزہ درخت اس کے باوجود کہ میوہ تو ہر موسم اور ہر فصل میں تیار اور موجود رکھتا ہے، لیکن یہ اپنا پھل کسی انسان کو صرف اُس وقت دے سکتا ہے جبکہ پروردگار دینے کے لیے حُکم دیتا ہے، اور اگر خدا کی اجازت نہ ہو تو نہیں دیتا، اس حال سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس شجرۂ طیبہ کو پہلے ہی سے خدا تعالیٰ کے اذن و اجازت کا علم دیا گیا ہے، یا یہ کہ اس کو ہر وقت خدا کی طرف سے نورانی توفیق و ہدایت ملتی رہتی ہے جس کی روشنی میں یہ خوب جانتا ہے کہ خداوند تعالیٰ یہ پھل کس کس کو دینا چاہتا ہے اور کس کس کو نہیں چاہتا۔

 

چنانچہ شیعہ امامیہ کی تفاسیر میں ہے کہ اس آیت میں شجرۂ طیبہ کا مطلب حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا کہ: یہاں وہ درخت مراد ہے جس کی جڑ جناب رسولِ خُدا صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور تنا جناب امیر المومنین علی علیہ السّلام اور شاخیں أئمّہ علیہم السّلام ہیں جو ان ہر

 

۶۹

 

دو بزرگواروں کی ذرّیت ہیں أئمّہ علیہم السّلام کا علم اس درخت کا پھل ہے اور ان حضرات کے شیعہ مومنین اس درخت کے پتّے ہیں۔

 

اسم کا تقرّر:

یہ حقیقت بجائے خود مانی ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جتنے نام ہیں، ان میں سے جس نام سے بھی اسے پُکارا جائے، وہ سُنتا ہے اور ہر اسم سے ایک طرح کا ذکر ہوتا ہے، جو موجبِ ثواب ہے اور خدا کے سب نام اچھے اور بڑے ہیں، لیکن اس حقیقت کے باوجود بھی اسمِ اعظم کا جو تصوّر ہے وہ بالکل درست اور صحیح ہے، جس کی دلیل یہ ہے کہ زمان و مکان اور منازلِ روحانیّت کا جیسا بھی تقاضا ہو ویسا ہی کوئی نامِ خدا بزرگ ترین اسم قرار پاتا ہے۔

 

چنانچہ جب حضرت آدم علیہ السّلام بہشت سے بحکمِ خدا نکل آئے تو اس وقت وہ کچھ ایسے تو نہ تھے کہ خدا کے سب نام بھول گئے ہوں، لیکن موقع اور ضرورت کے اعتبار سے اس وقت اللہ کے ناموں میں سے کس نام کا ذکر کرنا چاہئے یہ بات البتہ وہ نہیں جانتے تھے، لہٰذا پروردگار عالم کی جانب سے حضرت آدمؑ کو اُس حالت کے عین مطابق اسم اور کلماتِ تامّات کا تقرّر ہوا، جس سے ان کی توبہ قبول ہوگئی، یعنی ان کا روحانی

 

۷۰

 

اور اصلی مرتبہ بحال ہوگیا۔

 

اگر قرآن حکیم کی روشنی میں احوالِ انبیاء علیہم السّلام پر جیسا کہ چاہئے غور کیا جائے، تو یقیناً صاف صاف معلوم ہوجائے گا کہ خدا کی طرف سے اسمِ اعظم کا تقرّر ان حضرات کے الگ الگ مواقع کے مطابق ہوتا تھا، چنانچہ یہ بات خدا و رسولؐ اور صاحبِ امرؑ ہی خُوب جانتے ہیں کہ کس وقت کون سا اسم ہونا چاہئے اور کس مومن کو کیا دینا چاہئے، جس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ اگر ایک غیر مسلم انسان حضور انور نبی محمد صلعم کی نبوّت کے لیےاقرار کیے بغیر چالیس سال تک اللہ کے تمام ناموں کا ذکر کرتے رہا کرے تو صاف ظاہر ہے کہ محض خدا کے ناموں کے وسیلے سے اس کو وہ نور نہ ملے گا جو دینِ اسلام میں ہے، اِس سے پھر وہی روشن حقیقت سامنے آئی کہ ہر ضرورت مند کے لیے اسمِ اعظم الگ مقرر ہوتا ہے، چنانچہ اگر وہ غیر مسلم شخص (جس نے خدا کے سب ناموں کا ذکر کیا اور کچھ نہ پایا) اِس بات پر پوری طرح سے عمل کرتا کہ خُدا کے آخری دین میں وہ اسمِ اعظم جسے سب سے پہلے اپنانا چاہئے محمّد رسُول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی ذات عالی صفات ہی ہے، تو پھر وہ سب کچھ پالیتا۔

 

۷۱

 

ذکر اور نیّت:

دینِ اسلام میں خلوصِ نیّت کے بغیر کوئی قول و عمل درست نہیں لہٰذا ذکرِالٰہی کے خاص شرائط میں سے ایک شرط نیّت کی پاکیزگی ہے، وہ یہ کہ روحانی ترقی اور خدا کی نزدیکی کی نیّت سے اور خاص کر خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے ذکر کیا جائے، اس کے برعکس اگر کوئی شخص کسی دُنیاوی مقصد کے حصول کی خاطر ذکر و عبادت کرتا ہو تواسے ذکر میں کوئی کامیابی نہ ہوسکے گی، اگر کچھ کامیابی ہوبھی گئی تو اِس سے دینی اور اُخروی طور پر کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

 

ذکر اور عقیدہ:

عقیدہ ایمان و ایقان کی اصل و اساس اور ابتدائی شکل ہے اور بعض معنوں میں یہ خود ایمان بھی ہے، اس لیے ذاکر میں عقیدۂ راسخ کا ہونا از حد ضروری اور لازمی ہے، کیونکہ جس آدمی کا عقیدہ اور اعتقاد کمزور ہو، وہ ذکر میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتا جس کا اعتقاد نہ ہو وہ ایک قسم کا بے دین ہوجاتا ہے، اور جس کا عقیدہ مضبوط ہو وہی دین میں ہر قسم کی ترقی کرسکتا ہے۔

 

۷۲

 

ذکر اور طہارت:

قرآنِ پاک نے متعدّد آیات میں طہارت یعنی ظاہری اور باطنی صفائی و پاکیزگی پر زور دیا ہے، ان میں سے ایک آیۂ مبارکہ کا ارشاد یہ ہے: بیشک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے (۰۲: ۲۲۲) یہاں توبہ پہلے آئی ہے اور طہارت بعد میں، جس کی حکمت یہ ہے کہ جب تک گناہوں سے قطعی توبہ نہ کی جائے، اس وقت تک نہ تو دل کی پاکیزگی ہوسکتی ہے اور نہ ہی ظاہری طہارت و صفائی کام آسکتی ہے، لہٰذا مومنین پر فرض ہے کہ ظاہر و باطن کی دونوں صورتوں میں ہمیشہ پاک صاف رہنے کی عادت کو اپنائے رہیں۔

 

ذکر اور شب خیزی:

قرآنِ حکیم نے شب خیزی یعنی رات کے ذکر و عبادت کی بہت تعریف و توصیف فرمائی ہے اور خصوصاً سورۂ مزّمل میں جس پُرحکمت اور دل نشین انداز سے شب بیداری کی ترغیب دی گئی ہے، اس کا واضح مفہوم و مطلب یہ ہے کہ مستقل طور پر شبینہ ذکر و عبادت کی عادت ڈالنے سے نفسِ امّارہ مغلوب و پامال ہوجاتا ہے جس

 

۷۳

 

کے نتیجے میں نہ صرف ذکر کا تسلسل قائم رہتا ہے بلکہ اس سے انسان کی عقل و دانش اور طرزِ بیان میں بھی زیادہ سے زیادہ استقلال و استقامت پیدا ہوجاتی ہے۔

 

ذکر اور گریہ و زاری:

گریہ و زاری کا اصطلاحی مطلب ہے بندۂ مومن کا خداوند تعالیٰ کے حضور زار زار رونا، اپنے چھوٹے بڑے گناہوں کی پشیمانی کے ساتھ عجز و انکساری کا مظاہرہ کرنا اور بارگاہِ ایزدی سے عفوومغفرت اور ہدایت و رحمت کا خواستگار رہنا، یہی طریقہ نہ صرف ہر قسم کے گناہ سے توبہ کرنے کی صحیح عملی صورت ہے بلکہ یہی خود تقویٰ اور تواضع کی اصل و بنیاد بھی ہے اور غرور و تکبّر کا بہترین سدِّباب بھی۔

 

اگر کوئی شخص فوری طور پر قرآنی اور روحانی حکمتوں کی روشنی میں گریہ و زاری کی اخلاقی اور دینی قدروں کا مشاہدہ نہ کرسکتا ہو، تو وہ سنجیدہ قسم کے فلسفہ اور معیاری نفسیات کی روشنی میں اس کی اصلاحی کارکردگی کا جائزہ لے، یا کم از کم یہ پُرحکمت عمل بطور تجربہ خود ہی کرکے دیکھے۔

 

یہ بات علیٰحدہ ہے کہ کوشش کے باوجود کسی مومن سے

 

۷۴

 

بوقتِ ضرورت کوئی گریہ و زاری نہیں ہوتی، ایسی صورت میں اسے بڑی سختی کے ساتھ احساس ہونا چاہیے کہ ایسا شخص “قساوتِ قلبی” کے مرضِ روحانی میں مبتلا ہوچکا ہے، جو بیجا طور پر دل سخت ہوجانے اور خوفِ خدا نہ ہونے کی بیماری ہے، جس آدمی میں قساوتِ قلبی کی بیماری ہو وہ روحانیّت میں کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا اور نہ ہی وہ درویش کہلاسکتا ہے۔

 

دینی علم کی باتیں سنتے وقت، عبادت و ریاضت کے دوران اور ذکرِ خفی و جلی کے موقع پر مومن کے دل میں رقّت و نرمی اور سوز و گداز کا پیدا نہ ہونا بدقسمتی ہرگز نہیں، بلکہ یہ انجام مومن کے اپنے ہی گناہوں کے سبب سے ہے، اس لیے اسے یہ امر ضروری ہوگیا ہے کہ اپنے تمام اقوال و اعمال اور عادات و اطوار کا نہایت ہی باریکی سے جائزہ لے کر ہر چھوٹے بڑے گناہ سے تائب ہوجائے اور ہر نادرست عادت کی درستی و اصلاح کرے۔

 

اب ہمیں ذرا گریہ و زاری کی عملی کیفیت و حقیقت پر غور کرنا چاہیے کہ یہ چیز انسانی دل و دماغ میں کس طرح ایک عظیم اصلاحی انقلاب برپا کر دیتی ہے، اور اس کی تاثیر کی کارفرمائی سے انسان کا ہر ارادہ، ہر بات اور ہرکام کیسے درست ہوسکتا ہے،

 

۷۵

 

چنانچہ مثال کے طور پر جاننا چاہیے کہ جب انسان اس دُنیا میں پیدا ہوتا ہے اور جب تک شیر خوارگی اور معصُومی کی زندگی گزارتا ہے اس وقت تک ایک عام آدمی کا دل و دماغ بڑی مشکل سے اصلی اور فطری حالت پر قائم رہ سکتا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ “ہرمولود دینِ فطرت کے عین مطابق پیدا ہوتا ہے” پھر اس کے بعد جوں جوں اس کی عمر آگے بڑھتی جاتی ہے توں توں اس کے فطری دل کے اوپر ایک ایک غلاف چڑھتا جاتا ہے کچھ تو دُوسرے لوگوں کے غلط تاثرات کے سبب سے اور کچھ اس کے اپنے نفس کی خواہشات کی وجہ سے، چنانچہ رفتہ رفتہ انسان کے دل و دماغ پر زنگ و کدورت کے بہت سے غلاف چڑھے ہوئے ہوتے ہیں، اب اس کا علاج سوائے اس کے کچھ نہیں، کہ وہ توبہ کے طور پر بھی اور دیدارِ الٰہی کی شدّتِ شوق سے بھی گریہ و زاری کرلیا کرے تاکہ بتدریج یہ سب غلاف زائل ہوجائیں اور آئینۂ دل کا اصلی اور فطری نکھار اور چمک دمک ظاہر ہو۔

 

جب بندۂ مومن خدا کے حضور توبہ کی صورت میں یا نورانی دیدار کے جذب و شوق سے گریہ و زاری کرتا ہے اور گڑگڑاتے

 

۷۶

 

ہوئے دُعا مانگتا ہے تو اس وقت خدا تعالیٰ کی رحمت شاملِ حال ہوجاتی ہے اور روز روز کے اس عمل سے دل اور نفس کا تزکیہ ہوجاتا ہے اور اسے روحانی ترقی میں کامیابی حاصل ہوتی ہے یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے، کہ اگر انسان کا نفس میلا، زنگ آلود اور ناپاک نہ ہوجاتا، تو قرآن کبھی نہ فرماتا کہ جس نے اس (نفس = جان) کو پاک کیا وہ تو کامیاب ہوا اور جس نے اسے دبا دیا وہ نامراد رہا (قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَا ، ۹۱: ۰۹ تا ۱۰)اِس آیۂ مبارکہ کی حکمت اپنی پُرمایہ مثال سے مومن کی غیرتِ ایمانی کو جگا دیتی ہے کہ نفس یعنی جان گناہوں کے ڈھیر میں دب گئی ہے اسے جلد از جلد نکال کر پاک صاف کردیا جائے اور یہ بڑا مشکل کام صرف گریہ و زاری، توبہ و تواضع اور ذکر و عبادت سے انجام پاسکتا ہے۔

 

جو ہوش مند یہ سمجھتا ہو کہ وہ حقیقت میں ابھی تک روحانیّت کا جوان اور پہلوان نہ ہوسکا ہے، بلکہ وہ راہِ روحانیّت کا طفلِ شیر خوار یعنی چھوٹا بچّہ ہی ہے، تو پھر وہ اپنی روحانی پرورش اور باطنی نشو و نما کے لیے گریہ و زاری کرتا رہے، تاکہ دایۂ نُورِ الٰہی کو رحم آئے، اور اس کی معجزاتی پرورش و تربیت ہونے لگے۔

 

۷۷

 

وہ حقیقی مومنین، جو روحانیت کی ترقی پر ہیں، جب پچھلی رات کو مناجات، منقبت اور گنان کی صورت میں خوب گریہ و زاری اور دُعا کرکے نورانی عبادت میں لگ جاتے ہیں تو اس میں ان کا مقدّس ذکر پُرنور اور پُرمعجزہ بن جاتا ہے، ان کے دل میں حقیقی محبت کا سمندر موجزن ہونے لگتا ہے، اور اسی کامیاب اصول کے اپنانے سے ان کے گلشنِ روحانیّت میں ہر روز ایک نئی عظیم الشّان بہار اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ گریہ و زاری میں نہ صرف لغزشوں اور گناہوں سے توبہ اور طلبِ مغفرت کے معنی پوشیدہ ہیں بلکہ اس میں ایمان و ایقان کی ترقی و مضبوطی اور آئندہ خطرات و بلیّات سے بچنے کی پُرسوز اور مقبول دُعا بھی پنہان ہے۔

 

قرآن حکیم نے بڑے سے بڑے نقصانات اور شدید ترین مصائب و آلام کے موقع پر بھی رونے کی ممانعت فرمائی ہے اور ہر تکلیف و مصیبت کو صبر و استقلال سے برداشت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس کے برعکس انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اور درجۂ اوّل کے مومنین کی اُس گریہ و زاری کی بے حد تعریف کی گئی ہے کہ یہ گریہ و زاری وہ حضرات اکثر روحانی ترقی اور

 

۷۸

 

دیدارِ الٰہی کے حصول کی غرض سے کرلیا کرتے تھے۔

 

قرآن مقدّس میں حقیقی مومنین کی ایک اور خاص صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ جب جذبۂ ایمانی سے رویا کرتے ہیں تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گرتے ہیں، یقیناً یہ عمل خدا کے نزدیک عاجزی و انکساری کی انتہائی حد ہے جس کے نتیجے میں خداوند عالم اہلِ ایمان پر اپنی بے پناہ رحمتوں اور برکتوں کی بارش برسا دیتا ہے۔

 

گریہ و زاری کی ایک اور حکمت یہ ہے کہ جب انسان ایک شیرخوار طفل ہوتا ہے تو اس وقت وہ کچھ بھی بول نہیں سکتا یعنی وہ بظاہر بے زبان سا ہوتا ہے، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ انسان بچّہ ہونے کے باوجود بھی اشرف المخلوقات ہی ہے لہٰذا پروردگار عالم بچّے میں رونے کی صلاحیت و قوّت پیدا کردیتا ہے، تاکہ بچّہ بوقتِ ضرورت رو لیا کرے، اور بچّے کا یہی رونا ہر قسم کی حاجت طلبی ہے، جس کا مطلب مادرِ مشفقہ بآسانی سمجھ لیتی ہے اور ہر طرح سے اس کی خبر گیری و پرورش کرتی رہتی ہے۔

 

مختصر یہ کہ پروردگارِ عالم کے حضور میں گریہ و زاری کرنے سے بندۂ مومن کی نفسانی خواہشات اور باطل خیالات وقتی

 

۷۹

 

طور پر یکسر مٹ کر ذکر و عبادت کا جوہر کھلتا ہے اور اسی طریق پر بار بار کے عمل سے دانش مند مومن کو خاطر خواہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

 

ذکر اور دُعا:

ذکر کے اس موضوع میں یہ امر بھی زیادہ مناسب ہے کہ دُعا کی بابت چند بنیادی اور ضروری باتیں بتا دی جائیں کہ دُعا کی اہمیت و افادیت کیا ہے، کون کون سے اوقات و مواقع اس کے لیے موزوں ہوتے ہیں اس کا طریقِ کار کیا ہونا چاہیے وغیرہ، چنانچہ جاننا چاہیے کہ دُعا مومن کی ایک قابلِ قدر صلاحیت اور بہترین قوّت ہے اور یہ سب انسانوں کے لیے عام نہیں، بلکہ صرف مومنین ہی کے لیے خاص ہے، قرآنِ حکیم کی جو آیات دُعا کے موضوع سے متعلق ہیں، ان کے مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دُعا اہلِ ایمان کے لیے نہایت ہی ضروری ہے اور انہیں اِس سے ہر وقت اور ہر موقع پر فائدہ اُٹھانا چاہیے، خصوصاً سخت کاموں اور مشکلات کے سامنے آنے پر اور ہر کام کے آغاز میں بارگاہِ ایزدی میں گریہ و زاری اور عاجزی و محتاجی کے ساتھ دُعا کی جائے کیونکہ حقیقی مومن کی دُعا کبھی ضائع نہیں جاتی، وہ اِس طرح کہ اوّل تو وہی مقصد بلا تاخیر

 

۸۰

 

یا بدیر حاصل ہوتا ہے، جس کے لیے دُعا کی جاتی ہے، اگر خدا کے نزدیک اس مقصد کے حصول میں مومن کی بہتری نہ ہو تو دُعا کا پھل کسی اور صورت میں مل جاتا ہے، مثلاً گناہ کی معافی، خواہشاتِ نفس سے خلاصی، حسنِ توفیق، بُری عادات سے چھٹکارا، شوقِ عبادت، قلب کی صفائی، فہم و ادراک کی تیزی، حلیمی اور تواضع، گفتگو میں سنجیدگی، صبر و سکون، جذبۂ علم، دین سے دلچسپی، نجاتِ آخرت وغیرہ وغیرہ۔

 

چنانچہ بڑے خوش نصیب ہیں وہ مومنین جو اپنے تمام نیک کاموں میں اللہ تعالیٰ کی روحانی اور غیبی مدد کے لیے دُعا کرنے کے عادی ہیں،مثال کے طور پر وہ جب رات کے وقت اپنے کام کاج اور عبادت و بندگی سے فارغ ہوکر بستر پر لیٹ جاتے ہیں، تو ایسی دُعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو نیند کے دوران ہر بلا اور ہر بُرائی سے محفوظ اور سلامت رکھے، اور انہیں نُورانی عبادت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے وقت پر جاگنا نصیب ہو، وہ جب وقت پر جاگتے ہیں تو انتہائی مسرت و شادمانی سے خداوند تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہیں اور دُعا مانگتے ہیں کہ سارا دن یادِ الٰہی اور نیک کاموں میں گُزرجائے جب وہ ذکر کی تیاری کرتے ہیں تو

 

۸۱

 

اپنی ہی زبان اور اپنے الفاظ میں آہستہ آہستہ مناجات کرتے ہوئے اُس طرف رحمان و رحیم کی بے پناہ رحمت اور اِس طرف اس قدر روحانی مفلسی، غربت، محتاجی، پس ماندگی، گناہ، غفلت، سستی، لاعلمی وغیرہ کا تصوّر کرکے گریہ و زاری اور سوز و گداز کے عالم میں جبینِ نیاز مندی زمین پر رکھ کر التجا کرتے ہیں کہ خُدائے قادرِ مطلق کی طرف سے معجزانہ طور پر ان کی دستگیری اور یاری و مدد حاصل ہو۔

 

یاد رہے کہ بندۂ مومن کو دُعا کے ذاتی پہلو کے علاوہ دوسرے تمام پہلوؤں سے بھی فائدہ حاصل ہونے کی توقع ہے، یعنی رسُول اللہ صلعم، صاحبِ امرؑ اور مومنین کی اجتماعی و انفرادی دُعاؤں کا فیض بھی مل سکتا ہے، مگر شرائط کی بجا آوری کے بغیر یہ امر ناممکن ہے اور وہ شرائط دینداری اور ایمانداری کے اوصاف ہی ہیں، یعنی انسان عملاً مومن ہوکر دُعا کے ہر رُخ سے فیضان حاصل کرسکتا ہے یا مختصراً یُوں کہنا چاہیے کہ دُعا کی ہر قسم سے مستفیض ہونے کی واحد شرط فرمانبرداری ہی ہے، اور نافرمانی کی صورت میں کوئی بھی دُعا مفید نہیں ہوسکتی۔

 

ہمیں حضرت نوح علیہ السّلام کے قرآنی قصّے میں خوب غور و فکر کرنا چاہیے کہ آنجنابؑ نے اپنے نافرمان بیٹے کی نجات

 

۸۲

 

کے لیے خدا کے حضور کس قدر چاہت سے سفارش کی تھی، کیا ان کی ایسی خواہش میں دُعا کی رُوح پوشیدہ نہیں تھی، جبکہ دُعا کے معنی طلب کرنے کے ہوتے ہیں؟ لیکن اس وصف کے باوجود کہ آپ ایک خاص پیغمبر تھے، آپ کی یہ سفارش اور دُعا نا منظور ہوئی، اس لیے کہ دعا وہاں کام آتی ہے جہاں اس کے شرائط بجالائے گئے ہوں، دُوسری طرف حضرت نوحؑ نے اپنے وقت کے کافروں کو بد دُعا دی تھی، وہ تو غرق اور ہلاک ہوگئے، کیونکہ ان کافروں میں آپ کی بد دُعا کار گر ثابت ہوجانے کے شرائط پُورے ہوچکے تھے۔

 

اس پُورے بیان کا خلاصہ یہ ہوا کہ اپنی اور دُوسروں کی کوئی نیک دُعا اس وقت مفید ثابت ہوسکتی ہے، جبکہ اس کی شرطیں پُوری کی گئی ہوں، غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جس جامعیّت سے طرح طرح کی صلاحیتوں اور قوّتوں کو مومن کے باطن میں سمودیا ہے، اُن سے کام نہ لینا، اپنے بس کی بات کسی اور کے ذمہ ٹھہرانا، اپنے اندر آرام طلبی اور کاہلی کی عادت ڈالنا اور عظیم الشّان فرائض منصبی سے گریز کر جانا بہت بڑی ناشکری اور عظیم گناہ ہے۔

 

۸۳

 

ذکر اور خوراک:

جو مومن ذکرِ الٰہی کے روحانی خزانوں تک رسا ہوجانا چاہتا ہے، اسے متعلقہ آداب کے سلسلے میں بڑی احتیاط سے یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس کے کھانے پینے میں جو جو چیزیں شامل ہیں وہ سب کی سب شریعتِ محمدیؐ کے مطابق حلال و جائز ہوں، کیونکہ مومن کبھی حرام خور نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ حلال ہی کھاتا پیتا ہے، وہ حلال میں بھی بڑا محتاط رہتا ہے، یعنی وہ اس طرح پیٹ بھر کر غذائیں نہیں کھاتا جس سے کہ ذکر و عبادت کے دوران سُستی، بے توجہی اور نیند کا غلبہ ہو، خصوصاً شام کے وقت اس کا زیادہ خیال رکھتا ہے تاکہ رات کو بروقت یادِ الٰہی کے لیے اُٹھ سکے اور خاطر جمعی سے ذکر کے تسلسل کو قائم رکھ سکے، ورنہ ذکر میں طرح طرح کی رکاوٹیں اور مزاحمتیں پیش آتی رہتی ہیں۔

 

ذکر اور نیند:

مومنِ ذاکر کے لیے جس طرح کھانے پینے میں احتیاط و اعتدال سے کام لینے کی سخت ضرورت ہے، اسی طرح اسے نیند کے بارے میں بھی محتاط رہنا چاہیے، کیونکہ نیند کے عالم میں زیادہ دیر تک پڑے رہنے سے ایمانی روح بیحد کمزور ہوجاتی ہے، اس لیے کہ نیند ایک قسم کی

 

۸۴

 

مُردگی (موت) ہے جس میں مَلَکی طاقتیں قائم نہیں رہ سکتی ہیں، اور نہ اس میں روح الایمان ٹھہر سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں پرہیز گاروں کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ وہ بہت کم سویا کرتے ہیں (۵۱: ۱۷) اس تھوڑی سی نیند میں بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمت ہے کہ اس سے انسان کا دل و دماغ دن بھر کے دُنیاوی خیالات و افکار سے کافی حد تک آزاد ہوجاتا ہے، ساتھ ہی ساتھ تھکاوٹ دُور ہوکر طبیعت میں تازگی پیدا ہوتی ہے، اس لیے کچھ دیر تک لیٹ کر آرام سے سوجانا چاہیے، چنانچہ اگر کسی خاص کام کی مجبوری نہ ہو، تو رات کو بروقت سوجانا ضروری ہے اور مقرّرہ وقت پر کسی تاخیر کے بغیر جاگ اُٹھنا چاہیے، مگر یہ بات علیٰحدہ ہے کہ بعض دفعہ ذکر و عبادت کی محفل شام سے لے کر صبح تک قائم رہتی ہے جس کا اشارہ قرآن (۷۶: ۲۶) میں موجود ہے۔

 

اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ: کیا یہ بہتر نہیں کہ ایک مومن بجائے اس کے کہ وہ رات کو بہت پہلے اُٹھ کر عبادت کرے، وہی عبادت یا اس سے کچھ زیادہ عبادت سونے سے قبل بجا لاکر سوجائے اور صبح دیر سے اُٹھے، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کام کئی وجوہ سے درست نہیں، اوّل اس لیے کہ خُدا

 

۸۵

 

کا حُکم ایسا نہیں ، دوم یہ کہ رات بھر سوئے رہنے سے جیسا کہ اُوپر بتایا گیا مومن کی روح کمزور ہوجاتی ہے، سوم یہ کہ جو عبادت کچھ دیر سوجانے کے بعد اُٹھ کر کی جاتی ہے وہ شام کی عبادت سے بدرجہ ہا افضل ہوتی ہے، کیونکہ اس میں دن بھر کے دُنیاوی خیالات و افکار کا اکثر حِصّہ نیند کی بدولت انسان کے ذہن و خاطر سے مٹ جاتا ہے، پس یہی سبب ہے کہ سورۂ مزّمل میں عبادت کی غرض سے ذرا سوکر اُٹھنے کے لیے فرمایا گیا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ صبح کے وقت توبہ کرنا پرہیزگاری کی علامت قرار دی گئی ہے۔ (قرآن ۵۱: ۱۸)

 

ذکر اور علم:

ذکر کی مثال سیر و سفر ہے، اور علم و ہدایت کی مثال روشنی اور بصارت (بینائی) چنانچہ اگر کوئی انسان ذکر کے ذریعے سے چل کر اپنی ذات کے عالمِ باطن میں بحکم “سِيْرُوْا فِيْهَا (۳۴: ۱۸)” سیر و سفر کرنے کا خواہشمند ہے تو اسے نہ صرف دینی ہدایت کی آنکھ چاہیے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ علم الیقین کی روشنی بھی ضروری ہے کیونکہ جب ایک آدمی منزل بہ منزل کسی دُور ملک میں جانا چاہتا ہے تو وہ صرف روشنی ہی میں آسانی اور خوشی سے سفر کرسکتا ہے، اور اس کے

 

۸۶

 

بغیر رات کی تاریکی میں چل نہیں سکتا، اور اگر وہ اندھوں کی طرح کچھ چل بھی سکتا ہو، تو رستے کے مناظرِ قدرت سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا، نہ ایسے سفر سے وہ چندان خوش ہوجاتا ہے، نہ اسے نشانِ منزل کی کوئی آگہی ہوتی ہے اور نہ سفر سے کچھ تجربات اور معلومات حاصل ہوسکتی ہیں۔

 

نیز یہ حقیقت جاننا چاہیے کہ یقینِ کامل جس اعلیٰ ترین معرفت کا نام ہے وہ تین درجوں میں ہے، ابتدائی درجہ علم الیقین کا ہے اس سے اُوپر کا درجہ عین الیقین کا ہے اور سب سے اوپر کا درجہ حق الیقین کا ہے اس سے یہ ثابت ہوا کہ علم الیقین کے بغیر عین الیقین تک پہنچنا ناممکن ہے جو روحانی مشاہدات کا مقام ہے، اور عین الیقین کے مرتبے کے بغیر حق الیقین محال ہے، پس معلوم ہوا کہ خصوصی ہدایت اور دینی علم کے بغیر ذکر کی کوئی ترقی نہیں۔

 

ذکر اور وقت:

قرآنِ حکیم کی کئی آیاتِ مقدّسہ میں یادِ الٰہی کثرت سے کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے، جس کے یہ معنی ہوتے ہیں، کہ دن رات کے تمام اوقات میں جس قدر بھی ہوسکے زیادہ سے زیادہ ذکر و عبادت

 

۸۷

 

کرنا چاہیے، دُوسری طرف سورۂ مزّمل میں رات ہی کو ذکر کے لیے مناسب و موزوں وقت قرار دیا گیا ہے (۷۳: ۰۶) اور اس کی وجہ بھی ظاہر کی گئی ہے کہ دن کے وقت بہت مشغولِ کار رہنا ہے (۷۳: ۰۷) ان دونوں مقدّس ہدایتوں میں یکجا طور پر غور کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو حکم شب و روز کثرت سے خدا کو یاد کرنے کے بارے میں ہے، اس کا مقصد ذکرِ کثیر ہی ہے، جو آسان اور عام ذکر ہے اور جس ارشاد میں شب یعنی پچھلی رات کے ذکر کے لیے تاکیدی امر ہوا ہے، وہ ذکرِ خفی اور ذکرِ قلبی ہے، جو مشکل اور خاص ذکر ہے اور آنحضرتؐ کو مخاطب کرکے یہ جو فرمایا گیا ہے کہ دن کے وقت تو تم بہت مشغولِ کار رہتے ہو (۷۳: ۰۷) اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ حضور انورؐ کو دن کے وقت ذکر و عبادت کے لیے فرصت ہی نہیں ملتی تھی، جبکہ آنحضرتؐ خود سراپا ذکر تھے، یعنی آپؐ کی پیشانی مبارک میں نُورانی ذکر خود ہی بولتا رہتا تھا بلکہ اس کا مقصد تو یہ ہے کہ اس اشارے سے دن کے ذکر کو ذکرِ عام اور رات کے ذکر کو خاص قرار دیا جائے، تاکہ دن کے وقت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مومنین سے جس قدر بھی ہوسکے آسانی سے خدا کو بھی یاد کریں اور اپنے

 

۸۸

 

کام کو بھی انجام دیں، اور رات کے مخصوص وقت میں خاص ذکر کو پوری دل جمعی اور مکمل توّجہ سے بجا لائیں تاکہ رات کی خصوصی عبادت کو دن کی عمومی عبادت سے امداد و تقوّیت ملے، اور اسی طرح ذکر و عبادت کا ایک خاص مرکز قرار پائے، اور مومنین روحانی اور نورانی نتائج کے لیے اس مرکز کو دیکھتے رہا کریں۔

 

ایک بہت شریف اور متقی تاجر بڑے انہماک سے تجارت کا کام کررہا ہے، اس کا کاروبار خُوب چل رہا ہے اور دکان پر خریداروں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے، اس تاجر کے پاس اس کا ایک بہت بزرگ دوست بیٹھا ہے، دوکاندار بڑے اطمینان اور شریفانہ انداز سے کبھی خریداروں سے اور کبھی بزرگ دوست سے بات چیت کررہا ہے، جب یہ شخص کسی خریدار کی طرف یا کسی مطلوبہ چیز کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، تو اس وقت اس کے بزرگ دوست کو یہ احساس ہرگز نہیں ہوتا کہ اس کے دکاندار دوست نے اس کے ساتھ سلسلۂ گفتگو کو کیوں قائم نہیں رکھا اور کیوں بے توجہی کی گئی کیونکہ ان دونوں کے آپس میں گہری محبّت اور بڑا اعتماد ہے، لہٰذا بزرگ خوش ہے کہ اس کے دوست کا سب کام ٹھیک ہے اور دکان خُوب چل رہی ہے، چنانچہ یہ ایک مثال ہے اس

 

۸۹

 

امر کی کہ حقیقی مومن دُنیاوی کام کاج کے ساتھ ساتھ کسی بھی اسم میں ذکرِالٰہی بھی کرسکتا ہے، اور اگر ایسے عام ذکر کا سلسلہ بار بار ٹوٹ جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔

 

ذکر اور موقع:

حقیقی مومن کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ ذکر کے لیے جو خاص و عام اوقات مقرّر ہیں ان کے علاوہ بعض دفعہ اس کے خصوصی مواقع بھی ہوا کرتے ہیں جن کے آنے پر ذکر کو آگے سے آگے بڑھانا ضروری ہوتا ہے، چنانچہ جب اللہ تعالیٰ بندۂ مومن کو کسی مصیبت میں مبتلا کرکے آزمانے لگتا ہے تو اس وقت دانشمند مومن کےلیے یادِ الٰہی کا ایک خصوصی موقع فراہم ہوتا ہے، وہ اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، کیونکہ بموجب ارشادِ قرآنی ہر مصیبت میں تین چیزیں پوشیدہ ہوتی ہیں، وہ خدا کی طرف سے درود، رحمت اور ہدایت ہیں وہ ایسے صابروں کو ملتی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا کے ہیں اور ہم اسی کی طرف رجوع کرنے والے ہیں اور پھر اس کی یاد کرتے رہتے ہیں۔ (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷)۔

 

یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ انسان کا اپنا نفسِ امّارہ ہی سب سے طاقتور اور بڑا چالاک دینی دُشمن ہے، جو ہر نیک

 

۹۰

 

کام میں خاص کر ذکر و عبادت میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالتا رہتا ہے یہ مخالفت، دُشمنی اور بُری کوششوں سے ہرگز نہیں تھکتا اور اکثر غالب ہی رہتا ہے، مگر کچھ خاص مواقع ایسے بھی ہیں جن میں مومن اپنے نفس پر بآسانی غالب آسکتا ہے، وہ مواقع ہیں مصائب و آلام کے اوقات کہ اُن میں نفسِ امّارہ آفت زدگی کی کیفیت میں مایوس اور عاجز ہوکر رہ جاتا ہے، پس ایسے موقع پر ذکر و عبادت کے وسیلوں سے نفس کو مغلوب و پامال کرکے ذکر کو کسی اگلی منزل تک پہنچا دیا جاسکتا ہے۔

 

نفسِ امّارہ کے مغلوب ہوجانے کا ایک اور سنہرا موقع ہے وہ ہے حقیقی علم اور عشقِ الٰہی کی باتیں سُننے کا موقع، جس میں مومن کی روح الایمان اور عقل شادمان و محظوظ اور طاقتور ہوجاتی ہیں، جس کی بدولت نفسِ امّارہ کی کارفرمائی سُست اور کمزور ہوجاتی ہے اور ایسی صورت میں کچھ وقت ذکر کرنے سے کامیابی حاصل ہوجاتی ہے۔

 

۹۱

 

باب ششم

ذکر کا طریق کار

 

آپ کو ضرور اس بات کا یقین ہوگا کہ دینی دُنیاوی، ظاہری باطنی، رُوحانی جسمانی اور ذہنی و خارجی امور میں کوئی امر ایسا نہیں جو طریقِ کار کے بغیر انجام پاسکے، لہٰذا اس باب میں ذکرِ الٰہی کے متعلق اساسی باتیں اور مُفید معلومات فراہم کردی جاتی ہیں، تاکہ ذاکرین کو اِن سے مدد مل سکے۔

 

ذکر میں باقاعدگی:

قانونِ فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ حصولِ مقصد کے لیے باقاعدگی سے محنت و مشقّت برداشت کی جائے، اور اس کے سوا کوئی کامیابی نہیں، چنانچہ ذکرکے بارے میں اصل ورزش اور دُرست ریاضت یہی ہے کہ ذکر میں کسی وجہ سے بھی ناغہ نہ ہونے پائے، وقت کی پابندی ہو اور کسی بھی تکلیف سے گریز کیے بغیر مقرّرہ اوقات میں ذکر کیا جائے،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

۹۲

 

(ترجمہ) اور جن لوگوں نے ہمارے بارے میں مشقتیں برداشت کیں ہم ضرور انہیں اپنے رستے دکھلا دیں گے اور یقیناً اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے (۲۹: ۶۹) یہ تو سب جانتے ہیں کہ خدا کا رستہ یعنی دینِ حق ایک ہی ہے، لہٰذا یہاں جو ارشاد ہوا ہے کہ ہم اپنے رستے دکھا دیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ راہِ خدا اگرچہ ایک ہی ہے مگر اس کی صورتیں بہت ہیں، مثال کے طور پر ایمان، ایقان، تقویٰ، خوفِ خدا، علم، عمل، اخلاص، عدل، احسان، تواضع، محبّت، فرمانبرداری، صبر، شکر، عبادت، تسلیم، رضا وغیرہ یہ سب دینداری اور مومنی کے ایسے اوصاف ہیں، کہ ان میں سے ہر ایک صراطِ مستقیم کی ایک گونہ صورت کا درجہ رکھتا ہے، کیونکہ یہ ایک دُوسرے کے ساتھ مربوط اور ملے ہوئے ہیں، اور معنویّت کی گہرائیوں میں یہ سب ایک حقیقت کی حیثیت سے ہیں، یہی سبب ہے کہ قرآنِ حکیم کے مختلف موضوعات میں مومنی کے ان اوصاف میں سے ہر ایک کی اس طرح فضیلت بیان کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بس وہی صفت سب کچھ ہے، یہ بات دُرست ہے اور اسی میں حکمت ہے لیکن اندرونی طور پر دُوسرے تمام اوصاف بھی اس کے ساتھ منسلک ہیں۔

 

۹۳

 

اس کے یہ معنی ہوئے کہ جب مومن خُوب دل لگا کر ذکر و ریاضت کرنے کا عادی ہوگا، اس وقت اللہ تعالیٰ اپنی بے پناہ رحمت سے اسے مومنی کے جملہ اوصاف سے متصف کردے گا، اور ان تمام اوصاف کی روحانیّت اور نُورانیّت اس پر منکشف ہوگی، یہ ہوا خدا تعالیٰ کا اپنے رستے دکھانا۔

 

 

حواسِ باطنی:

قرآنِ حکیم سورۂ بقرہ میں کافروں کے کفر و انکار اور اس کے نتائج کی مذمت کرتے ہوئے یہ ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہ) وہ گونگے ہیں بہرے ہیں اندھے ہیں پس وہ (اپنی اصل کی طرف) رجوع نہیں کرتے ہیں (۰۲: ۱۸) نیز اسی سورہ میں کافروں کی بابت فرمایا گیا ہے کہ: (ترجمہ) یہ لوگ گونگے ہیں بہرے ہیں اندھے ہیں پھر وہ کچھ بھی عقل نہیں رکھتے (۰۲: ۱۷۱) چنانچہ اِس حُکمِ خداوندی میں جہاں حواسِ باطنی سے کافروں کی مایوسی و محرومی کا تذکرہ ہے وہاں مسلمین و مومنین کو اُمیدِ رحمت اور توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ اِس حُکم میں کافروں سے الگ تھلگ ہیں، لہٰذا وہ دل کی زبان سے ذکر و عبادت کرسکتے ہیں، دل کے کان سے ہدایت سُن سکتے ہیں اور دل کی آنکھ سے عجائباتِ قدرت کا مشاہدہ کرسکتے ہیں، جس کا مقصد عقل و دانش اور علم و حکمت اور جس کا مقصد اللہ تعالیٰ

 

۹۴

 

کی طرف رجُوع ہوجانا ہے۔

 

دل کے کان:

ذکر کی ابتدائی منزل میں دل کے کان کی شناخت بھی ضروری ہے، وہ اس طرح سے ہے کہ نوآموز ذاکر ایک ایسی جگہ کچھ دیر تک انتہائی خاموشی اور سکوّت سے بیٹھے رہے، جہاں کوئی بھی آواز نہ ہو، پھر وہ اپنے دل و دماغ کی طرف خُوب متوّجہ ہوکر یہ کوشش کرے کہ زبان سے خاموش رہنے کے علاوہ دل میں بھی کچھ نہ کہے، چنانچہ جب وہ ظاہر و باطن میں خاموشی اختیار کرچکا ہوگا، تو اس وقت اچانک غیر ارادی طور پر اس کے ذہن میں کچھ تتّر بتّر سے خیالات پیدا ہونے لگیں گے، یہ نفسِ امّارہ کے وسوسے ہیں، جن کو حدیثِ نفسی بھی کہا جاتا ہے، ان چیزوں کا سُننا نہ صرف دل کے کان موجود ہونے کا ثبوت ہے، بلکہ یہ اِس حقیقت کی دلیل بھی ہے کہ جس طرح دل میں شر کی آواز آسکتی ہے، اسی طرح خیر کی آواز بھی آسکتی ہے۔

 

اگر چہ نفس کی آواز نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن وہ خاموشی کے اس تجربے میں خلل انداز ہوئی، جس کو دل کے کان نے نہایت ہی آہستگی کی ایک کیفیّت میں سُن لیا، اور یہی نفس کی باتیں ذکر و عبادت میں رخنہ ڈالتی رہتی ہیں، جن کو محسوس

 

۹۵

 

کرکے مومن کو سخت پریشانی اور بے چینی ہوتی ہے، لیکن اسے ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ کچھ آگے چل کر اسی طرح عقل اور عشق کی باتیں بھی سنائی دے سکتی ہیں۔

 

دل کی زبان:

قلبی ذکر کی کوئی مشق شروع کرنے سے پیشتر دل کی زبان اور اس کی آواز سے واقفیت و آگہی لازمی ہوتی ہے، جب تک یہ نہ ہو تو دل سے ذکرِ الٰہی کا کام لینا بہت ہی مشکل ہے، چنانچہ دل یا کہ ضمیر کی آواز کی کیفیّت و حقیقت سمجھ لینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ مبتدی زبان کو بالکل بند کرکے دل ہی دل میں قرآنِ پاک کی کوئی چھوٹی سورت یا کوئی آیت یا خدا تعالیٰ کا کوئی اسم وغیرہ کچھ دیر کے لیے پڑھا کرے، ساتھ ہی ساتھ متوجہ ہوکر دل کے کان سے دل کی آواز کو سُنتا رہے، اس وقت اسے یقین ہوگا کہ وہ اس تجربے میں جو کچھ پڑھ رہا تھا، وہ ظاہری زبان سے نہیں بلکہ باطنی زبان سے پڑھا جارہا تھا، یعنی یہ آواز دل کی زبان کی تھی، جسے دل کے کان سے سُن رہا تھا، اس کا مطلب یہ ہُوا کہ دل میں بھی ایک زبان ہے جو ظاہری زبان سے بالکل الگ ہے، اور اسی سے ذکرِ قلبی کیا جاتا ہے۔

 

۹۶

 

دل کی آنکھ:

اسی سلسلے میں دل کی آنکھ کے وجود کی تحقیق اور روحانی مشاہدات کا تجربہ کرنا بھی نہایت ہی ضروری ہے، کیونکہ حواسِ باطنی کے اقرار اور شناخت نہ ہونے کی صورت میں روحانی ترقی تو درکنار اس کے انکار کی کیفیّت دل میں جڑ پکڑتی ہے چنانچہ دل کی آنکھ کی تحقیق و تجربہ اس طرح ہونا چاہئے کہ مبتدی ذکر کی مخصوص نشست میں نچنت اور بے فکر ہوکر بیٹھ جائے اور کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کرکے عالمِ خیال (یعنی اپنے باطن)کی طرف متوجّہ ہوجائے، پھر وہ خدا کے ناموں میں سے پانچ کو منتخب کرکے ہر ایک کی تحریر کا علیٰحدہ علیٰحدہ تصوّر کرے، یعنی وہ اپنے خیال میں ان ناموں کی تحریری شکل کو دیکھے اور پڑھے، اگر وہ ناخواندہ ہے تو یوں تصوّر کرے کہ ایک شخص اس کے سامنےقرآن شریف پڑھ رہا ہے، اب وہ غور سے دیکھے کہ وہ کون ہے، کیسے لباس ہیں وغیرہ، اس کے علاوہ کچھ دُوسرے آدمیوں کا تصوّر کرے، کیا وہ جس چہرے کو چاہتا ہے وہ سامنے آتا ہے؟ پھر کسی پھل یا پھول کا تصوّر کرے، علیٰ ہذا لقیاس، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اِس طریق پر بہت سی چیزوں کا تصوّر کرسکے گا، یعنی وہ جس چیز کو چاہے خیال میں لاکر اس کا روحانی مشاہدہ کرسکے گا،

 

۹۷

 

مگر شروع شروع میں باطنی روشنی اور دل کی بینائی بہت ہی کمزور بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوگی، بہرحال یہ اندازہ تو ہوہی گیا کہ یہ دل کی آنکھ کے دیکھنے کی ابتدائی صورت ہے، جو اگر ایک طرف سے دل کی آنکھ کے وجود کا ثبوت ہے تو دُوسری طرف سے عالمِ روحانیّت کی ہستی کی دلیل ہے۔

 

ذکر اور خوفِ خدا:

اگر مومنِ ذاکر کے دل میں خوفِ خدا جیسا کہ ہونا چاہئے موجود ہو تو ذکر کا کام بہت آسان ہوجاتا ہے، جاننا چاہئے کہ خدا کا ڈر مصنوعی بھی ہے اور حقیقی بھی، مصنوعی یہ کہ اپنی عقل کے مطابق خوفِ خدا کا ایک بناوٹی تصوّر کرلیا جائے، جو کسی حد تک مفید تو ہے مگر دیرپا نہیں، اور حقیقی خوف تقویٰ ہے، یعنی دائمی پرہیز گاری، چنانچہ اگر ذاکر متقی ہے تو ذکرِ الٰہی کے آغاز ہوتے ہی اس پر خوفِ خدا کی معجزانہ کیفیت طاری ہوجائے گی، پھر طرح طرح کے خیالات پیدا ہونے اور ذکر کا سلسلہ بار بار ٹوٹ جانے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا کیونکہ اس حقیقی خوف کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پوشیدہ ہے جس کی بدولت دل کی زبان اور کان کی مضبوط گرفت

 

۹۸

 

میں بحسن و خُوبی ذکر کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

 

جب بندۂ مومن ہر فکر و خیال اور ہر قول و فعل میں خدا کی اطاعت کرتا ہے اور اس کی نافرمانی سے ڈر جانے کا عادی ہوجاتا ہے، تو لازماً وہ ذکر کے موقع پر بھی بآسانی خوفِ خدا کی کیفیت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سلسلۂ ذکر کو صحیح و سلامت آگے بڑھا سکتا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے:

(ترجمہ)اللہ تعالیٰ نے سب سے بہترین بات کتاب کی حیثیت سے نازل فرمائی جو متشابہ اور دہرائی گئی ہے اس کے ذکر سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہوکر اس ذکرِ الٰہی کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں (۳۹: ۲۳) یہ سب سے بہترین بات اگر ایک طرف قرآن حکیم ہے تو دوسری طرف اسمِ اعظم ہے، جبکہ اسمِ اعظم قرآن ہی کی روحانیت و نورانیت ہے، اور ہر اسمِ اعظم بہت سے حقائق و معارف کے حامل ہونے کی نسبت سے متشابہ ہے اور ذکر میں دہرانے کی وجہ سے مثانی ہے، اس کے ذکر سے صرف متقی لوگوں کے رونگٹے اس لیے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ان کے جسم کے اندر جو کھربوں خلیّاتی روحیں سوئی ہوئی ہیں ان

 

۹۹

 

میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ذکرِ الٰہی کی آواز سے یکایک بیدار ہوجاتی ہیں، اس واقعہ کو عُرفِ عام میں رونگٹے کھڑے ہوجانا کہتے ہیں مگر جو لوگ متّقی نہیں، اُن پر ذکر سے ایسی کوئی کیفیت نہیں گزرتی، ہاں کسی دُنیاوی اور مادّی خوف سے ان کے رونگٹے ضرور کھڑے ہوجاتے ہیں۔

 

اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ اور خوفِ خدا سے ذکر کا جوہر کھلتا ہے، اس لیے کہ اِس سے ذکر دل کی زبان پر چسپان ہوکر خُوب چلنے لگتا ہے اور دل کے کان میں اس کی گونج بہت سُریلی لگتی ہے، کیونکہ خوفِ خدا کا اصل مطلب ہمیشہ گناہوں کی آلائش سے پاک رہنا ہے اور پاک رہنے سے خدائے پاک کے خوف کا معجزہ رہنمائی کرتا ہے۔

 

ذکر اور اُمید:

مومنِ ذاکر کی ایک ایمانی قوّت اس بات میں بھی مضمر ہے کہ وہ رحمتِ خداوندی کی اُمید رکھے، اور مایوس نہ ہوجائے، کیونکہ خدا کی رحمت سے مایوس ہوجانا کُفر ہے، کیوں کہ جس طرح خوفِ خدا میں اہلِ ایمان کی بہتری اور فضیلت ہے، اسی طرح اُمیدِ رحمت میں بھی ان کے لیے صلاح و فلاح ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم کی بہت سی آیات

 

۱۰۰

 

کا یہ مفہوم ہے کہ بندۂ مومن دل میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی اُمید اور طمع رکھے اور محنت شاقہ سے عمل کرے۔

 

ذکر اور عاجزی:

نہ صرف ذکر سے پہلے اور ذکر کے دوران بلکہ ہمیشہ کے لیے اپنے اندر عجز و انکساری کی کیفیت و صفت پیدا کرلینا مومنِ ذاکر کی بڑی دانش مندی ہے، کیونکہ عاجزی حقیقی عِشق کی ابتدائی صورت اور اس کا پیش خیمہ ہے اور عاجزی ہی میں تکبّر سے بچ جانے کی ضمانت موجود ہے، جس کے بغیر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور ہدایت و رحمت قریب بھی نہیں آتی، لہٰذا ذاکر کو چاہیے کہ انتہائی حد کی سنجیدگی اور پستی اختیار کرلے، تاکہ ذکر کی آواز میں معجزانہ طور پر جاذبیت و دلکشی اور دیدۂ باطن کے سامنے روشنی پیدا ہوسکے۔

 

قانونِ قدرت کا ہمیشہ سے یہ عالم رہا ہے کہ وہ اس شخص کو ناچیز کردیتا ہے، جو خود کو کوئی چیز سمجھتا ہو اور اُس آدمی کو ہر چیز سے اعلیٰ و افضل بنا دیتا ہے، جو اپنے آپ کو ناچیز قرار دیتا ہو، پس جاننا چاہیے کہ بندۂ ذاکر کی کامیابی کا راز عجز و انکساری اور فروتنی میں پنہان ہے۔

 

۱۰۱

 

ذکر اور عشق:

خدائے قدّوس کی محبّت اور عشق ہی روحانیّت کا وہ مرتبہ و مقام ہے، جہاں مومنِ ذاکر کو نفسِ امّارہ کے گونا گون وسوسوں اور باطل خیالات سے کما حقّہٗ نجات مل سکتی ہے، کیونکہ عشقِ الٰہی ایک ایسی پُرحکمت آگ ہے جو ذکرِ خداوندی کے ماسوا خیالات و افکار کو جلا کر ختم کر ڈالتی ہے، حقیقی عشق خود ذکرِ الٰہی کی اصلی اور عملی صورت ہے، جس میں عاشقِ صادق سراپا ذکرِ مجسّم بن جاتا ہے، کیوں نہ ہو جبکہ عشق مثال کے طور پر ایک نہایت ہی شیرین قسم کا دردِ دل ہے، اور کسی دردِ دل میں سارے بدن کا شریک ہوجانا ایک فطری امر ہے، اس لیے کہ عشق دل و دماغ کی اس کیفیّت کو کہتے ہیں جس میں یادِ محبوب اور اشتیاقِ ملاقات درجۂ کمال پر ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ جسم کے ظاہر و باطن پر دل و دماغ ہی کی بادشاہی اور حکمرانی ہے، غرض یہ کہ عشقِ الٰہی کے مرحلے میں روح کے علاوہ جسم بھی ذکر میں ایک طرح سے مصروف و مشغول رہتا ہے۔

 

اگر کوئی یہ سوال کرے کہ عشق تو محض ایک ذہنی اور قلبی کیفیّت ہے وہ تمام جسم کو کس طرح متاثر و مجبور اور مطیع کرسکتی ہے؟ اس کے لیے جواب یہ ہے کہ انسان کا غُصّہ بھی صرف

 

۱۰۲

 

ایک ذہنی کیفیّت ہی ہے جس سے آدمی آگ بگولا ہوکر کانپنے لگتا ہے، جب وہ لوگوں کے درمیان سخت شرم کے احساس میں مبتلا ہوجاتا ہے، تو اس کے چہرے کا رنگ دفعتاً پیلا پڑتا ہے اور شرم کے مارے لرزہ براندام ہوکر پسینے سے شرابور ہوجاتا ہے، اگر وہ شادمان ہوا، تو اس کا چہرہ خوشی سے دمکتا ہے اور اگر وہ غمگین ہے تو وہ پژمردہ ہوکر سُکڑ جاتا ہے، حالانکہ یہ سب ذہنی و قلبی کیفیات کے سوا کچھ بھی نہیں، مگر بات دراصل وہی ہے جو بتائی گئی کہ انسان کے پُورے جسم پر اس کے دل و دماغ کی حکمرانی ہے، بالفاظِ دیگر جسمِ انسانی رُوحِ حیوانی کے زیرِ اثر ہے، رُوحِ حیوانی رُوحِ انسانی سے متاثر ہوتی رہتی ہے، اور رُوحِ انسانی پر عقل اثر ڈالتی ہے، اس سے یہ ثابت ہوا کہ انسان کے دل و دماغ میں جو شعوری کیفیت گزرتی ہے، اس کی لہریں سارے بدن میں دوڑتی ہیں، چنانچہ درجۂ عشق میں جس طرح ذاکرِ عاشق کے تن بدن کا حال عشقِ الٰہی کے ادراک سے متغیر اور دگرگون ہوجاتا ہے اور جس شان سے عاشق سرتاپا مجسّم ذکر بن جاتا ہے وہ ایک حقیقت ہے، پس بندۂ مومن کوذکر کی جملہ مشکلات میں عشقِ حقیقی کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اور اس کا مستقل طریقہ یہ ہے کہ ذکرِ الٰہی

 

۱۰۳

 

کے جتنے آداب و شرائط ہیں اور دینداری و مومنی کی جو صفات ہیں ان میں سب سے زیادہ اہمیّت عشقِ حقیقی کو دے دی جائے۔

 

 

ذکر اور توجّہ:

ذکر کی طرف توجّہ دینے کی بابت کچھ اہم باتیں اس سے پہلے بھی بتائی گئی ہیں، تاہم اِس بارے میں یہاں پر بھی چند ضروری نکات بیان کئے جاتے ہیں کہ دل کی تین قوّتیں خاص ہیں، کان، زبان اور آنکھ، جن کا بیان قبلاً ہوگزرا ہے، چنانچہ ذکر کی طرف مکمل توجّہ دل کی ان تینوں طاقتوں کے بغیر مشکل ہے، لہٰذا قلبی زبان پر زور دے کر مسلسل ذکر کرتے رہو، دل کے کان سے خُوب متوجہ ہوکر اپنے ذکر کو سُنتے جاؤ، اور باطنی آنکھ کو انتہائی کوشش سے اس بات پر مجبور کرو کہ ذکر کی روحانی تحریر پر نظر جمائے رہے، اور ایک سیکنڈ کے لیے بھی اس فریضہ سے غافل نہ ہوجائے، یہ ذکر کی طرف کامل طور پر توجّہ ہوئی، اب اسی حال میں قوّتِ ارادی سے اپنے باطن میں زیادہ سے زیادہ عجز و انکساری کی کیفیّت پیدا کرنا، یعنی دل ہی دل میں خدا کے حضور رو رو کر دُعا مانگو کہ اس کی معجزانہ تائید و نصرت شاملِ حال ہو تاکہ ذکر کی طرف تینوں طاقتوں کی یہ توجہ قائم اور برقرار رہے اور غفلت و نسیان کے بادل چھٹ جائیں،

 

۱۰۴

 

پس اُمید رکھنا اور مایوس نہ ہوجانا کہ بار بار کے اس عمل کی ریاضت سے اس میں تمہیں کامیابی حاصل ہوگی۔

 

ذکر کی رفتار:

یہاں ایک بڑا اہم مسئلہ ذکر کی رفتار کے بارے میں ہے کہ ذکرِ قلبی کی رفتار کیا ہونی چاہئے؟ اور اس کا اندازہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ یہ ایک ایسا ضروری سوال ہے کہ کوئی دانش مند ذاکر اس کو نظر انداز نہیں کرسکتا، چنانچہ جاننا چاہیے کہ سورۂ لقمان کے ایک اشارے کے بموجب ذکر کی چال درمیانی قسم کی ہونی چاہیے، یعنی وہ نہ تو بہت تیز ہو اور نہ بہت سُست، بلکہ وہ ایسی رفتار کا ہو جیسے کوئی مُسافر کسی منزل کی طرف درمیانی چال سے چلتا ہے مگر ہاں جب مُسافر کو رستے میں ایسا کوئی خطرہ در پیش ہو، مثلا وہاں ڈاکوؤں کے آنے کی امکانیّت ہے، یا بارش برسنے والی ہے، یا پہاڑ سے پتھر گررہے ہیں، یا کوئی زبردست دُشمن تعاقب کررہا ہے، یا رات کی تاریکی قریب ہے، تو لازمی طور پر تیز تیز چلنا پڑے گا، یہی حال راہِ روحانیّت کے مسافر کا بھی ہے کہ اگر ذکر کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہو یا طرح طرح کے خیالات پیدا ہوتے ہوں، یا نیند اور سُستی آتی ہو یا شیطان اور نفس کا کوئی غلبہ ہو، تو قوّتِ ارادی سے طبیعت پر دباؤ ڈال کر ذکر کی رفتار میں اضافہ

 

۱۰۵

 

کرنا چاہیے، جس کا اندازہ یہ ہے کہ اگر ذاکر کا اسم چار حرف کا ہے تو ایسا اسم ایک گھنٹے کے اندر اندر تقریباً دس ہزار مرتبہ پڑھا جانا چاہیے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ تین منٹ پینتالیس سیکنڈ میں ایسے اسم کو تقریباً چھ سو پچیس بار دہرانا چاہیے، یہ صرف ایک چار حرفی لفظ کا اندازہ ہے۔

 

ذکر کا سلسلہ:

اگر آپ ذکرِ قلبی مخصوص وقت میں اہتمام کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں، تو یہ مربوط اور سلسلہ وار ہونا چاہیے، جس کے لیے صحیح تلفظ کی ادائیگی از بس ضروری ہے اور صحیح تلفّظ پُوری توجہ اور مضبوط گرفت کے ساتھ دل کی زبان سے ذکر کا لفظ پڑھنے سے اور دل کے کان سے اسے سُنتے رہنے سے ادا ہوسکتا ہے، کیونکہ سلسلۂ ذکر ٹوٹ نہیں جاتا مگر اس وقت جبکہ اسے لفظ بلفظ دُرستی سے نہ پڑھا جائے، اور دل کے کان سے اس کی طرف کامل و مکمل توجہ نہ دی جائے، جیسے ظاہری گفتگو میں لغزش اس وقت آتی ہے، جبکہ بات کرنے والے کی توجہ کی گرفت ڈھیلی ہوجاتی ہے یعنی جب زبان کی گویائی اور کان کی سماعت میں سے کوئی ایک سُست ہوجاتی ہے، تو تقریر و گفتگو میں لغزش ہوتی ہے، اور قوّتِ سماعت ہی کے

 

۱۰۶

 

ذریعے سے معلوم ہوتا ہے، کہ ا س کی تقریر میں لغزش ہوئی ہے، یا فلان فلان الفاظ ٹھیک طرح سے نہ بولے گئے ہیں۔

 

چنانچہ ذکر کا سلسلہ قائم رکھنا اور اسے لمحہ لمحہ بھول جانے کی لغزشوں سے محفوظ رکھنا دل کی زبان اور دل کے کان دونوں کی ذِمّہ داری ہے کہ یہ سِلسلۂ ذکر کی ہر کڑی یعنی ہر لفظ صاف صاف بولے، اور وہ بڑی توجہ سے سُنتے رہے، بلکہ دل کی آنکھ سے بھی توجہ دی جائے تاکہ ذکرِ الٰہی کا سلسلہ کہیں سے بھی ٹوٹ نہ جائے۔

 

جس بندۂ مومن کے ذکرِ قلبی کا سلسلہ کوشش کے باوجود بار بار ٹوٹتا رہتا ہے اس کا سبب یا تو کوئی گناہ ہوسکتا ہے یا لاعلمی، پس اسے ان دونوں بیماریوں کا علاج کرنا چاہیے یعنی وہ ہمیشہ توبہ و تقویٰ سے کام لینے کے ساتھ ساتھ ذکر سے متعلق ضروری معلومات بھی فراہم کرتا رہے تاکہ وہ اپنے ذکر کو مربوط اور مسلسل بنانے میں کامیاب ہوسکے۔

 

ذکر اور محویت:

جب حقیقی مومن تمام متعلقہ آداب بجالا کر شائستگی سے ذکر کرنے لگتا ہے، تو اس کے ذہن میں رفتہ رفتہ لا تعلقی کی کیفیّت پیدا ہوتی ہے وہ نہ

 

۱۰۷

 

خواب کا عالم ہے نہ بیداری کا، بلکہ یہ محویّت کی منزل ہے جسے بیخودی بھی کہتے ہیں اس حالت میں ذاکر کے ذہن و شعور سے ظاہر و باطن کی ہر چیز مٹ جاتی ہے، مگر ذکر باقی و جاری رہتا ہے، مومنِ ذاکر ایسے میں اپنے آپ کو بھی قطعاً بھول جاتا ہے اور اسے یہ نہیں معلوم کہ وہ کہاں بیٹھا ہے، کہاں نہیں، کون سی جگہ ہے گھر ہے یا باہر، اس کو یہ تک احساس نہیں ہوتا کہ اس کا جسم موجود ہے یا کہیں غائب ہوگیا، گُم گیا، چنانچہ اگر مبتدی پر ایسی حالت گزرتی ہے تو یقین کرنا چاہیے کہ وہ روحانیّت میں رُو بہ ترقی ہورہا ہے، اور اگر ایسا نہیں ہے، تو جاننا چاہیے کہ یہ ناکامی اس کی اپنی ہی خامیوں اور غلطیوں کی وجہ سے ہے اور دوسری کوئی وجہ نہیں۔

 

ختم شُد

 

۱۰۸

رُموزِ روحانی

رموزِ روحانی

ترجمۂ فرمانِ مبارک

مورخۂ ۹ اکتوبر ۱۹۶۱ء

میرے عزیز روحانی فرزند
مجھے تمہارا برقیہ موصول ہوا، اور میں تمہاری فداکارانہ خدمات کے عوض میں اپنی بہترین شفقت آمیز مبارک دعائیں دیتا ہوں، میں یہ جان کر بہت ہی خوش ہوا ہوں کہ تم نے ہونزائی زبان میں گنان کی کتاب مکمل کر دی ہے۔

تمہارا مشفق
آغا خان

الواعظ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
بمعرفتِ : ایچ۔ ایچ، آغا خان اسماعیلیہ کونسل
راولپنڈی
مغربی پاکستان

 

۵

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دیباچہ

خداوندِ پاک کی توفیق و تائید سے اس آیۂ پُرحکمت کی روشنی میں کتابچۂ ہٰذا کے دیباچے کا آغاز کیا جاتا ہے، جو ارشاد ہے کہ:
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ كَثِیْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ ﱟ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌ  یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (۰۵: ۱۵ تا ۱۶)
تمہارے پاس تو خدا کی طرف سے ایک نور اور ظاہر کتاب (یعنی قرآن) آ چکی ہے، جو لوگ خدا کی خوشنودی کے پابند ہیں ان کی تو خدا اس (نور و کتاب) کے ذریعے سے سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے اور اپنی مرضی سے تاریکی سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے اور (اسی طرح) انہیں راہِ راست پر چلاتا ہے۔

اس آیۂ کریمہ کی معنوی جامعیّت میں جہاں لاتعداد حکمتیں پوشیدہ

۶

ہیں وہاں پر یہ حکمت بھی موجود ہے کہ اگرچہ خدا کی راہ شروع سے لے کر آخر تک ایک ہی ہے اور صراطِ مستقیم کو ہمیشہ کے لئے ایک ہی رہنا ہے، لیکن راہِ دین کی اس وحدت و سالمیّت کے باؤجود منازلِ راہ تو الگ الگ واقع ہیں، لہٰذا ایک ہی صراطِ مستقیم کے چاروں مراحل کو یکے بعد دیگرے چار راستے قرار دے کر فرمایا گیا کہ “خدا سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے۔” چنانچہ ظاہر ہے کہ سلامتی کے راستے شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت ہیں جو صراطِ مستقیم پر ہی ہیں، کیونکہ صراطِ مستقیم کے سوا گمراہی ہے اس لئے اس سے جدا ہدایت کا کوئی راستہ نہیں، اور یہ ایک ایسی روشن حقیقت ہے کہ اس سے کوئی ذی شعور انسان انکار نہیں کر سکتا، پس مومن کے لئے ضروری اور لازمی ہے کہ وہ راہِ شریعت کے علاوہ طریقت، حقیقت اور معرفت کے راستوں کا بھی سفر کرے جو صرف نور اور قرآن کی ہدایت و رہنمائی میں ممکن ہے۔

اس مقدّس راستے پر چلنا جو راہِ اسلام (صراطِ مستقیم) ہے، یعنی ان راہوں کا سفر کرنا جو شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت ہیں، جہاد کے بغیر ناممکن ہے، اور جہاد تین ہیں، کافروں سے جہاد کرنا، شیطان کے خلاف جہاد کرنا اور نفسِ امّارہ سے مجاہدہ

۷

کرنا، چنانچہ ارشادِ ربّانی ہے:
وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا (۲۹: ۶۹) اور جو لوگ ہمارے لئے جہاد کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستے ضرور دکھائیں گے۔ یعنی ہم انہیں ظاہر و باطن میں دینِ اسلام کی شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کی راہیں بتلائیں گے، تا کہ معرفت اور توحید کے وسیلے سے ان کو ابدی نجات و سکون میسر ہو۔

اس بیان سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے، کہ اسلام دینِ فطرت یعنی آفاقی دین ہے،یہ علم و حکمت اور رشد و ہدایت کی روشنی اور روحانیّت کے عجائبات و معجزات سے بھرپور ہے، اس کے ظاہر و باطن میں اخلاقی، روحانی اور عرفانی طور پر ترقی ہی ترقی ہے، اور اس کی راہیں دنیا و عقبیٰ کی سلامتی کی راہیں ہیں، جو نور اور قرآن کی روشنی میں طے ہو سکتی ہیں، اور یہ سفر دراصل روحانی اور علمی ہے۔

سیر و سلوک یعنی روحانی سفر ہمیشہ سے عجیب و غریب مشاہدات و تجربات پر منتج ہوتا ہے، اور یہ کتاب ایسی انوکھی اور نرالی دلچسپ باتوں پر مشتمل ہے، جن کو اسرارِ روحانیّت کہا جاتا ہے، اور ان میں حیات و کائنات کی معرفت پوشیدہ ہے۔

۸

اکیس (۲۱) شعروں کی اس ہونزائی نظم (جو میرے بروشسکی دیوان میں سے ہے ) کا مختصر سا ترجمہ میں نے بہت پہلے ہی کر دیا تھا، جس کو دیکھ کر میرے کچھ دوستوں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ میں اس کی مزید تشریح کے ساتھ شائع کروں، لہٰذا اب اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ حسبِ توفیق اس کی تشریح اس چھوٹی سی کتاب کی صورت میں ہو کر شائع ہو گئی۔

مجھے کامل یقین ہے کہ جس روحانیّت کی روشنی میں یہ اشعار کہے گئے ہیں اور جن ذاتی تجربات کی بناء پر ان کی وضاحت کی گئی ہے، اس کی وجہ سے یہ کتاب قارئینِ کرام کے لئے کافی حد تک دلچسپ اور مفید ثابت ہو سکتی ہے، خصوصاً ان حضرات کے لئے جو روحانیّت کے دلدادہ ہیں اور روحانی ترقی چاہتے ہیں۔

میں یوں سمجھتا ہوں کہ یہ کتابچہ باطنی فلسفہ اور روحانی علم کا ایک شارٹ کورس(Short – course)  ہے، جس میں یقینی علم کے لاکھوں پھولوں سے عطر نکال کر پیش کیا گیا ہے، تا کہ اس سے غیر فانی طور پر روحانیّت کی خوشبو مہیا ہوتی رہے، ان کے عزمِ عمل کو تقویّت ملے اور اشتیاق میں اضافہ ہو کہ وہ خود اپنی باطنی آنکھوں سے چمنستانِ روحانیّت کا نظارہ کریں۔

۹

اگر ہم اس خوف سے روحانیّت کی تعریف و توصیف کو نظر انداز کریں، کہ مبادا اس سے خود ستائی جیسی بات ہو جائے، تو اس صورت میں ہم سے روحانیّت کی تعظیم و تکریم کا کوئی حق ادا نہ ہو گا، لہٰذا اس مقدّس چیز کی طرف مکمل توجہ دلانے کی غرض سے اس کی بعض خوبیوں پر روشنی ڈالنا ضروری ہے، اب رہا خود ستائی کے شک کا مسئلہ، تو اس کا ازالہ اس طرح کیا جا سکتا ہے جو کہوں کہ میں کون ہوں؟ یا میں کیا ہوں؟ کچھ بھی نہیں ہوں، ایک حقیر سی شے، ایک انتہائی کمزور، فنا پذیر اور ناچیز شخصیّت، کسی بزرگ ہستی کا ایک ایسا انتہائی محتاج غلام، جس کی عاجز نگاہیں ہمیشہ اپنے آقا کی مہربانیوں کی طرف متوجّہ رہتی ہیں، اور مجھے ایسی غلامی اور عاجزی بہت ہی پسند ہے۔

میں مسگر اور کراچی کے احباب اور عزیزوں کی جمعیّت کا بہت ہی شکر گزار اور ممنون ہوں کہ انہوں نے بغرضِ علم گستری بار بار مجھ سے تعاؤن کیا ہے، پروردگارِعالم انہیں دونوں جہان کی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے! (آمین یا ربّ العالمین)۔

فقط بندۂ عاجز
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
بروزِ شنبہ: ۱۸ جمادی الاول ۱۳۹۷ھ / ۷ مئی ۱۹۷۷ء

۱۰

بسم اللہ الرحمن الرحیم

روحانی رمزک

۱۱

ترجمۂ اشعار و تشریح

عرشِ دل :

ترجمۂ شعر نمبر ۱: کسی حقیقی مومن کے عرشِ دل پر خدائے رحمان کا نورانی ظہور ایک حیران کن امر ہے، ذکر کی وسعت پذیری کی بدولت نقطۂ دل کا آسمان بن جانا ایک تعجب خیز بات ہے۔

تشریح: یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان بحدِّ فعل یا بحدِّ قوّت اپنے آپ میں ایک روحانی کائنات ہے، چنانچہ اس باب میں قرآنِ مقدّس کا ارشادِ گرامی ہے کہ: سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّؕ (۴۱: ۵۳) ہم عنقریب ان کو اپنی (قدرت کی) نشانیاں اس کائنات میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کے نفوس میں بھی۔ اس آیۂ کریمہ سے یہ حقیقت آفتابِ عالمتاب کی طرح روشن اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جتنی نشانیاں اس ظاہری کائنات میں سموئی ہوئی ہیں، وہ سب کی سب اپنی روحانی شکل و صورت میں انسان کے باطن میں موجود

۱۴

ہیں، انہی معنوں میں فرمایا گیا ہے کہ انسان عالمِ صغیر ہے اور یہ بیرونی کائنات عالمِ کبیر، عالمِ صغیر یعنی نفسِ انسانی میں جس قدر اللہ تبارک و تعالیٰ کے روشن اور زندہ معجزات ہیں یا جتنی قدرت کی نشانیاں ہیں، ان میں سب سے بڑا معجزہ اور سب سے عظیم قدرت کی نشانی خود اللہ کا نورانی ظہور اور اس کا پاک دیدار ہے۔

دیدارِ الٰہی کا نہ صرف اشارہ بلکہ اس کا واضح ذکر قرآن و حدیث کے بہت سے ارشادات میں موجود ہے، من جملہ سورۂ نور (۲۴) کی آیت نمبر ۳۵ میں غور سے دیکھئے کہ: مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌؕ (۲۴: ۳۵) میں ہادئ برحق کی مبارک پیشانی سے خدا کے نورِ اقدس طلوع ہو جانے کی مثال کس پرحکمت انداز سے بیان کی گئی ہے اس آیۂ مبارکہ کی تفسیر و تشریح سے کتابوں کے صفحات بھرے ہوئے ہیں، کہ ربّ العزّت کے نور کی نیابت و نمائندگی کا یہ شرف صرف انسانِ کامل ہی کو حاصل ہے، لیکن یہ بھی تو حقیقت ہی ہے کہ حقیقی مومن انسانِ کامل کے انتہائی قریب ہوتا ہے، لہٰذا اس مقدّس نور کا ایک مکمل نمونہ، ایک روشن مثال اور ایک زندہ عکس

۱۵

ایسے مومن کے دل کے تخت پر ہونا چاہئے، جو ایمان کے درجۂ کمال پر ہے، تو یہ ہوا کسی حقیقی مومن کے عرشِ دل پر رحمان کے پاک نور کا جلوہ گر ہونا۔

قدرتِ خداوندی اور معجزۂ الٰہی ہمیشہ سے تعجب خیز ہی ہوا کرتا ہے، اور اس تعجب و حیرت کے معنی میں یہ کیفیّت و حقیقت پنہان ہے، کہ انسانی عقل قدرت و معجزہ کی توجیہہ کرنے سے عاجز و قاصر ہو جاتی ہے اور وہ اس سلسلے کے غور و فکر میں ہر بار ناکام ہو کر رہ جاتی ہے، کیونکہ قادرِ مطلق کی قدرت اور معجزہ عقلِ جزوی کی سمجھ سے ماوراء ہے۔ ہاں اگر اس میں اللہ تعالیٰ کی نورانی تائید نے دستگیری کی تو وہ اور بات ہے۔
اگرچہ روح بذاتِ خود ایک ناقابلِ تقسیم جوہر ہے، لیکن یہ جہاں جسمِ لطیف یا اثیر (Ether) سے وابستہ ہے، وہاں ایسے فلکی جسم کے لاتعداد ذرّات روح کے ذرّات متصوّر ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک پر روح سوار ہے یا وہ روح کی گرفت میں ہے، لہٰذا وہ اڑتے ہوئے آتے جاتے ہیں اور ان میں سے بےشمار ذرّے قالبِ عنصری میں بھی سموئے ہوئے ہیں، چنانچہ نقطۂ دل یا نقطۂ روح سے وہ زندہ ذرّہ مراد ہے جو دل و دماغ کے

۱۶

ربط و اشتراک کے مقام یعنی شعور کے مرکز پر کام کرتا ہے، پھر جب ذکرِ الٰہی کا سلسلہ اپنی تمام شرطوں کی تکمیل کے ساتھ جاری رہتا ہے تو اس وقت نتیجے کے طور پر یہ لطیف ذرّہ، جو انسانی حیات و بقا کا مرکز ہے، روشنی میں تحلیل و تبدیل ہو کر دوسرے بہت سے ذرّات کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ روحانی روشنی کا دائرہ پھیلتا جاتا ہے، یہاں تک کہ یہ دائرہ کائنات کی وسعتوں کو پا لیتا ہے، قرآنِ حکیم کی ۰۶: ۱۲۵، ۲۰: ۲۵، ۳۹: ۲۲، ۹۴: ۰۱، میں شرحِ صدر یعنی وسعتِ قلبی کے عنوان سے اس روحانی حقیقت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

نقطۂ قرآن :

ترجمۂ شعر نمبر ۲: قرآن کے تمام معنوں کا باہم مل کر ایک ہی نقطہ بن جانا حیرت انگیز حکمت ہے، پھر اسی ایک نقطے کے معانی کی کثرت سے قرآن بھر جانا بڑی عجیب بات ہے۔

تشریح: اس حقیقت میں کوئی شک ہی نہیں کہ قرآنِ مقدّس علم و حکمت کی ایک عظیم کائنات ہے، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کتابِ الٰہی اتنی عظمت اور وسعت کے باؤجود اپنے نقطۂ آغاز میں سمو جاتی ہے، اس پُرحکمت اور معجزاتی نقطے کو روحِ قرآن تصوّر کریں، یا نور مان لیں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ذکر سمجھیں،

۱۷

جو حضورؐ نے خصوصی عبادت کے طور پر انجام دیا تھا، یا کہیں کہ بائے بسم اللہ کا نقطہ ہی ایسے معنی میں ہے، بہر صورت یہ حقیقت نکھر نکھر کر سامنے آئی کہ جس طرح قرآنِ مقدّس کا ایک رخ تفسیر و تشریح اور کثرتِ معانی کی طرف ہے، اسی طرح اس کا دوسرا رخ اسمائے عظّام اور کلماتِ تامّات کے ذریعے سے معنوی مرکزیّت اور وحدت کی جانب بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۴) میں قرآن اور نورِ قرآن (یعنی معلمِ کتاب) کی تشبیہہ ایک پاک درخت سے دی ہے، جس کا اشارہ یہ ہے کہ قرآن جہاں روحانیّت کے مقام پر حکمت ہے وہاں پر یہ میوہ اور مغز ہے اور جس جگہ یہ کتاب ہے اس جگہ قرآن درخت ہے، جیسا کہ خود قرآن میں کتاب اور حکمت دونوں چیزوں کا الگ الگ ذکر آیا ہے، اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح پورا درخت پھل اور مغز میں سمٹ سمٹ کر سمو جاتا ہے، بالکل اسی طرح قرآن کے تمام علم کو حکمت میں سمو دیا گیا ہے، اسی معنیٰ میں ارشاد ہوا ہے کہ: و من یوت الحکمۃ فقد اوتی خیراً کثیراً (۰۲: ۲۶۹)

۱۸

اور جس کو حکمت دی گئی تو اس میں شک نہیں کہ اسے بہت سی خوبیاں دی گئیں۔

قرآنِ پاک کی ایسی مرکزیّت و جامعیّت کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ ہے کہ اس کے تمام مطالب و حقائق ام الکتاب (سورۂ فاتحہ) میں مجموع ہیں اور اس کا لبِ لباب اور آخری مجموعہ بائے بسم اللہ کا نقطہ ہے، گویا “الحمد” درختِ قرآن کا میوہ اور بسم اللہ الرحمن الرحیم اس میوہ کا مغز ہے اور حرف باء کا نقطہ مغز کا وہ ذرّہ ہے، جس کے اندر درخت اگانے کی روح پوشیدہ ہوتی ہے۔

قطرے کا سمندر بن جانا:

ترجمۂ شعر نمبر ۳: سمندر کا بادل اور بارش ہو کر ایک قطرے کی شکل اختیار کر لینا عجیب ہے، پھر ایک قطرے کا دریا کے ساتھ مل کر سمندر بن جانا عجیب ہے۔

تشریح: پانی کی یہ گردش کی مثال خصوصاً روح اور روحانیت کے گول سفر کے لئے ہے جو لا انتہا ہے، اور اس میں تعجب کی بات تو یہ ہے، کہ کُل کیوں جزو کی طرف آتا رہتا ہے! جیسے سمندر کہ وہ بادل، بارش، اور قطرات کی صورت اختیار کر کے

۱۹

اپنے آپ کی نمائندگی کرتا ہے، اور دوسری طرف عجیب واقعہ یہ ہے کہ ایک قطرہ جب ندی سے مل گیا، تو وہ زبانِ حال سے کہنے لگا کہ میں ندی ہوں، جب ندی آگے بہہ کر دریا کے ساتھ مل گئی تو قطرے نے دعویٰ کیا کہ اب میں دریا بن گیا، اور جس وقت دریا بہتے بہتے سمندر میں جا گرا تو قطرہ بول اٹھا کہ میں اس وقت سمندر ہوں اور اس سے پہلے بھی میں سمندر تھا، وہ گویا یہ بھی کہتا ہے کہ میں اس حال میں نہ صرف سمندر ہوں بلکہ وہ سب کچھ ہوں جو کچھ پانی کے اجزاء میں سے ہے یا جس میں پانی کا دخل ہے۔

پانی کا یہ دائمی چکر قانونِ فطرت کی ایک نمایان مثال ہے جو ہر چیز کے ایک محدود دائرے میں گردش کرنے کی دلیل ہے، جیسے قرآنِ مجید کا ارشاد ہے کہ: و کل فی فلک یسبحون (۳۶: ۴۰) اور تمام چیزیں ایک ایک دائرے میں گردش کرتی ہیں۔

سمندر قطرے میں:

ترجمۂ شعر نمبر ۴: سمندر میں قطرہ سمو جانے کی مثال تو میں نے واضح

۲۰

طور پر دیکھ لی ہے (اور اس میں مجھے کوئی تعجب نہیں ہوا) لیکن قطرے کے تنگ وجود میں ایک سمندر کا سمو جانا عجیب بات ہے۔

تشریح: نفوسِ جزّوی قطروں کی مثال پر ہیں، اور نفسِ کلّی سمندر کی طرح ہے، سو نفوسِ خلائق کے نفسِ کلّیہ میں سمو جانے میں کوئی تعجب نہیں، مگر تعجّب اس بات میں ہے کہ کس طرح جزّو میں کُلّ سمو آیا! جبکہ عارف نے اپنی ذات ہی میں نفسِ کُلّ کا مکمل تصوّر کیا! جبکہ نورانیّت میں مشاہدہ اور دیدار ہوا! اور جبکہ معرفت یعنی شناخت حاصل ہوئی، یہ واقعہ ایسا معجزانہ ہے، جیسے قطرے کی چھوٹی سی ہستی میں سمندر سمو آیا ہو، چنانچہ حضرتِ امیر المومنین علی علیہ السّلام کا مبارک ارشاد ہے کہ:
و تحسب انک جرم صغیر
و فیک انطوی العالم الاکبر
ترجمہ: اور تو گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے۔

دل کی کائنات:

ترجمۂ شعر نمبر ۵: اس ظاہری وسیع جہان میں انسان کا سمو رہنا تو یقینی بات ہے، لیکن انسان کے اس مٹھی بھر دل میں ایک عظیم روشن دنیا کا وجود

۲۱

حیرت خیز ہے۔

تشریح: کسی شاعر نے کہا ہے کہ:

رفتم بسوی دریا دیدم عجب تماشا
دریا درونِ کشتی، کشتی درونِ دریا

یعنی جب میں دریا کی طرف گیا تو عجیب تماشا دیکھا کہ دریا کشتی کے اندر تھا اور کشتی دریا کے اندر تھی، چنانچہ انسان ہر چند کہ خود جسمانی اعتبار سے اس وسیع و عریض کائنات کی ایک انتہائی چھوٹی سی جگہ پر محدود ہے، لیکن اس کے دل کے نقطے میں ہمیشہ ایک عظیم عالم سمویا ہوا رہتا ہے، جس کا نام موقع اور وقت کے مطابق بدلتا رہتا ہے، اور وہ اس طرح کہ اگر انسان بیدار ہے یعنی جاگتا ہے تواس کی یہ باطنی دنیا عالمِ خیال، یا عالمِ تصوّر یا عالمِ تفکّر کہلاتی ہے، اگر وہ سویا ہوا ہے تو یہ عالم اس وقت عالمِ خواب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اور اگر آدمی خواب و خیال سے گزر کر روحانی کیفیّت میں مستغرق ہے تو اس وقت اس کے دل کی دنیا کو عالمِ روحانیّت کہا جاتا ہے۔

:بس نقطہ ہی نقطہ

ترجمۂ شعر نمبر ۶: (تعجب ہے کہ علم و حکمت کی بنیاد صرف ایک ہی نقطہ ہے

۲۲

اور بس، چنانچہ) نقطہ کی رفتار کی شکل سے حرف اور حروف کے ملانے سے لفظ (کا بننا) لفظ کا جملہ (بننا اور) جملے کا فرقانِ حکمت بن جانا از بس عجیب ہے۔

تشریح: یہ ایک عجیب حکمت ہے کہ تمام حروف کے ظاہر و باطن میں نقطہ ہی نقطہ ہے، کیونکہ سارے حروف کی ترکیب و ساخت صرف نقطے ہی سے ہے، جبکہ مختلف شکلوں میں نقطہ کے چلنے سے حروف بنتے ہیں، گویا سارے حروف نقطے کے نقوشِ پا ہیں، اور وہ اس طرح کہ جب کوئی لکھنے والا کسی حرف کی شکل بنانا چاہتا ہے تو وہ سب سے پہلے شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر قلم کی نوک کے دباؤ سے نقطہ بناتا ہے پھر رکے بغیر فوراً ہی اسی نقطے کو مختلف اطراف میں چلا کر حرف کی یا حروف کی شکلیں بناتا ہے، سو یہ ہوا نقطے کی رفتار کی شکل سے حرف بن جانا۔

اس شعر میں جو لفظ “فرقان” استعمال کیا گیا ہے، اس کے یہاں کم سے کم دو معنی مراد ہیں، وہ قرآنِ کریم اور کلمۂ نور ہیں، قرآنِ پاک کا مرتبہ تو سب پر ظاہر ہے، لہٰذا یہاں صرف کلمۂ نور کے بارے میں کچھ وضاحت کی جاتی ہے، کہ قرآنِ مجید کی ۰۴: ۱۷۴ ، اور ۰۵: ۱۵ میں جس نورِ مقدّس کا ذکر آیا ہے، وہ نور یقیناً آنحضرت

۲۳

صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے حقیقی جانشین ہیں، چنانچہ ہادئ برحق کے اس نور کی روحانیّت اور معرفت کے سلسلے میں ایک انتہائی پرحکمت کلمہ سامنے آتا ہے، جس کو کلمۂ نور کہا جاتا ہے، جو انسانِ کامل کی مبارک آواز میں دہرایا جاتا ہے، پس یہی کلمہ حقیقی مومن کی ذاتی روحانیّت میں فرقان یعنی علم و حکمت کی باتوں میں تحقیق و تدقیق کرنے کا معجزہ ہے، اور ہادئ برحق کے نور کی عظیم ترین علامت ہے، یہی سبب ہے کہ اس کو کلمۂ نور کہا گیا ہے۔

نقطہ اور کتابِ کائنات:

ترجمۂ شعر نمبر ۷: حروف کا سرِ آغاز الف (ہے اور الف) کے سر پر نقطۂ توحید کو پہچان لے، نور کے ایک ہی نقطے سے کتابِ کائنات کی جو تخلیق و تکمیل ہوئی اس میں بڑی حیرت ہے۔

تشریح: آگے چل کر بھی اس کا ذکر آئے گا کہ ہر چیز کا وجود کئی نقطوں کے مجموعے پر قائم ہے، پس نقطہ ہی ہر وجود کی وحدت و سالمیّت کا ذریعہ ہے، اور نقطہ ہی روحانی اور جسمانی طور پر حقیقی عدل و انصاف اور مساوات کا وسیلہ ہے۔

نیز اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے کتابِ کائنات بنائی تو اس میں قلمِ الٰہی کی مثال کے مطابق سب سے پہلے نور کا

۲۴

ایک ہی نقطہ بنایا گیا ، اور اسی کے ذریعے سے کائنات و موجودات کی تخلیق ہوئی، جیسے حروفِ تہجی کے آغازمیں الف ہے، اور الف کی چوٹی پر نقطۂ آغاز پوشیدہ ہے، جس سے تمام حروف کی ترکیب ہے اور ساری تحریر دراصل اسی ایک نقطے سے بنتی ہے۔

شخصی روحانیّت کے عالم میں بھی یہی مثال ملتی ہے، کہ اس کی تخلیق کا آغاز بھی نقطۂ نور ہی سے ہوتا ہے، اور یہاں نقطۂ نور سے میری مراد وہ اسمِ بزرگ یا پُرحکمت کلمہ ہے جو مرشدِ کامل اپنی زبانِ درفشان سے پڑھ کر مرید کو سناتے ہیں، اور یہی مقدّس تلفظ حقیقی مومن کی روحانی تخلیق کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے، اور بندۂ مومن اسی مبارک اسم کے ذریعہ ذکرِ الٰہی کی طرف خصوصی طور پر متوجّہ ہو جاتا ہے۔

وحدت اور کثرت:

ترجمۂ شعر نمبر ۸: قلمِ قدرت کی نوک پر بھی توحید کا نقطہ تھا، وحدت کے فعل میں کثرت کا امکان ہونا تعجب خیز بات ہے۔

تشریح: جیسا کہ شعر نمبر ۷ کی تشریح میں اوپر بتایا گیا کہ قلمِ الٰہی نے لوحِ محفوظ پر جو کچھ لکھ دیا اس میں سب سے پہلے نقطۂ توحید

۲۵

وجود میں آیا یعنی جب عقلِ کلّی نے نفسِ کلّی کی تخلیق کا آغاز کیا تو سب سے پہلے نفسِ کُلّ کا نور وجود میں آیا، اور اس کے بعد اسی نور کے وسیلے سے وہ تمام چیزیں پیدا کی گئیں، جو لوحِ محفوظ (نفسِ کُلّی) پر قائم ہیں، تو یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ قلمِ الٰہی کا فعل بطورِ نمائندگی کے خدا کا فعل تھا، تو اس میں بجائے وحدت کے کثرت کیوں آگئی؟ یعنی وحدت سے وحدت کیوں نہ پیدا ہوئی کہ کثرت پیدا ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل وحدت سے کثرت پیدا ہوئی ہی نہیں، بلکہ وحدت سے وحدت ہی پیدا ہوئی ہے، کیونکہ جس کثرت کے متعلق یہاں سوال پیدا ہوا ہے وہ حقیقت میں کثرت نہیں، بلکہ وحدتِ کثرت نما ہے، یعنی وہ ایک ایسی وحدت ہے جو بظاہر کثرت نظر آتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے کہ: ما خلقکم و لا بعثکم الا کنفسٍ واحدۃٍ (۳۱: ۲۸) تم سب کا پیدا کرنا اور زندہ کرنا بس ایسا ہی ہے جیسا ایک شخص کا۔ اس فرمانِ خداوندی سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ ازل میں بھی اور ابد میں بھی نفسِ واحدہ (نفسِ کُلّی) کے ساتھ نفوسِ خلائق کی وحدت قائم ہے، کیونکہ یہ تمام نفوس اس کے

۲۶

اجزاء کی حیثیت سے ہیں، چنانچہ جب وہ پیدا ہوا تو یہ بھی پیدا ہوئے، اور جس وقت وہ عقلِ کُلّ کے درجے پر پہنچے گا تو یہ بھی اس مرتبے پر پہنچے گے، اور آیۂ مذکورۂ بالا کا مطلب یہی ہے۔

نقطۂ ابتداء اور نقطۂ انتہا:

ترجمۂ شعر نمبر ۹: نقطے ہی سے (ہر چیز کی) ابتداء اور نقطے ہی سے انتہا ہوتی ہے، نقطے ہی میں حد اور فاصلہ (کا راز) پنہان ہونا قابلِ تعجب ہے۔

تشریح: یہ امرِ واقعی ہے کہ جسم ہو یا کہ جان ہر چیز کی تخلیق کا آغاز نقطے ہی سے ہوتا ہے، پھر ذرّہ ذرّہ اور نقطہ نقطہ بڑھتے ہوئے اس کی تکمیل ہو جاتی ہے، اور پھر کسی نقطے پر جا کر اس کی انتہا ہو جاتی ہے، اسی طرح چیزوں کی تقسیم و تمیز اور کمی و بیشی کی حقیقی حد اور فاصلے کا صحیح تعین بھی نقطے ہی سے ہو سکتا ہے۔

قانونِ قدرت کے حساب کتاب اور لین دین کی نزاکت و باریکی بھی ذرّہ شماری تک پہنچ جاتی ہے، جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: فمن یعمل مثقال ذرۃٍ خیرا یرہ (۹۹: ۰۷) و من یعمل مثقال ذرۃٍ شرا یرہ (۹۹: ۰۸) سو جو شخص ذرّہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا اور جو شخص ذرّہ برابر بدی کرے

۲۷

گا وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اس کا اشارہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اعمال نامہ زندہ معجزاتی ذرّات کی صورت میں دیا جائے گا، جیسے حق تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: و نخرج لہ یوم القیامۃ کتٰبا یلقہ منشورا (۱۷: ۱۳) اور قیامت کے دن ہم (نامۂ اعمال) اس کے لئے نکال لیں گے ایک بکھری ہوئی کتاب اس پر ڈالی جائے گی۔ یعنی روحانی ذرّات کی کتاب اس پر ڈالی جائے گی۔

نقطۂ تعلق :

ترجمۂ شعر نمبر ۱۰: نقطے میں روح اور جسم کا تعلق اور ملاپ ہے، نقطے ہی سے برابری، بیشی اور کمی کا تعین ہونا حیران کن امر ہے۔

تشریح: جسم کی دو قسمیں ہیں، جسمِ کثیف اور جسمِ لطیف، چنانچہ جسمِ کثیف سے روح کا تعلق چند روزہ اور عارضی ہے اور وہ بھی براہِ راست نہیں، مگر جسمِ لطیف کے ساتھ روح کی وابستگی مستقل اور دائمی ہے، لیکن یاد رہے کہ جسمِ لطیف کچھ نورانی ذرّات پر مشتمل ہے، لہٰذا اس شعر میں کہا گیا ہے کہ روح اور جسم کا تعلق نقطہ ہی میں ہوتا ہے، اور یہاں نقطے سے جسمِ لطیف کے ذرّات مراد ہیں، جو روحِ اعظم کے کائناتی سمندر میں بھی ہیں اور انسانی جسم میں بھی۔

۲۸

ہمارے اس جسمِ کثیف کے اندر جسمِ لطیف کے انتہائی چھوٹے چھوٹے لاتعداد ذرّات موجود ہیں اور روح کا تعلق براہِ راست انہی ذرّات سے ہے، جن میں روحِ نباتی، روحِ حیوانی، روحِ انسانی اور روحِ قدسی کی پذیرائی و قابلیّت موجود ہوتی ہے، جسمِ لطیف کے قرآنی ناموں میں سے ایک نام سلالہ ہے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے کہ: و لقد خلقنا الانسان من سلٰلۃ من طین (۲۳: ۱۲) اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ (جوہر) سے بنایا۔ یعنی جسمِ لطیف سے انسان کی مکمل خلقت ہوئی، چونکہ فرمایا گیا ہے کہ: “ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے بنایا۔”

تو ان مبارک الفاظ میں تخلیق کے تمام معنی آ گئے، یعنی اللہ تعالیٰ کے اسی حکم کے تحت آدم اور ابنِ آدم کی وہ شخصیت ثابت ہو گئی، جو فلکی اور لطیف جسم کی ہے اور جس کو مٹی کا جوہر کہنا بھی حقیقت ہے، کیونکہ مٹی کا جوہر فلکی جسم ہی ہے۔

پھر فرمایا گیا کہ: ثم جعلنٰہ نطفۃً فی قرارٍ مکینٍ (۲۳: ۱۳) پھر ہم نے اس کو نطفہ بنایا جو کہ (ایک مدتِ معیّنہ تک) ایک محفوظ مقام (یعنی رحم) میں رہا۔ یعنی انسان کی اس شخصیتِ لطیف کو بحال و برقرار رکھتے ہوئے پروردگارِ عالم نے اس کے کچھ لطیف

۲۹

ذرّات کو نطفے کی صورت دی جس طرح کہ قانونِ فطرت کا تقاضا ہے۔ اور یہ ساری حکمت کسی مخلوق کے بارے میں “خلق” کے بعد “جعل” آنے کے اصول میں پوشیدہ ہے، پس اس بیان سے نہ صرف یہ حقیقت روشن ہوئی کہ ہمارے جسمِ کثیف کے اندر جسمِ لطیف کے بے شمار ذرّات سموئے ہوئے ہیں جن میں سے ہر ایک کے ساتھ روح کی وابستگی ہے، جس کی وجہ سے ہمارا یہ جسم زندہ اور قائم ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوا کہ ہماری ایک اور شخصیّت بھی ہے جو فلکی جسم پر قائم ہے۔

نقطے سے ۔ جس سے ذرّہ مراد ہے ۔ برابری، کمی اور بیشی کا تعین ہونا اس طرح ہے، کہ لوگ چیزوں کی مقدار اور ظاہری مساوات کے سلسلے میں جہاں برابری تصوّر کرتے ہیں، وہ برابری ہرگز حقیقی نہیں ہے، یہ امر حقیقی تب ہو سکتا ہے جبکہ ایک ذرّہ بھی کم یا زیادہ نہ ہو، سو اس سے پتہ چلا کہ برابری، کمی اور بیشی کی حد دراصل ذرّہ اور نقطہ ہی ہے۔

ذرّاتِ لطیف کی بارش:

ترجمۂ شعر نمبر ۱۱: نقطوں سے آسمان اور زمین اور تمام موجودات (پیدا ہوئیں) نقطوں سے روحانی بارش برس کر طوفان کا برپا ہو جانا کس قدر انوکھی بات ہے۔

۳۰

تشریح: کائنات و موجودات کی ہر چیز کی ترکیب و تخلیق ذرّات کے مجموعے سے ہے، اور ان میں سے کوئی چیز یک لخت نہیں، خواہ پتھر کیوں نہ ہو، وہ اصل میں ذرّات پر مبنی ہے، چنانچہ آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، عناصر، جمادات، نباتات اور حیوانات سب کے سب ذرّات سے بنائے گئے ہیں۔

یہ بات روحانی حقیقتوں میں سے ہے کہ ہادئ برحق کی ہدایت و عنایت اور حقیقی مومن کی خصوصی عبادت و ریاضت کے نتیجے میں جب انفرادی اور ذاتی نوعیت کی قیامت قائم ہوتی ہے اور جس وقت صورِ اسرافیل کی حیرت انگیز آواز شروع ہو کر بلند سے بلند تر ہو جاتی ہے، اور جب کوئی پکارنے والا ایک عجیب نام سے روحوں کو پکارتا رہتا ہے، تو اس وقت جسمِ لطیف کے نہایت ہی چھوٹے چھوٹے ذرّات سے منسلک ہو کر آفاق و انفس کی لاتعداد روحیں امنڈ امنڈ کر مومن کی شخصیت میں داخل ہو جاتی ہیں، یہی واقعہ قرآنِ حکیم کی ایک مثال کے مطابق انتہائی سخت بارش اور طوفان کہلاتا ہے، چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ حضرت نوح علیہ السّلام کے آبی طوفان کے پس منظر میں روحانیّت کا ایسا طوفان بھی برپا ہوا تھا جیسے ارشادِ ربّانی ہے کہ:

۳۱

و قیل یا ارض ابلعی مائک و یا سمآء اقلعی (۱۱: ۴۴) اور حکم ہوا، کہ اے زمین اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان (برسنے سے ) تھم جا۔ یعنی اے شخصیّتِ نوحؑ! اب تو اپنی لاتعداد روحوں کو پہلے کی طرح اپنے اندر جذب کئے رکھ اور اے حدودِ روحانی! تم اب اپنی بے پناہ روحوں کو نوح کی طرف نہ بھیجا کرو۔ نیز ارشاد ہے کہ: “کہا گیا اے نوح (اب) اترو ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں لے کر” (۱۱: ۴۸) یعنی روح اور روحانیّت کی شناخت کے نتیجے میں دونوں جہان کی سلامتی اور علم و حکمت کے فیوض و برکات کے ساتھ تنزیل کی بلندی سے تاویل کی زمین پر اترو۔

نقطۂ نور :

ترجمۂ شعر نمبر ۱۲: اس کے نور کا نقطہ میری رگِ جان سے بھی زیادہ مجھ کو قریب ہے، رب العزت کا میرے غریب دل میں مہمان ہونا حیرت کی بات ہے۔

تشریح: اس بیت کے پیش مصرع میں اس آیۂ کریمہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ: و نحن اقرب الیہ من حبل الورید (۵۰: ۱۶) اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ یعنی

۳۲

خداوند تعالیٰ کے نور کا عکس، جس کا ذکر شعر نمبر ۱ کی تشریح میں بھی ہو چکا، مومن کی “انا” سے انتہائی قریب ہے، پس اگر اس نمائندگی کی مثال میں پروردگارِ عزت میرے مفلس دل میں مہمان ہوا ہے تو تعجب ہی تعجب کیوں نہ ہو، جبکہ میرے غریب دل میں کوئی ایک چیز بھی اس کی شانِ عالی کے لائق نہیں۔

امرِ کن:

ترجمۂ شعر نمبر ۱۳: اُس وقت (یعنی ازل میں) جبکہ کوئی بھی فرمانبردار موجود نہ تھا تو امر کا نفاذ کس طرح ہوا؟ نیستی کی طرف “کُنۡ” (یعنی ہو جا) کہہ کر فرمان نافذ کر دینا تعجب خیز بات ہے۔

تشریح: یہ ایک ایسا اہم سوال ہے، کہ اس کے جواب کے ذریعے سے تخلیقِ کائنات کے عظیم بھیدوں سے پردہ ہٹایا جا سکتا ہے، اس سلسلے میں آپ میری ایک کتاب “میزان الحقائق” کا مطالعہ کریں، خصوصاً اس مضمون کا جو امرِ “کُنۡ” کے بارے میں ہے، یہ سوال اس بناء پر کیا گیا ہے کہ پروردگارِ عالم کے “کُنۡ” کے فرمان کا اطلاق نیستی اور لا شیئیت( Non-existence and nothingness ) پر نہیں ہوتا،    بلکہ اس کا اطلاق کسی ایسی مخلوق پر ہوتا ہے جس کی جسمانی

۳۳

تخلیق مکمل ہو جانے کے بعد اسے روحانی صورت دینی ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت آدمؑ اور حضرت عیسیٰؑ کی جسمانی خلقت کے بعد ان کی روحانی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے کُنۡ فرمایا تھا، جس کے بارے میں ارشاد ہے کہ: اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ (۰۳: ۵۹) بے شک عیسیٰ (کی خلقت) کی مثال خدا کے نزدیک آدم (کی خلقت) کی طرح ہے کہ اس کو مٹی سے بنایا پھر اس سے کہا کہ ہو جا تو وہ ہو گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ آدمؑ اور عیسیٰؑ دونوں کی پیدائش ایک طرح کی ہے، اب اس سلسلے میں آپ خود غور کریں کہ: “اس کو مٹی سے بنایا” کے اس ارشاد میں آدمؑ و عیسیٰؑ کی مکمل جسمانی تخلیق کا ذکر ہے یا صرف مٹی کے بے جان پتلا بنانے کا قصّہ ہے؟ آپ ضرور مان لیں گے کہ اس میں ان دونوں بزرگ پیغمبروں کی ظاہری اور جسمانی تخلیق “کُنۡ” کے امر سے پہلے مکمل ہو جانے کا ذکر ہے، اور پھر اس کے بعد “کُنۡ” فرمایا گیا ہے، پس اس سے معلوم ہوا کہ امرِ کُنۡ روحانی حیثیت کی تکمیل کے لئے ہے نہ کہ “لا شیٔ” کو شیٔ بنانے کے لئے اور نہ ہی نیستی سے کوئی چیز ہستی میں لانے کے

۳۴

لئے، اہلِ دانش کے لئے اتنا کچھ کہنا کافی ہے۔

:نقطۂ واسط

ترجمۂ شعر نمبر ۱۴: دراصل “کُنۡ” عالمِ خلق اور عالمِ امر کے درمیان نقطے (حد) کا فعل ہے، انسان کی روح اور جسم میں ہی “کُنۡ فیکون” کا واقعہ تعجب خیز بات ہے۔

تشریح: عالمِ خلق یہ ظاہری دنیا ہے، جو عالمِ اجسام ہے اور عالمِ امر عالمِ باطن ہے، جس کو عالمِ ارواح بھی کہا جاتا ہے، اگرچہ یہ دونوں جہان ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ جسم و جان کی طرح باہم مل کر ہیں کیونکہ یہ ایک دوسرے کے جسم و جان ہیں ہی، تاہم جس معنیٰ میں یہ دو ہیں، اس معنیٰ میں یہ دونوں عالم پہلو بہ پہلو ہیں، اور ان دونوں کے درمیان حدِ فاصل ہے، جس کو یہاں نقطۂ واسط کہا گیا ہے، اور یہی نقطۂ واسط وہ مقام ہے جہاں امرِ کن کا فعل وقوع میں آتا ہے، یہ مقام مثال کے طور پر “کن فیکون” کا دروازہ ہے جو عالمِ امر اور عالمِ خلق کے درمیان قائم ہے، چنانچہ جب عالمِ خلق کی کوئی چیز جسمانی اور روحانی طور پر مکمل ہو کر عالمِ امر سے واصل ہونے لگتی ہے تو اس نقطۂ واسط سے یا اس دروازے سے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پر امرِ کُنۡ کا فعل واقع ہوتا ہے اور وہ آنِ واحد میں عالمِ امر کے ساتھ مل جاتی ہے۔

چونکہ انسان کی روح اور جسم ہی ہر طرح کی روحانیّت کی تجربہ گاہ

۳۵

ہے، لہٰذا کُنۡ فیکون کی تمام تر حکمتیں آدمی کی شخصیّت ہی میں پوشیدہ ہیں، پس مومن کو چاہئے کہ وہ اپنی شناخت کے خزانوں سے ان بھیدوں کو پانے کے لئے جدوجہد کرے، ان شاء اللہ تعالیٰ اسے کامیابی ہو گی۔

:معجزاتی کلمہ

ترجمۂ شعر نمبر ۱۵: (جو) ہمیشہ نورانی پھل دینے والا علم کا زندہ درخت (ہے اس کا ایک) پاکیزہ کلمے کی صورت میں ہو کر حکمت کی دلیل بن جانا ازبس متعجب ہے۔

تشریح: اس معجزاتی کلمے کا ذکر شعر نمبر ۶ میں بھی ہو چکا ہے جس کے متعلق قرآنی ارشاد سورۂ ابراہیم (۱۴) آیت نمبر ۲۴، ۲۵ (۱۴: ۲۴ تا ۲۵) میں ہے، چنانچہ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ روحانیّت اور قرآن کے علم و حکمت کے خاص خاص مراکز ہوا کرتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے اسمائے بزرگ اور کلماتِ تامّات کی صورت میں ہوتے ہیں، اسمِ اعظم کے بارے میں آپ بہت سی باتیں جانتے ہوں گے، مگر کلمۂ تامّہ کے متعلق مجھے معلوم نہیں کہ آپ کچھ جانتے ہیں یا نہیں، بہرحال میں خداوند برحق کی توفیق سے اس کی بابت کچھ وضاحت کرتا ہوں کہ کلماتِ تامّات قرآن اور روحانیّت میں کچھ ایسے کلمے ہیں، جو

۳۶

ان میں سے ہر ایک علم و حکمت کی فراوانی کے اعتبار سے بجائے خود ایک مکمل صحیفہ یعنی کتاب ہے، اور ان کلمات کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ یہ حدودِ روحانی کے تصرّف میں ہوتے ہیں، تا کہ اس ذریعے سے حقیقی مومنین کو رشد و ہدایت کا زیادہ سے زیادہ فیض پہنچا دیا جائے، چنانچہ ارشاد ہے کہ:  فِیْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ  مَّرْفُوْعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ  بِاَیْدِیْ سَفَرَةٍ  كِرَامٍۭ بَرَرَةٍ (۸۰: ۱۳ تا ۱۶) وہ (قرآن) ایسے صحیفوں (یعنی کلماتِ تامات) میں ہے جو مکرم ہیں عالی شان ہیں پاک ہیں جو ایسے لکھنے والوں (یعنی فرشتوں) کے ہاتھوں میں (رہتے) ہیں کہ وہ مکرّم (اور) نیک ہیں۔ یہ کلماتِ تامّات کی قرآنی تعریف و توصیف ہے، اور لکھنے والے فرشتوں کی تاویل یہ ہے کہ وہ روحانی حدود ان کلمات سے حقدار مومنین کو علم و حکمت کا فیض پہنچاتے رہتے ہیں، گویا وہ اسی معنیٰ میں مومنوں کے دل و دماغ میں لکھتے جاتے ہیں۔

:کلمۂ علیا

ترجمۂ شعر نمبر ۱۶: اثبات، نفی اور حق کے راز کی حکمت انتہائی عظیم ہے، ایک اعلیٰ کلمے (یعنی کلمۂ علیا) کا میزانِ حقائق (حقیقتوں کی ترازو) بننا حیرت انگیز ہے۔

۳۷

تشریح: واضح ہو کہ کلماتِ تامّات میں جو سب سے اونچا اور سب سے عظیم ہے، وہ کلمۂ باری تعالیٰ ہے اس کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ وہ کلمۂ امریہ ہے، اس لئے اس کا نام کلمۂ “کن” بھی ہے، اس کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ اس میں نفی اور اثبات کے دونوں پہلو ہیں، جن میں لا ابتداء اور ابتداء کے پُرحکمت اشارات پوشیدہ ہیں، یہ کلمہ دراصل ایک علمی نور ہے، جو ازل و ابد، لامکان و مکان، لازمان و زمان، اور کائنات و موجودات کے آغاز و انجام جیسے اعلیٰ حقائق کے تصوّرات کے لئے خاص ہے، اسی مقام پر روحانیّت کی سب سے اونچی مثل (المثل الاعلیٰ، ۱۶: ۶۰) بھی جلوہ گر ہے، جو کلمۂ باری سبحانہ کی حقیقتوں کی تائید و تصدیق کرتی ہے، یہ “المثل الاعلیٰ” جو قرآنی نام ہے گوہرِ عقل سے معیّن ہو جاتی ہے۔

کلمۂ باری حقیقتوں کی بلند ترین میزان (ترازو) ہے کہ نفی و اثبات گویا اس کے دو پلے ہیں اور حق جو ان دونوں سے برتر ہے وہ ترازو کا دستہ ہے، یہاں “حق” ایک مخصوص اصطلاح کے طور پر آیا ہے، آپ اس کو ایسی حقیقت سمجھیں جو نفی اور اثبات دونوں سے بالاتر ہے۔

۳۸

:دائرۂ روح

ترجمہ شعر نمبر ۱۷: روح کے دائرے کا کوئی قرار نہیں (لیکن) مرکز میں سکون ہی سکون ہے (ان بے قرار روحوں کا) جہان سمیت پرکار کی طرح گردش کرنا حیرت کی بات ہے۔

تشریح: اس کائنات کے باطن میں کیا ہے؟ اور یہ آسمان کس وجہ سے ہمیشہ گردش کرتے رہتے ہیں؟ اس کائنات کے اندر نفوس طبعی کا ایک عظیم سمندر پنہان ہے، جو دائرۂ پرکار کی شکل کا ہے، چنانچہ نفسِ طبعی کا یہ سمندر ہمیشہ گھومتا رہتا ہے لہٰذا آسمان اس کی وابستگی کی بدولت گردش کرتے رہتے ہیں، اور ان طبعی نفوس کی اس حرکت کی وجہ یہ ہے کہ ان کی فطرت میں مرکز کی تلاش کا جذبہ رکھا گیا ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ یہ سب کچھ نفسِ کلّی کے دباؤ کے سبب سے ایسا ہوتا ہے، بہرحال اس دائرے کے مرکز میں سکون ہے، اور اس کے باہر بے قراری، حیرت اور دائمی گردش ہے۔

:وحدتِ نورانیت

ترجمۂ شعر نمبر ۱۸: وہ خود مدینۂ علم (یعنی علم کا شہر) بن کر روحانی نعمتوں کا بے دریغ عطا کر دینا (اور) خود ہی جسمانیّت کا طلسماتی جامہ پہن کر اس شہر کے دروازے کا محافظ بننا حیرت انگیز ہے۔

۳۹

تشریح: حضرت رسولِ مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مولا علی علیہ السّلام سے فرمایا کہ: انت منی و انا منک ، یعنی تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ نیز پیغمبرِ برحق کا ارشادِ گرامی ہے کہ: انا مدینۃ العلم و علی بابھا : میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ جس حیثیت میں علیؑ نبیؐ سے ہیں اور نبیؐ علیؑ سے ہیں تو اس میں جسمانیّت کی بات نہیں، بلکہ یہ وحدت علمیت، روحانیّت اور نورانیّت کی ہے، اسی طرح جہاں آنحضرتؐ شہرِ علم ہیں اور جناب مرتضیٰؑ اس کا دروازہ ہیں، تو یہ بھی علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے نور کی بات ہے اور اس میں کسی جسمانی اور مادّی چیز کی تعریف ہے نہیں، چنانچہ جب شہر نور کا ہے اور دروازہ بھی نور کا ہے تو: “نور علیٰ نور” کے مطابق یہ نور ایک ہو جاتا ہے، اور اس سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ نورِ نبوّت اور نورِ امامت ایک ہی ہے، اور اسی معنیٰ میں کہا گیا ہے کہ جو نور علم کے شہر کی صورت اختیار کر کے اہلِ ایمان کو عقل و دانش کی نعمت و راحت مہیا کر دیتا ہے، وہی نور دراصل جسم کے طلسماتی لباس میں ملبوس ہو کر اس شہر کا دروازہ

۴۰

اور محافظ بھی بن گیا ہے، پھر اس میں تعجب کیوں نہ ہو۔

انسانِ کامل کی جسمانیّت و بشریت کی تشبیہہ و تمثیل طلسمی نقشہ سے اس لئے دی گئی ہے کہ جس طرح ناتجربہ کار لوگ کسی خزینہ و دفینہ کو دیکھنے کے باؤجود اس کے طلسم (سحر کا کوئی خوفناک نقشہ وغیرہ) سے ڈر کر حاصل نہیں کر سکتے، اسی طرح جب بھی نابلد لوگ ہادئ برحق کی روحانیّت و نورانیّت کے خزانوں کے حصول سے ناکام ہوئے تو اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ان کی نظر انسانِ کامل کی صرف بشریّت تک ہی محدود رہی تھی۔

ایک پرحکمت مثال:

ترجمۂ شعر نمبر ۱۹: ایک بڑے بت کو چھوڑ کر تیرے دل کے تمام بتوں کو توڑ ڈال، ایک پاک و پاکیزہ بت کے (عشق کے) کفر میں ایمان کا پوشیدہ ہونا تعجب کی بات ہے۔

تشریح: یہاں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اس قرآنی قصّہ اور مثال کی تاویلی حکمت کی طرف اشارہ ہے، جس میں آپ بڑے بت کو چھوڑ کر باقی تمام بتوں کو توڑ دیتے ہیں، سو یہ مثال عقل و دانش والوں کے لئے عرفانی حکمتوں سے بھرپور ہے۔

حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ کے اس عظیم الشّان کارنامہ کے

۴۱

ظاہر میں جو کچھ درسِ حکمت معلوم ہے، وہ تو مسلَّم ہی ہے، علاوہ برین اس میں یہ اشارہ بھی ہے، جس میں آپؑ نے بزبانِ حکمت بت پرستوں سے فرمایا کہ اگر ان مختلف بتوں سے تم متعدد خداؤں کو مراد لیتے ہو، تو تمہارا یہ نظریہ بالکل غلط ہے تم صرف اور صرف ایک ہی خدا کو مانو اور اگر تم انہیں ایک خدا کے بیک وقت کئی مظاہر کے طور پر مانتے ہو تو پھر بھی یہ عقیدہ قطعاً باطل ہے اور دیکھو تم خدائے واحد کا عقیدہ رکھو اور روئے زمین پر ایک وقت میں صرف ایک ہی خلیفۂ خدا کو تسلیم کرو اور صرف اسی ایک ہی کو مظہرِ نورِ خدا قرار دو اور بس، یہی تاویلی وجہ تھی جو خلیل اللہ نے فرمایا کہ: “بلکہ (باقی تمام بتوں کو توڑنے کا) یہ کام بڑے بت نے کیا۔” یعنی قانونِ یکتائی کا تقاضا یہی تھا، نیز بڑے صنم کی تاویل خود حضرت ابراہیمؑ کی شخصیّت ہے، اگر جناب ابراہیمؑ کے اس قول میں یہ تاویلی صداقت و حقیقت نہ ہوتی تو (نعوذ باللہ) آپ جھوٹ بولنے کے مرتکب ہو جاتے جو فرمایا کہ بڑے بت نے یہ کام کیا، حالانکہ بڑے بت نے بظاہر کوئی کام نہیں کیا تھا۔

اسی طرح انسانی دل و دماغ میں بھی دینی اور دنیاوی قسم کی بہت سی پیاری چیزوں کے تصوّرات موجود ہوتے ہیں، یہ گویا

۴۲

سب کے سب اصنام (بت) ہیں، جن میں آدمی کی محبّت جو ایک خصوصی طاقت ہے تقسیم ہو کر دینی مقصد کے حصول میں بری طرح ناکام ہو جاتی ہے، اسی لئے کہا گیا ہے کہ صرف خلیفۂ خدا اور خلیفۂ رسول کے تصوّر کو چھوڑ کر باقی تمام تصوّرات کو ختم کر دیا جائے تا کہ فوراً ہی روحانیّت میں ترقی ہو سکے۔

روح کی شناخت میں خدا کی شناخت :

ترجمۂ شعر نمبر ۲۰: کیا پروردگار اور نفسِ انسانی حقیقت میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں؟ (اگر نہیں تو) روح کی معرفت میں ذاتِ خدا کی معرفت کا مکمل ہو جانا تعجب کی بات ہے۔

تشریح: مولانا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے کہ: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ، جس نے اپنے آپ کو پہچانا یقیناً اس نے اپنے پروردگار کو پہچانا۔ اس مبارک فرمان سے جس نوعیّت کا سوال پیدا ہوتا ہے، وہ ظاہر ہے کہ انسان کی اپنی روح کی شناخت سے پروردگار کی شناخت اس وقت ہو سکتی ہے، جبکہ روح پروردگار کی مثال پر ہو، یہ سوال بڑی اہمیّت کا حامل ہے، جو نظریۂ یک حقیقت (Monorealism ) کی روشنی میں حل

۴۳

ہو سکتا ہے، مگر اس میں فوری وضاحت یہ ہے کہ روح آئینۂ جمال و جلالِ خداوندی ہے، جب روح کا یہ آئینہ مکمل طور پر صاف و روشن ہو جاتا ہے تو اس میں ربّ العزّت کی صفاتِ عالیہ کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے تا آنکہ ضروری معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔

انسان اپنی کس روح کے ذریعے سے خدا کی معرفت تک رسا ہو سکتا ہے، کیا وہ روحِ نباتی، روحِ حیوانی اور روحِ انسانی کے ذریعہ ذاتِ خدا کا عارف بن سکتا ہے یا اس میں کوئی اور روح چاہئے؟ ہاں اس کے لئے روحِ قدسی بھی چاہئے ورنہ معرفت ناممکن ہے، اور روحِ قدسی کے روحانی عجائبات کا مشاہدہ اور روحانیّت و نورانیّت کا دیدار انسانِ کامل کے وسیلے سے ہو سکتا ہے۔

اپنے آپ کی تجدید:

ترجمۂ شعر نمبر ۲۱: (جب بھی ضرورت ہوئی تو) میں آتشِ عشق سے پگھل کر اور حکمت کے سانچے میں ڈھل کر اپنے آپ کی تجدید کر لوں گا، اسی طرح نصیر کی علمی مشکلات کا آسان ہو جانا حیرت خیز بات ہے۔

تشریح: یہ حقیقی عشق ہی کا کمال ہے کہ بندۂ مومن کی ذہنی اور اخلاقی فرسودگی اور جمود کو دور کر کے بیداری، ہوشیاری، تقویٰ ، یقین، اور علم و حکمت جیسی نعمتیں عطا کر دیتا ہے، اور حقیقی عشق مرشدِ کامل

۴۴

کے بغیر حاصل نہیں ہوتا، کیونکہ خدا و رسول کا خلیفہ اور نمائندہ وہی ہیں اور روحانیّت کے رہنما بھی وہی ہیں۔

۴۵

فرہنگِ الفاظ

دیباچہ:
تائید = روحانی مدد۔
خوشنودی = رضامندی، خوشی۔
معنوی = معنی سے منسوب، باطنی، اندرونی۔
جامعیّت = ہمہ گیری، جس میں سب کچھ آ گیا ہو۔
وحدت و سالمیت = ایک ہونا، سالم ہونا۔
منازل = منزل کی جمع۔
مراحل = مرحلہ کی جمع۔
ذی شعور = عقل مند، ہوشیار۔
مجاہدہ = نفس کُشی، ریاضت، جدوجہد۔
آفاقی = کائناتی، ساری دنیا کا، عالمگیر۔
مشاہدات = مشاہدہ کی جمع، دیکھنا۔
منتج = نتیجہ دینے والا۔
اسرار = سر کی جمع، بھید، راز۔
دلدادہ = عاشق، فریفتہ۔
غیر فانی = لازوال، ہمیشہ رہنے والا۔
مبادا = ایسا نہ ہو، خدا نخواستہ۔
خود ستائی = اپنی آپ تعریف کرنا، اپنے منہ میاں مٹھو بننا۔
فنا پذیر = فانی، مرنے والا۔

عرشِ دل:
عرش = تخت۔
بحدِ فعل = کام کی حد میں، عملاً۔
بحدِ قوت = امکانی طور پر۔
نفوس میں =

۴۶

جانوں میں۔
عالمِ صغیر = چھوٹی دنیا۔
عالمِ کبیر = بڑی دنیا۔
نیابت = نائب ہونا، قائم مقامی۔
عکس = تصویر۔
توجیہہ = وجہ بیان کرنا، سبب بتانا۔
قادرِ مطلق = پوری پوری قدرت رکھنے والا، خدائے تعالیٰ۔
ماورأ = علاوہ، سوا۔
جسمِ لطیف = آسمانی جسم، ایتھری جسم۔
متصور = تصور میں لایا ہوا، خیال کیا گیا۔
قالبِ عنصری = وہ جسم جو چار عناصر سے بنتا ہے۔

نقطۂ قرآن:
معانی = معنی کی جمع۔
اسمائے عظام = خدا کے بڑے بڑے نام جو معجزانہ ہیں۔
کلماتِ تامّات = ایسے کلمے جو تائیدِ الٰہی کا ذریعہ اور علم و حکمت کا سرچشمہ ہوا کرتے ہیں۔
لبِ لباب = خلاصے کا خلاصہ، عطر کا عطر، نہایت خالص۔

قطرے کا سمندر بن جانا:
لا انتہا = ختم نہ ہونے والا۔
سمندر قطرے میں:
نفوسِ جزوی = وہ جانیں جو کامل اور کل نہیں بلکہ جزو کی حیثیت سے ہیں۔
نفسِ کلی = کائناتی روح، تمام روحوں کا سرچشمہ۔
عالمِ اکبر =

۴۷

یہ ظاہری کائنات، سب سے بڑی دنیا۔

دل کی کائنات:
عالمِ تفکر = عالمِ تصور، عالمِ خیال۔
مستغرق = ڈوبا ہوا، نہایت مصروف۔

بس نقطہ ہی نقطہ:
نقوشِ پا = قدم کے نشانات۔
شعوری طور پر = جان بوجھ کر۔
لاشعوری طور پر = بغیر سوچے سمجھے۔
تحقیق و تدقیق = اصلیت معلوم کرنا اور باریک بینی سے کام لینا۔

نقطہ اور کتابِ کائنات:
سرِ آغاز = عنوان، عبارت کی پیشانی۔
شخصی = ذاتی، انفرادی۔
اسمِ بزرگ = اسمِ اعظم۔
زبانِ در فشان = موتی بکھیرنے والی زبان۔

وحدت اور کثرت:
عقلِ کلّی = عقلوں کا سرچشمہ، پہلا فرشتہ۔

نقطۂ تعلق:
جسمِ کثیف = یہ جسم جو ظاہر ہے اور کثافت والا ہے۔
جسمِ لطیف = آسمانی جسم جو عام طور پر نظر نہیں آتا اور لطافت والا ہے۔

۴۸

ذرّاتِ لطیف کی بارش:
ترکیب = مرکب کرنا، کئی چیزوں کو ملانا، بناوٹ ، ساخت۔
ذرّات پر مبنی ہے = اس کی بنیاد ذرات پر ہے، وہ ذرات کی بنیاد پر ہے۔
آفاق = ظاہری کائنات۔
انفس = نفس کی جمع، جانوں کی باطنی دنیا۔
آبی طوفان = پانی کا طوفان۔

نقطۂ نور:
رگِ جان = بڑی رگ، شاہ رگ۔
انا = خودی، انسان کی وہ حقیقت جس کو انسان ’’میں ‘‘ کہتا ہے۔

امرِ ’’کُنۡ ‘‘ :
اطلاق = کہنا، بولا جانا، منطبق ہونا۔
شیٔ = چیز۔
لا شیٔ = کوئی چیز نہ ہونا۔
لا شیئیت = کوئی چیز نہ ہونے کی صفت۔

نقطۂ واسط:
واسط = درمیانی چیز، وسط سے واسط اور واسطہ ہے۔
حدِ فاصل = وہ حد جو دو چیزوں کے درمیان آ کر ان کو ایک دوسرے سے جدا کر دے۔
واصل = ملنے والا ہے۔

معجزاتی کلمہ:
مراکز = مرکز کی جمع ( centers )، درمیانی حصہ، عین وسط۔
فراوانی = بہتات، بکثرت، بہت زیادہ۔
تصرف = قبضہ، اختیار، استعمال۔

۴۹

کلمۂ علیا:
علیا = اعلیٰ کی تانیث۔
اثبات = نفی کی ضد، ثبوت، ثبت کرنا۔
نفی = اثبات کی ضد، کسی چیز کے یا کسی صفت کے نہ ہونے کی دلیل۔
باری تعالیٰ = پیدا کرنے والا، خالق، اللہ تعالیٰ۔
لا ابتداء = وہ کیفیت جو کسی آغاز کے بغیر ہمیشہ موجود ہو۔
ازل = وہ گزشتہ زمانہ جس کی کوئی ابتداء یا حد نہ ہو۔
ابد = وہ آنے والا زمانہ جس کی کوئی انتہا اور کوئی حد نہ ہو۔
لامکان = وہ حالت و کیفیت جو مکان یعنی کسی مادی جگہ کے بغیر پائی جاتی ہے، جیسے عالمِ فکر و خیال، عالمِ خواب، دل کی دنیا اور عالمِ روحانیت۔
لازمان = وقت کی نسبت سے وہ کیفیت جس میں مادی دنیا کا وقت نہ ہو، یعنی جو ماضی ، حال اور مستقبل سے بے نیاز ہو۔

دائرۂ روح:
نفوسِ طبعی = ایسی روحیں جو مادّی چیزوں کی طبیعت میں موجود اور کارفرما ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بظاہر جو چیزیں بے جان کہلاتی ہیں ان میں بھی ایک قسم کی روح پنہان ہے۔

وحدتِ نورانیّت:
وحدتِ نورانیّت = روح اور نور کی صفت میں ایک ہونا۔
نابلد =

۵۰

نا واقف۔

ایک پرحکمت مثال:
بت = مورت، صنم، معشوق، یہاں پیاری چیزوں کے خیالات و تصوّرات مراد ہیں۔
عرفانی = خدا شناسی سے متعلق۔
عرفانی حکمت = معرفت کی حکمت۔
مظہر = ظاہر ہونے کی جگہ، جائے ظہور۔
مظاہر = مظہر کی جمع۔

روح کی شناخت میں خدا کی شناخت:
مشابہ = مانند، مثل، نظیر، یکسان۔
یک حقیقت = ایک ایسی حقیقت کے خدا ہونے کا نظریہ، جس میں تمام حقیقتیں ایک ہوں۔

اپنے آپ کی تجدید:
تجدید= نیا بنانا، نئے سرے سے بنانا، کسی موجود چیز میں جدت و تازگی پیدا کرنا۔
آتشِ عشق = عشق کی آگ۔
فرسودگی = کہنگی، پرانا ہو جانے کی کیفیت۔
جمود= بے حسی۔

۵۱

روح کیا ہے؟

روح کیا ہے؟

روح کیا ہے؟ = عالمِ شخصی کیا ہے؟ = انسان کیا ہے؟

عنوانِ بالا کا کیا مطلب ہے؟ ج: اس کا مطلب یہ ہے کہ جوشخص روح کو پہچاننا چاہتا ہے، اس کو عالمِ شخصی کا سفر کرنا پڑے گا، جو اس کے باطن میں بحدِّ قوّت موجود ہے، پہلے وہ ہادیٔ زمان علیہ السّلام سے رجوع کرے، جیسا کہ رجوع کا حق ہے، پھر اپنے عالمِ شخصی کو حدِّ قوّت سے حدِ فعل میں لائے اور اس میں سیر و سفر کرے، اور اس انتہائی عظیم کام کی تمام سختیوں کو خوشدلی سے برداشت کرے۔

 

قرآنِ حکیم میں بزبانِ حکمت جگہ جگہ عالمِ شخصی کا تذکرہ موجود ہے یا تو آپ خود ریاضتِ حقّہ کر کے حکمت کے ساتھ قرآنِ حکیم کا مطالعہ کریں، یا دوسروں کی مشقت سے حاصل کردہ حکمت کو پڑھیں، آپ قرآن کو قرآنِ حکیم (حکمت والا قرآن) کہہ کر تو قرآنی حکمت کو مانتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ حکمت حاصل کرنے کے لئے کوشش نہیں کرتے ہیں، حالانکہ خیرِ کثیر حکمت میں ہے۔

 

ہماری عاجزانہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام اہلِ ایمان کو اپنی کتابِ عزیز = قرآنِ حکیم کی حکمتِ بالغہ کی لازوال دولت سے مالامال فرمائے!  آمین!

 

انتسابِ جدید:

میرے بہت ہی عزیز ساتھی اور مہربان دوست فتح علی حبیب جو آئی۔ ایل۔ جی۔

 

۳

 

اور پریسیڈنٹ کمیٹی کے سینیر رکن ہیں انہوں نے ہمارے ادارے کے لئے بے شمار خدمات انجام دی ہیں، چونکہ ان کی جملہ خدمات امامِ زمانؑ کے عشق میں ہیں، لہٰذا ایسے تمام عزیزوں کی اس عزت کی تعریف میں نہیں کر سکتا ہوں جو کل جنّت میں ان شاء اللہ ان سب کو ملنے والی ہے، فتح علی کی فرشتہ خصلت بیگم گل شکر بھی ہر خدمت میں ساتھ ساتھ ہیں، گل شکر ہماری خداداد بیٹیوں میں سب سے سینئر ہیں، آپ آئی۔ ایل۔ جی۔ نیز سینئر رکن پریسیڈنٹ کمیٹی اور ایڈوائزر بھی ہیں۔

عزیزم نزار فتح علی ٹریننگ آفیسر، آئی۔ ایل۔ جی۔ ، ٹرینی ممبر آف پی۔ سی۔ اور ہائی ایجوکیٹر نے نہایت خوبصورت کتابیں چھپوانے کی مہارت حاصل کر لی ہے، ساتھ ساتھ عزیزم رحیم فتح علی بھی ہے جو آئی۔ ایل۔ جی، ٹرینی ممبر آف پی۔سی۔ اور سکین انچارج (Scan-Incharge) بھی ہے، فاطمہ فتح علی آئی۔ ایل۔ جی۔، ممبر آف بورڈ آف میڈیکل ایڈوائزر اینڈ پیٹرن اور انچارج آف ایل۔ اے۔ ایس۔ ہے، نزارکی بیگم شازیہ علمی سولجر، ہائی ایجوکیٹر اور ویڈیو کیسیٹ انچارج ہے اور درِ ثمین نزار علی علمی سولجر اور ایل۔ اے۔ ایس۔ ہے۔

خداوندِ قدّوس اپنی رحمتِ بے پایان سے اس عزیز خاندان = فیملی کو دونوں جہان کی کامیابیوں سے نوازے، آمین یا ربّ العالمین!

 

ن۔ ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی، سنیچر ۱۵ رمضان المبارک ۱۴۲۲ھ

یکم دسمبر ۲۰۰۱ء

 

۴

 

روزنامہ جنگ کراچی (۳) جمعہ ۱۹ جون ۱۹۸۷ء

 

روح کیا ہے؟

(رئیس امروہوی)

 

علامہ نصیر الدین ہونزائی کا ذکر ان کالموں پر کیا جا چکا ہے، عجیب شخصیّت کے مالک ہیں ایک سو تیس کتابوں کے مصنف، بروشسکی، اردو، اور فارسی زبانوں پر کامل دست رس! تینوں زبانوں میں شعر کہتے ہیں، حضرتِ ہونزائی نے چین کے زندان خانوں میں عرفانِ خودی کی منزلیں طے کیں۔ اس ناکارہ پر خصوصیّت سے مہربان ہیں۔ احسان فرماتے ہیں اور اظہار نہیں کرتے۔ دلنوازی کی ادائیں کوئی ان سے سیکھے، کہتے ہیں کہ یہ لازوال دولت یعنی روحانیّت قرآنِ مجید کی ظاہری اور باطنی برکتوں سے حاصل ہوتی ہے۔ قرآنی برکتوں کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ طالبِ روحانیّت قرآنِ مجید کی آیات پر غور و تدبر کرے۔ روح کیا ہے؟ روح ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر آن اور ہر لمحہ جمالِ الٰہی اور جلالِ ربّانی کی ایک نئی تجلّی ظہور پذیر ہوتی ہے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ہر روز اس کی ایک نئی شان ہے (۵۵: ۲۹) اس آیۂ مبارکہ کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ روح کے آئینے میں پیہم تجلّیاتِ غیبی منعکس ہوتی رہتی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی قلبِ با صفا اپنی روح کو دیکھ سکتا ہے؟ دیکھ سکتا ہے تو کس آنکھ سے؟ چشمِ ظاہر سے یا دیدۂ باطن سے؟ روحِ انسانی بجائے خود ایک کائنات ہے۔ یعنی عالمِ صغیر! اس ننھی منی ان دیکھی کائنات (روح) میں

 

۵

 

تمام عالموں تمام کائناتوں اور تمام موجودات کی کیفیّت لطیف ذرّات کی شکل میں موجود ہوتی ہے ۔ روح ایک قائم بالذّات جوہر ہے۔ اس کی تجرید کے چار درجے ہیں۔ خیال، خواب، روحانیّت اور عقل۔ اور اس کی تجسیم (جسمانی حالت) کے بھی چار درجے ہیں۔ کثیف ذرّے، کثیف جسم، لطیف ذرّے، لطیف جسم! روح ناقابلِ تقسیم ہے۔ لیکن یہ لطیف اور کثیف جسم کے توسط سے لاتعداد مظاہر میں جلوہ پذیر ہوتی ہے۔ ہدایتِ قرآنی کے مطابق روح کا منبع و مرکز عالمِ امر ہے (۱۷: ۸۵) جس کے لاتعداد نورانی سائے، وجودِ انسانی کے آئینہ خانے میں منعکس (Reflect) ہوتے رہتے ہیں۔ انفرادی روح کا تعلق روحِ کلّ سے ہے۔ نباتات اور حیوانات بھی ذی روح ہیں۔ لیکن ان کی روحوں کی نوعیّت انسانی روح سے مختلف ہے۔ ہر روح مختلف ذرّات کا مجموعہ ہوا کرتی ہے۔ جنّات اور اس قسم کی دوسری نادیدہ مخلوقات بھی ذی روح ہے۔ علامہ نصیر الدین ہونزائی نے روح اور روحانیّت کے بارے میں اپنی کتاب روح کیا ہے؟ میں تفصیلی بحث کی ہے۔ ان کی فکر کا سرچشمہ قرآنِ مجید ہے۔ یہ موضوع بہت دقیق، نازک اور لطیف ہے۔ چند سطور یا ایک آدھ مضمون کے کوزے میں اس سمندر کو سمیٹ لینا ممکن نہیں۔ جو حضرات ان علمی بحثوں سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ علّامہ مؤلف کی کتاب (روح کیا ہے؟) کا مطالعہ کریں اس کتاب کو اے۔۳۔ نور ولا پلاٹ نمبر ۲۶۹ گارڈن ویسٹ کراچی ۳۔ فون ۷۲۲۴۹۲۰ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

 

۶

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حرفِ آغاز

 

“روح کیا ہے؟” جیسے سب سے مشکل موضوع پر “سو (۱۰۰) سوال و جواب” کی پرمغز و مفید کتاب جس طرح مکمل ہوئی ہے، وہ حقیقت میں اس بندۂ ناچیز کی کوششوں کا نتیجہ ہرگز نہیں، بلکہ یہ عنایاتِ خداوندی کا ایک علمی معجزہ ہے، جو دور و نزدیک کے بہت سے پاک و پاکیزہ دلوں کی پرخلوص دعاؤوں سے وجود میں آیا، یہ بات میرے بنیادی عقائد میں سے ہے کہ میں اہلِ ایمان کی قلبی دعا کو تائیدِ روحانی کا وسیلہ مانتا ہوں۔

 

امامِ عالی مقام کے اس غلامِ ناتمام کو چاہئے کہ یہ اپنی حقیر سی روح کے جملہ ذرّات کے ساتھ ہزار گونہ عاجزی و انکساری سے سر بسجود ہو کر خداوندِ مہربان کے عظیم الشّان احسانات کی شکرگزاری کرے، اگر یہ بندۂ کمترین اپنے جسم و جان کے بے شمار ذرّات کی ایسی ہم آہنگی حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جائے، تو پھر بھی میرے مالک و مولا کی پُرحکمت نعمتیں اتنی زیادہ، اس قدر گرانمایہ اور ایسی عالی شان ہیں، کہ ان کا حقِ شکرانہ کسی طرح سے بھی ادا نہیں ہو سکتا۔

 

بارانِ رحمت کے اس موسم میں بھی ہمیشہ کی طرح آسمانِ امامت نے ہم سب پر جیسی بابرکت بارش برسائی ہے، اور اس سے قلوبِ احباب کے باغ و چمن میں جو روحانی مسرّتوں اور امیدوں کی تازہ بہار آئی ہے، اس کے نتیجے میں ہم قدردانی اور احسان مندی کے جذبات سے سرشار تو ضرور ہیں،

 

۱۳

 

لیکن ان تمام مہربانیوں کی شکرگزاری کے لئے ہم اپنے آسمانی بادشاہ کے حضور میں کیا نذرانہ پیش کر سکتے ہیں اگر ہم اپنی حقیر جانیں اس کی راہ میں قربان کر دیں، تو پھر بھی حقیقت میں کیا کارنامہ ہو سکتا ہے، کیونکہ ہماری جانیں بھی تو اسی کی ہیں۔

 

“روح کیا ہے؟” کی بحث بے حد دلچسپ بھی ہے، اور انتہائی مفید بھی، اور یہ سب سے عالی قدر موضوع ایسا ضروری ہے کہ اس کی طرف اہلِ دانش جس قدر بھی توّجہ دیں کم ہے، شاید کوئی دوست مجھ سے پوچھے گا کہ یہ بات اتنی اہمیّت والی کس وجہ سے ہو سکتی ہے؟ میں یہ عرض کروں گا کہ آیا معرفتِ روح معرفتِ خدا نہیں ہے؟ جیسا کہ مولا علی صلوات اللہ علیہ کا ارشادِ گرامی ہے کہ:

“من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ”

“جس نے اپنی روح کو پہچان لیا یقیناً اُس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔” سو وہ اس مبارک فرمان کو ضرور قبول کرے گا۔

 

جب یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ مومن کی خود شناسی ہی میں خدا شناسی کا عظیم ترین خزانہ مل جاتا ہے، تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ خدا اور خدائی کا یہ خزانہ اسرارِ روح اور رموزِ روحانیّت سے بھرپور ہے، اس میں قرآن اور اسلام کی عقل و جان بھی ہے، اور نبوّت و امامت کا درخشندہ نور بھی، اللہ تعالیٰ کے عظیم اور پیارے بھیدوں کا یہ گنجِ گرانمایہ، جس میں ازل اور ابد کے تمام حقائق و معارف جمع ہیں، جب روحانیّت میں ہے، تو پھر روح کا موضوع کیوں اہم اور ضروری نہ ہو۔

 

اب ہم اس پیاری کتاب کے سوالات کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ یہ کس طرح مرتب ہوئے، قصّہ یوں ہے کہ عرصۂ دراز سے روح اور روحانیّت پر جو سوالات عام لفظوں میں ہوتے آئے ہیں ایک تو انہی کو منظم شکل دی گئی ہے،

 

۱۴

 

اور دوسرے یہاں وہ سوالات ہیں، جو ہمارے بہت ہی پیارے پریذیڈنٹ فتح علی حبیب، دیگر عملداران اور ارکان کی خواہش و فرمائش پر خانۂ حکمت نے بنائے ہیں، یاد رہے کہ عام اور غیر منطقی سوال کوئی بھی کر سکتا ہے، مگر ایسا سوال حقیقی اور روحانی علم کی بلندیوں کو چھو نہیں سکتا، اور نہ ہی وہ حقیقتوں اور معرفتوں کو گھیر سکتا ہے، چنانچہ درست سوال کسی مکان کے صحیح نقشے کی طرح ہے، جس پر پرحکمت جواب کی خوبصورت عمارت قائم ہو سکتی ہے۔

 

اس مقام پر میں اپنے دینی بھائیوں، دوستوں اور عزیزوں کو ایک ضروری مشورہ دینا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس کتاب سے زیادہ سے زیادہ علمی فائدہ حاصل کرنے کے لئے خانۂ حکمت کی دوسری کتابوں کا بھی مطالعہ کیا جائے، خصوصاً ان کتابوں کا، جو روح اور روحانیّت سے متعلق ہیں، تا کہ اس وسیع مطالعے سے ایک طرف تو قاری پر اس کتاب کے تمام مطالب  روشن ہو جائیں، اور دوسری طرف اس کے ذخیرۂ معلومات میں خاطر خواہ  اضافہ ہو۔

 

یہ درویش جو دنیا کی گوناگون تکالیف سے تھکا ماندہ ہے، درختِ “خانۂ حکمت” کے زیرِ سایہ اپناحقیرانہ کام انجام دے رہا ہے، خداوندِ تعالیٰ اس پرمیوہ اور سایہ دار درخت اور اس کی سر سبز شاخوں کو دونوں جہان میں سدا بہار اور سربلند رکھے! اس کے لذیذ، خوشذائقہ اور خوشبودار پھلوں میں توقع سے زیادہ برکت پیدا کرے! اور اس کو ہر صبح و شام روئے زمین کے مومنین و مومنات کی نیک دعاؤوں سے حصّہ ملتا رہے!!

 

“خانۂ حکمت” ایک چھوٹا سا ذاتی نوعیّت کا ادارہ سہی، لیکن جب آپ حق پسندی اور علم پروری کی نظر سے  اس کی اہمیّت و افادیّت کو دیکھیں گے، تو اس وقت آپ کو اس بات سے بڑا تعجب ہو گا کہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی مصلحت و حکمت

 

۱۵

 

اور نورانی ہدایت پیاری جماعت کی ترقی اور مضبوطی کے لئے ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی کس طرح اپنا کام کرتی رہتی ہے، الحمدللہ ہم سب افرادِ جماعت اس بات کے قائل ہیں کہ ہمارا پاک مذہب باطنی اور روحانی ہے، لہٰذا ہم سرچشمۂ نورِ ہدایت کے ذریعۂ ظاہر کے علاوہ وسیلۂ باطن پر بھی یقین رکھتے ہیں، پس ہم فیضِ باطن اور توفیق و تائیدِ روحانی کے لئے ہر وقت دعا کرتے رہتے ہیں۔

 

خانۂ حکمت کے عہدہ داران اور ارکان پر خداوندِ مہربان کی نظرِ رحمت ہے، کہ وہ زیورِ اخلاق و ایمان سے آراستہ ہیں، اُن میں عجز و انکساری، جذبۂ ایثار و قربانی اور دینداری کی تمام تر خوبیاں موجود ہیں، ان کی سب سے بڑی آرزو اور خوشی اس بات میں ہے کہ وہ اپنے امامِ اقدس و اطہر کے پیارے مریدوں کی کوئی علمی خدمت کر سکیں، وہ اسی مقصدِ عالی کے پیشِ نظر سوچتے بھی ہیں اور عملاً کوشش بھی کرتے ہیں۔

 

اس موقع پر ہم ادارۂ “عارف” کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں، یہ بڑا پیارا ادارہ ہے، اس نے مغرب میں اسماعیلی جماعت کے لئے جو علمی کارنامے انجام دیئے ہیں، وہ بڑے تسلی بخش اور دور رس فوائد کے حامل ہیں، اس کے کارکن عالی ہمت اور حوصلہ مند ہیں، انہوں نے خوش بختی سے مولائے زمان صلوات اللہ علیہ سے اپنی اس بے لوث علمی خدمت کے لئے پرحکمت اجازت اور پاک دعا حاصل کر لی ہے۔

 

“عارف” کا یہ خوبصورت نام کتنا پیارا ہے، دیکھئے اس سے معرفت کی خوشبو آتی ہے، کیونکہ اس لفظ میں معرفت کا تصوّر ہے، اور اس کا رشتہ مولا علی علیہ الصلاۃ و السّلام کے مبارک کلام سے ہے، یعنی یہ “من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ” کی بنیاد پر قائم ہے، لہٰذا امید ہے کہ یہ ادارہ آگے چل کر بہت مفید

 

۱۶

 

ثابت ہو گا۔

 

اصل میں “خانۂ حکمت” اور “عارف” دو دوست ادارے ہیں، بلکہ کہنا چاہئے کہ یہ ایک ہی علمی وجود کے دو نام ہیں، وہاں بھی اور یہاں بھی اور عملدار و ارکان ہر وقت یہی چاہتے ہیں کہ فروغِ علمِ دین کا پھیلاؤ زیادہ سے زیادہ ہو، کیونکہ جب اس مذہب میں نورِ ہدایت کا سرچشمہ موجود ہے تو پھر یہاں کسی قسم کی جہالت و نادانی کی تاریکی کو کیوں رکھنا چاہئے۔

 

امامِ حیّ و حاضر کی مہربانی اور نوازش سے “خانۂ حکمت” اور “عارف” کے پاس اس وقت کل ملا کر سو (۱۰۰) کتابیں موجود ہیں ان میں سے تقریباً نصف کتابیں چھپ چکی ہیں، یہ کتابیں سب کی سب اسماعیلی مذہب پر ہیں، جو سب سے اہم موضوعات پر مبنی ہیں، جیسے تصوّرِ توحید، یک حقیقت (MONOREALISM)، قرآن کی حکمت و تاویل، اسمِ اعظم، ذکر و بندگی، معارفِ اسلام، حقائقِ نبوّت، اسرارِ امامت، نظریۂ قیامت، معرفتِ روح و روحانیّت،   فلسفۂ خودی، مذہب اور سائنس، جماعتی خدمت، حقیقتِ نور، اثباتِ امامت، کیفیتِ معراج، وغیرہ، یہ کتابیں ان شاء اللہ تعالیٰ حال و مستقبل میں اہلِ علم کے لئے ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔

 

آخر میں عاجزانہ دعا ہے کہ پروردگارِ عالم اپنی رحمتِ بے نہایت سے خانۂ حکمت اور عارف کے سعادت مند عملداروں اور ممبروں کو مذہب اور قوم کی علمی خدمت کے لئے ہر وقت نورانی توفیق اور اعلیٰ ہمت عنایت فرمائے! ان کو دنیا و عقبیٰ کی کامیابی اور سرفرازی عطا کرے! خداوندِ برحق جملہ جماعت کو روحانی علم اور نورانی معرفت کی لازوال دولت سے مالامال فرمائے! آمین ! !

 

امامِ وقت کا غلامِ کمترین

نصیر الدین نصیر ہونزائی

 

منگل ۲۰ شعبان ۱۴۰۱ھ

۲۳ جون ؁۱۹۸۱ ء سالِ مرغ

 

۱۷

 

بابِ اوّل:

 

روحِ نباتی:

سوال نمبر ۱: درخت، جھاڑ، گھاس اور ہر قسم کی اُگنے والی چیز (نبات) میں جو روح موجود ہوتی ہے، اس کا کیا نام ہے؟ کیا نباتات میں صرف ایک ہی روح ہوا کرتی ہے؟

جواب: ہر اُگنے والی چیز جو نبات کہلاتی ہے، اس میں روحِ نباتی ہوتی ہے، جس کو روحِ نامّیہ بھی کہتے ہیں، ہاں نباتات میں صرف ایک ہی روح ہوتی ہے۔

روحِ حیوانی:

سوال نمبر ۲: جانور جو حیوانِ صامت ہے، اس میں کتنی روحیں ہوتی ہیں؟ ان کے مرکز کہاں کہاں ہیں؟ ہر ایک کا نام اور کام بتائیے۔

جواب: جانوروں میں دو روحیں ہوتی ہیں، ایک کا مرکز جگر ہے، یہ روحِ نباتی ہے، جس کی بدولت جسم نشونما پاتا ہے، اور دوسری کا سنٹر دل ہے، جس سے روحِ حیوانی حِس و حرکت سے متعلق سارا کام کرتی ہے، روحِ حیوانی کا دوسرا نام روحِ حِسّی ہے۔

 

روحِ انسانی:

سوال نمبر ۳: انسان کی حیات و بقاء کتنی روحوں پر قائم ہے؟

 

۲۱

 

یہ روحیں کون کون سی ہیں، اور جسم کے کس کس عضو میں رہ کر کام کرتی ہیں؟

جواب: انسانی زندگی کا قیام تین روحوں پر ہے، وہ علی التّرتیب روحِ نباتی، روحِ حیوانی اور روحِ انسانی ہیں، روحِ نباتی کا مسکن جگر، روحِ حیوانی کا مقام دل، اور روحِ ناطقہ کا مرکز دماغ کا اگلا حصّہ ہے، پہلی روح سے جسم پروان چڑھتا ہے، دوسری روح حِس و حرکت کا سرچشمہ ہے، اور تیسری روح نطق و تمیز کا خزانہ۔

روحِ قدسی:

سوال نمبر ۴: ظاہر ہے کہ ایک عام انسان کیا بلکہ ہر درجے کا آدمی انسانِ کامل سے کمتر ہے، اس روحانی فرق کا کیا سبب ہے؟ آیا انسانِ کامل میں صرف روح کی پاکیزگی زیادہ ہے یا کوئی اعلیٰ اور خاص و پاک روح بھی ہے؟

جواب: عالمِ انسانیّت میں جس طرح انسانِ کامل منفرد و ممتاز ہے۔ اس کی وجہ روحِ قدسی ہے، جو انسانِ کامل کو عطا ہوتی ہے، جس سے لازمی طور پر روح کی پاکیزگی قائم رہتی ہے، کیونکہ روحِ مقدّس تو پاک ہونے اور پاک کر دینے کے تمام معنوں میں ہے، اس پاک روح کا قیام روحِ انسانی پر ہے، چنانچہ انسانی روح کے مرکز کے اوپر اس کا سنٹر ہے، یعنی پیشانی میں، جو انسان کی شخصیّت میں سب سے اعلیٰ مقام اور روحانی معجزات کی ظہور گاہ ہے۔

 

نوٹ: روحِ نباتی کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ: اور خدا ہی نے تم کو زمین سے بحیثیتِ نبات اگایا (۷۱: ۱۷)۔

 

۲۲

 

مسٔلۂ تقسیمِ روح:

سوال نمبر ۵: کیا انسانی روح اور دوسری چھوٹی بڑی روحیں سب کی سب ذرّات اور اجزأ پر مشتمل ہیں یا اُن میں سے ہر ایک ایسی وحدت و یکتائی رکھتی ہے کہ جس سے وہ ناقابلِ تجزیّہ و تقسیم قرار پاتی ہے؟

جواب: روح کوئی بھی ہو فی ذاتہٖ تقسیم نہیں ہوسکتی ، مگر جسمِ لطیف کے توسّط سے ہر درجے کی روح کے لاتعداد روحانی ذرّات ہوا کرتے ہیں، اور اس میں ہر ذرّہ اپنی نوعیّت کی ایک زندہ روح ہے، مثلاً کسی چھوٹے سے چھوٹے پودے میں روحِ نباتی کے بے شمار ذرّات موجود ہوتے ہیں، مگر وہ سب تقریباً ایک جیسے ہیں اور ان کا کام بھی ایک قسم کا ہے، لہٰذا کہا جاتا ہے کہ روحِ نباتی ایک ہے یا یوں سمجھ لیجئے کہ ان تمام ذرّات کی وحدت روحِ نباتی ہے، اور حیوان و انسان کی روح میں بھی یہی بات ہے۔

رُوح اور نُور:

سوال نمبر ۶ ۔  انسانِ کامل (یعنی پیغمبرؐ اور امامؑ) میں جو عظیم اور پاک روح موجود ہوتی ہے کیا وہی روح نور کہلاتی ہے یا نور اس کے علاوہ ہوتا ہے؟

 

نوٹ: بی بی مریم کی پاکیزہ شخصیت میں روحِ نباتی کا جو حسنِ کردار تھا، اس کی بابت فرمانِ خداوندی ہے کہ: خدا نے اسے حسن و خوبی سے اگایا (نشونما کی) و انبتھا نباتا حسنا (۰۳: ۳۷)۔

 

۲۳

 

ایسی عظیم الشّان روح کہاں سے آتی ہے؟

جواب: انسانِ کامل میں جو مقدّس روح ہے وہی نور بھی ہے، کیونکہ اسی عظیم روح کو خدائے علیم و حکیم نے علم و حکمت اور رشد و ہدایت کا نور بنایا ہے، یہ نور ہمیشہ سابِق سے لاحِق میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔

روحِ قرآن:

سوال نمبر ۷۔ آیا قرآنِ پاک کی کوئی عظیم روح ہے؟ اگر کہا جائے کہ قرآنِ حکیم کی ایک معجزاتی روح ہے، تو سوال اٹھتا ہےکہ وہ روح کہاں ہے، قرآن میں یا اور کہیں؟

جواب: ہاں، قرآنِ شریف کی روح ہے، جو زندہ اور تابندہ یعنی نور ہے، آپ اس بارے میں خود قرآن ( ۴۲: ۴۲ ) کی شہادت دیکھ سکتے ہیں، کہ خداوندِ عالم نے قرآن کو ایک عالی شان زندہ روح کی صورت میں آنحضرتؐ پر نازل فرمایا، اور اسی پاک روح کو نور قرار دیا، پس یہی نور روحِ قدسی بھی ہے، جس کا اس سے پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ وہ روح آنحضرتؐ کے بعد سلسلۂ أئمّۂ طاہرینؑ میں موجود و محفوظ ہے۔

رُوحِ خدا:

سوال نمبر ۸: کیا یہ صحیح ہے کہ خداوندِ تعالیٰ کی بھی ایک پاک و برتر

 

نوٹ: سابق سے ہر اگلا انسانِ کامل مراد ہے اور لاحق ملا ہوا، یعنی جانشین، حضرت آدم سے پہلے بھی سابق اور لاحق کا یہ سلسلہ چلتا تھا، کیونکہ دین کی اساسی چیزوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی، وہ خدا کی سنت (۱۷: ۷۷) کے مطابق اٹل ہیں۔

 

۲۴

 

اور ہمہ گیر روح ہے؟ نیز آپ یہ بتائیں کہ حضرتِ عیسیٰؑ کس معنیٰ میں روح اللہ (خدا کی روح) تھے؟ آیا یہ درجہ صرف حضرتِ عیسیٰؑ ہی کو حاصل تھا یا یہ مرتبہ تمام انبیائے کرامؑ میں مُشترک ہے؟

جواب: ہاں، یہ درست ہے کہ خدائے پاک کی روح ہے جو سب سے عظیم اور نورِ دائم ہے، مگر اس طرح نہیں کہ وجودِ باری تعالےٰ اِسی روح سے قائم ہو، کیونکہ ذاتِ سُبحان ہر چیز سے بے نیاز اور پاک و برتر ہے، بلکہ خدا کی روح اور نور کا درجہ کئی اعتبار سے حضراتِ انبیأ و أئمّہ صلوٰت اللہ علیہم ہی کو حاصل ہے، اور حضرتِ عیسیٰؑ اس حقیقت کی ایک مثال ہیں، جبکہ واقعاً ہر پیغمبر اور ہر امام روحِ خدا اور نورِ خدا کا مرتبہ رکھتا ہے۔

کائناتی روح:

سوال نمبر ۹: کہا جاتا ہے کہ اس کائنات کی ایک ایسی روح ہے جو اس پر محیط ہے، اس کا کیا نام ہے؟ آیا یہ حقیقت ہے کہ ہم کائناتی روح کے سمندر میں اس طرح قیام پزیر ہیں جس طرح پانی میں مچھلیاں رہتی ہیں؟

جواب: جی ہاں، یہ ایک مُسلّمہ حقیقت ہے کہ ارض و سماوات کی ایک عظیمُ الشّان رُوح ہے، جس کے کئی نام ہیں، جیسے نفسِ کُلّی، روحِ ارواح، کُرسیٔ خدا، لوحِ محفوظ وغیرہ، بیشک ہم عالمگیر روح کے گہرے سمندر میں مستغرق ہیں

 

۲۵

 

مگر روحانی وصال کا سوال اِس سے الگ ہے۔

ہر چیز میں روح:

سوال نمبر ۱۰: فرمایا گیا ہے کہ کوئی چیز روح کے بغیر نہیں، تو کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں، پتھر اور مٹی جیسی چیزوں کی بھی روح ہوا کرتی ہے؟ وہ روح کون سی ہے؟

جواب: یہ بالکل درست ہے کہ ہر بے جان چیز بھی اصل میں ایک جان رکھتی ہے، مگر یہ ہے کہ ایسی روح (جان) ان اشیاء کے اندر خاموش اور سوئی پڑی ہے، کیونکہ مصلحت و حکمتِ خداوندی اسی میں تھی، کہ روحِ نباتی سے نچلے درجے کی روح موت کی نیند سوتی رہے تا وقتیکہ یہ نباتات کی شکل میں زندہ نہ ہوجائے، یہ روح تکوینی اور معدنی ہے۔

 

روحِ ایمان:

سوال نمبر ۱۱: اسلام اور ایمان کی روح کون سی ہے؟ وہ کہاں رہتی ہے؟ آیا وہ بولنے والی ہے یا خاموش؟

جواب: اسلام اور ایمان کی روح بھی وہی ہے، جو قرآن کی روح ہے، اور وہ ہادئ برحقؑ میں قائم ہے، کیونکہ یہ اس کی پاک روح ہے، جو نورانیّت سے بھر پور ہے (اعنی وہ نور ہے، بحوالہ قرآن ۴۲: ۵۲)۔

 

۲۶

 

خواب اور رو ح:

سوال نمبر ۱۲: آدمی جب نیند کی کیفیّت میں ہوتا ہے، تو اس وقت اس کی روح کہاں ہوتی ہے؟ وہ جو خواب دیکھتا ہے، اس کا محلِ وقوع جسم ہے یا روح، یعنی عالمِ خواب کہاں ہے؟

جواب: آدمی جس وقت سو جاتا ہے، تو اس حال میں روح جسم کو کلّی طور پر نہیں چھوڑتی ہے، بلکہ بعض حواس سے اس کی گرفت ڈھیلی ہو جاتی ہے اور وہ اپنی ذات کی طرف متوجّہ ہو کر رہتی ہے، پس آدمی اپنی روح کے باطن ہی میں خواب دیکھتا ہے اور وہ اس کے لئے کہیں نہیں جاتا (دیکھئے: کتابِ مطالعۂ روحانیت و خواب)۔

ذکر اور روح:

سوال نمبر ۱۳: ذکر و بندگی سے روح پر جو پُرمسرت اثرات پڑتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے، اور غفلت و نافرمانی سے جو دل اُداس ہو جاتا ہے اس کا کیا سبب ہے؟

جواب: خدا کی پاک و پاکیزہ یاد اور مقدّس غلامی و فرمانبرداری روحِ مومن کے لئے امید و یقین کی بہشت ہے اور غفلت و نافرمانی اس کے برعکس خوف و جہالت کا جہنم ہے، اس سے دونوں متضاد کیفیّت پر روشنی پڑتی ہے کہ پہلی صورت میں کیونکر شادمانی ہو سکتی ہے اور دوسری صورت میں کیسے غم آسکتا ہے۔

 

۲۷

 

راہِ روح:

سوال نمبر ۱۴: خواہ جانور کا بچہ ہو یا انسان کا، جب شکمِ مادر میں ہوتا ہے تو اس وقت اس میں روحِ حسی یا روحِ حیوانی کس راہ سے داخل ہوتی رہتی ہے، اور جب یہی بچہ پیدا ہو کر ماں کا دودھ پینے لگتا ہے تو اس حال میں روحِ حیوانی کس راستے سے بچے میں آتی ہے؟ آیا یہ روح چند دنوں یا چند مہینوں میں مکمل ہو جاتی ہے یا یہ ایک لمبا سلسلہ ہے؟

جواب: جب کوئی حیوانی یا انسانی بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو اس کی ناف کی راہ سے ماں کا خون بطورِ غذا داخل ہوتا رہتا ہے اور اسی میں روحِ حیوانی بھی آتی رہتی ہے، مگر جب وہ جنم لیتا ہے تو ناف کٹ جاتی ہے، اور وہ دودھ پینے لگتا ہے، پھر اس صورت میں روحِ حیوانی مُنہ سے داخل ہونے لگتی ہے، اور زندگی بھر جس طرح خوراک کا سلسلہ جاری ہے، وہ روحِ حیوانی کی تکمیل اور مرمّت ہی کا سلسلہ ہے۔

روحِ ناطقہ کا سرچشمہ:

سوال نمبر ۱۵: بچے میں روحِ ناطقہ (یعنی بولنے والی روح) جو انسانی روح ہے، وہ کس سرچشمے سے آتی ہے، اور کس راہ سے دماغ میں داخل ہو جاتی ہے؟ آیا یہ یکایک آتی ہے یا بتدریج مکمل ہو جاتی ہے؟

جواب: بچے کی روحِ ناطقہ کا سرچشمہ گھر کے وہ افراد ہیں، جو اکثر اس کے ساتھ محوِ گفتگو ہوتے ہیں، جیسے ماں، بہن، باپ،

 

۲۸

 

بھائی وغیرہ، چنانچہ اس بات چیت کے ساتھ روحِ ناطقہ کانوں کی راہ سے بچے کے دماغ میں داخل ہوتی رہتی ہے، اور بتدریج مکمل ہو جاتی ہے۔

 

ترتیبِ ارواح:

سوال نمبر ۱۶: انسان میں روحوں کے آنے کی کیا ترتیب ہے، یعنی پہلے کونسی روح آتی ہے، اعلیٰ روح یا ادنیٰ روح؟ بتائیے عقل پہلے آتی ہے یا روحِ ناطقہ؟

جواب: انسان میں سب سے پہلے اساسی طور پر روحِ نباتی آتی ہے، جو ایک قطرے میں موجود ہوتی ہے، پھر روحِ حیوانی، پھر روحِ انسانی اور آخر میں عقل آتی ہے، اس سے یہ ترتیب ظاہر ہے کہ پہلے ادنیٰ یعنی کمتر روح آتی ہے اور پھر اعلیٰ روح، اور یہ بھی عیان ہے کہ پہلے روحِ ناطقہ آتی ہے پھر عقل۔

نفس یا روح؟

سوال نمبر ۱۷: نفس اور روح میں کیا فرق ہے؟ قرآن میں انسانی نفس کے کتنے درجے مذکور ہیں؟

جواب: لوگوں کی عادت الگ ہے اور حقیقت الگ، سو حقیقت میں نفس اور روح کا ایک ہی مطلب ہے، چنانچہ جب “نفسِ امارہ” کہا جائے تو اس کے معنی پستی کی طرف آئیں گے، اور جب “نفسِ مطمئنہ” بولا جائے تو

 

۲۹

 

اس کے معنی بلندی کی طرف اُٹھیں گے اور یہی مثال “روحِ حیوانی اور روحِ انسانی” کی بھی ہے، اس سے ظاہر ہے کہ نفس ہو یا روح، اس کے درجات ہیں، قرآن میں انسانی نفس (یعنی جان) کے تین درجے مذکور ہیں، وہ نفسِ امّارہ، نفسِ لوّامہ اور نفسِ مُطمئنّہ ہیں (۱۲: ۵۳، ۷۵: ۰۲، ۸۹: ۲۷) ۔

روح اور عطیۂ خون:

سوال نمبر ۱۸: جب ایک آدمی کسی مریض کو بوقتِ ضرورت خون کا عطیہ دیتا ہے تو اس خون کے ساتھ کون کون سی روحیں بیمار آدمی میں منتقل ہو جاتی ہیں؟

جواب: اس خون کے ساتھ صرف روحِ نباتی اور روحِ حیوانی کے ذرّات کی کچھ تعداد منتقل ہو جاتی ہے نہ کہ روحِ انسانی کا کوئی حصّہ، کیونکہ انسانی روح خون سے نہیں بلکہ گفتگو سے منتقل ہو سکتی ہے، چنانچہ یاد رہے کہ علم و حکمت کی باتوں سے مومنین میں درجۂ اعلیٰ کی روح بنتی ہے جو پاک روح ہے۔

درجاتِ ارواح:

سوال نمبر ۱۹: جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان، یہ تو مخلوقات کے بڑے درجے ہیں، یا یہ بڑی تقسیم ہے، مگر ہمیں یہ پوچھ لینا ہے کہ آیا ان میں سے ہر درجے کے ذیلی درجے بھی ہیں یا نہیں؟ اگر مان لیا جائے کہ ان کے

 

۳۰

 

ذیلی درجات بھی ہیں، تو پھر روحِ نباتی، روحِ حیوانی اور روحِ انسانی میں سے ہر ایک کے بہت سے مراتب ہوں گے، اس کی وضاحت کیجئے۔

جواب: جی ہاں، جمادات کے مختلف درجات ہیں، نباتات اور حیوانات کے بھی، اور انسان بھی اخلاق و دینداری کے بہت سے درجوں پر ٹھہرے ہوئے ہیں، اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ روحِ نباتی، روحِ حیوانی اور روحِ انسانی میں سے ہر ایک کے لاتعداد درجات ہیں۔

روحِ معرفت:

سوال نمبر ۲۰: اگر روح کی شناخت خدا کی معرفت ہو سکتی ہے، تو بتائیے کہ یہ روح کون سی ہے؟

جواب: خدا کی معرفت روحِ قدسی کے بغیر مُحال ہے، لہٰذا اس سلسلے میں سب سے اوّل روحِ مقدّس کو حاصل کر کے اپنانا پڑتا ہے کیونکہ اسی روح کی پہچان خدا کی معرفت قرار پاتی ہے اور یہ روح انسانِ کامل کے توسّط سے مل سکتی ہے۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ انسانِ کامل دوسروں کو بھی کامل بنا سکتا ہے۔

 

۳۱

 

بابِ دوم:

 

لاتعداد روحیں:

سوال نمبر ۲۱ ۔  جَنین (بچۂ شکمِ مادر) میں روحِ حیوانی کب داخل ہو جاتی ہے؟ آیا یہ روح تخلیقِ بدن کے نقطۂ آغاز میں شروع ہی سے موجود نہیں ہوتی، جبکہ ڈاکٹری سائنس کی جدید ریسرچ (تحقیق) کے مطابق تخمِ حیات کے اُن تمام قطرات میں روحِ حیوانی کے ذرّات مجموعی طور پر کروڑوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں؟

جواب: ڈاکٹری سائنس کی یہ بات بالکل معقول اور صحیح ہے، اور اس سے ان روحانی مشاہدات کی تصدیق و تائید ہو جاتی ہے، جن کی روشنی میں قبلاً یہ کہا گیا تھا کہ ہر درجہ کی روح کے لا تعداد ذرّات ہوا کرتے ہیں، جو اُس روح کے مطابق زندگی رکھتے ہیں، اور یقین کرنا چاہئے کہ ہر ایک روح کی ایسی ذیلی تقسیم اور اتنی کثرت و فراوانی میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں اور رحمتیں بھی اس قدر زیادہ ہیں، بہر کیف جنین میں حرکت چار ماہ کے بعد نمایا ن ہو جاتی ہے، اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ روحِ حیوانی چوتھے مہینے کے اختتام پر آتی ہے۔

لفظِ “روح” کتنی دفعہ؟

سوال نمبر ۲۲: قرآنِ حکیم میں لفظِ “روح” کتنی دفعہ آیا ہے، اور موضوعِ روح سے متعلق جملہ آیات میں کلیدی آیت کون سی ہے؟ مدلل وضاحت کیجئے۔

 

۳۵

 

جواب: اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو قرآنِ پاک سراسر روح کے تذکروں سے مملو ہے، اس کے علاوہ ظاہر میں روح کے مترادفات بھی بہت زیادہ ہیں، لیکن یہاں سوال صرف لفظِ “روح” کے بارے میں ہے، لہٰذا یہی بتانا کافی ہے کہ “روح” کا لفظ قرآن میں ۲۴ دفعہ مذکور ہے، اور روح کے باب میں اساسی و کلیدی آیت یہ ہے:۔

“اور (اے رسولؐ) تم سے لوگ “الرُّوح” کے بارے میں سوال کرتے ہیں تم کہدو کہ “الرُّوح” میرے پروردگار کے (عالمِ ) امر سے ہے اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے (۱۷: ۸۵ ) چنانچہ جاننا چاہیےکہ روح سے متعلق یہ قرآنی تعلیم بنیادی اور کلیدی اہمیّت کی حامل ہے، کیونکہ یہ سوال خواہ جیسا بھی کیا گیا ہو، مگر سب سے بڑی روح کے معنی میں لیا گیا ہے، جیسے اس میں “الرُّوح” کا لفظ آیا ہے، نیز اس کے حقائق و معارف کے لئے کلمۂ “کُن” اور عالمِ امر کا حوالہ دیا گیا ہے، تاکہ اہلِ دانش معرفتِ روح کے ان وسائل سے روحانی طور پر رجوع کریں۔

روح کی خاص صورت:

سوال نمبر ۲۳: کیا یہ بات صحیح ہے کہ روح کی شکلیں کائنات بھر کی مخلوقات کی طرح مختلف بھی ہیں اور اتنی زیادہ بھی؟ آیا ان تمام صورتوں میں سے روح کی کوئی خاص صورت بھی ہے؟ اگر اس کی کوئی مخصوص صورت ہے تو وہ کون سی ہے؟

جواب: جی ہاں، بالکل صحیح ہے، کائناتی روح اپنی تمامتر خوبیوں کے ساتھ کائنات کی شکل و شباہت رکھتی ہے، اور یہ حقیقت جنّت کے

 

۳۶

 

ذکر میں موجود ہے (۵۷: ۲۱ ) اور جُزوی رُوحیں بھی اجزائے کائنات اور مخلوقات کی سی شکل و صورت رکھتی ہیں، مگر روح کی سب سے خاص صورت یہ ہے کہ وہ انسانی شکل میں ہے، اور اس سے بھی آگے بڑھ کر انسانِ کامل کی صورت میں، جو صورتِ رحمان ہے۔

مُشاہدۂ روحانیّت:

سوال نمبر ۲۴: آپ جن ذرّاتِ روحانی کا اکثر ذکر کرتے رہتے ہیں، آیا وہ مشاہدۂ روحانیّت اور معرفت کی بات ہے یا صرف قرآنی علم کی؟ اگر روح کا دیدار ممکن ہے تو وہ کس آنکھ سے ہوتا ہے، یعنی دیدۂ ظاہر سے یا دیدۂ باطن سے؟

جواب: ذرّاتِ روح کا تذکرہ مشاہدۂ روحانیّت و معرفت اور قرآنی حکمت کے بغیر ممکن نہیں، اور نہ ہی امامِ زمانؑ کی تائید کے سوا روحانیّت اور حکمتِ قرآن حاصل ہو سکتی ہے، دیدارِ روح کا تعلق چشمِ باطن سے ہے، مگر بعد میں ایسا وقت بھی آتا ہے کہ اس میں حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن باہم مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔

تبادلۂ روح:

سوال نمبر ۲۵: آپ کے کہنے کے مطابق ایک ہی روح، مثلاً روحِ انسانی یا نفسِ ناطقہ لاتعداد روحوں کا مجموعہ ہے، پھر بتائیے کہ آیا یہ تمام روحیں

 

۳۷

 

زندگی بھر انسان کے جسم میں محبوس و مقیّد رہتی ہیں یا کہ ان کا تبادلہ اور آنا جانا ہوتا ہے؟

جواب: کوئی شک نہیں کہ ایک ہی روح کے نام سے بے شمار روحیں انسانی جسم میں رہتی ہیں، مگر یہ ہے کہ بہت سے مواقع پر ان کا ایسا تبادلہ اور آنا جانا ہوتا ہے کہ سوائے اہلِ روحانیّت کے اس کا کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا، مثال کے طور پر نیند کے دوران کچھ روحیں جاتی ہیں اور کچھ نئی روحیں آتی ہیں (۳۹: ۴۲ )۔

تجدید و تازگی:

سوال نمبر ۲۶: اگر معاملہ کچھ یوں ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ ہماری مجموعی روحانیت میں تجدید و تازگی ہو، وہ یہ کہ آلودہ اور فرسودہ ذرّات چلے جائیں اور عمدہ عمدہ ذرّات ان کی جگہ لیں، اس کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

جواب: صاحبِ امر کی فرمانبرداری میں کامیاب عبادت و بندگی، مومنین کی خدمت اور عاجزی اختیار کرنے سے یہ مقصد حاصل ہو سکتا ہے، اور خداوندِ عالم نے تبادلہ کا یہ نظام اہلِ ایمان کی روحانی تر قی ہی کے لئے بنا یا ہے۔

روح کب سے ہے؟

سوال نمبر ۲۷: روح کب سے ہے اور کب تک قائم رہ سکے گی،

 

۳۸

 

بالفاظِ دیگر خداوند تعالیٰ نے روح کب پیدا کی تھی، اور کتنے عرصے کے لئے؟

جواب: اس سے پیشتر آیۂ کریمہ کی وضاحت ہو چکی ہے کہ روح عالمِ امر سے ہے، (یعنی عالمِ خلق سے نہیں) اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ روح ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے اور یہ خدا کی سب سے بڑی صفت ہے کہ اس کی بادشاہی میں ایسی چیزیں بھی ہیں جو قدیم ہیں، کیونکہ جو چیز عالمِ امر سے منسوب ہو وہ قدیم ہوتی ہے اور جو شیٔ عالمِ خلق کی ہو تو وہ حادث ہوتی ہے۔

نفسِ واحدہ:

سوال نمبر ۲۸: یہ تو بالکل درست ہے کہ سب سے بڑی روح ایک مثال میں “روحوں کا سمندر” ہے اور دوسری مثال میں “روح الارواح” ہے، لیکن ہم اس کے علاوہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ عظیم ترین روح کا کوئی قرآنی نام ہو، تاکہ یہ حقیقت اور زیادہ روشن ہو جائے، تو کیا آپ اِس باب میں قرآنِ حکیم سے کچھ بتا سکتے ہیں؟

جواب: قرآنِ پاک میں کائناتی روح کے کئی نام مذکور ہیں، اور ان میں سے ایک نام “نفسِ واحدہ” ہے (۳۱: ۲۸) جس میں تمام روحیں جمع ہیں، جہاں ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو سب لوگ بیک وقت اور معاً پیدا کئے گئے تھے اور وہ اسی طرح دوبارہ پیدا ہو جائیں گے۔

 

۳۹

 

اسمِ اعظم:

سوال نمبر ۲۹: مطالعۂ قرآن (۰۴: ۱۷۱ ) سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرتِ عیسیٰؑ خدا کا کلمہ تھے جو بی بی مریمؑ میں القاء کیا گیا، اور خدا کی طرف سے ایک خاص روح تھے، اس میں پوچھنا یہ ہے کہ آپؑ کس طرح کلمہ تھے اور کونسا کلمہ تھے؟ نیز یہ کہ کلمہ اور روح میں کیا مناسبت ہے، اور یہ روح کون سی تھی؟

جواب: اس کی حکمت یوں ہے کہ حضرتِ عیسیٰؑ جسمانی پیدائش سے قبل اور بعد میں بھی روحانی طور پر کلمۂ خدا تھے جو اسمِ اعظم ہے اور یہ اسمِ اعظم حضرتِ مریمؑ کو دیا گیا، کلمہ اور روح کا رشتہ یہ ہے کہ عظیم روح اسمِ اعظم (کلمہ) میں پوشیدہ ہوتی ہے، اور وہ روح القدس ہے، اور اسی طرح خدا وندِ عالم نے بی بی مریمؑ میں روحِ قدسی پھونک دی تھی۔

خدائی روح پھونک دینا:

سوال نمبر ۳۰: قرآنِ کریم (۳۲: ۰۹) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک روح آدمؑ میں پھونک دی، آیا یہ کوئی الگ طریقہ تھا یا اسمِ بزرگ کی تعلیم دینا ہی روح القدس پھونک دینا تھا؟

جواب: ہم نے کتابِ “پیر ناصر خسرو (ق س) اور روحانیت” میں تفصیل سے اس کا ذکر کیا ہے کہ ربّ العزّت نے اپنی روح حضرت آدمؑ میں اس طرح پھونک دی تھی کہ اس حکمت والے نے آدمِ صفی اللہ کو اسمِ اعظم کی تعلیم سے سرفراز فرمایا، اور کل اسماء کا علم بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔

 

۴۰

 

لفظِ “ارواح” کیوں نہیں؟

سوال نمبر ۳۱: قرآنِ پاک میں جہاں جہاں روح کا ذکر آیا ہے تو وہ سب صیغۂ واحد میں “روح” ہے مگر کہیں بھی صیغۂ جمع میں “ارواح” نہیں، سو اس میں کیا راز ہے؟ مثال کے طور پر تنزّ لُ الملٰئٓکۃ وا لرّوحُ فیھَا ( اس میں فرشتے نازل ہوتے ہیں اور روح ۹۷: ۰۴) حالانکہ اس میں ظاہری تقاضا تو یہ ہے کہ قدر کی رات کے موقع پر جس طرح بہت سارے ملائکہ اترتے ہیں اسی طرح صرف ایک ہی روح نہیں بلکہ بہت سی ارواح نازل ہوں۔

جواب: اس میں مصلحت و حکمت اور راز یہ ہے کہ ایک ہی عظیم اور سردار روح میں بے حساب روحیں جمع ہوتی ہیں، چنانچہ ایک عظیم روح کا نازل ہونا ہی بہت سی ارواح کا نزول ہے اور اس کا ذکر سب کا ذکر ہے، جیسے فرمایا گیا ہے کہ: اس (خدا) کی طرف فرشتے اور روح چڑھتی ہے ایک دن میں جو پچاس ہزار برس کے برابر ہے (۷۰: ۰۴) یہ بات بہت ہی عجیب ہوگی اگر ہم صرف یہی خیال کریں کہ اتنے لمبے دور میں جو پچاس ہزار برس کا ہے صرف ایک ہی روح خداوندِ عالم کے حضورِ اقدس میں پہنچ سکتی ہے، مگر یہ بات نہیں ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سردار روح (جیسے انسانِ کامل کی پاک روح) تو ایک ہی ہوتی ہے، مگر اس میں کائنات بھر کی ارواح سمائی ہوئی ہوتی ہیں۔

 

۴۱

 

فرشتوں کا لشکر اور سردار: ۔

سوال نمبر ۳۲: روح سے متعلق اس بحث کے سلسلے میں شروع سے لے کر یہاں تک جس طرح بیان ہوا اس سے بہت سی حقیقتوں کے علاوہ ہم یہ اصول بھی سمجھ گئے کہ ہر درجہ کی روح میں بہت سی ارواح موجود ہوتی ہیں، اسی کے ساتھ ساتھ ہم فرشتوں کے بارے میں بھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا ایک سردار فرشتہ کے تحت بہت سے فرشتے کام کرتے ہیں یا نہیں؟

جواب: جی ہاں، فرشتوں کے متعلق بھی یہی تصوّر درست ہے کہ ہر کام کے لئے ایک سردار فرشتہ ہوا کرتا ہے اور اس کے تحت بہت سے فرشتے اور ہوتے ہیں جو بحکمِ خدا اس کے ساتھ متعلقہ کام کرتے ہیں، جیسے حضرت عزرائیلؑ کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ: “(اے رسولؐ) تم کہدو کہ ملک الموت (عزرائیل) جو تمہارے اوپر تعینات ہے وہی تمہاری روحیں قبض کرے گا (۳۲: ۱۱)” اور عزرائیل کے ماتحت فرشتوں کے متعلق یوں ارشاد ہے: “یہ وہ لوگ ہیں جن کی روحیں فرشتے اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ پاک و پاکیزہ ہوتے ہیں تو فرشتے ان سے کہتے ہیں تم پر سلامتی ہے ( ۱۶: ۳۲)” اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل علہیم السّلام میں سے ہر ایک فرشتہ کے تحت بہت سے ذیلی فرشتے کام کرتے ہیں۔

روح اور فرشتہ: ۔

سوال نمبر ۳۳: روح اور فرشتہ کے درمیان کیا فرق ہے، اور نور

 

۴۲

 

کے ساتھ فرشتے کا کیا رشتہ ہے؟ کیا الگ الگ بہت سے انوار ہو سکتے ہیں یا کہ نور صرف ایک ہی ہوتا ہے؟

جواب: روح بعض دفعہ فرشتہ اور فرشتہ بعض اوقات روح کے لئے بولا جاتا ہے، اس صورت میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں، اور جہاں فرق ہے وہ یہ ہے کہ روحوں میں اچھی بھی ہیں اور بری بھی، مگر فرشتے سب کے سب اچھے ہیں، یعنی فرمانبردار (۱۶: ۵۰) چنانچہ ایسی روحیں جو فرمانبرداری کے درجۂ کمال پر پہنچ گئی ہوں، وہ فرشتے بن چکی ہیں، کیونکہ فرشتے ارواحِ مومنین و مومنات سے ہی بن جاتے ہیں، نور کے ساتھ فرشتے کا رشتہ یہ ہے کہ اگر فرشتہ عظیم ہے تو وہ نور ہوتا ہے، جس طرح بڑی روح نور کہلاتی ہے، نور کے چاند ستارے الگ الگ ہو سکتے ہیں، لیکن وہ صرف سرچشمۂ نور یعنی آفتابِ دین میں ایک ہیں، بلکہ وہ اس روشنی میں بھی ایک ہیں، جو ان کے توسّط سے پھیل جا تی ہے۔

ترقی یافتہ روح: ۔

سوال نمبر ۳۴: یہ بات بڑی اہمیّت والی ہے جو بتائی گئی کہ کچھ روحیں جو خدا اور رسولؐ اور صاحبِ امرؑ کی اطاعت کرتی ہیں، وہ فرشتوں کی حیثیت سے ہیں یا کل فرشتے بن جانے والی ہیں، لہٰذا اس مطلب پر مزید روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ حقیقت زیادہ سے زیادہ روشن ہو جائے کہ ہر ترقی یافتہ روح فرشتہ ہے۔

جواب: جبرائیلؑ کے فرشتہ ہونے میں کسی کو کیا شک ہوسکتا

 

۴۳

 

ہے، فرشتہ فارسی لفظ ہے، اس کی عربی “مَلَک” ہے، آپ قرآن میں دیکھ سکتے ہیں کہ جبرائیل مَلَک (فرشتہ) ہے (۴۲: ۵۱) اور آپ یہ بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ حضرت جبرائیلؑ پاک روح ہے (۱۶: ۱۰۲) اور امانت والی روح ہے ( ۲۶: ۱۹۳) صرف یہی نہیں بلکہ اور بھی آیات ہیں، جن میں لفظ “روح” فرشتہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، مثلاً اس آیت کو لیجئے: ۔

فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا(۱۹: ۱۷) تو ہم نے اپنی روح (جبرائیل) کو ان کے پاس بھیجا تو وہ اچھے خاصے آدمی کی صورت بن کر ان کے سامنے آکھڑا ہوا۔ اس سے صاف صاف ظاہر ہے کہ ہر اعلیٰ روح ایک فرشتہ ہے، اسی کے ساتھ ہم یہاں یہ بھی کہیں گے کہ جن آیات میں بہت سے فرشتوں کے ساتھ ایک خاص روح کا ذکر ہوا ہے (مثال کے طور پر ۱۶: ۰۲) تو اس میں حقیقت کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں، ایک تو یہ کہ ایسے مقام پر “الملٰٓئکۃ” فرشتے ہیں، اور “الروح” عظیم فرشتہ ہے، دوسرا یہ کہ”الملٰٓئکۃ” کا مطلب ارواح ہیں، اور “الروح” سے سردار روح مراد ہے اور ہمیشہ یہ بھی یاد رہے کہ گوہرِ حقیقت کے جتنے بھی زیادہ پہلو ہوتے ہیں، اتنی زیادہ اس کی قدر و قیمت ہوا کرتی ہے۔

خاص روح: ۔

سوال نمبر ۳۵: یہ بالکل صحیح ہے کہ قرآنِ حکیم میں لفظ “روح” کُل ۲۴ مرتبہ مذکور ہے، ان تمام مقامات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ خاص روح کا ذکر ہے، عام روح کی بات نہیں، خاص اس لئے کہ

 

۴۴

 

اکثر روح کا اسمِ معرفہ (الروح) ہے، اور بہت کم جگہوں پر نکرہ ہے (یعنی روح) لیکن جہاں جہاں نکرہ ہے اس کو بھی خدا سے منسوب کر کے حقیقت کے اعتبار سے خاص کیا گیا ہے، جیسے: “۔۔۔۔۔۔۔ (۵۸: ۲۲) اور خدا نے اپنی طرف سے ایک روح سے ان کی تائید کی۔” اس ارشاد میں “بِرُوْحٍ” عام ہے، مگر “مِنْہُ” کے اعلان نے اسے ایک طرح سے خاص کر دیا ہے، تاہم “روحٍ” جو اسم ہے، اس کے ایک طرف سے خاص اور دوسری طرف سے عام ہونے میں بڑی حکمت پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ دین کا ہر مرتبہ خواہ وہ جبرائیل کا ہو یا کسی اور کا، دو حیثیتوں میں ہوتا ہے، ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ ازلی و ابدی مرتبہ ہے، دوسری یہ کہ ہر زمانے میں کوئی عظیم شخصیت اور پاک روح اس مرتبۂ عالی پر فائز ہو جاتی ہے، چنانچہ جہاں دائمی منصب کا ذکر مقصود ہوتا ہے، تو اس میں الروح یا روح القدس جیسے اسمائے معرفہ لائے جاتے ہیں، اور جب اس شخصیت یا روح کی طرف اشارہ مطلوب ہو جو زمانے میں اس مرتبت پر متمکن ہے، تو اس صورت میں روحٍ یا روحاً جیسے اسمائے نکرہ لا کر پھر ان کو خدا سے منسوب کیا جاتا ہے، تاکہ حکمت کا جو تقاضا ہے وہ پورا ہو جائے۔

لفظِ “ذریّت” کی حکمت: ۔

سوال نمبر ۳۶: ہم لفظ ذریّت کے متعلق گہری معلومات چاہتے

 

۴۵

 

ہیں۔ چنانچہ سورۂ یاسین (۳۶) کی آیت نمبر ۴۱ کے دو ایسے ترجمے سامنے ہیں، کہ ان دونوں میں “ذریّت” کے معنی مختلف ہیں، آپ بتائیے کہ کون سا ترجمہ درست ہے؟ آیۂ مقدّسہ یہ ہے: ۔

و اٰیۃ لھم انا حملنا ذریتھم فی الفلک المشحون۔ (۳۶: ۴۱)

پہلا ترجمہ: اور ایک نشانی ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ دوسرا ترجمہ: اور ان کے لئے ایک نشانی یہ ہے کہ ہم نے ان کے بزرگوں کو (نوحؑ کی) بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔

جواب: ۔ ذریّت سے یہاں نہ اولاد مراد ہے اور نہ ہی بزرگان یعنی آباؤ اجداد، کیونکہ یہاں جس کشتی کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ کشتیٔ نوحؑ ہے، تو اس میں زمانۂ رسولؐ کے لوگوں کی اولاد کس طرح سوار ہوئی تھی، اور یہ بھی درست نہیں کہ ذریّت کے معنی آباؤاجداد کریں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں ذریّت سے ذراتِ روح مراد ہیں، یعنی ان لوگوں کے روحانی ذرّات کشتیٔ نوح میں سوار شدہ مومنین کی پشتوں میں تھے، اور یہ قدرتِ خدا کی ایک نشانی ہے، یعنی معجزہ کہ یہ لوگ ذرّات کی صورت میں وہاں موجود تھے اور طوفان کا خوفناک منظر دیکھ رہے تھے، ذرّاتِ روحانی کی مزید تشریح آپ کو “امام شناسی حصّۂ اوّل” میں “پرہیزگاروں کے امام” کے عنوان کے تحت ملے گی۔

سفینۂ نوح اور ذراتِ روح: ۔

سوال نمبر ۳۷: آپ نے فرمایا کہ جو اہلِ ایمان سفینۂ نوح میں سوارتھے، ان کی پشتوں کے روحانی ذرّات نے طوفان کا منظر دیکھا تھا، اس

 

۴۶

 

میں سوال ہے کہ یہ ذرّات کے لئے کس طرح ممکن ہوا، حالانکہ ان میں شعور نہیں تھا؟

جواب: آج سیّارۂ زمین پر جتنے لوگ بستے ہیں، وہ اس سے پہلے بنی آدم کی پشتوں میں روحانی ذرّات تھے، ان کو پروردگارِ عالم نے وہاں سے اٹھا کر ایک ایسی شخصیّت کی روحانیّت میں حاضر کر دیا، جہاں نورِ خدا حقائق و معارف پر روشنی ڈال رہا تھا، چنانچہ خداوند تعالیٰ نے ان ذرّات سے پوچھا کہ آیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں، تو انہوں نے جواب دیا، کیوں نہیں (۰۷: ۱۷۲) اس سے ظاہر ہوا کہ جہاں نورِ خداوندی کی روشنی پڑتی ہے وہاں نہ صرف روح کے ذرّات کو شعور ملتا ہے بلکہ تمام بے جان ذرّات بھی بول اٹھتے ہیں، جیسا کہ ارشادِ قرآنی ہے: “وہ جواب دیں گے کہ جس خدا نے ہر چیز کو گویا کیا اسی نے ہم کو گویا کیا (۴۱: ۲۱)” چنانچہ سفینۂ نوحؑ میں نورِ نبوّت و امامت ذرّاتِ روح پر روشنی ڈال رہا تھا، اور تمام روحیں ایک طرح سے اس عظیم طوفان کو دیکھ رہی تھیں۔

ہم پہلے تھے یا آدمؑ؟

سوال نمبر ۳۸: اس آیۂ مبارکہ کی ترتیبِ بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید اس میں کوئی عظیم راز پوشیدہ ہے، کیونکہ اگر ہم اس کو صرف نگاہِ ظاہر سے دیکھیں تو کئی مشکل سوالات پیدا ہوتے ہیں، وہ پاک آیت یہ ہے:۔

” وَلقد خلقنٰکم ثمّ صوّرنٰکم ثمَّ قلنا للملٰئکۃ اسجدوا لِاٰدم (۰۷: ۱۱)

 

۴۷

 

اور ہم ہی نے تم کو پیدا کیا پھر تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔” اس میں سوال یہ ہے کہ آیاتِ قرآن میں سلسلۂ بیان کی کڑیاں اپنی اپنی جگہ پر ہوتی ہیں، یعنی جو واقعہ ترتیبِ بیان میں آگے ہو، وہ زمانہ کے لحاظ سے بھی آگے ہوتا ہے، اور خصوصاً اس وقت جبکہ ایک چیز بیان ہونے کے بعد “ثُمَ” آتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہاں جو چیز پہلے مذکور ہوئی ہے وہ واقعاً پہلے ہی ہے، پھر آپ یہ بتائیں کہ آیا لوگ زمانۂ آدم سے پہلے موجود تھے؟ نیز اس کی وضاحت کریں آیا “خلقنٰکم”  سے مخلوق کرنے کے معنی پورے نہیں ہوتے، کیا اس میں تخلیق کے تمام معنی موجود نہیں ہیں، جس کی وجہ سے “ثُم صوّرنٰکم” فرمایا گیا؟

جواب: یقیناً اس بابرکت آیت میں ایک عظیم سِر پوشدہ ہے، ہم بتوفیقِ خداوند قدّوس یہاں اس کی حکمت بیان کریں گے، تاکہ عزیزوں کے تمام متعلقہ سوالات بحکمِ خدا حل ہو کر ان کی معلومات میں گرانقدر حصّے کا اضافہ ہو، وہ عظیم الشّان حکمت اس طرح ہے کہ:

وَلقَد خلقنٰکُم = اور ہم ہی نے تم کو (اس دور کے آدمؑ سے قبل) پیدا کیا (جیسا کہ جسمانیّت میں پیدا کرنا چاہئے) ثُمَّ صَوَّرْنٰکُم = پھر ہم نے تمہاری روحانی شکل و صورت بنائی (یعنی تم پر ایک روحانی دور گزر گیا) ثُمَّ قُلنا للملٰئکۃ اسجدو الِاٰدم = پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو (یعنی اس وقت تم بھی ذرّاتِ روح کی حیثیّت میں اور جمالی فرشتوں کی مرتبت میں وہاں موجود تھے) واضح رہے کہ “خلقنٰکم” میں جسمانی تخلیق کے پور ے معنی موجود ہیں۔ اور “صَوّرنٰکمُ” میں روحانی تکمیل کا ذکر ہے، کیونکہ انسان کے جسمِ کثیف کا تعلق عالمِ خلق سے ہے جو یہ جہان ہے، اور صورتِ

 

۴۸

 

لطیف (یعنی روح) کا تعلق عالمِ امر سے ہے جو دنیائے روحانیّت ہے، جس میں انسان شکل و صورت، حسن و جمال اور نورانیّت کے اوجِ کمال پر پہنچ جاتا ہے، کیونکہ وہ حقیقت میں صورتِ رحمان ہے۔

لوگ بابا آدمؑ سے قبل:

سوال نمبر ۳۹: روح شناسی سے متعلق سوالات کے اس سلسلے میں آپ نے بہت بڑا انقلابی تصوّر پیش کیا کہ آدم سے پہلے بھی لوگ موجود تھے، لیکن کیا یہ زیادہ بہتر نہیں ہوگا، کہ آپ ہمیں اس موضوع کی ایک اور آیت سے آگاہ کر دیں؟

جواب: اللہ تعالیٰ کا مقدّس فرمان ہے کہ: ۔

“کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اللہ النبین مبشرین و منذرین و انزل معھم الکتٰب (۰۲: ۲۱۳)

(پہلے تو سب) لوگ ایک ہی امت تھے تو خدا نے (ان کی طرف) بشارت دینے والے اور ڈرسنانے والے پیغمبر بھیجے اور ان پر کتاب نازل کی۔” اس سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ دورِ نبوّت سے قبل لوگ موجود تھے اور ان کا طریقہ ایک ہی تھا، پھر نبوّت کا دور شروع ہوا، جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام کو تاجِ خلافت و نبوّت سے سرفراز فرمایا۔

 

۴۹

 

صورِ قیامت: ۔

سوال نمبر ۴۰: یہ سورۂ یاسین کی ایک حکمت آگین آیت کا ترجمہ ہے کہ: اور (جس وقت) صور پھونکا جائے گا تو یہ سب لوگ قبروں سے (نکل کر ) اپنے پروردگار کی طرف دوڑ پڑیں گے ( ۳۶: ۵۱ ) اس میں چند سوالات پیدا ہو جاتے ہیں، اوّل یہ کہ صورِ اسرافیلؑ کی کیفیت و حقیقت کیا ہے، اور اس میں حکمت کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ آیا اس ظاہری قبر میں روح مدفون ہوتی ہے یا اس کی کوئی تاویل ہے؟ تیسرا یہ کہ جب لوگ بڑی سرعت کے ساتھ اپنے ربّ کی طرف جارہے ہوں گے تو اس وقت ان کی ہستی کس حالت میں ہوگی، حالتِ روحانی میں یا کیفیتِ جسمانی میں؟ چوتھا اور آخری سوال یہ ہے کہ خدائے واحد و یکتا جو مکان و لامکان سے پاک و برتر ہے اس وقت کہاں ظہور فرما ہوگا، کیونکہ ان روحوں کو تو اسی کے حضور میں حاضر ہوجانا ہے؟

جواب: (الف) صورِ اسرافیلؑ مقامِ روحانیّت کا ایک عظیم الشّان واقعہ اور ایک پراسرار آواز ہے، وہ نرسنگھا اور بگل نہیں بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ وہ ایک بے مثال سریلی، بیحد رقت انگیز اور مسحورکن شہنائی اور بانسری کے مشابہ ہے، یہ آخری درجے کی دعوتِ حق ہے، یہ نغمۂ عشقِ حقیقی ہے، اور انبیاء و اولیاء اس سے پورا پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جس میں ایک طرف تو فنا ہے اور دوسری طرف بقا، یہ ملکوتی نغمہ بے انتہا روح پرور اور بے اندازہ دلنواز ہے، تاکہ لوگ جو دنیا پر فریفتہ ہیں، وہ آخرکار اس کو سن کر روحانیّت کے حقائق و معارف کے لئے یقین کریں، پس صورِ اسرافیلؑ میں اتنی زیادہ حکمتیں ہیں کہ ان کو احاطۂ بیان میں نہیں لایا جا سکتا۔

 

۵۰

 

(ب) یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ظاہری قبر میں ارواح مدفون نہیں ہوتیں، ہاں، اس مادّی قبر سے متعلق قرآن و حدیث میں جتنے ارشادات ہیں، ان میں تاویلی حکمتیں پوشیدہ ہیں، چنانچہ قبر اور قبرستان تاویلاً انسان کا زندہ جسم ہے، جس میں اتنی کثیر روحیں مدفون ہیں کہ ان کی تعداد خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا، کیا یہ درست نہیں ہے کہ انسان عالمِ صغیر یعنی روحانیّت کی کائنات ہے؟ اگر یہ بات آپ کے نزدیک بھی صحیح ہے، تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ عالمِ صغیر میں روحانی طور پر وہ سب کچھ ہے، جو دنیائے ظاہر میں مادّی طور پر موجود ہے، سو یقیناً اس میں قبریں بھی ہیں، کیونکہ جب کسی شخص پر موت واقع ہو جاتی ہے تو اس حال میں جسم سے روح الگ ہو جاتی ہے، جس کو تو ظاہری قبر میں دفن کیا جاتا ہے اور روح روحانی قبر میں مدفون ہو جاتی ہے، اور وہ کوئی زندہ شخصیّت ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ کتاب “وجہ دین” کلام نمبر ۱۹ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کا یہ فرمان درج ہے کہ: “میری قبر اور منبر کے درمیان بہشت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔” پس آنحضرتؐ کی قبر مبارک حضورؐ کے وصی یعنی علیؑ تھے، منبر قائم القیامتؑ اور باغ دعوتِ حق ہے۔

(ج) صورِ اسرافیل کے بجنے پر جب لوگ بڑی تیزی سے اپنے پروردگار کی طرف دوڑ پڑیں گے، تو اس وقت وہ موجودہ جسم میں نہیں ہونگے، بلکہ وہ حالتِ روحانی اور جسمِ لطیف کے ذرّات سے وابستہ ہوں گے، جن کا ذکر اس سلسلۂ سوال وجواب کے علاوہ ہماری دوسری تحریروں میں بھی ہوتا رہا ہے۔

(د) کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ مکان و لامکان سے پاک و برتر ہے، مگر اس کا مقدّس نور دنیا میں ہمیشہ موجود و حاضر ہے اور یہی نور حضورِ خداوندی

 

۵۱

 

ہے، جہاں نور موجود ہے وہاں سے اسرافیل صور پھونکے گا اور لوگ ذرّاتِ روحانی کی شکل میں اسی آواز اورا سی بارگاہِ عالی کی طرف اڑتے ہوئے جائیں گے۔

 

۵۲

 

بابِ سوم:

 

روح کی عکاسی: ۔

سوال نمبر ۴۱: آپ نے اپنی ایک تصنیف پنج مقالہ نمبر۴ میں “ایک جوابی خط کا اہم حصہ” کے عنوان سے روح کے بارے میں بیحد عمدہ باتیں تحریر کی ہیں، جس کا خاص حصہ یہ ہے: ۔

” روح ایک حقیقت ہے، ایک جوہرِ بسیط، ایک لطیف زندگی، ایک عظیم دنیا، ایک باطنی شعور، ایک حقیقی بیداری، ایک بے مثال شے، ایک مخفی خزانہ، ایک لازوال سلطنت، ایک نورانی ہستی، ایک خدائی عکس، ایک قدیم ذات، ایک توحیدِ صفات، ایک نمونۂ حیات، ایک لطیف کائنات، ایک آئینۂ معجزات، ایک سرچشمۂ برکات، ایک جامعِ آیات، ایک مجموعۂ حالات، ایک مرکزِ عنایات، ایک وسعتِ جنّات، ایک رفعتِ درجات وغیرہ۔”

ان ۲۲ جملوں میں اوصافِ روح کی بہترین عکاسی کی گئی ہے، مگر ہم یہاں آخری آٹھ جملوں کی مزید وضاحت چاہتے ہیں، تاکہ روح کی شناخت میں زیادہ سے زیادہ آسانی ہو۔

جواب: یقیناً روح ایک لطیف کائنات ہے، جس میں ہر ہر چیز بشکلِ لطیف موجود ہے، روح ایک ایسا آئینہ ہے، جس میں حضرتِ ربّ العزّت کے تمام ازلی، ابدی، مکانی اور لامکانی معجزات کا مشاہدہ ہوتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی برکتوں کا سرچشمہ ہے، جس میں آیاتِ قدرت جمع ہیں، وہ ماضی و مستقبل کے حالات و واقعات کا مجموعہ بھی ہے، خداوند نے روح کو اپنی مہربانیوں کا مرکز بنایا ہے، روح خود بفضلِ خدا جنّت ہے اور قرآن ( ۵۷: ۲۱) میں بہشت کی وسعت کا ذکر ہوا ہے، وہ دراصل روح کی وسعت ہے، اور روح وہ ہے

 

۵۵

 

جس میں اوّل تا آخر عزّت کے تمام درجات و مراتب موجود ہیں۔

محسوس یا معقول: ۔

سوال نمبر ۴۲: آپ ہمیں یہ بتائیں کہ روح محسوسات میں سے ہے یا معقولات میں سے؟ اس سلسلے میں اپنا نظریہ دلائل کی روشنی میں بیان کریں۔

جواب: روح ذاتی اعتبار سے معقول ہے، یعنی یہ حواسِ ظاہر سے نہیں بلکہ صرف عقل سے جانی پہچانی جاتی ہے، مگر جب اس کا رابطہ جسمِ لطیف یا جسمِ کثیف سے ہو جاتا ہے تو یہ ایک طرح سے محسوس بھی کہلا سکتی ہے، خصوصاً جسمِ لطیف کی صورت میں یعنی جب ہماری روح فلکی جسم کے لباس میں ملبوس ہو تو اس حال میں ہم اس کو تمامتر خوبیوں کے ساتھ سر کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں، اس کی باتوں کو سن سکتے ہیں، اس کی خوشبوؤں کو سونگھ سکتے ہیں وغیرہ۔

جب حضرت مریم علیہا السّلام کے سامنے روح القدس کا ظہور ہوا تو اس وقت وہ پاک روح ایک کامل اور مکمل انسان کی صورت میں تھی (۱۹: ۱۷ ) خدا وند تعالیٰ کے امر سے بعض دفعہ فرشتے بشری لباس میں ملبوس ہو کر ظاہر ہو جاتے ہیں، دیکھئے سورۂ ہود کی آیت ۶۹ تا ۸۱ (۱۱: ۶۹ تا ۸۱)، مطلب یہ ہے کہ جہاں چھوٹی چھوٹی روحیں ذرّات کی شکل میں ظاہر ہو جاتی ہیں وہاں عظیم ارواح جو فرشتے ہیں مکمل انسانی شکل میں سامنے آتی ہیں۔

 

۵۶

 

رَوح اور رُوح: ۔

سوال نمبر ۴۳: آپ نے اس سے پیشتر یہ بتایا ہے کہ لفظِ “روح” قرآنِ حکیم میں ۲۴ دفعہ مذکور ہے، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں تین بار “رَوح” بھی شامل کیا گیا ہے، آیا رَوح میں بھی رُوح کے لغوی معنی ہیں یا یہ ایک تاویل ہے؟

جواب: اوّل یہ ہے کہ رَوح اور رُوح اصل میں ایک ہی ہیں، یعنی یہ ایک ہی لغت ہے، دوم یہ کہ اگر ہم اس کو الگ تصوّر کر کے اس کی تاویل کریں، تو پھر بھی یہی بات بنتی ہے، بہر لحاظ رَوح کا لفظ رُوح کے لئے ہے، کیونکہ دونوں کا مادّہ اور مطلب ایک ہے، چنانچہ اس آیۂ مبارکہ میں ذرا غور کر کے دیکھیں کہ جو لوگ مقرّب ہیں ان کو دنیا کی زندگی ہی میں خدا کی طرف سے روح اور روحانیّت حاصل ہو جاتی ہے، جس میں ہر قسم کے روحانی پھول اور پھل موجود ہیں:۔

فاما ان کان من المقربین فروح و ریحان و جنت نعیم (۵۶: ۸۸ تا ۸۹) پس اگر وہ مقربین میں سے ہے، تو (اس کے لئے زندگی ہی سے حقیقی ) روح اور خوشبودار پھول ہیں اور نعمت کے باغ۔

دوسرے مقام پر لفظ “رَوح” اس طرح ہے کہ: “و لا تایسوا من روح اللہ۔۔۔۔  ۱۲: ۸۷ اور خدا کی روح سے ناامید نہ ہو کیونکہ خدا کی روح سے سوائے کافر لوگوں کے کوئی نااُمید نہیں ہوا۔” اس آیت کی قرأت میں “رُوح” بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ قول حضرت یعقوب علیہ السّلام کی

 

۵۷

 

زبان سے ہے، اور آپؑ نے حضرت یوسف علیہ السّلام کے بارے میں فرمایا تھا کہ خدا کی روح (رحمت) سے نا امید نہ ہوجانا، یعنی حضرت یوسفؑ سے جو روح اللہ اور پیغمبر و امام تھے۔

 

امامؑ کا نام “الروح”:۔

سوال نمبر ۴۴: ویسے تو امام صلوات اللہ علیہ کے بہت سے نام ہیں، مگر علمِ روحانیّت کی زبان میں امام عالی مقام کا کیا نام ہے؟ اور اس کی کیا دلیل ہے؟

جواب: امام اقدس و اطہر کا ایک مبارک نام “الروح” اور روح اللہ ہے، جس کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ جب امام نور ہے تو روح ہے، کیونکہ نور ایک زندہ روح کی حیثیت سے ہوتا ہے، چنانچہ نوراللہ اور روح اللہ کے ایک ہی معنی ہیں اور دونوں لفظوں میں ذرہ بھر فرق نہیں، دوسری دلیل یہ ہے کہ مولا علی علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا کہ: اَنَا اَمْرُ اللّٰہِ و الرُّوْحُ۔ یعنی میں ہوں امرِ خدا اور اس کی روح۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ہے: قُلِ الرُّوحُ مِنْ اَمْرِ رَبیْ۔ کہدو (اے محمدؐ) کہ روح میرے پروردگار کے امر سے ہے۔ تیسری دلیل بھی مولا علیؑ کے ارشاد سے ہے کہ: من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ۔ یعنی جس نے اپنی روح (امام) کو پہچان لیا یقیناً اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔ انسان میں کئی روحیں ہوتی ہیں، نباتی، حیوانی اور انسانی، مگر جب تک چوتھی روح یعنی روحِ قدسی کا حصول اور شناخت نہ ہو، تو پروردگار کی معرفت ناممکن ہے، اور ظاہر ہے کہ چوتھی روح پیغمبرؐ اور امامؑ کا نور ہے، اور یہی

 

۵۸

 

روح انسان کی حقیقی روح بھی ہے، پس امامؑ ہماری حقیقی روح ہے، یعنی روحِ قدس، اور مذکورۂ بالا ارشاد کا مطلب یہی ہے۔

روح کے عاشق: ۔

سوال نمبر ۴۵: حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوٰت اللہ علیہ نے کچھ بزرگانِ دین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ: “وہ اپنی روح کے عاشق تھے۔” اس سے کون سی روح مراد ہے؟ صراحت سے بتائیں۔

جواب: جو روح عام طور پر سب انسانوں میں پائی جاتی ہے اس پر کیا عاشق ہونا ہے، عاشق اس روح پر ہونا تھا جو ہادیٔ برحق میں ہے، جو عاشق اور معشوق دونوں کی مشترکہ روح ہے، اور یہی وجہ ہے کہ دونوں کو ایک ہی وحدت عطا کر دیتی ہے، چنانچہ ماضی میں بزرگانِ دین جس پاک روح کے عاشق تھے، وہ ہادیٔ برحق (پیغمبرؐ اور امامؑ) کی روح تھی اور ان کی اپنی روح تھی، جس میں تجلّیوں کی دنیا تھی، پھر کیسے عاشق نہ ہوتے۔

روحِ مقدّس: ۔

سوال نمبر ۴۶: یہ تو عقیدت کی بات ہوئی، اس کو ہم بھی مانتے ہیں، لیکن اس کے بارے میں کوئی ایسی دلیل چاہئے جس میں عقلی طور پر بہت زیادہ وزن ہو، کیا آپ کوئی ایسی دلیل پیش کر سکتے ہیں؟ جس کی طرف اہلِ ہوش توجہ دیں؟

 

۵۹

 

جواب: خداوند تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے جمادات کے لئے عروج و ارتقاء کی روح نباتات میں رکھی ہے، چنانچہ جہاں کہیں مٹی کے ذرّات نباتات میں تحلیل و فنا ہو جاتے ہیں، تو وہاں قانونِ قدرت ان کو لازماً روحِ نباتی یعنی روحِ نامیہ عطا کر دیتا ہے۔

اسی طرح نباتات کی روحِ ترقّی حیوانات کے وجود میں ہے، اور اس کے حصول کی واحد شرط یہ ہے کہ نباتات اپنی ہستی کو حیوانوں کی غذا کی خاطر قربان کر دیں، تاکہ جانور انہیں کھا کر اپنی حیوانی روح کے ساتھ ایک کر لیں۔

اس کے بعد حیوانات کی بات آتی ہے، کہ ان میں سے جو حلال ہیں، ان کی ارتقائی منزل اور بالائی روح انسان میں رکھی ہوئی ہے، اور اس کو اپنانے کا طریقہ صرف اور صرف یہی ہے کہ حیوانات جان دے دیں، تاکہ انسانوں کے مقصدِ حیات کی تکمیل میں مدد ملے، اور ساتھ ہی ساتھ حیوانات ایک طرح سے انسانی روح میں زندہ ہو جائیں۔

یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا، بلکہ اور بھی آگے بڑھ جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو اہلِ سعادت ہیں، وہ خود کو دینی اور روحانی اعتبار سے ہادیٔ زمانؑ کے سپرد کر دیتے ہیں، اور آپؐ کی مکمل پیروی، پر خلوص اطاعت اور کامل عشق میں اپنے نفسِ امّارہ کو فنا کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں آپ آنجنابؑ ایسے برگزیدہ بندوں کو اپنی پاک روح میں متحد اور ایک کر لیتا ہے، پس اس قانونِ فطرت کی روشنی میں یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ انسانِ کامل بنی آدم کی سب سے اعلیٰ اور سب سے آخری روح ہے۔

 

۶۰

 

جسمِ فلکی:۔

سوال نمبر ۴۷: آپ نے اپنی تحریروں کے متعدّد مقامات پر جسمِ فلکی، جسمِ لطیف، جثّۂ ابداعیہ، آسڑل باڈی وغیرہ جیسے ناموں کا ذکر کیا ہے، اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ آیا ایسی کوئی چیز قرآنِ حکیم میں مذکور ہے یا یہ بات صرف ظاہری معلومات تک محدود ہے؟ اگر فی الواقع ایسی کوئی شے موجود ہے تو وضاحت کیجئے کہ وہ کس طرح ہے؟

جواب: جسمِ فلکی سے ایسا بدن مراد ہے، جس کا مادّہ سیّارۂ زمین کے عناصر سے مختلف ہے، کیونکہ وہ آسمانی مادّہ ہے، جسمِ لطیف بھی وہی ہے جو اپنی لطافت و پاکیزگی کی وجہ سے جسمِ خاکی سے ممتاز ہے، آسٹرل باڈی  (ASTRAL BODY) کے معنی ہیں کوکبی یا نجمی بدن، جس سے وہی چیز مراد ہے، اور جثّۂ ابداعیہ بھی ہے تو وہی چیز، مگر اس کا مفہوم عظیم و اعلیٰ ہے، کیونکہ جثّہ کے معنی جسم ہیں اور ابداعیہ ابداع سے ہے، جو کلمۂ “کن” کا نتیجہ ہے، چنانچہ جثّہ ابداعیہ سے ایسا معجزاتی بدن مراد ہے، جس میں “کن فیکون” کی کارفرمائی اور عالمِ امر کی بادشاہی ہے، وہی تختِ بہشت اور سب کچھ ہے۔

جی ہاں! قرآنِ حکیم میں کئی طرح سے اس کا ذکر آیا ہے، کہ بقائے انسانی کے لئے موجودہ جسم کے علاوہ اور بھی چند اجسام ہیں، مثال کے طور پر اس قرآنی ارشاد میں خوب غور کیا جائے: ۔

“اور اسی (خدا ) نے تمہارے لئے کرتے بنائے جو تمہیں گرمی سے محفوظ رکھیں اور کُرتے جو تمہیں ہتھیاروں کی زد سے بچائیں (۱۶: ۸۱ )” یہ دنیا کے کرتے ہر گز نہیں جو کپڑے یا کسی اور چیز کے ہوسکتے ہیں، جن کو انسان بناتا ہے، اور یہ

 

۶۱

 

بات بھی قطعی ناممکن ہے کہ کچھ ایسے ظاہری اور مادّی کُرتے ہم کو ہر طرح کی گرمی اور ہر قسم کی جنگ کے اثر سے بچا سکیں، سوائے اجسامِ لطیفہ کے، جو روحانی کُرتے ہیں، جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے پُرقدرت ہاتھ سے بنایا ہے۔

قوّتِ جبریلیّہ: ۔

سوال نمبر ۴۸: قوّتِ “جبریلیّہ” کس چیز کا نام ہے، اور یہ کس درجے کے انسان میں ہوتی ہے، اس کے ساتھ ایک طرف سے جبرائیل ملا ہوا ہے، اور دوسری طرف سے ایک حقیقی مومن کی روح، تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: میری ایک کتاب: “پنج مقالہ نمبر ۳” سے مضمون “تین سوال انڈیا سے۔”

روح اور جسم کی مشابہت: ۔

سوال ۴۹: آپ نے نمبر ۴۲ میں کہا ہے کہ جب ہماری روح فلکی جسم کے لباس میں ملبوس ہو تو اس حال میں اس کو تمام تر خوبیوں کے ساتھ سر کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں، اس کی باتوں کو سن سکتے ہیں، اور اس کی خوشبوؤں کو سونگھ سکتے ہیں وغیرہ، اس میں یہ سوال ہے کہ آیا ہر آدمی اور اس کی

 

۶۲

 

روح شکل و صورت میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں یا مختلف؟ روح کس زبان میں گفتگو کرتی ہے؟ کیا تمام روحوں کی کوئی مشترکہ زبان ہے؟ روح کی خوشبو کیسی ؟

جواب: جی ہاں، نچلے درجات میں ہر شخص کی روح گویا اس کی روحانی تصویر ہے، لیکن آخری درجات میں، جہاں بہت سی حقیقتوں کی ازلی و ابدی وحدت ہے، ایسا نہیں ہے ، بلکہ وہاں روح انسانِ کامل کی صورت میں نظر آتی ہے، ہر آدمی اور اس کی روح کی زبان ایک ہی ہے، یعنی جس انسان کی جو مادری زبان ہے، وہی اس کی روح کی زبان ہے، روحوں کی کوئی مشترکہ زبان نہیں، ہاں، روح اور روحانیّت میں خوشبوؤں کی بڑی اہمیّت ہے، یہاں تک کہ اُدھر تو غذائیں بھی مختلف قسم کی خوشبوؤں کی شکل میں دی جاتی ہیں، وہاں نوالہ لے کر چبائی جانے والی غذا کوئی نہیں۔

پرندہ اور پھل کی تاویل: ۔

سوال نمبر ۵۰: “علم کے موتی” (آپ کی ایک کتاب) کا مطالعہ کر کے ہمیں بے اندازہ مسرّت و شادمانی حاصل ہوئی، اس میں (ما شاء اللہ ) آپ نے حقیقتِ عالیہ کی باتیں تحریر کی ہیں، مثال کے طور پر پرندوں اور پھلوں کی تاویل بڑی نرالی اور بیحد جانفزا ہے، کیا آپ اس بارے میں کوئی مزید نکتۂ دلپذیر بیان کریں گے؟

جواب: حضرت سلیمان علیہ السّلام جس طرح پرندوں کی بولی جانتے تھے (۲۷: ۱۶) اس کی تاویل یہ ہے کہ آپؐ تمام روحوں سے گفتگو کرتے تھے،

 

۶۳

 

جس میں جنّ و انس اور وحش و طیر سب کی ارواح تھیں، کیونکہ روح کو پرندہ اس معنیٰ میں کہا گیا ہے کہ یہ ذرّۂ لطیف کی شکل میں ہمارے اوپر آزادی سے اڑتی ہوئی آتی جاتی رہتی ہے۔

جنّت میں اگر گوشت ہے تو صرف پرندوں کا، کیوں؟ اس لئے کہ روح کی تشبیہ و تمثیل پرندے سے دی گئی ہے، اور بہشت میں پرندے کا گوشت تناول کرنا یوں ہے کہ کسی عمدہ پسندیدہ اور اعلیٰ روح کو اپناکر جزوِ ہستی بنا لیا جائے، دنیاوی نعمتوں کو کھانے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ ان کی بدولت جسمانی وجود قائم رہے۔

قرآنِ حکیم بار بار کہتا ہے کہ جنّت میں رزق ثمرات یعنی پھلو ں سے دیا جائے گا، اس میں بھی روحوں کی طرف اشارہ ہے، کہ کائنات و موجودات کی ہر ہر چیز کی روح اس کا پھل کہلاتا ہے، جس طرح درخت کی ساری خصوصیات، خوبیاں، قوّتیں اور لذّتیں پھل میں جمع ہو جاتی ہیں، اسی طرح چیزوں کی روح میں علم و حکمت کی تمامتر حلاوتیں اور مسرّتیں سموئی ہوئی ہیں، اور خوب یاد رہے کہ بہشت عقلی اور روحی نعمتوں سے بھر پور ہے۔

مُردوں کا دنیا دیکھنا: ۔

سوال نمبر ۵۱: جب کوئی آدمی مر جاتا ہے تو اسی وقت اس کی نگاہوں سے یہ دنیا اوجھل ہو جاتی ہے، اس لئے کہ اب اس میں وہ آنکھ نہ رہی،  جس سے وہ اس عالم کو دیکھتا تھا، مگر اس کے باوجود وہ یہ چاہتا ہے کہ اس دنیا کو یا کم سے کم اپنے خاندان والوں کو دیکھا کرے، اور ان کو کچھ مدد دے، کیا یہ

 

۶۴

 

کام اس کے لئے ممکن ہے یا غیر ممکن ؟

جواب: اس میں اوّل تو یہ دیکھنا ہوگا کہ ایسا شخص بہشت میں ہے یا دوزخ میں؟ کیونکہ بہشت کی بات الگ ہے اور دوزخ کی حالت الگ، یعنی جنت میں ہر خواہش کی تکمیل ممکن ہے، آپ قرآن (۵۰: ۳۵) کو دیکھیں: “اس (جنّت) میں یہ لوگ جو چاہیں گے ان کے لئے حاضر ہے اورہمارے ہاں تو (اس سے بھی) زیادہ ہے۔”

مومنین جو جنّت میں ہوں گے، وہ کئی طرح سے دنیا کو دیکھ سکیں گے، مثلاً چشمِ روح سے نورِ الٰہی کی روشنی میں، جثّۂ ابداعیہ میں دنیائے ظاہر کی طرف متوجّہ ہو کر، وغیرہ، مگر کسی کو مدد دینے کا سوال اس سے قدرے مختلف ہے، کیونکہ اس سے قانونِ اختیار و امتحان میں مداخلت ہو جاتی ہے، تاہم جب خداوند تعالیٰ کی طرف سے کسی کی مدد منظور ہو تو یہ بھی ممکن ہے، بشرطیکہ روح فرشتے کے درجے میں ہو، جیسا کہ اہلِ ایمان کے لئے فرشتوں کی مدد کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ:۔

“ہم دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی تمہارے دوست (مددگار) ہیں ( ۴۱: ۳۱)” یہاں یہ بھی یاد رہے کہ فرشتے خدا کے حکم سے جو کچھ مدد کر سکتے ہیں، وہ صرف روحانی، علمی اور دینی مدد ہے، دنیا وی ہر گز نہیں۔

ذوالقرنین اور یاجوج و ماجوج: ۔

سوال نمبر ۵۲: ذوالقرنین کس درجے کی شخصیت تھے؟ ان کا سفر کس نوعیّت کا تھا؟ یاجوج اور ماجوج کیسی مخلوق ہیں، اور سدِّ سکندری کی حقیقت

 

۶۵

 

کیا ہے؟ اس سلسلے میں آپ ہمیں کچھ اہم حقائق بیان کر دیں۔

جواب: ذوالقرنین اپنے زمانے کے امامؑ تھے، آپؑ کا یہ سفر جس طرح قرآن (۱۸: ۸۳ تا ۹۸) میں مذکور ہے روحانیّت میں تھا، چنانچہ انہوں نے تمام روحانی منازل اپنی ذات ہی میں طے کیں، سورج ڈوبنے کی جگہ سے دو اصل جسمانی مراد ہیں، یعنی ناطقؐ اور اساسؑ، جو نورِ علم و حکمت کے مغرب ہیں، اور “عَینٍ حَمِئَۃٍ” سے حدود جسمانی کی شخصیتیں مراد ہیں، یعنی امام، حجت و داعی، کہ یہ حضرات ناطق اور اساس سے وابستہ ہیں اور چشمے کی طرح ان کا سلسلہ جاری ہے۔

اس مقام پر حضرت امام ذوالقرنین علیہ السّلام نے تمام دنیا والوں کی روحوں کو دیکھا، اور خداوند عالم نے جیسے امام کو اہلِ دنیا کے معاملے میں اختیار دے رکھا ہے اس کے متعلق ارشاد فرمایا۔

سورج نکلنے کی جگہ کے معنی ہیں دواصلِ روحانی، یعنی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ، جو نورِ علم و حکمت کے مشرق ہیں، وہاں پر امامِ عالی مقامؑ نے ارواح و ملائکہ کا وہ عظیم الشّان اجتماع دیکھا جس پر آفتابِ نور کسی پردے کے بغیر ضیا پاشی کر رہا تھا، یہ اہلِ توحید کی روحیں تھیں۔

یاجوج و ماجوج کی کئی تاویلیں ہیں، آپ میری ایک کتاب “امام شناسی حصہ سوم کلید نمبر ۱۴ اور نمبر ۱۵” کو بھی دیکھیں، یا جوج و ماجوج ایک قسم کی روحیں ہیں، جس سے روحانی طور پر نقصان بھی ہے اور فائدہ بھی، مگر نقصان عارضی اور فائدہ مستقل ہے۔

ایک اعتبار سے عظیم ادوار تین ہیں، ایک بڑا زمانہ جو بہت پہلے گزرچکا ہے، دوسرا یہ جو موجود ہے اور قیامت تک پھیلا ہوا ہے، اور تیسرا عظیم

 

۶۶

 

دور قیامت کے بعد شروع ہونے والا ہے، چنانچہ ان تین بڑے ادوار سے متعلق حضرت ذوالقرنین امامؑ نے تین درجے کی ارواح کا مشاہدہ کیا، درجۂ اوّل کی روحیں نور کے مشرق میں تھیں، جن کا تعلق گزشتہ دور سے تھا، اور ان کو دائمی نجات مل چکی تھی، درجۂ دوم کی روحوں کا مشاہدہ پہلے ہی مغرب میں ہوا تھا، جن کی وابستگی موجودہ دور سے تھی، اور درجۂ سوم کی ارواح یعنی یاجوج و ماجوج کو مثلاً ایک ایسی وادی میں دیکھا جو مشرق و مغرب کے درمیان تھی، اس کی تاویل یہ ہے کہ ان کو نہ تو حدودِ روحانی سے ہدایت حاصل تھی، اور نہ ہی حدودِ جسمانی سے، اور یہی سبب ہے کہ یہ ارواح دین کی زبان نہیں جانتی تھیں، سو ان کی فطرت میں یہ تقاضا تھا کہ اپنی وادی سے نکل کر ایک عظیم انقلاب برپا کریں، تاکہ دنیا میں تیسرے عظیم دور کا آغاز ہو، جو انہی سے متعلق ہے، مگر قبل از وقت کوئی کام مناسب نہیں، لہٰذا روحانیت کی ایک مضبوط دیوار بنا کر ان کو روک دیا۔

روحانی غذا: ۔

سوال نمبر ۵۳: سورۂ مائدہ (۵) کی آیت نمبر ۶۶ میں فرمایا گیا ہے کہ: اور اگر یہ لوگ توریت اور انجیل اور جو کچھ ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس کو قائم رکھتے تو ضرور وہ اوپر سے بھی رزق کھا لیتے اور پاؤں کے نیچے سے بھی (۰۵: ۶۶) آیا اس میں کوئی روحانی حکمت ہے یا اس کے صرف یہی معنی ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ فرمانبرداروں کو دنیاوی رزق بہت زیادہ ملے، اور نافرمان لوگ بھوکے مرجائیں؟

 

۶۷

 

جواب: اس مقام پر روحانی رزق کا ذکر فرمایا گیا ہے، اگر چہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس میں جسمانی رزق کی بات ہے، لیکن چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ دراصل روحانی غذا ہے۔

جاننا چاہئے کہ انسان کی مثالیں بہت زیادہ ہیں، اور ان میں سے ایک مثال درخت کی ہے، اس لئے کہ آدمی میں درخت والی روح (یعنی روحِ نباتی) بھی ہے، اور درخت کی پرورش دو طرح سے ہوتی ہے، یعنی جڑوں سے بھی اور شاخوں سے بھی، اسی طرح روحانیّت کے اعلیٰ مقامات پر غذا سے متعلق سماوی روحیں سر سے داخل ہو جاتی ہیں اور ارضی روحیں پاؤں سے اور حیوانی و انسانی روحیں سر سے داخل ہو جاتی ہیں۔

سر کی راہ سے جو لطیف غذائیں حاصل ہوتی ہیں، وہ بھی دو قسم کی ہیں، ایک وہ چیز ہے جو خلق سے اتر تی ہے مگر چبائی نہیں جاتی، کیونکہ وہ لطیف اور بہت خُرد ہے، یہ گویا روحِ حیوانی کا حصہ ہے، اور دوسری بہت سی غذائیں خوشبوؤں کی صورت میں ہیں، ان کو روحِ انسانی کا حصہ سمجھنا چاہئے۔

ظہورِ روح: ۔

سوال نمبر ۵۴: جب کوئی سعادت مند مومن دینِ اسلام اور ہادیٔ برحق کی ہدایات و تعلیمات کی روشنی میں ظہورِ روح و روحانیّت کے مقامات تک پہنچ جاتا ہے تو اس وقت اس کے سامنے روح یا ارواح کن کن حیثیتوں میں ظاہر ہو جاتی ہیں؟ اس بارے میں کچھ اصولی باتیں بتا دی جائیں۔

 

۶۸

 

جواب: سب سے پہلے روح محرّک تصاویر پر مبنی نورانیّت کی ایک خاموش دنیا بن کر دیدۂ دل کے سامنے آتی ہے، کچھ عرصے کے بعد اللہ کی رحمت و مہربانی سے مکمل روحانیّت کا دروازہ کھل جاتا ہے، پھر روح کے کامل ظہورات ہونے لگتے ہیں، چنانچہ روح با آواز اور بے آواز ذرّاتِ لطیف میں آتی ہے، اسماء اور کلمات میں بھی، صورت و صدا میں بھی، اشکالِ لطیفہ میں بھی، خواب و خیال اور بیداری میں بھی، وغیرہ وغیرہ ۔

تجلّیاتِ روح کا مقصد: ۔

سوال نمبر ۵۵: روح کے اس قدر کثیر ظہورات و تجلّیات کا خاص مقصد کیا ہے، اور اس مقصد کے حصول کے لئے کیا کچھ کرنا چاہئے، یا اس کی کیا کیا شرطیں مقرر ہیں؟

جواب: روحانی ظہورات و تجلّیات کا مقصدِ اعلیٰ علم و معرفت ہے، اور اس کے حصول کی شرطیں دو ہیں یقینی علم اور نیک عمل یعنی ایسا علم جو دین کی ہر ہر بات کو یقینی بنا دے اور ایسا عمل جس میں دین کے تمام کام جمع ہو جائیں۔

نور کی منتقلی: ۔

سوال نمبر ۵۶: پیغمبرِ اکرمؐ سے روح یا نورِ مولا علیؑ میں کس طرح منتقل ہوگیا؟ امام سے اس کے جانشین میں نور کیسے جاتا ہے؟ امام کے نور سے کوئی روشنی مرید میں آسکتی ہے یا نہیں؟ اگر آسکتی ہے تو کس طرح؟

 

۶۹

 

جواب: اس بارے میں سب سے اوّل یہ جاننا ضروری ہےکہ “کلمہ” کی اصطلاح حقائق و معارف کی کلید ہے، چنانچہ کلمہ کے چار حرف ہیں، جیسے ، ک۔ل۔م۔ہ، اسی طرح کلمہ سے چار قسم کے معنی مراد ہیں، یعنی اس کا مطلب امر بھی ہے، روح بھی، اسمِ اعظم بھی ہے اور تعلیم بھی، مثال کے طور پر قرآنِ پاک کہتا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے اپنی روح بی بی مریمؑ میں پھونک دی (۶۶: ۱۲ ) اس کی تاویل یہ ہے کہ پیغمبریا امامؑ نے حضرت مریمؑ کو اسمِ اعظم دیا، آپ قرآنِ حکیم میں دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کلمۂ خدا اور اس کی روح کی حیثیت سے ان کی والدۂ محترمہ کی پیشانی میں بھیجے جاتے ہیں کہ نور کا مقام پیشانی ہے (۰۴: ۱۷۱)۔

اسی طرح رحمتِ عالمؐ نے مولا علیؑ کو کلمۂ خدا دیا، وہ کلمہ جو امرِ خدا بھی ہے اور اس کی روح بھی، اسمِ اعظم بھی ہے اور آسمانی تعلیم بھی، پس ہر امام اپنے جانشین میں اسی طرح نور منتقل کر دیتا ہے۔

امام کے مقدّس نور سے مریدوں کو عام طور پر بھی اور خاص طور پر بھی روشنی مل سکتی ہے، اور اس کا طریقہ قانونِ دین سے مختلف نہیں، مرید امام کے روحانی فرزند ہوا کرتے ہیں، اور اسی رشتۂ روحانی میں دونوں جہان کی سعادتیں پوشیدہ ہیں۔

قرابتوں کا خاتمہ: ۔

سوال نمبر ۵۷: “فاذا نفخ فی الصور فلا انساب بینہم یومئذ و لا یتسائلون(۲۳: ۱۰۱) پھر جب صور پھونکا جائے گا تو نہ تو ان

 

۷۰

 

میں قرابتیں رہیں گی اور نہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔” سوال ہے کہ قیامت کے دن قرابتیں کیوں ختم ہوں گی، اور وہ بھی صورِ اسرافیل کے پھونکنے پر؟

جواب: اس میں دین اور روحانیّت کا ایک عظیم انقلابی راز پوشیدہ ہے، اگر بگویم ۔ مشکل ! اگر نہ گویم ۔ ہم مشکل! تاہم اشارہ ضروری ہے کہ اس کا جواب ایک ایسی آیت میں موجود ہے، جس میں نفخِ صور کا ذکر بھی ہے اور اس میں دوسرے الفاظ کے ساتھ ایک ایسا لفظ بھی ہے جس کی اصل ن، س، ل ہے، اس کے علاوہ شاید میں آپ عزیزوں سے زبانی بات کر سکوں۔

ہم نے اس کتاب میں قبلاً تین ادوار کا ذکر کرتے ہوئے اسی سرِّ عظیم کی طرف اشارہ کیا ہے، ہوشمند مومنین ان خاص بھیدوں کو سمجھ سکتے ہیں، خداوند عالم سب مومنین کو توفیق و ہمت عنایت فرمائے! آمین!!

پرندوں کی بولی یا ارواح کی زبان؟

سوال نمبر ۵۸: قرآنِ مقدس ( ۲۷: ۱۶ ) میں ارشاد ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السّلام پرندوں کی بولی جانتے تھے، آپ نے اس کی تاویل سوال نمبر ۵۰ کے تحت یہ بتایا ہے کہ سلیمان پیغمبرؑ روحوں کی زبان جانتے تھے، کیونکہ پرندوں سے ارواح مراد ہیں، ہم ضرور اس بات کو مانتے ہیں، مگر اس میں یہ ذیلی سوال باقی رہتا ہے کہ آیا جناب سلیمانؑ ظاہری پرندوں کی بولی بھی جانتے تھے یا نہیں؟ نیز یہاں آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ: “خدا نے ہر چیز کو گویا کیا (۴۱: ۲۱)” یعنی بولنے کی قوّت دی، تو یہ معجزہ کب اور کہاں ہوا، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے سوا جو بھی مخلوق ہے وہ ہمیشہ سے بے زبان اور بولنے سے قاصر ہے؟

 

۷۱

 

جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السّلام نہ صرف روحوں کی زبان جانتے تھے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ظاہری اور جسمانی پرندوں کی بولی بھی جانتے تھے اور جملہ انبیائے کرام و أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام اس معجزاتی اور روحانی علم میں یکسان ہیں، کیونکہ خدائی نور سے ان کامل انسانوں کی وابستگی کو علمی و عرفانی نتیجہ ایک جیسا ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ آپ کوئی پیغمبر یا امام ہر گز نہیں، مگر فرض کریں کہ خداوند تعالیٰ اپنی بے پایان رحمت سے آپ کو نورِ معرفت کی روشنی عطا فرماتا ہے، تو اس وقت آپ راہِ روحانیّت پر رسولِ خداؐ اور امامِ زمانؑ کے پیچھے پیچھے چلتے ہوں گے، درحالیکہ ہر قدم پر نورِ نبوّت و امامت کے عجائب و غرائب اور معجزات کا ایک نیا عالم آپ کے سامنے ہوگا، اس وقت آپ لاتعداد مافوق الفطرت SUPERNATURAL  واقعات کا مشاہدہ اور مطالعہ کررہے ہوں گے، اور اسی سلسلے میں آپ زندوں اور مردوں کی ارواح سے گفتگو بھی کریں گے اور پرندوں کی بولی بھی سمجھ سکیں گے، اسی روحانیّت کے بغیر کوئی مکمل معرفت ہے نہیں، اور نہ ہی اس کے سوا کوئی اور راستہ ہے۔

جی ہاں، اللہ پاک نے ہر چیز کو گویا کیا، یعنی اس نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ہر چیز کے بولنے کا معجزہ دکھایا، اور اس کی علمی شہادت (گواہی) ہمیشہ سے مقامِ روحانیّت پر موجود ہے، الغرض ہر بیجان اور بے زبان چیزدو طرح سے معجزانہ بات چیت کرتی ہے، ایک تو یہ ہے کہ اس گفتگو میں صرف اس چیز کی روح موجود ہوتی ہے، دوسرا یہ کہ وہ شے یعنی جانور وغیرہ جسمانی حالت میں سامنے ہوتا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اس میں روحِ قدسی کا ہاتھ ہوتا ہے، لہٰذا یہ ضروری نہیں کہ اگر کوئی بیجان چیز یا کوئی جاندار آپ کی

 

۷۲

 

روحانیّت کے مقام پر کچھ بول رہا ہے تو اس کو اپنے بولنے کا احساس و شعور بھی ہو۔

روحانی ہد ہد: ۔

سوال نمبر ۵۹: اب ہم آپ کے کہنے کے مطابق یہ مانتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ روحانی پرندوں کی بولی بھی جانتے تھے اور جسمانی پرندوں کی بولی بھی، مگر اس سے ایک اور سوال یہ پیدا ہو ا ہے کہ حضرت سلیمانؑ اور ملکۂ سبا (بلقیس) کے قرآنی قصّے میں جس ہد ہد کا ذکر ہے، وہ روحانی اور تاویلی طور پر تھا یا مادّی حالت میں؟ اس مرغِ سلیمانؑ نے شہرِ سبا کی شہزادی کے متعلق جو کچھ خبرلائی، جیسے حضرت سلیمانؑ کا خط ان کو پہنچا دیا اور اس سلسلے کے دوسرے واقعات، آیا یہ سب روحانیّت کی باتیں ہیں یا ظاہری معجزات ؟

جواب: جاننا چاہئے کہ یہ ہد ہد مادیّت میں نہیں بلکہ روحانیّت میں تھا، اور اس کا سارا کام باطنی اور روحانی تھا، قصّۂ ملکۂ سبا کے دو پہلو ہیں، ایک ظاہری اور ایک باطنی و تاویلی اور تاویلی بھی کئی طرح سے ہے، منجملہ ایک یہ ہے جو ہم یہاں بیان کر رہے ہیں، کہ اس قصّے میں روحِ تجسس کا نام ہد ہد بتایا گیا ہے، کیونکہ مملکتِ سلیمانی دراصل روحانی حکومت ہے، جس میں رحمانی سلطنت کے تمام انتظامات مہیّا ہیں۔

حضرت سلیمانؑ کے لشکر جو جنّات، آدمی اور پرندوں سے تھے، وہ ارواح کی شکل میں تھے( ۲۶: ۱۷) ہَوا جو آپؑ کے لئے مسخر تھی یہ ایک روحانی معجزے کی بات ہے ( ۳۴: ۱۲) جنّات روحانیّت میں دوسرے بہت سے کاموں کے علاوہ روحانی مصوری بھی کرتے تھے (۳۴: ۱۳) عرش یعنی تخت کی

 

۷۳

 

تاویل یہاں انسان کی لطیف شکل و صورت اور روحانی ہستی ہے ( ۲۷: ۲۳) کیونکہ آدمی کی انا و خودی اس کی روح کے تخت پر قائم ہے اور روح اصل میں ایک لطیف نورانی تصویر ہے، اسی موقع پر اگر ہم عرشِ الٰہی کی بات بھی کریں تو بہتر ہوگا، اور وہ یہ کہ خداوند تعالیٰ کا عرش بھی انسانی شکل کا ہے، چنانچہ جب آپ روحانیّت کے اعلیٰ مقام پر دیدۂ باطن سے امامِ اقدس و اطہرؑ کی نورانی ہستی کا مشاہدہ کریں گے تو یہ مقامِ عرش ہوگا، قرآنِ حکیم میں جہاں ( ۲۷: ۲۳) میں ملکۂ سبا کے عرش کا ذکر ہوا ہے وہاں (۲۷: ۲۶) میں “العرش العظیم” یعنی لاہوتی بادشاہ کے تخت کا ذکر بھی فرمایا گیا ہے، تاکہ اہلِ دانش اس میں غور کریں۔

کون سی خصلت کس روح کی؟

سوال نمبر ۶۰: جب انسان میں روحِ نباتی، روحِ حیوانی اور روحِ انسانی مل کر ہیں، تو اس کی ایسی مخلوط و مرکب ہستی میں کیسے معلوم ہوگا کہ کون سی خصلت کس روح کی ہے اور کونسا فعل کس روح کا؟

جواب: ان باتوں کے جاننے کا اصول یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے درخت، حیوان اور انسان کے درمیاں جو فرق و امتیاز ہے، اس کو دیکھیں گے، یا یوں کہنا چاہئے کہ ہم درخت اور حیوان کی خصوصیات کے بارے میں ذرا غور کریں گے کہ کون سی چیز کس میں ہے درخت میں یا حیوان میں؟ تاکہ اسی طرح انسان کی روحِ نباتی اور روحِ حیوانی کی صلاحیتوں کی شناخت ہو جائے، اب اس کے

 

۷۴

 

بعد آدمی کی جو خصوصیات باقی ہوںگی، وہ ظاہر ہے کہ اس کی روحِ انسانی سے متعلق ہوںگی۔

 

۷۵

 

بابِ چہارم:

 

چراغ اور شعلۂ چراغ: ۔

سوال نمبر ۶۱: آپ اس سے پہلے یہ تو بتا چکے ہیں کہ روحُ اللہ اور نورُاللہ ایک ہی حقیقت ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم کی (۴۲: ۵۲) میں فرمایا گیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو روح حضور اکرمؐ کی طرف وحی کی گئی تھی، اسی کو نور قرار دیا گیا تھا، آیا ہم اس کے نتیجے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ جو خدا کی روح تھے وہ بطنِ مریمؑ میں بھی ہوتے ہوئے نورِ الٰہی تھے؟ کیا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ جب حضرتِ عیسیٰؑ کا جسمانی جنم ہوا تو بی بی مریمؑ روحِ خدا یعنی نورُاللہ سے خالی ہوگئیں، کیونکہ روحُ اللہ تو صرف حضرت عیسیٰؑ تھے؟ اس کے بارے میں وضاحت چاہئے۔

جواب: اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدّس نور کی تشبیہ و تمثیل ایک روشن چراغ سے دی ہے، چراغ ایک تو ظرف (برتن) ہے جس میں تیل اور بتی ہوتی ہے، اور دوسرا شعلہ، جو اس ظرف کے کنارے سے بلند ہوتے ہوئے روشنی بکھیرتا ہے، اسی طرح اگرچہ حضرت عیسیٰؑ کی جسمانی تکمیل شکمِ مادر میں ہورہی تھی، لیکن آپؑ کا نور بی بی مریمؑ کی پیشانی سے ضوفشانی کرتا تھا، اور نور کے کئی پہلو ہوتے ہیں، لہٰذا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ نور دونوں مقدّس ہستیوں سے متعلق تھا، جس وقت حضرتِ عیسیٰؑ جسمانی طور پر پیدا ہوئے، تو اس میں صرف جسم سے جسم الگ ہوا، مگر نور (روح) بسیط ہے، اس لئے یہ الگ نہیں ہوسکتا تھا، سو اگرچہ مرکزِ نور عیسیٰؑ تھے، مگر اس کا ایک مکمل عکس بی بی مریمؑ کی مبارک پیشانی میں باقی تھا۔

 

۷۹

 

حضرت موسٰی کی والدہ: ۔

سوال نمبر ۶۲: آیا حضرت موسٰیؑ کی والدہ کوئی پیغمبرانہ درجہ رکھتی تھیں؟ اگر نہیں تو ان کو خداوند تعالیٰ کی طرف سے وحی کیونکر آئی، جس کا ذکر قرآن ( ۶۸: ۰۷) میں موجود ہے؟ کیا ان کی اور بی بی مریمؑ کی روحانیّت ایک جیسی تھی؟ آیا حضرت موسٰیؑ بھی اپنے وقت میں روحُ اللہ تھے؟

جواب: حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کی والدۂ محترمہ نہ تو کوئی پیغمبر تھیں اور نہ ہی کوئی امام، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت یہ نہیں کہ کوئی عورت پیغمبر یا امام ہو، مگر باطنی اور روحانی طور پر مرد اور عورت دونوں نور سے واصل ہو سکتے ہیں، مادرِ موسٰیؑ کو جو وحی آئی تھی، وہ پیغمبرانہ نوعیّت کی نہ تھی، وہ ذاتی قسم کی تھی، جس کو روحانیّت اور الہام بھی کہا جا سکتا ہے، جو پیغمبر اور امام کے قرب کا نتیجہ ہے۔

جی ہاں، موسٰی علیہ السّلام کی والدہ اور بی بی مریم روحانی فضائل کے اعتبار سے ایک جیسی نظر آتی ہیں، کیونکہ دونوں مقدّس ہستیوں پر آسمانی ہدایت کی تابش یکسان ہے، اگر چہ مادرِ موسٰیؑ کے متعلق قرآن میں کوئی ایسی اعلانیہ تعریف نہیں، جیسی بی بی مریمؑ کے بارے میں ہے، تاہم ان کی ساری تعریف وہاں جمع ہے جہاں ان کو وحی ہوتی ہے، جی ہاں، حضرت موسٰیؑ بھی اپنے وقت میں خدا کی روح تھے۔

 

۸۰

 

ذیلی فرشتے: ۔

سوال نمبر ۶۳: ہم روحانیّت کے اس اصول پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر درجہ کی روح میں لاتعداد روحیں ہوا کرتی ہیں، اور یہی مثال روح القدس کی بھی ہے، اب ہمیں اس میں یہ پوچھنا ہے کہ زمانۂ نبوّت میں اگر روح القدّس یعنی جبرائیلؑ سلمان فارسی کی شکل میں آیا تھا، تو وہ لاتعداد فرشتے جو جبرائیل کے ہمراہ ہوتے تھے کن کن شکلوں میں ہوا کرتے تھے؟

جواب: ۔ قانونِ روحانیّت یہ ہے، کہ جہاں ایک اعلیٰ مومن کی روح جبرائیلؑ کا فریضہ انجام دیتی ہے وہاں دوسرے بہت سے مومنین کی ارواح (خواہ زندوں کی ہوں یا مردوں کی) طفیلی اور ذیلی فرشتوں کا کام کرتی ہیں، اور روح جس کی ہو اس کی ہمشکل ہو تی ہے۔

مومن کی پرواز: ۔

سوال نمبر ۶۴: “میں نے جعفر (بن ابی طالبؑ ) کو جنّت میں فرشتوں کے ساتھ اڑتے دیکھا (حدیث)” کیا یہ فضیلت صرف حضرت جعفرؑ کے لئے مخصوص ہے یا ایک مشترکہ اعلیٰ درجہ ہے؟ آیا فرشتے پرندوں کی طرح پرواز کرتے ہیں یا کسی اور کیفیت میں؟

جواب: جنّت میں فرشتوں کے ساتھ اڑنے کا درجہ صرف حضرت جعفرِ طیارؑ ہی کے لئے مخصوص نہیں، مگر ضرور اتنا ہے کہ آپ اس فضیلت کے بارے میں تمام مومنین کے لئے مثال اور نمونہ ہیں، اور حصول کے

 

۸۱

 

لئے یہ درجہ سب کے سامنے ہے، فرشتوں کی پرواز پرندوں سے قطعی مختلف ہے، یہ تو روحانی اڑان ہے جو صرف ذکرِ الٰہی کے پروں سے ممکن ہے، جیسے قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ: فرشتوں کو (اپنا ) قاصد بنانے والا جنّ کے دو دو اور تین تین اور چار چار پر ہوتے ہیں ( ۳۵: ۰۱) یعنی فرشتوں میں ایک ساتھ دو اسم کا ذکر بھی جاری رہتا ہے، تین کا سلسلہ بھی چلتا ہے اور چار بھی۔

بہشت میں عبادت :

سوال نمبر ۶۵: کیا بہشت میں عبادت و بندگی ہے؟ اگر نہیں تو وہاں فرشتوں کی پرواز ذکرِ خدا سے کیونکر ہو سکتی ہے؟ کیا بقولِ قرآن (۱۵: ۹۹) عبادت موت کے آنے تک محدود نہیں ہے؟

جواب: بہشت میں ایسی کوئی تکلیف کی عبادت ہرگز نہیں جو آج ہم دنیا میں خداوند تعالیٰ کی غلامی کے تصوّر سے کرتے ہیں، اور یہ بھی نہیں جو دوزخ کے ڈر اور جنّت کی طمع سے کی جاتی ہے، مگر ہاں، بہشت میں خاص اور اعلیٰ عبادت ضرور ہے، جو کسی زحمت کے بغیر انتہائی خوشی اور پروردگار کی محبت و دوستی میں کی جاتی ہے، ایسی عبادت یا ذکرِالٰہی جنت میں روحانیّت کی بلندی پر واقع ہے، وہ عارفانہ اور فرشتگانہ ذکر ہے، جو صرف ارادے اوراشارے سے خود بخود چلنے لگتا ہے، جس میں روحیں اور عقلی قسم کی لذّتیں، حلاوتیں اور مسرّتیں موجود ہیں، یہ غذائے عقل و روح کے طور پر ہے، اور اسماء و کلمات میں جو علمی و عرفانی خزائن پوشیدہ ہیں اور جو روحانیّت

 

۸۲

 

کے عجائب و غرائب ہیں ان کو دیکھنے کے لئے ہے، جیسے آنحضرتؐ کا ارشاد ہے کہ: “لاحولَ وَلا قُوّۃَ اِلّا بِاللہِ العلیّ العظیم۔ بہشت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے،” اس کے یہ معنی ہوئے کہ جنّت کے دوسرے خزانے بھی کچھ اس طرح اسماء اور کلمات کے ہیں۔

عبادت موت کے آنے تک نہیں، کیونکہ عبادت کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ موت آجائے اور موت حاصل ہو، اس کا مقصد یقین کا آخری درجہ ہے، یعنی حق الیقین، جو انتہائی بلند مرتبہ ہے، پس مذکورہ آیت (یعنی ۱۵: ۹۹ ) میں موت کا نہیں یقین کا ذکر ہے۔

جنت میں پرواز کیسی ؟

سوال ۶۶: اگر مانا جائے کہ بہشت جو عالمِ آخرت میں ہے وہ لامکان ہے، اور اس میں دنیائے ظاہر کی طرح مادّی قسم کی مسافتیں نہیں ہیں، تو پھر اس میں کسی پرندے کی طرح کیسی پرواز ہو سکتی ہے؟

جواب: یہ بات درست اور حقیقت ہے کہ بہشت روحانی اور لامکانی کیفیت میں ہے، اور اس میں مادّی اور مکانی مسافتیں نہیں، لہٰذا فرشتوں اور روحانیوں کی پرواز جسمانی اور دنیاوی اڑان سے بالکل الگ اور مختلف ہے، اور وہ یہ کہ جنّت کے عجائب و غرائب اور ظہورات و تجلّیات کا لا انتہا سلسلہ ذکرِ خدا سے وابستہ ہے، چنانچہ یادِ الٰہی اور تذکرۂ اسماء کے ساتھ ساتھ جنّت کے گونا گون جلوے اور طرح طرح کی نعمتیں خود بخود سامنے آتی رہتی ہیں۔

 

۸۳

 

ہمارے جواب کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم بعض دفعہ عالمِ خواب میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پرواز کر جاتے ہیں حالانکہ خوابوں کی دنیا مکان نہیں بلکہ لامکان ہی ہے، اس سے ظاہر ہے کہ لامکان میں مکان کی غیر مادّی اور لطیف مثالیں بھی ہیں۔

اس کے علاوہ یہاں یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ اگر فرشتہ یا روح جسمِ لطیف یا ذرّۂ لطیف کے ساتھ ہے تو اس وقت وہ بیشک جسمانی طور پر پرواز کرتی ہے، جس طرح اڑن طشتری پُراسرار طریقے سے اڑتی ہے۔

اڑن طشتری: ۔

سوال نمبر ۶۷: اڑن طشتری (FLYING SAUCER) کیسی مخلوق ہے؟ کیا یہ کسی دوسرے سیّارے کا ترقی یافتہ انسان ہے یا فرشتہ یا جنّ؟ اس کے زمین کی طرف آنے کا مقصد کیا ہے؟ اس کے بارے میں آپ ہمیں کچھ مفید معلومات فراہم کریں۔

جواب: آج کل مغرب میں اڑن طشتری کو یو۔ایف۔ او (U.F.O)کہا جاتا ہے یعنی (UNIDENTIFIED FLYING OBJECT) جس کا مفہوم ہے ایک ایسی اڑنے والی چیز جس کی شناخت اب تک نہ ہو سکی ہے، ہم نے سوال نمبر ۴۷ کے جواب میں جو کچھ لکھا ہے، اس سے آپ کو اس سلسلے کی معلومات فراہم ہو سکتی ہیں، اس کے علاوہ آپ میری ایک کتاب “میزان الحقائق” کے صفحات از ۶۲ تا ۶۷ دیکھیں۔

میرا یقین ہے کہ اڑن طشتریاں وہی تسخیرِ کائنات کے مافوق الفطرت

 

۸۴

 

(SUPERNATURAL) زندہ کُرتے ہیں، جن کا ذکر قرآنِ حکیم (۱۶: ۸۱ ) میں فرمایا گیا ہے، اور اس ارشاد کا ترجمہ یہ ہے:۔

اور خدا ہی نے تمہارے (آرام کے) لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے اور پہاڑوں میں غار بنائے اور کُرتے بنائے جو تم کو گرمی سے بچائیں اور (ایسے) کُرتے (بھی) جو تم کو (اسلحۂ) جنگ (کے ضرر) سے محفوظ رکھیں اسی طرح خدا اپنا احسان تم پر پورا کرتا ہے تاکہ تم فرمانبردار بنو (۱۶: ۸۱)۔

اس پراسرار زندہ کرتے کو ہم جسمِ فلکی، جسمِ لطیف، جثّۂ ابداعیہ، آسٹرل باڈی (ASTRAL BODY)  وغیرہ بھی کہہ سکتے ہیں، اور دوسرے سیّارے کا ترقی یافتہ انسان فرشتہ اور جنّ بھی، کیونکہ یہ مقامِ ابداع ہے، اس کے زمین کی طرف آنا خدا کے حکم سے ہے، تاکہ دنیا میں روحانی انقلاب لایا جائے، اور اقوامِ عالم ایک ہو جائیں۔

عرش یا روح: ۔

سوال نمبر ۶۸: اس کائنات کو عرصۂ وجود میں لانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش (تخت) پانی کے ایک بے پایان سمندر پر قائم تھا (وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلیَ الْمَآءِ ۱۱: ۰۷) اس وقت انسانی روح کہاں تھی؟

جواب: اس وقت روحِ انسان عرشِ عظیم کی شکل میں تھی، اور یہ عرش (تخت) شکل میں نہ تو مربع تھا، نہ مستطیل، اور نہ ہی گول، وہ نہ تو لعل و گوہر سے بنا تھا، نہ سونا چاندی سے، اور نہ ہی کسی دوسری بیجان چیز سے، بلکہ وہ عقل و جان کا سرچشمہ اور علم و حکمت کا بے پایان خزانہ تھا، اس لئے وہ

 

۸۵

 

نور بھی کہلاتا تھا اور قلم بھی، وہ سب سے عظیم فرشتہ تھا، مگر انسانِ کامل کی صورت میں، اور وہ سمندر جس پر خداتعالیٰ کا تخت قائم تھا علمِ الٰہی کا تھا، مادّی پانی کا نہیں۔

قرآنِ حکیم کی یہ تعلیم کہ: “خدا کا تخت پانی پر تھا۔” تاویلی حکمتوں سے بھرپور ہے، اس لئے لازم نہیں آتا کہ اس سے قبل کائنات و موجودات اپنی موجودہ شکل میں ظاہر نہ ہوں، مگر ہاں، اس تصوّر میں ربِّ کریم کی جانب سے ایک بہت بڑی علمی و عرفانی آزمائش ضرور مقصود ہے، کہ اہلِ ادیان و مذاہب “عرش” اور “پانی” کی حکمت کو سمجھتے ہی نہیں۔

جاننا چاہئے کہ تخت (عرش) کا اشارہ خداوند تعالیٰ کی اس بادشاہی کی طرف ہے، جس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہا، اور بادشاہی میں سب کچھ موجود ہوتا ہے۔

دوسری حکمت “پانی” کے لفظ میں ہے، جو علم کے معنی میں ہے، اور علم عالَمْ (کائنات) کی موجودہ صورت و کیفیت میں ہے، اور اس کے بغیر علم کا وجود ہی نہیں بنتا، اگر ہم یہاں پانی کو تاویل کے بغیر ظاہری پانی ہی سمجھیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تخت کس چیز کا تھا، جبکہ پانی کے سوا اور کوئی چیز وہاں موجود ہی نہ تھی؟ تخت کو کس نے بنایا تھا، جبکہ کوئی بادشاہ اپنا تخت خود نہیں بناتا ، بلکہ کسی اور کو حکم دے کر بنواتا ہے؟

رونگٹے کھڑے ہو جانا: ۔

سوال نمبر ۶۹: رونگٹے کھڑے ہو جانے کا یا کپکپی کا ذکر قرآنِ

 

۸۶

 

حکیم (۳۹: ۲۳ ) میں بھی ہے، اور ہم اسے اپنے آپ میں یا دوسروں میں بعض دفعہ دیکھتے بھی ہیں، تو کیا اس کے ظاہری اسباب کے علاوہ کوئی روحانی سبب بھی ہے؟ اگر روحانیّت میں اس کی کوئی وجہ ہے تو بیان کیجئے۔

جواب: ہاں، اس کیفیت کی ایک روحانی وجہ بھی ہے، مگر ہم پہلے اس کے ظاہری اسباب کے بارے میں کچھ الفاظ بیان کریں گے، کہ جب آدمی کی جلد کو سخت سردی لگتی ہے یا کسی شدید خوف کا احساس ہوتا ہے تو اس وقت اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے، جس کی وجہ روحِ حیوانی کے وہ بے شمار ذرّات ہیں، جو پورے جسم میں بھرے ہوئے ہیں کہ ان روحوں کو اس غیر مناسب اور ناگوار حالت سے اضطراب و پریشانی پیدا ہو جاتی ہے، لہٰذا یہ ذرّات آرام و سکون کی نیند سے بیدار ہوکر اپنی جگہ پر حرکت کرتے ہیں، جس کا نتیجہ رونگٹے کھڑے ہو جانے یا کپکپی طاری ہو جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔

اگر یہ واقعہ اپنی روحانی شکل میں ہے تو اس کی وجہ روحِ انسانی کے وہ لاتعداد ذرّات ہیں، جو انسان کی تمام ہستی میں موجود ہیں، کہ جب کوئی خوش نصیب مومن نورِ ہدایت کی روشنی میں کثرت سے ذکر و بندگی کرتا ہے، تو اس سے ان روحوں کو تقویّت و خوشی حاصل ہو جاتی ہے اور پھر روحِ قدسی کی شعاعوں کے برسنے سے ان میں بیداری اور اشتیاقِ وصال کی تڑپ پیدا ہو کر گویا رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں یا کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔

 

۸۷

 

جنّات اور انسان کا تعلق: ۔

سوال نمبر ۷۰: کیا آپ جنّ، پری اور شیطان کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں بتائیں گے؟ آیا ان سے انسان کا کوئی رشتہ و تعلق ہے یا یہ الگ مخلوقات ہیں؟ ابلیس اور شیطان میں کیا فرق ہے؟

جواب: “جن” کا لفظ عربی ہے اور پری اسی کا فارسی ترجمہ ہے، یعنی جنّ ہی میں وہ ساری باتیں ہیں جو پریوں سے متعلق ہیں، جنّ کے معنی پوشیدہ مخلوق کے ہیں، اور وہ پوشیدہ اس لئے ہے کہ لطیف ہے کثیف نہیں، جنّات کے مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی، یہ ظلم ہے کہ بعض لوگوں نے جنّات کو بھونڈی شکل میں پیش کیا، حالانکہ یہ بات غلط ہے وہ تو بڑے حسین و جمیل ہوا کرتے ہیں، اس لئے کہ وہ لطیف جسم رکھتے ہیں۔

خداوند عالم نے نہ صرف قرآنی آیات میں غور و فکر کرنے کے لئے فرمایا ہے، بلکہ اس کا فرمان یہ بھی ہے کہ ہم آفاق و انفس کی آیات میں بھی اس کی قدرتوں اور حکمتوں کا مطالعہ کریں، چنانچہ اس سلسلے میں ایک چھوٹا سا جانور ہمارے سامنے آتا ہے وہ ایک کیڑا ہے جو کچھ عرصے کے بعد پروانہ بن جاتا ہے، پھر اس پروانے کے انڈوں سے کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں اس میں یہ پُرحکمت اشارہ ہے کہ روحانی دور کے آنے پر مخلوقِ کثیف خدا کے حکم سے مخلوقِ لطیف بن جاتی ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ انسان جو آج جسم کے اعتبار سے کثیف ہیں، کل کو لطیف جسم میں ہوں گے، اور جسمِ لطیف کے مختلف درجات ہیں، مثلاً فرشتے، جنّات اور شیاطین، فرشتے تو سب کے سب اچھے ہیں، شیاطین تماماً برے ہیں، مگر جنّات میں اچھے

 

۸۸

 

بھی ہیں اور برے بھی، ابلیس شیاطین کے سردار کا نام ہے، الحمد اللہ، میں نے اس بیان میں جو اشارات سے بھر پور ہے آپ کے سوال کا مکمل جواب مہیا کر دیا۔

ٹیلی پیتھی:

سوال نمبر ۷۱: ٹیلی پیتھی (TELEPATHY) خیال رسانی یعنی اشراق کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟ آیا مستقبل میں کبھی اس کی ترقی ہو سکتی ہے؟ کیا اس کا تعلق مذہب سے ہے یا سائنس سے؟

جواب: خیال رسانی (ٹیلی پیتھی) یا اشراق پر میرا کامل یقین ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ذات میں بہت سی اعلیٰ صلاحیتیں پوشیدہ رکھی ہیں، اگر ان کو ترقی دے کر بروے کار لا یا جائے، تو آدمی بہت سے حیرت انگیز کارنامے انجام دے سکتا ہے، مستقبل میں ٹیلی پیتھی کی ترقی یقینی ہے، میرا نظریہ اصل مذہب اور اصل سائنس کے ایک ہوجانے کا ہے، اس لئے ٹیلی پیتھی دونوں میں مشترکہ ہے۔

آج مذہب اور سائنس کے درمیان جو دیوار کھڑی ہے وہ صرف الفاظ، اصطلاحات اور زبان کی ہے، کاش سائنس دان قرآنی حکمت کی زبان کو جانتے اور روحانیّت کو سمجھتے! کاش جو باتیں دل میں ہیں وہ ہم زبان پر لاسکتے! کاش کامل انسانوں کے بھیدوں کو سب لوگ جانتے !

آپ اس پر حکمت آیت میں غور کریں: فالھمھا فجورھا و تقوٰھا (۱۹: ۰۸) مفہوم یہ ہے کہ خدا نے روح کو بدکاری کا بھی اور پرہیز گاری

 

۸۹

 

کا بھی الہام کیا، مگر اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ اللہ پاک نے یہ کام بذاتِ خود نہیں کیا، کیونکہ وہ اس بات سے بہت ہی منزّہ اور برتر ہے کہ کس کو فسق و فجور کی تعلیم دے، لہٰذا یہ کام مضل (شیطان) نے کیا، جو شر کا ذریعہ ہے، اور خدا اس سے بھی پاک و برتر ہے کہ مضل کا مدِ مقابل بن کر کوئی کام کرے، پس اس پادشاہِ مطلق نے ہادیٔ برحق کو یہ قدرت دی کہ وہ خیر کا ذریعہ بنے اور پرہیز گاری کا الہام کرے۔

وسیلۂ روحانیّت: ۔

سوال نمبر ۷۲: آپ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ روحانیّت ایک ایسا وسیلہ ہے، جو زمانۂ نبوّت کی بولنے والی روح و نورانیّت اور زندہ حقیقتوں کو مستقبل کی طرف لاتا ہے، اور حال و مستقبل کے مومنین کو رسولِ برحق صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے ملا دیتا ہے، کیا آپ اپنے اس نقطۂ نظر پر قرآنِ پاک کی روشنی ڈال کر ہمیں سمجھائیں گے؟

جواب: عزیزانِ من! یہ بات بالکل درست اور حقیقت ہے، اور اس نظریے کی تشریح یہ ہے کہ حضور اکرمؐ وہ پاک نور ہیں، جس کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے قرآن سے وابستہ کر کے بھیجا ہے (۰۵: ۱۵) تاکہ اہلِ ایمان اسی نورِ ہدایت کی روشنی میں قرآن پر عمل کرتے  جائیں، چنانچہ آنحضرتؐ کا مقدّس نور آج سلسلۂ امامت میں موجود اور حاضر ہے، قرآن نے یہ تو اعلانیہ طور پر کہا کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور اس کے نور کی مثال ایک طاق کی طرح ہے جس میں ایک روشن چراغ ہو (۲۴: ۳۵) پھر فرمایا گیا کہ روشن چراغ

 

۹۰

 

رسولؐ ہیں ( ۳۳: ۴۶) اللہ پاک کے نور کا جہاں ذکر ہوا وہاں یہ بھی ارشاد ہوا کہ نورِ خداوندی کا قابلِ فہم تصور “نُوْرٌ عَلیٰ نُوْرٍ (۲۴: ۳۵ )” ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ نور کا خلیفہ و جانشین صرف وہی شخص ہو سکے گا جو خود بھی پہلے ہی سے نور بن چکا ہو۔

الغرض امامِ زمانؑ میں خدا و رسولؐ کا مقدّس نور موجود ہے، اب اس بات کے لئے وسیلۂ روحانیّت چاہئے تاکہ ہم مدینۂ علم اور حکمت کے گھر میں داخل ہو سکیں اور چشمِ باطن سے نورِ نبوّت کے علمی و عرفانی معجزات کا مشاہدہ کریں، اور زمانۂ نبوّت کی بولنے والی قدسی روح و نورانیت اور زندہ حقیقتوں کو دیکھیں۔

ہم آپ کو آئندہ کسی مجلس میں سورۂ جمعہ کی ایک ایسی حیرت انگیز اور پُرمسرّت حکمت بیان کریں گے کہ جس سے آپ یقین کریں گے، کہ ہم نورِ امامت کے وسیلے سے مرتبۂ نبوّت کی شناخت حاصل کر سکتے ہیں اور اس بات میں تمام اشارے موجود ہیں۔

“دو ۲” کی اہمیّت: ۔

سوال نمبر ۷۳: آپ نے ایک دن اپنی علمی گفتگو میں کہا تھا کہ قرآنِ مقدّس میں “ایک” کے بعد “دو” کی اہمیّت کا اشارہ ہے، لہٰذا ہم یہ جاننا چاہئے ہیں کہ دو کی اہمیت قرآن میں کہاں کہاں ہے اور کس طرح یا کس معنی میں ہے؟

جواب: اس سلسلے میں سب سے پہلے ہم یہ کہیں گے کہ

 

۹۱

 

خداوند تعالیٰ ایک بھی ہے اور ایک سے برتر بھی، اس کے بعد ہم دو کی بات کرتے ہیں، کہ ذاتِ سبحان کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ دو دو کے جوڑوں میں ہے (۳۶: ۳۶) دنیا و آخرت دو ہیں ( ۰۲: ۲۰۱) اللہ تعالیٰ کی عبات کے لئے جنّ و انس دو مخلوق ہیں (۵۱: ۵۶) خیرو شر انسانی آزمائش کے ذریعے دو ہیں (۲۱: ۳۵) حکمت اسی میں ہے کہ بہشت کے پھل دو دو کے جوڑوں میں ملیں گے (۵۲: ۵۵) روحانی حکمت کی تعلیم وہاں ملتی ہے، جہاں دو دریا ایک دوسرے سے ملتے ہیں ( ۱۸: ۶۰) مشرق و مغرب دو دو ہیں (۵۵: ۱۷ ) ۔

آسمان و زمین یعنی بلندی و پستی دو ہیں (۲۴: ۳۵) نورو ظلمت دو ہیں (۳۵: ۲۰) زندگی اور موت دو ہیں (۶۷: ۰۲) دن اور رات دو ہیں (۱۷: ۱۲) نفوسِ خلائق دو دو کے جوڑے ہوں گے ( ۸۱: ۰۷) وغیرہ وغیرہ ۔

دو کے عدد میں بہت سی حکمتیں ہیں: یہ وحدت اور کثرت کے درمیان ہے، لاابتدائی اور لاانتہائی کا وسیلہ ہے، جفت اور جوڑے اسی عدد میں ہیں ، اضداد اسی سے بنتی ہیں، تاکہ ایک دوسرے کی شناخت ہو، نفی اور اثبات کی حکمت اسی میں ہے، یہ میزانِ عدل کی مثال ہے، اور آخری بات یہ ہے کہ مخلوقات میں کوئی چیز دو کی حکمت یا دو کے قانون کے بغیر نہیں، چنانچہ نفوسِ خلائق بھی دو دو ہیں، جیسے کہا گیا تھا کہ روح کے دو سِرے ہیں، یعنی ہم ایک انائے علوی رکھتے ہیں اور ایک انا ئے سفلی۔

 

نوٹ: انائے علوی اور انائے سفلی کی تفصیلات “میزان الحقائق” میں دیکھیں۔

 

۹۲

 

خدا کے ہاں ماضی و مستقبل نہیں: ۔

سوال نمبر ۷۴: مجھے یہ بات ٹھیک طرح سے یاد نہیں کہ میں نے مولانا روم کی مثنوی میں یا آپ کی کسی کتاب میں یہ دیکھ لیا تھا کہ خداتعالیٰ کے حضور میں نہ تو ماضی ہے اور نہ مستقبل، وہاں بس حال ہی حال ہے، کیا یہ روحانیّت کی بات ہے یا آخرت کی؟ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ کسی مقام پر ماضی بھی نہ ہو اور مستقبل بھی، صرف اور صرف زمانۂ حال موجود ہو؟

جواب: ماضی اس کا ہوتا ہے جس کی نگاہوں سے زمان و مکان کے واقعات آگے گزر چکے ہوتے ہیں یا یہ کہ اس کو مدّتِ مدید اور مسافتِ بعید کی وجہ سے قطعاً ماضی کی خبر ہی نہیں ہوتی ہے، اور مستقبل بھی اسی شخص کا ہوتا ہے کیونکہ آنے والے حالات اس تک ابھی نہیں پہنچے ہیں اور وہ ان تک رسا ہو جانے سے قاصر ہے، مگر خدا جو اپنے نور سے زمان و مکان پر محیط ہے، اس کے لئے کوئی ماضی اور مستقبل نہیں، اس کی نظر میں ہر غائب حاضر ہے اور ہر ماضی و مستقبل حال، یہ اس کا نور ہے جو کائنات و موجودات کے تمام واقعات و حالات کو اصل صورت میں محفوظ رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے حضور سے روحانیّت مراد ہے، اور روحانیّت ہی وہ مقام ہے، جہاں زمانۂ گزشتہ اور زمانۂ آئندہ دونوں “حال” کی صورت میں حاضر ہیں، جس کی مثال یہ ہے کہ اگر آپ روحانیّت میں چلے جائیں تو واقعاتِ آدمؑ اور واقعاتِ قیامت کو آپ حال ہی میں دیکھیں گے، پس یہ حالت روحانیّت بھی ہے اور آخرت بھی۔

 

۹۳

 

دائرۂ لطیف و کثیف: ۔

سوال نمبر ۷۵: قرآن کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنّات کو انسانوں سے قبل آگ سے پیدا کیا ( ۱۵: ۲۷) لیکن آپ نے نمبر ۷۰ میں یہ تاویل کی ہے کہ انسانوں سے فرشتے، جنّات، اور شیاطین بن جاتے ہیں، وہ کس طرح ممکن ہے؟ ہمیں اس کی وضاحت چاہئے۔

جواب: آپ کے سوال کے پس منظر میں دو باتیں خاص ہیں، ایک ہے “قبل” اور ایک ہے “آگ” سو جاننا چاہئے کہ اس دنیا میں دن رات کی طرح ایک دوسرے کے پیچھے چلنے والے دو عظیم دور گردش کرتے ہیں ایک تو لطیف (روحانی) دور ہے، اور دوسرا کثیف (جسمانی) دور، اگر آپ پورے دائرے کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اس صورت میں دورِ لطیف اور دورِ کثیف میں سے کوئی آگے اور کوئی پیچھے نہیں، لیکن جہاں آپ جسمانی دور میں رہتے ہیں، تو اس حال میں روحانی دور کو قبل کا زمانہ کہنا صحیح ہے۔

اب رہا آگ کا سوال، تو یہ لطافت کے معنی میں ہے، یعنی جس وقت روحانی دور آتا ہے، اس وقت جو لوگ علم وعمل میں اعلیٰ ہیں، وہ درجہ بدرجہ فرشتے بن جاتے ہیں، جو درمیانی قسم کے ہیں، وہ مختلف درجات کے جنّات بن جاتے ہیں، اور جو شریر ہیں وہ شیاطین بن جاتے ہیں۔

جنّات اور انسان کی تخلیق کی مثال یوں ہے، جیسے کوئی حکیم کہتا ہو کہ کیڑے کو کثافت سے پیدا کیا گیا، اور پروانے کو اس سے پہلے لطافت سے پیدا کیا گیا، اس سے ہوشمند شخص مطلب کو سمجھ لیتا ہے کہ یہ لطافت کیڑے کی تھی اور کثافت پروانے کی۔

 

۹۴

 

حضرت آدمؑ، بی بی حوّاؑ اور ان کے لاتعداد ساتھی بہشت میں جانے سے پہلے کثیف جسم میں تھے، لیکن بہشت میں جاتے ہوئے لطیف بن گئے، جب بہشت سے نکالے گئے تو کثیف جسم میں بدل گئے، اور پھر واپس بہشت میں جا کر لطیف ہو گئے۔

ایک حیرت انگیز حکمت: ۔

سوال نمبر: آپ نے نمبر ۷۲ کے آخر میں یہ وعدہ کیا تھا کہ آپ ہمیں سورۂ جمعہ کی ایک ایسی حیرت انگیز اور پُرمسرّت حکمت بیان کر دیں گے، کہ جس سے ہم کو کامل یقین ہو کہ نور امامت کے وسیلے سے ہم مرتبۂ نبوّت کی شناخت حاصل کر سکتے ہیں، کیا آپ وہ حکمت بیان کریں گے؟

جواب: جی ہاں، یہ وہی سلسلہ ہے، جس کے شروع میں کہا گیا تھا کہ روحانیّت کا وسیلہ ہی حال و مستقبل کے مومنین کو رسولِ برحقؐ سے ملا دیتا ہے، چنانچہ سورۂ جمعہ (۶۲) کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی ان بے شمار رحمتوں اور مہربانیوں کا ذکر ہوا ہے، جو زمانۂ نبوّت کے مومنین کو حاصل تھیں، مثلاً رسولِ اکرمؑ کا ان کے سامنے خدا کی آیتیں پڑھنا، ان کو پاک و پاکیزہ کر دینا، کتاب اور حکمت سکھا دینا، اور یہ سب دراصل روحانیّت کی باتیں ہیں۔

تیسری آیت میں “آخرین” کے بارے میں ذکر ہے، کہ جو اہلِ ایمان زمانۂ نبوّت میں ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے، وہ آئندہ زمانے میں پیدا ہو جانے کے باوجود نورِ ہدایت اور روحانیّت کے وسیلے سے زمانۂ رسولؐ کے مومنین سے جاملیں گے، یہ سب کچھ حکمت کی زبان میں ہے، جس کا ثبوت آیت کے آخر

 

۹۵

 

میں “العزیز الحکیم” ہے، یعنی وہ غالب حکمت والا ہے، اس لئے وہ ایسا کر سکتا ہے۔

چوتھی آیت میں اشارتاً فرمایا گیا ہےکہ یہ ہدایت و روحانیّت خداوند تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے۔

انتہائی عظیم راز: ۔

سوال نمبر ۷۷: “خلقکم من نفس واحدۃ ثم جعل منھا زوجھا (۳۹: ۰۶) اسی نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا پھر اس سے اس کی بیوی کو پیدا کیا۔” عرصۂ دراز سے اس آیت میں سوچتے آیا ہوں، مگر کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا، کیونکہ اگر یہاں نفسِ واحدہ سے آدمؑ مراد لیا جائے، تو تنہا ایک شخص سے اولاد کا پیدا ہونا اور بیوی کی پیدائش بعد میں، یہ ناممکن بات ہے، لہٰذا براہِ کرم آپ ہمیں بتائیں کہ اس میں راز کیا ہے؟

جواب: خداوند کی توفیق و یاری سے اور اسی کو کار ساز مانتے ہوئے کہتا ہوں کہ واقعی یہاں ایک انتہائی عظیم راز پوشید ہ ہے، وہ یہ کہ آیۂ مذکورۂ بالا میں نفسِ کلّی کا ذکر ہے، جس کے پس منظر میں لازمی طور پر عقلِ کلّی بھی ہے، اور یہ دونوں دینی حکمت کی زبان میں جفتِ بسیط اور آدم و حوّای معنیٰ کہلاتے ہیں، چنانچہ نفسِ واحدہ (یعنی عقلِ کل کی روحانی بیوی) سے سابقہ عظیم دور کے تمام نفوس پیدا ہو گئے، اور اس دور کے اختتام پر یہ نفسِ کلّ عقلِ کلّ کے درجے پر فائز ہو گیا، جس کی تاویلی مثال یہ ہوئی کہ یہ عظیم فرشتہ گزشتہ دور میں ماں کا درجہ رکھتا تھا اب مستقبل کے

 

۹۶

 

نفوس کا باپ بن گیا، اس لئے خدا نے اس سے اس کی بیوی کو پیدا کیا ، یعنی اس کے حدود میں سے ایک عظیم حد کو نفسِ کلّ بنا یا گیا، تاکہ ان دونوں عظیم فرشتوں کے اس روحانی ازواج سے روحوں کی ایک نئی دنیا وجود میں آئے۔

ستاروں کی روحیں: ۔

سوال نمبر ۷۸: جب ہر چھوٹی بڑی چیز کی ایک روح ہوا کرتی ہے، اور جہاں اس عظیم کائنات کی ایک ہمہ گیر روح ہے، تو کیا سیّارۂ زمین، چاند اور جتنے بھی ستارے ہیں، ان کی بھی جانیں ( ارواح) ہوتی ہیں؟ اگر آپ کہتے ہیں، کہ ہاں سیّاروں اور ستاروں کی روحیں ہیں، تو اس کی کوئی معقول دلیل پیش کی جائے۔

جواب: مجھے یہ سوال نہ جانے کیوں بہت ہی عمدہ اور خوبصورت لگ رہا ہے، شاید اس میں کوئی رحمتِ خداوندی ہے، عزیزانِ من! کائنات کی ہر چیز روحِ ارواح کے بحرِ محیط میں غرق ہے، اسی طرح تمام سیّارے اور ستارے ظاہراً و باطناً روح کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں سے ہر ایک کی روحانی شکل و صورت متعین ہو جاتی ہے، چنانچہ سیّارۂ زمین کی روحانی شکل زمین ہی کی طرح ہے، جیسے کسی عظیم فرشتے نے خدا کے حکم سے اس کی پر حکمت اور زندہ فلم بنائی ہو، یہ زمین کی روح کی ایک قابلِ فہم مثال ہے۔

ہوا کی شکل کا اپنے طور پر کوئی تعیّن نہیں ، مگر جہاں مشک میں ہے، تو وہ مشک کی طرح ہے، بوتل میں ہے تو بوتل جیسی، اور جب ٹائر میں ہے تو ٹائر

 

۹۷

 

کی مانند ہے، یہی حال ہر چیز یعنی ہر ستّارے کی روحانی شکل کا ہے، مگر اس میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ روحانی صورت ایک زندہ اور بولنے والی روح ہوا کرتی ہے، اور ہوا جہاں کہیں بھی ہو روحانی اوصاف سے عاری ہوتی ہے۔

خداوند عالم نے اپنی عزیز کتاب ( ۵۶: ۷۵ ) میں ستاروں کے گر جانے کی قسم کھائی ہے، یہ ستاروں کی روحیں ہیں، جو انفرادی قیامت میں مومن پر گر جاتی ہیں، اور یہ صرف ذرّات کی صورت میں ہوتی ہیں۔

دائرۂ کرم و پروانہ: ۔

سوال نمبر ۷۹: مخلوقِ کثیف (موجود انسان) اور مخلوقِ لطیف (فرشتہ وغیرہ) پر غور کرنے کے لئے آپ نے جو کیڑے اور پروانے کی مثال پیش کی ہے، وہ کتابِ فطرت کی ایک منہ بولتی آیت ہے، اور اس سے ہم بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں قرآنِ مقدّس کی روشنی میں کچھ سمجھائیں۔

جواب: خداوند تعالیٰ نے کائنات کو چھ دن میں بنایا، یعنی اس نے عالمِ دین کو چھ عظیم پیغمبروں کے زمانوں میں مکمل کر دیا، اسی طرح پروردگار نے انسان کے موجودہ جسم کی تخلیق و تکمیل چھ مراحل میں کی، وہ یہ ہیں،: سلالہ (مٹی کا خلاصہ) نطفہ، علقہ، مضفہ، عظام اور لحم، تو انسان جسمِ کثیف میں مکمل ہوا اور دنیاوی طور پر زندگی گزاری، پھر خداوند تعالیٰ نے اس کو خلقِ آخر (جسمِ لطیف ) بنایا ( ۲۳: ۱۲ تا ۱۴)۔

فتبٰرکُ اللہ احسن الخٰلقِین (۲۳: ۱۴ ) تو خدا بڑا بابرکت ہے جو

 

۹۸

 

سب بنانے والوں سے بہتر ہے، یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ “خلقِ آخر” سب سے اوپر کی تخلیق ہے، اور وہ جثّۂ ابداعیہ کی تخلیق ہے، اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو اس مقام پر اللہ کی بہت سی برکتوں اور خالقیت کی خوبیوں کی طرف اشارہ نہ ہوتا۔

یاد رہے کہ قرآنِ حکیم کے ربطِ معنوی کا اصول زبردست حکیمانہ ہے، لہٰذا ہم ثُمّ انشا نٰہُ خلقاً ٰخر (۲۳: ۱۴ ) میں سے “اَنشا نٰہٗ” کی تفسیر و تشریح کسی دوسری آیت میں دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے یہ آیت ملتی ہے: اِنّا اَنشا نٰھُنّ اِنشآ ءً ۔ فجلنٰھُنَّ اَبْکاراً (۵۶: ۳۵ تا ۳۶) ہم نے ان (حوروں) کو پیدا کیا جیسا کہ پیدا کرنے کا حق ہے، یعنی ان کو پہلے دنیا میں پیدا کیا اور زندگی کے مختلف مراحل سے گزار دیا، پھر ہم نے انہیں کنواریاں بنایا یعنی ان کو لطیف جسم دیا، پس اس سے یہ حقیقت بخوبی معلوم ہو جاتی ہے کہ دنیا کا جسم دنیا ہی میں رہ جاتا ہے اور آخرت کے لئے لطیف جسم ہے۔

سرے دو ہیں روح کے: ۔

سوال نمبر ۸۰: ہماری روح (جان) کے دو سِرے کس طرح ہیں، اور کس معنیٰ میں نفوس کے جوڑے ہیں؟

جواب: یہ بات خوب یاد رہے کہ ہماری روح کا اصل سرچشمہ عالمِ امر اور بہشت میں ہے، ہم وہاں سے کلی طور پر نہیں بلکہ جزوی طور پر یہاں آئے ہیں، جیسے سورج اپنے مقام پر قائم ہے، مگر اس کی کرنیں، روشنی اور حرارت سطحِ زمین تک پہنچتی رہتی ہیں، اگر ہم اپنے سامنے سورج کی روشنی میں

 

۹۹

 

کوئی آئینہ یا پانی کے ساتھ کوئی برتن رکھیں، تو اس میں سورج کا مدھم سا عکس نظر آئے گا، یہ ہماری روحانیّت اور جسمانیّت کی دو طرفہ ہستی کی ایک خوبصورت اور قابلِ فہم مثال ہے، اسی معنیٰ میں کہا گیا ہے کہ ہماری روح کے دو سِرے ہیں یا یہ کہ ہماری دو انائیں ہیں۔

قرآنِ حکیم (۰۶: ۹۸) کا مفہوم ہے کہ جب بحکمِ خدا تمام انسان نفسِ کلّی سے پیدا کئے گئے، تو اس وقت سب کو دو دو روحیں عنایت ہوئیں، ایک کا نام مستقر ہے اور دوسری کا نام مستودع، مستقر عالمِ امر میں ہے اور مستودع اس دنیا میں آئی، چنانچہ جو لوگ یہاں خدا اور رسولؐ اور صاحبِ امر کی اطاعت کا حق جیسا کہ چاہئے ادا کریں اور انہیں اپنے نفس کی معرفت حاصل ہو تو وہ لوگ اپنی روحِ مستقر سے جا ملیں گے، جیسا کہ رسولِ اکرمؐ نے اپنے آخری وقت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے “رفیقِ اعلیٰ” (روحِ مستقر) سے جا ملنے کے لئے دعا مانگی تھی، ہم نے اس بیان میں آپ کے سوال کا کافی جواب دیا ہے۔

 

۱۰۰

 

بابِ پنجم :

 

جسمِ خاکی دائم نہیں: ۔

سوال نمبر ۸۱: حضرتِ ادریسؑ کو خدا تعالیٰ نے جسمِ خاکی ہی کے ساتھ بہشت میں اٹھالیا (۱۹: ۵۷ ) حضرت خضرؑ اسی جسم میں ہمیشہ کے لئے اس دنیا میں زندہ رہے اور خدا نے حضرت عیسیٰؑ کو اس جسم کے ساتھ زندہ ہی آسمان پر اٹھا لیا، آیا یہ مثالیں ہیں یا حقائق؟ حقیقتِ حال جیسی بھی ہو، اس کو کھول کر بیان کریں۔

جواب: یہ تو حکمت کی مثالیں ہیں، اور حکمت و حقیقت ان مثالوں کے سمجھنے میں پوشیدہ ہے، چنانچہ جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریسؑ کو اس دنیا کی زندگی ہی میں بہشتِ روحانیّت کا مشاہدہ اور تعارف کرایا، جس طرح ہمیشہ پروردگار کی رحمت سے روحانی جنّت کا یہ مشاہدہ انبیاء اولیاء اور نیک بندوں کو ہوتا رہا ہے (۴۷: ۰۶) اس سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ اللہ پاک نے حضرت ادریسؑ کو روحانیّت کے مقام پر اٹھا لیا تھا، پھر بحکمِ خدا وقت آنے پر آپؑ جسمِ عنصری کو چھوڑ کر دائمی جنّت میں داخل ہو گئے، کیونکہ اس جسم کے ساتھ طرح طرح کی تکالیف وابستہ ہیں، اس لئے یہ ابدی بہشت میں نہیں رہ سکتا، ہر چند کہ خدا کے خاص بندوں کو اسی جسم میں یعنی موت سے پہلے بہشت روحانیّت کا مشاہدہ، تجربہ اور تعارف ہو جاتا ہے۔

حضرت خصرؑ سے متعلق جہاں کوئی صحیح روایت یا کوئی مثال ہو، تو اس کی تاویل یہ ہے کہ آپؑ روحانی طور پر زندۂ جاوید ہو گئے ہیں، خداوند تعالےٰ یہ ہر گز نہیں چاہتا کہ اس کے برگزیدہ بندے مقررہ وقت سے زیادہ جسمِ عنصری کے بوجھ کو اٹھاتے پھریں، اسی بیان میں حضرت عیسٰےؑ سے متعلق سوال

 

۱۰۳

 

کا جواب بھی مہیا ہے، تاہم دیگر تفصیلات کے لئے آپ پنج مقالہ نمبر ۲ میں “حضرت عیسٰےؑ روح ہیں یا جسم؟” کے موضوع کا مطالعہ کریں۔

جنّت کی معرفت: ۔

سوال نمبر ۸۲: ابھی ابھی آپ نے بہشت کی معرفت کا ذکر کیا، دل چاہتا ہے کہ جنّت کی معرفت کے بارے میں مزید نکات سنیں، کیا آپ براہِ مہربانی ہماری معلومات میں اضافہ کریں گے؟

جواب: دینِ اسلام میں “معرفت” سب سے اعلیٰ اور انتہائی جامع اصطلاح ہے، لہٰذا تمام صفات اور حقیقتیں معنوی طور پر اس میں جمع ہو جاتی ہیں، اس کی پہلی مثال یہ ہے کہ اسلام کے جملہ ظاہری احکام دائرۂ شریعت میں موجود ہیں، انہی تمام خوبیوں کے ساتھ طریقت شریعت کا مغز ہے، حقیقت طریقت کا باطن ہے اور معرفت حقیقت کی روح اور روشنی ہے، اسی طرح دین کی ساری زندہ روح معرفت میں سمو گئی ہے۔

دوسری مثال یہ ہے کہ معرفت اصل میں خدا کی شناخت کو کہتے ہیں، یہ شناخت بغیر اس کے ممکن ہی نہیں کہ ظہوراتِ صفات میں خدا کا دیدار ہو، یہ سب سے بڑی سعادت اس وقت حاصل ہو جاتی ہے جبکہ مومن اپنی روح کو پہچان لیتا ہے، روح کی پہچان اور دیدارِ خداوندی جہاں میّسر آتی ہے وہ جنّت ہے، جنّت کا راستہ پیغمبرِ اکرمؐ کے اسوۂ حسنہ میں پوشیدہ ہے، جس کی کامیاب رہنمائی صرف امامِ زمانؑ ہی کر سکتے ہیں۔

قربان جائیں قرآنِ حکیم کے پُرحکمت الفاظ سے! کہ ہر حکیمانہ لفظ میں بہت

 

۱۰۴

 

سی حقیقتیں جمع ہو تی ہیں، چنانچہ مذکورۂ بالا تمام حقائق و معارف “عَرَّفَھَا لَھُمْ” میں یکجا ہیں (خدا نے ان کو اس جنّت سے شناسا کر رکھا ہے۔ ۴۷: ۰۶) اس بیان سے ظاہر ہوا کہ معرفت سب کچھ ہے جو جنّت ہے، اور اس کے حصول کی شرط یہ ہے کہ مومنین دین کی سلامتی اور ترقی کی خاطر ایسی ضروری خدمات انجام دیں، جیسی شہیدوں کی شہادت ماضی میں ضروری ہوتی تھی۔

نورِ منعکس: ۔

سوال نمبر ۸۳: نور کے لفظی معنی روشنی ہیں، لیکن ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اہلِ معرفت کی روحوں کو نورِ کامل سے منوّر کر دیتا ہے تو اس منعکس ہو جانے والی روشنی کی کیا حالت و کیفیت ہوتی ہے؟ آیا روحانی روشنی بالکل مادّی روشنی کی طرح ہے یا دونوں میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے؟

جواب: یہ درست ہے کہ نور کے لغوی معنی روشنی ہیں، مگر اس کی مراد مقامِ انسانیّت پر درجۂ کمال اور مرتبۂ اعلیٰ کی ہدایت ہے اور ہدایت کی تین شاخیں ہیں: عقل کی ہدایت، روح کی ہدایت اور جسم کی ہدایت، عقل کی ہدایت علم و حکمت اور آفاق و انفس کے اسرار سے آگہی کی صورت میں ہے، روح کی ہدایت ذوقِ بندگی، لذّتِ ذکر، جذبۂ دینداری اور توفیقِ نیکی جیسے میلانات میں ہے اور جسم کی ہدایت صلاحیتوں کے اجاگر ہو جانے میں ہے، یعنی صبر، ہمت، شجاعت اور مردانگی جیسی اعلیٰ صفات کا نمایان ہو جانا خدا کی ہدایت سے ہے۔

نور نچلے درجات میں مبہوت کر دینے والی رنگینیوں سے پر ہے اور

 

۱۰۵

 

اوپر کے درجات میں یا تو اعتدال پر ہے یا شکل و رنگ سے بے نیاز، اور اس رنگ و بے رنگ کیفیت کا نام “صِبْغَۃَ اللہ ( ۰۲: ۱۳۸)”  ہے۔

ظاہری نور مثال ہے اور باطنی نور ممثول، لہٰذا مادّی روشنی اپنے ممثول کے مقابلے میں بہت ہی حقیر اور بیجان و بے حقیقت شے ہے، جبکہ باطنی نور عقل و جان کے اوصافِ کمال سے آراستہ ہے، “چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک۔” آپ کتاب “معراجِ روح” میں “نور کی کیفیت و حقیقت” کے مضمون کو بھی پڑھیں۔

عزرائیلؑ اور قبضِ روح:۔

سوال نمبر ۸۴: جب کسی آدمی کی موت کا وقت آتا ہے، تو اس میں آیا اس کی روح خود بخود جسم سے نکل جاتی ہے یا عزرائیلؑ اس کو قبض کر لیتا ہے؟ اگر مَلک الموت روح کو قبض کرتا ہے تو کس طرح؟ کیا عزرائیلؑ ایک ہے یا زیادہ ؟ خروجِ روح کا راستہ کونسا ہے؟

جواب: موت کے وقت روح خود بخود نہیں نکلتی، بلکہ حضرت عزرائیل علیہ السّلام اس کو قبض کر لیتا ہے، اور قبض کرنے کی کیفیت یہ ہے کہ ملک الموت مرنے والے کے کان میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کے ایک بزرگ نام کا مسلسل ذکر کرتا ہے اور عزرائیلؑ کی اسی معجزانہ آواز سے ذرّاتِ روح آدمی کے سر کی جانب حرکت کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں انسان میں مردگی (موت) کی کیفیت پاؤں سے شروع ہو جاتی ہے، اور روح بتدریج سر کے بالائی حصے سے خارج ہو جاتی ہے۔

 

۱۰۶

 

بعض لوگ آخری سانس کے ساتھ روح کے نکل جانے کا گمان کرتے ہیں، مگر ایسا نہیں، یہ صرف اس واقعہ کی علامت ہے کہ روح سینہ کو چھوڑ کے دماغ میں مرکوز ہو گئی، یہ سوال الگ ہے کہ روح کتنی دیر تک سر میں ٹھہرتی ہے۔

عزرائیل بحکمِ خدا صرف ایک ہی نعرہ سے بھی کسی کی جان کو یکایک قبض کر سکتا ہے، عزرائیل درجۂ اصل میں ایک ہے، لیکن اس کے لشکر میں ہر شخص کے لئے ایک عزرائیل موجود ہے۔

نفسانی موت اور جسمانی موت: ۔

سوال نمبر ۸۵: اگر یہ صحیح ہے کہ دین میں “موتوا قبل ان تموتوا (یعنی جسمانی طور پر مرنے سے پہلے نفسانی طور پر مرو)” کا حکم بھی ہے، تو کیا اس پر ایسی ذاتی نوعیّت کی قیامت قائم ہو جاتی ہے تو وہ ان احوالِ قیامت کا مشاہدہ کیسے کر سکتا ہے، جن کا تعلق دنیا بھر کے لوگوں سے ہے؟ کیا نکیرو منکر کے نام سے دوفرشتے حق ہیں؟

جواب: ہاں، حقیقی مومن کی کامیابی اسی میں ہے کہ تزکیۂ نفس کے وسیلے سے جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مرجائے، اور ہاں یہ بھی درست ہے کہ اس صورت میں اس کی انفرادی قیامت برپا ہو جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ مومن قیامت کے ان تمام احوال کا مشاہدہ کر تا ہے، جو اجتماعی قیامت سے متعلق ہیں، کیونکہ خداوند تعالیٰ کے وہاں ایک عالمِ ذرّ بھی ہے جس میں نہ صرف تمام زمانوں کے لوگ بصورتِ ذرّہ موجود ہیں، بلکہ کائنات و موجودات کی ہر ہر

 

۱۰۷

 

چیز بھی ذرّی شکل میں حاضر ہے، چنانچہ ایسے بندے پر جو شخصی قیامت کا منظر دیکھ رہا ہے اجتماعی قیامت کے سارے احوال گزر جاتے ہیں۔

جی ہاں، نکیر و منکر دو فرشتے حق ہیں، مگر یہ نکتہ خوب یاد رکھیں کہ روحانیّت میں ایک ہی چیز کے کئی کئی نام اور کئی کئی کام ہوا کرتے ہیں، اس لئے یہ ضروری نہیں کہ یہ فرشتے صرف انہی ناموں سے آئیں۔

عالمِ ذرّ: ۔

سوال نمبر ۸۶: عالمِ ذرّ کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ وہ کہاں ہے؟ آیا وہ جسمانی ہے یا روحانی؟ اگر وہ کوئی جسمانی عالم ہے تو اسے ہر شخص کیوں نہیں دیکھ سکتا ؟

جواب: عالمِ ذرّ کے معنی ہیں ذرّات کی دنیا، جس سے ذرّاتِ ارواح مراد ہیں، وہ اسی دنیا میں موجود ہے، جو جسمِ لطیف اور روح دونوں سے مرکب ہے، اور اس کی ایسی صفت میں عظیم حکمت پوشیدہ ہے، اس کو ہر شخص نہیں دیکھ سکتا ہے، جب تک کہ دل کی آنکھ روشن نہ ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ نے عالمِ ذرّ ہی میں ارواحِ خلائق سے اپنی ربوبیّت کا اقرار لیا تھا کہ “آیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں۔” اور لوگوں نے عرض کیا کہ “کیوں نہیں ۰۷: ۱۷۲) ۔”

جنگِ روحانی: ۔

سوال نمبر ۸۷: یہ ایک قرآنی آیت ( ۰۶: ۱۱۲) کا مفہوم ہے کہ شیاطین

 

۱۰۸

 

نہ صرف جنّات میں سے ہوتے ہیں، بلکہ یہ انسانوں میں سے بھی ہوا کرتے ہیں، اور یہ ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالتے ہیں، تاکہ ایسی باتوں سے لوگوں کو فریب دے کر راہِ راست سے گمراہ کر سکیں، اور اسی مطلب کا یہ ایک خلاصہ ہے کہ خناس جو جنّات میں بھی ہے اور انسانوں میں بھی، وہ لوگوں کے دلوں میں براہِ راست وسوسہ ڈال سکتا ہے ( ۱۱۴: ۰۴ تا ۰۶) لیکن سوال ہے کہ آیا ارواحِ مومنین جو سمتِ مقابل میں ہیں وہ اس جنگِ روحانی میں کچھ بھی نہیں کر سکتی ہیں؟ تو پھر کیا ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ بدی کے ہاتھ تو روحانی میدان میں کشادہ اور آزاد ہیں، مگر نیکی کے ہاتھ سختی سے باندھے ہوئے ہیں؟

جواب: جی ہاں، جسمانی اور روحانی شیاطین یہ سب کچھ کر سکتے ہیں، لیکن اس کے باؤجود اہلِ ایمان کی روحانی صلاحیتوں کے بارے میں ذرا بھی مایوسی نہیں، کیونکہ مومنین حزب اللہ ہیں یعنی لشکرِ خدا، اور خدا ہی کا لشکر غالب رہتا ہے (۰۵: ۵۶)۔

قرآنِ مقدّس کی یہ مثال روحانیّت کی حکمتوں سے بھر پور ہے کہ مومنین لشکرِ خدا ہیں، اوراس میں سب سے اوّلین اشارہ تو یہ ہے کہ اس لشکر کی روحانی قوّتیں بفضلِ خدا طاغوتی قوّتوں سے بڑھ کر ہیں، یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ باطن اور روحانیّت میں ہمیشہ غالب رہتا ہے آپ حزبِ شیطان کے بارے میں بھی غور کر سکتے ہیں ( ۵۸: ۱۹) ۔

لشکرِ خدائی: ۔

سوال نمبر ۸۸: اللہ تعالیٰ کے لشکر کی مثال یقیناً بڑی ایمان افروز اور روح پرور ہے، اب ہم ان شاء اللہ ان آیاتِ کریمہ میں خوب غور کریں گے

 

۱۰۹

 

جو خدائی لشکر کے بارے میں ہیں۔ تاہم آپ یہ بتادیں کہ سورۂ فتح میں جس طرح خداوند عالم کے لشکر کا ذکر آیا ہے اس کا مومنین سے کیا ربط ہے، جبکہ یہ اللہ کے لشکر ہیں؟

جواب: اس سلسلے میں سورۂ فتح کا پہلا ارشاد یہ ہے: (خدا) وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر (روحانیّت کی) تسلی نازل فرمائی تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ اور ایمان بڑھے اور آسمانوں اور زمین کے لشکر (سب) خدا ہی کے ہیں۔ اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے(۴۸: ۰۴) آسمان سے روحانی عالم مراد ہے، اور “آسمانوں” کا اشارہ جمع میں روحانی درجات کی طرف ہے، اور زمین عالمِ جسمانی ہے، پس اس فرمانِ الٰہی میں خدا کے روحانی اور جسمانی لشکر (ارواحِ مومنین اور مومنین) کا ذکر اس لئے آیا ہے کہ ربِّ کریم کے حکم سے سردارِ لشکر (پیغمبرؐ اور امامؑ) اور لشکر ہی وہ وسیلہ ہیں کہ جس سے ہر مومن پر حسبِ علم و عمل روحانی تسلی نازل ہوتی ہے، جیسا کہ ہم قبلاً اس کتاب میں یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ وحی کے مقام پر روح القدس تنہا نہیں آتی، بلکہ وہ اپنے تمام لشکر کے ساتھ ہوتی ہے، جس میں ملائکہ بھی ہیں اور ارواح بھی، چنانچہ یہاں جس شان سے جنودِ الٰہی کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس کا ربط مومنین سے یہ ہے کہ مومنین ہی ارواح و اجسام میں خدائے برتر کے لشکر ہیں، کیونکہ یہی لوگ باطن میں روحانیّت کے آسمانوں پر ہیں اور ظاہر میں جسمانیّت کی زمین پر۔

دوسرا ارشاد آیت نمبر ۷ میں ہے اور اس کے مبارک الفاظ بھی یہی ہیں، اور اس کا مقصد و منشاء بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ گروہِ مومنین سے ظاہر و باطن میں اپنے لشکر کا کام لیتا ہے۔

 

۱۱۰

 

شیطان کس ہتھیار سے ڈرتا ہے؟

سوال نمبر ۸۹: ایک بڑا اہم سوال یہ سامنے آیا ہے کہ اس دینی جنگ میں مومنین کے پاس جو اسلحہ مہیّا ہیں، ان میں سے شیطان کس ہتھیار سے زیادہ ڈرتا ہے، اور اس کے لئے وہ کس حیلے سے کام لیتا ہے؟

جواب: مومن کے پاس جو سب سے اعلیٰ اور طاقتور ہتھیار موجود ہے وہ ذکرِ خدا ہے، اسی سے شیطان بہت ہی خائف رہتا ہے، لہٰذا وہ ہر وقت اسی کوشش میں سرگردان رہتا ہے کہ کسی طرح سے مومن سے خدا کی یاد بھلا دے، تاکہ وہ اس پر حملہ آور ہو سکے (۵۸: ۱۹)۔

اس کی تاویلی حکمت یہ ہے، کہ نامِ خدا اور یادِ الٰہی امامِ زمان (صلوات اللہ علیہ ) ہیں، جو مومنین کی تمام ظاہری و باطنی قوّتوں کا سرچشمہ ہیں، اس لئے جسمانی اور روحانی شیاطین (۰۶: ۱۱۲) ہر وقت عقیدہ اور علم میں کمزور مومنین کے پیچھے لگے رہتے ہیں، تاکہ موقع پر امامِ اقدس و اطہر کے مبارک دامن سے کسی ایسے مرید کا ہاتھ چھڑا سکیں، یہی ہے مومن کا سب سے بڑا روحانی اور علمی ہتھیار، اور یہی ہے شیطان کی وجہ سے ذکرِ خدا بھول جانے کی تاویل۔

یومِ عقیم: ۔

سوال نمبر ۹۰: ویسے تو قرآنِ پاک میں قیامت کے صدہا نام ہیں، جن کا اندازہ قرآنی انڈیکس سے ہوسکتا ہے، اور ہر نام میں کئی کئی حکمتیں پوشیدہ ہو سکتی ہیں، مگر ہم یہاں صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ قیامت کو جو

 

۱۱۱

 

“یَوْمٍ عَقِمٍ” کہا گیا ہے، اس کی کیا تاویل ہے؟

جواب: میرے عزیز! قیامت کا نام یومِ عقیم (۲۲: ۵۵) اس لئے ہے کہ اس وقت سب لوگوں کی نسلیں منقطع ہو جائیں گی، سوائے خاندانِ رسولؐ کے، کہ وہ روئے زمین پر چہرۂ خدا ہے، جس کا ذکر قرآن (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) میں ہے، آپ اس کتاب میں نمبر ۵۲ اور نمبر ۵۷ کو اور سو سوال حصّۂ اوّل کے صفحہ ۴۵۔ ۴۶ کو دیکھیں۔

چار مرغِ ابراہیمؑ: ۔

سوال نمبر ۹۱: اگر پرندے کی تاویل روح ہے، جیسا کہ آپ نے نمبر ۵۰ میں بتایا ہے، تو پھر اس سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے چار پرندوں کی کیا تاویل ہے ( ۰۲: ۲۶۰) ؟ اس میں چار کے عدد کی کیا اہمیّت ہے؟

جوب: حضرت ابراہیمؑ کے چار پرندے جو زندہ ہو کر آگئے آپؑ کے چار مقرّب حجّتوں کی روحیں ہیں، اور یہی چار روحیں آپؑ کے جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرئیل علہیم السّلام تھے، جیسا کہ ہم اس سے پیشتر بتا چکے ہیں کہ پرندہ تاویل کی زبان میں روح اور فرشتے کو کہا جاتا ہے، چار کی اہمیت اس لئے ہے کہ مقرب فرشتے چار ہیں اور حضوری حجّت بھی چار ہیں، جن کا ذکر ہوا۔

مستجیب ہو یا مأذون بحدِّ قوّت پرندہ (روح = فرشتہ ) ہوتا ہے، ابراہیمؑ نے بحکمِ خدا ایسے درجات میں سے چار کو لے کر خصوصی تربیت اور اسرارِ روحانیّت کے لئے ان سے عہد لیا، یہ آپؑ کے چار پرندوں کو ذبح کرنے

 

۱۱۲

 

کی تاویل ہے، کاٹنا کوٹنا علمی اور روحانی طور پر آزمانے کو کہتے ہیں، پہاڑ پر رکھنا روحانی بلندی کا اشارہ ہے، یہ سب کچھ کرنے کے بعد جب حضرت ابراہیمؑ نے اپنی روحانیّت میں ان کو بلایا تو وہ مذکورۂ بالا چار درجوں میں آپؑ کی روحانی تائید کے لئے حاضر ہوئے، اللہ تعالیٰ کا یہ معجزہ کہ وہ مومنین کو غفلت و جہالت کی موت سے اٹھا کر روحانیّت کی بلندیوں پر مقرب فرشتوں کی زندگی عنایت کرتا ہے، اس سے بہت زیادہ بہتر ہے کہ کسی جسمانی مردے کو زندہ کرے۔

سلمان۔ دروازۂ بہشت: ۔

سوال نمبر: “اَ لسّلمانُ با بٌ مِنْ ابوابِ الجنَّۃِ، یعنی سلمان بہشت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔” آپ ہمیں اس حدیثِ شریف سے متعلق کچھ حکمتیں بیان کریں۔

جواب: جاننا چاہئے کہ زمین پر روحانیّت و نورانیّت کی زندہ بہشت بلباسِ بشریت ناطقؑ اوراساسؑ تھے، اور یہی سبب ہے کہ جنّت کے دروازے بھی زندہ اور گویندہ اشخاص کی صورت میں تھے، اور ان بابرکت ابوابِ جنّت میں سے ایک باب سلمانِ فارسی کی حیثیت میں تھا، دنیا کے کسی باغ و چمن میں یہ خوبیاں کہاں کہ اس کی زمین عقل و جان اور علم و حکمت کے عناصر رکھتی ہو، اور اس کے پھل پھول اسرارِ الٰہی کی لذّتوں اور وحدانیّت کی خوشبوؤں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پُربہار رہیں، مگر امامِ حیّ و حاضر کی شخصیّت میں محمدؐ و علیؑ کا پاک نور ہی وہ زندہ باغِ بہشت ہے، جس کی تعریف و توصیف احاطۂ بیان میں نہیں آسکتی۔

 

۱۱۳

 

سلمانِ فارسی اس پاک شخصیّت کی زندہ بہشت کا دروازہ اس معنیٰ میں تھا، کہ وہ دعوتِ حق کا ایک وسیلہ، نور کا راستہ، حقیقی محبّت کا نمونہ، علمِ امام کا ایک خزانہ، معرفت کا دفینہ اور روحانیّت کا آئینہ تھا۔

قرآن (۲۹: ۶۴) کا مفہوم یہ ہے آخرت کا گھر چاہے بہشت میں ہو یا دوزخ میں ہر حالت میں زندہ ہے، اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ دین کے چند اعلیٰ درجات (حدود) بہشت ہیں، یعنی عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطقؐ اور اساسؑ آٹھ بہشت ہیں، کہ ان میں سے ہر ایک کے دو درجے ہیں، دوسرے درجات دروازوں کی حیثیت سے ہیں، اور تیسرے درجات ان لوگوں کے ہیں، جو ان دروازوں سے بہشت میں داخل ہوں گے۔ آپ کتاب “وجہِ دین” میں اس موضوع کی تفصیلات کو دیکھیں۔

تصورِ تخلیق: ۔

سوال نمبر ۹۳: اگر اسلامی تصورِ آفرینش، جیسا کہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ (صلوات اللہ علیہ ) کا ارشاد ہے، ایک دائم اور مسلسل واقعہ ہے، تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ تخلیق کا غیر متناہی سلسلہ دائرے کی شکل میں چلتا رہتا ہے، کیا آپ اس باب میں قرآنِ حکیم کی کوئی روشن دلیل پیش کریں گے؟

جواب: قرآنِ پاک میں سورج چاند کے مسلسل طلوع و غروب اور دن رات کی دائمی گردش کی مثال پیش کرنے کے بعد قانونِ فطرت کے اس سب سے عظیم راز کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے اور وہ یہ ہے: ۔

“و کل فی فلک یسبحون (۳۶: ۴۰) اور سب اپنے اپنے دائرے

 

۱۱۴

 

میں تیررہے ہیں۔” جاننا چاہئے کہ قرآن کریم میں ایک موضوع ایسا بھی ہے جس کو “قانونِ کل” کہنا چاہئے، کیونکہ اس میں کائنات و موجودات کے کلّیات کا ذکر ہے، اور اس سے متعلق آیات کی ایک عام علامت یہ ہے کہ ان میں “کل” کا لفظ موجود ہوتا ہے، چنانچہ مذکورۂ بالا آیت قانونِ کلّ کا ایک کلّیہ (عام قاعدہ) ہے، کہ ہر چیز ایک دائرے پر گردش کرتی رہتی ہے، اور روح بھی اسی قانون کے تحت ہے، مگر اس میں یہ سوال ایک ہے کہ کیوں اور کس طرح؟

خداوندِ عالم نے آیاتِ قرآن کے علاوہ جن آفاقی آیتوں میں غور و فکر کرنے کے لئے فرمایا ہے، ان سے بھی یہی حقیقت ظاہر ہے کہ ہر چیز کا لاانتہا سفر ایک دائرے پر جاری ہے (۰۲: ۱۶۴) جیسے دن رات کا مسلسل آنا جانا، کشتی کا بار بار دریا سمندر میں جاتے رہنا، بارش برسنے کا سلسلہ، ہر سال مری ہوئی زمین کا زندہ ہو جانا اور چھوٹے موٹے جانوروں کے سال بسال زندہ ہونے کا چکر، ہوا کی دائمی گردش اور بادلوں کا ہمیشہ سمندر سے پیدا ہو جانا، اور پھر دریاؤں کی شکل میں گھوم کر سمندر سے جا ملتے رہنا۔

قرآن کی روحانیّت:۔

سوال نمبر ۹۴: اگر قرآنِ پاک کی ایک عظیم روح ہے، جو علم و آگہی کی ایک تابناک دنیا لئے ہوئے ہے، تو اس کے فیوض و برکات حاصل کرنے کے لئے ہمیں کیا کیا کرنا چاہئے؟ آپ نے اس سلسلۂ سوال و جواب کے نمبر ۷ اور نمبر ۱۱ میں روحِ قرآن کے بارے میں جو ذکر کیا ہے، اسی سے یہ سوال متعلق ہے۔

 

۱۱۵

 

جواب: آپ اس کتاب کے نمبر ۱۵ میں دیکھیں کہ طفلِ شیر خوار میں روحِ ناطقہ کہاں سے آتی ہے، اور کس طرح؟ یہ حقیقت روشن ہے کہ بچے میں بولنے والی روح والدین اور افرادِ خانہ سے آتی ہے، بالکل اسی طرح قرآنِ پاک کی روحِ ناطقہ آپ کے روحانی باپ کے گھر سے مل سکتی ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ زید و بکر سے روحانی علم حاصل کر نے کا مدعی نہ بنیں، بلکہ خاندانِ رسولؐ یعنی امامِ زمانؑ کے پاک روحانی گھر کا دودھ پیتا بچہ بنیں، تاکہ آپ کے روحانی والدین کی پر شفقت گفتگو سے آپ میں بتدریج قرآنی روح آجائے، کیونکہ قرآن کی روح پیغمبرؐ کے بعد صرف امامِ زمانؑ  ہی سے مل سکتی ہے۔

دوسری مثال یہ ہے کہ آپ اپنے آئینۂ دل سے زنگِ غفلت اور غبارِ جہالت کو دور کرکے اسے ایسا پاک و پاکیزہ بنالیں، کہ اس میں نورِ قرآن کی روشنی چمکنے، اور دل کی یہ پاکیزگی بھی صرف امامِ عالی مقامؑ ہی کے مبارک ہاتھ سے ہو سکتی ہے، جس طرح یہ ایک حقیقت ہے کہ زمانۂ نبوّت میں صرف رسولِ خداؐ ہی مومنین کو پاک و پاکیزہ کرتے تھے، جس کا ذکر قرآن کی کئی آیتوں میں موجود ہے۔

معجزۂ عیسٰیؑ: ۔

سوال نمبر ۹۵: اس کی کیا تاویل ہے کہ حضرت عیسٰےؑ مٹی سے چڑیا کی مورت بناتے تھے، پھر اس میں کچھ دم کر دیتے، تو خدا کے حکم سے وہ ایک چڑیا بن جاتی تھی؟

جواب: مٹی جس کو عربی میں “تراب” کہتے ہیں اور گارا جسے “طین”

 

۱۱۶

 

کہا جاتا، یہ مومنین کے دو درجے ہیں، ایک درجہ عقیدہ یا کہ ابتدائی نوعیّت کے ایمان کا ہے، جو اہلِ دعوت کے لئے بنیادی اہمیّت کا حامل ہے، جس کی مثال مٹی سے دی گئی ہے اور دوسرا ایمان قدرے علم کے ساتھ، جس کی تشبیہ گارے سے دی گئی ہے، چنانچہ جناب عیسٰےؑ گارا لے کر پرندے کی مورت بناتے تھے یعنی ایمان اور ذرا علم والے مومن کو مأذون کے لئے نامزد کرتے تھے، اس وقت وہ شخص اپنے مرتبے کی صرف ایک خاموش تصویر سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا تھا، پھر اس مورت میں حضرت عیسٰیؑ کچھ دم کرتے تو بحکمِ خدا وہ ایک چڑیا بن جاتی تھی، اس کے یہ معنی ہیں کہ آپؑ اس مأذون میں رفتہ رفتہ تائیدی علم کی روح پھونک دیتے تھے، جس سے وہ روحانی پرندہ یعنی روح اور فرشتہ بن جاتا تھا۔

آنحضرتؐ نے مولا علیؑ کو ابی تراب (مٹی کے باپ) کا ٹائٹل دیا تھا، اور اس کی تاویل یہ ہے کہ آپؑ رسولِ خداؐ کے بعد مومنین و مومنات کے روحانی باپ ہیں، کیونکہ مٹی سے اہلِ ایمان مراد ہیں۔

درخت پر نور: ۔

سوال نمبر ۹۶: کیا یہ مثال ہے یا حقیقت، کہ حضرت موسیٰؑ جیسے ہی آگ کی تلاش میں نکلے تو یکایک ان کو خدا مل گیا؟ آیا انہوں نے نورِ خدا کا یہ مشاہدہ چشمِ ظاہر سے کیا یا دیدۂ باطن سے؟ اگر یہ واقعہ تادیلی قسم کا ہے تو درخت (جس پر نور تھا) کی کیا تاویل ہے؟

جواب: اس میں مثال کا پہلو نمایان ہے کہ آگ سے نور مراد ہے، درخت کا مطلب اسمِ اعظم (کلمہ = شجرہ  ۱۴: ۲۴) ہے، اور صرف ایک

 

۱۱۷

 

دن میں اچانک نور کا مشاہدہ نہیں ہوا، بلکہ جنابِ موسیٰؑ پہلے ہی سے راہِ روحانیّت پر گامزن تھے، آپؑ کو مصر ہی میں ہجرت سے پہلے روحانی تربیت ملتی تھی، آپ کی روحانی ماں مصر میں حضرت شعیبؑ کا ایک داعی تھا، حضرت موسٰیؑ ہجرت کے بعد براہِ راست حضرت شعیبؑ سے بھی روحانیّت حاصل کر تے تھے۔

نورِ خدا کا مشاہدہ سر کی آنکھ سے نہیں دل کی آنکھ سے ہوا کرتا ہے، اور جب حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن ایک ہو جاتے ہیں، تو اس وقت کے مشاہدات بھی باطنی واقعات شمار ہوتے ہیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ انبیاء و اولیاء کے حواسِ ظاہر پر حواسِ باطن غالب رہتے ہیں۔

آسمانی آگ: ۔

سوال نمبر ۹۷: پنج مقالہ نمبر ۳ (علمی خزانہ) کے صفحہ ۱۵۲ پر تحریر ہے کہ “چنانچہ ہابیل نے ایک گوسفند پہاڑ پر لے جا کر رکھا اور قابیل نے کھیت سے کچھ بالیاں لے کر رکھ آیا، اس کے بعد حسبِ دستور آسمان سے آگ کا ایک شعلہ اترا اور ہابیل کی نذر (قربانی) کو کھا گیا۔” کیا مذکورہ آگ یہی مادّی آگ تھی، جو دنیا میں سب کے سامنے ظاہر ہے یا وہ کوئی اور چیز تھی؟ آیا روحانیّت میں ایسی کوئی مقدّس اور معجزانہ آگ ہو سکتی ہے؟ اگر اس قربانی میں تاویل ہے تو گوسفند سے کیا مراد ہے؟ آسمانی آگ کا یہ معجزہ کب تک چلتا رہا؟

جواب: جاننا چاہئے کہ قرآنی قِصَصْ تاویلی حکمتوں سے پُرہیں، دنیا کی آگ میں یہ شعور کہاں ہے کہ صرف متقی ہی کی قربانی کو قبول کر کے اس کی سچائی کی شہادت پیش کرے، چنانچہ یہ مادّی آگ نہ تھی بلکہ روحانیّت کی مقدّس اور

 

۱۱۸

 

معجزاتی آگ تھی، جو انبیا و أئمّہ علیہم السّلام کے روحانی معجزات میں شامل ہے (۰۳: ۱۸۳ ) گوسفند سے روحِ حیوانی مراد ہے، حضرت ہابیلؑ نے اپنے نفس کی قربانی پیش کی تھی، اور خدا کے دوست ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں، اس عظیم روحانی معجزے کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ آپ یا کوئی اور مومن کبھی کبھار علم و عبادت اور نیک خیالات کے زیرِ اثر اندر ہی اندر سے جلنے کا احساس رکھتا ہے، ایسے میں نہ تو وہ عقلی طور پر جلتا ہے اور نہ ہی روحانی لحاظ سے (یعنی روحِ انسانی سے) بلکہ صرف اس کے نفسِ حیوانی کی قربانی ہو جاتی ہے، جس سے ایسے شخص کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ پس آسمانی آگ کا یہ روحانی معجزہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لئے جاری ہے۔

ملکوت ۔ روحانیت: ۔

سوال نمبر ۹۸: ملکوت کے کیا معنی ہیں، اور یہ کون سی دنیا ہے؟ آیا اس کا ذکر قرآن میں ملتا ہے؟ اگر ملتا ہے تو کہاں ہے اور کس طرح ہے؟ اس سلسلے میں کچھ اصولی معلومات کی ضرورت ہے۔

جواب: ملکوت کے کئی معنی ہیں، مثلاً بزرگی، قدرت، غلبہ، عظمت، بادشاہی وغیرہ، اور اس سے ارواح و ملائکہ کا عالم مراد ہے، ملکوت کا ذکر قرآن کی (۰۶: ۷۵، ۰۷: ۱۸۵، ۲۳: ۸۸، ۳۶: ۸۳) میں موجود ہے۔

چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ “اور اسی طرح ہم ابراہیمؑ کو آسمانوں اور زمین کی روحانیّت دکھاتے رہے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں ۰۶: ۷۵”

 

۱۱۹

 

اس روحانیّت کا مشاہدہ آپؑ چشمِ باطن سے اپنی ذات ہی میں کرتے تھے، اور یہی مقامِ عین الیقین ہے، جس کا مقصد حق الیقین ہے۔

ایک طرف آسمان اور زمین کی باطنی اور روحانی چیزیں ہیں، اور دوسری طرف ظاہری اور جسمانی چیزیں، سو خداوند عالم نے ایک ہی آیت میں دونوں چیزوں کا ذکر فرمایا تا کہ دانشمند مومنین ملکوت کا تصوّر الگ کریں، اور ناسوت کا الگ، آپ ۰۷: ۱۸۵ میں خوب غور کریں۔

۲۳: ۸۸ میں اشارہ ہے کہ ہر چیز کی روحانیّت (ملکوت) خدا کے ہاتھ میں ہے، اور پناہ و نجات اسی روحانیّت کی معرفت میں ہے۔

۳۶: ۸۳ کی حکمت یہ بتاتی ہے کہ جس پاک ذات کے قبضۂ قدرت میں ہر چیز کی روحانیّت محفوظ ہے، وہ خود تو ہر چیز سے پاک و بے نیاز ہے، اس لئے ملکوت بہر معنی مومنین کے لئے ہے، تمام چیزیں مادّی شکل میں ناسوت ہیں، اور ان کی روحانیّت ملکوت۔

عوالم یا دنیائیں: ۔

سوال نمبر ۹۹: ناسوت کے کیا معنی ہیں؟ جبروت و لاہوت کیا ہیں؟ عالمِ علوی کون سا عالم ہے، اور عالمِ سفلی کہاں ہے؟ عالمِ امر اور عالمِ خلق کے بارے میں کچھ حقائق بیان کریں۔

جواب: ناسوت لفظِ ناس (لوگ) سے ہے، جس سے یہی دنیا مراد ہے جس میں لوگ (ناس) رہتے ہیں، ملکوت روح و روحانیّت اور ملائک کا عالم ہے، جس کا ذکر ہو چکا، جبروت اللہ تعالیٰ کی قدرت و عظمت کا عالَم ہے، لاہوت کا مطلب ہے خدا کی خداوندی، عالمِ علوی روحانی عالم ہے اور عالمِ سفلی

 

۱۲۰

 

جسمانی عالم۔

عالمِ امر وہ عالم ہے، جو خدا کی بادشاہی کی حیثیت سے قدیم ہے، جہاں تمام چیزیں کسی ابتداء و انتہا کے بغیر ہمیشہ ہمیشہ موجود ہیں، اس لئے وہاں تخلیق کی کوئی گنجائش نہیں، اس میں تو صرف امر ہی سے بلا تاخیر چیزوں کے ظہورات ہوتے رہتے ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ ارادہ اور توجّہ سے غائب چیزیں حاضر ہو جاتی ہیں، یہ باتیں بندوں کی نسبت سے ہیں نہ کہ خدا کی نسبت سے کیونکہ اس کی ذاتِ اقدس کے لئے ظہور و بطون اور حاضر و غائب یکسان ہیں۔

عالمِ خلق عالمِ امر کے برعکس ہے، اور وہ دنیائے ظاہر ہے، جو حادث ہے، یعنی قدیم نہیں، جس میں کوئی چیز ہمیشہ نہیں رہ سکتی، مختلف اوقات میں چیزیں پیدا ہو جاتی ہیں، پھر فنا ہو جاتی ہیں، تخلیق کا کارخانہ یہی دنیا ہے۔

یاد رہے کہ عالم صرف دو ہی ہیں، جو دنیا و آخرت ہیں، اور اس سلسلے کے جتنے بھی کثیر الفاظ ہیں، وہ یا تو ان دونوں کے مختلف نام ہیں، یا ان کے مراتب کو ظاہر کرتے ہیں۔

یَدُ اللہ کی حکمت: ۔

سوال نمبر ۱۰۰: یہ اختتام کا سوال ہے، اور شاید بڑا اہم بھی ہے، وہ یہ کہ “یَدُ اللہ” کی کیا تاویل ہے؟ اللہ کے ہاتھ میں ملک (۶۷: ۰۱) ملکوت (۳۶: ۸۳) اور خیر (۰۳: ۲۶) ہونے کا کیا اشارہ ہے؟ آیا تمام چیزیں لوحِ محجفوظ میں ہیں (۰۶: ۵۹) یا امامِ مبین میں (۳۶: ۱۲) ؟ کیا ہر شے ایک کتاب میں محدود نہیں ہے (۷۸: ۲۹) ؟

 

۱۲۱

 

جواب: خدا کے ہاتھ کی تاویل ہے قبضۂ قدرت، اختیار، کنٹرول، تصرف یعنی لینا دینا، چیزوں کو اپنے لئے یا دوسروں کے لئے استعمال کرنا، اشیاء کو جمع، مہیا اور حاضر رکھنا، وغیرہ۔ خدا کے ہاتھ کی جامع الجوامع تاویل پیغمبرِ اکرمؐ اور امامِ اطہرؑ ہیں، لہٰذا دستِ خدا کی ساری تاویلات انہی قدسی ہستیوں سے متعلق ہیں، کیونکہ ان کے مبارک ہاتھ پر بیعت کرنا اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرنا ہے (۴۸: ۱۰) ۔

پروردگارِ عالم کے ہاتھ میں ملک و ملکوت اور خیر ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ تمام چیزیں پیغمبرِ اسلامؐ اور امامِ برحقؑ کی تحویل میں موجود ہیں، جبکہ بشری صورت کے یہی دو عظیم فرشتے خدا کے ہاتھ بھی ہیں اور خزائنِ الٰہی بھی (۱۵: ۲۱) ۔

لوحِ محفوظ، امامِ مبین اور کتاب ایک ہی حقیقت ہے، چنانچہ تمام چیزیں ایک ہی جگہ پر جمع ہیں، اور وہ مقامِ روحانیّت ہے، جو خدا تعالیٰ کے بابرکت ہاتھ کا درجہ رکھتا ہے، وہ محمدؐ و علیؑ کا پاک نور ہے، جس میں سب کچھ موجود ہے، ملک بھی ہے، اور ملکوت بھی، الحمد للہ علیٰ منّہٖ و احسانہٖ۔

 

بروزِ شنبہ، ۱۷؍ شعبان ۱۴۰۱ ھ             ۲۰؍ جون ۱۹۸۱ ء

 

۱۲۲

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۱

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

اللہ تعالیٰ کا خزانۂ خزائن ہی یہ سنگم ہے، ملاحظہ ہوسورۂ حجر(۱۵) کی آیت: ۲۱ (۱۵: ۲۱)۔

وہ حکمتِ بالغہ سے لبریز ارشاد یہ ہے: وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُہ‘ وَمَا نُنَزِّلُہ‘ٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ۔

تاویلی مفہوم: اس آیۂ شریفہ کے آغاز میں اِنْ=حرفِ نفی لَاکی جگہ پرہے، جس کا اشارہ ہے کہ ہرچیز پہلے “لا” ہوتی ہے، یعنی عالم ِنیستی =عالم ِابداع لا کی مثال ہے۔

پس یہاں خزانۂ کلمۂ کُنۡ(ہوجا) خود ازخود کام کررہا ہے، اور ہرلاشیٔ کو شی بنارہا ہے، چنانچہ معلوم ہواکہ اوّلین سنگم نیستی اور ہستی کا ہے۔ پس روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم عالمِ شخصی میں ہے۔ ان شاء اللہ ہم آپ کو بیان کریں گے۔

 

بدھ ۱۶؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۲

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

یہ ارشادِ مبارک سورۂ ذاریات(۵۱: ۴۷ تا ۴۹) میں ہے: وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍوَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ۔ ۔ ۔ ۔

تاویلی مفہوم: اورعالمِ اکبرکو ہم نے اپنی قدرت اور قوّت سے بنایا ہے، اور ہم اس کو مسلسل وسعت دیتے رہتے ہیں۔

سورۂ فاطر(۳۵: ۰۱) میں ارشاد ہے: یُزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَایَشَآئُ=وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیساچاہتا ہے اضافہ کرتا ہے۔ یقیناً اللہ ہرچیز پرقادر ہے۔

 

۱

 

اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بندۂ درویش کو حکمتِ قرآن اور ظہورات و تجلّیاتِ گوہرِ عقل پرایسا یقینِ کامل حاصل ہوا ہے کہ انہی مبارک اشارات میں مادّی سائنس کی روح بھی ہونے کا یقین رکھتا ہے پھر بھی مادّی سائنس کی ممکنہ معلومات سے مدد کیلئے دو واقف کار اور دانشمند عزیزوں کو مقرر کیا ہے۔

 

جمعرات ۱۷؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۳

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ طلاق(۶۵: ۱۲) اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّؕ-یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﳔ وَّ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا۔

تاویلِ باطن: صاحبِ دورِ اوّل آسمان، اس کا حجتِ اعظم زمین۔ صاحبِ دورِ دوم آسمان، اس کا حجتِ اعظم زمین۔ صاحبِ دورِ سوم آسمان، اس کا حجتِ اعظم زمین۔ صاحبِ دورِ چہارم آسمان، اس کا حجتِ اعظم زمین۔ صاحبِ دورِ پنجم آسمان، اس کا حجتِ اعظم زمین۔ صاحبِ دورِ ششم آسمان، اس کا حجتِ اعظم زمین۔ صاحبِ دورِ ہفتم آسمان، اس کا حجتِ اعظم زمین۔

یہ ہیں تاویلاً سات آسمان اور سات زمین۔ اور یہی حضرات مجموعاً کُل کائناتی بہشت ہیں۔

 

جمعرات ۱۷؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۴

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

یقیناً عالمِ دین کے سات آسمان اور سات زمین ہیں، بالکل اسی طرح عالمِ ظاہر کے بھی سات آسمان اور سات زمین ہیں۔

 

۲

 

جب خداوندِ قیامت=اَلْوَاحِدُ القَھَّار روحانی قیامت برپا کرتا ہے، تو اس وقت وہ قادرِ مطلق ظاہری اور باطنی آسمانوں اور زمینوں کودستِ راست میں لپیٹ کر گوہرِ عقل اور کتابِ مکنون کا سنگم بناتا ہے، قرآنی حوالہ سورۂ زمر(۳۹: ۶۷)، اگر آپ سچ مچ نور کے پروانوں میں سے ہوجانا چاہتے ہیں تو بسم اللہ اب بھی وقت ہے! اپنے دل کو حضرتِ مولا کے پاک عشق ومحبت سے معمور کرلیں۔

 

جمعۃ المبارک ۱۸؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۵

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

مولائے پاک ومہربان کے فضل وکرم سے ابھی ابھی اس بندۂ درویش نے دو عزیزوں کے ساتھ گریہ وزاری کی ہے، لہٰذا امید ہے کہ بارگاہِ عالی سے کوئی عجیب و غریب حکمت عطا ہو، وہ یہ ہے کہ بہشت دنیا اور آخرت کا سنگم ہے، یہاں دنیا سے مراد: دنیا کی زندہ اور لطیف صورت ہے۔ ان شاء اللہ، اس حقیقت کی قرآنی شہادتیں پیش کریں گے۔

سورۂ انعام (۰۶: ۷۳) میں غور کریں، یہاں کُنۡ (ہوجا) فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ خداوندِ تبارک وتعالیٰ عالمِ کثیف سے عالمِ لطیف بناتا ہے، تاکہ بہشت دنیا اور آخرت کا سنگم ہو، جنّت میں ہروہ نعمت موجود ہے جو اہلِ جنّت کو پسند ہو، اس بارے میں قرآنِ حکیم کی بہت سی آیاتِ کریمہ آپ کو معلومات فراہم کرسکتی ہیں۔

 

جمعۃ المبارک ۱۸؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۳

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۶

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ بقرہ(۰۲: ۱۱۷) اور سورۂ انعام (۰۶: ۱۰۱) میں ارشاد ہے: بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ  وَالْاَرْضِ۔ اس کی تاویل ہے: آسمانوں اور زمین کو عالمِ شخصی میں منتقل کرکے اس میں کائناتی بہشت بنانے والا۔ کائناتی بہشت کا حوالہ آلِ عمران(۰۳: ۱۳۳) اور سورۂ حدید (۵۷: ۲۱)، تسخیرِ کائنات کا یہ سب سے عظیم معجزہ روحانی قیامت میں ہوتا ہے۔

کائنات کو لپیٹنے کا ذکر سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۴) میں ہے، گوہرِعقل اور کتابِ مکنون کا سنگم گویا لپیٹی ہوئی کائنات ہے۔ یقیناً اس میں بہت سی مثالیں ہیں۔

 

جمعۃ المبارک ۱۸؍مارچ ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۷

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ مطففین(۸۳: ۱۸ تا ۲۸)، آپ ظاہری تراجم کو بھی ضرور پڑھیں۔

تاویلی مفہوم: یہ عِلِّیِّیْن=عِلِّیُّوْن مرتبۂ اَلْعَلِیُّ الْعَظِیْم اور اس کے نور کے ظہورات و تجلّیات کی بہشت، معروف: حظیرۂ قدس ہے، یہ آسمان اور عرش بھی ہے، بہشتِ آدم بھی، الغرض قرآن میں اس کے بہت سے نام ہیں، مگر حجاب میں۔ اَبرار کا نامۂ اعمال یہاں امامِ زمانؑ میں ہے، تاکہ کل بہشت میں حقیقی مومنین اور مومنات یہ دیکھ کر نہایت شادمان ہوجائیں کہ ہرنیک کام میں مولائے پاک ان کے ساتھ تشریف فرما تھا۔

قیامت کے دن بہت سے لوگ اپنے ربّ کے پاک دیدار سے محروم ہوجائیں گے (۸۳: ۱۵)۔

 

نوٹ: اَبرار: نیک لوگ، واحد بَرّ

 

سنیچر۱۹؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۴

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۸

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ فتح کے اسرارِ باطن بڑے عجیب وغریب ہیں (۴۸: ۰۱)۔

تاویلی مفہوم: اے رسولِ محبوب ہم نے آپ کوروحانی قیامت =حربِ روحانی میں کُل کائناتی تسخیروفتح عطاکردی ہے۔ ہرروحانی قیامت میں اسی مبارک فتح کا تجد ّد ہوتے ہوئے آیا ہے۔

اسی سورہ (۴۸: ۲۰) میں یہ ارشاد ہے: وَعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِیْرَۃً۔

تاویلی مفہوم: یہ بکثرت مالِ غنیمت یا اموالِ غنیمت کا وعدہ روحانی قیامت میں ہے، جبکہ بہشت دنیا اور آخرت کا سنگم ہے۔ یعنی دنیا کی نعمتیں لطیف ہوکر بہشت کی نعمتیں بن جاتی ہیں۔

 

سنیچر۱۹؍مارچ ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۹

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

اے عزیزانِ دل وجان! دورِ قیامت کے سلسلۂ معجزاتِ روحانی پرمحکم یقین رکھنا! مولائے پاک کے بے پایان احسانات کی شکرگزاری گویا بہشت کی خوشحالی اور عیدِ سعید کی عبادت ہے۔

آپ کو علم وحکمت کی شادمانی کے ساتھ ساتھ یہ بھی جاننا ہے کہ جنّت میں حوران وغلمان اور فرشتوں کاجنم نہیں ہوتاہے، بلکہ خداوندِ تعالیٰ اپنی عنایتِ بے نہایت سے عالمِ ناسوت ہی میں جن کو چاہے فرشتے اور حوران وغلمان بناتا ہے۔ جیسے سورۂ واقعہ(۵۶: ۳۵ تا ۳۷)میں حکیمانہ اشارہ ہے کہ خداوندِ تعالیٰ دنیا ہی کی خواتین میں سے بہشت کی حوریں = پری عورتیں بناتا ہے۔ پس یقیناً بہشت دنیا اور آخرت کا سنگم ہے۔

 

۵

 

اور یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ اہلِ جنّت دنیا ہی کے لوگ ہوتے ہیں، اور وہ اپنی تمام تر امیدیں اور آرزوئیں دنیا ہی سے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

 

اتوار۲۰؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۱۰

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ تین (۹۵: ۰۱ تا ۰۸)ترجمۂ ظاہر کے بعد اساسی تاویل، کتابِ وجہِ دین میں پڑھ لیں۔ عقلِ کُلّ، نفسِ کُلّ، ناطق اور اساس، چار اصول کی مثال: حظیرۂ قدس میں موجود ہے، جبکہ گوہرِعقل اور کتابِ مکنون کا سنگم عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ کی مثال بھی ہے اور ناطق واساس کی مثال بھی۔

اس پُرحکمت سورہ میں یہ تاویلِ باطن ہے کہ خداوندِ تعالیٰ نے روحانی قیامت کی سیڑھی پرآدم اور بنی آدم کوجس احسن طریق سے پیداکیا ہے وہ یقیناً بے مثال ہے، کیونکہ اس طریقِ تخلیق میں حکمتوں کی گوناگونی ہے۔ اللّٰہ اَلواحِدُ الْقہّار نے روحانی قیامت کے ذریعے سے آدم وبنی آدم کو ایک ساتھ پیدا کیا تھا(۰۷: ۱۱)۔

 

پیر۲۱؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۱۱

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۵)کے مطابق اللہ تعالیٰ القابض بھی ہے اور الباسط بھی ہے۔ یعنی وہ قادرِ مطلق کائنات کو جب چاہے لپیٹ لیتا ہے، اور جب چاہے پھیلا دیتا ہے۔ یہ حظیرۂ قدس میں مشاہدۂ باطن کا معجزہ ہے، اس کی مثال گوہرِعقل اور کتابِ مکنون ہے۔

خداوندِ تعالیٰ نے گوہرِعقل اور کتابِ مکنون میں ظاہری اور باطنی تمام مثالیں جمع کردی ہیں۔ خدا

 

۶

 

الواحد القہار عالمِ شخصی کوکائنات میں پھیلا دیتا ہے اور کائنات کو عالمِ شخصی میں لپیٹا ہے، اسی طرح وہ کائناتی بہشت کو بناتا ہے جو دنیا وآخرت کاسنگم ہے، جس میں بے شمار حکمتیں ہیں۔

 

پیر۲۱؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۱۲

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

عزیزانِ علمی و روحی! یہ اصولی حکمت آپ سب کو خوب یاد رہے آمین! کہ قانونِ تجدّد ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی۔

حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ اعظم الأئمّہ صلوات اللہ علیہ نے آیۂ مصباح: “اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ” (۲۴: ۳۵)کی طرف خصوصی توجہ دلائی ہے۔ آپؑ ہی کی باطنی اور نورانی ہدایت سے معلوم ہوا کہ اس آیۂ کریمہ کی زندہ نورانی تاویل حظیرۂ قدس کی تجلّیات میں موجود ہے۔ چنانچہ: طاقِ مقدّس=دہانِ قلبِ مبارکِ امامِ زمانؑ ہے، چراغِ روشن = اسمِ اعظمِ نورِ مجرّد، فانوس=اسمِ اعظمِ لفظی۔ کوکب کا گوہر کی طرح چمکنا=گوہرِعقل اور کتابِ مکنون کے ظہورات وتجلّیات ہیں جن کی الہامی تاویل نورِ اعظم کی طرف سے ہوتی رہتی ہے، درختِ زیتون= نفسِ کلّی، لَاشَرْقِیَۃٍ وَّلَاغَرْبِیَۃٍ = مرتبۂ لامکانی۔

نوٹ: اعظم الأئمّہ=لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ(۹۷: ۰۳)۔

ملاحظہ ہو کتابِ وجہِ دین ص ۳۲۰۔

 

بدھ۲۳؍مارچ ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۱۳

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ احقاف(۴۶: ۱۵)یہ آیتِ بابرکت وپُرحکمت آنحضرتؐ کی شان میں نازل ہوئی ہے،

 

۷

 

بحوالہ ٔ کتابِ سرائر، ص۲۱۷۔

اس کے ساتھ ساتھ یہاں دورِ قیامت کی ایک عظیم تاویل بھی ہے، وہ یہ ہے کہ جب حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ چالیس سال کو پہنچ گئے تو ان کے نورِ امامت پرخداوندِ قیامت کا نورِاعظم طلوع ہوگیا، جس کے فیوضات وبرکات سے روحانی سائنس اور مادّی سائنس کی انقلابی ترقی ہوئی، اسی وجہ سے ہم سنگم کی بات کرتے ہیں۔

گوہرِعقل اور کتابِ مکنون کی جامع الجوامع مثال میں روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا دائمی سنگم ہے۔

 

ڈالاس

جمعۃ المبارک۲۵؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۱۴

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۷) میں جس طرح روحانی قیامت کا ذکر آیا ہے، اس کی تاویلی حکمت بڑی عجیب وغریب ہے، البتہ اس میں خوب سوچ کر سمجھنے کی سخت ضرورت ہے، کہ قیامت حضرت قائم علینا سلامہٗ کا وہ نورِاعظم ہے جس کا حامل نفسِ کلّی ہے، جس کی گرفت میں کل کائنات محفوظ ہے۔

آپ جانتے ہونگے نفسِ کلّی کرسی بھی ہے، لوحِ محفوظ بھی ہے، حضرت قائمؑ کا نورِاعظم بھی ہے، روحانی قیامت کا سرچشمہ اور دونوں سائنسوں کا سنگم بھی ہے، آپ آیت الکرسی کوتاویلی حکمت کے ساتھ پڑھیں، نیز کتابِ زادالمسافرین میں نفسِ کلّی سے متعلق پُرحکمت بیان کو پڑھیں۔

 

ڈالاس

روزِ شنبہ۲۶؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۸

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۱۵

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ حدید (۵۷: ۲۵)  لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِۚ-وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ وَ رُسُلَهٗ بِالْغَیْبِؕ-اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔

ارشاد ہے: ترجمہ: اور ہم نے لوہے کو نازل کیا جس میں شدید جنگ ہے اور لوگوں کیلئے منافع ہیں۔

حدید ظاہراً لوہا ہے، باطناً نورِحضرت قائم (ع ۔ س) ہے، جس میں قیامت کی شدید روحانی جنگ ہے اور لوگوں کیلئے بہت سے روحانی فائدے ہیں یعنی قائم شناس لوگوں کیلئے علم ومعرفت کے عظیم فائدے ہیں۔

ذوالقرنین نے کہا: اٰتُوْنِیْ زُبَرَ الْحَدِیْدِ تاویل: مجھے حضرت قائم کے اسمِ اعظم سے قوّت پہنچادو(۱۸: ۹۶)۔

 

ڈالاس

روزِ یک شنبہ۲۷؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۱۶

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ حدید(۵۷: ۲۵):

ترجمہ: یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کوکھلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ ہی کتاب (امام) اور میزان (تاویل) نازل کی تاکہ لوگ انصاف پرقائم رہیں اور ہم نے لوہے کو نازل کیا( ظاہراً لوہے کی روح باطناً نورِ قائم) تاکہ اللہ ظاہر کردے کہ کون اس کی اور اس کے رسولوں کی بغیر دیکھے مدد کرتا ہے یقیناً اللہ تعالیٰ طاقت والا زبردست ہے۔

لوہے کے نزول سے معلوم ہواکہ تمام معدنیات کی روح نازل ہوتی ہے، کیونکہ خزائنِ الٰہی(۱۵: ۲۱) میں ہرچیز کی روح موجود ہے۔

 

ڈالاس

روزِ یک شنبہ۲۷؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۹

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۱۷

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ سبا(۳۴: ۱۰ تا ۱۱)میں ارشاد ہے: وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًاؕ-یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَهٗ وَ الطَّیْرَۚ-وَ اَلَنَّا لَهُ الْحَدِیْدَ  اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ

ترجمہ: اور یقیناً ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے بزرگی عطاکی(اور حکم دیاکہ) اے پہاڑو!اور اے پرندو!اس کے ساتھ تسبیح پڑھواور ہم نے اس کیلئے لوہے کو نرم کر دیا، کہ کشادہ زرہیں بناؤ اور کڑیاں جوڑنے میں اندازہ کرواور نیک کام کرتے رہو یقیناً جو کچھ تم کرتے ہومیں اسے خوب دیکھنے والا ہوں۔

تاویلی مفہوم: حضرت داؤدؑ کے یہ معجزات خداوندِ روحانی قیامت کی طرف سے تھے، پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح خوانی بحالتِ عالمِ ذرّ صورِ اسرافیل میں ہے، لوہا نورِ قائم اور علمِ قائم ہے جوسخت مشکل ہے، جس کو خداوندِ قیامت نے حضرت داؤدؑ کیلئے آسان کردیاتھا۔

 

ڈالاس

دو شنبہ۲۸؍مارچ ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۱۸

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

حضرت قائم (ع۔ س)کے فضل وکرم سے اس بندۂ ناچیزکو گوہرِعقل اور کتابِ مکنون کا مقدّس مشاہدہ نصیب ہوا ہے، جس میں ہردو سائنس کے تمام اشارے موجود ہیں، ان شاء اللہ یہ حقیقت ان چھوٹے چھوٹے مقالوں میں آپ پرروشن ہوجائے گی۔

جب حضرت قائم (ع۔ س)اپنے کسی مومن پر روحانی قیامت برپا کرکے اسرافیلی اور عزرائیلی منزل

 

۱۰

 

کی سخت ریاضت کراتا ہے تواس وقت یقیناً روحِ مومن کو نہ صرف ساری کائنات میں نشر کرتا ہے، بلکہ حدودِ کائنات سے بھی باہر بسیط کر دیتا ہے، پھرجوہرِکائنات سمیت واپس بدن میں ڈال دیتا ہے۔

سورۂ نازعات (۷۹: ۰۱ تا ۰۵) کے ظاہر و باطن کو غور سے پڑھ لیں، یہاں “روحانی قیامت میں” قبضِ روح کا تفصیلی بیان موجود ہے کہ کس طرح روح اور مادّۂ کائنات کا سنگم ہوتا ہے اور روح کو کہاں کہاں پھیلائی جاتی ہے اور کیوں؟ مگر یاد رہے کہ ان آیات کا ظاہری ترجمہ کافی نہیں۔

سابقات = روح کو کائنات سے باہر لے جانے والے فرشتے، مدبرات = روح کے حشر و نشر کے عمل کو دہرانے والے فرشتے۔

یہ حکمت بھی یاد رہے کہ آپ اور ہم انسانِ صغیر ہیں اور کائنات انسانِ کبیر، پھر بھی ہمارے اور اس کے درمیان دو سنگم ہیں، ایک جسمانی اور ایک روحانی۔

 

ڈالاس

دو شنبہ۲۸؍مارچ ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۱۹

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ فاطر (۳۵: ۴۱) کا پُرحکمت ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰهَ یُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا  وَلَىٕنْ زَالَتَاۤ اِنْ اَمْسَكَهُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِهٖؕ-اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا۔

یقیناً اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ وہ دونوں اپنے مقام سے ہٹ نہ جائیں اور اگر وہ دونوں ہٹ گئے تو اس (الواحد القہار) کے سوا کوئی بھی انھیں روک نہیں سکتا یقیناً وہ بہت بردبار بخشنے والا ہے۔

 

۱۱

 

تاویلی مفہوم: روحانی قیامت میں الواحد القہار کائناتِ ظاہر کو لپیٹ کر کائناتِ باطن کو پیدا کرتا ہے، جو بالکل کائناتِ ظاہر ہی کی طرح ہوتی ہے، مگر لطیف و روحانی ہے، جس میں دنیا کے سب لوگ موجود ہیں۔

کائناتِ ظاہر کو لپیٹنے کا قرآنی حوالہ: سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۴)، سورۂ زمر (۳۹: ۶۷)۔

 

ڈالاس

دو شنبہ۲۸؍مارچ ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۲۰

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ تغابن (۶۴: ۰۸) میں ارشاد ہے: فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ الَّذِیْۤ اَنْزَلْنَاؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ

ترجمہ: پس تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس نور پرایمان لاؤ جس کو ہم نے نازل کیا اور اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کرتے ہو اس کی خوب خبر رکھنے والا ہے۔

اس آیۂ شریفہ میں اللہ اور اس کے رسول اور نورِ منزل پرایمان لانے کا حکم ہے، نورِمنزل سے حضرت مولانا علیؑ بصورتِ ظہورات وتجلّیات مراد ہے۔

قرآنِ حکیم میں جتنی آیاتِ نور ہیں ان سب کے ساتھ یہ آیۂ کریمہ مربوط ہے۔

 

ڈالاس

سہ شنبہ۲۹؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۲۱

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

خداوندِ قیامت (ع۔ س) کے فضل وکرم سے زمانۂ یارقند میں جو معجزات ہوئے تھے ان کا ذکرِ جمیل باربار ہونا چاہئے، تاکہ تحدیثِ نعمت کی شکرگزاری ہو،  وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ

۱۲

 

ترجمہ: اور اپنے ربّ کی نعمتوں کاذکرکرتے رہنا (۹۳: ۱۱)۔

 

یقیناً ان تمام معجزات کی نورانی تاویل میں سنگم ہی سنگم ہے، جیسے تجلیٔ معکوس کا معجزہ ہے (۳۶: ۶۸) یعنی جونیک بخت نفوس حضرت قائمؑ میں فنا ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ ہوجاتے ہیں، ان کی ابدی بہشت میں دنیا بھی اور آخرت بھی ہوگی، کیونکہ کائناتی بہشت دنیا اور آخرت کا سنگم ہے۔

 

ڈالاس

سہ شنبہ۲۹؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۲۲

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ انعام (۰۶: ۷۳): هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّؕ-وَ یَوْمَ یَقُوْلُ كُنْ فَیَكُوْنُ ﱟ قَوْلُهُ الْحَقُّؕ-وَ لَهُ الْمُلْكُ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِؕ-عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِؕ-وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْخَبِیْرُ۔

ترجمہ: وہی تو وہ ( خداہے) جس نے ٹھیک ٹھیک بہتیرے آسمان و زمین پیدا کیے، اور جس دن ( کسی چیز کو) کہتا ہے کہ ہوجا تو( فوراً) ہوجاتی ہے، اس کا قول سچا ہے، اور جس دن صور پھونکا جائے گا (اس دن) خاص اسی کی بادشاہت ہوگی (وہی) غائب وحاضر (سب) کاجاننے والا ہے اور وہی دانا واقف کار ہے۔

تاویلی مفہوم: الواحد القہار نے آسمانوں اور زمین یعنی عالمِ ظاہرکوہمیشہ کیلئے پیدا کیا ہے، جب ایک روحانی قیامت مکمل ہوجاتی ہے تو حضرت قائم (ع ۔ س) عالمِ ظاہر کو کُنۡ(ہوجا) فرماتا ہے، جس سے عالمِ ظاہر اپنی تمام چیزوں کے ساتھ عالمِ شخصی میں تبدیل ہوجاتا ہے، جیسا کہ سورۂ ابراہیم ( ۱۴: ۴۸) میں ارشاد ہے۔

 

۱۳

 

اور جہاں کائنات کو لپیٹنے کا باطنی معجزہ ہے، وہ بطورِ اشارت اور علامت ہے کہ ظاہری کائنات عالمِ شخصی میں منتقل ہوچکی ہے اور اب عالمِ شخصی کائناتی بہشت ہے۔

 

ڈالاس

سہ شنبہ۲۹؍مارچ ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۲۳

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ مریم(۱۹) کے آغاز میں ک۔ ہ۔ ی۔ ع۔ ص کے حروفِ مقطّعات ہیں، جن میں پانچ اسمِ اکبرمخفی ہیں، تاہم اَلْعَلِیُّ الْعَظِیْم سب سے بلند ترین ہے، اس کو عشاق حضرت اسمِ اعظم کہتے ہیں، کیونکہ حضرتِ زکریاؑ نورانی وقت میں حضرتِ اسمِ اعظم کی خصوصی عبادت کرتا تھا، جس نے عالمِ شخصی کے مرتبۂ عقل پر یحییٰؑ کے نام سے نورانی جنم لیا۔

اسمِ اعظم کے ظہورات وتجلّیات گوناگون ہیں، حضرت اسمِ اعظم کی ایک تجلّی شیرکی صورت میں بھی دیکھی گئی ہے، قرآنِ حکیم جس خدا کو اَلْحَیّ کہتا ہے اسی کو عشاق حضرت اسمِ اعظم مانتے ہیں، کیونکہ خدا خود اپنا اسمِ اعظم اور اسمِ ذات ہے۔

 

ڈالاس

یوم الاربعۃ۳۰؍مارچ ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۲۴

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

خداوندِ روحانی قیامت کے فضل وکرم سے “سنگم” کے مضمون کے تحت کئی اسرار کا انکشاف ہوا ہے اور مزید انکشاف ہورہا ہے، الحمدللہ، ہرنبی اور ہر امامؑ عالمِ ناسوت اور عالمِ ملکوت کا سنگم ہے، اسمِ اعظمِ نورانی اور اسمِ اعظمِ لفظی کا سنگم ہے، حظیرۂ قدس میں مشرق اور مغرب کا سنگم ہے اور شمس وقمرکا بھی، گوہرِعقل اور کتابِ مکنون کا بھی، آسمان وزمین کا بھی۔

 

۱۴

 

آپ چار بجے کی نورانی عبادت خواب اور بیداری کے سنگم پرکرنے کی عادت بنالیں۔

 

بدھ۳۰؍مارچ ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۲۵

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

؎   جب قلم لیتا ہوں آتا ہے تجلّی بن کے وہ

انسان روحِ مستقر سے بہشت میں ہے، اور روحِ مستودع سے دنیا میں ہے۔ لہٰذا ہرمومن اور مومنہ کے دو روحانی سنگم ہیں، ایک بہشت میں اور دوسرا سنگم دنیا میں، یہ خداوندِ تعالیٰ کی بے پایان رحمت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے۔

نفوسِ خانۂ حکمت کی تعریف میں جوکچھ کہا گیا ہے وہ بظاہر میرا قول ہے، مگر اس کی حقیقت اور حکمت مولائے مہربان کی طرف سے ہے۔

امرِ کُنۡ (ہوجا) کے عالمِ امکان میں ہرممکن چیز ہے، عالمِ ذرّ میں، قلمِ اعلیٰ میں، لوحِ محفوظ میں، حظیرۂ قدس میں، امامِ مبین میں، قرآنِ حکیم میں، عالمِ شخصی میں، عالمِ اکبر میں۔ یہ دراصل حضرت قائم (ع۔ س) کی تجلّیات ہیں۔

 

نوٹ: آج ڈالاس سے واپس آکر تمام عزیزان کو مشورہ دیتا ہوں کہ حضرت اسمِ اعظم کے معجزات کو بڑی عمدگی سے ریکارڈ کریں۔

 

جمعرات ۳۱ مارچ ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۲۶

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

عالم ِ دین میں معلّم اور متعلّم (استاد وشاگرد) کا سنگم ہے اور حدودِ دین میں بھی یہی سلسلہ ہے۔

 

۱۵

 

؎     بُوَد  زنجیر  با  زنجیر  پَیوَند

سَرِ زنجیر در دستِ خداوند

 

مفہوم: حدودِ دین کو حلقہ در حلقہ زنجیرکی طرح سمجھو، اس زنجیرکا بالائی اورآخری سراخداوندِ قیامت کے دستِ مبارک میں ہے۔

سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَلِیّ الْعَظِیْم وَبِحَمْدِہٖ۔

کتابِ وجہِ دین، ص ۲۵۵، بحوالۂ آیۃ الکرسی، اسمِ اعظم کی یہ تسبیح زبردست ہے۔ یہ گنجِ مخفی ہے، اس سے فائدہ حاصل کریں۔

 

جمعرات ۳۱ مارچ ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۲۷

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

اگرچہ عالمِ نباتات کی ہر چیز کا براہِ راست نادیدنی (Invisible) سنگم  سورج کے ساتھ یقینی ہے، لیکن اس دنیا میں گُلِ آفتاب (سورج مکھی) وہ  بڑا عجیب و غریب پھول ہے جو سورج کے ساتھ نمایان سنگم بناکر سب کو ورطۂ حیرت میں ڈالتا ہے، یقیناً اس کی الگ الگ توجیہات ہوسکتی ہیں تاہم میرے نزدیک اس میں عاشقانِ  نورِالٰہی کی بڑی خوبصورت مثال ہے کہ نور کا بابرکت عشق جس دل میں ہو وہ خوش نصیب دل ہر وقت آفتابِ نور کی طرف متوجّہ رہتا ہے۔ چنانچہ میرے ایک بُروشسکی شعر کا یہ مفہوم ہے: اے محبوبِ جان! توآفتابِ نور ہے، میرا دل تیرے عشق کا یقیناً گُلِ آفتاب ہے، لہٰذا تیری تشریفِ مبارک جہاں بھی ہو، وہیں میرا دل اپنی طرف پھیرکر سیدھا رکھنا۔

 

جمعۃ المبارک یکم اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

۱۶

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۲۸

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کے کئی اسرارہیں۔ اگر خداوندِ روحانی قیامت کی نورانی تائید نصیب ہوئی تو کوئی خاص تاویلی حکمت بیان ہوسکتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ عالم دو ہیں: عالمِ جسمانی اور عالمِ دین، پس آسمان اور زمین جسمانی بھی ہیں، اور روحانی = دینی بھی ہیں۔

چنانچہ حقیقت یہی ہے کہ ﷲ معبودِ برحق عزّ اسمہٗ عالمِ دین کے سات آسمانوں  اور سات زمینوں (۶۵: ۱۲) کا نور ہے۔ اور وہ یہ ہیں: آسمانِ اوّل: آدمؑ، آسمانِ دوم: نوحؑ، آسمانِ سوم: ابراھیمؑ، آسمانِ چہارم: موسیٰؑ، آسمانِ پنجم: عیسیٰؑ، آسمانِ ششم: محمدؐ، آسمانِ ہفتم: حضرتِ قائم (ع۔ س)۔

پس ہر صاحبِ دورِ دینی آسمان اور اس کا حجتِ اعظم زمین ہے، اسی طرح حضرتِ قائم (ع۔ س) دین کا آسمانِ ہفتم اور حجّت اعظم اس کی زمین ہے۔ اب حقیقت  بفضلِ مولا نکھر نکھر کر سامنے آگئی کہ معبودِ برحق عالمِ دین کے سات آسمانوں اور سات زمینوں (۶۵: ۱۲) کا نورِ عقل و جان ہے، الحمدللہ۔

 

جمعۃ المبارک یکم اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۲۹

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

یہی سنّتِ الٰہی ازل سے جاری و ساری ہے کہ آسمانی کتاب اور نورِ امامت کا سنگم ہے۔ سورۂ ھود(۱۱: ۱۷) کے ارشاد میں غور سے دیکھیں کہ حضرتِ موسیٰؑ کی کتاب سے نورِ امامت مراد ہے، اگر خدا کے نزدیک لفظِ “امام”  تورات کیلئے ہوتا تو وہ پاک علیم و حکیم حضرتِ ابراہیم خلیلؑ کو امام نہ بناتا بلکہ کسی خاموش کتاب ہی کو امام بناتا، مگر اس کریمِ کارساز نے ابراہیمؑ ہی کو لوگوں کا

 

۱۷

 

امام بنا کر آسمانی کتاب کا زندہ نور بھی اسی کے نور میں رکھا اور اس حقیقت میں صاحبانِ عقل کیلئے کوئی شک ہی نہیں کہ ہر زمانے میں امامِ برحق وہی ہوتا ہے جس کے پاک نور میں آسمانی کتاب کا نور بھی ہوتا ہے تاکہ وہ کتابِ سماوی کا مؤوّ ِل اور ترجمان ہو۔

 

سنیچر ۲؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۳۰

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ حدید (۵۷: ۲۶) کا ارشاد ہے: وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحاً وَّاِبْرٰھِیْمَ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِھُمَاالنَّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ۔

ترجمہ: ہم نے نوح اور ابراہیم کو بھیجا اور ان دونوں کی نسل میں نبوّت اور کتاب رکھ دی۔ حکمت: کتاب سے نورِ امامت مراد ہے، جس میں لازماً آسمانی کتاب کا نور بھی ہوتا ہے اسی لئے امام کا نام قرآن میں “الکتاب”  بھی ہے۔ جبکہ امامؑ کتابِ ناطق = قرآنِ ناطق ہے، امامِ عالیمقامؑ اور کتابِ سماوی کا سنگم تمام لوگوں کیلئے وسیلۂ نجات اور ذریعۂ رحمت ہے۔

اب میں آپ کو اس آیۂ شریفہ کا حوالہ بتاؤں گا جس میں یہ حکمت ہے کہ تمام  انبیاء علیہم السّلام کے ساتھ نورِامامت موجود تھا وہ بابرکت ارشاد، سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۱۳)  ہے جس میں اگرچہ کئی حکمتیں ہیں لیکن ہم یہاں صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ خدا نے اپنے تمام پیغمبروں کے ساتھ نورِامامت کو نازل کیا، جس کا نام اس آیت میں “الکتاب” ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی مَنِّہٖ وَاِحْسَانِہٖ۔

 

سنیچر ۲؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

۱۸

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۳۱

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

انبیائے قرآن کا تمام قصّہ دراصل روحانی قیامت ہی کا قصّہ ہے، امامِ زمانؑ کے باطنی معجزات کا دروازہ “بابِ حطّہ” کہلاتا ہے (۰۲: ۵۸) یہ حضرتِ اسمِ اعظم کے پاک نور و نورانیّت کا دروازہ ہے، یہاں سے اسرافیل اور عزرائیل کے سنگم کاآغاز ہوتا ہے۔ اور نفوسِ خلائق کا حشر و نشر عالمِ ذرّ کی صورت میں لگا تار ہوتا رہتا ہے، انتہائی عجیب معجزہ ہے کہ عالمِ ذرّ اور ناقور کا سنگم ہوتا ہے اور عالمِ ذرّ کی ہر ہر چیز صورِ اسرافیل کے ساتھ ہمنوا ہو کر ذاتِ سبحان کی تعریف میں ناقوری تسبیح کرتی ہے (۱۷: ۴۴)۔

آیۂ مصباح اور آیۂ سراجِ منیر کا سنگم ہے اور یہی نور مومنین و مومنات کا بھی ہے(تین مقام)۔

 

اتوار ۳؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۳۲

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

اگر آپ حضرتِ اسمِ اعظم اور نورِ اقدم کے عاشقِ صادق ہیں، اور جیتے جی اس ذاتِ عالی صفات میں فنا ہوکر روحانی قیامت کے عظیم ظہورات و معجزات کو دیکھنا  چاہتے ہیں، تو حقیقی اطاعت سے یہ سعادتِ عظمٰی حاصل ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوا، سب سے پہلے، اسرافیل اور عزرائیل کا سنگم معجزہ ہوگا، یعنی آپ کی روحانی قیامت برپا  ہوگی، اور عالمِ ذرّ آپ کے عالمِ شخصی میں داخل ہوگا اب آپ کی روح کا حشر و نشر کائنات بھر میں لگا تار اور بڑی سرعت سے ہوگا۔ اس میں بہت سی حکمتیں ہیں۔ روحانی قیامت کے اسرار بے پایان ہیں، ان کا علم صرف خداوندِ قیامت کے پاس ہے۔

 

اتوار ۳؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

۱۹

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۳۳

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

عالمِ ذرّ کا ظہور خزائنِ الٰہی (۱۵: ۲۱) سے ہوتا ہے، عالمِ ذرّ میں روح اور مادّہ کا سنگم ہے، یعنی اس میں ذرّۂ روح بھی ہے اور ذرّۂ مادّہ بھی ہے۔ یقیناً عالمِ ذرّ میں ہر معدنی چیز کی روح ہے۔ چنانچہ پتھر اور لوہے کی روح ہے، جیسا کہ خزائنِ الٰہی  (۱۵: ۲۱) کا بیان ہے کہ ہر چیز کی ضرورت کے خزانے خدا کے پاس ہیں، صاحبانِ عقل جانتے ہیں کہ حضرتِ ربِّ تعالیٰ کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا خزانہ کلمۂ امر (کُنۡ = ہوجا) ہے۔

کلمۂ امرکی تفسیر سورۂ یٰسٓ (۳۶: ۸۲) میں ہے۔ یعنی ارادۂ الٰہی میں کلمۂ کُنۡ (ہوجا) کی حکمت موجود ہے۔ پس خدا کا کوئی ایسا کام نہیں جو پہلے ہی سے کیا گیا  نہ ہو، کیونکہ خدا کی ذاتِ پاک اور اس کی ہر صفت قدیم ہے۔ اسی طرح اس کا فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ (۱۱: ۱۰۷) ہونا قدیم ہے۔

پیر ۴؍ اپریل  ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۳۴

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

جب مومنِ سالک کی روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے اور اس کی روح کا حشر و نشر ہوتا ہے، تو حشر میں کائنات بھر سے ذرّاتِ روح آتے ہیں، آسمان، زمین، سمندر، پہاڑ وغیرہ سے۔ اور اسی طرح نشر میں روح کے بے شمار ذرّات کائنات اور اس کے چھوٹے بڑے اجزاء میں پھیل جاتے ہیں، گویا آسمانی طبیب سالک کی روح اور کائنات کو حکمت اور وحدت کی کھرل میں پیس پیس کر یکجان کردیتا ہے، اور اس میں علم و حکمت کے عجیب و غریب اسرار پوشیدہ ہیں۔

بنی اسرائیل (۱۷: ۵۰) میں ہے: قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِیْدًا= ان سے کہو: “تم پتھریا لوہا ہوجاؤ”  یہ خدا و رسول کا امرِ امکان ہے، اس سے معلوم ہوا کہ خزائنِ  الٰہی میں سے ایک خزانہ

 

۲۰

 

انسان ہے، جس سے بہت سی چیزیں بحکمِ خدا نازل ہوتی ہیں، یعنی ہر قسم کی معدنی روح عالمِ انسانیت کے خزانے سے نازل ہوتی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ روحانی سائنس اور سنگم کی حکمت کیسی عجیب و غریب ہے!

 

پیر ۴؍ اپریل  ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۳۵

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ لقمان(۳۱: ۱۶) میں غور سے دیکھنا ہوگا، کہ آسمان اور زمین کے اجزاء اور ذرّات روح سے خالی نہیں ہیں، لہٰذا جب بھی کوئی روحانی قیامت قائم ہوتی ہے تو مومنِ سالک کے ساتھ ساتھ ذرّاتِ کائنات کا بھی حشر و نشر ہوتا ہے۔

سورۂ زمر (۳۹: ۶۸) میں دیکھیں: کہ مومنِ سالک کی روحانی قیامت جملۂ  کائنات کے ساتھ سنگم قیامت ہے، پس اگر ماہرینِ فلکیات کو پچھلے تیس سالوں میں کچھ جدید ستارے نظر آئے ہیں تو خداوندِ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس روحانی قیامت کا ان سے کوئی تعلق ہے یا نہیں؟

 

پیر ۴؍ اپریل  ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۳۶

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ حجر(۱۵: ۲۱) اسرارِ حکمت و معرفت سے لبریز ارشاد ہے: وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘-وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ ۔ تاویلی مفہوم: کائنات و موجودات کی کوئی چیز ایسی نہیں جس کی حاجت و ضرورت کے خزانے ہمارے پاس موجود نہ ہوں، (یعنی حدودِ روحانی اور جسمانی) خدا کی عندیت و قربت کا

 

۲۱

 

شرف حدودِ روحانی و جسمانی ہی کو حاصل ہے، لہٰذا خزائنِ الٰہی یہی ہیں۔ جن کے درجات بلند  ہیں، اور انہی سے کائناتِ ظاہر اور عالمِ  انسانیّت کو ضرورت کی چیزیں نازل ہوتی رہتی ہیں۔

اس آیۂ شریفہ کے آخر میں لفظِ  “معلوم”  آیا ہے اور یہی روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم ہے۔

 

منگل ۵؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۳۷

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

اﷲ معبودِ برحق اَلْحَیُّ القَیُّوم کی کرسی کے بارے میں ارشاد ہے: وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ (۰۲: ۲۵۵) اس کی کرسی (نفسِ کلّی)نے آسمانوں اور زمین کو گھیر  لیا ہے۔

آسمان زمین کی کوئی چیز یک لخت نہیں، بلکہ ہر چیز ذرّات در ذرّات ہے، یہاں تک کہ ذرّۂ روح اور ذرّۂ مادّہ کا سنگم ہے، یعنی مادّہ کا انتہائی چھوٹا ذرّہ بھی روح کے بغیر نہیں، جبکہ نفسِ کلّی کے نورانی سمندر میں ساری کائنات مستغرق ہے۔

پس کائنات، اجزائے کائنات اور ذرّاتِ عالم کے آرپار نفسِ کلّی کا نور محیط ہے۔ نفسِ کُلّ = لوحِ محفوظ، بحرِ نور اور عظیم فرشتہ ہے۔

اگر آپ کو نفسِ کُلّ کے بارے میں جاننا ہے، توحکیم پیر ناصرخسرو (ق۔ س)  کی شہرۂ آفاق کتاب زادالمسافرین کا مطالعہ کریں۔

 

منگل ۵؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

۲۲

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۳۸

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ بقرہ(۰۲: ۲۵۵) اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ-اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ  لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ

ترجمہ: معبودِ برحق ہی وہ ذاتِ پاک ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندۂ جاویدِ ازل و ابد ہے، اور سرچشمۂ  حیاتِ ابدی بھی وہی ہے، وہ بذاتِ پاکِ خود قائم و دائم ہے، اور جہان و اہلِ جہان کا قیام بھی اسی سے ہے۔ اس کو نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند۔

لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ = جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) اسی کا ہے۔

 

بدھ۶؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۳۹

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖؕ-یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْۚ-وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَۚ (۰۲: ۲۵۵)=جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ  جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کے علمِ بے پایان  میں سے کوئی چیز ان کی گرفتِ ادراک میں نہیں آسکتی اِلَّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ  خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اس کی کرسی (نفسِ کلّی) آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے جس کا ذکر ہوچکا، اور ان کی حفاظت اس کیلئے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی اَلْعَلیُّ الْعَظِیْم (بلند ترین اور بزرگ ترین) ہے۔

 

بدھ۶؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

۲۳

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۴۰

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

اگر انسان راہِ حق پر چلتا ہے، تو اس کے واسطے فرشتوں کا سنگم ہے: (۴۱: ۳۰)  اگر وہ راہِ باطل پرچلتا ہے، تواس کیلئے جانوروں کا سنگم ہے: ( ۲۵: ۴۴)۔ جب انسان عالمِ ذرّ میں تھا تو اس وقت وہاں ہر چیز کا سنگم تھا، اور یہ خداوندِ تعالیٰ کی بڑی عجیب و غریب حکمت ہے کہ ہم سب عالمِ ذرّ سے آئے ہیں۔ لیکن اکثر لوگوں کو یہ راز معلوم نہیں ہے۔ روحانی قیامت کے آغاز میں حضرتِ اسرافیلؑ کی دعوت پر بے شمار لشکرِ یاجوج و ماجوج مومنِ سالک کے عالمِ شخصی میں داخل ہونے لگتے ہیں (۱۷: ۹۴) نیز (۲۱: ۹۶) پس یہی محیرالعقول معجزہ عالمِ ذرّ اور یاجوج  وماجوج کا سنگم ہے۔ سبحان ﷲ!

 

جمعرات ۷؍ اپریل  ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۴۱

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

خداوندِ قیامت کے اس کمترین غلام نے آج صبح تقریباً چھ بجے مقالہ ۴۰ کی تکمیل ہی کے ساتھ صوفہ پر ایک خفیف و لطیف نیند میں یہ خواب دیکھا، غالباً شمالی علاقہ جات کے کسی مقام پر چند معزز حضرات تھے، ان میں سے جناب (ر) برگیڈیر حسامُ ﷲ بیگ صاحب ابنِ قدرت ﷲ بیگ صاحب (مرحوم)کی صاف صاف شناخت ہوتی ہے، قریب ہی میں کچھ لوگ زور زور سے باتیں کرتے ہوتے ہیں، یہ بندۂ درویش بڑی عاجزی سے بار بار کہتا ہے: میں آپ سے قربان! میرا مشورہ سن لو! کوکبِ دُرّی بابِ اوّل میں روایت ہے کہ حضرتِ علی المرتضیٰؑ کی شان میں تین سو آیاتِ کریمہ نازل ہوئی ہیں، آپ ان سب کو خوش خطی لکھا کر نمایان کریں۔ اس کے بعد بیدار ہوکر دیکھتا ہوں کہ صوفہ ہی پر ہوں۔ پس میں نے اس خواب سے کچھ تاویلات اخذ کرلیں۔ الحمد ﷲ۔

 

جمعرات ۷؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

۲۴

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۴۲

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

قرآن و حدیث کے حکیمانہ اندازِ بیان کا نام جوامع الکلم ہے، آپ کو ضروری  طور پر اس کا مطلب سمجھنا ہے، اعنی قرآنِ حکیم کی حکمت اور احادیثِ صحیحہ کی حکمت بالکل ایک جیسی ہے، جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ حدیث کے باطن میں ﷲ تعالیٰ کی وحی پوشیدہ ہے۔

اب اس بیان کے بعد، دعائے نور کو لیں، یہ پاک دعا اگرچہ رسولِ اکرمؐ کی  زبانِ مبارک سے ہے، لیکن حقیقت میں یہ خدا ہی کا کلام ہے۔

اس پر حکمت دعا کے سولہ اجزاء اور سولہ سنگم ہیں۔ اور سولہ قسم کی بنیادی بیماریوں کے لئے اس میں شفاء ہے۔

اس دعائے پاک میں یہ اشارہ بھی ہے کہ رسولِ کریمؐ میں عالمِ ذرّ تھا۔

 

لندن

اتوار ۱۰ ؍اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۴۳

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

دعائے نور کا ترجمہ: بحوالۂ کتاب العلاج ص ۱۸۶: یا ﷲ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کردے، اور میرے کان، آنکھ، اور زبان میں بھی نور بنادے، میرے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں، اور رگوں میں بھی نور بنادے، اور میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر اور نیچے بھی نور مقرر فرما!

یہ دعا شروع ہی سے بہت ضروری رہی ہے، اور اب اس کی بیحد ضرورت ہے۔ آپ کو احساس ہو!

یہ وہی پاک نور ہے جس کا ذکرِ جمیل قرآنِ حکیم میں بار بار آیا ہے، یہ نورِ امامت، نورِ ہدایت اور

 

۲۵

 

نورِ قیامت ہے۔

ان شاء ﷲ ہم آپ کو دعائے نور کی کچھ تاویل آئندہ مقالے میں بیان کریں  گے۔

 

لندن

پیر۱۱ ؍اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۴۴

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

 

دعائے نور کی تاویلی حکمت: یہ پاک و پاکیزہ دعا، ارشادِ قرآنی ہی کی طرح باطنی اسرار سے لبریز ہے۔ اگر اس دعا کی تفصیل اور تمام اجزاء کے بیان میں ضروری حکمت نہ ہوتی تو صرف دل ہی کیلئے ایک نور کی درخواست کافی ہوتی جبکہ دل پورا جسم اور تمام اعضا کا مرکز ہے۔ ظاہر ہے کہ اس پُرحکمت دعا کے جیسے تفصیلی اجزاء ہیں، ان سب میں ضروری حکمت پوشیدہ ہے۔

اس بابرکت دعا میں جو نور مطلوب ہے، وہ نورِ امامت، نورِ ہدایت، نورِ قیامت، نورِ “شفاء” اور نورِ تجلّی ہے۔

آپ خدا کے دوستوں میں سے ہیں، لہٰذا آپ خزائنِ الٰہی (۱۵: ۲۱) میں  سے ہیں، آپ میں عالمِ ذرّ موجود ہے، آپ کے بالوں میں نباتات کی روح ہے، آپ کی ہڈیوں میں معدنیات کی روح ہے، یعنی آپ کے عالمِ ذرّ میں کائنات کی ہر ہر  ضروری چیز موجود ہے۔

 

لندن

منگل۱۲ ؍اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۴۵

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

اس بندۂ درویش کو خواب یا خیال میں ایسا اشارہ ہوا جیسا کہ خانۂ حکمت تین  برِّ اعظموں کا علمی سنگم ہورہا ہو، مولائے پاک نے ارشاد فرمایا تھا: “تم ہمارے ساتھ کام کرو، ہم تمہارے ساتھ کام کریں

 

۲۶

 

گے۔”  اس مبارک فرمان کے بعد خانۂ حکمت  کے تمام نفوس کو غیر معمولی علمی اور روحانی برکات حاصل ہونے لگیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی  مَنِّہٖ وَ اِحسانِہٖ۔

تمام نفوسِ خانۂ حکمت، عوالمِ شخصی ہیں، ان میں سے ہر عالمِ شخصی کے حق میں ہم سب کی عاجزانہ دعا ہے کہ وہ بفضلِ مولا ایک کائناتی بہشت ہو! آمین!

یقیناً اسمِ اعظم اور نورِ اقدم کے تمام پروانے فرشتے ہیں، اور ان میں سے ہر فرشتہ ایک زندہ کائناتی بہشت ہے۔

 

لندن

منگل۱۲ ؍اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۴۶

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سُبْحَانَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّھَا(۳۶: ۳۶) مفہوم: پاک ہے وہ ذات جس نے تمام چیزوں کو سنگم سنگم پیدا کیا۔ بہشت کے ہر پھل کا سنگم ہے (۵۵: ۵۲)۔ باغاتِ بہشت بھی دو دو ہیں (۵۵: ۴۶)۔

ہر سنگم ناطق و اساس کا اشارہ ہے نیز قائم اور حجتِ اعظم کی دلیل ہے۔ دو  یتیم لڑکے = تاویلاً: امامِ مستقر اور امامِ مستودع (۱۸: ۸۲)۔ ذوالقرنین = تاویلاً= دو نفخ والا= مولا علی = قائم (ع۔ س۔) (۱۸: ۸۳) مغرب الشّمس(۱۸: ۸۶)مطلع الشَمس (۱۸: ۹۰) یہ حظیرۂ قدس میں مغرب و مشرق کا سنگم ہے، یعنی آفتابِ نور کا مشرق و مغرب ایک ہی  ہے۔ جہاں سورج اور چاند کا سنگم اور نجم و نجوم کا سنگم ہے۔

 

لندن

بدھ۱۳ ؍اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

۲۷

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۴۷

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

آیتِ خزائنِ الٰہی (۱۵: ۲۱) میں کُلّ قرآن اور تمام روحانی قیامت کا قانون اور جملۂ کائنات کا نظام ہے۔ اگر آپ بحقیقت خدا کے دوستوں میں سے ہوچکے ہیں، تو وہ الواحد القہار سوئی کے ناکے سے اونٹ گزر جانے کا معجزہ آپ کو کرکے دکھا سکتا ہے۔

سورۂ اعراف(۰۷: ۴۰) کا با ترجمہ مطالعہ کریں۔

کائنات و موجودات تماماً گویا اونٹ ہے اور آپ کی ہستی سوئی کا ناکہ ہے اگر آپ اسمِ اعظم کے ذریعے سے روحانی قیامت کو برداشت کرسکتے ہیں توخداوندِ قیامت غیر ممکن کو فعلاً (عملاً) ممکن کرکے دکھائے گا۔ اور فرمائے گا: “اݹ مناسن اَپݵ” =  یعنی کوئی چیز ناممکن نہیں ہے۔ کُلّ کائناتی بہشت آپ کے عالمِ شخصی میں داخل بھی ہوگی اور اپنی جگہ پر موجود بھی ہوگی۔ الواحد القہار آپ کے پاس بھی ہوگا اور آپ سے باہر اور بالاتر بھی ہوگا۔

زمانۂ یارقند میں حضرتِ مؤوِّل (روحی فداہ‘) نے فرمایا: یاجوج و ماجوج آدم و حوّاکے پُرحکمت نطفے سے عالمِ ذرّ ہیں۔ آدم و حوّا نورِ قائم میں مستغرق تھے۔ پس عالمِ  ذرّ میں ہر چیز روح اور مادّہ کا ذرّہ = سنگم ہے۔

لندن

بدھ۱۳ ؍اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۴۸

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ یٰس(۳۶: ۴۱) کا تاویلی مفہوم ہے: اور ان کیلئے یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ ہم نے ان کے عالمِ ذرّ کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔

 

۲۸

 

آپ کو یاد ہوگا پانی پر ظہورِ عرش او سفینۂ نجات کا عظیم ترین معجزہ حضرتِ قائم (ع۔ س) کا نورِ پاک ہی ہے(۱۱: ۰۷) ہر روحانی قیامت میں عالمِ ذرّ کا تجدُّد ہوتا ہے۔ عالمِ ذرّ کے ذرّات کی الگ الگ کئی مثالیں ہیں:

۱۔ اَلْاَواحُ جُنُود’‘۔ ۔ ۔ ۔ (حدیث)۔

۲۔ ملائکہ ٔ آدمؑ (۰۲: ۳۴)۔

۳۔ یاجوج وماجوج (۱۸: ۹۴)۔

۴۔ سلیمانی  لشکر (۲۷: ۱۷)۔

۵۔ چیونٹیوں کی وادی (۲۷: ۱۸)۔

۶۔ کُلَّ شَیئٍ (۰۶: ۱۱۱)۔

۷۔ لشکرِ  حضرتِ قائم  (ع۔س۔) (۲۷: ۳۷)۔

۸۔ ذرّیّتِ آدمؑ (۱۹: ۹۸)۔

 

لندن

جمعرات۱۴ ؍اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۴۹

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

اﷲ تعالیٰ خود ہی اپنا اسمِ اعظم اور اسمِ ذات ہے، جیساکہ آیۃ الکرسی کا پُرحکمت ارشاد ہے۔ اب آپ کو اس حقیقت پر یقین رکھنا ضروری ہے کہ آنحضرتؐ  اسمِ اعظم ہی کی تسبیح و ذکر کرتے رہتے

 

۲۹

 

تھے۔ سورۂ واقعہ (۵۶: ۷۴؛ ۵۶: ۹۶) میں ہے: فَسَبِّحْ  بِاِسْمِ  رَبِّکَ الْعَظِیْمِ = پس اپنے عظیم ربّ کے نام کی تسبیح کرو۔ اہلِ حقیقت جانتے ہیں کہ حضورِ پاکؐ   “اسمِ اعظم” کی عبادت کرتے تھے۔

سورۂ فرقان (۲۵: ۵۸ تا ۵۹) میں ارشاد ہے: ترجمہ: خَبِیْراً تک پڑھ لیں اور اس کی تاویلی حکمت میں بھی غور کرلینا اور پانی پر ظہورِ عرش کا معجزہ بھول نہ جانا۔

لندن

جمعۃ المبارک۱۵ ؍اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۵۰

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

اللہ سبحان وتعالیٰ خود ہی اپنا اسمِ اعظم اور خود ہی اسمِ ذات ہے۔ جیسا کہ آیۃ الکرسی کا مبارک ارشاد ہے۔ کرسی ظاہراً فلک الافلاک، اور باطناً لوحِ محفوظ = نفسِ کلّی ہے جس کی زبردست ہمہ گیر گرفت میں سارے آسمان اور زمین محفوظ و محدود ہیں۔ جس طرح  فلکِ اعظم جملۂ کائنات پر محیط ہے، اسی طرح آیۂ کرسی کائناتِ قرآن پر محیط ہے، جس کی وجہ اسمِ اعظم کے نورانی معجزات = ظہورات اور تجلّیا ت کی بے پایان وسعت ہے۔

کرسی ظاہر میں فلکِ اعظم = فلک الافلاک = آٹھواں آسمان ہے، باطن میں  نفسِ کُلّی= روح الارواح، روحِ اعظم = جانِ مردُم = تمام لوگوں کی جان = علیُّ المرتضیٰؑ  ہے۔

 

لندن

جمعۃ المبارک۱۵ ؍اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۵۱

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

جب سالک کے قیامِ قیامت کیلئے ناقورِ نورِ قائم پھونکا جاتا ہے، تو کائنات بھر سے عالمِ ذرّ

 

۳۰

 

یاجوج و ماجوج کے نام سے آنے لگتاہے (۳۶: ۵۱)۔ اس آیت میں ربّ حضرتِ قائم (ع۔ س) کا نورِ اعظم ہے۔ یَنْسِلُون  یعنی ذرّاتِ ارواح سالک کی نسل = ذرّیّت قرار پاتے ہیں، یاجوج و ماجوج سالک کے عالمِ شخصی میں “تخریب برائے تعمیر” کا کام کرتے ہیں۔

سورۂ کہف(۱۸: ۹۴) اور سورۂ انبیاء (۲۱: ۹۶) میں یاجوج و ماجوج کا ذکر آیا ہے۔

جیسا کہ سابقہ مقالے میں یہ ذکر ہوچکا کہ یاجوج و ماجوج آدم و حوّا کے پُرحکمت نطفے سے عالمِ ذرّ ہیں۔ آدم و حوّا حدودِ دین اور خزائنِ الٰہی میں سے تھے۔

 

لندن

سنیچر ۱۶ ؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۵۲

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

حضرتِ اسمِ اعظم (ع۔ س) کے سفینۂ نجات میں ہم سب بفضلِ ﷲ نفسِ واحدہ ہوچکے ہیں۔ سورۂ روم (۳۰: ۰۱ تا ۰۷) سے متعلق جو نورانی تاویل کا معجزہ آسٹن میں ہوا، اس پر یقین نہ کرنا بہت بڑی ناشکری ہوسکتی ہے، لہٰذا ہمیں ان آیاتِ مبارکہ کی درست تاویل کو سمجھنا ہوگا۔ مقالہ (۵۰) میں پڑھیں: سارے آسمان اور زمین محدود و محفوظ ہیں۔ اور آخر میں پڑھیں: علیُّ المرتضیٰؑ کا نور ہے۔ کیونکہ مولا نے فرمایا: “میں لوحِ محفوظ ہوں۔”

سورۂ روم (۳۰: ۰۱ تا ۰۷) کی تاویل کا جاننا ازحد ضروری ہے۔

 

لندن

سنیچر ۱۶ ؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۵۳

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

کتابِ کوکبِ درّی بابِ سوم منقبت ۲۷ کی حکمت کے مطابق حضرتِ مولا علیؑ کا نور و نورانیت

 

۳۱

 

ہی روحانی قیامت ہے، آپ نے روحانی قیامت کا قصّہ سن لیا ہے اور حوالۂ قرآن کو بھی جگہ جگہ دیکھ لیں، قرآنِ حکیم سر تا سر قصّۂ قیامت سے لبالب =  لبریز ہے۔ جب علیؑ اپنے نور کی تجلّیات میں قیامت اور قائم ہے، تو پھر قرآن میں قیامت کے جتنے اسماء ہیں، وہ سب کے سب علیؑ ہی کے اسماء ہیں۔

پس مومنِ سالک کی روحانی قیامت میں سب لوگ ہوتے ہیں، جن کے تین درجے ہوتے ہیں: بحوالۂ سورۂ واقعہ (۵۶: ۸۸ تا ۹۶)۔

 

لندن

اتوار۱۷ ؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۵۴

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

آسٹن کی ایک علمی بیٹی کے نورانی خواب میں قرآنِ حکیم کے ان مبارک الفاظ کی سماعت ہوئی: اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسْتَحْیٖٓ= یقینا خدا شرماتا نہیں ہے (۰۲: ۲۶) اس  میں ہم سب کو اشارہ ہے کہ ہم قرآن کی کسی بھی مثال سے تاویل کے انکشاف کرنے  سے نہ شرمائیں، یہ حضرتِ قائم (ع۔ س) کا حکم ہے۔

چنانچہ سورۂ واقعہ (۵۶: ۳۴ تا ۳۷) کی تاویلی حکمت کیلئے غور کریں۔ فُرُشٍ  مَرفُوعَۃٍ کی یہ تاویل ہے کہ مومن اور مومنہ (میاں بیوی) کے زمانۂ نو عروسی کی نورانی موویز برائے بہشت بنالی جاتی ہیں۔ ۳۵ تا ۳۶ کی تاویل یہ ہے کہ دنیا ہی کی خواتین لطیف نورانی بدن میں جنّت کی حوریں بن جاتی ہیں۔ وہ اپنے شوہروں سے عشق رکھتی ہیں (۵۶: ۳۷)۔

بہشت کی حوروں = پری عورتوں میں نہ صرف جسمانی پاکیزگی ہے، بلکہ روحانی اور عقلی پاکیزگی بھی ان کو حاصل ہے (۰۲: ۲۵)۔

 

لندن

اتوار۱۷ ؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

۳۲

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۵۵

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ مریم(۱۹: ۹۳) میں کنوزِ مخفی میں سے ایک کنزِ مخفی موجود ہے۔

اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْداً۔

ترجمہ: جتنے بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ سب کے سب رحمان (خداوندِ قیامت) کے روبرو غلام ہو کر حاضر ہوتے ہیں۔

تاویل: جب روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے تو مومنِ سالک کی جبین میں حضرتِ رحمان = اَلْحَیُّ الْقَیُّوم کا پاک نور طلوع ہوجاتا ہے۔ یہ نور اسمِ اعظم کی صورت میں ہوتا ہے۔ اور آسمان و زمین کے تمام نفوس و ملائکہ غلام ہوکر حاضر ہوتے ہیں۔ روحانی قیامت کا قلمی اور زبانی قصّہ بار بار آپ کے سامنے آچکا ہے۔ اور یقیناً  خداوندِ قیامت ہی رحمان ہے۔

 

لندن

پیر۱۸ ؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۵۶

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ محمد کی آیتِ ہفتم (۴۷: ۰۷) کی تاویل میں آپ کیلئے کیا فرمانِ عالی ہے؟ آپ کیلئے بڑا سپیشل فرمان ہے کہ آپ گریہ و زاری اور خصوصی مناجات سے خداوندِ قیامت کی مدد کریں، آپ انصارﷲ میں سے ہوجائیں۔ یہ آپ سے امتحان کا وقت ہے، سوچ لیں آپ کے پاس عاجزی، گریہ و زاری، عشقِ مولا، سجود، دعا، مناجات، ذکر، اسمِ اعظم وغیرہ کی بے مثال طاقتیں کس مقصد کیلئے رکھی ہوئی ہیں۔ آپ چہل درویش کیوں ہیں؟ آپ حضرتِ اسمِ اعظم  (ع۔ س۔) کے حربی

 

۳۳

 

فرشتے کیوں ہیں؟ آپ کو یہ سب سے اعلیٰ معرفت کس مقصد کی خاطر عطا کی گئی ہے؟

آپ قرآنِ حکیم میں نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ کی عظیم حکمت کو جان و دل سے پڑھ لیں (۶۱: ۱۴)۔

ﷲ کے مددگار بن جاؤ (۶۱: ۱۴) یہ تاویل کس کیلئے ہے؟

 

لندن

پیر۱۸ ؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۵۷

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

قرآنِ حکیم حقیقی مومنین سے فرما رہا ہے کہ تم خداوندِ  قیامت کے مددگار بن جاؤ (۶۱: ۱۴) سورۂ محمد (۴۷: ۰۷) بھی یہی فرمان پڑھ لیں۔ حضرتِ عیسیٰؑ کے انصار تاویلًا  خدا کے مددگار تھے (۰۳: ۵۲)مہاجر اور انصار کے بارے میں بھی آیاتِ  قرآن کو خوب غور سے دیکھیں (۰۹: ۱۰۰) نیز (۰۹: ۱۱۷)۔

سورۂ حج(۲۲: ۴۰) میں غور سے دیکھنا ہے، الغرض حقیقی مومنین میں خود ﷲ  ہی کی طرف سے عطا کی ہوئی صلاحیتیں ہیں اگر ہم فرمانِ خداوندی کے مطابق ان سے کام نہیں لیتے ہیں تو یہ بہت بڑی نافرمانی اور ناشکری ہے۔

 

لندن

پیر۱۸ ؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۵۸

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۃُ المزمل (۷۳: ۱۷ تا ۱۸)  فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْماً یَجْعَلُ الوِلْدَانَ شِیْباً۔

تاویلی مفہوم: اگر تم انکار کرتے ہو تو دورِ قیامت کی معجزانہ گرفت سے کیسے بچوگے، یہ وہ دور

 

۳۴

 

ہے جس میں بچوں پر بزرگانہ معجزات ہونے والے ہیں، جس طرح  خانۂ حکمت کے بعض لٹل اینجلز پر یہ معجزات شروع ہوئے ہیں اور بعض بڑوں پر بھی شروع ہوئے ہیں یہ معجزات نورانی خواب میں بھی ہوئے ہیں اور بیداری میں بھی ہو رہے ہیں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ “D”، “D”، “D”۔

ژوین لݺ  قیامت منی ڈالاسر گٹی منین!

 

بدھ ۲۰؍اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۵۹

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

کل بوقتِ شام، حضرتِ قائم (ع۔ س) کے عظیم معجزات میں سے ایک سمعی  معجزہ ہوا، یہ سیل فون پر الفاظ سے مجرد ایک بہت مختصر بہشتی نغمہ تھا، جبکہ فون پر ڈاکٹر کریمہ جمعہ کے ساتھ گفتگو کررہا تھا کہ یہ بہشت کی بہت مختصر موسیقی شروع ہوئی۔  الحمدلِلّٰہ ربّ العٰلمین۔

زمانۂ یارقند میں خداوندِ قیامت کی بارگاہِ عالی سے اس بندۂ درویش کو یہ خبر ملی  تھی کہ صوبیدار محمد رفیع روحانی ٹیلیفون پر مقرر کیا گیا ہے، عرصۂ دراز کے بعد اب  مجھے اس سنگم کی تاویل آئی ہے کہ یہ اشارہ میرے دادا جان (محمد رفیع) کیلئے بھی تھا، معبودِ برحق کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

؎    خود  را نمودی  اے  احد

اندر     نقوشِ    بے     عدد

ترجمہ: اے واحد ویکتا! تو نے اپنے نور کی بے شمار صورتوں میں تجلّی کی ہے۔

(از کُلّیاتِ شمس تبریزی)

 

جمعرات ۲۱؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

۳۵

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۶۰

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

بحوالۂ کُلّیاتِ شمسِ تبریزی:

؎    بالابُدی مانندِ خور روشن ز نورت صد قمر

زیرآمدی اے شاہِ جان باہرگدا درساختی

ترجمہ: (اے محبوبِ جان!) تو سورج کی طرح آسمان پر تھا، تجھ سے صد ہا قمر منوّر ہو رہے تھے، اے بادشاہِ روحانی تو زمین پر آیا اور ہر گدا کے ساتھ ملنے جلنے لگا۔ مولائے روم کے اس شعرمیں زبردست خوبصورت حکمت ہے۔

 

؎     اے شاہِ شاہانِ  جہان  اللّٰہُ مولاناعلی

اے نورِ چشمِ  عاشقان  اللّٰہُ مولاناعلی

؎     حمداست گفتن نامِ تُو اے نُورِ فَرُّخ نامِ تُو

خورشیدومَہ ہِندُویِ تُو اللّٰہُ مولاناعلی

 

ترجمہ: اے دنیا کے تمام بادشاہوں کا دینی اور حقیقی شاہنشاہ! اللّٰہُ مولانا علی۔  اے عاشقانِ نور کا نورِ قلب و جان! اللّٰہُ مولانا علی! تیرا پاک نام لینا حمدِ خدا ہے، اے تیرا نام بڑا بابرکت نور ہے۔ سورج اور چاند تیرے غلام ہیں۔ اللّٰہُ مولانا علی۔

 

جمعرات ۲۱؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۶۱

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

حدودِ روحانی اور حدودِ جسمانی خزائنِ الٰہی(۱۵: ۲۱) ہیں۔ حضرتِ سلیمانؑ  کی بادشاہی آلِ ابراھیمؑ

 

۳۶

 

اور آلِ محمدؐ کی عظیم بادشاہی (۰۴: ۵۴) ہے، اور بس بہشت کی بہت بڑی بادشاہی (۷۶: ۲۰) بھی اسی میں سے ہے۔

حدودِ دین میں سب سے اعلیٰ حد امامِ مقیم ہے اعنی قائم، چنانچہ نورِ قائم کے معجزۂ قیامت نے بڑی سرعت سے تختِ بلقیس کو سلیمان کے سامنے حاضر کیا تھا (۲۷: ۴۰) ملکۂ سبا کی عظیم سلطنت کے قصّۂ قرآن کی حقیقی تاویل حضرتِ مؤوّ لِ اعظم  کے پاس ہے۔ ہمیں صرف یہ بتانے کی اجازت ہے کہ قصّۂ بلقیس میں بہشت کی خلافت و سلطنت کی ہمہ گیری اور برتری کی روشن مثال موجود ہے۔ اَلْحمدُلِلّٰہ رَبّ  العالمین۔

 

جمعۃ المبارک ۲۲؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۶۲

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

آیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کی تاویل بڑی عجیب و غریب اور زبردست حیران کن ہے، کہ اہلِ حق کے اعمال بھی اور آثار بھی امامِ مبینؑ = حظیرۂ  قدس = بہشت = لوحِ محفوظ اور نامۂ اعمال = نورانی مووی میں محفوظ ہیں۔

مگر جو لوگ اپنے پروردگار سے کافر ہوئے ان کے اعمال گویا راکھ کا ڈھیر ہے۔ (۱۴: ۱۸)۔

خداوندِ عالم نے زمان و مکان کی ہر چیز کو امامِ مبینؑ کی تجلّیاتِ نور میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے۔

حدودِ دین میں، عقلِ کلّی آسمان، اور نفسِ کلّی زمین ہے۔

پس قرآن میں اہلِ  حق سے جس زمین کی خلافت کا وعدۂ الٰہی ہے، وہ نفسِ  کلّی کی نورانیّت کی زمین ہے، اور وہ کائناتی بہشت ہے۔

حضرتِ آدمؑ کو کائناتی بہشت کی خلافت عطا ہوئی تھی۔

 

جمعۃ المبارک ۲۲؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

۳۷

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۶۳

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ توبہ (۰۹: ۰۳) میں حکمتِ بالغہ سے لبریز ارشاد ہے: وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ  رَسُوْلِہٖٓ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیْ ءٌ مِنَ الْمُشْرِکیْنَ۔ ترجمۂ  قرآن میں دیکھ لیں۔

تاویل: حجِ اکبر سے روحانی قیامت مراد ہے، جس میں یہ اعلان ہوتا ہے کہ خدا اور اس کا رسولؐ  مشرکین سے بالکل بیزار ہیں۔ قرآنِ حکیم (۲۲: ۲۷) میں غور سے  دیکھ لیں۔ حضرت ابراہیمؑ کی روحانی قیامت کو حج کا نام دیا گیا ہے۔ کیونکہ انبیاء علیہم السّلام کا قصّۂ قرآن باطناً روحانی قیامت ہی ہے۔

 

اتوار ۲۴؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۶۴

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۵۱) سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُواالرُّعْبَ بِمَآ  اَشْرَکُوْابِاللّٰہِ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰناً۔ ۔ ۔ ۔

ترجمہ: ہم عنقریب آسمانی رعب کافروں کے دل میں ڈال دیں گے اس  لئے کہ ان لوگوں نے خدا کا شریک بنایا، کسی آسمانی دلیل کے بغیر۔ یعنی معبودِ برحق وہ ہے، جس کا نور ہر وقت عارفین کیلئے آسمانی معجزات کرتا رہتا ہے۔

زمانۂ یارقند میں آسمانی رعب = یو۔ ایف۔ اوز کا معجزہ دیکھا تھا۔ بحوالۂ  کتاب: جماعت خانہ ص ۱۱۰، یقیناً وہ بڑا شدید آسمانی رعب تھا۔ خداوندِ قیامت الواحد القہار جو کچھ کرتا ہے، اس میں بہت بڑی حکمت ہے۔

 

اتوار ۲۴ ؍اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

۳۸

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۶۵

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ روم (۳۰: ۲۳) : وَمِنْ اٰیٰتِہٖ مَنَامُکُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَاْبتِغَآؤُکُمْ مِّنْ  فَضْلِہٖ اِنَّ فِیْ ذٰالِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَومٍ  یَّسْمَعُوْن۔

ترجمہ: اور اس کے معجزات میں سے ہے تمہارا رات اور دن کو سونا اور خواب  دیکھنا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں  کیلئے جو غور سے سنتے ہیں۔

جناب امیر ﷲ بیگ اور برادرم امیر حیات گویا دو فرشتے ہیں یا نور کے دو پروانے ہیں، الحمدﷲ وہ میرے خواب میں آئے دونوں پیارے نام اشارہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ میرے پیارے گاؤں کی نیکنام جماعت نے اپنی نیک دعاؤں میں اس بندۂ  درویش کو یاد کیا، لہٰذا یہ دو فرشتے خواب میں آئے۔ مولا تمام جماعتوں پر نورِ رحمت کی بارش برسائے آمین!

 

اتوار ۲۴ ؍اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۶۶

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ زمر (۳۹: ۶۹) : وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّھَا وَوُضِعَ الْکِتٰبُ وَجِایْٓئَ بِالنَّبِیّٖنَ وَالشُّھَدَ آئِ وَ قُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْحَقِّ وَھُمْ لَایُظْلَمُوْنَ  = اور زمین اپنے ربّ کے نور سے منوّر ہو جائے  گی۔ ۔ ۔ ۔

 

منگل ۲۶ ؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

۳۹

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۶۷

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

میں دو رات خواب میں آیۃ الکرسی کی کوئی تعریف لکھنے کیلئے سوچتا رہا، جس  کے نتیجے میں دو مثالیں سامنے آئیں۔ پہلی مثال: قرآنِ حکیم میں ننانوے اسمائے صفاتی علم و حکمت کے گرانمایہ خزانے ہیں، جن کی کلیدیں، اسمِ اعظم میں ہیں۔ دوسری مثال: اسمِ اعظم بہشت کا ایک نورانی سرچشمہ ہے اور تمام قرآن اس کی ایک پُرنور آبادی ہے۔

پس بڑے نیک بخت ہیں، وہ لوگ جن کو اسمِ اعظم کی معرفت حاصل ہے۔ اے دوستانِ عزیز! پاک و برتر اسمِ اعظم کی معرفت میں پیچھے ہرگز نہ رہنا! آمین!

 

منگل۲۶ ؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۶۸

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

اعظمُ الۡاَسماء = اسمِ اعظم کے معجزات، ظہورات، تجلّیات اور بے شمار عجائب و غرائب کا نورانی مشاہدہ روحانی قیامت میں ہوتا ہے، سبحان اللہ!

پانی پرظہورِ عرش کا عظیم معجزہ اور  رَفیعُ الدّرجٰتِ ذُوالعرش (۴۰: ۱۵) ایک سنگم ہے۔ لہٰذا یہاں الواحد القہار میں سب کے سب فنا ہو جاتے ہیں، عرش سے سفینۂ نجات کا ظہور اسی لئے تھا۔

ربِّ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کریں بار بار یاد کریں۔ قرآنِ حکیم (۱۱: ۰۷) میں بھی دیکھ لیں۔

 

بدھ ۲۷؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

۴۰

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۶۹

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

اعظم الآیات اور اعظمُ الاسماء کا سنگم ہے، یعنی آ یۃ الکرسی اور اسمِ اعظم یکجا ہیں۔

اُمّ الکتاب اور علیؑ کا سنگم ہے (۴۳: ۰۴)۔

قرآنِ کریم اور کتابِ مکنون کا سنگم ہے (۵۶: ۷۷ تا ۷۸)۔

قرآنِ مجید اورلوحِ محفوظ کا سنگم ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲)۔

علی ؑ = اَنَّ اللّٰہَ ھُوَالْعَلِیُّ الْکَبِیْر (۲۲: ۶۲)۔

علی ؑ = ھُوَالْعَلِیُّ الْکَبِیْر(۳۱: ۳۰)۔

علی ؑ = اَلْعَلِیُّ الْکَبِیْر(۳۴: ۲۳)۔

علی ؑ = اَلْعَلِیُّ الْکَبِیْر(۴۰: ۱۲)۔

علی ؑ = اَلْعَلِیُّ الْعَظِیْم(۴۲: ۰۴)۔

 

جمعرات ۲۸؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۷۰

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

الٰہی! شکرِ بیحد و بے پایان! یا ربّ العزۃ! تیری ہر ہر نعمت زبانِ حال سے بھی اور زبانِ قال سے بھی تیری ربوبیّت کی تعریف کرتی رہتی ہے۔

احدا! صمدا! قادرا! پروردگارا! اپنا ہر مقدّس معجزہ ہمیں یاد دلا، کرم پر کرم فرمانے والا صرف تو

 

۴۱

 

ہی ہے اور کوئی نہیں، تو واحد و لا شریک بے وزیر و بے نظیر ہے۔ تو قدیم اور علیم و حکیم ہے۔

اے خداوندِ برحق! اے قادرِ مطلق! ہمارے قلب کو ہمیشہ اپنے دریائے ذکر میں اور دریائے عشق میں مستغرق رکھ لے، تاکہ ہمیں نفس اور شیطان کے وسوسوں سے نجات حاصل ہو!

یا ﷲ! فضل و کرم فرما! تو خود ہمارا وکیل اور کارساز ہوجا! جیسا کہ قرآنِ حکیم  (۲۵: ۵۸ تا ۵۹) میں تیرا پاک فرمان ہے۔

 

جمعۃ المبارک ۲۹ ؍ اپریل ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۷۱

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

قرآنِ حکیم میں سر تا سر سنگم کی عجیب و غریب حکمت مخزون و مکنون ہے، اور وہ  طرح طرح سے ہے، مثلاً رجوع جیسے الفاظ میں بھی سنگم کی حکمت ہے۔

اے عزیزان! قرآنِ پاک  عالمِ لاہوت سے اس لئے نازل ہوا ہے کہ آپ اس سے علم و حکمت اور ذکر و عبادت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کریں، پس آپ ان آیاتِ کریمہ کو بار بار پڑھنے کی عبادت کریں، جن میں دیدارِ نورانی اور خدا شناسی کا ذکرِ جمیل آیا ہے، جس کا نمونۂ اعظم (۷۵: ۲۲ تا ۲۳) نیز (۸۹: ۲۲) میں ہے۔

خدا پرستی اور خدا شناسی حضرتِ اسمِ اعظم اور نورِ اقدم کے پاک عشق میں ہے، الاسماءُ الحسنٰی کی سب سے کامیاب عبادت (۰۷: ۱۸۰) یہی ہے، جیسا کہ حضرتِ مولا علیؑ کے پاک ارشاد میں ہے۔

 

ڈالاس

دو شنبہ ۲؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

۴۲

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۷۲

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

ہفت معزّز و محترم خاندان کیلئے حضرتِ اسمِ اعظم و نورِ اقدم خداوندِ روحانی قیامت جلّ جلالہ کے پُر نورباطنی معجزات جو ہو رہے ہیں، وہ بڑے زبردست اور محیر العقول ہیں، یہ مبارک و مقدّس معجزات قائم شناس عزیزوں سے شروع ہو رہے ہیں۔

“قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیت” نامی کتاب کو اگر لوگ پڑھ لیتے تو خانۂ حکمت کی بے مثال خیر خواہی کا علم ہو جاتا!

خانۂ حکمت کے مراکز کیلئے جو عظیم معجزات ہو رہے ہیں، وہ قرآن و حدیث کی پُرحکمت پیش گوئی کے عین مطابق ہیں، اَلْحمدُللّٰہِ علٰی منّہٖ وَاِحسانِہٖ۔

 

ڈالاس

سہ شنبہ ۳؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۷۳

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

کُلَّ یَوْمٍ  ہُوَ فِیْ شَاْنٍ(۵۵: ۲۹)۔

تاویلی مفہوم: خدا کا یوم ہزار سال سے عبارت ہے (۲۲: ۴۷) پس یہ سچ اور حقیقت ہے کہ ہم سب عصرِ حاضر کے لوگ خدا کے یومِ ہفتم ( سنیچر) میں داخل ہو چکے ہیں، لہٰذا اس دور میں ایک عظیم روحانی قیامت برپا ہو چکی ہے، اور اس کے دُور رس نتائج ظاہراً وباطناً مرتّب ہو رہے ہیں، پس حضرتِ اسمِ اعظم و نورِ اقدم کا خانۂ  حکمت کیلئے معجزات کرنا حق ہے، اور اس میں ہرگز کوئی شک نہیں، معبودِ برحق کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

 

ڈالاس

یوم الاربعہ۴؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

۴۳

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۷۴

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۃ الزمر(۳۹: ۷۳ تا ۷۵) وَسِیْقَ الَّذِیْنَ سے  رَبِّ العٰلَمِیْنَ تک  خوب حکمت سے غور کرکے پڑھ لیں۔ بحوالہ ٔ کتابِ وجہِ دین ص ۶۳ ایک خاص تاویل  کے مطابق اہلِ حق میں سے ستّرہزار کو مرتبۂ فرشتہ عطا ہوگا (۴۳: ۶۰)، یعنی الواحد القہار سلسلۂ روحانی قیامت میں جہاں اپنے نور کی تجلّی سے بیت المعمور بناتا ہے وہاں خدا کے اس گھر کی زیارت کرنے والے فرشتوں کی تعداد ستّرہزار ہے، پس یہ فرشتے حقیقی مومنین و مومنات ہی ہیں۔ درحالے کہ ایسا ہر فرشتہ ایک کائناتی زندہ بہشت = ایک بادشاہِ بہشت = اور ایک خلیفۂ خدا ہے۔ جیسے حضرتِ سلیمانؑ اپنے وقت میں خدا  کا خلیفہ، عظیم بادشاہ، علم وحکمت کا فرشتہ اور عالمِ شخصی کے معجزۂ قیامت میں زندہ کائناتی بہشت کا ظہور اور سب کچھ تھا۔

 

جمعۃ المبارک ۶؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۷۵

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

خدا کی خدائی میں ہمیشہ دو قسم کے معجزات ہوتے آئے ہیں: یعنی بعض معجزات خوشخبری = بشارت دینے کیلئے ہوتے ہیں، اور بعض ڈرانے کی غرض سے ہیں۔ رسولِ پاکؐ  کے تمام اسمائے صفات بَشیراً وَّ نذیراً  (بشارت دینے والا اور ڈرانے والا) میں جمع ہیں۔

امامِ برحق علیہ السّلام مظہرِ نورِالٰہی اور خلیفۂ رسول ہے۔ لہٰذا ہر قسم کے باطنی معجزات اسی مظہرِ اقدس و اعلیٰ ہی سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔

یا مَظھَرالعَجائِبِ عَوْنًا لَنَا علی!  یَدْعوکَ کُلّ ھَمٍّ وَغَمٍّ  سَیَنْجَلِی۔

 

۴۴

 

ترجمہ: اے عجائب و غرائبِ الٰہی کے مظہر علیؑ! تو ہی یقیناً ہمارا مددگار ہے، ہر دردمند اور غمگین تجھ ہی کو پکارتا ہے، اور اس کی تکلیف ختم ہوجاتی ہے۔

 

سنیچر ۷؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۷۶

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

الاعراف(۰۷: ۱۸۹) : ھُوَالَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْھَا  زَوْجَھَا۔

ترجمہ: وہ ﷲ ہی ہے جس نے تمھیں ایک جان (آدمؑ) سے پیدا کیا۔ سوال؟ ایک جان سے تمام نفوسِ انسانی کو پیدا کرنے کی کیا تاویل ہے؟ جواب: جب حضرتِ آدمؑ میں الٰہی روح بذریعۂ  صور پھونک دی گئی تو اسی کے ساتھ آدم کی روحانی قیامت بھی قائم ہوئی اور ایک ساتھ بہت سے معجزات ظہور پذیر ہوئے۔ (۱)تمام انسانی روحوں کااس آدم کی نسل قرار پانا (۲) یاجوج و ماجوج کا خروج (۳) فرشتوں کا آدمؑ کے لئے سجدہ کرنا (۴) حشر و نشر (۵) ایک آدم کے بعد دوسرا آدم ہونے کی سنّتِ الٰہی(۶) روحانی قیامت کا تجدّد وغیرہ وغیرہ۔

 

سنیچر۷؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۷۷

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

خداوندِ روحانی قیامت حضرتِ اسمِ اعظم اَلْحَیُّ الْقَیُّوْم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے عزیزان کے لئے وہ پاک معجزات ہورہے ہیں، جن میں بشارت ہی بشارت ہے۔ دورِ قیامت اور دورِ کشف کے یہ معجزات بڑے عجیب و غریب اور محیر العقول ہیں۔

جس طرح حدیثِ شریف کے ارشادِ مبارک کے مطابق قرآن کاایک ظاہر اور ایک باطن ہے،

 

۴۵

 

اسی طرح امامِ زمانؑ تک رسائی دو قسم کی ہے، ایک ظاہری اور جسمانی ہے اور دوسری باطنی اور نورانی رسائی ہے۔ پاک مولا امامُ النّاس بھی ہے اور امام المتقین بھی ہے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مولائے پاک کس طرح تمام لوگوں کا امام ہے؟ تو خانۂ حکمت کی مشہور کتاب “قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت” کو عقل و دانش سے پڑھ لینا۔

 

اتوار ۸؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۷۸

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ ھود(۱۱: ۹۰) : وَاسْتَغْفِرُوْارَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْااِلَیْہِ اِنَّ رَبّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ۔

ترجمہ: دیکھو! اپنے ربّ سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ، یقینا میرا  ربّ رحیم ہے اور اپنی مخلوق سے محبت رکھتا ہے۔

الو دود = بہت محبت کرنے والا۔ دوستوں کا سب سے بڑا دوست، وہ ذات جو محب بھی ہے اور محبوب بھی۔ یعنی حضرتِ اسمِ اعظم جلّ جلالہ‘ (اسلامی انسائیکلوپیڈیا  کو بھی دیکھنا)۔

تمام اسمائے صفات اسمِ اعظم میں جمع ہیں۔ اسمِ اعظم مولائے برحق(روحی فداہ‘) کے پاس ہے۔ بلکہ وہ خود ہی اسمِ اعظم اور اسمِ ذات ہے کیونکہ آیۃ الکرسی کا سرِّ اعظم یہی ہے۔

قرآنِ پاک کا حکیمانہ فیصلہ یہ ہے کہ معبودِ برحق اَلْحَیُّ القَیُّوْمْ ہے، اسی وجہ  سے آیۃ الکرسی تمام قرآنی آیات کی سردار ہے۔

 

پیر ۹؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

۴۶

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۷۹

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ فرقان (۲۵: ۲۵):

ترجمہ: آسمان کو چیرتا ہوا ایک بادل اس روز نمودارہوگا اور فرشتے کثرت سے جوق در جوق نازل کیے جائیں گے۔ اس روز حقیقی بادشاہی صرف رحمان کی ہوگی۔

سورۂ فجر (۸۹: ۲۲)؛ سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۱۰)؛ سورۂ اعراف (۰۷: ۵۳)؛ سورۂ قیامہ (۷۵: ۲۲ تا ۲۳)۔

کتابِ کوکبِ درّی بابِ اوّل منقبت ۳۸۔

 

منگل ۱۰؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۸۰

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

آیت ِ  وَاعْتَصِمُوْا(۰۳: ۱۰۳) اورآیتِ  وَاعْتَصِمُوْا(۲۲: ۷۸) کا سنگم۔

وَاعْتَصِمُوْابِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًاوَّلَاتَفَرَّقُوْا(۰۳: ۱۰۳)۔

وَاْعتَصِمُوْابِاللّٰہِ ھُوَمَوْلٰکُمْ فَنِعْمَ اْلمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ(۲۲: ۷۸)۔

وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰہِ فَقَدْھُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (۰۳: ۱۰۱)۔

ان تینوں آیات ِکریمہ کا ایک ہی مطلب ہے، یعنی اَلْحَیُّ الْقَیُّوم سے وابستہ  ہوجاؤ۔

؎    ز نورِ او تُو  ہستی ہمچو  پرتَو

حِجاب ازپیش برداروتُواُوشَو

 

۴۷

 

ترجمہ: حقیقت میں تواس کے نور کا عکس ہے۔ سامنے سے پردہ ہٹا کر تواس کے ساتھ ایک ہوجا۔

 

منگل ۱۱؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۸۱

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات ﷲ علیہ کا فرمانِ پاک ہے کہ تم نورانی بدن کے ساتھ بہشت میں جاؤ گے۔ معلوم ہو! کہ نورانی بدن جثّۂ ابداعیہ ہے، قرآنِ حکیم میں جس کے کئی نام آئے ہیں، قصّۂ طالوتؑ(۰۲: ۲۴۷) میں جثّۂ ابداعیہ  سے متعلق ایک عالیشان حکیمانہ اشارہ موجود ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَزَادَہ‘ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ۔

پہلے اس کا ظاہری ترجمہ قرآن میں پڑھ لیں۔

تاویل: نورانی بدن حاصل کرنے کیلئے حقیقی علم و حکمت بیحد ضروری ہے۔

خداوندِ برحق اَلْحَیُّ الْقَیُّوْم اگر آپ کو جثّۂ ابداعیہ عطا فرماتا ہے تو آپ کی دنیوی زندگی بھی بہشت کی زندگی میں بدل جاتی ہے، یہاں زَادَہ‘ میں ایک ایسا لطیف اشارہ پوشیدہ ہے۔ یعنی نورانی بدن میں نور ہے، اور نور میں ماضی اور مستقبل کی کلّی رسائی ہے۔ پس نورانی بدن میں آپ کی تمام زندگی کی کامیاب اور پسندیدہ نورانی مووی ریکارڈ ہے جو بہشت کا حصہ ہے۔

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی مَنِّہٖ وَاِحْسَانِہٖ۔

 

منگل ۱۱؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

۴۸

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۸۲

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سو رۂ رعد (۱۳: ۱۵) :  وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰواتِ وَالْاَرضِ طَوْعاً وَّ کَرْھَاوَّظِلَا لُھُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۔

ترجمہ: وہی اللہ اَلْحَیُّ القَیُّوم ہے جس کو تمام ساکنانِ آسمان و زمین طوعاً و کرھاً سجدہ کررہے ہیں اور تمام چیزوں کے سائے صبح و شام اس کے آگے جھکتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فرشتوں نے آدمؑ کیلئے گرتے ہوئے سجدہ کیا، لیکن یہ راز صرف اہلِ معرفت ہی کو معلوم ہے کہ اس حال میں آدمؑ پر روحانی قیامت گزر رہی تھی۔ جس میں اَلْحَیُّ القَیُّوم  کا پاک نور کار فرما تھا، لہٰذا فرشتوں کا سجدہ دراصل نورِ قائم القیامت ہی کیلئے تھا، یہ سچ ہے کہ بہشت کے پھل دو دو ہوتے ہیں یعنی دو حکمتوں کا سنگم ہوتا ہے (۵۵: ۵۲)۔

 

جمعرات۱۲؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۸۳

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ نحل (۱۶: ۸۹) میں ارشاد ہے: وَنَزَّلْنَاعَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًالِّکُلِّ شَیْئٍ وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً وَّ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ۔

ترجمہ: ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے۔ اور ہدایت و رحمت و بشارت ہے ان لوگوں کیلئے جنھوں نے بحقیقت سرِ تسلیم خم کر دیا ہے۔ یعنی قرآن اپنے ظاہر اور باطن (تاویل)کے ذریعے  سے ہر ہر چیز کی مکمّل وضاحت کرتا ہے۔

پس قرآن کی نورانی تاویل روحانی قیامت میں ہے، جس کو حضرتِ قائم (ع۔س۔)  =  اَلْحَیُّ القَیُّوْم برپا کرتا ہے (۰۷: ۵۳)۔

 

۴۹

 

اگرچہ یہ بندہ (راقم) سب سے حقیر ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس نے زمانۂ یارقند میں حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کی رحمت و عنایتِ بے نہایت سے حضرتِ قائم (ع۔ س۔)  کو نورانیّت میں پہچان لیا ہے، اور آنجناب جو زندہ اسمِ اعظم اور نورِ اقدم ہیں، اپنے گونا گون معجزات کا دائرہ اپنے نور کے پروانوں میں وسیع ترکر رہے ہیں۔ الحمدللہ

 

جمعرات ۱۲؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۸۴

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

 

چون نمی گویم، مرا دلدار می گوید: “بِگُو” روحانی قیامت کا پہلا دروازہ اسمِ اعظم ہے اور دوسرا دروازہ مُوْتُوْا کے فرمانِ رسولؐ پر عمل کرنا ہے، مُوْتُوْ ا (مر جاؤ) کا حکم قرآن (۰۲: ۲۴۳) میں بھی ہے، پس روحانی قیامت میں بے شمار و بے پایان فائدے ہیں، اس میں خود شناسی بھی ہے اور خدا شناسی بھی۔ اس میں تمام مثالیں جمع ہیں، لہٰذا یہ جامع الامثال ہے۔ اور قرآنِ حکیم کی کوئی مثال اس سے خارج نہیں ہے، اس میں سب سے بڑی عجیب و غریب حکمت یہ ہے کہ جہاں قصّۂ آدم کی تاویل  ہے وہاں شبِ قدر اور ظہورِ قائم کی مثال بھی موجود ہے۔ سبحان اللہ! سبحان اللہ!

روحانی قیامت میں جہاں سے آپ کا اسمِ اعظم اسرافیل اور عزرائیل کے سنگم سے جاری ہونے لگتا ہے تو یہ حضرتِ قائم (ع۔ س) کی ذکری تجلّی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ ناقورِ نورِ قائم میں عالمِ ذرّ کی زبان سے ناقوری تجلّی جاری ہوتی ہے، ڈالاس کے تاویلی معجزات میں یہ مشاہدہ بھی ہوا ہے کہ ایک نورانی لڑکی بہشت کی بانسری بجا رہی تھی یہ ایک اسرفیلی تجلّی تھی، تاکہ عزیزان کو یقینِ کامل حاصل ہو! آمین!

 

جمعۃ المبارک ۱۳؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

۵۰

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۸۵

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

اختصار کی غرض سے اسمِ  اعظم کے بعد دوسرا دروازہ “مُوْ تُوْا” بتایا حالانکہ دوسرا دروازہ بیت الخیال ہے، اور تیسرا دروازہ نفسانی موت اور روحانی قیامت ہے۔ بیت الخیال اگرچہ روحانی قیامت کا ابتدائی سفر ہے، پھر بھی یہ روشن خیالی کی ایک کائنات ہے۔

جس کی تجلّیاتِ گوناگون بڑی عجیب و غریب ہیں۔ یہ فرشتۂ جبرائیل کا مقام (مرتبہ) ہے اور اس کا آخری حصہ میکائیل کا مرتبہ ہے۔ اور روحانی قیامت اس سے برتر ہے، جبکہ وہ اسرافیل اور عزرائیل کا درجہ ہے۔

 

جمعۃ المبارک ۱۳؍مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۸۶

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ زمر (۳۹: ۶۷ تا ۶۹) ترجمۂ ا رشادِ مبارک: ان لوگوں نے اللہ ( اَلْحَیُّ  الْقَیُّوْم ) کی  قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ (اس کی قدرتِ  کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ) روحانی قیامت کے روز پوری زمین اس کی مُٹھی میں ہوگی اور  آسمان اس کے دستِ  راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ پاک اور برتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں اور اس روز صور پھونکا جائے گا اور وہ سب بے ہوش ہو جائیں  گے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، (یعنی اس روحانی قیامت سے بالکل بے خبر رہیں گے) سوائے ان لوگوں کے جن کو اَلْحَیُّ القیُّوم اس قیامت سے آگاہ کرنا چاہے۔ پھر تقریباً چالیس سے پچاس سال کے بعد ایک دوسرا صور پھونکا جائے گا اور یکایک سب کے سب اٹھ کر دیکھنے لگیں گے۔ زمین اپنے ربّ کے نور سے چمک اُٹھے گی۔

نوٹ: یہ ایک ظاہری ترجمہ ہے جس میں کلیدی تاویل کی گئی ہے۔

 

جمعۃ المبارک۱۳؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

۵۱

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۸۷

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

معجزۂ لطیفِ قلبی= باطن کے باطن کا معجزہ۔ آج بوقتِ سحر دل ہی د ل میں ایک لطیف و شیرین معجزہ ہوا، جان بار بار فدا ہو محبوبِ جان سے!

قرآنِ حکیم کی بعض سورتوں کے آخر میں خواتم ہوتے ہیں۔ چنانچہ سورۂ قمر  (۵۴: ۵۵) میں ایک ایسا لاہوتی نگینہ موجود ہے۔ ترجمۂ ظاہر: حقیقی پرہیزگار لوگ یقیناً باغاتِ بہشت اور نہروں میں ہوں گے سچی عزت کی جگہ، بڑے ذی اقتدار بادشاہ (شہنشاہ) کے قریب۔

ملیک شہنشاہ(قاموس القرآن ص: ۵۴۷)۔

پس یہ عقیدہ بالکل درست ہے کہ شاہانِ بہشت بہت ہیں مگر وہاں کا شاہنشاہ ایک ہی ہے، اور وہ پاک و برتر اَلْوَاحِدُ الْقَھّار= اَلْحَیُّ الْقَیُّوْم ہی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ۔

ملیک بروزنِ فعیل بمعنیٔ فاعل وہ شاہنشاہِ حقیقی جو لوگوں میں سے بادشاہ بنا سکتا ہے کیونکہ وہ بادشاہوں کا سب سے بڑا بااختیار بادشاہ ہے۔

 

سنیچر ۱۴؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۸۸

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ ابراہیم (۱۴: ۴۸) کی تاویلی حکمت کو پھر ایک بار عشق سے پڑھ لیں۔ خداوندِ روحانی قیامت خانۂ حکمت کے حق میں تاویلی معجزات کر رہا ہے، لندن کی خصوصی ملاقات میں مولانا حاضر امام (روحی فداہٗ!) نے ارشاد فرمایاتھا: “تم ہمارے  ساتھ کام کرو ہم تمہارے ساتھ کام کریں گے۔” اس فرمانِ مبارک کو جناب اعتمادی شفیق سچادینا صاحب اور جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی

 

۵۲

 

صاحب نے سنا ہے اور وہ دنیا و آخرت میں اس فرمان کے گواہ ہیں، اس ارشادِ مبارک کی رُو سے خانۂ حکمت مظہرِ حضرتِ قائم (ع۔س۔)  کا ایک تاویلی ادارہ ہے، یہی سبب ہے کہ آج خانۂ حکمت کے بعض درویشوں پر تاویلی معجزات ہو رہے ہیں۔

چنانچہ زمانۂ یارقند میں چھت پھٹ جانے کامعجزہ ہوا تھا، یہ معجزۂ شق القمر(۵۴: ۰۱) کی تاویل اور تصدیق ہے۔

اور سورۂ انشقاق کے مطابق آسمان پھٹ جانے(۸۴: ۰۱ تا ۰۵) کی تاویل ہے۔

اتوار۱۵؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۸۹

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

رسولِ اکرم رحمتِ عالم صلعم کے اسمائے صفات سو سے بھی زیادہ ہیں، حضرتِ محمد مصطفی محبوبِ خدا کے تمام مبارک اسماء سات پاک ناموں میں جمع ہیں: (۳۳: ۴۵ تا ۴۶) پس آنحضرتؐ ایک جانب سے بشیر تھے (بشارت دینے والا) اور دوسری جانب سے نذیر = ڈرانے والا۔ چنانچہ جملۂ قرآن میں بہشت کی بشارت بھی ہے، اور دوزخ کا خوف بھی ہے، اسی قانون کے تحت معجزات بھی دو قسم کے ہیں: بشارت والے معجزے اور ڈرانے والے معجزے۔ اور یقیناً اسی قانونِ الٰہی میں بہت بڑی حکمت ہے۔

وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّاکَآ فَّۃً  لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِ یْرًاوَّلٰکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ(۳۴: ۲۸) اور (اے نبیؐ)ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کیلئے  بشیر ونذیر بنا کر بھیجا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

 

یوسٹن

پیر ۱۶؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

۵۳

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۹۰

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ بلد (۹۰: ۰۱ تا ۰۴) :  لَآاُقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِ۔ وَاَنْتَ حِلّ’‘بِھٰذَاالْبَلَدِ۔ وَ وَالِدٍ وَّمَاوَلَدَ۔ لَقَدْ خَلَقْنَاالْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ۔

تاویلی حکمتیں: ھٰذَاالْبَلَدِ=شہرِ (مکہ) = اساس۔  والِد=حجتِ قائم۔ وَلد= حضرتِ قائم (ع۔ س)۔ جوابِ قَسَم: مومن کی روحانی تخلیق سخت مشقت میں ہوسکتی ہے۔ عَقَبَۃ  = دشوار گزار گھاٹی۔ فَکُّ رَقَبَۃٍ  کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا = اپنے آپ  کو نفس کی غلامی سے چھڑانا۔

 

یوسٹن

منگل۱۷؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۹۱

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

خانۂ حکمت کے حقیقی درویشوں کے نورانی خوابوں کی معرفت قرآنِ حکیم اور حدیثِ شریف میں ہے، اَلْحَمْدُلِلّٰہ! ہم ایسی معرفت سے باخبر ہیں، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ تمام خواب اسی کریمِ کارساز کی ذاتِ عالی صفات کی طرف سے ہیں، اس میں کسی انسان کا کوئی دخل ممکن ہی نہیں، اس کا تعلق براہِ راست عالمِ لاہوت کے اس الٰہی پروگرام سے ہے جو دورِ تاویل یعنی دورِ قیامت کیلئے خاص ہے اور یہ بات صرف ان خوابوں کے اشارات ہی سے معلوم ہو جاتی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ اہلِ معرفت کی مخالفت ہوتی رہی ہے، اور یہ بات قطعاً ناممکن ہے کہ فیصلۂ قیامت سے پہلے تمام لوگوں کا ایک ہی عقیدہ اور ایک ہی مذہب ہو، اگر یہ بات ممکن ہوتی تو قیامت کا کوئی وعدہ ہی نہ ہوتا اور نہ قیامت کی کوئی ضرورت ہوتی۔

 

یوسٹن

چہار شنبہ ۱۸؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

۵۴

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۹۲

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ روم (۳۰: ۲۳): وَمِنْ اٰیٰتِہٖ مَنَامُکُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَابْتِغَآئُ کُمْ  مِّنْ فَضْلِہٖ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ۔

ترجمہ: اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور (خواب دیکھنا) اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے، یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کیلئے جو (غور سے) سنتے ہیں۔

مَنَام = خواب، سونا اور خواب دیکھنا، بحوالۂ قاموس القرآن، ص ۵۵۶۔

آیہ = نشانی، حکم، معجزہ، آیات = نشانیاں = معجزات، بحوالۂ قاموس القرآن، ص ۲۰۔

پس خواب میں خدا کی نشانیاں یعنی معجزات ہیں، خوابوں کے معجزات آفاق و انفس کے معجزات ہیں (۴۱: ۵۳) ان کا آخری مقصد الواحدالقہار کی توحید و معرفت ہی ہے اور بس۔

 

یوسٹن

چہار شنبہ ۱۸؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۹۳

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

قرآنِ حکیم اور کلامِ مولا میں جمع برائے واحد کی مثالیں: پہلی مثال (۰۷: ۱۸۰)دوسری مثال(۰۵: ۵۵)تیسری مثال(۵۷: ۱۲ تا ۱۳)چوتھی مثال (۴۱: ۵۳)  پانچویں مثال (۲۷: ۹۳) چھٹی مثال: کتابِ کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت ۸۰:

اَنَااٰیاتُ اللّٰہِ وَاَمِینُ اللّٰہِ اَنَااُحْیٖ وَاُمِیتُ اَنَااَخْلُقُ اَنَاالسَّمِیْعُ اَنَاالْعَلِیْمُ اَنَاالنَّصِیرُ

 

۵۵

 

اَنَاالَّذِی اَجُوزُ السَّمٰوٰتِ السَّبْعَ  وَالاَرضِینَ السَّبعَ  فِی طُرفَۃِ عَینٍ۔

ترجمہ: میں ہوں رحمتِ خدا کی آیات، اور خدا کا راز دار، اور میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، اور میں پیدا کرتا ہوں اور رِزق دیتا ہوں، میں ہوں سننے والا، میں ہوں دانا، میں ہوں بینا ظاہر و باطن اشیاء کا، میں ہوں وہ شخص جو ساتوں آسمانوں اور زمین کے ساتوں طبقوں کی چشمِ زدن میں سیر کرتا ہے۔

 

یوسٹن

یومُ الخمیس ۱۹؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۹۴

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

بحوالۂ  کتابِ جماعت خانہ، ص ۹۴، تاشغورغان میں اس بندۂ کمترین کی تاویلی قربانی خواب میں ہوئی تھی، جس کی ایک تاویل (۱۸: ۷۴) اور دوسری تاویل (۳۷: ۱۰۷) ہے، اور ذِبحٍ عظیم کی تاویل روحانی قیامت ہے، جس کا ذکر ہو چکا ہے۔

قبلہ اور مسجدالحرام کی تاویل جاننا سب سے ضروری ہے، جبکہ یہ تاویل  خداوندِ قیامت سے متعلق ہے، معجزۂ اسرافیلی اور معجزۂ عزرائیلی کا سنگم اسمِ اعظمِ قیوم قیوم قیوم  تا آخر ہے۔

ایک عظیم فرشتہ جو اسرافیل اور عزرائیل کا سنگم ہے، اس کا تصوّر انسان اور باز  کا سنگم ہے، مرکزِ علم و حکمت لندن کے ایک فرشتۂ ارضی کے ایسے تصوّر کا مشاہدہ ہوا ہے۔

 

یوسٹن

یوم الجمعہ ۲۰؍مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۹۵

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

ہر روحانی قیامت میں کُلّ روحیں حاضر ہو جاتی ہیں، چنانچہ زمانۂ یارقند میں تمام عزیزان روحاً

 

۵۶

 

میرے ساتھ موجود تھے، الواحد قہار اپنی رحمتِ بے نہایت سے میرے عزیزان کو میری کاپیاں بنا رہا تھا، یہ سب سے عظیم معجزہ اسرافیلی اور عزرائیلی منزل میں ہوتا ہے، پس ہم سب یقیناً نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸)ہیں، خانۂ حکمت کے جس گھر میں اور جس فرد میں حضرتِ قائم (ع۔ س) کاجیسا بھی کوئی بابرکت معجزہ ہوتا ہے، اس میں ہم سب سربسجود حاضر ہیں، یہ اعلان نورانی خوابوں میں بھی ہو چکا ہے کہ ہم سب ایک ہیں، ہم سب ایک ہیں، ہم سب ایک ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اب وقت بہت ہی کم ہے، لہٰذا تمام عزیزان آخری بار روحانی ترقی کیلئے سخت سے سخت کوشش کریں، آمین!

 

یوسٹن

یوم الجمعہ ۲۰؍مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۹۶

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

جمع برائے واحد: سورۂ حدید(۵۷: ۱۲ تا ۱۳):

یَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ بِاَیْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْۚ-قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًاؕ-فَضُرِبَ بَیْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌؕ-بَاطِنُهٗ فِیْهِ الرَّحْمَةُ وَ ظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ۔

ترجمہ: اس دن جب کہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کانور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا، (اُن سے کہا جائے گا کہ)”آج بشارت ہے تمہارے لئے” جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہی ہے بڑی کامیابی۔ اس روز منافق مردوں اور عورتوں کاحال یہ ہوگا کہ وہ مومنوں سے کہیں گے “ذرا

 

۵۷

 

ہماری طرف دیکھو تا کہ ہم تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائیں” مگر ان سے کہا جائے گا “پیچھے ہٹ جاؤ، اپنا نور کہیں اور تلاش کرو” پھر ان کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا، اس دروازے کے اندر رحمت ہوگی اور باہر عذاب۔

یعنی یہاں مومنین و مومنات کا نمائندہ سالک (عارف) ہے جو نورِ حضرتِ قائم (ع۔ س)  کا دیدار کررہا ہے، مقام عالمِ شخصی اور درجہ حظیرۂ قدس ہے، اور مومنین و مومنات بحالتِ عالمِ ذرّ موجود ہیں۔

سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸):  رَبَّنَاۤ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَ اغْفِرْ لَنَاۚ-اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔”

ترجمہ: اے ہمارے ربّ! ہمارا نور ہمارے لئے مکمل کردے اور ہم سے درگزرفرما! تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

 

ڈالاس

یومُ الاحد ۲۲؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۹۷

 

حضرتِ مولا (روحی فداہٗ) کا ایک عظیم تاویلی معجزہ:

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

اَلْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ (۰۲: ۲۵۵)۔

اَلْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ  (۲۲: ۶۲)۔

اَلْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ  (۳۱: ۳۰)۔

اَلْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ (۳۴: ۲۳)۔

 

۵۸

 

اَلْعَلِیِ الْکَبِیْرِ (۴۰: ۱۲)۔

اَلْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ  (۴۲: ۰۴)۔

عَلِیّ ’‘حَکِیْم’‘ (۴۲: ۵۱)۔

لَعَلِیّ ’‘حَکِیْم’‘  (۴۳: ۰۴)۔

عَلِیّاً کَبِیْرًا (۰۴: ۳۴)۔

لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیّاً (۱۹: ۵۰)۔

مَکَاناً عَلِیّاً (۱۹: ۵۷)۔

عِلِّیِّیْنَ =عِلِّیُّوْنَ (۸۳: ۱۸ تا ۱۹)۔

 

ڈالاس

یومُ الاثنین ۲۳؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۹۸

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

بحوالۂ سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵)اس ارشادِ مبارک کی نورانی تاویل کا تعلق  حظیرۃ القدس کی عرفانی بہشت سے ہے، جہاں عارفوں کو اَلْحَیُّ الْقَیُّوْم کا پاک دیدار ہوتا ہے، اور ظلِّ علیؑ و ظلِّ فاطمہؑ یعنی عکسِ نورِعلی و عکسِ نورِ فاطمہ کا راز معلوم ہو جاتا ہے، پس عزیزان ظلِّ علیؑ اور ظلِّ فاطمہؑ کی حکمت کو سمجھنے کیلئے سعیٔ بلیغ کریں۔

یاد رہے کہ ظلِّ علی کے دو معنی ہیں، بفضلِ  مولا ہمارے بعض عزیزان نے آئینۂ دل میں

 

۵۹

 

حضرتِ قائم کے نورِ پاک کو چشمِ  باطن سے دیکھا ہے، یقینا قائم وہ بہشت ہے، جس کا ذکر سورۂ محمد (۴۷: ۰۶) میں ہے، اَلْحَمدُلِلّٰہ علیٰ مَنِّہٖ وَاِحسانِہٖ۔

 

ڈالاس

منگل ۲۴؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۹۹

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

الوَاحِدُ القَھَّارُ(۱۲: ۳۹)۔

الواحِدُ القَھَّارُ (۱۳: ۱۶)۔

الوَاحِدِ القَھَّارِ(۱۴: ۴۸)۔

الوَاحِدُ القَھَّارُ (۳۸: ۶۵)۔

الوَاحِدُ القَھَّارُ (۳۹: ۰۴)۔

الوَاحِدِ القَھَّارِ(۴۰: ۱۶)۔

اے عزیزان! قرآنِ حکیم کے ان حوالہ جات میں حضرتِ ملیک= شاہنشاہِ دو جہان کی پاک معرفت ہے، قرآن میں لفظِ  شاہنشاہ = ملیک(۵۴: ۵۵)میں ہے۔

 

ڈالاس

منگل ۲۴؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

روحانی سائنس اور مادّی سائنس کا سنگم

قسط: ۱۰۰

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ حشر (۵۹: ۲۰ تا ۲۴): لَا یَسْتَوِیْۤ اَصْحٰبُ النَّارِ وَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِؕ-اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ  لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ-

 

۶۰

 

وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ  هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِۚ-هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ  هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُؕ-سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰىؕ-یُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۔

ترجمہ: دوزخ میں جانے والے اور جنّت میں جانے والے کبھی یکسان نہیں ہو سکتے، جنّت میں جانے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں، اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ ﷲ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے، یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اسلئے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں، وہ ﷲ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، غائب اور ظاہر ہر چیز کا جاننے والا، وہی رحمان اور رحیم ہے، وہ ﷲ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ ہے نہایت مقدس، سراسر سلامتی، امن دینے والا، نگہبان، سب پر غالب، اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا، اور بڑا ہی ہوکر رہنے والا، پاک ہے ﷲ اس شرک سے جو لوگ کررہے ہیں، وہ ﷲ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے، اس کیلئے بہترین نام ہیں، ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کررہی ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔

حاشیہ (۱۰۰) اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِینَ وَالعَاقِبَۃُ لِلّمُتَّقِین۔ زمانۂ یارقند  (چین) میں حضرتِ اسمِ اعظم = نورِ اقدم کے جو جو عظیم معجزات ہوئے، ان سب میں قرآنِ حکیم کی تاویلات ہی تاویلات ہیں، اور یہ بھی تاویل ہی ہے کہ قرآن کے بعض مقامات یا الفاظ کی طرف اشارہ ہوتا تھا، ان اشارات میں لفظِ کَذَالِکَ بھی ہے، یہاں جس پہاڑ پر قرآن نازل کرنے کا ذکر آیا ہے، وہ کوہِ عقل = گوہرِعقل اور کتابِ مکنون کا سنگم ہے۔

 

۶۱

 

میں تمام قائم شناس عاشقوں سے بصدِ شوق قربان ہو جانا چاہتا ہوں، آمین!

 

ڈالاس

یوم الاربعہ ۲۵؍ مئی ؁۲۰۰۵ء

 

۶۲

روحانی سائنس کے عجائب و غرائب

روحانی سائنس کے عجائب و غرائب

(قسطِ اوّل)

آج سے تقریباً چودہ سو (۱۴۰۰) سال قبل قرآنِ پاک نے بڑے واضح الفاظ میں یہ پیش گوئی فرمائی تھی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ لوگوں کو آفاق و انفس میں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھانے کا سلسلہ شروع کرے گا (۴۱: ۵۳) چنانچہ ہم کسی شک کے بغیر یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی وہ نشانیاں یا عجائب و غرائب آج مادّی سائنس اور اس کے ایجادات کی شکل میں لوگوں کے سامنے ظاہر ہیں، اور قدرتِ خدا کی یہی نشانیاں کل بحیثیتِ روحانی سائنس عالمِ شخصی میں اپنا انتہائی حیرت انگیز کام کرنے والی ہیں۔

اگر قادرِ مطلق کی ظاہری و مادّی نشانیوں کو سائنس کا نام دیا جا سکتا ہے تو یقیناً اس کی باطنی و روحانی نشانیوں کو روحانی سائنس کہا جا سکتا ہے، کیونکہ آفاق و انفس اور ان میں ظہور پذیر ہونے والی آیات سب کی سب خدا ہی کی ہیں، تاہم ان آیات اور اس سائنس کی بہت بڑی اہمیّت و فضیلت ہوگی، جس کے حیران کن معجزات عالمِ شخصی میں رونما ہونے والے ہیں، کیونکہ انسان کا مرتبہ تمام کائنات و موجودات سے ارفع و اعلیٰ ہے۔

روحانی سائنس کے عظیم الشّان ظہور سے متعلق قرآنِ حکیم کی یہ پُرحکمت پیش گوئی عوام النّاس اور اکثریت کی نسبت سے فرمائی گئی ہے، ورنہ حضراتِ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام اور عارفین و کاملین کے نزدیک روحانی سائنس انسانی تاریخ

۱

کی ابتداء ہی سے اپنا کام کرتی چلی آئی ہے، جس کی مثالیں کتبِ سماوی میں بکثرت ملتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ روحانی ترقی کی بدولت روحِ اعظم کے عظیم اسرار سے ہمیشہ استفادہ کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ خواجہ حافظ کا یہ مشہور شعر ہے

فیضِ روح القدس ار باز مدد فرماید
دیگران ہم بکنند آنچہ مسیحا می کرد

روح القدّس کا فیض اگر پھر سے مدد فرمائے، تو دوسرے لوگ بھی ایسے معجزے کریں گے جیسے حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کرتے تھے۔

اگر آج مجھ ایسا ایک ناچیز عام آدمی روحانی سائنس کے بھیدوں سے بحث کر رہا ہو تو ضروری طور پر آپ یوں سمجھ لیجئے کہ اب وہ بابرکت زمانہ آ رہا ہے جس میں مذکورۂ بالا قرآنی پیش گوئی کے مطابق خاص روحانی سائنس عوام کی خاطر عام ہونے والی ہے تا کہ حقیقی معنوں میں عالمِ انسانیّت کی مادّی، اخلاقی اور روحانی ترقی ہوسکے، جی ہاں، یقیناً یہ بات زرِّ خالص کی طرح صاف اور سچ ہے کہ جب تک روحانی سائنس کا عظیم الشّان انقلاب نہ آجائے تب تک دنیا والوں کے یہ تمام سخت پیچیدہ مسائل ختم نہیں ہو سکتے، اور نہ ہی سیّارۂ زمین کی غربت و جہالت کا خاتمہ ہوسکتا ہے، کیونکہ صرف روحانی سائنس ہی ہے جس میں پروردگارِعالمین نے تمام لوگوں کے لئے بے حد و بے حساب علمی برکتیں رکھی ہیں، جس کی ایک روشن مثال مادّی سائنس ہے جس کی وجہ سے دنیا کی ظاہری ترقی ہوئی ہے۔

خدائے بزرگ و برتر نے ارض و سماء کی جملہ اشیاء کو انسان کے لئے بحدِّ فعل یا بحدِّ قوّت مسخر بنا دیا ہے۔ اس عظیم ترین احسان کا ذکر قرآنِ پاک کی متعدد آیاتِ کریمہ میں آیا ہے، اس ربّانی تعلیم میں ظاہری و باطنی دونوں قسم کی سائنس کی طرف بھرپور توجہ دلائی گئی ہے، اب ہم سطورِ ذیل میں روحانی سائنس کی بعض ایسی

۲

اہم اور عجیب و غریب چیزوں کا ذکر کر دیتے ہیں جن کا کسی ادارے کو مشاہدہ اور کسی حد تک تجربہ ہو چکا ہے۔

سب سے پہلے اس بے مثال حقیقت کی تصدیق کی جاتی ہے کہ انسان نہ صرف عالمِ شخصی (عالمِ صغیر) ہی ہے، بلکہ یہ خدا کی خدائی میں واحد روحانی عجائب گھر بھی ہے، اس عجائب خانۂ قدرت میں بے حد و بے حساب زندہ اور بولنے والے عجائب و غرائب موجود ہیں، منجملہ یہاں طرح طرح کی پُرحکمت مثالوں پر محیط ذی حیات ذرّات پائے جاتے ہیں، یہ آپ کو نہ صرف یاجوج و ماجوج اور روحانی لشکر کی حیران کن مثال پیش کر سکتے ہیں، بلکہ عالمِ ذرّ سے متعلق تمام عرفانی اسرار کا عملی مظاہرہ کرنا بھی انہی کا کام ہے، چنانچہ جسمِ لطیف اور روح پر مبنی ان چھوٹے چھوٹے لاتعداد ذرّات کا انوکھا قصّہ بڑا طویل ہے۔

اس سلسلے میں یہ بھی بتا دینا ضروری ہے کہ روحانی سائنس میں حواسِ ظاہر و باطن مل کر کام کرتے ہیں، لہٰذا ان کی روحانی تربیت بے حد ضروری ہے، جس طرح کسی قابل شخص کو خلا میں بھیجنے سے قبل شدید بدنی مشقیں کراتے ہیں، پھر اس کو سیّارۂ زمین کی کشش سے باہر جانا پڑتا ہے، اسی طرح روحانی سائنس کے تجربے کی خاطر انتہائی شدید ریاضت کے ساتھ ساتھ کرّۂ نفسانیّت کی کشش سے بھی بالاتر ہو جانے کی سخت ضرورت ہے، ورنہ ممکن ہے کہ کوئی آدمی یہ کہنے کی جرأت کرے کہ “روحانی سائنس” نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔

بابرکت روحانی سائنس کا ایک عظیم اور بڑا مفید تجربہ یہ بھی ہوا ہے کہ آدمی کی قوّتِ شامہ کو ایسی گوناگون خوشبوئیں حاصل ہو سکتی ہیں، جن میں لطیف جوہری غذائیں بھی ہیں اور مختلف بیماریوں کے لئے روحانی دوائیں بھی، اس مقام پر خوب غور و فکر کرنے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ہر چیز کی اصل جوہر کا خزانہ روح ہی ہے،

۳

یعنی ہر پھول، پھل اور جڑی بوٹی میں جیسا رنگ اور جس قسم کی خوشبو ہے، وہ روح کی وجہ سے ہے، کیونکہ یہ روح ہی کا کمال ہے جو رنگ و بو اور ذائقہ لے کر پھول، پھل، فصل اور دیگر نباتات میں آتی ہے۔

چلہ جیسے شدید حالات کسی درویشِ دلریش کے حق میں کتنے بابرکت ہوا کرتے ہیں، اس کا اندازہ صرف اہلِ دانش ہی کر سکتے ہیں، ایک ایسے گرانقدر وقت میں جبکہ بھوک اور پیاس بے حد عزیز لگ رہی تھی مؤکل نے پوچھا: بتاؤ کن کن خوشبوؤں کی کیفیّت میں لطیف غذا کا تجربہ چاہتے ہو؟ عرض کی گئی کہ میں روحانی دولت کے لئے بے حد محتاج اور غریب ہوں، لہٰذا چند ایسے پھولوں، پھلوں اور نباتات کی الگ الگ خوشبوؤں کا تجربہ چاہتا ہوں، تو ان خوشبوؤں کا تجربہ کرایا گیا، جس کو اگر روحانی سائنس کی خوشخبری قرار دی جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

روحانی سائنس کا ذاتی تجربہ بطورِ خاص اس منزل میں شروع ہو جاتا ہے، جہاں سالک پر جیتے جی نفسانی موت واقع ہو جاتی ہے، اس موت کے تجدّد کا سلسلہ سات رات اور آٹھ دن تک جاری رہتا ہے تا کہ اس کے عظیم الشّان معجزات اور عجائب و غرائب پر خوب غور و فکر کیا جا سکے، اُس حال میں کائنات و موجودات کا روحانی نچوڑ یا جوہر بشکلِ ذرّات سالک میں بھر دیا جاتا ہے، اور سالک کی روح کائنات میں پھیلا دی جاتی ہے، اور یہ عمل مذکورہ عرصے تک دہرایا جاتا ہے، اسی معنٰی میں دو سانچے مقرر ہو جاتے ہیں، ایک سانچا (قالب) عالمِ کبیر کا، دوسرا سانچا عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) کا، تا کہ کائنات انسانی سانچے میں ڈھل کر انسانِ کبیر ہو جائے، اور انسان کائناتی قالب میں ڈھل کرعالمِ اکبرہو جائے، جیسا کہ مولا علیؑ نے فرمایا
اے انسان! کیا تو گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ

۴

تجھ میں عالمِ اکبر سمایا ہوا ہے، پس روحانی سائنس اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا عطیہ ہے جس سے نہ صرف عالمِ شخصی اور کائنات کی تسخیر ہو جاتی ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان دونوں کی بے شمار کاپیاں حاصل ہو سکتی ہیں۔

اب ایک بہت بڑا عالمی مسئلہ سامنے ہے، اور وہ ہے: یو۔ ایف۔ اوز سے متعلق سوال کہ وہ در حقیقت کیا چیزیں ہیں؟ یہ سوال جتنا مشکل اور جیسا ضروری ہے، اس کا جواب اتنا دلچسپ اور ایسا مفید بھی ہے، وہ یہ ہے کہ یو۔ ایف۔ او اُس ترقی یافتہ انسان کا عارضی نام ہے جو کسی سیارے سے آتا ہے یا اس دنیا میں رہتا ہے، کیونکہ انسان ہی ہے جو کثیف سے لطیف ہو کر پرواز کر سکتا ہے، اور انسان ہی سے جنّ و پری ہو جاتا ہے، اس لطیف مخلوق پر خدا ہم کو آزما رہا ہے، نیز اس کے ظہور سے یہ اشارہ بھی مل رہا ہے کہ روحانی سائنس کا زمانہ آ چکا ہے ، اور “یو۔ ایف۔ او” وہ انسان ہے جو وقت آنے پر فرشتہ ہو چکا ہے، اور بحکمِ خدا اپنے ظہور سے یہ سگنل دے رہا ہے کہ دیکھو زمانہ بدل گیا، اور روحانیّت کا دور آ گیا۔

کیا جمادات کی ترقی یافتہ صورت نباتات نہیں ہیں؟ کیا نباتات سے حیوانات کا وجود نہیں بنتا ہے؟ آیا حیوان کا خلاصہ انسان نہیں ہے؟ آیا انسان روحانی ترقی سے فرشتہ نہیں بنتا ہے؟ کیا فرشتہ پوشیدہ ہونے کے معنی میں جنّ نہیں کہلاتا ہے؟ کیا مخلوقات کے آپس میں ظاہراً رشتہ اور باطناً وحدت نہیں ہے؟ اس کا مجموعی جواب اور خلاصہ یہ ہے کہ یو۔ ایف۔ اوز حقیقت میں دوسرے سیّاروں کے ترقی یافتہ انسان ہیں، جن کی روحانی سائنس درجۂ کمال پر پہنچ چکی ہے۔

عالمی یا بین الاقوامی سطح پر ہمیشہ قانونِ اخلاق یہی حکم دیتا ہے کہ ہر وہ ملک و

۵

قوم جس نے ترقی کی ہے، وہ پس ماندہ لوگوں کی مدد کرے، چنانچہ دوسرے سیّاروں پر رہنے والے انسانوں یا فرشتوں کا مقدّس فریضہ یہی ہے کہ وہ اپنے ان بھائیوں کو جو روحانی سائنس میں غریب ہیں، زمین سے اُٹھا کر دوسرے ستاروں پر پہنچا دیا کریں، اللہ کے حکم سے یقیناً ایسا ہی ہوگا، یہ اُڑن طشتریاں جہاز کی شکل میں کیوں نظر آتی ہیں؟ یہ اشارۂ حکمت ہے، جس میں ان کا یہ کہنا ہے کہ ہم تمہارے کائناتی جہاز ہیں تا کہ تم کو مستقبل میں کائنات کی سیاحت کرا دی جائے۔

عظمت و بزرگی اور سلطنت و سلطانی کا ایک عجیب منشا یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ بادشاہ کبھی کبھار بھیس بدل کر اپنے ملک میں گھومے پھرے، تا کہ یہ ظاہر ہو جائے کہ لوگ کسی بھی علامت و نشان سے اس کو پہچانتے ہیں یا نہیں، خصوصاً ایسا امتحان رات کے وقت ہوا کرتا تھا، رات لا علمی کی مثال بھی ہے اور یہ باطن بھی ہے چنانچہ ترقی یافتہ انسان یا فرشتے اُڑن طشتریوں کے بھیس میں آ کر دنیا کے بڑے دانشمندوں، سائنس دانوں اور بڑی بڑی قوموں سے امتحان لیا کرتے ہیں۔

“یو۔ ایف۔ او” دراصل وہ مافوق الفطرت بشر ہے جس کو جثّۂ ابداعیہ یا آسٹرل باڈی کہا جاتا ہے، نیز یہ وہ معجزاتی کرتا ہے جس کو پہن کر یعنی اس میں منتقل ہو کر آپ نہ سردی محسوس کریں گے نہ گرمی، اور نہ ہی کوئی جنگ اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، لندن
۱۴ جولائی۱۹۹۵ء

۶

روحانی سائنس کے عجائب و غرائب

(قسطِ دوم)

اگر قصّۂ آدم پر روحانی سائنس کی روشنی ڈالی جائے تو یقیناً اس میں سے فائدۂ بنی آدم کے بہت سے اسرار منکشف ہو سکتے ہیں، مثال کے طور پر یہ سوال کیا جائے کہ خدا کے حکم سے جن فرشتوں نے پہلے پہل حضرتِ آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا وہ کونسے فرشتے تھے؟ ان کی ہستی کا تصوّر کیا ہے؟ سجود میں کیا حکمت پنہان تھی؟ آیا اس میں اولادِ آدم کے لئے بھی کوئی نویدِ جانفزا ہے یا نہیں؟

اس کے لئے روحانی سائنس میں یہ جواب ہے: سب سے پہلے عالمِ ذرّ کے ملائکہ نے حضرتِ آدمؑ کو سجدہ کیا، وہ ہستی کے اعتبار سے صرف ذرّات ہی تھے، وہ آدم کی ہستی میں گر رہے تھے اور یہی سجدے کی ظاہری شکل تھی، یہ فرشتے بظاہر ذرّات لیکن بباطن تسخیرِ ذات و کائنات کی کلیدیں تھے، لہٰذا سجود اظہارِ اطاعت کے معنی میں تھا کہ یہ فرشتے آدمؑ کے لئے عالمِ شخصی اور کائنات کو حقیقی معنوں میں مسخر کر دیں گے، جی ہاں، قانونِ رحمتِ الٰہی ہرگز ایسا نہیں کہ باپ کو تاجِ خلافت سے سرفراز فرما کر مسجودِ ملائک بنا دیا جائے، اور اولاد کو ہمیشہ کے لئے آتشِ دوزخ میں دھکیل دیا جائے، لہٰذا یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ حضرتِ ابو البشر کے لئے جس طرح فرشتوں نے عالمِ ذرّ میں بھی اور آگے چل کر عالمِ عقل میں بھی سجدۂ فرمانبرداری بجا لایا، اس میں اس کی اولاد کے لئے دو مرحلوں میں خوشخبری ہے۔

۷

مرحلۂ اوّل یہ کہ دورِ خواص میں فضائل و کمالاتِ آدمؑ صرف انبیاء و اولیاء (علیہم السّلام) ہی کو حاصل ہو جائیں گے، اور مرحلۂ دوم میں بشارت یہ ہے کہ دورِ عوام میں روحانی انقلاب کے آنے سے آدم کی روحانیّت عوام کے لئے بھی کام کرنے لگے گی، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں بنی آدم کی کرامت و فضیلت بیان ہوئی ہے، اور ان کے لئے نصیحت بھی ہے۔

روحانی سائنس کی روشنی میں یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ فرشتوں نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے لئے دوسرا اور آخری سجدہ عالمِ عقل میں کیا، جس میں وہ سب کے سب ایک ہی عظیم فرشتہ تھے، جب روحانی اور عقلانی قوّتوں نے فرشتوں کی مثال میں سجدہ کیا تو حضرتِ آدمؑ کی خلافت کائناتی زمین میں فعلاً قائم ہوگئی، یہاں یہ ضروری نکتہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ خلافت صرف سیّارۂ زمین تک محدود نہیں، بلکہ یہ کائنات بھر کی خلافت ہے، کیونکہ قرآنِ پاک کا فرمانا ہے کہ خلافتِ الٰہیہ کی زمین بے حد وسیع ہے (۲۴: ۵۵،  ۲۹: ۵۶،  ۳۹: ۱۰) اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ زمین (۱) نفسِ کلّ ہے (۲) کائنات اور اس کے سارے ستارے ہیں (۳) اور عوالمِ شخصی ہیں۔

قصّۂ آدم کے روحانی اسرار بہت سے ہیں، ان میں سے صرف چند مثالیں پیش کرنے کے بعد اب ہم اُس نویدِ جانفزا کی طرف آتے ہیں جو بنی آدم کے عوام کے لئے ہے، وہ یہ کہ جب خلافتِ آدم کا اعلان فرمایا گیا تو اس میں یہ ہمہ رس و ہمہ گیر خوشخبری تھی کہ یہ خلافت آدمؑ کی حیاتِ جسمانیہ تک محدود نہیں بلکہ اس کے سلسلۂ وارثین (انبیاء و اولیا علیہم السّلام) میں یہ ہمیشہ جاری و باقی رہے گی، اور جب دورِ عوام آئے گا تو اس وقت خلافتِ آدم کے عظیم معجزات ظاہر ہو جائیں گے

۸

تا کہ عوام النّاس کو روحانی سائنس کے بے شمار فائدے حاصل ہو سکیں۔

اللہ جلّ جلالہ کے اسرارِ حکمت بڑے عجیب و غریب ہوا کرتے ہیں، وہ تعالیٰ شانہ لوگوں کو ظاہر میں اختیار دیتا ہے کہ کوئی اس کی عبادت کرے یا نہ کرے مرضی ہے، لیکن باطن میں سب لوگوں کو زبردستی سے ہدایت و عبادت کے راستے پر چلاتا رہتا ہے، اور یہ بڑا حیرت انگیز کام انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں ہوتا ہے، آپ سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں دیکھ لیں: اور اللہ ہی کے لئے سجدہ کرتے ہیں جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں خوشی سے اور مجبوری سے۔ نیز سورۂ نور (۲۴: ۴۱) میں پڑھیں: سب کو اپنی اپنی دعا /نماز اور اپنی تسبیح معلوم ہے۔ اس نوعیت کی آیاتِ کریمہ اور بھی ہیں۔

جی ہاں، یہ بات سچ اور حقیقت ہے کہ عالمِ ذرّ میں تمام چیزوں کے نمائندہ ذرّات موجود ہیں، اور اس میں ہر خاص و عام انسان کا بصورتِ ذرّۂ نمائندہ حاضر رہنا از بس ضروری ہے، چنانچہ مذکورۂ بالا قرآنی حوالہ جات کے مطابق عالمِ ذرّ میں (جو شخصِ کامل میں ہے) اللہ ہی کے لئے سب کے سب عبادت اور سجدہ کرتے ہیں، جیسا کہ سورۂ مریم میں ہے۔

إِن کُلُّ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِیْ الرَّحْمَنِ عَبْداً = جتنے بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں سب کے سب خدا تعالیٰ کے روبرو غلام ہو کر حاضر ہوتے ہیں (۱۹: ۹۳)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہت سے مشکل اور پیچیدہ مسائل ایسے ہیں جن کی تحلیل صرف روحانی سائنس ہی سے ہو سکتی ہے، جس کا ظہور بتوسطِ عالمِ شخصی دورِ عوام میں ہونے والا ہے، جیسا کہ سورۂ زمر میں ربّ العزت کا ارشاد ہے:

وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّھَا = اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے

۹

روشن ہو جائے گی (۳۹: ۶۹)۔ یہ قیامت القیامات کا ذکر ہے، جس میں روحانی سائنس یعنی ربّانی علم و حکمت سے زمین منور ہو جانے والی ہے، اور یہاں زمین سے باشندگانِ زمین مراد ہیں، پس حسبِ وعدۂ الٰہی (۴۱: ۵۳) آفاق کے بعد انفس (عوالمِ شخصی) میں بھی آیاتِ قدرت کا ظہور ہوگا، اور اسی مجموعۂ معجزات کا نام روحانی سائنس ہے، جس کی مدد سے لوگ ایسی عجیب و غریب روحانی قوّتوں کو استعمال کر سکیں گے جو مادّی سائنس سے تیار کردہ آلہ جات کی مثال پر ہیں، لیکن ان سے بدرجہ ہا برتر اور بہتر ہیں، ایسی زبردست روحانی ترقی کے دور میں یہ امر ممکن ہے کہ ظاہری آلہ جات رفتہ رفتہ ختم ہوتے چلے جائیں، مثال کے طور پر اگر ٹیلی پیتھی (اشراق) کا رواج عام ہو جائے تو ظاہری ٹیلی فون کا دردِ سر کون مول لے گا، اگر اُڑن طشتریاں رام ہو جاتی ہیں تو پھر ہوائی جہاز کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔

انسانوں کی روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ سیارۂ زمین پر بڑی بڑی تبدیلیاں آنے کا ذکر ہے، سورۂ کہف (۱۸: ۰۷ تا ۰۸) ہم نے زمین پَر کی چیزوں کو اس کے لئے باعثِ رونق بنایا تا کہ ہم لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں زیادہ اچھا عمل کون کرتا ہے، اور ہم زمین پر کی تمام چیزوں کو ایک صاف میدان کر دیں گے۔ یعنی جب سارے انسانوں کو خوشبوؤں کی روحانی غذا ملتی رہے گی، اس کے نتیجے میں وہ جسمِ لطیف ہو جائیں گے، اور کھیتی باڑی کی ضرورت ہی نہ رہے گی، کیونکہ لوگ لطیف ہستی کی بہشت میں ہوں گے۔

قرآنِ حکیم فرماتا ہے: کَانَ النَّاسُ أُمَّۃً وَاحِدَۃ (۰۲: ۲۱۳) لوگ سب ایک ہی امت تھے (اور ہیں) یعنی تصوّرِ ازل و ابد اور عالمِ ذرّ میں تمام انسان ایک ہی جماعت ہیں، اور سب سے بڑی قیامت میں بھی سب ایک ہو

۱۰

جانے والے ہیں، لیکن وہ اس دور میں مختلف نظریات رکھتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ظاہر میں لوگوں کو اختیار دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ متفرق و منتشر ہو گئے ہیں، اور باطن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا اختیار ہے، جس کے سبب سے وہ انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں سلکِ وحدت سے پروئے ہوئے ہیں۔

بعض قرآنی سورتوں کے آخر میں بطورِ خلاصہ زبردست علم و حکمت والی آیاتِ کریمہ وارد ہوئی ہیں، جن کو علمائے علوم القرآن “خواتم” کے نام سے جانتے ہیں، ایک ایسی پُر از علم و حکمت آیۂ شریفہ سورۂ نمل کے آخر میں ہے، جس کا ترجمہ یہ ہےاور آپ کہہ دیجئے کہ تمام خوبیاں اللہ ہی کے لئے ہیں وہ تم کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھلا دے گا سو تم ان کو پہچانو گے اور آپ کا ربّ ان کاموں سے بے خبر نہیں ہے جو تم سب لوگ کر رہے ہو (۲۷: ۹۳)۔ قرآنِ عظیم کا یہ حکمت آگین خطاب بتوسطِ حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم تمام انسانوں سے فرمایا گیا ہے، جس میں ظاہری اور باطنی سائنس کی شکل میں معجزاتِ قدرت کے ظہور، مشاہدہ اور معرفت کی پیش گوئی ہے، یہ ان عظیم آیات و معجزات کا ذکرِ جمیل ہے جن کے مشاہدۂ عین الیقین اور حق الیقین سے مؤمنِ سالک کو اپنی ذات اور حق تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔

میں یہاں اپنے مضمون کی دونوں قسطوں کے اصل مطلب کو واضح کر دینے کے لئے ایک بڑا اہم سوال کرتا ہوں، وہ یہ کہ خالقِ اکبر نے تمام لوگوں کو کس ارادے سے پیدا کیا؟ آیا خدا یہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگ خوشی سے یا زبردستی سے اس کے پاس لوٹ جائیں؟ کیا حقیقت کچھ ایسی نہیں ہے کہ اگر ایک آدمی اپنے اختیار سے بڑا غلط کام کرتا ہے تو اس کو ایک وقت کے لئے سزا دی جاتی ہے، لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ کے

۱۱

ارادۂ ازل کے مطابق فیصلہ ہو جاتا ہے جس میں خیر ہی خیر ہے؟
اس کا پرحکمت جواب یہ ہے: الخَلقُ عِیالُ اللّٰہ، وَ اَحَبُ الخلقِ اِلَی اللّٰہِ مَن نَفَعَ عِیالَہ، وَ اَدْخَلَ السّرورَ عَلیٰ اَہلِ بَیتہ۔ ساری مخلوق (گویا) اللہ کا کنبہ ہے، لہٰذا خدائے بزرگ و برتر کے نزدیک سب سے محبوب و پسندیدہ شخص وہ ہے جو اُس کے کنبے کو زیادہ فائدہ پہنچائے اور اس کے اہلِ خانہ کو مسرور و شادمان کر دے۔

والسلام مع الاحترام
نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لندن
۱۸ جولائی۱۹۹۵ء

۱۲

 

 

روشنائی نامہ – نورِ عرفان

 

روشنائی نامہ – نورِ عرفان

گزارشِ احوال

عالمِ دین اور دُنیائے علم و ادب اس امر سے بخُوبی واقف و آگاہ ہے کہ حکیم نامور پیر سیّدنا ناصر خسرو قدس اللہ سرّہٗ کی حکیمانہ تعلیمات تحقیق و تدقیق اور حکمت و معنویّت کی ایک نرالی شان رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جب کوئی ہوش مند اور باشعور انسان آپ کے پیش کیے ہوئے اسرارِ روحانیّت سے بھرپور حقائق و معارف کی چاشنی اور لذّت سے ایک بار بہرہ ور اور لطف اندوز ہو جاتا ہے، تو پھر کبھی وہ ان روشن حقیقتوں اور اعلیٰ معرفتوں کی راہ و روش سے بے پرواہ نہیں رہ سکتا، تا آنکہ وہ دینی و روحانی علوم و حِکم سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ الغرض پیر صاحب کے علمی جاہ و جلال اور عرفانی فضل و کرم کا صحیح اندازہ اس وقت ہو سکتا ہے، جبکہ ان کی پُر حکمت اور پُر اسرار تصانیف کا بغور مطالعہ کیا جائے۔

زیرِ نظر کتاب موصوف حکیم کی ایک مشہور و معروف تصنیف

۳

“روشنائی نامہ” کی پہلی چوتھائی کے ترجمہ اور تشریح پر مشتمل ہے جو “نورِ عرفان” کے پیارے اسم سے موسوم کیا گیا ہے۔ اور روشنائی نامہ کے مرادی معنی بھی یہی ہیں، اگرچہ اصل کتاب کے تقریباً نصف حصّے تک ترجمہ ہو چکا ہے۔ لیکن اس مصلحت کے پیشِ نظر کہ کتاب کی ضخامت کم ہو، اس چوتھائی پر اکتفا کیا گیا ہے، تاکہ قارئین خصوصاً نئی نسل کو اس کے مطالعے کے لیے وقت مل سکے۔ اور یہی بہتر ہے کہ چھوٹی چھوٹی کتابوں کی صورت میں دینی علوم پیش کیے جائیں۔

اس کتاب میں جو اصل کتاب کے کل ۵۹۱ حکیمانہ اشعار میں سے صرف ۱۶۲ شعروں کا ترجمہ و تشریح ہے۔ دو دلکش اور اعلیٰ موضوع سموئے ہُوئے ہیں۔ جن میں سے پہلے کا عنوان “حمد باری تعالیٰ” اور دُوسرے کا “نصیحت” ہے۔

آپ شاید باور کریں گے کہ میں نے ترجمہ و تشریح کے سلسلے میں کافی کوشش کی ہے، کہ پیر ناصر خسرو کے حکیمانہ کلام کے مفہومات کو شایانِ شان طور پر اُردو میں منتقل کیا جائے، لیکن مجھے اعتراف ہے کہ مجھ سے ایسا نہ ہو سکا ہے،

۴

جس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔

مجھے آخر میں ایچ۔ آر۔ دی آغاخان اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کے افسروں، اہلکاروں اور اسکالروں کا بہت بہت شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ اُنھوں نے از راہِ علم گستری میری اس کتاب کی مکمل سرپرستی قبول فرما کر اس کی طباعت و اشاعت کا اہتمام کیا، تاکہ ایسی کتابوں کے ذریعے جماعت کی علمی طاقت میں اضافہ ہو، دعا ہے کہ پروردگارِ عالم ہماری جماعت اور اس کے تمام اداروں کو علم و عمل کی نیک توفیق اور اعلیٰ ہمت عطا فرمائے! آمین یا ربّ العالمین

آپ کا ایک علمی خادم

نصیر اُلدّین نصیرؔ ہونزائی

۴/اپریل۱۹۷۶ء

 

۵

بسم اللہ الرحمن الرحیم

(حمد باری تعالیٰ)

 

بنامِ آنکہ داریِ جہان است

خداوندِ تن و عقل و روان است

ترجمہ:اُس (خدا) کے نام سے (آغاز کرتا ہوں) جو کائنات کا نگہبان ہے، اور جسم و جان اور عقل کا مالک ہے۔

تشریح: حضرت پیر ناصر خسرو قدس اللہ سرّہٗ حکمت کی زبان میں فرماتے ہیں، کہ اگرچہ عام اعتقاد کے مطابق حق تعالیٰ ہر چیز کا نگہبان اور مالک ہے، لیکن حقیقت میں اس کی صفاتِ عالیّہ کے فیوض و برکات سے تمام مخلوقات یکسان طور پر مستفیض نہیں ہو سکتیں، بلکہ وہ حسبِ مراتب فیض یاب ہوتی رہتی ہیں، پس اللہ تعالیٰ کائنات کا نگہبان ہے اور انسانوں کا حقیقی مالک ہے، اور دونوں صفتوں میں جو کچھ فرق و تفاوت ہے، وہ یہ ہے کہ نگہبانی اور محافظت کی جانے والی مخلوق کے لئے یہ قید و شرط ضروری نہیں، کہ وہ اپنے نگہبان اور محافظ کو پہچانے اور اس کی فرمانبرداری کرے، مگر مملوک ہونے کے لیے یہ شرط

۶

لازمی اور ضروری ہے، کہ اپنے مالک کو پہچان لیا جائے اور اس کی فرمانبرداری کی جائے۔

خرد زا ادراکِ او حیران بماندہ

دل و جان در رہش بی جان بماندہ

ترجمہ: عقل و دانش اس کے پانے سے (قاصر ہو کر) حیران رہ گئی ہے، دل اور جان اس کی راہِ طلب میں بیدم اور پژمردہ ہو گئی ہے۔

تشریح: حضرت پیر اپنے اِس قول میں اِس آیۂ کریمہ کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ:

لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَ(۰۶: ۱۰۳)

اُسے آنکھیں نہیں پا سکتیں وہ آنکھوں کو پا لیتا ہے۔ یہاں آنکھوں سے انسانی عقل و روح کی قوّتیں مراد ہیں، پس معلوم ہوا کہ عقل و روح کی قوّتیں خدا کو نہیں پا سکتیں، لیکن خدا خود ان قوّتوں کو پا لیتا ہے، جس کی مثال سورج کی طرح ہے، کہ حقیقت میں ہماری آنکھیں کروڑوں میل کی مسافت سے گزر کر سورج کو نہیں دیکھ سکتیں، بلکہ سورج خود بخود ہماری آنکھوں میں آ جاتا ہے، یہاں سوچنے اور تجربہ کرنے کی ضرورت ہے۔

۷

بہر وصفی کہ گویم زان فزون است

زہر شرحی کہ من دانم برون است

ترجمہ: میں جیسے بھی اس کی تعریف و توصیف کروں وہ اس سے بڑھ کر ہے، ہر اس تشریح سے، جو میں جانتا ہوں، وہ بالا و برتر ہے۔

تشریح: حکیم صاحب کا یہ شعر اِس قرآنی تعلیم کے مطابق ہے:

 

سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ(۳۷: ۱۸۰)

آپ کا پروردگار جو عزّت کا پروردگار ہے ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں “رَبِّ الْعِزَّةِ” کے معنی ہیں عزّت کے کُل تقاضوں کو پورا کرنے والا، مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ عزّت کو انسانی صورت میں آگے بڑھا دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ مجسمّہ عزّت انتہا کو پہنچتی ہے، پس تعریف و توصیف ذی عزّت کی ہے اور حق تعالیٰ تعریف و توصیف سے پاک و برتر ہے۔

بسی گفتند و می گویند ازین حال

ندانم تاکرا روشن شُد احوال

ترجمہ: بہت سے مدّعیوں نے اِس حال کے بارے میں قیل و

۸

قال کی ہے، اور کر رہے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ ان میں سے کس پر حالات (حقائق) روشن ہوئے۔

تشریح: پیر ناصر خسرو کا یہ قول اُن لوگوں کے بارے میں ہے جو اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ وسیلہ اور واسطہ چھوڑ کر کسی غلط طریقے سے خدا شناسی کے مدّعی ہوا کرتے ہیں، اور اپنے گمان کے مطابق خدا کی حقیقت کے بارے میں قیل و قال کرتے رہتے ہیں، حالانکہ یہ ان کی ایک ناکام کوشش ہے۔

ہزار ان سال اگر گویند و پویند

در آخر رُخ بخونِ دیدہ سویند

ترجمہ: اگر وہ ہزاروں سال اسی طرح قیل و قال کرتے چلے جائیں پھر بھی آخر کار وہ (ناکام ہو کر) خون کے آنسوؤں سے اپنا چہرہ دھو لیں گے۔

تشریح: حضرت پیر صاحب فرماتے ہیں، کہ خدا کی حقیقت سمجھنے کے لیے جن لوگوں کا نظریہ صحیح نہ ہو، تو وہ خواہ ہزاروں سال اپنے قول و عمل سے کوشش کیوں نہ کریں، یہ سب کچھ بے سود اور لا حاصل ہے، اور آخر کار وہ اپنی ناکامی پر خون کے آنسو بہائیں گے۔

۹

چنین گفتند رَو بشماس خود را

طریقِ کفر و دین و نیک و بدرا

ترجمہ: انہوں (یعنی پیغمبر اور امام علیھما السَّلام) نے یوں فرمایا: کہ جا تو اپنے آپ کو پہچان لیا کر، کفر و دین اور نیک و بد کا طریقہ سمجھنے کے لیے۔

تشریح: یہاں پیر صاحب کا اشارہ ­”من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربّہ” نیز “اعرفکم بنفسہ اعرفکم بربّہ” کی طرف ہے، یعنی جس شخص نے اپنے آپ کو پہچان لیا پس تحقیق اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا، جو شخص تم میں سب سے زیادہ خود شناس ہو وہی شخص تم میں سب سے زیادہ خدا شناس ہے۔

پس اسی خود شناسی کے سلسلے میں دین و کفر اور نیک و بد کا تمام علم آ جاتا ہے، جیسا کہ قرآن پاک کی تعلیمات سے بھی ظاہر ہے، کہ خیر و شر کے دونوں راستے واضح کیے ہوئے ہیں، تاکہ نتیجے کے طور پر خدا کی طرف رجوع ہو¹۔

کزین رہ سوی یزدان است راہت

ترا بس باشد ایں معنی گواہت

 

 

 

 

 

 

__________________________

¹۔ ۲۱: ۳۵، ۷۶: ۰۳، ۹۰: ۱۰ وغیرہ

۱۰

ترجمہ: کیونکہ اسی (ذاتی معرفت کی) راہ سے تجھے خدا کی طرف راستہ میسّر ہے، اور یہی حقیقت تیرے لیے بطور گواہ کافی ہے۔

تشریح: موصوف حکیم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے، کہ انسان کی خود شناسی کا نتیجہ ہی خدا شناسی ہے، اور یہ ایک ایسی جامع حقیقت ہے، کہ تمام حقائق اسی میں سموئے ہوئے ہیں، پس ہر حقیقت کے لیے اسی سے استشہاد کیا جا سکتا ہے، کیونکہ خدا کی حکمتوں کی جیتی جاگتی نشانیاں صرف انسانی نفوس ہی میں پوشیدہ ہیں، جیسا کہ قرآن پاک کا قول ہے :

و فیٓ انفسکم افلا تُبصِرون ۵۱: ۲۱

اور تمہارے نفسوں میں بھی (نشانیاں یعنی معجزات) ہیں پھر کیا تم نہیں دیکھتے ہو۔

چو نادانی ندانی ہیچ ازیں حال

شود ضائع ترا روزمہ و سال

ترجمہ: چونکہ تو نادان ہے (اس لیے) تو اس حال کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا، تیرے دن، مہینے اور سال ضائع ہوتے جاتے ہیں۔

۱۱

تشریح: ارشاد ہوتا ہے کہ تیری اپنی نادانی کے سبب سے معجزاتِ معرفت کا حال اور اس کی قدر و منزلت اور اہمیّت و افادیّت تجھ پر پوشیدہ ہے، اگر تجھے ذرا بھی عقل ہوتی، تو حصولِ معرفت کے لیے تو مساعی اور کوشان رہتا، اور تیری گرانقدر عمر اور قیمتی اوقات اسی طرح بیکار اور لا حاصل ضائع نہ ہوتے۔

ز دانش زندہ مانی جاودانی

ز نادانی نیابی زندگانی

ترجمہ: دانش و معرفت ہی سے تو زندۂ جاوید رہے گا، نادانی و ناشناسی سے تجھے کوئی حیات و بقا حاصل نہ ہو گی۔

تشریح: حضرت پیر کا اشارہ اس قرآنی تعلیم کی طرف ہے:

کیا وہ شخص جو مردہ تھا پس ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایک نور قرار دیا جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے، جو اندھیروں میں (پڑا) ہو جن سے وہ نکل ہی نہ سکے (۰۶: ۱۲۲) اس قرآنی تعلیم میں نور سے معرفتِ ذات مراد ہے، لوگوں میں نور کے ساتھ چلنے کے معنی ہیں ابدی طور پر زندہ رہنا، کیونکہ لوگ ہمیشہ پائے جاتے ہیں، اور اندھیرے جہالت و ناشناشی کی مثال ہیں، کیونکہ جہاں نور کے معنی علم و

۱۲

معرفت ہیں، تو وہاں ظلمت کے معنی جہالت و ناشناسی ہیں۔

اگر بشناختی خود را بتحقیق

ہم از عرفانِ حق یابی تُو توفیق

ترجمہ: اگر تو اپنے آپ کو بحقیقت پہچانے، تو (ساتھ ہی ساتھ) تجھے حق تعالیٰ کی معرفت کی توفیق بھی ملتی رہے گی۔

تشریح: ارشاد ہے کہ اگر تو اپنے آپ کو اس حد تک پہچانے، جس حد تک پہچاننے کا حق ہے، تو یہی پہچان نتیجے کے طور پر حق تعالیٰ کی پہچان (معرفت) ثابت ہو گی، کیونکہ اپنے آپ کو پہچاننے کا مطلب روح القدس کی پہچان ہے، جو خدا کا نور اور انسانِ کامل کی روح ہے، اور یہی روح درحقیقت انسان کی حقیقی خودی اور اصلی انائیّت ہے، بالفاظ دیگر کوئی انسان اپنے آپ کو نہیں پہچان سکتا جب تک کہ وہ انسانِ کامل میں فنا نہ ہو اور جب وہ انسانِ کامل میں فنا ہو کر اپنے آپ کو پہچاننے لگتا ہے، تو درمیان سے دوئی اٹھ کر ختم ہو جاتی ہے، اور وہ اب یقین رکھتا ہے کہ انسانِ کامل اس کی روح کی حیثیت سے ہے پس وہ شخص اپنے آپ کو انسانی کمالیّت کے بلند ترین درجے پر پہچان سکتا ہے، نیز اسی اثناء میں خدا کو بھی پہچانتا ہے۔

 

نماند بر تُو پنہاں ہیچ حالی

نبینی از جہان در دل ملالی

ترجمہ: (حصُولِ معرفت کے بعد) تجھ پر حقیقت کا کوئی حال

۱۳

پوشیدہ نہ رہے گا، نہ ہی تو اپنے دل میں دنیاوی تکالیف سے کوئی اکتاہٹ محسوس کرے گا۔

تشریح: اس قول کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ حقیقت مان لی جائے، کہ انسانِ کامل کی پاک روح نہ صرف خدا کے نور کی حیثیت سے ہے، بلکہ انسانی ارواح کی روحِ اعظم کا درجہ بھی رکھتی ہے پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہی پاک روح (روح القدس) حقیقت الحقائق ہے، یعنی ایک ایسی جامع حقیقت کہ جس میں تمام ذہنی و خارجی ممکنات کی حقیقتیں مجتمع ہیں، پس جب انسان خود شناسی کے عنوان سے حقیقت الحقائق کو سمجھ لیتا ہے، تو ضمناً ساری حقیقتیں خودبخود اس پر روشن ہو جاتی ہیں، اور ایسے عارف کو دنیا کی کوئی تکلیف نہیں ستا سکتی۔

بُوَد پیدا بر اہلِ علم اسرار

ولی پوشیدہ گشت از چشمِ اغیار

ترجمہ: اہلِ علم پر (حقائق کے) پوشیدہ بھید ظاہر ہیں، لیکن (یہ بھید) غیروں کی نظر سے پوشیدہ ہیں۔

تشریح: سِلسلۂ بیان سے ظاہر ہے کہ یہاں اہلِ علم سے اہلِ معرفت مراد ہیں، جن پر اسرارِ حقیقت ظاہر ہوتے ہیں،

۱۴

اور یہ بھی واضح ہے کہ معرفت کا سبب انسانِ کامل سے رشتہ قائم رکھنا اور اس کی فرمانبرداری کرنا ہے، اور جہالت (ناشناسی) کی وجہ اس سے رشتہ توڑنا اور اس کے فرمان سے روگردان ہونا ہے۔

بیا بکشای چشمِ دل و دین راہ

مگر از خویش و از حق گردی آگاہ

ترجمہ: آ جا اِس (معرفت کی) راہ میں دل کی آنکھ کھول کر دیکھ لیا کر، تاکہ تو اپنے آپ سے اور حق تعالیٰ سے واقف و آگاہ ہو سکے۔

تشریح: پیر صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ تجھے اپنی اصلیت اور خدا کی حقیقت کا مشاہدہ کرنے کے لیے سر کی آنکھ کافی نہیں ہو سکتی، اس کے لیے ضروری ہے، کہ تو اپنے دل کی آنکھ کھول کر دیکھ لیا کرے، تاکہ عین الیقین سے خود کو اور خدا کو پہچان سکے۔

در امروز اندرین عالم نبینی

دران عالم بصد حسرت نشینی

ترجمہ: اور اگر تو آج اس دنیا میں نہ دیکھ سکے، تو اس عالم میں تجھے صد ہا حسرتیں لے کر رہنا پڑے گا۔

تشریح: حُجّتِ خُراسان کا یہ ارشاد اس آیۂ کریمہ کے

۱۵

مطابق ہے:

وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا  (۱۷: ۷۲)

اور جو کوئی اس (دنیا) میں اندھا رہا پس وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا اور بہت زیادہ گمراہ رہے گا۔

نہ بہرِ خواب و خور دی ہچو حیوان

بر ای حکمت و علمی تُو انسان

ترجمہ: تو حیوان کی طرح سونے اور کھانے کے لیے نہیں (موجود ہوا) ہے، تو علم و حکمت کے لیے انسان (پیدا کیا گیا) ہے

تشریح: جاننا چاہئے کہ ہر مخلوق کے پیدا کرنے کی ایک غرض و غایت ہوا کرتی ہے، چنانچہ خلقتِ انسانی کا مقصدِ اعلیٰ اکتسابِ علم و حکمت اور حصولِ روحانیّت و معرفت ہے۔

خطاب از حق بجُز تو نیست باکس

اگر دریا بی این معنی ترا بس

ترجمہ: حق تعالیٰ کے ساتھ ہمکلام ہونے کا شرف تیرے سوا اور کسی مخلوق کو حاصل نہیں، اگر تو سمجھ سکے، تو یہی حقیقت تیرے لیے کافی ہے۔

تشریح: حُجّت الحق فرماتے ہیں، کہ اے انسان! تو موجودات و مخلوقات میں سے وہ ہستی ہے کہ جس کے سوا اور کوئی مخلوق یہ صلاحیّت و اہلیّت نہیں رکھتی، کہ خدا کا کلام سنے اور قبول کرے، چنانچہ حق تعالیٰ انسان کے روحانی ارتقاء کی ابتدائی منزلوں میں انسانِ کامل اور فرشتہ کی وساطت سے

۱۶

کلام فرماتا ہے، اس کے بعد حجاب کے پیچھے سے اور آخری درجوں میں حجاب کے بغیر مگر اشاروں سے کلام فرماتا۱ ہے، اگر تو اِس حقیقت کو سمجھ سکے، تو بس تیرے لیے اسی میں سب کچھ ہے۔

زمین و آسمان بہرِ تو آراست

ازان بر خاستی با قامتِ است

ترجمہ: خدا نے زمین و آسمان تیرے لیے پیدا کر دیا، اسی سبب سے تو (پرورش پا کر) ایک سر و قد انسان بنا۔

تشریح: ارشاد ہوتا ہے کہ کائنات کی ساری قوّتوں اور نعمتوں سے مستفیض ہوئے بغیر انسان نہ تو پیدا ہو سکتا ہے، اور نہ ہی نشو و نما پا کر مکمّل ہو سکتا ہے، کیونکہ کائنات ایک ایسا درخت ہے کہ جس کا پھل انسان ہے، اور یہ پھل یعنی انسان اس درختِ کائنات کے بغیر اور کہیں سے حاصل نہیں آ سکتا، پس صحیح ہے، کہ آسمان و زمین کی تمام قوّتیں تیرے لیے ہی وقف ہیں، اور اسی سبب سے تو ایک سرو قد انسان بنا ہے۔

قیامت خاست زین قامت کہ داری

۲؎ دَیائت یار گشت و ہوشیاری

_______________________________________

۱؎  الشورای ۴۲۔ آیہ ۵۱  ۲؎ دَہائت: زیر کی، تیز ہوشی

 

۱۷

ترجمہ: تیرے اِس (متناسب اور موزون) قد و قامت (کی دلربائی اور فتنہ انگیزی) سے قیامت برپا ہوئی، (تجھے نہ صرف ایک نازنین جسم دے دیا گیا بلکہ) عقل و دانش نے بھی تیری ہی ہمراہی اختیار کی۔

تشریح: مطلب یہ ہے کہ انسان حسن و جمالِ صوری و معنوی سے آراستہ کیا گیا ہے، یعنی وہ جسمانی اور روحانی خوبیوں سے مالا مال ہے، جبکہ وہ ہر لحاظ سے اپنی اصلی حالت پر ہو، جیسے قرآن مجید کا ارشاد ہے :

وَ صَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ (۶۴: ۰۳)

اور (خدا نے) تمہاری صورتیں بنائیں پس اس نے تمہاری بہت اچھی صورتیں بنا دیں۔ چنانچہ اس آیۂ کریمہ میں انسان کے ظاہری و باطنی حسن و جمال کا ذکر ہے، جس سے جسم، روح اور عقل کی تمام امکانی خوبیاں مراد ہیں۔

تُوئی فرزندِ این عالم چو آرم

خلف بر خیز چون آدم ز عالم

ترجمہ: تو حضرت آدمؑ کی طرح اس کائنات کا فرزند (یعنی ما حصل) ہے، لہٰذا حضرت آدم صفیؑ کی طرح تو اس

۱۸

عالم کا ایک لائق فرزند ثابت ہو جا۔

تشریح: آپ فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السّلام کی جیسی تخلیق ہوئی تھی اور جس طرح ان کی تعظیم و تکریم کی گئی تھی، حقیقت میں تیری بھی وہی سب کچھ ہے، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے:

وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ (۰۷: ۱۱)

اور یقیناً ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری صورت بنا دی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ پس تو بھی اپنی فطری صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے علم و فضل اور برگزیدگی میں حضرت آدمؑ کی طرح اس عالم کا ایک لائق و قابل فرزند ثابت ہو جا۔

بفضل و دانش و فرہنگ و گفتار

تُوئی در ہر دو عالم گشتہ مختار

ترجمہ: علمیت و فضیلت اور شعور و گفتگو کے سبب سے، تو دونوں جہان پر برگزیدہ ہے۔

تشریح: اس قول میں حق تعالیٰ کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے :

وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ . . . . .  تَفْضِیْلًا۠ (۱۷: ۷۰)

اور بے شک ہم نے اولادِ آدم کو بزرگی بخشی ہے اور ہم نے انہیں خشکی اور تری میں اٹھایا اور پاکیزہ چیزوں سے انہیں رزق دیا اور جن

۱۹

جن کو ہم نے پیدا کیا ان میں سے بہتوں پر ہم نے انہیں بڑی فضیلت بخشی۔

جہالت ظُلمتِ جان و جہان است

برِ اہل دل این معنی عیاں است

ترجمہ: جہالت و نادانی جان اور جہاں دونوں کے لیے تاریکی ہے، بزرگوں کے نزدیک یہ حقیقت واضح ہے۔

تشریح: بزرگوں پر یہ حقیقت روشن ہے کہ روحانی اور جسمانی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ جہالت و نادانی کی تاریکی ہے، پس اگر انسان اپنے لیے علم و عرفان کا چراغ روشن نہ کرے، تو وہ ہرگز شاہراہ ترقی پر گامزن نہ ہو سکے گا۔

کنون آرایمت بر گلستانی

کہ در ہر یک نظر یابی تُو جانی

ترجمہ: اب میں تجھے ایک ایسا گلشن آباد و آراستہ کردوں گا کہ اس ( کے نظاروں) کے مشاہدے سے ہر بار تجھے ایک نئی روح ملتی رہے گی۔

تشریح: حکیم صاحب کو اس کتاب کی تیاری کے بارے میں اِس بات کا پورا پورا یقین ہے کہ یہ کتاب ایک ایسے خوش منظر اور سدا بہار گلشن کی طرح ہو گی کہ جس کے دلکش اور ہوشر با حسین

۲۰

پھولوں کے نزدیک آنے اور مشاہدہ کرنے والوں کو ہر بار ایک تازہ روح ملتی رہے۔

نصیحت نامۂ ہمچون بہاری

گُلِ دل کاندر آ نجا نیست خاری

ترجمہ: (اس سے مراد) ایک نصیحت نامہ ہے جو ایک ایسے خوشگوار موسم بہار کی طرح ہے کہ جس میں دل کے پھول ہیں اور کانٹے نہیں پائے جاتے۔

تشریح: پیر صاحب اپنی پُرحکمت نصیحتوں کو ایک ایسے مسرت بخش موسمِ بہار سے تشبیہہ دیتے ہیں کہ جس کے آنے سے باغ و گلشن کچھ اس طرح سے سر سبز و آباد ہوا ہو کہ اس میں رنگ برنگ کے مہکتے ہوئے پھول کھلے ہیں اور طرح طرح کے پھل پک کر تیار ہیں، اور اس میں کہیں بھی کسی کانٹے کا نام و نشان نہیں ملتا چنانچہ علم و حکمت سے بھری ہوئی نصیحتیں مومنین کے حق میں روحانی بہار کی حیثیت رکھتی ہیں، جن پر عمل کرنے سے وہ دین و دنیا کی شادمانی اور کامرانی سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

ز بہرِ آن جہان این تو شہ بردار

کہ رہ بی زاد باشد سخت دُشوار

۲۱

ترجمہ: اُس عالم (کی طرف سفر) کے لیے تو یہی زادِ راہ لے لیا کر، کیونکہ راستہ زادِ راہ کے بغیر بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔

تشریح: یعنی انہی نصیحتوں پر عمل کر کے تقویٰ اور پرہیزگاری کو اپنا شعار بنا لے، اور یہی پرہیزگاری تجھے منزلِ مقصود کی طرف سفر کرنے میں زادِ راہ کا کام دے گی، کیونکہ سفر زادِ راہ کے بغیرانتہائی مشکل ہوتا ہے۔

 

بدین وہ روزۂ دُنیا چہ نازی

چو طفلان نیستی تا چند بازی؟

ترجمہ: تو دنیا کی اس چند روزہ زندگی پر کیا فخر و ناز کرتا ہے تو بچوں کی طرح (طفل) تو نہیں آخر کب تک کھیلتا رہے گا۔

تشریح: ناصر خسرو فرماتے ہیں کہ آخرت کی ابدی حیات و بقا کے مقابلے میں دنیاوی زندگی ایک انتہائی قلیل مدّت اور عالمِ روحانیّت کی حقیقتوں کے سامنے دنیا کے مشاغل بازیچۂ اطفال کی طرح ہیں، پس تجھے ایسی چند روزہ زندگی پر نازاں نہ ہونا چاہئے:

اور نہ ہی آخرت کو بھول کر ہر وقت دنیاوی مشاغل میں لگے رہنا چاہئے۔

بسی مہتر ز تو دید این زمانہ

بسی کہتر ز تو کرد اُو روانہ

۲۲

ترجمہ: اس زمانہ (یعنی دنیا) نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے، جو (مادّی طور پر) تجھ سے بھی بڑھ کر تھے، آخر کار اس نے ان کو تجھ سے بھی زیادہ حقیر کر کے یہاں سے اُٹھا لیا۔

تشریح: مطلب یہ ہے کہ دنیا پرست خواہ کتنا معمولی آدمی کیوں نہ ہو، خود کو بڑا ہوشیار اور برتر سمجھتا ہے، اور وہ اکثر اس خام خیالی کی وجہ سے خدا اور آخرت کو بھول جاتا ہے، حال آنکہ ہوشیاری اور برتری اسے موت سے نہیں بچا سکتی، کیونکہ زمانہ نے ان سب کو حقیر کر کے اٹھا لیا، جو دنیاوی طور پر اس سے بڑھ کر تھے۔

نہ صاحب گنج را بگذاشت درکار

نہ با مفلس بماند این رنج و تیمار

ترجمہ: زمانہ نے نہ تو خزانہ والے کو اپنے کام میں مصروف رہنے دیا، نہ مفلس اور نادار کے ساتھ ہمیشہ کے لیے یہ تکلیف اور غمخواری رہی۔

تشریح: یعنی موت سے نہ امیر جانبر ہو سکتا ہے نہ غریب بچ سکتا ہے، اس کے آنے اور واقع ہونے سے جس طرح امیر کی راحت کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں، اسی طرح غریب کی

۲۳

تکلیفات بھی یکسر مٹ کر ختم ہو جاتی ہیں۔

کسی دیگر خورد گنج او بر د رنج

بمعیارِ خرد این قول بر سنج

ترجمہ: وہ (مالک) رنج و مشقّت اٹھاتا ہے، اور خزانے سے فائدہ کوئی دوسرا شخص حاصل کر لیتا ہے، عقل و دانش کی کسوٹی پر اس قول کو پرکھ کر دیکھ لینا۔

تشریح: دنیوی دولت کی ناپائداری اور اس کے طلب گاروں کی بے بسی کا یہ حال ہے کہ کمایا کسی اور نے اور کھایا کسی اور نے، اگر تجھے اس حقیقت پر باور نہ ہو تو عقل و دانش کی کسوٹی پر میرے اس قول کو پرکھ کر بھی دیکھ لے۔

شُد آن گنج و بماند آن رنج در جان

مگر رحمت کند بر جانت یزدان

ترجمہ: (اسی طرح) وہ خزانہ تو چلا گیا اور اس کی تکلیف جان میں باقی رہی، مگر خدا تیری جان پر رحمت کرے (تو یہ اور بات ہے)

تشریح: فرماتے ہیں کہ وہ متمّول شخص جس کی نظر فقط دنیا پر ہو جب دولت چھوڑ جاتا ہے تو یہ دولت اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور اس کی حسرت و تکلیف اس کی روح میں باقی رہتی ہے مگر یہ دوسری بات ہے کہ خدا کسی وسیلے سے اس پر رحم فرمائے۔

۲۴

گراین جا بخش کرد آن جاش سود است

گر این جا کِشت کرد آن جادر و داست

ترجمہ: اگر انسان نے اس دنیا میں کوئی سخاوت اور مہربانی کر دی، تو اس عالم میں اس کو فائدہ ہے، اگر یہاں اس نے کچھ بو دیا تو وہاں اسے فصل کاٹ لینا ہے۔

تشریح: یعنی قرآن و حدیث میں حصولِ آخرت کے لیے دنیا استعمال کرنے کی بہت سی مثالیں بیان کی گئی ہیں، ان میں سے ایک مثال تجارت کی ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا فروخت کر کے اس کے عوض میں آخرت خریدی جائے، یعنی دنیا دے کر آخرت حاصل کر لی جائے، دوسری مثال زراعت کی ہے، کہ یہاں قولاً و عملاً نیکیوں کی کاشت کر کے وہاں اس کی فصل لے لی جائے۔

اگر کاری کنی مُز دی ستانی

چوبی کاری یقین بی مُزد مانی

ترجمہ: اگر تو کچھ کام کرے، تو تجھے اس کا کوئی صلہ ملے گا، جب تو کام کے بغیر ہے تو یقیناً تو بے صلہ رہے گا۔

تشریح: حجّتِ خراسان فرماتے ہیں کہ جس طرح دنیا میں اجر و صلہ اسی شخص کو دیا جاتا ہے، جو کسی کام کو انجام دیتا ہے اور جو شخص کچھ بھی نہیں کرتا تو اس کو کچھ بھی نہیں دیا جاتا ہے۔

 

۲۵

بالکل اسی طرح اگر تو دین میں کچھ کام کرے، تو تجھے اس کا اجر و صلہ دے دیا جائے گا، اگر کچھ بھی نہیں کیا، تو تُو معاوضہ اور بدلہ سے محروم رہے گا۔

ز خوابِ غفلت آخر سر بر آور

بحال و کارِ خود در نیک بنگر

ترجمہ: خوابِ غفلت سے آخر ذرا سر اٹھا لے، اپنے حال اور کام کو اچھی طرح سے دیکھ لے۔

تشریح: غفلت کو نیند سے تشبیہہ اس لیے دی جاتی ہے کہ غافل آدمی اور سو کر نیند میں محو ہوا انسان دونوں ایک جیسے ہیں، کیونکہ سویا ہوا آدمی دنیا سے اور غافل دین سے بے خبر ہیں، پس ارشاد ہوتا ہے کہ خوابِ غفلت سے آخر ذرا سر اٹھا کر اپنی اس حالت خوابیدگی کو اور اپنے دین کے ادھورے کاموں کو اچھی طرح سے دیکھ لے، تاکہ تجھے پیشمانی اور افسوس ہو، اور تو اس خوابِ غفلت سے ہمیشہ کے لیے چونک جائے۔

کہ بنیانِ تو بر آب است و برباد

بر آب و باد کس بنیاد ننہاد

ترجمہ: کیونکہ تیری بنیاد پانی اور ہوا پر ہے، پانی اور ہوا پر کسی نے بھی بنیاد نہیں رکھی ہے۔

۲۶

تشریح: پیر صاحب کا ارشاد ہے کہ تو نے اپنی ان چند روزہ اور نا پائدار دنیاوی خواہشات کی جو عمارت بنائی ہے، اس کی بنیاد ایسی ہلنے والی اتنی کمزور اور اس قدر نا پائدار ہے جیسے پانی اور ہوا پر کسی بنیاد کے لیے کوشش کی گئی ہو، پس ظاہر ہے کہ تیری دنیاوی خواہشات کی یہ عمارت بہت ہی جلد گر جانے والی ہے کیونکہ پانی اور ہوا پر کوئی عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔

چو میدانی کزین جا رہگذاری

رہا  وردت ببین تا خود چہ داری

ترجمہ: جب تو جانتا ہے کہ اس جگہ (یعنی دنیا) سے تو نے سفر کرنا ہے تو اپنے تحفہ کے لیے ذرا دیکھ کہ تیرے پاس کیا ہے۔

تشریح: حضرت پیر کے اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک کامیاب اور بامراد مسافر جب کسی سفر سے واپس گھر جاتا ہے تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ تحفہ ضرور موجود ہوتا ہے جو اپنے عزیزوں کو پیش کرتا ہے چنانچہ پیر صاحب پوچھتے ہیں کہ جب تو دنیا کے اس سفر سے اپنے حقیقی وطن (آخرت) کی طرف واپس جا رہا ہے تو دیکھ لے کہ تیرے پاس کوئی تحفہ بھی ہے کہ نہیں تاکہ تو وہ تحفہ

۲۷

اپنے معشوقِ حقیقی یعنی خداوند عالم کے حضور میں پیش کر سکے۔

فصل فی النّصیحۃ

دمی از حق مشو غافل درین راہ

چو میدانی کہ آید مرگ ناگاہ

ترجمہ: (اے مخاطب! دین کی) اِس راہ میں خدا کی یاد سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، جب تو یہ جانتا ہے کہ موت اچانک آتی ہے۔

تشریح: حضرت پیر ناصر خسرو ارشاد فرماتے ہیں کہ موت کسی کو قبل از وقت یہ اطلاع تو نہیں دیتی کہ میں فلاں وقت تجھ سے دوچار ہونے والی ہوں، لہٰذا مقررّہ مدّت کے اختتام تک تو اپنے لیے عالم آخرت کی خوب تیاری کر لے بلکہ وہ اس کے برعکس اچانک آ پہنچتی ہے اور جب تو یہ سب کچھ جان چکا ہے تو دین کے راستے میں ہر دم اور ہر لمحہ خدا کو یاد کرتا رہ تاکہ خدا کی معجزانہ یاد تجھ کو برائیوں سے بچا کر بھلائیوں کی ہمّت و توفیق بخشے گی اور موت کے یکایک آنے اور عالمِ آخرت کی تیاری نہ ہونے کا تجھے ہرگز کوئی اندیشہ نہ رہے گا۔

۲۸

از و خواہ استعانت در ہمہ کار

کہ چون اوکس نبا شد مر ترا یاد

ترجمہ: اسی سے تمام کاموں میں مدد طلب کر لیا کر، کیونکہ تجھ کو کوئی بھی شخص اس جیسا تمہارا مددگار نہیں۔

تشریح: اِس قول کی وضاحت اس طرح سے ہے کہ حق تبارک و تعالیٰ کی امداد و یاری (تائید) ہدایت کے ذرائع اور بندگی کے مراحل میں درجہ بدرجہ موجود ہے یعنی اخلاقی و روحانی ترقی کے راستے میں آگے سے آگے بڑے پیمانے پر اور معجزانہ طور پر خدا کی مدد اور تائید ملتی رہتی ہے جو فرمانبرداری، محبت، ذوق، توفیق، ہمّت، القاء، الہام، وحی وغیرہ کی صورتوں میں پائی جاتی ہے۔

توکّلُ در ہمہ کاری بر و کُن

ز غیرِ او بگرد ان رو در و کُن

ترجمہ: اسی پر ہر کام میں توکّلُ یعنی بھروسا اور اعتماد کر اس کے سِوا سے منہ موڑ لے اور صرف اسی کی طرف منہ کیے رہ۔

تشریح: اس شعر کی خاص باتیں دو ہیں، توکّل اور توجّہ، توکُّل کے ویسے تو بہت سے مقامات اور درجات ہیں، مگر یہ سب دو حصّوں میں ہیں، کیونکہ دین اور دنیا کے معاملات میں

۲۹

بندہ کچھ امور اختیار بھی رکھتا ہے اور کچھ امور کے اختیار سے بالاتر بھی ہیں اگر وہ ان امور کو جو اس کے دائرۂ اختیار میں ہیں خدا، رسولؐ اور صاحبِ امرؑ کی ہدایت کے مطابق انجام دیتا ہے، تو یہ ابتدائی درجات کا توکُّل ہے، جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے :

“بر توکّل زانوی اشتر ببند” یعنی اونٹ کی حفاظت کے بارے میں خدا پر توکُّل بس یہی ہے کہ اس کے گننھ باندھ لے تاکہ کہیں نہ چلا جائے اور جو امور بندہ کے دائرۂ اختیار سے باہر ہیں اگر وہ ان کے متعلق خدا پر بھروسا رکھتا ہے جیسا کہ بھروسا رکھنا چاہئے، تو یہ آخری درجات کا توکُّل ہے۔

توجّہ کی حقیقت یہ ہے کہ بالواسطہ اور بلاواسطہ خدا کی طرف منہ کیا جائے، بالواسطہ خدا کی طرف منہ کرنا یہ ہے کہ ہر وقت خدا کے فرامین کو پیشِ نظر رکھا جائے اور کسی وقت بھی ان سے تجاوز نہ کیا جائے اور بلاواسطہ خدا کی طرف منہ کیے رہنا یہ ہے کہ ذکرِ الٰہی کی کثرت کے نتیجے پر مومن کے دل و دماغ کی کیفیت روحانی طور پر اتنی گرم اور ایسی روشن ہو کر رہے جس

۳۰

طرح لوہا زبردست انگاروں کے درمیان نہ تو منہ پھیر سکتا ہے نہ ہی اس کو بھلا سکتا ہے۔

ثباتِ دولت و دین راستی دان

ز کذب این ہر دوراکم کاستی دان

ترجمہ: سچائی ہی کو اقبال مندی اور دین کی پائداری و بقاء کا ذریعہ سمجھ لے (اس کے برعکس) جھوٹ کو ان دونوں کے نقصان اور زوال کا سبب قرار دے۔

تشریح: یعنی اگر کسی آدمی کی دولت، عزّت اور دین و ایمان حقانیّت و صداقت پر مبنی ہے، اور حق و راست بازی کی مدد سے ہے، تو وہ ہمیشہ کے لیے برقرار اور قائم رہ سکتا ہے، اس کے برعکس اس میں اگر جھوٹے اور باطل ذرائع سے کام لیا گیا تو اس میں نقصان اور زوال آتا ہے، کیونکہ قرآن کا قول ہے کہ حق تو قائم رہتا ہے اور باطل چلا جاتا ہے (۸۱: ۱۷)

چو عہدی باکسی کر دی بجا آر

کہ ایمان است عہد از خویش مگزار

ترجمہ: جب تو نے کسی سے کوئی وعدہ کر لیا، تو اس کو بجا لایا کر، کیونکہ وعدہ (پر عمل کرنا) ایمان میں سے ہے (اس لیے اس کو) اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے۔

۳۱

تشریح: اس شعر کے معنی و مطلب کے مطابق قرآن حکیم کا یہ ارشاد ہے :

وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۱۷: ۳۴)

اور عہد کو پورا کرو۔ بے شک عہد کے متعلق سوال کیا جائے گا، یعنی قیامت کے دن ہر شخص سے ان وعدوں اور عہدوں کے بارے میں پوچھا جائے گا، جو اس نے خالق سے اور مخلوق سے کیے تھے، لہٰذا اِس اہم فرض کی ادائیگی اور جوابدہی ہر انسان پر عائد ہوتی ہے۔

خرد بہتر بُوَد از زر کہ داری

کہ در زر کس نہ بیند ہوشیاری

ترجمہ: علم و دانش بہتر ہے اس سونے (یعنی دولت) سے جو تو رکھتا ہے، کیونکہ زرّ یعنی دولت میں کوئی شخص ہوشیاری نہیں دیکھ پاتا ہے۔

تشریح: اس قوّل میں علم و دانش کو مال و دولت پر ترجیح دی گئی ہے، اور اس کی یہ توجیہہ کی گئی ہے کہ مادّی دولت ایک بے جان اور مردار جیسی چیز ہے، یہ اپنے مالک کو ظاہری و باطنی خطرات و آفات سے بچانے کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتی، کیونکہ اس کی

۳۲

ذات میں عقل و ہوشیاری نہیں پائی جاتی، اس کے برعکس علم و دانش بذاتِ خود ایک پاک روح ہے، اور وہی خدا کا نور ہے، اور دین و دنیا کی ساری بہتری اور کامیابی اسی کے تحت ہے۔

اگر صبرت بدل در یار گردد

ظفر آخر ترا دلدار گر دد

ترجمہ: اگر صبر تیرے دل ہی کے اندر ساتھی بن جائے، تو آخر کار فتحمندی بھی تیری دوست بنے گی۔

تشریح: حقیقت میں صبر کے معنی ہیں خدا کی راہ میں مصائب و آلام کو برداشت کرنا، اور اس کے موقعے دو ہیں، ایک موقع وہ ہے جس میں خدا تعالیٰ اپنے کسی بندے کو کسی مصیبت کے ذریعہ آزما لیتا ہے، دوسرا موقع وہ ہے جس میں خود بندہ خدا کی خوشنودی کی خاطر کسی اعلیٰ و افضل عبادت اور خدمت کو اختیار کرتا ہے، اور اس کی لازمی محنتوں اور تکلیفوں کو برداشت کرتا جاتا ہے، چنانچہ کلامِ مجید میں جگہ جگہ صبر کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، منجملہ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ تم صبر اور عبادت سے خدا کی مدد طلب کر لیا کرو، پس اس کا مطلب یہ ہوا کہ صبر و عبادت کا پھل خدا کی مدد کی صورت میں ملتا ہے، اور اسی خدا کی مدد کو فتح و ظفر کہنا

 

۳۳

چاہئے۔

بہر سختی مکن فریاد بسیار

بنوش آن و مدہ دل را بتیمار

ترجمہ: ہر سختی میں زیادہ فریاد نہ کیا کر (بلکہ) اس کو برداشت کرتا رہ، اور دل کو کسی غمخواری کی طرف متوجہ نہ کیا کر۔

تشریح: انسانیّت کے اعلیٰ ترین اوصاف عالی ہمتی، اولوالعزمی، صبر، شکر وغیرہ ہیں اور خدا کی حکمت و مصلحت کے بموجب ان اوصافِ حمیدہ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کی جسمانی زندگی کا اکثر حصّہ تکلیفات اور مصیبتوں میں گزرنا چاہئے، اسی لیے پیر صاحب فرماتے ہیں کہ سختی کے وقت فریاد نہ کی جائے اور نہ کسی غیر کی ہمدردی و غمخواری کی امید بندھی جائے۔

برا در آن بُوَد کہ روز سختی

ترا یاری کند در تنگ بختی

ترجمہ: بھائی وہ ہے جو سختی کے دن اور مصیبت کے موقع پر تیری مدد کرے۔

تشریح: یعنی سختی اور مصیبت نہ صرف اس امر کے لیے ذریعۂ آزمائش ہے کہ اس میں بندگانِ خدا دین اور ایمان کے سلسلے میں آزما لیے جاتے ہیں بلکہ یہ اُخوت و برادری اور قرابت و

۳۴

رشتہ داری کے سچے اور جھوٹے دعویداروں کے درمیان فرق و امتیاز کرنے کا وسیلہ بھی ہے۔

نکوئی گر کنی منّت منہ زان

کہ باطل شُد ز منّت جود و احسان

ترجمہ: اگر تو کوئی نیکی کرے تو اس سے احسان نہ جتایا کر، کیونکہ احسان جتانے سے مہربانی اور نیکی باطل ہو جاتی ہے۔

تشریح: احسان جتانے سے کس طرح نیکی باطل ہو جاتی ہے، اس کی حقیقت خدا و رسول کے ارشادات کی روشنی میں معلوم کی جا سکتی ہے، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :

اے ایمان والو! تم اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر باطل نہ کیا کرو (۰۲: ۲۶۴) اور رسول اللہ نے فرمایا کہ: ہر نیکی صدقہ ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نیکی صدقہ کا حکم رکھتی ہے، احسان جتلانے سے باطل ہو جاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح کسی محتاج و مستحق انسان کو نیکی کر کے خوش کرنے سے خدا خوش ہوتا ہے اور اس اچھے عمل کی وجہ سے ثواب ملتا ہے، اسی طرح اس کو احسان جتلا کر اور حقیر سمجھ کر ناراض کرنے سے خدا ناراض ہوتا ہے اس برے عمل کے سبب سے گناہ ہوتا ہے، اور ایسے گناہ کی سزا

۳۵

یہ ہے کہ ایسے صدقے کو باطل قرار دیا جائے۔

بوقتِ صبحدم می باش بیدار

مگر در صبحدم بکشا یدت کار

ترجمہ: علی الصّباح یعنی بہت سویرے جاگ اٹھا کر، تاکہ صبح سویرے تیرا مشکل کام آسان ہو۔

تشریح: حضرت پیر کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ صبح سویرے اٹھ کر حق تعالیٰ کی عبادت و بندگی کا فریضہ ادا کیا جائے تاکہ جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو، اور دین و دنیا کے ہر مشکل کام کو آسانی سے کیا جا سکے، کیونکہ شب بیداری اور سحر خیزی میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے وہ اس طرح سے ہے کہ ایک عام انسان شروع شروع میں طبعاً صرف اپنے نفسِ امّارہ ہی کی غلامی میں ہمہ تن مصروف اور اسی کا عاشق رہتا ہے اور بس اسی کی خواہشات و فرمائشیات کی انجام دہی میں لذّت اور خوشی محسوس کرتا رہتا ہے، نتیجتاً اس کے دل و دماغ کی ساری قوّتیں اور صلاحیتیں نفسانی لذّتوں کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے اس کے باطن میں حقیقی محبت و عشق کے لیے ذرا بھی خالی جگہ نہیں پائی جاتی، پس اللہ تعالیٰ نے اپنی لا انتہا رحمت سے بندوں کو کچھ ایسے اصلاحی

۳۶

اعمال کی ہدایت فرمائی کہ جن کی تکمیل و انجام دہی کے سلسلے میں مومنین عزم و ارادہ کی قوّت سے نفس کی فرمائشیات اور محبت کو ٹھکراتے جائیں، یہاں تک کہ وہ خاص خاص موقعوں پر نفس کو نظر انداز کر دینے اور طاقِ نسیاں پر رکھنے کے عادی ہو جائیں تاکہ جس سے رفتہ رفتہ حقیقی محبت و عشق خود بخود مومنین کے دل میں جا گزین ہو آئے، جیسا کہ حق جلّ و علا کا فرمان ہے کہ تم ہر گز نیکی کو نہیں پہنچو گے جب تک کہ تم اس چیز سے (راہِ خدا میں) خرچ نہ کرو گے جس سے تم پیار کرتے ہو۔

انسان جن جن مادّی چیزوں سے پیار و محبت کرتا ہے، اور لطف و لذّت اُٹھاتا ہے، ان میں آرام اور نیند بھی شامل ہے، پس اگر وہ شب بیداری اور سحر خیزی کے اصول سے اپنے آرام اور میٹھی نیند کو خدا کی راہ میں قربان اور صرف کرے تو وہ لازماً بہت بڑی نیکی کو پہنچے گا، اور اس کی تمام مشکلات حل ہو جائیں گی، کیونکہ وہ نیند کی محبت و لذّت کو اپنے دل سے جس قدر نکال دیتا ہو، تو اس قدر حقیقی محبت و مسّرت اس کے دل میں داخل ہوتی ہے جس کی مثال ایک ایسے گلاس سے دی جا سکتی ہے، جو پانی سے بھرا ہوا ہو، اور ایک

۳۷

شخص اس گلاس کے پانی کو قطرہ قطرہ کر کے گراتا رہتا ہے، تو ظاہر ہے کہ جتنی جگہ سے پانی خارج ہوا، تو اتنی جگہ میں ہوا داخل ہو گی، اور یہ دونوں کام کسی تقدیم و تاخیر کے بغیر ایک ساتھ ہی مکمل ہوں گے، اس لیے کہ مکان اور متمکن کے لیے اٹل قانون ہے کہ جس وقت کوئی چیز ایک جگہ سے ہٹنے لگتی ہے تو اسی وقت دوسری چیز اس جگہ کی طرف بڑھنے لگتی ہے اور جن لمحوں میں یہ وہاں پہنچتی ہے تو انہی لمحوں میں وہ بھی یہاں پہنچتی ہے۔

بلایِ آدمی باشد ز بانش

کہ دروَی بستہ شدُ سُود و زیانش

ترجمہ: آدمی کے لیے بلا خود اس کی زبان ہی ہے، کیونکہ اس کا نفع و نقصان بس اسی سے وابستہ ہے۔

تشریح: حضرت پیر کے ارشاد کے مطابق اِس بلا سے وہ ظاہری تکلیف مراد ہے، جو لوگوں کی طرف سے رنجش، اذیّت وغیرہ کی صورتوں میں پہنچتی ہے، جس کی وجہ دراصل آدمی کی اپنی زبان ہی ہوتی ہے، کیونکہ زبان ہی وہ ذریعہ ہے جس سے فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا اور نقصان بھی، یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے اس نقصان کے سدِّ باب کرنے کی ہدایت فرما دی :

۳۸

وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (۰۲: ۸۳)

اور سب لوگوں سے اچھی گفتگو کرو۔

خموشی مایۂ مردانِ راہ است

کہ در گفتن بسی شرّو گناہ است

ترجمہ: خاموشی اختیار کرنا راہِ حقیقت کے ہمت والوں کا سرمایہ ہے کیونکہ بولنے میں بہت سی برائی اور بہت سا گناہ شامل ہے۔

تشریح: انسان کو اپنی زبان کی برائیوں، گناہوں اور بلاؤں سے محفوظ رہنے کیلئے بظاہر دو ہی راستے بتائے گئے ہیں کہ وہ یا تو سب لوگوں سے اچھی گفتگو کرے یا خاموش ہی رہے، مگر یہ دونوں راستے بھی اشکال اور سختی سے خالی نہیں کیونکہ اچھی گفتگو کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں اور صحیح معنوں میں خاموش رہنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے، اس لیے کہ اگر انسان بمشکل زبان سے چپ ہو بھی رہا تو اس کے دل میں خود بخود باتیں شروع ہو جاتی ہیں جن پر وہ ہرگز قابو نہیں پا سکتا، پس ان تمام مشکلات سے منزلِ مقصود کی طرف گزر جانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ بندۂ مومن اپنے دل و زبان کو دائم الوقت خدا کی معجزانہ یاد سے وابستہ رکھے جیسا کہ خود حضرت پیر کا ارشاد

۳۹

گرامی ہے :

از و خواہ استعانت در ہمہ کار

کہ چون اوکس نبا شد مر ترا یار

ترجمہ: ہر کام میں اسی (خداوند) کی مدد طلب کر، کیونکہ تیرے لیے اس جیسا مدد گار ہے ہی نہیں۔

وگر گُوئی نکو گو ای برادر

کہ نیکو گوی با نفع است بے ضرر

ترجمہ: اور اگر تو کچھ بولنا چاہتا ہے، تو اے بھائی! اچھی گفتگو کرنا کیونکہ اچھی بات کہنے والا نقصان کے بغیر فائدے میں ہے۔

تشریح: حضرت پیر ناصر خسرو فرماتے ہیں کہ اگر تو خاموشی و سکون کو توڑ کر بولنا چاہتا ہے تو تجھے تمام زبانی گناہوں سے بچتے ہوئے اچھی گفتگو کرنی چاہئے کیونکہ اچھی گفتگو کرنے میں فائدہ ہی فائدہ ہے اور اس میں ذرا بھی نقصان نہیں۔

نکوئی جامۂ تُست آن ہمی پوش

ہمیشہ در نکو نامی ہمی کوش

ترجمہ: نیکی گویا تیرا لباس ہے سو اسے پہن لیا کر ہمیشہ نیکنامی کے لیے کوشش کیا کر۔

تشریح: یہاں پیر صاحب نیکی اور نیکنامی کے لیے تاکید فرماتے ہیں اور اس کی مثال ظاہری لباس سے دیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے

۴۰

کہ جس طرح لباس انسان کے جسم کو ڈھانپ کر اس کو زیب و زینت بخشتا ہے، اسی طرح نیکی اس کی عقلی خامیوں اور اخلاقی کمزوریوں پر پردہ ڈال کر اس کو نیکنام بنا دیتی ہے۔

تواضع مر ترا دارو گرامی

زکر آید بدی در نیکنامی

ترجمہ: تواضع تجھ کو غیرت مند کر دیتی ہے، اور تکبر سے نیکنامی میں برائی (یعنی نقص) پیدا ہوتی ہے۔

تشریح: اِس ارشادِ گرامی کا مطلب یہ ہے کہ تواضع یعنی عاجزی اور فروتنی ایک ایسی اخلاقی طاقت ہے، جو انسان کو معزّز بنا سکتی ہے، اور تکبّر ایک ایسا اخلاقی نقص ہے کہ اس سے انسان کی نیکنامی میں زوال آتا ہے۔ چنانچہ جب حضرت آدم علیہ السَّلام نے تواضع سے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تو حق تعالیٰ نے اسے برگزیدہ فرمایا، اور جب ابلیس نے تکبّر کیا تو اس کی عزت و نیکنامی میں زوال آیا۔

مودّت چون بخدمت استوار است

ازین بہتر ترا آخرچہ کار است

ترجمہ: جب دوستی خدمت ہی پر قائم ہوتی ہے تو تیرے لیے اس سے بہتر اور کونسا کام ہے۔

۴۱

تشریح: یعنی جب تجھے معلوم ہے کہ اخلاقی اور دینی قسم کی دوستی کا دارو مدار خدمت پر ہی ہے، تو تجھے خالق اور مخلوق کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا چاہئے، پس خدمت کے سلسلے میں تاخیر اور کوتاہی نہ کیا کر۔

بخوش رُوئی و خوش خوئی درایام

ہمی رَوتا شوی خوش دل سر انجام

ترجمہ: خندہ پیشانی اور اچھی عادت کے ذریعہ زمانے میں آگے بڑھا کر تاکہ اس کے انجام میں تو شادمان ہو جائے۔

تشریح: شگفتہ رو اور ہنس مکھ ہونا خوش اخلاقی کی اوّلین صفت ہے، اور اس کے بغیر ہر دلعزیزی اور کامیابی مشکل ہے اسی سے انسان زمانے میں دینی اور دنیاوی طور پر ترقی کر سکتا ہے اور آخر کار ہر طرح سے کامیاب ہو کر ہمیشہ کے لیے شادمان رہ سکتا ہے۔

اگر بد باکسی در خاطر آری

مکن زود آنکہ نبود ہوشیاری

ترجمہ: اگر تیرے دل میں کسی شخص کے متعلق برا جذبہ پیدا ہوتا ہے تو عجلت سے اس پر عمل نہ کیا کر، کیونکہ اس میں کوئی دانشمندی نہیں۔

۴۲

تشریح: حُجّت الحق فرماتے ہیں کہ انسانیّت اور دینداری کی شرط یہ ہے کہ اوّلاً دوسروں کے حق میں بدی اور برائی کا خیال اور جذبہ ہی دل میں نہ آنے دیا جائے، اگر ایسا کوئی خیال آ بھی رہا ہو، تو پھر اس کا سدِّ باب اس طرح سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کی پیروی اور عمل میں تاخیر کی جائے، کیونکہ ناجائز جذبہ اور غصّہ آگ کی طرح ہے، جو انسانی طبیعت کو جلانے لگتی ہے اور اس کے دھوئیں میں عقل کی روشنی یکسر گُم ہو جاتی ہے۔ پس ایسے میں انسان جو کچھ کرتا ہے وہ عقل کی روشنی کے بغیر ہوتا ہے۔

چو نیکوئی کنی زان عذر می خواہ

کہ نیکوئی دوکر دد باش آگاہ

ترجمہ: جب تو کوئی نیکی کرتا ہے تو اس میں (بطور ادب) معذرت خواہ ہو جا کیونکہ اس سے نیکی دگنی ہو جاتی ہے، آگاہ ہو!

تشریح: جیسا کہ اس سے پہلے پیر نے فرمایا کہ احسان جتلانے سے نیکی برباد و ضائع ہو جاتی ہے، اسی طرح یہاں فرماتے ہیں کہ نیکی کر کے ادب کے اصول پر اس کی کمی و کوتاہی کے بارے میں معذرت چاہنے سے یہ دگنی ہو جاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے، کہ نیکی کرنے والے کو برتری کا جو گھمنڈ ہوتا ہے، اس کا ازالہ وہ عذر خواہی سے کر سکتا ہے۔

۴۳

سخاوت پیشہ کن تُو از کم و بیش

کزان بیگا نگان گر دند چون خویش

ترجمہ: تو کچھ نہ کچھ سخاوت کی عادت اختیار کر لے، کیونکہ اس سے پرائے بھی اپنے ہو آتے ہیں۔

تشریح: آپ اس شعر میں سخاوت کی حکمت بیان فرماتے ہیں کہ تجھ میں کم و بیش سخاوت کی بھی عادت ہونی چاہئے کیونکہ یہ عادت اس قدر مؤثر اور ایسی نتیجہ خیز ہے کہ اس سے قرابت داروں کو جو خوشی ہوتی ہے، اس کا کیا کہنا ہے اس سے تو پرائے لوگ بھی اپنوں کی طرح خیر خواہ ہو جاتے ہیں۔

جمالِ مردمی در حِلم باشد

کمالِ آدمی در عِلم باشد

ترجمہ: انسانیّت کا حسن و جمال برداشت اور بردباری میں ہے اور انسانیّت کا فضل و کمال علم و دانش میں ہے۔

تشریح: اس شعر کے مرادی معنی یہ ہیں کہ قانونِ قدرت نے مخلوقات میں سے ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی خوبی اور کمالیّت مقرر کر دی ہے، چنانچہ انسانیت و آدمیت کی خوبی حلیمی اور بردباری میں ہے، اور اس کی کمالیّت علم و دانش میں ہے، پس آدمی کو چاہئے کہ حلم اور علم کے اوصاف سے متصف ہو جائے، تاکہ وہ

۴۴

حقیقت میں جمال و کمال کے درجے پر فائز ہو سکے۔

ثباتِ تن بما کو لات بینی

ثباتِ جان بمعلومات بینی

ترجمہ: تو دیکھتا ہے کہ جسم کا قیام و قرار کھانے پینے کی چیزوں پر ہے۔ (اسی طرح آئندہ) تو دیکھے گا کہ روح کا قیام و قرار معلومات پر ہے۔

تشریح: اِس شعر میں لفظ “بینی” جو فعلِ مضارع ہے، اپنے حال اور مستقبل کے دونوں معنوں کو ظاہر کرتا ہے، جس کی مناسبت و موزونیّت یہی ہے کہ پیر صاحب جسم کی مثال پر روح کی حقیقت سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تجھ سے یہ حال پوشیدہ نہیں کہ جسم کا انحصار کھانے پینے کی چیزوں پر ہے، اسی طرح آگے چل کر تجھے یہ بھی معلوم ہو گا کہ روح کا دار و مدار علم و معرفت پر ہے۔

اگر بر جہل یک ساعت کنی کار

بعلم جہل جاویدی تو بیدار

ترجمہ: اگر تو ذرا سے وقت کے لیے جہالت کا کوئی کام کرتا ہے تو (آگاہ ہو! کہ اس وقت) تو اپنی دائمی جہالت کو سمجھنے کے لیے جاگ اٹھتا ہے۔

تشریح: یعنی جاہل اپنی دائمی جہالت سے بے خبر اور خوابِ غفلت میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے، جب وہ جہالت کا کوئی کام کر ڈالتا ہے، تو اس

۴۵

وقت اس کو جاگنے اور اپنی جہالت کو سمجھنے کا موقع میسر ہوتا ہے ورنہ وہ دوسرے اوقات میں اپنی جہالت کو کہاں سمجھ سکتا ہے۔

غنیمت ہمنشینی با خرد دان

کہ اہل عقل را بگزید یزدان

ترجمہ: دانش مند کی صحبت میں رہنا غنیمت سمجھ لے، کیونکہ حق تعالیٰ نے اہلِ دانش کو برگزیدہ کیا ہے۔

تشریح: اہل دانش سے انبیاء، اولیاء اور حکمائے دین مراد ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہی کو برگزیدہ فرمایا ہے، اور انہی کی ہمنشینی فرض کی گئی ہے۔ تاکہ علم و عمل کے فیوض و برکات حاصل ہوں۔

سخن کم گو و نیکو گوی در کار

کہ از بسیار گفتن مرد شُد خوار

ترجمہ: کام کی بات مختصر اور بہتر کر لیا کر کیونکہ زیادہ باتیں کرنے سے آدمی خوار ہو جاتا ہے۔

تشریح: ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر بات کرنے کی ضرورت ہے تو بے شک تو کر سکتا ہے، مگر مختصر اور مفید ہونی چاہئے، کیونکہ زیادہ اور بے فائدہ باتیں کرنے کا نتیجہ خواری اور ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں۔

ترا پیرا یہ  از دانش پدید است

کہ بابِ خُلد را دانش کلید است

ترجمہ: ظاہر ہے کہ تیرا زیور علم و دانش سے ہوتا ہے کیونکہ

۴۶

علم و دانش ہی بہشت کے دروازہ کے لیے کلید ہے۔

تشریح: قول ہٰذا کا مطلب یہ ہے کہ اگر تو اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے علم و دانش کے زیور موجود ہیں، کیونکہ علم و دانش ہی حسن و جمال اور آرائش و زیبائش کے مقام یعنی جنّت کی کلید ہے۔

ز شرم ار با فرشتہ ہم نشینی

زبی شرمی تو با دیوان قرینی

ترجمہ: اگر ( یہ بات صحیح ہے کہ) تو شرم و حیا کی حالت میں فرشتہ کا ہمنشین ہے تو (یہ بھی صحیح ہے کہ) بے شرمی و بے حیائی کی حالت میں تو جنّات کا ساتھی ہے۔

تشریح: اس سے حضرت پیر کی مراد یہ ہے کہ بشریت کا دائرۂ اختیار و امکان اس قدر وسیع ہے کہ اس میں تمام موجودات و مخلوقات کے خواص و افعال سموئے ہوئے ہیں، پس انسان موجودہ شکل و صورت میں ہوتے ہوئے بھی جو کچھ بننا چاہے بن سکتا ہے کیونکہ انسان کی عادت جس مخلوق سے ملتی جلتی ہو اس کو حقیقت میں وہی مخلوق قرار دیا جاتا ہے۔

ترا گر دوستی با ید سزا وار

خرد را یار خودکن در ہمہ کار

۴۷

ترجمہ: اگر تجھے ایک لائق اور بہتر دوست چاہئے تو تمام امور میں عقل و علم ہی کو اپنا یار و مددگار بنا لے۔

تشریح: یعنی تیرے دل و دماغ میں جتنی صلاحیتیں اور جس قدر قوّتیں ہیں اور تیرے نفس کے اندر جتنے جذبات و خواہشات ہیں ان سب میں سے عقل و علم کو اپنا بہترین دوست قرار دے اور اسی کے فیصلے کے مطابق ہر کام کو انجام دیا کر۔

بہینِ دوستان را آن کسی دان

کہ او راہت نماید سُوی احسان

ترجمہ: دوستوں میں سب سے بہتر اسی شخص کو قرار دے جو تجھے صرف نیکی ہی کا راستہ بتا دیتا ہو۔

تشریح: یعنی تیرے دوستوں میں سب سے سچا دوست وہ ہے جو تجھے نیکی کی طرف رہنمائی کرے۔ اس کے برعکس جو دوست تجھے بدی اور برائی کا راستہ بتاتا ہے وہ تجھے ہلاکت اور بربادی کی طرف لے جانا چاہتا ہے، لہٰذا وہ حقیقت میں دوست نہیں بلکہ تیرے جسم و جان کا دشمن ہے۔

ز دشمن بدتر آن کس راہمی بین

کہ در بدمر ترا کردست تحسین

ترجمہ: (دوستوں میں سے) اس شخص کو دشمن سے بھی بدتر

۴۸

قرار دے جس نے تجھے برے کام میں شاباش دی ہے۔

تشریح: یعنی اگر تیرے دوستوں میں کوئی ایسا دوست بھی ہو کہ جب تو کوئی بری بات کہتا ہے یا کوئی برا کام کرتا ہے تو وہ تجھے اس سے منع نہیں کرتا بلکہ تجھے تحسین و آفرین کہتا ہے، پس تیرا ایسا دوست دشمن سے بھی بدتر ہے کیونکہ دشمن تو دشمنی ہی کے لباس میں ظاہرہے جس سے بچنا آسان ہے مگر یہ ایک ایسا دشمن ہے جو دوستی کے روپ میں چھپ کر تیری ہلاکت و بربادی کے لیے لگا ہوا ہے جس سے بچنا مشکل ہے۔

دلیلِ عقل مرد آمد سخن باز

چو آید در شخص پیدا شود راز

ترجمہ: گفتگو کرنا آدمی کی عقل و دانش کی دلیل (یعنی کسوٹی) ہے (کیونکہ) جب وہ بات کرتا ہے تو (فوراً اس کی اہلیت کا) بھید ظاہر ہو جاتا ہے۔

تشریح: اس مطلب کے بارے میں مولانا علی علیہ السَّلام کا کلام یہ ہے :

المرءُ فحبوءٌ تحتَ لِسانہ

انسان اپنی زبان (کے پردے) میں چھپا ہوا ہے یعنی انسان

۴۹

اپنی عقلی صورت اور علمی حیثیت میں خواہ کچھ بھی ہو گفتگو کے پردے میں پوشیدہ ہے جب وہ گفتگو کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس حیثیت میں ظاہر کر دیتا ہے۔

دوامِ شادمانی روی اخوان

کہ بی اخوان بود غمگین دل و جان

ترجمہ: (ہمخیال) بھائیوں کی ملاقات مسرّت و شادمانی کے ہمیشہ رہنے کا سبب ہے کیونکہ بھائیوں کے بغیر جان و دل غمگین ہوتے ہیں۔

تشریح: فرماتے ہیں کہ جب انسان کو کامیابی کے نتیجے پر خوشی کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ پھر بھی خوش نہیں رہ سکتا جبکہ وہ اپنے عزیزوں اور ہم جنسوں سے جدا اور دور رہتا ہو کیونکہ بھائیوں اور عزیزوں کے بغیر انسان کی خوشی ایک عارضی شے ثابت ہوتی ہے۔

چو دولت ساخت با نادان سر و کار

دلِ عاقل شود زین محنت افگار

ترجمہ: جب دولت و ثروت کا تعلق اور واسطہ نادان کے ساتھ ہونے لگتا ہے تو دانا کا دل اس امتحان سے زخمی ہو جاتا ہے۔

 

۵۰

 

تشریح: نادان وہ ہے جو اخلاقی اور دینی اعتبار سے گرا ہوا ہے جب ایسے نادان کو دولت و ثروت حاصل ہوتی ہے تو وہ اس کو انسانیت اور دیانت کے خلاف استعمال کرتا ہے جس سے دانشمند کو دکھ ہوتا ہے۔

اگر رنجی زنا گہ در دل آید

ز تسلیم و رضا کارت کشاید

ترجمہ: اگر یکایک کوئی تکلیف تیرے دل میں محسوس ہونے لگے، تو (خود کو خدا کی مرضی کے) سپرد کرنے اور اس سے راضی رہنے سے تیری مشکل کشائی ہو گی۔

تشریح: سیّدنا ناصر خسرو مصائب و آلام کے آنے پر تسلیم و رضا اختیار کرنے کی ہدایت فرماتے ہیں، تسلیم کا مطلب ہے اپنے آپ کو خدا کی مرضی کے سپرد کرنا یا خدا کے فیصلہ کے لیے قبول کرنا اور رضا کے معنی ہیں خدا کی مرضی کے لیے راضی رہنا چنانچہ حق تعالیٰ کے اس ارشاد سے تسلیم و رضا کی حقیقت ظاہر ہے :

الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ (۰۲: ۱۵۶)

وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم

۵۱

 

خدا ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

ذلیلی در طمع میدان بتحقیق

چو عزت را قناعت دان و توفیق

ترجمہ: طمع کو تحقیق و یقین کے ساتھ ذلت و خواری کا سبب قرار دینا یوں سمجھنا جس طرح قناعت اور توفیق باعثِ عزّت ہوتی ہیں۔

تشریح: مولانا علی علیہ السَّلام کا کلام ہے کہ :

اَ لطَّمَعُ رِقٌّ مُؤَ بَّدٌ

یعنی لالچ دائمی غلامی ہے اور غلامی ہی ذلت و خواری ہے اور قناعت کے بارے میں یہ کلام ہے کہ :

اَلْقَنَاعَۃُ مَالٌ لاَّ یَنْفَدُ

یعنی قناعت وہ مال ہے جو ختم نہیں ہوتا۔

چو ظلمی از تو آید نا سزا وار

ہمیشہ آن عمل را یاد میدار

ترجمہ: جب تجھ سے کسی کو کوئی ناحق نقصان پہنچ جائے تو ہمیشہ اس عمل کو (پیشمانی سے) یاد رکھنا۔

تشریح: پیر صاحب اس نصیحت میں فرماتے ہیں کہ اگر تو نے ناحق کسی کو نقصان پہنچایا ہے تو اپنی اس غلطی کو ہمیشہ یاد

۵۲

رکھ لینا تاکہ آئندہ ہرگز ایسی غلطی نہ ہو۔

چونا دان زہد و رزد ہست ظلمت

ز دانا ذلّت آید ہست رحمت

ترجمہ: جب نادان پرہیزگاری اختیار کرتا ہے تو یہ اس کے لیے تاریکی ہے، اگر دانا سے (کبھی) کوئی لغزش ہو جائے تو یہ اس کے لیے رحمت ہے۔

تشریح: پرہیز گاری صفاتِ انسانیّت میں سب سے برتر ہے، مگر ایک نادان جو دیدۂ دل سے بے بہرہ ہے اس سے کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے چونکہ وہ خود چشمِ حقیقت بین سے نابینا ہے اس لیے پرہیزگاری اس کے نزدیک ایک تاریک شے سے زیادہ کوئی قدر و اہمیّت نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس اگر دانا سے کوئی لغزش بھی ہو جائے تو اس کے لیے باعثِ رحمت ہے کیونکہ لغزش کہتے ہیں چلتے چلتے پاؤں پھسل جانے کو اور اس میں گر جانے کا ارادہ نہیں پایا جاتا اور لغزش سے کوئی ایسا گناہ مراد ہے جو بھول اور غلطی سے ہوا ہو، تو ایسے میں دانا چونکتا ہے اور گریہ و زاری سے توبہ کرتا ہے، پس اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما کر اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔

بباید عاقبت اندیش بودن

برون از خویش و ہم با خویش بودن

۵۳

ترجمہ: (تجھے) انجامِ کار کے متعلق سوچنے والا ہونا چاہئے، بے خود بھی ہونا چاہئے اور باخود بھی۔

تشریح: حضرت پیر کے اس شعر میں عاقبت اندیشی کی نصیحت فرمائی گئی ہے، جس کا مطلب ہے، ہر قول و فعل میں آخرت کو پیشِ نظر رکھنا اور ابدی فلاح و نجات کے متعلق سوچنا اس شعر کا پس مصرع اگلے مصرع کے اسی مطلب کی اس طرح سے وضاحت کرتا ہے کہ نہ صرف حصولِ دنیا ہی کی خاطر ہر وقت اپنے آپ میں ہوتے ہوئے رہنا چاہئے، بلکہ نجاتِ آخرت کے لیے سوچتے سوچتے اپنے آپ سے باہر بھی ہونا چاہئے۔

اگر بر کارِید لو داست بگذار

کہ آخر ہم ببدگر دد گرفتار

ترجمہ: اگر (کوئی شخص) برے کام سے باز نہیں آتا ہے تو تو اسے چھوڑ دے، کیونکہ آگے چل کر وہ خود بخود اسی برے کام کی وجہ سے گرفتار ہونے والا ہے۔

تشریح: “بگذار= چھوڑ دے” کے یہاں دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ جب کوئی آدمی برا کام کر رہا ہے تو اسے کچھ نہ کہا جائے اور اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے، دوسرا یہ کہ اگر وہ برائی

۵۴

پر عمل کرتا جا رہا ہے اور تیری نصیحتوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو اسے چھوڑ دیا جائے، پس یہاں پہلا مطلب موزوں نہیں دوسرا مطلب درست ہے، کیونکہ اگلا مطلب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اصول کے خلاف ہے اور پچھلے مطلب میں اتمامِ حُجّت کے بعد اس کا جواز موجود ہے۔

بشادیٔ جہان دل را مکن شاد

کہ آن دارِ غرور آمدز بنیاد

ترجمہ: دنیاوی خوشی سے دل کو خوش نہ رکھا کر کیونکہ وہ شروع ہی سے دھوکا اور فریب کا گھر ہے۔

تشریح: غرور کے معنی فریب، دھوکا اور غرور کے معنی دھوکا باز ہیں یہاں شاید پہلا لفظ ہے دوسرا نہیں مطلب یہ ہے کہ دنیا تجھے جو خوشی دیتی ہے وہ دھوکا اور فریب دینے کے لیے ہے تاکہ وہ تجھے آخرت سے غافل کر سکے، شروع سے ہی یہی دھوکا بازی دنیا کی عادت رہی ہے کیونکہ یہ مکر و فریب کا گھر ہے۔

بخوی بد مرو گر ہوشیاری

کہ این رہ نیست راہ ہوشیاری

ترجمہ: اگر تو ہوشیار ہے تو کسی طرح بھی بری چال اختیار نہ کر کیونکہ یہ طریقہ ہوشیاری کا طریقہ نہیں۔

۵۵

تشریح: اس ارشاد کا مطلب ہے کہ ہوشیار اور دانا صحیح معنوں میں وہ شخص ہے، جو حُسنِ سلوک سے زندگی گزارے کیونکہ انسان کو جو عقل و دانش دی گئی ہے وہ اس لیے ہے کہ نیک و بد میں فرق و امتیاز کرے اور بد و بدی کو چھوڑ کر نیک اور نیکی کو اختیار کرے۔

زیارت کردنِ اصحاب و احباب

روان را تازگی بخشد زہر باب

ترجمہ: رفیقوں اور دوستوں سے ملاقات کرنا، روح کو ہر طرح کی تازگی و توانائی بخشتی ہے۔

تشریح: حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ ہمخیال رفیقوں اور دوستوں کی ملاقات ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے روح کو دینی اور دنیاوی ہر قسم کی مدد اور خوشی ملتی ہے۔

ضعیفان راز یارت کن زا کرام

کہ از اکرام برداری بسی کام

ترجمہ: مہربانی اور سخاوت کی صورت میں کمزوروں کی ملاقات کر لیا کر تاکہ تو مہربانی و سخاوت سے بہت سی کامیابی حاصل کر سکے۔

تشریح: غریبوں اور کمزوروں پر کچھ مہربانی کرتے

۵۶

ہوئے ان کی ملاقات کرنا دو طرح سے ہے ان کو بلا کر اور ان کے پاس جا کر مگر “زیارت کُن” کے اس صیغۂ امر سے یہ ظاہر ہے کہ پیر صاحب کے اس ارشاد کا مطلب ہے کہ غریبوں اور کمزوروں کے پاس جایا جائے اور ان کی ملاقات کرتے ہوئے انہیں کچھ دیدیا جائے، اِس صورت میں وہ کس قدر خوش ہوں گے اور ان کے بہت زیادہ خوش ہونے سے کسی مومن کو کتنی خوشی ہو گی اس کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں۔

نہ فعلِ شخص حالِ شخص میدان

بتوشد حِلّ این اسرارِ پنہان

ترجمہ: آدمی کے (ظاہری) کام سے اس کا (اندرونی) حال معلوم کر لے تجھ پر (باطن بینی کے) یہ پوشیدہ بھید کھل گئے۔

تشریح: یعنی اگر کسی شخص کے بارے میں تجھے یہ جاننا ہو کہ اس کے باطن میں کیا ہے؟ نیکی ہے یا بدی؟ تو اس کے پرکھ لینے اور جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ تو اس کے ظاہری افعال کے آئینے میں اس کی اندرونی صورت حال دیکھ لیا کر اور باطن بینی کا فوری طریقہ یہی ہے۔

۵۷

سلامت دان کہ درکم گفتنِ تُست

چو صحت کان ہم از کم خفتن تُست

ترجمہ: سلامتی کے متعلق جان لے کہ یہ تیرے کم بولنے میں ہے، تندرستی کی طرح کہ وہ بھی تیرے کم سونے میں ہے۔

تشریح: سلامت کے معنی ہیں جسم و جان اور مال و اولاد کا ہر قسم کے نقص اور آفت سے محفوظ رہنا، پیر صاحب فرماتے ہیں کہ ایسی سلامتی کی دولت تیرے کم بولنے میں ہے، جس طرح صحت کہ وہ بھی تیرے کم سونے میں ہے کیونکہ ایک عام انسان کے زیادہ بولنے میں مذہبی اور اخلاقی طور پر غلطیوں اور لغزشوں کا امکان ہے جس میں روحانی اور جسمانی خطرات موجود ہیں جیسے انسان جب زیادہ سویا کرتا ہے تو وہ نہ صرف روح کے لحاظ سے بیمار ہو جاتا ہے، بلکہ ذہنیّت اور جسمانیّت کے اعتبار سے بھی وہ علیل ہو جاتا ہے۔

بزرگی جز بدانائی مپندار

کہ نادان ہمچو خاکِ راہ شد خوار

ترجمہ: دانائی کے بغیر (کسی اور شے کو) بزرگی نہ قرار دے کیونکہ نادان (مادّی طور پر جو کچھ بھی ہو) خاکِ راہ کی طرح خوار ہے۔

۵۸

تشریح: پیر صاحب اس قول کے پیش مصرع میں جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں اس کی دلیل پس مصرع میں دیتے ہیں یعنی دیکھا گیا ہے کہ مادّی لحاظ سے سب کچھ رکھنے والا نادان علم و دانش کے نہ ہونے سے خاکِ راہ کی طرح خوار ہو جاتا ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ بزرگی کسی اور شے کی وجہ سے حاصل نہیں آتی، مگر یہ علم و دانش کی بنا پر قائم ہے۔

 

خرد مند از تواضع مایہ گیرد

بزرگی از کرم پیرایہ گیرد

ترجمہ: دانشمند تواضع اور فروتنی سے قوّت حاصل کرتا ہے بزرگی کو بخشش اور سخاوت سے زیب و زینت ملتی ہے۔

تشریح: تواضع کا لغوی مطلب ہے کسی چیز کو نیچے رکھنا اور تواضع کے اصطلاحی معنی ہیں فروتنی اور انکساری کرنا، ان دونوں معانی کا اشارہ یہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر ابلیسیت کی بنیادی اور خطرناک خواہش بھی پائی جاتی ہے، جس کے سبب سے انسان اپنے آپ کو ہر وقت دوسروں پر فوقیت دیتا رہتا ہے، اس فعل کو تکبر کہتے ہیں، پس اخلاقی اور دینی لحاظ سے یہ امر ضروری ہوا کہ علاجِ بالضّد کے اصول پر مؤدبانہ پستی (تواضع) کی قوّت

۵۹

سے اپنی ذات کو فوقیت دینے کی خواہش کو ختم کر دیا جائے، یا کم از کم اُسے نشوونما نہ پانے دیا جائے۔

بکویِ معرفت گر تُو در آئی

زہیتہایِ عالم بر سر آئی

ترجمہ: اگر تو خود شناسی و معرفت کی گلی میں داخل ہو جائے تو تُو (اشیائے) کائنات کی تمام صورتوں پر غالب آئے گا۔

تشریح: پیر صاحب کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اے مخاطب تو اسی طرح اپنے آپ کو فوقیّت نہ دیا کر، اگر تو حقیقی معنوں میں فوقیّت چاہتا ہے، تو اس کے لیے مناسب چارۂ کار یہ ہے کہ تو سب سے پہلے پستی اختیار کر یعنی تواضع سے معرفت کی گلی میں داخل ہو جا، پھر اس کے بعد یقیناً تو اپنے آپ کو کائنات کی تمام روحانی صورتوں سے برتر پائے گا، یعنی حصولِ معرفت کے بعد ہر چیز تیری روحانی سلطنت کے نیچے آئے گی۔

شفای درد دلہا گشت عرفان

ز عرفان روشن آمد جا و دان جان

ترجمہ: معرفت دلوں کے درد کے لیے شفا ثابت ہو چکی ہے، معرفت ہی سے ہمیشہ جان روشن ہوتی چلی آئی ہے۔

تشریح: دل کا درد یعنی بیماری اور جان کی تاریکی جہالت و

۶۰

نادانی کی بے شمار مثالوں میں سے دو مثالیں ہیں اور معرفت ہی ہمیشہ سے اس درد کی دوا و شفا اور اس تاریکی کے لیے نور ثابت ہو چکی ہے۔

صلاحِ دین بُود پرہیز گاری

طمع دین را کشد در خاکِ خواری

ترجمہ: پرہیزگاری دین کے حق میں بہبودی و بہتری ہے، طمع دین کو ذلت و خواری کی مٹی میں ملا دیتی ہے۔

تشریح: دین کا تعلق قوم سے بھی ہے اور فرد سے بھی، پس اس قول میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ قوم کا ایک شخص پرہیزگاری کے ذریعہ اپنے دین کو بہتر اور برتر ثابت کر سکتا ہے اور دوسرا شخص طمع کی وجہ سے اپنے دین کو خوار بھی کر سکتا ہے۔

امیدار جُز بحق داری بگردان

کہ آن امید باشد عین نقصان

ترجمہ: اگر تو خدا کے ماسوا سے امید رکھتا ہے تو ایسی امید کو خدا کی طرف پھیر دے، کیونکہ ایسی امید (انجام میں) عینِ نقصان ثابت ہوتی ہے۔

تشریح: یعنی انسان کو دینی اور دنیاوی مقاصد کے حصول کے سلسلے میں صرف اللہ تعالیٰ ہی سے توقع رکھنی چاہئے، کیونکہ

۶۱

مسبب الاسباب وہی ہے یعنی اسباب و ذرائع اسی نے پیدا کیے ہیں، اور یہ ہرگز درست نہیں کہ اسباب و ذرائع پر بھروسا رکھ کر مسبب سے مایوس ہو جائے۔

چو جسم و جان و روزی ہرسہ او داد

بوَد جہل ارکنی از دیگری یاد

ترجمہ: جب (معلوم ہے کہ) جسم، جان اور روزی تینوں چیزیں اسی نے دی ہیں (پھر) اگر تو کسی اور کو یاد کرتا ہے تو یہ جہالت و نادانی ہے،

تشریح: پیر صاحب فرماتے ہیں کہ جب جسم و جان اور روزی کے پیدا کرنے میں خدا کے سوا کسی اور سے توقع نہیں کی جا سکتی تھی، پھر اگر اب تو کسی اور کو یاد کرتے ہوئے خدا کو فراموش کر دیتا ہے، تو یہ جہالت و نادانی نہیں تو اور کیا ہے۔

بخر سندی براور سرکہ رُستی

ز حرص اردو رگشتی بُت شکستی

ترجمہ: اگر تو حرص و ہوا سے دور ہو سکا، تو تُو نے بت کو توڑ ڈالا (اب) تُو مسرت و شادمانی سے سر اونچا کر کہ تُو رست گار ہوا۔

تشریح: پیر صاحب نے یہاں حرص کی ایک مثال بیان

۶۲

فرمائی ہے کہ حرص بت ہے اور جو شخص دنیاوی چیزوں کی حرص رکھتا ہے، وہ بت پرستی کرتا ہے، حرص کا بت بار بار روپ بدلتا رہتا ہے، یعنی نفسانی خواہشات کی مختلف صورتیں اختیار کرتے ہوئے دل و دماغ میں موجود رہتا ہے، پس اگر تو نے حرص کے اس بت کو توڑا، تو تُو رستگار ہوا۔

نصیحت بشنوار تلخ آید از یار

کہ در آخر بشیرینی رسد کار

ترجمہ: دوست کی نصیحت سن لیا کر ہر چند کہ تلخ و ناگوار گزرے کیونکہ بالآخر اس سے کام خوشگوار اور پُر لطف بن جاتا ہے۔

تشریح: نصیحت کرنے والا کسی شخص کو اس وقت نصیحت کرتا ہے جبکہ وہ عقل کی پسندیدہ راہ چھوڑ کر اپنے نفس امّارہ کی پیروی و غلامی کر رہا ہو، پھر نفس کو یہ نصیحت تلخ و ناگوار کیسے نہ گزرے، جبکہ اِس شخص کو اس کی غلامی سے چھڑایا جا رہا ہے۔

ہُنر جو زانک در عقل او نکوتر

کہ باشی در زمانہ طالبِ زر

ترجمہ: ہُنر کی جستجو کر اس لیے کہ عقل کے نزدیک وہی بہتر ہے، بنسبت اس کے کہ تُو عمر بھر دولت کا طلبگار رہے۔

۶۳

تشریح: اس شعر میں ہُنر کو دولت پر ترجیح دی گئی ہے، کیونکہ ہُنر کے بغیر دولت حاصل ہو آنے اور قائم رہنے کا کوئی اعتبار نہیں، مگر اس کے برعکس ہُنر کے ہونے میں سب کچھ ہے، اور سب سے بڑا ہُنر علم و دانش ہے۔

کسی کو قانع است او شہر یار است

گُلی دا رد کہ او بی زخم خار است

ترجمہ: جو شخص قناعت پیشہ ہو، تو وہی (دنیائے دل کا) بادشاہ ہے، اس کے پاس ایک ایسا پھول ہے جو کہ کانٹوں کی چُبھن اور خلش کے بغیر ہے۔

تشریح: یعنی اگر کوئی بادشاہ اپنی مملکت کے خزانوں سے اپنی خواہشات کی تکمیل کر کے حِظّ اٹھاتا ہو تو اس کے مقابلے میں ایک قناعت پیشہ فقیر یادِ الٰہی کے ذریعہ اپنے نفس کے بے شمار ارمانوں کو توڑ پھوڑ کر لذّت محسوس کرتا ہے پس قناعت ایک ایسا پھول ہے جس میں کوئی چبھن اور خلش نہیں۔

بدان کان تشنۂ دنیای غدّار

بتر از تشنۂ آبست بسیار

ترجمہ: جان لے کہ وہ شخص جو اس بے وفا دنیا کا پیاسا ہے پانی کے لیے ہمیشہ پیاسا رہنے والے سے بدتر ہے۔

۶۴

تشریح: اس قول میں حضرت پیر نے حصولِ دنیا کے لیے ہمیشہ پیاسا رہنے والے کی مثال استسقاء سے دی ہے، استسقاء وہ بیماری ہے جس میں دل اور جگر کی خرابی کی وجہ سے مریض کو ہمیشہ پیاس لگی رہتی ہے، یہی مثال حریصِ دنیا کی بھی ہے کہ حصولِ دنیا کے لیے اسے جو تشنگی محسوس ہو رہی ہے وہ کبھی بجھ نہیں سکتی۔

سخن را از درازی دار کو تاہ

کہ از بسیار گفتن گم شود راہ

ترجمہ: بات کو طول دینے سے بچا کر مختصر کر دے کیونکہ زیادہ بولنے سے (مقصد کا) راستہ گم ہو جاتا ہے۔

تشریح: ناصر خسرو فرماتے ہیں کہ گفتگو کرنا ادائے مطلب کے لیے ہے، اور ادائے مطلب مختصر طریقے سے بہتر رہتا ہے کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ باتیں کرنے سے اکثر مطلب الجھ جاتا ہے۔

چو در رہ می روی منگر چپ و راست

نظر بر خویش کن کین سخت زیباست

ترجمہ: جب تو کسی راہ سے گزرتا ہے، تو دائیں بائیں نہ دیکھا کر اپنے آپ پر نظر رکھ کیونکہ یہ نہایت ہی اچھا ہے۔

تشریح: چلتے ہوئے دائیں بائیں متوجّہ ہو جانا کسی ضرورت کے بغیر شانِ بزرگی کے خلاف ہے، خصوصاً شہر و بازار اور محفلوں

۶۵

میں بلکہ چلتے ہوئے آدمی کو اپنے آپ پر نظر رکھنی چاہئے، یعنی اپنے آپ کو اخلاق و تہذیب کی حدود کے اندر رکھنا چاہئے۔

ز ہمّت چون تو در عالم بلندی

سزد کز ہر زہ بسیاری نخندی

ترجمہ: جب تو (انسانی) عزم و ہمّت سے کائنات پر فوقیّت رکھتا ہے تو تیرے شایانِ شان ہے کہ فضول باتوں سے زیادہ نہ ہنسا کرے۔

تشریح: بموجبِ ارشادِ قرآنی جب یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو تمام موجوداتِ عالم پر کرامت و فضیلت بخشی ہے، پھر یہ اس کے لیے ہر گز جائز نہیں کہ فضول باتوں میں ہنسی مذاق کر کے اپنی اصالت و شرافت اور عزّت و وقار کو یکسر ختم کر دے۔

عدویِ عاقلت بہتر بسی زان

کہ باشد مر ترا صد دوستِ نادان

ترجمہ: تیرا ایک دانا دُشمن اس سے بہت بہتر ہے کہ تیرے سو نادان دوست ہوں۔

تشریح: عاقل دشمن سے ایک شخص مراد ہے جو انسانی مرتبت کی اعلیٰ صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے تیرے مخالفت پر اترتا ہے، جس کے مقابلے کے لیے تجھے یہ موقع ملتا ہے کہ تو بھی اپنی اعلیٰ

۶۶

درجے کی صلاحیتوں کو اجاگر کرے، لیکن تیرے نادان دوست ہمنشینی کے اثر سے تجھے جہالت و نادانی کا درس پڑھاتے رہتے ہیں۔

ترا گر کو د کی یار است و عاقل

بہ از پیری بُوَد نادان و جاہل

ترجمہ: اگر ایک چھوٹا سا بچہ تیرا دوست ہو اور دانا ہو تو یہ بہتر ہے اس بوڑھے (دوست) سے جو نادان اور جاہل ہو

تشریح: بوڑھے آدمی کی بزرگی اس لیے مانی جاتی ہے کہ وہ اپنی طویل عمر میں بہت سے تجربات و معلومات حاصل کر کے عاقل اور دانشمند ہوتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ چھوٹا سا بچہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے، جو فطری صلاحیتوں یا علمی ماحول کی بنا پر ہوشیار اور دانا ہے۔

بنرمی گر سخن رانی ہمی ران

کہ از تیزی برنج آید دل و جان

ترجمہ: اگر تو نرمی سے بات کرتا ہے تو بیشک کرتے جا کیونکہ تیزی و تندی کے ساتھ بات کرنے سے دل و جان کو رنج ہوتا ہے۔

تشریح: بات اگر کسی قدر کُھردری بھی ہو تو قابلِ قبول ہو سکتی ہے، جبکہ انتہائی نرم لہجے میں ہے اور تیز و تند لہجے میں جو بات کی جاتی ہے، اُس سے غُصّہ اور تکبّر کی علامتیں ظاہر

۶۷

ہونے لگتی ہیں، لہٰذا اِس اندازِ گفتگو سے قدرتی طور پر لوگوں کو نفرت ہوتی ہے۔

ہم از نرمی بسی دل رام گردد

ز تُندی پختہا بس خام گردد

ترجمہ: نیز نرمی کی وجہ سے بہت سے دل تابعدار بن جاتے ہیں اور تُندی کے سبب سے بہت سی پختہ چیزیں خام و نا تمام ثابت ہو جاتی ہیں۔

تشریح: نرم لہجے میں بات کرنے سے انسانی شفقت، مہر اور ہمدردی کی علامتیں ظاہر ہو جاتی ہیں، جن کے سبب سے بہت سے دل تابعدار ہو سکتے ہیں، اس کے برعکس تیز و تند گفتگو کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے بنے بنائے کام بگڑ جاتے ہیں۔

حسد را سُویِ جان و دل مدہ بار

کہ حاسد را نبا شد ہیچ مقدار

ترجمہ: حسد کو جان و دل کی طرف (جانے کی) اجازت ہی نہ دینا کیونکہ حسد کرنے والے کی کچھ بھی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔

تشریح: حسد کا مطلب ہے کسی کی نعمت کا زوال چاہنا اور کسی کی ترقی سے جلنا یہ آدمی کو اسی طرح کھاتا ہے جس طرح گُھن لکڑی کو اندر ہی سے کھا کھا کر کھوکھلی بنا دیتا ہے، پس حسد

۶۸

کرنے والے کی کوئی مقدار نہیں رہتی ہے، جیسے بڑھئی کے نزدیک کھوکھلی لکڑی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ہے۔

 

با فراط ارکنی شہوت زیان است

ضعیفئی تن است و قطعِ جان است

ترجمہ: اگر تو شہوانی عمل کثرت سے کرتا ہے تو یہ مضر ہے (کیونکہ یہ) جسم و جان کی کمزوری اور رشتۂ جان کے ٹوٹ جانے کا باعث ہے۔

تشریح: اس سلسلے میں حرام کا تو ذکر ہی کیا، حلال میں بھی اعتدال سے کام لینے کی ضرورت ہے ورنہ آدمی کو اس کا چسکا لگتا ہے کہ خون کی کمی کے شکار ہونے کی بھی خبر نہیں ہوتی، پس شہوانی عمل کثرت سے نہ کیا جائے۔

ہمہ رنجِ جہان از شہوت آمد

کہ آدم زان برون از جنّت آمد

ترجمہ: دنیا والوں کی ساری تکالیف نفسانی خواہش کے سبب سے ہیں، کیونکہ آدمؑ کو اسی بنا پر جنّت سے نکال دیا گیا ہے۔

تشریح: انسان اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے سلسلے میں بہت سی تکالیف اور مشکلات سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اخلاقی دائرے

۶۹

میں محدود رکھنے اور نفس پرستی کے بیابان میں گُم گشتہ ہو جانے سے روکنے کے لیے ان کے گردا گرد بڑی بڑی اخلاقی اور مذہبی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں، مگر پھر کچھ لوگ نا جائز نفسانی لذّتوں کی تلاش میں ان رکاوٹوں سے ٹکرا ٹکرا کر تکلیف اور مصیبت اُٹھاتے ہیں۔

نشین با اہلِ علم ای دوست ماوام

کہ از دانش بہی یابی سر انجام

ترجمہ: اے دوست ہمیشہ اہلِ علم کے ساتھ رہا کر، بالآخر تجھے علم و دانش سے بہتری و بہبُودی حاصل ہو سکے۔

تشریح: ایک نیک فطرت انسان اکثر اہلِ علم کی صحبت میں رہ کر بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے جس کا سبب یہ ہے کہ مختلف موقعوں پر علم کے مختلف مباحث سامنے آتے ہیں، جن پر اہلِ علم آزادیٔ فکر کے ساتھ روشنی ڈالتے ہیں اور اسرار سر بستہ کی بہت سی باتیں بتایا کرتے ہیں۔

ہر آنک اونیست از توبہ بدانش

بصحبت ہمدم و محرم مدانش

ترجمہ: جو شخص علم و دانش میں تجھ سے بہتر اور بالاتر نہ ہو تو اس کو ہمنشینی کے لیے رفیق اور ہمراز نہ سمجھ لے۔

۷۰

تشریح: فیضِ صحبت اس وقت حاصل ہوتا ہے، جبکہ وہ شخص جس کی صحبت مطلوب ہے، علم و دانش میں تجھ سے بہتر اور بالاتر ہو، اور اگر وہ شخص بھی تیری طرح کا ہے تو اس کی صحبت میں رہنے سے تنہائی ہی بہتر ہے۔

مکن با اہلِ جہل ای یار صحبت

کہ زان صحبت رسی ہر دم بمحنت

ترجمہ: اے دوست جہالت والوں کے ساتھ ہمنشینی نہ کیا کر کیونکہ ایسی ہمنشینی سے تجھے ہمیشہ تکلیف ہوتی رہے گی۔

تشریح: یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ انسان پر صحبت کا اثر ہوتا ہے۔ پس ظاہر ہے کہ جو لوگ جاہلوں کی صحبت اختیار کرتے ہیں وہ جاہل بن جائیں گے یا کم از کم ان کی جاہلانہ باتوں اور کاموں میں ملوث ہو کر تکلیف اُٹھائیں گے۔

اگر احسان کنی با مستحق کُن

نہ از بہرِ ریا از بہرِ حق کُن

ترجمہ: اگر تو کوئی نیکی کرتا ہے، تو حقدار کے لیے کر، دکھاوے کے لیے نہیں خدا کے لیے کیا کر۔

تشریح: حکیم پیر ناصر خسرو کا فرمانا ہے کہ اگر تو نیکی کرتا ہے اور وہ نیکی ہمہ رس نہیں بلکہ صرف چند افراد کو یا ایک فرد کو کافی

۷۱

ہو سکتی ہے، تو اس صورت میں تجھے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس نیکی کا اوّلین حقدار کون سا شخص ہے، پھر اس کا فیصلہ تُو قانونِ شریعت یا اصولِ حقیقت کی روشنی میں کر سکتا ہے، نیکی کی دوسری شرط یہ ہے کہ یہ محض خُدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیّت سے ہونی چاہئے نہ کہ دنیاوی طور پر نام و نمود کے لیے۔

چو پیش جاہلی نعمت نہی تو

چو تیغی شد کہ با دیوی دہی تو

ترجمہ: جب تو کسی جاہل کے سامنے نعمت (یعنی دولت) رکھ دیتا ہے، تو یہ ایک تلوار کی مثال ہوئی، جو تو ایک جنّ (بھوت) کو دیتا ہے۔

تشریح: پیر صاحب نے اگلے شعر میں فرمایا تھا کہ جب تو نیکی کرتا ہے تو اس میں حقدار کی ترتیب کو پیشِ نظر رکھنا، چنانچہ اسی ربط میں فرماتے ہیں کہ جاہل کو دولت و نعمت سے نواز کر قوّت دینا کسی شریر جنّ کے ہاتھ میں تلوار پکڑانے کے مترادف ہے۔

کہ چون نادان بیا بداز تُو قوّت

جہانی را در انداز بمحنت

ترجمہ: کیونکہ جب نادان کو تجھ سے قوّت حاصل ہو جائے، تو وہ ایک عالم کو مشقّت میں ڈالے گا۔

۷۲

تشریح: پیر صاحب اِس شعر میں اگلے شعر کے مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں، کہ جاہل کو دولت و نعمت سے قوّت دینا کسی شریر جنّ کے ہاتھ میں ایک ہتھیار پکڑانے کے برابر اس لیے ہے کہ جاہل تجھ سے یہ قوّت حاصل کر کے بہت سے لوگوں کو اذّیت و تکلیف پہنچا دیا کرے گا۔

ندا رد دین اگر مردی سخی نیست

اگر باشد سخی اور دوزخی نیست

ترجمہ: اگر کوئی آدمی سخی نہیں تو اس کا دین نہیں، اگر وہ سچی ہے، تو ہرگز وہ دوزخی نہیں۔

تشریح: حضرت مولانا علی علیہ السَّلام سخاوت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

اَ لَّخَآ ءُ مَا کَانَ اِ بْتدِ آ ءً فَاَ مَّاَ مَا کَانَ عَن تَسْا ءَ لَۃٍ فَحَیآ ءٌ وَ تَذَ ھُّمٌ :

یعنی سخاوت یہ ہے کہ مانگنے سے پہلے عطا ہو، لیکن جو سوال کے بعد سخاوت کی جائے وہ سخاوت نہیں بلکہ وہ شرم (کا تحفظ) اور مذّمت سے بچاؤ ہے۔

مشو خود بین کہ آن باشد ہلاکت

و زان تیرہ بماند جانِ پاکت

۷۳

ترجمہ: خود بین اور خود نگر نہ ہو جا، کیونکہ یہ باعثِ ہلاکت ہے، اور اس سے تیری پاک جان تاریک رہ جاتی ہے۔

تشریح: خود بین کا مطلب ہے مغرور اور متکبّر، یعنی غرور اور تکبّر کرنے والا، اور ظاہر ہے کہ تکبّر روحانی اور جسمانی دونوں اعتبار سے باعثِ ہلاکت ہے اور اس کی ابتدائی علامت یہ ہے کہ دل و جان میں ہر وقت تاریکی چھائی رہتی ہے۔

نمی بینی کہ ابلیس است خود بین

و زان آمد سزای طرد و نفرین

ترجمہ: کیا تو نہیں دیکھتا ہے، کہ ابلیس خود بین و خود نگر ہے اسی سبب سے وہ راندگی اور لعنت کا سزا وار ہوا۔

تشریح: اگر سوال ہو کہ نافرمانیوں اور گناہوں کی جڑ اور بنیاد کیا ہے؟ تو اس کا جواب بس یہی ہوگا کہ تکبر ہے کیونکہ ابلیس کی سرگزشت سے ظاہر ہے کہ وہ سب سے پہلے تکبّر کا شکار ہوا، جس کی وجہ سے اس نے یکے بعد دیگرے تمام گناہوں کا ارتکاب کیا، یہاں تک کہ دنیا میں کوئی گناہ نہیں چھوڑا۔

تواضع بندگان را ہست بہتر

تلطّف از ملوک آمد نکوتر

ترجمہ: بندوں کو تواضع اور انکساری اختیار کرنا بہتر ہے،

۷۴

بادشاہوں کی طرف سے مہربانی کا روّیہ زیادہ اچھا ہے۔

تشریح: پیر صاحب کی اِس تعلیم میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جس شخص کا جیسا مقدور اور استطاعت ہو اسی کے مطابق نیکی کر لیا کرے چنانچہ بندوں کے لیے مناسب ہے کہ تواضع کو اپنا شعار بنائیں، اور بادشاہوں کے شایان شان یہ ہے کہ وہ مہربانی کرنے کے خوگر ہو جائیں۔

 

کسی کو عاقل آمد نیست درویش

کہ درویش آنک بی عقل است و بی کیش

ترجمہ: جو کوئی عاقل و دانا ہو تو وہ (حقیقت میں) مفلس و نادار نہیں، کیونکہ مفلس و نادار وہ شخص ہے جس کی عقل اور دین نہ ہو۔

تشریح: یہ ایک مُسلّمہ حقیقت ہے کہ انسان صرف دُنیاوی زندگی تک محدود نہیں بلکہ وہ ابدی طور پر زندہ رہنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے، دریں صورت صحیح معنوں میں امیر وہی شخص ہے، جو دین و ایمان اور عقل و دانش کی لازوال دولت رکھتا ہو اور جو آدمی اس کے بغیر ہو تو وہی حقیقت میں غریب اور مفلس ہے۔

مکن کذّاب را ہرگز کرامت

کہ از کذّاب دُور افتد سلامت

ترجمہ: جھوٹ بولنے والے کی عزّت نہ کیا کر، کیونکہ جھوٹ بولنے والے سے سلامتی دور رہتی ہے۔

۷۵

تشریح: یعنی حقیقی عزّت خدا کے لیے ہونی چاہئے، پھر اس کے رسولؐ اور ولیٔ امرؑ اور مومنین کے لیے دیکھئے قرآن (۶۳: ۰۸) ہاں بنی نوع انسان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا چاہئے، مگر پھر بھی جھوٹ بولنے والے کی عزّت لازم نہیں آتی، کیونکہ اگر اس کی عزّت کی جائے تو یہ اپنے صحیح مقام پر نہ رہے گی، اور کسی چیز کو اپنی جگہ پر نہ رکھنا ہی ظلم ہے۔

ہم از نماّم پرہیز ای برادر

کہ از نماّم جان افتد در آذر

ترجمہ: اے بھائی! چغلخور سے بچ کر رہنا، کیونکہ چغلخور کی وجہ سے جان آگ میں رہتی ہے۔

تشریح: چغلخور کے سبب سے جان میں آگ کس طرح لگتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چغلی کی باتیں جلانے کی لکڑی اور ایندھن کی طرح ہیں، اور غیض و غضب آگ کی مثال ہے، پس چغلی کی باتیں جس کو سنائی جاتی ہیں وہ بھی جلتا ہے اور جس کے متعلق یہ باتیں ہوتی ہیں وہ بھی جلتا ہے۔

ز خائن دُور باش ای دوست ہموار

کہ خائن رانبا شد دین بکیبار

ترجمہ: اے دوست، خیانت کرنے والے سے ہمیشہ دُور

۷۶

رہنا، کیونکہ خیانت کرنے والے کا قطعاً کوئی دین نہیں۔

تشریح: حضرت پیر کا اشارہ یہ ہے کہ دین کی بنیاد امانت گذاری پر ہے، جیسے آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے لوگوں کو دین اسلام کی دعوت کرنے سے قبل اپنے آپ کو امین ثابت کر کے امانت گذاری کی مثال پیش کی، اور اسی اخلاقی قوّت کی اساس و بنیاد پر دین کی عمارت قائم ہونے لگی، پس جو شخص امین نہ ہو، وہ خائن ہے اور جو خائن ہو اس کے دین کی کوئی بنیاد نہیں۔

ز نامحرم نظر ہم دُور می دار

کہ از دیگر نظر گردی گرفتار

ترجمہ: نا محرم (عورت) کی طرف دیکھنے سے نظر کو بچا لیا کر کیونکہ (قصد سے) دوسری بار دیکھنے سے تو (خدا کے نزدیک) ماخوذ ہو گا۔

تشریح: حدیث میں ہے کہ اگر ارادہ کے بغیر یکایک کسی نا محرم عورت پر نظر پڑتی ہے اور فوراً نظر بچالی جاتی ہے تو اس میں کوئی گناہ نہیں اور اگر اس غیر شعوری نظر کے بعد تجسس کی نگاہ سے عورت کی طرف دیکھا جاتا ہے، تو یہ گناہ ہے چنانچہ پیر کے اس قول میں یہی معنی پوشیدہ ہیں۔

۷۷

مکن عیبِ کسان تامی تو ا نی

کہ تُو ای دوست عیبِ خود ندانی

ترجمہ: جہاں تک تجھ سے ہو سکے لوگوں کی عیب جوئی نہ کیا کر کیونکہ اے دوست تو اپنے عیوب کو تو نہیں جانتا (یعنی تیرے اپنے عیوب اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کو شمار ہی نہیں کر سکتا)

تشریح: پیر صاحب اپنے مخاطب کو لوگوں کی عیب جوئی کرنے سے منع فرماتے ہیں، کیونکہ جو شخص کسی اصلاحی امر کے بغیر سب لوگوں کی عیب جوئی کرتا ہو، وہی شخص اپنے اندر بہت سے عیوب پوشیدہ رکھتا ہے۔

مکن شادی ز مرگِ دیگران ہم

کہ زان شادی رس جانِ تراغم

ترجمہ: نیز دوسروں کی موت پر تو خوش نہ ہو کیونکہ ایسی ظاہری خوشی سے تیری روح کو رنج و غم پہنچتا ہے۔

تشریح: کسی دشمن یا مخالف شخص کی موت واقع ہونے سے خوش ہونا مذہب اور انسانیت کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے، اور ایسی خوشی سے روح کو غم پہنچتا ہے، کیونکہ قانونِ الٰہی یہ ہے کہ عمل کی برعکس صورت میں بدلہ ملا کرتا ہے، یعنی جو شخص ناجائز طور پر خوشی کرے، تو اسے غم ملتا ہے، اور جو خدا کی محبت میں

۷۸

یا اپنے گناہوں سے پریشان ہو کر گریہ وزاری کرے تو اسے روحانی طور پر خوشی ملتی ہے جو شخص یہاں خدا کی راہ میں رنج اٹھائے اسے قیامت میں راحت حاصل ہوتی ہے اور جو لوگوں کی غلطیوں سے درگذر کرے تو خدا اس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔

چونیکو خواہ باشی برتنِ خود

دگر کس را چرا خواہی تو در بد

ترجمہ: جب تو اپنے آپ کے لیے بھلائی ہی چاہتا ہے تو تُو کسی دوسرے کے حق میں کیوں برائی چاہتا ہے؟

تشریح: پیر صاحب اپنے مخاطب پر اس طرح اعتراض اٹھاتے ہیں کہ جب تو اپنے آپ کے لیے کوئی بھی برائی نہیں چاہتا اور بھلائی ہی بھلائی چاہتا ہے تو پھر عدل و انصاف اور انسانیّت کے اصول سے ہٹ کر دوسرے کے حق میں کیوں برائی چاہتا ہے؟ حالانکہ جس طرح تو خیر و سلامت کا محتاج ہے، اسی طرح دوسرا بھی اس کا محتاج ہے۔

لیمان را مکن اکرام و اعزاز

کریمان را مدار از پیش خود باز

ترجمہ: بد سرشت لوگوں کی تعظیم و تکریم نہ کیا کر، نیک فطرت لوگوں کو اپنے سامنے سے نہ روک دیا کر۔

۷۹

تشریح: مطلب یہ ہے کہ بد سرشت لوگوں کی تعظیم و تکریم کرنے سے ان کی ہمت افزائی ہو گی، بجائے اس کے کہ تو ان کو قوّت دے، نیک فطرت لوگوں سے تعاون کیا کر تاکہ تو بدی سے خود کو بچا سکے اور نیکی میں شامل ہو سکے۔

بر اہلِ جہل رحمت ہیچ ماور

ولی بر اہلِ دانش صدق آور

ترجمہ: جہالت والوں پر کچھ بھی رحم نہ کیا کر لیکن اہلِ دانش کے ساتھ صداقت سے پیش آ۔

تشریح: جہالت و نادانی روحانی قسم کی تاریکی ہے، پس جاہل و نادان سے مہر و شفقت کا سلوک کر کے تاریکی و ظلمت نہ بڑھا دی جائے، اس کے برعکس علم و دانش روحانی قسم کی روشنی ہے لہٰذا اہلِ علم و دانش کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے کہ جس سے علم و دانش کی روشنی میں اضافہ ہو۔

اگر مالت خورد دانائی ہشیار

از و منّت بسی بر خویش می دار

ترجمہ: اگر ہوشیار دانا تیرا مال کھا جائے تو اس سے اپنے اوپر بہت سا احسان رکھا کر۔

تشریح: حضرت پیر علم و دانش کی تعریف کرتے ہوئے

۸۰

فرماتے ہیں کہ اگر حقیقی دانا پیر مریدی یا استادی و شاگردی یا دوستی اور برادری کے طریق پر تیرا مال خرچ کرتا ہے تو تجھے خوش ہونا چاہئے کہ دانا اسی طرح تجھ کو اپنا رہا ہے، اور تیرے مال کو راہِ خدا میں صرف کر رہا ہے۔

مدہ یاریٔ نادان تا توانی

کہ تادر رنجِ نادان نمانی

ترجمہ: جہاں تک تجھ سے ہو سکے، نادان سے تعاون نہ کیا کر، تاکہ تو نادانوں کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا نہ ہو جائے۔

تشریح: یعنی اگرچہ تو محض انسانی ہمدردی سے کسی نادان کی مدد کرتا ہے، تاہم لازمی ہے کہ وہ اپنی نادانی کے سبب خلافِ دین و آئین کوئی نہ کوئی غلط کام کر کے ماخوذ ہو گا، جس میں بسا ممکن ہے کہ تجھے بھی تکلیف ہو گی کہ تو اس کی مدد کر رہا تھا۔

اگر بد گوی نزدیکِ تو آید

بران اورا ز نزدیکت نشاید

ترجمہ: اگر بد گو تیرے پاس آئے تو اسے دور کر دے کیونکہ وہ تیرے پاس رہنے کے قابل نہیں۔

تشریح: یعنی جس شخص کی یہ عادت ہو کہ وہ جہاں کہیں بھی جائے لوگوں کی غیبت و شکایت کرتا ہے اور ان کو برا بھلا کہتا ہے،

۸۱

تو ایسے شخص کو اپنے پاس سے دور کر دے، ورنہ وہ اپنے معمول کے مطابق تیرے پاس لوگوں کی اور لوگوں کے پاس تیری بد گوئی کرے گا۔

از و مشنو سخنہای خرافات

کزان آید ترا در آخر آفات

ترجمہ: اس کی بیہودہ باتیں نہ سنا کر، کیونکہ ان باتوں سے آخر کار تجھ کو آفت آئے گی۔

تشریح: یعنی جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ بدگو تیرے پاس لوگوں کی بدگوئی کر کر کے لوگوں سے تیری دشمنی کرا دے گا، یہی نہیں پھر اس طرف سے لوگوں کو بھی تیری دشمنی پر آمادہ کر دے گا۔

 

چو خشم آری مشو چون آتشِ تیز

کز آتش بجز دان را ہست پرہیز

ترجمہ: جب تجھے غصّہ آتا ہے تو تیز آگ کی طرح مت ہو جا، کیونکہ اہلِ دانش آگ سے محتاط رہتے ہیں۔

تشریح: حجّت الحق فرماتے ہیں کہ غصّہ آگ کی طرح ہے، آگ سے لوگوں کو فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی، فائدہ اس وقت ہے جبکہ اس کو قابو میں رکھیں، اور نقصان اس وقت جبکہ اس کو آزاد چھوڑ دیں، یہی حال غصّے کا بھی ہے، چنانچہ استاد کے معمولی غصّے سے خام و نا تمام شاگرد علم و ہنر میں پختگی حاصل

۸۲

کر سکتا ہے، مگر تیز غصّہ سے اس کا ذہن جل جاتا ہے جیسے نرم آنچ سے سالن خوب پکتا ہے، مگر تیز آگ سے یا تو جل جاتا ہے یا جوش کھا کر چھلکتا چھلکتا ختم ہو جاتا ہے۔

کسی کو با تو نیکی کرد یک بار

ہمیشہ آن نکوئی یاد می دار

ترجمہ: جس شخص نے تیرے ساتھ ایک بار نیکی کی ہو اس کی نیکی کو ہمیشہ یاد کرتے رہنا۔

تشریح: یعنی قول و فعل کے ذریعہ نیکی کے عوض میں نیکی کر دی جائے اور اس کی نیکی کو دل سے فراموش نہ کر دیا جائے۔

مگو اسرارِ حالِ خویش بازن

کہ یابی راز فاش از کُوی و برزن

ترجمہ: اپنے احوال کے بھید عورت کو نہ بتا دیا کر (ایسا نہ ہو) کہ تو اپنا کھلا بھید گلی کوچے میں سنے۔

تشریح: یعنی اپنے پوشیدہ حالات کے بھیدوں کا تذکرہ عورت سے نہ کیا کر، ورنہ راز فاش ہونے کی نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ تو اپنی ان پوشیدہ باتوں کو گلی کوچے کے لوگوں سے بھی سننے لگے گا۔

زنان را لطف و خوش خوی است دو کار

چو طفلاں را بُوَد شفقت سزا وار

 

 

۸۳

ترجمہ: عورتوں کے حق میں صرف مہربانی اور خوش خلقی ضروری ہے، جیسے بچوں کے لیے محبت و شفقت درکار ہوتی ہے۔

تشریح: ارشاد ہے کہ جس طرح چھوٹے بچوں کو غیر ضروری باتیں نہیں بتائی جاتی ہیں، ان کے ساتھ محبت و شفقت کا سلوک کیا جاتا ہے، اسی طرح عورتوں پر پوشیدہ حالات کے بھید ظاہر نہ کیے جائیں صرف ان سے مہربانی اور خوش اخلاقی کا برتاؤ کیا جائے کیونکہ عورتیں بھی چھوٹے بچوں کی سی عادت رکھتی ہیں۔

سوی پیران بحرمت گر گرائی

تو در پیری ز پیران برسر آئی

ترجمہ: اگر تو بوڑھوں کی طرف عزّت و حرمت سے مائل ہو جائے تو تُو بڑھاپے میں سب بوڑھوں سے معزز ہو جائے گا۔

تشریح: قانونِ فطرت کا فیصلہ یہی ہے کہ جو شخص جیسا کرے گا ویسا پائے گا، اس کے مختلف اسباب ہیں اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تم جس خاندان، جس قبیلے اور جس قوم کے بزرگوں کی عزّت کرتے ہو اس خاندان، قبیلے اور قوم کے لوگ بھی یہ چاہتے ہیں کہ بڑھاپے میں تمہاری عزت کریں۔

گناہِ بندگان پوشیدہ می دار

کہ تو ہم بندۂ حق را گنہگار

۸۴

ترجمہ: بندوں کے گناہ کو چھپا دیا کر کیونکہ تو بھی تو خدا کا ایک گنہ گار بندہ ہے۔

تشریح: جو لوگ از قسم نوکر وغیرہ تیرے ماتحت ہیں، ان کے گناہوں کو مشتہر نہ کر دیا کر بلکہ سن کے سب عیوب کو چھپا دیا کر کیونکہ آخر تو بھی ایک گناہگار بندہ ہے، اور تو چاہتا ہے کہ تیرا مالک یعنی خدا تیرے گناہوں کو چھپا دے۔

گنہ بخشا و عفو اندوز می باش

بخوش خوئی چو روشن روزی باش

ترجمہ: گناہ معاف کرنے والا اور بخشش حاصل کرنے والا ہو جا، خوش اخلاقی میں روزِ روشن کی طرح نمایان ہو جا۔

تشریح: یعنی لوگوں کے گناہ معاف کر اور اس کے عوض میں خدا کی بخشش حاصل کرتا رہ اور خوش خلقی میں روزِ روشن کی طرح آشکار ہو جا۔

مبین در ہیچ شخصی از حقارت

کہ نپذیرد دریں جا دل عمارت

ترجمہ: کسی بھی شخص کی طرف حقارت کی نظر سے نہ دیکھا کر، کیونکہ ایسے مقام میں دل کی تعمیر نہیں ہوتی۔

تشریح: فرماتے ہیں کہ کسی آدمی کی طرف حقارت کی نگاہ

۸۵

سے دیکھنے سے تیرے دل کی روحانی تعمیر نہ ہو سکے گی، جس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک انسان کسی دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے تو اس وقت اس کے دل میں تکبر موجود ہوتا ہے اور تکبر کے ہوتے ہوئے روحانی تعمیر و ترقی نہیں ہوتی۔

مدان مرخصم را خرد ای برادر

کہ سوز و عالمی یک ذرّہ آذر

ترجمہ: اے بھائی دشمن کو حقیر نہ سمجھ لے، کیونکہ آگ کا ایک ہی ذرہ ایک دُنیا کو جلا سکتا ہے۔

تشریح: کسی کو حقیر سمجھنا روحانی اور جسمانی دونوں اعتبار سے نقصان دہ ہے، چنانچہ پیر صاحب نے اس سے پہلے شعر میں یہ بیان فرمایا کہ کسی کو حقیر سمجھنے سے روحانی طور پر کیا نقصان ہوتا ہے۔ اب اِس شعر میں جسمانی طور پر اس سے جو کچھ نقصان ہوتا ہے، اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ دشمن کو حقیر نہ سمجھ لیا جائے کیونکہ دشمنی کا معاملہ آگ کی طرح ہے اور آگ شروع شروع میں ایک چھوٹی سی چنگاری کی صورت میں پنہاں ہوتی ہے جب اسے ایندھن مل گیا تو یہ بڑھتے بڑھتے ایک دنیا کو جلا سکتی ہے۔

 

سخن ہای نکورا یا دمی دار

و زان در پیش خویش استا و می دار

۸۶

ترجمہ: اچھی باتوں کو یاد رکھا کر اور ان (کی مجموعی صورت) کو اپنے پاس استاد قرار دے۔

تشریح: یعنی اعلیٰ درجے کے ذرائع سے دینی اور دنیاوی علم کی باتوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ یاد رکھا کر اور اس کو اپنا استاد قرار دے کر ہمیشہ اُس سے استفادہ کرتا رہ۔

دلِ اہلِ دل است آن کعبۂ داد

مکن ویران مرا ور ادار آباد

ترجمہ: بزرگوں کا دل جو عطا و بخشش کا کعبہ ہے اسے ویران و خراب نہ کیا کر اُسے آباد رکھا کر۔

تشریح: خانۂ کعبہ ایک ظاہری مثال ہے تاکہ یہ حقیقت سمجھ لی جائے کہ خدا مکان و لامکان سے پاک و برتر ہونے کے باوجود ہر جگہ بھی موجود ہے اور اپنے لیے ایک مخصوص نورانی گھر بھی رکھتا ہے وہ گھر بالعموم بزرگوں کا دل اور بالخصوص بزرگوں کے بزرگ کا دل ہے اور ایسے دل کو جو عطا و بخشش کا کعبہ ہے، آباد رکھنا یہ ہے کہ تابعداری اور فرمانبرداری کی جائے۔

کہ حق راشد دلِ مردان نظر گاہ

ترا کردم ز حالِ کعبہ آگاہ

ترجمہ: کیونکہ اہلِ ہمّت کا دل خدا کے نظر کرنے کی جگہ ہے

۸۷

میں نے تجھے (حقیقی) کعبہ کے حال سے آگاہ کر دیا۔

تشریح: کعبہ کا مطلب بیت اللہ (خدا کا گھر) ہے، خدا کے گھر کا اشارہ خدا کے دیدار اور پہچان کی امکانیّت بتاتا ہے، پس اہل ہمّت کا دل خدا کا گھر ہے جس میں خدا کے نور کا مشاہدہ اور اس کی نظرِ رحمت کی جگہ ہے۔

 

مدہ بر عیبِ کس نا دیداہ اقرار

وگر بینی بپوستی بہتر ای یار

ترجمہ: دیکھے بغیر کسی شخص کے عیب کے متعلق اقرار نہ کر لے، اے دوست اگر تو نے (عیب کو) دیکھ بھی لیا تو تُو اسے چھپا دے تو بہتر ہو گا۔

تشریح: گناہ سے بچنے اور ثواب حاصل کرنیکا طریقہ یہ ہے کہ نہ کسی شخص کے عیب دیکھے بغیر اس سے بدظن ہوا جائے اور نہ ہی عیب دیکھنے کے بعد ظاہر کر دیا جائے۔

کہ تو ہم عیب داری عیب ناکی

خدا را شد سزا از عیب پاکی

ترجمہ: کیونکہ تیرے بھی عیب ہیں اور تو عیب ناک ہے، عیب سے پاک ہونا خدا ہی کے شایانِ شان ہے۔

تشریح: یعنی کسی کے عیب کے بارے میں بدظن نہ ہو جانا،

۸۸

اور اگر عیب معلوم بھی ہو تو اسے چھپا دیا کر، کیونکہ تو خود بھی عیب دار ہے اس لیے تجھے کوئی حق حاصل نہیں کہ دوسرے پر اعتراض اٹھائے اور صرف حق تعالیٰ کی ذات عیب سے پاک ہے۔

بنیکوئی بکن مرخصم را شاد

کزان اندیشۂ بد نا و رد یاد

ترجمہ: نیکی سے دشمن کو خوش رکھا کر تاکہ جس سے وہ (اپنی) بری تدبیر بھول جائے۔

تشریح: یہ امر دین و دانش کے خلاف ہے کہ تو ہمیشہ اپنے دشمن سے انتقام لینے کے درپے ہو جائے، بلکہ تجھے معاشرہ کی اس بیماری کو حسنِ تدبیر سے ختم کر دینا چاہئے تاکہ تُو مخالفت اور دشمنی کے بکھیڑوں میں پھنس کر دین و دُنیا کے مقاصد عالیہ حاصل کرنے سے باز نہ رہ جائے۔

مگو مدحِ خود و عیبِ دگر کس

وگر گوید کسی گو زین سخن بس

ترجمہ: اپنی تعریف کرتے ہوئے دوسرے کی عیب جوئی نہ کیا کر، اگر دوسرا کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو اسے کہدے کہ یہ بات بس کر۔

تشریح: یعنی اپنی تعریف اور دوسرے کی عیب جوئی

۸۹

کرنا بیک وقت دوگنا کا ارتکاب ہے، کیونکہ انسان نہ تو تعریف کے قابل ہے اور نہ کسی کی عیب جوئی کا حق رکھتا ہے، نیز اسے اس بات کی بھی اجازت نہیں کہ کسی شخص کی خودستائی یا اس کی طرف سے کسی اور کی عیب جوئی سنتا رہے۔

جوابِ ہر سوال اندیشہ می کُن

سکونت را دران دم پیشہ می کُن

ترجمہ: ہر سوال کا جواب سوچ کر بتا دے، اس وقت سکون و اطمینان کا پیشہ اختیار کر۔

تشریح: یعنی علمی طور پر غور و فکر کی گہرائیوں میں اتر جانا روحانی قوّتوں سے قریب تر ہو جانے کا ذریعہ ہے، مگر یہ کام سکون و اطمینان سے زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے، اور ہر سوال کا جواب اسی طریق سے دینا چاہئے۔

 

ہر آنچ دادی اندر دل میاور

چو بگذشتی ازان یکبارہ بگذر

ترجمہ: تو نے جو کچھ دیا ہے اس کو دل میں نہ لایا کر، جب تو اس واقعہ سے گزرنے لگے تو اسے یکبارگی بھول جا۔

تشریح: یعنی اگر تو نے خدا کی راہ میں کچھ دیا ہے اور ہر وقت اس کو یاد کرتا ہے تو بہت ممکن ہے کہ تجھ میں فخر و غرور پیدا

۹۰

ہو جائے یا جس کو دیا ہے اس سے کوئی دنیاوی بدلہ یا شکرگزاری کی توقع پیدا ہو، اس لیے بہتر یہ ہے کہ تو اس نیکی کو یکسر فراموش کر دے۔

 

بپر خور دن مکن عادت بکیبار

کزان دل تیرہ گر دد جانت افگار

ترجمہ: ایک ہی وقت میں زیادہ کھانے کا عادی نہ ہو جانا کیونکہ اِس سے تیرا دل تاریک اور جان رنجیدہ ہو جاتی ہے۔

تشریح: یعنی زیادہ غذا کھانے سے طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے حرکت قلب کی فضا تنگ ہو جاتی ہے، اور دل معمول سے زیادہ بوجھ اُٹھا اُٹھا کر تھک جاتا ہے، جس کے نتیجے پر روح کو بھی دکھ ہوتا ہے۔

ز طاعت جامۂ نو پوش ہر دم

کہ طاعت می کند اندوہِ جان کم

ترجمہ: طاعت و عبادت سے ہر بار ایک نیا (روحانی) لباس پہن لیا کر کیونکہ طاعت جان کا غم غلط کر دیتی ہے۔

تشریح: یعنی طاعت و عبادت سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے، جو روحانی لباس کی حیثیت سے ہے اور چشمِ باطن کے سامنے یہ حقیقت ایک مثال کی صورت میں نمودار ہو جاتی ہے چنانچہ آدمی جب خواب

۹۱

میں اپنے آپ کو پھٹے پُرانے کپڑوں میں دیکھتا ہے تو یہ اس کے لیے اشارہ ہوتا ہے کہ عبادت و پرہیزگاری میں کمزوری کی بنا پر اس کے روحانی لباس کا یہ حال ہوا ہے، یہی مشاہدہ خیال میں بھی ہو سکتا ہے، مگر یہ بات ہے کہ اس صورت میں خیال بھی اکثر تاریک رہتا ہے۔

چو آئی در نماز از پردۂ راز

دلِ خودرا زہر باطل بپر داز

ترجمہ: جب تو راز داری کے پردے سے داخل ہو کر نماز میں آتا ہے تو (اُس وقت) اپنے دل کو ہر قسم کے باطل (خیال) سے فارغ و خالی کر دے۔

تشریح: عبادت و بندگی مومن کے لیے ایک ایسا بہترین موقع ہے کہ جس میں وہ دنیا اور اس کی تمام چیزوں کے خیالات دل سے نکال کر یکاّ و تنہا راز داری کے پردے میں اپنے حقیقی مالک کے سامنے ہو جاتا ہے اور اپنے آقا سے راز و نیاز کی باتیں کرتا ہے اور خداوندِ عالم اس کی مناجات کو قبول فرما کر توفیق و ہدایت عطا کرتا ہے اس کے برعکس اگر مومن کے دل میں طرح طرح کے باطل خیالات لیے ہوئے ہیں تو کسی طرف سے بھی راز داری نہیں

۹۲

ہو سکتی۔

 

بپیشِ چون خودی کو ہست سلطان

نیاری دم زدن ازروی امکان

ترجمہ: اپنے مانند ایک انسان کے سامنے جو بادشاہ ہے تو (رعب کے مارے) امکانی پہلو سے بھی بات نہیں کر سکتا۔

تشریح: یعنی جب تُو کسی بادشاہ کے حضور میں ہوتا ہے تو اس وقت خوف اور ادب کے سبب سے تو بات کرنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتا، حالانکہ وہ بھی تیری طرح کا ایک انسان ہے اور جب عبادت و بندگی کے دوران تُو خدا کے حضور میں ہوتا ہے تو اس وقت تیرے دل میں طرح طرح کے باطل خیالات موجود ہوتے ہیں پھر یہ کیسے جائز ہیں۔

ندا رد سوداگر حاضر نیائی

چو حاضر نیستی حق رانشانی

ترجمہ: اگر تُو (قلبی طور پر عبادت میں) حاضر نہیں ہے تو عبادت کا کوئی فائدہ نہیں، جب تُو حاضر نہیں تو تُو خدا (کی عبادت) کے قابل نہیں۔

تشریح: ذکر و عبادت کی لازمی شرط حضورِ قلب ہے یعنی دل کو خدا کے سامنے حاضر رکھنا اگر یہ نہ ہو، تو ذکر و عبادت نہ ہوئی

۹۳

کیونکہ انسان کی حقیقت جسم نہیں بلکہ دل ہے اور اللہ تعالیٰ دل ہی کو چاہتا ہے۔

بفکرت حاضرِ اوقاتِ خود باش

چہ باشی باکسان با ذاتِ خود باش

ترجمہ: فکری طور پر اپنے اوقات میں حاضر رہ تُو (خیال میں) لوگوں کے ساتھ کیوں رہتا ہے، اپنی ذات کے ساتھ رہ۔

تشریح: پیر صاحب کا مطلب ہے کہ انسان کو دنیاوی زندگی کو جو مختصر سا وقت دیا گیا ہے وہ اس کو غیر ضروری خیالات اور فضول اقوال و افعال میں صرف نہ کرے، وہ اپنی روح کی نجات کے لیے سوچا کرے۔

زیادِ مرگ غافل چون نشینی

چوبا افتادگان آخر قرینی

ترجمہ: تُو موت کی یاد سے کس طرح غافل رہتا ہے جب تُو آخر کار عاجزوں کے ساتھ (موت کے) نزدیک ہے۔

تشریح: موت کو پیش نظر رکھنے سے دنیا کی محبت کم اور آخرت کا کام درست ہو جاتا ہے ورنہ انسان کا نصب العین دنیاوی زندگی تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔

چہ داری عزمِ چندین استقامت

کہ ہم روزی بر اید بانگِ قامت

۹۴

ترجمہ: تُو (دنیا میں) اس قدر زیادہ رہنے کا ارادہ کیوں کرتا ہے کیونکہ کسی نہ کسی دن تیرے دنیا سے اٹھ جانے کی منادی ہونے والی ہے۔

تشریح: فرماتے ہیں کہ تیرا یہ ارادہ اور توقع سراسر قانونِ فطرت کے خلاف ہے کہ تو دنیا میں عرصۂ دراز تک رہنا چاہتا ہے حالانکہ ناگاہ کسی دن تیری موت واقع ہو کر تجہیز و تکفین کی منادی ہونے والی ہے۔

ببیں تا چون بُوَد حالت سر انجام

کہ باید رفت ازیں جا کام و نا کام

ترجمہ: آخر کار تیری جو کچھ حالت ہونے والی ہے تو اس کو پیشِ نظر رکھ کیونکہ یہاں سے تجھے کامیاب یا ناکام ہو کر چلے جانا ہے۔

تشریح: یعنی ہوشمندی یہ نہیں کہ تو اپنی موجودہ زندگی کی بہتری جانتا ہے بلکہ صحیح ہوشمندی یہ ہے کہ تو اپنے انجام یعنی آخرت کو پیشِ نظر رکھے کیونکہ تجھے دُنیا سے ہر حالت میں جانا ہی ہے۔

تو باشی وانچ کر دی جاودانی

نمیدانم چکردی آن تو دانی

ترجمہ: تُو بھی اور جو کچھ تو نے کیا وہ بھی ہمیشہ یاد رہے گا (لیکن) میں نہیں جانتا کہ تو نے کیا کام انجام دیا ہے وہ تو تُو خود جانتا ہے۔

تشریح: اس شعر میں حکیم ناصر خسرو اپنے مخاطب کو اس بات

۹۵

کی ترغیب دیتے ہیں کہ وہ اس دُنیاوی زندگی میں کچھ ایسے مفید کام کر کے جائے کہ جن کی وجہ سے لوگ اس کو ہمیشہ ہمیشہ یاد کرتے رہیں۔

برون کن از دل اندوہِ زمانہ

مگر خوشدل شوی زینجا روانہ

ترجمہ: اپنے دل سے زمانے کا غم نکال دے تاکہ تُو اس دنیا سے شادمان جا سکے۔

تشریح: یعنی جو شخص دنیا کے لالچ اور محبت میں پھنس جاتا ہے، وہ دنیا کی صدہا حسرتیں لے کر اور بہت ہی مایوسی کے ساتھ مرتا ہے اور جو شخص دُنیا سے فارغ و آذاد اور آخرت کا طلب گار ہو وہ موت کے آنے سے شادمان و مسرور ہو جاتا ہے۔

اگر خوشدل شوی در شادمانی

بماند آن شادمانی جاودانی

ترجمہ: اگر تُو (زمانے کا غم دل سے نکال کر) خوشدل ہو سکا تو سمجھ لے کہ تو شادمانی میں ہے اور یہ شادمانی ہمیشہ کے لیے رہ گئی۔

تشریح: پچھلے بیت میں پیر صاحب نے فرمایا تھا کہ اپنے دل سے زمانے کا غم نکال دے تاکہ تو اس دنیا سے شادمان جا سکے یہاں اسی سلسلے میں فرماتے ہیں کہ اگر تو اسی طرح خوشدل ہو سکا

۹۶

تو یہ ابدی نجات کا پیش خیمہ اور دائمی خوشی کی علامت ہے۔

بدانش شادگردی از دل و جان

کہ بی دانش بُوَد جاوید حیران

ترجمہ: علم و دانش سے تُو دلی اور جانی طور پر شادمان ہو گا کیونکہ بے دانش انسان ہمیشہ کے لیے حیران ہے۔

تشریح: جب یہ معلوم ہے کہ جاہل اور نادان ذہنی طور پر حیرت اور تکلیف میں ہے تو پھر اس حقیقت میں کوئی شک ہی نہیں کہ عالم اور دانشور قلبی اور روحانی طور پر مسرت و شادمانی میں ہے۔

ز راہِ دوستی این پند بنیوش

کہ رستی گر کنی این پند را گوش

ترجمہ: (اعتماد اور) دوستی کے طریق پر نصیحت سُن لیا کر اگر تُو نے کان دھر کر یہ نصیحت سُن لی تو تُو رستگار ہوا۔

تشریح: دانشمندوں سے علم و حکمت حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی شرط اُن سے دوستی و محبت ہے ورنہ دشمنی کی صورت میں ان کی باتوں پر عمل کرنا تو درکنار، باتوں کو سننا بھی ناگوار گزرتا ہے، اسی لیے حضرت پیر نے فرمایا کہ دوستی کے طریق پر یہ نصیحت سن لیا کر۔

ندانم کس چنین اسرار گفت است

ندانم کس چنین گو ہر کہ سفت است

۹۷

ترجمہ: میں نہیں سمجھتا کہ کسی انسان نے ایسے اسرار کا تذکرہ کر دیا ہے میں نہیں جانتا کہ کسی شخص نے ایسے موتی پرو دیئے ہیں۔

تشریح: اِس میں کوئی شک نہیں کہ اس کتاب کے شروع سے یہاں تک اور اس کے بعد کا حصہ دین، اخلاق اور انسانیت کی خیر و فلاح کی ایسی بہترین نصیحتوں، حقیقتوں اور حکمتوں سے بھرپُور ہے جو اب تک اسرارِ سربستہ کی حیثیت سے تھیں۔

مدار این مو عظت را خوار و آسان

کہ دروی درج کردم صورتِ جان

ترجمہ: اس نصیحت و موعظت کو حقیر اور آسان نہ سمجھنا، کیونکہ میں نے اس میں روح کی نقشہ کشی کی ہے۔

تشریح: فرماتے ہیں کہ اے مخاطب! ممکن ہے کہ تُو ان نصیحتوں کو حقیر اور معمولی سمجھے مگر یہ خود تیری نا سمجھی کی وجہ سے ہو گا، حالانکہ میں نے ان نصیحتوں کو جس ہمہ رس طریق سے پیش کیا ہے اُس میں روح کی مکمل تصویر موجود ہے پھر تُو اس کے ذریعہ اپنی روح کو پہچان سکتا ہے اور اس کی اصلاح کر کے ترقی دے سکتا ہے۔

 

۹۸

اگر رو کار بندی و کنی یاد

یقین شُد خانۂ جانِ تو آباد

ترجمہ: اگر تُو اس کے مطابق عمل کرتا رہے اور اسی کو ذہن میں رکھے تو یقیناً تیرا روحانی گھر آباد ہوا۔

تشریح: مطلب اس کا یہ ہے کہ آخرت کا گھر بنا بنایا نہیں ہوتا بلکہ جب مردِ مومن دنیا میں اچھے اعمال کرتا ہے تو اسی کے ساتھ ساتھ حسبِ عمل اس کا روحانی گھر اس کے دل میں اور آخرت میں تیار ہو جاتا ہے، چنانچہ پیر صاحب فرماتے ہیں کہ اگر تو نے ان نصیحتوں پر عمل کیا اور ہمیشہ کے لیے ذہن میں رکھ لیا تو یقیناً تیرا روحانی گھر آباد ہُوا۔

بر اوراقِ زمان شد یادگاری

اگر تو کار بندی بختیاری

ترجمہ: (یہ نصیحت) صفحاتِ زمانہ پر ایک یادگار بن گئی، اگر تُو نے اس پر عمل کیا تو تُو بڑا سعادت مند ہے۔

تشریح: یہ پند نامہ یا کتاب اپنی خوبیوں کی وجہ سے صفحاتِ روزگار پر ایک یادگار کی حیثیت سے رہے گی، پس اے مخاطب اگر تُو نے اس کے مطابق عمل کیا تو تُو بڑا خوش نصیب اور سعادت مند ہے۔

۹۹

 

روشنائی نامہ – نورِ ایقان

روشنائی نامہ – نورِ ایقان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۔ باری سبحانہ و تعالیٰ کی توحید کے بارے میں

بنام کرد گار پاک داور

کہ ہست از وھم و عقل و فکر و برتر

ترجمہ:۔

باری سبحانہ و تعالیٰ کے نام سے (آغاز کرتا ہوں) جو وہم، عقل اور فکر (کی رسائی) سے بالاتر ہے۔

تشریح:۔

انسان اپنے احساس و ادراک کی قوتوں سے تمام ظاہری اور باطنی موجودات کو محسوس و معلوم کر سکتا ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی قوت خدا کے علو شان تک رسا نہیں ہو سکتی، جب تک کہ خدا خود اپنی رحمت سے اس کے لئے ایک خاص نور مقرر نہ کرے۔

ہمو اول ہمو اَخر زمبدا

نہ اول بودہ ونی اَخر اورا

ترجمہ:۔

وہی مبدا (یعنی عقلِ کل کی نسبت) سے اول بھی ہے۔ اور وہی آخر بھی ہے (مگر اپنی ذات قدیم کی نسبت سے) نہ اس کی کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی

۱

انتہا۔

خرد حیران شدہ از کنہ ذاتش

منزہ دان زا جرام و جہاتش

ترجمہ:۔

عقل و دانش اس کی ذات کی حقیقت سے حیران رہ گئی ہے، اس کو اجسام و اطراف (کے تعین) سے پاک و برتر سمجھ لے۔

تشریح:۔

اگر انسان کی اپنی جزوی عقل کے لئے یہ امر ممکن ہوتا، کہ وہ خدا کی برتری تک رسا ہو کر اس کی حقیقت کو علمی احاطہ میں لائے، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتبِ سماوی اور نورِ ہدایت کے ساتھ انبیاء و آئمہ علیھم السلام دنیا میں نہ آتے، ظاہر ہے کہ یہ عام انسانی عقل خدا کی حقیقت سمجھنے کے لئے ناکافی تھی، اس لئے راہِ حقیقت کے راہنما دنیا میں آئے، پس پیر صاحب کا یہ بیان انسان کی اس حالت کے مطابق ہے، جس میں کہ وہ خدا کے مقرر کردہ ہادیوں کی نورانی ہدایت پر عمل نہیں کرتا۔

کجا اورا بچشم سر توان دید

کہ چشم جان تواند جان جان دید

ترجمہ:۔

سر کی آنکھ سے اس کو کہاں اور کیسے دیکھا جا سکتا ہے (جب) کہ  روحانی آنکھ سے صرف جان کی جان (یعنی نفسِ کلی) کو دیکھا جا سکتا ہے۔

تشریح:۔

انسانوں کی نہ صرف انفرادی جانیں ہیں، بلکہ ان کی ایک اجتماعی جان بھی

۲

ہے، یہ ان کی اجتماعی جان روح الارواح کہلاتی ہے، بمعنی جانوں کی جان، پس جانِ جان یا نفسِ نفس یا روحِ روح کا مطلب نفسِ کلی ہے، چنانچہ نفسِ کلی کا بیان اس کتاب کے باب ۳ میں ملاحظہ ہو۔

ورای لا مکانش اَشیان است

چگویم ہرچہ گویم بیش ازان است

ترجمہ:۔

اس کا مسکن لامکان سے بھی ماوراء ہے میں (اس کی توصیف میں) کیا کہوں ! جو کچھ بھی کہتا ہوں اس کی ذات اس سے بڑھ کر ہے۔

تشریح:۔

لامکان کے معنی ہیں جگہ سے بالاتر () جو طول و عرض و عمیق کے بغیر ہے یعنی غیر مادی عالم، جس طرح انسان خواب اور خیال میں ایک جیتی جاگتی دنیا دیکھتا ہے، جس میں غیر مادی طور پر سب کچھ پایا جاتا ہے، یہ کیفیت لامکان کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ چنانچہ حکیم ناصر خسرو کا کہنا ہے، کہ حق تعالیٰ مکان اور لامکان دونوں سے برتر ہے۔

صفات و ذات اوہر دو قدیم است

شدن واقف درو سیر عظیم است

ترجمہ:۔

اس کی ذات اور صفات دونوں قدیم ہیں، اس (حقیقت) کے بارے میں واقف و آگاہ ہو جانا عظیم ترین سیر و سلوک (کا نتیجہ) ہے۔

تشریح:۔

خدا کی ذات قدیم ہونے کے یہ معنی ہیں، کہ وہ کسی ابتداء و انتہا کے بغیر

۳

ہمیشہ سے ہے، اور اس کی صفات قدیم ہونے کا مطلب یہ ہے، کہ کسی وقت سے شروع کر کے نہیں بلکہ ہمیشہ سے اس کا فعل کائنات و موجودات میں جاری و ساری ہے، مثلاً اس میں خالقیت کی صفت اس طرح سے نہیں کہ پہلے وہ بغیر مخلوق کے خالق تھا اور بعد میں مخلوق بنا کر خالق ہوا ہو، ہر گز ایسا نہیں بلکہ اس کے تمام افعال (صفات) بھی اسی طرح قدیم ہیں، جس طرح اس کی ذات اقدس قدیم ہے۔

پیر صاحب فرماتے ہیں کہ اس حقیقت سے آگاہ ہو جانا کوئی آسان بات نہیں، بلکہ یہ روحانیت و معرفت کے طویل ترین سفر طے کرنے کے نتیجے میں ممکن ہے۔

بپای ما چہ رہ شاید بریدن

بدین مرکب کجا شاید رسیدن

ترجمہ:۔

(اگر ہم پیادہ ہیں تو) ہمارے انہی پیروں سے (اس بے پایان) راہ کی کیا مسافت طے ہو سکے گی! ( اگر ہم سوار ہیں تو) اسی گھوڑے پر (خدا تک) پہنچنا کہاں ممکن ہے!

تشریح:۔

خدا اور دین کے بارے میں عقیدہ رکھ کر اس پر عمل کرنا منزلِ نجات کی طرف پیادہ سفر ہے، ظاہری علم و دانش سے کام لینا اس سلسلے کی گھڑ سواری ہے، مگر پھر بھی رسائی کے یہ دونوں ذریعے راہِ حقیقت کی بے پایان مسافت طے کر کے خدا تک پہنچنے کے لئے ناکافی ہیں، جب تک کہ نورانی  ہدایت کا معجزہ کسی شخص میں معرفت کے بال و پر نہ لگائے۔

بجیب عجز عقلم سرفرو بُرد

کہ باشم من کہ یارم نام اوبرد

۴

ترجمہ:۔

(جب) میری عقل ناتوانی کے گریبان میں منہ چھپاتی ہے تو میں کون ہوں جو (بجا طور پر) اس کا نام لے سکتا ہوں!

تشریح:۔

یعنی میں کس طرح اللہ تعالیٰ کی حقیقت کا تذکرہ اور بیان کر سکتا ہوں، جبکہ میری عقل اس امر میں قاصر ہونے کی وجہ سے شرم کے مارے عاجزی کے گریبان میں منہ چھپاتی ہے۔

نیارم نام او بردن نیارم

من این سرمایہ در خاطر ندارم

ترجمہ:۔

میں اس کا نام (صحیح طور پر) نہیں لے سکتا، میں اس سے عاجز ہوں، میرے دل میں یہ علمی سرمایہ نہیں۔

تشریح:۔

حضرت پیر۔ حکیم ناصر خسرو۔ حق تعالیٰ کی توحید اور عظمت و جلالت کی تعریف و توصیف ایسے خاص اصول کے مطابق کرتے ہیں، جو اکثر بزرگان دین کے نزدیک پسندیدہ ہے، وہ اصول یہ ہے کہ وہ حضرات اپنے آپ کو اور اپنے علم کو حق تعالیٰ کی جلالت و کرامت کے سامنے کا لعدم قرار دیتے ہیں۔

زبان از یاد توحیدش زبون است

کہ ازحد و قیاس مابرون است

۵

زبان اس کی توحید کے تذکرہ کرنے سے عاجز و قاصر ہے، کیونکہ وہ ہماری حد بندی اور قیاس آرائی سے باہر اور برتر ہے۔

تشریح:۔

یعنی توحید کی حقیقت کو الفاظ میں لانا ایک انتہائی مشکل کام ہے، کیونکہ اگر ہم اپنی قیاس آرائی سے کچھ الفاظ میں یہ کہیں، کہ خدا ایسا ہے، تو یہ ہماری طرف سے خدا کے لئے الفاظ کی حد بندی مقرر ہو گئی، حالانکہ خدا ہماری قیاس آرائی اور حد بندی سے پاک و برتر ہے۔

نگویم صانع ھفت و چہار او ست

ولیکن عقل را پروردگار او ست

ترجمہ:۔

میں نہیں کہتا، کہ سات اور چار کا بنانے والا وہی (خدا) ہے، لیکن (یہ حقیقت ہے کہ) عقل کا پروردگار وہی ہے۔

تشریح:۔

موجودات کی تخلیق کے بارے میں پیر صاحب کا نظریہ یہ ہے، کہ باری سبحانہ و تعالیٰ نے صرف عقلِ کل ہی کو پیدا کیا، عقلِ کل سے نفسِ کل پیدا ہوا، اور نفسِ کل سے سات آسمان اور چار عناصر پیدا ہوئے، پس حق تعالیٰ وہ نہیں جس نے سات آسمان اور چار عناصر پیدا کئے، وہ تو حقیقت میں صرف عقلِ کل ہی کا پروردگار ہے۔

چہ مقداد آفتاب و آسمان را

بدو منسوب نتوان کرداَن را

۶

ترجمہ:۔

سورج اور آسمان کی کیا قدر و قیمت ہے، یہ اس سے منسوب نہیں کئے جا سکتے۔

تشریح:۔

یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کے سامنے سورج اور آسمان کچھ بھی نہیں ہیں، اس لئے ان کو خدا کی صنعت و حکمت کا مظہر اور نمونہ قرار دیکر نہیں کہا جا سکتا، کہ یہ باری تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں، اور یہ اسی سے منسوب ہیں۔

چرا گوئی زرو لعل و جواہر

ز خاک و آب و سنگ او کرد ظاہر

ترجمہ:۔

تو کیوں کہتا ہے، کہ سونا، لعل اور موتی اسی (خدا) نے مٹی، پانی اور پتھر سے پیدا کئے ہیں۔

تشریح:۔

جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے، کہ

فتبرک اللہ احسن الخالقین (۱۴: ۲۳)

پس بڑی برکت والا ہے اللہ تعالیٰ جو سب پیدا کرنے والوں سے بہترین ہے۔ اس آیۂ کریمہ سے ظاہر ہے کہ حکیم صاحب جو ارشاد فرماتے ہیں، وہ بالکل صحیح ہے۔

نبات از گل تو گوئی اوبر اَورد

نشاید این چنین اورا صفت کرد

۷

ترجمہ:۔

تو کہتا ہے کہ مرطوب مٹی سے وہی (خدا) نباتات اگاتا ہے، اس قسم کی صفت سے اس کو موصوف کرنا اس کے شایانِ شان نہیں۔

تشریح:۔

حضرت پیر ناصر خسرو نے یہاں تک علی الترتیب یہ بتلا دیا، کہ سات آسمان، چار عناصر، جمادات اور نباتات کے بارے میں یہ خیال نہ کیا جائے، کہ یہ مخلوقات حق تعالیٰ کی انتہائی قدرت و حکمت کے نمونے ہیں۔

کہ روح نامیہ این کار دارد

گل و شمشاد بر خاک ونگارد

ترجمہ:۔

کیونکہ یہ کام تو روحِ نامیہ ہی کا ہے، وہی مٹی پر پھول اور شمشاد کا درخت پیدا کرتی ہے۔

تشریح:۔

پیر صاحب فرماتے ہیں، کہ یہ خیال کرنا غلط ہے، کہ نباتات خدا کی اگائی ہوئی ہیں، حالانکہ یہ کام روحِ نامیہ ہی کا ہے، روح نامیہ کے معنی ہیں نشوونما والی روح، جو نباتات میں اکیلی ہے، جانوروں میں روح حیوانیہ کے ساتھ ہے، اور انسانوں میں روح ناطقیہ اور حیوانیہ کے ساتھ۔

تو عقل و جان زحق دان سیم و زر چیست

مکُن صورت پرستی پاوسر چیست

۸

ترجمہ:۔

تو عقل اور جان کو حق تعالیٰ ہی سے سمجھ لے چاندی اور سونا کیا چیز ہے، صورت پرستی نہ کیا کر پاؤں اور سر کیا شے ہے۔

تشریح:۔

یعنی موجودات میں سے صرف عقل اور روح ہی دوا ایسے گرانمایہ گوہر ہیں، جو صحیح معنوں میں باری سبحانہ و تعالیٰ کی صفاتِ کمالیہ کے آئینہ دار ہو سکتے ہیں، اور صرف ان ہی کی شناخت سے خدا کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے۔

دگر بارہ تو گوئی صورت ما

ہم از آب منی او کردہ پیدا

ترجمہ:۔

پھر تو یہ کہتا ہے، کہ ہماری صورت (یعنی شخصیت) کو بھی آب منی سے اسی (خدا) نے پیدا کیا ہے۔

تشریح:۔

آسمان، عناصر، جمادات اور نباتات کے بعد انسانی جسم کی تخلیق کے تذکرہ میں پیر صاحب فرماتے ہیں، کہ تیرا یہ خیال بھی غلط ہے، جو تو سمجھتا اور کہتا ہے، کہ خدا ہی نے بذاتِ خود ہمارے جسم کو نطفہ سے پیدا کیا ہے۔

مگو زین سان ازیرا کاین ضائع

شداز تاثیر اجرام و طبائع

ترجمہ:۔

ایسا نہ کہا کر کیونکہ یہ صنعتیں (یعنی مخلوقات) اجرامِ فلکی اور چار طبائع کی

۹

تاثیر سے پیدا ہوئی ہیں۔

تشریح:۔

مذکورہ تخلیق کے بارے میں حکیم ناصر خسرو کی کتب سے یہ ظاہر ہے، کہ اجرامِ فلکی یعنی آسمانی اجسام اور گرمی، سردی، خشکی اور تری (طبائع) یہ سب نفسِ کلی کے وہ اوزار ہیں، جن سے وہ ہر وقت تخلیق کا کام لے رہا ہے۔

سپہر و عنصر و روح نمارا

خدا خوانی چنین کفر است مارا

ترجمہ:۔

تو آسمان و عناصر اور نشو و نما والی روح کو خدا مانتا ہے، ہمارے نزدیک ایسی بات تو کفر ہے۔

تشریح:۔

آسمان، عناصر اور روح نامیہ کو کس طرح خدا مان لیا جاتا ہے؟ اس طرح جبکہ یہ کہا جائے، کہ خدا وہی ہے، جس نے جمادات، نباتات، حیوانات پیدا کئے اور انسان کے اجسام بنائے، پس اس معنی میں آسمان، عناصر اور روح نامیہ کو خدا کہا گیا، کیونکہ یہ تخلیق تو ان ہی کی ہے۔

مکن در صنع مصنوعات رہ گم

زجو جو رویدو گندم ز گندم

ترجمہ:۔

مخلوقات کی تخلیق (سمجھنے میں) رستہ غلط نہ کر جانا (یہ بات یاد رکھ کہ) جو  سے جو ہی اگتا ہے اور گندم سے گندم۔

۱۰

تشریح:۔

یعنی موجودات و مخلوقات کی حقیقت نہ سمجھنا گمراہی ہے، چنانچہ جب قانونِ قدرت یہی ہے، کہ گندم کے بونے سے گندم ہی پیدا ہوتا ہے اور اس سے جو ہرگز پیدا نہیں ہوتا، پھر کیا سبب ہے، کہ خدا کی وحدت سے خلق کی کثرت پیدا ہو گئی؟ یہ بات ایسی ہے جیسے گندم سے جو پیدا ہوا! حالانکہ وحدت سے وحدت ہی پیدا ہونی چاہیئے، اور خاص حکماء کا قول بھی یہی ہے۔

کہ جان آفرین دانندۂ راز

ندارد در خدائی ہیچ انباز

ترجمہ:۔

کیونکہ وہ جان کا پیدا کرنے والا اور بھیدوں کا جاننے والا اپنی خدائی میں کوئی شریک نہیں رکھتا۔

تشریح:۔

ظاہر ہے، کہ جمادات، نباتات، حیوانات اور انسانی جسم کی تخلیق میں مختلف اسباب و علل کے افعال کی شرکت پائی جاتی ہے، یعنی جیسا کہ قبلاً ذکر ہو چکا، کہ ان میں سے ہر ایک چیز اجرامِ فلکی طبائع اور روحِ نامیہ کی تاثرات کے نتیجے پر پیدا ہوتی ہے، مگر حق تعالیٰ نے جو عقل اور روح پیدا کی ہے، اس میں کسی اور ہستی کا فعل شریک نہیں۔

چہ گوئی کفر و توحیدش کنی نام

خبر نا یافتہ ز آغاز و انجام

ترجمہ:۔

تو کیوں کفر کی بات کر کے اس کا نام توحید رکھتا ہے، تجھے حقیقت کے

۱۱

آغاز و انجام کی کوئی خبر نہیں۔

تشریح:۔

فرماتے ہیں کہ جو بات توحید کی حقیقت سے ذرا بھی غلط ہو، تو وہ کفر ہے، اور غلطی کی توجیہہ کرتے ہوئے آغاز و انجام کی حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا، کہ جس شخص کے لئے حق تعالیٰ ازل و ابد کا پردہ نہ ہٹائے، تو وہ توحید کی حقیقت نہیں سمجھ سکتا جیسے قول قرآن ہے: ”اور ہم نے  ان کے سامنے ایک دیوار کر دی اور ان کے پیچھے ایک دیوار کر دی پھر ہم نے انہیں ڈھانپ لیا پس وہ دیکھ نہیں سکتے“۔ (۹: ۳۶)

نگوید این چنین جز گبر گمراہ

ازین گفتارھا استغفر اللہ

ترجمہ:۔

ایسی باتیں گمراہ گبر کے سوا اور کوئی نہیں کرتا، ایسی باتوں کی بابت میں خدا سے مغفرت چاہتا ہوں۔

تشریح:۔

حکیم ناصر خسرو کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ باری سبحانہ و تعالیٰ کو ناقص مخلوقات کا خالق قرار دینا غلط اور دینِ اسلام سے دور کی بات ہے۔

خداوند جہان دانای قاہر

یکی دان ویکی زو گشت ظاہر

ترجمہ:۔

کائنات کے مالک اور زبردست دانا کو، ایک ہی جان اور ایک ہی اس سے ظاہر ہوا۔

۱۲

یعنی کوئی شک نہیں کہ حق تعالیٰ کائنات و موجودات کا حقیقی مالک اور غالب دانا ہے، مگر وہ ہر ناقص چیز کا خالق نہیں، وہ جس طرح ایک ہے، اسی طرح اس نے ایک ہی کو پیدا کیا، یعنی عقلِ کل کو۔

۱۳

۲۔ عقلِ کلّ کے بارے میں

 

ز اول عقل کل راکرد پیدا

ورا عرش الٰہی گفت دانا

ترجمہ:۔

(حق تعالیٰ نے) اول سے عقلِ کل کو پیدا کیا، جس کا نام دانا نے خدا کا تخت (عرش رحمٰن) رکھا۔

تشریح:۔

یہاں اول سے حکیم ناصر خسرو کی مراد مبدع حق (۱؎) ہے، یعنی امرِ کل، جس سے عقلِ کل پیدا ہوا، پس امرِ کل اول یعنی ازل ہے، اور عقلِ کل ازلی ہے، جس کو دانا (خدا) نے عرشِ الٰہی کہا۔

گروہی علّت اولیٰ ش گفتند

گروہی آدم معنیٰ ش گفتند

ترجمہ:۔

ایک گروہ نے اسے سب سے پہلی علت کہا، اور ایک گروہ نے اسے حقیقی آدم کہا۔

تشریح:۔

یعنی ایک گروہ نے عقلِ کل کو وہ اولین سبب قرار دیا، جس سے کہ دوسری سب مخلوقات پیدا ہوئیں، اور دوسرے گروہ نے کہا، کہ عقلِ کل، ہی وہ آدم ہے جس کا ذکر قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں میں موجود ہے۔ (پہلا گروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ ملاحظہ ہو زاد المسافرین، صفحہ ۱۹۴

۱۴

حکمائی ظاہر اور دوسرا گروہ حکمائی دین ہو سکتے ہیں)

مراورا عالم جبروت نام است

کہ جبریل مکرم زان مقام است

ترجمہ:۔

اس (عقلِ کل) کا نام عالمِ جبروت ہے، اور باکرامت جبرائیل اسی مقام سے ہے۔

تشریح:۔

حکیم ناصر خسرو کے اس نظریے کے مطابق اگر عقلِ کل عالمِ جبروت ہے، تو اس کے اوپر امرِ کل عالمِ لاہوت ہے، اور اس کے نیچے نفسِ کل عالمِ ملکوت ہے اور سب سے نیچے انسان عالمِ ناسوت ہیں۔

ازیرا خامۂ یزدانش خوانند

رسول نامۂ یزدانش خوانند

ترجمہ:۔

اسی لئے اس (عقلِ کل) کو قلمِ الٰہی بھی کہتے ہیں، اور اس کو خط خداوندی کا پیغامبر بھی کہتے ہیں۔

تشریح:۔

حضرت پیر کی دوسری کتب سے بھی یہی مستفاد ہے، یعنی عقلِ کل کا نام عالمِ جبروت اور جبرائیل اسی عالم سے ہے، وہ اس طرح کہ جبرائیل میکائیل سے وحی لاتا ہے، میکائل اسرافیل سے، اسرافیل لوح (نفسِ کل) سے، اور لوح قلم (عقلِ کل) سے۔

۱۵

جیسا کہ حدیثِ شریف ہے:۔

”بینی و بین ربی خمس و سائط: جبریل و میکائیل و اسرافیل واللوح والقلم“

میرے اور میرے پروردگار کے درمیان پانچ واسطے ہیں، وہ جبرائیل، میکائیل، اسرافیل، لوح اور قلم ہیں، اسی لئے عقلِ کل کو خدا کا قلم کہتے ہیں، کہ اسی نے لوحِ محفوظ پر یا صفحۂ کائنات پر حق تعالیٰ کی عرضی کے مطابق سب کچھ لکھدیا، نیز اسی لئے اس کو خط خداوندی کا پیغامبر کہتے ہیں، کہ اللہ جل شانہ کی طرف سے وحی و الہام کا لانے والا اور کتابِ کائنات کا ظاہر کرنے والا دراصل وہی ہے۔

نخست از آفرینش برگزیدہ

خدایش بی میانجی آفریدہ

ترجمہ:۔

حق تعالیٰ نے اسے پیدائش سے پہلے برگزیدہ کیا ہے، اور اس کو کسی واسطہ کے بغیر پیدا کیا ہے۔

تشریح:۔

پیر صاحب کا مطلب ہے کہ تخلیق میں اس کو دوسری تمام مخلوقات پر ترجیح دی گئی ہے اس کو مقدم رکھا گیا ہے، اور اس کو شرف و عزت بخشی گئی ہے، اور حق تعالیٰ نے اسے بذاتِ پاک خود پیدا کر دیا ہے، اور دوسری تمام موجودات کو اسی کے ذریعے سے پیدا کیا ہے، اگر یہاں یہ پوچھا جائے۔ جب ثابت کیا گیا، کہ عقلِ کل امرِ کل سے پیدا ہوا ہے، تو پھر کس طرح یہ مانا جا سکتا ہے، کہ خدا نے اسے بلاواسطہ پیدا کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے، کہ یقیناً عقلِ کل امرِ کل سے پیدا ہوا ہے اور امرِ کل کو خدا کی وحدت مانا گیا ہے۔

۱۶

ہر آنچ از افرینش روی بنمود

مراَن را واسطہ در عالم اوبود

ترجمہ:۔

مخلوقات میں سے جو کچھ بھی رونما اور ظاہر ہوا، اس کے لئے کائنات میں (پیدا ہونے کا) واسطہ وہی (عقلِ کل) تھا۔

پیر ناصر خسرو کا قول ہے، کہ آسمان و زمین کی ہر چیز نفسِ کل کی پیدا کردہ ہے، جس میں اس کو عقلِ کل کی تائید حاصل تھی، اور خود نفسِ کل عقلِ کل سے پیدا ہوا ہے، پس اس معنی میں تخلیق کا اولین واسطہ عقلِ کل ہی ہے۔

ز اول عقلِ کل چون شد مشہر

زیکدیگر بزادند اَن دو گوہر

ترجمہ:۔

جب اول (یعنی امر) سے عقلِ کل مشہور ہوا، تو وہ دونوں گوہر ایک دوسرے سے پیدا ہوئے۔

تشریح: یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے، کہ کس طرح یہ بات درست ہو سکتی ہے، کہ عقلِ کل ایک طرف سے امرِ کل سے پیدا ہوا، اور دوسری طرف سے دونوں گوہر یعنی عقلِ کل اور نفسِ کل ایک دوسرے سے پیدا ہوئے؟

اس کا جواب حق تبارک و تعالیٰ کی توفیق و عنایت سے یہ دیا جا سکتا ہے، کہ عقل سے نفس کی تخلیق ہوئی اور نفس سے عقل کی تکمیل، یعنی باری سبحانہ و تعالیٰ کی مصلحت و حکمت اسی میں تھی کہ عقل کل نفسِ کل کی تائید و تربیت کرتے کرتے درجۂ کمال کو پہنچ گیا۔

۱۷

۳۔ نفسِ کُل کے بارے میں:

 

ز عقل کل وجود نفس کل زاد

ہمی حوای معنی خواندش استاد

ترجمہ:۔

عقلِ کل سے نفسِ کل کی ہستی پیدا ہوئی اُستادِ ازل نے اسے ”حقیقی حوّا“ کے نام سے پکارا۔

تشریح:۔

حقائق موجودات کے اس بنیادی اور فکر انگیز تصور سے، کہ عقلِ کل اور نفسِ کل حقیقی آدم و حوّا ہیں، علم و حکمت کا ایک خاص دروازہ کھل جاتا ہے، بشرطیکہ صحیح طور پر ابوالبشر کے قرآنی قصے پر سوچ لیا جائے۔

بدان گر جانت با عقل اَشنا شد

کہ این حوّا و اَن آدم چرا شد

ترجمہ:۔

اگر تیری جان عقل سے آشنا اور مانوسی ہوئی ہے، تو جان لے، کہ یہ (نفسِ کل) حوّا اور وہ (عقلِ کل) آدم کیوں ہوا؟

تشریح:۔

حکیم ناصر خسرو یہاں سوال کے انداز میں جو کچھ اشارہ فرماتے ہیں، اس کا مفہوم یہ ہے، کہ جس طرح سیارۂ زمین کی آبادی آدم و حوّا کے ہاتھ سے شروع ہوئی، اور جس طرح انسان کی روحانی و جسمانی تعمیر و ترقی کی ابتدا اس کی عقل اور

۱۸

جان کے ذریعے ہوئی، اسی طرح کائنات و موجودات کی تخلیق و تکمیل کا آغاز عقلِ کل اور نفسِ کل کے واسطہ سے ہوا، پس شخصی عالم (انسانی ہستی)  کے آدم و حوّا عقل و جان ہیں، اور کائنات و موجودات کے آدم و حوا عقلِ کل اور نفسِ کل ہیں۔

اگر معنی نامش باز دانی

ورا جمع ملائک نام خوانی

ترجمہ:۔

اگر تو اس (نفسِ کل) کے نام کی حقیقت سمجھ سکے، تو تو اس کو فرشتوں کا جامع (یعنی عالمِ ملکوت) قرار دے گا۔

تشریح:۔

نفسِ کل کے معنی ہیں سب کی جان، یعنی تمام موجودات و مخلوقات کی مجموعی روح، اور موجودات میں سب سے پہلے ملائک ہیں، پھر بنی نوع انسان وغیرہ، پس نفسِ کل واحدہ ہے، جس نے ملائک اور ارواحِ خلائق کو ایک کر لیا ہے، اسی لئے اس کو عالمِ ملائکہ (ملکوت) عالمِ جان اور عالمِ ارواح کہتے ہیں۔

ہموشد فاعل افلاک و انجم

ہمو بحر محیط جان مردم

ترجمہ:۔

وہی آسمانوں اور ستاروں کا پیدا کرنے والا ہوا، وہی نفوسِ انسانی کا سمندر ہے۔

تشریح:۔

جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا، کہ نفسِ کل نفسِ واحدہ ہے، جس نے ساری کائنات پیدا کر دی، جو مثال کے طور پر نفوسِ انسانی کا سمندر ہے، اور تمام ارواح

۱۹

اسی سے آتی ہیں، اور شعوری و غیر شعوری طور پر اسی سے جا ملتی ہیں۔

ہمو لوح و ہمو کرسی یزدان

ہم انسان دوم ہم روح انسان

ترجمہ:۔

وہی لوح اور وہی خدا کی کرسی ہے، دوسرا انسان بھی اور انسان کی روح بھی وہی ہے۔

تشریح:۔

جہاں عقلِ کل کو قلم کہا جائے وہاں نفسِ کل لوحِ محفوظ ہے، جہاں وہ عرش ہے وہاں یہ کرسی ہے (عرش کے معنی تخت اور کرسی کے معنی چبوترہ ہیں) نیز جہاں عقلِ کل انسان کبیر اول ہے، وہاں نفسِ کل انسان کبیر دوم ہے (یہ حقیقی آدم و حوا ہوئے) اور جہاں وہ انسان صغیر کی حقیقی عقل ہے وہاں یہ انسان صغیر کی حقیقی روح ہے۔

ازان آمد فرود عقل دروای

کہ زیر تخت کرسی را بود جائی

ترجمہ:۔

اسی لئے وہ (نفسِ کلی) عقلِ کلی کے نیچے معلق ہے، کہ چبوترہ تخت کے نیچے ہی ہوتا ہے۔

تشریح:۔

خدا کی حقیقت سمجھانے کے لئے انسانوں کے سامنے یہ تصور پیش کیا گیا ہے، کہ کائنات کے سب سے بیرونی آسمان پر کرسی ہے، کرسی پر عرش اور

۲۰

عرش پر رحمان، جیسے زمین پر چبوترہ بنایا جاتا ہے، چبوترہ پر تخت رکھا جاتا ہے اور تخت پر بادشاہ بیٹھتا ہے، چنانچہ اس مثال میں جو کہا گیا ہے، کہ جسم کی زمین پر روح کا چبوترہ ہے، روح کے چبوترے پر عقل کا تخت ہے اور عقل کے تخت پر حقیقی بادشاہ بیٹھا ہوا ہے، اس کا مقصد یہ ہے، کہ جو عالی ہمت انسان خدا کو پہچاننا چاہے، تو وہ پہلے اپنی روح کو پہچانے اور اس کے نتیجے میں علم و عقل کے تخت کے نزدیک ہو جائے، اب یقینی ہے کہ وہ خدا کے نور کو عقل کے تخت پر دیکھے گا، اور اس کو پہچان لے گا۔

مسیحا گفت خواہم زی پدر شد

جہانی زین سخن زیر و زبر شد

ترجمہ:۔

عیسیٰ نے کہا کہ میں باپ کے پاس جاؤں گا، اس قول سے (نظریات کی) ایک دنیا تہ و بالا ہوئی۔

تشریح:۔

یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب یہ کہا کہ میں اپنے باپ کے پاس جانے والا ہوں اور میرا باپ آسمان میں ہے، تو اس قول سے دنیائے نصرانیت نظریاتی طور پر تہ و بالا ہوئی۔ اور تثلیث کا نظریہ یہیں سے شروع ہوا، تثلیث جو باپ، بیٹا اور روح القدس تین کو ماننے کا عقیدہ ہے، توحید کے خلاف ہے۔

نکو گفت او ولی رہبان ندانست

کہ او فرزند نفسِ کل بجان است

ترجمہ:۔

اس (حضرت عیسیٰ) نے ٹھیک کہا، مگر راہب (پادری) نے نہیں سمجھا،

۲۱

کیونکہ وہ روحانی لحاظ سے نفسِ کل کا فرزند ہے ہی۔

تشریح:۔

پیر صاحب فرماتے ہیں، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو کہا کہ میں اپنے باپ کے پاس جانے والا ہوں اور میرا باپ آسمان میں ہے تو یہ آنجناب نے نفسِ کل کے بارے میں کہا، اور ٹھیک کہا کیونکہ روح کے اعتبار سے وہ نفسِ کل کے فرزند ہیں، جیسے قرآنی ارشاد ہے کہ:

”خلقکم من نفس واحدۃ ۱/۴

اس نے تمہیں نفسِ واحدہ یعنی (نفسِ کل) سے پیدا کیا۔“

لیکن پادری نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول کے مطلب کو نہیں سمجھا، اس نے تو صرف یہ خیال کیا، کہ آسمان والا باپ خدا ہی ہے، اس غلط خیال کی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ذاتِ سبحان کا بیٹا قرار دیا گیا اور تین (تثلیث) کا عقیدہ شروع ہوا۔

۲۲

۴۔ آسمانوں اور ستاروں کی پیدائش کے بارے میں۔

 

چو پیوستند عقل و نفس باہم

ازیشان زاد ارواح مجسم

ترجمہ:۔

جب عقل اور نفس ایک دوسرے سے متصل ہوئے، تو ان سے مجسم روحیں پیدا ہوئیں۔

تشریح:۔

عقلِ کل اور نفسِ کل کی باہمی پیوستگی سے ارواح مجسم پیدا ہوئیں، جن  سے نو آسمان مراد ہیں، آسمانوں کو ارواح مجسم اس لئے کہا گیا، کہ ان میں سے ہر ایک میں روح اور عقل ہے، ارواح مجرد (یعنی جسم کے بغیر روحوں) کے بعد ارواح مجسم ہیں۔

یکی گردون اعظم آنکہ یکسر

برو گردند ہشت افلاک دیگر

ترجمہ:۔

(ان مجسم روحوں میں سے) ایک تو فلکِ اعظم ہے، جس کے ذریعے سے دوسرے آٹھ آسمان گردش کرتے رہتے ہیں۔

تشریح:۔

حکیم ناصر خسرو کا ارشاد ہے، کہ ان میں سے ایک مجسم روح سب سے بیرونی آسمان ہے، جو کہ فلک الافلاک کے نام سے مشہور ہے، جس

۲۳

کی گردش اس قسم کی ہے، کہ اس سے دوسرے سارے آسمان گردش کرتے ہیں۔

خلاف گردش این ہشت گردد

برو روز یکی رہ گشت گردد

ترجمہ:۔

وہ (فلک اعظم) ان آٹھ آسمانوں کے خلاف گردش کرتا ہے، اس کی گردش سے روزانہ ایک ہی رستہ بنتا رہتا ہے۔

تشریح:۔

آسمانوں کی مجموعی ہیئت و صورت ایک ایسے پیاز کی طرح ہے، جس کی جڑوں اور ڈنٹھل کی جگہ بھی معلوم نہ ہوا اور بالکل گول ہو، اب فرض کرو، کہ پیاز کے پرت (تہ) ایک دوسرے کے نیچے نو ہیں، ان میں سب سے بیرونی پرت اس طرح گھومتا ہے، کہ اپنی حرکت کے زور سے اپنے اندر کے آٹھ پرت کو سمت مخالف کی طرف گھماتا ہے۔

دگر چرخ دہ ود و خانہ باشد

ثوابت را در و کا شانہ باشد

ترجمہ:۔

دوسرا بارہ گھر (برج) والا آسمان ہے جس میں ساکن ستارے ٹھہرنے کی جگہ ہے۔

تشریح:۔

حکمائے متقدمین کے نزدیک آٹھواں آسمان فللک البروج کہلاتا ہے، جس میں بارہ برج ہیں، یعنی اس کے بارہ فرضی حصے ہیں، اس فرضی تقسیم میں

۲۴

ستاروں کے نشانات سے بھی کچھ مدد لی گئی ہے، تاکہ معلوم ہو کہ ایک برج کہاں سے کہاں تک واقع ہے۔

دگر کردون کہ باشد جای کیوان

دگر دارد در و زادوش ایوان

ترجمہ:۔

پھر (اس کے نیچے) وہ آسمان ہے جو زحل کا مقام ہے، پھر (اس کے تحت) مشتری اپنا مقام رکھتا ہے۔

تشریح:۔

ساتویں آسمان میں سیارہ زحل گردش کرتا ہے اور چھٹے میں مشتری، زحل کے معنی ہیں کام سے علیحدہ رہنے والا اور مشتری کے معنی خریدنے والا۔

دگر بہرام دارد وان دیگر شید

دگر دارد بہشت آباد ناھید

ترجمہ:۔

دوسرا (پانچواں آسمان) مریخ رکھتا ہے، اور وہ دوسرا (یعنی چوتھا آسمان) شمس رکھتا ہے، اور اس سے نچلا یعنی (تیسرا آسمان) جنت نظیر زہرہ رکھتا ہے۔

تشریح:۔

پانچویں آسمان میں سیارۂ مریخ ہے، مریخ کے معنی ہیں لمبا تیر یا نیزہ، چوتھے آسمان میں شمس یعنی سورج ہے، جو جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے، کہ سیارہ نہیں ساکن ہے، تیسرے آسمان میں سیارۂ زھرہ ہے، پیر صاحب زھرہ کو ”بہشت آباد“ کہتے ہیں، جس کے معنی ہیں بہشت کی طرح آباد، مگر یہ ظاہر نہیں

۲۵

کہ یہ تعریف اس سیارہ کے ”سعد“ ہونے کے بارے میں ہے، یا وہ ظاہری طور پر آبادی کا بہترین نمونہ بھی ہے، بہر حال زہرہ کے معنی ہیں حسین و روشن۔

دوئی دیگر یکی تیر و یکی ماہ

ترا از حال ہر نہ کر دم آگاہ

ترجمہ:۔

وہ (آسمان) اور بھی ہیں، ایک عطارد رکھتا ہے اور ایک قمر (چاند) میں نے تجھے نو آسمان کی حالت سے آگاہ کر دیا۔

تشریح:۔

دوسرے آسمان میں عطارد ہے اور پہلے آسمان میں چاند۔

گرفتہ ہر یکی عقلی و جانی

بکار خویشتن ہر یک جہانی

ترجمہ:۔

(ان میں سے) ہر ایک نے ایک عقل اور ایک جان حاصل کی ہے، اپنے مقررہ کام کے اعتبار سے (ان میں سے) ہر ایک ایک دنیا ہے۔

تشریح:۔

آسمانوں اور ستاروں میں سے ہر ایک میں عقل و جان ہے، تاکہ ہر ایک کے لئے جو مقررہ کام ہے، وہ ٹھیک طرح سے کیا جا سکے، جیسا کہ قول قرآن ہے

”ربنا وسعت کل شیء رحمۃً و علماً ۷/۴۰

”اے ہمارے پروردگار تو نے رحمت اور علم میں ہر چیز کو گھیرا ہوا ہے۔“ یہاں رحمت سے روح اور علم سے عقل مراد ہے، اور ہر چیز کے ذکر میں

۲۶

سب سے پہلے آسمان اور ستارے آتے ہیں، پس اس کا مطلب یہ ہوا کہ آسمانوں اور ستاروں میں سے ہر ایک کو ایک روح (رحمۃ) اور ایک عقل (علما) گھیرے ہوئے ہے۔

یکی در ملک یزدان نیک بنگر

کہ اینہا ملک یزدانند یکسر

ترجمہ:۔

خدا کی بادشاہی کو غور سے دیکھ لے، کہ یہ (آسمان اور ستارے) سب خدا کی سلطنت ہیں۔

تشریح:۔

اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال سے آگاہی اس وقت ہو سکتی ہے جب اس کی بادشاہی کو غور و فکر سے دیکھ لیا جا سکے۔

ہمہ نیک و بد ما ہست ازیشان

فنا را گشتہ کو تہ دست ازیشان

ترجمہ:۔

ہماری خیر و شر سب ان ہی سے ہے۔ موت کے لئے سبب (ہماری حفاظت سے) ان کی دست برداری ہے۔

تشریح:۔

خیر و شر سے راحت اور تکلیف مراد ہے یعنی یہی آسمان اور ستارے ہماری راحت اور تکلیف کے ذرائع ہیں اور ہم میں سے کسی کی موت بھی اس وقت واقع ہو سکتی ہے، جبکہ وہ اس کی نگہداشت سے ہاتھ کھینچ لیں۔

۲۷

شدہ حیران ہمہ درضع صانع

ہمہ سرگشتگان شوق مبدع

ترجمہ:۔

یہ سب حقیقی کاریگری میں محو حیرت ہیں۔ سب مبدع کے شوق میں بیقرار ہیں۔

تشریح:۔

مبدع کہتے ہیں ابداع کرنے والے کو یعنی کسی سابقہ مادہ اور مایہ کے بغیر ممکنات کو وجود دینے والا، جیسے قرآن پاک میں ہے:۔

بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ ۱۱۷/۲

”وہ آسمانوں اور زمینوں کا بلا مادہ پیدا کرنے والا ہے اور جب کوئی امر مقرر ہوا تو وہ صرف ”کن“ (ہوجا) فرما دیتا ہے اور وہ ہو جاتا ہے۔“ اب یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اسماعیلی حکماء کے نزدیک مبدع اور بدیع سے مراد امرِ کل ہے جس نے عقلِ کل کو آسمانوں اور زمینوں کی روحانی نورانی صورت میں پیدا کر دیا۔

ہمی گردند در عالم چو پرکار

پدید آرندۂ خود را طلبگار

ترجمہ:۔

سبھی کائنات میں پرکار کی طرح گھوم رہے ہیں اپنے پیدا کرنے والے کو طلب کرتے ہوئے۔

۲۸

تشریح:۔

پیر صاحب فرماتے ہیں کہ آسمان اور ستارے جو اس عالم میں پرکار کی طرح ہمیشہ گھوم رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ارواح مجسم ہیں اور اپنے فعل کے نتیجے کی صورت میں اپنے پیدا کرنے والے سے جا ملنا چاہتے ہیں۔

بگرد کرۂ کل در شب و روز

ہمی کردند چون شمع شب افروز

ترجمہ:۔

وہ دن رات کرۂ خاکی کے گردا گرد رات کو روشن کر دینے والے چراغ کی طرح گھومتے رہتے ہیں۔

تشریح:۔

زمین ایک محدود دائرے میں گردش کرتی رہتی ہے۔ اور آسمان اپنے وسیع دائرے میں زمین کے گرد گھوم رہے ہیں اور ستارے بھی کچھ تو آزادانہ طور پر اور کچھ آسمان کے ساتھ ساتھ گردش کرتے ہیں۔ مگر سورج کائنات کے وسط میں ساکن ہے۔

کند با ما ازاں گشتن اثر ہا

رسد مارا ازیشان خیر و شر ہا

ترجمہ:۔

اس گردش سے ہم پر اثر ہوتا ہے۔ ان (آسمان اور ستاروں) سے ہمیں خیر و شر پہنچتی ہے۔

۲۹

تشریح:۔

افلاک و انجم سے باشندگان زمین متاثر ہونے کے بارے میں پیر ناصر خسرو یہاں جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں وہ نظریۂ علم نجوم کی ترجمانی ہے۔ اس باب میں ان کا جو کچھ ذاتی نظریہ ہے وہ ان کے دیوان اور دیگر کتب کے مجموعی مطالعہ سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔

یکی از چاہ اَید برسر گاہ

یکی از گاہ افتد در بن چاہ

ترجمہ:۔

ایک کنوئیں سے (نکل کر) شاہی تخت پر آ بیٹھتا ہے ایک تخت شاہی سے کنویں کی تہ میں جا گرتا ہے۔

تشریح:۔

گردش فلکی سے جو دنیا میں اتفاقات و حادثات رونما ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے کچھ انسانوں کو جس طرح عزت ملتی ہے، اسی طرح بعض آدمیوں کو ذلّت ملتی ہے۔

یکی رابی ہنر مال از عدد بیش

یکی باصد ہنر دل تنگ و دل ریش

ترجمہ:۔

ایک کے پاس بے ہنر ہونے کے باوجود بے حساب دولت ہوتی ہے۔ ایک سو ہنر کے باوجود (ناداری سے) دل تنگ اور آزردہ خاطر رہتا ہے۔

تشریح:۔

حکیم ناصر خسرو کا ذاتی نظریہ اس بارے میں یہ ہے:۔

۳۰

چوتو خود کنی اختر خویش رابد

مدار از فلک چشم نیک اختری را

ترجمہ:۔

جب تو خود اپنے ستارے کو نحس بناتا ہے تو تو آسمان سے نیک اختری (یعنی سعادت) کی امید نہ رکھا کر۔

زحجت این سخنہا یاد میدار

کہ دریمگان نشستہ پادشہ وار

ترجمہ:۔

حجت سے ان باتوں کو یاد رکھ لے جو یمان میں بادشاہ کی طرح بیٹھا ہوا ہے۔

تشریح:۔

حجت سے خود حکیم ناصر خسرو مراد ہیں جو اپنے وقت میں حضرت مولانا امام المستنصر باللہ علیہ السلام کی جانب سے خراسان و بدخشان کے حجت تھے۔ حجت کے کئی معنی ہیں اور اس کے بنیادی معنی ہیں بحث و دلیل میں غالب آنے والا۔ اس سے ہدایت کا ایک ایسا ذریعہ مراد ہے جس کے موجود ہونے کے بعد لوگ قیامت کے روز خدا کے حضور میں یہ عذر نہ کر سکیں کہ آپ نے ہمارے لئے دنیا میں کوئی وسیلہ مقرر نہیں فرمایا تھا۔ چنانچہ اس معنی میں خدا کے حجت رسولؐ ہیں۔ رسولؐ کے حجت امام زمان ہیں۔ امام زمان کے حجت وہ حضرات ہیں جن کو خود یہی حجت کا لقب دیا گیا ہے۔ ان کے حجت داعی ہیں اور ان کے حجت ماذون ہیں۔

۳۱

۵۔ ”چار عناصر اور ارکان کے بارے میں“

 

ازیشان گشت پیدا چار عنصر

زمن بشنو تو این معنیٔ چون دُر

ترجمہ:۔

ان ہی افلاک سے چار عناصر پیدا ہوئے یہ موتی جیسی حقیقت مجھ سے سن لے۔

تشریح:۔

چار عنصر یا کہ عناصر اربعہ آگ، ہوا، پانی اور مٹی ہیں۔ اور ارکان کا مطلب گرمی، سردی، خشکی و تری ہے اور ہر عنصر دو طبیعتوں سے مرکب ہے۔ چنانچہ آگ گرم و خشک ہے، ہوا گرم و تر، پانی سرد و تر اور مٹی سرد و خشک ہے۔

اثیر و پس ہوا پس آب پس خاک

کہ زاد ستند این ہر چار ز افلاک

ترجمہ:۔

آگ پھر ہوا پانی اور پھر مٹی ہے، کہ یہ چاروں آسمانوں سے پیدا ہوئے ہیں۔

تشریح:۔

یہ باتیں کرۂ زمین سے متعلق ہیں چنانچہ چار عناصر میں سب سے نیچے کرۂ خاک (مٹی) ہے۔ اس کے اوپر پانی ایک گول غلاف کی صورت میں اس طرح چھایا ہوا ہے کہ زمین کی سطح کی صرف ایک چوتھائی پانی سے خالی ہے۔ اس کے اوپر

۳۲

ہوا کا گول غلاف اس طرح سے ہے کہ سارا پانی اور زمین کا خشک حصہ ہر طرف سے اس کے گھیرے میں ہے اور ہوا کے اوپر اثیر (یعنی آگ) کا غلاف ہے۔

ازیشان گرم خشک و سرد تر ہست

چنانکہ سرد خشک و گرم تر ہست

ترجمہ:۔

ان عناصر میں خشک گرم اور تر سرد ہے جس طرح خشک سرد اور تر گرم ہے۔

تشریح:۔

خشک گرم آگ، تر سرد پانی، خشک سرد مٹی اور تر گرم ہوا ہے۔

شود پیدا ازیشان رنج و راحت

ازیشان مرہم و زیشان جراحت

ترجمہ:۔

ان ہی سے تکلیف و راحت پیدا ہوتی ہے اور ان ہی سے زخم بھی ہے اور مرہم بھی بنتا ہے۔

تشریح:۔

پیر صاحب کا فرمانا ہے کہ دنیا میں جسمانی تکلیف اور راحت کا زیادہ تر تعلق عناصر اربعہ سے ہے کیونکہ آفاق ہو یا انفس، اس میں گرمی، سردی، خشکی اور تری کے اعتدال سے راحت ہوتی ہے اور ان چار طبیعتوں کے توازن و اعتدال پر نہ ہونے سے تکلیف ہوتی ہے۔

۳۳

حکیمان این چنین گفتند باما

کہ این چار امہا تند اَن نُہ اَبا

ترجمہ:۔

حکماء نے ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ یہ چاروں عناصر مائیں ہیں اور وہ نو آسمان باپ ہیں۔

تشریح:۔

یہ حکماء یقیناً حکماء دین ہو سکتے ہیں، کیونکہ یہ تصور قرآنِ مجید کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ چنانچہ سورۂ یٰس کی آیت میں ارشاد ہے کہ: ”پاک ذات ہے جس نے زمین سے اگنے والی چیزوں کو جفت جفت پیدا کیا اور خود ان میں سے بھی اور ان چیزوں میں سے بھی جن کو وہ جانتے بھی نہیں“ یعنی تمام چیزیں کسی نہ کسی صورت میں جفت جفت ہیں۔

ازین چار و ازان نہ اے برادر

بشد موجود سہ فرزند دیگر

ترجمہ:۔

اے بھائی ان چار اور ان نو سے پھر تین فرزند پیدا ہوئے۔

تشریح:۔

یعنی نو آسمانوں سے جو باپ کی مثال ہیں اور چار عناصر سے جو ماں کی طرح ہیں تین بچے پیدا ہوئے۔

معادن پس نبات اَنگاہ حیوان

بہم بستند یکسر عہد و پیمان

۳۴

ترجمہ:۔

کانیں، اگنے والی چیزیں اور حیوانات (پیدا ہوئے) انہوں نے آپس میں عہد و پیمان باندھ لیا۔

تشریح:۔

آسمان اور عناصر کے ان تینوں فرزندوں کو موالید ثلاثہ کہتے ہیں۔ جو کانیں، نباتات اور جانور ہیں۔ اور یہ قدرتی طور پر ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔

بدریا درودرکان لعل و گوہر

کند درویش مردم راتونگر

ترجمہ:۔

دریا میں موتی اور کان میں لعل و جواہر ہوتے ہیں، جو غریب لوگوں کو امیر بناتے ہیں۔

تشریح:۔

پیر صاحب معدنیات کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ معدنیات وہ ہیں جو انسان کے لئے بہت مفید ہیں۔ مثلاً دریا سے موتی نکلتے ہیں اور کانوں سے لعل و جواہر اور یہ ایسی قیمتی چیزیں ہیں کہ اگر غریب لوگوں کو مل جائیں تو وہ فوراً امیر بن جائیں۔

غذای میوہ و نان ست کزوی

پدید اَید ہمی خون در رگ وپی

ترجمہ:۔

پھول اور روٹی کی غذا ہے کہ جس سے نسوں اور پٹھوں میں خون پیدا ہوتا ہے۔

۳۵

تشریح:۔

معدنیات کے بعد نباتات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان سے انسان کے لئے فائدہ یہ ہے کہ ان سے انسان کی غذا بنتی ہے جس سے اس کے جسم میں خون مہیا ہوتا ہے۔

ستور و گوسفند و گاؤ واشتر

کزیشان می شود روئی زمین پر

ترجمہ:۔

چوپائے گوسفند، گائے اور اونٹ ہیں جن (کی کثرت) سے زمین بھر جاتی ہے۔

تشریح:۔

معدنیات اور نباتات کے بعد حیوانات کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ہر قسم کے چوپائے، جانور اور مویشی ہیں جن کی کثرت سے زمین بھر جاتی ہے۔

ہمہ از بہر انسانند درکار

کشد او رایکی زین ویکی بار

ترجمہ:۔

یہ سب انسانوں کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک تو انسان کی سواری کے لئے زین اٹھاتا ہے اور ایک بوجھ اٹھاتا ہے۔

تشریح:۔

مولید ثلاثہ یعنی جمادات (معدنیات) کے بعد حیوانات کا ذکر ہے اس میں خود انسان بھی شامل ہے۔ کیونکہ حیوان کے معنی ہیں جاندار یعنی وہ

۳۶

مخلوق جو جان رکھتی ہے اور زندہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لفظ حیوان کے ساتھ دو اور لفظ لگا کر یہ فرق ظاہر کر دیا گیا کہ ایک حیوان خاموش ہے اور دوسرا حیوان بولتا ہے چنانچہ زندہ اور خاموش مخلوق کو حیوانِ صامت اور دوسری مخلوق کو جو زندہ ہونے کے ساتھ ساتھ بولتی بھی ہے حیوانِ ناطق کہا۔

موالیدند ازین ہا جسم انسان

پدید آمد درین شش گوشہ ایوان

ترجمہ:۔

انہی سے انسانی اجسام پیدا ہوتے ہیں اور انہی سے اس دنیا کی آبادی ہوتی ہے۔

تشریح:۔

قانونِ قدرت کا نظام یہ ہے کہ ترتیب اور درجات میں ہر نچلی مخلوق اپنے سے ایک درجہ اوپر کی مخلوق میں فنا ہو کر اس کی حیثیت میں بقا پاتی ہے۔ چنانچہ جمادات یعنی بے جان چیزیں نباتات بن جاتی ہیں، نباتات حیوانات کے جسم بن جاتی ہیں اور حیوانات انسانوں کے جسم بن جاتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ یہ استثنا بھی ہے کہ کوئی مخلوق اپنے سے اوپر کے چند درجات کو چھوڑ کر بالاتر بھی جا سکتی ہے۔ مثلاً پانی، ہوا، نمک اور دوسری بہت سی بے جان چیزیں دوا کی صورت میں انسان کا جزو بدن بن جاتی ہیں۔ جبکہ ان کے اوپر کے درجے نباتات اور حیوانات تھے اس طرح نباتات ہیں۔

درا ای حجت زیبا سخن گوی

کہ بردی از خلائق در سخن گوی

۳۷

ترجمہ:۔

آ جا اے پر لطف و پر کشش باتیں کرنے والے حجت، کہ تو کلام میں خلائق سے گوئی سبقت لے گیا۔

تشریح:۔

ویسے تو یہ رسم ہے کہ ہر شاعر کچھ نہ کچھ اپنی تعریف بھی کرتا ہے۔ مگر یہاں وہ بات ہرگز نہیں بلکہ حکیم ناصر خسرو جو کچھ فرماتے ہیں وہ یقیناً عین حقیقت ہے۔ کیونکہ آپ حکیم ربانی اور غواص بحر روحانی ہونے کے علاقہ وہ پہلے شاعر ہیں جس نے غزل نہیں کہی بلکہ اپنی تمام شاعری حکمت کے لئے مخصوص کر دی۔

۳۸

۶۔ متولدات کے بارے میں:۔

 

چہ گفتند آن حکیمان سخن گوئی

کہ بردند از ملائک در سخن گوئی

ترجمہ:۔

(سن لے کہ) کیا کہا ان سخن پرور حکماء نے، جو فصاحت و بلاغت میں فرشتوں سے بھی گوئی سبقت لے گئے ہیں۔

تشریح:۔

متولد کے معنی ہیں تولد ہونے والا، پیدا ہونے والا اور متولدات اس کی جمع ہے جس سے مراد انسان اور اس کی تخلیق و تولید ہے۔ چنانچہ حکیم صاحب حکمائی دین کے حوالے سے اس کے بارے میں فرماتے ہیں۔

کہ خون ما کہ آن اصل حیات ست

یکی فرزند حیوان و نبات ست

ترجمہ:۔

(حکماء نے فرمایا) کہ ہمارا خون جو کہ زندگی کی اصل و اساس ہے وہ حیوان اور نبات کی ایک اولاد ہے۔

تشریح:۔

خون کو انسانی جسم کی زندگی کی اصل و اساس اس لئے قرار دیا جاتا ہے کہ اسی میں روحِ حیوانی بصورتِ ذرات پائی جاتی ہے وہ حیوان اور نبات کے امتزاج سے پیدا ہوا ہے۔ یعنی جب ہمارا نفسِ حیوانی اناج، پھل، ترکاری وغیرہ سے بنی

۳۹

ہوئی غذائیں کھا لیتا ہے تو اس سے خون پیدا ہوتا ہے یا اس سے یہ مراد ہے کہ خون ہمارے جسم میں روحِ حیوانی اور روحِ نباتی کے عمل سے بنتا ہے۔

دگر رہ چون مصفا گردد آن خون

وزو خون سفید آید بہ بیرون

ترجمہ:۔

پھر واپس جب وہ خون صاف ہو جاتا ہے اور اس سے سفید خون خارج ہو جاتا ہے۔

تشریح:۔

خون میں یہ بھی صلاحیت ہے کہ روحِ حیوانی کے عوامل سے اس کی ایک مقدار صاف ہو کر سفید رنگ میں خارج ہو جاتی ہے۔

 

ورا خوانند نطفہ اہل معنی

کہ پالودہ ازاں خون ست یعنی

ترجمہ:۔

اس کو اہلِ حقیقت نطفہ کہتے ہیں۔ اس کے معنی ہیں کہ وہ خون سے صاف و پاک کیا ہوا ہے۔

تشریح:۔

پیر صاحب کا ارشاد ہے کہ اس سفید خون کو نطفہ اس لئے کہتے ہیں کہ نطفہ کے معنی صاف پانی ہیں۔

وزان پس در مشیمہ چونکہ افتاد

فگندش اوستاد چرخ بنیاد

۴۰

ترجمہ:۔

اور اس کے بعد وہ جب رحم میں جا گرتا ہے تو آسمان کا استاد اس کے لئے تخلیق کی بنیاد رکھتا ہے۔

تشریح:۔

یعنی جب مادۂ تولید مشیمہ (رحم) میں جاگزین ہوتا ہے تو خدا کے امر کے بموجب آسمان بحیثیت استاد اس نطفہ کی تعمیر و تخلیق کی عمارت قائم کرنے کی بنیاد رکھتا ہے۔

 

زحل یک ماہ او را تربیت کرد

دوم مہ مشتریش تقویت کرد

ترجمہ:۔

زحل نے ایک مہینے اس کی پرورش کی مشتری نے دوسرے مہینے اس کو قوت پہنچائی۔

تشریح:۔

قرآنِ پاک میں ارشادِ ربانی ہے:

وَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْهُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ (۴۵: ۱۳)

”اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے سب کو تمہارے لئے مسخر کر دیا۔ یقیناً اس میں ان لوگوں کے لئے جو فکر کرتے ہیں نشانیاں ہیں“۔ اس ارشادِ الٰہی سے اس حقیقت کی تصدیق ہوئی کہ ستارے انسان کے فائدے کی خاطر مصروف عمل ہیں۔

۴۱

بشد ماہ سوم بہرام یارش

چہارم ماہ خور صورت نگارش

ترجمہ:۔

تیسرے مہینے میں مریخ اس کا مددگار ہوا چوتھے مہینے میں سورج اس کا مصور (صورت بنانے والا) ہوا۔

تشریح:۔

حکیم ناصر خسرو نے آسمانوں اور ستاروں کی پیدائش کے باب میں افلاک و انجم کو ارواحِ مجسم کے نام سے موسوم فرمایا ہے اس کے معنی یہ ہوئے کہ انسانی جسم کی تخلیق کے سلسلے میں قانونِ قدرت کی طرف سے ستاروں کو جو خدمت سونپی گئی ہے وہ روحانی اور جسمانی دونوں طرح سے انجام پاتی ہے۔ چنانچہ سورج انسانی جسم کی تعمیر و تخلیق میں جو کام انجام دیتا ہے وہ بھی اسی طرح سے ہے۔

چو از خورشید تاباں زندگی یافت

دران جا قوت جنبندگی یافت

ترجمہ:۔

جب اس نے چمکنے والے سورج سے زندگی پائی تو وہاں پر اس کو ہلنے کی قوت مل گئی۔

تشریح:۔

حکماء سورج کو گرمی، روشنی اور دوسری کئی طاقتوں کے علاوہ روحِ حیوانی کا بھی سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ ماں کے پیٹ کے بچے میں جو روحِ حیوانی کا داخل ہونا شروع ہوتا ہے وہ چوتھے ماہ میں ہے کیونکہ اس میں سورج کی خاص نگرانی رہتی ہے۔

۴۲

مہ پنجم کند زہرہ ورا کار

عطارد باشدش ماہ ششم یار

ترجمہ:۔

پانچویں ماہ میں زہرہ اس کے لئے کام کرتا ہے، چھٹے مہینے میں عطارد اس کا مددگار بنتا ہے۔

تشریح:۔

قرآنِ پاک کی تعلیمات میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ احسن الخالقین ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ حق تعالیٰ کی بادشاہی میں ظاہراً و باطناً تخلیق و تعمیر کی بہت سی قوتیں موجود ہیں۔ مگر حق تعالیٰ کی تخلیق ان سب سے بہترین ہے، پس اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہوا، کہ مختلف قوتوں کے ذریعے سے انسان کی تخلیق منزل بمنزل تکمیل پائی جاتی ہے اور اخیر میں روحانی تخلیق خدا ہی کے ہاتھ سے انجام پاتی ہے۔

(ملاحظہ ہو قرآن ۱۴/۲۳ اور ۱۲۵/۳۷)

بہفتم ماہ اورا ماہ باشد

بہشتم زو زحل آگاہ باشد

ترجمہ:۔

ساتویں مہینے میں چاند اس کا ساتھی ہوتا ہے۔ آٹھویں ماہ میں زحل اس کی خبر گیری کرتا ہے۔

تشریح:۔

بچے کی اس خدمت و حفاظت میں سات ستاروں کا جب پہلا دور ختم ہو جاتا ہے تو پھر دوسرا دور شروع ہو جاتا ہے۔

۴۳

دران زندان تنگ اندر کشا کس

بود جائش میان آب و خون خوش

ترجمہ:۔

اس تنگ قید خانے میں (اور ایسی) کش مکش میں اس کی جگہ پانی اور خون کے درمیان (ہونے کے باوجود) اچھی محسوس ہوتی ہے۔

تشریح:۔

یہ بات خاص و عام سب جانتے ہیں کہ اس مادی زندگی میں انسان سانس لئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ تاہم کچھ حالات ایسے بھی ہیں جن میں سانس کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے مثلاً جبکہ وہ ماں کے پیٹ میں تھا نیز جبکہ روحانیت کی ایک خاص منزل سے گزرتا ہے اور یہی سبب ہے جو ائمہ علیھم السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص پانی میں ڈوب کر مر جائے تو اس کو ایک دن اور ایک رات رکھ کر دفن کیا جائے اور اگر آسمانی بجلی گرنے سے کسی پر موت کی سی کیفیت طاری ہوئی ہو تو اس کو تین دن سے پہلے دفن نہ کیا جائے۔

پس از نہ ماہ زاووش خجستہ

برون آرد ورا زان راہ بستہ

ترجمہ:۔

نو مہینے کے بعد مبارک مشتری اس کو اس دشوار اور تنگ راستہ سے باہر لاتا ہے۔

تشریح:۔

ایک طرف انسان کی مادی تخلیق شکمِ مادر میں نو ماہ کے بعد مکمل ہو جاتی ہے، دوسری طرف سے اس کی روحانی تخلیق دعوتِ حق میں نو درجوں کی شناخت

۴۴

کے بعد مکمل ہو جاتی ہے اور وہ یہ ہیں۔ مستجیب۱، ماذون محدود۲، ماذون مطلق۳، داعی محدود۴، داعی مطلق۵، حجتِ جزیرہ۶،حجتِ اعظم۷، امام۸،اساس۹۔

ازان تاریک دان آید درین جائی

جہان بیند خوش و خوب و دل آرائی

ترجمہ:۔

اس تاریک مقام سے اس ظاہری دنیا میں آتا ہے اور دنیا کو خوش منظر خوبصورت اور مسرت بخش دیکھتا ہے۔

تشریح:۔

قرآنِ کریم کا ارشاد ہے کہ رحمِ مادر میں جب بچے کی تخلیق ہوتی ہے اس وقت وہ تین قسم کی تاریکیوں میں پوشیدہ ہوتا ہے جس سے عقلانی، روحانی اور جسمانی تاریکی مراد ہے۔

سرائی بس فراخ و مسکن خوش

ہوائی بس لطیف و خوب و دلکش

ترجمہ:۔

ایک بہت وسیع گھر اور ایک خوش منظر مقام ایک انتہائی لطیف، عمدہ اور دل کش ہوا (کو دیکھتا ہے)۔

تشریح:۔

یعنی نو مولود بچہ اس دنیا کو ہر لحاظ سے بہتر اور دل کش پاتا ہے اور اپنی ماں کے پیٹ کی نسبت یکایک یہاں بڑا فرق دیکھتا ہے۔

۴۵

چنان پندارد آن مسکین درین جا

کزین خوشتر نباشد ہیچ ماوا

ترجمہ:۔

وہ بیچارہ اس دنیا میں آ کر ایسا گمان کرتا ہے کہ اس سے بہتر کوئی مقام نہیں ہو سکتا۔

تشریح:۔

پیر صاحب نومولود بچے کی زبانِ حال کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ جب شکمِ مادر کی تنگی سے آزاد ہو کر دنیا کی وسعت و کشادگی میں آتا ہے تو وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس سے بہتر کوئی جگہ نہیں بس یہی ہے جو کچھ ہونا چاہیئے۔

نمی داند کزین خوشتر سرائیست

کہ این در جنب آں تاریک جائیست

ترجمہ:۔

وہ نہیں جانتا کہ اس سے ایک بہتر گھر ہے جس کے مقابلے میں یہ ایک اندھیرا مقام ہے۔

تشریح:۔

پیر صاحب کے اس کلام کا مفہوم یہ ہے کہ عالمِ سفلی یعنی دنیا ایک انتہائی تاریک اور گہرے کنوئیں کی طرح ہے، جبکہ عالمِ علوی یعنی آخرت ایک روشن دنیا کی مثال پر ہے۔ اگر واقعاً ایسا نہ ہوتا، تو قرآنِ مجید کی تعلیمات میں یہ مثال نہیں دی جاتی کہ ”اور تم سب لوگ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو اور متفرق نہ ہو“ اس سے یہ معلوم ہوا کہ دنیا ایک تاریک کنواں ہے جس سے نکل کر عالمِ بالا میں چڑھنے کا واحد ذریعہ اللہ کی وہ رسی ہے جو اس غرض کے لئے عالمِ علوی اور عالمِ

۴۶

سفلی کے درمیان قائم کر دی گئی ہے۔

نبات آسا بود یک چند حالش

بر آید زین تر و تازہ نہالش

ترجمہ:۔

کچھ عرصہ اس (بچے) کی حالت نبات کی طرح ہوتی ہے جس سے وہ خوب نشو و نما پاتا ہے۔

تشریح:۔

ایک بالغ اور عام انسان میں بیک وقت تین روحیں اپنا اپنا کام کرتی ہیں، مگر سب سے پہلے انسانی جسم بنانے کا کام روحِ نباتی آغاز کرتی ہے اسی طرح بچہ چار ماہ تک نباتات کی مثال میں نشو و نما پانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتا۔

وزاں پس ہمچو حیوان روزگاری

بجز خوردن ندارد ہیچ کاری

ترجمہ:۔

اور اس کے بعد روحِ حیوانی کے داخل ہونے سے تھوڑی سی حرکت بھی کرنے لگتا ہے اور جب وہ پیدا ہوتا ہے تو حرکت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے مگر ایک مدت تک حیوان کی طرح کھانے پینے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ یعنی بول نہیں سکتا لہٰذا اس عرصہ میں وہ حیوان سے ملتا جلتا ہے۔

سوم بارہ دران جان سخنور

شود پیدا و زوگردد منور

۴۷

ترجمہ:۔

تیسرے مرحلے پر اس میں روحِ ناطقہ پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ درخشاں اور روشن ہو جاتا ہے۔

تشریح:۔

یعنی جب وہ روحِ ناطقہ کے سبب سے باتیں کرنے لگتا ہے تو وہ اس وقت حیوانِ ناطق یا کہ انسان کی منزل میں قدم رکھتا ہے اور آہستہ آہستہ علم و ہنر کے آسمان کا ایک روشن ستارہ بن جاتا ہے۔

۴۸

۷۔ حشر کے بارے میں

 

دگر بارہ ازیں ویرانہ گلخن

گر اید سوئی آن آباد گلشن

ترجمہ:۔

پھر وہ اس اجڑے ہوئے چولھے (یعنی دنیا) سے اس آباد گلشن (یعنی آخرت) کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔

تشریح:۔ پیر صاحب دنیا کو آخرت کے مقابلے میں ایک اجڑے ہوئے چولھے سے تشبیہہ دیتے ہیں، جس میں جو چیزیں پائی جاتی ہیں وہ راکھ، کوئلہ، کاجل اور کالک کے سوا کچھ بھی نہیں۔

بدان رہ کامدست او باز گردد

ولی بایدکہ نیکو ساز گردد

ترجمہ:۔

وہ جس راہ سے آیا ہے اسی سے واپس ہو جاتا ہے۔ لیکن اسے خوب تیار ہو کر واپس جانا چاہیئے۔

تشریح:۔

یعنی وہ روحانی عالم کی راہ سے یہاں آیا ہوا ہے اور اسی راہ سے اس کو واپس جانا ہے لیکن اسے چاہیئے کہ علم و عمل کی بہترین تیاری کے ساتھ جائے۔

۴۹

کہ در ہر منزلی مشکل سوالی

کنند اورا ز دیگر گو نہ حالی

ترجمہ:۔

کیونکہ (آخرت کی) ہر منزل میں اس سے ایک عجیب قسم کا مشکل سوال کیا جائے گا۔

تشریح:۔

پیر صاحب کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ روحانیت کے طویل سفر میں بے شمار منزلیں آتی ہیں اور ہر منزل پر اس آخرت کی طرف واپس جانے والے سے علم و عرفان کا ایک عجیب سوال کیا جائے گا۔

اگر دارد جواب آن سوال او

رسد اندر سرائی بیزوال او

ترجمہ:۔

اگر اس کے پاس اس سوال کا جواب موجود ہے تو وہ (بہشت کے) لازوال گھر میں پہنچ سکتا ہے۔

تشریح:۔

قرآنِ مجید میں کئی آیتیں ہیں۔ جن سے اس حقیقت کی توثیق و تصدیق ہوتی ہے کہ عالم آخرت کے راستے میں مختلف سوالات کئے جائیں گے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:۔

و قفوھم انھم مسئولون (۲۴/۳۷)

اور انہیں ٹھہراؤ یقیناً ان سے سوال کئے جانے ہیں۔

۵۰

وگرنہ اندران منزل بماند

نخستین منزل اندر گل بماند

ترجمہ:۔

ورنہ وہ اسی منزل میں رہ جاتا ہے۔ سب سے پہلی منزل (یہ کہ) وہ مٹی میں رہ جاتا ہے۔

تشریح:۔

پیر صاحب فرماتے ہیں کہ اگر وہ ان سوالات کے جوابات دینے میں ناکام ہو جائے تو جس منزل میں ناکامی سے دوچار ہو وہیں رہے گا اور جس کے اعتبار سے پہلی منزل مٹی ہے۔

بدین سان میرود منزل بمنزل

گلشن سوئی گل آید دل سوئی دل

ترجمہ:۔

وہ اسی طرح سے ایک منزل سے دوسری منزل ہوتے ہوئے گزر جاتا ہے، اس کی مٹی (یعنی جسم) مٹی کی طرف لوٹتی ہے اور دل ( یعنی روح) دل (روح کل) کی طرف۔

تشریح:۔

یعنی اگر وہ جا سکے تو منزل بمنزل ہوتے ہوئے جاتا ہے، اس کا جسم تو مٹی میں جا ملتا ہے، مگر اس کی روح الارواح سے جا ملتی ہے۔

 

ازیدر گردلش کامل شودباز

رسد اورا بہشت و نعمت و ناز

۵۱

ترجمہ:۔

اگر یہاں سے اس کا دل کامل ہو کر لوٹ جائے تو اس کی بہشت اور ناز و نعمت حاصل ہوتی ہے۔

تشریح:۔

دل سے انسان کی ذات یعنی روح مراد ہے اور نور معرفت کا حصول ہی اس کی تکمیل ہے۔ چنانچہ ربانی ارشاد ہے:۔

ربنا اتمم لنا نورنا واغفرلنا ۸/۶۶

اے ہمارے پروردگار تو ہمارے  لئے ہمارا نور کامل کر دے اور ہمیں بخش دے۔

وگر در باز گشتن نا تمام ست

بہ آتش در بماند زانکہ خام ست

ترجمہ:۔

اور اگر وہ لوٹ جانے میں ناتمام اور نامکمل ہے تو آگ ہی میں رہے گا، کیونکہ وہ کچا ہے۔

تشریح:۔

پیر صاحب کے اس کلام سے نیز ان کی دوسری کتب سے یہ ظاہر ہے کہ جہالت کی تاریکی آتشِ دوزخ ہے اور علم و معرفت کی روشنی بہشت ہے (دوزخ اور بہشت کی تفصیلی بحث کے لئے دیکھئیے کتاب ”وجہ دین“ کا اردو ترجمہ حصہ اول صفحہ ۴۳۔۴۴ نیز ۵۳۔۵۹)

۵۲

ہمین ست اعتقاد اندر قیامت

اگرچہ از خران یابم ملامت

ترجمہ:۔

قیامت کے بارے میں (میرا) اعتقاد ہی ہے اگرچہ بے وقوف لوگ مجھے ملامت کریں۔

تشریح:۔

پیر صاحب دوزخ اور بہشت کے متعلق اپنے اعتقاد اور نظریہ کی طرف اشارہ کرنے کے بعد اس امکانیت کا بھی ذکر کرتے ہیں، کہ گدھوں کی طرح بے وقوف لوگ جو حقائق و معارف سے بالکل کورے ہیں اس بارے میں حرف گیری تو کریں گے مگر کسی بھی دلیل سے تردید نہیں کر سکتے۔

بہشت و دوزخت در آستین ست

چنین دانی اگر رایت رزین ست

ترجمہ:۔

تیری بہشت اور دوزخ تیرے ہاتھ میں ہیں اگر تیری رائے مستحکم اور گرانمایہ ہے تو تو ایسا ہی سجھے گا۔

تشریح:۔

اس مطلب کی وضاحت ہو چکی ہے کہ بہشت اور دوزخ علم و جہالت کی صورت میں ہیں جو انسان کے ہاتھ میں اور اسکے اختیار میں ہیں اور یہ اس کی خواہش و مرضی پر ہے کہ جہالت کو اپنائے یا علم کو۔

بہشت و دوزخ دیگر جز این نیست

جزاین داند کہ بارائی رزین نیست

۵۳

ترجمہ:۔

اس کے بغیر دوسری کوئی بہشت و دوزخ نہیں ہے۔ وہ شخص (ان دونوں کو ) اس کے سوا اور برعکس سمجھے گا جو استوار رائے نہیں رکھتا ہو۔

تشریح:۔

بہشت اور دوزخ اسی طرح ہیں جیسے ان کا ذکر کیا گیا۔ اس کے سوا کوئی بہشت و دوزخ نہیں ہے اور جو لوگ عقل و دانش میں مضبوط نہ ہوں، تو وہ لازماً ان دو جگہوں کو کچھ اور سمجھیں گے۔

۵۴

۸۔ ”انسانی روح کی حقیقت“

 

تو خود رامی ندانی کیستی تو

بگوتا درجہان بر چیستی تو

ترجمہ:۔

تو خود کو نہیں جانتا کہ تو کون ہے (اگر تو خود کو جانتا ہے تو) بتا دے کہ دنیا میں تیرا قیام کس چیز پر ہے۔

تشریح:۔

تو اپنے آپ کو نہیں پہچانتا کہ تو کون ہے۔ تیری ابتدائی حقیقت کیا تھی اور آخری حقیقت کیا ہو گی۔ اگر تو اپنے آپ کو پہچانتا ہے تو ہمیں بتا دے کہ اس دنیا میں تو کس بنیادی طاقت پر کھڑا ہے۔

 

توئی تو بگوتا خود کدام ست

تنی یا جان ترا آخر چہ نام ست

ترجمہ:۔

اپنی انتہائی خودی اور انا بتا دے کہ کونسی ہے؟ تو جسم ہے یا جان ہے آخر تیرا کیا نام ہے؟

تشریح:۔

انسان گفتگو میں جب اپنے کسی عضو یا اپنی کسی چیز کی طرف معنوی اشارہ کرتا تو کہتا ہے کہ ”میرا“ یا کہتا ہے ”میری“ جس میں وہ کسی عضو یا کسی چیز کو اپنی خودی اور انا سے منسوب کرتا ہے اور جب وہ اپنی خودی اور انائیت کی طرف

۵۵

اشارہ کرتا ہے تو ”میں“ کا لفظ استعمال کرتا ہے جس میں انسان کی اس آخری حقیقتِ واحدہ کا ذکر ہے جو بہت سی چیزوں کو اپنانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور پھر ان سب کو چھوڑ کر مجرد اور بے تعلق ہو سکتی ہے۔

تو این ریش و سرو سبلت کا بینی

تو پنداری توئی نی نی نہ اینی

ترجمہ:۔

جب تو اپنی اس داڑھی، مونچھ اور سر کو دیکھتا ہے تو گمان کرتا ہے کہ بس تو یہی جسم ہے، نہیں نہیں، تو یہ نہیں ہے۔

تشریح:۔

جب تو اپنے جسم اور اس کے اعضاء کو دیکھتا ہے تو تیرا گمان ہوتا ہے کہ بس تو سب کچھ یہی جسم ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یوں نہیں، تو اپنی ابتدائی اصلیت اور آخری خودی میں جسم نہیں ہے۔ بلکہ تو کچھ اور حقیقت ہے۔

طلسم و بندوز ندان تو است ایں

بزوچشم خود بکشا و خودبین

ترجمہ:۔

پیر صاحب کا ارشاد ہے کہ (جسم اور اس کے حواس) تیرے لئے جادو، بندھن اور قید خانے کی حیثیت سے ہیں۔ پس جا اور دیدۂ دانش کھول کر اپنے آپ کو دیکھ لے۔

تشریح:۔

جسمانی لذتیں طلسم، بندھن اور قید خانے کی مثال ہیں کہ انسان ان سے نکل کر اپنی ذات کی معرفت تک پہنچ سکتا۔ لہٰذا جب تک علم و دانش کی

۵۶

آنکھ حاصل نہ کی جائے تو نہ ان رکاوٹوں سے نکل جانے کا کوئی راستہ دیکھا جا سکتا ہے اور نہ انسان کی آخری حقیقت معلوم ہو سکتی ہے۔

تو صورت نیستی معنی طلب کن

نظر در جسم و جان بوالعجب کن

ترجمہ:۔

تو ظاہریت نہیں ہے (بلکہ معنویت ہے۔ پس) تو معنویت طلب کر (اور اپنے اس) عجب جسم اور جان کو دیکھا کر۔

تشریح:۔

انسان کی ظاہریت بادام کے بیرونی چھلکوں کی طرح ہے اور اس کی معنویت یعنی جسمِ لطیف اور روحِ ناطقہ مغز بادام اور اس کے تیل کی طرح ہے پس تو اپنے جسمِ خاکی پر نظر نہ رکھ بلکہ اپنے اس عجیب اور معجزانہ جسمِ لطیف اور روحِ ناطقہ کا مشاہدہ کر۔

زہی نادان کہ خودرا جسمِ دانی

رہا کن این سخن زیرا کہ جانی

ترجمہ:۔

تو عجیب نادان ہے کہ اپنے آپ کو جسم سمجھتا ہے اس بات کو چھوڑ دے کیونکہ تو جان ہے۔

تشریح:۔

اگر انسان اپنی ساری کوششیں صرف جسم ہی کے لئے کر رہا ہو، تو گویا وہ اپنے آپ کو صرف جسم ہی سمجھتا ہے حالانکہ اسے یوں نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ وہ

۵۷

دراصل جان یعنی روح کی حیثیت سے ہے۔

کدا میں جاں؟  نہ این جان طبیعی

نکو بنگر کہ چیزی بس بدیعی

ترجمہ:۔

کون سی جان، یہ جان نہیں جو طبعی ہے، اچھی طرح سے دیکھ لے، کہ تو ایک عجیب چیز ہے۔

تشریح:۔

فرماتے ہیں، میں نے جو کہا کہ تو جسم نہیں بلکہ جان ہے، تو اس سے میری مراد وہ جان ہرگز نہیں جو طبعی قسم کی ہے یعنی یہ ہو نفس نہیں ہے جو خشکی، تری، سردی اور گرمی کے اعتدال پر زندہ رہ سکتا ہے۔ پس اچھی طرح سے اپنی حقیقت کا مشاہدہ کر، کیونکہ تو ایک انتہائی معجزانہ چیز ہے۔

توئی جان سخن گوئی حقیقی

کہ با روح القدس دارد رفیقی

ترجمہ:۔

تو بحقیقت وہ بولنے والی جان ہے جو روح القدس کے ساتھ رہا کرتی ہے۔

تشریح:۔

تو وہ روح ہے، جو بحقیقت بولنے والی ہے جس کو روحِ ناطقہ کہا جاتا ہے، جو روح القدس کی ہم نشین ہے۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ کلام کرنا اس روح کی خاصیت ہے تو اس کی رفاقت اور ہمکلامی کے لئے ایک اور روح کا ہونا لازم آتا ہے۔ پس درست ہے کہ روحِ ناطقی روح القدس کی ہمنشین اور ہمکلام ہے۔

۵۸

زجائی واز جہت ہستی منزہ

ببیں تاکیستی انصاف خود دہ

ترجمہ:۔

مکان اور طرف سے تو پاک ہے پس دیکھ لے اور خود ہی انصاف سے بتا دے کہ تو کون ہے۔

تشریح:۔

جب یہ مانا گیا کہ انسان بحقیقت جسم نہیں، بلکہ روح کی حیثیت سے ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان ایک لامکانی اور لاجہتی حقیقت ہے، کیونکہ روح مکان و زمان سے بالاتر ہے، پس معرفت کی آنکھ سے اپنے آپ کو دیکھ لے اور خود ہی انصاف سے بتا دے، کہ تو کون ہے اور تیری ہستی کی آخری حقیقت کیا ہے۔

بچشم سر جمالت دیدنی نیست

کسی کو دید رویت چشم معنی ست

ترجمہ:۔

سر کی آنکھ سے تیرا جمال دکھائی دینے والا نہیں وہ شخص جس نے تیرا (یہ روحانی) چہرہ دیکھا (کوئی نہ تھا، مگر) چشمِ حقیقت ہی ہے۔

تشریح:۔

اس ظاہری آنکھ سے تیرا جمال دکھائی دینے والا نہیں، وہ شخص جس نے تیرا (یہ روحانی) چہرہ دیکھا (کوئی نہ تھا، مگر) چشمِ حقیقت ہی ہے۔

تشریح:۔

اس ظاہری آنکھ سے تیرا روحانی حسن و جمال دیکھا نہیں جا سکتا، پھر ایسا کوئی شخص کہاں ہے جس نے اپنی ظاہری آنکھ سے اپنا یہ جلوہ دیکھا ہو، مگر یہی ہے کہ دیدۂ حقیقت بین سے یہ جلوہ دیکھا گیا ہے۔

نگر تادر گمان اینجا نیفتی

قدم بفشار تا از پانیفتی

۵۹

ترجمہ:۔

(چشمِ باطن سے) دیکھ لیا کر، تاکہ تو اس مقام پر ہی گمان میں گر نہ جائے قدم جما کر چل تاکہ تو گر نہ پڑے۔

تشریح:۔

معرفتِ ذات کی ابتدائی منزل علم الیقین ہے، درمیانی منزل عین الیقین ہے اور آخری منزل حق الیقین ہے اور علم الیقین سے پہلے جو راستہ آتا ہے وہ گمان ہی گمان ہے یعنی وہ ایک تاریک راستہ ہے اور اگر اس تاریکی میں خدا کے نور نے ہدایت نہ فرمائی تو انسان گر جانے کا خطرہ در پیش رکھتا ہے، پس انسان کو چاہئیے کہ دیدۂ دانش سے کام لے کر ذریعۂ ہدایت کو پہچان لیا کرے اور قدم جما کر منازلِ یقین کی طرف آگے بڑھتا جائے۔

صفتہایت صفتہائی خدائیست

ترا این روشنی زان روشنائیست

ترجمہ:۔

تیری (روحانی) صفات خدائے تعالیٰ کی صفات ہیں۔ تجھ کو یہ علم و دانش کی (روحانی) روشنی اسی (خدا کی ہمہ گیر و ہمہ رس) روشنی سے حاصل ہے۔

تشریح:۔

جب قرآن ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ خدائے تعالیٰ عقلانی اور روحانی طور پر کائنات و موجودات کا نور ہے۔ تو لازماً وہ مہربان مالک انسانی صفات کا بھی نور ہے، پس انسان کی یہ باطنی روشنی دراصل خدا ہی کی روشنی ہے اور اس روشنی کے زیرِ اثر انسان کی جو پسندیدہ صفات ہوتی ہیں وہ گویا خدا ہی کی اپنی صفات ہیں۔

۶۰

ہمی بخشد کزو چیزی نکاہد

ترا داد و دہد آنرا کہ خواھد

ترجمہ:۔

تجھ کو وہ (اپنی صفات سے صفات) کچھ اس طرح عطا فرماتا ہے کہ (اس کی صفات میں) کوئی کمی واقع نہیں ہوتی تجھے عطا فرمایا اور اسی طرح وہ جس کو چاہے عطا فرماتا ہے۔

تشریح:۔

جب خدائے تعالیٰ اپنی صفات اور اپنی روشنی میں سے اپنے خاص بندوں کو صفاتِ عالیہ اور نورِ ھدایت عطا فرماتا ہے۔ تو اس کی ذات و صفات میں ہرگز کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اور اس کے اختیار میں ہے کہ وہ جس کو چاہے عطا کرے جس طرح خود تجھے یہ روحانی نعمتیں عطا کی گئی تھیں۔

زنورِ اوتو ہستی ہمچو پرتو

وجود خود بپر داز و تو اوشو

ترجمہ:۔

تو اس کے نور سے عکس (یعنی نور کی تصویر، مثلاً آئینے میں سورج) کی طرح ہے (پس) اپنی ہستی کو خالی کر دے، اور تو وہ (خدا) ہو جا۔

تشریح:۔

خدائے تعالیٰ گویا نورانیت کا سورج ہے، اور تو اس کا وہ عکس ہے، جو صاف و شفاف پانی میں یا آئینے میں نظر آتا ہے۔ پس اگر تو چاہتا ہے کہ یہ عکس سورج کے ساتھ ملکر ایک ہو جائے، تو اپنے وجود کے آئینے کو خالی بلکہ ختم کر ڈال۔ یعنی بطریق عبادت و ریاضت جب تیری خودی اور انائیت خدا کے نور تک پہنچ

۶۱

چکی ہے، تو اپنی ہستی کو مٹا دے تاکہ دوئی ختم ہو کر وحدت ہی وحدت باقی رہے۔

حجابت دور دارد گرنجوئی

حجاب از پیش برداری تو اوئی

ترجمہ:۔

اگر تو اس کی جستجو نہ کرے تو تیرے وجود کا پردہ تجھے (اس سے) دور رکھے گا۔ اگر تو اس پردے کو سامنے سے ہٹا دے تو (یہ حقیقت تجھ پر منکشف ہو گی کہ) تو خود ہی وہ (خدا) ہے۔

تشریح:۔

اگر تو اس کو نہ ڈھونڈے تو تیری نفسانی ہستی کا یہ پردہ ایسا ہے کہ تجھے خدا سے روز بروز دور کرتا رہے گا۔ اگر تو یہ پردہ ہٹا سکے، تو یہ حقیقت تجھ پر کھل جائے گی کہ فی الاصل تیری خودی اور انائیت خدا سے کبھی جدا ہی نہیں ہوئی ہے۔

ز دنیا تابعقبیٰ نیست بسیار

ولی در رہ وجود تست دیوار

ترجمہ:۔

دنیا سے آخرت تک کچھ زیادہ مسافت تو نہیں لیکن راستہ میں تیری اپنی ہستی ہی دیوار بنی ہوئی ہے۔

تشریح:۔

پیر صاحب کا ارشاد ہے، کہ دنیا اور آخرت کے درمیان کچھ زیادہ فاصلہ اور مسافت نہیں۔ کیونکہ دنیا سے مراد جسمانیت اور آخرت سے مراد روحانیت ہے اور ان دونوں کے درمیان انسان کی اپنی ہستی اور خودی دیوار اور رکاوٹ بنی ہوئی

۶۲

ہے۔ پس جس شخص نے بموجب ارشاد:

موتوا قبل ان تموتوا

اپنی خودی مٹائی اس کی دنیا و آخرت مل کر ایک ہو گئیں۔

۶۳

۹۔ ”اعراض و جواہر کے بارے میں“

 

ہر آنچ آن ہست ز اعلیٰ تابا سفل

دو چیز آمد ز آخر تابہ اول

ترجمہ:۔

بلندی سے پستی تک جو کچھ موجود ہے (اس میں) آخر سے اول تک دو چیزیں پیدا ہوئی ہیں۔

تشریح:۔

آسمان سے لیکر زمین تک اور اول سے لیکر آخر تک جو کچھ کلی طور پر موجود ہے وہ دو چیزوں پر مشتمل ہے۔

یکی اعراض و آن دیگر جواہر

چنین گفتند استادان ماہر

ترجمہ:۔

ایک اعراض ہیں اور وہ دوسرے جواہر ہیں۔ ماہر استادوں نے یوں فرمایا ہے۔

تشریح:۔

اعراض عرض کی جمع اور جواہر جوہر کی جمع ہے۔ ارشاد ہے کہ جو کچھ موجود ہے وہ ان ہی دو چیزوں پر مشتمل ہے۔ ایک چیز تو عرض ہے اور دوسری چیز جوہر۔

۶۴

چہ باشد جوہری؟ کوہست دائم

بذات خویشتن پیوستہ قائم

ترجمہ:۔

کوئی جوہر کیا ہوتا ہے؟ (یعنی جوہر کو کیوں جوہر کہتے ہیں؟) کیونکہ وہ ہمیشہ اپنی ذات پر قائم ہے۔

تشریح:۔

فرماتے ہیں کہ جوہر وہ چیز ہے جو اپنی ذات پر قائم رہے اور قیام و بقا کے لئے دوسری چیز کا محتاج نہ ہو۔ جیسے روح، کہ وہ اپنی ذات پر قائم ہے۔

عرض قائم بذات جوہر آمد

خرد را این سخنہا باور آمد

ترجمہ:۔

عرض جوہر کی ذات پر قائم ہے۔ عقل ان باتوں پر اعتبار کرتی ہے۔

تشریح:۔

عرض کی تعریف یہ ہے، کہ وہ اپنے آپ پر قائم نہیں بلکہ اس کا قیام جوہر کی ذات پر ہے۔ پس جواہر اور عرض کے درمیان فرق یہی ہے کہ جوہر کا قیام اپنے آپ پر ہے اور عرض کا قیام جوہر پر۔

بود قابل عرض بے شک فنارا

ولی جوہر بود قابل بقارا

ترجمہ:۔

بےشک عرض فنا کے قابل ہے۔ لیکن جوہر بقا کے قابل ہے۔

۶۵

تشریح:۔

پیر صاحب فرماتے ہیں کہ عرض فنا کو قبولنے والا ہوا کرتا ہے۔ اور اس کے برعکس جوہر بقا کو قبولتا اور اپناتا ہے۔

توئی فرع عرض ہم اصل جوہر

ہمہ عالم توئی جان برادر

ترجمہ:۔

تو عرض کی شاخ بھی ہے (اور) جوہر کی جڑ بھی۔ بھائی جان! تو خود ہی ساری کائنات ہے۔

تشریح:۔

کوئی شک نہیں کہ کائنات میں جو چیزیں پائی جاتی ہیں، وہ عرض اور جوہر کے سوا کچھ بھی نہیں، اور دوسری طرف سے یہ بھی ہے کہ تو عرض کی شاخ اور جوہر کی جڑ ہے۔ لہٰذا تو خود ہی ساری کائنات ہے۔

عرض جسم ست و زجان جوہری تو

ازان برہر دو عالم سروری تو

ترجمہ:۔

(تیرا) جسم عرض ہے اور روح کے لحاظ سے تو جوہر ہے۔ اسی وجہ سے تو دونوں جہاں کا سردار ہے۔

تشریح:۔

تیرا جسم عرض کی شاخ ہے یعنی چار عنصر سے بنا ہے اور عناصر عرض ہیں اور تیری روح جوہر کی جڑ ہے یعنی تیری روح کی وجہ سے جوہر کی جوہریت ثابت

۶۶

ہے۔ پس تو جسم سے دنیا کا سردار ہے کہ تیرا جسم مادی چیزوں سے افضل ہے اور روح سے عقبیٰ کا سردار ہے کہ تیری ذاتی آخرت تیری روح پر قیام رکھتی ہے۔

خرد مندان عالم راکہ گویند

ازین معنی جزاین ہر دو نجویند

ترجمہ:۔

دنیا کے دانشمندوں کے بارے میں تذکرہ کرتے ہیں کہ وہ اس حقیقت سے ان دونوں (جوہر اور عرض) کے سوا کسی اور چیز کو طلب نہیں کرتے۔

تشریح:۔

پیر صاحب کا فرمانا ہے کہ شروع سے اب تک اس دنیا میں جتنے حکیم اور دانشمند ہوئے ہیں۔ ان کے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ جوہر و عرض کے سوا کسی اور مخلوق کا تصور ہی نہیں کرتے۔

ترا از ہر دو عالم آفریدند

ازان برہر دو عالم بر گزیدند

ترجمہ:۔

تجھ کو دونوں جہاں سے پیدا کیا گیا ہے۔ اسی لئے (تجھ کو) دونوں جہاں پر برگزیدہ کیا گیا ہے۔

تشریح:۔

تیری روح اُس جہاں سے اور تیرا جسم اس جہاں سے ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ تیری تخلیق دونوں جہاں سے کی گئی ہے۔ یعنی تو دونوں عالم کا خلاصہ ہے۔ اس لئے تو دنیا و آخرت پر برگزیدہ ہے۔

۶۷

یعنی تو دونوں عالم کا خلاصہ ہے۔ اس لئے تو دنیا و آخرت پر برگزیدہ ہے۔

مسخر کن ہم آن را و ہم این را

حقیقت کن گمان را و یقین را

ترجمہ:۔

اس کو بھی اور اس کو بھی تابع بنا لے۔ گمان اور یقین دونوں کو حقیقت بنا لے۔

تشریح:۔

حق تبارک و تعالیٰ نے اپنی لا انتہا رحمت سے انسان کو یہ صلاحیت عطا فرمائی ہے کہ وہ دنیا و آخرت کو اپنے زیر فرمان لا سکتا ہے۔ اور وہ اپنی ان تمام امیدوں کو جو اس کے گمان میں ہیں اور یقین میں ہیں۔ حقیقت بنا سکتا ہے۔

بدین این و بدان آن ہر دو بشناس

بتن جسم و بجان جان ہر دو بشناس

ترجمہ:۔

اس سے یہ اور اس سے وہ دونوں کو پہچان لے (یعنی) بدن سے جسم (دنیا) اور جان سے جان (آخرت) دونوں کو پہچان لے۔

تشریح:۔

اگر دنیا جسمانی اور آخرت روحانی ہے تو انسان بھی ایک طرف سے جسم اور دوسری طرف سے روح رکھتا ہے۔ تاکہ وہ اپنے بدن کے ذریعے اس جسمانی عالم کو پہچان سکے اور اپنی روح کے توسط سے اس روحانی عالم کو پہچان سکے۔

۶۸

۱۰۔ ”حواسِ ظاہر و باطن کے بارے میں“

ترا این خان شش سو رہگذر شد

دریں خان خانۂ تو پنج در شد

ترجمہ:۔

تجھے اس شش پہلو کاروان سرا میں آنے کا اتفاق ہوا۔ اس کاروان سرائے میں تیرا گھر پانچ دروازوں مقرر ہوا۔

تشریح:۔

یعنی دنیا کا یہ شش پہلو مسافر خانہ جو تیرے آنے جانے کا راہ مقرر ہوئی ہے۔ اس میں تجھے جو گھر ملا ہے اس کے پانچ دروازے ہیں یعنی جسم جو تیری روح کا گھر ہے پانچ حواس رکھتا ہے۔

کشادہ ہردری در بوستانی

زہر درمی در آید کاروانی

ترجمہ:۔

ہر دروازہ ایک گلشن کی طرف کھلا ہے، ہر دروازے سے ایک قافلہ داخل ہوتا رہتا ہے۔

تشریح:۔

ہر حس کا دروازہ محسوسات کے ایک گلشن کی طرف کھلا ہے، اور ان پانچوں دروازوں سے محسوسات کا ایک ایک کاروان داخل ہوتا رہتا ہے۔

۶۹

اگرچہ اندرین خانہ غریبی

ازین ہر پنج درہا با نصیبی

ترجمہ:۔

اگرچہ تو اس (جسم کے) گھر میں نادار اور مفلس ہے (لیکن) ان پانچوں دروازوں سے تو بہرہ مند اور مستفید ہے۔

تشریح:۔

انسان عقل و شعور اور علم و عرفان کی دولت کو حاصل نہیں کر سکتا، مگر حواسِ ظاہر کے ذریعے سے، کیونکہ سب سے پہلے انسان کے حواسِ ظاہر پختہ ہو جاتے ہیں، پھر ظاہری علم حاصل کیا جا سکتا ہے اس کے ذریعے سے حواسِ باطن پختہ ہو جاتے ہیں، اور پھر باطنی علم کا حصول ممکن ہو جاتا ہے۔

یکی چشم است کو بیند عجائب

شود زان دیدنی رای تو صائب

ترجمہ:۔

ایک تو آنکھ ہے جو عجائبات دیکھتی ہے، اس مشاہدہ سے تیری رائے درست ہو جاتی ہے۔

تشریح:۔

جسم کے گھر کے پانچ دروازوں میں سے ایک تو آنکھ ہے، جس کا کام ہے عجائبات کا مشاہدہ کرنا، جس سے انسان کی رائے صحیح اور درست ہو سکتی ہے، یعنی انسان مادی چیزوں کے بارے میں جو کچھ سنتا ہے اور جو کچھ سمجھتا ہے، اس کی تصدیق ان چیزوں کے مشاہدہ ہی سے ہو سکتی ہے۔

۷۰

دگر گوشت کہ شہراہ کلام است

دلت زو بامعانی تمام است

ترجمہ:۔

دوسرا (دروازہ) تیرا کان ہے، جو کلام کی شاہ راہ ہے، تیرے دل کو اس سے مکمل معانی حاصل ہوتے ہیں۔

تشریح:۔

حواسِ ظاہر میں سے کان وہ دروازہ اور شاہراہ ہے، جس سے کلام کا قافلہ انسانی دل و دماغ میں داخل ہوا کرتا ہے، اور وہیں پر کلام کے معانی و حقائق سمجھ لئے جاتے ہیں۔

گہ از الحان مرغان گہ زا و تار

خبر آرند جانت راز اسرار

ترجمہ:۔

کبھی پرندوں کی آوازوں سے کبھی (سازوں کے) تار سے (تیرے کان) تیرے لئے بھیدوں کی خبر لاتے ہیں۔

تشریح:۔

مطلب یہ کہ ہر قسم کی آواز میں جو معنی اور حقیقتیں پوشیدہ ہیں، وہ کانوں ہی کے ذریعہ نفسِ انسانی تک پہنچائی جا سکتی ہیں۔

دگر بینی کہ بوئی گل پذیرد

دماغ و دل ز بویش ذوق گیرد

۷۱

ترجمہ:۔

تیسرا (دروازہ) ناک ہے جو پھول کی بو سونگھتی ہے، دل و دماغ اس کی خوشبو سے لذت حاصل کرتا ہے۔

تشریح:۔

یعنی ناک کا کام یہ ہے کہ وہ ہر قسم کی خوش بو اور بدبو کا احساس کرتی ہے، تاکہ خوش بو سے فرحت و مسرت حاصل ہو، اور بدبو سے بچاؤ کیا جائے۔

چہارم ذوق پنجم لمس باشد

نصیب لذتت زین خمس باشد

ترجمہ:۔

چوتھا (دروازہ) ذائقہ اور پانچواں لامسہ ہے، تیری لذت کا حصہ بس ان پانچوں سے ہے۔

تشریح:۔

یعنی چوتھا دروازہ چکھنے کی قوت اور پانچواں دروازہ چھونے کی قوت ہے، اور تجھے اس عالم میں مادی قسم کی لذتوں کا جو حصہ ملا ہے، وہ انہی پانچ حواسِ ظاہر کی بدولت ہے۔

حواسِ ظاہرند این پنج و باطن

بود پنج دگر ای یار محسن

ترجمہ:۔

یہ پانچ تو حواسِ ظاہر ہیں، اور دوسرے پانچ حواسِ باطن ہیں اے نیک کردار دوست!

۷۲

تشریح:۔

باصرہ، سامعہ، شامہ، ذائقہ اور لامسہ یا کہ دیکھنا، سننا، سونگھنا، چکھنا اور چھونا یہ پانچ حواسِ ظاہر ہیں اور دوسرے پانچ جن کا ذیل میں ذکر آئے گا، حواسِ باطن ہیں۔

 

خیال و وہم و فہم و حفظ دیگر

کہ حس مشترک خوانیش برسر

ترجمہ:۔

(حواسِ باطن) خیال، وہم، فہم، اور پھر حفظ ہے، جس کو تو سر پر حس مشترک کہتا ہے۔

تشریح:۔

حواسِ باطن میں سے خیال، وہم، فہم اور حفظ ہیں، اور حفظ کو حس مشترک کہا جاتا ہے۔ کیونکہ ظاہری حواس کے نتائج اسی میں محفوظ ہوتے ہیں، اور یہیں سے لیکر ان نتائج پر باطنی حواس کام کرتے ہیں۔

دگر ذکرت کہ شہباز کلام است

دلت زوبا معانیہا تمام است

ترجمہ:۔

پھر تیرا ذکر ہے جو کلام کا شہباز ہے، جس کی بدولت تیرا دل معنوں سے بھرپور ہے۔

تشریح:۔

پیر صاحب نے قوتِ ذاکرہ کو شہباز کلام قرار دیا ہے، جس کے کئی اسباب

۷۳

ہیں، ایک سبب تو یہ ہے، کہ کلام کرنے کا جوہر اس وقت کھلتا ہے، جبکہ بڑی کثرت سے ذکرِ الٰہی کیا جاتا ہے، دوسرا سبب یہ ہے، کہ بہترین گفتگو اس وقت کی جا سکتی ہے، جبکہ ذاکرہ کی علمی پرورش صحیح طور سے ہوئی ہو۔

خطا بینند از این پنجگانہ

توانی راست بین شان کردیانہ

ترجمہ:۔

اگر یہ پانچ غلط دیکھنے والے ہیں، تو کیا تو ان کو صحیح دیکھنے والے بنا سکتا ہے یا نہیں؟

تشریح:۔

حواسِ باطن میں جو اصلی اور فطری صلاحیتیں ہوتی ہیں، وہ حواسِ ظاہر کی غلط کاریوں کے سبب سے تقریباً ختم ہو جاتی ہیں، لیکن جہاں کوئی بیماری ہو، وہاں اس کا کوئی علاج بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا سوال یہ ہے، کہ تو اپنے غلط کار حواسِ باطن کو درست کار بنا سکتا ہے یا نہیں؟

ریاضت کش مراین را راست بین کن

پس آنگاہی گمانت را یقین کن

ترجمہ:۔

ریاضت کر کے ان کو درست دیکھنے والے بنا لے، پھر اس کے بعد اپنے گمان کو یقین بنا لے۔

تشریح:۔

پیر صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ حواسِ باطن کی قدرتی صلاحیتوں کی بحالی

۷۴

اور درست کاری کے لئے یہ ضروری ہے، کہ تو عبادت و ریاضت اور تزکیۂ نفس کا رستہ اختیار کرے، تاکہ روحانی مشاہدات و تجربات کے متعلق تیرا جو گمان ہے، وہ یقین کی صورت میں بدل جائے۔

چو اینہا راست بین گردند زان پس

ترا سرمایہ این اندر جہان بس

ترجمہ:۔

جب اس کے بعد یہ (حواسِ باطن) درست دیکھنے والے ہونگے، تو تجھے یہی سرمایہ اس جہاں میں کافی ہے۔

تشریح:۔

تطہیر و تزکیہ کے نتیجے پر جب حواسِ باطن صحیح طور سے کام کرنے لگیں گے، تو اس وقت تجھے اس دنیوی زندگی میں جو کچھ عمل کرنا ہے، اس کے لئے یہی سرمایہ کافی ہے۔

کشادہ گردد آنگہ چشم بینی

ببینی از ورای آفرینش

ترجمہ:۔

اس وقت چشمِ بصیرت کھل جائے گی (اور) تو پیدائش سے قبل (کی حقیقت) دیکھے گا۔

تشریح:۔

یعنی حواسِ باطن کی اصلاح و تطہیر کے بعد دل کی آنکھ کھل جاتی ہے اور جس سے تو اس وقت کا یا عالمِ امر کا مشاہدہ کرے گا، جو عالمِ خلق سے برتر ہے۔

۷۵

۱۱۔ انسانی کمال کی صفت:۔

درخت است این جہان و میوہ مائیم

کہ خرم بر درخت او برآئیم

ترجمہ:۔

یہ جہاں درخت ہے اور (اس کا) میوہ ہم ہی ہیں، کیونکہ ہم اسی (جہاں کے) درخت پر تر و تازہ نشوونما پاتے ہیں۔

تشریح:۔

اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے، تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ کائنات ایک درخت کی طرح ہے، اور اس کا پھل انسان ہے، کیونکہ کائناتی وحدت سے جو جو چیزیں پیدا ہوتی ہیں، ان سب کے فوائد انسان ہی کی طرف عائد ہوتے ہیں، یعنی تمام چیزوں کی تخلیق و تکمیل کے بعد ہی انسان کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں، اور اس حقیقت کی مثال ایسی ہے، جیسے درخت کی تکمیل اور ساری تیاری کا مقصد پھل ہی ہوتا ہے۔

دگر ہستند برگ و ماہمہ بر

طفیل ما شدند اینہا سراسر

ترجمہ:۔

دوسری (مخلوقات) پتے ہیں اور ہم سب (انسان) پھل ہیں، یہ ساری (مخلوقات) ہمارے طفیل سے ہوئی ہیں۔

۷۶

تشریح:۔

درخت کا اصلی مقصد اور حاصل پھل ہی ہوا کرتا ہے، اگرچہ درخت کے اجزاء میں اور بھی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں، اور اگر غور و فکر سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا، کہ درخت کے تمام اجزاء پھل کی بدولت بنتے ہیں۔

شرف دارد درخت از میوہ آری

کہ باشد تاندارد ہیچ باری

ترجمہ:۔

ہاں درخت کو شرف و عزت پھل ہی سے حاصل ہے، ورنہ کون رہنے دیتا ہے، جبکہ اس کا کوئی پھل نہ ہو۔

تشریح:۔

ہر وہ انسان جو باغبانی کرتا ہے، پھل دار درخت کو بغیر پھل کے درختوں کے مقابلے میں عزیز رکھتا ہے، اور اس کی حفاظت و نگہداشت میں ہر وقت لگا رہتا ہے، اور ان تمام باتوں کی وجہ اس درخت کے پھل ہیں۔

زبوی و لذت خوش میوہ ہارا

شرف باشد چنانک از عقل مارا

ترجمہ:۔

خوشبو اور خوش ذائقہ ہونا پھلوں کے لئے باعثِ شرف و فضیلت ہے، جیسے ہم  (انسانوں) کے لئے عقل و دانش سے (شرف و عزت) ہے۔

تشریح:۔

یعنی پھل جتنے زیادہ خوش بودار اور خوش مزہ ہوں، اتنی ان کی قدر و قیمت

۷۷

زیادہ ہوتی ہے، اسی طرح انسان کی عقل و دانش جس قدر زیادہ ہو، اس قدر اس کی شرافت و عزت زیادہ ہوتی ہے۔

نیا بد مرد جاہل در جہاں کام

ندارد بوئے و لذت میوۂ خام

ترجمہ:۔

ناداں آدمی دنیا میں مقصد حاصل نہیں کر سکتا، کچے پھل میں بو اور ذائقہ نہیں ہوتا۔

تشریح:۔

نادان اور جاہل آدمی کچے پھل کی طرح ہے، کیونکہ جس طرح کچا پھل خوشبودار اور خوش ذائقہ نہیں ہوتا، اسی طرح جاہل انسان میں عقل و دانش نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے وہ دنیا میں ناکام ہو جاتا ہے۔

مشو چون میوہ ہای نا رسیدہ

سقط ہرگز نہ باشد چوں گزیدہ

ترجمہ:۔

کچے پھلوں کی طرح نہ ہو جا (درخت سے) ناتمام گرا ہوا پک کر چنا ہوا پھل دونوں برابر نہیں ہوتے۔

تشریح:۔

بے شک تمام انسان درخت کائنات کے پھل ہیں، لیکن سب پھل یکساں نہیں ہوتے، ان میں کچھ تو مکمل طور سے پک کر خوشبودار اور خوش ذائقہ ہو جاتے ہیں، اور کچھ مکمل ہوئے اور پکے بغیر گر جاتے ہیں، خیر یہ پھل تو بے اختیار

۷۸

گر جاتے ہیں یا پک جاتے ہیں، مگر انسان جو اس کائنات کا پھل ہے، وہ اختیار سے اپنے آپ کو گراتا ہے یا عقل و دانش سے پختہ ہو جاتا ہے۔

سقط باشد درین باغ آنچہ خامند

حکیمان میوہ ہای خوش طعامند

ترجمہ:۔

اس باغ میں جو کچے ہیں، وہ سقط (ناتمام و نا پختہ گرئے ہوئے) ہیں، اہل حکمت خوش ذائقہ پھل ہیں۔

تشریح:۔

اس دنیا میں جو لوگ عقل و دانش کے اختیار سے خام و نا تمام ہیں، وہ ایسے پھل ہیں، جو کچے ہی گر کر ناکارہ ہو جاتے ہیں، مگر حکماء اپنے علم و حکمت کے لحاظ سے خوش بودار رسیلے میوے ہیں۔

درختی کان لطیف و میوہ دا راست

مرو را باغباں پروردگار است

ترجمہ:۔

جو درخت عمدہ اور پھلدار ہو، باغبان اسی کی (زیادہ سے زیادہ) پرورش کرتا رہتا ہے۔

تشریح:۔

جس طرح دنیاوی مثال میں باغبان اپنے باغ کے اس درخت کی سب سے زیادہ پرورش کرتا ہے، جو عمدہ قسم کا اور زیادہ پھل دینے والا ہو، اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت و رحمت کے فیضان سے حکمائے دین کو ہمیشہ نوازتا رہتا ہے۔

۷۹

نخواہد میوہ جز خوشبوئے و شیرین

بیندازد سقطہای بدآئین

ترجمہ:۔

(باغبان) خوشبودار اور میٹھے پھل کے بغیر نہیں چاہتا ہے، ناکارہ گرے ہوئے پھلوں کو پھینک دیتا ہے۔

تشریح:۔

یعنی باغبان کا مقصد یہ ہوتا ہے، کہ اس کے باغ کے درخت سراسر خوشبودار اور پُر ذائقہ پھل لائیں، اس کے سوا دوسرے پھلوں کو نہیں چاہتا، یہی سبب ہے کہ وہ کچے گرے ہوئے پھلوں کو پھینک دیتا ہے۔

سقط خوار است خواری را رہا کن

تمامی جوی و خود راپر بہا کن

ترجمہ:۔

ناتمام بے قدر ہے بے قدری کو چھوڑ دے، تمامیت کی جستجو کر اور اپنے آپ کو پر قیمت بنا لے۔

تشریح:۔

کچا گرا ہوا پھل بے قدر اور بے مایہ ہوا کرتا ہے، تو باغ دین میں اس جیسا پھل نہ بن جا اور بے قدری و بے مانگی کو چھوڑ دے، بلکہ انسانیت اور علم و دانش کا ایک پختہ اور پرلذت میوہ بن کر اپنی ذات کو گرانمایہ بنا لے۔

 

ہر آن میوہ کہ نہ بود طعم و بویش

نباشد باغبان در جستجویش

۸۰

ترجمہ:۔

ہر وہ پھل جس کی (کوئی) لذت اور خوشبو نہ ہو، باغبان اس کی طلب میں نہیں رہتا ہے۔

تشریح:۔

جس طرح ناقص پھل درخت سے خودبخود گر جاتے ہیں، یا باغبان انہیں تازہ پھلوں سے جدا کر کے پھینک دیتا ہے، کیونکہ نہ ان کے کھانے سے کوئی لذت حاصل ہوتی ہے، نہ ان کے سونگھنے سے کوئی خوشبو، اسی طرح ہر وہ انسان جو آخری دم تک اپنے اندر انسانیت، اخلاق اور دینداری کی کوئی لذت و خوشبو نہ رکھتا ہو، اس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت طلب ہی نہیں کرتی ہے۔

ترا لذت ز علم است از عمل بوی

کمالیت ز علم باعمل جوی

ترجمہ:۔

تیرے لئے علم سے لذت اور عمل سے خوشبو ہے (اسی طرح) اس علم سے جو عمل کے ساتھ ہو، تمامیت و کمالیت کو طلب کر۔

تشریح:۔

تجھ کو جو باغ دین کا ایک لذیذ اور خوشبودار میوہ بننا ہے تو اس کے لئے یہ ہے، کہ علم سے تجھ میں لذت اور عمل سے خوشبو پیدا ہو، اسی طرح تو اپنی شخصیت کے اس پھل کی تمامیت و پختگی حاصل کر سکتا ہے۔

گر از سر چشمۂ معنی خوری آب

شوی در باغ جنت میوۂ ناب

۸۱

ترجمہ:۔

اگر تو حقیقت کے سرچشمے سے پانی پیا کرے، تو تُو جنت کے باغ میں پاک و صاف میوہ بن سکتا ہے۔

تشریح:۔

پیر صاحب کے اس قول کا مطلب یہ ہے، کہ کسی درخت کے نشوونما پانے اور اس میں عمدہ پھل پیدا ہونے کے لئے معتدل اور موافق آب و ہوا کی ضرورت ہے، پس اگر تو جو باغ دین کا ایک درخت ہے، سرچشمۂ حقیقت سے سیراب ہو جایا کرے، تو بےشک تو باغِ جنت کا عمدہ پھل بن سکتا ہے۔

وگر باشی سقط در خاک مانی

معذب دربلای جاودانی

ترجمہ:۔

اور اگر تو گر جائے، تو تُو مٹی میں رہ جائے گا، دائمی مصیبت کا عذاب اٹھاتے ہوئے۔

تشریح:۔

انسان سے مخاطب ہو کر یوں فرماتے ہیں، کہ اے دینی درخت کے پھل! اگر تو درختِ دین پر جم کر نہ پکے اور خام و ناتمام گر جائے، تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا، کہ تو مٹی میں پڑے ہوئے دائمی عذاب میں مبتلا رہے گا۔

 

نہ باشی در خور خوان شہنشاہ

چو خاکی خوار باشی برسر راہ

۸۲

ترجمہ:۔

(اس صورت میں) تو شاہنشاہ کے دسترخوان کے قابل نہ ہو گا، رستے کی مٹی کی طرح حقیر و ذلیل ہو جائے گا۔

تشریح:۔

اس شعر میں کچے پھل کی مثال دے کر یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب تک علم و معرفت سے انسان کی روحانی تکمیل و پختگی نہ ہو، تو وہ اپنے سے ایک برتر ہستی میں فنا اور واصل ہونے کے قابل نہیں ہوتا، اور اگر وہ اس مرحلے میں خام و ناتمام گر جائے، تو اس کے لئے بس ابدی عذاب یہی ہے۔

بر آتش ہمچو خار خشک سوزی

اگر چشم خرد را باز دوزی

ترجمہ:۔

تو آگ میں سوکھے کانٹوں کی طرح جلتا رہے گا، اگر تو دیدۂ دانش سئے رکھے گا۔

تشریح:۔

یعنی اگر تو اس دنیاوی زندگی ہی میں چشمِ بصیرت کھول کر خدا کی پہچان حاصل نہ کرے، تو اس غفلت و جہالت کا انجام یہی مقرر ہے، کہ تو حسرت و افسوس کی آگ میں سوکھے کانٹوں کی طرح جلتا رہے گا۔

 

چو خواہی تاکہ یابی دانش و ہوش

مکن پند حکیمان را فراموش

۸۳

ترجمہ:۔

جب تو چاہتا ہے، کہ تجھے عقل و شعور حاصل ہو، تو حکماء کی نصیحت نہ بھول جا۔

تشریح:۔

حجت خراساں کا ارشاد ہے کہ جب تک تیری خواہش یہ ہے، کہ تجھے عقل و دانش اور علم و عرفان حاصل ہو، تو تجھے حکماء دین کی پند و نصیحت یاد کرنا ہو گی، کیونکہ ان ہی حضرات کی نصیحتوں میں یہ سب کچھ موجود ہے۔

۸۴

۱۲۔ ”انسانوں کی قسمیں“

 

بنی آدمؑ گروھی بس لطیف اند

حقیقت ہم خسیس و ہم شریف اند

ترجمہ:۔

بنی آدم ایک انتہائی عجیب گروہ ہیں، حقیقت میں رذیل بھی ہیں اور اصیل بھی۔

تشریح:۔

یعنی چشمِ بصیرت سے دونوں جہاں کی مخلوقات و موجودات کو ذرا دیکھو تو سہی، کہ ان میں سب سے عجیب وغریب گروہ انسانوں کا ہے، کیونکہ مخلوقات کا ہر گروہ یا تو فرومایہ ہے، جیسے حیوانات، یا اصلیل ہے، جیسے فرشتے، مگر انسان فرومایہ بھی ہے اور اصیل بھی۔

تن از خاک اند و جان از جوہر پاک

شرف دارند بر خاصان افلاک

ترجمہ:۔

ان کے اجسام مٹی سے ہیں، اور جان پاک جوہر سے، وہ آسمانوں کے خواص (یعنی فرشتوں) پر فضل و شرف رکھتے ہیں۔

تشریح:۔

یعنی بنی آدم کی دو متضاد صفتیں (رذالت و اصالت) یہ ہیں، کہ وہ ایک طرف سے جسم ہیں، جو مٹی جیسی حقیر چیز سے ہے، اور دوسری طرف سے جان

۸۵

ہیں، جو ایک پاک جوہر سے ہے۔

ہم از نفس و ہم از عقل و ز اجرام

زچا روسہ کہ اول بردہ ام نام

ترجمہ:۔

نیز نفسِ کل و عقلِ کل اور اجرام سماوی سے ہیں، اور چار عنصر اور تین موالید سے جن کا میں نے قبلاً ذکر کیا ہے۔

تشریح:۔

انسانی جسم مٹی سے اس معنی میں ہے، کہ وہ اجرامِ فلکی کی تاثرات، عناصر کے امتزاج اور موالیدِ ثلاثہ کے خلاصے سے مکمل ہوا ہے، اور انسانی روح پاک جوہر سے اس طرح ہے، کہ وہ عقلِ کلی و نفسِ کلی کا اثر ہے۔

ہمہ در ذات انسان ہست حاصل

گلش ظلمانی نورانیش دل

ترجمہ:۔

سب کچھ انسان کی ذات و ہستی میں حاصل ہے، اس کا جسم تاریکی سے ہے اور اس کا دل نور سے۔

تشریح:۔

انسان ان تمام چیزوں کا خلاصہ ہے، جو اس عظیم کائنات کے ظاہر و باطن میں مادی، روحانی اور عقلی صورت میں پائی جاتی ہیں، چنانچہ اس کے جسم کی نسبت ظلمت سے ہے اور اس کے دل کی نسبت نور سے ہے۔

۸۶

مر این را عالم صغراش گفتند

مر آن را عالم کبراش گفتند

ترجمہ:۔

انہوں نے اس عالم کو عالمِ صغیر کہا، اور اُس کو عالمِ کبیر کہا۔

تشریح:۔

یعنی حکمای دین نے انسان کو عالمِ صغیر کہا اور کائنات کو عالمِ کبیر کہا، کیونکہ کائنات میں جو کچھ پھیلا ہوا ہے، انسان میں اسی کا خلاصہ اور حقیقت موجود ہے۔

شدہ بر آفرینش جملہ سالار

بمعنی ہم جہان و ہم جہاندار

ترجمہ:۔

وہ ساری کائنات پر سردار ہوا ہے، حقیقت میں وہ کائنات بھی ہے اور کائنات کا رکھوالا بھی۔

تشریح:۔

قرآنِ حکیم کی تعلیمات سے یہ حقیقت صاف طور پر واضح ہو جاتی ہے، کہ تمام کائنات انسان کے لئے مسخر کی گئی ہے، اور بےشک وہ اس معنی میں ساری مخلوقات پر سردار اور بادشاہ ہے، نہ صرف یہی بلکہ حقیقت میں وہ جملہ جہاں کی باطنی صورت میں ہے، اور اس کا رکھوالا بھی۔

پس و پیش و نہان و آشکار اوست

شناسائی خود و پروردگار اوست

۸۷

ترجمہ:۔

اول، آخر، باطن اور ظاہر وہی (انسان) ہے، اپنی ذات کا عارف اور پروردگار ہی ہے۔

تشریح:۔

پیر صاحب فرماتے ہیں، کہ

ھوالاول والاخر الظاہر و الباطن ۳/ ۰۷

کے اس ارشادِ الٰہی میں انسانی حقیقت کا تذکرہ ہوا ہے، یعنی اول، آخر، ظاہر اور باطن ذاتِ انسانی کی صفات ہیں، چنانچہ وہ خود ہی اپنی ذات کا عارف اور خود ہی معروف، خود ہی رب اور خود ہی مربوب ہے، اور یہ اشارہ اس حدیثِ شریف کی حکمت کی طرف ہے کہ:

من عرفہ نفسہ فقد عرف ربہّ

یعنی جس نے اپنے آپ (ذات) کو پہچانا بیشک اس نے اپنے پروردگار کو پہچانا۔

ہمہ ہم محدث اند و ہم قدیم اند

ہمہ ہم جاہل اند و ہم حکیم اند

ترجمہ:۔

وہ سب حادث بھی ہیں اور قدیم بھی، وہ سب نادان بھی ہیں اور دانا بھی۔

تشریح:۔

انسان مجازاً کچھ اور ہے اور حقیقتاً کچھ اور، وہ اپنے وجود کے پیش منظر میں حادث ہے، یعنی وہ اس سے پہلے کبھی موجود ہی نہیں تھا، اور اب موجود ہے، لیکن

۸۸

وہ اپنے پس منظر میں قدیم ہے، یعنی ماضی، حال اور مستقبل کا کوئی ایسا وقت نہیں، جس میں انسان موجود نہ ہو، اور یہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں، کہ وہ حادث بھی ہے اور قدیم بھی، اسی طرح وہ ایک طرف سے نادان بھی ہے اور دوسری طرف سے دانا۔

ہمہ دارند استعداد ہر شی

بمعنی و بصورت میّت و حی

ترجمہ:۔

سب (انسان) پر چیز کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ ظاہر اور باطن میں مردہ اور زندہ ہیں۔

تشریح:۔

یعنی ہر انسان میں وہی فطری صلاحیتیں موجود ہیں، جو دوسرے سب انسانوں میں پائی جاتی ہیں، یعنی ہر انسان ناقص بھی رہ سکتا ہے اور کامل بھی ہو سکتا ہے۔

اگرچہ آفریدہ زان واینند

ز خود ہر لحظہ چیزی آفرینند

ترجمہ:۔

اگرچہ وہ اسی چیز سے اور اس چیز سے پیدا کئے ہوئے ہیں (لیکن) وہ ہر لمحہ اپنی ذات سے کوئی نہ کوئی چیز پیدا کرتے رہتے ہیں۔

تشریح:۔

آپ نے اخروٹ کے درخت اور اس کے پھل کو دیکھا ہو گا، کہ درخت کے لازمی اجزاء کی تکمیل کے بعد اخروٹ کا پھل پک کر مکمل ہو جاتا ہے، اور

۸۹

دوسری طرف سے یہ بھی ہے، کہ اسی پھل یعنی مغز سے یہ درخت پیدا ہوتا ہے، یہی مثال انسان کی بھی ہے، کہ وہ بہت سی چیزوں سے پیدا ہوتا ہے، پھر اس سے بہت سی چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔

چنین اند انبیا و اولیاء شان

کہ ارزد ملک عالمِ خاک پاشان

ترجمہ:۔

وہ اولیاء اور انبیاء (علیھم السلام) ایسے ہی ہیں، کہ ساری دنیا کی سلطنت ان کے قدموں کی مٹی کی قیمت رکھتی ہے۔

تشریح:۔

یعنی یہاں انسان کی جس حقیقت کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، وہ دراصل انبیاء اور ائمہ طاہرین علیھم السلام کی ذاتِ اقدس سے متعلق ہے، اس لئے کہ انسانیت کے درجۂ کمال پر وہی حضرات فائز ہو چکے ہیں، اور ان کی فضیلت و مرتبت کا یہ عالم ہے، کہ اگر کسی خوش نصیب کو ان کے قدموں کی مٹی مل جائے، تو یوں سمجھ لو کہ اس کو سلطنت روئے زمین مل گئی۔

۹۰

 

زبورِ عاشِقین

زبورِ عاشقین

علمی خدمت کی ایک جدید مثال

جن لوگوں کی نیک بخت اور پاکیزہ روحیں ہمیشہ مولائے برحق کے دریائے عشق میں مستغرق رہتی ہیں، ان کو یقیناً نیک توفیقات اور نورانی ہدایات کی نوازشات ہوتی رہتی ہیں، چنانچہ عزیزانم ظہیر لالانی، عشرت رومی، اور روبینہ برولیا، تینوں ریکارڈ آفیسرز نے اس علمی دسترخوان کے بچھانے میں اس وقت بھرپور تعاون کیا، جبکہ جمعہ ۴۔ فروری ۱۹۹۴ء کو عشرت رومی ظہیر لالانی کے نکاح میں آئیں، یہ (کتاب) گویا اس مبارک شادی کے موقع پر بچھایا ہوا، اعلیٰ اور عمدہ نعمتوں کا ایک دائمی دسترخوان ہے، اسی معنی میں کہا گیا کہ “یہ علمی خدمت کی ایک جدید مثال” ہے، پس ہماری عاجزانہ دعا ہے کہ ربِّ کریم نورِ علم کی روشنی پھیلانے والے تمام عزیزوں کو دین و دنیا میں جزائے خیر سے نوازے!

آمین!!

ن۔ن۔ (حبِ علی) ہونزائی

کراچی

۲۲/۲/۹۴

 

دیباچہ

 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ ۭ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ  ۭ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا (۱۷: ۴۴) اس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کررہی ہیں جوان میں ہیں، کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح  سمجھتے نہیں ہو، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بردبار اور درگزر کرنے والا ہے۔

 

۲۔ ہر چیز کس طرح اللہ تعالےٰ کی پاکی بیان کررہی ہے؟ یا تسبیح کر رہی ہے؟ کسی ایک مقام پر؟ یا کئی مقامات پر؟ کیا ہر بے جان اور بے عقل شیٔ ذاتِ سبحان کی حمدیہ تسبیح خود کررہی ہے؟ یا کسی نمائندگی میں؟ اگر یہ مانا جائے کہ ہر چیز ازخود اللہ جل جلالہٗ کی پاکی بیان کررہی ہے تو پھر یہ ضروری سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ آیا ایسی تسبیح علم و معرفت کے ساتھ ہے؟ یا اس کے بغیر؟ اس نوعیت کے بہت سے مسائل کا حل بفضلِ خدا اس کتاب میں

۶

موجود ہے، لیکن یہاں ایک وقتی اور فوری سوال یہ ہے کہ مذکورۂ بالا آیۂ مبارکہ کے قانونِ تسبیح کے تحت موسیقی اللہ تعالےٰ کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے یا نہیں؟ حقیقت روشن ہے، لہٰذا اس سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا۔

 

۳۔ تمام انبیائے کرام علیہم السّلام مجموعاً پروردگارِ عالم کی ایک زندہ کتاب کی مرتبت میں ہیں، دورِ نبوّت کی اس بولنے والی کتاب میں ہر پیغمبر ایک باب کا درجہ رکھتا ہے، ہر ایسے باب میں جو کچھ تھا، وہ برائے ہدایت قرآنِ مجید اور دوسری آسمانی کتابوں میں موجود ہے، چنانچہ حضرتِ داؤد علیہ السّلام کتابِ نبوّت کا وہ باب ہیں، جس میں دوسرے کئی اہم موضوعات کے ساتھ ساتھ موسیقی کا موضوع بھی ہے، اور مقدّس موسیقی کی اہمیّت، افادیّت، اور کشش کا یہ عالم ہے کہ جب موسیقی کا مظاہرہ حضرتِ داؤد علیہ السّلام سے ہونے لگتا ہے تو موسیقی والی تسبیح میں شرکت و ہم آہنگی کے لئے جمادات، نباتات، اور حیوانات کی تمام روحیں نیز انسانی ارواح اور ملائکہ سب کے سب جمع ہوجاتے تھے، اور جب موسیقی کا ظہور صورِاسرافیل سے ہوجاتا ہے تو اس کی طرف طوعاً وکرھاً (خوشی سے یا زبردستی سے) تمام زندوں اور مردوں کی روحیں دوڑنے لگتی ہیں، اس سے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ مقدّس موسیقی میں عشقِ الہٰی کی وہ سب سے زبردست طاقت پنہان ہے، جس کو ہم الواحد القھار (۴۰: ۱۶)

۷

کی قہرمانی (قہر و جلال) کی طاقت بھی کہہ سکتے ہیں۔

 

۴۔ ہماری اس بات سے شاید کسی کو تعجب یا سوال ہو کہ کس طرح نباتات اور حیوانات نے حضرتِ داؤدؑ کے نغمہ ہائے لاہوتی میں ہمنوائی کی، جبکہ قرآنِ حکیم میں صرف پہاڑوں کی ہم آہنگی کا ذکر ہے؟ نیز متعلقہ آیات کریمہ (۲۱: ۷۹، ۳۴: ۱۰، ۳۸: ۱۸) میں انسانوں اور فرشتوں کا ذکر کہاں ہے؟ میں بطورِ جواب عرض کروں گا کہ قرآنِ حکیم کا ہر بیان حکیمانہ جامعیّت و ایجاز کے ساتھ ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور ہم ہی نے پہاڑوں (اور ان کی تمام چیزوں یعنی نباتات اور حیوانات) کو داؤد کے ساتھ مسخر کردیا کہ (پہاڑ اپنے جنگل اور جانور سمیت) تسبیح کیا کرتے تھے، اور اسی طرح پرندوں کو بھی مسخر کردیا (یعنی انسانی روحوں اور فرشتوں کو بھی ۲۱: ۷۹) یاد رہے کہ ظاہری پرندوں کا ذکر پہاڑی اور جنگلی جانوروں کے ساتھ ہے۔

 

۵۔ علم و معرفت کی غرض سے یہاں یہ سوال بھی ازبس ضروری ہے کہ حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے پاس نبوّت تھی؟ یا امامت؟ اسکا درست جواب یہ ہے کہ جنابِ داؤد ظاہرمیں نبی تھے، اور باطن میں امامِ مستودع چونکہ مقصودِ اصلی امام شناسی ہی ہے، لہٰذا قرآنِ کریم کا ہر نمائندہ قصّہ اور ہر نمائندہ آیۂ کریمہ نورِ امامت کے بارے میں ہے، اور حضرتِ داؤد علیہ السّلام کی امامت کی ایک قرآنی دلیل یہ ہے: وَعَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ (۲۱: ۸۰)

۸

اور ہم ہی نے ان کو تمہاری جنگی لباس (کرتۂ ابداعیہ) کا بنانا سکھایا تاکہ تمہیں روحانی جنگ کی زد سے بچائے، تو کیا تم اس کے شکر گزار بنوگے؟

 

۶۔ ان شاء اللہ، حصولِ برکت کی غرض سے اس کتاب کا نام “زبورِ عاشقین” مقرر ہوا، زبور کے یہ معنی ہیں: فرشتہ، گروہ، کتاب، اور حضرتِ داؤدؑ پر نازل شدہ کتاب، اس سے چند سال قبل ہمارے عظیم دوست نے کتابِ مناجات کو زبورِ قیامت کے اسم سے موسوم فرمایا ہے الغرض اگر اس کارِ خیر میں ہماری نیّت خیر خواہی اور نیکی پر مبنی ہے تو یہ علمی خدمت بحکمِ خدا رفتہ رفتہ سب کے لئے مفید ثابت ہوگی، کیونکہ اصل خیر خواہی اور سب سے بڑی خدمت وہ ہے جو تمام لوگوں کے حق میں ہو، چنانچہ ہماری اس کتاب کا خاص موضوع عشقِ سماوی ہے، جس کی امکانی اور ابتدائی صلاحیّت سب میں پائی جاتی ہے، جس کی مثال اس ابتدائی چنگاری کی طرح ہے جو چقماق اور آتش زنہ سے نکلتی ہے، اب اگر اس چنگاری کو ٹھہرانے اور ترقی دینے کے لئے کوئی خاص علم و حکمت ہے تو اس سے بتائیدِ الہٰی سب کو فائدہ دلانا چاہئے۔

 

۷۔ موسیقی سے ہماری دلچسپی آج سے نہیں بلکہ شروع ہی سے رہی ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ میں جس علاقے میں پیدا ہوا، اس میں دو قسم کی موسیقی جاری تھی، دنیوی اور مذہبی، دنیوی موسیقی کے ایک سیٹ میں یہ آلے ہوتے ہیں: سرنای، ڈھول، اور نقارے، اسکے علاوہ
۹

سرنای چی کے پاس دو چیزیں اور ہوتی ہیں، وہ بانسری (نای) اور طوطیک (طوطک =الغوزہ) ہیں، مزید برآن کسی کے انفرادی شغل کے لئے ستار بھی ہوا کرتا تھا، اور مذہبی یا مقدس موسیقی کے صرف دو آلے مروج ہیں، جو دف و رباب ہیں، میں نے ساز و نواز کی دونوں محفلوں کو خوب غور سے دیکھا، اور بہت سے مفید نتائج اخذ کئے، مثلاً اہلِ دنیا اپنی موسیقی سے بے حد شادمان نظر آتے، اور اکثر لوگ روایتی انداز میں رقص کرنے کے عادی ہوا کرتے تھے، اس حرکت سے بلاشبہ ان کو بڑی حد تک ظاہری لطف و لذّت کا احساس ہوتا تھا۔

۸۔ اس چھائی ہوئی ثقافتی جنگ کو روکنے اور کم کرنے کے لئے مقدّس موسیقی کے سوا اور کون سا ہتھیار کام آسکتا تھا، پس امامِ اقدس و عالی صلواۃ اللہ علیہ کی روحانی تائید سے علاقائی زبان میں نورِ امامت کی پُرحکمت مدح سرائی کی گئی، جس میں خنجرِ عشق خود از خود کام کرنے لگا، اور عشق ہی نے پورے علاقے کو فتح کرلیا، اس سے پہلے جو حالت تھی اس کی چند مثالیں یہ ہیں:

 

کچھ ایسے مجازی عشقیہ گیت بنا کر پھیلا دینا، جو قواعدِ شاعری سے عاری ہونےکے علاوہ مخرب، غیر مہذب اور محبوبہ کے شوہر وغیرہ کی تحقیر اور گالی گلوچ سے آراستہ ہوں، گاؤں کی کسی چھت پر بانسری یا طوطیک یا ستار بجانا، یا ایسا کوئی ساز بجاتے ہوئے کسی کی گلی سے گزر

۱۰

جانا، وغیرہ، بعض جوانوں کی یہ حر کتیں ایسی تھیں، جن کو اچھے لوگ پسند نہیں کرتے تھے، لیکن ممانعت کا کوئی کامیاب طریقہ بھی تو نہ تھا، اسی لئے یہ چیزیں پھیل گئی تھیں۔

 

۹۔ دنیا میں بیماریوں کے دو طریقِ علاج مشہورہیں:

۱۔ علاج بالضد (Allopathy)

۲۔ علاج بالمثل (Homoepathy)

چنانچہ مذکورہ بیماری کے لئے علاج بالمثل سے کام لیا گیا، یعنی میرے مولا کی تعریفی نظموں نے مجازی گیتوں کو مارا، اور دف و رباب کی مقدّس موسیقی نے دنیوی موسیقی کو گھائل اور کمزور کردیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی عمل خود علمی جہاد بھی ہے، اور اس لشکرِ جرار میں جو حضرات جرنیلی کا منصب رکھتے ہیں، وہ سپاہیوں کی طرح کام کررہے ہیں، کیونکہ ان کی شاندار وردی اور نشانیاں ظاہر نہیں، وہ کرتہ ہائے ابداعیہ اور جامہ ہائے جنّت ہیں۔

 

۱۰۔ جب تک یہاں آسمانی عشق کی کوئی عمدہ بات نہ ہو تو یہ دیباچہ نامکمل رہے گا، لیکن سوال یہ ہے کہ قرآنِ پاک میں خزائنِ عشق بہت ہیں، ہم کس خزینے سے رجوع کریں؟ اس کے لئے دل کا کہنا ہے کہ خزانۂ خلیلی سے کوئی حکمت بیان کی جائے، چنانچہ خلیل کے معنی ہیں: (۱) درویش (۲) خالص دوست، مگر کیسے خالص دوست؟ حبیب، محب، عاشق،

۱۱

اور عاشق اس درجے کا کہ راہِ خدا میں فرزندِ جگر بند کو بھی قربان کردینے سے دریغ نہ رکھے، ایسے اعلیٰ اوصاف حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام کے تھے، آپؑ کو ربّ العزت نے تمام لوگوں کے لئے امام بنایا تھا (۰۲: ۱۲۴) اس لئے قرآنِ حکیم نے نمونۂ ہدایت کے طور پر یہ ذکر فرمایا کہ آپؑ اپنے روحانی سفر میں کس طرح مراتبِ عالیہ (ستارہ، چاند، سورج ۰۶: ۷۶ تا ۷۹) سے ہوتے ہوئے باری تعالیٰ کی وحدانیّت تک پہنچ گئے۔

 

۱۱۔ امامِ اقدس و عالی ہی عشق کا عنوان ہے، کیونکہ وہی وجہ اللہ کا درجہ رکھتا ہے، اور یہ ایک روشن دلیل ہے کہ چہرۂ زیباہی سرچشمۂ عشق ہوا کرتا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرتِ ابراہیمؑ کے حوالے سے ہر زمانے کا امامؑ خدا کا پر نور چہرہ یعنی صورتِ رحمان ہوا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک خاص تاویل کے اعتبار سے حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام نے کہا: میں اپنا چہرہ خالقِ کائنات کا نمائندہ چہرہ بناتا ہوں اور یہی آخری توحید اور فنائے مطلق ہے (۰۶: ۷۹)۔

۱۲۔ سورۂ رحمان میں فنائے عقلانی کا ذکر وہاں ہے، جہاں چہرۂ خدا کا ذکر آیا ہے (۵۵: ۲۶ تا ۲۸) پھر پروردگار کی جلالت و کرامت اور تمام نعمتوں کا بیان ہے، اس کی گرانمایہ اشارت و حکمت یہ ہے کہ جب کسی کامیاب عاشق کو تجدّدِ ازل و ابد کے مقام پر اپنے ربّ کے پاک دیدار کا شرف حاصل ہوجاتا ہے، تو اسی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے آپ

۱۲

کی فنافی اللہ و بقا باللہ کا عملی تجربہ اور مشاہدہ بھی کرتا ہے، اور اس پر باطنی نعمتوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔

 

۱۳۔ حدیثِ قدسی: “کنت کنزا مخفیا” میں جس خزانۂ اسرارِ خداوندی کا ذکر ہوا ہے، وہ چھپا ہوا خزانہ بھی مرتبۂ فنا کے بعد ہی حاصل ہوجاتا ہے، دوسری حدیثِ قدسی: یَابْنَ اٰدمَ اَطِعْنِیْ اَجْعَلُکَ مِثْلِی …(اے اولادِ آدم! تو میری اطاعت کر، تاکہ میں تجھ کو اپنی مثال بناؤں گا…) کا وعدۂ الہٰی بھی اسی مقام پر پورا ہوجاتا ہے، حضرتِ امام باقر علیہ السّلام کے اس ارشادِ عالی کو بھی غور سے دیکھ لیں: ماقیل فی اللّٰہ فَھوفینا، وما قیل فینا فھوفی البلغاء من شیعتنا =جو بات اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہی گئی ہے وہ ہم پر صادق آتی ہے، اور جو بات ہمارے متعلق کہی گئی ہو، وہ ہمارے بلیغ شیعوں پر صادق آتی ہے۔ اور اسی گنجِ مخفی کی آخری تاویل یک حقیقت (مونوریالٹی = MONOREALITY) ہے، جو حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوٰۃ اللہ علیہ وسلامہ کی قیامت خیز نورانی تعلیمات میں سے ہے۔

۱۴۔ اس زمانے میں جہاں ظاہری علوم کی فروانی اور ترقی ہے، اور باطنی علوم کی کمی ہے، وہاں یہ بات بہت ممکن ہے کہ ہمارے کسی بھائی کو اپنی مذہبی روایت میں کوئی شک پیدا ہوا ہو، ایسے میں ہم پر واجب ہے کہ اس بھائی کی مدد کریں، اور اس کے پاس جو جو ناپرسیدہ سوالات ہیں،

۱۳

ان کے لئے علمی و عرفانی جوابات مہیا کردیں، الحمد للہ! یہ نیک کام اسی خیر خواہی کے جذبے سے کیا گیا ہے، اور اس میں کسی دوسرے سے کوئی بحث نہیں۔

 

۱۵۔ میں یہاں ایک مثالی سوال کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ کسی مومن کو مذہب کی کسی چیز میں کیوں شک پیدا ہوتا ہے؟ اسکا جواب یہ ہے: جب ذکر و عبادت میں کمی ہو، جب علم و معرفت نہ ہو، جب عشقِ مولا مفقود ہوجائے، جب اغیار کی باتوں کا اثر ہو، جب روحانی باپ کے مقدّس فرمان پر عمل نہ ہو، اور جب یہ معلوم نہ ہوجائے کہ شک خونِ گوسفند کی طرح حرام ہے۔

 

یاد رہے کہ شک یقین کے مقابلے میں ہے، چنانچہ اگر شک معمولی سی برائی کا نام ہوتا اور اسکا دائرہ بڑا وسیع نہ ہوتا تو اس کے ازالے کیلئے علم الیقین کا اتنا بڑا سمندر موجود نہ ہوتا ، یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ جو شکوک و شبہات علم الیقین کے مقابلے میں ہیں، وہی سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔

 

۱۶۔ میرا ایمان، یقین اور عرفانی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بحکمِ نورٌعلیٰ نورٌ، امامِ مبین کے حظیرۃ القدس (احاطۂ نورانیّت) میں سب ہیں، اور حضرتِ داؤدؑ بھی ہیں، پس ہم تمام ساتھی جو علمی لشکر بھی ہیں اور اسرافیلی لشکر بھی، بے حد شادمان ہیں، اور ہماری اس طوفانی شادمانی کی کیفیّت میں ایک لطیف غیر ملفوظ شکر گزاری پوشیدہ ہے کہ خداوندِ عالم نے اپنی رحمتِ بے پایان

۱۴

سے ہمیں امامِ زمانؑ کے دامنِ اقدس سے وابستہ کر دیا، جس کی نورانی ہدایت کی روشنی میں ہمیں ہر گونہ نعمت عطا ہوئی، اور ایک بہت بڑی نعمت یہ بھی ہے کہ آسمانی عشق نے ہمیں حضرتِ داؤد علیہ السّلام کی اصل یعنی روحانی زبور کی خوشبو سنگھا دی، جس کی مستی میں ہم نے اپنی نظموں کو زبورِ عاشقین کہا، اور اس کتاب کا یہ نام (زبورِ عاشقین) نمائندگی کے طور پر ہے۔

 

۱۷۔ میں اس دیباچہ میں ان تمام عزیز دوستوں کو یاد کرتا ہوں، جو حضرتِ شاہِ ولایت کی مدح سرائی و منقبت خوانی کرتے رہتے ہیں، جب خداوندِ تعالیٰ کا اصل اسمِ اعظم ہر وقت زندہ ہے اور وہ امامِ زمان علیہ السّلام ہی ہے تو پھر امامِ برحقؑ کی تعریف خدائے بزرگ و برتر کی تعریف ہوئی، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے: وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا  (۰۷: ۱۸۰)اور اللہ کے نہایت ہی خوبصورت نام ہیں، پس تم انہی ناموں سے اس کو پکارو۔ یعنی جب روحانیّت کا دروازہ کھل جائے گا، اور شروع سے لے کر آخر تک نورِ امامت ہی کی تجلّیات ہوں گی، تو تب ہی کسی کو اندازہ ہوگا کہ امامِ زمانؑ جو اللہ تعالیٰ کا اسمِ اکبر ہے وہ بے قیاس حسین و جمیل ہے، اس میں عشق و جنون کی بہت بڑی دعوت ہے۔

 

۱۸۔ یہ کتاب میری نظر میں خزانۂ سیم و زر اور گنجِ لعل و گوہر سے بھی زیادہ قیمتی ہے، لہٰذا میں اسے “جشنِ خدمتِ علمی” کے عظیم پروگرام میں شامل کردیتا ہوں، اور تمام دوستوں کو ایسی حسین و دلنشین کتاب کے مکمل ہونے پر

۱۵

صمیمیّتِ قلب سے مبارک باد پیش کرتا ہوں، قبول ہو! اور میں چاہتا ہوں کہ فرداً فرداً سب کی دست بوسی کروں، اور ہر ایک کو دل میں بسانے کیلئے سینہ کھول دوں، آمین! بروشسکی شعر:

مصطفےٰ کے مرتضےٰ اُغرُم طعامن نوبلم

چوک میارر دیمی لیکن تازہ ہَک ٹݣ ٹݣ اݵسل

ترجمہ: حضرتِ محمد مصطفےٰؐ اور حضرتِ علیؑ مرتضیٰؑ مقدس کھانوں میں سے ایک طعام بطورِ تبرّک رکھا ہوا تھا، جو عرصۂ دراز کے بعد اب ہمیں نصیب ہوا، لیکن اس عظیم معجزے کو دیکھو تو سہی کہ یہ مبارک کھانا ہنوز تازہ بتازہ اور بالکل گرم ہی ہے، اور اس میں ذرا بھی فرق نہیں آیا۔

 

الحمد للّٰہ ربِّ العالمین

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

بروزِ یک شنبہ نہم رمضان المبارک ۱۴۱۴ھ

۲۰۔ فروری ۱۹۹۴ء

۱۶

چند روایات

 

مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی نے اپنی کتاب “اسلام اور موسیقی” کے صفحہ ۳۸ پر یہ روایت تحریر کردی ہے:

 

حضورؐ نے پوچھا: اس یتیمہ کا (جو عائشہؓ کے پاس تھی) کیا ہوا؟ عائشہؓ نے عرض کیا، ہم نے اسے اس کے شوہر کے پاس رخصت کر دیا، فرمایا: تم نے کوئی عورت اس کے ساتھ نہ کر دی جو ذرا گاتی، اور دف بجاتی ہوئی اس کے ساتھ جاتی، عرض کیا: ایسے گیت کے بول کیا ہونے چاہئیں تھے؟ فرمایا کہ یہ مصرعے گاتی ہوئی جاتی: (ترجمہ) ہم تمہارے گھر آئے، تم ہمارے دوارے آئے، تم ہم پر سلامتی بھیجو اور ہم تم پر، اگر زرِ سرخ نہ ہوتا تو تمہارے ہاں کوئی نہ آتا اور اگر گندمی رنگ کے گیہوں نہ ہوتے تو تمہاری لڑکیاں گداز بدن نہ ہوتیں۔

 

اسی طرح بخاری، ابوداؤد اور ترمذی کے حوالے سے لکھتے ہیں: جب میری  (ربیع بنتِ معوذ کی) رخصتی ہوئی تو حضورؐ میرے غریب خانے پر رونق افروز ہوئے اور میرے ہی بستر پر بیٹھ گئے، چند لڑکیاں دف بجا بجا کر اپنے بدر میں شہید ہونے والے بزرگوں کی مدح سرائی کرنے لگیں، ایک نے کہیں یہ مصرعہ لگایا کہ (ترجمہ) “ہم میں ایک پیغمبر ایسا ہے جو یہ

۱۷

جانتا ہے کہ کل کیا ہوگا؟” حضورؐ نے فرمایا یہ نہ کہو، وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں (یعنی گارہی تھیں)۔

 

مذکورہ کتاب میں حضرتِ عائشہؓ کی یہ روایت بھی ہے: حضورؐ میرے ہاں تشریف لائے، اسوقت دو لڑکیاں جنگِ بعاث کے گانے گا رہی تھیں، حضورؐ بستر پر لیٹ گئے، اور دوسری کروٹ بدل لی، اتنے میں حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے اور مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا رسول اللہ کی موجودگی میں یہ شیطانی گیت؟ حضورؐ نے جناب ابوبکرؓ کی طرف متوجّہ ہوکر فرمایا… رہنے دو اِن بیچاریوں کو ….. یہ عید کا دن تھا…..

اس کے بعد مذکورہ کتاب میں درج ہے: اور یہ روایت تو سب ہی جانتے ہیں کہ ہجرتِ مدینہ کے دن عورتیں دف پر یہ گارہی تھیں:

طلع البدر علینا

من ثنیات الوداع

وجب لشّکر علینا

ما دعیٰ للہ داع

ایّھا المبوث فینا

جئت بالامرالمطاع

ترجمہ: ہم پر چودھویں کا چاند طلوع ہوا ہے، وداع کے ٹیلوں سے، ہم پر شکر واجب ہے، جب تک دعا کرنے والا دعا کرتا رہے، اے وہ جو ہمارے اندر بھیجے گئے، آپ تو وہ دین لائے جو واجب الاطاعت ہے۔

 

مذکورہ کتاب کے صفحہ ۴۱ پر ہے، چنانچہ جوہری طنطاوی لکھتے ہیں:

موسیقی ایک ایسا علم ہے، جس میں نغموں اور لہجوں کے قوانین سے

۱۸

بحث کی جاتی ہے، اور ان کا جواثر یقینی طور سے دلوں پر ہوتا ہے اس سے بحث ہوتی ہے……، ابو نصر فارابی، ابنِ سینا (بوعلی سینا) صفی الدین عبدالمومن، ثابت بن قرہ صابی، اور ابو الو فاجو زجانی نے اس پر کتابیں لکھی ہیں، اس فن کا فائدہ یہ ہے کہ کبھی تو اس سے روح میں انبساط، اعتدال یا تقویّت پیدا ہوتی ہے، اور کبھی اس میں سکیڑ پیدا ہوتا ہے، پہلی قسم کا فائدہ جشنوں، جنگوں اور مریضوں کے علاج کے موقعے پر حاصل ہوتا ہے، اور اسی کے ذریعے سخاوت یا شجاعت جیسے جوہر کھلتے ہیں، اور دوسری قسم کا فائدہ مواقعِ غم یا عبادت گاہوں میں حاصل ہوتا ہے، اسوقت یہ موسیقی دلوں کو اس عالمِ فانی سے ہٹا کر اس کے اصل مبداء کی طرف پھیر دیتی ہے، اور دل آخرت و انجام پر غور و خوض کرنے لگتے ہیں۔

۱۹

رسائلِ اخوان الصفاء میں موسیقی کا تذکرہ

 

۱۔مذکورہ کتاب کا تعارف:

رسائلِ اخوان الصفاء دخلان الوفاء مختلف علوم کی وہ شہرۂ آفاق کتاب ہے جس کی مثال نہیں ملتی، کیونکہ یہ کتابِ مستطاب بتقا ضائے زمان و مکان حضرتِ مولانا امام تقی محمد صلوٰۃ اللہ علیہ وسلامہٗ کے حکم و ہدایتِ کاملہ کے مطابق لکھی گئی ہے، یہ کتاب دراصل اپنے وقت کے علومِ متداولہ کا سب سے عظیم انسائیکلو پیڈیا ہے، جس کی ۴ جلدوں میں ۵۱ رسالے ہیں، اور آخری رسالہ جو خلاصہ اور نچوڑ کے طور پر ہے، اس کے ساتھ ملا کر کل ۵۲ رسالے ہیں، یہ عظیم الشّان علمِ و حکمت کا بے مثال ذخیرہ کس حد تک دنیائے دانش میں مشہور و معروف ہوسکا؟ کیسے کیسے بڑے سے بڑے علماء اور اسکالرز نے اس سے ہر گونہ دلچسپی لی؟ اور دنیا کی کن بڑی زبانوں میں اسکا ترجمہ ہوا؟ یہ معلومات ضروری ہیں، آپ عارف

۲۰

تامر کی تحقیق کردہ “جامعۃ الجامعۃ” میں بھی دیکھ سکتے ہیں، یہ مذکورہ کتاب کا آخری رسالہ ہے، جس کا اوپر ذکر ہوا، اور الگ چھپا ہوا ہے۔

۲۔ “اخوان الصفاء و خلان الوفاء:”

کے معنی ہیں: برادرانِ باصفا و دوستانِ باوفا، یہ اس پاکیزہ با کرامت، اور خاص علمی جماعت کا نامِ گرامی ہے، جس نے امامِ زمان علیہ السّلام کے امرو ارشاد کے مطابق اسی نام سے یہ انمول کتاب تصنیف کی، اس پُرحکمت نام میں اسماعیلی جماعت کی طرف بھی ایک لطیف اشارہ موجود ہے، الغرض اس انسائیکلوپیڈیا کے لکھنے میں چار عظیم داعیوں کے اسماء نمایان ہیں، اور وہ یہ ہیں: عبداللہ بن حمدان، عبداللہ بن سعید، عبداللہ بن ممیون، اور عبداللہ ابنِ مبارک۔

 

۳۔ رسالۂ پنجم: موسیقی کے بارے میں:

اس رسالہ میں تمہید کے بعد ۱۴ فصول ہیں، ہر فصل ایک مکمل مضمون ہے اور اس کے صفحات ۵۹ ہیں، یہ رسالہ موسیقی سے متعلق علوم و فنون، عجائب غرائب اور اسرارِ باطن سے مملو ہے، اس کی تفصیلات و معلومات بڑی حیرت انگیز ہیں، میرا یقین ہے کہ موسیقی کے بارے میں کوئی ایسا اساسی سوال نہیں ہوگا، جسکا جواب اس رسالے میں موجود نہ ہو، مثال کے

۲۱

طور پر:

(الف): موسیقی کو شروع شروع میں کس نے ایجاد کیا؟ وہ ایک عام آدمی تھا؟ یا کوئی حکیم؟ اگر اس فن کا موجّد کوئی حکیم ہو، تو یہ بھی پوچھنا ہوگا کہ اس حکیم کے نزدیک اس فن کا کیا مقصد تھا؟

 

(ب): اصل حکمت اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے، کیونکہ حقیقی حکیم تو وہی ہے، پھر اسی حکیمِ مطلق نے ایجاد کی یہ حکمت مجازی حکیم کو عطا کردی ہوگی؟

 

(ج): اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے کہ حضرتِ داؤد نبی علیہ السّلام اپنی آسمانی کتاب (زبور) کی قرأت موسیقی کے ساتھ کیا کرتے تھے؟

 

(د): آیا یہ صحیح ہے کہ موسیقی سے کئی قسم کے امراض کا علاج ہوسکتا ہے؟ پس اس نوعیت کے بہت سے سوالات کے تسلی بخش جوابات کے لئے آپ ضرور مذکورۂ بالا رسالہ پڑھیں۔

۴۔ آسمانوں کی حرکات میں نغمات:

فصلِ ہفتم میں روشن دلائل سے یہ انتہائی عظیم حقیقت ثابت کی گئی ہے کہ آسمانوں کی حرکتوں میں تو تسبیح ہے، وہ مقدّس نغمات کی صورت میں ہے، اس کی ایک چھوٹی سی مثال بحکمِ ضرورت نغمۂ عود (سارنگی) سے دی جا سکتی ہے، ان قدسی نغموں سے اہلِ سماوات کو لذّت و شادمانی حاصل ہوجاتی ہے،

۲۲

اور وہ خود جس طرح ہمیشہ ذکر و عبادت میں مصروف رہتے ہیں، اس کی بھی یہی شان ہے، اور ان کی نغماتی تسبیح داؤد کی قرأتِ زبور سے بھی زیادہ شیرین ہے۔

 

۵۔ رَوح و ریحان کی حکمت:

خداوندِ بزرگ و برتر کا یہ ارشاد سورۂ واقعہ میں ہے: فَاَمَّآ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ فَرَوْحٌ وَّرَيْحَانٌ ڏ وَّجَنَّتُ نَعِيْمٍ  (۵۶: ۸۸ تا ۸۹) پس اگر وہ مقربین سے ہے تو (اس کے لئے) آرام و آسائش ہے، اور خوشبودار پھول اور پر نعمت باغ۔ روح، رَوح، ریح (ہوا) ریحان ایک ہی مادّہ کے الفاظ ہیں، لہٰذا ان کے آپس میں معنوی اشتراک ہے، یعنی ان میں سے ہر ایک میں چاروں کے معنی ہیں، مثال کے طور پر روح زندہ بھی ہے، راحت بھی، ہوا بھی ہے، اور خوشبو بھی، پس روح جہاں ہوا ہے، وہ وہاں نغمہ بھی ہے اور صورِ اسرافیل بھی، کیونکہ ہر ساز کی موسیقی ہوا سے بنتی ہے، لیکن یہ نکتہ یاد رہے کہ ہوائے بہشت قابلِ تعریف ہے۔

 

۶۔ ایک پر حکمت سوال:

اس میں کیا راز مخفی ہے کہ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ کا رخ مقربین کی طرف کردیا گیا ہے، حالانکہ جسمانی موت کے بعد دوسرے تمام مومنین و مومنات کو بھی وہ ساری نعمتیں میسر ہوں گی، جن کا اوپر ذکر ہوا؟ جواب: اس کا

۲۳

اشارہ یہ ہے کہ مقربین ہی وہ لوگ ہیں جو دنیا کی زندگی میں جزوی طور پر، اور بہشت میں کلّی طور پر اس آیۂ مبارکہ کے مصداق ہوتے ہیں، جس طرح سورہ مطففین (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) میں اشارہ فرمایا گیا ہے کہ مقربین ہی وہ لوگ ہیں جو جسمانی موت سے پیشتر بھی نامۂ اعمال کو علیین پر دیکھ سکتے ہیں، اور اس سے مشاہدۂ روحانیّت و عقلانیّت مراد ہے۔

 

۷۔ ستاروں پر بہشتِ برین:

مجھے یہاں اپنی تحریروں سے دوعنوان یاد آگئے، وہ ہیں: ستاروں پر لطیف زندگی (قرآنی مینار ص ۸۷) اور عبدالاحد کا اشارہ (لعل و گوہر ص۴۱) یقیناً ہماری ناچیز سی کوشش دینِ حق کی روشنی میں ہے، اب رسالۂ موسیقی کی فصلِ دہم سے چند حکمتیں بیان کی جاتی ہیں، وہ یہ کہ اس فصل میں بھی فصلِ ہفتم کی طرح آسمانی نغمات کی حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے، اور اس مقدّس موسیقی کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ انسان فرمانبرداری، ذکر و عبادت، اور علم و عمل کے ذریعے سے عالمِ علوی کی نعمتوں اور لذّتوں سے مالا مال ہو جائے، جس طرح حضرتِ ادریس علیہ السّلام نے جسمانی زندگی ہی میں عالمِ بالا تک روحانی رسائی حاصل کرلی تھی (۱۹: ۵۶ تا ۵۷)۔

 

آگے چل کر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا پر حکمت اور مشہور ارشاد درج کیا گیا ہے اور وہ اس طرح ہے: من لم یولد ولا دتَیْنِ لم یصعد

۲۴

الیٰ ملکوت السماءِ ، یعنی جو شخص (جسمانی زندگی ہی میں) دو دفعہ جنم نہ لے وہ آسمان کی سلطنت کی طرف چڑھ ہی نہیں سکتا۔ اس کی مختصر تشریح یہ ہے کہ ہر مومنِ سالک کے لئے یہ امر ازبس ضروری ہے کہ وہ منازلِ روحانی کے آغاز میں ایک بار مرکر زندہ ہوجائے، پھر آگے چل کر مراحلِ عقلانی کے شروع میں دوبارہ فنا ہوکر زندۂ جاوید ہو۔

۸۔ مناجات الباری:

رسالۂ موسیقی کی آخری فصل موسیقار کے سروں اور نغموں کی گونا گون تاثیرات کے بارے میں ہے، اس میں بڑے بڑے اسرار منکشف ہوئے ہیں، اور آپ کو یہ جان کر بڑی حیرت اور بے حد شادمانی ہوگی کہ اس کے آخر میں مناجاۃ الباری کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:

 

ویروی فی الخبرأن ألذّنغمۃٍ یجدھا اھل الجنّۃ، واطیب نغمۃ یسمعونھامناجاۃُ الباری، جلّ ثناؤہٗ، ذالک قولہ تعالیٰ: تَحِیَّتُهُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَهٗ سَلٰمٌ-وَ اَعَدَّ لَهُمْ اَجْرًا كَرِیْمًا (۳۳: ۴۴) “ویقال انّ موسیٰ، علیہ السّلام، لمّا سمع مناجاۃ ربّہ، داخلہ من الفرح والسّرور واللذّۃ مالم یتمالک نفسہ حتّٰی طرب و ترنّم و صَغُرَ عندہ بعد ذالک کُلُّ النّغماتِ والألحان والأصوات۔ وفّقک اللّٰہ ایّھا الأخ لفھم معافی ھٰذہٖ الاشارات اللّطیفۃ والاسراد

۲۵

الخفیّۃ، و بلَّغک بلاغھا وایّانا وجمیع اخواننا حیث کانوا وأین کانوامن البلاد، انّہ رؤفٌ بالعباد ۔

ترجمہ: حدیث میں روایت کی گئی ہے کہ وہ بیحد شیرین (لاہوتی) نغمہ جو اہلِ جنّت کو حاصل ہوتا ہے اور وہ انتہائی پاکیزہ (ربّانی) نظم جسے وہ سنتے ہیں حضرتِ باری تعالیٰ جلّ ثنا وہ کی پاک مناجات ہے، جیسا کہ قرآن پاک کا ارشاد ہے، جس دن وہ اس سے ملتے ہیں (اس دن) ان کی دعا (زندہ و) سلامت ہوجاتی ہے۔ یعنی اسمِ اعظم جو ان کے حق میں حیاتِ ابدی کی دعا ہے، وہ روحانی دیدار کی برکت سے خود گو اور خود کار ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب موسیٰ علیہ السّلام نے اپنے ربّ کی مناجات سن لی تو اس سے ان کو ایسی فرحت، مسرّت اور لذّت حاصل ہوگئی کہ آپ اپنے آپ پر قابو نہ پاسکے، یہاں تک کہ خوشی کے مارے آپے سے باہر ہوگئے، اور گنگنانے لگے، اور اس کے بعد ان کے نزدیک ہر نغمہ، ہر لحن اور ہر آواز حقیر ہوگئی۔

 

اے بھائی ! اللہ تعالیٰ تمہیں ان اشاراتِ لطیف اور اسرارِ باطن کے معنوں کو سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے! اور ان کے پیغام کو آپ تک پہنچائے، اور ہمیں بھی، اور ہمارے تمام (روحانی) بھائیوں کو بھی، جس طرح بھی وہ بستے ہوں اور جن شہروں اور علاقوں میں بھی رہتے ہوں اور خدا اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے۔

 

بحوالۂ رسائل اخوان الصفاء و خلا الوفاء فی الموسیقی

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی، کراچی

سنیچر یکم رمضان المبارک ۱۴۱۴ھ ۱۲۔ فروری ۱۹۹۴ء

۲۶

موسیقی سے علاجِ امراض

 

مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی اپنی مشہور کتاب “اسلام اور موسیقی” کے صفحہ ۱۱۷ پر عنوانِ بالا کے تحت تحریر فرماتے ہیں:

 

موسیقی کی جن مفید تاثیرات کا مجمل ذکر امام غزالی نے کیا ہے، اسے دوسرے حکماء اور فلاسفر بھی بیان کرچکے ہیں، مثلاً افلاطون کہتا ہے:

 

غم زدہ آدمی کو اچھی آوازیں سننی چاہئیں، کیونکہ جب دل پر غم طاری ہوتا ہے تو اس کی روشنی بجھ جاتی ہے، لہٰذا جب وہ وجد و کیف پیدا کرنے والی چیزیں سنتا ہے تو بجھا ہوا جذبہ پھر بھڑک اٹھتا ہے، حکماء نے اس علم کو محض طفل تسلی اور کھیل کے لئے ایجاد نہیں کیا تھا، بلکہ اس کا مقصد تھا داخلی منافع، روح اور روحانیّت کی لذّتوں کا حصول، قلبی انبساط اور گردشِ خون، جس کو اس فن میں کوئی دخل نہیں ہوتا وہ سمجھتا ہے کہ موسیقی کا مقصد بجز اس کے کچھ نہیں کہ کھیل تماشا ہو، دنیا کی خواہشوں کی ترغیب ہو، اور دنیا کی آرزؤوں کے دھوکے میں پڑا رہے۔

 

افلاطون کی ہدایت کے مطابق آج تک حکماء و اطباء نے بیسیوں طرح کے مریضوں کا علاج موسیقی کے ذریعے سے کیا ہے، “القدیم والحدیث”

۲۷

(کتاب) کے مؤلّف محمد کرد علی نے صفحہ ۲۲۴ پر ان امراض کی ایک فہرست دی ہے، جن میں موسیقی کی امداد کامیاب ثابت ہوئی ہے، وہ امراض یہ ہیں:

۱۔ مرگی۔       ۲۔ سَوۡدا۔        ۳۔ اشتیاقِ وطن (Home Sickness)        ۴۔ وہ جنون جو کسی صدمے کی وجہ سے ہو۔         ۵۔ دمہ۔۶۔ کم عقلی۔    ۷۔ عام جنون۔  ۸۔ کند ذہنی۔ ۹۔نیند میں چلنا اور بولنا۔         ۱۰۔ کابوس۔   ۱۱۔ ہسٹریا۔ ۱۲۔سکتہ ۱۳۔ فالج۔   ۱۴۔ سرسام۔   ۱۵۔ دوسرے اعصابی امراض۔ ۱۶۔ مختلف قسم کے بخار۔ ۱۷۔ نقرس۔ ۱۸۔ عرق النساء۔ ۱۹۔ گنٹھیا۔ ۲۰۔ طاعون۔   ۲۱۔ تخمہ۔      ۲۲۔ زہرِ سگ۔ ۲۳۔ زجمہ ۲۴۔ زہرِ باد۔      ۲۵۔ سوءِ ہضم ۔۲۶۔ تنفس وغیرہ۔

اس کے بعد صاحب القدیم و الحدیث لکھتے ہیں:۔

موسیقی طِب کا ایک حصّہ ہے جس سے امراض دور کئے جاتے ہیں، قدیم زمانے میں شاعری، موسیقی، اور طب تینوں فنون کی واقفیت ایک شخص کے اندر ہونا کمال سمجھا جاتا تھا۔

بہت سے اقوال نقل کرنے کے بعد محمد کرد علی ص ۲۱۳ میں دوسرے اخلاقی اور روحانی فوائد کا یوں ذکر کرتے ہیں:۔

خوش آوازی روح میں صفائی اور دل میں کیف پیدا کردیتی ہے، بعض اوقات اس کے طفیل بزدل میدانِ جنگ میں شیر دل بن جاتا ہے، بخیل سخی ہوجاتا ہے، کثیف میں لطافت اور سخت دل میں نرم دلی پیدا

۲۸

ہوجاتی ہے، کمزور قوی اور ظالم عادل بن جاتا ہے، اور کمینہ شریف ہو جاتا ہے۔

 

ابنِ ساعد

ابنِ ساعد نے بڑے جامع الفاظ میں موسیقی کے فوائد کا یوں ذکر کیا ہے:

موسیقی کے مختلف فوائد ہیں، روح میں انبساط پیدا کرنا، اسے اعتدال پر لانا، اسے تقویّت پہنچانا اور اس میں انقباض پیدا کرنا، کیونکہ موسیقی جب روح میں حرکت پیدا کرکے روح کو اس کے اصل مبداء سے ہٹاتی ہے تو وہ سرور و لذّت پیدا کرتی ہے، اور سخاوت و شجاعت وغیرہ کے اوصاف بروئے کار لاتی ہے، اور اصل مبداء کی طرف لیجاتی ہے تو آخرت کی فکر اور اس کے لئے تیاری پیدا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ موسیقی کا استعمال کبھی تو خوشی، جنگ اور مریض کے علاج کے لئے ہوتا ہے، اور کبھی مواقعِ غم پر اور کبھی عبادت گاہوں میں۔

 

ابنِ ساعدِ غزالی، شاہ ولی اللہ اور کرد علی وغیرہم نے موسیقی و مزامیر کو جو بعض جسمانی و روحانی امراض کا علاج بتایا ہے، وہ کوئی جدید تحقیق نہیں، سید نا داؤد نے بھی اس کا تجربہ فرمایا ہے، ملاحظہ ہو: سموئیل ب۱۶ آیت ۲۳:

۲۹


“سوجب وہ بری روح خدا کی طرف سے ساؤل پر چڑھتی تھی، تو داؤد بربط لے کر ہاتھ سے بجاتا تھا اور ساؤل کو راحت ہوتی، اور وہ بحال ہوجاتا تھا، اور وہ بری روح اس پر سے اتر جاتی تھی۔”

 

از کتابِ “اسلام اور موسیقی”

۳۰

مقدّس موسیقی سے علاج

 

۱۔چار ملکوتی قوّتیں:

اہلِ دانش کے لئے اس حقیقت میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ دنیائے ظاہر عالمِ کبیر کہلاتا ہے، اور اس کی نسبت سے انسان کا نام عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) ہے، اور یہی دو عالم قرآنِ پاک میں آفاق و انفس ہیں (۴۱: ۵۳) اس کے ساتھ ساتھ یقیناً آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ جو موجودات عالمِ کبیر میں ہیں، وہی موجودات ایک طرح سے عالمِ شخصی میں بھی ہیں، اور کوئی چیز ایسی نہیں جو آسمان میں یا زمین پر موجود ہو، مگر بحدِّ قوّت انسان کی ہستی میں نہ ہو، پس یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ ہر آدمی کے باطن میں آسمان زمین، اور دین و دنیا کی ہر چیز بحدِّ قوّت موجود ہے، اور اسی آفاقی قانون کے مطابق اس میں چار ملکوتی قوّتیں بھی ہیں، یعنی قوّتِ جبرائیلیہ، قوّتِ میکائیلیہ، قوّتِ اسرافیلیہ اور قوّتِ عزرائیلیہ۔

 

۲۔ موت کا فرشتہ:

قرآنِ حکیم جو اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کا خزانہ ہے، فرماتا ہے:۔

۳۱

(ترجمہ): (اے رسولؐ) کہہ دو کہ ملک الموت جو تمہارے ساتھ مقرر ہے، وہی تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے (۳۲: ۱۱) یعنی وقت آنے پر قبضِ روح کی غرض سے عزرائیل کہیں باہر سے نہیں آتا، بلکہ ہر شخص کا ایک ذاتی عزرائیل یعنی قوّتِ عزرائیلیہ ہمیشہ اس کے ساتھ ہے، اور اسی قوّت کی بدولت ہر وقت جزوی موت (نیند وغیرہ) کا کام بھی ہوتا رہتا ہے، پس قرآنِ پاک کے اس پر حکمت اشارے سے ہمیں یہ یقین آیا کہ انسان میں ایک ساتھ چاروں ملکوتی قوّتیں موجود ہیں، اور وہ ہیں: جبرائیلیہ، میکائیلیہ، اسرافیلیہ اور عزرائیلیہ۔

 

۳۔ کراماً کاتبین:

سورۂ انفطار (۸۲: ۱۰ تا ۱۱) میں ایسے معزز فرشتوں کا ذکر آیا ہے، جو انسانوں کے نگہبان بھی ہیں، اور ان کے نامہ ہائے اعمال میں اندراج بھی کرتے رہتے ہیں، فی الحال یہ بحث نہیں کہ یہ فرشتے کون ہیں؟ چہار مقرب ہیں؟ یا دوسرے؟ لیکن یہ تو معلوم ہوا کہ عالمِ شخصی فرشتوں سے خالی نہیں، اور یہاں یہ حکمت بھی یاد رہے کہ ایک ہی فرشتے کی صورت میں بے شمار فرشتے کام کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ عظیم فرشتوں کا تعلق عالمِ وحدت سے بھی ہے۔

 

۴۔ عالمِ شخصی میں فرشتوں کا نزول:

یعنی حقیقی مومنین کی ہستی میں فرشتوں کی نمائندہ صلاحیتوں کا حدِّ قوّت

۳۲

سے حدِ فعل میں آنا، یہ نزولِ ملائکہ کا ایک خاص تاویلی راز ہے، اب ایک قرآنی ارشاد کا ترجمہ ملاحظہ ہو: جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں،اور ان سے کہتے ہیں کہ “نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجاؤ اُس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں، اور آخرت میں بھی (۴۱: ۳۰ تا ۳۱)” یہ خداوندِ تعالیٰ کے دوستوں کا ذکر ہے، نیز اس حقیقت کی ایک روشن مثال ہے کہ ہر آدمی میں دوسری لاتعداد صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ فرشتوں کی صلاحیتیں بھی موجود ہیں۔

 

۵۔ فرشتوں کی دوستی:

فرشتے کہتے ہیں: نَحْنُ اَوْلِیٰؤُ کُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنُیَاوَفِی الْآخِرَۃِ =ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی (۴۱: ۳۱)۔ یہ اعلانِ رحمت دراصل اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ہے، تاکہ اہلِ ایمان علم و عمل کے وسیلے سے آگے بڑھیں، اور فرشتوں کی دوستی سے فائدہ اٹھائیں، اس ربّانی تعلیم میں جتنے حکیمانہ اشارے ہیں، ان میں ایک خاص اشارہ یہ بھی ہے کہ ہم مقدّس موسیقی کے ذریعے سے اپنے اندر قوّتِ اسرافیلیہ کو اجاگر کریں، تاکہ ہم حضرتِ اسرافیل علیہ السّلام کی دوستی سے بہرہ ور ہوسکیں، اور یہاں یہ نکتہ بھی خوب یاد رہے

۳۳

کہ اسرافیلی قوّت کے ساتھ ساتھ عزرائیلی قوّت بھی ہر وقت مفید کام کررہی ہے ان شاء اللہ ہم یہاں اس کا ذکر کریں گے۔

 

۶۔ موسیقی سے علاج کا طریقہ:

یہ طریقہ کوئی نیا ہرگز نہیں، بہت قدیم ہے، کیونکہ گریہ و زاری اور مناجات حضرتِ آدمؑ سے شروع ہوئی، اور تمام انبیاءؑ کی یہی سنت رہی (۱۹: ۵۸) اور اس عاشقانہ و عارفانہ اور پیغمبرانہ عبادت میں حضرت داؤدؑ نے خدا کے حکم سے مقدّس موسیقی کا اضافہ کیا، اور اس طریقِ کار کو جس طرح زبور جیسی آسمانی کتاب میں مقام عطا ہوا، وہ بڑا اعلیٰ مقام ہے، اب مجھے کسی جھجک کے بغیر یہ کہنا ہے کہ اگر آپ پر دف و رباب کی موسیقی اور عارفانہ کلام کی نغمہ سرائی سے کوئی معجزانہ مستی طاری ہوجاتی ہے تو مبارک ہو! کہ یہ اسرافیل کا فیض ہے، اور یہی ہر گونہ بیماریوں کا روحانی علاج بھی ہے اور سدِ باب بھی۔

 

۷۔ تسخیرِ کائنات:

قرآن فرماتا ہےکہ خدا واندِ عالم نے انسان کے لئے آسمانوں، اور زمین کی تمام چیزوں (قوّتوں) کو مسخر کردیا ہے (۳۱: ۲۰، ۴۵ :۱۳) اس سے مراد یہ ہے کہ عالمِ اکبر کی ساری زندہ قوّتیں عالمِ اصغر میں گھیری ہوئی ہیں،

۳۴

جن میں فرشتوں کی قوّتیں بھی ہیں، یہی تذکرہ ملائکہ نے دوستی کے عنوان سے کیا ہے، پس ہمیں ایک طرف قوّتِ جبریلیہ و میکائیلیہ سے اور دوسری طرف قوّتِ اسرافیلیہ و عزرائیلیہ سے فائدہ حاصل کرنا چاہئے، چونکہ مقدّس موسیقی کا موضوع ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اسرافیل اور عزرائیل سے متعلق کچھ حکمتیں بیان کریں۔

 

۸۔ صورِ اسرافیل کی قیامت خیز طاقت:

یہ دراصل خدائی طاقت ہے جو سراسر کائنات کو ہلا دیتی ہے، اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے یہ طاقت پیدا کرتا ہے، اس میں جملہ اشیائے کائنات کی حمدیہ تسبیح خوانی بھی ہے، ہر چیز کی نماز بھی (۱۷: ۴۴، ۲۴: ۴۱) آسمان زمین کی ہر مخلوق کا سجدہ بھی ہے (۱۳: ۱۵، ۱۶: ۴۹) نغمۂ لاہوتی بھی، دعوتِ حق بھی ہے، سب سے بڑا معجزہ بھی، تخلیقِ آدم اور سجودِ ملائکہ کا تجدّد بھی ہے، طوفانِ نوحؑ کی مثال بھی۔

 

۹۔ صور کی آواز اور اسماءُ الحسنیٰ:

آوازِ صور کے بے شمار معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ اس سے خزائنِ اسرار کے ابواب مفتوح ہوجاتے ہیں، اور اسماء الحسنیٰ کا بالفعل ظہور ہوتا ہے، جس کی بدولت ناقور کی گونج میں طرح طرح کی بے حساب

۳۵

برکتوں کا اضافہ ہوجاتا ہے، اسکا مطلب یہ ہوا کہ صور پھونکنے کے عمل میں صرف ایک آواز یا صرف ایک آسمانی بانسری یا محض بہشتی شہنائی نہیں، بلکہ اس میں آسمان زمین، اور عرش و کرسی کی تمام برکتیں بھی ہیں، جن کا اوپر ذکر ہوا، یہاں یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ خدا ہر کائنات کو لپیٹتا بھی ہے، اور پھیلاتا بھی ہے، چنانچہ نغمۂ ناقور میں صوت و صدا کی کائنات لپیٹی ہوئی ہے، پس اس میں ہر فرشتہ، ہر مقدّس روح، ہر نبی، ہر ولی، ہر عارف، ہر عاشق ہر سالک، ہر درویش، ہر شب خیز مومن و مومنہ، ہر مسلمان، ہر مخلوق اور ہر شے کی عبادات و تسبیحات مرکوز و یکجا موجود ہیں، اور دف و رباب کی مقدّس موسیقی اسی عظیم الشّان آسمانی موسیقی کی نمائندگی کررہی ہے، اور یہ اسی کا سایہ (عکس = پرتو) ہے۔

 

۱۰۔ رباب کی موسیقی میں شفاء:

میرا کامل یقین اور عملی تجربہ یہ ہے کہ رباب کی ایسی موسیقی میں بہت سے امراض کا علاج ہے، جو خدا، رسولؐ، اور امامؑ کی محبت پر مبنی نظموں کے ساتھ سنائی جاتی ہے، ایسی موسیقی اور ایسی محبت ہر قسم کی بیماری کے لئے نسخۂ لاہوتی ہے، خاص کر نفسیاتی، اخلاقی، اور روحانی مریضوں کا علاج اسی رحمانی طب سے ہونا ضروری ہے، کیونکہ ہم خالی موسیقی کی بات تو نہیں کررہے ہیں، اور نہ ہی کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ آوازِ ناقور صرف

۳۶

موسیقی ہی ہے، جبکہ اس میں عالمِ ذرّ کی ہر گونہ یادو عبادت موجود ہے، اور اسماءُ الحسنیٰ پڑھے جاتے ہیں، اور اللہ کے خوبصورت اسماء (۰۷: ۱۸۰) جن کے ذریعہ پکارنے سے وہ قبول فرماتا ہے، آنحضرتؐ اور أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہی ہیں، پس مقدّس موسیقی سے علاج کرنے میں جوشفائی معجزہ ہے وہ دراصل اسمِ اعظم کی برکت سے ہے، اور وہ امامِ زمان صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہٗ کی ذاتِ عالی صفات ہے، کیونکہ امامِ مبینؑ میں تمام اسمائے بزرگ جمع ہیں۔

 

۱۱۔ رباب کے ساتھ چند اذکار:

اذکار میں ایک قدیم نامی شمسی ذکر ہے، جو دعوتِ بقاء میں دف و رباب کے ساتھ کیا جاتا ہے، یہی ذکرِ جلی بھی ہے، اور ذکرِ اجتماعی بھی دعوتِ بقاء کا سب سے زور دار ذکر “بیتِ میدان” ہے، جو سب کے سب کھڑے ہوکر کرتے ہیں، جس میں گریہ و زاری مقصود ہوتی ہے، اسی دعوتِ بقاء کے دستور کے مطابق روحانی محفل بھی ہے، جو خرچ اور وقت کے اعتبار سے آسان بھی ہے، اور جمعیّت کے لحاظ سے خاص بھی، لہٰذا امامِ زمان علیہ السّلام کے چند عاشق مل کر خداوندِ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں۔

 

جب کسی ایسی محفل میں رباب کے ساتھ ترنم سے منا جات کیجاتی ہے،

۳۷

تو خدا کی رحمت سے بعض دفعہ مجلس میں ایک خوشگوار قیامتِ صغریٰ برپا ہو جاتی ہے، یعنی کچھ افراد کی گریہ وزاری ہوتی ہے، کچھ وجد میں آتے ہیں، کچھ پر کپکپی کی حالت گزرتی ہے، بعض مست ہوجاتے ہیں، بعض بے اختیار ہوکر غیر معمولی باتیں کرنے لگتے ہیں، بعض عالمِ خیال میں روشنی کو دیکھتے ہیں، وغیرہ، اب آپ بتائیں کہ دف و رباب کی اس حیران کن اثر انگیزی سے امراض کا علاج ہوگا یا نہیں؟ میرا خیال ہے کہ یہ آسمانی طبیب کے نورِ عشق کا معجزہ ہے، اگر ہم اس سے اپنی بیماریوں کا علاج نہ کریں تو بہت بڑی ناشکری ہوگی۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعہ ۱۵۔ شعبان المعظم ۱۴۱۴ھ

۲۸۔ جنوری ۱۹۹۴ء

۳۸

صورِ اسرافیلؑ

 

۱۔ الصُّور کا بابرکت اور پُرحکمت لفظ قرآنِ حکیم کی ۱۰دس مختلف سورتوں میں آیا ہے، وہ یہ ہیں: انعام (۰۶: ۷۳) کہف (۱۸: ۹۹) طٰہٰ (۲۰: ۱۰۲) مومنون (۲۳: ۱۰۱) نمل (۲۷: ۸۷) یٰسٓ (۳۶: ۵۱) زمر (۳۹: ۶۸) قٓ (۵۰: ۲۰) حاقہ (۶۹: ۱۳) نباء (۷۸: ۱۸) اور دوسرا لفظ الناقور مدثر (۷۴: ۰۸) میں ہے۔

 

۲۔ جب امرِ واقعی اس طرح سے ہے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ روحانیّت اور انفرادی قیامت جیسی انتہائی عظیم تبدیلی صورِ اسرافیلؑ کی طاقت سے آسکتی ہے، تو پھر ہمیں اس سرِ عظیم سے متعلق حقائق و معارف کے لئے سوچنا از بس ضروری ہے، چنانچہ سب سے پہلے یہاں لفظِ “صور” کی لغوی تحلیل کی جاتی ہے، جسکا مادّہ ہے: ص و ر، اسی سے ہے: عربی آواز دینا، جھکانا، کاٹنا، جدا کرنا، الصُّور، نرسنگھا، بگل، الصورۃ: شکل، حلیہ، تصویر، خیالی تصویر، مصور الکائنات،: اللہ تعالیٰ، پس اس لفظ میں سوچنے کے لئے یہی چند مثالیں کافی ہیں۔

۳۔ اہلِ معرفت کے نزدیک صورِ اسرافیلؑ کا تصوّرنر سنگھا یا بگل سے دینا سوائے ایک حجاب کے کچھ بھی نہیں ہے، جبکہ وہ فرشتۂ جدّ (۷۲: ۰۳)

۳۹

کے توسط سے عشقِ الہٰی کا نغمۂ جان ستان و جان بخش ہے، یعنی وہ ایک ایسی زندہ اور بے مثال و بے نظیر پر نور ملکوتی بانسری یا شہنائی ہے، جو دوستانِ خدا کے لئے فنافی اللہ و بقا باللہ کا کام کرتی ہے، کیونکہ آپ نے اوپر کی مثالوں میں دیکھا کہ “صور” کے معنوں میں آواز دینا (دعوتِ حق) بھی ہے، جھکانا (عاجز بنانا) بھی ہے، کاٹنا (ذبح کرنا) بھی ہے، لیکن یہ ذبح لوہے کی چھری سے نہیں، بلکہ خنجرِ عشق سے مناسب ہے، جس طرح حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام کے فرزندِ دلبند حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام خدا کی راہ میں اسی خنجرِ عشقِ خداوندی سے ذبح کئے گئے تھے، ورنہ ذبیح اللہ کے کچھ معنی نہ ہوتے۔

 

۴۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ صورِ اسرافیل کی انتہائی پرکشش آواز دینِ حق کی آخری دعوت بھی ہے، جیسا کہ قرآنی ارشاد کا تاویلی مفہوم ہے: “اس روز تمام لوگ ایسے روحانی داعی کی پیروی کریں گے جو دنیا کی ہر زبان میں بولتا ہے (… لَا عِوَجَ لَہٗ ۲۰: ۱۰۸)۔ کیونکہ رجوع الی اللہ خوشی سے بھی ہے اور لاچاری سے بھی (…. طَوْعًا وَّ کَرْ ھاً ….، ۰۳: ۸۳) پس ہمیں اس رازِ سربستہ سے بہت سے کلیدی حکمتوں کو جاننا چاہئے۔

 

۵۔ درخت قرآنی مثالوں میں سے ایک نمایان اور قابلِ فہم مثال ہے، جس کے تنا کے ساتھ اجزاء دوطرح سے مربوط ہیں، یعنی شاخوں کا ربط و تعلق ظاہر ہے اور جڑوں کا لگاؤ پوشیدہ، اسی طرح قرآنِ حکیم کا ہر موضوع
۴۰

گویا ایک انتہائی عظیم ثمردار درخت ہے، اور تمام الفاظ و معانی اسکی شاخیں اور جڑیں ہیں، چنانچہ جب کوئی عاشقِ صادق قرآنِ پاک کو عشقِ الہٰی کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے، اور اسی موضوع کو لیتا ہے تو کسی شک کے بغیر قرآنی علم و حکمت کی بہشت کے ہر مقام پر علمی دیدار ہوتا ہے ( فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ ۰۲: ۱۱۵) چشم بکشا کہ جلوۂ دلدار + متجلّیست از درو و دیوار او بہ پیشِ تو ایستادہ چو سرو +  سرفروبردۂ تو نرگس وار۔

۶۔ علمی دیدار کا مسئلہ سامنے آیا ہے، ہر چند کہ بارہا اس بے مثال نعمت کا تذکرہ ہوچکا ہے، تاہم یہاں بھی اس کا کچھ بیان ضروری ہے، وہ یہ کہ اگر نورِ امامت کی روشنی میں قرآنِ پاک کے باطن کو دیکھا جائے تو اس میں نورِ ازل کی علمی و عرفانی تجلّیات و ظہورات ہیں، اور ہر تجلّی کا مشاہدہ دیدار ہے۔

۷۔ دوستانِ عزیز! قرآنِ پاک کو نورِ منزل (۰۵: ۱۵) کی روشنی میں پڑھو، مثال کے طور پر سورۂ علق کے شروع کی پانچ آیاتِ کریمہ کو دیکھو، جو کچھ ترجمہ و تفسیر ہے، وہ بوجہِ ظاہر درست ہے، لیکن ہم اس کے باطن کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں، وہ اس طرح سے ہے:

پڑھو (اے محمد) اپنے ربّ کے زندہ و گویندہ اسمِ اعظم کے ساتھ جس نے (انسانِ کامل کو )جسمانی، روحانی، اور عقلانی طور پر پیدا کیا، اس نے انسانِ کامل کو روحانی محبت اور عشق کے تعلق (علق) سے پیدا کیا، پڑھو

 

۴۱

اور تیرا ربّ بے انتہا کریم (الاکرم) ہے، جس نے قلمِ ازل (نورِ عقل =کتابِ مکنون) کے ذریعہ سے علم سکھایا، اس نے کاملین کو ان تمام اسرار سے آگاہ کیا، جن کو وہ نہیں جانتے تھے (۹۶: ۰۱ تا ۰۵)۔

 

۸۔ قلمِ اعلیٰ (قلمِ الہٰی) عالمِ شخصی کے حظیرۃ القدس میں ہے، جہاں تمام اسرارِ حقائق و معارف بحکمِ آیۂ احصینٰہ (۳۶: ۱۲) مجموع و محدود ہیں، جب بندۂ مومن نورِ منزل کی روشنی میں اپنے آپ کو اور اپنے ربّ کو پہچان لیتا ہے، تو اسی کے ساتھ ساتھ نہ صرف قلم اور دوسری عظیم چیزوں کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے، بلکہ پروردگار جو الاکرم (بے انتہا کریم) ہے، وہ اپنے بندے کو قلمِ اعلیٰ یعنی نورِ عقل کے ذریعہ سے علم بھی سکھاتا ہے، پھر ایسے میں بندۂ مومن کو خدا سے عشق کیوں نہ ہو۔

 

۹۔ یہ قرآنی تعلیم بھی ہے اور کلیہ بھی کہ: “کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کررہی ہو (۱۷: ۴۴)۔” اہلِ ایمان کو اس میں کوئی شک نہیں، لیکن ہمارے لئے کسی ایسی چیز کی تسبیح ممدّو معاون ثابت ہو سکتی ہے، جس کو ہم محسوس کرسکیں، جیسے طیور چمن کے نغموں کی تسبیح، یا صورِ اسرافیل جیسے دف و رباب کی تسبیح، یا منظرِ گلشن کی خاموش تسبیح، وغیرہ، کیونکہ انسان میں حقیقی عشق کی صلاحیت تو موجود ہے، لیکن وہ اس کو آسانی سے اجاگر نہیں کرسکتا، اس لئے اس کو کوئی سہارا چاہئے۔

 

۱۰۔ ربّ الاکرم کے حکمِ عالی سے حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے ظاہر و

۴۲

باطن میں مسلسل صورِ اسرافیل بج رہا تھا، جس میں نغمۂ عشقِ الہٰی کا معجزہ ہونے کی وجہ سے کسی استثناء کے بغیر تمام چیزیں ہم آہنگ ہو کر تسبیح کرتی تھیں، جس میں پہاڑوں کی گونج اور پرندوں کی نغمہ سرائی نمایان تھی، جیسا کہ ارشادِ خداوندی کا ترجمہ ہے: اور ہم نے داؤدؑ کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا تھا، جو تسبیح کرتے تھے (۲۱: ۷۹) ہم نے داؤدؑ کو اپنے ہاں سے بڑا فضل عطا کیا تھا (ہم نے حکم دیا کہ) اے پہاڑو، اس کے ساتھ ہم آہنگی کرو (اور یہی حکم ہم نے) پرندوں کو دیا (۳۴: ۱۰) یہیں سے پتہ چلا کہ پہاڑ میں بھی روح کی کارفرمائی ہے۔

 

۱۱۔ اگرچہ اساسی اور باطنی طور پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائی جاتی (۴۸: ۲۳) اور انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کے روحانی اور عقلانی معجزات ایک جیسے ہوا کرتے ہیں، تاہم ظاہراً خداوندی پروگرام ایسا ہے کہ بتقاضائے زمان و مکان ہر پیغمبر اور ہر ولی (امام) کو ایک الگ کام دیا جاتا ہے، چنانچہ حضرتِ داؤدؑ کے حصے میں یہ کام آیا کہ آپؑ فرشتۂ جدّ کی نمائندگی کریں، اور ناسوت و ملکوت کے درمیان مقدّس موسیقی کا ایک مضبوط پل تعمیر کریں، تاکہ دینِ حق کی بے شمار نعمتوں میں خدا و رسولؐ اور امامؑ کے عشق کی عظیم نعمت بھی موجود ہو، اسی مقصدِ اعلیٰ کے پیشِ نظر حضرت داؤد علیہ السّلام نے زبور کے حمدیہ، دعائیہ وغیرہ گیتوں میں مختلف سازوں کی موسیقی کو شامل کرلیا۔

۴۳

۱۲۔ جب خداوندِ پاک کے امر سے مومنِ سالک کی ذاتی قیامت کا وقت آتا ہے، تو صورِ اسرافیل کے عجائب و غرائب کا آغاز اس آواز سے ہوجاتا ہے، جس کو “کان بجنا” کہتے ہیں، اور قرآنی حکمت میں اسکی مثال عربی (مچھر=اس کی آواز، ۰۲: ۲۶) ہے، جس کے بارے میں مولا علیؑ نے فرمایا کہ: میں وہ بعوضہ ہوں جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان فرمائی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کان بجنے کی آواز صورِ اسرافیل کی بنیاد بھی ہے اور نورِ امامت کی ایک چنگاری بھی، پس یہی آواز رفتہ رفتہ بلند ہوکر ساری کائنات پر محیط ہوجاتی ہے، تاکہ تمام لوگ جس طرح قرآن میں ہے، فیصلۂ قیامت کے لئے جمع اور حاضر ہوجائیں۔

 

۱۳۔ سوال:

نغمۂ اسرافیل یعنی آوازِ صور کی سماعت ظاہری کان سے ہوتی ہے یا باطنی کان سے؟ جواب: دونوں سے، کیونکہ انفرادی قیامت کے شروع ہی میں یا جوج و ماجوج بشکلِ ذرّات پیدا ہوکر اس نفسانی دیوار یا حجاب کو چاٹ چاٹ کر کھا جاتے ہیں (۱۸: ۹۴، ۲۱: ۹۶) جو حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن کے درمیان ہے، پھر ہمیشہ یا کچھ وقت کے لئے ظاہری اور باطنی حواس ایک ہوجاتےہیں، نیز یہ بھی حقیقت ہے کہ صورِ قیامت کے دو پہلو ہیں، ایک لطیف جسمانی اور دوسرا روحانی۔

۴۴

۱۴۔ سوال:

آپ نے کہا کہ: انبیاء و اولیاءعلیہم السّلام کے روحانی اور عقلانی معجزات ایک جیسے ہوا کرتے ہیں، تو پھر آپ ہی بتائیں کہ حضرت آدمؑ کی ذات میں دورِ قیامت کا کون سا معجزہ تھا؟ جواب: حضرتِ آدم علیہ السّلام میں جو الہٰی روح پھونک دی گئی تھی (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) اس کا عمل صورِ اسرافیل کے ذریعہ سے ہوا تھا، کیونکہ قرآنِ مجید میں ن ف خ کے جتنے صیغے ہیں، ان کی مثالیں اگرچہ ظاہر میں الگ الگ ہیں، لیکن تاویل ایک ہی ہے، اور وہ ہے صور پھونکنا۔

 

۱۵۔ سوال:

قرآنِ پاک میں ہےکہ: کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں… (۱۵: ۲۱) کیا ہم خدا کے خزانوں کو بہشت کہہ سکتے ہیں؟ اور یہ مان سکتے ہیں کہ موسیقی اور اس کے آلہ جات جنّت سے نازل ہوئے ہیں؟ جواب: بے شک خزائنِ الہٰی بہشت ہیں، اور دنیا کی تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی صورت جنّت میں چھوڑ کر مادّی طور پر دنیا میں آئی ہیں، یہ تو ہر چیز کی روحانی شکل اور جسمانی شکل کی بات ہے، بہر حال موسیقی کی اصل روح بہشت میں ہے، اور اس کا سایہ دنیا میں آیا ہے،

۴۵

پس بہشت کی نعمتوں کے سائے بھی نعمتیں ہیں مگر کمترین۔

 

۱۶۔ سوال:

جہاں حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام خدا کے اذن سے مردوں کو زندہ کرسکتے تھے (۰۳: ۴۹) وہاں یہ کام خالقِ اکبر کے لئے بڑا آسان ہے کہ وہ قادرِ مطلق قیامت کے دن سارے مردوں کو امرِ کن یا صرف ارادہ ہی سے زندہ کرے، لیکن اس میں کیا رازِ حکمت پوشیدہ ہے کہ اہلِ قبور میں روح پھونک دینے کا کام اسرافیلؑ کے ذمہ کردیا گیا؟ جواب: اس میں بہت بڑا راز اور عظیم حکمت آگین اشارہ یہ ہے کہ دین میں سب سے بڑی اور آخری طاقت خدا، رسولؐ، اور امامِ زمانؑ کا پاک عشق ہے، اور اس مبارک عشق کو حرکت میں لانے کا خاص ذریعہ مقدّس موسیقی ہے، تاکہ اس بے مثال قوّت سے قلبی مردگی دور ہوجائے، اور حقیقی زندگی ملنے لگے، پس صورِ اسرافیل کا پُرحکمت اشارہ یہی ہے، بشرطیکہ کوئی دانشمند اس میں غور و فکر کرے اور بھید کو سمجھ کر فائدہ اٹھائے۔

 

۱۷۔ سوال:

آیا اس بات کی کوئی قرآنی دلیل مل سکتی ہے کہ بہشت میں موسیقی اور نغمات ہیں؟ جواب: جی ہاں، اسکی کئی روشن دلیلیں ہیں، پہلی

۴۶

دلیل: صورِ اسرافیل ہے، کیونکہ وہ خدا کے حضور سے ہے، اور بہشت کی نعمتوں میں سے ہے، دوسری دلیل: جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاء اور صدیقین، اور شہداء اور صالحین، کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں (۰۴: ۶۹) اس سلسلے میں اہلِ ایمان بہشت میں حضرتِ داؤد علیہ السّلام کو بھی دیکھ کر از حد شادمان ہوں گے، کیونکہ ان کے نامۂ اعمال میں نغمہ ہائے زبور اور تمام متعلقہ موسیقی ہوگی۔

 

۱۸۔ سوال:

سورۂ زخرف میں ہے:  اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ اَنْتُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُوْنَ =  تم اور تمہارے جوڑے جنّت میں جاؤ، جہاں تمہیں نغمے سنائے جائیں گے (۴۳: ۷۰) آیا اس آیۂ کریمہ کا یہ ترجمہ درست ہے، جو مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی کی کتاب “اسلام اور موسیقی” کے ص ۱۹ پر درج ہے؟ جواب: جی ہاں، یہ ترجمہ بالکل درست ہے۔

 

مذکورہ کتاب کے صفحہ ۲۰ پر بھی دیکھیں: فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَهُمْ فِيْ رَوْضَةٍ يُّحْبَرُوْنَ =جو لوگ ایمان لائے اور اس کے مطابق عمل کئے وہ چمن میں نغمے سن رہے ہوں گے ( ۳۰: ۱۵)۔

۴۷

۱۹۔ سوال:

آپ یہ بتائیں کہ آیا اس حدیثِ شریف میں موسیقی کا کوئی اشارہ موجود ہے؟  اِنَّ اللّٰہَ اَسّٓسٓ دِیْنہٗ عَلیٰ اَمْثاَلِ خَلْقِہٖ لیُسْتَدلَّ بخلقِہٖ عَلیٰ دینہٖ وبدینہٖ علیٰ وحدانیّتِہٖ= یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی بنیاد اپنی آفرینش کی مثالوں پر رکھی تاکہ اس کی آفرینش سے اس کے دین کی دلیل لیجائے اور اس کے دین سے اس کی وحدانیت کا استدلال کیا جائے (وجہ دین، فارسی، ص ۶۶) جواب: جی ہاں، اس حدیث میں یہ واضح اشارہ ہے کہ جیسی جیسی ادنیٰ چیزیں دنیا میں ہیں، ویسی ویسی اعلیٰ چیزیں دین میں ہیں، پس دنیا میں جب کم درجے کی موسیقی ہے تو دین میں اعلیٰ درجے کی مقدّس موسیقی کیوں نہ ہو۔

 

۲۰۔ سوال:

کتابِ “کوکبِ دری” بابِ سوم منقبت نمبر ۵۶ میں حضرت مولا علیؑ کا ارشاد ہے: اناالنّاقور الَّذی قال اللّٰہ تعالیٰ: فَاِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُوْرِ  (۷۴: ۰۸) یعنی میں ہوں وہ ناقور (صورِ اسرافیل) جس کا ذکر حق تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے، جبکہ صور میں پھونکا جائے گا۔ یہاں پوچھنا یہ ہے کہ امامِ عالیمقام علیہ السّلام کی ذاتِ بابرکات کس معنیٰ میں ناقور ہوسکتی

۴۸

ہے؟ اور کیوں ایسا ہونا ضروری ہے؟ جواب: آپ جس پاک ہستی کو نور مانتے ہیں، وہ حواسِ ظاہر و باطن کا نور ہے، یعنی نورِ امامت جو نورِ ہدایت ہے، وہ انسان کی ہر حس اور ہر مدرکہ کے مطابق ہے، دوسرے الفاظ میں یہ کہوں گا کہ ایک ہی نور کے کئی ظہورات ہیں، تاکہ آنکھ، کان، ناک وغیرہ کے لئے ہدایت بھی ہو، اور نعمت بھی، پس ظہورِ نور ناقور میں بھی ہے۔

 

۲۱۔ سوال:

سورۂ فصلت (حٰمٓ السجدۃ) میں ان الفاظِ مبارک کو غور سے دیکھ لیں:  قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْٓ اَنْــطَقَ كُلَّ شَيْءٍ  =وہ (کھالیں) جواب دیں گی “ہمیں اسی خدا نے گویائی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویا کردیا ہے (۴۱: ۲۱) یعنی ہر چیز خواہ وہ بے جان کیوں نہ ہو، خدا کے حکم سے بولتی ہے، یہ بہت بڑا معجزہ کب اور کہاں یش آتا ہے؟ جواب: جب اسرافیلؑ خدا کے دوستوں کے کان میں صور پھونکتا ہے، اور عزرائیلؑ بار بار ان کی روح کو قبض کرلیتا ہے، تو اس وقت ہر چیز کی گفتگو کے معجزات شروع ہو جاتے ہیں۔

 

۲۲۔ سوال:

اس آیۂ کریمہ کا ترجمہ اور تاویلی مفہوم بتائیں: اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِيْنَ۔

۴۹

اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ  (۳۷: ۴۰ تا ۴۱) جواب: مگر خدا کے برگزیدہ بندے ان کے واسطے (بہشت میں) مقرر روزی ہوگی، تاویل: مگر اللہ کے دین شناس اور مؤحد بندے وہ ہیں جن کو ایسا روحانی رزق ملے گا کہ وہ اسے دنیا میں بھی جانتے تھے۔ یعنی دین کی ہر گونہ نعمت، علم، حکمت، دیدارِ پاک، عشقِ مولا، روحانیّت، نور، سرور، اسرار، فتح، کامیابی، نغمہ ہائے روحانی، سروحدت وغیرہ، جیسا کہ سورۂ محمد (۴۷: ۰۶) میں یہ مفہوم ہے کہ دنیا ہی میں بہشت کی معرفت ہونی چاہئے۔

 

۲۳۔ سوال:

“رباب نے کیا کہا؟” کے عنوان کے تحت آپ نے تحریر کیا ہے کہ رباب نے کہا: “برائے دین، برائے دین” یعنی دین کے لئے، دین کے لئے، اس کا ایک مطلب تو آپ نے بتا دیا ہے، پھر بھی ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ آیا، اس میں مزید کوئی تاویلی حکمت ہوسکتی ہے؟ جواب: جی ہاں، اس کی دوسری تاویل یہ ہے کہ رباب دراصل ایک مقدّس ساز ہے، جس کا تعلق صورِ اسرافیل سے ہے، اس لئے اس کو صرف دین ہی کے لئے مخصوص کیا جائے، اور کوئی شخص اس کو دنیوی موسیقی کے لئے استعمال نہ کرے۔

 

۲۴۔ سوال:

بحوالۂ مضمون: “ایک عجیب نورانی خواب۔” آپ کا کہنا ہے کہ آپ کو نورانی خواب میں مولانا

۵۰

شاہ کریم الحسینی حاضر امام صلوٰۃ اللہ علیہ نے مئی ۱۹۸۲ء میں رباب کو ترقی دینے کے لئے حکم دیا تھا، اس پر آپ نے کس حد تک عمل کیا؟ جواب: میں بہت ہی عاجز اور قاصر ہوں، حکیم پیر ناصر خسرو قدس اللہ سرہٗ کا حلقۂ دعوت بڑا وسیع ہے، جس میں دف و رباب کی مقدّس روایت چلی آئی ہے، سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے، تاہم خداوندِ قدوس کی توفیق و یاری سے اپنی سی حقیر کوشش کی، اور کچھ نظمیں لکھیں، اور اب سعی کررہا ہوں کہ اس کی اہمیّت و افادیّت قرآن اور روحانیّت کی روشنی میں ظاہر کردی جائے، ان شاء اللہ تعالیٰ جو روایت جماعت کے لئے مفید ہو، وہ اپنی جگہ جاری و ساری ہی رہے گی۔

 

۲۵۔ سوال:

اس کی وجہ کیا ہے کہ ہر آدمی فطری طور پر ساز و سوز اور موسیقی کا دلدادہ ہوتا ہے؟ مگر یہ بات اس سوال سے الگ ہے کہ کوئی مذہب اس چیز کو نہیں چاہتا ہو؟ جواب: یہ سوال بڑا دلچسپ اور اساسی نوعیّت کا ہے، ربّ الاکرم کی بے مثال مصلحت و حکمت اسی امر میں پوشیدہ تھی کہ حضرتِ آدم علیہ السّلام کی طینت و سرشت میں موسیقی کا عنصر بھی داخل کردیا جائے، چنانچہ خالقِ اکبر نے ابوالبشر کو صلصال (کھنکھناتی ہوئی مٹی) سے پیدا کیا، قرآن (۱۵: ۲۶، ۱۵: ۲۸، ۱۵: ۳۳، ۵۵: ۱۴) میں صلصال کو دیکھئے، اور مستند عربی لغات میں بھی دیکھئے،

۵۱

اس لفظ کے معنی ہیں: سوکھی ہوئی بجنے والی مٹی، یور یا لگام کا آواز دینا، بادل کا گرجنا، گھنٹی کا گونجنا، تخلیقِ آدمؑ کا ظاہری قصّہ سب کو معلوم ہے، لہٰذا اس مقام پر ان کی روحانی تخلیق کی بات کی جاتی ہے، وہ یہ کہ صلصال سے صورِ اسرافیل کی گونج مراد ہے، جس سے حضرتِ آدمؑ کی روحانی آفرینش شروع ہوئی، چونکہ آدمؑ کی سرشت میں مقدّس موسیقی داخل ہوئی تھی، اسی وجہ سے خاندانی طور پر اولادِ آدمؑ کو موسیقی اور خوش الحانی مرغوب و دلپسند رہتی ہے۔

 

۲۶۔ سوال:

دنیا کی ہر گونہ موسیقی کا اصل سرچشمہ کہاں ہے؟ جواب: سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں خوب غور سے دیکھ لیں، تاکہ اس حقیقت پر یقین ہو کہ کوئی چیز ایسی نہیں جو خزائنِ الہٰی سے نازل ہوئی ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ لوگ اس نعمت کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔

 

۲۷۔ سوال:

چونکہ آپ کا یہ مضمون موسیقی، خوش الحانی اور سماعی جمالیات سے متعلق ہے، اس مناسبت سے ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ آپ گانے والے

۵۲

پرندوں میں سے کس کس کو زیادہ پسند کرتے ہیں؟ اور آپ نے کس پرند کی بولی میں کوئی معجزہ سنا؟ جواب: میں گانے اور چہچہانے والے تمام پرندوں کو پسند کرتا ہوں، سب سے پہلے مݳݵون (اوریول = ORIOLE)  سنہری کوّا ہے، جس کی نغمہ سرائی ہمارے علاقے میں بیمثال ہے، پھر ٹیرو ہے، یعنی چنڈول (SKY LARK)  پھر ڎیو=متُم ڞِن (کالی چڑیا) وغیرہ ہیں، تاہم خروسِ سحر نے اذان دیتے ہوئے جو کچھ کہا، وہ زبردست روحانی معجزہ تھا، یہ قرانگغو توغراق (یار قند) کی بات ہے۔

 

۲۸۔ سوال:

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ زبور آسمانی اور الہامی کتاب ہے، لیکن اس کے شروع سے لیکر آخر تک حضرتِ داؤد علیہ السّلام ہی کا اپنا منظوم کلام ہے، اس میں کیا راز ہے؟ جواب: قرآنِ پاک (۰۴: ۱۶۳، ۱۷: ۵۵) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ داؤدؑ کو زبور عطا کردی۔ چونکہ حضرتِ داؤد خلیفۃ اللہ علیہ السّلام عاشقانہ گریہ و زاری سے بار بار فنا فی اللہ کا مرتبہ حاصل کرتے تھے، اور اس حال میں (جیسا کہ حدیثِ نوافل میں ہے) ربّ الاکرم ان کی زبان ہوکر کلام کرتا تھا، اور خدا کے لئے اس امر میں کوئی مشکل نہیں، پس زبور ظاہراً حضرتِ داؤدؑ کے حمدیہ، دعائیہ، وغیرہ

۵۳

گیتوں کا مجموعہ ہے، اور باطناً خدا کا کلام ہے، اور اس حقیقت کی قرآنی دلیل یہ ہے:

وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى (۰۸: ۱۷) اور (اے رسولؐ) تم نے نہیں پھینکی مٹھی خاک کی جس وقت کہ پھینکی تھی لیکن اللہ نے پھینکی (۰۸: ۱۷) اس سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ پیغمبر اور امام کا قول و فعل خدا کا قول و فعل ہوجاتا ہے، پس زبور کسی شک کے بغیر آسمانی کتاب ہے۔

 

۲۹۔ سوال:

آپ کہتے ہیں کہ خداوندِ تعالیٰ نے انسان کو ایک کائنات کے طور پر پیدا کیا ہے، اس لئے اس میں سب کچھ ہے، اگر یہ بات حقیقت ہے تو اس میں قلم، لوح، اسرافیل، میکائیل اور جبرائیل کہاں ہیں؟ جواب: جی ہاں، یہ بات حقیقت ہے، لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ حدِّ قوّت سے حدِّ فعل تک جتنی روحانی منزلیں ہیں، آپ ان کو طے کرکے اپنے آپ کو کماحقہٗ پہچان لیں، تاکہ آپ کو مکمل یقین حاصل ہوکہ آپ کے عالمِ شخصی میں عقل قلم ہے، روح لوحِ محفوظ، قوّتِ عشقِ اسرافیل، قوّتِ فہم میکائیل، اور قوّتِ خیال جبرائیل ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا  (۱۶: ۸۱) اور اللہ نے بنا دیئے تمہارے واسطے اپنی بنائی ہوئی چیزوں کے سائے (۱۶: ۸۱) یعنی تمہارے عالمِ شخصی میں

۵۴

ہر چیز کا زندہ سایہ (مظہر) ہے، خصوصاً پانچ حدودِ روحانی اور پانچ حدودِ جسمانی کے سائے (مظاہر)، وہ یہ ہیں: قلم، لوح، جدّ، فتح، خیال، ناطق، اساس، امام، حجّت، داعی۔

۳۰۔ سوال:

آپ کبھی کبھار اپنی گفتگو یا تحریر میں “آسمانی عشق” کے لفظ کو استعمال کرتے ہیں، اس سے کون سا عشق مراد ہے؟ اور ایسے عشق کا کیا فائدہ ہے؟ جواب: آسمانی عشق اُس انتہائی پاک و پاکیزہ اور شدید محبّت کا نام ہے، جو اہلِ ایمان کے دل میں خدا، رسولؐ، اور امامِ زمانؑ کے لئےہوتی ہے، جس کا حکم آسمانی کتاب (یعنی قرآن) کے بہت سے مقامات پر موجود ہے، دنیا اور آخرت میں اس کے بے شمار فائدوں کا کیا کہنا! اگر دین کا مقصد خیر خواہی ہے تو اس کی بہترین صورت عشق ہے، تمام دینی فرائض کی بجا آوری عشق ہی سے آسان ہوجاتی ہے، اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (۹۴: ۰۵) کی تفسیر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر مشکل کام عشق سے آسان ہوجاتا ہے، ذکرِ الہٰی کی کئی قسمیں ہیں، لیکن ذکرِعشق ذکرِاعظم اور ذکرِ اکبر ہے، اور وہ اعلیٰ سطح پر صورِاسرافیلؑ کے ساتھ ہوتا ہے، اور ابتدائی طور پر رباب کے ساتھ، ذکرِاعظم یہ ہے کہ اس میں نہ صرف زبان اور دل کا ذکر ہوتا ہے، بلکہ تمام ذرّاتِ روح اور جملہ خلیاتِ بدن بھی ہم آہنگ ہوکر خدا کو یاد کرتے

۵۵

ہیں، اور ایسے میں بندۂ مومن کی ہستی پر نورِ عشق محیط ہوجاتا ہے۔

 

۳۱۔ سوال:

سماوی یا حقیقی عشق کس طرح پیدا ہوجاتا ہے؟ اور کس وسیلے سے اس کی ترقی ہوسکتی ہے؟ جواب: یہ بات قرآن ہی کی روشنی میں ہے کہ اللہ کی محبت رسولؐ کی محبت سے، اور آنحضرتؐ کی محبت آپؐ کے قرابت داروں کی محبت سے حاصل ہوتی ہے (۰۳: ۳۱، ۴۲: ۲۳) پس امامِ زمانؑ ہی خدا کے اسمِ ودود (۱۱: ۹۰، ۸۵: ۱۴) کا مظہر ہے، ودود کے معنی ہیں محبت کرنے والا، چنانچہ امامِ حیّ و حاضر اپنی اس صفتِ مظہریّت میں لوگوں سے مختلف درجات پر محبت کرتا ہے، اگر تم اس سے خاص محبت کرو گے تو وہ بھی تم سے خاص محبت کرے گا، اگر تمہاری محبت بفضلِ خدا شدید ہے تو اس کا نام نارِ مقدّس یعنی آتشِ عشق ہوگا، اور یہ آسمان سے نازل ہوئی ہوگی، جس طرح یہ آگ حضرتِ ہابیلؑ کی گوسفندِ نفس کو قبولنے کے لئے آسمان سے آئی تھی (۰۵: ۲۷) یہاں یہ بڑا ضروری نکتہ یاد رہے کہ نور کا نام نار (آتشِ عشق) بھی ہے جیسے حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں ہے کہ ظاہراً ان کو مادّی آگ کی ضرورت تھی اور باطناً آتشِ عشق کی تلاش (۲۷: ۰۷) اور آیۂ کریمہ کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ جب حضرتِ موسیٰؑ اس آگ کے پاس آئے تو آواز آئی کہ مبارک (برکت دیا گیا) ہے وہ جو آتشِ عشق (نورِ عشق=نورِ عقل) میں

۵۶

ہے، اور جو اس کے گرد ہے، اور اللہ اس مرتبہ سے پاک و برتر ہے، کیونکہ وہ عوالمِ شخصی کا پروردگار ہے (۲۷: ۰۸) یعنی وہ ان کی پرورش رفتہ رفتہ انتہائی اعلیٰ درجہ تک کرتا ہے۔

 

آسمانی محبّت اور عشق کی ترقی اس بات میں ہے کہ بندۂ مومن فرمانبردار اور متّقی ہو، وہ علم الیقین کی روشنی میں اپنے امامِ وقتؑ کی بے مثال خوبیوں کو دیکھے، عین الیقین سے اس کے باطنی حسن و جمال کی گونا گون تجلّیات کا مشاہدہ کرے، حق الیقین کی آخری منزل میں اس کی کامل معرفت حاصل کرلے، قرآن میں امام اور امامِ مبین میں قرآن کو دیکھے تو پھر یقیناً آسمانی عشق درجۂ کمال پر پہنچ جائے گا۔

 

۳۲۔ سوال:

کیا حکیم پیر ناصر خسرو قدّس اللہ سرہٗ کے حلقۂ دعوت کے علاوہ اسمٰعیلی تاریخ میں اور کہیں موسیقی کی کوئی روایت تھی؟ جواب: جی ہاں، اس سلسلے میں ہم ریسرچ کررہے ہیں، فی الحال ایک بڑی اہم روایت کا پتا چلا ہے، وہ یہ ہے کہ حضرتِ مولانا امام المعزالدّین اللہ علیہ السّلام سلطانِ مصر کے محل کے لئے ہر رات ایک ہزار محافظ ہوا کرتے تھے، جن میں پانسو سوار اور پانسو پیادہ ہوتے تھے، ان کا یہ کام تھا کہ شام سے لے کر صبح تک شاہی محل کے گرد اگرد گشت کریں، اور ساتھ ہی ساتھ

۵۷

ڈھول، نقارے اور شہنائی بجاتے جائیں، اس کے علاوہ اس شاہی جلوس میں بھی یہی باجے بجاتے تھے، جو ہر سال افتتاحِ خلیج (نہر) کے لئے نکلتا تھا (بحوالۂ سفر نامۂ ناصر خسرو)۔

 

۳۳۔ سوال:

سورۂ بنی اسرٓائیل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: (ترجمہ) اور (سارے جہان میں) کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کررہی ہو (۱۷: ۴۴) کیا آپ کچھ بتا سکتے ہیں کہ یہ حقیقت کس طرح ہے؟ جواب: یہ اسرارِ عظیم اسی آیۂ کریمہ (۱۷: ۴۴) میں ہیں کہ قلم (حمد =عقل) اللہ کی تسبیح کرتا ہے، لوحِ محفوظ تسبیح کرتی ہے، سات آسمان اور زمین اور ان میں جتنی چیزیں ہیں وہ سب اس کی تسبیح کررہی ہیں، قلم، لوح، سات آسمان، اور زمین دس کلیات ہوئے، پس ہر کل میں سب کی نمائندگی لازمی امر ہے، اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ماننا پڑے گا کہ ہر چیز غیر شعوری طور پر کم از کم دس مقامات پر ذاتِ سبحان کی تسبیح کررہی ہے، اور یہ تسبیح ہر مقام کے مطابق ہے، اور سب سے اعلیٰ تسبیح مرتبۂ عقل پر ہے، جس کا نام قلم بھی ہے، اور حمد بھی، چنانچہ تجدّدِ امثال کے معنی میں قلمِ الہٰی (حمد=عقل) ابھی ابھی کائنات و موجودات کی اشیاء کو لکھ رہا ہے، اور ایسے میں تمام چیزیں خدا کی حمد کے ساتھ یعنی عقل کے

۵۸

توّسط سے اللہ کی تسبیح کرتی ہیں، یعنی اس کو ہر چیز سے پاک و برتر قرار دیتی ہیں، اسی طرح ہر چیز لوحِ محفوظ (نفسِ کلّی) میں روحانی تحریر کی صورت کو قبول کرتے ہوئے تسبیح کرتی ہے، اور ہر آسمان کی کیفیّت و خاصیّت میں بھی، اور زمین پر جو چیز جیسی پیدا کی گئی ہے، اس حالت میں بھی تسبیح ہوتی رہتی ہے۔

 

چیزیں تین طرح سے تسبیح کرتی ہیں:

۱۔ زبانِ حال سے۔

۲۔ زبانِ قال سے۔

۳۔ اشارۂ عقل سے۔

ان تینوں میں سے ہر ایک دو قسموں میں ہے: ایک زبانِ حال خاموشی میں ہے، جیسے پتھر وغیرہ، اور دوسری آوازِ بے گفتگو میں، جیسے پرندوں کی آواز، ایک زبانِ قال معرفت کے بغیر ہے، اور دوسری زبانِ قال معرفت کے ساتھ، ایک اشارۂ عقل نمائندگی کے طور پر ہے، اور دوسرا ذاتی، پس تسبیح کے مقامات یا درجات دس سے زیادہ ہیں، اور اس کی قسمیں چھ ہیں۔

 

۳۴۔ سوال:

ہم مانتے ہیں کہ ہر چیز اپنے مقام اور اپنی کیفیّت کے مطابق تسبیح کرتی رہتی ہے، اور کوئی شیٔ تسبیح کے بغیر ٹھہر نہیں سکتی، لیکن اس کی کیا وجہ ہے

۵۹

کہ آپ موسیقی کے بعض آلہ جات کو زیادہ پسند کرتے ہیں؟ جیسے دف و رباب (چھردہ) وغیرہ؟

جواب: عقیدت و محبت دین کی سب سے بڑی بنیادی طاقت ہے، شروع شروع میں ہم علم جیسی بہت بڑی دولت سے بے بہرہ تھے، لیکن دف و چھردہ کے ساتھ جس طرح حضرتِ مولا کی منقبت سنائی گئی، وہ ہمارے لئے بہت بڑی کرامت ثابت ہوئی، اس سے ہم نہ صرف ایک راسخ العقیدت مومن ہوگئے بلکہ الحمدللہ! بہت سی عنایات ہوئیں، یقیناً مولائے برحقؑ کے پاک دین میں اور بھی کئی مقدّس روایات ہیں، لیکن میں جس حلقۂ دعوت میں پیدا ہوا، اسی کی روایت میں میرے لئے آسانی بھی تھی، اور افادیّت بھی، اور اس کے ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ میرا عقیدہ یا حسنِ ظن ہے کہ اس مقدّس روایت کو حکیم پیر ناصر خسرو قدّس اللہ سرہٗ نے امامِ وقت کے اذن سے اپنے حلقۂ دعوت میں رائج کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل اس بابرکت روایت کا آغاز ہوا، اور اب تک بفضلِ الہٰ شمالی علاقہ جات، چترال، افغانستان، تاجیکستان (روس) سریقول اور یار قند (چین) میں زندہ اور جاری ہے۔

 

۳۵۔ سوال:

کیا آپ یہ ثبوت پیش کرسکتے ہیں کہ حضرتِ مولا علی علیہ السّلام نے کبھی کسی موسیقی کی طرف توجہ فرمائی تھی؟ جواب: جی ہاں، آپ کتابِ

۶۰

کوکبِ دری، بابِ پنجم، منقبت نمبر ۳۳ کو پڑھیں، اس میں یہ روایت بہ اسنادِ خود درج ہے: حارث بن اعور کہتا ہے کہ میں امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ کے ہمراہ عیرہ میں جو کوفہ کے نزدیک ہے گیا، اسوقت ایک دَیرانی پر میرا گزر ہوا جو ناقوس (سنکھ) بجارہا تھا، مولاؑ نے فرمایا “اے حارث! تجھے معلوم ہے کہ یہ ناقوس کیا کہتا ہے؟ میں نے عرض کی کہ خاتم الانبیاءؐ کا وصی بہتر جانتا ہے، فرمایا: وہ دنیا اور اس کی خرابی و بربادی کو ضرب المثل کے طور پر بیان کرتا ہے، پھر مولا علی علیہ السّلام نے ناقوس کے اشعار کو پڑھ کر سنایا جو مذکورہ کتاب میں ہیں۔

 

۳۶۔ سوال:

استادِ محترم! ہم آپ سے کوئی بحث و مناظرہ تو نہیں کرتے، مگر قیمتی معلومات کی غرض سے شاگردانہ سوالات کرتے ہیں، کیونکہ ہم اپنے مسائل کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، سو آپ بمہربانی یہ بتائیں کہ علاقۂ ہونزہ میں زمانۂ قدیم سے اب تک ڈھول، نقاروں، اور شہنای کی موسیقی کا جیسا رواج رہا ہے، اور اس پر مزید آپ کے گاؤں حیدر آباد میں فوجی بینڈ بھی ہے، آپ کے نزدیک اس کا کیا جواز ہے؟ اور اس میں عوام کے لئے کیا کیا فائدے ہیں؟ جواب: قرآنِ پاک میں خوب غور سے دیکھ لیں،اس میں جتنی چیزیں حرام ہیں، وہ تو حرام ہی ہیں، لیکن اللہ کی بنائی ہوئی زینت کس نے حرام کردی،

۶۱

آپ آیۂ زینت کو سورۂ اعراف (۰۷: ۳۲) میں گہری نظر سے پڑھ لیں، پس زینۃ اللہ جو ظاہری ہے وہ پانچ حواسِ ظاہر کے مطابق ہے: باصرہ کے لئے باغ و گلشن وغیرہ کا نظارہ ہے، سامعہ کے لئے موسیقی اور خوش الحانی، شامّہ کے لئے ہرگونہ خوشبو، ذائقہ کے لئے پاک و عمدہ غذائیں، اور لامسہ (بدن) کے لئے اچھا اور مناسب لباس ہے، چنانچہ ہر حس کے لئے ایک جداگانہ زینت ہے، جس کا یہاں ذکر ہوا، اب ہم یہ بتائیں گے کہ آج کل ہونزہ میں دیسی بینڈ خاص خاص مواقع پر بجاتے ہیں، جس میں عوام کا میدانی اجتماع ہوتا ہے، ایسے اجتماعات اکثر مذہبی تہواروں سے متعلق ہوتے ہیں، جس میں بچوں اور بڑوں کی کچھ تقاریر ہوتی ہیں، کچھ حصہ تفریحی ثقافت کا بھی ہوتا ہے، جس سے تھکے ہوئے زمیندار تازہ دم ہوجاتے ہیں، اور تمام حاضرین کو بے حد خوشی حاصل ہوجاتی ہے۔

 

اگر ایسا کوئی اجتماع کسی مذہبی جشن سے متعلق ہے، تو اس کے زیرِ اثر مرد و زن، صغیر و کبیر، برنا و پیر سب پگھل جاتے ہیں، کیونکہ وہ لوگ سب بڑے راسخ العقیدت مومنین و مومنات ہیں۔

 

۳۷۔ سوال:

آپ اپنی وسیع معلومات کی روشنی میں ہمیں یہ بتائیں کہ آیا موسیقی کے ذریعہ بعض بیماریوں کا علاج بھی ہوسکتا ہے؟ جواب: جی ہاں، اس

۶۲

سے علاج کا کام لیا جاسکتا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ ہر ایسی چیز بطورِ دوا استعمال ہوسکتی ہے، جس میں کم و بیش کوئی اثر موجود ہو، اور ہم دیکھتے ہیں کہ موسیقی میں زبردست تاثیر ہے، انسان تو انسان ہی ہے، اس سے بعض جانور بھی متأثر ہوجاتے ہیں، پس موسیقی سے علاج نفسیات کے بعض مریضوں کے لئے مفید ہوسکتا ہے، اور اگر دف و رباب (چھردہ) کی مقدّس موسیقی کی بات کریں تو یہ تمام روحانی، اخلاقی اور نفسیاتی بیماریوں کے لئے اکسیرِ اعظم کا کام کرتی ہے، پس یقیناً موسیقی میں علاج و شفاء کا راز پوشیدہ ہے۔

 

۳۸۔ سوال:

“عشق افضل ہے یا عقل” یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس پر بحثیں تو بہت ہوئی ہیں، مگر کوئی تسلّی بخش جواب نہیں، کیا آپ اس میں ہماری مدد کرسکتے ہیں؟ جواب: ان شاء اللہ، یعنی اگر خدا نے چاہا تویہ کام ہوسکتا ہے، ورنہ نہیں، عرض یہ ہے کہ بحوالۂ حدیثِ قدسی عشق گویا درخت ہے اور عقل اس کا پھل، کیونکہ خدا عقل کو صرف ایسے شخص میں کامل اور مکمل کردیتا ہے، جس کو وہ محبوب رکھتا ہے، اور وہ خدا کو محبوب رکھتا ہے، اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ عقل عشق کی پیداوار ہے، یا یوں کہا جائے کہ آتشِ عشق سے نورِعقل کا ظہور ہوتا ہے، یہاں مزید سوچنے کی ضرورت ہے کہ

۶۳

بے شک عقل ثمرۂ محبّت و عشق ضرور ہے، لیکن جب غور سے دیکھئے کہ ثمرِعقل کی گٹھلی میں کوئی پودا پنہان ہے، اور وہ ہے عشق کا پودا، پس عشق میں عقل پوشیدہ ہے، اور عقل میں عشق مخفی۔

 

۳۹۔ سوال:

آپ نے آیۂ زینت (۰۷: ۳۲) کی حکمت بڑی عمدگی سے بیان کی ہے، تاہم اس کلیدی حکمت کی اہمیّت و افادیّت کے پیشِ نظر کچھ مزید وضاحت کریں۔ جواب: یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ قرآنِ حکیم کی ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت سے ہوتی ہے، چنانچہ لفظ “زینت” کی ایک تفسیر سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۵۹) میں ملتی ہے کہ وہاں فرعون کے جشن (سالگرہ) کو یوم الزینۃ کہا گیا ہے، یعنی زینت کا دن، یہاں سے زینت کے معنی کا یقین آتا ہے کہ اس میں موسیقی اوّلین چیز تھی، ورنہ فرعون کا جشن نامکمل ہوجاتا، اس مثال کے علاوہ یہ حدیث ملاحظہ ہو: زَیَّنُوا الْقراٰن بِاَصْوَاتکُم =قرآن کو عمدہ آواز سے پڑھا کرو۔ پس یہاں یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ زینت میں کان کے لئے بھی برابر کا حصہ ہے۔

 

۴۰۔ سوال:

علامہ صاحب! آپ دف و رباب کے تقدّس کے قائل ہیں، حالانکہ

۶۴

آپ کے بعض دوستوں اور شاگردوں نے کچھ دوسرے سازوں کو بھی شروع کیا ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب: میں ان سے قربان! یہی تو رباب کی ترقی ہے، جس کا حکم مولائے پاک نے اس بندۂ ناچیز کو خواب میں دیا تھا، کیونکہ رباب مرکز ہے، اور باقی چیزیں اسکی ترقی ہیں۔

 

جب کسی سالگرہ کے جشن میں دیسی بینڈ پر طغرا یا بحرِطویل بجاتے ہیں، تو میں غلبۂ عقیدت و محبّت سے پگھل جاتا ہوں، اور میرا دل مرغِ نیم بسمل کی طرح تڑپنے لگتا ہے، اور ایسے میں میری روح قفسِ عنصری سے نکل کر پرواز کرنا چاہتی ہے۔

 

۴۱۔ سوال:

پیارے سر!کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ بہشت میں خدا و رسولؐ، اور امامؑ کا عشق ہے یا نہیں؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ اصل اور پاک عشق تو جنّت میں ہے، تو پھر آپ کو اس کا قرآنی ثبوت پیش کرنا ہوگا۔ جواب: دین و دنیا کی ہر چیز خدا کے خزانوں سے آتی ہے (۱۵: ۲۱) یہ بھرے ہوئے الہٰی خزائن بہشت میں ہیں، چونکہ عشقِ الہٰ کی ایک انتہائی ادنیٰ مثال شراب ہے، اس لئے قرآنِ مجید میں جہاں جہاں خمرِ بہشت کا ذکر آیا ہے، وہاں دراصل عشقِ حقیقی کا تذکرہ ہے، بہشت کا ہر چشمہ، چشمۂ عقل بھی ہے، چشمۂ علم بھی، اور چشمۂ عشق بھی ہے، کیونکہ وہاں اعلیٰ نعمتوں کی وحدت و سالمیت

۶۵

ہوا کرتی ہے، دنیا کی شراب پینے سے عقل زائل ہوجاتی ہے، لیکن شرابِ جنّت (جو شرابِ عشق ہے) کے پینے سے نئی روح اور تازہ عقل آتی ہے، چنانچہ بہشت کی بے شمار نہریں چار قسموں میں ہیں (۴۷: ۱۵) ان میں سے ایک قسم شراب کی نہروں کی ہے، اس سے حقیقی عشق کی تجلّیات مراد ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعہ یکم شعبان المعظم ۱۴۱۴ھ

۱۴۔ جنوری ۱۹۹۴ء

۶۶

عالمِ ذرّ

 

۱۔ مادّہ اور ضروری مُشتقات:

ذ۔ر۔ر: الذّرُّ (واحد، ذرّۃ) چھوٹی چیونٹیاں، کرمک، ہوا میں مُنتشر غبار، مٹی کے وہ انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات جو کھڑکی سے آنے والی دھوپ میں نظر آتے ہیں، ذرّاتٌ (واحد، ذرّۃ) نسل، ذُرّیَّۃُ (جمع۔ ذرِّیَّاتُ) اولاد، نسل۔

 

۲۔ حقیقی بنی آدم:

اگرچہ ظاہری اعتبار سے سارے انسان بنی آدم کہلاتے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، کیونکہ معلوم ہے کہ لوگوں کے بہت سے درجات ہیں، یعنی بہت سے لوگ حضرتِ آدم علیہ السّلام کے رشتۂ روحانی کو چھوڑ کر بہت دور چلے گئے ہیں، چنانچہ ابوالبشر سے روحانی رشتہ کے بارے میں یہ تین باتیں ہمیشہ کے لئے یاد رکھیں: (الف) خلیفۂ خدا (آدمؑ) کا رشتۂ روحانی قائم رہتا ہے، جس کی مثال انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام

۶۷

ہیں،اور یہی حضرات بحقیقت بنی آدم ہیں (ب) نافرمانی کی وجہ سے روحانی رشتہ ٹوٹ جاتا ہے، جس کی مثال حضرت نوحؑ کا ایک بیٹا کنعان ہے (ج) روحانی رشتہ ٹوٹ جائے تو اسے جوڑ لیا جاتا ہے، جیسے یہ کام سلمان فارسی نے کیا، اس سے اہلِ دانش کے لئے یہ رازِ قرآن منکشف ہوگیا کہ بنی آدم حقیقی معنوں میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اور ان کے مومنین ہیں، اور جو خود آدمِ دور ہے، وہ بھی ابنِ آدم ہے، کیونکہ آدموں کا سلسلہ لا ابتداء ولا انتہا ہے۔

 

۳۔ عالمِ ذرّ کہاں ہے؟:

یاد رہے کہ عالمِ شخصی ہی کا ابتدائی نام عالمِ ذرّ ہے، جس کو ربّ الاکرم بنی آدم کی پشت سے پیدا کرتا ہے، جن کا اوپر ذکر ہوا، اور اللہ تعالیٰ کے عظیم اسرارِ باطن بڑے عجیب و غریب اور انتہائی حیران کن ہیں، کہ عالمِ ذرّ میں ہر ہر چیز کی روح موجود ہے، یہاں تک کہ مٹی اور پتھر جیسی جمادات کی روح بھی وہاں ہوتی ہے، کیونکہ ہر چیز کو پہلے پہل بحالتِ ذرّہ خزائنِ الہٰی میں موجود ہونا ہے (۱۵: ۲۱) چنانچہ خالقِ اکبر ہر ابنِ آدم کی پشت سے اس کی ذرّیت اور دیگر تمام ذرّات کو بتوسطِ اسرافیل و عزرائیل اخذ (۰۷: ۱۷۲) کرکے ان سے عالم ذرّ بنا دیتا ہے، اور اس کی روحانی اور عقلانی پرورش اس حد تک کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے ارواح کے لئے اقرارِ

۶۸

ربوبیّت ممکن ہوجاتا ہے، یہی تذکرہ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲) میں موجود ہے۔

 

۴۔ بنی آدم کی تعریف و توصیف:

بنی آدم کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جب بھی ذکر و مناجات اور عبادت کرتے ہیں، اس وقت ان کی ذات میں نورِ الہٰی کی روشنی آجاتی ہے، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: (ترجمہ) اے اولادِ آدم! ہر عبادت میں اپنی (روحانی) آرائش حاصل کرو (۰۷: ۳۱) یعنی تمہاری ہر نماز، ہر عبادت، اور ہر گریہ و زاری ایسی ہو کہ اس سے روح کے لئے کوئی بھی روشنی اور زینت پیدا ہوجائے۔

 

بنی آدم پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا سب سے بڑا کرم یہ ہے: (ترجمہ) اور ہم نے یقیناً آدم کی اولاد کو بڑی عزت دی اور خشکی و سمندر (جسمانیّت و روحانیّت) میں ان کو لئے لئے پھرے، اور انہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں (یعنی روحانی علم سے ان کی روحوں کو تقویّت بخشی) اور اپنی بہت سی مخلوقات (جن میں فرشتے بھی ہیں) پر ان کو اچھی خاصی فضیلت دی (۱۷: ۷۰)۔

 

۵۔ انبیاءؑ اور عالمِ ذرّ:

تمام پیغمبروں کے قصّے عالمِ ذرّ سے متعلق ہیں، چنانچہ حضرتِ آدمؑ کے لئے جن فرشتوں نے سجدہ کیا، وہ ظاہر میں مومنین تھے اور باطن میں عالمِ

۶۹

ذرّ کے تمام ذرّات، حضرتِ نوحؑ کی ایک کشتی مثال اور دوسری ممثول تھی، انہوں نے جن بے شمار چیزوں میں سے دو دو جوڑے اپنے ساتھ جس کشتی میں لئے، وہ تمام جمادات، ساری نباتات، جملہ حیوانات، اور کل انسانوں کے روحانی ذرّات تھے، اور وہ کشتی حضرت نوحؑ کی روح تھی (۱۱: ۴۰، ۲۳: ۲۷)۔

 

حضرتِ ابراہیمؑ نے اپنے وقت میں دنیا بھر کے لوگوں کو بیت اللہ کی زیارت (حج) کی دعوت دی، اور آپؑ خود خدا کا گھر تھے، اور دعوت صورِ اسرافیل کے ذریعہ سے کی جارہی تھی، اس لئے انسانوں کے علاوہ پتھر، درخت، حیوان، چرند و پرند کی روحیں بھی آپؑ کے عالمِ ذرّ میں آگئیں، اسی طرح ان سب کے انسانِ کامل کے حضور آکر روحانی ملاقات کرنے میں بڑی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں (۲۲: ۲۷، ۲۲: ۲۸)۔

 

حضرتِ موسیٰؑ نے مدین شہر میں حضرتِ شعیبؑ کے لئے آٹھ یا دس۱۰ سال تک بھیڑ بکریاں چرانے (چوپانی) کا کام کیا، یہ قصّہ ظاہر میں درست ہے (۲۸: ۲۷) اور اس کا تاویلی پہلو یہ ہے کہ آپؑ کے عالمِ ذرّ میں بے حساب و بے شمار روحیں آئی ہوئی تھیں، جن کی آپؑ پرورش اور حفاظت کرتے تھے۔

 

حضرتِ عیسیٰؑ خدا کے اذن سے پرواز کرنے والے بہشتی کُرتے بناکر ان میں صورِ اسرافیل کے توسّط سے عالمِ ذرّ پھونک دیتے تھے، اس

۷۰

تاویلی حکمت کے لئے آپ سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۴۹) میں خوب غور کرسکتے ہیں۔

 

حضرتِ محمد مصطفےٰ، رسولِ خدا، سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کا مجسّم اور زندہ دین تھے، جب آنحضرتؐ کی ذاتی قیامت قائم ہوئی تو حسبِ وعدۂ الہٰی (۰۹: ۳۳، ۴۸: ۲۸، ۶۱: ۰۹) دنیا بھر کے لوگ بصورتِ ذرّات آپؐ کے عالمِ شخصی میں داخل ہوگئے (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۳) سورۂ نصر میں لفظِ نصر اسرافیل کا نام ہے،  فتح میکائیل ہے،ناس سے تمام لوگ مراد ہیں، دینِ اللہ، یعنی خدا کا دین آنحضرت صلعم ہیں، کیونکہ خدا کی ہر چیز زندہ ہوا کرتی ہے۔

 

۶۔ امامِ مبین اور عالمِ ذرّ:

عالمِ ذرّہر زمانے میں انسانِ کامل کی مبارک شخصیّت ہی میں رہ کر اپنا کام کرتا رہتا ہے، وہ دراصل عالمِ ارواح و ملائکہ ہے، کیونکہ حضرتِ آدمؑ کی مثال میں روحیں بھی تھیں، اور فرشتے بھی تھے، ان سب کا مجموعی نام نور ہے، یعنی بہت بڑی روح، یا نفسِ واحدہ، جس میں سب لوگ جمع ہیں، بلکہ کائنات و موجودات کی ساری چیزیں بھی ساتھ ہیں، اس لئے کہ کوئی چیز رحمت اور علم کے بغیر نہیں (۴۰: ۰۷) پس اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو امامِ مبین کی ذاتِ عالی صفات میں گھیر لیا (۳۶: ۱۲) اور خدا کے اس قانون سے عالمِ ذرّ باہر نہیں ہوسکتا۔

۷۱

۷۔ امامِ مبین کے معانی:

(الف) پیشوا جو ظاہر ہے، جو اس دنیا میں حاضر اور موجود ہے۔

(ب) امامِ ناطق (بولنے والا امام) کیونکہ قرآن بھی امام ہے، مگر وہ بولتا نہیں۔

(ج) امامِ مؤول (تاویل کرنیوالا امام) کیونکہ لفظِ مبین میں جو بیان ہے، وہ تاویل کو بھی کہتے ہیں۔

(د) نمایان اور واضح راستہ، یعنی صراطِ مستقیم، کیونکہ جس طرح امام اللہ کی رسی ہے، اسی طرح وہ خدا کا زندہ راستہ بھی ہے۔

 

۸۔ متعلقہ آیۂ کریمہ:

اِنَّا نَحْنُ نُـحْيِ الْمَوْتٰى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَهُمْ ڳ وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ (۳۶: ۱۲) ہم ہی یقیناً مردوں کو زندہ کرتے ہیں (مردے دو قسم کے ہوتے ہیں: نفسانی اور جسمانی) اور لوگوں کے اعمال و آثار کو لکھتے ہیں، اور ہم نے تمام چیزوں کو امامِ مبین میں گھیر لیا ہے (۳۶: ۱۲) یعنی امامِ زمان علیہ السّلام اللہ کا گھر ہے، جس میں خدا کی وجہ سے ساری خدائی (بادشاہی) موجود ہے، اب اگر میں یہ کہوں کہ

۷۲

امامِ مبین میں عرش، کرسی، قلم، لوح، آسمان، زمین، اور ان کی جزئیات ساری چیزیں موجود ہیں، تو یہ مزید تشریح ہوگی، الغرض خداوندِ عالم کل اشیاء کو ہر وقت لپیٹتا بھی ہے اور پھیلاتا بھی ہے (۰۲: ۲۴۵)۔

 

۹۔ جمادات اور عالمِ ذرّ:

یقیناً عالمِ ذرّ میں جملہ اشیائے کائنات و موجودات کے نمائندہ ذرّات موجود ہیں، اس لئے لازماً وہاں جمادات کے ذرّات بھی ہیں، چنانچہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں پہاڑ کا ذکر آیا ہے، وہاں خوب غور سے دیکھنا ہوگا، پہاڑ اور پرندے کس طرح حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر اللہ کی تسبیح کرتے تھے؟ اپنی جگہ پر؟ یا جنابِ داؤدؑ کے عالمِ ذرّ میں؟ صورِ اسرافیل کی مدد سے؟ یا اس کے بغیر؟ (۲۱: ۷۹، ۳۴: ۱۰، ۳۸: ۱۸) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرکے اڑادے گا (۲۰: ۱۰۵) آیا یہ معجزہ ظاہر میں ہوگا؟ یا باطن میں؟ اس میں کیا راز ہے کہ پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون جیسے ہوجائیں گے (۷۰: ۰۹)؟ یہ آپ کے لئے فکر انگیز اور نتیجہ خیز سوالات ہیں، آپ حقائقِ عالیہ ص ۳۳، اور قرآنی مینار ص ۲۲۳  پر “روح اور مادّہ” کے مضمون کو بھی پڑھیں۔

 

سورۂ لقمان کے اس ارشاد میں واضح طور پر ذرۂ روح کا ذکر فرمایا گیا ہے: (ترجمہ: لقمان نے کہا:) اے بیٹا! اس میں شک نہیں۔ اگر کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور وہ کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین

۷۳

میں کہیں چھپی ہوئی ہو اللہ اسے نکال لائے گا (۳۱: ۱۶) یعنی صورِ اسرافیل کی دعوت پر ایسی چیزوں سے بھی ذرّاتِ روح عالمِ ذرّ میں آنے لگتے ہیں، جن کو لوگ بے جان سمجھتے ہیں۔

 

۱۰۔ ان تجلّیات کا کیا اشارہ ہے؟:

یہ صرف ابتدائی روحانیّت کے احوال ہیں، مثال کے طور پر: عین الیقین کے مشاہدے میں ایک بڑا عجیب پُرنور منظر تھا، پھر یکایک دوسرا حسین و خوشنما منظر سامنے آیا، یہ روح کی تجلّیات ہیں، اب اس کا ظہور بہشت جیسے ایک خوبصورت باغ کی شکل میں ہوا، پھر لمحہ بھر میں یہ جلوۂ جانفزا بھی بدل گیا، اب ایک عجیب و غریب شہر نظر آرہا ہے، جس کی ہر گلی کوچے میں سیم و زرّ اور لعل و گوہر بکھرے پڑے ہیں، اتنے میں ایک عظیم الشّان پہاڑ پر نظر پڑتی ہے، جس میں جگہ جگہ ہر گونہ جواہر کی کانیں موجود ہیں، پھر ایک تابناک سمندر کا نظارہ ہوتا ہے، پس آغازِ روحانیّت کی ان گونا گون تجلّیوں کا یہ اشارہ ہے:

(الف) کائنات و موجودات کی ایک متحدہ روح ہے، جس کو عالمگیر روح کہتے ہیں۔

(ب) اس ہمہ گیر روح کے ذرّات سے کوئی چیز خالی نہیں۔

(ج) عالمِ ذرّ میں عالمِ ظاہر کی تمام اشیاء کی نمائندگی ہے۔

۷۴

(د) عالمِ ذرّ کسی مبارک ہستی میں اُس وقت پیدا ہوجاتا ہے، جبکہ اسرافیل خدا کے حکم سے اس کے لئے صور بجاتا ہے: الحمد للہ ربّ العالمین ۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی۔

منگل ۵۔ شعبان المعظم ۱۴۱۴ھ

۱۸۔ جنوری ۱۹۹۴ء

۷۵

رباب نے کیا کہا؟

 

۱۔ حضرتِ حکیم پیر ناصر خسرو قدّس اللہ سرہٗ کے حلقۂ دعوت میں منقبت خوانی دف و رباب کی موسیقی کے ساتھ ہوتی ہے، اس کا رواج تقریباً ہزار سال قبل شروع ہوا، اس مقدّس روایت نے اتنے لمبے عرصے میں گویا مکتبِ عشق اور صورِ اسرافیل کا کردار ادا کیا، جس کے وسیلے سے یہاں کے بے شمار اسماعیلیوں کو امامِ برحق علیہ السّلام سے عقیدت و محبّت کی فضیلت حاصل ہوتی رہی، پس یہ اہلِ بصیرت کے نزدیک اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ایک خصوصی نعمت ہے، خدا ہمیں ایسا زمانہ نہ دکھائے، جس میں یہ پُرحکمت چیز ہم سے چھن گئی ہو۔

 

۲۔ یار قند (چین) کا ایک واقعہ ہے کہ جب یہ خاکسار درویش اپنے روحانی انقلاب کے مراحل سے گزر رہا تھا، اسی زمانے میں کسی شام کے وقت وہ گھر میں انفرادی ذکر کے دوران رباب کو چھیڑنے لگا (جس کے چھ تاروں میں سے ایک انتہائی زیر، دو درمیانی زیر، ایک انتہائی بم اور دو درمیانی بم ہوا کرتے ہیں) خدا وندِ تعالیٰ کی قدرت بڑی عجیب و غریب ہے، کہ میں نے جب مضراب سے رباب کے تاروں کو چھیڑا تو کچھ تار صاف

۷۶

آواز میں بولنے لگے، انتہائی بم نے کہا: “برائے دین، برائے دین” (یعنی دین کی خاطر، دین کی خاطر) اور درمیانی زیر کے دونوں تار نے کسی معجزانہ شخصیّت کے نام کو دہرایا، اس روحانی معجزہ کی دونوں باتوں سے مجھے بدرجۂ انتہا حیرت ہوئی، یقیناً اس معجزۂ امامت میں عقلمندوں کے لئے بہت سے اشارے موجود ہیں، نیز اس میں میرے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی بھی تھی۔

 

۳۔ صبح سویرے میں ٹھیک وقت پر جماعت خانہ گیا، ریاضت اور عبادت حسبِ معمول ادا ہوگئی، اور جماعت کے افراد اپنے اپنے گھروں کی طرف جاچکے تھے، مگر قبول آخوند جو بڑا مومن شخص تھا، وہ میرے پاس جماعت خانے میں آکر کہنے لگا: “غُوجم! (میرے خواجہ!) باہر کچھ لوگ آئے ہوئے ہیں۔” میں نے اس کے مغموم لہجے اور چہرے سے اندازہ کیا کہ وہ لوگ کچھ اچھی نیّت سے نہیں آئے ہیں، میں نے زائد دعا و تسبیح ختم کرلی اور آخری سجدہ بجالا کر باہر نکلا، تو گیٹ کے سامنے مخالفین کا ایک گروہ موجود تھا، جس کی تعداد شاید چالیس۴۰اور پچاس کے درمیان تھی، یہ لوگ مجھے گرفتار کرنے کی غرض سے آئے تھے، جس کا سبب یہ تھا کہ وہاں ہمارے جانے سے قبل ہماری جماعت پوشیدہ تھی، کیونکہ کہیں کوئی جماعت خانہ نہیں بنا تھا، لیکن ہم نے جیسے ہی کئی مقامات پر چند جماعت خانے بنوائے، تو اسی کے ساتھ اسماعیلی جماعت ظاہر

۷۷

ہوگئی، جس سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہونے لگی کہ نصیر الدین کوئی نئی تحریک چلانے کے واسطے یہاں آیا ہے، اس پر مزید مصیبت یہ کہ خود ہماری جماعت کے بعض بڑے لوگ بھی تعمیرِ جماعت خانہ کے مخالف تھے، اس لئے وہ میری شدید مخالفت کرتے تھے۔

 

۴۔ خداوند تعالیٰ اس حقیقتِ حال کا گواہ ہے کہ جب سے میں نے امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کے روحانی معجزات دیکھے تھے، اور جب جب غلبۂ روحانیّت کی مستی طاری ہوتی تھی تو اس حال میں کسی بھی خطرے سے نہیں ڈرتا تھا، چنانچہ میں نے بڑی قہرمانی اور بے باکی کے ساتھ ان کے پارٹی لیڈر سے چند سوالات کئے، اور کہا کہ آیا تم نے اسماعیلی جماعت اور جماعت خانے کے خلاف یہ یہ کام کیا ہے یا نہیں؟ وہ بڑی کمزور اور مضطرب آواز میں “نہیں نہیں” بول رہا تھا۔

 

۵۔ کچھ دیر کے بعد ایک رائفل مین بھی وہاں حاضر ہوگیا، بڑا موٹا اور لمبا جوان تھا، جس کو دیکھتے ہی سب لوگ اٹھ کھڑے ہوگئے، اور ہر شخص نے گرم جوشی سے اس کے ساتھ مصافحہ کیا، میرے ضمیر نے جو شرابِ روحانیّت سے سرشار تھا، کسی آواز کے بغیر حکم دیا کہ اگر میری گرفتاری مطلوب ہے تو میں بکری کی طرح نہیں بلکہ شیر کی طرح گرفتار ہوجاؤں، چنانچہ میں اپنی جگہ سے اٹھا، اور اس سپاہی یا پولیس کی رائفل کو سنگین کے پیچھے سے انتہائی سختی کے ساتھ پکڑ کر چھین لینے

۷۸

کی کوشش کی، اور قریب ہی تھا کہ رائفل میرے ہاتھ میں آئے، لیکن جب ان لوگوں نے یہ بڑا خطرناک منظر دیکھ لیا، تو فوراً سب کے سب مجھ پر حملہ آور ہوگئے، اور بڑی مشکل سے بندوق میرے ہاتھوں سے چھڑا لی گئی، مجھے یہ واقعہ بڑا عجیب لگتا ہے کہ مجھ میں اتنی زبردست طاقت کہاں سے آگئی؟ جس سے مقابلہ کرنے کے لئے اتنے سارے آدمیوں کی ضرورت ہو! اور یہ بھی بڑی حیرت کی بات ہے کہ اگر رائفل ہاتھ آتی تو میں اسے کیا کرتا! میرا کوئی منصوبہ ہی نہ تھا۔

 

۶۔ حملہ کرنے والوں نے بندوق کا مسئلہ حل کرکے فوراً ہی میرے دونوں ہاتھ پشت پر باندھ لئے، اب میں دشمنوں کے ہاتھ میں گرفتار ہوچکا تھا، وہ مجھے اپنے مقام سے کہیں دور لیجانے والے تھے، راستے میں ایک نابکار آدمی نے (جو انقلاب سے پہلے میرے روحانی بھائی اور دوست عزیز محمد خان کا نوکر تھا) میرے پشت پر لات ماری اور بد زبانی کی، لیکن دوسرے لوگوں نے اس حرکت کی مذمت کرتے ہوئے منع کیا، آپ باور کریں گے کہ اُس وقت میرا بدن اضافی روحوں کی طاقت سے بھرپور تھا، لہٰذا ایسی کوئی چوٹ اثر انداز تو نہیں ہوسکتی تھی، تاہم نجانے میں نے کیونکر اپنے آقا سے اس گرفتاری اور اہانت کی شکایت کرلی، جس کے جواب میں ایک مقدّس اور پُرجلال آواز نے فرمایا کہ: “تم صبر کرو تمہارے نہیں میرے ہاتھ باندھ لئے ہیں۔” سبحان اللہ! یہ کتنی بڑی عنایت ہے۔

۷۹


۷۔ ہماری مقامی جماعت شاید اس مشکل مسئلہ کے حل کے لئے سوچ رہی تھی، مگر قبول آخوند جیسے عاشق کو کہاں صبر ہوسکتا تھا، وہ تو جان کی بازی لگا کر ان لوگوں کے پیچھے پیچھے آرہا تھا۔

 

۸۔ دریائے زرافشان کے اس طویل پل کے قریب (جہاں سے یارقند کا راستہ قراغالیق اور خوتن کو جاتا ہے) مجھے ایک کھمبے کے ساتھ باندھا گیا، میں بار بار “اللہ اکبر” اور “یاعلی” کے حوصلہ مندانہ نعرے لگاتا رہا، اور دل میں خوف و ہراس جیسی چیز کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں تھی، ہر چند کہ رسی کی سخت بندش کے سبب سے ہاتھوں کی انگلیوں کے سروں سے خون ٹپکنا چاہتا تھا، مگر صبر و ہمّت کا روحانی معجزہ ساتھ تھا، یہ بھی ایک آزمائش تھی کہ اس دوران مجھے شدّت سے پیاس لگی تو میں نے پانی مانگا، لیکن اہلِ کربلا کی طرح مجھے پانی سے محروم رکھا گیا، بیچارہ قبول آخوند اپنے بے مثال جذبۂ جان نثاری کے تحت میرے پاس آنا چاہتا تھا، مگر مخالفین پتھراؤ کرکے اسے ہٹا رہے تھے، اور وہ بھی جواباً اُن پر سنگ باری کرتا تھا۔

 

۹۔ تقریباً چار یا تین گھنٹے تک یہ درویش اس جان گداز ستون کے ساتھ باندھا ہوا رہا، درین اثناء مخالفین نے وہاں سڑک کے بیگار (رجاکی) کرنے والے بہت سے لوگوں سے ساز باز کرکے میرے قتل کے لئے حکومت کو درخواست لکھ دی، پھر کچھ لوگوں نے مجھے پل کے پار ایک پولیس چوکی

۸۰

کے حوالہ کردیا، جہاں مجھے زندگی میں دوسری دفعہ گالی گلوچ اور ضربِ خفیف کا تجربہ ہوا، لیکن پوچھنے پر جب میں نے اپنی داستانِ ظلم و ستم اُن کو سنادی تو بظاہر وہ خاموش ہوگئے۔

 

۱۰۔ پت جھڑ کا موسم تھا، اس لئے رات طویل، بڑی ٹھنڈی اور وحشتناک تھی، مگر مومنین اور مجاہدینِ اسلام پر اللہ تعالیٰ کے احسانات ہوا کرتے ہیں، چنانچہ اس ابتلا و امتحان کے دوران عالمِ روحانیّت کی آوازیں اس ناچیز درویش کے ساتھ گفتگو کررہی تھیں، اس حال میں مجھے یوں تصوّر ہونے لگا کہ گونا گون آوازوں اور صداؤں کا ایک طوفانی فوارہ یا ستون میری ہستی سے بلند ہوکر کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، اس میں وہ غضبناک آوازیں بھی شامل تھیں، جو بموجبِ قرآن دوزخ والوں کے لئے مقرر ہیں، اور وہ رحمت آمیز آوازیں بھی، جو اہلِ جنّت کو نوازنے کے لئے ہوتی ہیں، نہ معلوم میں نے یہ بچگانہ گستاخی کس طرح کی اور کہا کہ: اے روحوں کے سردار! اب اسی وقت جبکہ آپ پوری کائنات سے مخاطب ہیں تو فرصت ہی کہاں کہ آپ مجھ ناچیز سے کچھ خطاب فرمائیں، سو پاک آواز فرمانے لگی کہ ایسا ہر گز نہیں، ہمیں ہر وقت فرصت ہی فرصت ہے، اور آناً فاناً مرکز سے پاکیزہ اور شیرین آواز کی ایک شاخ پیدا ہوکر مجھ سے مصروفِ گفتگو ہونے لگی، درحالے کہ مرکز کسی فرق کے بغیر اپنا کام کررہا تھا۔

۸۱

۱۱۔ جب صبح کا وقت ہوچکا تو مجھے واپس یارقند شہر کی جانب چلایا گیا، اور درمیان میں کسی دفتر میں رکنا پڑا، شام کا وقت ہوچکا تھا، وہ موقع ہی ایسا تھا کہ اکثر اوقات روحانیّت کے عظیم معجزات اور اسرار کا مشاہدہ ہوتا تھا، چنانچہ وہاں انگلیوں کے معجزے نمایان تھے، اس کا اشارہ یہ ہوا کہ جس طرح خدا کے دوستوں کی زبان کو تائید حاصل ہوتی ہے، اسی طرح ان کے ہاتھ کو بھی روحانی مدد حاصل ہوسکتی ہے، کچھ دیر کے بعد گاؤں کی جماعت کے دو مومن حکومت کی طرف سے رہائی کا حکم نامہ لے کر پہنچ گئے، اور خدا کے فضل و کرم سے میں بخیر و عافیت واپس گھر پہنچ گیا، جس گاؤں میں میرا قیام تھا، وہاں ہماری جماعت کے صرف ۴۵ گھر تھے، سب نے مل کر متفقہ طور پر حکومت سے درخواست کی تھی کہ ان کے عالمِ دین کو فوراً رہا کردیا جائے، نیز یہ کہ گاؤں میں حکومت کے ذمہ دار افسران آکر تفتیش کریں کہ تاجیک جماعت پر یہ ظلم و زیادتی کیوں ہورہی ہے۔

 

۱۲۔ لفظِ “تاجیک”  تازی (عربی) مغیر ہے، جو چین، روس، اور افغانستان میں اسماعیلوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، القصّہ مقامی حکومت کے سنٹر سے کچھ ذمہ دار افسران ہمارے گاؤں “قرانگغو توغراق” آگئے، جنہوں نے مسلسل نو (۹) دن تک واقعات و حالات کی تحقیقات کی، اور نتیجے کے طور پر یہ حکم صادر کیا گیا کہ تاجیک (اسماعیلی) اپنے مذہب کے معاملے میں آزاد ہیں، وہ دوسروں سے جماعتی طور پر الگ ہیں،

۸۲

ان کے جماعت خانے کی بے حرمتی اور جماعتی سکول پر قبضہ کرنے کی کوشش سراسر ظلم و ناانصافی ہے، اور اگر کوئی شخص اس حکم کے باوجود ان کے عقائد کو نقصان پہنچاتا ہے تو حکومت اس سے خبر لے گی۔

 

فقط آپ کا علمی خادم

نصیرؔ ہونزائی

۲۰۔ نومبر ۱۹۸۰ء

۸۳

ایک عجیب نورانی خواب

 

۱۔ جب بندۂ مومن کثرتِ ذکر و عبادت اور گریہ و زاری کے نتیجے میں کوئی عمدہ اور پُرحکمت خواب دیکھتا ہے تو وہ نورانی خواب کہلاتا ہے، یاد رہے کہ علم و بندگی کی ترقی کے ساتھ ساتھ خواب بھی حقائق و معارف کے مراحل میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، آپ چاہیں تو قرآنِ مقدّس کے اس مجموعہ آیاتِ کریمہ میں غور و فکر کرسکتے ہیں، جو خواب کی تاویلی حکمت سے متعلق ہے، اور وضاحت کے لئے دین کی کتب عالیہ کا بھی مطالعہ کرسکتے ہیں۔

 

۲۔ کینڈا، مونٹریال، جمی جناح کے گھر میں ہم چند روحانی احباب کسی شام کے وقت مل کر حسبِ معمول پروردگارِ عالمین کو یاد کرتے تھے، عزیزوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی، مگر میرے یقین کے مطابق ہر فرد بحدِّ قوّت ایک ارضی فرشتہ اور عاشقِ نور تھا، اس پر مزید یہ دعا کی گئی کہ : “یا الہٰی! تو اپنی قدرتِ کاملہ سے مشرق و مغرب کے ہمارے جملہ عزیزان کی پیاری اور پاکیزہ روحوں کو اس چھوٹی سی محفل میں یک جاکردے!” یقیناً یہ عاجزانہ دعا خداوندِ عالم کے حضور میں قبول ہوئی ہوگی کہ

۸۴

ہم سب کافی دیر تک دریائے ذکر وبندگی میں اس طرح ڈوب گئے کہ دنیا ومافیہا اس دوران ہم سے قطعاً فراموش ہوگئی، یوں محسوس ہورہا تھا کہ ہمیں منزلِ فنا مل رہی ہے، ہر فرد پگھلا ہوا نظر آتا تھا، میں سمجھتا ہوں کہ یارانِ محفل اس معجزاتی بزمِ ذکر کو ہمیشہ کے لئے یاد رکھیں گے۔

 

۳۔ مجھے خیال آتا ہے کہ شاید زبانی تذکرے کے علاوہ کسی خط میں بھی معجزۂ رباب کا ذکر ہوا تھا، کہ شدید مصیبت کے وقت رباب نے کیا کچھ کہا، چنانچہ یہاں اس چھوٹی سی مجلس میں گویا رباب بھی اپنی خاص زبان میں خدا کی حمد و ثناء کا گیت گارہا تھا، جب محفل ختم ہوگئی تو عزیزان اپنے اپنے مقام کی طرف چلے گئے، اور یہ عاجز و ناتوان درویش خدا کا بابرکت نام لے کر سوگیا، رات کے آخری حصے میں بحالتِ خواب خود کو اپنے گاؤں حیدر آباد (ہونزہ) میں پاتا ہوں، اور کسی بڑے انتظام کے بغیر مولانا شاہ کریم الحسینی حاضرِ امام صلوات اللہ علیہ کی یکایک تشریف میری داہنی طرف سے آتی ہے، میں اپنی زمین کے اس کھیت میں رخ بشمال کھڑا ہوں، جو میرے بھائی لطفِ علی کے حصے میں شامل ہے، عجب ہے کہ وہاں پر اور کوئی نہیں ہوتا، مگر میرے عزیز بچوں کی والدۂ محترمہ عائشہ بیگم اور دوسری ایک نیک خاتون، جو میری بیگم کے آبائی خاندان (وزیر کذ) سے ہیں، میرے سامنے ہوتی ہیں۔

۸۵

۴۔ بندۂ کمترین کے ہاتھ میں وہی رباب تھا، جو اس شام کی مجلس میں بجایا گیا، جس کو میرے عزیز دوست محمد رضا بیگ عاشقِ رباب نے بنایا تھا، جو مسگار میں رہتے ہیں، مولا پاک بڑے خوش تھے، تبسم اور خوشنودی کی شعاعیں برسائی گئیں، اور موضوع فرمانِ اقدس رباب ہی تھا، فرمایا کہ: “اِدھر دو۔” تو بندۂ ناچیز نے بصد احترام رباب کو مولا کے حضور پیش کیا، حاضر امامؑ نے رباب کو دستِ مبارک میں لے کر چند لمحوں تک اس کا معائنہ فرمایا، بعد ازان فرمانے لگے کہ: “خوب ہے، اس کو مزید ترقی دو اور اگر اس کے بنانے کیلئے خرچے کی ضرورت ہو، تو میں اپنے خزانے ہی سے دیدوں گا۔”

۵۔ میں شادمانی اور حیرت کے عالم میں کھڑا تھا کوئی جواب مجھ سے نہیں بنتا تھا، اتنے میں عائشہ بیگم نے جرأت کی، اور مجھ سے کہا۔: “ارے تم مولا باپا سے صرف دعا اور روحانی تائید مانگو، اور یہ عرض کرو کہ اس چھوٹے سے کام کے لئے مولا سے خرچہ لینا ٹھیک نہیں، حاضر امام نے رباب کی اہمیّت کے پیشِ نظر یوں فرمایا ہے۔”

۶۔ اس عجیب نورانی خواب کے بعد میں بہت ہی خوش اور مطمئن تھا، اور اس کی تاویل کے لئے کئی طرح سوچا تو خاطر خواہ اور مفید نتائج سامنے تھے:

(الف) میری عقیدت اور دانست کے مطابق کسی پیش آنیوالے سوال کا جواب دیتے ہوئے مولائے پاک نے رباب کو جہاں کہیں بھی ہو، ایک بار پھر بابرکت بنادیا، اور یہ اشارہ فرمایا کہ، وہ ان سب عاشقوں سے بہت راضی ہیں، جو

۸۶

رباب کے ساتھ منقبت پڑھتے ہیں اور سنتے ہیں، اور اس میں اشارہ بھی ہے کہ رباب کی شکل میں ترقی ہو۔

(ب) بیوی کا درجہ جسمانی طور پر کچھ بھی ہو، مگر اس کی روح کسی فرشتے کی نمائندگی کرسکتی ہے، کیونکہ ارواح، مومنین و مومنات ہی سے فرشتے بنتے ہیں۔

(ج) ناموں کی بھی تاؤیل ہوا کرتی ہے، لہٰذا لطفِ علی کے کھیت کا مطلب ہے: علیؑ کی مہربانی کی زمین (یعنی زمینِ دین=زمینِ روحانیّت) جس میں مولا تشریف فرما ہوگئے، اور اگر محمد رضا بیگ عاشقِ رباب کے نام کو بھی اس تاویل میں لیا جائے تو نور کی مدح سرائی کرنے والوں سے پیغمبرِ اکرمؐ اور امامِ برحق کے راضی ہوجانے کے معنی ہوجاتے ہیں۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

والسلام

نصیرؔ ہونزائی

مونٹریال۔ کینڈا

۱۷۔ مئی ۱۹۸۶ء

۸۷

چند چوٹی کی حکمتیں

 

۱۔ حکمتِ ظلّ:

ترجمۂ آیۂ کریمہ: اور اللہ نے بنا دیئے تمہارے واسطے اپنی بنائی ہوئی چیزوں کے سائے (۱۶: ۸۱) یعنی بہشت ہو یا دنیا، اس میں سایہ کے بغیر کوئی چیز نہیں، لیکن درحقیقت سائے درجات پر ہیں، جیسے سورج، چاند وغیرہ کا سایہ عکس کہلاتا ہے، جو تاریک نہیں، بلکہ روشن ہوتا ہے، چنانچہ انسان بھی اپنی انائے علوی کا سایہ ہے، اسی طرح یہاں جو مقدّس موسیقی ہے، وہ جنّت کے نغمۂ لاہوتی کا سایہ ہے۔

 

۲۔ حکمتِ ظلِّ الہٰی:

قدیم زمانے میں کسی مسلمان بادشاہ کو بھی ظلِّ الہٰی کہا جاتا تھا، معلوم نہیں یہ عقیدت تھی یا خوش آمدی، بہرکیف یہ تصوّر اصل حقیقت کیلئے ایک جستجو ہے، یا ایک سوال کہ آیا دنیا میں ظلِّ الہٰی یا ظلِّ سبحان (یعنی خدا کا سایہ) موجود ہوتا ہے، یا نہیں؟ اس کے جواب کے لئے یوں

۸۸

عرض کرنا ہوگا کہ جی ہاں، مظہرِ نورِ حق کا دوسرا نام ظلِّ الہٰی ہے، چنانچہ ارشادِ باری کا ترجمہ ملاحظہ ہو: (اے رسولؐ!) کیا تم نے اپنے ربّ کی طرف نہیں دیکھا کہ اس نے کیونکر سایہ کو دراز کردیا، اگر وہ چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا کردیتا، پھر ہم نے آفتاب کو اس کا رہنما بنا دیا، پھر ہم نے اسے آسانی سے مٹھی میں اپنے پاس لے لیا (یعنی لپیٹ لیا، ۲۵: ۴۵)

 

جب آنحضرتؐ کو معراج میں رؤیّت (دیدار) ہوئی تو حضورؐ نے دیکھا کہ ظلِّ الہٰی (نورِ امامت) علمِ روحانی اور جسمِ ابداعی (۰۲: ۲۴۷) کے توسط سے آفاق و انفس پر محیط تھا، اور اللہ تعالیٰ بار بار نورِ منزل کو پھیلاتا بھی ہے، اور لپیٹتا بھی ہے۔

 

۳۔ حکمت علّیّین:

علّیّین: علی کی جمع ہے، یہ جنّت کے اعلیٰ ترین درجہ کا نام ہے، لیکن جنّت اور اس کی ہر چیز عقل و جان رکھتی ہے، لہٰذا علّیّین سے انبیاء و أئمّہ علیہم السلام کا نُور مراد ہے، یہ نور مجموعۂ انوار بھی ہے، اور نورِ واحد بھی، عالمِ شخصی میں اس نور کا مقام پیشانی ہے، اس نور میں نیکو کاروں کا نامۂ اعمال موجود ہے، جس کو دنیا میں صرف مقربین ہی دیکھ سکتے ہیں (۸۳: ۱۸ تا ۲۱)۔

۸۹

۴۔ حکمتِ نامۂ اعمال:

سورۂ حاقہ (۶۹: ۱۹) میں ہے: (ترجمہ) اس وقت جس کا نامۂ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا، وہ کہے گا: لو دیکھو، پڑھو میرا نامۂ اعمال (۶۹: ۱۹) اس ربّانی تعلیم سے یہ بات یقینی ہوگئی کہ مقربین اور اصحاب الیمین کے نامہ ہائے اعمال اہلِ بہشت پر ظاہر کئے جائیں گے، اور اس مشاہدے سے سب کو خوشی ہوگی۔

 

۵۔ حکمتِ حشر:

صورِ اسرافیل کی آواز پر آسمان زمین کی تمام چیزیں بصورتِ ذرّات عالمِ ذرّ میں یکجا ہوجاتی ہیں، اس انتہائی عظیم واقعہ کی کلّی مثالیں بھی ہیں، اور جزوی مثالیں بھی، چنانچہ ایک کلّی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے قبضۂ قدرت میں ساری کائنات کو لپیٹ لیتا ہے (۲۱: ۱۰۴) جس کی ایک جزوی مثال یہ ہے: وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ= اور جس وقت جنگلی جانور اکٹھے کئے جائیں گے (۸۱: ۰۵) یعنی قیامت کے دن عالمِ ذرّ میں دوسری تمام چیزوں کے ذرّات کے ساتھ ساتھ جنگلی جانوروں کے نمائندہ ذرّات بھی جمع کئے جائیں گے۔

 

اسی طرح سورۂ نحل میں ہے: وَحُشِرَ لِسُلَيْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ

۹۰

الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ  (۲۷: ۱۷) ترجمۂ عام: اور سلیمانؑ کے سامنے ان کے لشکر جنّات اور آدمی اور پرند سب جمع کئے گئے تھے، پھر وہ ترتیب کے ساتھ کھڑے کئے جاتے تھے۔ترجمۂ خاص باعتبارِ عالمِ ذرّ: اور سلیمانؑ کے لئے ان کے لشکر جنّات اور آدمی اور پرند سب (بصورتِ ذرّات) جمع کئے گئے، پھر وہ (روحانی جہاد کے لئے) تیار کئے گئے، اس حکمت کی کلید لفظِ حُشِرَ میں موجود ہے، جس میں ذاتی قیامت(حشر) کے معنی پوشیدہ ہیں۔

 

ترجمۂ خاص باعتبارِ عالمِ ابداع: اور سلیمانؑ کے واسطے ان کے ذرّاتی لشکر جنّات اور آدمی اور پرند سب کے سب (بشکلِ جثۂ ابداعی) جمع کئے گئے، پھر روحانی جہاد کا منصوبہ ہوا۔ اب حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے پاس صرف ایک زندہ مجموعہ تھا جو وہی سب کچھ تھا، یعنی ایک اکیلا جثّۂ ابداعیہ لشکرِ جنّات بھی تھا، عسکرِ انسانان بھی، اور فوجِ پرندگان بھی تھا۔

 

۶۔ حکمتِ یاجوج و ماجوج:

یہ وہی زندہ ذرّات ہیں، جن کا تعلق عالمِ ذرّسے ہوا کرتا ہے، قرآن و حدیث میں جس طرح یاجوج و ماجوج کا ذکر آیا ہے، وہ تنزیلی مثال ہے، چنانچہ یاجوج و ماجوج عام روحانی لشکر ہیں، جو عالمِ شخصی

۹۱

کی زمین میں فساد کرتے ہیں، تاکہ اس تخریب کے فوراً بعد تعمیرِ نو شروع ہوجائے، لیکن جہاں جہاں روحانی انقلاب کی تیاری نہ ہو، وہاں اس لشکر کو روکنا پڑتا ہے، لشکرِ ذرّات جن بلندیوں (۲۱: ۹۶) سے دوڑتے ہوئے آنیوالے ہیں، وہ امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کے مراتبِ علمی ہیں، یعنی آپؑ کے روحانی اور جسمانی حدود، کیونکہ دنیا میں بہت بڑی اہمیت والے تین سو تیرہ (۳۱۳) مومنین ہر وقت موجود رہتے ہیں، اور ۴۷ (سینتالیس) امیدوار ہیں، تاکہ جب جب ۳۱۳ میں سے کسی کو مزید روحانی ترقی ہو، یا کوئی دنیا سے گزر جائے تو ۴۷ میں سے کسی کو اس کی جگہ پر لایا جائے، اور اگر ۳۱۳ کے ساتھ ۴۷ کو جمع کیا جائے تو ۳۶۰ کا عدد بن جاتا ہے، جو بارہ جزائر (۱۲x ۳۰ = ۳۶۰) کے داعیوں کا عدد ہے۔

 

۷۔حکمتِ کل شیٔ:

قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں کل شی ( ہرچیز) کا ذکر آتا ہے، وہاں ایسا نہ ہو کہ آپ ادنیٰ چیزوں کا تصوّر کریں اور اعلیٰ چیزوں کو بھول جائیں، مثال کے طور پر سورۂ یسٰین (۳۶: ۱۲)میں ہے کہ خدا نے ہر چیز امامِ مبین میں گھیر کر رکھی ہے، سو یہاں یہ سوچنا ہوگا کہ شی کا اطلاق کن کن مخلوقات پر ہوتا ہے، تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ عرش و کرسی، اور قلم و لوح جیسی انتہائی عظیم چیزیں بھی امامِ مبین میں محدود ہیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی

۹۲

تجلّی بھی اسی آئینۂ خدا نما میں ہوتی رہتی ہے، اور اس حقیقت کے ثبوت پر دلائل بہت زیادہ ہیں۔

 

۸۔ حکمتِ دیدار:

بعض حضرات کا عقیدہ ہے کہ اللہ پاک کا دیدار ممکن ہی نہیں، بعض کا کہنا ہے کہ دیدارِ الہٰی صرف بہشت میں ہوگا، اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چشمِ بصیرت پیدا کرلو، اور دونوں جہان میں جلوۂ جانان کو دیکھو، کیونکہ یہ ناممکن بات ہے کہ ہم یہاں چشمِ معرفت حاصل نہ کریں، اور آخرت میں جاکر بڑی سے بڑی بصری نعمتوں کی لذّت و شادمانی کو پائیں (۱۷: ۷۲) پس قرآنِ پاک میں جگہ جگہ دیدارِ خداوندی کا ذکر آیا ہے۔

 

۹۔ حکمتِ سعی:

سعی کے معنی ہیں: محنت، دوڑ، کوشش، کمائی، حضرتِ ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السّلام امام اور وارثِ امام کے دونمونے تھے، چنانچہ جنابِ اسماعیلؑ کو اسمِ اعظم دیا گیا، آپ نے اس میں ترقی کی، اور جب روحانیّت میں اپنے والد کے ہمراہ سعی کرنے لگے، یعنی جب ذکر خود کار ہوگیا، اور اسرافیلی و عزرائیلی معجزات کا سلسلہ شروع ہوا، تو حضرتِ ابراہیمؑ نے کہا، بیٹا! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تمہیں

۹۳

ذبح کررہا ہوں (سورۂ صافات میں دیکھ لیں: ۳۷: ۱۰۰)۔

 

سعی (دوڑنا) ظاہر کے علاوہ منازلِ روحانیّت میں بھی ہے، اور مراتبِ عقلانیّت میں بھی، جس کے معنی ہیں برق رفتاری سے آگے بڑھ جانا، یہاں یہ راز بڑا عجیب اور قابلِ توجہ ہے کہ حضرتِ اسماعیلؑ کی قربانی تین طرح سے ہوئی تھی:

 

اوّل: خواب میں، جس کا ذکر حضرتِ ابراہیمؑ نے کردیا، اور بہت ممکن ہے کہ حضرتِ اسماعیلؑ نے خواب میں خود کو ذبیح (ذبح کیا گیا) دیکھا ہو۔

 

دوم: آن جناب کی ظاہری اور جسمانی قربانی کہ جس کو خدا نے قبول بھی فرمایا، اور گویا اپنی رحمت سے ان کو زندہ بھی کردیا، اور اس میں کوئی اختلاف نہیں، کیونکہ اسی نوعیت کی ظاہری قربانی کی بناء پر سب آپؑ کو ذبیح اللہ کہتے ہیں۔

 

سوم: بڑی قربانی (ذبحٍ عظیم) یہ ان کی نفسانی موت کی قربانی تھی، پس یہ حکمت خوب یاد رہے کہ حضرتِ اسماعیلؑ کی پہلی قربانی خواب میں ہوئی، دوسری بیداری میں، اور تیسری قربانی روحانیّت میں تھی، اور یہی سب سے عظیم ہے۔

۹۴

۱۰۔ حکمتِ ذبحٍ عظیم:

تین قسم کی جانی قربانیوں کی حکمت کے بعد اب ہمیں ذبحٍ عظیم کے بارے میں بھی سوچنا ہے کہ آیا اس میں بھی کوئی بڑی تعداد پوشیدہ ہے یا یہ صرف ایک ہی قربانی ہے؟ چنانچہ معلوم ہوا ہے کہ ذبحٍ عظیم بے شمار روحانی قربانیوں کا مجموعہ ہے، کیونکہ یہ ایک نہایت عجیب و غریب روحانی عمل ہے، جس میں صورِ اسرافیل اور خنجرِ عشق کے تحت بار بار قربان ہوجانا اور بار بار زندہ ہوجانا پڑتا ہے، اور یہ سلسلہ تقریباً ایک ہفتہ اور بارہ گھنٹوں تک جاری رہتا ہے، اور امامِ برحق صلواۃ اللہ علیہ و سلامہٗ کی یہ عظیم قربانی حسبِ مراتب سب کیلئے ہے۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر ۱۱۔ شعبان المعظم ۱۴۱۴ھ

۲۴۔ جنوری ۱۹۹۴ء

۹۵

میری شاعری میں موسیقی کا تذکرہ

 

۱۔ زندہ پُریلو:

پُریل یا پُریلو (گبی) کا اردو نام بانسری ہے، دنیا کی ہر پُریلو بے جان ہے، اس لئے وہ کبھی ازخود نہیں بج سکتی، لیکن روحانی گبی وقت آنے پر خود بخود بجنے لگتی ہے، اگرچہ اس میں اور اِس میں آسمان زمین کا فرق ہے، تاہم روحانیّت اور بہشت میں جتنے ممثولات ہیں، ان کی پہچان کے لئے دنیا میں مثالیں موجود ہیں، اور یہی نظامِ فطرت ہے، چنانچہ صورِ اسرافیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا:

معشوق نصیرؔر نُمہ بَی زندہ پُریلو

روݺ بُرغوݺ سِر ہݵن

شرئیشݺ فرشتا روݺ باجا تِل اکولی

روݺ حرکتݺ گنݺ ہݵر

۹۶

ترجمہ: نصیر کے لئے محبوبِ جان کا ایک ظہور زندہ بانسری میں بھی ہے (اے سامع) روحانی بگل کے راز کو جان لے، فرشتۂ شادمانی اور سازِ روحانی کو بھول نہ جانا، اور اپنی روح کو حرکت میں لانے کے لئے آنسو بہانا۔

 

۲۔ بریشو برنڎل:

بروشسکی شعر ہے:

جا نرݺ کلمݣ ہین بجونݣ ہینس ان ڎم

جا بریشو بزنڎل اوغرا اس لو بم اݣگوؤ

ترجمہ: (اے جانِ جان!) تونے ہی مجھے قابلِ رحم گریہ و زاری اور گنگناہٹ سکھادی ہے، اے میرے دل کے مکین! تو نے ہی میری رگوں کے تاروں کو بجایا ہے۔

 

۳۔ شرائیشے طبُل:

طبل (ڈھول) کے لئے اصل بروشسکی لفظ ڈڈݣ ہے، تاہم اس زبان میں طبل کا لفظ بھی داخل ہوچکا ہے، چنانچہ شعر ہے:

شرائیشے طبل نیغر نصیر خوشیسے علم دیو

جا چھنم اسُ لو نورے ہلنڎ نے بسہ ئیڎم

۹۷

ترجمہ: اے نصیر! تو مسرّت و شادمانی کا ڈھول بجا بجا کر فتح و کامیابی کا پرچم بلند کرلے، کیونکہ میں نے اپنے تنگ و تاریک دل میں اب ایک نورانی چاند کی منزل دیکھ لی ہے۔

 

۴۔ روے شلے بزم لو ستار:

میں نے بچپن ہی میں دیکھا تھا کہ بعض افراد بڑے شوق سے ستار بجاتے ہیں، پس میں نے اس کا ایک اعلیٰ تصوّر کیا اور کہا:

اَس لو غرݺ جیݺ یار        روݺ شلݺ بزمُ لو ستار

عشقݺ فرشتا اِچھݳر!          جنتݺ حالݣݺ کتاب

ترجمہ: اے یارِ جانی! میرے دل میں کلام کر، تو روحانی محبّت کی محفل کا ستار ہے، تو فرشتۂ عشق (اسرافیلؑ) کی آواز یعنی نغمہ ہے، اور جنّت کے حالات بتانے والی (زندہ) کتاب ہے۔

 

۵۔ شُلے ہریپ:

ہریپ آوازِ ساز کا نام ہے، یعنی دھن، سر، نغمہ، چنانچہ ہریپ کا ذکر اس شعر میں ہے:

شلے ہریپ انے فوے انے المیݽے بی واخالی گبی!

نظمے دلتشکو مک ان ڎم بیسے واخالی ڈبی!

۹۸

ترجمہ: (شاعر اپنے آپ کو کہتا ہے): اے خالی خولی بانسری! یہ نغمۂ عشق اسی کی پھونک اور انگلیوں کی برکت سے بن رہا ہے، اے کھوکھلی ڈبیا! نظم کے یہ خوبصورت موتی (تجھ سے نہیں) اسی سے ہیں۔

 

۶۔ دوتارے ارشیم:

ستار (سہ ۳ تار) کے پہلے صرف تین تار ہوا کرتے تھے، اس لئے ستار کہلایا، دوتار کو میں نے یار قند اور کاشغر میں دیکھا، جس کے صرف دو تار ہوتے ہیں، چنانچہ دو تار پر یہ شعر ہے:

روݺ شہرݺ پادشا ہیہ شرئیش بُٹن اکھݶݽ

جا جیݺ بزمݺ مجلسݺ دوتارݺ ارشیم

ترجمہ: شہرستانِ روح کی سلطنت کی شادمانی بڑا عجیب و غریب ہے، میں بزمِ روحانی کی محفل کے نغمۂ دوتار سے مست ہوگیا۔

 

۷۔ شرائیشݣے مزمار:

مزمار (عربی)بانسری، باجہ، نَے، شعر ہے:

روݺ بزمݺ عجب جیند و ایم ھینݣے باجان

شرائیشݣݺ مزمار بیشل کلی تل ایالجم

ترجمہ: بزمِ روحانی میں ایک عجیب زندہ اور خوش الحان ساز بج رہا تھا، میں اس مسرّت انگیز ساز کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔

۹۹

۸۔ عشقے بُرغو:

بُرغو یا تُرُم یا تُرنرسنگھا کو کہتے ہیں، اور یہی بگل بھی ہے، اور شعر میں بُرغو سے صورِاسرافیل مراد ہے، وہ شعر یہ ہے:

عشقݺ بُرغو ولو فنا ھین دُسُو ژولے اسرافیل

جارفنا عیشے اُیم روݺ بسا پائندہ منݽ!

ترجمہ: آجا اے اسرافیل! نا قورِ عشق سے نغمۂ فنا بجا، مجھے فنا کی با راحت اور پر لذّت روحانی منزل ہمیشہ میسر رہے!

 

۹۔ اسے باجا سݳ تھپ:

شعر ہے:

جا رݣݵلݸ گݷݸمارݸ اسقُر ڈوݣ کݺ اس ڎم اِیݽ اپا

بُٹ اُیم نرݺ کاٹݸ ہینن سݵبی اسݺ باجا سݳ تھپ

ترجمہ: میرا رنگین اور بارونق پھول (محبوب) میرے دل سے لمحہ بھر کے لئے بھی دور نہیں، (اس لئے اس کے عشق میں) میرے دل کا ساز شب و روز ایک بہت ہی شیرین اور درد انگیز ترانہ گارہا ہے۔

۱۰۰

۱۰۔ امامے شلے غرݣ میمیٔ:

شعر اس طرح ہے:

مُرید خوش نُمݳ ہلݣ میئمی اِمامݺ شُلݺ غرݣ میئمی

حقیقتݺ خاص برِݣ میئمی محبان شکرِ مولانا

ترجمہ: (مولائے پاک کی تشریف آوری سے) مرید شادمان ہو جائیں گے اور خوشی کے نعرے بلند ہوں گے، امامِ عالی مقامؑ کی محبت کے گیت گائے جائیں گے، اور علمِ حقیقت کی خاص خاص باتیں بتادی جائیں گی، پس اے دوستانِ علی! تم مولا کی شکر گزاری گرو۔

 

۱۱۔ بُرغوایغرچی:

یہ شعر بھی صورِ قیامت کے بارے میں عالیشان ہے:

شل گویوݺ قیامتݺ گنݺ بٹ اُلچن ایچمے بان

جا عشقݺ فرشتار ژو ایسوین بُرغو ایغرچی

ترجمہ: اہلِ محبّت شدّت سے قیامت کا انتظار کررہے ہیں، میرے فرشتۂ عشق کو بلالو تاکہ وہ صور بجائے۔

۱۰۱

۱۲۔ ان نورے پُریل:

اس شعر میں بھی آپ خوب غور کریں:

ژولے ذکرݺ حجابُ لو دُ کویل صورِ سرافیل

ان نورݺ پریل، شل گویومزمارݺ نݺ مست بان

ترجمہ: (اے عزیز ساتھی!) آجا ذکر و عبادت کے حجاب میں نغمۂ صورِ اسرافیل کو سن لے، وہ خود زندہ نور کی بانسری ہے، اس لئے عشاق اس ساز و سوز کی وجہ سے مست ہیں۔

 

۱۳۔ برغوݺ غربٹ ایم:

مجھے یقین ہے کہ آپ کو ان اشعار سے روحانی خوشی حاصل ہوگی، کیونکہ ان میں دراصل سلطانِ دین کے روحانی معجزات ہی کا تذکرہ ہے، جیسے یہ شعر ہے:

ژوین لݺ قیامت منی ذکرݺ دشرگٹی منین

ذاکرݺ التمل لو برغوݺ غر بٹ ایم

ترجمہ: (لوگو!) آؤ! قیامت برپا ہورہی ہے، اس لئے مقامِ ذکر پر جمع ہوجاؤ، کیونکہ ذاکر کے کان میں نغمۂ ناقور بیحد شیرین ہے۔

۱۰۲

۱۴۔ بٹ ایم نغمان جون:

اس شعر میں انسانی زندگی کی تشبیہہ و تمثیل بڑی خوبی کے ساتھ نغمۂ ستار سے دی گئی ہے، ملاحظہ ہو:

زندگی گویا ستار نݺ بٹ ایم نغمان جون

راحتݣ بڎ ازل جون، داغم کے فکرݣ بم جون

ترجمہ: زندگی مثلاً کسی ستار کے ایک بہت ہی شیرین و دلپذیر نغمے کی طرح ہے، چنانچہ نغمۂ زندگی کے لئے راحتیں زیر کا کام دیتی ہیں، اور غم و افکار بم کی طرح کار آمد ہیں۔ کسی بھی ساز کا کوئی کامل اور دلکش نغمہ و ترانہ زیر و بم کے بغیر وجود میں آہی نہیں سکتا۔

الغرض یہ سچ بات ہے کہ ظاہراً و باطناً موسیقی سے متاثر رہا ہوں، اس لئے یہ لازمی امر ہے کہ میری کتابوں میں دیگر بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ موسیقی کا تذکرہ بھی ہو، واضح رہے کہ میں نے اس کتاب سے پہلے بھی موسیقی پر بعض مقالے لکھے ہیں، ان شاء اللہ ان کا حوالہ اس کتاب کے دیباچے میں دیا جائے گا۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی۔ کراچی

پیر ۱۸۔ شعبان المعظم ۱۴۱۴ھ

۳۱۔ جنوری ۱۹۹۴ء

۱۰۳

ساٹھ سوال

قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ (۰۵: ۱۵)

ساٹھ سوال

بچوں کے لیے سوالات و جوابات

حکمتِ نباتات

(انتساب)

 

۱۔ سورۂ نمل (۲۷: ۶۰) میں خوش منظر اور مسرت بخش باغوں کا ذکر آیا ہے (حَدَآىٕقَ ذَاتَ بَهْجَةٍۚ) یہ حسین و جمیل باغات جسم، روح اور عقل کے تین مقامات پر موجود ہیں، مگر ان میں اعلیٰ و ادنیٰ کا بے انتہا فرق پایا جاتا ہے، ظاہری باغ و گلشن اپنے خوبصورت اور پُربہار پھلوں اور پھولوں کے ساتھ کتنے جاذبِ نظر اور دلکش ہوتے ہیں کہ ہر روز آپ ایسے مناظر کا نظارہ کرتے رہتے ہیں، پھر بھی جی نہیں بھرتا، یہ واقعہ کیوں ایسا ہے؟ کیا آپ نے کبھی اس بارے میں غور و فکر کیا ہے؟ شاید سوچا نہیں ہے۔

 

۲۔ دنیا کے باغ و بوستان اور ان کی حسین و دل آویز چیزیں زبانِ حال سے کہتی رہتی ہیں کہ اے انسان! اچھی طرح سے دیکھو اور خوب غور کرو کہ ہم صرف مثالیں اور دلیلیں ہیں، اور ممثولات و مدلولات عالمِ روحانی میں ہیں، اور اعلیٰ نعمتیں بھی وہی ہیں، اس لئے اصل خوشی و لذّت بھی انہی میں ہے، پس تم مثال سے ممثول اور دلیل سے مدلول کی طرف جانے میں کامیاب

 

۳

 

ہو جاؤ۔

 

۳۔ سورۂ نوح (۷۱: ۱۷) میں ہے: اور اللہ نے تم کو بطورِ نبات زمین سے اُگایا۔ نیز حضرتِ مریم سلام اللہ علیہا کے بارے میں ارشاد ہے: اور اس کو ایک اچھی نبات کے طور پر اُگایا (۰۳: ۳۷) یعنی علم الیقین سے دیکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ والدین نباتات میں سے کھاتے ہیں، جس سے نطفہ بنتا ہے، اور اس سے اولاد پیدا ہو جاتی ہے، عین الیقین سے دیکھا جائے تو روحانیّت کے پھل، پھول، اور ہر قسم کی حسین ہریالی نظر آتی ہے، یہ اشارہ ہے کہ مومن مرتبۂ روحانیّت پر اپنے آپ کو اُگتے ہوئے دیکھ رہا ہے، اور اگر حق الیقین سے دیکھا جائے تو مرتبۂ عقل پر بھی زمین سے انسان کے اُگنے کی مثال موجود ہے۔ کیونکہ وہ  المثل الاعلیٰ  (۳۰: ۲۷) اور نمائندۂ کلّ ہے، جس میں تمام مثالیں سمیٹی ہوئی ہیں، اس لئے اس کا عالم گیر اشارہ بڑا عجیب و غریب ہے۔

 

۴۔ انتساب: نصیر فیملی کلینک اور نصیر میڈیکل سنٹر اینڈ میٹرنٹی ہوم کے مالک جناب ڈاکٹر رفیق جنت علی خانۂ حکمت کے چیف سیکریٹری بھی ہیں اور ہمارے میڈیکل پیٹرن بھی، ان کی باسعادت بیگم محترمہ ڈاکٹر شاہ سلطانہ خانۂ حکمت برانچ کریم آباد کی چیئرپرسن بھی ہیں اور میڈیکل پیٹرن بھی، ہمارے ان دونوں عزیزوں کو خداوند قدّوس نے اخلاقِ حسنہ، ایمان، ایقان، تقویٰ، علم و دانش، اور دینداری کی دیگر تمام صفات سے سرفراز فرمایا ہے، الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

 

۴

 

۵۔ مکانی بہشت اور لامکانی بہشت (انتساب) کے عنوان کے تحت ان کے دونوں پیارے بچوں کا ذکرِ جمیل ہو چکا ہے، وہ بہت ہی عزیز بچے گلاب خانم رفیق اور شفیق ابنِ رفیق ہیں، ہم سب کو بچوں سے شدید پیار کا تجربہ ہے کہ وہ نورِ نظر اور لختِ جگر ہوا کرتے ہیں، وہ اگر کچھ وقت کے لئے ہماری آنکھوں سے دور ہیں، تو ناخواستہ ہمارے دل میں دردِ محبت پیدا ہو جاتا ہے، چنانچہ ڈاکٹر رفیق اور ڈاکٹر شاہ سلطانہ اپنے پیارے فرزند (مرحوم) شفیق کو بھی بہت یاد کرتے ہیں، جس کی تاریخِ پیدائش ۳، دسمبر ۱۹۹۲ء اور تاریخِ وفات ۳، مارچ ۱۹۹۳ء ہے، اور یہ بھول نہ جانے کی علامت ہے کہ مرحوم شفیق کا پیارا نام موجودہ بچے کو دے کر یادگار بنایا گیا ہے۔

 

۶۔ یہاں ایک علمی و عرفانی بات یاد آئی: دنیا کی ہر حکومت اپنے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی سے ڈر رہی ہے، کیونکہ لوگ یکطرفہ سوچتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ایک زمانہ وہ بھی آنے والا ہے جس میں سیّارۂ زمین لوگوں سے بھر جائے گا، لیکن انہوں نے خدا کے قانون یعنی سنتِ الٰہی کو نہیں سمجھا، کہ اللہ اگر ایک دور تک اپنی چیزوں کو پھیلا دیتا ہے تو وقت آنے پر ان کو لپیٹتا بھی ہے۔

 

۷۔ لوگ قانونِ فطرت کے مطابق کثیف سے لطیف ہونے والے ہیں، تب وہ موجودہ غذاؤں سے بے نیاز ہو جائیں گے، ان کو خوشبوؤں کی شکل میں بہشتی طعام ملنے والا ہے، روحانی سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ناک سے داخل ہو جانے والی لطیف خوراک کی فراوانی ہے، پس اہلِ بہشت، فرشتے، جنّات وغیرہ یہی غذا سونگھ لیتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ (ح۔ع۔)ھ، کراچی۔ بدھ ۱۵، محرم الحرام ۱۴۱۶ھ، ۱۴ جون ۱۹۹۵ء

 

۵

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

خدا تعالیٰ

 

سوال نمبر ۱: اس جہان کو کس نے پیدا کیا ہے؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔

 

سوال نمبر ۲: اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟

جواب: اُس کو کسی نے پیدا نہیں کیا کیونکہ وہ ہمیشہ سے موجود ہے۔

 

سوال نمبر ۳: خدا تعالیٰ کہاں ہے؟

جواب: وہ ہر جگہ موجود ہے۔

سوال نمبر ۴: توحید کا مطلب بتاؤ؟

جواب: خدا تعالیٰ کو ایک ماننا۔

 

سوال نمبر ۵: اللہ تعالیٰ نے جنّ و انس کو کس کام کے لئے پیدا کیا؟

جواب: عبادت اور معرفت کے لئے۔

 

سوال نمبر ۶: عبادت اور معرفت سے کیا مراد ہے؟

جواب: عبادت کا مطلب اللہ تعالیٰ کی پرستش و بندگی ہے اور

 

۷

 

معرفت اُس کی پہچان کو کہتے ہیں۔

 

سوال نمبر ۷: کیا اللہ تعالیٰ عبادت کے لئے محتاج ہے؟

جواب: نہیں وہ کسی چیز کا بھی محتاج نہیں بلکہ عبادت میں انسان کی اپنی بہتری ہے۔

سوال نمبر ۸: جو شخص خدا کی ہستی سے منکر ہو اُسے کیا کہتے ہیں؟

جواب: ایسے شخص کو کافر کہا جاتا ہے۔

 

فرشتہ

 

سوال نمبر ۹: فرشتہ کسے کہتے ہیں؟

جواب: فرشتہ ایک روحانی مخلوق ہے۔

 

سوال نمبر ۱۰: فرشتے کیا کام کرتے ہیں؟

جواب: وہ اللہ تعالیٰ کے سارے روحانی امور انجام دیتے ہیں۔

 

سوال نمبر ۱۱: فرشتے کتنے ہیں؟ اور کہاں کہاں ہیں؟

جواب: وہ بے شمار ہیں، اُن کی تعداد اللہ تعالیٰ اور اُس کے خاص بندوں کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ وہ آسمان و زمین پر چھائے ہوئے ہیں۔

 

سوال نمبر ۱۲: کیا فرشتے ظاہر بھی ہو سکتے ہیں؟

 

۸

 

جواب: جی ہاں، وہ خدا کے حکم سے ظاہر بھی ہو سکتے ہیں۔

 

سوال نمبر ۱۳: چند بڑے فرشتوں کے نام بتاؤ؟

جواب: جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل علیہم السلام۔

 

سوال نمبر ۱۴: ان چار فرشتوں کو کس نام سے یاد کیا جاتا ہے؟

جواب: ان کو چار مقرّب کہا جاتا ہے۔

 

سوال نمبر ۱۵: چار مقرّب کا مخصوص کام کیا ہے؟

جواب: جبرائیلؑ وحی اور الہام کے کام پر مقرر ہے، میکائیلؑ رزق و روزی تقسیم کرتا ہے، اسرافیلؑ صور پھونکتا ہے، اور عزرائیلؑ روحوں کو قبض کر لیتا ہے۔

 

سوال نمبر ۱۶: کیا چار مقرّب سے بھی بڑے فرشتے ہیں؟

جواب: جی ہاں، عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ان سے بڑے فرشتے ہیں۔

 

خدا کی کتاب

 

سوال نمبر ۱۷: اسلام کی دینی کتاب کونسی ہے؟

جواب: اسلام کی پاک کتاب قرآن شریف ہے۔

 

سوال نمبر ۱۸: قرآن شریف کس کا کلام ہے؟

 

۹

 

جواب: یہ اللہ تعالیٰ کا مقدّس کلام ہے۔

 

سوال نمبر ۱۹: قرآن مجید کس پیغمبر پر نازل ہوا ہے؟

جواب: یہ پُرحکمت کتاب حضرتِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر اتری ہے۔

 

سوال نمبر ۲۰: قرآنِ عظیم کو اللہ تعالیٰ نے کیوں بھیجا؟

جواب: مسلمانوں بلکہ تمام دنیا والوں کی ہدایت کے لئے۔

 

سوال نمبر ۲۱: قرآنِ کریم کا حقیقی معلم کون ہے؟

جواب: رسولِ اکرمؐ اور امامِ برحقؑ۔

سوال نمبر ۲۲: کیا قرآن سے قبل کوئی آسمانی کتاب نازل ہوئی تھی؟

جواب: جی ہاں، اس سے پہلے کئی آسمانی کتابیں نازل ہو چکی تھیں۔

 

سوال نمبر ۲۳: چند مشہور سماوی کتابوں کے نام بتاؤ؟

جواب: صحفِ ابراہیمؑ، توریتِ موسیٰؑ، زبورِ داؤدؑ، انجیلِ عیسیٰؑ اور فرقانِ محمدؐ رسول اللہ۔

 

سوال نمبر ۲۴: خدا کی جو کتابیں قرآنِ مجید سے پہلے نازل ہوئی ہیں، ان کے بارے میں ہمارا کیا عقیدہ ہونا چاہئے؟

جواب: عقیدہ یہ ہو کہ سب آسمانی کتابیں اللہ کی طرف سے ہیں، تا کہ لوگوں کو ہدایت حاصل ہو، مگر اگلی کتابوں میں تحریفیں کی گئیں، اس لئے قرآن نازل ہوا، تا کہ سب لوگ اس کے

 

۱۰

 

احکام پر عمل کریں۔

 

رسولؐ

 

سوال نمبر ۲۵: رسول کسے کہتے ہیں؟

جواب: رسول پیغامبر کو کہتے ہیں یعنی وہ انسانِ کامل جو اللہ تعالیٰ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچا دیتا ہے۔

 

سوال نمبر ۲۶: دنیا میں کل کتنے پیغمبر ہوئے ہیں؟

جواب: دنیا میں کل ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے ہیں۔

 

سوال نمبر ۲۷: اس دنیا میں سب سے پہلے کونسا پیغمبر آیا؟

جواب: حضرتِ آدم علیہ السّلام۔

 

سوال نمبر ۲۸: سب سے آخری پیغمبر کون ہے؟

جواب: حضرتِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔

 

سوال نمبر ۲۹: چند مشہور پیغمبروں کے نام بتاؤ؟

جواب: حضرتِ آدمؑ، حضرتِ نوحؑ، حضرتِ ابراہیمؑ، حضرتِ موسیٰؑ، حضرتِ عیسیٰؑ  اور حضرتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔

 

سوال نمبر ۳۰: کیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد بھی کسی نبی کا آنا درست ہے؟

 

۱۱

 

جواب: نہیں نہیں آنحضرتؐ کے بعد نہ کوئی نبی ہے اور نہ کوئی رسول۔

 

سوال نمبر ۳۱: کیا رسول کے لئے بھی ایک رسول آتا ہے؟

جواب: جی ہاں، شروع شروع میں ہر پیغمبر کے لئے حضرت جبرائیلؑ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغامبر بن کر آتا ہے۔

 

سوال نمبر ۳۲: آیا ایک وقت میں کئی پیغمبر ہوئے ہیں؟

جواب: جی ہاں، جیسے حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ لوط علیہما السلام ایک وقت میں تھے۔

 

امامؑ

 

سوال نمبر ۳۳:آنحضرت صلعم کی رحلت کے بعد لوگوں کی رہنمائی کا ذریعہ کون سا ہے؟

جواب: قرآنِ پاک اور امامِ برحق علیہ السّلام۔

 

سوال نمبر ۳۴: کیا امام دنیا میں ہمیشہ حاضر اور موجود ہوتا ہے؟

جواب: جی ہاں، امام ہر زمانے میں حاضر اور موجود ہوتا ہے مگر آنحضرتؐ سے پہلے امامت کا کام پوشیدہ تھا۔

 

سوال نمبر ۳۵: اگر ایسا ہے تو بتاؤ کہ حضرتِ آدمؑ کے زمانے کا امام

 

۱۲

 

کون تھا؟ اور حضرتِ نوحؑ کے عہد میں کون تھا؟

جواب: حضرت آدمؑ کے زمانے میں مولانا شیثؑ امام تھا اور حضرتِ نوحؑ کے زمانے میں مولانا سامؑ۔

 

سوال نمبر ۳۶: کیا امام اللہ تعالیٰ اور رسول کی طرف سے مقرر ہوتا ہے یا کہ لوگوں کی طرف سے؟

جواب: امام ہمیشہ خدا اور رسول کی طرف سے مقرر ہوتا ہے۔

 

سوال نمبر ۳۷: کیا امام علیہ السلام پر بھی کوئی آسمانی کتاب نازل ہوتی ہے؟

جواب: دورِ امامت میں یہ امر غیر ضروری ہے۔

 

سوال نمبر ۳۸: کیا امام علیہ السّلام دنیا بھر کے لوگوں کو ہدایت دینے کا ذمہ دار ہے؟

جواب: نہیں وہ تو ظاہر میں صرف اُن لوگوں کو ہدایت دینے کا ذمہ دار ہے جنہوں نے اس کی امامت کا اقرار کر لیا ہے۔ باقی لوگوں پر حجت ہے کہ انہوں نے اس کی امامت سے انکار کیا۔

 

سوال نمبر ۳۹: کیا امامِ زمانؑ کی فرمان برداری واجب ہے؟

جواب: جی ہاں، امامِ زمانؑ کی فرمان برداری واجب اور فرض ہے۔ کیونکہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: “اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی فرمان برداری کرو اور رسول کی فرمان برداری کرو اور امر

 

۱۳

 

والوں کی فرمان برداری کرو جو تم میں سے ہیں” (۰۴: ۵۹)۔ چنانچہ یہ امر والے مختلف زمانوں کے امام ہیں۔

 

سوال نمبر ۴۰: تمہارا حاضر امام کون ہے؟

جواب: ہمارا حاضر امام حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی صلوات اللہ علیہ ہیں۔

 

متفرقات

 

سوال نمبر ۴۱: تعوذ کس چیز کا نام ہے؟

جواب:  اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم کو کہتے ہیں۔

 

سوال نمبر ۴۲: تسمیہ پڑھو؟

جواب:  بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔

 

سوال نمبر ۴۳: کلمۂ طیبہ کون سا ہے؟

جواب:  لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔

 

سوال نمبر ۴۴: تمہارے دین کا کیا نام ہے؟

جواب: میرے دین کا نام اسلام ہے۔

 

سوال نمبر ۴۵: تمہارے مذہب کا کیا نام ہے؟

جواب: میرے مذہب کا نام اسماعیلی ہے۔

 

۱۴

 

سوال نمبر ۴۶: دینِ اسلام کی نسبت سے تمہارا کیا نام ہے؟

جواب: اسلام کی نسبت سے میرا نام مسلمان ہے۔

 

سوال نمبر ۴۷: اسماعیلیت کے لحاظ سے تمہارا کیا نام ہے؟

جواب: اس اعتبار سے میرا نام اسماعیلی ہے۔

 

سوال نمبر ۴۸: پنجتنِ پاک کے نام بتاؤ؟

جواب: حضرتِ محمد مصطفیؐ، حضرتِ علی مرتضیٰ، حضرتِ فاطمۃ الزہراء، حضرتِ حسن اور حضرتِ حسین علیہم السلام۔

 

سوال نمبر ۴۹: لا فتیٰ پڑھ کر سناؤ؟

جواب:  لَا فَتیٰ اِلَّا عَلِیّ وَ لَا سَیْفَ اِلَّا ذْوْالْفَقَارِ۔

 

سوال نمبر ۵۰: بحیثیتِ مسلمان ہم کس طرح سلام کریں؟

جواب: السَّلام علیکم۔

 

سوال نمبر ۵۱: اس سلام کا کیا جواب ملے گا؟

جواب:  و علیکم السلام  یا  و علیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔

 

سوال نمبر ۵۲: بحیثیتِ اسماعیلی کس طرح سلام کیا جائے؟

جواب: یا علی مدد کہا جائے۔

 

سوال نمبر ۵۳: یا علی مدد کا کیا جواب ہونا چاہئے؟

جواب: اس کا جواب مولا علی مدد ہے۔

 

سوال نمبر ۵۴: کیا امامِ زمانؑ کے فرمان میں قرآنِ حکیم کی حکمت پوشیدہ ہے؟

 

۱۵

 

جواب: جی ہاں، امامِ زمانؑ کا ہر فرمان قرآن کی حکمتوں سے بھرا ہوا ہے۔

 

سوال نمبر ۵۵: کلمۂ شہادت پڑھ کر سناؤ؟

جواب:  اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ لَہ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ وَ رَسُوْلُہ۔

 

سوال نمبر ۵۶: کیا امامِ زمانؑ کو نور کہنا درست ہے؟

جواب: جی ہاں! امامِ زمانؑ خدا کی ہدایت کا نور ہے۔

 

سوال نمبر ۵۷: خدا تعالیٰ انسانوں کی رہنمائی کس طرح کرتا ہے؟

جواب: پیغمبروں اور اماموں کے ذریعے سے۔

 

سوال نمبر ۵۸: قرآنِ پاک کس زبان میں ہے؟

جواب: قرآنِ مجید عربی زبان میں ہے۔

 

سوال نمبر ۵۹: قرآن کی حقیقت کون سکھا سکتا ہے؟

جواب: امامِ زمان سکھا سکتا ہے۔

 

سوال نمبر ۶۰: ہم امامِ زمانؑ سے قرآن کی حقیقت کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟

جواب: امامِ زمانؑ کی حقیقی فرمان برداری کے ذریعے سے۔

 

اتوار، ۱۰ شعبان المعظم ۱۴۰۹ھ، ۱۹ مارچ ۱۹۸۹ء

 

۱۶

سراج القلوب

سراج القلوب

کلِّ کلّیات

انتساب

۱۔ عنوانِ بالا کا مطلب ہے کلّیات کا کلّ، یعنی جتنے الگ الگ مجموعے ہیں ان سب کا مجموعہ، یا عوالم کا عالم، کائناتوں کی کائنات، آسمانوں کا آسمان (فلک الافلاک) زمینوں کی زمین، خزانۂ خزائن، سرّ الاسرار، اور اسم الاسما ء (اسم الاکبر) یہ کلِّ کلّیات بصورتِ جوہر حظیرۃ القدس ہے، جو حضرتِ امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲) کے عالمِ شخصی کے عقلی آسمان میں ہے، کیونکہ خداوندِ دانا و قادر کائنات و موجودات کی جملہ اشیاء کو جس طرح مادّیت میں پھیلا دیتا ہے، اسی طرح روحانیّت کے بعد عقلانیّت کے جوہر (گوہر) میں لپیٹ لیتا ہے۔

۲۔ اے نورِ چشمِ من! یہ سچ ہے کہ عارف کی اپنی ہی معرفت میں حضرتِ ربّ اور مربوب کی معرفت آجاتی ہے، یہ خدائے بزرگ و برتر ہی کی عنایت ازلی ہے کہ وہی مہربانی اہلِ حقیقت کو بطریقِ باطن عرفانی معجزات کا مشاہدہ کراتا ہے، اہلِ دل جانتے ہیں کہ دیدارِ پاک کے سوا معرفت کا کوئی تصوّر ہی نہیں، اور یہ بھی یقینی حقیقت ہے کہ دیکھنے والوں نے معرفت کے جملہ عجائب و غرائب کو امام علیہ السّلام ہی کے نورِ اقدس

 

۳

 

میں دیکھا، ایسے میں حضرتِ امامؑ کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ عارفین پر قرآنی تاویل کے اسرار و رموز کو بتدریج ظاہر کر دے۔

۳۔ ایک مرتبہ آنحضرتؐ نے مولا علیؑ سے فرمایا: اِنَّ لَکَ بَیْتاً فِی الْجَنَّۃِ وَاِنَّکَ لَذُ وْ قَرْ نَیْھَا ۔ کہ جنّت میں تمہارے لئے ایک خاص مکان ہے اور تم اس امت کے ذوالقرنین ہو۔ رسولِ اکرمؐ کا کوئی بھی ارشاد علم و حکمت کے جواہر سے خالی نہیں، لہٰذا اس حدیث کے حکیمانہ اشارے اس طرح ہیں: ۔

)۱( یہ اس حقیقت کی ایک روشن دلیل ہے کہ حضرتِ ذوالقرنینؑ اور حضرت علیؑ دینی اور روحانی اعتبار سے ایک جیسے تھے، (۲) ان دونوں عظیم المرتبت ہستیوں کی مماثلت کا پہلا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو قصّۂ قرآن ذوالقرنین سے متعلق ہے، وہی قصّہ مولا علیؑ کے بارے میں بھی ہے (۳) چونکہ علی علیہ السّلام کبھی ظاہری اور جغرافیائی طور پر مغرب و مشرق نہیں گئے تھے، اس لئے یقیناً یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ سفر اور سارا قصّہ روحانی اور تاویلی ہی ہے، جو ذوالقرنینؑ اور علیؑ کا مشترکہ قصّہ ہے (۴) ان تمام باتوں سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ ذوالقرنینؑ امام تھا یا حجاب (امامِ مستودع) یا خلیفہ، ورنہ حضرتِ مولاعلی صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہ کس طرح اور کیونکر کسی ظاہری بادشاہ کے مثیل ہو سکتے ہیں۔

۴۔ خانۂ حکمت کے نائب صدر نصر اللہ قمر الدین رحیم اور ان کی فیملی کے فرشتہ جیسے افراد اس قابل ہیں کہ میں بصد خوشی اپنی اس عزیز کتاب

 

۴

 

کو ان سے انتساب کرتا ہوں، اس گھرانے کی بیش بہا خدمات عرصۂ دراز سے جاری ہیں، نصر اللہ میرے کراچی کے خاص دوستوں میں سے ہیں، یہ دوستی علمی خدمت جیسی مقدّس چیز کی بنیاد پر قائم ہے، نصر اللہ بڑے دانشمند شخص ہیں، ان کو روحانی علم کی اہمیّت اور قدرو قیمت معلوم ہے، یہی سبب ہے کہ نہ تنہا آپ بلکہ آپ کی فرشتہ خصال بیگم امینہ نصراللہ بھی اور تینوں پیارے بچے بھی اس علم سے بے حد دلچسپی رکھتے ہیں۔

بچوں میں سے پہلے یاسمین کا نام آتا ہے، محفل میں ان کی شرافت کو دیکھ کر یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ خدا نے ان کی ایمانی روح کے ساتھ ایک فرشتہ کو بھی رکھا ہوگا، ان کی بہن فاطمہ بھی ایسی ہی ہیں، نوعمری کے باوجود دل میں آسمانی محبّت کا ایک طوفان، سبحان اللہ! یہی ایک خوبی بے شمار خوبیوں کا سرچشمہ ہے، نصر اللہ اور امینہ کا تیسرا پیارا بچہ امین محمد ہیں، یہ نام کتنا عالی اور پسندیدہ ہے، ان کی گفتگو اور شاعری سے بزرگی کی علامات ظاہر ہو جاتی ہیں۔

اے پروردگار ! تو ہمیں توفیق عطا فرما تا کہ ہم ایسی عاجزانہ دعا کر سکیں جو تیری بارگاہِ اقدس میں منظور و مقبول ہو! آمین!!

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر ۹؍ ذی قعدہ ۱۴۱۵ ھ             ۱۰ ؍ اپریل ۱۹۹۵ ء

 

۵

 

آغازِ کتاب

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا (۳۳: ۴۵ تا ۴۶) اے پیغمبر! ہم نے تم کو گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، اور خدا کی طرف اسی کے اذن سے بلا نے والا (نورِ ہدایت کا) روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے ( سورۂ احزاب ۔ ۳۳: ۴۵ تا ۴۶)۔

۲۔ سراجِ منیر / چراغِ روشن:

اے نورِ عینِ من! میری باتوں کو کامل توجہ اور احساسِ ذمہ داری سے سن لینا ہے، کیا یہ سراجِ منیر (چراغِ روشن) سورج کے ساتھ ساتھ دنیائے ظاہر کی مادّی اشیاء پر روشنی ڈالنے کے لئے مقرر ہے یا عالمِ دین اور عالمِ دل کو منوّر کر دینے کے لئے؟ یہ سوال خود جواب بھی ہے، چراغِ روشن کا مطلب یقیناً نورِ ہدایت ہی ہے، تو کیا خدا کی خدائی میں بحقیقت دو چراغ یا دو نور ہوسکتے ہیں؟ اس کا جواب اہلِ معرفت کی طرف سے یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا نور ہمیشہ ایک ہی ہے، لیکن

 

۹

 

اس کے مظاہر اپنے اپنے وقت میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہوا کرتے ہیں، اسی معنیٰ میں فرمایا گیا: نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ (۲۴: ۳۵) نور پر نور ہے۔ یعنی سلسلۂ نور کی کڑی سے کڑی ملی ہوئی ہے۔

۳۔ سراجِ منیر / سراج القلوب:

اس میں کیا راز ہے کہ کتابِ ہذا کا نام “سراج القلوب” رکھا گیا؟ کیا اس میں آپ کا یہ مقصد ہے کہ آیاتِ نور کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے؟ خصوصاً آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) اور آیۂ سراج (۳۳: ۴۶) کی طرف؟ آیا یہ حقیقت ہے کہ اللہ، رسولؐ، اور امامؑ کا نور اصلاً ایک ہی ہے؟ کیا آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آیاتِ نور اہلِ دانش کے نزدیک ہر طرح سے فیصلہ کن آیات ہیں؟ یہ سوالات بھی ہیں اور اشاراتی جوابات بھی۔

۴۔ مقامِ ہفت اسماء:

اگر قرآنِ حکیم کے کسی مقام پر پیغمبرِ اکرم صلعم کے اسمائے مبارک میں سے چند اسماء ایک ساتھ آئے ہیں تو اس میں علم و حکمت کا کوئی بڑا خزانہ ہوسکتا ہے، کیونکہ رسولؐ کے ہر بابرکت اسم میں نہ صرف آپؐ کی ذاتِ عالی صفات ہی کے کام کا بیان ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ آپؐ کے جانشین کا پر حکمت تذکرہ بھی ہے، چنانچہ سورۂ احزاب کی آیت ۴۵ اور ۴۶ کو ہم “مقامِ ہفت اسماء” کہہ سکتے ہیں، جہاں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سات مبارک ناموں کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور وہ یہ ہیں: ۔

 

۱۰

 

۱۔ نبی           ۲۔ رسول       ۳۔ شاہد                   ۴۔ مبشر                  ۵۔ نذیر                   ۶۔ داعی ۔           ۷۔ سراجِ منیر۔ محبوبِ خدا سید الانبیاء و المرسلین کے ان پاک و پرحکمت اسماء میں عقل و دانش سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، عَلَی الخصوص سراجِ منیر میں، کہ یہ چراغِ روشن دراصل نورِ مطلق ہی ہے، جو عالمِ دین اور عالمِ شخصی کا خورشید انور ہے، جس سے چودہ طبق میں مسلسل نورِ ہدایت کی بارش برستی رہتی ہے۔

۵۔ قلبِ انسانی کی حقیقت:

چراغِ دلہا (سراج القلوب) کی مناسبت سے قلبِ انسانی کی حقیقت پر روشنی ڈالی جاتی ہے کہ قلب یا دل اوّل اوّل وہی صنوبری شکل کا زندہ لوتھڑا ہے جو سینے میں دھڑکتا ہے، اس کے بعد تجربۂ نفسانی موت اور اشارۂ قرآن (۳۳: ۱۰) سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ دل سے روح مراد ہے، کیونکہ وَبَلَغَتْ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ (اور پہنچ گئے دل گلوں تک۔ ۳۳: ۱۰) میں یہ تذکرہ ہے کہ روح ہی گلے سے گزر کر دماغ میں ٹھہرتی ہے، اس حال میں یہ لوتھڑا کچھ دیر کے لئے مر ہی جاتا ہے، اس معجزۂ عزرائیل میں دماغ کے سوا تمام اعضاء بار بار مرتے اور بار بار زندہ ہو جاتے ہیں۔

۶۔ عقل کا ایک نام دل ہے:

ق ل ب کے مادّہ سے قلب ہے، اور قلب کے لفظ سے انقلاب ہے

 

۱۱

 

چنانچہ قلب (دل) کے معنی میں بار بار انقلاب آتا ہے، پس باطنی ترقی جب نورِعقل تک پہنچ جاتی ہے تو اس وقت عقل ہی کو دل کہا جاتا ہے، جیسے حدیث میں ہے کہ مومن کا دل چراغ کی طرح ہوتا ہے، جس سے نورِعقل مراد ہے، بعد ازن امام عالیمقامؑ خود مومن کا دل ہو جاتا ہے، اور آخر میں حضرتِ قائمؑ دل ہو کر فرماتا ہے: إِلاَّ مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (۲۶: ۸۹) ہم نے قلبِ سلیم کی تاویلی حکمت بیان کر دی ہے، یہاں یہ سرِعظیم منکشف ہوا کہ عالمِ شخصی میں جس قلب کو عرشِ رحمان ہونےکا مرتبہ حاصل ہے وہ خود امام علیہ السّلام ہی ہے۔

۷۔ قلب اور عالمِ وحدت:

جو قلب عالمِ وحدت میں ہے وہ نہ صرف قلبِ واحد ہی ہے بلکہ نمائندۂ قلب بھی ہے، اور خود سراج القلوب بھی، کیونکہ وہاں کا قانوں عالم کثرت سے قطعاً مختلف ہی ہے، جبکہ وہ ایک ایسا آئینۂ تجلّی نما ہےکہ ہر بار اس میں ایک نئی تجلّی کا مشاہدہ ہوتا ہے، یہی تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بے مثال قدرت کا کمال ہے۔

۸۔ نورِ ہدایت کی ہر سو اور ہمہ وقت ضو فشانی: سراجِ منیر جو نورِ ہدایت ہے، اس کی نمایان مثال اور دیدنی و قابلِ فہم تفسیر و تاویل جو سب کے سامنے روشن ہے، وہ خورشیدِ انور ہی ہے، جس کے چشمۂ مستدیر سے ہر سو اور ہر لحظ کرنوں کی طوفانی بارش کو دیکھ کر

 

۱۲

 

اہلِ دانش بڑی حیرت سے یہ اقرار کرتے ہوں گے کہ یقیناً عالمِ دین کے سورج کا دائمی عمل بھی ایسا ہی ہے، یعنی خدائے بزرگ و برتر نے جس طرح آفتابِ عالمتاب کو کائنات کا مرکز، روشنی کا سرچشمہ، طاقت و حرکت کا منبع، اور حیاتِ حیوانیہ کا ذریعہ بنایا، اسی طرح ذاتِ سبحان نے نورِ ہدایت اور آفتابِ علم و حکمت کو عالمِ دین اور عالمِ شخصی کی اخلاقی، روحانی، اور عقلانی تمام طاقتوں کا زبردست اور واحد مرکز بنایا، تاکہ لوگ نظامِ کائنات کو دیکھ کر نظامِ دین کو سمجھ سکیں، اسی مثال و ممثول کے قانون کو سمجھانے کی غرض سے یہ امر بے حد ضروری تھا کہ گھر کے چراغ کا قابلِ فہم نمونہ لوگوں کے سامنے لایا جائے، تاکہ اس وسیلے سے اہلِ دانش شمسِ ظاہر اور شمسِ باطن کے اسرار کو رفتہ رفتہ سمجھ سکیں۔

۹۔ چراغِ روش نور کی بہترین مثال:

خداوندِ علیم و حکیم نے اپنے نورِ اقدس کی تشبیہہ و تمثیل کے لئے تمام اشیائے ارضی میں سے جس مناسب ترین چیز کا انتخاب فرمایا وہ چراغِ روشن ہی ہے ( مصباح۔ ۲۴: ۳۵، سراجِ منیر۔ ۳۳: ۴۶) اللہ کی یہ پسندیدہ اور منتخب مثال اسرارِ عظیم کی حامل ہے، اس کی چند حکمتیں ذیل کی طرح ہیں: ۔

(الف) چراغِ روشن زبانِ حال سے کہہ رہا ہے کہ سورج کسی بھی تصادم یا حادثے سے ازخود پیدا نہیں ہوا، بلکہ اس کو خدا نے اپنی قدرت سے پیدا کیا ہے، کیونکہ کوئی چراغ خود بخود وجود میں نہیں آتا

 

۱۳

 

اور نہ وہ انسانی عمل کے بغیر روشن ہو سکتا ہے۔

(ب) اس جہان میں ایک طرف مادّہ ہے اور دوسری طرف روح یعنی انسان، اس میں چراغ کا اشارہ یہ ہے کہ جس طرح مادّہ کی آخری ترقی خاموش روشنی ہے، اسی طرح روحِ انسانی کا انتہائی عروج نورِعقل ہے۔

(ج) شعلۂ چراغ اگرچہ بظاہر ایک ہی ہے، لیکن قانونِ تجدّد کی رو سے اس کی بے شمار کاپیاں بن بن کر صرف ہو جاتی ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ روح الایمان کی لاتعداد کاپیاں ہوتی ہیں، ان کی وحدت بھی ہے اور کثرت بھی۔

۱۰۔ اس کتاب کے مضامین:

اللہ تبارک و تعالےٰ کا بہت بڑا فضل و کرم ہے کہ جیسے سراج القلوب بے حد پیارا اور دلنواز نام ہے، ایسے ہی اس کے پسندیدہ مضامین علم و حکمت کے جواہرِ گرانمایہ سے لبریز ہیں، چونکہ یہ بہشتِ برین کے عالی قیمت درّ و مرجان دراصل میرے نہیں، بلکہ مولائے زمان صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہ کے ہیں، اس لئے ان کی جتنی بھی تعریف و توصیف کی جائے کم ہے اور ان بے مثال نعمتوں پر ہم سب متعلقین جس قدر بھی شکر کریں قلیل ہے یہی وجہ ہے کہ اس معجزۂ اعظم کی ناشکری کے خوف سے ہم سب خادمین گاہ بہ گاہ گریہ و زاری اور مناجات کرتے ہیں، تاکہ وہ غفور رحیم ہماری خطاؤں سے درگزر فرما کر روحانی تائید کے دروازے کو مفتوح ہی رکھے، آمین یا ربّ العالمین!

 

۱۴

 

۱۱۔ پنج سالہ جشن:

جشنِ خدمتِ علمی کا منصوبہ سب سے پہلے امریکہ کے عزیزوں نے بنایا، پھر کنیڈا، لنڈن، فرانس اور پاکستان کے ساتھیوں نے اسے پسند فرمایا، اور بیحد مفید کتابوں کی تصنیف کی صورت میں یہ جشن جاری ہے، میرے خیال میں ہر نئی کتاب ایک ہمہ رس جشن ہے جس کی خوشی کبھی ختم نہیں ہو سکتی ہے۔

۱۲۔ حقیقی معنوں میں سلام:

اسلام میں نیّتِ خالص انتہائی ضروری شیٔ ہے، پس میں تمام اعزّہ و احبا کو سلام کرتا ہوں، اس نیّت سے یہ خدا کا مبارک نام ہے، یہ سلامتی بھی ہے، یہ سلامتی کا گھر (دار السّلام) بھی ہے، اس میں تائید کے معنی بھی ہیں، اس قلبِ سلیم، اسمِ سلیمان و سلمان کا مادّہ یعنی س ل م بھی ہیں، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَا لَمِیْنَ۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات ۵؍ ذی قعدہ ۱۴۱۵ ھ                  /        ۶؍ اپریل ۱۹۹۵ ء

 

۱۵

 

سراج القلوب

 

۱۔ سراج القلوب (دلوں کا چراغ) حبیبِ خدا سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اسمِ مبارک “سراجِ منیر” کا اصل ترجمہ ہے، کیونکہ یہ پُرحکمت اسم (سراجِ منیر) حضورِ پاکؐ کے قرآنی اسماء میں سے ہے (۳۳: ۴۶) جس سے نورِ ہدایت مراد ہے، جو نورِ نبوّت اور نورِ امامت ہے، پس جملہ علم و ہدایت اسی ربّانی روشن چراغ کی روشنی ہے۔

۲۔ یہ نورِ اقدس خدائے بزرگ و برتر کا نور ہے، اس لئے یہ اوّل بھی ہے آخر بھی، ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، آپ رسولِ اکرم صلعم اور امامِ عالیمقامؑ کے مبارک اسماء میں ان ناموں کو دیکھ سکتے ہیں، پس اوّل و آخر اور ظاہر و باطن کی تاویلات میں سے ایک قابلِ فہم تاویل یہ ہے: انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں جہاں نورِعقل کا ظہور ہو جاتا ہے، اور جہاں ازل و ابد ایک ساتھ ہیں، وہاں مرتبۂ اوّل اور مرتبۂ آخر ایک ساتھ ہیں، اور شخصِ کامل کی شخصیّت ظاہر ہے اور اس کی روحانیّت و عقلانیّت باطن۔

۳۔ ہادیٔ برحق تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ کا مصداق ہوتا ہے اس لئے آئینۂ دل میں اس کا ظہورِ کامل عجب نہیں، جس طرح آفتابِ

 

۱۶

 

عالمتاب کی ضوفشانی کے مختلف درجات ہوا کرتے ہیں، جیسے صبحِ کاذب، صبحِ صادق، نمودِ شفق، طلوعِ آفتاب، چاشت وغیرہ، اسی طرح باطن میں نورِ ہدایت کی روشنی کے بہت سے مراتب ہیں، اور آخری مرتبہ نور کا ظہورِ کامل ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:۔

وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَالْقَمَرِ إِذَا تَلاَهَا (۹۱: ۰۱ تا ۰۲)  قسم ہے آفتاب کی اور اس کے چاشت کی اور قسم ہے ماہتاب کی جبکہ وہ سورج کے بعد طلوع ہو جاتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نورِ نبوّت اور اس کے ظہورِ کامل کی قسم کھاتا ہے، اور نورِ امامت کی قسم کھاتا ہے، جو پیغمبرِ اکرمؐ کا نمائندہ اور جانشین ہے، کیونکہ نبی و امام علیہا السّلام عالمِ دین کے شمس و قمر ہیں۔

۴۔ حدیث شریف میں ہے: اَلْمُوٗمِنُ مِراٰۃُ المُوٗمن۔

حکمتِ عام: ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہوا کرتا ہے،

حکمتِ خاص: حضرتِ امام علیہ السلام کا نام بھی مومن ہےجو آئینۂ عالمِ بالا ہے، اور مرید کا نام بھی مومن ہے، یہ عالمِ سفلی میں آئینہ ہو سکتا ہے، چنانچہ بندۂ مومن روحانی ترقی سے مرآتِ قلب میں امامِ اقدس کا دیدار کر سکتا ہے، اور عقلی ترقی سے اپنے چہرۂ جان کو امام کے آئینۂ نورانیت میں دیکھ سکتا ہے، یہ سب سے بڑا معجزہ علّیّین (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) میں ہو سکتا ہے، کیونکہ وہاں ابرار کے نامۂ اعمال کی حیثیت سے امامِ اطہرؑ کا پاک نور موجود ہے، جو بے شمار معجزات کا حامل ہونے کی وجہ سے زندہ آئینے کا کام بھی کرتا ہے، اور ابرار میں سے صرف

 

۱۷

 

مقربین ہی دنیا کی زندگی میں اس کتابِ آئینہ صفت کا مشاہدہ کر سکتے ہیں (یَشْھَدُہٗ الْمُقَرَّبُوْنَ۔ ۸۳: ۲۱)۔

۵۔ یہاں شروع ہی میں سراج القلوب کی وضاحت ہوئی، لہٰذا تَیَمُّناً وَتَبَرُّکاً (برکت اور تبرک کے طور پر) یہ کتاب “سراج القلوب” کے اسم سے موسوم کی گئی ہے، اور شاید یہ نام اس لئے بھی مناسب ہے کہ اگر ہماری تمام کتابوں میں روحانی اور حقیقی علم کی کوئی روشنی پائی جاتی ہے تو وہ اسی پاک چراغ کی ضیا پاشی کا صدقہ ہے، یہ سچ ہے کہ میں علم میں بڑا غریب ہوں، اس لئے میں بار بار قرآن، حدیث، اور امامؑ سے بھیک مانگتا ہوں، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، توقع سے زیادہ خیرات ملتی رہتی ہے۔

۶۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا کتنا بڑا معجزہ اور کیسا عظیم احسان ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے معرفت کی آسانی کی غرض سے قرانِ حکیم اور رسولِ کریم دونوں کو “ذکر” کے اسم سے موسوم فرمایا (۱۵: ۰۹، ۶۵: ۱۰ تا ۱۱) نیز اپنے اسمِ اعظم کا دوسرا نام ذکر رکھا، جو قرآن میں ہے، اور قرآن اس میں ہے (۵۴: ۱۷) ساتھ ہی ساتھ خداوندِ قدوس نے أئمّۂ ھُداؑ کو اہلِ ذکر کے ٹائٹل سے نوازا (۲۱: ۰۷) پس أئمّۂ طاہرینؑ جو اہلِ ذکر ہیں، ان کے تین بے مثال مراتب ہیں:

۱۔ وہ اہلِ قرآن ہیں، کیونکہ قرآن ان کے ساتھ ہے اور وہ حضرات قرآن کے ساتھ ہیں۔

۲۔ وہ اہلِ رسولؐ ہیں، جبکہ وہ آلِ محمدؐ ہیں۔

 

۱۸

 

۳۔ وہ اہلِ اسمِ اعظم ہیں، اس لئے کہ انہی سے اسم اعظم کسی مومن یا مومنہ کو مل سکتا ہے۔

۷۔ بعض آیاتِ کریمہ میں کتاب کا مطلب خود کتابِ سماوی بھی ہے اور اسمِ اعظم بھی، کیونکہ اللہ قادرِ مطلق آسمانی کتاب کو اسمِ اکبر میں لپیٹتا ہے اور اسمِ اکبر کو کتاب میں پھیلاتا ہے، پس کتاب اسمِ اعظم ہے اور اسمِ اعظم کتاب، جیسا کہ سورۂ مریم (۱۹: ۱۲) میں ارشاد ہے: يَايَحْيَى خُذْ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۔ اے یحیٰ ! کتاب (توریت / اسمِ اعظم) مضبوطی سے لو۔ یعنی اسمِ اعظم کی تلوار نفس اور شیطان کے وسوسوں کے خلاف بڑی مضبوطی، سختی، اور سرعت کے ساتھ استعمال کرو تاکہ سلسلۂ ذکر منقطع نہ ہو۔

خداوندِ دوجہان کے اس حکم کے مطابق جو سورۂ شعراء (۲۶: ۲۱۴) میں ہے، آنحضرت صلعم نے اپنے قریبی رشتہ داروں سے فرمایا: یا بنی عبد المطلب اطیعونی تکونوا ملوک الارض و حکامھا۔

اے اولادِ عبد المطلب! میری اطاعت کرو، تاکہ تم سب زمین کے بادشاہ اور حکمران بن جاؤ گے (دعائم الاسلام، جلد اول، مضمون: ولایتِ امیرالمومنین علیہ السّلام)۔

سوال: آیا رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت اس لئے ضروری ہے تاکہ ہر مطیع مومن کسی ظاہری ملک کا بادشاہ بن جائے؟ اگر ایسا ہے تو تمام اصحاب یا بعض کیوں بادشاہ نہیں ہوئے؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام میں جتنے بادشاہ ہو گزرے ہیں وہ سب کے سب

 

۱۹

 

رسولِ اکرمؐ کے حقیقی فرمانبردار تھے؟

جواب: اس ارشادِ نبوّی کا ظاہری پہلو مثال ہے اور باطنی پہلو ممثول، لہٰذا یہاں جس زمین کا ذکر ہے وہ عالمِ شخصی، بہشت اور نفسِ کلّی کی زمین ہے، جس میں ہر وہ مومن بادشاہ ہوسکتا ہے جو حقیقی معنوں میں فرمانبردار ہو، حدیث شریف میں ہے: اَلدُّنُیَا سِجْنُ الْمُؤْمنِ وَ جَنَّۃُ الْکَافِرِ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے بہشت ہے۔

۹۔ قرآنِ حکیم کی بہت سی آیاتِ مبارکہ میں بزبانِ حکمت روحانی سفر کا حکم موجود ہے، من جملہ اس آیۂ مقدّسہ میں غور کریں: قُلْ سِيرُوا فِي الأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّهُ يُنشِئُ النَّشْأَةَ الآخِرَةَ (۲۹: ۲۰) (اے رسول) تم کہہ دو کہ زمین (روحانیّت) میں آگے چل کر دیکھو کہ خدا نے کس طرح بارِ اوّل مخلوق کو پیدا کیا، اور کس طرح وہ آخری تخلیق کرتا ہے۔

۱۰۔ کتابِ ہٰذا کا نام “سراج القلوب” بڑا پسندیدہ، عزیز اور پُرحکمت ہے، جیسا کہ قبل ازین کچھ وضاحت ہوئی کہ یہ سراجِ منیر کا اصل ترجمہ ہے، یقیناً اس میں آیۂ مصباح کی تفسیر و تاویل بھی ہے، اور جس نے ہمیں اور آپ کو “غریبم قلبِ تُو” کہا یا کہہ رہا ہے، اس کو کیونکر بھلا سکتے ہیں، اس قلب اور اس قلب میں لا انتہا فرق ہے، کیونکہ وہ نورِ مطلق ہے اور یہ گوشت کا ایک لوتھڑا، قرآنِ حکیم میں حقیقی قلب سے متعلق جو عظیم الشّان حکمتیں ہیں، ان کو سمجھنے کے لئے سعی کیجئے۔

 

۲۰

 

۱۱۔ اگر عصرِ حاضر کے ڈاکٹرز بیمار دل کی جگہ صحت مند دل رکھنے میں کامیاب ہو رہے ہیں تو کیا یہ بات آسمانی طبیب کے لئے مشکل ہے کہ وہ اس “قلبِ مریض” کو اکھاڑ پھینکے اور اس کی جگہ “قلبِ سلیم” کو رکھے، اور قلبِ سلیم کی تعریف یہ ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے قلبِ مبارک جیسا ہوتا ہے ( ۳۷: ۸۴ ؛ ۲۶: ۸۹)۔

۱۲۔ امامِ عالی مقام صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہٗ نہ صرف عالمِ اسلام اور دنیائے انسانیّت کا دل ہے بلکہ ساری کائنات کا دل ہے، لیکن بے پناہ خوشی ہے کہ وہ نورِ معرفت کی روشنی میں ہر مومن اور مومنہ کا دل ہے، جیسے سورۂ مومنون میں ہے: وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ لَكُمْ السَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَالأَفْئِدَةَ قَلِيلاً مَا تَشْكُرُونَ (۲۳: ۷۸) اور وہ (مہربان خدا) وہی ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل پیدا کیا (مگر) تم لوگ ہو ہی بہت کم شکر کرنے والے، یعنی خدائے مہربان نے مقامِ روحانیّت پر نورِ ناطق سے تمہارے لئے کان بنایا، نورِ اساس سے آنکھیں اور نورِ امام / قائم سے دل بنایا ، مگر تمہاری شکرگزاری بہت ہی کم ہے۔

سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلاَمٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ( ۳۷: ۱۸۰ تا ۱۸۲) ۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی، ہیڈ آفس

جمعہ ۲۲۔ شوال المکرم ۱۴۱۵ ھ / ۲۴؍ مارچ ۱۹۹۵ ء

 

۲۱

 

معراجِ روحانی

 

مقامِ اوّل:

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۰۱) تاویلی الفاظ: اَسْریٰ = وہ رات کو لے گیا، یعنی وہ باطن اور روحانیّت میں لے گیا، کیونکہ رات کی تاویل باطن ؎۱ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی معراج بطریقِ روحانی واقع ہوئی تھی، المسجد الحرام ؎۲ = خانۂ کعبہ کی مسجد، اس سے وہ ابتدائی اسمِ اعظم مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے پیغمبرِ اکرمؐ کو عطا ہوا تھا، کیونکہ مسجد کا لفظ قرآنِ حکیم (۰۷: ۲۹، ۰۷: ۳۱) میں نماز و ذکر کے معنی میں بھی آیا ہے، المسجد الاقصا ؎۳ = نہایت دور کی مسجد، یعنی سب سے آخری اسمِ اعظم ، جس کا تعلق گوہرِعقل کی بےشمار برکتوں سے ہے۔

ارشاد ہے: سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا  (۱۷: ۰۱) ترجمہ: پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندہ کو رات کے وقت مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک، جس کو گھیر رکھا ہے ہماری برکت نے، تاکہ

 

۲۲

 

دکھلائیں اس کو کچھ اپنی قدرت کے نمونے۔

تاویل: پاک و بے نیاز ہے وہ رات جو لے گیا اپنے بندہ کو بطریقِ باطن و روحانیّت ابتدائی اسمِ اعظم سے انتہائی اسمِ اعظم ؎۴ تک جس کا تعلق عالمِ بالا اور گوہرِعقل سے ہے، جہاں علم و حکمت کی بے شمار برکتیں ہیں، تاکہ ہم ان کو اپنے عظیم معجزات دکھائیں۔

مقامِ دوم:

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۶۰) تاویلی لفظ: اَلرُّؤْیَا = خواب، نظارہ، مشاہدہ، چونکہ اس خواب کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے ہے، اس لئے یہ عام نہیں بلکہ پیغمبرانہ خواب ہے، جس میں بموجبِ حدیثِ شریف آنکھ سوجاتی ہے، مگر دل بیدار رہتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا خواب روحانیّت میں بدل چکا ہوتا ہے؎۵ ، اس معنیٰ میں حقیقت یہ ہے کہ حضورِ انورؐ کی معراج جسمانی نہیں، بلکہ روحانی ہے۔

وہ ارشاد یہ ہے: وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ (۱۷: ۶۰)

ترجمہ: اور وہ خواب جو تجھ کو دکھلایا اس کو لوگوں کے لئے آزمائش کیا، اور اسی طرح وہ درخت جس پر قرآن میں لعنت کی گئی۔

تاویل: حدیثِ شریف ہے: یا عائشۃ انّ عینیّ تنا مان و لا ینام قلبی = اے عائشہ! میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں

 

۲۳

 

اور میرا قلب نہیں سوتا، دوسری حدیث یہ ہے: تنامُ عینایَ و لا ینامُ قلبی = میری دونوں آنکھیں سوجاتی ہیں، اور میرا قلب سوتا نہیں۔ اور تیسری حدیث اس طرح ہے: اِنّا معشرالانبیاء تنامُ اعیننا ولا تنام قلوبنا = ہم گروہِ پیغمبران (علیہم السّلام ) ایسے ہیں کہ ہماری آنکھیں سوجاتی ہیں لیکن ہمارے قلوب نہیں سوتے ؎۶ (کتاب احادیثِ مثنوی ص ۷۰ پر تمام حوالہ جات کے ساتھ درج ہیں)۔

وہ خواب (یعنی معراجِ روحانی) جو تجھ کو دکھلایا اس کو لوگوں کے لئے آزمائش قرار دیا ، اور اسی طرح وہ درخت بھی باعثِ امتحان ہے جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے ؎۷۔

مقامِ سوم:

سورۂ نجم (۵۳: ۰۱ تا ۱۸) یہاں یہ تذکرہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ظاہراً و باطناً دو دفعہ سب سے عظیم دیدار کس طرح حاصل ہوا ؎۸۔

ترجمہ: قسم ہے تارے کی جب گرے، بہکا نہیں تمہارا رفیق اور نہ بے راہ چلا، اور نہیں بولتا اپنے نفس کی خواہش سے، یہ تو بس وحی ہے جو بھیجی جاتی ہے، اس کو سکھلا یا ہے سخت قوّتوں والے نے، زورآور نے، پھر سیدھا کھڑا ہوا، اور وہ تھا اونچے کنارہ آسمان کے، پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا، پھر رہ گیا فرق دو کمان کے برابر یا اس سے بھی نزدیک، پھر خدا نے اپنے بندے کی طرف جو وحی بھیجی سو بھیجی، جھوٹ نہیں کہا

 

۲۴

 

رسول کے دل نے جو دیکھا، اب کیا تم اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو اس نے دیکھا۔

تاویل: یہ شروع کی آٹھ آیاتِ کریمہ کا ترجمہ ہے، جس میں یہ بیان ہے کہ رسول اللہؐ نے روحانی معراج سے قبل ابداع و انبعاث کے معجزات کو دیکھا تھا؎۹، انہی عجائب و غرائب کی عظمت و جلالت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالےٰ آفتابِ عقل کی قسم کھاتا ہے، جبکہ وہ غروب ہو جاتا ہے، نیز یہ ظہورِ مبدِع اور مبدع کی قسم ہے، لفظِ رفیق (صَاحِبُکُمْ) میں یہ اشارہ ہے کہ ہر روح رسولؐ میں فنا ہو کر معراج تک جا سکتی ہے ؎ ۱۰ ، سخت قوّتوں والا اور زور آور اللہ ؎۱۱ ہے، سیدھا کھڑا ہونا ابداع بھی ہے، اور انبعاث بھی، ؎۱۲، کیونکہ وہ ایک ساتھ ہے، آسمان اور زمین کا اونچا کنارہ (اُفُقِ الْاَعْلیٰ) ظہورِ مبدِع اور مُبْدَع ہے ؎۱۳، جو نزدیک ہو کر زمین پر اتر آیا، پھر آنحضرتؐ کی انائے علوی اور انائے سفلی اس طرح ایک دوسرے سے مل گئیں، جس طرح دو کمانوں یعنی دو نصف دائروں کو ملانے سے ایک دائرہ بن جاتا ہے ؎۱۴ ۔

پھر بلند ترین وحی (اشارہ) کا ذکر ہے جو حضرتِ مُبدِع اور مبدَع کے دیدار وغیرہ سے حاصل ہوتی رہتی ہے ؎۱۵، یہ سب کچھ عالمِ ظاہر میں حضورؐ کے سامنے آیا، اب باقی چھ آیاتِ مقدّسہ میں روحانی معراج کا ذکر ہے، جس کا مشاہدہ آنحضرتؐ نے اپنے عالمِ شخصی میں کیا  ؎۱۶۔

ترجمہ: اور اس کو انہوں (آنحضرتؐ) نے ایک اور ظہور (یعنی معراج) میں دیکھا ہے، سدرۃ المنتہیٰ (نفسِ کلّی) کے پاس، اس کے پاس ہے بہشت آرام سے رہنے کی، جب سدرہ چھپا رہا تھا جو کچھ چھپا رہا تھا، بہکی نہیں نگاہ

 

۲۵

 

اور نہ حد سے بڑھی، بے شک دیکھے اس نے اپنے ربّ کے بڑے بڑے معجزے۔

تاویل: سرورِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو پہلے ظاہراً ابداعی دیدار ہوا، پھر آپؐ کو روحانی معراج پر لیا گیا، جس میں سدرۃ المنتہیٰ کے پاس یعنی نفسِ کلّی کے آسمان پر سب سے آخری اور سب سے عظیم دیدار ہوا، جبکہ سدرہ (نفسِ کلّی) گوہرِعقل کا مظاہرہ کر رہا تھا، جس میں علم و حکمت کے جملہ اشارات موجود ہیں؎۱۷۔

 

ن ۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی ،  منگل ۲۴؍ جمادی الثانی ۱۴۱۵ ھ          /        ۲۹ ؍ نومبر ۱۹۹۴ ء

 

۲۶

 

حاشیہ

؎۱: لیل (شب = رات) کی تاویل باطن و روحانیّت ہے، اور دن کی تاویل ہے ظاہر و جسمانیّت، آپ تاویلی کتب کو دیکھیں۔

؎۲، ؎۳: جب مسجد کے ایک معنی عام نماز و ذکر کے ہیں ( ۰۷: ۲۹، ۰۷: ۳۱) تو کسی شک کے بغیر یہاں المسجد الحرام سے ابتدائی اسمِ اعظم کی خصوصی عبادت مراد ہے، اور اسی مناسبت سے المسجد الاقصا ( نہایت دور کی مسجد) کی تاویل انتہائی اسمِ اعظم ہے۔

؎۴: اگر تاویلی حکمت کے بغیر سوچا جائے تو ہماری فکر مسجدِ اقصیٰ (بیت المقدّس) سے آگے نہیں جا سکتی ہے، کیونکہ ظاہری قصّہ صرف وہاں تک نظر آتا ہے۔

؎۵: کاملین کا خواب ایک بڑی بابرکت روحانیّت ہے جس میں علم و معرفت کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ ہوتا ہے۔

؎۶۔ نورکی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں خود بخود اسمِ اعظم کے ذکر کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے، اور اس عظیم عمل کے لئے دائمی بیداری ممد و معاون ہے اور خوابِ غفلت دشمن، لہٰذا انسانِ کامل کی آنکھ سوتی ہے مگر اس کا قلب اسمِ اعظم کے ذکرِ مسلسل سے ارض و سماء میں نور بکھیرتا رہتا ہے۔

 

۲۷

 

؎۷: یہ ایک قرآنی حقیقت ہے، جس کی کوئی تردید نہیں کہ خدائے علیم و حکیم تمام لوگوں کو آزماتا رہتا ہے، تاکہ ان کو حسبِ علم و عمل مختلف درجات پر فائز کر دے۔

؎۸: ظاہراً و باطناً دو دفعہ سب سے عظیم دیدار کا مطلب ہے: ظاہر میں جفت دیدار اور باطن میں ایک طاق دیدار۔

؎۹: ابداع و انبعاث کے معجزات دنیائے ظاہر میں وقوع پزیر ہوتے ہیں، لیکن ان کو صرف انسانِ کامل ہی دیکھ سکتا ہے۔

؎۱۰: ہادئ برحق کا روحانی سفر بحقیقت دوسروں کی رہنمائی کی غرض سے ہوتا ہے، جیسا کہ لفطِ “صَاحبکُم ” (تمہارا رفیق / ہادی) سے ظاہر ہے، اس کا اشارہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم میں فنا ہو کر بہت سی روحیں مرتبۂ معراج تک جا سکتی ہیں، ورنہ کسی کو خدا، رسولؐ اور امامؑ کی معرفت سے کیا خبر ہو گی، جبکہ تمام اسرارِ حقائق و معارف اسی مقام پر جمع ہیں۔

؎۱۱: یہ درست ہے کہ شرو ع شروع میں نبیٔ اکرمؐ اور حضرتِ ربّ کے درمیان پانچ وسائط تھے: قلم، لوح، اسرافیل، میکائیل، جبرائیل، لیکن جب ابداع و انبعاث اور معراج کا وقت آیا تو اس میں یہ تین فرشتے یا تو حضورؐ سے پیچھے رہ گئے یا آپؐ کے ساتھ ایک ہوگئے، پھر آنحضرتؐ کی اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم لوح و قلم اور براہِ راست اللہ تعالیٰ سے ہوتی رہی، پس سرورِ انبیاء صلعم کا حقیقی معلّم ربِّ اکرم خود ہے، جبرائیل نہیں۔

؎۱۲: انسانِ کامل کی روحانی ترقی کے بعد اس کا جثّۂ ابداعیہ ظاہر

 

۲۸

 

ہوتا ہے اور ابداع و انبعاث اسی سے عبارت ہے، اور  یہی فَاسْتَوٰی کے معنی ہیں، کیونکہ ایسے میں عالمِ خلق اور عالمِ امر سے تعلق اِسْتَوٰی (معتدل و مستقیم ) ہو جاتا ہے۔

؎۱۳: اُفُقِ الْاَعْلیٰ کی تاویل ہے: جسمِ لطیف اور روحِ علوی کا سب سے بلند ترین درجہ، جس سے ظہورِ مبدِع اور مبدَع مراد ہے، یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ جس طرح یک حقیقت (مونوریالٹی) میں لا تعداد حقیقتیں مرکوز ہو جاتی ہیں، اسی طرح بہت سی تاویلات آپس میں مل جاتی ہیں۔

۱۴: قوسِ علوی: ۔۔۔۔۔۔ ، قوسِ سفلی: ۔۔۔۔۔۔۔۔، قابَ قوسَین: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ، اَوْ اَدْنیٰ: ۔۔۔۔۔۔۔۔

؎۱۵: انبیاء علیہم السّلام کے لئے سب سے اعلیٰ اور مسلسل وحی (اشارہ) دیدارِ الٰہی میں ہے، اس میں علم و معرفت کے جیسے اور جتنے بے شمار اشارے موجود ہیں، ایسے اشارات کہیں بھی نہیں۔

؎۱۶: آسمان، زمین، عرش اور کرسی عالمِ شخصی میں ہے، اس لئے معراج بھی اسی میں ہے۔

؎۱۷: قبضۂ قدرت میں کیا نہیں، خزائنِ الٰہی میں سب کچھ ہے، کتابِ مکنون میں ہر راز ہے، اور لوحِ محفوظ یعنی امامِ مبین کے گھیرے سے کوئی چیز باہر نہیں، والسلام۔

 

۲۹

 

انتساب بنامِ عزیزانِ گلگت

اعتکاف اور چلّہ

 

اعتکاف کے معنی ہیں: گوشہ نشینی، گوشہ گیری، گوشہ نشینیٔ عبادت خانہ،  اپنے کو منہیات سے باز رکھنا۔

چلّہ: یہ لفظ چل سے ہے جو چہل کا مخفف ہے، معنی ؛ چالیس ۴۰ دن کا عرصہ، چالیس دن کا زمانہ، چالیس دن کی گوشہ نشینی اور وظیفہ خوانی، چالیس ۴۰ روز کا عمل۔

حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے کوہِ طور پر اللہ کے حکم سے تیس ۳۰ دن کا اعتکاف کیا، خدا نے مزید دس دن عبادت کرنے کے لئے فرمایا، اس طرح چلّہ ہوگیا، اسی عظیم واقعہ کے پیشں نظر چالیس دن کی گوشہ نشینی اور ذکر و عبادت بہت بڑی اہمیّت کی حامل ہے، ہم نے کہیں اس کا ذکر کیا ہے۔

اعتکاف اور چلہ انبیائے کرام علیہم السّلام کی سنت ہے، اس لئے یہ عمل بڑا مبارک ہے، کہتے ہیں کہ اگر نیّت کی جائے تو کم سے کم اعتکاف ایک گھنٹے کا بھی ہوسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ امامِ عالی مقامؑ کے فرمانِ اقدس کے مطابق صبح نورانی وقت کی حضوصی بندگی ایک گھنٹے کی ہوا کرتی ہے۔

 

۳۰

 

اگر کوئی عزیز چلّہ یا اعتکاف کر رہا ہے تو وہ عوام کے سامنے ہرگز اس کا تذکرہ نہ کرے، کیونکہ یہ ایک عظیم راز ہے، بہت سے لوگ وقت سے پہلے راز کو فاش کر کے ناکام ہو جاتے ہیں، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جہاں بہت بڑی عاجزی کی ضرورت ہے، وہاں فخر کا مظاہرہ ہو سکتا ہے، جو بڑا نقصان دہ ہے۔

عزیزانِ من! یہ دورِ قیامت اور زمانۂ تاویل ہے، اس میں خصوصی عبادت اور حقیقی علم کے توسط سے حضرت قائم القیامتؑ کے عظیم اسرار کو حاصل کرنا ہے، جس کے لئے انقلابی ریاضت درکار ہے، عاجزی اور گریہ وزاری سے خود کو یکسر تبدیل کرنا ہوگا، اس میں امامِ زمانؑ کی شناخت اور محبت کلیدی وسیلہ ہے، اگر یہ پاک و پاکیزہ محبت بدرجۂ عشق پہنچ گئی ہے تو مبارک ہو! کیونکہ اس سے ذکر و عبادت کی راہ میں حائل ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۱۲ ؍ دسمبر ۱۹۹۴ ء

 

۳۱

 

صندوقِ سکینہ ۔۔۔ مجموعۂ روحانیّت

 

سورۂ بقرہ ( ۰۲: ۲۴۶ تا ۲۴۸) میں خوب غور سے دیکھ لیں، جہاں دینی بادشاہ (امام علیہ السّلام ) کا ذکر آیا ہے، جو علمِ لدنّی اور جثّہ ابداعیہ کا مالک ہوتا ہے، اور یہ علمِ محیط اور جسمِ بسیط مرتبۂ امامت کے دو عظیم معجزے ہیں، تاکہ خدا و رسولؐ کی جانب سے آفاق و انفس میں امامؑ کی بادشاہی قائم ہو۔

تابوتِ سکینہ بظاہر تبرکات کا ایک صندوق تھا، اور یہ مثال ہے، جس کا ممثول مجموعۂ روحانیّت ہے، کیونکہ حقیقت ایک ہی ہے، لیکن طرح طرح سے اس کی بے شمار مثالیں بیان کی گئی ہیں (۱۷: ۸۹، ۱۸: ۵۴) صندوقِ سکینہ کو ہمیشہ فرشتے ہی اٹھا رہے ہیں، کیونکہ وہ دراصل ایک روحانی چیز ہے۔

لغات الحدیث میں ہے: السّکینۃ ریحٌ تخرج من الجنّۃِ لھا صورۃٌ کصورۃِ الانسانِ تکون مع الانبیاء = سکینہ ایک پاکیزہ ہوا ہے جو بہشت سے نکلتی ہے، اس کی صورت آدمی کی سی ہے، وہ پیغمبروں کے ساتھ رہتی ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ تسکین روحانی علم ہی سے ہوتی ہے، روح کا دوسرا لفظ ریح ہے، جنّت میں کوئی چیز عقل و جان کے بغیر نہیں، جس ریح (ہوا) کی صورت آدمی کی سی ہے، وہ روح و روحانیّت ہے، جس کا تعلق انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام سے ہے۔

 

۳۲

 

مذکورہ لغات میں یہ بھی ہے: بعضوں نے کہا ایک صورت تھی زبرجد کی یا یاقوت کی، اس میں حضرتِ آدمؑ سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تک سب کی تصویریں تھیں۔ میں گزارش کروں گا کہ یہاں زبرجد اور یاقوت ٹھوس نہیں بلکہ اس سے نورِ اخضر اور نورِ احمر مراد ہے، جس میں صرف واحد تصویر ہے، مگر تجلّیات میں سب ہیں۔

المیزان جلد دوم ص ۲۹۹ پر ہے: اِنّ السَّکینۃ الّتی کانت فیہ ریحٌ ھفا نۃ من الجنّۃِ لھا وجہٌ کوجہ الانسان۔ عن علی علیہ السّلام ۔ صندوق میں تسکین کی چیز بہشت سے ایک خوشگوار ہوا تھی، جس کا انسان کی طرح ایک چہرہ تھا۔ حضرت علی علیہ السّلام ۔

 

۲۰ ؍ دسمبر ۱۹۹۴ ء

 

۳۳

 

کتابِ ناطق

 

سورۂ مومنون (۲۳: ۶۲) میں ارشاد ہے: وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنطِقُ بِالْحَقِّ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُون۔ اور ہمارے پاس ایک کتا ب ہے جو سچ بولتی ہے، اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بولنے والی کتاب نامۂ اعمال ہے، جو علمی برتری اور شرف و عزّت کے معنی میں اللہ کے پاس ہے اور وہ حقیقت میں امام علیہ السّلام ہی ہے، جس کا ایک نام قرآنِ ناطق ہے، اس حقیقت کے دلائل ملاحظہ ہوں: ۔

۱۔ اس آیۂ مقدسہ میں “لاَ یُظْلَمُوْنَ” صیغۂ مضارع ہے، جس کا تعلق زمانۂ حال و مستقبل دونوں سے ہے، اس وجہ سے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ کتابِ ناطق آج دنیا میں قرآنِ ناطق بھی ہے اور کل قیامت میں صحیفۂ اعمال بھی ہے۔

۲۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم زمانۂ نبوّت میں نورِ مجسم یعنی قرآنِ ناطق تھے (۰۵: ۱۵) اور قرآنِ صامت کی معلّمی کا یہ منصب ہرگز ایسا نہیں کہ کبھی اس کی ضرورت ہو اور کبھی یہ غیر ضروری ہو۔

۳۔ کتابِ ناطق کا مطلب ہے امامِ حیّ و حاضر علیہ السّلام کی مبارک

 

۳۴

 

شخصیّت اور روحانیّت و نورانیّت، جس کا دنیا میں کتابِ صامت کے ساتھ ساتھ موجود رہنا بے حد ضروری ہے، تاکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پر لوگوں کی کوئی حجت نہ ہو سکے (۰۴: ۱۶۵)۔

۴۔ جو زندہ، گویندہ اور دانندہ کتاب کرامت و فضلیت کے معنی میں خدا کے پاس ہے، اس کی خصوصیت سچ بولنا یعنی اعلیٰ حقائق و معارف بیان کرنا ہے، کیونکہ یہاں حق سے “حق الیقین” مراد ہے، جو علم و حکمت اور معرفت و یقین کا انتہائی بلند ترین مرتبہ ہے۔

۵۔ ظلم کے اصل معنی ہیں: وضع الشّیٔ فی غیر موضعہ المختص بہٖ۔ کسی شے کا جو اصل مقام ہے اسے وہاں سے ہٹا دینا اور دوسری جگہ رکھ دینا۔ چنانچہ قرآنِ ناطق کی یہ تعریف ہے کہ اس میں ہر حقیقت اور ہر معرفت اپنی خاص جگہ پر ہوتی ہے، اور وہ خاص مقام حظیرۃ القدس ہے۔

 

۲۰ ؍ دسمبر ۱۹۹۴ ء

 

۳۵

 

حدیثِ ثَقلَیْن

 

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ: قد خلفتُ فیکم الثّقلین احد ھما اکبر من الاٰخر سبباً موصولاً من السّماءِ الی الارض: کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی، فانھما لن یفترقا حتّیٰ یردا عَلَیّ الحوض۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ (وسلم) نے فرمایا: میں نے تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑ دی ہیں، ان میں سے ایک دوسری سے بڑھ کر ہے، ایک کتابِ خدا ہے جو آسمان سے زمین تک کھچی ہوئی رسی ہے، اور دوسری چیز میری عترت اور میرے اہلِ بیت ہیں، اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس وارد ہوں۔

حکمت ۱: “قد خلفتُ فیکم الثّقلین” کے مطابق اصل خلافت انہی دو گرانقدر چیزوں (قرآن اور اہلِ بیت) کو حاصل ہے۔

حکمت ۲: اللہ تعالیٰ کی کتاب نورِ ہدایت کی وہ رسی ہے جو عرشِ برین سے فرشِ زمین تک تانی (کھچی) ہوئی موجود ہے اور نورِ امامت بھی وہی رسی ہے، کیونکہ باطن میں ایک نور دوسرے نور سے الگ نہیں ہوتا، مگر ظاہر میں ہستی کے لحاظ سے کتاب الگ اور امام الگ ہے۔

 

۳۶

 

حکمت ۳: کتاب (قرآن) اور امامؑ کے نورِ واحد کی رسی کا بالائی سرا صاحبِ عرش کے ہاتھ میں ہے اور زیرین سرا اہلِ زمین کے پاس ہے۔

حکمت ۴: “وعترتی اہلِ بیتی” میں اہل بیتؑ تفسیر ہیں عترت کی، اور اہلِ بیت اولادِ علیؑ کے ہر امام کے لئے آتا ہے۔

حکمت ۵: جب تک دنیا میں قرآن موجود ہے، تب تک امامؑ بھی حاضر و موجود ہوگا، اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر یہ دونوں آنحضرتؐ کے پاس وارد ہو جائیں۔

حکمت ۶: حوضِ کوثر سے حضرتِ قائم القیامت علیہ السّلام مراد ہیں، اور کوثر اسی بزرگوارِ دو جہان کا علم ہے، یعنی علمِ تاویلِ محضِ مجرّد، اور گمراہی کا خطرہ بس یہاں تک رہتا ہے۔

 

۲۰ ؍ دسمبر ۱۹۹۴ ء

 

۳۷

 

حاملانِ عرش

 

جَعَلَ الْعَرْشَ اَرْبَاعًا ۔ اللہ تعالیٰ نے عرش چار طرح کے نوروں سے بنایا (سبز نور، زرد نور، سرخ نور، اور سفید نور، اسی سے یہ چاروں رنگ دنیا میں ہیں۔ یہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے)۔

تاویلی حکمت: عرش نورِعقلِ کلّ کا نام ہے، وہ سورج کی طرح بار بار طلوع ہوتا رہتا ہے، اور ہر بار رنگ و اشارہ کی ترجمانی تائید ہی کرتی ہے، چار رنگ البتہ بنیادی ہیں، جبکہ دنیا میں کئی رنگ ہیں۔

حَمَلَۃُ الْعَرْشِ ثَمَانِیَۃٌ۔ عرش اٹھانے والے آٹھ ہیں، چار تو ہم (آلِ محمدؐ) میں سے ہیں، اور چار جن میں سے اللہ چاہے۔

دوسری روایت میں ان کی تفسیر ہے، پہلے چار تو حضرتِ علی، حضرتِ فاطمہ، اور حسنین علیہم السّلام ہیں، اور دوسرے چار سلمان، مقداد، ابوذر اور عمار ہیں، رضی اللہ عنھم اجمعین (یہ بھی حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے)۔

تاویلی حکمت: جب عرش سے نورِعقل مراد ہے، تو اس کا حامل ہر دور کے آغاز میں ایک ہی ہوتا ہے، پھر دو، تین، چار، پانچ، چھ، اور سات، یہ سب أئمّۂ علیہم السّلام ہی ہیں، پھر امامِ ہفتم علیہ السّلام

 

۳۸

 

کے زیرِ اثر کسی عالمِ شخصی میں مخفی قیامت برپا ہونے کی وجہ سے آٹھواں فرشتہ حاملانِ عرش میں شامل ہو جاتا ہے۔

تاویلی حکمت: قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں نورِ اقدس مومنین و مومنات سے متعلق ہے ( ۰۶: ۱۲۲، ۵۷: ۱۲، ۵۷: ۱۹، ۵۷: ۲۸، ۶۶: ۰۸) وہاں وہ سب اپنے اپنے عالمِ شخصی میں حاملانِ عرش میں سے ہیں، کیونکہ عرش کی خاص تاویل نور ہے، یعنی نورِ عقل، نورِ ازل، نورِ الٰہ، نورِ یقین، نورِ عشق، نورِ علم، نورِ معرفت، نورِ ہدایت وغیرہ۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل ۱۶؍ رجب المرجب ۱۴۱۵ ھ        ۲۰؍ دسمبر ۱۹۹۴ء

 

۳۹

 

کائنات کی کاپیاں

 

ہرفردِ بشر میں بحدِّ فعل نہیں تو بحدِّ قوّت ایک کائنات پنہان ہے، کائنات کا دوسرا لفظ عالم ہے، جس کی جمع “عالمین” ہے، جس کا ذکر قرآنِ عزیز میں ۷۳ بار فرمایا گیا ہے ، اور عالمین جو عوالمِ شخصی ہیں، ان کی روحانی اور عقلی پرورش ایسی عظیم الشّان اور اہم ترین ہے کہ اللہ جل شانہٗ اس کا بیان ام الکتاب (الفاتحہ) کے شروع ہی میں فرماتا ہے: ۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۰۱: ۰۱)

سب تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے، جو سارے جہانوں (عوالمِ شخصی ) کا پالنے والا ہے۔ یعنی حضرتِ ربّ العزت کی جانب سے انسان کی پرورش اس طرح ہوتی ہے کہ اس سے نہ صرف جسم ہی بتدریج مکمل ہو جاتا ہے، بلکہ روح اور عقل کے حق میں یہ زیادہ سے زیادہ ضروری ہے، تاکہ انسان منازلِ روحانیّت اور مراحلِ عقلانیّت سے آگے جا کر درجۂ کمال حاصل کر سکے۔

اس حقیقت پر پہلے ہی روشنی ڈالی گئی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر شخص میں بحدِّ امکان سب کچھ رکھ دیا ہے، یہ بھی ایک مقولہ بن گیا ہے کہ “ہر ایک میں سب ہیں۔” یہ بات بھی اب پوشیدہ نہ رہی کہ ہر ستارہ ایک دنیا ہے، جس پر لطیف مخلوق کی بادشاہی کا امکان ہے، ایک بڑی عجیب

 

۴۰

 

بات یہ بھی ہوئی کہ انسانی بدن میں جتنے بے شمار خلیات ہیں وہ ایک ہی کائنات میں لاتعداد کائناتوں کی پوشیدہ موجودگی کی مثال ہیں۔

خدائے بزرگ و برتر نے حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو تمام جہانوں کے لئے رحمتِ کل بنا کر بھیجا ہے (وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَاّ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ ۲۱: ۱۰۷) ظاہر ہے کہ عالمین سے عوالمِ شخصی مراد ہیں، کیونکہ حضورِ اکرمؐ صرف انسانی عوالم کی طرف بھیجےگئے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: اے محمدؐ! کہو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے (۰۷: ۱۵۸)۔

اب یہاں یہ دیکھنا ہے کہ عالمِ شخصی میں کائنات کی کاپیاں کس طرح بن جاتی ہیں؟ اور اس کاپی سے لوحِ محفوظ یا امامِ مبین کا کیا لگاؤ (تعلق) ہے؟ کیا نامۂ اعمال بھی یہی ہے، یا وہ اس سے الگ ہے؟ معزز فرشتے صحیفۂ اعمال کس طرح درج کرتے ہیں؟ آیا جسمِ لطیف خود عالمِ شخصی اورا مام کی کاپی ہے یا کائنات کی کاپی ہے؟ کیا انفرادی قیامت اختیاری ہے یا اضطراری؟ انسان، فرشتہ، جنّ اور پری کے مابین کیا رشتہ ہے؟ ان جیسے بہت سے پیچیدہ اور سخت مشکل سوالات کے جوابات امامِ زمان علیہ السلام کے روحانی علم سے مل سکتے ہیں۔

سورۂ جاثیہ (۴۵: ۲۹) میں ارشاد ہے هٰذَا كِتٰبُنَا یَنْطِقُ عَلَیْكُمْ بِالْحَقِّؕ-اِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (۴۵: ۲۹) یہ ہمارا تیار کرایا ہوا اعمال نامہ ہے جو تمہارے اوپر ٹھیک ٹھیک شہادت دے رہا ہے، جو کچھ بھی تم کرتے تھے اسے ہم لکھواتے جا رہے تھے، یہ ایک بڑے

 

۴۱

 

عالم کا ظاہری ترجمہ ہے، لیکن آیۂ کریمہ میں تقریباً تمام علمائےکرام کے لئے ایک انتہائی مشکل مسٔلہ اپنی جگہ موجود ہے، اور وہ ہے “نَسْتَنْسِخُ” جس کا اصل ترجمہ ہے: ہم تمہارے اعمال کو نقل (کاپی) کراتے تھے۔ یہ تو کسی اصل سے کاپی کرانے کی بات ہوئی، کیونکہ نَسْخٌ الکتاب کے معنی ہیں: کتاب کو حرف بحرف نقل کرنا۔

امامِ مبین صلوٰۃ اللہ علیہ کی ذاتِ اقدس میں تمام روحانی اور عقلانی چیزیں محدود ہیں، اس لئے کائناتی روح (نفسِ کلّی) اور لوحِ محفوظ آپؑ سے الگ نہیں، جب روحانی انقلاب یا ذاتی قیامت کا وقت آتا ہے اور اسرافیل اور عزرائیل دیگر فرشتوں کے ساتھ اپنا اپنا کام کرنے لگتے ہیں تو اس حال میں انہی کے عمل سے کائنات کی کاپیاں بنتی جاتی ہیں، جبکہ عالمِ شخصی کی روح کائنات میں پھیلائی جاتی ہے، اور کائناتی روح عالمِ شخصی کے سانچے میں ڈالی جاتی ہے، اسی طرح یہ عمل شب و روز جاری رہتا ہے، تاآنکہ کائنات کی اور مومنِ سالک کی ہزاروں کاپیاں ہو جاتی ہیں، یہ ہوا امامِ مبینؑ (لوحِ محفوظ) سے فرشتوں کا مومنین و مومنات کے نامہ ہائے اعمال کو نقل (کاپی) کرنا، کیونکہ امامِ عالیمقامؑ ہی کتابِ کلّ ہے اس لئے تمام اعمال سب سے پہلے اسی میں درج کئے جاتے ہیں، جیسا کہ سورۂ یاسین میں ہے:

انَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ (۳۶: ۱۲) ہم ہیں جو زندہ کرتے ہیں مردوں کو اور لکھتے ہیں جو آگے بھیج چکے اور جو نشان ان کے

 

۴۲

 

پیچھے ہیں، اور ہم نے ہر چیز کو ایک ظاہر پیشوا میں گھیر دیا ہے۔

یاد رہے کہ مومنین و مومنات کے نامہ ہائے اعمال امام علیہ السّلام کی ذاتِ پاک، اور اس کی کائناتی روح سے ہوکر اس لئے آتے ہیں کہ وہ سب صحیفے رحمت و برکت اور علم و حکمت کی دولتِ لازوال سے مالامال ہو جائیں، اور جب کسی مومن یا مومنہ کو مرتبۂ عقل پر اس کا نامۂ اعمال دیا جائے گا تو وہ کتابِ ناطق اور نور کی صورت میں ہوگا (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۰۸) جو درجۂ حق الیقین کے علم و معرفت کو بیان کرے گا، کیونکہ ہر چیز خصوصاً قرآنِ حکیم کی ہر چیز اور ہر مثال میں دراصل رحمت و علم ہی کی جلوہ نمائی ہے (رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا۔ ۴۰: ۰۷)۔

قرآنِ عظیم درحقیقت ایک ہی ہے، جو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پر نازل ہوا، لیکن دنیائے اسلام میں اس کی بے شمار نقلیں (کاپیاں) موجود ہیں، اور اگر مانا جائے کہ ہر مومن اور مومنہ میں لوحِ محفوظ کی کاپی اسی طرح پوشیدہ ہے جس طرح دوسری تمام اشیاء اس کے عالمِ شخصی میں مخفی ہیں، تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس لوحِ محفوظ میں نورِ قرآن کا ایک روشن عکس ہو سکتا ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ۔

وَفِي الأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلاَ تُبْصِرُونَ (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) اور یقین والوں (اہلِ معرفت) کے لئے زمین میں نشانیاں ہیں، اور خود تم میں بھی ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں؟ آیات کے معنی ہیں نشانیاں اور معجزات، ویسے تو زمین میں قدرتِ خدا کی بے حساب نشانیاں موجود ہیں، لیکن سب سے عظیم معجزے قرآنِ پاک اور امامِ اطہرؑ ہیں، اور مذکورہ ارشاد کی

 

۴۳

 

حکمت یہ بتاتی ہے کہ جو کچھ زمین میں ہے وہ یقیناً عالمِ شخصی میں بھی ہے، اس سے یہ حقیقت کلّی طور پر روشن ہو گئی کہ روحِ قرآن کی کاپی اور نورِ امامت کا عکس عالمِ شخصی میں موجود ہیں، اور اس سرِعظیم کو آپ ہرگز ہرگز معمولی نہ سمجھنا۔

آفاق و انفس کی نشانیوں (معجزات) کے بارے میں ارشاد ہے: ۔

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (۴۱: ۵۳) ہم عنقریب ہی اپنی نشانیاں (معجزات) اطرافِ (عالم) میں اور خود ان میں بھی دکھا دیں گے، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی یقیناً حق ہے۔ قرآنِ حکیم کی اس پیش گوئی سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آفاق و انفس میں معجزات تو موجود ہیں، لیکن کچھ لوگ اقرار کرتے ہیں وہ اچھے ہیں، کچھ لوگ دیکھتے بھی ہیں، وہ بہت اچھے ہیں، اور کچھ لوگ انکار کر رہے ہیں ، وہ لوگ اچھے نہیں ہیں، اور ان میں یہی فرق ہے، پس علم الیقین ضروری ہے، تاکہ روشن دلائل سے یہ معلوم ہو سکے کہ عالمِ شخصی میں سب کچھ ہے۔

قرآنِ مجید کی ایک خاص تعلیم یہ بھی ہے کہ موجودات و مخلوقات کی چیزیں دو دو (جفت جفت) ہیں، چنانچہ اللہ جل شانہ کی بادشاہی میں روحانی تخلیق کے سانچے  (MOULDS) بھی دو ہیں، وہ کائنات (عالمِ کبیر) اور عالمِ شخصی ہیں، یہ دو قالب (سانچے) اس مقصد کے لئے ہیں کہ جب جب اللہ چاہے تو کارخانۂ قدرت کے اس سانچے (عالمِ شخصی) میں ڈھل کر کائنات کی روحانی کاپی انسانِ کامل کی طرح ہو جاتی ہے، اور اس سانچے (کائنات) میں ڈھل کر انسانِ کامل عالمِ کبیر جیسا ہو جاتا ہے۔

 

۴۴

 

یہ بات بھول نہ جائیں کہ روحانیّت کے تمام عظیم اسرار بڑے بڑے مضبوط پردوں کے پیچھے پوشیدہ رکھے ہوئے ہیں، اس کی ایک مثال یہ ہے: سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍۙ-حُسُوْمًاۙ (۶۹: ۰۷) (رہے قومِ عاد تو وہ بہت شدید تیز آندھی سے ہلاک کئے گئے) خدا نے اسے سات رات اور آٹھ دن لگا تار اُن پر چلایا۔ یہ تباہ کن عذاب ان لوگوں پر نازل ہوا جو حضرتِ ہود علیہ السّلام کی دعوتِ حق سے انکار کر رہے تھے۔

اب یہ مجرّد تاویل بیان کرنا ہے کہ مذکورہ ۱۸۰ (ایک سو اسی) گھنٹے کی شدید آندھی بشکلِ روحانی عالمِ شخصی میں اس وقت پیدا ہو جاتی ہے جبکہ اسرافیل، عزرائیل وغیرہ پُرحکمت قبضِ روح کا عمل شروع کرتے ہیں، جس سے تمام مخالفانہ قوّتیں قومِ عاد کی طرح تباہ و برباد ہو جاتی ہیں، اور پھر سات رات اور آٹھ دن کی مدت میں مسلسل عالمِ شخصی اور کائنات کی روحانی نقلیں (کاپیاں) بنائی جاتی ہیں، اور اس عمل میں بے شمار حکمتیں مخفی ہیں۔

قرآنِ عزیز کے ۳۱ مقامات پر اَلَمْ تَرَ (کیا تو نے نہیں دیکھا؟) کا جملۂ سوالیہ آیا ہے، حالانکہ متعلقہ واقعات بظاہر سامنے نہیں ہیں، لیکن عالمِ شخصی میں سب کچھ موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ عالمِ شخصی کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے خدا نے آنحضرتؐ سے پوچھا: اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیْل (کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟)۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۲۴ ؍ دسمبر ۱۹۹۴ ء

 

۴۵

 

عزیزانِ من

(انتساب)

 

مجھے اپنے شاگردوں کو “عزیزان” کہنا بے حد پسند ہے، یقیناً لفظِ شاگرد بہت ہی کم استعمال کرتا ہوں، الحمدللہ! میں اس بات کو توفیقِ الٰہی سمجھتا ہوں، لہٰذا اس کی ایک وجہ نہیں، بلکہ کئی وجہیں ہوسکتی ہیں، میں دنیوی تعلیم میں سب سے پیچھے ہوں، اور روحانی تعلیم میں بحقیقت ہم سب امامِ آلِ محمدؐ کے شاگرد ہیں، جو حدیثِ ثقلین کے مطابق قرآنِ مجید کے بعد زمین پر دوسرا عظیم عقلی معجزہ ہیں۔

میں اپنے عزیزوں کی صفِ اوّل سے شروع کر کے آخر تک قربان ہو جانا چاہتا ہوں، میں ان سب سے فدا ہوجاؤں! کیونکہ وہ تمام اس علمی خدمت میں شب و روز سخت محنت کر رہے ہیں، اور ہر فرد حسن و خوبی سے اپنا فریضہ انجام دے رہا ہے، تبھی تو یہ علمی خدمت خاص و عام کے نزدیک قابلِ توجہ ہو رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے عزیزوں کے گرانقدر تعاون سے قرآنِ پاک کی ایک اہم خدمت ہو رہی ہے، جو اسلام کی

 

۴۶

 

خدمت ہے، میں سمجھتا ہوں کہ عصرِ حاضر میں بقدرِ استطاعت قرآنی حکمت کو اجاگر کرنا بیحد ضروری ہے، ہر چند کہ قرآنِ عظیم کے دیگر علوم پر علمائے کرام نے بہت کام کیا ہے، لیکن سائنسی انقلاب کے جدید تقاضوں کے مطابق سوچنا بھی ازحد ضروری ہے۔

اگر مانا جائے کہ ہم علمی جہاد کر رہے ہیں، تو اس میں عسکر کی مثال ہوگی، جس میں جرنیل جیسے بڑے بڑے آفیسرز ہوں گے، یقیناً علمی جہاد کی عزت اس سے بھی بہت اعلیٰ ہے، جو لوگ اپنے نفس اور جہالت کے خلاف جنگ کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے ارضی جنود میں سے ہیں (۴۸: ۰۴، ۴۸: ۰۷) ان شاء اللہ تعالیٰ وہ فرد بہشت میں اپنے اپنے عالمِ شخصی اور ذاتی کائنات میں بادشاہ ہوں گے، آمین!!

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

اتوار ۲۸ ؍ رجب المرجب ۱۴۱۵ ھ     یکم جنوری  ۱۹۹۵ ء

 

۴۷

 

دوزخ کا ایک راز

 

یہ سورۂ مریم کی دو آیتیں ہیں:

وَإِنْ مِنْكُمْ إِلاَّ وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَقْضِيًّا ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا (۱۹: ۷۱ تا ۷۲)

تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو جہنم پر وارد نہ ہو، یہ تو ایک طے شدہ بات ہے جسے پورا کرنا تیرے ربّ کا ذمہ ہے۔ پھر ہم ان لوگوں کو بچا لیں گے جو (دنیا میں) متقی تھے اور ظالموں کو اسی میں گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔

اس آیت کی تفسیر میں بعضوں نے کہا کہ دوزخ پر سے گزرجانا ہے، اور بعضوں نے کہا کہ اس میں اترنا ہے، اور اولیاء اللہ اور صالحین بھی ایک مرتبہ دوزخ کی آگ میں داخل ہوں گے، لیکن ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا، بلکہ ان کی حالت حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سی ہوگی کہ جب انہیں آگ میں ڈالا گیا تو ان پر آگ کا کچھ بھی اثر نہ ہوا، چنانچہ قرآن میں ہے:

قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلاَمًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ ( ۲۱: ۶۹)

ہم نے حکم دیا اے آگ سرد ہو جا اور ابراہیمؑ پر (موجبِ) سلامتی (بن جا) ۔ (مفردات القرآن۔ مادّہ! ورد)۔

اس تصور کے مطابق یہ حدیث ہے: یأتی اقوامٌ ابوابُ الجنّۃِ فیقُولون ألم یعدِنا ربُّنا ان نَرِ وَلنّار؟ فیقال: مررتم

 

۴۸

 

علیھا وَھِیَ خَامِدَۃٌ۔ کچھ لوگ بہشت کے دروازوں پر آکر کہیں گے کہ آیا ہم سے ہمارے ربّ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ تم آگ سے گزرو گے؟ تو ان سے کہا جائے گا کہ تم اس سے گزر کر آئے درحالے کہ وہ تمہارے لئے بجھادی گئی ۔ مثنوی دفترِ دوم میں ہے:

 

مومنان درحشر گویند ای ملک                  نی کہ دوزخ بود راہِ مشترک؟

مومن و کافر برآن باید گذار                      ما ندیدیم اندر این رہ دود و نار

نک بہشت و بارگاہِ ایمنی                         پس کجا بود آن گذر گاہِ دنی

پس ملک گوید کہ آن روضۂ خضر            کان فلان جا دیدہ اید اندر گزر

دوزخ آن بود و سیاشگاہِ سخت                  برشما شد باغ و بستان و درخت

 

ترجمہ: مومنین قیامت کے دن (بہشت میں ) کہیں گے کہ اے فرشتہ! کیا دوزخ سب کے لئے مشترکہ راستہ نہ تھا؟ جس پر مومن اور کافر (دونوں) کو گذرجانا چاہئے، لیکن ہم نے اس راہ میں نہ کوئی دھواں دیکھا نہ آگ ، یہ تو بہشت اور بارگاہِ امن و آسائش ہی ہے، سو وہ بری گذرگاہ کہاں تھی؟ پس فرشتہ جواب دے گا کہ وہ سرسبزو شاداب باغ و گلشن جس کو تم نے فلا ن جگہ گزرتے ہوئے دیکھا تھا، وہی دوزخ اور عذاب کی جگہ تھی، لیکن دوزخ تمہارے حق میں باغ و گلشن اور گل و گلزار ہو گیا۔ (احادیثِ مثنوی ص: ۶۳۔ ۶۴)۔

حکیم پیر ناصر خسرو قدس اللہ سرہٗ کی مایۂ ناز اور شہرۂ آفاق کتاب “زاد المسافرین” کے آخری قول (بیست و ھفتم) کا عنوان ہے: اندر ایجادِ ثواب و عقاب۔ آپ اس کو بھی پڑھ لیں، خصوصاً مذکورہ دونوں آیتوں

 

۴۹

 

کی تفسیر و تاویل کے لئے از صفحہ ۴۷۹ تا ۴۸۲ کو دیکھ لیں، نیز کتابِ وجہِ دین ، کلام ۵ میں بہشت اور کلام ۷ میں دوزخ کا بیان ہے، آپ اس کا بھی مطالعہ کریں۔

 

یکم جنوری ۱۹۹۵ء

 

۵۰

 

خداوندِ کریم کا عشق

 

حدیثِ شریف ہے:

سَبَقَ الْمُفَرِّدُوْنَ، یا یوں فرمایا: طُوْبیٰ لِلْمُفَرِّدِیْنَ، قِیْلَ مَاالْمُفَرِّدُوْنَ؟ قَالَ الَّذِیْنَ ھْتَزُّوْ انِیْ ذِکْرِاللہِ تَعَالیٰ، یَا اِھْتَزُّوْ ا فِیْ ذِکْرِاللہِ تَعَالیٰ، آنضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا: مفرد لوگ آگے بڑھ گئے، یا اس طرح فرمایا، خوشی اور مبارک بادی ہے مفرد لوگوں کے لئے، عرض کیا: مفرد لوگ کون ہیں؟ فرمایا، وہ لو گ جو اللہ کی یاد میں جھومتے رہتے ہیں۔ حضراتِ صوفیہ نے کہا: مفرد وہ لوگ ہیں جن کو خداوندِ کریم کا عشق ہے، ماسوٰی اللہ سے ان کو کچھ غرض نہیں (لغات الحدیث، جلدِ سوم، لفظِ فرد کے تحت)۔

رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اس پُرحکمت ارشاد میں بڑی عجیب و غریب اور زبردست مفید روحانی سائنس پوشدہ ہے، وہ یہ کہ انسانی بدن بیشمار زندہ خلیات کا مجموعہ ہے، یہ خلیے کھاتے پیتے، سوتے اور جاگتے ہیں وہ ڈرتے بھی ہیں، شادمان بھی ہو جاتے ہیں، پس بدن کی نرم حرکت سے ان میں انبساط، خوشی اور عشق پیدا ہو جاتا ہے، اسی وجہ سے ذکرِ الٰہی میں جھومنے والوں کی ایسی شاندار تعریف کی گئی ۔

 

یکم جنوری ۱۹۹۵ ء

 

۵۱

 

نعاس ایک راز

 

نعاس کی لفظی تحلیل:

اَلنُّعَاسُ کے معنی اونگھ یا ہلکی سی نیند کے ہیں، سورۂ انفال میں ہے: إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِنْهُ (۰۸: ۱۱) جس وقت کہ ڈال دی اس نے تم پر اونگھ اپنی طرف سے تسکین کے واسطے ۔ اسی طرح آلِ عمران میں ہے: ثُثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا يَغْشَى طَائِفَةً مِنْكُمْ (۰۳: ۱۵۴) پھر تم پر اتارا تنگی کے بعد امن کو جو اونگھ تھی کہ ڈھانک لیا اس اونگھ نے بعضوں کو تم میں سے۔

ظاہری جہاد مثال ہے اور روحانی جہاد ممثول، ہادیٔ برحقؑ کی روشن ہدایات کے مطابق شب خیزی اور نورانی ذکر جہادِ اکبر ہے، اس میں قرآنِ عظیم اور امامِ مبینؑ کے بیحد و بے شمار معجزات پنہان ہیں، ان میں سے ایک مختصر ترین معجزہ جو چشمِ زدن میں رونما ہو جاتا ہے، نعاس ہے، وہ یوں کہ بعض دفعہ خصوصی ذکر کے دوران وسوسے یا پریشان خیالات مومنِ سالک کو تنگ کرنے لگتے ہیں، ایسے میں اگر خداوندِ قدوس کی عنایت ہوئی تو ایک معجزانہ اونگھ (نعاس) طرفۃ العین میں طاری ہو کر سارے وسوسوں کوختم کر ڈالتی ہے، البتہ اس میں قوّتِ عزرائیلیہ پوشیدہ ہے۔

 

۵۲

 

اَمَنَۃَّ مِّنْہُ، یہ اونگھ اللہ کی جانب سے دلجمعی کی خاطر تھی، ظاہر ہے کہ یہ عام نیند نہیں ہے، کیونکہ یہاں حق تعالیٰ کے احسان کا ذکر ہے، اور خدائے بزرگ و برتر کے احسان میں صرف خواص کے لئے کوئی خاص نعمت ہوا کرتی ہے، جو عوام کو نصیب نہیں ہوتی۔

 

یکم جنوری ۱۹۹۵ ء

 

۵۳

 

لفظِ اللہ کے بارے میں

 

بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں اِلٰہٌ ہے، ہمزہ یا الف (تخفیفاً) حذف کر دیا گیا ہے (۔لٰہ) اور اس پر الف لام (تعریف) لا کر (ال + لٰہ = اللہ) باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے۔

اِلٰہٌ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں، پہلا قول: بعض نے کہا ہے کہ یہ اَلَہَ (ف) یَأ لَہُ قُلَانٌ و ثَالَّہٗ سے مشتق ہے، جس کے معنی پرستش کرنے کے ہیں، اس بناء  پر اِلٰہُ کے معنی ہوں گے معبود۔

دوسرا قول: بعض نے کہا کہ یہ اَلِہَ (س) بمعنی تحیُّر (حیرت) سے مشتق ہے، اور باری تعالیٰ کی ذات و صفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور درماندہ ہیں، اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے۔

تیسرا قول: بعض نے کہا ہے کہ اِلٰہٌ اصل میں وِلَاہٌ ہے، واؤ کو ہمزہ (الف) سے بدل کر اِلَاہ (اِلٰہ) بنا لیا ہے، اور وَلِہَ (س) کے معنی عشق و محبت میں وارفتہ اور بے خود ہونے کے ہیں، اور ذاتِ باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے، اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے۔

چوتھا قول: بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل لَاہَ یَلُوْہُ

 

۵۴

 

لِیَاھاً سے ہے، جس کے معنی ہیں پردہ میں چھپ جانا، اور ذاتِ باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے۔ (مفردات القرآن۔ مادّہ: ال ہ)۔

اگر چہ ان میں سے ہر قول درست اور منطقی ہے، تاہم لفظِ اللہ میں جس طرح عشق و محبت کے معنی مثلِ خزانہ پوشیدہ ہیں، وہ بڑے عجیب و غریب ہیں، جب یہ حقیقت ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ عشق و محبت کا سرچشمہ ہے، تو اس کے ہر اسم اور قرآن کی ہر آیت میں عشقِ الٰہی کا راز پوشیدہ ہو سکتا ہے، کیونکہ تمام اسما ء اسمِ “اللہ” کے تحت ہیں، اور قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، پس چشمِ بصیرت سے قرآن میں جہاں بھی دیکھا جائے وہاں عشق ہی عشق نظر آئے گا۔

 

۲؍ جنوری  ۱۹۹۵ ء

 

۵۵

 

ایک عظیم راز

 

ایک حدیثِ شریف ہے: نَزَلَ الْقُرْاٰنُ عَلیَ سَبْعَۃِ اَحْرُفٍ۔ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے۔ سورۂ شوریٰ کے شروع (۴۲: ۰۱ تا ۰۲) میں ہے: حٰمٓ ۔ عٓسٓقٓ۔ جس کی ایک تاویل یہ ہے: ح م = محمد ۔ ع س ق = عشق، یعنی عشقِ محمد، دوسری تاویل: ح م = اَلْحَیُّ الْقَیُّوْم۔ ع س ق = عشق، بمعنیٔ عشقِ علیِٔ زمان جو اللہ تعالیٰ کا اسمِ بزرگ (اَلحیُّ الْقَیُّوم) ہیں، اس کا اشارہ یہ ہے کہ پیغمبر اور امام علیھما السّلام کی اطاعت و محبت اور عشق سے کسی مرید کو روحانی و عرفانی کا میابی حاصل ہو سکتی ہے۔

مولا علی صلوٰۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے: انا و محمد نور واحد من نور اللہ۔ میں اورحضرتِ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) خدا کے نور سے ایک ہی نور ہیں، آپؑ نے یہ بھی فرمایا: انا حاء الحوامیم۔ میں قرآنِ حکیم کے حوامیم کا حرفِ حاء (ح) ہوں۔ یعنی اَلْحَیّ القیّوم) جو خداوندِ عالم کا اسمِ اعظم ہے، حوامیم جمع ہے حٰمٓ کی، جو سات سورتوں کے شروع میں ہیں: ۱۔ غافر          ۲۔ حَمٓ السّجدہ

 

۵۶

 

۳۔ شوریٰ       زُخرف                   ۵ ۔ دخان                 ۶۔ جاثیۃ                  ۷۔ احقاف۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السّلام کے اس خطبۃ البیان کو بھی دیکھیں:

انا لؤلؤ الاھداف، انا جبل قاف، انا سر الحروف، انا نور الظروف۔ میں ہی گوہرِ مقاصدِ عالی ہوں، میں ہی باطنی کوہِ قاف ہوں، میں ہی حروفِ قرآن خصوصاً حروفِ مقطعات کا راز ہوں، اور میں ہی کاملین کے بواطن کا نور ہوں۔

کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت ۸۳ میں ہے: قال امام المعشوقین کرم اللہ وجھہٗ: انا الاسمُ الاعظمُ، وھو کٓھٰیٰعٓصٓ ( ۱۹: ۰۱) یعنی میں ہوں اسمِ اعظم کہ وہ  کٓھٰیٰعٓصٓ ہے ۔ یعنی حضرتِ امام عالی مقام اللہ تعالیٰ کا وہ اسمِ اکبر ہیں، جس میں ذاکرین کے لئے پانچ عظیم چیزیں ہیں: ک =کرم، ھ =ہدایت، ی = یقین، ع =عشق، ص= صدق۔

 

۵۷

 

سورۂ قمر

 

اس سورۂ مبارکہ میں سے چند تاویلی حکمتیں اس طرح ہیں: ۱۔ وَانْشَقَّ الْقَمَرْ (۵۴: ۰۱) اور چاند شق ہو گیا۔ اس میں بعض نے کہا ہے کہ اِنشقاق قمر آنحضرتؐ کے زمانہ میں ہوچکا ہے، اور بعض کا قول ہے کہ یہ قیامت کے قریب ظاہر ہوگا، اور بعض نے اِنْشَقَّ الْقَمَرْ کے معنی وَضَعَ الْاَمْرُ کئے ہیں، یعنی معاملہ واضح ہو گیا ۔ ( مفردات القرآن، مادہ: ش ق ق)

اصولِ حکمت کے مطابق دورِ امامت میں امام علیہ السّلام سورج اور حجّت چاند ہیں، جب مومنِ سالک امام سے واصل ہو جانے کے لئے حجّت تک پہنچ جاتا ہے تو وہ بھی چاند کہلاتا ہے، اور اس کی منجمد روح شقِ ہوکر انفرادی قیامت شروع ہو جاتی ہے۔

۲۔ حِکْمَۃٌ بَالِغَۃٌ (۵۴: ۰۵) درجۂ انتہا کی دانائی، ایسی انتہائی بلندی کی حکمت جس میں اسرارِ ازل و ابد کی خبر ہو، یہ تمام قرآنی حکمتوں کی تعریف ہے کہ ہر حکمت اسی شان کی ہوا کرتی ہے۔

۳۔يَوْمَ يَدْعُ الدَّاعِي إِلَى شَيْءٍ نُكُرٍ(۵۴: ۰۶) جس دن بلانے والا ایک اجنبی چیز کی طرف بلائے گا۔ اجنبی چیز حضرتِ امامؑ ہی ہے، کیونکہ اکثر لوگ اس کو نہیں پہچانتے ہیں، یہ داعی اسرافیل ہے جو آخراً

 

۵۸

 

زبردستی دعوتِ حق کرتا ہے۔

۴۔ لوگ قبروں سے نکل پڑیں گے، گویا وہ پھیلی ہوئی ٹڈیاں ہیں (۵۴: ۰۷) اس قیامت میں لوگوں کے نمائندہ ذرّات ہی ہوں گے ، جو ٹڈیوں کی طرح اڑتے ہوئے آئیں گے، دعوتِ حق کا مرکز اس شخص میں ہوگا، جس میں انفرادی قیامت برپا ہو رہی ہو۔

۵۔وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (۵۴: ۱۷) اور ہم نے تو قرآن کو ذکر (عبادت و نصیحت) کے واسطے آسان کر دیا ہے تو کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے؟ یہ آیۂ مبارکہ اس سورہ میں چار مرتبہ آئی ہے، ظاہر ہے کہ اس میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ قرآنِ عظیم جو ظاہر ہے، وہ نورانی معلم (امامِ مبین ۳۶: ۱۲) اور اسمِ اعظم میں ذکر و نصیحت اور علم و عمل کے لئے آسان کردیا ہے۔

 

۳؍ جنوری ۱۹۹۵ ء

 

۵۹

 

رحمتِ کل

 

سورۂ انبیا ٔ کی اس پر حکمت آیۂ کریمہ میں زبردست ایمانی کشش موجود ہے: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (۲۱: ۱۰۷) ہر چند کہ بہت سے مستند ترجمے ہیں، تاہم یہ مسئلہ حل طلب ہے کہ “عالمین” سے کون کون سی دنیائیں مراد ہیں؟ حالانکہ یہ جہان ایک ہے، اور عالمِ انسانیّت بھی ایک ہی ہے، پس اس کا درست جواب یہی ہے کہ عالمین سے عوالمِ شخصی مراد ہیں، کیونکہ بروایتِ حضرتِ امام جعفر الصادق علیہ السّلام عالمین سے صرف انسان ہی مراد ہیں، کہ ان میں سے ہر ایک فرد اپنی جگہ ایک مستقل عالم ہے، پس یقیناً حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا نورِ اقدس زمانۂ آدمؑ سے لے کر قیامتِ کبریٰ تک تمام عوالمِ شخصی کے لئے رحمتِ کل ہے، جس میں ہر نبی اور ہر ولی کا عالمِ شخصی شامل ہے۔

نورِ اوّل اور شخصیتِ آخر:

حضرت محمد مصطفےٰ سردارِ انبیاء  اپنے نورِ اقدس میں سب پیغمبروں سے اوّل اور پاک شخصیّت میں ان سے آخر ہیں، لہٰذا یہ جو ارشاد ہوا: فَبِھُدٰ ھُمُ اقْتَدِہْ۔ تو تم انہیں (پیغمبروں ) کی ہدایت کی پیروی کرو

 

۶۰

 

( ۰۶: ۹۰) وہ ظہور شخصیّت کے اعتبار سے ہے، اور یہ بڑے کمال کی بات ہے کہ کوئی ہستی نورِ اوّل بھی ہو، قلمِ اوّل اور عقلِ اوّل بھی، اور انبیاء کا خاتم بھی ہو، وہ اپنی نورانی مرتبت میں ہادیوں کا ہادی ہو، اور پھر جسمانیّت میں ان کی پیروی بھی کرے، ایسے میں اس کا مرتبہ بڑا عجیب و غریب اور سب سے عظیم ہوگا۔

رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سب سے پہلے انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کے عوالمِ شخصی کے لئے رحمت ہیں، اس لئے ہر نبی اور ہر ولی کی تعریف دراصل ہمارے پیغمبرِ اکرمؐ کی تعریف ہے، کیونکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں سب مسلمان مانتے ہیں کہ حضرتِ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سردارِ انبیاء و رسل ہیں، اور آپؐ ہی کی ذاتِ عالی صفات باعثِ تخلیق کائنات ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا: نَحْنُ الْاٰخِرُوْنَ السَّا بِقُوْنَ ۔ ہم (اہلِ بیت) اگرچہ آخر میں آئے ہیں، لیکن ہم کو ہر اعتبار سے اولیّت و سبقت حاصل ہے، یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے ہمارا نور پیدا کیا اور قیامت کے دن ہم سابقون کے سردار ہوں گے۔

قرآنِ حکیم اور حدیث شریف میں جہاں جہاں انبیاء و رسل علیہم السّلام کا یکجا تذکرہ آیا ہے وہاں ان مقدّس ہستیوں کی اعلیٰ جماعت اور سردار کا تصوّر ہے، اور وہ نامدار سردار حضرت محمد مصطفےٰ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ہی ہیں، اس لئے کہ جب دین و دینا کا کوئی گروہ

 

۶۱

 

حق یا باطل سردار کے بغیر نہیں ہوسکتا تو گروہِ انبیاء سردار کے بغیر کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ خاص (حضرت محمدؐ) کو جو مرتبہ عنایت فرمایا ہے، اس کی سب سے روشن دلیل خود قرآنِ عظیم ہی ہے، جو عالمِ ہست و بود میں سب سے عظیم معجزہ ہے، جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، اور قرآنِ عزیز عالمِ انسانیّت کو جن خوبیوں اور کمالات کی تعلیم دیتا ہے، ان اوصاف کا بہترین نمونہ بھی حضورِاکرم صلعم ہی ہیں۔

خوب یاد رکھو کہ قرآنِ مجید نہ صرف آج دنیا میں ظاہر ہے، بلکہ یہ ازل سے بہ تحریرِ روحانی لوحِ محفوظ میں بھی موجود ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) اس صورت میں ہر ہوش مند کو یہ ماننا لازمی ہے کہ قرآنِ عظیم کے آفاقی قوانین تاریخِ انسانیّت کی ابتداء ہی سے جاری اور واجب العمل ہیں، مثال کے طور پر: ۔

قَدْ جَاءَكُمْ مِنْ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ (۰۵: ۱۵ بیشک تشریف لایا ہے تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور اور ایک کتاب ظاہر کرنے والی ) اس حکمِ الٰہی کا مفہوم و خلاصہ زمانۂ آدمؑ کی ہدایت میں موجود تھا، کیونکہ یہ آفاقی قوانین میں سے ہے۔

اس حقیقت کی پہلی دلیل: قرآنِ پاک کا خلاصہ یا جوہر اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں بھی ہے (۲۶: ۱۹۶) دوسری دلیل: حضرتِ آدمؑ میں نبیٔ رحمتؐ کا نور تھا، جس کا دوسرا نام الٰہی روح ہے، اور کتاب ان کی روحانیّت تھی۔ تیسری دلیل: نورِ الٰہی کا مظہر نبی اور ولی (امام) ہوا

 

۶۲

 

کرتا ہے، اور آسمانی کتاب کی نورانیّت بھی اسی نور میں ہوتی ہے، چوتھی دلیل: اللہ جل جلالہ نے اپنے تمام پیغمبروں پر ایک مشترکہ کتاب نازل فرمائی، وہ کتابِ روحانیّت (الکتاب ۰۲: ۲۱۳) ہے، جس کے مختلف ظہورات ہوئے، اور اس کا ظہورِ کامل قرآنِ حکیم ہے، پس نور اور کتاب ہر زمانے میں موجود ہے۔

 

۴؍ جنوری ۱۹۹۵ ء

 

۶۳

 

وعدۂ خلافت

 

سورۂ نور ( ۲۴: ۵۵) میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک عظیم الشّان ارشاد ہے: (ترجمہ): ( اے ایمان والو) تم میں سے جن لوگوں نے ( حقیقی معنوں میں) ایمان لایا اور اچھے اچھے کام کئے ان سے خداوندِ قدوس نے وعدہ فرمایا ہے کہ ان کو روئے زمین پر ضرور (اپنا) نائب (خلیفہ) مقرر کرے گا، جس طرح ان لوگوں کو نائب بنایا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں، اور جس دین کو اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے، اس پر انہیں ضرور پوری قدرت دے گا، اور ان کی (موجودہ) حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا، وہ (اطمینان سے) میری ہی عبادت کریں گے اور کسی کو میرا شریک نہ بنائیں گے، اور جو شخص اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں ( ۲۴: ۵۵)۔

اللہ جلّ شانہ کی بنائی ہوئی زمین صرف یہی نہیں، جس پر آج ہم سب لوگ رہتے ہیں، خدا کی بے پایان زمین دراصل ارضِ بہشت ہی ہے، جو اپنی بےشمار کاپیوں کے ساتھ کائنات کا ظاہر و باطن ہے، اور ذیلی طور پر ہر ستارہ ایک زمین ہے، جس پر اجسام لطیف کی زندگی اور خلافت کی بڑی سے بڑی گنجائش ہے، جیسا کہ سورۂ

 

۶۴

 

عنکبوت (۲۹: ۵۶) میں فرمایا گیا ہے: ۔

یٰعِبَادِیّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ آ اِنَّ اَرْضِیْ وَ اسِعَۃٌ فَاِ یَّا یَ فَاعْبُدُ وْنَ۔ اے میرے ایماندار بندو! میری زمین تو یقیناً ( بیحد) کشادہ ہے تو تم (نورِ معرفت کی روشنی میں) میری ہی عبادت کرو۔ اس میں مذکورۂ بالا خلافت کی طرف اشارہ ہے۔

سورۂ زخرف (۴۳: ۶۰) میں ہے: وَلَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَلاَئِكَةً فِي الأَرْضِ يَخْلُفُونَ۔ اگر ہم چاہیں تو تم سے فرشتے بنائیں جو زمین میں خلافت کریں ۔ اس آیۂ شریفہ میں یہ اشارہ ہے کہ جب مومنین و مومنات روحانی ترقی سے فرشتے بن جائیں گے تو تب ہی وہ ستاروں کی خلافت کر سکتے ہیں، اس سے پہلے نہیں، کیونکہ وہاں جسمِ فلکی کی سلطنت ہے، یادرہے کہ مومن آدمی سے مومن جنّ پیدا ہو جاتا ہے، اور کافر انسان سے کافر جنّ، پھر مومن جنّ کا دوسرا نام فرشتہ اور کافر جنّ کا دوسرا نام شیطان ہے۔

جس طرح زمین پر اپنی قسم کی مخلوقات ہیں، اسی طرح آسمان میں بھی اپنی نوعیت کی مخلوقات ہیں، جیسا کہ سورۂ شوریٰ میں ارشاد ہے: وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِنْ دَابَّةٍ وَهُوَ عَلَى جَمْعِهِمْ إِذَا يَشَاءُ قَدِيرٌ (۴۲: ۲۹) اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے سارے آسمان و زمین کا پیدا کرنا، اور یہ جاندار مخلوقات جو اس نے دونوں جگہ پھیلا رکھی ہیں، وہ جب چاہے انہیں اکٹھا کرسکتا (۴۲: ۲۹)۔

 

۶۵

 

یہ آئمۂ آلِ محمد صلوٰۃ اللہ علیہم کی نورانی تعلیمات و تائیدات کی برکات ہی ہیں کہ مشرق و مغرب کی ہماری بے حد پیاری کلاسوں میں (جس کی غرض نیک نام جماعت کی علمی خدمت ہے) بار بار عالمِ شخصی کا بیان ہوتا رہا، اور بالآخر کائنات کی کاپیوں سے متعلق اسرار بھی خداوندِ قدّوس کے فضل و کرم سے منکشف ہو گئے،الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔

عالمِ شخصی اور کائنات کی کاپی سے یہ مراد ہے کہ خدائے برترو بے نیاز اپنے دوستوں اور خاص بندوں کو اس شان سے نوازنا چاہتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک ذاتی اور انفرادی کائنات کی خلافت و سلطنت عطا کی جائے، جس کی وجہ سے ہر بار “کُنۡ” فرما کر ایک جہانِ جدید کو پیدا کرتا ہے، کیونکہ بموجبِ قرآنِ حکیم اس کی صفتِ خالقیت کی تعریف نہ صرف خَلَقَ (پیدا کیا) ہی میں ہے بلکہ اس کی توصیف یَخْلُقُ (پیدا کرتا ہے) میں بھی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: ۔

لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ۔ اللہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے (۴۲: ۴۹) یعنی جب اللہ چاہے تو ایک نئی کائنات پیدا کر کے اس کی خلافت و سلطنت کسی بندۂ خاص کو عنایت کر سکتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات ۳؍ شعبان المعظم ۱۴۱۵ ھ   /  ۵؍جنوری ۱۹۹۵ ء

 

۶۶

 

حضرتِ آدمؑ کا عالمِ شخصی

 

ارشادِ خداوندی ہے: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ  (۲۱: ۱۰۷) اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر رحمت بنا کر سارے عوالمِ شخصی کے لئے، اس آیۂ کریمہ سے ایک طرف تو یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے کہ قرآنِ پاک میں جہاں جہاں رحمت کا ذکر آیا ہے، وہاں بلاشبہ آنحضرتؐ کی نورانی ہستی کا تذکرہ ہے، کیونکہ رحمتِ کل آپؐ ہی کا نورِ اقدس ہے اور دوسری طرف صاف طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا کے حکم سے نورِ محمدی نے بعنوانِ رحمت سب سے پہلے حضرتِ آدمؑ کے عالمِ شخصی میں کام کر دیا۔ کیونکہ قصّۂ آدمؑ میں جس خاص روح (۱۵: ۲۹، ۳۲: ۰۹، ۳۸: ۷۲) کا ذکر آیا ہے، اس سے نورِ محمدی مراد ہے۔

کتابِ کوکبِ دری، بابِ دوم، منقبت نمبر ۱ میں جو حدیث شریف ہے اس کو غور سے پڑھ لیں، خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم میں محمد و علی کا مقدّس نور قائم کیا تھا، اور یہی نور انبیائے قرآن کے سلسلے میں چلا آیا، نور جہاں بھی ہو زندہ، گویندہ، اور دانندہ ہوتا ہے، اس کے افعال و اوصاف ہمیشہ متحرک اور جاری و ساری رہتے ہیں، جیسے سورج کے اندرونی دھماکے نہ کبھی خاموش ہو سکتے ہیں، اور نہ شعاعوں

 

۶۷

 

کا طوفان کبھی تھم سکتا ہے، اسی طرح نورِ مقدّس کے باطن میں خود بخود بولنے والے قیامت خیز اسماء الحسنیٰ ہیں، جن کی وجہ سے بے شمار روحیں کائناتی حرکت میں ہیں، تاکہ اس انتہائی عظیم عمل سے عالمی یا کائناتی زندگی کی لہر دوڑتی رہے۔

الغرض محمد و علی صلوٰۃ اللہ علیہما کا نورِ اقدس تھا، جس کو خدائے بزرگ و برتر نے رُوْحِیْ (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) فرمایا، جس کے لئے فرشتوں نے مقامِ روحانیّت پر بھی اور مرتبۂ عقلانیّت پر بھی سجدہ کیا، خوب ذمہ داری سے یاد رکھو کہ مرتبۂ عقل ہی مرتبۂ معراج ہے، جہاں تمام حقیقتیں اور معرفتیں جمع ہیں، کیوں؟

۱۔ اس لئے کہ وہاں علم و حکمتِ الٰہی کے خزائن (۱۵: ۲۱) ہیں۔

۲۔ اس لئے کہ وہاں خداوندِ عالم نے آسمان زمین کے سارے اسرار کو لپیٹ کر رکھا ہے ۔ (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷)

۳۔ اس لئے کہ وہاں روحانی سفر ختم ہو جاتا ہے۔ (۲۰: ۱۲)

۴۔ اس لئے کہ وہاں حظیرۃ القدس ہے، یعنی احاطۂ اسرارِ ازل و ابد۔

۵۔ اس لئے کہ وہاں کتابِ مکنون ہے ( ۵۶: ۷۸)

۶۔ اس لئے کہ وہاں امامِ مبینؑ کا نورِ عقل ہے (۳۶: ۱۲)

۷۔ اس لئے کہ وہاں کُنْتُ کَنْزاً مَخْفِیّاً کے اسرار مکشوف ہیں۔

۸۔ اس لئے وہاں قریب لائی ہوئی عرفانی بہشت موجود ہے۔ (۲۶: ۶۴، ۲۶: ۹۰)

۹۔ اس لئے کہ وہاں ام الکتاب ہے (۴۳: ۰۴)

 

۶۸

 

۱۰۔ اس لئے کہ وہاں دواتِ دہنِ مبارک، قلمِ عقل، اور لوحِ محفوظ ہے (۶۸: ۰۱) ۔

۱۱۔ اس لئے کہ وہاں آسمانوں اور زمین کے تمام امور کا رجوع ہے۔ (۱۱: ۲۳)

۱۲۔ اس لئے کہ وہاں اللہ تعالیٰ کے بابرکت ہاتھ میں ہر چیز کا ملکوتی جوہر ہے ۔ (۲۳: ۸۸، ۳۶: ۸۳)

۱۳۔ اس لئے کہ وہاں وجہ اللہ کے سوا ہر شخص اور ہر چیز فانی ہے۔ (۵۵: ۲۷، ۲۸: ۸۸)۔

پروردگارِ عالمین نے حضرتِ آدمؑ اور بنی آدم (کاملین) کے روحانی عروج و ارتقاء کے ساتھ ساتھ ان کی پشتوں سے ذرّیت کو بھی پیشانی کی معراج پر اٹھا لیا، اور ان کو اپنی اصل روح کا مشاہدہ (دیدار) کرایا، اس وقت وہ سب یک حقیقت میں فنا ہو گئے تھے، یہ پرورش کا درجۂ کمال تھا، اس لئے پوچھا کہ آیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ وہ کہنے لگے، کیوں نہیں (۰۷: ۱۷۲)۔

اللہ تعالیٰ کی پاک و پُرحکمت سنّت ہمیشہ اس کے خاص بندوں یعنی انبیاء و اولیاء میں ایک جیسی رہی ہے، ان سب کے روحانی واقعات دراصل ایک جیسے ہیں، مگر ان کی مثالیں طرح طرح سے بیان کی گئیں، تاکہ لوگوں سے علم و معرفت کا امتحان لیا جائے، آپ سنّتِ الٰہی سے متعلق آیاتِ کریمہ کو بار بار خوب غور سے پڑھیں، اور اس قرآنی ہدایت میں بھی چشمِ بصیرت سے دیکھنا ہے: لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ (۰۲: ۱۳۶)

 

۶۹

 

ہم فرق نہیں کرتے ان سب (پیغمبروں ) میں سے ایک میں بھی۔ یہ فرق جغرافیائی، زمانی، لسانی وغیرہ تو ہے ہی ، اور درجات میں بھی فرق ہے (۰۲: ۱۵۳) مگر روحانیّت میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ سبھی صراطِ مستقیم پر چل کر منزلِ مقصود میں پہنچ گئے۔

اللہ کے حکم سے نورِ محمدی نے جملہ انبیاء کو معراج تک رہنمائی کی، پھر وہ سب اپنی اپنی امت کے لئے معارج (سیڑھیاں ۷۰: ۰۳) ہو گئے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے وقت میں روحانیّت کی سیڑھی (معراج) بھی ہے، اللہ کی رسی بھی، اور صراطِ مستقیم بھی۔

 

۷۰

 

حضرتِ ابراہیمؑ کی معراج

 

اللہ جل شانہ کا مبارک ارشاد ہے: وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنْ الْمُوقِنِينَ (۰۶: ۷۵) ابراہیمؑ کو ہم اسی زمین اور آسمانوں کا نظامِ سلطنت دکھاتے تھے اور اس لئے دکھاتے تھے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے۔ یعنی خداوندِ قدّوس نے اپنے خلیلؑ کو مرتبۂ حق الیقین کے اسرارِ معرفت کا مشاہدہ کرا کر عارفِ کامل بنایا تھا، اور یہیں منزلِ فنائے عقلی، گنجِ ازل، حظیرۃالقدس، فردوسِ برین، اور مرتبۂ معراج ہے۔

حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے چشمِ باطن سے ربِّ کریم کی پاک تجلّی کا مشاہدہ کیا، جس کے سوا یقین و معرفت کا درجۂ کمال ممکن ہی نہیں، اس کے کئی قرآنی ثبوت ہیں، پہلا ثبوت: آپؑ کو جب عالمِ شخصی کی معراج ہوئی تو اس وقت آپؑ نے دستِ حق میں جوہرِ ارض و سماء یعنی لؤلوئے عقل کو دیکھا، جس کے بے شمار اسماء میں سے ایک اسم “ملکوت” ہے، جیسا کہ سورۂ یٰسٓ (۳۶: ۸۳) میں فرمایا گیا ہے:

فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ۔ تو اس کی ذات پاک ہے جس کے ہاتھ میں تمام چیزوں کا

 

۷۱

 

ملکوت ہے، اور تم سب کو لوٹ کر اسی کے پاس جانا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سب لوگ اللہ کے حضور ہی سے آئے ہیں، جہاں کاملین کو معراج ہوتی ہے، اور سب کو لوٹ کر وہاں جانا ہے۔

دوسرا ثبوت: حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام اپنے روحانی سفر اور باطنی مشاہدات کے سلسلے میں ستارہ، چاند اور سورج سے نہ تو محبت کرتے ہیں اور نہ ہی مطمئن ہو جاتے ہیں (۰۶: ۷۶ تا ۷۸) لیکن جب آپؑ اسی مقام پر اپنا چہرۂ جان خالقِ ارض و سما کی طرف کرتے ہیں تو یکایک مطمئن نظر آتے ہیں، پھر اسی دیدارِ اقدس اور اعلیٰ معرفت کی روشنی میں شرک کی مذمت اور توحید کی تعریف کرنے لگتے ہیں، اس سے اہلِ بصیرت یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یہی مقامِ معراج ہے، جہاں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو خداوندِ قدوس کا پاک دیدار ہوا، جس سے آپؑ خود شناسی اور خدا شناسی یعنی معرفت کے درجۂ کمال پر پہنچ گئے (۰۶: ۷۹)۔

تیسرا ثبوت: قرآنِ حکیم حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو موحدِّ اعظم قرار دیتا ہے، اس سے ہمیں یہ یقین آیا کہ آپؑ نے صورتِ رحمان میں اپنی انائے علوی کا دیدار کیا تھا، اور یہ اہلِ دانش کے نزدیک یک حقیقت (مونوریالٹی) کا سب سے عظیم راز اور معراج ہے۔

چوتھا ثبوت: قرآنِ پاک میں ہے: قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا (۰۲: ۱۲۴) خدا نے (ابراہیمؑ سے) فرمایا

 

۷۲

 

میں یقیناً تم کو لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں ۔ ظاہر ہے کہ جس کو اللہ پیشوا (امام) بنائے، وہ لوگوں کو نورِ ہدایت کی روشنی میں فرشِ زمین سے عرشِ برین تک لے جاسکتا ہے، پس حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی قرآنی تعریف ہر امامِ حق کی تعریف ہے۔

پانچواں ثبوت: قرآنِ عزیز میں ایک مرتبہ “البْیْتُ المعمور” کا ذکر آیا ہے، اور یہ سورۂ طور (۵۲: ۰۴) میں ہے، بیتِ معمور یعنی اللہ کا زندہ اور تجلّیات سے معمور (آباد) گھر جو آسمانِ ہفتم پر ہے، جس سے حضرتِ امام علیہ السّلام کا نورانی مرتبہ مراد ہے جو کرسی اور عرش تک پاک و پاکیزہ ہستیوں کی ہدایت و رہنمائی کرنے کے لئے مقرر ہے، اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ نورِ امامت چاہے حضرت ابراہیمؑ میں ہو یا بعد کے کسی امامؑ میں، وہ علم و عبادت میں گداختہ مومنین کو دیدارِ الٰہی کے سب سے اعلیٰ مرتبے تک پہنچا دیتا ہے۔

چھٹا ثبوت: حضرتِ ربّ العزّت کا پاک و پر حکمت ارشاد ہے: فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا (۰۴: ۵۴) ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی ہے اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی۔ یہ آیۂ کریمہ نمائندہ آیات میں سے ہے، کیونکہ اس میں قانونِ دین کا ایک بڑا جامع خلاصہ موجود ہے، جس میں ایسے پانچ عظیم الشّان مضامین ہیں جو عرشِ اعلیٰ کو چھو رہے ہیں، وہ یہ ہیں: ۱۔ حضرتِ ابراہیمؑ                   ۲۔ آلِ ابراہیمؑ             ۳۔ الکتاب                ۴۔ حکمت                ۵۔ عظیم سلطنت۔           الغرض صاحبِ عرش نہ صرف ہادیانِ

 

۷۳

 

برحق علیہم السّلام ہی کو مرتبۂ معراج اور دیدارِ اقدس سے نوازتا ہے، بلکہ ان کی رہنمائی میں عالی ہمت مومنین و مومنات کو بھی یہ سب سے بڑی دینی نعمت عطا فرماتا ہے۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

اتوار ۶؍ شعبان المعظم ۱۴۱۵ ھ    /  ۸؍ جنوری ۱۹۹۵ء

 

۷۴

 

آلِ ابراہیمؑ

 

کتاب دعائم الاسلام، جلد اوّل، کتاب الولایۃ کے تحت جو مضامین ہیں ان کو ضروری طور پر پڑھ لیں، اور خوب غور سے دیکھ لیں، اس میں آپ کو أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کی تفسیری و تاویلی حکمتیں ملیں گی، ان مقدّس تعلیمات میں دینِ حق کی بہت سی اساسی حقیقتیں بیان کی گئی ہیں، وہ مضامین حسبِ ذیل ہیں: ۔

۱۔ ایمان                  ۲۔ اصولِ ایمان                  ۳۔ اسلام اور ایمان               ۴۔ ولایتِ امیرالمومنین علی ابنِ ابی طالبؑ               ۵۔ ولایتِ آئمۂ اہلِ بیتؑ                   ۶۔ محمد و آلِ محمدؐ پر صلوٰۃ کا بیان          ۷۔ آئمۂ آلِ محمد صلعم پر نص و توقیف کا بیان                   ۸۔ مسئلۂ امامت                  ۹۔ آئمۂ طاہرین علیہم السّلام کے درجات و منازل کا بیان            ۱۰۔ آئمۂ الہدیٰ کی وصیتوں کا بیان          ۱۱۔ حبِ اہلِ بیت کا بیان                    ۱۲۔ علم کی ترغیب اور طالبانِ علم کے فضائل کا بیان     ۱۳۔ کس سے علم حاصل کرنا اور کس سے نہ کرنا اور کس کے قول پر عمل نہ کرنا چاہئے۔

قرآنِ حکیم (۰۴: ۵۴) میں جس شان سے آلِ ابراہیمؑ کا ذکرِ جمیل فرمایا گیا ہے، اور اس میں جیسی عظیم حکمتیں عیان و پنہان موجود ہیں، وہ اہلِ دانش کے حق میں حقائق و معارف کا ایک لازوال خزانہ ہے، جبکہ آلِ ابراہیمؑ کا

 

۷۵

 

سلسلہ بصورتِ أئمّۂ آلِ محمد قیامۃ القیامات تک جاری و ساری ہے، کیونکہ رسالت و نبوّت تو اپنے وقت پر آکر ختم ہوگئی، لیکن کتاب، حکمت اور عظیم روحانی سلطنت کی وراثت خاندانِ محمدؐ کے أئمّہ (علیہ و علیہم السّلام ) سے وابستہ ہے، اور تمام لوگ بشرطِ پیروی اس خزانے سے بیش از بیش فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔

شعوری بت پرستی سے ہر مسلمان دور رہتا ہے، مگر غیر شعوری اصنام پرستی میں بہت سے لوگ گرفتار ہو جاتے ہیں، حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام علمِ امامت کی روشنی میں ظاہری و باطنی اصنام سے سخت نفرت کرتے تھے، تاکہ عشق و محبّت خدا ہی کے لئے خالص رہے، اسی مقصد کے پیشِ نظر آپؑ نے فرمایا: (ترجمہ) پس جو شخص میری پیروی کرے تو وہ مجھ سے ہے۔ (۱۴: ۳۶)

 

۹؍ جنوری ۱۹۹۵ ء

 

۷۶

 

وادیٔ مقدّسِ طوٰی

 

طوٰی کے معنی: طَوَی  یَطَوی  طَیّاً ۔   الثوب، کپڑا لپیٹنا (المنجد) إِنَّكَ بِالْوَادِي الْمُقَدَّسِ طُوًى (۲۰: ۱۲) تم (یہاں) پاک میدان (یعنی طویٰ میں ہو، کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ طوی اسی وادی المقدّس کا نام ہے جہاں حضرتِ موسیٰ پہنچ چکے تھے، اور بعض کہتے ہیں کہ طویٰ اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہے جس سے انہیں اجتباء کے طور پر نوازا گیا تھا، اگر وہ اس مرتبہ کو مساعی اور اجتہاد کی راہ سے حاصل کرنا چاہتے تو اس قدر طویل مسافت کو طے نہیں کر سکتے تھے، وادیٔ نبوّت تک پہنچنے کی تمام مسافتیں ان کے لئے لپیٹ دی گئیں (مفردات القران)۔

اس سلسلے میری عاجزانہ گزارش یوں ہوگی کہ ہر انسانِ کامل پر جب انفرادی قیامت گزرتی ہے تو اس وقت اللہ تعالیٰ عالمِ شخصی میں آسمانوں اور زمین کو لپیٹ لیتا ہے (نطوی: ۲۱: ۱۰۴، مطویات: ۳۹: ۶۷) یہی سرِعظیم حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کی وادیٔ مقدّسِ طویٰ میں بھی پنہان ہے، یہ مقامِ معراج ہے، جس میں تمام چیزیں بصورتِ جوہر لپیٹ دی جاتی ہیں، تاکہ قدرتِ خدا سے اسرارِ کون و مکان کا یکجا مطالعہ ہو جائے۔

سورۂ نازعات (۷۹: ۱۵ تا ۱۷) میں ہے: هَلْ أتَاكَ حَدِيثُ

 

۷۷

 

مُوسى۔ إِذْ نَادَاهُ رَبُّهُ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًىاذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى (اے رسولؐ) کیا تمہارے پاس موسیٰ کا قصّہ بھی پہنچا ہے، جب ان کو ان کے پرودگار نے طوٰی کے میدان میں پکارا کہ فرعون کے پاس جاؤ، وہ سرکش ہو گیا ہے۔

الوادی اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی بہتا ہو، اسی سے دو پہاڑوں کے درمیان کشادہ زمین کو وادی کہا جاتا ہے، مقدّس: پاک کیا ہوا، تقدیس سے اسم مفعول واحد مذکر، طوٰی کے معنی ہیں لپیٹنا۔

باطنی حکمت: وادیٔ مقدّسِ طویٰ مرتبۂ عقلِ اعلیٰ اور مقامِ معراج کے خاص ناموں میں سے ہے، جہاں ہمیشہ علمِ لدّنی کا پانی بہتا رہتا ہے، جس کا سرچشمہ کلمۂ باری ہے، دو پہاڑ عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ہیں، وہاں تک صرف وہی ذوات پہنچ سکتی ہیں جو پاک کی گئی ہیں، اسی معنیٰ میں وہ مقام بڑا مقدّس ہے، اس مقام پر علم و حکمت کی کائنات اور باطنی سفر کی مسافت لپیٹی ہوئی ہے، پس لفظِ طویٰ کی تاویلی حکمت یہی ہے۔

 

۹؍جنوری ۱۹۹۵ء

 

۷۸

 

کاملِ ترین رہنمائی

 

سردارِ انبیاء و رسل ہادیٔ سبل حضرتِ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی کامل ترین ہدایت و رہنمائی اور بہترین نمونۂ عمل (اسوۂ حسنہ) کے بارے میں کسی مسلمان کو کیا شک ہو سکتا ہے، آنحضرتؐ نے صراطِ مستقیم کے شروع سے آخر تک علم و عمل سے چل کر اور معراجِ حق الیقین کی منزلِ مقصود میں پہنچ کر دینِ فطرت کا عملی نمونہ پیش کیا، حضورِ اقدسؐ نے مرتبۂ معراج پر نہ صرف حقائق و معارف اور اسرارِ ازل و ابد ہی کا مشاہدہ کیا بلکہ آپ کو اللہ تعالیٰ کا پاک دیدار بھی حاصل ہوا، پھر اس کے بعد خداوندِ عالم نے یہ حکم دیا:۔

قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِي (۱۲: ۱۰۸) (اے رسولؐ) ان سے کہہ دو “میرا راستہ تو یہ ہے میں (لوگوں کو) اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی چشمِ بصیرت سے دیکھ رہا ہوں اور میرا پیرو بھی۔” جس شخص نے بحقیقت حضورؐ کی پیروی کی اور بصیرت کے ساتھ دعوتِ حق میں آپؐ کی ہر گونہ مدد کی وہ حضرت مولا علیؑ ہی ہیں۔

کوئی قبول کرے یا نہ کرے لیکن یہ بابصیرت دعوت دیدارِ الٰہی

 

۷۹

 

کی طرف ہے، کیونکہ اِلیٰ (تک) حرفِ جر ہے جو معنی کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے، یعنی دعوتِ حق مرتبۂ معراج، عرش اور دیدارِ خداوندی تک ہے، اگر دیدارِ پاک کسی طرح سے بھی نہ ہوتا تو اسلام میں منزلِ معرفت ہی نہ ہوتی، یعنی نہ خود شناسی ہوتی اور نہ خدا شناسی، اس حال میں کنزِ مخفی کس چیز کا نام ہوتا؟ اور سب سے بڑی نعمت کس شے کو کہا جاتا؟ اس مختصر بحث سے معلوم ہوا کہ رسولؐ اور امامِ برحقؑ کی حقیقی پیروی کے نتیجے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے دیدارِ اقدس کی انتہائی عظیم سعادت حاصل ہو جاتی ہے۔

اگرچہ دیدارِ الٰہی کے ثبوت میں قرآنِ حکیم کی بہت سی آیاتِ کریمہ موجود ہیں، تاہم یہاں ایک ہی آیۂ پُرحکمت پر اکتفا کرتے ہیں: لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ (۰۶: ۱۰۳) نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے۔ یعنی کسی کی چشمِ باطن کے لئے یہ ممکن نہیں کہ از خود خدا کو دیکھ سکے، لیکن جب اللہ اس کی چشمِ بصیرت ہو جاتا ہے تو یقیناً ربّ العزّت کا دیدار ہو جاتا ہے، اس کی ظاہری مثال سورج ہے کہ دراصل ہماری نظر سورج کے مقام تک نہیں جا سکتی، بلکہ آفتابِ عالم تاب ہماری آنکھ کے آئینے (پتلی) میں اپنا عکس ڈال رہا ہوتا ہے۔

ایک میں سب کو لپیٹنا:

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۱۰۴) میں  یہ ارشاد ہے: فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا۔ پھر جب آخرت کا وعدہ

 

۸۰

 

آجائے تو ہم تم سب کو لپیٹ کر لے آئیں گے، یعنی ایک ہی عالمِ شخصی میں سب کو ملفوف و مجموع کیا جائے گا، جیسے پہلے ایک ہی شخص سے دنیا کے تمام نفوس کو پھیلا دیا تھا، یہ انفرادی قیامت ہے، جس میں سب کی غیر شعوری قیامت برپا ہو جاتی ہے۔

معراجی تصوّرات:

عارفین و کاملین کو معراج کی سعادت اس لئے نصیب ہو جاتی ہے کہ وہ بار بار اس کا تصوّر کریں، جیسا کہ ارشاد ہے: وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (۹۳: ۱۱)اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا ذکر کرتے رہنا۔ ہر باطنی نعمت کا ذکر تصوّر ہی کے ساتھ ہوتا ہے، پس ربِّ کریم کے جن خاص بندوں کو معراجی درجے کی نعمتیں حاصل ہیں، وہ ہر بار ان کو بیان کرتے وقت معراج کا تصوّر کرتے ہوں گے، اور اس کے علاوہ ذکر و فکر میں بھی معراجِ حق الیقین کا تصوّر لازمی ہے۔

حق الیقین کا مقام وہ آخری منزل ہے جس میں سارے الفاظ، اقوال اور کلمات جمع ہو جاتے ہیں، ان کے معانی یکجا ہوتے ہیں، جملہ اشارات کا ایک ہی جامع الجوامع اشارہ ہوا کرتا ہے، ساری مثالیں مثل الاعلیٰ میں داخل و شامل ہو جاتی ہیں، روحانی ستارے اور چاند سورج کے ساتھ مل کر ایک ہو جاتے ہیں، اس حال میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا ایک ہی نور ہوتا ہے، وہ نور چہرۂ خدا ہے، اسی میں سب کو فنا ہو کر زندۂ جاوید ہو جانا ہے، چونکہ یہی مقام منزلِ فنا ہے

 

۸۱

 

اس لئے میں، ہم ، تو، تم ، وہ (واحد)، وہ (جمع) یہ ضمیریں سب کی سب “ھو” میں فنا ہو جاتی ہیں، کیونکہ پہلے “ھو” تھا، اب بھی “ھو” ہے، اور آئندہ بھی “ھو” ہوگا، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔

 

۱۰؍ جنوری ۱۹۹۵ء

 

۸۲

 

قرآن اور بہشت

 

یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ قرآنِ حکیم کا ہر بڑا اور چھوٹا مضمون براہِ راست یا بالواسطہ شروع سے لے کر آخر تک پھیلا ہوا ہے، اور پھیل سکتا ہے، اور بہشت کے موضوع کی اہمیّت و عظمت تو مسلّمہ ہے، چنانچہ جگہ جگہ اس کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، اور متقین کے لئے خوشخبری دی گئی ہے۔

یہ نکتہ قرآن و حدیث ہی کی روشنی میں ہے کہ بہشت لوگوں کی اکثریت کے اعتبار سے ایک نادیدہ و ناشناختہ جہان ہے، جبکہ وہ عالمِ آخرت ہے،  لیکن اس کی وجہ غفلت و جہالت کے سوا کچھ بھی نہیں درحالیکہ اللہ اپنے دوستوں کی جنّت کی معرفت عطا کر دیتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ  (۴۷: ۰۶) اور ان کو اس بہشت میں داخل کرے گا جس کا انہیں (پہلے سے) شناسا کر رکھا ہے۔

معرفت کے لئے تین درجے مقرر ہیں: علم الیقین ، عین الیقین اور حق الیقین، پس بہشت کی پہچان یقینی درجے کے علم سے شروع ہو جاتی ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے: ۔

كَلاَّ لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِلَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ

 

۸۳

 

لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ (تکاثر ۱۰۲: ۰۵ تا ۰۷) ہرگز نہیں، اگر تم علم الیقین جانتے تو دوزخ کو دیکھ سکتے، پھر تم اس کو عین الیقین سے دیکھ سکتے، اس کا اشارہ یہ ہے کہ اگر دنیا میں کسی کے پاس علم الیقین ہے تو وہ دوزخ اور بہشت دونوں کو دیکھ سکتا ہے، یہ جہالت اورعلم کو دیکھنے کی بات ہے، کیونکہ جہالت دوزخ ہے اور علم بہشت، دنیا ہی میں عین الیقین سے بھی دوزخ و بہشت کا مشاہدہ ممکن ہے۔

انسان دنیا میں اس لئے آیا ہے کہ وہ یہاں آخرت اور بہشت کے لئے چشمِ بصیرت پیدا کرلے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو یہ اس کی بہت بڑی گمراہی اور نامرادی ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے: وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلاً (۱۷: ۷۲) اور جو شخص اس دنیا میں اندھا بنا رہا  تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا، آپ دیکھتے ہیں کہ چشمِ باطن صرف دنیا ہی میں پیدا ہوسکتی ہے اور کہیں بھی ممکن نہیں۔

آپ نے سورۂ تکاثر کی مذکورہ آیتوں میں خوب غور کیا ہوگا، کہ علم الیقین اگر حقیقی معنوں میں ہے تو اس کی روشنی میں دوزخ و بہشت دونوں کو دیکھا جا سکتا ہے، اور اس سے مرحلۂ عین الیقین میں داخل ہو جانے کی تیاری ہو جاتی ہے۔

حدیث شریف ہے: رجعنا من الجھاد الاصغر الی الجھاد الاکبر۔ اب ہم چھوٹے جہاد (یعنی کافروں کے ساتھ لڑنے) سے لوٹ کر بڑے جہاد کی طرف آئے (اب نفس سے جہاد کریں گے)

 

۸۴

 

اس حدیث کی حکمت: اگر اس جہادِ اکبر (بڑی جنگ) میں نفس مارا گیا تو مجاہد پر نفسانی موت واقع ہو گی، جس کے نتیجے میں جیتے جی اس کی ذاتی قیامت برپا ہوگی، زہے نصیب! اب وہ چشمِ باطن سے عالمِ آخرت اور بہشت کو دیکھے گا، اگرچہ سب نہیں تو تھوڑے سے مجاہدین جہادِ اکبر میں ضرور کامیاب ہوئے ہوں گے۔

جب تک قرآنِ حکیم میں جہادِ اکبر اور نفسانی موت کا ذکر یا اشارہ نہ ہو تو حدیث شریف میں اس کا تذکرہ کیسے ہوسکتا ہے، چنانچہ میرا کامل یقین ہے کہ اس آیۂ کریمہ میں جہادِ اصغر اور جہادِ اکبر دونوں کا ایک ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اس میں ظاہری جنگ مثال اور نفسانی جنگ ممثول ہے، وہ آیۂ مقدسہ یہ ہے: ۔

وَلَقَدْ كُنْتُمْ تَتَمَنَّوْن الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ ( ۰۳: ۱۴۳) ترجمۂ اوّل: اور تم تو موت کی تمنا کیا کرتے تھے اس کے ملنے سے پہلے تو اب وہ تمہیں نظر آئی آنکھوں کے سامنے۔ ترجمۂ دوم: اور تم تو ( نفسانی طور پر) مرنے کی تمنا کر رہے تھے، اس (موت) سے دوچار ہونے سے پہلے سو اس کو تم نے دیکھ لیا، اور اب تم (چشمِ باطن سے) دیکھ رہے ہو۔

الغرض نفسانی موت ایک باطنی حقیقت ہے، جس کا حکیمانہ ذکر قرآنِ عظیم کی متعدد آیاتِ کریمہ میں موجود  ہے، جس کے بارے میں جزوی طور پر لکھا گیا ہے، اب ہم یہاں بہشت کی زبان کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہاں اہلِ جنّت کی دنیا والی تمام زبانیں

 

۸۵

 

موجود ہوں گی، لیکن قرآنِ حکیم اور سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی مبارک لسان السنۂ بہشت کی سردار ہوگی، جیسا کہ آنحضرتؐ کا ارشاد ہے:

احبّم العرب لِثلاتِ فانیّ عربیّ والقراٰن عربیّ و لسان اھل الجنۃ عربیّ۔ ترجمہ: عربی زبان سے تین وجوہ کی بناء پر محبت کرنی چاہئے، ایک یہ کہ میں ( یعنی رسولِ کریمؐ) عربی ہوں، دوسرے قرآن عربی ہے، تیسرے اہلِ جنّت کی زبان عربی ہے (ملاحظہ ہو: المنجد عربی اردو، ص ۱۰) ۔

ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ اہلِ جنّت کی سردار زبان عربی ہی ہے، کیونکہ قرآن و حدیث کی باطنی نعمتیں بہشت میں بھی ہیں، تاہم ذیلی طور پر اپنی اپنی زبان میں دوسری آسمانی کتابیں بھی موجود ہوں گی، نیز یہ بھی قرآنی حکمتوں میں سے ہے کہ ہر شخص کا نامۂ اعمال اس کی اپنی زبان میں ہوگا، وہ ذرّاتِ منتشر پر مبنی ہے (۱۷: ۱۳) وہ لکھا ہوا بھی ہے (۸۳: ۲۰) اور وہ صوتی شکل میں بھی ہے (۱۷: ۱۴)۔

سورۂ ابراہیم (۱۴: ۰۴) میں ہے: اور ہم نے ہر رسولؐ اس کی قوم ہی کی زبان میں بھیجا کہ وہ انہیں صاف بتائے، آپ نے قرآنِ پاک (۰۷: ۱۵۸) میں یہ حکم بھی دیکھا ہوگا کہ: تم فرماؤ، اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں کہ آسمان اور زمین کی بادشاہی اسی کو ہے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ نہ صرف عرب و عجم کے مسلمان ہی بلکہ دنیا بھر کے لوگ بھی آنحضورؐ کی وہ قوم ہیں جس کی طرف آپ اللہ کے پیغمبر ہیں، پس آنحضرتؐ جہاں علم کا شہر اور حکمت کا گھر ہیں،

 

۸۶

 

وہاں بہشت کا نمونہ ہے، اور اس میں اللہ کا یہ معجزہ ہے کہ ہر شخص اپنی ہی زبان میں علم و حکمت کی باتیں سنتا ہے، یعنی وہاں رسول اللہؐ کا جو ترجمان ہے، وہ دنیا کی ہر زبان میں کلام کرتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ بہشت میں ہر زبان کا رواج زندہ ہے، اور ہر بولی، بولی جاتی ہے۔

ارشاد ہے: وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ كِتَابًا (۷۸: ۲۹) اور ہم نے ہر چیز کو لکھ کر منضبط کر رکھا ہے (یعنی نامۂ اعمال) صحیفۂ اعمال سے متعلق شاید یہی قانون ہے کہ جو بات جس زبان میں ہو اور جو عمل جس طرح ہو اس قول و فعل کو اسی طرح لکھا جاتا ہے، ریکارڈ بھی ہوتا ہے، اور فلم بھی ہوتی ہے، پس بہشت میں دنیا کی ساری زبانیں موجود ہیں، یہاں تک کہ جو زبانیں دنیا میں مرچکی ہیں، وہ بھی جنّت میں محفوظ و موجود ہیں، اس کی دلیل وہ چند آیاتِ کریمہ ہیں جن میں یہ ارشاد ہے کہ اہلِ بہشت کے لئے وہاں ہر خواستہ اور مطلوبہ نعمت مہیا ہے ( ۱۶: ۳۱، ۳۹: ۱۶، ۳۵: ۳۴، ۴۲: ۲۲، ۵۰: ۳۵) یہ قدرتی امر ہے کہ ہر شخص اپنی مذہبی، قومی اور علاقائی زبان سے بہت محبت رکھتا ہے، لہٰذا وہ زبان کی تاریخ صحیح طور پر جاننا چاہتا ہے، اس کے پاس تخلیقِ السنہ کے بارے میں بہت سے سوالات ہیں، جن میں سے ہر ایک کا جوابِ باصواب بہشت ہی میں ملے گا، کیونکہ وہاں کی تمام تر نعمتیں عقلی اور علمی ہیں، لہٰذا جنّت میں معلومات کی فراوانی ہے۔

سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۷۴) اور آلِ عمران (۰۳: ۷۷) کا یہ مفہوم ہے

 

۸۷

 

کہ قیامت کے دن ربّ العزّت مومنین سے کلام کرے گا اور کافرین سے کلام نہیں کرے گا، اس سے یہ ظاہر ہوا کہ اللہ پاک کا کلامِ حکمت نطام بندوں کی اپنی زبان میں ہوگا، کیونکہ خداوندِ تعالےٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اور بندے عاجز ہیں، وہ جلّ جلالہ اہلِ ایمان کے حق میں آسانی چاہتا ہے (۰۲: ۱۸۵) یہی وجہ ہے کہ اس ذاتِ پاک نے ہر پیغمبر کو اپنی قوم کی زبان میں بھیجا۔

سورۂ نمل (۲۷: ۱۶) میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السّلام پرندوں کی بولی جانتے تھے، یہ روح القدّس کا وہ معجزہ تھا جس پر پرندوں کے علاوہ دیگر بہت سی آوازوں سے بھی معجزانہ بولی سنائی دیتی ہے، مگر آیت کا اصل اشارہ ارواح و ملائکہ کی گفتگو کی طرف ہے، کیونکہ روحوں اور فرشتوں کا ایک مخفی نام طیر ہے، پس یہ ساری باتیں حضرت سلیمانؑ کی اپنی زبان میں ہوتی تھیں۔

سورۂ یاسین (۳۶: ۵۵) میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ جنّت والے ایسے عالی مشاغل میں ہوں گے کہ ان سے وہ بے حد شادان و فرحان ہوں گے۔ سب جانتے ہیں کہ عظیم ترین مشغلہ عقل، علم، حکمت، معلومات، اور دوسروں کو تعلیم دینے سے متعلق ہے، پس بہشت میں اہلِ علم اعلیٰ درجات پر فائز ہو جائیں گے، اور ان پر بتدریج کائنات کے اسرار منکشف ہو جائیں گے۔

ستاروں پر لطیف لوگوں کی بہشت ہے، اس میں السنۂ عالم محفوظ ہیں، جب تک خدا کسی لسان کو نہ مٹائے، جیسا کہ سورۂ رعد

 

۸۸

 

کا یہ ارشاد ہے: یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ -وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ (۱۳: ۳۹) خدا جس (تحریر وغیرہ) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے، اور اس کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ = امامِ مبین) موجود ہے۔ یعنی کوئی ستارہ وقت آنے پر ختم بھی ہو جائے تو پھر بھی اس کے لطیف باشندے ختم نہیں ہو تے، کیونکہ ان کی انائے علوی امامِ مبین میں زندہ ہے۔

لسان کی تخلیق کے سلسلے میں ظاہری اسباب کچھ بھی ہوں ، لیکن اس کے پس منظر میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی کارفرمائی ہے، جیسے عَلَّمَہُ الْبَیَانَ (۵۵: ۰۴) “خدا نے انسان کو بولنا سکھایا” کی عام تفسیر سے ظاہر ہے، اور اس ربّانی تعلیم میں بھی غور کریں: اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے، یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانشمند لوگوں کے لئے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس طرح ارض و سماء کو خدا ہی نے پیدا کیا ہے اسی طرح لوگوں کی مختلف زبانوں ، گونا گون صورتوں اور الگ الگ رنگتوں کو بھی اسی نے بنایا ہے، اور اس میں اہلِ دانش کیلئے قدرتِ خدا کے بہت سے عجائب و غرائب پوشیدہ ہیں۔

سورۂ انفطار (۸۲: ۱۰ تا ۱۱) میں ہے: وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ كِرَامًا كَاتِبِينَ ۔ اور تم پر (تمہارے سب اعمال) محفوظ کرنیوالے معزز لکھنے والے مقرر ہیں۔ اس میں بہت بڑی حکمت ہے، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ نامۂ اعمال کے عنوان سے آدمی کی پوری زندگی کی ایک

 

۸۹

 

مکمل روحانی مووی (زندہ متحرک تصویر) تیار ہو جاتی ہے، جیسے اعمالِ نیک و بَد کے نتیجے میں جو نورانی یا ظلمانی خواب دیکھا جا تا ہے، وہ کاغذی کتاب کی طرح نہیں بلکہ فلم کی طرح ہوتا ہے۔

سورۂ جاثیہ کے ایک ارشاد (۴۵: ۲۸) کے مطابق ہر امت کا نامۂ اعمال ہوا کرتا ہے، اب لفظِ امۃ کے معنی پر ذرا غور کریں:

اَلْاُمَّۃُ ، ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتۂ دینی ہو، یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں (مفردات القرآن)

اُمّۃ: جماعت، اُمّہ اُم سے ماخوذ ہے، جس کے معنی “ماں” کے ہیں، ہر اس جماعت کو اُمّہ کہتے ہیں، جس میں کوئی مذہب یا وطن یا زمانہ مشترک ہو، گویا یہ مشترکہ چیز بمنزل ماں کے ہے، اور یہ جماعت بمنزلہ اولاد کے، (قاموس القرآن، از قاضی زین العابدین) یقیناً نامۂ اعمال انفرادی بھی ہے، اور کئی قسموں میں اجتماعی بھی۔

یہ ارشادِ مبارک سورۂ ابراہیم (۱۴: ۴۸) میں ہے: يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ۔ جس دن یہ زمین غیر (مادّی) زمین سے بدل دی جائے گی، اور (اسی طرح) آسمان (بھی بدل دیئے جائیں گے) اور سب لوگ یکتا زبردست خدا کے روبرو (اپنی اپنی جگہ سے) نکل کھڑے ہوں گے (۱۴: ۴۸) یعنی جب عالمِ شخصی میں نمائندہ قیامت برپا ہوگی تو اس وقت چشمِ باطن کے سامنے مادّی کائنات کی جگہ روحانی کائنات ہوگی، اور سب لوگ قبرستانِ ابدان سے ذرّات کی شکل میں نکل کر خدائے واحد و زبردست

 

۹۰

 

کے روبرو پیش ہوں گے۔

“الواحد القھار” میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عالمِ شخصی کی نمائندہ قیامت میں سب لوگوں کو زبردستی سے ایک کر دیتا ہے، اور یہ عالمِ انسانیت پر اس کے بے پایان احسانات کا آغاز ہے۔

ایک دفعہ کسی درویش نے کوّے کی عجیب سی آواز سنی، وہ درخت پر بیٹھا ہوا کہہ رہا تھا: “قھر قھر قھر” بے چارہ پہلے ڈر گیا، کیونکہ اس کے ذہن میں لفظِ قہر کے وہی معنی تھے جو عوام سمجھتے ہیں، یعنی غضب، لیکن سوچنے پر اس کو تسلی ہوئی کہ اس میں خوشخبری تھی، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے: ۔

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمْ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لاَ يُفَرِّطُونَ(۰۶: ۶۱) اور وہی غالب ہے اپنے خاص بندوں پر اور تم پر حفاظت کرنے والے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں کسی کو (نفسانی) موت آتی ہے اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) قبض کرلیتے ہیں اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے (۰۶: ۶۱) اس کے مجموعی اشارے سے ظاہر ہے کہ یہ نفسانی موت ہے، ایسی پرازحکمت اور بابرکت موت کے عمل کے لئے جبرائیل، میکائیل، اسرافیل، اور عزرائیل کے ساتھ تمام لشکرِ ارواح و ملائکہ موجود ہوتے ہیں۔

قرآنِ پاک میں جس طرح بہشت کی بے پایان نعمتوں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، وہ آپ کے سامنے ہے لیکن میرا عاجزانہ مشورہ یہ ہے کہ آپ

 

۹۱

 

قرآنی حکمت سے کام لیں تاکہ علم کی ہر مشکل آسان ہو جائے، اور گنجِ حکیم کا باب مفتوح ہو سکے۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات  ۱۷  ؍ شعبان المعظم ۱۴۱۵ ھ    /  ۱۹؍جنوری ۱۹۹۵ء

 

۹۲

 

دائرۂ نورِ عقل

 

اللہ جلّ جلالہ وعمّ نوالہ اور حضرتِ محمد رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی جانب سے جو امامِ برحق علیہ السّلام کارِ ہدایت کے لئے مقرر ہے، یقیناً وہی نورِ زمانہ اور سرچشمۂ علمِ لدّنی ہے، اگر ہم بصد عاجزی و نیاز مندی اسی مہربانِ جان سے صدقۂ علمی و عرفانی حاصل کر سکتے ہیں، تو یہ ہماری بہت بڑی سعادت مندی ہے، لیکن جب جب اس دلِ نادان میں کوئی غفلت و سختی آتی ہے تو اس کا بابِ جود وعطا مغلق (بستہ) لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ درویشوں کو ہمیشہ گریہ وزاری اور مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات بہت ہی عزیز ہوتی ہے، پس اے عزیزانِ من! براہِ لطف و کرم آپ سب اپنے پاکیزہ دلوں سے دعا کریں کہ یہ قلب ہر لحظہ اہلِ بیّتِ اطہار علیہم السّلام کی پاک و پُرحکمت محبّت کی تپش سے پگھلتا رہے ! آمین!

میں یقین سے کہتا ہوں کہ حقائق و معارف سے متعلق ہر مشکل مسٔلے کے حل کے لئے “تصوّرِ کل” زبردست کار آمد اور بے حد مفید ثابت ہوسکتا ہے، چنانچہ عنوانِ بالا (دائرۂ نورِعقل) میں خود یہی عظیم تصوّر ہے، جس کا قرآنی حوالہ آپ کو سورۂ حدید (۵۷: ۱۲) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) میں ملے گا، جہاں سرِّ اسرار کی طرف اشارہ موجود ہے کہ مومنین و مومنات کے عالمِ شخصی کے

 

۹۳

 

آسمانِ نہم میں آفتابِ عقل اپنے دائمی طلوع و غروب سے دائرۂ نور بناتے ہوئے تصوّرِ کلّ پیش کرتا ہے، جس میں سب کچھ موجود ہے، کیونکہ وہ دائرۂ مبارک حظیرۃ القدّس (مقدّس چیزوں کا احاطہ) ہے، جس میں گنجِ اسرارِ ازل و ابد ہے، اسی خزانے سے کلمۂ باری، عقلِ کلّی، اور نفسِ کلّی کا تعلق ہے۔

سوالِ اوّل: اگر انائے علوی کا تعلق مقامِ عقل یا نفسِ واحدہ کے ساتھ ہو تو انائے سفلی کا تعلق جسمِ کثیف اور لطیف دونوں کے ساتھ ہے یا اس کا تعلق جسمِ کثیف تک محدود ہے؟ اگر اس کا تعلق جسمِ کثیف تک محدود رہا تو بہشت میں تعلیم دینے میں مساواتِ رحمانی کا کیا تصوّر ہوگا؟

جواب: قربان از جمیعِ دوستان و عزیزان! دونوں انائیں نفسِ واحدہ سے ہیں ( ۰۶: ۹۸) جبکہ انائے علوی کا تعلق نفسِ واحدہ اور دائمی بہشت سے ہے، تاکہ خلود کی تصدیق ہو جائے، اور انائے سفلی کا عارضی تعلق جسمِ کثیف و لطیف سے ہے، اور دائمی تعلق نفسِ واحدہ سے، کیونکہ جب کوئی چیز عالمِ امر سے عالمِ خلق میں آکر چاہے لاکھوں ، کروڑوں سال کے بعد بھی واپس ہو جائے تو لامکان میں جو ٹھہرا ہوا زمان ہے، اس میں سے چشمِ زدن کا لمحہ بھی نہیں گزرتا ، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے: ۔

وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلاَّ كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ(۱۶: ۷۷) اور قیامت کا واقع ہونا تو ایسا ہے جیسے پلک کا جھپکنا، بلکہ اس سے بھی جلد تر۔ بہشت کی تعلیمات کا تصوّر اپنی جگہ درست ہے۔

 

۹۴

 

سوالِ دوم: صاحب ! شاید اسی مسٔلے سے متعلق خلود کا تصوّر! صاحب! بہشت میں انائے علوی کے خلود کے بارے میں از راہ مرحمت و عنایت بہت تصریحات فرمائی ہیں، چونکہ قرآن میں کافروں کے لئے “خالدین” یعنی دوزخ میں ہمیشہ رہنے کا ذکر آیا ہے، اگر دوزخ عارضی ہے جیسے کہ بزرگوار نے خود قرآن کی روشنی میں صراحت فرمائی ہے، تو اس میں خلود کے معنی کو کس طرح سمجھیں گے؟

جواب: قربانت شوم ! قرآنِ حکیم (۱۱: ۱۰۵ تا ۱۰۸) اور معرفت کی روشنی میں معلوم ہوا ہے کہ دوزخیوں کا دوزخ میں ہمیشہ رہنا (خلود) دوزخ کی عمر بھر کے لئے ہے، اور اس کی عمر کائنات کی عمر کے برابر ہے، اور کائنات دوزخ و بہشت کے ساتھ انسانِ کامل کی نمائندہ قیامت میں لپیٹ لی جاتی ہے، یہ ایک باطنی عمل ہے، درحالے کہ کائنات ظاہراً اپنی جگہ قائم رہتی ہے، قربانت شوم! کائنات (ارض و سماء) کو مرحلہ وار عالمِ شخصی میں لپیٹ لیا جاتا ہے، پہلے عالمِ ذرّ میں، اور اس کے بعد دائرۂ نورِعقل میں، قیامت کے اس عظیم الشّان عمل سے دوزخ بہشت میں بدل جاتا ہے، اور کائناتی بہشت عالمِ شخصی میں نزدیک آتی ہے۔

سوالِ سوم: صاحب! تیسری گزارش معراج کے سلسلے میں سورۂ نجم میں آیت (۵۳: ۱۳) وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى کی تاویل کے بارے میں ہے۔

جواب: قربانت شوم! ایک مقالہ بعنوانِ “معراجِ روحانی”

 

۹۵

 

آن مہربان کی خدمتِ عالی میں پہنچ چکا ہوگا، عرض یہ ہے کہ وَلَقَدْ رٰاہُ تَرْلَۃً اُخْریٰ = اور پیغمبرؐ نے اس (حضرتِ ربّ) کو دوسرے ظہور میں بھی دیکھا، یعنی روحانی معراج میں، نَزْلَۃً اُخْریٰ = دوسری بار اترنا ، یعنی دوسرا ظہور، کیونکہ اس سے قبل بھی حضورِ پاکؐ کو ربّ العزّت کا دیدارِ اقدس ہوا تھا، اور وہ رویتِ ظاہری تھی۔

تصوّرِ کلّ:

کلّ اور کلّیات کا عاقلانہ تصور ازبس مفید ہے، دینی اعتبار سے ایسا کوئی ضروری موضوع کون سا ہو سکتا ہے، جو قرآنِ حکیم کے موضوعات میں شامل نہ ہوا ہو، یقیناً قرآنِ عظیم میں بہت بڑی اہمیّت کے ساتھ تصوّرِکلّ کا موضوع موجود ہے، وہ خود اسی لفظِ “کلّ” میں ہے، جو کثیر مقامات پر آیا ہے، اگرچہ کلّ کا لفظ چند چیزوں کے مجموعے کیلئے بھی آتا ہے لیکن یہاں اس کلّیہ یا قانونِ کلّ کی بات ہور ہی ہے، جس کا تعلق تمام اشیاء سے یا سارے انسانوں سے یا جملہ ارواح و ملائکہ سے ہے، جس کی ایک مثال اس ارشاد سے مل سکتی ہے، جو سورۂ مریم (۱۹: ۹۳ تا ۹۵) میں ہے: ۔

إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ إِلاَّ آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا  لَقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا   ۔ ترجمۂ اوّل: جتنے بھی کچھ آسمانوں اور زمین میں ہیں سب خدا تعالیٰ کے غلام ہو کر آتے ہیں ، (اور) اس نےسب کو گھیر کر رکھا ہے

 

۹۶

 

اور سب کو شمار کر رکھا ہے، اور قیامت کے روز سب کے سب اس کے پاس تنہا تنہا آئیں گے، ترجمۂ دوم: کوئی نہیں آسمانوں اور زمین میں جو نہ آئے رحمان کا غلام (بندہ) ہو کر، اس نے سب کو (امامِ مبین میں) گھیر کر رکھا ہے، اور ان کو ایک خاص طریقے سے گن کر رکھا ہے (یعنی سب کو ایک کر دیا ہے، اس لئے) سب فردِ واحد کی حیثیت سے قیامت کے دن (مقامِ عقل پر) اس کے پاس آئیں گے۔

سوالِ الف: اس پُرحکمت ارشاد میں منجملہ اسماء اللہ اسمِ الرحمان مذکور ہے، اس میں کیا اشارہ ہوسکتا ہے؟ جواب: اس کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ یہاں جو کچھ فرمایا گیا ہے، اس میں خدائے رحمان (بڑے مہربان) کی مہربانی کے معنی ہیں۔

سوالِ ب: آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں اور سب لوگ کب ، کہاں، اور کس معنیٰ میں غلام ہو کر رحمان کے پاس آتے ہیں؟

جواب: نمائندہ قیامت کے آغاز ہونے پر، عالمِ شخصی میں، اور صورِ اسرافیل کے زیرِ اثر سجدہ، تسبیح اور عبادت کے معنی میں۔

سوالِ ج: یہاں امامِ مبین میں سب کو گھیر کر رکھنے کی کیا دلیل ہو سکتی ہے؟ اور کس طرح ممکن ہے کہ شمار کرنے سے سب کا مجموعہ فردِ واحد ہو جائے؟ جواب: سورۂ یٰسین (۳۶: ۱۲) میں ہے: اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبین میں گھیر دیا ہے۔ یہی سب سے روشن دلیل ہے کہ ہر قیامت میں اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو امامِ مبین میں گھیر دیتا ہے، یاد رہے کہ لوگ اپنی چیزوں کو شمار کرتے ہیں، کیونکہ ان کو علم نہیں کہ وہ کتنی ہیں، لیکن

 

۹۷

 

خدائے علیم و حکیم کو ہر چیز کا علم ہے، اس لئے اس کے شمار کرنے کی حکمت یہ ہے کہ وہ چیزوں اور لوگوں کو ایک کر دیتا ہے، اور جس کے ساتھ سب کو ایک کیا جاتا ہے، وہ انسانِ کامل ہی ہے۔

سوالِ د: اس آیۂ کریمہ کی حکمت بیان کریں: مَا خَلْقُكُمْ وَلاَ بَعْثُكُمْ إِلاَّ كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ (لقمان ۳۱: ۲۸) تم سب کا پیدا کرنا اور پھر (مرنے کے بعد) جِلا اٹھانا ایک جان کی طرح ہے۔ جواب: واحدہ، معنیٔ اوّل ایک، معنیٔ دوم ایک کرلینے والی یا ایک کرلینے والا، پس نفسِ واحدہ ایسے عالمِ شخصی کی جان ہے، جس میں اسرافیلؑ کی دعوت پر خلائق کے نمائندہ ذرّات جمع ہو جاتے ہیں، ان کو نفسِ واحدہ کی وحدت و سالمیّت میں نفسانی موت کا مزہ چکھایا جاتا ہے، پھر زندہ کیا جاتا ہے، پھر ایک بار موت سے گزار کر ان کو ہمیشہ کے لئے زندہ کیا جاتا ہے۔

سوالِ ھ: حکیم پیر ناصر خسرو (ق س) کے اس شعر کی حکمت بیان کریں:

ھو الاوّل  ھوالآخر  ھوالظاہر  ھوالباطن               منزہ مالک الملکی کہ بی پایان حشردارد

جواب: وہ سب سے اوّل بھی ہے، وہ سب سے آخر بھی ہے، وہ سب سے ظاہر بھی ہے، وہ سب سے باطن بھی ہے، وہ پاک ایسا صاحبِ سلطنت ہےکہ اس کی (بادشاہی میں لاتعداد اور) بے انتہا قیامات ہیں۔ حضرتِ پیر کے اس قول میں سب سے عظیم حکمت یہ ہے کہ زمانۂ آدمؑ ہی سے نمائندہ قیامتوں کا سلسلہ چلا آیا ہے، کیونکہ الوھیّت (معبودیّت) نبوّت، امامت، اور آخرت کے اسرارِ عظیم کا

 

۹۸

 

جاننا تجربۂ قیامت کے سوا ممکن ہی نہیں۔

سوالِ و: اس آیۂ مبارکہ کی تفسیرو تاویل بتائیں: بَلْ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الآخِرَةِ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِنْهَا بَلْ هُمْ مِنْهَا عَمُونَ( ۲۷: ۶۶) جواب: بلکہ آخرت کے بارے میں ان کے علم کا خاتمہ ہوگیا ہے، بلکہ اس کی طرف سے شک میں پڑے ہیں، بلکہ اس سے یہ لوگ اندھے بنے ہوئے ہیں۔

حکمت: آخرت کی عمدہ مثال روحانیّت ہی ہے، جس میں آخرت کی معرفت پوشیدہ ہے، لیکن جن کے پاس اصل اور حقیقی علم نہ ہو تو ان کا معمولی علم تھک کر ختم ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے شکوک پیدا ہو جاتے ہیں، اور پھر ایسے لوگ کُورباطن ہو جاتے ہیں۔

 

۲۳؍جنوری ۱۹۹۵ء

 

۹۹

 

سورۂ کوثر کی حکمت

 

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الأَبْتَرُ (اے رسولؐ) بے شک ہم نے تمہیں کوثر عطا کیا ہے، تو تم اپنے ربّ کے لئے نماز پڑھو، اور قربانی کرو، یقیناً تمہارا دشمن ہی مقطوع النسل ہے۔ (۱۰۸: ۰۱ تا ۰۳)

۱۔ کَوْثَرْ بروزنِ فَوْعَلْ  صیغۂ مبالغہ ہے، جو کثرت سے مشتق ہے، کثیر زیادہ، اکثر بہت زیادہ ، کُثار بہت ہی زیادہ، اور کوثر بے حد زیادہ ، جو خلق کی عقل و فہم سے وراء ہے، اس سے عالمِ ذرّ مراد ہے، جو حضورِ اکرمؐ سے آپؐ کے وصی مولا علیؑ میں منتقل ہوگیا، اس طرح سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی پاک ذرّیت جاری و باقی رہی ، جیسے ارشادِ نبویؐ ہے: ۔

اِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ جَعَلَ ذُرِّیَّۃَ کُلِّ نَبِیٍّ فِیْ صُلْبِہٖ وَجَعَلَ ذُرِّیَّتِیْ فِیْ صُلْبِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ (خدا نے ہر نبی کی اولاد اس کے صُلب سے قرار دی ہے، لیکن میری اولاد صُلبِ علی سے ہے)۔ کوثر کے ایک معنی مردِ کثیر اولاد کے ہیں، اور وہ حضرت علی علیہ السّلام ہی ہیں، کیونکہ ان کی پشتِ مبارک میں عالمِ ذرّ آیا ، جس میں کثیر ذرّیت اور کوثر کے دوسرے

 

۱۰۰

 

تمام معانی شامل ہیں۔

حکیم پیر ناصر خسرو ق س کے دیوانِ اشعار میں ہے:

ایزد عطاش داد محمد را                 نامش علی شناس و لقبش کوثر

خداوندِ قدوس نے حضرت محمد صلعم کو (جانشین) عطا کر دیا، جس کا اسمِ گرامی علیؑ اور لقب کوثر ہے، کتاب وجہِ دین، کلام نمبر۱ میں سورۂ کوثر کی یوں تفسیر و تاویل کی گئی ہے:۔

(اے محمد صلعم) ہم نے آپ کو بہت سی اولاد والا مرد عطا کر دیا ہے (جس سے اللہ تعالیٰ کی مراد اساس یعنی علیؑ ہیں) پس آپ اپنے پروردگار کے لئے نماز قائم کیجئے (یعنی دعوتِ حق برپا کیجئے) اور نحر کے طریقے پر اونٹ ذبح کیجئے (یعنی اساس کا عہد لیجئے) کیونکہ آپ کا دشمن دم بریدہ ہے (یعنی وہ بے اولاد ہے، اس لئے امامت اس میں نہ رہے گی، بلکہ وہ آپ ہی کی ذرّیت میں باقی رہے گی)۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل ۲۲  ؍ شعبان المعظم ۱۴۱۵ ھ

۲۴؍ جنوری ۱۹۹۵ء

 

۱۰۱

 

ایک عظیم مترجم کا جشنِ سیمین

 

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ دنیائے علم و ادب میں مصنّفین و مؤلّفین ہی کی طرح مترجمین بھی بڑے نیک نام، قابلِ احترام اور آئندہ تاریخ میں زندۂ جاوید ہو جاتے ہیں، مترجم کا احسانِ عظیم ایک طرف زبان و اہلِ زبان پر ہے اور دوسری طرف مصنف اور اس کے ہم خیال احباب پر، کیونکہ جو سکالرز دینی کتب کا ترجمہ کرتے ہیں وہ حضرات اپنے مبارک قلم سے گویا علم و حکمت کے جدید شہروں کو آباد کرتے ہیں، جن کی آبادی رہتی دنیا تک قائم رہنے والی ہے۔

یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ علم خدا کی خدائی میں سب سے اعلیٰ و عظیم شیٔ ہے، لہٰذا علمی خدمت بے مثال اور تمام خدمات کی سردار اور بادشاہ ہے، پس کتنی بڑی سعادت ہے ان اہلِ قلم حضرات کی جو اپنے عمدہ و شیرین ترجموں کے توسّط سے پیاری جماعت کے سامنے علیٔ زمان علیہ السّلام کا علمی دسترخوان بچھا دیتے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ اس نوعیّت کی دینی خدمات میں مولائے پاک کی خوشنودی ہے۔

جہاد جو دینِ اسلام کا ایک مقدّس فریضہ ہے، وہ نہ صرف شمشیرِ برّان ہی سے ہوتا رہا، بلکہ علم و حکمت کی زبان سے بھی ہے، تاہم عصرِ حاضر میں

 

۱۰۲

 

قلمی جہاد کی بہت بڑی اہمیّت ہے، کیونکہ یہ بڑا دور رس اور دائم العمل ہے اس لئے مترجمین حضرات کو ہم سب بصداحترام و ادب تحفۂ مبارکباد پیش کرتے ہیں، قبولِ ہو!

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جماعت میں جتنے اہلِ قلم کام کر رہے ہیں، وہ سب کے سب حضرتِ امامِ زمان علیہ السّلام کے علمی لشکر ہیں، جو اپنے آقا کی ظاہری مدد کر رہے ہیں، اور مولا ان کی باطنی مدد فرما رہا ہے، آپ یقین کریں کہ ظاہری مدد ایک قرآنی حقیقیت ہے، جیسا کہ سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۵۲) میں ہے: (ترجمہ)جب عیسٰیؑ نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں تو اس نے کہا “کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہوتا ہے؟ “حوّاریوں نے جواب دیا ’’ہم اللہ کے مددگار ہیں۔‘‘

نیز سورۂ محمد (۴۷: ۰۷) میں غور سے دیکھ لیجئے: (ترجمہ) اے لوگو: جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا، اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔ درحقیقت یہ دینِ حق کی مدد ہے، لیکن اس کی بہت بڑی اہمیّت اور عظمت کی وجہ سے یہ اللہ تعالیٰ کی مدد قرار پاتی ہے۔

جوں جوں زمانہ بدلتا جاتا ہے توں توں اندرونی و بیرونی کثیر سوالات کی یلغار ہو جاتی ہے، ایسے میں امامِ عالی مقام علیہ السّلام کے علم و حکمت سے آراستہ و پیراستہ کتابیں ہی کام آسکتی ہیں، جن میں پہلے ہی سے ہر قسم کے سوالات کے لئے معقول جوابات مہیا ہوتے ہیں، اور کامیاب علمی خدمت وہی ہے جس میں جوابات کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہو۔

 

۱۰۳

 

آج ہم یہاں خانۂ حکمت، ادارۂ عارف، اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کراچی کے عملداران و ارکان بے حد مسرور و شادمان ہیں، اس لئے کہ ہم اپنے ایک بڑے محسن اور عظیم گجراتی مترجم کے ۲۵ ترجموں کے جشنِ سیمین منا رہے ہیں، یہ عزیز ومحترم اور بڑا نیک نام سکالر جناب اکبر حبیب راجن صاحب ہیں، آپ نے ترجمے کا یہ مقدّس کام ؁۱۹۸۱ء میں شروع کیا تھا، اور انہوں نے اب تک ہماری کتابوں میں سے پچیس ۲۵ کا حسن و خوبی سے گجراتی میں ترجمہ کر دیا ہے، سب کہتے ہیں کہ ترجمے بہت سی خوبیوں کا حامل ہے۔

روحانی اور قرآنی علم و حکمت پر مبنی اعلیٰ کتابوں کا حقیقی معنوں میں ترجمہ کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں، جب تک کہ خداوندِ قدّوس کی طرف سے عنایاتِ ازلی کسی نیک بخت ہستی کی دستگیری نہ کریں، جیسا کہ قول ہے:

این سعادت بزورِ بازو نیست           تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

یہ سعادت ایسی نہیں جو زورِ بازو سے حاصل ہو جائے، جب تک خداوندِ کریم و مہربان خود عطا نہ فرمائے۔

جناب اکبر راجن صاحب کی اس بے مثال کامیابی سے ہم کو یہ یقین آتا ہے کہ آپ سے مولائے برحق راضی ہے، اسی وجہ سے آپ نے ایسا عظیم کارنامہ انجام دیا، جس میں نیک نام جماعت کے لئے علم و معرفت کے دائمی میوے موجود ہیں، جن سے عقل و جان کی پرورش ہوتی رہتی ہے۔

 

۱۰۴

 

ہمارے پاک مذہب میں خدا، رسولؐ، اور امامؑ کی مقدّس محبت و عقیدت کے بہشت جیسے باغات موجود ہیں، جن کے گردا گرد مضبوط حفاظتی دیوار ایسی کتابوں سے بنائی جا سکتی ہے کہ ان میں امامِ زمانؑ کا روحانی علم ہو، کیونکہ کوئی باغ چار دیواری کے بغیر محفوظ نہیں رہ سکتا، اور نہ کوئی قلعہ حصار (فصیل) بغیر ہوتا ہے، پس مترجمین حضرات کا کردار جہاں بھی ہو بڑا عالیشان ہے۔

ہر کتاب حضرتِ امام علیہ السّلام کا ایک گلدستۂ صد رنگ ہے، نیز یہ ایک علمی و عرفانی باغ ہے، یا جواہرات کی دکان ہے یا چشمۂ آبِ شرین ہے، یا تحفہ از جانبِ محبوبِ جان ہے، اگر یہ کسی دور جگہ بھیج دی جاتی ہے تو ایلچی یا سفیر ہے، تخلیق کے اعتبار سے یہ پیارا بیٹا ہے، یا عزیز بیٹی ہے، یہ نامۂ اعمال کی مثال بھی ہے، علمی جنگ کے لئے سولجر بھی ہے اور ہتھیار بھی، روحانی طاقت کے لئے غذا بھی ہے، اور صحت کے لئے دوا بھی، ہر دینی کتاب میں قرآن، حدیث، اور فرمان کی خوشبوئیں ہیں۔ الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

جو دانشور ہماری کتابوں کا ترجمہ کرتے آئے ہیں، اور جو عزیزان ہماری تعلیمات کی ترجمانی کر رہے ہیں، اور ان کے علاوہ جو ساتھی ہمارے تینوں اداروں میں کام کررہے ہیں، ان سب سے میں قربان ہو جاؤں، اور یہ سچ ہے کہ میں روحانی انقلاب میں قربان و فدا ہوچکا ہوں، آپ اس عمل کی حکمت کو سمجھتے ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اب اس مختصر مقالے کے خاتمے پر آپ سب پرخلوص دعا کریں

 

۱۰۵

 

کہ حضرتِ ربِّ العزت ہمارے عظیم مترجم جناب اکبر حبیب راجن صاحب کی سلور جوبلی کو باعثِ برکات بنا دے ! آپ کو اور آپ کے نیک بخت خاندان کے ہر فرد کو دین و دنیا کی کامیابی، عزّت اور سر بلندی نصیب ہو! اور یہی دعا دوسرے مترجمین اور جملہ معاونین کے حق میں بھی ہے، آمین!

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل ۶  ؍رمضان المبارک ۱۴۱۵ ھ    /  ۷؍فروری ۱۹۹۵ء

 

۱۰۶

 

روحانی ترقی سے متعلق معلومات

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّحِیْم۔  روحانی ترقی کے لئے سب سے بنیادی چیز حسنِ اخلاق ہے، پھر عقیدہ، بندگی اور علم الیقین، ساتھ ہی ساتھ تقویٰ کا ہونا بیحد ضروری ہے، کیونکہ یہ ایمانی وصفِ کمال اخلاق و دینداری کے تمام نتائج و ثمرات کا جوہر ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم نے ایسے تقویٰ کو بزرگی کا معیار قرار دیا جو حقیقی علم کے ساتھ ہو (۳۹: ۱۳ ؛ ۳۵: ۲۸) اس میں کوئی شک نہیں کہ تقویٰ مومنین و مومنات کو اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے۔

۲۔ اگر اس دنیا میں آپ کو علم و عمل اور عشقِ مولا کے کچھ نمونے مل سکتے ہیں تو ان کی ہم نشینی بہت بڑی نعمت ہے، کیونکہ جب خدا کی خدائی میں کوئی چیز رحمت و علم کے سوا نہیں ہے (۴۰: ۰۷) تو پھر دوستانِ خدا اس سے کیونکر خالی ہو سکتےہیں، مصرع:

صحبتِ صالح ترا صالح کند

۳۔ آپ کا مرتبۂ علمی جیسا بھی ہو، ہر حال میں دوسروں کو کچھ علم دیتے رہیں، کیونکہ اس سے قدرتی طور پر علم میں حرکت اور برکت پیدا ہو جاتی ہے، وہ اس طرح کہ آپ اپنے دل و دماغ کے ذخیرۂ علم سے صرف ونشر بھی کریں گے،

 

۱۰۷

 

وہ کم بھی نہیں ہوگا، اس میں نکھار بھی آئے گا، اور نزولِ برکت سے اس میں اضافہ بھی ہوگا، جبکہ یہ عمل تقویٰ کے ساتھ ہو۔

۴۔ علم دینے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں، مثلاً عام مجلس یا اجتماع میں، اور خاص مجلس میں، تاکہ ہر کسی کو اس کی سمجھ بوجھ کے مطابق سمجھانے کا موقع فراہم ہو، ساتھ ہی ساتھ آپ کے علمِ عام اور علمِ خاص میں برکت پیدا ہو۔

۵۔ یقیناً یہ ایک بہت بڑا راز ہے کہ آپ کی عبادت کے لئے سب سے بابرکت اور سب سے باکرامت مقام جماعت خانہ ہی ہے، کیونکہ وہ حقیقت میں خدا کا گھر ہونے کی وجہ سے ہر گونہ ثواب اور امن کی جگہ ہے (۰۲: ۱۲۵) مزید بران باہر بھی عبادت کریں کہ اللہ کی پُرحکمت یاد کے بغیر رہنا غافلوں کا کام ہے، حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرتؐ کے لئے ساری زمین مسجد اور پاک بنائی گئی تھی، وہ ارشاد یہ ہے: جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مُسْجِدً اوَّ طَھُوْراً = میرے لئے ساری زمین نماز کی جگہ (جائے سجدہ = مسجد) اور پاک بنائی گئی ہے۔

۶۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کو حکم دیا تھا کہ مصر میں چند گھر اپنی قوم کے لئے مہیا کرو، اور اپنے ان گھروں کو قبلہ ٹھہرا لو، اور نماز قائم کرو، اور اہلِ ایمان کو بشارت دے دو (۱۰: ۸۷) جبکہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے لئے ساری زمین سجدہ گاہ اور پاک بنائی گئی۔

۷۔ جماعتی خدمت سے بہت بڑی حد تک روحانی ترقی میں مدد مل سکتی ہے، اور یہ مقدّس خدمت جتنی دور رس اور وسیع ہوگی، اتنا اس کا ثواب عظیم ہوگا، اس سلسلے میں یقیناً علمی خدمت ہی سب سے

 

۱۰۸

 

زیادہ مفید ہو سکتی ہے، کیونکہ یہ چیز نہ صرف ایک جماعت کے لئے مخصوص ہے بلکہ سراسراسلام اور تمام انسانیّت کے واسطے بھی ازحد ضروری ہے، اس لئے کہ زمانۂ حال سے بھی کہیں زیادہ مستقبل میں اس کی اہمیّت اور قدرو قیمت کا احساس اور ادراک ہونے والا ہے۔

۸۔ نیّت، قول، اور عمل کی تشبیہہ و تمثیل اگر کسی عمارت کی تعمیر سے دی جائے تو نیّت بنیاد ہے، قول ادھوری تعمیر، اور عمل مکمل مکان ہے، چنانچہ نیّت اوّلین باطنی چیز ہے، جس میں پاکیزگی اور جذبۂ خیرخواہی کا ہونا ازبس ضروری ہے، تاکہ اس کے نتیجے میں قول و عمل خود بخود درست اور نیک ہو سکیں۔

۹  اگر کسی کے اعمال پاک نہیں ہوتے ہیں تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس کی زبان پاک نہیں ہے، اور اگر زبان پاک نہیں تو جاننا چاہئے کہ دل یعنی نیّت پاک نہیں، یہی سبب ہے کہ پیغمبرِ برحق صلعم نے ارشاد فرمایا: اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالِنِّیَّاتِ = اعمال کا دار و مدار نیّتوں پر ہوتا ہے۔ اس سے دل کی اہمیّت کا پتہ چلتا ہے کہ اچھی اور بری ہر قسم کی کلیدیں دل ہی کے سپرد کی گئی ہیں، کیونکہ قلب (دل) ہی تمام انسانی قوّتوں کا مرکز ہے۔

۱۰۔ ذکر و عبادت میں انقلابی ترقی بھی ممکن ہے، تدریجی ترقی بھی ہوسکتی ہے، اور کچھ ملی جلی ترقی کا بھی امکان ہے، الغرض بندگی آگے سے بھی آگے جانے کے لئے ہے۔

۱۱۔ روحانی ترقی تواضع، حلیمی، انکساری اور عاجزی کے بغیر ناممکن ہے، تکبر سے انسان بری طرح سے خوار و ذلیل ہو کر گرجاتا ہے۔

 

۱۰۹

 

۱۲۔ ذکرِ الٰہی کے کئی طریقے ہیں، آپ امامِ زمان صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہٗ کی پاک ظاہری و باطنی ہدایات سے رجوع کریں، کیونکہ امامِ وقتؑ ہی اسمِ اعظم اور مجموعۂ اسماء الحسنیٰ ہے، پس آپ حضرتِ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کو اللہ کا بزرگ ترین اسم مانتے ہوئے کسی لفظی اسم کا ورد کریں یا کوئی تسبیح پڑھیں، بہت سے اسماء بہت سی تسبیحات اور بہت سے کلماتِ تامّات گویا بہشتِ برین کے گونا گون پھل ہیں، اور مومنین و مومنات با فراغت ان سب میووں میں سے کھا سکتے ہیں۔

۱۳۔ جس طرح قرآنِ پاک کے شروع (۰۲: ۳۵) میں حضرتِ آدمؑ کے بارے میں ارشاد ہے: پھر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی دونوں جنّت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ، دراصل یہ روحانی اور عقلانی غذاؤں کی بات ہے، یعنی کثیر اسماء ، مختلف تسبیحات، اور کئی کلماتِ تامّات سے روح اور عقل کی خوراک حاصل کرلینے کا ذکر ہے۔

۱۴۔ ذکرو عبادت کے مختلف اشغال میں سے ایک شغل اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے، ایک شغل اس کی نعمتوں کی شکرگزاری ہے، ایک شغل یہ کہ بندہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے، ایک عاشقانہ شغل دیدارِ الٰہی کے لئے آنسو بہانا ہے، اور ایک شغل ایسی دعاؤں پر مبنی ہے کہ جس میں اپنے لئے اور دوسرے سب کے لئے بہتری اور بھلائی کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔

۱۵۔ ہم میں سے ہر ایک کی عادت ایسی ہونی چاہئے کہ بار بار ہاتھ اٹھا کر خدا کے حضور دعا کیا کرے، ہر عاجزانہ دعا مغزِ عبادت ہے،

 

۱۱۰

 

لہٰذا گڑگڑاتے ہوئے اور مناجات و گریہ زاری کرتے ہوئے دعا کیجائے، تاکہ جس سے خدا کی رحمت شاملِ احوال ہو۔

۱۶۔ شیطان جو انسان کا دینی دشمن ہے، وہ آدمی کی خواہشاتِ نفسانی کی دعوت کے بغیر آہی نہیں سکتا، ہاں، نفس ہی ہے جو صرف شیطان کو بلانے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس کی سواری کے لئے گدھا بھی ہو جاتا ہے، جس پر سوار ہو کر شیطان آرام سے اپنا کام کر سکتا ہے، اس کے برعکس اگر انسان اپنے نفس کو مغلوب و مقہور بنائے تو شیطان کبھی اسے فریب نہیں دے سکتا ہے۔

۱۷۔ لذّتیں دو قسم کی ہیں:

۱۔ حلال ظاہری و باطنی

۲۔ حرام ظاہری و باطنی

چنانچہ جب تک حرام ظاہری و باطنی لذّتوں کا تصوّر ترک اور حلال ظاہری نعمتوں کو کم نہ کیا جائے تو روحانی اور عقلی نعمتیں ہرگز ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی ہیں۔

۱۸۔ کسی مومن کی روحانی ترقی میں جب بھی کوئی بڑی رکاوٹ ہوتی ہے تو اس کا سبب سوائے گناہ کے اور کیا ہو سکتا ہے، چاہے وہ کوئی ایک بڑا گناہ ہو یا کئی چھوٹے چھوٹے گناہوں کا بڑا مجموعہ، بہرحال ترازو اور وزن کی مثال ہے۔

۱۹۔ ایک مومن کہتا تھا کہ “میری روحانی ترقی کیوں نہیں ہوتی ہے حالانکہ میں کوئی گناہ نہیں کرتا ہوں، عبادت، بندگی، ادائے زکات،

 

۱۱۱

 

وغیرہ کا پابند ہوں۔”میں نے کہا کہ یہ امر ممکن ہی نہیں کہ کوئی نیک شخص اچھے اعمال کے سبب سے روحانی ترقی کا حقدار ہو چکا ہو، پھر بھی خداوندِ کریم اس کو روحانی ترقی نہ دے، اس میں کوئی کوتاہی ضرور ہوگی، یا کچھ شرائط کی کمی ہوسکتی ہے، ہم عاجزو خاکسار بندوں میں سے کسی کا یہ حق نہیں کہ وہ خود کو بےگناہ سمجھے۔

۲۰۔ یہ معلوم کر لینے کے لئے کہ دل میں تقویٰ ہے یا گناہ، ہوشمند مومن کو یہ دیکھنا ہوگا کہ اس سے ہر قسم کے دینی فرائض ادا ہوتے ہیں یا نہیں؟ ذکر و عبادت بتدریج آگے بڑھتی جارہی ہے یا مزہ ہی نہیں آرہا ہے؟ دینی علم کا شوق بڑھ رہا ہے یا نہیں؟ کیا دل میں عشقِ مولا کا کوئی درد ہے؟ کوئی سوزش ہے؟ کیا اس کمی کی وجہ سے کبھی اپنے آپ پر رونا آتا ہے؟ اگر اس نوعیّت کی ایمانی علامتیں نہیں ہیں، یا کمزور ہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ گناہ ہے، گناہ درختِ ملعون ہے، اس کی شاخ بڑی ہو جانے سے وہ اور بڑھ جائےگا، اس لئے اس کی جڑوں کو کاٹنا چاہئے، تاکہ وہ سوکھ کر ختم ہوجائے۔

۲۱۔ لفظی توبہ سے کچھ نہیں بنے گا جب تک کہ عملاً توبہ نہ کر لی جائےاور عملی توبہ علم کی روشنی میں آسان ہو سکتی ہے۔

۲۲۔ عبادت خداوندِ تعالیٰ کی غلامی کا نام ہے، اور غلامی میں آقا و مالک کی ہرگونہ خدمت کی جاتی ہے، تاہم سب سے اعلیٰ خدمت وہ ہے جو آقا کی مرضی کے مطابق ہو، اور جس کی انجام دہی

 

۱۱۲

 

سب سے زیادہ ضروری ہے۔

۲۳۔ یہ بات قرآنی حکمت ہی کی روشنی میں ہے کہ حقیقی علم طہارت یعنی باطنی پاکیزگی بھی ہے، علم عبادت بھی ہے، یہ زکات بھی ہے، روزہ بھی، حج بھی، جہاد بھی، اور ولایت بھی ہے، کیونکہ علم میں سب کچھ ہے۔

۲۴۔ اگر آپ براہِ راست یا بالواسطہ لوگوں کو علم دے سکتے ہیں تو گویا کسی نابینا کو آنکھ دیتے ہیں یا کسی بہرے کو کان عطا کرتے ہیں، کسی گونگے کو زبان عنایت کرتے ہیں، کسی ٹُنڈے کو ہاتھ بخشتے ہیں، کسی لنگڑے کو پاؤں کا عطیہ دیتے ہیں، ننگے کو عمدہ لباس پہناتے ہیں، بھوکے کو ہمیشہ کے لئے خوراک کا بندوبست کر دیتے ہیں، مفلس کو گنجِ بے رنج سے نوازتے ہیں، گدائے بے نوا کو بادشاہ بناتے ہیں، جاہل کو عاقل بناتے ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ حضرت عیسیٰؑ کی طرح مُردوں کو زندہ کر دیتے ہیں۔

۲۵۔ اگر کوئی عالی ہمت مومن نیّت کر کے راہِ مولا میں اپنے نفس کے خلاف جہاد کر سکتا ہے، چالیس ۴۰ مرتبہ سخت غصہ کو پی لیتا ہے، چالیس ۴۰ دفعہ نفس کی خواہشات کو ٹھکراتا ہے، چالیس ۴۰ ایسے مومنین کے حق میں نیک دعائیں کرتا ہے، جن کے متعلق اس کا گمان ہو کہ وہ اچھے نہیں ہیں، چالیس ۴۰ اچھی عادتوں کو اپنی ذات میں استوار کر لیتا ہے، اور چالیس ۴۰ دن کا پوشیدہ اعتکاف یا بڑی کامیاب مناجات و گریہ و زاری کرتا ہے تو ان شاء اللہ اس مومن کی غیر معمولی ترقی ہوگی۔

 

۱۱۳

 

۲۶۔ مومن ضرور یہ کوشش کرے کہ وہ ہر روز نیکی کمائے، نیک کاموں میں وقت گزارے، روزانہ کچھ علم حاصل کرے، دینی کتابوں کا مطالعہ جاری رکھے، نیک لوگوں سے ملے، اور کامیاب عبادت سے شادمانی حاصل کرے۔

۲۷۔ روحانی ترقی شروع ہونے کی بعض علامتیں یہ ہیں: ذکر وعبادت سے سخت عشق پیدا ہو جاتا ہے، نورانی عبادت کے لئے شب خیزی سے مزہ آتا ہے، دل میں بے حد نرمی ہونے کی وجہ سے بار بار گریہ وزاری ہو جاتی ہے، ذکر کا سلسلہ اٹوٹ ہو جاتا ہے، زیادہ سنجیدگی اور اندر ہی اندر سکون پیدا ہو جاتا ہے۔

۲۸۔ مذکورۂ بالا علامات کے ظہور کے بعد دل (عالمِ شخصی) میں روشنی پیدا ہو سکتی ہے، جس میں بے حد خوشی ہے، اگرچہ ابتدائی قسم کی روشنی ہے جو مادّی روشنی جیسی لگتی ہے، تاہم وہ ظاہری روشنی سے بدرجۂ انتہا خوش رنگ اور دل آویز ہے، اور رفتہ رفتہ بےحد تیز ہو جاتی ہے۔

۲۹۔ اس مقام پر اگرچہ یہ روشنی روحانی اور عقلی نہیں، بلکہ طبیعی ہے، تاہم اس کے مشاہدے میں طوفانی خوشیاں موجود ہیں، شاید اس لئے کہ اس ابتدائی منزل میں مومن یا مومنہ کی باطنی آنکھ کھل جاتی ہے، اور خود شناسی و خدا شناسی کا آغاز ہو جاتا ہے۔

۳۰۔ جس طرح عالمِ ظاہر میں سورج، چاند، ستاروں، وغیرہ کی مادّی روشنی ہے جو ہر زندہ مخلوق کی ظاہری آنکھ کے لئے ضروری ہے، اور قدیم و جدید علم و ہنر کی روشنی ہے، جو انسانی دل و دماغ کے ظاہری

 

۱۱۴

 

پہلو کے لئے لازمی ہے، اسی طرح تین درجوں میں باطنی روشنی ہے، اوّل طبیعی، دوم روحانی ، اور سوم عقلی یا عقلانی، جو دل و دماغ کے باطنی پہلو کے لئے چاہئے۔

۳۱۔ قرآنِ پاک اور روحانیّت کی روشنی میں روحانی سائنس سے متعلق بہت سے غیر معمولی انکشافات ہوئے ہیں، ان میں سے ایک انتہائی عظیم انکشاف یا معجزہ جسمِ لطیف ہے، جس کے کئی شاندار نام ہیں، اور ہر نام کے معنی میں ایک بے مثال کام پوشیدہ ہے، جیسے: ۔

(الف): کوکبی بدن: یعنی یہ کسی ستارے سے آتا ہے۔ (ب: ) جسمِ فلکی: یہ عناصرِ اربعہ سے بالاتر ہے، کیونکہ اس میں طبیعتِ پنجم ہے۔ (ج: ) فرشتہ: اس کی پاکیزہ زندگی اور ساری خوشی اللہ کی یاد و تسبیح اور فرمانبرداری میں ہے۔ (د: ) جنّ / پری: بڑا طاقت ور اور پرواز کرنے والا ہے، نیز یہ پوشیدہ ہے۔ (ھ: ) جثّۂ ابداعیہ: اس کا تعلق عالمِ ابداع (امرِ کُنۡ) سے ہے۔ (و: ) جامۂ جنّت: یہ اہلِ بہشت کا زندہ لباس ہے۔ (ز: ) محراب: یہ جہادِ روحانی کی غرض سے آسمانی لشکر کا قلعہ ہے۔ (ح: ) طَیر: یہ روحانی پرند اور انسانِ کامل کی کاپی ہے۔ (ط: ) لَبُوس: پوشاک ، یعنی روحانی بکتر (زرہ) ۔ (ی: ) پیراہنِ نورانی: پیراہنِ یوسفی۔ (ک: ) ریش ؎۱: پردار لطیف بدن۔ (ل: ) جسمِ مثالی: جیسے فرشتہ مریمؑ کے سامنے

 

؎۱: الرَّیش: پرندے کے پر (FEATHERS)اس سے طاقتِ پرواز مراد ہے (القرآن: ۷: ۲۶) لفظی معنی کے لئے المنجد میں دیکھیں ۔

 

۱۱۵

 

ایک کامل و مکمل انسان کی شکل و مثال میں ظاہر ہوا تھا۔ (۱۹: ۱۷) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی مَنِّہٖ وَاِحْسَانِہٖ۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعہ یکم شوال المکرم (عید الفطر)  ۱۴۱۵ ھ    /  ۳ ؍ مارچ  ۱۹۹۵ء

 

۱۱۶

 

دینِ خدا کے باطنی معجزات

 

۱۔ اہلِ دانش کو اس حقیقت پر کامل یقین ہے کہ دینِ حق کے دائمی اور عقلی معجزات باطن میں ہیں، کیونکہ ان کا تعلق حواسِ ظاہر سے نہیں، بلکہ حواسِ باطن سے ہے، اس لئے کہ اگر صرف ظاہری حواس کو دیکھا جائے تو وہ حیوانوں میں بھی ہیں، لیکن حیوانِ صامت اور اس کے حواس کا عقل سے کوئی تعلق نہیں، یہاں یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ انسان اپنے ظاہری حواس میں بھی حیوان سے افضل و اعلیٰ اس لئے کہ اس کے باطن میں عقل موجود ہے، مگر جانور میں کوئی عقل نہیں۔

۲۔ انسان کا بدن ظاہر ہے اور عقل و جان باطن، آدمی کے بیرونی اعضاء کا فعل ظاہر ہے دل و دماغ کی کارفرمائی باطن، سمندر ظاہر ہے درِّ ثمین و شہوارِ باطن، پہاڑ ظاہر ہے یاقوتِ احمر باطن، گلِ سرخ ظاہر ہے اس کا عطر باطن، پھل ظاہر ہے مغز باطن، معادن باطن ہیں معدنیات ظاہر، دنیا ظاہر ہے آخرت باطن، قرآن کی تنزیل ظاہر ہے تاویل باطن، الفاظ ظاہر ہیں معانی باطن، کتابِ مبین ظاہر ہے اور نور باطن۔

 

۱۱۷

 

۳۔ ارشادِ نبوی ہے: اِنَّ لِلْقُرْاٰنِ ظَھْرًا وَ بَطْناً وَ لِبَطْنِہٖ بَطْناً اِلیٰ سَبْعَۃِ اَبْطُنٍ۔ یقیناً قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے اور باطن کا بھی باطن ہے، اور اسی طرح قرآن کے سات بواطن ہیں۔ ایسے میں علمی سفر کا رخ ظاہر سے شروع ہو کر باطن کی طرف ہوگا، اور یہ ٹھیک ٹھیک سوچنے کی بات ہے۔

۴۔ دینِ اسلام کی ظاہری و باطنی نعمتوں کے ثبوت میں ایک فیصلہ کن آیۂ کریمہ جس سے ہر قسم کی مایوسی ختم ہو جاتی ہے یہ ہے: أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً  کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمانبردار بنادیا ہے تمہارے لئے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے، اور تمام کر دی ہیں اس نے تم پر ہر قسم کی نعمتیں ظاہری بھی اور باطنی بھی (سورۂ لقمان ۳۱: ۲۰)۔ اس ربّانی تعلیم کا خاص تعلق اہلِ ایمان سے ہے، کیونکہ قرآنِ پاک کا خطاب انہی سے ہے، پس عارفین و کاملین اس آیۂ پُرحکمت کے مصداق ہیں، جنہوں نے مراتبِ عالیۂ روحانیّت و عقلانیّت پر چشمِ بصیرت سے دیکھ لیا کہ ذاتِ سبحان نے عالمِ شخصی پر بحدِّ فعل اور بحدِّ قوّت کیسے کیسے انتہائی عظیم احسانات کئے ہوئے ہیں۔

۵۔ تسخیرِ ارض و سماء کے معنی یہ ہیں کہ کائنات و موجودات کی زندہ، باشعور اور مکمل کاپی انسان میں رکھی ہوئی ہے، اور اللہ کی اسی بے پایان رحمت ہی کی وضاحت یہ ہے کہ اس نےاپنی ظاہری و باطنی نعمتیں

 

۱۱۸

 

اہلِ ایمان پر تمام کر رکھی ہیں، اس کلّی بیان سے کوئی باطنی نعمت مستثنا نہیں، نہ باطنی ترقی، نہ روحانیّت، نہ باطنی عجائب و غرائب اور معجزات، نہ علمِ لدّنی، نہ حکمت، نہ تاویل، نہ اسرار، نہ معرفت، نہ فنا، نہ دیدارِ اقدس، اور نہ بہشت کی شناخت۔

۶۔ الغرض تمام باطنی نعمتیں جن کا حسین تذکرہ سورۂ رحمان میں بھی ہے، انسان ہی کے لئے پیدا کی گئی ہیں، ہر باطنی نعمت ایک آیت ہے، اور ہر آیت ایک دائمی باطنی معجزہ، کیونکہ خدا کی ہر چیز معجزہ ہے، اور معجزہ دکھانا دراصل خدا ہی کا کام ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آیاتِ قرآن، آیاتِ آفاق، اور آیاتِ انفس سب کی سب اللہ تبارک و تعالیٰ کے بے مثال معجزات ہیں، انہی میں علم و معرفت کے درجات مقرر ہیں۔

۷۔ خطبۃ البیان میں حضرت امیرالمومنین علی علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: اَنَا آیَاتُ اللہِ الْکُبْرٰی = میں اللہ تعالیِ کے عظیم معجزات ہوں۔ یعنی میرے عالم شخصی میں خدا کے تمام معجزات موجود ہیں، کیونکہ امام مبینؑ میں باطنی ارض و سما محدود و محصور ہوتا ہے، جس سے کوئی چیز باہر نہیں ہو سکتی، پس حضرتِ امامِ عالی مقامؑ کے نور میں باطنی معجزات کا مشاہدہ ہو جاتا ہے، جیسے حکیم پیر ناصر خسرو ق س نے اپنے پُرحکمت دیوان میں فرمایا:

برجانِ من چو نورِ امام الزّمان بتافت          لیل السّرار بودم شمس الضحیٰ شدم

 

۱۱۹

 

میں قبلاً قمری مہینے کی آخری رات کی طرح تاریک تھا، لیکن جب میرے باطن میں امامِ وقت کا نور طلوع ہوگیا تو اس سے میں آفتاب چاشت کی طرح تابان و درخشان ہو گیا۔

۸۔ امامِ عالی مقام صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہٗ کا نورِ پاک عظیم المرتبت پیروں، بزرگوں اور عالی ہمت مریدوں کے پاکیزہ باطن میں طلوع ہوتا رہا ہے، کیونکہ یہی وہ نورِ واحد ہے جو خداوندِ عالم اور پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی جانب سے تمام انسانوں کی ہدایت کے لئے مقرر ہے، یہاں یہ ضروری نکتہ بھی یاد رہے کہ اسلام کی ہدایت دو قسم کی ہے، قسمِ اوّل کا تعلق لوگوں کے اختیار اور خوشی سے ہے، اور قسمِ دوم میں زبردستی کی ہدایت ہے، ان دونوں ہدایتوں کے نمونے زمانۂ نبوّت کی تاریخ میں موجود ہیں، چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے: ۔

وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ (۰۳: ۸۳) اور حق تعالیٰ کے سامنے سر افگندہ ہیں جتنے آسمانوں اور زمین میں ہیں، خوشی سے اور بے اختیاری سے اور سب خدا ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔

۹۔ ربّ العزّت کا ارشادِ گرامی ہے: يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ (۱۷: ۷۱) اس دن (کو یاد کرو) جب ہم اہلِ زمانہ کو ان کے امام (پیشوا) کے توسط سے بلائیں گے۔

اے برادران و خواہرانِ دینی! میرا خطاب آپ ہی سے ہے، میں کسی اور سے مخاطب نہیں کہ “نَدعُوْا” اس آیۂ کریمہ میں فعلِ

 

۱۲۰

 

مضارع ہے، آپ اس میں خوب غور کریں، تاہم آپ سب پر یہ سرِعظیم منکشف ہو چکا ہے کہ ہر امام کے زمانے میں ایک قیامتِ صغریٰ برپا ہو جاتی ہے، اس میں قیامتِ کبریٰ اس طرح لپیٹی ہوئی ہے جس طرح عالمِ صیغر میں عالمِ کبیر، بہر کیف نمائندہ قیامت اسلام کی زبردستی دعوت ہے تاکہ اہلِ زمانہ اس عظیم الشّان وسیلے سے بہشت میں داخل ہو سکیں۔

۱۰۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے علم کو عوام سے مخفی رکھا ہے (۲۰: ۱۵) تاکہ اللہ و رسولؐ کی طرف سے جو علم کا خزانہ دار ہے، اس سے رجوع کیا جائے، جب رجوع ہو جاتا ہے تو اس حال میں پہلے علم الیقین کا مرحلہ آتا ہے، پھر تمام شرائط کی تکمیل پر عین الیقین کا دروازہ کھل جاتا ہے، مگر روحانی انقلاب اس درجہ سے بہت آگے ہے، اور حق الیقین اس سے بھی بہت آگے ہے، تاہم منزلِ مقصود وہی ہے، اس لئے اگر اللہ نے چاہا تو “فَناَ فِی الْاِمَامْ” غیر ممکن نہیں، جس میں فنا فی الرسول بھی ہے اور فنا فی اللہ بھی، نیز مرتبۂ حق الیقین بھی یہی ہے، جس کا مقصد و منشا کنزِ اسرارِ ازل کا حصول ہی ہے۔

۱۱۔ آپ یہ بات بھول نہ جائیں کہ جو اصل تصوف ہے اس کے علم کا منبع و سرچشمہ بھی نورِ امامت ہی ہے، کیونکہ بمرتبۂ جانشینِ رسولؐ مولا علیؑ نے شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت (تصوف)، حقیقت، اور معرفت کی تعلیمات کا آغاز کیا، چنانچہ فنا فی اللہ و بقا باللہ کے بارے میں اچھی طرح سوچنا ہوگا کہ جو عارفین و کاملین اس مرتبۂ آخرین پر فائز و نائل

 

۱۲۱

 

ہو جاتے ہیں ان میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ ان کو مومنین کیسے پہچان سکتے ہیں؟ اور وہ حضرات لوگوں کو کیا چیز دے سکتے ہیں؟

۱۲۔ تصوف کی دوسری بہت بڑی اصطلاح “سیر فی اللہ” ہے، یعنی خدا کی ہستی میں چلنا، جو سیرِ الی اللہ اور فنا فی اللہ کے بعد ہی ممکن ہے، جیسے حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہ نے ارشاد فرمایا ہے: ۔

کہا جاتا ہے کہ ہمارا و جود خدا میں ہے، ہم خدا ہی میں رہتے اور حرکت کرتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں اکثر یہی تصور ظاہر فرمایا گیا ہے، یقیناً ان الفاظ میں نہیں بلکہ بے حد خوبصورتی اور نہایت موزونیت کے ساتھ بیان ہے۔

۱۳ ۔ قرآنِ کریم کا پُرحکمت اشارہ ہے کہ علم الاسرار کا سب سے بڑا خزینہ مجمع البحرین کے مقام پر ہے، یعنی جہاں ید اللہ روحانی و علمی کائنات کو بار بار لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے، اور المثل الاعلیٰ (۳۰: ۲۷) کا مظاہرہ بڑی سرعت سے ہوتا رہتا ہے، جس کے سبب سے ازل و ابد کے امور یک جا ہو جاتے ہیں، اور لپیٹ کی وجہ سے تمام متضاد حقیقتیں ایک دوسرے کے انتہائی قریب آجاتی ہیں، ایسے میں مومنِ سالک کی ازلی پیدائش اور آخری رجوع (ابداع و انبعاث) ایک ساتھ ہو جاتا ہے، وہ جسماً دنیا میں اور مکان و زمان کی حدود میں ہوتا ہے، مگر روحاً آسمان بہشت، لامکان، اور لازمان میں ہوتا ہے۔ا َلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی مَنِّہٖ وَاِحْسَانِہٖ۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

اتوار ۱۰  ؍شوال المکرم  ۱۴۱۵ ھ    /  ۱۲؍مارچ  ۱۹۹۵ء

 

۱۲۲

 

حکمتِ جہادِ اکبر

 

۱۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا ارشاد ہے: اَلْمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہٗ ۔ بڑا مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے (جیسا کہ جہاد کا حق ہے) حضورِ اکرم صلعم نے اس سلسلے میں یہ بھی فرمایا: رَجَعْنَا مِنَ الْجِھَادِ الْاَصْغَرِ اِلیَ الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ۔ اب ہم چھوٹے جہاد (یعنی کافروں کے ساتھ لڑنے) سے لوٹ کر بڑے جہاد کی طرف آئے (اب نفس سے جہاد کریں گے)۔

۲۔ اس تعلیمِ نبوّی سے یہ حقیقت اہلِ بصیرت کے سامنے روشن ہو جاتی ہے کہ نفس کے خلاف جنگ کرنے کا نام جہادِ اکبر اس معنیٰ میں ہے کہ وہ انتہائی ضروری امر ہے ، کیونکہ عالمِ شخصی کی سلطنت پر گویا دشمن کا قبضہ ہے جس کا سبب نفس کے سوا اور کون ہوسکتا ہے، جیسےرسولِ اکرمؐ کا ارشاد ہے: اَعْدٰی عَدُوِّکَ نَفْسُکَ الَّتِیْ بَیْنَ جَنْبَیْکَ۔ تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا وہ نفس ہے جو تیرے دو پہلوؤں کے درمیان ہے۔

۳۔ مولانا رومی کی مثنوی یقیناً قابلِ تعریف اور لائقِ تحسین ہے اسی لئے یہ بیت مشہور ہے:

 

۱۲۳

 

مثنویٔ مولویٔ معنوی           ہست قرآنِ در زبانِ پہلوی

رومی نے اپنی مثنوی کے دفترِ ششم میں حدیثِ “مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا” کے حوالے سے نفسانی موت کا ذکر فرمایا ہے، اس حدیث کی منظومہ تفسیر کے عنوان میں حکیم سنائی قدسِ سرہ کا یہ دلآویز شعر درج ہے:

بمیر اے دوست پیش از مرگ اگر می زندگی خواہی

کہ ادریس از چنین مردن بہشتی گشت پیش ازما

اے دوست! جسمانی موت سے پہلے (نفسانی طور پر ) مرجا، اگر تو زندگی چاہتا ہے، کیونکہ ادریسؑ اسی طرح مرنے سے ہم سے بہت پہلے بہشت میں جا چکا ہے۔

۴ ۔ اس مناسبت سے حضرتِ ادریس علیہ السّلام کا مختصر قصّہ یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی سنّتِ عالیہ کے مطابق عارفین و کاملین ہی کی طرح نفسانی موت کا عظیم معجزہ دکھایا، جس میں قیامتِ صغریٰ کا آغاز ہوتا ہے، پھر رفتہ رفتہ منازلِ روح سے مرتبۂ عقل پر بلند فرمایا (سورۂ مریم ۱۹: ۵۶ تا ۵۷) یہی مرتبہ حقائق و معارف کا جامع الجوامع ہے، بہ این وجہ اس کے بے شمار اسماء ہیں، یقیناً اسی مقام پر حضرت آدم علیہ السّلام کو علم الاسماء کی تعلیم دی گئی تھی، مگر یہاں یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ مرتبۂ عقل پر مساواتِ رحمانی ہی ہے، اس لئے وہاں سب کے سب برابر ہیں۔

۵۔ خزائنِ قرآن کے جواہر کبھی ختم نہیں ہوتے، چنانچہ یہ ایک

 

۱۲۴

 

بہت بڑا علمی گوہر ہے، جس کی روشنی میں نفسانی موت ایک یقینی حقیقت ثابت ہو جاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل نے بچھڑے کو معبود مان کر اپنے آپ پر شرک کا بہت بڑا ظلم کیا تو اس وقت سزا اور باری تعالیٰ کی طرف لوٹ جانے کےلئے ان پر نفس کشی لازم کی گئی، اور فَاقْتُلُوْ آاَنْفُسَکُم ( ۰۲: ۵۴) کے اصل معنی یہی ہیں، کیونکہ توبہ آدمی کا ذاتی عمل ہے، جس میں دوسرے کی تلوار کا کوئی دخل نہیں، نیز توبہ کے حقیقی معنی ہیں رجوع الی اللہ، یعنی مراحلِ روحانیت سے آگے چل کر اللہ تعالیٰ کے قربِ خاص کو حاصل کرنا، پس “فَاقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ” میں بنی اسرائیل کی مثال کے حجاب میں خواص کو یہ حکم ہے کہ وہ اضطراری موت سے قبل اختیاری موت کے ثمرات سے فائدہ اٹھائیں۔

۶۔ بے جان چیزیں (جمادات) جب تک نباتات میں فنا نہ ہو جائیں تو ان کو روحِ نباتی نہیں ملتی ہے، جو نباتات حیوان کی غذا نہیں بنتیں، وہ حیوانی روح میں زندہ نہیں ہوسکتی ہیں، حیوان وہی خوش نصیب ہے جو انسان کی خوراک ہو کر انسان بن جاتا ہے اور آدمی وہی بڑا نیک بخت ہے جو حقیقی پیروی سے انسانِ کامل میں فنا ہو کر انسانِ کامل جیسا ہو جاتا ہے، یہ بیان اتنا روشن اور ایسا مدلّل ہے کہ اس کو کوئی شخص رد نہیں کرسکتا ہے۔

۷۔ آپ نے قانونِ فطرت کی مذکورۂ بالا مثالوں میں سوچا ہوگا کہ ہر فنا کے بعد ایک بقا اور ہر موت کے بعد ایک ولادت

 

۱۲۵

 

ہے، پس کوئی شخص ہرگز یہ نہ سمجھے کہ نفسانی موت برائے موت ہے اور بس، بلکہ یہ برائے پیدائشِ روحانی ہے، جیسے حکیم پیر ناصر خسرو ق س کے پرحکمت دیوان میں ہے: ۔

گرچت یکبار زادہ اند بیابی             عالم دیگر اگر دوبارہ بزائی

ترجمہ: اگرچہ تجھ کو (فی الحال) ایک بار جنم دیا گیا ہے (لیکن) تجھ کو ایک اور عالم ملے گا اگر تو دوبارہ پیدا ہو جائے۔ یعنی جب تجھے جسمانی ولادت سے یہ مادّی دنیا ملی ہے تو روحانی ولادت سے عالمِ شخصی کی سلطنت کیوں نہ ملے، یہ اسی زندگی کا امکانی معجزہ ہے، چنانچہ مثنوی میں ہے: ۔

زادۂ ثانی ست احمد درجہان            صد قیامت بود او اندر عیان

دنیا میں حضرتِ محمدؐ کی دوسری ولادت ہے، آپ صلعم کھلم کھلا سو۱۰۰ قیامتیں تھے۔ یعنی حضورِ اکرمؐ روحانی ولادت اور عقلی ولادت کی سب سے روشن اور سب سے عظیم مثال ہے۔

۸۔ چونکہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن  ……..، اس لئے ہمارا یہ یقین ہے کہ قرآنِ مجید میں جہاں جہاں جسمانی موت کا ذکر آیا ہے وہاں نفسانی موت کی حکمت بھی مذکور ہوئی ہے، اور کئی آیاتِ کریمہ میں جن شہیدوں کی تعریف فرمائی گئی ہے، وہ بھی ظاہری و باطنی دو قسم کے ہیں، اس حقیقت کی ایک مثال یہ ہے:۔

 

۱۲۶

 

أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكُّمْ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ  (۰۴: ۷۸) تم چاہے کہیں بھی ہو وہاں ہی تم کو موت آ دبا دے گی، اگرچہ تم مضبوط میناروں ہی میں ہو۔ اس کا ظاہری مطلب سب پر عیان ہے، لیکن باطنی حکمت مخفی ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب قیامتِ صغریٰ کے لئے صور پھونکا جاتا ہے، اس وقت لوگ اپنے اجسام کی قبروں سے نکل کر روحانیّت کے مضبوط میناروں (ٹاورز) میں پناہ لیتے ہیں، لیکن پھر بھی نفسانی موت ان پر واقع ہو جاتی ہے، کیونکہ یہ ان کے حق میں بے حد مفید ہے، اور روحانیّت و عقلانیّت کے مضبوط مینار یہ ہیں: امامؑ ، باب، حجج، اور دعاۃ۔

۹۔ سورۂ لقمان کے آخر میں ارشاد ہے: وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ (۳۱: ۳۴) اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ اس حکم کا زیادہ سے زیادہ تعلق نفسانی موت اور حشر سے ہے، کیونکہ کوئی آدمی یہ نہیں جانتا کہ اس کی نفسانی موت حدودِ جسمانی میں سے کس میں آئے گی۔

۱۰۔ اللہ تعالیٰ جس شخص کو نفسانی موت کے بعد زندہ کر کے ایک نور عطا کرتا ہے، وہ اس نور کے ذریعے سے عوالمِ شخصی میں چل پھر سکتا ہے، مگر اس معجزانہ عمل پر موجودہ زندگی میں حجاب ہے، وہ اپنے اس انتہائی عظیم کارنامے کو بہشت میں جاکر دیکھ لے گا (۰۶: ۲۲)۔

۱۱۔ جہاں ہادیٔ برحقؑ کا نورِ ہدایت ہے وہاں زندہ بہشت ہے، چنانچہ کسی مومن یا مومنہ کا باطن اس نور سے منور نہیں ہو سکتا جب تک

 

۱۲۷

 

کہ آنحضرت صلعم کے اس پُرحکمت ارشاد پر عمل نہ ہو، وہ یہ ہے: ۔

تَخَلَّقُوْ ا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ۔ تم اللہ کی صفات سے متصف ہو جاؤ۔ کیونکہ حدیثِ قدسی میں یہ بھی ہے کہ اللہ اپنے ہر خاص بندے کا کان، آنکھ، ہاتھ اور پاؤں ہو جاتا ہے، اور یہ اشارہ ہے کہ دوستانِ خدا فنا فی اللہ ہو کر تَخَلَّقُوْ ا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ کے مصداق بن جاتے ہیں، اور اس میں کیا شک ہو سکتا ہے، کہ جبکہ نورانی بہشت میں کوئی مرتبہ غیر ممکن نہیں ، اور ربّ العزّت وہ خزانۂ ازل ہے جس کو ہر عارف معرفت کے درجۂ کمال پر حاصل کرکے اپنا سکتا ہے، اور یہ اس کی لامحدود عنایت و نوازش ہے۔

۱۲۔ جسمانی پیدائش اور جزوی موت و حیات طویل سلسلے سے قطع نظر ایک مکمل انسان اپنے باطن میں دو مرتبہ مرکر دو مرتبہ زندہ ہو جاتا ہے، یعنی نفسانی طور پر مر جانے کے بعد روحانیّت میں زندہ ہو جاتا ہے، پھر روحانی طور پر مر کر عقلانیّت میں زندہ ہو جاتا ہے، اسی باطنی عروج و ارتقاء کے بارے میں حضرت عیسیٰؑ کا یہ ارشاد مشہور ہے: ۔

لَنْ یَلِجَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ مَنْ لَمْ یُوْ لَدْ مَرَّتَیْنِ۔ جو شخص دو دفعہ پیدا نہ ہو جائے وہ ہرگز آسمانوں کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا۔

۱۳۔ ظاہری جہاد میں مومن یا تو غازی ہوسکتا ہے یا شہید، لیکن روحانی جہاد بڑا عجیب معجزہ ہے کہ اس میں جو شہید ہے وہی غازی بھی ہے، اس کی وجہ اور عظیم حکمت یہ ہے: وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (۰۳: ۱۶۹)

 

۱۲۸

 

اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے ربّ کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں۔ اس آیۂ کریمہ میں شہادت کے دونوں درجوں کا ذکر فرمایا گیا ہے:

۱۔ شہدائے ظاہر کی نشانی یہ ہے کہ وہ جسماً مرجاتے ہیں، مگر روحاً زندۂ جاوید ہو جاتے ہیں۔

۲۔ شہدائے باطن کی یہ علامت ہے کہ وہ نفساً مر کر فنا فی اللہ کا درجہ رکھتے ہیں، اس لئے ان کے پاس اعلیٰ رزق یعنی علم ہوتا ہے۔  عِنْدَ رَبِّھِمْ کا مطلب فنا فی اللہ ہے، کیونکہ عالمِ وحدت میں دوئی ٹھہر نہیں سکتی، جیسے ذرۂ آہن مقناطیس سے یا تو دور رہ سکتا ہے یا مل کر، مگر انتہائی قریب ٹھہر ہی نہیں سکتا۔ سُبْحَانَ اللہ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی،    ہفتہ ۱۶؍ شوال المکرم  ۱۴۱۵ ھ    /  ۱۸؍ مارچ  ۱۹۹۵ء

 

۱۲۹

 

حکمتی سوال و جواب

 

سوال۔ ۱: سورۂ ہود (۱۱: ۰۷) میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: (ترجمہ) اور وہ تو وہی (قادرِ مطلق) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور (اس وقت) اس کا عرش پانی پر تھا۔ آپ اس آیۂ کریمہ کی تاویلی حکمت بیان کریں۔

جواب: (الف) اللہ تعالیٰ نے عالمِ دین کے باطنی آسمانوں اور زمین کو چھ ناطقوں کے ادوارِ کبیر میں پیدا کیا اور پھر اس کا عرش یعنی مرتبۂ حضرتِ قائم علیہ السّلام ساتویں دور میں بحرِ علوم پر اپنا کام کرنے لگا۔ (ب) خدائے بزرگ و برتر نے عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کو چھ ادوارِ صغیر میں مکمل کر دیا، اور بعد ازان اس کا عرش یعنی نورِ قائم القیامت بحرالعلوم پر مساواتِ رحمانی کے امور کو انجام دیتا رہا۔

سوال۔ ۲: سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۰۵) میں ارشاد ہے: الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى۔ اس کے کیا معنی ہیں؟ اور اس میں کیا راز ہے؟

جواب: جاننا چاہئے کہ عرش فرشتۂ عقلِ کلّ کی صورت میں حضرتِ قائم علیہ السّلام کا نور ہی ہے، جس پر اللہ تبارک و تعالیٰ

 

۱۳۰

 

اپنی صفتِ رحمانیّت کی تجلّی ڈالتا ہے، تاکہ ہر عارف اپنے عالمِ شخصی ہی میں کُنْتُ کَنْزاً کے عظیم اسرار کو حاصل کر سکے۔

سوال ۔ ۳: اس حدیثِ شریف کی تاویلی حکمت بتائیں: خلق اللہَ اٰدم علیٰ صورتہٖ ۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی (رحمانی) صورت پر پیدا کیا۔ یہ حدیث کس آیت کی تفسیر کر رہی ہے؟

جواب: ہر پیغمبر اور ہر امام آدم کی طرح نفسِ واحدہ کہلاتا ہے اور سب کے حق میں سنتِ الٰہی کا عمل ایک جیسا ہوا کرتا ہے، پس آدم ہو یا اور کوئی انسانِ کامل جب وہ فانی فی اللہ و باقی باللہ ہو جاتا ہے تو اس وقت رحمانی صورت پر اس کی عقلی تخلیق ہوتی ہے، اور یہی مرتبت عقلی ولادت بھی ہے، اس  سرِعظیم سے متعلق خاص آیۂ کریمہ سورۂ رحمان (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) میں ہے، اس پرحکمت آیت کا ایک مفہوم یہ ہے: عالمِ شخصی میں جتنے بھی نفوس ہیں وہ سب کے سب شخصِ کامل میں جذب و فنا ہو جاتے ہیں، اور وہ عالمِ شخصی کا آدم چہرۂ ربّ کے نور میں فنا ہو کر صورتِ رحمان ہو جاتا ہے۔

سوال۔ ۴: حدیثِ شریف میں یہ بھی ہے کہ: اہلِ ایمان اپنے باپ آدم کی صورت (یعنی رحمانی صورت) پر بہشت میں داخل ہو جائیں گے، یہ کس طرح ممکن ہے، جبکہ آدمؑ مسجودِ ملائک اور خلیفۃ اللہ ہیں؟

جواب: اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو غیر ممکن ہو، جو کچھ

 

۱۳۱

 

حدیثِ صحیحہ میں ارشاد ہوا ہے وہ حق اور حقیقت ہے، پس صراطِ مستقیم دنیا کی کسی جرنیلی سڑک کا نام ہے نہیں، یہ تو انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کی راہِ روحانیت ہی ہے، جو روحانی اور عقلانی عجائب و غرائب اور عظیم معجزات سے بھرا ہوا راستہ ہے، جس کی منزلِ مقصود فنا فی اللہ و بقا باللہ ہے، ظاہر ہے کہ ایسے میں ہر مومنِ سالک چہرۂ خدا کا عکس ہو جائے گا، کیونکہ فنا دیدارِ اقدس کے زیرِ اثر ہے۔

سوال۔ ۵: سورۂ کہف (۱۸: ۸۲) میں ہے: اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں، اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لئے ایک خزانہ مدفون ہے، اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا، اس لئے تمہارے ربّ نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ آپ عالمِ شخصی کی تاویل کی روشنی میں بتائیں کہ وہ دیوار کیا ہے؟ یہ دونوں یتیم لڑکے کون ہیں؟ اور اس خزانے میں کس نوعیت کا مال ہے؟

جواب: یہ دیوار وہی ہے جو ظاہر و باطن کے درمیان بنائی گئی ہے (۵۷: ۱۳) تاکہ خزانۂ اسرارِ باطن اغیار سے محفوظ رہے، دو یتیم لڑکے سالک کی عقل و جان ہیں، اس مثال کے مطابق سالک خود نفسانی جہاد میں شہید بھی ہوچکا ہے اور زندہ بھی ہے، اور اس کے دونوں بچے بالغ ہو کر یعنی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ سے رجوع ہو کر اپنے خزانۂ علم و معرفت کو حاصل کریں گے۔

سوال ۔ ۶: حضرتِ مولا علی صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہٗ نے ارشاد

 

۱۳۲

 

فرمایا: اَنَا ذَالِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ ۔ میں وہ کتاب ہوں جس میں کسی قسم کا شک و ریب نہیں ہے۔ ایسے میں کتابِ ناطق کی ظاہری خصوصی اور باطنی نورانی ہدایت متقین کے لئے مقرر ہو گی، پھر یہاں یہ سوال ہے کہ اس قرآنِ ناطق یا نورِ امامت کی نسبت سے متقین کون ہیں؟ اور ان کے کیا کیا اوصاف ہیں؟

جواب: متقین سے اساس (علیؑ) کے حجج مراد ہیں اور حجت کی تعریف یہ ہے:

از دلِ حجّت بحضرت رَہ بُوَد          او بتائیدِ دلش آگہ بُوَد

ترجمہ: حجّت کے دل سے حضرتِ امامؑ تک (باطنی) راستہ ہوا کرتا ہے، اور وہ (امامؑ) اپنے حجّت کے دل میں تائید پہنچانے کے لئے آگاہ ہے۔

ان متقین کے اوصاف و کمالات یہ ہیں: روحانیّت و عقلانیّت غیب ہے، وہ عین الیقین سے دیکھتے ہوئے اس پر ایمان رکھتے ہیں، نماز یعنی دعوتِ حق کا فریضہ انجام دیتے ہیں، رزق یعنی علمِ لدّنی جو اللہ کے حضور سے عطا ہوا ہے اسی سے لوگوں کو فیض بخشتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو آنحضرتؐ کی کتاب (قرآن) اور اگلی کتابوں پر ظاہراً و باطناً ایمان رکھتے ہیں، چونکہ یہ نفسانی طور پر مر چکے ہیں اور ان کو روزِ قیامت کا مشاہدہ ہوا ہے لہٰذا یہ لوگ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں، اور یہ ساری برکات قرآنِ ناطق کی ہیں، یہی لوگ اپنے ربّ کی طرف سے روشن ہدایت پر ہیں، اور یہی

 

۱۳۳

 

لوگ کلّی طور پر کامیاب ہیں۔

سوال ۔ ۷: حدیثِ شریف میں ہے: اِذَ ا وُضِعَ الْمَیِّتُ فِی الْقَبْرِ اَتَاَ ہُ مَلَکَانِ مُنُکَرٌ وَّ نَکِیْرٌ۔ جب میّت قبر میں اتار دی جاتی ہے، تو اس کے پاس منکر و نکیر دو فرشتے آتے ہیں۔ آیا اس میں کوئی تاویل ہے؟

جواب: جی ہاں، اس میں تاویل ہے، اور وہ یوں ہے کہ جب سالک منزلِ عزرائیلی میں نفسانی طور پر مر جاتا ہے تو اس وقت اس کو اپنے جسم کی زندہ قبر میں رکھ دیا جاتا ہے، اور ان دونوں فرشتوں کے کئی اچھے نام بھی ہیں، چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ دوستانِ خدا کے حق میں منکر اور نکیر دوست فرشتوں میں سے ہو جاتے ہیں۔

چونکہ سالک (انسانِ کامل) کی مذکورہ موت نمائندہ قیامت کے سلسلے میں ہے، اس لئے اہلِ زمانہ بھی اس میں شریک ہوتے ہیں، مگر غیر شعوری طور پر، اور ان کے نمائدہ ذرّات کی قبریں بھی شخصِ کامل ہی میں ہوا کرتی ہیں، لہٰذا مذکورہ بالا حدیث کا اطلاق سب پر ہوتا ہے، پس ظاہری قبر مثال ہے اور روحانی قبر اس کی حقیقت، قیامتِ صغریٰ کے علاوہ جب بھی کوئی آدمی مر جاتا ہے تو اس کی روح عالمِ شخصی کی زندہ قبر میں دفنائی جاتی ہے۔

سوال۔ ۸: لغات الحدیث میں ہے: القلوب اربعۃ ۔ دل چارطرح کے ہیں (ایک تو وہ دل جس میں ایمان اور نفاق دونوں ہوتے ہیں، دوسرا منکوس یعنی مشرک کا دل، تیسرا مطبوع یعنی منافق کا دل، چوتھا

 

۱۳۴

 

روشن اور صاف، وہ مومن کا دل ہے، جو روشن چراغ کی طرح ہوتا ہے)۔ کیا آپ کوئی ایسی قرآنی آیت بتاسکتے ہیں جس سے مذکورہ حقیقت مزید روشن ہو جائے؟

جواب: ان شاء اللہ، آیۂ کریمہ کی نشاندہی کی جاسکتی ہے، وہ سورۂ انفال (۰۸: ۲۴) میں ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کی دعوت کو مان لو جب کہ رسولؐ تم کو حیات بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں اور اس بات کا علم حاصل کرو کہ اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے قلب کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔

اس آیۂ شریفہ میں اسمِ اعظم سے ملنے والی حیاتِ طیبہ اور روحانی علم کی دعوت دی گئی ہے تاکہ خاص مومنین عین الیقین سے دیکھ سکیں کہ کس طرح حق تعالیٰ کا نور ان کے آئینۂ دل میں جلوہ نما ہو رہا ہے۔

سوال ۔ ۹: قرآنِ حکیم میں قیامت کے بہت سے اسماء آئے ہیں، ہر اسم حکمت سے مملو ہونے کی وجہ سے اپنے اندر ایک مضمون لئے ہوئے ہے،  چنانچہ قیامت کا ایک بڑا شاندار نام ہے: یَوْمَ تُبْلَی السَّرَآئِرُ  (۸۶: ۰۹) جس روز پوشیدہ اسرار کی جانچ پڑتال ہوگی۔ اس کی کیا وضاحت ہو سکتی ہے؟

جواب: ہمارے حساب کا ہزار سالہ دور خدا کے نزدیک ایک دن شمار ہوتا ہے (۲۲: ۴۷) پس قرآنِ پاک میں جگہ جگہ روزِ قیامت کے عنوان سے دورِ قیامت کا ذکر آیا ہے، جو دورِ تاویل کہلاتا ہے، جس میں لوگوں سے اسرارِ معرفت اور رموزِ حکمت کی آزمائش ہے، اور

 

۱۳۵

 

وہ یہی زمانہ ہے، ظاہری سائنس کی جیسی شاندار ترقی ہوئی ہے، وہ بھی زبانِ حال سے کہہ رہی ہے کہ دیکھو باطن میں روحانی علم کا جدید طوفان آیا ہے۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل ۶ ۲ ؍شوال المکرم ۱۴۱۵ ھ    /  ۲۸؍ مارچ  ۱۹۹۵ء

 

۱۳۶

 

قرآن میں محنت و سبقت کا حکم

 

۱۔ جلدی کرو:

وَسَارِعُوْآ (۰۳: ۱۳۳) اور جلدی کرو اپنے ربّ کی بخشش اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین جیسی ہے۔ یہاں آیۂ شریفہ میں صیغۂ امر”سَارِعُوْا” ہے، جس کا ترجمہ علمائے کرام نے اس طرح کیا ہے: جلدی کرو، تیزی سے دوڑو، دوڑ کر چلو، دوڑ پڑو، وغیرہ، بہ ہرکیف مطلب ایک ہی ہے، وہ یہ کہ اہلِ ایمان علم و عمل کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کے لئے سخت محنت اور جانفشانی سے کام لیں، وہ تمام دینی فرائض کو درست اور ٹھیک وقت پر انجام دیں، غفلت و سستی کو دل میں نہ آنے دیں، ہمہ وقت خدا کو یاد کرتے رہیں، نیّت، قول اور عمل میں اخلاص و پاکیزگی کا جوہر پیدا کریں، اور ہمیشہ خوفِ خدا کی حکمت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے رہیں۔

۲۔ آگے بڑھو / سبقت کرو:

سَابِقُوْآ (۵۷: ۲۱) دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے

 

۱۳۷

 

کی کوشش کرو، اپنے ربّ کی مغفرت اور اس کی جنّت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے۔ قرآنِ حکیم کا ہر حکم ایسی بےمثال جامعیّت کا حامل ہے کہ اس کے آئینۂ معنویت میں دیگر تمام احکام کے چہرے بھی نظر آتے ہیں، اس نظام کے ساتھ ساتھ سبقت کا یہ حکم براہِ راست بھی ہمہ گیر قسم کا ہے کہ اس کا اطلاق جملہ نیات، اقوال، اور اعمال پر ہوتا ہے، یعنی اس میں مجموعی اعمال کی قدرو قیمت کی بناء پر سبقت کرنے کا امر ہے۔

۳۔ خدا ہی کی طرف بھاگو:

فَفِرُّ وْآاِلَی اللہِ: (۵۱: ۵۰) تو خدا ہی کی طرف بھاگو۔ (الف) تاکہ نفس اور شیطان کے خطرات سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ گاہ میں داخل ہو سکو (ب) تاکہ تمہاری کوشش کے مطابق درجات مرتب ہوسکیں (ج) اور تم میں سے جو لوگ کلی سبقت لے جائیں ان کو بہشت بنا دیا جائے، پس دوڑنے کے حکم میں ایسے اشارے پوشیدہ ہیں جن کے سمجھنے میں حکمت اور خیر کا فائدہ ہے۔

۴۔ سات شدید آسمان:

سَبْعاً شِّدادًا ( ۷۸: ۱۲) اور ہم نے تمہارے اوپر سات شدید آسمان بنائے (اور ہم ہی نے روشن چراغ بنایا۔  ۷۸: ۱۳) یعنی عالمِ شخصی کے سات آسمان جو صاحبانِ ہفت ادوار کے روحانی مراتب

 

۱۳۸

 

ہیں، ان سے گزر کر روشن چراغ (نورِعقل) تک رسا ہو جانا سالک کے لئے انتہائی شدید مشکل سفر ہے، تاہم وہ اللہ کی عنایت سے صاحبِ عرش میں فنا ہو سکتا ہے۔

۵۔ تم تو بغیر قوّت اور غلبہ کے نکل ہی نہیں سکتے:

لاَ تَنفُذُونَ إِلاَّ بِسُلْطَانٍ (۵۵: ۳۳) اے گروہِ جنّ و انس! اگر تم میں قدرت ہے کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل سکو تو نکل جاؤ (مگر) تم تو بغیر قوّت اور غلبہ کے نکل ہی نہیں سکتے۔ حضرتِ آدم، حضرتِ نوح، حضرتِ ابراہیم، حضرتِ موسیٰ ، حضرت عیسیٰ ، حضرت محمد، اور حضرتِ قائم علیہم السّلام عالمِ دین اور عالمِ شخصی کے سات آسمان اور ان کے حجج سات زمین ہیں ( وَمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَھُنَّ ۔ ۶۵: ۱۲) یہی مراتب چودہ طبق ہیں، ان سے ہوتے ہوئے اوپر جا کر عالمِ وحدت میں فنا ہو جانا جنّ و انس کے لئے انتہائی مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ یہاں سلطان سے روحانی تائید کا غلبہ مراد ہے، جس کے بغیر چودہ طبق سے گزر کر عالمِ وحدت میں فنا ہو جانا محال ہے۔

۶۔ تم درجہ بدرجہ ( رتبۂ اعلیٰ پر) چڑھو گے:

لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ (۸۴: ۱۹) سو قسم کھاتا ہوں شام کی سرخی کی، اور رات کی اور جو کچھ وہ ڈھانک لیتی ہے، اور چاند کی جب پورا ہو جائے کہ تم درجہ بدرجہ ( رتبۂ اعلیٰ پر) چڑھو گے۔ یعنی تم کو رجوع الی اللہ کے لئے

 

۱۳۹

 

چودہ طبق سے اوپر چڑھنا ہے۔

۷۔ ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ فِي كَبَدٍ(۹۰: ۰۴)  مجھے اس شہر (مکہ) کی قسم اور تم تو اسی شہر میں رہتے ہو اور باپ اور اس کی اولاد کی قسم کہ ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے۔ اس شہر سے اساس مراد ہے، جس میں نورِ ناطق منتقل ہونے والا تھا، اور وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ   (۹۰: ۰۲) (اور تم اس شہر میں اترنے والے ہو) کا یہی مطلب ہے، اور اساس کی قسم کے بعد باپ اور اولاد کی قسم ہے، جو عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ہیں، اس کے بعد جوابِ قسم کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی روحانی تخلیق و تکمیل اس کی اپنی محنت و ریاضت کی متقاضی ہے، جس کے سوا روحانی ترقی ممکن نہیں۔

۸۔ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے:

وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنسَانِ إِلاَّ مَا سَعَى ( ۵۳: ۳۹) اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے، اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائیگی، پھر اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور یہ کہ تمہارے پروردگار کے پاس پہنچنا ہے۔ اس ربّانی تعلیم میں انسانی کوشش کی اہمیّت اور قدر و قیمت ظاہر کی گئی ہے، معلوم ہے کہ کوشش اور محنت جسمانی، روحانی اور عقلی قوّتوں سے سخت کام لینے کا نام ہے، تاہم نورانی ہدایت

 

۱۴۰

 

ہر حال میں ضروری ہے۔

۹۔ انسان سرعت سے پیدا کیا گیا ہے:

خُلِقَ الإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ (۲۱: ۳۷) انسان سرعت سے پیدا کیا گیا ہے ( یعنی دارالابداع میں اس کی تخلیق امرِ کُنۡ سے ہوئی ہے) اگر عالمِ جسمانی میں سرعت کا کوئی چھوٹا سا کرشمہ دیکھنا ہے تو محنت سے ذکرِ سریع کا تجربہ کریں،          ۱۔ یہ قانونِ فطرت ہے         ۲۔ یہ خدا کی طرف دوڑنا ہے         ۳۔ یہ جہادِ اکبر ہے     ۴۔ یہ اسپِ مجاہد کی دوڑ ہے (۱۰۰: ۰۱)            ۵۔ یہ بجلی گھر کی طرح ہے                   ۶۔ یہ ہوائی جہاز کے انجن کی طرح ہے          ۷۔ یہ کائناتی بھٹی کی مثال ہے، یعنی سورج کی طرح ہے۔

۱۰۔ تم بس محنت سے میری مدد کرو:

فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ  (۱۸: ۹۵) آپ سورۂ کہف ( ۱۸: ۸۳ تا ۹۹) میں قصّۂ ذوالقرنین کو پڑھیں، یہ دراصل امام عالی مقامؑ ہی کا روحانی تذکرہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی عجیب و غریب حکمت بھی سن لیجئے کہ یاجوج و ماجوج روحانی ذرّات کا عظیم لشکر ہے، جو عالمِ شخصی کی فنا برائے بقا کے لئے مقرر ہے، تاہم قبل از وقت فساد سے ان کو روکنا بھی ضروری ہے، جس کے لئے باطنی مدد خدا کے حکم سے امامؑ کرتا ہے اور ظاہری محنت مومنین کرتے ہیں۔

 

۱۴۱

 

۱۱۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرو:

اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا (۳۳: ۴۱) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو، وہ وہی تو ہے جو خود تم پر دورد بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تم کو (جہالت کی) تاریکیوں سے نکال کر (علم کی) روشنی میں لے آئے اور خدا مومنین پر بڑا مہربان ہے۔

اگر خداوندِ قدوس کا ذکر (یاد) کثرت، سرعت، محبت اورعشق سے ہے تو ان شاء اللہ ایسے اہلِ ایمان کو درودِ الٰہی کی روشنی اور سبقت نصیب ہوگی، آسمانی درود میں دو عظیم نعمتیں ہوا کرتی ہیں، وہ رحمت اور علم ہے۔

۱۲۔ انکے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے:

كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمْ الإِيمَانَ (۵۸: ۲۲) ان کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے، اور اپنی ایک خاص روح سے ان کی مدد کی ہے۔ اگر اس پوری آیۂ کریمہ کو نورِ معرفت کی روشنی میں دیکھا جائے تو کئی اسرارِ باطن منکشف ہو سکتے ہیں، چونکہ یہ سورۂ مجادلہ کی آخری ایت ہے، لہٰذا اس میں بکھرے ہوئے جواہر کا خزانہ جمع کیا گیا ہے، جس میں میری چھوٹی سی عقل کے مطابق بارہ مقفل صندوق رکھے ہوئے ہیں جو عقل و

 

۱۴۲

 

دانش اور علم و حکمت کے گونا گون جواہر سے مملو ہیں، اور وہ ان ناموں سے ہیں: ۔

۱۔ خدا، رسولؐ، اور امام کی دوستی ۲۔ خدا نے لکھا                  ۳۔ قلوب        ۴۔ ایمان         ۵۔ تائید                   ۶۔ روحِ خاص یا تائیدی روح                   ۷۔ جنّات        ۸۔ بہشت کی نہریں    ۹۔ خلود                   ۱۰۔ اللہ کی خوشنودی          ۱۱۔ اہلِ جنّت کی خوشنودی            ۱۲ ۔ حزبُ اللہ (خدا کا گروہ)۔

مثالی سوال: اللہ جلّ جلالہٗ نے اپنے دوستوں کے دلوں میں کس قلم سے ایمان لکھ دیا؟ کس عالم میں؟ کس مقام پر؟ کب یہ فعل واقع ہوا؟ کس نے اس کا مشاہدہ کیا؟ اللہ کی یہ تحریر کس نوعیّت کی ہوتی ہے؟

جواب: خداوندِ عالم نے قلمِ عقل سے ایمان لکھ دیا، عالمِ شخصی میں، مقامِ عقل پر یہ کام ہوا، جب عارف مرتبۂ عقل پر پہنچ گیا، ہر عارف اس سرِ عظیم کا مشاہدہ کرتا ہے، یہ تحریر روحانی، عقلی، اور اشارتی قسم کی ہوا کرتی ہے۔

 

ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر ۲؍ ذی قعدہ   ۱۴۱۵ ھ    /  ۳؍ اپریل  ۱۹۹۵ء

 

۱۴۳

سلسۂ نورِ امامت

سلسلۂ نورِ امامت

ہمہ رس علمی خدمت

خانۂ حکمت کے صدر فتح علی حبیب کی تجویز ہے کہ ہم ادارۂ عارف کے صدر محمّد عبدالعزیز اور ان کی اہلیہ سیکریٹری یاسمین کی قابلِ قدر خدمات پر کوئی سرٹیفکیٹ دیں، اور اسی طرح دوسرے کئی عزیزوں کو بھی، جو علمی خدمت میں پیش پیش ہیں، لیکن میری گزارش یہ ہے کہ سرٹیفکیٹ سے کچھ کام نہیں بنے گا، اس لئے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے ایسے عزیزوں کے بارے میں وقتاً فوقتاً کتابوں میں لکھیں گے، تاکہ ان کے زرّین کارناموں کو سب دیکھ سکیں، اور ان سے آئندہ نسل کو درسِ عالی ہمتی مِلتا رہے۔

صدر محمد عبد العزیز اور ان کی نیک بخت بیگم سیکریٹری یاسمین زمین پر چلنے والے فرشتوں میں سے ہیں، ان کی گرانقدر خدمات کی فہرست بڑی طویل ہے، یہ انہی کا وسیلہ اور احسان تھا، جس سے مجھے امریکا کی جماعت میں ایسے عزیز و عظیم دوست ملے، جو حقیقی علم کے بڑے قدردان ہیں، اور امید ہے وہ عزیزان وہاں اس علم کی روشنی کو پھیلائیں گے، عزیزانم محمد عبدالعزیز اور یاسمین کا ایک اور زرّین کارنامہ تقریباً ڈیڑھ ہزار (۱۵۰۰) آڈیو کیسیٹوں کا ریکارڈ ہے، اگر ریکارڈنگ کا یہ انتظام نہ ہوتا، تو کم از کم ایک ہزار گھنٹے کی مفید تقریر ہوا میں بکھر جاتی۔

 

 

حرفِ آغاز

 

بسمِ اللہ الرحمٰن الرحیم۔

المائدہ کے اس ارشادِ مبارک میں دین اسلام کی اساسی ہدایت کا ذکر فرمایا گیا ہے: قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ  = تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور بیان کرنے والی کتاب آگئی ہے (۰۵: ۱۵)

سوال: اس میں کیا راز ہے کہ آیۂ کریمہ کی ترتیب میں نور کا ذکر پہلے آیا ہے، اور کتاب یعنی قرآن کا ذکر بعد میں ہوا ہے؟

جواب: اس کا راز یہ ہے کہ پہلے پہل حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نورِ نبوّت کی روشنیوں سے منوّر ہوگئے، اور اس کے بعد نزولِ قرآن کا آغاز ہوا۔

سوال: نور اور کتاب کے اس یکجا بیان میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟

جواب: اس کا اشارۂ حکمت ایک تو یہ ہے کہ نور اور کتاب باطن میں ایک چیز ہے، اور ظاہر میں دو چیزیں ہیں، یعنی شخصیّتِ نور، اور کتابِ سماوی، دوسرا اشارہ یہ ہے کہ کتاب کے ساتھ ہمیشہ معلّمِ ربّانی مقرّر ہوتا ہے، اور یہی زندہ نور ہے، جس کی روشنی میں آسمانی کتاب

۷

کا نام کتابِ مبین (بیان کرنے والی کتاب) ہے۔

سوال: مذکورۂ بالا ارشاد سے ماقبل اور ما بعد کی ایک ایک حکمت بیان کریں، تاکہ یہ حقیقت کلّی طور پر یقینی ہوجائے کہ خدا نے ہر آسمانی کتاب کے لئے ایک نورانی معلّم ( نور)  مقرّرفرمایا ہے۔

جواب: آیۂ کریمہ (۰۵: ۱۵) کے شروع میں ایک مفہوم یہ ہے کہ تورات اور انجیل جب اہلِ کتاب کے عام مُعملّوں کے ہاتھ آئیں تو انہوں نے آسمانی کتاب کے حقائق و معارف کو خیانت سے بھی اور ناشناسی سے بھی چھُپا لیا، کیونکہ ان میں نور نہیں تھا، اور مابعد (۰۵: ۱۶) کی ایک حکمت یہ ہے:

خدا نور اور کتابِ مبین کے ذریعے سے ان لوگوں کو جو بہشت سے بھی بڑھ کر اس کی خوشنودی کے طالب ہیں سلامتی کی راہوں (شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت) پر چلاتا ہے، اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے، اور صراطِ مستقیم کی منزلِ مقصود تک پہنچا دیتا ہے (۰۵: ۱۶)۔

“سلسلۂ نورِ امامت” میری اوّلین تصنیف ہے، ادبی اعتبار سے جیسی بھی ہو، لیکن اس کو بہت بڑی سعادت نصیب ہوئی کہ حضرتِ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ وسلامہٗ کے حضورِ اقدس میں پیش کی گئی، اور نظرِ نورانی سے مشرف ہوئی، یہ وہ مبارک سال تھا جس میں مولانا حاضر امامؑ تختِ امامت پر جلوہ گر ہوئے تھے( یعنی ؁۱۹۵۷)۔

۸

میں مظہرِنورِ خدا، آلِ مصطفےٰؐ ، جانشین علیؑ مُرتضےٰؑکے مقدّس در پر بڑی غریبی، حاجت مندی اور عاجزی سے حاضر ہوا تھا، اس لئے جھولی بھردی گئی، حق بات کو کسی بھی وجہ سے چُھپانے سے دوستوں اور بھائیوں کا علمی نقصان ہوسکتا ہے، اس لئے میں انتہائی عاجزی سے عرض کرتا ہوں کہ میں نورِ امامت کے اصولی معجزات کا عرصۂ دراز سے مشاہدہ کرتا رہا، یہی وجہ ہے کہ میں ہر بار نور کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھنے کے لئے سعی کرتا ہوں۔

بعض بھائیوں کا یہ خیال ہے کہ روحانیّت اور نورِ امامت کے اسرار کا برملا تذکرہ نہیں کرنا چاہئے، قربان جاؤں ان کی خیر خواہی سے، بے شک ہر مبتدی کو ایسا نہیں کرنا چاہئے، جب تک کہ اس میں علم کی پختگی نہیں آتی، اور قرآنی حکمت سے آگاہ نہیں ہوتا، اس کے برعکس اگر کوئی شخص نور اور قرآن کے روحانی اور عقلانی عجائب و غرائب اور علم و حکمت کے معجزات کا مشاہدہ کرکے خاموش رہتا ہے تو کیا ایسا شخص قارون کی طرح نہیں ہوگا، جو مالی زکات نہ دینے کی وجہ سے ہلاک ہوگیا؟ کیونکہ مالی زکات مثال ہے، اور علمی زکات ممثول (۲۸: ۷۶) اور علم و حکمت کی یہ روشنی ایک گواہی بھی ہے جس کو اگر کوئی شخص چھپائے تو وہ بہت بڑا ظالم قرار پاتا ہے (۰۲: ۱۴۰)۔

نور سلسلۂ انبیاء کے بعد سلسلۂ آئمّہ میں چلا آیا ہے، اس امرِ

۹

واقعی کے مطابق اس کتاب کا نام “سلسلۂ نورِ امامت” مقرّر ہوا، کتاب کی اہمیّت کے پیشِ نظرعظیم دوستوں نے انگلش میں اس کا ترجمہ بھی فرمایا ہے۔

اس میں علمِ حدودِ دین کا ایک حصّہ بھی ہے، کیونکہ تاویلی حکمت کے ابواب انہی حدود کی کلیدوں سے مفتوح ہوجاتے ہیں، اور اس کی اہمیّت سے یہ بحث الگ ہے کہ اب حدودِ دین کی کیا کیفیّت ہے؟ کیا حضرتِ امامؑ پیدائش کے دن ہی امام ہوتے ہیں یا حدودِ دین کی سیڑھی سے چڑھ کر اپنی مرتبت پر فائز ہوجاتے ہیں؟ بہر حال حدودِ دین کی تاریخی اہمیّت بھی ہے اور ان کے اسماء اصطلاحات بھی ہیں۔

حدیثِ شریف ہے:

ان اللہ مائۃ الف نبی و اربعۃ و عشرین الف نبی من ولد آدم الی القائم۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زمانۂ آدمؑ سے قائم تک (پورے دور کے لئے) اللہ کی طرف سے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے ہیں (سرائرو اسرار النطقاء ۲۰۰) ان تمام حضرات کے طویل سلسلےکا تذکرہ قرآنِ حکیم کے صرف تین الفاظ میں آیا ہے، وہ پُرحکمت الفاظ یہ ہیں: نورٌ علیٰ نور = ایک نُورپر دوسرا نورہے (۲۴: ۳۵) یعنی نور کی ایک شخصیت کے بعد دوسری شخصیت ہوتی ہے، پس نورِ نبوّت کے بعد نورِ امامت کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور کوئی وقت ایسا نہیں، جس میں نور نہ ہو۔

۱۰

یہ تاویلی مثال ہے: نور کو سرچشمہ اور مرکز میں دیکھنا ہے تو سورج کو دیکھ لو، نمائندۂ واحد میں دیکھنا ہو تو چاند کو دیکھ لو، کثیرِمظاہر میں دیکھنا ہے تو ستاروں کو دیکھو، اور اگر نور کو گھر لاکر قریب ہی سے دیکھنا اور پہچاننا ہے تو گھر کا چراغ روشن کرو، چراغِ خانہ سے نورِ معرفت مراد ہے، جو قلب میں ہوتا ہے، یہ چراغ بھی ہے اور آفتاب بھی، یہی سبب ہے کہ نورِ الہٰی کی تشبیہہ و تمثیل گھر کے چراغ سے دی گئی ہے (۲۴: ۳۵)۔

تاویل کی زبان میں ظاہر کو دن اور باطن کو رات کہا گیا ہے، یعنی تنزیل دن ہے اور تاویل رات، چنانچہ نورِ نبوّت آفتاب ہے، یعنی وہ روشنی، جو ظاہر و تنزیل کے لئے چاہئے، اور نورِ امامت ماہتاب ہے یعنی ایسی روشنی، جو باطن و تاویل کے واسطے ضروری ہے، اب یہاں یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ اگر چہ تمام ستارے اپنی اپنی جگہ سورج ہی کے نمائندے ہیں، لیکن صرف چاند ہی وہ واحد نمائندہ ہے، جو قریب ہونے کی وجہ سے اہلِ زمین کو بھرپور روشنی دے سکتا ہے، اسکی تاویلی حکمت یہ ہے کہ آٔئمّہ سلف علیہم السّلام مسافتِ زمان کی وجہ سے ستاروں کی طرح رسائی سے بالاتر ہیں، لیکن امامِ وقت صلوات اللہ علیہ وسلامہٗ چاند کی طرح نزدیک ہے، جو روحانی علم اور تاویلی حکمت کا وسیلۂ واحد ہے۔

۱۱

جس طرح ظاہری سائنس اور ریسرچ ہے، اسی طرح روحانی سائنس اور اس کی ریسرچ ہے، مثال کے طور پر یہاں خدا کے فضل و کرم سے یہ تحقیق کی گئی ہے کہ کائنات کے اکثر ستاروں پر انتہائی ترقّی یافتہ انسان رہتے ہیں، وہ کوکبی بدن (Astral body)رکھتے ہیں، اس جسمِ لطیف کے کئی نام ہیں، جیسے جسمِ مثالی، نورانی پیکر، جثّۂ ابداعیہ وغیرہ، اللہ کی قسم! قرآن اور روحانیّت میں علم و معرفت کی ہر چیز موجود ہے۔

چونکہ “جشنِ خدمتِ علمی” کی آمد آمد ہے، اس لئے میں اپنے تمام ساتھیوں کو جو بےحد عزیز ہیں صمیمیّتِ قلب سے مبارک باد پیش کرتا ہوں، اور انتہائی عاجزی سے دعا ہے کہ پروردگارِ عالم آپ عزیزان کی علمی کوششوں کو کامیابی عطا فرمائے! اور وہ دانا و بینا اپنی رحمتِ بیکران سے آپ کی اِس بے لَوث خدمت کو سب کے لئے مفید بنائے! آمین!!

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

پیر ۲، ربیع الثّانی ۱۴۱۴

۲۰، ستمبر ۱۹۹۳، کراچی

۱۲

بحسنِ دگر

 

یارِمن! جامۂ نوپوش و بحسنِ دگرآ

باجہان سازوبراندازِ زمان پر ہنر آ

قصرِشاہانۂ تن ساختہ چون قصرِ بہشت

بتوزیباست شہا زود درین قصردرآ

ہمچو خورشید پسِ کرّۂ گل دیر مکن

برق وار از افقِ مشرقِ دین زود برآ

بتوزیبا نبوُدَ آنکہ نشینی بر خاک

نورِ چشمِ دلِ ما! آبنشین در نظر آ

یار و اغیار ہمہ منتظرِ دورِ تو اند

ای تو استادِ قدیم باصفتِ تازہ تر آ

۱۳

دیدہ ام دیدۂ دل مردمکِ دیدہ تُو ای

باہمان جلوہ دگر بار مرا در نظر آ

جز بدیدارِ تو این تلخیِ جان می نرود

ای تو شیرینیِ جان! باہمہ قند وشکر آ

گرچہ من راہ نشیم تو شہنشاہِ دو کون

شفقت و مہر نما وزپیِ ماچون پدرآ

تاہمہ ماہ رخان عاشقِ رُویِ توشوند

نورِ رویت بنما مایۂ شمس و قمر آ

با جلالت بنشین برسرِ مسندکہ شہ ای

باہمہ عظمتِ شاہانہ و باکرّ و فر آ

تو کہ داری زازل تجربۂ جنگِ فلک

شاہِ مردان! توبی جوشن و تیغ و سپر آ

باہمین بال و پرت کی برسی ازپیِ او

بازگرد ای کہ تو خوا ہی! بدگر بال و پرآ

جستجویٔ کن و مفتاحِ سعادت دریاب

پس بگنجینۂ اسرار شو و پُر گہرآ

۱۴

پیشِ آن شاہ کہ خوانندۂ لوحِ دلِ توست

از خود آگاہ شود با ادب و باخبر آ

گر تو از جورِفلک عرضِ شکایت داری

از رہِ صدق و صفا پیشِ شہ داد گر آ

زان درختی کہ بُوَد پاک و پُر ازمیوہ مدام

خوش بخور میوۂ دانش، ہلہ زیرِ شجر آ

شادی و خرّمی ای دل! شہِ دیدار رسید

ای غمِ ہجر! ازین بیش مرنجان بسر آ

بی پناہِ تو ہمہ مُلکِ دَ لم رفتہ زدست

باز با لشکرِ جان باہمہ فتح و ظفر آ

تو لطیفی و ہنر ہایِ فرا وان داری

گر بظاہر نرسی نور شوو در نظر آ

دلم ازبی اثری آہنِ پُر زنگ شدہ

باہمان معجزِ داؤدؑ  تو باصد اثر آ

دررہِ عشق چو دریوزہ گری بنشینم

ای مہِ چاردہ! ہر بار ازیں رہ گزرآ

تا نصیرؔ بہرِ نثارِ قدمت جان بدہد

ای شہ و جانِ جہان! باز بحُسنِ دگر آ

۱۵

 

نور مولانا کریم

 

مشرقِ انوارِ یزدان نور مولانا کریم

مطلعِ اسرارِ عرفان نور مولانا کریم

کسوتِ دیگر ہمی پوشید آن یارِ قدیم

جلوہا بنمود در جان نور مولانا کریم

تو ہمان سلطانِ دینی امتحان ازما مگیر

حاضرِ ہر عصر و دوران نور مولانا کریم

مخزنِ علمِ حقائق معدنِ نور و صفا

عالمِ اسرارِ قرآن نور مولانا کریم

چشمِ دل بکشا و برقِ رُویِ زیبائش ببین

تاشناشی جان و جانان نور مولانا کریم

ظاہراً آلِ محمّدؐ ہم ز اولادِ علیؑ

اکمل و اشرف ز انسان نور مولانا کریم

رہبرِ اسلام امامِ ما شہِ دین نور حق

شاہِ مردان ماہِ خوبان نور مولانا کریم

۱۶

حاتمِ روحی سخّی جان و دل نورِ عقول

مصدرِ اکرام و احسان نور مولانا کریم

جوہرِ روحِ مقدّس گوہرِ امرِ الٰہ

نائب و فرزندِ سلمان نور مولانا کریم

عروۃ الوثقیٰ کتاب اللہ وحبل اللہ بحق

مظہرِ آیاتِ رحمان نور مولانا کریم

پادشاہِ عالمِ دین والیِ دُنیایِ دل

تاجدار ملکِ ایمان نور مولانا کریم

اخترِ برجِ تجمّل ماہِ گردونِ خیال

آفتابِ کونِ رخشان نور مولانا کریم

ای نسیمِ جان فزایِ باغِ فردوسِ برین

نورِ رویِ حور و غلمان نور مولانا کریم

بحرِ گوہر زایِ جانہا آسمانِ فیض بار

چشمہ سارِ آبِ حیوان نور مولانا کریم

عقل کُلّ و روحِ کُلّ ہم مصطفیٰ ہم مرتضیٰ

مجمعِ پیدا و پنہان نور مولانا کریم

۱۷

یوسفِ حسنِ زمان ای شاہِ خوبانِ جہان

ای بہارِ باغِ رضوان نور مولانا کریم

منبعِ دریایِ رحمت مخرجِ علم و اَدب

فیض بخشِ ابرِ نیسان نور مولانا کریم

حامی دینِ محمدؐ در لباسِ مرتضےٰؑ

کافران را تیغِ برّان نور مولانا کریم

پنجتن رایکتنی ای مقصد و مطلوبِ کُل

مذہب و دینِ مریدان نور مولانا کریم

با اُمید آمد بدر گاہت نصیرِؔ ناتوان

تاکنی ھر مشکل آسانِ نور مولانا کریم

۱۸

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ  لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-یُحْیٖ وَ یُمِیْتُۚ-وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ  هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۔ (۵۷: ۰۱ تا ۰۳)

ترجمہ: اللہ کی تسبیح کرتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اور وہی ہے عزّت و حکمت والا۔ اس کی ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی۔ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہ سب چیز پر قادر ہے۔ وہی ہے سب سے اوّل اور سب سے آخر اور سب سے آشکار اور سب سے پنہان۔ اور وہ سب چیز جانتا ہے۔

۱۹

حقیقتِ شُکر

 

منعمِ حقیقی کی مخصوص انسانی نعمتوں کا معنوی شکر بشری وسعت کی کسی حد تک اس وقت ادا ہوسکتا ہے جبکہ شاکر کا طریقۂ شکرگزاری ولیِ نعمت کی مرضی کے مطابق ہو۔ ورنہ ممکن ہے کہ وہ شکر قبول منعم نہ ہوسکے ۔اصلیّت میں شکر نعمت کے بعد واجب ہوتا ہے۔ چنانچہ آیتِ مبارکہ شاہد ہے:

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِ (۳۱: ۱۲)

ترجمہ: “اور ہم نے لقمان کو حکمت دی کہ اللہ کا شکر کر۔”

اس لئے شکر کے معنی ہیں نعمت کے حقائق سے منعم کی غرض معلوم کرنا اور اس کی مرضی کے مطابق نعمت کو استعمال کرنا۔ معنوی شکر گزاری کی تفصیل یہ ہے:

ہر نعمت کی وضعیّت، باطنیّت اور غرض غایت پر غور و فکر سے تبصرہ کرنے کے نتیجوں میں علمِ حقائق الاشیاء (ہر چیز کی حقیقت کا علم) کا حاصل کرنا، ہر نعمت کو منعمِ حقیقی کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا، نعمت کی خوبیوں کے قیاس و دلائل سے منعمِ حقیقی کے اوصاف و کمالات کا جاننا اور اس کی معرفت تلاش کرنا، اس کی دی ہوئی نعمت کو احسانِ

۲۰

محض تصوّر کرنا اور اس کے عوض میں اپنے حق میں اور خلقِ خدا کے حق میں نیکی کرنا اور سب سے آخر درجوں پر اس بات کا یقین رکھنا کہ صانعِ حکیم نے اپنی حکمتِ بالغہ سے کل جسمانی و روحانی لذّتوں کو رشتۂ کائنات میں بترتیب فضیلتِ لذّت اس لئے پرویا ہے تاکہ دانا انسان خدائے ذُوالکرام سے وہ نعمت اور وہ لذّت شب و روز طلب کرے جس میں اپنی لاثانی وغیرفانی اور لاانتہا لذتوں کے علاوہ بحیثیتِ کُل دیگرساری لذّتیں بھی موجود ہیں۔ وہ لذّتِ کُل دیدارِ الٰہی ہے۔ نعمت شناسی اور قدر دانی بحقیقت اسی مقام پر ہوسکتی ہے۔ نعمت ہر اس چیز کا نام ہے جو جسمانی یا روحانی طور پر انسان کے لئے خوشی، راحت اور لذّت کا موجب بن سکے۔ مگر ہر ایک نعمت میں یہ بات ضرور پائی جاتی ہے کہ وہ قدر و قیمت اور لذّت میں پچھلی والی نعمت سے بہتر اور اگلی والی نعمت سے کمتر ہوتی ہے۔ مثلاً موالیدِ ثلاثہ یعنی نباتات، حیوانات اور انسان کی غذاؤں پر قیاس لگائیے کہ نباتات کی غذا مٹی، پانی، ہوا اور آتشی اثرات ہے جو کہ قدر و قیمت اور لذّت میں حیوانوں کی غذا سے بہت کم ہے۔ حیوانات کی غذا ان کی نوعیّت کے مطابق ہے۔ مثلاً گھاس، پات، پھل، دانے، گوشت وغیرہ۔

پھر حیوانوں کی یہ غذا نباتات کی غذا سے قدروقیمت اور لذّت کے لحاظ سے بدرجہا بہتر ہے اور انسان کی غذا سے بدرجہا کمتر ہے۔ لیکن جانور روحِ حیوانی کی فوقیّت سے نباتات اور اس کی غذا پر بھی تصرف

۲۱

کرتا ہے، اس لئے حیوانات کو نباتات کا بادشاہ کہا جاسکتا ہے۔ اس لئے کہ بعض جانور عناصر سے بھی غذا حاصل کرتے ہیں اور اکثر حیوانات نباتات پر پلتے ہیں۔

اسی طرح انسان کی خوراک قدر و قیمت، ذائقہ اور منفعت میں حیوان کی غذا سے بدرجہا بہتر ہے اور فرشتوں کی غذائے جلالی سے بدرجہا بدتر اور خسیس تر ہے اور انسان بلاشبہ حیوانات، نباتات و جمادات اور دنیا کی ساری چیزوں پر بادشاہ ہے۔ حیوانات، نباتات وغیرہ سے جو چیز منفعت بخش ہو اسے اپنی غذا بنا لیتا ہے۔ لیکن روحانیّت کے طلب گاروں کے لئے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ موجودہ انسانی جملہ اقسام کی غذائیں باوجود تمام خوبیوں کے حقیقتاً حیوانوں کی غذائیں کہلاتی ہیں۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ غذا کا سوال روح کی حد میں پیدا ہوتا ہے۔ اور روح تین قسم کی ہوتی ہے۔ یعنی روحِ نامّیہ جس میں نشوونمائی کی طاقتیں ہوتی ہیں اور وہ ہر قسم کے نباتات و اشجار میں ہوتی ہے۔ اس کی خوراک کا ذکر نباتات کے بیان میں ہوچکا۔ دوسری قسم کی رُوح، روحِ حیوانیہ ہے یہ جملہ اقسام کے جانوروں میں ہوتی ہے۔ اس کی خوراک کا ذکر حیوانوں کے ذکر میں ہوچکا ہے۔ تیسری قسم کی روح، نفسِ ناطقہ یا کہ روحِ انسانی کہلاتی ہے۔ لیکن انبیاء و اولیاء کی پاک روح یعنی روح القدّس روحِ انسانی سے بالاتر اور اس میں سے مزید ہے۔

(ملاحظہ ہو کتاب زاد المسافرین)

۲۲

روح کی ظاہری ترکیب میں روحِ نامیہ سب سے نیچے ہونے کی وجہ سے ہر نبات میں صرف ایک ہی روح ہے۔ اور ہرجانور میں اپنی روح کے علاوہ روحِ نامیہ بھی ہے اور ہر انسان میں اپنی روح کے علاوہ اپنے دونوں ماتحت (حیوان و نبات) کی ارواح بھی ہیں۔ یعنی انسان میں تین ، حیوان میں دو اور نبات میں ایک رُوح ہے۔

اب روحِ ناطقہ کی غذا کے متعلق یہ ہے کہ اس کی غذائے مخصوص جس میں حیوان شریک نہیں ہوسکتا، نطق، تمیز، علم و حکمت اور معرفت وغیرہ ہے۔ یعنی موالیدِ ثلاثہ کی غذائے حدِ فاصل اوپر کی طرف سے ہے، چنانچہ نباتات کی غذا کی حد اتنی تک ہے جتنی کہ وہ غذا حاصل کرسکتی ہے۔ اور حیوانوں میں سے ہر ایک حیوان کی اپنی اصلی غذا وہ ہے جو وہ کھا سکتا ہو۔ اس لئے حیوانوں کی اوپر والی غذائے حدِ فاصل وہاں تک ہے جہاں تک وہ کھا سکتے ہیں۔ پھر درست ہوا کہ انسان ہمیشہ ایک حیوانِ مرکب پر سوار ہے۔ جس پر سے موت سے پہلے اترنا سخت مشکل ہے۔ لہٰذا وہ جس قدر بھی پُرلذّت غذائیں تناول فرماتا ہو وہ سب اپنے اس مرکبِ حیوانی کا حصّہ ہے جس کا نام نفسِ حیوانی ہے۔ لیکن انسان کی اپنی اصلی غذا وہ ہے جس سے روحِ ناطقہ اور عقل کو قوّت ملے۔ حکیم ناصر خسرو قدس اللہ روحہٗ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

چیزی کہ ستوران و ددان با تو شریک اند

منّت  ننہد  با تو   بدان   ایزد  داور

۲۳

یعنی جس چیز میں چرنے والے جانور اور درندے بھی تیرے ساتھ شریک ہوں تو اس کے بارے میں خدائے عادل تجھ پر ہرگز احسان نہیں رکھتا ہے۔

نعمت نبود آنچہ ستوران بخورندش

نے ملک بود آنچہ بدست آردش قیصر

یعنی نعمت وہ نہیں جسے جانور بھی کھا سکتے ہوں اور نہ وہ بادشاہی ہے جسے قیصر بھی حاصل کرسکتا ہو۔

انسانی نعمت اور شکر کی حقیقت کی مزید معلومات کرنے کی غرض سے قرآنِ حکیم کی اس آیت کی دقیقہ سنجی فرمائیے۔ قولہٗ تعالیٰ:

مَا يَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ  ۭ وَكَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِيْمًا  (۰۴: ۱۴۷)

ترجمہ: “کیا کرے گا اللہ تمہیں عذاب کرکر۔ اگر تم شکر کرو اور مانو اور اللہ قدردان ہے۔ جاننے والا۔”

لیکن لوح التاویل میں اس آیت کے معنی اسی طرح ہے۔ نہیں کرتا (فعل) اللہ تمہارے عذاب (ریاضت) پر (ذریعے سے) اگر تم نعمت جانو اور یقین حاصل کرو۔ اللہ شکر کرانے اور علم سکھانے والا ہے۔ یعنی اگر ہم حقیقی معنوں میں شکر کریں اور کما کان حقہ ایمان لائیں تو اللہ ہماری تکلیف کے ذریعہ سے اپنا فعل نہیں کرے گا۔ بلکہ ہماری راحت ہی میں اس کا فعل ہم پر واقع ہوگا۔ جو کہ دونوں صورتوں میں خدا کا

۲۴

فعل صرف ہماری روحانی عروج کے لئے ہے۔ ازروئے تاویل کئی دلیلوں سے یہی معنی بہتر ہے۔ کیونکہ اگر ہم اس عذاب کو آخرت کے ابدی عذاب تصوّر کریں تو اللہ ہمیں عذاب سے آگاہ کرنے کے بعد اپنی قدردانی اور علم پروری کی صفات کی طرف ہمیں متوجّہ نہ فرماتا۔ اس لئے کہ قرآنِ حکیم کی حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر آیت کے آخر میں جیسے الفاظ یا اسماء ہوں ان کے مطابق آیت کا معنی نکلتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو، یہ تو احکم الحاکمین کا کلامِ حکمت نظام ہے۔ جزوی مثال میں بھی کوئی معمولی شعور والا انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے کے بعد اپنی صفت یا فعل مناسب حال الفاظ میں ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً یا تو کہتا ہے کہ “اس میں میرا کوئی قصور نہیں اس کی اپنی غلطی ہے۔”  یا یوں کہتا ہے “چکھ لیا! سزا۔”

اس بارے میں یہی ایک دلیل کافی ہے۔ لیکن اس بیان میں جو حقیقت  شکر کے متعلق ہے۔ یہ بات باقی رہی ہے کہ جس طرح میں نے ہر موقعہ پر علم و حقیقت کی اہمیّت ظاہر کی، اسی طرح اس بیان کے آخر میں بھی بتوفیقِ خداوند علوم و حقائق اس بات کو دلیلوں سے محکم کرتا ہوں کہ اللہ نے انسانوں کو دنیا میں علم کی غرض سے پیدا کیا ہے اور یہی انسان کی غرض و غایت ہے۔ پھر خدائے تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے علم کو ہر قسم کی نعمتوں کی شکل میں جسمانی و روحانی طور پر موجود کیا ہے۔

ان تمام اقوال و اعمال میں بھی علم رکھا گیا ہے جس کے لئے انسان

۲۵

مامور ہوا ہو۔ غرضیکہ کوئی ایسی شۓ نہیں جس میں علم نہ ہو۔ خدائے عزّوجلّ حضرت ابراہیمؑ کی طرف سے فرماتا ہے:

وَسِعَ رَبِّيْ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا  ۭ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ  (۰۶: ۸۰)۔

یعنی “سمو رکھی ہے میرے ربّ نے ہر چیز کو علم میں۔ کیا تم دھیان نہیں کرتے؟” اس سلسلے میں ایک اور حقیقت آپ کی نگاہ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جس سے یہی ایک مسئلہ نہیں بلکہ بہت سے مسئلے حل ہوسکتے ہیں۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ خدائے علیم و حکیم نے ہر مذکور پیغمبر کی ایک مخصوص خوبی قرآن میں ظاہر کی ہے۔ یعنی حضرت آدمؑ کو خلیفہ و مسجودِ ملائک اور صفی کے خطاب سے نوازا۔ حضرت نوحؑ کو شکور کے نام سے یاد کیا۔ ابراہیمؑ کی توحید پرستی کی تعریف کی۔ حضرت موسیٰؑ کو کلیم اللہ کہلایا۔ حضرت عیسیٰؑ کو اپنی رُوح قرار دی۔ حضرت یوسفؑ کو صدیق بتایا۔ حضرت ایوبؑ میں صبر کی حد بتائی۔ حضرت داؤدؑ کو خلافت عطا کی اور حضرت سلیمانؑ کی مملکت کا ذکر کیا۔ اسی طرح ہر پیغمبرؑمیں ایک مخصوص چیز ہونے کا ذکر کیا اور سب سے اخیر میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سردارِ انبیاء کو معراج کی رات میں اپنی خلوت گاہِ خاص میں لے جانے کی بشارت امتِ محمدیہ کو سنا دی۔ امنّا و صدّقنا۔ یہ سب حقیقت ہے۔ اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ لیکن آپ یہ خیال ہرگز نہ کرنا کہ جوچیز جس پیغمبرؑ کو دی گئی تھی وہ وہیں پر ختم ہوئی تھی۔ اور دوسرے پیغمبر اس چیز سے محروم رکھے گئے تھے۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ہے۔

۲۶

بلکہ حکیمِ مطلق نے پیغمبروں کی ان خاصیتوں کے پسِ پردہ ایک زبردست حکمت پوشیدہ رکھی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ یہ تمام پیغمبرؐ اپنی اپنی خصوصیات کی بناء پر ایک خدائی مقدّس کتاب کے عنوانات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاکہ حقیقت تلاش کرنے والوں کو سہولت ہوسکے۔ اس قانونِ الٰہی کی بناء پر ہم شکر کی مزید حقیقت حضرت نوحؑ کی تواریخ سے معلوم کرلیتے ہیں۔ کلامِ خدائے جلیل وجبّار:

اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا  (۱۷: ۰۳)۔

“اے وہ نسل! جو تم کو نوح کے ساتھ ہم نے اٹھایا۔ وہ بہت شکر کرنیوالا ایک بندہ تھا۔ یعنی اس کے پاس بہت سی روحانی نعمتیں ہیں اور وہ ان کی پوری حقیقت جانتا ہے۔”

(کَانَ: تھا، ہے) بغیر تنوین کے ( نوح) وہی نوح جو پہلے ہوگزرا ہے اور تنوین کے ساتھ ( نوح) کوئی بھی شخص جو جملہ وجوہات سے گذشتہ نوح کی مانند ہو۔ اور کشتی کی حقیقت سنئے: –

قولِ خداجلّ جلالہٗ:

وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا (۱۱: ۳۷)۔

“یعنی بنا کشتی کو ہمارے مشاہدات اور ہماری وحی کے ذریعے سے۔” یعنی عالمِ آفاق و عالمِ نفس کے معلومات سے سفینۂ نجات تیار کر۔ بس کشتی علم کے سوا اور کسی چیز سے نہیں بنائی گئی تھی۔ اگر کوئی شخص سوال کرے کہ نوحؑ کی کشتی تو اب تلک فلان حکومت کے عجائب گھر میں

۲۷

موجود ہے۔ میرا جواب یہ ہوگا کہ درست ہے لیکن اس آیت میں صرف اسی کشتی کا ذکر ہے۔

پھر فرماتا ہے کہ:

قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ (۱۱: ۴۰)۔

ترجمہ: “ہم نے کہا چڑھا دے اس میں کل سے جفت دواور اپنے اہل کو۔”

یعنی نوحؑ نے جب دنیا کی ساری چیزوں کو حکمت کی نظر سے دیکھا اور ہر چیز میں صانعِ حکیم کی لاانتہا حکمتیں موجود پائیں اورکل اشیاء میں حسبِ ترکیب روح موجود ہونے کی دلیل ثابت ہوئی اور اسے یہ بھی تحقیق ہوئی کہ عالمِ روحانی کی نورانیّت میں یہ ساری چیزیں کس قدر باعثِ لذّت نعمتیں بن سکتی ہیں۔ پھر حضرت نوحؑ نے غنیٔ مطلق کے حکم سے پانچوں حدود سے جو امامِ زمان میں تھیں، ہر ایک جفتِ روحانی کو حاصل کرکے سفینۂ علم میں سما رکھی۔ یعنی حدِّ وحدت حدود (امرکلّ) حدِّ عدل (عقلِ کلّ) حدِّ ترکیب (نفس کلّ) حدِّ تالیف (خود اس واقعہ کے بعد ناطق بنا) حدِّ تاویل (اساس) پھر عقل اور نفس والی ساری چیزیں جفت ہوئیں۔ یعنی عقل کی ساری چیزیں نراور نفس کی ساری چیزیں مادہ تھیں۔ اس لئے وہ سب آپس میں جفت ہوئیں۔ جسے “زَوْجَیْنِ” کہتے ہیں۔ اسی طرح ناطق کی نر چیزیں اساس کی مادہ چیزوں کے ساتھ جفت بن کر اِثْنَیْنِ کہلائیں۔ اور جو ارواح امر سے ملی

۲۸

تھیں وہ ایک چیز ہوئی۔ یعنی ان کا ایک وجود ہوا۔ یہی ہے شکر کی حقیقت جو حضرت نوحؑ نے کیا تھا۔

 

 

رسولِؐ خُدا کی وصیّت

 

حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی آخری وصیّت یہ تھی:

اِنّی تَارِک فِیْکُم الثَّقَلَیْنِ کتابُ اللّٰہِ وَعِتْرَتِی اَھْلَ بیتی۔

ترجمہ: یعنی “میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑ جانے والا ہوں۔ خدا کی کتاب اور امام۔”

خدا و رسول کا قول ہمیشہ حکمت خیز ہی ہوتا ہے۔ اس حدیث کی پہلی حکمت: دو چیزوں میں سے ایک بدرجہ غایت مشکل کتاب ہے۔ دوسرا ہر مشکل کو نہایت ہی آسان بنا دینے والا شخص ہے۔ پھر جب مشکل کے ساتھ مشکل آسان بھی دیا جائے تو ہمیں سمجھنا چاہئے کہ مشکل کا چارہ صرف مشکل کشا ہی کرسکتا ہے۔ یعنی امامؑ قرآن کی تاویل کا ذمّہ دار ہے۔

دوسری حکمت: حدیث کے ربطِ الفاظ میں پہلے کتاب ہے۔ پھر امام، اس قسم کے ربطِ الفاظ کا یہ اشارہ ہے کہ پہلے قُرآن تنزیل سے تم خود پڑھو۔ پھر اس کی تاویل امام سے ملے گی۔

تیسری حکمت: رسول، قرآن اور امام دونوں کو بھاری چیزیں

۲۹

بتاتا ہے۔ لیکن ظاہراً دیکھا گیا کہ قرآن شریف اسقدر ہلکا ہے کہ چھوٹا سا بچہ بھی اُسے اٹھا سکتا ہے۔ اور امام بھی جسمانی طور پر اوسطاً وہی وزن رکھتا ہے جو دوسرے انسان رکھتے ہیں۔ گو امام ہر ایک انسان سے ظاہراً زیادہ بھاری ہرگز نہیں ہوتا ہے۔ پھر اس صورت میں دونوں چیزوں میں سے ایک پر بھی انہیں بھاری بتانے کا قول صادق نہیں آسکتا ہے۔ اندر آن حال، ہم اپنی بھولی بھالی اور بیچاری عقلِ جزوی کو امامِ زمان کے حضور میں روانہ کرتے ہیں۔ تاکہ وہ وہاں اس کے بھاری پن کا کسی نہ کسی طرح تجربہ کر کے آئے۔ وہ عقلِ خام و نا تمام، ناکام واپس آتی ہے۔ کیونکہ بھاری پن سے یہاں اور کچھ مراد نہیں ہے، سوائے اس کے کہ انسانی عقل، بذاتِ خود قرآن کی تاویل حاصل نہیں کرسکتی ہے۔ اور نہ امامِ زمان کو پہچان سکتی ہے۔اور لفظ “ثقلین” میں اس حدیث کا یہی فیصلہ ہے۔

چوتھی حکمت: لفظ “ثقلین” کے مباحث سےمعلوم ہوا کہ قرآن شریف اور امامِ زمان کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک ظاہری حیثیت اور دوسری باطنی۔ اور یہ بھی دلیلاً ثبوت ہوا کہ ابتداء میں انسان کی عقلی رسائی، ان دونوں کی باطنیت تک نہیں ہوسکتی ہے۔ اس لئےہم قرآن شریف اور امامِ زمان کو رسول کے حکم کے مطابق پہلے ظاہری طور پر مانیں گے، یعنی کلّی طور پر ہم امامِ زمان کی اطاعت کریں گے۔اگر کوئی حقیقت پسند دانا اس حدیث پر تبصرہ کرے تو امامِ زمان

۳۰

کی بے حد توانائی کا کچھ اندازہ کرسکتا ہے۔اس چیز سے کہ کروڑوں انسانوں کی رہبری روحانی و جسمانی طور پر کرسکنے کے علاوہ خدائے سبوح و قدوس کے اس کلامِ حکمت نظام کے جملہ حقائق و اسرار سے با خبر ہونا۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ رسولِ پاکؐ نے قرآن شریف اور امامِ زمان کو بیک وقت ویک لفظ کس چیز کے تناسب سے بھاری کہا ہے۔ ان دونوں کی طاقت اور بھاری پن روحانی تھا۔ اِس لئے روحانی کا تناسب روحانی سے ہوتا ہے۔ لہٰذا زمین آسمان سے بھی بھاری کہنا درست نہیں۔ کیونکہ ان کو بھی رُوح نے اٹھایا ہے۔ خدا وندِ کریم فرماتا ہے:

“کہہ اگر جمع ہوویں آدمی اور جنّ اس پر کہ لادیں آیتِ قرآن۔ نہ لاسکیں گے آیت اگر وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے بھی رہیں۔ (۱۰: ۸۸)

معلوم ہوا کہ قرآنِ حکیم کی حقیقی تاویل جنّ جانتے ہیں نہ انس۔ پھر یہی تناسب ہے جس کی نسبت سے قرآن و علی ہر زمان کو عقل کے لحاظ سے بھاری کہا گیا ہے۔ یہاں فیصلہ یہ ہوا کہ جنّ و انس کا کوئی فرد قرآن کی پوری حقیقت نہیں جانتا ہے۔ پھر اگر کوئی شخص عالم القرآن ہو، جس کی خدائی شہادت مل سکتی ہو تو وہ شخص دلیلاً نہ جنّ میں سے ہے اور نہ انس میں سے ۔ جب ایسا شخص جنّ و انس سے نہ ہو تو محکم دلیل ہے کہ وہ فرشتۂ جمالی بھی نہیں بلکہ فرشتۂ جلالی ہے۔ وہ شخص جو فرشتہ ہے۔

قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا  بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ۙ وَمَنْ عِنْدَهٗ

۳۱

عِلْمُ الْكِتٰبِ   (۱۳: ۴۳) یہی امامِ زمان اپنے تابعین کے لئے بامقتضائےزمانہ اعمال کا وہ طریق مقرر کرتا ہے جو قرآنِ پاک کی اس گہری حکمت کے بعینہٖ مطابق ہو۔ تاکہ انہیں بالکل تاویل کے قریب رہنا پڑے۔

 

 

اصل الاصول

 

اللھم یا مولانا                 یا عَلی مَدد

طالبانِ حقیقتِ اسماعیلیّت سے مخفی نہ رہے کہ اس مقدّس مذہب کی اصل الاصول “امرِ کل” یعنی کلمۂ باری سبحانہٗ ہے۔ جو مختلف اسماء سے موسوم ہے۔ چنانچہ امر کن کاف ونون، وحدت، مبدع، بہشتِ حقیقی، معاد وغیرہ باری سبحانہٗ نے اسی امرِکل کے کلمۂ واحدہ سے بمثلِ عقلِ کل موجود کیا۔ جوکہ ہماندم کلمۂ کُنۡ میں مل کر ایک ہوا۔ امرِکل کے معنوں میں سے ایک معنی حکم یعنی فرمان ہے۔ اس لئے اگرچہ عالمِ امر کے لئے ایک ہی کلمۂ فرمان کافی تھا۔ لیکن عالمِ خلق کے لئے ہمیشہ امر کی ضرورت پڑنے کی و جہ سے فرمانِ امامِ زمان امرِکل کا مظہر ہوا۔ امرِکلّ کی روحانی عمل گاہ انسانی ارادہ ہے۔

 

 

اصُولِ دین

 

اصولِ دین چارہیں، عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اور اساس۔

۳۲

ان میں سے دواصل عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ روحانی ہیں۔ دو اصل ناطق اور اساس جسمانی ہیں۔

اصول کے معنی درخت کی جڑیں ہیں۔ یعنی دین کے درخت ۔ جسکا ذکر اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے:

اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُهَا فِي السَّمَاۗءِ ۔ تُؤْتِيْٓ اُكُلَهَا كُلَّ حِيْنٍۢ بِاِذْنِ رَبِّهَا  ۭ وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ (۱۴: ۲۴ تا ۲۵)۔

اللہ تعالیٰ حقیقت شناسوں کی تعلیم کے لئے اپنے پیارے رسول حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے مخاطب ہو کر یوں فرماتا ہے کہ: “آیا اے محمد! تو نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک پاک کلمہ کی مثال کس طرح بیان فرمائی ہے( وہ کلمہ) ایک پاک درخت کی طرح ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی شاخ آسمان میں ہے۔ پھل دیتا ہے ہر موسم میں اپنے پروردگار کے حکم سے۔ اور اللہ لوگوں کو مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ علمی ذکر کریں۔”

پس معلوم ہوا کہ اس آیتِ شریفہ میں دو پاک چیزوں کا ذکر ہے جو کہ نفع رسانی اور ہر صفت میں ایک دوسرے کی مانند ہیں۔ یعنی جو صفت اس پاک درخت میں موجود ہے وہ صفت اس پاک کلمہ میں بھی موجود ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے تو پاک کلمے کا ذکر چھیڑا، پھر

۳۳

اس کی مثال پاک درخت سے دی۔ اور عقل مندوں کے لئے واضح کردیا کہ جس طرح پاک درخت ہر وقت اور ہر موسم میں اپنا پھل دیتا ہے۔ اسی طرح پاک کلمہ بھی عرفانی منفعت بخشتا ہے۔ اب آپ ذراغور کرکے یہ بتائیے کہ دنیا میں کہیں ایسا درخت بھی ہے جو ازل سے اپنی جڑوں پر مضبوطی سے کھڑا رہتا ہو۔ اور اَبد تک کبھی نہیں گرتا ہو اور اس کی شاخیں آسمان میں جالگی ہوں۔ جس کے پھل پکنے کی کوئی دیر اور کوئی موسم نہ ہو۔ بلکہ ہر سال، ہرماہ، ہرروز، ہر ساعت، ہرمنٹ اور ہر سیکنڈ پکا ہوا میوہ تیار ہو۔ میوہ بھی کبھی ختم نہ ہو، آپ ہرگز یہ نہیں بتا سکیں گے کہ دنیا میں فلان جگہ اس قسم کا ایک درخت ہے۔ پس سمجھنا ضروری ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا درخت نہیں۔ بلکہ یہ ایک مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ خود بھی فرماتا ہے کہ یہ لوگوں کو سمجھانے کی ایک مثال ہے۔ پس اس کا ممثول یہ ہے کہ یہ پاک کلمہ، کلمۂ باری سبحانہٗ ہے، جس کا ذکر بطریقِ اختصار ہوچکا۔ اور یہ درخت شجرۂ نبوّت و امامت ہے، یعنی درختِ دین جس کے چاراصولوں کا ذکر کیا گیا ، اب اسی درخت کی شاخوں کا ذکر سُنیے!

 

 

 

 

 

 

 

فروعِ دین

 

فروعِ دین چھ ہیں:

۳۴

۱-        جّد۔

۲-        فتح۔

۳-        خیال۔

۴-        امام۔

۵-        حجّت۔

۶-        داعی۔

ان میں سے تین فرع: جدّ، فتح اور خیال روحانی ہیں۔ اور تین فرع: امام، حجّت اور داعی جسمانی ہیں۔ جدّ اسرافیل، فتح میکائیل اور خیال جبرائیل کے نام ہیں۔ امام سے مراد امامِ زمانؑ، حجّت کا مطلب اٹھائیس حجتوں میں سب سے بڑا یعنی باب یا امام کا وہ فرزند جو لاحق نور ہو، اور داعی سے مراد تین سو ساٹھ داعیوں میں سے وہ داعی ہے جو حجتِ اعظم کا لاحق ہو۔

 

 

اصُولِ دین کی تشریح

 

اصلِ اوّل عقلِ کُلّ:

عقلِ کلّ کے مختلف نام: آدمِ حقیقی، علّت اولیٰ، عرشِ الٰہی، قلم، اوّل، خزینۂ الٰہی، ملکِ خدا، مجوہرالجواہر، اور عال وغیرہ۔

۳۵

عقلِ کلّ اس فرشتے کو اس لئے کہتے ہیں کہ عقل اور علم کا یہی سرچشمہ ہے اور تمام عقول اور علوم اس کے نیچے ہیں۔ کوئی شۓ ایسی نہیں جو یہ نہ جان سکے۔ کوئی علمِ اس سے باہر نہیں، تمام اشیاء پر یہ محیط ہے۔ آدمِ حقیقی اس لئے کہتے ہیں کہ یہ علم الاسماء کے عالم اورکل فرشتوں کا مسجود ہے۔ علّتِ اولیٰ اس لئے کہتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ موجود ہوا، اور اس سے دوسرے موجودات، یعنی نفسِ کلّ اور اس کے ذریعے تمام موجودات پیدا ہوئیں۔ اس کو عرشِ الٰہی اس لئے کہتے ہیں کہ کوئی موجود اس سے بڑھ کر اشرف اورافضل نہیں کہ وہ خدائے تعالیٰ کے تخت بننے کے لائق ہوسکے سوائے عقلِ کلّ کے، اسی وجہ سے خدائے تعالیٰ کے یہ مستقر اور تخت ہے۔ قلم اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسی کے ذریعے سے علم سکھایا “عَلَّمَ بِالْقَلَم۔” اوّل اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی خلقت سب سے پہلے ہوئی۔ حدیث:

اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالیٰ اَلْقَلَمَ۔ اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالیٰ اَلْعَقَلَ۔ اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالیٰ نُوْرِیْ۔

اسے خزینہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں سب چیز موجود ہے۔

اَوْاَلْقٰی عَلَیْہِ کَنُزٌ۔

ترجمہ: یا کیوں نہ ڈالاگیا اس پر کوئی خزینہ (۱۱: ۱۲)۔

یعنی اس کو کیوں عقلِ کلّ سے تائید نہیں ملتی ہے۔ اسے ملکِ خدا

۳۶

یعنی اللہ تعالیٰ کی بادشاہی اس لئے کہتے ہیں کہ ملکِ خدا میں کوئی تفاوت نہیں پائی جاتی۔

مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ۔ (۶۷: ۰۳)

” پس اس میں کوئی تفاوت نہیں۔”

مجوہر الجواہر اس لئے کہتے ہیں کہ جواہرِ علوی و سُفلی کو اسی نے جوہر بنایا ہے۔ عالؔ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ علّت کے بانی ہے۔ یعنی علّت بنانے والاہے۔ حمدؔ اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تحمید و تعریف و ستائش اسی سے ہوتی ہے۔

 

اصلِ دوم نفسِ کُل:

نفسِ کُل وہ فرشتہ ہے جو تمام نفوس و ارواح کے لئے مخرج اور مرّجع کی حیثیت رکھتا ہے۔ حوائے معنٰی ہونے کی وجہ سے یہ عقلِ کل کی جفت ہے۔ اسے کرسی کہتے ہیں:

وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ (۰۲: ۲۵۵)۔

ترجمہ: اس کی کرسی نے آسمانوں اور زمینوں کو اپنے اندر سمویا ہوا ہے۔

آسمانوں اور زمینوں کو نفسِ کلّ نے اپنی وسعت میں سموکر گھیر لیا ہے۔ لوحِ محفوظ اسے اس لئے کہتے ہیں کہ عقل کے قلم سے لکھے ہوئے صنعت کے نقوش نفسِ کلّ میں ہمیشہ محفوظ ہیں۔

بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ  فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ  (۸۵: ۲۱ تا ۲۲)۔

۳۷

یعنی بلکہ وہ قرآن ہے ایک محفوظ تختے میں۔ یعنی نفسِ کلّ میں جوہر چیز کے حفاظتی تختہ کی حیثیت رکھتا ہے اسے نفس واحدہ بھی کہتے ہیں۔ یعنی ایک نفس یا کہ نفوس کو ایک کرنے والا۔ اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں لیکن اسقدر تشریح کفایہ ہوگی۔

 

اصل سوم ناطق:

ہر دورمیں جو چھ ہزار سال کا ہو، چھ ناطق ہوتے ہیں۔ اس دور کے ناطقوں کے نام یہ ہیں: آدمؑ، نوحؑ، ابراہیمؑ، موسیٰؑ، عیسیٰؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔ آخری ناطق حضرت محمدؐ ہیں۔ ناطق کے لغوی معنی گویندہ یعنی بولنے والے کو کہتے ہیں اور اصطلاحِ دین میں ناطق اس نبیٔ مرسل کو کہتے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب نازل ہوئی ہو۔ اور اللہ کے حکم سے اس نے اس کتاب کے مطابق اپنی نئی شریعت کے ذریعہ سے اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت دی ہو۔ خدا تعالیٰ اپنے پیارے ناطق کے بارے میں فرماتا ہے:

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى -اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى (۵۳: ۰۳ تا ۰۴)۔

یعنی “وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا ہے۔ وہ اور کچھ نہیں مگر اسے وحی نازل ہوتی ہے۔:”

اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے:

وَلَدَيْنَا كِتٰبٌ يَّنْطِقُ بِالْحَقِّ (۲۳: ۶۲)۔

۳۸

یعنی ہمارے پاس ایک ایسی کتاب بھی ہے جو بغیر کسی کے پڑھے وہ خود سچائی سے بولتی ہے۔ ایسی خود بولنے والی کتابِ ناطق یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔

 

اصلِ چہارم اساس:

اساس بنیاد کا نام ہے۔ اور اصطلاحِ دین میں حضرت مولانا مرتضیٰ علی کو کہتے ہیں۔ اس لئے کہ امامت انہیں سے ظاہر ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ:

اَنْتَ مَعَ الْاْنُبِیَآئِ سِرًّا وَّمَعِیَ جَھُرًا

یعنی مولانا علیؑ تمام پیغمبروں کے ساتھ تھے مگر عوام الناس ان کو نہیں جانتے تھے لیکن حضرت محمد صلعم کے زمانے میں آشکار ہوئے۔

اساس کو صدیق بھی کہتے ہیں۔ صدیق کے معنی ہیں تصدیق کرنے والا۔ اس لئے کہ مولانا علیؑ اپنی تاویل سے حضرت محمد صلعم کی تنزیل کی تصدیق کرتے تھے۔ چنانچہ آنحضرتؐ نے اسی بارے میں فرمایا کہ:

یَاعَلِیُّ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزَلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْسیٰ

یعنی آپ میرے لئے ایسے ہیں جیسے ہارون موسیٰ کے لئے تھے۔ اور موسیٰ کی طرف سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: قولہٗ تعالیٰ:

وَاَخِيْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّيْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْاً يُّصَدِّقُنِيْٓ

۳۹

اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ  (۲۸: ۳۴)۔

یعنی موسیٰ نے کہا کہ میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ خوش بیان ہے پس اس کو میرے ساتھ مدد کے لئے بھیج دے تاکہ وہ میری تصدیق کرے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے جھٹلا دیا کریں گے، یعنی فرعون اور اس کی قوم۔

پھر خدائے تعالیٰ اور اس کے رسول کے قول سے یہ ثابت ہوا کہ مولانا علی ہر طرح سے رسول اللہ کی مدد اور اس کی تنزیل کی تصدیق کرنے والے تھے۔ شریعت اور تنزیل کی تصدیق صرف تاویل سے ہوسکتی تھی۔ چنانچہ رسول اللہ نے فرمایا:

اِنَّ مِنْکُمْ مَّنْ یُّقَاتِلُ بَعْدِ یْ عَلَی التّاوِیْلِ کَمَا قَاتَلْتُ عَلَی الّتنْزِیُلِ فَسْئَل النَّبّیُ مَنْ ھُوَ فَقَالَ خَاصِفُ النَّعْلِ یَعْنِیْ اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ۔

حضرت نبی کریم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے صحابۂ کرام سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے کہ “تم میں وہ شخص بھی ہے جو کہ میرے بعد تاویل پر لڑے گا، جس طرح میں تنزیل پر لڑا تھا۔” پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ “وہ شخص کون ہے؟” آپؐ نے فرمایا کہ “وہی شخص جو تمہارے سامنے اپنے جوتے ٹھیک کر رہا ہے یعنی امیرالمومنین۔”

کوئی بھی عاقل اس حقیقت سے انکار نہیں کرے گا کہ کسی چیز کی تصدیق اس وقت بحقیقت ہوسکتی ہے جب اس چیز کی پوری اصلیت معلوم ہوجائے۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

۴۰


وَكَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۙ وَمَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَآ اٰتَيْنٰهُمْ فَكَذَّبُوْا رُسُلِيْ  فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ (۳۴: ۴۵)۔

ترجمہ: اور جھٹلایا ان سے اگلوں نے بھی اور وہ نہ پہنچے تھے اس چیز کے دسویں حصے تک جو ہم نے ان کو دی تھی۔ یعنی “کتاب” پھر اس وجہ سے انھوں نے ہمارے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ پھر کیسی ناشناسی تھی۔

نکیر بروزنِ فَعِیْل یعنی فاعل برابرش ناکر ضِد عارف بمعنی ناشناس۔

اس آیت کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ ظاہراً آسمانی کتاب کو تو پڑھتے تھے لیکن کتاب کی حقیقت یا تاویل کی نسبت سے ان کی رسائی کم از کم اتنی بھی نہ تھی کہ وہ تاویل کے دسویں حصّہ تک پہنچ سکے۔ پھر یہی ان کی نارسائی حقیقتاً ان سے اپنے پیغمبروں کی تکذیب ہوئی۔

بہرحال خدا و رسولؐ کے اقوال کی تاویل کے لئے مولانا مرتضیٰ علی اساس تھے اور ہر وقت بہ لباسِ دیگر و باسمِ دیگر دنیا میں حاضر ہیں۔ جو کچھ وہ فرماتے ہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں وہی تاویل ہے، کیونکہ یہی قرآنِ مجید روحانی خصوصیت کے ساتھ امامِ زمان کی ذاتِ والا صفات میں ہمیشہ موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قول:

اَلْقُرْاٰنُ مَعَ عَلِیٍّ وَّعَلِیٌّ مَعَ الْقُرْاٰنِ ۔

ترجمہ: “قرآن علی کے ساتھ ہے اور علی قرآن کے ساتھ ہے۔”

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مولانا علیؑ ہر وقت قرآنِ شریف

۴۱

کو اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں، بلکہ اس کی اصلیت کچھ اور طرح کی ہے۔ اس حدیث کی مثال سے آپ اس مطلب کے قریب پہنچ سکتے ہیں۔ آنحضرتؐ نے فرمایا:

اَنَامَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا۔

یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔

اگر واقعی علیؑ بابِ نبیؐ ہے تو علیؑ کے اندر نبیؐ بھی ہے اور وہ تمام علوم بھی ہیں جو آنحضرت صلعم ہی جانتے تھے۔ کیونکہ شہر تو دروازہ کے اندر ہوتا ہے اور اس کے بغیر کوئی شخص شہر میں داخل نہیں ہوسکتا ہے۔ نیز دروازہ کسی شہر کا اس وقت ہوتا ہے، جبکہ ہر شخص کو اپنے اختیار سے شہر میں داخل نہ ہونے دینا مقصود ہو۔ اس صورت میں شہر کے گرداگرد ایک مضبوط فصیل بھی ہوتی ہے۔ میں کہوں گا کہ اس شہر کی فصیل بھی مرتضیٰ علیؑ ہیں۔ یعنی وہ تمام حقائق و معارف جو رسولؐ کے پاس تھے وہ سب علیؑ کی ذاتِ شریف میں موجود ہیں۔ کیونکہ رسولؐ بھولنے والوں میں سے نہیں اور جملہ قرآنِ مجید اس کے مبارک دل میں موجود تھا:

سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى (۸۷: ۰۶)۔

” یعنی قرآنِ مجید ہم تمہیں پڑھ کر سنائیں گے اور تو ہرگز اسے نہیں بھولے گا۔”

پھر جب علیؑ کے نور میں محمدؐ کا نور موجود ہے اور علیؑ کا نور

۴۲

امامِ زمانؑ میں ہے تو یقینی ہے کہ قرآنِ مجید بھی اس نور میں ضرور موجود ہے۔ اس مثال کی حقیقت اسی طرح سمجھنا رسول اللہؐ کے حق میں بہتر ہے۔ بہ نسبت اس کے کہ کوئی شخص اس علم و حقائق سے معمور شدہ شہر کو اجاڑ تصوّر کرے۔ یہ اس لئے کہ خدا اور اس کے رسولؐ کو یہ ہرگز زیبا نہیں کہ وہ ایک ایسی چیز کی تعریف و توصیف کریں جو چند دنوں کے بعد فنا ہونے والی ہو۔

پھر یہی حقیقت مکرر بتلائی جاتی ہے کہ علیؑ اساس اور تاویل کے مالک بحالِ یک نوری امامِ زمانؑ میں موجود ہے اور وہ اب بھی بالکل اسی طرح شہرِ علم کا دروازہ ہیں جس طرح پہلے تھے۔ مولانا مرتضیٰ علیؑ اپنے ایک خطبہ میں یوں فرماتے ہیں کہ “اگر میں موت سے مروں تو ہرگز نہیں مرتا۔ اور اگر مجھے قتل کردیا جائے تو میں ہر گز نہیں قتل ہوتا ہوں۔” اس خطبے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ مولانا علیؑ اپنے جسمِ مبارک کو لافانی قرار دیتے ہیں، کیونکہ کوئی بھی جسم غیر فانی نہیں اور ان کے بیان کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ عالمِ روحانی میں زندہ ہیں۔ کیونکہ وہاں والے تو سب زندہ ہیں۔ اور جو صفت سب میں پائی جاتی ہے۔ دانا شخص اس پر فخر نہیں کرتا۔ لیکن جب چاہے کہ اپنی خصوصیات سے لوگوں کو آگاہ کرے تو وہ خصوصیات ظاہر کرتا ہے جو دوسروں میں موجود نہ ہو۔

۴۳

فروع کی تشریح

 

فرعِ اوّل جدّ:

جدّ اسرافیل کا نام ہے۔ قرآنِ مجید کی اس آیت میں اس کا کچھ ذکر ہے:

وَّاَنَّهٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَّلَا وَلَدًا (۷۲: ۰۳)۔

“اور یہ کہ بہت بلند ہے ہمارے پروردگار کا وہ فرشتہ جس کا نام جد ہے۔” اسی طرح دعائے قنوت میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جدّ کی بلندی بیان فرماتے ہیں:

سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالیٰ جَدُّکَ وَجَلَّ ثَنَآؤُکَ وَلَآ اِلٰہَ غَیْرُکَ اللّٰہُ اَکْبَرْط

ترجمہ: بارِ خدایا تو پاک ہے۔ اور حدِّ اوّل سے ہی تیرے لائق تحمید ہوسکتی ہے۔ اور حدِّ ثانی سے جو تیرا نام ہے تیری معرفت حاصل ہوسکتی ہے اور حدِّ ثالث یعنی جدّ سے تیری برتری کا اقرار کیا جاسکتا ہے اور رابع سے تیری بزرگی عیان ہے اور خامس پر تیری عبادت قبول ہوجاتی ہے اور اللہ حدودِ روحانی اور جسمانی سے بہت بڑا ہے۔

۴۴

اس بیان کا خاص مطلب جدّ کا ذکر ہے۔

چونکہ جدّ فروعِ روحانی میں سے بالاترین فرع ہے۔ نیز یہ فرشتۂ عشقِ حقیقی ہے۔ لہٰذا اسے برتر قرار دیا گیا ہے۔ ازانکہ درخت کے تنا سے شاخ بالاتر ہوتی ہے، لیکن اس کا قیام تنا پر ہے۔ پس بلاشک معلوم ہوکہ جس وجہ سے ان تین فرشتوں کو درختِ دین کی شاخیں مان لیتے ہیں اسی وجہ سے جدّ برتر ہے۔ اس فرشتے کا فیضِ عام ہر انسان کے لئے قوّتِ نطق ہے۔

 

فرعِ دوم فتح:

میکائیل کا دوسرا نام فتح ہے۔ فتح کے معنی کھولنا۔ کشودن ہے، یعنی کسی بھی بند چیز کو کھولنا۔ لیکن یہاں اس فتح سے مراد روحانی کشود ہی ہے۔ اس کا مصداق یہ آیۂ شریفہ ہے:

قُلْ يَجْمَعُ بَيْـنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَـحُ بَيْـنَنَا بِالْحَقِّ ۭ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِـيْمُ (۳۴: ۲۶)۔

ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ ہمارا پروردگار ہم سب کو جمع کرے گا۔ پھر کھولے گا ہمارے درمیان سچائی سے۔ اور وہ کھولنے والا جاننے والا ہے۔

یہاں جمع کرنے سے مراد دینِ محمدی میں داخل ہونا اور کھولنے سے مراد تنزیل کو تاویل میں بیان کرنا ہے۔ پس فتح یعنی میکائیل کی حد سے تاویل شروع ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ قول مشہور ہے کہ میکائیل دنیا والوں کو رزق تقسیم کرنے والا فرشتہ ہے۔ پھر درست ہے

۴۵

کہ رزق دوطرح کا ہوتا ہے۔ جسمانی اور روحانی۔ روحانی رزق تاویل ہے اور تاویل کی حد غایت فتح یعنی میکائیل ہے۔ عام حالت میں ہر انسان کو اس فرشتہ سے قوّتِ فہم ملتی ہے۔

 

فرعِ سوم خیال:

خیال جبرائیل کو کہتے ہیں اور یہ تنزیل کا فرشتہ ہے، اور اس کو خیال اس لئے کہتے ہیں کہ اس کا روحانی عمل انسانی تخیّل میں ہوتا ہے۔ طالبِ روحانیّت کے تخیّل سے حجابِ ظلمانی کا اٹھانا اسی فرشتے کا کام ہے ۔ جس طرح انسانی مدرّکات کی ترتیب میں حواسِ خمسۂ ظاہری کے بعد خیال ہے، جو کہ وہ مدرکۂ خمسۂ باطنی کی پہلی مدرکہ ہے۔ اسی طرح پنج حدِّ جسمانی کے بعد فرشتۂ خیال ہے۔ جو کہ وہ پنج حدِّ روحانی کی پہلی حدّ ہے یعنی روحانیّت خیال سے شروع ہوتی ہے۔ جبرائیل کے متعلق مزید تفصیل اس آیۂ شریفہ سے مل سکتی ہے۔ قولہٗ تعالیٰ:

قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ (۰۲: ۹۷)۔

ترجمہ: کہہ جو کوئی جبرائیل کا دشمن ہو، حالانکہ اس نے اللہ کے اذن سے تیرے دل پر اتاری ہے اُس چیز کو جس پر پہلی چیز کی تصدیق ہوسکتی ہے اور مومنوں کے لئے اس میں راہ یابی و خوشخبری ہے۔

۴۶

اس آیت میں جبرائیل سے دشمنی رکھنے کے نقصاناتِ روحانی بیان کئے ہیں۔ ظاہری طور پرجبرائیل سے کسی کی دشمنی ممکن نہیں۔ فی المثل اگر کافروں کے متعلق یہ ٹھہرائیں کہ کافر لوگ جبرائیل کے دشمن اس لئے ہوتے تھے کہ وہ خدائے تعالیٰ سے حضرت محمدؐ پر وحی نازل کرتا ہے۔ پھر یہ بات محال ہوگی۔ کیونکہ اس قسم کی بات میں خدا کی ہستی اورجبرائیل کے واسطے سے حضرت محمد صلعم پر وحی نازل ہونے کے لئے اقرار ہے۔ اسی طرح جو لوگ خدا کی ہستی کو نہیں مانتے انہیں ازروئے قانونِ منطق خدا کے دشمن نہیں کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ کسی چیز سے دوستی یا دشمنی رکھنے سے پہلے اس چیز کی ہستی کے لئے اقرار کرنا ضروری ہے۔ مثلاً زیدؔ نے کہا کہ “بکر میرا دشمن ہے۔ یا میں بکر کا دشمن ہوں” تو اس جملہ میں سب سے پہلے زیدؔ اپنے دشمن بکر کی ہستی کا، پھر اس کے فعل کا اور آخر میں مخالفت کا اقرار کرتا ہے۔

پھر جبرائیل سے دشمنی کی حقیقت اسی طرح ہے کہ کوئی شخص ایسے اعمال کا مرتکب ہوجائے جن کی وجہ سے اس شخص کے دل میں جبرائیل کے روحانی فعل وقوع میں نہ آسکے۔ خواہ اس شخص کے برے اعمال کی وجہ کچھ بھی ہو۔ اس صورت میں مثال کے طور پر جبرائیل اس سے دور رہے گا۔ دور رہنا اور بھاگنا دشمنی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ دشمنی ان معنوں پر حاوی ہے۔ کسی چیز کا برا لگنا، اسے نہ چاہنا،

۴۷

اپنا مخالف سمجھنا، اسے ختم یا اپنا تابع کرنے کے لئے کوشش کرنا، اس سے گریز کرنا، اور دل میں ہر قسم کے برے اندیشے رکھنا وغیرہ۔ لیکن فرشتے ان چیزوں سے پاک ہوتے ہیں۔ فرشتوں کا فعل اسی طرح پاک ہے، جس طرح سورج آسمان پر سے روشنی ڈالتا ہے، ہر اس چیز پر جو سورج سے اپنے آپ کو نہ چھپاتا ہو۔ اور جو چیز اپنے لئے کوئی پردہ بنا کر اس پردہ میں رہتا ہو، تو وہ چیز اپنے دشمن ہونے کی وجہ سے سورج کا بھی دشمن ہے۔ کیونکہ وہ چیز سورج سے دور رہتی ہے اور ان تمام الفاظ کا اس پر اطلاق ہوتا ہے، جو دشمنی کے معنی میں آتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے دوسرے فرشتوں سے پہلے ہی جبرائیل سے دشمنی رکھنے کی مذمت بطریقِ حکمت بیان فرمائی۔ معلوم ہوا کہ مومنوں سے عملاً جبرائیل کی دوستی چاہتا ہے۔ اس کی وجہ جملہ وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ روحانیّت اور معرفتِ نفس جو کہ پروردگار ہی کی معرفت ہے، اور اس کا پہلا دروازہ روحانی لحاظ سے خیال یعنی جبرائیل ہے، اس لئے مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ اسی زندگی میں ہی کم از کم ایک دفعہ روحانیّت کی ہستی کوماننے کے لئے اس فرشتہ کی دوستی سے عملاً فیض حاصل کریں، اور یہ کام ناممکن نہیں۔ بلکہ اس کی امکانیّت اس آیت کے لفظِ “ہدایت اور بشارت” میں موجود ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ “جبرائیل نے تو تیرے دل پر وحی نازل کی ہے،

۴۸

دل کی حقیقت جاننے اور اسے ہر قسم کی آلائشوں سے صاف رکھنے کا اشارہ ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ سنے کہ بادشاہ یا اور کوئی عزت مند بزرگ اس کے گھر آنے والاہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنے مکان کو صاف اور آراستہ کرنے کے لئے کوشش کرے گا۔ اور اس بات کا بھی خیال رکھے گا کہ گھر کے اندر کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے اس عزیز مہمان کو نفرت ہو۔

علاوہ ازین اس قسم کی روحانیّت حاصل کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ “تمہیں رسول کی چال سیکھنی اچھی تھی۔ جوکوئی اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہے۔” (۳۳: ۲۱)۔

یعنی جس طرح رسولؐ روحانیّت میں تمہارے آگے چلتا تھا، تمہیں بھی اس کے پیچھے چلنا سیکھنا اچھا تھا۔ اور یہ اس شخص کے لئے ہے جو اللہ اور روحانیّت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہو۔

یوم الآخر کا ترجمہ روحانیّت سے کیا گیا ہے۔ کیونکہ روحانیّت ہی میں یوم الآخر موجود ہے۔ اس آیت میں بھی روحانیّت حاصل کرنے کی امکانیّت اور اس کے شرائط ہیں۔

 

فرعِ چہارم امام:

فروعِ جسمانی میں سب سے اوّل امام ہے۔ امام کے چھوٹے اور

۴۹

بڑے بہت سے مراتب ہیں، جن کا مفصّل بیان اسی کتاب کے ایک علیحدہ باب میں کیا جائے گا۔ امام کے معنی پیشوا، سردار، ہر چیز کی اصل اور دینی امور میں آگے رہنے والا وغیرہ ہیں۔ اگرچہ عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اور اساس کو دین کے درخت کی جڑوں کی حیثیت سے اور امام کو اس درخت کی شاخ کی حیثیت سے مانتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی قابلِ تسلیم ہے کہ پھل صرف درخت کی شاخوں سے حاصل ہوسکتا ہے۔ شاخ کی وابستگی تو تنا اور جڑوں سے ضرور ہے مگر میوہ شاخ میں لگتا ہے، یعنی درخت کے اتحادی عمل کا نتیجہ اور اس کی قدر وقیمت کا اندازہ درخت کی شاخ پر نمایان ہوتا ہے۔ اسی طرح امامِ زمان ہے، جس کے علمِ تاویل سے عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اور اساس کی شرافت و عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ نیز جس طرح درخت کے پھل لانے کا عمل اُس کی شاخ میں ظہور ہوتا ہے۔ اسی طرح چار اصول یعنی عقل کلّ، نفس کلّ، ناطق اور اساس کے روحانی عمل بھی امامِ زمان ہی سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ کیونکہ امامِ زمان ہمیشہ دنیا میں موجود اور حاضر ہے۔ اور ہر زمانہ میں امامِ زمان روحانی و جسمانی طریقے پر دنیا والوں کو علیٰ حسب المراتب فیض بخشتا ہے۔ روحانی فروع یعنی جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل سے بلاواسطہ فیض حاصل کرنا دشوار ہے۔ اس لئے امامِ زمان کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔ تاکہ اس واسطہ سے روحانیّت آسانی سے حاصل ہوسکے۔ جس میں پہلے علمِ حدود پھر علمِ توحید کا دروازہ کھلنا ممکن ہے۔

۵۰

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَابْتَغُوْٓا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ وَجَاهِدُوْا فِيْ سَبِيْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۰۵: ۳۵)۔

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس تک وسیلہ ڈھونڈو، اور جدوجہد کرو اس کی راہ میں ، تاکہ تم رستگار ہوجاؤ۔

 

 

شکل تمثیلیٔ اصول و فروعِ دین بخطوطِ وحدانی

 

برائے تفہیم یکیٔ ہمگیٔ حدود اندرامرِکل ونسبتہائے ہمجنسی و ترکیبی و مقابلتیٔ ہریک:

۵۱

دربیانِ نعمتِ ظاہری و باطنی قولہٗ تعالیٰ:

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً ۭ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا هُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ (۳۱: ۲۰)۔

ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا؟ کہ اللہ تعالیٰ نے کام پر لگائے تمہارے، جو کچھ ہیں آسمان و زمین میں۔ اور بھردی تم کو اپنی نعمتیں کھلی اور چھپی۔ اور بعض آدمی ایسے ہیں جو جھگڑا کرتے ہیں اللہ کے بارے میں۔ نہ سمجھ رکھیں نہ سوجھ۔ نہ کتاب چمکتی۔

 

شکلِ تمثیلیٔ عالمِ عُلوی، عالمِ سفلی، و عالمِ دین برائے تفہیمِ فیض رسانی

اصول و فروعِ دینِ ہر سہ عالم مانندِ درختِ چہار بیخ و شش شاخ:

۵۲

قولہٗ تعالیٰ:

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّزَيَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِيْنَ   ۝ۙوَحَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍ (۱۵: ۱۶ تا ۱۷) ۔

ترجمہ: اور ہم نے بنائے ہیں آسمان میں برج اور رونق دی اس کو دیکھنے والوں کے لئے اور بچا رکھا اس کو ہر شیطانِ رجیم سے۔

۵۳

فرعِ پنجم حجّت:

حجّت دلیل کو کہتے ہیں۔ یعنی مناظرے یا بحث میں حقانیت پر کسی چیز کو نفی یا اثبات کرنے کے لئے جو معقول بات ہو اسے حجّت کہتے ہیں۔

فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ (۰۶: ۱۴۹)۔

یعنی پکی دلیل اللہ کی ہے۔

حجّت کو حجّت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ نفی اور اثبات کی دلیلیں کلّی طور پر جانتا ہے اور کبھی بھی کسی مناظرے میں عاجز نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ علمِ تاویل جانتا ہے۔ حجّت کے دوسرے معنی علمی جنگ، یعنی بحث ہے۔ اور تیسرے معنی وہ شخص جو کسی کی طرف سے جواب دہی کی ذمّہ داری رکھتا ہو۔ چنانچہ قرآنِ شریف کی یہ آیت:

لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ (۴۲: ۱۵) کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی قوۡلی جھگڑا نہیں۔ دوسرے معنی میں آئی ہے:

رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللّٰهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا (۰۴: ۱۶۵)۔

ترجمہ: بہت سے پیغمبر خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے، تاکہ لوگوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ پر پیغمبروں کے بھیجے جانے کے بعد کوئی جواب دہی کی ذمّہ داری نہ ہو۔ اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔

۵۴

یعنی ہر زمانے میں یہی عمل جاری رکھتا ہے۔ اس آیت میں حجّت کے تیسرے معنی مراد ہیں۔ مذکورہ بالا آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن کسی کی یہ شکایت نہیں ہوگی کہ ہمارے زمانے میں کوئی رسول یا ہادی نہیں تھا جو زمانے کے مطابق ہمیں راستہ دکھاتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ظاہر کیا ہے کہ دین اور دنیا میں اسے جو کچھ ذرائع اور اسباب پیدا کرنا تھا وہ لوگوں کے لئے مہیا کرکے رکھا ہے، یعنی اس کی طرف سے لوگوں پر حجّت ہے، یعنی امام زمانہ دنیا میں ہمیشہ اس لئے ہے کہ فردائے قیامت خداتعالیٰ پر لوگوں کی حجّت نہ ہو۔ پس معلوم ہوا کہ خدا و رسول کی طرف سے حجّت لوگوں کے لئے امامِ زمان ہے اور یہ امام کے اختیار میں ہے کہ وہ بذاتِ خود دینی نظام چلائے۔ یا حجتّوں اور داعیوں کے واسطے سے چلائے۔ یہاں صرف حجّت کا ذکر ہے۔ حجّت امام کے بعد کے درجے ہیں، جس میں کل ۲۸ حجّت ہوتے ہیں، وہ اس طرح کہ دنیا کے بارہ حصّے گنے گئے ہیں۔ ہر حصّے کو جزیرہ کہا جاتا ہے۔ ہر جزیرے میں دو حجّت ہوتے ہیں۔ جن میں سے ایک کو حجّتِ روزاور دوسرے کو حجّتِ شب کہا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ امامِ زمانؑ کے حضور میں چار حجّت ہوتے ہیں۔ وہ بھی دو حجّتِ روز اور دو حجّتِ شب ہوتے ہیں۔ ان چاروں میں سے جو سب سے بڑا ہو اسے حجّتِ اعظم یا باب کہا جاتا ہے۔ جو کہ امامِ زمانؑ کا وہ فرزند ہوتا ہے۔جوامامِ روزگار کے بعد امام بننے والا ہو۔ باب دروازے کو کہتے ہیں۔

۵۵

رسولِ خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:

اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا

یعنی میں علمِ توحید کا شہر ہوں اور علی اس شہر کا دروازہ ہیں۔

حضرت مولانا علی حضرت محمد صلعم کا حجّت اعظم یعنی باب تھا۔ اس لئے کہ دورِ ناطق کا حجّتِ اعظم امام خود ہی ہوتا ہے۔

واضح ہو کہ ۲۸ حجّت کو عالمِ دین کے اٹھائیس منازل اور بارہ حجّت کو بارہ بروج کہا جاتا ہے۔ بارہ حجّت اس طرح ہوتے ہیں، کہ دنیا کے صرف بارہ جزیرے یعنی حصّے ہیں۔ اگر بارہ جزیروں میں سے ایک ایک حجّت گنا جائے تو کل بارہ ہوئے۔ اور یہ بارہ حجّت عالمِ دین کے بارہ برج ہیں۔

حجّت کی روحانی اور علمی قابلیت کا اندازہ معلوم کرنے کے لئے اتنا کہنا کافی ہوگا کہ سلمان الفارسی، شمس تبریز، حکیم ناصر خسرو، پیر صدرالدّین، پیر حسن کبیرالدّین وغیرہ جیسے بہت سے باکرامت پیر اور بزرگ اپنے اپنے زمانے کے حجّت تھے۔ اور باقی حجّت بھی علم و کرامت اور بزرگی میں بالکل اسی طرح تھے، جس طرح یہ تھے۔ لیکن یہ دوسری بات ہے کہ اگر وقت کی ضرورت کے مطابق بعض حجّتوں نے اپنے علم و کرامت کوظاہر کیا ہو، اور بعضوں نے مصلحتاً پوشیدہ رکھا ہو۔ کسی بزرگ کی اس بیت سے بھی حجتوں کی روحانیّت ملاحظہ ہو: بیت

ازدلِ حجّت بحضرت رہ بُوَد      او بتائیدِ دلش آگہ بُوَد

۵۶

یعنی حجّت کے دل سے امامِ زمان تلک روحانی صاف راستہ ہوتا ہے۔ اور امامِ زمان اپنے حجّت کے دل میں روحانی بات پہنچانے سے ایک پل بھی غافل نہیں رہتا۔

حجّت روحانی عروج کی وہ حد ہے جہاں حقائق الاشیاء کے جملہ علوم و معارف موجود ہیں۔ یہ وہ بلند مقام ہے جس پر سے چڑھنے والے کو کون و مکان کی حقیقت چشمِ باطن سے بخوبی دکھائی دیتی ہے۔ معرفتِ نفسِ انسانی جو دراصل وہی پروردگار کی معرفت ہے، بدرجۂ کمال حجّت کی حد میں حاصل ہوسکتی ہے۔ کتب سماوی اور مختلف شرائع کی تاویل بھی پوری امکانیّت کے ساتھ حجّت کو میسرہوسکتی ہے۔ حجّت اور فتح یعنی میکائیل ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں۔

 

فرعِ ششم داعی:

داعی بلانے والے یعنی سچے دین کی طرف دعوت کرنے والے کو کہتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا (۳۳: ۴۶)۔

یعنی: اے محمد (  صلعم) ہم نے تجھے اللہ کی طرف اس کے اذن سے بلانے والے اور اجالے چراغ کی حیثیت میں بھیجا ہے۔

اس آیت میں آنحضرتؐ کو داعی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ خود بھی دعوت کرتے تھے اور اپنی نگرانی میں بھی دعوت کراتے تھے۔ لیکن آنحضرتؐ

۵۷

کی طرف سے دعوت کرنے والے تو ضرور موجود تھے۔ کیونکہ رسول اللہؐ کا خاص کام نبوّت ہے۔ اور دعوت نبوّت کی نگرانی میں ہوتی ہے۔

پس معلوم ہو کہ اسماعیلی مذہب کے اعتقاد کے مطابق حجّت کے بعد داعی ہے۔ ان کی تعداد ہر جزیرے میں تیس اور بارہ جزیروں میں کل تین سو ساٹھ ہے۔ جو متوسط سال کے دنوں کے برابر ہوتی ہے۔

علم و فضل کے لحاظ سے داعیوں کے بھی مراتب ہوتے ہیں ۔اور عام طور پرداعی دوقسم کے ہوتے ہیں، داعیٔ مطلق اور داعیٔ محدود، یا مکفوف۔ ان دونوں داعیوں میں جو فرق ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ داعیٔ مطلق روحانی لحاظ سے اپنے سے اوپر کے درجوں میں مل جاتا ہے۔ لیکن ظاہری کام ایک داعی کی طرح کرتا ہے۔داعیٔ محدود یا داعیٔ مکفوف ظاہراً و باطناً صرف حدِّ دعوت کے لائق ہوتا ہے۔ ان تمام داعیوں کو اپنے اپنے جزیروں کے حجّتوں سے علم و معرفت روحانی اور جسمانی دونوں طریقوں سے ہر وقت ملتی رہتی ہے۔ داعی اور خیال ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں ۔

قولہٗ تعالیٰ:

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ  ۭذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ (۰۹: ۳۶)۔

ترجمہ: مہینوں کی گنتی اللہ کے پاس بارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ، جس دن پیدا کئے آسمان و زمین۔ ان میں چار امن کے ہیں۔

 

۵۸

 

یہی ہے دینِ قیّم۔

دربیانِ مراتب حدودِ دین

 

۱          مستجیب                       محرم

۲          ماذونِ محدود                 صفر

۳          ماذونِ مطلق                  ربیع الاوّل

۴          داعیٔ محدود                  ربیع الثانی

۵          داعیٔ مطلق                   جمادی الثانی

۶          حجّت                            جمادی الثانی

۷          باب                              رجب

۸          امام                               شعبان

۹          اساس                            رمضان

۱۰       ناطق                            شوّال

۱۰۰     نفسِ کُل                        ذیقعد

۱۰۰۰  عقلِ کُل                        ذوالحجّہ

 

حدودِ دین مستجیب سے شروع ہوتے ہیں۔ مستجیب دینی دعوت کو قبول کرنے والے مرید کا نام ہے۔ یعنی یہ اس مرید کی حد ہے جو محض

 

۵۹

 

فیض لینے والا ہو، خود سیکھتا ہو۔ جس طرح قرآنِ مجید میں ذکر ہے:

اِنَّمَا يَسْتَجِيْبُ الَّذِيْنَ يَسْمَعُوْنَ  وَالْمَوْتٰى يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَيْهِ يُرْجَعُوْنَ  (۰۶: ۳۶)۔

یعنی صرف وہی لوگ مانتے ہیں جو سنتے ہیں اورمردوں کو اللہ بعث دے گا۔ پھر وہ اس کی طرف لوٹائے جائیں گے۔

مستجیب میں دعوت کرنے کی قابلیّت پیدا ہونے پر اسے دعوت کرنے کے لئے اذن ملتا ہے۔ اور وہ اس وقت ماذون کہلاتا ہے، دونوں قسم کی ماذونی کے فرائض کی انجام دہی کے بعد وہ داعیٔ مکفوف پھر داعیٔ مطلق پھر حجتِ جزیرہ کے مرتبے تک پہنچ سکتا ہے۔ اسی زندگی میں مومن کی روحانی عروج کی آخری حد صرف درجۂ حجّتی ہے۔

 

 

دربیانِ ایّامِ عالمِ دین

 

جس طرح دنیاوی ہفتے میں سات دن ہوتے ہیں، اسی طرح دینی ہفتے کے بھی سات دن ہیں۔ کیونکہ عالمِ ظاہر اور عالمِ دین بالکل ایک دوسرے کی مانند ہیں۔ مگر فرق اتنا ضرور ہے کہ عالمِ ظاہر عالمِ دین کے مقابلے میں مردے کی طرح ہے اور عالمِ دین عالمِ ظاہر کے مقابلے میں زندہ کی طرح ہے۔ اس قول کی سچائی کی دلیل اس آیت سے ملے گی۔

قولہٗ تعالیٰ: وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ (۲۹: ۶۴)۔

 

۶۰

 

ترجمہ: اور یقیناً آخرت کا گھر وہی ہے جو زندہ ہے۔ اگر وہ جانتے ہوں۔

اس آیت کے تخصیصِ بیان سے یہ ثابت ہوا کہ صرف آخرت ہی زندہ ہے، اور دنیا مردہ ہے۔ اس لئے کہ اگر دنیا بھی آخرت کی طرح زندہ ہوتی تو یہ نہ کہتا کہ آخرت کا گھر زندہ ہے۔ کیونکہ پہلی چیز دوسری چیز سے مخصوص اس وقت کی جاتی ہے جب دوسری چیز میں پہلی چیز کی وہ خاصیت موجود نہ ہو۔ اب بلاشبہ ثابت ہوا کہ آخرت زندہ اور دنیا مری ہوئی ہے۔ اب یہ جاننا ضروری ہے کہ آخرت کا گھر کس طرح زندہ ہے؟ اس حقیقت کو ہم اسی لفظ “حَیَوان” کی معنوی گہرائیوں سے نکال سکتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے یہ بھی یاد رکھئے کہ قرآنِ مجید اَحسن القصص ہونے کی وجہ سے مشترک معنی الفاظ سے پر ہے۔ اور یہ اس کی لاانتہا خوبیوں میں سے ایک ہے۔ یعنی لفظ مشترک المعنی وہ ہے جس کے کئی معنی ہوں۔ قرآنِ شریف چونکہ احکم الحاکمین کا کلام ہے اس لئے یہ جملہ علوم و اصطلاحات کے مطابق حکمت خیز معنی دینے والی کتاب ہے۔ اب پھر لفظ “حیوان” کی طرف توجّہ ہو۔ اس لفظ کے تین معنیٰ ہیں:

۱-        زندہ

۲-        حیوانِ صامت

۳-        حیوانِ ناطق

اب حیوان کے ان تینوں معنوں کا استعمال اس طرح ہوگا۔ آخرت

 

۶۱

 

کا گھر زندہ ہے۔ آخرت کے گھر میں جان ہوتی ہے۔ یعنی وہ گھر چلنے پھرنے، حس و حرکت کرنے والا ہوتا ہے۔ آخرت کا گھر ایک انسان ہے۔ اس لئے وہ گھر اپنے اندر قیام کرنے والوں سے بات چیت کرتا ہے۔ اور اس میں قیام کرنے والے بھی اپنے مکان سے بات چیت کرتے ہیں۔

اس مطلب کا خلاصہ یہ ہوا کہ عالمِ دین ہی آخرت ہے۔ یعنی عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اساس، جدّ، فتح، خیال، امام، حجّت، داعی اور دیگر حدودِ دین عالمِ دین ہے اور دارالآخرت ہے۔اور یہی زندہ ہے، پھر واضح ہوکہ عالمِ دین کی تمام چیزیں زندہ ہیں۔ اسی طرح عالمِ دین کے ایّام ہیں، یعنی وہ زندہ ہیں۔ چنانچہ آدمؑ یک شنبہ، نوحؑ دوشنبہ، ابراہیمؑ سہ شنبہ، موسیٰؑ چہار شنبہ، عیسیٰؑ پنجشنبہ، محمدؐ آدینہ اور قائم علینا منہ السّلام یومِ شنبہ ہیں۔ ظاہری طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں عالَم کو پیدا کردیا اور ساتویں دن عرش پر قرار کیا۔ اوریہ بھی قرآنِ شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک دن ہمارے حساب کے ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔ جس طرح قرآنِ شریف میں ذکر ہے:

وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (۲۲: ۴۷)۔

ترجمہ: اور تحقیق تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک دن تمہارے ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔

اس حساب سے وہ چھ دن چھ ہزار برس ہوئے۔ جن میں اللہ تعالیٰ نے عالم کو پیدا کیا ۔دوسری طرف یہ بھی قرآنِ شریف میں فرمایا

 

۶۲

 

ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کو بطورِ ابداع پیدا کیا ہے۔

چنانچہ ارشاد ہوا کہ:

بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (۰۲: ۱۱۷)۔

یعنی آسمانوں اور زمین کو بغیر مادّے کے اور بغیر کسی دیر کے پیدا کرنے والا۔

یعنی خلق اور ابداع میں یہ فرق ہوتا ہے کہ خلق میں ایک چیز سے دوسری چیز پیدا کی جاتی ہے اور اس کے لئے کم یا زیادہ وقت لگتا ہے اور ابداع میں بغیر کسی چیز کے اور بغیر کسی دیر کے ایک چیز بنائی جاتی ہے۔

اب اگر اس کی حقیقت تلاش کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ چھ دن میں عالمِ دین کو پیدا کیا ہے اور اس جہان کو “کُنۡ” کے امر سے پیدا کیا ہے۔ جسے ابداع کہتے ہیں۔ اور وہی اللہ تعالیٰ کے چھ دن جن میں اس نے عالمِ دین بنایا ہے، انسانی حساب سے چھ ہزار برس ہوتے ہیں۔ اور وہ چھ ناطقوں کے چھ ہزار برس کا دور ہے۔ جن میں عالمِ دین ہر طرح سے مکمل ہوچکا ہے۔ ساتواں دن دورِ قائم ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے عرش پر قرار کیا ۔ یعنی قائم میں ظہور ہوا۔

 

۶۳

 

خلاصۂ مطلب

اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ (۰۷: ۵۴)۔

ترجمہ: تمہارا پروردگار اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا، پھر تخت پر بیٹھا۔

 

۶۴

 

اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ (۰۷: ۵۴)۔

ترجمہ: تمہارا پروردگار اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا، پھر تخت پر بیٹھا۔

 

 

۶۵

 

امامِ زمانؑ کی پہچان اور اس کی اطاعت کےبیان میں

ترجمہ از کلام حضرت حکیم سیّد شاہ ناصْر خسروقدس اللہ سرہٗ

 

اس دنیا کی تمام مخلوقات و موجودات میں سے انسان اشرف و اعلیٰ اس لئے ہوا کہ اسے دوسرے جانوروں کو مستثنےٰ رکھتے ہوئے عقل جیسی شریف چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے عنایت ہوئی، یہ محض وہ عقل تھی جو نشوونما کی ابتدائی منزل سے ہمیشہ پروشِ علمی کی محتاج ہوتی ہے۔ پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ حکمت اور جود والا خدا اس پیاری چیز یعنی عقل کو بغیر پرورش کے چھوڑ دیتا، بلکہ ازروئے قانونِ عقل یہ لازم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ایک خاص الخاص لوگوں کی طرف بھیجے تاکہ وہ ان کی عقول کی پرورش اپنے علم سے کرے، کیونکہ کسی حاجت مند کو پیدا کرنا اور اس کی حاجت روائی کرنے والے کو پیدا نہ کرنا محض بخالت ہوتی ہے۔ مگر اللہ تبارک و تعالیٰ بخالت سے دور ہے۔ اگر ہم اس کائناتی کتاب سے اس حقیقت کی مزید تلاش کریں تو ہمیں ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب حیوانوں کو گھاس پات کھانے والی روح دی گئی تھی تو اس کے ساتھ ساتھ آسمانوں، ستاروں اور عناصرِ اربعہ کو بھی ان کے لئے گھاس اگانے پر مقرر کئے گئے تھے، کیونکہ اس قسم کی نباتاتی اشیاء میں جانوروں کی جسمانی پرورش ہے۔ پھر اس خدائی قانون سے یہ ثابت ہوا کہ لوگوں میں ایک ایسا

۶۶

 

پالنہار ضرور ہوگا جو کہ ہر وقت انسانوں کی عقول کو اس علم سے پالتا رہے جس علم کے لئے انہیں ضرورت ہوتی رہتی ہے۔

یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ جس طرح یہ ابتدائی عقل بلا شرکت تمام حیوانات کے صرف انسان کو ملی ہے بلکہ یہ تمام حیوانات سے مستشنیٰ اسے ایک عطائے الہیٰ ہے، تو اسی طرح خدائی عادت سے یہ لازم ہوتا ہے کہ جس قسم کے علم کے لئے انسانوں کی ابتدائی عقول محتاج ہوں وہ علم صرف ایک شخص کے پاس عطائی (تلاش کے بغیر) ہو اور اکتسابی یعنی کمایا ہوا نہ ہو کیونکہ اگر وہ علم اکتسابی ہوتا تو ہر شخص اپنی کوششوں سے اس علم کو حاصل کرسکتا، پھر اِس صورت میں اللہ کی طرف سے کسی پیغمبر یا ہادی کے آنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔

جب تمام حیوانوں سے صرف انسان ہی اس ابتدائی عقل کی عطا کے لئے مخصوص ہوا، باوجود یکہ وہ حیوان کی ایک نوع ( قِسم) تھا، پھر یہ لازمی ہے کہ تمام انسانوں میں سے بھی صرف ایک ہی شخص کے بغیر اور کسی کو عقل پروری عطا نہیں ہوئی ہو، تاکہ کائنات سے مثال جوئی کے طریقے پر یہ ترتیب دلیلاً ٹھیک ہوسکے۔ کیونکہ نوع یعنی چھوٹی قسم جنس یعنی بڑی قِسم کے نیچے ہوتی ہے۔ اور شخص یعنی اس سے بھی چھوٹی قسم کے نوع کے نیچے ہوتی ہے۔ مثلاً حیوان اجناس میں سے ایک جنس ہے حیوانِ ناطق اور حیوانِ صامت اس کی دو نوع ہیں تمام انسان اپنی نوع یعنی حیوانِ ناطق کے افراد یا کہ اشخاص ہیں، اسی طرح تمام جانور اپنی نوع یعنی حیوانِ صامت کے افراد یعنی اشخاص ہیں۔

 

۶۷

 

جب حیوان کی جنس میں سے اس کی ایک نوع یعنی انسان فائدہ حاصل کرنے والی عطا یعنی ابتدائی عقل کے لئے مخصوص ہوا۔ تو یہ بھی لازم ہے کہ انسان کی نوع میں سے اس کے ایک شخص عطائی عقول پروری کیلئےمخصوص ہو، تاکہ یہ ترتیب از روئے دلیل درست ہوسکے اور جو شخص عطائی عقول پروری کے لئے مخصوص مِن عند اللہ ہوا ہے، پیغمبر ہے، اور جب تمام حیوانات میں سے انسان کی نوع عقل کے لئے مخصوص ہونے میں کیا تعجّب ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے:

اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَاۗءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰي رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ (۰۷: ۲۳)

ترجمہ: کیا تمہیں یہ تعجّب ہوا کہ نصیحت تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہیں مل جائے ایک مرد پر جو وہ تم میں سے ہوتا کہ وہ تمہیں ڈرائے۔

وہی ایک شخص اپنے دَور کا پیغمبر ہوتا ہے اور اس کا وصی یہی کام اپنے عصر میں کرتا ہے اور ہر زمانے میں امامِ زمانؑ اسی طرح مخصوص ہے، جب تک دنیا قائم ہو، تو انسان کی نوع اسی ایک شخص سے جو اس مرتبے کے لئے مخصوص ہے خالی نہیں ہوگی، جس طرح حیوان کی جنس انسان کی نوع سے خالی نہیں ہے اور نہ ہوگی۔ خلقت اور کل عالم سے صانعِ حکیم کی جو غرض ہو وہ صرف وہی شخص جانتا ہے۔ پیغمبر اور اس کے وصی کی روحانی صلاحیّت کا اندازہ اسی طرح پر نہیں کہ جس طرح ایک شخص دوسرے

 

۶۸

 

شخص سے زیادہ دانا ہو، یا ایک گائے دوسری گائیوں کی نسبت زیادہ موٹی ہو، کیونکہ وہ صرف اس فرق کے بل بوتے پر ایک مرد کی طرح دوسری گائیوں کو درندوں سے نہیں بچاسکتی ہے، اور نہ وہ انہیں مقررہ وقت پر چَرا کر واپس لاسکتی ہے۔ پھر یہ ثابت ہوا کہ ہمیشہ دنیا اُسی ایک شخص سے خالی نہیں رہتی جس کے بغیر انسان کو کوئی چارہ نہیں ہوسکتا، اور وہی اکیلا شخص خلق کی اصلاح کو بچا سکتا ہے، جس طرح انسان کی نوع مویشیوں کی اصلاح بچا سکتی ہے۔ اس قول کی سچائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس حدیث سے ملے گی۔

اُمِرْتُ لِصَلَاِح دُنْیَا کُمْ وَنَجَاتِ اٰخِرَتِکُمْ

کہ مجھے تمہاری دنیوی بہتری اور اخروی آزادی کے لئے فرمایا گیا ہے۔ اگر یہی ایک شخص دنیا سے چلا جائے تو لوگوں کے درمیان سے صلاح بھی چلی جائے گی۔ فی المثل اگر تمام حیوانات میں سے انسان کی نوع وہمی طور پر اٹھائی جائے تو تمام جانور بھی نہ رہیں گے۔ اور وہ تمام جانور جن کی اصلاح انسان سے وابستہ ہے درندوں کی زَد سے مر کر ختم ہو جائیں گے۔

اسی طرح دنیا میں ہمیشہ امامِ زمان کی موجودگی اور اس کی شناخت و اطاعت کی اہمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی اس حدیث سے بغور ملاحظہ ہو:

مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زمَانِہٖ مَاتَ مینۃ

 

۶۹

 

جَاھِلِیَّۃٍ وَالْجَاھِلُ فِی النَّارِ

ترجمہ: جو شخص مرجائے اور اس نے اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانا ہو تو وہ نادانی کی موت مرتا ہے۔ اور نادان آتشِ دوزخ میں ہے۔

اس حدیثِ شریف کی گہری حقیقت پر تبصرہ کرنے کیلئے حدیث کے دوسرے معنوی پہلو کو بھی بذریعۂ الفاظِ اضداد دکھائی گئی ہے۔ تامل سے ملاحظہ ہو:

 

۷۰

 

۱-        تمام انسانوں میں سے۔

۲-        موت جسمانی امام شناسی و نا شناسی کی حدِّ زمانی ہے۔

۳-        دنیاوی زندگی کا مقصد امامِ زمان کی معرفت ہے۔

۴-        وہ امام جس کی پہچان خدا کی پہچان ہو۔

۵-        صرف اپنے زمانے کا امام جو حاضر ہو۔

۶-        موت و حیات دو قسم کی ہے، روحانی اور جسمانی۔

۷-        رُوح سے زندہ ہوچکا تھا، مگر جسم خارج تھا۔

۸-        روحانی زندگی کے لئے عقل صرف امام سے حاصل ہوتی ہے۔

۹-        عاقل کا سبب عقل، عقل کا سبب معرفتِ امامِ زمان۔

۱۰-      بہشت ملنے کا سبب عاقل ہونا۔

 

مذکورہ حدیث کا فلسفہ:

اگر عقل سے پوچھا جائے کہ انسان کو کس لئے پیدا کیا گیا ہے؟ بتائے گی کہ خدا کی عبادت کے لئے! پھر عبادت کے لغوی معنی پوچھنے پر بتائے گی کہ لفظ عبادت عبد (غلام، نوکر) سے مشتق ہے، اس لئے عبادت کے معنی غلامی اور نوکری ہے، اگر اس لفظ کو فارسی میں لیا جائے تو پھر بھی یہی مطلب نکلتا ہے، مثلاً عبد بمعنی بندہ یعنی غلام، اور عبادت کے معنی بندگی یعنی غلامی یا نوکری ہے۔ لفظ عبادت کے اصلی معنی ظاہر کرنے کے لئے اتنا کہنا کافی ہوگا کہ یہ لفظ قرآنِ شریف

 

۷۱

 

میں تسبیح و تقدیس، تحمید، تمجید، نماز، سجود، رکوع، دعا، ثناء، اور ذکر کے معنوں سے بالکل جُدا ہے، لیکن یہ دوسری بات ہے کہ اگر ہم انسانوں نے اپنی عام اصطلاح میں باری سبحانہٗ کی صفاتِ جلالی و جمالی بیان کرنے کا نام عبادت رکھا ہو، مگر احکم الحاکمین انسان کی غلط اصطلاحوں کی تقلید کرنے سے بہت برتر ہے، بلکہ خدائے پاک نے اپنی حکمتِ بالغہ سے ضروری الفاظ کی حفاظت ان کی اصل میں کی ہے، یعنی ہر لفظ کا اصلی مصدربطریقِ احسن ظاہر کیا ہے، تاکہ کوئی گروہ اپنی اصطلاح سے قرآنِ مجید کے معنی نہ بدل سکے، اور تلاشِ حکمت کے لئے خود قرآنِ مجید ہی اپنے الفاظ کی حقیقی لغات اور خود تفسیر و تفصیل بن سکے، چنانچہ لفظِ “عبادت” کی اصل یعنی مصدر عبد ہے اور اس کی ایک حفاظت گاہ اس آیت میں ہے کہ:

وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ (۰۲: ۲۲۱)۔

یعنی ایک مومن غلام ایک مشرک سے بہتر ہے۔ اگرچہ تمہیں خوش آویں۔

پھر اس دلیل کی بناء پر یہ کہنا درست ہوگا کہ جب کبھی اللہ تعالیٰ عبادت کو اپنے لئے منسوب کریں تو اس عبادت سے ایک ایسا عمل مقصود ہے جو کہ اس کے حکم کے مطابق ہو۔ اس قسم کے عمل قبول کرنے کے بعد عمل کے معنی علم بھی آئے گا، کیونکہ پہلے عمل پھر علم ہے، جس طرح پہلے جسم بنتا ہے، پھر روح۔ عمل جسم کی مانند ہے اور علم روح کی مانند ہے، اس لئے فرمایا: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا

 

۷۲

 

لِيَعْبُدُوْنِ (۵۱: ۵۶)۔

ترجمہ: “اور میں نے جنّ اور انس کو پیدا نہیں کیا مگر اپنی عبادت کیلئے۔”

بھلا یہ سوچئے کہ! عبادت جس کا مطلب ہے عمل کرنا، اللہ تعالیٰ کا، جو غنیٔ مطلق ہے، کیا واسطہ ہے؟ بلکہ اس کی حقیقت اسی طرح ہے کہ عبادت یعنی عمل کرنا نفس کلّ کے لئے ہے، کیونکہ نفسِ کُلّ نے جو کہ خدائے تعالیٰ کا ایک عظیم فرشتہ ہے، دنیا اور مخلوقات کو پیدا کیا ہے، اس لئے کہ عمل اس کے لئے ضرورت ہے، اور نفسِ کُلّ کا مظہر امامِ زمان ہے۔ لہٰذا امامِ زمان کی غلامی یعنی بندگی ہی نفسِ کُلّ کی اصلی عبادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ آیت میں انسان کی دنیاوی زندگی کا سبب بتایا گیا ہے، جوکہ وہ سبب صرف عبادت ہے۔ اور مذکورہ حدیث میں انسان کی اخروی زندگی کا سبب بیان کیا گیا ہے، جو کہ صرف معرفت ہے، یعنی خدا نے جس چیز کے آغاز کا ذکر کیا تھا رسول اللہ نے اسی چیز کے انجام کا ذکر کیا ہے، ورنہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قول میں اختلاف ہرگز نہیں پایا جاتا ہے، بلکہ آیت اور حدیث میں ایک ہی چیز کی اہمیت ظاہر کی گئی ہے، نیز یہی کہنا حقیقت ہے کہ جس شخص کو عبادت کی وجہ سے جسمانی زندگی ملی ہواسی شخص کو معرفت کی وجہ سے روحانی زندگی ملے گی۔

حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر زمین امامِ زمان سے ایک گھنٹہ کے لئے خالی رہ جائے تو وہ

 

۷۳

 

اپنے اوپر بسانے والوں کے ساتھ نیست ہوجائے گی۔

حدیث: وَلَوْ خَلَتِ الْاَرْضُ مِنْ اِمَامِ اْلوَقْتِ سَاعَۃً لَمَادَتْ بِاْھْلِھَا

پھر جب زمین ہمیشہ سے اپنے اوپر مخلوقات کو اٹھائے ہوئے فضا میں معلق ٹھہری ہوئی ہے اور ٹھہرے گی تو کوئی ایسا وقت لازم نہیں ہوتا جس میں امامِ زمانؑ ظاہراً و باطناً لوگوں کو فیض پہنچانے کے لئے موجود نہ ہو۔

کیونکہ اس حدیث کے کُھلے مفہوم کے مطابق زمین کا ٹھہراؤ اور ذی حیات کی زندگی کا دار و مدار امامِ زمانؑ کی موجودیّت پر ہے۔ یہ مسئلہ بہت گہری حقیقت رکھتا ہے کہ زمین اور اس کے اہالیان کی ہستی اور نیستی امامِ زمان سے کیوں وابستہ ہے؟

اصلیت ڈھونڈنے والوں کو یہ جاننا ضروری ہے کہ خدائے تعالیٰ بذاتِ خود فاعل نہیں بلکہ وہ بادشاہِ مطلق ہے، اس لئے اس کا فعل حدودِ علوی وسفلی کی نسبت سے ہے، لہٰذا رسولِ پاکؐ اور امامِ زمانؑ کا فعل ہی خدا کا فعل ہے، ان کی اطاعت خدا کی اطاعت اور ان کی محبّت خدا کی محبّت ہے، قولہٗ تعالیٰ:

مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ …..(۰۴: ۸۰)۔

یعنی جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ پھر جس نے رسول کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔

 

۷۴

 

اسی طرح سورۂ فتح کی دسویں آیت میں یہ بتاتا ہے کہ رسول اللہ کا ہاتھ خدا کا ہاتھ تھا اور رسولؐ کی بیعت خداکی بیعت تھی۔ خلاصۂ سُخن یہ ہے کہ رسولؐ کی گفتار اور کردار خدا کے حکم سے ہونے کی وجہ سے خدا کی طرف منسُوب تھا، بحکم:

وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى (۰۸: ۱۷)۔

یعنی “تونے جس وقت کافروں کی طرف کنکر پھینکا، وہ پھینکنا تیرا نہیں تھا بلکہ اللہ نے پھینکا۔”

یعنی پہلے جملہ میں کہتا ہے کہ جس وقت تُو نے پھینکا، پھر کہتا ہے تُو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا۔ جب ظاہری فعل رسولؐ نے خدا کے حکم سے کیا تو خدا کا کرنا ہوا، یعنی کہ نسبت خدا کی ہوئی اور کرنے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھے۔

اسی طرح مولانا مرتضیٰ علیؑ رسُول اللہؐ کے جانشین تھے، اوران کی اطاعت رسول اللہؐ کی اطاعت تھی، چونکہ وہ رسول اللہؐ کے وصی تھے، اور ہر زمانے میں امامِ زمان حاضر اس لئے ہے کہ اس کے ذریعے سے خدا اور رسولؐ کی اطاعت مومنوں سے قبول ہوسکے۔ چنانچہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر زمانے کے لوگوں کو ان کے زمانے کے امام کی زبان اور اس کی آواز سے اپنے پاس بلائے گا اور امامِ زمان کی شکل و صورت میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے گا، جنہوں نے دنیا میں دیدۂ حقیقت سے نہیں دیکھا ہو، وہ وہاں بھی نہیں دیکھ

 

۷۵

 

سکیں گے، قولہٗ تعالیٰ:

يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۢ بِاِمَامِهِمْ (۱۷: ۷۱) ۔

ترجمہ: “جس دن سارے لوگوں کو ان کے امام سے بلائیں گے۔”

“كُلَّ اُنَاسٍ” ناس کی جمع الجمع ہے اور اس سے مُراد اوّلین و آخرین یعنی کُل زمانوں کے انسان ہیں۔ جب ہر زمانہ والوں کو اُن کے امام سے بلانا ہے تو کوئی زمانہ ایسا نہیں جس میں امام نہ ہو، کیونکہ اللہ نے لوگوں کو قیامت کے لئے بلانے کا قانون ظاہر کیا کہ وہ صرف ان کے امام کے ذریعہ سے بلائے گا، جب اللہ کا بلانا امام کے ذریعہ سے ہے تو کلام بھی امامِ زمانؑ کی زبان سے ہوگا اور آواز بھی امامؑ کی ہوگی، پھر بالضرورت شکل و صورت بھی نورانیت میں امام کی ہوگی، کیونکہ بعضوں کا خیال ہے کہ اللہ پاک بذاتِ خود مشخص و مشکل نہیں ہے اور وہ بذاتِ یکتائی خود فعل و صفت و صورت و مادّہ اور سب چیزوں سے منزّہ و پاک ہے، لیکن قرآنِ شریف کی بہت سی آیتوں میں اللہ تعالیٰ کے دیدار پر یقین نہ رکھنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔ بہرحال امامِ زمانؑ کا نورانی دیدار بتدریج لوگوں کو بھی دکھایا جائے گا۔

واضح ہوکہ اس آیت میں حرف “باء” لفظِ امام کے شروع میں آیا ہے، اسے عربی قواعد میں “بائے استعانت” کہتے ہیں، اس کے ہم معنی حرف “وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُوْنَ”  (۱۶: ۱۶) کا باء ہے، یعنی وہ ستاروں سے راہ پاتے ہیں، یا کہ ستاروں کے ذریعے سے راہ پاتے ہیں۔ اسی طرح ’’وَاِنَّهُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِيْنٍ (۱۵: ۷۹) اور وہ دونوں یعنی عقلِ کُلّ و

 

۷۶

 

نفسِ کُلّ ظاہر امام کے ذریعے سے ہیں، کیونکہ کسی عام انسان کی عقل و جان کو عقلِ جزوی و نفسِ جزوی کہتے ہیں اور زمانے کا انسانِ کامل پیغمبر یا امام کی عقل و جان کو عقلِ  کُلّی و نفسِ کُلّی کہتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح امام کی یا پیغمبر کی شخصیت تمام شخصیتوں سے اشرف و اقدس ہوتی ہے، اسی طرح ان کی روح اپنی کُلّ قوّتوں سے آراستہ ہوتی ہے، اسی طرح ان کی کُلّی عقل جو ازل سے موجود تھی انہیں مستفیض کرتی ہے۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ سب سے پہلے اللہ نے میرا نُور پیدا کیا، یعنی عقلِ کل۔ پھر آنحضرتؐ اپنے اس نُور سے رسالت ملنے کے بعد سے مستفیض ہونے لگے، اگرچہ اس سے پہلے بھی تمام لوگوں میں سے اشرف تھے، پھر کس قدر ضروری ہے کہ پیغمبر اور امامِ زمانؑ کی نورانی شناخت ان لوگوں کے لئے جو ان کی پیروی کرتے ہیں۔

 

 

تفسیر وجُہ اللہ

 

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جِس نے مجھے دیکھا بے شک اس نے اللہ کو دیکھا۔ اس حدیث میں مَنْ رَأنِیْ فَقَدْ رَاَللّٰہَ۔ اب ذرا غور و فکر سے کام لینے کی ضرورت ہے کہ اس حدیث کی تہہ میں کِس قسم کی حکمت پوشیدہ ہے،

 

۷۷

 

اور اس حکمت تک ہماری عقل کی رسائی کس طرح ہوسکتی ہے۔ اگر سچ پوچھنا ہے تو انسان از خود کچھ بھی نہیں ، جَب تک خداوندِ تاویل مدد نہ فرمائے، اس لئے خازنِ حقائق سے توفیق مانگتے ہیں۔ اس پُرحکمتِ حدیث کے غیر معمولی وسیع معنی سے بمثالِ قطرہ ازدریائے فراوان یوں بیان کی جاتی ہے کہ دیکھنا یعنی دیدار تین قسم کا ہوتا ہے مثال کے طور پر دائیں آنکھ سے دیکھنا، بائیں آنکھ سے دیکھنا اور دونوں آنکھوں سے دیکھنا۔ اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ دیکھنے کے ان تینوں طریقوں میں سے کون سا طریقہ بہترین ہے؟ تو بلاتامّل آپ بتاسکیں گے کہ دونوں آنکھوں سے کسی چیز کو دیکھنا بہترین طریقہ ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے، اس کا ممثول یہ ہے کہ دائیں آنکھ کہتے ہیں دیدارِ جسمانی کو، بائیں آنکھ کہتے ہیں دیدارِ روحانی کو، اور دونوں آنکھوں سے مُراد جسمانی و روحانی ہے، جِس نے رسُول اللہؐ کو صرف جسمانیّت میں دیکھا اس نے حقیقت میں اپنی بائیں آنکھ بند کرلی اور جس نے رسول اللہؐ کوصرف روحانیّت میں دیکھا تو اس نے اپنی دائیں آنکھ بند کرلی، جس نے جسمانیّت اور روحانیّت دونوں حالتوں میں اپنے رسول پاکؐ کی شناخت حاصل کرلی اس کی دونوں آنکھیں کُھلی رہیں۔

اب یہ بتا دوں گا کہ ہر حالت میں دیدار کے دو بڑے مقصد ہیں، یعنی جمال اورشناخت۔ نورانیّت اور جسمانیّت میں جمال و شناخت

 

۷۸

 

کے نتیجوں سے کشش ہوسکتی ہے، اور یہ سب کچھ چہرے سے ہوسکتا ہے، از انکہ جملہ صفاتِ بشریّت کا متحمّل چہرہ اور سر کے سوا اور کوئی عضو نہیں ہے، پھر رسولِ پاکؐ نے اس حدیث کی حکمت میں داناؤں کو یہ ضرور کہا ہوگا کہ مجھے ظاہر و باطن میں دیکھو، میں خدا کا چہرہ ہوں، اس لئے میرا دیدار خدا کا دیدار ہے، میرا جمال بھی جمالِ الٰہی ہے، میری شناخت خدائے برتر کی شناخت ہے، جس نے مجھے دیکھا اور نہیں پہچانا وہ بہت خسارے میں رہا، کیونکہ نبیٔ رحمت کا یہ کہنا کہ “جِس نے مجھے دیکھا بے شک اس نے اللہ کو دیکھا۔” بہت معنی رکھنے کے علاوہ دیدار کی ترغیب دیتا ہے۔ نیز اس حدیث کی عمقیّت سے زمانے کے پیغمبر اور امام کی شناخت اور ان کی فرمانبرداری و محبّت کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے، اور آخر میں یہ خلاصہ نکلتا ہے کہ رسول اللہؐ اپنے زمانے میں خدا کا چہرہ تھے۔ جب وہ خدا کا چہرہ تھے تو ضرور وہ خدا کی زبان، آنکھیں، کان وغیرہ سب کچھ تھے۔ مومنوں کے لئے اس میں کوئی شک نہیں کہ نبیٔ رحمت اپنے زمانے میں خدا کا چہرہ اور خدا کا دیدار تھے، اسی طرح مولانا علیؑ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا کہ “اَنَا وَجْہُ اللّٰہِ” (میں اللہ کاچہرہ ہوں)۔

ہمیں یقین ہے کہ وہی اللہ کا ایک چہرہ ہے اور ہمیشہ دنیا میں موجود ہے۔ جس شخص سے خُدا کی معرفت حاصل ہوجائے وہی خدا کا چہرہ ہے۔ اور ایسا شخص جس پر خدا کی معرفت ہوسکتی ہو، اپنے

 

۷۹

 

اپنے زمانے میں پیغمبر اور امام ہیں، چونکہ خدا کا چہرہ لافانی ہے، اس لئے امامِ زمان ہمیشہ دنیا میں زندہ اور حاضر ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے کلامِ مجید میں فرماتا ہے:

كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ  ۭ لَهُ الْحُكْمُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ(۲۸: ۸۸)۔

ترجمہ: “ہر چیز فنا ہونے والی ہے اس کے چہرے کے سوا ، حکم اس کا ہے اور تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔”

ہر چیز کی بے بقائی کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کا اپنے چہرے کو اس بے بقائی سے مستثنےٰ کرنے سے معلوم ہوا کہ اس کا چہرہ ایک لحاظ سے ان چیزوں کے ساتھ اور اسی عالم میں ہے جہاں دوسری بے بقاء چیزیں ہیں، کیونکہ کُلُّ شی کے بعد حرفِ اِلّاَ کا آنا اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ وجہہٗ  بھی شۓ کی جنس سے ہے اور عالم اشیاء میں ہے۔ نیز معلوم ہوا کہ چہرہ کے متعلق بعضوں کو فنا کا شُبہ پڑتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے چہرے کو غیر فانی بتایا ۔ چیزوں کا یہ ہلاک ہونا صرف جسمانی موت تھی، پھر حکم اور فیصلہ کے اور پھر اس کی طرف واپس جانے کے نتیجوں سے واضح ہوا کہ سب انسان مرجاتے ہیں اور ان کے فیصلہ ہونے پر معاد کی طرف رجوع کرتے ہیں لیکن خدا کا چہرہ جو امام ہے ہمیشہ دنیا میں زندہ اور غیر فانی ہے۔ اگرچہ ظاہراً یہ بھی ان جملہ انسانوں کی جنس میں سے ہے جو وہ بعد از انقضائے

 

۸۰

 

وقتِ معیّن فنا ہونے والے ہیں، لیکن امامِ زمانؑ خدا کا چہرہ اور اس کا نُور ہونے کی خصوصیت سے دوسرے ہم جنسوں سے جدا گانہ اپنے جسمانی لباس بدلتے ہوئے دنیا میں ہمیشہ موجود اور حاضر ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ احکم الحاکمین کی اس باحکمت آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چہرۂ خدا کی نسبت ایک وجہ سے ان تمام فنا پذیر اشیاء کے ساتھ ہے جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے اسے بھی پہلے کُلّ شیْ میں ذکر کیا۔ اور دوسری وجہ سے چہرۂ خدا کی ان سے کوئی نسبت نہیں، اس لئے پھر اللہ پاک نے اسے حرفِ استثنےٰ سے علیٰحدہ کردیا، لیکن پہلی نسبتِ عامہ اور دوسری نسبتِ خاصہ ہے، پھر دُنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ملتی، جس میں آیتِ مذکورہ کی خصوصیات موجود ہوں۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ جملہ صفات کے ساتھ خدا کا چہرہ کہلانے کا حقدار ہوسکے۔

دوسری خصوصیت، جسمانی نسبت سے جسمانیوں کے نزدیک رہ سکے اور ان کو اپنے نزدیک کرسکے۔

تیسری خصوصیت، جسمانی نزدیکی کے نتیجوں پر ان کو نورانیّت اور بقاء کے نزدیک لاسکے۔ قولہٗ تعالیٰ:

يَعْلَمُ مَا يَـلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيْهَا ۭ وَهُوَ الرَّحِيْمُ الْغَفُوْرُ (۳۴: ۰۲؛ ۵۷: ۰۴) ۔

وَالسَّمَاۗءِ ذَاتِ الْحُبُكِ (۵۱: ۰۷)۔

قولہٗ تعالیٰ: قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ ڛ قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ

 

۸۱

 

يَّهْدِيْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَيَهْدِيْهِمْ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ(۰۵: ۱۵ تا ۱۶)۔

ترجمہ: تمہیں آیا ہے اللہ کی طرف سے نور اور بولنے والی کتاب جس سے اللہ راہ دکھاتا ہے جو کوئی پیروی کرے اس کے رضوان کی۔ تائید کے راستوں پر اور ان کو نکالتا ہے اندھیروں سے روشنی کی طرف اپنے حکم سے اور ان کو چلاتا ہے سیدھی راہ پر۔

 

 

 

 

 

 

شکل وحدت اصول بفعل مستدیر خود

 

 

۸۲

 

امامِ زمان نُورِ خداوندی ہے

 

اس مقام پر سب سے پہلے نُور کی حقیقت اور اس کے اقسام کے متعلق بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہر چیز کی حقیقی حالت سے واقف ہونے میں بہت سے فائدے ہیں۔

نور یعنی روشنی اس چیز کا نام ہے جس سے موجودہ چیز کی حالت کا علم براہِ نظر معلوم ہوسکے۔ اس کے برعکس ظلمت یعنی اندھیرا وہ شۓ ہے جس سے موجودہ چیز کی حالت کا علم براہِ نظر حاصل نہ ہوسکے۔ دوسرے الفاظ میں نور وہ ہے جس سے موجودہ اشیاء کی ظاہری حالت کا عِلم نظر سے دماغ کو حاصل ہو اور ظلمت وہ ہے جس سے موجودہ اشیاء کی ظاہری حالت کا علم براہِ نظر دماغ کو حاصل نہ ہوسکے۔ اور یہ صرف نورِ طبیعی یعنی ظاہری روشنی کا ذکر ہے جس کا منبع صرف سورج ہے اور چاند تارے وغیرہ روشن چیزیں بذاتِ خود روشن نہیں بلکہ سورج سے ان کو روشنی حاصل ہوتی ہے۔ اس قسم کی روشنی کی حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ظاہری چیزوں کو دکھا سکتی ہے۔ یعنی مکدّر اور غیر شفاف چیزوں کی بیرونی سطح مثلاً زمین، پتھر، نباتات، حیوانات اور غیر شفاف چیز ملا ہوا

 

۸۳

 

پانی وغیرہ کے صرف بیرونی حصہ پر روشنی پڑتی ہے۔ اس قسم کی چیزوں کی سطح سے اندر کی طرف گزر کر سارے جسم میں پھیل نہیں سکتی۔ پھر اس صورت میں روشنی قبول نہ کرنے کی وجہ سے ان سے سایہ نمودار ہوتا ہے۔ لیکن اجرامِ فلکی، کرّۂ اثیر، ہوا، شفاف پانی، آئینہ اور بلور وغیرہ سے یہ روشنی گزر جاتی ہے۔ اسی طرح ایسی چیزوں کے جسم کا کوئی ذرّہ روشنی سے خالی نہیں ہوتا۔ پھر ان چیزوں کا سایہ نہیں پڑتا۔ اس لئے کہ روشنی ان سے رکتی نہیں بلکہ ان سے گزر جاتی ہے۔ اس نتیجے سے معلوم ہوا کہ روشنی کے مقابلے میں دو قسم کی چیزیں ہیں، یعنی ایک چیز وہ ہے جو اپنی ذات کی طرف سے روشنی آنے نہیں دیتی اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنے پاس والی چیز کو بھی روشنی لینے نہیں دیتی، یعنی حجاب ہوتی ہے۔ دوسری چیز وہ ہے جو اپنی ذات میں بھی روشنی بھر لیتی ہے اور پاس والی چیز کو بھی روشنی لینے سے نہیں روکتی۔ اسی ذکر کے سلسلے میں یہ بھی سمجھ لینا کہ اس روشنی کا منبع یعنی سُورج ایک خاص مقرّر قانون پر اپنا فعل کرتا ہے، چنانچہ یہ ہمیشہ اس عالم کے درمیانی دائرے پر واقع ہے اور اس کی بالکل گول شکل ہے۔ سُورج عالم کے درمیان اور بشکل گول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی روشنی کسی خاص سمت کو نہیں بلکہ سارے عالم میں پھیل جائے جو کہ عالم بھی اسی طرح گول ہے۔

دوسری بات سورج کے متعلق یہ ہے کہ یہ اپنی غیر موجودگی میں

 

۸۴

 

چاند اور ستاروں کی وساطت سے ہمیں روشنی پہنچاتا ہے۔ مگر اتنی روشنی نہیں جتنی کہ وہ خود روشنی دیتا ہے۔ سُورج کی ایک اور عادت یہ بھی ہے کہ بالمقابل کی چیز بھلی ہو یا بُری ہو، اسے ضرورت ہو یا نہ ہو لیکن وہ ہر حالت میں اس چیز کو روشنی اور گرمی بخشتا رہتا ہے۔ اس عالم کے لئے سورج کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ ہم اسی طرح کرسکتے ہیں کہ سورج اس عالمی مشین کا وہ پرزہ ہے جس پر ساری مشین کے چلنے اور کام کرنے کا دارومدار ہو۔

دوسری مثال میں سورج کو اس عالم میں وہ حیثیت ہے جو حیثیت انسانی جسم میں دل کو ہوتی ہے، کیونکہ ہوا اور پانی کی حرکت دن رات، بہار، تابستان، خزان، زمستان اور سال ،اگنے اور بڑھنے والی چیزوں کی نشوونمائی، پھلوں کا پکنا، ذِی حیات کا جینا، چلنا پھرنا، کام کرنا اور تمام عالم کا نظامِ عمل کا دار و مدار سورج پر ہے۔ اور یہ اس لئے ہے کہ سورج روشنی کا منبع ہے۔

اب یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ یہی نور ہے، جس کا ذکر قرآنِ شریف میں ہے یا اس طبیعی نور سے بالاتر کوئی اور نور ہے؟ اس کے بارے میں یہ ہے کہ اسلام کے ساتھ دنیا کے بہت سے مذاہب میں بھی روحانی یعنی باطنی نور کا ذکر ہے۔ اس سے زیادہ محکم دلیل قرآنِ شریف سے ملتی ہے: قولہ تعالیٰ:

يَخْلُقُكُمْ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِيْ

 

۸۵

 

ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ (۳۹: ۰۶)۔

ترجمہ: بناتا ہے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں ایک بناوٹ کے بعد دوسری بناوٹ تین قسم کے اندھیروں میں۔

اس آیت سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ کسی چیز کی حالت بہتر کرنے کے مسلسل عمل کا نام خلق ہے (پیدا کرنا) اب تین قِسم کے اندھیروں کے متعلق یہ ہے کہ جب ظلمت تین ہیں تو یقیناً نور بھی تین ہیں کیونکہ ہر چیز اپنی ضد پر پہچانی جاتی ہے۔

تُعْرَفُ الْاَشْیَآءُ بِاَضْدَادِھَا۔

یعنی چیزیں اپنی اضداد پر پہچانی جاتی ہیں۔

چنانچہ سیاہ اور سفید صفت میں باہم ضد ہیں تو سیاہ سے سفید کی اور سفید سے سیاہ کی ہستی اور صفت کا قیاس لگایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ظلمت اور نور ایک دوسرے کی ضِد ہیں، یعنی ان کا فعل ایک دوسرے کے مخالف ہے۔ اس مسئلہ کی تحقیق و تدقیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ چیزوں کو دو یا تین یا اس سے اوپر کے اعداد میں اس وقت لائی جاتی ہیں جبکہ وہ چیزیں کسی بھی ایک وجہ سے ایک دوسرے سے جدا کی جا سکیں۔ مثلاً سورج کی روشنی گِنی نہیں جاتی، چنانچہ اگر کوئی شخص یوں کہے: “سورج کی دو (۲) روشنی، سورج کی تین یا چار روشنیاں وغیرہ۔” تو اس کی بات فضول ہوگی، کیونکہ سورج کی روشنی تو صرف ایک ہے اور اسے سورج سے علیٰحدہ کرکے تہ بتہ رکھی نہیں

 

۸۶

 

جاسکتی ہے، پھر ظلمت اور تاریکی کی کیفیت بھی بالکل اس طرح ہے۔ یعنی تاریکی جسمِ ناشفاف کا سایہ ہے۔ اس لئے جس جسم کی سطح سے اس کی ناشفافی کی وجہ سے اندر کی طرف روشنی کا گزر نہیں ہوا ۔ تو وہ جسم اپنی سطح کے دائمی سائے میں رہتا ہے۔ یعنی اس کی سطح کے علاوہ تمام جسم کا خلا اور ملا یکسان طور پر اندھیرا رہتا ہے، جب دو متضاد چیزوں کو تہہ بہ تہہ یعنی ایک دوسرے کے اوپر بغیر کسی حجاب کے رکھنا ناممکن ہے، مثال کے طور پر پانی پر آگ، اس پر پانی، اس پر پھر آگ رکھنا، تو رحم سے لے کر جسم کی سطح تک ایک دوسرے کے اوپر تین ظلمت اور تین نور کے خول کا ہونا کس طرح ممکن ہے۔ بلکہ پوست، گوشت، جھلّی اور تری سبھی باہم پیوستۂ جسم ہیں، اور ان میں کوئی روشنی نہیں، بلکہ یک لخت تاریکی ہے۔

طبیعی روشنی کی بادلیل حقیقت ظاہر کرنے کے بعد اب مجھے یہ لازمی ہے کہ نور کی اور دو قسمیں بیان کروں، جو اس بیان کو عقل والے قبول کریں جس طرح اوپر بیان ہوچکا ہے کہ اس عالم کے درمیان میں سورج معلّق ہے اور اس کی شکل بالکل گول ہے، جس طرح اس کی شکل گول ہے، اسی طرح گولائی میں اس سے روشنی نکلتی ہے اور عالم کے درمیان میں ہونے کی وجہ سے تمام عالم میں روشنی پھیلا سکتی ہے۔ چاند، تارے، بجلی، آگ، چراغ اور دوسرے پُرانے اور نئے روشنی کے ذرائع بھی دراصل سُورج ہی کے

 

۸۷

 

مظاہرات ہیں، اس لئے اس چشمۂ نور کے ہوتے ہوئے اس جسمانی عالم میں اور کسی قسم کے نور کی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھا کہ اس قسم کی جسمانی روشنی کُل عالم یعنی جسمِ کُلّ کے لئے کافی تو ہے مگر یہ ظاہری چیزوں اور عالم کے کناروں تک محدود ہے۔ روح تو درکنار باوجود این ہمہ قوّت ہوا میں اڑنے والے ایک چھوٹے سے چھوٹے ذرّے کے وجود پر ساری نہیں ہوسکتی۔ پھر ہمیں معلوم ہوا کہ یہ جسمانی روشنی ہے، کیونکہ جسم اور اس کا فعل محدود ہے، جب جسم کے لئے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے اور جسم ایک جداگانہ عالم ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ روح کا بھی جداگانہ اپنا ایک عالم ہے۔ اس لئے کہ یہ روا نہیں کہ جسم جو روح کا مرّکب ہے یعنی گھوڑے کی طرح ہے، ایک جداگانہ عالم میں رہتا ہو اور روح اپنا کوئی عالم نہ ہونے کی وجہ سے جسم کا محتاج رہے۔ یہ مثال ایسی ہے کہ حیوانوں کی ایک اپنی دنیا ہو اور انسانوں کی کوئی دنیا نہ ہو۔ یہ دوسری بات ہے کہ اگر انسان بھی حیوانوں سے کام لینے کی غرض سے اصطبل اور آغیل وغیرہ میں ہی جایا کریں، مگر یہ ان کا اصلی مکان نہیں ہوسکتا ہے۔

ثابت ہوا کہ ایک عالمِ روحانی بھی ضرور ہے۔ جب روحانی عالم ضرور ہے تو اس میں روحانی سورج بھی ضرور ہے، جسم اور روح سے بالاتر عقل ہے، جس طرح جسم اور روح کی نسبت عقل سب کچھ کرسکتی ہے اور عقل میں سب کچھ ہے۔ چنانچہ ایک مثال سے بے جان

 

۸۸

 

چیزوں کو جسم، حیوانوں کو روح اور انسانوں کو عقل مان لو تو پھر سوچے بغیر بتا سکتے ہو کہ تینوں میں سے غنی اور بادشاہ کون ہے؟ معلوم ہوا کہ جو ان میں سے عقل کے مرتبے پر ہو وہی غنی اور وہی بادشاہ دونوں پر ہے۔ پھر لازم ہوا کہ عقل زیادہ غنی ہے، یعنی اس کا ایک جُدا گانہ عالم ہے جس میں جسم اور روح کی نسبت بہت کچھ ہے۔ اس عقلانی عالم کی روشنی بھی اپنی قِسم کی ہے۔ یہی حقیقت تھی جب انسان اپنی ماں کے پیٹ میں رہا،تو اس سے ظلمتِ طبیعی، روحانی اور عقلانی سہنا پڑتا تھا۔ جاننے والوں کو اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودات تین قسم کی ہیں: یعنی جسم ،روح اور عقل۔ اسی طرح تین عالم میں عالمِ جسمانی ،عالمِ روحانی اور عالمِ عقلانی۔ پھر ان کے نور اور ظلمت بھی اسی طرح ہیں، یعنی ظلمتِ طبیعی، اس کے مقابلے میں نورِ طبیعی، پھر ظلمت روحانی ، اس کے مقابلے میں نورِ روحانی ، پھر ظلمتِ  عقلانی اور اس کے مقابلے میں نورِ عقلانی ہے ۔

اس کے بعد اپنے اصلی مقصد کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اپنے ان روحانی بھائیوں سے مخاطب ہوتا ہوں جو اس مختصر کتاب کو پڑھتے ہوں، جس طرح ان کے پاس اس حقیقت کی دلیلیں موجود ہیں، اسی طرح میں بھی ان کے اس عقیدے کی تصدیق کرتا ہوں کہ امامِ زمان ہی اللہ تعالیٰ کا نور ہے۔ جس طرح اس دنیا کو روشنی پہنچانے والا سورج ہمیشہ موجود ہے اسی طرح

 

۸۹

 

امامِ زمان عالمِ دین کو روشنی بخشتا ہوا ہمیشہ موجود ہے۔ سورج کا دنیا سے ناپید ہونا ممکن نہیں اسی طرح امامِ زمان لوگوں کے درمیان ہمیشہ حاضر رہتا ہے۔ اس لئے کہ انسان جسم و روح اور عقل تین چیزوں سے مرکب ہے، جسم خاکی کے لئے یہی سورج ، چاند، ستاروں اور دوسرے روشنی کے ذریعوں سے روشنی ملتی رہتی ہے۔ لیکن انسانی روح اور عقل کو جس روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ روشنی صرف امامِ زمان کے پاس ہر وقت موجود ہے۔ مگر یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ روح اور عقل کی روشنی اس جسمانی آنکھ سے دیکھی نہیں جا سکتی۔ کیونکہ اگر اس آنکھ سے وہ نور دکھائی دیتا تو اس نور کو تمام دنیا والے دیکھ سکتے اور کوئی شخص انکار نہ کرسکتا، کیونکہ اس دنیاکے سورج سے کوئی منکر نہیں ہے، اس لئے کہ اس کا نور دکھائی دیتا ہے اور اس میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں کہ یہ سورج ہے یا نہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف راستہ دکھاتا ہے۔ اگر اللہ کا یہ نور ظاہری طور پر چمکنے دمکنے یا اور کسی ظاہری نشان کے ساتھ ہوتا جس کے دیکھتے ہی لوگ سمجھ سکتے کہ یہ خدا کا نور ہے تو اللہ یہ نہ فرماتا کہ میں جسے چاہتا ہوں اپنے نور کی طرف راستہ بتلاتا ہوں۔ چنانچہ آیۂ نور میں نورِ خداوندی کی تفصیل بیان ہے۔

قولہٗ تعالیٰ: اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ مَثَلُ نُوْرِهٖ

 

۹۰

 

كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ ۭ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ ۭ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ  ۙ  يَّكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْۗءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ  ۭ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ  ۭ يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ  ۭ  وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۭ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ   (۲۴: ۳۵)۔

ترجمہ: اللہ آسمانوں اور زمینوں کی روشنی ہے۔ اس کی روشنی کی مثال ایک طاق کی مانند جس میں چراغ ہو۔ چراغ شیشے میں ہو۔ شیشہ چمکتا ہوا تارے کی مانند سلگتا ہے۔ زیتون کے مبارک درخت سے وہ مشرق کا نہیں اور نہ مغرب کا ہے۔ اس کا تیل خود بخود سلگتا ہے۔ اگرچہ اسے آگ نہ بھی لگے۔ روشنی پر روشنی ہے۔ اللہ جسے چاہے اپنی روشنی کی طرف راستہ دکھاتا ہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے۔ اور اللہ تمام چیزوں کا جاننے والاہے۔

 

اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کی تشریح

 

اللہ آسمانوں اور زمینوں کی روشنی ہے، یعنی اللہ کے وجودِ مطلق میں کُل عالم سمویا ہوا ہے، اپنی تمام صفات کے ساتھ جو اس میں موجود ہیں، اس سے کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں، وہ کُل اشیاء کو دیکھتا اور

 

۹۱

 

اپنی روشنی میں دکھا سکتا ہے۔اس کی روشنی میں کُل عالم اس طرح دکھائی دیتا ہے جس طرح کوئی صاف شیشے کا گلوب سورج کی روشنی میں۔ اسکی رحمت اور علم میں ہر چیز اس طرح سموئی ہوئی ہے جس طرح ایک شفاف چیز سورج کی روشنی میں مستغرق ہوتی ہے۔

رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا  (۴۰: ۰۷)

ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! ہر چیز تیری رحمت اور علم میں سموئی ہوئی ہے۔

اس آیت میں بہت سی حقیقی تعلیمات ہیں، لیکن یہاں پر اس قدر تشریح کافی ہے۔ صرف ایک بات جو بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جب اللہ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے تو ہمیں اس کی مثال اس طرح سمجھنی چاہئے کہ آسمان اور زمین جسم ہے اور جسم کے ذرّات ہوتے ہیں، بالفاظِ دیگر ذرّات کے مجموعے کا نام جسم ہے تو اِن ذرّوں کو مجموعی طور پر عالم یا آسمان اور زمین کہا جاتا ہے۔ پھر جب روحانی طور پر کل عالم میں اللہ کی روشنی موجود ہو تو نتیجۃً یہ کہنا درست ہوگا کہ اِس عالم کی دو صورتیں ہوئیں: ایک صورت نورانی یعنی وہ صورت جو خدا کی روشنی میں نظر آتی ہو۔ دوسری صورت ظلمانی، یعنی وہ صورت جو انسانی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ چونکہ انسان پوشیدہ، تاریک اور دُور کی چیزوں کو نہ دیکھ سکنے کے علاوہ دکھائی دینے والی چیزوں کو بھی حقیقی نظر سے نہیں دیکھ سکتا ہے۔ پھر یہی عالم کی نورانی اور

 

 

۹۲

 

ظلمانی دو صورتیں ہونے کی وجہ سے یہ ثابت ہوا کہ اِس عالم میں ایک اور عالم پوشیدہ ہے، جو اس سے زیادہ روشن تو ضرور ہے لیکن شکل و صورت یعنی ترکیب اور وضع میں اسی عالم کی مانند ہے۔ اس قول کی سچائی اس آیت سے ملے گی۔

قولہٗ تعالےٰ: سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۙ اُعِدَّتْ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ (۵۷: ۲۱)

ترجمہ: ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔ ایک باغ کی طرف جس کا پھیلاؤ (یا دیکھنا۔ عرض) آسمان اور زمین کی طرح ہے۔ یہ ان لوگوں کے لئے تیار کر رکھا ہے جو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسولوں پر۔

یقیناً نورانی صورت میں یہی عالم ہے۔ وہ باغ جس کا پھیلاؤ یا دیکھنا آسمان اور زمین کی طرح ہے۔

 

اُس کے نور کی مثال

کسی قریبی مشابہت والی چیز سے حکمت کے حل و عقد کا نام مثل ہے، یعنی معلوم کو نامعلوم اور نامعلوم کو معلوم کرنے والی بات کو مثل کہتے ہیں اور اس سے جو چیز مقصود ہو، اسے ممثول کہتے ہیں۔ مثل اور ممثول میں بہت فرق رہتا ہے، یعنی جب کسی روحانی چیز کی مثال جسمانی چیز سے دی جائے تو اس میں روحانی چیز زندہ اور جسمانی

 

۹۳

 

چیز مقابلۃً مردہ ہونے کی وجہ سے اور بھی مثالوں کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ چنانچہ روح کی مثال دنیا کی مثال دنیا کی ساری چیزوں سے دی جاسکتی ہے۔ اس لئے کہ روح میں ساری چیزوں کی خاصیّت موجود ہے، یہی وجہ تھی کہ اس دنیا کی محسوس چیزوں سے جتنی مثالیں ممکن تھیں، ان کو قرآن شریف میں طرح طرح سے بیان کیا گیا ہے۔ قولِ خدا اِس حقیقت کا گواہ ہے:

وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ  ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا  (۱۸: ۵۴)

ترجمہ: اور تحقیق ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے ہر ایک مثال کو طرح طرح سے بیان کیا ہے اور انسان بہت سی چیزوں پر بحث کرتا ہے۔

 

چراغ دان کی مانند

جس میں چراغ رکھا ہو چراغدان کہتے ہیں، چراغدان، ( مشکوٰۃ) نفسِ کُلّ ہے، کیونکہ چیزوں کے اٹھانے اور جسم کے بنانے والا وہی ہے اور یہ دنیا جو خدائی نور کے چراغ کے طاق یا کہ چراغ پائے کی طرح ہے۔ نفس کلّ کے لئے جسم کی مانند ہے۔ چراغدان وہاں رکھا جاتا ہے جہاں زیادہ روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح یہی دنیا ہے جس میں نور کی زیادہ ضرورت ہے، اس لئے امامِ زمان جو اس نور کے چراغ ہیں دنیا میں

 

۹۴

 

اور لوگوں کے درمیان رہتا ہے اور شرف کی اونچائی سے روشنی دیتا ہے۔ بلندی دو قسم کی ہوتی ہے: شرفی اور مکانی۔

 

چراغ شیشے میں ہے

چراغ امامِ زمان ہے۔ اس لئے کہ وہ دنیا میں ہمیشہ زندہ اور حاضر ہے۔

 

شیشہ تارے کی مانند چمکتا ہے

چراغ کی روشنی کے حفاظتی شیشہ ناطق یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں کہ ناطق جو چراغ کے شیشے کی طرح نورِ امامت کی حفاظت کرتا ہے۔ یعنی اگر ناطق دعوتِ ظاہر کو اپنی طرف سے نہ دکھاتا اور قیامت تک امام کے اسرار کو نہ چھپاتا تو امام کو جسمانی تکلیفیں ہوتیں اور جسمانی تکلیف کی وجہ سے امامت چلانے میں فرق آتا۔ جس طرح کسی لالٹین کا شیشہ نہ ہونے سے روشنی میں فرق آتا ہے تارے کی طرح شیشہ چمکنے سے یہ مراد ہے کہ ناطق نے امام سے نور حاصل کیا اور اسی نور میں اس کو چھپا لیا دیکھنے والے نے یہ قیاس لگایا کہ یہ کوئی چمکتا ستارہ ہے جو یک لخت اور اس کے اندر کوئی جوف نہیں، جو روشنی اور چمک و دمک نظر آتی ہے وہ اس ستارے کی ہے۔ واقعی ظاہری طور پر اسی طرح ہوا یعنی اس کا مطلب

 

۹۵

 

یہ ہے کہ باطنیّت میں حضرت مولانا مرتضیٰ علیؑ جو خدا کے ہاتھ، پاؤں، آنکھ، کان، زبان اور دل وغیرہ سب کچھ تھے۔ اس لئے خدائی کی تمام صفات اور تمام کام حضرت مولانا مرتضےٰ علی علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے سپرد تھے۔ پھر اس لئے جناب پیغمبر کی وحی و الہام، کشفِ دیدار، اور تعلیم وغیرہ سب مظہر العجائب و الغرائب ہی سے آنحضرت کو میسّر ہوئی تھی۔ لیکن بطریقِ حکمت اِن تمام باتوں کو راز میں رکھی جاتی تھیں اور نبوّت کے سلسلے میں یہ سب آنحضرت سے ظہور پذیر ہوتا تھا، یہی مثال ہے جس میں کہا گیا ہےکہ خدائی روشنی تو چراغ میں ہے لیکن چراغ کا حفاظتی شیشہ اس کے اندر کی روشنی کی وجہ سے اس قدر تابان و درخشان ہے کہ خود مجوف یعنی اندر سے خالی شیشہ ایک کروی شکل کے چمکتے ہوئے تارے کی طرح دکھائی دیتا ہے۔

کیا تعجب کا مقام ہے کہ آپ شمس تبریز اور مولائے روم جیسے بزرگوں کی کتابوں کا ذرا مطالعہ کیجئے۔ فوراً آپ کو یہی حقیقت وہاں بھی نظر آئے گی۔ چنانچہ مولانا رومؔ فرماتے ہیں، بیت

محمَّد بود قبْلہ گاہِ عالم

ولی برتخت دل سلطان علی بود

معنی: ساری دنیا کے لئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو خانۂ کعبہ کے رتبہ میں تھے لیکن اس کے دل کے تخت پر مولانا علی بادشاہ تھے۔

 

۹۶

 

تیل جلتا ہے

اس چراغ کا تیل عقلِ کلّ ہے، تیل جلنے پر روشنی بنتی ہے، عقلِ کلّ سے روحانی عقدے کھل جاتے ہیں۔

اس مبارک زیتون سے جو وہ نہ مشرق کا ہے نہ مغرب کا۔ وہ درخت جس سے عقلِ کلّ پیدا ہوا، امرِ کلّ ہے، چونکہ وہ مشرق اور مغرب یعنی عقلِ کلّ اور نفسِ کُلّ سے برتر ہے۔

سُلگ جاتا ہے اس کا تیل بغیر آگ لگائے۔ آگ کہتے ہیں عقلِ کلّ کی تائید کو، اور اس چراغ میں تو ہمیشہ عقلِ کلّ تیل کی مانند بھرا ہوا ہے۔ خود اس میں تائید موجود ہے اس کے لئے اور تائید کی ضرورت نہیں ہے۔ اس تیل سے توحید کی روشنی نکلتی رہتی ہے۔

 

روشنی پر روشنی ہے

نور کی دائمیّت کے مقابلے میں جسم مستحیل اور متبدّل ہے۔ نیز تقاضائے قانونِ فطرت کی وجہ سے اسے فنا پذیر ہونا لازمی ہے۔ اس لئے امامِ زمانؑ ہر شخصی دَور کے بعد اپنا جسمانی جامہ بدلتا رہتا ہے (اس لحاظ سے گذشتہ جامہ کے شخصی دور کے کائنات سے متعلق عقلانی عمل کی صورتِ نورانی پر موجودہ جامہ کا اپنے زمانے کے لوگوں سے متعلق وہی عقلانی عمل کی نورانی صورت بڑھ جاتی ہے) کیونکہ نور کا دوسرا نام عقلانی عمل ہے۔ اس کی مثال ایسی

 

۹۷

 

ہے کہ کسی فرشتۂ جلالی نے عقل کے قلم سے روح کی کتاب میں کل مخلوقات کے ایک دن کا مجموعی عمل حکمت کے انداز میں درج کرلیا۔ جو اِس کتاب کا ایک باب بن گیا۔ اسی طرح روزانہ ایک ایک باب لکھتا گیا۔ لکھنے کی طاقت تو اس جلالی فرشتہ میں موجود ہے۔ لیکن جوں جوں مخلوقات سے عمل وقوع میں آتے ہیں، توں توں یہ لکھتا جاتا ہے۔ اسی طرح اس کے اس عمل کو “باب پر باب” کہا جاسکتا ہے۔

روشنی پر روشنی کہنے کا مطلب اسی طرح ہے۔ ورنہ اگر بالفرض نور یعنی روشنی روز بروز بڑھتی جائے تو اِس کا یہ مطلب ہوگا کہ وہ نورِ ازل میں ناقص تھا، اب کامل ہو رہا ہے۔ کوئی دانا شخص اس بات کو ہرگز قبول نہیں کرتا۔ ہاں جس طرح میں نے اوپر کی مثال میں بتایا کہ عقل کا عمل زمانہ اور لوگوں کی استعداد اور ان کی قابلیّت کے مطابق ہوتا رہتا ہے، اس لئے امامِ زمانؑ ظاہراً اپنا تمام کام ایک دن میں ختم نہیں کرتا ہے۔

روشنی پر روشنی کہنے کی حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہےکہ اگرکوئی شخص خدائی نور کی ابتداء اور انتہا کے بارے میں سوال کرے، تو اسے جواب ملتا ہے کہ نور کا سلسلہ لا انتہا ہے۔ اس لئے کہ روشنی پر روشنی کہنے کا جو منطقی قانون ہے۔ اگر ہم اس کو بغور دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس میں نور کی لاابتدائی اور لاانتہائی ہے۔ کیونکہ

 

۹۸

 

خدا کے نور کی موجودیّت کے قوانین میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ نور پر نور ہوتا ہے۔ اس صورت میں آپ یہ سمجھیں کہ ہر ایک نور سے پہلے ایک نور کا ہونا لازمی ہے۔ تاکہ بعد کے نور کو اس قانون کے لحاظ سے پہلے کے نور “پر” کہنا درست ہوسکے اور اس کے پہلے کے نور کو بھی “پر” کہلانے کے لئے قبلاً کوئی نور کا ہونا لازمی ہے اور اِس سلسلے کا کوئی آغاز نظر نہیں آتا۔ پھر موجودہ نور پر ایک اور نور کا ہونا ضروری ہے تاکہ روشنی “پر” روشنی کہنا بجا ہو۔ اس کی کوئی انتہا ثابت نہیں ہوسکتی ہے۔

یہی مطلب دوسرے الفاظ میں ادا کرتا ہوں۔ چنانچہ یہ کہنا کہ “نور پر نور ہوتا ہے” اس کا عکسی مطلب یہ ہوا کہ نور کے بغیر نور نہیں ہوتا، یعنی جب تک پہلے نور نہ ہو تو بعد میں نور نہیں ہوسکتا ۔ اس کی بھی یہی حقیقت ہوئی کہ نور سے پہلے بھی نور ہو اور بعد میں بھی نور ہو۔ اس طرح اگلی اور پچھلی طرف سے غیر منقطع طور پر نور کا ہونا لازمی ہے تاکہ ہر نور کو ایک طرف سے علیٰ (پر) اور دوسری طرف سے تحت (نیچے) کہنا حقیقتاً ٹھیک ہوسکے۔

 

اپنے نور کی طرف راستہ دکھاتا ہے جس کو چاہتا ہے

ہدایت کے معنی ہیں راستہ دکھانا۔ کسی کو راستہ دکھانا اس وقت ضروری ہوتا ہے جب کہ راستے پر چلنے والا شخص راستہ نہ جانتا ہو،

 

۹۹

 

اور اسے اس راستے پر چلنا ضروری ہو تو اس وقت اس کو تین طریقوں سے راستہ دکھایا جاسکتا ہے۔ اس لئے راستہ دکھانا یعنی ہدایت تین قسم کی ہوتی ہے: عملی ہدایت، قولی ہدایت اور تحریری ہدایت۔ عملی ہدایت یہ ہے کہ ہادی یعنی خود راہ دکھانے والا اس ناواقف راہی کے ساتھ منزلِ مقصود تک چلے۔ قولی ہدایت یہ ہے کہ ہادی راہ جُو کو راستے کے متعلق سمجھائے اور اس کے نشان وغیرہ بنائے۔ پوری تفصیل سے جو وہ اس ناواقف راہ رو کے لئے ضروری سمجھتا ہو اور تحریری ہدایت وہ ہوتی ہے کہ اس مسافر کے راستہ کے متعلق کوئی تفصیلی پہچان ہو یا کوئی نقشہ ہو جس سے مسافر منزلِ مقصود تک پہنچ سکے لیکن ان تینوں قسم کی ہدایتوں میں جو فرق ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی مسافر تحریری ہدایت سے فائدہ اُس وقت اٹھا سکتا ہے جبکہ وہ خواندہ ہو۔ اور اس کو کسی قسم کی غلطی ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ ورنہ اسے گمراہ ہونے کا خطرہ ہے۔ قولی ہدایت میں بھی مسافر کو راستے سے متعلقہ باتیں بھول جانے یا ان کو نہ سمجھنے کا خطرہ ہے۔ پھر دینی اُمور کی ہدایت کا بھی یہی حال ہے۔ لیکن روحانی ہدایت کے لحاظ سے لوگ تین قِسم کے ہیں۔

۱- انبیاء     ۲- اولیاء     ۳- عوام۔

اس صورت میں تحریری ہدایت یعنی آفاق و انفس کی مرقوماتِ صنعت اور ظاہری کتاب انبیاء کےلئے مخصوص ہے۔ الہام و القاء اور کلامِ غیبی کی قولی ہدایت اولیاء کے لئے ہے اور عوام کے لئے جو

 

۱۰۰

 

ہدایت ہے وہ یہ ہے کہ انہیں ہادی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ انہیں عملی ہدایت کریں جو کہ عوام کے لئے سب سے زیادہ آسان اور بے خطر ہدایت ہے۔

 

اور اللہ لوگوں کو مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ سمجھ سکیں

اور اللہ لوگوں کو مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ مثل سے ممثول کی دلیل لیں، وہ غور کریں کہ اللہ کے نور، چراغدان، چراغ، شیشہ، تارا، جلنا، درختِ زیتون، تیل، آگ اور ہدایت وغیرہ کہنے کا مطلب کیا ہے۔ اگر وہ صرف یہ کہے کہ اللہ تعالےٰ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہونے میں ہمارا کوئی انکار نہ ہو تو اس مثال سے ہمیں کیوں سمجھانا چاہتا ہے۔

 

۱۰۱

 

دربیانِ علم

ترجمہ ازکلام حضرت حکیمِ سیّد ناصر خسرو قدّس سرّہٗ

 

سب سے پہلے مومن کو یہ جاننا چاہئے کہ علم کیا ہے؟ جب وہ اسے پہچان سکے تو اس کو حاصل کرسکے گا، کیونکہ جب تک کوئی شخص کسی چیز کو نہ پہچان سکے تو اس چیز تک اس کی رسائی ہرگز نہیں ہوتی۔ پھر میں تجھے بتاؤں گا کہ چیزوں کو ویسی کی ویسی دریافت کرنے کو علم کہتے ہیں۔ چیزوں کو اصلیّت سے جاننے والا عقل ہے اور علم عقل کے گوہر میں ہےاور عقل کی گواہی باری سبحانہ و تعالےٰ کا کلمہ ہے جس کے نیچے تمام روحانیاں اور جسمانیاں ہیں اور جو کچھ علم کے تحت نہ آئے اُسے ہست نہیں کہنا چاہئے۔ جب یہ روا نہیں کہ خدا تعالےٰ علم کے تحت ہو اور علم وہ ہے کہ چیزیں اور ہستیاں سب اس کے نیچے ہیں اور نیستی بھی اس کے نیچے ہے تو روا نہیں جو میں کہوں کہ خدا ہے یا نہیں اس لئے کہ ہستی اور نیستی علم کے تحت ہے اور خدا علم کے تحت نہیں۔

پھر میں بتاؤں گا کہ امر کا محضر خدا ہے اور جس کو دوسرے کی نسبت عِلم کا زیادہ حصّہ ملا ہے وہی نسبتاً خدا کے امر کے زیادہ

 

۱۰۲

 

نزدیک ہےاور خدا کے امر کو زیادہ قبول کیا ہے اور زیادہ فرمانبردار ہے اور جو کوئی دوسروں کی نسبت زیادہ دانا ہوجائے خدا کا زیادہ مطیع ہوتا ہے اور جو کوئی پورا دانا ہوجائے تو وہ ہمیشگی کی نعمت کو پہنچتا ہے، چونکہ دانا کا انجامِ کار خدا کی رحمت ہے۔ انسان عالم کی تمام مخلوقات سے اخیر میں پیدا ہوا ہے اور اس کا مرجع یعنی واپس جانے کی جگہ اَمر ہے جو کہ وہ دونوں جہان کی علّت یعنی سبب ہے اور چیزیں اپنی اصل کی طرف رجوع کرتی ہیں۔

بھائیو! علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہو، جس سے تم اللہ کے زیادہ نزدیک ہوجاؤ گے کیونکہ خدائے تعالیٰ کی رحمت علم ہے۔

 

 

حدود ایک وقتِ معیّن تک ہیں

 

طالبِ حقیقت کو نہایت ہی ضروری ہے کہ وہ حدودِ دین کے بارے میں پوری علمیّت حاصل کرے کہ حدود کس ضرورت کیلئے ہیں، کیا وہ ہمیشہ کے لئے ہیں یا ان کی برخواستگی کا کوئی وقت ہے؟

میں اس موقعہ پر حدود کی ایک حقیقی تفصیل پیش کرتا ہوں جو آفاق و انفس کی نشانیوں کی دلیلوں پر مبنی ہوگی۔ اس لئے کہ جِس بات کی دلیل یا گواہی آفاق و انفس سے نہیں مل سکتی وہ محض جھوٹ ہوتی ہے۔

 

۱۰۳

 

چنانچہ حضرت رسول اکرم صَلعم کی حدیث ہے کہ:

اِنَّ اللّٰہَ اَسَّسَ دِیْنَہٗ عَلےٰ اَمْثَالِ خَلْقِہٖ لِیُسْسَدَلَّ بِخَلْقِہٖ عَلٰی دِیْنِہٖ وَبِدِیْنِہٖ عَلٰی وَحْدَ اِنیَّتِہٖ

ترجمہ: اللہ نے اپنے دین کی بنیاد اپنی مخلوقات کی مانند رکھی تاکہ اس کی مخلوقات ہی سے اس کے دین کی دلیل مل سکے اور اس کے دین سے اس کی یگانگی کی دلیل مِل سکے۔

اس حدیث میں تینوں عالم کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ تینوں عالم ایک دوسرے کی مثال ہیں: یعنی عالمِ خلق، عالمِ دین، اور عالمِ وحدت۔

اور یہی حقیقت سمجھانے کے لئے کہ جب تک آفاق و انفس کسی قول کی سچائی پر گواہی نہ دیں تو وہ قول ہرگز درست نہیں ہوسکتا۔ قرآنِ شریف کی آیت ملاحظہ ہو:

مَآ اَشْهَدْتُّهُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَا خَلْقَ اَنْفُسِهِمْ (۱۸: ۵۱)

ترجمہ: ہم نے ان کے لئے آسمانوں اور زمین کی آفرینش سے گواہی نہیں دی اور نہ اُن کی جانوں کی آفرینش سے۔

پھر عقل والوں کو لازم ہے کہ دین سے متعلقہ جو بات ہو اسے ظاہر کرنے سے پہلے اس کائناتی شہادت سے محکم کریں۔

چنانچہ ہم یہ کہتے ہیں کہ امامِ زمان عالمِ دین میں ہمیشہ حاضراور دائم فیضِ روحانی بخشتا ہے، تو یہ بات صحیح ہے، کیونکہ دنیا میں بھی ایک ایسی

 

۱۰۴

 

چیز ہے جو ہمیشہ سے دنیا میں موجود ہے اور روشنی بخشتی رہتی ہے وہ سورج ہے۔ امامِ زمانؑ اس دنیاوی سورج کا ممثول ہے اور سورج امامِ زمانؑ کی مثال ہے، لیکن معلوم ہوکہ مثال اور ممثول میں فرق ہوتا ہے، پھر اس کے بعد سورج کی جملہ صفات اور افعال سے امامِ زمانؑ کی قریبی مثال لی، یعنی سورج جب ہم سے دور ہوتا ہے اس وقت تاریکی ہونی شروع ہوتی ہے، پھرسورج کی طرف سے ہمیں چاند روشنی دیتا ہے اور اگر یہ بھی ہم سے دور ہو یا اس کا رخ ہماری طرف نہ ہو تو ہمیں تاروں سے روشنی ملتی ہے، پھر بعض اوقات بادل کی وجہ سے تاریکی ہی رہتی ہےاور جب سورج نکلے تو ہمیں چاند روشنی نہیں دے سکتا ہے، مگر وہ ہمیشہ اپنے لئے نور حاصل کرتا ہے، اسی طرح تارے بھی سورج نکلنے پر ہمیں نظر نہیں آتے، چاند اور تاروں میں اپنے لئے روشنی ضرور موجود رہتی ہے، کیونکہ ان کے اور سورج کے درمیان کوئی شے حائل نہیں ہوتی ہے، اسلئے کہ وہ زمین سے بہت اونچائی پر ہے۔

صفحۂ کائنات کی مذکورہ شہادت سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ جب زمانہ والوں کی روحانی رسائی امام تک نہ ہو تو اس وقت امام کی طرف سے حدود مقرر ہوتے ہیں جن کا ذکر اس سے آگے ہوچکا ہے، حدودِ سفلی میں سے حجّتِ اعظم جو چاند کے مقابلے میں ہے اور دوسرے حجّت اور داعی ما ذون تک تاروں کے مقابلے میں ہیں، عالمِ دین کو علمِ دین سے روشنی دیتے ہیں۔ اور جب امامِ زمانؑ دینی لحاظ سے

 

۱۰۵

 

لوگوں کے نزدیک ہوجائے تو حدودِ سفلی کی پہچان باقی نہیں رہتی۔ ہاں جس طرح ستارے دن کے وقت نیست و نابود نہیں ہوتے لیکن ہمیں ان سے ظاہری طور پر کوئی روشنی لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، اسی طرح حدود بھی تو ہر وقت موجود ہیں اور اپنی ذات کے لئے روشن ہیں۔

حجّت کی مثال بھی اسی طرح ہے جس طرح دن کے وقت چاند کی۔ قولہٗ تعالےٰ:

وَاِذَ النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ۔ یعنی جب ستارے دیکھنے میں غیر شفاف ہوں۔ وَخَسَفَ الْقَمَرُ۔ اور چاند گہہ جائے۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ۔ اور جس وقت سورج اور چاند ایک ہو جائیں۔

یہی علامتِ حدودِ ظاہری کے اشخاص نہ دکھائی دینے کی ہے یعنی روزِ قیامت کے قریب ہونے پر امام کے سوا باقی تمام جسمانی حدود ظاہراً نہ دکھائی دیں گے اور حجّت امام کے ساتھ ایک ہوگا۔

یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حدودِ علوی و سفلی کے بارے میں علم حاصل کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ علم حدود کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔ بمثالِ آیتِ کریمہ:

هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ (۵۷: ۰۳)

 

۱۰۶

 

اوّل اسے کہتے ہیں جس کا فی الواقع کوئی آغاز ہو۔

آخر اسے کہتے ہیں جو فی الحقیقت آخر میں پیدا ہوا ہو۔

ظاؔھر بحقیقت وہ ہے جوحواسِ خمسہ سے پانچوں حسّ یا کم از کم ایک حسّ سے محسوس کیا جاسکے۔ کیونکہ لفظ کے لئے حد مقرّر ہے۔ مثلاً گلاب کے پھول کو باصرہ، شامہ، ذائقہ اور لامسہ کی قوتوں سے محسوس کیا جاسکتا ہے، لیکن سامعہ کا اس میں حصہ نہیں۔ لیکن کسی خوشبو یا بدبو جب اس کا نکاس سامنے نہ ہو تو صرف قوّتِ شامّہ کی مدد سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ مختصر ظاہر جسم ہے اور جسم محسوس ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص لفظ کو اپنی حد سے بدل دے تو وہ ظلم ہے، لہٰذا ظاہر کے معنی وہ ہیں جو جسم رکھتا ہو اور محسوس ہو۔

باطن وہ ہے جو محسوس نہ ہو اور اسے عقل کی قوّتوں سے معلوم کیا جاسکے چنانچہ اس کی تاویل یوں ہوئی کہ اوّل عقلِ کلّ ہے کیونکہ یہ ہر چیز سے اوّل ہے اور ہر لحاظ سے اوّل ہے۔ آخر نفسِ کلّ ہے، چونکہ اوّل کے بعد آخر ہے اور یہ عقلِ کلّ جو (اوّل تھا) کے بعد پیدا ہوا۔ نیز سب سے آخر ہے، کیونکہ اس کی اتمام اس وقت ہوگی جب قائم ظہور کرے۔ ظاؔہر ناطق ہے، کیونکہ اس کی تنزیل شریعت، دعوت اور مرتبہ سب کچھ ظاہر ہے اور محسوس ہے اور خود بھی جو امام کی شخصِ اطہر (جسم) ہے۔ باطن امام ہے، کیونکہ اس کی تاویل، دعوت اور مرتبہ سب کچھ باطن ہے۔

 

۱۰۷

 

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ناطق تو فی الحال ظاہر نہیں اور امام ظاہر ہے، پھر کیسے ہوسکتا ہے، اس کے لئے جواب یہ ہے کہ امام مجمع الحُدود ہے یعنی اس کے پاس تمام حُدود موجود ہیں۔ اس آیت میں امامِ زمانؑ کے اپنے مرتبے کو باطن کہا گیا ہے۔ اسی طرح حدود کےبغیر تاویل برابر نہیں آتی ہے۔ اس لئے اگرچہ امامِ زمان کے علاوہ ظاہراً کوئی حدودِ سفلی نہ بھی ہو۔ لیکن پھر علمِ حدود ضروری ہے تاکہ حدود شناسی کے بعد خدا شناسی حاصل ہوسکے۔

ع          حُدود دان چہ نباشی خدائے دان نشوے

سورج نکلنے کے بعد اگرچہ چاند اور تاروں سے ہمیں کوئی روشنی نہیں آتی ہے لیکن چاند اور تاروں سے متعلق علم ضرور ہمارے ذہن میں موجود ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔

 

 

امامِ مبینؑ

 

وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ  (۳۶: ۱۲) قرآنِ شریف کی معنوی و باطنی بے پایان گہرائیوں کا اندازہ کرنے کے لئے رسول اللہ ؐ کی یہ حدیث کافی ہوگی:

مَا مِنْ اٰیُۃِ من اٰیَاتِ الْقُراٰنِ اِلَّا وَ لَھَا ظَھرٌ وَبَطنٌ وَلِبَطَنِہٖ بَطنٌ اِلیٰ سَبْعَ اَبْطُنٍ وَفِیْ رِوَایَۃٍ اِلیٰ سَبْعِیْنَ

 

۱۰۸

 

اَبْطُنٍ۔

ترجمہ: قرآنِ پاک کی آیتوں میں سے کوئی ایسی آیت نہیں جس کا ایک ظاہری اور دوسرا باطنی معنی نہ ہو۔ اور اس باطنی معنی کے اندر سات معنی ہیں۔ اور ایک دوسری روایت کے مطابق ستّر معنی ہیں۔

وَقَالَ النَّبِیُّ لِکُلّ حَرْفٍ مِّنْ حُرُوْفِ الْقُرْاٰنِ حَّدٌ وَّ لِکُلِّ حَدٍّ مَطْلَعٌ۔

ترجمہ: قرآن کے حُروف میں سے ہر ایک حرف کی ایک حَد ہے اور ہر ایک حَد کا ایک زینہ ہے۔

اس حدیث سے ہمیں یہ تعلیم مل جاتی ہے کہ جب کسی شخص کو قرآنِ شریف کا مطالعہ کرنا ہو تو طائرانہ نظر سے نہیں بلکہ غائرانہ نظر سے قرآنِ پاک کو پڑھے اور غور و فکر کرے۔ یہی وجہ ہے کہ خود اللہ پاک نے بھی قرآنِ پاک کو آہستگی اور غور وفکر سے پڑھنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ ذیل کی آیت میں معنوی لحاظ سے قرآن پڑھنے والوں کی تین قسمیں بتائی گئی ہیں:

۱۔  ایک وہ جو ضروری حد تک تاویل جانتے ہیں۔

۲۔ دوسرے وہ جو پڑھتے تو ہیں لیکن غور و تدبر نہیں کرتے۔

۳۔ تیسرے وہ ہیں جو غور و خوض سب کچھ کرتے ہیں لیکن دلوں پر قرآن کے قفل لگے ہوئے ہیں۔ اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا (۴۷: ۲۴)۔

 

۱۰۹

 

اسرارِ قرآن کے حصول کے لئے جو واحد راستہ ہے وہ یہ ہے کہ قرآنِ شریف کو خدا و رسولؐ نے جس اصول سے ہمیں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے اس اصول سے پڑھیں، وہ اُصول اور کچھ نہیں صرف امامِ زمانؑ کی حقیقی اطاعت ہے۔ اگر ہم کسی آیت کے ظاہری معنی لیتے ہوئے امامِ زمانؑ کی اطاعت نہ کریں تو ضرور اس آیت کی پوشیدہ حقیقت ہمارے حق میں پوشیدہ ہی رہے گی۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک انجان مسافر اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لئے ایک شخص کو اپنا رہبر بناتا ہے، جو راستے سے بخوبی واقف ہے، اب دونوں چلتے ہیں، راستے کی کچھ مسافت طے کرنے کے بعد ایک دوراہہ پر پہنچتے ہیں، راستہ دکھانے والے کو ان دونوں کے متعلق ذرّہ ذرّہ معلوم ہے کہ دونوں راستوں میں سے ضروری اشیاء کی فراوانی، خطروں سے محفوظیّت اور نزدیکی وغیرہ کے لحاظ سے کون ساراستہ اچھا ہے، اس نے کئی مرتبہ دونوں راستوں کو دیکھا، جانچا اور اس کے رنج و راحت کا کلّی توازن کیا ہوا ہے۔ لیکن وہ مسافر بھی ایسا ہے کہ اپنے راہبر کی ذاتی خصوصیات کا کچھ علم نہیں رکھتا۔ اس لئے اپنی عقل سے دونوں راستوں کی طرف نگاہ ڈالتا ہے۔ منزلِ مقصود بہت دور ہے اور اس کی نگاہ محدود ہے۔ اس لئے وہ سامنے دیکھتا ہے تو اسے ایک راستہ ذرا کھلا نظر آتا ہے۔ اسی وقت راستہ بتلانے والا شخص دوسرے راستے سے چلتا ہے جس میں

 

۱۱۰

 

ہر قسم کی آسائش ہے اور مسافر اس راستہ دکھلانے والے پر اعتماد کئے بغیر اپنے پسندیدہ راستے سے اکیلا چلتا ہے اور راستے میں اسے بہت تکلیفیں ہوتی ہیں۔

اللہ ارحم الراحمین نے اپنی لاانتہا رحمت سے انسانوں کے لئے وہ تمام اسباب مہیّا و موجود کئے ہیں جن کا ہونا حصولِ دین و دنیا کے لئے ضروری تھا۔ جس طرح خود فرماتا ہے کہ:

وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ  ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا (۱۴: ۳۴)۔

ترجمہ: اور دیا اس نے تم کو ہر وہ چیز جو تم نے مانگی یا تمہاری حالت سے جس چیز کی ضرورت معلوم ہوتی تھی اور اگر تم خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو گنو گے تم تو انہیں اپنے علم میں گھیر نہیں سکو گے۔

اب سُن لیجئے یہ آیت محکم نہیں بلکہ متشابہ ہے، اس کے متشابہ ہونے کی حد میں آپ کو بتوفیق خداوند دکھا سکوں گا۔ مذکورہ آیت کے معنیٰ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہماری مطلوبہ اشیاء یا نعمتیں ہمیں اس دنیا میں دی گئی ہیں اور دینے کا فعل ختم ہوچکا ہے اور وہ چیزیں سب کی سب ہماری طلب کی وجہ سے دی گئی تھیں اور اگر ان نعمتوں کو ہم گن لیں تو وہ اس قدر بے انتہا ہیں کہ انہیں ہم گن بھی نہیں سکتے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کو ہمیں جتلاتا ہے، حالانکہ ہم سب مسلمان ظاہری نعمت میں ان لوگوں سے بھی بہت پیچھے ہیں

 

۱۱۱

 

جو خدا کی ہستی کو بھی ابھی تک نہیں مانتے۔ پھر اللہ کا ہم پر کیا احسان ہوا؟ پھر یہ برابر نہیں آتا۔ نیز ہماری طلب بھی ختم نہیں ہوئی ہے اور نہ اللہ کا دینا ختم ہوا ہے۔ اور نہ یہ درست ہوسکتا ہے کہ محض لفظی طلب سے کوئی شے ملتی ہے اور یہ بھی ناممکن ہے کہ اللہ کی دی ہوئی ظاہری نعمتوں کو بغرضِ شکر گزاری کوئی دانا گننا چاہتا ہو۔ کیونکہ گنتی ان چیزوں کے لئے ہے جو ایک سے دوسری چیز جدا ہو۔ جیسے تسبیح کے دانے یا اس قسم کی کوئی اور شے۔ ہماری حیات میں بہت سی ایسی چیزیں بھی ہیں جن کے درمیان میں کوئی فصل یعنی جدائی نہیں۔ مثلاً زندگی، علم، عقل، ایمان وغیرہ۔ پھر معلوم ہوا کہ اس آیت کے لئے تاویل کے بغیر چارہ نہیں۔ یاد رکھ لینا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام انسانی مبدع سے لے کر معاد تک کل حالتوں پر واقع ہے۔ اس مطلب کو اور بھی آسان تر کرنے کے لئے کہتا ہوں کہ اس آیت سے ان روحانیوں کی حالت کا کچھ علم حاصل ہوتا ہے جو عالمِ روحانی کی لاانتہا حدود میں سے ایک منتقلی حد پر پہنچ چکے ہیں۔ اس حد میں ان کی مراد کی تمام چیزیں ان کے پاس موجود ہیں۔ وہاں پر اللہ پاک انہیں فرماتا ہے کہ تمہیں دی گئی ہے “کل” (امام) سے ہر چیز جو تم نے عملاً طلب کی اور اگر تم روحانی وجسمانی دفعات کوانتقالِ بقا کے عمل سے گنوگے تو انہیں ختم نہیں کرسکو گے۔ پھر آگے دو لفظوں میں دفعاتِ لاانتہا کی وجہ بیان کرتا ہے۔ انسان اپنے جسم، روح

 

۱۱۲

 

اور عقل میں برابری نہیں رکھ سکتا ۔ یعنی برابری سے مراد کسی ایک حد میں رک جانا اور تینوں عالم کی سیر کو ختم کرنا۔ اس حقیقت کی مثال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ترازو میں کمی بیشی کرے تو تولنے کا عمل ہرگز ختم نہیں ہوگا۔ جب تک حقیقی برابری نہ ہو تو ترازو کی حرکت جاری رہتی ہے۔ پھر کہتا ہے کہ انسان کی سرشت کوئی ایسی نہیں کہ وہ ایک حدّ میں جاکر حصولِ نعمت سے تھک جائے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر انسان روحانیّت کو بشرطِ خود حاصل کرے تو ایک لاانتہا دائرے پر لاغایت نعمتوں میں دائمی عروج کرتا رہتاہے۔

 

۱۱۳

 

جن دوستوں کو تاویل کی واقفیّت نہیں، انہیں یہ باتیں سمجھنا بہت سخت کام ہے اور اوپر کے بیان کے مطابق دنیا میں عمل کریں ۔ جس طرح فرمایا گیا ہے کہ تمہیں کل یعنی امامِ زمان ہی سے ہر وہ چیز دی جائے گی جسے تم عملاً طلب کرو گے۔ پھر وہ کون سی چیز ہے جو امامِ زمان میں نہ ہو۔ اگر عمل شائستہ کرکے کسی چیز کا حقدار بنے تو جو چیز یہاں ملنے والی ہو تو یہاں ملے گی اور جو چیز اُس جہان میں ملنے والی ہو تو وہاں ملے گی۔ اگر اچھے کام کئے جائے تو ہمارے نیک عمل کا پھل ہمیں بغیر طلب کے بھی دیا جائے گا۔ میرے اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ اس کتاب کے پڑھنے والوں کو اپنے امامِ زمانؑ کی مہربانیوں کا صحیح اندازہ ہوسکے۔ نیز انہیں معلوم ہوجائے کہ امام کی مدد کے بغیر کوئی تاویل بیان نہیں کرسکتا ۔ اس کی مدد بھی انوکھی قسم کی ہے۔

دوسرے بہت سے دلائل کے ساتھ اِس آیت میں بھی امامِ زمانؑ کے پاس علم القرآن موجود ہونے کی دلیل ہے۔ قولہٗ تعالیٰ:

وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا  ۭ قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا  بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ۙ وَمَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ   (۱۳: ۴۳)۔

ترجمہ: اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ تو رسول نہیں ہے۔ کہہ دے کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے کافی ہے اور وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔

آنحضرتؐ کی رسالت کے گواہ اللہ اور مولانا علیؑ کے سِوا اور کوئی

 

۱۱۴

 

نہیں ہوسکتے ہیں۔ لیکن آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ یہاں کس قِسم کی گواہی ہے۔ کیا یہ بھی دنیاوی گواہی کی طرح ہے یا اور کچھ! اگر گواہی کی ضرورت ہوئی تو ہمارا عقیدہ کیا ہونا چاہئے۔ یعنی حضرت محمد صلعم کی رسالت سے کافر لوگ محض لفظی انکار نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی عقل کے مطابق دلیلیں بھی پیش کرتے تھے ۔ مثال کے طور پر اگر اب کوئی شخص سائنس اور ایٹمی دلیل سے قرآنِ شریف اور رسالت محمدؐ  کوباطل کرنے کے لئے کوشش کرے تو گواہ کا کیا کام ہونا چاہئے؟ اللہ جل جلالہٗ تو پاک ہے، وہ گواہی دینے سے بالاتر ہے۔ اس لئے وہ دنیا میں ظہور نہیں فرمائے گا۔ مولانا علیؑ اور پاک محمدؐ بھی ظاہراً رحلت کرگئے، اب یہ گواہی چند روزہ تھی یا دائمی؟

دیکھئے! جس طرح یہ تمام سوالات اسی آیت سے پیدا ہوئے ہیں اسی طرح ان کے جوابات بھی اسی میں موجود ہیں۔ اللہ اور رسولؐ کے ذکر ہوتے ہوئے مولاناعلی ؑکی طرف علم کی نسبت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ صرف مولانا علیؑ ہی رسولؐ اور لوگوں کے درمیان گواہ ہے، اور یہ نہیں ہوسکتا کہ خدائے دانا و بینا یا رسولِ پاکؐ مولانا علیؑ سے کچھ کم علم رکھتے تھے، اس لئے مولانا علیؑ کو عالم الکتاب کہا گیا ہو اوریہ گواہی بھی کوئی عام گواہی نہیں تھی بلکہ یہود و نصاریٰ وغیرہ عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ قِسم قِسم کے سوالات لے کر آتے تھے اور ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح حضرت محمدؐ کی رسالت میں کوئی شک پیدا کرسکیں۔

 

۱۱۵

 

کس کی مجال تھی کہ امیر المومنین کے ہوتے ہوئے رسالت کی تکذیب کر سکے۔ حضرت مولانا مرتضیٰ علیؑ ہر ایسے شخص کو سوالوں کا جواب دیتے۔ تواریخ سے اس قسم کے مفصل حالات پڑھئے۔ اللہ اور رسولؐ کی طرف سے مولانا مرتضیٰ علیؑ ہی گواہ تھے اور ہر زمانہ میں اس طرح ہوا۔ علم الکتاب ظاہر میں یہی قرآنِ شریف ہے۔ اور اس آیت کے مطابق صرف امامِ زمان اس زمانے میں بلاشک مولانا مرتضیٰ علیؑ ہیں۔ جو علم الکتاب کے مالک ہیں۔ اور اس آیت کی قطعی دلیل یہ ہے کہ رسولؐ اور اُمّت کے درمیان میں امامِ زمان کی چند خصوصیات ہیں۔

۱-  اوّل: خدا اور اپنی طرف سے رسولؐ اور خلق کے درمیان میں گواہ۔

۲-  دوم: جملہ انسانوں سے دانا۔ کیونکہ دانائی کی وجہ بھی تھی۔ جو گواہ کے لائق ہوا، اور دوسرا کوئی نہ ہوسکا۔

۳-  سوم: ہمیشہ دنیا میں زندہ رہنے والا۔ کیونکہ یہ گواہی دنیا میں قیامت تک رہے گی۔

۴-  چہارم: قرآنِ شریف کی ساری اصلیّت جاننے والا۔

۵-  پنجم: قرآن سے دین روشن کرنے والا کیونکہ گواہ اس لئے ہوا ہے کہ دشمنوں کی شر سے اسلام کو محفوظ رکھے اور دین روشن کرے۔

نیز اس آیت میں بالکل واضح ہے کہ قرآن کی ذمّہ داری خدا و

 

۱۱۶

 

رسولؐ کی طرف سے صرف امامِ زمانؑ کے علاوہ اور کسی کو نہیں پہنچتی اور یہی فیصلہ خدا و رسولؐ کا ہے۔

 

آیت مطلوبہ کی لغات

واؤ یہاں حرفِ عطف کے علاوہ قسم اور ربّ کے لئے بھی آیا ہے۔ “کُلَّ: کل کا لفظ تین قسم کا ہے، تنوین کے ساتھ کلاً ،کلٍ،کلٌ (سب) کلَ،کلِ،کلُ، (سب کے سب)  الکل (سبھوں کا سب)  شیٍٔ: وہ ہے جس کا کچھ علم اور خبر ممکن ہو اور وہ عقل میں آسکے، روحانی اور جسمانی میں سے۔ اَحْصَیْنَاہُ: بروزنِ اخفیناہ۔ اس کا اصل حصی بروزنِ خفی ہے۔ حصی کے معنوں میں سے (۱) گھیرنا (۲) گننا اور ضبط کرنا (۳) کنکرمارنا (۴) کنکر (۵) قیمتی پتھر یعنی گوہر (۶) عدد رائی عقل (۷) وافرالعقل (۸) ختم کرنا (۹) نہ بھولنا، یاد رکھنا (۱۰) لکھنا (۱۱) مکمل کرنا (۱۲) قرار کرنا (۱۳) علم کے حصار میں لانا وغیرہ۔ مبین: بیان کرنے والا، بولنے والا، آشکار، ظاہر، ترجمان اور دو چیزوں کے درمیان کام کرنے والا۔ (لوح التاویل)۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہو کہ لفظ حصی قرآنِ کریم میں اکثر احاطہ اور عدد سے اوپر کے معنوں کے لئے مستعمل ہوا ہے۔

قولہٗ تعالیٰ: لِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖٓ اَحَدًا . اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ

 

۱۱۷

 

مِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا . لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّهِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا  (۷۲: ۲۶ تا ۲۸)۔

تنزیل: غیب کا جاننے والا۔ پس نہیں ظاہر کرتا اپنے غیب کسی کو۔ لیکن کسی رسول میں سے جو پسند ہو۔ پس وہ چلاتا ہے اس کے آگے اور پیچھے چوکیدار۔ تاکہ جانے کہ انھوں نے اپنے ربّ کے پیغامات پہنچا دیئے ہیں۔ اور احاطہ میں لایا جو کچھ ان کے پاس تھا۔ اور ہر چیز کو عدد میں گھیر لیا۔

تاویل: غیب بمعنی پوشیدہ اور دور۔ خدا کے لئے نہ کوئی شۓ پوشیدہ ہے نہ دور۔ اس لئے لفظ غیب مخلوقات کی نسبت سے مقرر کردہ لفظ ہے۔ اب سُنیے! آسمان والوں کے لئے زمین دور اور پوشیدہ۔ زمین والوں کے لئے آسمان غیب اور دور۔ مشرق کے لئے مغرب غیب، مغرب کے لئے مشرق ناپدید۔ شمال سے جنوب دور۔ جنوب سے شمال پوشیدہ، انسان جاندار، نباتات اور عالم کے کل ذرّات ایک دوسرے کے حق میں غیب ہیں۔ عالمِ روحانی دنیا سے پنہان اور مُردوں سے دنیا پوشیدہ۔ پھر غیب کے لئے کوئی حد مقرّر نہیں۔ جسے حقیقی طور پر غیب کہا جائے۔ پھر غیب یہی عالم ہے، کیونکہ پوشیدگی اور دوری کا نام ہی غیب ہے۔ پوشیدگی حجاب کا اور دوری مسافت کا نام ہے۔ حجاب اور مسافت جسم ہے۔ جان و عقل میں نہ حجاب ہے نہ مسافت۔ اس لئے فرماتا ہے کہ عالم کا جاننے والا ہے اور اس کی سطح پر جو عالمِ علوی ہے کسی کو نہیں چڑھاتا۔ مگر جو شخص

 

۱۱۸

 

رُسل سے پسند کیا گیا ہو۔ یعنی حضرت مولانا علی مرتضی لذکرہِ السّجود و التسبیح قائم کے درجے ہیں۔ پھر یہ قائم اپنے آگے اور پیچھے کے اشخاصِ امامت کو رشتۂ نور اللہ میں پروتا ہے جو کہ وہ امامانِ ناظرانِ رسل یعنی گواہ ہیں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ انھوں نے اپنے ربّ کے پیغامات یعنی قائم کی خبریں پہنچا دی ہیں اور قائم نے اپنی لپیٹ میں لیا جو کچھ ان کے پاس تھا اور ہر چیز کو گنتی میں گھیر لیا۔ یعنی بحالِ روحانی اور ھیولیٰ کے بغیر اس نے کل عالم یاکہ جسمِ کلّ کی صورتِ لطیف کو عالمِ بالا میں پہنچایا۔ اس جہان کا اٹھ جانا یہی ہے۔ اس میں جو بات سوال طلب ہے وہ یہ ہے کہ عالم بالا جانا مومنوں کو ازخود نہیں بلکہ امام یا حدود کی نسبت سے ہے۔ پورے دور کے انبیاء و امامان کے فعل قائم کی طرف سے منسوب ہونے کی وجہ سے اور عالم بالا میں ماضی اور مستقبل نہ ہونے کہ وجہ سے۔ حضرت قائم علینا سلامہ اپنے سے آگے اور پیچھے کے سلسلۂ امامت کو با رشتۂ نورِ الٰہی پیغمبروں کے دلوں میں پروتا ہے، کیونکہ حقیقی نظارت دل ہی میں ہوتی ہے۔

اس تاویلی ثبوت سے یہ مطلب روشن ہوا کہ بڑے دَور کے آخری فعل کا نام “حصی” ہے اور وہ حضرت قائم کا فعل ہے جو کہ سارے حالات، واقعات اور کلّی تواریخِ کائنات اور تمام علوم و فنون و نقوشِ مخلوقاتِ ارض و سماء کو گھیرتا اور ان کو ہیولیٰ سے مجرّد کرتا ہے۔ اس کا دوسرا لفظ “کُنۡ” ہے۔ لطیف سے کثیف بنانے کو “خلق” اور

 

۱۱۹

 

کثیف سے لطیف بنانے کو “کن” کہتے ہیں۔ خلق میں وقت لگتا ہے اور “کُنۡ” میں کوئی وقت نہیں۔

تاویل: وَکُلَّ شَیْ ءٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ۔

ترجمہ: اور ہر ایک چیز کو ہم نے امامِ ظاہر میں گھیر رکھی ہے۔

۱-  یعنی روحانی صورت میں تمام چیزوں کو جمع کی گئی ہیں۔ گھیرنے میں یہ معنی پوشیدہ ہوتے ہیں: کسی چیز کو کہیں نہ جانے دینا، محدود کرنا، منتشر چیزوں کی یکجائی، ان کو ضبط اور قابُو میں رکھنا، چیزوں کی باہمی نزدیکی وغیرہ۔

۲-   ہم نے کل ارواح و عقول کو اس امامِ ظاہر میں محصور (گھیرنا) کردیئے ہیں جو ان کے زمانے کا ہو۔ یعنی امام مبین تنوین کے ساتھ آنے سے اماموں میں سے ایک امام مُراد ہے۔ روحانیّت میں جو چیز ہو وہ عقل اور روح کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ اس لئے چیزوں سے مراد ارواح و عقول ہیں۔ اگر بیانِ مذکور کی بناء پر یہ سوال اٹھایا جائے کہ آپ نے لفظِ احصٰی میں کُل عالم کے نقوش موجود ہونے کا اثبات کیا تھا۔ اب وہ عقل و جان کیسے ہوسکتے ہیں۔

جواب یہ ہے کہ اگر فی المثل روحانیّت میں پتھر کا نقشہ ہوتو اس میں بھی عقل و جان ہوتی ہے۔

۳- ہم نے ہر چیز کو علم البیان والے امام میں تاویل سکھائی ہے۔ کنکرمارنا تاویل میں مسئلہ دینے کو کہتے ہیں اور مبین کے معنی بیَان

 

۱۲۰

 

کرنے والا ہے۔

۴- ہم نے ہر ایک چیز کو جو وہ غرض تھی امامِ گویندہ میں جوہر بنایا ہے۔  کنکر کی حقیقت لعل، یاقوت وغیرہ ہے جسے جوہر کہتے ہیں۔

۵- ہم نے جمیعِ علوم و معارف کو گوہرِ عقل میں سمو دیئے ہیں جوکہ امامِ زمانؑ کے پاس ہیں۔

۶- ہم نے دونوں جہان کی جُملہ اشیاء کو بلامکان دونوں کے درمیان والے امام میں جمع کئے ہیں۔ کل شیءٍ سے دونوں جہان کی چیزیں مراد ہیں۔ مبین بروزنِ مقیم اور بین سے مشتق درمیان میں رہنے والاہے۔

۷- اور ہر چیز کے کل کو ہم نے امامِ ظاہر میں گوہر بنایا ہے۔

۸- اور دونوں جہان کی ساری چیزوں کو ہم نے امامِ گویا میں مجمتع کردیا ہے۔

غرضیکہ لطائف میں سے کوئی ایسی لطیف شے نہیں جو امامِ زمانؑ کی ذاتِ عالی صفات میں موجود نہ ہو۔ اس لئے مذکورہ آیت شریفہ کی تشریح میں کوئی شُبہ کی گنجائش ہی نہیں۔ اس تاویل کی صداقت کی ساری دلیلیں موجود ہیں۔ مذکورہ دلائل پر مزید ایک اور دلیل یہ ہے کہ اگر عقل کو بغیر جِسم کے دنیا میں موجود ہونا ممکن ہوتا تو وہ بغیر جسم کے ضرور موجود ہوتی۔ کیونکہ اگر کوئی شخص اپنا کام خود اچھی طرح سے اور مکمل طور پر کرسکتا ہو تو وہ کبھی دوسروں کا محتاج نہیں

 

۱۲۱

 

ہوتا۔ جزوی عقول سے ان کے کل کے متعلق کچھ علم حاصل ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر عالمِ مجرّد عقول میں ان کی تکمیل کی ساری چیزیں ممکن ہوتیں تو ان کا یہاں آنا فضول ہوتا۔ معلوم ہوا کہ عقل کی تکمیل کا طریقۂ احسن یہی ہے جواب ہے:

فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (۳۰: ۳۰)۔

ترجمہ: “اللہ کا پیدا کرنا وہی ہے جس پر لوگوں کو پیدا کیا۔”

یعنی پہلے کی خلقت بھی بالکل اسی طرح ہوئی تھی جس طرح تمہارے زمانے میں ہوتی ہے (اس آیت کی تاویل میں علمِ توحید کا ایک بے پایان خزانہ چُھپا ہوا ہے۔ اس لئے جن بزرگوں کو اس علم سے واسطہ ہو وہ اس سے فائدہ اٹھائے)۔

جب یہ ثابت ہوا کہ جزوی عقل کا تعلق انسانِ ناقص کے ساتھ ہے اور وہ صرف جسم میں عقلِ جزوی کہلانے کی حقدار ہوتی ہے تو پھر درست ہوا کہ کلّی عقل کا تعلق انسانِ کامل کے ساتھ ہے۔ روحِ جزوی اور روحِ کلّی بھی اسی طرح ہیں۔ پھر یہ دلیل روشن ہے کہ انسانِ کامل میں روحِ کامل اور عقلِ کامل موجود ہیں، اور ان تینوں چیزوں کی اتحادی، انحصار اور احاطے سے کوئی شۓ باہر نہیں۔ میں نے روحانی اور جسمانی کل کے متعلق سمجھانے کے لئے اسی کتاب میں لکھا ہے۔

 

مثال:

سمندر سے دور افتادہ پانی کی مختلف شاخیں سمندر

 

۱۲۲

 

کے اجزاء ہیں اور سمندر ان تمام شاخوں کا کُل ہے، یعنی علی الترتیب ہوا کی رطوبت، بادل، بارش یا برف، پہاڑوں کی دائمی یخ اور وہ پانی جو کسی صورت میں زمین میں داخل ہو کر پھر چشموں کی شکل میں نکلتا ہے یا میدانی علاقوں میں کنویں (کھوہ) کی صورت میں نکالا جاتا ہے، ندی، نالے، نہریں اور وہ رطوبت جو نباتات میں ہے، اگرچہ چھوٹی سے چھوٹی چیزیں بھی کیوں نہ ہوں، اور جملہ حیوانات کی تری خواہ کس قدر بھی چھوٹا ذی حیات کیوں نہ ہو یہ سب سمندر کے اجزاء ہیں اور سمندر ان کا کُل ہے۔

ہوا جس کی طبیعت گرمی اور تری ہے، کرّۂ اثیر (آگ کا کرّہ) سے گرمی اور سمندر سے تری ہر وقت حاصل کرتی ہے، اس لئے ہوا کو مثال کے طور پر آگ کا جسم اور سمندر کی روح مان لو، کیونکہ لطافت اور ترکیب کی دلیل سے یہ مثال درست ہے۔ اب گوشِ ہوش سے سنئے کہ سمندر اگرچہ بظاہر اپنے اجزاء سے دور اور علٰحیدہ ہے، لیکن درحقیقت اپنے اجزاء پر محیط ہے۔ آپ کو تعجّب نہ ہو، میں دلائل سے ثابت کرکے دکھاؤں گا کہ سمندر اپنے اجزاء پر کس طرح محیط ہے۔

 

پہلی دلیل یہ ہے کہ مذکورہ بیان کے مطابق سمندر سے دور پانی کا کوئی چھوٹے سے بھی چھوٹا قطرہ ایسا نہیں جو ابتدا میں سمندر سے جدا ہو کر آیا ہوا نہ ہو، اور وہیں پر از خود یا اور کسی وجہ سے پیدا ہوا ہو، بلکہ مذکورہ تمام شاخیں پہلے سمندر سے ملی ہوئی تھیں، اس لئے

 

۱۲۳

 

جس چیز کا نام سمندر ہے وہ ان پر محیط (گھیرے ہوئے) تھا اور خشکی کا تمام پانی اپنے “کُل” کی وجہ سے خشکی پر آسکا، اور یہاں آکر کچھ پانی دوسرے عناصر (مٹی، ہوا، آگ) کی معیّت میں نباتات، جانور اور انسان کی شکل میں نمودار ہوا۔ اگر یہ پانی بطریق وہم کسی ایسی چٹان میں ہوتا جو کسی پہاڑ یا زمین کے نیچے ہونے کی وجہ سے ہزاروں برس گِھستا مِٹتا نہ ہو اور اس چٹان سے پانی نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو، تو ہرگز وہ پانی نہیں نکل سکتا، اور نہ اس کی کوئی قدر و قیمت ہوسکتی ہے، جس طرح نباتات، جانور اور انسان کے جسم بنانے میں ہوتی ہے، اسی طرح جوہڑ اور تالاب پر سوچیے! گرمیوں میں چند دنوں یا چند ہفتوں کے بعد جوہڑ اور تالاب کے پانی کا وجود اپنے حق میں ختم ہو جاتا ہے، یعنی بتدریج بخارات کی شکل میں ہوا سے مل جاتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ کیوں ختم ہوا؟ اس لئے ختم ہوا کہ جوہڑ اور تالاب کے پانی تک ان کے “کُل” یعنی سمندر سے کوئی سلسلۂ فیض لگا ہوا نہیں تھا۔ اس کا مطلب عیان ہے کہ اگر کسی ندی نالے یا بارش وغیرہ سے کچھ پانی مسلسل یا وقتاً فوقتاً جوہڑ اور تالاب میں گرتا رہتا تو کبھی یہ دونوں ختم نہ ہوتے۔ پھر معلوم ہوا کہ خشکی کے تمام پانی سمندر کے اجزاء ہیں، کیونکہ یہ سمندر سے آتے ہیں اور وہاں جانے والے ہیں، اور سمندر کے بغیر یہ ختم ہوجا تے ہیں۔ بحکمِ حدیثِ شریف:

کُلُّ شَیْءٍ یَرْجِعُ اِلیٰ اَصْلِہٖ ۔ یعنی ہر چیز اپنی اصل (جڑ، بنیاد،

 

۱۲۴

 

اساس، کان اور کُل) کی طرف واپس جاتی ہے۔

تو اس چیز کی اصل یا کُل اس چیز پر محیط ہے، کیونکہ یہ اپنے کُل کے دوامی عمل کے گھیرے میں ہے، مثلاً کسی بڑے دریا کو لے لیجئے جو سمندر سے دور بہتا ہو، دریا بہتا ہے اس لئے کہ اس کے اوپر کی طرف سے سمندر اپنے عمل سے دھکیلتا رہتا ہے، یعنی اگر سمندر سے بارش نہ ہو تو دریا کچھ عرصہ کے بعد ختم ہوجائے گا۔

 

دوسری دلیل:

ہوا جو سمندر کے حق میں روح کی مانند ہے اور سمندر کو اس کے سارے عمل میں مدد دیتا ہے اور سمندر ہوا کو مدد دیتا ہے، یعنی ہوا کی تری سمندر سے ہر وقت ملتی ہے تو پھر یہ ہوا جو بلاشک سمندر کی روح کی حیثیت سے ہے، اس لئے سمندر کا عمل بشرکتِ ہوا اپنے اجزاء پر محیط ہے۔

ان دلیلوں سے ثابت ہوا کہ جسمانی طور پر بھی کسی چیز کے گھیرے جانے کی مثالیں موجود ہیں، مثلاً کسی مختار بادشاہ یا کوئی دانا صَدر کی مثال سمجھئے کہ اس نے اپنی تدبیر سے اپنے ملک کو کس طرح گھیرا ہے۔ حقیقت میں وہ حاکم یا صدر اپنی حکمتِ عملی سے اپنے ملک کے گرداگرد آنے کے علاوہ اپنے ملک والوں کے دلوں میں بھی ایک وجہ سے موجود ہے، اور وہ وجہ یہ کہ لوگوں کے دلوں میں یا تو اپنے حاکم کی طرف سے خوشی ہوتی ہے یا ناراضگی۔ پھر یہ خوشی یا ناراضگی اور کچھ نہیں صرف اس شخص کے اثرات ہیں۔ معلوم ہوا کہ ایک ایسی چیز بھی ہے

 

۱۲۵

 

کہ اس سے دوسری بہت سی چیزیں پیدا ہوتی ہیں، اور وہ کم یا زیادہ نہیں ہوتا ہے، اور یہ صرف روحانی ہے۔ مقصودِ سخن یہ ہے کہ ایک چیز اپنی جگہ پر ہوتی ہوئی دوسری بہت سی اشیاء پر محیط ہونے کی مثالیں جسمانی طورپر بھی موجود ہیں۔ پھر روح تو اپنی خصوصیات کی وجہ سے جسم سے بہت بالا ہے، لیکن جس طرح دنیاوی چیزوں کو ان کے “کل” گھیرتے ہیں، یعنی خاکی ذرّات پر ان کا کل یعنی کرۂ زمین محیط ہے، آبی ذرّات پر سمندر محیط ہے، بادی ذرّات پر کرّۂ ہوا محیط ہے، آتشی ذرّات پر کرّۂ اثیر محیط ہے، اسی طرح فلکِ قمر اپنے اجزا کا “کل” اور محیط ہے۔ بالکل اسی طرح ہر آسمان اپنے اجزاء کا “کل” اور محیط ہے، اور اخیر میں فلک نہم سارے آسمانوں اور عناصر پر محیط ہے۔ نیچے سے اوپر تک یعنی فلک نہم تک اوپر کا کرہ نچلے کرے پر محیط ہے۔ فلک ہشتم سے کرّۂ خاک تک ہر کرہ اپنے اوپر کے کرے میں اس طرح سمویا ہوا ہے جس طرح پیاز کے پرتیں (پرت۔ پوست) تہ بہ تہ ہوتے ہیں اور اوپر کا پرت نچلے پر محیط، نچلا پرت اوپر کے پرت میں گھرا ہوا۔ بالکل اس عالم کی ظاہری شکل اس طرح ہے، لیکن اس کی حرکتوں کا تصوّر دوسرا ہے جو دائرے میں تیروں کی شکل سے دکھایا گیا ہے۔

نورِ امامت میں عالمِ لطیف مستغرق ہونے کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ سورج اقتضائے حکمت اور عدل کے لحاظ سے اس عالم کے

 

۱۲۶

 

مدارِ اوسط پر واقع ہے، یعنی چوتھے آسمان کے قطر کے درمیان میں ہے۔ اس قیاس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جتنا فاصلہ سورج سے حاشیۂ عالم تک ہو اتنا فاصلہ مرکز تک ہے، تاکہ سورج اپنے مدار پر گردش کرتے ہوئے جسمِ کلّ کو برابر روشنی پہنچا سکے۔ اب یہ کہنا ہے کہ اگرچہ سورج خود تو آسمانوں کے گھیرے میں ہے لیکن اس نے اپنے نور سے سارے عالم کو گھیر لیا ہے۔ چنانچہ رات کے وقت جب آسمان صاف ہوتو بہت سے تارے زمین پر کسی قدر روشنی پھینکتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ تاروں سے جو تھوڑی سی روشنی زمین تک پہنچ جاتی ہے کتنے فاصلے سے آتی ہے؟ سنئے! اس روشنی کی مسافت دن کی روشنی کی مسافت کی نسبت تگنی سے بھی کچھ زیادہ ہوتی ہے، یعنی سورج سے آٹھویں آسمان کے تاروں تک اور تاروں سے چوتھے آسمان تک اور وہاں سے زمین تک، یعنی دن کو تو روشنی چوتھے آسمان سے سیدھی آتی ہے اور رات کو سورج اور تاروں کا درمیانی فاصلہ اور تاروں سے چوتھے آسمان تک کا فاصلہ زیادہ ہے، پھر قیاس کریں کہ سورج کی روشنی کتنی دور تک پہنچ سکتی ہے۔

اس دلیل سے یقین ہے کہ سورج کی روشنی اس عالم کی سطح تک پہنچتی ہے اور عالم کو اپنی روشنی میں گھیر لیا ہے۔ اسی مثال سے سمجھ لینا کہ امامِ زمانؑ جو کہ عالمِ  دین کے چوتھے آسمان پر جلوہ گر

 

۱۲۷

 

ہے اس سے بھی مکمل اور پورے طور پر عالمِ  دین کو گھیر لیا ہے، جس طرح سورج نے گھیرا ہے، کیونکہ سورج تو جسم ہے اور جسم بلا حرکت ہر جگہ نہیں پہنچ سکتا، اور امامِ زمان روح ہے یعنی نور، وہ صرف ارادہ سے ہر جگہ پہنچ سکتا ہے۔

 

۱۲۸

 

 

حقیقتِ کلّ و جُزو

 

عالم گیر روح کا نام نفسِ کُل اس لئے رکھا گیا ہے کہ تمام انسانی نفوس اوّل سے آخر تک اس سے پیدا ہوئے ہیں، چنانچہ جملہ خلائق کے نفوس نفسِ کُلّ کے اجزاء ہیں، مگرنفسِ کُلّ کا تصوّر کسی جسمانی کلّ کے تصوّر کی طرح نہیں کرسکتے ہیں، چونکہ مادّیاتی اجسام میں متعدد اجزاء ہوتے ہیں، اگر ان میں سے ایک بھی جزو نکال دیا جائے تو یہ کُلّ کہلانے کے قابل نہیں رہتے ہیں، یا سوائے ایک حصّہ کے تمام حصص اس میں شامل کر دیئے جائیں تو بھی کُلّ نہیں کہہ سکتے ہیں، کیونکہ ایک جزو اس سے علٰحیدہ ہے۔ ایک ہی جزو کی علٰحیدگی کی وجہ سے قانوناً وہ جامع الاجزاءِ کُلّ کے نام کا حقدار نہیں رہتا ہے۔ جب اس علٰحیدہ شدہ جزو کو اس جامع الاجزاء سے ملا دیا جائے تو اس وقت وہ حدِّ کُل تک پہنچ سکتا ہے اور اس کو حقیقتاً کُلّ کہنا درست ہوگا۔ یہ جسمانی کُلّ اور اس کے اجزاء کی حقیقت ہے۔

اب روحانی کُلّ اور اس کے اجزاء کے متعلق اگر ہم غور کریں تو دورِ حاضرہ کی سائنس سے بہت مثالیں سمجھ سکتے ہیں، جس نے روحانیّت کے طلب گاروں کو تعلیمی مثالوں سے مستفیض بنادیا ہے۔ یہ

 

۱۲۹

 

مثالیں جسمانی ترقی کے تقریباً آخری کرشمے ہیں، لہٰذا جسم کے مدارجِ کمالیّت کی حقیقت پر غور سے تبصرہ کیا جائے تو روح کی توانائی کے درجۂ اوّل کا قیاس کرسکتے ہیں، مثال کے طور پر اگر ایک اعلیٰ چیز ہمارے سامنے موجود نہیں، تو ایک ادنیٰ چیز کی سب سے بڑی صفت کی مثال سے اس اعلیٰ چیز کی ایک چھوٹی سی صفت کا اندازہ کرسکتے ہیں، فرض کیجئے ایک آدمی ایک دریا کے کنارے پر بیٹھ کر عالمِ تصوّر میں اس دریا کو بہت ہی عمیق اور وسیع سمجھے تو یہ تصو ر اسکے لئے سمندر کا ایک ادنیٰ مثال پیش کرتا ہے، اگرچہ اس نے سمندر کو نہیں دیکھا ہے، پھر بھی سمندر کے متعلق ایک تصوّر قائم کرسکتا ہے جوکسی حد تک درست ہے۔

علاوہ ازین جسم اور روح کے درمیان کئی متضاد صفات موجود ہیں جن کی وجہ سے روحانی قوّت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، فی المثل جسم فانی ہے اور روح باقی ہے، اسی طرح فانی ضد ہے باقی کی، چنانچہ جسم کیلئے مکان و زمان کی ضرورت ہے، روح کے لئے وقت اور جگہ معین نہیں، جسم کیلئے کئی چیزیں رکاوٹ ہوسکتی ہیں لیکن روح کے لئے کوئی چیز حائل نہیں، باوجود این ہمہ اس ایٹمی دور میں جسمانی اور مادّیاتی ارتقاء کا یہ عالم ہے کہ حضرتِ انسان کے لئے ایک ستارے سے دوسرے ستارے تک رسائی بھی ممکنات میں سے نظر آتی ہے۔ ہم ہر روز ان عجیب و غریب ایجادات کے مشاہدے کرتے ہیں جن کو جسمانی

 

۱۳۰

 

کمالات کہا جاسکتا ہے، ہزاروں میل دور سے ہم ٹیلیویژن کے ذریعے ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کے علاوہ ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتے ہیں، اس کے علاوہ ٹیلیفون، ریڈیو، وائرلیس، دوربین، محرک تصویریں یعنی فلمیں جو عجیب و غریب ہونے کے باوجود ہمارے لئے اس قدر معمولی اور سادہ نمایان ہوگئے ہیں کہ ان کو کوئی بھی تعجب کی نگاہ سے نہیں دیکھتا ہے۔

معلوم ہوا کہ جسم، روح کے مقابلے میں کوئی قوّت نہیں رکھتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ جسم روح کے مقابلے میں بالکل بے جان اور جامد ہے، اس کے باوجود روح کی وساطت سے مافوق الفطرت امور سرانجام دے سکتا ہے، ہزاروں میل کی مسافت لمحوں میں طے کرسکتا ہے، ہزاروں میل دور کی چیزیں دیکھ سکتا ہے، ہزاروں سال کے حالات کا مطالعہ کرسکتا ہے، آسمان پر چڑھ سکتا ہے، کائنات کو نقطۂ نظر میں سمو سکتا ہے، غرض وہ سب کچھ کرسکتا ہے جن کو ہم دیکھتے ہیں اور سُنتے ہیں۔ اگر جسم جس کی حیثیت سوائے مشتِ خاک کے کچھ بھی نہیں، اس قدر عجیب و غریب کمالات روح کے تعاون اور امداد سے انجام دے سکتا ہے تو اندازہ لگائیے کہ روح بذاتِ خود کس قدر توانا اور قوی ہوگی۔ اس قیاس کے ساتھ ساتھ آپ نفسِ کُلّ کا اندازہ لگائیے کہ اس کا جزو اس قدر قادر اور قوّی ہو تو نفسِ کُلّ کا اندازہ کس طرح کرسکیں اور اس کی لامحدود قوّتوں کا تصوّر کیونکر

 

۱۳۱

 

کرسکیں۔

سنیما کے پردۂ سیمین پر آپ کو وہ سب محرک تصویریں نظر آتی ہیں جن کو آپ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر تنقید کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔ یہ تصویریں اور صاحبِ تصویروں میں کوئی پیوستگی نہیں، سوائے اس کے کہ صاحبِ تصویر یعنی ایکٹر کی تصویرلی گئی ہے، نہ تصویر لینے سے صاحب تصویر میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے۔ ہزار سال پہلے مَرے ہوئے ایک شخص کی تصویر بھی فلم کے پردہ پر تماشائیوں کے لئے زندہ انسان کی طرح باعثِ تفریح ہوسکتی ہے، اگر صاحبِ تصویر میں کوئی ایسی حکمت ہوتی کہ بجائے تصویرنکلوانے کے خود ہی تصویربن جاتا تو وہ شخص قیودِ جسم سے آزاد ہوکر جسمِ لطیف تیار کرلیتا۔

اس جسمانی مثال سے ایک ایسے کُلّ کا تصوّر ہوسکتا ہے جس کی تکمیل اجزاء سے ہوئی، اور وہ بےنیاز ہوا لیکن اگر اس محسوسی مثال کی مَدد سے ایک اور فرضی مثال کا تصوّر کریں تو وہ روحانی کُلّ کے بالکل قریب ہوگی، یعنی آپ یہ فرض کریں کہ فلمی دنیا ایک روحانی کُلّ ہے اور تصویروں کے مطابق تصویر والوں کو پیدا کیا گیا ہے، نہ کہ ان سے تصویریں لی گئی ہیں، یعنی ان سے ان کی تصویریں پہلے موجود تھیں اور یہی روح کی حقیقت ہے۔

حدیث شریف میں آیا ہے کہ: خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالٰے اٰدَمَ

 

۱۳۲

 

عَلیٰ صُوْرَۃِ الرَّحْمٰنِ۔

یعنی “اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی رحمانیت کی تصویر کے مطابق پیدا کیا ہے۔”

مولائے روم جو کاشفِ اسرارِ الٰہی تھے، اس موضوع پر یوں فرماتے ہیں:

تن چوسایہ بر زمین و جانِ پاکِ عاشقان

دربہشت عدن تجری تحتہا الانہار مست

یعنی عاشقانِ الٰہی کے جسم سایہ کی طرح زمین پر ہے مگر ان کی روح جنّت العَدن میں مست ہیں، جہاں نہریں روان ہیں، یعنی شہد، شراب، دودھ اور پانی کی چار نہریں روان ہیں۔ قرآنِ مجید کی اس آیتِ کریمہ میں بھی یہی حقیقت نمایان ہے:

“وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاىِٕنُهٗ  ۡ وَمَا نُنَزِّلُهٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (۱۵: ۲۱)۔ یعنی کوئی بھی چیز نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں اور اس چیز کو عالم میں گنجائش کی مقدار پر نازل کرتے ہیں۔”

معلوم اس عالَم کا نام ہے اور بقدرِ معلوم سےمراد عالّم کی گنجائش ہے۔ معلوم ہوا کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اللہ کے پاس بشکلِ روحانی موجود ہے۔ ہمارا یہ مضمون مثال در مثال ہورہا ہے، اس لئے پھر ایک بار روحانی جزو وکُلّ اور بہشت کی حقیقت کی طرف توجّہ مبذول

 

۱۳۳

 

کریں۔

ہمارا یقین ہے کہ قرآنِ شریف میں جہاں کہیں لفظ “کُلّ” آیا ہو وہاں ضرور کُلّ کے متعلق معلومات موجود ہیں، لہٰذا اس آیتِ حکمتِ آگین پر چشمِ بصیرت سے تبصرہ کرتے ہیں:

وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّهَا (۰۲: ۳۱)یعنی اللہ تعالیٰ نے سب سے بہترین طریقے پر حضرت آدمؑ کو سارے نام سکھائے اور کوئی ایسا نام نہ رہا جو اسے نہ سکھایا گیا ہو۔ خواہ وہ خالق کے نام ہوں یا مخلوق کے، اور سب سے بہترین طریقہ وہ تھا کہ اللہ نےکل مسمّیات کو بہشت میں بشکلِ نورانی اور روحانی نعمتوں کی حیثیت سے بتدریج دکھایا، ساتھ ہی ان مسمّیات کے نام، وجہ تسمیہ، شکل و صورت اور ان کے مظاہرات کی تخلیق و فنا کی غرض کی ساری حکمتیں سکھائیں۔ غرضیکہ کوئی ایسی بات نہ رہی جو علمِ الاسماء میں نہ آئی ہو۔ بزرگانِ دین نے اس بات کی تحقیق کی ہے کہ علم الفاظ میں ہے اور الفاظ اسماء ہیں، پھر اسماء کے مسمّیات ہوتے ہیں، پھر سارے اسماء و مسمّیات اس عالَم میں سموئے ہوئے ہیں۔ آدمِ حقیقی یعنی عقلِ کُلّ کو یہی عالّم کلی طور پر نورانی شکل میں دکھایا جارہا تھا، جس سے کوئی اسم یا مسمّٰی باہر نہ تھا، اور ایک دلیل سے دنیاوی حساب کے مطابق یہ تمام روحانی لذّتیں ۰۰۰ ۹۰۰(نو لاکھ) برس کے عرصہ میں ایک دفعہ پایان تک پہنچی تھیں۔ پھر اس صورت میں ایک تازہ عمل کی ضرورت محسوس ہورہی تھی

 

۱۳۴

 

اس لئے اپنا دَوری مظہر دنیا میں بھیجنا چاہتا تھا لیکن کُل روحانی و عقلانی نعمتیں بحالِ خود موجود تھیں اور عقلِ کُلّ بذاتِ خود نعمتوں سے مستغنی، لیکن اپنے مظہر کی طرف سے نیاز مند تھا۔ عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ کے مظاہر یا کہ سائے دنیا میں آدم و حوّا کے نام سے اس طرح آئے جس طرح دوسرے انسان آتے ہیں۔

اس حقیقت کے بیان سے آپ کو یقین ہوگا کہ بہشت بھی کُل میں موجود ہے اور غور سے پڑھا ہوگا کہ عالمِ جسمانی کی نورانی شکل ہی بہشت ہے اور وہی روحانی کُل ہے، وہی آخرت اور وہی عالمِ لطیف ہے۔ یہی مطلب بالفاظِ دیگر اگر چشم بصیرت سے دیکھا جائے تو عالمِ لطیف اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے جس کے پڑھنے سے کوئی شک باقی نہیں رہتا۔

وَتَفْصِيْلَ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ (۱۰: ۳۷)۔

یعنی “قرآن میں اس کتاب کی تفصیل ہے، جس میں شک (ضدّ یقین) نہیں، یعنی یقین ہے، اور یقین صرف آنکھوں سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر طلب لذّاتِ روحانی کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ بہشت ہے۔

سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ (۵۷: ۲۱ )۔

ترجمہ: اور ایک دوسرے سے آگے نکلو، اپنے پروردگار کی ایک بخشش اور ایک بہشت کی طرف، جس کی نمود آسمان اور زمین کی

 

۱۳۵

 

نمود کی طرح ہے۔

اگر روحانیّت سے دیکھا جائے تو وہی نفسِ کُلّ ہے۔

وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ (۰۲: ۲۵۵) یعنی اس کی کرسی ( نفسِ کُلّ ) نے آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر سمویا ہے۔

اگر نظریۂ علم و حکمت سے دیکھا جائے تو وہی عقلِ کُلّ ہے۔

وَسِعَ رَبِّيْ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ  (۰۶: ۸۰)۔

میرے پروردگار نے ہر چیز کو علم (عقلِ کُلّ) میں سمورکھا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ، تو یہی مطلب اور بھی واضح ہوا ہوگا، کہ روحانی کُلّ سے کوئی شۓ باہر نہیں، بلکہ جسمانی کُلّ بھی روحانی کُلّ میں سمویا ہوا موجود ہے اور وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ اب روحانی کُلّ کے متعلق صرف اتنا کہنا ہے کہ یہ درحقیقت قسمت پذیر نہیں، یعنی یہ تقسیم نہیں ہوسکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں روح ایسی نہیں کہ ایک سے دو ہونے میں اس میں کوئی کمی واقع ہو، کیونکہ کمی و بیشی جسم کی صفت ہے، مثلاً عالمِ جسمانی ایک ہے اور اس کی شکل نورانی یعنی عالمِ روحانی بھی ایک ہے۔ لیکن اس عالَم سے خدائے تعالیٰ ہزاروں نہیں بلکہ لاانتہا عالمِ نورانیت میں موجود کرسکتا ہے تاکہ اپنے بندوں میں سے ہر ایک کو جدا گانہ ایک ایک عالم میں ابدی شاہنشاہیت عطا کرے، اور یہ بھی اس کی قدرت کے لئے ہمارا اعتراف ہے کہ ایک ہی روح ان بے شمار عالموں میں بیک

 

۱۳۶

 

وقت بہر شکل و صورت موجود ہو سکتی ہے اور یہ سب کُل کے ذریعے سے ہوسکتا ہے۔

 

 

چاروں اصل امامِ زمان میں

 

نبی صلعم نے فرمایا کہ اللہ نے سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا۔ پھر فرمایا کہ اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔ اور ایک حدیث میں فرمایا کہ، سب سے پہلے اللہ نے میرا نُور پیدا کیا۔ اور یہ تینوں حدیثیں مشہور ہیں۔ لیکن دانا لوگ جانتے ہیں کہ ترتیب میں تینوں چیزیں ایک ہی حالت میں اوّل نہیں ہوسکتی ہیں۔ خواہ وہ تقدّمِ شرفی ہو یا تقدّمِ زمانی ہو۔ حکمائے دین اور بزرگانِ اہلِ تصوّف نے ان تینوں حدیثوں کا خلاصہ ایک بتایا ہے، یعنی عقل، قلم اور نورِ محمدی ایک ہے، اسی طرح رسول اللہؐ کے فرمان کے مطابق نبیؐ اور علیؑ ایک ہی نور ہیں، اور وہ اکیلا نور امامِ زمانؑ ہے، پھر امامِ زمانؑ ہی عقلِ کُلّ، نفسِ کُلّ، ناطق اور اساس ہے۔

اس حقیقت کی پہلی دلیل یہی ایک مسمّٰی کے پانچ نام میں موجود ہے چنانچہ عقلِ کُلّ اسے کہتے ہیں جو کُلّ اشیاء پر محیط ہو اور کوئی شے اس سے باہرنہ ہو،کیونکہ اگر عقلِ کُلّ کے گھیرے سے کوئی چیز باہر بھی ہوتی تو وہ عقلِ کُلّ کُل نہیں کہلا سکتا ، جس طرح ایک جزو کی کمی کی وجہ سے

 

۱۳۷

 

کُلّ کا نام اٹھ جانے کی محکم دلیل اسی فصل میں لکھی گئی ہے اور نفسِ کُلّ اسے کہتے ہیں۔ جو بلحاظِ حیات و جاندہی جملہ اشیاء پر محیط ہو، کیونکہ اگر بفرضِ محال کوئی چیز نفس کُلّ سے باہر ہوتی تو اس صورت میں وہ چیز تین حالتوں میں سے ضرور ایک حالت میں ہوتی، یا وہ شے نفسِ کُل سے کامل تر ہوتی، یا اس کے برابر یا اس سے ناقص تراور چوتھی کوئی حالت نہیں۔ پھر ان تینوں حالتوں میں بھی دونوں چیزوں کی وحدت لازم ہوتی، کیونکہ کامل ناقص کو اپنے ساتھ کامل بناتا ہے اور جملہ صفات میں دو برابر چیزیں اگر لطیف اور بغیر حجاب کے ہوں تو فوراً مل جاتی ہیں، لیکن عالمِ امر میں کسی کام کے لئے دیر نہیں لگتی، پھر معلوم ہوا کہ عقلِ کُلّ و نفسِ کُلّ کے درمیان میں بحقیقت دوئی نہیں بلکہ ایک چیز کے دو نام ہیں۔

اسی طرح پاک محمّد صلعم ہیں۔ چنانچہ خدا کے قول کے مطابق رسولِ پاکؐ کُل عالمین کے لئے خدا کی رحمت تھے۔

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (۲۱: ۱۰۷)۔

عالمین عالم کی جمع یعنی عالمِ جسمانی، عالمِ روحانی، عالمِ عقلانی، دوسرے الفاظ میں کُل اشیاء جو اللہ کے امر سے پیدا ہوئی ہوں، پھر نبی پاکؐ رحمت کُل ہوئے اور کُل اشیاء پر ان کا نورِ رحمت محیط ہے، کیونکہ خدا کی رحمت نے سارے جہانوں کو گھیر لیا ہے اور عقل گواہی نہیں دیتی کہ خدا کی رحمت سے بالاتر کوئی چیز ہے، پھر

 

۱۳۸

 

دانش والے اس بات کے لئے ہرگز تسلیم نہیں کرسکیں گے کہ عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ میں رحمت نہیں، اور رحمت میں عقل و حیات نہیں، بلکہ اصلیّت یہ ہے کہ عقل و حیات ہی رحمتِ الٰہی ہے اور رحمتِ الٰہی عقل و حیات ہے، پھر دلیل سے معلوم ہوا کہ حضرت محمدؐ ہی اپنے زمانے کے عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ تھے۔

اب رہا اساس کی شناخت، اساس کہتے ہیں بنیاد کو، وہ حقیقت میں کُلّ کائنات و موجودات کی اوّلین بنیاد تھا، جس کے بغیر کوئی شۓ نہیں ٹھہر سکتی، وہ ساری چیزوں کا آغاز تھا، اس کا اسمِ مبارک علیؑ تھا اور خدا نے یہ نام رکھا تھا، چونکہ خدا کا قول سچائی اور عدل میں پورا ہوتا ہے یعنی جس چیز کو بلند کہے وہ واقعی بلند ہوتی ہے اور اس سے دوسری کوئی چیز بلند نہیں ہوسکتی۔ علیؑ کا یہ مبارک اسم جو خدا کے حکم سے رکھا گیا تھا، بلند یعنی اونچائی کے معنی رکھتا ہے۔

بلندی یا برتری دوقسم کی ہوتی ہے، برتریٔ شرفی و برتریٔ مکانی یعنی عزّت کی بلندی اور جگہ کی بلندی، دونوں معنوں سے مولانا علیؑ جملہ اشیاء سے برتر ہے، چونکہ اس کا نور عقلِ کُلّ، روحِ کُلّ اور رحمتِ کُلّ کے ناموں سے کُلّ عالم پر محیط ہے۔ جب مولانا علیؑ جملہ مخلوقات سے بالاتر ہیں تو اسے بالائے کُلّ کہنا بالکل درست ہوگا۔ اس قسم کی برتری صرف نام کی نہیں بلکہ اس میں وہ تمام صفات موجود ہیں جن کی وجہ سے برتر کہنا حقیقتاً درست ہوسکتا ہے، یعنی اس برتری میں بھی

 

۱۳۹

 

تمام چیزیں سموئی ہوئی ہیں، جس طرح عقل، روح اور رحمت میں سموسکتی ہے گویا مولانا علیؑ عقلِ کُلّ، نفسِ کُلّ اور رحمت کُلّ ہیں۔

اسی طرح امامِ زمانؑ ہے جس کا نور وہی نور ہے جو محمدؐ اور علیؑ میں تھا۔ مذکورہ بالا تمام صفات امامِ زمانؑ کے نور میں ہر وقت موجود ہیں۔ لفظِ امام اُمّ کے مصدر سے مشتق ہے، اس لئے اِمام القوم اور اُمُّ القوم دونوں کے معنی ایک ہیں، یعنی قوم کا سردار یا قوم کا امام۔ بعض دفعہ یہی لفظ اُمّ جو امام کے معنی میں آتا ہے، اُمّۃ (امام) سے بدل جاتا ہے، جس طرح خلیف سے خلیفۃ  اور ملائک سے ملا ئکۃ وغیرہ بنتے ہیں، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے کہ:

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (۱۶: ۱۲۰)۔

حضرت ابراہیمؑ امام تھے، اللہ کی توحید منوانے والے اور وہ موحدوں کے سردار تھے۔

اس قدر تشریح کے بعد لفظِ اُمّ اور امام کی اصلیّت کو دیکھیں گے۔ لفظِ اُمّ یا کہ امام کے معنی ہر چیز کی اصل ہوئی، یعنی وہ چیز جو سب سے اوّل ہو، جس سے بہت سی چیزیں پیدا ہوئی ہوں، مثلاً اُمُّ الْکِتاَب کل کتابوں کی اصل، ہر زمانے اور ہر دور کی آسمانی کتابوں کا موجد، وہ اصل اور وہ موحد امامِ زمان کا نُور ہے۔ یقین ہو کہ دلیلاً امامِ زمانؑ ہر آسمانی کتاب کی اور ہر چیز کی اصل ہے اور یہ وہ اصل ہے جس

 

۱۴۰

 

سے کوئی شے مقدم نہیں، پس اُمُّ الْکِتاَب یعنی امامِ زمانؑ ہی عقل، روح، رحمت اور برتر ہے۔ یعنی عقلِ کُلّ، نفسِ کُلّ، ناطق اور اساس کا واحد نُور امامِ زمانؑ کا نور ہے۔

وَاِنَّهُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِيْنٍ (۱۵: ۷۹)۔

یعنی عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ دونوں امامِ مبینؑ سے کام کرتے ہیں۔

مولائے روم فرماتے ہیں:

 

عقلِ کُلّ و نفسِ کُلّ مردِ خداست

عرش و کرسی را مدان کزوی جُداست

 

ترجمہ: عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ شخص واحد ہے۔ یہ خیال ہرگز نہ کرنا کہ عرش و کرسی اس سے جدا ہے۔

 

۱۴۱

 

 

تطابق دورمہین و دور کہین و ایّامِ ہفتہ

 

قولہٗ تعالیٰ:

تَعْرُجُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَـنَةٍ (۷۰: ۰۴) وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (۲۲: ۴۷) وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَآاَنْ اَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ وَذَكِّرْهُمْ  ڏ بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ  ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ (۱۴: ۰۵)

ترجمہ: فرشتے اور روح اس کی طرف چڑھتے ہیں، ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے۔ اور ایک دن تیرے ربّ کے پاس ایک ہزار برس کی طرح ہے جو تم گنتے ہو۔ اور ہم نے تجھے سات سات اور قرآنِ عظیم دیا ہے۔ اور انھیں اللہ کے دنوں سے یاد دلا۔ اس میں نشانیاں ہیں ہر صبر کرنے اور شکر کرنیوالے کیلئے۔

۴۹+قرآن العظیم (محتجب) = ۵۰×۱۰۰۰=۵۰۰۰۰

۷+۷=۱۴= ہفت امام و ہفت حجّت از فرزندانِ ایشان، بطریقِ وحدت ہفت  ہفت اشخاصِ امام ۷×۷ = ۴۹۔ اشخاصِ امامت پس از پیغمبر علیہ السّلام۔

 

۱۴۲

 

وحدت ہر ہفتی از اشخاص امامت چون ہفتۂ دین و دُنیا

 

۱۴۳

 

خراجِ عقیدت از اسماعیلیۂ چین

 

انبیاء لرگہ شھنشاہ مصطفیٰ نِنگ یاری کیم؟

اوّل علی المُرتضا یم مصطفیٰ نِنگ یاری دُور

ھر جھاد ننگ لشکریگہ نامدار سرداری کیم؟

ذُوالفقار نِنگ ایگاسی مولانا علی سرداری دُور

بندہ لرنِنگ عیبی پا پغوچی کیم و ھم غفاری کیم؟

جُملہ ادم ننگ علی ستّاری دور غفّاری دُور

قیسی نعمت دُور کہ تو گوماس لذّتی ھمہ راحتی؟

واحد ویکتا علی ننگ رنگ برنگ دیداری دُور

سُوزلا گوچی قرآن علی دور ھرلباسی دا آشکار

ھر زمان دا ھر مکان دا صاحب اسراری دُور

ھم مکان دا لا مکان داعرشی داھم فرشی دا

مرتضیٰ دُور مرتضیٰ ننگ بُوالعجائب کاری دُور

یارننگ جلوہ عجَب دُور ھر زمان منگ شکلی دا

عاشقان لرننگ عجب برد لبر عیّاری دُور

 

۱۴۴

 

من گُل و گلزارِ دُنیا غہ فقط مُحتاج اماس

ھر زمان جان و دلیم داعشقی ننگ گلزاری دُور

شاہ ننگ دیداروچون بس بیقرار دُور شول نصیرؔ

بیقرار لرننگ قراری شاہ نِنگ دیداری دُور

 

 

۱۴۵

 

جذبۂ روحیّۂ اسماعیلی شرقی ترکستان

 

من علی گہ بندہ دور من شاہِ سُلطانیم علی

طاعتیم حجیّم نمازیم دین وایمانیم علی

کنتُ کنزاً مخفیّاً انگلاپ خدایم ایستا سَام

باشقہ بر کشی تاپمادیم اُول گنجِ پنھا نیم علی

درد و غم دین جیغلامایمن جیغلاسام دیدار چون

راحتم نوریم شفایم حِرزودرما نیم علی

کوندہ یوزمنگ مقصد یم تا پتیم علی نِنگ فضلی دین

جان پنا ھیم مھربانیم مشکل آسانیم علی

شُول زمان سلطان محمد شاہ علی دُور اُول علی

نُور یزدانیم علی دُور مغزترانیم علی

حَیدرِ صفدر علی دُور فاتحِ خیبر علی

شاہ دورانیم علی دور شاہ مردانیم علی

لافتاح الاعلی لاسیف الاذوالفقار

ھر بلا دن ساقلا غوچی سن اے نگھبا نیم علی

 

۱۴۶

 

رمز حبلُ اللہ علی دُور عُروۃ الُوثقیٰ علی

مالک حور قصُور و خُلد و رضوانیم علی

ایککی عَالم داسَخْی سُلطان مُحمّد شاہ علی

حشر دا قاضی عَلی دُور شاہ شاہا نیم علی

 

 

۱۴۷

 

مُکرمانہ ہدیۂ ناچیز راچیزے شمار

 

ای شہِ دُورِ قامت نورِ مولانا کریم

ماہِ گردونِ امامت نورِ مولانا کریم

برزمین و آسمان نورِ خدائے ذوالجلال

باعث فضل و کرامت نورِ مولانا کریم

دیدۂ باطن چو بدھی شاہِ ملک دل شوند

مملکتھا زیرِ گامت نورِ مولانا کریم

ای خوشا! دیوِ جھالت از جھان خواھد گریخت

ازنھیبِ دَورِ تامت نورِ مولانا کریم

جانِ من با توست این تن سایہ آن جان خوش

عالمِ امن و سَلامت نورِ مولانا کریم

باھزاران نام یک نوری بہ ھردُوری عیان

درجھان باشد دوامت نورِ مولانا کریم

جامع الاسماست نامت اکرم و مکرم توئی

جانِ فدا سازم بنا مت نورِ مولانا کریم

 

۱۴۸

 

یافتہ عاشق تو گنجِ مرادِ دو جھان!

از گُہرھائی کلامت نورِ مولانا کریم

جُز وصالِ تو نخواھد این جھان و آنجھان

آنکہ شد مخمورِجامت نورِ مولانا کریم

ای سپھرِ عقل وجانِ فیض بخش و نور بار

کم نباشد فیضِ عامت نورِ مولانا کریم

مرکزِ علمِ حقائق رُوح مبسوطِ دو کون

دین قائم در نظامت نورِ مولانا کریم

چشم جانِ عاشقان را نورِ تو نورِ نظر

گوشِ ھوشِ شان پیامت نورِ مولانا کریم

عشق دیدہ صد قیامت از قیامت پیشتر

ازتو ھَر دم صد قیامت نورِ مولانا کریم

رام نشود تو سنِ دوران بہ شاھان ومھان

خوش توران اندر لجامت نورِ مولانا کریم

جلوہ ھائی رنگ برنگ بینند دردنیائے دل

از رُخِ ماہِ تمامت نورِ مولانا کریم

مکرمانہ ھدیۂ ناچیز را چیزے شمُار

از نصیرالدّین غلامت نورِ مولانا کریم

 

۱۴۹

 

 

علمِ رُوحَانی

 

عزیزو! جان و دِل کرنا فدائے علمِ رُوحَانی

کہ ہم آئے ہیں دُنیا میں برائے علمِ رُوحَانی

ہماری زِندگانی کی غرض ہاں معرفت ہی ہے

مگر یہ آ نہیں سکتی سوائے علمِ رُوحَانی

خودی کو اشکِ اُلفت میں ہمیشہ دھولیا کرنا

اِسی سے سُن سکے گا دِل صَدائے علمِ رُوحَانی

مریض جہل کا ہمدرد ہو جانا اگر چَاہو

تو ہر قیمت پہ کردینا دوائے علمِ رُوحَانی

اِسی میں رازِ قرآن ہے اِسی میں نُورِ یزدان ہے

کہ ہے سب سے بڑی رحمت عطائے علمِ رُوحَانی

اِسی کی قدر و قیمت ہے خُدا کی بادشاہی میں

بہائے دین و دُنیا ہے بہائے علمِ رُوحَانی

 

۱۵۰

[/page]

 

غُبارِ دہر اس کی رفعتوں کو چُھو نہیں سکتا

فلک سے بڑھ کے عالی ہے فضائے علمِ رُوحَانی

فلک پر تُم نہ جاسکتے ، اسی کا شُکر کرنا ہے

کہ خود جُھک جُھک کے آیا ہے سمائے علمِ رُوحَانی

علاجِ دردِ نادانی نہیں ہوتا ہے دُنیا میں

مگر یہ ہے کہ حاصل ہو شفائے علمِ رُوحَانی

عروسِ رُوح کا سنگار کامل کِس طرح ہوگا

نہ ہو جب تک اسے حاصل رِدائے علمِ رُوحَانی

وہ اِک دُنیا پہ مرتا ہے یہ اِک عقبیٰ پہ مرتا ہے

تمہیں ہونا ہے جیتے جی فنائے علمِ رُوحَانی

طُلوعِ نُورِ یزدان ہو فروغِ صبحِ عرفان ہو

ضیا پاشی کرے دِل میں ضیائے علمِ رُوحَانی

بہت ہیں نعمتیں لیکن نہیں ہے کوئی شیٔ ایسی

کہ عاقل منتخب کرلے بجائے علمِ رُوحَانی

وہ اِک گنجینۂ دولت وہ اِک سر چشمۂ لذّت

وہ اِک کانِ حلاوت ہے غِذائے علمِ رُوحَانی

 

۱۵۱

 

خُدا کی اِک رضا صدہا رضائیں لے کے آتی ہے

عظیمُ الشّان ہے سب سے رضائے علمِ رُوحَانی

دلِ سنگین سے جاری ہُوئے ہیں عِلم کے چشمے

مرے مولا نے مارا ہے عصائے علمِ رُوحَانی

کہاں یہ دولتِ دُنیا کہاں گنجینۂ عِرفان

زہے قسمت کہ مل جائے غنائے علمِ رُوحَانی

تعجّب ہے کہ اُس مُحبوب کی ازبس لِقائیں ہیں

لِقائے جانفزا اس کی لِقائے علمِ رُوحَانی

برسنے کو تُلی بارش دِلوں کے باغ و گلشن پر

وہ دیکھو بدلیاں لائیں ہوائے علمِ رُوحَانی

امامِ وقت کے در کی غُلامی کر نصیرؔ الدّین

یہیں پر بن کے رہنا ہے گدائے علمِ رُوحَانی

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

 

۱۵۲

سلسلۂ نور علیٰ نور

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

آغازِ کتاب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ (۵۷: ۰۳)

اے برادران و خواہرانِ روحانی آپ اپنی درویشانہ دعاؤوں کا سلسلہ جاری رکھیں تا کہ امامِ زمان (روحی فداہٗ) کی نورانی تائید حاصل ہو! یہ حقیقت ہے کہ اب تک جو کچھ علمی کام ہوا ہے وہ آپ کی دعا سے ہوا ہے، آپ میرے عالمِ شخصی کے فرشتے ہیں۔ آپ خدا کی طرف سے میرے لئے انعامی روحیں اور نورانی عوالمِ شخصی ہیں، ہم اور آپ سب ایک ہی کامیاب روح ہیں۔ الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ۔

 

اس کتاب کا نام سلسلۂ نورٌ علیٰ نور ہے، اس کا عجیب و غریب دلکش انتساب جناب جعفر علی اور محترمہ زرینہ کی دخترِ نیک اختر زہرا چیف سیکریٹری نے بنایا ہے، جو درجِ ذیل ہے:

حبِ علی ثانی امین الدین ہونزائی، تاریخِ پیدائش: ۱۶ جنوری ۱۹۹۸ء بروزِ جمعہ،

درِّ علوی امین الدین ہونزائی، تاریخِ پیدائش: ۵ اپریل ۲۰۰۰ء، بروزِ بدھ،

 

ز

 

گل میری عرفان اللہ، تاریخِ پیدائش: ۲ نومبر ۲۰۰۰ء، بروزِ جمعرات،

درِّ فاطمہ امین الدین ہونزئی، تاریخِ پیدائش: یکم ستمبر ۲۰۰۲ء، بروزِ اتوار۔

 

نوٹ: زہرا چیف سیکریٹری کا تذکرہ قبلاً ہماری دس کتابوں میں ہوا ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

پیر، ۱۴ اپریل ۲۰۰۳ء

 

ح

 

کلماتِ شکرگزاری و ممنونیّت

 

اے معزز و عالی قدر برادران و خواہرانِ روحانی آپ سب کو سعادت و سلامتِ دارین نصیب ہو! میں جان و دل سے آپ تمام عزیزان کا بے حد شکرگزار اور ممنون و احسان مند ہوں، اور ہر وقت آپ کے حق میں نیک درویشانہ دعائیں کرتا ہوں، آمین ! خداوندِ لا یزال آپ تمام نورِ علمِ امام کے پروانوں پر نہایت مہربان ہو ! اور اپنی بے پایان رحمت کے دروازے آپ کے لئے مفتوح کرے ! آمین! مولا آپ کو دونوں جہان کی بہت بڑی کامیابی و سرفرازی عطا فرمائے! کہ آپ نے اپنی گوناگون خدمات اور طرح طرح کی قربانیوں سے اپنے ادارے کو دنیا اور زمانے میں سب سے نیک نام اور سب سے کامیاب بنایا اور آپ نے علمِ باطن کی نادیدنی جنگ سے کائنات کو مسخر کر لیا آپ کو یہ عالمی فتح مبارک ہو! ہزار بار مبارک ہو! یہ انسانی باتیں ہرگز نہیں بلکہ یہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی قرآنی تاویل ہے۔ اہلِ حقیقت کے لئے آنحضرتؐ کا حکم دراصل خدا ہی کا حکم ہے پس موتوا قبل ان تموتوا قرآنِ حکیم کے عین مطابق ہے۔ لیکن یہ عظیم الشّان عمل ممکن ہی نہیں جب تک امامِ زمان علیہ السّلام آپ کو اسمِ اعظم اور خصوصی ہدایات اور روحانی تائیدات سے نہ نوازے۔

 

ط

 

اگر تمام شرطیں پوری ہوگئیں اور آپ اسرافیلی اور عزرائیلی سیڑھی چڑھنے میں بھی کامیاب ہوگئے، تو پھر ان شاء اللہ حظیرۂ قدس میں تسخیرِ کائنات ممکن ہے۔ سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) ملاحظہ ہو۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس ۔ آئی)

کراچی

بدھ، ۲۳ اپریل ۲۰۰۳ء

 

ی

 

یہ خواب ہے یا بیداری؟

جواب: خواب نہ تھا، مدہوشی تھی۔

 

میں نے کل خواب میں علی دیکھا

اس خفی نور کو جلی دیکھا

وہ امامِ مبینِ آلِ رسول

قبلۂ عاشقانِ اہلِ قبول

سر جھکا کر غریب نے سلام کیا

آنسوؤں کی زبان سے کلام کیا

 

اے سرتو سجدہ کر کہ ترا فرض سجدہ ہے

انکارِ سجدہ جس نے کیا وہ تو راندہ ہے

 

اے آنکھ کہاں ہیں ترے اشکوں کے وہ گوہر

اب شاہ کے قدموں سے کرو ان کو نچھاور

 

اے نارِ عشق تجھ کو سلام ہو ہزار بار

تیرے کرم سے عاشقِ بیدل کو مل گیا قرار

 

ہم مردہ تھے کہ اُس نے ہمیں زندہ کر دیا

چہرے اداس تھے کہ تابندہ کر دیا

 

ک

 

نورِ رحمت کی سخت بارش تھی

ہر طرح کی بڑی نوازش تھی

 

ہم کو یہ اک نئی حیات ملی

علم و حکمت کی کائنات ملی

 

دستِ پرنور میں کمالِ معجزہ ہے

خاک کو چھو کے زر بناتا ہے سنگ کو وہ گہر بناتا ہے

 

نورِ عشقِ مرتضا ! ہر لحظہ ہو تجھ پر سلام

بندگانِ ناتمام تجھ ہی سے ہوتے ہیں تمام

 

میں ہوں نصیرِ خالی وہ ہے نصیرِ معنی (حقیقی مددگار)

میں ہوں غلام و ناکس وہ ہے امامِ اقدس

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

مرکزِ علم و حکمت، لندن

جمعرات ، ۲۱ جون ۲۰۰۱ء

 

ل

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط: ۱

 

سورۂ روم (۳۰: ۳۰) میں اللہ کا وہ واحد قانون مذکور ہے جس کے مطابق وہ جلّ ذکرہ ہمیشہ انسانوں کو پیدا کرتا ہے، اور اس کے قانونِ آفرینش میں کوئی تبدیلی نہیں، دراصل یہ آیۂ فطرت اللہ ان آیاتِ کریمہ کی تفسیر و تاویل ہے جو اللہ کی سنت سے متعلق ہیں جن کا مجموعی مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی سنتِ قدیم ہمیشہ ایک جیسی ہے اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں پائی جاتی۔

 

حضرتِ آدم علیہ السّلام کو جب خدا نے روئے زمین کا خلیفہ بنایا تو یہ امر (کام) اللہ کی سنّت کے مطابق تھا پس یہاں سے اس حقیقت کا انکشاف ہو جاتا ہے کہ جس طرح اللہ کی سنّت قدیم یعنی ہمیشہ ہے، اسی طرح معمورۂ عالم میں خلیفۃ اللہ بھی ہمیشہ ہے، کیونکہ نہ تو اللہ کی رسی کبھی ٹوٹ جاتی ہے، نہ نورٌ علیٰ نور کا سلسلہ کبھی منقطع ہو جاتا ہے، اور نہ ہی اللہ کا نور کبھی بجھ جاتا ہے، اور نہ اللہ کی سنّت کسی طرح سے تبدیل ہو جاتی ہے۔

صفات و ذاتِ او ہر دو قدیم است

شدن واقف در و سیرِ عظیم است

 

۱

 

ترجمہ: خداکی ذات اور صفات دونوں قدیم ہیں، اس میں واقف = عارف ہو جانا عظیم سیر و سلوک ہے۔ از روشنائی نامہ۔

 

اگر چشمِ بصیرت اور عقلِ سلیم سے کام لیا جائے تو اس میں صدہا سوالات کے لئے جوابات موجود ہیں۔ مثلاً : آیا خدا کے کاموں میں سے کوئی کام نیا ہوتا ہے؟ جواب: نہیں۔ کیونکہ خدا کے ہر کام میں تجدّد یعنی اعادہ ہے مگر نیا پن نہیں، جیسے دن رات کا تجدّد تو ہے مگر ایسا کوئی دن یا رات نہیں جس کا کبھی مشاہدہ نہ ہوا ہو۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی، جمعرات ، ۲۰ فروری ۲۰۰۳ء

 

۲

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط: ۲

 

سورۂ نساء (۰۴: ۶۶ تا ۷۰) کو امامِ آلِ محمدؐ کی جانب سے عطا ہونے والا اسمِ اعظم اور روحانی تناظر میں پڑھیں۔ یہ آیات سب سے پہلے موتوا قبل ان تموتوا کی تصدیق کرتی ہیں۔ جب کہ رسول کا حکم دراصل اللہ کا حکم ہے۔

وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْهُمْؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَشَدَّ تَثْبِیْتًا  وَّ اِذًا لَّاٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ لَّدُنَّاۤ اَجْرًا عَظِیْمًا  وَّ لَهَدَیْنٰهُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاﭤ  ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰهِؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ عَلِیْمًا ۔ (۰۴: ۶۶ تا ۷۰)

ترجمہ: اگر ہم نے انہیں حکم دیا ہوتا کہ اپنے نفوس کو ہلاک کر دو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے کم ہی آدمی اس پر عمل کرتے۔ حالانکہ جو نصیحت انہیں کی جاتی ہے اگر یہ اس پر عمل کرتے تو یہ ان کے لئے زیادہ بہتری اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا اور جب یہ ایسا کرتے

 

۳

 

تو ہم انہیں اپنی طرف سے بہت بڑا اجر دیتے اور انہیں سیدھا راستہ پر چلاتے۔ جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ ان لوگو کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیّقین اور شہداء اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔ یہ حقیقی فضل ہے جو اللہ کی طرف سے ملتا ہے اور حقیقت جاننے کے لئے بس اللہ ہی کا علم کافی ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی، جمعہ ، ۲۱ فروری ۲۰۰۳ء

 

۴

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط: ۳

 

سوال: حظیرۂ قدس کی عرفانی بہشت میں نورٌعلیٰ نورٍ کا اشارہ کس طرح ہوتا ہے؟

جواب: اس بہشت میں جس طرح آفتابِ نور کا مسلسل طلوع و غروب ہوتا رہتا ہے اسی میں دیگر بہت سے اشارات کے ساتھ ساتھ نورٌعلیٰ نورٍ کا اشارہ بھی ہے۔

کتاب سرائر ص ۱۱۷ پر مولا علی صلوات اللہ علیہ کے خاص خاص اوصاف میں یہ وصف بھی ہے کہ آپ عالَم میں قدیم ہیں یہ خود مولا علی (ارواحنا فداہٗ) کا تعارفی کلام ہے اس میں معرفت کا سب سے عظیم خزانہ موجود ہے، اور یہی خزانہ خود نورٌعلیٰ نور کی شہادتوں سے بھرا ہوا ہے، جہاں قرآن و حدیث میں مولا علی المرتضیٰؑ کی درخشندہ اور تابندہ تعریفات کو دیکھ کر ہماری آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں وہاں ہم ایسے غریب لوگ شاہنشاہِ ولایت کی کیا توصیف کر سکتے ہیں؟ صرف اتنا کہیں گے، آپ کے غلاموں سے ہماری جان ہزار بار فدا ہو! یا مولا! یا مولا! ہم کو اپنے غلاموں کی غلامی میں رکھنا ! آمین!

 

سورۂ شوریٰ (۴۲: ۱۱) میں ارشاد ہے: لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌۚ

 

۵

 

وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ = کوئی چیز اس کی مثل (یعنی علیؑ) کے مشابہ نہیں وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ پس خدا نے علیؑ کو اپنی مثل بنایا ہے اور خدا کی اس لاجواب مثل جیسی کوئی چیز نہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی، جمعہ، ۲۱ فروری ۲۰۰۳ء

 

۶

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط: ۴

 

اربع رسائل اسماعیلیۃ ص ۱۵ پر یہ حدیثِ قدسی درج ہے: عبدی اطعنی اجعلک مثلی حیاً لا تموت و عزیزاً لا تذل و غنیاً لا تفتقر۔

ترجمہ: اے بندۂ من! میری حقیقی اطاعت کر تا کہ میں تجھ کو اپنی مثل بنا دوں گا یعنی ہمیشہ زندہ کہ تو کبھی نہ مرے اور ایسا معزز کہ تو کبھی ذلیل نہ ہو، اور ایسا غنی کہ تو کبھی مفلس نہ ہو جائے۔ یہی حدیثِ قدسی حضرتِ حکیم پیر ناصر خسرو قس کی شہرۂ آفاق کتاب زاد المسافرین ص ۱۸۳ پر بھی مرقوم ہے۔ اس حدیثِ قدسی سے فنا فی الامام کی حقیقتِ عالیہ واضح اور روشن ہو جاتی ہے اور ابوابِ خزائنِ معرفت یکے بعد دیگرے مفتوح ہوتے جاتے ہیں۔

 

مولا علی صلوات اللہ علیہ کا ارشاد ہے: “انا و محمد نورٌ واحدمن نور اللہ” = یعنی میں اورمحمد اللہ کے نور سے ایک ہی نور ہیں۔

انا صاحب الرجفۃ (۰۷: ۷۸) انا صاحب الآیات (صاحب المعجزات) ۔۔۔۔ و انا النباء العظیم الذی ھم فیہ مختلفون (۷۸: ۰۲ تا ۰۳) ۔۔۔ انا الکتاب  ۔۔۔ انا اللوح

 

۷

 

المحفوظ و انا القرآن الحکیم ۔۔۔ فآدم ، و شیث، و نوح، و سام و ابراہیم ، واسماعیل ، و موسیٰ ، و یوشع، و عیسیٰ ، و شمعون، و محمد، و انا کلنا واحد۔۔۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی، پیر، ۲۴ فروری ۲۰۰۳ء

 

۸

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط: ۵

 

سورۂ حٰمٓ السجدہ (۴۱: ۳۰ تا ۳۲) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ  نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِۚ-وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَﭤ  نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ۔

ترجمہ: جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ “نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی، یہ ہے سامانِ ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔”

 

اس آیۂ کریمہ کی باطنی حکمت سمجھنے کے لئے سلسلۂ نورٌ علیٰ نور قسط:۲ کو پھر غور سے پڑھیں کیونکہ اس مبارک ارشاد میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو روحانی قیامت کے زیرِ اثر مر کر زندہ ہو جاتے ہیں ورنہ فرشتوں

 

۹

 

کا نزول غیر ممکن ہے۔ آپ جان و دل سے موتوا قبل ان تموتوا کے حکم پر عمل کریں اور اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے اسمِ اعظم کے خزینہ دار سے رجوع کرنا ہو گا، اور وہ امامِ آلِ محمد یعنی امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی ذاتِ با برکات ہے۔

 

عارفانِ حق کے لئے روحانی قیامت بے حد ضروری ہے جس کے سوا امامِ زمان علیہ السّلام کی اعلیٰ اور کامل معرفت ممکن نہیں، پس روحانی قیامت اللہ کی سنتِ قدیم ہے جس میں کوئی تبدیلی ہرگز نہیں ہوتی ہے۔

 

موتوا قبل ان تموتوا کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ تم عارفانہ موت کا کلّی تجربہ کر کے معرفت کے عظیم خزانوں کو حاصل کرو اور ابدی طور پر زندہ ہو جاؤ۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی ، منگل ۲۵ فروری ۲۰۰۳ء

 

۱۰

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط : ۶

 

وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ (۰۲: ۵۱)۔

ترجمہ: یاد کرو، جب ہم نے موسیٰ کو چالیس شبانہ روز کی قرارداد پر بلایا، تو اس کے پیچھے تم بچھڑے کو اپنا معبود بنا بیٹھے۔ اُس وقت تم نے بڑی زیادتی کی تھی۔

 

وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْۤا اِلٰى بَارِ ىٕكُمْ فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِىٕكُمْؕ- فَتَابَ عَلَیْكُمْؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (۰۲: ۵۴)۔

ترجمہ: یاد کرو جب موسیٰ (یہ نعمت لئے ہوئے پلٹا، تو اس) نے اپنی قوم سے کہا کہ “لوگو، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے اوپر سخت ظلم کیا ہے، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو، اسی میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے۔” اُس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کر لی کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

 

بحوالۂ ہزار حکمت (ح: ۶۸۸) تمام قرآنِ حکیم اور اس کی ہر

 

۱۱

 

آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے چنانچہ بچھڑے کو معبود بنانے کی ایک ظاہری مثال ہے اور ایک باطنی ممثول  ہے، ممثول یہ ہے کہ جو لوگ حضرتِ ہارون علیہ السّلام کی نورانی ہدایت سے منہ موڑ کر سامری کی گمراہ کن باتیں سننے لگے تھے اُن کو نہ صرف سامری کا بنایا ہوا سونے کا بچھڑا بہت اچھا لگ رہا تھا بلکہ روحانیّت سے ان کو بچھڑے کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی، یہ اُن کی نافرمانی اور ناشکری کا بہت بڑا امتحان تھا۔ لہٰذا حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیہما السّلام نے ان سے اسمِ اعظم کے ذکرِ قلبی کا عہد لیا تا کہ ان پر روحانی قیامت آئے اور ان کے نفوس منزلِ عزرائیلی میں مر کر زندہ ہو جائیں تا کہ اسی طرح ان کی توبہ قبول ہو جائے۔ پس موتوا قبل ان تموتوا ایک اصولی حقیقت ہے۔ جس کی کئی شہادتیں قرآنِ پاک میں موجود ہیں۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نوٹ: روحانیت سے ان کو بچھڑے کی آواز آرہی تھی (۰۷: ۱۴۸، ۲۰: ۸۸)۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی ، بدھ ۲۶ فروری ۲۰۰۳ء

 

۱۲

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط: ۷

 

سوال: مسطورِ بالا عنوان کی وجہ سے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ امامِ سابق امامِ لاحق میں نور کس طرح منتقل کرتا ہے؟

جواب: پُرنور دعا، پُر نور محبت، پُرحکمت تعلیم، پُر معجزہ اسمِ اعظم ، اور آخراً نص (قطعی حکم) سے، خدا کی قسم حضرتِ امامِ عالی مقام صلوات اللہ علیہ کے پاک نور میں کئی انوار ہیں، چنانچہ حضرتِ امامؑ جب جب اپنے فرزندِ دلبند سے غیر معمولی محبت کرتے ہیں تو اس میں نورِ محبت آتا ہے، جب جب خیر خواہی اور دعا فرماتے ہیں تو اس میں نورِ سلامت و کرامت آتا ہے، جب امامؑ اپنے فرزند کو خصوصی تعلیم دیتے ہیں تو اس میں نورِ علم و حکمت آتا ہے، اور جب اسمِ اعظم دیتے ہیں تو اس میں نور الانوار آتا ہے، اسی طرح نورٌ علیٰ نورٍ کے معنی ہر طرح سے درست ہوتے ہیں۔

سوال: آیا عالمِ شخصی میں امامِ زمان کے روحانی بچوں کو سب کچھ مل سکتا ہے؟

جواب: جی ہاں، قرآنِ حکیم کی آیتِ پُرحکمت (۳۱: ۲۰) کو یقین اور شکرگزاری کے ساتھ بار بار پڑھیں، سلسلۂ نورِ امامت کے ارشادات کو کامل عشق و محبت سے پڑھیں، آمین ! ثم آمین!

 

۱۳

 

سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) ترجمہ: اللہ وہی ہے جو خود تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تا کہ تم کو (غفلت و لا علمی کی) تاریکیوں سے نکال کر نورِ علم و معرفت میں لے آئے، اور خدا تو ایمانداروں پر بڑا مہربان ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

بدھ، ۲۶ فروری ۲۰۰۳ء

 

۱۴

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط: ۸

 

یہ تاویلی حکمت خوب یاد رہے کہ ہر روحانی قیامت باطنی جنگ بھی ہے، اور دینِ حق کی فتحِ کلی بھی ہے جیسا کہ قرآنِ حکیم کے چار مقامات پر ارشاد ہے: (۵۸: ۲۱، ۰۹: ۳۳، ۴۸: ۲۸، ۶۱: ۰۹)۔ روحانی قیامت ، باطنی = روحانی جنگ، اور دینِ حق کی کائنات گیر فتح کا دوسرانام تسخیرِ کائنات بھی ہے۔ پس اللہ جل شانہ نے جس طرح اپنے محبوب رسول کے لئے تسخیرِ کائنات کا سب سے عظیم معجزہ کیا تھا اس کا ذکرِ جمیل قرآن میں جگہ جگہ ہے خصوصاً سورۂ فتح (۴۸: ۰۱) اور سورۂ نصر (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۲) تاویلی مفہوم: جب اللہ کی مدد اور کائناتی فتح آگئی اور آپ نے دنیا بھر کے لوگوں کو دیکھا جو فوج در فوج خدا کے دین یعنی آپؐ کے عالمِ شخصی میں داخل ہو رہے تھے۔ اس عالمی فتح کے مقام پر آنحضرتؐ خود اللہ کا دینِ مجسّم تھے ۔ اور دنیا بھر کے لوگ روحاً آپ کے عالمِ شخصی میں داخل ہو رہے تھے۔ قصّۂ آدم کی مثال میں گویا یہ سب ذرّاتی فرشتے تھے جو آنحضرتؐ کے لئے سجدہ کرتے ہوئے گر رہے تھے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی، جمعرات ، ۲۷ فروری ۲۰۰۳ء

 

۱۵

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط: ۹

 

روحانی قیامت یقیناً اللہ تبارک و تعالیٰ کا انتہائی عظیم الشّان کثیر المقاصد پروگرام ہے جیسا کہ لکھا گیا ہے۔ روحانی قیامت باطنی حرب (جنگ) بھی ہے، تا کہ دینِ حق دیگر ادیان پر غالب ہو، اسی میں تسخیرِ کائنات بھی ہے، جس میں یداللہ (امامِ زمانؑ) کائنات = عالمِ اکبر کو عالمِ شخصی میں لپیٹ دیتا ہے، ایک خاص مقصد آسمانی کتاب کی تاویل ہے۔ (۰۷: ۵۳) اس کا ایک بڑا مقصد خزائنِ معرفت کی نشاندہی ہے۔ ان مقاصد میں عالمِ شخصی کی خلافت بھی ہے۔(۱)

 

کائناتی بہشت کے حصول میں سب سے سبقت بھی ایک بڑا مقصد ہے (۵۷: ۲۱، ۰۳: ۱۳۳)۔ الخلق عیال اللہ کی تفصیلی معرفت اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کو ہر عالمِ شخصی کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے، ایسی رحمت کی کیا معرفت ہے؟ الغرض بے شمار سوالات کے لئے جوابات ہیں۔

 

عارف کی فنا فی الامام و بقا با الامام اور حظیرۂ قدس کے اسرارِ عظیم کا مشاہدہ بھی ہے۔

 

۱۶

 

۔(۱)۔   نوٹ: خلافت کا حوالہ: (۰۶: ۱۶۵، ۲۴: ۵۵، ۴۳: ۶۰)

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعہ، ۲۸ فروری ۲۰۰۳ء

 

۱۷

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط: ۱۰

 

روحانی قیامت کے کثیر مقاصد میں سے چند مقاصد کی وضاحت کرو۔

سوال: کیا آدمِ سراندیبی شروع شروع میں امامِ زمانؑ کا ایک مستجیب تھا؟ جواب: جی ہاں۔

سوال: آیا امامِ زمان نے آدم کو اسمِ اعظم = ذکرِ اعظم عطا کیا تھا؟

جواب: جی ہاں! وہ اس ذکرِ قلبی میں انتہائی سخت محنت کرتا تھا (کتابِ سرائر ص ۲۲)۔  ہم سنتِ الٰہی اور قانونِ معرفت کی روشنی میں کہتے ہیں کہ آدم پر روحانی قیامت قائم کی گئی تھی اور سب سے پہلے آدم میں روحِ قدسیۂ الٰہیہ پھونک دینے کا عمل صورِ اسرافیل کے پھونکنے سے ہوا، یہاں روحِ الٰہی سے نورمراد ہے آدم میں اسی نور کے داخل ہونے پر تمام فرشتوں کو پہلے ہی سے حکم تھا کہ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کو گرتے ہوئے سجدۂ اطاعت کریں اُس وقت حضرتِ آدم کی جسمانی عمر شاید تیس (۳۰) سے کم اور چالیس (۴۰) سے زیادہ نہ ہو۔ آدم کا اصل نام تخوم بن بجلاح بن قوامۃ بن ورقۃ الرویادی تھا۔ قبیلہ کا نام ریاقۃ ۔ ص ۳۱۔۳۲ (سرائر)۔ یہاں سے یہ راز کشف ہوا

 

۱۸

 

کہ آدمِ سراندیبی کا جسمانی باپ نہ پیغمبر تھا نہ امام، لہٰذا ان پر سلسلۂ نورٌعلیٰ نور کا اطلاق کس طرح ہو سکتا ہے؟

جواب: کتابِ سرائر ص ۲۸ پر مرقوم ہے کہ امام کے حجّت اور لاحق آدم کے (روحانی) والدین تھے جن کے توسط سے امام کا نور آدم کو پہلے سے ملتا رہا تھا۔

 

پس آدم خلیفۃ اللہ ہر طرح سے سلسلۂ نورٌعلیٰ نورٍ میں ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

ہفتہ، یکم مارچ ۲۰۰۳ء

 

۱۹

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۱۱

 

اگر دین کے علم کی کتابیں پڑھ کر اُن پر عمل کرو گے تو ملائک (فرشتے) بن جاؤ گے۔ (کلامِ امامِ مبین حصۂ اول۔ کچھ مندرا ۔ ۲۸۔۱۱۔۱۹۰۳ء)۔

جوبچے اچھی طرح اسماعیلی دین کا علم حاصل کریں گے تو وہ اسماعیلی دین پر مستحکم ہو کر چلیں گے اور انہیں دین کا پتا چلے گا۔ (کلامِ امامِ مبین حصّۂ اوّل۔ زنجبار۔ ۱۶۔۸۔۱۹۰۵ء)

اگر تم دین کے کام میں مدد کرنا چاہتے ہو تو فارسی کتب کے ترجمے کر کے پڑھو اور دین کو مضبوط کرو، دین کے علم میں اضافے کے لئے دوسروں کو مدد دیتے رہو۔ دوسری زبان کی کتابوں کے گجراتی میں ترجمے کر کے دین کو مضبوط اور بچوں کو ہوشیار کرنا۔ (کلامِ امامِ مبین ۔ حصۂ اول۔ بمبئی ۔ ۸۔۳۔۱۹۰۸ء)

جنہیں علم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا انہیں روحانی معاملات میں اپنی طرح کرنے کی کوشش کرو (کلامِ امامِ مبین حصۂ اول۔ راجکوٹ۔ ۲۰۔۲۔۱۹۱۰ء)

تم پر لازم ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیم دو، اگر تمہیں قرآن شریف سیکھنے کی خواہش ہو تو اُس کے حقیقی معنی جاننے والوں کے شاگرد بنو۔ اس طرح

 

۲۰

 

تمہیں اس کے حقیقی معنی معلوم ہوں گے۔ تم خوجوں کو دین کی بہت سی کتابوں کی خبر نہیں ہے اسی لئے زیادہ تر لوگوں نے ایسی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا۔ ایسی کتب پڑھو گے تو تمہیں سمجھ آئے گی اور تم میں خرابی نہیں رہے گی۔ ان کتابوں کے پڑھنے سے تمہاری عقل گواہی دے گی کہ تمہارا دین سچا ہے۔ اس کا تمہیں پتہ چلے گا۔(کلامِ امامِ مبین حصۂ اول۔ زنجبار۔ ۱۴۔۹۔۱۸۹۹ء)

دین کی باتیں خط و کتابت سے ایک دوسرے سے منگوانا، جس طرح کاروبار کے لئے خط و کتابت کرتے ہو اسی طرح دین کی مضبوطی کے لئے خط و کتابت کرنا۔ ہمارے وہ مرید جو عرب اور بدخشان وغیرہ میں رہتے ہیں وہ بیوپار کی خط و کتابت کی طرح دین سے متعلق خط و کتابت کرتے ہیں اور دین کے معنی ایک دوسرے کوسمجھاتے ہیں۔ تم بھی اس طرح کرنا۔ ایک ملک کے بھائی دوسرے ملک کے بھائیوں سے خط و کتابت کے ذریعے علم منگوائیں۔ (کلامِ امامِ مبین حصۂ اول۔ دارالسلام۔ ۲۷۔۹۔۱۸۹۹ء)

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی

ہفتہ ، یکم مارچ ۲۰۰۳ء

 

۲۱

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط: ۱۲

 

بحوالۂ ہزار حکمت ص ۳۸۸۔۳۸۹ اور لغات الحدیث کتاب “ق” ص ۱۴۲: روح المومن بعد الموت فی قالب کقالبہ فی الدنیا = مومن کی روح مرنے کے بعد ایک قالب میں رکھی جاتی ہے جو اسی صورت کا ہوتا ہے جیسے دنیا میں اُس کا قالب تھا (صرف یہ فرق ہوتا ہے کہ، دنیا کا قالب کثیف تھا مگر یہ لطیف اور نورانی ہوتا ہے)۔ یعنی جسمِ لطیف، نورانی بدن، لبوس (۲۱: ۸۰)، برق (۱۳: ۱۲)، سرابیل (۱۶: ۸۱)۔

 

جب برق سوا ر آیا تب باب کھلا از خود

میں مر کے ہوا زندہ = ہم مر کے ہوئے زندہ

 

زندانے اُیم یاد جݺ مݹ بیلٹݺ تل آلجم

جنت نکا آر دین نمی زندان لݸ ئیڎم

 

ترجمہ: زندان کی شیرین یاد اب میں کیسے بھول سکتا ہوں، جبکہ وہ میرے محبوبِ جان میرے لئے بہشت لے کر آئے اور گئے۔

 

۲۲

 

واللہ! ہم سب تمام معجزات میں نفسِ واحدہ تھے آپ میں جو آگے آگے ہیں ان سے پوچھیں ۔ قرآن نے فرمایا لفیفاً (۱۷: ۱۰۴) آپ نے مونوریالٹی کو قبول کیا ہے۔ آپ نے مان لیا ہے کہ ایک میں سب ہیں کیونکہ روح ایک ہی ہے۔ جبکہ خدا القابض بھی ہے اور الباسط بھی ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

اتوار، ۲ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۲۳

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۱۳

 

و قد جاء عن رسول اللہ انہ قال: لما خلق اللہ العقل قال لہ: اقبل، فاقبل۔ ثم قال لہ: ادبر، فادبر۔ فقال: عزتی و جلالی ما خلقت خلقاً احب الیّ منک ، بک آخذ، و بک اعطی، و بک اثیبٰ، و بک اعاقب۔ و ان العقل مثل علی آدم فکان ذلک اعلاما من اللہ موکداً ، و امراً منہ مبرماً ، انہ لا یقبل عملاً الا من جھۃ آدم ، لا یثیب و لا یعاقب الا بہ، و آدم فھو لقب واقع علی کل ناطق فی زمانہ ، و کل امام فی عصرہ، اذھم ابواب اللہ وحججٖہ المنصوبون لھدایۃ خلقہ، و لا یقبل عملا الا من جھتھم ، و لا یسمع دعوۃ الا بھم ، و لا یقبل شفاعۃ الا منھم ، و لو کان الامر الی ماذہبت الیہ العامۃ، اہل العمی و الجھالۃ ، و المخالفون الذین ھم عن الحق حائدون، و لا ھوائھم متبعون، و بآرائھم مقتدون ، ان آدم ھو اول النطقاء ، و ابو البشر فقط ھو اسم خاص لہ لما کانت طاعتہ علی احد بعدہ واجبۃ و لا یجب لاحد من اہل الاعصار، و لا علی امم الانبیاء ثواب و لا عقاب، اذ لیس یلزمھم الا طاعۃ ارباب

 

۲۴

 

اعصارھم من ناطق و اساس و امام ، و لا وجب ان یکون للدین حدود الا من جھتھم ، اذ کان آدم ھو المخصوص بالعبادۃ و الطاعۃ لہ وحدہ، لکن عما ھم الجھل و رکبھم الضلال فہم صم لا یسمعون، عمی لا یبصرون ، بکم لا ینطقون۔

و ھم غیر مختلفین فی سیرھم و تواریخھم، اذ کان اسم آدم عبداللہ ، و اسم نوح عبدالغفار، و ھٰذا ایضاً لقب۔

فاسم العبودیۃ واقع بکل ناطق و امام، اذ کل النطقاء و الائمۃ من فعل اللہ، و بامر اللہ مخصوصون بالکلمۃ، مصطفون بالتایید المتصل بھم من الحدود التی بینھم و بین اللہ ، فکانوا عبادہ کما قال سبحانہ مخاطباً لابلیس: ان عبادی لیس لک علیہم سلطان۔۔۔ منھم فی الجمع عباد لا عبید، و فی الانفراد عبد، و انما کان اسم آدم المخصوص بہ تخوم بن بجلاح بن قوامۃ بن ورقۃ الرویادی۔ بحوالۂ کتاب سرائر و اسرار النطقاء ص ۳۰۔۳۱۔

 

اتوار ، ۲ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۲۵

 

ترجمۂ قسط: ۱۳

 

رسول اللہ سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: “جب خدا نے عقل کو پیدا کیا۔ تو اس سے فرمایا: آگے آ جا تو آگے آ گئی، پھر اس سے فرمایا: پیچھے جا تو پیچھے گئی۔ پھر فرمایا: میری عزّت و جلالت کی قسم! میں نے کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی جو تجھ سے زیادہ مجھے محبوب ہو۔ تیرے ذریعے سے میں لے لوں گا اور تیرے ذریعے سے میں دے دوں گا۔ تیرے ذریعے سے میں ثواب دے دوں گا اور تیرے ذریعے میں عذاب دے دوں گا۔” یقیناً عقل ایک مثال ہے آدم کی۔ اور یہ خدا کی طرف سے ایک تاکیدی اعلان اور حتمی امر تھا کہ وہ کوئی عمل قبول نہیں کرے گا سوائے آدم کی جانب سے (یعنی آدم کے ذریعے سے) اور نہ کوئی ثواب و عقاب دے گا سوائے اس کے ذریعے سے۔ آدم ایک لقب ہے جو ہر ناطق اور ہر امام پر اپنے اپنے زمانوں میں واقع ہوتا ہے کیونکہ وہ خدا کے ابواب و حجج ہیں جن کو خدا نے اپنے مخلوق کی ہدایت کے لئے مقرر فرمایا ہے وہ نہ کوئی عمل قبول کرتا ہے سوائے ان کی جانب سے نہ کوئی دعا سنتا ہے سوائے ان کے ذریعے سے اور نہ کوئی شفاعت قبول کرتا ہے سوائے ان کی جانب سے۔ اس کے برعکس اگر یہ امرِ واقعی ایسا ہوتا جیسا کہ عوام جو اندھے اور جاہل ہیں اور مخالفین جو حق

 

۲۶

 

سے الگ ہوئے ہیں اور جو اپنی خواہشات کی پیروی اور اپنے آراء کے پیچھے چلتے ہیں میں نے سمجھا ہے کہ آدم صرف ناطقِ اول اور ابو البشر کا اسمِ خاص تھا تو اس (آدم) کے بعد کسی پر خدا کی اطاعت واجب نہ ہوتی اور نہ اپنے اپنے زمانوں میں لوگوں میں سے کسی پر اور انبیاء کے امتیوں میں سے کسی پر کوئی ثواب و عقاب لازم آتا کیونکہ خدا کی اطاعت صرف اپنے اپنے زمانے کے ارباب جیسے ناطق، اساس، اور امام کے ذریعے لازم ہوتی ہے اور نہ دین میں ان کی طرف سے کوئی حدود ہوتے اگر خدا کی عبادت و اطاعت کے لئے صرف آدم اکیلے ہی مخصوص ہوتے، لیکن جہالت نے ان کو اندھا کر دیا ہے اور گمراہی ان پر سوار ہو گئی ہے۔ اس لئے وہ بہرے ہیں سنتے نہیں، اندھے ہیں دیکھتے نہیں اور گونگے ہیں بولتے نہیں۔ اور وہ نہ اپنی سیر و تواریخ پر چلتے ہیں کیونکہ آدم کا نام عبداللہ ، نوح کا عبد الغفار تھا اور یہ نام بھی ایک لقب ہے کیونکہ اسمِ عبودیت ہر ناطق اور ہر امام پر واقع ہوتا ہے کیونکہ ناطق اور امام خدا کے فعل سے ہیں اور خدا کے امر سے کلمہ کے ساتھ مخصوص ہیں اور وہ تائید کے ساتھ برگزیدہ ہیں جو ان کے ساتھ متصل ہے ان حدود سے جو خدا اور ان کے درمیان ہیں۔ وہ خدا کے بندے ہیں جیسا کہ خدا ابلیس سے مخاطب فرماتا ہے۔ ان عبادی لیس لک علیہم سلطٰن۔ (۱۵: ۴۲، ۱۷: ۶۵) ۔ پس صرف جمع میں عباد ہیں عبید نہیں اور مفرد صورت میں عبد ہیں آدم کا اسمِ خاص تخوم بن بجلاح بن قوامۃبن ورقۃالرویادی ہے۔

 

ترجمہ: از ڈاکٹر (پی۔ ایچ۔ ڈی) فقیر محمد ہونزائی بحر العلوم

اتوار ، ۲ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۲۷

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط: ۱۴

 

کتابِ کوکبِ دری بابِ دوم منقبت : ۹۸ میں یہ حدیثِ شریف مرقوم ہے:

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے علی بن ابی طالب علیہ السّلام کے چہرۂ مبارک کے نورسے ستر ہزار فرشتے پیدا کئے ہیں۔

تاویلی حکمت: اس کا اشارہ یہ ہے کہ جب امامِ زمانؑ عالمِ شخصی میں روحانی قیامت قائم کرتا ہے تومنزلِ عزرائیلی میں خدا کے حکم سے ستر ہزار حقیقی ایمانداروں کو فرشتے بناتا ہے کیونکہ کامل ایمانی روحوں سے فرشتے بنتے ہیں، اور ایسا ہر فرشتہ ایک عالمِ شخصی،  ایک کائناتی بہشت، ایک خلافت = سلطنت اور اس میں ایک بادشاہ ہوتا ہے۔

 

علی کے چہرۂ مبارک کے نور سے نورِ معرفت مراد ہے کیونکہ چہرہ پہچان یعنی معرفت کی علامت ہے اور مولا کا یہ ارشاد: انا وجہ اللہ =میں اللہ کا چہرہ ہوں یہ اشارہ کرتا ہے کہ آپ ہی اللہ کی معرفت ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی، اتوار ، ۲ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۲۸

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط: ۱۵

 

سلسلۂ نسبِ نبیؐ:

شجرۂ نسبِ محمد رسول اللہ (رحمتِ عالم) صلی اللہ علیہ و آلہ  ابنِ عبد اللہ ابن عبد المطلب (عامر) شیبۃ الحمد سید الوادی ابن ہاشم (عمرو) ابن عبد مناف (قمر البطحاء) ابن قصی (مجمِّع) ، ابن کلاب ابن مرۃ ابن کعب ابن لوی ابن غالب ابن فھر ابن مالک ابن نضر (قریش) ابن کنانہ ابن خزیمہ ابن مدرکہ (عامر= عمرو) ابن الیاس (سید العشیرہ) ابن مضر ابن نزار ابن معد ابن عدنان ابن اد ابن ادد ابن الھمیسع ابن نبت ابن سلامان ابن حمل ابن قیذار ابن اسماعیل ابن ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ابن تارُخ (حجتِ امام) آذر حضرتِ ابراہیم کی والدہ کا باپ تھا (سرائر ص ۶۷)۔ از سیرۃ النبی اردو (علامہ شبلی نعمانی) رحمت عالمیان، فارسی (فضل اللہ)۔

نورٌعلیٰ نور قرآنِ حکیم کے روشن معجزات میں سب سے روشن معجزہ ہے، جس میں تمام آیاتِ نور کی حکمتیں مرکوز ہیں۔

ہمارے نزدیک قرآنِ حکیم کے ظاہر و باطن میں سر تا سر نورٌعلیٰ

 

۲۹

 

نور کا مضمون پھیلا ہوا ہے۔ اگر عالمِ شخصی میں چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو وہاں بھی نورٌعلیٰ نور کا نظام جاری ہے۔

کتابِ سرائر ص ۲۰۰ پر ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ہو گزرے ہیں، ہزار حکمت ص ۸۰ ملاحظہ ہو یہ نورٌعلیٰ نور کا الٰہی نظام ہے۔

اگرچہ بتقاضائے زمان و مکان انبیاءعلیہم السّلام الگ الگ تھے لیکن عالمِ شخصی میں ان سب کا اور ائمہ علیہم السّلام کا نور ایک ہوتا ہے کیونکہ نور کی خاصیّت وحدانیّت ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

پیر، ۳ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۳۰

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۱۶

 

سورۂ حدید (۵۷: ۲۸) کا ترجمہ ہے: اے ایماندارو! خدا سے ڈرو (جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے) اور اس کے رسول (محمد) پر (حقیقی معنوں میں) ایمان لاؤ تو خدا تم کو اپنی رحمت کے دو حصے (یعنی ظاہر و باطن اور دنیا و آخرت میں) اجر عطا فرمائے گا اور تم کو ایسا نور مقرر کرے گا (یعنی امامِ زمان کی معرفت کا نور) جس کی نورانیت میں تم (عالمِ شخصی میں) چلو گے، اور تم کو بخش بھی دے گا اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ عالمِ شخصی میں چلنے کی ضرورت اس لئے ہے کہ قرآنِ عزیز میں جہاں جہاں نور کے عظیم مقاصد مذکور ہیں ان کا حصول صرف اور صرف عالمِ شخصی ہی میں ممکن ہے، جیسے ارشادات ہیں: (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) ۔ اس ارشاد میں نور کا مقصد کتابِ مبین کی حکمتِ بالغہ، صراطِ مستقیم کی ہدایت، منزلِ مقصود =حظیرۂ قدس، حیاتِ سرمدی، بعد از فنا فی الامام، اور ادوار و اکوار میں سلامتی کی راہوں میں چلنا ہے اور فرشتۂ رضوان ہو جانا بہشت سے بھی بہت بڑا درجہ ہے (۰۹: ۷۲) بموجبِ ارشاد (۰۶: ۱۲۲) نور کا ایک عظیم مقصد لوگوں میں چلنا بھی ہے، اس کے معنی ہیں فنا فی الامام کے بعد کے بہت سے معجزات ۔

 

۳۱

 

آئینۂ حق نما (رباعی)

ای نسخۂ نامۂ الٰہی کہ توی

وی آئینۂ جمالِ شاہی کہ توی

بیرون ز تو نیست ہر چہ در عالم ہست

در خود بطلب ہر آنچہ خواہی کہ توی

ترجمہ: اے کتابِ الٰہی کا نسخہ! (یعنی خدائی کتاب کی اصل) کہ یہ تو خود ہی ہے، اور اے حقیقی بادشاہ کے جلال و جمال کا آئینہ! کہ یہ تو خود ہی ہے ، کائنات میں جو کچھ ہے وہ (اپنی باطنی اور روحانی صورت میں) تجھ سے باہر نہیں (پس) تو جو کچھ چاہتا ہے وہ اپنے باطن (یعنی اپنی ذات) ہی میں طلب کر لے (کیونکہ سب کچھ) تو خود ہی ہے۔

تشریح: انسان کی ازلی و ابدی حقیقت کیا ہے؟ اس کے روحانی اور عقلی مراتب کی بلندی کہاں تک ہے؟ اور صفاتِ انسانیہ کا درجۂ کمال کیا ہے؟ یہ سب کچھ جاننے کے لئے انسانِ کامل کی معرفت و شناخت لازمی قرار دی گئی ہے، کیونکہ وہی مکمل فرد انسانیت کے درجۂ منتہا کا نمونہ ہے اور وہی شخص آدمیّت کے اس اعلیٰ ترین مقام پر کھڑا ہے جو بشریت کے عروج و ارتقاء کا آخری زینہ ہے، چنانچہ انسان ایسے ہی مرتبے پر پہنچ کر کتابِ مبین یعنی بولنے والی کتاب کا مرتبہ حاصل کر سکتا ہے، وہ یقیناً

 

۳۲

 

ربِّ عزّت کے جمال و جلال کا آئینہ بن جاتا ہے، اور فعلاً عالمِ صغیر کی صورت اختیار کر لیتا ہے، جس کی بہترین عکاسی مولای رومی کی مذکورہ رباعی میں موجود ہے، اس وقت ایسے روشن ضمیر مومن میں کیا کیا نہیں ہوتا، سب کچھ ہوتا ہے سب کچھ، وہ اپنے آپ میں کلّی بہشت بن چکا ہوتا ہے اور بہشت میں تمام نعمتیں موجود اور مہیا ہوتی ہیں۔

بحوالۂ کتاب گلشنِ خودی، ص ۶۵۔۶۶

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

منگل ، ۴ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۳۳

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط:۱۷

 

یارقند میں ایک روحانی نے مجھے تاویلی زبان میں بتایا تھا کہ عالمِ خلق اور عالمِ امر (۰۷: ۵۴) کے درمیان چھ کروڑ سال کا دائرہ ہے۔ ایک دن حضرتِ قائم صلوات اللہ علیہ نے قرآنِ حکیم (۳۶: ۶۸) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاویلاً فرمایا کہ میں اُس دائرے سے ہوکر آیا ہوں۔

 

محمد دارا بیگ مرحوم نے میر غزان خانِ ثانی کے حوالے سے بتایا تھا کہ کسی خاص مرید نے حضرتِ مولانا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ سے پرنس نامدار کے درجہ کے بارے میں سوال کیا تو مولا نے صرف یہ جواب دیا کہ میرا بیٹا مجھ سے بھی زیادہ بوڑھا ہے۔ نہ معلوم میں نے کیوں اپنے مولا سے یہ درخواست کی، کہ یا مولا میرے موجودہ جسم کی جگہ بہتر جسم عطا ہو، مولانے فرمایا کہ وہ صرف ایک ہی ہے، جو اس وقت شہزادہ علی سلمان خان کے پاس ہے۔ اب میں کہہ سکتا ہوں کہ اس پاک فرمان میں زبردست حکمت ہے۔

 

جب میں آخری بار قید تھا اس دوران ایک شام کو دروازہ معجزانہ طور پر کھل کر بند بھی ہوا اور سامنے نورانی بدن = جثّۂ ابداعیہ میں حضرت قائم القیامت صلوات اللہ علیہ کا نورانی ظہور ہوا مجھے ادراک ہو گیا کہ میں چشمِ

 

۳۴

 

زدن میں مر کر زندہ ہو گیا، نہ گرا نہ بے ہوش ہوا، مگر چہرۂ نور کو دیکھنے سے میری نگاہ عاجز تھی چند سیکنڈوں میں تشریف مبارک واپس گئی دروازہ خود بخود کھل کر بند ہو گیا۔ ایسے ظہورِ نورانی میں اگرچہ کلام کا قانون تو نہیں ہے، لیکن اشاراتِ پُرحکمت بالکل یاد ہیں جن میں اسرارِ معرفت کا ایک عظیم خزانہ موجود ہے، ان شاء اللہ موقع پر آپ کو بتائیں گے۔ میں ایک دن گھر میں تھا کہ حضرتِ قائم (روحی فداہٗ) نے معجزۂ ظہور کے بغیر صرف معجزۂ کلام میں فرمایا میرے لئے گھوڑے کو تیار کرو میں یارقند شہر جاتا ہوں میں نے حکم کی تعمیل کی اور کچھ دیر تک انتظار کیا، پھر ارشاد ہوا کہ بس اب مجھے شہر میں جانا نہیں ہے۔ اس پُرحکمت فرمان میں عجیب و غریب اسرار تھے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

بدھ، ۵ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۳۵

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۱۸

 

اللہ کی تاویل امامِ زمان (ارواحنا فداہٗ) ہے، اس حقیقت پر ہم اور آپ سب جان و دل اور عشق و محبت سے کلّی اور کامل یقین رکھتے ہیں، لہٰذا توجہ فرمائیں، کہ ہم قرآنِ حکیم میں اس حقیقتِ جامعہ کی کوئی روشن مثال دیکھتے ہیں:

سورۂ شوریٰ (۴۲: ۵۱) کا ارشاد ہے: وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَكِیْمٌ

ترجمہ: کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اُس سے روبرو بات کرے، اس کی بات یا تو وحی (اشارہ) کے طور پر ہوتی ہے ، یا پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام بر (فرشتہ) بھیجتا ہے اور وہ اس کے حکم سے جوکچھ وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے، وہ علی اور حکیم ہے۔

تاویل: حضرتِ امام باقر علیہ السلام کا ارشادِ مبارک عاشقوں کے لئے ناقابلِ فراموش ہے: “ما قیل فی اللہ فھو فینا۔” پس مذکورہ آیت تاویلاً امامِ مبین کی شان میں ہے کہ جب عاشق کو اس کا نورانی دیدار ہوتا ہے تو اس حال میں دیدار اور کلام ایک ساتھ نہیں ہوتا ہے جبکہ

 

۳۶

 

یہ پاک دیدار بطورِ وحی (اشارہ) سب سے جامع کلام بلکہ عظیم اشاراتی کتاب ہے، پھر بھی ظہورِ معجزہ کی غرض سے ایک نورانی حجاب کے پیچھے سے کلام ہوتا ہے، آپ یہاں لفظ وحی (اشارہ) کو ٹھیک طرح سے سمجھ لیں، تاہم آپ کی آسانی کی خاطر ہم مزید کوشش کریں گے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعرات، ۶ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۳۷

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۱۹

 

سورۂ مریم (۱۹: ۱۱) فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا۔

ترجمہ: چنانچہ وہ (زکریا) محراب سے نکل کر اپنی قوم کے سامنے آیا اور اس نے “اشارے” سے ان کو ہدایت کی کہ صبح و شام تسبیح کرو۔

یہاں قرآن کے حوالے سے یہ بتانا ضروری ہوا کہ وحی کے اصل معنی ہیں، اشارہ، اور اشارہ کئی طرح کا ہوتا ہے۔ پس حجّتِ قائم اور حضرتِ قائم صلوات اللہ علیہما کے پاک نورانی دیدار میں انتہائی عظیم اشارے تھے اور ہیں۔ ان نورانی ظہورات، معجزات، اور اشارات کی تاویلی حکمت بیان کرنا امامِ زمان اسمِ اعظمِ مجسم، ولیٔ امر، آلِ رسول، نورِعلی، ہادیٔ برحق (روحی فداہٗ) کی اجازت اور تائید کے بغیر ممکن نہیں۔

سوال: دروازہ کھل جانے کا معجزہ کیوں ناقابلِ فراموش ہے؟

جواب: کیونکہ قرآن و حدیث اور کتبِ دینی میں “باب” (دروازہ) ایک بڑا اہم مضمون ہے۔ مثلاً اللہ کا باب = دروازہ رسول ہے، رسول کا باب اساس ہے، اساس کا باب امام، امام کا باب حجّتِ اعظم، جس کا باب حجتِ جزیرہ، اور اس کا باب داعی، قس علیٰ ہٰذا۔

 

۳۸

 

اگر آپ قرآنِ عزیز میں باب اور ابواب کا پُرحکمت مضمون پڑھنا چاہتے ہیں، تو ان حوالہ جات سے رجوع کریں: المعجم (قرآنی انڈیکس) مادّہ: ب و ب ، ص ۱۳۹۔۱۴۰۔ (۰۲: ۵۸)، (۰۵: ۲۳)، (۰۷: ۱۶۱)، (۱۳: ۲۳)، (۵۷: ۱۳)، (۱۵: ۱۴)، (۰۷: ۴۰)، (۳۸: ۵۰)، (۰۲: ۱۸۹)، (۳۹: ۷۳)۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعہ ، ۷ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۳۹

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۲۰

 

سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) ارشاد ہے: وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ  وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ  وَ فِی السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ ترجمہ: اور زمین میں یقین داروں کے لئے نشانیاں ہیں اور خود تمہارے اپنے وجود میں بھی ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے ہو؟ آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔

تاویلی حکمت: کتابِ کوکبِ دری بابِ سوم ، منقبت ۸۰ میں مولا علی صلوات اللہ علیہ کا تعارفی کلام ہے:

انا  اٰیات اللہ و امین اللہ۔ یعنی میں اللہ کے معجزات اور اس کا امین ہوں۔

پس زمین میں آیات و معجزات امامِ زمان علیہ السّلام کا ظہور ہے، جس کی معرفت علم الیقین ، عین الیقین اور حق الیقین والوں کو حاصل ہے، اور یہی معجزات تمہارے عالمِ شخصی میں بھی ہیں۔ اور آسمان یعنی حظیرۂ قدس میں تمہارا علمی رزق اور عرفانی بہشت ہے۔

سورۂ اعراف (۰۷: ۴۰) ترجمۂ آیت : جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، اور ان کے مقابلہ میں اپنے آپ کو بڑا قرار دیا یعنی أئمّۂ

 

۴۰

 

آلِ محمد کو جھٹلایا اور کہا کہ ہم بڑے عالم ہیں۔ پوری آیت کو پڑھ لیں۔

آپ خوب سوچ کر بتائیں کہ اللہ کی کون سی آیات جھٹلائی جاتی ہیں؟

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

ہفتہ، ۸ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۴۱

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۲۱

 

کتابِ سرائر ص ۲۴۳ ، دعائم الاسلام عربی ص ۲۵، وجہِ دین ص ۳۴۳ اور ہزار حکمت ص ۶۸۔۷۶ ملاحظہ ہو: حدیثِ شریف ہے: من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیۃ۔ جو شخص مرجائے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے اس کی موت جاہلیت کی سی موت ہوگی۔ (لغات الحدیث، جلد چہارم، باب المیم مع الواو)۔

امام شناسی کے تین درجے ہیں: علم الیقین، عین الیقین ، حق الیقین۔

حدیثِ شریف ہے: من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیۃ و الجاہل فی النار۔ جو شخص مر جائے در حالے کہ اس نے امامِ زمان کو نہیں پہچانا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مر جاتا ہے اور جاہل کا ٹھکانہ آتش (دوزخ) ہے (کتابِ وجہِ دین، گفتار ۳۶) یہ اس لئے ایسا ہے کہ خدا و رسول کے بعد صاحبِ امر (امام زمان) کی اطاعت فرض ہے تا کہ علم و معرفت کا گنجِ گرانمایہ حاصل ہو۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصانی فقد عصی اللہ و من اطاع الامام فقد

 

۴۲

 

اطاعنی و من عصی الامام فقد عصانی۔ آنحضرت نے فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امام کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (سنن ابنِ ماجہ، جلدِ دوم، کتاب الجہاد، باب ۳۹، طاعۃ الامام)۔

ارشادِ نبوی ہے: من مات بغیر امام مات میتۃ جاہلیۃ ۔ جو شخص مر جائے امام (کی اطاعت) کے بغیر اس کی موت جاہلیت کی سی ہو گی۔ (مسند احمد بن حنبل، ۵، حدیث ۱۶۴۳۴)۔ المستدرک ، الجزء الاوّل، ۲۵۹/۲۵۹  میں بھی دیکھ لیں۔

(دعائم الاسلام ، المجلد الاول، کتاب الولایۃ ، ذکر ولایۃ الائمہ کے حوالے سے) حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آپؑ نے رسولِ خدا کے اس ارشادِ گرامی کے بارے میں فرمایا: من مات لا یعرف امام دھرہٖ مات میتۃ جاہلیۃ۔ جو شخص مر جائے در حالے کہ وہ اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانتا ہے تو وہ (زمانۂ ) جاہلیت کی سی موت میں مر جاتا ہے۔ صادقِ آلِ محمد نے فرمایا کہ امامِ زمانہ سے زندہ امام مراد ہے۔

امام جعفر الصادق نے خداوندِ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں فرمایا : یوم ندعوا کل اناس بامامھم (۱۷: ۷۱) جس دن کہ ہم ہر ایک جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے، آپ نے فرمایا کہ اس سے ہر زمانے کا امام مراد ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی، اتوار، ۹ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۴۳

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۲۲

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۵۲ تا ۵۳) ارشاد ہے: وَ لَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِكِتٰبٍ فَصَّلْنٰهُ عَلٰى عِلْمٍ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۔ ترجمہ: اور ہم ان لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کوہم نے ایک (خاص) علم (یعنی علمِ تاویل) کی بناء پر مفصل بنایا ہے، اور جو ایمانداروں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔ هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَهٗؕ-یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلُهٗ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ۔۔۔ ترجمہ: کیا یہ لوگ اس کے سوا کسی اور واقعہ کے منتظر ہیں جبکہ (صرف) اس کتاب (قرآن) کی تاویل (روحانی قیامت کی صورت میں) آنے والی ہے جس دن تاویل بشکلِ روحانی قیامت آ گئی تو وہی لوگ جنہوں نے پہلے اسے نظر انداز کر دیا تھا کہیں گے۔۔۔

ہزار حکمت = تاویلی انسائیکلوپیڈیا: ح: ۶۸۸ ملاحظہ ہو، چنانچہ قرآن کا یقیناً ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، پس قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں قیامت کا کوئی ذکر آیا ہے لازماً اس کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، لیکن کسی کو نہ تو قرآن کے باطن کا علم ہے اور نہ ہی قیامت کے باطن کی خبر ہے، سوائے امامِ آلِ محمد کے کہ وہی امامِ مبین (۳۶: ۱۲) اور مؤولِ قرآن ہے۔

 

۴۴

 

پس جن لوگوں نے اللہ اور رسول کے حکم کے مطابق مؤولِ قرآن سے رجوع کیا اور اس کی معرفت حاصل کر لی تو اسی معرفت کے ساتھ ساتھ روحانی قیامت اور قرآنی تاویل کی معرفت بھی ان کو حاصل ہوئی۔ الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

پیر، ۱۰ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۴۵

 

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۲۳

 

کتابِ کوکبِ دری بابِ سوم منقبت ۸ میں مولا علی صلوات اللہ علیہ کا تعارفی کلام ہے: انا اللوح المحفوظ۔ یعنی میں لوحِ محفوظ ہوں (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) یقیناً امامِ مبین علیہ السّلام (۳۶: ۱۲) لوحِ محفوظ ہے۔ منقبت ۳۴۔ مولا (روحی فداہٗ) کے معجزات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ دنیا کی ہر زبان میں کلام کرتا ہے، مثلاً: اگر دنیا کے تمام لوگوں پر بہشت جیسا روحانی دور آئے جس میں امامِ مبین علیہ السّلام کو سارے انسانوں سے کلام کرنا چاہیے تو امام جو مظہر العجائب ہے وہ معجزانہ طور پر بیک وقت سب لوگوں سے ان کی زبان میں ایسا کلام کرے گا کہ ہر شخص یہ خیال کرے گا کہ حضرتِ امام علیہ السّلام نے صرف اسی سے کلام کیا۔ اس حیران کن معجزے کا سرِّ اعظم یہ ہے کہ امامِ عالی مقام کے نزدیک روح صرف ایک ہی ہے۔

منقبت ۳۳ میں ارشاد ہے: انا الذی عندی الف کتاب من کتب الانبیاء ۔ یعنی میں ہوں وہ شخص جس کے پاس انبیاءعلیہم السّلام کی کتابوں میں سے ہزار کتابیں موجود ہیں۔ جاننا چاہئے کہ ہر پیغمبر کی اصل کتاب ابتداءً نورانیت اور ام الکتاب یعنی لوحِ محفوظ میں ہوتی ہے، اور یقیناً معلوم ہے کہ علی ہی ام الکتاب بھی ہے اور لوحِ محفوظ بھی، پس اس

 

۴۶

 

میں کوئی شک ہی نہیں کہ انبیاء کی ہزار کتابیں امامِ مبین میں لپیٹی ہوئی موجود ہیں۔ ان میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں ہے، وہ نورٌعلیٰ نور کے اصول پر یکجا اور ایک ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

منگل ، ۱۱ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۴۷

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۲۴

 

حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ کا پرحکمت ارشاد ہے:

(منقبت ۲۷) انا الساعۃ التی لمن کذب بھا سعیرا (۲۵: ۱۱) یعنی میں وہ روحانی قیامت ہوں کہ جو شخص اُس کو جھٹلائے اور اس کا منکر ہو، اس کے لئے دوزخ واجب ہے، یعنی دوزخِ جہالت و نادانی۔ کیونکہ جب امامِ زمان علیہ السّلام روحانی قیامت ہے تو اسی میں علم و معرفت کے تمام خزانے ہیں، اور جو شخص امامِ زمان کی تکذیب کرے تو یہ دراصل روحانی قیامت ہی کی تکذیب اور علم و حکمت اور معرفت سے انکار اور خود بخود دوزخِ جہالت و نادانی میں گرفتاری ہے۔

 

قرآن (۱۰: ۴۴) کا ارشاد ہے  اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْــٴًـا وَّ لٰـكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ۔ ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا، لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔

منقبت ۱۲ میں مولا کا ارشاد ہے: انا  اٰدم الاوّل انا نوح الاوّل۔ یعنی میں ہوں آدمِ اوّل ، میں ہوں نوحِ اوّل۔ سوال: اس آدمِ اوّل سے کس دور کا آدم مراد ہے؟ جواب: مولا کے کلام میں بے پایان اشارے ہوتے ہیں، لہٰذا بے پایان ادوار و اکوار میں نورٌعلیٰ نور کی سنتِ

 

۴۸

 

الٰہی کے مطابق آدموں کا قدیم سلسلہ ہو سکتا ہے، جبکہ مولانے خود فرمایا کہ میں عالم میں قدیم ہوں یعنی ہمیشہ ہوں، سرائر ص ۱۱۷۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

بدھ ، ۱۲ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۴۹

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط: ۲۵

 

کلامِ مولا (ارواحنا فداہٗ) منقبت ۲۸ : انا ذالک الکتاب لا ریب فیہ۔ یعنی میں اللہ کی وہ کتابِ ناطق (۲۳: ۶۲ = ۴۵: ۲۹) ہوں، جس میں کوئی ریب و شک نہیں (۰۲: ۰۱ تا ۰۲)۔

الف لام میم = عقلِ اوّل، لوحِ محفوظ، کتابِ مرقوم = امامِ مبین = امام زمان علیہ السّلام۔

کلامِ مولا (ارواحنا فداہٗ) منقبت ۲۹: انا الاسماء ُ الحسنی التی امر اللہ ان یدعیٰ بھا۔ یعنی میں خدا کے وہ اسماء حسنیٰ (اسماءِ عظام) ہوں جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ انہی با عظمت و با برکت ناموں سے اس کو پکارا جائے۔ القرآن (۰۷: ۱۸۰)۔

کلامِ مولا (روحی فداہٗ) منقبت ۴۲: انا ولی اللہ فی الارض و المفوض الیہ امرہ و احکم فی عبادہ۔ یعنی میں زمین میں خدا کا ولی ہوں، اور امرِ خدا میرے سپرد کیا گیا ہے، اور میں اس کے بندوں میں حکم کرتا ہوں۔

عشاق سے میں اُس کے قربانِ مسلسل ہوں۔ مولائے پاک کا کلام ہے: منقبت ۹۷: انا الذی عندی اثنان و سبعون اسما من

 

۵۰

 

العظام۔ یعنی میں وہ شخص ہوں کہ میرے پاس اسمائے اعظمِ الٰہی سے بہتّر (۷۲) اسم ہیں۔

جب برق سوار آیا تب باب کھلا از خود

ہم (تمام ساتھی) مر کے ہوئے زندہ جب شاہِ شہان آیا

 

کلامِ مولا منقبت ۹۸ میں مولا کے پاس برقی بدن = جثۂ ابداعیہ ہونے کا ذکر ہے جس کا درست ترجمہ یہ ہے: اور میں وہ شخص ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو ایک چشمِ زدن میں مشرق اور مغرب یعنی تمام روئے زمین کا مالک بناتا ہے یعنی سارے جہان کی سیر کراتا ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

بدھ ، ۱۲ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۵۱

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۲۶

 

بحوالۂ کتابِ کوکبِ دری ص ۶۱: مولا علی صلوات اللہ علیہ کا تعارفی کلام ہے: انا وجہ اللہ، انا جنب اللہ، انا ید اللہ، انا عین اللہ ، انا القرآن الناطق، و انا البرہان الصادق، و انا اللوح المحفوظ، انا القلم الاعلیٰ، انا آلٓمٓ ذٰلک الکتاب، انا کٓھٰیٰعٓصٓ (۱۹: ۰۱)، انا طٰہٰ ، انا حاءُ الحوا میم، و انا طاءُ الطواسین، انا الممدوح فی ہل اتیٰ ، و انا النقطۃُ تحت الباءِ (بسم اللہ)۔

ترجمہ: میں وجہ اللہ ہوں، میری طرف متوجّہ ہونا خدا کی طرف رخ کرنا ہے، میں جنب اللہ ہوں مجھ تک پہنچنا خدا کے پہلو میں بٹھاتا ہے اور منتہائے قرب پر پہنچاتا ہے، میں یداللہ =دستِ خدا ہوں، جو کچھ وہ کرتا ہے مجھ سے کرتا ہے، جو کچھ اس سے صادر ہوتا ہے میرے ہاتھ سے ہوتا ہے، اور میں کرتا ہوں اس کا کہلاتا ہے، میں عین اللہ ہوں، اس کی آنکھ سے عالم کو دیکھتا ہوں، اور دنیا میرے لئے ایسی ہے جیسے کہ آنکھ کے سامنے تل (ذرہ)، میں قرآنِ ناطق ہوں، اور برہانِ صادق ہوں، میرا وجود حق اور دلیلِ وجودِ حق ہے۔ میں حاملِ اسرارِ الٰہی = لوحِ محفوظ ہوں، میں ہی قلمِ اعلیٰ ہوں، جو کچھ صفحاتِ عالمِ امکان پر قدرت نے رقم کیا ہے

 

۵۲

 

وہ مجھ سے رقم کیا ہے (اول ما خلق اللہ القلم) میں آلٓمٓ ذالک الکتاب ہوں، کتابِ فعلی اور کتابِ قولی دونوں میرے وجودِ حقیقی ہیں، میں ہی کٓھٰیٰعٓصٓ ہوں، اور میں ہی طٰہٰ ، میں ہی حاءُالحوامیم ہوں، اور میں راسِ طواسین ہوں، میں ممدوح ہل اتٰی ہوں اور میں نقطۂ تحتِ باءِ بسم اللہ ہوں، جس میں کل کتاب جمع ہے۔

 

نصیرالدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات ، ۱۳ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۵۳

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۲۷

 

حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کی اصل توراۃ امامِ زمانؑ کی باطنی نورانیت ہی میں تھی جس کو کاغذی کتاب میں محدود قرار دینے پر قرآن اعتراض کرتا ہے (سورۂ انعام، ۰۶: ۹۱) نیز سورۂ ہود (۱۱: ۱۷) میں دیکھیں کہ خود امامِ زمانؑ ہی حضرتِ موسیٰ کی نورانی اور اصل کتاب ہے، ورنہ کاغذی صامت توراۃ کس طرح امام ہو سکتی ہے جس پر قرآن کو اعتراض ہے (۰۶: ۹۱)۔

سورۂ انبیاء (۲۱: ۴۸) میں ارشاد ہے: وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ ترجمہ: اور ہم ہی نے یقیناً موسیٰ اور ہارون کو فرقان اور نور اور ذکر عطا کیا تھا۔

اس آیۂ مبارکہ میں اہلِ بصیرت کے لئے بڑی عجیب و غریب حکمتیں ہیں کہ اللہ کے یہ عظیم احسانات، فرقان= آسمانی کتاب، نور ، اور ذکر = اسمِ اعظم، اگرچہ موسیٰ اور ہارون علیہما السّلام کے لئے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ پرہیزگاروں کے لئے بھی ہیں، اور ہم یہ جانتے ہیں کہ حضرتِ ہارون امام بھی تھا ، وزیرِ موسیٰ بھی اور کتابِ ناطق یعنی نورانی توراۃ بھی۔

سورۂ انعام (۰۶: ۰۷ تا ۰۹) کو غور سے پڑھیں ، اگر کوئی بھی آسمانی کتاب کاغذ میں لکھی لکھائی صورت میں نازل ہوتی تو لوگ کیا کہتے ؟ اگر

 

۵۴

 

خدا اپنی کتاب کی روح اور نور کو ایک فرشتہ بنا کر نازل کرتا تو وہ فرشتہ کس مخلوق کی صورت پر ہوتا؟ اس کا قرآنی جواب محولہ آیت میں موجود ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعہ، ۱۴ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۵۵

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۲۸

 

جس طرح حدیثِ شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ہو گزرے ہیں، یہ نورٌعلیٰ نور کی ایک ایسی واضح اور روشن دلیل ہے کہ اس سے کوئی بھی دانشمند انکار نہیں کر سکتا ہے، اور یہاں آپ حدیثِ بنی عبد المطلب کو بھی یاد کریں، اس میں یہ مبارک کلمات بھی ہیں: ان اللہ لم یبعث نبیا الا جعل لہ وصیا و وزیرا و وارثا و اخا و ولیا۔ بحوالۂ کتابِ دعائم الاسلام عربی، حصۂ اول، ص ۱۵۔۱۶۔

ترجمہ: یقیناً اللہ نے کسی پیغمبر کو مبعوث نہیں کیا مگر خدا نے اُس کے لئے، ایک وصی، ایک وزیر، ایک وارث، ایک بھائی، اور ایک ولی کو مقرر کیا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرتِ امام علیہ السلام کے ظہور کا سلسلہ نہ صرف دورِ امامت میں جاری رہتا ہے، بلکہ دورِ نبوّت میں بھی امامِ عالی مقام کا نور ہر نبی کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ جیسا کہ مذکورہ حدیث کی حکمت سے ظاہر ہے۔

جب ہم کتابِ کائنات کا مطالعہ کرتے ہیں، تو سب سے پہلے سورج اشاراتی زبان سے کہتا ہے: نورٌعلیٰ نور، چاند اور ہر ستارہ بھی یہی کہتا ہے، ہر دن کی روشنی بھی، ہر ذرّے کی چمک بھی، ہر کرن

 

۵۶

 

کی جھلک بھی، ہر کلی کی چٹخ بھی، ہر پھول کی مہک بھی، الغرض اشیائے کائنات و موجودات میں کوئی شیٔ ایسی نہیں جو خدا کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کر رہی ہو (۱۷: ۴۴) حمد سے عقل مراد ہے لہٰذا ہر چیز کی تسبیح کا راز نورِعقل کی روشنی میں معلوم ہوسکتا ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

سنیچر، ۱۵ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۵۷

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۲۹

 

کتابِ مستطاب (مبارک) دعائم الاسلام ، عربی، جلدِ اوّل، ص ۱۵۔۱۶ پر یہ حدیثِ شریف مرقوم ہے: یا بنی عبد المطلب ، اطیعونی تکونوا ملوک الارض و حکامھا۔ ترجمہ: اے عبد المطلب کی اولاد! میری اطاعت کرو، جیسا کہ اس کا حق ہے، تا کہ تم زمین کے بادشاہ اور اس کے حکمران ہو جاؤ گے۔

سوال: آیا رحمتِ عالم کا یہ پاک و پرحکمت فرمان سب کے لئے نہیں ہے؟ جواب: کیوں نہیں، سب کے لئے ہے۔

سوال: کیا رسولِ کریم صلعم کے حقیقی فرمان بردار لوگوں کو سیّارۂ زمین کی ظاہری سلطنت عطا ہونے والی ہے؟ جواب: نہیں، نہیں، ان کو عالمِ شخصی کی کائناتی بہشت کی زمین پر خلافت = سلطنت ملے گی، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: سورۂ انعام (۰۶: ۱۶۵) سورۂ نور (۲۴: ۵۵) سورۂ زخرف (۴۳: ۶۰) میں یقیناً اعلیٰ درجے کی خلافت کا ذکر ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن کو چاہے فرشتے بناکر عالمِ شخصی کی کائناتی بہشت کی زمین کی خلافت سے سرفراز فرمائے گا۔

أئمّۂ آلِ محمد صلوات اللہ علیہ و علیہم اجمعین کے

 

۵۸

 

بابرکت ارشادات کو آپ عشق و محبت اور یقین سے پڑھیں اور عمل بھی کریں تا کہ فرمانِ عالی کی روشنی میں ایمانی روح کے فرشتہ بن جانے کی حقیقت سمجھ میں آئے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

سنیچر ، ۱۵ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۵۹

 

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۳۰

 

قسط۔ ۲۵ کو ایک بار پھر خوب غور سے پڑھ لیں، کیونکہ اُس میں اسمِ اعظم کا بیان ہے، اور وہ خود امامِ زمان صلوات اللہ علیہ ہے، آپ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) کو چشمِ بصیرت سے دیکھیں اور عشق و محبت اور کامل یقین سے قبول کریں کہ اسماءِ حسنیٰ سے امامِ زمان مراد ہے، اگرچہ یہ اسماء جمع ہیں لیکن آپ یہ بات نہ بھولیں کہ نور واحد بھی ہے اور جمع بھی ہے، ورنہ قرآن میں لفظِ انوار کہاں ہے؟ اسی طرح روح، ارواح کے  لئے بھی ہے۔

جب امامِ مبین اسمِ اعظم ہے تو اس میں القابض اور الباسط کے قانون کی وجہ سے واحد اور جمع کا ایک انتہائی عظیم تصوّر سامنے ہے۔ بڑے نیک بخت ہیں وہ لوگ جو امامِ زمانؑ کو اللہ کا اسمِ اعظم مانتے ہیں، دین کا یہ نظام ازل سے ہے اور اس میں زبردست اور غالب حکمتیں جمع ہیں خدا کرے کہ آپ کو امامِ زمان (روحی فداہٗ) اسمِ اعظم عطا کرے اور آپ اس میں کامیاب بھی ہو جائیں۔ آمین یا رب العالمین! پھر آپ عمر بھر اسمِ اعظم کی تعریف کرتے رہیں گے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

اتوار ، ۱۶ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۶۰

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۳۱

 

آپ تمام عزیزوں نے حضرتِ مولا علی (ارواحنا فداہٗ) کے تعارفی کلام سے یہ یقینِ کامل حاصل کر لیا ہوگا کہ امامِ زمانؑ نہ صرف اعظم الاسماء =اسمِ اعظم ہیں، بلکہ آپ ہی اپنی نورانیت میں ناقور (صورِ اسرافیل) اور روحانی قیامت بھی ہیں، پس آئیے ہم دعائے نور کی روشنی میں اس معرفت کے لئے سعی کریں کہ مومنِ سالک پر امامِ زمان علیہ السّلام کا نور برائے روحانی قیامت کس طرح طلوع ہوتا ہے؟ چونکہ مومنِ سالک دل ہی دل میں اسمِ اعظم کا ذکرِ خفی کر رہا ہوتا ہے، لہٰذا جب روحانی قیامت کا وقت آتا ہے، اور امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہونے لگتا ہے تو سب سے پہلے سالک کے دل میں جو اسمِ اعظم کا لفظ ہے وہ نور ہو جاتا ہے یعنی جو لفظی اسمِ اعظم ہے، اس میں امامِ زمانؑ کے نور کا ظہور ہوتا ہے، لہٰذا یہ پاک دعا اس طرح شروع ہو جاتی ہے۔ ترجمہ: اے اللہ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کر دے! اور میرے کان، آنکھ، اور زبان میں بھی نور بنا دے، میرے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں اور رگوں میں بھی نور بنا دے، اور میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر اور نیچے بھی نور مقرر فرما! از کتاب العلاج ، ص ۲۱۴۔

 

۶۱

 

بحوالۂ دعائم الاسلام عربی، جلدِ اوّل، ص ۱۶۷۔

جیسا کہ قسط ۳۰ میں بتایا گیا کہ نور واحد بھی ہے اور جمع بھی ہے، چنانچہ امامِ زمانؑ روحانی قیامت کا نور ہے (ملاحظہ ہو قسط: ۲۴) اور یہ پاک نور مومنِ سالک پر باطنی قیامت قائم کرنے کی خاطر کتنے اجزاء میں تقسیم ہو کر کام کرتا ہے اس کی تفصیل کے لئے دعائے نور کو خوب غور سے پڑھیں۔ کیونکہ یہ ایک عظیم الشّان دعائے ماثورہ بھی ہے، اور علم القیامت کا ایک بنیادی حصہ بھی ہے، پس آپ دعائے نور کو بار بار پڑھیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

پیر، ۱۷ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۶۲

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۳۲

 

بحوالۂ قسط: ۲۴۔ امامِ مبین علیہ السّلام کے نور میں روحانی قیامت کے انوار پوشیدہ ہیں۔ دعائے نور کی تاویلات میں سے ایک تاویل روحانی قیامت سے متعلق ہے، جس کا کچھ بیان قسط: ۳۱ میں ہو چکا ہے۔ باطنی قیامت کے انوار میں سے ایک نور ناقور ہے (۷۴: ۰۸) یہی وجہ ہے کہ مولا کے کلام میں ہے کہ مولا ناقور یعنی صورِ اسرافیل ہے (منقبت : ۵۶) منقبت : ۵۳ میں ہے کہ مولا ہی روحانی قیامت کو قائم کرتا ہے، یہ آیۂ شریفہ (۱۷: ۷۱) کی تاویل ہے۔

ناقور میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی وہ زبردست اور غالب دعوت ہے، جس کو سن کر نہ صرف حدودِ کائنات کی روحیں قیامت گاہ = عالمِ شخصی میں حاضر ہو جاتی ہیں بلکہ پہاڑوں کی منجمد روحیں بھی زندہ ہو کر حاضر ہو جاتی ہیں (۳۱: ۱۶) اسرافیل و عزرائیل کے بے پایان لشکر کی تعداد صرف اللہ ہی جانتا ہے، اسرافیل کے بعد روحانی قیامت کی سب سے بڑی طاقت عزرائیل ہے، جس کی عظیم طاقت کا راز ایک اسمِ اعظم میں ہے جو حضرتِ قائم القیامت کے بزرگ ناموں میں سے ہے، اُس کو قرآنِ حکیم نے کلمۂ تقویٰ کہا ہے (۴۸: ۲۶) یہ اسم گویا فرشتۂ عزرائیل ہے، جس

 

۶۳

 

کا بڑا حیران کن معجزہ یہ ہے کہ یہ کسی زبان کی حرکت سے نہیں بلکہ صرف خدا ہی کی قدرتِ کاملہ سے آٹومیٹک اور مسلسل ذکر بن کر نور افشانی کرتا رہتا ہے، جس کی طاقت سے تمام عزرائیلی لشکر انسانی بدن میں ڈوب کر ذرّاتِ روح کو کھینچ نکالتے ہیں، بحوالۂ سورۂ نازعات (۷۹: ۰۱ تا ۰۵) جو سالک کے تجربہ کے لئے سختی سے بھی روح کو قبض کرتے ہیں اور نرمی سے بھی تا کہ عارف کو ریاضت بھی ہو اور تجربہ و معرفت بھی ہو۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

منگل، ۱۸ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۶۴

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۳۳

 

سورۂ نازعات (۷۹: ۰۱ تا ۰۵) وَ النّٰزِعٰتِ غَرْقًا  وَّ النّٰشِطٰتِ نَشْطًا  وَّ السّٰبِحٰتِ سَبْحًا  فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا  فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا۔

 

تاویلی مفہوم: قسم ہے ان فرشتوں کی جو باطنی قیامت کے آغاز میں سالک کے بدن میں ڈوب کر اس کے ذرّاتِ روح کھینچتے ہیں، اور آہستگی سے سر کی راہ نکال لے جاتے ہیں، اور ان فرشتوں کی قسم جو کائنات میں تیزی سے تیرتے ہیں تا کہ سالک کو خدا کے امر سے روحاً کائناتِ اکبر بنائیں اور کائنات کو سالک = عالمِ شخصی ۔ اور اس امر کا بار بار تجدّد اور اعادہ کرتے کرتے تقریباً ستر ہزار کائناتیں اور ستر ہزار عوالمِ شخصی بناتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عیال اللہ کے حق میں طوفانِ رحمت اور طوفانِ علم و حکمت ہے، شاعر کہتا ہے عشاق سے میں اُس کے قربانِ مسلسل ہوں۔

 

یقیناً ہر کامیاب عارف کو اسرافیل اور عزرائیل کی منزل میں سات رات اور آٹھ دن رہنا پڑتا ہے ، (۶۹: ۰۷)اس میں اللہ تعالیٰ کے زندہ اسمِ اعظم کے فضل و کرم سے ستر ہزار کائناتوں کی حقیقی تسخیر ہے۔

 

۶۵

 

قرآن فرماتا ہے کہ تم نیک کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت کرو (۰۳: ۱۳۳)، (۵۷: ۲۱) اور جو لوگ نیک کاموں میں اہلِ زمانہ سے سبقت کریں گے ان کو ہمیشہ کے لئے کائناتی بہشت بنادیا جائیگا۔ پس سورۂ نازعات (۷۹: ۰۴) میں اسی سبقت کا اشارہ ہے۔

 

ضروری نوٹ: یہ مضمون روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کے ساتھ مربوط ہے لہٰذا آپ ضروری طور پر اسکا خوب غور سے مطالعہ کریں۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

بدھ، ۱۹ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۶۶

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۳۴

 

جب مومنِ سالک روحانی قیامت کے آغاز میں مرحلۂ اسرافیل و عزرائیل میں داخل ہو جاتا ہے، تو اُس پر باطنی قیامت کے گوناگون معجزات کا سب سے زبردست طوفان برپا ہو جاتا ہے، ناقور = صورِ اسرافیل ، دراصل امامِ زمان کے انوار میں سے ایک بڑا عجیب و غریب صوتی اور سمعی نور اور معجزہ ہے، یہ بہت ہی مقدس اور لاہوتی چیز ہے، لہٰذا یہ یقیناً فرشتۂ جدّ = اسرافیل، اور مولا کے انوار میں سے نورِ مناجات ہے، عشاق کے لئے نورِ محویّت و فنائیت ، اور شاید وہ مناجاتِ باری تعالیٰ ہے جس کو حضرتِ موسیٰؑ نے کوہِ طور پر سن لیا تھا اور ان کو زبردست حیرت ہوئی تھی، تاویلاً یہ امامِ زمانؑ کی مناجات تھی۔ اور یہی ناقور حضرتِ داؤد کی خوش الحانی کا معجزہ بھی ہے، اور نغماتِ بہشت کا معجزہ بھی، ملاحظہ ہو! میری ایک کتاب: زبورِ عاشقین ص ۲۱۔ ۲۶۔ نیز بحوالۂ شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا ص ۷۱۳ پر بہشت کے بارے میں یہ کلمات درج ہیں، آنحضورؐ سب سے پہلے جنّت میں داخل ہوں گے فرشتے نہایت عمدہ اور سریلے نغموں کے ساتھ ان نیک بندوں کا استقبال کریں گے۔  القرآن (۵۶: ۲۵ تا ۲۶) میں ارشاد ہے کہ بہشت میں لغو = بے ہودہ اور گناہ کی بات نہیں ہوتی ہے، اس

 

۶۷

 

سے معلوم ہوا کہ نغماتِ بہشت میں عشقِ مولا اور علم و حکمت ہے، جس میں انسان کے لئے ابدی سلامتی ہے، اور اس آیت میں یہی اشارہ ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

بدھ، ۱۹ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۶۸

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۳۵

 

کتابِ کوکبِ دری بابِ سوم منقبت : ۶۴، میں حضرتِ مولا علی صلوات اللہ علیہ کا وہ پُرحکمت فرمان ہے، جس میں روحانی قیامت کے نقطۂ آغاز کا بیان ہے، وہ بابرکت ارشاد یہ ہے: جو حضرتِ مولا (ارواحنا فداہٗ) نے فرمایا: ان البعوضۃ التی ضرب اللہ بھا مثلاً۔ یعنی میں وہ بعوضہ (مچھر) ہوں، جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے قرآن (۰۲: ۲۶) میں بیان فرمائی ہے۔ یہ انسان کے کان بجنے کی آواز کی مثال ہے۔ اور اس کی زبردست اہمیت یہ ہے کہ جب بھی کسی مومنِ سالک پر روحانی قیامت برپا ہونے لگتی ہے تو اس وقت کہیں باہر سے ہرگز نہیں، بلکہ رفتہ رفتہ سالک کے کان بجنے ہی سے صورِ اسرافیل کا پُرنور سمعی و صوتی معجزہ شروع ہو کر باطنی طور پر ہمہ رس اور کائنات گیر ہو جاتا ہے مولائے پاک کے اس مبارک فرمان کی حکمت کو آپ نے سمجھ لیا ہو گا کہ ناقور = صورِ اسرافیل میں نقطۂ آغاز ہی سے مولا کا نور ہے۔

عرفاء جانتے ہیں کہ مولا کے نور میں بیک وقت بہت سے معجزے ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ روحانی قیامت کے آغاز میں ناقور کے ساتھ ساتھ مولا کا نور ایک باطنی داعی بن کر دنیا کی ہر زبان میں لوگوں کو بار بار بلاتا بھی ہے

 

۶۹

 

اس داعی کا نام قرآنِ حکیم (۲۰: ۱۰۸) میں “الداعی لا عوج لہ” ہے یعنی وہ داعی جو دنیا کی ہر زبان میں کلام کر سکتا ہے۔ جیسا کہ مولا نے فرمایا ہے: انا المتکلم بکل لغۃ فی الدنیا ۔ منقبت ۳۴۔

ترجمہ: میں دنیا کی ہر زبان میں کلام کرتا ہوں۔ الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعرات ، ۲۰ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۷۰

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۳۶

 

سورۂ نوح کی تین آخری آیات (۷۱: ۲۶ تا ۲۸) کو خوب غور سے پڑھیں تا کہ اس سے ایک خاص اصولی تاویلی حکمت آپ کے لئے آسان ہو۔ ترجمہ: اور نوح نے کہا (یعنی دعا کی) میرے ربّ، ان کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ، اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اور سخت کافر ہی ہوگا۔

اب یہاں یہ بہت ہی ضروری سوال ہے کہ حضرتِ نوح علیہ السّلام کی یہ دعا کلی طور پر خدا کی بارگاہ میں قبول ہوئی تھی یا نہیں؟ جبکہ اس کا جوابِ شافی خود قرآن میں موجود ہے (۳۷: ۷۵) ۔ دوسرا سوال: حضرتِ نوحؑ کی ایسی زبردست دعا اور طوفان کے بعد زمین پر دوبارہ کفر کس طرح پھیل گیا؟

جواب: اس بڑی زبردست دعا کا خاص تعلق حضرتِ نوح کے عالمِ شخصی سے تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمیشہ کے لئے پاک اور دینِ حق سے معمور اور پُرنور ہوگیا۔ ترجمۂ شعر، از دیوانِ نصیری۔ تم یہ نہ کہا کرو، کہ اب کوئی طوفان نہیں ہے۔ سفینۂ نوح میں سوار ہو جاؤ ، کہ میں

 

۷۱

 

روحانی طوفان دیکھ چکا ہوں۔

فرمانِ الٰہی کا تاویلی مفہوم ہے، کہ ہر نجات یافتہ اور کامیاب عالمِ شخصی میں نوحؑ اور اس کے نورانی معجزات زندہ اور سلامت ہیں ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیا کرتے ہیں (۳۷: ۷۹ تا ۸۰)۔

سلام علیٰ آلِ یٰسٓ (۳۷: ۱۳۰) یعنی ائمۂ آلِ محمدؐ کا نورِ واحد ہر کامیاب عالمِ شخصی میں زندہ اور سلامت ہے۔ سلام علیٰ آل یٰسٓ ۔ دعائم الاسلام، عربی، جلدِ اوّل۔ ص ۳۱۔ کوکبِ دری ص ۱۵۶۔ حیات القلوب جلدِ سوم ، ص ۱۰۰۔ المیزان فی تفسیر القرآن جلد ۱۷، ص ۱۵۹۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعہ ، ۲۱ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۷۲

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۳۷

 

آج یومِ جشنِ نوروز ہے، یعنی ۲۱مارچ ۔ آج ہی ہمارے ارضی فرشتوں میں سے ایک نے کسی اجتماع کے حوالے سے کہا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں نوروز کا ذکر نہیں ہے، میں نے فوری طور پر کچھ نہیں کہا جبکہ ان کا عقیدۂ راسخ پہاڑ کی طرح مضبوط اور اپنے مولا پر ان کا عشق بے مثال اور لازوال تھا، بعد میں مجھے خیال آیا کہ مجھے اس باب میں کچھ کلمات تحریر کرنا بہتر ہے تا کہ جملہ عزیزان پر حقیقت روشن ہو، غلامانِ قرآنِ ناطق اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جس طرح خزائنِ اسرارِ قرآن سے واقف و آگاہ ہیں، اس کی کوئی مثال دنیا میں ہے ہی نہیں، پس ان پر ہمیشہ عملی شکرگزاری واجب ہے۔

سورۂ مائدہ (۰۵: ۰۳) میں یقیناً سنی نقطۂ نظر سے بھی دیکھیں اور شیعی نقطۂ نظر سے بھی، آیۂ مبارکہ کا ارشاد ہے: اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ۔

دیکھیں یہاں “الیوم” کا لفظ ایک خاص دن کو ظاہر کر رہاہے، جبکہ یہاں اس دن کی ایک ایسی خصوصی تعریف و توضیح موجود ہے کہ تمام قرآن میں ایسا کوئی عظیم الشّان دن نہیں ہے ، کیونکہ اللہ نے اپنے دینِ

 

۷۳

 

مبین کو کسی اور موقع پر کامل و مکمل قرار نہیں دیا، مگر اُسی دن جس میں اس کے تاکیدی حکم سے مولا علی کی امامت و خلافت کا اعلان کیا گیا، اللہ کی نعمتوں کا سلسلہ اگرچہ جاری تھا لیکن خود خدا ہی نے یہ فرمایا کہ یقیناً تمام باطنی نعمتوں کا سرچشمہ امامِ مبین ہی ہے۔ رسولِ کریمؐ اپنے عہدِ مبارک میں زندہ اسلام تھے، اس آیت کی حکمت کے مطابق حضور کے بعد علیؑ ہی کو زندہ اسلام (دینِ مجسّم ) کی مرتبت میں لوگوں کے سامنے لایا گیا ۔ جیسا کہ مولا کا ارشاد ہے: انا دین اللہ حقاً سرائر ۔ ص ۱۱۷۔ ترجمہ: یقیناً میں خدا کا دین ہوں۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعہ، ۲۱ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۷۴

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۳۸

 

مولانا علی سے پہلے اماموں کے اسماء

 

مولانا ابو طالب (عمران)

مولانا عبد المطلب

مولانا ہاشم

مولانا عبد مناف

مولانا قصی

مولانا کلاب

مولانا مرۃ

مولانا کعب

مولانا لؤی

مولانا غالب

مولانا فھر

مولانا مالک

مولانا النضر

مولانا کنانۃ

مولانا خزیمۃ

مولانا مدرکۃ

مولانا الیاس

مولانا مضر

مولانا نزار

مولانا معد

مولانا عدنان

مولانا اُد

مولانا اُدَد

مولانا الھمیسع

مولانا نبت

مولانا سلامان

مولانا حمل

مولانا قیذار

 

۷۵

 

مولانا اسماعیل

مولانا ابراہیم

مولانا تارح

مولانا ناحور

مولانا ساروغ

مولانا راعو

مولانا فالخ

مولانا عیبر

مولانا شالخ

مولانا ارفخشد

مولانا سام

مولانا نوح

مولانا لمک

مولانا متوشلخ

مولانا اخنوخ

مولانا یرد

مولانا مہلیل

مولانا قینان

مولانا یانش

مولانا شیث

مولانا آدم

 

ابنِ اسحاق کی سیرۃ رسول اللہ کے مطابق مولانا اُدَد سے مولانا قیذار کی جگہ مندرجہ ذیل نام ہیں:

 

مقوم

ناحور

تیرح

یعرب

یشجب

نابت

 

۷۶

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۳۹

 

سورۂ توبہ (۰۹: ۰۳) میں حجِ اکبر سے روحانی قیامت مراد ہے۔ سورۂ حج (۲۲: ۲۷) میں ظاہراً حج کا ذکر ہے، مگر تاویلاً روحانی قیامت کا ذکر ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم امام علیہ السّلام کوحکم دیا کہ تمام لوگوں کے باطن میں روحانی قیامت کی دعوت دے کر اپنے عالمِ شخصی میں جمع کر لے۔ وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ کی حکمتِ بالغہ یہی ہے۔

 

سورۂ نمل (۲۷: ۱۷) میں حضرتِ سلیمان کی روحانی قیامت کاذکر ہے، یہ اُس کے “جنّ، انس، اور طیر” کے لشکرِ روحانی تھے، اور طیر سے فرشتے مراد ہو سکتے ہیں۔

 

روحانی قیامت نہ صرف قیامت ہی ہے، بلکہ یہ روحانی جنگ بھی ہے، یہ تسخیرِ عالمِ شخصی اور تسخیرِ کائنات بھی ہے، یہ کتابِ سماوی کی تاویل بھی ہے، اس میں علم و حکمت اور معرفت کے تمام درجات بھی ہیں، اس میں عیال اللہ = عالمِ انسانیت کی ابدی نجات بھی ہے اور فنا فی الامام کا عظیم مرتبہ بھی ہے ، اور ان عظیم مقاصد کے تحت بہت سے ذیلی مقاصد ہیں۔

 

۷۷

 

الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

اتوار، ۲۳ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۷۸

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط: ۴۰

 

سوال: قرآنِ حکیم میں سب سے وسیع، سب پر محیط، اور سب سے جامع مضمون کون سا ہے؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے قرآنِ حکیم کے تمام مضامین کو جس معجزۂ لاہوتی میں گھیر کر اور عددِ واحد میں گن کر کتابِ مکنون بنا کر رکھا ہے، وہی مبارک و مقدّس مضمون قرآنِ حکیم میں اعظم المضامین ہے، یعنی امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کیونکہ امامِ مبین ہی لوحِ محفوظ ہے، اور وہی حضرت ام الکتاب ہے، اور وہی جناب کتابِ ناطق ، یعنی قرآنِ ناطق ہے۔ خدا کی قسم اسرارِ قرآن سب کے سب کتابِ مکنون میں ہیں، اور کتابِ مکنون کو صرف وہی لوگ ہاتھ میں لے سکتے ہیں، جن کو پاک کیا گیا ہے (۵۶: ۷۵ تا ۷۹) سبحان اللہ! عارفان و عاشقان کے لئے یہ انتہائی عظیم معجزہ عالمِ شخصی کی بہشت = حظیرۂ قدس میں رکھا ہوا ہے۔

فرشتے جسمانی بھی ہوتے ہیں (القرآن) اور روحانی بھی، لہٰذا میں اپنے تمام عزیزوں کو نورِ معرفت کی روشنی میں ارضی فرشتے مانتا ہوں، مجھے یقین ہے کہ مولا ان سب کی مناجات ، گریہ و زاری اور پرخلوص و پرسوز دعا کو میرے لئے علمی معجزات بنا دیتا ہے اور یہ ایک قرآنی حقیقت ہے

 

۷۹

 

(۳۵: ۱۰) ان شاء اللہ آپ سب کل بہشت میں یہ معجزہ دیکھیں گے کہ دنیا میں میرے فرشتے کون تھے؟ اور کس طرح علمی خدمت ہو رہی تھی؟ بحوالۂ قرآن (۴۱: ۳۰ تا ۳۲) جن لوگوں کو امامِ زمان اسمِ اعظم عطا کرتا ہے اگر انہوں نے اس پر کما حقہ ذکر کیا تو ان کی روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے اور ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اب آیت کے باقی ترجمے کو پڑھیں مگر یہ بات یاد رہے کہ فرشتوں کے نزول کا یہ مطلب ہے کہ جو ارضی فرشتے ہیں، وہی آسمانی فرشتوں کا کام کرتے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

پیر، ۲۴ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۸۰

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۴۱

 

الفجر (۸۹: ۲۲)کا ارشاد ہے: وَّ جَآءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا۔ ترجمہ: اور تمہارا ربّ جلوہ فرما = ظہور فرما ہو گا اس حال میں کہ فرشتے صف در صف کھڑے ہوں گے۔ تاویل: یہ عالمِ شخصی کی روحانی قیامت میں ظہورِ قائم علیہ السّلام کا ذکر ہے، جبکہ اللہ آنے جانے سے پاک و برتر ہے۔

 

سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۱۰) کے ارشاد کی تاویل میں عالمِ دین = عالمِ شخصی میں حضرتِ قائم علیہ السّلام کے پوشیدہ پوشیدہ آنے کا ذکر ہے اس سماوی امتحان کا کسی کو علم نہیں ہو گا، مگر اللہ جن کو چاہے۔

 

قرآنِ حکیم میں جابجا = جگہ جگہ نورٌعلیٰ نور کی حکمتیں موجود ہیں۔

 

کتابِ مستطابِ سرائر نورٌعلیٰ نور کی بڑی مستند تاریخ بھی ہے اور عملی تفسیر بھی ہے۔ اس کے ص ۸۳ اور ص ۲۱۷ پر چالیس حدود کے ذکر کو دیکھیں جو حضرتِ آدمؑ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوّت کے آغاز تک ہوئے تھے یہ تاویل ہے سورۂ احقاف (۴۶: ۱۵) کی کہ اُدھر آدم سے شروع کر کے جب چالیس حدود مکمل ہو گئے، اور

 

۸۱

 

ادھر جب آنحضورؐ کی پاک عمر کے چالیس (۴۰) سال مکمل ہوئے تو تب آپ کو نبوّت عطا ہوئی۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

منگل ، ۲۵ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۸۲

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۴۲

 

المائدۃ (۰۵: ۱۵) کا ارشاد ہے: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌ  یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔

ترجمہ: تمہارے پاس تو خدا کی طرف سے ایک نورِ مجسم اور ایک واضح کتاب (قرآن) آ چکی ہے، جو لوگ خدا کی خوشنودی کی پیروی کرتے ہیں ان کی تو اس کے ذریعے سے سلامتی کی راہوں کی ہدایت کرتا ہے، اور غفلت و نادانی کی تاریکیوں سے نورِ علم و معرفت کی طرف لے آتا ہے اور انہیں راہِ راست پر چلاتا ہے۔

سوال: آیا اللہ تعالیٰ کا یہ احسانِ عظیم صرف زمانۂ نبوّت ہی کے لوگوں کے لئے مخصوص و محدود ہے؟

جواب: نہیں نہیں، اللہ کا ہر احسان اور ہر ہر نعمت تمام زمانوں کے لئے ہے۔

سوال: صراطِ مستقیم کا مقصد کیا ہے؟ اور سلامتی کی راہیں کیا ہیں؟

 

۸۳

 

جواب: صراطِ مستقیم کا مقصد: سیر الی اللہ و فنا فی اللہ ہے، اور سلامتی کی راہوں کا مقصد: سیر فی اللہ ہے، جو بے پایان ادوار و اکوار میں بھی ختم نہیں ہو سکتا، الا ما شاء اللہ (مگر اللہ جو کچھ چاہے)۔

ذُو الْعَرْشِ الْمَجِیْدُ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ (۸۵: ۱۵ تا ۱۶) ترجمہ: عرش کا مالک ہے بزرگ و برتر ہے۔ اور جو کچھ چاہے کرنے والا ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

بدھ، ۲۶ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۸۴

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط: ۴۳

 

سورۂ نساء (۰۴: ۱۷۴ تا ۱۷۵) اَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا  فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ اعْتَصَمُوْا بِهٖ فَسَیُدْخِلُهُمْ فِیْ رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ فَضْلٍۙ-وَّ یَهْدِیْهِمْ اِلَیْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا

ترجمہ: اے لوگو! اس میں تو شک ہی نہیں کہ تمہارے ربّ کی طرف سے (دینِ حق کی) دلیل آ چکی (یعنی محمد رسولِ خدا) اور ہم تمہارے پاس ایک نورِ تابان و درخشان نازل کر چکے ہیں، (یعنی بصورتِ علی= امامِ مبین) پس جو لوگ خدا پر کما کان حقہ ایمان لائے اور اسی سے وابستہ رہے تو خدا بھی انہیں عنقریب ہی اپنی رحمت اور فضل (کے بے خزان باغ) میں پہنچا دے گا اور انہیں اپنی حضوری کا راہ نمائی کرے گا۔

اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا۔ علی = امامِ مبین = نورِ ظاہر و باطن = نورِ مجسم۔ اِلَیْكُمْ کا اشارہ قوم کی طرف بھی ہے، افراد کی طرف بھی، اور قلوب کی طرف بھی ہے، آپ دعائے نور کی حکمتوں سے فائدہ حاصل کریں، دیکھیں نورِ منزل =امامِ زمان جو اللہ کا نور اور اسمِ اعظم ہے، آپ چراغِ نورِ امامت کے پروانوں میں شامل ہو جائیں۔ بڑی عجیب و

 

۸۵

 

غریب بات ہے کہ وہ ایک پروانہ جل کر ہمیشہ کے لئے مر جاتا ہے، مگر یہ ایک پروانہ جل کر ابدی طور پر زندہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہ فنا فی الامام ہے، جو فنا فی اللہ کی تاویل ہے اور فنا فی اللہ کے بعد بقا با للہ ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعرات ، ۲۷ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۸۶

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط: ۴۴

 

سورۂ ملک (۶۷: ۰۲) الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ۔

ترجمہ: جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے (علم و ) عمل میں سب سے اچھا کون ہے۔

 

یہاں ایک بڑا مشکل سوال ہے، وہ یہ ہے: کہ یہاں موت پہلے اور زندگی بعد میں کیوں ہے؟ انسانی زندگی ہی میں علم و عمل کا امتحان ہے، اور بس، مگر یہاں موت بھی زندگی ہی کی طرح از بس مفید لگتی ہے، اس میں کیا راز ہے؟ جواب: اِس آیۂ شریفہ میں ان لوگوں کا ذکر ہے، جو “موتوا قبل ان تموتوا” کے حکم پر عمل کر کے اسی زندگی ہی میں مر کر زندہ ہو جاتے ہیں، پس مذکورہ آیۂ مبارکہ کی حکمتِ بالغہ عارفانِ الٰہی کے احوال کے مطابق ہے کہ صرف وہی لوگ موت سے بھی اور حیات سے بھی علم و عمل کا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ نہ کہ عوام الناس

 

حضرتِ عیسیٰؑ کا قول ہے: لن یلج ملکوت السمٰوٰت من لم یولد مرتین۔

ترجمہ: جو دو بار پیدا نہ ہو جائے ، وہ آسمانوں کی بادشاہی میں

 

۸۷

 

ہرگز داخل نہیں ہو سکتا ہے۔ پہلا جنم جسمانی اور دوسرا روحانی یا روحانی جنم اور عقلی جنم۔ مولوی معنوی کہتا ہے:

چون دوم بار آدمی زادہ بزاد

پائے خود بر فرق علتہا نہاد

ترجمہ: جب آدم زاد (انسان) دوسری بار پیدا ہو جاتا ہے، تو وہ علّت اور معلول کے فلسفے سے بالاتر ہو جاتا ہے۔ حکیم پیر ناصر خسرو کا قول ہے:

گرچت یکبار زادہ اند بیابی

عالمِ دیگر اگر دوبارہ بزائی

ترجمہ: اگرچہ تیرا جنم ایک ہی بار ہوا ہے، اگر تو اسی زندگی ہی میں روحاً دوبارہ پیدا ہو جائے تو تجھ کو دنیا ہی میں عالمِ آخرت مل جائے گا۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعہ ، ۲۸ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۸۸

 

سلسلۂ نورٌ علیٰ نور

قسط: ۴۵

 

سورۂ بقرہ (۰۲: ۹۴) کا ارشاد ہے: قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔

ترجمہ: ان سے کہو کہ اگر واقعی اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لئے مخصوص ہے، تب تو تمہیں چاہیے کہ موت کی تمنا کرو، (یعنی مر جاؤ) بحکمِ موتوا قبل ان تموتوا قرآنِ حکیم کے ہر مقام پر صاحبانِ عقل کے لئے اسرار ہی اسرار ہیں۔ لہٰذا آپ یہاں خوب غور و فکر کریں۔

 

سوال بحوالۂ (۰۲: ۲۴۳) : یہ کون سے لوگ تھے جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں کو چھوڑ کے نکلے اور وہ ہزاروں کی تعداد میں بلکہ بے شمار تھے ان کو خدا نے حکم دیا مر جاؤ پھر ان کو زندہ کر دیا۔

جواب: یہ دنیا بھر کے لوگ تھے جن کو عالمِ شخصی کی باطنی قیامت کے لئے بلایا گیا تھا۔ ہاں، جب بھی کسی عالمِ شخصی میں روحانی قیامت برپا ہوتی ہے، تو اس میں تمام روحوں کا حشر ہوتا ہے، صرف عارف ہی شعوری قیامت کا احساس و ادراک کرتا ہے۔ اکثر لوگوں کے حق میں غیر

 

۸۹

 

شعوری قیامت اللہ کی زبردست رحمت ہے۔ کیونکہ عارف کی شعوری قیامت انتہائی سخت مشکل ہے، اور اس کے عظیم فائدے بھی بے حد و بے حساب ہیں ۔ لیکن سب سے بڑی چیز اللہ کی خوشنودی ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

ہفتہ ، ۲۹ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۹۰

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۴۶

 

آیۂ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى  (۰۳: ۳۳) نورٌعلیٰ نور کی روشن دلیلوں میں سے ہے۔ نوح اور ابراہیم کی نسل میں نبوّت اور کتاب (امامت) تھی (۵۷: ۲۶) ، پھر آیۂ آلِ ابراہیم (۰۴: ۵۴) کو پڑھیں، آلِ محمد کا سلسلہ خود آلِ ابراہیم ہے، قسط ۲۴ میں غور سے دیکھیں تا کہ حضرتِ مولا علیؑ کی نورانی معرفت حاصل ہو۔ جب مولا علیؑ نورانی قیامت ہے، تو سر تا سر قرآن میں قیامت ہی کا مضمون محیط ہے، جب مولا علیؑ عالم میں قدیم ہے، تو پھر یقیناً نورٌعلی نور کا سلسلۂ پاک بھی قدیم اور بے پایان ادوار و اکوار پر محیط ہے۔ یہ جو عاشقانِ امامِ زمانؑ اپنے بیت الخیال کی نورانی عبادت کے دوران نور کی تجلّیات کو دیکھتے ہیں، وہ نورٌعلی نور کے فیوض و برکات ہیں۔ علم کی سیڑھی ص ۱۴۴ پر جو مضمون ہے “رنگِ رحمان میں روح کی رنگینی” کو آخر تک پڑھ لیں۔

نورٌعلیٰ نور کے کم از کم معنی تین ہیں

معنیٔ اوّل: یہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے انوار کا سلسلۂ قدیم ہے۔

معنیٔ دوم: جتنے عاشقین و عارفین نور میں فنا ہو چکے ہیں اس

 

۹۱

 

میں ان سب کی حقیقت موجود ہے۔

معنیٔ سوم: یہ بہت سے انوار کا خزانہ ہے، تفصیل کے لئے دعائے نور میں غور کریں۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

پیر، ۳۱ مارچ ۲۰۰۳ء

 

۹۲

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۴۷

 

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۴۵) کا ارشاد ہے: وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا۔

ترجمہ: (اے رسول!) جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیتے ہیں۔ آخرت پر ایمان لانا یا ایمان نہ لانا ظاہر میں بھی تھا اور باطن میں بھی، اور رسول کا قرآن پڑھنا بھی ظاہر و باطن میں تھا، پس جن لوگوں نے علم الیقین ، عین الیقین اور حق الیقین کے نور کی روشنی میں آخرت پر ایمان لایا یعنی یقین کیا انہوں نے لا ریب نورِ نبی اور نورِ قرآنِ ناطق = امامِ مبین علیہ السّلام کی کامل اور مکمل معرفت حاصل کر لی۔ کیا اِس آیۂ مبارکہ میں اسرارِ معرفت کا ایک بڑا خزانہ پوشیدہ نہیں ہے؟ لیکن شرطِ بندگی یہ ہے کہ آپ عقل و دانش اور جذبۂ شکرگزاری سے اس کو پڑھیں۔ قرآنِ حکیم میں ہنوز کیسے کیسے علم و حکمت کے اچھوتے خزانے موجود ہیں ! جب تک امامِ زمانؑ کا نور ہماری آنکھ نہیں بنتا ہم اپنی اندھی آنکھ سے کوئی ایسا سرِ اعظم دیکھ ہی نہیں سکتے ہیں۔

 

۹۳

 

بحوالۂ کتاب: عملی تصوف ص ۵۴، معجزۂ نوافل سے معجزۂ اسمِ اعظم مراد ہے، چونکہ اللہ کی تاویل امامِ زمانؑ ہے لہٰذا اس حدیثِ قدسی کی تاویل ہے، وہ یہ ہے کہ اسمِ اعظم کا ذکر جیسا کہ پاک فرمان ہے، کیا جاتا ہے تا آنکہ موتوا قبل ان تموتوا کے عمل سے روحانی قیامت برپا ہو تو تب امامِ زمان (روحی فداہٗ) وہ معجزات کرتا ہے جن کا ذکر اس حدیثِ قدسی میں ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

منگل ، یکم اپریل ۲۰۰۳ء

 

۹۴

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۴۸

 

اے برادران و خواہرانِ روحانی ! قرآنِ حکیم میں لفظِ “اللہ” = بمعنیٔ اسمِ اَلْاِلٰہ ، تقریباً ایک ہزار مرتبہ وارد ہوا ہے۔ یہ مبارک اسم خداوندِ تعالیٰ کے اسمِ ذات کا نمائندہ ہے، اور آپ یہ حقیقت جانتے ہیں کہ اللہ کا اسمِ اعظم امامِ زمان علیہ السّلام ہے، لہٰذا قرآن کے اُن ہزار مقامات پر جہاں اسمِ اللہ وارد ہوا ہے وہاں اللہ کے اسمِ اعظم =امامِ زمانؑ کا اشارہ بھی موجود ہے۔ پس امامِ زمانؑ کے عاشقانِ صادق کے لئے یہ بات بے حد ضروری ہے کہ وہ جان و دل سے یقین کریں کہ قرآنِ حکیم میں لفظِ اللہ کی وجہ سے ہزار بار اسمِ اعظم = امامِ زمانؑ کا اشارہ آیا ہے۔ خدا اس حقیقتِ حال کا گواہ ہے کہ میں اور میرے بہت سے ساتھی قرآنِ پاک کی کل چیزیں امامِ مبین میں محدود و مجموع ہونے کے قائل ہیں بلکہ ہمارا یقین یہ ہے کہ خدا کی کوئی بھی خاص چیز امامِ مبینؑ سے باہر نہیں ہے۔

 

قرآن ہی کا قول اور مفہوم ہے کہ اللہ کے پاس یعنی مرتبۂ نورانیّت پر ایک کتابِ ناطق بھی ہے، اس سے امامِ زمانؑ کا نورِ باطن مراد ہے، جو قرآنِ ناطق ہے اس حکمت میں صاحبانِ عقل کے لئے یہ اشارہ ہے کہ قرآنِ ناطق کے ذریعے سے قرآنِ صامت کے اسرار کو سمجھ لیا جائے۔

۹۵

 

نزولِ قرآن کے دوران اللہ کا یہ فرمانا کہ میرے پاس ایک کتابِ ناطق بھی ہے، میں صرف اپنے ساتھیوں ہی سے یہ سوال کر رہا ہوں کہ آیا یہ کتابِ ناطق امامِ زمانؑ کا پاک نور نہیں ہے؟

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اسلام آباد

ہفتہ، ۵ اپریل ۲۰۰۳ء

 

۹۶

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۴۹

 

کتابِ وجہِ دین میں ایک پُرحکمت حدیثِ شریف کے حوالے سے یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک دین کو اپنی خلق کی مثال پر پیدا کیا ہے۔ اگرچہ لفظِ خلق پر کئی اشارے ہیں لیکن ہم آپ کی آسانی کی خاطر مختصر بات کریں گے کہ نظامِ دین = نظامِ قرآن، بالکل نظامِ شمسی ہی کی طرح ہے، چنانچہ نظامِ کائنات = نظامِ شمسی کا مرکز آفتابِ عالمتاب ہے اور نظامِ قرآن = نظامِ دین کا مرکز نور (امامِ مبین) ہے، نظامِ شمسی = کائنات کے لئے جو جو چیزیں ضروری ہیں ان کے سب خزانے سورج میں ہیں۔ اللہ کی کتاب (قرآن) اور اس کے دین کے کل اسرار کا خزانہ اللہ کے نور (امامِ مبین) میں ہے پس اگر آپ اسرارِ قرآن کے شیدائی ہیں تو خدا کی قسم ! وہ اسرارِ عظیم امامِ زمانؑ کی نورانی معرفت ہی میں ہیں۔ جب حکیم پیر ناصر خسرو قس کے عالمِ شخصی میں امام زمانؑ کا نور طلوع ہوا تھا، تو اس میں سب کے سب قرآنی تاویل کے نورانی معجزات تھے۔ حضرتِ پیر قس خود اپنے دیوان میں فرماتے ہیں:

بر جانِ من چو نورِ امامِ زمان بتافت۔۔۔۔۔

 

امامِ زمان (روحی فداہٗ) کا پاک نور سب سے پہلے عالمِ خیال ہی میں طلوع ہو جاتا ہے، اگرچہ یہ بڑی عجیب و غریب رنگین تجلّیات کا عالم

 

۹۷

 

ہے، تاہم یہ بہت ابتدائی آزمائشی مرحلہ ہے، کیونکہ اعلیٰ روحانی ترقی کا آغاز اسرافیل اور عزرائیل ہی کی منزل سے ہوتا ہے۔ اور روحانی قیامت کا طوفان حظیرۂ قدس تک جا کر تھم جاتا ہے اور حظیرۂ قدس کے بہت سے ناموں میں سے ایک نام عالمِ وحدت ہے۔ ان شاءاللہ ہم اس پر چند کلمات لکھیں گے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اسلام آباد

ہفتہ، ۵ اپریل ۲۰۰۳ء

 

۹۸

 

سلسلۂ نورٔعلیٰ نور

قسط: ۵۰

 

اگرچہ بظاہر کائنات عالمِ اکبر اور انسان عالمِ اصغر ہے، لیکن حضرتِ مولانا علی علیہ السّلام نے انسان کو آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ عالمِ اکبر تجھ میں سمٹا ہوا ہے۔ اس صورت میں انسان کا سر آسمان ہے اور گردن سے پاؤں تک زمین ہے۔ سر جو آسمان ہے، اس میں یقیناً عرش و کرسی بھی ہیں، قلم و لوح بھی، بہشت بھی، مقامِ معراج بھی، مقامِ محمود بھی، حظیرۂ قدس بھی، عالمِ وحدت بھی، علّیّین بھی، وغیرہ۔

 

زمانۂ ڈائمنڈ جوبلی ، شہر بمبئی، مقام حسن آباد (زیارت) کا ایک ایمان افروز اور روح پرور دیدار یاد ہے جبکہ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ اپنے مریدوں کے ایک گروپ کو اسمِ اعظم کا کنزِ کل عطا کر رہے تھے، متعلقہ ہدایات کے سلسلے میں دستِ پاک سے اپنی جبینِ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہاں بہشت ہے۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ امامِ مبین کی پاک پیشانی میں نورانی بہشت = حظیرۂ قدس ہے، اور جو مولا کا عاشق اسمِ اعظم کے ذریعے سے امامِ زمان میں فنا ہو جائے گا، اس کی پیشانی میں بھی امام اپنا یہ معجزہ دکھائے گا۔

 

حظیرۂ قدس کئی معنوں میں عالمِ وحدت ہے۔ علی الخصوص

 

۹۹

 

وہاں سب سے بڑا زبردست معجزہ ظہورِ ازل ہے، جس کی وجہ سے ہر چیز کا ازلی تجدّد ہوتا ہے، یعنی ہر روحانی قیامت کے انجام پر حظیرۂ قدس میں ظہورِ ازل کی وجہ سے تمام انسانی روحوں کی یک حقیقت ہو جاتی ہے۔  القرآن (۷۶: ۰۱)

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اسلام آباد

اتوار، ۶ اپریل ۲۰۰۳ء

 

۱۰۰

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۵۱

 

البقرۃ (۰۲: ۲۱۳) آیۂ شریفہ کا عنوان ہے: كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً۔۔۔ سلسلۂ انبیاء علیہم السّلام کے آغاز سے پہلے شخصِ وحدت= امامِ زمانؑ کے عالمِ شخصی میں تمام لوگ روحاً ایک ہی امت (جماعت) تھے۔ کیونکہ ہر روحانی قیامت کے انجام پر سب لوگ عالمِ وحدت (حظیرۂ قدس) میں روحاً ایک ہی امت (جماعت) ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ قدیم میں سے ایک صفت القابض ہے اور ایک صفت الباسط ہے، یعنی وہ قادرِ مطلق اپنی قدرتِ کاملہ سے تمام روحوں کو نفسِ واحدہ (امامِ زمان) میں جمع بھی کرتا ہے، اور اس کی اولاد کے طور پر پھیلاتا بھی ہے، اللہ کے نزدیک تم سب کو جسماً و روحاً پیدا کرنا نفسِ واحدہ ہی کی طرح ہے (۳۱: ۲۸)۔ حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام مسجودِ ملائک کے ساتھ بنی آدم کا نہ صرف پدری رشتہ تھا بلکہ تمام بنی آدم خلیفۃ اللہ کے اجزائے روح بھی تھے اور سجدہ کرنے والے فرشتے بھی۔ القرآن (۰۷: ۱۱)۔

ترجمۂ ارشاد(۲۱: ۳۲) اور ہم نے آسمان (حظیرۂ قدس) کو ایک محفوظ چھت بنا دیا ہے۔ یعنی روح وہاں ہمیشہ زندہ اور محفوظ و

 

۱۰۱

 

سلامت ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعرات، ۱۰ اپریل ۲۰۰۳ء

 

۱۰۲

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۵۲

 

سورۂ صٓ (۳۸: ۲۶) حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ۔ (ہم نے اُس سے کہا) اے داؤد، ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکم کیا کر، اللہ تعالیٰ نے حضرتِ داؤد علیہ السّلام کو ایک ساتھ کئی عظیم درجات سے سرفراز فرمایا تھا جیسے خلیفۃ اللہ، نبی، امامِ مستودع، دینی بادشاہ، آپ ہی کی مناجاتوں میں اللہ نے زبور نازل فرمائی، دنیا کے تمام پہاڑوں اور سارے پرندوں کو حکم دیا کہ عالمِ ذرّ اور صورِ اسرافیل کے توسط سے داؤدؑ کے ساتھ ہمنوا ہو جائیں۔ کیونکہ یہ روحانی قیامت = تاویل ہے۔ جس کی روشنی میں یہ اسرار معلوم ہوئے ہیں کہ (۱۷: ۴۴) کو خوب غور سے پڑھیں، ہر چیز زبانِ حال سے بھی اور زبانِ قال سے بھی اللہ کی حمد کے ساتھ تسبیح کر رہی ہے، اور  یہ بہت بڑا راز اس طرح ہے کہ ہر چیز عالمِ ذرّ میں ہے، اور وقت آنے پر عالمِ ذرّ صورِ اسرافیل کی ہمنوائی میں اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے صورِ اسرافیل کو حضرتِ داؤدّ کا معجزہ قرار دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرتِ داؤدؑ زبور کی تلاوت موسیقی کے ساتھ کرتے تھے

 

۱۰۳

 

اگر موسیقی خالی از حکمت اور حرام ہوتی تو حضرتِ داؤدؑ ، خلیفۃ اللہ ، نبی، اور امام اس کو استعمال ہی نہ کرتے اور اللہ ہی کی خوشنودی کے سوا کوئی چیز ہرگز ہرگز نہ ہوتی۔ قرآنی حوالہ جات (۰۴: ۱۶۳)، (۱۷: ۵۵)، (۳۴: ۱۰)، (۳۸: ۲۶)، (۲۱: ۷۹)۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعہ، ۱۱اپریل ۲۰۰۳ء

 

۱۰۴

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۵۳

 

الانبیاء (۲۱: ۱۰۵) میں ارشاد ہے: وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ۔

 

تاویلی مفہوم: اور عالمِ شخصی کی زبور (کتاب) میں ہم اسمِ اعظم کے ذکر کی تکمیل کے بعد لکھ چکے ہیں کہ ارضِ کلی کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ ارضِ کلی = عالمِ شخصی، سیّارۂ زمین، ارضِ کائنات، ارضِ بہشت۔

 

زبور کتاب کو کہتے ہیں، اور یہاں عالمِ شخصی کی عملی کتاب مراد ہے۔ حضرتِ داؤد علیہ السّلام اپنے عالمِ شخصی میں زبورِ مجسّم تھے۔ القرآن (۲۱: ۸۰) میں فرمانِ الٰہی ہے۔

وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ۔

ترجمہ: اور ہم نے اُس (یعنی داؤد) کو تمہارے فائدے کے لئے زرّہ بنانے کی صنعت سکھا دی تھی، تا کہ تم کو ایک دوسرے کی مار سے بچائے پھر کیا تم شکرگزار ہو؟ اس مبارک ارشاد کی تاویل کئی اعتبار

 

۱۰۵

 

سے بے حد ضروری ہے، اور وہ تاویل یہ ہے کہ امامِ مبین صلوات اللہ علیہ میں تمام انبیاء علیہم السّلام کے سب معجزات جمع ہیں، چنانچہ امامِ زمانؑ اپنے حدودِ جسمانی میں سے کسی پر روحانی قیامت برپا کرتا ہے اور اس کی منزلِ عزرائیلی میں بہت سے اجسامِ لطیف بناتا ہے، یہ اجسامِ لطیف لبوس ہیں یہ مومن جنّات بھی ہیں اور فرشتے بھی اور سرابیل (۱۶: ۸۱)، اجسامِ نورانی بھی۔ ایک روایت کے مطابق ہر روحانی قیامت میں ستر ہزار نورانی ابدان ہوتے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

اتوار ، ۱۳ اپریل ۲۰۰۳ء

 

۱۰۶

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۵۴

 

قسط ۳۸ میں حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ سے لے کرحضرتِ ابو طالب علیہ السّلام تک پاک امامانِ مستقر صلوات اللہ علیہم کے اسمائے مبارک ہیں جو تقریباً ۴۹ پاک نام ہیں۔ یہ پُرنور اسماء اور أئمّۂ آلِ محمدؐ کے بابرکت اسماء جو آپ اپنی پاک دعا میں پڑھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے وہ اسماءِ حسنیٰ ہیں جن کی عظمتِ شان اور تعریف و توصیف قرآنِ حکیم (۰۷: ۱۸۰) میں موجود ہے، خدائے بزرگ و برتر نے اہلِ ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ انہی اسماءِ حسنیٰ سے اس کو پکارا کریں۔ جیسا کہ مولاعلی علیہ السّلام کا فرمان ہے: انا الاسماءُ الحسنیٰ التی امر اللہ ان یدعیٰ بھا = یعنی میں خدا کی وہ اسماءِ حسنیٰ ہوں جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ انہی ناموں سے اُس کو پکارا جائے۔ منقبت ۲۹۔ بابِ سوم، کوکبِ دری۔ وہ آیۂ شریفہ یہ ہے: وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۪۔۔۔ (۰۷: ۱۸۰)۔

 

یہاں پر بڑی زبردست انقلابی حکمت ہے جس کو خوب دلنشین انداز میں سمجھ لینا بے حد ضروری ہے جو خوش نصیب لوگ امامِ زمانؑ کو اسمِ اعظم اور اسماءِ حسنیٰ قرار دے کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں وہ بڑے کامیاب اور سعادت مند ہیں اللہ کالاکھ لاکھ شکر ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

پیر ، ۱۴ اپریل ۲۰۰۳ء

 

۱۰۷

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۵۵

 

گرچہ قرآن از لبِ پیغمبر است

ہر کہ گوید حق نہ گفت آن کافر است

ترجمہ: اگرچہ قرآن حضرتِ پیغمبر کی زبانِ مبارک سے (لکھا گیا) ہے اس کی وجہ سے اگر کوئی کہے کہ یہ خدا کا کلام نہیں ہے، توایسا شخص کافر ہے۔

بحوالۂ المیزان فی تفسیر القرآن جلد ۱۹ ص ۳۷۶۔۔۔ حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام سے روایت ہے: آپ نے فرمایا: و اما نٓ (۶۸: ۰۱) فھو نھر فی الجنۃ قال اللہ عز و جلّ اجمد فجمد فصار مداد ثم قال للقلم اکتب فسطر القلم فی اللوح المحفوظ ما کان وما ھو کائن الیٰ یوم القیامۃفالمداد مداد من نور والقلم قلم من نور واللوح لوح من نور۔۔۔فنون ملک یودی الیٰ القلم و ھو ملک، والقلم یودی الیٰ اللوح وھو ملک واللوح یودی الیٰ اسرافیل، واسرافیل یودی الیٰ میکائیل، و میکائیل یودی الیٰ جبرائیل و جبرائیل یودی الی الانبیاء و الرسل۔

ترجمہ: امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا: پس نون بہشت

 

۱۰۸

 

میں ایک نہر ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا منجمد ہوجا اس نے حکم کی تعمیل کی، پس وہ مداد = روشنائی بن گئی، پھر اللہ نے قلم سے فرمایا: لکھ، تو قلم نے لوحِ محفوظ میں لکھا جو کچھ ہوا تھا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا، پس مداد =روشنائی سے ایک نور مراد ہے، قلم ایک نور ہے، اور لوح ایک نور ہے، پس نون ایک فرشتہ ہے جو اللہ کی وحی فرشتۂ قلم کو ادا کرتا ہے، یہ فرشتہ ادا کرتا ہے فرشتۂ لوح کو، وہ ادا کرتا ہے اسرافیل کو، اسرافیل ادا کرتا ہے میکائیل کو، میکائیل ادا کرتا ہے جبرائیل کو اور جبرائیل وحی ادا کرتا ہے انبیاء و رسل علیہم السّلام کو۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

منگل ، ۱۵ اپریل ۲۰۰۳ء

 

۱۰۹

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۵۶

 

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۰۱) سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔

ترجمہ: پاک ہے وہ (خدا) جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تا کہ اُسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔

 

تاویلی حکمت: رات خود رات بھی ہے، اور تاویلاً باطن بھی ہے، لہٰذا یہ آنحضرتؐ کی معراج ہے جو روحانی اور باطنی طور پر ہوئی تھی، یعنی آپ جسماً نہیں، بلکہ روحاً حظیرۂ قدس کے عرش پر گئے تھے۔ مسجد، عبادت، اور عبادت گاہ کا نام ہے، اور اس کی تاویل اسمِ اعظم = امامِ زمانؑ ہے، کیونکہ خاصانِ الٰہی کی مسجد اور عبادت یہی ہے، چنانچہ حضورِ اکرم کو شبِ معراج ابتدائی اسمِ اعظم سے آخری اسمِ اعظم تک عروج ہوا تھا۔ اور آسمانِ نفسِ کلّی = عالمِ وحدت کے عظیم معجزات کا مشاہدہ اور

 

۱۱۰

 

عرفان ہوا تھا۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی معراج کے عظیم معجزات کی تاویل جملہ قرآن میں محیط و بسیط ہے۔

 

سورۂ نجم (۵۳: ۰۱ تا ۱۸) میں معراجِ شریف کے عظیم معجزات اور عظیم اسرار ہیں۔ آپ بہت دعا کریں کہ ہم سب کو حظیرۂ قدس کے عظیم اسرار کی معرفت نصیب ہو! آمین ، ثم آمین ! تا کہ ہم کو اسرارِ معراج کی معرفت حاصل ہو!

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس ۔ آئی)

کراچی

بدھ، ۱۶ اپریل ۲۰۰۳ء

 

۱۱۱

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۵۷

 

سورۂ نجم (۵۳: ۰۱ تا ۰۲) کا تاویلی مفہوم: ظہورِ نورِ ازل کی قسم جبکہ وہ مقامِ معراج پر انتہائی عظیم اسرار و رموز کے پُرحکمت اشارات کے ساتھ طلوع و غروب کا مسلسل مظاہرہ کرتا ہے، چونکہ یہ عالمِ وحدت ہے، لہٰذا گوہرِعقل بھی اور کتابِ مکنون بھی (جس میں قرآن کے تمام اسرار جمع ہیں) اسی نورِ ازل میں ہیں۔ اس عظیم قَسم کے بعد جوابِ قَسم میں ارشاد ہے کہ تمہارا رفیق (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے اس میں حضورِ اکرمؐ کی منزلِ معراج تک کامیاب راہنمائی کی تعریف کے ساتھ ساتھ یہ اشارہ بھی ہے کہ تم سب اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ معراج پر گئے تھے، مگر غیر شعوری طور پر تاکہ آئندہ سعیٔ بلیغ کرنے والوں کے لئے معراج کی معرفت غیر ممکن نہ ہو۔

 

سورۂ واقعہ (۵۶: ۷۹) میں ایک روشن دلیل یہ ہے کہ کتابِ مکنون کو صرف مطھرون ہی (وہ لوگ جو پاک کئے گئے ہیں) چھو سکتے ہیں یعنی ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ یہ سعادت مقامِ معراج پر ہی مطھرون کو نصیب ہوتی ہے۔

 

ایک ایسی روشن دلیل سورۂ حدید (۵۷: ۱۲) میں بھی ہے کہ مومنین و

 

۱۱۲

 

مومنات کا نور مقامِ معراج پر ہی طلوع و غروب کا مظاہرہ کرتا ہے، مگر صرف ان کا نمائندہ ہی اس نور کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعرات، ۱۷ اپریل ۲۰۰۳ء

 

۱۱۳

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۵۸

 

کتابِ مستطابِ سرائر ص ۱۱۷ پر حضرتِ مؤوّلِ قرآن مولا علیؑ کا فرمان ہے: انا دین اللہ حقا ، یعنی میں یقیناً اور تاویلاً اللہ کا دین ہوں۔

اے عاشقان! اے عاشقان! سنو، سنو اس حکمتِ بالغہ کو جان و دل سے سنو! اور ہمیشہ اس خزانۂ معرفت سے فائدہ حاصل کرتے رہو! اور قرآنِ حکیم میں چشمِ بصیرت سے دیکھو، کیا سر تا سر قرآن میں اللہ کے دین کی دعوت کے سوا اور کوئی بات ہے؟ علاوہ بران جگہ جگہ نمایان طور پر بھی اللہ کے دین کا ذکر ملے گا دینِ حق، دینِ اسلام دینِ حنیف ، صراطِ مستقیم، منہاج، دینِ خالص ، دینِ قیم (دینِ قائم)، ملتِ ابراہیم، وغیرہ۔

سب سے پہلے آپ سورۂ نصر (۱۱۰: ۰۲) میں دیکھیں اس میں دینِ اللہ خود رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں۔ پھر علی علیہ السّلام اور امامِ زمان (روحی فداہٗ) اللہ کا دین یعنی دینِ حق ہے اس میں کسی انسان کی مرضی کا ہرگز کوئی دخل نہیں یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی ہے کہ اُسی بادشاہِ مطلق نے اپنی مرضی اور حکمت سے کل اشیاء کو امامِ مبین میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲) پس مولا کا ارشاد ہے انا دین اللہ حقا، انا نفس اللہ حقا کو ہر عاشق حفظ کرے، بہت ضروری ہے،

 

۱۱۴

 

اس سے علمی برکت ہو گی۔ نفسُ اللہ کے قرآنی حوالے: (۰۳: ۲۸)، (۰۳: ۳۰)، (۰۶: ۱۲)، (۰۶: ۵۴)۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعہ، ۱۸ اپریل ۲۰۰۳ء

 

۱۱۵

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۵۹

 

جامعِ ترمذی ، جلدِ دوم باب: ۱۵۲۱ سورۂ یاسین کی فضیلت۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ : ان لکل شیءٍ قلبا و قلب القرآن یس و من قرا یس کتب اللہ لہ بقراتھا قراۃ القرآن عشر مرات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۂ یس ہے ۔ جو اسے ایک مرتبہ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس مرتبہ قرآن پڑھنے کا اجر لکھ دیتا ہے۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: ہر چیز کا ایک سنام (بلند حصہ) کوہان ہوتا ہے، اور قرآن کا سنام سورۂ بقرہ ہے اور اس میں ایک آیت ایسی بھی ہے جو قرآن کی تمام آیتوں کی سردار ہے اور وہ آیت الکرسی ہے۔ اس سے یہ سوال بھی حل ہو گیا کہ سورۂ یس قلبِ قرآن اس لئے ہے کہ اس میں آیۂ امامِ مبین ہے (۳۶: ۱۲) جس کی تعریف و توصیف اللہ نے خود فرمائی ہے۔ آیۂ امامِ مبین کی نورانی معرفت حظیرۂ قدس میں ہے۔

 

۱۱۶

 

کتاب الاتقان میں ہے کہ قرآن میں تین چیزیں سب سے بڑی ہیں، سورتوں میں سب سے بڑی سورۂ فاتحہ ہے، تمام آیات میں آیت الکرسی، تمام اسماءُ اللہ میں اسمِ اعظم۔ اب سن لیں کہ سورۃ الفاتحہ کا نام ام الکتاب ہے، ام الکتاب باطن میں علیؑ ہے (بحوالۂ کتابِ وجہِ دین ص ۱۹۷) ۔ آیت الکرسی کی تاویل میں یہ ذکر ہے کہ امامِ زمان اللہ کا اسمِ اعظم ہے ۔ اور خدا کے تمام صامت اسماء میں وہ اسم سب سے اعظم ہے جو حیّ= زندہ اور بولنے والا ہے یعنی امامِ زمانؑ، پس امامِ مبین میں اللہ نے تمام خوبیاں جمع کر رکھی ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

پیر، ۲۱ اپریل ۲۰۰۳ء

 

۱۱۷

 

سلسلۂ نورٌعلیٰ نور

قسط: ۶۰

 

اِس آیۂ بے مثال کے باطن میں اللہ تعالیٰ کے نورانی معجزات کی کائناتِ اعظم ہے جو اللہ نے امامِ مبین کوعطا کی ہے، اسی وجہ سے یہ قلبِ قرآن میں ہے، وہ ارشاد جو سرچشمۂ حکمتِ کلّ ہے، یہ ہے: اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْۣؕ-وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲)۔

ترجمہ: ہم یقیناً ہر قسم کے مردوں کو زندہ کرتے ہیں، علی الخصوص ان مردوں کو جو بحکمِ موتوا قبل ان تموتوا مرتے ہیں، اور یہی وہ نیک بخت لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نورانی معجزات کی کائناتِ اعظم کا مشاہدہ کرتے ہیں اور بفضلِ خدا اس کے نتیجے میں ان کو کنزِ معرفت عطا ہوتا ہے۔ نورانی معجزات کی کائناتِ اعظم کے چند نام یہ ہیں: عالمِ علوی، عالمِ بالا، عالمِ امر، عرفانی بہشت، عالمِ وحدت، علّیّین ، کتابِ مرقوم ، آسمانِ نفسِ کلّی، مقامِ معراج، مقامِ محمود، بیت المعمور، عرش، عالمِ شخصی کا آسمان، حظیرۂ قدس، کائناتی بہشت، وغیرہ۔

مولا علیؑ کا پرنور ارشاد ہے: کیا تیرا یہ گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا ساجسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر سمٹا ہوا ہے؟

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

منگل، ۲۲ اپریل ۲۰۰۳ء

 

۱۱۸

سو سوال

سو سوال

تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْءٍ (۱۶: ۸۹)

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی مَنِّہٖ وَ اِحْسَانِہٖ خداوندِ ربّ العزّت کی بے پایان رحمتوں اور کرامتوں سے کتاب “سو سوال” ؁۱۹۷۸ء  کی اشاعتِ اوّل سے اِس وقت تک مقبول سے مقبول تر ہوتی آئی ہے اور اس میں قرآنی تاویلات اور حکمتوں کی روشنی میں مشکل سوالات کے جو جوابات دیئے گئے ہیں ان سے مومنین و مومنات کے علمی عقدے حل ہو گئے ہیں۔

سوال و جواب کی صورت میں تعلیم قرآنِ کریم کا ایک اساسی قانون رہا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے

فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔  یعنی پوچھو اہلِ ذکر (یعنی أئمۂ طاہرین) سے جو کچھ تم نہیں جانتے (۱۶: ۴۳) اور اسی قانون کے مطابق صاحبِ سلونی مولانا علی علیہ السّلام فرماتے تھے، “سلونی قبل ان تفقدونی” یعنی پوچھو تم مجھ سے قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو گے۔

سوال ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم کے “تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْءٍ” کی حیثیت میں نازل ہونے کے باؤجود أئمّۂ طاہرین سے پوچھنے کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟ اِس کا جواب خود قرآنِ کریم کی کئی آیات میں حکیمانہ طور پر دیا گیا ہے۔ منجملہ قرآن میں آیات
ج

(۰۲: ۱۲۹؛ ۰۲: ۱۵۱؛ ۰۳: ۱۶۴؛ ۶۲: ۰۲) پیغمبر کو قرآن اور اس کی حکمت کا معلم قرار دیا گیا ہے اور آیت (۱۶: ۴۴) میں خداوندِ ربّ العزّت فرماتے ہیں کہ آنحضرتؐ قرآن کے مُبَیِّن یعنی بیان کرنے والے ہیں۔ یہی مضمون آیت (۰۵: ۱۵) سے بھی ظاہر ہے کہ خدا نے لوگوں کی ہدایت کے لئے صرف کتاب نہیں بلکہ اس کا سماوی معلم ومُبَیِّن بھی بصورتِ نور بھیجا ہے۔

آیۂ قَدْ جَاءَ کُمْ (۰۵: ۱۵) کو پڑھ لیا کر جانِ من!
نورِ حق کی روشنی میں سب کو رہبر ہے کتاب

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اسی قانون کے مطابق اپنے بعد دو بھاری چیزیں یعنی کتابِ خدا اور عترت چھوڑیں اور ان کو مضبوطی سے پکڑنے کے لئے تاکید فرمائی اور فرمایا کہ یہ دونوں گرانقدر چیزیں حوضِ کوثر تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اسماعیلی مذہب میں علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے یہ دو عظیم ترین سماوی وسائل حاضر و موجود ہیں۔ اس لئے یہاں پر کوئی ایسا سوال پیدا ہو ہی نہیں سکتا جس کا جوابِ با صواب نہایت آسانی کے ساتھ میسر نہ ہو۔ “سو سوال” کی اس کتاب میں بظاہر سو اور درحقیقت ہزاروں سوالوں کے باصواب جوابات ان سماوی وسائل سے حاصل کردہ علم و حکمت کی روشنی میں موجود ہیں اور ہمیں یقینِ کامل ہے کہ اس کتاب سے مؤمنین و مؤمنات کے لئے جو بھی مسائل پیدا ہوں گے، ان کے جوابات نہایت آسانی کے ساتھ حل ہوں گے۔ اِنْ شَاءَ اللّٰہ۔

انتساب: ۱

کتاب سو سوال کا یہ حصہ ادارۂ عارف کے صدر اور انچارج انٹرنیشنل

د

کیسٹ سیکشن اور ILG محمد عبدالعزیز، اور ان کی زوجہ محترمہ یاسمین محمد، ریکارڈ آفیسر اٹلانٹا ہیڈکوارٹر، انچارج ہائی ایجوکیٹر اور ILG کے قابلِ قدر والدین کے نام ہے۔

جناب محمد عبد العزیز کی والدۂ محترمہ کا نام شیرین خانم بنتِ شکور تھا، شیرین صاحبہ ایک دیندار اور خدمت کی دلدادہ خاتون تھیں، انہوں نے تقریباً ۳۰ سال تک لیڈیز والنٹیئر تنظیم میں خدمات انجام دیں اور کئی میڈلز بھی حاصل کئے جبکہ آپ کے والد محترم حضور موکھی عبدالعزیز ابنِ قاسم بڑے مذہبی اور خدا پرست انسان تھے، انہوں نے والٹیئر کی حیثیت سے نیز کسی مجلس کے موکھی کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دینے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔

محترمہ یاسمین صاحبہ کی والدۂ محترمہ شیرین حبیب املانی کو مذہبی امور اور جماعت کی خدمت سے بہت ہی دلچسپی تھی، ان کو کھارادر جماعت خانے میں ۱۵ سال تک والنٹیئر کیپٹن رہنے کے علاوہ تین سال تک بیت الخیال کی موکھیانی کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دینے کا شرف حاصل ہے، جبکہ آپ کے والد محترم جناب حبیب املانی ایک سادہ لوح اور با اخلاق مؤمن تھے، ان کو بچپن ہی سے مذہب سے لگاؤ تھا، دعا و گنان پڑھنے سے بھی بہت دلچسپی تھی۔

انتساب: ۲

محترمہ شاہ بی بی جنّت علی حسینی (برانچ) آئی ایل جی، دانشگاہِ خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف سے گذشتہ ۲۴ سالوں سے وابستہ ہیں، آپ کی طبیعت میں دستِ قدرت نے سنجیدگی، عالی ظرفی، اخلاص، یقین اور محبت کے جو عناصر گوندھے ہیں، ان کی ایک واضح جھلک آپ کے اخلاق و اعمال میں نظر آتی

 

ھ

ہے، آپ کی پرخلوص و فداکارانہ خدمات ادارے کی تاریخ میں تابان و درخشان رہیں گی۔

یہ دسترخوانِ علمی آپ کے خاندان کے مرحومین (محترمہ زینب گل محمد، محترمہ نور بانو حسن علی، زینب حسن علی اور نفیسہ حسن علی) کے حق میں تشنگانِ علم کے لئے آپ کے تعاون سے بچھایا گیا ہے۔

و

سو سوال
حصّہ اول

 

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ابتدائیہ

میرے پروردگار! تیرے بزرگ نام اور تیرے پاک ذکر کے روشن معجزات اور عظیم احسانات سے قربان ہو جاؤں، اے خداوندِ برحق! اے احکم الحاکمین! تیری قدرت و رحمت کے ظہورات کس قدر عجائبات و غرائبات سے بھرپور ہیں، تیری مدد اور دستگیری کمزوروں اور بے سہاروں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے، اور تیری توفیق و یاری ناتوانوں میں کس طرح کام کردیتی ہے۔

الحمدُ لِلّٰہ کہ خانۂ حکمت کے معزز ارکان اپنے مقدس ادارے کی خدمات اور ترقی سے جو ؁۱۹۷۷ء  اور ؁۱۹۷۸ء  کے چند مہینوں میں نصیب ہوئی ہے، بہت ہی خوش و خرسند اور مطمئن ہیں، وہ اپنے خداوندِ قدّوس کی بے پناہ رحمتوں اور مہربانیوں کے نتیجے میں قلبی طور پر شکرگزار ہونا چاہتے ہیں، کہ اس قلیل عرصے میں جتنی علمی خدمت انجام دی گئی ہے، وہ کافی مؤثر، بہت ہی مفید، بڑی نتیجہ خیز، نہایت دور رس اور انتہائی ہمہ گیر خدمت ہے۔

چنانچہ “سو سوال” کی کتاب جو چار حصوں پر مشتمل ہے اسی خدمت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس میں سو سوالات سے بحث کی گئی ہے اور ان کے مدلل جوابات دیئے گئے ہیں، اور اس کتاب کی تصنیف کا سبب یوں ہے کہ گزشتہ سال (؁۱۹۷۷ء  میں) ہز ہائی نس دی آغا خان شیعہ امامی اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے کینیڈا کی “ایسٹرن کینیڈا ریجنل کمیٹی” نے مجھے وہاں کی نیکنام جماعت میں دورہ

۵

کے لئے مدعو کیا تھا، یہ دعوت نامہ جانِ عزیز جناب ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی کے توسط سے بھی اور آنریری سیکریٹری جناب ڈاکٹر شیراز اسماعیل صاحب کے ذریعے سے بھی موصول ہوا تھا، چنانچہ میں اس مبارک دعوت کے بموجب مورخہ ۷ دسمبر ؁۱۹۷۷ء  کو کینیڈا کے عظیم ملک میں پہنچ گیا، اور وہاں خداوندِ برحق کے فضل و کرم سے اس بندۂ محتاج کو مذہبی، علمی اور روحانی خدمات کے لئے جو بہترین موقع ملا، وہ ہمیشہ ہمیشہ شکرگزاری اور قدردانی کے ساتھ یاد رہے گا۔

اس علمی خدمت کے دورہ کے دوران لیکچروں، سیمناروں اور چھوٹے بڑے مباحثوں میں جو جو سوالات کئے گئے وہ سب ملا کر ایک ہزار کے قریب تھے، جن کے جوابات بروقت دیئے گئے، مگر اس کے علاوہ میں یہ بھی چاہتا تھا کہ ان میں سے چیدہ چیدہ سوالات کے جوابات کو کتابی شکل میں پیش کیا جائے، چنانچہ اس منشاء کے مطابق پچیس پچیس کے چار حصوں پر مشتمل “سو سوال” کی کتاب مکمل کی گئی ہے، اور ان شاء اللہ تعالیٰ اس کے حصّے ترتیب وار شائع ہو رہے ہیں۔

میں مشرقی کینیڈا کی مذکورہ ریجنل کمیٹی اور پوری جماعت کا شکرگزار ہوں کہ اُنہوں نے مجھے نہ صر ف ایسی نایاب جماعتی خدمت کے لئے موقع فراہم کر دیا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مجھ سے خاطر خواہ تعاون بھی کیا، میں ان کے تمام عملداروں کی حلیمی، صداقت اور شفقت کو فراموش نہ کر سکوں گا۔

مجھے اُس عزیز اور نیک نام جماعت کے تمام افراد کے حق میں ہمیشہ جان و دل سے دعاگو رہنا چاہئے، جنہوں نے مذہب اور علم کی باتوں کے لئے زیادہ سے زیادہ اعتماد کے ساتھ میری طرف توجہ دی، اور خصوصی دعائیں نہ صرف میری بلکہ پوری جماعت کی بھی اُن بابرکت گھروں کو حاصل ہوں، جن کی اعلیٰ سے

۶

اعلیٰ رہائش اور دفتری سہولتوں اور بے مثال خدمات کے بغیر میرا اور جانِ عزیز کا کوئی علمی کام مکمل نہیں ہو سکتا تھا، کاش کہ میں پوری پوری ترجمانی کر سکتا کہ اُن گھروں کے افراد کس کس درجے کے دیندار اور امامِ برحق کے کیسے جانثار ہیں اور ان کا ایمان کس قدر کامل و مکمل ہے۔

اس موقع پر جانِ عزیز جناب فقیر محمد صاحب ہونزائی کے ذکرِ جمیل کے بغیر مقصد کی باتیں مکمل نہیں ہو سکتی ہیں، میرے دوستوں اور عزیزوں کی اکثریت کو اِس حقیقت کی خبر ہے کہ میں صاحبِ موصوف کو اپنے لئے فرشتۂ رحمت سمجھتا ہوں، جس کی اگر ایک دو وجہیں ہوتیں تو فوراً ہی بتا دیتا وہ تو بہت ہی زیادہ ہیں، آپ ہی کی وجہ سے میرے مغرب کا سفر آسان اور کامیاب ہوا، اور آپ ہی نے شمالی امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں میرے دورے کو ممکن بنا دیا، اور پھر عرض کرتا ہوں کہ ان کے احسانات مجھ پر بہت زیادہ ہیں۔

اس تمہید کے اختتام پر ہماری یہ عاجزانہ دعا ہے کہ پروردگارِ عالم جملہ جماعت کو علم و عمل کے میدان میں آگے سے آگے بڑھنے اور دین و دنیا کے نیک کاموں میں ترقی کرنے کی اعلیٰ توفیق و ہمت عنایت فرمائے! آمین یا ربّ العٰلمین!!

فقط جماعت کا ایک علمی خادم
علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
مورخہ ۲۹ مئی ؁۱۹۷۸ء

۷

بسم اللہ الرحمن الرحیم

علم کا خاتمہ:
سوال نمبر ۱: آپ نے اپنے لیکچر کے دوران فرمایا تھا کہ علم ایک مقام پر جا کر ختم ہو جاتا ہے، یہ کس طرح ممکن ہے؟

جواب: قرآنِ پاک (۱۶: ۷۰) اور (۲۲: ۰۵) کو غور و فکر سے پڑھو تو معلوم ہو جائے گا کہ بندۂ مؤمن عالمِ روحانی میں علمی بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ کر ناکارہ ہو جاتا ہے، یعنی وہ اُس وقت علم کے بے پناہ سمندر سے گزر کر ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے، جہاں اس کے سامنے جاننے کے لئے یعنی جدید علمی تجزیہ و تحلیل کے لئے کچھ بھی نہیں بچتا، کیونکہ اُس نے اپنی روحانی عمر کے لمبے عرصے میں سب کچھ جان لیا ہے، لہٰذا اب اس کے نزدیک علم جو ایک عقلی اور فکری سفر تھا تمام اور ختم ہو چکا ہے۔

اس سلسلے میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ذاتِ خدا کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ ہلاک یعنی ختم ہو جاتا ہے (۲۸: ۸۸)۔ یہاں پر یہ حقیقت صاف ظاہر ہے کہ علم بھی ختم ہو جاتا ہے، لیکن یہ بات الگ ہے کہ خدا تعالیٰ ہر چیز کو بار بار پیدا کر دیتا ہے، جیسے دن اور رات دوسری تمام چیزوں کی طرح ختم تو ہو جاتے ہیں، مگر خدا ان کو بار بار پیدا کرتا ہے، جس کی وجہ سے دن رات اور زمانے کا سلسلہ لا انتہا ہو جاتا ہے۔

۸

علم چیزوں کو جاننے کا نام ہے، سو جب تک کائنات قائم ہے تب تک چیزیں باقی اور علم کا سلسلہ جاری ہے، جب آیۂ مذکورۂ بالا کے مطابق کائنات ختم ہوئی اور کوئی چیز باقی نہ رہی تو وہ علم بھی نہ رہے گا جو چیزوں کے تجزیہ و تحلیل کرنے سے حاصل ہوتا رہتا تھا، کیونکہ علم صفت ہے عالِم کی جو اس عالَم یعنی کائنات کو جاننے سے حاصل ہوتا ہے، ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ علم، عالَم (کائنات) اور عالِم بار بار ختم ہو جاتا ہے اور بار بار پیدا ہو جاتا ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر بار کے اعتبار سے علم ختم ہونے والا ہے اور بار بار کے سلسلے کے لحاظ سے کبھی ختم ہونے والا نہیں۔

قرآن کی سورت ۱۳ آیت ۸  (۱۳: ۰۸) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ہر چیز خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک خاص مقدار میں ہے، اس کا اشارہ یہ ہے کہ اگرچہ فی الحال انسان کو بعض چیزیں لا علمی کی وجہ سے غیر محدود جیسی لگتی ہیں، لیکن جب وہ روحانیّت کی بلندیوں پر پہنچ کر نورِ الٰہی کی روشنی میں دیکھنے لگے گا، تو اُس وقت عین الیقین سے مشاہدہ کرے گا اور حقیقتِ حال اُس پر ظاہر ہو جائے گی کہ ظاہری اور باطنی چیزیں سب کی سب ایک مخصوص مقدار میں محدود ہیں (۱۳: ۰۸) اور اسی طرح کائنات کی عمر بھی محدود ہے اور عملی علم بھی، جس کا دارومدار اس ظاہری دنیا پر ہے (۱۱: ۱۰۷)۔ یہ تشریح ہے ہر چیز کے فنا ہو جانے کی، اور مکان کی مدتِ عمر یعنی دنیا کی بقا کا وقت ختم ہو جانے کی۔
خوب جاننا چاہئے کہ حقیقت کے جس پہلو سے خدا کی چیزیں کبھی ختم نہیں ہوتی ہیں وہ یہ ہے کہ ختم ہو جانے کے باوجود مسلسل یا وقفہ وقفہ کے بعد دوبارہ پیدا کی جاتی ہیں، جیسے موسمِ گرما و سرما کا آپس میں بدل بدل کر بار بار آنا وغیرہ۔

۹

رجعتِ روح:
سوال نمبر ۲: آپ نے سیمنار (Seminar) میں کہا کہ روح دنیا میں بار بار آتی رہتی ہے، ناکامی کے طور پر بھی اور کامیابی کی صورت میں بھی اور کامیابی کے بعد انسان اِس دنیا میں اس لئے آتا ہے کہ آٹھویں جنّت کے آخری مرحلے پر جانے کے بعد علمی نعمتوں کا سلسلہ اپنی انتہا کو پہنچتا ہے، لہٰذا بندۂ مؤمن علم و عمل کی تجدید کی خاطر دنیا کی طرف رجوع کرتا ہے، لیکن ہمارا سوال ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جنّت کی ابدی نجات اور دائمی راحت جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مؤمن کو حاصل ہوئی ہے، وہ پھر ایک وقت کے بعد ختم ہو، اور روحِ مؤمن اس کی تلاش میں دوبارہ دنیا میں آئے؟

جواب: دراصل یہ سوال بھی وہی ہے جس کا جواب اوپر دیا گیا ہے، تاہم مزید وضاحت کی جاتی ہے، کہ جب انسان معرفت کے درجۂ کمال پر پہنچ جاتا ہے تو اُس کو اس حقیقت کا پورا پورا یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ اس کی “انا” یعنی خودی دو درجوں میں ہے، وہ درجۂ اعلیٰ پر یک حقیقت (Monorealism) ہے اور درجۂ ادنیٰ پر انسان، وہ سورج کی طرح ہمیشہ ایک حال پر قائم بھی ہے اور چاند کی طرح گھٹتے بڑھتے ہوئے بار بار آتا جاتا بھی ہے، کیونکہ حکمت اور خیرِ کثیر کا تقاضا یہی ہے۔

۱۰

سورۂ یاسین کی آیت ۶۸ میں جیسے فرمایا گیا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس کو روحانی عالم میں بڑی سے بڑی عمر دی جاتی ہے اس کو اس دنیا میں کسی بڑے کارنامے کے لئے بھیجا جاتا ہے، آیۂ مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے:
“اور جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کو (عالمِ امر سے عالمِ) خلق میں سرنگون کر دیتے ہیں، کیا وہ نہیں جانتے ہیں” (۳۶: ۶۸)

جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جس عمر کو لمبی قرار دیتا ہے وہ خدا ہی کے معیار کے مطابق لمبی ہے لہٰذا وہ اِس دنیا کے حساب سے بے پناہ ہے اور لفظ “سرنگون” کی حکمت یہ ہے کہ مثال کے طور پر عالمِ امر (روحانی عالم) اور عالمِ خلق (جسمانی عالم) ایک دوسرے سے مل کر ایک مکمل دائرے کا تصوّر پیش کرتے ہیں، جس میں اوپر کا نصف دائرہ عالمِ امر ہے اور نچلا نصف دائرہ عالمِ خلق، اس مثال میں جو شخص عالمِ ظاہر سے عالمِ باطن کی انتہائی بلندی تک جائے اس کا سر اوپر کی طرف ہو گا، اور جب وہ وہاں سے دنیا کی طرف آئے تو وہ سرنگون (Upside-Down =اوندھا) ہو کر آتا ہے۔

حضرتِ آدم علیہ السّلام اِس دنیا میں کہاں سے وارد ہوئے؟ کہاں سے تشریف لائے؟ عالمِ امر سے، عالمِ روحانی سے، بہشت سے، کس درجے کی بہشت سے؟ آخری درجے کی بہشت سے، کیا اس ہبوط (Descending) میں حضرتِ آدم تنہا تھے یا ان کے ساتھ اور بھی افراد تھے؟ ان کے ساتھ بی بی حوّا کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ تھے، کیا یہ درست ہے کہ آدم و حوّا اور ان کے ساتھیوں کی عمریں جنّت میں اِس حد تک پہنچ گئی تھیں

۱۱

کہ ان کو دنیا میں آنا ضروری ہو گیا تھا؟ ہاں یہ بات بالکل حقیقت ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی سنت و عادت اور قانونِ فطرت ہمیشہ ایک ہی ہے اور اُس میں کوئی تبدیلی نہیں تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آدم اور ان کے بہت سے ساتھیوں کی طرح کامل روحیں عالمِ بالا سے اِس دنیا کی طرف آتی رہتی ہیں؟ جی ہاں، یہ صحیح ہے۔

 

وَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ (۳۶: ۴۰)
اور ہر چیز ایک دائرے میں گردش کرتی رہتی ہے۔

قرآن و حدیث:
سوال نمبر۳: قرآن و حدیث کے درمیان کیا رشتہ ہے؟ کیا یہ درست ہے کہ پیغمبرؐ نے فرمایا کہ: اگر مسلمان دس فیصد حدیثوں کو نظر انداز کریں تو وہ (دینی طور پر) ہلاک

۱۲

ہو جائیں گے، اور ایک وقت آنے والا ہے کہ جس میں دس فیصد سے زیادہ حدیثوں پر عمل نہیں کیا جائے گا؟

جواب: قرآن و حدیث کا رشتہ یہ ہے کہ حدیث قرآن کی وضاحت و تشریح ہے کیونکہ وہ معلّمِ قرآن کا قول ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ حدیث صحیح ہو، موضوع نہ ہو، یعنی ایسی نہ ہو کہ وہ لوگوں نے اپنی غرض کے لئے بنائی ہے، تو اُس صورت میں جبکہ حدیث صحیح ہے قرآن کے بعد دین میں اسی کو اہمیت حاصل ہو گی، کیونکہ خدا کے کلام کے بعد رسولؐ کا کلام قابلِ تعظیم اور واجب العمل ہے، لیکن یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ حدیثِ ثقلین کے ارشاد کے بعد مسلمانوں کو صرف حدیثوں پر چھوڑ دیا جائے، جبکہ آنحضرتؐ اِس بات کو اچھی طرح سے جانتے تھے کہ لوگوں کے لئے یہ امر انتہائی مشکل ہے کہ وہ صحیح حدیث اور غیر صحیح کے درمیان فرق و امتیاز کریں، نیز اس میں بھی بڑا تعجب ہو گا کہ حدیثیں جن کا زیادہ سے زیادہ تعلق زمانۂ رسولؐ سے ہے جدید مسائل کو حل کرسکتی ہیں۔

ہمارے نزدیک خدا و رسولؐ اور اولواالامر کی اطاعت کے یہ معنی ہیں کہ امامِ زمان علیہ السّلام کو اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر برحقؐ کا نمائندہ اور خلیفہ مانیں، اس کے امر و فرمان کی روشنی میں قرآن و حدیث کے ظاہر و باطن کو سمجھیں اور عمل میں لائیں، اسی میں خدائے پاک اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خوشنودی ہے۔

اولواالامر:
سوال نمبر۴: دوسرے مسلمان “اولواالامر منکم” سے کیا مراد لیتے

۱۳

ہیں یا کس حد تک اس اصول کو قبول کرتے ہیں؟

جواب: گروہِ امامیہ کے سوا جو بھی ہیں وہ البتہ حکمرانوں کو اولواالامر مانتے ہیں، حالانکہ یہ نظریہ درست نہیں، کیونکہ اولواالامر سوائے أئمّۂ کرام علیہم السّلام کے اور کوئی نہیں ہو سکتا، اس لئے کہ امرِ خداوندی کے مالک ہونے کے لئے اعلیٰ ترین اوصاف چاہئیں، اور سب سے پہلے یہ کہ وہ خدا و رسولؐ کی جانب سے مقرر ہوں تا کہ نورِ ہدایت کے حامل ہو سکیں، وہ محمد و علی صلوات اللہ علیہما کے توسط سے آلِ ابراہیمؑ ہوں، ان کا سلسلہ نسلاً بعد نسلٍ چلا آیا ہو، تا کہ معلوم ہو کہ خدائی نور کا معجزہ انہیں کے ساتھ ہے، ایسے ہی سلسلے کے حضرات یقیناً اولواالامر ہیں، یعنی أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام۔
اِس اصول کے برعکس اگر مانا جائے کہ حاکمِ وقت اولواالامر کے مرتبہ پر ہے تو اِس عقیدہ سے اسلام کے اندر بیک وقت بہت سے ایسے اولواالامر پائے جائیں گے جو ایک دوسرے کے خلاف ہیں جو بعض دفعہ ایک دوسرے سے جنگ کرتے ہیں، اور وہ جنگ اسلام کی خاطر نہیں ہوتی بلکہ وہ ذاتی یا ملکی مفاد کے لئے ہوتی ہے، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا شخص خدا اور پیغمبرؐ کا جانشین اور ولئ امر ہو جو اسلامی اور اخلاقی قانون کے بغیر مسلمانوں کا خون بہاتا ہے۔

مذہب اور سائنس:
سوال نمبر ۵: مذہب اور سائنس کے آپس میں کیا رشتہ ہے؟

جواب: جاننا چاہئے کہ جو مذہب صحیح ہے وہ حقیقی اسلام ہے

۱۴

اور جو سائنس غلط نہ ہو بالکل درست ہو وہ قانونِ فطرت ہے، اور اہلِ دانش جانتے ہیں کہ اسلام دینِ فطرت ہے یعنی یہ قانونِ قدرت کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ حقیقی اسلام اور درست و مکمل سائنس ایک ہی چیز ہے، جیسے ایک ندی کبھی دو شاخوں میں بٹ کر بہتی ہے اور کبھی مل کر بہتی ہے اور وہ ہر حالت میں ایک ہی ہے۔

اس وضاحت کا خلاصہ یہ ہے کہ اب وقت قریب آچکا ہے کہ سائنس اور مذہب آپس میں کلّی طور پر مل جائیں، جس کے نتائج سے دنیا کے بہت سے لوگوں پر قیامت گزرے گی، وہ یہ کہ دین شناسی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اُس وقت مایوس ہو جائیں گے، کیونکہ حدیثِ شریف میں فرمایا گیا ہے کہ یقیناً اسلام عجیب و غریب طرح سے شروع ہوا ہے اور آخر میں بھی یہ اس طرح عجیب و غریب ہو جائے گا۔ (صحیح مسلم، جلد اول، باب ۶۲، حدیث نمبر ۲۸۱)

 

سورۂ یاسین:
سوال نمبر ۶: سورۂ یاسین کے معنی اور تاویل کیا ہیں؟

جواب: میرے عزیز! میں سمجھتا ہوں کہ تم نے جو کچھ پوچھنا چاہا ہے وہ دراصل مختصر ہے، مگر یہاں جس طرح لکھا ہے وہ بہت ہی طویل بحث ہے، یعنی مسئلہ صرف “یاسین” کے نام ہی کا تھا لیکن تم نے پورے سورۂ یاسین کو سوال کی صورت میں پیش کیا ہے، بہرحال میں یاسین (یٰسٓ) ہی کے اسم کا جواب دوں گا جو حروفِ مقطعات میں سے ہے، اور وہ یہ ہے کہ عالمِ اسلام

۱۵

میں یہ حقیقت کسی اختلاف کے بغیر مسلمہ ہے کہ یاسین آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے مبارک القابات میں سے ہے، جیسے “طٰہٰ” کی مثال ہے کہ یہ بھی آنحضرتؐ کے وصفی ناموں میں سے ہے۔

چنانچہ حرف “ی” کا عدد ۱۰ ہے، جو ناطق یعنی حضرت محمد رسول اللہ کے لئے مقرر ہے، جیسے: ایک مستجیب کے لئے ہے، ۲ ماذونِ اصغر، ۳ ماذونِ اکبر، ۴ داعئ مکفوف، ۵ داعئ مطلق، ۶ حجتِ جزیرہ، ۷ حجتِ مقرب، ۸ امامِ زمان، ۹ اساس (علیؑ )، اور ۱۰ ناطق یعنی رسولِ مصطفیؐ کے لئے ہے، جیسے قرآن کا ارشاد ہے کہ :تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ (۰۲: ۱۹۶) یہ دس مکمل ہے، یعنی دس حدودِ جسمانی کی آخری حد ہے جو ناطقؐ ہے۔

دوسری طرف سے حرف “س” کو لیں جس کا عدد ۶۰ ہے، جس میں پہلا دس حضرتِ آدمؑ کے لئے ہے، دوسرا دس حضرتِ نوحؑ کے لئے، پھر حضرتِ ابراہیمؑ ، حضرتِ موسیٰؑ ، حضرتِ عیسیٰؑ اور حضرتِ محمدؐ کے لئے دس دس ہیں، اس کی تاویل یہ ہوئی کہ حرفِ “ی” کے لحاظ سے آنحضرتؐ چھوٹے دور کے مراتب میں مرتبۂ دہم پر ہیں اور بڑے دور کے اعتبار سے مرتبہ ششم پر۔

لاابتداء اور ابتداء:
سوال نمبر۷: کہتے ہیں کہ ہم حضرتِ آدمؑ اور حوّاؑ سے ہیں، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہم پہلے پتھر، نباتات وغیرہ تھے، ان میں سے کون سا نظریہ صحیح ہے؟

۱۶

جواب: دونوں باتیں درست ہیں کیونکہ ہم آدمؑ و حوّاؑ سے ہیں اور وہ مٹی وغیرہ سے ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ ہم آدمؑ اور حوّا کی نسل ہونے کے علاوہ جسم کی تکمیل کے لحاظ سے جمادات، نباتات اور حیوانات سے بھی ہیں، کیونکہ ہمارے والدین کی اور ہماری غذائیں انہی چیزوں سے تیار ہوتی ہیں، جن سے ہمارا جسم بنتا ہے۔

اگر اس سوال میں ڈارون کے نظریۂ ارتقاء کی طرف اشارہ کیا گیا ہو، تو وہ نظریہ میرے نزدیک درست نہیں، کیونکہ اس کے پس منظر میں لا دینیت کا تصوّر موجود ہے، یعنی اس میں خدا کی ہستی سے انکار اور اس کی قدرت کی نفی کرنے کے لئے کوشش کی گئی ہے، جبکہ مانا گیا ہے کہ کائنات اپنے آپ ایک حادثہ کے نتیجے پر پیدا ہوئی ہے، اور انسان بھی خودبخود ایک چیز سے دوسری چیز میں بدلتا گیا ہے، یہاں تک کہ وہ بندر کی شکل میں تبدیل ہو گیا، اور پھر رفتہ رفتہ وہ انسان بن گیا۔

ڈارون سے ہماری کوئی دشمنی نہیں، مگر افسوس ہے کہ اُس نے عالمِ مافوق الفطرت اور اس کے بادشاہ کے بارے میں ذرا بھی نہیں سوچا اور آنکھیں بند کر کے صرف فطرت ہی کے سمندر میں چھلانگ لگائی اور اسی میں ڈوبتا گیا، اگر وہ اس سرحد سے آگے نکل جاتا جہاں سے اس کا نظریہ شروع ہو جاتا ہے تو شاید وہ اِس حقیقت کے سمجھنے میں کامیاب ہو جاتا کہ کسی ابتداء اور انتہاء کے بغیر ہمیشہ سے ایک بہت ہی عظیم زندہ طاقت موجود ہے، جس کی کارفرمائی کے بغیر کسی چیز سے کوئی حرکت اور کوئی کام نہیں ہو سکتا ہے۔

بنیادی سوال دراصل یہ ہونا چاہئے کہ آیا ہم وجود و عدم دونوں کو مانتے ہیں یا نہیں؟ اگر مانتے ہیں، تو یہ بھی پوچھنا ہو گا کہ وجود و عدم یا کہ ہستی اور نیستی پر

۱۷

خدا تعالیٰ کی بادشاہی اور حکمرانی ہے یا نہیں؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ملتا ہے تو پھر یہ پوچھنا چاہئے کہ خالقِ ارض و سما نے وجود کو تو عدم سے بنایا اور عدم کو کس چیز سے بنایا تھا؟ یہ سوال اتنا مشکل ہے کہ دنیا اس کا جواب نہیں دے سکتی ہے، مگر اہلِ تائید کے پاس اس کا صحیح جواب موجود ہے وہ یہ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہستی کو نیستی سے پیدا کیا اسی طرح اُس قدرت والے نے نیستی کو ہستی سے بنائی، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی چیزیں ہونے کے بعد نہیں ہوتی ہیں اور بہت سی چیزیں نہ ہونے کے بعد ہو جاتی ہیں۔

اِس سے کسی شک کے بغیر یہ حقیقت روشن ہوئی کہ جس طرح دن سے رات اور رات سے دن پیدا ہونے کا سلسلہ جاری ہے اسی طرح ہستی سے نیستی اور نیستی سے ہستی پیدا ہو جانے کا سلسلۂ لا متناہی چلتا رہتا ہے، اور یہ نظریہ قرآنی حکمت ہی کا ہے نہ کہ کسی اور کا۔

جاننا چاہئے کہ خدا کی بادشاہی میں عدم محض محال ہے یعنی ایسی نیستی ناممکن ہے جس کی کیفیت کچھ بھی نہ ہو، بلکہ یہ عدم مجازی ہے اور اس کی روشن ترین شہادت قرآن ہی سے مل سکتی ہے کہ اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا ہے:

(وہ ہر صفت سے) پاک صاف ہے جس نے زمین سے اُگنے والی چیزوں اور خود اُن لوگوں کے اور اُن چیزوں کے جن کا انہیں علم نہیں سب کے جوڑے پیدا کئے (۳۶: ۳۶)۔ مقصد یہ ہے کہ کوئی چیز جوڑے کے بغیر نہیں، خواہ وہ نباتات میں سے ہو یا کوئی جانور اور انسان، یا کوئی ایسی چیز جس کا تعلق عقل اور علم سے ہے، پھر اِس سے صاف صاف ظاہر ہے کہ ہستی اور نیستی بھی ان جوڑوں میں سے ہیں جن کو خدا نے بنایا ہے، جس کے معنی یہ ہوئے کہ جس طرح خدا نے ہستی کو نیستی سے ظاہر کیا ہے اسی طرح اُس نے نیستی کو ہستی

۱۸

سے اخذ کر کے پوشیدہ رکھا ہے، اور دونوں میں سے کوئی ایک آگے اور ایک پیچھے ہرگز نہیں، بلکہ کسی تقدیم و تاخیر کے بغیر یہ دونوں دائرۂ لا ابتداء پر واقع ہیں، تاہم اگر آپ چاہیں تو اس واقعۂ لا ابتداء کو کسی مصلحت کے تحت ابتداء کے طور پر پیش کر سکتے ہیں وہ یہ کہ ہمیشہ یہ کہتے رہیں کہ خداوند تعالیٰ نے ہستی کو نیستی سے پیدا کیا، پھر نیستی پر علم و حکمت کی روشنی نہ ڈالنا، اس کی حقیقت سے پردہ اُٹھانے کی کوشش نہ کرنا، خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوۃَ (۶۷: ۰۲) (اُس نے موت اور حیات کو پیدا کیا) کی تحقیق نہیں کرنا کہ خدا نے حیات کو تو مخلوق کیا اور موت کو کس طرح مخلوق کیا؟ کیا ہماری یہ جزوی حیات و ممات اس عظیم کائنات کی بقا و فنا کی دلیل ہو سکتی ہے؟ یعنی کیا ہم اپنی زندگی اور موت کی مثال سے وجود و عدم کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں یا نہیں؟ ایسے سوالات نہ کرنا کہ جن کی وجہ سے حقیقتِ حال سے پردہ اُٹھ جائے، تو یہ مصلحت کی بات ہوئی نہ کہ حقیقت کی، یہ شاید اِس لئے کہ دنیا ابھی اِس مرحلے پر نہیں پہنچی ہے، ورنہ ظاہر ہو جاتا کہ زمانے اور موجود و مخلوق کی اگر ابتداء ہے تو وہ جزوی ہے، لیکن کلی طور پر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز ایک دائرے پر واقع ہے اور دائرہ ہستی اور نیستی کے نوبت بہ نوبت آنے جانے سے بنا ہوا ہے جیسے دن رات کے چکر اور گردش سے لا ابتدائی اور لاانتہائی کا تصور قائم ہو جاتا ہے۔

امامِ مستودع:
سوال نمبر ۸: حضرتِ حسنؑ کو کئی مستند کتابوں میں امام مانا گیا ہے، ہمیں ان کو کس درجے میں ماننا چاہئے؟

۱۹

جواب: حضرتِ حسن علیہ السّلام کو امام تسلیم کرنا بالکل درست اور صحیح ہے، لہٰذا ہم ان کو امام مانتے ہیں اور آپ بھی مانیں، حضرتِ حسنؑ کو امام نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں، آپ امامِ مستودع تھے، اسماعیلی مذہب کی جتنی مستند کتابوں میں حضرتِ حسن کا ذکر آیا ہے، اُن سب میں ان کی امامت مسلّمہ ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ ایک اسماعیلی کو یہ سوال کیونکر پیدا ہوا ہے، اس لئے کہ زمانے کے امام کے شجرۂ نسب میں امام حسن علیہ السّلام کا نام نہیں ہے، کیونکہ یہ شجرہ صرف امامِ زمان کے آباواجداد ہی کا ہے نہ کہ امامت کے مختلف پہلوؤں کا، اور ان دونوں باتوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی صورت میں صرف امامِ حاضر ہی کے آباواجداد کی امامت کو ثابت کرنا ہے اور دوسری صورت میں امامت کے مختلف مراتب کو بیان کرنا ہوتا ہے، چنانچہ اگر امامِ وقت کے شجرۂ نسب کو آگے سے آگے بڑھا دیا جائے تو یہ شجرہ حضرتِ اسماعیلؑ اور حضرتِ ابراہیمؑ سے ہوتا ہوا حضرتِ آدمؑ کی طرف چلا جائے گا، اور اس میں حضرتِ اسحاقؑ کی اور آپؑ کی اولاد کی امامت کا ذکر نہیں آئے گا، جس کی وجہ ظاہر ہے کہ امامِ زمان کو ابنِ امام ابنِ امام ابنِ امام ثابت کرنا الگ بات ہے، اور نورِ امامت کے مختلف ظہورات و درجات کی بات الگ ہے۔
اسماعیلی مذہب میں امام شناسی کا موضوع بنیادی اہمیت کا حامل ہوا کرتا ہے، جس کے بغیر دین کے میدان میں قدم قدم پر مشکلات سامنے آتی ہیں، لہٰذا اِس موضوع کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، جس کے سلسلے میں سب سے پہلے تاریخِ امامت کا گہرا مطالعہ نہایت ہی ضروری ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امامت عام طور پر باپ سے بیٹے میں منتقل

۲۰

ہوتی رہتی ہے، مگر خاص حالات میں اس کے اور بھی امکانات ہیں، جیسے مولانا ہابیلؑ کی امامت مولانا شیثؑ کو ملی تھی، یہ بھائی سے بھائی میں امامت منتقل ہو جانے کی ایک روشن دلیل ہے اور یہی مثال حضرتِ حسنؑ کی امامت حضرتِ حسینؑ میں منتقل ہو جانے کی بھی ہے، یعنی وقت آنے پر امامِ مستودع کی نورانی فضیلتیں امامِ مستقر میں ایک ہو جاتی ہیں۔
سائنسی انقلاب کے اِس دور میں جہاں عقائد کے بارے میں نت نئے سوالات پیدا ہوتے رہتے ہیں، وہاں یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ بتاؤ بیک وقت ایک سے زیادہ امام ہو سکتے ہیں یا نہیں، جبکہ موجودہ وقت میں یا آگے چل کر اس کائنات کے کئی سیّاروں پر انسان بستے ہوں؟ اس کے لئے ایسا جواب چاہئے جس کا ثبوت دینِ حق میں پہلے سے موجود ہو، اور وہ یہ ہے جو بولا جائے کہ کیوں نہیں، جبکہ بیک وقت محمد رسولؐ ناطق تھے علیؑ اساس اور حسنؑ و حسینؑ امام، چنانچہ اگر اِس کائنات میں کسی بھی وقت ایک ساتھ کئی آباد دنیائیں پائی جائیں تو ان سب میں ایک ایک امام کا ہونا لازمی امر ہے، کیونکہ کسی بھی دنیا کا قیام امامِ حاضر کی موجودگی پر ہے، اس کے باوجود وہ ایک سے زیادہ أئمّہ نفسِ واحدہ کی طرح ایک ہوتے ہیں، اِس مدلل بیان میں حضرتِ حسن علیہ السّلام کی امامت کے ثبوت میں بہت سی روشن مثالیں موجود ہیں۔

قبر اور قیامت:
سوال نمبر ۹: کیا قیامت کے دِن ہماری روح سے اعمال کا

۲۱

حساب لیا جائے گا یا قبر میں پوچھا جائے گا؟ آیا مرنے کے بعد روح واپس آکر قبر میں داخل ہوتی ہے؟

جواب: ہم ترتیب کی وجہ سے یہاں سب سے پہلے قبر کے بارے میں بات کریں گے، کہ قبر ظاہری و باطنی دو قسم کی ہوتی ہے، ظاہری قبر کو تو سب لوگ جانتے ہیں، مگر باطنی یا روحانی قبر کا جاننا سب کے لئے کوئی آسان چیز نہیں، چنانچہ جاننا چاہئے کہ روحانی قبر انسانی جسم ہی ہے، حضرتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ: “میری قبر اور میرے منبر کے درمیان بہشت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔” پیر ناصر خسرو اپنی مشہور کتاب “وجہِ دین” میں کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ کی قبر اساس یعنی علیؑ ہیں اور منبر قائم القیامت علیہ افضل التحیۃ والسّلام ہیں۔

جب یہ تاویل نظریۂ اسماعیلیت کے مطابق صحیح اور درست ہے کہ محمد رسول اللہ کی قبر آپؐ کے جانشین یعنی علی مرتضیٰؑ ہیں، تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہر انسان کی روح کے لئے ایک زندہ قبر ہوا کرتی ہے یعنی ایک زندہ جسم، اپنا ہو یا دوسرے کا، اچھا ہو یا برا وہ تو اعمال کے مطابق ہو گا، بہرحال قبر کے بارے میں جتنے دینی ارشادات ہیں، ان کا تاویلی تعلق اس زندہ قبر سے ہے نہ کہ خالص مٹی کی قبر سے اس کا مطلب یہ ہوا کہ موت کے بعد آدمی کی روح فوری طور پر کسی زندہ جسم میں منتقل کر دی جاتی ہے، اور وہاں اُس سے شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر کچھ سوالات پوچھے جاتے ہیں، پھر جب قبروں سے روحوں کے اُٹھ جانے کا زمانہ آتا ہے، یعنی جب کوئی باطنی اور روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے تو اس وقت لوگوں کے اعمال کا حساب لیا جاتا ہے۔

۲۲

حاضر امام کا درجہ:
سوال نمبر ۱۰: ہم روحانیّت اور نورانیّت کے معنی میں امامِ زمان علیہ السّلام کو انتہائی عظیم مانتے ہیں، لیکن امام کے جسمانی تقدّس کا فلسفہ کس طرح پیش کیا جائے، جبکہ غیر اسماعیلی خصوصاً عیسائی ہم سے سوال کرتے ہیں؟

جواب:
۱۔ ہاں، آپ کا پوچھنا حق بجانب ہے کہ پیغمبرؐ اور امامؑ کی جسمانیت ہی لوگوں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے، لیکن عوام اپنے خیال کے مطابق جو کچھ سمجھتے ہیں وہ حقیقت نہیں ہے، حقیقت خدا و رسول اور أئمّۂ ہدایت کے ارشادات کی روشنی میں ملتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ جس طرح روحوں میں فرق ہے اسی طرح جسموں میں بھی فرق ہے، کہ ارواح اور اجسام میں سے کچھ تو پاک و پاکیزہ ہیں اور کچھ ناپاک و نجس، اور سب سے پہلے پاک و مقدس ظاہراً و باطناً وہ حضرات ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے پاک و پاکیزہ اِس لئے بنایا ہے کہ وہ لوگوں کو پاک کریں اور ہر قسم کی پلیدی و ناپاکی سے بچائیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ پیغمبر اور امام صلوات اللہ علیہما خود پاک ہیں اسی لئے وہ اپنے تابعداروں کو پاکیزگی کا درس دیتے ہیں اور ان کو ہر طرح سے پاک کردیتے ہیں۔

جیسا کہ قرآن کی بہت سی آیتوں میں رسولؐ کے اس کام کا ذکر آیا ہے کہ آنحضرت کس طرح لوگوں کو پاک کر دیتے تھے، اور سورۂ بقرہ کی آیت ۱۵۰ اور ۱۵۱  (۰۲: ۱۵۰ تا ۱۵۱) میں اللہ تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے کہ خدا کی نعمت پوری ہو جائے گی اور آئندہ کے لئے باقی رہے گی تا کہ تمہاری ہدایت میں کوئی کمی واقع نہ ہو، پھر فرماتا ہے کہ یہ نعمت وہی ہے جیسے ہم نے تمہارے درمیان تم میں سے رسول پیدا

۲۳

کیا جو تمہیں ہماری آیتیں (آفاق و انفس سے) پڑھ کر سناتا ہے اور اِس وسیلے سے تم کو پاک کر دیتا ہے اور تمہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور نتیجے کے طور پر تم کو وہ علم سکھاتا ہے جو کہ تم نہیں جانتے تھے۔
اِس آیۂ کریمہ میں پیغمبر اکرمؐ اور امام برحقؑ کے اس فعل کا ذکر ہے جس سے کہ وہ لوگوں کو پاک کر دیتے ہیں، چنانچہ ظاہر ہے کہ رسولِ خداؐ اور امامِ زمانؑ پاک ہیں،جب مانا گیا کہ وہ پاک ہیں تو یہ بات بھی خودبخود حقیقت ثابت ہوئی کہ ان کی بشریّت کے تمام لوازم یعنی کھانا پینا شادی بیاہ وغیرہ تمام چیزیں پاک ہیں، پس پیغمبر اور امام نہ صرف روح اور نور کے لحاظ سے پاک ہیں بلکہ جسم کے اعتبار سے بھی نہایت ہی پاک ہیں، لہٰذا وہ نورِ الٰہی کے مظہر ہیں، اور آپ مظہرِ نورِ خدا کو جو بھی تعظیم کریں اور جتنا بڑا سمجھیں، وہ درست ہے، کیونکہ وہ خدا کے ظہور کا درجہ ہے۔

۲۔ عیسائیوں کے عقائد کا مطالعہ کیا جائے یا براہِ راست اُن سے پوچھا جائے کہ وہ حضرتِ عیسیٰؑ سے قبل کے بہت سے پیغمبروں کو مانتے ہیں یا نہیں؟ اگر وہ ان کو قبول کرتے ہیں تو اس کی یہ منطق بنتی ہے کہ جس طرح حضرتِ عیسیٰؑ سے پہلے ہدایت کا سلسلہ جاری تھا اسی طرح ان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ پیغمبرؐ اور امامؑ عیسیٰؑ کی طرح درویش ہوں، مثال کے طور پر آپ اس بات میں ذرا غور کریں کہ عیسیٰؑ نے زندگی میں کبھی شادی نہیں کی تھی، اور اگر یہ صفت ہر شخص کے لئے ضروری اور امر و فرمان کی حیثیت سے ہے تو بطورِ سنت کے تمام عیسائی اس پر عمل کر کے دیکھیں، ظاہر ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اس سے آئندہ نسل ختم ہو جاتی ہے، اور نہ وہ بحیثیتِ مجموعی عیسیٰؑ  کی طرح درویش اور تارک الدنیا بننا چاہتے ہیں، اس بیان کا نتیجہ یہ نکلا

۲۴

کہ حضرتِ عیسیٰؑ کے اپنے وقت میں پیغمبرِ برحق ہونے میں کوئی شک نہیں، لیکن یہ ضروری نہیں کہ سب پیغمبروں اور اماموں کی پیدائش، زندگی اور موت ایسی ہو جیسی عیسیٰؑ کی تھی۔

خدا تعالیٰ:
سوال نمبر ۱۱: (الف) کائنات و موجودات کے لئے کسی خدا کے ہونے کی کیا وجہ ہے؟
(ب) کیا یہ ممکن ہے کہ چھ دنوں کے اندر اندر ایک کائنات بنائی جائے؟
(ج) خدا ہمیں کیوں دکھائی نہیں دیتا؟
(د) دنیا میں ایسے لوگ کیوں موجود ہیں جو خدا کی ہستی سے منکر ہیں؟

جواب: یہاں پر چار سوال ہیں جو بہت عجیب اور بڑے دلچسپ ہیں، کیونکہ یہ اپنے پس منظر اور ماحول کی عکاسی کرتے ہیں، بہرحال بتانا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے وجود و ہستی کے ثبوت کے لئے ہزاروں وجہیں اور ہزاروں دلیلیں ہیں تاہم یہاں جو گنجائش ہے اس کے مطابق بات کریں گے کہ :

(الف) پہلے سوال کا اشارہ یہ ہے کہ کائنات و موجودات خود بخود وجود میں آئی ہے اور ہر چیز خود از خود قائم و باقی ہے، تو پھر کسی خدا کے وجود کی کیا ضرورت ہے، حالانکہ یہ تصوّر سراسر غلط ہے، اس لئے کہ اگر خدا نہ ہوتا اور کائنات اپنے آپ پیدا ہوئی ہوتی تو ایسی فطرت کے اس قانون کے تحت دنیا میں کسی کاریگر کے بغیر خود بخود مصنوعات بنتی رہتیں، مگر سب دیکھتے ہیں کہ صنعت گر کے بغیر

۲۵

کوئی مصنوع نہیں بنتی ہے، اس سے ثابت ہے کہ خالق کے بغیر اس عالم کے وجود میں آنے کا نظریہ بنیاد ہی سے باطل اور قطعی طور پر غلط ہے اور صحیح یہ ہے کہ خدائے خالق نے اس کائنات کو وجود دیا ہے اور اسی نے ہر چیز پیدا کی ہے۔

اس منظم و مکمل کائنات کے خود بخود پیدا ہونے کا تصوّر اس قدر بے بنیاد اور بیہودہ ہے کہ ایک معمولی عقل والا انسان بھی اس کو پسند نہیں کرتا، کیونکہ یہ نہ کوئی کامیاب سائنسی ریسرچ کی بات ہے اور نہ ہی کوئی صحیح منطق، بلکہ یہ باطنی عقل کے اندھوں کا خیال ہے۔

(ب) دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ چھ دنوں کے اندر اندر اس عظیم کائنات کی تخلیق ناممکن نہیں، جبکہ خدا تعالیٰ نے اس عالم کو صرف “کُنۡ” کے امر سے چشمِ زدن میں پیدا کیا ہے، اور چھ دن سے چھ بڑے پیغمبروں کے ادوار مراد ہیں، جن میں بحیثیتِ مجموعی عالمِ دین پیدا کیا گیا، یعنی حضرتِ آدمؑ ، حضرتِ نوحؑ ، حضرتِ ابراہیمؑ ، حضرتِ موسیٰؑ ، حضرتِ عیسیٰؑ اور حضرتِ محمدؐ کے چھ ادوار اللہ تعالیٰ کے چھ دنوں کی مدت ہیں جس میں اُس نے عالمِ دین کو مکمل کیا، خدا کے یہ چھ دن اتوار سے شروع ہو کر جمعہ تک پورے ہوئے اور سنیچر یعنی حضرتِ قائم خدا کا وہ دن ہے جس میں کہ علم و معرفت کے تخت پر خدا کا ظہور ہوا۔

(ج) تیسرا سوال ہے: خدا ہمیں کیوں نظر نہیں آتا؟ اس کا جواب ہے کہ یا تو تم وہ آنکھ اپنے اندر پیدا کرو جس سے خدا کا دیدار کیا جا سکتا ہے یا ایسے مؤمنوں کی بات پر باور کرو جو خدا کو ہر جگہ عقل کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جس طرح کہ تم سائنس کے معاملے میں یا تو تھیوری کی تم خود ریسرچ کرتے ہو یا کسی کی

۲۶

تھیوری کو قبول کرتے ہو۔
تم آسمان کے سورج کو جو ظاہر ہے اچھی طرح سے دیکھ نہیں سکتے ہو، اس لئے تم چاہتے ہو کہ اسے پانی میں دیکھو، یا کسی ایسی عینک کے ذریعے سے، جو تم کو سورج کی اصل روشنی کم کر کے دکھائے، اور ستاروں کو جو تم سے بہت دور بلندی پر ہیں کسی طاقتور دوربین کے ذریعے سے دیکھنے کی خواہش رکھتے ہو، اس طرح خدا کو بھی دیکھنے کے لئے ایک خاص آنکھ کی ضرورت ہے۔

انسان کی جسمانی آنکھ اسی روز کھلتی ہے جبکہ وہ پیدا ہو جاتا ہے، مگر وہ اس آنکھ سے دیکھنے کے باؤجود دیکھ نہیں سکتا ہے، کیونکہ وہ ابھی بچہ ہی ہے جو شناخت کے لحاظ سے حیوان کے بچہ سے بھی کمزور ہوتا ہے، حیوان کا بچہ انسانی بچے سے زیادہ شناخت اس لئے رکھتا ہے کہ اس کی وہ محدود قوّت قدرتی اور پیدائشی طور پر اس کے ساتھ ہوتی ہے، مگر انسان کے بچے میں علم و معرفت کی ایک ایسی صلاحیت ہوتی ہے جو صرف تعلیم و تربیت ہی سے لامحدود ہو سکتی ہے، اور اگر بچوں کی تعلیم و تربیت مذہبی طور پر نہیں کی گئی یا اس میں بڑی حد تک کمی رہی تو پھر انسان پہلے ہی کی طرح حیوان سے کمتر رہتا ہے۔

(د) چوتھا سوال ہے دنیا میں ایسے لوگ کیوں ہیں جو خدا کی ہستی سے منکر ہیں؟ جواب ہے کہ کیوں نہ ہوں، جبکہ ایمان کے مقابلے میں کفر اور دن کے ساتھ ساتھ رات ہے، اور دنیا میں ہر چیز کی ضد کا ہونا لازمی ہے، تا کہ معرفت کا امتحان ہو۔
اگر تمہارے خیال کے مطابق کافروں کا وجود ہی خدا کے نہ ہونے کی دلیل ہو سکتی ہے، تو پھر دنیا والے سب کے سب خدا کی ہستی سے منکر اور کافر کیوں نہیں ہیں کہ بہت سے لوگ خدا کو مانتے بھی ہیں؟

۲۷

اگر سوال کا مطلب یہ ہو کہ: “خدا کا وجود ہوتا تو دنیا میں کافر کا نام و نشان نہ ہوتا اور ہر جگہ ایمان کا دور دورہ ہوتا۔” یہ بات بھی صحیح نہیں ہے، کیونکہ انسانوں کو اختیار دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ دو گروہ ہو گئے ہیں، یعنی اس جہان میں مؤمن بھی ہیں اور کافر بھی۔

نورٌعلیٰ نور:
سوال نمبر ۱۲: جب ایک امام کے بعد دوسرا امام ہوتا ہے تو کیا اُس ہونے والے امام میں کوئی الگ روح ہوتی ہے؟ یا کہ وہ نورِ امامت کے جزو کی حیثیت سے ہوتا ہے؟ اگر مان لیا جائے کہ ہونے والا امام سابق امام سے مختلف ہوتا ہے، تو کیا نور کے ساتھ موجودہ امام کی روح کا کوئی رشتہ ہوتا ہے؟ یا کہ یہ روح ایک مؤمن کی روح کی طرح ہوتی ہے؟

جواب: اس سوال کا جواب سورۂ نور میں موجود ہے، جہاں آیت ۳۵ میں حکمت کی زبان میں فرمایا گیا ہے کہ نور کو اگر باطنی اور روحانی پہلو سے دیکھا جائے تو وہ ہمیشہ کے لئے ایک ہی ہے جو پوری کائنات کے لئے کافی ہے اور اگر ظاہری اور جسمانی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ ایک نور پر دوسرا نور ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ایک امام کے بعد دوسرا امام ہوتا ہے، پس معلوم ہوا کہ ہونے والے امام پر بھی موجودہ امام کی روح یعنی نور کی روشنی پڑتی رہتی ہے، جس طرح کہ ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن کیا جاتا ہے یا جس طرح کہ سورج سے چاند کو روشنی ملتی رہتی ہے اور فرض کرو کہ چاند مکمل ہو جانے کے بعد سورج بن جاتا ہے، جیسا کہ قرآن (۷۵: ۰۹) میں سورج اور چاند کے ایک ہو جانے کا ذکر ہے مگر ظاہر

۲۸

ہے کہ دنیا کے سورج اور چاند ایک نہیں ہو سکتے، امام اور اس کا جانشین (یعنی ہونے والا امام) ایک ہو جاتے ہیں۔

ازل میں تمام روحیں ایک تھیں اور ابد میں بھی ساری روحیں ایک ہو جائیں گی جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے: تمہاری ابتدائی پیدائش اور تمہاری آخری بعثت ایک جان کی طرح ہے (۳۱: ۲۸)۔ جب عام روحوں کی وحدت کا یہ عالم ہے کہ وہ شروع میں بھی ایک تھیں اور آخر میں بھی ایک ہو جائیں گی، تو پھر کس طرح یہ ممکن ہے کہ امام اور امام کی دو الگ الگ روحیں ہوں، اس سے صاف ظاہر ہے کہ تمام أئمّہ کا نور ایک ہے اور روحِ امام سے نور مراد ہے۔

اسی جواب سے سوال کا باقی حصہ ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ اس میں سوال دُہرایا گیا ہے، تاہم بتا دیا جاتا ہے کہ اماموں کے اجسام الگ الگ ہیں مگر ان کا نور ایک ہی ہے، جسم نور کا جزو نہیں ہے مگر بعض دفعہ نور کی وجہ سے جسم کو بھی نور کہا گیا ہے، اور نورٌعلیٰ نور میں یہی بات ہے۔

ایک امام کا رشتہ دوسرے امام سے یہ ہے کہ دونوں کا نور ایک ہی ہے، امام کی روح مؤمن کی روح کی طرح نہیں ہے بلکہ نہایت ہی اعلیٰ ہے، ہاں مؤمن کی روح انتہائی ترقی کے بعد امام کے نور سے واصل ہو کر ہی امام کی روح کی طرح ہو سکتی ہے۔

صلوات:
سوال نمبر ۱۳: اگر پیغمبرؐ اور امامؑ نور ہیں تو صلوات میں ان کے لئے رحمت مانگنے کے کیا معنی ہیں؟

۲۹

جواب: یہ سوال صلوات کے عام معنی سے پیدا ہوا ہے، مگر صلوات کی تاویل ایسی نہیں، آپ کتابِ ’’وجہِ دین‘‘ حصہ دوم کلام نمبر ۵۰، فلسفۂ دعا صفحہ ۶۱ تا ۶۹ اور پنج مقالہ نمبر ۴ صفحہ ۲۷ تا ۲۹ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس کی تاویل پر غور کر سکتے ہیں، کہ جہاں صلوات محمد و آلِ محمد کی شان میں ہوتی ہے وہاں اس کی مراد ہے ان حضرات کے وسیلے سے اپنے لئے درود مانگنا اور صحیح معنوں میں ان مقدّس رہنما ہستیوں کی پیروی کرنا۔

جاننا چاہئے کہ صلوات کے معنی اور تاویل کے کئی پہلو ہیں، جیسے (الف) اللہ تعالیٰ کی صلوات آنحضرتؐ کے لئے (۳۳: ۵۶)، (ب) فرشتوں کی صلوات حضورؐ پر (۳۳: ۵۶)، (ج) مؤمنین کی طرف سے صلوات پیغمبر اکرمؐ کے لئے (۳۳: ۵۶)، (د) اللہ پاک کی صلوات مؤمنین پر (۰۲: ۱۵۷، ۳۳: ۴۳)، (ہ) ملائکہ کی صلوات مؤمنین پر (۳۳: ۴۳)، (و) رسولِ خداؐ کی صلوات مؤمنین پر (۰۹: ۹۹، ۰۹: ۱۰۳)۔ چنانچہ صلوات میں کئی تاویلی حکمتیں پوشیدہ ہیں، بہرحال آپ کے سوال کا جواب اس بیان میں دیا گیا ہے۔

ذکر و بندگی:
سوال نمبر ۱۴: علامہ صاحب اگر آپ مہربانی سے ذکر و بندگی کے بارے میں کچھ بتاتے، مثلاً اِس کی ضرورت و اہمیت، طریقِ کار، ذکر پر ارتکازِ توجہ، ذکر کے ساتھ تنفس کی ہم آہنگی، اور خوراک کے سلسلے میں کچھ تذکرہ کرتے تو میں آپ کا بہت ہی شکرگزار ہو جاتا؟

جواب: یہ تو آپ نے ایک سوال نہیں کیا بلکہ ایک بڑا لیکچر دینے کے لئے فرمائش کی بہرحال بہتر یہ ہے کہ اِس موضوع کو اچھی طرح سے سمجھنے کے

۳۰

لئے “ذکرِ الٰہی” کو پیشِ نظر رکھیں، جو میری ایک کتاب ہے جو ذکر و عبادت کے سلسلے میں گائیڈبُک (Guidebook) کی حیثیت سے ہے، اس کے علاوہ میرے کینیڈا کے دورہ کے کیسٹوں کو سنیں، نیز میری کتاب پنج مقالہ نمبر ۲ میں سورۂ مزمل کی تفسیر و تاویل کو پڑھیں۔

کتاب “ذکرِ الٰہی” کو جانِ عزیز فقیر محمد ہونزائی اور محترمہ زین رحیم قاسم نے انگلش میں منتقل کیا ہے، لہٰذا یہ کتاب اب آپ کو انگلش میں بھی ملے گی۔

حضرتِ عیسیٰؑ اور حضرتِ محمدؐ:
سوال نمبر ۱۵: اگر حضرتِ محمد کو پہلے ہی سے پیغمبری کے لئے انتخاب کیا گیا تھا تو وہ جبرائیل کے وحی لانے کے وقت اتنا حیرت زدہ کیوں ہو گیا؟ حضرتِ محمدؐ حضرتِ عیسیٰؑ کی طرح کیوں پیدا نہیں ہوئے، جن کی ولادت کے وقت ایک شہابِ ثاقب کا طلوع ہوا تھا؟ حضرتِ محمدؐ وفات سے قبل تکالیف کے مراحل سے کیوں گزرے؟

جواب: آپ کے یہ تینوں سوالات غیرمنطقی اور بے حقیقت ہیں، اور ظاہر ہے کہ یہ عیسائی تبلیغ کی پیداوار ہیں، بہرحال ان کی تحلیل کی جاتی ہے، کہ ہر سوال کی کوئی نہ کوئی بنیاد ہوا کرتی ہے، چنانچہ یہاں پہلے سوال کی بنیاد اس بات پر قائم کی گئی ہے کہ آنحضرتؐ پر نزولِ وحی قبول کیا گیا ہے پھر اسی وحی کے نتیجے میں رسولِ خداؐ پر اعتراض کیا گیا ہے، حالانکہ کسی ہستی کو پیغمبر تسلیم کرنے کے بعد اس پر اعتراض کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا اور یہ کوئی منطق ہی نہیں کہ خود جبرائیل کے وحی لانے کو دلیل بنا کر آنحضرتؐ کی نبوّت کی نفی کے لئے کوشش کی جائے،

۳۱

کیونکہ حضور اکرمؐ کو نبی اور رسول ماننے کے بعد یہ سوال خودبخود ختم ہو جاتا ہے۔

دوسری طرف سے اس سوال کا مفہوم یہ ہے کہ سائل کے بقول اگر حضرتِ محمدؐ کو پہلے ہی سے اپنے انتخاب کا پتا ہوتا تو آپ کو نزولِ وحی سے حیرت نہ ہوتی، تو کیا یہ بھی کوئی دلیل ہو سکتی ہے کہ جس سے آنحضرتؐ کی نبوت کی تردید ہو، کیونکہ اگر ہم حضورؐ کی ایسی حیرت کو قبول بھی کریں تو اس کا نتیجہ صرف یہی نکلتا ہے کہ حضور کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے آپؐ کو نبوّت و رسالت کے لئے منتخب کیا ہے۔
اگر روحانی علم اور معرفت کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات غیریقینی ہو کر رہ جاتی ہے کہ آنحضرت کو جبرائیل کے وحی لانے سے کوئی حیرت ہوئی تھی، کیونکہ راہِ روحانیّت ایسی نہیں کہ ایک دن میں یکایک مقامِ وحی سامنے آئے، وہ تو بہت سے روحانی عجائبات و تجربات کے بعد آتا ہے، اور اس کے لئے خوب تیاری ہوتی ہے۔

ظاہری روایت اور عام تاریخی قصّوں کا سہارا لے کر وحی کی حقیقت سمجھنے کے لئے کوشش کرنا بہت بڑی نادانی ہے، اور اِس سوال میں ایسا کیا گیا ہے، لہٰذا اس میں جو کوشش کی گئی ہے وہ غلط اور باطل ہے۔

شہابِ ثاقب کو بہت بڑا معجزہ قرار دے کر ہر پیغمبر کی پیدائش کی علامت سمجھنا بھی کچھ چھوٹی غلطی نہیں، کیا کوئی یہ ثابت کر سکتا ہے کہ حضرتِ عیسیٰؑ سے قبل جتنے پیغمبر ہوئے ہیں اُن سب کی پیدائش کے وقت شہابِ ثاقب طلوع ہوتا رہا ہے، یا یہ ثابت کر سکتا ہے کہ جب بھی کوئی شہابِ ثاقب طلوع ہوتا ہے تو اس کا اشارہ یہ ہے کہ دنیا میں کسی پیغمبر کا ظہور ہوتا ہے، اہلِ دانش کے نزدیک ایسی باتیں بچگانہ طرز کی لگتی ہیں، کہ ان میں نہ تو کوئی دینی فلسفہ ہے اور نہ ہی کوئی سائنسی توجیہہ ہے۔

۳۲

یہی مثال اس سوال کی بھی ہے جو پوچھا گیا ہے کہ حضرتِ محمدؐ وفات سے قبل تکالیف کے مراحل سے کیوں گزرے؟ جبکہ اس کا جواب اس طرح سے دیا جا سکتا ہے کہ آنحضرتؐ نے بہت سی تکالیف اس لئے اُٹھائیں کہ انبیاء علیہم السّلام کو انسانی زندگی کا نمونہ پیش کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بحیثیتِ مجموعی پیغمبروں کی زندگی تکالیف سے پُر ہے، اور خود حضرتِ عیسیٰؑ کے بارے میں غور کیا جائے کہ وہ کس طرح درویشی کی زندگی گزارتے تھے، اور ان کی جسمانی موت بھی ایسی نہیں جیسے وہ سمجھتے ہیں، بلکہ وہ تختۂ دار پر ایک مکمل شہادت کی صورت میں واقع ہوئی تھی۔

 

نور کہاں سے آیا؟
سوال نمبر ۱۶: نور کا آغاز کس طرح سے ہوا؟ نور کہاں سے آیا؟

جواب: یہ کوئی ضروری اور لازمی نہیں کہ ہر چیز کا کوئی آغاز ہو اور وہ کسی خاص وقت میں پیدا ہو کر اپنا کام شروع کرے، کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی بھی ہیں جن کی کوئی ابتداء ہی نہیں، یعنی وہ کسی آغاز کے بغیر ہی ہمیشہ ہمیشہ موجود ہیں، انسان جس ماحول میں پلا ہے اور جیسی اِس ظاہری دنیا کے محدود زمان و مکان کے زیرِ اثر اس کی عادت بنی ہے، وہ ہمیشہ اِسی کے مطابق سوچتا اور سوال کرتا ہے، اُس نے مذہب کی عام سے عام ابتدائی تعلیم سے متعلق روایات یا تاویلی مثالوں کے ظاہری پہلو کے ذریعے سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ شروع شروع میں خدا تعالیٰ کے سوا کچھ بھی نہیں تھا، اور وہ ایسی اوّلیت کو خداوندِ برحق کی سب سے بڑی صفت قرار دیتا ہے، حالانکہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے

۳۳

تو یہ بات اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس اور شانِ عالی کے خلاف ہے کہ ہم اس کو کسی ہم جنس کی طرح زمرۂ خلائق میں لا کر کوئی مشترکہ صفت بیان کریں، جیسے کسی شخص کا یہ کہنا کہ: “سب سے پہلے خدا تھا۔”

آپ خوب سنجیدگی سے دیکھیں کہ اِس بیان میں خدا کے تصور کو تمام موجودات و مخلوقات کے تصور کے ساتھ ملا کر شمولیت و شرکت کا مسئلہ پیدا کیا گیا ہے، اور اس کے بعد تقابلی تصوّر کی مدد سے ذاتِ سبحان کو اوّلیتِ زمانی دی گئی ہے، یہ ایک مثال ہے کہ عوام کس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں کو باری تعالیٰ کی صفات سمجھتے ہیں۔

اب بیانِ مذکورۂ بالا کی روشنی میں یہ جاننا ضروری ہے کہ بنیادی تقسیم کے لحاظ سے عالم دو ہیں، جو عالمِ خلق اور عالمِ امر ہیں (۰۷: ۵۴)۔ عالمِ خلق حادث ہے اور عالمِ امر قدیم، حادث ہر اُس چیز کو کہتے ہیں جو ہمیشہ سے نہیں ہے بلکہ زمانہ کی حد کے اندر پیدا ہوئی ہے، اور قدیم وہ ہے جو حادث کے برعکس ہمیشہ سے موجود ہو، چنانچہ نور حادث نہیں قدیم ہے، لہٰذا وہ ہمیشہ سے ہے اور جو چیز ہمیشہ سے ہو، اُس کے آغاز کے بارے میں سوال پیدا نہیں ہو سکتا ہے، اب رہا سوال کہ:”کہاں سے آیا۔” سو اس کا جواب ہے کہ نور عالمِ امر سے ہے، یعنی عالمِ روحانی سے، جو قدیم ہے، اور نور کا دوسرا نام روح ہے جو حضرتِ آدم علیہ السّلام میں پھونکی گئی تھی، جس کا سرچشمہ عالمِ امر ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا ہے:

۳۴

اور (اے رسولؐ) آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ روح (عالمِ خلق سے نہیں بلکہ یہ) میرے پروردگار کے (عالمِ) امر سے ہے اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے (اِس لئے تم روح کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے ہو) ۱۷: ۸۵۔

یہ قرآنی تذکرہ کامل روح یعنی روحِ قدسی کا ہے، جس کی وجہ سے آدمؑ کو فرشتوں نے سجدہ کیا تھا (۱۵: ۲۹)، یہی روح تھی جو خدا کی روح کہلائی، اسی روح کے سبب سے عیسیٰؑ کو روح اللہ کا درجہ دیا گیا (۰۴: ۱۷۱) اور یہی خداوندی روح حضرتِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی پاک و پاکیزہ شخصیت میں روحِ قرآن اور نورِ یزدان کی حیثیت سے کام کرتی تھی (۴۲: ۵۲)، پس روح اور نور ایک ہی حقیقت ہے جو قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے، اور اس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، وہ عالمِ امر سے ہے۔

جن:
سوال نمبر ۱۷: آپ نے جنّ کے بارے میں تذکرہ کیا، سو اگر جنّات کی ایک الگ دنیا ہے اور وہ اس میں ہماری طرح رہ کر زندگی گزارتے ہیں تو کیا آپ اس کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟

جواب: آپ قرآنِ پاک کے کسی ترجمے کو سامنے رکھیں اور کسی عمدہ انڈیکس کی مدد سے دیکھیں تو آپ کو جنّات کے بارے میں بہت سی معلومات فراہم ہو جائیں گی، وہ عنوانات اس طرح سے ہیں:
جآنّ ۷ دفعہ، الجنّ ۲۲ دفعہ، جنّۃ ۱۰ دفعہ، اس کے علاوہ یہاں بھی چند باتیں بتائی جاتی ہیں کہ لفظ جنّ چھپنے اور چھپانے کے معنی میں آتا ہے، اس لئے جنّ اُس مخلوق کو کہتے ہیں جو ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے، جو جنّات سیّارۂ زمین پر رہتے ہیں وہ آدمیوں کے ساتھ ہیں ان کی کوئی الگ دنیا نہیں مگر بات صرف اتنی سی ہے کہ وہ اکثر غیر آباد مقامات پر رہنا پسند

۳۵

کرتے ہیں، جیسے پہاڑ، بیابان، صحرا وغیرہ، شاید اِس لئے کہ ان کو غذائیں صاف ہواؤں سے میسر آتی ہیں یا ایتھر سے، نیز ان کی الگ دنیائیں بھی ہیں یعنی وہ اُن سیّاروں پر بھی رہتے ہیں جو ہماری طرح کے انسانوں سے خالی پڑے ہیں، جب سیّارۂ زمین پر انسانوں کی آبادی نہیں ہوئی تھی تو اُس وقت یہاں جنّات کی کثرت تھی، کیونکہ قانونِ قدرت یہی ہے کہ ظرف خالی نہ رہے، برتن میں اگر دودھ نہیں تو پانی ہونا چاہئے، اگر پانی بھی نہیں ہے تو خودبخود اس میں ہوا بھر جائے گی، یہ وسیع و عظیم کائنات عالمگیر روح کے سمندر میں ڈوبی ہوئی ہے، اس لئے سوال پیدا نہیں ہوتا ہے کہ اتنی ساری روحیں کہاں سے پیدا ہوئیں کہ کسی نہ کسی شکل میں تمام ستاروں اور سیّاروں پر مخلوقات موجود ہوں۔

جنّ اور پری کا ایک ہی مطلب ہے، جنّ عربی ہے اور پری فارسی، جنّات شکل و صورت میں آدمیوں کی طرح ہیں، کیونکہ ان دونوں کی ذات ایک ہی ہے، اور وہ ایک ہی دائرے پر چکر لگاتے ہیں، وہ دائرہ دونوں جہان کے درمیان ہے۔

جنّات میں مؤمن بھی ہیں اور کافر بھی، جس طرح انسانوں میں اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی، جنّات کو آگ سے پیدا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ وہ جسمِ لطیف میں ہیں، جس کو آسٹرل باڈی کہتے ہیں۔

اُڑن طشتریاں:
سوال نمبر ۱۸: خلائی کشتی اور اُڑن طشتریوں کے بارے میں بہت سے تضادات پیدا ہوئے ہیں، کیا اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ دوسرے

۳۶

ستاروں پر بھی کسی قسم کے لوگ رہتے ہیں؟

جواب: آپ کا سوال اگرچہ بہت بڑا سوال ہے (کیونکہ اگر سائنسدان اپنی بے پناہ ترقی کے ساتھ ساتھ یہ بھی جان لیتے کہ کون ہیں جو آسمان سے آرہے ہیں تو ان کے لئے خلا میں کوئی مشکل پیش نہ آتی) لیکن دینِ حق میں یہ سوال مشکل نہیں ہے، لہٰذا آپ میری ایک کتاب “میزان الحقائق” میں دیکھیں، اس کے علاوہ یہاں پر بھی مختصر ذکر کیا جاتا ہے، جیسا کہ سوال نمبر ۱۷ کے جواب میں جنّات کے تذکرہ کے سلسلے میں بتایا گیا کہ کوئی ستارہ مخلوقات سے خالی نہیں، چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ فلائنگ ساسرز آتی رہتی ہیں مگر لوگ پہچان نہیں سکتے ہیں کہ وہ کیا مخلوقات ہیں، سو جاننا چاہئے کہ وہ آسٹرل باڈی والے انسان ہیں، جو کسی ستارے پر یا بہت سے ستاروں پر رہتے ہیں، اور ہاں ان کی مذہبی اور سائنسی ترقی بہت آگے بڑھ چکی ہے، یہاں تک کہ وہ جسمِ لطیف کے ذرّات کو طرح طرح کی شکلوں میں جوڑ کر ہر چیز کو پیش کر سکتے ہیں، وہ ظاہر بھی ہو سکتے ہیں اور غائب بھی۔

یو ایف اوز (Unidentified Flying Objects) روحانی دور کے آغاز ہو جانے کی نشانیاں ہیں، آگے چل کر انسان ان آسمانی طاقتوں سے فائدہ اُٹھانے والا ہے، مگر خدا کی خدائی اور اس کی قدرت کے لئے اقرار کئے بغیر ان روحانی طاقتوں پر قابو پانا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔

اگر وقت مل سکا تو ان شاء اللہ ہم یو ایف اوز پر ایک چھوٹی سی کتاب تصنیف کریں گے، جو روحانی تجربات اور قرآنی ارشادات کی بنیادوں پر مبنی ہو گی، تا کہ نہ صرف مذہبی طور پر مقبول ہو بلکہ سائنسی لحاظ سے بھی مفید ہو سکے، اس سلسلے میں “تبدلِ اجسام” کے مضمون کو بھی پیشِ نظر رکھنا، جو سوال نمبر ۴۲ کا جواب ہے۔

۳۷

قیامت:
سوال نمبر ۱۹: مہربانی کر کے “قیامت” کے موضوع پر کچھ روشنی ڈالیں، کیا قیامت کے لئے کوئی خاص دن مقرر ہے؟

جواب: جاننا چاہئے کہ قرآن اور اسلام میں “علمِ قیامت” سب سے مخفی علم ہے، اور اسماعیلیت میں بھی قائم القیامت اور قیامت روحانیّت کے بھیدوں میں سے ہیں، اور اس کے ایسے ہونے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی مصلحت و حکمت ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرتِ آدمؑ سے قبل کے دینی واقعات اور حالات قرآن میں پوشیدہ ہیں کیونکہ آدمِ صفی ؑ اُس زمانے کے قائم کا خلیفہ تھا، چنانچہ اگر اگلے دور کے قائم اور قیامت کا تذکرہ کیا جاتا تو پھر آئندہ قائم اور اس کی قیامت کے سارے بھید ظاہر ہو جاتے اور وہ ہرگز بھید نہ ہوتے، لہٰذا خدا تعالیٰ نے آدم اور قبلِ آدم کے واقعات کو یا تو انسانوں کے سامنے ہی نہیں لایا، یا پھر اس طرح سے ان کا ذکر کیا کہ صرف اہلِ دانش ہی سمجھیں اور عوام سے پوشیدہ رہیں۔

اس کے معنی یہ ہوئے کہ علمِ قیامت تاویلات میں سے ہے اور قیامت کی عملی تاویل کرنا یہ ہے کہ کوئی حقیقی مؤمن تزکیہ نفس اور روحانی ترقی کے وسیلے سے اپنے باطن میں واقعۂ قیامت کا مشاہدہ کرے، اگر کوئی خوش نصیب انسان اس مقصد میں کامیاب بھی ہو جائے، تو پھر بھی خوف ہے کہ وہ دوسروں کو سمجھا سکتا ہے یا نہیں۔
بہرکیف قیامت باطنی اور روحانی طور پر ہمیشہ جاری ہے، اور قرآن نے اسی معنیٰ میں ہر زمانے کے لوگوں سے کہا ہے کہ قیامت بہت ہی نزدیک ہے،

۳۸

روحانیّت کے لحاظ سے بھی اور موت کے اعتبار سے بھی، پس اگر “من مات فقد قامت القیامۃ” (جو مر جائے تو اس کی قیامت برپا ہو جاتی ہے) کو اصول بنائیں تو نتیجے کے طور پر یوں کہنا ہو گا کہ جسمانی موت سے پہلے نفسانی طور پر مر جاتا ہے اپنے باطن کو پاک کرتا ہے اس کی بھی قیامت برپا ہو جاتی ہے، اور اگر کسی ملک پر یا تمام دنیا والوں پر کوئی بڑے سے بڑا خوف مسلط رہے تو ان پر بھی نفسانی موت واقع ہو گی اور قیامت کا منظر سامنے ہو گا، اس بیان سے ظاہر ہے کہ قیامت ہمیشہ جاری بھی ہے اور اس کے خاص خاص اوقات بھی ہیں، تفصیل کے لئے میری ایک کتاب “میزان الحقائق” میں دیکھیں۔

دنیا میں کیوں آگئے؟
سوال نمبر ۲۰: ہمیں کس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا؟ یا ہمیں اِس دنیا میں کیوں بھیجا گیا؟

جواب: جاننا چاہئے کہ ہم کو پیدا کرنے اور اِس دنیا میں بھیج دینے کا صرف ایک مقصد نہیں بلکہ بہت سے مقاصد ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ پر بہت ضروری ہے، تاہم ان میں ایک سب سے اعلیٰ مقصد بھی ہے جو تمام دینی اور دنیاوی مقاصد پر محیط اور حاوی ہے، اور وہ عبادت و معرفت ہے، یہاں عبادت سے مراد وہ تمام نیک اعمال ہیں جن کے بغیر مؤمن کو دین اور ایمان کا درجۂ کمال حاصل نہیں ہو سکتا ہے اور اس معرفت میں تمام معرفتیں شامل ہیں اور اس معرفت سے کوئی معرفت باہر نہیں۔
علم و عمل اور عبادت و معرفت اس دنیا میں آنے کے بعد ممکن ہے اور

۳۹

اس کے بغیر ناممکن ہے، یہ حقیقت ہے کہ دنیا کھیتی باڑی ہے آخرت کے لئے، لہٰذا دنیا کے بغیر آخرت آباد نہیں ہو سکتی ہے، اگر دنیا کے بغیر آخرت چل سکتی تو ہم دنیا میں ہرگز نہ آتے، ظاہر بات ہے کہ دنیا میں آنا ضروری تھا اس لئے ہمیں یہاں بھیجا گیا۔

بہشت اور دوزخ:
سوال نمبر ۲۱: قرآن میں جو بہشت اور دوزخ کا ذکر آیا ہے اس کے بارے میں اسماعیلیت کا کیا نظریہ ہے؟

جواب: قرآنِ مقدّس میں بہشت و دوزخ کے سلسلے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ حق ہے، مگر ہماری زیادہ سے زیادہ تسلی حکمت اور تاویل میں ہے، چنانچہ بہشت کائنات و موجودات کے باطن کی حیثیت سے ہے، یعنی وہ قرآنی ارشاد کے مطابق آسمان و زمین کے طول و عرض میں واقع ہے، جس میں بموجبِ آیۂ کریمہ: لَھُمْ مَّا یَشَآءُ وْنَ فِیْھَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ (۵۰: ۳۵) ان کے لئے اس (بہشت) میں سب کچھ ہو گا جو کچھ کہ وہ چاہتے ہیں اور ہمارے پاس اس کے علاوہ بھی ہے، وہ تمام نعمتیں موجود ہیں جن کی انسان خواہش رکھتا ہے اور وہ نعمتیں بھی ہیں جن کا شوق ابھی انسان میں پیدا نہیں ہوا ہے، جیسے جذبۂ دیدارِ الٰہی، اصل میں واصل ہو جانا، ازلی و ابدی سلطنت وغیرہ۔

جب جنّت کی نعمتیں خواہش کی بنیاد پر ہیں تو دیکھنا ہو گا کہ ہماری خواہش کی کتنی قسمیں ہیں، اگر ہم میں عشقِ حقیقی موجود ہے تو ہماری ہستی کا سب سے اعلیٰ عنصر ہے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں عشقِ حقیقی کی خواہشات، عقل کی خواہشات، روح

۴۰

کی خواہشات اور نفس کی خواہشات، خواہشات کی چار قسمیں ہیں اس لئے معلوم ہوا کہ جنّت کی نعمتیں سب سے پہلے دیدارِ خداوندی کی صورت میں ہیں، پھر عقلی و علمی نعمتیں ہیں، اس کے بعد روحانی لذّتوں کی حیثیت سے ہیں اور آخری نعمتیں نفسانی شکل کی ہیں مگر وہ بھی کثیف نہیں بلکہ لطیف۔

یہ بہشت باطنی اور روحانی ہے، لہٰذا اس میں مؤمن نہ صرف موت کے بعد داخل ہو سکتا ہے بلکہ وہ اس زندگی میں بھی جزوی طور پر جنّت کا مشاہدہ کر سکتا ہے، چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ جو مؤمنین خصوصی بندگی کے ذریعے سے روحانیّت کے اعلیٰ درجے تک ترقی کر چکے ہیں وہ دل کی آنکھ سے بہشت کو دیکھ رہے ہیں جب وہ اس دنیا سے فارغ ہو جائیں گے تو اس وقت وہ کلّی طور پر جنّت کو دیکھتے رہیں گے۔
قرآنی ارشاد (۲۹: ۶۴) کے مطابق آخرت کا گھر زندہ ہے، اور زندہ انسان اور حیوان ہے، اس سے ظاہر ہے کہ بہشت کے عقل و جان والے محلات پیغمبرؐ، امامؑ اور حقیقی مؤمنین ہیں، جن کے اندر اگر خدا کے نور کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ روحانیّت کی وہی بہشت موجود ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، اور دوزخ کے تنگ مکانات حیوانات ہیں اور جو لوگ قرآن کے (اُوْلٰئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلّ ۰۷: ۱۷۹ کے) فیصلے کے مطابق جانوروں میں شامل ہو چکے ہیں وہ بھی جہنم کے گھروں میں سے ہیں۔

اس مقام پر اگر میں اپنے روحانی مشاہدات و تجربات کی کوئی بات کروں تو شاید بیجا نہ ہو گا، اور وہ یہ ہے کہ جب میں ملکِ چین میں روحانیّت کا بھرپور کورس کر رہا تھا تو اس وقت میں نے اپنے گھر کے گیٹ کے سامنے ایک کتے کو دیکھا جو آہستہ آہستہ گزرتا تھا جس کے ساتھ لاتعداد روحیں وابستہ تھیں،

۴۱

یہ ادنیٰ روحیں کتے کی اپنی روح کے علاوہ تھیں، میں یہ حالت سامنے سے مشاہدہ کرتا تھا، اس وقت میری ظاہری آنکھ اور باطنی آنکھ مل کر ایک ہو گئی تھیں، دوسری دفعہ ایک بلی میں ایسا مشاہدہ ہوا کہ انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات پر سوار روحیں بلی سے خارج پھر داخل ہو جاتی تھیں، گویا وہ جہنم کے اُس تنگ مکان سے گریز کرنے کی ناکام کوشش کرتی تھیں، مگر کوئی قدرتی طاقت اُن کو واپس لاتی تھی، جب میں آخری دفعہ قید میں تھا تو ایک رات میں نے دل کی آنکھ سے مشاہدہ کیا کہ وہاں دور یا نزدیک اصطبل میں کوئی گھوڑا تھا یا گھوڑے تھے، اُن میں اسی طرح بے شمار روحوں کا آنا جانا نظر آتا تھا، حالانکہ میں قید کی چار دیواری میں تھا اور سامنے سے ظاہری طور پر دیکھنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔

یاد رہے کہ انسانوں میں اور حیوانوں میں دو قسم کی روحیں رہا کرتی ہیں، ایک قسم کی روحیں ان کی اپنی روحیں ہیں جو انسانوں کو اور جانوروں کو زندہ رکھتی ہیں، اور دوسری روحیں ان کو مستقل یا عارضی گھر کے طور پر استعمال کرتی ہیں، چنانچہ جب کوئی نیک انسان خدا و رسول اور صاحبِ امر کی مرضی کے مطابق علم و عمل کے ذریعہ ریاضت کرتا ہے تو نتیجے کے طور پر اس میں اچھی روحیں آتی ہیں، اس کی اپنی روح بھی سدھر جاتی ہے، وہ ان روحوں کو دیکھ سکتا ہے اور یہ اس کی روحانیّت ہے، جس میں نہ صرف خدا کی معرفت ہے بلکہ بہشت اور دوزخ کا مشاہدہ بھی ہے۔

نظامِ ہدایت:
سوال نمبر ۲۲: کہا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے پیغمبروں نے ہر زمانے

۴۲

میں بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کی ہے، لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ دنیا کے مختلف برِاعظموں کو ہدایتِ الٰہی کا کس طرح برابر برابر فائدہ ملا؟

جواب: یہ سوال بڑا اہم ہے اور اس کے جواب میں دین شناسی کی بہت سی مفید باتیں آسکتی ہیں، چنانچہ جاننا چاہئے کہ مذہب اور سائنس ایک دریا یا ندی کی طرح اصل میں ایک ہیں، لیکن زمانے میں آگے بڑھتے بڑھتے بعض دفعہ اس کی دو شاخیں بھی بنتی ہیں، یعنی ایک شاخ کا نام مذہب ہوتا ہے اور دوسری کا نام سائنس، کبھی مذہب میں زیادہ زور پیدا ہوجاتا ہے اور کبھی سائنس میں، مگر ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ جہاں مذہب اور سائنس ایک ہیں تو باطن اور ظاہر ایک ہیں اور جہاں یہ دونوں الگ الگ ہیں تو جاننا چاہئے کہ وہاں مذہب انسان کی ترقی کا باطنی اور روحانی پہلو ہے اور سائنس اس ترقی کا ظاہری اور مادّی پہلو ہے، اس منطق کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو بات یا جو کام انسان سائنس کی مادّیت سے کر سکتا ہے تو وہ مذہب کی روحانیّت سے بھی کیا جاسکتا ہے، مثلاً اگر آج سائنسی طاقت کے بل بوتے پر ہزاروں میل دور کے انسان آپس میں بات چیت کر سکتے ہیں، تو ہم کیوں یقین نہ کریں کہ رسول اللہ کے نور سے دنیا کے تمام ممالک میں ہدایت جاتی تھی، کیونکہ آپ اس کے بغیر کل جہانوں کے لئے رحمت نہیں ہو سکتے تھے، دنیا کے بارہ جزیروں میں آنحضرتؐ کے چوبیس (۲۴) حجّت تھے، اور آپ کے حضورؐ میں چار تھے، ان سب کا نام جاننا ضروری نہیں ہے، جس طرح ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کا نام ضروری نہیں، مگر ان کے وجود کے لئے اقرار ضروری ہے، سوائے نبی اکرمؐ کے حجّتِ اعظم کے نام کے کہ وہ علیؑ ہے۔

ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی جو تعداد بتائی جاتی ہے وہ اس طرح

۴۳

سے نہیں کہ وہ یکے بعد دیگرے دنیا میں آئے ہوں، بلکہ وہ ایسے ہیں کہ زمانے میں کوئی ایک پیغمبر ہدایت کے مرکز کی حیثیت سے ہوا کرتا تھا باقی اس کے حجّتوں اور داعیوں کی حیثیت سے دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہوتے تھے، اور ہادئ برحق کے مرکز سے ان حدودِ دین کو ان کے مرتبہ کے مطابق روحانی ہدایت ملتی رہتی تھی۔

سنی کہتے ہیں کہ معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ سے جو کلام کیا تھا وہ حضرتِ ابوبکر کی آواز میں کیا تھا، شیعہ کہتے ہیں کہ خدا کا وہ سارا کلام حضرتِ علیؑ کی زبان سے تھا، میں اس بارے میں ذاتی طور پر جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ تین درجوں میں ہے، اور میں دو درجوں کو محفوظ رکھ کر ابتدائی درجے کی بات کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ دونوں نے صحیح کہا کیونکہ قانونِ الٰہی بھی یہی ہے کہ جب بھی وحی ہوتی ہے تو وہ کسی نبی یا ولی کی زبان اور آواز سے ہوا کرتی ہے، کیونکہ خدا بیچون اور بے مثال ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر بڑے پیغمبر کو اس کے وزیر کی آواز میں آسمانی ہدایت ملتی ہے۔
دنیا کے تمام مذاہب والے اس بات کو مانتے ہیں کہ شیطان انسان کے نفسِ امّارہ میں بری باتیں ڈالتا ہے، تو کیا یہ خدا کے عدل و انصاف کے خلاف ہے جو ہم مانیں کہ ہادئ برحق انسان کی عقل میں اچھی اچھی باتیں ڈال سکتا ہے، کیونکہ اگر شیطان کو یہ طاقت پروردگار کی جانب سے ہے تو پیغمبر اور امام کو اس سے کہیں زیادہ خیر کی طاقت حاصل ہونی چاہئے، نیز اگر دنیا کے گوشہ گوشہ میں شیطان جا سکتا ہے اور اس کے علاوہ ہر مقام پر شیطان کا لشکر بھی ہے تو یقین کرنا ہو گا کہ ہادئ زمان بھی ہر جگہ پہنچ سکتا ہے کہ اس کا بھی جثّۂ ابداعیہ ہے اور اس کے بھی فلکی جسم میں لشکر ہیں جو ہدایت کے کام پر مامور ہیں، اور وہ حدودِ دین ہیں۔

۴۴

آج کل ٹیلی پیتھی (Telepathy) کے لئے کوشش کی جارہی ہے اور یہ ایک دن ضرور کامیاب ہو گی، اور اس وقت یہ چیز مذہب اور سائنس میں مشترک شمار ہو گی، پھر جو لوگ ہوشیار ہیں وہ سمجھ جائیں گے کہ انبیاء و اولیاء میں یہ چیز ہمیشہ سے موجود تھی۔

یہ آپ کے سوال کا مفصل جواب ہے جس میں آپ نے پوچھا تھا کہ زمانۂ قدیم میں جبکہ آج کی طرح مواصلات کے ذرائع نہ تھے، اگر کوئی پیغمبر کسی ملک میں آیا تو اس کی ہدایت سے پوری دنیا کو کس طرح خبر ہو سکتی تھی، جواب میں کہا گیا کہ اس پیغمبر کے تحت پوری دنیا میں حدودِ دین کا جال بچھا ہوا ہوتا تھا، جو کہ لوگوں کی سمجھ کے مطابق ہدایت کیا کرتے تھے اور حدودِ دین کو ہدایت کے مرکز سے روحانی تعلیم ملتی تھی وغیرہ۔ اِس بیان میں حقیقی مؤمنین کے لئے بہت سی حکمتیں ہیں۔

طریقِ عبادت:
سوال نمبر ۲۳: میں علامہ صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہمیں طریقِ عبادت کے موضوع پر لیکچر دیں۔

جواب: سوال نمبر ۱۴ کے جواب کو دیکھیں۔

بچوں کی پیدائش کا مسئلہ:
سوال نمبر ۲۴: اس دنیا کا خاتمہ کس طرح ہو سکتا ہے جبکہ ہر منٹ

۴۵

میں ہزاروں بچے پیدا ہوتے ہیں؟

جواب: میرے عزیز! آپ کا مسئلہ سب سے زیادہ دلچسپ ہے اور منطق بھی بہت ہی عجیب، کسی نے کہا ہو گا کہ دنیا ختم ہونے والی ہے، اور آپ کو خیال آیا کہ ان چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا حشر ہو گا جو منٹ منٹ پر ہزاروں کی تعداد میں پیدا ہوتے رہتے ہیں، گویا آپ کے نزدیک بچوں کی پیدائش ہی اس جہان کے قیام و بقا کی ضمانت ہے، مطلب یہی ہے نا!

میرے پیارے! تم کتنے نیک اور سادہ لوح ہو، تمہاری سادگی سے قربان جاؤں، یہ لو تمہارے سوال کے لئے بھی ایک سادہ جواب موجود ہے مگر تعجب کی بات ہے کہ تمہاری اس سادہ لوحی میں بھی علم آتا ہے، چنانچہ سورۂ حج (جو ۲۲ نمبر کا سورہ ہے) کی آیت نمبر ۵۵  (۲۲: ۵۵) میں اشارہ ہے کہ قیامت البتہ پوشیدہ پوشیدہ آئے گی مگر آگے چل کر اس کے کئی نتائج ظاہر ہوں گے اس میں سے ایک تو یہ ہے کہ ایک زمانے میں سب عورتیں بانجھ ہو جائیں گی اور کسی کے ہاں کوئی بچہ نہیں ہو گا، اُس زمانے کو قرآن نے “یومِ عقیم” کہا ہے، یعنی بانجھ پن کا دن، اب شکر کرو کہ اگر دنیا کا خاتمہ ہوا تو اُس وقت چھوٹے چھوٹے بچے سامنے نہیں ہوں گے۔

حضرتِ عیسیٰؑ :
سوال نمبر ۲۵: کیا حضرتِ عیسیٰؑ کو سولی دی گئی تھی یا نہیں (قرآن سے ثبوت چاہئے)، نور کہاں سے آیا ہے؟

جواب: حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کے بارے میں میرا ایک مقالہ

۴۶

ہے جو پنج مقالہ نمبر ۲ میں چھپ گیا ہے، آپ اس کو دیکھیں، ہمارا اُصول یہ ہے کہ اگر کسی سوال کا جواب ہمارے پاس لکھا ہوا موجود ہے تو دوبارہ نہیں لکھتے ہیں، بوقتِ ضرورت صرف حوالہ دیتے ہیں، تاہم بطریقِ مختصر یہاں بھی کچھ اہم باتیں بتائی جاتی ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ اپنے دوستوں کو جو انبیاء و اولیاء ہیں دنیا کی سخت ترین مصیبتوں میں صبر و ثبات سے کام لینے اور اعلائے حق کے لئے خود کو قربان کر دینے کی ہمت دینے کی بجائے میدانِ مقابلہ سے بھاگ جانے کا ذریعہ مہیا کرے تو پھر جذبۂ قربانی اور ذوقِ شہادت کا وجود ہی نہ رہے گا، اور راہِ خدا میں کوئی شخص تکلیف اُٹھانے کے لئے تیار نہ ہو گا، اس منطق سے ظاہر ہے کہ حضرتِ عیسیٰؑ کا مبارک جسم دین کی خاطر قربان ہو گیا تھا۔
معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان شہیدوں کو جو راہِ خدا میں قتل کئے گئے ہیں زندہ قرار دیتا ہے (۰۳: ۱۶۹) اور کچھ لوگوں کو جو زندہ ہیں مردہ قرار دیتا ہے (۱۶: ۲۱) کیا ایسے واقعات کے دو دو پہلو نہیں ہیں، کیا اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ شہید جسم کے اعتبار سے مر تو جاتے ہیں مگر روح کے لحاظ سے زندہ ہیں، اور جو لوگ زندہ ہونے کے باوجود خدا کی نظر میں مردہ شمار ہوئے ہیں وہ جسمانی طور پر زندہ تو ہیں مگر روحانیّت میں مرے ہوئے ہیں، پس جاننا چاہئے کہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کو جسمانیّت میں سولی دے کر شہید کیا گیا تھا، مگر روحانیت میں خدا کے حضور وہ زندہ تھے، کیونکہ وہ روح اللہ تھے اور تمام انبیاء و اولیاء ایسے ہیں پھر خدا کی روح کو کون کیا کر سکتا ہے، حضرتِ عیسیٰؑ سے متعلق قرآنی آیتوں کا خلاصہ یہی ہے، آپ مزید تفصیلات کے لئے اس مقالہ کو دیکھیں جس کا ذکر ہو چکا ہے۔

اس سوال کے آخر میں یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ نور کہاں سے آیا؟ اِس سوال کے پس منظر میں یہ تصوّر ہے کہ نور اب جس مقام پر ہے گویا اس مقام پر

۴۷

وہ پہلے موجود نہیں تھا، حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ نور ہمیشہ ایک شان سے ہے، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے کہ “اللہ تعالیٰ کائنات و موجودات کا نور ہے” (۲۴: ۳۵)۔

۱۔ اگر اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین (یعنی کائنات و موجودات) کا نور ہے تو اس کے معنی یہ ہیں، کہ یہ پوری کائنات اور یہ ساری موجودات جو آج ہیں وہ سب ازل میں اپنی نورانی شکل و صورت میں خدا کے نور کے سمندر میں ڈوبی ہوئی تھیں، جن کو خدا تعالیٰ نے مادّی وجود میں ظاہر کیا۔

۲۔ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ عالمگیر روح ایک ایسی روشنی ہے جو کائنات و موجودات کی روحانی تحلیل سے ظہور پذیر ہو جاتی ہے، اور یہ حقیقت متعلقہ آیت کی تشریح سے باہر نہیں ہے۔

۴۸

سو سوال
حصہ دوم

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حرفِ آغاز

پروردگارِ عالم کے اُس بابرکت اور مقدّس بزرگ نام سے جو زندہ و گویندہ ہے، جو علم و حکمت اور رشد و ہدایت کا سرچشمہ اور توفیق و تائید کا ذریعہ ہے، جس کو کماحقہ یاد کرنے سے قلبی سکون اور روحانی راحت حاصل ہوتی ہے اور جس میں عین الیقین کا نور اور حق الیقین کا مرتبہ پنہان ہے۔

“سو سوال حصہ دوم” کی تمہید لکھتے ہوئے دل میں مسرت و شادمانی اور شکرگزاری کے گوناگون جذبات اُبھر رہے ہیں، یہ شاید اس لئے کہ ہماری حقیر سی ہستی کی طرف سے جو کوشش ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے، مگر خداوندِ برحق کے احسانات و انعامات بہت ہی عظیم ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے “سو سوال” کی کتاب بہت بڑی اہمیّت و افادیت والی ثابت ہو گی، کیونکہ اِس میں عظیم کینیڈا کی ہماری عظیم جماعت کے خاص خاص سوالات کے لئے تسلی بخش جوابات درج ہوئے ہیں۔

آپ پر یہ حقیقت روشن ہے کہ انفرادی سوال آسان بھی ہو سکتا ہے اور مشکل بھی، مگر اجتماعی سوال ہر حالت میں مشکل ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ غور و فکر کے بہت سے مراحل سے گزر کر سامنے آتا ہے، تاہم امامِ برحقؑ کے توسط سے پروردگارِ عالم سے جو توفیق و تائید حاصل ہوتی ہے وہ بہت بڑی چیز ہوا کرتی ہے۔

یہاں سوال ہے کہ سوال کب اور کس موقع پر پیدا ہوتا ہے؟ یا کیونکر

۵۳

پیدا ہوتا ہے؟ سوال اُس وقت اُٹھتا ہے جبکہ علم و حکمت کے راستے میں چلتے چلتے کوئی رکاوٹ سامنے آئے، یا مذہب اور امام کی شناخت کے سلسلے میں کوئی شک پیدا ہو، یا کسی بحث کے نتیجے پر اس کی ضرورت محسوس ہوئی ہو، بہر حال ظاہر ہے کہ سوال کا جواب دانشمند کے نزدیک ضروری ہوا کرتا ہے، اور اس کے بغیر علم و دانش کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، اور نہ ہی علمی طور پر کسی کی مدد ہو سکتی ہے۔

اپنوں کو اور دوسروں کو علم پیش کرنے کے بہت سے طریقے ہیں، لیکن سب سے منظم طریقہ یہی ہے کہ سوال و جواب کے اصول سے کام لیا جائے، تا کہ علم کے ضروری پہلوؤں سے بحث ہو اور مطلوبہ باتیں آسانی سے ذہن نشین ہو جائیں۔

یہ کتنی اچھی بات ہے کہ ہم اپنے علمی مسائل کو خود ہی آپس میں سوال و جواب کے ذریعے سے حل کریں بجائے اس کے کہ یہی سوالات دوسرے لوگ ہم سے پوچھا کریں اور ہم ان کی بحثوں میں پڑیں۔

ان شاء اللہ تعالیٰ “سو سوال” کی کتاب، جو چار الگ الگ حصوں میں شائع ہو رہی ہے، بہت ہی سودمند اور مفید ثابت ہو گی، خصوصاً اُس وقت جب کہ اس کے ترجمے ہوں۔
اگر میں اس موقع پر خانۂ حکمت کے ہوشمند عملداروں اور سرگرم اراکین کے ذکرِ جمیل کو پسِ پشت ڈالوں تو یہ میری ایک ناشکری اور احسان فراموشی ہوگی، ظاہر بات ہے کہ علم کو کتابی شکل دے کر منظرِ عام پر لانے کے سلسلے میں بہت سی مشکلیں سامنے آتی ہیں، جن پر قابو پانے کے لئے ایک ایسی منظم جمعیت کی ضرورت ہے، جس کے افراد میں گوناگون قوّتیں

۵۴

اور طرح طرح کی صلاحیتیں پائی جاتی ہوں، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ خانۂ حکمت کے اراکین میں یہ تمام صفات بدرجۂ اتم موجود ہیں۔

حق بات تو یہ ہے کہ ہمارے عزیزوں کی جمعیت علم کی اشاعت کے لئے بہت کچھ جدوجہد کر رہی ہے اور اس کا نتیجہ تسلی بخش ہے اور ان شاء اللہ اس نیک کام میں مزید ترقی کی امید ہے۔

جہاں علمی خدمت کا کوئی ذکر آئے وہاں جانِ عزیز ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی کا پرلطف تذکرہ ضرور ہونا چاہئے، اس کے بغیر نہ مجھے کوئی مزہ آتا ہے اور نہ میرے عزیزوں کو، جب میں موصوف کا نامِ گرامی لیتا ہوں تو اس سے میری مراد ایک علمی دنیا ہوتی ہے، جس میں علم و حکمت کی ہر شیٔ کے علاوہ مشرق و مغرب کے بہت سے علم دوست افراد سموئے ہوئے ہوتے ہیں، چنانچہ میں جانِ عزیز کے وسیلے سے سب عزیزوں کو یاد کرتا ہوں۔

میں یہاں ان حضرات، احباب اور عزیزوں کو بھی یاد کرتا ہوں جو پاکستان کے مختلف شہروں میں رہتے ہیں اور جو شمالی علاقہ جات میں بستے ہیں، جن کو میری کتابوں سے دلچسپی ہے، جن کے علمی ذوق و شوق کو دیکھ کر مجھے کام کا حوصلہ ملتا ہے، جو علم دوستی اور قدردانی جیسے اوصاف سے موصوف ہیں اور جو جان و دل سے علم کی روشنی پھیلانے کے خوہشمند ہیں۔

کاش کہ میں بہترین الفاظ میں کینیڈا کی نیک نام جماعت کا پرخلوص شکریہ جیسا کہ چاہئے ادا کر سکتا، کہ انہوں نے اس حقیر شخص میں امامِ عالی قدر کے روحانی علم پر اعتماد کرتے ہوئے ضروری سوالات کئے ورنہ “سو سوال” جیسی اہم کتاب عرصۂ وجود میں نمودار نہ ہوتی صرف یہی نہیں بلکہ اِس عظیم جماعت کے وسیلے سے ہمارا دائرۂ کار مشرق سے لے کر مغرب تک پھیل چکا ہے، جس

۵۵

کے لئے میں خصوصاً کینیڈا کے دوستوں اور عزیزوں کا شکر گزار اور ممنون ہوں۔
آخر میں عاجزانہ دعا ہے کہ خداوندِ عالم روحانی علم کی خدمت کرنے والوں کو اور اس علم سے دلچسپی رکھنے والوں کو دونوں جہان کی سلامتی اور کامیابی عطا فرمائے! ربّ العزّت ان جان نثار مؤمنین سے ہمیشہ راضی ہو! جو دینی علم کے فروغ و ترقی کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں دیتے رہتے ہیں! آمین یا ربّ العالمین!!

فقط بندۂ عاجز
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
بروزِ جمعہ ۲۸ شعبان ۱۳۹۸ھ، ۴ اگست ۱۹۷۸ء، سالِ اسپ

۵۶

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ظہوراتِ روح:
سوال نمبر ۲۶: روح کے دنیا میں بار بار آنے کے بارے میں اسماعیلیّت کا کیا عقیدہ ہے؟ کیا روح کے ہمیشہ مختلف ظہورات ہوتے رہتے ہیں؟

جواب: اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دینِ اسلام شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کا مجموعہ ہے، چنانچہ زمانۂ رسولؐ سے لے کر قیامت تک جتنا لمبا دور ہے وہ اسلام کے ان چاروں درجوں پر تقسیم ہے لہٰذا سب سے پہلے شریعت پر زور دیا جاتا ہے، اس کے بعد سب نہیں تو کچھ لوگ طریقت میں داخل ہو جاتے ہیں، تھوڑے سے لوگ حقیقت میں بھی پہنچ جاتے ہیں، اور معرفت تک بہت ہی کم لوگ رسا ہو جاتے ہیں، اس کے یہ معنی ہوئے کہ اسلام کی ظاہری تعلیمات پہلے آتی ہیں اور باطنی تعلیمات بعد میں، چنانچہ باطنی تعلیمات (یعنی حقیقت اور معرفت) کے مطابق روح دنیا میں بار بار آتی رہتی ہے، مگر روح کے بارے میں یہ سوال کافی نہیں ہے، کیونکہ ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ کیوں آتی ہے؟ اور کب آتی ہے؟ کس طرح آتی ہے؟ ناکامی کی صورت میں آتی ہے؟ یا کامیابی کی صورت میں یا دونوں طرح سے؟ پھر فرق کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

۱۔ اگر روح کا دنیا میں ظاہر ہو جانا رحمت ہے تو یہ رحمت بار بار کیوں نہ ہو، رحمتِ خداوندی تو لا انتہا ہوتی ہے۔

۵۷

۲۔ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کے وجود و بقا کا تصور ایک دائرے کی طرح دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہر چیز ایک دائرے پر گردش کرتی رہتی ہے۔
۳۔ پیغمبرؐ کا ارشاد ہے کہ تمام امتوں کے مؤمنین بھائی بھائی ہیں اور تمام انبیاء ایک جان کی طرح ہیں۔ اگر سارے پیغمبر ایک جان کی طرح ہیں تو ان سب کا دنیا میں آنا ایک پیغمبر کے بہت سے ظہورات کی طرح ہیں، پس حقیقت کی رو سے یہ کیوں نہ کہیں کہ اگر تمام انبیاء ایک جان کی طرح ایک ہیں تو ان کے وہ سارے ظہورات دراصل نورِ محمدی کے تھے اور اماموں کی صورت میں بھی اسی ایک نور کے مختلف ظہورات ہیں، پس معلوم ہوا کہ روح کے بھی ظہورات ہوتے رہتے ہیں۔
۴۔ ہمارے تمام مسائل قرآنی حکمت ہی سے حل ہو سکتے ہیں، چنانچہ حکمت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ کائنات کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی فطرت ہے اور خدا نے لوگوں کو اسی فطرت کے مطابق پیدا کیا ہے اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اس کائنات کی اور اس کے اندر جتنی چیزیں ہیں ان سب کی شکل اور چال یعنی گردش گول ہے اور اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اپنی شکل  و صورت سے یا رفتار سے دائمی گردش کو ظاہر نہ کرتی ہو، مثلاً آسمان، سورج، چاند، سیارے، ستارے، ہوا، پانی، زمین وغیرہ اس سے ظاہر ہے کہ انسان بھی آتا جاتا رہتا ہے، مگر فرض کرو کہ سو لاکھ سو لاکھ سو لاکھ (تین کروڑ) برس میں جانا ہے اور سو لاکھ سو لاکھ سو لاکھ (تین کروڑ) برس میں آنا ہے، اور پورے دائرے کی مسافت چھ کروڑ برس کی ہے۔
اس کے علاوہ سوال نمبر ۱ اور سوال نمبر ۲ کے جواب کو بھی پڑھیں، تا کہ مطلب خوب ذہن نشین ہو جائے۔

۵۸

بنی آدم:
سوال نمبر ۲۷: کیا سارے انسان آدم و حوّا سے ہیں یا یہ کسی ایسے ارتقاء کی پیداوار ہیں، جیسا کہ مولائے رومی نے اس کا تصوّر پیش کیا ہے، کہ جمادات کی ترقی سے نباتات بن گئیں اور نباتات سے حیوانات بن گئے پھر انسان؟

جواب: اس سوال میں ڈارون اور مولائے رومی کے دو الگ الگ نظریوں کو خلط ملط کر کے پیش کیا گیا ہے، حالانکہ مولانا رومی کا نظریہ وہی ہے جو اسلام کا ہے اور اس میں ذرا بھی فرق نہیں، کہنا یوں ہے کہ رومی نے کب کہا ہے کہ دنیا کے انسان حضرت آدم کی اولاد نہیں ہیں؟ آپ ان کی کتابوں کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو معلوم ہو جائے گا۔

رومی نے جو کچھ کہا ہے اور جس طرح سے کہا ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے، مولائے رومی نے قرآنِ حکیم کی روشنی میں انسانی تخلیق کے مختلف درجات کا ذکر کیا ہے، چنانچہ قرآن میں جگہ جگہ انسان کو مٹی سے پیدا کئے جانے کا ذکر موجود ہے، اور مٹی جمادات میں سے ہے، پھر ارشاد ہے کہ خدا نے تم کو زمین سے نباتات کی شکل میں اُگایا ہے (۷۱: ۱۷) نیز قرآن میں یہ بھی ہے کہ انسان حلال جانور کے دودھ کو پیتا ہے اور گوشت کھاتا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ جمادات، نباتات اور حیوانات سے انسان کی شخصیت بنتی ہے اور حیوانی روح بنتی ہے، مولائے رومی نے انہی معنوں میں اپنے متعلق کہا ہے کہ وہ پہلے جمادات تھے، پھر نباتات ہو گئے بعد ازان حیوان میں آ گئے،

۵۹

اس کے بعد انسان میں بدل گئے اور جس معنیٰ میں انسان آدم کی اولاد ہیں وہ یہ ہے کہ آدمیّت اور انسانیت کی روح آدم و حوّا سے چلی آئی ہے اور پشت بہ پشت چلتی رہی ہے۔
انسانی تخلیق کے مختلف اعتبارات کیوں ہیں؟

اس لئے کہ انسانی وجود بہت سے عناصر سے مکمل ہو جاتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ انسان پوری کائنات و موجودات کا خلاصہ ہے، کیونکہ انسان کئی کئی تخلیقوں کے بعد مکمل ہو گیا ہے اور اس میں ہر چیز موجود ہے۔

سوال نمبر ۷ کے جواب کو بھی پیشِ نظر رکھو اور غور سے پڑھو تا کہ مطلب واضح ہو سکے۔

حضرتِ خضر:
سوال نمبر ۲۸: حضرتِ خضرؑ کون ہے اور دنیا میں اس کی دائمی موجودگی کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟

جواب: حضرتِ خضر علیہ السّلام اپنے وقت میں ایک پیغمبر تھا، اور وقت آنے پر دنیا سے رحلت کر گیا، مگر کسی نہ کسی طرح سے یہ ایک روایت بن گئی کہ خضر پیغمبرؑ نے آبِ حیات پی لیا تھا، لہٰذا وہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہے، اِ س سلسلے میں لوگوں کو گمان تھا کہ دنیا کے کسی گوشے میں ظلمات (تاریکیاں) کے نام سے ایک مقام ہے، جہاں آبِ حیات کا چشمہ پایا جاتا ہے، جس کو اگر کوئی آدم زندگی میں ایک بار پی سکتا ہے، تو وہ کبھی نہیں مرتا بلکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہتا ہے، کہتے ہیں کہ اسکندر نے آبِ

۶۰

حیات حاصل کرنے کے لئے کوشش کی تھی، مگر وہ کامیاب نہیں ہوا، اِن ساری باتوں کی بنیاد کہانی پر قائم کی گئی ہیں نہ کہ حقیقت پر۔

مگر یہ بات درست ہے کہ اِس مشہور روایت سے مثال کا کام لے کر اکثر دفعہ تاویل پیش کی گئی ہے، چنانچہ ظلمات کی تاویل ہے جہالت و نادانی، کیونکہ معرفت اسی میں پوشیدہ ہوا کرتی ہے، آبِ حیات سے معرفت مراد ہے اور خضرؑ کے معنی ہیں ہادئ برحق جو ہر وقت دنیا میں حاضر ہے، چونکہ معرفت کے آبِ زندگانی کا رہنما وہی ہے، اور معرفت ہی حقیقی معنوں میں آبِ حیات ہے، جس کے حصول سے مؤمن روحانی طور پر زندۂ جاوید ہو جاتا ہے نہ کہ جسمانی طور پر۔

قرآنِ حکیم سختی کے ساتھ اس بات کی تردید کرتا ہے کہ کوئی نفس موت کا مزہ نہ چکھے (۲۹: ۵۷) اور کوئی جسم آنحضرتؐ سے قبل ہمیشہ کے لئے زندہ رہے(۲۱: ۳۴) پھر کس طرح حضرتِ خضرؑ اور حضرتِ عیسیؑ یا اور کوئی جسمانی طور پر ہمیشہ کے لئے زندہ رہ سکتا ہے۔

آج کل سائنس اور ٹیکنالوجی نے دین کی حقیقتیں سمجھنے کے لئے بڑی آسانیاں پیدا کر دی ہیں، چنانچہ ظاہر ہے کہ اس سیّارۂ زمین پر کہیں کوئی ایسا آبِ حیات نہیں پایا جاتا کہ جس کے پینے سے انسان ہمیشہ کے لئے جسمانی طور پر زندہ رہ سکے، پھر حضرتِ خضرؑ کی جسمانی زندگی کی روایت بغیر تاویل کے کس طرح درست ثابت ہو سکتی ہے۔

۶۱

نبوّت اور امامت:
سوال نمبر ۲۹: کسی پیغمبر اور امام کے درمیان کیا فرق ہوتا ہے؟

جواب: نبوّت اور امامت ایک ہی حقیقت کے دو پہلو یا کہ ایک ہی نور کے دو رخ ہیں لہٰذا باطن کے باطن میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں، مگر ظاہر میں فرق ہے، اور وہ بھی ہمیشہ نہیں بعض دفعہ، جس کی وضاحت یہ ہے کہ زمانہ دو حصوں میں منقسم ہے ایک دورِ نبوّت ہے اور دوسرا دورِ امامت، چنانچہ اگر نبوّت کا دور ہے تو امام بعض دفعہ کسی نمایان پیغمبر کی حیثیت سے بھی ہو سکتا ہے، بعض اوقات کسی ایسے پیغمبر کی شخصیت میں بھی جس کو بہت کم لوگ جانتے ہیں اور بعض مرتبہ کسی مخفی کامل انسان کی صورت میں بھی، اور اگر امامت کا دور ہے تو امامِ عالی مقام حضرتِ پیغمبرؐ کا جانشین ہوا کرتا ہے، جیسا کہ اس زمانے میں ہے اس کے یہ معنی ہوئے کہ دورِ نبوّت میں امامت کا مرتبہ بحیثیتِ مجموعی پوشیدہ رہتا ہے اور دورِ امامت میں یہ مرتبہ آشکار ہو جاتا ہے۔

پیغمبرؐ کا دائمی معجزہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آسمانی کتاب کو حاصل کرتا ہے اور اس کی تنزیل بیان کرتا ہے اور امام کا معجزہ یہ ہے کہ وہ اس کتاب کی روحانیّت و تاویل سکھاتا ہے، رسولؐ اپنے وقت میں صرف انہی لوگوں کی ہدایت فرماتا ہے جو اقرارِ نبوّت کے دائرے میں داخل ہیں اور آئندہ ہدایت امام کے سپرد کر دیتا ہے، اور امام صرف انہی لوگوں کی ہدایت کرتا ہے جو اقرارِ امامت کے دائرے میں آ چکے ہیں۔

۶۲

پیغمبرؐ نے جس طرح ایک ایسی پُرحکمت کتاب لائی کہ اس کے ظاہر و باطن میں شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کی تعلیمات موجود ہیں، امامِ عالی مقامؑ اسی طرح زمانے کی ترقی و تبدیلی کے ساتھ ساتھ قرآن اور اسلام کی ان تعلیمات میں لوگوں کو آگے بڑھاتا ہے اور صراطِ مستقیم پر منزل بمنزل ان کی رہنمائی کرتا ہے۔

حضرتِ حسنؑ :
سوال نمبر ۳۰: یہ تو مسلّمہ ہی ہے کہ حضرتِ حسنؑ پنجتنِ پاک کا ایک رکن ہیں اور اس کے علاوہ اسماعیلی نقطۂ نگاہ سے حضرتِ حسنؑ کا کیا درجہ ہے؟

جواب: جیسا کہ سوال نمبر ۸ کے جواب میں اس کا مفصل ذکر گزرا اور سوال نمبر ۳۲ کے جواب میں بھی اس کا مختصر ذکر کیا گیا ہے کہ حضرتِ حسن علیہ السّلام امام تھا، مگر امامِ مستودع، کیونکہ نورِ امامت زمان و مکان کے تقاضا کے مطابق مختلف درجات میں ظہور پذیر ہوتا ہے، مثلاً امامِ مقیم، امامِ اساس، امامِ متم، امامِ مستقر اور امامِ مستودع (دیکھو کتاب الامامۃ فی الاسلام صفحہ ۱۴۳)

امامِ مستودع امامِ مستقر کے علاوہ ہوتا ہے، جس کی امامت ایک پشت یا چند پشتوں کے بعد امامِ مستقر میں لوٹ جاتی ہے، چنانچہ حضرتِ ابراہیمؑ کے بعد حضرتِ اسماعیل ؑ امامِ مستقر تھا اور حضرتِ اسحاقؑ امامِ مستودع، جس کی امامت کئی پشتوں کے بعد آنحضرتؐ کے زمانے میں مستقر کی طرف لوٹ آئی تھی (ملاحظہ ہوں مذکورہ کتاب کے

۶۳

صفحات ۱۴۹، ۱۵۱، ۱۵۳ اور ۱۵۵)

وارثِ رسولؐ:
سوال نمبر ۳۱: اگر اہلِ سنت واقعۂ غدیرِ خم سے انکار کریں تو کس طرح کوئی شیعہ ثابت کر سکتا ہے کہ حضرتِ علیؑ ہی رسول کے حقیقی وارث اور حقدار جانشین تھے؟

جواب: یہ مسئلہ کوئی نیا تو نہیں، اس بنیادی اہم موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، لہٰذا آپ خود ان کتابوں کا غوروفکر سے مطالعہ کریں، تاہم آپ کی فوری خواہش کے پیشِ نظر یہاں پر بھی کچھ وضاحت کی جاتی ہے کہ:
(الف) وارثِ رسولؐ امام علی و أئمۂ اولادِ علی علیہم السّلام ہی ہیں، جن کو بموجبِ ارشادِ قرآنی (۳۵: ۳۲) اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتاب کی وراثت کے لئے برگزیدہ فرمایا ہے، تاکہ وہ آنحضرتؐ کے بعد اس ربّانی منشاء کا عملی نمونہ بن کر دنیا میں ہمیشہ حیّ و حاضر رہیں، اور حقدار مسلمین و مؤمنین کی بجا طور پر ہدایت و رہنمائی کریں۔
(ب) آپ نے سوال میں اتفاقاً لفظ “انکار” کو استعمال کیا ہے، جس کی مراد یہاں محکم دلائل کو قبول نہ کرنا ہے، اور یہ ایک ایسی منطق ہے کہ اس سے آپ کا سوال خود بخود ختم ہو جاتا ہے، اور مزید پوچھنے کی گنجائش نہیں رہتی۔
(ج) اولادِ علیؑ کے أئمّۂ اطہار علیہم السّلام کے سلسلۂ امامت و ہدایت کا اسی طرح جاری و باقی رہنا جس طرح کہ شروع سے اب تک چلے آیا ہے خود اس

۶۴

حقیقت کا سب سے عظیم اور سب سے روشن ثبوت ہے کہ اہلِ بیتِ رسول ہی آنحضرتؐ کے حقیقی وارث ہیں اور اس پاک آسمانی وراثت کے حقدار یہی حضرات ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا مقصد ہی یہی ہے کہ دین میں ہمیشہ کے لئے نظامِ ہدایت اسی طرح قائم رہے جس طرح پیغمبرِ اکرمؐ کے زمانے میں تھا۔
(د) علیؑ و أئمّۂ اولادِ علیؑ کے سوا اور کون سا سلسلہ ہے جو حبل اللہ کا ممثول ہو سکے، کہ خدا کی رسی کبھی ٹوٹتی نہیں (۰۳: ۱۰۳)، خدا کا نور کہلائے کہ وہ ہرگز نہیں بجھتا (۶۱: ۰۸)، ایک پاک سدا بہار درخت کی طرح ہمیشہ اور ہر موسم میں پھل دیتا رہے کہ اس کی جڑ مضبوط اور شاخ آسمان میں جا لگی ہے (۱۴: ۲۴ تا ۲۵)، ولئ امر کی حیثیت سے خدا و رسولؐ کی نمائندگی کرے کہ دینی ہدایت کا مرکز ہمیشہ قائم رہتا ہے (۰۴: ۵۹) اور اس کے وسیلے سے آلِ ابراہیم اور آلِ محمدؐ کی عظمت و بزرگی برقرار رہے کیونکہ آسمانی کتاب و حکمت اور ملکِ عظیم (روحانی سلطنت) کی میراث کی فضیلت قیامت تک صرف اسی خاندان کو حاصل ہے (۰۴: ۵۴)۔

امام اسماعیل ؑ :
سوال نمبر ۳۲: فلان کتاب کے فلان صفحے پر مصنف نے لکھا ہے کہ امام اسماعیلؑ اپنے پدرِ بزرگوار امام جعفر الصادقؑ کی زندگی ہی میں انتقال کر گئے تھے، اور جناب موسیٰ کاظم حقیقی جانشین تھے، کیا آپ کچھ جوابی دلائل سے ہمیں یہ ثبوت مہیا کر دیں گے کہ امام جعفر الصادقؑ کے بعد امام اسماعیلؑ زندہ تھے، اور امامت کے حقیقی وارث بھی وہی تھے؟

جواب: مخالفانہ قسم کی کتابوں کو اہمیت دینا بہت بڑی کمزوری

۶۵

ہے، لیکن جاننے کے لئے سوال کرنا ضروری ہے سو جاننا چاہئے کہ قانون دین کا ہو یا دنیا کا، اس میں ہمیشہ یہی ہوا کرتا ہے، کہ وہ ایک طرف سے ایسے عام اصولات کا مجموعہ ہوتا ہے جو وہ ہر وقت ایک جیسے رہتے ہیں، اور دوسری طرف سے اس میں خصوصی واقعات اور مستثنیات کے لئے ہر وقت گنجائش بھی رہتی ہے، تا کہ بوقتِ ضرورت کوئی تنگی نہ ہو، چنانچہ کتابِ “وجہِ دین” حصّۂ اوّل کلام نمبر ۱۱ صفحہ ۱۱۲ پر تحریر ہے کہ شاہ اسماعیلؑ کی امامت ان کے والد کی موجودگی ہی میں محمد بن اسماعیلؑ میں منتقل ہو گئی تھی، جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ امام جعفر الصادقؑ نے وقت سے بہت پہلے اسماعیل کو امامت تفویض کر دی تھی اور امام اسماعیلؑ نے بھی ایسا ہی کیا تھا، یعنی انہوں نے اپنے والدِ ماجد کی موجودگی ہی میں امامت اپنے بیٹے محمد بن اسماعیلؑ پر نص کر دی تھی، اس سے وہ تاریخی سوال ختم ہو گیا کہ امام اسماعیلؑ کا انتقال کب ہوا تھا؟ باپ کی زندگی میں یا بعد کے کسی وقت میں؟ کچھ بھی ہو، بہر حال امامت کا سلسلہ اسماعیلؑ کے ذریعے سے جاری تھا نہ ان کے بھائی کے وسیلے سے، اور آج تک جبکہ امامت حضرتِ امام اسماعیلؑ کی نسل میں سے چلی آئی ہے تو ماننا پڑے گا کہ امام اسماعیلؑ ہی حق پر تھے۔

یہ درست ہے کہ امامت اکثر دفعہ امام کی جسمانی زندگی کے آخری ایام میں یا آخری لمحات میں منتقل ہو جاتی ہے، یہ دراصل صرف اختیار کی منتقلی کی بات ہے، ورنہ یہ سچ ہے کہ ہونے والا امام روحانیّت اور نورانیّت کی منزلیں بہت پہلے ہی طے کر لیتا ہے، کیونکہ نور مادّی چیز کی طرح ایسا نہیں کہ وہ صرف ایک ہی شخصیّت میں محدود ہو، بلکہ وہ بیک وقت کئی شخصیتوں میں موجود ہو سکتا ہے، چنانچہ پنجتن کی مثال لی جائے کہ نور اُن پانچ حضرات میں سے کس میں تھا؟ سب میں نا، اختیار کس کو حاصل تھا؟ ایک کو، جو آنحضرتؐ تھے، اس سے

۶۶

ظاہر ہے کہ نورِ امامت کی روشنی باپ کے علاوہ بیٹے اور پوتے میں بھی پہنچتی ہے، کیونکہ نور ایک دن میں منتقل نہیں ہو سکتا ہے اور جو چیز فوراً منتقل ہو سکتی ہے وہ دینی ہدایت کا اختیار ہے۔

 

قرآن میں یہ ذکر ہے کہ خدا کے نور کو کوئی نہیں بجھا سکتا لیکن اس کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ کبھی کسی پیغمبر کو اور کسی امام کو شہید نہیں کیا گیا، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ خداوند تعالیٰ ایسا وقت آنے پر جس تدبیر سے اپنے نور کو دوسری شخصیّت میں تبدیل کرتا ہے اس کے بھید ایسے ہیں کہ ان کو ہر شخص نہیں پا سکتا، چنانچہ زمانے کے خطرات کے پیشِ نظر شاہ اسماعیلؑ کی امامت معجزانہ طور پر محمد بن اسماعیلؑ میں منتقل ہو گئی تھی۔

سیدنا قاضی نعمان کتاب “اساس التاویل” میں اور پیر ناصر خسرو قس کتاب “وجہِ دین” میں فرماتے ہیں کہ حضرتِ یعقوبؑ کی امامت بہت پہلے ہی حضرتِ یوسفؑ کو منتقل ہو گئی تھی، جس کی وجہ یوسفؑ کے بھائیوں کی دشمنی تھی، وہ نہیں چاہتے تھے کہ باپ کی نظرِ انتخاب ان کو چھوڑ کر یوسفؑ پر رہے۔

حضرتِ علیؑ کی شہادت سے پیشتر حضرتِ حسنؑ اور حضرتِ حسینؑ میں نورانیّت اور امامت کی صلاحیت آچکی تھی، جس کے بارے میں پیغمبرؐ نے ارشاد فرمایا تھا کہ “حسن اور حسین دونوں امام ہیں خواہ کھڑے ہو جائیں یا بیٹھیں اور ان کا والد ان سے بہتر ہے۔”

اسی طرح حضرتِ امام حسینؑ کی شہادت سے پہلے ہی امامت حضرتِ زین العابدین کو مل چکی تھی، کیونکہ قدرت وقت کے تقاضا کے مطابق اپنا کام کرتی ہے، پس یہ حقیقت اور زیادہ روشن ہوئی کہ حضرتِ اسماعیلؑ کی امامت وقت سے پہلے محمد بن اسماعیلؑ میں منتقل ہوئی تھی جس کا سبب اوپر بتایا گیا۔

۶۷

روحانی ترقی:
سوال نمبر ۳۳:روحانی ترقی کی بنیادی شرطیں کیا ہیں؟ اگر ایک مؤمن عرصۂ دراز سے باقاعدہ عبادت کرتا رہا ہے پھر بھی اس کی کوئی ترقی نہیں ہوئی ہے تو ایسی پس ماندگی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

جواب: روحانی ترقی کی بنیادی شرطیں امامِ زمانؑ کی حقیقی اور پوری پوری فرمانبرداری ہے، جو علم و عمل سے ہو سکتی ہے یعنی روحانی ترقی کی ایک بنیادی شرط دینی علم ہے اور دوسری شرط نیک عمل ہے، دینی علم سے مراد علم الیقین ہے، یعنی ایسا علم جس کے ذریعے سے تمام شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے اور سوالات خود بخود ختم ہو جاتے ہیں، اور عمل یعنی اعمال ایسے کہ وہ امامِ زمانؑ کی مرضی کے مطابق ہوں، تاکہ روحانی ترقی ہو سکے۔

اگر مؤمن عرصۂ دراز تک باقاعدہ عبادت کرتا ہے تو اس کی روحانی ترقی ضرور ہو گی، لیکن یہاں مشکل یہ ہے کہ آپ نے ایسے مؤمن کو جس معیار سے پرکھ لیا ہے وہ بالکل عام معیار ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس عبادت کو آپ باقاعدہ کہتے ہیں وہ پھر بھی باقاعدہ نہیں ہے، کیونکہ اس میں علم الیقین کی کمی ہے اور اعمال کی خامی ہے، نیز ممکن ہے کہ “ذکر” کے طریقِ کار میں بھی فرق ہو، آپ دیکھیں میری کتاب “ذکرِ الٰہی” کو جس کا اردو سے انگلش میں ترجمہ جانِ عزیز ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی اور محترمہ زین رحیم قاسم نے کیا ہے۔

۶۸

حضرتِ آدمؑ :
سوال نمبر ۳۴: آپ یہ بتائیں کہ دنیا میں کتنے آدم ہو گزرے ہیں؟

جواب: اگر عام روایت اور ظاہری علم کو دیکھا جائے تو یوں لگے گا جیسا کہ صرف ایک ہی آدم اِس دنیا میں آیا ہو، لیکن جب کسی حقیقی مؤمن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکمت دی جاتی ہے تو وہ جانتا ہے کہ تخلیقِ آدم کا مسئلہ اور اس کی حقیقت کیا ہے، وہ سمجھ لیتا ہے کہ آدم ایک نہیں کئی ہیں بلکہ لاتعداد ہیں، کیونکہ آدم سے وہ انسانِ کامل مراد ہے، جس سے انسانیت اور مذہب کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہی میں، جو قدیم ہے، ہمیشہ ہمیشہ ایسے ادوار کا سلسلہ جاری ہے، جس کے معنی ہیں کہ اس وسیع و عریض کائنات میں سیّارۂ زمین کی طرح بہت سی دنیائیں بنتی اور مٹتی رہتی ہیں، اور ہر دنیا کی عمر میں کئی کئی آدموں کے ادوار گزرتے ہیں۔

ترمیم و تجدید:
سوال نمبر ۳۵: ہماری مقدّس دعا میں ترمیم و تجدید کیوں کی گئی؟ خصوصاً یہ سوال بعض بنیادی الفاظ کے بارے میں ہے؟

جواب: اسلام دینِ فطرت ہے اس لئے وہ اپنے ظاہر و باطن میں یہ گنجائش رکھتا ہے کہ زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور لوگوں کی

۶۹

ضرورت کے پیشِ نظر اس میں مناسب ترمیمات کی جائیں، تا کہ سچے دین پر عمل کرنے میں لوگوں کو کوئی دشواری پیش نہ آئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا مقدّس ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے وہ تم کو مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتا (۰۲: ۱۸۵)۔

خداوندِ برحق کے اس پاک فرمان سے صاف ظاہر ہے کہ وہ مہربان یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ دین و مذہب کے معاملے میں کوئی غیر ضروری سختی اور دشواری لوگوں کے سامنے آئے، لہٰذا اُس نے اپنی بے پناہ رحمت سے ہادئ برحق کو امورِ دین میں یہ اختیار عنایت کر دیا ہے کہ جہاں اور جب ضرورت ہو وہ مناسب ترمیمات کر لیا کرے۔

اِس سلسلے میں یہ بحث بڑی مفید ہے کہ دینِ حق یعنی اسلام کب سے ہے؟ حضرتؐ کے زمانے سے بلکہ ازل سے، کیا یہ صحیح ہے کہ زمانۂ آدمؑ سے لے کر آنحضرتؐ کے عہدِ مبارک تک سچا دین (اسلام) جس طرح چلے آیا ہے اس کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ترمیمات ہوتی رہی ہیں؟ ہاں یہ حقیقت ہے، یہ ترمیمات کس طرح کی جاتی تھیں؟ وہ اس طرح کہ دین کے احکام دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک قسم میں ترمیم کی گنجائش ہوتی ہے اور دوسری قسم میں نہیں ہوتی، پس جن احکام میں ترمیم و تجدید کی گنجائش ہے انہی میں ترمیم و تجدید کی جاتی ہے، دوسری قسم کے احکام میں نہیں۔

کیسے پتا چلے کہ دین کی بعض چیزوں میں تبدیلی کا وقت آچکا ہے؟ نبوّت کے دور میں جب ایک پیغمبر کے بعد دوسرا پیغمبر آتا ہے اور امامت کے دور میں جب ایک امام کے بعد دوسرا امام مقرر ہو جاتا ہے تو تب پتا چلتا

۷۰

ہے کہ اب دین کی بعض باتوں میں رفتہ رفتہ ترمیمات ممکن ہیں، اور اس اصول میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں ہیں۔

شرائط و آدابِ عبادت:
سوال نمبر ۳۶: عبادت اور ذکر کس طرح ہونا چاہئے تا کہ کامیابی ہو؟

جواب: (الف) بندۂ مخلص حقیقی محبّت کے جذبات سے سرشار ہو کر خاص و عام عبادت کرے تا کہ روحانی ترقی ہو، قوم کی خیرخواہی اور خدمت لازمی شرط ہے۔
(ب) حقیقی مؤمن کو چاہئے کہ صبح و شام گریہ و زاری کر کے عملی طور پر اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرے، کیونکہ اگر ذرا بھی گناہ کا زنگ دل میں رہ گیا تو عبادت آگے نہیں بڑھتی ہے، دینی علم کے بغیر روحانی ترقی ناممکن ہے۔
(ج) بندۂ مؤمن کو دائم الذکر (یعنی ہمیشہ ذکر کرنے والا) ہونا چاہئے تا کہ رفتہ رفتہ اس کا دل پاک ہو، اور عبادت کامیاب ہو جائے، تقویٰ بہت ضروری ہے۔
(د) اگر آپ خصوصی عبادت کے وسیلے سے روحانی ترقی کرنا چاہتے ہیں، تو رات کو وقت سے پہلے اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور میں خوب مناجات اور گریہ و زاری کریں، نہایت ہی عاجزی سے بار بار سجدے میں جائیں اور دعا مانگیں۔
(ہ) آپ مکمل طور پر پرہیزگار بنیں، یعنی دین کے اوامر پر عمل کریں اور نواہی سے باز رہیں، اور اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے حواسِ ظاہر اور

۷۱

حواسِ باطن کو خدا تعالیٰ کے امر و فرمان کے مطابق استعمال کریں۔
نوٹ: اس سلسلے میں “ذکرِ الٰہی” (جو میری ایک کتاب ہے) کا مطالعہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

نورانیت کا وقت:
سوال نمبر ۳۷: اسمِ اعظم کے ذکر کے لئے کسی اور وقت کی بجائے صبح چار بجے سے پانچ بجے تک کا وقت کیوں منتخب کیا گیا ہے؟

جواب: یہ وقت اس لئے منتخب ہے کہ اس میں کم سے کم چار فضیلتیں ہیں:
(۱) صبح کا یہ وقت رات کا آخری حصہ ہے، اور رات پرسکون و کامیاب عبادت کے لئے دن کے مقابلے میں زیادہ مناسب اور موزون ہے۔
(۲) صبح کا وقت شام کے وقت سے زیادہ بہتر ہے، کیونکہ ایک بار سو کر جاگنے سے مؤمن کا دل و دماغ عبادت کے لئے ہر طرح سے تازہ دم اور تیار ہو جاتا ہے۔
(۳) صبح سویرے جاگنے میں حقیقی دوست کی طرف سے امتحان ہے کہ مؤمن کس حد تک دیدار کا جذبہ رکھتا ہے۔
(۴) اس میں وقت کی بچت اور کام کی عمدگی کا فلسفہ بھی ہے کہ یہ خصوصی عبادت رات کے آخری کنارے پر رکھی جائے تا کہ یہ عام عبادت سے قریب ہو کہ جس سے نہ صرف رات کا وقت آرام کے لئے اور دن کا وقت کام کے

۷۲

لئے بچے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ خاص و عام عبادت کی طاقت حاصل کرنے کے فوراً بعد دن کا کاروبار شروع کیا جائے تا کہ اس روحانی طاقت سے کام کاج میں مدد اور بہتری ہو۔

توحید:
سوال نمبر ۳۸: سورۂ اخلاص میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ پاک اس مادّی دنیا میں نہیں آیا ہے، کیا آپ اس سلسلے میں کچھ وضاحت فرمائیں گے؟

جواب: سورۂ اخلاص میں اللہ تعالیٰ کی ہویّت کے بارے میں جو کچھ ارشاد ہوا ہے وہ ایسے الفاظ میں نہیں ہے، جن کو آپ نے استعمال کیا ہے، خیر ہے، بہرحال آپ کا مقصد خدائے بزرگ و برتر کی وحدانیّت کے بارے میں سوال کرنا ہے، یعنی آپ علمِ توحید کے باب میں بنیادی باتیں جاننا چاہتے ہیں، سو اس سوال کا مکمل جواب میری ایک تصنیف “پنج مقالہ نمبر ۴” کے آخری ۲۴ صفحات پر مشتمل ہے، آپ اس کا بغور مطالعہ کریں۔

امامِ عالی مقام حضرت مولانا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے ارشاداتِ گرامی میں انسان کی خود شناسی اور خدا شناسی کی بہت سی روشن حقیقتیں موجود ہیں، اور اس سلسلے کی آخری اور سب سے اعلیٰ تعلیم نظریۂ “یک حقیقت” سے متعلق ہے، جس کے سمجھنے سے نہ صرف توحید کے تمام سوالات ختم ہو جاتے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ دوسرے سب اونچے درجے کے حقائق بھی واضح اور روشن ہو کر کلّی طور پر اطمینان حاصل ہو جاتا ہے۔

۷۳

اگر یک حقیقت کا نظریہ درست ہے تو اس کا تجربہ سب سے پہلے اپنی ذات پر نہیں بلکہ انسانِ کامل پر کرنا ہوگا، کیونکہ وہی تو ہے جو کل حقیقتوں کے ازلی و ابدی طور پر ایک ہونے کا نمونہ ہیں، یعنی خود ہادئ برحق ہی تمام روحوں کی دائمی وحدت اور “یک حقیقت” کی مثال ہیں اور وہی اس کی جانب سے نمائندگی اور اس کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔

قرآن اور اسلام میں حضورِ اکرمؐ کے جدِّ اعلیٰ حضرتِ ابراہیمؑ کی خدا شناسی اور توحید کو سمجھنے، سمجھانے اور عملاً پیروی کرنے کے لئے بہترین مثال قرار دی گئی ہے (۰۶: ۷۶ تا ۷۹)۔ آپ ؑ نے علی التّرتیب ستارے کو پھر چاند کو اور سورج کو ربّ مانا، اور نتیجے کے طور پر آپؑ خالقِ کائنات کی معرفت کو پہنچ گئے، اس میں حدودِ دین کے وسیلے سے خدا کی وحدت یعنی یک حقیقت تک پہنچ جانے کا اشارہ ہے۔

اگر آپ مذاہبِ عالم اور خود اسلام کی تاریخ کو دیکھیں تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اپنے مرتبہ پر ہمیشہ ایک جیسی ہے، لیکن اس کی جو کچھ ترجمانی اور وضاحت کی گئی ہے اس میں ترقی ہوتی آئی ہے اور رفتہ رفتہ نکھار پیدا ہوا ہے، یہ واقعہ بالکل حضرتِ ابراہیمؑ کی مثال کی طرح ہے، کیونکہ دین بھی بحیثیتِ مجموعی ایک عام آدمی کی طرح نہیں بلکہ حضرتِ ابراہیمؑ کی طرح ہے، لہٰذا مذہب کی عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ حقیقت اور معرفت کی ترقی ہونی چاہئے۔

۷۴

تصویر:
سوال نمبر ۳۹: امام حاضر اور موجود ہے تو پھر تصویر جماعت خانہ میں کیوں رکھی جاتی ہے؟ کیا یہ بت پرستی نہیں ہے؟

جواب: اس سوال کا پہلا حصہ غیر منطقی ہے اور دوسرا حصّہ درست ہے، بہرحال اس کا جواب یہ ہے کہ امام کی تصویرِ مبارک ہرگز بت پرستی نہیں، کیونکہ امامِ زمانؑ خدا کا زندہ اسمِ اعظم ہے جو “الحی القیوم” ہے، اور تصویر اس میں اسمِ اعظم کی اشارت اور علامت ہے، جیسے “اللہ” خدا کا نام ہے اور لفظ “اللہ” کے حروف یعنی الف، لام، لام اور ہا (ا ل ل ہ) کچھ خدا تو نہیں ہیں مگر اشارت اور علامت ہیں، جن کی وجہ سے خدا کے نام کا تعیّن اور شناخت ہو جاتی ہے، لہٰذا نہ حروف فضول ہیں اور نہ لفظِ اللہ، اسی طرح امامِ برحق کی مبارک شخصیّت جس معنیٰ میں خدا کا سب سے بڑا نام ہے اسی معنیٰ میں اس کی تصویر سب سے بڑا نقش (تحریری شکل) ہے۔

فریضۂ حج اسلام کے سات ستون میں سے ہے، اور اگر اس کے آداب میں ظاہری نظر سے دیکھا جائے تو بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو بت پرستی جیسی لگتی ہیں، مگر حقیقت میں وہ ایسی نہیں ہیں، کیونکہ خدا و رسولؐ نے اُن میں بہت سی تاویلی حکمتیں رکھی ہیں۔
قرآنِ حکیم (۰۲: ۱۵۸، ۰۵: ۰۲، ۲۲: ۳۲، ۲۲: ۳۶) میں شعائر اللہ کا ذکر آیا ہے، جس میں ان شعائر کی حرمت و تعظیم دل کی پرہیزگاری قرار دی گئی ہے، اور صاف طور پر ظاہر ہے کہ پیغمبرؐ اور امامؑ کی شخصیّت خود شعائر اللہ میں سے ہے، اور اگر یہ

۷۵

بات نہ ہوتی تو آنحضرتؐ نہ فرماتے کہ علیؑ کے چہرے کی طرف دیکھنا ایک عبادت ہے، حضورؐ نہ فرماتے کہ قرآن کی طرف دیکھنا عبادت ہے اور امام کی طرف دیکھنا عبادت ہے، پس ان ارشادات سے معلوم ہوا کہ پیغمبر اور امام کی مقدّس شخصیت شعائر اللہ میں سے ہے لہٰذا امامِ زمانؑ کی تصویر قابلِ احترام ہے۔

مقصدِ تخلیق:
سوال نمبر ۴۰: اللہ تعالیٰ نے انسان کو کس لئے پیدا کیا؟ انسان اس دنیا میں کس مقصد کو پورا کرتا ہے؟

جواب: یہ سوال نمبر ۲۰ پر بھی آیا ہے، جس کا مختصر جواب وہیں حصّۂ اوّل میں دیا گیا ہے، اور یہاں بھی اُسی جواب کی کچھ مزید وضاحت کی جاتی ہے کہ روح اور روحانیّت کی پہچان جو ربّ العزّت کی معرفت کا ذریعہ ہے ایک بے مثال اور لازوال مخفی خزانے کی طرح ہے، اس تک رسائی اور شناخت انسان کے لئے انتہائی ضروری ہے، لہٰذا وہ اسی عظیم مقصد کی تکمیل کے لئے دنیا میں آیا ہے، چنانچہ اگر اُس نے اپنی ذات کی معرفت میں خدا کی معرفت حاصل کر لی، تو وہ بے پایان اور غیر فانی مخفی خزانہ اس کو دیا جاتا ہے ورنہ نہیں، پس انسان کے اس دنیا میں آنے کا مقصدِ اعلیٰ یہی ہے۔

جس حدیثِ قدسی کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے اگر اس میں عقل و دانش سے خوب سوچا جائے، تو نتیجے کے طور پر یہ رازِ پنہان پردۂ اخفاء سے آشکار ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین سے جتنے وعدے کئے ہیں ان میں

۷۶

سب سے عظیم ترین وعدہ وہی ہے جس کا تعلق معرفت سے ہے، کہ جو شخص خداوند تعالیٰ کو کماحقہٗ پہچانے، اس کو پروردگار ایک بے مثال روحانی خزانے کی حیثیت سے ملے گا، اسی سے معرفت کی اہمیت کا اندازہ ہو سکتا ہے اور اسی سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ تخلیق کا مقصدِ اعلیٰ معرفتِ خداوندی ہے۔

قیامت اور آخرت:
سوال نمبر ۴۱: روزِ قیامت کیا ہے؟ اور اگر موت کے بعد دوسری زندگی ہے تو وہ کس نوعیت کی زندگی ہو گی؟

جواب: اس سلسلے میں سوال نمبر ۹، ۱۹ اور ۲۱ کے جوابات میں کافی وضاحت کی گئی ہے، اور یہاں بھی کچھ صراحت کی جاتی ہے کہ انسان اس دنیا میں دو قسم کی زندگی گزارتا ہے، ایک اس کی ذہنی زندگی ہے اور دوسری خارجی، ذہنی زندگی کی تین شاخیں ہیں یا اس کے لئے تین دنیائیں ہیں، فکر و خیال کی دنیا، خواب کی دنیا، اور روحانیّت کی دنیا، اور دوسری طرف ان تینوں کے مقابلے میں خارجی زندگی ہے جو ظاہر ہے۔

تفکر و تخیل کی دنیا میں ایک انسان کس طرح زندگی کا تجربہ کر سکتا ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ آپ کچھ دیر کے لئے ظاہری حواس کے استعمال کو چھوڑ کر اپنے باطن کی طرف متوجّہ ہو جائیں، اور کچھ اچھے خیالات میں ڈوب جائیں، یعنی ظاہری طور پر دیکھنے، سننے، سونگھنے، بولنے (چکھنے) اور چھونے کی قوّتوں کو کام میں نہ لائیں، بلکہ اپنے دل و دماغ کی طاقتوں کو حرکت میں لا کر خود کو دنیائے فکر و خیال ہی میں محدود کریں، پھر خوب غور و فکر کر کے آپ خود بتائیں کہ آیا اس حالت میں بھی ایک زندگی نہیں ہے،

۷۷

جو ظاہری زندگی سے مختلف اور الگ ہے؟ اور اگر آپ اس کیفیت کو ایک قسم کی ذہنی زندگی تسلیم کرتے ہیں تو یہ اس حقیقت کی دلیل ہوئی کہ آدمی اس جسم کو چھوڑ جانے کے بعد بھی کسی طرح سے زندہ رہ سکتا ہے۔

اسی طرح خواب کی مثال لی جائے، کہ وہ زندگی بھی ظاہری زندگی سے نرالی اور جدا ہے، اور جسمانی موت کے بعد روحانی طور پر زندہ رہنے کا ایک بیّن ثبوت ہے، چنانچہ ایک با شعور انسان کو اچھی طرح غور کرنا چاہئے کہ آدمی جب عالمِ خواب میں چلا جاتا ہے تو وہ اس وقت اپنے آپ کو ظاہری وجود میں پاتا ہے یا باطنی وجود میں؟ وہ کس آنکھ سے دیکھتا ہے؟ جسمانی آنکھ سے یا روحانی آنکھ سے؟ ظاہری آنکھ تو سوئی پڑی ہے، وہ کس کان سے سنتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نیند کی حالت میں جسمانی کان کام نہیں کرتے ہیں، وہ خواب میں بولتا ہے کس ذریعے سے؟ یہ زبان تو بالکل خاموش ہی ہے، وہ خواب میں جہاں چلتا ہے تو جسم کے پیروں سے نہیں چلتا، وہ تو روحانی طور پر چلتا ہے، پھر اس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ سب انسانوں کے لئے روحانیّت میں بھی ایک دنیا ہے، جو آخرت کے نام سے ہے، جس میں وہ نہ صرف جسم کو چھوڑ جانے کے بعد زندہ رہ سکتے ہیں بلکہ اس زندگی میں بھی جزوی طور پر اس کا مشاہدہ اور تجربہ کر سکتے ہیں۔
اب رہا قیامت کا سوال، تو وہ روحانی ترقی کے لئے انقلاب اور دینِ حق کی روحانی جنگ کی حیثیت سے ہے، جس کی تفصیلات کا حوالہ اس جواب کے شروع ہی میں دیا گیا ہے۔

۷۸

تبدّلِ اجسام:
سوال نمبر ۴۲: کیا موت کے بعد کوئی زندگی ہے؟ آیا روح کے لئے یہ ممکن ہے کہ یکے بعد دیگرے بہت سے جسموں میں زندگی گزارے؟

جواب: موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں سوال نمبر ۴۱ کے تحت کافی بحث ہوئی ہے، اس لئے یہاں صرف اس سوال کے دوسرے حصے کا جواب دیا جاتا ہے، جو تبدلِ اجسام کے بارے میں ہے، اور اس سلسلے میں سب سے پہلے اثبات میں جواب دیتا ہوں، پھر چند روشن دلیلیں بطورِ ثبوت کے پیش کی جاتی ہیں:
دلیلِ اوّل: جاننا چاہئے کہ خدا کی روح اور خدا کا نور ایک ہی چیز ہے، چنانچہ جب آنحضرتؐ پر قرآن نازل ہو رہا تھا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میرا نور کبھی بجھنے والا نہیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ جو خدائی روح آدمؑ میں پھونکی گئی تھی، وہ انبیاء اور أئمّہ کے سلسلے میں جسم بہ جسم چلتی آئی ہے، اس سے ثابت ہے کہ لوگوں کی روحیں بھی ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتی رہتی ہیں، کیونکہ خدائی روح نے اپنی عملی ہدایت میں یہی نمونہ پیش کیا ہے۔
دلیلِ دوم: قرآن کے مطابق ہم بنی آدم یعنی آدم کی اولاد ہیں اور جب نوحؑ کی کشتی طوفان میں تیرتی تھی تو اس وقت ہم نوح کے ساتھیوں کی پشتوں میں روح کے چھوٹے چھوٹے ذرات کی حیثیت سے تھے (۱۷: ۰۳) اور پشت بہ پشت یہاں آکر ظاہر ہوئے، سو یہ حقیقت ہے کہ روح

۷۹

جسم کو تبدیل کرتی رہتی ہے۔
دلیلِ سوم: قرآن کے ارشاد (۲۹: ۶۴) کے مطابق آخرت کا گھر زندہ ہے اور زندہ سب سے پہلے انسان ہے اور اس کے بعد حیوان ہے، اس سے معلوم ہوا کہ انسان دنیا میں ظاہر ہونے سے پہلے بھی جسم میں تھا اور موجودہ جسم کو چھوڑ جانے کے بعد بھی کسی جسم میں منتقل ہو جاتا ہے، خواہ وہ جسمِ لطیف ہو یا کثیف، انسانی ہو یا حیوانی، پھر یہ بات صحیح ہے کہ روح ہمیشہ لباس کی طرح جسموں کو استعمال کرتی ہے۔
دلیلِ چہارم: ہمارا یہ جسم چالیس (۴۰) دن کے اندر اندر ذرّہ ذرّہ فرسودہ ہو کر پوری طرح سے ختم ہو جاتا ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ نئے ذرّات کے ذریعے سے اتنے عرصے میں مکمل طور پر بنتا بھی ہے، اس حساب سے ہمارا بدن سال میں نو مرتبہ بدل جاتا ہے، جس کا اندازہ بالوں اور ناخنوں کے بڑھنے سے لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح جسم ایک سرے سے بنتا رہتا ہے اور دوسرے سرے سے گھستا جاتا ہے، اس سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کا جسم ہمیشہ بدلتا رہتا ہے یعنی آدمی یکے بعد دیگرے اجسام کو بدلتا رہتا ہے۔
دلیلِ پنجم: قرآنِ مقدّس کے کئی مقامات پر خاص کر سورۂ یاسین (۳۶: ۳۶) میں ہے کہ خداوند تعالیٰ نے ہر چیز کو جوڑے میں اس طرح پیدا کیا ہے کہ جوڑے کے بغیر اس کا کوئی قیام نہیں، جیسے جسم اور روح، اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ جسم کے بغیر روح ٹھہر نہیں سکتی ہے، اور روح کے بغیر جسم فنا ہو جاتا ہے، جیسے وہ بدن جس سے روح نکل چکی ہے، اور اس کائنات کے قائم رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی ایک عظیم روح ہے، جس کو عالمگیر روح یا نفسِ کلّی کہا جاتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ روح بغیر جسم کے

۸۰

نہیں رہتی ہے بلکہ ایک جسم سے دوسرے میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔
دلیلِ ششم: ہماری روح کے لئے تین قسم کے جسم ہیں، ایک خاکی ہے جو موجودہ جسم ہے، دوسرا نورانی ہے اور تیسرا ابداعی ہے، ان باتوں کا تعلق روحانیّت کے تجربے سے بھی ہے اور قرآنی حکمت سے بھی (۱۶: ۸۱) چنانچہ روح ہمیشہ ان جسموں سے وابستگی رکھتی ہے۔

کتابِ ناطق اور کتابِ صامت:
سوال نمبر ۴۳: جب پیغمبروں نے زمانۂ آدم سے لے کر آنحضرتؐ کے عہدِ مبارک تک لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام سنایا، اور اس کے بعد لوگوں کے ہدایت کے لئے امامت کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا، تو پھر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ساتھ خاموش (صامت) کتابیں کیوں بھیجیں، مثلاً توریت، زبور، انجیل ، اور قرآن؟

جواب: جاننا چاہئے کہ آسمانی کتاب، پیغمبر اور امام مل کر ایک ہی خدائی ادارہ ہیں، یہ کچھ الگ الگ متضاد چیزیں تو نہیں کہ تضاد پیدا ہونے کی وجہ سے سوال اُٹھے کہ “یا یہ ہونا چاہئے یا وہ۔” جبکہ کتاب پیغام ہے، رسول پیغام بر ہے اور امام اس کا جانشین۔
اللہ تعالیٰ کا وہ پیغام جو کسی پیغمبر پر نازل ہوا ہے اور جو لوگوں کو پہنچایا گیا ہے وہ کتابِ صامت کی حیثیت سے آئندہ زمانے کے لئے بھی موجود ہونا چاہئے، تا کہ اس سے لوگوں کو نہ صرف یہ ثبوت ملے کہ جس شخص نے یہ پیغام لایا وہ برحق رسول تھا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ وہ پیغام ذریعۂ عبرت اور وسیلۂ

۸۱

ہدایت بھی ہو، کیونکہ جہاں امام نور اور ولئ امر ہے وہاں اس کو اختیار حاصل ہے کہ آسمانی کتاب پر روشنی ڈالتے ہوئے ہدایت کرے یا ذاتی طور پر نورانی ہدایت کرے۔

قرآن (۰۴: ۵۴) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آلِ ابراہیمؑ کو کتاب اور حکمت عطا کی ہے اور ان کو عظیم (روحانی) سلطنت عنایت کر دی ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ پیغمبر ہو یا امام جو آلِ ابراہیمؑ ہیں ان کے ساتھ ہمیشہ آسمانی کتاب، حکمت اور عظیم روحانی مملکت موجود رہتی ہے۔

اگر قرآنِ صامت نہ ہو تو قرآنِ ناطق کی تعریف و توصیف خدا کے کس کلام سے ہو سکتی ہے، قرآن ہے اس لئے قرآن کا نور ہے، قرآن ہے لہٰذا معلّمِ قرآن ہے، قرآن موجود ہے اس لئے آج اُن لوگوں کا درجہ بلند ہے جو قرآن کے باطن کو یعنی تاویلی حکمت کو جانتے ہیں۔

اسمِ اعظم اور نبوّت:
سوال نمبر ۴۴: اگر ہم یہ عقیدہ رکھیں کہ حضرتِ ابوطالب نے آنحضورؐ کو اسمِ اعظم دیا تھا، جس کے ذریعے آپؐ نے خصوصی ذکر کیا (اور نتیجے کے طور پر محمد مصطفیؐ کو نبوّت ملی) پھر کیا اس کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ آنحضرتؐ نے ذکر و عبادت کے وسیلے سے نبوّت کو خود ہی حاصل کر لیا تھا؟ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ ایسی خاص عبادت کے بغیر خدا آنحضرتؐ کو پیغمبر بناتا؟

جواب: (الف) اگرچہ دینِ اسلام کا مکمل ظہور آنحضرتؐ ہی کے زمانے میں ہوا، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس سے پہلے دینِ حق

۸۲

نہیں تھا، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السّلام نے خدائے واحد کے ایک ہی راستے کی دعوت کی تھی اور وہ دینِ فطرت یعنی اسلام ہی تھا، آپ قرآنِ حکیم میں حضرتِ نوحؑ (۴۲: ۱۳) اور حضرتِ ابراہیمؑ (۲۲: ۷۸) کے دین اور شریعت کے بارے میں ذرا غور کریں، تو صاف طور پر معلوم ہو جائے گا کہ آنحضرتؐ کے آباواجداد کے سلسلے میں نورِ امامت کا عظیم الشّان مرتبہ جاری تھا، چنانچہ ارشادِ ربانی ہے کہ: فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا (۰۴: ۵۴)۔ ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت دی ہے اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی ہے۔ جاننا چاہئے کہ آلِ ابراہیمؑ کی دو شاخیں ہیں، ایک حضرتِ اسماعیلؑ سے ہے اور دوسری حضرتِ اسحاقؑ سے اور اس آیۂ کریمہ میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا تعلق دونوں خاندانوں سے ہے۔

(ب) مذکورہ بیان سے یہ حقیقت ظاہر اور روشن ہو جاتی ہے کہ حضرتِ ابراہیمؑ اور حضرتِ اسماعیلؑ کی دعا کے مطابق اللہ پاک نے آلِ ابراہیمؑ کی دونوں شاخوں کے مخصوص افراد کو برگزیدہ فرمایا تھا (۰۲: ۱۲۷ تا ۱۲۸)چنانچہ اسماعیلیوں کا یہی عقیدہ ہے کہ حضرت ابو طالب علیہ السّلام اپنے زمانے میں امامِ مقیم کی حیثیت سے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ ہر طرح سے آنحضرتؐ کی حمایت کرتے تھے، (ملاحظہ ہو کتاب “الامامۃ فی الاسلام” ص۱۵۵)۔
(ج) اب سوال ہے کہ آیا حضورِ اکرمؐ نبوّت سے پہلے ذکر و عبادت کرتے تھے یا نہیں؟ اگر کرتے تھے تو کس مذہب کے مطابق؟ کیا اُن پر بچپن ہی میں یا نوجوانی میں وحی شروع ہوئی تھی یا آپؐ کا ظاہری طور پر بھی کوئی

۸۳

سکھانے والا تھا؟ اور اگر کہا جائے کہ آغازِ نبوّت سے قبل حضورؐ پر نہ تو کوئی وحی نازل ہوتی تھی اور نہ ہی آپؐ کو ظاہر میں کوئی دین سکھانے والاتھا، بلکہ آنحضرتؐ نے خود بخود اللہ تعالیٰ کی عبادت شروع کی، تو پھر آپؐ کے اسوۂ حسنہ اور سنّتِ مطہرہ کی پیروی کرنے کے یہ معنی ہوں گے کہ ہر شخص کو بغیر کسی رہنما کی ہدایت کے خود بخود چلنا چاہئے، اور نتیجے کے طور پر یہ ایک ایسا نظریہ ہو گا کہ جس سے تمام انبیاء کے دنیا میں آنے کا مقصد فضول اور عبث ثابت ہو گا۔
(د) اگر عقل و دانش سے کام لے کر سوچا جائے تو آپ کے پورے سوال کے لئے اس سے بہتر کوئی جواب نہیں جو خود آنحضرتؐ کی تمام زندگی اور نمونۂ عمل کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللَّہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللَّہَ کَثِیْراً (۳۳: ۲۱)
تمہارے لئے یعنی ایسے شخص کے لئے جو اللہ اور روزِ آخرت کی امید رکھتا ہو اور کثرت سے ذکرِ الٰہی کرتا ہو رسول اللہ کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا۔ اس آیۂ مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ حضورِ اکرمؐ نے نہ صرف نبوّت کے دوران اپنی حیاتِ طیبہ کو امت کی پیروی کے لئے بہترین نمونہ بنایا بلکہ اس سے پہلے بھی آپؐ کی مبارک زندگی انسانیّت و دینداری کے تمام فضائل و کمالات سے بھرپور تھی، کیوں نہ ہو جبکہ آپؐ تمام پیغمبروں کے سردار، خُلقِ عظیم (۶۸: ۰۴) کے مالک اور سب سے بہترین نمونۂ عمل تھے۔
(ہ) کیا پیغمبرِ خداؐ کی پاک زندگی کچھ اس طرح سے لوگوں کے لئے

۸۴

اسوۂ حسنہ، عمدہ نمونہ اور بہترین مثال ہو سکتی تھی کہ حضورِ اقدسؐ چالیس (۴۰) سال کی عمر تک انسانی اور اخلاقی خوبیوں کے علاوہ دینی صلاحیتوں کو بحدِّ امکان اجاگر نہ کرتے، نبوّت سے قبل مذہب اور روحانیّت کے جو جو مراحل ہوتے ہیں ان سے عملاً نہ گزرتے اور پھر یکایک شرفِ نبوّت سے مشرف ہو جاتے؟ یا یہی نظریہ درست ہے کہ آنحضرتؐ شروع ہی سے ملتِ ابراہیمی کے پابند تھے، آپؐ اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت کی امید رکھتے تھے اور کثرت سے ذکر کر لیا کرتے تھے؟ اگر ہم کہیں کہ اسمِ اعظم اور ذکر و عبادت کے نتیجے میں آنحضرتؐ کو یہ عظیم ترین مرتبہ ملا تھا، تو اس سے رحمتِ خداوندی کی ہرگز نفی نہیں ہوتی، جبکہ حضورؐ کی روحانی ترقی کے تمام وسائل اللہ تعالیٰ کی رحمت کے تحت آتے ہیں اور ہمارا یوں کہنا ایک ذیلی اور ضمنی حقیقت ہے، اس نظریے کے بغیر ہم کس طرح پیغمبرِ برحقؐ کی حیاتِ طیبہ سے مثال لے کر یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ذکر و بندگی سے روحانی ترقی ہوتی ہے۔

دو کیوں؟
سوال نمبر ۴۵: ان دونوں نظریوں کے درمیان یہ سمجھنا مشکل ہو گیا ہے کہ نظریۂ “یک حقیقت” کو مانا جائے یا کہ نظریۂ “نورِ واحد” کو جبکہ آپ خود فرما رہے ہیں کہ نور ایک ہی ہے؟ اور منطق کے مطابق یہ سوال بھی ہے کہ دو مقدّس کتابوں کی ضرورت کیوں، یعنی کتابِ صامت اور کتابِ ناطق، جبکہ دو نہیں صرف ایک ہی کافی ہونے کا تصوّر تسلیم کیا گیا ہے؟

جواب: ہاں، نورِ مطلق ایک ہی ہے، وہی نورِ واحد اور یک حقیقت

۸۵

ہے، کیونکہ جو نور کامل اور کل ہے وہ ایک ہی ہے اور تمام حقیقتوں کی حقیقت (یک حقیقت) اس سے الگ نہیں ہے، پھر وہ سوال ختم ہو گیا جو “یک حقیقت” اور “نورِ واحد” کو جدا جدا فرض کرنے سے پیدا ہوا تھا، کیونکہ توحید کا نظریہ صرف ایک ہی ہو سکتا ہے، دو ہرگز نہیں ہو سکتے۔

یک حقیقت (MONOREALISM) اور نورِ واحد کا مطلب ایک ہی ہے، اور وہ نظریہ بھی دراصل ایک ہی ہے، دو الگ الگ نظریے نہیں ہیں، کیونکہ حقیقت کے معنی ہیں عقل و دانش اور علم و حکمت کا نور، اور کوئی دانشمند یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ حقیقت اور نور دو متضاد چیزیں ہیں۔

دوسرا سوال دو کتابوں کے بارے میں ہے، یعنی پوچھا گیا ہے کہ جہاں بولنے والی کتاب کا وجود ممکن ہے، وہاں خاموش کتاب کی ضرورت کیا ہے؟ اور کہا گیا ہے کہ پہلے سوال اور دوسرے سوال کا ایک ہی منطق ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ پہلے سوال میں ایک چیز کے دو مختلف نام ہیں اور دوسرے میں دو الگ الگ چیزیں ہیں، بہرحال سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ کتابِ ناطق اور کتابِ صامت دونوں کا ہونا صحیح ہے، وہ صرف ظاہر میں دو ہیں مگر باطن میں ایک ہیں، تا کہ ایک ہادئ برحق اور نور ہو اور دوسری کتاب، جیسا کہ قرآن میں ہے۔

مجالسِ دینی:
سوال نمبر ۴۶: کیا یہ درست ہے کہ ایک سیدھا سادہ اسماعیلی جو عقیدت مند ہو وہ محض عقیدہ ہی سے دین کا بہت سا فائدہ حاصل کر سکتا

۸۶

ہے جبکہ وہ دین کی مختلف مجالس میں حصہ لیتا ہے؟

جواب: ہاں یہ صحیح ہے کہ اگر ایک سادہ اسماعیلی اپنے مذہب پر مکمل عقیدہ رکھتا ہے اور اس کی باتوں پر عمل کرتا ہے تو وہ نجات کا حقدار ہے، اور اگر وہ اس کے ساتھ ساتھ علم الیقین کو بھی حاصل کرتا ہے تو وہ فرشتہ بھی بن سکتا ہے، یہاں مذہب کی مختلف مجالس میں حصہ لینے کی مراد دین کی تمام باتوں پر عمل کرنا ہے۔

اس سوال کے پس منظر میں ایک چیز نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آج کل مادّی علوم کی فراوانی ہے جن کے حصول کے بعد ہمارے بعض نوجوانوں کو مذہب کی کچھ رسومات پر تنقید کرنے کا خیال پیدا ہوتا ہے، حالانکہ یہ خیال غلط ہے، کیونکہ صرف ظاہری اور دنیاوی علم کی کسوٹی سے عقائد کو نہیں پرکھا جا سکتا، عقائد کی حکمتوں کو سمجھنے کے لئے دینی علم کی ضرورت ہے۔

خودی یا انا:
سوال نمبر ۴۷: آپ نے کہا ہے کہ انسانی جسم میں لاتعداد روحیں رہتی ہیں، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں انسان کی خودی یا انا جسے وہ “میں” کہتا ہے وہ کیا چیز ہے؟ آیا وہ ایک الگ روح ہے یا تمام روحوں کا مجموعہ ہے؟

جواب: یہ ایک مفید سوال ہے کیونکہ اس میں خودی اور خود شناسی کی اہم باتیں آسکتی ہیں، چنانچہ جاننا چاہئے کہ خودی اور انا جسے انسان “میں” کہتا ہے، وہ وجودِ انسانی میں ایک بے مثال حقیقت ہے، اس لئے کہ وہ نہ

۸۷

تو ایک الگ روح ہے اور نہ ہی تمام روحوں کا مجموعہ ہے بلکہ وہ اُن ساری روحوں اور قوّتوں کی وحدت ہے جو انسان کی ہستی میں موجود ہیں، اور یہ وحدت جو انسان کی خودی کی حیثیت سے ہے اللہ تعالیٰ کی وحدت کی مثال ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ یہ یک حقیقت (MONOREALISM) کی طرح ہے۔

جس طرح ایک کامیاب حکومت میں افراد آتے جاتے رہتے ہیں مگر قانون اور حکومت قائم اور برقرار رہتی ہے اسی طرح آدمی میں روحیں اور قوّتیں آتی جاتی رہتی ہیں، مگر اس کی انا یعنی ذرّاتِ ہستی کی توحید وہی رہتی ہے جو کبھی تھی، اور علم و شعور ہمیشہ ذرّاتِ روح میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔

اختیار اور مقدر:
سوال نمبر ۴۸: انسان کے مختار ہونے یا مجبور ہونے کے درمیان جو سوال پیدا ہوتا ہے، وہ قرآن میں کس طرح حل کیا گیا ہے؟

جواب: یہ باتیں قرآن ہی کی روشنی میں ہیں جو سمجھنا چاہئے کہ مخلوق تین قسموں میں ہیں، فرشتہ، انسان اور حیوان، فرشتہ صرف عقل رکھتا ہے، حیوان صرف نفس رکھتا ہے اور انسان عقل و نفس دونوں رکھتا ہے۔

جب فرشتہ کو صرف عقل دی گئی ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ نیکی پر مجبور ہے اور جہاں حیوان کو صرف نفس دیا گیا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ بدی پر مجبور ہے، اور جس طرح انسان کو عقل و نفس دونوں ملے ہیں، تو اس

۸۸

کا مطلب یہ ہوا کہ وہ فرشتہ اور حیوان کے درمیان ہے، اس لئے وہ عقل کے تقاضا کے مطابق نیکی بھی کر سکتا ہے اور نفس کی خواہش کے مطابق بدی بھی کر سکتا ہے، پس ان دونوں چیزوں کے درمیان کسی ایک کو پسند کرنے کو اختیار کہتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ انسان مختار ہے۔

انسان مختار ہے مگر ایک محدود دائرے میں، اس کا اختیار صرف ان صلاحیتوں کے استعمال میں ہے جو اسے عطا کر دی گئی ہیں اور یہ بھی ہے کہ اس کا دائرۂ اختیار وسیع سے وسیع تر ہو سکتا ہے یہاں تک کہ اس کا اختیار خدا کے اختیار سے مل کر ایک ہو جائے، جس کے معنی توکّل کے ہیں۔

قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ: اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا (۰۲: ۲۸۶) پھر فرمایا گیا ہے کہ: اور ہم نے اس کو (نیکی اور بدی کے) دونوں راستے دکھا دیئے (۹۰: ۱۰) نیز ارشاد ہے کہ: بلکہ انسان (ہر سطح پر) اپنے آپ کو دیکھتا ہے (۷۵: ۱۴) ان ارشادات سے معلوم ہوا کہ انسان مجبور نہیں بلکہ مختار ہے، کیونکہ “وسعت” کا اشارہ عقلی اور نفسی قوّتوں کے دائرۂ اختیار کی طرف ہے اور تکلیف کے معنی خداوندی اوامر و نواہی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر انسان کا دائرۂ اختیار اس کی عقلی و علمی حیثیت کے مطابق ہوا کرتا ہے اور ذمہ داری بھی اسی کے مطابق عائد ہو جاتی ہے، اور اگر آدمی کے سامنے خیر و شر کے دونوں راستے ہیں تو اس کے معنی بھی اختیار کے ہیں نہ کہ مجبوری کے، اگر مجبوری مقصود ہوتی تو صرف ایک ہی راستہ مقرر ہوتا، جس طرح فرشتوں اور حیوانوں کے لئے ایک ایک راستہ دکھایا گیا ہے، اور اگر انسان میں اپنے آپ کو دیکھنے کی صلاحیت موجود ہے اور عملاً وہ خود کو بھی دیکھ سکتا ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ وہ نیکی اور بدی دونوں کے آغاز و

۸۹

انجام کو خوب جانتا ہے اور دونوں میں سے کسی ایک کو پسند کر کے اُس پر عمل کر سکتا ہے جس کے معنی اختیار کے ہیں۔

دوسری طرف سے مقدر یعنی تقدیر یا قسمت کی بات آتی ہے، حالانکہ یہ اصطلاحیں قرآنی نہیں ہیں، بہرحال یہ عقیدہ کہ “تقدیر اور قسمت میں جو کچھ ہے وہی ہو گا” درست نہیں ہے، جبکہ روشن دلیلوں سے واضح کیا گیا کہ انسان مجبور نہیں ہے، بلکہ وہ اخلاقی اور دینی اوامر و نواہی کے مخصوص دائرے کے اندر آزاد اور مختار ہے لہٰذا قسمت اور تقدیر کی بات خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔

صلوات:
سوال نمبر ۴۹: صلوات کے صحیح معنی یا تاویل بتائیں، کیونکہ جب بموجبِ ارشادِ قرآن (۲۱: ۱۰۷) محمد رسول اللہ ؐ خود تمام جہانوں کے لئے سرچشمۂ رحمت ہیں، تو آنحضرتؐ پر رحمت نازل ہونے کی سفارش کیونکر مناسب ہو سکتی ہے؟

جواب: یہ سوال بہت پہلے کچھ عزیزوں نے پوچھا تھا، اور ان کو جس طرح جواب لکھا گیا تھا، وہ کتاب “پنج مقالہ نمبر ۴” کے صفحہ ۲۷ تا ۲۹ میں درج ہے، نیز کتابِ “وجہِ دین حصہ دوم” کلام نمبر ۵۰ اور “دعا مغزِ عبادت” کے صفحہ ۶۱۔۶۹ ملاحظہ ہو، اور کتابِ ہٰذا حصّۂ اوّل میں سوال نمبر ۱۳ کو بھی دیکھیں۔

۹۰

حاضر امامؑ :
سوال نمبر ۵۰: حاضر امامؑ کیا ہیں؟ اُن کا اعلی مرتبہ کیا ہے؟ اور اس بارے میں قرآن کا ارشاد کیا ہے؟

جواب: حاضر امام اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم ہے، وہ خدا کا چہرہ ہے، وہ اس کا نور اور مظہر ہے، وہ اس کا خلیفہ اور نمائندہ ہے، اس کا لقب امیر المؤمنین، اس کا مرتبہ ولئ امر، اس کی شان حیّ و قیوم، اس کی شاہنشاہیت عالمِ باطن اور روحانیّت، اس کی مہربانی علم و حکمت، اس کا انعام حقیقی محبت، اس کا معجزہ روحانی روشنی، اس کے برحق ہونے کا ثبوت ہمیشہ اس کا ظاہر و موجود رہنا، اس کا ظاہری نور کامیاب ہدایت، اس کا راستہ صراطِ مستقیم، اس کا مذہب دینِ فطرت، اس کی رہنمائی کی پیروی کا صلہ عالمِ ملکوت کی سلطنت، اور اس کی شناخت کا بدلہ تاجِ معرفت ہے۔

آپ حاضر امام کے بارے میں حصّۂ اوّل میں سوال نمبر ۱۰ کے جواب کو بھی پڑھیں اور “امام شناسی” کے تینوں حصّوں کو بھی پیشِ نظر رکھیں۔

۹۱

سو سوال
حصہ سوم

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نگارشِ آغاز

اے خداوندِ برحق! اے قادرِ مطلق! تو اپنی رحمتِ بے پایان سے اِس بندۂ کمترین کو نعمت شناسی اور شکرگزاری کی توفیق و ہمت عطا فرما، تا کہ یہ عاجز لفظی، معنوی اور عملی طور پر تیرے مقدّس دین کی ظاہری و باطنی نعمتوں کا کچھ شکر کر سکے، پروردگارا! ارواحِ مؤمنین پر شب و روز تیری عنایتوں کی جو بارش ہو رہی ہے وہ کتنی عجیب ہے! اور تیری نظرِ کیمیا اثر کس قدر معجزانہ ہے!

میرے مولا! مجھے عجز و انکساری کی مخفی دولت سے مالامال فرما، اپنی پُرلذت محبت کی منزلِ فنا میں ایک پُرسکون اور راحت بخش مقام عطا کر اور اسرارِ معرفت کے خزانے کا دروازہ کھول دے تا کہ میں تیری لازوال مہربانیوں کی شکرگزاری میں مصروف ہو کر دنیا کی اذیتوں کو کلی طور پر فراموش کروں۔

 

الحمدُلِلّٰہ کہ اب کتاب “سو سوال” کا تیسرا حصّہ بھی مکمل ہو گیا، اور کتابت و طباعت کے لئے تیار ہے، اور ان شاء اللہ تعالیٰ عنقریب حصّۂ چہارم بھی مکمل ہونے کو ہے، میرا یقین ہے کہ سو سوال کی کتاب میری کتابوں میں بہت اہمیت والی ہو گی، اس لئے کہ اس میں شمالی امریکا جیسے عظیم ملک کی عظیم جماعت کے منتخب سوالات کے لئے مدلل اور تسلی بخش جوابات موجود ہیں۔

حقیقی علم کا یہ پختہ اور زرین اصول ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ اگر کسی سوال کا جواب درست طریق پر دیا جاتا ہے، اور اس میں صحیح منطق اور علم و

۹۷

دانش کی بھرپور روشنی ہے، حکمت و تاویل ہے، اور وہ روحانی ہدایت کے مطابق ہے تو ایسے جواب سے نہ صرف وہی ایک مطلوبہ سوال حل ہو جاتا ہے بلکہ دانشمند اس کی روشنی میں کئی کئی مسائل کو حل کر سکتا ہے، چنانچہ میرا یہ دعویٰ حق بجانب ہے اور اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ سو سوال کی کتاب میں در حقیقت ہزاروں سوالات کا حل موجود ہے، کیونکہ حقیقی علم کا تصوّر ایک ایسے درخت کی طرح ہے، جس کا تنہ ایک ہے، اس کی موٹی شاخیں تھوڑی سی ہیں، پھر وہ درخت شاخ در شاخ ہو کر پھیل گیا ہے، درخت کی ترتیب و ترکیب کا یہی حال علم کا بھی ہے کہ اگر تنہ اور موٹی شاخوں کی طرح پختہ اور بنیادی علم سے جواب مہیا کیا گیا ہے تو سوالات کی لاتعداد شاخیں خود بخود حل ہو جاتی ہیں۔

 

اِس حقیقت کی ایک مثال یہ ہے کہ دانشمند کے نزدیک سوالات اصولی طور پر آپس میں مل جاتے ہیں، اس کا ثبوت آپ کو اُس وقت ملے گا جبکہ ایک عام آدمی کے کئی سوالات کی ایک فہرست آپ کے سامنے آئے، اگر آپ غور سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ اُس نے بعض دفعہ اپنی لاعلمی کی وجہ سے ایک ہی سوال کو کئی طرح سے پیش کیا ہے، حالانکہ بنیادی طور پر وہ ایک ہی سوال ہے۔

بہر کیف سو سوال کی کتاب میں جو کچھ علم و آگہی کی خوبیاں ہیں وہ میرے آقا و مولا امامِ زمان صلوات اللہ علیہ و سلامہ کی ہیں جو نورِ ہدایت کا سرچشمہ اور علم و حکمت کا وسیلہ ہیں، اور اگر اس میں کچھ خامیاں ہیں تو وہ میری اپنی وجہ سے ہیں، کیونکہ میں اس کی مہربانی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوں۔

خانۂ حکمت اور عزیزوں کی جمعیت مجھ کو میرے خداوند کا ایک گرانقدر عطیہ ہے، پروردگارِ عالم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اِس مقدّس ادارے کی مدد سے علم گستری جیسی پاک و پاکیزہ خدمت کے لئے کوشان ہیں، اور ان شاء اللہ تعالیٰ

۹۸

ہماری سعادتِ دارین اسی میں ہے۔

ہمارے قابلِ قدر اور ہوشمند اراکین اِس حقیقت سے واقف و آگاہ ہیں کہ سوائے علم کے دنیا میں کوئی ایسی دولت نہیں جو کسی کمی کے بغیر سب کو پہنچ سکے اور جس کے صرف کرنے میں زیادہ سے زیادہ ثواب ہو، یقیناًصرف علم ہی ایسی دولت ہے جو ہمہ رس بھی ہے اور لازوال بھی۔

حقیقی علم کی روشنی پھیلانے سے نہ صرف مؤمنین و مسلمین ہی کو فائدہ ہو سکتا ہے بلکہ اِس سے تمام بنی نوع انسان کی ذہنی الجھنیں بھی دور ہو سکتی ہیں، جس کے لئے دنیا کی بڑی بڑی قومیں ریسرچ (تحقیق) کر رہی ہیں اور آگے چل کر اعلیٰ سطح پر یہ ریسرچ ہونے والی ہے۔

اب سائنسی ترقی کے نتیجے پر سیارۂ زمین کی مسافتیں سمٹ سمٹ کر نہ ہونے کے برابر ہو چکی ہیں، دور و دراز کے ممالک ایک دوسرے سے بہت قریب ہو گئے ہیں، اور دنیا والے سب نئی روشنی میں ایک دوسرے کو پہچاننا چاہتے ہیں، تو کیا ایسے میں ہمیں خاموش بیٹھنا چاہئے۔

دنیا کی ہر قوم کے پاس کچھ نہ کچھ مفید و مخصوص مادّی چیزیں ہوا کرتی ہیں، مثلاً سونا، چاندی وغیرہ، اور ایسی چیزوں کو قومی سرمایہ قرار دے کر دنیاوی طور پر فائدہ اٹھایا جاتا ہے، مگر ہماری جماعت کے پاس جو خاص اور عظیم شے ہے وہ مادّی نہیں روحانی ہے، وہ حقیقی علم ہے جس کو نورانی ہدایت بھی کہتے ہیں، یہ علم اور ہدایت ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہے، سو لازمی ہے کہ ہم اس کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں اور اِس سے فائدہ اٹھائیں اور فائدہ پہنچائیں۔

دعا ہے کہ قادرِ مراد رسان علمی خدمت میں شرکت کرنے والوں کو دین و دنیا کے نیک مقاصد میں کامیاب بنائے! یہ دعا صرف زبان کے بنائے ہوئے

۹۹

الفاظ ہی میں محدود نہیں بلکہ دل و جان کے لطیف ارمانوں میں بھی ہے، دعا ہے کہ کتاب کا ہر موضوع، ہر پیرا، ہر جملہ، ہر لفظ اور ہر حرف زبانِ حال سے یہ دعا کرے کہ الٰہی! تو اپنی رحمتِ بیکران سے ان عزیزوں کو دونوں عالم کی کامیابی اور سرفرازی عطا فرما، جنہوں نے اس سدا بہار گلشن کی آبادکاری میں حصہ لیا ہے! آمین یا ربّ العالمین!!

فقط بندۂ عاجز
مصنف
۵، اگست ۱۹۷۸ء

۱۰۰

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تسبیح کے دانے:
سوال نمبر ۵۱: ہم ننانوے تسبیح کے دانے کیوں رکھتے ہیں؟ اور اِس تسبیح میں ۳۳، ۳۳ کے تین حصے کیوں ہیں؟

جواب: تسبیح کے دانے دراصل سو ہوا کرتے ہیں، اور رشتۂ تسبیح میں ۳۳، ۳۳ کے تین حصے اس لئے بنائے گئے ہیں کہ عالمِ اسلام میں تسبیحِ فاطمہ کی بہت بڑی اہمیت ہے، اور وہ ہے: ۳۳ بار اللہ اکبر، ۳۳ بار الحمدللہ، ۳۳ بار سبحان اللہ، اور ایک بار لا اِلٰہ الا اللہ، چنانچہ اِس مبارک تسبیح کے مطابق دانے مرتب کئے گئے ہیں، جو ۳۳+۳۳+۳۳+۱ =۱۰۰ دانے ہوتے ہیں، ملاحظہ ہو اسماعیلی فقہ کی مشہور کتاب “دعائم الاسلام (عربی) جزءِ اول” صفحہ ۲۰۳۔

اسمِ اعظم:
سوال نمبر ۵۲: کیا اسمِ اعظم کے بغیر کسی کو نجات حاصل ہو سکتی ہے؟ کیا اسمِ اعظم کا لینا ضروری ہے؟

جواب: (الف) جہاں اسمِ اعظم کے معنی خود امامِ زمانؑ ہیں وہاں خدا تعالیٰ کے اِس زندہ اور بزرگ ترین نام کے بغیر نجات نا ممکن ہے، اور جہاں

۱۰۱

اسمِ اعظم سے کوئی قولی نام مراد ہے وہاں اس کے بغیر بھی نجات حاصل ہو سکتی ہے، کیونکہ ایسے لفظی بزرگ نام پر عمل کرنا اور اس میں کامیابی حاصل کرنا صرف ایک فضیلت ہے یعنی ایک زائد مرتبہ ہے۔
(ب) اگر لفظی اسمِ اعظم کے بغیر کوئی نجات نہ ہوتی تو امام ایسے بزرگ نام کو اپنے تمام مریدوں کے لئے ضروری اور لازمی قرار دیتے، سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ خصوصی عبادت مزید روحانی ترقی کے لئے ہے۔
(ج) کارِ بزرگ اُن اسماعیلیوں کو ضروری ہے جو امامِ زمانؑ کے روحانی معجزات دیکھنے کے خواہشمند ہیں یا یہ کام اُن معلّمین کو چاہئے جو روحانی علم حاصل کرنے کے قابل ہو چکے ہیں۔

مذہب اور سائنس:
سوال نمبر ۵۳: سائنس اور مذہب کے بارے میں: (الف) اگر ایک شخص کلّی طور پر سائنس کی پیروی کرے تو کیا ممکن ہے کہ اس کو وہی معرفت حاصل ہو جو مذہب کی پیروی کرنے سے ہوتی ہے؟ (ب) منزلِ مقصود تک رسائی کے لئے سائنس اور مذہب دونوں میں اتنے محنت طلب تجربوں کی کیوں ضرورت ہے؟

جواب: اگر ایک شخص مذہب کو چھوڑ کر کلّی طور پر سائنس کی پیروی کرتا ہے تو وہ حصولِ معرفت میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتا ہے وہ صرف سائنس میں کامیاب ہو سکتا ہے، کیونکہ معرفت دین کی آخری چیز ہے، جو روح اور خدا کی شناخت کو کہتے ہیں، اور سائنس اُس حکمت کا نام ہے جو مادّہ اور جسم

۱۰۲

کی تحقیق اور پہچان سے متعلق ہے، اگر سائنس کی مکمل پیروی سے کسی کو خدا ملتا اور معرفت حاصل ہوتی تو آج دنیا کی وہ مادّیت پرست قومیں خدا پرست بن جاتیں، جو سائنس کے میدان میں کافی حد تک کامیاب ہیں، لیکن سب جانتے ہیں کہ واقعہ ایسا نہیں ہے۔

ہاں، اس میں کوئی شک نہیں کہ حق مذہب اور صحیح سائنس ایک دوسرے کے خلاف نہیں ایک ہیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ سچے مذہب کے وسیلے سے روح اور خدا کو پہچان لیا جائے اور درست سائنس کے ذریعے سے مادّہ اور جسم کی حقیقتوں کا مشاہدہ اور مطالعہ کیا جائے، تاکہ انسان دونوں جہان کی تمام نعمتوں کو پائے اور کامیاب و کامران ہو۔

مذہب اور سائنس کے ایک ہونے کا اصل مطلب یہ ہے کہ جب ایک سعادت مند انسان کو بصیرت اور دین کی مکمل شناخت حاصل ہوتی ہے تو وہ اصل سائنس کو دینِ فطرت کے مطابق پاتا ہے، اس میں دینِ حق کی واضح شہادتیں اور روشن دلیلیں موجود ہوتی ہیں، اور ان تمام حقیقتوں کا انکشاف دین شناسی ہی سے ممکن ہے۔

اب رہا دوسرا سوال کہ: منزلِ مقصود تک رسائی کے لئے سائنس اور مذہب دونوں میں اتنے محنت طلب تجربوں کی کیوں ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ منزلِ مقصود جس کو آپ نے تسلیم ہی کر لیا ہے بہت ہی دور ہے، جس کے لئے سخت محنت درکار ہے، اور دونوں صورتوں میں وہ آخری منزل اِس قدر آرام دہ ہے کہ اُس تک رسائی کے لئے جتنے بھی محنت طلب تجربات کئے جائیں کم ہیں، کیونکہ منزلِ مقصود بہت ہی بڑی چیز ہے۔

۱۰۳

حقیقی مؤمن:
سوال نمبر ۵۴: حقیقی مؤمن کی کیا کیا نشانیاں ہوتی ہیں؟

جواب: حقیقی مؤمن کی نشانیاں قرآن سے باہر نہیں، اور وہ ایمانِ کامل اور عملِ صالح ہیں، ایمانِ کامل کا مطلب ہے خدا و رسولؐ کے بعد امامِ حیّ و حاضر پر ایمان لانا اور جان و دل سے اقرار کرنا، اور عملِ صالح کے معنی ہیں انہی تینوں درجات کے امر و فرمان کے مطابق عمل کرنا۔

اگر مؤمن کی نشانیاں تفصیل سے دیکھنا ہیں تو کتاب “پیر پندیاتِ جوانمردی” کو پیشِ نظر رکھیں، کیونکہ ادائے مطلب کے بہت سے طریقے ہیں، مگر معنی ایک ہیں۔

ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ حقیقی مؤمن کی نشانیاں امامِ زمانؑ کی محبت اور فرمانبرداری ہیں، جن میں دین کی تمام خوبیاں آجاتی ہیں، اور ان سے کوئی چیز باہر نہیں۔

ہندو مذہب:
سوال نمبر ۵۵: یہاں میرے ایک قریبی دوست نے چند ہندو بزرگوں کا نام لے کر پوچھا ہے کہ ان کے فلسفے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب: میرے بہت ہی عزیز دوست! آپ ہندو مذہب سے اس قدر کیوں متاثر ہوئے ہیں؟ آپ نے سب سے پہلے اسماعیلی مذہب کے

۱۰۴

عظیم فلسفے کا گہرا مطالعہ کیوں نہیں کیا ہے؟ پھر مذاہبِ اسلام کا اور آخر میں مذاہبِ عالم کا تقابلی مطالعہ کرتا، تاکہ آپ کو ایسے غیر ضروری سوال کرنے کی اہمیّت باقی نہ رہتی، اور اسماعیلی مذہب کی صداقت و حقیقت روشن ہو جاتی۔

میرا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ سوالات ہی نہ کئے جائیں، بلکہ میرا کہنا یہ ہے کہ اگر غیر اسماعیلیّت کے بارے میں ایسا کوئی سوال کرنا ہے تو اس کے لئے یا تو اسلام کے مختلف مذاہب پر نظر ڈالی جائے یا تمام مذاہبِ عالم پر، اور صرف ہندو مذہب کے بزرگوں کے فلسفے کو اتنی اہمیت کیوں دیں، جبکہ ہندو مذہب اختلافات اور تضادات سے بھرپور گیا گزرا مذہب ہے۔

صراطِ مستقیم:
سوال نمبر ۵۶: اگر ہمارا مذہب برحق ہے اور یہ ہم کو صراطِ مستقیم پر چلا کر خدا سے ملا دیتا ہے تو لوگوں کو اس کی دعوت و تبلیغ کیوں نہیں کی جاتی ہے، تا کہ مذہبی اختلافات اور تنازعات کے ختم کرنے میں مدد ملے اور خیر خواہی کا فریضہ انجام پائے؟

جواب: (الف) قرآن اور اسلام کی جو دعوت ہے وہ حکمت کی زبان میں اسماعیلیت کی دعوت ہے جو رسول اللہؐ کے زمانے سے قیامت تک دنیا میں جاری ہے، اب دینِ حق کی اس عملی دعوت کو قبول کر کے معلّمِ قرآن سے رجوع کرنا لوگوں ہی کی ذمہ داری ہے۔
(ب) جب اسلام اور اسماعیلیّت لوگوں کی نظر سے پوشیدہ نہیں، وہ ہمیشہ اس کو موضوعِ بحث بنا لیتے ہیں تو پھر دعوت کے کیا معنی، اگر وہ آج اسماعیلی

۱۰۵

مذہب کو برا مانتے ہیں تو کیا کل قیامت کے دن وہ یہ عذر بھی کر سکیں گے کہ وہ دنیا میں اس مذہب سے بے خبر تھے؟
(ج) اس کے علاوہ ہمارے پیروں اور بزرگوں نے اپنے اپنے وقت میں امامِ زمان کے امر و فرمان کے مطابق بھرپور علمی کوششیں بھی کی ہیں، یعنی بہت سے لوگوں کو دینِ حق سے روشناس کر دیا ہے، جس کا اصل مقصد مخالفین کے حملوں سے دین کو بچانا اور مضبوط کرنا تھا نہ کہ دعوت کے سلسلے میں لوگوں پر اتمامِ حجّت۔
(د) حدیث ہے کہ: بندوں پر توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوتا یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے۔ جاننا چاہئے کہ لوگوں کے لئے توبہ کا دروازہ دعوتِ حق ہے جو قیامت کے قریب بند ہو جانے والی ہے۔
(ہ) اگر اس سوال کا مطلب یہ ہو کہ علم و عمل کے ذریعے سے اسماعیلی مذہب کی تمامتر خوبیاں لوگوں پر ظاہر کیوں نہیں کر دی جاتی ہیں تا کہ اسلام کی حقیقی ہدایت روشن ہو جائے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ دینِ حق کی تمام خوبیوں کا مجموعہ امامِ زمانؑ ہے اور وہ دنیا والوں کے سامنے ظاہر اور آشکار ہے، پھر اس کے بعد کون سی چیز پوشیدہ رہتی ہے۔

ناندی کی حکمت:
سوال نمبر ۵۷: ہم جماعت خانے میں ناندی کیوں لاتے ہیں؟ کیا یہ درست نہیں کہ ہم بجائے جنس کے نقد پیش کریں؟

جواب: اگرچہ اس کے لئے نقد کی بھی اجازت ہو سکتی ہے، لیکن

۱۰۶

ناندی کی حکمت یہ ہے کہ خدا کے گھر میں اس کے لانے سے بندۂ مؤمن کی طرف سے ادب، تعظیم اور عاجزی کا مظاہرہ ہوتا ہے، جس سے پُرخلوص غلامی کا ثبوت ملتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اس سے کچھ ضرورت مندوں کی ضرورت بھی پوری ہو جاتی ہے، لہٰذا اس میں نہ صرف انفرادی اعتبار سے دینداری کی فضیلتیں پوشیدہ ہیں بلکہ جماعتی لحاظ سے بھی یہ کام باعثِ برکت ہے۔

زمانۂ جدید کے بعض تعلیم یافتہ نوجوان ناندی جیسی رسومات سے کیوں شرم محسوس کرتے ہیں؟ کیا اس لئے کہ وہ خدا کے گھر میں خرید و فروخت کا معاملہ پسند نہیں کرتے؟ حالانکہ بیعت بھی جانوں کی خرید و فروخت ہے، اور قرآن میں مؤمنین کی جان و مال کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ سودا ہو جانے کا ذکر ہے (۰۹: ۱۱۱) پس ایسا خالص دینی، اخروی اور مقدّس سودا خدا کے گھر میں نہ ہو تو کہاں ہونا چاہئے۔

نادِ علی:
سوال نمبر ۵۸: “نادِ علی” کے کیا معنی ہوتے ہیں؟

جواب: نادِ علی اور اس کا ترجمہ ذیل کی طرح ہے:

نَادِ عَلِیّاً مَظْہَرَ الْعَجَاءِبِ
تَجِدْہٗ عَوْناً لَکَ فِی النّوَاءِبِ
کُلُّ ہَمٍّ وَ غَمٍّ سَیَنْجَلِیْ
بِوَلَایَتِکَ یَا عَلِیْ یَا عَلِیْ
علی کو پکار جو (خدا کے) عجائب کا مظہر ہے، تو اس کو مصیبتوں میں

۱۰۷

اپنا مددگار پائے گا، وہ ہر تکلیف اور غم کو زائل کر دے گا، اپنی ولایت کی حرمت سے یا علی یا علی۔

تعجب ہے:
سوال نمبر ۵۹: اللہ کیوں ہے؟

جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ سوالات مختلف قسم کے ہوا کرتے ہیں، اچھے برے، موافق مخالف، اور انوکھے نرالے، مگر یہ سوال سب سے عجیب ہے، اس میں تعجب اس لئے نہیں کہ خدا تعالیٰ کی ہستی سے انکار کیا گیا ہے، بلکہ عجیب بات تو یہ ہے جو کہا گیا ہے کہ “خدا ہے مگر کیوں؟”

اس میں ہمارے تعجب کی خاص وجہ یہ ہے کہ جب خدا کے وجود کو مانا گیا تو لازمی طور پر ان تمام اوصاف کے ساتھ مانا جاتا ہے، جو اس کے لئے بیان کئے جاتے ہیں، تو پھر ’’اللہ کیوں ہے؟‘‘ کا سوال ختم ہو جانا چاہئے، جبکہ خدا کے ہر وصف میں اس کا مکمل جواب موجود ہے، مثلاً اللہ اس لئے ہے کہ وہ خالق ہے، اس لئے کہ وہ رازق ہے، اس لئے کہ وہ مَلِک (بادشاہ) ہے، اس لئے کہ وہ رب ہے، اس لئے کہ وہ رحمان ہے وغیرہ۔
مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے سو ناموں میں سے ہر ایک نام خدا کی ہستی کی ضرورت و اہمیت کی ایک روشن دلیل ہے، اور جو لوگ خدا کے وجود کے لئے قائل ہو جاتے ہیں، وہ سب سے پہلے اس فلسفے کو خوب سمجھتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ کو کس لئے ہونا چاہئے‘‘۔

۱۰۸

انسانی حقیقت:
سوال نمبر ۶۰: ہم شروع میں خدا تعالیٰ سے کیوں الگ یا جدا ہو گئے؟ اس کی وجہ اور مقصد کیا ہے؟

جواب: اس سلسلے میں آپ کے علم میں جو بھی باتیں آگئی ہیں وہ دینی تعلیمات کی ابتدائی باتیں ہیں، اور حق بات تو یہ ہے کہ ہم اپنی اصل انا میں خدا سے جدا نہیں ہوئے ہیں اور یہ سب سے بڑا خدائی بھید ہے کہ انسان کی سب سے اونچی حقیقت انائے علوی اپنے اصل مقام سے نیچے نہیں آتی ہے بلکہ اس کا ایک سایہ یہاں تک آیا ہے، سایہ سے مراد نچلے درجے کی خودی ہے۔

سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ انسان کیا ہے وہ عالمِ کثرت میں ایک جسم ہے، عالمِ ارواح میں ایک روح ہے، عالمِ عقول میں ایک عقل ہے اور عالمِ حقائق میں ایک حقیقت ہے، ہم عالمِ حقائق کو عالمِ وحدت بھی کہہ سکتے ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ انسان کی اعلیٰ ترین حقیقت ازل میں جیسی تھی اب بھی ویسی ہے، کیونکہ وحدت سے وحدت جدا نہیں ہوتی ہے اور نہ حقیقت سے حقیقت جدا ہو سکتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ MONOREALISM (یک حقیقت) کا نظریہ صحیح ہے، جس کے مطابق دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی خودی کم سے کم دو درجوں میں ہے ایک درجۂ ادنیٰ ہے جو ظاہری اور جسمانی ہستی ہے اور دوسرا درجۂ اعلیٰ ہے جو انائے علوی اور حقیقتِ واحدہ ہے جو ہمیشہ اصل مقام پر قائم ہے، پس انسان اپنی ظاہری شخصیت کے اعتبار سے اس دنیا میں آیا ہے،

۱۰۹

لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ عالمِ وحدت میں ہے۔

نیاز اور فرشتہ:
سوال نمبر ۶۱: کیا یہ عقیدہ درست ہے جو مانا جاتا ہے کہ نیاز (یعنی آبِ شفاء) کے موقع پر کچھ فرشتے حاضر ہوتے ہیں؟

جواب: ہاں، بالکل درست ہے، آپ علم الیقین کی روشنی میں فرشتوں کے وجود اور ان کے کاموں کی حقیقت کو بخوبی سمجھ لیں تو معلوم ہو جائے گا، کہ جس جگہ عبادت و بندگی اور عقائد کی تعمیل ہوتی ہے وہاں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے فرشتے ہمیشہ حاضر ہوا کرتے ہیں، اور جہاں نورِ الٰہی ہوتا ہے وہاں فرشتے بھی موجود رہتے ہیں۔

تقیہ:
سوال ۶۲: اگر عیسائی اپنے دین کی ہر بات کو ظاہر کر سکتے ہیں تو ہم اپنے مذہب کے عقائد کو کیوں ظاہر اور آشکار نہیں کر سکتے ہیں؟

جواب: (الف) یہ کیونکر ضروری ہو سکتا ہے کہ جو طریقہ عیسائی اختیار کریں تو ہم بھی اسی پر چلیں، اور اسلام کے بنیادی اصولوں کو نہ دیکھیں۔
(ب) ہمیں بعض عقائد میں تقیہ سے کام لینے کی ضرورت ہے، تقیہ ہمارا دین ہے ہمارے اماموں کا دین ہے اور یہ رسولِ برحق ؐ کا دین ہے جو اسلام ہے۔

۱۱۰

(ج) قرآن و سنت اور پاک أئمہ کی مثالی زندگی میں ذرا غور سے دیکھو تو معلوم ہو جائے گا کہ دینِ اسلام کی بہت سی باتوں میں اصولِ تقیہ کار فرما ہے اور تقیہ کرنا بہتر ہے، کیونکہ اسی میں ہر طرح کی سلامتی ہے۔
(د) اسلام دینِ فطرت ہے لہٰذا اس کا قانون کائنات و موجودات کا قانون ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہر چیز اور ہر مخلوق کو گاہ بگاہ کے خطرات سے بچانے کی تدبیر کی گئی ہے چنانچہ تقیہ کا مطلب ہے دین کی ایسی باتوں کو ظاہر نہ کرنا جن کی وجہ سے مؤمنین کو خطرہ پیدا ہو جاتا ہو اور امام کے مریدوں کو غیر ضروری تکلیف پہنچتی ہو۔
(ہ) ہمیں اپنے اعمال و اقوال کو امامِ زمان کے مقدس امر و فرمان کے سانچے میں ڈھالنا چاہئے، نہ کہ کورانہ تقلید کے لئے دوسروں کی طرف دیکھنا چاہئے، جبکہ ہمارے پاس نورِ ہدایت موجود ہے، جو کسی کے پاس نہیں۔
(و) شروع سے لے کر اب تک ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے جو جو سوالات ایسے آئے ہوں کہ ان کا معیار غیر اسماعیلی عقیدہ ہے، تو وہ سوالات ہی بنیاد سے غلط ہیں، یعنی غیروں کے کسی عقیدے کو دیکھ کر یہ پوچھنا کہ: “فلان مذہب میں یہ ہے ہمارے یہاں کیوں ایسا نہیں۔” ہرگز درست نہیں، جس کی وجہ اوپر بتائی گئی ہے۔

نورِ واحد:
سوال نمبر ۶۳: قرآنِ مقدّس خدائی نور ہے، اور حاضر امام بھی ایسا ہی ہے، لیکن نور ناقابلِ تقسیم ہے، سو ہمارے پاس دو نور کیسے ہوئے؟۔۔۔

۱۱۱

جواب: آپ کے سوال کا جو حصہ درست تھا وہ میں نے یہاں لکھ دیا ہے اور اسی میں آپ کا مطلب بھی آ گیا ہے اور دوسرے الفاظ الجھے ہوئے تھے لہٰذا میں نے ان کو چھوڑ دیا ہے، اور اس سوال کا جواب ذیل کے نقشہ کے مطابق ہے:

 

یہ ایک معجزانہ نقشہ ہے جو خصوصی عطیات میں سے ہے، اور اس میں دیکھنے سے علم و حکمت کے بہت سے بنیادی اصولات کا پتا چلتا ہے، چنانچہ اس سے یہ حقیقت صاف طور پر روشن ہو جاتی ہے کہ نور ہمیشہ کے لئے ایک ہی ہے، وہ قرآنِ مقدّس اور امامِ زمانؑ کے درمیان ہے، اس لئے یہ دونوں پاک ہستیوں (یعنی قرآن اور امام) میں مشترک ہے۔
اگرچہ نور ایک لحاظ سے قرآنِ پاک اور امامِ برحق میں مشترک ہے، لیکن دوسرے لحاظ سے نور کا زیادہ سے زیادہ تعلق امامِ حیّ و حاضر سے ہے، کیونکہ نور بولتا ہے اور وہ ایک زندہ روح ہے، اور وہ امامت ہی کی روح ہے اور امام کا نور ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قَدْ جَاءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَکِتَابٌ مُّبِیْنٌ (۰۵: ۱۵)
تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور ظاہر کتاب آچکی ہے۔ اس فرمانِ خداوندی سے ظاہر ہے کہ نور بہ حقیقت پیغمبرؐ اور امامؑ ہیں اور کتابِ مبین

۱۱۲

قرآن ہے، اگر قرآن ہی ذاتی طور پر نور ہوتا تو اس کو “کتابِ مبین” کہہ کر نور کا الگ ذکر نہ کیا جاتا۔

اس بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کتابِ مبین ہے اور امامِ زمان نور، کیونکہ نور ایک ہی ہے دو نہیں، اور اگر ہم قرآن کو بھی نور کہنا چاہتے ہیں تو وہ اس معنیٰ میں درست ہے کہ قرآن کی زندہ روح امام میں رہتی ہے اور امام ہی میں بول سکتی ہے ورنہ نہیں، نقشہ میں خوب غور سے دیکھ کر اس مطلب کو سمجھو۔

درجۂ عارف:
سوال نمبر ۶۴: اگر ایک آدمی انتہائی معرفت کو پہنچتا ہے اور وہ نور کو حاصل کرتا ہے، اور وہ کسی پیر پیغمبر اور قرآن کی طرح ہو جاتا ہے تو کیا وہ اس وقت انا الحق (میں خدا ہوں) کہہ سکتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ اُس آخری درجے تک پہنچ سکتا ہے تو اس کا امام سے کیا رشتہ ہوتا ہے؟ اس میں وہی خدائی نور ہونے کے باوجود، جو امام میں ہے، وہ خود کو امام کے طور پر ظاہر نہیں کر سکتا، لیکن وہ (نور کے اعتبارسے) وہی درجہ رکھتا ہے، جیسے امام کا یا کسی پیغمبر کا، تو وہ اپنی امامت کا اعلان کیوں نہیں کر سکتا، محض اس لئے نا، کہ وہ نورانی فیملی (خاندانِ امامت) میں پیدا نہیں ہوا ہے، اور اگر یہی واقعہ ہے تو یہ کہاں کا انصاف ہوا، حالانکہ خدا تعالیٰ پاک اور رحمان و رحیم اور عادل ہے، تو پھر ان دونوں مظہروں کے درمیان یہ امتیازی سلوک کیوں روا رکھا گیا ہے؟

جواب: یہ درست ہے کہ ایک حقیقی مؤمن ہادئ برحق کی ہدایت کی روشنی میں کمالِ معرفت کو پہنچتا ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ وہ نور کو حاصل کرتا

۱۱۳

ہے، مگر نور کی اصل میں واصل ہو جاتا ہے نہ کہ اس سے الگ اور جدا کوئی نور حاصل کرتا ہے، کیونکہ نور تقسیم نہیں ہوتا ہے جیسا کہ سوال نمبر ۶۳ کے تحت اس کا نقشہ دیا ہوا ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ پیر پیغمبر کی روحانیّت کی پیروی کرتے کرتے آگے سے آگے چلا جاتا ہے، اور کوئی شک نہیں کہ اس دوران قرآن کی مکمل روحانیّت کو بھی پاتا ہے، لیکن یہ آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ “انا الحق” کا چیخ چیخ کر نعرہ لگانا بھی اس سلسلے کا ایک ضروری معجزہ ہے، حالانکہ یہ کلمہ منصور حلاج کے ذاتی جذبے کا نتیجہ ہے، آپ ہر عارف کی معرفت کو صرف اسی اناالحق کے معیار سے پرکھنے کی کوشش نہ کریں، بلکہ بحیثیتِ مجموعی علم و عرفان کو دیکھیں۔

عارف کا امام سے رشتہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امام کے نور سے واصل ہو جاتا ہے، اس میں وہی خدائی نور امام سے الگ نہیں ہوتا بلکہ وہ خدا کے نور سے (جو امام میں ہے) امام ہی کے وسیلے سے جا ملتا ہے، اس میں کوئی دوسرا نور کہاں سے آیا یا اصل نور دو حصوں میں کب تقسیم ہوا کہ جس کی بناء پر یہ عارف دعویٰ کرے کہ یہ بھی ایک امام بن گیا ہے؟ سوال کا یہ حصہ بچگانہ ہے، آپ خوب سوچیں کہ اگر لوہے کا ایک ٹکڑا آگ میں رہ کر آگ بن سکتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ آگ سے الگ ہو کر بھی یہ دعویٰ کرے کہ میں آگ ہوں، یہ دعویٰ درست نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ لوہا آگ ہے تو آگ کی بدولت ہے، آگ کے وسیلے سے ہے اور آگ کے اندر رہ کر صحیح ہے کہ وہ آگ ہونے کا دعویٰ کرے۔

دوسری مثال اُس غریب آدمی کی طرح ہے جو بادشاہ کا دوست بن جاتا ہے، بادشاہ رفتہ رفتہ اس پر بادشاہی کے تمام بھیدوں کو کھول دیتا ہے جس کا مقصد اس کو بھیدی بنانا ہے نہ کہ اس کو فی الفور تخت پر بٹھانا ہے، اس

۱۱۴

صورت میں اگر غریب آدمی ایک الگ بادشاہ بن جانے کی خواہش کرتا ہے تو بالکل غلط ہے، اگر وہ سوچتا ہے کہ وہ بادشاہ کا اتنا قریبی دوست ہو گیا ہے کہ بادشاہ گویا اس کی جان ہے اور بادشاہ اس کا ایک روپ ہے، لہٰذا یہ غریب شخص تصوّر کر سکتا ہے کہ وہ بادشاہ کی روح میں مل کر بادشاہ بن گیا ہے نہ کہ وہ بادشاہ سے الگ کوئی بادشاہ ہو گیا ہے۔

یہ فرق کیوں؟
سوال نمبر ۶۵: کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ صراطِ مستقیم پر آگے ہیں اور کچھ پیچھے، لیکن خدا کے نزدیک سب بچے برابر ہیں، تو پھر کچھ لوگ دوسروں سے پیچھے کیوں ہیں؟
مذہبی عقائد بچپن ہی میں پختہ ہو جاتے ہیں اور ایک آدمی ۱۸۔۲۵ برس کی عمر سے پہلے ہی مذہب کو اس کی گہرائی کی تحقیق کے بغیر اپنا لیتا ہے، پھر وقت اور موقع گزر جاتا ہے اور وہ اپنے مذہب کو تبدیل نہیں کر سکتا، کیونکہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ یہ جو کچھ مذہب رکھتا ہے وہی صحیح ہے، اِس صورت میں اس کو روحانی عذاب کیوں ملنا چاہئے، جبکہ اُس نے ایسے لوگوں کے کہنے پر عمل کیا جن کو یقین تھا کہ وہ سچے ہیں؟

جواب: ہاں، درست ہے کہ قرآن و حدیث اور عقل و منطق کی نظر میں کچھ لوگ صراطِ مستقیم پر آگے ہیں اور کچھ پیچھے، کیونکہ جب دین خدا کی طرف چل کر نزدیک ہو جانے اور منزلِ نجات حاصل کرنے کا راستہ ہے تو لازمی ہے کہ نتیجے کے طور پر کچھ لوگ آگے بڑھیں کچھ پیچھے رہیں اور بعض

۱۱۵

بھٹک جائیں۔

جب آپ قبول کرتے ہیں کہ دینِ حق کی جو مثال راہِ راست سے دی گئی ہے وہ بالکل صحیح ہے، تو پھر آپ راہِ دین (صراطِ مستقیم) کے لوازم، نتائج اور عواقب کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں، اور وہ یہ ہیں کہ اہلِ مذاہب سب کے سب اسی راہ کے مسافر ہیں، چونکہ وہ ہادئ برحق کی پہچان، فرمانبرداری، سامانِ سفر اور ہر قسم کی تیاری کے لحاظ سے ایک جیسے اور برابر نہیں ہیں، اس لئے ان مذہبی مسافروں میں سے کچھ تو اگلی منزلوں میں پہنچے ہوئے ہیں، کچھ پچھلی منزلوں میں ہیں اور بعض بھٹک بھی گئے ہیں۔

جاننا چاہئے کہ فرشتہ کو نفس نہیں صرف عقل دی گئی ہے، حیوان کو عقل نہیں صرف نفس دیا گیا ہے، اور انسان کو مذکورہ دونوں مخلوق کے درمیان رکھ کر بطورِ امتحان و آزمائش کے دونوں قوّتیں عطا کر دی گئی ہیں، یعنی انسان میں عقل بھی اور نفس بھی، اور یہ روشن حقیقت ایسی معروف و مشہور ہے کہ اس سے کسی کو ہرگز انکار نہیں۔
جب اس میدانِ علم و عمل میں انسان کو آزمانا مقصود تھا اور جس کے لئے اُسے عقل و نفس کی دو متضاد قوّتیں دی گئیں تو اس کے ساتھ ساتھ رحمتِ خداوندی کا یہ تقاضا ہوا کہ انسان کو ایک تیسری قوّت بھی عنایت کی جائے تا کہ جس کے ذریعے سے انسان عقل و نفس دونوں پر بادشاہی کر سکے، وہ قوّت ارادہ یعنی اختیار کی تھی، اور یہاں ارادہ و اختیار کا مطلب ہے عقل اور نفس کی فرمائشوں میں سے کسی ایک کو چاہنا اور پسند کرنا، اگر انسان کو اپنے علم و عمل کے مطابق اختیار حاصل نہ ہوتا تو امتحان و آزمائش کا سوال ہی ختم ہو جاتا اور اس کی ذات میں دو مخالف طاقتوں کا ہونا بے معنی ہو کر رہ جاتا۔

۱۱۶

جب انسان کا اختیار اور امتحان ثابت ہوا تو اس کے نتائج بھی لازمی ہو گئے، اور یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ انسان نہ صرف تمام حیوانات پر بادشاہی کرے بلکہ وہ فرشتوں سے بھی افضل و اعلیٰ قرار پائے، اور دنیاوی طور پر بھی کسی سے بار بار امتحان لینے کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کو فضیلت و مرتبت میں آگے سے آگے بڑھا دیا جائے، لیکن اس سلسلے میں بہت سے لوگ ناکام بھی ہو جاتے ہیں۔

جہاں سارے انسانوں کی مثال خدا کے اہل و عیال کی طرح ہے تو وہ صرف اس معنیٰ میں صحیح ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ باپ کی طرح بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ لوگوں کی بھلائی اور بہتری چاہتا ہے، اب آپ نے خود ہی باپ بیٹوں کے اصول کو تسلیم کر لیا ہے، تو پھر اصول سے ہٹ کر ہرگز بات نہیں کرنا، اور وہ یہ کہ کسی باپ کے سارے بچے علم و ہنر میں اور امر و فرمان کی پابندی میں ایک جیسے تو نہیں ہو سکتے، کچھ فرمانبردار ہوتے ہیں اور کچھ نافرمان، اور یہ لازمی بات ہے کہ باپ کچھ بچوں سے راضی اور کچھ سے ناراض ہو اور جیسے خدا ایک مہربان اور خیر خواہ باپ کی طرح یہ نہیں چاہتا ہے کہ لوگ قانونِ قدرت کی خلاف ورزی کریں ویسے وہ ان کے غلط کاموں کی سزا سے بھی خوش نہیں، لیکن قانونِ فطرت جو خودکار (Automatic) قسم کا ہے خود بخود ہر قسم کے اعمال کا بدلہ دیتا رہتا ہے۔

آپ کا یہ نظریہ غلط ہے جس میں کہا گیا ہے کہ : “مذہبی عقائد بچپن ہی میں پختہ ہو جاتے ہیں۔” جبکہ عقیدہ ابتدائی ایمان کا نام ہے اور پختہ عقیدہ کی مراد ایمانِ کامل ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ عقیدہ کی اصلاح اور ایمان کی درستی و تکمیل کی مہلت موت کے وقت آنے تک ہے، کیونکہ بچپن کا عقیدہ تقلید کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے اور عقل و دانش کی پختگی کے بعد اس میں تحقیق کا تقاضا

۱۱۷

پیدا ہو جاتا ہے، سو یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم نے دین کی ہر بات میں اور ہر کام میں غور و فکر کے لئے زور دیا ہے، یہ دینِ اسلام کی وہ پُرحکمت دعوت ہے جو تقلید سے تحقیق کی طرف آنے کے لئے مقرر کر دی گئی ہے۔

اس سوال میں ایک ہی مطلب کو مختلف الفاظ میں دہرایا گیا ہے اور اپنی کم علمی یا سادگی کی وجہ سے غیر منطقی باتوں کی دلیل بنانے کی کوشش کی گئی ہے مثال کے طور پر یہ کہنا:”جبکہ اُس نے ایسے لوگوں کے کہنے پر عمل کیا جن کو یقین تھا کہ وہ سچے ہیں۔” آپ خود بھی اس میں ذرا غور کریں، آیا ہم اس بات کو حقیقت مانیں یا لوگوں کی ایک عام عادت کہ دنیا کے تمام مذاہب والے اپنے اپنے نظریات کو برحق مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کو یقین ہے کہ ہماری بات سچ ہے، اور اگر لوگوں کا یوں کہنا کوئی دلیل ہے تو پھر تمام مذاہب حق پر ہیں، مگر یہ بات ممکن نہیں۔

دنیا میں تکالیف کیوں؟
سوال نمبر ۶۶: خدائے قدّوس جب رحمان و رحیم اور جواد و کریم ہے تو پھر اس دنیا میں ایسی بہت سی تکالیف کیوں ہیں؟ بچوں میں غربت و ناچاری کیوں ہے؟ اور جنگوں کا وجود کیوں ہے؟

جواب: (الف) اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں کی جتنی تعریف و توصیف کی جائے کم ہے، کیونکہ تمام الٰہی علم و حکمت اور سارا قانونِ قدرت اسمائے خداوندی میں ہے جس کی تفصیل قرآنِ مقدّس ہے، اور دنیائے انسانیت میں جس قدر تکالیف پائی جاتی ہیں وہ خدا کی ذات و صفات کی خوبیوں کی نفی نہیں کرتی ہیں اور نہ ہی یہ قرآنی حکمت کے خلاف ہیں۔

۱۱۸

(ب) آپ نے بالغ انسانوں کو چھوڑ کر معصوم بچوں کی غربت و ناچاری اور بیماری کا سوال اس لئے اُٹھایا ہے تاکہ ہم بڑوں کے بارے میں یہ کہہ کر جواب کو نہ ٹالیں کہ یہ ان کے گناہوں کی سزا ہے، جبکہ چھوٹے چھوٹے بچے بے گناہ ہوا کرتے ہیں، سو آپ کا پوچھنا درست ہے، مگر یہ یاد رہے کہ تکلیف ہر بار گناہ کی وجہ سے نہیں آتی ہے، وہ بعض دفعہ اس کے بغیر کسی اور مصلحت کی بناء پر بھی آسکتی ہے، انبیاء علیہم السّلام کی مقدّس زندگی پر غور کریں، کیا وہ حضرات بچوں سے بھی زیادہ پاک و پاکیزہ نہیں تھے؟ کیا ان کو (نعوذ باللہ) اگلے جنم کی بداعمالی کی سزا مل رہی تھی؟انہوں نے انسانوں میں سب سے زیادہ تکلیف و مشقت کیوں اُٹھائی؟ اس باب میں خوب غور کیا جائے۔
(ج) یہ بھی یاد رہے کہ حکمتِ قرآن کے مطابق ایک ہی چیز کے کئی نام ہو سکتے ہیں، جیسے دنیاوی طور پر کسی سے کوئی نقد و جنس لینے کا نام جرمانہ بھی ہو سکتا ہے اور تحفہ بھی، اور یہ معاملہ جن کے درمیان ہو اور جن افراد کو اس کا علم ہو وہی بخوبی جانتے ہیں کہ جو کچھ لیا گیا وہ تحفہ کے طور پر تھا یا جرمانہ کی صورت میں، اسی طرح کوئی تکلیف و مصیبت نہ صرف سزا ہی ہو سکتی ہے، بلکہ بعض حالات میں یہ بندگی اور قربانی بھی ہو سکتی ہے۔
(د) دونوں جہان کا کوئی بادشاہ ہے اور وہی خدا ہے، اسی کی بادشاہی اور خدائی میں یہ سب کچھ ہے اور ہونا چاہئے، اور اگر حکمت کی نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ نہ تو بیماری اور تکلیف فضول ہے اور نہ ہی جنگیں جو قدرتی طور پر ہوا کرتی ہیں، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ بیماری کا علاج نہ کیا جائے، تکالیف کو دور کرنے کے لئے عقل و دانش سے کام نہ لیں اور جنگیں ہر حالت میں عبادت قرار دی جائیں، بلکہ بہت سی تکالیف کو ختم کر دینے کے لئے

۱۱۹

کوشش ضروری ہے، اور اگر ممکن نہ ہو تو اسے قدرتی قرار دے کر سمجھ لیا جائے کہ حکمت و مصلحت اسی میں ہے۔
(ہ) انسانی زندگی ایک عجیب و غریب شے ہے اور اس کے کئی کئی پہلو ہیں کیونکہ انسان نہ صرف اپنے آپ میں زندہ ہے بلکہ وہ دوسروں میں بھی جیتا ہے، وہ اگرچہ محدود نظر میں ذاتی اور انفرادی طور پر زندگی بسر کرتا ہے، اور ہر چند کہ اس کے خیالات و افکار اور اقوال و افعال کی ایک چھوٹی سی الگ دنیا ہے، جس کا حساب کتاب جداگانہ اور ذاتی نوعیت کا ہوا کرتا ہے، تاہم اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس کی ایک گھریلو اور خاندانی زندگی بھی ہے، جس کا یہ حال ہے کہ کبھی تو وہ اہلِ خانہ کی وجہ سے تکلیف اُٹھاتا ہے اور کبھی ان کے سبب سے راحت پاتا ہے اور اس میں تعجب کیوں ہونا چاہئے کہ یہ خاندانی وحدت و سالمیت ہے اور گھر کے افراد ایک دوسرے کے اعضاء و اجزاء کی مثال پر ہیں، یہی مثال اہلِ حکمت کے نزدیک انسان کی اُس زندگی کی بھی ہے جو وہ قصبہ، شہر اور ملک والوں کے ساتھ مل کر گزارتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر درجہ کی اجتماعی زندگی کے مسائل سے لاتعلق اور بے غرض نہیں رہ سکتا، اور نہ ہی وہ اپنے ملک و ملت کی مجموعی اچھائی یا برائی کے نتائج و عواقب سے الگ تھلگ ہو سکتا ہے۔
(و) اسی طرح ہر معتقد انسان کی ایک جماعتی اور مذہبی زندگی بھی ہے، اور ہر قسم کے لوگوں کی سب سے آخری اور سب سے عظیم زندگی وہ ہے جس میں تمام لوگوں کو طوعاً و کرھاً رجوع ہو جانا ہے (۰۳: ۸۳) اور وہ ایسی کلی زندگی ہے کہ جس میں ازل سے ابد تک پائے جانے والے تمام نفوسِ خلائق ایک ہی ہیں (۵۶: ۴۹ تا ۵۰)۔ چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے کہ:
مَّا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ إِلَّا کَنَفْسٍ وَاحِدَۃٍ (۳۱: ۲۸)۔ تم سب کا (ازل

۱۲۰

میں) پیدا کرنا اور (ابد میں) جِلا اُٹھانا ایک جان (یعنی نفسِ کلی) کی طرح ہے یعنی تم سب روحِ کلی میں ایک ہی ہو، اور اگر تم اپنے آپ میں چشمِ یقین پیدا کرو گے تو دیکھو گے کہ تم روح کا صرف ایک ہی قطرہ ہونے کے باوجود نفسِ کلی کے سمندر میں کس طرح ایک ہو۔

مذکورۂ بالا بیان کا خلاصۂ مطلب یہ ہوا کہ دینی اور دنیاوی اعتبار سے آدمی کی انفرادی اور ہر درجہ کی اجتماعی زندگیوں کے کارناموں کی تکمیل بغیر تکالیف کے ناممکن ہے، کیونکہ دنیا و آخرت میں انسان کے لئے سب سے زیادہ خوشی اور سب سے بڑا فخر اس بات میں ہے کہ وہ خدا کی راہ میں سخت سے سخت مشقتیں برداشت کرے اور اس کی مخلوق کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں پیش کی جائیں، اس لئے کہ اگرچہ خدا ناشناسی کی سنگین سزا اپنی جگہ پر حق ہے تاہم آخرکار ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ جس میں ہر مذہب کے لوگ خدا کی بے پناہ رحمت میں باہم ملنے والے ہیں۔

شریعت:
سوال نمبر ۶۷: کیا یہ بات درست ہے کہ جب کوئی آدمی طریقت یا حقیقت کی منزل میں پہنچتا ہے تو شریعت سے بے نیاز ہو جاتا ہے؟

جواب: نہیں نہیں، یہ بات درست نہیں ہے، کلی طور پر شریعت کو ترک کر دینا کہیں بھی نہیں ہے، کیونکہ دین کی ہر چیز کی تخلیق شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے چار عناصر سے ہے، مگر یہ بات ضرور ہے کہ اگر کسی چیز میں شریعت کا عنصر زیادہ ہے، تو دوسری میں طریقت کا عنصر غالب ہے،

۱۲۱

تیسری میں حقیقت کا اور چوتھی میں معرفت کا پہلو زیادہ ہے، اس مطلب کی وضاحت کے لئے آپ میری ایک کتاب “آٹھ سوال کے جواب” کے آخر میں دیکھیں۔

امامت اور عورت:
سوال نمبر ۶۸: اس کی کیا وجہ یا کیا تاویل ہے کہ انبیاء اور أئمّہ علیہم السّلام ہمیشہ مردوں میں سے ہوئے ہیں، اور کسی بھی زمانے میں کوئی عورت مرتبۂ نبوّت یا درجۂ امامت سے سرفراز نہیں ہوئی؟

جواب: قطعی جواب سے پیشتر عورت کے لئے دینِ اسلام میں جو مقام ہے اس کی طرف کچھ اشارے کئے جاتے ہیں کہ یہ بات اُن روشن حقیقتوں میں سے ہے جن کے بارے میں کوئی شک ہی نہیں کہ وہ ذات عورت ہی تھی، جس نے انبیاء کرام اور أئمّۂ عظام علیہم السّلام کو جنم دیا، وہی اُن پاک و پاکیزہ ہستیوں کی جسمانی اور اخلاقی تربیت و پرورش کا مقدّس فریضہ انجام دیتی رہی، اور اُسی نے دنیا بھر کی ماؤں میں سے ایک افضل ترین ماں کی حیثیت سے اُن کامل انسانوں کو، جو آگے چل کر لوگوں کی رہنمائی اور دستگیری کرنے والے تھے، اپنے پاک دامن میں اُٹھایا اور انتہائی شفقت و محبت کے ساتھ سینے سے لگا لیا۔

کتنی خوش قسمت اور عظیم المرتبت تھیں وہ بزرگ اور قابلِ قدر مائیں جن کی اولادوں میں سے کوئی پیغمبر یا زمانے کا امام ہوا، وہ خواتین بھی کس قدر نیک بخت، سعادت مند اور خداوند تعالیٰ کی برگزیدہ تھیں، جن کو پیغمبروں یا اماموں کی رفیقۂ حیات ہونے کا عظیم ترین شرف حاصل تھا، اور ان حضرات کی بہنوں اور

۱۲۲

بیٹیوں پر بھی پروردگارِ عالم کا کتنا بڑا فضل و کرم اور احسان تھا کہ وہ آسمانی علم و حکمت کے سرچشمہ کے انتہائی قریب رہتی تھیں۔
ایک مفید مشورہ تو یہ ہے کہ آپ خود قرآنِ حکیم کے اُن ارشادات کا ذرا غور سے مطالعہ کریں جو حضرتِ موسیٰؑ  کی والدۂ محترمہ اور حضرتِ عیسیٰؑ کی مادرِ مشفقہ (بی بی مریمؑ ) کے بارے میں ہیں کہ کس طرح عورت ذات پر نزولِ وحی ممکن ہوا اور اُس سے فرشتوں نے کیسے کلام کیا، تا کہ آپ کو دینِ فطرت میں عورت کے مقام اور روحانی ترقی کا اندازہ ہو سکے۔

عالمِ اسلام میں اہلِ بیتِ اطہار یعنی پنجتنِ پاک صلوات اللہ علیہم کی عظمت و بزرگی اور تقدس و پاکیزگی ایک مسلّمہ حقیقت ہے، جس کے بارے میں کسی بھی نیک باطن مسلمان کو ذرّہ بھر شبہ نہیں، اور ظاہر ہے کہ پاک پنجتن میں سے ایک عالی گوہر فرد خاتون بھی ہے، جس کا مبارک نام فاطمۂ زہرا اور لقب خاتونِ جنّت ہے، آپ صلوات اللہ علیہا نورِ عالمِ قدسی کے ظہور کا وہ عالی شان نمونہ اور جمالِ اخلاقِ خداوندی کا ایسا پاکیزہ ترین آئینہ تھیں، جو کسی اولیائی درجے کی باکرامت خاتون کی جسمانیّت و بشریت میں ممکن ہے، تا کہ اس کی معرفت سے دیندار، پاک باطن اور فرشتہ سیرت خواتین کی خاطر خواہ ہمت افزائی ہو سکے۔

مذکورۂ بالا قسم کے بہت سے کمالات اور صفاتِ عالیہ کے باوجود کوئی برگزیدہ خاتون نبوّت یا امامت کے منصبِ جلیلہ پر فائز نہیں ہوسکی جس کی وجہ ظاہری نہیں بلکہ تاویلی ہے اور وہ ذیل کی طرح ہے کہ:
(الف) پیغمبر، امام اور معلم روحانی مرد ہیں، اور امت، مرید اور شاگرد روحانی عورت، چنانچہ اگر مردوں کے ہوتے ہوئے کوئی عورت بھی پیغمبر یا امام ہوتی، تو اس کا تاویلی اشارہ (نعوذ باللہ) یہ ہوتا کہ پیغمبر امت کی اطاعت کرے،

۱۲۳

امام مرید کا فرمان مانے اور معلم شاگرد سے تعلیم حاصل کرے، تو یہ بات قانونِ قدرت کے خلاف واقع ہوتی، لہٰذا کوئی خاتون پیغمبر یا امام نہیں ہوئی۔ آپ سو سوال حصۂ چہارم میں سوال یا عنوان نمبر ۹۷ کو بھی پڑھیں۔

مقامِ معرفت:
سوال نمبر ۶۹: ایک شخص مقامِ معرفت میں کب پہنچتا ہے؟ زندگی ہی میں یا مر جانے کے بعد؟

جواب: (الف) انسان کے دنیا میں آنے کا سب سے بڑا مقصد عبادت اور معرفت ہے تو یہ مقصد اسی دنیا میں پورا ہو جانا چاہئے نہ کہ مرنے کے بعد دوسرے جہان میں، کیونکہ اس میدانِ عمل میں بنیادی آزمائش یہی ہے کہ انسان کی بندگی اور شناخت کا اندازہ کیا جائے۔
(ب) قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے کہ جو کوئی اس دنیا میں اندھا ہوگا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا اور یہ بہت بڑی گمراہی کا نتیجہ ہوگا (۱۷: ۷۲) یہ اشارہ خدا شناسی اور روح شناسی کی طرف ہے، جس کو معرفت کہتے ہیں، اس سے یہ مطلب صاف ظاہر ہے کہ بنیادی معرفت دنیاوی زندگی ہی میں ممکن ہے۔

اسماعیلی جماعت:
سوال نمبر ۷۰: ہم بوقتِ ضرورت اپنا مذہب دوسروں کو کس طرح سمجھائیں؟ ہم اپنی جماعت میں غیر اسماعیلیوں کو کیوں نہیں آنے دیتے،

۱۲۴

جبکہ دوسرے لوگ ایسا نہیں کرتے ہیں؟

جواب: ہم زبانی زبانی کتنے لوگوں کو سمجھا سکیں گے اور کس طرح سمجھا دیں گے، جب تک کہ ہمارے پاس اپنے مذہب کی کافی کتابیں موجود نہ ہوں جس طرح کہ دوسرے لوگوں کی کتابیں ہوتی ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ہمارے پاس مختلف موضوعات کی کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہو تا کہ رفتہ رفتہ دین کا تعارف ہو، سوالات ختم ہوتے جائیں اور شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جائے، ظاہر ہے کہ کتاب سے جو کام ہوگا وہ زبانی نہ ہو سکے گا۔

اس کے علاوہ کتابوں ہی کی روشنی میں آپ کسی کو اپنے مذہب کا بہتر طریقے سے زبانی تعارف کرا سکتے ہیں اور کتابوں کے بغیر کچھ بھی نہیں۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ غیر اسماعیلیوں کو ہمارے خاص مذہبی حلقے میں (ہماری جماعت میں) آنے کی اجازت اس لئے نہیں کہ ہمارا مذہب باطنی، روحانی اور تاویلی ہے اس لئے اس کا سمجھنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں، اس مذہب کی تمامتر خوبیاں بھیدوں میں پوشیدہ ہیں، کیونکہ اس میں زیادہ سے زیادہ حقیقت اور معرفت کے اسرار کی تعلیمات ہیں، لہٰذا ہمارے عقائد و رسومات میں شرکت کرنے سے غیر اسماعیلیوں کو کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی اس سے ہمیں کوئی فائدہ ہے۔

اسماعیلیّت کے سوا جو بھی مذاہب ہیں وہ باطنی، روحانی اور تاویلی نہیں ہیں، وہ تو ظاہری ہیں، اور جو چیز ظاہر ہو وہ سب کی نظر میں ہوتی ہے، لہٰذا اس کی پہچان مشکل نہیں آسان ہے، مگر اسماعیلی مذہب کی حقیقت اور حکمت سب سے بڑی مشکل ہے۔
اس سلسلے میں ایک روشن ثبوت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی اور وحدانیت

۱۲۵

کا اقرار لوگوں کے لئے آسان ہے، مگر آنحضرتؐ کی نبوّت و رسالت پر ایمان لانا مقابلۃً مشکل ہے، پھر محمد رسول اللہ کی رسالت کو ماننا آسان ہے، مگر علیؑ کی ولایت و امامت کو تسلیم کرنا مشکل ہے، اسی طرح امامت اور اسماعیلی مذہب کے سلسلے میں جوں جوں ہم ماضی سے حال کی طرف چلے آتے ہیں توں توں یہ حقیقی مذہب لوگوں کے لئے مشکل نظر آتا ہے، جس کی مختلف وجوہ ہیں۔

متوفی کے لئے کپڑے:
سوال نمبر ۷۱: متوفی کے حق میں جو کپڑے اور سفرے پیش کئے جاتے ہیں ان کی کیا تاویل ہوتی ہے؟ کیا ایک روحانی (متوفی) اپنے اُن رشتہ داروں سے ملاقات کر سکتا ہے جو اُس سے پہلے مر چکے تھے؟

جواب: یہ عقیدہ اور رسم ہے اور متوفی کو ایصالِ ثواب کا ایک طریقہ ہے، مگر اس کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ اُس روحانی (متوفی) کو کپڑوں اور کھانوں کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ یہ ایک ایسا صدقہ ہے جو دستیاب اور تیار چیزوں سے دیا جاتا ہے، اور مؤمنِ متوفی کی روح کے حق میں ثواب کے لئے دعا کی جاتی ہے۔

ہاں، نجات پانے کی صورت میں مؤمن اپنے عزیز و اقارب سے مل سکتا ہے، خواہ زندے ہوں یا مردے سب کو دیکھ سکتا ہے، کیونکہ وہاں روحانیّت ہے اور روحانیّت میں ہر چیز ممکن ہے کہ سب کی روح ہر جگہ حاضر ہے۔

۱۲۶

امام کے معنی:
سوال نمبر ۷۲: امام کے کیا معنی ہوتے، جبکہ ہماری اپنی کتابوں میں اس کا مطلب مذہبی پیشوا ہے؟

جواب: لفظِ امام کے لغوی معنی ہیں سردار، پیشوا یعنی جس کی پیروی کی جائے، نیز امام کے معنی ہیں راستہ، آپ قرآنِ پاک (۱۵: ۷۹) میں اس لفظ کے یہ معنی دیکھ سکتے ہیں، امام راستہ ہے تو کون سا؟ صراطِ مستقیم، جیسا کہ قاضی نعمان “اساس التاویل” کے صفحہ ۶۱۔۶۲ پر فرماتے ہیں:
والصراط فی اللغۃ الطریق، فمثل الامام ھٰہنا بالطریق لانّ من لزم الطریق لن یّضل، و کذالک من لزم الامام لن یّضل۔ والمراد بالطریق ھٰہنا الامام لا الطریق المسلوک فی الارض
ترجمہ: اور صراط کے لغوی معنی راستہ کے ہیں، پس یہاں امام کی مثال راستے سے دی گئی ہے کیونکہ جو آدمی راستے سے لازم رہے تو وہ ہرگز گمراہ نہیں ہو جاتا، اور اسی طرح جو شخص امام سے منسلک رہے تو وہ ہرگز گمراہ نہیں ہو جاتا، اور یہاں راستے سے مراد امام ہے نہ کہ وہ زمینی راستہ جس پر چلا جاتا ہے۔

پیر و مرشد:
سوال نمبر ۷۳: کیا کسی ظاہری گرو (پیر و مرشد) کی ضرورت ہوتی ہے؟

۱۲۷

جواب: آپ نے ایک نامکمل سوال پیش کیا ہے، یعنی اس میں یہ واضح نہیں کہ سوال امام کی اہمیّت کے بارے میں ہے یا پیر اور معلم کی ضرورت کے بارے میں، بہر حال ہم دونوں درجوں کا ذکر کرتے ہیں کہ اگر “گرو” سے آپ کی مراد امام ہے تو جواب ہے کہ امام کا ہونا ہمیشہ اور ہر حال میں انتہائی ضروری ہے، کیونکہ امامِ زمانؑ کے بغیر صراطِ مستقیم کی ہدایت نا ممکن ہے، اور اگر آپ کے نزدیک “گرو” کا مطلب امام کے بعد کا کوئی درجہ ہے تو وہ بھی ضروری ہے۔

اس کتاب میں جگہ جگہ امامِ زمانؑ کی اہمیّت و ضرورت کا ذکر آیا ہے، اور اِس مبارک و مقدّس ہستی سے دین کو جو رحمتیں اور برکتیں حاصل ہوتی رہتی ہیں، اس کے بارے میں حقیقی اسماعیلیوں کو کوئی شک و شبہ نہیں، مگر یہ سوال ضروری ہے کہ موجودہ زمانے میں امام کے بعد یعنی امام کے تحت معلّموں، استادوں، واعظوں اور عالموں کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اور اس مقصد کے حصول کے لئے دنیائے اسماعیلیّت میں امام کی طرف سے بڑے بڑے ادارے چلتے ہیں یا نہیں؟ تو یقیناً اس کا جواب اثبات میں ملے گا، پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہی جماعتی ادارے اور یہی افراد ہمارے ماضی کے حجّتوں، داعیوں اور پیروں کے جانشین ہیں، نام اور ٹائٹل کچھ بھی ہو مگر کام اور علمی خدمت کا فریضہ وہی ہے جو پہلے تھا، ماضی کی طرح اب بھی علمی اور روحانی ترقی کے دروازے کاملاً کھلے ہیں۔

اگر آپ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے اُن تمام مبارک ارشادات کو سامنے رکھیں جو حقیقی مؤمنین کی علمی اور روحانی ترقی کے بارے میں ہیں تو آپ کو کسی ٹائٹل کے بغیر بھی پیروں کی طرح آگے بڑھنے اور کام کرنے کا بھرپور جذبہ پیدا ہو گا۔

۱۲۸

لفظِ امام کا ہم معنی:
سوال نمبر ۷۴: کیا ویدی فلسفہ میں امام کا کوئی مترادف (یعنی کوئی ہم معنی لفظ) ہے؟

جواب: جاننا چاہئے کہ الفاظ الگ ہیں اور اصطلاحات الگ، چنانچہ لفظِ امام کے لغوی معنی کے لئے صرف ویدی فلسفہ میں نہیں بلکہ ہر مذہب اور ہر زبان میں مترادف الفاظ پائے جاتے ہیں، مگر “امام” کی اصطلاح سوائے دینِ حق کے کہیں بھی نہیں ہے، اس کی وجہ خدا کے قدیم دین میں نورِ امامت کی موجودگی ہے کہ جہاں امام تھا وہاں ایک مخصوص اصطلاح بنی ہے، اور دوسرے لوگ جب تک امامت کا تصوّر اور نظریہ نہ رکھتے تو کیسے یہ اصطلاح ان معنوں کے ساتھ قبول کر سکتے تھے، کیونکہ یہ اصطلاح امام کی ہستی جہاں ہو وہاں ہو سکتی ہے۔

مثال کے طور پر لفظِ رسول کے لغوی اور اصطلاحی دو معنی ہوتے ہیں چنانچہ اس کے لغوی معنی ایلچی کے ہیں جو قاصد، پیغام رسان اور سفیر کے لئے مستعمل ہیں، اور رسول کے اصطلاحی معنی اُس انسانِ کامل کے ہیں جو خدا کی طرف سے بھیجا ہو، یعنی پیغمبر جو کتاب بھی لائے، اب رسول کے جو لفظی معنی ہیں وہ تو ہر قوم اور ہر ملک میں استعمال ہوتے ہیں، مگر رسول کی جو اصطلاح ہے وہ نہ صرف اُن قوموں میں پائی جاتی ہے، جن کے وہاں کبھی خدا کی طرف سے کوئی پیغمبر آیا ہو، اس کے برعکس جو لوگ خدا کی ہستی سے منکر ہیں وہ کسی پیغمبر اور دین کے بھی قائل نہیں، لہٰذا اِن کے وہاں رسول کے اصطلاحی معنی موجود نہیں ہیں۔

۱۲۹

اسی طرح امام کی اصطلاح تمام معنوں کے ساتھ صرف اُس قوم میں ہے، جس میں واقعاً امام آتا رہا ہے، لہٰذا ماننا پڑے گا کہ ویدی فلسفہ میں ایسی کوئی اصطلاح نہیں ہے، مگر ہاں یہ بات ضرور ہے کہ امامِ برحقؑ کی عام باطنی ہدایت کے نظام کے مطابق ہر مذہب میں کوئی پیشوا ہوا کرتا ہے، جو اُس مذہب کی سطح کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے، کیونکہ دنیا کے بارہ (۱۲) جزیروں میں امامِ عالی مقام کی جانب سے چوبیس (۲۴) لیلی اور نہاری حجت مقرر ہوا کرتے ہیں۔

غیر اسماعیلی:
سوال نمبر ۷۵: اگر ایک غیر اسماعیلی روحانیّت کے سب سے اونچے درجے کو حاصل کر سکتا ہے تو پھر امام کی ضرورت کیا ہے؟

جواب: آپ نے سوال میں جس امکانیّت کا ذکر کیا ہے اس کی مثال یا دلیل پیش نہیں کی ہے، نیز اِس سوال میں یہ منطقی نقص بھی ہے کہ آپ نے صرف ایک غیر اسماعیلی کی طرف اشارہ کیا ہے، اور نجات کے لئے یا روحانی بلندی کے لئے صرف ایک ہی شخص کو لیا ہے اور وہ بھی نا معلوم ہی ہے۔
اگر اس اشارے سے آپ کی مراد منصور حلاج جیسی شخصیت ہے تو اس کے لئے آپ کو تاریخی طور پر صحیح ریسرچ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اسماعیلی تھا، اور اگر اس کو صرف صوفی مانا جائے تو اُس صورت میں بھی وہ امام کی عالمگیر ہدایت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ امامِ عالی مقام کی طرف سے اس دنیا میں بارہ لیلی حجّت اور بارہ نہاری حجت مقرر ہیں، جن کے وسیلے سے امام کی ہدایت اہلِ جہان کو درجہ بدرجہ ملتی رہتی ہے، اور اہلِ تصوّف تو خود اسماعیلیوں

۱۳۰

کے قریب ہیں۔

جب ہم مانتے ہیں کہ کارِ ہدایت کے سلسلے میں امامِ برحقؑ خدا و رسولؐ کا خلیفہ اور نمائندہ ہے، تو یہ بھی ماننا چاہئے کہ جس طرح خدا ربّ العالمین اور رسول رحمت اللعالمین ہیں اسی طرح امامِ زمانؑ تمام جہان والوں کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے، لیکن دنیا کے مذاہب بھی اور اہلِ مذاہب بھی مختلف درجات پر ہیں، لہٰذا امام کی ہدایت ہر مذہب کو اور ہر شخص کو حسبِ حال ملا کرتی ہے۔

ہر چیز کو بنیاد سے دیکھنے ، سننے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے، چنانچہ سمجھ لیا جائے کہ خدا کے بغیر مخلوق نہیں، پیغمبر کے بغیر دین نہیں اور امامِ زمانؑ کے بغیر ہدایت نہیں، اور اگر امامِ زمانؑ کے بغیر ہدایت حاصل ہو سکتی تو رسولؐ کے بعد کسی جانشین کی ضرورت نہ ہوتی، اگر حق بات یہی ہے کہ رسولِ مصطفیؐ کا جانشین ضرور ہے تو دیکھنا ہو گا کہ کہاں ہے اور کون ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا برحق جانشین امامِ زمانؑ ہی ہے کیونکہ وہی ہر زمانے میں امامت و خلافت کی تمام خوبیوں کے ساتھ حاضر اور موجود ہے۔

۱۳۱

سو سوال
حصہ چہارم

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سخنہائے گفتنی

شکر گزاری:
پروردگارِ عالمین کی توفیق و عنایت سے “سو سوال” کی کتاب مکمل ہو چکی ہے، اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور نعمتوں کی شکر گزاری کے ساتھ حصّۂ چہارم کی تمہید کے سلسلے میں خامہ فرسائی کرتے ہوئے بیحد مسرّت و شادمانی ہو رہی ہے، مگر دل بول اُٹھتا ہے کہ اے کاش، اس بندۂ خاکسار و ناچیز سے خداوندِ کریم کے ان عظیم احسانات و انعامات کا شکر جیسا کہ چاہئے ادا ہو سکتا!

رہنمائی اور دستگیری:
میرے خداوندِ برحق! میرے مالک و مولا! تیرے علم سے حقیقتِ حال ہرگز پوشیدہ نہیں، کہ اگر تیری مقدّس ہدایت دین شناسی کی اس منزلِ مقصود کی طرف رہنمائی اور دستگیری نہ کرتی اور تیری رحمت شاملِ حال نہ ہوتی تو مجھ ایسے کمزور اور بیدست و پا بندے کہاں اور حصولِ مقصد کہاں، کیونکہ تیرے سہارے کے سوا

۱۳۷

اس مشکل راستے میں قدم ڈگمگا جاتے ہیں، اور تیری روحانی تائید کے بغیر دل و دماغ پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔

جذبۂ جستجو اور شوقِ تحقیق:
عزیزانِ من! کیا آپ نے کبھی اس بارے میں غور و خوض کیا ہے؟ کہ فطرتِ انسانی میں ہمیشہ جذبۂ جستجو اور شوقِ تحقیق کیوں پایا جاتا ہے کہ وہ ہر وقت ارض و سما کے عجائب و غرائب کو ایک ایک کر کے پوری توجہ سے دیکھنا اور جاننا چاہتا ہے؟ انسان کو یہ دعوت کس وجہ سے دی گئی ہے کہ وہ قرآن کے علاوہ آفاق و انفس کی نشانیوں میں بھی خوب غور و فکر کرے؟ اس کا اصل سبب کیا ہے کہ آدمی کو سیر و تفریح سے دلچسپی اور خوشی ہوتی ہے؟ اس میں کیا راز پوشیدہ ہے کہ آپ کو مناظرِ قدرت کے مشاہدے سے لطافت و لذّت محسوس ہوتی ہے؟ اس کا روحانی پس منظر کیا ہے یا اس میں حکمت کیا ہے کہ آپ باغ و گلشن کے نظاروں سے محظوظ و مسرور ہو جاتے ہیں؟ وہ کون سی طاقت ہے جو نہ صرف چھوٹے چھوٹے بچوں ہی کو بلکہ بڑوں کو بھی پوچھنے، سوالات کرنے، دریافت کرنے اور جاننے کے لئے آمادہ کر دیتی ہے؟ اور ان تمام حالات کو پیشِ نظر رکھنے سے ایسا کیوں لگتا ہے، جیسے انسان ہر بہانے سے اپنی کھوئی ہوئی دولت کی بازیابی کی تلاش میں لگا ہوا ہو؟

۱۳۸

ان مسائل کا جواب:
مذکورہ سوالات کا جامع اور واحد جواب یہ ہے کہ اس نوعیت کی بہت سی انسانی صلاحیتوں، قوّتوں اور امنگوں کے پسِ پردہ قدرتِ خداوندی خود ہی موجود اور کارفرما ہے اور وہی انسان کو ہر وقت اس بات کی ترغیب دیتی رہتی ہے کہ وہ اشیائے کائنات اور مظاہرِ قدرت کی باطنی حقیقتوں کو اور ان میں سے ذاتِ سبحان کے چھپے ہوئے بھیدوں کو پائے، تا کہ ان تمام اسرارِ باطن کے وسیلے سے ربّ العزّت کی معرفت حاصل ہو، کیونکہ معرفت میں دائمی زندگی اور ابدی نجات ہے، اور اسی میں عالمِ لامکان کی لازوال سلطنت ہے، اور لامکان وہ ہے جس میں ماضی و مستقبل کے بغیر ازلی و ابدی نعمتیں ہمیشہ حاضر اور موجود رہتی ہیں، اور یہ حقیقت ہے کہ ہادئ برحق علیہ السّلام کی نورانی ہدایت کے بغیر ان اسرارِ عظیم کو کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔

وسیلۂ ہدایت:
ان معنوں کی وضاحت یہ ہے کہ عقل و دانش اور علم و حکمت کی لازوال دولت سے صرف ایسے ہی لوگ مالامال ہو سکتے ہیں، جو اسرارِ فطرت اور رموزِ خلقت کو سمجھنے کا وسیلہ ڈھونڈتے ہیں، اور وہ وسیلہ جانشینِ رسولِ اکرمؐ ہے، جو ظاہری و باطنی ہدایت کا سرچشمہ ہے، اسی رہنمائے راہِ راست کی پیروی میں حیات و کائنات کے بھید اور کتابِ سماوی کے اسرار منکشف ہو جاتے

۱۳۹

ہیں، اور انہی رازوں میں خودی اور خدائی کی معرفت و شناخت کے انمول خزانے چھپائے ہوئے ہیں، تا کہ خاصانِ خدا ان مخفی ترین خزانوں کو حاصل کر کے اپنی “انائے علوی” کی ازلی و ابدی حقیقت کو پہچان لیں، وہ حقیقت ایسی انوکھی اور نرالی شان والی ہے جو کبھی حقیقتِ حقائق سے الگ نہیں ہوئی اور نہ کسی وقت جدا ہو سکتی ہے۔

خود شناسی اور خدا شناسی:
ہاں یہ حق بات ہے کہ خود شناسی اور خدا شناسی کا علم خاص ترین ہے، جو کتابِ سماوی اور کتابِ کائنات کے اسرار یعنی بھیدوں میں پوشیدہ ہے، ان کتابوں میں ایک مجمل ہے اور دوسری مفصل، اور ایک تیسری کتاب بھی ہے جو زندہ اور بولتی ہے، یہ کتابِ ذات یا کتابِ نفس ہے، اس کو کتابِ روح بھی کہتے ہیں، اور اسی کی شان میں فرمایا گیا ہے کہ: قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاھَا (۹۱: ۰۹) (جس نے جان کو پاک رکھا وہ تو کامیاب ہوا) نفس اور روح کی طہارت و پاکیزگی اس لئے ضروری ہے، کہ یہ اپنی اصلی حالت میں ایک معجزاتی آئینہ ہے، جسے آئینۂ حقائق نما کہنا چاہئے، کیونکہ اسی میں آیاتِ رحمان اپنی پوری چمک دمک اور اصل تجلیوں کے ساتھ منعکس ہو جاتی ہیں، خواہ وہ آیتیں قرآن کی ہوں یا عالمِ جسمانی کی۔

اَعِزَّہ کے لئے شکریہ:
میں آخر میں اپنے “خانۂ حکمت” کے محسن اور معزز عملداران و ارکان کا انتہائی

۱۴۰

قدردانی کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں، کہ ان حضرات نے اس ادارے کے علمی مقصد کو آگے بڑھانے اور پیاری جماعت کی ایک مستقل خدمت انجام دینے کی خاطر طرح طرح کی تکالیف اور زحمتیں برداشت کی ہیں، اور اپنی عمرِ گرانمایہ کے بہت سے اوقات کو جو زندگی کے اجزاء ہیں علمی خدمت کے لئے بصد شوق قربان کر دیا ہے، یہ میرے وہ عزیزان ہیں جو ایک منظم ادارے کی شکل میں شب و روز سخت محنت اور جانفشانی سے کام کرتے ہیں، ان روحانی احباب کے علاوہ کراچی، راولپنڈی، چترال، گلگت اور ہونزہ میں بھی بہت سے اَعِزَّہ ایسے ہیں، جن کو نہ صرف حصولِ علم ہی کا زبردست شوق ہے، بلکہ وہ اس کے ساتھ ساتھ علمی خدمت سے بھی دلچسپی لیتے ہیں۔
جانِ عزیز جناب ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی کے جواہرات جیسے قیمتی مشوروں، موتیوں کی بارش جیسی مہربانیوں اور پہاڑ جیسی پشت پناہی کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے، مجھے ایسے شایانِ شان الفاظ نہیں ملتے کہ جن کے استعمال کرنے سے موصوف کے عظیم احسانات کا حقِ شکرگزاری ادا ہو سکے۔

 

میں انتہائی اخلاص و محبت کے الفاظ میں اور قدردانی و احسان شناسی کے انداز میں اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے کینیڈا کی نیکنام “ایسٹرن کینیڈا ریجنل کمیٹی” اور وہاں کی پیاری جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں، کہ انہوں نے ہمیں علمی خدمت کا ایک نایاب زرین موقع عنایت کیا، اس سلسلے میں ان چند فرشتہ صفت خاندانوں کی پرخلوص مہمان نوازی اور بیمثال خدمات کی شکر گزاری بڑی خصوصیت کے ساتھ ہم پر واجب ہو جاتی ہے، جن کے بابرکت گھروں میں ہمارے لئے نہ صرف آرامگاہ کا اعلیٰ انتظام تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک

۱۴۱

صاف ستھرا دفتر اور ایک میٹنگ روم بھی مخصوص کیا جاتا تھا، تا کہ ہم خود کو اچھی طرح سے تیار کر کے گرد و نواح کے علاقوں کی جماعتوں میں دورہ کر سکیں اور دوسرے اوقات میں گھر بیٹھ کر خواہشمند افراد سے مذہبی گفتگو کریں، ہم ان شاء اللہ ان عزیزوں کے ممنون، احسانمند، شکرگزار اور دعاگو رہیں گے، اور ان کی اخلاقی بلندیوں، مذہبی خوبیوں اور ملکوتی صفات کو ہرگز فراموش نہ کریں گے۔

 

اب میں اُس قلمی اور علمی تعاون کی طرف اشارہ کروں گا جو وہاں پر انگلش اور فرنچ میں میری کچھ کتابوں کو منتقل کرنے اور ٹائپنگ کا کام کرنے کی صورت میں ہمیں حاصل ہے، اس مناسبت سے میں نیک خیالات، روحانی تصورات اور عجز و انکساری کی دعاؤں میں روئے زمین کے اُن فرشتوں کو بار بار یاد کرتا ہوں، کہ جن کی قلمی معاونت اس درویش کی ہمت افزائی کا باعث ہے۔

 

پس یہ میری انتہائی عاجزانہ دعا ہے کہ اے ربِّ عزّت! اِن تمام حقیقی دینداروں کو تیرے پسندیدہ اور برگزیدہ بندوں کی با اثر دعائیں حاصل ہوں! خداوندا! انہیں دونوں جہان کی سعادت و سلامتی اور کامیابی عطا فرما! ان کو زندگی اور عمر کی گرانمایہ دولت صرف کر کے زیادہ سے زیادہ علمی اور دینی خدمات انجام دینے کا حوصلہ عنایت کرنا! اور ان کی تمام نیک مرادیں پوری کر دیں! آمین یا ربّ العالمین!!

بندۂ عاجز نصیر ہونزائی

سنیچر ۲۱ رمضان ۱۳۹۸ھ، ۲۶ اگست ۱۹۷۸ء، سالِ اسپ

۱۴۲

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حقیقتِ معراج:
سوال نمبر ۷۶: حضورِ اکرمؐ کی معراج جسمانی طور پر ہوئی تھی یا روحانی کیفیت میں؟ نیز آپ یہ بتائیں کہ آنحضرتؐ کو مسجدِ اقصیٰ کی طرف لے جانا کیوں ضروری ہوا؟ خدا تعالیٰ کی طرف سے رسولِ برحقؐ کو جن معجزات کا دکھانا منظور تھا وہ مسجدِ حرام (خانۂ کعبہ) میں کیوں نہیں دکھائے گئے کہ مسجدِ اقصیٰ میں دکھائے گئے؟

جواب: (الف) معراج کشفِ باطن اور روحانیّت کے عروج کا نام ہے، جو ذکر و عبادت کا نتیجہ ہے، قربِ خداوندی باطنی اور روحانی طریق پر ہے نہ جسمانی طور پر، عالمِ علوی سے دنیائے روحانیّت مراد ہے، جو لامکانی حیثیت میں پائی جاتی ہے۔
(ب) جب اللہ تعالیٰ آسمان و زمین میں سموتا نہیں صرف بندۂ مؤمن کے دل میں سموتا ہے تو پھر اِس قلبی عرش کی ترجیح کے بعد دوسرے کسی عرش کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا، اور وہ تمام قرآنی آیات تاویلی قرار پاتی ہیں، جن میں عرش پر اللہ پاک کے “استویٰ” کا ذکر ہے، اور اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ روشنی میں آنحضرتؐ نے دل کے عرش کے معجزات و عجائبات کا مشاہدہ کیا تھا اور معراج اسی صورت میں پیش آئی تھی۔

۱۴۳

(ج) آپ کا دوسرا سوال اُس ارشاد سے متعلق ہے جو سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) (۱۷: ۰۱) کے شروع میں ہے، جس میں حضورِ انورؐ کو معراج کے سلسلے میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ کی طرف لے جانے کا ذکر ہے، سو جاننے کی ضرورت ہے کہ قرآن کی رو سے مسجد کے دو معنی ہیں، پہلے معنی ہیں سجدہ کرنے کی جگہ، جس کا مطلب مسجد اور عبادت خانہ ہی ہے، اور دوسرے معنی ہیں ذکر و عبادت، جیسے یہ لفظ سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۳۱ (۰۷: ۳۱) کے ارشاد میں آیا ہے، چنانچہ مسجدِ حرام سے وہ حرمت والا اسمِ اعظم مراد ہے، جو آنحضرتؐ کو شروع شروع میں دیا گیا تھا، اور مسجدِ اقصیٰ کا مطلب ہے وہ روحانیّت کی بلندی اور دور کی ترقی کا معجزانہ اسمِ اعظم جو حضورؐ کو بعد میں یعنی روحانی معراج کے وقت بتایا گیا، اسی معنیٰ میں یہ ذکرِ الٰہی مسجدِ اقصیٰ کہلایا، جس میں روحانیّت و نورانیّت کے بھرپور معجزات پوشیدہ تھے۔
(د) اسمِ اعظم کے تاویلی پس منظر میں نبوّت و امامت کے مراتب پوشیدہ ہوتے ہیں، چنانچہ معنویت کی گہرائی میں اسماعیلیّت کی مختلف تاویلات آپس میں مل جاتی ہیں، اور دانشمند کے نزدیک ان کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہوتا، میرا مقصد ہے کہ “وجہِ دین” میں مسجدِ حرام کی جو تاویل بتائی گئی ہے اس سے یہ تاویل اساسی طور پر مختلف نہیں ہے۔
نوٹ: معراج کے بارے میں مزید معلومات کے لئے میرے ایک مقالہ “معراجِ روح” کا مطالعہ مفید ہو گا، جس کا انگلش ترجمہ بھی ہو چکا ہے، یہ ترجمہ جانِ عزیز ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی کا ہے۔

۱۴۴

الکتاب:
سوال نمبر ۷۷: یہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے، لیکن اس بات کی وضاحت چاہئے کہ دین بھی ایک ہے، اور خدا کی کتاب بھی ایک ہے۔

جواب: (الف) جب آپ نے اس حقیقت کو یقین مانا کہ خدا ایک ہے، تو یہ امر بھی یقینی ہے کہ اللہ کا دین اور اس کی کتاب ایک ہے، کیونکہ خداوند تعالیٰ کی عادت و سنت اور قانون ایک ہی ہے اور دین قانونِ الٰہی کا دوسرا نام ہے، یہی حقیقت آسمانی کتاب کی بھی ہے کہ وہ دینِ حق کی روحانی اور تحریری صورت ہے اس لئے وہ دینِ واحد سے الگ نہیں ۔
(ب) قرآنی ارشادات میں جگہ جگہ اس حقیقت کا ذکر ہے کہ آسمانی کتاب اصل میں ایک ہے، دینِ فطرت یعنی اسلام شروع سے لے کر آخر تک ایک ہے، اور انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام بھی نفسِ واحدہ کی طرح ایک ہیں۔
(ج) قرآنِ حکیم میں فرمایا گیا ہے کہ: (پہلے) سب لوگ ایک ہی ا مت تھے پھر خدا نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے پیغمبروں کو بھیجا اور ان کے ساتھ برحق کتاب بھی نازل کی تا کہ جن باتوں میں لوگ جھگڑتے تھے (کتابِ خدا اس کا) فیصلہ کر دے ۔ (۰۲: ۲۱۳)
اِس آیۂ مقدسہ کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ بظاہر آسمانی کتابیں بہت سی ہیں، لیکن اصل میں ایک ہی کتاب ہے جس کی یہ مختلف زبانوں میں جدا جدا شکلیں ہیں، اور تنزیل و تاویل کے اعتبار سے یہ واحد کتاب تمام انبیاء و أئمّہ میں مشترک ہے، مطلب صاف روشن ہے کہ جب خدا کی کتاب

۱۴۵

حقیقت میں ایک ہے اور انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا مقصد ایک ہے تو دینِ حق بھی شروع سے لے کر آخر تک ایک ہی ہے۔

سب سے بڑا گناہ:
سوال نمبر ۷۸: سب سے بڑا گناہ کون سا ہے جو معاف نہ ہو سکے؟ تفصیل سے بتا دیں۔

جواب: سب سے بڑا گناہ شرک ہے جو معاف نہیں ہو سکتا ہے، جیسا کہ اللہ کا فرمانِ اقدس ہے کہ: خدا بے شک اس کو نہیں بخشتا کہ اس کا کوئی اور شریک بنایا جائے، ہاں اس کے سوا جو گناہ ہو جس کو چاہے بخش دے، اور (معاذ اللہ) جس نے کسی کو خدا کا شریک بنایا وہ تو بس بھٹک کے بہت دور جا پڑا (۰۴: ۱۱۶)

خوب جان لو کہ جس طرح شرک سب سے عظیم گناہ ہے اسی طرح اس سے بچ کر خدا کی شناخت اور توحید کا راستہ اختیار کرنا بہت بڑا ثواب ہے، چنانچہ اگر یہ دونوں باتیں عام اور قابلِ فہم ہوتیں جیسے عوام کا خیال ہے اور شرک و توحید کے کچھ بھید نہ ہوتے تو سب کے سب بڑی آسانی سے نجات پا سکتے اور کوئی گمراہ نہ ہو جاتا، ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ ان دونوں باتوں میں کچھ راز ہیں۔
اس آیۂ کریمہ میں تحقیق کرنے سے پتا چلتا ہے کہ شرک کا نتیجہ بہت دور کی گمراہی کی صورت میں نکلتا ہے، اور اس نسبت سے صراطِ مستقیم اور ہادئ برحق کا تصور سامنے آتا ہے، کیونکہ گمراہی کسی شخص کی اُس حالت و کیفیت کا نام ہے جو راہِ راست اور ہادئ زمان سے دور ہو جانے سے اُس پر گزرتی ہے،

۱۴۶

اس سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوا کہ شرک اور گمراہی کا ایک مطلب ہے اور دوسری طرف یہ کہ توحید اور ہدایت راہِ حق اور رہنمائے وقت سے جدا نہیں۔

اب دیکھنا ہو گا کہ دین میں خدا کی معرفت یعنی پہچان مسلّمہ ہے یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ کوئی مسلمان اس امر سے انکار نہیں کر سکتا، کیونکہ اسلام صراطِ مستقیم ہے یعنی دین خدا کے حضور جانے کا راستہ ہے اور اس راستے کی منزلیں چار ہیں، جو شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت ہیں، ان منازل میں آخری منزل معرفت اس معنی میں ہے کہ راہِ دین کی ساری مسافتیں طے کر چکنے کے بعد ہی خدا کی شناخت حاصل ہو جاتی ہے اور جب خدا کو اسی طرح پہچانا جاتا ہے تو شرک جو سب سے بڑا گناہ اور سب سے دور کی گمراہی ہے، اُس سے نجات ملتی ہے ورنہ نہیں، یہی وجہ ہے جو میں نے شروع میں کہا تھا کہ یہ دونوں باتیں یعنی شرک اور توحید ایسی نہیں ہیں جیسا کہ اُن کے بارے میں عوام کا خیال ہے۔

جب خدا و رسولؐ کے مقررکردہ ہادی کی ہدایت کی روشنی میں حصولِ معرفت برحق ہے اور اللہ تعالیٰ کی حقیقی توحید معرفت کے بعد ہے تو مؤمنین پر واجب ہے کہ وہ ہمیشہ خدا شناسی کے علم کے لئے کوشان رہیں۔

اس کے علاوہ شرک کے بارے میں حکیم نامور حضرتِ پیر ناصر خسرو (قس) کی شہرۂ آفاق کتاب “وجہِ دین” کے کلام نمبر ۴۳ میں دیکھیں، آپ کے ارشادِ گرامی کا خلاصہ یہ ہے کہ امامِ برحق علیہ السّلام کی جگہ کسی اور کو امام تسلیم کرنا تاویل میں شرک کہلاتا ہے، ورنہ خدا کو خدا تسلیم کر لینے کے بعد کوئی شخص شرک کا تصوّر نہیں کر سکتا ہے۔

۱۴۷

فرشتے:
سوال نمبر ۷۹: فرشتہ کس قسم کی مخلوق کا نام ہے؟ اور اس کی خاصیّت کیا ہے؟

جواب: (الف) فرشتہ روحانی اور نورانی مخلوق کا نام ہے، وہ کامل انسانوں اور حقیقی مؤمنوں کی پاکیزہ روحوں کی حیثیت سے ہوا کرتے ہیں، اِس نسبت سے بعض دفعہ قرآنِ حکیم نے اعلیٰ درجے کے جسمانیوں کو بھی فرشتہ قرار دیا ہے، آپ قرآنِ پاک کی (۰۶: ۰۹، ۱۷: ۹۵، ۴۳: ۶۰) کے ارشادات کو خوب غور سے دیکھیں۔

(ب) فرشتوں کی بنیادی خصوصیات یہ ہیں کہ: وہ عبادت میں بڑائی نہیں کرتے ہیں، یعنی ان میں بدرجۂ انتہا عجز و انکساری کی کیفیت موجود ہوتی ہے، وہ ذکر و عبادت سے تھکتے نہیں، شب و روز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر لیا کرتے ہیں اور کاہلی نہیں کرتے، یہ صفات روحانی فرشتوں کے علاوہ جسمانی فرشتوں میں بھی ممکن ہے (۲۰: ۱۹ تا ۲۰) مزید برآن فرشتوں کی ایک خاصیت فرمانبرداری اور خوفِ خدا ہے (۱۶: ۵۰)۔
(ج) عظیم فرشتوں کا ایک خاص وصف علم و معرفت ہے، اور ان کو اسی وجہ سے حاملانِ عرش ہونے کا درجہ حاصل ہے کیونکہ ربّ العزّت کا عرشِ عظیم عقل و دانش اور علم و معرفت ہی کا ہے، چنانچہ جو فرشتے عرش کو اُٹھائے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ:
رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَۃً وَعِلْماً (۴۰: ۰۷)۔

۱۴۸

اے ہمارے پروردگار! تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ حاملانِ عرش نورِ علم و معرفت کی روشنی میں ذاتی طور پر اس حقیقت کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ ظاہر و باطن کی ہر چیز رحمت اور علم کے گھیرے سے باہر نہیں ہے، اس سے ان عظیم فرشتوں کی علمی برتری و بزرگی ثابت ہو جاتی ہے کہ وہ دونوں جہان کی تمام چیزوں کو بیک نظر دیکھتے ہیں۔
(د) یہ حقیقت ہے کہ حاملانِ عرش سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور آپ کے بعد آپ کے اوصیاء یعنی أئمۂ اطہار علیہم السّلام ہیں، آپ اگر چاہیں تو اس مطلب کی مزید تحقیق کے لئے قرآن کے شیعی ترجموں، حاشیوں اور تفسیروں میں موضوعِ “عرش” کو دیکھ سکتے ہیں۔

ولایتِ علیؑ :
سوال نمبر ۸۰: حضرتِ علیؑ کی ولایت مؤمن کے لئے کیونکر ضروری ہو سکتی ہے؟ کیا قرآن و حدیث سے اس کا کوئی ثبوت مل سکتا ہے؟

جواب: (الف) حضرتِ مولانا علی علیہ السّلام کی ولایت و دوستی کی اہمیت و ضرورت اس لئے ہے کہ آپ کی ولایت خدا و رسول ؐ کی ولایت ہے، چونکہ آپ ؑ بحکمِ خدا پیغمبر اکرمؐ کے بعد ولی امر ہیں۔
(ب) حضرتِ مرتضیٰ علیؑ رسول اللہ کے حقیقی جانشین اور امامِ برحق ہیں، لہٰذا ان کی ولایت، محبت، دوستی اور اطاعت فرض ہے۔
(ج) قرآنِ حکیم کا ارشادِ مقدّس ہے کہ: (اے رسولؐ ان لوگوں سے) کہدو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو خدا (بھی) تم کو دوست رکھے

۱۴۹

گا (۳۱: ۰۳) چنانچہ اِس فرمانِ خداوندی کے مطابق جب اللہ تعالیٰ کی اطاعت و محبت بلا واسطہ نہیں بالواسطہ ہے یعنی آنحضرتؐ کے ذریعے سے ممکن ہے تو پھر اِس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ بالکل اسی طرح پیغمبرِ خداؐ کی اطاعت و محبت علیؑ کے وسیلے سے میسر ہوتی ہے۔
(د) اللہ تعالیٰ کا پاک فرمان ہے کہ:
إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ الَّذِیْنَ یُقِیْمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُونَ (۰۵: ۵۵)
(اے ایماندارو!) تمہارے مالک سرپرست بس یہی ہیں خدا اور اس کا رسولؐ اور وہ مؤمنین جو پابندی سے نماز ادا کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔
اِس آیۂ کریمہ میں ولایت کے تینوں درجات کا ذکر ایک ساتھ اس لئے فرمایا گیا ہے کہ وہ درجے اصل میں ایک ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کی ولایت پیغمبرؐ کے ذریعے سے ہے اور آنحضرتؐ کی ولایت علیؑ کے وسیلے سے، جس طرح اطاعت تین درجوں میں ہے: اللہ کی اطاعت، رسولؐ کی اطاعت اور اولی الامر کی اطاعت (۰۴: ۵۹) مگر یہ اطاعتیں حقیقت میں ایک ہیں۔
(ہ) یہ معتبر روایت مشہور ہے کہ مذکورۂ بالا آیت مولا علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے، کیونکہ حالتِ رکوع میں زکوٰۃ صرف امیر المؤمنینؑ ہی نے ایک سائل کو دی تھی، آپ متعلقہ کتب میں دیکھیں، اب رہا کسی شخص کا یہ سوال کہ اگر مذکورہ آیہ حضرتِ علیؑ کی شان میں ہے تو خدا و رسولؐ کے بعد جن کی ولایت کا ذکر ہوا ہے وہ صیغۂ جمع میں کیوں ہیں؟ یعنی اگر یہ اوصاف علیؑ کے ہیں تو پھر کیوں یہ واحد کے طور پر بیان نہیں ہوئے؟

۱۵۰

اِس کا پہلا جواب یوں ہے کہ اِس آیۂ مقدسہ میں جن لوگوں کو ولایت کی تعلیم دی گئی ہے وہ تو تمام مسلمین و مؤمنین ہیں، اور خدا و رسولؐ کے بعد جن حضرات کی ولایت فرض کی گئی ہے، وہ سارے مسلمانوں اور مؤمنوں سے مخصوص و ممتاز ہو کر الگ ہیں، چنانچہ اِس قرآنی تعلیم سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوا کہ یہاں اُس عام قسم کی محبت و دوستی کا ذکر نہیں جو ایک مسلم کو دوسرے مسلم سے ہونی چاہئے، اور دوسری طرف یہ پتا چلا کہ ایمان کے درجۂ کمال پر کچھ برگزیدہ افراد ہیں جن کی ولایت تمام اہلِ اسلام پر فرض ہے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ نماز کے دوران رکوع کی حالت میں اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم میں سے کسی فرد نے سائل کو زکوٰۃ نہیں دی ہے، مگر حضرتِ علی علیہ السّلام نے، اور یہ ایک پُرحکمت اتفاق ہے، چنانچہ ثابت ہے کہ یہ آیت علیؑ ہی کی شان میں ہے، اور پیغمبرِ اکرمؐ کے بعد علیؑ کی ولایت مسلّمہ ہے، اور علیؑ کے ولئ امر ہونے کے ثبوت میں یہی ایک نہیں بلکہ بہت سی آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوّی وارد ہوئی ہیں، لہٰذا یہاں سوال اِس طرح ہونا چاہئے کہ اِس آیۂ مقدّسہ میں علی مرتضیٰؑ کا ذکرِ جمیل بہت سے افراد کی طرح کرنے میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ اور یہ فردِ واحد کی طرح کیوں نہیں؟ تا کہ اس کا جواب ذیل کی طرح دیا جائے:
۱۔ یہی تو قرآنی حکمت کا ایک خاص اعجاز ہے کہ صحیح مقام پر ایک فرد کے بیان میں بہت سے افراد کا ذکر کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے حضرتِ علی صلوات اللہ علیہ کے فعل کو آپؑ کی نسل کے تمام أئمّۂ برحق علیہم السّلام کا فعل قرار دیا ہے، تا کہ اہلِ دانش پر یہ حقیقت ظاہر ہو کہ پاک أئمّہؑ سب کے سب نہ صرف مرتبۂ ولایت پر نفسِ واحدہ کی طرح متحد ہیں

۱۵۱

بلکہ وہ حضرات کارِ ہدایت کے اعتبار سے بھی ہمیشہ ایک ہیں، سو یہی وجہ ہے کہ آیۂ مذکورہ میں امیر المؤمنین علی علیہ السّلام کے اوصاف جمع کے صیغے میں بیان ہوئے ہیں۔
۲۔ ارشاد ہوا ہے کہ:
إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتاً لِلّہِ حَنِیْفاً وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (۱۶: ۱۲۰)
اس میں شک ہی نہیں کہ ابراہیم خدا کی ایک فرمانبردار جماعت (یعنی ایک مطیع قوم کی حیثیت سے) تھا جو باطل سے کترا کر چلتا تھا اور مشرکین سے (ہرگز) نہ تھا۔ سو یہاں پر بھی وہی حقیقت ہے کہ حضرتِ ابراہیمؑ کا فعل آلِ ابراہیمؑ کے تمام انبیاء و أئمّہ کا فعل تھا، کیونکہ آپؑ اِن سب کے مورثِ اعلیٰ تھے، اور آپ کا مرتبہ انہی پیغمبروں اور اماموں کے سلسلے میں تا قیامت قائم رہنے والا تھا، جیسا کہ قرآنِ پاک کی (۰۴: ۵۴) کے ارشاد سے ظاہر ہے۔
۳۔ اس سلسلے میں ایک عام مثال بھی پیشِ نظر رہے کہ قرآنِ حکیم ماضی اور حال کے کافروں کو کس طرح ایک قرار دیتا ہے، جبکہ ان کے کفر و عصیان کا طریقہ ایک ہی ہے، چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ: (اے رسولؐ) اُن سے یہ تو پوچھو کہ تم اگر ایماندار ہو تو پھر کیوں ماضی میں خدا کے پیغمبروں کو قتل کرتے تھے (۰۲: ۹۱)
ظاہر بات ہے کہ اِس آیۂ کریمہ کے مطابق جن لوگوں نے ماضی میں خدا کے بعض پیغمبروں کو قتل کیا تھا وہ تو رسول اللہؐ کے زمانے میں خود موجود نہیں، کیونکہ وہ بہت پہلے اس دنیا سے چل بسے تھے، مگر اُن کے ہم خیال اور نظریاتی جانشین یعنی بالکل اُن جیسے کافر موجود تھے، لہٰذا تمام اگلے اور پچھلے کافروں کو ایک قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ تم نے انبیاء کو کیوں قتل کیا۔

۱۵۲

(و) علی و أئمّۂ اولادِ علی صلوات اللہ علیہم اجمعین کی ولایت کے بارے میں ان قرآنی دلائل کے بعد ارشاداتِ نبوّی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے کہ اس سلسلے میں آنحضرتؐ کے بہت سے فرمودات ہیں جن سے ان حضرات کی ولایت ثابت ہے، لیکن ہمیں یہاں سو سوالات کے سلسلے میں کسی بھی جواب کو حد سے زیادہ طول نہیں دینا ہے، لہٰذا یہاں صرف ایک ہی بڑی اہمیت والی حدیث پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:
میں علیؑ سے ہوں اور علیؑ مجھ سے ہیں۔
اگر عقل و دانش کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت روشن ہو جائے گی کہ اِس ارشادِ نبوی میں بہت بڑی معنوی جامعیّت موجود ہے، اور وہ اس طرح کہ آنحضرتؐ سے علیؑ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ عقل و دانش، علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے تمام خزانے علیؑ کو نبی ؐ سے حاصل تھے، اور پھر علیؑ سے آنحضورؐ کے ہونے کا یہ مطلب ہے کہ حضرتؐ کا مقدس نور مولا علیؑ میں منتقل ہوا اور آلِ محمدؐ و اولادِ علیؑ کے سلسلۂ امامت میں یہ نور ہمیشہ کے لئے زندہ اور تابندہ ہے۔

لامکان:
سوال نمبر ۸۱: لامکان کہاں ہے؟ وہ کیا چیز ہے؟ اس کی کیفیت و حقیقت کیا ہے؟ تفصیل سے بتا دیں۔

۱۵۳

جواب: تمہارے سوال کا پہلا جملہ غلط ہے، جس میں تم نے پوچھا ہے کہ لامکان کہاں ہے، جبکہ لامکان (مکان نہیں) ایک غیرمکانی کیفیت ہے، وہ لامکان اس لئے ہے کہ مکان کی صفات کے برعکس ہے، باقی سوال ٹھیک ہے۔

جس طرح مادّہ اور جسم مکان میں ہے بلکہ یہ چیز خود مکان ہے اِسی طرح غیر مادّہ یعنی روح اور اس کا تصوّر لامکان ہے، چنانچہ عالمِ روحانی لامکان ہے، جس کا مشاہدہ نہ صرف مرنے کے بعد ہو سکتا ہے بلکہ زندگی میں بھی ممکن ہے۔

جیسے جسم سے مکان الگ نہیں ہو سکتا ہے بلکہ جسم اور مکان ایک ہی چیز ہے اسی طرح زمان بھی جسم کی گردش سے پیدا ہوتا ہے، چنانچہ اگر یہ کائنات نہ ہو تو اُس صورت میں نہ صرف جسم نہ رہے گا مکان و زمان بھی ختم ہو جائے گا، اس سے ظاہر ہے کہ مکان و زمان کا تعلق جسم سے ہے، اور روح جس طرح لامکان ہے اسی طرح لازمان بھی ہے۔
دانشمند کو لامکان کی حقیقت سمجھنے کے لئے ایک عام مثال عالمِ خواب ہے، کیونکہ انسان جب خواب دیکھتا ہے تو وہ اس کے لئے کہیں بھی نہیں جاتا مگر لامکانی کیفیت میں ہوتا ہے، یعنی وہ اپنی روح کی طرف متوجّہ ہوتا ہے جبکہ روح خود عالمِ لامکان ہے تو اس وقت اِس لامکان کی تمام چیزیں مادّیت کے بغیر پائی جاتی ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ عالمِ روحانی اور اصل لامکان میں مادّی چیزیں اس طرح نہیں ہوتی ہیں جس طرح وہ اِس دنیا میں ہیں، مگر ہاں ان کا جوہر یعنی ان کی روحانی شکلیں موجود ہوتی ہیں، جس طرح خواب میں ہر چیز جسم کو چھوڑ کر اپنی روحانی صورت میں حاضر ہوتی ہے۔
اصل لامکان سے عالمگیر روح مراد ہے جس کو نفسِ کلّی کہا جاتا ہے، وہی

۱۵۴

عالمِ روحانی اور آخرت ہے، اسی میں سب روحانی قسم کی چیزیں موجود ہیں، جنّت بھی اسی میں ہے، وہ جہان زندہ اور دانا ہے۔
ہم نے کہا تھا کہ جس طرح روح لامکان ہے اسی طرح وہ لازمان بھی ہے، اور اس کے معنی یہ ہیں کہ عالمِ روحانی کی ہر چیز زمانے کی قید سے بالاتر ہے، کہ وہاں نہ کوئی ماضی ہے اور نہ کوئی مستقبل، وقت کی جو کچھ کیفیت ہے وہ حال کی طرح ہے، اس لئے کہنا چاہئے کہ وہاں زمانِ ناگزرندہ ہے جسے دہر کہا جاتا ہے۔

اساسؑ اور صامت:
سوال نمبر ۸۲: اساسؑ اور صامت کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ اور وہ کتنے ہوئے ہیں؟ وضاحت سے بتا دیں۔

جواب: اساس کے لفظی معنی بنیاد کے ہیں اور اسماعیلی اصطلاح میں اساسؑ اُس امام کو کہتے ہیں جو کسی رسولِ ناطق کا وصی اور جانشین ہوا کرتا ہے، اور وہیں سے امامت کے ایک دور کا آغاز ہوتا ہے، اور صامت بھی اسی اساس کو اس نسبت سے کہتے ہیں کہ وہ رسولِ ناطق (یعنی آسمانی کتاب اور شریعت کی ترجمانی کرنے والا پیغمبر) کی موجودگی میں خاموش رہتا ہے، مگر یہی اساس بعد میں کتابِ صامت کی نسبت سے کتابِ ناطق کہلاتا ہے۔

حضرتِ آدمؑ کا پہلا اساس مولانا ہابیلؑ تھا، جب اُس کو قابیل نے شہید کر دیا، تو مولانا شیثؑ اساس مقرر ہوا، حضرتِ نوحؑ  کا اساس مولانا سامؑ ، حضرتِ ابراہیمؑ کا مولانا اسماعیلؑ ، حضرتِ موسیٰؑ کا پہلے مولانا ہارونؑ اور ان کی وفات کے بعد مولانا یوشعؑ بن نون اساس ہوا، حضرتِ عیسیٰؑ کا اساس شمعونؑ تھا اور

۱۵۵

حضرتِ محمدؐ کا مولانا علی مرتضیٰؑ ۔ ان چھ ناطقوں کے یہ چھ اساس ہوئے۔

حضرتِ عمرانؑ :
سوال نمبر ۸۳: آپ وضاحت کر کے بتائیں کہ وہ عمران کونسا ہے جس کی آل کی برگزیدگی کا قرآنِ مقدّس میں ذکر کیا گیا ہے، جبکہ عمران ایک سے زیادہ ہیں؟

جواب: آپ کا سوال آیۂ اصطفا سے متعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ: بے شک خدا نے آدمؑ اور نوحؑ اور خاندانِ ابراہیمؑ اور خاندانِ عمرانؑ کو سارے جہان سے برگزیدہ کیا ہے (۰۳: ۳۳)

آپ کا یہ سوال درست اور بجا ہے، کیونکہ اس عمران کے تعین کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، جبکہ عمران اس سلسلے میں کئی ہیں، جیسے (۱) عمران جو حضرتِ موسیٰؑ کے والد تھے (۲) عمران بن ماثان جو دورِ موسیٰؑ کے چھٹے امام تھے (۳) عمران (بی بی مریمؑ کے باپ) (۴) عمران (ہاشم بن عبد مناف) اور (۵) عمران حضرتِ ابو طالب علیہ السّلام۔

چونکہ اِس آیۂ کریمہ میں انبیائے کرام اور أئمّۂ عظام کے سلسلۂ ہدایت کی برگزیدگی کا تذکرہ ہے اور ظاہر ہے کہ ہدایت کی ضرورت قیامت تک باقی ہے، لہٰذا پورے دور کو چار حصوں پر تقسیم کر کے فرمایا گیا ہے کہ یہ جہان اور زمانہ ربّانی ہدایت سے کبھی خالی نہیں رہا، اور نہ کبھی خالی ہو گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے دنیا والوں سے حضرتِ آدمؑ اور اس کی نسل کے جانشینوں کو منتخب کیا تا کہ وہ اپنے دور میں لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کریں، پھر اسی طرح

۱۵۶

حضرتِ نوحؑ اور اس کے سلسلے کے وارثوں کو، ان کے بعد حضرتِ ابراہیمؑ اور ان کی آل کو، اور اخیر میں حضرتِ عمران یعنی ابو طالبؑ کو اور آپ کی آلِ پاک کو برگزیدہ کیا تا کہ فیضِ ہدایت سے دنیا کبھی خالی نہ ہو اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری اور باقی ہے۔

اگر ہم اس کے برعکس آیۂ اصطفا میں مذکورہ عمران سے موسیٰؑ کے والد کو یا عیسیٰؑ کے نانا کو مراد لیں، تو یہ بات ہرگز درست نہ ہو گی، ایک تو اس لئے کہ برگزیدگی اور انتخاب کا یہ سلسلہ اور قصّہ آنحضرتؐ کے پاک خاندان سے الگ اور بہت پہلے ختم ہو جائے گا، حالانکہ ان چار برگزیدہ حضرات میں سے آخری شخص سرورِ انبیاء محمد مصطفیؐ کے خاندان سے ہونا چاہئے دوسری وجہ یہ ہے کہ جب کارِ ہدایت کے اِس خدائی پروگرام سے ظاہر ہے کہ پورے دور کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور اسی طرح اس دور میں جو سلسلۂ ہدایت قیامت تک جاری و باقی ہے اس کے بھی چار حصّے کئے گئے ہیں، اور اس سلسلے کے ہر حصّے کے شروع میں ایک عظیم شخصیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تو یہ پھر کیسے ممکن ہے کہ ہدایت کا چوتھا اور آخری سلسلہ صرف انبیائے بنی اسرائیل میں محدود ہو اور اس جامع آیت میں خاندانِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا کوئی ذکر نہ ہو۔
اگر کوئی شخص یہ کہتا ہو کہ حضورِ اکرمؐ اور آپؐ کے پاک خاندان کا ذکرِ جمیل یعنی برگزیدگی کا تذکرہ آلِ ابراہیمؑ کے ساتھ ساتھ آ چکا ہے، تو میں جواب دوں گا کہ اگر یہ بات تمہاری قطعی دلیل ہے تو اس کے بموجب بنی اسرائیل میں سے کوئی عمران یہ عمران نہیں ہو سکتا ہے جس کی آل کی برگزیدگی کا یہاں ذکر ہے، ظاہر ہے کہ معترض کا سوال غلط ہے، اور آنحضرتؐ کے آلِ ابراہیمؑ میں سے

۱۵۷

ہونے میں ذرا بھی شک نہیں، مگر یہاں برگزیدگی پر برگزیدگی ہوئی ہے۔

اب مناسب ہے کہ حضرتِ ابو طالب علیہ السّلام کی عظمت و بزرگی کے بارے میں کچھ ذکر کیا جائے، چنانچہ جاننا چاہئے کہ نظریۂ اسماعیلیت کے مطابق نورِ امامت کا ظہور بتقاضائے زمان و مکان کئی درجات میں ہوتا ہے، جیسے امامِ مقیم، امامِ اساس، امامِ متم، امامِ مستقر اور امامِ مستودع، اور ان درجات میں سے عظیم درجہ امامِ مقیم کا ہے۔
آپ چاہیں تو اس مطلب کے لئے کتاب “الامامۃ فی الاسلام” کے صفحہ ۱۴۳ کو دیکھیں، اسی کتاب کے صفحات ۱۴۵، ۱۴۷، ۱۴۹، ۱۵۱، ۱۵۳ اور ۱۵۵ پر تحریر ہے کہ زمانۂ آدمؑ کے امامِ مقیم مولانا ہنید علیہ السّلام تھے، نوحؑ کے عہد میں مولانا ہودؑ ، ابراہیمؑ کے وقت میں مولانا تارحؑ ، موسیٰؑ کے ساتھ مولانا اُدؑ، عیسیٰؑ کے لئے مولانا خزیمہؑ، اور آنحضرتؐ کے واسطے امامِ مقیم حضرتِ عمران تھے یعنی ابو طالبؑ، ان میں سے ہر امامِ مقیم نے اپنے دور کے پیغمبرِ ناطق کو روحانی تعلیمات سے آراستہ کر کے تیار کیا، امامِ مقیم کے معنی میں غور کیا جائے۔

 

سلیمان پیغمبرؑ :
سوال نمبر ۸۴: کہا جاتا ہے کہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کو ایک ایسی معجزانہ انگوٹھی دی گئی تھی کہ اس کی وجہ سے آپؑ جنّ و انس اور وحش و طیر پر سلطنت کرتے تھے اور آپ کا تخت ہوا پر چلتا تھا، یہ باتیں کہاں تک درست ہیں؟

جواب: (الف) یہ باتیں سب کی سب صحیح ہیں مگر تاویلی صورت میں،

۱۵۸

اور وہ یہ کہ انگوٹھی سے اسمِ اعظم مراد ہے جو نہ صرف حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کو حاصل تھا بلکہ ہر پیغمبر اور ہر امام کے پاس ہوتا ہے، جنّ و انس وغیرہ پر بادشاہی اور تخت کا ہوا پر چلنا روحانیّت میں تھا، نہ کہ ظاہر میں، اور تمام انبیاء و أئمّہ کی روحانیّت ایسے عجائبات سے بھرپور ہوتی ہے۔
(ب) قرآنِ حکیم کا اشارہ (۰۲: ۲۸۵) یہ ہے کہ بڑے بڑے پیغمبروں اور اماموں کی روحانیّت میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کی روحانیّت مشترک ہوا کرتی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ایک دوسرے کے مرتبے سے بے خبر ہوتے اور معرفت کے الگ الگ ٹکڑے ہوتے اور کسی ایک کی بھی روحانیّت و معرفت کامل نہ ہوتی۔
(ج) انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام تو روحانیّت کے شاہنشاہ ہوا کرتے ہیں ان کی کامل اور مکمل روحانیّت کے بارے میں کسی دانشمند کو کیا شک ہو سکتا ہے، ہم صرف ایک حقیقی مؤمن کی روحانیّت کا ذکر کریں گے، کہ وہ نہ تو کوئی پیغمبر ہے اور نہ ہی کوئی امام، مگر وہ صراطِ مستقیم کا ایک مسافر تھا، اس نے معرفت کے درجۂ کمال کو حاصل کر لیا، چونکہ معرفت انبیاء و أئمّہ کے بعد مؤمنین کے لئے وقف ہے، اب آپ خود اندازہ کریں کہ اِس مؤمن کی کامل اور مکمل معرفت کے کیا معنی ہوتے ہیں، معرفت پہچان کو کہتے ہیں اور پہچان مشاہدات کا نتیجہ ہوا کرتی ہے، پھر سوال ہے کہ اُس عارف نے جو معرفت حاصل کی اس کا احاطہ کیا ہے اور اس احاطے میں کس کس کی معرفت آ گئی اور کون سی معرفت باقی رہ گئی، ظاہر ہے کہ جب یہ معرفت کامل ہے تو کوئی معرفت اس سے باہر نہ رہی۔
(د) اس بیان کا اشارہ یہ ہے کہ پیغمبروں اور اماموں کی روحانیت اور کہیں نہیں صرف اور صرف صراطِ مستقیم پر واقع ہے، لہٰذا جو مؤمنین ان کی مکمل پیروی

۱۵۹

کرتے ہیں تو وہ اُن تمام روحانی واقعات کو دل کی آنکھ سے دیکھتے ہیں جو انسانِ کامل کے مرتبے سے متعلق ہیں، اور کامل معرفت کے یہی معنی ہیں۔
(ہ) یہ اُصول یاد رہے کہ روحانیّت دراصل اپنی جامعیّت میں ایک ہی ہے، لیکن بمقتضائے حکمت انبیاء علیہم السّلام کے ایک جیسے معجزات کو نمایان کرنے کے لئے جدا جدا تشریحات کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے ظاہر میں یوں لگتا ہے، جیسے صرف حضرتِ آدمؑ ہی کو فرشتوں نے سجدہ کیا، کشتی صرف حضرتِ نوحؑ کی تھی، آگ سے گلشن نہیں بنا مگر حضرتِ ابراہیمؑ کو، لاٹھی کا معجزہ صرف حضرتِ موسیٰؑ کا تھا، حضرتِ عیسیٰؑ کے سوا اور کوئی مُردوں کو نہیں جِلا سکتا تھا اور واقعۂ معراج کا تعلق صرف آنحضرتؐ سے ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ روحانیّت مشترک ہوا کرتی ہے، اور سب معجزات اصل میں ایک ہیں، مگر ان کی تشریحیں الگ الگ ہیں۔

کتبِ سماوی:
سوال نمبر ۸۵: اِن آسمانی کتابوں کے لفظی اور تاویلی معنی کیا ہوتے ہیں: صحف، تورات، زبور اور انجیل؟

جواب: (الف) صحف صحیفہ کی جمع ہے، اور صحیفہ کے بنیادی معنی ان الفاظ میں موجود ہیں: الصحیفُ (روئے زمین) الصحیفۃُ (پھیلی ہوئی چیز) صحیفۃُ الوَجہِ(چہرے کا پھیلاؤ) الصحیفۃُ (بڑا پیالہ، پھیلا ہوا چوڑا پیالہ) البتہ اسی کشادگی اور پھیلاؤ کی مناسبت سے صحیفہ کے معنی لکھی ہوئی چیزیعنی کاغذ، ورق کے ہوئے اور صحف کے معنی ہوئے لکھے ہوئے اوراق۔

۱۶۰

صحف کی تاویل (پھیلی ہوئی چیز اور لکھے ہوئے اوراق کے اعتبار سے) روح اور روحانیّت کے کلماتِ تامّات ہیں، جن میں سے ہر کلمہ ایک عظیم اور پاک روحانی ورق ہے، جس کی معنوی اور تاویلی وسعت و کشادگی بہت زیادہ ہے۔
(ب) تورات کے لغوی معنی کی بابت دو قول ہیں، ایک قول کے مطابق یہ (تورات) لفظ تَوْرَہْ کا معرب (عربی بنا لیا گیا) ہے اور تورہ کے معنی عبرانی میں شریعت اور حکم کے ہیں، تورات اس کی جمع ہے بمعنئ احکام و شرائع۔
دوسرے قول کے اعتبار سے یہ لفظ وَرْیٌ سے مشتق سے، اور اس مادّہ میں چھپنے اور ظاہر ہونے کے دونوں معنی پائے جاتے ہیں جیسے کہ ان لفظوں سے یہ :مطلب ظاہر ہے
حَتّٰی تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ (۳۲: ۳۸) (یہاں تک کہ پردے میں چھپ گیا) یُوَارِی ۳۱: ۰۵ (چھپائے) اَلنَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ (۷۱: ۵۶) (وہ آگ جسے تم روشن کرتے ہو) فَالْمُوْرِیٰت قَدْحاً (۱۰۰: ۰۲) (وہ گھوڑے جن کے ٹاپ مارنے سے آگ کی چنگاریاں نکلتی ہیں) حدیث میں ہے: انّ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کان اذا اَرادَ غزواً وَرَّیَ بغیرہٖ (کہ آنحضرت جب کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تو “تَوْرِیْہ” سے کام لیتے، اور توریہ یہ ہے کہ اصل بات کو چھپا کر اسے کسی اور طریقہ سے ظاہر کیا جائے اس طور پر کہ جھوٹ بھی نہ ہو اور اصل مقصد بھی ظاہر نہ ہونے پائے) وَرای الزَّنْدُ (چقماق سے آگ نکلی) وَرّٰیَ تَوْرِیۃً (چھپانا، دکھانا)۔
مذکورہ مثالوں سے یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ تورات کے معنی ظاہر و باطن کے ہیں، یعنی حضرتِ موسیٰؑ کی آسمانی کتاب نہ صرف ظاہر میں تھی بلکہ وہ باطن: میں بھی موجود تھی، اور تورات کا جو پہلو باطنی اور روحانی تھا، اسی میں ہدایت اور

۱۶۱

نور تھا، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے
ہم نے توریت نازل کی جس میں ہدایت اور نور ہے (۰۵: ۴۴)
(ج) زبور کتاب کو کہتے ہیں، جیسے: اَلزَّبْرُ (لکھنا) مِزْبَرٌ (قلم) زَبِیْرٌ (تحریر) زِبرج زُبُوْر (کتاب، عقل)، زَبُور، مَزْبُوْر (لکھی ہوئی چیز، کتاب) اس کی جمع زُبُرٌ ہے، بعض کا کہنا ہے کہ زبور کتبِ الٰہیہ میں سے ہر اس کتاب کو کہتے ہیں جس پر واقفیت دشوار ہو، اور بعض کہتے ہیں کہ زبور اُس کتاب کا نام ہے جو صرف حِکَمِ عقلیہ (عقلی حکمتوں) پر مشتمل ہو اور اس میں احکامِ شرعیہ نہ ہوں اور الکتاب ہر اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو احکام و حِکَم دونوں پر مشتمل ہو، اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرتِ داؤد علیہ السّلام کی زبور میں کوئی حکم شرعی نہیں ہے۔ (راغب)
اس سے معلوم ہوا کہ زبور وہ آسمانی کتاب ہے جس سے واقفیت و آگہی مشکل ہے کیونکہ اس میں عقلی حکمتوں پر زور دیا گیا ہے، اور اس سلسلے کی سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ زبور میں خودی اور خدائی کے عظیم اسرار پوشیدہ تھے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے حضرتِ داؤدؑ کو زبور اس طرح دی کہ روحانی اور نورانی قوّتوں کے تحت آپؑ کے دل و دماغ سے کام لے کر آپ ہی کی زبان سے یہ آسمانی کتاب کہلائی گئی، اور اس امر میں معرفت کے بہت سے بھید پنہان ہیں، اس حقیقت سے متعلق :قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے
بنی اسرائیل میں سے جو لوگ کافر ہوئے اُن پر داؤدؑ اور عیسیٰؑ ابنِ مریم کی زبانی لعنت کی گئی ہے یہ اس وجہ سے کہ ان لوگوں نے نافرمانی کی اور حد سے بڑھ جاتے تھے (۰۵: ۷۸)۔ اِس فرمانِ خداوندی سے کئی حکمتیں اُجاگر ہو جاتی ہیں، سب سے پہلے یہ کہ حضرتِ داؤد علیہ السّلام اپنے وقت میں خدا کی بولنے والی زبان تھے،

۱۶۲

چنانچہ ایسی خدائی زبان کو یہ ہرگز مناسب نہیں کہ وہ صرف نافرمانوں پر لعنت ہی کے لئے مقرر ہو بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ دوسری جانب سے فرمانبرداروں پر رحمت بھی اسی سے ہو، یقیناً ہادئ برحق جو لسان اللہ کا عظیم مرتبہ رکھتا ہے وہ ایسا ہی ہوا کرتا ہے، پس ظاہر ہے کہ زبور حضرتِ داؤدؑ کی زبان سے کہلائی گئی تھی۔
(د) انجیل کے بارے میں بعض اہلِ لغت کا کہنا ہے کہ یہ لفظ یونانی لفظ اِوَنْجَلْیُوْنُ کا معرب ہے، جس کے معنی مسرت انگیز خبر یا بشارت ہیں، بعض اس کو نَجَلَ کے عربی مادّہ کے تحت لکھتے ہیں، اور نَجَلَ کے ویسے تو بہت سے معانی ہیں، لیکن بعض کے مطابق یہی صحیح ہے کہ اَلْاِنجِیْلُ، نَجَلْتُ الشَیْءَ سے ہے جس کے معنی ہیں میں اِس چیز کو ظاہر کر دیا، اور اس کے مفہوم میں پھر وہی بات ہے جو تورات سے متعلق ہے اور وہ یہ کہ کتابِ سماوی کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہوا کرتا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے:
وَأَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہُ ظَاہِرَۃً وَبَاطِنَۃً (۳۱: ۲۰) اور خدا نے تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دی ہیں۔ چنانچہ انجیل جب تک آسمانی کتاب کی حیثیت سے کسی تحریف کے بغیر اپنی اصلی حالت میں تھی تب تک اس کے ظاہر و باطن میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہونے میں کسی دیندار کو کیا شک ہو سکتا ہے، کیونکہ ربّ العالمین کی عظیم نعمتیں تو علم و حکمت ہی کی صورت میں ہوا کرتی ہیں۔
نیز فرمایا گیا ہے کہ: اور (اے مریمؑ  ) خدا اس (عیسیٰؑ ) کو الکتاب و حکمت اور تورات و انجیل سکھا دے گا (۴۸: ۰۳) یہاں پر یہ حقیقت روشن ہے کہ پروردگارِ عالم کی جانب سے یہ ساری تعلیمات حضرتِ عیسیٰؑ کو صرف باطنی اور روحانی طریق پر حاصل تھیں، چونکہ آپ کو روح القدّس کی تائید روحانیّت کے وسیلے سے

۱۶۳

میسر ہوتی رہتی تھی۔

امامؑ کا دیدار:
سوال نمبر ۸۶: اسماعیلی مذہب میں امامِ زمانؑ کے ظاہری دیدار کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟ اس میں کیا فضیلت ہے؟
جواب: (الف) جب پیغمبرِ برحقؐ خلیفۂ خدا ہیں اور امامِ زمان خلیفۂ رسول، تو امام کا پاک دیدار آنحضرتؐ کا دیدار ہے اور حضورِ اکرمؐ کا دیدار خدا تعالیٰ کا دیدار۔
(ب) جن حضرات کے امر و فرمان کی اطاعت اللہ پاک کی اطاعت ہو تو ان کا دیدار بھی اللہ تعالیٰ کے دیدار کا قائم مقام ہوتا ہے، آپ قرآن میں امر اور اطاعت کے موضوع کو ذرا غور سے پڑھیں۔
(ج) سیدنا قاضی نعمان نے کتاب الھمّہ فی آدابِ اتباعِ الأئمہ کے صفحہ ۴۶ پر یہ حدیثِ مرفوع درج کیا ہے کہ:
النّظرُ اِلیٰ وجہِ الامام عبادۃٌ،
وَالنّظرُ اِلی المصحفِ عبادۃٌ
یعنی چہرۂ امام کی طرف دیکھنا عبادت ہے اور قرآن کی طرف دیکھنا عبادت ہے، ظاہر ہے کہ عقیدت و محبت سے امام اور قرآن کی طرف دیکھنے میں عبادت ہے۔
(د) قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن مؤمنین کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا، لیکن سوال ہے کہ یہ پاک دیدار کس طرح ہو گا، کیونکہ ذاتِ سبحان بیچون اور غیر مرئی ہے یعنی وہ دکھائی دینے والا نہیں؟ سو اس کا جواب ہے کہ یہ عالی شان دیدار پیغمبرؐ اور امامؑ کی

۱۶۴

پاک صورت میں ہو گا، اس لئے کہ انسانِ کامل کی صورت رحمان کی صورت قرار پاتی ہے۔
(ہ) یہ واقعہ مشہور ہے کہ آدمؑ (جو اپنے وقت کا انسانِ کامل تھا) کو رحمان کی صورت پر پیدا کیا گیا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرتِ آدمؑ اور ان کے قبل کے انسانِ کامل کی صورت کو خدا کی صورت کا درجہ دیا گیا ہے اور اس کے معنی یہ نہیں کہ کسی انسان کی طرح رحمان کی کوئی مخصوص شکل تھی جس کے مطابق آدم کو پیدا کیا گیا۔
(و) قرآن کا ارشاد ہے کہ خدا نے اپنی روح آدم میں پھونک دی، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خدا تعالیٰ کی اپنی کوئی روح ہے، وہ تو ہر چیز سے برتر و بے نیاز ہے، اس لئے اس کے معنی یہ ہیں کہ آدم سے پہلے جو پیغمبر اور امام تھا اس کی روح خدا کی نمائندگی کے اعتبار سے گویا خدا کی روح تھی، وہی روح آدم میں پھونکی گئی تھی۔
(ز) حضرتِ عیسیٰؑ کو روح اللہ کہا جاتا ہے، مگر یہ حقیقت جاننا چاہئے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام روح اللہ ہے، اسی طرح ہر پیغمبر اور ہر امام چہرۂ خدا بھی ہیں، اور ان کا دیدار خدا کا دیدار ہے۔
(ح) ان تمام باتوں سے یہ حقیقت پایۂ ثبوت پر پہنچ گئی کہ مظہرِ نورِ الٰہی کے دیدار کی بہت بڑی اہمیت ہے اور اس میں بہت بڑی فضیلت ہے، لہٰذا بڑے مبارک ہیں وہ حضرات جن کو امامِ زمانؑ کے دیدارِ ظاہر اور دیدارِ باطن کا بھرپور شوق و جذبہ ملا ہے۔

۱۶۵

خانۂ کعبہ:
سوال نمبر ۸۷: خانۂ کعبہ کن معنوں میں خدا کا گھر کہلاتا ہے؟ جبکہ وہ ایک جسمانی مکان ہے اور اللہ تعالیٰ مکان و لا مکان سے برتر و بے نیاز ہے؟ اور قبلہ کی طرف منہ کرنے کی کیا تاویل ہوتی ہے؟

جواب: (الف) خانۂ کعبہ اللہ پاک کا گھر اس لئے ہے کہ ربّ العزّت نے خود ہی قرآنِ حکیم میں ارشاد فرمایا ہے کہ یہ میرا گھر ہے، پس اس مبارک و مقدّس مقام کے خانۂ خدا ہونے میں کوئی شک نہیں۔
(ب) یقیناً ذاتِ سبحان خود مکان اور لامکان سے برتر اور بے نیاز ہے، مگر “بیت اللہ” کی اس مثال میں خدا شناسی کی جو حکمتیں پوشیدہ ہیں وہ اتنی عظیم اور اس قدر اعلیٰ ارفع ہیں کہ ان کے جاننے سے مؤمن کو خدا مل جاتا ہے، معرفت کے اِن بھیدوں کا جاننا ایسا ہے جیسے صحیح معنوں میں خدا کے گھر میں داخل ہو جانا، لہٰذا یہ پاک مقام اس معنیٰ میں خانۂ خدا ہے۔
(ج) خانۂ کعبہ کا سب سے بڑا راز، اصل اشارہ اور بنیادی خوبی یہ ہے کہ وہ خدا کے حقیقی اور معمور گھر کی مثال ہے، جو زندہ اور علم و حکمت کا سرچشمہ اور رشد و ہدایت کا مرکز ہے، جس میں واقعی نورِ خداوندی جلوہ افروز ہے اور یہیں سے خدا کی معرفت یعنی پہچان حاصل ہوتی ہے، اور وہ تمام چیزیں ملتی ہیں جو اللہ کے حقیقی گھر سے ملنے والی ہیں، خدا کا ایسا گھر عہدِ نبوّت میں پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم تھے اور آپؐ کے بعد ہر زمانے میں امامِ وقت علیہ السّلام کو یہ درجہ حاصل ہے۔

۱۶۶

(د) حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ تو آسمان اپنے اندر سمو سکتا ہے اور نہ ہی زمین، مگر صرف بندۂ مؤمن کا دل ہی اس کو سمو لیتا ہے، اِس ارشاد سے دو حقیقتیں روشن ہو کر سامنے آتی ہیں، ایک تو یہ کہ جب حق تعالیٰ آسمان و زمین میں نہیں سموتا تو وہ عرش اور خانۂ کعبہ میں بھی نہیں سموتا ہے، اور دوسری یہ کہ اگر وہ کسی مؤمن کے قلب میں سموتا ہے تو سب سے پہلے مؤمنوں کے سردار اور انسانِ کامل یعنی امامِ برحق کے پاک و پاکیزہ دل میں ضرور اور یقیناً سمو جاتا ہے، اس سے یہ مطلب صاف طور پر ظاہر ہے کہ صحیح معنوں میں انسانِ کامل ہی خدا کا وہ گھر ہے جس میں کہ خدا تعالیٰ کا سب کچھ موجود ہے۔
(ہ) جب خانۂ کعبہ اس معنیٰ میں امام کی تاویلی مثال ہے اور امامِ زمان اس کا ممثول ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح خدا کا شرعی گھر قبلۂ ظاہر ہے اسی طرح اس کا حقیقی گھر قبلۂ باطن ہے، چنانچہ امورِ شریعت میں خانۂ کعبہ کی طرف منہ کر لینے کی یہ تاویل ہے کہ امورِ حقیقت میں قبلۂ باطن کی طرف توجہ دی جائے اور قبلۂ باطن امامِ زمان صلوات اللہ علیہ ہیں۔

یوسفؑ کا کرتا:
سوال نمبر ۸۸: آپ ہمیں حضرتِ یوسف علیہ السّلام کی قمیص کے بارے میں کچھ مفید باتیں سمجھا دیجئے کہ وہ کیا چیز تھی؟ آیا وہ واقعاً ایک عام ظاہری کرتا تھا؟ یا بہشت کا کوئی لباس؟

جواب: جاننا چاہئے کہ حضرتِ یعقوب علیہ السّلام اپنے زمانے میں امامِ مستودع تھے، اور جیسا کہ قصّۂ قرآن سے ظاہر ہے کہ حضرتِ یوسف علیہ السّلام نے بچپن میں ایک خواب دیکھا تھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور

۱۶۷

چاند آپ کو سجدہ کر رہے تھے، جس کی تاویل ہے کہ عنقریب اور وقت سے پہلے یعنی والدِ محترم کی زندگی ہی میں مرتبۂ امامت ان کو ملنے والا تھا، کیونکہ آپ کو گیارہ ستاروں کے سجدہ کرنے کے معنی ہیں کہ کل بارہ حجّتوں میں سے ایک حجّت آپ خود تھے اس لئے گیارہ نے آپ کی تابعداری کی یعنی آپ اُن تمام حجّتوں سے آگے بڑھ گئے، پھر چاند نے سجدہ کیا، یعنی باب (حجّتِ اعظم) نے تابعداری کی اور آخر میں سورج نے سجدہ کیا، یعنی امامِ سابق نے نورِ امامت اپنے فرزند کو دے کر اس کے اختیار کو تسلیم کر لیا، یہ ہوئی وہ تاویل جو حضرت یوسفؑ کو گیارہ ستاروں، چاند اور سورج کے سجدہ کرنے سے متعلق ہے۔
خوب یاد رہے کہ یوسف علیہ السّلام کی قمیص سے جسمِ لطیف مراد ہے، ہم نے اپنی تحریروں میں جگہ جگہ جسمِ لطیف کا ذکر کیا ہے، جسمِ لطیف دراصل امامِ زمان ہی کا ہے، جو تمام ظاہری و باطنی معجزات کا مرکز ہے، وہ انتہائی چھوٹے چھوٹے لاتعداد ذرّات پر مشتمل ہے، اس کا ذرّہ ذرّہ زندہ اور بولتی روح ہے، یہ معجزانہ قمیص چاہے تو انسانِ کامل کی صورت میں مشخص ہو جاتی ہے مگر اکثر ذرّات کی شکل میں منتشر رہتی ہے۔
جسمِ لطیف کے بہت سے نام ہیں، اور اس کا ایک نام جثّۂ ابداعیہ ہے، جثّہ جسم کو کہتے ہیں اور ابداع ایسے پیدا کرنے کو کہتے ہیں جس میں تخلیق کی طرح کوئی وقت نہیں لگتا، کیونکہ وہ “کن فیکون” کا مقام ہے، ابداع صرف امر ہی سے ظہور پذیر ہو جاتا ہے، چنانچہ جسمِ لطیف جثّۂ ابداعیہ ہے یعنی ہر طرح کی معجزاتی صلاحیتوں سے بھرپور۔
قرآنی حکمت کی زبان سے ظاہر ہے کہ حضرتِ یعقوبؑ امامِ وقت کے نورانی دیدار کے لئے ایک مدت تک رویا کرتے تھے اور اس سے ان کی

۱۶۸

آنکھیں سفید سفید ہوئی تھیں، جس کی تاویل ہے کہ ان کی باطنی آنکھوں کے سامنے دیدار کے بغیر سفید روشنی تھی، اور جب ان کے چہرے پر یوسفؑ کی قمیص ڈالی گئی تو وہ بینا ہو گئے، یعنی جب امامِ زمانؑ کا پیکرِ نورانی (جسمِ لطیف) ان کے سامنے آیا تو انہوں نے اس کا دیدار حاصل کر لیا۔
اگر ہم اس تاویلی حکمت کے بغیر قصّہ اور روایت کے ظاہری پہلو پر نظر رکھیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ (نعوذ باللہ) انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام بھی عام آدمیوں کی طرح اپنی اولاد کی جسمانی جدائی پر رو رو کر بینائی کو کھو بیٹھتے ہیں، اور اگر یہ واقعہ درست ہو تو وہ حضرات کس طرح بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کر سکتے ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ اصل واقعہ تاویل میں پوشیدہ ہے اور وہ اس طرح سے ہے جیسے اوپر اس کا ذکر ہوا۔

آدابِ دعا:
سوال نمبر ۸۹: کیا آپ آدابِ دعا کی مختلف حرکتوں کے بارے میں کچھ وضاحت کریں گے؟

جواب: دورانِ دعا ہم جس طرح دونوں ہتھیلیوں کو کھول کر ہاتھ اٹھاتے ہیں، وہ ہماری طرف سے خدا کے حضور میں اظہارِ محتاجی کی علامت ہے۔
دعا کے ہر حصے کے اختتام پر سجدہ کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ بندۂ مؤمن بہت ہی عاجز ہے، نیز اس کے معنی ہیں کہ یہ خاکسار بندہ مٹی سے بنایا گیا ہے اور جسم کے اعتبار سے مٹی میں جانے والا ہے، اور اس کی تاویل یہ بھی ہے کہ پیغمبر کے زمانے میں پیغمبرؐ کی اطاعت ضروری ہے اور امام کے

۱۶۹

دور میں امامِ زمان کی اطاعت لازمی ہے، کیونکہ سجدہ کی تاویل پیغمبر اور امام کی اطاعت ہے (کتابِ “وجہِ دین” کی تاویلات کو دیکھو)۔
جب مقدس دعا اپنے تمام اجزاء کے ساتھ مکمل ہو جاتی ہے تو آخری سجدہ سے پہلے “شاہ دیدار” کہتے ہوئے مصافحہ کرتے ہیں، جس کی تاویل ہے امامِ زمانؑ کا دیدار، جو دیدارِ الٰہی کا مظہر ہے اور یہ شاہ دیدار دائیں بائیں والے ساتھیوں کے ساتھ اس لئے کیا جاتا ہے کہ دینی بادشاہ کے مقدّس دیدار کا تصوّر عہدِ نبوّت میں بھی تھا اور زمانۂ امامت میں بھی ہے، چونکہ دائیں طرف کا اشارہ ہے پیغمبر اور بائیں طرف کی تاویل ہے امام۔
نیز اس دونوں طرف کے “شاہ دیدار” میں بزبانِ حکمت یہ فرمایا گیا ہے کہ تم شاہنشاہِ دین کے دیدارِ باطن اور دیدارِ ظاہر دونوں کو مانو اور دونوں کو حاصل کرو، کیونکہ دائیں طرف کی تاویل ہے باطن جو پیغمبر کا مرتبہ ہے اور بائیں جانب کی تاویل ہے ظاہر، جو امام کا درجہ ہے۔
اس کے بعد مؤمن کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے دائیں ہاتھ سے یہ اشارہ کرتا ہے کہ آفاق و انفس (عالمِ جسمانی اور عالمِ روحانی) دونوں گواہ رہیں، کہ وہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت، حضرتِ محمدؐ کی نبوّت و رسالت اور حضرتِ مولانا علیؑ کی ولایت و امامت کے برحق ہونے کی گواہی دے رہا ہے، کیونکہ اس انداز میں زمین کو چھونا آفاق کو گواہ بنانا ہے، اور چہرے پر ہاتھ پھیر لینا عالمِ نفسی کو شاہد بنانا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم (۱۸: ۵۱) میں اس کا اشارہ ملتا ہے۔
نیز اس کی یہ تاویل بھی ہے کہ بندۂ مؤمن نے دنیا میں آکر خدا و رسولؐ اور امامِ برحقؑ کے لئے اقرار کیا، اور پھر اس اقرار کے مطابق عمل کر کے دین و دنیا کے فیوض و برکات کا خواستگار ہوا، کہ زمین کو چھونے کا اشارہ دنیا میں

۱۷۰

آنے کی طرف ہے اور منہ پر ہاتھ پھیر لینے کے معنی ہیں فیوض و برکات کا خواستگار ہو جانا۔
آخر میں دائیں بائیں جانب کو “حی زندہ۔ قیوم پائندہ” کہا جاتا ہے، جس کی عظیم حکمت یہ ہے کہ قرآن (۰۲: ۲۵۵) میں اللہ تعالیٰ کے دو سب سے بزرگ ناموں کی تعریف و توصیف کی گئی ہے جو “الحی القیوم” ہیں، جن کے بارے میں یہاں حکمت کی زبان میں یہ کہا گیا ہے کہ خداوند تعالیٰ کا وہ اسمِ اعظم جو “الحی” کہلاتا ہے، دنیا میں زندہ اور حاضر و موجود ہے، اور “القیوم” جو خدا کا دوسرا اسمِ اعظم ہے وہ بھی ہمیشہ دنیا میں موجود ہے، اور حکمت کے یہ دونوں اشارے امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی طرف ہیں۔

ہونزائی گنان:
سوال نمبر ۹۰: یہاں تو پیروں کے گنان پڑھے جاتے ہیں، لیکن میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ہونزہ میں کس زبان کے گنان پڑھے جاتے ہیں؟ کیا وہاں ہونزائی زبان میں گنان پڑھتے ہیں؟
جواب: ہونزہ میں پہلے تمام گنان منقبت، قصیدہ وغیرہ کے نام سے فارسی میں پڑھے جاتے تھے، لیکن آج کل یہ گنان اکثر ہونزائی زبان میں پڑھتے ہیں، اور یہ سلسلہ ہونزہ کے علاوہ گلگت کے اُن مقامات میں بھی جاری ہے جہاں کے اسماعیلی ہونزہ سے آکر آباد ہوئے ہیں۔
اگرچہ قدیم ہندوستان کی اسماعیلی دعوت سے منسلک جماعتوں کے لئے یہ ایک شاندار اور کامیاب روایت رہی ہے کہ صرف پیروں ہی کے

۱۷۱

منظوم کلام کو بطورِ گنان پڑھا جائے، تاہم جن ممالک میں پیر ناصر خسرو (قس) کی دعوت کو فروغ حاصل ہوا ہے وہاں ایسا کوئی اختصاص نہیں ہے، بلکہ امام اور مذہب کی شان میں جو بھی عمدہ اور قابلِ فہم نظم ہو وہ جماعت خانے میں بطورِ منقبت یا بطورِ گنان پڑھی جاتی ہے۔
میرا اس بات پر پورا پورا یقین ہے کہ مذکورۂ بالا دونوں قسم کی روایتیں امامِ برحقؑ کی نظر میں پسندیدہ اور منظور ہیں اور ان میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں جن کی وضاحت اس سوال کی حد سے باہر ہے۔

تصورِ امامت:
سوال نمبر ۹۱: کیا آپ اسماعیلی نقطۂ نگاہ کے مطابق تصورِ امامت اور امام کے کردار کے بارے میں کچھ وضاحت کریں گے؟ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہو کہ عام طور پر اسماعیلی ہونے کے کیا معنی ہوتے ہیں؟

جواب: (الف) ظاہر ہے کہ یہاں تین سوال کئے گئے ہیں، مگر ان کی بنیاد ایک ہی ہے، سو جاننا چاہئے کہ دینِ اسلام میں امامت خلافتِ الٰہیہ کا دوسرا نام ہے، لہٰذا تصورِ امامت تصورِ خلافت ہے، جس کا ذکر قرآن میں نمایان طور پر فرمایا گیا ہے، چنانچہ خود حضرتِ آدم علیہ السّلام کی خلافت ہی امامت تھی، کیونکہ ان دونوں لفظوں کے اصطلاحی معنی ایک ہی ہیں اور ان کا مقصد بھی ایک ہی ہے وہ اس طرح کہ حقیقت میں جو شخص خدا کا نائب و جانشین (خلیفہ) ہوتا ہے صرف وہی شخص لوگوں کا سردار اور پیشوا (امام) ہو سکتا ہے۔

۱۷۲

(ب) حضرتِ آدم علیہ السّلام اپنے وقت میں خدا کا خلیفہ تھا اور لوگوں کا امام، اور ان دونوں اصطلاحوں کا مطلب ایک ہی ہے، اسی طرح حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام اپنے زمانے میں لوگوں کا امام تھااور خدا کا خلیفہ، کیا آپ قرآنِ پاک میں نہیں دیکھتے ہیں کہ آدمؑ کو خلیفہ اور ابراہیمؑ کو امام کہا گیا ہے، اس کا اشارہ یہ ہے کہ جس طرح ابراہیمؑ میں خدا کی نمائندگی (خلافت) اور لوگوں کی پیشوائی (امامت) ایک ہے اسی طرح مان لیا جائے کہ آدم میں بھی یہ دونوں نام یعنی خلافت و امامت ایک ہیں۔
(ج) اگر حضرتِ آدمؑ اور حضرتِ نوحؑ اپنے اپنے وقت میں خدا کے نزدیک لوگوں کے سردار یعنی امام نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ (جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے ۰۳: ۳۳) ان کو مصطفی یعنی برگزیدہ نہ کرتا، آپ کو جاننا چاہئے کہ خداوند تعالیٰ لوگوں میں سے جس کو منتخب کرتا ہے وہی لوگوں کا سردار یعنی امام ہوتا ہے، کیونکہ امام کے معنی سردار ہیں اور سردار وہی ہوتا ہے جو حقیقت میں منتخب ہونا چاہئے۔
(د) کیا آپ غور نہیں کرتے ہیں کہ جب ہم عام طور پر امامؑ کو آنحضرتؐ کا جانشین مانتے ہیں اور امامت کو پیغمبرؐ کی جانشینی قرار دیتے ہیں تو اس صورت میں بھی اس کی وہی منطق بنتی ہے کہ امامؑ خلیفۂ رسولؐ ہے اور رسولؐ خلیفۂ خدا، پھر امامؑ بواسطۂ پیغمبرؐ خدا کا خلیفہ ہوا، اور امامت خلافتِ الٰہیہ ہوئی یہ حقیقت ہے کہ تصورِ امامت اصل میں خلافتِ الٰہیہ ہے۔
(ہ) فرشتوں نے جس فساد و خونریزی کی پیش گوئی کرتے ہوئے خلافتِ آدمؑ پر اعتراض اٹھایا تھا اس میں اس جنگ و جدل کی طرف اشارہ تھا جو حق و باطل یعنی خلیفۂ خدا اور اس کے ضد کے درمیان واقع ہو کر قیامت تک جاری رہنے والی تھی، اس سے ظاہر ہے کہ اس اعتراض کے پسِ پردہ حکمت

۱۷۳

کی زبان سے یہ کہا گیا ہے کہ آدمؑ کا وہ مرتبۂ خلافت و امامت دنیا میں قیامت تک جاری و باقی رہے گا، چنانچہ مسئلۂ خلافت و امامت کے بارے میں فساد و خونریزی کا پہلا واقعہ خود حضرتِ آدمؑ کے زمانے میں پیش آیا، آپ قرآن (۰۵: ۲۷ تا ۳۲) میں ہابیل اور قابیل کا قصہ پڑھیں، امام ہابیل علیہ السّلام حق پر تھا اور قابیل باطل پر، لیکن قابیل نے حضرتِ ہابیلؑ کو شہید کر دیا، پھر بھی حق کی فتح اور باطل کی شکست ہوئی، وہ اس طرح کہ حق سے مراد وہ نور ہے جو امام ہابیلؑ میں جلوہ گر تھا، وہ خدا کے حکم سے حضرتِ شیث علیہ السّلام میں منتقل ہو گیا، اور ہمیشہ کے لئے زندہ اور باقی رہا، مگر قابیل جو ظلمت و تاریکی اور باطل کا مجسمہ تھا وہ ہابیلؑ کے نورِ مقدس پر قابض نہ ہو سکا اور نہ ہی اُس کو بجھا سکا، بلکہ راندۂ درگاہ اور لعنت کا مستحق قرار پایا۔
(و) اب ہم امامِ عالی مقامؑ کے کردار کے بارے میں کچھ مختصر بیان کرتے ہیں کہ زمانہ اور دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق امام کے الگ الگ مراتب ہوتے ہیں، جیسے امامِ مقیم، امامِ اساس، امامِ متم، امامِ مستقر اور امامِ مستودع، لہٰذا اُن میں سے ہر درجے میں امامؑ کا کام ظاہری طور پر مختلف ہوا کرتا ہے، جس کی تفصیل میں جانے کے لئے یہاں گنجائش نہیں ہے، مختصر یہ کہ اگر نبوّت کا دور ہے تو امامؑ بعض دفعہ اپنے سلسلۂ نسب میں پیغمبری کا درجہ بھی رکھتا ہے، مگر دورِ امامت میں یعنی حضرتِ خاتم الانبیاءؐ کے بعد ایسا نہیں ہوتا، بلکہ وہ صرف خلیفۂ رسولؐ کی حیثیت سے ہوا کرتا ہے اور ہر حالت میں یعنی براہِ راست ہو یا بواسطۂ رسولؐ  جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے، امامؑ  خلیفۂ خدا کا عظیم درجہ رکھتا ہے جس کے معنی ہیں کہ امامِ برحقؑ امورِ دین کی ظاہری و باطنی ہدایت میں بحیثیتِ صاحبِ امر مختار و سرپرست ہوا کرتا ہے۔

۱۷۴

(ز) اب سوال کا آخری حصہ آتا ہے کہ: عام طور پر اسماعیلی ہونے کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ جس کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ اسماعیلی ایک ایسے مسلمان اور مؤمن کا نام ہے جو خدا و رسولؐ اور اولی الامر یعنی أئمۂ پاک کے امر و فرمان کے مطابق قرآن اور اسلام پر عمل کرتا ہے (۰۴: ۵۹) وہ یقین رکھتا ہے کہ خلیفۂ رسولؐ یعنی امامِ زمانؑ جو نورِ ہدایت ہے وہ اس دنیا میں ہمیشہ حاضر اور موجود ہے، اور اس کی مبارک ہستی کے بغیر دین کا کام نہیں چل سکتا ہے (۵۷: ۲۸) اس کا پختہ عقیدہ ہے کہ امامِ وقت نہ صرف قرآن کے نور (۰۵: ۱۵) اور معلّم کی حیثیت سے ہے (۰۲: ۱۵۰ تا ۱۵۱) بلکہ وہ خود قرآنِ ناطق بھی ہے (۴۵: ۲۹)۔

چند اشارات:
سوال نمبر ۹۲: اِن امور کی کیا تاویل ہے: (الف) شاہ دیدار کرنا؟ (ب) ہاتھ کو زمین پر مسح کرنے کے بعد منہ پر پھیر لینا؟ (ج) دائیں بائیں طرف کو “حیّ” زندہ “قیوم” پائندہ کہنا؟ (د) اگر بتی جلانا؟ (ہ) اور موم بتی روشن کر کے رکھنا؟

جواب: آپ کے سوال کے اجزاء الف، ب، ج کی تاویلات سوال نمبر ۸۹ کے تحت بیان کی گئی ہیں، اب یہاں صرف “اگر بتی” اور “موم بتی” کے بارے میں کچھ وضاحت کی جاتی ہے کہ “اگر بتی” جلانے کا مقصد ظاہراً یہ ہے کہ اس کی خوشبو سے جماعت اور روحانی محفل کا ماحول خوشگوار ہو اور خانۂ خدا کی فضا مکدر ہوا سے صاف اور مرغوب و پسندیدہ ہو جائے، اور اس کی باطنی حکمت یہ ہے کہ بندۂ مؤمن اپنی مالی، جسمانی اور دماغی قوّتوں کو قربان کر کے دوسروں کے لئے راحت و خوشی مہیا کر دے جس طرح اگر بتی اپنی ہستی کی قربانی دے

۱۷۵

کر اہلِ مجلس کے دل و دماغ کو تروتازہ کر دیتی ہے۔

خوشبو ایک ایسی عمدہ، مفید اور لطیف چیز ہے، جس کو سب پسند کرتے ہیں، اور اس سلسلے میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو خوشبوئیں بہت پسند تھیں، کیونکہ اس میں جسمانی راحت و لذّت کے علاوہ حکمت کے اعلیٰ اشارے بھی موجود ہیں۔

خوشبو کا مادّہ کچھ زیادہ تو نہیں ہوا کرتا، مگر وہ بہت سے لوگوں کو خوش کر سکتا ہے، اسی طرح مؤمن کا ذرا سا قول و عمل جو نیک ہو سب کو خوش کر دیتا ہے، اور نیک گفتار و کردار کی خوشبو پوری دنیا میں پھیل کر قائم رہتی ہے اور کبھی ختم نہیں ہوتی۔

اعلیٰ کام، ترقی اور خدمت کسی جماعت کی طرف سے ہو یا افراد کی جانب سے، گلشن کی خوشبوؤں کی طرح ہے، اور اس کی شہرت پھیلانے والے لوگ اُس ہوا کی طرح ہیں جو باغ و چمن کی خوشبوئیں لے کر اطراف میں پھیل جاتی ہے اور قرب و جوار میں رہنے والوں کے دماغ کو معطر کر دیتی ہے۔

ایک حقیر سی اگر بتی کی چھوٹی سی قربانی کتنے آدمیوں کے لئے کافی ہوتی ہے، وہ تو جل جل کر فنا ہو جاتی ہے، مگر اس کی خوشبو کا احساس اور تأثر بہت سے دماغوں میں باقی رہتا ہے، اس میں یہ درسِ حکمت ہے کہ چیزوں کے فنا ہو جانے کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ قطعی طور پر نیست و نابود ہو جاتی ہیں، بلکہ فنا کے معنی یہ ہیں کہ اس میں چیزیں ایک حالت سے دوسری حالت میں بدل جاتی ہیں۔

ایسے ہی اشارے موم بتی کے جل کر روشنی بن جانے میں بھی ہیں، اور اُن میں سے ایک تو یہ ہے کہ جس طرح صرف چند ہی چیزوں کے جل جانے

۱۷۶

سے خوشبو مہیا ہوتی ہے یا روشنی پیدا ہوتی ہے اور ہر چیز میں یہ خاصیت نہیں ہے، اسی طرح حقیقی مؤمنین ہی ہیں جن کی قربانیاں مذہبی اور روحانی طور پر مقبول اور مفید ثابت ہو سکتی ہیں، اور صرف وہی افراد ہیں جو اپنی خودی کو نورانیّت میں فنا کر سکتے ہیں، جس طرح موم بتی خود کو فنا کر کے روشنی بن جاتی ہے۔

سات آسمان اور سات زمین:
سوال نمبر ۹۳: سات آسمان اور سات زمین کے کیا معنی ہوتے ہیں؟

جواب: آپ کا یہ سوال قرآنِ پاک کی (۶۵: ۱۲) کے تحت ہے، چنانچہ جاننا چاہئے کہ روحانی اور ظاہری علم کی نئی تحقیق کے مطابق سورج اس کائنات کے عظیم گلوب کے عین وسط میں واقع ہے، اور اس کے گردا گرد چودہ فرضی دائرے مقررہ ہیں، جو پیاز کے پردوں یا تہوں کی طرح باہر کی جانب بڑے سے بڑے اور اندر کی طرف چھوٹے سے چھوٹے ہیں، جن میں سے باہر کے سات دائرے آسمان اور اندر کے سات دائرے زمین کہلاتے ہیں، اور ان کو کائناتی آسمان اور کائناتی زمین کہنا چاہئے۔
دوسرے آسمان و زمین کوکبی ہیں، وہ اس طرح کہ اس کائنات کے اندر جتنے سیّارے اور ستارے ہیں، وہ مادّہ جسم، روح اور زندگی کے عروج و ارتقاء کے اعتبار سے کل چودہ درجوں پر منقسم ہیں، ان میں سے اوپر کے سات درجے آسمان اور نچلے سات درجے زمین ہیں۔

علاوہ برآن سات ناطق روحانیّت کے سات آسمان ہیں اور ان کے سات اساس سات زمین، اس مطلب کے لئے تاویل کی کتابیں دیکھو، اور

۱۷۷

دوسرے لحاظ سے سات امام اور ان کے سات حجّت روحانیّت کے آسمان و زمین ہیں۔

نیز انفرادی روحانیّت کے چودہ مراحل ہیں، کہ اُن میں سے شروع کے سات مراحل زمین کی طرح ہیں اور بعد کے سات مراحل آسمان جیسے ہیں۔

علیؑ کا ایمان لانا:
سوال نمبر ۹۴: بعض کتابوں میں حضرتِ علی علیہ السّلام کے ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے، اس کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ کیا (نعوذباللہ) علیؑ شروع شروع میں غیر مسلم تھے؟ اگر بات کچھ ایسی ہے تو کیا کوئی پیغمبر یا کوئی امام پہلے غیر مسلم بھی ہو سکتا ہے؟

جواب: آپ کا سوال بڑا اہم اور بہت مفید ہے کیونکہ اس کے جواب میں ایمان، مرتبۂ نبوّت اور درجۂ امامت کی بنیادی باتیں آتی ہیں، چنانچہ جاننا چاہئے کہ ایمان لانے کی مختلف صورتیں ہوا کرتی ہیں جیسے کسی کافر کا ڈر کے مارے ایمان لانا یا دنیاوی فائدے کی طمع سے ایمان لانا یا حق بات کو سمجھ کر ایمان لانا، اور ایک ایسے مؤمن کا ایمان لانا جو پہلے سے ہی مؤمن تھا، یا یوں کہنا چاہئے کہ ایمان لانے والوں کا احوال اور درجات ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں، کیونکہ ایمان لانے کے کئی معنی ہیں، جیسے باور کرنا، اقرار کرنا، تصدیق کرنا وغیرہ۔

قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے کہ: جب خدا نے پیغمبروں سے اقرار لیا کہ ہم تم کو جو کچھ کتاب اور حکمت دیں اس کے بعد تمہارے پاس کوئی رسول آئے اور جو کتاب تمہارے پاس ہے اس کی تصدیق کرے، تو تم ضرور اس پر ایمان لانا اور

۱۷۸

ضرور اس کی مدد کرنا (اور) خدا نے فرمایا کیا تم نے اقرار کر لیا؟ اور ان باتوں پر جو ہم نے تم سے اقرار لیا تم نے میرے (عہد کا) بوجھ اُٹھا لیا؟ سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا (۰۳: ۸۱)۔

اس قرآنی تعلیم سے یہ مطلب صاف طور پر ظاہر ہو جاتا ہے کہ خدا کے حکم سے تمام انبیاء ایک دوسرے پر ایمان لاتے ہیں، لیکن اس کے معنی ہرگز یہ نہیں کہ وہ اپنے وقت میں یا اپنی طرف سے دیندار نہیں ہوتے اور ذاتی طور پر دین و ایمان کو حاصل نہیں کر سکتے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر پیغمبر آنے والے نبی کو برحق مانتا ہے اور سابق پیغمبر کی تصدیق کرتا ہے، تا کہ اس سے انبیاء کی دعوت کو تقویت ملے اور لوگوں کی صحیح رہنمائی ہو، کیونکہ جاہل لوگ اکثر اس وقت گمراہ ہو جاتے ہیں جبکہ ایک پیغمبر کے بعد دوسرا پیغمبر آتا ہے۔

سورۂ صف (۶۱) کی آیت نمبر ۶ میں مذکورۂ بالا حکمِ خداوندی کی تعمیل کا ایک عمدہ نمونہ موجود ہے کہ حضرتِ عیسیٰؑ نے بنی اسرائیل سے مخاطب ہو کر فرمایاکہ: اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں کہ مجھ سے جو پہلے توراۃ (آ چکی) ہے میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میرے بعد جو ایک رسول آنے والے ہیں جن کا نامِ (مبارک) احمد ہو گا میں ان کی بشارت دینے والا ہوں (۶۱: ۰۶)۔

ایک حقیقی مؤمن احوالِ انبیاء کی روشنی میں أئمّۂ طاہرین کی بہت سی حقیقتیں سمجھ سکتا ہے، چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ مولا علیؑ نے جس طرح آنحضرتؐ پر ایمان لایا وہ اعلیٰ سطح پر تھا، یعنی آپؑ نے رسولِ خداؐ کو برحق مانا اور حضور کی نبوّت و رسالت کی تصدیق کی، درحالیکہ ملتِ ابراہیمی کا چراغ حضرتِ ابو طالب امامؑ کے گھر میں روشن تھا۔

جب خدا تعالیٰ نے اپنے نور کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ تو نورٌ

۱۷۹

علیٰ نور ہے یعنی ایک چراغ سے دوسرے چراغ کو روشن کیا جاتا ہے۔

تو سوال اُٹھتا ہے کہ آنحضرتؐ کی مبارک شخصیت کے چراغ کو کس قریب ترین چراغ سے روشن کیا گیا؟ ہمارے پاس بس یہی ایک اٹل جواب ہے کہ حضرت ابو طالب علیہ السلام ہی اپنے زمانے کے امامِ مقیم تھے۔

آپ سورۂ نساء کی آیت نمبر ۱۳۶ (۰۴: ۱۳۶) میں خوب غور و فکر سے دیکھیں کہ اہلِ اسلام کے ایمان لانے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان جاری ہے کہ:
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا(اے ایمان والو تم ایمان لاؤ) ظاہر ہے کہ یہ ایمان کافروں کے ایمان لانے کی طرح نہیں کہ اس میں انکار کے بعد اقرار ہوتا ہے اور اس کے برعکس یہاں ایمان لانے کے بعد بھی ایمان لانا ہے، اور اس حکم میں اگرچہ لفظ “ایمان” ایک ہی ہے، لیکن جن لوگوں کو ایمان کی ترقی چاہئے وہ تو راہِ مستقیم کے الگ الگ مراحل میں ہیں، لہٰذا ایمان لانے کا جو حکم دیا گیا ہے اس کی تشریح ایک جیسی نہیں ہو گی، بلکہ اس کی تشریح ایمان کے مختلف درجات کے مطابق ہو گی، کیونکہ لوگ ایمان کے سلسلے میں ایک جیسے نہیں ہو سکتے، جبکہ ایمان صراطِ مستقیم کے شروع سے لے کر اخیر تک قدم بہ قدم بڑھتا چلا جاتا ہے اور جہاں معرفت درجۂ کمال کو پہنچتی ہے وہاں ایمان بھی اپنے اوجِ کمال پر پہنچتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ حضرتِ مولانا مرتضیٰ علی علیہ السّلام نے رسولِ خداؐ پر جو ایمان لایا وہ نورِ معرفت کی روشنی میں تھا، آپؑ نے آنحضرتؐ کو پیغمبرِ برحقؐ مانا، آپؑ نے حضورؐ کی تائید و تصدیق کی، جس طرح حضرتِ ہارونؑ نے حضرتِ موسیٰؑ پر ایمان لایا تھا اور ان کی نبوّت و رسالت کی تائید و تصدیق کی تھی، جس کا ذکر اس موضوع میں قبلاً گزر چکا۔

۱۸۰

میت پر چھانٹا:
سوال نمبر ۹۵: (الف) کیا مر جانے کے بعد پھر سے زندہ ہو جانا ہے؟ (ب) کیا بہشت اور دوزخ واقعاً موجود ہیں؟ (ج) جب موکھی صاحب تم کو مر جانے کے بعد چھانٹا دیتے ہیں، اور اگر موکھی کے اس عمل سے تمہارے سب گناہ بخش دیئے جاتے ہیں، تو پھر تمہیں زندگی میں اچھے اعمال انجام دینے کی کیا ضرورت ہے؟

جواب: (الف) جی ہاں، مر جانے کے بعد دوبارہ زندہ ہو جانا ایک قرآنی حقیقت ہے جس پر ایک مسلم کو ایمان رکھنا چاہئے۔
(ب) ہاں، بہشت اور دوزخ کا وجود بھی حق ہے اور اس سے انکار کرنے والا کافر ہے۔
(ج) اگر موکھی صاحب بعض جگہوں میں میت پر چھانٹا ڈالتا ہے، تو یہ ایک عامیانہ عقیدہ اور معمولی سی رسم ہے نہ کہ اصولات کی کوئی بات، اور اگر یہ چیز اصولات میں سے ہوتی تو خدا و رسولؐ اور أئمّۂ اطہار کے ارشادات میں اس کا کوئی تاکیدی حکم ملتا مگر ایسا نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عقیدہ اور مذہبی رسم میں بھی ایک مصلحت اور حکمت ہے، مگر اس کا فائدہ صرف انہی لوگوں کو حاصل ہوتا ہے، جو مؤمن، نکوکار اور پرہیزگار ہیں، اور جو لوگ ان کے سوا ہیں ان کو عقیدہ اور رسم موت کے بعد کوئی نجات نہیں دلا سکتی ہے۔
چھانٹا ہمارے مذہب کا ایک عمدہ عقیدہ ہے، عقیدت کا خوشگوار اور نتیجہ خیز اثر مؤمن کی زندگی ہی میں زیادہ سے زیادہ کام کر سکتا ہے، اور مر جانے

۱۸۱

کے بعد اس کی کوئی خاص نفسیات نہیں بنتی، یعنی وہ اس عمل سے نہ تو خوابِ غفلت سے جاگ سکتا ہے اور نہ ہی توبہ کر سکتا ہے، جیسا کہ زندگی میں چھانٹے کا یہ مقصد پورا ہو سکتا تھا، مگر ہاں، اس کا فائدہ صرف اتنا ہی ہے کہ جب بہت سارے مؤمنین اعتقادی طور پر خیال کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اس گزشتہ مؤمن کے حق میں یہ عمل مفید ہے تو ان کی یہ عقیدت ایک دعا کی صورت بن جاتی ہے۔

اہلِ نجات:
سوال نمبر ۹۶: کیا ایک غیر اسماعیلی کے لئے نجات حاصل کرنا اور خدا تعالیٰ سے واصل ہو جانا ممکن ہے؟ اگر نہیں تو کس وجہ سے دنیا کے اتنے سارے لوگوں کو چھوڑ کر صرف ایک بہت ہی قلیل تعداد کو نجات کا حق حاصل ہوا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کا قانون عدل و انصاف کی خوبیوں سے بھرپور ہے؟

جواب: ہم آپ کو بطریقِ آسان سمجھانے کے لئے اس سوال کے تین حصے کرتے ہیں، اور وہ اس طرح سے کہ:
(الف) دینِ اسلام میں نجات کا وسیلہ کیا ہے؟
(ب) انبیاء علیہم السلام کی دعوتِ حق کے نتیجے پر تھوڑے ہی لوگوں کو نجات ملی ہے یا سب لوگوں کو؟
(ج) خدائی عدل و انصاف کی حقیقت کیا ہے؟
چنانچہ اِس میں پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ دینِ اسلام میں وسیلۂ نجات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ہیں، اور حضورؐ کے بعد آپؐ کے اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام اسی درجہ پر فائز ہیں، اور اہلِ بیت سے أئمّۂ ہدا

۱۸۲

مراد ہیں، جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے کہ: مثل اہلِ بیتی مثل سفینۃ نوحٍ من رکبھا نجا و من تخلّف عنھا غرق (احادیثِ مثنوی صفحہ ۱۶۶) میرے اہلِ بیت کی مثال سفینۂ نوح کی مانند ہے جو اس میں سوار ہو گیا نجات پا گیا اور جس نے خلاف ورزی کی وہ غرق ہو گیا۔
اب جبکہ وسیلۂ نجات پیغمبرِ اکرمؐ کے بعد حضورِ انورؐ کے اہلِ بیت (صلوات اللہ علیہم) ہیں تو ظاہر ہے کہ اطاعت و فرمانبرداری کے نتیجے میں نجات صرف انہی لوگوں کے لئے مخصوص ہے جو زمانے کے امام کو مانتے ہیں کہ اہلِ بیتِ رسولؐ سے یہی امامِ زمان مراد ہیں، کیونکہ پیغمبرِ خداؐ کا وہ گھر جو علم و حکمت سے معمور تھا اب امام حیّ و حاضرؑ ہی کی تاویل و ہدایت کی بدولت آباد ہے، اس لئے کہ “اہلِ بیت” کا پُرحکمت کلمہ اپنے اندر جو جو معانی رکھتا ہے، وہ معانی ہیں کہ آنحضرتؐ کے روحانی اور نورانی اقربا، علم و حکمت اور رشد و ہدایت میں آپؐ کے نمائندے، جانشین اور اولواالامر ہیں، جن کی اطاعت خداورسولؐ کی اطاعت کے بعد فرض ہے۔

دوسرا سوال ہے کہ آیاانبیاء علیہم السّلام کی دعوتِ حق کے نتیجے پر تھوڑے ہی لوگوں کو نجات ملی ہے یا سب کو؟ اس کا جواب ظاہر اور صاف ہے کہ دعوتِ انبیاء کے نتیجے پر تھوڑے ہی لوگوں کو نجات ملی ہے اور بہت سے لوگ دعوتِ حق قبول نہ کرنے کی وجہ سے وسیلۂ نجات سے محروم ہو گئے ہیں، جس کا مفصل حال قرآنِ حکیم میں مذکور ہے، اب اس سے اصل سوال کا جواب سمجھنا آسان ہو گیا کہ ہر زمانے میں اہلِ نجات صرف وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو زمانے میں ہادئ برحق کی اطاعت کرتے ہیں۔
تیسرا اور آخری سوال تھا کہ خدا کے عدل و انصاف کی حقیقت کیا ہے؟ اس

۱۸۳

کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون اوّل میں بھی اور آخر میں بھی عدل و انصاف کی خوبیوں سے پُر ہے، کہ خدا نے اپنے اِس قانون کے مطابق کسی بھی زمانے میں دنیا کو نورِ ہدایت سے خالی نہیں رکھا، اس کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا والوں کو نہ تو دورِ نبوّت میں ہدایت سے محروم رکھا اور نہ ہی زمانۂ امامت میں، سو جنہوں نے ہدایت کے اِس سرچشمے کو پہچان لیا، تو ان کو سفینۂ ہدایت میں جگہ ملی اور وہ اہلِ نجات میں سے ہو گئے اور جو لوگ ہادئ برحق سے منکر ہوئے وہ کشتئ نجات سے محروم ہو کر طوفانِ ضلالت میں ڈوب گئے اور ہلاک ہو گئے۔

جب اسلام دینِ فطرت ہے تو اس میں جو کچھ بھی واقع ہو گا وہ ہمیشہ قانونِ فطرت کے عین مطابق ہو گا، اور وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں جو چیز اعلیٰ و ارفع ہے وہ تعداد اور مقدار میں کم ہوا کرتی ہے، اور اس کے برعکس جو چیز ادنیٰ و پست ہے وہ بہت زیادہ ہوتی ہے، جس کی مثال قانونِ قدرت کے ہر مقام پر مل سکتی ہے، چنانچہ آپ مخلوقات میں سے جمادات، نباتات، حیوانات اور انسانوں کی ترکیب و ترتیب میں غور کریں، کہ کس طرح جمادات سے نباتات اور نباتات سے حیوانات اور اخیر میں انسان بنتے ہیں، اور اس جسمانی تخلیق کے سلسلے میں دیکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ چیزیں نیچے سے نیچے زیادہ اور اوپر سے اوپر کم ہوتی چلی جاتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر دنیا میں اہلِ نجات دوسروں کے مقابلے میں بہت ہی کم تعداد میں ہیں تو یہ قانونِ قدرت کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہے۔

مخلوقات میں عروج و ارتقا کی دوسری مثال یہ ہے کہ اگر کھیت میں یا باغ میں گھاس اُگائی جاتی ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ زمین کی ساری مٹی گھاس بن جائے، اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ گائے جتنی گھاس کھاتی ہے اُتنا دودھ پیدا

۱۸۴

ہو، یہ بھی انصاف سے دور ہے کہ سارا دودھ آدمی ہی اُٹھا لے اور بیچارے بچھڑے کو کچھ بھی نہ چھوڑے، پھر سب دودھ کی ملائی کب بنتی ہے، یہ بھی ظاہر ہے کہ ملائی سے مکھن کم ہوتا ہے، سب جانتے ہیں کہ مکھن کے صاف تیل بنانے سے اس میں اور بھی کمی واقع ہوتی ہے، جب تیل میں کھانے کی کوئی چیز بھون لی جاتی ہے تو تیل کا ایک اور حصہ جل جاتا ہے یا کہ اُڑ جاتا ہے، جس وقت انسان تیل میں بُھنی ہوئی غذا کھا لیتا ہے تو اُس تیل میں سے تھوڑی سی انرجی (Energy) بنتی ہے اور اس میں سے بہت تھوڑی انرجی مفید ثابت ہو سکتی ہے، یہی قانونِ فطرت ہے اور دین کی بھی یہی مثال ہے کہ عقائد و نظریات اور علم و ہدایت میں لوگوں کی رسائی کے مطابق درجات مقرر ہیں اور ان درجات میں اوپر سے اوپر لوگوں کی تعداد کم ہوتی چلی جاتی ہے۔

عورت اور امامت:
سوال نمبر ۹۷: کوئی عورت کیوں امام نہیں بن سکتی ہے؟

جواب: یہ مسئلہ “سو سوال” کے سلسلے میں دو دفعہ ہمارے سامنے آیا ہے، چونکہ یہ سوال بڑا دلچسپ اور نتیجہ خیز ہے، لہٰذا ہم اس کے جواب کو بھی دو دفعہ لکھتے ہیں۔
کسی عزیز نے نہ معلوم سوچ سمجھ کر یا اتفاقاً بڑی عجیب منطق سے یہ سوال کیا ہے، کیونکہ ہر دانشمند کے نزدیک ان دونوں سوالوں میں بہت کچھ فرق ہے، ایک یہ سوال کہ “کوئی عورت کیوں امام نہیں بن سکتی ہے؟” جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خاص و عام سب عورتوں میں سے کسی ایک کو بھی امامت کیوں نہیں ملتی ہے؟ اور کیوں یہ ہمیشہ مردوں ہی کو ملا کرتی ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر مرد کے لئے

۱۸۵

یہ ممکن ہے کہ وہ امام ہو، جبکہ ان کے مقابلے میں سب عورتیں اِس رتبۂ عالیہ سے محروم ہیں، حالانکہ یہ سوال اس طرح درست نہیں۔
دوسرا سوال ہے کہ: “کبھی کسی امام کی کوئی بیٹی کیوں امام نہیں بن سکتی ہے؟” یا یوں کہنا چاہئے کہ: خاندانِ امامت کی کسی عورت کو کیوں امامت نہیں مل سکتی ہے؟ یہ سوال اس طرح سے اس لئے ہونا چاہئے کہ امامت کا منصبِ عالی ایسا نہیں کہ کوئی بھی اس کو حاصل کر سکے، بلکہ وہ ایک مخصوص خاندان میں ہے، اور وہ خاندانِ رسولؐ ہی ہے۔

چنانچہ اب ہم یہاں مذکورہ دو قسم کے سوالوں میں سے دوسرے کے جواب کو لکھ دیتے ہیں کہ:
(الف) قانونِ قرآنی کے مطابق باپ کی چھوڑی ہوئی میراث میں سے بیٹے کو دو حصے ہیں اور بیٹی کو ایک حصہ، اس سے ظاہر ہے کہ عورت سے مرد افضل ہے، لہٰذا امام کا بیٹا ہی تختِ امامت کا وارث ہوا کرتا ہے نہ کہ امام کی بیٹی۔
(ب) شانِ امامت کے برحق ہونے کے ثبوت میں یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک زبردست معجزہ ہے اور سورۂ کوثر کے علاوہ بہت سی قرآنی آیات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ أئمۂ آلِ محمدؐ کے ہاں مسندِ امامت کے وارث بن جانے کے لئے ہمیشہ بیٹے کا پیدا ہونا قدرتی امر ہے، اور یہ بات قطعاً نا ممکن ہے، کہ امامِ برحقؑ کی نرینہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے لڑکی کو امامت دے دی جائے۔
(ج) قانونِ امامت بہت سی باتوں میں قانونِ نبوّت ہی کی طرح ہے، چنانچہ جب خواتین میں سے کوئی خاتون پیغمبر نہیں ہوئی ہے، تو کوئی امام زادی امام نہیں ہو سکتی ہے۔
(د) اسلام دینِ فطرت ہے، اور قانونِ فطرت کی رو سے مرد کے مقابلے میں

۱۸۶

عورت کئی اعتبارات سے کمزور اور مجبور ہے، مثلاً ماہواری، حمل، زچگی وغیرہ، یہ حالات ایسے ہیں کہ ان میں عورت کا دائرۂ کار بہت ہی محدود ہو جاتا ہے، لہٰذا عورت جسمانی طور پر منصبِ امامت پر فائز نہیں ہو سکتی ہے۔
(ہ) جب عورتوں کی ایک جماعت ہوتی ہے، اور ان کو شرعی نماز پڑھانے کے لئے کوئی مرد نہیں ہوتا تو شریعت کا حکم ہے کہ ایک قابل عورت ایسی حالت میں اُن سب عورتوں کی امامت کرے کہ وہ اگلی صف میں رہے اور کسی مرد پیش نماز کی طرح سب سے الگ ہو کر آگے نہ ہو جائے، جس کا تاویلی اشارہ یہ ہے کہ خاندانِ نبوت و امامت کی بیٹیاں اگرچہ مرتبۂ ظاہر میں نبوت و امامت کی وارث نہیں بن سکتی ہیں تاہم باطن میں نورِ ہدایت کے مرکز سے مل کر ہیں۔
(و) مردوں اور عورتوں میں سے جتنے امام کے مرید ہیں وہ سب امامِ عالی مقام کی بیٹیوں کی طرح ہیں، کیونکہ ان کو میراثِ دین کا صرف ایک حصہ مقرر ہے اور وہ باطن میں امامِ برحق کے نور تک رسا ہو جانا ہے، جبکہ مرید امامِ زمان کی صرف روحانی اولاد ہیں، مگر امامِ وقت کا جو فرزند جانشین ہونے والا ہے وہ ہر اعتبار سے امامِ عصر کا بیٹا ہے، اِس لئے اس کو دین کی میراث کے دو حصے مقرر ہیں کہ وہ ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی امام کے نور کا وارث ہو جاتا ہے، اس لئے کہ وہ روحانی اور جسمانی دونوں صورتوں میں امامِ برحق کا فرزند ہے، سو یہی وجہ ہے کہ عورت کی امامت شرعی نماز میں صف ہی کے اندر پوشیدہ اور محدود ہوتی ہے اور مرد کی امامت کی طرح آگے نکل کر نمایان نہیں ہوتی، اور یہ صورتِ حال نورِ امامت کے مرتبۂ باطن کی دلیل ہے، جس کو روحانی طور پر امام کے سب مرید اپنی اپنی قابلیت کے مطابق حاصل کر سکتے ہیں۔
(ز) سورۂ نساء کی آیت نمبر ۳۴ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: مرد حاکم ہیں عورتوں

۱۸۷

پر اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو بعضوں پر فضیلت دی ہے (۰۴: ۳۴)۔ اس قرآنی اصول سے یہ حقیقت روشن ہے کہ عورت کا ظاہر میں امام بن جانا محال ہے، کیونکہ امام کو حاکم اور افضل ہونا ہے نہ کہ محکوم اور مفضول۔

امام کی شادی:
سوال نمبر ۹۸: کیا یہ بات درست ہے جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ امامِ برحق کسی اسماعیلی لڑکی سے اِس لئے شادی نہیں کرتے ہیں کہ مریدی کی لڑکیاں آپ کی روحانی بیٹیوں کی حیثیت رکھتی ہیں اور کسی رہنما کو اپنی روحانی بیٹی سے شادی نہیں کرنی چاہئے؟

جواب: یہ بات قطعاً غلط ہے اور اس کو حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں، جو مانا جائے کہ امام علیہ السّلام کو اسماعیلی لڑکی سے نکاح جائز نہیں، اگر کوئی شخص اس مسئلے کو مکمل وضاحت کے ساتھ جاننا چاہتا ہے تو وہ اسماعیلی فقہ کی کتاب “دعائم الاسلام” کے بابِ نکاح کو دیکھے، نیز سنتِ رسولِ مقبولؐ اور أئمۂ طاہرین ؑ کے مجموعی کردار پر نظر ڈالے تا کہ اس معاملے سے متعلق بنیادی باتوں کا علم ہو سکے۔

یہاں سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام میں نکاح اور حلال کا ایک دائرہ مقرر ہے، اور اس میں اُن تمام عورتوں کا ذکر ہے کہ جن میں سے کسی ایک کو نکاح کے لئے کوئی مسلمان منتخب کر سکتا ہے، اب اگر ایک شخص اپنی ثوابدید اور مصلحت کے مطابق دائرۂ حلال کی کسی عورت سے نکاح کرتا ہے، تو کوئی آدمی کس طرح یہ نظریہ قائم کر سکتا ہے کہ جس نے جو کچھ نکاح کیا بس اس کے لئے

۱۸۸

یہی کچھ حلال تھا؟

چنانچہ اگر امامِ برحقؑ بعض دفعہ اسماعیلی خاندانوں کو چھوڑ کر کسی اور خاندان کی لڑکی سے شادی کرتے ہیں، تو یہ امامِ عالی مقام کی حکیمانہ مرضی اُس دائرۂ اختیار و انتخاب کے اندر ہے جو قانونِ اسلام نے مقرر کر دیا ہے، جس کا اوپر ذکر ہوا۔

نہ معلوم یہ غلط بات کہاں سے پیدا ہوئی ہے کہ “امام اپنے مریدوں کی کسی لڑکی سے نکاح نہیں کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ تو امام کی روحانی بیٹی کی حیثیت سے ہے۔” حالانکہ کسی پیغمبر، امام، پیر اور مرشد کے لئے ایسا نکاح کبھی ممنوع نہیں ہوا ہے، کیونکہ وہ رشتہ روحانی ہے اور یہ نکاح جسمانی، چونکہ روحانیت الگ ہے اور جسمانیت الگ۔

سوائے حضرتِ نوحؑ اور حضرتِ لوطؑ کی بیویوں کے باقی تمام انبیاء کی بیویاں مسلمان دیندار اور اپنے اپنے شوہروں کی روحانی بیٹیوں کی حیثیت سے تھیں، اور جملہ أئمّہ کی بیویاں بھی اسی حیثیت سے ہوا کرتی ہیں، یہی مثال حضرتِ مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام کی اہلیۂ محترمہ کی بھی ہے۔

مزید وضاحت کی جاتی ہے کہ جس شادی کا یہاں ذکر ہو رہا ہے وہ جسمانی شادی ہے اور جن معنوں میں اسماعیلی لڑکیاں امام کی بیٹیاں قرار پاتی ہیں وہ تو روح اور روحانیّت کی باتیں ہیں، پھر کس طرح جسمانی نکاح اور شادی روحانی بیٹی سے ناجائز اور ممنوع ہو سکتی ہے، جبکہ ہر حالت میں امام کی اہلیہ خود بخود روحانی بیٹی بن جاتی ہے، اور جبکہ ہم سب کی بیویاں ہماری روحانی بہنیں ہوتی ہیں۔

کچھ لوگوں نے غلطی سے یہ سوچا ہو گا کہ جب امام کسی غیر اسماعیلی خاندان کی لڑکی سے شادی کرتے ہیں، تو اس کا مقصد یہ ہے کہ امامِ اقدس و اطہر کی بیگم صاحبہ غیر اسماعیلی ہی رہیں، مگر یہ خیال صریحاً غلطی پر مبنی ہے، کیونکہ امامِ عالی وقار

۱۸۹

کی بیگم شادی سے پہلے یا بعد میں اسماعیلیت کو قبول کر لیتی ہے اور خود بخود امامِ برحق صلوات اللہ علیہ کی روحانی بیٹی قرار پاتی ہے، اور حق بات یہ ہے کہ حضرت بیگم سلیمہ صاحبہ کے بارے میں یہی عقیدہ رکھا جائے، کیونکہ آپ نظریۂ اسماعیلیت کے مطابق امامِ زمانؑ کے خاندانِ نورانیت میں سے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے مولانا مرتضیٰ علی علیہ السلام سے فرمایا کہ: “اے علی میں اور تم مؤمنین (و مؤمنات) کے ماں باپ ہیں۔” رسولِ برحقؐ کے اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ حضورؐ کی قابلِ قدر ازواج آنحضرتؐ کی روحانی بیٹیوں میں سے تھیں اور حضرتِ فاطمۂ زہراؑ بھی مولا مشکل کشا کے لئے روحانیّت میں اسی حیثیت سے تھیں، اسی طرح ہر زمانے کے امام اور باب یعنی حجّتِ اعظم تمام مؤمنین و مؤمنات کے ماں باپ کا درجہ رکھتے ہیں، اور یہ صرف روحانی اعتبار سے ہے نہ جسمانی لحاظ سے۔
اس بیان سے یہ حقیقت کلّی طور پر روشن ہو گئی کہ جب کبھی امام کسی غیر اسماعیلی خاندان کی لڑکی سے شادی کرتے ہیں تو اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی مرید کی لڑکی سے شرعاً نکاح نہیں کر سکتے، بلکہ امامِ عالی وقار کے اس پرحکمت کام میں مریدوں کے علاوہ عالمِ اسلام اور دنیائے انسانیت کے لئے بھی بہت سی مفید مصلحتیں پوشیدہ ہوتی ہیں جن کو اہلِ دانش کے بغیر کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے، اور ان کی وضاحت اس جواب میں ضروری نہیں ہے۔

قربانی:
سوال نمبر ۹۹: قرآن میں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے کس

۱۹۰

فرزند کی قربانی کا قصہ ہے؟ حضرتِ اسماعیلؑ کا یا حضرتِ اسحاق ؑ کا؟ نیز یہ بتائیں کہ اس میں تاویلی حکمت کیا ہے؟

جواب: قرآنِ پاک (۳۷: ۹۹ تا ۱۰۷) میں حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام کی قربانی کا ذکر فرمایا گیا ہے، یہ قرآن کی تنزیل کی بات ہے مگر قربانی کی تاویل میں :جناب اسماعیلؑ اور جناب اسحاقؑ دونوں اس عظیم امتحان میں شامل ہیں، اس کی وضاحت ذیل کی طرح ہے
(الف) اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم خلیلؑ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنے فرزندِ جگربند حضرتِ اسماعیلؑ کو راہِ خدا میں ذبح کر دیں اور اس فرمانِ خداوندی کی بجا آوری کے لئے عظیم باپ بیٹے نے بہ رضا و رغبت تیاری کی اور حضرتِ اسماعیلؑ کے مبارک گلے پر والد بزرگوار کی تیز چُھری پھرنے لگی، لیکن پروردگارِ عالم نے اِس بیمثال جسمانی قربانی کو روحانی قربانی کی صورت میں بدل دیا۔

(ب) ارشادِ خداوندی ہے کہ: وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ (۳۷: ۱۰۷) اور ہم نے اس کے بدلے میں ایک عظیم قربانی دی۔ یعنی اس کی شخصیت کی قربانی روحانی قربانی کی شکل میں بدل گئی، کیونکہ “ذبحٍ عظیم” کا مطلب روحانی قربانی ہے جو جسمانی قربانی سے بہت بڑی ہے، اور روحانی قربانی کے مختصر معنی یہ ہیں کہ حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام سے مرتبۂ امامت کا عہد لیا گیا، اور اس کی وضاحت یہ ہے جناب اسماعیلؑ کو طرح طرح کی سخت روحانی آزمائشوں سے گزرنا پڑا اور انہوں نے روحانیّت کی تمام منزلوں میں ایک ایک قربانی پیش کی، تا کہ کارِ امامت میں صبر کے معنی ہر لحاظ سے درست ہوں، جیسا کہ ارشادِ قرآنی ہے: اور ہم نے ان میں سے أئمّہ بنائے جو ہمارے امر کے مطابق ہدایت کیا کرتے تھے جبکہ وہ صبر میں کامل تھے (۳۲: ۲۴)۔

۱۹۱

(ج) کہا جاتا ہے کہ حضرتِ اسماعیلؑ کے بدلے میں جس دُنبے کو ذبح کیا گیا تھا، وہی دنبہ “ذبحٍ عظیم” ہے، لیکن عقل و دانش کے نزدیک حضرتِ اسماعیلؑ سے دنبہ کس طرح عظیم ہو سکتا ہے، لہٰذا ذبحٍ عظیم سے روحانی قربانی مراد ہے، جو حضرتِ اسماعیلؑ کے علاوہ حضرتِ اسحاقؑ نے بھی پیش کی کہ دونوں حضرات علی الترتیب امامِ مستقر اور امامِ مستودع تھے، اور ہر امام خواہ وہ مستقر ہو یا مستودع اس عظیم روحانی قربانی کے بعد ہی درجۂ امامت پر فائز ہو جاتا ہے۔
(د) حضرتِ اسماعیلؑ کی شخصیت کی قربانی سے اُن کی روحانیّت کی قربانی اس لئے انتہائی عظیم ہے کہ آپؑ کی نسلِ پاک سے سرورِ انبیاء حضرتِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پیدا ہوئے، اور آنحضرتؐ کی ظاہری و باطنی قربانیوں کی برکت سے دینِ اسلام ظاہر اور قائم ہوا۔
(ہ) اگر اسماعیلؑ کی قربانی صرف شخصیت ہی میں محدود ہوتی یعنی اگر ان کو اسی وقت ذبح کیا جاتا جبکہ وہ اس کے لئے تیار تھے تو وہ لاتعداد روحانی قربانیاں نہ ہوتیں جو آپؑ نے اس کے بعد زندہ رہ کر پیش کیں اور آپؑ کے سلسلے میں أئمّۂ برحق نے انجام دیں اور امامت کے ساتھ ساتھ قیامت تک یہ قربانیاں جاری ہیں، لہٰذا خداوند تعالیٰ نے جسمانی قربانی کو روحانی قربانی کی صورت میں تبدیل کرتے ہوئے عظیم باپ بیٹے پر نہ صرف احسان ہی کیا بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان کے ثواب میں بھی بدرجۂ انتہا اضافہ کر دیا۔ پس انہی معنوں میں روحانی قربانی کا نام ذبحٍ عظیم ہے۔
(و) یاد رہے کہ عوام کے لئے جسمانی قربانی یعنی شہادت بہت بڑی چیز ہے کیونکہ وہ روحانی قربانی کو نہیں پہنچ سکتے ہیں، جو انبیاء، أئمّہ اور اعلیٰ درجے کے حقیقی مؤمنین کے لئے مخصوص ہے، اور خواص کے نزدیک روحانی قربانی

۱۹۲

انتہائی عظیم ہے۔
(ز) قرب سے قربان اور قربان سے قربانی کا لفظ ہے، جس سے کوئی ایسا وسیلہ مراد ہے کہ وہ انسان کو خدا کے قریب کر دے، چنانچہ ہادئ برحق کی ظاہری و باطنی ہدایت سب سے عظیم قربانی ہے کہ جس سے بندگانِ خدا اپنے ربّ کے نزدیک ہو جاتے ہیں۔
(ح) “وجہِ دین” جو پیر ناصرِ خسرو کی شہرۂ آفاق تاویلی کتاب ہے، اس میں جہاں جہاں ذبح اور قربانی کا ذکر آیا ہے، وہاں خوب غور سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت روشن ہو جائے گی کہ ان دونوں لفظوں کی تاویل کیا ہے اور کس طرح ناطق کی قربانی اساس ہے، کن معنوں میں اساس کی قربانی امام ہے؟ کس حیثیت میں امام کی قربانی حجّت ہے؟ اور کس صورت میں حجّت کی قربانی داعی؟
(ط) جاننا چاہئے کہ ہر ناطق اپنے خاندان کے ایک قریبی فرد سے اساس ہونے کا عہد لیتا ہے اور یہ عہد تاویلی اعتبار سے قربانی کے کسی جانور کو ذبح کرنے کی طرح ہے، اور اس کو اپنا جانشین مقرر کرتا ہے تا کہ وہ امت کے مؤمنین کو خدا سے قریب تر کر دے، اسی طرح اساس اپنے وارث سے امامت کا عہد لے کر اپنے بعد قربِ الٰہی کا ذریعہ بنا دیتا ہے، امام حجت کی قربانی پیش کرتا ہے یعنی اس سے عہد لے کر اور روحانی دولت سے مالا مال کر کے علم و حکمت کا سرچشمہ قرار دیتا ہے تا کہ وہ بندگانِ حق کے لئے ذریعۂ معرفت ہو، اور اسی طرح حجّت اپنے درجے کے مطابق داعی کی قربانی پیش کرتا ہے، یہ ہیں حدودِ دین کی قربانیاں، کہ ہر درجے کی قربانی حدود میں سے وہ حد ہے جو اس کے نیچے ہے۔
(ی) حضرتِ اسماعیلؑ کے قصّۂ قربانی میں یہ حکمت بھی ہے، کہ اگرچہ روحانی قربانی ہی ہر اعتبار سے افضل و اعلیٰ ہے، لیکن مادّی قربانیوں کے بغیر یہ امر محال ہے

۱۹۳

کہ کوئی شخص روحانیّت کی عظیم قربانی کے درجے پر فائز ہو سکے، چنانچہ ہر دانشمند مؤمن عظیم روحانی قربانیوں سے پہلے اپنے آپ میں ظاہری اور مادّی قربانیوں کی عادت ڈالتا ہے، تا کہ وہ اس وسیلے سے سب سے عظیم قربانی دینے کے قابل ہو سکے۔

امامؑ اور قربانی:
سوال نمبر ۱۰۰: آپ نے ایک سوال کے جواب میں امام کی قربانی کا ذکر کیا ہے، لیکن امام پر کس طرح قربانی کا اطلاق ہو سکتا ہے جبکہ وہ خدا کے نور کا مظہر ہے؟ کیا نور اس قربانی سے بے نیاز نہیں ہے؟ کیا نور میں ترقی اور اضافے کی گنجائش ہے؟

جواب: (الف) جاننا چاہئے کہ امام اور امامت میں دو چیزیں خاص ہیں وہ شخصیت اور نور ہیں، اب اچھی طرح سے سمجھ لو کہ شخصیت کے دو پہلو ہیں: ایک ظاہر اور دوسرا باطن اور اسی طرح نور کے بعد بھی دو پہلو ہیں: ایک وہ جس کا تعلق ازل کے ساتھ ہے، دوسرا وہ جس کا لگاؤ شخصیت کے باطن سے ہے، چنانچہ قربانی کے حقیقی معنوں کا اطلاق امام کی شخصیت کے ظاہر و باطن پر ہوتا رہتا ہے، ہر چند کہ ایک اعتبار سے نور پر قربانی کا اطلاق نہیں ہوتا، لیکن دوسرے اعتبار سے نور کی بھی قربانی ہوتی رہتی ہے۔
(ب) ہمارے سامنے انبیاء و أئمہ علیہم الصلات و السّلام کی جسمانی قربانیوں کی کئی مثالیں موجود ہیں، جن کی دلیل سے ہم یقین کر سکتے ہیں کہ ہر پیغمبر اور امام کی مبارک ہستی ظاہری و باطنی قربانیوں کا سرچشمہ ہوا کرتی ہے۔
(ج) سیدِ شہداء حضرتِ امام حسین علیہ السّلام نے اعلائے حق و حقیقت

۱۹۴

کی خاطر اپنی مقدس شخصیت کی قربانی پیش کر دی، اس سے دو حقیقتیں کھل کر ہمارے سامنے روشن ہو جاتی ہیں، ایک تو یہ کہ حضرتِ اسماعیلؑ کی قربانی کچھ دکھاوے کے لئے نہیں تھی بلکہ ممکن تھا کہ وہ قطعی طور پر ذبح ہو جائے، اور دوسری حقیقت یہ کہ امام اپنی شخصیت کے ظاہری و باطنی پہلو کے اعتبار سے قربانیوں سے بے نیاز نہیں، مگر ہاں نور کے لحاظ سے وہ اس سے بے نیاز ہے۔
(د) نور کا ازلی پہلو فعال نہیں خاموش ہے مگر نور کا جو پہلو انسانِ کامل کے باطن سے متعلق ہے، وہی کلی طور پر حرکت میں ہے، جس طرح ایک روشن چراغ کا اُبھرتا ہوا شعلہ متحرک اور فعال ہوتا ہے جو مسلسل روشنی پر روشنی بکھیرتا رہتا ہے، مگر وہ روشنی جو مکان کی صاف و شفاف دیواروں پر نظر آتی ہے خاموش اور ساکن ہے، اس مثال میں چراغ کا ضوفشان شعلہ نور کے متحرک پہلو کی ترجمانی کرتا ہے جو ہادئ زمان کی روحانیّت میں ہے، اور دیوار کی سطح پر جو روشنی خاموش ہے وہ نور کے غیر متحرک پہلو کو ظاہر کرتا ہے جو ازل کی طرف ہے۔
(ہ) ازل کا واضح اور روشن تصوّر بھی امامِ وقت ہی کے نور کی روشنی میں ممکن ہے، یہی وجہ ہے کہ میں نے یہاں امام کے نورِ فعال کی مثال چراغ کے شعلے سے دی ہے اور اس کے ازلی نور کی مثال دیوار کی ساکن روشنی سے دی ہے۔
(و) ہم نے کہا تھا کہ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو نور کی بھی قربانی ہوتی رہتی ہے اور حق بات تو یہ ہے کہ نور کی قربانیاں سب سے عظیم ہیں، سورج کے بارے میں خوب غور کرو، کب سے موجود ہے؟ اور کب تک قائم رہے گا؟ اور اندازہ کرو کہ مادّی نور کا یہ سرچشمہ ہر لحظہ کسی سرعت سے اس کائنات کی بے پناہ وسعتوں کو اپنی تازہ ترین روشنی سے بھر دیتا ہے، یہ مادّی

۱۹۵

نور کی قربانیوں کی مثال ہے اور روحانی نور کی قربانیاں اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

(ختم شُد)

۱۹۶

سوغاتِ دانش

سوغاتِ دانش

آغازِ کتاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم۔ پروردگارِ عالم کے فضل و احسان اور حضرت محمد مصطفٰے خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علمی وعرفانی صدقے سے، جو امامِ زمان صلوٰت اللہ علیہ کے توسط سے حاصل ہے، یہ کتاب بنامِ “سوغاتِ دانش” قارئینِ کرام کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے، اس مسرت وشادمانی کے مبارک موقع پر بندۂ خاکسار کا دل تو یہ چاہتا ہے کہ موسمِ بہار کی بارش کی طرح عاجزانہ شکرگزاری کے بہت سے آنسو بہائیں، اور بار بار احسان مندی کے سجدے کرتے رہیں، لیکن اس ناچیز بندے کے لئے ایسی نعمت شناسی اور قدر دانی آسان نہیں۔

سوغات اصلاً ترکی لفظ ہے، جو عمدہ چیز، نرالی چیز، تحفہ، ہدیہ، اور رہ آورد (سفر سے دوستوں کے لئے تحفہ) کے معنی رکھتا ہے، اور یہ فارسی کے علاوہ اردو ادب میں بھی مستعمل ہے، چنانچہ انہی معنوں کے ساتھ اس پیاری کتاب کا نام “سوغاتِ دانش” مقرر کیا گیا، تا کہ اعزّہ، احباب، جماعت اور قوم

 

۴

 

کے لئے یہ کتاب یقیناً ایک بہترین علمی تحفہ ثابت ہوسکے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

کتابِ “سوغاتِ دانش” چند مختلف موضوعات پر مشتمل ہے جن میں سے ہر موضوع کی جیسی اور جتنی اہمیت ہے، وہ آپ کو بوقتِ مطالعہ معلوم ہو جائے گی، اس میں اگرچہ بعض مضامین خطوط کے عنوان سے مندرج ہیں، مگروہ خاص علمی مکتوبات ہونے کی وجہ سے بے حد ضروری اور انتہائی مفید ہیں، اور اس پُرحکمت عمل کا حکم حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے فرمانِ اقدس میں موجود ہے، جس کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ دینی علم کے لین دین کے سلسلے میں خط و کتابت سے بھی کام لینا چاہئے۔

خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کے سلسلۂ کُتُب اور تحریروں میں بحیثیتِ مجموعی جن اساسی اور اہم ترین موضوعات سے بحث کی جاتی ہے، ان کی مثال یہ ہے: علمِ توحید، یک حقیقت، تصورِ آفرینش، نبوّت، امامت (امام شناسی) اسلام و ایمان، روح وروحانیّت، قیامت اور متعلقات، قرآن اور اس کی تاویلی حکمت، مذہب اور سائنس، تصوّرِ انسان، ذکروبندگی، علمی خدمت، حقیقی علم، تقویٰ، بہشت اور اس کی نعمتیں وغیرہ، اس کے علاوہ یہاں ایک بہت بڑا موضوع سوال و جواب بھی ہے۔

 

۵

 

ہماری نیّت اور مقصد یہ ہے کہ اپنی عزیز اور عظیم جماعت کی کچھ نہ کچھ علمی خدمت کرسکیں تا کہ فردائے قیامت خدا تعالیٰ کے حضور میں ہمیں اس بات کی شرمساری نہ ہو کہ اس بڑے مہربان نے علم کی جن بہت سی نعمتوں سے نوازا تھا، اُن سے دوسروں کو کیوں فائدہ نہیں دلایا؟ جیسا کہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے:  ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ (۱۰۲: ۰۸) پھر اُس روز تم سب سے نعمتوں کی پوچھ ہوگی۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ اللہ پاک نے اس دنیا میں جن لوگوں کو علمی یا مادّی دولت عطا کردی ہے، وہ اگر اس میں سے راہِ خدا میں صرف نہیں کرتے ہیں، تو قیامت کے دن بڑی سختی کے ساتھ اُن سے سوال کیا جائے گا۔

اس سلسلے کا دوسرا ارشاد یہ ہے: (ترجمہ) دردناک سزا کی خوشخبری دو اُن کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ۔۔۔ (۰۹: ۳۴ تا ۳۵) اس قرآنی تعلیم میں ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی دولت کا ذکر ہے، اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ باطنی دولت علم ہے، جس کا راہِ خدا میں خرچ کرنا کہیں زیادہ ضروری ہے۔

تیسرا حکم یہ ہے(ترجمہ): اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا، جس کے ذمے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو

 

۶

 

اور وہ اسے چھپائے؟ (۰۲: ۱۴۰)یعنی حقیقی علم کی ہربات حق وصدق کی گواہی کی حیثیت رکھتی ہے، چنانچہ اگر کسی شخص کے پاس ایسا ضروری اور مفید علم ہے، جس کے ظاہر کرنے سے اہلِ ایمان کو فائدہ ہی فائدہ ہوتا ہو، تو اس صورت میں علم کو نہیں چھپانا چاہئے،  مگر ہاں، اصولِ تقیہ اپنی جگہ پر ہمیشہ قائم رہیگا۔

ہمارے عظیم المرتبت پیروں اور بزرگوں نے ماضی میں دعوتِ حق اور علمِ امامت کے سلسلے میں جو بے مثال کارنامے انجام دیئے ہیں، وہ عظمت وبزرگی کے آسمان پر ہیں، ہمیں کماحقّہُ خدا کا شکر بجالاتے ہوئے اپنے پیروں کی عزّت کو جھک جھک کر سلام کرنا چاہیے کہ ہماری ہستی ان کی خاکِ پا سے بنائی گئی، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ حضرات دین کے جس کھیت اورباغ میں شب وروز چل پھر کر کام کرتے تھے،  اسی کی مٹی سے ہمارے اعتقادی وجود کا گارا بنایا گیا ہے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم کسی قسم کی بڑائی کا دعویٰ کریں؟ اور کیوں؟

یہ عزیز کتاب جو سوغاتِ دانش کے پیارے نام سے آپ کے سامنے ہے، اُن مضامین کا مجموعہ ہے جو۱۹۸۴ ء میں  “گنجِ گرانمایہ” کی تصنیف سے قبل تیار ہوئے تھے، لہٰذا  سوغاتِ دانش اور گنج گرانمایہ کے آپس میں زیادہ سے زیادہ قریبی تعلق ہے، جبکہ یہ دونوں ارتقائی سیڑھی کے ایک ہی زینہ

 

۷

 

پر واقع ہیں۔

جب کوئی نیک کام ادارے کے طریق پر انجام پاتا ہے، تو اس کا قانون یہ ہے کہ اس کو ادارے سے منسوب کیا جاتا ہے اور اس کے لئے تین پہلو ہیں: ادارے کے صدر کی شکرگزاری کرنی پڑتی ہے، یا ادارے کا تذکرہ ہوتا ہے، یا اُن تمام افراد کا شکریہ کیا جاتا ہے، جو ادارے سے منسلک ہیں، یہ تو ہر عام ادارے کے اصول کی بات ہوئی، لیکن جہاں جہاں خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کا بابرکت وجود ہے، وہاں بفضلِ خدا اتحاد و یگانگت کا ایک خاص معجزہ پایا جاتا ہے، جس کی ایک عمدہ مثال خانۂ حکمت برانچ گلگت ہے، جو ہمارے بہت ہی عزیز دانشور صدر غلام قادر کی کامیاب صدارت میں ترقی کررہی ہے، چشمِ بدور! غلام قادر کے ظاہر و باطن پر امامؑ کے نورِ محبت کی شعاعیں برس رہی ہیں۔

اگر یہ بندۂ کمترین خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کے دونوں صدر صاحبان فتح علی حبیب اور محمد العزیز کا ذکرِجمیل نہ کرے اور دونوں اداروں کے تمام شرقی اور غربی عملداروں اور ممبروں کے زرین کارناموں کو نہ سرا ہے، تو اس خاکسار سے بہت بڑی ناشکری اور بے وفائی کا ارتکاب ہوگا اور دوسری طرف سے مستقبل کے مورخین کو یہ غلط فہمی ہوگی کہ یہ ساری علمی خدمت تنہا نصیر

 

۸

 

ہونزائی نے انجام دی تھی، لہٰذا میں ناچار اپنے ان تمام فرشتوں کو کیسے فراموش کرسکتا ہوں جو میرے لئے گوناگون قوّتوں کے خزانے ہیں، جو شب وروز علمی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، وہ دونوں بیشک صدر صاحبان ہیں، اس لئے عزّت وبرتری کے معنی میں ہمارے سرآنکھوں پر بیٹھ سکتے ہیں، لیکن ان کی عاجزی اور درویشی کی یہ شان ہے کہ اکثر کرسیٔ صدارت کو چھوڑ کر کسی ایسی عام خدمت میں مصروف نظر آتے ہیں، جو ان کے نزدیک کسرِ نفسی کے لئے ضروری ہوتی ہے۔

خداوندا! تو اپنی بے پایان رحمت سے جملہ عزیزانِ شرق و غرب کو حقیقی علم کی دولت سے مالامال فرما! تاکہ ہم سب مل کر خلوص اور خیرخواہی سے امامِ عالی مقام علیہ السّلام اور پیاری جماعت کی بہتر سے بہتر خدمت کرسکیں، آمین یاربّ العٰلمین!

بندہ ٔ کمترین

نصیر الدّین نصیرہونزائی

جمعرات۱۶ذی الحجہ ۱۳۰۴ھ

۱۳ ستمبر ۱۹۸۴ء

سالِ مُوش

 

۹

 

سوال کا مقصد فروغِ علم ہے

 

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم، الحمد اللہ ربّ العالمین۔ وَالعاقبۃ للمتّقین، والصّلاۃ والسّلام علی رسولہٖ و علیٰ آلہٖ الطّاھرین، واضح رہے کہ سوال مختلف وجوہ کی بنا پر کیا جاتا ہے اس لئے سارے سوالات کا ایک جیسا پس منظر نہیں ہوسکتا ہے اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ پسندیدہ اور مسرت انگیز سوال وہ ہوتا ہے، جو حلقۂ احباب کی طرف سے محض فروغِ علم کی خاطر پیدا ہوجاتا ہے، اس نوعیت کے سوال وجواب سے دوستی، محبت، یگانگت، اخلاص اور اعتماد کی خوشبو آتی ہے، چنانچہ یہ بندۂ ناچیز اپنے علمی عزیزوں اور عالی مرتبت دانشور دوستوں کا واجبی طور پر شکریہ ادا کرتا ہے کہ وہ حضرات وقتاً فوقتاً ایسے عمدہ اور فکر انگیز سوالات لکھ کر بھیجتے ہیں، جو نہ صرف دوستانہ خلوص و اعتماد کے حامل ہوتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ علمی اعتبار سے بھی انتہائی

 

۱۰

 

بلند اور بیحد مفید ہوا کرتے ہیں، جیسے ذیل میں ہمارے ایک عظیم دانشور دوست نے تین ایسے سوالات کئے ہیں:

سوال ۱: یہ ایک حقیقت ہے کہ امامِ زمانؑ حقیقی علم کے خازن ہیں اور وہی اپنے پاک علم کے ذریعہ لوگوں کو مرگِ جہالت سے نجات دلاتے ہیں، پوچھنا یہ ہے کہ امامؑ کے اس علم کی وسعت یا پھیلاو کتنا ہے اور وہ کن کن ذرائع سے طالبان علم کو علم بخشتے ہیں؟ مزید یہ کہ تصوّرِ علم اور تصوّرِ نجات کے درمیان کیا رشتہ ہے؟

سوال ۲: وجود کیا ہے؟ روحانی اور جسمانی وجود کی اہمیت کیا ہے؟ اور ان دونوں کے درمیان رشتہ کیا ہے اور کیسا ہے؟ وجود کے رشتہ سے عدم کی کیا حقیقت ہے؟ ان دونوں میں سے کون سا مقدم ہے؟

سوال۳:  انسان کے اندر موجود جنسی یا شہوانی خواہش میں کون سی حکمت پوشیدہ ہے؟ بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار میں اس قوّت کی طرف ہمارا کیا رویہ ہونا چاہئے؟ مذہب کی طرف سے عائد شدہ پابندیاں اضافی ہیں یا مطلق؟ خصوصاً مغرب کی جنسی بحران میں ایک مومن کا کیا کردار ہونا چاہئے؟

جواب ۱: اس سوال کے تین اجزاء ہیں: الف: علم کا پھیلاؤ؛؟ ب: علمی ذرائع؟ ج: علم اور نجات کا رشتہ؟ اب یہ بندہ ٔ کمترین

 

۱۱

 

جو امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے علمی غلاموں کا ایک ادنیٰ غلام ہے، انتہائی عاجزی، ادب، خلوص اور جذبۂ فداکاری سے  سرشار ہو کر عرض کرتا ہے کہ یقیناً امامِ اقدس و اطہرؑ حقیقی اور روحانی علم کے خازن ہیں، امامِ زمانؑ کا علم جو دراصل خداوند تعالیٰ کا علم ہے وہ بتقاضائے حکمت محدود ویکجا بھی ہے اور بسیط و وسیع بھی، علم جن معنوں میں جمع اور یکجا پایا جاتا ہے، اُن معنوں میں وہ ایک خزانے کے اندر موجود ہے، جیسے قرآنِ حکیم (۱۵: ۲۱) میں تمام چیزیں خزائنِ الہٰی میں محدود ہونے کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور جہاں علم اپنے سرچشمہ اور خزانہ سے نکل کر پھیلا ہوا ہے، وہاں اس کا دائرہ یا پھیلاؤ آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، ہر چند کہ علم اپنے جوہر یعنی لولوئے عقل میں کوئی مادّی شیٔ کی طرح نہیں کہ اس پر طول و عرض و عمق کا اطلاق ہو لیکن کتابِ کائنات میں جس طرح اس کو ایک حکمت آگین جسمانی صورت دی گئی ہے، اس کے پیشِ نظر علم کے پھیلاؤ کا نظریہ بالکل درست ہے، چنانچہ سرچشمۂ علم اور اس کے پھیلاؤ کی مثالیں یا دلیلیں یوں ہیں:

۱۔ اس میں اہلِ دانش کو ذرّہ بھر شک نہیں کہ علم حقیقی اور روحانی صورت میں نورِ خداوندی ہے، جس کا ایک سرچشمہ ہےاور ایک پھیلاؤ، اس سرچشمہ کی تشبیہہ قرآنِ پاک میں ا یک روشن چراغ سے دی گئی ہے، جو ایک طاق میں ہو، اور اس کی روشنی کے پھیلاؤ  کی حدود

 

۱۲

 

کائنات کی حدود بتائی گئی ہیں (۲۴: ۳۵) لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ علمِ مجتمع کا سرچشمہ امامِ زمانؑ ہیں اور علمِ منتشر کا پھیلاؤ کائنات کے برابر ہے۔

۲۔ عقل یعنی علم، روح اور جسمِ لطیف سے بہشت بنائی گئی ہے اور یہ تین چیزیں حقیقی معنوں میں امامِ زمانؑ کی مبارک ہستی میں موجود ہیں، لہٰذا مرکزِ بہشت اور مجموعہ جنت بحکمِ آیۂ سورۂ یٰسٓ (۳۶: ۱۲) امامِ عالیمقامؑ ہیں، اور دوسری طرف سے بہشت کا طول وعرض آسمان و زمین کے برابر ہے، جیسے سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۳۳) اور سورۂ حدید(۵۷: ۲۱) میں اس کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ نورِ علم جو بمعنیٔ دیگر مرکزِ بہشت بھی ہے، وہ امامِ زمانؑ کی مقدس ومبارک پیشانی میں ہے اور اس کی روشنی کائنات کے ظاہروباطن پر محیط ہے۔

۳۔ علم فعلِ قلوب میں سے ہے، عالمِ اس کا فاعل ہے اور عالَم (کائنات)اسمِ آلہ ہے، جیسے خاتم مہر لگانے کا آلہ ہوتا ہے، ویسے عالَمۡ علم(یعنی جاننے) کا آلہ ہے، مگر حقیقی عالِم خدا و رسولؐ کے بعد امامِ زمانؑ ہیں، جن کو کائنات وموجودات کا علم بصورتِ نورِعقل عطا کیا گیا ہے، پس سرچشمۂ علم جیسا کہ ہونا چاہئے امامِ وقتؑ ہیں اور اس کا احاطہ دائرہ کائنات ہے۔

۴۔ علم جیسے اصل و سرچشمہ کے طور پر ایک نور ہے، اور جس

 

۱۳

 

طرح اپنے پھیلاؤ میں ایک کائنات، اسی طرح وہ کسی کمی کے بغیر ایک مکمل آسمانی کتاب میں بھی ہے، اور وہ پُرحکمت کتاب قرآنِ مجید ہے، اور اس کی زندہ روح یعنی نور، حقیقی عالِم، اور وارث امامِ برحق علیہ السّلام ہیں۔

اب سوال اوّل کا یہ حصہ سامنے آتا ہے کہ: “امام کن کن ذرائع سے طالبانِ علم کو علم بخشتے ہیں؟”  اس باب میں میری گزارش یوں ہے کہ علم اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے، اور اس حقیقت سے کوئی دیندار انکار نہیں کرے گا اور خدا کی نعمتیں ظاہر میں بھی ہیں اور باطن میں بھی، جیسا کہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: کیا تم لوگوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جوکچھ زمین میں ہے(غرض سب کچھ) خدا ہی نے یقیناً تمہارے تابع کردیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں (۳۱: ۲۰) اس بابرکت قرآنی تعلیم کی روشنی میں ایک ساتھ کئی حقیقتیں اُجاگر ہوجاتی ہیں، جن کو بجا طور پر اہلِ دانش ہی سمجھ سکتے ہیں، مثال کے طور پر صرف اتنا کہنا چاہئے کہ پروردگارِ عالم نے نہ صرف جسمانی آسمان و زمین کو انسانوں کے کام میں لگا دیا ہے، بلکہ اسی طرح روحانی آسمان اور زمین کو بھی تازہ بتازہ باطنی نعمتیں پیدا کردینے کے لئے مامور فرمایا ہے، جس طرح ظاہری آسمان و زمین کے عمل سے ظاہری نعمتوں کا سلسلہ جاری ہے، اسی طرح روحانی آسمان وزمین کے فعل سے

 

۱۴

 

روحانی نعمتیں بھی جاری اور باقی ہیں، پس حصولِ علم کے دو  ذریعے ہیں: ذریعۂ ظاہر اور ذریعۂ باطن، یعنی جیسے انسان کے ظاہری اور باطنی حواس ہیں، ایسے ظاہراً و باطناً علم کے دو راستے ہیں۔

جس طرح حضرت آدمؑ جسمانیّت و بشریت کے باؤجود خدائی روح (یعنی نور ) کے حامل تھے، اور جس کے ذریعے سے آپؑ بطریقِ روحانیّت اپنے وقت کے مومنین کو حقیقی علم دیا کرتے تھے اور مومنین ہی ہمیشہ روحانی پہلو کے پیشِ نظر ملائکہ کہلاتے ہیں، اسی طرح امامِ زمانؑ کے روحانی علم کا دروازہ ہمہ وقت مومنین پر کشادہ ہے، اور اس لازوال دولت کو حاصل کرنے کے لئے ہر شخص کو براہِ روحانیّت آگے سے آگے بڑھ جانے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ زمرۂ ملائکہ میں شامل ہو کر خلیفۂ خدا و رسولؐ (یعنی امامِ وقتؑ) سے براہِ راست علم حاصل کرسکے۔

قصّۂ آدم میں روحانی علم کو”علمَ اسماء” کہا گیا ہے، جو اسمِ اعظم کے تحت تھا، چنانچہ اسی قانونِ الہٰی کے مطابق حضرت آدم علیہ السّلام نے فرشتہ صفت مومنین یعنی حدودِ دین کو اسمِ بزرگ کی عبادت سکھا کر اُن میں وہ خدائی روح پھونک دی جس کے توسط سے پیشرو اورپیرو کے درمیان روحانی رابطہ قائم ہوسکتا ہے، اور یہی وہ سُنتِ الہٰی ہے جو اللہ کے خاص بندوں میں گزرچکی ہے(۴۰: ۸۵) اور خدا کی سنت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے، پس ہادیٔ زمان

 

۱۵

 

اسی سُنتِ خدائی کے مطابق جو اٹل ہے، مومنین کو روحانی علم دیا کرتے ہیں (۱۷: ۷۷)۔

اگر خدا اور اس کے برگزیدہ پیغمبرؐ کی طرف سے ہر زمانے کا امامؑ نورانی علم کا مالک مقرر نہ ہوتا تو بہت سی آیاتِ قرآنی اوراحادیثِ نبوّی میں امام شناسی کی اتنی بڑی اہمیت نہ ہوتی، جیسے قرآن میں یہ ارشاد ہے کہ: ا ور جو شخص دنیا میں اندھا رہے گا سو وہ آخرت میں بھی اندھارہے گا، اور زیادہ راہ گُم کردہ ہوگا، (۱۷: ۷۲) اور یہ حدیث کہ: جو شخص اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے تو وہ جاہلیّت کی موت سے مرچکا ہوتا ہے اور جاہل(نادان) آتشِ دوزخ میں ہوتا ہے، یہاں یہ حقیقت روشن ہے کہ امامِ زمانؑ ظاہراً و باطناً نورِ خدا و رسولؐ ہیں، نورِ قرآن اور اسلام ہیں اور نورِ معرفت ہیں۔

افسوس ہے کہ بہت سے لوگوں نے اِنّی جاعِلُ فی الارضِ خلیفہ(۰۲: ۳۰) کا مطلب نہیں سمجھا، ، ارض کے لفظی معنی سیّارۂ زمین کے ہیں، اور اس سے دنیا بھر کے لوگ مراد ہیں اور ارض کی تاویل زمینِ روحانیّت ہے، چنانچہ خدائے پاک و برتر کی خلافت و نمائندگی بحیثیتِ روحِ خدا اور نورِ خدا آدمؑ کے باطن میں تھی، جس کی بدولت آپؑ روحانی طور پر مومنین کو خواہ مادّی حالت میں جہاں کہیں بھی ہوں، حقیقی علم سکھاتے تھے، اور

 

۱۶

 

یہی مرتبہ ہر پیغمبر اور ہر امام کو حاصل ہے، کیونکہ دینِ حق میں خلافت و نیابتِ الٰہیہ رہتی دنیا تک جاری وباقی ہے، اگر ہم اس کے برعکس یہ خیال کریں کہ اس خلافت کا تعلق صرف ذاتِ آدمؑ ہی سے ہے اور وہ بھی صرف ظاہر میں کسی تاویل کے بغیر اور اس کا دائرہ صرف اس خطۂ زمین تک محدود تھا، جس میں حضرت آدمؑ جسمانی طور پر سکونت کرتے تھے، پھر اس صورت میں (نعوذ بااللہ) خداوند عالم کی ایسی خلافت بازیچۂ اطفال قرار پائے گی اور اللہ تعالیٰ ایسی مثالوں سے پاک وبرتر ہے۔

اب سوال کے اس جزو پر گفتگو کرنے کی نوبت آتی ہے کہ: “تصورِ علم اور تصوّرِ نجات کے درمیان کیا رشتہ ہے؟”  اس میں جواباً یوں عرض ہے کہ انسان تین چیزوں کا مجموعہ ہے، جسم، روح اور عقل، اس کے ثواب وعقاب بھی تین تین ہیں، جسمی، روحی، اور عقلی اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ جسم سے روح اعلیٰ ہے اور روح سے عقل برتر ہے، چنانچہ نہ صرف عقلی ثواب سب سے بڑا ہے، بلکہ دوسری طرف سے عقلی عذاب بھی بےحد دردناک اور عظیم ہے، مگر سوال ہے کہ عقلی عذاب کس بلا کا نام ہے؟ جواب ملتا ہے کہ عقلی عذاب جہالت ونادانی کو کہتے ہیں، اور اس عذاب سے کوئی چیز چھٹکارا نہیں دلاسکتی ہے، مگر حقیقی علم، پس علم نجات کی ضمانت ہے اور یوں کہنا بھی درست ہے کہ

 

۱۷

 

علم نجات کی عملی صورت ہے، کیونکہ علم بہشت ہے جو آتشِ جہالت کے برعکس ہے اور اسی بیان میں علم اور نجات کے درمیان جیسا رشتہ ہے اس کا ذکر آگیا۔

جواب ۲: یہ سوال پانچ اجزاء پر مبنی ہے: الف: وجود کیا ہے؟ ب: وجود کی اہمیت؟ ج: جسم وروح کا رشتہ؟ د: وجود کے رشتہ سے عدم کی حقیقت؟ ھ: وجود اور عدم میں سے کون سا مقدم ہے؟ چنانچہ یہاں سب سے پہلے وجود کی تعریف کی جاتی ہے کہ وجود ایک عربی لفظ ہے، جو وج د  کے مادّہ سے بنا ہے، جس کے معنی کسی چیز کو پالینا ہیں، وجود اسی معنیٰ میں ہستی کا نام ہے، وجود و عدم ایک دوسرے کی ضد ہیں، وجود یا ہستی کی تین قسمیں ہیں: جسمی، روحی اور عقلی، انسان تینوں کا مجموعہ یا مرکب ہے، اشیائے جسمانی حواسِ ظاہر کے ذریعہ پائی جاتی ہیں، موجوداتِ روحانی حواسِ باطن کی مدد سے اور موجوداتِ عقلی کا ادراک عقلی قوّتوں سے ہوجاتا ہے۔

روحانی اور جسمانی وجود کی کیا اہمیت ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بحوالۂ قرآنِ حکیم(۰۳: ۲۷، ۳۹: ۰۴، ۵۱: ۴۹) اللہ تبارک و تعالیٰ ہر دو ضد چیزوں کو ایک دوسرے سے پیدا کرتا ہے اور ایک دوسرے میں فنا کردیتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی تقدیم و تاخیر کے بغیر اور کسی ابتدا و انتہا کے سوا ہمیشہ ہمیشہ دنیا سے آخرت

 

۱۸

 

اور آخرت سے دنیا بنائی جاتی ہے، یہ بات بطورِ خاص کائناتِ ظاہر و باطن سے متعلق ہے، اس سے یہ امرِ واقعی ظاہر ہوا کہ اگرچہ فضیلتِ روح مسلّمہ ہے لیکن جسم کی اہمیّت بالکل ایسی ہے، جیسی روح کی ہوتی ہے، کیونکہ روح کبھی مادّہ یا جسم کے بغیر نہیں ہے، وہ عالمِ ذرّ میں ذرّۂ جسمِ لطیف پر سوار ہو کر اِدھراُدھر اڑتی ہے، اس دنیا میں عمر بھر جسم سے وابستہ رہتی ہے، اور پھر آخرت میں حسبِ اعمال اس کو ایک زندہ گھر خواہ لطیف ہو یا کثیف(۲۹: ۶۴) دیا جاتا ہے چنانچہ پیرناصر خسرو (ق۔ س) جان وجسد کی یکسان اہمیّت کے بارے میں کسی مُنکرِ حقیقت سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:۔

تو بکل بینا نہ ای زانگہ تو بیراہ ماندۂ

تو بکل بینا شوی جان وجسد یکسانِ توست

یعنی تو(صرف جزو کو دیکھتا ہے مگر) کُل کو نہیں دیکھ سکتا ہے، اسی سبب سے تو گمراہ ہوچکا ہے، اگر تو کُل کا مشاہدہ کرتا تو اس وقت جسم وجان کی اہمیت تیرے نزدیک یکسان ہوجاتی۔

روحانی اور جسمانی وجود کے درمیان رشتہ کیا اور کیسا ہے؟ اس کا ذکر جسم وجان کی اہمیّت کے بیان میں خود بخود آگیا، تاہم یہاں بھی اس سلسلے کی ایک مثال درج کی جاتی ہے کہ وجودِ انسانی کی تخلیق اور تکمیل کا آغاز اس نطفۂ مخلوط (۷۶: ۰۲) سے ہوتا ہے جو رَحم میں

 

۱۹

 

داخل ہوجاتا ہے، اس میں تقدیم وتاخیر کے فرق و امتیاز کے بغیر روح بھی ہے اور مادّہ (جسم) بھی، اور یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کو بناتی ہوئی ایک ساتھ آگے بڑھتی ہیں، اور یہی حال تخمِ درخت اور بیضۂ مرغ کا بھی ہے کہ بیج میں روحِ بناتی اور انڈے میں روحِ حیوانی پوشیدہ ہے، اس مثال سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ روحانی اور جسمانی وجود ہمیشہ رشتۂ وحدت میں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔

وجود کے رشتہ سے عدم کی کیا حقیقت ہے؟ اور ان دونوں میں سے کون سا مقدم ہے؟ اس سلسلے میں عاجزانہ گزارش یہ ہے کہ عدم(نیستی) دراصل اہلِ تائید کے نزدیک ایسا نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے، یعنی خدا کی بادشاہی میں کہیں عدمِ محض نہیں بلکہ عدم مثال کی غرض سے عالمِ امر کا ایک نام ہے، چونکہ عالمِ امر “ہستیٔ نیستی نما” ہے، یعنی ایسا وجود، جو اپنی ذات میں یا جوہر میں وجود تو ہے مگر وہ عالمِ ابداع ہے، لہٰذا امرِ “کُنۡ” کے بغیر اس کے عقلی، علمی، روحی اور جسمی ظہورات میں سے کوئی ظہور نہیں ہوسکتا، چنانچہ جس طرح مانا جاتا ہے کہ عدمِ محض سے وجود بنا، یہ ایک عام تصوّر ہے اور اس میں وجود وعدم کے ایک طرفہ رشتے کی بات ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، وہ یہ کہ جس طرح ہستی(وجود)نیستی۱؎ سے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۱: یہاں نیستی سے عالمِ امر مراد ہے جو ہستی نیستی نُما ہے۔

 

۲۰

 

ہے، اسی طرح نیستی(عدم) ہستی سے ہے اور اس میں کوئی زمانی تقدیم و تاخیر نہیں، کیونکہ دونوں ایک ساتھ کلمۂ کُنۡ کی طرح قدیم ہیں، مگر ہاں شرف کے لحاظ سے وجودِ عقلی سب سے اوّل ہے، پھر وجودِ روحانی ہے، اور آخر میں وجودِ جسمانی ہے۔

قرآنِ مقدّس کے ایسے ارشادات جو آفرینش سے متعلق ہیں، اور خصوصاً ایسی آیات جو ازواج و اضداد (یعنی دن رات کی طرح جُفت جفت چیزیں) کی تخلیق کے بارے میں ہیں، زبانِ حکمت سے یہ بتاتی ہیں کہ قادرِ مطلق جس طرح اس کی ذاتِ مُنزہ کسی ابتدا وانتہا کے بغیر ہے اسی طرح وہ ہمیشہ ہمیشہ عالمِ خلق اور عالمِ امر کو زمانی مقدم ومُوخر کے بغیر ایک دوسرے سے پیدا کرتا رہتا ہے، جیسے اس آیۂ کریمہ میں یہی حقیقت مذکور ہے:  اور (خدا) وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پید ا کیا، اور جس دن فرماتا ہے کہ کُنۡ ( ہوجا) تو وہ ہو جاتا ہے(۰۶: ۷۳) اس ارشاد میں عالمِ خلق سے عالمِ امر بنانے کا ذکر فرمایا گیا ہے، مگر اس امرِ عظیم کا تعلق انفرادی قیامت اور مشاہدۂ روحانیّت سے ہے، یعنی یہ کام ایسا ہے کہ ہو بھی چکا ہے، ہو بھی رہا ہے اور ہونے والا بھی ہے، کیونکہ یہ ارادۂ الہٰی کی بات ہے۱، جوظاہری وقت سے بالاتر ہے، پس یہاں دوسرے سوال کا جواب مکمل ہوجاتا ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۱: اس سے یہ مراد ہے کہ خدا کا ارادہ زمان ومکان کے تحت نہیں، بلکہ ہر چیز اس کے ارادے کے تحت ہے۔

 

۲۱

 

جواب ۳: اس سوال میں چار باتیں پوچھی گئی ہیں: الف: انسان کے اندر موجود جنسی یا شہوانی خواہش میں کون سی حکمت پوشیدہ ہے؟ ب: بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار میں اس قوّت کی طرف ہمارا کیا رویہ ہونا چاہئے؟ ج: مذہب کی طرف سے عائد شدہ پابندیاں اضافی ہیں یا مطلق؟ د: خصوصاً مغرب کے جنسی بحران میں ایک مومن کا کیا کردار ہونا چاہئے؟

اس باب میں عرض یوں ہے کہ خداوندِ عالم نے انسان کو اشرف المخلوقات اس معنی میں بنایا ہے کہ اس کی ہستی جسم، روح اور عقل کی شرکت سے لاتعداد قوّتوں اور صلاحیتوں کا مجموعہ ہے جن میں سے ہر ایک بہت سی حکمتوں پر مبنی ہے، مگر ہر قوّت اور ہرخواہش کی حکمتوں سے فائدہ اس وقت حاصل ہوجاتا ہے، جبکہ باسعادت مومنین خدا ورسولؐ اور صاحبِ امرؑ کے مقدّس احکام پر کماحقہ عمل کرتے ہیں، اگر ایسا نہ ہو، تو پھر خواہشِ نفس کے اعتبار سے انسان، حیوان، اور مومن و کافر کے درمیان کیا فرق ہوسکتا ہے، غرض یہ کہ ہر ادنیٰ خواہش قانونِ قدرت و فطرت کے مطابق ایک اعلیٰ خواہش کی صورت میں بدل جاتی ہے، جبکہ ہوشمند مومن صبر اور خوفِ خدا سے کام لے کر جادۂ ایمان پر آگے سے آگے بڑھتا ہے۔

بندۂ مومن کی سب سے اعلیٰ صفت قرآن میں پرہیزگاری (تقویٰ) بتائی گئی ہے، اور تقویٰ کی تعریف یہ ہے کہ مُتقی کے ساتھ

 

۲۲

 

اللہ پاک ہے (۰۲: ۱۹۴) متّقی مسلمانوں میں سب سے بڑامعزز ہے(۴۹: ۱۳) متّقی خدا کا دوست ہے(۰۳: ۷۶) متقی کے لئے وہ جنّت تیار ہے جو کائنات پر محیط ہے (۰۳: ۱۳۳) متّقی کی ہر دعا، بندگی، قربانی اور نیکی قبول اور ہر مراد پوری ہوجاتی ہے(۰۵: ۲۷) متّقی قیامت کے دن خدا کا مہمان ہوگا (۱۹: ۸۵) اور ہر متّقی کے لئے  پیغبرؑ، امامؑ، فرقان، نور اور ذکر کی لاتعداد برکتیں حاصل ہیں(۲۱: ۴۸) یہاں یہ نکتہ یاد رہے کہ تقویٰ کا تعلق سب سے پہلے عقائد ونظریات سے اور اس کے بعد اخلاقیات سے ہے، چنانچہ اخلاقی تقویٰ کی حکمت یہ ہے کہ نفس کی ہرنا جائز فرمائش کے خلاف عمل کیا جائے۔

اگرچہ ہر ایسے شخص کو جو پرہیزگار اور نورِ اسلام کا پیرو ہو، جوانی میں حضرت موسیٰؑ کی طرح پیغمبری نہیں مل سکتی ہے، لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کسی بڑی روحانی دولت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نوازنے کا وعدہ فرماتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے، (۲۸: ۱۴) وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ اور جب(موسیٰؑ) بھری جوانی کو پہنچے اور (تحلیلِ نفس سے) درست ہوگئے تو ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا فرمایا اور ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں، اس میں کامل ومکمل روحانیّت عطا کردینے کا اشارہ ہے، اس کُلّیّہ سماوی کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام کامل انسانوں کو خداوند مہربان کے حضور سے

 

۲۳

 

جو کچھ بھی ملا ہے وہ جوانی کی عمر میں ملا ہے، البتہ جوانی میں کوئی بڑا سا راز ہوگا، ہاں بہت عظیم بھید ہے، اور وہ شہوانی خواہش ہے، جس میں حکمت کے کئی پہلو ہیں، اور مختصر یہ کہ وہ آزمائشی چیز ہے، اور یہ اصلاح وتحلیل کے لئے ہے، چنانچہ اس کے وسیلے سے خدا کے دوست حُبِّ دنیا کو حُبِّ مولا بنالیتے ہیں، یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ کوئی بھی بوڑھا آدمی خدا کا عاشق نہیں ہوسکتا ہے بغیر اس کے کہ جوانی میں یہ سعادت حاصل کرے، نہ کوئی بچہ اس شراب سے سرشار ہوسکتا ہے، نہ کوئی مخنث اور نہ ہی کوئی خصی، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ بس یہی ہے کہ بھرپور جوانی میں نفس کی جو شدید خواہش پیدا ہو جاتی ہے، اگر وہ نہ ہو تو نہ صرف روحانی ترقی کے امتحان کا وجود ختم ہوجاتا ہے بلکہ اسی کے ساتھ ساتھ عروج وارتقاء اور عشقِ الہٰی بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔

کسی بھی غیر مسلم ملک کی بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار کو اس کا ذاتی معاملہ سمجھنا اور ر وحِ اسلام کے خلاف اعمال سے خود کو بچانا لازمی ہے، ورنہ سوسائٹی کی فکر میں ہماری اپنی اخلاقی، مذہبی اور روحانی قدریں روبزوال ہوں گی۔

مذہب کے ایسے احکام جن میں کسی ترمیم کی گنجائش نہ ہو وہ مستقل اور اٹل ہیں، اور جیسا کہ قبلاً تفصیل سے بتایا گیا،

 

۲۴

 

اہلِ مغرب کی بہت سی چیزیں ان کی اپنی پیداوار ہیں، حقیقی مومن کو ان سے الگ اور دور رہنا چاہئے۔ والسّلام۔

فقط آپ کا مخلص

نصیرالدّین نصیر ہونزائی

۱۰۔ جنوری ۱۹۸۴ء

 

۲۵

 

مرتبۂ عقل  اور مرکزِ تاویل

 

یہاں سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھ لیا جائے کہ جسم ظاہر ہے، روح باطن اور عقل باطن سے بھی باطن ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں لفظِ “عقل” کا کوئی صیغہ آیا ہے، اس میں باطن کے باطن کا ذکر فرمایا گیا ہے، جیسے سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۰۷) میں باطن کو “سِر” اور باطن کے باطن کو “اخفیٰ” کہا گیا ہے، پس قرآن کی تنزیل عقل سے روح کی طرف اور روح سے جسم کی طرف آئی ہے، اور اس کی تاویل جسم سے روح میں اور روح سے عقل کی جانب بلند ہو جاتی ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ اہلِ تائید قرآن کو پہلے تو ظاہر میں پاتے ہیں، اس کے بعد اپنی روحانیّت میں دیکھتے ہیں، اور پھر آئینۂ عقل (یعنی گوہرِعقل) میں اس کا مشاہدہ کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا گیا ہے:

بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَؕ (۲۹: ۴۹) بلکہ وہ (قرآن) ان لوگوں کے دل میں جن کو علم عطا ہوا ہے روشن معجزات (کی صورت میں )ہے۔ یعنی حضراتِ ائمّۂ

 

۲۶

 

طاہرین صلوات اللہ علیھم کی روح و روحانیّت میں قرآنِ کریم بحیثیتِ معجزاتِ نورانی موجود ہے اور انہی پاک وپاکیزہ ہستیوں کو خدائی علم دیا گیا ہے، اور علم کا سرچشمہ نورِ عقل ہے، چنانچہ بموجبِ حدیثِ شریف قرآنِ پاک امامؑ کے ساتھ ہے اور امامِ عالیمقامؑ قرآن کے ساتھ ہے اور یہ حقیقت تین طرح سے ہے: اوّل یہ کہ مقامِ ظاہر(یعنی اس دنیا) میں کتابِ سماوی اور امامِ برحقؑ کا باہمی رشتہ دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط ہے، اس لئے کہ قرآنِ مقدّس پیغمبرِ خداؐ کی میراث ہے اور امامِ زمانؑ آنحضرت کا وارث ہے(۰۴: ۵۴، ۳۵: ۳۲) دوم یہ کہ مقامِ باطن یعنی روحانیّت میں روحِ قرآن (۴۲: ۵۲) اور نورِ امامت (۰۵: ۱۵) ایک ہے، اور سوم یہ کہ مقامِ عقل پر کتابِ مکنون میں قرآن اور امامؑ کا نور ایک ہے(۵۶: ۷۷ تا ۷۸)۔

سورۂ یوسف (۱۲: ۰۲) اور سورۂ زُخرُف(۴۳: ۰۳) میں جس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے، اس کی تاویل یہ ہے کہ قرآنِ حکیم اگرچہ ظاہراً عربی ہے، لیکن اس کی معجزاتی روح کائنات بھر کی زبانوں میں بولتی ہے اور “لعلّکم تعقَلُوْن” ( تاکہ تم عقلی طور پر سمجھو) کا اشارہ اسی حقیقت کی طرف ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: اِنَّا جَعَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ (۴۳: ۰۳) تحقیق ہم نے اس کو واضح اور فصیح قرآن بنایا ہے تاکہ تم (آسانی

 

۲۷

 

سے) سمجھ لو۔ آپ اگر چاہیں تو مختلف ذرائع سے لفظ “عربی” کے معنوں کی تحقیق کرسکتے ہیں، کہ عربی کے کئی معنی ہیں، مگر آیۂ مذکورہ میں اس کے معنی واضح اور فصیح کے ہیں، جس سے قرآن کا روحانی اور تاویلی پہلو مراد ہے، کہ اس میں انتہائی وضاحت و فصاحت ہوا کرتی ہے، کیونکہ اس کی تمام تر روشنی ہر کامل شخص کی مادری زبان میں ہوا کرتی ہے۔

قرآنِ حکیم میں مرتبۂ عقل کی جس شان سے تعریف و توصیف کی گئی ہے، وہ دو طرح سے ہے، ایک یہ کہ اس میں لفظِ عقل استعمال ہوا ہے،  دوسری یہ کہ اس میں لفظ عقل نہیں آیا ہے، مگر وہ عقل ہی کی تعریف ہے، کیونکہ اس مقصد کے لئے عقل کے مترادفات استعمال ہوئے ہیں، اور وہ بیان غیر محدود ہے اور ان دونوں قسموں میں براہِ راست بھی اور بالواسطہ بھی عقلِ کامل کی نشاندہی کی گئی ہے، اسی طرح تمام قرآن میں نورِعقل کا تذکرہ محیط ہے، کیونکہ قرآن ایک کامل دانا شخص کی طرح ہے جس کے جسم پر روح محیط ہوتی ہے، اور روح پر عقل حاوی ہوا کرتی ہے، اسی طرح الفاظِ قرآن سے معانی زیادہ ہیں اور معانی سے عقلی حکمتیں زیادہ۔

عربی ادب میں عقلِ خالص کو “لُبّ” کہتے ہیں جس کی جمع “الباب” ہے، چنانچہ قرآنِ مقدس کے ۱۶(سولہ) مقامات ایسے  ہیں،

 

۲۸

 

جہاں عظیم الشّان الفاظ میں اولوالالباب (اہلِ دانش یا صاحبانِ عقل )کا ذکرِ جمیل فرمایا گیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًاؕ-وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ (۰۲: ۲۶۹) خدا جس کو چاہے حکمت دیتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی تو اسے خیرِ کثیر مل جاتی ہے اور نصیحت وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔ اس ربّانی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ حکمت کے ملنے سے ساری بھلائی مل جاتی ہے اور حکمت کی وابستگی عقل سے ہے۔

اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ (۳۹: ۱۸) وہ لوگ جو کلامِ (الہٰی) کو کان لگا کر سنتے ہیں، پھر اس کی بہتر(سے بہتر صورت) کی پیروی کرتے ہیں، یہی ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی اور یہی ہیں جو اہلِ عقل ہیں۔ یہاں “احَسُنَہَ”  میں تنزیل کے بعد تاویل کو عمل میں لانے کا اشارہ موجود ہے، کیونکہ اولوالالباب کو عقل ودانش اور علم و حکمت اسی لئے عطا ہوئی ہے کہ انکا قول و فعل بہتر سے بہتر ہو۔

علم میں راسخ (یعنی پختہ کار) اور اولوالالباب أئمّۂ طاھرین صلوات اللہ علیھم ہیں، جیسا کہ سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۰۷) میں ہے:

 

۲۹

 

وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖۙ-كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاۚ-وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ (۰۳: ۰۷) حالانکہ خدا اور ان لوگوں کے سوا جو علم میں بڑے پختہ کار ہیں اس کی تاویل کو کوئی نہیں جانتا وہ لوگ (یہ بھی) کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے(یہ) سب (محکم ہویامتشا بہ) ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے اور عقل والے ہی سمجھتے ہیں۔

سورۂ انبیآء(۲۱: ۱۰۴) میں یہ ذکر فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے روز خداوندِ عالم جملۂ کائنات کو اس طرح لپیٹ لے گا جس طرح لکھے ہوئے مضمون کا کاغذ لپیٹ لیا جاتا ہے، مگر اس میں ایک سوال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی کام مستقبل سے متعلق کیونکر ہوسکتا ہے، جب کہ اس کا ہر امر وقوع میں آچکا ہے(۳۳: ۳۷) اور اس کی سُنت جس میں خدا کا ہرہر کام داخل ہے، اس کے خاص بندوں میں گزر چکی ہے(۴۰: ۸۵)لیکن ہاں، اس کی وجہ ہے اور وہ یہ کہ یہاں خدا تعالیٰ کا فعل جس طرح صیغۂ مستقبل میں آیا ہے، وہ اللہ کی نسبت سے ہرگز نہیں بلکہ لوگوں کی نسبت سے ہے، کہ وہ اللہ کے اس کام کو جو ازل میں واقع ہوچکا ہے آگے چل کر یعنی مستقبل میں اس طرح دیکھیں گے جیسے ان کے سامنے ابھی ابھی وقوع پذیر

 

۳۰

 

ہورہا ہو۔

جب آدمی کائناتِ ظاہر کو دیکھتا ہے تو اسے آسمان وزمین کی تمام چیزیں منتشر، دور اور رسائی سے باہر نظر آتی ہیں، جب وہ اپنے آپ کو پہچاننے لگتا ہے یا جب اپنی شخصی دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے، تو اس وقت اس کے پیشِ نظر عالمِ صغیر میں عالمِ کبیر سمٹ سمٹ کر محدود ہوجاتا ہے اور جب وہ وہاں سے عالمِ عقل کی طرف عروج کرجاتا ہے تو اس حال میں عالمِ صغیر سراسر بصورتِ دُرِّ یتیم لپیٹ لیا جاتا ہے، مگر یہ عظیم واقعہ مادّی طور پر نہیں بلکہ روحانی، علمی اور عقلی طور پر پیش آتا ہے، کیونکہ جسمانی حال میں یہ بات قانونِ فطرت کے خلاف اور محال ہے کہ عالمِ جسمانی سُکڑ سُکڑ کر مُٹھی بھر ہوجائے۔

جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام طُوٰی کی  پاک وادی میں پہنچ گئے، تو خداوندِ عالم نے فرمایا کہ اے موسیٰؑ میں تمہارا ربّ ہوں، پس تم اپنی جوتیاں اتار ڈالو(کیونکہ)تم اب طوٰی کے مقدّس میدان میں ہو(۲۰: ۱۲) اس کی تاویل یہ ہے کہ وہ وادیٔ عقل تھی، جس میں ان کے لئے تمام مسافتیں لپیٹ دی گئیں، اور جوتیوں کو اتارنے کا ایک اشارہ یہ ہے کہ وہاں پر روحانی سفر ختم ہوگیا، اگرچہ لفظِ طُوٰی کے معنی میں قدرے اختلاف ہے لیکن تاویلی حکمت کی روشنی میں دیکھنے سے درست اندازہ ہو

 

۳۱

 

جاتا ہے کہ اس کے کون سے معنی صحیح ہیں، چنانچہ قرآنِ پاک کے چار مقامات پر مادّۂ ط وی کے پانچ الفاط آئے ہیں، وہ  یہ ہیں:  نطوی(۲۱: ۱۰۴) کطّی(۲۱: ۱۰۴) طُوٰی(۲۰: ۱۲) طُوٰی(۷۹: ۱۶) مطویّات(۳۹: ۶۷) پس ظاہر ہے کہ ان لفظوں کا لغوی مطلب ایک ہی ہے اور وہ لپیٹنا اور مسافتوں کو ختم کردینا ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت بیکران سے کائناتِ ظاہر و باطن کی اشیاء کے حقائق معارف کو لُولُوے مکنون میں متحد و یکجا کردیتا ہے، جیسا کہ اس کا فرمان ہے وَالْأَرْضُ جَمِیْعاً قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّماوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہِ ؛ (۳۹: ۶۷) اور قیامت کے دن ساری زمین اس کی مُٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ اس نوعیت کے ارشاداتِ ربّانی میں مرتبۂ عقلِ کامل اور مرکزِ تاویل کا ذکر ہوتا ہے، چونکہ ذاتِ سبحان ہاتھ اور جسم کے تصوّر سے پاک و برتر ہے، لہٰذا یہ کام بحکمِ خدا وہ کامل انسان انجام دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے افعال و اوصاف کا مظہر، اس کا خلیفہ، نورِ نبیؐ، روحِ قرآن اور ولّیٔ امر ہے، اور امر کا اصل مقام بھی یہی ہے۔

یہاں یہ بنیادی قانون بھی قابلِ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ فاعل باالذّات نہیں، بلکہ وہ فاعل بالواسطہ ہے، کیونکہ وہ

 

۳۲

 

بادشاہِ مطلق ہے، مثال کے طور پر کسی بڑے بادشاہ کی عزّت و عظمت اس بات میں نہیں کہ وہ ہر کام کو بذاتِ خود انجام دیتا ہے، بلکہ اس کے بادشاہ ہونے کے صحیح معنی ہی یہ ہیں کہ اس کی سلطنت کے تمام امور اس کے حکم اور منشاء کے مطابق نمائندگی یا خادمی کی صورت میں انجام پذیر ہوجاتے ہیں، مگر ہرقابلِ تعریف فعل آخر میں جاکر بادشاہ سے منسوب ہوجاتا ہے، کیونکہ ارادہ یا حکم یا منصوبہ اُسی کا تھا، اس مثال سے (ان شاء اللہ تعالیٰ) مومنینِ بایقین حقیقی بادشاہ کے قانون کو سمجھ سکتے ہیں۔

حدیثِ نبویؐ کا ارشاد ہے کہ: “اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو اپنی مخلوق کی مثال پر بنایا تا کہ خلق سے دین کی اور دین سے اس کی وحدانیت کی دلیل لی جائے۔” چنانچہ خلقِ سے دین کا استدلال یوں ہے کہ جس طرح دنیا کی کوئی قوم یا کوئی ملک کسی سربراہ، یعنی بادشاہ یا صدر وغیرہ کے سوا ترقی و کمال کے مراحل کو طے نہیں کرسکتا ہے، اسی طرح دین کی ہدایت و رہنمائی اور عروج وارتقاء اُس کامل انسان کی موجودگی کے بغیر ناممکن ہے، جس کو خدا ورسولؑ نے دین میں امام بنایا ہو اور ایسے شخص کے پاس خدا کی طرف سے عقلِ کلّ کا نور ہونا چاہئے کیونکہ نورِ عقل کے بغیر دینی ہدایت کا کوئی تصوّر ہی نہیں ہوسکتا، جس طرح دنیوی عقلمندی کے سوا ظاہری حکومت چل نہیں سکتی

 

۳۳

 

ہے، اس سے ظاہر ہے کہ دین میں سب سے عظیم واعلیٰ چیز نور عقل ہے اور کائنات و موجوداتِ ظاہر وباطن کی تمام مادّی، روحانی، علمی اور عقلی اقدار اس گوہرِ یکتا میں جمع ہیں، جس طرح تخمِ درخت میں درخت کی گوناگون قوّتیں جمع بھی ہوجاتی ہیں اور ایک پودے کو اگا کر اس میں پھیل بھی جاتی ہیں۔

حقیقی علم نورِعقل کی روشنی ہے، جس کے بغیر قرآنی مثالوں کو سمجھنا محال ہے، جیسا کہ سورۂ عنکبوت(۲۹: ۴۳) میں ارشاد ہوا ہے: وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا إِلَّا الْعَالِمُون۔ اور ہم ان (قرآنی) مثالوں کو لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں، اور ان مثالوں کو بس علم والے ہی جانتے ہیں، یہ ربّانی علماء أئمّۂ آلِ محمدؐ ہیں، جن کی ذاتِ بابرکات میں سرچشمۂ نورِعقل موجود ہے، یعنی ہرزمانے میں ایک طرف ناس(لوگ) ہیں، اور دوسری طرف خدا کی کتاب (قرآن) اور ربّانی عالم جو امامِ وقت ہے، جس طرح زمانۂ نبوّت میں کتابِ سماوی کے ساتھ معلّمِ ربانیؐ بھی تھے، اسی طرح ہمیشہ قرآنی علم و حکمت کا وسیلہ مہیا ہے، کیونکہ نورِ خداوندی جو نورِعقل ہے، وہ کبھی بجھتا نہیں، وہ ہر وقت بیدریغ روشنی بکھیر رہا ہے۔

قرآنِ حکیم سرتا سر عقلی مثالوں سے مملو(بھرا ہوا) ہے،

 

۳۴

 

جس کی وجہ یہ ہے کہ قرآنِ پاک نورِعقل کی بلندی سے نازل ہوا ہے، وہ بلند مقام عقلی تمثیلات کا سرچشمہ ہے، اور عقل کا دوسرا نام قلمِ الہٰی ہے، چنانچہ یہ مثالیں وہی شخصِ کامل جانتا ہے جس کو خداوند عالم نے عقلِ کامل کا نور عطا کردیا ہے اور ایسا شخص زمانے کا امام ہے، جو وارثِ رسولؐ اور خلیفۂ خدا ہے۔

قرآن کی مثالوں سے متشابہات مراد ہیں، جو قرآنِ مقدّس کا مشکل ترین حصہ ہیں، اور جو شخص مثالوں کو جانتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ممثولات کو جانتا ہے اور ممثول تاویل کا دوسرا نام ہے، چنانچہ آیۂ مذکورہ میں جس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے، اس سے یہ حقیقت صاف و روشن ہوجاتی ہے کہ أئمّۂ برحق صلوات اللہ علیہم قرآنی تاویل کو جانتے ہیں، اور یہ آیۂ مبارکہ “راسخون فی العلم” کی تشریح وتصدیق ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے:  وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہُ إِلاَّ اللّہُ وَالرَّاسِخُونَ فِیْ الْعِلْم  (۰۳: ۰۷)حالانکہ خدا اور ان لوگوں کے سوا جو علم میں بڑے پختہ کار ہیں اس کی تاویل کو کوئی نہیں جانتا۔

نورِعقل ہمیشہ عقلی حرکت میں ہے، وہ آسمانوں اور زمین کی تمام علمی مثالوں کا مظاہرہ کرتا ہے، اس معنیٰ میں وہ “اَلْمَثَلُ اَلْاَعْلیٰ” ہے(۱۶: ۶۰، ۳۰: ۲۷) وہ عالمِ عقل کہلاتا ہے، جو عالمِ روحانی پر محیط ہے، اگر چہ عقلی دنیا کا پھیلاؤ، اجزاء اور تمام چیزیں

 

۳۵

 

گوہرِ فرد میں جمع اور دستِ قدرت میں محدود ہیں، پھر بھی وہ عالمِ عقل ہی ہے، چنانچہ نہ صرف مثالیں بلکہ قرآن کی ہر ہر چیز عالمِ عقل سے آئی ہے، پس عمل تاویل کی بنیاد اسی اصول پر قائم ہے کہ نورِعقل کی روشنی میں قرآنی حکمتوں کا مطالعہ کیا جائے۔

جس طرح جزوی عقل کا وجود عام انسان سے باہر نہیں بن سکتا، اسی طرح کُلّی عقل انسانِ کامل کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے، اور جہاں سب سے بڑی عقل کو فرشتہ کہاجاتا ہے، وہاں بھی انسانِ کامل ہی کی لطیف ہستی موجود ہے، کیونکہ  انسان ہی روحانی ترقی کے بعد فرشتہ کہلاتا ہے، کیونکہ جو فرشتے نیک خیالات کی حیثیت میں ہوتے ہیں، وہ بھی انسان سے پیدا کئے جاتے ہیں، جو ملائکہ ذرّات کی طرح ہیں وہ بھی، اور جو جلالی فرشتے ہیں، وہ بھی انسانوں سے بنائے جاتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ جنّات، شیاطین اور ہر قسم کی روحیں بھی انسانوں سے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص کے اعمالِ نیک وبد کا وزن کیا جائے گا، اور اس موضوع سے متعلق ایک آیۂ کریمہ یہ ہے:  فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہُ، فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ  (۱۰۱: ۰۶ تا ۰۷)پھر(وزنِ اعمال کے بعد) جس کا پلہ بھاری ہوگا وہ حسبِ دلخواہ عیش میں ہوگا، لیکن سوال ہے

 

۳۶

 

کہ وزن کی کیا کیفیت ہوگی؟ کیونکہ اعمال مادّی اشیاء کی طرح وزن نہیں رکھتے ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ بندوں کے اعمال کو  ترازوئے عقل میں تولا جائے گا، جس میں بدی کا کوئی وزن نہیں ہوگا، اور نہ ہی ایسے کسی عمل میں وزن ہوگا جو علم وحکمت کے بغیر ہو، کیونکہ ساری بھلائی حکمت میں ہے (۰۲: ۲۶۹) چنانچہ جو اعمال نورِ عقل کی روشنی میں کئے گئے ہوں، ان میں وزن ہوگا، اور انہی سے مومنین کا پلہ بھاری ہوگا۔

اس دنیا میں ہر دانشمند جب بھی کسی معاملے کے نفع و فقصان پر غور کرتا ہے یا کسی چیز کی بھلائی اور برائی پر تبصرہ کرتا ہے تو اس میں وہ عقل ہی کی ترازو یا کسوٹی(معیار) بناتا ہے، اور اسی سے افکار و خیالات کا عقلی وزن کرتا ہے۔

میزانِ عقل یا ترازوئے حقائق عقلی آسمان کی بلندی پر بھی ہے(۵۵: ۰۷ تا ۰۹) نیز وہ آسمانی کتاب کے ساتھ ساتھ نازل بھی ہوئی ہے، تاکہ عقل ودانش اور علم وحکمت کی چیزوں کا وزن کیا جائے، متعلقہ آیۂ مبارکہ یہ ہے: لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط (۵۷: ۲۵) تحقیق ہم نے اپنے پیغمبروں کو بھیجا اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور ترازو(ئے عقل) کو نازل کیا تاکہ لوگ

 

۳۷

 

عدل پر قائم رہیں، یہاں الکتاب سے اساسؑ مراد ہے، میزان کی تاویل امامِ زمانؑ ہے، جو ترازوئے عقل وعدل ہے، اور ناس (لوگ) جو اس ترازو سے کام لیتے ہیں حُجج(حجتان) ہیں۔

حضرت امام محمد الباقر علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: لمّا خلق اللّٰہ؛ العقل استنطقہ ثمّہ قال لہ: أ قبل فأقبل ثمّہ قال لہ: أدبر فأدبر ثمّہ قال: وعِزّتی وجلالی ماخلقتُ خلقاً ھُوَ احبّ اِلّیَ منک ولا أکملتُک الّا فیمن اُحِبّ، أمّا اِنّی ایّاک آمر وایّاک أنھی وایّاک اُعاقب وایّاک اُثیب۔ جب اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا تو اُس سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ: آگے آ، سو وہ آگے آئی، پھر ارشاد ہوا کہ: پیچھے جا، تو پیچھے گئی، پھر خدا نے ارشاد فرمایا کہ میری عزّت وبزرگی کی قسم! کہ میں نے کوئی ایسی مخلوق نہیں بنائی جو تجھ سے بڑھ کر مجھے محبوب ہو، نہ میں تجھ کو(ہرکسی میں)مکمل کردیتا ہوں مگر ایسے شخص میں جس کو میں محبوب رکھتا ہوں، پس میں تیرے ہی توسط سے امر کرنے والا ہوں، تیرے ہی توسط سے نہی کرنے والا ہوں، تیرے ہی توسط سے عذاب ہوگا اور تیرے ہی توسط سے ثواب ہوگا۔

اس مبارک ارشاد میں کئی اساسی سوالات کے لئے

 

۳۸

 

جوابات مہیا ہیں، مگر اس میں سوچنے کی ضرورت ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ یہ عقلِ کامل یعنی عقلِ کُلّ کا ذکر ہے، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ انسانِ کامل سے وابستہ ہے، اس کے  بغیر اس کا کوئی کمال نہیں، اور نہ ہی عقلِ کلّ کے لئے کوئی زمانی اوّلیت ہے، کیونکہ حدیثِ مذکورۂ بالا میں جیسا ارشاد  ہوا ہے وہ ہمیشہ کی بات ہے جو انسانِ کامل سے “عالمِ شخصی”  میں ہوا کرتی ہے۔

نصیرالدین نصیر ہونزا ئی

۱۷، جنوری  ۱۹۸۴ء

 

۳۹

 

قرآن میں تصوّرِ “ید اللہ”

 

بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم۔ حضراتِ اہلِ علم اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ یَدُ اللہ یعنی دستِ خدا کا ذکر قرآنِ حکیم کی بہت سی آیات میں موجود ہے، اور اس سلسلے میں یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسی آیاتِ کریمہ جو یَدُاللہ کے بارے میں ہیں۔ وہ سب کی سب مُتَشَابِھات میں سے ہیں، جن کی تاویل کے بغیر اصل مطلب واضح نہیں ہوسکتا، لیکن خداوندِ مہربان نے اہلِ بصیرت کے لئے اس حکمت آگین مثال کے ممثول (تاویل) کو بیان فرماتے ہوئے اس جیسی دوسری بہت سی مخفی حقیقتوں پر بھی روشنی ڈالی ہے اور وہ خاص آیت جس سے ربّانی تاویل کا نور جھلک رہا ہے، اور جو “یَدُ اللہ” کے قرآنی موضوع میں بنیادی اور کلیدی اہمیت کی حامل ہے، وہ درجِ ذیل ہے:

إِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُونَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُونَ اللَّہَ یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْدِیْہِم (۴۸: ۱۰، اے رسولؐ) تحقیق جو

 

۴۰

 

لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں سوائے اس کے نہیں کہ وہ (دراصل) اللہ سے بیعت کرتے ہیں خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے، ربِّ کریم کے اس مقدّس ارشاد اور اس بے نظیر تاویل سے یہ حقیقتِ پائندہ روشن ہوجاتی ہے کہ خلیفہ اور نمائندۂ خدا کی حیثیت سے رسولِ اکرمؐ کا دستِ مبارک نہ صرف مومنین سے ظاہری بیعت لینے میں دستِ خدا ہے بلکہ اسی قانونِ خلافت و نیابت کے مطابق آنحضرتؐ اور آپؐ کے جانشینؑ کا پاک ہاتھ ہر اُس فعل میں دستِ خدا ہے، جو ظاہراً یا باطناً خدا کے ہاتھ سے انجام پاتا ہے، کیونکہ اس مثال کے برعکس اللہ تعالیٰ کی ذات کے ہاتھ پاؤں کا کوئی تصوّر ممکن نہیں۔

اس آیۂ مبارکہ میں جو اساسی حکمتوں سے مملو( بھری ہوئی) ہے”اِنَّ” کلمۂ تحقیق بھی ہے اور حرفِ تاکید بھی، اور “انما” کلمۂ حصر ہے، جس کا مفہوم ومنشاء یہ ہے کہ دستِ خدا کے لئے اقرار اور اُس پر بیعت کرنے کی بس یہی ایک صورت ہے کہ نمائندۂ خدا اور ھادیٔ زمانؑ کے مبارک ہاتھ پر بیعت کی جائے، اور سوائے اس کے دوسرا کوئی طریقہ نہیں، یہ “اِنّما” کی تاویلی حکمت ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ “بیعت” ایک دینی اصطلاح ہے، جو اطاعت و

 

۴۱

 

فرمانبرداری کے عہد وپیمان کو کہا جاتا ہے، مگر اس کی تاویل اصل لفظ میں پوشیدہ ہے اور تاویل کا اصل یہی ہے، چنانچہ بیعت کے لغوی معنی “بیع” میں محفوظ ہیں، اور وہ معنی ہیں خرید وفروخت، لین دین، بیچنا، خریدنا، سو زمانۂ نبوّت میں حضورِ انورؐ کے دستِ اقدس پر اور دورِ امامت میں امامِ زمانؑ کے مبارک ہاتھ پر بیعت کرنے کی تاویل یہ ہے کہ مومنوں نے گویا جان و مال کو خداوند تعالیٰ کے ہاتھ میں فروخت کردیا، اور اسی بابرکت ہاتھ کے توسط سے جنت کو خرید لیا، جیسا کہ اسی سلسلے میں “آیت سے آیت کی تفسیر” کے اصول پر فرمایا گیا ہے:

إِنَّ اللّہَ اشْتَرَی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُم بِأَنَّ لَہُمُ الجَنَّۃَ (۰۹: ۱۱۱) بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔ سویہ آیۂ مبارکہ آیۂ بیعت کی تفسیر وتاویل ہے، اور یہ اُخروی خرید و فروخت یا لین دین جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ اور اس کے مومن بندوں کے درمیان ہوا کرتا ہے، صرف اسی دستِ خدا کے وسیلہ سے ہوسکتا ہے، جس کے بغیر کسی شخص کا ایسا سودا نہ کبھی ہوسکتا ہے او ر نہ ہی لائقِ قبول ہے اس کی عملی مثال جہاد اور زکوٰۃ ہیں، جو مذکورہ سودے کے دو ایسے نمایان نمونے ہیں، جو پیغمبرِ خداؐ اور ولّیٔ امرؑ کے

 

۴۲

 

دائرۂ اِطاعت سے باہر ان کی کوئی مقبول صورت نہیں بن سکتی ہے۔

اس بارے میں سورۂ مائدہ (۰۵: ۶۴) کے ایک ارشاد کا ترجمہ بھی پیشِ نظر ہو، اور وہ یہ ہے: اور یہود نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بند ہوگیا ہے ان ہی کے ہاتھ بند ہیں اور اپنے اس کہنے سے یہ رحمت سے دور کردیئے گئے، بلکہ خدا کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے(۰۵: ۶۴) اس کی تاویل یہ ہے کہ یہود نے یہ گستاخی آنحضرتؐ کی شان میں کی اور انہوں نے اپنی جہالت ونادانی اور کور باطنی کی وجہ سے حضورؐ کو جو دستِ خدا تھے، مفلس یعنی بے علم قرار دیا، اور اسی معنیٰ میں انہوں نے خدا کے ہاتھ کو علمی خزانوں کے خرچ کرنے سے قاصر سمجھا، جس کے نتیجے میں وہ خود جاہل اور علم کی دولت سے محروم ومفلس رہ گئے اور سرچشمۂ رحمت سے دور ہوگئے۔

اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ عالمِ روحانی میں عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ہیں، اور عالمِ جسمانی میں ناطقؑ اور اساسؑ ہیں، اور دورِ امامت میں یہ درجہ اساسؑ اور امامؑ کو حاصل ہے، اسی طرح خدا کے دونوں مقدّس ہاتھ علم وحکمت کے عطا کردینے میں کشادہ ہیں اور اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتا ہے اپنے مبارک ہاتھ

 

۴۳

 

سے عقلی اور علمی جواہر عنایت کردیتا ہے۔

خدا کے دونوں ہاتھ سے نورِ نبوّت اور نورِ امامت مراد ہے، جو حقیقت میں ایک ہی نور ہے، جس طرح دونوں ہاتھ فعل اور اس کے مقصد میں ایک ہوتے ہیں، کیونکہ خدائے واحد کے نور کو ایک ماننا حقیقت ہے، اور دوکہنا مجاز اور مثال ہے اگر کوئی شخص اس حکمت کو نہیں سمجھتا ہے تو اسے سخت حیرت ہو سکتی ہے، حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی پاک و پُرحکمت عادت ہے کہ وہ دانا وبینا اپنے نورِ مقدّس کی حقیقت سمجھانے کے لئے طرح طرح کی مثالیں بیان فرماتا ہے(۱۷: ۸۹، ۱۸: ۵۴) جیسے ارشاد ہے:

اللَّہُ نُورُ السَّمَاوَات وَالْأَرْضِ (۲۴: ۳۵)خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے،  مَثَلُ نُورِہِ کَمِشْکَاۃٍ فِیْہَا مِصْبَاح (۲۴: ۳۵) اس کے نور کی مثال ایک طاق کی طرح ہے جس میں ایک چراغ روشن ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نورِ خداوندی کائنات وموجودات پر محیط بھی ہے اور اپنی خاص جگہ پر مرکوز بھی، یہی مثال خدا کے دونوں ہاتھ کی بھی ہے کہ وہ کسی نارسائی کے بغیر کلّی طور پر مبسوط (کھُلے ۰۵: ۶۴) ہیں، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دستِ خدا تمام اشیائے ظاہروباطن پر بسیط ومحیط ہے، پس جاننا چاہئے کہ نورِ خدا اور دستِ خدا ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔

 

۴۴

 

آیۂ نور (۲۴: ۳۵) کے  واضح مفہوم کے مطابق یہ کہنا حقیقت ہے کہ آسمان وزمین کی جملہ اشیاء خدائی نور کے سمندر میں ڈوبی ہوئی ہیں، اسی امرِ واقعی کی ایک عقلی، روحانی اور عملی نمونہ یہ ہے کہ مقامِ عین الیقین پر(جس کا دوسرا نام قیامت ہے)ساری کائنات اللہ پاک کی مُٹھی میں ہے(۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷)۔

یہاں چند بڑے اہم قرآنی کلّیات کی جانب توجہ دلانے کی خاطر یہ سوال کرنا بے جا نہ ہوگا کہ آیا ہر چیز امامِ مبین میں محدود نہیں (۳۶: ۱۲)؟ کیا تمام چیزیں ایک کتاب میں جمع نہیں(۷۸: ۲۹)؟ کیا قرآنِ پاک میں کل چیزوں کے خزائن کا تصوّر نہیں (۱۵: ۲۱)؟  کیا قرآن میں یہ ارشاد نہیں کہ خدا کی کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے(۰۲: ۲۵۵)؟ آیا پروردگار نے ہرہر چیز(یعنی کائنات وموجودات) کو رحمت اور پھر علم کے گھیرے میں نہیں رکھا ہے(۴۰: ۰۷)؟ کیا یہ ایک مسلمہ حقیقت نہیں کہ ہر شی لوحِ محفوظ میں ہے اور خدا نے ہر چیز کو احاطۂ علم میں محدود کیا ہے۔ (۶۵: ۱۲)؟

اس سوال یا ان سوالات کا مشترکہ اور واحد جواب یہ ہے کہ ہاں، کیوں نہیں، یقیناً یہ قرآنی تعلیمات ہیں، اور ان میں ذرہ بھر شک نہیں، مگر اس اقرار کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یہ اسماء وامثال جس طرح ظاہر میں الگ الگ ہیں، اسی طرح ان کے ممثولات(حقائق) بھی باطن اور مقامِ وحدت پر جداجدا ہوں، بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ

 

۴۵

 

اصل میں یہ نورِ واحد ہی ہے، جس کی بہت سی مثالیں دی گئی ہیں، جس طرح ذاتِ سبحان ایک ہے، مگر اس کے بہت سے اسماء و صفات ہیں، قرآنِ پاک ایک ہے، لیکن اس کے کئی نام ہیں اور حضورِ انورؐ کی ذاتِ بابرکات ایک تھی مگر آپؐ کے مبارک نام اور اوصاف کثیر ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ کسی شیٔ کے ناموں کی کثرت اس کی ذات کی وحدت کو متفرق نہیں کرسکتی ہے۔

اس مقام پر ایک اور سوال یہ ہے کہ قیامت کے دن یعنی مقامِ روحانیّت میں اللہ تعالیٰ جملہ کائنات کو لپیٹ کر مُٹھی میں کیوں لیتا ہے اور اس میں کیا حکمت ہے؟ اس حال میں کائنات کی شکل و صورت کیا ہوگی؟ اور اجزائے عالم کے اعداد و شمار کا کیا حشر ہوگا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ عقلی اور عملی قیامت ہے، اس میں خدا کی خدائی کی لاانتہا حکمتوں کا سلسلہ چلتا ہے، اس لئے کوئی شخص ان کو شمار نہیں کرسکتا، کائنات کی شکل وصورت ایک بے مثال گوہر کی سی ہوگی، جو قبضۂ قدرت میں ہوگا، اجزائے عالم اور کثیر چیزوں کے اعداد اس گوہرِ واحد میں فنا ہو جائیں گے، جیسے قولِ قرآن ہے:

وَأَحْصَی کُلَّ شَیْءٍ عَدَداً (۷۲: ۲۸) اور اُس نے ہر چیز کو شمار میں گن لیا۔ تاویل: اور خدا نے تمام چیزوں(یعنی کائنات

 

۴۶

 

اور اس کی ہر چیز) کو گوہرِ واحد بنا کر گِن لیا، یعنی خدائے برتر کے ہاں چیزوں کا شمار کرنا اس طرح ہے کہ وہ ان کو گوہرِ فرد میں گنتا ہے، یاد رہے کہ “اَحْصیٰ” کے اصل معنی میں گوہر کی تاویل پوشیدہ ہے۔

اس باب میں ایک اور آیۂ کریمہ یہ ہے: لقد احصٰھُم وَعَدَّہُمْ عَدّاً (۱۹: ۹۴) اُس نے اُن کو گھیر لیا ہے اور گِن لیا ہے جیسا کہ گننا ہے، تاویل: تحقیق اُس نے سب کو عالمِ علوی میں گوہر بنا رکھا ہے اور ان کو اسی گوہرِ واحد میں شمار کر رکھا ہے، جیسا کہ شمار کرنے کا حق ہے۔ آپ اس پُرحکمت آیت میں سوچیں، جو مذکورہ آیت سے مربوط ہے: وَکُلُّہُمْ آتِیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْداً (۱۹: ۹۵) اور قیامت کے روز سب کے سب اس کے پاس ایک تنہا شخص (بن کر) حاضر ہوں گے۔ جیسے ارشاد ہے: مَّا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ إِلَّا کَنَفْسٍ وَاحِدَۃٍ (۳۱: ۲۸) تم سب کا پیدا کرنا اور (مرنے کے بعد)زندہ کرنا ایسا ہے جیسا ایک شخص کا۔

پروردگارِ عالم کے مبارک ہاتھ میں جو انمول شیٔ ہے اس کا ایک نام فضل ہے (۰۳: ۷۳، ۵۷: ۲۹) قرآنِ حکیم میں کئی جامعِ جوامع الفاظ ہیں، اُن میں سے ایک فضل ہے، جس میں سب کچھ ہے، اسی قسم کا دوسرا لفظ خیر ہے(۰۳: ۲۶) خیر خدا کے ہاتھ میں ہے، اس میں ساری خیرات (خوبیاں اور نیکیاں) جمع ہیں، فضل ہی کا دوسرا

 

۴۷

 

نام خیر ہے، تیسرا نام مُلک (بادشاہی ۶۷: ۰۱)ہے، یعنی روحانی اور اُخروی سلطنت، جو خدا کے ہاتھ سے عطا کردینے کے معنی میں ہے، چوتھا نام ملکوتِ اشیاء ہے(۳۶: ۸۳) یعنی تمام چیزوں کی عقل وجان کا عالم، جو قبضۂ قدرت میں ہے، پانچواں نام حکمت ہے، اور چھٹا نام نورِ عقل ہے، اور اسی طرح اُس گوہرِ گرانمایہ کے بے شمار نام ہیں۔

خدائے بے نیاز وبرتر بادشاہ اور امر کا مالک ہے، فاعل بالذات نہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ہروہ کام جس کا تعلق ہاتھ سے ہو اسی یدُاللہ سے انجام پاتا ہے جس کا یہاں ذکر ہوا جیسا کہ قرآنِ مقدّس کا واضح مفہوم ہے کہ آنحضرتؐ کا مومنین سے صدقہ لینا، اللہ کا صدقہ لینا ہے(۰۹: ۱۰۳ تا ۱۰۴) حضورؐکا اہلِ ایمان کو پاک وپاکیزہ کرنا خدا کا پاک وپاکیزہ کرنا ہے(۰۹: ۱۰۳، ۲۴: ۲۱) رسولؐ کی طرف سے صلوات پانا خدا اور ملائکہ کی طرف سے صلوات ہے(۰۹: ۱۰۳، ۳۳: ۴۳) آپ علیہ الصّلات والسّلام کا پھینکنا خدا کا پھینکنا ہے (۰۸: ۱۷) پیغمبر کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے (۰۴: ۸۰) اور امامِ زمانؑ کی اطاعت رسولؐ اور خدا کی اطاعت ہے(۰۴: ۵۹) اور اطاعت دین کے ہر ہر امر پر عمل کرنے کا نام ہے۔ وماتوفیقٓی اِلاّ باللّٰہ۔

نصیرُالدین نصیرہونزائی

۲۴، جنوری ۱۹۸۴ء

 

۴۸

 

قرآنی پہاڑ اور جواہر

 

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم۔ جس طرح اس مادّی دنیا کے پہاڑوں کے سینوں میں دُنیوی جواہر پوشیدہ ہوتے ہیں، اسی طرح قرآنی اور روحانی پہاڑوں کے باطن میں دینی جواہر مخفی ہوا کرتے ہیں، قرآنی پہاڑوں سے ایسے پہاڑ مراد ہیں جن کا ذکر قرآنِ حکیم میں موجود ہے، اور وہ دراصل دین اور روحانیّت کے پہاڑ ہیں، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:

فَلَمَّا تَجَلَّی رَبُّہُ لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکّاً وَخَرَّ موسَی صَعِقا (۰۷: ۱۴۳) پس جب اُس کے ربّ نے پہاڑ پر تجلّی فرمائی (تو تجلی نے) اُس کو ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰؑ بیہوش ہوکر گر پڑا۔ کلامِ الہٰی کا ہر ہر لفظ بہت سے معنوں پر محیط ہوتا ہے اور یہاں یہ بھی جاننا چاہئے کہ شخصِ کامل کی روحانی زندگی تجلّیاتِ روحی و عقلی کا ایک سلسلہ ہواکرتی ہے، تاہم ان تجلّیوں کے دو مرکز ہیں، مرکزِ روح اور مرکزِعقل، چنانچہ پہلے

 

۴۹

 

نورِ خداوندی کا ظہور جبلِ روح پر ہوا اور روحِ منجمد کو ریزہ ریزہ کردیا، اور اس کے بعد وقت آنے پر اسی نور نے جبلِ عقل کو ریزہ ریزہ کردیا، عقل تقسیم نہیں ہوتی ہے، اس لئے اس کا ریزہ ریزہ ہوجانا یوں ہے کہ وہ واحد ہونے کے باؤجود کثرت کی ہر طرح سے نمائندگی کرسکتی ہے، اور دونوں مقام پر حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کو بیحد حیرت ہوئی، اور اسی حیرت کی تشبیہہ بے ہوشی سے دی گئی ہے، آپ اس بات کو نہ بھولیں کہ قرآن نے یہاں اپنی حکیمانہ عادت کے مطابق ظہورِ روحی اور ظہورِ عقلی کا ایک ساتھ ذکر کردیا ہے، نیز یہ بھی یاد رہے کہ جب دنیا کے کسی پہاڑ میں زلزلہ(بھونچال)آتا ہے یا کوہِ آتش فشان پھٹ جاتا ہے، تو اس حال میں پہاڑ کے کسی حصّے کا ریزہ ریزہ ہوجانا اس کا ضائع ہوجانا ہے، اس کے برعکس روح کے  پہاڑ کا ریزہ ریزہ ہوجانا باعثِ رحمت ہے، کہ اس میں مثال کے طور پر ایک روح سے سب ارواح بن جاتی ہیں، اور اسی طرح عالمِ شخصی آباد ہوجاتا ہے، اور یہی مثال جبلِ عقل کی بھی ہے، کہ ایک عقل سے تمام عقول کی نمائندگی ہوجاتی ہے۔

قرآنِ پاک اس حقیقت کی طرف بار بار توجہ دلاتا ہے، کہ کوئی چیز جوڑی کے بغیر نہیں، چنانچہ ایک ظاہری پہاڑ ہے جو مثال ہے ااور دوسراباطنی پہاڑ، جو ممثول ہے، اور جس طرح ظاہر میں دو

 

۵۰

 

قسم کے پہاڑ ہوا کرتے ہیں، ایک وہ جن سے  مُقابلۃً  فائدہ کم ہے، اور دوسرے وہ جو بہت مفید ہوتے ہیں، اسی طرح باطن میں بھی دو قسم کے پہاڑ ہیں، روحی اور عقلی، اور سب جانتے ہیں کہ جسم سے روح بدرجہا بہتر ہے، اور روح سے عقل بہت اعلیٰ ہے۔

پہاڑ کی ایک تاویل حجت ہے، جیسے سورۂ بقرہ کی آیت ۲۶۰ میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے فرمایا گیا ہے کہ چار پرند  لو اور ان کو اپنے پاس منگالو (اور ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو) پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو اس کے بعد ان کو بلاؤ وہ سب کے سب تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے، اس کی تاویل یوں ہے: چار مقرّب حجّتوں کی مجموعی روحانیّت کے توسط سے حضرت ابراہیمؑ کا تمام جزائر کے حجّتوں پر اثرانداز ہوجانا، اور ہر پہاڑ(حجّتِ جزیرہ) کے لشکرِ ارواح کو لے کر ان چاروں کا مقامِ اصل پر حاضر ہوجانا، پس یہاں چار پرندوں سے چار مقرّب حجّت مراد ہیں، اور پہاڑوں سے حجّتانِ جزائر مراد ہیں۔

قرآنِ مجید میں ہے کہ بنی اسرائیل کے سروں پر پہاڑ معلق کیا گیا تھا(۰۷: ۷ا، ۰۲: ۶۳، ۰۲: ۹۳، ۰۴: ۱۵۴) اس کے معنی ہیں روح اور عقل کے پہاڑ کا سر پر بلند ہوجانا، مگر اس کے لئے ضروری نہیں کہ بنی اسرائیل کے ہر فرد نے یہ باطنی معجزہ چشمِ ظاہر سے دیکھا ہو، کیونکہ

 

۵۱

 

یہ واقعہ دراصل روحانیّت اور عالمِ ذرّ سے متعلق ہے، جس میں غیر شعوری طور پر تمام بنی اسرائیل بصورتِ ذرّات موجود تھے۔

سورۂ حشر(۵۹: ۲۱)میں ارشاد ہو ا ہے کہ: اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم اس کو دیکھتے کہ خدا کے ڈر سے جھکا اور پھٹا جاتا ہے اور یہ مثالیں ہم لوگوں( کے سمجھانے) کے لئے بیان کرتے ہیں تا کہ وہ غور کریں (۵۹: ۲۱) متصدّع کے معنی ہیں ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے والا، چنانچہ یہ امرِ واقعی اور حقیقت ہے کہ انسانِ کامل کے جبلِ روح اور جبلِ عقل دونوں پر نورِ قرآن کی مذکورہ مثال کا مظاہرہ ہوتا ہے، اور عملی تاویل اس کے بغیر ناممکن ہے۔

وجودِ انسانی میں ہڈیاں پہاڑوں کے مشابہ ہیں، خصوصاً سرجو جسم کا بلند ترین حصّہ ہے، عالمِ شخصی کا کوہ ِطور ہے، چنانچہ ہر کامل انسان کی ہڈیاں انفرادی قیامت یعنی روحانیّت میں تسبیح پڑھتی ہیں، جیسے حضرت داودؑ کے بارے میں ارشاد فر مایا گیا ہے کہ جبال(پہاڑ) اور طیور(پرندے)آپ کے ساتھ مل کر تسبیح خوانی کرتے تھے، (۲۱: ۷۹، ۳۴: ۱۰، ۳۸: ۱۸) یہاں پہاڑوں سے ہڈیاں اور پرندوں سے ارواح مراد ہیں، پس اسی عظیم الشّان گونج اور ہم آہنگی کے ساتھ ذکرِ الہیٰ جو اس وقت خود کار ہوتا ہے، سر کی طرف بلند ہوجاتا ہے۔

 

۵۲

 

قرآنِ حکیم میں ہے کہ: اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تمام مخلوقات کے سائے بنائے اور تمہارے لئے پہاڑوں میں چھپنے کے مقامات بنائے اور تمہارے لئے ایسے کرتے بنائے جو گرمی سے تمہاری حفاظت کریں اور ایسے کرتے بنائے جو تمہاری لڑائی سے تمہاری حفاظت کریں(۱۶: ۸۱)  مومن کی روح موجودہ بدن میں محدود نہیں، وہ بسیط ہونے کی وجہ سے ہر جگہ ہے، بالخصوص بارہ جزائر کے حجّتوں میں ہے جو پہاڑ ہیں، جن میں مومنین کے لئے “اکنَان” یعنی چھپنے کے مقامات ہیں، اور اسی طرح روحِ مومن کا اعلیٰ سرا یعنی انائے علوی امامِ زمانؑ اور قائم القیامتؑ میں ہے، کیونکہ امامِ وقتؑ آتشِ جہالت سے بچاتا ہے اور حضرتِ قائمؑ روحانی جنگ سے محفوظ رکھتا ہے۔

سورۂ مُرسَلتٰ(۷۷: ۲۵ تا ۲۷)میں ہے: کیا ہم نے زمین کو زندوں اور مردوں کی سمیٹنے والی نہیں بنایا، اور ہم نے اس میں اونچے اونچے پہاڑ(رَوَاسِیَ شٰمِخٰتِ) بنائے اور ہم نے تم کو میٹھا پانی پلایا (۷۷: ۲۵ تا ۲۷) زمینِ روحانیّت میں دو قسم کے لوگ ہیں، بعض میں روح الایمان ہے اور بعض میں یہ روح نہیں، اور اسی طرح کچھ لوگ زندہ ہیں اور کچھ لوگ مردہ، ز مین پر اونچے اونچے پہاڑوں سے بارہ جزائر کے حجج یعنی حجّتان مراد ہیں، جو جسمِ لطیف میں رہتے ہیں، جو علمِ امامت کے خزائن ہیں(۱۵: ۲۱)

 

۵۳

 

اور علمِ امامت کا میٹھا پانی انہی زندہ پہاڑوں سے آتا ہے۔

سورۂ مومنوں(۲۳: ۲۰)میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَشَجَرَۃً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَیْنَاء  تَنبُتُ بِالدُّہْنِ وَصِبْغٍ لِّلْآکِلِیْنَ  (۲۳: ۲۰) اور( اسی پانی سے) ایک(زیتون کا) درخت بھی(ہم نے پیدا کیا) جو کہ طور سینا میں پیدا ہوتا ہے جو اُگتا ہے تیل لئے ہوئے   اور کھانے والوں کے لئے سالن لئے ہوئے، طور کے لفظی معنی پہاڑ کے ہیں، اور سِیْنَا ٓء یاسِینین خوبصورت کے معنی میں ہے، چنانچہ طورِ سینآء کے معنی ہوئے خوبصورت پہاڑ جس سے “کُوہِ گوہر” مراد ہے، جو نورِ عقل ہونے کی وجہ سے انتہائی خوبصورت ہے، اور اسی مقام پر درختِ زیتون یعنی پیکرِ نور بھی ہے، جسکے تیل یعنی کلمات میں روشنی کا مادّہ اور مکمل عقلی اور علمی غذائیت موجود ہے۔

سورۂ مریم (۱۹: ۵۲) میں یہ ارشاد ہے: اور ہم نے ان (یعنی موسیٰؑ) کو کوہِ طور کی داہنی جانب سے آواز دی اور ہم نے ان کو راز کی باتیں کرنے کے لئے مقرب بنایا(۱۹: ۵۲)یہاں لفظ “الطورالایمن” دو معنوں کے درمیان مشترک ہے: (۱) داہنی جانب کا پہاڑ یا پہاڑ کی داہنی جانب (۲) بابرکت پہاڑ، اگرچہ اس مقام پر تین طور(پہاڑ) ایک ساتھ ہیں، یعنی ظاہری پہاڑ، حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا سرِ مبارک، اور کوہِ عقل، تاہم حقیقی معنیٰ میں “داہنی جانب”  کا

 

۵۴

 

اطلاق ظاہری پہاڑ پر نہیں بلکہ انسانی سر پر ہوتا ہے، اسی طرح کوہِ عقل کا بابرکت ہونا حقیقت ہے اور ظاہری پہاڑ صرف ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: قٓ-وَ الْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ (۵۰: ۰۱)قسم ہے قاف(پہاڑ) کی (اور) قسم ہے قرآنِ مجید کی، اس آیۂ کریمہ میں ربّ العزّت کوہِ عقل کی قسم کھاتا ہے جو کوہِ قافِ باطن ہے، اور یہی قاف قلم بھی ہے، پھر لوحِ محفوظ کی قسم کھاتا ہے، جس میں قرآنِ مجید ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: بَلْ ہُوَ قُرْآنٌ مَّجِیْدٌ، فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ  (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) بلکہ وہ ایک باعظمت قرآن ہے جو لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے، قلمِ الہیٰ کا دوسرا۔ نام عقلِ کلّی ہے اور لوحِ محفوظ سے نفسِ کلّی مراد ہے۔

لفظ قاف کے معنی جیسے پہاڑ کے ہیں، اسی طرح یہ ایک حرف کا بھی نام ہے، اور وہ یہ ہے: “ق” اب پہاڑ اور حرفِ “ق” کے درمیان ربط ورشتہ ہونا چاہئے، اور وہ رشتہ یہ ہے کہ کوہِ قاف یعنی کوہِ عقل کے ایک مقام پر قرآنِ حکیم کے وہ تمام الفاظ درج ہیں، جن کے آخر میں حرف “ق” آتا ہو، جیسے حق، صدق، فلق، رِقٍّ، زھوق، ورق، عتیق، سحیق، اسحاق، سابق وغیرہ، اور ایسے الفاظ میں انتہائی عظیم حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

مذکورہ لفظوں کی ایک مثال یہ ہے: وَقُلْ جَاء  الْحَقُّ

 

۵۵

 

وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوقا  (۱۷: ۸۱)اور کہہ دیجیئے کہ حق آیا اور باطن نابود ہوگیا، یقیناً باطل نابود ہوجانے والا ہے۔ اس حکمت آگین ارشاد میں آپ دیکھتے ہیں کہ لفظ حق کا آخری حرف “ق”  ہے، اور دوسری طرف سے زھوق جو باطل کا ایک نام ہے، اس کابھی آخری حرف “ق” ہے، پس ان دونوں کے آخر میں “ق” کا آنا اس حقیقت کا اشارہ ہے کہ حق کا “حق الیقین” ثابت ہوجانا اور باطل کا نابود ہوجانا مقامِ عقل پر ہے، جس کا مشاہدہ آج بھی ہوسکتا ہے اور کل بھی۔

دوسری مثال: الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقاً مَّا تَرَی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِن تَفَاوُتٍ۔  (۶۷: ۰۳)جس نے سات آسمان ایک دوسرے کے مطابق پیدا کئے آپ رحمان کی(اس) خلق میں کوئی تفاوت نہ دیکھیں گے، اس آیۂ مقدسہ میں تین الفاظ ایسے ہیں، جن کے آخر میں حرفِ “ق” آیا ہے، اور اس علامت سے یہ ظاہر ہوا کہ یہ عالمِ عقل کے سات آسمان ہیں، اور وہ ساتوں ایک جیسے ہیں، اُن میں کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ صرف ایک ہی چیز ہے، مگر اس کے سات ابداعی ظہورات سات آسمان ہیں۔ طباق کے معنی اوپر تلے کی بجائے مطابق اور موافق صحیح ہیں۔

عالمِ عقل کی تمثیل وتشبیہ کے لئے ایک عظیم پہاڑ اور ایک چھوٹا

 

۵۶

 

سا پتھر دونوں ایک ہی معنی رکھتے ہیں، کیونکہ وہ حقیقی مساوات اور وحدت کا مقام ہے، چنانچہ وہ مقدّس پتھر جس سے زمانۂ موسیٰؑ میں بارہ چشمے پھوٹ نکلے تھے کوہِ عقل ہے، اور یہ حضرت موسیٰؑ کا سب سے عظیم عقلی، علمی اور روحانی معجزہ تھا کہ آپؑ نے کوہِ عقل میں اسمِ اعظم کا عصا مار کر علم وحکمت کے بارہ درجات کے چشمے بہا دیئے، یعنی آپؑ کے بارہ حجّت روحانی علم کے بارہ چشمے تھے(۰۲: ۶۰، ۰۷: ۱۶۰، ۲۶: ۶۳)۔

سورۂ بقرہ(۰۲: ۷۴) میں فرمایا گیا ہے: وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الأَنْہَارُ وَإِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَاء  وَإِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّہِ  (۰۲: ۷۴) اور تحقیق پتھروں میں سے وہ بھی ہے جس سے نہریں پھوٹ کر چلتی ہیں اور ان میں سے وہ بھی ہے جو شق ہوجاتا ہے پھر اس سے پانی نکل آتا ہے، اور ان میں سے وہ بھی ہے جو خدا کے خوف سے نیچے لُڑھک آتا ہے۔

اس آیۂ مبارکہ میں ایک ہی گوہرِعقل کا تذکرہ تین طرح سے ہوا ہے، اوّل یہ کہ اس سے مرتبۂ حق الیقین پر بہشت کی نہریں جاری ہیں، جس میں کلمۂ باری کارفرما ہے، دوسرا یہ کہ درجۂ عین الیقین میں اس گوہر کے مظاہروں (DEMONSTRATIONS)  سے روحانی علم حاصل آتا ہے، اور تیسرا یہ ہے کہ دنیائے ظاہر میں علم الیقین کے

 

۵۷

 

طور پر کوہِ عقل سے ہر اُس مومن کو فائدہ ملتا رہتا ہے، جس کے دل میں خوفِ خدا ہو، اور اس درجے کے علم کی مثال ایسی ہے، جیسے جواہر کے پہاڑ سے انمول جواہر پارے لڑھک کر نیچے آتے رہتے ہوں۔

عقل کی عالمگیر عظمت و بزرگی اور فضیلت و برتری کا کیا کہنا کہ اسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنا قلم بنا کر علمِ الہیٰ کا سرچشمہ قرار دیا، قرآنِ حکیم کی کل تشبیہات وتمثیلات کا رخ اسی کی طرف کردیا، کتابِ سماوی(قرآن) میں سر تا سر عقل وخرد کے موضوع اور سخن کو پھیلا دیا، اسی کو توحید کی شناخت کا مدار بنایا اور اسی کو معیارِ حقیقت اور میزانِ عدل ٹھہرایا، پس آسمانوں کی گردش، سورج، چاند اور ستاروں کی تابش، اور تمام انسانوں کی کوشش کا آخری ثمرہ، کائنات و موجودات کا نچوڑ، اور ہستی کے بیکران سمندر کا گوہرِ یکتا عقل ہی ہے۔

روح اور روحانیّت کی انتہائی بلندی اور مرکزِ دانش پر خدا کی جس شانِ قدرت سے نمونۂ عقل کا ظہور ہوتا ہے، اور جس طرح اس ظہور کے تکرار سے آفرینش کی ابتدا اور انتہا کا تصوّر ختم ہوجاتا ہے، اور جیسے ازل وابد کی جگہ دائرہ قدیم کا تصوّر ملتا  ہے، اس میں لاتعداد حکمتیں پوشیدہ ہیں، جن کے احاطے سے کوئی چیز باہر نہیں رہ سکتی ہے۔

نصیرالدین نصیر ہونزائی

۳۱، جنوری۱۹۸۴ء

 

۵۸

 

لنڈن سے پانچ سوال

 

عزیزم عبدالرّحمٰن کے مکتوب ۱۴ جنوری ۱۹۸۴ء کے اُس حصے کا ترجمہ جس میں پانچ سوال درج تھے۔

باپا میں خوف اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ آپ سے چند سوالات کرنا چاہتا ہوں:۔

سوال نمبر ۱: عزرائیلؑ کس طرح روح قبض کرتا ہے؟

سوال نمبر۲: مولائے روم نے اکثر حضرت یوسفؑ کا تذکرہ فرمایا ہے، آپ نے بی بی مریمؑ سے متعلق مقالہ تحریر فرمایا ہے، کیا آپ ہمیں حضرت یوسفؑ کے بارے میں بھی کچھ بتائیں گے؟

سوال نمبر۳:۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا آپ اسماعیلی تصورِ تعلیم کے باب میں کچھ مواد فراہم کرسکتے ہیں؟

سوال نمبر۴: اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ روح مختلف صُوَر(صورتیں)اپنا سکتی ہے، جیسے پانی برف بھی ہوسکتا ہے، خود پانی کی شکل میں بھی ہے، اور بھاپ کی صورت میں بھی،

 

۵۹

 

کیا آپ وضاحت فرمائیں گے کہ روح کے جسمِ لطیف سے جسمِ کثیف میں منتقل ہونے کا عمل کس طرح وقوع پذیر ہوتا ہے؟

سوال نمبر ۵: کیا آپ ہمیں عروجِ روح کے بارے میں مزید بتائیں گے؟ کیا یہ انسان کے لئے درجہ وار ہے، یعنی روحِ نباتی سے روحِ ملکوتی یاملکی تک؟ یہ سوال ایک خواب دیکھنے کے بعد پیدا ہوا ہے، میں نے ایک سرسبز درخت جو کونپلوں سے مملو تھا(خواب میں) دیکھا، میں جیسے درخت کو دیکھتا جاتا تھا ویسے اس کے شگوفوں میں اضافہ ہوتا جاتا تھا، مگر اس درخت کی خصوصیت یہ تھی، کہ اس میں ایک وقت میں صرف ایک ہی کلی اُگ سکتی تھی، کیا یہ روحِ نباتی کے درجے میں روح کی ترقی کی مثال ہے؟ کیا میں بعد میں روحِ حیوانی سے متعلق اس قسم کا خواب دیکھوں گا؟ یا میں اپنے اس مفروضہ میں غلطی پر ہوں؟

ازراہِ کرم باپا مجھے معاف فرمائیے، اگر میرے سوالات درست طریقے پر نہیں پوچھے گئے ہوں، میں ان کے جوابات کے لئے جو آپ دیں گے، دل کی گہرائی سے شکرگزار ہوں گا۔

یہ ہیں وہ پانچ سوال جو میرے بہت ہی عزیز روحانی بھائی اور دوستِ جانی عبدالرّحمٰن آر نے اپنے ایک پُرخلوص خط میں بھیجے تھے، اب میں سب سے پہلے یہ چاہتا ہوں کہ خود کو خاکپائے مومنان قراردوں اور اپنی علمی بے سروسامانی کو ظاہر کروں تا کہ

 

۶۰

 

خدائے بزرگ وبرتر کو میری حالتِ زار پر رحم آئے، اور اپنے نورِ مجسّم یعنی امامِ زمانؑ آلِ محمدؐ کے واسطہ سے میری دست گیری فرمائے تاکہ یہ بندۂ کمترین جو انتہائی غریب ہے امامِ اقدس واطہر صلوات اللہ علیہ وسلام کی بارگاہِ عالی سے باربار صدقہ اور خیرات حاصل کرسکے، اور اس سعادت کے حصول کے لئے اہلِ ایمان کی دعا چاہئے۔

پہلے سوال کا جواب: حضرت عزرائیل علیہ السّلام بحکمِ خدا تعالیٰ ایک اسمِ اعظم کو استعمال کر کے روح کو آہستہ آہستہ قبض کرلیتا ہے، اور دوسرا اسمِ اعظم ہے جس کے ذریعہ وہ فوراً روح کو جسم سے اٹھا سکتا ہے، روح عام طور پر کسی اور راہ سے نہیں، صرف سر کے بالائی حصے سے نکلتی ہے، خصوصی عبادت اور سفرِ روحانیّت کی ایک منزلِ اعلیٰ میں عزرائیلؑ کئی دن تک طرح طرح سے قبضِ روح کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے، جس میں روح کبھی تو جسم کے باقی حصے کو چھوڑ کر سر میں مرکوز ہوجاتی ہے اور کبھی یہ چوٹی سے عالمِ بالا کی طرف اٹھائی جاتی ہے، مگر ہر بار اس کا نچلا سرا دماغ کی چوٹی سے لگا رہتا ہے، اور جیتے جی کبھی روح کا یہ سرا سر سے قطعاً الگ نہیں ہوسکتا۔

عزرائیلؑ ایک سردار فرشتہ ہے، جس کے تحت بہت سے ذیلی فرشتے مقرر ہیں، جو قبضِ روح کا کام کرتے ہیں، جیسا

 

۶۱

 

کہ خداوندِ عالم کا مقدّس فرمان ہے: وَالْمَلآئِکَۃُ بَاسِطُواْ أَیْدِیْہِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَکُمُ  (۰۶: ۹۴) اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے ہاں اپنی جانیں نکالو۔ فرشتوں کے ہاتھوں سے ان کا ذکر وتسبیح مراد ہے، کیونکہ ملائکہ جسم نہیں ہیں، لہٰذا ان کے ہاتھ انسانوں کے ہاتھوں کی طرح نہیں، اور نہ ظاہری پرندوں کی طرح ان کے بازو ہیں، وہ روح ہیں، ان کا پکڑنا اور پرواز کرنا خداتعالیٰ کے مختلف ناموں سے ہے، ویسے بھی یہ سوچنے کی بات ہے کہ روح کوئی مادّی قسم کی شیٔ نہیں کہ اس کو ظاہری ہاتھ سے پکڑا جائے، وہ ایک بسیط طاقت ہے، اس لئے اس پر کنٹرول صرف نامِ خدا ہی سے ہوسکتا یہ، چنانچہ عزرائیلؑ کو جس کی روح قبض کرلینے کا حکم ملا ہو اس کے بائیں کان میں آکر اللہ کے ایک بزرگ اسم کا ذکر کرتا رہتا ہے، جس سے روح جسم کو چھوڑ کر سر میں مرکوز ہوجاتی ہے اور فرشتے اسے ذکر ہی کے گھیرے میں وہاں لے جاتے ہیں جہاں لے جانا چاہئے۔

دوسرے سوال کا جواب: میرے بہت ہی عزیز دوست! آپ نے جس خلوص و اعتماد سے حضرت یوسف علیہ السّلام کے باب میں سوال اٹھایا ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ حضرت یوسفؑ سے متعلق ایک مقالہ لکھا جائے، اور اگر یہ کام ممکن ہوا تو اس تحریر سے الگ ہونا چاہئے، تا ہم یہ وعدہ نہیں، یہاں اس سلسلے میں

 

۶۲

 

صرف چند نکات بیان کئے جاتے ہیں:۔

حضرت یوسف علیہ السّلام اپنے وقت میں امامِ مستودع تھے، آپؑ نے ابتداء میں ایک نورانی خواب دیکھا تھا، جسمیں گیارہ ستارے، سورج اور چاند آپؑ کو سجدہ کررہے تھے، جس کی تاویل یہ ہے کہ حضرت یوسفؑ جو اس وقت بارھواں ستارہ تھے، آگے چل کر اپنے والدِ محترم حضرت یعقوب علیہ السّلام کی جگہ پر امام بننے والے تھے، چنانچہ وقت آنے پر برادرانِ یوسفؑ نے جو گیارہ حجت تھے، آپ یعنی یوسفؑ کی اطاعت کی، اور گیارہ ستاروں کے سجدہ کرنے کی یہی تاویل ہے، پھر سورج نے سجدہ کیا، یعنی حضرت یعقوبؑ نے بحکمِ خدا امامت حضرت یوسفؑ کے سپرد کردی، اور نور جو اُس وقت بیٹے میں آچکا تھا، اس کی اطاعت کرنے لگا، اور سب سے آخر میں چاند نے سجدہ کیا، یعنی حجتِ اعظم (باب) نے امامِ سابق کی آخری حد تک پیروی کر کے عملِ تفویض کے بعد جانشین امام (حضرت یوسفؑ) کی اطاعت کی، آپ آیۂ کریمہ(۱۲: ۰۴) میں یہ ترتیب دیکھ سکتے ہیں کہ پہلے گیارہ ستاروں کا ذکر ہے، پھر سورج کا اور آخر میں چاند کے سجدہ کرنے کا تذکرہ ہے۔

جب ہم سورۂ یوسف کی آیت ۴ سے بغور آیت ۶ میں جاکر دیکھتے ہیں تو مفہوم ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے

 

۶۳

 

انسانِ کامل کی برگزیدگی یہی ہے، اسی طرح علمِ تاویل عطا ہوتا ہے، اور اسی صورت میں خدا کی ہر ہر نعمت بدرجۂ تمام حاصل ہوجاتی ہے۔

یہ بات روحِ قرآن کے مطابق ایک روشن حقیقت ہے کہ پروردگارِ عالم نے ہر پیغمبر اور ہر امام کو علمِ تاویل کے خزانوں کا مالک بنا دیا ہے، اور اس امرِ واقعی کی مثال حضرت یوسفؑ ہیں، کیونکہ آپؑ پیغمبر بھی ہیں اور امام بھی اور تاویل کوئی ظاہری چیز نہیں ہوتی، بلکہ یہ آسمانی کتاب کی روحِ اعظم اور اس کی عالمگیر روحانیّت کا نام ہے، یہی وہ عظیم الشّان روح ہے، جو کبھی تو روح الارواح کہلاتی ہے، کبھی نفسِ کلّی، اور کبھی لوحِ محفوظ، غرض اس میں کتابی اور درسی تاویل کا ذکر نہیں بلکہ نورانیت سے بھر پور تاویل کا ذکر ہے، جو حقیقی نور اور کتابِ ناطق ہے، جس میں ہر چیز کا ذرۂ لطیف، تمام اشیاء کی ارواح، اور جملہ عقول محدود ہیں۔

اگر یہ پوچھا جائے کہ بارہ حجّت تو سیّارۂ زمین کے بارہ مختلف جزیروں میں ہوا کرتے ہیں، پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ حضرت یعقوبؑ کے بارہ بیٹے اپنے گھر بیٹھے ہوئے اُن بارہ جزیروں کے حجّت قرار پائیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حدود دین کا اصل نظام جسمِ لطیف میں ہوا کرتا ہے، کیونکہ جس طرح جنات یعنی پریوں

 

۶۴

 

کا وجود جسمِ لطیف میں ہوتا ہے، جن میں اچھے بھی ہیں اور برے بھی، اسی طرح حجتانِ شب وروز اجسامِ لطیفہ کے واسطہ سے اپنے اپنے جزائر میں کام کرتے ہیں۔

تیسرے سوال کا جواب: اس سوال کا جواب بھی ایک مفصل اور مکمل مقالے کی صورت میں دیا جاسکتا ہے، تاہم آپ کی دلچسپی کے لئے چند باتیں ضروری ہیں، کہ اسماعیلی تصوّرِ تعلیم دراصل اسلامی تصوّرِ تعلیم ہے اور اسلام دینِ فطرت ہے، لہٰذا ہمارا یہ تصوّر اپنی حقیقی شکل میں ایک جانب سے قرآن اور روحانیّت کے ساتھ ہم آہنگی رکھتا ہے اور دوسری جانب سے زمان ومکان کے تقاضوں کو قبول کرتا ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ دینی تعلیم روحانی حکمتوں سے بھرپور ہونی چاہئے، اور دنیوی تعلیم جدید اصولوں کی روشنی میں ہونی چاہئے، کیونکہ علم کا مقصد فرد اور قوم کی روحانی اور مادّی صلاح وفلاح ہے، اور اگر یہ مقصد حاصل نہ ہوتو تعلیم بے معنی ہوجاتی ہے۔

نئی نسل کی دنیوی تعلیم کس طرح ہونا چاہئے، یہ کوئی خاص مسئلہ نہیں، کیونکہ آئے دن اس کے نت نئے طریقے اور زیادہ سے زیادہ مفید اصولات بنتے رہیں گے، جبکہ اقوامِ عالم کی مجموعی کوشش اسی میں لگی ہوئی ہے تاکہ وہ سائنس سے فائدہ اٹھا کر سکھانے اور سیکھنے کے طرز کو بہتر سے بہتر بناسکیں، مگر مسئلہ

 

۶۵

 

دینی اور روحانی تعلیم کا ہے، اور سچ بات تو یہ ہے کہ اس میں ذیلی طور پر ہزاروں مسائل ہیں، پھر بھی اسماعیلیوں کے پاس ایک ایسا بیمثال وسیلہ موجود ہے، جس کی ذاتِ بابرکات کے سامنے مسائل کیا مشکلات بھی حل ہوسکتی ہیں، مگر ہمیں اس سلسلے میں ٹھیک طرح سے سوچنے، جاننے اور پھر ہمت سے کام لینے کی ضرورت ہے، تا کہ ہم وسیلۂ نور سے مکمل فائدہ حاصل کرسکیں۔

اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے(۲۴: ۳۵)اس کے یہ معنی ہیں کہ کائنات وموجودات میں کوئی چیز ایسی نہیں، جس کو اس نور سے درجہ وار اور ضروری روشنی خودبخود نہ ملتی ہو، مثلا جمادات، نباتات، حیوانات اور فرشتوں کو یہ روشنی ہمیشہ ان کے درجہ اور ضرورت کے مطابق خود ازخود ملتی رہتی ہے، مگر انسان کا معاملہ اختیار کی وجہ سے سب سے مختلف ہے، لہٰذا اسے جس اعلیٰ عقلی، علمی اور روحانی نور کی ضرورت ہے، وہ نہیں ملتا ہے، مگر خدا و رسولؐ اور ولئِ امرؑ کی اطاعت سے، پس اسماعیلی مذہب میں قرآنی اور روحانی علم کا دروازہ ہر وقت کشادہ ہے۔

چوتھے سوال کا جواب: جی ہاں، روح مختلف شکلیں اپنا سکتی ہے، اور جسمِ لطیف سے جسمِ کثیف میں اس کی منتقلی کی مثال یوں ہے، کہ تصورِ آفرینش خط یعنی لکیر(—–) کی طرح نہیں، بلکہ دائرے(o) کی طرح ہے، جس کا

 

۶۶

 

مطلب یہ ہے کہ آفرینش کی نہ تو کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، بس یہ ایک قدیم دائرہ ہے، جو کسی طرح بھی حادث نہیں، جس کی مثالیں اس دنیا میں بہت ہیں، جیسے آسمان، ہر سیّارہ، ہوا، پانی، نبات اورحیوان میں سے ہر ایک کا ایک دائرے پر ہمیشہ گردش کرتے رہنا، جیسے گٹھلی(بیج) سے درخت اور درخت سے گٹھلی کا پیدا ہوجانا، جس میں نہ تو درخت پہلے ہے اور نہ بیج بلکہ دونوں بغیر سرے کے دائرے پر واقع ہیں، اسی طرح مرغی سے انڈے کا پیدا ہوجانا اور انڈے سے مرغی کا وجود میں آنا، نیز انسان کا ماں باپ سے جنم لینا، اور پھر ماں باپ  بن جانا وغیرہ، اس بیان سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ ہر چیز اپنے دائرے پر گردش کرتی رہتی ہے، اور تمام ذیلی دائرے دائرۂ اعظم پر واقع ہیں، جیسے آسمان کا عظیم دائرہ اپنے اندر کے جملہ دائروں کو لے کر گردش کررہا ہے۔

قرآنِ مقدّس کی ایک اہم تعلیم یہ ہے کہ ہم کتابِ کائنات کی آیات میں عقل ودانش سے غور وفکر کریں، تاکہ ان کی حکمتوں سے قانونِ فطرت کے پوشیدہ اسرار کو سمجھ سکیں، چنانچہ ہم بعض کیڑوں مکوڑوں کو دیکھتے ہیں، کہ ان میں روح کے عروج ونزول کی مثال موجود ہے، اس سلسلے میں ریشم کا کیڑا قابلِ ذکر ہے کہ وہ تتلی یا پروانے سے بنتا ہے، پھر پروانہ بن جاتا ہے،

 

۶۷

 

ہر چند کہ پروانے کی زندگی کیڑے کی زندگی سے برتر اور بہتر ہے لیکن پروانہ ریشم نہیں بنا سکتا ہے، یہ تو کیڑے ہی کا کام ہے، لہٰذا ریشم جیسی گرانقدر چیز کو پیدا کردینے کی خاطر اسے ایک طرح سے باربار کیڑے کے روپ میں آنا چاہئے، ظاہر بات ہے کہ پروانہ بذاتِ خود کیڑے کی صورت میں نزول نہیں کرتا، مگر نمائندگی کے معنی میں یہ کہنا صحیح ہے کہ اس کا دائرہ عروج ونزول کی شکل میں واقع ہے، جیسے درخت، انسانی جسم وغیرہ کہ وہ بھی نمائندگی کی صورت میں گردش کرتے ہیں۔

اگر ارواح وملائکہ اور اجسامِ لطیف کی تشبیہہ ایسے پروانوں سے دی جائے جو بفرضِ محال کبھی نہ مرتے ہوں، اور انسانوں کی تمثیل ریشم کے کیڑوں سے دی جائے، تو بڑی صفائی کے ساتھ جسمِ لطیف سے جسمِ کثیف میں روح کی منتقلی کی مثال روشن ہوجائے گی، آپ اچھی طرح غور کرسکتے ہیں کہ یہ بات عقیدۂ تناسخ کے برعکس اور اس کی آلائش سے پاک ہے، کیونکہ اصل روح کا سرچشمہ بقولِ قرآن (۱۷: ۸۵) کلمۂ کُنۡ سے وابستہ ہے، وہ وہاں سے کبھی الگ نہیں ہوسکتی ہے اور نہ اپنے مقام کو چھوڑ کر کسی وقت اس مادّی دنیا میں آسکتی ہے، مگر ہاں، یہ حقیقت ہے کہ اس کے بہت سے زندہ عکس (یعنی تصویریں) لطیف اور کثیف اجسام میں پیدا ہوجاتے ہیں، چنانچہ ہماری یہ ہستی ہماری روحِ

 

۶۸

 

علوی کا ایک زندہ سایہ ہے، پس یہ سایہ باربار آتا جاتا رہتا ہے مگر مرکزِ روح عالمِ امر میں اپنی جگہ پر قائم ہے، جیسے سورج ہمیشہ کے لئے کائنات کے وسط میں ٹھہرا ہوا ہے، وہ اپنی جگہ کو نہیں چھوڑ سکتا، اور سطحِ زمین پر صرف اس کی روشنی پھیلی ہوئی ہے، سورج کی شعاعوں کی پذیرائی میں تمام چیزیں یکسان نہیں ہو سکتیں، صرف آئینہ یا صاف شفاف پانی جیسی چیزوں میں سورج کا عکس بن جاتا ہے، یہ انسانی روح کی مثال ہے، سورج سرچشمۂ روح کی مثال ہے، عکس ذیلی روح ہے، اور آئینہ جسم ہے۔

جسمِ لطیف سے جسمِ کثیف میں روح کی منتقلی کی مثال فلم (FILM) سے بھی دی جاسکتی ہے، یعنی جب کسی آدمی کا فلم لے کر پکچر(PICTURE) دکھائی جاتی ہے، تو اس سے اُس شخص کی ایک ثانوی ہستی بن جاتی ہے، بغیر اس کے کہ اصل ہستی میں کوئی کمی واقع ہوجائے، اگر اس چلنے پھرنے والی تصویر میں جان اور عقل ہوتی، تو اُس شخص کو پہچان سکتی، جس سے یہ بنائی گئی ہے، اور دور ہوگئی ہے۔

پانچویں سوال کا جواب: آپ کا یہ سوال جو عروجِ روح سے متعلق ہے، اگر روحِ علوی کے بارے میں ہوتا تو میں کسی تاخیر کے بغیر جواب دیتا کہ وہ ہمیشہ عروج کے انتہائی مقام پر ہے، اور اس کا کبھی نزول ہی نہیں ہوا، جیسے یہاں

 

۶۹

 

اس حقیقت کی مثال سورج سے دی گئی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ آپ نے روحِ سفلی کی بابت پوچھا ہے، چنانچہ اس سلسلے میں ہمیں سب سے پہلے یہ سوچنا ہے، کہ عروج کا حقیقی تصوّر کیا ہے؟ آیا یہ بھی تصوّرِ آفرینش کی طرح ایک دائرے پر واقع ہے؟ یا عمودی شکل کا ہے؟ میں تو یہاں یہ عرض کروں گا کہ عروج وارتقاء عمودی صورت میں نہیں، بلکہ دائرے کی شکل میں ہے، اور تصوّر آفرینش ہی تصوّرِ عروج ہے، جیسے قرآنِ مقدّس کا ارشاد ہے:۔

وَتِلْکَ الأیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ (۰۳: ۱۴۰) اور یہی ایام ہیں جن کو ہم لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہا کرتے ہیں۔ یہ آیۂ حکمت آگین دائرۂ عروج ونزول اور اللہ کی عادت سے متعلق ہے، اس میں نہ صرف عالمِ ظاہر کی گردشِ زمانہ اور اقوام کے عروج وزوال کا ذکر ہے بلکہ زبانِ حکمت میں خدا تعالیٰ کے اُن عظیم دنوں کے بہت سے ادوار کا بھی تذکرہ ہے، جن میں سے ہر ایک کی مقدار پچاس ہزار(۵۰۰۰۰) سال کی ہے(۷۰: ۰۴) اور ایسے ایک دن میں کوئی کامل روح (نفسِ واحدہ۳۱: ۲۸) ارواح وملائکہ کی عقل وجان بن کر اللہ تعالیٰ کے حضور عروج کر جاتی ہے(۷۰: ۰۴) جیسا کہ عروج وانبعاث کا حق ہے۔

۱۔ اس حساب سے ایک ہفتہ۴۵۰۰۰۰ کا ہوتا ہے اور ایک سال ۱۸۰۰۰۰۰۰ دنیوی برس کا۔

 

۷۰

 

عروجِ روح کے بارے میں اس جہان کی وحدت وسالمیت کے نظام کو بھی جاننا ضروری ہے، اور وہ اس طرح ہے کہ جمادات کی جان نباتات ہیں، نباتات کی جان حیوانات، حیوانات کی جان عام انسان ہیں، عام انسانوں کی جان خاص انسان ہیں، اور خاص انسانوں کی عقل وجان انسانِ کامل ہے، جس کے عملی عروج میں ہر چیز بحدِّ قوّت عروج پر ہے اور بالفعل اس بلندی تک پہنچنے کے لئے جماد کو نبات میں ہوجانا چاہئے، نبات کو حیوان میں مٹ جانا چاہئے، حیوان انسان کے لئے قربان ہوجائے، اور ہر انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ انسانِ کامل کی اطاعت کرے، جیسا کہ اطاعت کرنے کا حق ہے، تا کہ اپنی اصل انا کو پائے۔

آپ کا خواب نورانی تھا اور اس میں روحانی ترقی کی بشارت تھی، جس میں یقیناً آپ نے بصورتِ درخت روحِ نباتی کا مشاہدہ کیا، درخت پر بہت سے شگوفوں کی تاویل ہے روحِ نباتی کی کاپیاں(copies)، اُن میں ایک کلّی مرکزی یا اصلی روحِ نباتی کو ظاہر کرتی تھی، جس طرح ہم نے کتابِ روح میں لکھا ہے کہ نباتی حیوانی اور انسانی روح میں سے ہر ایک میں اپنی قسم کی بے شمار روحیں ہوا کرتی ہیں، سو اس کو یوں سمجھنا چاہئے کہ روحِ نباتی میں عالمِ نباتات پوشیدہ ہے، روحِ حیوانی میں عالمِ حیوان مخفی ہے، اور روحِ انسانی میں عالمِ انسان مستور ہے، لہٰذا ہر درجے کی روح کے

 

۷۱

 

ساتھ اُس کی نوعیت کی لاتعداد روحیں موجود ہوتی ہیں۔

میری امید بھی ہے اور عاجزانہ دعا بھی ہے کہ آپ ان شاء اللہ اس کے بعد نہ صرف روحِ حیوانی کا مشاہدہ کریں گے، بلکہ اپنی انتہائی عاجزی، امام کی پُرحکمت محبّت اور جماعت کی علمی خدمت جیسی عظیم عبادت کے نتیجے میں اپنی روح کی شناخت بھی حاصل کریں گے، تا کہ ہم سب مل کر امامِ اقدس واطہر کے نورِ علم کو دنیا بھر میں پھیلائیں، آمین!

نصیرالدّین نصیر ہونزائی

۱۴، فروری ۱۹۸۴ء

 

۷۲

 

سورۂ ماعون کی تاویل

 

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم۔ أَرَأَیْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ، فَذَلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ، وَلَا یَحُضُّ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ، فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ، الَّذِیْنَ ہُمْ عَن صَلَاتِہِمْ سَاہُونَ۔ الَّذِیْنَ ہُمْ یُرَاؤُونَ۔  وَیَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ  (۱۰۷: ۰۱ تا ۰۷)

ترجمہ: خدا کے نام سے(شروع کرتا ہوں) جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ کیا تم نے اُس شخص کو بھی دیکھا جو(روزِ) جزا کو جھٹلاتا ہے یہ تو وہی (کمبخت) ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کے کھانے کی ترغیب نہیں دینا، تو اُن نمازیوں کی تباہی ہے جو اپنی نماز سے غافل رہتے ہیں جو دکھانے کے واسطے کرتے ہیں اور زکات نہیں دیتے۔

تاویل: روزِ جزا یعنی قیامت حضرت قائم صلوات اللہ علیہ سے وابستہ ہے، چنانچہ قائم القیامت سے انکار کرنا روزِ جزا

 

۷۳

 

کو جھٹلانا ہے، اور جو شخص اسی طرح قیامت کو جھٹلاتا ہو، وہ امامِ عالیمقامؑ کو جو دُرِّ یتیم (یعنی گوہرِ یکتا) ہے دھکے دیتا ہے، جب کہ امام نورِعلم کی صورت میں اس کے ظاہروباطن پر طلوع ہوجانے لگتا ہے، ظاہر ہے کہ ایسے شخص میں حجّت(مسکین) کی روحانی غذا کا شوق بھی پیدا نہیں ہوسکتا، کہ وہ خود بھی اس کو کھائے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دے، پس بربادی ہے اُن نمازیوں کی جو اپنی نماز کے آداب واجزا کی تاویلی حکمتوں سے غافل ہیں، جو دکھانے کے لئے کرتے ہیں، یعنی نماز کے باطن کو نہیں سمجھتے ہیں اور زکات نہیں دیتے، یعنی عقلی اور روحانی طور پر پاک نہیں ہوسکتے۔

یتیم کی تاویل امامِ برحق ہے، کیونکہ امامؑ ہی دُرِّ یتیم یعنی گوہرِ منفرد و یکتا ہے، جبکہ یتیم کے معنی ہیں: اکیلا، لاثانی، بے نظیر۔ دُرَّۃُ یَتِیمَہ کے معنی ہیں: قیمتی یا بے نظیر موتی۔

مسکین کی تاویل ہے حجّت، جس کے علم میں مومنین کے لئے تسکین ہے، اور طعامِ مسکین سے حجّت کا علم مراد ہے، جو عقلی اور روحانی غذا ہے، نیز مسکین کا مطلب یہ بھی ہے کہ حجّت ہمیشہ امامِ اقدس واطہرؑ کے مبارک در پر بھیک مانگتا رہتا ہے، اس صورت میں مسکین کے کھانے کی ترغیب دینا یہ ہے کہ کوئی مومن محبت اور عشق سے امام کی اطاعت کرے، تاکہ اس کی روح کو جو ایک طرح کی

 

۷۴

 

مسکین ہے عقلی اور روحانی غذا ملے۔

اس حکمت آگین سورت کے منفی اور مثبت دو پہلو ہیں، اور مثبت پہلو یہ ہے کہ امامِ وقتؑ کی روحانیّت اور مرتبۂ قائم القیامت کے لئے اقرار کر لیا جائے، تاکہ دُرِّ یتیم ایسے مومن کے باطن میں داخل ہوسکے اور مومن حجّت کے علم کی دولت سے مالامال ہو جائے، تا کہ اس کی نماز عملی اور حقیقی ہو، یعنی وہ نماز کی حکمتوں سے باخبر ہو، اور پھر وہ پاکیزہ ہوکر علمی زکات دیتا رہے، یہ ہے سورۂ ماعون کی مربوط حکمت، بفضلہٖ وَ مَنّہٖ۔

نصیرالدّین نصیر ہونزائی

۸ مارچ ۱۹۸۴ء

 

۷۵

 

اُمّ الکتاب کی حکمت

 

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم۔ یَمْحُو اللّہُ مَا یَشَاء ُ وَیُثْبِتُ وَعِندَہُ أُمُّ الْکِتَاب (۱۳: ۳۹)خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور(جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ یعنی نورِ امامت)موجود ہے۔

نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے: حم وَالْکِتَابِ الْمُبِیْنِ۔  إِنَّا جَعَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ۔ وَإِنَّہُ فِیْ أُمِّ الْکِتَابِ لَدَیْْنَا لَعَلِیٌّ حَکِیْمٌ (۴۳: ۰۱ تا ۰۴) حٰمٓ، بولنے والی کتاب کی قسم ہے کہ ہم نے اس کو عربی قرآن بنایا ہے تاکہ تم سمجھو اور بے شک یہ (قرآن) اصلی کتاب (لوحِ محفوظ یعنی نورِ امامت) میں ہمارے پاس بڑا عالیشان اور حکمت آگین ہے۔

پہلی آیت کے تاویلی اسرار: قرآنی موضوعات کی عرفانی کلیدیں ہوا کرتی ہیں، اور ایسی ہی کنجیاں الگ الگ بزرگ آیات کی بھی ہوتی ہیں، چنانچہ

 

۷۶

 

“اُم الکتاب” کی شناخت نہ صرف مذکورۂ بالا متعلقہ آیتوں کے مفاہیم کے لئے ضروری ہے بلکہ اس معرفت سے قرآنِ مقدّس کی گہری حکمتوں کا ایک بہت بڑا دروازہ بھی کھل جاتا ہے، اور اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ اُم الکتاب کیا ہے، اُم الکتاب کے جتنے اصل لغوی معنی ہیں وہ سب درست ہیں اور ان تمام معنوں کا مرکز ایک ہی ہے، وہ ہے لوحِ محفوظ (۸۶: ۲۲) جس کے کئی نام ہیں، جیسے امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کتابِ مکنون (۵۶: ۷۸)صُحُفِ مُکرّمہ (۸۰: ۱۳) وغیرہ، مگر اہلِ معرفت پہچانتے ہیں اور اہلِ دانش جانتے ہیں کہ اُمّ الکتاب اور لوحِ محفوظ ایک زندہ اور گویندہ نور ہے، کیونکہ اُمّ الکتاب کی جو نشانی اور علامت ہے، وہ اسی کے لئے خاص ہے، اور کسی دوسری چیز میں یہ خصوصیت نہیں، اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی عندیت ونزدیکی، جو صرف انسانِ کامل ہی کو حاصل ہے، اور اس قربِ خاص کی وجہ خدا کی خصوصی رحمت و عنایت ہے کہ اُس نے پیغمبرِ اکرمؐ کے نور کو قلم کا درجہ دیا، اور امامِ عالیمقامؑ کے نور کو لوح قرار دیا، اس تصوّر کے سوا بیجان اور بے عقل چیزوں میں سے کسی شیٔ کو قلم اور لوح کے معنی میں ربِّ عزّت کے قریب ماننا درست نہیں، کیونکہ قربِ خداوندی کا مطلب عقلی اور روحانی ہے، اور اس کا اطلاق شخصِ کامل پر ہوتا ہے، اس لئے کہ وہی سب سے کامل عقل اور پاک وپاکیزہ روح رکھتا ہے، اس کے برعکس اگر قربِ الہٰی کا درجہ مادّی چیزوں کو حاصل ہوتا تو پھر سونا، چاندی اور

 

۷۷

 

جواہر بے جان و بے عقل ہونے کے باوجود محض مادّی خوبیوں کی وجہ سے اشرف المخلوقات کہلاتے، مگر سب دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، جب یہ ایک حقیقت ہے کہ کائنات وموجودات کی ہر چیز سے انسان اشرف ہے، تو اس میں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ صرف انسان ہی اسی شرافت وفضیلت  کے سبب سے اللہ پاک سے نزدیک تر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ بیجان اور بے عقل چیزیں(مخلوقات) یکسر اس سعادت سے محروم ہیں۔

اس بیان سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ نورِ نبوّت عالمِ لامکان میں قلمِ الہٰی کے مرتبے میں کام کرتا ہے، اور نورِ امامت لوحِ محفوظ کا درجہ رکھتا ہے، جس کا دوسرا نام “اُمّ الکتاب” ہے، جیسا کہ آنحضرتؐ کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے: “اُمّ الکتاب بظاہر سورۂ فاتحہ کا نام ہے، اور بباطن مرتضٰی علی علیہ السلام ہے، کیونکہ کتاب سے أئمّہ مراد ہیں اور روحانی تولید کے اعتبار سے اساسؑ اماموں کی ماں ہے اور ناطقؐ اُن کا باپ ہے۔”  ۱؎

اس مقام پر عقل پوچھتی ہے کہ اُمّ الکتاب سے ہر آسمانی کتاب کا جو رشتہ ہے وہ تو ظاہر ہے، مگر یہ معلوم نہیں کہ اُمّ الکتاب کے ساتھ صحیفۂ کائنات اور کتاب نفس کا کیا رشتہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امُ الکتاب جہاں نفسِ کلّی ہے، وہاں یہ حقیقت روشن

 

۱؎: بحوالۂ کتابِ وجہِ دین گفتار ۱۹ آخری حصہ (حکایت)۔

 

۷۸

 

ہے کہ کتابِ کائنات اور کتابِ ذات (روح) بھی اُسی اصل سے ہیں اور خدا کے کسی چیز کو مٹانے کا تعلق ان تینوں کتابوں سے ہے، مثال کے طور پر اللہ تعالی اس مادّی کائنات کے ستاروں کو مٹاتا اور بناتا رہا ہے، وہ انسان کوبھی مٹاتا اور بناتا ہے، اور اگر ہم اس بات کے بھی قائل ہو جائیں کہ ہمارے دورِ عظیم کے آدمؑ سے قبل بھی بہت سے آدموں کے ادوار گزرگئے ہیں تو اس تصوّر کا واضح مطلب یہ ہوگا کہ خدا نے اپنے اس قانون کے مطابق ان لاتعداد ادوار کی مادّیت کو مٹا دیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے: کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَان، وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ (۵۵: ۲۶ تا ۲۷)۔

دوسری آیت کے تاویلی اسرار: حٰمٓ: ح=۸، م=۴۰ جمع ۴۸، جسکے ۴ عقد ہوئے اور ۸ باقی رہے اور اس کی تاویل ہے: چار اصل یعنی عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطقؐ اور اساسؑ سات امامؑ اور خلیفۂ حضرت قائم علیہ السّلام، ان حدود کی قسم اور کتابِ ناطق(نور) کی قسم کہ ہم نے کتابِ روحانیّت کو عجمی نہیں بلکہ عربی (یعنی تمہاری اپنی زبان میں) قرآن بنایا تاکہ تم اسے بآسانی سمجھ سکو، اور یقیناً وہ ہمارے پاس مرتبۂ اساسیت میں عالی مرتبہ اور پُرحکمت ہے، دوسرے لفظوں میں وہ علی اور حکیم ہے۔

 

۷۹

 

کتابِ مبین کا ایک خاص ترجمہ “بولنے والی کتاب” درست ہے، اس کی دلیل کے لئے سورۂ زُخُرف (۴۳) کی آیت۱۸ (۴۳: ۱۸) کو دیکھئے، اور اسی بنیاد پر یہ بھی درست ہے کہ امامِ مبین(۳۶: ۱۲)کا ایک مطلب ہے بولنے والا، یعنی تاویل کرنے والا امام، کیونکہ تمام چیزیں دائرۂ تنزیل میں نہیں سماتی ہیں، بلکہ تاویل کی وسعتوں میں جملہ اشیائے عقلی و روحانی محدود ہو جاتی ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی کا پاک فرمان ہے: ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہُ (۷۵: ۱۹) پھر اس کا بیان(یعنی تاویل) کرنا ہمارے ذمہ ہے۔ آپ ذرا غور سے اس آیۂ کریمہ کے ماقبل کو بھی دیکھئے کہ اس میں قرآن کے پڑھنے(یعنی تنزیل) کا ذکر ہے اور پھر “بیانِ قرآن” کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، اس سلسلے میں دوسری بڑی حکمت یہ ہے کہ خدائے حکیم نے جس طرح قرآنِ مقدّس کی تنزیل اور پڑھ کر سنانا حضورِ اکرمؐ کے ذمہ ٹھہرایا ہے، اس طرح بیان کو آپؐ سے وابستہ نہیں فرمایا بلکہ آئندہ بیان کی ذمہ داری خدا نے خود لے لی، اور فرمایا کہ تاویل آنے والی ہے(مفہوم ۰۷: ۵۳) سو اس کے یہ معنی ہوئے کہ حضراتِ أئمّہ ہی خدا و روسولؐ کی طرف سے تاویل کا کام کرنے والے تھے۔

یہ امرِ واقعی قرآنِ حکیم کے زبردست معجزات میں سے ہے کہ اس کی حیثیت جہاں مُصحَف میں ہے وہاں وہ عربی میں ہے، جیسے صحیفۂ کائنات میں ہے، ویسے تخلیق اور صناعی تحریروں میں ہے،

 

۸۰

 

لوحِ محفوظ میں ہے تو روحانی نوشتوں میں ہے، امرِکُنۡ میں “کلمۂ جامع الجوامع” میں ہے، قلمِ الہٰی میں عقلی حرکتوں میں ہے، کلماتِ تامّات میں ہمہ رس معنوں میں ہے، اسمِ اعظم میں نورِ ذکر میں ہے، سابقہ آسمانی کتب کی روح وروحانیّت میں ہے، اور جہاں یہ عملی تاویل کی صورت میں ہوتا ہے، وہاں لازمی طور پر روحانی کیفیت اور انفرادی زبان میں ہوتا ہے، کیونکہ قرآن خود زبانِ حکمت سے کہتا ہے کہ اس کی تاویلی روح و روحانیّت کسی بھی مومن کے لئے غیر زبان (عجمی) نہیں۔

اگر اللہ تعالیٰ کے حضور میں قرآنِ پاک اور مولا علیؑ کا یہ رشتۂ وحدت نہ ہوتا تو آنحضرتؑ یہ نہ فرماتے کہ: “قرآن علی کے ساتھ ہے اور علی قرآن کے ساتھ۔” اور نہ آپؐ حدیثِ ثقلین کے ارشاد سے أئمّہ اہلِ بیت کو قرآن سے وابستہ کر کے اپنے جانشین قرار دیتے، اس سے ظاہر ہے کہ قرآن اور امام ظاہراً وباطناً ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔

خدا کی خدائی میں جو چیزیں پائی جاتی ہیں، وہ تین قسم کی ہیں، عقلی، روحانی اور مادّی، اور یہ اشیاء دو مقام پر ہیں، آفاق میں اور انفس میں، انفس کا بہترین نمونہ پیغمبر اکرمؐ کے بعد امامِ عالیمقامؑ ہی کی شخصیّت ہے، یعنی آپؑ ہی کا جسمانی وجودِ مبارک وہ عالمِ ذرّ ہے جو ذرّاتی کائنات کی لوحِ محفوظ ہے اور پھر آپؑ کی روحِ علوی ہے، جو روحِ ارواح، روحِ اعظم، نفسِ کلّی اور آفاقی لوحِ محفوظ کا درجہ رکھتی ہے، اور ان دونوں لوحوں کی وحدت وسالمیّت ایسی ہے، جیسے خورشید

 

۸۱

 

اور عکسِ خورشید (جو آئینۂ صاف سے منعکس ہو) بحقیقت ایک ہوتا ہے۔

یہ بڑی عجیب بات ہے کہ آدمی روحانی ترقی اور بہشت کے بلند ترین درجات کا تصوّر تو رکھتا ہے، لیکن انسانِ کامل جو خدا کی جانب سے نہ صرف اس عروج و ارتقاء کا نمونہ ہے بلکہ وسیلۂ ہدایت بھی ہے، اس کی عظمت و بزرگی کونہیں سمجھتا ہے، مثلاً وہ اس حدیث پر ایمان رکھتا ہے کہ: “بندۂ مومن کا دل اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔” مگر وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس حقیقت کی عملی مثال امام ہے، نیز اس میں یہ نکتہ بھی ہے کہ جہاں ایک عام مومن خدا کا عرش بن سکتا ہے تو وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت و نوازش نے پہلے ہی سے امامِ عالیمقام کو لوحِ محفوظ بنا رکھا ہے، مولائے رومی نے اس سلسلے میں کیا خوب کہا ہے:۔

عقلِ کلّ ونفسِ کلّ مردِ خداست

عرش وکرسی رامدان کزوی جداست

ترجمہ: مردِ خدا یعنی انسان کاملّ ہی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ہے، تو یہ نہ سمجھنا کہ عرش وکرسی اُس سے الگ کہیں ہیں۔

اُمّ الکتاب کے معنی لوحِ محفوظ کے تو صحیح ہیں، مگر سوال اس کی کیفیّت وظرفیّت کے بارے میں ہے، کہ وہ کیسی تختی ہے جو تمام چیزوں کو عقلی، روحانی اور مادّی صورت میں محفوظ کرسکتی ہے؟ کیونکہ کوئی تختی جو عقل وجان کے بغیر ہو، عقول و ارواح کو گھیر نہیں سکتی ہے، سوائے کسی عظیم روح کے کہ وہ ایک طرف سے جسمانی چیزوں کو اور دوسری طرف سے عقلی چیزوں کو اپنی ذات سے وابستہ کرلیتی ہے،

 

۸۲

 

جس کی مثال نفسِ جزوی سے ملتی ہے کہ اس نے جسم و جان کے لاتعداد ذرّات کو اور عقل کی بے شمار باتوں کو اپنی ہستی میں محفوظ کر رکھا ہے۔

جس طرح علمِ عدد میں ایک کے بعد دو کا ہونا لازمی امر ہے جو وحدت وکثرت کے درمیان واسطہ اور وسیلہ ہے، اسی طرح اسلام میں خدائے واحد کے اقرار کے بعد دو عظیم ہستیوں کا تصوّر ہے، وہ قلم اور لوح ہیں، اور اس حقیقت کی مثال عالمِ کبیر میں شمس وقمر ہیں عالمِ صغیر میں عقل وجان ہیں، عرصۂ وجود میں آخرت اور دنیا ہیں اور دورِ مہین میں ناطقؐ اور اساسؑ ہیں، یہی قلم اور لوح دو عظیم فرشتے یعنی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ بھی ہیں، اور عرش و کرسی بھی، اور ان دونوں کے مظہر عالمِ جسمانی میں پیغمبرؑ اور امامؑ ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ظاہر میں سورۂ فاتحہ اُمّ الکتاب ہے، مگر اس مثال میں اُمّ الکتاب اور قرآن کے درمیان جو ظاہری فرق ہے، وہ پوشیدہ نہیں، چنانچہ اگر کوئی شخص سطحی طور پر دیکھے تو اسے صرف الحمد کی بیرونی صورت نظر آئے گی، اور اس میں مادی طور پر کامل قرآن کے لئے کوئی گنجائش نہ ہوگی، لیکن جب کوئی دانشمند اس میں دیدۂ حقیقت بین سے دیکھتا ہے تو اسے اس بات کا یقین آتا ہے کہ بے شک قرآنِ پاک سورۂ فاتحہ کی ہمہ گیر جامعیّت اور وسیع ترین معنوی کیفیّت میں سمایا ہوا ہے، یہ اس حقیقت کی ایک روشن اور عمدہ مثال ہے کہ مولا علی صلوٰت اللہ علیہ باطنی اور روحانی اُمّ الکتاب ہے۔

 

۸۳

 

ہر شخص بمثلِ روحانی طور پر اپنے نامۂ اعمال کو جنم دیتا ہے، اور یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے، اس معنیٰ میں ہر آدمی اپنی ذاتی کتاب (یعنی اعمال نامہ) کی ماں ہے، جیسا کہ قولِ قرآن ہے: اقْرَأْ کَتَابَکَ کَفَی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْباً (۱۷: ۱۴) اپنا نامہ اعمال (خود) پڑھ لے، آج تو خود اپنا آپ ہی محاسب کافی ہے۔ یہ واقعہ ایسا نہیں کہ صرف جسمانی طور پر مرجانے کے بعد روحانی کتاب یعنی نامۂ اعمال مل جاتا ہو، بلکہ جو شخص جیتے جی نفسانی موت سے مرجائے، اس کوبھی یہ کتاب دی جاتی ہے، یہ مثال اور ثبوت ہے کہ کتابِ ناطق یعنی اساس علیہ السّلام بحیثیت مجموعی اُمّ الکتاب ہے۔

 

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۱۷، مارچ ۱۹۸۴ء

 

۸۴

 

سورۂ بروج کے تاویلی اسرار

 

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم۔ برجوں والے آسمان کی قسم(۱)اور اُس دن کی قسم جس کا وعدہ کیا گیا ہے(۲)اور گواہ کی قسم اور اُس کی قسم جس کی گواہی دی گئی ہے(۳) یعنی عقلِ کلّی، نفسِ کلّی، ناطق اور اساسؑ کی قسم۔ (۸۵: ۰۱ تا ۰۳)

بُرُوج کے معنی ہیں مضبوط قلعے، محلات، نیز بارہ آسمانی برج اور برجوں والے آسمان سے عقلِ کلّ مراد ہے، کیونکہ اسی کے وجودِ جوہری میں عقل ودانش اور علم وحکمت کے مستحکم قلعے، حسین وجمیل محلات اور حدودِ دین کے بارہ بروج موجود ہیں، جیسے مستجیب، چھوٹا ماذون، بڑا ماذون، داعیٔ مکفوف، داعیٔ مطلق، حجّتِ جزیرہ، حجّتِ اعظم (حجّتِ مقرب)امام، اساس، ناطق، ثانی اور اوّل۔

یومِ موعود (وعدے کا دن) ثانی ہے، یعنی نفسِ کلّی، اس لئے کہ وقت کا وجود ظاہراً و باطناً اسی سے بنا ہے، اور یہ وہ قیامت ہے جس کی ہستی آسمان و زمین پر محیط ہونے کی وجہ سے بھاری آرہی ہے

 

۸۵

 

(۰۷: ۱۸۷) شاہد (گواہ) ناطقؐ ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمانِ اقدس ہے: اے نبی!ہم نے تم کو گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا اور خدا کی طرف اسی کے حکم سے بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے (۳۳: ۴۵ تا ۴۶) اور مشہود (جس کی گواہی دی گئی ہے) سے اساسؑ مراد ہیں، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور اسی طرح (اے أئمّہ!)ہم نے تم کو عادل امت بنایا ہے تا کہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسولؐ تم پر گواہ بنیں(۰۲: ۱۴۳)۔

مذکورۂ بالا قسم کے بعد ارشاد ہے: کہ کفار ہلاک ہوئے جس طرح خندق والے ہلاک کردیئے گئے، یعنی ہلاکتِ روحانی سے تباہ ہوگئے(۴)کہ آگ بہت ایندھن والی تھی(۵) جس وقت وہ لوگ اس(آگ) کے آس پاس بیٹھے تھے، یعنی شرانگیزی اور فتنہ پردازی میں مصروف تھے(۶)اور جو(سلوک)اہلِ ایمان کے ساتھ کرتے تھے، اس کو سامنے سے دیکھ رہے تھے(۷)اور اُن کافروں نے ان مومنین میں کوئی عیب نہیں پایا، بجز اس کے کہ یہ خدا پر ایمان لے آئے تھے جو غالب اور سزاوارِ حمد ہے(۸) وہ(خدا) جس کی سارے آسمان و زمین میں بادشاہت ہے، یعنی اشارہ ہے اس بات کا کہ اہلِ ایمان کو روحانی سلطنت عطا کردی جائے گی، اور خدا ہر چیز پر حاضر ہے، یعنی نورِ خداوندی کی روشنی میں ہر حقیقت کا مشاہدہ ہوجاتا ہے۔ (۹)

بیشک جن لوگوں نے ایماندار مردوں اور عورتوں کو تکلیفیں دیں

 

۸۶

 

پھر توبہ نہ کی ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور جلنے کا عذاب بھی ہے یعنی دنیا میں بحدِّ قوّت اور آخرت میں بحدِّ فعل آتشِ جہالت میں رہیں گے(۱۰) بیشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کرتے رہے، ان کے لئے وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، یہی تو بڑی کامیابی ہے، یعنی عقل، روح اور لطیف جسم کی گونا گون نعمتیں میسر ہوں گی(۱۱) بیشک تمہارے پروردگار کی پکڑ بڑی سخت ہے، یعنی انفرادی اور اجتماعی حالت میں خدا کی ظاہری اور باطنی گرفت، کیونکہ اس کی قدرت عقل، روح اور جسم پر محیط ہے(۱۲) وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ زندہ کرتا ہے، یعنی جس طرح پہلی بار ابداع کیا تھا، اسی طرح دوبارہ ابداع کرے گا۔ (۱۳) اور وہی بڑا بخشنے والا محبت کرنے والا ہے، یعنی اس کی مغفرت کا یہ کمال ہے کہ اس کے نتیجے میں وہ مومنین سے محبت بھی کرتا ہے(۱۴)

وہ عرشِ مجید(عالیشان)کا مالک ہے، اس میں مرتبۂ عقل کی تعریف ہے اور اسی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے(۱۵) جوچاہتا ہے کرتا ہے، یعنی اس کا چاہنا بڑا منظم اور صدق وعدل سے بھرپور ہے(۱۶) کیا تمہارے پاس لشکروں کی خبر پہنچی ہے(یعنی) فرعون وثمود کی (ضرور پہنچی ہے) یعنی روحانی طور پر اس کا مظاہرہ ہوچکا ہے (۱۷)(۱۸) بلکہ یہ کافر جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں، یعنی جاہل اور نادان ہیں (۱۹)اور خدا ان کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے، یعنی عقل و جان اور

 

۸۷

 

جسم اس کے قبضۂ قدرت میں ہے (۲۰) بلکہ وہ تو باکرامت قرآن ہے جو لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے، یعنی قرآن جہاں لوحِ محفوظ میں ہے وہاں وہ زندہ اور عقلی معجزات کے ساتھ بڑا معزز ہے(۲۱)(۲۲)۔ (۸۵: ۰۴ تا ۲۲)

 

۸۸

 

امریکا سے دو سوال

 

میرے بہت ہی عزیز پیارے نام والے نوردین کو خداوند دونوں جہان کی عزت عطا فرمائے!

میں جان ودل کی حقیقی محبت سے آپ کو اور دوسرے عزیزوں کو یا علی مدد کہتا ہوں اور بہت سی درویشانہ دعائیں کرتا ہوں، پروردگار قبول فرمائے!آمین!!

آپ عزیزوں نے بہت کم عرصے میں امریکا جیسے مادّی ترقی کے طوفانی ملک میں جو روحانی اور علمی پیشرفت کی ہے، اس کو دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ ہزاربار قربان ہوجاؤں، میرا غریب دل کہتا ہے کہ امامِ اقدس واطہر صلوات اللہ آپ سے بہت راضی ہیں، جس کی کئی کئی علامتیں ظاہر ہیں، مثال کے طور پر:۔

(۱)آپ کو ایک خصوصی احساس اور شعور ملا ہے کہ علم وعبادت میں زیادہ سے زیادہ کوشان رہیں، اور عجزوانکساری کے وسیلہ سے کام لے کر اس میں آگے بڑھیں۔

 

۸۹

 

(۲)آپ علمی وسائل کی تلاش میں ہر طرح سے کامیاب ہوگئے ہیں، اور اب صرف علمی دولت کا ذخیرہ کرلینا باقی ہے۔

(۳)آپ کو سب سے بہترین خدمت کرنے کی توفیق عنایت ہوئی ہے اور آپ اسے انجام دے رہے ہیں، یعنی آپ کرۂ ارض پر حقیقی علم کی روشنی پھیلانے والوں کے جان نثار دوست اور مددگار بن چکے ہیں، ایسے دوست کہ وہ آپ کو اپنی پیاری روح کی طرح یا اس سے بھی زیادہ چاہتے ہیں۔

(۴)روز بروز علم وعبادت سے آپ کی دلچسپی بڑھتی جارہی ہے، اور آپ کو ہر وقت اس بات کا انتظار رہتا ہے کہ علم وحکمت کا کوئی تازہ پھل یا پھول کب ملے گا، کوئی ایسا خط یا مقالہ یا کتاب کب دستیاب ہوگی، جس میں امامِ عالی مقامؑ کے بھیدوں کی باتیں ہوں۔

(۵)آپ کو ایک مذہبی محبت اور تڑپ کی صورت میں یہ توفیق بھی عنایت ہوئی ہے کہ مولا پاک کے گھر جایا کریں اور جماعتی روح کی عظیم حکمتوں سے فائدہ اٹھائیں، نیز یہ کہ خصوصی علم کے ذرائع سے منسلک رہیں، الحمدللہ یہ ساری علامتیں آپ میں پائی جاتی ہیں۔

میرے پیارے نور دین! آپ نے اپنے جس خواب کا ذکر میرے بہت ہی عزیز محمد صدرِ عارف سے کیا ہے، وہ ایک نورانی خواب ہے، جس میں روحانی ترقی کے آغاز ہونے کا اشارہ ہے، کیونکہ روحانی عروج کے زینے چار ارواح پر مبنی ہیں، وہ روحِ نباتی،

 

۹۰

 

روحِ حیوانی، روحِ انسانی، اور روحِ قدسی ہیں، ہاں روحانی ترقی کا مشاہدہ روحِ نباتی سے شروع ہوجاتا ہے، قرآنِ حکیم بی بی مریم علیھا السّلام کی اسی منزل سے متعلق فرماتا ہے:۔

وَأَنبَتَہَا نَبَاتاً حَسَنا ً  (۰۳: ۳۷) اور اُگایا اس کو اُگانا اچھا۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ حضرت مریمؑ بیت الخیال کی ابتدائی ترقی کے وقت خواب وخیال میں باغ وگلشن جیسی اُگنے والی خوبصورت چیزیں دیکھتی تھیں، یہ روحِ نباتی کے مراحل کو طے کرنے کی علامت ہے، مگر یہاں ایک بات یاد رہے کہ آگے چل کربھی ایسے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں، کیونکہ چیزیں پہلے ترتیب سے سامنے آتی ہیں، اور پھر حسبِ منشا ہر  چیز کا مشاہدہ ہوتا ہے، جیسے بہشت کا اصول ہے(۵۰: ۳۵)

اس سلسلے میں آپ سب عزیزوں کو ایک اور مضمون: “لندن سے پانچ سوال” کی کاپی بھیج رہا ہوں، شاید پہلے نہ بھیجا ہو، تا کہ آپ اس میں سے بھی علمی فائدہ اٹھائیں، اس میں دوسرے سوالوں کے علاوہ میرے عزیز عبدالرحمٰن نے ایک نورانی خواب کے بارے میں پوچھا ہے جو آپ کے خواب کی طرح ہے، امید ہے کہ آپ عزیزان خداوند کی رحمت سے خوش ہوں گے۔

آپ کا ایک اور سوال میرے پاس آیا ہے، وہ یہ آیۂ مقدسہ ہے: کَیْفَ تَکْفُرُونَ بِاللَّہِ وَکُنتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ إِلَیْہِ تُرْجَعُون (۰۲: ۲۸) کیونکراللہ کے ساتھ

 

۹۱

 

کفر کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے پس تم کو جِلایا پھر تم کو مردہ کرے گا پھر تم کو جِلادے گا پھر اسی کی طرف پھیرے جاؤگے۔

یہ سوال بنا بنایا نہیں تھا، اس لئے جہاں تک میں سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس میں بنیادی سوال البتہ “کُنتُم اَموَاتاً” میں پوشیدہ ہے، یعنی “تم مردہ تھے” فرمانے میں کیا حکمت ہے؟ حالانکہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ انسان موجودہ زندگی سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا، اور اگر یہی تصوّر درست ہوتا تو قرآنِ حکیم فرماتا کہ تم کچھ بھی نہ تھے، لیکن جب قرآن جیسی حکیمانہ کتاب میں “کُنتُمُ” کا لفظ آیا تو ہوش مند پر واجب ہوا کہ وہ اس میں غور کریں اور پوچھے، کیونکہ عربی اور پھر قرآنِ حکیم کی زبان ایسی نہیں کہ اس میں ادائے مطلب کے لئے کسی طرح کی مجبوری ہو، اس سوال کو ہم اس طرح بھی اُجاگر کرسکتے ہیں کہ جب کوئی آدمی جسمانی طور پر مرجاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ فلان شخص مرگیا ہے یا کہتے ہیں کہ مرگیا تھا، یہ بالکل’کُنتُم اَمُوَاتا‘‘ کی طرح ہے یعنی تم مردہ تھے، اس لئے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو وہ اصل وجود کے اعتبار سے “مردہ” اور “تھا” کے دونوں معنی رکھتا ہے، کیونکہ مرجانے کا ثبوت جسم ہے جو آگے چل کر مٹ جائے گا، اور “ہے” یا “تھا” کی دلیل روح ہے جو موجود ہے مگر اُس جسم سے جدا ہوچکی ہے۔

بہرکیف اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انسان کسی ابتداء وانتہا کے بغیر ہمیشہ ہمیشہ فناوبقا کے درمیان اس طرح سفر کررہا ہے کہ کبھی

 

۹۲

 

مردہ کہلاتا ہے اور کبھی زندہ، اور یہ دونوں باتیں کئی معنوں میں درست ہیں، مگر اس میں جو موت یا فنا ہے، وہ عدمِ محض یعنی قطعی NOTHINGNESSنہیں، بلکہ ہر زندہ مخلوق کی زندگی کا ایک معیار مقرر ہے، اسی طرح انسانی حیات وبقا کے لئے بھی احساس وشعور کی ایک حد ہے، پس اگر کوئی شخص اس حد سے پیچھے ہے تو حیوان ہونے کے معنی میں مردہ ہے، اور آگے گزر چکا ہے تو فرشتہ بن جانے کے معنی میں مرچکا ہے، جیسے فرمایاگیا ہے کہ “مرجانے سے قبل مرجاؤ” (۵۵: ۲۶ تا ۲۸) جیسے سورۂ رحمان(۵۵: ۲۶ تا ۲۸)میں فنافی اللہ اور بقا باللہ کا ذکر ہے، پس “کُنْتُمْ اَمْوَاتا” میں ایسی موت کا ذکر ہے، کہ وہ قطعی موت نہ تھی، بلکہ وہ عالمِ امر کی ایک ایسی زندگی تھی جس میں روح ہوتی ہے مگر علم نہیں ہوتا۔

اس آیۂ کریمہ کا ایک اور تاویلی پہلو ہے، وہ یہ کہ: “اے مومنین تم کیوں کرنا سپاسی کرتے ہو اللہ کے ساتھ، حالانکہ تم میں ذکرو عبادت اور علمِ دینِ حق کی روح نہیں تھی، پس اُس نے تم کو یہ روح دے کر زندہ کیا، پھر تم پر سلسلۂ روحانیّت میں مرحلۂ عزرائیلؑ آئے گا، جس میں نفسانی موت ہے، پھر تم کو نورِ علم وحکمت سے زندہ کرے گا، اور پھر نتیجے کے طور پر تم خدا تک پہنچ جاؤ گے۔”

نور دین! آپ اپنے عزیز ساتھیوں کو میری طرف سے یاعلی مدد کہہ دیں، امید ہے کہ یہ علمی خط حلقۂ احباب میں پڑھا جائے گا،

 

۹۳

 

نیز اس کی کاپیاں خانۂ حکمت اور عارف کے ہیڈکوارٹرز اور تمام شاخوں میں بھیجی جائیں گی اور یہی ہمارا اصول ہے کہ ہمارا خط علمی مقالے کی صورت میں ہوتا ہے اور اس میں کچھ وقت لگا کر بڑی ذمہ داری سے لکھا جاتا ہے اور آگے چل کر یہی خطوط مستقل کتاب کا حصہ بن جاتے ہیں، پس یہ خط علمی بھی ہے اور تاریخی بھی۔

فقط آپ کا دعاگو

نصیرُ الدین نصیر ہونزائی

 

۹۴

 

سورۂ قیامت

 

بسمِ اللّٰہ الرّحمن ِ الرَّحِیم، میں روزِ قیامت ( یعنی روحانیت) کی قسم کھاتا ہوں(۷۵: ۰۱)اور(برائی سے)اپنے اوپرملامت کرنے والے جی کی قسم کھاتا ہوں(کہ انبعاث برحق ہے) (۷۵: ۰۲)کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو(بوسیدہ ہونے کے بعد)جمع نہ کریں گے۔ ہڈیوں سے ذرّاتِ لطیف مراد ہیں، جن کی یکجائی سے جسمِ مثالی بن جاتا ہے(۷۵: ۰۳)ہاں ہم اس پر قادر ہیں کہ اس کی پور پور درست کریں۔ دونوں ہاتھوں کی انگیوں میں اٹھائیس ۲۸ پور ہیں، جو ۲۸ حجتوں کو ظاہر کرتی ہیں، جن میں سے دونوں انگوٹھوں کی چار پور چار مقرّب حجّتوں کی مثال ہیں، اور باقی انگلیوں کی ۲۴ پوریں دن اور رات کے باقی چوبیس حجّتوں کی دلیل ہیں، جن کا تعلق بارہ جزائر سے ہے، کیونکہ انسان کی روحانی حیات وبقا اور انفرادی قیامت کا لگاؤ ذرّاتِ لطیف، حجّتانِ روزو شب اور امامِ عالیمقامؑ سے ہے(۷۵: ۰۴)

 

۹۵

 

بلکہ انسان تو یہ چاہتا ہے کہ اپنے آگے بھی(ہمیشہ) برائی کرتا چلا جائے گا(۷۵: ۰۵)پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب ہوگا(۷۵: ۰۶)تو جب آنکھیں چکا چوند میں آجائیں گی، یعنی جب روحانیّت کی تیز روشنی سے آنکھیں خیرہ ہوجائیں گی(۷۵: ۰۷)اور چاند میں گرَہنْ لگ جائے گا، یعنی روحانی مسافر کی حیثیت جو ماہِ کامل کی طرح چمکنے لگی تھی، وہ ایک بار مدھم ہوجائے گی، جس طرح یہ ذکر ہوچکا ہے کہ پہلے روحانی پیدائش ہے، پھر نفسانی موت آتی ہے، اور آخر میں انبعاث ہے(۷۵: ۰۸)اور سورج اور چاند اکٹھا کردیئے جائیں گے، یعنی اُس وقت روحانی مسافر(سالک) کی “اَنَا” حدودِ دین کی سیڑھی پر جو حجتِ اعظم تک پہنچ گئی تھی، وہ امامِ اقدس و اطہرؑ سے واصل ہوجائے گی، اور یہی اس کا انبعاث ہے(۷۵: ۰۹)انسان کہے گا آج کہاں بھاگ کرجاؤں، یعنی انبعاث کا تعلق روح اور انا سے ہے، مگر جسم جب تک زندہ ہے، اُس پر شدید قسم کی تکالیف کا آنا لازمی ہے، جس کی مثال انبیاء علیھم السّلام کی حیاتِ طیبہ سے مل سکتی ہے(۷۵: ۱۰)یقین جانو کہیں پناہ نہیں(۷۵: ۱۱)اُس روز تمہارے پروردگار ہی کے پاس ٹھکانہ ہے، یعنی جسمانی مصائب وآلام سے زندگی میں ہنگامی نجات اور مرنے کے بعد دائمی نجات خدا تعالی ہی کے حضور میں ملتی ہے(۷۵: ۱۲)

اُس دن آدمی کو جو کچھ اُس نے آگے پیچھے کیا ہے بتا دیاجائے گا(۷۵: ۱۳)بلکہ انسان خود اپنی حالت پر خوب مطلع ہوگا، یعنی شعوری قیامت

 

۹۶

 

میں نامۂ اعمال جو بولتی کتا ب ہے اُس سے سب کچھ ظاہر ہوگا، اس معنی میں انسان چشمِ باطن سے اپنے جملہ احوال کو دیکھ سکتا ہے(۷۵: ۱۴)اگر چہ وہ عذر معذرت کرتا رہے(۷۵: ۱۵)

(اے رسولؐ) وحی کے جلدی یاد کرنے کے واسطے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اس میں حضورِ اکرمؐ کے اسمِ اعظم اور ذکرِ قلبی سے متعلق ہدایت بھی ہے(۷۵: ۱۶)تحقیق اس کا(تمہارے قلب میں) جمع کردینا اور پڑھنا ہمارے ذمہ ہے، یعنی سر کی زبان سے نہیں بلکہ سِر کی زبان سے پیغمبرِ خداؐ نے اسمِ اعظم کا ذکر کیا، اور یہ دراصل فرشتے کی زبان ہے، جس میں آنحضرتؐ پر قرآن نازل ہوا(۷۵: ۱۷)تو جب ہم اس کو(جبرائیل کی زبانی) پڑھیں تو تم بھی اسی طرح پڑھا کرو(۷۵: ۱۸) پھر اس( کی تاویل) کا سمجھا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے، یعنی ہر زمانے میں معلمِ قرآن ہوا کرے گا، جو خدا ورسولؐ کی جانب سے مؤوِّل(مُؤوِّل: تاویل کرنے والا)ہوگا(۷۵: ۱۹)

(لوگو!جیسا تم سمجھتے ہو)ایسا نہیں بلکہ تم دنیا کو دوست رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑے بیٹھے ہو، یعنی اصولِ روحانی کو نظر انداز کررہے ہو(۷۵: ۲۰)(۲۱)اُس روز بہت سے چہرے تو تروتازہ بشاش ہوں گے اور اپنے پروردگار کو دیکھ رہے ہوں گے، یعنی ان لوگوں کی سب سے بڑی خوشی اس بات سے ہوگی کہ وہ اپنے ربّ العزّت کو ایک طرح سے دیکھ سکیں گے اور پہچان لیں گے

 

۹۷

 

(۷۵: ۲۲)(۲۳) اور بہتیرے منہ اُس دن اداس ہوں گے(۷۵: ۲۴)سمجھ رہے ہیں کہ ان پر وہ مصیبت پڑنے والی ہے کہ کمر توڑ دے گی، اس میں علمی وعرفانی مفلسی کی طرف اشارہ ہے۔

(لوگو!جیسا تم سمجھتے ہو) ایسا نہیں جب جان(بدن سے کھچ کے)ہنسلی تک آ پہنچے گی اور کہا جائے گا کہ (اس وقت) کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے(۷۵: ۲۶) (۷۵: ۲۷)اور مرنے والے نے گمان کیا کہ اب(سب سے )جدائی ہے۔ اس میں نفسانی اور جسمانی دونوں قسم کی موت کا ذکر ہے(۷۵: ۲۸) اور (شدّتِ سکراتِ موت سے)ایک پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ جاتی ہے اُس دن تجھ کو اپنے پروردگار کی بارگاہ میں چلنا ہے(۷۵: ۲۹)(۳۰)۔

تو اُس نے نہ (کلامِ خدا کی ) تصدیق کی نہ نماز پڑھی۔ تصدیق صدیقِ اکبر(اساس= علیؑ) کے وسیلے سے ہوتی ہے، یعنی اساس کی تاویل کی پیروی کرنا تصدیق ہے اور نماز کی تاویل أئمّۂ طاہرین سے وابستگی ہے(۷۵: ۳۱) مگر جھٹلایا اور ایمان سے منہ موڑا پھر اپنے گھر کی طرف اتراتا ہوا چلا(۷۵: ۳۲)(۳۳) تیری  کمبختی پر کمبختی آنے والی ہے پھر(مکرر سن لے کہ) تیری کمبختی پر کمبختی آنے والی ہے(۷۵: ۳۴)(۳۵)کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔ یعنی اگر کوئی شخص آتشِ جہالت میں ہلاک ہوجائے تو پھر بھی اسے قانونِ رحمت زندہ کردے گا(۷۵: ۳۶)کیا وہ(ابتداءً)منی کا قطرہ نہ تھا جو رحم میں ڈالی

 

۹۸

 

جاتی ہے پھر لوتھڑا ہوا پھر خدا نے اسے بنایا پھر اسے درست کیا۔ اس میں نہ صرف جسمانی تخلیق کا ذکر فرمایا گیا ہے، بلکہ روحانی تکمیل کا بھی تذکرہ ہے (۷۵: ۳۷)(۳۸) پھر اس میں سے دوجوڑے بنائے(یعنی ایک) مرد اور (ایک)عورت۔ یعنی ایک ہی نور سے عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کا وجود بنایا، نیز ایک ہی نور سے ناطقؑ اور اساسؑ موجود ہوئے(۷۵: ۳۹)کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ(روحانیّت اور قیامت میں) ہر قسم کے مردوں کو زندہ کرے۔ یعنی یہ یقینی بات ہے کہ اللہ تعالی تمام عقلی، روحانی اور جسمانی مردوں کو زندہ کرے گا، کیونکہ وہ قادرِ مطلق ہے(۷۵: ۴۰)

توضیح: قرآنِ حکیم میں اکثر و بیشتر ایک ایسی قیامت کا ذکر ملتا ہے، جو ایک طرف سے انفرادی ہے اور دوسری طرف سے اجتماعی کیونکہ وہ شعوری طور پر صرف ایک ہی فرد کی قیامت ہوا کرتی ہے، مگر غیر شعوری طور پر سب کی، جس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کا وقوع عالمِ ذرّ میں ہوتا ہے، جہاں تمام مردوں اور زندوں کا بصورتِ ذرّات انتہائی عظیم اجتماع ہوتا ہے لیکن لوگ اس سے بے خبر رہتے ہیں، جیسا کہ فرمایا گیا ہے:۔

اور تم ہمارے پاس تنہا تنہا آگئے جس طرح ہم نے اول بار تم کو پیدا کیا تھا(۰۶: ۹۴)اس آیۂ حکمت آگین میں اجتماعی قیامت کے پہلو کو چھوڑ کر انفرادی قیامت کا ذکر کیا گیا ہے، اور ثبوت پیش کیا

 

۹۹

 

گیا ہے کہ جس طرح لوگ دنیا میں فرداً فرداً آتے ہیں، اسی طرح یہ یکے بعد دیگرے درجۂ کمال پر خدا تعالی کی طرف رجوع ہوجاتے ہیں، جس کی ایک روشن مثال حضراتِ انبیاء وأئمّہ علیھم السّلام کے مختلف زمانوں میں فرداً فرداً اور الگ الگ آنے جانے سے ظاہر ہے۔ والسّلام۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۵ اپریل ۱۹۸۴ء

 

۱۰۰

 

تجلّیات و ظہورات

 

عزیزانِ خانۂ حکمت کراچی کی پیاری خدمت میں خداوندِ قدوس شرق و غرب کے تمام عزیزوں کو دونوں جہان کی سلامتی عطا فرمائے، آمین!

اس وقت بندۂ مسکین یہ خط اپنے قریہ حیدرآباد(ہونزہ) سے تحریر کررہا ہے، کل بعد دعائے خفتن خانۂ حکمت کی ایک اہم میٹنگ ہوئی تھی، جوبارہ بجے تک جاری رہی، جس میں زیادہ سے زیادہ وقت مجھے دیا گیا، مجھے یہاں کے عزیزوں سے مل کر بے حد خوشی ہوئی، کیوں نہ ہو میرے عزیزان سب کے سب مولائے پاک کے باغِ روحانیّت کے زندہ پھول ہیں، ایسے اعلیٰ اور پسندیدہ پھول، جو عقل و دانش اور علم وحکمت کی رنگینیوں اور خوشبووں سے بھر پور ہیں، جن کی ہمنشینی آنکھوں کو منوّر اور دماغ کو معطر کر دیتی ہے اور اسی طرح نور و سرور اور جلوۂ طور کا قصّہ چھڑ جاتا ہے۔

 

میرے انتہائی عزیز دوستو!امامِ عالی مرتبت صلوات اللہ علیہ

 

۱۰۱

 

کی مقدّس محبت اور پھر معرفت میں جو بے پایان خزانے پوشیدہ ہیں اور جیسی لازوال دولت پنہان ہے، اس کا باربارتذکرہ باربار موسمِ بہار کی آمد کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر نور کے گونا گون جلووں کی طرح نشاط آور ہے۔

ہمیں نورِ حقیقت کی روشنی میں خوب سوچنا چاہئے کہ کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شَأْن (۵۵: ۲۹) کا کیا مطلب ہے؟ ہر روز وہ ایک شان میں ہوتا ہے، جس طرح کبھی ایام ختم نہیں ہوتے، اسی طرح اس کی شِؤن (شانیں) لاانتہا ہیں، اس کے معنی تجلّیات وظہورات ہیں اور وہ تین قسموں میں ہیں، عقلی یا علمی، روحانی اور صوری، ہمیں آپس میں اس پر بھی مذاکرہ کرنا چاہئے کہ عقلی، روحانی اور صوری تجلّیات میں کیا فرق ہے؟

اہلِ دانش کے نزدیک خداشناسی(معرفت) ایک مسلّمہ حقیقت ہے، جو تجلّیات سے وابستہ ہے، اور یہ نوع بنوع تجلّیات اور ظہورات اسمائے صفات سے متعلق ہیں، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، ہر صفت کے تین پہلو ہیں یا تین مظہر ہیں یا سہ گانہ جلوہ گاہ ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ کا ایک نام “النور” ہے، جس کا ظہور تین درجوں میں ہوا کرتا ہے، وہ تین درجات عالمِ عقل، عالمِ روحانیّت اور عالمِ انسانیّت ہیں، ہر درجہ میں کئی ذیلی درجات ہوا کرتے ہیں، اور بحیثیتِ مجموعی اعلیٰ درجات آسمان اور ادنیٰ درجات زمین کہلاتے ہیں۔

 

۱۰۲

 

خدا کا ایک اسمِ صفت “ربّ” ہے، یعنی پروردگار، جو انسانیّت کی عقلی، روحانی اور اخلاقی پرورش کرتا ہے، جس کا تفصیلی مشاہدہ بموجبِ قانونِ معرفت ضروری ہے، کیونکہ سالک، عاشق اور عارف کے لئے مشاہدۂ تجلّیات وظہورات ازبس ضروری ہے، اور قرآنِ مقدّس کی جملہ ہدایات کی غرض وغایت مشاہدۂ اسماء ہے، جس کی ابتداء خدا کے ایک ایسے اسم سے ہوتی ہے جو اہلِ سعادت کے لئے نزدیک اور آسان ہے، کیونکہ اللہ پاک اپنے بندوں کے لئے ہر طرح کی آسانی چاہتا ہے، دشواری نہیں چاہتا، پروردگارِ عالم کا وہ اسم امامِ زمانؑ ہیں، جو قرآنِ حکیم کی زبان میں “الظاہر” ہے، یہی اسم جو ظاہر ہے وہ زندہ یعنی حَیّ بھی ہے اور قیّوم بھی، جیسے یہ ظاہر ہے، ایسے یہ مُظْہِر بھی ہے اور مُظْہِر بھی، مُظہر اور مَظہَرْ کے معنی میں یہ آئینۂ صفات و تجلّیات بھی ہے اور ان معنوں میں نورِ خدا بھی ہے۔

جب خدا ایک ہے تو اس کا اسمِ اعظم بھی ایک ہی ہے، مگر اس کے ظہورات کثیر ہیں، یعنی خدا کے بہت سے نام اسمِ بزرگ کے مختلف جلوے یا تجلّیات ہیں، اور کوئی شک نہیں کہ خدا کا بزرگ اور زندہ نام امامِ زمانؑ ہیں۔

امامِ زمانؑ کے غلاموں کا غلام

نصیرُ الدّین نصیر ہونزائی

۱۵، اپریل ۱۹۸۴ء

 

۱۰۳

 

کتابِ مکنون

 

میرے بہت ہی عزیز صدر خانۂ حکمت فتح علی حبیب اور ہماری آسمانی بیٹی گل شکر سلامت رہیں!

میں ہزارگونہ خیرخواہی اور انتہائی خلوص کے ساتھ آپ کو اور جملہ عزیزانِ شرق وغرب کو یاعلی مدد کہتا ہوں، اور ہر عاجزانہ دعا میں یاد کرتا ہوں، خداوندِ قدّوس اسے قبول فرمائے!آمین!!

یہ بات بڑی مسرت بخش اور صداقت سے بھر پور ہے، اس لئے اس کو دہرانا چاہئے کہ آپ دونوں میرے لختِ جگر ہیں، میرے قابلِ فخر شاگرد اور علمی فرزند، میرے سینئر عملدار اور بہت ہی عزیز بچے، میرے بہت سے علمی بھیدوں کے جاننے والے، میری پشت پناہی کرنے والے، میرے خانۂ حکمت کا درختِ پُرثمر، جس کی پیاری پیاری شاخیں افراد بھی ہیں، ادارے بھی، جن کے پھول اور پھل، رنگ وبو اور لذّت وحلاوت سے بھرے ہوئے ہیں۔

خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف سے وابستہ افراد کی کتنی بڑی سعادت ہے کہ وہ قرآن اور روحانیّت کے بلند ترین خزانوں سے علم وحکمت کے گرانقدر جواہر کا ذخیرہ کرلیتے ہیں، تاکہ پیاری جماعت

 

۱۰۴

 

کی بہترین علمی خدمت کرسکیں، یقیناً امامِ اقدس واطہر صلوات اللہ علیہ کے عرفانی اسرار(بھید) بڑے حیرت انگیز ہیں، جن کو صرف اہلِ سعادت ہی جانتے ہیں، یہ بھید اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات ہیں، جن میں مومنین کی عزت وبرتری پوشیدہ ہے۔

اس سلسلے کی ایک مثال یہ ہے کہ امامِ عالیمقام علیہ السّلام کتابِ مکنون ہے جس میں قرآنِ حکیم کی حکمت پوشیدہ ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ امام کا علمی مرتبہ لوگوں سے پنہان ہے، نیز امام کا نور مومنین کی روحانیّت میں کام کرتا ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ کتابِ مکنون کتابِ عقل ہے، یعنی نورِعقل، جو روحانیّت کا آخری مرتبہ ہے، اور ان تمام معنوں میں امامِ زمانؑ کی تعریف ہے۔

کتابِ مکنون جس میں قرآن ہے، اس کو کوئی چھو نہیں سکتا، مگر وہ لوگ جو پاک کئے گئے ہیں، (۵۶: ۷۷ تا ۸۰) یعنی امامِ اقدس واطہرؑ کے اس مرتبۂ اعلیٰ سے علم ومعرفت حاصل کرنے کے لئے ازبس پاکیزگی چاہئے، یعنی ہر قسم کی پاکیزگی، مگر یہ پاکیزگی جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے بحکمِ خدا پیغمبرِ اکرمؐ اور امامِ زمانؑ کے وسیلے سے ہوسکتی ہے۔

اگرچہ ظاہراً قرآن سامنے ہے، لیکن اس کے عظیم اسرار(بھید) کتابِ مکنون میں پوشیدہ ہیں، اگر آپ بدرجۂ علم الیقین قرآنی اسرار میں سے جانتے ہیں، تو یہ آپ کی بہت بڑی خوش نصیبی ہے، اور آپ کی “انا” پاک ہے، ورنہ یہ فضیلت حاصل نہ ہوتی۔

 

 

۱۰۵

 

بے شک کتابِ مکنون امامِ عالیمقام ہے اور اُس کی پاک ہستی تک رسائی، قرآن کی زبان میں(مَسّ ۵۶: ۷۹) چھونا تین درجوں پر مکمل ہوجاتا ہے، پہلا ظاہر میں، دوسرا روحانیّت میں اور تیسرا مقامِ عقل پر جس طرح کسی خاموش کتاب کو چھونے کا مقصد پڑھنا ہے، اسی طرح بولنے والی کتاب کو چھونے کے معنی ہیں، رسائی اور انتہائی قربت ونزدیکی، تاکہ وہ خود اپنی علمی اور عرفانی ہستی کو پڑھ پڑھ کر آپ کو سنائے اور سکھائے۔

مومنین اور مومنات کو قیامت یعنی روحانیّت میں کتابِ مکنون (نورِ امامت) سے انتہائی رسائی ہوجاتی ہے اور یہ کتاب ان کے آگے اور داہنی طرف چلتی رہتی ہے(۵۷: ۱۲) اور اسی عمل میں تمام حکمتیں جمع ہوجاتی ہیں۔

قرآنی الفاظ اور جملوں کے آپس میں معنوی ارتباط و رشتہ ہوا کرتا ہے، لہٰذا کتابِ مکنون اور لولوئے مکنون کا ایک ہی ممثول ہے اسی طرح لولو کی مناسبت کنز(گنج) سے ہے، کنز کا تعلق مفتاح یا مقلد(جمع مقالید)سے ہے، جو فتح سے متعلق ہے، اور اسی طرح معنویتِ مشترکہ کا دائرہ بہت وسیع ہوجاتا ہے۔

 

خاکپائے مومنان

نصیر الدین نصیر ہونزائی۔ ازہونزہ

۱۹۔ اپریل ۱۹۸۴ء

 

۱۰۶

 

انفرادی روح اور جماعتی روح

 

میرے بہت ہی عزیز بچے صدر محمد عبدالعزیز اور عزیز بیٹی یاسمین کو خداوندِ مہربان دونوں جہان کی سلامتی عنایت فرمائے!

خلوص، روحانی محبت اورصداقت سے بھر پور یاعلی مدد قبول ہو! ایسی قلبی دعاؤں کے ساتھ تمام عزیزوں کو بھی یاد کرتا ہوں، اور یہ یاد شکرگزاری کا باعث بنتی ہے، الحمد للّہ علیٰ احسانہ۔

آپ عزیزوں کی گرانقدر خدمات اور بے مثال قربانیاں جو حقیقی علم کو ہمیشہ محفوظ رکھنے اور پھیلانے کے لئے پیش کرتے ہیں، وہ سدا بہار باغ وگلشن کی طرح مسرت انگیز اور روح افزا ہیں، آپ مقصدِ علم کے لئے جان نثار اور شمعِ معرفت کے پروانہ ہیں، آپ ہمیں بہت ہی عزیز ہیں، اس لئے کہ آپ میری روح کے اجزاء ہیں، ہم انفرادی ارواح میں الگ الگ ہیں مگر اجتماعی روح میں ایک ہیں، الحمد للہ۔

ایک شخص کی روح انفرادی روح کہلاتی ہے، جماعت کی روح اجتماعی روح ہوتی ہے، ہر وہ مومن جماعتی روح میں زندہ ہوسکتا

 

۱۰۷

 

ہے، جو خلوصِ نیت سے جماعت کی مفید خدمات انجام دیتا ہو، خدمت جس قدر زیادہ اور دور رس ہو، روح اس قدر وسیع ہوجاتی ہے۔

آپ میں سے ہر ایک میں ایک ہی روح ہے، مگر اس کے ذرّات اتنے ہیں، جتنے کہ دنیا بھر کے لوگ، بلکہ اُن سے بھی زیادہ، یہ قانونِ روح اس لئے ایسا ہے، تا کہ ہر وہ شخص جو جماعت کی خدمت کرتا ہو جماعتی روح میں زندہ ہوجائے، وہ اس طرح کہ اس کی روح کے ذرّات کا ایک گروپ جماعت کی نمائندگی کرتا ہے، یعنی ایک ذرّہ ایک فرد کو ظاہر کرتا ہے یا فرد ذرّہ میں زندہ ہوکر بولنے لگتا ہے، اسی طرح آپ کی ذات میں پوری جماعت کی روح سما جاتی ہے۔

جس طرح یہ حقیقت ہے کہ ہر چیز اور ہر شخص کی ایک روح ہوا کرتی ہے، اسی طرح یہ بھی صحیح ہے کہ قوم اور جماعت کی بھی قومی اور جماعتی روح ہوتی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتاً لِلّہِ حَنِیْفاً وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ  (۱۶: ۱۲۰) بیشک ابراہیمؑ خدا کی ایک فرمانبردار اُمت تھے جو ایک طرف کے ہورہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔ اس آیۂ کریمہ میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے مراتب میں سے اُس مرتبے کا ذکر فرمایا گیا ہے، جس میں آپؑ پوری امت کی پاکیزہ روح بن چکے تھے یعنی آپ کی روح کے ذرّات میں امت کے تمام افراد زندہ ہوگئے

 

۱۰۸

 

تھے، اسی طرح آپ کی ہستی میں امت کی روح پوشیدہ تھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح انفرادی اور جماعتی روح ہے اسی طرح اُمتی روح بھی ہے جس کا ذکر ہوا، اور کائناتی روح بھی ہے جس کو نفسِ واحد کہاجاتا ہے، جس کا ذکر قرآن وحدیث دونوں میں موجود ہے(۳۱: ۲۸)حدیثِ شریف یہ ہے: اِنَّما المومنونَ اِخْوَۃُ وَاْلانبیائِ کنفسِ وّاحدہ= مومنین بھائی بھائی ہیں اور انبیاء ایک جان(یعنی کائناتی روح) کی طرح ہیں۔ اس ارشاد کاخلاصہ یہ ہے کہ ہر ناطق اور اس کا اساس اپنے مومنین کے روحانی پدرومادر ہیں اور بمرتبۂ نفسِ کلّی نہ صرف دونوں بلکہ جملہ ناطقان و اساسان ایک ہیں، اور ہر اُمت کے مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں، یہاں یہ ارشاد ہے کہ مومنین اپنے روحانی والدین کے نقشِ قدم پر چل کر آخر کار نفسِ واحدہ میں زندہ ہوجائیں گے، کیونکہ نفسِ واحدہ کا تعلق کسی ایک فرد سے نہیں بلکہ آگے چل کر فرداً فرداً سب اس میں سما جانے والے ہیں، جیسا کہ فرمایا گیا ہے:۔

مَّا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ إِلَّا کَنَفْسٍ وَاحِدَۃٍ  (۳۱: ۲۸) تمہارا (روحانی) جنم اور انبعاث ایک جان کی طرح ہے، یعنی جب تم میں سے کوئی روحانی طور پر پیدا کیا جاتا ہے تو وہ اپنے آپ میں ذرّاتِ روح کے توسط سے تمام لوگوں کے پیدا کئے جانے کی نمائندگی کرتا ہے اور جب اس کا انبعاث ہوجاتا ہے تو اس میں بھی سب کی نمائندگی ہو

 

۱۰۹

 

جاتی ہے، اس معنیٰ میں سب کی روحانی پیدائش اور انبعاث ایک جان کی طرح ہے، اور یہی واقعہ زمانہائے دراز میں ہر روح پر گزرتا ہے۔

 

فقط عزیزوں کا علمی خادم

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۲۔ اپریل ۱۹۸۴ء

 

۱۱۰

 

علمی اور روحانی رشتہ

 

میرے بہت ہی عزیز نصراللہ نائب صدرِ خانۂ حکمت اور عزیز بیٹی امینہ کو خداوند دونوں جہان کی کامیابی اور سرفرازی عنایت کرے!

میں ایسے قلب کی گہرائی سے یاعلی مدد کہتا ہوں، جس نے نورِ اسلام کے بے شمار عجائب وغرائب اور لاتعداد علمی معجزات دیکھے ہیں، آپ دونوں عزیزان میرے خداداد(GOD GIVEN) بچے ہیں، آدمی کا ایک بچہ وہ ہوتا ہے جو ماں باپ کی ہزاروں مشقتوں کے بعد بڑی مشکل سے دین ودنیا کا مفید کام کرنے لگتا ہے، دوسرا فرزند وہ ہوتا ہے جو پروردگارِ عالم نے اپنی رحمتِ بے نہایت سے عنایت کردیا ہو، ایسا بچہ گویا آسمان سے کسی مشقت کے بغیر ملتا ہے، یہ تصوّر میرے نزدیک ایک ٹھوس حقیقت ہے، کیونکہ میں نہ صرف رشتۂ ارواح کا قائل ہوں، بلکہ ان کی وحدت کو بھی بہت ہی قریب سے دیکھ رہا ہوں۔

 

۱۱۱

 

دنیا کے ہر ہنر اور ہر پیشہ میں استاد اور شاگرد باپ بیٹے کی طرح ہوا کرتے ہیں، کیونکہ ہنر مندی کی روح جو شاگرد میں پیدا ہو جاتی ہے، وہ استاد سے آتی ہے اور خاص کر علم کی روح ایک زندہ حقیقت ہے، لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں کہ معلم اور متعلم باپ بیٹے کی طرح ایک دوسرے کو عزیز ہوا کرتے ہیں، اور یہ رشتہ بڑا پیارا ہوتا ہے جو اٹوٹ ہے۔

امام برحق صلوات اللہ علیہ کے ساتھ ہم سب کا جو روحانی رشتہ ہے وہ سب سے اعلیٰ اور بے مثال ہے، اس کے مقابلے میں کوئی رشتہ ٹھہر نہیں سکتا، تا ہم ابتدا میں ذیلی چیزیں سامنے آتی ہیں، اور اس میں خدائی مصلحت وحکمت ہے۔

نورِ امامت کے ساتھ ہم مریدوں کے جوجو رشتے ہیں وہ سب آج ظاہر نہیں، مگر بعض ظاہر ہیں، ان تمام میں سے ایک خاص رشتہ یہ ہے کہ امامؑ ہمارا نور اور روح ہیں (۵۷: ۱۲، ۱۷: ۸۵) امامِ عالی صفات صلوات اللہ علیہ مومنین کا اپنا نور اس معنٰی میں ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: نورُھُم ْ(یعنی مومنین کا نور) یہ رشتہ عام نہیں بلکہ خاص ہے جس کو سمجھنے کے لئے متعلقہ آیۂ کریمہ میں غور کرنے کی ضرورت ہے اور امام علیہ السّلام ہماری اپنی روح اس لئے ہیں کہ یہی مذکورۂ بالا نور روح ہے، جس کے ساتھ ہمارے رشتے کا ذکر ہوا، نیز اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ جس طرح جماد کی روح نبات ہے

 

۱۱۲

 

اس لئے اسے نباتات میں منتقل ہوجانا چاہئے، نبات کی بڑی روح حیوان ہے، لہٰذا اسے حیوانات میں فنا ہوجانا ضروری ہے، حیوان کی بڑی روح انسان ہے، اس لئے اسے یہاں آنے کی خاطر قربان ہوجانا لازمی ہے اور انسان کی روحِ اعظم انسانِ کامل ہے، جس میں متنقل ہوجانے کے واسطے دو چیزوں کی ضرورت ہے، اور وہ حقیقی علم اور نیک عمل  ہیں۔

قرآن کی حکمتی زبان اور روحانیّت کے علمِ مخفی کے مطابق امام مومن کا قلب(دل) ہیں، اور قلب سے روح اور انائے علوی مراد ہے، اس کلیدی تصوّر کی بدولت قرآن وحدیث کے بہت سے اسرار منکشف ہوسکتے ہیں، جومومنین کے لئے خاص ہیں۔

“وہ اپنی روح کے عاشق تھے۔”  یہ ایک مبارک فرمان کے پُرحکمت الفاظ ہیں، اس کا مفہوم یہ ہے کہ امام مومنین کی سب سے بڑی روح ہے، اس معنٰی میں بزرگانِ دین کا امام سے عشق دراصل اپنے آپ سے عشق تھا، جیسے پیرناصرخسرو نے فرمایا:۔

پس وپیش ونہان وآشکاراوست

شناسائے خود و پروردگار اوست

ترجمہ: آخر، اوّل، باطن اور ظاہر وہ(انسانی حقیقت) ہے۔ اپنے آپ کا عارف اور معروف(یعنی ربّ)وہ ہے۔

 

نصیر الدین نصیرہونزائی

۲۴، اپریل۱۹۸۴ء

 

۱: عارف اور معروف= پہچاننے والا اور پہچانا ہوا۔

 

۱۱۳

 

عالَمِ خواب کی حکمتیں

 

خواب ایک باطنی عالَم ہے جو دنیائے ظاہر سے مختلف اور عجائب وغرائب سے بھرپور ہے، کیوں نہ ہو، جبکہ ایک طرف سے عالمِ خیال اُس سے متّصل ہے اور دوسری جانب سے جہانِ روح ملا ہوا ہے یا بطریقِ اختصار یوں کہا جائے کہ کامل انسانوں میں خیال، خواب اور روحانیّت کے واقعات ومشاہدات یکسان اور ایک ہوجاتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک عام آدمی کا خیال اور خواب راہِ روحانیّت کا سفر ہے، جسکی منزلِ مقصود روحانیّت اور آخرت ہے۔

خدا کے دوستوں (اولیاء) کا خواب روحانیّت ونورانیّت سے معمور ہوا کرتا ہے، وہ عامۃ الناس کے خواب کی طرح نہیں ہوتا کہ اسے نظر انداز کردیا جائے، وہ حقیقت بن کر سامنے آتا ہے جس کی کئی مثالیں قرآنِ حکیم میں موجود ہیں، یعنی پیغمبرانہ خواب وحی کا ایک حصہ ہوا کرتا ہے، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے فرزندِ

 

۱۱۴

 

جگر بند حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو قربان کردینے کا تہیہ خواب ہی کی بنیاد پر کرلیا تھا، اور حضرت اسماعیلؑ نے اسے امرِ خداوندی کا درجہ دیا تھا(۳۷: ۱۰۲)

مومنین کا خواب دوقسم کا ہوتا ہے، کبھی اعلیٰ سطح کا اور کبھی ادنیٰ سطح کا ہوتا ہے، یعنی اہلِ ایمان کے اچھے خواب اسمِ بشیر(خوشخبری دینے والا) کے تحت ہیں اور برے خواب نذیر(ڈرانے والا) کے تحت ہیں اور نورِ نبوّت کے یہ دونوں نام روحانیّت میں فعلاً باقی ہیں۔

خواب کی اچھائی اور برائی کا دارومدار اعمال پر ہے، کیونکہ خواب ایک چھوٹی سی قیامت ہے، جو ہر روز نیند کی حالت میں برپا ہوجاتی ہے، تاکہ ہر شخص اپنے آپ کو دیکھے کہ وہ ایک بڑی اور حتمی قیامت کے لئے تیار ہے یا نہیں، قرآنی ارشاد ہے:۔

بَلِ الْإِنسَانُ عَلَی نَفْسِہِ بَصِیْرَۃ (۷۵: ۱۴) بلکہ انسان آپ اپنا گواہ ہے۔ بصیرت دل کی بینائی یعنی مشاہدۂ باطن کو کہتے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی جسمانی موت سے پہلے ہی اپنی روح اور اس کے تمام حالات کو دیکھ سکتا ہے اور اس کی ایک چھوٹی سی مثال خواب ہے، اس آیۂ کریمہ میں لفظ “نفس” سے روح مراد ہے، کوئی شخص روحانیّت میں یا کم ازکم خواب میں جوکچھ دیکھتا ہے، وہ اس کی روح اور خودی ہے۔

دنیا کے سکّۂ رائج الوقت کو دیکھنے کے لئے کہ کھرا ہے یا

 

۱۱۵

 

کھوٹا کوئی کسوٹی کوئی معیار ہوا کرتا ہے، موٹر جیسی مشینوں میں سائنس دانوں نے مختلف قسم کے میٹر لگا دیئے ہیں، تا کہ رفتار، حرارت، ایندھن وغیرہ کا علم ہوتا رہے، اور یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ خلقتِ انسانی کی تعریف کرے اور اس کے اعمالِ نیک و بد کو پرکھنے کے لئے کوئی معیار ہی نہ ہو، حق بات تو یہ ہے کہ صانعِ حکیم (یعنی خدا تعالیٰ) نے نہ صرف دین کے ظاہر میں بلکہ انسان کے باطن میں بھی ایک فرقان کو مقرر فرمایا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:۔

اے ایمان والو!اگر تم خدا سے ڈروگے تو وہ تمہارے لئے ’’فرقان‘‘مقرر کریگا (۰۸: ۲۹) فرقان ظاہر میں امامِ عالیمقامؑ کی پاک شخصیّت ہے اور باطن میں اس کا نور۔

خواب عالمِ روحانی کی مثال ہے، اس لئے وہ زمان ومکان سے بالاتر ہے، یعنی عالمِ خواب اس مادّی دنیا سے الگ تھلگ ہے اور اس میں جو وقت ہے وہ دنیا کے شب و روز سے وابستہ نہیں، بلکہ وہ آخرت کے وقت کی طرح قانونِ “کُنۡ” کے معجزات وظہورات سے متعلق ہے، جیسے خیال میں آپ جس موسم کو جس چیز کو یا شخص کو یا جس مقام کو دیکھنا چاہتے ہیں، وہی آپ کے تصوّر میں آتا ہے، ہر چند کہ شروع شروع میں بہت کم روشنی ہوتی ہے یا صبحِ کاذب کی طرح ہوتی ہے، لیکن آخر کار صبحِ صادق بھی ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا پاک فرمان ہے: وَجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ

 

۱۱۶

 

سُبَاتاً (۷۸: ۰۹) اور ہم نے نیند تمہارے لئے (موجب) آرام بنایا۔ یعنی عوام کے لئے نیند اور خواص کے لئے روحانیّت، کیونکہ نَومُ ادنیٰ درجے میں خوابِ غفلت بھی ہے اور اعلیٰ درجے میں روحانیّت بھی، اس کی وجہ یہ ہے کہ نیند خدا کے دوستوں میں روحانیّت بن جاتی ہے۔

سورۂ فرقان(۲۵: ۴۷)میں ہے: وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ اللَّیْلَ لِبَاساً وَالنَّوْمَ سُبَاتاً وَجَعَلَ النَّہَارَ نُشُوراً  (۲۵: ۴۷) اور (خدا) وہی تو ہے جس نے رات کو تمہارے لئے پردہ اور نیند کو آرام بنایا اور دن کو اُٹھ کھڑے ہونے کا وقت ٹھہرایا، اہلِ روحانیّت یعنی حدودِ دین سے فرمایا گیا ہے کہ ابتدا میں باطن کو تمہارے لئے پردہ بنایا، جس میں تم نے روحانیّت کا کمال حاصل کرلیا، اور پھر تم کو علمی طور پر ظاہر ہونے کا موقع عنایت کیا، جس میں تم پھیل جاتے ہو۔

سورۂ روم میں ارشاد ہے(۳۰: ۲۳) وَمِنْ آیَاتِہِ مَنَامُکُم بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَابْتِغَاؤُکُم مِّن فَضْلِہِ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَسْمَعُون(۳۰: ۲۳) اور اسی کے نشانات میں سے ہے تمہارا رات اور دن میں سونا اور اس کے فضل کا تلاش کرنا۔ جو لوگ سنتے ہیں اُن کے لئے ان میں نشانیاں ہیں، رات کی نیند سے ابتدائی روحانیّت مراد ہے جو

 

۱۱۷

 

پردۂ باطن میں پوشیدہ ہوتی ہے، دن کی نیند کا مطلب آخری روحانیّت ہے جو علم کی صورت میں ظاہر ہوجاتی ہے اور اس وقت خدا کے فضل یعنی خزینۂ عقل سے علم و حکمت کی تلاش ضروری ہوتی ہے اس میں گوشِ ہوش سے سننے والوں کے لئے معجزات ہی معجزات ہیں۔

سورۂ زمر(۳۹: ۴۲) میں فرمایا گیا ہے: اللَّہُ یَتَوَفَّی الْأَنفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضَی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْأُخْرَی إِلَی أَجَلٍ مُسَمًّی إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُون (۳۹: ۴۲)

خدا لوگوں کی(نفسانی اور جسمانی) موت کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں(ان کی روحیں)سوتے میں(قبض کرلیتا ہے) پھر جن روحوں پر موت واقع ہوجاتی ہے ان کو روک رکھتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر تک کے لئے بھیج دیتا ہے، جو لوگ فکر کرتے ہیں، ان کے لئے اس میں نشانیاں(معجزات) ہیں۔

اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ جو مومن عبادت وریاضت کے وسیلے سے مکمل نفسانی موت میں مرجاتا ہے اس کی روح بدن سے فارغ ہوکر بہشت میں داخل ہوجاتی ہے، نفسِ مُطمنٔہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے خواہ شخص زندہ ہو یا مرگیا ہو (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) مگر وہ مومن ایک نئی روح میں زندہ رہتا ہے، اور جو شخص جسمانی موت سے مر

 

۱۱۸

 

جاتا ہے، وہ تو مرجاتا ہے، اسی طرح دونوں قسم کی روحوں کو خدا آخرت میں رکھتا ہے، اور جو لوگ کسی طرح سے بھی نہیں مرے ہیں ان کی روحیں نیند یا ابتدائی روحانیّت میں قبض کرلی جاتی ہیں اور پھر واپس بھیجی جاتی ہیں، اور یہ عمل ایک مقرر وقت تک ہوتا رہتا ہے۔

خواب میں صرف اپنی روح ہی ہے جو ایک کائنات بن کر سامنے آتی ہے، جس میں سب کچھ ہے، اُس میں قیامت بھی ہے، اعمال نامہ بھی، بہشت بھی، دوزخ بھی، فرشتے بھی، اُمید بھی، خوف بھی، روشنی بھی اور ظلمت بھی، غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عالمِ خواب کو روحانیّت اور آخرت کا نمونہ بنایا ہے، تا کہ ہوشمند مومنین اس کی بے شمار حکمتوں سے فائدہ اٹھائیں۔

خواب کی جو تعبیر عام کتابوں میں درج ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں، کیونکہ خواب کی تاویل ہے، جو ربّانی چیز ہے، وہ لدنی علم میں شامل ہے، تاہم اس کے بہت سے اشارات ایسے بھی ہیں جو عام فہم ہیں، جن سے آدمی اپنے اعمالِ نیک و بد کا بخوبی اندازہ کرسکتا ہے، اسی لئے یہ کہنا درست ہے کہ خواب کی دنیا حکمتوں سے بھرپور ہے یہ ایک زندہ اور بولنے والی کتاب ہے، جو ہردرجہ کے لوگوں کو ان کے فہم کے مطابق نصیحت کرتی ہے۔

 

۱۱۹

 

خاکپائے مومنین

نصیرالدّین نصیر ہونزائی

۲۶۔ اپریل ۱۹۸۴ء

 

۱۲۰

 

یکجان بہت سے قالب

 

میرے بہت ہی عزیز، پیارے اور دوست فرشتے رفیق جنّت علی اور امین عبدالملک ہمیشہ شادوآباد رہیں!

میں لازوال محبت اور بھرپور صداقت سے آپ دونوں عزیزوں اور دیگر تمام عزیزوں کو یاعلی مدد کہتا ہوں، خداوندِ قدّوس جملہ جان نثاروں کے حق میں یہ پاک دعا قبول کرے!آپ دونوں کے خط کتنے پیارے تھے!اور مجھے انتظار بھی ایسا ہی تھا، مجھے بے حدخوشی ہوئی، ربّ العزّت آپ سب کو علم کی برتری عنایت فرمائے!آپ ہر وقت قربانی اور جان نثاری سے کام لے کر خانۂ حکمت کی خدمت انجام دیتے ہیں، اور اسی طرح الامین اور عارف بھی بڑے جان نثار ہیں، میرا مقصد خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کے چاروں سیکریٹریوں کا ذکرِ جمیل ہے، کہ یہ میرے عزیزان بڑے پیار سے آپس میں مل کر کام کرتے ہیں اور اتفاق و اتحاد کے باب میں ہمارے دونوں مقدّس اداروں کے عملداران اور ممبران بے مثال ہیں۔

یونانی طب کے اکثر نسخوں (PRESCRIPTIONS) کے

 

۱۲۱

 

مطابق کئی جڑی بوٹیوں کو کھَرَل میں دیر تک پیس پیس کر یک جان بنا لیتے ہیں، پھر ایسی مرکب دوا کے رنگ و بو، ذائقہ اور تاثیر کا تجزیہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے، اس مثال سے کہیں بڑھ کر ہم سب مونوریالٹی کی کھَرَل میں یک جان ہوگئے ہیں، اگر چہ ظاہر میں ہماری انفرادیّت نظر آتی ہے لیکن باطن میں یہ انفرادیّت ایک وحدت میں بدل گئی ہے۔

مثال کے طور پر ہم میں سے ہر شخص ایک جڑی یا بوٹی ہے، اور تمام جڑی بوٹیوں(یعنی ہم سب کی ارواح) کو کھرل کر کے ایک کردیا ہے، پھر اس سفوف(پوڈر) سے جس میں بہت ساری جڑی بوٹیاں شامل ہیں، ہم میں سے ہر ایک کو ایک پوٹلی دی گئی ہے، اس طرح ہر پوٹلی میں تمام جڑی بوٹیوں کے نمونے ہیں، یعنی ہر ایک روح میں ساری ارواح کے ذرّات موجود ہیں۔

دوسری مثال: ایک ہزار شیشیوں میں ایسا عطر بھرا ہوا ہے جو ایک ہزار قسم کے مختلف پھولوں سے کھینچا گیا ہے، یہ سارا عطر ایک بڑے برتن میں ملایا جاتا ہے، پھر دوبارہ ان سب شیشیوں میں بھر دیا جاتا ہے، اب ہر شیشی میں ایک ایسا عطر ہے، جس میں ہزار نمونے یکجان ہوگئے ہیں، یہ روح کی مثال ہے، کہ اس میں سب روحوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔

تیسری مثال: قرآنِ مقدّس اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے

 

۱۲۲

 

کہ شہد کی مکھیوں کے شہد بنانے میں قدرت کی عجیب وغریب نشانیاں ہیں، وہ لاتعداد پھلوں اور پھولوں کو جو رنگ وبو اور ذائقہ میں الگ الگ ہوتے ہیں اپنے پیٹ میں معجزانہ طور پر یکجان اور شہدِ شیرین بنالیتی ہیں، اگر اس شہد کے ہزار حصے بنائے جائیں اور پھر پس منظر کا تصوّر کیا جائے تو ہر حصے کا ایک جیسا قصّہ ہوگا، یعنی وہی باغ وگلشن، وہی پھل پھول، اور وہی لاتعداد شہد کی مکھیوں کی کارکردگی، یہ احوالِ روح کی یکسانیت کی مثال ہے۔

قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ روحوں کے پھیل جانے اور پھر یکجا یا جمع ہوجانے کا ذکر ملتا ہے، جیسے نشر(بکھیرنا) اور حشر(جمع کرنا)جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے: اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ تم روئے زمین پر رہو سہو، پھر جب آخرت(یعنی روحانیّت) کا وعدہ آجائے گا، تو تم سب کو جمع کرکے لے آئیں گے(۱۷: ۱۰۴) جب حضرت موسیٰؑ کا دین ہرجا تھا تو اس وقت بنی اسرائیل کے مومنین سے فرمایا گیا تھا کہ تم حدودِ دین کے توسط سے کُرّۂ ارض کے بارہ جزیروں میں پھیل جاؤ، پھر وقت آنے پر ہم تم کو لفیف(۱۷: ۱۰۴) کرکے لے آئیں گے۔

 

نصیرالدّین نصیر ہونزائی

۳۰، اپریل ۱۹۸۴ء

 

۱۲۳

 

روحانی محبّت وحدت کی علامت

 

میرے بہت ہی عزیز غلام رسول ایم۔ ایچ۔ نائب صدر برانچ خانۂ حکمت گلگت، میری قلبی یا علی مدد اور بہت سی دوسری دعائیں قبول ہوں! اسی طرح میں تمام عزیزوں کا بھی دعا گو ہوں، خداوند اپنی بے پناہ رحمت سے جملہ جماعت کو سکھی سلامت رکھے!

میں آپ سب عزیزوں کی دعا سے بخیروخوبی اُسی دن رات کے نوبجے کراچی گھر پہنچ گیا تھا، یہاں بفضلِ مولا ہر طرح سے خیریت ہے، خانۂ حکمت کے عملدار اور ارکان ایک سالگرہ کی تیاری کررہے ہیں، انہوں نے گلگت برانچ کو خط لکھا ہوگا۔

مجھے وہاں اور ہونزہ میں آپ تمام عزیزوں کے ساتھ ہرگونہ ہمنشینی میں بے حد مسرّت وشادمانی حاصل ہوئی، جب میں ایسی مجالس میں ہوتا ہوں تو یہ میری زندگی کا بہترین وقت ہوتا ہے، عزیزوں کو بے حد عزیز رکھنے کا عظیم راز صرف میں جانتا ہوں اور صرف میرے عزیزان، دراصل یہ راز خزانۂ خداوندی سے ایک بہت بڑے انعام کے طور پر عنایت ہوا ہے، لوگوں کی اس آسمانی سزا کے برعکس کہ اُن کے دلوں میں نفرت اور دشمنی پیدا ہوجاتی ہے، حالانکہ مومنوں سے دشمنی

 

۱۲۴

 

کرنا بہت بڑا گناہ ہے، ہمیں شکرگزار ہونا چاہئے کہ آپس کی نااتفاقی کی بیماری سے ہم کو دور رکھا گیا ہے، الحمد للہ علیٰ مِنہ واحسانہ۔

آپ حضرات نے اپنی ذات میں جذبۂ خدمت کے علاوہ(ساتھ ساتھ) بہت سی اخلاقی خوبیاں بھی پیدا کرلی ہیں، اب زیادہ سے زیادہ علمی طور پر آگے بڑھنا ہے، مجھے یقین ہے کہ ہر جگہ میرے عزیزوں کی ترقی علم و عبادت کی بدولت ہو رہی ہے، مگر اصل وجہ خدا کی رحمت ہے کہ وہ اس بہانے سے ہمارے عزیزوں سے کوئی خدمت کروانا چاہتا ہے، کیونکہ مقاصد کی سیڑھی کا آخری اور بلند ترین زینہ جماعت کی خدمت ہے۔

جب کوئی ہوشمند مومن ازل کا تصوّر کرتا ہے تو وہ سرچشمۂ حیات میں تمام ارواح کو ایک پاتا ہے، ہر چند کہ آج بنظرِ ظاہر بے شمار لگتی ہیں، مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ آیا ازل انتہائی بعید ماضی کا نام ہے؟ نہیں نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ ازل مرتبۂ عقل یعنی مقامِ عقل کا نام ہے جو مراحلِ روحانیّت کے بعد آتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ازل میں یعنی مقامِ عقل پر جو باطن کا باطن ہے، ایک ہیں یا ایک ہے، اسی حقیقت کو سمجھانے کی خاطر جماعتی روح کا تصوّر پیش کیا گیا ہے، پس یہ کیسی عجیب وغریب اور مسرّتوں سے بھر پور بہشت ہوگی، جبکہ ہم سب جماعتی روح میں زندہ ہو جائیں گے، بلکہ نفسِ واحدہ میں ایک ہوجائیں گے، پس دوستو!

 

۱۲۵

 

جماعت کو اپنی بکھری ہوئی روح سمجھ لیجئے اور جان ودل سے اس کی خدمت کیجئے۔

یہ تو آپ جان چکے ہیں کہ روح ذرّات پر مشتمل ہے، مگر سوال ہے کہ کیوں؟ اور کس لئے ایک ہی روح کے لاتعداد اجزاء ہیں؟ اس لئے کہ ہر چیز پہلے حدِّ قوّت میں ہوا کرتی ہے پھر اس کے بعد حدِّ فعل میں آتی ہے، چنانچہ ہر شخص کی روح آج بحدِّ قوّت ایک کائنات ہے اور کل بحدِّ فعل ایک کائنات بن جائے گی، اس حقیقت کی مثال ایک دانۂ گندم ہے، جس میں اضافے کی ایسی اور اتنی صلاحیت موجود ہے کہ ہے تو فی الحال ایک ہی دانہ، مگر چند سال کے اگانے سے یہ سطحِ زمین پر محیط ہوسکتا ہے۔

روح کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ کثرت و وحدت دونوں کی حامل ہے، کثرت اس معنی میں کہ وہ اپنی ذات اور ذرّات میں سب کی نمائندگی کرتی ہے اور وحدت اس لئے کہ وہ دراصل ایک ہی ہے، سو یہ کتنی اچھی بات ہے کہ روح وحدتِ خداوندی کی تصویر بھی ہے اور عالمِ کثرت کا عکسِ تنویر بھی، اس لئے کہنا پڑتا ہے کہ روح سب کچھ ہے۔

فقط مومنین کی خاکپا

نصیر الدّین نصیر ہونزائی

۹، مئی ۱۹۸۴ء

 

۱۲۶

 

 

ایک سب۔ سب ایک

 

عزیزِ من صدر فتح علی حبیب!آپ کو ربّ العزّت دونوں جہاں کی کامیابی اور سرفرازی عنایت فرمائے امین یاربّ العٰلمین!

میرے بے حد عزیز اور پیارے دوست کے بابرکت نام(فتح علی)میں ایک بہت بڑی اور شاندار روحانی اور علمی فتح وکشائش کا معنوی اشارہ موجود ہے، الحمدللہ! آپ کی پاکیزہ روح یقیناً میرے حق میں فتح ونصرت کا فرشتہ ہے، اس احسانِ خداوندی سے مجھ پر واجب ہوتا ہے کہ میں بار بار سجدۂ شکرانہ ادا کرتا رہوں۔

یہ ہم سب کی کتنی بڑی سعادت ہے کہ آپ کے لگائے ہوئے پودے حسن وخوبی سے پھلنے پھولنے لگے ہیں، اور جن پھولوں کے بیج بوئے تھے، وہ اب بفضلِ خدا رنگ و بو کی ایک خوبصورت دنیا بن گئے ہیں، یہ مثال ہمارے ان عزیزوں کی ہے جو آپ کی بنیادی اورعملی کوششوں اور عظیم قربانیوں کے نتیجے

 

۱۲۷

 

میں تیار ہوئے، جن میں سے ہر ایک میوۂ علم کا باغ بھی ہے اور گلِ حکمت کا گلشن بھی، صرف یہی نہیں بلکہ آپ نے دانشمندی اور سعی پیہم سے کئی ہوشمند سر پرست اور بابصیرت عملدار بھی بنا دیئے، ان تمام عظیم احسانات کے لئے میں آپ کا شکر گزار اور ممنون ہوں۔

آپ خانۂ حکمت کے صدرِ عالیقدر ہیں اور اس کے سینئر سرپرست بھی، لہٰذا اس نیک نام ادارے کی تمام ترکامیابی کا سہرا آپ کے سر ہے، خواہ عمدہ خدمت کوئی بھی کرے، لیکن کسی بھی ادارے کے صدر کو مرکز کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور خاص کر آپ کو کہ آپ مُرَبِّی بھی ہیں، ہرکامیاب ادارے کا مُربّی(پیٹرن=سرپرست) شفیق ومہربان باپ کی طرح ہوتا ہے اور واقعاً آپ نے ایک عظیم باپ کی سی خدمات اور قربانیاں انجام دی ہیں، اور کئی عزیز عملدار اور جان نثار ممبران آپ کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔

میرا یقین ہے کہ خدا و رسولؐ اور امامِ زمانؑ آپ اور آپ کی فرشتہ سیرت بیگم گل شکر سے بہت ہی راضی ہیں، جس کا روشن ثبوت یہ ہے کہ آپ کو جو خدمت دی گئی ہے، وہ بے مثال ہے، اس لئے کہ یہ خدمت غیر محدود اور ہمہ رس ہے، کیونکہ یہ علمی خدمت ہے، جو زمین و زمان پر محیط ہوسکتی ہے۔

 

۱۲۸

 

یہاں پر یہ ایک سوال اٹھتا ہے کہ اسلام دوسروں کی خدمت کا حکم کیوں دیتا ہے؟ اس کا حقیقی جواب یہ ہے کہ دوسروں کی خدمت کرنا در اصل اپنی خدمت کرانا ہے، کیونکہ بہشت میں مرتبۂ وحدت  (مونوریالزم) پر فائز ہوجانے کے بعد یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ دنیا میں ہماری روح تمام لوگوں کا مجموعہ تھی، لوگ ہماری روح کے اجزاء (ذرّات) تھے، اور یہی تصوّر قرآنِ پاک کا ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے:۔

کَانَ النَّاسُ أُمَّۃً وَاحِدَۃً (۰۲: ۲۱۳) تمام لوگ پہلے ایک ہی اُمّت تھے(یعنی ایک ہی شخص کے ذرّاتِ روح تھے) جس کی ایک واضح مثال حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے دی گئی ہے کہ: إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتاً لِلّہِ  (۱۶: ۱۲۰) بیشک ابراہیمؑ(اپنی روح کے ذرّات میں) خدا کے لئے ایک فرمانبردار اُمت تھے۔

اسی طرح آنحضرتؐ کی ذاتِ اقدس میں تمام اہلِ عالم ایک ہوئے ہیں، جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے: وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِیْ دِیْنِ اللَّہِ أَفْوَاجاً  (۱۱۰: ۰۲) اور (جب) آپ تمام لوگوں کو جوق جوق خدا کے دین میں داخل ہوتے ہوئے دیکھیں، ناس سے ارواحِ خلائق مراد ہیں، اور دینِ خدا رسولِ اکرمؐ کی ذاتِ اقدس ہے، اس کا مطلب یہ ہے

 

۱۲۹

 

کہ دنیا کے سب لوگ غیر شعوری طور پر بصورتِ ذرّات حضرت محمد مصطفٰے سرورِ انبیاؐ کی مبارک ہستی میں داخل ہوگئے تھے، اور اسی کو کہتے ہیں: “ایک میں سب، اور سب میں ایک”۔ ۔

 

آپ کا دعاگو

نصیرُالدّین نصیر ہونزائی

۱۳، مئی ۱۹۸۴ء

 

۱۳۰

 

علمی خدمات کی لذّتیں

 

میرے دل کے بہت ہی عزیز اور روح کے بہت ہی پیارے محمد عبدالعزیز سرپرستِ خانۂ حکمت اور صدرِ ادارۂ عارف کو خداوند دونوں عالم میں نوازے!

میں امام شناسی کی روشنی میں صمیمیتِ قلب سے یاعلی مدد کہتا ہوں، قبول ہو!عزیزِ من!اس بندۂ ناچیز کو آپ ایسے مولا کے پیارے پیارے روحانی بچوں سے فدا ہوجانا چاہئے جو حقیقی علم کے شیدائی اور عاشق ہیں، جو اس علم کو ایک طرف سے حاصل کرتے ہیں، اور دوسری جانب سے پھیلاتے رہتے ہیں، ان فرشتہ صفت پاکیزہ انسانوں کو روحانی علم کی گونا گون لذّتیں اور مسرتیں حاصل ہوتی رہتی ہیں، یقیناً آپ اور آپ کی نیک بخت اہلیہ جن کی روح معجزاتی ہے، انہی اعلیٰ مومنین کی صفِ اوّل میں ہیں۔

مجھ خاکسار پر اور میرے ناچار قلم پر آپ عزیزان کے اتنے زیادہ احسانات ہیں کہ میں نہ تو اُن کا احاطہ کرسکتا ہوں اور نہ ہی شکریہ ادا کرسکتا ہوں اور سوائے ایک عاجزانہ دعا کے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا ہوں کہ: خداوندا! تجھ سے یہ حالت پوشیدہ نہیں کہ میں

 

۱۳۱

 

انتہائی مفلس ہوں، میں اپنے عزیزوں کو کچھ نہیں دے سکتا، اے بے پایان خزانوں کا مالک!تو ہی اپنی بے پناہ رحمت سے انہیں دین ودنیا کی کامیابی اور سرفرازی عنایت فرما!آمین!!

عقلی، علمی اور روحانی لذّتوں کے متعلق راز کی بات یہ ہے کہ ان کا ادراک واحساس تقویٰ کی بنیاد پر ہوتا ہے، چنانچہ جو شخص جس قدر متّقی ہو، اس کو اس قدر عقل، علم اور روح کی لذّت ومسرت حاصل ہوجاتی ہے اور یاد رہے کہ علمی حلاوت وشادمانی نہ صرف علم کی باتوں کے سننے میں محدود ہے بلکہ علم کو فروغ دینے سے متعلق ضروری خدمات اور قربانیوں میں کہیں زیادہ لذّت و خوشی ہے۔

جس طرح ظاہری اور مادّی لذّتوں سے صرف ایک تندرست انسان بھرپور حظ اٹھا سکتا ہے اور بیمار آدمی اس سے محروم ہے، اسی طرح باطنی اور روحانی لذّتوں کا لطف صرف اہلِ تقویٰ ہی کو ملتا رہتا ہے، اور جو پرہیزگار نہیں وہ گویا بیمار ہیں، لہٰذا وہ باطنی حلاوتوں سے محظوظ نہیں ہوسکتے۔

قرآنِ حکیم کے تین مقامات (۴۳: ۷۱، ۳۷: ۴۶، ۴۷: ۱۵) میں بہشت کی لذّتوں کا ذکر ہے، یہ سب لذّتیں لطیف اور باطنی نوعیت کی ہیں، اور عقل و روح سے متعلق ہیں، کیونکہ جنّت میں ایک ابداعی جسم ملتا ہے، جس کی ایک پاک روح اور ایک کامل عقل ہوتی ہے،

 

۱۳۲

 

چنانچہ جسمِ لطیف کی لذّتیں دنیا کی تمام لذّتوں سے اعلیٰ ہیں، روحِ مقدّس اور عقلِ مکمل کی لذّتیں اس سے بھی برتر ہیں۔

کوکبی بدن یعنی جسمِ لطیف کی لذّتوں کے بارے میں ارشاد ہے:  وَفِیْہَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْأَنفُس (۴۳: ۷۱) اور اُس (بہشت) میں وہ چیزیں ہیں جو نفوس چاہیں گے۔ روحانی لذّتوں کے باب میں یوں فرمایا گیا ہے: وَتَلَذُّ الْأَعْیُنُ (۴۳: ۷۱) اور وہ چیزیں ہیں جن سے آنکھوں کو لذّت ہوگی۔ یہاں نفس کا اشارہ جسمِ لطیف کی طرف ہے اور عین (آنکھ) کا مطلب چشمِ باطن ہے جس سے روح مراد ہے۔

اسی طرح عقلی لذّتوں کے متعلق فرمانِ خداوندی ہے: یُطَافُ عَلَیْہِم بِکَأْسٍ مِن مَّعِیْنٍ  (۳۷: ۴۵) بَیْضَاء  لَذَّۃٍ لِّلشَّارِبِیْنَ (۳۷: ۴۶) اور ان کے پاس ایسا جامِ شراب گردش میں ہوگا جو بہتی شراب سے بھرجائے گا(شراب)سفید ہوگی پینے والوں کو لذیذ معلوم ہوگی۔ یہاں عقل کے مظاہرۂ فعل کی تشبیہہ جامِ شراب کی گردش سے دی گئی ہے بہتی ہوئی شراب سرچشمۂ عقل کی مثال ہے اور سفید رنگ پہچان کی علامت ہے۔

 

خاکپائے جماعت

نصیر الدّین نصیر ہونزائی

۱۴، مئی ۱۹۸۴ء

 

۱۳۳

 

کشتیٔ  علم

 

میرے قلب و روح کے بہت ہی عزیز اور جان کی طرح پیارے نصر اللہ نائب صدر خانہ حکمت کو خداوند ہر طرح کی کامیابی اور سلامتی عنایت فرمائے!

انتہائی خلوص، پاک دلی اور روحانی محبت سے بھر پور یا علی مدد قبول ہو! میرے جانی اور جگری دوست نصراللہ! آپ کے اس پیارے نام (نصراللہ) کے لفظی معنی میں خدا کی مدد کا ذکر واضح ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ یہ واقعیت وحقیقت خانۂ حکمت میں زیادہ سے زیادہ روشن ہے، کیونکہ اس میں آپ نہ صرف وائس پریذیڈنٹ کے عہدے پر فائز ہوچکے ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ آپ اس کے پیٹرن بھی ہیں، لہٰذا آپ ہمارے اس ادارے کے لئے واقعاً “خدا کی مدد ہیں،” الحمد للہِ ربّ العۡالمین۔

جب خداوند تعالیٰ کسی بندۂ مومن کو ایک ہمہ گیردینی خدمت میں کامیاب بنانا چاہتا ہے تو وہ اس کے تمام دوستوں کو نیکی کے فرشتے بنا دیتا ہے، تاکہ وہ اس پاک و پاکیزہ خدمت میں ممد و معاون ثابت ہوجائیں؛ پروردگارِ عالم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ میرے

 

۱۳۴

 

عظیم فرشتوں میں سے ہیں۔

“سالی کہ خوش است از بہارش پیداست۔”

جو سال اچھا ہو اس کی علامت بہار ہی میں ظاہر ہوجاتی ہے، اب سے چند برس پہلے آپ کی اور میری مذہبی دوستی بڑے اعتماد سے شروع ہوئی تھی، مجھے اس عظیم نعمت کے لئے محترم فتح علی حبیب کا شکرگزار ہونا چاہئے۔

مجھے معلوم ہے کہ آپ اور ہماری عزیز بیٹی امینہ روحانی علم کے بڑے قدردان ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ اس علم کو پھیلانے کی خاطر بڑی بڑی قربانیوں سے کام لیتے ہیں، کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ علم کی روشنی عام کردینا سب سے بڑی نیکی اور سب سے عظیم ثواب ہے، جیسا کہ بموجبِ حدیثِ شریف اُمت کے ہر زیرک و عاقل پر چار چیزیں لازم ہیں: علم کا سنتا، اس کا حفظ کرنا، اس پر عمل کرنا، اور اس کو پھیلانا۔

ارشادِ نبوی ہے: منزلۃُ أھل بیتی فیکم کسفینۃِ نوح، من رکبھا نجاومن تخلف عنھا غرق۔ وقال=تعلموا من عالمِ اھل بیتی، وممِنّ تعلم مِن عالم اھل بیتی تخجوا من النّار= میرے اہلِ بیت کی منزلت تم میں کشتیٔ نوحؑ کی طرح ہے، جو اس میں سوا رہوا اس کو نجات ملی اور جس نے اس سے مخالفت کی وہ غرق ہوگیا، اور

 

۱۳۵

 

ارشاد فرمایا: میرے اہلِ بیت کے عالم (یعنی امامِ زمان) سے علم سیکھو، اورا س شخص سے علم سیکھو جس نے میرے اہلِ بیت کے عالم سے علم حاصل کیا ہو، تاکہ تم آگ سے بچ جاؤ گے۔

یہ حدیثِ شریف زبانِ حکمت سے یوں بتاتی ہے کہ اہلِ بیت رسولؐ(یعنی امامِ وقتؑ)نہ صرف زمانۂ نبوّت میں کشتیٔ نوح کی مثال ہیں بلکہ یہ بات ہر زمانے کے لئے ہے، کیونکہ طوفانِ جہالت ہر وقت موجود ہے، چنانچہ کشتیٔ نوح میں سوار ہوکر نجات حاصل کرنا یہ ہے کہ اہلِ بیت کے عالم (امامِ وقتؑ) سے علم حاصل کیا جائے یا ایسے افراد سے علم سیکھا جائے جن کو امامؑ نے مقرر فرمایا ہے، تا کہ آتشِ نادانی سے رستگاری ملے۔

یہاں اگلی حدیث کی وضاحت پچھلی حدیث سے کی گئی ہے جس سے صاف طور پر ظاہر ہوا کہ وہ طوفان جو ہر زمانے میں پایا جاتا ہے، جہالت وضلالت کا ہے، اور اس سے بچنے کے لئے کشتیٔ نجات علم و ہدایت کی ہے، جس کا سرچشمہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ ہیں، پس حقیقی علم کی روشنی میں امامِ عالیمقامؑ سے وابستگی ہر طرح کی نجات کی ضمانت ہے۔

 

خاکپائے مومنان

نصیرالدّین نصیر ہونزائی

۱۴، مئی ۱۹۸۴ء

 

۱۳۶

 

ذکرِ جلی

 

میرے قلبی عزیز اور روحانی دوست محیّ الدّین سرپرست اور نائب صدر ادارۂ عارف کو خداوند دونوں جہان کی کامیابی عطا فرمائے! آمین!!

میں انتہائی خلوص اور درویشانہ عاجزی سے یاعلی مدد کہتا ہوں پروردگار ایسی ہی دعائیں تمام عزیزوں کے حق میں قبول فرمائے! اس بندۂ خاکسار پر ربِّ عزّت کا ایک خاص احسان یہ بھی ہے کہ آپ ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات اس دینی علم کی طرف مکمل توجّہ دے رہے ہیں، اور فروغِ علم کے سلسلے میں بھرپور تعاؤن کررہے ہیں۔

میرے فرشتہ صفت دوست! یہ آپ کی بہت بڑی خوش بختی ہے کہ آپ کا ماحول روحانی علم سے مملو ہے، قرآنِ حکیم کی گہری حکمتیں، روحانیّت و معرفت کی باتیں، اور ذکر و تسبیح، یہ دولتِ لازوال آپ کو اور آپ کی شریکِ حیات کو آسمانی عطیہ کے طور پر ملی ہے، کسی مومن کے گھر کی ایسی روحانی آبادی خدا کی بہت بڑی رحمت ہے۔

آپ کے بزرگوار دادا قدیر شاہ صاحب ہونزہ کے قریۂ حیدرآباد

 

۱۳۷

 

میں بڑے متّقی اور درویش صفت انسان تھے، اُن کو اپنے حلقے میں پیر کی نمائندگی کا درجہ حاصل تھا، کیونکہ وہ اُس زمانہ اور اُس علاقے کی ضروری تعلیم سے آشنا تھے، وہ بڑے عبادت گزار تھے، اور انہوں نے صوفیانہ ذکرِ جلی کا ایک حلقہ قائم کیا تھا، جس میں اکثر صبح وشام رباب ودف کے ساتھ شمسی ذکر یا صوفیانہ ذکر کیا کرتے تھے، میرے ماموں جان یعنی قدیر شاہ صاحب قبلہ کے ساتھ میرے والدِ بزرگوار اور دوسرے کئی بزرگ بھر پور حصہ لیتے تھے۔

ذکرِ جلی سے متعلق ایک قصّہ یاد آیا، یہ میں نے چین میں سُنا کہ وہاں کچھ صوفیوں کے درمیان مسئلہ “جَھُرْ”  پر پہلے بحث ہوئی تھی، اور پھر ایک دوسرے پر لاٹھی چلانے کی نوبت آئی تھی، حالانکہ جھر (ذکر بآوازبلند) سے کسی کو برہم ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ متعلقہ آیۂ کریمہ میں اس کا جواز موجود ہے، اور وہ ارشاد یہ ہے:۔

لاَّ یُحِبُّ اللّہُ الْجَہْرَ بِالسُّوَء ِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ  (۰۴: ۱۴۸) اللہ تعالیٰ بری بات کو پکار کر کہنا پسند نہیں کرتا بجز مظلوم کے۔ یعنی اگر ضرورت ہوئی تو یہ صرف کسی مظلوم ہی کے لئے جائز ہے کہ وہ ظالم کے خلاف فریاد و فغان اور گریہ وزاری کرے، تاکہ اس کی خلاصیِ یا عدل وانصاف ہو، ہاں ظلم کی ایک اور

۱۳۸

 

صورت بھی ہے، وہ یہ کہ انسان بسا اوقات اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے، جس کے لئے بھی یہی جواز اور چارۂ کار ہے کہ ذکرِ جلی اور گریہ وزاری کی جائے، اور اپنی پیاری روح پر اپنے آپ کو ظالم ٹھہرایا جائے، جس طرح حضرت آدم اور حضرت حوّا علیھما السّلام نے یوں گریہ وزاری کی تھی:۔

قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (۰۷: ۲۳) دونوں نے کہا کہ اے ہمارے ربّ ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہم کونہ بخشے گا اور رحم نہ کرے گا تو ہم زیانکاروں میں سے ہوجائیں گے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آدم وحوّا(علیھما السّلام) کی توبہ کا نمایان حصّہ ذکرِ جلی اور گریہ و زاری ہے۔

ذکرِ جلی اور گریہ وزاری میں ادب، عاجزی، حیا، ہم آہنگی اور خوش الحانی کی سخت ضرورت ہے، تاکہ یہ ذکر اپنی تمام ترخوبیوں کی وجہ سے معجز نما ہوسکے، اور ذاکرین عجز و انکساری کے سمندر میں ڈوب جائیں، کیونکہ ایسے ذکر میں کوئی فائدہ نہیں، جو بے ہنگم، غیر موزوں، خشک، سطحی، کرخت اور ناخوشگوار ہو۔

 

خاکِ نقشِ پائے مومنان

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۱۵، مئی ۱۹۸۴ء

 

۱۳۹

 

فرشتہ بصورتِ انسان

 

میرے دل کے بہت ہی عزیز، بہت ہی پیارے خان محمد صاحب سرپرست اور چیف ایڈوائزر کو حضرتِ احدیت دونوں عالم کی کامیابیوں اور سلامتیوں سے نوازے!

قلب و روح کی گہرائیوں اور بلندیوں سے یاعلی مدد کی مقدّس و پُرحکمت دعا قبول ہو! اور ایسی بہت سی دعائیں آسمانِ روحانیّت کے عظیم فرشتوں سے حاصل ہوں! محترم خان صاحب! آپ نے خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کی بقا و ترقی کے لئے جوجو گرانمایہ خدمات انجام دی ہیں، و ہ ایک عظیم تاریخ کا حصہ بن رہی ہیں، آپ ہمارے اس علمی کارخانے کے مضبوط ستونوں میں سے ہیں، جو خداوند کی توفیق سے جماعتی خدمت کے پیشِ نظر قائم کیا گیا ہے، ہمارے دونوں اداروں کے عملداران اور ممبران آپ کی غیر معمولی صلاحیتوں، پاکیزہ عادتوں اور پیاری جماعت کی گونہ گون خدمات سے بے حد متاثر ہیں اور ہر وقت یہ عزیزان آپ کی بے مثال محنت اور عالی ہمتی کی

 

۱۴۰

 

تعریف وتوصیف کرتے ہیں۔

کوئی پہچانے یا نہ پہچانے، مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ ایسے حقیقی مومنین بحدِّ قوّت فرشتے بصورتِ انسان ہوا کرتے ہیں، اور کل کو انہیں بحدِّ فعل فرشتے ہوجانا ہے، کیونکہ ہر چیز پہلے حدِّ قوّت میں ہوتی ہے، اور اس کے بعد حدِّ فعل میں آتی ہے، اس بات کو سب جانتے ہیں کہ جماد سے نبات بنتی ہے، نبات سے حیوان کا وجود بنتا ہے، حیوان سے انسان کی ہستی بنتی ہے، اور انسان سے فرشتہ وجود میں آتا ہے، یہ عالمِ کبیر کی بات ہوئی اور عالمِ صغیر کا قصّہ اس سے بھی زیادہ قابلِ فہم ہے، وہ یوں ہے کہ انسان کو خدا نے کل کائنات کے نچوڑ سے بنایا ہے، اس لئے اس کے وجود میں بمرتبۂ ادنی جمادات ہیں، جن کی تحلیل سے لاتعداد ارواحِ نباتی بن جاتی ہیں جن کی تحلیل سے روحِ حیوانی بن جاتی ہے، جو بے حساب حیاتی(زندہ) ذرّات کا مجموعہ ہے جس کے تزکیہ سے انسانی روح بن جاتی ہے، جو بے شمار اجزاء پر مشتمل ہے، جس کے مزید اور اعلیٰ تزکیہ سے فرشتہ بن جاتا ہے، یہ تزکیہ حقیقی علم اور عملِ صالح سے ہوتا ہے اور یہ فرشتہ ایک ہوتا ہے، مگر اس میں سب فرشتے موجود ہوتے ہیں۔

حضرت امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے اپنے ارشاداتِ مقدّس میں علم وعمل سے مومن کے فرشتہ بن جانے کا ذکر فرمایا ہے، قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں مومنین کی علمی پاکیزگی کا بیان ہے اس میں ان

 

۱۴۱

 

کے فرشتہ بن جانے کا اشارہ ہے، اس کے علاوہ جن مقامات پر براہِ راست فرشتوں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، اُس میں بھی ارواحِ مومنین کا ذکر ہے۔

فرشتوں کی خصوصیات یہ ہیں کہ وہ خدا کی عبادت میں انکساری کرتے ہیں، عبادت سے نہیں تھکتے، دن رات تسبیح کرتے ہیں اور نہیں تھمتے(۲۱: ۱۹ تا ۲۰) وہ سجدہ کرتے ہیں، اپنے ربّ سے ڈرتے رہتے ہیں، اور جو کچھ حکم ہو اس کو بجالاتے ہیں (۱۶: ۴۹ تا ۵۰) نیز فرشتوں کی ایک خاصیّت حقیقی علم سیکھنا ہے، جیسے قصۂ آدمؑ میں اس کا ذکر ہے (۰۲: ۲۹ تا ۳۳) کیونکہ اس علم کے بغیر ان کی ہستی کی تکمیل ادھوری رہ جاتی ہے، پس جو نیک بخت مومنین مذکورہ خصوصیات میں فرشتوں کے قریب ہیں وہ آج بحدِّ قوّت فرشتے ہیں، اور کل بحدِّ فعل فرشتے بن جائیں گے۔

انسانِ کامل جسمانی فرشتہ ہوا کرتا ہے، کیونکہ فرشتے کی خاص علامت قربِ خداوندی ہے(۱۶: ۴۹)جو انسانِ کامل کو مقرب فرشتوں سے بھی بڑھ کر حاصل ہے، جس کا ثبوت واقعۂ معراج ہے، کہ اس میں آنحضرتؐ نے جبرائیلؑ  کو قربِ خاص سے پیچھے چھوڑا تھا، اس کے علاوہ انسانِ کامل میں تمام فرشتگانہ صفات موجود ہوتی ہیں، اور اس کی ذاتِ بابرکات میں اللہ تعالیٰ کے بزرگ نام شب و روز مسلسل اپنے آپ کو دہراتے اور بولتے

 

۱۴۲

 

رہتے ہیں، اور ہر وقت ارواحِ مقدّسہ کی تسبیح خوانی کی گونج جاری رہتی ہے۔

 

خاکپائے مومنان

نصیرُالدّین نصیر ہونزائی

۱۷، مئی ۱۹۸۴ء

 

نوٹ: جو غذا ازقسمِ نبات (پھل، سبزی) اور حیوان (یعنی گوشت) کھائی جاتی ہے، وہ پہلے درجۂ جماد میں گرجاتی ہے، اور پھر اس کا ارتقاء شروع ہوجاتا ہے۔

 

۱۴۳

 

خوشبوؤں کی دنیا

 

میرے بہت ہی عزیز یارِ جانی، دوستِ روحانی الامین جائنٹ سیکریٹری خانۂ حکمت کو خداوند دونوں جہان میں عزّت و سربلندی عنایت فرمائے!آمین!

میں بصّد خلوص ومحبت آپ اور آپ کے عزیز اہلِ خانہ کو یاعلی مدد کی مقدّس و پُرحکمت دعا کرتا ہوں، نیز اپنے دیگر جملہ عزیزان کے حق میں بھی یہی پاک دعا کرتا ہوں، ربِّ جلیل اسے قبول فرمائے!

میرے بہت ہی پیارے الامین! میرے فرشتہ سیرت علمی دوست! آپ بلاشبہ علم کے بڑے قدردان اور حقیقت شناس ہیں، آپ ہماری عزیز جماعت کے اُن عظیم خادموں میں سے ہیں جو شب و روز علمی میدان میں بڑی جان نثاری سے خدمت کررہے ہیں، آپ اپنی عمرِ گرانمایہ کے بیش بہا اوقات کا ایک حصّہ راہِ علم میں خرچ کر رہے ہیں، الحمد للہ، یہ سب کچھ خداوند تعالیٰ کا عظیم احسان ہے۔

خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف سے جو حضرات وابستہ ہیں، ان

 

۱۴۴

 

کی مشترکہ خدمات اور گرانقدر قربانیوں کی بدولت جو لطیف علم وجود میں آتا ہے اور جس طرح چہارسوئے عالم میں پھیلتا جارہا ہے اس کی اہمیت وافادیّت بفضلِ خدا بڑی زبردست ہے، چونکہ یہ حقیقی علم امامِ عالیمقام صلوات اللہ علیہ کا ہے، اس لیے اس کی روشنی دور دور تک پہنچ رہی ہے، اور اس کی رسائی کا دائرہ بہت ہی وسیع ہوتا جارہا ہے۔

اس مادّی دنیا میں جتنے پھول اور پھل ہیں، اُن سب کی خوشبوئیں الگ الگ ہیں، ان کے علاوہ بہت سی جڑی بوٹیاں اور دوسری چیزیں ہیں، جن میں سے ہر ایک میں ایک جداگانہ خوشبو کا خزانہ پوشیدہ ہوا کرتا ہے، اس بیان سے یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ ایک ہی دنیا کے اندر بہت سی ذیلی اور طفیلی دنیائیں موجود ہیں، اور اُن میں سے ایک خوشبوؤں کی دنیا ہے، جو بڑی لطیف، بیحد دلکش، بہت دلنواز اور جان پرور ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشبو کو پسند فرماتے تھے، اس میں بہت بڑا راز ہے، وہ یہ کہ جنّت(روحانیّت) کی جسمانی غذائیں خوشبوؤں کی صورت میں ہیں، کیونکہ اہلِ بہشت کے اجسامِ کوکبی (آسٹرل) قسم کے ہوا کرتے ہیں، جن کے لئے لطیف غذائیں یعنی خوشبوئیں مقرر ہیں۔

قرآنِ حکیم میں ایک دانشمند غور کرکے اس حقیقت کو تسلیم

 

۱۴۵

 

کرسکتا ہے کہ بہشتیوں کا رزق سالم پھل نہیں، بلکہ پھل کا خلاصہ اور جوہر ہے، جس سے خوشبو والی نباتی قوّت مراد ہے، کیونکہ قرآنِ پاک میں اہلِ جنّت کے رزق کے بارے میں “مِن ثَمَرَۃٍ رِّزْقاً (۰۲: ۲۵ “پھل سے رزق”) فرمایا گیا ہے، یعنی خود میوہ نہیں بلکہ میوہ سے روح(ست=جوہر) درکار ہے، اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ جس طرح خام و ناتمام میوہ پہلے موجود ہوتا ہے اور اس میں خوشبو والی روحِ نباتی بعد میں آتی ہے، اسی طرح اپنی اپنی لطیف خصوصیات کے ساتھ پھولوں، پھلوں وغیرہ کی ارواحِ نباتی گلشن اور باغ کے بغیر موجود ہوسکتی ہیں، اور آیت کا ممثول بھی یہی ہے۔

علمِ روحانیّت کا دوسرا نام علمِ حقائقِ اشیا ہے، جس کے عملی تجربہ کی روشنی میں تحقیق کی گئی ہے کہ انبیاء واولیاء کے بعد حقیقی درویشوں کو پھولوں اور پھلوں کے بغیر بھی ان کی خوشبوئیں آتی ہیں، یہ بہشت کی جسمانی نعمت ہے، جبکہ روح اور عقل کی نعمتیں اس سے زیادہ لطیف اور اعلیٰ ہیں، اور یہ بات یاد رہے کہ مومن کو اس دنیا میں ہوتے ہوئے بہشت کی شناخت ضروری ہے، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے:۔

أُوْلَئِکَ لَہُمْ رِزْقٌ مَّعْلُومٌ  (۳۷: ۴۱) یعنی یہ لوگ وہ ہیں جن کو جنّت کا رزق پہلے ہی سے معلوم ہے۔ نیز فرمایا: وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمْ  (۴۷: ۰۶) اور ان کو اس بہشت میں

 

۱۴۶

 

داخل کرے گا جس کا انہیں (پہلے سے) شناسا کر رکھا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ مومنین کی جنّت تمام معنوں کے ساتھ امامِ زمانؑ ہیں، اور اصلی اور اساسی معرفت اسی مقدّس ہستی کی ہے، اور تمام ذیلی معرفتیں اسی مرکز اور سرچشمۂ نور کی بدولت میسر ہوجاتی ہیں۔

نصیر الدّین نصیر ہونزائی

 

۱۴۷

 

سورۂ لقمان سے اہم سوالات

 

میرے بہت ہی عزیز و محترم دوست نورالدین راجپاری جو امریکا میں رہتے ہیں، جو دینی علم کے بڑے دلدادہ ہیں، آپ اکثر اوقات اپنے عزیز دوستوں کے ساتھ ملکر اسماعیلی تعلیمات کا باقاعدگی اور شوق سے مطالعہ کرتے ہیں، ان کے نزدیک اس ایٹمی دور میں اور خاص کر امریکا جیسے عظیم ملک میں جہاں گوناگون مادّی ترقیوں کا طوفان برپا ہوچکا ہے، ہرمومن کے پاس حقیقی علم کا ہونا ازبس ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ اور آپ کے رفقاء وقتاً فوقتاً تحریری سوالات بھی کرتے ہیں، چنانچہ انہوں نے اس دفعہ سورۂ لقمان (۳۱) سے متعلق بڑے اہم سوالات کئے ہیں۔

اس سلسلے میں بندۂ کمترین نصیرالدّین جو خود کو خاکِ پائے مومنین سمجھتا ہے وہ خداوند برحق کی بارگاہِ عالی سے توفیق وتائید طلب کرتا ہے کہ وہی قادرِ مطلق اس ناچیز بندے کی یاری ودستگیری فرمائے!آمین یاربّ العٰلمین!!

 

۱۴۸

 

بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم۔

سوال نمبر ۱: الٓمّ کی تاویل بیان کیجئے۔

جواب: الٓمّ  (۳۱: ۰۱) حروفِ مُقَطَّعات میں سے ہیں، اور قرآنِ پاک کے تمام حروفِ مُقَطَعات میں حق تعالی نے اپنے مقدّس اوربزرگ ناموں کی قسم کھائی ہے، چنانچہ خداتعالی نے الف میں اوّل (قلم) کی قسم کھائی ہے، لام میں لوحِ محفوظ کی اور میم میں مرقوم کی قسم کھائی ہے، پس الف کی تاویل ہے اوّل، یعنی قلمِ الہٰی، جو عقلِ کلّ ہے، لام سے لوحِ محفوظ مراد ہے جو نفسِ کلّ ہے اور میم کی تاویل مرقوم (مکتوب) ہے، جسے رقیم بھی کہا گیا ہے، یعنی وہ تحریرِ روحانی جو لوحِ محفوظ میں درج ہے، اسی طرح ربّ العزت نے اپنے تین بزرگ ناموں کی قسم کھائی ہے، اور یہاں یہ اصول بھی یاد رہے کہ مظہرِ قلم(اوّل) ناطقؑ ہیں، مظہرِ لوحِ محفوظ اساسؑ اور مظہرِ رقیم(مرقوم)امامؑ ہیں۔ الٓمّ  کی مزید تاویلات کے لئے ملاحظہ ہو کتابچۂ “پیر ناصر خسرو(ق س) اور روحانیت۔”

سوال نمبر ۲: سورۂ لقمان کی دوسری آیت (۳۱: ۰۲) میں جن خاص آیاتِ کریمہ کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ کیا ہیں؟ اور کتابِ حکیم کی تاویل کیا ہے؟

جواب: وہ آیاتِ عظیم عالمِ روحانی میں قلم، لوح اور رقیم ہیں، اور عالمِ جسمانی میں ناطقؑ، اساسؑ اور امامؑ ہیں، جن کا اوپر ذکر ہوچکا اور کتابِ حکیم(حکمت والی کتاب)امامِ زمان صلوات اللہ علیہ ہیں،

 

۱۴۹

 

جو خداوند تعالی کی بولنے والی کتاب کا درجہ رکھتے ہیں۔

سوال نمبر ۳: لفظِ ہدایت، رحمت اور نکوکار کی وضاحت کیجئے، نیز یہ بھی بتا دیجیے کہ ہدایت و رحمت کا تعلق نکوکاروں سے کیوں ہے؟

جواب: ہدایت دین کے بنیادی اور سب سے اہم امور میں سے ہے، لہٰذا یہ سنتِ الہٰی سے وابستہ ہے جو بے بدل ہے یعنی اللہ کی ہدایت ہمیشہ ہادیٔ برحق کے توسط سے ملا کرتی ہے، جس کے لئے پہلے تو سلسلۂ نبوّت ہے، اور پھر سلسلۂ امامت، اور ایسی ہدایت کا ہونا رحمت ہے، کیونکہ یہ ہدایت اختلافات اور شکوک وشبہات سے پاک وبالاتر اور یقینی ہے، یعنی خدائے رحمان و رحیم کی جانب سے ہدایت کے لئے ہر وقت ایک زندہ رہنما کا ہونا ضروری ہے تا کہ وہ نورِ قرآن اور ہادیٔ زمان قرار پائے اور ہدایت و رحمت کا تعلق محسنین(نکوکاروں) سے اس لئے ہے کہ محسنین سے فرمان بردار لوگ مراد ہیں کہ وہی حضرات اپنی روح پر احسان کرتے ہیں اور دوسروں پر بھی احسان کرسکتے ہیں، پس اُن کے لئے ہدایت ورحمت ہے۔

سوال نمبر ۴: براہِ مہربانی صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے لغوی اور اصطلاحی معنی بتائیں، نیز یہ بیان کریں کہ آخرت پر یقین رکھنے میں کیا تاویل پوشیدہ ہے؟

 

۱۵۰

 

جواب: صلوٰۃ کے لغوی معنی ہیں دعا، درود، نشوونما دینا، پیروی اور اصطلاحی معنی ہیں نماز، زکوٰۃ کے لغوی معنی پاکیزگی کے ہیں اور اصطلاح میں زکوٰۃ مال کی وہ مقدار ہے جس کا دینا فرض ہے، نماز کی تاویل دعوتِ حق کو قائم کرنا ہے، اور زکات کی تاویل علم دینا ہے، آخرت پر یقین رکھنے کی تاویل ہے امامِ وقت علیہ السّلام کے مرتبہ ٔ روحانیت کو ماننا، اور عین الیقین یا علم الیقین کے طور پر اس حقیقت کا یقین کرلینا۔

سوال نمبر ۵: آیا ہدایت ساری مخلوقات کے لئے یکسان اور ایک جیسی ہے یا یہ بتدریج اور درجہ وار ہے؟ فلاح پانے کا واضح مطلب کیا ہے؟

جواب: ہدایت یکسان نہیں، بلکہ یہ مخلوقات کے درجات کے مطابق بتدریج اور درجہ وار ہے، یعنی یہ جمادات، نباتات، حیوانات اور انسانوں کے مختلف طبقات کے مطابق ہے، باالفاظِ دیگر ہدایت عام سے عام بھی ہے اور خاص سے خاص بھی، اور کسی گروہ کی سعادت اس بات میں ہے کہ اُس کو خدا کی خاص ترین ہدایت ملے، فلاح کے معنی کامیابی ہیں، جو تزکیۂ نفس سے حاصل ہو جاتی ہے اور اس کے لئے خصوصی ہدایت کی ضرورت ہے۔

سوال نمبر ۶: آیت نمبر ۱۰ (۳۱: ۱۰) کے مفہوم کے بارے میں بعض کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے قائم کیا، اس کے

 

۱۵۱

 

برعکس بعض کہتے ہیں کہ خدا نے آسمانوں کو کچھ ایسے ستونوں پر قائم کیا ہے جو ہمیں نظر نہیں آتے ہیں، اس میں آپ کا اپنا خیال کیا ہے؟

جواب: یہی قول درست ہے اور آیۂ کریمہ کا مفہوم بھی یہی ہے کہ خدائے پاک نے اس کائنات کو ایسے ستونوں پر قائم کیا ہے کہ وہ ہمیں دکھائی نہیں دے رہے ہیں، کیونکہ اس کائنات کے اجزاء خواہ لطیف ہوں یا کثیف ایک دوسرے کے اوپر اور باہم متصل ہیں، اور جسمِ کلّی کی کوئی جگہ جسم یعنی مادّہ سے خالی نہیں، فلکِ محیط کی تمام وسعت ہر قسم کے مادّہ سے بھری ہوئی ہے اور سورج اس مادّی کائنات کا وسط اور مرکز ہے۔

سوال نمبر ۷: سورۂ لقمان میں جس طرح لقمان کا ذکر فرمایا گیا ہے، اسی کی روشنی میں ہمیں بتا دیجئے کہ حضرت لقمان کا کیا درجہ تھا؟

جواب: حضرتِ لقمان کے بارے میں یہ قرآنی حقیقت روشن ہے کہ آپ کامل اور مکمل انسانوں میں سے تھے، کیونکہ اللہ پاک نے انہیں حکمت عطا کردی تھی اور حکمت عقل ودانش کا وہ سرمایہ ہے کہ اس کے حصول کے ساتھ ساتھ خیرِ کثیر بھی مل جاتی ہے، نورِ حکمت کی روشنی میں وہ سب نعمتیں نظر آنے لگتی ہیں جو ربِّ کریم نے انسان کے لئے پیدا کی ہیں، یہی سبب ہے کہ لقمان حکیم پر شکرگزاری واجب کرتے ہوئے اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اہلِ حکمت شکرکریں۔

سوال نمبر ۸:  ظاہر ہے کہ حضرت لقمان خدا شناس اور مُوَحِّد

 

۱۵۲

 

تھے، اسی سبب سے اپنے بیٹے کو شرک کے خلاف نصیحت کر تے تھے، لیکن پوچھنا یہ ہے کہ شرک کس معنی میں ظلمِ عظیم ہوتا ہے؟

جواب: حقوق دو قسم کے ہوتے ہیں: خدا کے حقوق اور بندوں کے حقوق، اگر کوئی شخص نظریاتی طور پر خداوند برحق سے خدائی اور بادشاہی کے حق کو اٹھا کر کسی غیر سے منسوب کرتا ہو تو یہ تصوّر سب سے بڑا ظلم ہے، ظاہر بات ہے کہ وہ اس ظلمِ عظیم کے تحت اپنے آپ پر بھی ظلم کرتا ہے اور دوسروں پر بھی، اس کے برعکس خدا شناسی اور توحید سب سے بڑے عدل کا درجہ رکھتی ہے۔

سوال نمبر۹: سورۂ مذکورہ کی آیت نمبر ۱۵ (۳۱: ۱۵) کے ترجمۂ ظاہر کے سمجھنے میں البتہ کوئی وقت نہیں، مگر یہاں سوال اس وقت پیدا ہو جاتا ہے جبکہ ہم تاویل کی رو سے اس میں روحانی والدین کی بات شروع کرتے ہیں، یعنی یہ کیسے ممکن ہے کہ روحانی ماں باپ اپنے کسی فرزند کو شرک کرنے کا حکم دیں؟

جواب: سوال بجا اور ضروری ہے، مگر اس کے تحریری جواب میں اسرارِ روحانیّت کی کچھ نزاکتیں حائل ہوجاتی ہیں، لہٰذا اس کو کسی وقت کی زبانی گفتگو پر چھوڑ دیتے ہیں، ان شاء اللہ آپ عزیزوں میں سے کوئی بھی ملے، تو اس پر بحث کریں گے۔

سوال نمبر ۱۰: آیت نمبر ۱۶ (۳۱: ۱۶) میں رائی کا دانہ کس چیز کی مثال ہے؟ قرآنی مثالیں ممکنات میں سے دی گئی ہیں یاغیر ممکنات میں سے؟ اگر

 

۱۵۳

 

آپ کہتے ہیں کہ قادرِ مطلق جس کام کو دائرۂ امکان میں دکھاتا ہے، وہ کسی بھی صورت میں انجام پاتا ہے، تو پھر آپ ہمیں یہ بتادیں کہ اللہ تعالیٰ چٹانوں، آسمانوں اور زمین سے رائی کے دانہ کے برابر کسی چیز کو کس طرح حاضر کرتا ہے؟

جواب: اس آیۂ مقدّسہ میں رائی کا دانہ ذرّۂ روح کی مثال ہے، قرآنِ پاک کی جو جو مثالیں امکانی تصوّر میں پیش کی گئی ہیں، وہ ظاہراً یا باطناً وقوع پذیر ہونے والی چیزیں ہوا کرتی ہیں، اور اسی طرح قرآنِ حکیم کی تمام تر حکمت ایسی ہی مثالوں میں پوشیدہ رہتی ہے، چنانچہ آیۂ کریمہ کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ خداوندِ عالم روزِ قیامت کائنات بھر کی چیزوں کی روحوں کو بصورتِ ذرّات حاضر کرے گا، اور اس میں پتھر کا ذکر نمایان اس لئے کیا گیا ہے کہ لوگ اسے روح سے خالی مانتے ہیں، حالانکہ اس میں بھی ایک قسم کی روح پنہان ہے جو منجمد ہوچکی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکمت آگین ارشاد ہے:۔

قُل کُونُواْ حِجَارَۃً أَوْ حَدِیْدا  (۱۷: ۵۰)آپ فرما دیجئے کہ تم پتھر یا لوہا بن جاؤ۔ اگر چہ خداوندِعالم نے یہ امر آنحضرتؐ کے توسط سے فرمایا، تاہم یہ فرمانِ خداوندی آیۂ “کُنۡ فیکُون” کی تفسیر وتشریح ہے، اس سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ جس طرح روحِ انسانی کا عروج ہوتا ہے، اسی طرح اسفل سافلین(۹۵: ۰۵)کی طرف اس کا نزول بھی ممکن ہے۔

 

۱۵۴

 

سوال نمبر ۱۱: خداوند تعالیٰ نے کس طرح آسمانوں اور زمین کی چیزوں کو انسان کے لئے مسخر کردیا ہے؟ کس معنیٰ میں اللہ کی ظاہری اور باطنی نعمتیں آدمیوں پر پوری ہوچکی ہیں؟ نیز یہ بتائیں کہ یہاں جیسے علم، ہدایت اور کتابِ منیر کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس سے کیا مراد ہے؟

جواب:  تمام انسانی روحوں کی ایک آخری اور انتہائی عظیم مشترکہ روح ہے، جس کے بہت سے نام ہیں، جیسے روحِ ارواح، نفسِ واحدہ، نفسِ کلّی وغیرہ، وہ ساری کائنات کا جوہر اور جان ہے، جس کا مظہر انسانِ کامل ہیں، سو وہ تمام مومنین جواس مظہر کے وسیلے سے عالمگیر روح سے واصل ہوجاتے ہیں، وہ جملہ کائنات کو اپنے لئے مسخر پاتے ہیں، اور اسی وصال میں خدا کی ظاہری اور باطنی نعمتیں کسی کمی کے بغیر حاصل ہیں۔

یہاں علم سے داعی مراد ہے، کیونکہ اس کو علم الیقین کا درجہ حاصل ہے، ہدایت کا مطلب حجّت ہے، جو عین الیقین کے مقام پر ہے، اور کتابِ منیر امامِ زمان صلوات اللہ علیہ ہیں، جو حق الیقین کا مرتبہ رکھتے ہیں، جو سرچشمۂ نور ہیں اور نور بکھیر دینے والے ہیں۔

سوال ۱۲: آیت نمبر ۲۲ (۳۱: ۲۲) کی وضاحت کیجیے، العُرْ وَۃُ الوْ ثْقیٰ کی کیا تاویل ہے؟

جواب: اسلام کے بعض امور میں خانۂ خدا کی طرف رُخ کرنا واجب

 

۱۵۵

 

اور ضروری ہے، چہرۂ جان کو ہر وقت خود خدا کی طرف رکھنا قبلۂ ظاہر سے بڑھ کر ہے، اور چہرۂ روح یعنی انائے علوی کو اُس ذاتِ یکتا کے سپرد کر دینا سب سے بڑا کام ہے، اور لفظ اسلام میں سب سے خاص معنی یہی پوشیدہ ہیں، اس سپردگی(تسلیم) کا یہ مطلب ہے کہ نظریۂ اسلام کے مطابق انسانی روح کے بالائی سرے کو ہمیشہ ہمیشہ نورِ خدا سے وابستہ مانا جاتا ہے، جس طرح شعاعیں ہر وقت سورج سے وابستہ رہتی ہیں، چنانچہ جو شخص اس معنیٰ میں چہرۂ روح کو اللہ کے سپرد کردیتا ہے اور وہ اس نظریئے کے ساتھ ساتھ نکوکار بھی ہوتو اس نے بڑا مضبوط حلقہ تھام رکھا ہے، اور یہ حلقہ یعنی العروۃ الوثقیٰ ولایتِ أئمہّ ھُدٰی ہے۔

سوال نمبر ۱۳: آیت نمبر ۲۵ (۳۱: ۲۵) کی کوئی خاص حکمت بیان کیجئے۔

جواب: اس آیۂ مبارکہ میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر لوگ اس بات کا اقرار تو کرتے ہیں کہ خدا ہے اور اُس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، مگر ان کے کفر کی خاص وجہ جہالت ہے، کیونکہ ان میں سے اکثر نہیں جانتے ہیں۔

سوال نمبر ۱۴: اور اگر زمین بھر کے درخت قلم بن جائیں، اور بحرِ محیط (دنیا بھر کا پانی) کے علاوہ اس جیسے سات سمندر اور سیاہی بن جائیں، تو پھر بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے۔ اس ارشاد میں کلمات سے کیا مراد ہے؟

 

۱۵۶

 

جواب: ان کلمات سے کلماتِ تامّات مراد ہیں، اور خاص کر کلماتِ کُنۡ، کہ وہ اگر چہ ایک ہی ہے، مگر اس کے مظاہرے بے شمار ہیں، کیونکہ ہر کامل انسان میں کلمۂ کن کا صرف ایک ظہور نہیں بلکہ بہت سے ظہورات ہیں اور ایک علمی کائنات ہے، اور ایسی کائناتوں کے سلسلے کی نہ تو کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی کوئی انتہاء انہی معنوں میں خداوند تعالیٰ کے کلمات کبھی ختم نہیں ہوتے، جن میں عقل و روح کی دنیائیں پوشیدہ ہوا کرتی ہیں۔

سوال نمبر ۱۵: مَّا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ إِلَّا کَنَفْسٍ وَاحِدَۃٍ  (۳۱: ۲۸)اس آیۂ حکمت آگین کی توضیح کر کے سمجھادیں۔

جواب: (الف)انبیاء وأئمّہ صلوات اللہ علیھم میں سے ہر ایک اپنے وقت کا نفسِ واحدہ ہوا کرتا ہے، جو اپنی ذات میں ایک ہوتا ہے اور خلائق کے تمام نفوس کو اپنے ساتھ ایک کرلیتا ہے، جبکہ اس کی روحانی تخلیق وتکمیل میں بھی اور انبعاث میں بھی یہ نفوس غیر شعوری حالت میں ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ (ب) مذکورہ آیۂ کریمہ کی حکمت یہ بتاتی ہے کہ جب بھی ہو تم میں سے ہر ایک کا شعوری اور روحانی جنم، نفسانی موت، اور انبعاث اسی طرح  ہوگا، جس طرح نفسِ واحدہ کا ہوتا ہے۔ (ج) اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب کے لئے روحانی ترقی کا راستہ ایک ہی ہے جو صراطِ مستقیم ہے، جس پر عظیم ارواح آگے بڑھ چکی ہیں۔

 

۱۵۷

 

سوال نمبر ۱۶: قرآنِ حکیم اس دستورِ خداوندی کی طرف باربار توجہ دلاتا ہے کہ وہ قادرِ مطلق دو متضاد چیزوں کو ایک دوسرے سے پیدا کرتا ہے اور ایک دوسرے میں پوشیدہ رکھتا ہے، جیسے رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے(۳۱: ۲۹) اس قانون کی طرف توجہ دلانے کا خاص مقصد کیا ہے؟

جواب: اس کا مقصد بہت عظیم ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم قانونِ اضداد کو خوب گہرائی سے سمجھ لیں، کہ کس طرح نیستی میں ہستی کی صورت پنہان ہے اور کس طرح ہستی میں نیستی کی امکانیّت پوشیدہ ہے، دنیا سے کیسے آخرت بنتی ہے اور آخرت سے کیسے دنیا وجود میں آتی ہے، اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ قرآن کی بہت سی حکمتیں مثبت ومنفی دونوں پہلو رکھتی ہیں، ان میں سے اگر ایک پہلو ظاہر ہے تو دوسرا پوشیدہ ہوتا ہے۔

سوال نمبر۱۷: شمس، قمر، اَجَل مُسَمّا، اور فلک(کشتی) کی تاویل کیا ہے؟ نیز اس آیۂ مقدسہ کا مطلب بتائیں: اِنَّ اللّٰہَ عِندہ علم السّاعۃِ۔ (۳۱: ۳۴)

جواب: شمس وقمر، یعنی سورج اور چاند کی تاویل سب سے پہلے ناطقؐ واساسؑ، پھر اساسؑ وامامؑ، اور اس کے بعد امامؑ اور حجّت ہے، اَجَلِ مُسَمّا حضرتِ قائم، کشتی جو بحرِ روحانیّت میں چلتی ہے، امامِ زمانؑ کا نور ہے، جو اللہ تعالیٰ

 

۱۵۸

 

کا زندہ اسمِ بزرگ اور نورِ ذکر ہے۔

آیت کا مطلب: بیشک خدا کے پاس قیامت کا علم ہے یعنی جن کامل انسانوں کو اللہ کا قربِ خاص حاصل ہوا اُن کو قیامت کاعملی علم ہوجاتا ہے۔

 

خاکِ پائے مومنان

نصیرُالدّین نصیر ہونزائی

۷۔ جون ۱۹۸۴ء

 

۱۵۹

 

حکمتِ شکر

 

صدرِ عالیقدر فتح علی حبیب اور ان کی فرشتہ خصلت بیگم گل شکر کو خداوندِ قدوس ہر طرح کی کامیابی اور سرفرازی عنایت فرمائے!

میں اپنی اصل روح اور حقیقی انا سے یا علی مدد کا خصوصی سلام کرتا ہوں، اور اسی جذبۂ خیر خواہی سے جملہ عزیزانِ شرق وغرب کے حق میں بھی انتہائی عاجزانہ دعائیں کرتا  ہوں، قبول ہوں!

پروردگارِ عالم تمام مومنین پر بدرجۂ انتہا مہربان ہو!آمین یاربّ العالمین!!

میری اہلیہ عائشہ بیگم نصیر اس سے قبل کہ ہونزہ کی جانب روانہ ہوجائیں مجھ سے باربار عرض کررہی تھیں کہ میں ان کی اور اپنی طرف سے خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کے تمام جان نثار اور فرشتہ صفت عملدار اور ارکان کا صمیمیتِ قلب سے شکریہ ادا کروں، کیونکہ انہوں نے جس خلوص ومحبت سے میری فیملی کی ہر گونہ مدد کی ہے وہ بے مثال اور ناقابلِ فراموش ہے، اور حق بات یہ ہے کہ میری

 

۱۶۰

 

بیگم جملہ عزیزان کے فرزندانہ تعاون سے بے حد متاثر ہوگئی ہیں، وہ خصوصاً گل شکر فتح علی اور یاسمین محمد کی مسلسل مہمان نوازیوں اور گوناگون احسانات کو ہرگز فراموش نہیں کرسکتی ہیں، وہ ہر بار ان خداداد(GOD GIVEN)عزیز بیٹیوں کی تمام ترفرشتگانہ خصلتوں کا تذکرہ کرتی رہتی تھیں۔

میں نے محترمہ عائشہ بیگم کو تفصیلاً بتادیا کہ یہ علمی خطوط اور دوسرے علمی مقالے کہاں کہاں تک جاتے ہیں، اور ہمارے عزیزان جو مولائے پاک کے علمی لشکر کا ایک فاتح دستہ ہیں، ان اہم تحریروں کو کس شوق وجذبہ سے پڑھا کرتے ہیں، اس سے ان کو بڑا تعجب ہوا، اور احساسِ شکرگزاری بھی، انہوں نے کہا کہ یہ مالکِ حقیقی کی بہت بڑی رحمت ہے کہ آپ کے بیحد عزیز شاگرد، سب کے سب ہر وقت حصولِ علم اور پیاری جماعت کی اعلیٰ ترین علمی خدمت کے لئے مستعد رہتے  ہیں، آپ نے جس طرح انتہائی سخت مصائب وآلام میں صبر کا راستہ اختیار کیا تھا، وہ عمل یقیناً مولا کی خوشنودی کا باعث ہوا ہوگا، اسی لئے اُس مہربان خداوند نے ان پاک باطن اور روشن ضمیر فرشتگانِ ارضی سے آپ کی یہ شاندار مدد کی ہے، ان کا یوں کہنا بالکل بجا تھا، اس احساسِ نعمت کے نتیجے میں ہم نے خداوند تعالیٰ کی رحمتوں اور مہربانیوں کا شکر ادا کیا۔

 

۱۶۱

 

یہ اہم نکتہ یاد رہے کہ ایک مومن کی زندگی میں صبر کے مواقع پہلے آتے ہیں، اور شکر کے مقامات بعد میں، اور شکرگزاری ہی ایک ایسی عبادت ہے، جس میں سب سے زیادہ خوشیوں اور مسرّتوں کے احساس وادراک کا امکان ہوتا ہے، بشرطیکہ یہ بندگی علم وحکمت کی روشنی میں ہو، اگرچہ ہر عبادت میں لذّت وشادمانی کی معجزاتی روح پوشیدہ ہوا کرتی ہے، تا ہم شکرگزاری وقدردانی اہلِ بہشت کی عبادت ہے، چنانچہ جب کسی نعمت پر علمی وعرفانی شکرگزاری کی روشنی پڑتی ہے، تو وہ اپنے تمام ترمعنوی حسن وجمال اور قدر وقیمت کے ساتھ تصوّر میں اجاگر ہوجاتی ہے، یہ اس سوال کا مختصر سا جواب ہے، جو کوئی بھی علم جُو پوچھ سکتا ہے کہ حقیقی شکرگزاری سے اس قدرلذّت وخوشی کیوں ملتی ہے؟

سورۂ لقمان(۳۱: ۱۲)سے ایک تو یہ ظاہر ہے کہ ربِّ کریم کی سب سے بڑی نعمت حکمت کی صورت میں ہے بلکہ وہ تمام اعلیٰ نعمتوں کا مجموعہ ہے، دوسرا یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکمت ایک نور ہے، جس کی روشنی کے بغیر عقلی، روحی، اور جسمی نعمتوں کی شکرگزاری اور قدردانی کماحقہ ادا نہیں ہوسکتی، چنانچہ خداوندِ عالم نے حضرت لقمانؑ کو حکمت عطا کرکے فرمایا کہ اس کا مقصد شکر کرنا ہے سو جو شخص حکمت کی روشنی میں فریضۂ شکرگزاری کو انجام دیتا ہے، اس کا فائدہ خود اسی کو ملتا ہے۔

 

۱۶۲

 

سورۂ سبا میں ارشاد ہے: اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُکْراً وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُورُ (۳۴: ۱۳)اے داود کے خاندان والو! تم سب شکریہ میں نیک کام کرو اور میرے بندوں میں شکرگزار کم ہی ہوتے ہیں۔ اس حکمِ عالی سے صاف ظاہر ہے کہ مکمل شکرگزاری عملی صورت میں ہوا کرتی ہے، یعنی مالی، جسمانی، عقلی اور علمی نعمتوں میں سے جو کچھ مُیسر ہوا ہو، اس کو استعمال کرکے دوسروں کو فائدہ پہنچانا عملی اور حقیقی شکرگزاری کہلاتی ہے۔

آلِ داودؑ کا مفہوم کافی وسیع ہے، کیونکہ یہ لفظ آلِ ابراہمؑ ہی کی طرح ہے جس کی خاص وجہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السّلام امامِ مستودع اور تختِ روحانیّت کے مالک تھے، اور یہ مرتبہ آپؑ کی نسل میں بھی جاری تھا، چنانچہ سلسلۂ آلِ داودؑ نے اپنی عظیم روحانی سلطنت کا حقِ شکرگزاری اس طرح ادا کیا کہ انہوں نے نورِ ہدایت کی روشنی میں اہلِ ایمان کو منزل بمنزل آگے بڑھا دیا، اُن حضرات کی عملی شکرگزاری تھی، اور انبیاء وأئمّہ علیھم السّلام کا فریضۂ شکراسی طرح ادا ہوا کرتا ہے۔

قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں شکر سے متعلق آیات موجود ہیں، ان سب میں کسی بھی اندازِ حکمت سے انتہائی عظیم نعمتوں کاذکر فرمایا ہوا ہے، جیسے فرمایا گیا ہے:۔

ثُمَّ بَعَثْنَاکُم مِّن بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ

 

۱۶۳

 

(۰۲: ۵۶) پھر ہم نے تم کو زندہ کراٹھایا، تمہارے مرجانے کے بعد تا کہ تم شکرکرو۔ یہ جسمانی موت اور پھر جسمانی طور پر زندہ ہوجانے کی بات نہیں، بلکہ یہ معجزۂ انبعاث کا ذکر ہے، جس کا مقالہ آپ پڑھ چکے ہوں گے۔

ارشاد فرمایا گیا ہے: اور اُس نے تم کو کان دیئے اور آنکھ اور دل تا کہ تم شکرکرو(۱۶: ۷۸)اس فرمانِ الہیٰ میں باطنی کان، چشمِ روح اور حقیقی دل کا تذکرہ ہے، اور اسی وجہ سے شکر مقصود ہے۔

فرمانِ خداوندی ہے:  فَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون (۰۳: ۱۲۳) پس اللہ سے ڈرو تاکہ تم شکر کرو۔ یعنی متّقی بن جاؤ تاکہ تمہیں خدا تعالیٰ کی عظیم نعمتیں حاصل ہوں، تاکہ تم آخر کارشاکر ہوسکوگے، اس سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ منزلِ شکر آخر میں آتی ہے۔

سورۂ ابراہیم (۱۴: ۰۵) کا مفہوم ہے: اور ان کو اللہ کے ایام یعنی چھ عظیم پیغمبروں کی روحانیّت یاد دلاؤ، بلاشبہ اس میں نشانیاں ہیں ہر صابر اور شاکر کے لئے۔ اس سے معلوم ہواکہ صبر پہلے آتا ہے اور شکر آخر میں۔

سورۂ زمر میں فرمایا گیا ہے: بَلِ اللَّہَ فَاعْبُدْ وَکُن مِّنْ الشَّاکِرِیْنَ  (۳۹: ۶۶) بلکہ اللہ ہی کی عبادت کرنا اور شکرگزاروں میں سے ہوجانا۔ اس سے ظاہر ہے کہ شکرگزاری ایک خاص عبادت

 

۱۶۴

 

ہے جو عام عبادات کے بعد آتی ہے۔

سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے: اے اُن لوگوں کی نسل جن کو ہم نے نوحؑ کے ساتھ سوار کیا تھا وہ نوحؑ بڑے شکرگزار بندے تھے(۱۷: ۰۳) اس میں اشارتاً حضرت نوح علیہ السّلام کی روحانیّت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، کیونکہ کامل انسانوں کی شکرگزاری روحانی اور عقلی نعمتوں کے مقام پر ہوتی ہے۔

ایک آیۂ کریمہ کا مفہوم ہے(۰۷: ۵۸)خداوندِ عالم شکرگزار اور قدردان لوگوں کے لئے آیات کو طرح طرح سے بیان کرتا ہے یعنی وہ ایسی بہت ساری مثالیں بیان فرماتا ہے کہ ان سب کا ایک ہی ممثول ہے۔

ایک ہی ممثول (حقیقتِ واحدہ)امامِ زمان علیہ السّلام ہیں، اور اسی پاک ہستی کی بہت سی مثالیں اور کثیر نام ہیں، چنانچہ آپؑ ہی خداتعالیٰ کا زندہ اور نورانی اسمِ اعظم ہیں، اور آپؑ ہی اس کے مقدّس نور کے مظہر ہیں۔ الحمد للہ علیٰ مَنِّہ واحسانہ۔

مومنوں کی خاکپا

نصیرالدّین نصیر ہونزائی

۱۱، جون ۱۹۸۴ء

 

نوٹ: شکر کے قرآنی موضوع میں بلند ترین نعمتوں کی طرف اشارہ ہے، اور وہ ایسی نعمتیں ہیں جو صرف اور صرف مومنین ہی کیلئے مخصوص ہیں۔

 

۱۶۵

شرافت نامہ

شرافت نامہ

جزوِ اوّل

سعادت نامہ

بابِ اوّل در تسلیم

دلا ہموارہ تسلیم رضا باش

بہر حالیکہ باشی با خدا باش

رضا تسلیم کر اے دل ہمیشہ

ہر اک حالت میں ہو جا ذکر پیشہ

خدا را داں خدا را خواں بہر کار

مداں تو یاوراں را بہ از دیار

مدد ہر کام میں حق سے طلب کر

نہیں اُس کے سوا اور کوئی یاور

چو حق بخشد کلاہِ سربلندی

تو دل بر دیگرے بہر چہ بندی

خدا ہی سے اگر تجھ کو عطا ہے

توقع غیر کی پھر اک خطا ہے

خدا را باش اگر مردِ خدائی

مکن بیگانگی گر آشنائی

اطاعت کر تو گر مردِ خدا ہے

نہ بن بیگانہ گر تو آشنا ہے

حدیثِ جتّت و دوزخ رہا کن

پرستش خاص از بہرِ خدا کن

نہ کر تو جنّت و دوزخ بہانہ

عبادت کر خدا کی مخلصانہ

ترا بر ہر دو گیتی برگزیدہ است

ہم آخر بہر کارت آفریدہ است

تو کونین میں اسی کا منتخب ہے

کسی ایک کام کا تو ہی سبب ہے

ز تو جز بندگی گردن نشاید

از و خود جز خداوندی نیاید

جو تجھ سے ہو سکے وہ بندگی ہے

خدائی خود عطا کی مقتضی ہے

بریں در ہیچ اکراہے نباشد

وزیں بہ ہیچ درگاہے نباشد

نہیں اس در پہ کوئی جبرِ خواہش

یہیں پر ہے نوازش ہی نوازش

 

۱

 

اگر لا فے زنی ہم لاف دیں زن

ہمیشہ دست در حبل المتین زن

تجھے کچھ فخر ہو تو فخرِ دین ہو

ہمیشہ ہاتھ میں حبل المتین ہو

بہر کارے مددگارت خدائیست

دلیل راہ دینت مصطفائیست

ترے ہر کام میں یاور خدا ہے

ترا ہادی ہمیشہ مصطفیٰ ہے

 

بابِ دوم در نیکی

 

دلا پندم نیوش و دل دروبند

زتو توبہ ز پیرانِ کہن پند

مری اس پند پر اے دل ہو پابند

جوان توبہ کرے اور پیر دے پند

ازیرا گر بخود خواری نہ خواہی

مکن کاریکہ باز آید تباہی

اگر چاہتا نہیں تو کوئی خواری

نہ کر وہ کام جو لائے تباہی

مکن کاریکہ از ننگ و ندامت

سیہ روئی کشی اندر قیامت

نہ کر شرم و ندامت کا کوئی کام

سیہ روئی ہو کل جس کا سرانجام

چو در نیکی رضای کردگار است

بہ از نیکی نگہ کن تا چہ کار است

اگر نیکی میں ایزد کی رضا ہے

تو پھر نیکی سے بڑھ کر اور کیا ہے

درونِ دردمندان شاد میدار

ز روزِ در گزشتن یاد میدار

خراشیدہ دلوں کو شاد رکھنا

جہاں سے روز رخصت یاد رکھنا

مکن از حال مسکیناں فراموش

چو داری مایہ ای در نیکوئی کوش

بھلا دینا نہیں حالِ غریبان

اگر مقدور ہو کرلے کچھ احسان

چو از صحبت بود بر نفس تاثیر

بہ صحبت دوستانِ پرخرد گیر

یہ جب مانا کہ صحبت میں اثر ہے

اُسی صحبت رہ جو پُرہنر ہے

 

۲

 

دلت را راست کن گر راستکاری

کہ ہست از راستکاری رستگاری

تو سچا ہے تو دل میں رکھ سچائی

سچائی سے ملے گی رستگاری

ز آموزندہ پندِ نیک بر گیر

ز نیکی گر بدت افتد مرا گیر

معلّم کی نصیحت پر عمل کر

مجھے کہہ گر ملے کچھ خیر سے شر

 

بابِ سوم در کم آزاری

 

فزوں خواہی بقا دلہا میازار

کہ دائم دیرزی باشد کم آزار

دلوں کو مت دُکھا اے مردِ ہشیار

کہ دائم دیر جیتا ہے کم آزار

بیادِ حق تعالیٰ باش خوشنود

کہ خوشنودی رضا حاصل کند زود

خدا کی یاد میں رہ شاد و خرّم

رضائے حق ہے حاصل جس سے ہر دم

مبر بر کس حسد گر مالدار است

کہ تو در رنجی و او شاد کار است

توانگر کا حسد ہرگز نہ کرنا

کہ وہ خرسند ہے تو آہ نہ بھرنا

ہمیشہ نیک خواہ مردماں باش

بہ نیکی کوش و آنگہ در اماں باش

سدا کر خلق کی نیکو سگالی

بھلائی کر کے ہو جالا اُبالی

چو بد خواہی بہ کس از غم بکاہی

نہ بینی ہیچ بد گر نیک خواہی

نہ ہو بدخواہ کہ تو غم سے گھٹے گا

اگر تو نیک ہے بد سے ہٹے گا

دِلت را با مروت متفق کن

و گر خیرے کنی با مستحق کن

سخاوت سے تو دل کو متفق کر

جو نیکی ہو تو بہرِ مستحق کر

مدد دہ تا کہ حق یارِ تو باشد

ہمہ عالم مددگارِ تو باشد

مدد کر تا کہ حق ہو گا ترا یار

رہے گا پھر جہاں یکسر مددگار

 

۳

 

مردت نیست ار افتادگانی

برہ بینی و خود مرکب برانی

جواں مردی نہیں گر تو نے دیکھا

گرے کو راہ میں اور چھوڑ بھاگا

ز نیکاں باش اندر نیکوئی کوش

مکن نیکی کس از دل فراموش

نیکوکاروں سے ہو جا اور صلاح کوش

نہ بن جانا کبھی احساں فراموش

بہ نیکاں عمر ساز برگ خواہد

بداں را خلق عالم مرگ خواہد

طلب کرتی ہے اس دنیا کی خلقت

بروں کو موت بھلوں کو عمر و دولت

 

بابِ چہارم در بردباری

 

بکس مپسند آنچت ناپسند است

کہ واجب کشتنِ مار از گزند است

کسے مت چاہ جو تجھ کو ناپسند ہے

کہ سانپ کو مارنا دفع گزند ہے

مشو کس را بکین خانہ بر انداز

کہ ہر کس بد کند یا بد بدی باز

عدد کا تو نہ بن گھر ڈھانے والا

کہ بدکردار بدی ہے پانے والا

مکن شیرین بدل مالِ یتیمان

کہ از مالت بکاہد ہم ز ایمان

یتیموں کی کوئی شے کر نہ نقصان

نہ ہو نقصان تجھے کچھ دین و ایمان

تو با خلقِ خلا خو شباش و خوشگو

کہ خون از پرورش شد مشک خوشبو

خدا کی خلق میں رہ شاد و خوشخو

لہو پلکر بنا ہے مشکِ خوشبو

گزر از تندہی و از تند خوئی

تواضع پیشہ گیر و تازہ روئی

گزر جا تیزی اور غیض و غضب سے

رہا کر خندہ رو اور بول ادب سے

گرہ باہر کسے مفگن برابرو

چہ بدتر باشد از طبعِ ترشرو

ہر ایک سمجھے نہ تو چین بر جبین ہے

تُرشرو آدمی تو بدترین ہے

 

۴

 

مپندار از لب خندان زیان است

کہ خندان روی از اہلِ جنان است

تبسم میں نہیں ہے کوئی زحمت

کہ خوشخو خندہ رو ہیں اہلِ جنت

فرو خور خشم اندرگاہ گرمی

زمومن خوش بود چربی و نرمی

تو اپنا غصہ پی لے گاہ گرمی

کہ مومن کو بھلی لگتی ہے نرمی

حلیمی کن چو دانہ درگہ تنگ

گرت بر سر بگردد آسیاسنگ

بسان دانہ تنگی میں خودی کاٹ

ترے سر پر اگر گھومے چکی پاٹ

مشو غرہ بزور بازوی خویش

کہ باشد زور بازوہا ازین بیش

نہ ہو مغرور زورِ بازؤں پر

کئی شہ زور ہیں تجھ سے قوی تر

 

بابِ پنجم در بیانِ جاہل و ناجنس

 

ببر از جاہل ار چہ خویش باشد

کہ رنجِ او ز راحت بیش باشد

نہ مل جاہل سے خواہ وہ کیوں نہ ہو خویش

کہ اس کا رنج راحت سے ہو بیش

ز نادان و ز ناجنس و ز ناکس

بشب بگریزد منگر ہیچ در پس

رذیل و سفلہ و نا اہل سب کو

عقب میں چھوڑ گریزاں ہو کے شب کو

مکن دل خوش بہ سود بیکرانش

کہ صد سودش نیرزد یک زیانش

نہ ہو خوش اس کے سود بیکراں سے

کہ سو سود کم ہیں اس کے اک زیاں سے

حذر از مالدارِ پر تکبر

کہ مبر زگندہ تر گردد چو شہ پر

غرور والے غنی سے دور ہی رہ

بھری مبرز ہوئی گندہ زیادہ

مکن کاریکہ نے کار تو باشد

کزاں بر ہر دل آزارِ تو باشد

نہ رکھ اس کام سے کوئی سروکار

کہ ہو جس کے سبب کوئی دل آزار

 

۵

 

تبرا کن ز ہر بد فعل و بد نام

کہ بدنامت کند چوں خود سرانجام

تجھے بد فعل و بدنام سے نہ ہو کام

کہ آخر مثل خود کر لے گا بد نام

مکن صاحب سر از نمام و غماز

بکش دامن ز دزد خانہ پرداز

چغل خوروں کو بھیدی مت بنانا

اُچکّے چور سے دامن بچانا

مباش ایمن ز دست و چشم طرار

ہمہ کس دزد داں کالا نگہ دار

تو ایمن جیب کترے سے نہ ہونا

کہ ہیں سب چور تو پونجی بچانا

مکن ہمراہی کس نازمودہ

تفاوت داں زدیدہ تا شنیدہ

نہ ہو ساتھی سوائے آزمودہ

کہ ہے فرق بینِ دیدہ اور شنیدہ

منافق را مداں یار موافق

منافق را منافق داں منافق

منافق کو نہ جان یار موافق

منافق کو منافق جان منافق

 

بابِ ششم در گفت و شنود و پند شنودن

 

سخن دانستہ گو چیزیکہ گوئی

خود آں آہستہ گو چیزیکہ گوئی

تو جو کچھ بھی کہے دانستہ کہنا

وہی جو تو کہے آہستہ کہنا

بمیدانِ فصاحت چوں در آئی

مراں بس گرم تا در سر نیائی

تو جب میدان خوشگوئی میں جائے

نہ کر تیزی بلا تو غالب آئے

مکن چیزی براہل روزگارت

کہ پرسد از تو روزی کردگارت

تو ہمعصروں سے ایسا کام مت کر

کہ اک دن تجھ سے پوچھے تیرا داور

سخن بشنو ز لفظِ ہر ہنر جوئی

ازاں سانی کہ خوش آید چنان گوئی

مقرِّر کی نکات پر تو دھیان کر

تجھے جیسے پسند آئے بیان کر

 

۶

 

مگو ناخوش کہ پاسخ نا خوش آید

بکوہ آواز خوشدہ تا خوش آید

نہ دے طنزاً جواب، بد لہجہ مت ہو

خوش آوازی ہے کوہ خوش گونجے تجھ کو

مکن با خسرواں گستاخ بازی

زباں ہشدار تا سر در نبازی

شہوں کو تجھ سے گستاخی نہ آئے

زبان کو روکنا تا سر نہ جائے

سخن نا گفتہ باشد کے چو گفتہ

چو شد گفتہ کجا ماند نہفتہ

نہیں ہے گفتہ و ناگفتہ یکساں

کہ جب ہو گفتہ کب رہتا ہے پنہاں

بہر گفتار منما پیشدستی

مگو نا گفتنیہا رو کہ رستی

نہ کر پہل اور سخن کو مت کٹا تو

نہ کہہ نا گفتنی، بس جا چھٹا تو

ہمیشہ مشورت با دوستان کن

ز دشمن راز دل دائم نہان کن

ہمیشہ دوستوں سے مشورت کر

عدو سے بھید چھپائے رکھ سراسر

 

بابِ ہفتم در دوستی و دشمنی و وفا

 

چو خواہی کرد با کس دشمنی ساز

میفگن دوستی با او ز آغاز

تجھے کرنی ہو جس سے دشمنی کچھ

نہ کر اوّل ہی اس سے دوستی کچھ

فگندن دوستی با کس سلیم است

وفا بردن بسر کارے عظیم است

کسی سے دوستی کرنا ہے آسان

وفا کرنا نہیں ہے سہل چندان

مر نجاں کس مخواہش عذر ازان پس

کہ بد کارے بود رنجیدن کس

نہ دے دکھ عذر خواہ مت ہو سر انجام

کسی کو رنج دینا ہے برا کام

مکن قصدِ جفا گر با وفائی

ز سگ طبعی بود گرگ آشنائی

نہ کر قصد جفا گر با وفا ہے

کہ سگ دوستی ہی جس میں کچھ ریا ہے

 

۷

 

چو رنجانیدن کس ہست آسان

بدست آوردنش نبود بد انسان

کہ ہے آسان کسی کا دل دکھانا

مگر دشوار ہے پھر ہاتھ لانا

در گنجِ معیشت سازگاریست

کلیدِ باب جنت بردباریست

ہے گنج زندگی کا در توصّل

کلیدِ بابِ جنّت ہے تحمل

ز توفیق و کلیدِ بے ریائی

ہمہ درہائے دولت برکشائی

کلیدِ بے ریائی اور مدد سے

کھلیں گے تجھ پہ دولت کے خزانے

چو نتوانی علاجِ درد کس کرد

میفزا از جفایش درد بر درد

اگر تجھ سے نہ آئے چارہ کرنا

کسی کا درد بے جا مت بڑھانا

سنانِ جور بر دلریش کم زن

چو مرہم می نسازی نیش کم زن

نہ مار تو ظلم کے نیزے سے دلریش

نہ ہو مرہم کسی کو مت لگا نیش

ز مردم زادہ با مردمی باش

چہ باشد دیو بودن آدمی باش

تو مردم زادہ ہے پھر مردمی بن

نہ بن جا دیو لیکن آدمی بن

 

بابِ ہشتم در طمع

 

طمع در ہر چہ بستی پائے بستی

چو دست از جملہ شُسی رو کہ رستی

چو تو نے حرص کی پابند ہوا تو

جو دھویا ہاتھ سب سے جا چھٹا تو

طمع بسیار کردن خواری آرد

نتیجہ خواریش غمخواری آرد

زیادہ حرص سے آتی ہے خواری

یہی خواری ہے بے جا غمگساری

 

۸

 

مدار از کس طمع ہر دم بہ چیزے

شود خوار از توقع ہر عزیزی

طمع مت کر کسی سے کچھ نہیں چاہ

طمع کرتی ہے خوار ہر صاحب جاہ

طمع آرد بروئے مرد زردی

طمع را سر ببر گر مردِ مردی

طمع سے مرد ہو جاتا ہے رو زرد

طمع کو نیست کر ہے تو اگر مرد

ہر آں سختی کہ با تو روئے بنمود

گر آساں گیریش آسان شود زود

جو کچھ مشکل پڑے تجھ کو نمایاں

اگر آسان سمجھ لے ہو گی آسان

بہر بادی مجنب از جای چون بید

نہ تمکین باش ہمچون ماہ و خورشید

ہر ایک جھونکے سے مت ہل تو نہیں بید

موقر رہ تو مثلِ ماہ و خورشید

چو مردان پائے محکم نہ در ایں راہ

ز آز و آرزو کن دست کوتاہ

چلا جا مردوار اس راہ سے پار

طمع اور حرص سے ہو دستبردار

قناعت کن بنانِ خشگہ خویش

چو کردی از بروتِ سفلہ مندیش

کر اپنی روکھی روٹی پر قناعت

کسی جاہل کی کچھ بھی فکر کر مت

خنک باری بود بارِ قناعت

کجا باشد چو بازارِ قناعت

قناعت ہے سبک اور نیک فرجام

نہیں بہتر قناعت سے کوئی کام

طمع داری سگ ہر تیرہ کیشی

چو ببریدی طمع سلطان خویشی

حریص ہے تو سگ ہر دل سیاہ ہے

اگر نہ تو خودی کا بادشاہ ہے

 

۹

 

بابِ نہم در احسان

 

پے نفع اختلاطِ سفلہ مگزین

کہ دنیائی نیفزاید رود دین

مفاد کے واسطے جاہل سے مت مل

گھٹے گا دین جو دنیا ہو گی حاصل

بہ بخشش کوش چون دستت دہد پر

مکن بر کس بہ سیم و زر تفاخر

اگر دولت میسر ہو کرم کر

نہ ہرگز فخر دینار و درم کر

بدہ چوں داد نعمت کردگارت

کہ ندہد بہر تو میراث خوارت

خدا نے تجھ کو دی تو بھی دیا کر

ترے حق میں نہ دے گا وارث آخر

بہ یزدان دہ چو در بخشش شتابی

بہ یزدان ہر چہ بدہی بازیابی

خدا کو دے اگر دینا ہے تجھ کو

جو کچھ تو نے دیا لینا ہے تجھ کو

بر آور حاجت درویش دلریش

بترس از روز حاجتمندیٔ خویش

تو محتاجوں کی حاجت روا کر

ہمیشہ روز حاجت سے ڈرا کر

جوانمردی سعادت را دلیل است

ز ہر کس این صفت ناید بخیل است

سخاوت ہی سعادت کی دلیل ہے

نہ ہو جس شخص میں یہ وہ بخیل ہے

سخی طبع ایمن است از دوزخ و نار

بخیل اندر سقر گردد گرفتار

سخی سے دور ہو گا دوزخ و نار

بخیل ہو گا جہنم میں گرفتار

سزد در خانہ گرنانی نداری

کہ دربستہ بمہمانی نداری

اگر کچھ ہو نہ ہو خرسند رکھنا

نہ تو مہمان کو در بند رکھنا

 

۱۰

 

چہ بد تر در کرم تاخیر کردن

چہ بہتر گرسنہ را سیر کردن

بسی بدتر کرم تاخیر کرنا

نہ ہے بھوکے پیاسے سیر کرنا

مخور غم بہر رزق و روزی او

کہ باہر کس روانست روزی او

غم روزیٔ مہمان اک گمان ہے

ہر اک کے ساتھ روزی بھی روان ہے

بہ تابستان مدد دہ کوزۂ آب

زمستان آتشی و موضع خواب

اسے گرما میں کر پانی نوازش

تپ سرما میں دے جائے رہائش

 

بابِ دہم در راحت رسانیدن و نیکوئی خواستن

 

بہین کاریکہ اندر زندگانیست

نکو خواہی بکس راحت رسانیست

یہی احسن ہے جب ہو زندگانی

نکو خواہی اور راحت رسانی

تو گر توفیق داری ہم بران باش

نکو خواہ و بکش راحت رسان باش

اگر توفیق ہے اس کا نشان بن

سبھوں کا خیرخواہ راحت رسان بن

بلطف و مرحمت دلہا نگہدار

کس از دست و زبانِ خود میازار

حفاظت کر دلوں کی قلب و جان سے

کسی کو دکھ نہ دے ہاتھ اور زبان سے

بکار افتادہ کار آموز میباش

بہر دل سوختہ دلسوز میباش

مہم والے کا واقف کار بن جا

ہر ایک دلگیر کا غمخوار بن جا

 

۱۱

 

علاجِ دردمنداں کن بہر درد

کہ ہر کس کو جراحت کرد بد کرد

دکھی کا چارہ کر گر کچھ دوا ہے

کہ جس نے زخم کر ڈالا برا ہے

چو مرہم خستہ را راحت رسان باش

بسختی چارۂ بے چارگان باش

تو مثلِ مرہمِ جان با اثر بن

بیچاروں کی عنا کا چارہ گر بن

بپوی اندر جوانی راہ یزدان

جوان بہتر خدا ترس و خدا دان

جوانی میں خدا کی راہ میں چل

جواں کی معرفت ہے سب سے افضل

بہ پیری خدمتِ مادر و پدر کن

جوانی و جنوں از سر بدر کن

تو خدمت والدین کی خوبتر کر

جوانی اور جنون سر سے بدر کر

مزن طعنہ بر ایشان از دلِ سیر

کہ گریابی زمان گردی تو ہم پیر

تو بیزاری سے ان کو طعنہ مت دے

بقا ہو تو تجھے بھی ہے بڑھاپے

کہ پرورد است مادر در کنارت

پدر بُد سالہا تیمار دارت

تو ماں کی گود میں پل کر بڑھا ہے

تو باپ کی غمگساری میں رہا ہے

 

تمام شد جزو اوّل

شرافت نامہ

بتاریخ ۱۰ جولائی ۱۹۶۲ء

 

۱۲

 

روحانی رمزݣ

  • مومنݺ قلبݺ عرشُلݸ رحمان مناس عجیب

روݺ نقطہ ذکرݺ وسعتݺ اسمان مناس عجیب

 

  • قرآنݺ معنی ہَن نمہ نقطان مناس عجیب

نقطانݺ معنی بُٹ نُمہ قرآن مناس عجیب

 

  • دریا خرونڅ ہرلت نُمہ قَطران مناس عجیب

قَطرانݺ سِندہ کا نُمہ دریان مناس عجیب

 

  • دریاوَلو قطرہ یَیَسہ مثال سرکݺ ئیڎبا

قطرا چَھنُم وَجُودلݸ عَمان مناس عجیب

 

  • ظاہرݺ شوقُم جہانُلو انسان یَیَس یقین

اِنسانݺ ایسُ لݸ سݣکݽݺ دنیان مناس عجیب

 

  • نقطا گُݼرݽݺ صورتݺ حرف، حرفݺ گٹیݺ بر

برݺ جملہ، جملہ حکمتݺ فرقان مناس عجیب

 

  • حرفڎݺ اُتھن الف یچی توحیدݺ نقطہ ئݶن

ہن نورݺ نقطہ عالَمݺ دیوان مناس عجیب

 

  • قدرتݺ قلمݺ اِتھنٹݺ کݺ توحیدݺ نقطہ بِم

وحدتݺ عمل لݸ کثرتݺ امکان مناس عجیب

 

  • نقطولو ابتدا بِلہ نقطولو انتہا!

نقطولو حد کݺ فاصلہ پنہان مناس عجیب

 

  • نقطولو روح کݺ جسمݺ تعلق کݺ اِتصال

نقطا بَبَر زیادہ کݺ نقصان مناس عجیب

  • نقطہ مڎݺ آسمان کݺ زمین کل بِمن اُیون

نقطہ مڎݺ روݺ ہَرَلت نُمہ طوفان مناس عجیب

 

  • اِنݺ نورݺ نقطہ جیݺ بَریس ڎُم کݺ بُٹ اسیر

عزتݺ دمن غریب اَسݺ مہمان مناس عجیب

 

  • مامور اَپِم لݸ امرݺ حقیقت بیسن بِلُم

نیستی یکل نݺ “کُنۡ” نسݺ فرمان مناس عجیب

 

  • کُن خلق کݺ امرݺ نقطۂ واسطہ عمل بلہ

انسانݺ روح کݺ جسمُلݸ ای کان مناس عجیب

 

  • ہر وقتݺ نورݺ میوہ شَلاس علمݺ جیندو توم

پاکیزہ کلمہ حکمتݺ بُرہان مناس عجیب

 

  • “اثبات، نفی کݺ حق” سرݺ حکمت بُٹن اُیُم

تھانُم چَغَن حقائقݺ نیزان مناس عجیب

۱۳

 

روݺ دائرا قرار اپی مرکزلو تِل سکون

پرکارݺ گݹن جہان ایݣݺ حیران مناس عجیب

 

ای علمݺ شہر نُمن روݺ نعمت بگیش ایتس

ای ہݣڎݺ تنݺ طِلِسمُلݸ دربان مناس عجیب

 

گوس لُم بُتنڎ اُیون تقو نیورُٹ اُیُم بُتن

پاکیزہ بُتنݺ کفرلو ایمان مناس عجیب

 

پروردگار کݺ جی بحقیقت لݸ ہن بِلا

روݺ معرفت لݸ وحدتݺ عرفان مناس عجیب

 

حکمتݺ قلپُ لݸ تازہ میام عشقݺ فݸلو دوݷ

علم لݸ نصیرݺ مشکلݣ آسان مناس عجیب

رموزِ روحانی

 

۱۔ کسی مومن کے دل کے عرش پر رحمان کا موجود ہونا ایک حیران کن امر ہے۔

ذکر کی وسعت کی بدولت نقطۂ دل کا آسمان بننا ایک تعجب خیز بات ہے۔

 

۲۔ قرآن کے معنی از روئے اصول وحدت المعانی ایک نقطہ بننا حیرت انگیز حکمت ہے۔

پھر اسی نقطے کے معنے از روئے اصول کثرت المعانی قرآن بننا حیرت انگیز بات ہے۔

 

۳۔ سمندر کا بادل اور بارش سے گذر کر ایک قطرہ کی شکل اختیار کرنا عجیب ہے۔

پھر ایک قطرے کا دریا کے ساتھ مل کر سمندر کی شکل اختیار کرنا عجیب ہے۔

 

۴۔ بظاہر میں نے سمندر میں قطرہ سمو جانے کی مثال دیکھی ہے۔

لیکن قطرے کے تنگ باطن میں ایک سمندر کا سمو جانا ایک نادرہ بات ہے۔

 

۵۔ اس ظاہری وسیع جہان میں انسان کا سمو رہنا تو یقینی ہے۔

لیکن انسان کے اس مٹھی بھر دل میں ایک روشن دنیا کا وجود حیرت خیز ہے۔

 

۱۴

 

۶۔ نقطہ کی رفتار کی شکل سے حروف اور حروف کے ملانے سے نقطہ۔

الفاظ سے جملے اور جملوں سے ’’فرقانِ حکمت‘‘ کا بننا عجیب ہے۔

 

۷۔ توحید کے اس نقطے کی شناخت کر لے جو حروف کے سر الف پر ہے۔

نور کے ایک ہی نقطہ سے یہ عالمی کتاب کا خلق ہونا حیرت کی بات ہے۔

 

۸۔ خامۂ قدرت کی نوک پر بھی توحید کا نقطہ تھا۔

وحدت کے فعل میں کثرت کا امکان ہونا تعجب خیز بات ہے۔

 

۹۔ نقطے سے ہر چیز کی ابتدا اور نقطے پر ہی اس کی انتہا ہونا۔

نیز نقطہ ہی میں حد اور فاصلے کا پوشیدہ ہونا قابلِ تعجب ہے۔

 

۱۰۔ نقطے میں جسم اور روح کے آپس کا تعلق اور ملاپ۔

اور نقطے ہی سے تسویہ، زیادہ اور کم کا تعین ہونا حیران کن امر ہے۔

 

۱۱۔ نقطوں سے آسمان، زمین اور ان ساری چیزوں کا جو کچھ ان میں ہیں موجود ہونا۔

اور نقطوں سے روحانی بارش برس کر طوفان کا برپا ہونا کس قدر انوکھی بات ہے۔

 

۱۲۔ اس کے نور کا نقطہ میری رگِ جان سے بھی مجھے زیادہ قریب ہے۔

رب العزت کا میرے غریب دل میں مہمان ہونا حیرت کی بات ہے۔

 

۱۳۔ خدا کے فرمان ’’کن‘‘ کی حقیقت کیسی تھی جبکہ اس وقت کوئی بھی فرمانبردار موجود نہ تھا۔

نیستی کی طرف ’’کن‘‘ کا فرمان نافذ ہونا کس قدر تعجب خیز بات ہے۔

 

۱۴۔ دراصل ’’کن‘‘ اس فعل کا نام ہے، جو عالمِ خلق اور عالمِ امر کے درمیانی نقطے پر سے بطریقِ ابداع ظہور ہوتا رہتا ہے۔

انسان کے روح اور جسم کے درمیان ’’کن فیکون‘‘ کا ہونا تعجب خیز بات ہے۔

 

۱۵

 

۱۵۔ اس علم کے زندہ درخت کا جو ہر وقت نور کا پھل لاتا ہے۔

ایک پاک کلمہ اور حکمت کی دلیل بننا از بس متعجب ہے۔

 

۱۶۔ ’’اثبات، نفی اور حق‘‘ کی حکمت کے اسرار بہت عظیم ہیں۔

ایک بالاتر کلمہ کا ’’میزان الحقائق‘‘ بننا حیرت انگیز ہے۔

 

۱۷۔ روح کے دائرے کے لئے کوئی قرار نہیں اور جو روحانی مرکز میں ہیں ان کے لئے سکون ہی سکون ہے۔

ان بے قرار ارواح کا جہان سمیت پرکار کی طرح مرکز کی تلاش میں گردش کرنا حیرت کی بات ہے۔

 

۱۸۔ وہ خود مدینۃ العلم (علم کا شہر) بن کر، روحانی نعمتوں کا بے دریغ عطا کرنا۔

اور خود ہی جسمانیت کا طلسماتی جامہ پہنے، اس شہر کے دروازے پر دربان رہنا حیرت انگیز ہے۔

 

۱۹۔۔ ایک بڑے بت کے سوا ان سارے بتوں کو توڑ ڈال جو تیرے دل میں موجود ہیں۔

ایک پاک بت کے عشق کے کفر میں ایمان کا پوشیدہ ہونا بہت متعجب ہے۔

 

۲۰۔ کیا پروردگار کی ذات اور عارف کی جان ایک ہے؟

اگر نہیں تو پھر عارف کو اپنے روح کی معرفت ہی میں پروردگار کی معرفت کا تمام ہونا قابلِ تعجب ہے۔

 

۲۱۔ (اگر مجھ پر کوئی وقت ایسا بھی آئے جس میں میرا آئینۂ دل زنگ آلود ہو اور علم کی جلوہ نمائی نہ کر سکے تو ایسی حالت میں) میں آتشِ عشق سے پگھل کر اور حکمت کے سانچے میں ڈھل کر اپنے آپ کی تجدید کروں گا۔

اسی طرح میری (نصیر کی) علمی مشکلات کا آسان ہونا حیرت خیز ہے۔

 

۱۶

شہدِ بہشت

شہدِ بہشت

فرشتگانہ خصوصیات

(انتساب)

اے نورِعینِ من! اس بابرکت و پُرحکمت کلیدی آیت کو جان و دل سے یاد رکھنا اور ہر گز ہر گز بھول نہ جانا جو نورِ منزّل اور کتابِ مبین (قرآن) کے دائمی ربط و تعلق کے بارے میں وارد ہوئی ہے (۰۵: ۱۵) تاکہ ان شاء اللہ روحانی ترقی میں آگے چل کر آپ کو ہر مشکل سے مشکل علمی سوال کا معجزانہ جواب از خود مل سکے، کیونکہ نورِ ہدایت اور کتابِ سماوی کا اصل مقصد یہی ہے کہ دینِ کامل (۰۵: ۰۳) کا سرچشمۂ علم و حکمت ہمیشہ کی طرح ایک ہی شان سے جاری و ساری رہے۔

بعض عزیزوں نے ایک بہت ہی عمدہ اور مفید سوال پیش کیا ہے، وہ یہ ہے: “کون کونسی فرشتگانہ خصوصیات ایسی ہیں جو مومنین و مومنات میں کُلّی یا جزوی” طور پر پیدا ہو سکتی ہیں؟

اس کا مفصل جواب کلامِ الٰہی میں موجود ہے: (الف:) فرشتو ں کی اوّلین خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کی اطاعت کر کے روحانی علم حاصل کر لیا، کیونکہ قانون یہی ہے کہ خلیفۂ خدا کے سوا اور کہیں سے حقیقی علم نہیں ملتا ہے۔ (ب:) جو فرشتے درجۂ کمال پر پہنچ چکے ہیں وہ ہر چیز میں شاہدِ علم و حکمت

 

 

کی تجلّی دیکھتے ہیں (۴۰: ۰۷) اس لئے چھوٹے فرشتوں کی ہر وقت یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھی علمی ترقی سے اس مقام تک پہنچ جائیں۔ (ج:) سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۹ تا ۲۰) میں عظیم فرشتوں کے ذکر و عبادت اور تسبیح کے بیان کو دیکھیں کہ ان کے مبارک وجود میں ذکر و عبادت اور علم و حکمت کا آفتاب طلوع ہو چکا ہوتا ہے۔

الغرض فرشتوں کی کوئی ایسی خصوصیّت اور صفت نہیں جو مومنین و مومنات میں بتدریج پیدا نہ ہو سکے، جبکہ فرشتے اہلِ ایمان ہی کے ترقی یافتہ نفوس (ارواح) ہیں، الحمد للہ ربّ العالمین۔

ملائکہ ارض و سماء میں منتشر ہیں، وہ روحانی بھی ہیں اور جسمانی بھی، چنانچہ ہماری اپنی پیاری کائنات کے پیارے پیارے فرشتوں میں سے چار عزیز فرشتے آٹھ کھڑے ہوئے اور ایک بڑے وسیع علمی دستر خوان کو چاروں کونوں سے پکڑ کر پھیلا دیا، یہ عزیزان باربار احسان کرتے رہتے ہیں، دعا ہے کہ ان کو ہر لحظہ حضرتِ امام علیہ السّلام کی پاک دعا حاصل رہے! وہ ہمارے بہت ہی عزیز اور ممدّ و معاون فرشتے ظہیر لالانی، عشرت رومی ظہیر، روبینہ برولیا، اور زہرا جعفر علی ہیں، جو ہمارے شہرۂ آفاق ادارے میں ریکارڈ آفیسرز کے عہدوں سے سرفراز ہیں، ان شاءاللہ العزیز دنیا میں ہمارے جملہ رفیقوں کی ایک تاریخِ زرین بنے گی اور آخرت میں ایک انتہائی عظیم الشّان

 

 

کائناتی نامۂ اعمال تیار ملے گا۔

میرے عزیزان جس ملک میں بھی ہیں وہ گویا میرے ساتھ ہیں، میں سب کو ہمیشہ اپنی عاجزانہ دعاؤں میں یاد کرتا رہتا ہوں، ہم سب مولائے پاک اور پیاری جماعت کے ساتھ ساتھ اسلام اور انسانیّت کی مقدّس خدمت کی خاطر فردِ واحد کی طرح ایک ہو گئےہیں، جس کے نتیجے میں ہمیں بفضلِ خداعدیم المثال کا کامیابی نصیب ہوئی ہے، ہم کو کسی عظیم دوست نے لطفاً اپنے باغ کا ایک شجر بنا دیا، الحمد للہ اس کی بہت سی پُر ثمر شاخیں پیدا ہو گئیں، ان میں سے ایک “شاخِ عالیۂ لندن” اور ایک “شاخِ عالیۂ شمال” بھی ہیں، مجھے شرق و غرب سے اشارہ مل گیا کہ ان کی یہ تعریف لکھوں۔

شاید دنیا میں صرف ہم ہی وہ لوگ ہیں جو مونوریالٹی (یک حقیقت) پر یقینِ کامل رکھتے ہیں اور اس کے اسرارِ عظیم کو درجہ بدرجہ ادراک کر لیتے ہیں، جس کی برکت سے ایک میں سب کی موجودگی کا انمول خزانہ حاصل ہوا، اس کی بدولت ہم پر یہ حقیقت روشن ہونے لگی کہ ہم میں سے کسی ایک کی کامیابی ہم سب کی کامیابی ہے، علاوہ برآن “نظریۂ عالمِ شخصی” ہمارے لئے ایک عظیم علمی انقلاب تھا، جس سے علم و عرفان کے سارے عقدے کھل گئے، اب ہماری روحانی سائنس کا چرچا ہونے لگا ہے،

 

 

ان شاء اللہ تعالیٰ، آئندہ ہونے والی تحقیق (ریسرچ) سے یہ پتا چلے گا کہ ہماری تمامتر تحریروں کے ظاہر و باطن میں روحانی سائنس کے خزانے موجود ہیں۔ یہ سب کچھ تیرے فضل و کرم سے ہے یا ربّ العالمین! اللّٰھم صل علیٰ محمد وآل محمد۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات۲۹ جمادی الثانی ۱۴۱۶ھ  ۲۳ نومبر ۱۹۹۵ء

 

 

آغازِ کتاب

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ رحمتیݣ کے برکتݣ اُیون تھانُم دمن (خداوند تعالیٰ) یکل ڎم ژُۚڅیڎن، بیسیکے ان غیبے خزانہ مڎے مالک بای، اِنے (INE) قدرتے مُڅ لُو بیسن ایون بی، انے رحمیتے سمندر بُٹ شوقُم دا بُٹ غُٹُم، انے اُویس کے اُچھیسے نہ یرنے ڈرگارڎُم بلہ نہ الجنے، ایوݣکو ایوݣکودا تھائکو تھائکو صفتݣ اِنے (INE) بڎن، ان ھِنُمن غمیس بای، می میون ترق بان بݽکیابان، انے ٹوک کائناتݣ اُغوی بای کلی خزانہ مڎفݽ اومائیبین امڎ امڎ نیامتشو میوای کے اڎے حقُ لو شکرگزاری امیمیابان، وا عزیزتݣ! رۛوین بُٹ عاجزیے کا مناجات کے فریات ایچن، تا کہ اِن نِرے امایمی، بیسیکے ان نجݽو نو دارحمکݽ بای۔

 

یا اللہ! جے کھنے غریپے اسے حالت اُنر سر کے بلا، جہ ناچار دَچَنُم با دُچَھنُم با، خداوندا ! جہ اُنے اُیَم شُل کے محبتے دا پاک عشقے گنے ہمیشہ موتاج با، پروردگار! جیئمو دنے اس بیلٹے ایستوڅم دیستوڅُم؟ ڈݣوراس چھݣور اس کوراٹی گپ اس دویان جہ ڈِگ حیران با، اریݣ دور، قلم ززل، حرپُڎ اُیون سیل غنڈیر تول غنڈیر، جیّے دمان! بیسن ھییم بیسن سییم، ارین ڎہ دُون، ارین

 

۱۱

 

ڎے دُون۔

 

حضرت محمد مصطفیٰ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ڎم شوق کے عشقے کا جا روح فدا منݽ! جا اوامی کے اولات اُیون اِن ڎم قربان! انے دلتشکو صفتݣ بیان ایتس جہ ناچار بہ آمایم، انے صفت سوجو سومولو قرآن لوبلہ، انے تعریف خود پروردگارہ ایتای، قول بلا: قرآن تمام وصفِ کمالِ محمد است۔

 

امامِ زمان علیہ الصلاۃ و السلام می انائے علوی بای، یعنی می جیّے جی (جانِ جان، جانِ جہان، جہانِ جان) انے عشقے مڞی ایش اسقرݣ ڎم بلہ، یہ گوتے مڞی باطنی بیایمݣر ملی بلہ الحمد للہ!

 

شہدِ بہشت:

اس کتابِ عزیز کا پسندیدہ اور پُرکشش نام “شہدِ بہشت” ہے، احباء و اعزّہ اور قارئینِ کرام پڑھ کر ہی بتائیں گے کہ کام اور نام کی مناسبت او ر مطابقت کیسی ہے، ان شاء اللہ، مولائے پاک کی علمی برکتوں کی وجہ سےیہ کتاب پڑھی جائے گی اور اس کی قدر ہو گی۔

اس دفعہ بھی گلگت میں ہمارے ہوشمند عزیزوں نے کچھ سوالات کئے، ان میں سے تھوڑے سائنسی انکشافات کے حوالے سے بھی تھے، جیسے پوچھا گیا: صاحب! علمِ تاویل کے مطابق ہم یہ تو مان لیتے ہیں کہ ہمارے نظامِ شمسی میں جو سورج ہے۔ وہ امام علیہ السّلام کی مثال ہے،

 

۱۲

 

لیکن اب سائنس کی روشنی میں یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ کائنات کے مختلف نظاموں میں بہت سے سورج موجود ہیں، تو کیا اب اس کی تاویل یہ ہو سکتی ہے کہ بیک وقت بہت سے امام موجود ہیں؟

جواب: (الف) حضرتِ امامِ عالی مقام علیہ السّلام ہمیشہ ایک ہی ہے، لیکن اس میں بیک وقت بہت سے ظہورات کا معجزہ ہے (ب) اگر یہ مان لیا جائے کہ ہر ستارہ مخلوقِ لطیف کا ایک عالم ہے، تو اس میں امامؑ کا ظہور بھی ضروری ہے (ج) مومن سالک کے روحانی سفر کے دوران اسرافیل و عزرائیل کی منزل میں بھی اور آگے چل کر مرتبۂ عقل پر بھی امامؑ اپنی نورانیّت کی ہزاروں کاپیاں بناتا ہے، تاکہ بہشت میں ہر کامیاب روح امامِ عالی مقامؑ کی صورت میں ہو سکے (د) انسانِ کامل کا ایک قرآنی نام “نفسِ واحدہ” ہے، یعنی نفسِ کلّی، جس کے اجزاء (کاپیاں بحدِّ قوّت) تمام انسان ہیں، جن کو پھیل کر کثیر بھی ہو جانا ہے، اور واپس ہو کر اپنے کُلّ کے ساتھ ایک بھی ہو جانا ہے۔

دوسرا سوال بھی سورج سے متعلق تھا، وہ یہ ہے: اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۔ جب آفتاب بے نور ہو جائے گا (۸۱: ۰۱) حالانکہ اصل لغوی ترجمہ یہ ہے: جب سورج لپیٹ دیا جائے گا، اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ جس وقت عالمِ شخصی حظیرۃ القدّس میں لپیٹ لیا جاتا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ آفتابِ عقل کی پھیلی ہوئی روشنی بھی وہاں محدود ہو جاتی ہے، یہاں خسوف (چاند گرہن) کا مختصر ذکر بھی ضروری

 

۱۳

 

ہے کہ یہ خود نور کی ذات میں کسی نقص و کمی کی دلیل ہر گز نہیں، بلکہ خسوف چاند پر زمین کا سایہ ہے، اور خسوف چاند کا زمین اور سورج کے درمیان آ کر آفتاب کی روشنی زمین تک نہ پہنچنے دینا ہے۔

امامؑ سب کے لئے:

جب آپ یہ کہتے ہیں کہ آفتابِ عالم آرا حضرتِ امام علیہ السّلام کی مثال ہے تو اس کی یہ منطق بنتی ہے کہ امامِ برحقؑ باطن میں سب کے لئے کام کرتا ہے، کیونکہ مادّی طور پر سورج جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان سب کو درجہ بدرجہ فائدہ بخشتا ہے، اور کس کو اس روشن حقیقت سے انکار ہو سکتا ہے کہ اللہ پاک سب کا خالق و رازق ہے، اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام عوالمِ شخصی کے لئے رحمتِ کُلّ ہیں، پھر امامِ حق علیہ السّلام کا طریقہ قانونِ عدل کے خلاف کس طرح ہو سکتا، مگر ہاں، درجاتِ عمل ہیں، اور ترقی بہت پہلے بھی ممکن ہے اور بڑی دیر سے بھی۔

سفینۂ نوحؑ:

علم کی مثال پانی ہے اور پانی کی مختلف شکلیں ہوا کرتی ہیں، چنانچہ پانی اگر اپنی راہ سے ہٹ کر طوفانی شکل میں آرہا ہو تو اس سے بربادی ہو جاتی ہے، اس کی تاویل یہ ہے عوام علم کے پانی کو شروع شروع میں قطرہ قطرہ کر کے پی سکتے ہیں، اور رفتہ رفتہ ان کی ترقی ہو جاتی ہے لیکن حضرتِ نوحؑ کی قوم نے اس عمل سے قطعاً انکار کیا، لہٰذا ان کو روحانی علم ہی کے طوفان میں ہلاک کیا گیا، سفینۂ نوح سے ان کے اہلِ بیت

 

۱۴

 

مراد ہیں، کیونکہ کشتیٔ تاویل وہی حضرات ہیں، جیسے آنحضرتؐ کا ارشاد ہے کہ آپ ؐکے اہلِ بیتِ اطہار سفینۂ نوحؑ یعنی اہلِ بیتِ نوح کی طرح ہیں۔

اس کتاب کے مضامین:

یہ مضامین جو اس کتابِ عزیز میں درج ہوئے اس زمانے کے یادگارہیں، جبکہ میں اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کے عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر مولائے پاک اور نیکنام جماعت کی خدمت انجام دیتا تھا، میری کتابِ زندگی مختلف ابواب پر مشتمل ہے، اور اسی میں یہ باب بڑا اہم اور بابرکت رہا، اور میں نے خلوصِ نیت سے جن عزیزوں کو اسماعیلی حکمت کی کچھ تعلیم دی، بفضلِ خدا ان کی بہت ترقی ہوئی، الحمد للہ ربّ العالمین۔

علم سیکھو اور سکھاؤ:

اے نورِعینِ من! میں نے اس مقولے کے مطابق عمل کیا ہے، تم بھی ایسا کرو، میں کبھی علم سیکھنے یا سکھانے کےبغیر نہیں رہا، آج میرے پاس ظاہر و باطن میں جو کچھ علمی اسباب و ذرائع موجود ہیں، وہ “علم سیکھو اور سکھاؤ” کے اس زرّین مقولے کے مطابق ہیں، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج ہم لاکھوں کی تعداد میں بڑا عجیب علمی لشکرہیں، عجوبہ یہ ہے کہ یہاں کتابوں کی افواج بھی ہیں اور دعاؤں کے عسکر بھی۔

 

۱۵

 

ڈاکٹر زرینہ کی گرانقدر خدمات:

بورڈ آف میڈیکل ایڈوائزرز اینڈ پیٹرنز کی چیف محترمہ ڈاکٹر زرینہ (حسین علی مرحوم) کی روز افزون اور انمول خدمات ہمارے شہرۂ آفاق علمی ادارے کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہیں گی، یہ بھی جذبۂ علم اور استاد سے محبت کی ایک خاص علامت ہے کہ انہوں نے اپنے گارڈن ویسٹ کے کلینک کو “نصیر میڈیکل سنٹر” کا نام دیا ہے، آپ نے ہر ضرورت پر ہم سے تعاون کیا اور کر رہی ہیں، اور ایک بڑی اہم اور عظیم خدمت ہمارے عظیم مہمانوں کے طعام و قیام سے متعلق ہے، مزید آن آپ کے فرزندِ جگر بند کرنیل غلام مرتضیٰ صاحب یہاں اپنی زرّین خدمات کی ایک سنہری تاریخ مرتب کر رہے ہیں، اور ان کی فرشتہ جیسی خوش خصلت بیگم ڈاکٹر امینہ مرتضیٰ بھی ہر خدمت میں شریک و شامل ہیں، عاجزانہ اور درویشانہ دعا ہے کہ خداوندِ تعالیٰ تمام علمی خادموں کو دونوں جہان کی کامیابی اور سرفرازی سے نوازے۔ آمین!

صدرِ خانۂ حکمت:

تاحیات صدر فتح علی حبیب خدا پرست، محبِّ اہلِ بیتِ اطہار (علیہم السّلام) اور علم کے بڑے قدردان مومن ہیں، ان کی اصلی و بنیادی خوشی شب خیزی اور ذکر و عبادت میں ہے، آپ اکثر اپنے استاد کے علمی اور مناجاتی کیسٹوں کو سنتے رہتے ہیں، علمی مجلس تو ان کی جان ہے، خداوندِ عالم نے ان کو دین کی بے شمار نعمتیں

 

۱۶

 

عطا کر دی ہیں، ان بڑی بڑی نعمتوں میں خوش الحانی کی نعمت نمایان ہے، جس کا عملی شکر گنان خوانی سے کرتے ہیں، آپ کی رفیقۂ حیات محترمہ گل شکر ایڈوائزر شرافت میں ایک ارضی فرشتہ ہیں، ان کی خدمات کی فہرست بڑی طویل ہے، یہ اپنے استاد کی بہت عزت کرتی ہیں، اسی وجہ سے استاد نے کہا “ٓآپ میری آسمانی بیٹی ہیں” یعنی ایسی مدد کرنے والی سٹوڈنٹ بیٹی جو کسی مشقت کے بغیر گویا آسمان سے دی گئی، اور یہ بہت بڑی بات ہے کہ حقیقت میں ہم سب ایک ہیں۔

فتح علی اور گل شکر کے تینوں بہت پیارے بچے نزار، رحیم اور فاطمہ بڑے نیک بخت ہیں، کہ ان کی مذہبی پرورش سپیشل قسم کی ہو رہی ہے، یعنی گھر ہی میں ہر وہ چیز مہیا اور موجود ہے جو بڑی عمدگی سے دین سیکھنے کے لئے ضروری ہوتی ہے، جیسے: استادِ کامل کی عملی تعلیم، کلاس، ریکارڈنگ، بولنے کی مشق، حوصلہ افزائی، ہر قسم کی کتابیں، سکالرز کے لیکچرز، مقالہ، ریسرچ کا موقع، پروف ریڈنگ، پریس کا تجربہ، مختلف زبانوں میں گنان خوانی، وغیرہ، یہ خصوصی رحمتیں اور برکتیں ان کو اور ان کے خوش نصیب والدین کو اور تمام عزیزوں کو بہت بہت مبارک ہوں!

آمین!!

ن۔ ن (ح۔ ع) ھ۔

کراچی

بدھ ۲۲، محرم الحرام ۱۴۱۶ھ، ۲۱۔ جون ۱۹۹۵ء

 

۱۷

 

جشنِ نوروز

از علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

 

نوروز کے معنی نئے دن کے ہیں لیکن اس سے مراد وہ یومِ جشن ہے جو سالِ نو کی آمد پر موسمِ بہار کے آغاز ہی میں منایا جاتا ہے جس میں بُرج حمل سورج کے مقابل ہونے لگتا ہے اور جہاں سے مصریوں اور ایرانیوں کے شمسی سال کا نیا دن گنا جاتا ہے۔ جشنِ نوروز دنیا کے قدیم تہواروں میں سے ہے۔

جشنِ نوروز کی اہمیت ہر پیغمبر کے زمانے میں کسی نہ کسی صورت میں پائی جاتی ہے لیکن اس کی پوری اہمیت خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں ظاہر ہوئی۔ جس طرح ان کی ذاتِ مطہرۂ نبوّت پایۂ تکمیل کو پہنچی تھی چنانچہ اس مبارک دن

 

۱۸

 

حجتہ الوداع سے واپسی پر غدیرِ خم کے مقام پر آنحضرتؐ نے بامرِ خداحضرت مولانا مرتضیٰ علی علیہ الصلوٰۃ والسّلام کو درجۂ وصایت پر مامور فرمایا۔ یہ روایت معتبرہ بہ یومِ سعید ۱۸؍ ذی الحجہ  ؁۱۰ھ مطابق ۲۱ مارچ ؁۶۳۲ء کا تھا، مقامِ غدیر کی نسبت سے یہ جشن اسلامی تاریخ میں عیدِ غدیر کے نام سے بھی مشہور ہے۔ رسول اللہ صلعم پہلے سے ہی جان چکے تھے کہ یہ ان کا آخری حج ہے اس لئے انہوں نے اس حج کو قبلاً ہی حجتہ الوداع کے نام سے موسوم کیا اور اعلان کیا گیا کہ یہ رسول اللہ کا آخری حج ہے۔ اس لئے تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار نفوس رسول اللہ کے ہمراہ حج کے لئے روانہ ہو گئے۔ جناب رسولِ خدا عرفات کے راستے میں تھے کہ سورت الم نشرح نازل ہوئی جس میں ان کے لئے خدا کا ایک عظیم امر یہ تھا:  فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ  وَ اِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ (۹۴: ۰۷ تا ۰۸) یعنی پس اے رسول جب تو (اعمالِ حج سے) فارغ ہو تو (اپنے وصی) کو مقرر کر اور اپنے ربّ کی طرف راغب ہو یعنی دنیا سے کوچ کر، پس معلوم ہوا کہ جشنِ نوروز بھی وہاں آ کر ظاہرہوا جہاں مولانا علیؑ کا مرتبہ ظاہر ہواتھا۔

سلسلۂ بیان کا مذکورۂ بالا حصہ رسمی اور ظاہری جشنِ نوروز سے تعلق رکھتا ہے۔ اب ہمیں چشمِ بصیرت سے یہ دیکھنا ہے کہ جشنِ نوروز کی اس مثال کی حقیقت کیا ہے؟ اور حقیقی مومنوں کے لئے روحانی قسم کا جشنِ نوروز کون سا ہے؟ اور یہ سوال اس لئے پیدا ہو سکتا ہے

 

۱۹

 

کہ ہر وہ جشن خواہ دینی قسم کا ہو یا دنیوی نوعیّت کا، جب یہ زیادہ سے زیادہ جسمانی خوشی کے اسباب فراہم کرتا ہے تو وہ حقیقی اور روحانی جشن ثابت ہو نہیں سکتا بنا برین ہر ظاہری عید کے مقابلے میں ایک خالص روحانی عید کا ہونا لازم آتا ہے کیونکہ ایک مشہور حدیث میں آیا ہے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی بنیاد اپنی خلق (ظاہری دنیا) کی طرح رکھی، تاکہ اس کی مخلوق سے اس کے دین کی دلیل لی جا سکےاور اس کے دین سے اس کی وحدانیّت پر دلیل لی جا سکے۔

اب دینی بہار اور حقیقی جشنِ نوروز کا ذکر یہ ہے کہ جس طرح سورج کائنات کے وسط میں واقع ہے اور وہ اپنی جگہ سے نہیں ٹلتا۔ اسی طرح امامِ زمانؑ کا اصلی نور ہمیشہ ایک ہی حال پر قائم ہے اور وہ کسی طرح بھی بدلتا نہیں، جس طرح کرۂ ارض کے مختلف حصّے اس کی روزانہ اور سالانہ گردش میں روشنی اور تاریکی سے گزرتے ہیں اور سورج سے نزدیک و دور ہوتے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے زمین کے ان مختلف حصو ں پر دن، رات، بہار، تابستان، خزان اور زمستان کے موسم گزرتے ہیں، بالکل اسی طرح نفوسِ انسانی پر روحانی قسم کی شب و روز اور بہار وخزان کے موسم گزرتے رہتے ہیں۔ اور جس طرح کرۂ زمین کے قطبِ شمالی، قطبِ جنوبی اور دوسرے بہت سے بیابانوں میں فی الحال کوئی آبادی اور موسمِ بہار یا جشنِ نوروز کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا، اسی طرح بعض نفوسِ انسانی پر نورِ امامت طلوع ہونے

 

۲۰

 

کے لئے ابھی کافی وقت باقی ہے اور جس طرح کرۂ زمین کے بعض علاقے خطِ استوا یا اس کے قریب ہونے کی وجہ سے اس کی نباتات نہیں مرتیں۔ اسی طرح بعض مومنین ایسے ہیں جن کے دل میں ہمیشہ امامِ زمانؑ کی عقیدت و محبّت کی گرمی قائم رہتی ہے اور ان میں روحانی مسرّت کے پھول کھلتے رہتے ہیں۔ آفتابِ امامت کی فیض بخشی کی یہ مثال خواص و عام کی اپنی ہی جسمانی اور روحانی حیثیت سے ہے۔

اب اس سلسلے میں امامِ زمانؑ کی جسمانی اہمیّت و افادیت کی مثال سنئے! کہ سورج اور کرۂ زمین کے ذریعے نورِ امامت اور نفوسِ انسانی کی جو مثال دی گئی ہے وہ حقیقت ہے لیکن سورج میں اختیار نہیں اور امامِ زمانؑ مختارِ کلّ ہے، اس لئے ہم اس مثال کی مزید توضیح اس طرح کرتے ہیں کہ فرض کیجئے کہ روئے زمین پر ایک بہت ہی عجیب اور عظیم آئینہ نصب کیا گیا ہے۔ اب یہ عجیب آئینہ آفتابِ عالمتاب کا پُرنور عکس لئے ہوئے جس طرف کو رخ کر لیتا ہے وہیں پر جشنِ نوروز کی خوشی اور موسمِ بہار کی خرمی و شادمانی ہونے لگتی ہے۔ یہی مثال امامِ زمانؑ کی ہے کیونکہ وہ ظہورِ جسمانیّت کے اعتبار سے فیوضات و برکاتِ خداوندی کا مظہر اور نورِ ازل کا آئینہ ہے، اندرین حال عوالمِ اسماعیلیّت کا روحانی موسم ہمیشہ معتدل اور انتہائی خوشگوار رہتا ہے، اور ان عوالم میں ہمیشہ کے لئے بہار ہی بہار ہے، پس حقیقی جشنِ نوروز مومنوں کی انفرادی روحانیّت میں پایا جاتا ہے، یعنی ہر مومنِ مخلص کی ابتدائی روحانی

 

۲۱

 

ترقی ہی اس کا جشنِ نوروز ہے، اور وہ اسی طرح کہ جب مومن بحقیقت نورِ امامت کا مطیع و فرمان بردار بن جاتا ہے، تو اس کی شخصی دنیائے دل روحانی روئیدگی اور آبادی سے باغِ بہشت کی مثال ہونے لگتی ہے۔

 

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۰۶

 

۲۲

 

بہشت، اس کے دروازے اور اس کی کلید کےبارے میں

ما خذ از وجہ دین۔ حکیم ناصر خسروؒ

مترجم:۔ علامہ نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی

 

ہم جو کچھ (یہاں حقائق کے سلسلے میں) کہتے ہیں، اس میں ہماری اپنی کوئی توانائی و طاقت نہیں، جب کہ (بموجب لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِٱللّٰهِ‎ ) توانائی و طاقت خدا ہی کی ہے، اور ہمارے قول میں جو کچھ بہتری ہے،

 

۲۳

 

کہ وہ خدا کے ولی (امامِ زمانؑ) کی نسبت سے ہے اور خطا و لغزش کا سبب ہمارا ضعیف نفس ہی ہے، پس ولیٔ زمانؑ کی کرم فرمائی سے ہم یوں بیان کرتے ہیں، کہ بہشت حقیقت میں عقل ہی ہے اور بہشت کا دروازہ اپنے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے اور اس کا وصی اپنی مرتبت میں اسی حیثیت سے ہے، اور امامِ زمانؑ اپنے عصرمیں یہی درجہ رکھتا ہے، اور بہشت کے دروازے کی کلید کلمۂ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ہی ہے، پس جو شخص یہ شہادت اخلاص (بے ریائی) سے کہتا ہے، تو گویا اسے بہشت کا دروازہ (رسولؐ) مل چکا ہے، اور جس نے اس شہادت کو اخلاص سے اپنالیا، تو وہ شخص پیغمبر علیہ السّلام کے ساتھ بڑھ جاتا ہے اور جو شخص شہادت کو خلوص سے اپنا کر رسول علیہ السّلام سے واصل ہوا، تو وہ شخص گویا بہشت میں داخل ہوا، چنانچہ جو کوئی کلید کے ساتھ دروازے کی طرف بڑھ جائے، تو دروازہ کھولا جا سکتا ہے۔

اس حقیقت کی دلیل جو ہم نے کہا کہ عقل ہی بہشت ہے، یہ ہے کہ انسان کی یہ ساری راحت، سہولت اور بے خوفی عقلِ کلّ سے ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ انسانوں کو عقلِ کلّ سے حصہ ملا ہے (جس کی وجہ سے) انہوں نے چوپایوں پر کس قدر تکلیف، سختی اور خوف ڈال رکھا ہے اور وہ خود ان پر سردارہوئے ہیں، کیونکہ ان چوپایوں میں عقل نہیں، اور

 

۲۴

 

جو شخص زیادہ دانا ہے، تو اسے دنیا کوئی دکھ دے نہیں سکتی، دنیا کا کوئی غم اس کی طرف بڑھ نہیں سکتا، اور اسے دنیاوی نفع و نقصان کی کوئی پرواہ نہیں، لیکن نادان مالی نقصان کے غم، گناہ، دکھ اور دنیاوی طمع کی وجہ سے گویا مر ہی جاتا ہے، پس اتنی سی عقلِ جزوی کے ذریعہ، جو لوگوں کو خداتعالیٰ کی طرف سے بطورِ حصہ ملی ہے، اس قدر دکھ ان سے اٹھ گیا ہے، تو یہ حقیقتِ حال اس امر کی دلیل ہوئی کہ عقلِ کلّ ہی بحقیقت بہشت ہے، کیونکہ اسی کے اثر سے دنیا میں ساری نعمتیں اور راحتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں، اور جو شخص زیادہ دانا اور عقل کے زیادہ نزدیک ہے، تو وہ بہشت کا دروازہ ہے، چنانچہ رسول مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ساری مخلوقات میں سے عقل کے زیادہ نزدیک تھے، آپ کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ آپ لوگوں کو علم سکھایا کریں اور مسلمانوں کو اس میں کوئی شک ہی نہیں، کہ پیغمبر علیہ السّلام بہشت کا دروازہ ہے، پس ثبوت ہوا کہ حقیقت میں عقل ہی بہشت ہے۔

اب اس بارے میں دلیل پیش کی جاتی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بہشت کا دروازہ ہے، چنانچہ ہمارا بیان یہ ہے، کہ کسی مقام کا دروازہ وہ ہوتا ہے جس کے بغیر اور کہیں سے اس مقام میں کوئی شخص داخل ہو نہیں سکتا، اور یہ حقیقت ہے کہ کوئی شخص بہشت میں داخل نہیں ہو سکے گا، مگر وہی شخص جو رسول مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی فرمانبرداری

 

۲۵

 

کرے، اس کے نزدیک ہو جائے، اس کے فرمان کو قبول کرے اور اس کے قول و عمل کی حقیقت کو سمجھے، کیونکہ رسول کی فرمانبرداری اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ (۰۴: ۸۰) یعنی جس شخص نے رسولؐ کی فرمانبرداری کی، اُس نے خداتعالیٰ کی فرمانبرداری کی۔ اسی طرح ہی ہر رسولؐ اپنے دور میں بحدِّ قوّت بہشت کا دروازہ رہا ہے، اس وجہ سے کہ اس کی فرمانبرداری کے راستے پر چلتے ہوئے اس کی شریعت پر علم کے ساتھ عمل کرنے سے کوئی انسان بہشت میں پہنچ سکتا ہے، اور جو شخص رسول کی شریعت کو علمِ تاویل کے بغیر قبول کرے، تو اس شخص کو بہشت کا دروازہ مقفل ملا ہوا ہوتا ہے، اور جو شخص عمل دانش سے کرے، تو اس کے لئے بہشت کا دروازہ کھل جاتا ہےجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قولہ تعالےٰ: وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا (۳۹: ۷۳) اور جو لوگ اپنے ربّ سے ڈرتے تھے وہ گروہ گروہ ہو کر بہشت کی طرف روانہ کئے گئے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئے تو بہشت کے دروازے کھول دیئے گئے۔ یہ جو فرماتا ہے کہ بہشت کے دروازے کھول دیئے گئے تو اس آیت سے یہ ظاہر ہوا کہ ان کے آنے سے پیشتر بہشت کے دروازے بند کئے ہوئے ہوں گے، اور ان کے آنے کے بعد کھول دیئے جائیں گے، اس قول کے یہ معنی ہوئے، کہ انبیاء علیہم

 

۲۶

 

السّلام کی شریعتیں سب کی سب اشارات و تمثیلات کے ذریعے بندھی ہوئی ہوتی ہیں، اور لوگوں کی نجات ان کے کھولنے میں پوشیدہ ہے، جس کی مثال ایک ایسے بند دروازے کی طرح ہے کہ جب وہ کھل جاتا ہے تو لوگوں کو آرام کی جگہ ملتی ہے اور کھانا پینا مہیا ہوتا ہے، جب بہشت کا دروازہ بند کیا ہوا ہو تو اصولاً دوزخ  کا دروازہ کھولا ہوا ہوگا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔ وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا (۳۹: ۷۱) اور جو کافر تھے وہ جہنم کی طرف گروہ گروہ بنا کر ہانکے گئے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئے، تو دوزخ کے دروازے کھول دیئے گئے، بہشت کے دروازے کا کھل جانا کتاب (قرآن) اور شریعت کی تاویل سے متعلق ہے، اور تاویل کا مالک ہر رسول کا وصی ہوتا ہے، اور بہشت کا دروازہ کھل جانے سے اصولاً دوزخ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے، پس رسول بہشت کے دروازے کی حیثیت سے ہے، اور بہشت کا دروازہ کھولنے والا اس کا وصی (علی علیہ السّلام) ہے، نیز (ہرزمانے میں) سارے مومنوں کے لئے (دروازۂ جنّت کھولنے والا) امامِ زمانؑ ہے۔

جب ہم نے یہ ثابت کر دیا، کہ رسول علیہ السّلام بہشت کے دروازے کی حیثت سے ہے، اور اس کا وصی اس دروازے کا کھولنے والا ہے، تو اب ہم بہشت کے دروازے کی کلید کے بارے میں بیان کرتے ہیں اور اس حقیقت کی دلیل لاتے ہیں، کہ بہشت کے دروازے کی کلید کلمۂ

 

۲۷

 

شہادت ہے، چنانچہ اس کی تشریح کی جاتی ہے کہ کلید وہ چیز ہے جس کو حاصل کئے بغیر کوئی شخص مقفل دروازے کے پاس جانا نہیں چاہتا، یہی وجہ تھی کہ جس شخص نے کلمۂ شہادت قبول کر لیا، تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم  کی طرف آیا اور جس شخص نے کلمۂ شہادت اخلاص سے کہا تو رسول علیہ السّلام نے اسے بہشت کا وعدہ کیا، اس حدیث کے بموجب جو فرماتا ہے: من قال لا الہ الا اللہ خالصاً مخلصاً دخل الجنۃ جس شخص نے کلمۂ اخلاص پاک دلی سے کہا تو وہ بہشت میں داخل ہوا پس یہ اس بات کی دلیل ہوئی کہ یہی کلمۂ شہادت بہشت کے دروازے کی کلید ہے، یہاں تک کہ جب یہ کلید لوگوں کو مل جائے، تو وہ بہشت میں داخل ہو سکتے ہیں اور جس کو یہ (کلید) نہ ملی تو وہ بہشت سے محروم رہ جاتا ہے۔

پس بتا دیا جاتا ہے، کہ کلمۂ “لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ”  سات الفاظ پر مشتمل ہے۔ (لا۔ الہ۔ الا۔ اللہ۔ محمد۔ الرّسول۔ اللہ) جو نوحروف سے بنا ہے، چنانچہ ل، ا، ہ، م، ح، د، ر، س، و، اور اس میں دو گواہیاں ہیں (لا الٰہ الا اللہ (۱) محمد الرّسول اللہ (۲) ) اور کلید کو عربی میں مفتاح کہتے ہیں، اور ان پانچ حروف یعنی “مفتاح” کے حساب کا مجموعہ پانچ سو انتیس ہوتا ہے اور پانچ سو انتیس (۵۲۹) کے (دس دس کے اعدادِ کاملہ کے حساب سے) سات “عقد” بنتے ہیں، جو مذکورہ دو شہادتوں کے سات

 

۲۸

 

الفاظ کے برابر ہے، جن سے مذکورہ دو شہادتیں بنی ہوئی ہیں، اور یہ کلمہ دو شہادتوں پر مبنی ہے، جس طرح کلید دو چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو حصّے میں جدا جدا مگر اتصال میں ایک ہیں، وہ کلید کا دستہ اور دندانہ ہیں اور مومنوں کا یہ کلمۂ اخلاص کہنا، قفل کھولنے والے کے چابی گھمانے کی مثال ہے، تاکہ اس سے دروازہ کھل جائے۔

پس ہمارا یہ قول ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بہشت کا مقفل دروازہ ہے، جس کی کلید کلمۂ اخلاص میں ہے، مومن نے یہ کلید پکڑ رکھی ہے، اور امامِ زمانؑ مومن ہی کے ہاتھ سے اس چابی کا گھمانے والا ہے، تاکہ دروازہ کھل جائے۔ اس قول کی حقانیّت کی گواہی یہی ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے فرماتا ہے: قُلْ یَجْمَعُ بَیْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفْتَحُ بَیْنَنَا بِالْحَقِّؕ-وَ هُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِیْمُ (۳۴: ۲۶) یعنی کہہ دیجئے کہ ہمارا پروردگار ہمارے درمیان جمع کرے گا، اس کے بعد ہمارے درمیان کھول دے گا اور وہ دانا کھولنے والا ہے، اس معنی سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ جب لوگ رسول کے دین کو قبول کرتے ہیں، تو اس کے ساتھ یہی ان کا جمع ہونا ہے، اس کے بعد تاویل کا مالک شریعت کے بند کو شریعت کے تاویل کے ذریعے کھول دے گا، تاکہ مومن کو معلوم ہو جائے، کہ اس طرح کی شریعت سے جو رسول نے رکھی، اور اس قسم کی مثالوں سے جو اس نے بیان کیں، کیا مراد تھی، تاکہ مومن اس پر بصیرت سے عمل کرے،

 

۲۹

 

ہم نے اپنے زمانے کے انداز پر بہشت اور اس کے دروازے کے کلید کا بیان کیا۔

 

والسلام

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۰۷

 

۳۰

 

کتاب الھمہ “کا پہلا باب”

مصنف:۔ سیدنا قاضی نعمان، قاضی قضاۃِ دولت فاطمیہ

مترجم: علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

(باب۔ ۱)

 

ان امور کا بیان جو أئمّۂ صلوات اللہ علیہم کے پیرؤوں کو بجا لانے چاہئیں یعنی أئمّہ کی ولایت پر اعتقاد رکھنا، ان کی امامت پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا۔

یہ باب تمام بندوں کے لئے لازم ہے، اور اگر میں اس کو مفصل طور پر لکھ دوں، تو یہ اس کتاب کی (مقررہ) حد سے بڑھ جائے گا، اور مجھے ایک جدا گانہ کتاب لکھنے کی ضرورت پیش آئے گی، لیکن میں اس

 

۳۱

 

میں سے ایک قابلِ ذکر حصّے کا بیان کر دیتا ہوں (اس باب کی یہ اہمیت کیوں نہ ہو) جب کہ أئمّۂ (برحق) کی ولادت کا اعتقاد، ان کی امامت کو ماننا اور ان کی فرمان برداری ہی اس حقیقت کی جڑیں اور بنیادیں ہیں، جس کے لئے اس کتاب کا لکھنا واجب ہوا ہےاور یہ وہ اوّلین چیزیں ہیں، جن کے ذکر سے اس کتاب کا آغاز اور افتتاح ہونا چاہئے۔

وہ شخص جس نے أئمّہ کے حق کو پہچانا ہو، اور ان کی امامت پر اعتقاد رکھا ہو، جب وہ ان کی اہمیّت دیکھ پائے اور ان کے امر بجا لائے، جس کے بارے میں وہ دیکھتا ہے، کہ وہ اس اللہ تعالیٰ کا ایک ضروری فرض اور ایک لازمی حق ہے تو اس کے دل میں ان کی بزرگی انتہائی عظیم اور اس کی آنکھوں میں ان کی ہیبت بہت ہی بڑی نظر آتی ہے، یہ نسبت دنیا کے بادشاہوں کی اس بزرگی اور ہیبت کے، جو ان کے تابعداروں کے دلوں میں اور ان کی آنکھوں میں ہوا کرتی ہے (اماموں کی یہ جلالت و ہیبت کیوں نہ ہو) جبکہ خدائے عزّو جل (تبارک و تقدّست اسماوُہ) نے اپنی کتاب میں ان کی فرمانبرداری اپنے بندوں پر فرض کر دی ہے اور اس نے اس فرمانبرداری کو اپنی فرمانبرداری اور اپنے رسولؐ کی فرمانبرداری سے وابستہ کر دیا ہے، پس فرمایا اور وہی تو سارے کہنے والوں میں سب سے سچا ہے” اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی

 

۳۲

 

الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ (۰۴: ۵۹) تم اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرو اور رسولؐ کی فرمانبرداری کرو اور صاحبانِ امر کی فرمانبرداری کرو جو تم میں سے ہیں۔”

پھر اللہ تعالیٰ نے أئمّہ صلوات اللہ علیہم کے مذکورہ پَیروطبقات میں شامل ہونے کے لئے جس شخص کو مخصوص کر دیا ہو، اس کے لئے یہ مہربانی کی ہو اور اس پر یہ انعام فرمایا ہو، تو اس کو ان کی امامت پر اس شخص کی طرح اعتقاد رکھنا چاہئے، جو دیکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ ان کی خوشنودی اس کے پروردگار کی خوشنودی کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور ان کی ناراضگی اس کی ناراضگی کے انتہائی نزدیک ہے، پس اس (اعتقاد کی وجہ) سے وہ اس بہترین عمل کو اختیار کرتا ہے، جس سے خدا کی اس خوشنودی (کے حصول) کے لئے امید کی جا سکتی ہو، جس کا بدلہ جنّت مقرر کی گئی ہے، اور وہ اس چیز سے دور رہتا ہے، جس سے خدا کی وہ ناراضگی لازم آتی ہو، جس کی سزا آتشِ (دوزخ) مقرر کی گئی ہے، اور وہ (امامت کا معتقد) اپنے نفس کو اس چیز کی ترغیب دیا کرتا ہے، جو اس کو اماموں کے (نزدیک سے) نزدیک تر کر سکتی ہے، اور اس کو ان کے حضورِ خاص تک لے جاسکتی ہے، اور وہ اس (عمل کے انجام دہی کے سلسلے) میں اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتا رہتا ہے، جو (عمل) اماموں کے لئے پسندیدہ اور ان کی خواہش کے مطابق ہے اور ان کو اس سے خوشی حاصل ہو سکتی ہے (اور امامت کے حقیقی عقیدت مند کا یہ نفسانی جہاد اسی طرح ہمیشہ جاری

 

۳۳

 

رہتا ہے) ہر اس چیز میں جو اس کو تو پسند ہی ہے (مگر نفس اس کو پسند نہیں کرتا) اور ہر اس چیز میں جو اس کو خوش کرتی ہے (مگر نفس تو اس سے خوش ہو نہیں سکتا) اور ہر اس چیز میں جو اس کو ناراض کر دیتی ہے (لیکن نفس تو اس کے لئے راضی ہی ہے) تاکہ وہ اس چیز کے سبب سے، جس میں اس کی ناراضگی تھی، اپنے نفس کی ریاضت (اصلاح) کی طرف رجوع کر سکے، اور اس کو (حصولِ رضا کی غرض سے) اس میں مانوس کرتا رہے یہاں تک کہ وہ (عقیدے کے طور پر) اپنی ناراضگی کو خوشنودی میں اور ناپسند کو پسند میں تبدیل کر سکتا ہے، نیز جب بھی یہ بیماری (ناراضگی) اس میں پائی جائے، تو وہ اس میں اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہے، اور جانتا ہے کہ (اس کے نفس کی) یہ ناراضگی گناہوں میں سے ایک بڑٓا گناہ ہے، نیز یہ بھی جانتا ہے کہ اس (فعلِ ناراضگی) سے توبہ ہو نہیں سکتی، بجزآنکہ اس سے قطعی چھٹکارا حاصل کیا جائے (یعنی ہر قسم کی ذاتی ناراضگی کی بیماری کو جڑ سے اکھیڑ کر پھینک دیا جائے) یہاں تک کہ وہ اسی چیز سے ہی راضی ہو، جس سے أئمّہ راضی ہوئے ہیں اور وہ اسی چیز سے ہی ناراض ہو جس سے وہ ناراض ہوئے ہیں، اور وہ اسی چیز کو پسند کرے، جس کو انہوں نے پسند کیا ہے، اور وہ اسی چیز کو ناپسند کرے جس کو انہوں نے ناپسند کیا ہے، اور وہ اپنے قول، فعل، نیّت اور عمل میں بس یہی اعتقاد رکھتا ہے، اگرچہ اس میں اس کی اپنی موت واقع ہو جائے اور اس کے خاندان، مال اور اولاد

 

۳۴

 

ہلاک ہو جائیں، اور وہ سارے امور میں اماموں کی رضا کارانہ تابعداری کرتا ہے، مجبورانہ تابعداری نہیں، وہ جانتا ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرے، اور (پوری طرح سے) یا تھوڑی سی اس کی خلاف ورزی کرے، تو خدائے تبارک و تعالیٰ کے اس قوّل کے بموجب وہ مومن ہو نہیں سکتا ہے: ” فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (۰۴: ۶۵) پس (اے رسول) تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ سچے مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے باہمی جھگڑوں میں تم کو اپنا حاکم (نہ) بنائیں، پھر (یہی نہیں بلکہ) جو کچھ تم فیصلہ کرو اس سے کسی طرح دل تنگ بھی نہ ہوں بلکہ خوش خوش اس کو بھی مان لیں۔”

پس اللہ تعالیٰ (جلّ ذکرہ) کی طرف سے اس کے رسول کے لئے مومنوں پر یہی فرض ہے، جس کی فرمانبرداری اللہ نے اپنی فرمانبرداری کے نزدیک رکھی ہے، اور اماموں کی فرمانبرداری رسولؐ کی فرمانبرداری کے نزدیک رکھی ہے، اور ان کو رسولؐ کے بعد امت کیلئے نائبین مقرر کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ رسولؐ کے وسیلے سے اور ان کی ذرّیت کے نیکو کار، برگزیدہ اور پسندیدہ اماموں کے وسیلے سے رحمت بھیجے!

پس اس اندازہ اور تربیت سے اس ضروری فرض (کے سلسلے) میں نیّت، قول، عمل اور قبولیت کے طور پر ہر امام کی تکریم، تعظیم،

 

۳۵

 

فرمانبرداری اور تابعداری کرنا اس کے زمانے اور عصر والوں پر لازم ہے، اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ (انبیاء و أئمّہ) کی فرمانبرداری ایک ہی ہے اور ملی ہوئی ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی فرمانبرداری کے نزدیک کر دیا ہے، اور وہ اپنی ساری مخلوقات سے برتر اور بزرگ تر ہے، اور اس کے بندوں پر کسی اعتبار سے بھی اس کا قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے، پس کسی فرمانبردار کی فرمانبرداری قبول نہیں ہوتی ہے، مگر اس کے اولیاء (أئمّہ برحق) میں سے اس شخص کی فرمانبرداری کرنے سے، جس کی فرمانبرداری اس پر فرض کی گئی ہے، اور کوئی شخص (صرف) اسی پر ہی مومنوں کی جماعت میں شامل نہیں ہو سکتا، مگر یہ کہ وہ شخص جو اس کے اصفیاء (انبیاء) میں سے اس شخص کی تابعداری (تسلیم) کرے، جس کی تابعداری کے لئے امر ہوا ہے، اور اس بیان میں، جو ہم نے اس باب میں کر دیا ہے، عقل و دانش والوں کے لئے جو کچھ ہے وہ کافی ہے (یعنی کوئی بھی ضروری اور مختصر مطلب اس سے باہر نہیں) جبکہ وہ شخص تدبّر (تفکّر) سے کام لے، جس کے فہم کو حقِ تدبّر کی توفیق دی گئی ہو، ان شاء اللہ۔

 

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۰۸

 

۳۶

 

قرآن اور امامت

از علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی

 

ہم ذیل میں امامت کے متعلق چند کلیدی سوالات اور ان کے قرآنی جوابات پر مشتمل ایک پُرمعلومات اور اہم مضمون کی طرف آپ کی توجّہ مبذول کراتے ہیں:۔

سوال نمبر ۱:۔ دین میں لفظِ “امام” کا استعمال کب سے شروع ہوا؟

جواب:۔ لفظِ “امام” خواہ اصلی صورت میں ہو یا مترادفات میں، ہر چند کہ امام اور امامت کا ذکر حضرت ابراہیم علیہ السّلام پر آ کر زیادہ نمایان ہوا ہے، مگر یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے، کہ یہ لفظ حضرت آدم علیہ السّلام کے زمانے سے ہی اسی مطلب کے لئے استعمال ہوا ہے، اور لفظِ “امام” شروع ہی سے ایک جامع قسم کی دینی اصطلاح ہونے کی دلیل یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ہر زمانے کے لوگوں کو ان کی امامِ زمانؑ کے ذریعے بلالے گا، اور ظاہر ہے کہ سب سے پہلے تو حضرت آدم علیہ السّلام کے زمانہ والوں کو ان کے امامِ زمانؑ کے ذریعے بلایا جائے

 

۳۷

 

گا، چنانچہ قرآن کا ارشاد ہے:۔

یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ (۱۷: ۷۱) یعنی جس روز ہم ہر (زمانے کے) لوگوں کو ان کے امام کے ذریعے بلالیں گے، پس اس بیان سے نہ صرف یہی ثابت ہوا، کہ لفظِ “امام” اور اس کے ہم معنی الفاظ حضرت آدم علیہ السّلام کے زمانے ہی سے خاص قسم کی دینی اصطلاحات بنے ہوئے ہیں، بلکہ ساتھ ساتھ یہ ثبوت بھی ملا، کہ کوئی وقت ایسا نہیں گزرا ہے، جس میں لوگوں کے درمیان امامِ برحق موجود اور حاضر نہ رہا ہو۔

سوال نمبر۲:۔ لفظِ “امام” کا معنوی خاصہ کیا ہے؟

جواب:۔ لفظِ “امام” کی اس معنوی خاصیت کا بیان، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کو جیسی ہمہ گیر حقیقت کی ترجمانی کے لئے دوسرے تمام الفاظ سے منتخب فرمایا ہے، یہ ہے کہ جس طرح دوسرے بہت سے الفاظ کے لغوی اور اصطلاحی معنی ہوا کرتے ہیں، اسی طرح لفظِ “امام” کے بھی لغوی اور اصطلاحی معنی ہیں، نیز یہاں اس امرِ واقع کا بھی ذکر کر دینا لازمی ہے کہ بعض مثالوں میں ایک ہی اصطلاح کے معنی مختلف گروہوں کے نزدیک مختلف ہوا کرتے ہیں، اندران صورت سب سے پہلے یہ دیکھنا لازمی ہوتا ہے، کہ یہ اصطلاح قرآن پاک کے موضوعات کے سلسلے میں کن کن تفصیلات کی حامل ہے اور ان تفصیلات کا فیصلہ کس نوعیت کا ہے وغیرہ، اس کے علاوہ قرآنِ حکیم میں بہت سے

 

۳۸

 

ضروری الفاظ ایسے بھی ہیں، جن کے لغوی معنوں کو واضح اور بے بدل مثالوں میں محفوظ رکھا گیا ہے، چنانچہ لفظِ “امام” ام سے مشتق ہوا ہے، اور “ام” کے معنی ہیں اصل، جیسے ام الکتاب یعنی کتاب کی اصل، نیز لفظِ امام کی ایک اور صورت “امام” ہے، جس کے معنی ہیں آگے، اس لفظ کی ایک اور صورت “امۃ”  ہے، جس کے معنی ہیں جماعت اور مدّت، اور اس لفظ کی آخری صورت “امام” ہے، یعنی پیشوا یا سردار، پس اگر ان الفاظ کی بغور تحقیق کی جائے، تو معلوم ہو جاتا ہے، کہ ان تمام الفاظ کی معنوی گہرائیوں میں ایک طرح کی “لامحدودیّت” موجود ہے، وہ اس طرح کہ: (۱) ہر چیز اپنی “اصل” سے آئی ہوئی ہے، اور اپنی اصل سے جا ملنے والی ہے، پس ہر چیز اپنی اصل ہی میں محدود ہے، اور ہر اصل اپنی چیزوں پر حاوی ہے اور وہ لامحدود ہے (۲) “آگے” کا مطلب زمان و مکان کی لاانتہائی کی طرف اشارہ ہے (۳) “جماعت” افراد پر محیط ہے اور افراد جماعت کے اندر محدود ہیں (۴) “مدّت” وقت کا لاانتہا سلسلہ ہے اور وہ اپنے اجزاء یعنی سال مہینے، ہفتے، دن اور رات پر حاوی ہے، اور یہ اجزاء اس کے اندر محدود ہیں (۵) “پیشوا” اپنے دینی علم و دانش کے ذریعے اپنے مریدوں پر حاوی ہے، اور مرید اپنے پیشوا کی علمی حیثیت میں سموئے ہوئے ہیں اور (۶) “سردار” اپنی قوم پر ضبط و تدبّر کے ذریعے چھایا ہوا ہے، اور اس کی قوم اس کی تنظیم میں سمٹی ہوئی ہے، پس لفظ امام کا لغوی تجزیہ اور اس کا خاصہ یہی ہے، کہ یہ لامحدودیّت

 

۳۹

 

کا حامل ہے۔

سوال نمبر۳:۔ امام کا دائرۂ عمل کیا ہے؟

جواب:۔ امامِ زمانؑ کے دائرۂ عمل کی وسعت کے متعلق بیان یہ ہے کہ امامِ زمانؑ کی عقل اور روح خدائے برترکے نور کی حیثیت سے، اور عقلِ کلّ و نفسِ کلّی یا عرش و کرسی وغیرہ کے ناموں سے کائنات اور موجودات پرچھائی ہوئی ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔

وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے ہر چیز (کائنات و موجودات) کو امامِ ظاہر (کے نور) میں گھیر کر رکھا ہے، مولوی معنوی اپنی ایک پُرمعرفت نظم میں ہوبہو اسی مطلب کی تشریح فرما رہے ہیں، جس کے ابتدائی دو شعر بطورِ نمونہ ملاحظہ ہو:۔

آن  امامِ  مبین  ولی  خدا

آفتابِ  وجودِ  اہلِ  صفا

ترجمہ:۔ وہ امامِ ظاہر، خداکا ولی اور اہلِ صفا کے وجود کا سورج (نور) ہے۔

آن  امامے  کہ  قائم  است  بحق

در  زمین  و  زمان  و  ارض  و  سما

ترجمہ:۔ وہ امام جو یقیناً (اپنے نوری وجود سے) زمین، زمانہ، عرش اور فرش پر قائم ہے۔ پس ان تمام باتوں کے خلاصے سے یہ ثابت ہوا، کہ امام زمان کا دائرۂ عمل لا محدود ہے، اور اس دائرے میں کائنات

 

۴۰

 

و موجودات محدود ہو کر رہی ہیں۔

 

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۱۰

 

۴۱

 

حسن صباح کی گرانقدر خدمات

ایران اور امامی مذہب کی آزادی کے لئے

ازکتاب: تاریخ خلفای فاطمی رضوان اللہ علیہم اجمعین (فارسی)

مؤلف: عبد الرحمٰن سیف آزاد مدیرمجلۂ ایرانِ باستان

مترجم: علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی

صاحبِ روضتہ الصفا کے قول اورتشریحات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے، کہ حسن صباح، اُس کی تمام تنظیمات اور اس کے سارے طرفدار لوگ شرعی رسوم کو جیسا کہ چاہئے بجا لایا کرتے تھے، حسن صباح پر لگائے ہوئے الزامات کی وجہ یہ ہے، کہ عباسی غاصب خلفاء کے جانبداروں اور امامی مذہب کے مخالفوں کی ان سے خاص دشمنی تھی اور حسن صباح جیسے تاریخ کے عظیم مرد کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے، اس میں اس زمانے کے اپنے اور پرائے اہل اقدار کے مذہبی خشک تعصبات کی بنا پر غلطی، دشمنی، بدخواہی اور غرض مندی سے کام لیا گیا ہے۔

اس مردِ عظیم کی سرگزشت اور تاریخی حالات ان کتابوں سے مل

 

۴۲

 

سکتے ہیں، جو تاریخِ جوینی، روضتہ الصفا اور مجالس المومنین کے نام سے عربی اور فارسی زبان میں مرتب ہو کر چھپ چکی ہیں اور ان مورخین کے آثار سے (یہ حالات مل سکتے ہیں) جو مذہبی تعصبات سے بری ہیں، جنہوں نے حسن صباح کی غالبیت سے لے کر اس کی تنظیم کے آخری وقت تک (جس کے لئے ایک سوپچھتر ۱۷۵سال کا وقت لگا  ہے) کوئی تردید نہیں لکھی ہے، جب ہم ان کتابوں کی طرف رجوع کر کے انصاف اور گہری نظر سے ان کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس مردِ آہن نے ایران اور امامی مذہب کے استقلال اور آزادی کے سلسلے میں ایک عظیم خدمت انجام دی ہے اور اس نے ترکی غاصب حکومتوں اور عباسی غاصب خلفاء (جو ایران اور أئمّۂ ہدیٰ کے سب سے بڑے دشمن تھے) کی حیثیتوں اور اثر و نفوذ پر مناسب وقت میں بڑی بڑی کاری ضربیں لگائی ہیں، چونکہ اکثر مؤلفین، عرب کے مصنفین یا وہ ایرانی جن کی کچھ تالیفات عربی میں تھیں، نیز سبک اور عربی ادب کے چاہنے والے سب (حسن صباح کے) مخالف تھے، اس لئے انہوں نے ایک دوسرے کی تقلید کرتے ہوئے سیاسی اغراض اور اس زمانے کے اہلِ اقتدار کو خوش کرنے کے لئے اپنے تراشے ہوئے الزامات و اتہامات کے ذریعے اس مردِ عظیم اور اس کی تنظیمات کی گرانقدر خدمات اور کارناموں کو الٹے طریقے سے پیش کیا ہے، کیونکہ وہ غیروں کا بڑا زبردست مخالف اور ایران کے دشمنوں خصوصاً غاصب بنی عباسی

 

۴۳

 

خلفا اور سلجوقی خونخوار ترکوں کا جان لیوا دشمن تھا۔

 

چاندرات ارشاد نمبر۶۴: ۱۱۰

 

۴۴

 

 

کتابِ الھمہ “باب۲”

مصنف:۔ سیدنا قاضی نعمان، قاضی قضاۃ دولتِ فاطمیہ

مترجم:۔ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی

أئمّۂ حق (علیہم السّلام) کی محبت و ولاء کے واجب ہونے کا بیان

 

اللہ تعالیٰ جلّ ذکرہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے فرماتا ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ (۴۲: ۲۳) آپ (ان سے) کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس (تبلیغِ رسالت) کا کوئی صلہ نہیں مانگتا، سوائے اپنے قرابت داروں کی دوستی کے، پس رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کے قرابت دار کون ہیں؟ تو آنحضرتؐ نے فرمایا: کہ علی، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا:۔

من احبھم فقد احبنی ومن ابغضھم فقد ابغضنی

معنی:۔ جو شخص ان کو دوست رکھے، تو یقیناً اس نے مجھے

 

۴۵

 

دوست رکھا ہے، اور جو شخص ان کو دشمن رکھے، تو یقیناً اس نے مجھے دشمن رکھا۔”

لا یحب علیا الا مومن ولا یبغضہ الا منافق۔

علی کو مومن کے سوا اور کوئی شخص دوست نہیں رکھتا ہے، اور منافق کے سوا اور کوئی شخص اسے دشمن نہیں رکھتا۔

پھر (رسول کے بعض اصحاب) یہ کہا کرتے تھے کہ ہم رسول اللہ (صلعم) کے زمانے میں علی (علیہ السّلام) کی محبت، دوستی اور تفضیل (کے متعلق لوگوں کے اقوال و اعمال دیکھنے) کے سوا مومنوں کو منافقوں سے (جدا) نہیں پہچان سکتے تھے۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اپنے زمانے والوں کو علی (علیہ السّلام) کی دوستی کے لئے قطعی حکم (نص) کر دیا، اور ان لوگوں کو اس کی ترغیب دی، جو آنحضرت کے حضور تک رسا ہوئے تھے، جبکہ انہوں نے آنحضرت سے اس بارے میں پوچھا۔

اور خدائے عزّوجل نے علی (علیہ السّلام) کی یہی دوستی سارے لوگوں پر فرض کر دی ہے اور اس کی ذرّیت کے اماموں کے لئے بھی یہی (دوستی) ہر دور اور ہر زمانے کے لوگوں پر فرض کی گئی ہے۔

امام محمد باقر بن علی زین العابدین صلوا ت اللہ علیہ سے

 

۴۶

 

اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں پوچھا گیا:۔

قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ (۴۲: ۲۳)

توانہوں نے فرمایا:۔

واللہ ھی فریضۃ من اللہ واجبتہ علیٰ جمیع العبادلمحمد صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ فینا اھل بیتہ۔

خدا کی قسم یہ (دوستی جس کا ذکر اس آیت میں ہے) اللہ تعالیٰ کی طرف سے سارے بندوں پر ایک واجب فرض ہے، جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے لئے (یہی ایک صلہ ہے کہ اس کے اہلِ بیت کو دوست رکھا جائے، اور یہ ہمارے بارے میں ہے، کہ ہم ہی اس کے اہلِ بیت ہیں اور موصوف امام علیہ السّلام نے فرمایا ہے:۔

من احبنا حشرہ اللہ معنا یوم القیامۃ۔

جو شخص ہم کو دوست رکھے، تو اللہ تعالیٰ ا س کو قیامت کے دن ہمارے ساتھ اٹھادے گا۔ پھر فرمایا:۔

ھل الدین الاالحب

کیا دین محبت کے سوا کوئی اور چیز ہے۔

یعنی حقیقی محبت اور اس کے لوازم ہی کا نام دین ہے،

 

۴۷

 

چنانچہ خدائے عزّوجل نے فرمایا ہے:

حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ (۴۹: ۰۷)

اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان کی محبت دے دی ہے، اور اس کو تمہارے دلوں میں مرغوب (پسندیدہ) کر کے دکھایا ہے۔” اور انہوں نے (حوالے کے طور پر) فرمایا:۔

إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ، (۰۳: ۳۱)

(ا ے رسولؐ ان لوگوں سے) فرما دیجئے کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو کہ خدا (بھی) تم کو دوست رکھے گا، اور تم کو تمہارے گناہ بخش دے گا۔

مولا نا علی علیہ السّلام نے اپنے بعض شیعوں سے فرمایا:۔

الااخبرکم بالحسنہ التی من جاء بھا امن من فزع یوم القیامۃ وبالسیۃ التی من جاء بھااکب اللہ وجہہ فی النار۔

کیا میں تم کو اس نیکی کے بارے میں آگاہ نہ کردوں کہ جو شخص وہ نیکی کرے تو وہ روزِ قیامت کی گھبراہٹ سے بے خوف ہوگا اور اس بدی کے بارے میں بھی، کہ جو شخص وہ بدی کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کو منہ کے بل آتشِ (دوزخ) میں ڈال دے گا۔

شیعوں نے عرض کی، کہ آگاہ کیجئےیا امیر المومنین! تو فرمایا:۔

 

۴۸

 

الحسنۃ حبنا والسییۃ بغضنا۔

وہ نیکی ہماری دوستی ہے اور وہ بدی ہماری دشمنی ہے۔

پس جو شخص اماموں کو پہچانتا ہے، تو اس کو چاہئے کہ ان سے خالص (بے غرض) محبت رکھا کرے، اور اعتقاد رکھے کہ یہ محبت اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے، اور اماموں کی اس مرتبت کے لئے ہے جو اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے (اور اعتقاد رکھے کہ یہ محبّت اور دوستی) کسی ایسی دنیاوی غرض کے لئے نہیں جو اماموں سے حاصل ہو، پھر اگر کسی شخص کی یہ دوستی کسی (دنیاوی) چیز کے لئے ہے تو اس چیز کے زوال و انقطاع کے ساتھ ساتھ وہ دوستی بھی زائل اور منقطع ہو جائے گی۔

پس اماموں سے اس شخص کی دوستی ان کی (دنیاوی) مہربانی رک جانے پر بھی اسی طرح برقرار رہنا چاہئے، جس طرح مہربانی کے وقت ان سے اس کی دوستی تھی، اور تنگدستی میں بھی وہی دوستی ہونا چاہئے، جو خوشحالی میں تھی، کیونکہ جو خالص (بے غرض) اعمال محض اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہوا کرتے ہیں، ان میں دنیا کی گردشیں کوئی تبدیلی لا نہیں سکتیں، اور نہ ان کو ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل کر سکتی ہیں، بجز آنکہ دنیا کے حادثات صرف ان اعمال میں تغیّر و تبدّل کر سکتے ہیں، جو دنیا ہی کے لئے کئے جاتے ہوں، امام جعفر صادق بن محمد باقر صلوات اللہ علیہ نے فرمایا ہے:۔

من احبنا فلیخلص لنا المجۃ کما بخلص

 

۴۹

 

الذھب الابریز۔

جوشخص ہم کو دوست رکھے تو اس کو چاہئے کہ ہماری محبّت کو اس طرح خالص (پاکیزہ) کرے جس طرح کھرا سونا خالص ہوا کرتا ہے۔”

مولانا علی صلوات اللہ علیہ نے فرمایا ہے:۔

لو ضربت المومن علیٰ انفہ ما ابغضنی ابدا ولوصیت الذھب والفضۃ علیٰ المنافق ما احبنی ابدا۔

اگر میں مومن کی ناک پر مارتا، تو پھر بھی وہ مجھ سے ہر گز دشمنی نہ کرتا، اور اگر میں منافق پر سونا اور چاندی برسا دیتا، تو پھر بھی وہ مجھ سے ہر گز دوستی نہ رکھتا۔”

پس جو شخص خد ا کے اولیاء سے دوستی رکھتا ہے، تو اس کو چاہئے کہ ان کی محبت کو خالص (پاکیزہ) کر دے، اور محبت کا حق (جیسا کہ چاہئے) ادا کر دے، یقیناً محبّت کرنے والے پر اس کے محبوب کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے محبوب سے سچی قسم کی دوستی رکھے اور اس کو دھوکا نہ دیا کرے، اس کی امانت ادا کر دے اور اس کی خیانت نہ کرے، اس کی مدد کرتا رہے اور اس کی مدد سے دستبردار نہ ہو جائے، اس کی فرمانبرداری کرتا رہے اور اس کی نافرمانی نہ کرے، اس کے لئے وہ (قول و فعل) ناپسند کرے جو کچھ اپنے لئے

 

۵۰

 

ناپسند کرتا ہے، اور (اس کی دوستی کے سلسلے میں) اپنے ظاہر و باطن کے درمیان کوئی فرق نہ رکھے، نہ اپنے بھید اور کھلی بات کے درمیان اور نہ اپنے محبوب کے سامنے ہونے اور اس سے دور ہونے میں، یہ تو اس محبّت کی حقیقت ہے، جو دنیاوی طور پر دوستی رکھنے والوں میں پائی جاتی ہے، پھر اس شخص پر کس قدر عظیم حقوق اور فرائض عائد ہوں گے، جس کا محبوب خدا کا محبوب ہے، جس نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھتا اور جانتا ہے جو کچھ وہ خدا کے محبوب کے لئے) اپنے دل میں رکھتا ہے اور جو کچھ آشکار کر دیتا ہے، جو کچھ چھپاتا ہے اور جو کچھ دکھاتا ہے، پھر اس پر یہ فرض ہے، کہ وہ اپنی اس محبّت کے بارے میں اپنے آپ کی نگرانی کرتا رہے اپنی کھلی اورظاہری حال میں بھی، اور اپنی تنہائیوں اور بھیدوں میں بھی (کہ وہ اس مقدّس محبت کے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی تو نہیں کر رہا ہے) ۔

پس اے مومنو! تم اپنے اولیاء کی (اس مقدّس) محبت کو (دنیاوی اغراض کی آلائشوں سے) خالص کر دو، تاکہ اس کے بدلے میں تم پر وہ مہربانی کی جائے، جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مہربانیوں سے بڑھ کر ہے، اس بیان میں جو میں نے اس باب میں کردیا، ان لوگوں کے لئے تبلیغ ہے، جنھیں درستی (صواب) کی توفیق دی گئی ہے۔

 

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۱۱

 

۵۱

 

کلامِ مولوی معنوی رومی

ازکلیاتِ شمس تبریزی

(ترجمہ از علامہ نصیر الدین نصیرؔہونزائی)

 

آن شاہ کہ بادانش و دین بود علی بود

مسجودِ ملک ساجدِ معبود علی بود

ترجمہ:۔ وہ (حقیقی) بادشاہ جو صحیح معنوں میں دانش اور دین کے ساتھ تھا، علی ہی تھا، فرشتوں نے جس کو سجدہ کیا اور جس نے خدا کو سجدہ کیا، وہ علیؑ ہی تھا۔

خورشیدِضیا گستر و جمشیدِ دوکشور

ماہِ فلکِ موہبت وجود علی بود

ترجمہ: نوربجھا دینےوالا سورج، دونوں جہانوں کا بادشاہ اور بخشش و مہربانی کے آسمان کا چاند علیؑ ہی تھا۔

آن شاہِ فلک مرتبہ کز عزو جلالت

برسائر مخلوق بیفزود علی بود

 

۵۲

 

ترجمہ:۔ وہ عالی مرتبت بادشاہ، جو اپنی عزت اور بزرگی کی وجہ سے تمام مخلوق پر فوقیت رکھتا تھا، علی ہی تھا۔

آن نکتۂ تحقیقِ حقائق بحقیقت

کز روی یقین مظہر حق بود علی بود

ترجمہ:۔ وہ راز جس کو دراصل حقیقتوں کی چھان بین سے معلوم کر لیا گیا ہے جو یقیناً خدا کے مظہر کی حیثیت سے تھا، علی ہی تھا۔

آن نقطۂ توحیدِ احد کزدم واحد

جز اونفسِ وحدت نشنود علی بود

ترجمہ: وہ خدا کی توحید کا انتہائی نقطہ، جس کے بغیر اور کسی شخص نےخدائے واحد کے دم سے وحدت کی بو نہیں سونگھی، علی ہی تھا۔

آن بود وجودِ دوجہان کزرہ معنی

بی اونہ شدی عالم موجود علی بود

ترجمہ:۔ وہ دونوں جہان کے وجود کاسبب، کہ اگر وہ نہ ہوتا، تو حقیقت کی رو سے عالم موجود ہی نہ ہوتا، علی ہی تھا۔

آن فاتحۂ دولت ومفتاحِ سعادت

کوقفلِ درِ مصطبہ بکشود علی بود

ترجمہ:۔ وہ اقبال مندی کھول دینے والی طاقت اور سعادتمندی کی کلید، جس نے عشقِ حقیقی کے دروازے کا قفل کھول دیا، علی ہی تھا۔

 

۵۳

 

آن ساعدِ دینِ حق و ینبوع معانی

کز یمن وی آدم شدہ مسجود علی بود

ترجمہ:۔ وہ دینِ حق کے (پُرقوّت) بازو اور حقائق کا سرچشمہ، جس کی برکت سے آدم فرشتوں کا مسجو د ہوا ہے، علی ہی تھا۔

 

چاندرات ارشاد نمبر۶۴: ۱۱۲

 

۵۴

 

علی ہی تھا

کلام مولوی معنوی رومی

ازکلیاتِ شمس تبریزی

(ترجمہ ازعلامہ نصیرا لدین نصیر ہونزائی)

 

آن فارسِ میدانِ ریاضت کہ بہ مردی: گویِ سبق از عالم بر بود علی بود

ترجمہ: وہ میدانِ ریاضت و عبادت کا  شہسوار، جس نے بڑی بہادری کے ساتھ دنیا والوں سے گوئے سبقت لے گیا، علیؑ ہی تھا۔

آن شہ کہ بشمشیر وی از آئینۂ دین  :   زنگِ ستم وبدعت بزدو دعلیؑ بود

ترجمہ: وہ بادشاہ، جس نے اپنی تلوار کی بدولت آئینۂ دین سے ظلم وبدعت کا زنگ صاف کردیا، علیؑ ہی تھا۔

آن نورِ مجرد کہ بد اودر ہمہ حالت   :   باموسیٰؑ و با عیسیٰؑ و باہود علی ؑ بود

ترجمہ:۔ وہ خالص و مجرّد نور، جو ہر حالت میں موسیٰؑ کے ساتھ، عیسیٰؑ کے ساتھ

 

۵۵

 

اور ہودؑ کے ساتھ تھا، علیؑ ہی تھا۔

آن روحِ مصفا کہ خداوند بقرآن:     بنواخت بچند آیت و بستو د علی بود

ترجمہ:۔ وہ پاک و صاف روح، جس کو خدائے تعالیٰ نے قرآن میں کئی آیتوں کے اختصاص سے نوازا اور تعریف فرمائی، علیؑ ہی تھا۔

 

ہم صابر و ہم صادق و ہم قانت و منفق :   ہم ہادی و ہم شاہد و مشہور علیؑ بود

ترجمہ:۔ (ان قرآنی آیات کے بیان کے بموجب) صبر کرنے والا بھی، سچ بولنے والا بھی، فرمانبردار بھی، خدا کی راہ میں خرچ کرنے والا بھی، امت پر گواہ بھی، اورحقیقی امتی بھی علیؑ ہی تھا۔

باملکِ سلیمانیؑ و باعصمتِ یحییٰؑ  :   بامنزلتِ آدمؑ و داؤدؑ علیؑ بود

ترجمہ: سلیمانؑ کی مملکت کے ساتھ، یحییٰؑ کی معصومیت کے ساتھ اور آدمؑ و داؤدؑ کی مرتبت کے ساتھ علیؑ ہی تھا۔

راہی کہ بیان کردخداوند دراالحمد   :   آن رہبرو آن راہ کہ بمنود علیؑ بود

ترجمہ: خداوندِ تعالیٰ نے الحمد میں جس سیدھے راستے (صراط مستقیم) کا ذکر فرمایا ہے، اس راستے کا دکھانے والا اور خود ہی راستہ، جو اس نے دکھایا، علیؑ ہی تھا۔

وجہی کہ بفرمودخداوند بقرآن   :  آن وجہِ مکرم کہ بفرمود علیؑ بود

ترجمہ: خداوند تعالیٰ نے قرآن (کی کئی آیتوں) میں اپنے جس چہرۂ مبارک کا ذکر فرمایا ہے، وہ باکرامت چہرہ، جس کا بیان فرمایا ہے، علیؑ ہی تھا۔

 

۵۶

 

جبریلِ امین رازبرحضرتِ عزت  :  مقصود بمثل احمدؐ و مقصود علیؑ بود

ترجمہ: جبریلِ امین جو بارگاہِ عزّت سے نازل ہوا کرتا تھا، فی المثل اس کا مقصد حضرت محمد صلعم اور فی الحقیقت اس کا مقصد علیؑ ہی تھا۔

گویند ملک ساجد و مسجود بُد آدمؑ   :   ازمن بشنو ساجد و مسجود علیؑ بود

ترجمہ:۔ لوگ کہا کرتے ہیں، کہ فرشتہ ساجد (سجدہ کرنے والے) تھے، اور آدمؑ مسجود (سجدہ کیا گیا) تھا، مجھ سے سن لے، کہ خود ساجد اور خود مسجود علیؑ ہی تھا۔

این سر بشنو باز زشمس الحقِ تبریز :  کز نقدِ وجودِ دوجہان سود علیؑ بود

ترجمہ:۔ ایک اور دفعہ یہ راز شمس الحق تبریزؔ سے سن لے، کہ دونوں عالم کے نقد ہستی کا ماحصل اور حقیقی فائدہ (جو کچھ دونوں جہان کے صرف کرنے سے مل سکتا ہے) علیؑ ہی تھا۔

 

۵۷

 

 

ولایتِ علیؑ

رباعی

(ازرومیؔ)

 

دائم زولایتِ علیؑ خواہم گفت           چون روحِ قدسی نادِ علیؑ خواہم گفت

ناروح شود غمی کہ برجانِ من است      کل ہم و غم سینجلی خواہم گفت

ترجمہ:۔ میں تو ہمیشہ حضرت علیؑ کی ولادت کا، تذکرہ کرتا رہوں گا، روح القدس کی طرح “نادِ علیؑ” پڑھوں گا “کل ھم وغم سینجلی” پڑھوںگا، تاکہ میرے دل میں جو غم ہے وہ بدل کر روح بن جائے۔

نوٹـ:۔ لفظِ ’’ولایت‘‘ کے ’’واؤ‘‘کو زبر سے پڑھنا زیادہ صحیح ہے، دیکھو قرآنِ مجید (۰۸: ۷۲) ، (۱۸: ۴۴) اور دعائم الاسلام (عربی) جلد اول ص۱۴اور ص۲۰۔

۲۔ کل ھم وغم سینجلی، یعنی علی علیہ السلام ہر بے چینی اور غم کو روشنی کی صورت میں تبدیل کر دے گا۔

 

۵۸

 

نور زندۂ جاوید ہے

رباعی

(ازرومی)

 

کی گفت کہ آن زندۂ جاوید بمرد           کی گفت کہ آفتابِ امید بمرد

آن دشمنِ خورشید در آمد بربام               دود دیدہ بیست و گفت خورشید بمرد

ترجمہ:۔ (خدا نے یہ) کب فرمایا، کہ وہ زندۂ جاوید (نور) مرگیاہے؟ اس نے یہ کب فرمایا، کہ امید کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا ہے؟وہ سورج کا دشمن چھت پر نکل آیا اور دونوں آنکھیں بند کر کے کہنے لگا، کہ سورج مرگیا ہے۔

۶۸/۱۱/۲۳

 

۵۹

 

 

کلام۔ ۳

علم، یعنی دانش کے بارے میں کہ وہ کیا ہے؟

ازکتاب وجہ دین، سیدنا ناصرخسرو،

مترجم:۔ علّامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

 

سب سے پہلے مومن کو یہ جاننا چاہئے، کہ علم (کی تعریف) کیا ہے، تاکہ وہ جب اس کو پہچان لے، تو اسے حاصل کر سکے گا، کیوں کہ جب تک کوئی شخص کسی چیز کو نہ پہچانے تو وہ اس چیز تک ہر گز رسا ہو نہیں سکتا، پس (علم کی تعریف کے بارے میں) میرا کہنا یہ ہے کہ چیزوں کو ان کی حقیقی حالت کے مطابق معلوم کر لینے کا نام علم ہے، اور چیزوں کو ان کی حقیقی حالت کے مطابق معلوم کر لینے والی (قوّت) عقل ہے، پس علم عقل کے گوہر میں ہے (یعنی علم روحانیّت کی اس اعلیٰ

 

۶۰

 

ترین مثال میں پایا جاتا ہے، جو بارہ پہلوؤں کے ایک لعل کی صورت میں پیش کی جاتی ہے) اور عقل کی گواہی باری سبحانہ و تعالیٰ کا وہ کلمہ ہے، جس کے تحت تمام روحانی و جسمانی مخلوقات موجود ہیں (یعنی جب گوہرِ عقل کے بارہ پہلوؤں سے بارہ قسم کی روحانی تعلیمات دی جاتی ہیں، تو ہر تعلیم کے ساتھ کلمۂ باری کی ایک تصدیق بھی ملتی جاتی ہے، کیونکہ گوہرِ عقل کی یہ تعلیمات رموزو اشارات پر مبنی ہیں، اور کلمۂ باری ہی ان سب کی گواہی دیتا ہےاور تصدیق کرتا ہے) اور جو کچھ علم کے تحت نہ آتا ہو، تو اسے ہست (موجود) نہیں کہنا چاہئے، پس خدا کے سوا سب کچھ علم کے گھیرے میں پایاجا سکتا ہے، اور جب یہ جائز نہیں کہ خداتعالیٰ علم کے تحت ہو، کیوں کہ علم وہ ہے کہ ساری چیزیں اور ہستیاں اس کے تحت پائی جاتی ہیں، نیز”نیست” بھی اسی کے تحت ہے، تو جائز نہیں جو میں یہ کہوں کہ خدا ہے، یا یہ کہوں کہ خدا ہے نہیں، کیونکہ یہ دونوں حالات (ہست ونیست) علم کے تحت ہیں، لیکن خدا علم کے تحت نہیں۔

پس میں (خدا کی حقیقت کے بار ے میں) یہ بتاؤں گا کہ امر کا محضر ہی خدا ہے، اور جس شخص کو (دوسروں کے مقابلے میں) علم کا زیادہ حصہ ملا ہے، تو وہی شخص خدا کے امر کے زیادہ نزدیک ہے، اور اسی شخص نے خدا کے امر کو زیادہ قبول کر لیا ہے، اور وہی شخص (دوسروں سے) زیادہ فرمانبردار ہےاور جو شخص زیادہ دانا ہو، وہی شخص خدا کا

 

۶۱

 

زیادہ فرمانبردار ہو جاتا ہے، اور جو شخص مکمل طور پر دانا ہو جائے، تو وہی شخص دائمی نعمت کو حاصل کر سکتا ہے، چونکہ دانا کے کاموں کا انجام خدا کی رحمت ہے، انسان اس کائنات کی دوسری تمام مخلوقات کی تکمیل کے بعد پیدا ہوا ہے، اور اس کی جائے واپس امرِ کلّ ہے، جو دونوں جہان کی علّت (سببِ پیدائش) ہے، اور قانون یہ ہے کہ تمام چیزیں اپنی اصل ہی کی طرف رجوع کرتی ہیں۔

بھائیو! تم حصولِ علم کے سلسلے میں کوشش کرتے رہو، تاکہ جس سے تم خدائے برتر و بزرگ کے زیادہ نزدیک ہو جاؤگے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تو علم ہی ہے۔

 

چاندرات ارشاد نمبر۶۴: ۱۱۳

 

۶۲

 

آغازِ کتاب (وجہ دین)

مترجم: علّامہ نصیرالدّین نصیرؔہونزائی

 

ہم حقیقت کے عظیم اور لاانتہا سِرّ (راز) کے طلبگاروں کو یہ بتا دیتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خوف اور امید کے لئے پیدا کیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو بہشت سے امیدوار کردیا ہے اور دوزخ سے ڈرایا ہے، پس میرا قول یہ ہے، کہ انسان کے نفس میں، جو خوف پایا جاتا ہے، وہ دوزخ (کی ہستی) کا نشان ہے، اور اس میں جو امید پائی جاتی ہے، وہ بہشت (کے موجود ہونے) کا اثر ہے۔

یہ دونوں چیزیں جو انسانی فطرت میں پوشیدہ ہیں، ایک کلّی خوف اور ایک کلّی امید کی نشاندہی کرتی ہیں، وہ دوزخ اور بہشت ہیں، جب رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا، تو انہوں نے بموجبِ فرمانِ الٰہی یہی دونوں

 

۶۳

 

چیزیں جو لوگوں کی فطرت میں پوشیدہ تھیں، ان کے سامنے لا رکھیں، یعنی ایک چیز تو امید تھی، جو دونوں جہان کی دولت، رحمت، آسائش اور بقا کے سرمائے کی حیثیت سے تھی، اور دوسری چیز تلوار تھی، جو دونوں جہان کے خوف، جنگ اور فنا کے سرمائے کی حیثیت سے تھی، ایک اور چیز شریعت تھی، جس کو قبول کرنے کا نتیجہ ان سے ہاتھ روکنا تھا اور ان کو جینے دینا تھا، جو صرف اس جہان کے امن و بقاء کی علامت تھی، پس جو شخص آنحضرت علیہ السّلام کی تلوار سے مارا گیا، تو وہ دونوں جہان میں فنا ہوا، اور جس شخص نے آنحضرتؐ کے فرمان کو امید پر قبول کر لیا، تو اس نے دونوں جہان میں بقاء پائی، اور جس نے تلوار کے خوف سے دین قبول کر لیا، تو اس کو اس جہان میں بقاء ملی مگر وہ دوسرے جہان کی بقاء کو نہیں پہنچ سکا، کیونکہ جب عارضی بقاء تلوار کے خوف سے قبول کر لی جائے، درحالیکہ تلوار سرمایۂ قتل ہے، تو وہ ایک ایسی بقاء ہو گی، جس کی علّت (سببِ پیدائش) فنا کی حیثیت سے ہے، اور اصول یہ ہے کہ ہر چیز اپنی علّت ہی کی طرف رجوع کرجاتی ہے۔

پس ثابت ہوا کہ جس شخص نے اسلام تلوار کے ڈر سے قبول کر لیا (اور مرتے دم تک اسی حالت پر رہا) تو وہ امید سے بے بہرہ ہوا اور اس کو ابدی بقاء نہ ملی، اور جس شخص نے دین دائمی بقاء کی امید پر قبول کر لیا، تو اس کی عارضی بقاء کی علّت دائمی بقا ہی تھی

 

۶۴

 

(یعنی وہ ابدی زندگی کی امید پر جی رہا تھا) تو اس کو دائمی بقا ہی حاصل ہو جاتی ہے، کیونکہ اس کی دنیوی زندگی کی علّت تو یہی دائمی بقا تھی، اور جو شخص کام محض کارفرما ہی کے ڈر سے کرتا ہے، تو اس کے کام میں کوئی دانش نہیں اور ایسا کام ان لوگوں کے کام سے ملتا جلتا ہے جو حقیقت سمجھے بغیر کسی خوف کے مارے کر ہی ڈالتے ہیں، اور جو شخص اس امید پر کام کرتا ہو کہ اس کو نیکی ملنے والی ہے، تو اس کا کام بحقیقت دانشمندوں کا کام ہے، اور جب اکثر لوگ نادان ہی ہیں، تو (لازماً) نادان لوگ بگاڑ ہی کی طرف مائل ہوا کرتے ہیں، اور بگاڑ کا بدلہ خوف کے سوا کچھ بھی نہیں۔

اکثر لوگوں نے دین تلوار کے خوف سے قبول کر لیا ہے، تو لازماً وہ لوگ ایسے ہیں، جو یہ نہیں جانتے کہ دینِ اسلام کیا ہے، بلکہ انہوں نے ڈر کر اس کو قبول کر لیا ہے، اور سمجھے بغیر وہ اس کو اپنا رہے ہیں، یہ لوگ نہ کچھ جانتے ہیں، اور نہ داناؤں سے پوچھتے ہیں، تاکہ خوف سے، جو دوزخ کا نشان ہے، نجات پاتے، اور امید، جو بہشت کا نشان ہے، حاصل کر سکتے، اور دائمی نعمت کو پہنچ سکتے۔

جاننا چاہئے کہ اس دنیا میں دوزخ (جزوی طور پر) تلوار کے خوف کی صورت میں موجود ہے، اور دانش کے بغیر کام کرنا، اسی دوزخ کا عذاب ہے، اور بہشت (جزوی طور پر) اس دنیا میں امید

 

۶۵

 

کی حیثیت سے موجود ہے، اور علم و دانش سے کام کرنا، اسی بہشت کا ثوات وصلہ ہے، چنانچہ تمام اہلِ اسلام اس بات پر متفق ہیں، کہ جب کسی گنہگار کو دنیا ہی میں سزا دی جائے تو وہ شخص بہشت میں داخل ہو کر دائمی نعمت حاصل کر سکتا ہے، یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ اکثر لوگوں نے حقیقت کو دیکھے اور سمجھے بغیر محض تلوار ہی کے ڈر سے دین قبول کر لیا ہے، تو یہ دین (بحقیقت وہ دین ہو نہیں سکتا، جو رسولؐ رکھتے تھے، بلکہ یہ ان کا) خود ساختہ دین (بدعت) ہی ہے، مگر جب وہ دانش سیکھ لیں اور علم سے کام کریں تو وہ دوزخ سے چُھٹ کر بہشت میں پہنچ سکتے ہیں، جزوی طور پر اسی دنیا میں بھی اور کلّی طور پر اس جہان میں بھی۔

جب دانشمند سوچے تو اسے یہ حقیقت معلوم ہو ہی جائے گی، کہ اس عالم میں کوئی کام کرنے والا جب کام کو سمجھے بغیر کرتا ہے تو وہ کام اس کا جرم قرار دیا جاتا ہے، اور (اس جرم کی سزا یہ ہوتی ہے کہ) اس کو کوئی صلہ نہیں دیا کرتے ہیں، اور جو شخص دانش سے کام کرے، تو اس قسم کے جرم سے رہائی پاتا ہے، اور اپنے کام کا صلہ حاصل کر لیتا ہے، پس ہر دانشمند پر یہ واجب ہے، کہ وہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم  کی شریعت کے معنی سمجھ لے اور اس کے بعد شریعت پر علم سے عمل کرتا رہے، تاکہ وہ اپنے کام کے اس صلے کے قابل ہو سکے، جو بہشت کی حیثیت سے ہے، اور وہ اس جرم

 

۶۶

 

کے خوف سے آزاد ہو جائے جو دوزخ کی حیثیت سے ہے۔

جب اسلام میں یہی تھا، جو کچھ میں نے ذکر کر دیا، تو میں نے اس کتاب کی تالیف کرنا اپنے ذمہ ایک اہم فرض سمجھا، جو شہادت، طہارت، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد، ولادت، امر، نہی وغیرہ جیسی شرعی بنیادوں کی تشریح پر مشتمل ہے، اور ہم نے اس کتاب کا نام “وجہ دین” یعنی دین کا چہرہ رکھ لیا، اس لئے کہ انسان تمام چیزوں کو ان کے چہروں ہی سے پہچان سکتا ہے، چنانچہ جو دانشمند اس کتاب کو پڑھے، تو وہ دین کو (صحیح معنوں میں) پہچان سکے گا، اور پہچانے ہوئے (دین) پر عمل کرے گا، اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے اپنے کام کے معاوضے کے قابل ہو سکے گا۔

 

چاندرات ارشاد نمبر  ۶۴: ۱۱۴

 

۶۷

 

میلادُ الامام الحاضر

(از علّامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی)

 

کسی پیغمبر یا امام برحق کی جسمانی ولادت میں عموماً اہلِ زمانہ کے لئے اور خصوصاً مومنین کے لئے جو کچھ سعادت مندی پوشیدہ ہوتی ہے، اس کے متعلق اعتقاد کی بنیاد صر ف روایت اور قیاس ہی پر نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی استوار اور روشن حقیقت ہے، کہ اس کی دلائل سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہیں کر سکے گا، چنانچہ قرآنِ پاک کی روشنی میں اس حقیقت کی توضیح کی جاتی ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور أئمّۂ برحق علیہم السّلام کی ظاہری ولادت کی سعادتمندی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت کی مثال میں بیان فرمائی ہے، کیونکہ حکمتِ الٰھیہ کا تقاضا یہ تھا، کہ انبیاء اور أئمّۂ برحق علیہم السّلام کی جسمانی ولادت اور ان کی بشریت کی سعادتوں اور برکتوں کا ذکر ایک ایسے پیغمبر کی پیدائش کی مثال میں کر دیا جائے، جس کی ولادت اور بشریت کے متعلق بے معرفت لوگوں کو زیادہ سے زیادہ شک اور اعتراض ممکن تھا، وہ پیغمبر حضرت عیسیٰ

 

۶۸

 

علیہ السّلام تھے، کیونکہ ان کی پیدائش اور بشریت اس مطلب کے لئے ایک بہترین  مثال ہو سکتی تھی، اس لئے کہ مختلف زمانے کے منکرین نے دوسرے انبیاء واولیاء کی جسمانیّت پر جو کچھ اعتراض اٹھایا، وہ تو اکثر یہی ہوا کرتا تھا، کہ انہوں نے انبیاء و اولیاء کو اپنی طرح کے انسان قرار دے دیا، جس کی ترجمانی قرآن پاک اس طرح کر رہا ہے:۔

قَالُوْا مَاۤ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاۙ (۳۶: ۱۵) ان لوگوں نے کہا کہ تم تو کچھ بھی نہیں مگرہماری طرح (محض) معمولی آدمی ہو۔” اور حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش و بشریّت پر منکرین نے جو کچھ اعتراض اٹھایا، اس کے متعلق قرآنِ حکیم کا ارشاد یہ ہے: “قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْــٴًـا فَرِیًّا” (۱۹: ۲۷) لوگوں نے کہا کہ اے مریم! تم نے بڑے غضب کا کام کیا یعنی انہوں نے کہا کہ ہماری طرح کا انسان تو درکنار یہ مولود دوسرے سے حلال زادہ ہی نہیں، پس معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش اور بشریت انبیاء و اولیاء کی مجموعی زندگی کا وہ پہلو ہے، کہ جس کے متعلق اگر ایک طرف سے منکرین کے سخت سے سخت اعتراض  کا ذکر موجود ہے، تو دوسری طرف سے اس اعتراض کی تردید اور انبیاء و اولیاء کی پیدائش و بشریّت کے فیوض و برکات کا بھی انتہائی جامع الفاظ میں ذکر کر دیا گیا ہے، اور اس سلسلے میں قرآن پاک کا ایک ارشاد ہے۔ ” وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪ (۱۹: ۳۱) اور خدا نے مجھے برکت والا بنایا میں جہاں کہیں بھی ہوں۔” اس مطلب

 

۶۹

 

کی تشریح یہ ہے، کہ حضرت عیسیٰؑ مذکورہ اعتراض کی تردید میں اپنی پیدائش اور جسمانیّت کے فیوض و برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے برکت والا بنایا، پس میں جہاں جاؤں، جن لوگوں کے درمیان رہوں اور جن اشخاص کی طرف توجّہ کروں تو وہاں پر اور ان لوگوں کو برکت مل سکتی ہے، پھر ظاہر ہے کہ پیغمبر اور امامِ برحقؑ کے ظاہری وجود ہی امت و جماعت کے لئے باعثِ فیض و برکت ہے، اس لئے کہ “این ماکنت” کا اشارہ سب سے پہلے مکان اور جسمانی وجود کی طرف ہے، چنانچہ مذکورہ آیت سے یہ ظاہر ہے، کہ حضرت عیسیٰؑ جہاں رہتے تھے، ان کے ساتھ برکت تھی، تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ وہ برکت حضرت عیسیٰؑ سے جدا نہ تھی، اور صرف انہی کی خوشنودی سے کسی کو مل سکتی تھی۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے، کہ برکت کی کیفیّت وحقیقت کیا ہے؟

جس کا جواب یہ ہے، کہ برکت ایمان، جان، اولاد اور مال کی لازوالی اور زیادتی کا نام ہے، پس انسان کو جن چیزوں میں برکت کی ضرورت ہے، وہ بس یہی چیزیں ہیں، اور انسان کی ان چیزوں میں ہر ممکن برکت ہونے کا جو ذریعہ ہے، وہ پیغمبر اور امامِ برحقؑ کی ظاہری ہدایت ہے، یہی وجہ تھی، جو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنے اس قول میں یہ منطق پوشیدہ رکھی، کہ اپنے زمانے کی ساری برکات مجھ میں ہیں، یعنی فیوض و برکات شروع شروع میں ہدایت کی صورت میں ہوتی ہیں، تو معلوم ہوا کہ

 

۷۰

 

پیغمبر اور امامِ برحقؑ کا ظاہری وجود ہی سرچشمۂ ہدایت اور ذریعۂ برکت ہے۔

مزید برآن برکت کی ایک خاص حقیقت یہ بھی ہے، وہ ہے:

ایمان، جان، اولاد اور مال کے زیادہ سے زیادہ دینی اور روحانی فوائد حاصل ہونا، جو لازوال اور ابدی برکت ہے، اور یہ برکت دنیاوی برکتوں سے برتر ہے، پس انبیاء اور أئمّۂ برحق اپنی ہدایت کے ذریعہ مومنین کو یہی برکت دیا کرتے ہیں، اور اسی برکت کو حاصل کرنے کے لئے انہیں تاکید فرماتے ہیں۔

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش کے بارے میں ایک اور قرآنی جامع حقیقت یہ ہے، کہ انسانِ کامل (یعنی نبی اور ولی) پر تین موقعوں میں ملائکہ اور روحانین کا زیادہ سے زیادہ نزول ہوا کرتا ہے، وہ مواقع اس کے یومِ پیدائش، یومِ وفات اور یومِ بعث ہیں، چنانچہ قولِ قرآن ہے: “وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا (۱۹: ۳۳) اور تائید (یعنی نزولِ ملائکہ کا موقع) ہے، میرے لئے جس دن میں پیدا ہوااور جس روز رحلت کروں گا، اور جس روز زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔” سلام کے خاص معنی تائید یعنی نزولِ ملائکہ وارواح کے ہوتے ہیں، جس طرح خداتعالیٰ کے اس فرمان سے ظاہر ہے: ” تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْۚ-مِنْ كُلِّ اَمْرٍ  سَلٰمٌ ﱡ هِیَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (۹۷: ۰۴ تا ۰۵) وہ

 

۷۱

 

رات (یعنی شبِ قدر) ایسی ہے، کہ اس میں ملائکہ اور ارواح اپنے پروردگار کے اذن پر پورے عالمِ امر سے نازل ہوتے ہیں (اس لئے) وہ رات طلوعِ فجر تک موقعِ تائید ہے، پس ثبوت ہوا کہ نزولِ ملائکہ و اروح کا نتیجہ ہی سلام یعنی تائید ہے۔

پس امامِ زمانؑ کے یومِ پیدائش کی سعادت و برکت مذکورہ آیات کی روشنی میں معلوم کی جا سکتی ہیں، کیونکہ پیغمبر اور امامِ برحقؑ کا نور فی الاصل ایک ہی زندہ روح کی حیثیت سے ہے۔ والسلام

 

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۱۵

 

۷۲

 

پیش کش: محمود الحسن کوکب تبریزی            اہالیانِ پشاور کی طرف سے

پشاور ۲۳ نومبر ؁۱۹۶۴ء

خوش آمدید

(ترجمہ:۔ علّامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی)

 

امامِ عصر و زمان شہزادہ کریم آغاخان اسماعیلی پاک سلسلے کے پیشوائے اعظم دام برکاتہ، کی مبارک تشریف آوری کے موقع پر:۔

۱۔ اے زمانۂ حاضر کی امامت کا وارث! خوش آمدی ! اے ایمان کے راستے کے رہنما! خوش آمدی!

۲۔ اے خداشناسی کے دریا کے یکتا موتی! اے دلیل وبرہان کے بُرج کے چاند! خوش آمدی!

۳۔ اے وجود کے خزانے کے بھیدوں کا جاننے والا! اے اسرارِ کائنات کے دانا!خوش آمدی!

۴۔ اے بنی فاطمہؑ کی شریف ترین یادگار! اے اپنے آباؤاجداد کی محفل کے چراغ! خوش آمدی!

 

۷۳

 

۵۔ اےامامِ دین جعفر صادقؑ کے بیٹے کی لائق وفائق اولاد! اے شہرستانِ معرفت کا بادشاہ! خوش آمدی!

۶۔ اے کہ تیری تشریف آوری کی ضیا پاشیوں سے ہمارا روحانی خلوتخانہ منور ہور ہا ہے! ہماری اس بزم میں تو شمعِ روشن کی طرح آیا ہے، خوش آمدی!

۷۔ اے رسولِ امین کا قائم مقام! اے زمانے کا پیشوا! اے محفلِ ایمان کا مسندِ نشین! خوش آمدی!

۸۔ دین و مذہب کا بادشاہ، زمانے کا امام اور عصرِ حاضر کا رہنما! اے سرزمینِ پاکان کی قومیت کے آنکھوں کے نور! خوش آمدی!

۹۔ وطن کا ہر ذرّہ پُرنور اور پُرضیاء ہوا ہےجبکہ تو سورج کی طرح ضوفشانی کرتا ہوا اور جھلکتا ہوا (آیا) خوش آمدی!

۱۰۔ تیری تشریف آوری کی بدولت پشاور جلوہ گاہ طور بن گیا، اے خدا کی تجلّیوں کا مظہر!خوش آمدی!

۱۱۔ کوکب بصد آداب و نیاز تیری خدمت میں پہنچا ہے (اے) شہزادہ کریم آغاخان!خوش آمدی!

 

چاندرات ارشاد نمبر۶۴: ۱۱۵

 

۷۴

 

“قالو انا للہ وانا الیہ راجعون” کی تاویل کے بارے میں

ازکتاب وجہ دین (مصنف حکیم ناصر خسرو) کالم۔ ۴۹

(ترجمہ علّامہ نصیر الدین نصیرؔہونزائی)

 

ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ لوگوں کو  جسمانی حالت میں مصیبت اور مشکلات آتے وقت اس قول کا کہنا واجب ہےجیسا کہ خداوندِ تعالیٰ فرماتا ہے: الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ (۰۲: ۱۵۶) وہ لوگ جن پر جب کوئی مصیبت آپڑتی ہے، تو کہتے ہیں، کہ ہم خدا ہی کے ہیں اور اسی کی طرف واپس ہو جانے والے ہیں، عرب والے مشکل کاموں کو رات کی تاریکی سے تشبیہہ دیتے ہیں، اس لئے کہ اس کام سے بڑھ کر اور کوئی مشکل نہیں، جس کے گھیرے سے نکل جانے کا راستہ ہی لوگوں کو نظر نہ آئے، یہی تو تاریکی ہے، تاریکی دوطرح کی ہے، جسمانی تاریکی اور روحانی تاریکی، جسمانی تاریکی کی وجہ رات ہے، جسے سورج ہی روشن کر سکتا ہے، کیونکہ جسمانی تاریکی تو اسی سے روشن ہو سکتی ہے، اور وہ (سورج) جسمانی رکاوٹوں کو ختم کر ڈالتا ہے، لیکن روحانی تاریکی نادانی

 

۷۵

 

اور معقولات کے مشکل مسئلے ہیں، اس قسم کی تاریکی کے لئے روشنی خدا ہے، جو اساس (یعنی علیؑ) کی وساطت سے آتی ہے، اس کے بعد روحانی ظلمت میں چشمِ باطن (بصیرت) کا سورج امام الزمانؑ ہیں، جن کے سہارے ایسے سخت عقدے کھل جاتے ہیں، جب کوئی جسمانی ظلمت (مصیبت) اور سختی کسی کے سامنے آئے، تو اسے واجب ہے کہ مشیت ایزدی کے لئے راضی ہو جائے، اور جو کچھ اس کے لئے حکم ہوا ہو، اسے قبول کرے، اور کہے: “انا للہ وانا الیہ راجعون۔” یعنی ہم خدا کے ہیں، اور ہم نے قبول کر لیا، جو کچھ اس نے حکم کیا ہو، اگر ان مشکلات سے ہمیں کوئی ایسی جسمانی تکلیف پہنچے، جس کی وجہ سے ہم جسمانی طور پر مر جائیں، تو اس صورت میں ہم اس کی طرف واپس ہونے والے ہیں، اور تاویل میں مومن کو واجب ہے، کہ جب معقولات کا کوئی ایسا مسئلہ اس کے سامنے آجائے، جس کو وہ حل نہیں کر سکتا ہو، تو پھر اسی قول کو دہرائے، اس طریقہ پر (یعنی اس معنی میں) کہ “ہماری جانیں صاحب العصر کی ہیں، کیونکہ ہمیں روحانی زندگی اسی سے ملی ہے، اور مشکلات میں ہم اس کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔” نیز وہ مومن یہ سمجھے کہ “ہم اس مشکل مسئلے کو حل نہیں کر سکتے ہیں، اس کا علم امام زمانؑ کے پاس ہے۔”  تاکہ اس کو روحانی فیض کا دروازہ کھلے، اور ان مشکلات کو سمجھ سکے، اور وہ غیب اس پر کھلے گا، اور اگر نہ کھل جائے تویہ اپنی ہی کمزوری سمجھے، اور اقرار کرے، کہ جو شخص ایسی مشکلات

 

۷۶

 

کا چارہ جانتا ہو، اسے یہ زیب دیتا ہے، کہ روحانی مشکلات میں لوگ اس کی طرف رجوع کریں، اوریہ صرف مومن ہی کے لئے ایک شفا بخش بیان ہے۔ والسّلام۔

 

مذکورہ بالا آیت کی تاویل کی تحقیق

تاویل کا دوسرا نام حکمت ہے اور حکمت کاسمجھ لینا عوام کے لئے کوئی آسان بات نہیں، چنانچہ داعی حکیم ناصر خسرو قدّس اللہ سرّہ نے مذکورہ بالا آیت کی جو تاویل بیان فرمائی ہے، ہم ذیل میں اس کے اصولات کو ظاہر کر کے دکھاتے ہیں:۔

قول تعالیٰ: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ,الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ,أُولَـئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷) ، “ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے ضرور آزمائیں گے، اور (اے رسول) ایسے صبر کرنے والوں کو، کہ جب ان پر (ان مصیبتوں میں سے) کوئی مصیبت آپڑی، تو وہ (بے ساختہ) بول اٹھے، کہ ہم تو خدا ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، خوشخبری دے دو، کہ

 

۷۷

 

انھیں لوگوں پر ان کے پروردگارکی طرف سے صلوات اور رحمت ہیں، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔”

مذکورہ ارشادِ الٰہی کی تعلیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں سے ضرور امتحان لینے والا ہے، فرمایا گیا ہے کہ اس امتحان و آزمائش کی پانچ قسمیں ہیں، جن میں سے ہر ایک قسم کے روحانی و جسمانی دو دو پہلو ہیں، چنانچہ پہلا امتحان خوف کا ہے جس میں جسمانی اور روحانی قسم کے تمام خوف و ہراس شامل ہیں، دوسرا امتحان بھوک کا ہے، جس میں روحانی اور جسمانی غذاؤں کی کمی کا ذکر ہے، تیسرا امتحان مالوں کی کمی کے متعلق ہے جس میں روحانی اور جسمانی دونوں قسم کے مالوں کا ذکر ہے، چوتھا امتحان نفوس کی کمی کے بارے میں ہے، جس میں نفوسِ قدسیہ اور نفوسِ بشریہ دونوں قسموں کا بیان ہے، اور پانچواں امتحان پھلوں کی کمی کے باب میں ہے، جس میں روحانی اور جسمانی دونوں قسم کے پھلوں کا تذکرہ ہے۔

اب ان پانچ قسم کے امتحاناتِ الٰھیہ کے روحانی پہلوؤں کے بارے میں سنئے، کہ جس طرح مومن اپنے جسم کو تکلیف پہنچ جانے، اس کے ذلیل وخوار ہو جانے اور ہلاک ہوجانے کا خوف رکھتا ہے، اسی طرح وہ اپنی روح کو ایزا پہنچنے، اس کے خوار و رسوا ہوجانے اور فنا ہو جانے سے بھی ڈرتا ہے، پس ثابت ہوا کہ خوف روحانی اور جسمانی دو قسم کا ہے، اس کے بعد بھوک کا ذکر ہے، چنانچہ جسمانی بھوک جسم کے لئے غذا کی ضرورت محسوس

 

۷۸

 

ہونے کا نام ہے، اور روحانی بھوک روح کے لئے غذا کی ضرورت محسوس ہونے کا نام ہے، اور روحانی غذا عبادت و معرفت ہے، اس کے بعد مال کا ذکر ہے، ظاہری مال کی کمی یہ ہے کہ اس میں جسمانی ضروریات فراہم نہیں ہوتیں اور باطنی مال کی کمی یہ ہے کہ اس میں روحانی ضروریات پوری نہیں ہوتیں اورروحانی ضروریات علمِ حقیقت سے پوری ہو جاتی ہیں، اس کے بعد پھلوں کا ذکر ہے، ظاہری پھل یہی ہیں، جو درختوں سے حاصل ہوتے ہیں، اور باطنی پھل وہ ہیں، جو علم و دانش کے درختوں سے حاصل ہوتے ہیں، علم و دانش کے درخت امامِ زمانؑ اور اس کے حدود ہیں، جو کلماتِ تامّہ اور اسماءُ الحسنیٰ کی صورت میں مومنین کے قلب و روح میں موجود ہیں، اور ان روحانی درختوں کے پھل تاویل اور حکمت کی صورت میں پائے جاتے ہیں۔

پس جس مومن کو ان پانچ قسم کی جسمانی مصیبتوں ہی کی طرح ان پانچ قسم کی روحانی مصیبتوں کا بھی احساس ہوجائے، یعنی جب وہ روحانی قسم کا خوف محسوس کرنے لگے، جب روحانی بھوک یعنی عبادت و معرفت کی کمی محسوس کرے، جب اپنے آپ میں روحانی مال یعنی علمِ حقیقت کی کمی محسوس کرے، جب نفوسِ قدسیہ تک رسانہ ہو سکنے سے سخت پشیمان ہوجائے اور جب تاویل و حکمت سے قاصر رہ جانے کا احساس کرے، تو اسے گھبرانا نہیں چاہئے، بلکہ عزم و ارادہ اور صبر سے کام لیتے ہوئے یہ قول کہنا چاہئے:۔

انا للہ وانا الیہ راجعون= ہم خدا ہی کے ہیں اور

 

۷۹

 

ہم اسی کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔”  اس قول کی ایک حکمت یہ ہے کہ مومنین خدا کے ہیں اور خدا مومنین کا ہے، چنانچہ ارشادِ نبوّی ہے:۔ من کان للہ کان اللہ لہ= جو شخص خصوصیت کے ساتھ خدا کا ہو جائے، تو خدا بھی خصوصیت کے اس اسی کا ہو جاتا ہے۔

پس ایسا مومن نہ صرف جسمانی موت کے بعد خداکی طرف رجوع کرتا ہے، بلکہ وہ اس زندگی میں بھی خدا کی طرف رجوع کرسکتا ہے، وہ اس طرح کہ جب مومن پر کوئی جسمانی یا روحانی مصیبت آپڑتی ہے، تو اس کی نفسانی خواہشات اور حیوانی صفات کچھ وقت کے لئے یکسر خاموش ہو بیٹھتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ مومن اس وقت اس قابل ہو جاتا ہے، کہ امام زمان علیہ السّلام اور ان کے حدود کے ذریعہ خدائے تعالیٰ سے صلوٰۃ، رحمت اور ہدایت حاصل کر سکے، پس حقیقی مومن کو چاہئے، کہ روحانی یا جسمانی مصیبت کے پیش آتے وقت یہ قول کہا کرے، اور اس کے معنی و تاویل کو اسی طرح ہی سمجھے اور اس پر عمل کرے۔

جب حقیقی مومن یہ قول کہتا ہے، اور اس کے حقائق کو سمجھ لیتا ہے اور ان پر عمل کرتا ہے، تو وہ ان صبر کرنے والوں میں سے ہو جاتا ہے، جن کو حضرت رسول علیہ السّلام عملی طور پر خوشخبری سناتے ہیں، کہ انھیں لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے صلوٰت اور رحمت ہیں، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

تفسیر عمدۃ البیان میں حضرت امام جعفر الصادق سے روایت

 

۸۰

 

ہے کہ فرمایا رسولِ خدا صلعم نے، کہ جو کوئی چار چیزوں پر عمل کرے، وہ شخص البتہ بہشتیوں میں سے ہو، اوّل کہنا لا الہ الا اللہ، اور دوسری یہ کہ اگر کوئی نعمت حاصل ہو، تو کہے کہ الحمد للہ، اور تیسری یہ کہ اگر کوئی گناہ کرے، تو کہے کہ استغفر اللہ، اور چوتھی یہ کہ جس وقت کوئی مصیبت پہنچے، تو کہے، کہ انا للہ وانا الیہ راجعون، اس جیسی روایات تفسیر صافی اور کتاب دعائم الاسلام جلد اوّل، ص۲۲۳۔ ۲۲۴ میں بھی پائی جاتی ہیں۔

 

۸۱

 

کلامِ حکیم ناصر خسرو قدّس اللہ سرّہ العظیم

ازکتاب روشنائی نامہ

انسان کے شر ف کے بارے میں

مترجم:۔ علامہ نصیر الدین نصیرؔہونزائی

 

۱۔ تو خود را می ندانی کیستی تو

بگوتا در جہان بر چیستی تو

ترجمہ:۔ تو اپنے آپ کو نہیں جانتا ہے کہ تو کون ہے (اگر تو اپنے آپ کو جانتا ہے تو) بتا دے کہ دنیا میں تیرا قیام کس چیز پر ہے؟

مطلب:۔ تو اپنے آپ کو نہیں پہچانتا کہ تو کون ہے، تیری ابتدائی حقیقت کیا تھی اور آخری حقیقت کیا ہو گی، اگر تو اپنے آپ کو پہچانتا ہے، تو ہمیں بتا دے کہ اس دنیا میں تو کس بنیادی طاقت پر کھڑا ہے؟

۲۔ توئی تو بگوتا خود کدام است

تنی باجان ترا آخرچہ نام است

 

۸۲

 

ترجمہ:۔ اپنی انتہائی خودی بتا دے کہ کون سی ہے؟ تو جسم ہے یا جان، تیرا آخری نام کیا ہے؟

مطلب:۔ انسان گفتگو میں جب اپنے کسی عضو یا اپنی کسی چیز کی طرف معنوی اشارہ کرتا ہے، تو کہتا ہے کہ: “میرا” یا کہتا ہے کہ: “میری” جس میں دو چیزوں کی درمیانی نسبت کے معنی ہیں، اور جب وہ اپنی خودی اور انائیت کی طرف اشارہ کرتا ہے، تو”میں” کا لفظ استعمال کرتا ہے، جس میں انسان کی اس آخری حقیقتِ واحدہ کا ذکر ہے جو بہت سی چیزوں کو اپنانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور پھر ان سب کو چھوڑ کر مجرّد اور بے تعلق ہو سکتی ہے، چنانچہ تو اپنی آخری خودی کے بارے میں بتا دے کہ کونسی ہے، کیا تو یہی ظاہری جسم ہے یا جان؟ معرفتِ ذات کے آخری مقام پر تیری خودی کا کیا نام ہے؟

 

۳۔ تو این ریش و سرو سبلت کی بینی

تو پنداری توئی نے نے نہ اینی

ترجمہ:۔ جب تو اپنی اس داڑھی، مونچھ اور سر کو دیکھتا ہے، تو گمان کرتا ہے، کہ بس تو یہی جسم ہی ہے (اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں) نہیں نہیں تو یہ نہیں ہے۔

مطلب:۔ جب تو اپنے جسم اور اس کے اعضاء کو دیکھتا ہے، تو تیرا یہ گمان ہوتا ہے، کہ بس تو سب کچھ یہی جسم ہے، اور جسم ہی کو اپنی خودی و انائیت قرار دیتا ہے، میں کہتا ہوں کہ یوں نہیں، تو اپنی ابتدائی اصلیت

 

۸۳

 

اور آخری خودی میں جسم نہیں ہے، بلکہ تو کچھ اور حقیقت ہے۔

 

۴۔ طلسم و بندو زندانِ تواست این

بروچشمِ خرد بگشائی خودبین

ترجمہ:۔ یہ (جسم اور اس کے حواس) تیرے لئے جادو، بندھن اور قید خانے کی حیثیت سے ہیں، پس جا اور دیدۂ دانش کھول کر اپنے آپ کو دیکھ لے۔

مطلب:۔ جسمانی لذّتیں طلسم، بندھن اور قید خانے کی مثال ہیں، کہ انسان ان سے نکل کراپنی ذات کی معرفت تک نہیں پہنچ سکتا، لہٰذا جب تک علم و دانش کی آنکھ حاصل نہ کی جائے، تو نہ ان رکاوٹوں سے نکل جانے کا کوئی راستہ دیکھاجا سکتا ہے، اور نہ انسان کی آخری حقیقت معلوم ہو سکتی ہے۔

 

۵۔ تو صورت نیستی معنی طلب کُن

نظر در جسم و جانِ بوالعجب کُن

ترجمہ:۔ تو ظاہریت نہیں ہے (بلکہ معنویت ہے پس) تو معنویت طلب کر (اور اپنے اس) عجیب جسم اور جان کا دیکھا کر۔

مطلب:۔ انسان کی ظاہریت بادام کی بیرونی چھلکوں کی طرح ہے، اس کی معنویت یعنی جسمِ لطیف اور روحِ ناطقہ مغزِ بادام اور اس کے تیل کی طرح ہیں، پس تو اپنے جسمِ خاکی پر نظر نہ کر، بلکہ اپنے اس عجیب و غریب اور معجزانہ جسمِ لطیف اور روحِ ناطقہ کا مشاہدہ کر۔

 

۸۴

 

۶۔ زہی نادان کہ خود را جسم دانی

رہا کن این سخن زیرا کہ جانی

ترجمہ:۔ تو عجیب نادان ہے کہ اپنے آپ کو جسم سمجھتا ہے، اس بات کو چھوڑ دے، کیونکہ تو جان ہے۔

مطلب:۔ اگر انسان اپنی ساری کوششیں صرف جسم ہی کے لئے کر رہا ہو، تو گویا وہ اپنے آپ کو صرف جسم ہی سمجھتا ہے، حالانکہ اسے یوں نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ وہ تو دراصل جان یعنی روح کی حیثیت سے ہے۔

 

۷۔ کدامین جان نہ این جانِ طبیعی

نکو بنگر کہ چیزی بس بدیعی

ترجمہ:۔ کون سی جان، یہ جان ہیں جو طبعی ہے، اچھی طرح سے دیکھ لے کہ تو ایک بہت عجیب چیز ہے۔

مطلب:۔ میں نے جو کہا کہ تو جسم نہیں، بلکہ جان ہے، تو اس سے میری مراد وہ جان ہرگز نہیں، جو طبعی قسم کی ہے، یعنی وہ نفس نہیں، جو خشکی، تری، سردی اور گرمی کے اعتدال پر زندہ رہ سکتا ہے، پس اچھی طرح سے اپنی حقیقت کا مشاہدہ کر، کیونکہ تو ایک انتہائی معجزانہ چیز ہے۔

۸۔ توئی جانِ سخن گوئی حقیقی

کہ با روح القدّس دارد رفیقی

ترجمہ:۔ تو بحقیقت وہ بولنے والی جان ہے، جو روح القدّس

 

۸۵

 

کے ساتھ رہا کرتی ہے۔

مطلب:۔ تو وہ روح ہے، جو بحقیقت بولنے والی ہے، جس کو کہ روح ناطقہ کہا جاتا ہے، جو روح القدّس کی ہم نشین ہے، کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے، کہ کلام کرنا اس روح کی خاصیت ہے تو اس کی رفاقت اور ہمکلامی کے لئے ایک اور روح کا ہونا لازم آتا ہے، پس درست ہے کہ روحِ ناطقہ روح القدّس کی ہم نشین اور ہم کلام ہے۔

 

۹۔ زجا وازجہت ہستی منزہ

ببین تاکیستی انصافِ خددہ

ترجمہ:۔ مکان اور طرف سے تو پاک ہے، پس دیکھ لے اور خود ہی انصاف سے بتادے کہ تو کون ہے۔

مطلب:۔ جب یہ مانا گیا، کہ انسان بحقیقت جسم نہیں، بلکہ روح کی حیثیت سے ہے، تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان ایک لامکانی اور لاجہتی حقیقت ہے، کیونکہ روح مکان و زمان سے بالاتر ہے، پس معرفت کی آنکھ سے اپنے آپ کو دیکھ لے اور خود ہی انصاف سے بتا دے، کہ تو کون ہے اور تیری ہستی کی آخری حقیقت کیا ہے۔

 

۱۰۔ نگرتا در گمان اینجانیفتی

قدم بفشارتااز پانیفتی

ترجمہ:۔ (چشمِ باطن سے) دیکھ لیا کر، تاکہ تو اس مقام

 

۸۶

 

پرہی گمان میں گر نہ جائے، قدم جما کر چل، تاکہ تو گر نہ پڑے۔

مطلب:۔ معرفتِ ذات کی ابتدائی منزل علم الیقین ہے، درمیانی منزل عین الیقین ہے اور آخری منزل حق الیقین ہے، اور علم الیقین کی منزل سے پہلے جو راستہ آتا ہے، وہ گمان ہی گمان ہے، یعنی وہ ایک تاریک راستہ ہے، اور اگر اس تاریکی میں خدا کے نور نے ہدایت نہ فرمائی، تو انسان گرجانے کا خطرہ در پیش رکھتا ہے، پس انسان کو چاہیے، کہ دیدۂ دانش سے کام لے کر ذریعۂ ہدایت کو پہچان لیا کرے، اور قدم جما کر منازلِ یقین کی طرف آگے بڑھتا جائے۔

 

۱۱۔ بچشم سرجمالت دیدنی نیست

کسی کو دید رویت چشم معنیست

ترجمہ:۔ سر کی آنکھ سے تیرا جمال دکھائی دینے والا نہیں، وہ شخص جس نے تیرا (یہ روحانی) چہرہ دیکھا (کوئی نہ تھا، مگر) چشمِ حقیقت ہی ہے۔

مطلب:۔ اس ظاہری آنکھ سے تیرا روحانی حسن و جمال دیکھا نہیں جاسکتا، پھر ایسا کوئی شخص کہاں ہے، جس نے اپنی ظاہری آنکھ سے اپنا یہ جلوہ دیکھاہو، مگر یہی ہے کہ دیدۂ حقیقت سے یہ جلوہ دیکھا گیا ہے۔

 

۱۲۔ صفاتت از صفتہائی خدائیست

ترا این روشنی زان روشنائیست

 

۸۷

 

ترجمہ:۔ تیری (روحانی) صفات خداتعالیٰ کی صفات سے ہیں، تجھ کو یہ (علم و دانش کی روحانی) روشنی اس (خدا کی ہمہ گیر و ہمہ رس) روشنی سے حاصل ہے۔

مطلب:۔ جب قرآن ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے، کہ خدا تعالیٰ عقلانی و روحانی طور پر کائنات و موجودات کا نور ہے، تو لازماً وہ مہربان مالک انسانی صفات کا بھی نور ہے، پس انسان کی یہ باطنی روشنی دراصل خدا ہی کی روشنی ہے، اور اس روشنی کے زیرِ اثرانسان کی جو پسندیدہ صفات ہوتی ہیں، گویا وہ خدا ہی کی اپنی صفات ہیں۔

 

۱۳۔ ہمی بخشد کزو چیزی نکاہد

ترا داد ودہد آنرا کہ خواہد

ترجمہ:۔ تجھ کو وہ (اپنی صفات سے صفات اور اپنی روشنی سے روشنی) کچھ اس طرح عطا فرماتا ہے کہ (اس کی صفات میں) کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، تجھے عطا فرمایا، اور اس طرح وہ جس کو چاہے عطا فرماتا ہے۔

مطلب:۔ جب خداتعالیٰ اپنی صفات اور اپنی روشنی میں سے اپنے خاص بندوں کو صفاتِ الٰہیہ اور نورِ ہدایت عطا فرماتا ہے تو اس کی ذات و صفات میں ہرگز کوئی کمی واقع نہیں ہوتی اور اس کے اختیار میں ہے کہ وہ جس کو چاہے عطا کرے، جس طرح خود تجھے یہ روحانی نعمتیں عطا کی گئی تھیں۔

 

۸۸

 

۱۴۔ زنورِ اوتو ہستی ہمچو پرتو

وجود خود بپرداز و تو اوشو

ترجمہ:۔ تو اس کے نور سے عکس (یعنی روشنی) کی طرح ہے، پس اپنے وجود کو فنا کر دے، اور تو وہ ہو جا (یعنی خدا کی بقا میں ہمیشہ کے لئے باقی رہا کر) ۔

مطلب:۔ خدا تعالیٰ گویا نورانیت کا سورج ہے، اور تو اس کا عکس ہے، جو آئینے میں نظر آتا ہے، پس اگر تو چاہتا ہے، کہ یہ عکس سورج کے ساتھ مل کر ایک ہو جائے، تو اپنے وجود کے آئینے کو ختم کر ڈال، یعنی جب تیری خودی اور انائیت خدا کے نور تک پہنچ چکی ہےتو اپنی ہستی کو مٹا دے، تاکہ دوئی ختم ہو کر وحدت ہی وحدت رہے۔

 

۱۵۔ حجابت دور دارد گر نجوئی

حجاب از پیش برداری تو اوئی

ترجمہ:۔ اگر تو اسے ڈھونڈے، تو وہ تیرے لئے اپنا پردہ ہٹا دے گا (اور جب) تو نے پردہ کو ہٹا دیا، تو (یہ حقیقت تجھ پر منکشف ہو گی کہ) تو خود ہی وہ ہے۔

مطلب:۔ اگر تو خدا کو ڈھونڈے، تو وہ ایسا مہربان ہے، کہ و ہ خود ہی اپنا پردہ تیرے سامنے سے ہٹا دے گا، اور جب تو نے اسی طرح خدا کی مدد سے پردے کو ہٹادیا، تو یہ حقیقت تجھ پر کھل جائے

 

۸۹

 

گی، کہ فی الاصل تیری خودی اور انائیت خدا سے کبھی جدا ہی نہیں ہوئی ہے۔

 

۱۶۔ بہشت ودوزخی دیگر جزین نیست

جزین داند کہ اوباریک بین نیست

ترجمہ:۔ اس حقیقت کے سوا کوئی بہشت اور کوئی دوزخ ہی نہیں، اور جو شخص باریک بین نہ ہو، تو وہ بہشت اور دوزخ کو، اس کے سوا سمجھتا ہے۔

مطلب:۔ یہی علم و معرفت اور خدا کی وحدت حقیقی بہشت ہے، اور اسی میں وہ تمام لذتیں اور راحتیں مجموع ہیں، جن کا ذکر قرآن وحدیث میں ہے، اور اس وحدت سے محروم رہ جانا ہی دوزخ ہے، جس میں ہر قسم کا غذا موجود ہے، جس طرح خدا و رسول نے اس کا بیان فرمایا ہے، والسلام۔

 

چاندرات ارشاد نمبر  ۶۴: ۱۱۸

 

۹۰

 

قصیدۂ منتخب از دیوانِ قائمیات

منجملۂ اشعاررئیس حسن

(مترجمۂ: علامہ نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی)

 

۱۔ ہردل کہ با رضایِ امام آشنا شود

بے ہیچ شک نشانۂ امرِ خدا شود

ترجمہ:۔ ہر دل جو امامِ زمان علیہ السّلام کی خوشنودی سے واقف ہو جائے (اس میں) کوئی شک ہی نہیں کہ وہ خدا کے امر کا نشانہ (یعنی توفیق و ہدایت نازل ہونے کا مقام) بن جاتا ہے۔

 

۲۔ آن بندہ باشد آنکہ بمعنی و منزلت

برساکنانِ عالمِ جان بادشاہ شود

ترجمہ:۔ وہ بندہ (اس خوشنودی کی بدولت) اس قابل ہو جاتا ہے، کہ وہ حقیقت اور مرتبت میں روحانی عالم کے باشندوں پر پادشاہ ہو گا۔

 

۹۱

 

۳۔ جائے رسد بقوۂ روح القدّس کہ خاک

در زیرِ نعلِ مرکبِ اوکیمیا شود

ترجمہ:۔ وہ شخص روح القدّس کی قوّت و تائید سے ایک ایسے (بلند) مقام پر پہنچتا ہے، کہ اس کے گھوڑے کے نعل کے نیچے مٹی کیمیا (یعنی سونا) بن جاتی ہے۔

 

۴۔ نفسِ شریفِ اوبمعانی درارتقاء

زین عشوۂ شواغلِ حس مرتضا شود

ترجمہ:۔ اس کا شریف نفس (یعنی روحانی مشاہدہ) حقائق کے ذریعہ ارتقاء و عروج کے سلسلے میں حسی مشغلوں کے اس فریب سے (گزر کر) بلند ہو جاتا ہے۔

 

۵۔ نورِ ضمیر اوبکرامات و معجزات

خورشیدِ اوج کنگرۂ کبریا شود

ترجمہ:۔ اس کے ضمیرکا نور (روحانی) کرامات و معجزات (کے سلسلے) میں بزرگی کی چوٹی کی بلندی کا سورج بن جاتا ہے۔

 

۶۔ انصارِ دین و دعوتِ حق را دراعتقاد

ہم پیشوایٔ مطلق و ہم مقتدا شود

ترجمہ:۔ وہ شخص اعتقادی طور پر دین کے مدد گاروں اور دعوتِ حق کرنے والوں کے لئے حقیقی پیشوا اور رہنما ہو جاتا ہے (یعنی اس کی روح کی اصلیّت امامِ زمانؑ کی ہستی میں موجود نظر آنے لگتی ہے)

 

۹۲

 

۷۔ ہان اے حسن نہ موسمِ آن است کز ہوس

جان و دلِ توجعبۂ تیرِ ہوا شود

ترجمہ:۔ خبردار اے حسن! (اب) وہ وقت نہیں، کہ حرص و ہوس کی وجہ سے تیری جان اور دل نفسانی خواہشات کے تیروں کا ترکش ہوجایا کرے۔

 

۸۔ یاباز فکرووہم تو درکسبِ جاہ ومال

موقوف این نشیمنِ خوف و رجا شود

ترجمہ:۔ یا (یہ کہ) تیری فکر اور وہم کا باز (دنیوی) عزّت اور مال کمانے کے لئے اس خوف اور امید کے ٹھکانے میں ٹھہرا رہے۔

 

۹۔ یا ہمتِ توازرہِ آزونیاز وحرص

مشتاقِ این سرایِ مجازو فنا شود

ترجمہ:۔ یا (یہ کہ) طمع، احتیاج اور حرص کے طریقے پر تیری ہمت اس مجاز و فنا کے گھر (یعنی دنیا) کی مثال ہو جایا کرے۔

 

۱۰۔ می دان کہ حبِ جاہ بلائی بود عظیم

کابلیس باشد آنکہ بآن مبتلا شود

ترجمہ:۔ جان لے کہ (دنیوی) عزّت کی محبت ایک عظیم بلا ہے، کیونکہ جو شخص اس میں گرفتار ہو جائے، تو وہ ابلیس بن جاتا ہے۔

 

۹۳

 

۱۱۔ موراست حبِ مال مرورا امان مدہ

کان مورمار گرد دومار اژدھا شود

ترجمہ:۔ دولت کی محبت گویا حریص چیونٹی ہے، تو (اپنے اندر) اس کو نہ رہنے دے، کیونکہ وہ چیونٹی تو سانپ بن جاتی ہے، اور وہ سانپ اژدھا بن جاتا ہے۔

 

۱۲۔ وقت است اگر دل تو بتوفیق ذوالجلال

زین کائناتِ عالم خاکی جدا شود

ترجمہ:۔ اگر خدائے بزرگ کی توفیق سے تیرا دل اس عالمِ خاکی کی کائنات سے یکسو ہو جائے تو عین موقع ہے۔

 

۱۳۔ ذاتِ تو درجماعتِ قائم باختیار

شائستۂ متابعتِ اولیا شود

ترجمہ:۔ (دران حال) تیری ذات جماعت قائمہ کے ساتھ منتخب ہو کر اولیاء اللہ (یعنی ائمۂ برحق) کی پیروی کی قابل ہو گی۔

 

۱۴۔ تائیدِ نور بخش خداوندِ حق ترا

بخشندۂ سعادتِ بے منتہا شود

ترجمہ:۔ (پھر اس وقت) امام برحق کی وہ تائید جو نور عطا کر دینے والی ہے، تجھے کبھی ختم نہ ہونے والی سعادت بخشے گی۔

 

۱۵۔ صاحب زمان کہ بہر سجود جنابِ او

ہر لحظہ پشتِ عالمِ اعلیٰ دوتاشود

 

۹۴

 

ترجمہ:۔ صاحب زمانؑ (کی یہ شان ہے) کہ ان کے حضور میں سجدے کے لئے عالمِ بالا کی پشت ہمیشہ جھکی ہوئی ہوتی ہے۔

 

۱۶۔ مولا محمدؐ آنکہ اثرِ خاکِ پای او

در چشمِ عقل سرمۂ کشف  الضطا شود

ترجمہ:۔ مولانا محمد علیہ السّلام وہ ہیں، جن کی خاک پا کا اثر عقل کی آنکھ سے (روحانی تاریکی کا) پردہ ہٹا دینے والا سرمہ بن جاتا ہے۔

 

۱۷۔ ای آنکہ بے اجابتِ تونیست دروجود

کز ہیچ باب حاجتِ عالم روا شود

ترجمہ:۔ اے وہ ہستی! جو آپ کی قبولیت کے سوا یہ امر ممکن اور موجود نہیں، کہ دنیا والوں کی حاجت کسی اور سبب سے روا ہو جائے۔

 

۱۸۔ گرسایۂ سخط فگنی برفرشتۂ

دیوِ زمانہ گرددو کارش ہبا شود

ترجمہ:۔ اگر آپ کسی فرشتے پر ناخوشنودی کا سایہ ڈالیں، تو وہ زمانے کا شیطان بن جاتا ہے، اور اس کا (تمام سابقہ نیک) عمل ناچیز ہو جاتا ہے۔

 

۱۹۔ ور دیورا بچشمِ عنایت کنی نگاہ

ہمچون فرشتہ معدنِ صدق و صفا شود

 

۹۵

 

ترجمہ:۔ اور اگر آپ شیطان کو مہربانی کی نظر سے دیکھیں، تو وہ فرشتہ ہی کی طرح صدق و صفا کی کان بن جاتا ہے۔

 

۲۰۔ زندان سرائےِ حادثہ بربندگانِ تو

از رحمتِ تو روضۂ دارالبقا ء شود

ترجمہ:۔ (اگر آپ چاہیں تو) حادثات کا قید خانہ (یعنی یہ دنیا) آپ کے بندوں کے لئے آپ کی رحمت سے عالمِ بقا کی بہشت بن جاتا ہے۔

 

۲۱۔ این بندۂ ضعیف کہ از ترسِ فعل خویش

رنگ رخش ہمی بصفت کہرُبا شود

ترجمہ:۔ (آپ کا) یہ عاجز بندہ ایسا ہے، کہ اپنے عمل کے خوف سے اس کے چہرے کا رنگ کہربا کے رنگ کی طرح ہو جاتا ہے۔

 

۲۲۔ از غایتِ فسادِ خیالات ہر زمان

بروی ہمی صواب دوگیتی خطا شود

ترجمہ:۔ ہمیشہ خیالات کی انتہائی خرابی کی وجہ سے اس کے دونوں جہان کا درست کام غلط ہو جاتا ہے۔

 

۲۳۔ لیکن بعزو قدرمطیعانِ عہد تو

گیرد امید با سر ورد و دعا شود

ترجمہ:۔ لیکن وہ آپ کے زمانے کے حقیقی فرمانبرداروں کی

 

۹۶

 

عزّت و قدر کے وسیلے سے توقع رکھتا ہے، اور ورد و دعا کے خیال میں رہتا ہے۔

 

۲۴۔ تابوکہ از شفاعتِ ایشان دران نفیس

کین مرغِ جان ازین قفسِ تن جدا شود

ترجمہ:۔ تاکہ اُن کی سفارش حاصل ہو اس وقت جبکہ روح کا پرندہ جسم کے اس قفس سے نکل جاتا ہے۔

 

۱۔ ۳۔ ۶۷

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۲۲

 

۹۷

 

جلوۂ نورِ خدائی پیشوایِ ملّتی

(مترجمۂ علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی)

 

یہ نشاط آوری تواریخی واقعہ ۲۴ فروری ۱۹۱۱کا ہے، کہ جب امام مولانا سلطان محمد شاہ (علیہ الصلوٰۃ والسلام) علیگڑھ یونیورسٹی کے امدادی چندہ کے لئے شہرِ لاہور میں تشریف فرما ہوئے، تو اسلامیہ کالج لاہور کی جانب سے امامِ عالی مقام کی خدمتِ اقدس میں حسبِ ذیل نظم پڑھی گئی:۔

 

۱۔ مرحبا ای ساربانِ محمل مامرحبا

مرحبا ای رہبروای خضر برنامرحبا

ترجمہ:۔ مرحبا ای ہمارے ملکی وملی ترقی کی سواری کے ساربان!مرحبا!!مرحبا ای ہمارے قومی پیشوااور جوان سال خضر!مرحبا!!

 

۲۔ “قم باذن اللہ” گفتی مردگانِ قوم را

مرحبا ایجادِ اعجازِ مسیحا مرحبا

ترجمہ:۔ آپ نے “قم باذن اللہ” (یعنی خدا کے حکم سے اٹھ کھڑے

 

۹۸

 

ہو جاؤ یعنی زندہ ہو جاؤ) کہہ کر گویا ہماری قوم کے ان مُردوں کو زندہ کر دیا، جو پس ماندگی اور جہالت کی موت مر چکے تھے، مرحبا حضرت عیسیٰ مسیح کے معجزات کر دکھانے والے !مرحبا!!

 

۳۔ مرحبا ای ساقیٔ میخانۂ علم و ہنر

مرحبا ای ہادیِ گمگشتانِ بے خبر

ترجمہ:۔ مرحبا اے علوم و فنون کے میخانے کے ساقی! مرحبا ای وادیٔ لاعلمی میں کھوئے ہوؤں کو ازسرِنو شاہراہِ ترقی پر گامزن کر دینے والے!!

 

۴۔ نامِ نیکت کارِ نیکت درجہان باشد مدام

فخرِ دین و فخرِ ایمان بانیٔ دارالسلام

ترجمہ:۔ آپ کا نیک نام اور آپ کے اچھے کام رہتی دنیا تک یاد گار رہیں گے، آپ ہمارے دینِ اسلام اور ایمان کے لئے باعثِ فخرومباہات ہیں، اور آپ شہردارالسّلام کے بانی ہیں۔

 

۵۔ میرِ عالی گوہری و رہنمائی ملتی

جلوۂ نورِ خدائی پیشوائی ملتی

ترجمہ:۔ آپ ہمارے عالی نسب سردار (یعنی آلِ محمد) ہیں۔ اور ہماری مقدّس ملت کے رہنما ہیں، آپ خداوندِ تبارک و تعالیٰ کے عالمِ کبیر نورِ ہدایت کی جلوہ گاہ ہیں اور ہماری پاک ملتِ اسلامیہ کے پیشوا ہیں۔

 

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۲۷

 

۹۹

 

خانہ اور صاحبِ خانہ

ازکلیاتِ شمس تبریزی

(ترجمۂ و شرح از علامہ نصیرالدین نصیرؔہونزائی)

 

۱۔ ای قوم بحج رفتہ کجائید کجائید

معشوق ہمین جاست بیائید بیائید

ترجمہ:۔ اے لوگو! جو (بطریقِ ظاہر خانۂ کعبہ کے) حج کے لئے گئے ہو، کہاں ہو؟ کہاں ہو؟ تمہارا حقیقی معشوق تو یہیں ہے، آجاؤآجاؤ۔

 

۲۔ معشوقِ تو ہمسایہ و دیوار بدیوار

دربادیہ سرگشتہ شما درچہ ہوائید

ترجمہ:۔ تمہارا حقیقی محبوب تو تمہارے پڑوس ہی میں ہے (اور وہ تم سے اس قدر نزدیک ہے کہ) اس کے اور تمہارے

 

۱۰۰

 

گھر کی دیوار ایک ہے، تم حیران اور پریشان ہو کر صحرا و بیابان میں کس چیز کی آرزواور جستجو کر رہے ہو؟

 

۳۔ گرصورتِ بے صورتِ معشوق ببینید

ہم خواجہ وہم خانہ و ہم کعبہ شمائید

ترجمہ:۔ اگر تم حقیقی معشوق کی غیر مشخصی صورت (کے غیر فانی جلال و جمال) دیکھو گے (تو تمہیں یقین ہی کرنا پڑے گا کہ درحقیقت) اس گھر کے مالک بھی، وہ گھر بھی اور وہ کعبہ بھی تم خود ہی ہو۔

 

۴۔ وہ بارازآن راہ بدان خانہ برفتید

یک بار ازین خانہ برین بام برآئید

ترجمہ:۔ تم دس دفعہ اس (دوردراز جسمانی) راستے سے جا کر اس گھر میں دیکھ چکے (اب کم از کم) ایک دفعہ (اپنے وجود کے) اس گھر سے (روحانیّت کی) اس چھت پر بھی چڑھ کر ذرا دیکھو تو سہی۔

 

۵۔ آن خانہ لطیف است نشانہاش بگفتند

از خواجۂ آن خانہ نشانی بنمائید

ترجمہ:۔ (تمہارے کہنے کے مطابق) وہ گھر (یعنی خانۂ کعبہ) جس کے نشانات تم بتا چکے، خوبصورت ہی سہی، مگر تم اس گھر کے مالک کا بھی کوئی نشان ہمیں بتا دو (کہ تم نے صرف گھر ہی دیکھا اور گھر کے مالک کو نہیں دیکھا؟)

 

۱۰۱

 

۶۔ یک دستۂ گل کو اگر آن باغ بدیدید

یک گوہر جان کو اگر از بحرِ خدائید

ترجمہ:۔ اگر تم نے (علم و معرفت کے) اس باغ کو دیکھ پایا ہے، تو ہمیں (بطورِ نمونہ) کوئی گلدستہ دکھا دو۔ اور اگر تم (اپنے دعویٰ کے مطابق) خدا کے نورانی سمندر سے ہو (یعنی اگر تم معرفتِ ذات کے سمندر کے غواص ہو) تو ہمیں کوئی روحانی موتی دکھا دو (تاکہ ہم تمہارے کہنے پر باور کریں) ۔

 

۷۔ بااین ہمہ، آن رنجِ شما گنجِ شما باد

افسوس کہ بر گنج شما پردہ شمائید

ترجمہ:۔ ان تمام (خامیوں) کے باوجود دعا ہے، کہ تمہاری وہ (ساری) تکالیف تمہارے لئے (روحانی) خزانے کی صورت اختیار کرجائیں! مگر افسوس (اس کے لئے کیا کیا جائے!) کہ تم خود ہی اپنے اس گنجِ گرانمایہ کے سامنے پردہ (بن کر بیٹھے) ہو۔

 

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۲۹

 

۱۰۲

 

عملی تصوّف کے روشن حقائق

منتخب از کلیاتِ شمس تبریزی

(مترجمۂ علامہ نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی)

 

۱۔ ما آتشِ عشقیم کہ در موم رسیدیم

چون شمع بپروانۂ مظلوم رسیدیم

ترجمہ:۔ ہم عشق کی آگ ہیں، جو موم بتی میں پہنچ گئے، شمع (کے شعلے) کی طرح بیچارہ پروانے میں پہنچ گئے۔

 

۲۔ یک حملۂ مردانۂ مستانہ بکردیم

تاعلم بدادیم بمعلوم رسیدیم

ترجمہ:۔ ہم نے (اپنے نفس کے خلاف) مست بہادروں کی طرح ایک بھر پور حملہ کر دیا، یہاں تک کہ ہم نے اپنا علم دے دیا، اور ہم معلوم (یعنی معشوقِ حقیقی) تک پہنچ گئے۔

 

۱۰۳

 

۳۔ آن مہ کہ نہ بالاست نہ پستست بتابید

وانجاکہ نہ محمود نہ مذموم رسیدیم

ترجمہ:۔ وہ (روحانی اور لامکانی) چاند طلوع ہوا، جو نہ آسمان میں ہے نہ زمین پر۔ (جس کی تابناک روشنی میں) ہم وہاں پہنچ گئے، جہاں اچھے اور برے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

 

۴۔ تاحضرتِ آن لعل کہ در کون نگنجد

برکوریٔ ہر سنگدلِ شوم رسیدیم

ترجمہ:۔ ہر سنگدل نا اہل شخص اپنے اندھا پنے ہی میں رہا، اور ہم اس لعل (یعنی گوہرِ عقل) کے حضور تک پہنچ گئے، جو (اپنی وسعتِ نورانیّت کی وجہ سے) کائنات میں سمویا نہیں جاتا۔

 

۵۔ باآیتِ کرسی بسوی عرش پریدیم

تاحی بدیدیم بقیّوم رسیدیم

ترجمہ:۔ آیتہ الکرسی کے ذریعے (جس میں اسمِ اعظم کے عظیم ترین اسرار پوشیدہ ہیں) ہم نے عرشِ اعلیٰ کی طرف پرواز کیا (کیونکہ) جب ہم نے حیّ (یعنی زندہ انسانِ کامل) کو دیکھ پایا اور پہچان لیا، تو ہم قیّوم تک پہنچ گئے۔

 

۶۔ امروز ازآن باغ چہ بابرگ ونوائیم

تاظن نبری خواجہ کہ محروم رسیدیم

ترجمہ:۔ آج جبکہ ہم اس (علم و عرفان کے) باغ کی بدولت ساز و

 

۱۰۴

 

سامان کے ساتھ ہیں، تو اے خواجہ! تو یہ گمان نہ کرنا، کہ ہم (اس باغ سے) محروم آئے ہیں۔

 

۷۔ ویرانہ ببومان بگذاریم چو بازان

مابوم نہ ایم ارچہ درین بوم رسیدیم

ترجمہ:۔ ہم باز اور شاہین کی طرح یہ کھنڈر (یعنی دنیا) الووں کے لئے چھوڑ دیتے ہیں (کیونکہ کھنڈر الووں کی جگہ ہے اور) ہم الونہیں ہیں، اگرچہ ہم اس زمین پر اتر آئے ہیں۔

 

۸۔ زنار گستیم برقیصرِ رومی

تبریز ببر قصہ کہ در روم رسیدیم

ترجمہ:۔ (ہماری دینی غیرت و مردانگی کا یہ عالم ہے کہ) ہم نے قیصرِ روم ہی کے سامنے زنار توڑ دی۔ اے تبریز! تو یہ قصّہ دنیا کو سنا دے، کہ ہم (اب) روم میں پہنچ گئےہیں۔

 

چاندرات ارشادنمبر ۶۴: ۱۳۲

 

۱۰۵

 

وہ نور جس کے ذریعہ خدا دیکھا جا سکتا ہے

منتخب ازکلیاتِ شمس تبریزی

ترجمہ از علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی

 

دلی یا دیدۂ عقلی تو یا نورِ خدا بینی

چراغ افروزِ عشاق تو، یا خورشیدِ آئینی

ترجمہ:۔ (اے حقیقی معشوق!) آپ دل ہیں یا عقل کی آنکھ!یا آپ وہ نور ہیں، جس کے ذریعے خدا دیکھا جا سکتا ہے!آپ عاشقوں کا چراغ روشن کرنے والے ہیں یا دین کا سورج!

 

چونامت بشنوددلہا نگنجددرمنازلہا

شود حل جملہ مشکلہابنورِ لم یزل بینی!

ترجمہ:۔ جب (عاشقوں کے) قلوب آپ کا (حقیقی) نام سنتے ہیں تو خوشی سے پھولے نہ سماتے ہیں (اور) اس نور کی بدولت، جس کے ذریعہ خدا دیکھا جاسکتا ہے، تمام مشکلات حل ہو جاتی ہیں۔

 

۱۰۶

 

بگفتم آفتابا، تو مرا ہمراہ کُن باتو

کہ جملہ دردہارا تو شفا گشتی و تسکینی

ترجمہ:۔ میں نے کہا کہ اے سورج! آپ مجھے اپنا ساتھی بنا لیجئے، کیونکہ آپ ہر قسم کے دکھ درد کے لئے شفا اور تسکین ہیں۔

 

بگفتا: جان ربایم من قدم برعرش سایم من

بآب وگلِ کم آیم من مگر دروقت و ہرحینی

ترجمہ:۔ انہوں نے فرمایا، کہ میں بڑا جان لیواہوں (اور میری عالی مرتبتی کی یہ شان ہے کہ) میں عرشِ معلیٰ پر قدم رکھتا ہوں، پانی اور گارے میں بہت کم آتا ہوں، مگر موقع پر اور ہر وقت۔

 

چوتو از خویش آگاہی ندانی کرد ہمراہی

کہ آن معراجِ اللّٰھی نیابدجز کہ مسکینی

ترجمہ:۔ جب تو صرف اپنے آپ سے خبر رکھتا ہے، تو تُو میری رفاقت نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وہ معراجِ الٰہی (یعنی میری رفاقت) کسی عاجز و مسکین بندے کے سوا دوسرے کو حاصل نہیں ہوتی۔

 

تو مسکینی درین ظاہر درونت نفسِ بس قاہر

یکی سالوسکِ کافر کہ رہزن گشت رہ شینی

ترجمہ:۔ تو اس ظاہریت میں مسکین ہے، مگر تیرے باطن میں نفس بڑا زبردست ہے، وہ ایک ایسا مکار کافر ہے کہ وہ ایک راہ نشین (یعنی بھکاری تھا، مگر اب) ڈاکو بن گیا ہے۔

 

۱۰۷

 

مکن پوشیدہ از پیری، چنین مو درچنین شیری

یکی پیری کہ علمِ غیب زیرِ اوست بالینی

ترجمہ:۔ ایسے دودھ میں جو یہ بال گرپڑا ہے، وہ کسی پیرو مرشد سے نہ چھپایا کر، خصوصاً ایک ایسے پیرو مرشد سے، جس کے تحت علمِ غیب تکئے کی طرح مستعمل ہے۔

 

طبیبِ عاشقان است اوجہان راہمچو جان است او

گدازِ آہنان است او بآہن دادہ تلئینی

ترجمہ:۔ وہ عاشقوں کے طبیب ہیں، وہ عالم کی روح ہیں، وہ لوہوں (یعنی سخت دلوں) کے پگھلانے والے ہیں، جنہوں نے لوہے کو (پگھل کر) نرم ہو جانے کی خاصیت بخشی ہے۔

 

کُند درحال گلِ راز، دہد درحال تن را سر

ازو انوارِ دین یابدردان و جانِ بےدینی

ترجمہ:۔ (ان کی یہ شان ہے کہ) وہ فوراً ہی گارے کو سونا بنا دیتے ہیں اور فوراً ہی جسم کو سر عطا کر دیتے ہیں (جب انہوں نے عنایت فرمائی تو) انہی کے ذریعہ کسی بے دین شخص کی روح اور جان کو بھی انوارِ دین نظر آنے لگتے ہیں۔

 

وران دہلیز و ایوانش، بیانیگر تو برہانش

شدہ ہر مردہ از جانش یکی ویسی ورامینی

ترجمہ:۔ ان کی دہلیز اور شاہی محل میں آ کر ان کی (کرامت و توانائی کی) دلیل دیکھ لیا کر، کہ ہر مردہ ان کی معجزانہ روح کی بدولت ویس اور امین

 

۱۰۸

 

ہو گیا ہے۔

 

زشمس الدین تبریزی دلا این حرف می بیزی

بامیدی کہ باز آید ازان خوش شاہ شاہینی

ترجمہ:۔ اے دل! تو ان باتوں کی چھان بین شمس الدین تبریزی ہی کے بارے میں کرتا ہے، اس توقع سے کہ ان عالی مرتبت بادشاہ کی طرف سے پھر کوئی شاہین آجائے۔

 

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۳۵

 

۱۰۹

 

اپنی ذات کی پہچان کے بارے میں

ازروشنائی نامۂ حکیم سیدنا پیر ناصر خسرو قدس اللہ سرہ

ترجمۂ علامہ نصیرا لدین نصیرؔہونزائی

 

۱۔ بدان خودراکہ گر خود را بدانی

زخود ہم نیک و ہم  بدرا بددانی

ترجمہ:۔ (اے مومن!) اپنے آپ کو پہچان لے، کیونکہ اگر تو خود کو پہچانے، تو اپنی ذات (کی اسی معرفت کے ذریعے) سے خیر کی حقیقت بھی اور شر کی حقیقت بھی سمجھ سکے گا۔

حکمت:۔ جب بموجبِ حدیث انسان کی اپنی معرفت ہی خدا کی معرفت ہے، اور جب خدا کے متعلق “ہمہ اوست” کا نظریہ صحیح ہے، تو خدا کی کلّی معرفت کے ضمن میں ہر چیز کی حقیقت معلوم ہونے میں کیوں تعجب ہو۔

 

۱۱۰

 

۲۔ شناسائی وجودِ خویشتن شو

پس آنگہ سرفرازِ انجمن شو

ترجمہ:۔ پہلے تو اپنی ہستی و ذات کا شناسا و عارف ہو جا، پھر اس (علم و معرفت سے مالا مال ہونے) کے بعد میر مجلس ہو جا۔

 

۳۔ چوخود دانی ہمہ دانستہ باشی

چو دانستی زہر بدرستہ باشی

ترجمہ:۔ جب تو خود کو پہچانے، تو لازماً تجھے تمام چیزوں کا علم حاصل ہوگا، اور جب تمام چیزوں کا علم حاصل ہوا، تو یقیناً تجھے ہر قسم کے شر سے چھٹکارا ملے گا۔

 

۴۔ ندانی قدرِ خودزیراچنینی

خدا بینی اگر خودرابہ بینی

 

حکمت:۔ انسانی روح حق تعالیٰ کی تمام صفاتِ کاملہ کا آئینہ اور ساری کائنات کا خلاصہ ہے جس کی معرفت حاصل کرنے کے بعد عارف کے تصوّر سے کوئی ضروری علم باہر نہیں رہ سکتا پس عارف کو اسی تحقیق و تدقیق کے سلسلے میں ہر قسم کی برائی سے ابدی نجات ملتی ہے۔

حکمت: حق تعالیٰ نے انسان کو جو سب سے زیادہ قیمتی اور قابلِ قدر گوہر عطا کر دیا ہے وہ اس کی روح ہے جو شخص اس نایاب اور گرانقدر گوہر کی قدر و قیمت نہیں جانتا ہو، تو ظاہر ہے، کہ وہ روحانی طور پر مفلس اور زبون حال ہو جائے گا، نیز جس شخص کی نظر صرف اپنے جسم اور اس کی پرورش تک ہی محدود ہو جائے تو وہ دیدارِ الٰہی سے محروم ہے۔

 

۱۱۱

 

ترجمہ:۔ تو اپنی قدروقیمت نہیں جانتا، اسی وجہ سے تیرا یہ حال ہوا ہے، مگر تو خودبینی اور تن پروری کا نظریہ ترک کرے، تو یقیناً تجھے حق تعالیٰ کے دیدار کا شرف حاصل ہو گا۔

 

۵۔ ترا نُہ چرخ و ہفت اختر غلام است

تو شاگردِ تنی حیفِ تمام است

ترجمہ:۔ نوآسمان اور سات ستارے تیرے غلام ہیں۔ لیکن بہت ہی افسوس ہے کہ تو اپنے جسم کا نوکر اور چیلا بنا ہے۔

 

۶۔ مشو پابند لذاتِ بہیمی

اگر جویایِ آن خرم نعیمی

ترجمہ:۔ اگر تو (جان و دل سے) اس مسرّت بخش (ملکوتی) نعمت کا طلب گار ہے، تو حیوانی قسم کی لذّتوں کو یکسر ترک کر دے۔

 

۷۔ چومردان باش و ترکِ خواب و خورکُن

چوسیاحان یکے درخود سفر کن

ترجمہ:۔ روحانی بہادروں کا شعار اختیار کر کے خوراک اور نیند کو ترک کر دے، اور جس طرح دنیا کے سیّاح اس دنیا میں سفر کرتے ہیں، اسی طرح تو اپنی ذات (کی وسعتوں) میں ایک دفعہ سفر کر۔

 

۸۔ کہ باشد خواب و خور کا رِ بہائم

بمعلومات شد جانِ تو قائم

ترجمہ:۔ کیونکہ غذا اور نیند مویشیوں کا فعل ہے، اور تیرے

 

۱۱۲

 

نفسِ ناطقی کا قیام معلومات پر ہے۔

 

۹۔ یکے بیدار شوتا چند خفتی

ببین خودراکہ چیزی بس شگفتی

ترجمہ:۔ (اے مومن! خدارا!! کچھ راتوں) جاگتا بھی رہا کر، آخر کب تک یوں سوتا رہے گا، اپنی روح کا ذرا مشاہدہ کر، کہ تو ایک انتہائی عجیب مخلوق ہے۔

 

۱۰۔ تفکر کن ببین تاازکجائی

درین زندان چنین بہر چرائی

ترجمہ:۔ (اپنے بارے میں خوب) غوروفکر کر، کہ تو کہاں سے آیا ہے، اور تو اس دنیا کے قید خانے میں ایسا خستہ حال کیوں ہے۔

 

حکمت:۔ رسول اکرمؐ کی حدیث ہے کہ نیند موت کی بہن ہے، اس ارشاد سے دو موتیں ثابت ہوئیں، ایک جسمانی موت اور ایک روحانی موت، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مومن کی شب بیداری اس کی روحانی زندگی ہے اور غیر واجبی نیند اس کی روحانی موت، پس جو مومن اصولِ روحانیّت کے مطابق کم سوئے اور زیادہ جاگے، تو رفتہ رفتہ اس کی روح الایمان زندہ ہو جائے گی، اور وہ اپنے باطن کے روحانی و عقلانی عجائبات و غرائبات کا نظارہ کرنے لگے گا۔

 

حکمت:۔ مومن کی مفروضہ عبادتوں میں سے ایک یہ بھی ہے، کہ وہ اپنی روح کی حقیقت و اصلیّت اور ازلی مقام کے متعلق غوروفکر کرتا رہے، اور نتیجۃً یہ معلوم کرے، کہ وہ کہاں سے اور کس مقصد کے لئے اس دنیا میں آیا ہے۔

 

۱۱۳

 

۱۱۔ قفس بشکن ببرجِ خویشتن شو

چوابراہیمؑ آذربت شکن شو

ترجمہ:۔ تو (عبادت و ریاضت کی طاقتوں سے اپنے جسم کے) پنجرے کو توڑ کر اپنے محلِ خاص میں چلا جا، اور ابراہیمؑ آذر کی طرح بت توڑنے والا ہو جا۔

 

۱۲۔ تو زین سان آفریدہ بہر کاری

دریغ آید کہ مہمل در گذاری

ترجمہ:۔ تو کسی خاص کام کے لئے اس قدر عجیب و غریب صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، اگر تو اپنے آپ بیکار چھوڑے تو بڑا افسوس ہو گا۔

 

۱۳۔ ملک فرمانبرشیطان دریغ است

ملکِ درخدمتِ دربان دریغ است

ترجمہ:۔ فرشتہ شیطان کی تابعداری کرے، تو افسوس کا مقام ہے، بادشاہ کسی دربان کا ملازم رہے، تو بہت ہی مضائقہ ہے۔

 

۱۴۔ چرا باید کہ عیسیٰؑ کورباشد

خطا باشد کہ قارون عورباشد

 

۱۱۴

 

ترجمہ:۔ حضرت عیسیٰؑ کو کیوں آنکھوں سے معذور ہونا چاہئے (جبکہ وہ خود اپنے معجزے سے مادرزاد اندھوں کو چشمِ بینا بخشتا ہے) اور یہ بھی غلط ہے، کہ (اس قدر دولت کے ہوتے ہوئے) فرعون بھوکا اورننگا دھڑنگا ہو۔

 

۱۵۔ توداری اژدہائے برسرِ گنج

بکشُ آن اژدہا فارغ شواز رنج

ترجمہ:۔ تیرے (عقلی و روحی) خزانے پر ایک اژدہا قابض ہوا ہے، تو اس اژدہے کو (بروقت) قتل کر کے ہمیشہ کے لئے خطرے سے بچ جا۔

 

۱۶۔ وگر قوتش دہی بدزہرہ باشی

زگنج بے کران بے بہرہ باشی

ترجمہ:۔ (اس کے برعکس) اگر تُو اس کی پرورش کرتا رہا، تو (وہ روز بروز طاقتور ہوتا جائے گا اور) تُو دن بدن مرعوب ہوتا جائے گا (اسی طرح) تُو اپنے لا انتہا خزانے سے محروم ہو جائے گا۔

 

۱۷۔ ترا درخانہ گنج است و تو درویش

ترا مرہم بدستست و تودلریش

ترجمہ:۔ تیرے گھر ہی میں (ایک عظیم) خزانہ پڑا ہے اور (تعجب ہے کہ) تو مفلس و قلاش ہے، تیرے ہاتھ میں مرہم موجود ہے، اور تو اپنے دل میں زخم رکھتا ہے۔

 

۱۱۵

 

۱۸۔ تو درخوابی کجا افتی بمنزل

طلسم آرائی واز گنج غافل

ترجمہ:۔ تو (جب خواب غفلت میں) سو رہا ہے، تو کس طرح منزل کو پہنچ سکتاہے، تو (اپنے اور روحانی خزانے کے درمیان) طلسم باندھ رہا ہے، اور گنجِ گرانمایہ سے غافل ہے۔

 

۱۹۔ سبک بشکن طلسم وگنج بردار

بکش رنجی واز خودرنج بردار

ترجمہ:۔ بہت جلد طلسم اور جادو کو توڑاور خزانے کو اٹھالے، ایک دفعہ کی سخت تکلیف برداشت کر کے ہمیشہ کے لئے اپنے اوپر سے رنج رفع کر دے۔

حکمت:۔ جب مومن کو یہ معلوم ہو، کہ اس کے دل میں قدرتی علم و عرفان کا ایک لاانتہا ازلی خزانہ پوشیدہ ہے، اور اس کی راہ میں جو کچھ رکاوٹیں پیش آتی ہیں، ان کا سبب نفسانی لذّتوں کےسوا اور کوئی چیز نہیں، تو اسے چاہئے، کہ عزمِ صمیم سے کام لیتے ہوئے نفسانی لذّتوں کو بتدریج ترک کر دے، اور ان کی جگہ روحانی اور عقلانی لذّات کو درجہ بدرجہ اپنائے، روحانی راستے سے طلسم وجادو توڑنے، نفسِ امّارہ کے اژدھےکو قتل کرنے اور ہمیشہ کےلئے تکلیف ختم کرنے کے معنی بس یہی ہیں۔

 

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۴۰

 

۱۱۶

 

جشنِ نوروز کا ایک اور پہلو

(بخامۂ علّامہ نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی)

 

اس سیّارۂ زمین کی پیدائش سے لے کر اب تک نوروز کے موقع پر جتنے بھی عجیب و غریب اور انتہائی عظیم واقعات رونما ہوئے ہیں، اتنے واقعات کسی اور موقع پر نہیں ہوئے ہوں گے۔ چنانچہ علامہ مجلسیؔ کی کتاب “زادالمعاد” کے حوالے سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے، کہ حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام نے فرمایا، کہ نوروز وہ مبارک دن ہے، جس میں خداوندِعالم نے بندوں کی روحوں سے اقرار لیا، کہ وہ اس کو خدائے واحد سمجھیں، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے:۔

اور (وہ وقت یاد کرو) جبکہ تیرے پروردگار نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو لیاا ور انہیں ا ن کی اپنی اپنی ذات پر گواہ قرار دیا (اور ان سے پوچھا) کہ میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں، انہوں نے کہا، ہاں ہم گواہی دیتے ہیں (آپ ہمارا پروردگار ہیں) یہ اقرار اس لئے لیا، تاکہ تم

 

۱۱۷

 

قیامت کے دن یہ نہ کہوکہ یقیناً ہم اس سے بالکل بے خبر تھے (۰۷: ۱۷۲) ۔

مذکورہ روایت کے مطابق نوروز ہی تھا، جس میں حضرت  نوحؑ کی کشتی طوفان تھم جانے کے بعد کوہِ جودی پر ٹھہری، حضرت ابراہیمؑ نے اسی روز ملکِ عراق کے شاہی بتوں کو توڑ ڈالاتھا، حضرت موسیٰؑ نے اپنے زمانے میں اسی دن فرعونِ مصر کے جادوگروں کو شکستِ فاش دے دی تھی، اور آنحضرتؐ نے بھی اسی نوروز کے موقع پر مولانا علیؑ کو اپنے مبارک کندھوں پر چڑھا کو خانۂ کعبہ کے تین سو ساٹھ بتوں کو توڑوایا تھا، نوروز کے متعلق اس قسم کی بہت سی روایات مشہور ہیں، لیکن پھر بھی اس یومِ سعید کی ایسی بہت حقیقتیں ہو سکتی ہیں، جواب تک پردۂ راز میں پوشیدہ رہی ہوں۔

اس امرِ واقع میں کوئی شک ہی نہیں، کہ پیغمبرِ خدا اور اس کے حقیقی جانشین کے نور کے بغیر اگر اس دنیا اور اس کے باشندوں کے ماضی و مستقبل کی طرف دیکھا جائے، تو ایک انتہائی تاریک تصوّر کے سوا وہاں کچھ بھی نظر نہیں آئے گا، جیسا کہ قرآن پاک کےاس ارشاد میں یہی مثال مذکور ہے:۔

اور ہم نے ان کے سامنے ایک دیوار کردی اور ان کے پیچھے ایک دیوار کر دی، پھر ہم نے انہیں ڈھانپ لیا، پس وہ دیکھ نہیں سکتے (۳۶: ۰۹) سامنے سے مستقبل اور ابد مراد ہے، اور پیچھے سے ماضی اور ازل مراد ہے، پس ظاہر ہے کہ جو لوگ خدا اور رسولؐ کے حقیقی فرمانبردار

 

۱۱۸

 

ہیں، ان کے دل و دماغ میں یہ صلاحیّت موجود ہے، کہ وہ اگر ازل اور ابد کی حقیقتوں کو دیکھنا چاہیں، تو دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ ان کے سامنے اور پیچھے تقلید و جہالت کی کوئی دیوار نہیں، اور وہ پردۂ غفلت میں ڈھانپے نہیں گئے ہیں۔

اب ہم اپنے اصل موضوع کی طر ف متوجہ ہوتےہیں، جو جشنِ نوروز کے متعلق ہے، چنانچہ اگر ہم یہ عقیدہ رکھیں کہ لاکھوں یا کروڑوں سال قبل یا اس سے بھی بہت پہلے ایک زمانہ ایسا تھا، جس میں ہمارا یہ سیّارۂ زمین موجود نہیں ہوا تھا، پھر خداتعالیٰ کی قدرت سے یہ سیّارہ پیدا ہوا، تو لازماً ہمیں یہ بھی ماننا ہی پڑے گا کہ ہماری زمین کو کوئی آغاز و انجام ہے، پس جس روز سیّارۂ زمین پیدا ہوا ہو، وہ اس کا “نوروز” تھا، یعنی اس کرۂ ارض کی تخلیق و تکمیل کا دن ہی اس کی طویل عمر کا ابتدائی اور نیا دن تھا، کیونکہ نوروز دراصل وہی ہے، جس میں زمین کی تخلیق مکمل ہو کر اس کی مدتِ عمر کا پہلا دن شروع ہوا، جس میں پہلی دفعہ سورج روئی زمین پر چمکنے لگا، پہلی بار سائے نمودار ہوئے اور وہیں سے دن رات کا آغاز ہوا، وہ اس طرح کہ کرۂ ارض کے پیدا ہوتے ہی سورج کی جانب کے نصف کرے پر دھوپ پڑی اور دوسری جانب زمین کا اپنا سایہ پڑا، پس دھوپ کا نام دن اور سائے کا نام رات مقرر ہوا، اسی طرح بیک وقت دن اور رات کا آغاز ہوا۔

اسی نوروز کے دن زمین اپنے مدار پر مغرب سے مشرق کی طرف

 

۱۱۹

 

گردش کرنے لگی، اور وہیں سے شمسی اور قمری سال شروع ہوا، اس اصول کے مطابق وہ ابتدائی نوروز اتوار کے دن ہونا چاہئے کیونکہ دنوں کی گنتی کا آغاز تو اتوار ہی سے صحیح ہے اور انبیاء و اولیاء کی تعلیمات سے بھی یہی ظاہر ہے کہ اتوار کے دن دنیا پیدا ہوئی ہے، نیز یہ کہ دنوں کے تعیّن اور ترتیب کے متعلق مذاہبِ عالم میں بھی کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ہے، اور یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے، کہ شروع سے لے کر اب تک سات دنوں کے سلسلۂ شمار میں کوئی غلطی اور فراموشی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اور شروع ہی سے ہفتے کے دنوں کو صحیح گنتی اور یادداشت کے لئے یہ ضروری نہیں، کہ جس روز سیّارۂ زمین پیدا ہوا، تو اسی روز انسان بھی زمین پر اتر آیا ہو، تاکہ یہ کہا جا سکے، کہ تمام باتیں انسانوں کی تواریخی یادداشت کے طور پر یہاں تک پہنچی ہیں، بلکہ اس بارے میں یہ باور کرنا لازمی ہے کہ حقائق کا براہِ راست تعلق وحی والہام سے ہےجو انبیاء واولیاء (أئمّہ) علیہم السّلام کے لئے مخصوص ہے۔

نیز بتا دیا جاتا ہے کہ جس وقت سیّارۂ زمین پیدا ہوا، تو وہ یہی نوروز کا دن تھا، جس میں سورج اور چاند دونوں بیک وقت برجِ حمل کے مقابل ہونے لگے تھے، اور اسی روز سب سے پہلی چاندرات گزری تھی، یہی سبب ہے کہ دورِ حقیقت کے آغاز ہی سے چاندرات اور آبِ شفا کی اہمیّت و افادیّت کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دلائی جاتی ہے، کیونکہ قمری اور اسلامی حساب کے مطابق چاندرات وہ تاریخ ہے، جس میں

 

۱۲۰

 

خداوند عالم نے روحوں سے توحید اور معرفت کا اقرار لیا، اور جس میں اکثر معجزات ظاہر ہوئے، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ (۵۵: ۰۵) یعنی سورج اور چاند ایک ہی حساب رکھتے ہیں۔” اس کا مطلب یہ ہوا، کہ شمسی اور قمری سالوں کا حساب ایک ہی نقطہ اور ایک ہی درجہ (DEGREE) سے شروع ہوا ہے، یعنی جس روز سیّارۂ زمین پیدا ہوا، وہ نہ صرف سورج ہی کے حساب سے نوروز (یعنی نیا دن) تھا، بلکہ چاند کے حساب سے بھی نوروز ہی تھا، کیونکہ مذکورۂ بالا آیت کے مطابق سورج اور چاند کا ایک ہی حساب ہونے کے یہی معنی ہیں، کہ اس کرّۂ ارض کے شمسی اور قمری دونوں سال اس طرح بیک وقت شروع ہوئے جس طرح گھڑی کی گھنٹے والی سوئی اور منٹ والی سوئی دونوں بارہ کے ہندسے سے بیک وقت چلنے لگتی ہیں، اور ہر بارہ گھنٹے کے اختتام پر یہ دونوں اسی بارہ کے ہندسے پر یکجا ہوتی جاتی ہیں، اس وقت ان دونوں سوئیوں کا جس طرح حساب ایک ہوتا ہے، اسی طرح ان کا نقطۂ روانگی بھی ایک ہوتا ہے۔

اس مطلب کے بیان پر مزید روشنی ڈالنے کے لئے اس آیۂ کریمہ کی حقیقتوں کو واضح کر دی جاتی ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “والشمس تجری لمستقرلھا۔ ذالک تقدیر العزیزالعلیم (۳۶: ۳۸) اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا

 

۱۲۱

 

رہتا ہے، یہ اندازہ باندھا ہوا ہے، اس (خدا) کا جو زبردست علم والا ہے۔” سورج کی گردش سے زمین کی گردش مراد ہے، اور سورج خود دراصل اپنے مقام پر ساکن ہی ہے، پس ظاہر ہے کہ زمین ہی اپنے ٹھکانے کی طرف چلتی رہتی ہے، اور اس کا ٹھکانا یہ ہے کہ جب زمین کے تمام باشندے مادّی اور روحانی ترقی کے نتیجے پر نوری اجسام (نورانی پیکر) حاصل کئے ہوئے ہوں گے، یعنی جب ان کی حیات و بقا فلکی قسم کے جسموں میں منتقل ہو گی، تو اس وقت یہ زمین اپنے مدار سے ہٹ کر سورج سے دور ان بے شمار ستاروں میں شامل ہو گی، جو حاشیۂ عالم کے قریب واقع ہیں، پھر یہ عجب نہیں، کہ وہ سب سے عظیم واقعہ بھی نوروز اور چاندرات ہی کے موقع پر ہو، چنانچہ پیر ناصرؔ خسرو (قدس اللہ سرہ) کی مشہور کتاب وجہ دین اورزادالمسافرین نیز سید سہراب کی کتاب صحیفتہ الناظرین میں سیّارۂ زمین کے اٹھائے جانے کا ذکر موجود ہے۔

جب یہ معلوم ہوا، کہ نوروز وہ دن ہے، جس میں پروردگار عالم نے روحوں سے اپنی یکتائی کا اقرار لیا ہے، جس میں حضرت نوحؑ اور اس کے تابعین کو آخری نجات ملی ہے، جس میں حضرت ابراہیمؑ نے شاہی بتوں کو توڑا ہے، جس میں حضرت موسیٰؑ کو جادوگروں پر فتح دی گئی ہے، جس میں آنحضرتؐ پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی، جس میں آنحضرتؐ اور ان کے وصی مولانا علیؑ نے خانۂ خدا کو بتوں کے وجود کی ناپاکی سے پاک

 

۱۲۲

 

کردیا ہے، اور جس میں بمقامِ غدیرِخم مولانا علیؑ کی ولایت و امامت کا اعلان ہوا، تو آئیے اس مبارک اور مقدّس عیدِ نوروز کے موقع پر ہم بھی اقرارِ الست کو تازہ کرتے ہوئے خدا کی معرفت کی طرف توجّہ کریں، اپنے دلوں میں خودبینی اور دنیا پرستی کے جو بت پائے جاتے ہیں، ان کو توڑ ڈالیں، نفسانی خواہشات کے جادوؤں پر فتح حاصل کریں، اورکعبۂ دل کو باطل خیالات کے بتوں سے پاک وصاف کرلیں، نیز یہ دیکھ لیا کریں، کہ امامِ حیّ وحاضر کے مبارک فرمان کے مطابق گزشتہ نوروز سے لے کر اس نوروز تک ہم نے کون کون سی قومی اور جماعتی خدمات انجام دی ہیں، اور آئندہ ان سے بھی زیادہ خدمات کس طرح کی جا سکتی ہیں، کیونکہ جشنِ نوروز عزم و عمل کا پیغام لاتا ہے۔

 

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۴۳

 

۱۲۳

 

درسِ روحانیّت

کلام مولوی معنوی رومیؔ ازکلیات شمسِ تبریزی

(ترجمہ از علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی)

 

الف) نوروز اور موسمِ بہار

قرآن مجید کے ایک ارشاد سے ظاہر ہے، کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے، اس حقیقت کی وضاحت یہ ہے کہ خدا کا نور دائمی طور پر ہر جگہ موجود ہے، اس لئے دراصل یہ نہیں کہا جاسکتا، کہ نورنازل ہوا، آیا، گیا وغیرہ، لیکن خدا کی مرضی کے بغیر نور نہیں دیکھا جا سکتا، جیسا کہ ارشاد ہے: ” یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ (۲۴: ۳۵) اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنے نور کی راپ پر لگا دیتا ہے۔” پس عدلِ خداوندی کا یہ تقاضا ہے، کہ نور سب سے پہلے طلبگاروں کو دکھایا جائے، جو پیغمبرؐ اور امامِ حیّ و حاضرؑ کے ذریعہ و وسیلہ سے ممکن ہے، کیونکہ”جوئندہ یابندہ” کے بمصداق جو طالب ہو، وہی مطلوب و مقصود تک پہنچ سکتا ہے، پس وہی لوگ سب سے زیادہ خوش نصیب ہیں، جو مظہرِ نور (یعنی امامِ حیّ و حاضر) کی تابعداری کرتے ہوئے نورانیّت کی اعلیٰ ترین منزل تک پہنچنے کی کوشش

 

۱۲۴

 

کرتے ہیں اور پہنچ جاتے ہیں، چنانچہ مولوی معنوی ذیل کے اشعار میں یہی حقیقت بیان فرماتے ہیں:۔

۱۔ بہار آمد بہارآمد بہارِ مشکبار آمد

نگار آمد نگار آمد نگارِ بردبار آمد

ترجمہ:۔ (اپنی تمام رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ) بہار آئی، بہار آئی (باغ و گلشن میں) کستوری اور عطر برسانے والی بہار آئی (فصلِ بہار کے اسی دلکش منظر کے ساتھ ساتھ) معشوق تشریف لائے، معشوق تشریف فرما ہوئے ایک ایسے معشوق تشریف لائےجو شرافت اورحلیمی کا (حسین ترین) پیکر ہیں۔

۲۔ کفی آمد کفی آمد کہ دریا دُر ازو یابد

شہی آمد شہی آمد کہ جانِ ہر دیار آمد

ترجمہ:۔ (سخاوت اور بخشش کا) ایک ایسا ہاتھ ظاہر ہوا، ایک ایسا ہاتھ باہر آیا، کہ اسی سے سمندر کو موتی حاصل ہوا کرتے ہیں، ایک ایسے بادشاہ تشریف لائے، ایک ایسے بادشاہ تشریف فرما ہوئے، کہ وہی ہر مملکت کی جان ہیں۔

 

۳۔ کجا آمد؟ کجاآمد؟ کزینجا خود نرفتست او

ولیکن چشمِ گہ آگاہ وگہ بے اعتبار آمد

ترجمہ:۔ (مگر ذرا سوچو تو سہی) وہ کہاں آئے؟ وہ کیسے آئے؟ کیونکہ وہ تو (ازل ہی سے یہیں موجود ہیں) یہاں سے گئے ہی نہیں، لیکن ہمیں وہ آنکھ ملی ہے، جو کبھی تو ان کو دیکھ سکتی ہے اور کبھی نہیں دیکھ سکتی۔

 

۱۲۵

 

۴۔ ببندم چشم و گویم شد گشایم گویم اوآمد

و او درخواب و بیداری قرین و یارِ غار آمد

ترجمہ:۔ (اس کا مطلب یہ ہے کہ) میں خود (اپنی غفلت سے) آنکھیں بند کرکے کہتا ہوں، کہ وہ تشریف لے گئے، اور (کبھی کچھ ذکر کی طاقت سے) آنکھیں کھول کر کہتا ہوں کہ وہ تشریف لائے، اور (حالانکہ) وہ خود میرے خواب و بیداری میں (ہمیشہ) میرے ہم نشین اور حقیقی رفیق ہیں۔

 

ب)  انسانی دل کی حقیقت اور عشقِ الٰہی

رباعی

شمعی است دل مراد افروختنی

چاکیست زہجرِ دوست بردوختنی

ای بے خبر از ساختن و سوختنی

عشق آمدنی بود نہ آموختنی

ترجمہ:۔ (پہلی مثال میں) دل ایک موم بتی کی طرح ہے، جس کا مقصد روشن کر دینا ہے، (دوسری مثال میں) دل ایک ایسا چاک ہے، جسے صرف دوست کی جدائی ہی سے سی لیا جا سکتا ہے۔ اے (وہ شخص) جو (آتشِ عشق میں) جلنے اور صبر کرنے (کی حکمت) سے بے خبر ہے، عشق ایک عطائی چیز ہے، اکتسابی چیز ہے نہیں۔

 

۱۲۶

 

ج)   انسان کا نزول و عروج

رباعی

اندر رہِ حق چوچست و چالاک شوی

نورِ فلکی باز بر افلاک شوی

عرش است نشیمنِ تو شرمت ناید

چون سایۂ مقیم خطۂ خاک شوی

ترجمہ:۔ جب تو خدا (کی فرمانبرداری) کے راستے میں چست اور ہشیار ہو جائے، تب ہی تو آسمان پر چڑھ سکے گا، کیونکہ تو آسمان کا نور ہے۔ تیرا محلِ سکونت عرشِ اعلیٰ ہے، کیا تجھے شرم محسوس نہیں ہوتی!کہ تو سائے کی طرح خطۂ زمین پر پڑے رہتا ہے۔

 

د)          گنجِ مخفی

رباعی

درعالمِ گل گنجِ نہانی مائیم

دارندۂ ملکِ جاودانی مائیم

چون از ظلماتِ آب و گلِ بگذشتیم

ہم خضرؑ و ہم آبِ زندگانی مائیم

ترجمہ:۔ اس عالمِ خاکی میں (وہ) مخفی خزانہ ہم ہی ہیں (جس کا ذکر حدیثِ “کنت کنزا” میں ہے) لازوال (روحانی) سلطنت کے مالک ہم ہی ہیں۔ جب ہم جسمِ عنصری کی ظلمتوں سے گزر چکے، تو خضرؑ بھی (جو آبِ حیات

 

۱۲۷

 

کا رہنما ہے) اور آبِ حیات بھی ہم ہی ہیں۔

 

 

ھ)  رازِ اناالحق

رباعی

منصورِ حلاجی کہ انا الحق می گفت

خاکِ ہمہ رہ بنوکِ مژگان می رفت

درقلزمِ نیستی خود غوطہ بخورد

آنگہ پس ازان درِ انا الحق می سفت

ترجمہ:۔ منصورِ حلاجی نے جو اناالحق (میں حق ہوں) کہا، تو اس نے (اس سے پیشتر) اپنی پلکوں کی نو ک سے (عبادت و ریاضت) کے سارے راستے کی مٹی جھاڑ دی اپنی فنائیت و نیستی کے قلزم (یعنی سمندر) میں غوطہ لگایا، جس نے اس کے بعد اناالحق کا موتی پرویا۔

 

چاندرات ارشاد نمبر۶۴: ۱۴۳

 

۱۲۸

 

 

اتحادِ مسلمین

علامہ نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی

 

مورخہ ۲۸ اکتوبر۱۹۶۹کو سرکار مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شادی مبارک کے پُرمسرّت موقع پر”شاہ کریم الحسینی ہوسٹل” گلگت میں جناب فضیلتِ مآب موکھی سید کرم علی شاہ صاحب نائب صدر ہز رائل ہائنس پرنس آغا خان سپریم کونسل برائے ہونزہ، گلگت، چترال اور وسطی ایشیا کے زیر سرکردگی ایک جشن منعقد ہوا، جس کی صدارت گلگت و بلتستان کے ریذیڈنٹ راجہ حبیب الرحمٰن خان صاحب تمغۂ پاکستان نے کی۔ اس موقع پر علامہ نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی صاحب نے اتحاد مسلمین کے موضوع پر جو تقریر کی تھی اس کا اصل مضمون درج ذیل ہے:۔

دینِ اسلام کے مختلف فرقوں کی مجموعی حیثیت ایک ایسے ثمرداردرخت کی طرح ہے، جس کی بہت سی شاخیں ہوں، ہر چند کہ درخت کی شاخیں فضا کے مختلف اطراف و جوانب میں ایک دوسرے سے جدا جدا ہوتی ہیں، تاہم وہ تنے کی صورت میں باہم ملی ہوئی ہوتی ہیں، بالکل

 

۱۲۹

 

اسی طرح اسلام کے تمام فرقے خدائے واحد کے عقیدۂ وحدانیّت، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی نبوّت اور اس کے ضمنی عقائد میں ایک دوسرے کے ساتھ متفق اور متحد ہیں، مگر یہ فرقے اشخاصِ امامت وخلافت کے تعیّن کے بارے میں ایک دوسرے سے مختلف اور جدا جدا ہیں۔

اب متذکرۂ بالا بیان سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی، کہ دینِ اسلام کی مجموعی حیثیت کے اندر اگرچہ ایک طرف سے فروعی طور پر اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم دوسری طرف سے اصولی طور پر اس کے اندر قوتِ اتحاد بھی کارِ فرما ہے، جس طرح ایک عظیم مشین کے اجزاء اپنی اپنی شکل و صورت میں مختلف اور جدا جدا ہوتے ہیں، مگر مشین اپنی مجموعی حیثیت میں ایک ہی ہوتی ہے، اور اس کے ایسے ہونے میں یہ حکمت مضمر ہے، کہ بہت سے ذیلی مقاصد کے حصول کے نتیجے پر ایک مقصدِ اعلیٰ حاصل کیا جا سکے، یہی مثال اسلام کے مختلف فرقوں کی بھی ہے، تاکہ اس فروعی اختلاف کی محرکات کے باعث علم و عمل کے میدان میں تقابلی جذبے سے کام لیتے ہوئے توحید باری تعالیٰ کے عظیم اسرار کے نایاب خزانوں کا انکشاف کیا جا سکے، اور جس کے سلسلے میں اسلامی علم و ادب کے بے پایان اور گرانمایہ ذخائر ادیانِ عالم کے مقابلے میں پیش کئے جا سکیں۔

اب اس مقام پر پہنچ کر یہ امر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نظریۂ امامت کی بھی کچھ وضاحتیں کی جائے، کیونکہ آج کی اس تقریبِ مسعود کا تعلق براہِ راست

 

۱۳۰

 

اسی نظرئے سے ہے، چنانہ قبلاً یہ بیان ہو چکا ہے کہ اسلام کے تمام فرقے اشخاصِ امامت و خلافت کے تعیّن کے بارے میں ایک دوسرے سے مختلف اور جدا جدا ہیں، اس کا واضح مطلب یہ ہوا، کہ اسلام کا ہر فرقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے بعد کسی نہ کسی صورت میں ایک امام یا خلیفہ کے ہونے کے قائل ہے۔ چنانچہ اسماعیلی فرقہ حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی کو اپنا امامِ وقت مانتا ہے، اور اس سلسلے میں اس فرقے کا عقیدۂ راسخ یہ ہے، کہ حضرت آدم علیہ السّلام سے بلکہ ازل سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تک نورِ امامت پوشیدہ طور پر موجود تھا، اور آنحضرتؐ کے زمانے میں یہ نورِ امامت حضرت مولانا مرتضیٰ علی علیہ السّلام کے جامۂ بشریت میں ظاہر ہوا، پھر جناب مرتضیٰ سرِ خدا اور حضرت فاطمتہ الزہرا علیھاالسّلام کی آلِ اطہار کے سلسلے میں یہ نور جامہ بجامہ منتقل ہوتا چلا آیا ہے، کیونکہ خدائے واحد اور اس کے رسولِ برحقؑ کی مرضی اسی میں تھی، کہ دنیا اور زمانہ نورِ امامت کی مقدّس ہدایت سے کبھی خالی نہ رہ جائے۔

اسماعیلی فرقے کے اعتقاد کے مطابق زمانے کا امام ہمیشہ دنیا میں حاضر اور موجود ہے، کیونکہ انسانی ہدایت کی ضرورت کے پیشِ نظر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کے زمانے میں اپنے اور مخلوق کے درمیان جو کچھ واسطہ اور وسیلہ مقررفرمایا تھا، وہ ہمیشہ کے لئے موجود ہونا چاہئے، چنانچہ حق تعالیٰ نے ابتدا ہی میں فرشتوں سے فرمایا تھا کہ

 

۱۳۱

 

” اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ” (۰۲: ۳۰) میں روئے زمین پر ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں۔”  پس انسانی ہدایت کی ضرورت و اہمیّت اس وقت بھی اسی طرح ہے، جس طرح حضرت آدمؑ کے زمانے میں تھی، یہی وجہ ہے کہ اسماعیلی اپنے امامِ زمانؑ کو خلیفۂ خدا اور خلیفۂ رسولؐ مانتے ہیں، اور وہ امامِ عالی مقامؑ کے ہر فرمان پراسی لئے عمل پیرا ہوتے ہیں۔

اسماعیلی فرقے کا کلیدی عقیدہ یہ ہے، کہ خدا کی فرمانبرداری رسولؐ کی ہدایت کے مطابق کی جائے اور رسولؐ کی فرمانبرداری امامِ زمانہؑ کی ہدایت کے مطابق کی جائے، وہ اپنے اس نظریے کی تصدیق میں اس آیتِ قرآنی کو پیش کرتے ہیں کہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ (۰۴: ۵۹) اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرواور رسول کی اطاعت کرو اور اولوالامر کی اطاعت کرو، جو تم میں سے (یعنی تمہارے درمیان) ہیں، پس اسماعیلی اولوالامر سے اپنے سلسلہ کے تمام آئمۂ طاہرین مراد لیتے ہیں، اور امامِ وقت کو صاحبِ امر مانتے ہیں، چنانچہ حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی اسماعیلی جماعت کے امامِ زمانؑ اور صاحبِ امر ہیں، جن کی عروسی مبارک کا جشنِ سعید آج کے دن اسماعیلی عالم میں انتہائی عقیدت ومحبت سے منایا جا رہا ہے۔

اسماعیلیوں کے مذکورۂ بالا عقائد کا سب سے آخری نتیجہ یہ نکلا کہ وہ امامِ زمانؑ کو رشد وہدایت کا ایک ایسا عظیم مرکز مانتےہیں،

 

۱۳۲

 

جس کو خدا اور رسولؐ نے اس غرض سے قائم کر دیا ہے، کہ اس کے ذریعے سے اسلامی اخوّت کے باہمی اختلافات ختم کئے جائیں، اور مسلمانانِ عالم کے درمیان صحیح معنوں میں اتفاق و اتحاد قائم ہے۔

 

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۵۲

 

۱۳۳

 

امامِ برحقؑ کا دیدارِ فیض آثار

(علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی)

 

امامِ حیّ و حاضر کے دیدارِ فیض آثار کی اہمیّت و افادیت اور قدرو منزلت کے بارے میں کچھ حقائق پیش کرنے سے قبل یہ لازمی امر ہے، کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں بطریقِ اختصار یہ ذکر کر دیا جائے، کہ دینِ اسلام میں اللہ تعالیٰ کے نورانی دیدار اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے ظاہری دیدار کا کیا تصوّر و عقیدہ ہے، تاکہ مومنین اس واضح بیان سے امامِ زمانہ کے دیدارِ اقدس کی حقیقت و حکمت کو بخوبی سمجھ سکیں۔

دیدار کا تذکرہ: چنانچہ اگر کوئی ذی علم اور صاحبِ بصیرت انسان قرآن حکیم کی معنوی گہرائیوں تک رسا ہوکر غوروفکر کرے، تو یقیناً اس پر یہ حقیقت منکشف ہو گی، کہ قرآن حکیم کی تمام آیاتِ مقدّسہ حکمت کے انداز میں نورانی دیدار کے تذکروں سے بھری ہوئی ہیں، اور ان میں کوئی بھی آیت ایسی نظر نہیں آتی، جو اس تذکرہ سے بالکل خالی ہو، چنانچہ ذیل میں قرآنِ شریف کا ایک ایسا کلّیہ درج کر دیا جاتا ہے، کہ

 

۱۳۴

 

جس سے یہ مطلب صاف طور پر ظاہرہوگا، کہ کائنات، موجودا ت اور قرآن کا کوئی ایسا جزو نہیں، جو اپنے کسی نہ کسی پہلو سے حق تعالیٰ کے جمال و جلال کی آئینہ داری نہ کرتا ہو، اور وہ کلّیہ یہ ہے:۔

فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِؕ (۰۲: ۱۱۵) پس تم جس طرف بھی متوجّہ ہو جاؤ، وہیں خدا کا چہرہ موجود ہے۔ خدا کے چہرہ سے نورانی دیدار اور معرفت مراد ہے، اور “این” کا لفظ تمام عرصۂ زمان ومکان اور جملہ حالات کی طرف اشارہ کرتا ہے، پھر اس کے معنی یہ ہوئے، کہ اوّل، آخر، ظاہراور باطن کے تمام مقامات وحالات میں نورِ الٰہی کی کوئی نہ کوئی جلوہ نمائی موجود ہے، اور اہلِ بصیرت ہر وقت، ہر جگہ اور ہر حالت میں دیدارِ خداوندی کے فیوض و برکات سے مستفیض ہو سکتے ہیں، پس معلوم ہوا، کہ جس طرح عین الیقین کے درجے میں کائنات کی ہر چیز کے باطن میں دیدارِ الٰہی کا جلوہ نظر آتا ہے اسی طرح علم الیقین کے مقام پر قرآنِ حکیم کی ہر آیت، ہر جملہ اور ہر لفظ کی حکمت میں اس پاک دیدار کے متعلق کوئی نہ کوئی تذکرہ پایا جاتا ہے۔

مذکورۂ بالا تاویلی حقیقتوں کے علاوہ قرآنِ پاک میں ایسی بہت سی آیتیں ہیں، جن میں دیدارِ ربّانی کا واضح طور پر بیان آیا ہے، ہم یہاں ان تمام آیات میں سے صرف چار آیتوں کی وضاحت پر اکتفا کرتے ہیں، کیونکہ وجود و ہستی کے چار حالات کے اعتبار سے دیدارِ الٰہی کے مقامات چار ہیں، جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے: هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ

۱۳۵

 

وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ (۵۷: ۰۳) وہی سب سے پہلے ہے اور وہی سب سے پیچھے ہے اور وہی سب سے آشکار ہے اور وہی سب سے مخفی ہے۔

ھوالاوّل کا اشارہ: پہلی آیت جو مقامِ اوّل کے دیدار کے بارے میں ہے، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں ارواح کو مخاطب کر کے فرمایا: ” اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْؕ (۰۷: ۱۷۲) کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ قَالُوْا بَلٰىۚ-شَهِدْنَاۚ (۰۷: ۱۷۲) انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم (سب اس واقعہ کے) گواہ بنتے ہیں۔” ظاہر ہے کہ اس وقت ارواح سے خداتعالیٰ کی ہستی اور ربّوبیت کی عینی گواہی لی گئی تھی، اور ان تمام روحوں کو ربّ العزّت کے نورانی دیدار کا شرف حاصل ہوا تھا، کیونکہ حکیمِ مطلق کے حقیقی عدل کے لئے یہ ہرگز مناسب نہیں، کہ کچھ لوگوں سے کسی ایسے واقعے کی شہادت پوچھ لی جائے اور ان کو گواہ بنا لیا جائے، جبکہ وہ واقعہ ان پر تاریک اور چھپا ہوا ہے، اور وہ لوگ اس سے بالکل نابلد اور قطعاً ناواقف ہیں، پس یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ روحوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی ربّوبیت کی یہ گواہی دیدار اور جملہ صفاتِ کمالیہ کی روشنی میں تھی۔

والآخرکا اشارہ: دوسری آیت جو مقامِ آخر کے دیدار کے بارے میں ہے، یہ ہے: ” مَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍؕ (۲۹: ۰۵) جو شخص

 

۱۳۶

 

خدا کے دیدار کی امید رکھتا ہو، تو خدا کے وعدے کا دن ضرور آنے والا ہے۔” اس ارشادِ ربّانی میں اس دیدار کا ذکر ہے، جو مستقبل اور آخرت میں مومنین کے لئے میّسر ہونے والا ہے۔

“والظاھر” کا اشارہ: تیسری آیت جو مقامِ ظاہر کے دیدار کے باب میں ہے، یہ ہے، جو فرمایاگیا کہ: ” اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (۲۴: ۳۵) اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔” اور نور کی تعریف یہ ہے، کہ وہ بذاتِ خود روشن اور ظاہر ہے، اور کائنات کی تمام چیزوں کو بھی منور و آشکار کر دیتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص آفتابِ عالم تاب کو دیکھنا چاہے، تو خود اسی کی روشنی میں دیکھ سکتا ہے، نہ کسی اور چیز کی روشنی میں، اس کا مطلب یہ ہے، کہ حق تعالیٰ کا نورانی دیدار حالتِ ظہور میں بھی ہے، مگر یہ دیدار خود نور ہی کے وسیلے سے حاصل کیا جا سکتا ہے، نہ کسی اور ذریعے سے، جیسا کہ ارشاد ہے: ” یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ (۲۴: ۳۵) اللہ تعالیٰ اپنے نور تک جس کو چاہتا ہے راہ دے دیتا ہے۔ ”

والباطن کا اشارہ: چوتھی آیت، جو مقامِ باطن کے دیدار کے سلسلے میں ہے، یہ ہے، جو حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا (۱۹: ۱۷) پس ہم نے مریمؑ کے پاس اپنی روح یعنی نور بھیجا اور

 

۱۳۷

 

وہ ایک (ہر طرح سے) صحیح انسان کے روپ میں اس کے سامنے ظاہر ہوا۔” اس مقام پر یہ بات قابلِ ذکرہے، کہ اگر روح القدّس حضرت مریمؑ کے سامنے انسانی صورت میں ظاہر ہوئی، تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں، کہ وہ پھر اس وقت روح نہ رہی اور جسم بن گئی، بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے، کہ روح القدّس مقامِ روحانیّت پر روح ہی تھی، ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے جسمانی مظہر کے ذریعے ظہور پذیر بھی تھی، پس اس بیان سے ثابت ہوا کہ اس آیت کی حکمت میں دیدارِ ظاہر اور دیدارِ باطن دونوں کی دلیل موجود ہے، چنانچہ یہاں ایک مناسب مثال بیان کر دی جاتی ہے کہ سورج اگرچہ ظاہر ہے، تاہم وہ باطن بھی ہے، کیونکہ اس کا اندرونی اور عقبی حصہ حجابِ نور میں پوشیدہ ہونے کی وجہ سے ظاہر نہیں، اس کے یہ معنی ہوئے، کہ سورج نے اپنے آپ کو بیک وقت ظاہر میں بھی کر دیا ہےاور چھپا بھی لیا ہے، یہی مثال دیدارِ ظاہر اور دیدارِ باطن کی بھی ہے۔

رسولِ اکرمؐ کا دیدار: اب ہم حضرت محمدؐ مصطفٰی رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے مبارک دیدار کے بارے میں ایک مشہور حدیث اور کچھ فکر انگیز الفاظ درج کرتے ہیں، کہ آنحضرتؐ کا ارشادِ گرامی ہے: “من رانی فقد رای الحق=جس شخص نے میرا دیدار کیا پس اس نے خدا کا دیدار کیا۔” اس حدیثِ شریف میں دو باتوں کا خصوصیّت کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ

 

۱۳۸

 

کے پاک دیدار کا حصول حقیقی مومن کے لئے ایک انتہائی ضروری امر ہے، دوسری یہ کہ اس مقدّس دیدار کے لئے واسطہ اور وسیلہ صرف انسانِ کامل ہی ہے، کیونکہ اگر یہ عقیدہ رکھا جائے، کہ اس دنیا میں ہمیشہ کے لئے روح القدّس یعنی خدا کے نور کا نزول ہوا ہے، تو لازمی طور پر یہ بھی ماننا ہی پڑے گا، کہ انسان کامل (یعنی پیغمبرؐ اور امامؑ) کے سوا اور کوئی مخلوق اس مقدّس اورعظیم نور کے لئے نہ تو حامل بن سکتی ہے، اور نہ ہی اس سے دوسروں کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا، کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یعنی نور حضرتِ مریمؑ کے پاس بھیجا تووہ انسانِ کامل ہی کی صورت میں ظاہر ہوا، اور قانونِ الٰہی کی رو سے یہی ممکن اور مناسب تھا، کہ جو روح یا نورعالمِ ملکوت سے عالمِ ناسوت میں نازل ہو آئے، تو اسے سب سے پہلے بشریّت کے بلند ترین درجے میں آنا چاہیے، اور وہ بلند ترین درجہ اور عظیم ترین مرتبہ نبوّت اور امامت کے نام سے ہے۔

قرآنِ پاک میں فرمایا گیا ہے، کہ صاحبِ امرؑ کی اطاعت رسولؐ کی اطاعت ہے، اور رسولؐ کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے، اورارشاد ہوا ہے کہ اگر رسول اللہ کو کچھ دے کر ان کی خوشنودی حاصل کرنی ہےتو بس یہی کہ تم رسولؐ کے قرابتداروں سے دوستی و محبت رکھا کرو، نیز ارشاد ہے، کہ خداکی خاص دوستی حاصل کرنے کے لئے رسولؐ کی فرمانبرداری کی جائے، اس نوع کی آیتوں کی تعلیمات کا نتیجہ یہ نکلتا

 

۱۳۹

 

ہے، کہ جس طرح پیغمبرؐ اور امامِ زمانؑ کی فرمانبرداری خدا کی فرمانبرداری ہے، ان حضرات کی محبت خدا کی محبت ہےاور ان کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے، بالکل اسی طرح ان کا دیدار بھی خدا کا دیدار ہے۔

امام زمانؑ کا دیدار: سیدنا قاضی نعمان کی ایک مشہور تصنیف “کتاب الھمہ فی آدابِ اتباع الائمّہ” کے صفحہ ۴۶پر اس حدیثِ مرفوع کا ذکر کیا گیا ہے: “ان النظر الی الامام عبادۃ، والنظر الی المصحف عبادۃ۔ تحقیق امام کی طرف دیکھنا ایک قسم کی عبادت ہے، اور قرآن کی طرف دیکھنا بھی ایک طرح کی عبادت ہے۔” قاضی نعمان صاحب پھر اپنے الفاظ میں فرماتے ہیں کہ بھول اور غفلت کی نگاہ سے امام کی طرف دیکھنے میں کوئی عبادت نہیں، بلکہ غوروفکر کی نظر سے دیکھنے میں عبادت ہے، جس طرح سوچے سمجھے بغیر قرآن کی طرف دیکھنے والے کو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، جیسے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔” اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا (۴۷: ۲۴) پس کیا وہ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل ہیں۔” پس اس بیان سے جوامامؑ اور قرآن کی طرف دیکھنے اور غوروفکر کرنے کے بارے میں ہے، یہ ظاہر ہوا کہ امامِ حیّ وحاضرؑ کے مبارک اور پُرحکمت دیدار کے فیوض و برکات حاصل کرنے میں تمام مومنین ومومنات ایک جیسے نہیں، بلکہ وہ سب اپنی اپنی عقیدت، محبت، معرفت اور فرمانبرداری کے لحاظ سے مختلف درجات پر ہیں، کیونکہ جس طرح قرآن فہمی کے اعتبار سے

 

۱۴۰

 

لوگوں کے بے شمار درجے ہوتے ہیں، اسی طرح امام شناسی کے لحاظ سے بھی ان کے لاتعداد مراتب ہیں۔

اخیر میں جو کچھ مناسب اور موزون بات کہی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے، کہ امامِ زمانؑ کی تشریف آوری اور دیدارِ اقدس کی رحمتوں اور برکتوں سے دینی اور دنیاوی طور پر صرف وہی حقیقی مرید پورا پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جواس مبارک موقع پر اپنے تمام اعمال کا باریک بینی سے احتساب کریں، اپنی ناپسندیدہ عادتوں اور نافرمانیوں سے دست بردار ہو جائیں، اور اپنے دل میں امام زمانؑ سےیہ وعدہ کریں، کہ وہ آئندہ کسی بھی قسم کی نافرمانی کے مرتکب نہ ہوں گے، عبادت میں کوئی کوتاہی نہ کریں گے اور امام کے کسی بھی مرید کی دل آزادی نہ کریں گے، پس صرف اسی صورت میں اہلِ ایمان کو امامِ عالیمقامؑ کے پاک دیدار کا لازوال ثمرہ حاصل ہو سکتا ہے، اور اپنے مریدوں کے پاس امام زمانؑ کے تشریف لانے اور ان کو دیدار کرانے کا اصلی مقصد بھی یہی ہوتا ہے۔

تحریر: جنوری ۱۹۷۰پاکستان میں اما م زمانؑ کی تشریف آوری کے موقع پر۔

 

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۵۳

 

۱۴۱

 

ذکرِ الٰہی میں شفا

بقلمِ علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

 

ذکرِ الٰہی نتیجۃً صحت و سلامتی کا ذریعہ، اطمینانِ قلب کا باعث اور علم و حکمت کی کلید ہونے کے علاوہ لفظی طور پر بھی خداشناسی و معرفت کی ایک روشن دلیل ہے۔

لفظِ ذکر کے اشارے:۔

لفظِ “ذکر” کے معنی میں خدا کی شناخت اور پہچان کے اشارات اس طرح سے ہیں، کہ ذکر کے معنی ہیں کسی جانی پہچانی ہوئی چیز کے تصوّر کو الفاظ ومعانی کے ذریعے دل و دماغ میں لانا مگر کسی چیز کو دیکھے، جانے اور پہچانے بغیر یاد کرنا محال ہے، اب اس بیان سے صاف طور پر یہ نتیجہ نکلا، کہ خدا کی حقیقی یاد وہ ہے، جو معرفت (یعنی پہچان) کی روشنی میں کی جاتی ہے۔

ذکرِ الٰہی کی مثال:

حقیقی ذکر کی ایک خاص شرط خداشناسی اور معرفت ہونے کے دلیل یہ ہے، جو خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًاؕ (۰۲: ۲۰۰) پس تم اللہ

 

۱۴۲

 

تعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے آبا کو یاد کرتے ہو، یا اس سے بھی زیادہ یاد کرو، اس ارشادِ الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنے آبا کو دیکھے، پہچانے اور مانوس ہوئے بغیر اس کثرت و شدّت سے یاد نہیں کر سکتے، جس کو اللہ تعالیٰ اپنے ذکر کی مثال اور نمونہ قرار دے، اور اگر وہ چار و ناچار اپنے آبا کو یاد کرنے میں کوئی معیاری نمونہ پیش کرتے ہیں، تو اس کی وجہ پہچان، مانوسیّت اور محبّت ہے، چنانچہ اس مثال سے یہ امر لازمی ہوا کہ خدا کو معرفت اور عشق سے یاد کیا جائے۔

ذکرِ الٰہی کی اس مثال میں ان تمام حقائق کے اشارے سموئے ہوئے موجود ہیں، کہ ایک صاف دل اورخیرخواہ باپ اپنے چھوٹے سے بچے کو کس قدر عزیز رکھتا ہے، اس کے حق میں کتنا شفیق و مہربان ہوتا ہے اور کس طرح اس کی بہتری و کامیابی کا طلبگار رہتا ہے، اور اس کا وہ چھوٹا سا معصوم اور سادہ لوح بچہ جب اپنے پیارے باپ سے دور رہنے لگتا ہے، تو کس قدر بے تاب و مضطرب ہو کر اور کیسے اشتیاق کے عالم میں باپ کو یاد کرتا رہتا ہے، ہر چند کہ اس کی ماں، بہنیں اور گھر کے دوسرے عزیز افراد اسے بہلا پھسلا کر باپ کی یاد سے باز رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، مگر یہ اپنے باپ کو اور اس کی شفقتوں اور نوازشوں کوہرگز فراموش نہیں کر سکتا، اور جب کوئی شخص بھول سے اس کے باپ کا کوئی تذکرہ کرتا ہے، تو اس کے نازک اور پاکیزہ دل میں باپ کی محبت کی آگ شعلہ زن ہونے لگتی ہے، اور وہ بہانہ جوئی کرتے ہوئے رونے لگتا ہے، محبت اس کے اشتہا کو اپنے قبضے میں کر لیتی ہے، اس

 

۱۴۳

 

لئے وہ کچھ کھا پی نہیں سکتا، جب بہت سی کوشش کے بعد اس کو سلادیا جاتا ہے، تو وقفہ وقفہ پر جھٹکوں کے ساتھ چونک اٹھتا ہے، کیونکہ ہر بار وہ خواب و خیال میں اپنے باپ ہی کو دیکھتا ہے، اور اس کے ساتھ چمٹ جانے کی کوشش میں ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے جاگ اٹھتا ہے، یہاں تک کہ بعض دفعہ شدّتِ یاد کے بخار سے اس کا جسم تپتا رہتا ہے۔

خدا کی یاد اور باپ کی یاد میں فرق:

جیسا کہ بیان ہوچکا، کہ معصوم اور سادہ لوح بچہ مانوسیّت کے بعد جب باپ سے جدا اور دور رہنے لگتا ہے، تو وہ بعض دفعہ شدّتِ اشتیاق کی بیماری میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے، لیکن ذکرِ الٰہی کے بارے میں عقل و دانش یہ کہتی ہے، کہ اگرچہ خدا کی یاد کی مثال باپ کی یاد سے دی جا سکتی ہے، تاہم انسانی یاد کے آثار و نتائج کے برعکس ذکرِ الٰہی سے حقیقی مومنین کے لئے جسم و جان کی صحت وسلامتی اور سکون و اطمینان حاصل ہونا چاہئے، اور قرآنی اشارات کا اشارہ بھی یہی ہے، چنانچہ قولِ قرآن ہے کہ: اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ (۱۳: ۲۸) خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے۔ پس مطلب صاف طور پر ظاہر ہے، کہ کسی انسان کے دل کو اطمینان اس وقت ہو جاتا ہے، جبکہ وہ ذہنی اور جسمانی تکلیفوں اور بیماریوں سے بالکل محفوظ ہو، یا پھر اس کو برداشت کی معجزانہ قوّت ملے، اس کے بغیر اطمینانِ قلب کے کچھ معنی نہیں۔

 

۱۴۴

 

ذکر کا تعلق پاک دل اور پاک زبان سے:

جب تک انسان اپنی زبان اور دل کو ناشائستہ اقوال و افعال کے زنگ و کدورت سے پاک نہ رکھے، تو وہ مذکورہ بالا مثال کے مطابق خدا کو یاد نہیں کر سکتا، اور جب حقیقی معنوں میں خدا کو یاد نہیں کر سکتا، تو ذکرِ الٰہی کے ظاہری و باطنی فوائد سے محروم رہ جاتا ہے اور اس محرومیّت میں ہر قسم کی ناکامی پوشیدہ ہے۔

ذکر میں شفا ہونے کی دلیل:

اگر پوچھا جائے کہ یادِ الٰہی کس طرح باعثِ شفا ہو سکتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے، کہ اکثر دفعہ انسان اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے کسی بیماری یا تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے، غلط کاری نفسِ امّارہ کے حکمران ہونے سے صادر ہوتی ہے، نفسِ امّارہ کی حکمرانی نہیں ہو سکتی، جب تک کہ عقلی اور روح الایمان کمزور نہ ہوں، یہ دونوں کمزور اس وقت ہوتی ہیں، جبکہ ان کو اصلی و پُرقوّت غذا نہ ملے، اور ایسی غذا کا واحد ذریعہ ذکرِ الٰہی ہے، جس میں عقل اور روح الایمان کے لئے سب کچھ موجود ہے، پس معلوم ہوا، کہ جب اللہ کے بندوں کو ذکر سے عقل و روح کی لذّتیں اور راحتیں میسر ہونے لگتی ہیں، تو اس وقت ان کی نفسانی خواہشات روحانی قوّتوں کے نیچے دبی ہوئی رہتی ہیں، پھر اس وقت ایسی تکالیف نہیں آتیں، جو غلط کاریوں کی پاداش کے طور پر پہنچتی ہیں۔

 

۱۴۵

 

ذکر میں جسمانی مدد:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (۰۸: ۴۵) اے ایمان والو، جب تم (جہاد میں) کسی گروہ کے مقابل ہوتے ہو، ثابت قدم رہو، اور اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو، پس ظاہر ہے، کہ ذکرِالٰہی سے نہ صرف عقل و روح ہی کو نورانی قوّت ملتی ہے، بلکہ اس سے جسم کو بھی معجزانہ قسم کی مدد ملتی رہتی ہے۔

مادّی خوف: ذکرِ الٰہی اورخوف خدا کی ایک اور مثال یہ ہے، کہ جب انسان پر یکایک ظاہری قسم کا کوئی خوف طاری ہو جاتا ہے، تو اس وقت اس کے دل کے مرکز سے عجیب قسم کی ہیجانی لہر اس کے تمام جسم میں پھیل جاتی ہے، نہ معلوم کہ کچھ لوگوں کے علم میں یہ بات کس طرح آگئی، کہ خوف کی ایسی کیفیت کے دوران روحِ حیوانی کے ذرّات خون کی نالیوں وغیرہ میں دوڑنے لگتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بعض بیماریوں کا نفسیاتی علاج خوف کے اصول سے شروع کر دیا، مثلاً بخار کے مریض کے پاس، جبکہ اسے خبر ہی نہ ہو، بندوق چلائی، اور یہ طریقہ بعض دفعہ باعثِ شفا ثابت ہوا، کہ خوف کے ایک ہی جھٹکے کے ساتھ اس کی بیماری کے سارے جراثیم نکل گئے، اور وہ صحت یاب ہو گیا، اس کا سبب شاید یہی ہو، کہ روحِ حیوانی کا کچھ حصہ

 

۱۴۶

 

مدافعہ کے لئے یا گریز کی صورت میں جسم سے خارج ہو جاتا ہے، اور اسی کے ساتھ ساتھ بیماری کے اکثر جراثیم بھی نکل جاتے ہیں۔

روحانی خوف: مثالِ مذکورۂ بالا ظاہری اور مادّی خوف کی تھی، اب اس عجیب و غریب اور معجزانہ خوف کا حال سنئے، جو کثرتِ ذکر کے بعد حق پرست بندوں پرطاری ہو جاتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:۔

اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ ﳓ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ-ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِؕ (۳۹: ۲۳) اللہ تعالیٰ نے بڑا عمدہ کلام نازل فرمایا ہے، جو ایسی کتاب ہے کہ باہم ملتی جلتی ہے، بار بار دہرائی گئی ہے، جس سے ان لوگوں کے، جو اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں، بدن کانپ اٹھتے ہیں، پھر ان کے بدن اور دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی طرف متوجّہ ہو جاتے ہیں۔

آیۂ مذکورۂ بالا اگرچہ ظاہراً قرآنِ پاک کی تعریف میں ہے، تاہم اس میں حکمت کا پہلو بھی بجائے خود نمایان ہے، وہ یہ ہے، کہ ہر مومن کے لئے  عبادت وبندگی کے وہ الفاظ، وظائف، اوراد اور اسماء “احسن الحدیث” کی حیثیت سے ہیں، جو امامِ زمان علیہ السّلام مقرر فرماتے ہیں، اور یہی خاص عبادت و ذکر وہ عظیم معجزہ ہے، جو کئی طرح کے

 

۱۴۷

 

معنوں سے دہرائی جانے والی کتاب کی صورت اختیار کرتاہے، اور اسی سے مومنین کے بدن کانپ اٹھتے ہیں، پھر ان کے بدن اور دل نرم ہو کر ذکر کی طرف متوجّہ ہو جاتے ہیں، پس اس کا نتیجہ یہ نکلا، کہ جس طرح انسان کا دل ذکرِ الٰہی کے فیضان کو قبول کر سکتا ہے، اسی طرح اس کا جسم بھی یادِ الٰہی کے فیوض و برکات سے بہرہ ور ہو سکتا ہے، چنانچہ باور کیا جا سکتا ہے، کہ اس قسم کے ذکر کے معجزے سے انسانی جسم کے خلیات و ذرّات کی تجدید ہو جاتی ہے، جس سے بہت سی روحانی و جسمانی بیماریوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

علاج و معالجہ کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا مجموعی اصول یہ ہوتا ہے، کہ کسی تدبیر سے جراثیم کو مریض کے اندر ہی ہلاک و تباہ کر دیا جائے یا ان کو بدر کر دیا جائے، اب اگر جراثیم میں زندگی پائی جاتی ہے، اور ان میں ایک قسم کی روح موجود ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جرثومہ روح اور جسم دونوں میں مشترک ہے، یعنی روحانی اور جسمانی دونوں طریقوں سے اس پر تصرّف کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ پروردگار عالم کا قول ہے کہ:۔

مَا مِنْ دَآبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِهَاؕ-اِنَّ رَبِّیْ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (۱۱: ۵۶) زمین پر چلنے والا کوئی بھی ایسا نہیں مگر یہ کہ وہ (خدا) اس کی پیشانی کے بال پکڑنے والا ہے، یقیناً میرا پروردگار سیدھی راہ پر ہے، پس اس آیت کی حکمت کے بموجب یہ ضروری ہے، کہ ہر ذی روح مخلوق میں اپنی نوعیّت کا احساس ہے، اور قادرمطلق ہر جانور کے اسی احساس کو پکڑکر راہِ راست کی

 

۱۴۸

 

طرف کھینچ سکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا، کہ ہر قسم کا جرثومہ بھی اپنی نوعیّت کا احساس رکھتا ہے۔ پس اگر خدا چاہے تو اس کے احساس پر تصرف کر سکتا ہے، اور اس میں خوف و گریز کی خواہش ڈال سکتا ہے۔

ذکر میں قوّتِ برداشت:

ذکرِ الٰہی کے اس قدر شفا بخش اور معجز نما ہونے کے باوجود بھی اگر کوئی مومن خدا کی مصلحت و حکمت سے بیمار رہتا ہو، تو پھر بھی خدا کی یاد سے مایوسی کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہو سکتی، کیونکہ ایسے موقع پر عبادت اور ذکر مومن کو صبرو تحمل اور تسلیم و رضا کی ایسی بے مثال طاقت بخشتا ہے، کہ جس سے وہ اپنی بیماری کی تکلیف کو محسوس ہی نہیں کرتا، جیسا کہ انبیاء، اولیاء اور حقیقی مومنین کے تذکروں سے یہ مثال ظاہرہے۔

ذکر کا سب سے بڑامقصد:

حقیقی مومن اپنے پروردگار کو صرف اسی لئے یاد نہیں کرتا، کہ اس کے جسم و جان کی صحت وسلامتی قائم رہے اور بس، بلکہ اس کا سب سے بڑا مقصد خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہے، جس میں مومن کے لئے سعادتِ دارین کے راز سر بستہ ہیں تاہم یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خدا کی خوشنودی کے طلب گار رہنے سے روحانی و جسمانی فیوض وبرکات کے حاصل ہونے میں بسا اوقات کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، تاکہ مومن شکرگزاری کے طریق پر بھی خدا کو زیادہ سے زیادہ یاد کرتا رہے۔

 

۱۴۹

 

دل کا آسمان

مِنکلامِ مولوی معنوی رومی رحمتہ اللہ علیہ

ازکلیاتِ شمس تبریزی (ق۔ س)

(ترجمہ از علّامہ نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی)

 

۱۔ نقش بندِ جان کہ جانہا جانبِ اومائل است

عاقلان را برزبان و عاشقان را دردل است

ترجمہ:۔ نقاشِ جان یعنی روح کا خالق و مالک، جس کی طرف جانیں راغب اور متوجہ ہیں، دانشمندوں کی زبان پر اور عاشقوں کے دل میں موجود ہے۔

 

۱۵۰

 

۲۔ آنکہ باشد ہر زبانہا لا احب الافلین

باقیات الصالحات است آنکہ درددل حاصل است

ترجمہ:۔ جو زبانوں پر ظہور رکھتا ہے (اس کے بارے میں یہ ہے کہ) میں غروب ہوجانے والوں سے دوستی نہیں رکھتا۔ اور جو دل میں ظہور رکھتا ہے، وہی ہمیشہ باقی رہنے والی نیکیوں کی حقیقت ہے۔

 

۳۔ دل مثالِ آسمان آمد زبان ہمچون زمین

از زمین تا آسمانہا منزلِ بس مشکل است

ترجمہ:۔ دل آسمان کی طرح ہے اور زبان زمین کی طرح ہے، اور زمین سے لے کر آسمان تک (اتنی مسافت اور بلندی طے کر کے پہنچ جانا) ایک انتہائی مشکل منزل ہے (یعنی زبانی الفاظ سے شروع کر کے دل کی حقیقت تک پہنچ جانا ایسا ہی مشکل کام ہے، جیسے زمین سے آسمان میں پہنچ جانا) ۔

 

۴۔ دل مثالِ ابر آمد سینہا چوں با مہا

دین زبان چون ناودان باران ازینجا نازل است

ترجمہ:۔ دل (علم و حکمت کے پانی کے لئے) بادل کی مثال ہے، اور سینے چھتوں کی طرح ہیں، اور یہ زبان پَرنالہ کی طرح ہے، اور یہیں سے (یعنی زبان کے پَرنالے سے) علمی بارش کا پانی گرتا ہے۔

مطلب:۔ دل آسمان اور بادل ہونے کی تاویل یہ ہے کہ دل کی

 

۱۵۱

 

اصلیّت و حقیقت ہی روحانیّت کی بلندی اور آسمان ہے۔ اور یہیں سے روحانی علم و دانش کی بارش برستی ہے، جسے وحی و الہام کہئے یا علمِ لدّنی یا ہدایتِ خاص وغیرہ، علم حقیقت کے الفاظ زبان پر آنے سے پہلے سینے میں جمع ہوجاتے ہیں، جس طرح بارش کے قطرات یا توپہاڑ پر جمع ہو کر پانی کی صورت اختیار کرلیتے ہیں یا چھت پر، پھر یہ علم زبان کے ذریعے ظاہر ہونے لگتا ہے، جس طرح پہاڑ کا پانی نہر سے آتا ہے اور چھت کا پانی پرنالے سے گرتا ہے۔

 

۵۔ آب ازدل پاک آمد تاببامِ سینہا

سینہ چون آلودہ باشد این سخنہا باطل است

ترجمہ:۔ علم کا یہ پانی دل کی بلندی سے لے کر سینوں کی چھتوں تک تو پاک اور صاف ہی آیا، مگر جب سینہ (دنیاوی آلائشوں سے) آلودہ ہوا، تو (علم کا یہ پانی بھی پینے اور نہانے کے قابل نہ رہا، پس) ایسے علم کی باتیں باطل ہیں۔

 

۶۔ این خود آنکس را بود کزابراوباران چکد

بام کو از برگیروناودانش قائل است

ترجمہ:۔ یہ مثال صرف اس شخص کی ہے، جس کے بادل بارش برسا دیتے ہیں، اور چھت بادلوں سے پانی حاصل کرتی ہے، اس کا حال پرنالہ خود ہی بتا دیتا ہے۔

 

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۵۶

 

۱۵۲

 

نعتِ نبی اکرم صلعم

(از علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی)

 

۱۔ کلامِ خدادان کلامِ محمدؐ

سخن گفتہ یزدان زکامِ محمدؐ

ترجمہ:۔ حضرت محمدؐ کے کلام نے خداتعالیٰ کے کلام کو سمجھا دیا (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدؐ کی زبانِ مبارک سے خطاب فرمایا ہے۔

 

۲۔ کتابِ خدا معجزِ بے مثالے

گواہِ کمالِ کلامِ محمدؐ

ترجمہ:۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب (یعنی قرآن جو) ایک بے نظیر معجزہ ہے، حضرت محمدؐ کے کلام کی کمالیت کی گواہ ہے۔

 

۳۔ خداوندِ برتر نوازش نمود

بتکریمِ لولاک بکامِ محمد

ترجمہ:۔ اللہ تعالیٰ نے محمدؐ کے حصولِ مقصد کے لئے لولاک

 

۱۵۳

 

(لما خلقت الافلاک) کی تعظیم و تکریم سے نوازش فرمائی۔

 

۴۔ خدایش فشانید برعرشِ عزت

مقامیست محمود مقامِ محمدؐ

ترجمہ:۔ حق تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو (بموقعِ معراج) تختِ عزّت یعنی عرشِ اعظم پر بٹھایا (پس) محمدؐ کا مقام وہ مقام ہے، جس کی تعریف کی گئی ہے۔

 

۵۔ گہر ہائے حق اوصیا و رسل

خدا سفتہ اندر نظامِ محمد

ترجمہ:۔ حق تبارک و تعالیٰ نے حضرات انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے موتیوں کو حضرت محمد صلعم کی لڑی (سلسلہ) میں پروئے ہیں۔

 

۶۔ برون از حساب و فزون از شمار

درودِ الٰہی بنامِ محمدؐ

ترجمہ:۔ حضرت محمد صلعم کے اسمِ گرامی پر اللہ تعالیٰ کی بے حساب اور لاتعداد رحمت نازل ہو۔

 

۷۔ درآمد بدینِ خدا عالمے

باحکامِ شرع و حسامِ محمدؐ

ترجمہ:۔ حضرت محمدؐ کے احکامِ شرعی اور تیز تلوار سے (جو حضرت علیؑ کے ہاتھ میں تھی) دینِ خدا میں ایک پوری دنیا داخل ہو گئی۔

 

۱۵۴

 

۸۔ کشد بوئے رحمٰن زسویِ یمن

غذائی جلالی مشامِ محمدؐ

ترجمہ:۔ حضرت محمدؐ کامشام (یعنی سونگھنے کی قوت) یمن کی جانب سے جلالی غذا کے طور پر رحمٰن کی خوشبوئیں سونگھ لیا کرتا ہے۔

 

۹۔ کسے راکہ بختش کند یارمندی

فتداز عقیدت بگامِ محمدؐ

ترجمہ:۔ جس شخص کو اپنا بخت مدد کرتا ہے، وہ خلوص وعقیدت سے حضرت محمدؐ کے مبارک قدمو ںپر جا گرتا ہے۔

 

۱۰۔ نبیؐ و علیؑ ہست مولایِ حاضر

بود دردوعالم دوامِ محمدؐ

ترجمہ:۔ مولای حاضر حضرت نبیؐ اور حضرت علیؑ (کا نور) ہیں، کیونکہ دونوں عالم میں حضرت محمدؐ کی دائمیت برقرار ہے۔

 

۱۱۔ پیامِ محمدؐ پیامِ امامت

پیامِ امامت پیامِ محمدؐ

ترجمہ:۔ حضرت محمدؐ کا پیغام نورِ امامت کا پیغام ہے، نورِ امامت کا پیغام حضرت محمدؐ کا پیغام ہے۔

 

۱۲۔ کنون شہ کریم آلِ پاکِ نبی دان

برومیکنم احترامِ محمدؐ

 

۱۵۵

 

ترجمہ:۔ موجودہ وقت میں مولانا شاہ کریمؐ (حاضر امام) کو حضرت نبیؐ کی پاک آل سمجھ لے، میں تو انہیں کے واسطہ سے حضرت محمدؐ کا احترام بجا لاتا ہوں۔

 

۱۳۔ شدہ کشفِ اسرارِ حق بردلم

چوشد جانِ من مستِ جامِ محمدؐ

ترجمہ:۔ جب سے میری جان (روح) حضرت محمدصلعم کے (عشق کے) پیالے سے مست و مخمور ہوئی، تو میرے دل پر حق تعالیٰ کے اسرار منکشف ہوئے ہیں۔

 

۱۴۔ فدای امسامی کہ از آلِ اوست

تن و جانِ زارِ غلامِ محمدؐ

ترجمہ:۔ حضرت محمدؐ کے اس غلام کا جسم و جان اس امام پر فدا ہو، جو آنحضرتؐ کی آل سے ہیں۔

 

۱۵۔ چہ خوش خواند نورش بگوشِ نصیرؔ

کلامِ خدا ہم کلامِ محمدؐ

(سبحان اللہ!) اس (امامِ زمانؑ) کے نور نے نصیر ؔ کے کان میں خدا کے کلام (یعنی حکمتِ قرآن) کو نیز محمدؐ کے کلام (یعنی حکمتِ حدیث) کوکس خوش اسلوبی سے پڑھا!

 

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۵۷

 

۱۵۶

 

سردارِ رسل کے وزیر

(از قلمِ علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی)

 

وزیر کے لغو ی معنی ہیں بوجھ اٹھانے والا، اور اصطلاح میں وزیر اس شخص کو کہتے ہیں، جو کسی بادشاہِ مطلق العنان یا صدرِ جمہور کے امورِ مملکت اور نظامِ حکومت کی ذمہ داریوں کے بارِ گران کا متحمل ہوتا ہے، یہی مثال اور مفہوم خلافتِ الٰہیہ یعنی دینی حکومت کا بھی ہے، کہ اس میں ہر دور کا پیغمبر دینی بادشاہ اور اس کا وصی (یعنی وہ امام جس کو پیغمبر وصیت کرے) دینی وزیر ہوا کرتا ہے۔

چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام جب پہلی بار کوہِ طور پر اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہمکلام ہوئے، تو حق تعالیٰ نے ان کو پیغمبری کے درجہ پر مامور فرمایا، اور موسیٰ علیہ السّلام نے اس موقع پر پروردگارِ عالم سے جو کچھ عرض والتجا کی، اس میں یہ بھی ہے کہ: ـ۔ وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْ هٰرُوْنَ اَخِی  اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْ  وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْ (۲۰: ۲۹ تا ۳۲) ترجمہ:۔ اور میرے لئے میرے اہل میں سے ایک وزیر بنا دے (یعنی) میرا بھائی ہارون،

 

۱۵۷

 

اس کے ذریعے سے میری کمر مضبوط کر دے، اور اسے میرے کام میں میرا شریک کر دے۔

اسماعیلی اور اثنا عشری کتابوں کے علاوہ سنی مکتبۂ فکر کے مآخذ میں بھی یہ روایت مذکور ہے، کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے سلسلۂ قصّہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مذکورۂ بالا آیت نازل ہوئی، تو آنحضرتؐ نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی کہ: اے بارِ خدا! میں بھی اسی طرح التجا کرتا ہوں جس طرح موسیٰؑ نے التجا کی تھی کہ: وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْ هٰرُوْنَ اَخِی  اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْ  وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْ (۲۰: ۲۹ تا ۳۲) اور میرے اہل میں سے ایک وزیر بنا دے (یعنی) میرا بھائی علیؑ، اور اس کے ذریعے سے میری کمر مضبوط کر دے، اور اسے میرے کام میں شریک کر دے۔

حضرت امیرا لمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السّلام سے یہ روایت منقول ہے، آپ فرماتے ہیں، کہ جب آیتِ کریمہ: “وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ (۲۶: ۲۱۴) اور آپ اپنے نزدیک ترین کنبہ والوں کو ڈرائے۔” نازل ہوئی، تو آنحضرت صلعم نے ایک پیالہ دودھ اور بکری کی ایک ران دستر خوان پر رکھ کر خاندانِ نبی عبد المطلب کو مدعو کیا، جو چالیس مردوں پر مشتمل تھا، مگر دس نوجوان تو ایسے تھے، کہ ان میں سے ہر فرد ایک بکری اکیلا ہی کھا سکتا تھا، اور ایک مشک دودھ پی سکتا تھا، پھر بھی ان لوگوں نے پیٹ بھر کر کھایا پیا اس روز ابولہب بھی ان کے ساتھ تھا۔

۱۵۸

 

جب خورد و نوش سے فارغ ہو چکے تو رسولِ اکرم صلعم نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ، اے بنی عبد المطلب! میری اطاعت کرو، تو تم سب زمین کے بادشاہ اور حکمران بن جاؤ گے، اور میں تم سے پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں، کہ اب تک پروردگارِ عالم نے دنیا میں جتنے پیغمبر بھیجے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک وصی، وزیر، بھائی، وارث اور ولی مقرر فرمایا تھا، تو آج تم میں سے کون ایسا جوان مرد ہے، جو میرا وصی، میرا وارث، میرا ولی، میرا بھائی اور میرا وزیر بنے گا؟ اتنا سننا تھا کہ سب پر خاموشی طاری ہوئی، مگر آنحضرت صلعم نے اتمامِ حجّت کے طور پر ان میں سے ایک ایک کے سامنے فرداً فرداً یہ دعوت پیش کی، لیکن کسی نے آپؐ کی دعوت کو قبول نہ کیا، بجز آنکہ میں باقی رہ گیا تھا، اس وقت میں سب سے کمسن تھا، مگر جب رسول اللہ صلعم نے میرے سامنے اپنی یہ دعوت پیش کی، تو میں نے مؤدبانہ عرض کیا کہ اے پیغمبرِ خدا صلعم میں آپ کا وصی، وزیر، بھائی، وارث اور ولی بنوں گا، آپؐ نے فرمایا کہ، ہاں! اے علیؑ تم ہی میرے وصی، میرے وزیر، میرے وارث، میرے بھائی اور میرے ولی ہو۔

جب بنی عبدالمطلب مجلس سے باہر نکلے، تو ابولہب نے ان سے کہا، کہ تم نے آج جو کچھ دیکھا ہے، کیا اس سے تم کو اپنے صاحب محمدؐ کی جادو گری کا ثبوت نہیں ملتا، کہ اس نے تمہارے سامنے دسترخوان پر بکری کی ران رکھی اور دودھ کا ایک پیالہ جس سے تم لوگ خوب سیر شکم ہو گئے، پھر کیا تھا، وہ سب کے سب ابولہب کی اس بات کو سن کر ٹھٹھا کرنے لگے، اور

 

۱۵۹

 

حضرت ابو طالبؑ سے کہنے لگے کہ تمہارا بیٹا مقدّم ہو گیا۔ (ازدعائم الاسلام حصہ اول ص۳۱۔ ۳۲) ۔

مذکورۂ بالا حدیث مظہر ہے، کہ پروردگار عالم نے دنیا میں جتنے پیغمبر بھیجے ہیں ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک وزیر مقرر فرمایا تھا، چنانچہ حضرت آدمؑ کے وزیر مولانا امام شیث علیہ السّلام تھے، حضرت نوحؑ کے وزیر مولانا حضرت سام علیہ السّلام تھے، حضرت ابراہیمؑ کے وزیر مولانا امام اسماعیل علیہ السّلام تھے، حضرت عیسیٰؑ کے وزیر مولانا امام شمعون علیہ السّلام تھے، اور حضرت محمد مصطفیٰ صلعم کے وزیر مولانا امام علی علیہ السّلام ہیں۔

یہاں پر ایک اور حدیث کی وضاحت کی جاتی ہے، جو”حدیثِ مماثلتِ ہارونی” کے نام سےمشہور ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا: یاعلی انت منی بمنزلتی ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی۔ اے علی! تیرا درجہ مجھ سے ایسا ہے، جیسے ہارون کا درجہ موسیٰ سے تھا، مگر یہ کہ میرے بعد (کوئی) پیغمبر نہیں ہے۔

یہ حدیث زبانِ حکمت سے ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے، کہ بے شک مولانا علیؑ پیغمبر نہیں ہیں، اس لئے وہ ذاتی طور پر ظاہری پیغام پہنچانے کے ذمّہ دار نہیں، لیکن جہاں تک خدا اور رسولؐ سے ان کی قربت و نزدیکی اور امرِ نبوّت میں شریک ہونے کا تعلق ہے۔ اس کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے، کہ پہلے

 

۱۶۰

 

تو ان آیات پر غور کیا جائے، جو حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کے بارے میں ہیں، اس کے بعد ان تمام آیات کا دقتِ نظر سے مطالعہ کیاجائے، جو آنحضرتؐ کے ظاہری اور باطنی فضائل و کمالات اور مومنین کے اوصاف کی آئینہ دار ہیں، پھر آپ کو اس حقیقت میں ذرہ بھر بھی شک نہ رہے گا، کہ علیؑ جو عجائب و غرائبِ الٰہیہ کے مظہر ہیں، وزیر کی مرتبت میں حضورِ اقدس صلعم کے ساتھ ساتھ وحیٔ آسمانی اور علمِ لدّنی سے آراستہ و پیراستہ ہو کر سر چشمۂ رشد و ہدایت بھی ہیں، اور امیر المومنین کی حیثیت سے اسلام، ایمان، عبادت، ریاضت، حیا، تقویٰ، صبر، شجاعت، احسان، سخاوت، علم، حلم، حکمت، فضیلت، کرامت وغیرہ جیسی صفاتِ حسنہ میں اہلِ ایمان کے آگے آگے بھی ہیں، کیوں نہ ہو، جبکہ آپ ہی سردارِ رسل  اور شاہِ سبل کے وزیر ہیں، اور وزیر کا فرضِ منصبی ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ نہ صرف امورِ سلطنت کے نظم و نسق میں بادشاہ کا اوّلین راز دار، معاون اور مددگار ہوا کرتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ قوانینِ سلطنت کی پیروی میں رعایا سے سبقت وفوقیّت لے جا کر عملی مثال بھی پیش کرتا ہے۔

جب ہم شروع شروع میں قرآنِ مجید کی ان پُرحکمت آیتوں کو سطحی نظر سے دیکھتے ہیں، جو حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کے قصّے میں آئی ہیں، تو ہمیں صرف اس قدر معلومات فراہم ہوتی ہیں، کہ موسیٰؑ کی طرح ہارونؑ پر بھی وحی نازل ہوا کرتی تھی، اور وہ موسیٰؑ کے وزیر اور خلیفہ تھے، لیکن اس طائرانہ نظر سے یہ ہر گز معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ وزارت

 

۱۶۱

 

کے اس منصبِ اعلیٰ پر مامور ہونے کے بعد کن کن موقعوں پر اور کیسے کیسے حالات میں اپنے بھائی موسیٰؑ کی حمایت ویاری کرتے رہے؟ یہ سوال بظاہر نہایت ہی پیچیدہ اور سخت دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ موسیٰؑ خود ہر موقع پر تبلیغِ رسالت میں مصروف نظر آتے ہیں، اور ہارونؑ اکثر ان کے ساتھ ہوتے تو ہیں مگر خاموش۔

لیکن جب ہم بعد میں ان آیات کی معنوی گہرائیوں میں اتر کر حکمت سے خوب استفادہ کرتے ہیں، تو ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف و آگاہ ہو جاتے ہیں، کہ تمام امورِ دین کے دودو پہلو ہوا کرتے ہیں، ظاہر اور باطن، یا تنزیل اور تاویل، تنزیل آسمانی کتاب کی ظاہریت کا نام ہے، جس میں احکامِ الٰہی کے ظاہری پہلو نظر آتے ہیں، تاویل کتاب کی باطنیت کو کہتے ہیں جس میں ان احکام کے باطنی پہلو پوشیدہ ہوتے ہیں چنانچہ حضرت موسیٰؑ کا تعلق تنزیل سے تھا اور حضرت ہارونؑ کا تعلق تاویل سے اور یہ ایک لازمی بات ہے، کہ جس شخص کا تعلق پوشیدہ کاموں سے ہو، تو اس کی حیثیّت بھی پوشیدہ رہا کرتی ہے۔

اب اس حقیقت کی دلیل پیش کی جاتی ہے، کہ موسیٰؑ کا تعلق تنزیل سے تھا، اور ہارونؑ کا تعلق تاویل سے، وہ اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ:۔

وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْۤ٘-اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِ (۲۸: ۳۴) اور (موسیٰ نے کہا) میرا

 

۱۶۲

 

بھائی ہارون جو میری نسبت زبان میں زیادہ فصیح ہے، پس اسے میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیجئے (تاکہ) وہ میری تصدیق کرے، یقیناً میں ڈرتا ہوں کہ وہ کہیں مجھے نہ جھٹلائیں۔

یہاں موسیٰؑ نے اپنے بھائی ہارونؑ کی جس فصاحت کا ذکر کیا ہے، اس سے تاویل مراد ہے، کیونکہ جہاں لوگ تنزیلی امور کے نہ سمجھنے سے نبوّت کی تکذیب کرتے ہیں، وہاں تاویل کی روشنی میں ان پر حقیقت ظاہر کر کے نبوّت کی تصدیق کی جا سکتی ہے، ورنہ یہ بات کیسے ممکن ہے، کہ جب موسیٰؑ کہتے ہیں، کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں، اور ساتھ ہی ساتھ زبردست معجزات کی صورت میں اس کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں، تو لوگ ان کی تکذیب کرتے ہیں، مگر جب ہارونؑ صرف اپنی ظاہری فصاحت و بلاغت ہی سے ان کو سمجھاتے ہیں، تو وہ جھٹلانے سے باز آ کر موسیٰ علیہ السّلام کی نبوّت کے قائل ہو جاتے ہیں، بلکہ اس واقعہ کی حقیقت تو یہ ہے کہ ہارونؑ نے تاویل کی روشنی میں نہ صرف اپنی جسمانی زندگی کے دوران موسیٰؑ کی نبوّت کی تصدیق کی، بلکہ وہ پورے دور میں، جو حضرت عیسیٰؑ کے زمانہ تک ہے، اپنے سلسلۂ اولاد کی حیثیت میں بھی یہی کام انجام دیتے رہے، کیونکہ یہ تو ہر گز نہیں ہو سکتا، کہ نبوّت کی تکذیب و تصدیق نبی کی زندگی ہی تک محدود رہے، اور بعد وفات یہ بحث بالکل ختم ہو جائے، چنانچہ امرِ واقعہ اس کے برعکس ہے، اور وہ یہ ہے، کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جاتا ہے، تو عوام الناس بھی پیغمبر سے دور تر ہوتے جاتے ہیں،

 

۱۶۳

 

اس صورت میں لوگوں پر اتمامِ حجّت اور فرمانبرداروں کی رہنمائی کے لئے پیغمبر کے وزیر اپنی اولاد کی حیثیت میں موجود ہوتے ہیں، تاکہ پورے دور میں یکسان اور مسلسل طور پر تصدیقِ نبوّت کا کام جاری و ساری رہ سکے۔

اس بیان میں سردارِ رسل صلعم کے وزیر مولانا علیؑ کے بارے میں جو امامِ زمانہ علیہ السلام کی نورانی حیثیت میں ہیں، بہت سے روشن حقائق موجود ہیں، جن کا بالواسطہ اور بلا واسطہ دو طرح سے ذکر کیا گیا ہے، اس موقع پر اہلِ دانش کے لئے علم و عرفان کے یہی تذکرے اور اشارے کافی ہیں۔

 

بموقعِ عیدِ میلاد النبیؑ

سہ شنبہ ۱۲۔ ربیع الاول ۱۳۹۰ھ

بمطابق ۱۹۔ مئی ۱۹۷۰ء

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۵۷

 

۱۶۴

 

توحید

 

“توحید” ایک عربی لفظ ہے، جس کے معنی ہیں ایک ہونا، ایک بنانا، ایک ماننا اور ایک تصوّر کرنا، اور اس کے اصطلاحی معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت ویکتائی کا اعتقاد، یعنی خدائے واحد پر ایمان لانا اور ا س کی وحدت کا قائل ہونا، یہ توصرف توحید کی لفظی تحلیل ہوئی اب یہ دیکھنا ہے، کہ اس لفظ کے معنی سے خدا کی جو یکتائی مراد ہے، وہ کس طرح سمجھائی جا سکتی ہے، چنانچہ اس سلسلے میں اہلِ تصوّف کے نظریئے سے کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں:۔

توحیدِ وجودی:

توحیدِ وجودی یا وحدت الوجود کے معنی ہیں تمام ہستی کو ایک ماننا، یعنی یہ عقیدہ رکھنا، کہ ساری موجودات و مخلوقات کی حقیقی ذات ایک ہے، جو خدا کے نور اور رحمت میں مستغرق ہے، اور اس تصوّر کی مدد سے یہ حقیقت سمجھ لینے کی کوشش کرنا، کہ کوئی چیز خدا کی قدرت وحکمت سے خالی نہیں، اب اگر یہ معلوم ہو جائے، کہ ہر چیز میں خدا کی قدرت وحکمت موجود ہے، تو لازمی ہے، کہ تمام مظاہرِ

 

۱۶۵

 

قدرت کو ایک مان لیا جائے، اور قدرت کو قادرِ مطلق سے جدا نہ سمجھاجائے، چنانچہ جامی صاحب کی یہ رباعی اس مطلب کی خوب ترجمانی کرتی ہے:۔

مجموعۂ کونین بقا نونِ سبق

کردیم تفحص ورقا بعد ورق

حقا کہ ندیدیم و نخواندیم درو

جزذاتِ حق و شونِ ذاتیہ حق

ترجمہ:۔ ہم نے درس کے اصول پر دونوں جہاں کی کتاب کے اوراق کو تحقیق و تجسّس سے پڑھ لیا، خدا کی قسم ہم نے اس میں حق تعالیٰ کی ذات اور (علمی مراتب کے مطابق) اس کے مختلف ظہورات کے سوا اور کوئی شیٔ نہیں دیکھی۔ حضرت امام آقا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے اس حقیقت کو چند لفظوں میں اس طرح بند کیا ہے:۔ “فطرت خدا کی زندہ کتاب ہے۔”

توحیدِ عیانی:۔

جب کوئی خاص بندہ خدا کے نور کی قربت حاصل کر کے اپنی صفات کو خدا کی صفات میں فنا کر دیتا ہے، تو اس کی خودی خدا کی تجلّیوں میں گم ہو جاتی ہے، ایسے میں بعض عارف اناالحق (میں حق ہوں) جیسا کوئی نعرہ بلند کرنے لگتے ہیں، معرفت کا یہ مقام فنا فی اللہ و بقا بااللہ کہلاتا ہے، یعنی اپنی صفات سے فنا ہو کر خدا کی صفات میں زندہ ہو جانا۔

توحید کی مذکورہ مثالوں سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے، کہ جس طرح

 

۱۶۶

 

کثرت وحدت ہی سے پیدا ہوئی تھی، اسی طرح پھر یہ رفتہ رفتہ وحدت ہی میں فنا ہو نے والی ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے:

كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ، وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ، فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (۵۵: ۲۶ تا ۲۸) یعنی سب جو اس (زمین) پر ہیں فنا ہونے والے ہیں، اور باقی رہے گی آپ کے پروردگار صاحبِ جلالت و احسان کی ذات، پس تم دونوں (جنّ و انس) اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ ظاہر ہے کہ یہ فنا وہی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا، یعنی فنا فی اللہ و بقا بااللہ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے معلوم  ہوتا ہے، کہ یہ فنا بھی حق تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ہے۔

رسولؐ اللہ کا ارشادِ گرامی ہے، کہ: حق تعالیٰ نے اپنے دین کو اپنی خلق ہی کی طرح بنایا، تاکہ اس کی خلق سے اس کے دین کی دلیل لی جا سکےاور اس کے دین سے اس کی وحدانیّت کی دلیل لی جا سکے۔

خلق سے دینِ حق کی دلیل:

کائنات و مخلوقات سے دینِ حق کی دلیل یہ ہے، کہ آسمانوں اور ستاروں کے اثرات عناصر میں تحلیل ہو جاتے ہیں، عناصر سے نباتات اگتی ہیں، نباتات سے حیوانات کی پرورش ہوتی ہے، حیوانات کے فائدے انسانوں کو ملتے ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ اس ترتیب میں ہر مخلوق اپنے سے برتر مخلوق میں فنا ہو کر ایک اعلیٰ قسم

 

۱۶۷

 

کی ہستی میں بدل جاتی ہے۔

 

دینِ حق سے خدا کی وحدانیّت کی دلیل:

حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اور تم سب لوگ اللہ تعالیٰ کی رسی (ولایت) کو مضبوطی سے پکڑے رہو، اور متفرق نہ ہو اور یاد کرو اللہ تعالیٰ کی نعمت کو جو تم پر ہے، جبکہ تم دشمن تھے، پس اس نے تمہارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی تم اس کی نعمت کے طفیل بھائی بھائی ہو گئے۔

اس ارشادِ الٰہی میں یہ حکمت پوشیدہ ہے، کہ لوگ قبولِ اسلام سے قبل ایک دوسرے کے دشمن تھے، خدا و رسول نے دینِ حق کی نعمت سے، جو سب کے لئے ایک ہی ماں کے دودھ کا درجہ رکھتی تھی، ا ن کو بھائی بھائی بنایا، اب اس نعمت کے بعد ان کو ایک ایسی بے مثال نعمت کی طرف بلایا جاتا ہے، کہ جس سے وہ ایک جان کے مانند ہو سکتے ہیں، کیونکہ وحدت کے سلسلے میں بھائی بھائی ہونے کے بعد ایک جان کے مانند ہونا ہے، چنانچہ رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے:

انما المومنون اخوۃ والانبیاءِ کنفسِ واحدۃ۔ یعنی مومنین بھائی بھائی ہیں اور انبیاء (اولیاء) ایک جان کے مانند ہیں۔ اور سب سے بڑی قیامت برپا نہ ہوگی جب تک کہ مومنین ایک جان کے مانند ہو کر یکدلی نہ اختیار کریں، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

“مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍؕ (۳۱: ۲۸)

 

۱۶۸

 

اور نہیں تمہاری ازلی پیدائش اور بعث مگر ایک جان کے مانند۔” یعنی جس طرح تم ازل میں ایک جان کی طرح پیدا کئے گئے تھے، اسی طرح وحدت کے مقام پر پہنچ کر تم ایک ہو جاؤ گے، پس دینِ حق سے خدا کی وحدانیّت کی دلیل و مثال یہ ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تمام انبیاء اولیاء اور مومنین کی وحدت کے مرکز ہیں، اور آنحضرتؐ کا نور امامِ حیّ و حاضر کے لباس میں تاقیامت جلوہ گر ہے۔

توحیدِ مطلب:

صوفیائے کرام کے نزدیک توحیدِ مطلب یہ ہے کہ مرید، پوری تابعداری اور سچی محبت کے وسیلے سے اپنے پیرومرشد کے ساتھ وابستہ ہو جائے، رشد و ہدایت حاصل کرنے کے لئے کسی دوسرے شخص کی طرف ہر گز توجہ نہ کرے اور رفتہ رفتہ اپنی تمام خواہشات کو اپنے مرشد کی خوشنودی میں فنا کر دے، یہ ہوئی “توحیدِ مطلب” یعنی ذریعۂ ہدایت کے ساتھ اپنے آپ کو ایک کر دینا۔

 

(از قلم علامہ نصیر الدین نصیرؔہونزائی)

 

چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۶۰

 

۱۶۹

 

آیاتِ دعا کے بنیادی حقائق

(تحریر از علامہ نصیر الدین نصیرؔہونزائی)

 

حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام صلواۃ اللہ علیہ وسلامہٗ کے ارشاداتِ گرامی میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ ہم اسماعیلی اپنی مروّجہ دعا کے معنی و مطالب اور بنیادی حقائق کو بخوبی سمجھ لیا کریں۔ کیونکہ اس مبارک و مقدّس دعا کے الفاظ، اسماء، کلمات اور آیات نہ صرف حقیقی عبادت کے لحاظ سے پُرمغز اور پُرحکمت ہیں بلکہ یہ اسماعیلی عقیدہ اور نظریہ کے اعتبار سے بھی بنیادی اہمیّت کی حامل ہیں، چنانچہ ہم دعا کے ان اجزاء کی کچھ اساسی حقیقتیں بیان کرتے ہیں، جوآیاتِ قرآن کی صورت میں ہیں۔

 

حصۂ اوّل

سورۂ فاتحہ:

سورۂ فاتحہ مکہ میں نازل ہوئی اور بعض روایتوں کے

 

۱۷۰

 

مطابق مدینہ میں بھی نازل ہوئی۔ اس کو سبع المثانی کہتے ہیں، چنانچہ سبع کے معنی ہیں سات اور مثانی کے معنی ہیں دہرائی ہوئی، جس سے یہی سورۂ فاتحہ مراد ہے کہ اس کی سات آیتیں ہیں اور یہ دو دفعہ نازل ہوئی ہے۔

اس سورت کے بہت سے نام ہیں۔ جیسے سورۃ الحمد کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی گئی ہے، سورۃ الفاتحہ کیونکہ اسی سے قرآن شریف کا آغاز ہوتا ہے، اساس القرآن کہ یہی کتابِ الٰہی کی بنیاد ہے، سورۂ شفا کہ اس کی تاثیر سے روحانی اور جسمانی شفا حاصل ہوتی ہے، سورۃ الکنز، چونکہ یہی سورہ قرآن پاک کے سارے علوم کا خزانہ ہے، اور امُ الکتاب یا امُ القرآن، چونکہ قرآن شریف کے تمام مضامین اجمالی طور پر اس میں سمودیئے گئے ہیں۔ سورۂ فاتحہ کے نام ان کے علاوہ اور بھی ہیں جن سے اس سورہ کی عظمت و فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔

سورۂ فاتحہ میں خداوند عالم نے اپنے بندوں کو بطریقِ جامع ضروری امور کی تعلیم دی ہے بالفاظِ دیگر یہ سورت قرآن پاک کی تمام حقیقتوں کا سرچشمہ اور ساری حکمتوں کا خزانہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس کے ناموں میں سے ایک خاص نام ام الکتاب یا کہ ام القرآن ہے جس کے معنی ہیں: کتاب کی اصل یا کہ قرآن کی اصل (ORIGIN) ۔

 

۱۷۱

 

حصۂ دوم

الف) آیۂ اطاعت:

حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام سے روایت ہے، آپؑ نے فرمایا کہ پروردگار عالم نے یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا (اے ایمان والو) فرما کر قیامت تک کے مومنین سے یعنی ہر زمانے کے مومنین سے خطاب کر کے فرما دیا کہ  اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ، یعنی اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جوصاحبانِ امر ہیں ان کی اطاعت کرو (۰۴: ۵۹) ۔

امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس آیتِ کریمہ میں اللہ ورسول کی اطاعت کے بعد جن صاحبانِ امر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اس سےہم ائمّۂ اہلِ بیت مراد ہیں۔

ب) امامِ مبین:

حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبین میں جمع کر رکھا ہے۔

جناب امام محمد باقر علیہ السّلام سے بروایت اپنے والد ماجد و جدِ امجد کے منقول ہے کہ جب جناب رسولِ خدا پر یہ آیت نازل ہوئی تو اصحاب میں سے چند حضرات اپنی اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ کہ آیا امامِ مبین سے مراد توریت ہے؟ فرمایا

 

۱۷۲

 

نہیں، انہوں نے عرض کی: پھر انجیل ہے؟ فرمایا نہیں۔ پھر انہوں نے عرض کی: آیا قرآن ہے؟ فرمایا نہیں، اتنے میں جناب امیر المومنین مولانا علیؑ تشریف لے آئے، آنحضرت نے فرمایا: دیکھو ! وہ امام جس میں خدائے تعالیٰ نے ہر چیز کے علم کا احصار فرما دیا یہ ہے۔

جناب امیر المومنین علیؑ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم وہ امام مبین میں ہوں، میں حق و باطل کو صاف صاف بیان کردیتا ہوں اور میں نے یہ عہدہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے وارثۃً پایا ہے (بحوالۂ تفسیر صافی و تفسیر عمدہ البیان وحاشیہ ترجمہ قرآن از مقبول احمد صاحب) ۔

حصۂ سوم

امرِ ولادیت:

جب مذکورۂ بالا آیۂ اطاعت کے ذریعے خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے بعد صاحبِ امرؑ یعنی امامِ وقتؑ کی اطاعت فرض کی گئی تو لوگ سمجھ نہ سکے، کہ ولایت کیا ہے، ہر چند کہ رسول اللہ مختلف موقعوں پر مولانا علی علیہ السّلام کی ولایت کے متعلق لوگوں کو سمجھا دیا کرتے تھے، اور یہ کام نزول وحی کے آغاز ہی سے جاری تھا۔ جیسے آنحضرتؐ نے فرمایا کہ مجھ سے علیؑ کو وہی درجہ ہے جو موسیٰؑ سے ہارونؑ کو تھا۔ پھر بھی لوگ علیؑ کی ولایت سمجھنے سے

 

۱۷۳

 

قاصر رہے۔ اس وقت پروردگارِ عالم نے آنحضرت صلعم کو یہ حکم دیا کہ آپؐ امت کو ولایت کا مفہوم بھی اسی طرح سمجھا دیں جس طرح سے کہ آپ نے دوسرے امور کی صورت و کیفیت سے واقف کیا ہے۔ پس مفہومِ ولایت سمجھانے کا یہ حکم خداوند عالم نے جب آنحضرت صلعم پر نازل کیا تو اس وقت آپؐ کا دل بیٹھ گیا اور آپؐ کے دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ کہیں خدانخواستہ لوگ آپ کے دین سے مرتد نہ ہو جائیں اور آپ کی نبوّت کی تکذیب نہ کر بیٹھیں۔ اس اندیشے کی وجہ سے آپ امرِ ولایت کے متعلق دوبارہ رب العزت سے مخاطب ہوئے تو خداوندِ تعالیٰ نے یہ وحی نازل کی کہ:۔

یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ-وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗؕ-وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِؕ (۰۵: ۶۷)

ترجمہ:۔ اے رسول جو کچھ (امرِ ولایت کے بارے میں) آپ کے ربّ کی جانب سے آپ پر نازل کیا گیا ہے آ پ اس کو پہنچا دیجئے اور اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کا ایک پیغام بھی نہیں پہنچایا اور اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔

چنانچہ آنحضرت صلعم نے امرِ الٰہی کو ظاہر کر دیا، اور مقامِ غدیر خم میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السّلام کی ولایت و امامت کا اعلان کر دیا۔ آپؐ نے پہلے تو اس پیغام کو پہنچانے کے لئے “الصلواۃ جامعۃ” کی ندا کروائی اور آپؐ نے یہ حکم جاری فرمایا کہ جو حاضر ہے، وہ اس پیغام

 

۱۷۴

 

کو غائب تک پہنچا دے۔

 

حصّۂ چہارم

بیعتِ رضوان:

ہجرت کے چھٹے سال میں صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے بیک وقت چودہ سو اصحاب سے، جو اس وقت حاضر تھےبیعت لی، اس کے بعد سورۂ فتح نازل ہوئی جس میں بعض دوسرے امور کے ساتھ ساتھ بیعت کی حقیقت و حکمت کے بارے میں بھی ارشاد ہے کہ: (اے رسول!) جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں تو وہ (واقع میں) اللہ تعالیٰ سے بیعت کر رہے ہیں، خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے پھر (بیعت کے بعد) جو شخص عہد توڑے گا تو اس کے عہد توڑنے کا وبال اسی پرپڑے گا، اور جو شخص اس بات کو پوراکرے گا جس پر (بیعت میں) خدا سے عہد کیا ہے، سو عنقریب خدا اس کو بڑا اجر دے گا (۴۸: ۱۰)

اس بیعت کے متعلق حق تعالیٰ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اسی لئے اس کو بیعتِ رضوان کہتے ہیں، چنانچہ ارشاد ہے کہ:۔ لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ  (۴۸: ۱۸) یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہو گیا، جس وقت کہ انہوں نے درخت کے نیچے آپ سے بیعت کی۔

 

۱۷۵

 

آیۂ بیعت کی مذکورہ تعلیم سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوئی کہ مومنین دین و ایمان کی حفاظت کے لئے اپنے آپ اتفاق و اتحاد کے رشتہ میں منسلک ہرگز نہیں ہو سکتے بجز آنکہ وہ ایک ایسی مقدّس ہستی کے مبارک ہاتھ پر بیعت کریں اور اس سے ہمیشہ وابستہ رہیں جس کو حق تعالیٰ نے اپنی رحمت سے مومنین کے لئے حقیقی اتحاد کا مرکز قرار دیا ہے، جس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے جس سے بیعت کرنا خدا سے بیعت کرنا ہے اور جس کا فرمان ماننا خدا کا فرمان ماننا ہے اور ایسی پاک ہستی پیغمبر اور امام علیہ السّلام کی ہے۔

چنانچہ اسماعیلی مذہب کا یہ عقیدہ ایک زندہ حقیقت کی حیثیت سے ہے کہ مومنین کی ہدایت کرنے اور ان سے فرمانبرداری اور اتحاد کی بیعت لینے کے لئے آنحضرتؐ کے وصی ہمیشہ دنیا میں حاضر اور موجود ہیں جو محمدؐ و علیؑ کے نور کے حامل اور امامِ زمانہ کا درجہ رکھتے ہیں۔

 

حصۂ پنجم

امانات:

حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ اور (اس کے) رسول کی (امانتوں میں) خیانت نہ کرو، اور نہ اپنی امانتوں کی خیانت کرو، حالانکہ تم جانتے ہو (۰۸: ۲۷) ۔

 

۱۷۶

 

اس ارشادِ الٰہی کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ قرآن کے علم و حکمت اور رتبۂ آلِ محمد (یعنی امامت) خدا اوراس کے رسول کی امانتیں ہیں، پس ایمان والوں کو چاہئے کہ وہ ان امانتوں میں خیانت نہ کریں یعنی وہ ان مقدّس امانتوں کے مالک ہونے کا دعویٰ نہ کریں؟ بلکہ ان کو خدا اور رسولؐ کی ملکیت سمجھیں چنانچہ قرآن کے متعلق یہ عقیدہ رکھیں کہ قرآن کے علم و حکمت اللہ تعالیٰ جانتا ہے، اور اس کے رسول جانتے ہیں، وصیٔ رسولؑ جانتے ہیں اور رتبۂ امامت کے بارے میں عقیدہ رکھیں کہ امامت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ہے اور آنحضرتؐ کے بعد یہ امانت ان کی آلِ پاک کی ہے اور ایمان والوں کو ان امانتوں میں  دخل دینے کا حق نہیں۔ پس اس عقیدہ اور تصوّر کی مثال ایسی ہے جیسے خدا اور رسول کی امانتیں ادا کر دی گئیں۔ اس کے برعکس اگر وہ ان امانتوں میں خیانت کریں تو گویا وہ خود اپنی ان امانتوں میں خیانت کرتے ہیں، جو قرآن اور امامت کے ذریعے روح الامین کے فیوض و برکات کی صورت میں ان کو مل سکتی تھیں۔

چنانچہ خدا اور رسول کی یہی مقدّس امانتیں تھیں جن کے بارے میں آنحضرتؐ نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ: میں اپنے بعد تمہارے درمیان دو گرانمایہ چیزیں چھوڑ دیتا ہوں خدا کی کتاب (یعنی قرآن مجید) اور میری عترت و اہلِ بیت، اگر تم ان دونوں کو پکڑے رہو گے تو تم میرے بعد ہر گز ہرگز گمراہ نہ ہو جاؤ گے کیونکہ یقیناً  یہ دونوں ایک دوسرے

 

۱۷۷

 

سے ہر گز جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ یہ دونوں حوضِ کوثر میں مجھ سے آن ملیں۔

اب معلوم ہوا کہ یہ دونوں گرانمایہ چیزیں وہی ہیں جن کو مذکورۂ بالا آیت میں خدا اور رسول کی امانتیں کہا گیا ہے اور یہ دونوں مقدّس چیزیں امانت اس معنی میں ہیں کہ ملکیت جس کی ہو اس کو اختیار ہے کہ وہ جیسا چاہے استعمال کرے، مگر امانت جس کے پاس ہو اس کا فریضہ ہے کہ صاحبِ امانت سے یہ با ت پوچھ لیا کرے کہ اس امانت کا مقصد و منشاء کیا ہے، اس سے کس طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور اس کی کیا کیا شرطیں ہیں۔

حصۂ ششم

سورۂ اخلاص:

سورۂ اخلاص مکہ یا مدینہ میں نازل ہوئی اور اس کی چار آیتیں ہیں۔ اخلاص کے معنی کسی چیز کوآمیزش اور ملاوٹ سے خالص اور پاکیزہ کرنے کے ہیں۔ چنانچہ اس سورۃ میں توحید کو شرک اور دہریّت کی آمیزش سے خالص اور پاکیزہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اس لئے اس کو  سورۂ اخلاص کہتے ہیں۔ اس اہمیّت کی بنا پر اس کو قرآن پاک کی تمام تعلیمات کا خلاصہ اور نتیجہ کہا گیا ہے۔

حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے کہ یہودیوں

 

۱۷۸

 

نے رسولِ خدا سے پوچھا کہ تم اپنے پروردگار کا نسب بیان کرو اور انہوں نے تین بار یہی پوچھا لیکن حضر ت جواب نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ جبرائیلؑ یہ سورہ لے کر آئے۔

سورۂ اخلاص کا مقصد اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت (یکتائی) کا مفہوم سمجھانا ہے اور وہ نظریۂ وحدت الوجود کے مطابق  درست ہے، یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ ساری موجودات و مخلوقات کی حقیقی ذات ایک ہے۔ جو خدا کے نور اور رحمت میں مستغرق ہے اور اس تصوّر کی مدد سےیہ حقیقت سمجھ لینے کی کوشش کرنا کہ کوئی چیز خدا کی قدرت و حکمت سے خالی نہیں۔ اب اگر یہ معلوم ہو جائے کہ ہر چیز میں خدا کی قدرت و حکمت موجود ہے تو لازمی ہے کہ تمام مظاہرِ قدرت کو ایک مان لیا جائے اور قدرت کو قادرِ مطلق سے جدا نہ سمجھا جائے۔ چنانچہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا ارشادِ گرامی ہے کہ: کہا جاتا ہے کہ ہم سب خدا میں رہتےہیں، خدا میں حرکت کرتے ہیں اور ہمارا وجود خدا میں ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ خدا کے ارادہ اور اس کے منشاء سے باہر کوئی شے اور کوئی وجود نہیں۔

 

۱۷۹

 

حدودِ دین

(بقلمِ علامہ نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی)

 

حدودِ دین کے لفظی معنی ہیں دین کی حدیں اور اس کا مطلب ہے دین کے درجے یا کہ دعوت کے ارکان، قرآنِ حکیم میں بطریقِ حکمت دین کے حدود اور درجات کا خالص طور سے ذکر موجود ہے، چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:۔

وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗؕ (۶۵: ۰۱) “اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے حدود سے نکل جائے، پس تحقیق اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔” یعنی جو انسان حدودِ دین کے دائرۂ فرمان سے نکل جاتا ہے تو وہ یقیناً اپنی روح پر بہت بڑا ظلم کرتا ہے، اور اگر وہ ان حدود کی فرمانبرداری کرتا ہے تو وہ قربِ الٰہی کے ان حدود اور درجات کے وسیلے سے معرفت کے ایک خاص مقام تک پہنچ سکتا ہے، جیسا کہ قولِ قرآن ہے:۔

 

۱۸۰

 

هُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللّٰهِؕ -وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ (۰۳: ۱۶۳) یعنی “وہ (حدودِ دین) خدا کے نزدیک درجے ہیں، اور جو کچھ وہ کرتے ہیں خدا اسے دیکھ رہا ہے۔” چنانچہ ہم ذیل میں حدودِ دین یعنی دعوت و معرفت کے مدارج کی کچھ وضاحت کر دیتے ہیں۔

مستجیب:

جس شخص نے دعوتِ حق (اسماعیلیّت) قبول کر لی ہے یا جو خاندانی اسماعیلی حصولِ حقیقت کی ابتدائی حد میں ہو، وہ اس مذہب کی اصطلاح میں مستجیب کہلاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ (۰۸: ۲۴) اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کی دعوت کو قبول کرو جبکہ رسولؐ تم کو اس چیز کے لئے دعوت کرے جو تم کو (روحانی طورپر) زندہ کر دینے والی ہے۔

ظاہر ہے کہ مستجیب اسماعیلی دعوت کی ابتدائی حد ہے اور یہیں سے دعوت الحق یعنی اسماعیلیّت شروع ہو جاتی ہے، پس مستجیب صرف شروع شروع کی دینی تعلیمات اور ابتدائی ہدایات حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے، مگر وہ کسی دوسرے کو دعوت نہیں کر سکتا۔

 

ماذون:

ماذون کے معنی ہیں اذن یافتہ شخص، یعنی ایک ایسا اسماعیلی

 

۱۸۱

 

جو مستجیب کی حد میں تھا، لیکن بعد میں دینی علم کی قابلیّت کے سبب سے اس کو دعوت کرنے کی اجازت دی گئ ہے، ماذون دودرجوں میں ہوتے ہیں: ماذونِ محدود اور ماذونِ مطلق۔

الف) ماذونِ محدود، یعنی وہ ماذون جو دعوت کے لئے ایک طرح سے اذن یافتہ تو ہے، مگر اس کے بارے میں کلّی طور پر آزاد نہیں، یعنی اس کو صرف اتنی اجازت ہے کہ وہ کسی کے باطل عقیدے کو ایک سخت مسئلے کی صورت دے کر توڑ دیتا ہے، مگر وہ اس سوال کا جواب نہیں دیتا، اور وہ اسے یہ ظاہر کر دیتا ہے، گویا وہ خود بھی اس جواب کی تلاش میں لگا ہے، تاکہ وہ شخص، جس کا باطل عقیدہ توڑا گیا ہے، حدودِ اعلیٰ کی طرف رجوع ہو جائے، پس اسی معنی میں ماذونِ محدود کو مکاسر کہا جاتا ہے، مکاسر کے معنی ہیں توڑنے والا، یعنی وہ لوگوں کے باطل عقائد کو توڑ دیتا ہے۔

ماذونِ محدود کا درجہ یہ ہے کہ وہ مستجیبون کے دلوں کو علمِ حقیقت کی طرف متوجّہ کر دیتا ہے۔

ب) ماذونِ مطلق، یعنی وہ ماذون جسے داعی کی نگرانی میں دعوتِ حق کی پوری آزادی حاصل ہے، اسے اختیار ہے کہ مستجیب کے ضروری سوالات کے جوابات دے دے۔ وہ سب سے پہلے مستجیب سے عہد وپیمان لیتا ہے کہ وہ اس کے بعد حدودِ دین کی تابعداری کرتا رہے گا، اور اسرارِ دین کو گنجِ گرانمایہ کی طرح مخفی اور محفوظ رکھے گا۔ ماذونِ مطلق

 

۱۸۲

 

کا مرتبہ عہد و پیمان لینا ہے۔

داعی:

داعی کے لغوی معنی بلانے والے کے ہیں، جس سے مراد یہاں حدودِ دین میں سے وہ شخص ہے جو حجّت کی طرف دعوت وتبلیغ کے لئے مقررکیا گیا ہے، چنانچہ ہر حجّت کے تحت تیس (۳۰) داعی دعوت کے امور کو انجام دیتےرہتے ہیں، اسی طرح کرۂ ارض کے بارہ حجّتوں کے کل تین سو ساٹھ (۳۶۰) داعی ہوا کرتے ہیں۔

عام طور پر داعی کے دو درجے ہوتے ہیں: داعیٔ محدود اورداعیٔ مطلق اور بعض دفعہ ان کے علاوہ داعیٔ بلاغ کو بھی مقرر کیا جاتا ہے۔

داعیٔ محدود کا رتبہ یہ ہے، کہ وہ جسمانی حدود کی شناخت اور ظاہری عبادت کی تعلیم دیتا ہے، داعیٔ مطلق کا درجہ یہ ہے کہ وہ روحانی حدود کی معرفت اور باطنی عبادت کی تعلیم دیتا ہے، اور داعیٔ بلاغ کا منصب یہ ہے کہ وہ دلائل و براہین اور علمِ آخرت کی تعلیم دیتا ہے۔

حجّت:

حجّت کے معنی دلیل اور غلبہ کے ہیں، جس کا مطلب ہے دلیل میں غالب آنا، اور حدودِ دین کے سلسلے میں حجّت اس عظیم المرتبت شخص کو کہتے ہیں، جو علمِ روحانیّت میں یگانۂ روزگار ہو، جسے زمانے کے امام نے دنیا کے کسی جزیرے میں راہِ حق کی ہدایت کے لئے مقرر فرمایا ہو، اور ہر دور کے جغرافیہ کے مطابق کرۂ ارض کے

 

۱۸۳

 

بارہ جزیرے (مناطق) مانے گئے ہیں، پس ہر جزیرے میں ایک حجّتِ شب اور ایک حجّتِ روز مقرر ہوتا ہے، ان کے علاوہ امام علیہ السّلام کی حضرت میں بھی چار حجّت ہوتے ہیں۔ اس طرح حجّتوں کی مجموعی تعداد اٹھائس (۲۸) ہے۔

حجّت کو صاحبِ جزیرہ کہا جاتا ہے، اور بعض دفعہ داعی بھی کہا گیا ہے، نیز بعد کے زمانوں میں حجّت یا داعی کے لئے پیر کا لقب بھی استعمال ہوا ہے۔ حجّت کا علمی مرتبہ یہ ہے کہ وہ حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرتا ہے۔

باب:

باب دروازے کو کہتے ہیں، یہاں باب سے مراد حجّتِ اعظم ہے، جو امامِ عالی مقام کے علم ومعرفت اور نورِ حقیقت کے دروزے کی حیثیت رکھتا ہے، باب کو داعیٔ دعات اور رئیسِ مجلسِ دعوت بھی کہتے ہیں، یعنی داعیوں کا داعی اور مجلسِ دعوت کا صدر، باب کا عرفانی مرتبہ یہ ہے کہ وہ فصل الخطاب کا مالک ہے، یعنی اس کے پاس علمِ ظاہر اور علمِ باطن دونوں بدرجۂ اتم موجود ہوتے ہیں۔

امام:

امام کے عام و خاص بہت سے معانی اور درجے ہیں، کیونکہ جسمانی حیثیّت کے اعتبار سے بھی اور روحانی حقیقت کے لحاظ سے بھی اس کی مبارک ومقدّس ہستی کے گوہرِ نایاب کے بہت سے پہلو ہیں۔

 

۱۸۴

 

وہ اگرچہ اپنی ازلی نورانیّت میں تمام حدودِ دین کا جامع ہے، لیکن جسمانیّت و بشریت کے اعتبار سے وہ حدودِ دین میں سے ایک متوسّط حد ہے۔

امام علیہ السّلام کا ایک خاص دینی مرتبہ جو ابتداء سے انتہا تک قائم ہے، جس سے اوپر کوئی مرتبہ نہیں “الامر” ہے، یعنی وہ ظاہراً و باطناً امر و فرمان کا مالک ہے۔

اساس:

اساس کے معنی ہیں بنیاد، یعنی وہ امام جو کسی ناطق پیغمبر کے دور کے شروع میں منارۂ امامت اور خانۂ حقیقت کی بنیاد کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ چنانچہ آخری ناطق (حضرت محمدؐ) کے دور کے اساس مولانا علیؑ تھے۔

اساس کو صامت، وزیر، وصی اور وراثت جیسے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اساس کو صامت اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ احکامِ دین کے ظاہر کے متعلق خاموش رہتا ہے، کیونکہ وہ تو باطن کا مالک ہے اور ظاہر کا مالک ناطق ہے، وہ وزیر اس لئے کہلاتا ہے کہ وہ پیغمبر کے روحانی امور میں شرکت اور معاونت کرتا ہے، وصی اور وراثت اس معنی میں ہے کہ رسول ناطق اپنی روحانی خلافت و نیابت کے لئے اسی کو وصیت کر کے وارث بنادیتا ہے۔

اساس کا خاص مرتبہ معجزۂ تاویل ہے جو نسلاً بعد نسل قیامت تک برقرار وباقی ہے۔

 

۱۸۵

 

ناطق:

ناطق کے لفظی معنی ہیں بولنے والا، جس سے مراد ایک ایسا پیغمبر ہے جو آسمانی کتاب اور مخصوص شریعت کا مالک ہواور اسی سلسلے میں بولتا ہو، چنانچہ حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمد مصطفیٰ صلعم یہ چھ حضرات اپنے اپنے وقت کے ناطق تھے، ناطق کا علمی معجزہ تنزیل ہے، یعنی نزولِ وحی کا مرتبہ۔

خیال:۔

خیال جبرائیل فرشتے کا نام ہے جو وحی کا ابتدائی فرشتہ ہے، اس فرشتے کو خیال اس لئے کہتے ہیں کہ یہ معجزاتی آواز کے علاوہ اکثر تصوّر و خیال کی روشن مثالوں میں وحی لاتا ہے۔

فتح:

فتح کا مطلب ہے کھولنا اور غلبہ پانا، فتح میکائیل کو کہتے ہیں، چنانچہ جب حقیقی مومن حدودِ دین کے معجزات سے گزرتے ہوئے میکائیل کے معجزہ تک پہنچ جاتا ہے تومیکائیل تمام فرشتوں اور روحوں کے لشکر کی مدد سے مومن کے نفس کے ناقابلِ تسخیر قلعے کو ریزہ ریزہ کر کے فتح کر دیتا ہے۔ پھر مومن کے لئے روحانی حقائق و معارف کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ میکائیل فرشتے کا معجزہ قوّتِ فہم کے ذریعے علمی مسائل کی گتھیوں کو سلجھانا ہے۔

جدّ:

اسرافیل کو کہتے ہیں، جدّ کے لغوی معنی شان بتاتے ہیں،

 

۱۸۶

 

یہ فرشتہ صاحبِ صور ہے یعنی نرسنگھا بجانے والا، جو واقعاً ایک عجیب و غریب پر حکمت بانسری یا ایک معجزانہ شہنائی کے مشابہ کوئی ساز بجا کر نفوسِ خلائق کو فنائیت کا مزہ چکھا دیتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ اسی صور کی معجزانہ آواز سے انہیں زندہ کر دیتا ہے، بخدا یہ ایک ایسی زندہ حقیقت ہے، کہ اس کی تعریف و توصیف احاطۂ بیان سے باہر ہے۔

اسرافیل دراصل عشقِ حقیقی کا فرشتہ ہے جس کا معجزہ فنا فی اللہ اور بقا باللہ ہے۔

نفسِ کلّی:

نفسِ کلّی ایک ہمہ گیر اور ہمہ رس روح ہے جو اس وسیع اورعظیم کائنات کی روحِ اعظم کی حیثیت رکھتا ہے، یہی روح تمام انسانی روحوں کا بحرِ محیط ہے۔ اس کے بہت سے نام ہیں، مثلاً حوّائے حقیقی، کرسی، لوحِ محفوظ، نفسِ واحدہ، تالی وغیرہ۔

نفسِ کلّی کا مرتبہ ترکیبِ عالم ہے، یعنی کائنات کی تخلیق اسی سے ہے اور عالمِ جسمانی میں یہ نورِ مرتضوی ہے۔

عقلِ کلّی:

عقلِ کلّ سب سے عظیم روح ہے، جو دونوں جہان کی عقلِ کامل اور انسانی عقول کا سرچشمہ ہے۔ اس کو آدمِ حقیقی، عرش، قلمِ الٰہی، عقلِ اوّل اور سابق بھی کہتے ہیں۔ یہ نور مصطفویؐ ہے، جبکہ نفسِ کلّ نورِ مرتضویؑ ہے۔

 

۱۸۷

 

عقلِ کلّ کا مرتبہ نورانی تائید ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت و قوّت کی انتہائی معجزانہ مدد ویاری۔

نوٹ:۔ واضح رہے کہ حدودِ دین کا مذکورہ نظام حضرت امام آقا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے زمانے سے اٹھایا گیا ہے اور حدودِ دین کے یہ درجات صرف اس زمانے میں مقررہوتے ہیں جس زمانے میں امامِ زمان علیہ السلام خود مرتبۂ حجت یعنی پیری کے مرتبہ کو اپنے پاس نہیں رکھتے۔ چونکہ حضرت امام آقا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے دورِ مقدّس سے مرتبۂ حجت یعنی پیری کا مرتبہ بھی خود امام علیہ السّلامہ ہی کے پاس ہے اس لئے حدودِ دین کا یہ نظام اس زمانے میں اسماعیلی دعوت میں نہیں پایا جاتا اور جماعتی ادارے جو خدمت انجام دیتے ہیں اور جو درجے ان اداروں میں پائے جاتے ہیں وہ صرف ظاہری اور انتظامی امور کے لحاظ سے ہیں۔

 

۱۸۸

 

اسلام۔ دینِ حق۔ خدا کا قدیم دین

(علامہ نصیرالدین نصیرؔہونزائی)

 

اہلِ بصیرت و اصحابِ دانش کی فکر ونظر کے سامنے یہ حقیقت اظہر من الشّمس ہے، کہ اسلام یعنی دینِ حق زمانہائے دراز گزر جانے کے بعد پیدا نہیں کیا گیا، بلکہ یہ خدا کا قدیمی اور ازلی دین ہے، اور قانونِ الٰہی کی رو سے اس کا ایسا ہی ہونا ضروری تھا، تاکہ ہر دور اور ہر زمانے کے لوگوں کو کسی تخصیص و تعمیم اور فرق و امتیاز کے بغیر یکسان طور پر اللہ کا سچا دین پیش کیا جا سکے، اس کے سوا خدا کی وحدانیّت کا کوئی تصوّر اور دین و ایمان کی کوئی صورت ناممکن تھی، کیونکہ یہی دین اللہ تعالیٰ کے اس بے مثال مقدّس قانون کا درجہ رکھتا ہے، جو قانونِ فطرت کے اسم سے موسوم اور سنّتِ الٰہیہ کی حیثیت سے ہمیشہ موجود ہے۔

یہاں اس مطلب کو یوں ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ حقیقی اسلام، قانونِ فطرت، دینِ حق اور خدا کی سنّت و عادت ایک ہی حقیقت کے مختلف نام ہیں اور یہی حقیقت صراطِ مستقیم یعنی نورِ ہدایت اور منزلِ نجات کا

 

۱۸۹

 

رستہ ہے۔

ہر دانشمند دیندار اس مفروضہ میں غور وفکر کر کے یہ اندازہ کر سکتا ہے، کہ اگر دینِ اسلام قانونِ قدرت و فطرت اور سنتِ الٰہی سے الگ تھلگ کوئی نظام و آئین مقرر ہوا ہوتا، تو اس صورت میں ایسے اسلام کی بنیادی اور اصولی تعلیمات قانونِ فطرت اور سنتِ الٰہیہ کے خلاف واقع ہوتیں، اور منشاءِ الٰہی سے ان کا تصادم ہوتا رہتا، لیکن ظاہر ہے، کہ اسلام کی اساسی اور حقیقی ہدایتوں میں ایسی کوئی بات پائی نہیں جاتی، جو قانونِ الٰہی کے برعکس قرار پائی ہو، پس معلوم ہوا، کہ سنّتِ الٰہی دینِ اسلام کا حقیقی اور قدیم نام ہے، جیسے قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوا ہے کہ:۔

سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا وَ لَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیْلًا (۱۷: ۷۷) ان رسولوں کا دستور (دین) چلا آتا ہے جو ہم نے اپنے پیغمبر تم سے پہلے بھیجے اور ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہ پاؤگے۔

قرآنِ پاک کے اس مبارک و مقدّس ارشاد کا لبِ لباب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے رشد و ہدایت اور علم و حکمت کی روشن قندیلیں لے کر جتنے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اس سیّارۂ زمین پر تشریف فرما ہوئے ہیں، ان تمام حضرات کا یہی ایک دین و آئین رہا ہے، جودینِ حق اور دینِ فطرت کہلاتا ہے، جس کی اصولی تعلیمات میں بحقیقت

 

۱۹۰

 

کوئی تبدیلی نہیں پائی جاتی، مگر ہاں اس میں کوئی شک ہی نہیں، کہ اس کی فروعی ہدایات میں رفتہ رفتہ بمقتضائے زمان و مکان ترمیمات اور تبدیلیاں ہوتی چلی آتی ہیں، پس سنتِ اللہ اور انبیاء و أئمّہ کے دینِ حق میں یہی خاص علامت و نشانی پائی جاتی ہے۔

چنانچہ حق تعالیٰ کا یہ مبارک فرمان ہے کہ:۔ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمينَ (۲۲: ۷۸) (اے گروہِ أئمّہ!) اس نے (یعنی خدانے) تم کو برگزیدہ فرمایا اور دین میں تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں کی جو تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے، اسی نے تمہارانام مسلمان رکھا۔ اس آیۂ مقدّسہ کی واضح تعلیم یہ ہے کہ خدا کے یہ برگزیدہ حضرات أئمّہ اطہار علیہم السّلام ہی ہیں جن کی برگزیدگی کا بین ثبوت بھی خود اسی ارشاد میں موجود ہے، کہ خداوند عالم نے دینِ حق کے تمام قدیم وجدید مسائل کا علمِ لدنّی أئمّہ طاہرینؑ کو عطا فرمایا ہے، جس کے ذریعے وہ ہر قسم کی دینی اور دنیاوی مشکلات میں لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کر سکتے ہیں، اور انہیں کارِ دین میں کوئی رکاوٹ اور کسی قسم کی تنگی پیش نہیں آتی، یہ اختصاص صرف أئمّۂ آلِ محمدؐ ہی کو حاصل ہے اور ان کے سوا کوئی دوسرا انسان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ دین اور قرآن کی جملہ مشکلات کو حل کر سکتا ہے۔

مذکورۂ بالا حقیقتوں کے علاوہ یہاں یہ بھی ظاہر ہوا، کہ اسلام اور

 

۱۹۱

 

مسلمان کے یہ نام آج سے نہیں بلکہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام کے زمانے سے ہیں، یہ تو لفظِ اسلام اور مسلمان کی اصطلاح بن جانے کی ابتداء کے بارے میں بات ہوئی، لیکن اسلام کی معنویّت، حقیقت اور روح اس واقعہ سے بہت قدیم ہے جیسا کہ پروردگار عالم کا مبارک ارشاد ہے کہ:۔

شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا (۴۲: ۱۳) اس نے (یعنی خدا نے) تمہارے لئے دین میں وہی راہ مقرر کر دی جس کا حکم نو ح کو کیا تھا اور جس کو ہم نے آپ کے پاس بذریعۂ وحی بھیجا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو حکم دیا تھا، کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔

آیۂ مذکورۂ بالاصاف اور واضح الفاظ میں فرما رہی ہے کہ حضور اکرم صلعم کا لایا ہوا دین اور شریعت وہی ہے، جس کا حکم انبیائے سلف کو دیا گیا تھا، اور جس پر ان پیغمبروں نے عمل کیا تھا، اگرچہ اس میں سطحی طور پر ترمیم و تجدید ہوتی رہی ہے، لیکن دین کے اصولات، حقیقت، اصلیّت، روح اور مقصد وہی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور نہ ہی آئندہ ہو گی۔

پروردگارِ عالم کا ارشاد ہے کہ:۔

 

۱۹۲

 

وَ اِنَّهٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ (۲۶: ۱۹۶) اور وہ (یعنی قرآن) سابقہ امتوں کی کتابوں میں بھی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا، کہ ان تمام آسمانی کتب اور صحائف میں، جو سرورِ کائناتؐ سے اگلے پیغمبروں کو دیئے گئےتھے، قرآنِ حکیم کی وہ مختلف تدریجی ہدایات و تعلیمات تھیں جو گزشتہ ادوار کے لوگوں کی ضروریات کے مطابق پیش کی گئی تھیں، پھر یہاں اس حقیقت کے لئے اقرار کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں، کہ قرآنِ حکیم اپنے تنزیلی، تاویلی، ظاہری اور باطنی معنوں میں نہ صرف ایسی ہدایات کا بے پایان خزانہ ہے، جو گزشتہ زمانوں کے بارے میں ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس میں ایسی تدریجی اور ارتقائی تعلیمات کی بھی فراوانی ہے، جو موجودہ اور آئندہ زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کو پورا کر سکتی ہیں، اور دینِ اسلام کی تدریجی ہدایات کا ایک قابلِ فہم ثبوت صراطِ مستقیم کا تصوّر ہے، جس میں یہ تعلیم رکھی ہوئی ہے کہ ہمیں قدم بقدم اور منزل بمنزل خدا کے قرب و حضور کی طرف روان دوان ہونا چاہئے، اور راہِ حق کا یہ سفر شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کی چار منزلوں کے درمیان ہے۔

سطورِ بالا سے اس امر کی صراحت ہو گئی، کہ پیغمبرِ آخرِ زمانؐ کا دین خدائے واحد کا قدیم دین ہے، اور نبوّت وامامت کے ذریعہ اسی دین کی دعوت وہدایت ہوتی رہی ہے، اس دین کے اصولات ہمیشہ اٹل اور بے بدل ہیں، مگر فروعات میں احوالِ زمانہ کی ضرورت کے مطابق مناسب ترمیم و تجدید ہوتی چلی آئی ہے تاکہ وقت اور جگہ کے فرق

 

۱۹۳

 

و تفاوت کے بغیر ہر زمانے میں بندگانِ خدا دنیوی اور اخروی ہدایتیں اور رحمتیں حاصل کر سکیں، چنانچہ اس باب میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا مقدّس فرمان ہے کہ:۔

كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً (۰۲: ۲۱۳) سب آدمی ایک ہی امت تھے، یعنی یہ نہ صرف حضرت آدمؑ سے پہلے والوں کی بات ہے بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ابتداء سے لے کر انتہا تک جتنے لوگ دنیا میں پیدا ہونے والے تھے، وہ سب کے سب دعوت و نصیحت کے امتحان سے قبل خدا کی نظر میں ایک ہی امت تھے، اور قانونِ عدل و انصاف کی رو سے انہیں یکسان طور پر آسمانی رشد و ہدایت کی ضرورت وحاجت تھی، فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ۪۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا جو خوشی سناتے تھے اور ڈراتے تھے۔ وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ (۰۲: ۲۱۳) او ر ان کے ساتھ حقانیّت سے کتاب نازل فرمائی اس مقام پر یہ حقیقت صاف صاف ظاہرہوئی، کہ اگر لوگوں سے دین و مذہب کی قبولیّت و ناقبولیّت اٹھالی جائے، تو اوّلین و آخرین سب لوگ ایک ہی امت ہیں، انبیاء و أئمّہ علیہم الصلوات والسّلام دعوتِ حق کی ایک ہی جماعت ہیں، اور ان کے آسمانی کتب وصحائف ایک ہی کتاب کی حیثیت سے ہیں پس اگر ہم مانیں کہ سچا دین بدرجۂ سنّتِ خدا سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفات میں موجود تھا، تو ہر گز غلط نہیں، اور اسی دین کی طرف

 

۱۹۴

 

بلائے جانےکے لئے سب لوگ پیدا کئے گئے، اور جس کی ہدایت و تعلیم دینے کی غرض سے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام مقرر ہوئے، ان تمام ہادیانِ راہِ حق نے ربّ العزّت کی اس ہمہ گیر کتاب کے ظاہر و باطن سے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کی جو تمام امتوں میں مشترک تھی، اور دنیا کسی وقت بھی اللہ کے اس سلسلۂ ہدایت سے بے نیاز نہیں ہو سکتی ہے۔

قرآنِ حکیم کے اشارات، معتبر روایات، عقلی دلائل اور سائنسی انکشافات کی روشنی میں دیکھنے سے ہمیں یہ یقین آتا ہے، کہ اس وسیع و عریض کائنات کے مختلف سیّاروں میں اور خود اس سیّارۂ زمین پر لاتعداد آدم ہو گزرے ہیں، اور قانونِ حکمت کہتا ہے کہ ان تمام آدموں اور ان سب کی نسلوں کو خدائے یکتا کا ایک ہی دین پیش کیا گیا تھا، جو دینِ حق تھا، اور جس کا مرکزی نام آج اسلام ہے، جو اللہ کی سنت اور دینِ فطرت کے مرتبے میں ہے، پس یہی سبب ہے جو حق تعالیٰ کا ارشاد ہوا ہے کہ:۔

فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَاؕ (۳۰: ۳۰) یعنی اللہ تعالیٰ کی فطرت وہی ہے جس کے موافق اس نے لوگوں کو پیدا کیا۔ یاد رہے کہ فطرت کے معنوں میں سے ایک معنی دینِ اسلام کے ہیں۔

اس موضوع کے سلسلے میں یہاں تک جو کچھ بیان ہو چکا، اس کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ ازل سے ابد تک دینِ حق ایک ہی ہے جس کی

 

۱۹۵

 

طرف جملہ پیغمبروں اور اماموں نے اپنے اپنے وقت کے لوگوں کو واجبی طور پر دعوت دی ہے، اور یہ حضرات امردعوت کے مقصدِ اعلیٰ میں نفسِ واحدہ کی طرح یک زبان  اور متحد تھے، ان کاملِ انسانوں نے جنہیں خدائے برتر نے ہر لحاظ سے برگزیدہ فرمایاتھا، اپنے اپنے وقت کے تقاضے کے مطابق دنیا والوں کے سامنے جس شان سے دینِ حق کی ہدایات و تعلیمات پیش کی ہیں، اس میں کوئی کمی نہ رہی ہے، اور یہ رہنما سلسلہ جو نبوّت کے بعد امامت کی صورت میں چل رہا ہے، تا قیامِ قیامت جاری و باقی رہے گا، اور زمانہ جیسے بھی نت نئے مشکلات و مسائل پیدا کرتے گزر جائے، ان سب کا حل اسی مبارک و مقدّس سلسلے کے امامِ حیّ و حاضر کی تازہ ترین ہدایات و فرامین کے ذریعے سے ہوتا رہے گا۔

 

الحمد للہ ربّ العلمین

سوینئیر ۱۹۷۴ میلاد النبی نمبر

 

۱۹۶

 

حکمتِ عددی

چالیس (۴۰)

 

حقیقی مومن کو اس امرِ واقعی میں کوئی شک نہ ہو گا، کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے مقدّس ارشاد”وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ” (۳۶: ۱۲) کے بموجب کائنات و موجودات کی ہر چیز کو رشتۂ قدرت و حکمت میں پرو کر امامِ اطہر علیہ السّلام کی ذاتِ والا صفات سے وابستہ کر دیا ہے۔ تمام اشیائے ظاہری کی ارواحِ لطیفہ اور اسرارِ بدیعہ کو مرتبۂ امامت میں سمویا ہے، اور کون ومکان کی وسعتوں کو اسی مظہرِ صفاتِ قدسیہ کی نورانیّت کے بے پایان سمندر میں مستغرق کئے رکھا ہے، پس جاننا چاہئے کہ عالمِ ہست و بود کے ظاہر و باطن میں کوئی چیز ایسی نہیں، جو زبانِ حکمت سے اس حقیقت کی شہادت نہ دیتی ہو، کہ امامِ برحقؑ دنیا میں ہمیشہ کے لئے حیّ و حاضر ہیں، چنانچہ ہم یہاں نورِ الٰہی کی توفیق سے چالیس (۴۰) کی حکمتِ عددی میں سے کچھ بیان

 

۱۹۷

 

کر دیتے ہیں۔

خدائے علیم و حکیم نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو چالیس برس مکمل ہونے کے بعد نبوّت و رسالت کے مرتبۂ عالی سے نوازا، اگرچہ حضور اکرمؐ بچپن ہی سے انتہائی پاک و پاکیزہ اخلاق کے مالک تھے، اور آپ کو حضرت یحیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کی طرح ابتدائی عمر میں درجۂ پیغمبری کی موہبت و عنایت ممکن تھی، لیکن اس امرِ عظیم کے لئے چالیس سال کی شرطِ محض اسی لئے لازمی ہوئی کہ نبوّت و امامت کا ایک مخصوص عدد چالیس (۴۰) ہے، پس معلوم ہوا کہ چالیس (۴۰) کا عدد پیغمبر اور امامؑ کا خاص مرتبہ ہے۔

حضرت پیر ناصر خسرو کی مشہور کتاب وجہ دین کے تیسویں کلام میں ہے کہ:۔

حدودِ دین کا مجموعہ بھی چالیس ہے، یعنی پانچ روحانی حدود (عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، جدّ، فتح، خیال) ناطق، اساس، سات امام، دن رات کے چوبیس حجّت، اور داعی و ماذون (۵ +۲ +۷ +۲۴ +۲ =۴۰)

پس یہی عدد یعنی چالیس پیغمبرؐ اور امامؑ کا بھی ہے، کیونکہ نبوّت و امامت کا نور ایک ہی ہے اور اس پاک نور میں جملہ حدودِ دین مجموع ہیں۔

سورۂ احقاف کی پندرہویں آیت کے مفہوم میں حیاتِ بشری کے مراحل کے بارے میں یہ اصول بتایا گیا ہے، کہ اکثر انسانی سمجھ بوجھ کی تکمیل اور عقل و شعور کی پختگی چالیس برس کے بعد ہوتی ہے، ایک

 

۱۹۸

 

نیکو کار اور دور اندیش انسان عمر کی اس حد میں پہنچ کر اپنے پروردگار سے اس بات کی توفیق طلب کرتا ہے، کہ وہ اپنی زندگی میں بڑے پیمانے پر اخلاقی اور روحانی انقلاب لا سکے، پس جاننا چاہئے کہ انسانی عمر میں چالیس کے عدد کی یہ اہمیت اس حقیقت کے پیشِ نظر ہے کہ چالیس کے عدد کی حکمت کا تعلق نورِ محمد و علی علیھا السّلام سے ہے۔

حدیث میں ہے، کہ دستِ قدرت نے حضرت آدمؑ کے قالب کا گارا چالیس صبحوں میں گوندھ کر تیار کیا، یعنی ہر صبح نورانیّت کے وقت آدمؑ کے جسمانی وجود کا خمیر تیار ہوتا رہا، اس کی تاویل یہ ہے کہ آدم صفی اللہؑ کی اعلیٰ روحانی ہستی چالیس (۴۰) صبحوں کی عارفانہ عبادت سے مکمل ہوئی تھی، کیونکہ چالیس کے عدد کی تاویل میں نبوّت و امامت کے اسرارِ معرفت پنہان ہیں۔

قرآن پاک کے قولِ حکمت آگین سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰؑ کوہِ طور پر جس اعتکاف کے لئے گئے تھے، اس کی مدّت چالیس راتوں کی تھی، تاکہ حضرت موسیٰؑ اس اعلیٰ ترین اعتکاف کے ذریعہ اپنے ربّ کے زیادہ سے زیادہ نزدیک ہو سکیں۔ جس کا تاویلی اشارہ یہ ہے، کہ نورِ نبوّت و امامت کی معرفت کے بغیر، جو چالیس (۴۰) حدودِ دین کا مرکز ہے، روحانیّت کے مراحل طے نہیں ہو سکتے۔

فریضۂ جہاد ترک کرنے کی سزا میں بنی اسرائیل کو ارضِ مقدّس (ملکِ شام) سے چالیس سال تک محروم کر دیا گیا، اور انہیں اس عرصے

 

۱۹۹

 

میں وادیٔ تیہ میں محدود ہو کر سرگردان ہونا پڑا، اس کی تاویل بھی یہی ہے کہ انہوں نے اپنے پیغمبر اور امامِ وقت کی نافرمانی کی تھی، جن کا نشان چالیس تھا، لہٰذا انہیں چالیس سال کی سزا ملی تاکہ غور و فکر کرنے والے اس حکمت کو سمجھ سکیں۔

جملِ کبیر کے سلسلے میں چالیس (۴۰) کے عدد کا حرف “میم” ہے اور میم عربی میں ایک ایسا انتہائی عجیب حرف ہے کہ اس کے اسماء والفاظ کے شروع میں داخل ہونے سے طرح طرح کے معنوں کا تعیّن ہوتا ہے، اور ان سب میں اسرارِ امامت پوشیدہ ہوتے ہیں، مثلاً اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک اسمِ جو علمِ الٰہی سے متعلق ہے، علیم ہے یا علام یا اعلم ہے یا الاعلم ہے۔ یہ ظاہری بات ہوئی، مگر حقیقت میں اس سلسلے کا سب سے بڑا نام معلم ہے، جس میں حرف میم ہے، جس کی بزرگی کی دلیل یہ ہے کہ کسی ہستی کے علم ودانش رکھنے میں انتی فضیلت نہیں جتنی کہ علم سکھانے کی فضیلت ہے۔ چنانچہ وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا (۰۲: ۳۱) (اور خدا نے آدم کو تمام اسماء کی حقیقت سکھائی) سے ثابت ہے کہ خداوندِ عالم خود ہی آدم صفی کا معلّم تھا، اس بیان سے نہ صرف یہی حقیقت واضح و روشن ہو گئی کہ حرف میم میں معنویّت و حقیقت کی انتہائی بلندی ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم ہوا، کہ علم الاسماء میں تمام حقائق و معارف کے خزانے موجود ہیں۔ اس بیان میں حقیقی اور دانشمند مومنین کے لئے بہت کچھ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نور ہی ہر زمانے میں ظاہراً

 

۲۰۰

 

وباطناً صحیح معنوں میں معلم و رہنما ہے، اور یہی نور یعنی امام زمانؑ قادر مطلق کا اسم اعظم ہیں۔

خوب جاننا چاہئے کہ چالیس کے عدد کا جملِ اصغر۴ ہے، اور محمد وعلی صلوات اللہ علیھما کے مبارک و مقدّس اسموں کا جملِ اصغر بھی ۴ ہے۔ یہ اس طرح سے ہے: ۴۰=۰+۴برابر ہے ۴ جواب، اب محمدؐ و علیؑ کے مبارک ناموں کا بسطِ حرفی ملاحظہ ہو=م ح م د، ع ل ی۔ ان پاکیزہ حروف کے اعداد اور ان کا مجموعہ یہ ہیں=۴۰ +۸+ ۴۰ +۴ +۷۰ +۳۰ +۱۰ برابر ہے ۲۰۲، دو سودو کا جملِ اصغر یہ ہے=۲ +۰+ ۲ برابر ہے ۴ جواب۔

مذکورہ بالا تمام حکمتوں اور تاویلات کا خلاصہ یہ ہے کہ چالیس کے عدد میں محمدؐ و علیؑ کے نورِ واحد کے حقائق و معارف کا ایک بے پایان خزانہ پوشیدہ ہے اس گنجینۂ علم وحکمت کے اسرار میں سے یہ بھی ہے کہ نور اصل میں ایک ہی ہے جو کبھی خدا سے، کبھی رسولؐ سے اور کبھی امامؑ سے منسوب کیا جاتا ہے، اور حقیقت بس یہی ہے کہ اس پاک نور میں وحدانیّت کی صفت ہے، یہ نور جو کائنات و موجودات کی تمام روحوں کی روح اور ساری عقول کی عقل بھی ہے اس وقت امام زمانؑ کی ذاتِ اقدس سے طلوع ہوکر عالمِ دین کو منور کر رہاہے۔

 

۲۰۱

 

قرآن اور حقیقتِ شیعیت

(از قلم علامہ نصیرا لدین نصیرؔہونزائی)

 

ہم یہاں سب سے پہلے حقیقتِ شیعیت کے بارے میں اپنے خیالات عرض کرتے ہیں، تاکہ یہ ظاہر ہو، کہ یہ موضوع دراصل کہاں سےکہاں تک پھیلا ہوا ہے، اور اس کے آغاز و انجام کی حقیقت کیا ہے، وغیرہ۔

چنانچہ “حقیقتِ شیعیت” سے شیعانِ علی کے نظریئے کی اصلیّت اور واقعیّت مراد ہے، اور وہ حضرت مولانا مرتضیٰ علی اور ان کی آلِ اطہار علیہم السّلام کی ولایت و امامت ہے، کیونکہ شیعی کے اصطلاحی معنی سے وہ شخص مراد ہے، جو مولانا مرتضیٰ علی اور ان کی پاک ذرّیت علیہم السّلام کو آنحضرتؐ کے حقیقی جانشین مانتا ہے، اور شیعیت

 

۲۰۲

 

کا مطلب یہاں اس نظریئے کی اصلیّت اور واقعیّت ہے۔

پس اگر ہم حقیقتِ شیعیت کو خدا اور اس کے رسولِ برحقؐ کے ارشادات کی روشنی میں دیکھنا چاہتے ہیں، تو لازمی ہے کہ ہم ان تمام آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوّی کا غور سے مطالعہ کریں جو حضرت امیر المومنین علی اور ان کی پاک ذرّیت علیہم السّلام کی ولایت و امامت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔

اگر ہم حقیقتِ شیعیّت کو عملی طور پر خود اسماعیلی مذہب میں دیکھنا چاہتے ہیں، تو ضروری ہے، کہ ہم اپنے أئمّۂ برحق کے فرامین اور بزرگانِ دین کے علمی آثار کا گہرا مطالعہ کریں، کیونکہ شیعیّت کی اصلی صورت اسماعیلیّت ہی ہے، اس لئے کہ علیؑ کا نور درحقیقت اسی مذہب میں حاضر اور موجود ہے۔

اگر ہم حقیقتِ شیعیّت کو تاریخی نقطۂ نگاہ سے دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسماعیلی مذہب اوراس کے اماموں کی تواریخ پڑھنی چاہئے، کیونکہ شیعانِ علی کا اصلی نظریہ اور تصوّر صرف اسماعیلی مذہب ہی میں برقرار و باقی ہے، وہ یہ ہے کہ رسولِ اکرمؐ کے بعد ان کی پاک آل سے ہمیشہ کے لئے زندہ امام حاضر اور موجود ہونا چاہئے۔

اگر حقیقتِ شیعیت کی کچھ مثالیں کسی دوسرے مذہب سے لینی ہوں تو اس کے لئے بہتر یہ ہے، کہ وہ مثالیں تصوّف سے لی جائیں، اس لئے کہ صرف تصوّف ہی ایک ایسا مذہب ہے، کہ جس کی کسی حد تک

 

۲۰۳

 

حقیقتِ شیعیت کے ساتھ ہم آہنگی ہو سکتی ہے۔ مثلاً تصوّف کا یہ بنیادی عقیدہ، کہ پیرو مرشد کی تابعداری کے بغیر کوئی مرید منزلِ طریقت میں نہیں پہنچ سکتا، جس طرح شیعیّت کی اصل الاصول ہے، کہ امام زمان کی فرمانبرداری کے بغیر کوئی مومن منزلِ حقیقت میں داخل نہیں ہو سکتا۔

اگر حقیقتِ شیعیّت دل کی آنکھ سے دیکھنا ہو تو مومن کو اپنی ذات کی معرفت حاصل کرنی پڑے گی، چونکہ دینِ حق کا روحانی مشاہدہ اور خدا کی پہچان انسان کے اپنے آپ کی شناخت کا نتیجہ ہے، اور ہمارے دینی بزرگوں کو اس مذہب کی تحقیق کے بارے میں جو یقینِ کامل حاصل ہوا، وہ ان کی اپنی ذات کی معرفت کے ذریعے سے میسّر ہوا تھا۔

اگر ہم اس حقیقت کو عقلی دلائل کی روشنی میں دیکھنا چاہتے ہیں، تو قانونِ فطرت کی شہادتوں سے کام لینا ہو گا، جو آفا ق و انفس کی تخلیق میں موجود ہیں، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ” سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّؕ (۴۱: ۵۳) ہم ان کو اس عالم میں اور خود ان کی جانوں میں اپنے نشانات دکھاتے رہیں گے، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے، کہ وہ حق ہے۔ ”

اگر عصرِ حاضر کے بعض ترقی پسند علمی اداروں کو خصوصیّت سے حقیقت شیعیت پر ریسرچ کرنے کی ضرورت پیش آئی ہو، تو وہ اس

 

۲۰۴

 

حیرت انگیز واقعہ کی بنا پر ہو گی، کہ دنیا کا کوئی مذہب اور اسلام کا کوئی فرقہ اپنے ابتدائی اور اصلی نظریات پر قائم نہیں رہ سکا، سوائے شیعہ مذہب کی ایک شاخ کے، جو نزاری اسماعیلیّت ہے، جس کا نظریہ اب بھی وہی ہے، جو رسول اکرمؐ کے فوراً بعد قائم کیا گیا تھا، وہ یہ کہ آلِ محمدؐ واولادِ علی علیہم السّلام سے ہمیشہ کے لئے زندہ اور حاضر امام موجود ہونا چاہئے، تاکہ اس سے دینی اور دنیاوی ہدایت حاصل کی جا سکے۔

اس کے علاوہ ان علمی اداروں کو شیعیّت کے متعلّق تحقیق کرنے کا احساس اس لئے ہوا ہوگا، کہ خدا کا آخری دین اسلام ہے، اور اسلام کی ایک مثالی شاخ شیعیّت ہے، جس کے عقائد و نظریات کا خلاصہ یہ ہے، کہ خدا اور رسولؐ کی طرف سے دنیا میں ہمیشہ کے لئے انسانی وحدت اور حصولِ کمالیّت کا مرکز قائم ہے، وہ قدرتی مرکز امام زمانؑ ہیں، جن پر اگر سب دنیا والے متفق و متحد ہو جائیں، تو روحانی ترقی اور عالمی امن کا دور دورہ ہو سکتا ہے۔

جیسا کہ اس بیان کے شروع میں اشارہ کیا گیا، کہ حقیقتِ شیعیّت سب سے پہلے قرآن اور حدیث سے واضح ہو جاتی ہے، اب ہم یہاں اس کی ایک مثال عرض کرتے ہیں، کہ ارجح المطالب، باب دوم، ص۵۶ پر ابوبکر ابنِ مردویہ کے حوالے سے مولانا علیؑ  کا یہ کلام درج ہے: “نزل القرآن ارباعاقربع فینا و ربع فی عدوناور بع سیر وامثال و ربع فرائض و احکام  ولنا کرایم القرآن=

 

۲۰۵

 

قرآن مجید چار حصوں میں نازل ہوا ہے، پس اس کی ایک چوتھائی ہماری شان میں ہے، ایک چوتھائی ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہے، ایک چوتھائی میں قصّے اور مثالیں ہیں اور ایک چوتھائی میں فرائض و احکام ہیں اور قرآن مجید کی بزرگ آیتیں ہماری شان میں ہیں۔ ”

کیا مولانا علیؑ کے اس پُرحکمت کلام کے ظاہری معنی کے اعتبار سے ہم صرف یہی مان بیٹھیں، کہ قرآنِ مجید کی ایک ایک چوتھائی مولائی نامدار کی شان میں ہے اور بس، یا اس قول کی حکمت کو منکشف کرنے کی جسارت کریں؟ آپ ضرور اس پر متفق ہوں گے، کہ مومنین کی روحانی ترقی کا انحصار اس امر پر ہے، کہ وہ حصولِ حکمت کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کریں، پس مولا کے مذکورہ کلام کی حکمت سن لیجئے، کہ یہ تو صاف ظاہر ہی ہے، کہ قرآن مجید کی ایک چوتھائی مولا کی شان میں ہے، مگر سوال اس بارے میں پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کا جو حصّہ علیؑ کے دشمنوں کے بارے میں ہے، وہ کس صورت میں ہے؟ کیا اس حصے میں کھلم کھلا علیؑ کے دشمنوں کی مذمت کی گئی ہے؟ نہیں نہیں، قرآن کا وہ حصّہ اس طرح سے نہیں، لہٰذا ہمیں حدیث نبویؐ کی مدد سے اس مسئلہ کا حل نکالنا پڑے گا، وہ یہ ہے، کہ آنحضرت نے آخری حج کے موقع پر مولانا علیؑ کے حق میں بطورِ دعا فرمایا:۔

اَللّٰھُمَّ وَاٰلِ مَنۡ وَالَاہٗ وَعَاد مَنۡ عاداہ=اے میرے

 

۲۰۶

 

پروردگار! آپ اس شخص کو دوست رکھئے جو علیؑ کو دوست رکھے اور اس شخص کو دشمن رکھئے جو علیؑ کو دشمن رکھے۔

پس معلوم ہوا، کہ قرآن پاک میں خدا کے جن دشمنوں کا ذکر آیا ہے، وہ درحقیقت وہی لوگ ہیں، جن کی علیؑ سے دشمنی ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلا، کہ اسی طرح حکمت کے اصول میں قرآن کی دوسری چوتھائی بھی مولا کی شان میں ہے، کیونکہ انہی کی وجہ سے ان کے دشمنوں کی مذمت کی گئی ہے۔

اب قرآن کی تیسری چوتھائی کے بارے میں سنئے، جس میں قصے اور مثالیں بیان کی گئی ہیں، سو قصوں کے متعلق یہ ہے، کہ وہ اکثر قرآنی قصے پیغمبروں کے بارے میں ہیں، اور اس کے علاوہ جو قصے ہیں، وہ بھی دراصل ایسے لوگوں کے بارے میں ہیں، جو پیغمبروں کی فرمان برداری کرتے تھے، یا ان لوگوں کے بارے میں ہیں، جو پیغمبروں کی نافرمانی کرتے تھے، پس قرآن کے تمام قصّوں کے مرجع انبیاء علیہ السّلام ہوئے، اور یہ ایک مشہور حدیث ہے، جو آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا:۔

یَاعَلِیۡ کُنۡتَ مَعَ الۡاَنۡبِیَاء سِرّاً وَّمَعِیۡ جَھۡراً=اے علی آپ تمام پیغمبروں کے ساتھ پوشیدہ طور پر موجود تھے اور سب پیغمبروں کے مرجع ہیں، بلکہ ان سے متعلق تمام قصّوں کے بھی مرجع ہیں۔

 

۲۰۷

 

اب ہم قرآنی مثالوں کے بارے میں عرض کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے، کہ قرآن مجید کی بعض مثالیں مثبت پہلو سے اور بعض مثالیں منفی پہلو سے حقیقت الحقائق کے تمام درجات کی حکمت بیان کرتی ہیں، چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: “بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌؕ- (۲۱: ۱۸) بلکہ ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں، پس وہ (حق) اس (باطل) کا بھیجا نکال دیتا ہے، سو وہ دفعتاً جانے والا ہوتا ہے۔” اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے نہ صرف یہی معلوم ہوا، کہ قرآن کے خاص خاص حقائق مثالوں میں بیان کئے گئے ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ظاہر ہوا، کہ حق و باطل کا آخری فیصلہ بھی انہی مثالوں میں موجود ہے، یہی وجہ ہے، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا کہ:۔ “الحق مع  علی = یعنی حق علی ہی کے ساتھ ہے۔” جب یہ معلوم ہوا کہ حق اور حقیقت علیؑ ہی کے ساتھ ہے، اور حقیقتیں قرآن کی مثالوں میں بیان کی گئی ہیں، تو ظاہر ہے کہ قرآن کا وہ حصّہ بھی علیؑ ہی کی شان میں ہے، جس میں حقیقت الحقائق کے درجات کی مثالیں ہیں۔

اب رہی قرآن کی آخری چوتھائی، جس میں فرائض اور احکام مذکور ہوئے ہیں۔ اس کے بارے میں عرض یہ ہے کہ فرائض اور احکام کی بجا آوری خدا کی اطاعت کہلاتی ہے، مگر خدا کی یہ اطاعت رسول اور اولوالامر (یعنی آئمۂ برحق) کے وسیلے سے کی جاسکتی ہے، کیونکہ یہی

 

۲۰۸

 

حضرات ہیں، جو خدا کے فرمائے ہوئے فرائض و احکام کی تفصیلات لوگوں کو زمان و مکان کے تقاضے کے مطابق بتایا کرتے ہیں، جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے: “یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ (۰۴: ۵۹) اے ایمان والو! تم اللہ کی فرمان برداری کرو، اور رسول کی فرمان برداری کرو اور اولوالامر کی فرمان برداری کرو جو تم میں سے ہیں۔”

جب یہ معلوم ہوا کہ قرآن مجید کے اس حصّے میں بھی مولانا علیؑ کا ذکرِ جمیل موجود ہےجس میں فرائض و احکام مذکور ہیں، تو اب ہم عرض کرسکتے ہیں، کہ قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس میں کسی نہ کسی طرح سے علیؑ یعنی نورِ امامت کا تذکرہ نہ کیا گیا ہو، پس یہی حقیقتِ شیعیّت کا موضوع اور قرآن و حدیث سے اس کا تعلق جو بیان کیا گیا۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

بموقع نوروز، ۲۱ مارچ ۱۹۶۸ء

 

۲۰۹

 

الٰہی شناخت

سیدنا ناصر خسرو قدس کی تصنیف”روشنائی نامہ”سے چند منتخب اشعار

ترجمہ و تشریح: علامہ نصیرالدین نصیرؔہونزائی

 

بنامِ آنکہ دار ای جہان است

خدا وندِ تن و عقل وران است

ترجمہ:۔ اس (خدا) کے نام سے (آغاز کرتا ہوں) جو کائنات کا نگہبان ہے، اور جسم و جان اورعقل کا مالک ہے۔

تشریح:۔ حضرت ناصر خسرو قدس اللہ سرّہ، حکمت کی زبان میں فرماتے ہیں، کہ اگرچہ عام اعتقاد کے مطابق حق تعالیٰ ہر چیز کا نگہبان اور مالک ہے، لیکن حقیقت میں اس کی صفاتِ عالیہ کے فیوض و برکات سے تمام مخلوقات یکسان طور پر مستفیض نہیں ہو سکتیں، بلکہ وہ حسبِ مراتب فیضیاب ہوتی رہتی ہیں۔ نگہبانی اور محافظت کی جانے والی مخلوق کے

 

۲۱۰

 

لئے یہ قید و شرط ضروری نہیں، کہ وہ اپنے نگہبان اور محافظ کو پہچانے اور اس کی فرمان برداری کرے، مگر مملوک ہونے کے لئے یہ شرط لازمی اور ضروری ہے کہ اپنے مالک کو پہچان لیا جائے اور اس کی فرمان برداری کی جائے۔

خرد ز ادراک او حیوان بماندہ

دل و جان در رہش بی جان بماندہ

ترجمہ:۔ عقل و دانش اس کے پانے سے (قاصر ہو کر) حیران رہ گئی ہے، دل اور جان اس کی راہِ طلب میں بے دم اور پژ مردہ ہو گئے ہیں۔

تشریح:۔ یہاں اس آیۂ کریمہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ: لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ (۰۶: ۱۰۳) اسے آنکھیں نہیں پاسکتیں اور وہ آنکھوں کو پالیتا ہے۔ یہاں آنکھوں سے انسانی عقل و روح کی قوّتیں مراد ہیں، پس معلوم ہوا کہ عقل و روح کی قوّتیں خدا کو نہیں پا سکتیں، لیکن خدا خود ان قوّتوں کو پالیتا ہے، جس کی مثال سورج کی طرح ہے، کہ حقیقت میں ہماری آنکھیں کروڑوں میل کی مسافت سے گزر کر سورج کو نہیں دیکھ سکتیں، بلکہ سورج خودبخود ہماری آنکھوں میں آجاتا ہے، یہاں سوچنے اور تجربہ کرنےکی ضرورت ہے۔

 

بہر وصفی کہ گویم زان فزون است

زہر شرحی کہ من دانم برون است

 

۲۱۱

 

ترجمہ:۔ میں جیسے بھی اس کی تعریف و توصیف کروں وہ اس سے بڑھ کر ہے، ہر اس تشریح سے، جو میں جانتا ہوں وہ بالا و برتر ہے۔

تشریح:۔ حکیم صاحب کی یہ شعر اس قرآنی تعلیم کے مطابق ہے: سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ (۳۷: ۱۸۰) آپ کا پروردگار جو عزّت کا پرورگار ہے ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں۔ ” رَبِّ الْعِزَّةِ” کے معنی ہیں عزّت کے کل تقاضوں کو پورا کرنے والا، مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ عزّت کو انسانی صورت میں پیدا کرتا ہے، پھر اس کی پرورش کرتا ہے اور آگے سے آگے بڑھا دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ مجسّمۂ عزّت انتہا کو پہنچتی ہے، پس تعریف و توصیف ذی عزّت کی ہے اورحق تعالیٰ تعریف و توصیف سے پاک و برترہے۔

بسی گفتند و می گویند ازین حال

ندانم تاکرا روشن شداحوال

ترجمہ:۔ بہت سے مدعیوں نے اس حال کے بارے میں قیل وقال کی ہے، اور کر رہے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ ان میں سے کس پر حالات (حقائق) روشن ہوئے۔

تشریح: سیدنا ناصر خسرو کا یہ قول ان لوگوں کے بارے میں ہے جو اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ وسیلہ اور واسطہ چھوڑ کر کسی غلط طریقے

 

۲۱۲

 

سے خدا شناسی کے مدعی ہوا کرتے ہیں اور اپنے گمان کے مطابق خدا کی حقیقت کے بارے میں قیل و قال کرتے رہتے ہیں، حالانکہ یہ ان کی ایک ناکام کوشش ہے۔

ہزاران سال اگر گویند و پویند

درآخر رخ بخونِ دیدہ شویند

ترجمہ:۔ اگر وہ ہزاروں سال اسی طرح قیل و قال کرتے چلے جائیں پھر بھی آخر کار وہ (ناکام ہو کر) خون کے آنسوؤں سے اپنا چہرہ دھو لیں گے۔

تشریح:۔ فرماتے ہیں کہ خدا کی حقیقت سمجھنے کے لئے جن لوگوں کا نظریہ صحیح نہ ہو، تو وہ خواہ ہزاروں سال اپنے قول و عمل سے کوشش کیوں نہ کرے، یہ سب کچھ بے سود اور لاحاصل ہے۔

 

چنین گفتند کہ روبشناس خودرا

طریقِ کفر و دین و نیک و بدرا

ترجمہ:۔ انہوں (یعنی پیغمبر اور امام علیھما السّلام) نے یوں فرمایا کہ جا تو اپنے آپ کو پہچان لیا کرو، کفرو دین اورنیک و بد کا طریقہ سمجھنے کے لئے۔

تشریح:۔ یہاں اس طرف اشارہ ہے:

“من عرف نفسہ فقد عرف ربہ” نیز”اعرفکم بنفسہ اعرفکم بربہ” کی طرف ہے، یعنی جس شخص نے

 

۲۱۳

 

اپنے آپ کو پہچان لیا پس تحقیق اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔ جو شخص تم میں  سب سے زیادہ خودشناس ہو وہی شخص تم میں سب سے زیادہ خدا شناس ہے۔

پس اسی خود شناسی کے سلسلے میں دین و کفر اور نیک و بد کا تمام علم آجاتا ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک کی تعلیمات سے بھی ظاہر ہے کہ خیرو شر کے دونوں راستے واضح کئے ہوئے ہیں، تاکہ نتیجے کے طور پر خدا کی طرف رجوع ہو۔ (۲۱: ۳۵،  ۷۶: ۰۳،  ۹۰: ۱۰، وغیرہ

 

کزین رہ سوی یزدان است راہت

ترا بس باشد این معنی گواہت

ترجمہ:۔ کیونکہ اسی (ذاتی معرفت کی) راہ سے تجھے خدا کی طرف راستہ میسّر ہے، اور یہی حقیقت تیرے لئے بطورِ گواہ کافی ہے۔

تشریح:۔ موصوف حکیم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی خودشناسی کا نتیجہ ہی خدا شناسی ہے، اور یہ ایک ایسی جامع حقیقت ہے کہ تمام حقائق اسی میں سموئے ہوئے ہیں، پس ہر حقیقت کے لئے اسی سے استشہاد کیا جا سکتا ہے، کیونکہ خدا کی حکمتوں کی جیتی جاگتی نشانیاں صرف انسانی نفوس ہی میں پوشیدہ ہیں، جیسا کہ قرآنِ پاک کا قول ہے:

 

۲۱۴

 

وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (۵۱: ۲۱) اور تمہارے نفسوں میں بھی (نشانیاں یعنی معجزات) ہیں پھر کیا تم نہیں دیکھتے ہو۔

چونادانی ندانی ہیچ ازین حال

شووضائع ترا روز و مہ وسال

ترجمہ:۔ چونکہ تو نادان ہے (اس لئے) تو اس حال کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا، تیرے دن، مہینے اور سال ضائع ہوتے جاتے ہیں۔

تشریح:۔ ارشاد ہوتا ہے کہ تیری اپنی نادانی کے سبب سے معجزاتِ معرفت کاحال اور اس کی قدرومنزلت اور اہمیّت و افادیّت تجھ پر پوشیدہ ہے۔ اگر تجھے ذرا بھی عقل ہوتی تو حصولِ معرفت کے لئے تو ساعی اور کوشان رہتا، اور تیری گرانقدر عمر اور قیمی اوقات اسی طرح بے کار اور لاحاصل ضائع نہ ہوتے۔

زدانش زندہ مانی جاودانی

زنادانی نیابی زندگانی

ترجمہ:۔ دانش ومعرفت ہی سے تو زندۂ جاوید رہے گا، نادانی و ناشناسی سے تجھے کوئی حیات و بقا حاصل نہ ہو گی۔

تشریح:۔ سیدنا کا اشارہ اس قرآنی تعلیم کی طرف ہے: “کیا وہ شخص جو مردہ تھا پس ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لئے

 

۲۱۵

 

ایک نور قرار دیا جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے، جو اندھیروں میں (پڑا) ہو جن سے وہ نکل ہی نہ سکے (۰۶: ۱۲۲)

یہاں نور کے معنی علم ومعرفت ہیں، اور ظلمت کے معنی جہالت و ناشناسی ہیں۔

اگر بشناختی خودرا بہ تحقیق

ہم از عرفانِ حق یا بی تو توفیق

ترجمہ:۔ اگر تو اپنے آپ کو بہ حقیقت پہچانے تو (ساتھ ہی ساتھ) تجھے حق تعالیٰ کی معرفت کی توفیق بھی ملتی رہے گی۔

نماند برتو پنہان ہیچ حالی

نہ بینی از جہان در دل ملالی

ترجمہ:۔ (حصولِ معرفت کے بعد) تجھ پر حقیقت کا کوئی حال پوشیدہ نہ رہے گا، نہ ہی تو اپنے دل میں دنیاوی تکالیف سے کوئی اکتاہٹ محسوس کرے گا۔

درامروز اندرین عالم نہ بینی

دران عالم بصد حسرت نشیبی

ترجمہ:۔ اور اگر تو آج اس دنیا میں نہ دیکھ سکے، تو اس عالم میں تجھے صدہا حسرتیں لے کر رہنا پڑے گا۔

تشریح: حجتِ خراسان کا یہ ارشاد اس آیۂ کریمہ کے مطابق ہے: وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى

 

۲۱۶

 

وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا (۱۷: ۷۲) =اور جو کوئی اس (دنیا) میں اندھا رہا پس و ہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا اور بہت زیادہ گمراہ رہے گا۔

 

اسماعیلی بلیٹن جلد۱۔ شمارہ ۳، ذی الحجہ ۱۳۹۴ھ، دسمبر۱۹۷۴ء

 

۲۱۷

 

سورۂ مزمل کی چند حکمتیں

سوال و جواب کی صورت میں

ازقلم: علامہ نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی

 

سوال نمبر ۱:۔ کپڑوں میں لپیٹنے والا کون ہے؟ اور اس خطاب کی وجہ کیا ہے؟ (۷۳: ۰۱)

جواب:۔ کپڑوں میں لپیٹنے والا یا چادر لپیٹنے والا آنحضرتؐ  کے ناموں میں سے ہے، اس کی وجہ بعضوں نے یہ بتائی ہے کہ ابتدائے نبوّت میں کفارِ قریش نے حضورِ اکرمؐ کو ساحر کہا، آپؐ کو یہ خبر سن کر رنج ہوا اور رنج کی حالت میں کپڑوں میں لپٹ گئے اور بعض کے نزدیک اس خطاب کی وجہ یہ ہے کہ شروع شروع میں جب سرورِ کونینؐ پر نزولِ وحی کی کیفیت گزرتی تھی، تو آپ پسینہ پسینہ ہو جاتے تھے اور فرماتے تھے، کہ مجھے کپڑوں میں لپیٹ دو۔

سوال نمبر ۲:۔ خدائے حکیم نے اشارہ فرمایا، کہ رات کو بروقت سو کر پھر جلدی ہی عبادت کے لئے جاگ اٹھو، اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ اور ساری رات جاگنے کے لئے کیوں نہیں فرمایا؟(۷۳: ۰۲)

 

۲۱۸

 

جواب: نیند سے اٹھ کر عبادت کرنے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اس سے نہ صرف جسم تازہ دم ہو جاتا ہے، بلکہ مومن کا دل و دماغ بھی ہر قسم کی فکری الجھنوں سے آزاد و فارغ ہو جاتا ہے، اور ذکر و عبادت میں یکسوئی صرف ایسی ہی حالت میں ہو سکتی ہے۔ قرآنِ حکیم میں ساری رات عبادت میں گزارنے کا بھی ذکر ہے، جس کی حکمت و منفعت اس سے علحیدہ ہے۔

سوال نمبر ۳:۔ سورۂ مزمل کے ارشاد کے مطابق رات کے کس وقت سے عبادت شروع ہونی چاہئے؟(۷۳: ۰۳)

جواب:۔ رات کی ایک تہائی گزرجانے کے بعد یا نصف شب سے یا آخری تہائی سے ذکر و عبادت کا آغاز ہونا چاہئے۔

سوال نمبر ۴: مذکورہ سورہ میں قرآن کا کیا مطلب ہے؟ (۷۳: ۰۴)

جواب:۔ قرآن کا مطلب قرآنِ حکیم ہے، جو سرورِ انبیاء صلعم پر نازل ہوا ہے، اور اللہ تعالیٰ کا ہر بزرگ اسم قرآن مقدّس کا ایک حصّہ ہے، کیونکہ یہ قرآن مجید میں سے ہےاور اس میں قرآن شریف کی معجزانہ روح اور نورپنہان ہے۔

سوال نمبر ۵:۔ رات کی عبادت کے وقت میں کمی بیشی کا یہ اختیار کیوں دیا گیا ہے؟

جواب:۔ اس لئے کہ مومن کی حالت ایک جیسی نہیں رہتی وہ کبھی زیادہ تھکا ماندہ ہوتا ہے، کبھی بیمار اور کبھی سفر پر ہوتا ہے۔

 

۲۱۹

 

سوال نمبر ۶:۔ ترتیلِ قرآن کا مطلب بتاؤ؟ (۷۳: ۰۴)

جواب:۔ ترتیلِ قرآن کا مطلب ہے قرآن کو حسنِ ترتیب سے پڑھنا اور اگر عبادت میں قرآن میں سے کوئی اسمِ الٰہی ہے تو مکمل توجہ اور دل کی بیداری سے پڑھنا۔

سوال نمبر ۷:۔ عبادت کس چیز کے حصول کی تیاری ہوتی ہے؟

جواب:۔ ذکرو عبادت کی تکمیل حقیقی مومن کی وہ تیاری ہے کہ اس کے نتیجے میں مومن کو اللہ پاک کی جانب سے نیک توفیق، خاص ہدایت اور بلند حوصلہ مل سکتا ہے۔

سوال نمبر ۸:۔ قولِ ثقیل کا کیا اشارہ ہے؟ (۷۳: ۰۵)

جواب:۔ قول ثقیل کا خاص تعلق پیغمبر صلعم کی ذات شریف سے ہے، اور وہ ایک عظیم حکمت ہے، اور مومن کے لئے اس کا اشارہ روحانی ترقی ہے۔

سوال نمبر۹:۔ رات کی عبادت سے کیا کیا فائدے حاصل ہو سکتے ہیں؟

جواب:۔ اس سے نفسِ امّارہ خوب کچل جاتا ہے، ذکرِ الٰہی آگے بڑھتا ہے اور عقل و دانش میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

سوال نمبر ۱۰:۔ شب بیداری سے ذکر کی ترقی ہونے کا سبب کیا ہے؟ (۷۳: ۰۶)

جواب:۔ چونکہ رات نہ صرف فراغت اور سکون کا وقت ہے، بلکہ

 

۲۲۰

 

اس میں بموجب سورۂ فرقان یعنی (۲۵: ۶۲) خدا کے امر سے یہ تاثیر بھی ہے، کہ ذکرِ الٰہی معجزانہ حد تک آگے بڑھ جاتا ہے۔

سوال نمبر ۱۱:۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جو ارشاد فرمایا، کہ دن کو تمہارے لمبے لمبے شغل ہوتے ہیں، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ رسولِ اکرمؐ دن کو ایسے مشاغل کے باوجود بھی ذکر وعبادت سے خالی نہیں رہتے تھے، پھر اس میں کیا حکمت ہے جو فرمایا گیا کہ آپ رات کوعبادت کے لئے اٹھاکریں؟ (۷۳: ۰۷)

جواب:۔ یہ دن کی عبادت پر رات کی عبادت کی فضیلت کا ایک روشن ثبوت ہے۔

سوال نمبر ۱۲:۔ ارشاد ہے کہ آپ اپنے ربّ کا نام یاد کرتے رہو اور سب سے قطع کر کے اسی کی طرف متوجہ رہو، اس میں کیا حکمت ہے کہ یہاں ذکر پہلے آیا اورتوجہ بعد میں ہے؟ (۷۳: ۰۸)

جواب:۔ چونکہ روحانی توجّہ کوئی ظاہری تعلیم کی چیز ہے نہیں یہ تو کثرتِ ذکر کے نتیجے میں خود بخود پیدا ہوتی ہے، اس لئے آیت میں ذکر کا بیان پہلے آیا اور توجّہ کا بعد میں۔

سوال نمبر ۱۳:۔ ذکر کے وقت کن کن چیزوں کو بھولنا چاہئے؟

جواب:۔ ذکر کے دوران ذاکر ہر چیز کو بھول جائے، یہاں تک کہ اپنے آپ کوبھی فراموش کرے، سوائے اس خیال کے کہ اسم کی حقیقت سے خدا کو جدا اور دور نہ سمجھے۔

 

۲۲۱

 

سوال نمبر ۱۴:۔ ارشاد ہے کہ “وہ مشرق اور مغرب کا پروگار ہے۔” اس ارشادِ ربّانی میں کیا حکمت ہے؟ (۷۳: ۰۹)

جواب:۔ یعنی اللہ تعالیٰ حدودِ علوی اور حدودِ سفلی دونوں کی تائیدی پرورش فرماتا ہے، اس لئے مومن ذاکر کو یہ توقع رکھنی چاہئے، کہ خواہ وہ جس درجے میں بھی ہواسے ذکر و عبادت کا ثمر ضرور ملتا رہے گا۔

سوال نمبر ۱۵:۔ یہاں آیت ۹ میں فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے معبودِ برحق کو اپنا وکیل بناؤ، تو بتائیے کہ توکل پہلے ہے یا عبادت؟(۷۳: ۰۹)

جواب:۔ پہلے معبودِ برحق کی عبادت ہونی چاہئے اور وہ بھی معرفت کی روشنی میں، اس کے بعد توکل کا مقام آتا ہے، مذکورہ آیۂ کریمہ سے یہی حقیقت ظاہر ہے۔

سوال نمبر ۱۶:۔ یہاں صبر سے کیا مراد ہے؟ (۷۳: ۱۰)

جواب:۔ اگر سورۂ مزمل کو ذکر و عبادت کا ایک مسلسل اور مربوط مضمون قرار دیں، تو یہاں صبر کے معنی یہ ہوں گے کہ منکرین کی باتوں سے نہ صرف ظاہری طور ہر رنج ہوتا ہے، بلکہ اس سے ذکر و عبادت کے دوران بھی وسوسوں کی صورت میں اذیت پہنچتی رہتی ہے، جس کا علاج صبرو ثبات سے ذکرِ الٰہی میں مصروف رہنا ہے۔

اسماعیلی بلیٹن جلد۱۔ شمارہ نمبر۸۔ جمادی الاول ۱۳۹۵ھ، مئی ۱۹۷۵ء

 

۲۲۲

 

انسانی کمال کی صفت

ماخوذ از روشنائی نامہ سیدنا ناصر خسرو (ق۔ س)

ترجمہ: از علامہ نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی۔

 

درخت است این جہان و میوہ مائیم

کہ خرم بردرختِ او برآئیم

ترجمہ:۔ یہ جہان درخت ہے اور (اس کا) میوہ (پھل) ہم ہیں۔ کیونکہ ہم اسی جہان کے درخت پر ترو تازہ نشوونما پاتے ہیں۔

دگر ہستند برگ و ماہمہ بر

طفیل ماشد نداین ہا سراسر

ترجمہ:۔ دوسری (مخلوقات) پتے ہیں اور ہم سب (انسان) پھل ہیں یہ ساری (مخلوقات) ہمارے طفیل سے ہوئی ہے۔

شرف دار د درخت از میوہ آری

کہ باشد تاندارد ہیچ باری

ترجمہ:۔ درخت کو شرف و عزّت پھل ہی سے حاصل ہے (ورنہ) کون رہنے دیتا ہے جبکہ اس کا پھل کوئی نہ ہو۔

زبوی و لذتِ خوش میوہ ہارا

شرف باشد چنانک از عقل مارا

 

۲۲۳

 

ترجمہ:۔ خوشبو اور خوش ذائقہ ہونا پھلوں کے لئے باعثِ شرف و فضیلت ہے جیسے ہم (انسانوں) کے لئے عقل و دانش سے (شرف و عزّت ہے) ۔

نیا بد مردِ جاہل در جہان کام

نداردبوی و لذت میوۂ خام

ترجمہ:۔ نادان آدمی دنیا میں مقصد حاصل نہیں کر سکتا۔ کچے پھل میں بُو اورذائقہ نہیں ہوتا۔

 

مشوچون میوہ ہای نارسیدہ

سقط ہرگز نا باشد چون گزیدہ

ترجمہ:۔ کچے پھلوں کی طرح نہ ہو جا (درخت سے) ناتمام گرا ہوا اور (پک کر) چُنا ہوا پھل دونوں برابر نہیں ہوتے۔

سقط باشد درین باغ آنچہ خامند

حکیمان میوہای خوش طعامند

ترجمہ:۔ اس باغ میں جو کچّے ہیں وہ سقط (یعنی نا تمام و ناپختہ گرا ہوا) ہیں (جبکہ) اہلِ حکمت خوش ذائقہ پھل ہیں۔

درختی  کان لطیف ومیوہ دار است

مرورا باغبان پروردگار است

ترجمہ:۔ جو درخت عمدہ اور پھل دار ہو باغبان اسی کی (زیادہ سے زیادہ) پرورش کرتا ہے۔

 

۲۲۴

 

نخواہد میوہ جز خوشبوی و شیرین

بیند از دسقطہای بد آئین

ترجمہ:۔ (باغبان) خوشبودار اور میٹھے پھل کے بغیر نہیں چاہتا ہے (اور) ناکارہ گرے ہوئے پھلوں کو پھینک دیتا ہے۔

سقط خواراست خواری رارہاکن

تمامی جوی و خودرا پُر بہاکن

ترجمہ:۔ ناتمام بے قدر ہے، بے قدری کو چھوڑ دے (اور) تمامیت کی جستجو کر اور اپنے آپ کو پُرقیمت بنا لے۔

ہرآن میوہ کہ نبود طعم و بویش

نبا شد باغبان در جستجو یش

ترجمہ:۔ ہر وہ پھل جس کی (کوئی) لذّت اور خوشبو نہ ہو باغبان اس کی طلب میں نہیں رہتا ہے۔

 

ترا لذت زعلم است از عمل بوی

کمالیت ز علم باعمل جوی

ترجمہ:۔ تجھ کو علم سے لذّت اور عمل سے خوشبو ہے (اسی طرح) اس علم سے جو عمل کے ساتھ ہو تمامیّت کو طلب کرے۔

گراز سرچشمۂ معنی خوری آب

شوی در باغ جنت میوۂ ناب

ترجمہ:۔ اگر تُو حقیقت کے سرچشمے سے پانی پیا کرے تو تو جنّت

 

۲۲۵

 

کے باغ میں پاک و صاف میوہ بن سکتا ہے۔

دگر باشی سقط درخاک مانی

معذب دربلای جاودانی

ترجمہ:۔ اگر تُو سقط ہو جائے تو تُو مٹی میں رہ جائے گا، دائمی بلا میں عذاب اٹھاتے ہوئے۔

 

نباشی درخورِ خوان شہنشاہ

چوخاکی خوار باشی برسرِ راہ

ترجمہ:۔ (اس صورت میں) تُو شاہنشاہ کے دستر خوان کے قابل نہ ہو گا (بلکہ) رستے کی مٹی کی طرح حقیر و ذلیل ہو جائے گا۔

چوخواہی تاکہ یابی دانش  و ہوش

مکن پندِ حکیمان را فراموش

ترجمہ:۔ اگر تُو چاہتا ہے کہ تجھے عقل و شعور حاصل ہو تو حکماء کی نصیحت کو فراموش مت کر۔

اسماعیلی بلیٹن جدل ۱۔ شمارہ۱۰۔ رجب ۱۳۹۵، جولائی ۱۹۷۵ء

 

۲۲۶

 

خودشناسی

سیدنا ناصر خسرو قدس کی تصنیف “روشنائی نامہ” سے انتخاب

اردو ترجمہ از: علامہ نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی

 

۱۔  اگر بشناختی خودرا بہ تحقیق

ہم از عرفانِ حق یابی تو توفیق

ترجمہ:۔ اگر تُو اپنے آپ کو بہ حقیقت پہچانے تو (ساتھ ہی ساتھ) تجھے حق تعالیٰ کی معرفت کی توفیق بھی ملتی رہے گی۔

۲۔    نماند برتو پنہان ہیچ حالی

نہ بینی از جہان دردل ملالی

ترجمہ:۔ (حصولِ معرفت کے بعد) تجھ پر حقیقت کا کوئی حال پوشیدہ نہ رہے گا، نہ ہی تو اپنے دل میں دنیاوی تکالیف سے کوئی اکتاہٹ محسوس کرے گا۔

۳۔  بود پیدا اہلِ علم اسرار

ولی پوشیدہ گشت از چشمِ اغیار

 

۲۲۷

 

ترجمہ:۔ اہلِ علم پر (حقائق کے) پوشیدہ بھید ظاہر ہیں لیکن (یہ بھید) غیر کی نظر سے پوشیدہ ہیں۔

۴۔  بیا بکشا ی چشمِ دل درین راہ

مگر ازخویش وازحق گردی آگاہ

ترجمہ:۔ آ اس (معرفت کی) راہ میں دل کی آنکھ کھول کر دیکھ لیا کرتاکہ تُو اپنے آپ سے اور حق تعالیٰ سے واقف و آگاہ ہو سکے۔

۵۔   ورامروز اندرین عالم نہ بینی

در آن عالم بصد حسرت نشینی

ترجمہ:۔ اور اگر تو آج اس دنیا میں نہ دیکھ سکے تو اس عالم میں تجھے صدہا حسرتیں لے کر رہنا پڑے گا۔

۶۔   نہ بہرِ خواب و خوردی ہمچو حیوان

برائی حکمت و علمی چو انسان

ترجمہ:۔ تُو حیوان کی طرح سونے اور کھانے کے لئے نہیں (بلکہ) علم و حکمت کے لئے انسان (پیدا کیا گیا) ہے۔

۷۔  خطاب از حق بجز تو نیست باکس

اگر دریا بی این معنی ترا بس

ترجمہ:۔ حق تعالیٰ کے ساتھ ہمکلام ہونے کا شرف تیرے سوا اور کسی مخلوق کو حاصل نہیں اگر تو سمجھ سکے، تو یہی حقیقت تیرے لئے کافی

 

۲۲۸

 

ہے۔

۸۔  زمین و آسمان بہر تو آراست

ازان برخاستی باقامتِ راست

ترجمہ:۔ خدا نے زمین و آسمان تیرے لئے پیدا کر دیا اسی سبب سے تو (پرورش پا کر) ایک سروقد انسان بنا۔

۹۔  توئی فرزند این عالم چوآدم

خلف بر خیز چون آدم ز عالم

ترجمہ:۔ تو حضرت آدم کی طرح اس کائنات کا فرزند (یعنی ماحصل) ہے لہٰذا حضرتِ آدم صفیؑ کی طرح تو اس عالم کا ایک لائق فرزند ثابت ہو جا۔

۱۰۔   بفضل و دانش و فرہنگ وگفتار

توئی در ہر دو عالم گشتہ مختار

ترجمہ:۔ علمیّت و فضیلت اور شعور و گفتگو کے سبب سے تو دونوں جہان پر برگزیدہ ہے۔

اسماعیلی بلٹین جلد۱۔ شمارہ ۱۲۔ رمضان ۱۳۹۵ھ۔ ستمبر ۱۹۷۵ء

 

۲۲۹

 

 

نیک اعمال سے دوستی

(ازقلم: علامہ نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی)

 

قرآنِ حکیم زبانِ حکمت سے جو تعلیمات پیش کرتا ہے ان میں یہ بھی ہے کہ ایمان کا مرکز انسانی قلب یعنی مومن کا دل ہے۔ ایمان محض نام کی چیز ہر گز نہیں بلکہ وہ ایک زندہ اور روشن حقیقت ہے جب ایک حقیقی مومن روحانیّت کے ایک اعلیٰ مقام پر پہنچتا ہے تو وہ دیدۂ دل سے نورِ ایمان کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ خدائے جلیل و جبار اس حقیقت کا گواہ ہے کہ ایمانِ حقیقی مومن کے دل کو عملاً بہشت کا نمونہ بنا دیتا ہے، پھر مومن کی ایمان سے محبّت ہوتی ہے اور اس وقت کفر، فسق و نافرمانی سے نفرت ہوتی ہے اور ایسے مومنین ہدایت یافتہ ہوتے ہیں اور یہی مطلب اس آیۂ کریمہ میں ہے:۔

وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ

۲۳۰

 

قُلُوْبِكُمْ وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ (۴۹: ۰۷)

ترجمہ:۔ لیکن خدا نے تو تمہیں ایمان کی محبت دے دی ہےاور اس کو تمہارے دلوں میں عمدہ کر دکھایا ہے اور کفر اور بدکاری اور نافرمانی سے تم کو بیزار کر دیا ہےیہی لوگ راہِ ہدایت پر ہیں۔

جب مکمل ایمان کا کوئی ذکر ہوتا ہے، تو اس میں لوازمِ ایمان اور نتائج و ثمراتِ ایمان مراد لئے جاتے ہیں، پس جاننا چاہئے کہ ایمان قلبِ مومن میں نورانیّت کی ایک سدا بہار دنیا ہے اور اس سے مومن کی محبت لازمی سی ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم کا ارشادِ مقدّس ہے کہ: اُولٰٓىٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُؕ (۵۸: ۲۲)

ترجمہ:۔ “یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں (اللہ تعالیٰ نے) ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی مدد اپنی ایک رو ح سےکی۔” یعنی قلوبِ مومنین میں اللہ تعالیٰ کا یا فرشتوں کا ایمان لکھ دینا یہ ہے کہ ایمانِ کامل کے نتائج و ثمرات روحانیّت کی ایک روشن دنیا کی صورت میں تیار ہوگئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان، لوازمِ ایمان اور نتائجِ ایمان سے مومن کی بہت محبت ہوتی ہے۔

قرآنِ مقدّس (۲۸: ۳۲) میں ذکرِ الٰہی کو عزیز رکھنے اور اسے تمام دنیوی چیزوں پر ترجیح دینے کا اشارہ موجود ہے (۰۲: ۲۱۶) میں زبانِ حکمت سے

 

۲۳۱

 

یہ فرمایا گیا ہے کہ تم نورِ ہدایت کی روشنی میں غلط انتخاب سے بچ کر ہر نیک عمل سے دوستی رکھو اور ہر بد عمل سے نفرت کرو۔ (۰۳: ۹۲) میں ارشاد ہوا ہے کہ: تم مکمل نیکی کو کبھی حاصل نہ کر سکو گے جب تک کہ اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حلال چیزوں سے محبّت رکھنا جائز ہے مگر موقع پر ان میں سے راہِ خدا میں خرچ کرنا ضروری ہے۔

سورہ ۲۴ کی آیت ۲۲  (۲۴: ۲۲) میں ارشاد ہوتا ہے کہ: کیا تم یہ نہیں چاہتے ہو کہ خدا تمہاری خطا معاف کرلے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی بخشش کو دوست رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

سورۂ قیامت (۷۵) کی آیت ۲۰۔ ۲۱  (۷۵: ۲۰ تا ۲۱) میں دنیا سے محبت کرنے اور آخرت کو چھوڑنے پر اعتراض کیا گیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ آخرت سے محبت کی جائے۔

الجمعہ (۶۲) کی آیت ۱۳ (۶۲: ۱۳) میں فرمایا گیا ہے کہ: مومنین اللہ پاک کی طرف سے مدد اور فتح کے دلدادہ ہوتے ہیں، جو عنقریب حاصل ہونے والی ہے۔

غرض یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں ایسے بہت سے واضح ارشادات اور اشارات موجود ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نیکی سے محبّت اور بدی سے نفرت ضروری ہے، تاکہ ولایت کے مدارج طے ہو سکیں اور ابدی نجات حاصل ہو۔

اسماعیلی بلیٹن جلد۲۔ شمارہ ۱۔ شوال۱۳۹۵ھ، اکتوبر ۱۹۷۵ھ

 

۲۳۲

 

حکمتِ ناصری (۱)

حقائق و معارف (قسط اوّل)

(ازقلم: علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی)

 

۱۔ الاای زادۂ گردون الاای زبدۂ امکان

بمعنی حجتی بشنو طرازش رحمت و برہان

ترجمہ:۔ آگاہ ہو جا اے کائنات کے فرزند، آگاہ ہو جا اے عالمِ امکان کے خلاصے، معنی اورحقیقت کی ایک ایسی دلیل سن لے جو رحمت اور دلیل کی قاطعیّت کا طرز رکھتی ہے۔

شرح:۔ حکیم نامور حضرت پیر ناصر خسرو قدّس سرہ کے اس ارشاد کے مطابق انسان کائنات کا بیٹا ہے اور عالمِ امکان کا خلاصہ ہے، جس کی توجیہہ یہ ہے، کہ آدم اور آدمی کی آفرینش و تخلیق میں کون و مکان کی جملہ قوّتوں سے کام لیا گیا ہے، یا یوں کہنا مناسب ہوگا کہ انسان ساری کائنات

 

۲۳۳

 

کا نچوڑ اور خلاصہ ہے، اس معنیٰ میں کائنات و ممکنات گویا ایک بہت ہی عجیب و غریب اور نہایت ہی عظیم درخت ہے، اور اس کا پھل انسان ہے، یا یہ وجودِ ظاہر و باطن بمثلِ دودھ کا ایک بے پایان سمندر ہے اور انسان اس کا مکھن یعنی خلاصہ ہے۔

 

۲۔ چودربحرِ سخن رانم برآرم گوہر آدم

چودر کانِ خرد آئم نمائیم جو ہرِ انسان

ترجمہ:۔ جب میں گفتگو کے سمندر میں (کشتی) چلاؤں گا تو آدم (اور آدمیّت) کا موتی نکالوں گا، اور جب میں دانش کی کان میں داخل ہوں گا تو (وہاں سے) انسانی کا گوہر ظاہر کروں گا۔

شرح:۔ پیر صاحب فرماتے ہیں کہ میں جب بھی علم و حکمت کی کشتی پر سوار ہو کر گفتگو اور بیان کے بے پناہ سمندر میں آگے بڑھوں گا تو اس میں درخشندہ دلائل سے یہ ثابت کر کے دکھاؤں گا، کہ اس بحرِ ناپیداکنار کا گوہرِ مقصود آدم و آدمیّت ہی ہے، اور اسی طرح جب میں عقل و دانش اور عرفان و ایقان کے پہاڑ کی کان میں چلا جاؤں گا تو وہاں سے بھی انسان اور انسانیّت کی حقیقتِ عالیہ کے جواہرات ظاہر و آشکار کروں گا۔

۳۔ حروفِ عقل بشمارم کہ مسطور است اشیارا

کتابِ نفس بر خوانم کہ باشد نسخۂ درجان

ترجمہ:۔ میں عقل کے حروف کو گن گن کر بتاؤں گاجو تمام چیزوں پہ لکھے ہوئے ہیں، اور کتابِ نفس کو پڑھ کر سناؤں گا، کیونکہ جان میں

 

۲۳۴

 

نفس کاایک نسخہ موجود ہے۔

شرح:۔ اشیائے کائنات کے حروفِ عقلی سے مراد چیزوں کی حقیقتیں ہی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ظاہری حروف کو ترتیب دینے سے زبان پرتقریر اور کاغذ پر تحریر کی صورت بنتی ہےاسی طرح عقلی حروف کی بھی اپنی قسم کی تقریر و تحریر ہے، جسے حقیقتِ اشیاء یا معرفت وحکمت کہتے ہیں، اور کتابِ نفس بھی اس معنی سے دور نہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں حروفِ عقلی اور حقیقت و معرفت پر مبنی  یعنی روح اور روحانیّت کی کتاب ہے، جس کو پڑھ کر سنانا یہ ہے کہ اس کی حکمتیں بیان کر دی جائیں۔

 

۴۔ ہر آن چیزی کہ در آفاق موجود است ہستی را

درانفس مثلِ آن بنہادہ ایزد سر بسر برخوان

ترجمہ:۔ کائنات میں ہستی کی جو چیزیں موجود ہیں خداوند تعالیٰ نے ان سب کی مثالیں نفوسِ انسانی میں رکھی ہیں، ان کو سر بسر پڑھ لینا۔

شرح:۔ آفاق افق کی جمع ہے جو اس ظاہری کائنات کا نام ہے، اور انفس نفس کی جمع ہے جو اس عالمِ باطن کو کہتے ہیں، جو نفسِ باطن میں پوشیدہ ہیں۔ پیر صاحب کا ارشاد ہے کہ عالمِ ظاہرمیں جو لاتعداد چیزیں مادّی طور پر الگ الگ پائی جاتی ہیں وہ سب کی سب عالمِ نفس میں روحانی یکجائی کے طور پر موجود ہیں، یعنی انسان کی روح میں

 

۲۳۵

 

اشیائے ظاہر کے سب روحانی اور علمی نمونے مہیا ہیں، جن کی شناخت کی روشنی میں خارجی دنیا کی اشیاء کی حقیقتیں معلوم ہو سکتی ہیں۔

 

۵۔ بگویم طرفۂ بیتی چند درآفاق ودرانفس

ہم از گفتارِ پیغمبر ہم از فرمودۂ یزدان

ترجمہ:۔ میں آفاق و انفس کے بارے میں چند عجیب و غریب بیت کہوں گا، جو پیغمبرؐ کے ارشاد اور اللہ تعالیٰ کے فرقان کے مطابق ہوں گے۔

شرح:۔ پیرصاحب کہتے ہیں کہ یہاں کچھ ایسے حکمت آگین اور پُرمغز ابیات پیش کئے جائیں گے جو آفاق و انفس کے اسرارِ معرفت سے بھر پور ہیں او ر خداوند کریم کے مقدّس ارشادات کی روشنی میں اور انہیں کی مطابقت میں ہوں گے۔

۶۔ عزیزاچشمِ دل بکشاوگوش جا ن بگفتارم

چوجان و دل تو این معنی درونِ جان ودل بنشان

ترجمہ:۔ اے عزیز میری بات کے لئے دل کی آنکھ اور روح کے کان کھول، تو اس معنی کو جان و دل کی طرح جان ودل کے اندر اپنا لینا۔

تشریح:۔ بزرگانِ دین حقیقت اور حکمت کی جو روح پرورتعلیمات پیش کرتے ہیں ان میں حقائق و معارف کے اعلیٰ درجے کے تصوّرات موجود ہوتے ہیں جبکہ کوئی نیک بخت انسان بزرگوں کے اقوال کو دل کے کان

 

۲۳۶

 

سے سنتا ہے اور پیر صاحب کا یہ فرمانا کہ “میری باتوں کو جان و دل کی طرح جان و دل میں بٹھا لینا” یہ معنی رکھتا ہے کہ ان کے اقوال کو پوری طرح قبول کیاجائے، یعنی حقیقت دل وجان کے ساتھ ایک ہو جاتی ہے، کیونکہ علم و حقیقت اور دل و جان کا جوہر ایک ہی ہے۔

اسماعیلی بلٹین جلد۲۔ شمارہ۸، ۹۔ جمادی الاول، جمادی الثانی ۱۳۹۶ھ اپریل ۱۹۷۶ء

 

 

۲۳۷

 

عقیدۂ توحید

از علامہ نصیرالدّین نصیرؔہونزائی

تلخیص۔ از غلام عباس

 

توحید کا عقیدہ دنیائے اسلام میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے اس کا مطلب اللہ تعالیٰ کی وحدت اور یکتائی کا اقرار کرنا اور یہ باور کرنا ہے کہ خدائے تعالیٰ لاشریک و بےنیاز ہے۔

قرآنِ حکیم میں لاتعداد پُرحکمت مثالوں کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ اس کتابِ مقدّس کا مقصد علمِ توحید ہی ہے اور جملہ انبیائے سلف کی تبلیغ کی غرض وغایت بھی علمِ توحید کو عام کرنا تھا۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ توحید کی کیا کیفیّت وحقیقت ہے؟ اس مشکل و پیچیدہ مسئلے کے بارے میں بزرگانِ دین کے بہت سے اقوال موجود ہیں اور ان سب کا زُبدہ و خلاصہ یہ ہے کہ توحید باری تعالیٰ انسانی

 

۲۳۸

 

علم و دانش سے بالا تر ہے۔ الفاظ میں وہ گنجائش کہاں کہ ان کے ذریعے حقیقتِ توحید بیان ہو سکے۔ چنانچہ حکیم ناصر خسرو نے اپنی کتاب ” روشنائی نامہ” میں تحریر فرمایا ہے کہ:۔

بنام کردگار پاک داور!

کہ ہست ازوہم وعقل و فکر برتر!

ترجمہ:۔ باری سبحانہ و تعالیٰ کے نام سے (آغاز کرتاہوں) جو وہم، عقل اور فکر کی رسائی سے بالا و برتر ہے۔

ہمو اول ہمو آخر زمبدا

نہ اوّل بودہ و نے آخر اورا

ترجمہ:۔ وہ مبدا (یعنی عقلِ اوّل کی نسبت) سے اوّل بھی ہے، اور وہی اس سے آخر بھی (مگر ذاتی طور پر) نہ اس کی کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی انتہا۔

خرد حیران شدہ از کہنہ ذاتش

منزہ دان زاجرام و جہاتش

ترجمہ:۔ عقل ودانش اس ذاتِ پاک کی حقیقت (سمجھنے سے قاصر اور) حیران رہ گئی ہے۔ اس کو اجرام و اطراف (کے تعیّن وحد بندی) سے پاک و برتر سمجھنا۔

کجا اورابچشم سرتوان دید

کہ چشمِ جان تواندجانِ جان دید

 

۲۳۹

 

ترجمہ:۔ سر کی آنکھ سے اس کو کہاں اور کیسے دیکھا جا سکتا ہے، جب کہ روحانی آنکھ سے صرف جان کی جان یعنی نفسِ کلّی کو دیکھا جا سکتا ہے۔

خدا کی معرفت:۔

کتابِ مستطاب “نہج البلاغہ” خطبۂ اوّل میں حضرت  امیرالمومنین علیؑ کے ارشادِ گرامی کا خلاصہ بیان کیا جاتا ہے:۔

تمام حمد اس اللہ کے لئے ہے جس کی نعمتیں کوئی گن نہیں سکتا، تمام عقول اس کے فہم سے عاجز ہیں، اور وہ زمان و مکان کے حدود وبندشوں سے ماوریٰ ہے، اس نے مخلوقات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا۔

دین کی ابتدا اس کی معرفت سے ہے، کمالِ معرفت اس کی تصدیق ہے، کمالِ تصدیق اس کی توحید ہے، کمالِ توحید تنزیہ واخلاص ہے کہ اس سے صفات کی نفی کی جائے ورنہ بصورتِ دیگر دوئی پیدا ہو گی جو توحید کے متضاد ہے۔

وہ ہے، ہوا نہیں وہ موجود ہے مگر عدم سے وجود میں نہیں آیا، وہ ہر چیز کے ساتھ ہے، لیکن جسمانی چیزوں کی طرح نہیں۔

خدا شناسی اور معرفت کے درجات:۔

جس طرح ایمان اور مرتبتِ خداوندی کے مختلف درجات ہیں۔ اسی طرح توحید کے بھی مختلف مراحل ہیں۔ توحید دینِ حق کی جان ہےاور دینِ حق صراطِ مستقیم ہے۔

 

۲۴۰

 

صراطِ مستقیم کے مسافر مختلف درجوں میں خداتعالیٰ کے حضور کی جانب روان دوان ہیں اس سے یہ ظاہر ہوا کہ توحید کے الگ الگ درجات ہیں، قرآنِ حکیم میں حضرت ابراہیمؑ کے قصّے سے بھی یہ حقیقت ظاہر ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام سب سے پہلے ایک ستارہ، پھر چاند، آخر میں سورج کی جانب متوجّہ ہوئے اوراس کے بعد حقیقتِ توحید سے آگاہی حاصل کی۔ پس ثابت ہوا کہ خدا شناسی کے مختلف درجات ہوتے ہیں۔

حضرتِ ابراہیمؑ کے اس قصّے کا تاویلی پہلو بھی ہے، اور یہاں چاند ستارے اور سورج سے مراد حدودِ دین ہیں جو توحید کے درجات کی حیثیت رکھتے ہیں، اور قرآنِ حکیم میں بھی ارشادِ باری تعالیٰ ہے هُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللّٰهِؕ -وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ (۰۳: ۱۶۳) وہ (حدودِ دین) خدا کے نزدیک درجات ہیں اور خدا ان کے اعمال کو خوب جانتا ہے۔

 

 

توحید “جامع الحکمتین” میں:۔

پیر ناصر خسروقس کی تمام کتب میں عقیدۂ توحید کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔ لیکن جامع الحکمتین میں پیر موصوف نے اس مضمون کے لئے ایک باب وقف کیا ہے جس کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے:۔

“بحیثیتِ مجموعی دینِ حق کے علم کا مقصد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی

 

۲۴۱

 

شناخت ہے جو وحدانیتِ محض سے اور توحیدِ مطلق کے ایسے اثبات سے حاصل ہو سکتی ہےکہ وہ تشبیہہ سے دور اور تعطیل سے پاک ہو۔”

پیر ناصر خسرو نے بڑی عمدگی سے اعتقادات اور اخلاقیات کے بارے میں جو اختلاف پایا جاتا ہے واضح کیا ہے اور توحید کے متعلق تمام گروہوں کے نظریات کی وضاحت کرنے کے بعد محبین اہلِ بیت کا نظریہ پیش کیا ہے جو حقیقتاً صائب نظریہ ہے، فرماتے ہیں:۔

وہ (محبیّنِ اہلِ بیت) کہتے ہیں کہ ہم تاویلِ عقلی کے ذریعہ مخلوقات کی صفات کو خالق سے نفی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تشبیہہ و تعطیل کے درمیان ایک منزلت ہے جس پر ہماری توحید قائم ہے۔

وہ حضرات امام جعفر صادق سے روایت کرتےہیں۔ آپ سے پوچھا گیا کہ توحید کے بارے میں حق تعطیل ہے یا تشبیہہ؟ آپؑ نے فرمایا کہ دونوں مدارج کے درمیانی درجہ ہے یعنی نہ وہ تشبیہہ ہے نہ تعطیل بلکہ دونوں سے پاک ہے۔

توحید کتاب “وجہ دین” میں:۔

حکیم ناصر خسرو کی مایہ ناز تاویلی کتاب “وجہ دین” میں حکیم موصوف نے کئی بار عقیدۂ توحید پر روشنی

 

۲۴۲

 

ڈالی ہے، چنانچہ مذکورہ کتاب کے ترجمۂ اردو حصّہ اوّل کے کلام۔ ۹ صفحہ ۷۳ پر ہے کہ:۔

تیسری قوّت عقل ہے۔ جس کے ذریعے انسان توحید کو تشبیہہ اور تعطیل سے مجرد کرتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدت کو نہ تو کسی چیز کے مانند قرار دیتا ہے اور نہ ہی اس کی وحدت سے انکار کرتا ہے) اور وہ جانتا ہے کہ انسان کی عقل تمام چیزوں پر حاوی ہوجاتی ہے اور وہ عقل اس کے لئے ایک عطا ہے کہ وہ عطا اسے ایک ایسی ذات کی طرف سے ہے جو خود اس کی احتیاج سے برتر ہے اور یہ توحید کو مجرّد کرنے کا اشارہ ہے۔

کتاب کے مذکورہ حصّے کےکلام۔ ۱۰صفحہ ۸۵ پر ایک مشہور حدیث درج ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ یقیناً اللہ نے اپنے دین کی بنیاد اپنی خلقت کی طرح رکھی تاکہ اس کی خلق سے اس کے دین کی دلیل لی جائے اور اس کے دین سے اس کی وحدانیّت کی دلیل لی جائے۔ کلام۔ ۱۱صفحہ ۸۸ پر مذکور ہے کہ “پس میں کہتا ہوں کہ روا نہیں کہ رسول اللہ نے خدائے تعالیٰ کو دیکھا ہو، کیونکہ یہ امر ناممکن ہے۔ لیکن آپ کے لئے حق تعالیٰ کی وحدانیّت پر دو عادل گواہوں نے گواہی دی، اور ساری مخلوق ان دوگواہوں کی گواہی سننے سے قاصر تھی اور ان دو گواہوں میں سےایک تو آفاق (عالمِ جسمانی) تھا اور دوسرا انفس، کہ وہ دونوں آنحضرتؐ کے لئے ایک واضح قول میں گواہی دے

 

۲۴۳

 

رہے تھے کہ خدائے واحد کے سوا کوئی خدا نہیں۔ یہاں تک کہ آنحضرتؐ نے حق و صداقت کے ساتھ ان کی گواہی پر گواہی دی۔ ”

وحدانیّت اور ازل:۔

حکیم ناصر خسرو قدس زاد المسافرین کے صفحہ نمبر۱۹۰ پر فرماتے ہیں کہ “ازل خدا کی وحدت کا اثبات ہے۔”

اس سے  حضرت پیر کی مراد یہ ہے کہ ازل ہی تصوّر اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کا مناسب اور موزون اور آسان تصوّر ہے۔ یعنی خدائے قدوس واحدہ لاشریک تمام روحانی اور جسمانی موجودات کی صفات سے کس طرح پاک ہے اور وہ ان کی شرکت سے کس طرح بے نیاز ہو سکتا ہے۔ اس کا ثبوت ازل کی حقیقت ہے اور پیر صاحب کا یہ نظریۂ توحید اہلِ بصیرت کے لئے اس قدر روشن ہے کہ وہ اس اصولِ وحدانیّت کی روشنی میں توحید کے تمام ترنکات کو سمجھ سکتے ہیں۔

اس مقام پر آپ نے ازل اور ازلی وازلیّت کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ فصلِ اوّل کو ازل کی طرف راجع کرکے اسے ازلی کہنا چاہئے۔ اور ازلیّت وہ حقیقت ہے جس میں ازلی چیز کا ثبوت ہے۔ اور وہ ازلیّت ابداع ہے اور ابداع کے معنی ہیں بغیر آلہ، بغیر مادّہ اور مکان و زمان کے کسی شے کو ایجاد کرنا۔ چنانچہ ظاہر ہوا کہ ازل خدا کی وحدت و یکتائی کا ثبوت

 

۲۴۴

 

ہے۔ ازلی عقلِ اوّل کی صفت ہےاور ازلیّت کی مثال ابداع ہے۔ یعنی عقل کو ایجاد کرنا۔

 

اسماعیلی بلیٹن۔ جلد۲۔ شمارہ۱۰، ۱۱۔ رب شعبان ۱۳۹۶ھ، جون، جولائی ۱۹۷۶ء

 

۲۴۵

 

تصوف کے جواہر پارے

ازدیوانِ حافظ

از قلم: علامہ نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی

 

وقتِ سحر

درویش وقتِ سحر از غصہ نجاتم دادند

وندران ظلمتِ شب آب حیاتم داد ند

ترجمہ:۔ گزشتہ شب صبح کے وقت انہوں نے مجھے غصّہ سے نجات دے دی، اور اس رات کی تاریکی میں انہوں نے مجھے آبِ حیات دے دیا یعنی ذکر و عبادت کا معجزاتی نتیجہ رات کے آخری حصّے میں نکلتا ہے، غصّہ سے نجات ملنے کا مطلب ہے ریاضت کی تکمیل سے نفسِ امّارہ کا مغلوب ہو جانا، اور مشاہدۂ روحانی اور تجرباتِ عرفانی گویا آبِ حیات ہے جو ظلمات میں پوشیدہ ہے۔

 

بیخود از شعشعۂ پرتو ذاتم کردند

بادہ از جامِ تجلیٰ بصفاتم دادند

ترجمہ:۔ انہوں نے مجھے ذاتِ پرتو کی منتشر روشنی سے بیخود بنا

 

۲۴۶

 

دیا، انہوں نے مجھے صفاتِ خداوندی کی تجلّیوں کے جام سے شراب پلا دی۔ ذاتِ پاک کے عکس کی پھیلی ہوئی روشنی سے مراد مرشدِ کامل کی روحانی ملاقات اور معرفت ہے، اور جامِ صفات کی شراب حقیقی محبّت ہے۔

 

چہ مبارک سحری بودوچہ فرخندہ شبے

آن شب قدرکہ این تازہ براتم داد ند

ترجمہ:۔ کیا مبارک صبح تھی، اور کیا مبارک رات تھی، وہ شب قدر کہ جس میں کہ مجھے یہ تازہ دستاویز دے دی گئی، یعنی جس شب کو کہ حافظ پر معرفت کا دروازہ کھلا تھا۔

 

چون من از عشق رخش بیخود و حیران گشتم

از واقعۂ لات و مناتم دادند

ترجمہ:۔ جب میں اس کے رخ کے عشق سے بیخود اور حیران ہو گیا، تو مجھے لات و منات کے واقعہ کی خبر دے دی گئی، یعنی جب حقیقت کا انکشاف ہوا، تو مجاز کے سارے بھید بھی کھل گئے۔

 

من اگر کام رواگشتم و خوشدل چہ عجب

مستحق بودم واینہا بزکاتم داد ند

ترجمہ:۔ اگر میں کامیاب اورخوشدل ہو گیا تو کیا تعجب ہے میں اس کا مستحق تھا اور مجھے یہ زکوٰۃ کے طور پر دیا گیا۔

 

۲۴۷

 

بعدازین روئے من و آئینہ حسن نگار

کہ درآنجا خبر از جلوۂ ذاتم دارند

ترجمہ:۔ اس کے بعد میں ہوں گا اور معشوق کے حسن کا آئینہ، کیونکہ مجھے اسی مقام پر (یعنی اسی میں) جلوۂ ذات سے خبر دے دی گئی ہے۔ یعنی مرشدِ کامل جو آئینۂ جمالِ خداوندی کی حیثیت سے ہے، اسی کے ذریعے سے معرفتِ الٰہی کا فیضان حاصل کیا جاسکتا ہے۔

 

ہاتف آن روز بمن مژدۂ این دولت داد

کہ ببازارِ غمت صبرو ثباتم دادند

ترجمہ:۔ غیب سے آواز دینے والے نے اس دن مجھے اس دولت کی خوشخبری دی، جبکہ تیرے غم کے بازار میں صبرو ثبات دے دیا یعنی جب تیرے غمِ عشق میں روحانی سکون حاصل ہونے لگا تھا، اس وقت ہی مجھے یقین حاصل ہوا کہ کامیابی کا راستہ یہی ہے۔

 

این ہمہ قندو شکر کز سخنم می ریزد

اجر صبر یست کزان شاخ نباتم دادند

ترجمہ:۔ یہ سب قند و شکر جو میرے کلام سےجھڑتی ہےاس صبر کا بدلہ ہے جو اس مصری کی شاخ کے عوض مجھے دیا گیا ہے، یہاں شاخِ نبات کے دو معنی ہیں گنا اور معشوقہ کا نام بھی ہے۔

 

کیمیائیست عجب بندگیٔ پیرِ مغان

خاک اوگشتم و چندین درجاتم دادند

 

۲۴۸

 

ترجمہ:۔ پیرِ مغان (پیشوای طریقت) کی غلامی عجیب کیمیا ہے میں اس کی خاک بنا اور انہوں نے مجھے اس قدر درجے دے دیئے، یعنی مرشدِ کامل سے عقیدت و محبّت اور اس کی غلامی و خدمت کیمیا کی طرح ہے کہ اس سے خاک سونا بن جاتی ہے۔

 

 

بحیات ابد آن رو زرسا نید مرا

خطِ آزادگی از حسنِ مماتم دادند

ترجمہ:۔ ابدی زندگی تک اس نے مجھے اس روز پہنچا دیا جبکہ اس نے مجھے حسنِ موت کی آزادی کا خط دے دیا۔ یعنی جب میں عشق میں فنا ہوا تو مجھے ابدی زندگی ملی۔

 

ہمتِ حافظ و انفاسِ سحر خیزان بود

کہ زبندِ غمِ ایام نجاتم دادند

ترجمہ:۔ حافظ کی باطنی توجّہ اور صبح کو اٹھنے والوں کی دعاؤں کی برکت تھی کہ انہوں نے مجھے زمانہ کے غم سے نجات دے دی۔

اسماعیلی بیلٹن جلد۲۔ شمارہ۱۲۔ رمضان المبارک ۱۳۹۶ھ، اگست ۱۹۷۶ء

 

۲۴۹

 

ہمہ اوست

از دیوانِ شیخ فرید الدین عطار، ترجمہ و شرح از علامہ نصیر الدین نصیرؔہونزائی

 

ہر چہ ہست اوست وہرچہ اوست توی

اوتوی وتواوست نیست دوی

ترجمہ:۔ جو کچھ ہے وہ ہے اور جو کچھ وہ ہے تُو ہے، وہ تُو ہے اور تُو وہ ہے کوئی دوئی نہیں۔

شرح:۔ حضرت شیخ فرید الدین عطار علیہ رحمتہ فرماتے ہیں کہ “اے طالبِ حقیقت تیرا حقیقی معشوق عرصۂ امکان کی ہست و بود کا سب کچھ ہے اور جس طرح بحدِ فعل وہ سب کچھ ہے اسی طرح بحدِ قوت تو سب کچھ ہےاور جس طرح بحدِفعل وہ سب کچھ ہے اسی طرح بحدِّ قوّت تو سب کچھ ہے کیونکہ کلّ جزو پر حاوی اور محیط ہے اور جزو کلّ میں شامل اور داخل ہے جب ان معنوں میں وہ تُو ہے اور تُو وہ ہے تو پھرجاننا چاہئے کہ اس کے اور تیرے درمیان بحقیقت کوئی دوئی نہیں۔

 

۲۵۰

 

در حقیقت چواوست جملہ تو ہیچ

تو مجازی دوبینی وشنوی

ترجمہ:۔ جب حقیقت میں وہ سب کچھ ہے، تو تُو کچھ بھی نہیں، تُو مجازی طور پر دو دیکھتا ہے اور سنتا ہے۔

شرح:۔ جب حقیقت و اصلیّت میں یہ مانا گیا کہ ھو الکل (یعنی ہمہ اوست =وہ سب کچھ ہے) کا نظریہ برحق ہے تو پھر حقیقتاً تُو اپنی طرف سےکچھ بھی نہیں، ہاں اگر تو اسکے ساتھ ایک ہو سکتا ہے، تو یہی صفت تیری بھی ہے، اور جس طرح تو خود کو اور مطلوبِ روحانی کو دور دیکھتا ہے یہ تو تیرا ظاہری اور مجازی مشاہدہ ہے۔

کی رسی دروصالِ خود ہر گز

کہ تو پیوستہ در فراقِ خودی

ترجمہ:۔ تو اپنے دیدار تک کب پہنچے گا! ہر گز نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ تُوہمیشہ اپنی جدائی میں گرفتار ہے۔

شرح:۔ عطار فرماتے ہیں کہ تیرا حقیقی وجود یہ تو نہیں جو تُو اس وقت رکھتا ہے بلکہ وہ محبوب خود ہی تیری اصلی خودی اور تیری ازلی روح ہے جس کا وصال تیرے لئے بہت ہی ضروری ہے۔ تجھ سے اس کی یہ جدائی دراصل تیری اپنے آپ سے جدائی ہے، تو اپنے روحانی دیدارتک نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ تو مجاہدۂ نفس سے گریز کر کے اپنی اصلیّت سے دور ہو جاتا ہے اور اپنی حقیقی روح کی جدائی

 

۲۵۱

 

میں مبتلا رہتا ہے۔

زان خبر نیست از توی خودت

کہ تو تا فوقِ عرش تو بتوی

ترجمہ:۔ تجھے اپنی خودی اور انا کی خبر اس لئے نہیں، کہ تو (زمین سے لے کر) عرشِ عظیم کے اوپر تک تہ بتہ اور پیچ در پیچ ہے۔

شرح:۔ فرمایا جا تا ہے کہ تجھے اپنی خودی و ہستی سے واقفیت و آگہی اس لئے نہ ہو سکتی ہے کہ تیرے کلّی وجود کے اجزاء زمین سے لے کر بالائے عرشِ عظیم تک اس طرح درہم برہم اور پیچ در پیچ ہیں کہ ان کی وحدت وحقیقت جاننا تیرے لئے مشکل ہو گیا ہے۔

تا وجودِ تُوکلِ کل نشود

جزو باشی بکل کجا گردی

ترجمہ:۔ جب تک تیرا وجود (فنا ہو کر) کل کی حقیقت نہ بنے، تب تک تو جزو ہی رہے گا (اور) کل تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔

شرح:۔ عطار صاحب اس مقام پر “انا للہ وانا الیہ راجعون” کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب تک تو معاد سے مکمل رجوع ہو کر اپنے وجود کے قطرے کو وجودِ کل کے سمندر میں نہیں ملا دیتا تب تک تو قطرہ اور جزو ہی رہے گا اور کل تک کیسے اور کہاں پہنچے گا۔

 

۲۵۲

 

نقطہ ای از توبرتو ظاہر گشت

تو بدان نقطہ دائماً گروی

ترجمہ:۔ تجھ پر تیری ہستی میں سے صرف ایک نقطہ ظاہر ہوا ہے، اور تو ہمیشہ اسی نقطے کی طرف متوجہ رہا ہے۔

شرح:۔ تیرے وجودِ کلّی میں سے فی الحال تجھ پر صرف ایک نقطہ ظاہر ہوچکا ہے۔ یعنی تو جس طرح کل ہے اس کا تجھے کوئی علم نہیں، صرف اتنا ہے کہ تو اپنی ظاہری شخصیت ہی کو جانتا ہے یہ تو تیرے عظیم وجود کا ایک چھوٹا سا نقطہ ہے، اور افسوس ہے کہ صرف اسی جزوی ہستی کے نقطے سے تیرا رجوع ہے۔

نقطۂ تو اگر بدائرہ رفت

رو کہ کونین راتو پیش روی

ترجمہ:۔ اگر تیرا نقطہ دائرے میں داخل ہو گیا تو چلے جا کہ تو (اب) دونوں جہان کا پیشوا اور مقتدا ہے۔

شرح:۔ اگر کوئی خوش نصیب انسان روحانی اور عرفانی طور پر اپنے نقطۂ وجود کو وجود کے دائرۂ کلّی کے مرکز پر پہنچا دیتا ہے تو ایسے عارفِ ربّانی سے کہا جائے گا کہ جا مبارک ہو اب تو کونین کا پیشوا بن گیا۔

دردرین نقطہ باز ماندی تو

اینت سجینِ صعب و ضیق قوی

ترجمہ:۔ اور اگر تو اسی نقطے میں رہ گیا تو یہی تیرا سخت اور بہت ہی

 

۲۵۳

 

تنگ دوزخ ہے۔

شرح:۔ فرماتے ہیں کہ اگر تجھے بقاءِ کلّی کی معرفت حاصل نہ ہو اور صرف اپنی ظاہریّت ہی کے نقطے میں محدود رہا تو بس یہی حال تیرے لئے سخت اور انتہائی تنگ جہنم ہے۔

چون تو در نقطہ کشتہ باشی تخم

نہ ہماتا کہ دائرہ دروی

ترجمہ:۔ جب تو نقطہ (جتنی جگہ) میں کوئی بیج بوتا ہے تو کیا ایسا نہیں ہے کہ تو دائرہ بھر فصل کاٹتا ہے۔

شرح:۔ نقطہ سے دائرہ کس طرح بنتا ہے وہ پرکار کی مثال سے ظاہر ہے کہ پرکار نقطۂ مرکز پر قائم ہو کر دائرہ بناتا ہے اسی طرح نقطہ بھر جگہ میں بیج بوکر ایک دائرہ جتنی فصل حاصل کی جاتی ہے، چنانچہ اگر نقطۂ خودی کی معرفت حاصل ہونے سے دائرۂ امکان کی ابدی سلطنت مل جاتی ہے تو اس میں کیا تعجب ہے۔

نتو ان رست از چنین ضیقی

جز بخورشید نورِ مصطفوی

ترجمہ:۔ ایسے تنگ مقام سے چھٹکارا نہیں مل سکتا، نورِ محمدی کے سورج کے بغیر۔

شرح:۔ بیج خواہ درخت کا ہو یا کسی فصل کا جب زمین میں بو دیا جاتا ہے تو وہ زمین کے اندر نقطہ بھر تنگ وتاریک جگہ میں مقید و

 

۲۵۴

 

محبوس رہتا ہے۔ اور اسے ہمہ وقت سورج کی حرارت و روشنی کی سخت ضرورت پڑتی ہے تاکہ وہ بیج تنگیٔ زمین سے نکل کر پروان چڑھے، اور پھلے پھولے، بالکل اسی طرح جزوی ہستی کے نقطے کی تنگی سے کسی فردِ بشر کو نجات نہیں مل سکتی ہے مگر اس وقت جب کہ اس کے دل و دماغ پر نورِ محمدی کا سورج ضوفشانی کرنے لگتا ہے۔ پھر ایسے سعادت مند انسان کی روحانی و علمی بالیدگی شروع ہو جاتی ہے۔

کرد عطار درعلو پرواز

تابدوتافت اختر نبوی

ترجمہ:۔ عطار نے بلندی کی طرف پرواز کیا، جب کہ پیغمبر (صلعم) کے ستارے نے اس پر روشنی ڈالی۔

شرح:۔ جب اندھیری رات میں کسی مسافر کے آگےآگے کوئی روشنی مشعل جلتا رہتا ہے تو اس کا مقصد و منشا یہ ہوتا ہے کہ مسافر اس کے پیچھے پیچھے چلتا جائے، اسی طرح جب سرورِ انبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے ستارۂ عزّت و رفعت نے عطار کے باطن پر ضوفشانی کی تو عطار روحانیّت کی فضاؤں میں پرواز کر گیا۔

اسماعیلی بلیٹن جلد۳؍شمارہ۱۔ شوال ۱۳۹۶ھ، ستمبر ۱۹۷۶ء

 

۲۵۵

 

حکمتِ ناصری

حکمتِ حج

حاجیان آمدند باتعظیم

شاکر از رحمتِ خدائے رحیم

حستہ از محنت و بلای حجاز

رستہ ازدوزخ وعذابِ الیم

آمدہ سوی مکہ ازعرفات

زدہ لبیک عمرہ از تنعیم

یافتہ حج و کردہ عمرہ تمام

بازگشتہ بسوی خانہ سلیم

من شدم ساعتی بہ استقبال

پای کر دم برون زحدِ گلیم

 

۱۔ حاجی حضرات تعظیم کے ساتھ حج سے واپس آئے، خداوندِ رحیم کی رحمت کے لئے شکر گزاری کرتے ہوئے۔

۲۔ حجاز کی محنت اور تکلیف سے فارغ ہو کر، دوزخ اور دردناک عذاب سے چھٹکارا پاکر۔

 

۲۵۶

 

۳۔ عرفات سے مکہ میں آ کر میقات سے عمرہ کے لئے لبیک کہہ کر۔

۴۔ فضیلتِ حج پا کر اور عمرہ کو مکمل کر کے، سلامتی سے گھر کی طرف واپس ہوتےہوئے۔

۵۔ میں ذرا ان کے استقبال کو گیا، اور اپنے پاؤں کو کمبل کی حد سے  زیادہ پھیلادیا۔

مرمرادرمیانِ قافلہ بود

دوستی مخلص و عزیزوکریم

گفتم اورا “بگو کہ چون رستی

زین سفر کر دن برنج و ببیم

تاز تو باز ماندہ ام جاوید

فکر تم راندامتست ندیم

شاد گشتم بدانکہ کر دی حج

چون تو کس نیست اندرین اقلیم

باز گوتا چگو نہ داشتہ ای

حرفتِ آن بزرگوار حریم

 

۶۔ اس قافلہ میں میرا ایک مخلص، عزیز اور مہربان دوست تھا۔

۷۔ میں نے اس سے کہا “بتا کہ تو کیسے فارغ ہوا، اس رنج اور خوف کے سفر کرنے سے۔

۸۔ کیونکہ جب سے میں تم سے پیچھے رہ گیا ہوں، تب سے ہمیشہ، میری فکر کو پیشمانی لاحق ہوئی ہے۔

۹۔ میں خوش ہوا اس لئے کہ تُو نے حج کیا، اس ملک میں تجھ ایسا کوئی نہیں۔

 

۲۵۷

 

۱۰۔ بتا دے کہ تو نے کیسی بجالائی، اس عظیم حرم کی حرمت ؟

 

چون ہمی خواستی گرفت احرام

چہ نیت کر دی اندر آن تحریم؟

جملہ بر خود حرام کردہ بدی

ہر چہ مادونِ کردگارِ قدیم؟

گفت “نی” گفتمش: ” زدی لبیک

از سرِ علم واز سرِ تعظیم

می شنیدی ندایِ حق وجواب

بازدادی چنانکہ داد کلیم؟

گفت “نی” گفتمش: “چودرعرفات

ایستادی ویافتی تقدیم

 

۱۱۔ جب تو نے احرام باندھنا چاہا، تو اس احرام میں تُو نے کیا نیّت کی؟

۱۲۔ کیا تو نے سب کچھ اپنے اوپر حرام قرار دیا، جو کچھ کہ خداوند قدیم کے سوا ہے؟

۱۳۔ اس نے کہا “نہیں” میں نے اس سے کہا: “تُو نے لبیک کہا، علم و معرفت کی روشنی میں اور سچی تعظیم کے ساتھ۔

۱۴۔ کیا تو نے خداتعالیٰ کی ندا سنی اور اس لئے ایسا جواب دیا جیسے موسیٰ کلیمؑ نے جواب دیا تھا؟” (یعنی لبیک کا مطلب ہے: میں حاضر ہوں، جو کسی کے بلانے کے جواب کے طور پر ہے) ۔

۱۵۔ وہ بولا “نہیں” میں نے اس کو کہا: “جب تُو عرفات میں کھڑا ہوا، اور خود کو آگے پایا۔

 

عارفِ حق شدی و منکرِ خویش

بہ توازمعرفت رسید نسیم

گفت “نی” گفتمش: “چومی کشی

گوسفند از پی اسیر و یتیم

 

۲۵۸

 

قربِ خوددیدی اول و کردی

قتل و قربان نفس شوم لیم؟”

گفت “نی” گفتمش: “چومی رفتی

درحرم ہمچو اہلِ کہف و رقیم

ایمن از شرِ نفسِ خود بودی

وزغمِ فرقت وعذاب حجیم؟”

 

۱۶۔ کیا تُو اس وقت خداتعالیٰ کا عارف اور اپنی ہستی کا منکر ہو چکا، کیا تجھ کو معرفت کی نرم ولطیف ہوا محسوس ہونے لگی؟”

۱۷۔ کہا “نہیں” میں نے اس سے کہا جب تو نے ذبح کیا، گوسفند کو یتیموں اور قیدیوں کے واسطے۔

۱۸۔ کیا تو نے اس وقت خود کو خدا کے قرب میں دیکھااور اسی لئے کر دیا، تو نے اپنے کمینہ اور شریر نفس کو قتل و قربان؟

۱۹۔ وہ کہنے لگا “نہیں” میں نے اس سے کہا جب تو حرم میں گیا، اصحابِ کہف اور رقیم کی طرح۔

۲۰۔ کیا تو اس وقت نفسِ امّارہ کی برائی سے چھٹکارہ پاچکا تھا، اورجدائی اور عذابِ دوزخ کے غم سے بھی؟

گفت “نی” گفتمش: “چوسنگ جمار

ہمی انداختی بدیو رجیم

ازخود انداختی برون یکسر

ہمہ عادات و فعلہای ذمیم؟”

گفت “نی” گفتمش: “چوگشتی تو

مطلع برمقام ابراہیم

کردی از صدق و اعتقاد و یقین

خویشی خویش رابحق تسلیم؟”

گفت “نی” گفتمش: “بوقتِ طواف

کہ دو دیدی بہ ہرولہ چو ظلیم

 

۲۱۔ اس نے کہا “نہیں” میں نے پوچھا: “جب تو نے جمار کے سغگریزے

 

۲۵۹

 

شیطانِ رجیم پر پھینکے۔

۲۲۔ کیا تو نے اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ سے نکال باہر کر دیا، تمام بری عادتو ں اور تمام برے اعمال کو؟”

۲۳۔ اس نے کہا “نہیں” میں نے پوچھا “جب تو (عارفانہ طور پر) ہو گیا واقف و آگاہ ابراہیم کے مقام (یعنی درجۂ روحانیّت) سے۔

۲۴۔ کیا تو نے اس وقت صداقت، عقیدت اور یقین سے اپنی خودی کو خداتعالیٰ کے سپرد کر دیا؟

۲۵۔ وہ بولا “نہیں” میں نے پوچھا: “طواف کے وقت، جبکہ تو فرشہ مرغ کی طرح تندی سے دوڑتا تھا۔

از طوافِ ہمہ ملائکتان

یاد کردی بگردِ عرشِ عظیم؟”

گفت “نی” گفتمش: “چوکردی سعی

ازصفا  سوی مروہ برتقسیم

دیدی اندر صفای خود کونین

شد دِلت فارغ ازجحیم و نعیم؟”

گفت “نی” گفتمش: “چوگشتی باز

ماندہ از ہجرِکعبہ بردل ریم

کردی آنجابہ گو مرخودرا

ہمچنانی کنون کہ گشتہ رمیم؟

 

۲۶۔ کیا تونے تمام فرشتوں کے اس طواف کا، تصوّر کیا جو وہ عرشِ عظیم کے گرد کر لیا کرتےہیں؟

۲۷۔ اس نے کہا “نہیں” میں نے پوچھا: “جب تو نے سعی کیا، یعنی جب تو دوڑا، صفا سے مروہ کی طر ف سات دفعہ۔

۲۸۔ کیا تو نےاس دوران اپنے دل کی صفائی اور روشنی میں دونوں

 

۲۶۰

 

جہان کو دیکھا، کیا تیرا دل دوزخ اور بہشت کی فکر سے آزاد ہو گیا؟

۲۹۔ وہ بولا “نہیں” میں نے دریافت کیا: “جب تو وہاں سے لوٹا تو کیا خانۂ کعبہ کی جدائی سے تیرے دل میں زخم ہو گیا؟

۳۰۔ تو کیا (عشق بیت اللہ کے اس زخم سے تو مرگیا اور) تو نے خود کو وہاں دفن کر دیا، کہ جس سے تو اب ایسا ہےجیسا سڑا ہوا ہو؟

گفت “ازین با ب ہر چہ گفتی تو

من ندانستہ ام صحیح و سقیم

گفتم “ازین باب ہرچہ گفتی تو

نشدی درمقامِ محو مقیم

رفتہ ای مکہ دیدہ، آمدہ باز

محنتِ بادیہ خریدہ بسیم

گرتو خواہی کہ حج کنی، پس ازین

این چنین کن کہ کردمت تعلیم”

 

۳۱۔ وہ بولا “اس کے بارےمیں تو نے جو کچھ کہا مجھے کوئی پتہ نہیں کہ کیا درست ہے اور کیا نادرست۔”

۳۲۔ میں نے کہا “اے دوست پس تو نے حج ہی نہیں کیا، محویّت اور فنائیّت کے مقام کو نہیں پہنچ سکا۔

۳۳۔ تو نے جا کر صرف مکہ دیکھا اور واپس آیا چاندی کو صرف کر کے بیابان کی مشقت خریدلی۔

۳۴۔ اگر تو اس کے بعد حج کرنا چاہتا ہے تو ایسا ہی کرنا جیسا کہ میں نے تجھے بتادیا۔

 

ترجمہ ازقلم

(علامہ نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی)

اسماعیلی بلیٹن جلد۳۔ شمارہ ۵۔ صفر ۱۴۷۷ھ، جنوری ۱۹۷۷ء

 

۲۶۱

 

گلدستۂ عقیدت

بحضورِ شاہِ ولایت حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امامؑ

بموقع تشریف آوری بہ علاقہ ہونزا

(از موکھی عصمت اللہ مشفقؔ ہونزائی)

ترجمہ: از علامہ نصیرالدین نصیر ؔہونزائی

۱۔   ای ہادیٔ سبیلِ دل وجان خوش آمدی

ای نورِ برج رحمتِ یزدان خوش آمدی

ترجمہ:۔ اے دل و جان (یعنی روحانیّت) کی راہ کے رہبر و رہنما، خوش آمدید، اے رحمتِ ایزدی کے برج کا نور، خوش آمدید۔

 

۲۔   ای آفتابِ دینِ مبینِ فخرِ ملک و دین

ای بادشاہِ تختِ دل و جان خوش آمدی

 

۲۶۲

 

ترجمہ:۔ اے دینِ مبین کے سورج، ملک اور مذہب کے فخر، اے دل و جان کے تخت کے بادشاہ خوش آمدید۔

۳۔  سبطِ رسول و ابنِ علی نسلِ مرتضیٰ

درکسوتِ کریمِ کریمان خو ش آمدی

ترجمہ:۔ رسول اللہ کا نواسہ اور شہزادۂ علی سلمان خان کا فرزند اور حضرت مرتضیٰ علیؑ کی نسل، جو کریموں کے کریم (یعنی سخیوں کے سخی) کے لباس میں ہیں خوش آمدید۔

۴۔   مختارِ کل و عالمِ اسرارِ معرفت

اسی جانشینِ ختم رسولان خوش آمدی

ترجمہ:۔ دینی اختیارات کے مالک، معرفت کے بھیدوں کو جاننے والے، اے خاتم المرسلین کے جانشین، خوش آمدید۔

۵۔   ای تاجدارِ مملکتِ دینِ مصطفیٰ

دریایِ نورو بحرِ درافشان خوش آمدی

ترجمہ:۔ اے دینِ مصطفائی کی مملکت کے بادشاہ، نور کے دریا اورموتی بکھیرنے والے سمندر، خوش آمدید۔

۶۔  تو ہمچو برجِ کوکب دری بعصرِ خویش

اسرارِ علمِ سورۂ رحمان خوش آمدی

ترجمہ:۔ آپ اپنے زمانے میں درخشان ستارے کے برج کی طرح ہیں، اے سورۂ رحمان کے علم کے بھیدوں کے مظہر، خوش آمدید۔

 

۲۶۳

 

۷۔  اولادِ مرتضیٰ و تویِآلِ مصطفیٰ

ای گنجہای معنی قرآن خوش آمدی

ترجمہ:۔ آپ مرتضیٰ علیؑ کی اولاد ہیں اور آپ حضرتِ محمد مصطفیٰؐ کی آل ہیں۔ اے حضور! آپ ہی قرآنی معنوں کے خزائن کا درجہ رکھتے ہیں، خوش آمدید۔

۸۔   مشفقؔ مریضِ عشق تو شدتاتو بنگری

ای مرہم و طبیب طبیبان خوش آمدی

ترجمہ:۔ مشفقؔ آپ کے مقدّس عشق کے مرض میں مبتلا ہو گیا تاکہ آپ اس کی عیادت کو جائیں اور معائنہ کریں، اے زخمِ دل کی دوا! اور اے طبیبوں کے طبیب! خوش آمدید۔

اسماعیلی بلیٹن جلد۳۔ شمارہ۶۔ ۷، ربیع الاول، ربیع الثانی ۱۳۹۷ھ فروری، مارچ ۱۹۷۷ء

 

۲۶۴

 

حکمتِ ناصریؔ

ترجمہ ازعلامہ نصیر الدین نصیرؔہونزائی

 

یکی بی جان و بی تن ابلق اسپی کو نفرساید

بہ کوہ و دشت و دریا برہمی تازوکہ ناساید

ترجمہ:۔ ایک بے جان اور بے جسم چتکبرا گھوڑا (یعنی زمانہ) جو کہ کبھی فرسودہ نہیں ہوتا (یعنی کبھی بوڑھا) اور ضعیف نہیں ہوتا) پہاڑ، بیابان اور دریا پر ہمیشہ اس طرح دوڑتا رہتا ہے کہ کسی وقت بھی آرام نہیں لیتا۔

سواران گربفر سایند اسپان رابہ رنج اندر

یکی اسپیست این کومر سوارانرابفرساید

ترجمہ:۔  اگرچہ (دوسرے سب) سوار گھوڑوں کو رنج و مشقت سے تھکا تھکا کر فرسودہ کر دیتے ہیں، لیکن یہی ایک گھوڑا ایسا ہے جو

 

۲۶۵

 

سواروں کو فرسودہ (کر کے ختم) کر دیتاہے۔

سواران خفتہ اندوین اسپ برسرشان ہمی تازد

کہ نہ کس رابکو بد سر نہ کس راروی بشخاید

ترجمہ:۔ سوار سوئے ہیں اور گھوڑا ان کے سر پر دوڑ رہاہےکچھ اس طرح سے کہ بظاہر وہ نہ تو کسی کے سر کو توڑتا ہے اور نہ ہی کسی کے چہرے کو زخم کر دیتا ہے۔

تووفرزند تو ہردوبرین اسپید لیکن تو

ہمی کاہی برین ہموارو فرزندت می افزاید

ترجمہ:۔ تم اور تمہارا فرزند دونوں اس گھوڑے پر سوار ہو لیکن تم اس پر ہمیشہ گھسٹتےجاتے ہو اور تمہارا فرزند بڑھتا چلا جاتاہے۔

نہ زاد از ہیچ مادر، نہ بپروردش کسی ہر گز

ولیکن ہر کہ زاد اویا بزاید زیرِ اوزاید

ترجمہ:۔ وہ گھوڑا ایسا ہے کہ کسی ماں سے اس نے جنم نہیں لیا، اور نہ کبھی اس کو کسی نے پالا ہے، لیکن جو کوئی پیدا ہوا یا پیدا ہوتا ہے وہ اسی گھوڑے کے نیچے پیدا ہوتا ہے۔

زمانہ یٔ نامساعدرا ازین گونہ بجز حجت

بہ زرد گوہرِ الفاظ ومعنی کس نیاراید

ترجمہ:۔ ناموافق زمانے کو حجّت کے سوا اس طرح الفاظ و معنی کے زرّ و جواہر سے کوئی نہیں سجا سکتا (یعنی زمانہ ہی ایسا گھوڑا ہے) ۔

 

۲۶۶

 

سخن چون زرِ پختہ بی خیانت گرددوصافی

چواور اخاطرِ دانا بہ اندیشہ فروساید

ترجمہ:۔ بات خالص سونے کی طرح پاکیزہ اور صاف ہوجاتی ہے، جبکہ دانا کا دل اسے غور و فکر سے نکھار بخشتا ہے۔

سخن چون زنگ روشن باید از ہر عیب و آلائش

کہ تانا ید سخن چون زنگ زنگ ازجانت نزداید

ترجمہ:۔ بات صاف گھنٹی کی طرح تابناک اور ہر قسم کے نقص و آلودگی سے پاک ہونی چاہئے، کیونکہ جب تک بات صاف گھنٹی کی طرح پاکیزہ اور صاف نہ ہو تو تمہاری جان سے زنگ کو مٹا نہیں سکتی ہے۔

بہ آبِ علمِ باید شست گردِ عیب و غشِ ازدل

کہ چون شد عیب و غش ازدل سخن بی گش و عیب آید

ترجمہ:۔ علم کے پانی سے دل کے عیب وآلودگی اور کھوٹ کے گردوغبار کو دھونا چاہئے، کیونکہ جب دل سے عیب وآلائش جاتی رہےتو دل سے صاف اور پاکیزہ بات نکلتی ہے۔

طعامِ جان سخن باشد سخن جز پاک و خوش مشنو

ازیرا چون نباشد خوش طعام و پاک، بگزاید

ترجمہ:۔ بات ہی جا ن کی غذا ہے سو تم سوائے پاک اور عمدہ بات کے نہ سننا، اس لئے کہ جب غذا خوش ذائقہ اور پاک نہ ہو تو مروڑ پیدا کرتی ہے یا اس سے جی متلا جاتا ہے۔

 

۲۶۷

 

زدانا ای پسر نیکو سخن راگر بیاموزی

بہ دوعالم ترا ہم خالق و ہم خلق بستاید

ترجمہ: ، اے لڑکے! اگر تم دانا سے عمدہ بات سیکھو گے تو دونوں جہان میں خدا بھی تمہاری تعریف کرے گا اور اس کی مخلوق بھی۔

وگرمرخویشتن رااز سخن بی بہرہ بلپندی

مرا گرچون تو فرزندی نباشد برزمین شاید

ترجمہ:۔ اور اگر تم اپنے آپ کو عمدہ باتو ں سے بے بہرہ رکھنا چاہتے ہو، تو پھر میرا تم جیسا فرزند زمین پر نہ بھی ہو تو مناسب ہے۔

بہ بانگِ خوش گرامی شُد سوی مروم ہزار آرا

وزان خواراست زاغ ایدون کہ خوش و خوب نسراید

ترجمہ:۔ خوش الحانی کی وجہ سے بلبل لوگوں کے نزدیک عزیز ہے، اور کوّا اس لئے خوار و ذلیل ہے کہ اس کی آوازعمدہ اور پسندیدہ نہیں ہے۔

ہزار آوازچون دانا ہمہ نیکو وخوش گوید

ولیکن زاغ ہمچون مردِ جاہل ژاژمی خاید

ترجمہ:۔ ہزار داستان (بلبل) دانشمند کی طرح سراسر، خوب اور دلکش آواز میں بولتا ہے، لیکن کوّا جاہل آدمی کی طرح فضول کائیں کائیں کرتا رہتا ہے۔

 

۲۶۸

 

بنجشائی تو طوطی راازان کو می سخن گوید

تو گر نیکو سخن گوئی ترا ایزو بنجشاید

ترجمہ:۔ اگر طو طے کی کوئی غلطی ہو تو تم اس کو معاف کرتے ہو اس لئے کہ وہ کلام کرتا ہے اور اگر تم بھی اچھی باتیں کرو گے تو خداوند تعالیٰ تم کو بھی بخش دے گا۔

اسماعیلی بلیٹن جلد۳۔ شمارہ ۸۔ جمادی الاول تارجب ۱۳۹۷ھ، اپریل تا جون ۱۹۷۷ء

 

۲۶۹

 

حکمتِ ناصری

ازدیوانِ ناصر خسرو قدّس سرّہ،

(ترجمہ از علامہ نصیر الدین نصیرؔہونزائی)

 

پادشا برکامہایِ دل کہ باشد؟پارسا

پارسا شوتاشوی برہر مرادی پادشا

ترجمہ:۔ پیرصاحب بطور سوال فرماتے ہیں کہ وہ کون سا شخص ایسا ہے جو دل کی کامیابیوں کا بادشاہ ہو سکا ہو؟ پھر آپ خود ارشاد کرتے ہیں کہ ایسا شخص صرف متّقی یعنی پرہیزگار ہی ہے۔ لہٰذا پرہیزگار ہو جا، تاکہ تو ہر مقصد کا بادشاہ ہو جائے، یعنی تمام نیک مقاصد کی تکمیل ایسی آسانی سے ہو، جیسے تو بادشاہ ہو۔

 

۲۷۰

 

پارسا شو تا بباشی پادشا بر آرزو

کارزوہرگز نباشد پادشابرپارسا

ترجمہ:۔ متّقی اور پرہیزگار بن جا، تاکہ تو اپنے نفس کی خواہش پر غالب بادشاہ ہو سکے۔ اور وہ تجھ پر حکمرانی نہ کر سکے، کیونکہ خواہش تو دوسروں پر حاکم ہوسکتی ہے، مگر پرہیزگارشخص پر ہرگز حکومت نہیں کر سکتی۔

پادشا گشت آرزو برتو زبی باکی تو

جان و دل بایدہ ت داداین پادشا را باژوسا

ترجمہ:۔ یہ تیری اپنی ہی لاپرواہی کا نتیجہ ہے کہ خواہشِ نفس رفتہ رفتہ تجھ پر غالب آکر تیری بادشاہ بن چکی ہے۔ اب اس بادشاہ کو باج وخراج کے طور پر جان ودل دینے کے سوا اور کیاچارۂ کار ہو سکتا ہے۔

 

آزدیو تست چندین چون رہا جوئی زدیو؟

تورہا کن دیوراتازو بباشی خودرہا

ترجمہ:۔ طمع اور خواہشِ نفسانی تیرے شیطان کی حیثیت سے ہے (جس کو تو نے لاشعوری طور پر پکڑ بھی رکھا ہے اور شعوری طور پر اس سے چھٹکارا بھی چاہتا ہے) تو نے کتنی دفعہ اور کیسے غلط طریق پر خود کو شیطان کے چُنگل سے چھڑانے کے لئے کوشش کی؟ اے دوست جا! دراصل شیطان نے تجھ کو نہیں پکڑا ہے، بلکہ

 

۲۷۱

 

خود تو نے اس کو پکڑ رکھا ہے، تو اس کو چھوڑ دے، تاکہ خود بخود تیری رہائی ہو جائے۔

دیوراپیغمبران دید ند وراند ندش زپیش

دیورا نادان نبیند من نمودم مسرترا

ترجمہ:۔ انبیاء علیہم السّلام نے ایسے شیطان کو دیکھا اور ان حضرات نے اپنے حضورسےاس کو بھگا دیا، یہ شیطان ایسا نہیں ہے کہ انجان اور نادان آدمی اس کو دیکھ سکے، لہٰذا میں نے شیطان تجھ کو دکھا دیا۔

خویشتن راچون فریبی؟ چون نپرہیزی زبد؟

چون نہی، چون خود کنی عصیان، بہانہ برقضا؟

ترجمہ:۔ تو اپنے آپ کو کس طرح دھوکہ دیتا ہے؟ تو کس طرح برائی سے پرہیز نہیں کرتا ؟ جب نافرمانی تو خود ہی کرتا ہے تو کس طرح اس کا بہانہ قضا و قدر پر رکھتا ہے؟

چونکہ گرتو بدکنی زان دیورا باشد گناہ؟

وریکی نیکی کنی زان مرترا باید ثنا؟

ترجمہ:۔ کیونکہ تیرا نظریہ یہی کچھ ہے کہ اگر تجھ سے برائی کا ارتکاب ہوا تو اس کی وجہ شیطان ہے، لہٰذا یہ گناہ شیطان کا ہوا، اور اگر تو کوئی نیکی کرتا ہے تو اس سے تیری ہی تعریف و توصیف ہونی چاہئے، حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے۔

 

۲۷۲

 

چون نیند کہ می برخویشتن لعنت کنی؟

ازخرد بر خویشتن لعنت چرا داری روا؟

ترجمہ:۔ تو کیسے نہیں سوچتا کہ تو اپنے آپ پر لعنت کرتا ہے، جبکہ نافرمانی شیطان سے نہیں بلکہ تو خود ہی کرتا ہے؟ تو کیون کر عقل کی روسے اپنے آپ پر لعنت کرنا جائز قرار دیتا ہے؟

جزبدستِ تونگیر و ملک کس دیو، ای شگفت

جز لفظِ تونگیر و نیز مرکس راجفا

ترجمہ:۔ شیطان کا قول و فعل انسان ہی کے ذریعے سے ظاہر ہوتا ہے، چنانچہ تعجب ہے کہ تیرے ہاتھ کے بغیر شیطان کسی کے دل کی مملکت لے نہیں سکتا اور نہ ہی وہ تیری بات کے سوا کسی پر ظلم و ستم کر سکتا ہے۔

دست و قولت دست وقولِ دیو باشد زین قیاس

ورنباشی تو نباشد دیو چیزی سویِ ما

ترجمہ:۔ اس دلیل سے ظاہر ہے کہ تیرا ہاتھ اور تیری بات شیطان کا ہاتھ اور شیطان کی بات ہے اور اگر مثال کے طور پر ایسا کوئی شخص موجود نہ ہو تو ہمارے نزدیک شیطان کوئی چیز ہے ہی نہیں۔

چند گردی گرواین و آن بہ طمعِ جاہ وجلال

کز طمع ہر گز نیا گد جز ہمہ درد و بلا

ترجمہ:۔ دنیاوی  عزّت اور مال کی طمع سے کبھی اس آدمی کے گرد اور کبھی اس آدمی کے گرد تو آخر کب تک طواف کرتا رہے گا، کیونکہ طمع سے سوائے

 

۲۷۳

 

دکھ اور بلا کے اور کوئی چیز ہر گز حاصل نہیں ہوتی ہے۔

گرچہ موش از آسیا بسیار یا بدفائدہ

بی گمان روزی فرو کو بدسرِ موش آسیا

ترجمہ:۔ اگرچہ چوہا چکی سے بہت فائدہ حاصل کرتا ہے، لیکن اچانک چوہے پر کوئی دن ایسا بھی گزرتا ہے کہ اس میں چکی چوہے کے سر کو مسل کر رکھ دیتی ہے۔

ای چرای گور، گردِ دشتِ روز و شب چرا

ننگری کاین روز و شب جوید ہمی از تو چرا؟

ترجمہ:۔ اے قبر کی خوراک یعنی انسان! تو دن رات کے اس صحرا کے گرد کیوں نہیں دیکھتا کیونکہ جہاں تو دن رات سے غذا طلب کرتا ہے، وہاں وہ دونوں تجھ سے خوراک مانگتے ہیں، یعنی تیری عمر کو گھٹاتے ہیں۔

چون چراجوئی ازانک از تو چراجوید ہمی؟

این چرا جستن زیکدیگر چراباید، چرا؟

ترجمہ:۔ اس مثال میں تو ایک ایسے شخص سے کیسے خوراک طلب کرتا ہے، جو وہ خود یہ چیز تجھ سے مانگتا ہے۔ اسی طرح یہ ایک دوسرے سے خوراک کا تقاضا کیوں ہونا چاہئے، کیوں؟

 

۲۷۴

 

مرستوران را غذا اندر گیا بینم ہمی

بازبی دانش گیا راخاک و آب آمد غذا

ترجمہ:۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جانوروں کی غذا گھاس پات میں سے ہوتی ہے اور پھر اس بے دانش گھاس کی خوراک مٹی اور پانی سے مہیا ہوتی ہے۔

اسماعیلی بلیٹن جلد ۴۔ شمارہ۵صفر ۱۳۹۸ھ، جنوری ۱۹۷۸ء

 

۲۷۵

صنادیق جواہر

صنادیقِ جواہر

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

مُناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات

الہی شکرِ نعمت کے لئے اب چشمِ گریان دے

“فنائے عشق ہوجاؤں” یہی ہر لحظہ ارمان دے

اطاعت آنسوؤں سے ہو عبادت آنسوؤں سے ہو

محبّت آنسوؤں سے ہو مجھے اک ایسا ایمان دے

مجھے یہ گریہ و زاری ہمیشہ تازہ رکھتی تھی

خدایا میری عِلّت کی یہی ہے کُہنہ درمان دے

مناجاتوں میں سب احباب اکثر گڑگڑاتے ہیں

تو اپنے فضل سے ان کو الٰہی گنجِ قرآن دے

 

۷

 

بھلی لگتی ہے بیحد آنسوؤں کی گوہر افشانی

خداوندا! کرم کر ہم کو چشمِ گوہر افشان دے

ترے قُرآنِ اقدس میں جواہر ہی جواہر ہیں

اِسی دریائے رحمت سے خدایا دُرّ و مرجَان دے

حبیبِ کبریا ہے وہ کہ تاجِ انبیاء ہے وہ

محمّد مصطفیٰؐ ہے وہ اسی کا ہم کو فرقان دے

علیؑ قُرآنِ ناطق ہے علیؑ ہی بابِ حکمت ہے

اسی کی رہنمائی سے دلوں کو نورِ عرفان دے

امام و حُجّتِ قائم کہ سُلطان بھی ہے جانان بھی

نصیرالدّین کو یا ربّ ہمیشہ وصلِ جانان دے

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۷؍جون  ۱۹۹۹ء

 

۸

 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آغازِ کتاب

احساناتِ خداوندی کا طویل سلسلہ: اے دوستانِ عزیز! یہ حقیقت ہےکہ ہم سب کئی معنوں میں فردِ واحد کی طرح ایک ہیں، لہٰذا آئیں ہم سب مل کر خداوندِ عالم کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں کی شکرگزاری کریں، اور اس پسندیدہ عمل کے لئے اسی سے توفیق و ہدایت طلب کریں، مناجات اور گریہ و زاری کے سمندر میں مُستغرق ہو جائیں، برستے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ بار بار سجدے میں گر پڑیں، اور اگر اس کی رحمت سے یُوں لگتا ہے کہ اب دل کسی حد تک صاف ہوگیا، تو اس حال میں سب کے لئے دعائیں کرتے جائیں۔

اس کتاب کا نام: پہلے یہ تجویز ہوئی تھی کہ اس کتاب کا نام “حکمتی سوال و جواب” ہوگا، لیکن یہ نام پس منظر میں چلا گیا، اور رفتہ رفتہ “صنادیقِ جواہر” کے اسم سے موسوم ہوگئی، صندوق (چوبی بکس) پیٹی، ٹرنک مشہور چیز ہے، اس کی جمع صنادیق ہے، اور کتاب کا نام صنادیقِ جواہر اس لئے ہے کہ اس میں بہت سے صندوقِ جواہر ہیں، اور ہر بکس میں علم و حکمت کے انتہائی گرانمایہ جواہر بھرے ہوئے ہیں،  الحمد للّٰه عَلیٰ احسانِہ۔

 

۹

 

صندوق کا قرآنی نام تابوت ہے، اور وصفی نام ہے: التّابوتُ فیہِ سکینَۃٌ (وہ صندوق جس میں پروردگار کی طرف سے تسکین ہے۔ ۰۲: ۲۴۸) پروردگار کی طرف سے تسکین چند مادّی چیزوں سے کس طرح ہوسکتی ہے، یہ بات ممکن ہی نہیں، پس اس تسکین سے عظیم ترین باطنی معجزات مراد ہیں، جو امامؑ کے روحانی بادشاہ ہونے کی علامات ہیں، یاد رہے کہ حضرتِ طالوت امام تھا، اور جو شخص امامِ زمانؑ کی خصوصی ہدایت کے مطابق راہِ روحانیّت پر گامزن ہوجاتا ہے، اس کو یہ روحانی صندوق جو عظیم معجزات سے پُر ہے مل جاتا ہے۔

حضرتِ طالوتؑ کا قرآنی قصّہ ہر امام کا قصّہ ہے، آپ اس کو حکمت کے ساتھ پڑھیں (۰۲: ۲۴۶ تا ۲۵۱) جس کے لئے چند کلیدی الفاظ کے خاص معنی اور حکمت کا خیال رکھنا ضروری ہے، چنانچہ بَعَثَ کے معنی ہیں: اس کو زندہ کیا ہے، یعنی مقامِ روح پر بھی اور مرتبۂ عقل پر بھی، دوسرا اہم لفظ مَلِکُ (بادشاہ) ہے، جس سے امام مراد ہے، تیسرا قِتال (جنگ) فی سبیل اللّٰه ہے، جس کی تاویل جہادِ اکبر اور علمی جنگ ہے، جو صرف امام ہی کی رہنمائی میں ممکن ہے، چوتھی حکمت یہ کہ اللّٰه تعالیٰ نے امام علیہ السّلام کو ایسا علمِ شریف اور جسمِ لطیف عطا کیا ہےکہ جس کی وجہ سے امامؑ کائنات پر محیط و بسیط بھی ہے، اور ہر چیز امامِ مبین میں محدود بھی ہے۔

“تابوتِ سکینہ” مجموعۂ معجزاتِ روحانی کی مثال ہے، یہ صندوق یعنی خزانۂ اسرارِ باطن حدودِ جسمانی میں سے ان کو مل جاتا ہے، جو روحانیّت

 

۱۰

 

میں امام ِزمانؑ کے بہت قریب ہوچکے ہوں، یہ بہت بڑا معجزہ اس حقیقت کی روشن دلیل ہے کہ اللّٰه تعالیٰ نے امام علیہ السّلام کو روحانی سلطنت عطا فرمائی ہے، اس لئے امامؑ برحق ہے۔

بعض عُلَماء یہ فرماتے ہیں کہ تابوتِ سکینہ میں بہت سی مادّی چیزیں تبرّک کی تھیں، مثلاً کئی پیغمبروں کی تصویریں، حضرتِ موسٰیؑ کی لاٹھی، حضرتِ ہارونؑ کا عمامہ اور ان کی جوتیاں وغیرہ وغیرہ، لیکن ان ظاہری چیزوں کو کس طرح “خداوندی تسکین” کا مرتبہ دیا جاسکتا ہے؟ حالانکہ اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے جو سکینۃ (تسکین) ہے، اس کا ذکر قرآن کے چھ مقامات پر ہے، آپ اِن آیات کو مجموعی طور پر پڑھیں:  ۰۲: ۲۴۸، ۴۸: ۰۴، ۴۸: ۱۸، ۰۹: ۲۶، ۰۹: ۴۰، ۴۸: ۲۶، تو آپ کو (ان شاء اللّٰه) معلوم ہو جائے گا کہ خدا کی طرف سے سکینۃ بہت بڑی چیز ہے۔

دوستوں کی مُشتاقانہ یاد: بہت سے احباب ارضی فرشتے ہوتے ہیں، لہٰذا ان کی یاد میں حکمت ہوتی ہے، اور بہشت میں بھی آپ کے دوست ساتھ ہوں گے، ان سے بیحد خوشی ہوگی، دُنیا میں دائمی اور کُلّی بہشت تو نہیں، لیکن بہشت برائے معرفت ضرور ہے، اس میں بھی تمام احباب ساتھ ہوتے ہیں، بہشت برائے معرفت عالمِ شخصی ہے، جس میں از اوّل تا آخر حضرتِ مولا کا نور کام کرتا رہتا ہے، لیکن عجیب بات تو یہ ہے کہ انسان بڑا ناشکرا ہے۔

میرے علمی دوست مجھے بار بار یاد آتے ہیں، کارخانۂ خیال بڑی تیزی اور برق رفتاری سے کام کرتا ہے، یہ اللّٰه  تعالیٰ کا بہت بڑا معجزہ

 

۱۱

 

ہے، خیال، تخیّل، اور تصوّر آپ کی ذاتی کائنات ہے، جس میں بیرونی کائنات بحدِّ قوّت مُسخّر کی گئی ہے، اس کو جب آپ حدِّ فعل میں لائیں گے، تو ہر چیز آپ کے سامنے حاضرو موجود ہوگی، جس طرح آج خیالی توجّہ سے آپ ہر جگہ جا سکتے ہیں، یا ہر مقام اور ہر شخص کو اپنے پاس لاسکتے ہیں، کیا یہ قوّتِ خیال اُس زبردست جِنّ کی طرح نہیں ہے، جو ملکۂ سبا کے تخت کو حضرتِ سلیمانؑ کے پاس لانا چاہتا تھا، یا یہ راز کھول رہا تھا کہ تخت پہلے ہی سے وہاں موجود تھا۔

میرا علمی اور عرفانی جِنّ (قوّتِ خیال ) میرے لئے بہت کام کرتا ہے، یہ میری ہستی کا حصہ ہوچکا ہے، اس لئے نہیں لگتا ہے کہ یہ کوئی جِنّ ہے اور مجھ سے الگ، اسی طرح اور بھی بہت سےجِنّات/فرشتے ہیں جو انسانی ہستی کا حصّہ ہوچکے ہیں، کیونکہ اللّٰه جلّ شانہٗ نے ساری کائنات کو لپیٹ کر حضرتِ انسان بنایا ہے، اور جب خدا انسان کو کائنات کی شکل میں پھیلا دیتا ہے، تو اسی وقت کسی عارف کو پتہ چلتا ہے کہ وجودِ انسانی میں کیا کیا چیزیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔

انتسابِ جدید: محترم شمس الدین جمعہ ہمارے خاص علمی دوستوں میں سے ہیں، آپ قرآنی اور دینی علوم کے بڑے شیدائی اور قدردان ہیں، لہٰذا اپنے ادارے کی عظیم الشّان ترقی اور بیمثال کارناموں پر ان کو فخر ہے، جب جب اُستاذ سے ملاقات ہوتی ہے، تو آپ بیحد مسرور و شادمان ہو جاتے ہیں، شمس الدین لائف گورنر

 

۱۲

 

بھی ہیں، اور کئی عہدوں پر فائز بھی ہوتے رہے ہیں، آپ صفِ اوّل کے مومنین میں سے ہیں، آپ کے والد صاحب کا نام جان محمد جمعہ، اور والدہ صاحبہ کا نام ناتھی جمعہ ہے، شمس الدین جمعہ کی دنیوی تعلیم: بیچلرز آف کامرس ( کراچی۔ یونیورسٹی، پاکستان)۔

محترمہ کریمہ جمعہ بیگم آف شمس الدین جمعہ بہت ترقی پر ہیں، ان کے پاس اتنی ڈگریاں، ذمہ داریاں، اور عہدے ہیں کہ تفصیل سے لکھنا مشکل ہے، ہم ان تمام چیزوں کو تاریخ کی کتاب میں لکھا کر چھپوائیں گے، جس کی تمام تر ذمہ داری محترمہ شہناز سلیم ہونزائی کودی گئی ہے، کریمہ جمعہ کے پاس جتنی دُنیوی اسناد ہیں، وہ تو ہیں ہی، اور میں جو کچھ لکھ رہا ہوں، اس کی بھی بہت بڑی اہمیّت ہے، وہ یہ کہ “کریمہ جمعہ میرے جوان ہاتھوں میں سے ایک ہیں” اور وہ ایک پین پاور ہوچکی ہیں، میں تمام عزیزوں کی ہر گونہ ترقی کے لئے درویشانہ اور عاجزانہ دعائیں کرتا ہوں، کریمہ جمعہ خاندانی طور پر بڑی ایمانی ہیں، ان کی نیک عادات سے ہمیں یقین آتا ہے کہ یہ اپنے مولا کی بہت ہی عزیز بیٹی ہیں، دنیا میں جہاں جہاں عشقِ مولا میں پگھلے ہوئے مومنین و مومنات ہیں، وہ سدا بہار باغ و گلشن کی طرح ہیں کہ ان میں روحیں اور فرشتے آتے جاتے رہتے ہیں، جیسے تتلیوں وغیرہ کا پھولوں میں آنا جانا ہوتا ہے۔

کریمہ جمعہ کے والد (شہید) کا نام منصور علی حبیب ہے، او ر والدہ کا نام تاج الدّولہ حبیب ہے، یہ نام حضرتِ پرنس علی سلمان خان

 

۱۳

 

نے عطا کیا ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

بدھ  ۲۴؍ صفر المظفر  ۱۴۲۰ھ  ۹؍جون  ۱۹۹۹ء

 

۱۴

 

حکمت و معرفت مآب، خازن علم امامت و قیامت حضرت علامہ بزرگوار

(علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی)

دامت فیوضاتکم المتنوعہ و برکا تکم المتعددہ ابدالآ بدین و دہر الداہرین،

آمین یا ربّ العالمین

یا علی مدد:

بزرگوارا! عالمِ شخصی اور بہشت جبین کے روحانی و عقلانی حقائق پر مبنی کتاب “صنادیقِ جواھر” کی تکمیل پر یہاں کے ناچیز شاگردوں کی جانب سے جان و دل کے ساتھ ہدیۂ تبریک و تہنیت کو شرف قبولیت سے نوازیئے۔ بزرگوارا! ایسی کتاب جس میں تاویلی حقائق سے متعلق ایک ہزار سوالوں کے جوابات دیئے گئے ہیں، یقیناً فیض روح القدّس کے بغیر ایسا کارنامہ ناممکن ہے، الحمد اللّٰه جن حضرات کو بزرگوار کی علمی و گریہ و زاری کے مجالس میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی ہے ان کو معلوم ہے کہ بزرگوار کی بابرکت شخصیّت میں روح قدسی کے کیسے کیسے معجزے وقوع پذیر ہورہے ہیں اور کس طرح مشکل سے مشکل علمی سوالات نہایت ہی آسانی کے ساتھ حل ہو کر کلّی اطمینان نصیب ہوتا ہے۔

بزرگوارا! اگلے وقتوں میں بزرگانِ دین نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے زمانے میں تاویلی حقائق کےبارے میں جوکچھ لکھا ہے

 

۱۵

 

وہ صرف جھلکیاں ہیں لیکن اس علم کا آفتاب عالمتاب دورِ قیامت میں طلوع ہونے والا ہے، الحمد اللّٰه آج بزرگوار کی کتابوں کی صورت میں علم تاویل کا یہ آفتاب عالمتاب دورِ کریمی (یعنی حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی علیہ افضل التحیہ و السّلام کی کرامتوں کا دور) میں طلوع ہوچکا ہے اور جس کی روشنی سے اہلِ جہان کی آنکھیں خیرہ ہورہی ہیں، الحمدلِلّٰہ احسانہ، ان کتابوں کی ھیبت و جلالت سے دیوِ جہالت دنیا سے فرار ہونے پر مجبور ہوگا، جیسا کہ بزرگوار نے خود فرمایا ہے:۔

ای خوشا دیوِ جہالت از جہان خواہد گریخت

از نہیب دور تامت نور مولانا کریم

اس بابرکت و پُرحکمت کتاب کے بارے میں جان کر جماعت میں جو خوشی کی لہر پیدا ہوئی ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ میں نے اس کتاب کا ذکر کسی مومن سے کیا تو اس نے فرطِ مسرت سے کہا: “اکثر ہم سوالات شرم کے مارے نہیں پوچھ سکتے ہیں۔ اب الحمد لِلّٰہ یہ کتاب ہمارے سوالوں کے جوابات بن پوچھے فراہم کرے گی۔”

بزرگوارا! آپ نے جس محنت شاقّہ کے ساتھ عالمِ شخصی کے پہاڑوں سے حکمت و معرفت کے لعل و گوہر کے ڈھیر لگائے ہیں اس کے لئے آپ کے ناچیز شاگرد خصوصی طور پر اور دنیائے انسانیّت عمومی طور پر دونوں جہان میں احسان مند اور شکرگزار رہے گی۔ ہم ناچیز شاگرد (یعنی فقیرِ حقیر، رشیدہ، امین، مریم، سلمان، ابوذر، ظہیر، عشرت، دری، فیروزہ، شاہین، شازیہ، ذوالفقار، روشن، فرحت، رضی، ضحی، رحمان، نعمت، فرید، خلیل، مبینہ، ناز اور دوسرے بہت سے طالبانِ علمِ حقیقی کمالِ امتنان اور

 

۱۶

 

شکرگزاری کے ساتھ بزرگوار کے حضور میں پھر سے ہدیۂ تبریک و تہنیت پیش کرتے اور شرف و برکت قبولیت کے لئے استدعا کرتے ہیں۔

بزرگوار کی دُعاؤوں کے محتاج

فقیر حقیر و جُملہ شاگردانِ

مرکز علم و حکمت، لندن

۲۴؍ نومبر ۱۹۹۹ء

 

۱۷

 

خدماتِ زرّین

 

۱۔ اللّٰه تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے بیحد عزیز ساتھیوں نے حقیقی علم کے عظیم منصوبوں میں زبردست خدمات انجام دی ہیں، جِن کا ذکرِ جمیل ہم وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں، رسولِ اکرم صلّی اللّٰه علیہ وآلہٖ کا ارشادِ گرامی ہے کہ ہر چیز کی ایک سردار ہوتی ہے، پس خدمات کی بھی ایک سردار ہے، اور وہ علمی خدمت ہی ہے، جو تمام خدمات پر بادشاہ ہے، الحمدللّٰه۔

۲۔ لائف پریسیڈنٹ اور لائف گورنر فتح علی حبیب کی بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ وہ عرصۂ دراز سے اس علمی خدمت کے ساتھ وابستگی اور دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے لئے ۱۳۸۵ ھ (۱۹۶۵ء) کا سال بڑا مبارک تھا، جس میں ان کو ایک مہربان دوست نے ایک درویش سے ملا دیا تھا، تب سے شاگردی اور دوستی رفتہ رفتہ درجۂ کمال کی طرف آگے سے آگے بڑھنے لگی۔

۳۔ خداوندِ قدّوس کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہُوا، یعنی گھر میں بےشمار علمی مجالس ہوئیں جو عظیم الشّان تھیں، اور گھر علمی کتابوں سے بھر گیا، اور خدا نے ان کو ایک علمی پریس بھی عطا کیا، اور

 

۱۸

 

اہلِ خانہ علمی ٹیچر ہونے لگے، پھر اللّٰه نے اس خاندان کو مزید ترقی دی کہ ان کے دولت خانہ، پریس، کمپیوٹر وغیرہ سے علمی نعمتیں تقسیم ہورہی ہیں۔ محترمہ گُل شکر ایڈوائزر، لائف گورنر (زوجۂ فتح علی) فرشتہ خصلت ہونے کی وجہ سے استاذ کی آسمانی بیٹی کہلاتی ہیں، آپ کے تینوں فرزند: نزار، رحیم اور فاطمہ علم و ہنر سے سرفراز اور ایمانی دولت سے مالامال ہیں، بہت بڑی سعادتمندی ہے کہ یہ تینوں عزیزان بھی لائف گورنرز ہیں۔

۴۔ جوائنٹ پریسیڈنٹ اور لائف گورنر نصر اللّٰه (ابنِ راعی قمرالدّین ابنِ اعتمادی رحیم) ۱۹۷۲ سے ہمارے قلبی دوست ہیں، انہوں نے سِکّۂ علمی کو پرکھ لیا، اور کہا کہ بالکل کھرا ہے، الحمد للّٰه، عزیزم نصر اللّٰه خاندانی طور پر بڑے دیندار اور ہوشمند ہیں، مذہبی خدمت کا جذبہ ان کو ورثے میں ملا ہے، ان کی بیگم محترمہ امینہ بڑی نیکوکار خاتون ہیں، خداوندِ مہربان کا احسانِ عظیم ہے کہ نصراللّٰه اور امینہ کے تینوں پیارے پیارے فرزند: یاسمین، فاطمہ، اور امین محمّد اپنے معصوم دل میں اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کی پاک و پُرحکمت محبّت رکھتے ہیں، محترمہ خوش خصال امینہ نصراللّٰه اور ان کے بہت ہی عزیز بچّے فرسٹ گورنرز کی حیثیّت سے کام کر رہے ہیں۔

۵۔ نصراللّٰه کے والدِ محترم قمرالدّین بارہ سال تک آکولا جماعت خانہ کے موکھی تھے، آکولا شہر مہاراسٹر اسٹیٹ (انڈیا) میں ہے، اس کے علاوہ وہ ۱۹۶۰ میں یَواتمال (YAVATMAL) کونسل کے پریسیڈنٹ

 

۱۹

 

بھی ہوئے تھے، ان کی بیگم عالیجانی موکھیانی شیر بانو نے بھی جماعت کی بہت سی خدمات انجام دی ہیں، نصر اللّٰه  کے دادا جان اعتمادی رحیم ۶ سال تک آکولا جماعت خانہ میں موکھی رہ چکےتھے۔

۶۔ ہمارے نامور ساتھیوں نے شمالی علاقہ جات میں اجتماعی طور پر بےشمار زرّین خدمات انجام دی ہیں، میں ان کی دانشمندی، دوراندیشی، عالی ہمّتی، اور علم دوستی کی بار بار تعریف کرتا ہوں، میں تمام دوستوں کو آج ایک خاص مشورہ دینا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ قانونِ قدرت آپ سب سے مخاطب ہوکر اشاراتی زبان میں کہتا رہتا ہے کہ: “دیکھو، عشق سے علم حاصل کرو، یہ لو خزانۂ علم، یہ لو کارخانۂ علم، یہ لو چشمۂ علم، یہ لو تمہاری اپنی کتابیں، یہ لو ۱۹۴۰کا فرمان، یہ لو اسرافیلی لشکر اور ان کی قیامت خیز آوازیں، یہ لو تمہاری مسلسل کامیابی، اور یہ لو امامِ زمانؑ کی ظاہری اور باطنی منظوری۔”  لہٰذا آپ جان و دل سے علم میں ترقّی کریں۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی، شِمشیر  ۲۷؍ صفر المظفّر  ۱۴۲۰ھ  ۱۲؍جون  ۱۹۹۹ء

 

۲۰

 

عالمِ شخصی کے دو پہاڑ

 

آپ بمرتبۂ علم الیقین یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ عالمِ شخصی میں ایک تو روح کا پہاڑ ہے اور دوسرا عقل کا، جب عارف کے عالمِ شخصی میں قیامت برپا ہوجاتی ہے، تو اس میں تمام قرآنی معجزات کا مظاہرہ اور تجدّد ہوتا ہے، تاکہ قرآن کی عملی معرفت نمایان اور آسان ہو۔ اس سلسلے کی ایک مثال: ترجمۂ آیۂ شریفہ از سورۂ حشر (۵۹: ۲۱) اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اُتارتے تو تُو دیکھتا کہ خوفِ الٰہی سے وہ پست ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا، ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔

حکمت: چونکہ تمام قرآنی مثالیں غوروفکر کرنے کی غرض سے ہیں، لہٰذا ہم اس طرح سوچتے ہیں: (الف) اگر اس مثال کی گہرائی میں کوئی بہت بڑا راز نہ ہوتا تو غوروفکر کی کوئی اہمیّت و ضرورت ہی نہ ہوتی (ب) خوفِ خدا کا بہترین نمونہ عُلمائے حقیقی ہیں (۳۵: ۲۸) نہ کہ جمادات، نباتات، حیوانات، اور عوام النّاس، (ج) قرآنِ پاک کا ایک اسمِ صفت حکیم ہے، پس کسی حکیم کے آنے سے حکمت ظاہر ہوسکتی ہے نہ کہ کوئی صدمہ جس میں کوئی حکمت نہ ہو، (د) قرآن کا ایک نام مُبارک ہے، کیونکہ اس میں

 

۲۱

 

کبھی ختم نہ ہونے والی برکتیں ہیں۔

عُرفاء نے عالمِ شخصی میں قرآنِ عظیم کے بےشمار معجزات کا مشاہدہ کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ قیامت اور قرآنی معجزات کے زیر اثر جبلِ روح اور جبلِ عقل ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے، مگر اس میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں۔

انتسابِ جدید (دوم):۔ بفضلِ خدا ہمارا ہر عزیز (شاگرد) آنے والا کل کی ایک تابناک کائنات ہے، ان شاء اللّٰه تعالیٰ، اس کی وجہ علیٔ زمان کے دامنِ علمی سے وابستگی ہے، الحمدللّٰه، ہمارے شرق و غرب کے روحانی اور علمی عزیزوں میں سے ایک نوشاد پنجوانی ابنِ امیر علی پنجوانی ہیں، میں ان کی بہت سی سعادتوں اور تعریفات کو جمع کرتے ہوئے صرف اتنا کہوں گا کہ خداوندِ قدّوس نوشاد اور ان کے خاندان پر بڑا مہربان ہے، باسعادت خاندان میں چار فرشتوں کا عدد ہے: نوشاد اور ان کی فرشتہ خصلت بیگم روزینہ، دولِٹل اینجلز: نصیر پنجوانی، اور ایثار علی پنجوانی، نصیر پنجوانی کی تاریخ پیدائش: ۲؍نومبر، ۱۹۹۵ء۔ ایثار علی پنجوانی کی تاریخ پیدائش ۹؍اکتوبر ۱۹۹۹ء۔

دونوں بہت ہی پیارے بچّے کتنے خوش نصیب اور نیک بخت ہیں کہ ان کے مہر و شفقت والے والدین ان کی تعلیم و تربیت کی خاطر ہای ایجو کیٹرز مقرّر ہوئے ہیں، اور ان کے لئے دینی اور دُنیوی تعلیم کا سامان مُہیّا ہیں، الحمدلِلّٰه۔

 

۲۲

 

نوشاد پنجوانی کی والدہ کا نام شکر بانو پنجوانی ہے، نوشاد پنجوانی کے والد امیر علی پنجوانی کا انتقال ۱۹۷۹ء میں ہوا تھا، جبکہ نوشاد کی عمر ۱۳ سال کی تھی نوشاد کے والد کو مذہبی کتابیں پڑھنے اور قرآنِ پاک سے فیض حاصل کرنے کا شوق تھا، اور ان کی والدہ بھی گجراتی میں مذہبی کتابیں پڑھتی تھیں، نوشاد بتاتے ہیں کہ ان کے گھر میں اکثر شام کے کھانے پر مذہبی گفتگو ہوتی تھی۔

روزینہ پنجوانی اپنے بارے میں یُوں تحریر کرتی ہیں: میرے آباؤ اجداد کا تعلّق ایک بلوچ خاندان سے ہے، نورِ ہدایت نےظاہراً و باطناً اپنا کام کردیا، وہ یہ کہ میرے والد نور الدّین بیجار خان نے ۱۳ سال کی عمر میں اسماعیلی مذہب کو قبول کیا، اِس عظیم سعادت اور کارِ خیر کا ذریعہ میرے پُھپّا کریم داد تھے، جنہوں نے امامِ عالیمقامؑ کی پاک محبّت اور بابا سیّد منیر بدخشانی کی تعلیم سے اپنے حلقے کی مخالفت کی پرواہ کئے بغیر حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللّٰه علیہ کے حضور میں پہنچ کر مولائے پاک کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔

نوشاد پنجوانی، روزینہ پنجوانی، اور نصیر پنجوانی لائف گورنرز ہیں، اور ایثار علی پنجوانی کو میں نے آج سے لائف گورنر کا درجہ دے دیا ہے الحمد لِلّٰه۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۲ شعبان المعظّم  ۱۴۲۰ھ  ۱۱؍نومبر  ۱۹۹۹ء

 

۲۳

 

گنجینۂ جواہرِ احادیث

 

اِس بابرکت، بیحد مُفید اور تابناک کتاب کی تعریف یہاں چند معمولی الفاظ میں ہوہی نہیں سکتی ہے، لیکن جب چراغِ نورِ امامت کے پروانے اس کا عاشقانہ مطالعہ کریں گے تو ہمیشہ اس کی تعریف زمین سے آسمان کی طرف بلند ہوتی رہے گی، آمین! کیوں نہ ہو، جبکہ یہ انمول خزانہ ان احادیثِ صحیحہ پر مبنی ہے، جو اھلِ بیت اطہار علیہم السّلام کی شان میں فرمائی گئی ہیں، کتبِ احادیث کے بڑے بڑے ذخائر میں سے آنحضرت صلعم کے ان خاص ارشادات کو ڈھونڈھ لینا، مختلف روایات کی تحقیق کرنا، بعض دفعہ تقابلی جائزہ لینا، اور ان احادیثِ شریف کی جمع آوری کے بعد اُن کا مستند ترجمہ کرنا کوئی آسان کام تو نہ تھا، لیکن جناب ڈاکٹر فقیر محمّد ہونزائی صاحب کو خداوندِ قدّوس کی غیبی تائید حاصل ہے، اس لئے یہ عظیم کارنامہ بھی مکمّل ہوا، سچ تو یہ ہے کہ یہاں جتنی کتابوں کا انگلش ترجمہ ہوچکا ہے، وہ سب کی سب جانِ عزیز کی کتابیں شمار ہوتی ہیں۔

مندرجہ ذیل خوبصورت نظم جنابِ محترم ڈاکٹر فقیر محمّد ہونزائی صاحب، رئیس المترجمین، بحرالعلوم کی شان میں کہی گئی ہے۔

 

۲۴

 

ابرِ گوہر ریز

 

کامیابی کا سبب یہ ہے کہ وہ شب خیز ہے

گریہ وزاری میں گُویا ابرِ گوہر ریز ہے

حق تعالیٰ نے ہمیں جب دوستِ اعظم دے دیا

علم و حکمت کا نِرالا ایک عالم دے دیا

علم کی نہریں بہا دو جا بجا بحرالعلوم!

تاکہ اک علمی قیامت ہو بپا بحرالعلوم!

تُجھ کو مولا نے بنایا ساقیٔ آبِ بقا

تا نہ ہو کوئی کہیں بھی جہل و غفلت سے فنا

جو بھی ہو تیری نظر میں تشنۂ آبِ حیات

جام بھر بھر کر پلا دے سَاقیٔ عالی صفات

 

۲۵

 

یار کے مُشکین قلم سے بُوئے جنّت آگئی

دل کی آبادی کی خاطر جُوئے جنّت آگئی

آبشارِ لعل و گوہر ہے مثالِ کِلکِ یار

گنجِ گوہر میں جواہر آگئے ہیں بے شمار

ترجموں میں شک نہیں صمصام کا بھی ہاتھ ہے

شکر ہے صد شکر ہے ہاں وہ فرشتہ ساتھ ہے

جو فرشتہ ہو زمین پر معجزانہ کیوں نہ ہو

رحمتوں اور برکتوں کا ایک خزانہ کیوں نہ ہو

ایک فرشتہ ہے ظہیر بالقب “جانِ نصیرؔ”

خوب خادم علم کا ہے، خوب ہے دانش پذیر

جو علی کی شان میں ہیں ان حدیثوں کی کتاب

رہتی دُنیا تک رہے گا یہ خزانۂ لاجواب

 

۲۶

 

اے فقیرِ نامور یہ آپ کا احسان ہے

اِن حدیثوں میں ہماری جان ہے ایمان ہے

اے فقیر، روشن ضمیر! اے علم و حکمت کے شہیر!

اے عزیزوں کے عزیز اے دین و دانش کے امیر!

عاشقانِ مرتضیٰ سے کیوں نہ ہوجاؤں فدا

تُو تو قربان ہوچکا ہے اے نصیرِؔ بے نوا

 

۳۰؍ ستمبر ۱۹۹۹ء

 

۲۷

 

دربارۂ توصیفِ کتاب

 

آفتاب و ماہتاب و چرخِ اخضر ہے کتاب

چشمۂ آبِ حیات و آبِ کوثر ہے کتاب

حسن و خوبی میں یگانہ دِلکشی میں طاق ہے

باغ و گلشن کی طرح اک خوب منظر ہے کتاب

بے مثال و لازوال انمول تحفہ علم کا

اے عزیزان لے کے رکھنا گنجِ گوہر ہے کتاب

میں جہاں بھی رہ چکا دن بھر کتابوں میں رہا

بس مرا گھر ہے کتاب اور میرا دفتر ہے کتاب

اک جہانِ علم و حکمت ہے کتابِ مُستطاب

ہے اگر قرآن سے پھر سب سے برتر ہے کتاب

 

۲۸

 

آیۂ قَدْ جَآءَ کُمْ (۰۵: ۱۵) کو پڑھ لیا کر جَانِ من!

نورِ حق کی روشنی میں سب کو رہبر ہے کتاب

تُو ہے بھیدوں کا صحیفہ تُو ہے کنزِ لامکان

قولِ مولانا علیؑ ہے: تیرے اندر ہے کتاب

ہے کتابِ حق تعَالیٰ بَاتَکَلُّم ہر جگہ

ظاہر و باطن میں دیکھو میرا حیدر ہے کتاب

معجزے ہی معجزے قرآنِ ناطق سے سُنو

آج مولائے زمانہ، روزِ محشر ہے کتاب

نورِ ایمان نورِ ایقان نورِ علم و معرفت

سربسر انوار کی دولت سے بھر کر ہے کتاب

اس بہشتِ معرفت میں کیا نہیں ہے جانِ من!

کانِ راحت جانِ لذّت شہد و شکّر ہے کتاب

 

۲۹

 

مِثلِ یارِ دلنشین محبُوب ہے مجھ کو کتاب

دِلکُشا ہے جانفزا ہے روح پرور ہے کتاب

جب قلم لیتا ہوں آتا ہے تجلّی بن کے وہ

یہ نوازش ہے اسی کی تب مُیَسَّر ہے کتاب

باغ و گلشن کی سیاحت میں ذرا سا حظ تو ہے

سَیرِ علمی کے لئے بس سب سے بہتر ہے کتاب

اے نصیرؔ الدّین تجھ کو سِرِّ اعظم یاد ہے؟

عالمِ علوی میں تنہا ایک گوہر ہے کتاب

 

ہفتہ ۷؍ جمادی الثّانی ۱۴۲۰ھ

۱۸؍ستمبر ۱۹۹۹ء

 

۳۰

 

وحدتِ انسانی اور امنِ عَالم

 

جان فدا کردوں گا میں خود امنِ عالم کے لئے

تاکہ قُربانی ہو میری ابنِ آدم کے لئے

دل ہے زخموں سے بھرا اِس اِنتشارِ قوم سے

میں کہاں جاؤں گا یاربّ! دل کے مرہم کے لئے

پرچمِ امن و امان دُنیا میں کب ہوگا بلند؟

کون جان دیتا ہے دیکھو ایسے پرچم کے لئے

صُلحِ کُلّ کا اک زمانہ کب جہان میں آئے گا؟

کیا جہان پیدا ہُوا ہے جنگ و ماتم کے لئے؟

 

۳۱

 

اِتحاد و امن کی کوشش کرو اہلِ قلم!

آگئے ہیں ہم جہاں میں سعیٔ پیہم کے لئے

عالمِ انسانیّت جب اِس قدر بیمار ہے

رحم کیوں آتا نہیں ہے ابنِ مریم کے لئے

اتّفاقِ قوم میں ہیں برکتیں ہی برکتیں

نوجوانو! عہد کرلو صُلحِ مُحکم کے لئے

آبیاری ہے نہ بارش باغِ دل بس خشک ہے

رات بھر رونا پڑے گا اب تو شبنم کے لئے

عشق کا غم چَاہیے مُجھ کو نہ کوئی اور شَے

میں تو پیدا ہوگیا ہوں عمر بھر غم کے لئے

اِک نِرالا یار ہمدم ہے وہی ہمراز ہے

مر رہا ہوں جیتے جی میں اپنے ہمدم کے لئے

 

۳۲

 

اے نصیرؔ الدّین اب دُنیا کو یہ پیغام دو

“جان فدا کر دوں گا میں خود امنِ عالم کے لئے”

 

۱۲ ؍ اکتوبر ۱۹۹۹ء

 

۳۳

 

لشکرِ ارواح اور قیامت

 

قرآنِ حکیم قیامت کے پُرحکمت تذکروں سے بھرا ہُوا ہے، پہلے ہی یہ بیان ہوچکا ہے کہ ہر امام کے ساتھ روحانی لشکر بھی ہے اور باطنی قیامت بھی، سُورۂ مائدہ (۰۵: ۵۴) میں غور سے دیکھیں، ترجمہ: اے ایمان والو، تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائیگا تو (کچھ پرواہ نہیں پھر جائے) عنقریب ہی خدا ایسے لوگوں کو ظاہر کرے گا جنہیں اللہ دوست رکھتا ہے (یعنی لشکرِ ارواح اور صاحبِ لشکر) اور وہ بھی خدا کو دوست رکھتے ہیں، جو مومنوں پر نرم اور کفّار پر سخت ہیں، خدا کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کچھ پرواہ نہ کریں گے، یہ خدا کا فضل و کرم ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور خدا تو بڑی وُسعت والا اور بڑا علم و الا ہے (۰۵: ۵۴)۔

علامات اور اشارات: خدا آلِ محّمدؐ کے ہر امامؑ اوراس کے لشکر کو محبوب رکھتا ہے، اور وہ خدا کو محبوب رکھتے ہیں، مومنوں پر نرم ہیں، آپ غور کرسکتے ہیں، کہ اس کلام کے مطابق ایک طرف دُنیا بھر کے مومنین ہیں اور دوسری جانب روحانی لشکر ہیں جو مومنین پر

 

۳۴

 

مہربان ہیں، ملامت سے نہ ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تاویل کا سرچشمہ ہے، لیکن لوگ تاویل پر اعتراض کرتے ہیں اس کے سِوا ملامت کرنے کی کوئی اور وجہ نہیں ہے۔

انتسابِ جدید سِوُم: خداوندِ قدّوس کے عظیم احسانات میں صرف جسمانی بچّے ہی نہیں، بلکہ علمی بچّے بھی اللّٰه  کے احسانات میں سے ہیں، اگر ہم ایسا نہ سوچیں تو بہت بڑی ناشکری ہوگی، اور ناشکری کا دوسرا نام کُفرانِ نعمت ہے، الغرض اللّٰه کے احسانات بڑی کثرت سے ہیں، الحمد لِلّٰه۔

اس گرانمایہ کتاب کے انتسابِ جدید کی تیسری شخصیّت زہرا بنتِ جعفر علی سُندرانی ہے، محترمہ زہرا کوربّ العزّت نے گونا گون صلاحیتوں سے نوازا ہے، فرشتۂ قلم کو علم و حکمت کا زبردست شوق اور بہت بڑی کامیابی کیوں نہ ہو، دانشگاہِ خانۂ حکمت کے جملہ عزیزان فرشتۂ قلم کی علمی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، الحمد لِلّٰه ہمارے اس مقدّس ادارے کی یہی روایت ہے کہ جو بھی علمی ترقی کا کوئی کام سرانجام دیتا ہے تو دوسرے سب کُھلے دل سے اس کی تعریف کرتے ہیں، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

میں نے زہرا، چیف پرسنل سیکریٹری ٹو علّامہ کی خدمات کا ذکر قبلاً ہزار حکمت وغیرہ میں کیا ہے، اب ان شاء اللّٰه، عالمِ شخصی پر ان کی پی، ایچ، ڈی ہونے والی ہے، پھر ہم سب بیحد شادمان ہوں گے،

 

۳۵

 

یا اللّٰه تیری بے شمار نعمتوں کا شکر کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہم اپنے اِس مقدّس فریضہ سے قاصر ہو رہے ہیں۔

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْٔئَلُکَ بِاَسْماَئِکَ الْحُسْنٰی = یا اللّٰه میں تیرے تمام اسمائے حُسنٰی کی حُرمت سے سوال کرتا ہوں، میرا دل بہت آہستہ آہستہ گریہ و زاری کررہا ہے، میری آنکھیں بالکل تھک گئی ہیں، دل علیل ہے، جسم بہت ضعیف و نحیف ہوگیا ہے، الٰہی! بحرمتِ پنجتنِ پاک صلوات اللّٰه علیہم  و بحربتِ أئمّۂ پاکِ آلِ محمّد صلوات اللّٰه علیہ و علیھم اجمعین۔ ۱۴۲۰ھ

بندۂ درگاہِ صاحبِ کاف و نون،  نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۴؍ شعبان المعظّم    ۱۳؍نومبر  ۱۹۹۹ء

 

۳۶

 

صنادیقِ جواہر

حصّۂ اوّل

 

 

صندوقِ جواہر۔ ۱

سوال۔ ۱: سورۂ فاتحہ کے آغاز میں اللّٰه تعالیٰ کی بہت بڑی تعریف یہ ہے کہ وہ ربّ العالمین (کُلّ جہانوں کا پروردگار) ہے، آپ یہ بتائیں کہ عالمین سے کون کونسے جہان مراد ہیں؟ اور خدا کی طرف سے پرورش کتنی قسم کی ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ قرآنِ پاک میں لفظِ العالمین کتنی دفعہ آیا ہے؟ جواب: (۱) عالمین سے بقول حضرت امام جعفر الصّادق علیہ السّلام عوالمِ شخصی مراد ہیں (قاموس القرآن) (۲) خدا کی طرف سے پرورش تین قسم کی ہے، جسمانی، روحانی اور عقلانی (۳) قرآنِ پاک میں لفظ العالمین تہتّر دفعہ آیا ہے۔

سوال۔ ۲: انسان کے لئے سب سے قریب ترین عالَم کونسا ہے؟ آدمی کی اپنی ذات کی معرفت کس جہان سے حاصل ہوسکتی ہے؟ ۔ جواب: (۱)انسان کے لئے سب سے قریب ترین عالَم عالَمِ شخصی ہے (۲)آدمی کی اپنی ذات کی معرفت عالَمِ شخصی سے حاصل ہوتی ہے۔

 

۴۱

 

سوال۔ ۳: وہ سدا بہار درخت کونسا ہے جو ہر موسم میں پھل دیتا ہے؟ اور قرآن کی کس سورت میں اس کا ذکر موجود ہے؟ ۔ جواب: (۱) وہ سدا بہار درخت جو ہر موسم میں پھل دیتا ہے شجرۂ طیّبہ ہے (۲) اس کا ذکر قرآنِ حکیم کے سُورۂ ابراہیم میں موجود ہے۔

سوال۔ ۴: خدا نے کس انسانی نفس کی قسم کھائی ہے؟ کیوں؟ یہ تذکرہ کس کتاب میں ہے؟ ۔ جواب: (۱) خدا نے نفسِ لوّامہ کی قسم کھائی ہے (۲) اس لئے کہ یہ نفس “خود ملامتی” اور “خود تنقیدی” کے زرّین اصول پر عمل پیرا ہو کر مرتبۂ نفسِ مطمئنّہ کو حاصل کرنے کے قابل ہوجاتا ہے اور اس کی اس روحانی ترقّی اور عظمت کی وجہ سے خدا نے اس کی قسم کھائی ہے (۳) اس کا ذکر سوغاتِ دانش اور قرۃ العین میں سورۂ قیامت کے مضمون میں آیا ہے۔

سوال۔ ۵: قرآنِ ناطق کون ہے؟ اُس کا رسولؐ سے اور قرآنِ صامت سے کیا ربط و رشتہ ہے؟ آپ خدا کے ان تینوں خزانوں سے کس طرح فائدہ حاصل کرسکتے ہیں؟  جواب: (۱) قرآنِ ناطق پہلے پیغمبرِ اکرمؐ کا نور ہے جو معلّمِ قرآن ہے اور آنحضرتؐ کے بعد امامِ زمانؑ جو آنحضرتؐ کا جانشین ہے کا نور ہے (۲) قرآنِ ناطق کا قرآنِ صامت سے ربط یوں ہے کہ یہ دونوں باطن میں نورٌ علیٰ نور (یعنی ایک ہی نور) ہیں اور ظاہر میں ناطق معلّم ہے اور صامت کتاب، جیسے حدیث شریف

 

۴۲

 

میں ہے: علیٌّ مع القرآن والقرآن مع علی (مستدرک، جلد سِوم)  (۳) ان تینوں خزانوں سے فائدہ اُٹھانے کا وسیلہ امامِ زمانؑ کی کما حقّہ فرمان برداری ہے۔

سوال۔ ۶: کیا آپ بھری ہوئی کشتی کے بارے میں کچھ وضاحت کرسکتے ہیں؟ عالمِ شخصی میں عرشِ الٰہی کا ظہور کب ہوتا ہے؟ شروع شروع میں یا آخر میں؟ ۔ جواب: (۱)  بھری ہوئی کشتی سے مراد انسانِ کامل کا عالَمِ شخصی ہے جس میں بمطابق “وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ”کے کائنات بھر کی چیزیں لطیف صورت میں محدودو مرکوز ہیں (۲) عالمِ شخصی میں عرشِ الٰہی کا ظہور روحانی سفر کے آخر میں ہوتا ہے۔

سوال۔ ۷: اللّٰه نے چھ دن میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، پھر عرش کی طرف متوجّہ ہُوا۔ اس کی تاویل بتائیں؟ – جواب:  اس کی تاویل یوں ہے کہ خدا نے عالمِ دین اور عالمِ شخصی کو چھ ادوار یعنی دورِ حضرتِ آدمؑ، دورِ حضرتِ نوحؑ، دورِ حضرتِ ابراہیمؑ، دورِ حضرتِ موسٰیؑ، دورِ حضرتِ عیسیٰؑ اور دورِ حضرت محمّدؐ میں بنایا، پھر دورِ حضرتِ قائمؑ کی طرف متوجّہ ہوا۔

سوال- ۸: آپ قرآنِ حکیم کی روشنی میں حضرتِ ابراہیم

 

۴۳

 

علیہ السّلام کی امامت کی تعریف کریں، کہ وہ کیسی امامت تھی؟ – جواب: قرآنِ حکیم میں خدائے تعالیٰ حضرتِ ابراہیمؑ کی امامت کے بارے میں فرماتا ہے “وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّؕ-قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ ۔” (۰۲: ۱۲۴) اور (وہ وقت یاد کیجئے) جبکہ ابراہیم کے ربّ نے اس کا امتحان لیا، چند کلمات سے تو اس نے انہیں پورا کردیا تو خدا نے فرمایا کہ میں تمہیں سب انسانوں کا امام بنانے والا ہوں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے، امام شناسی، حصّۂ اوّل ص ۱۰-۱۵۔

سوال-۹: انسانی روح کہاں سے یا کس عالم سے آئی ہے؟ کس طرح آئی ہے؟ بارش کے قطرے کی طرح؟ یا سورج کی کرنوں کی طرح؟ یا رسّی کے نمونے پر کہ اس کا ایک سِرا عالمِ عُلوی میں اور دوسرا سِرا زمین پر ہے؟ – جواب: (۱) انسانی روح عالمِ امر سے آئی ہے جیسا کہ قرآنِ حکیم میں آیا ہے: قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ، بولو کہ روح میرے پروردگار کے امر سے ہے (۱۷: ۸۵)۔ (۲) انسانی روح عالمِ امر سے سورج کی کرنوں کی یا ایسی رسّی کی طرح آئی ہے جس کا ایک سِرا عالمِ عُلوی میں اور دوسرا سِرا زمین پر ہے۔

سوال-۱۰: “تجدُّدِ امثال” تصوّف کی ایک اصطلاح ہے، کیا آپ اس کے بارے میں کچھ سمجھا سکتے ہیں؟ اس کی تین مثالیں بیان کریں- جواب: “تجدّدِ امثال” سے مراد ہے اللّٰه    تعالیٰ کی پاک عادت

 

۴۴

 

و سنّت کا کسی تبدل و تحوّل کے بغیر ہمیشہ جاری و ساری رہنا اور اس کی ظہور گاہ، انسانِ کامل کا عالمِ شخصی ہے (۴۰: ۸۵) چونکہ تمام موجودات ہمیشہ دائرۂ امکان پر گردش کر رہے ہیں اور دائرۂ آفرینش کی کوئی ابتدا و انتہا نہیں لہٰذا کائنات کی ہر چیز میں تجدّدِ امثال کا عمل جاری ہے مثلاً (۱) پانی کا اپنے دائرۂ زیر و بالا پر کبھی ختم نہ ہونے والا سفر (۲) موسموں کا بار بار آتے جاتے رہنا، (۳) اور دوران خون وغیرہ۔

 

۴۵

 

صندوقِ جواہر۔ ۲

 

سوال – ۱۱: جہاں دین کی مثال ایک خاص درخت سے دی گئی ہے، وہاں اس کی جڑیں کتنی ہیں؟ اور شاخیں کتنی؟ جڑ کو اصل کہتے ہیں (جمع اصول) اور شاخ کا نام فرع ہے (جمع فروع) آپ اصولِ دین اور فروعِ دین کے نام بتائیں – جواب: دین کے چار اصول ہیں، ان میں عقلِ کلّ و نفسِ کُلّ روحانی ہیں اور ناطق اور اساس جسمانی ہیں، اسی طرح درختِ دین کے چھ فروع ہیں۔ ان میں سے جدّ، فتح اور خیال روحانی اور امام، حجّت اور داعی جسمانی ہیں۔

سوال-۱۲: قرآنِ حکیم (۱۸: ۹۴، ۲۱: ۹۶) میں یاجوج و ماجوج کا ذکر ہے، آپ ان کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ بتائیں- جواب:  یاجوج و ماجوج سے مراد ذرّاتِ لطیف، نسلِ انسانی، ارواحِ خلائق، لشکرِ روحانی اور عالمِ ذرّ ہے۔ ان کے گونا گون کام ہیں، لہٰذا تفصیل کے لئے دیکھئے: ہزار حکمت، حکمت ۹۵۸۔ حکمت ۹۶۳، نیز امام شناسی، حصّۂ سِوم ص ۱۸۲-۱۸۵۔

 

۴۶

 

سوال-۱۳:  اَلْاَرْوَاحُ جُنُو دٌ مُّجَنَّدَۃٌ = روحیں جمع شدہ لشکر کی حیثیّت سے تھیں (اور ہیں) یہ کہاں؟ کب؟ کس لئے؟ کس کے ساتھ تھیں یا ہیں؟ -جواب: (۱) یہ روحیں انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں جمع شدہ لشکر کی حیثیت سے تھیں (اور ہیں) (۲)کیونکہ انسانِ کامل ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے اور اس کے عالمِ شخصی میں ماضی کی تمام مثالوں کا مظاہرہ ہوتا ہے (۳) اور جب انسانِ کامل کی نمائندہ قیامت برپا ہوجاتی ہے تو اس میں ارواح کے دو مخالف لشکروں کی جنگ کا مظاہرہ بھی ہوتا ہے جس کا مقصد روحانی فتح اور عالمِ شخصی میں دینی سلطنت کو قائم کرنا ہوتا ہے۔

سوال-۱۴: آپ عالمِ ذرّ کے بارے میں جو بھی معلومات رکھتے ہیں، وہ ہمیں بتائیں- جواب: عالمِ ذرّ کی تعریف میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں ہر مخلوق کی نمائندہ روح موجود ہے، یہاں تک کہ اس میں پتھر اور لوہے کی روح بھی حاضر رہتی ہے، اور کوئی ایسی چیز نہیں جس کی روح عالمِ ذرّ میں نہ پائی جائے۔ عالمِ ذرّ کے کثیر ناموں سے آپ کو اس کے کثیر کاموں کا اندازہ بھی ہوگا اور تعجب بھی کہ ذرّاتِ لطیفِ روحانی کی اس کثرت سے حکمتیں ہیں! تفصیل کے لئے دیکھئے: عملی تصوّف اور روحانی سائنس، ص ۶۷۔ ۷۱۔

سوال-۱۵: جِنّ اور پری میں کیا فرق ہے؟ جِنّ اور آدمی

 

۴۷

 

میں کیا رشتہ ہے؟ فرشتہ کس طرح وجود میں آتا ہے؟ کیا لطیف انسان ہی کا نام جِنّ، پری، اور فرشتہ ہے؟ -جواب: (۱) جِنّ اور پری ایک ہی قوم ہے اس لئے فرق اور رشتے کا سوال خودبخود ختم ہوجاتا ہے (۲) لفظ جِنّ عربی ہے جو پوشیدہ ہونے اور نظر نہ آنے کو ظاہر کرتا ہے جبکہ پری فارسی ہے جو پریدن (اڑنا) سے ہے اور اُڑنے کے معنی کو ظاہر کرتا ہے (۳) فرشتہ ایک مومن کے شعلۂ عشقِ سماوی سے وجود میں آتا ہے (۴) یعنی فرشتہ مومن کا جسمِ لطیف یا جِنّ ہے۔ لہٰذا جِنّ، پری اور فرشتہ مومن کے جسمِ لطیف کے نام ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: ایضاً ۷۲-۷۵۔

سوال-۱۶: اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفات میں سے دو القابض اور الباسط ہیں، آیا اس کا یہ مطلب درست ہے کہ خدا انسان کو ایک ہی قالب میں محدود بھی کرتا ہے، اور کائنات بھر میں پھیلاتا بھی ہے؟ – جواب: یہ مطلب بالکل درست ہے کہ خدا انسان کو ایک ہی قالب میں محدود بھی کرتا ہے اور کائنات بھر میں پھیلاتا بھی ہے تفصیل کے لئے دیکھئے: ایضاً، ۴۳-۴۶، ۱۵۹-۱۶۳۔

سوال- ۱۷: قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن جنّت پرہیزگاروں کے بالکل قریب لائی جاتی ہے (۵۰: ۳۱) آپ بتائیں کہ ایسے میں بہشت کہاں رکھی جاتی ہے؟ -جواب: قیامت کے دن جب

 

۴۸

 

جنّت پرہیزگاروں کے بالکل قریب لائی جاتی ہے (۵۰: ۳۱) تو ایسے میں بہشت عالمِ شخصی میں رکھی جاتی ہے۔

سوال- ۱۸: کیا آپ خلقِ جدید(۱۴: ۱۹)اور تجدّد کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟ کیا یہ دومختلف چیزیں ہیں؟ یا یہ ایک ہی حقیقت ہے؟ -جواب: خلقِ جدید سے مراد جسمِ مثالی یا جثّۂ ابداعیہ ہے اور تجدّد سے مراد وہ فعل ہے جو شعلۂ چراغ کی اس لَو میں جاری و ساری ہے۔ اس عمل کی وجہ سے جسمِ مثالی قدیم ترین ہونے کے باوجود جدید ترین رہتا ہے، خلقِ جدید کی یہ خصوصیّت بھی ہے کہ جب چاہے تو دکھائی دیتا ہے اور جب چاہے تو غائب ہوجاتا ہے، اس کے لئے در و دیوار یا اور کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے۔ تجدّد کی مزید وضاحت کے لئے دیکھئے جواب ۱۰۔

سوال-۱۹: کیا یہ بات حقیقت ہے کہ حق تعالیٰ جب بھی کائنات کو لپیٹتا ہے تو عالمِ شخصی ہی میں لپیٹتا ہے، اور جب بھی اسے پھیلاتا ہے تو یہیں سے پھیلا دیتا ہے؟ -جواب: یہ بالکل حقیقت ہے جیسا کہ حق تعالیٰ آیت (۰۲: ۲۴۵) میں فرماتا ہے: وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪، اور خدا (کائنات کو)اپنی مٹھی میں لیتا ہے اور پھیلاتا ہے۔ پس یہاں سے”قبض و بسط”عقل کے دو نام ہوئے جس کا مظہر دنیا میں امامِ زمانؑ ہے جو حقیقی معنوں میں عالمِ شخصی ہے۔

 

۴۹

 

سوال-۲۰: اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ مقامِ ابراہیمؑ کو مُصلّیٰ (جائے نماز ۰۲: ۱۲۵) بناؤ۔ یہ پاک مقام کہاں ہے؟ خانۂ کعبہ میں؟ حظیرۂ قدس میں؟ کیا یہ ترقی کی حد بتائی گئی ہے کہ تم حظیرۂ قدس تک جاسکتے ہو؟ -جواب: مقامِ ابراھیمؑ کی مثال خانۂ کعبہ میں ہے اور ممثول حظیرۂ قدس میں ہے جو روحانی ترقی کی بتائی ہوئی حد ہے۔ مقام کے پہلے معنی ہیں، کھڑا ہونے کی جگہ، دوسرے معانی ہیں انبعاث کی جگہ اور وہ مرتبۂ عقل ہے جس میں معجزۂ ابداع و انبعاث کا ظہور ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام ایک پتھر پر کھڑے ہوئے تھے تاکہ خانۂ کعبہ کی دیواریں اونچی کریں اس سے گوہرِ عقل مراد ہے جس کے ذریعے سے ذاتی دنیا میں تعمیرِ بیت اللہ کا تجدّدِ امثال ہوتا ہے۔ اِسی امکانی ارتقاء کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ مقامِ ابراھیمؑ کو مُصلّیٰ (جائے نماز ۰۲: ۱۲۵) بتاؤ۔ یعنی تم روحانیّت میں اتنی ترقی کرو کہ امامِ زمانؑ کا نور تمہارے دل میں طلوع ہوجائے، جس کی روشنی میں تم یقیناً کعبۂ حقیقت کی تعمیر کا مشاہدہ کرو گے اور مقامِ ابراہیمؑ تک رسائی ہوگی جو حظیرۂ قدس میں ہے۔

 

۵۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۳

 

سوال- ۲۱: حدیثِ شریف میں ہے کہ قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، اور باطن صرف نور ہے (۰۵: ۱۵) کی روشنی میں نظر آتا ہے، آپ اس مطلب کی مزید وضاحت کریں -جواب :  اس مطلب کی مزید وضاحت یوں ہے کہ خدائے تعالیٰ نے قرآنِ حکیم کے باطن یا بواطن کو دکھانے کے لئے کتاب کے ساتھ نور کو بھیجا ہے اور یہ نورِ مُنزّل آنحضرتؐ کے زمانے میں آنحضرتؐ تھے، اور آپؐ کے بعد أئمّۂ طاہرینؑ اس نور کا درجہ رکھتے ہیں جو قرآن کے باطن یا تاویل کو جانتے ہیں۔ چنانچہ پروردگارِ عالم اس حقیقت کے بارے میں فرماتا ہے کہ قرآن کی تاویل کو صرف خدا اور راسخون فی العلم ہی جانتے ہیں۔

سوال –  ۲۲  :  جس طرح ظاہر میں سُورۂ فاتحہ اُمُّ الکتاب ہے، اسی طرح باطن میں علی اُمُّ الکتاب ہے، اور سورۂ زُخرُف (۴۳: ۰۴) میں ہے: اور یہ (قرآن) ہمارے پاس اُمُّ الکتاب (علی) میں علی اور حکیم ہے۔ آپ اس میں غور کرکے اظہارِ خیال کرسکتے ہیں، آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن خدا کے پاس اُمُّ الکتاب (علی) میں نہایت درجہ بلند اور پُراز حکمت کتاب ہے۔

 

۵۱

 

-جواب :  قرآن خدا کے پاس اُمُّ الکتاب  (علیؑ) میں نہایت درجہ بلند اور پُرحکمت ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اُمُّ الکتاب حقیقت میں لوحِ محفوظ ہے جو ایک زندہ اور گویندہ نور ہے اور یہ انسانِ کامل کی صورت میں ہے۔ قرآنِ حکیم کے اُمُّ الکتاب میں نہایت بلند اور پُرحکمت ہونے کا اصل سبب خدا کی قربت و نزدیکی (عندیت) ہے جو انسانِ کامل یعنی پیغمبر اور امام کو حاصل ہے اور قرآن جب انسانِ کامل کے باطن میں ہے تو یہ نور کی صورت میں ہوتا ہے اس لئے نور کی صورت میں نہایت بلند اور پُرحکمت ہوتا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: سوغاتِ دانش، ص ۷۶-۸۴۔

سوال –  ۲۳  :  اگر کچھ دیر کے لئے یہ مان لیا جائے کہ امامِ مبین سے ایسی لوحِ محفوظ مراد ہے جو باطن میں ہے، تو تعجّب کی بات ہوگی، کیونکہ امام اور مبین یہ دونوں لفظ صرف امام علیہ السّلام ہی کی مبارک شخصیّت کی دلیل ہیں، نہ کہ ان میں کسی باطنی چیز کا اشارہ ہے، آپ آزادی سے اس پر تبصرہ کریں – جواب :  یقیناً ایسی لوحِ محفوظ کا جو باطن میں ہو، امامِ مبین کے ساتھ نہ لفظی مناسبت ہے اور نہ معنوی، بلکہ امامِ مبین کو لوحِ محفوظ تسلیم کیا جائے تو اس سے مراد نفسِ کُلّی ہے جس نے روحانی حیثیت میں کائنات کو گھیر لیا ہے اور جس کا مظہر امامِ زمانؑ ہے۔

سوال- ۲۴ : کیا آنحضرتؐ کا نور قلمِ اعلیٰ نہیں ہے؟ آیا یہی

 

۵۲

 

نور فرشتہ (عقلِ کلّ) نہیں ہے؟ کیا علیؑ کا نور لوحِ محفوظ نہیں ہے؟ کیا یہی نور فرشتہ (نفسِ کُلّ) نہیں ہے؟ آپ سوچ کر جواب دین- جواب: (۱) یقیناً آنحضرتؐ کا نور قلمِ اعلیٰ ہے (۲) اور یہی نور فرشتۂ عقلِ کلّ ہے (۳) اور علیؑ کا نور لوحِ محفوظ ہے (۴) اور یہی نور فرشتۂ نفسِ کُلّ ہے۔

سوال-  ۲۵: جو مقدّس شخصِ کامل ظاہراً امامِ مبین ہے، اور وہی باطناً لوحِ محفوظ بھی ہے، کیونکہ قربِ خدا کی چیزیں عقل و جان کے درجۂ کمال پر ہوتی ہیں، اور اس معنی میں ارشاد ہُوا ہے کہ ہر چیز لوحِ محفوظ میں ہے، نیز فرمایا گیا ہے کہ ہر چیز امامِ مبین میں ہے، کیا یہ دو الگ الگ چیز ہیں؟ – جواب:   جواب ۲۳ اور جواب ۲۴ سے ظاہر ہے کہ امامِ مبین اور لوحِ محفوظ دو الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی حقیقت  کے ظاہری اور باطنی پہلو ہیں۔

سوال-  ۲۶:  سُورۂ جِنّ کے آخر (۷۲: ۲۸) میں ارشاد ہے: وَاَحصٰی کُلَّ شَیْءٍ عَدَدًا =اور اُس نے ہر چیز کو ایک عدد (یعنی عددِ واحد) میں گھیر کر رکھا ہے۔ آپ اس کی حکمت بیان کریں- جواب:  ایک عدد یا عددِ واحد سے مراد امامِ زمانؑ کی ذاتِ مقدّس ہے اور خدائے تعالیٰ جب امامِ زمان کی ذاتِ اقدس میں چیزوں کو گن لیتا ہے تو ان کی وحدت بن جاتی ہے۔

 

۵۳

 

سوال- ۲۷: سُورۂ نبا (۷۸: ۲۹) میں ہے: وَکُلَّ شَیْ ءٍ اَحْصَیْنٰہُ کِتٰباً = اور ہم نے ہر چیز کو ایک کتاب میں گھیر کر رکھا ہے۔ کیا یہ امامِ مبین ہی ہے یا کوئی الگ کتاب ہے؟ – جواب:  یقیناً یہ کتاب امامِ مبین ہی ہے نہیں تو کسی بے جان کتاب میں کس طرح ممکن ہے کہ تمام عقلی، روحانی اور جسمانی چیزوں کو گھیرا جائے۔

سوال -۲۸: سُورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں خزائنِ الٰہی کا ذکر آیا ہے، آپ اس میں اچھی طرح سے غور و فکر کر کے بتائیں کہ آیا یہ خزانے امامِ عالیمقامؑ سے الگ ہوسکتے ہیں؟ جبکہ اللہ تعالی نے تمام چیزوں کو امامِ مبینؑ ہی میں گھیر کر رکھا ہے ( ۳۶: ۱۲)؟ – جواب:  جب اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو امامِ مبین ہی میں گھیر رکھا ہے (۳۶: ۱۲) تو یہ خزائنِ الٰہی بھی امامِ مبین میں گھرے ہوئے ہیں اور اس لئے امامِ مبین سے الگ نہیں ہوسکتے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: گنجِ گرانمایہ، ص ۵۵-۵۹۔

سوال -۲۹: جب عرفانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، تو خداوندِ تعالیٰ کائنات کو کہاں لپیٹتا ہے؟ عارف کے عالمِ شخصی میں؟ حظیرۂ قدس میں؟ یا امامِ مبین میں؟ کیا اس حال میں امامِ زمان علیہ السّلام کا نور عارف کے عالمِ شخصی میں طلوع نہیں ہوتا؟ – جواب: جب  عرفانی قیامت برپا ہوجاتی ہے تو خداوند تعالیٰ کائنات کو عارف کے عالمِ شخصی اور بطورِ خاص پیشانی میں جو عالمِ شخصی کا حظیرۂ قدس ہے، لپیٹتا ہے۔ ایسا

 

۵۴

 

عارف امامِ مبین میں فنا ہوجاتا ہے اور امامِ زمان کا نور عالمِ شخصی میں طلوع ہوجاتا ہے۔

سوال – ۳۰: آفاق و انفس میں مُشاہدۂ معجزات (۴۱: ۵۳) سے متعلّق آپ کے پاس جو علم الیقین ہے، اسی سے سوال ہے، ورنہ ہم آپ سے ایسے مشکل سوالات ہی نہ کرتے، پس آپ یہ بتائیں کہ آیا مولا علیؑ کا یہ ارشاد: اَنَا اٰیٰاتُ اللہ (میں ہی خدا کے معجزات ہوں) اس آیۂ کریمہ (۴۱: ۵۳) کی پُراز حکمت تفسیر نہیں ہے؟ کیا دنیا میں سب سے بڑی نشانی اور سب سے عظیم معجزہ یہ نہیں ہے کہ حضرتِ امامؑ نورانی بدن (جسمِ لطیف ) میں آپ کے سامنے ظاہر ہوسکتا ہے؟ – جواب:  یقیناً مولا علیؑ کا یہ ارشاد آیہ (۴۱: ۵۳) کی پُرحکمت تفسیر ہے اور دنیا میں حضرتِ امامؑ کی سب سے بڑی نشانی اور سب سے عظیم معجزہ جو مجموعۂ آیات و معجزات ہے نورانی بدن (جسمِ لطیف) میں ظہور ہے۔

 

۵۵

 

صندوقِ جواہر۔ ۴

 

سوال –  ۳۱:  مولا نے یہ کبھی نہیں فرمایا: میں خدا کی آیات میں سے ایک آیت ہوں۔ بلکہ یوں فرمایا: میں ہی خدا کے جملہ معجزات (کامجموعہ) ہوں۔ جس کی ایک زندہ مثال نورانی بدن میں تشریف آوری ہے، یہ معجزہ دراصل لپیٹی ہوئی زندہ کائنات ہے، اس کی بہت مختصر مثال: کیا یہ قیامت اور آخرت نہیں، جس کا بیان تمام قرآن میں پھیلا ہوا ہے؟ کیا یہ دیدار نہیں؟ ملاقات نہیں؟ فرشتہ نہیں؟ جِنّ نہیں؟ روح نہیں؟ جسمِ لطیف نہیں؟ جامۂ جنّت نہیں؟ خود جنّت نہیں؟ عالمِ لطیف نہیں؟ آسمان نہیں؟ بتائیں کیا  نہیں ہے؟ -جواب: چونکہ حضرتِ امامؑ کا نورانی بدن میں ظہور جملہ معجزات کا مجموعہ اور لپیٹی ہوئی زندہ کائنات ہے۔ اس لئے یہ سب کچھ ہے۔ یہ قیامت و آخرت، دیدار و ملاقات، فرشتہ، جِنّ، روح، جسمِ لطیف، جامۂ جنّت، خود جنّت، عالمِ لطیف، آسمان وغیرہ سب کچھ ہے۔

سوال- ۳۲: آپ کو معلوم ہے کہ کوئی بھی وعدہ آنے والے وقت کے پیشِ نظر کیا جاتا ہے، اور یہ بھی معلوم ہے کہ خدا کے اکثر وعدے

 

۵۶

 

باطنی نوعیت کے ہُوا کرتے ہیں، درحالے کہ عوام ظاہر میں انتظار کرتے رہتے ہیں، چنانچہ معجزاتِ روحانیّت و قیامت کا وعدہ، جو ریاضت اور مجاہدۂ نفس سے مشروط ہے، ہر عارف کے لئے پورا ہوتا ہے، آپ اپنے الفاظ میں اس مطلب کو دہرائیں -جواب:  قیامت درحقیقت دو صورتوں میں واقع ہوتی ہے، ایک صورت میں قیامت کا وقت مقرّر ہے اور دوسری صورت میں قیامت وقت سے بالاتر ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قیامتِ کبریٰ اپنے وقت سے پہلے نہیں آئے گی جبکہ قیامتِ صغریٰ، جو حصولِ معرفت کے واسطے مقرر ہے وہ خدا کے خاص دوستوں میں ہمیشہ سے ہوتی چلی آئی ہے تاکہ اہلِ معرفت پر حقائق و معارف کا دروازہ ہر وقت کھلا رہے۔ جہاں تک قیامت کے شعور کا تعلّق ہے، قرآنِ حکیم سے ظاہر ہے کہ قیامت پوشیدہ اور لاشعوری (۰۶: ۴۷، ۲۶: ۲۰۲) طور پر آئے گی اور عوام اس سے اندھے (۲۷: ۶۶) رہیں گے۔ اس کا علم اور شعور صرف اہلِ معرفت کو ہوگا۔

سوال- ۳۳: سُورۂ مُدَّثر (۷۴: ۳۰) میں ارشاد ہُوا ہے کہ دوزخ پر انّیس ۱۹ فرشتے معیّن ہیں۔ اور بسم اللہ کے حروف بھی اُنیس ۱۹ ہیں، کیا آپ اس کا تاویلی راز بتا سکتے ہیں کہ ان فرشتوں کی یہ تعداد کیوں ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ یہ فرشتے کس کام کے لئے مقرّر ہیں؟ آپ مدد لے سکتے ہیں: وجہِ دین، گفتار/کلام ۱۴-جواب :   دوزخ پر معیّن ۱۹ فرشتوں اور بِسم اللہ کے اُنیس۱۹ حروف کی تاویل دورِ کبیر کے سات خداوندانِ

 

۵۷

 

دور (چھ ناطقؑ اور قائمؑ) اور ان کے بَارہ حجّت اور دورِ صغیر کے سات امام اور ان کے حجتانِ جزائر ہیں جو لوگوں کو جہالت کی نادانی سے علم کی بہشت تک رہنمائی کرنے کے لئے مقرر ہیں۔

سوال- ۳۴:  آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی معراج جسماً ہوئی تھی یا روحاً؟ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ حضورِ انورؐ روحانیّت کی معراج پر گئے تھے، تو لازماً یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قصّۂ معراج (۱۷: ۰۱) میں مسجد سے عبادت (اسمِ اعظم) مراد ہے، جیسے لفظ مسجد سورۂ اعراف (۰۷: ۲۹، ۰۷: ۳۱) میں عبادت کے معنی میں آیا ہے، پس رسول اللہؐ کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصا کی طرف لے جانے کی تاویل یہ ہے کہ قبلاً آپؐ ابتدائی اسمِ اعظم سے عبادت کرتے تھے، لیکن اب آخری اسمِ اعظم سے عبادت کرنے کا حکم ملا، جو قیامت خیز ہے، یعنی حضرتِ قیّوم۔ -جواب:  آنحضرتؐ کی معراج روحانی طور پر ہوئی تھی، اس لئے کہ معراج کشفِ باطن اور روحانیّت کے عروج کا نام ہے جو ذکر و عبادت کا نتیجہ ہے، قربِ خداوندی باطنی اور روحانی طریق پر ہے نہ کہ جسمانی طور پر، اور عالمِ علوی سے مراد دنیائے روحانیّت ہے جو لامکانی حیثیت میں پائی جاتی ہے نہ کہ مکانی حیثیت میں۔ چونکہ معراج ایک روحانی واقعہ ہے اس لئے روحانی معراج سے متعلّق ان تاویلات کو لازماً ماننا چاہئے۔

سوال – ۳۵ : سُورۂ نجم (۵۳: ۰۱ تا ۱۸)میں بھی معراج کا پُرحکمت ذکر

 

۵۸

 

موجود ہے، کہ اس کی حکمت راسخونَ فی العلم (پُختہ کارانِ علم) کے سِوا اور کوئی نہیں جانتا ہے، انہی حضرات سے ہم کو صدقہ ملتا ہے، اعنی امامِ زمانؑ سے، پس میں آپ سے سوال کرتا ہوں: آیا آپ نے پڑھا ہے یا سُنا ہے کہ نورِ ہدایت دوڑتا بھی ہے (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۰۸)؟ کس منزل میں؟ منزلِ آخرین میں؟ معراج میں؟ حظیرۂ قدس میں؟ -جواب:  آیات (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۰۸) میں مومنین و مومنات کے نور کے دوڑنے کا ذکر آیا ہے۔ یہ واقعہ روحانی سفر کے منزلِ آخرین میں پیش آتا ہے۔ یہ وہ مقامِ وحدت ہے جہاں پر حقیقی مومنین و مومنات کی روحیں امامِ اقدس کے نور کے ساتھ مل کر ایک ہوجاتی ہے، یہی منزلِ آخرین معراج بھی ہے اور حظیرۂ قدس بھی۔

سوال- ۳۶: کیا روحانی سفر انفرادی ہے یا اجتماعی ہے؟ یا یہ ظاہراً انفرادی، مگر باطناً اجتماعی؟ اگر یہی بات حقیقت ہے تو ماننا پڑے گا کہ رسولِ پاکؐ اگرچہ تنہا معراج پر تشریف لے گئے تھے، لیکن باطن اور حقیقت میں بہت سی روحیں بلکہ سب روحیں آپ میں بحدِّ فعل اور بحدِّ قوّت فنا ہوچکی تھیں، یعنی حضورِ اکرم رحمتِ عالمینؐ تمام انسانوں کی روح الارواح کی حیثیّت سے خدا کے پاس گئے تھے – جواب:  روحانی سفر ظاہراً انفرادی ہے مگر باطناً اجتماعی، اس لئے یقیناً آنحضرتؐ اگرچہ ظاہر میں تنہا معراج پر تشریف لے گئے تھے لیکن باطن میں تمام روحوں کو اپنے ساتھ لے کر روح الارواح کی حیثیت سے خدا کے پاس

 

۵۹

 

گئے تھے، اس لئے تمام ارواح خواہ بحدِّ فعل، خواہ بحدِّ قوّت آپ میں فنا ہوچکی تھیں۔

سوال-۳۷: اللہ تعالیٰ نے سُورۂ نجم کی پہلی آیت (۵۳: ۰۱) میں گرتے ہوئے ستارے کی قسم کیوں کھائی؟ قصّۂ معراج کے ساتھ اس کی کیا مناسبت ہے؟ کیا یہ حقیقت ہے کہ یہ نجم کائناتِ ظاہر کا کوئی سِتارہ نہیں، بلکہ حظیرۂ قدس کا نور ہے؟ جس کے بیشمار نام ہیں؟ اور یہ مقامِ معراج کی مشہور نشانی ہے؟ – جواب: یہ کائناتِ ظاہر کا کوئی ستارہ نہیں بلکہ یہ حظیرۂ قدس کا نور ہے، جس کے بے شمار نام  ہیں اور یہ مقامِ معراج کی مشہور نشانی ہے۔

سوال – ۳۸: دوسری آیت میں جوابِ قسم اس طرح سے ہے: تمہارا رفیق (محمدؐ) نہ بھٹک گیا ہے اور نہ بہکا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر محبوبِ خدا ؐ معراجِ روحانی میں اکیلے ہوتے، اور اہلِ ایمان کی روحیں ان کی رفاقت میں نہ ہوتیں، تو منزلِ آخرین کے تذکرے میں نہ فرمایا جاتا “تمہارا رفیق/ساتھی (محمّدؐ)” آپ کا اس پر کیا تبصرہ ہے؟ – جواب: جیسا کہ جواب ۳۶ سے ظاہر ہے کہ پیغمبر اپنے روحانی معراج میں اکیلے نہیں تھے، بلکہ تمام روحیں خواہ حدِّ قوّت خواہ حدِّ فعل میں آپ میں فنا ہوچکی تھیں، اس لئے وہ سب آپ کے ساتھ تھیں اور اس لحاظ سے خداوند تعالیٰ نے آنحضرتؐ کے بارے میں “تمہارا ساتھی(صاحبکم)” فرمایا ہے۔

 

۶۰

 

سوال- ۳۹: خدا نے ہر انسان کو نہ صرف ایک فرد بنایا ہے، بلکہ بحدِّ قوّت اسے ایک عالمِ شخصی بھی بنا دیا ہے، تاکہ بہشت میں جانے کے بعد ہر شخص اپنے آپ کو کاملین میں پائے، مثال کے طور پر اہلِ بہشت میں سے کوئی شخص فنا فی الرّسولؐ کی حقیقی نعمت چاہتا ہے تو یہ ناممکن نہیں، کیونکہ اس کی روح دوسری تمام ارواح کی طرح رسولِ کریمؐ کے عالمِ شخصی میں موجود تھی، اور مرتبۂ معراج کے عالمِ وحدت میں داخل ہو جانے سے قبل جملہ ارواح رسولِ پاکؐ میں فنا ہو چکی تھیں، آیا یہ حقیقت عجیب و غریب نہیں؟ آپ ان تمام سوالات کے جوابات کو لکھ کر رکھیں، ہم آپ سے طلب کریں گے۔

سوال-۴۰: کیا آپ وحی کے درجات سے متعلّق کچھ بتا سکتے ہیں؟ وحی کے معنی ہیں: اشارہ، جب محبوبِ خداؐ کو معراج میں دیدار ہورہا تھا، تو کیا اس میں بہت سے اِشارے نہیں تھے؟ کلمۂ باری میں؟ نورِعقل میں؟ اگر اس کو قلم کہا جائے تو قلم میں؟ یہاں دستِ خدا کے بہت سے اشارے تھے یا نہیں؟ – جواب:  وحی، آیت (۴۲: ۵۱)کے مطابق تین بڑے درجات میں ہے، سب سے پہلے عام وحی ہے جو جبرائیلؑ وغیرہ کے توسط سے ہوتی ہے، پھر کلامِ الٰہی ہے جو حجاب کے پیچھے سے سنائی دیتا ہے اور آخری درجہ میں خاص وحی ہے جو سب سے عظیم دیدار کے وسیلے سے ہوتی ہے۔ وحی کے معنی ہیں اشارہ، جب آنحضرتؐ کو معراج میں دیدار ہورہا تھا، تو یقیناً اُس میں بہت

 

۶۱

 

سے اشارے تھے اوریہ اشارے کلمۂ باری میں، نورِ عقل میں اور قلمِ الٰہی میں تھے، یہاں دستِ خدا کے بھی بہت اشارے تھے۔

 

۶۲

 

صندوقِ جواہر۔ ۵

 

سوال- ۴۱: حضورؐ نے اسرارِ معراج کو چشمِ ظاہر سے دیکھا یا دیدۂ دل سے؟ آپ اچھی طرح سے سوچ کر جواب دیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ آنحضرتؐ نے معراج کے جملہ معجزات کا دل کی آنکھ سے مشاہدہ کیا تھا، جیسا کہ اِس آیۂ شریفہ میں ہے: مَاکَذَبَ الْفُئَوادُ مَارَایٰ(۵۳: ۱۱)دل نے جھوٹ نہ جانا جو کچھ دیکھا۔ یعنی دل ہی نے دیکھا اور دل ہی نے تصدیق کی۔ -جواب: معراج کا تعلق جیسا کہ جواب ۳۴ سے ظاہر ہے کہ روح سے ہے اور جیسا کہ آیت (۵۳: ۱۱) سے عیان ہے کہ پیغمبرؐ نے معراج کے جملہ معجزات کا روحانی آنکھ یا دیدۂ دل سے مشاہدہ کیا تھا۔ آیۂ مذکورہ میں “دل نے جھوٹ نہ جانا جو کچھ دیکھا” کا مطلب ہے کہ دل ہی نے دیکھا اور دل ہی نے تصدیق کی۔

سوال- ۴۲: کیا معرفتِ نفس اورمعرفتِ ربّ ظاہر میں ہے یا باطن میں؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ جُملہ باطنی اشیاء (یا حقیقتوں) کی معرفت باطن میں ہے تو پھر معراج شروع سے لے کر آخر تک باطن میں ہے، اور اس کا مشاہدہ چشمِ باطن سے ہوتا ہے۔ جواب: معرفت کے سلسلے

 

۶۳

 

میں اس آیت (۲۲: ۴۶) کو سمجھنے کی ضرورت ہے: “کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ دل جو سینے میں ہیں وہ اندھے ہوجایا کرتے ہیں۔” اس سے ظاہر ہے کہ معرفت ظاہر میں نہیں بلکہ باطن میں ہے۔ اس لئے جملہ باطنی اشیاء (حقائق) کی معرفت باطن میں ہے۔ چونکہ معراج ایک روحانی حقیقت ہے اس لئے یہ شروع سے لے کر آخر تک باطن میں ہے اور اس کا مشاہدہ چشمِ باطن ہی سے ہوتا ہے۔

سوال- ۴۳: قرآنِ حکیم منکرین کے بارے میں فرماتا ہے: صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ (۰۲: ۱۸) یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، یہ اب نہ پلٹیں گے۔ آیا یہ لوگ ظاہر میں ایسے ہیں، یا باطن میں؟ کیا یہ جسمانی طور پر سُن نہیں سکتے ہیں؟ بول نہیں سکتے ہیں؟ اور دیکھ نہیں سکتے ہیں؟ -جواب: آیت (۰۷: ۱۷۹) میں پروردگارِ عالم فرماتا ہے: “ان کے دل تو ہیں مگر ان سے نہیں سمجھتے اور ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے نہیں دیکھتے ہیں اور ان کے کان ہیں مگر ان سے نہیں سُنتے، یہ لوگ چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں” اس آیت سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ باطن میں ایسے ہیں۔

سوال- ۴۴: سورۂ مومنون (۲۳: ۶۲)، اور سورۂ جاثیہ (۴۵: ۲۹) میں کتابِ ناطق کا ذکر آیا ہے، آپ یہ بتائیں کہ کتابِ ناطق کیا ہے؟ کوئی عجیب و غریب بولنے والی کتاب؟ کوئی نوشتہ جو اپنے آپ کو پڑھتا

 

۶۴

 

ہو؟ نامۂ اعمال؟ قرآنِ ناطق؟ امامِ مبین؟ -جواب: کتابِ ناطق ہر زمانے کا امام ہے جو امامِ مبین اور قرآنِ ناطق بھی ہے اور لوگوں کا نامۂ اعمال بھی۔

سوال- ۴۵: جو مومنِ سالک خدا کی رحمت سے جیتے جی مر کر زندہ ہو جاتا ہے، اس کو نامۂ اعمال مل جاتا ہے یا نہیں؟ اگر آپ یقین سے یہ کہتے ہیں کہ ایسے میں کوئی وجہ نہیں کہ کتابِ اعمال اِس سالک کو نہ ملے، اب سوال یہ ہے کہ نامۂ اعمال بولنے والا ہوگا یا خاموش؟ آیا یہ ممکن ہے کہ امام خود اس کا نامۂ اعمال ہو؟ -جواب: جو مومنِ سالک خدا کی رحمت سے جیتے جی مرکر زندہ ہو جاتا ہے اس کو نامۂ اعمال مل جاتا ہے، یہ نامۂ اعمال خاموش نہیں بلکہ جواب ۴۴ سے ظاہر ہے کہ یہ کتابِ ناطق کی صورت میں ہےجو ہر زمانے کا امام ہے، جو لوگوں پر گواہ بھی ہے اور ان کا نامۂ اعمال بھی، تفصیل کے لئے دیکھئے: عملی تصوّف اور روحانی سائنس، ص ص ۱۸۹-۱۹۳ یا تجرباتِ روحانی، ص ص ۷۳-۷۶ یا قانونِ کُلّ، ص ص ۸۳-۹۰۔

سوال- ۴۶: ہمارے پیروں اور بزرگوں کو نفسانی موت اور قیامت کا مکمّل تجربہ حاصل ہُوا تھا، اور اسی کے ساتھ ان کو بڑا کامیاب نامۂ اعمال بھی ملا تھا، وہ کتابِ ناطق ہے جس سے امامِ زمان کا نور مراد ہے، ایسے حضرات سے ہمیں کیا کیا فائدے ہوسکتے ہیں؟ علم و معرفت؟

 

۶۵

 

اسرارِ قیامت؟ امام کی معرفت؟ یقین؟ اُمید؟ بشارت؟ -جواب: ایسے حضرات سے ہمیں علم و معرفت، اسرارِ قیامت، امام کی معرفت، یقین، امید، بشارت وغیرہ کی دولتِ لازوال نصیب ہوئی ہے۔

سوال – ۴۷: سورۂ حاقہ (۶۹: ۱۹) میں ہے: اس وقت جس کا نامۂ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا: لو دیکھو پڑھو میرا نامۂ اعمال۔ اس کا خلاصۂ مطلب کیا ہے؟ روحانیّت و قیامت کے معجزات و اسرار کا تذکرہ کرنا؟ علم و حکمت بیان کرنا؟ امامِ عالی مقام کی معرفت سے اپنے لوگوں کو آگاہ کرنا؟ -جواب: اس کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ بزرگانِ دین اپنی کتابِ اعمال ہی سے اپنے دوستوں اور لوگوں کو روحانیّت و قیامت کے معجزات و اسرار، علم و حکمت اور امامِ عالی مقام کی معرفت سے آگاہ کرتے ہیں۔

سوال- ۴۸: سورۂ اِنشقاق (۸۴: ۰۷ تا ۰۹) میں ہے: پھر جس کو نامۂ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، اس کا حساب آسان ہوگا، اور وہ اپنے اہل کی طرف خوشی خوشی واپس آئے گا۔ کیا یہ انفرادی اور نمائندہ قیامت نہیں ہے؟ خوشی ایک کی ہے یا سب کی؟ کیا ایسا نہیں لگتا ہے کہ یہ کامیابی اور خوشی مشترکہ ہے؟ کیا خوشی سے تسخیرِ کائنات اورگنجِ علم مراد نہیں ہے؟ کیا سب سے بڑی خوشی یہ نہیں کہ حضرتِ امام علیہ السّلام (کتابِ ناطق = قرآنِ ناطق) آپ کا نامۂ اعمال ہوگیا؟ -جواب: یہ عارف کی انفرادی

 

۶۶

 

اور نمائندہ قیامت ہے جو دنیا ہی میں واقع ہوتی ہے۔ وہ اس سے فارغ ہو کر خزانۂ علم و عرفان کی بے پایان خوشی کے ساتھ اپنی جماعت کی طرف آتا ہے۔ چنانچہ یہ کامیابی اور خوشی مشترکہ ہے اور اس خوشی سے مراد تسخیرِ کائنات اور گنجِ علم ہے اور سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ حضرتِ امامؑ عارف کا نامۂ اعمال (کتابِ ناطق =قرآنِ ناطق) ہوگیا۔

سوال- ۴۹: سُورۂ مُطَفِّفین (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) میں دیکھ لیں: ہرگز نہیں، بیشک نیک آدمیوں کا نامۂ اعمال عِلّیِّین میں ہے، اور تمہیں کیا خبر کہ وہ عِلّیِّین کیا ہے؟ ایک لکھی ہوئی (زندہ) کتاب، جس کو مقرّبین دیکھتے ہیں۔ یہ ترجمہ (ان شا ء اللہ) نورِ معرفت کی روشنی میں ہے۔ اب آپ یہ بتائیں کہ عِلّیِّین کون ہیں؟ کیا یہ عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اور اساس ہیں؟ یا یہ تمام انبیاء و اولیاء ہیں؟ آیا یہی پاک ہستیاں کتابِ مرقوم (لکھی ہوئی زندہ کتاب) ہیں؟ کیا ابرار کا نامۂ اعمال اسی زندہ کتاب میں ہے؟ پھر یہ بڑی عجیب رحمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیکو کاروں کے نامۂ اعمال کو عقلِ کلّ، نفسِ کُلّ، ناطق، اور اساس کا درجہ دیا، کیا اِس ارشاد کا مطلب ایسا نہیں ہے؟ -جواب: چونکہ عِلّیّین ایک لکھی ہوئی (زندہ) کتاب ہے اور یہ امامِ مبین ہے جس میں ہر چیز گھری ہوئی ہے اس لئے عِلّیّین عقلِ کلّ، نفسِ کُلّ، ناطق اور اساس ہیں یہ تمام انبیاء و اولیاء بھی ہیں اور ابرار کا نامۂ اعمال بھی، یقیناً یہ خداوندِ قدّوس کی بڑی عجیب رحمت ہے کہ اس نے نیکوکاروں کے نامۂ اعمال کو عقلِ کلّ، نفسِ کُلّ، ناطق اور اساس کا درجہ دیا۔

 

۶۷

 

سوال- ۵۰: قرآنِ عزیز میں ارشاد ہے: یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ۔ خِتٰمُہٗ مِسْکٌ (۸۳: ۲۵ تا ۲۶) اِن کو سر بمہر خالص شراب پلائی جائے گی، جس کی مُہر مُشک کی ہوگی۔ کیا یہ بہشت کی نعمتوں کی تعریف ہے جو اچُھوتی، نِرالی، انوکھی، اور بڑی عجیب و غریب ہیں؟ آیا علم و حکمت کی گُونا گونی بھی ایسی حیران کُن ہے؟ -جواب: یقیناً یہ بہشت کی اچُھوتی، نرالی، انوکھی اور بڑی عجیب و غریب نعمتوں کی تعریف ہے جو علم و حکمت کی گونا گونی کی صورت میں ہیں۔

 

۶۸

 

صندوقِ جواہر۔ ۶

 

سوال- ۵۱: قرآنِ حکیم کی ہر ہر آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، اور اس بے مثال کتابِ سماوی کا کوئی مقام ایسا نہیں، جہاں اہلِ بصیرت کے لئے علم وحکمت کے عجائب وغرائب کا کوئی دروازہ کُھل نہ جائے، آئیے اہلِ بہشت کی حیرت انگیز لطیف زندگی سے متعلّق کچھ معلومات حاصل کرتے ہیں، آپ سُورۂ واقعہ کو باترجمہ پڑھیں اور ہمارے چند سوالات کے جوابات کی تیاری کریں:۔

سابِقُون کے کیا کیا اوصاف ہوتے ہیں؟ کیا یہ ہر نیکی میں دوسروں سے آگے آگے ہوتے ہیں؟ مجموعی طور پر علم و عمل میں؟ آیا یہی لوگ بقولِ قرآن مُقرّبین ہیں؟ کیا قرآن میں یہ حکم ہے کہ نیک کاموں میں سبقت کرو؟ -جواب: سُورۂ واقعہ میں آیات (۵۶: ۱۰ تا ۲۶، ۵۶: ۸۸ تا ۸۹) میں سابقون کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ سابقون ہر نیکی میں دوسروں سے آگے آگے ہوتے ہیں، اور مجموعی طور پر علم اور عمل میں، ہاں، سابقون ہی بقولِ قرآن مقرّبین ہیں، اور قرآن میں نیک کاموں میں سبقت کرنے کا ذکر ہے ۵۷: ۲۱، ۰۲: ۱۴۸)۔

 

۶۹

 

سوال – ۵۲: مذکورہ سورہ (۵۶: ۱۷) میں وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ کا ذکر آیا ہے، یہ لڑکے  جو ہمیشہ لڑکے ہی رہتے ہیں، کون ہیں؟ کب سے ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ اِبداعی ہیں، یا خلقی؟ کیا یہ ازلی و ابدی ہیں؟ آیا یہ لطیف ہیں یا کثیف؟ -جواب: یہ ابدی لڑکے اہلِ بہشت ہیں، اور یہ خُلُود (۵۰: ۳۴) کی حکمت و علامت ہیں، اہلِ بہشت سب کے سب شروع شروع میں دنیا ہی کے لوگ ہوتے ہیں جب وہ مرجاتے ہیں تو ان کو جسمِ لطیف میں زندہ کرکے جنّت میں داخل کیا جاتا ہے، شروع میں خلقی ہیں بعد میں جسمِ لطیف کے ملنے پر یہ ابداعی ہوجاتے ہیں، یہ بہشت میں ازلی و ابدی طور پر موجود بھی ہیں اور دنیا میں آکر پیدا بھی ہوجاتے ہیں، اِسی لئے ان کی دو انائیں ہو جاتی ہیں، یعنی انائے علوی اور انائے سفلی (۰۶: ۹۸ یا ۵۶: ۱۷)۔ دیکھئے ہزار حکمت، حکمت ۹۳۲تا ۹۳۷۔

سوال – ۵۳: ارشاد ہے: وَحُوْرٌ عِیْنٌ (۵۶: ۲۲) کَاَ مْثَالِ اللُّؤْ لُؤِالْمَکْنُوْنِ (۵۶: ۲۳) اور خوبصورت آنکھوں والی حوریں، جیسے چُھپا کر رکھے ہوئےموتی۔ آیا یہ عقلی حوریں نہیں ہیں؟ کیا خوبصورت آنکھیں چشمِ بصیرت کی مثال نہیں ہیں، جو عالمِ وحدت (حظیرۂ قدس) کے اسرار کو دیکھ سکتی ہے؟ کیا پوشیدہ موتیوں کی طرف محفوظ ہونے میں گوہرِعقل (کتابِ مکنون)کی طرف اشارہ نہیں ہے؟ اس درجہ کی حوریں انتہائی عجیب و غریب ہیں، کہ وہ عقلی اور علمی ہیں، حظیرۂ قدس میں ہونے کی وجہ

 

۷۰

 

سے فنا بحق اور صورتِ رحمان سے واصل ہیں، یہ بڑا عجیب انقلابی تصوّر بلکہ روشن حقیقت ہے کہ مرد و زن کی روحانی ترقّی ایک ساتھ صورتِ رحمان تک ہے۔ -جواب: یہ عقلی اور علمی حوریں ہیں، خوبصورت آنکھیں چشمِ بصیرت کی مثال ہیں جو عالمِ وحدت (حظیرۂ قدس) کے اسرار کو دیکھ سکتی ہیں، پوشیدہ موتیوں کی طرح محفوظ ہونے میں گوہرِعقل (کتابِ مکنون) کی طرف اشارہ ہے۔ حظیرۂ قدس میں ہونے کی وجہ سے فنا بحق اور صورتِ رحمان سے واصل ہیں۔ یہ بڑا عجیب انقلابی تصوّر بلکہ روشن حقیقت ہے کہ مرد و زن کی روحانی ترقی ایک ساتھ صورتِ رحمان تک ہے۔

سوال- ۵۴: کیا سُورۂ واقعہ میں حُورانِ درجۂ دوم کا تذکرہ بھی ہے؟ جی ہاں! جیسا کہ یہ ایک ترجمہ ہے: ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سِرے سے (یعنی نورانی بدن میں) پیدا کریں گے اور انہیں باکِرہ بنا دیں گے، اپنے شوہروں کی عاشق اور عمر میں ہم سِن، یہ کچھ دائیں بازو والوں کے لئے ہے (۵۶: ۳۵ تا ۳۸) بہشت میں کیا قالبِ نورانی (جسمِ لطیف) صرف عورت کو ملے گا، یا مرد کو بھی؟ حُور اور اس کا شوہر کس طرح ہم عمر ہوں گے؟ کیا عالمِ شخصی میں دونوں کا روحانی تولّد بیک وقت ہوتا ہے؟ باکِرہ یا دوشیزہ کس طرح؟ جسمِ کثیف کو چھوڑ کر جسمِ لطیف میں منتقل ہونے کی وجہ سے؟ -جواب: جی ہاں، جیسا کہ یہ ایک ترجمہ ہے: ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سِرے سے (یعنی نورانی بدن میں) پیدا کریں گے اور انہیں باکرہ بنا دیں گے، اپنے شوہروں

 

۷۱

 

کی عاشق اور عمر میں ہم سِن، یہ کچھ دائیں بازو والوں کے لئے ہے (۵۶: ۳۵ تا ۳۸) بہشت میں قالبِ نورانی عورت مرد دونوں کو ملے گا۔ حور اور اس کا شوہر ہم عمر اس طرح ہوں گے کہ عالمِ شخصی میں دونوں کا تولّد بیک وقت ہوتا ہے اور باکِرہ یا دوشیزہ جسمِ کثیف کو چھوڑ کر جسمِ لطیف میں منتقل ہونے کی وجہ سے ہے۔

سوال – ۵۵: سُورۂ رحمان (۵۵: ۷۲ تا ۷۴) میں ہے: خیموں میں ٹھہرائی ہوئی حوریں، اپنے ربّ کے کِن کِن انعامات کو تم جُھٹلاؤ گے، پہلے کبھی کسی انسان یا جنّ نے ان (حوروں) کو نہ چُھوا ہوگا۔ کیا اس کی تاویل یہ ہے کہ یہ کنزِ مخفی کے اچُھوتے اسرار ہیں؟ آیا یہ کہنا درست ہے کہ ہر مثال میں گوہرِعلم پنہان ہوتا ہے، اسی طرح حورانِ بہشتی کی دل آویز مثالو ں میں سب سے اعلیٰ حقائق و معارف پوشیدہ ہیں؟ -جواب: جی ہاں! آپ کا ہر سوال خود جواب بھی ہے۔

سوال -۵۶: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۹) میں دیکھ لیں: وہ خدا ہی ہے جس نے تمہیں نفسِ واحدہ سے پیدا کیا اور اُسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔ کیا یہ لوگوں کی ظاہری پیدائش کا تذکرہ ہے؟ یا ذرّاتی (روحانی) تخلیق کا؟ -جواب: کیا آپ کو وہ وزڈم سرچ (WISDOM SEARCH)یاد نہیں ہے، جس میں یہ بہت بڑا راز بتایا گیا تھا کہ منزلِ عزرائیلی میں انسانِ کامل کی بےشمار لطیف کاپیاں

 

۷۲

 

بنائی جاتی ہیں؟ اب آپ کو وہ قصّہ یاد آیا، ہاں یہی مخلوقِ لطیف انسان بھی ہے، جِنّ بھی، پری بھی، اور حور و غِلمان بھی ہے، اور اس کے کثیر نام ہیں۔

سوال – ۵۷:  کیا یہ حقیقت ہے کہ انسانِ کامل کی عقلی اور اصل بیوی پیدا نہیں ہوتی ہے، جب تک کہ مقامِ عقل اور حظیرۂ قدس کی منزل نہیں آتی؟ کیونکہ لِیَسْکُنَ اِلَیْھَا (تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے) فرمانے کا مقصد علمی اِزدواج کا سکون ہے؟ -جواب: جی ہاں! یہ بالکل حقیقت ہے۔ اگر آپ کاملین و متقین کی عقلی عروسی کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں تو سُورۂ دُخان (۴۴: ۵۴) میں دیکھیں: کَذٰالِکَ وَزَ وَّجْنٰھُمْ بِحُوْرٍ عِیُنٍ =ایسا ہی ہوگا، اور ہم ان کی شادی بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے کر دیں گے۔

سوال – ۵۸:  اِس نوعیّت کے سوال و جواب کی ضرورت اس لئے ہوئی کہ جب تک کوئی فردِ بشر بہشت کی روحانی اورعقلانی نعمتوں سے متعلّق علم الیقین کو حاصل نہ کرے، تب تک اس کی روحانی ترقّی ناممکن ہے، آپ اس میں غور کر کے تبصرہ کریں۔ -جواب:  یہ بالکل حقیقت ہے کہ یہ علم الیقین ہی تو ہے کہ جس کے ذریعے سے دوزخ اور بہشت کی پہچان ہوتی ہے جیسا کہ سورۂ تکاثر کی آیات ۵-۶ (۱۰۲: ۰۵ تا ۰۶) سے ظاہر ہے: “دیکھو، اگر تم علم الیقین کو جانتے تو ضرور دوزخ کو دیکھ سکتے۔” جب علم الیقین کے ذریعے

 

۷۳

 

دوزخ کو دیکھا جاسکتا ہے تو بہشت کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

سوال – ۵۹:  آپ اپنی معلوماتِ عامہ کی مدد سے یہ بتائیں کہ آیا انسان کی ہستی تین چیزوں کا مجموعہ نہیں ہے؟ وہ تین چیزیں جسم، روح، اور عقل نہیں ہیں؟ جب حقیقت یہی ہے تو کیا غِذا، لذّت، اور خوشی صرف جسمانی قسم کی ہوسکتی ہے؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ آپ حقیقت بیان کریں۔ -جواب:  انسان کی ہستی یقیناً تین چیزوں یعنی جسم، روح اور عقل کا مجموعہ ہے اور اِسی کے مطابق اس کی غذا، لذّت اور خوشی بھی تین قسم یعنی جسمانی، روحانی اور عقلانی ہے۔

سوال – ۶۰: اے نورِ عینِ من! ہمارا اور آپ کا مقدّس فریضہ وِز ڈم سرچ ہی ہے، کیونکہ ہماری روحانی اور عقلانی شادمانی اسی مبارک کام میں مضمّر ہے، اور ہمارے جملہ رفیقوں کی اصل خوشی بھی اسی نعمت میں ہے، لہٰذا آئیے، ہم قرآنِ عظیم کے ایک باعظمت بھید کی معرفت کے لئے سعئی بلیغ کرتے ہیں، وہ دل کُشا اور روح پرور راز سربستہ ہے: الرّقیم (۱۸: ۰۹) اب سوال ہے کہ الرّقیم کیا ہے؟ -جواب: الرَّقیم کچھ نوشتۂ روحانی یا نامۂ باطنی کی جھلک ہے، تاکہ سالکین و عارفین اللہ تعالیٰ کے روحانی معجزات پر یقین رکھیں۔

 

۷۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۷

 

سوال -۶۱:  کیا آپ نے کبھی خوابِ نورانی میں کوئی بڑی عجیب مسرّت بخش کتاب، یا کوئی ایسی تحریر دیکھی ہے؟ -جواب:  جی ہاں، پس یہی چیز الرّقیم کی ایک مثال ہے، تاہم روحانیّت کے جادوئے حلال (یعنی معجزہ) میں بڑی زبردست تاثیر ہے۔

سوال – ۶۲:  چونکہ بہشت روحی اور عقلی نعمتوں کا سرچشمہ ہے، لہٰذا وہاں کسی بھی صورت میں قرآن و حدیث اور ارشاداتِ أئمّہ کی نعمتیں ہوں گی یا نہیں؟ -جواب:   بلاشبہ وہاں قرآن و حدیث اور ارشاداتِ أئمّہ کی نعمتیں بھی ہیں اگر آپ کہتے ہیں کہ یہ نعمتیں ضروری ہیں، تو میں بھی کہتا ہوں کہ لازمی ہیں، بلکہ بہشت میں نعمت طلبی کا اُصُول اِرادۂ “کُنْ” کی طرح ہے، کہ اِدھر دل میں کسی چیز کی خواہش پیدا ہوئی، تو اُدھر سے وہ چیز فوراً ہی سامنے آئی، پس بہشت وہ عالم ہے جس میں کوئی نعمت ناممکن نہیں، آپ کسی بھی پیغمبر کی آسمانی کتاب کو بہشت میں بحالتِ اصلی دیکھ سکتے ہیں، الرّقیم (نوشتۂ روحانی) کا یہی اشارہ ہے۔

 

۷۵

 

سوال- ۶۳: سورۂ تحریم (۶۶: ۱۱) میں زوجۂ فرعون کا تذکرہ اس طرح سے ہے: ترجمہ: اور اللہ نے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے ہیں فرعون کی زوجہ کی مثل بیان کی ہے کہ جس وقت اس نے یہ عرض کی کہ اے میرے پروردگار میرے لئے اپنے پاس جنّت میں ایک گھر بنا دے اور مجھ کو فرعون سے اور اس کے عملِ بد سے نجات دے اور مجھے ان ظالم لوگوں سے چھٹکارا دے۔ یہاں یہ بڑا اہم سوال ہے کہ آیا یہ مکانی اور اجتماعی بہشت ہے؟ جہاں خدا کا ایک جسمانی مکان ہے؟ – جواب:  اگر ایسا ہے تو بےشمار مومنین و مومنات کی بھی یہی درخواست ہوگی کہ ان کو بھی جنّت میں ہمسایۂ خدا ہونے کا سب سے عظیم اعزاز حاصل ہو، مگر یہ قصّہ تاویل طلب ہے۔

بہشت کی مثال عالمِ شخصی ہے، جو انفرادی بہشت بھی ہے اور اجتماعی بہشت بھی، وہ ایک پہلو سے مکانی ہے اور دوسرے پہلو سے لامکانی، اس میں نہ صرف خدا کے پاس ایک گھر ملتا ہے، بلکہ کامیاب مومنین و مومنات اللہ میں فنا ہو کر اُس کے ساتھ (خانۂ خدا میں) رہنے کی سب سے بڑی سعادت بھی حاصل کرسکتے ہیں، مذکورہ آیۂ شریفہ کا تاویلی اشارہ یہی ہے۔

سوال -۶۴: کُرسی کے کیا معنی ہیں؟ وَسِعَ کُرْ سِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ (۰۲: ۲۵۵) کی تفسیر و تاویل کی ہے؟ یہاں کُرسی جسم ہے یا روح؟ -جواب: کُرسی وہ اونچی جگہ، چبوترا، وغیرہ ہے جس پر تختِ شاہی کو سجاتے ہیں، مگر یہاں سے نفسِ کُلّی (کائناتی روح) مراد

 

۷۶

 

ہے، اور ان مبارک الفاظ کا یہ ترجمہ ہے: اُس کی کُرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے۔ یعنی ساری کائنات بحرِ نفسِ کُلّ میں مُستغرق ہے۔

سوال – ۶۵: کیا کائناتِ کُلّ کے ہر حصّہ اور ذرّہ میں روح ہی روح ہے؟ اور سیّارۂ زمین کے اندر باہر بھی؟ آیا زمین کائناتی روح سے واصل بھی ہے اور اپنی ایک روح بھی رکھتی ہے؟ -جواب: جی ہاں! آپ کا ہر سوال خود جواب بھی ہے۔

سوال -۶۶: قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ رحمت اور علم کے ابواب (دروازے) ہیں، چُنانچہ سوال ہے کہ قرآنِ کریم میں لفظِ فُرقان کتنی دفعہ آیا ہے؟ اور فُرقان کے کیا معنی ہیں؟ حق و باطل کو جُدا جُدا کرنا؟ قرآنِ مجید؟ معجزہ؟ آپ قرآنِ عزیز کے سات مقامات پر اِس مبارک لفظ کی حکمتوں کا مطالعہ کریں، بعد ازان یہ بتائیں کہ خدا سے ڈرنے والے مومنین کے لئے جو معجزہ (فرقان) مقرّر ہوتا ہے، وہ کیا ہے؟ (بحوالۂ سورۂ انفال ۰۸: ۲۹) – جواب:  لفظ فرقان، قرآنِ کریم میں سات دفعہ آیا ہے (۰۲: ۵۳، ۱۸۵)، (۰۳: ۰۴)، (۰۸: ۲۹، ۰۸: ۴۱)، (۲۱: ۴۸)، (۲۵: ۰۱)، اس کے معنی ہیں حق و باطل کو جدا جدا کرنا، حق و باطل کے درمیان امتیاز کردینے والی چیز، قرآنِ مجید، معجزہ، مردِ مؤمن کی روشنی قلب، توفیقِ خداوندی، آیت (۰۸: ۲۹) میں جس طرح لفظ فرقان آیا ہے اس سے مراد نورِ امامت اور

 

۷۷

 

قرآن کا باطنی علم ہے، دیکھئے ہزار حکمت، حکمت ۶۵۱ تا حکمت ۶۵۴، بالخصوص حکمت ۶۵۳۔

سوال- ۶۷: آیۂ کریمہ کا ترجمہ ہے: اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہوگے تو وہ تم کو ایک فیصلہ کن چیز (فرقان) مقرّر کرے گا….(۰۸: ۲۹) ایسی چیز کیا ہے؟ کوئی چھوٹی اور معمولی چیز؟ -جواب:  ہرگز نہیں، یہ ایک عظیم معجزہ ہے، یہ عالمِ شخصی کا نورِ معرفت ہے، جو علم و حکمت کی روشنی کی وجہ سے فیصلہ کُن معجزہ ہے، کیونکہ لفظِ فرقان کا معنوی رشتہ حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیھما السّلام کے جملہ معجزات سے بھی ہے، اور قرآنِ حکیم سے بھی۔

سوال -۶۸:  کیا فُرقان (معجزہ) جس کا اوپر ذکر ہُوا نورِ امامت ہے؟ جو عالمِ شخصی میں طلوع ہوجاتا ہے؟ جیسا کہ ارشاد کا ترجمہ ہے: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور رسولؐ پر واقعی ایمان لے آؤ تاکہ خدا تمہیں اپنی رحمت کے دُہرے حصّے عطا کردے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دیدے جس کی روشنی میں چل سکو ….(۵۷: ۲۸)۔ -جواب:  جی ہاں، یقیناً فرقان نورِ امامت ہی ہے، جو عالمِ شخصی میں طلوع ہوجاتا ہے، جس کی روشنی میں صراطِ مستقیم پر چلنا ہے کہ یہ راہِ راست بھی عالمِ شخصی ہی میں ہے۔

 

۷۸

 

سوال – ۶۹: آیا یہ بات صحیح ہے کہ عالمِ شخصی کی معرفت میں ہر سوال کا جواب موجود ہے؟ خواہ سوال آسان ہو یا مشکل؟ اگر صحیح ہے تو آپ یہ بتائیں کہ سُورۂ انعام (۰۶: ۱۲۲) کی اِس آیت کی حکمت کیا ہے؟ ترجمہ: کیا جو شخص پہلے مُردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور مقرر کیا جس کے ذریعے سے وہ لوگوں میں چلتا ہے اس شخص کا سا ہو سکتا ہے جس کی یہ حالت ہے کہ اندھیروں میں پھنسا ہُوا ہے کہ وہاں سے کسی طرح نکل نہیں سکتا ….(۰۶: ۱۲۲)۔ -جواب:  اللہ تعالیٰ جب مومنِ سالک کو نفسانی موت کے بعد زندہ کرتا ہے تو اس کے عالمِ شخصی میں امام ِزمانؑ کا نور طلوع ہوجاتا ہے، اور اسی نور کی روشنی میں سالک/عارف ان لوگوں کے درمیان چلتا ہے، جو بشکلِ ذرّات عالمِ شخصی میں موجود ہیں، اور باقی مطلب آیت کے ترجمۂ ظاہر میں موجود ہے۔

سوال – ۷۰: سورۂ قمر کے آخر (۵۴: ۵۴ تا ۵۵) میں جو تاویلی حکمت ہے، وہ بیان کریں۔ -جواب:  ارشاد اس طرح ہے: اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَھَرٍ۔ فِیْ مَقْعَدِ صِدُقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ =بیشک پرہیز گار لوگ باغوں اور نہروں میں ہوں گے، مقامِ صدق میں قدرت والے بادشاہ کے پاس۔ یعنی وہ لوگ جو بحقیقت پرہیزگار ہیں روحانی بہشت کے باغوں اور باطنی نہروں (عقلِ کلّ، نفسِ کُلّ، ناطق، اور اساس کے نور ) میں ہوں گے مقامِ صدق (حقیقی علم کے مرتبہ) میں قدرت والے بادشاہ (اللہ) میں

 

۷۹

 

فنا ہو کر۔ یہاں عِنْدَ سے فنا مراد ہے، کیونکہ کوئی سالک یا عاشق خدا کے قربِ خاص میں فنا کے بغیر ٹھہر نہیں سکتا ہے، جیسے زوجۂ فرعون کے بارے میں ذکر ہُوا۔

 

۸۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۸

 

سوال-۷۱: یہاں آپ سے ایک بڑا اہم سوال پوچھنا ہے، وہ قرآن اور قیامت کے تعلق کے بارے میں ہے، سو آپ یہ بتائیں کہ قرآنِ حکیم اور قیامت کے درمیان کیا ربط و رشتہ ہے؟ کیا اِس ضروری سوال کا جواب قرآنِ عزیز میں موجود ہے؟ – جواب: جی ہاں، اس کا جواب قرآنِ پاک میں بھی ہے اور کتابِ نفسی (عالمِ شخصی ) میں بھی، وہ یہ کہ قیامت قرآن کی زندہ تاویل ہے، یہی سبب ہے کہ حضرت امام علیہ السّلام کے بعد کوئی شخص قرآن کی جُزوی تاویل بھی نہیں کرسکتا، مگر تجربۂ قیامت کے بعد، جو جیتے جی مرنے میں پوشیدہ ہے۔

سوال- ۷۲: وہ آیۂ مبارکہ کونسی ہے، جس میں یہ اشارہ ہے کہ قیامت ہی قرآن کی تاویل ہے؟ کیا آپ بتائیں گے؟ -جواب: جی ہاں! ان شاء اللہ، آپ س۔ ۶۹ کو پڑھیں، اللہ تعالیٰ جب مومنِ سالک کو نفسانی موت کے بعد زندہ کرتا ہے تو یہ ایسے سالک کی قیامت اور اس میں قرآن کی تاویل ہے، کیونکہ اس حال میں امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہوجاتا ہے، اور قرآن کی تاویل نور ہی کی روشنی میں کی جاتی ہے،

 

۸۱

 

آپ تمام آیاتِ نور کو اِسی معنیٰ میں پڑھیں۔

سوال- ۷۳: درحقیقت آسمانی کتاب کی تصدیق دو مرحلوں میں ہوتی ہے، پہلے مرحلے میں علم الیقین سے، اور دوسرے مرحلے میں تاویل سے، آیا یہ بات درست ہے؟ -جواب: ہاں، بالکل درست ہے، اور یہ حکمت سورۂ یونس (۱۰: ۳۹) سے ہے، جیسا کہ اُس آیۂ کریمہ کا ترجمہ ہے: درحقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمّل علم بھی نہیں ہے اور اس کی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے اسی طرح ان کے پہلے والوں نے بھی تکذیب کی تھی ….(ترجمہ از انوار القرآن)

سوال- ۷۴: ترجمۂ ارشادِ ربّانی: ہم ان لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کو ہم نے ایک خاص علم کی بناء پر مفصّل بنایا ہے، اور (حقیقی) ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے، اب کیا یہ لوگ اس کے سِوا کسی اور بات کے منتظر ہیں کہ اس (کتاب) کی تاویل (یعنی قیامت) آجائے، جس روز اس کی تاویل آگئی تو وہی لوگ جنہوں نے پہلے اسے بُھلا دی تھی کہیں گے کہ واقعی ہمارے پروردگار کے رسول حق لے کر آئے تھے ….(۰۷: ۵۲ تا ۵۳) اس کا مطلب یہ ہُوا کہ قرآن کی نورانی تاویل ہی قیامت ہے، کیا یہ بات درست ہے؟ -جواب:  جی ہاں، بالکل درست ہے۔

 

۸۲

 

سوال – ۷۵: قرآنِ حکیم میں دو ایسی چیزوں کا ذکر ہے، جن کے بارے میں الگ الگ فرمایا گیا ہے: لَا رَیْبَ فِیْہِ (اُس میں شک نہیں) وہ کونسی چیزیں ہیں؟ ان میں شک نہ ہونے کے کیا معنی ہیں؟ ان دونوں میں کیا نسبت ہے؟ -جواب: وہ دو چیزیں الکتاب لاریب فیہ (۰۲: ۰۲) اور یوم القیامۃ لاریب فیہ (۰۶: ۱۲) ہیں، ان میں شک نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین ہے، وہ کتاب جس میں شک نہیں اساس ہے، اور وہ روزِ قیامت جس میں شک نہیں حضرتِ قائم ہے، اور ان دونوں کی نسبت اظہر من الشمس ہے۔

سوال – ۷۶: عالمِ شخصی میں عقل عرش کی مثال ہے، اور روح کُرسی کی مثال، یعنی وہ چبوترا وغیرہ جس پر تختِ شاہی ہوتا ہے، اب بحوالۂ سورۂ صٓ (۳۸: ۳۴) یہ سوال ہے کہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی کُرسی پر امتحاناً ایک جسد ڈالا گیا تھا، اس کی کیا حکمت ہے؟ یہاں کُرسی اور جسد ظاہری ہیں یا باطنی؟ کیا کُرسی روح اور جسد کوئی آزمائشی جسمِ لطیف تھا؟ آپ اس میں غور و فکر کریں۔ -جواب:  یہاں کرسی سے مراد حضرتِ سلیمانؑ کی روح ہے اور جسد ایک ادنیٰ آزمائشی جسمِ لطیف تھا، جو تکلیف دہ بھی ہوتا ہے اور اس کے بعد معجزاتی جسمِ لطیف کا ظہور ہوتا ہے، دیکھئے ہزار حکمت، حکمت ۳ اور حکمت ۷۔

 

۸۳

 

سوال- ۷۷: حدیثِ شریف کا یہ مطلب سب پر عیان ہے کہ قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، چُنانچہ سورۂ ہود (۱۱: ۵۲) میں جس طرح ارشاد ہُوا ہے، اس میں سے ان الفاظ کی تاویلی حکمت بیان کریں، الفاظ یہ ہیں: یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا =(تاکہ) وہ تم پر موسلادھار بارش برسانے والا آسمان بھیجے۔ -جواب:  یعنی مذکورہ شرائط کی بجا آوری پر خدا تمہارے اجتماعی اور انفرادی عالمِ شخصی میں علم کی موسلادھار بارش برسانے والا آسمان بھیجے گا۔

سوال- ۷۸: سوال سُورۂ نمل کے حوالے سے ہے: وَلَھَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ (۲۷: ۲۳) کے کیا معنی ہیں؟ اور اس کا ایک بہت بڑا تخت ہے؟ اور اس کی ایک بہت بڑی سلطنت ہے؟ کیا یہ ملکۂ سبا (بلقیس) کا قصّہ ہے؟ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام نے اپنے سرداروں کو کیا حکم دیا؟ آپؑ کو بلقیس کا صرف تخت مطلوب تھا، یا ساری بادشاہی؟ مادّیت میں، یا روحانیّت میں؟ -جواب: بڑا تخت اور بڑی بادشاہی، ملکۂ سبا کا قصّہ ہے، حضرتِ سلیمانؑ نے اپنے سرداروں کو یہ حکم دیا کہ وہ بلقیس کی ظاہری سلطنت کو باطنی صورت میں حاضر کریں، چونکہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے پاس امامت تھی، لہٰذا یہ اس بات کی ایک جُزوی مثال ہے کہ کس طرح ساری لطیف چیزیں امام کے عالمِ شخصی میں جمع ہوجاتی ہیں۔

سوال-۷۹: ایسا یقین ہے کہ اِس ارشاد (۴۱: ۳۰) میں ذاتی

 

۸۴

 

قیامت کا ذکر ہے، ورنہ نزولِ ملائکہ ممکن نہیں، آپ اس کی حکمت بیان کریں۔ -جواب: جن لوگوں نے (حقیقی معنوں میں) کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر وہ (نفسانی طور پر مرکر) زندہ ہوگئے تو یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجاؤ اس جنّت کی بُشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی….(۴۱: ۳۰) آیۂ شریفہ کے اِس لفظ میں عِرفانی قیامت کا اشارہ پنہان ہے: اِستقاموا=وہ سیدھے ہوئے (یعنی نفساً مرکر زندہ ہوگئے)۔

سوال- ۸۰: یَقُوْمُ، یَقُوْمُوْنَ (۰۲: ۲۷۵) یَقُوْمُ (۸۳: ۰۶) اِسْتَقَامُوْا (۷۲: ۱۶) آیا ان الفاظ میں قیامت کے معنی ہیں؟ وہ کس طرح؟ -جواب:  ق و م کے مادّہ سے مصدر ہے: القِیامۃ =کھڑا ہونا، یعنی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا، پس اسی سے ہیں وہ الفاظ جن سے متعلّق سوال ہُوا، مگر قیامت دو قسم کی ہوتی ہے، ایک نفسانی موت سے برپا ہوتی ہے اور دوسری جسمانی موت سے، جیسا کہ سُورۂ جِنّ (۷۲: ۱۶) میں ارشاد ہے: وَاَنْ لَّوِ اسْتَقَامُوا عَلیَ الطَّرِیقہِ لَاَسْقَیْنٰھُم مّآءً غَدَ قًا =اگر یہ لوگ (منزلِ) طریقت پر مرکر زندہ ہوجاتے تو ہم ان کو بہت زیادہ پانی پلا دیتے (یعنی بہت زیادہ علم عطا کرتے)۔ اس آیۂ کریمہ میں بھی ۴۱: ۳۰ ہی کی طرح انتہائی عجیب و غریب انقلابی حکمتیں ہیں۔

 

۸۵

 

صندوقِ جواہر۔ ۹

 

سوال -۸۱ : آیا اِس آیۂ شریفہ میں بطریقِ حکمت نفسانی موت اور روحانی قیامت کا کوئی ذکر موجود ہے؟ وہ ارشاد یہ ہے: قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍاَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰہِ مَثْنیٰ وَفُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُ وْا…(۳۴: ۴۶) (اے پیغمبر، ان لوگوں سے) کہو کہ میں بطورِ نصیحت تم سے صرف ایک بات کہتا ہوں کہ خدا کے لئے دو دو اور اکیلے اکیلے کھڑے ہوجاؤ پھر سوچو…. – جواب: جی ہاں، اِس حکمِ عالی میں نفسانی موت اور روحانی قیامت کا عظیم الشّان ذکر ہے، وہ اِس طرح سے ہے: دین کی سب سے اعلیٰ اورسب سے عظیم نصیحت یہ ہے کہ اہلِ ایمان سب کے سب جہادِ اکبر کے حکم پر عمل کریں، تاکہ وہ جیتے جی مرکر زندہ ہوجائیں گے، جس میں انہیں کثرت سے وحدت کی طرف جانے کے لئے پہلے دو دو ہو کر کھڑا (یعنی زندہ) ہونا ہے، اور اس کے بعد آگے جاکر مرتبۂ عقل پر اکیلے اکیلے، یہ ہوئی خدا کے لئے دو دو اور اکیلے اکیلے کھڑے ہوجانے کی تاویلی حکمت۔

سوال-۸۲:  افرادِ بشر جسمانی طور پر الگ الگ وقتوں میں پیدا

 

۸۶

 

ہوتے ہیں، اور اسی طرح جُدا جُدا اوقات میں مرجاتے ہیں، لیکن یہ معلوم نہیں کہ قیامت انفرادی ہے یا اجتماعی؟ کیا آپ اِس باب میں کچھ بتا سکتے ہیں؟ جواب: آپ نے انسانوں کی ظاہری پیدائش کے بارے میں درست کہا، لیکن روحانی تخلیق کی بات ہی نہیں ہوئی کہ نفسِ واحدہ سے سب لوگ بشکلِ ذرّات پیدا کئے جاتے ہیں، اور قرآنِ عزیز میں اس کا ذکر اور اشارہ بار بار آیا ہے، پس قیامت کے دو پہلو ہیں: شعوری، اور غیر شعوری، یعنی عارف کی انفرادی قیامت شعوری ہے، اور اسی کے ساتھ ساتھ جُملہ خلائق کی اجتماعی قیامت غیر شعوری، اور لوگوں کی ایسی قیامت کا تجدّد ہوتا رہتا ہے۔

سوال – ۸۳: یہ دو پہلو والی قیامت کس قسم کی موت سے برپا ہوتی ہے؟ عامیانہ موت سے، یا عارفانہ موت سے؟ -جواب:  عارف کے عالمِ شخصی میں سب کچھ ہے، کیونکہ نورِ امامت میں سب کچھ موجود ہونے کا ثانوی مظاہرہ عارف میں ہوتا ہے، پس مومنِ سالک (عارف) کی نفسانی موت سے قیامت کا آغاز ہو جاتا ہے، جیسا کہ رسولِ اکرمؐ کا ارشاد ہے: مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ =جو شخص (جیتے جی) مرتا ہے اس کی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ اگر مذکورہ موت، قیامت، اور چشمِ معرفت کا امکان دنیا ہی میں نہ ہوتا، تو قرآنِ حکیم نہ فرماتا کہ: جو اِس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا…. (۱۷: ۷۲)۔

 

۸۷

 

سوال- ۸۴: سورۂ ذاریات کے شروع (۵۱: ۰۱) میں ہے: وَالذّٰرِیٰتِ ذَرْوًا = بکھیر والیوں کی قسم جو اُڑا کر بکھیر دیتی ہیں۔ آپ نے کہا تھا کہ اللہ جلّ شانہ نے قرآن میں صرف مقدّس و مُعَظّم چیزوں کی قسم کھائی ہے، لیکن کیا یہاں ہواؤں کی قسم نہیں ہے؟ -جواب:  نہیں نہیں، اللہ پاک نے ان فرشتوں کی قسم کھائی ہے جو اسرافیلی و عزرائیلی منزل کی نیک بخت روح کے ذرّات کو کائنات میں بکھیر دیتے ہیں، آپ روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کو پڑھیں۔

سوال – ۸۵: قرآنِ مجید کے چار مقامات پر ارشاد ہے: یُدَبِرُّ الْاَمْرَ۔ اس کے اصل معنی کیا ہیں؟ اور سُورۂ نازعات (۷۹: ۰۵) میں جو ارشاد ہے: فَالْمُدَبِرّاتِ اَمْراً اس کا درست مطلب کیا ہے؟ -جواب:  یدبّر الامر کے معنی ہیں: اللہ تعالیٰ کلمۂ امر (کُنْ =ہوجا) کا اِعادہ فرماتا رہتا ہے، کیونکہ اس کی صفتِ خالقیّت قدیم ہے، اور دوسرے سوال کے مطابق فرشتے مدبّراتِ امر اس معنی میں ہیں کہ وہ منزلِ فنا میں روحِ سالک کو بار بار قبض کر کے کائنات میں بکھیر دیتے ہیں، اور بار بار واپس بدن میں ڈال دیتے ہیں، تاکہ بے شمار کاپیاں ہوجائیں۔

سوال- ۸۶: اہلِ ایمان کے لئے قرآنِ مقدّس کے بابرکت خزانوں میں کس چیز کی کمی ہے، خدا کی قسم، نور کی روشنی میں کوئی کمی نہیں، چنانچہ ہمیں یقین ہے کہ قرآنِ پاک میں مقبول دعاؤں کا گنجِ گرانمایہ بھی ہے،

 

۸۸

 

پس آپ ایسی چند دعاؤں کی طرف اشارہ کریں -جواب:  ہر پاک دعا سے فیضیاب ہونے کے لئے پاکدلی ضروری شرط ہے، جس کا ایک بہترین طریقہ عاجزی اور گزیہ وزاری ہے، آپ تَضَرُّ عْ کی حکمت سے متعلق آٹھ آیاتِ کریمہ کو خوب غور و فکر سے پڑھیں، اور دیکھئے کہ دل کی سختی بد ترین رکاوٹ ہے، ورنہ عاجزی اور گریہ وزاری سے بڑی بڑی بلائیں ٹل جاتی ہیں (۰۶: ۴۳) پس تَضَرُّعْ (عاجزی اور نیازِ پنہانی) کی آسمانی تعلیم اِن آیات میں ہے: ۰۶: ۴۳، ۰۶: ۴۲، ۲۳: ۷۶، ۰۷: ۹۴، ۰۶: ۶۳، ۰۷: ۵۵، ۰۷: ۲۰۵، آپ ضرور اِن آیاتِ مقدّسہ کی حکمت پر عمل کریں۔

سوال – ۸۷: آپ ہمیشہ گریہ وزای اور آسمانی عشق کی تعریف کرتے ہیں، اِس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ -جواب:  اس میں بہت بڑی بُنیادی حکمت یہ ہے کہ جُملہ عظیم حکمتوں کا دروازہ اِسی طریقِ کار سے کُھل جاتا ہے، عاشقانہ گریہ وزاری میں اللہ تعالیٰ کا خاموش معجزہ مومنین و مومنات کے حق میں کائناتی خیر کا کام کرتا ہے، قرآنِ حکیم میں یقیناً عظیم الشّان دعائیں بہت ہیں، لیکن ضروی طور پر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مقبول دعاؤں کے خاص خاص طریقے کیا ہیں؟ اور کیا کیا شرطیں ہیں؟

سوال – ۸۸: سُورۂ ہود کی اِس آیۂ مبارکہ (۱۱: ۷۵) کا اصل ترجمہ اور مطلب کیا ہے؟ وہ آیت یہ ہے: اِنَّ اِبْرٰاھِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاۃٌ مُّنِیبٌ۔ -جواب:  اس میں سب سے پہلے اَوَّاہ کی وضاحت ضروری ہے کہ

 

۸۹

 

اَوَّاہ کے معنی ہیں بہت آہیں بھرنے والا، پس آیۂ مقدّسہ کا ترجمہ یہ ہے: بیشک ابراہیمؑ بڑا بُردبار (خدا کی یاد میں ) آہیں بھرنے والا (اور) رجوع کرنے والا تھا (۱۱: ۷۵)۔ آپ الاَوَّ اہ کے لئے دیکھیں: المنجد اور مُفرداتُ القرآن۔

سوال – ۸۹: کیا آپ کو حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے آہیں بھرنے کی کوئی معرفت حاصل ہے؟ کیا وہ آہ کسی مریض کے کراہنے کی طرح ہے؟ کیا آپ نے کسی غمگین یا دردمند کی آہوں کو سُنا ہے؟ یا کسی معصوم بچّے کی فطری آہوں کو؟ -جواب:  آہیں گریہ وزاری سے بھی اعلیٰ ہیں، کیونکہ یہ وہ چیزہے جو رو رو کر تھک جانے کے بعد پیدا ہو جاتی ہے، آپ کسی دن تنہائی اور پنہانی کے عالم میں عاشقانہ آہوں سے ذکر کریں اور دیکھیں کہ کس حد تک کامیابی ہوتی ہے، مگر آپ ایسے بھیدوں کو لوگوں پر ہر گز ظاہر نہ کریں، ورنہ نقصان ہو گا۔

سوال -۹۰:  شب بیداری میں کیا راز ہے؟ ذکرِ کثیر کے کیا کیا فائدے ہیں؟ کثرتِ سجود کی کیا فضلیت ہے؟ دل کی سختی جو بدترین روحانی بیماری ہے، اس کا علاج کس طرح ہوسکتا ہے؟ -جواب:  شب بیداری سے علمی اور عقلی گفتگو میں ترقی ہوتی ہے، ذکرِ کثیر کے بہت سے فوائد ہیں، اور اس کا ایک اساسی فائدہ عاجزی ہے، کثرتِ سُجود کے بے شمار فائدے ہیں اور اس سے

 

۹۰

 

ہر نیک دعا قبول ہوجاتی ہے، اور قساوتِ قلبی (دل کی سختی) کی بیماری کا علاج بار بار کی گریہ وزاری ہے۔

 

۹۱

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۰

 

سوال – ۹۱: سُورۂ اعراف کے آخر (۰۷: ۲۰۵) میں ذکرِ نفسی (ذکرِ قلبی) کا خاص بیان موجود ہے، کیا آپ اس کی کچھ وضاحت کریں گے؟ -جواب: اس کا ترجمہ یہ ہے: اور اپنے ربّ کو دل ہی دل میں تَضَرُّع اور خوف کے ساتھ یاد کرو اور قول کے اعتبار سے بھی اسے کم بلند آواز سے صبح و شام یاد کرو اور خبردار غافلوں میں نہ ہوجاؤ۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ہر شخص خدا کو اپنی علمی رسائی کے مطابق یاد کرتا ہے، لیکن عُرَفاء کے نزدیک دل میں خدا کو یاد کرنا یہ ہے کہ دیدار اور اس کے اسرار کو یاد کیا جائے، تَضَرُّع جو گریہ وزاری ہے، وہ توبہ بھی ہے، مناجات بھی، خوفِ خدا بھی، شکرگزاری بھی، اور عشقِ سماوی بھی، اس مقامِ عالی پر تَضَرُّعْ اور خوفِ خدا کا انتہائی عظیم فائدہ یہ ہے کہ اس سے اسرارِ معرفت میں مزید انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔

سوال – ۹۲:  حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کا قصّہ ہے کہ آپؑ نے کہا تھا: فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ =پس جو شخص میری پَیروی کرے تو وہ مجھ سے ہے (۱۴: ۳۶) آپ یہ بتائیں کہ اس کی حکمت کیا ہے؟ حضرتِ

 

۹۲

 

ابراہیمؑ کا پَیرو کس طرح خلیل اللہؑ کا بیٹا یا حصّہ ہوسکتا تھا؟ ایسا کوئی امکان ظاہر میں ہے، یا باطن میں؟  -جواب: اِتِّباع یا پَیروی کے معنی ہیں کسی کے پیچھے پیچھے چلنا، اور جو شخص پیغمبر کی کامل پَیروی کرتا ہے، وہ یقیناً منزلِ مقصود میں پہنچ کر اپنے نبی کے ساتھ ایک ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں ہر کامیاب پَیرو اپنے پیغمبر کا روحانی فرزند ہوسکتا ہے، اور جب یہ اُس میں فنا ہوچکا ہے تو باطن میں بہت کچھ ہوسکتا ہے۔

سوال -۹۳:  اسلام کسی معنیٰ میں دینِ فطرت کہلاتا ہے؟ وہ حدیثِ شریف کونسی ہے، جس کے ارشاد کے مطالق اسلام کا نام “فطرت” ہے؟  -جواب:  چونکہ اسلام قانونِ فطرت کے مطابق ہے، بلکہ یہ خود قانونِ فطرت ہے، اس لئے اس کو کبھی دینِ فطرت کہتے ہیں، اور کبھی صرف فطرت کے نام سے یاد کرتے ہیں، اور وہ حدیثِ شریف، جس میں اسلام کا نام “فطرت” ہے، اس طرح سے ہے: کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ وَاَبَوَاہُ یُھَوِّ دَانِہٖ اَوْ یُنَصِّراَنِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ=ہر بچّہ فطرت (یعنی اسلام ) پر پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (ہزار حکمت، فطرت)۔

سوال – ۹۴: سُورۂ تکویر (۸۱: ۱۱) میں ارشاد ہے: وَاِذا السَّمَآءُ کُشِطَتْ =اور جب آسمان کا چھلکا اُتار دیا جائے گا۔ کیا آسمان کا چھلکا ہے؟ اگر نہیں تو اس کی تاویلی حکمت کیا ہے؟ یہ کس آسمان کا ذکر ہے؟

 

۹۳

 

-جواب: عالمِ ظاہر چھلکا اور حجاب ہے، اس میں عالمِ باطن مغزِ محجوب ہے، چنانچہ جب کسی عارف پر روحانی قیامت قائم ہو جاتی ہے تو اس حال میں حقائق و معارف سے حجابات اُٹھا لئے جاتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائناتِ ظاہر چھلکا ہے، اور عالمِ شخصی اس کا اصل میوہ اور مغز ہے۔

سوال – ۹۵: آپ کے نزدیک عالمِ شخصی کا موضوع اور بیان اتنا ضروری اور لازمی کیوں ہے کہ اکثر و بیشتر آپ اسی کو زیرِ بحث لاتے ہیں؟ آیا قرآن و حدیث سے اِس مضمون کی بہت بڑی اہمیّت کا ثبوت ملتا ہے؟  -جواب: اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جس زندہ اور باشعور عالم کا خالق، مالک، اور پروردگار ہے، وہ عالمِ شخصی ہی ہے، جس کا ذکرِ جمیل بصیغۂ جمع (العالمین) قرآنِ عظیم کے کُلّ ۷۳ مقامات پر موجود ہے، صرف یہی نہیں، بلکہ لفظِ انسان میں بھی عالمِ شخصی ہی پوشیدہ ہے (۶۵دفعہ) ناس (لوگ) بھی عالمِ شخصی ہی کا ایک نام ہے (۲۴۰ دفعہ) الغرض نبی، ولی مومن اور کافر سبھی عالمِ شخصی ہیں، اور قرآنِ حکیم کا کوئی حصّہ ایسا نہیں، جس میں عالمِ شخصی کا کوئی ذکر نہ ہو، اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ معرفت کے تمام خزانے عالمِ شخصی کے سِوا اور کہیں سے نہیں مل سکتے ہیں، جیسا کہ ارشادِ مَنْ عَرَف ہے۔

سوال – ۹۶:  ارشادِ نبوّی ہے: اَعْرَفُکُمْ بِنَفْسِہٖ اَعْرَفُکُمْ بِرَبِّہٖ = تم میں جو شخص سب سے زیادہ اپنے آپ کو

 

۹۴

 

پہچانتا ہے، وہی شخص تم میں سب سے زیادہ اپنے پروردگار کو پہچانتا ہے، آیا یہ حدیث عالمِ شخصی کی بہت بڑی اہمیّت و ضرورت کی دلیلِ کامل ہے؟  -جواب: جی ہاں، کیونکہ اس ارشاد میں یہ فرمایا گیا ہے کہ حضرتِ ربّ کی معرفت کا واحد مقام صرف انسانی نفس (جان =روح) ہی ہے، اور بس، اور معرفت دیدار کے بغیر کیونکر ممکن ہوسکتی ہے، نیز یہ بھی سوچنا ہے کہ جہاں خدا کا دیدار ہو، وہاں کیا نہیں ہوگا، عرش؟ کُرسی؟ قلم؟ لوح؟ ملائکہ؟ جنّت؟ لامکان؟ خزائن؟ ازل؟ ابد؟ اسرار؟ حظیرۂ قدس؟ عِلّیّین؟ وغیرہ؟

سوال – ۹۷:  قرآنِ حکیم (۰۲: ۲۵، ۰۳: ۱۵، ۰۴: ۵۷) میں ہے کہ بہشت میں مومنین کے لئے پاک کی ہوئی بیویاں ہیں (ازواجٌ مُّطَھَّرَۃ) ان کو کس نے پاک کیا ہے؟ کس طرح؟ دنیا میں پاکیزگی کتنی قسم کی ہوتی ہے؟ آیا حورِ بہشت کا شوہر بھی نہایت ہی لطیف اور حسین و جمیل ہوگا؟  -جواب: خدائے قادرِ مطلق اہلِ بہشت کی عورتوں اور مردوں کو جسمِ لطیف عطا فرماتا ہے، وہ نورانی بدن ہے، اسی کی وجہ سے وہ پاک و پاکیزہ ہوجاتے ہیں، آپ جسمِ لطیف کو جامۂ جنّت بھی کہہ سکتے ہیں، دُنیا میں جو کاملین ہوتے ہیں، ان میں پانچ قسم کی طہارت (پاکیزگی) ہوتی ہے: بدنی طہارت، اخلاقی طہارت، نظریاتی طہارت، روحانی طہارت، اور عقلی طہارت، جی ہاں، حورانِ بہشت کے شوہران بھی نہایت ہی لطیف اور حسین و جمیل ہونگے۔

 

 

۹۵

 

سوال-۹۸: بہشت کا تذکرہ قرآن اور ایمان میں سے ہے، اور اس کی نعمتوں کی معرفت پہلے پہل علم الیقین کی روشنی میں ہوسکتی ہے، لہٰذا آپ یہ بتائیں کہ جنّت کی بے شمار اور کبھی ختم نہ ہونے والی نعمتوں میں اولاد کی نعمت کس طرح مُہیّا ہوگی؟ -جواب:  أئمّۂ آلِ محمّدؐ اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں، (۱۵: ۲۱، ۳۶: ۱۲) جہاں سے دنیا والوں کو ہر چیز حاصل ہو جاتی ہے، اور اولاد بھی، پس جو مومنین امامِ زمانؑ میں فنا ہو کر خزانہ ہو گئے تھے، وہ بہشت میں جاکر اس کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ کریں گے، جس میں ان کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ وہ نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) ہوگئے تھے، پھر وہ بہشت میں اپنے بہت سے بیٹوں اور بیٹیوں کو دیکھ کر بے حد شادمان ہوجائیں گے۔

سوال – ۹۹: دوزخ کہاں ہے؟ کیا ہے؟ دیدنی ہے یا نادیدنی؟ دائمی ہے یا عارضی؟  -جواب: دوزخ دنیا ہی میں ہے، وہ جہل ہے، دیدنی ہے ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی، دائمی نہیں عارضی ہے، جیسا کہ قرآنی ارشاد کا ترجمہ ہے: ہرگز نہیں اگر تم علم الیقین کو جانتے ہوتے تو دوزخ (یعنی جہل) کو دیکھ سکتے، پھر اُس کو عین الیقین سے دیکھ لیتے (۱۰۲: ۰۵ تا ۰۸) یہ خطاب مومنین و سالکین ہی سے ہے کہ جب تم کو علم الیقین حاصل ہوگا تو تب تم کو پتہ چلے گا کہ دوزخ یعنی جہالت کیا چیز ہوتی ہے، پھر عین الیقین کے مقامات پر بھی تم اس کو دیکھ کر بہشت میں داخل ہو جاؤگے، کیونکہ تم کو دوزخ سے گزر جانا ہے (۱۹: ۷۱)۔

 

۹۶

 

سوال- ۱۰۰: سوال و جواب کے ذریعہ علم بیان کرنے کا یہ طریقہ بے مثال ہے، لیکن ہم ان سوالات کو کس نام سے یاد کریں گے؟ فرضی سوالات؟ تعلیمی سوالات؟ امکانی سوالات؟ علمی سوالات؟ عملی سوالات؟ نمائندہ سوالات؟ بن پوچھے سوالات؟ ناپُرسیدہ سوالات؟ کسی کے دل کے سوالات؟ زبانِ حال کے سوالات؟ اشاراتی سوالات؟ خاموش سوالات؟  -جواب: یہ سب نام اچھّے ہیں، لیکن میں ان حکمتی سوالات کو اپنے تمام شاگردوں سے منسوب کروں گا، جو مجھے بیحد عزیز ہیں، کیونکہ وہی میرے دل و دماغ کے فرشتے ہیں، اس لئے وہی سوال بھی کرتے ہیں، اور وہی خود جواب بھی دیتے ہیں، اور یہ ایک روحانی راز ہے۔

میرے عزیزوں/شاگردوں نے اپنی پیاری جماعت کی جانب سے قرآنِ عظیم، امامِ زمان، دینِ اسلام، اور انسانیّت کے لئے جس قسم کی خدمت انجام دی ہے، وہ اگر خدا چاہے تو بیمثال ثابت ہوسکتی ہے، کیونکہ یہاں بہت سی چیزیں انوکھی اور نرالی ہیں، اور آہستہ آہستہ سب کو معلوم ہوجائے گا کہ سب کے لئے کیسا مفید کام ہُوا ہے۔

اے دوستانِ عزیز! آؤ، ہم سب مل کر اللہ تعالیٰ کی ان عظیم نعمتوں کی عاجزانہ شکر گزاری اور گریہ و زاری کریں، اور فرداً فرداً بھی یہی پسندیدہ عمل کریں، کیونکہ ڈر لگتا ہے کہ ہم سے کہیں ناشکری اور ناقدری نہ ہوجائے، آپ عبادت میں مزید ترقی کریں، اور ہمیشہ دعا کرتے رہیں کہ خداوندِ قدّوس علمی نعمتوں کا دروازہ بند نہ کریں، بحقِّ محمّد و أئمّۂ آلِ محمّد صلّی اللہ علیہ و علیہم اجمعین۔

 

۹۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۱

 

سوال – ۱۰۱: یہ بڑا عجیب و غریب اور زبردست انقلابی سوال سورۂ زُمَر کی ایک پُراز حکمت آیت (۳۹: ۴۲) کے حوالے سے ہے کہ آدمی کی روح ہر بار نیند میں قبض کی جاتی ہے، اور ہر بار بیدار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کو دوبارہ زندہ کیا جاتا ہے، اِس صورتِ حال میں اجزائے زندگی کو اجزائے موت کے ساتھ مِلاکر انسان کیوں کہتا ہے کہ میں زندہ ہوں اور یہ میری زندگی ہے؟ اگر یوں کہنا بالکل درست اور قانونِ فطرت کے عین مطابق ہے، تو کیا ہم اِس بات کا یقین کرسکتے ہیں کہ ہماری حیاتِ جُزوی (یہ زندگی) اپنی حیاتِ کُلّی کی مثال اور دلیل ہے کہ یقیناً اُس میں کچھ نہ کچھ وقفے ہیں، مگر بڑے بڑے؟ -جواب:  بہت خوب، بہت خوب، یہ صرف انقلابی سوال ہی نہیں، بلکہ خود بے مثال جواب بھی ہے، اب ہم (ان شا ء اللہ) اِس عظیم کُلّیہ سے دوسرے بہت سے مسائل کو بھی حل کریں گے، مثال کے طور پر انسان کی حیاتِ سرمدی بہشت ہی میں ہے، ہر چند وہ تمام درجات سے گزر کر بار بار تجدیدِ عمل کے لئے باہر بھی آتا رہتا ہے، اور اسی طرح ہر دفعہ اپنی کُلّی زندگی کو بھول جاتا ہے، جس میں عظیم حکمت پنہان ہے۔

 

۹۸

 

سوال – ۱۰۲:  اس لاجواب کُلّیہ سے حلِّ مسائل کی کوئی دوسری مثال؟ -جواب:  تقریباً سب لوگ بہشت کی سابقہ زندگی بھول چُکے ہیں، چنانچہ جب ایماندار اور نیکوکار لوگوں کو بہشت کے علمی پھلوں سے رزق دیا جائے گا تو وہ یہی کہیں گے کہ یہ نعمت اگلی دفعہ کی جنّت میں بھی ہمیں ملی تھی (۰۲: ۲۵) اس سے معلوم ہوا کہ بہشت لاابتداء اور لاانتہاء دفعات میں لوگوں کو ملتی رہتی ہے، اور ہر دفعہ جامۂ جدیدِ لطیف اور علمِ قدیمِ شریف عطا ہوجاتا ہے، جیسا کہ قول ہے: تھوݽ گٹو جݹ، مݶن شُرو جݹ۔

سوال – ۱۰۳: تیسری مثال؟ -جواب:  قرآنِ حکیم کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ بہشت زمانے کے اہلِ ایمان کو بطورِ میراث ملتی ہے، اور میراث ایسی چیز کو کہتے ہیں، جو ایک سے دوسرے کو وراثتاً پہنچے، جیسا کہ قرآنی ارشاد کا ترجمہ ہے: وہ لوگ وارِثانِ فردوس کے وارث ہوں گے، اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں( ۲۳: ۱۰ تا ۱۱)۔

سوال – ۱۰۴: یہ کس طرح ممکن ہوگا کہ انسان ہمیشہ ہمیشہ بہشت میں بھی رہا کرے، اور ساتھ ہی ساتھ آخرت کی کھیتی باڑی کرنے کی غرض سے بار بار دنیا میں بھی آتا رہے، کیا آپ اس کی درست وضاحت کر سکتے ہیں؟ -جواب:  اِن شاء اللہ تعالیٰ، جاننا چاہیئے کہ خداوندِ عالم نے انسان کو انتہائی عجیب و غریب صلاحیّتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے، اور یہ بہت بڑا معجزہ نہیں تو پھر کیا ہےکہ ہر آدمی کی روحانی نمائندگی نہ

 

۹۹

 

صرف تمام لوگوں ہی میں ہے، بلکہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام میں بھی ہے، اور معلوم ہے کہ بہشت کے درجات کبھی بہشتیوں سے خالی نہیں ہوتے، پس ہر شخص ہمیشہ ہمیشہ مقیمِ جنّت ہے کبھی ذاتی طور پر اور کبھی نمائندگی میں۔

سوال -۱۰۵ : اِس حدیثِ شریف میں اسرارِ عظیم ہوسکتے ہیں، آپ اس کا ترجمہ کریں۔ مَامِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ اِلّاَ لَہٗ مَنْزِلَا نِ: مَنْزِلٌ فِی الْجَنَّۃِ وَ مَنْزِلٌ فِی النَّارِ فَاِنْ مَاتَ وَ دَخَلَ النَّارَ وَرِثَ اَھْل الْجَنَّۃَ مَنْزِلَہ ( المیزان، ج، ۱۵ ص ۱۶)-جواب:   رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص کے لئے دو منزلیں ہیں: ایک دوزخ میں اور ایک جنّت میں، پس جو مرکر دوزخ میں داخل ہُوا تو اہلِ جنّت اس کی جنّت کی منزل کے وارث ہوں گے۔

سوال-۱۰۶ : اِس میں کوئی شک ہی نہیں کہ سرتا سر قرآنِ مجید میں جنّت اور اس کی ہر گونہ نعمت کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، تاہم سُورۂ توبہ (۰۹: ۷۲) میں یہ ارشاد بھی موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی (رِضوان اللہ) بہشت سے بہت بڑی چیز ہے، کیا آپ ہمیں اس کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کریں گے؟ -جواب:  اگر خداوندِ قدّوس کی عنایت ہوئی تو میں سعی کروں گا، اُس آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: اللہ نے مومنین اور مومنات سے ان باغات کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، ان جنّاتِ عدن

 

۱۰۰

 

میں پاکیزہ مکانات ہیں اور اللہ کی خوشنودی تو سب سے بڑی چیز ہے (وَ رِضوانٌ مِّن اللہ اکبر)اور یہی ایک عظیم کامیابی ہے (۰۹: ۷۲) بہشت کی کوئی چیز قدسی روح اور کامل عقل کے سوا نہیں، یعنی بہشت عالمِ شخصی کی صورت میں ہے، چونکہ وہ معجزاتی شیٔ ہے، اس لئے پھیل کر کائنات کے برابر بھی ہوتی ہے او ر محدود ہوکر انسانی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے۔

اگر آپ نے سچ مُچ حضرتِ امامِ عالیمقامؑ کو نورانی قالب میں دیکھا تھا، تو وہی بہشت ہے، فرشتہ ہے، روح ہے، جسمِ لطیف ہے، آپ کی اپنی انائے عُلوی ہے، عالمِ لطیف ہے، مومن جِنّ ہے، زندہ معجزہ ہے، نور ہے، تجلّیٔ طور ہے، اور یہ وہ فرشتہ ہے، جس کا نام رِضوان ہے، کیونکہ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کو خداوندِ تعالیٰ نے ایسا جامعِ جوامع اور کُلِّ کُلّیات بنا دیا ہے کہ اس کے معجزاتی احاطے سے کوئی چیز باہر نہیں ہے، پس امام فرشتۂ رضوان ہے، جو اللہ کی زندہ اور پُرنور خوشنودی بھی ہے، اور بہشت پر مُؤکَلّ بھی، جیسے سُورۂ زُمَر (۳۹: ۷۳) میں بہشت کے خازِنوں کے خَزَنَۃ (واحد خازِن) کہا گیا ہے۔

سوال – ۱۰۷: قرآنِ حکیم میں طرح طرح کی مثالیں وارد ہوئی ہیں، جو مغزِ حکمت سے مملو ہیں، کیا ان میں کوئی ایسی مثال بھی ہے: اہلِ بہشت کی مہمانی؟ اہلِ دوزخ کی مہمانی؟ اگر ایسی مثال موجود ہے، تو آیا یہ اس بات کا اشارہ ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ وہاں سے نکل جانے والے ہیں؟ -جواب: جی ہاں، قرآنِ مقدّس میں مِن جُملہ یہ مثال بھی آئی ہے، اور

 

۱۰۱

 

مجھے یقین ہے کہ اس کا اشارہ وہی ہے جو آپ نے کہا، لیکن ان مہمانوں کے آنے جانے کا گول سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری ہے، اور مہمانی یا ضیافت کا لفظ: نُزُل /نُزُلاً ہے، جس کا ذکر قرآنِ پاک کے آٹھ مقامات پر ہے ( ۵۶: ۹۳، ۰۳: ۱۹۸، ۱۸: ۱۰۲، ۱۸: ۱۰۷، ۳۲: ۱۹، ۳۷: ۶۲، ۴۱: ۳۲، ۵۶: ۵۶)۔

سوال – ۱۰۸: آپ یہ بتائیں کہ وہ آیہ کریمہ کونسی ہے، اور کہاں ہے، جس میں یہ ارشاد ہُوا ہے کہ ہر چیز ایک دائرے پر گردش کررہی ہے؟ -جواب:  وہ آیۂ شریفہ یہ ہے: کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ (۲۱: ۳۳، ۳۶: ۴۰)۔ ہر قانون کا اشارہ سب سے پہلے اور سب سے ضروری طور پر انسان کی طرف ہوتا ہے، پس معلوم ہُوا کہ انسان کے لئے تختِ مُساوات بھی ہے، اور دائرۂ درجات بھی۔

سوال – ۱۰۹:  آپ اِس آیۂ مبارکہ کا مطلب کس طرح سمجھائیں گے: لَا نُفَرِّ قُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُسُلِہٖ ( ہم خدا کے پیغمبروں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے ۰۲: ۲۸۵)؟ -جواب:  اگرچہ پیغمبروں کے ذاتی درجات مختلف ہیں، لیکن اُمتّوں کے لئے ان کے پاس جو نورِ ہدایت ہے، اس میں مُساوات (برابری) ہے، جس میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ ہر زمانے کے لوگوں کا حق ہے کہ ان کو مکمل ہدایت ملے۔

سوال -۱۱۰: بحوالۂ جامِعِ ترمذی، جلدِ دوم، حدیث ۲۳۶۳۔

 

۱۰۲

 

بازارِ جنّت کی تصویروں کی بابت پوچھنا ہے کہ وہ کیسی تصویریں ہیں؟ خاموش ہیں، یا متحرّک؟ کیا وہ روحی اور عقلی ہیں؟ آیا ان میں کاملین کی تصویریں بھی ہیں؟ کیا وہ سب کے سب الگ الگ ہیں، یا ایک ہی تصویر میں جُملہ تصویریں پوشیدہ ہیں؟ -جواب:  وہ تصویریں اہلِ بہشت ہی کی طرح زندہ ہیں، ظاہر ہے کہ وہ روحانی اور عقلانی ہیں، ان میں انسانانِ کامل کی تصویریں بھی ہیں، یہ عالمِ شخصی کی وہ واحد تصویر ہے، جس کا نام صورتِ رحمان ہے، اور یہی تمام صورتوں کا یکتا خزانہ ہے۔

 

۱۰۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۲

 

سوال -۱۱۱:  بہشت میں کوئی نعمت غیر ممکن نہیں، چنانچہ ایک بہشتی خود کو آدم جیسا دیکھنا چاہتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کی یہ خواہش بھی ہے کہ وہ ایک ایسا فرشتہ ثابت ہوجائے، جس نے دیگر فرشتوں کے ساتھ آدم کے لئے سجدہ کیا تھا، کیا یہ بات اس کے لئے ممکن ہے؟ -جواب:  کیوں نہیں، سُورۂ اعراف( ۰۷: ۱۱) میں غور سے دیکھیں، کہ جو قصّہ آدم کا ہے، وہی سب کا ہے، کیونکہ وہاں روحانی قیامت برپا ہورہی تھی، اور ہر روح (فرشتہ) بشکلِ ذرّہ جب سجدہ کُنان آدم کی ہستی میں گرجاتی، تو آدم کی بےشمار کاپیوں میں سے ایک کاپی ہو کر نکلتی تھی، پس یہ حقیقت ہے کہ بہشت میں ہر نعمت عظمیٰ مل جاتی ہے، اور کاملین پر جو قیامت گزرتی ہے، وہ ایک جدید بہشت بنانے کی غرض سے ہے۔

سوال -۱۱۲: ایک حدیث کا ترجمہ ہے: تُو ہرگز پورا فقیہ نہ ہوسکے گا جب تک قرآن کی بکثرت و جوہ کو نہ دیکھے۔ یہ حدیث کس کتاب میں ہے؟ قرآن کی بکثرت وجوہ  سے کیا مراد ہے؟ -جواب:  کتاب الاتقان، جلدِ اوّل، نوع ۳۹ کو پڑھیں، بکثرت وجوہ سے قرآن کے

 

۱۰۴

 

کثیر پہلو مراد ہیں، کیونکہ قرآن بہت سے پہلوؤں کا حامل ہے، جیسے حدیث شریف میں آیا ہے کہ: القراٰنُ ذُلُوْلٌ ذُوْ وُجُوْہٍ فَاحْمَلُوْ ہُ عَلٰی اَحْسَنِ وُجُوْ ھِہٖ =یعنی قرآن بہت ہی رام ہوجانے والی چیز ہے، اور وہ متعدد پہلو (وجوہ) رکھتا ہے، لہٰذا تم اسے اس کی بہترین وجہ پر محمول کرو۔ (الاتقان، جلدِ دوم، نوع ۷۸)۔

سوال – ۱۱۳: آپ اِس آیۂ کریمہ کی تاویلی حکمت بیان کریں: وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًامِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہُ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ …. (۰۴: ۱۲۵)  -جواب:   ترجمۂ آیت: اور اس شخص سے دین میں بہتر کون ہوگا جس نے خدا کے سامنے اپنا سرِ تسلیم جُھکا دیا، اور وہ نیکو کار بھی ہے۔ تاویلی حکمت: …. جس نے اپنا چہرۂ جان خدا کے سپُرد کر دیا، یعنی صورتِ رحمان میں فنا ہوگیا، اور ملّتِ ابراھیمؑ کی پیروی یہی ہے، جیسا کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے کہا تھا: میں نے اپنا چہرۂ جان خدا کے لئے قرار دیا، یعنی صورتِ رحمان میں فنا کردیا (مفہوم: ۰۶: ۷۹)۔ اور یہ ارشاد بھی ہے: اور جو شخص اپنا چہرۂ جان خُدا کے سپُرد کردے اور وہ نیکوکار بھی ہو تو بیشک اس نے مضبوط حلقہ ہاتھ میں پکڑا (۳۱: ۲۲)۔ اور یہ آنحضرتؐ کی شان میں ہے: اے پیغمبرؐ اگر یہ لوگ آپ سے کٹ حُجّتی کریں تو کہہ دیجئے کہ میں نے اپنا چہرۂ جان خدا کے سپرد کردیا ہے اور جو میرے تابع ہیں (انہوں نے بھی ۰۳: ۲۰)۔

 

۱۰۵

 

سوال – ۱۱۴:  اہلِ ایمان کے بہترین رُفَقاء کون ہیں؟ یہ رَفاقت کہاں کہاں ہوسکتی ہے؟ اور کس طرح؟ -جواب:  وہ حضرات ناطقان، اساسان، امامان، اور حُجّتان ہیں، یہ قابلِ ستائش اور بیمثال رفاقت صراطِ مستقیم (راہِ روحانیّت) پر بھی ہے اور بہشت میں بھی، نورانی ہدایت، روحانی قیامت اور دائمی جنّت کے ماحول میں، یعنی قدم بقدم اور منزل بمنزل علم و حکمت کی روشنی کے ساتھ (۰۴: ۶۹)۔

سوال – ۱۱۵:  سورۂ غافر (۴۰: ۱۵) میں ہے: رَفیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُوْالعَرْشِ۔ اس کا درست ترجمہ کیا ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ عرش کے ساتھ درجات کی کیا مناسبت ہے؟ -جواب:  ترجمہ: (خدا) درجات کا بلند کرنے والا ہے، صاحبِ عرش ہے۔ یہاں عرش کا ذکر اس لئے فرمایا ہے کہ اللہ جس کو چاہے عرش تک بلند کردیتا ہے، اور کسی کو عرش یا حاملِ عرش کا درجہ بھی دے سکتا ہے، جبکہ عرش مخلوق ہے۔

سوال -۱۱۶: سورۂ اِنفِطار (۸۲: ۱۰ تا ۱۱) میں ہے: وَاِنَّ عَلَیْکُم لَحٰفِظِیْنَ۔ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ۔ ان دونوں آیتوں کا صحیح ترجمہ کریں، اور یہ بتائیں کہ اعمال ریکارڈ کرنے والے فرشتے دو ہیں یا زیادہ؟ یہاں یہ سوال بھی ہے کہ لفظ “کرام” میں کریم اور کرم کے معنی بھی ہیں یا نہیں؟ -جواب:  ترجمہ: اور بیشک تم پر ہر چیز ریکارڈ کرنے والے (نیز حفاظت کرنے والے فرشتے) مقرّر ہیں، معزز لکھنے والے ہیں۔ یہ فرشتے دو بھی ہیں،

 

۱۰۶

 

اور بہت زیادہ بھی ہیں، کیونکہ دونوں کی جگہ باری باری سے بہت سے فرشتے آتے جاتے رہتے ہیں، لفظِ کِرام میں کئی اچھے اچھے معانی ہیں، المنجد میں دیکھیں۔

سوال – ۱۱۷: آپ کہتے ہیں کہ مٹی کی قبر میں انسانی روح موجود نہیں ہوتی، ایسے میں وہ تمام قبریں کہاں واقع ہیں، جن کا ذکر قرآن و حدیث میں آیا ہے؟ -جواب:  مٹی کی قبر مثال ہے، اور اس کی ممثول قبر عالمِ شخصی میں ہے، اور مَیِّتْ (مردہ) سے متعلق جتنے شرعی امور ہیں، ان میں ضروری تاویلات ہیں، جن کا مطالعہ آپ تاویلی کتابوں میں کر سکتے ہیں۔

سوال – ۱۱۸: سُورۂ تو بہ (۰۹: ۳۳) سُورۂ فتح (۴۸: ۲۸) اور سُورۂ صف (۶۱: ۰۹) میں ایک ہی عظیم الشّان آیت دُہرائی گئی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اس میں سوال یہ ہے کہ اسلام جو دینِ حق کے  ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اس میں سوال یہ ہے کہ اسلام جو دینِ حق ہے، وہ اس وعدۂ الٰہی کے مطابق باقی تمام ادیان پر کب غالب آئیگا؟ -جواب:  دینِ حق کی غالبیّت اور فتح قیامت کی روحانی جنگ سے حاصل ہوتی آئی ہے، یعنی آیۂ یَوْمَ نَدْعُوْا (۱۷: ۷۱) کے مطابق ہر امامِ زمان کے توسط سے قیامت برپا ہوئی، جس میں امامِ عالیمقامؑ نے رسولِ اکرمؐ کے جانشین

 

۱۰۷

 

کی حیثیّت سے حربِ روحانی کا مقدّس فریضہ انجام دیا، جس کی وجہ سے دینِ حق ادیانِ باطل پر ہر بار غالب آتا رہا، اور اس روحانی فتح کا تجدُّد تقریباً اُنچاس بار ہوچکا ہے۔

سوال – ۱۱۹: اسلام کی مذکورہ روحانی فتوحات کے سلسلے کا آغاز کب سے ہُوا؟ اور اس کا قرآنی ثبوت کیا ہے؟ -جواب:  دَورِ ششم کے اعتبار سے اوّلین باطنی قیامت اور روحانی فتح آنحضرتؐ کے زمانے میں ہوئی، جس کا نمایان ذکر سُورۂ فتح میں ہے، جس کی پہلی دلیل فتحِ مُبین (۴۸: ۰۱) ہے، جو نتیجۂ قیامت  اور تسخیر کائنات کی صورت میں دینِ فطرت کی عالمگیر روحانی فتح ہے، اور اس سُورہ میں بغور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں قیامت، روحانی جنگ، اور عالمگیر فتح کے اشارے ہیں، خصوصاً آیت ہو الذّی ارسل ….(۴۸: ۲۸)کا ارشاد۔

حضورِ پاکؐ کی اسی روحانی فتحمندی کا ذکرِ جمیل سُورۂ نصر (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۲) میں اس طرح سے ہے: (اے رسولؐ) جب خدا کی مدد آچکی اور (روحانی) فتح ہونے لگی، تو تم نے لوگوں کو دیکھا کہ (بشکلِ ذرّات) فوج در فوج خدا کے دین (تمہاری ہستی) میں داخل ہورہے تھے۔

سوال- ۱۲۰: اے رسولؐ، لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبّت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبّت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا، وہ بڑا معاف

 

۱۰۸

 

کرنے والا اور رحیم ہے (۰۳: ۳۱) آیا رسولؐ کی پَیروی کے لئے کوئی شرط ہے؟ آیا اسی پَیروی کا نام صراطِ مستقیم ہے؟ صراطِ مستقیم کی منزلِ مقصود کیا ہے اور کہاں ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں کہتے ہیں کہ اگر کسی کو خدا، رسولؐ اور امام سے کامل عشق و محبّت ہے، تو اسی میں سب سے بڑی کامیابی ہے، کیا یہ درست ہے؟ -جواب:  رسولؐ کی پَیروی کے لئے امامِ زمانؑ کی پَیروی شرط ہے، جی ہاں، یہی پَیروی صراطِ مستقیم ہی ہے، جس کی منزلِ مقصود خدا کی معرفت ہے، اور وہ عالمِ شخصی میں ہے، جی ہاں، یہ بالکل درست ہے کہ اللہ، رسولؐ، اور امامِ زمانؑ کے عشق و محبّت میں سب سے عظیم کامیابی ہے۔

 

۱۰۹

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۳

 

سوال – ۱۲۱: آپ نے کہا تھا کہ خدا کی خدائی میں ایک طرف دَرجَات کا قانون ہے، اور دوسری طرف مُساوات کا، اب آپ یہ بتائیں کہ کسی شخص کو کوئی درجہ کس بِناء پر نصیب ہوتا ہے؟ نیز یہ سمجھائیں کہ دَرَجات کی کیا مثال ہوسکتی ہے؟ -جواب: اللہ لوگوں کو ان کے علم و عمل کے مطابق درجات سے نوازتا ہے، درجات کی مثال سیڑھی ہے، جس پر زینہ بزینہ چھت تک چڑھا جاتا ہے، پس درجات اور سیڑھی (۷۰: ۰۳) سے یہ معلوم ہوا کہ قرآنِ عظیم کے خاص خاص الفاظ میں ذیل کی طرح اشارۂ معراجِ روحانی موجود ہے:-

ایمان ____تقویٰ____علم____عمل____ہدایت____عبادت، وغیرہ وغیرہ۔

سوال -۱۲۲: سورۂ فاطِر (۳۵: ۱۰) میں ہے: اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصّالِحُ یَرْفَعُہٗ =اس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے، اور عملِ صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے۔

 

۱۱۰

 

اس ارشاد کی کوئی حکمت بیان کریں۔ -جواب: جس طرح مومنِ سالک کو فنا فی اللہ کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے، اسی طرح اس کا پاکیزہ قول اور نیک عمل بھی خدا میں فنا ہوجاتا ہے، اور یہ معرفت کا بہت بڑا راز ہے۔

سوال – ۱۲۳: حدیثِ شریف ہے: رَجَعْنَا مِنَ الْجِھَادِ الْاَصْغَرِ اِلیَ الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ =حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے فرمایا: ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ یہاں بڑا اہم سوال یہ ہے کہ آیا جہادِ اکبر میں مومنِ مجاہد اپنے نفس ہی کو قتل کرتا ہے؟ آخر کیوں؟ کیا اسی اختیاری موت سے روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے؟ -جواب:  جی ہاں، جہادِ اکبر کی اصل کامیابی اس بات میں ہےکہ مجاہد اپنے نفس کو خصوصی ریاضت سے قتل کر سکے، تاکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو، جس میں سب کچھ ہے، ہاں جہادِ اکبر سے روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔

سوال -۱۲۴: بعض عُلَماء کا کہنا ہے کہ جہاد تین قسم پر ہے: (۱) ظاہری دشمن یعنی کفّار سے جہاد کرنا (۲) شیطان اور (۳) نفس سے مجاہدہ کرنا، لیکن جہادِ اکبر کے معنی میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں (شیطان اور نفس) کے خلاف ایک ہی جہاد ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟ اور یہ بھی بتائیں کہ قرآنِ مقدّس میں جہادِ اکبر کا تذکرہ یا اشارہ کہاں ہے؟ -جواب:  درست ہے شیطان اور نفس کے خلاف ایک ہی جنگ

 

۱۱۱

 

ہے، اور وہی جہادِ اکبر ہے، لیکن اس میں حقیقی علم کی بڑی سخت ضرورت ہے، جس کے بغیر کوئی کامیابی ممکن نہیں، اور جہادِ باطن (جہادِ اکبر) کے بارے میں قرآنِ حکیم کی دو عظیم شہادتیں کافی ہیں، وہ یہ ہیں: سورۂ عنکبوت (۲۹: ۶۹) اور سورۂ حج (۲۲: ۷۸)۔

سوال – ۱۲۵: حدیثِ شریف ہے: اَعْدیٰ عُدُوِّکَ نَفْسُکَ الَّتِیْ بَیْنَ جَنْبَیْکَ = تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا وہ نفس ہے جو تیرے دو پہلوؤں کے درمیان ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ یہ سب سے بڑا خطرناک دشمن ہے؟ -جواب:  چونکہ یہ چھپا ہوا دشمن ہے، اس لئے کہ یہ دشمنِ دوست نُما ہے، کیونکہ یہ شیطان کا نمائندہ ہے، اور ایسے زہر کی طرح کام کرتا ہے جو شہد میں ملایا گیا ہے۔

سوال-۱۲۶:  سورۂ نَحل (۱۶: ۰۹) میں ارشاد ہے: وَعَلیَ اللّٰہِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَمِنْھَا جَآ ئِرٌ  =اور سیدھا رستہ اللہ تک پہنچتا ہے، اور بعضے رستے ٹیڑھے بھی ہیں۔ آپ اس کی کوئی حکمت بتائیں -جواب:   یہ صراطِ مستقیم کی ایک تفسیر ہے، ظاہر ہے کہ یہ ایک مقدّس سفر ہے، جس میں اسلامی علم و عمل کے مسافر خدا کی طرف جاتے ہیں، اور خدا تک جا سکتے ہیں، اور اسی راہِ راست سے ہٹ کر بعض لوگوں نے ازخود راستے بنالئے ہیں، جو ٹیڑھے ہیں، اس لئے وہ خدا تک نہیں جاتے ہیں، اور اسی چیز کا نام گمراہی ہے۔

 

۱۱۲

 

سوال – ۱۲۷: یہ مبارک الفاظ سُورۂ ہود (۱۱: ۵۶) میں ہیں: اِنَّ رَبیّ عَلیٰ صراطٍ مُّستَقِیْمٍ =یقیناً میرا ربّ صراطِ مستقیم پر ہے۔ اس کی وضاحت کریں -جواب:  اللہ تعالیٰ کا صراطِ مستقیم پر ہونا یہ ہے کہ رسول اکرمؐ کے بعد ہر امام جو مظہرِ نورِ ہدایت ہے، وہ اپنی نورانیت میں صراطِ مستقیم (راہِ راست) ہے، کیونکہ ربُّ العزّت کی ہر چیز فرشتہ اور انسانِ کامل کی صورت میں ہوتی ہے، لہٰذا جو ہادیٔ برحق ہے، وہی خود صراطِ مستقیم اور سبیلِ خدا بھی ہے، جس طرح رسولِ پاکؐ قرآنِ ناطق، اسلامِ مُجسّم، ا ور نورِ مُشَکّل تھے۔

سوال- ۱۲۸:  سُورۂ یٰسٓ (۳۶: ۶۸) میں ہے: وَمَنْ نُعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ۔ اس ارشادِ پاک کا ترجمہ اور مطلب کیا ہوگا؟ -جواب:  اور جس شخص کو ہم بے پایان عمر دیتے ہیں اس کو ہم (عالمِ امر سے) عالمِ خلق میں اوندھا کر دیتے ہیں، تو کیا وہ لوگ نہیں سمجھتے ہیں؟ وہ بے پایان عمر جس کا یہاں ذکر ہے دائرۂ اعظم پر ہے، جو عالمِ خلق اور عالمِ امر پر محیط ہے، لہٰذا کاملین کو عالمِ علوی سے عالمِ سفلی میں اُترتے ہوئے ہر بار اوندھا ہونا پڑتا ہے، اور یہ وہی قانونِ فطرت ہے، جس کے مطابق ہر بچّہ شِکمِ مادر سے اوندھا پیدا ہوجاتا ہے، یہ کوئی عیب کی بات ہر گز نہیں۔

سوال – ۱۲۹: آپ نے کبھی کہا تھا کہ مادّہ اور روح کے درمیان

 

۱۱۳

 

بحقیقت کوئی حدّ ِفاصل نہیں، مگر ظاہراً اور مجازاً، پس آپ قرآنِ کریم سے کوئی ایسی دلیل پیش کریں، جس سے یہ حقیقت روشن ہوجائے کہ مادّہ اور روح ایک ہی چیز کی دو مختلف صورتیں ہیں -جواب:  سُورۂ حدید (۵۷: ۲۵) میں ہے کہ خدا نے لوہے کو نازل کیا ہے، یعنی لوہے کی روح کو کسی مقام پر نازل کیا، اور وہ وہاں لوہے کی کان ہوگئی، اب آپ یقیناً یہ کہہ سکتے ہیں کہ لوہا ایک مقام پر روح اور دوسرے مقام پر مادّہ ہے، تو یہ ایک ہی چیز کی دو مختلف شکلیں ہوگئیں، یعنی روحانی صورت اور مادّی صورت، اور اس سلسلے کا قانونِ کُلّ یا قانونِ خزائن سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں ہے، جس کا فیصلہ کُن ارشاد یہ ہے کہ ہر چیز کو خداوند تعالیٰ اپنے خزائن سے نازل فرماتا ہے، اور یہ خزانے نور اور روح کے ہیں۔

سوال – ۱۳۰ :  سُورۂ سبا (۳۴: ۱۴) میں حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی موت سے متعلق ایک عجیب مشکل سوال ہے، آپ یہ بتائیں کہ ان کی یہ موت جسمانی تھی یا نفسانی؟ اس آیت میں دابۃُ الارض سے کیا مراد ہے؟ اور عصا (مِنْسَاَتَہٗ)کی کیا تاویل ہے؟ -جواب:   اس آیۂ شریفہ میں حضرتِ سلیمانؑ کی نفسانی موت کا ذکر ہے، جس میں یاجوج ماجوج سالک کے جسم پر حملہ آور ہوتے ہیں، اور اس کو کسی حد تک کھا لیتے ہیں، اور سالک موت کے آثار کو دیکھ کر لیٹ جاتا ہے، پس دابۃُ الارض واحد بھی ہے اور جمع بھی، جس سے یاجوج ماجوج مراد ہیں، اور لاٹھی کی تاویل جسم ہے، کیونکہ اسی کے سہارے آدمی چلتا ہے۔

 

۱۱۴

 

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۴

 

سوال – ۱۳۱: سُورۂ نمل (۲۷: ۸۲) میں اس دابۃُ الارض کا ذکر ہے جو وقوعِ قیامت کے ساتھ نکل کر باتیں کرے گا، آپ بتائیں کہ وہ کیا ہے؟ اور اصل حقیقت کس طرح سے ہے؟ -جواب: جب صورِ قیامت پھونکا جاتا ہے تو سب سے پہلے زمینِ دعوت سے مومنین اور مومنات کی روحیں قیامتگاہ کی طرف پرواز کرتی ہیں، ان روحوں کی ایک مجموعی روحی ہوتی ہے، اسی کا نام دابۃُ الارض ہے (یعنی زمینِ دعوت سے پیدا ہو کر چلنے والا) اور خدا کی آیات سے مراد امام علیہ السّلام ہے، پس اسی دابہ یعنی چلنے والے کا حق ہے کہ کلام کرے، اور کہے کہ لوگوں نے خدا کی آیات (امام) کو نہیں پہچانا (لَا یُوْ قِنُوْنَ ۲۷: ۸۲)۔

سوال – ۱۳۲: آیا قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ اسمِ اعظم کا ذکر آیا ہے؟ اور اس کی بہترین مثالیں طرح طرح سے دی گئی ہیں؟ کیا قرآن اور اسمِ اعظم کا سرچشمہ ایک ہی ہے؟ کیا یہ اسمِ اعظم کے معجزات میں سے ہے کہ اس کے درست ذکر سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں (۳۹: ۲۳)؟ -جواب:  ان تمام باتوں میں کوئی شک ہی نہیں، لیکن اسمِ اعظم کی

 

۱۱۵

 

معنویت، حقیقت، روحانیّت، اور نورانیت امامِ زمان علیہ السّلام ہی میں ہے۔

سوال – ۱۳۳: قرآنِ حکیم میں اسما ءُ الحُسنیٰ کا ذکر چار مقامات پر آیا ہے، وہ مقاماتِ شریف یہ ہیں، سُورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) سُورۂ اِسراء (۱۷: ۱۱۰) سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۰۸) اور سورۂ حشر (۵۹: ۲۴) آپ اسما ءُ الحُسنیٰ کی بڑی زبردست اہمیّت کے بارے میں کس طرح سمجھائیں گے؟ -جواب:  اس کا عالیشان جواب خود قرآن (۰۷: ۱۸۰) میں موجود ہے: اور اللہ ہی کے لئے بہترین (زندہ) نام ہیں لہٰذا اسے انہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں بے دینی سے کام لیتے ہیں، عنقریب انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا (۰۷: ۱۸۰)۔

سوال – ۱۳۴: سُورۂ یُونس (۱۰: ۸۷) میں ایک بابِ رحمت نظر آتا ہے، وہ حکمت آگین ارشاد اس طرح سے ہے: اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی (ھارون) کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لئے مصر میں گھر بناؤ اور اپنے گھروں کو قبلہ قرار دو اور نماز قائم کرو اور مومنین کو بشارت دو۔ اس میں کیا اَسرارِ حکمت ہیں؟ -جواب:  سِرِّ اوّل: حضرتِ موسیٰؑ اور حضرتِ ہارونؑ (پیغمبر اور امام) کی طرف ایک ساتھ وحی بھیجنا، سِرِّ دوم: مصر یعنی عالمِ شخصی میں ساری قوم کے لئے گھر بنانا، سِرِّ سوم: اپنے عالمِ شخصی کے گھروں کو روحانی ترقّی سے قبلہ (خانۂ خدا) بنانا، سِرِّ چہارم: اسی خانۂ خدا ہی میں افضل ترین اور مقبول ترین نماز قائم کرنا، سِرِّپنجم: مومنین کو خانۂ خدا (حظیرۂ قدس) میں بہشت کا نمونہ دکھا کر عملی خوشخبری

 

۱۱۶

 

دینا، یہ حکمِ خداوندی نہ صرف حضرتِ موسٰی اور حضرتِ ہارونؑ کے لئے تھا، بلکہ اِس کا اشارۂ حکمت آنحضرتؐ اور مولا علیؑ کی طرف بھی ہے، کیونکہ حدیثِ مماثلتِ ہارونی کا مطلب یہی ہے۔

سوال – ۱۳۵: حدیثِ مماثلتِ ہارونی کونسی ہے؟ اور اس کے معنی و مطلب کیا ہیں؟ -جواب:  وہ مشہور حدیث یہ ہے: اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہارُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ اِلَّا اَنَّہٗ لا نَبِیَّ بَعْدِیْ = رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے حضرتِ علیؑ سے فرمایا: مجھ سے تم کو وہی منزلت حاصل ہے جو منزلت موسیٰؑ سے ہارونؑ کو حاصل تھی، مگر میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں، اس کے یہ معنی ہیں کہ قرآنِ مجید میں جو ظاہری و باطنی اوصاف و کمالات حضرتِ ہارونؑ سے متعلّق ہیں، وہ سب کے سب حضرتِ علیؑ کے لئے بھی ہیں، مگر آنحضرتؐ کے بعد کوئی نبی نہیں۔

سوال -۱۳۶: سورۂ انبیاء (۲۱: ۴۸) وَلَقَدْ اٰتَیْنَامُوْسیٰ وَھَارُوْنَ الْفُرْ قَانَ وَضِیَآ ءً وّ ذِکْراً لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ اس آیۂ کریمہ کا اصل ترجمہ کس طرح سے ہے؟ اور اس  میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ -جواب:   فرقان توریت بھی ہے اور معجزات بھی، ضیا نور کا نام ہے، ذکر کا مطلب اسمِ اعظم ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی ان عظیم نعمتوں سے حضرتِ موسیٰؑ اور حضرتِ ہارونؑ کو نوازا اور ان کے وسیلے سے پرہیزگاروں کو بھی، اور ترجمہ اس طرح سے ہے: ہم نے موسیٰؑ اور ہارونؑ کو فرقان اور نور اور ذکر

 

۱۱۷

 

(اسمِ اعظم) عطا کیا تھا (اور ان کے وسیلے سے) مُتّقی لوگوں کو بھی۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ پروردگار کے ہر انعام میں حضرتِ موسیٰؑ اور حضرتِ ہارونؑ ساتھ ساتھ تھے۔

سوال – ۱۳۷: یہ ارشادِ نبوی بُنیادی اہمیّت کا حامل ہے، لہٰذا آپ اسے ہرگز ہرگز بھول نہ جائیں، ارشاد یہ ہے: یا بنی عبد المطلب، اطیعونی تکونوا ملوک الارض و حکّامھا، ان اللہ لم یبعث نَبیًّا اِلّا جعل لہ و صیًّا و وزیراً و وارثاً و اخاً و ولیّاً (دعائم الاسلام،عربی، جلدِ اوّل، ص ۱۵، آخری سطر۔۔) ترجمہ: اے اولادِ عبد المطلب، میری اطاعت کرو تاکہ تم زمین کے سلاطین اور حکمران ہوجاؤ گے، بیشک اللہ نے کسی پیغمبر کو مبعوث نہیں کیا مگر اس کے لئے ایک وصی مقرّر کیا اور ایک وزیر اور وارث بنایا اور ایک بھائی اور ولی مقرر فرمایا۔ اس حدیثِ شریف میں یہ سوال ہے کہ آیا رسولِ اکرمؐ کا ہر اطاعت گزار شخص روئے زمین کا بادشاہ ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو اس کے کیا معنی ہیں؟ – جواب:  دنیا کی بادشاہی کی کوئی قدرو قیمت نہیں، لہٰذا ہر وہ شخص جو آنحضرتؐ کا حقیقی فرمانبردارہو، وہ ارضِ عالمِ شخصی اور زمینِ جنّت کا بادشاہ ہوگا، آمین!

سوال – ۱۳۸: احیاءُ العلوم، جلدِ سوم، بابِ اوّل، قلب، بیان ۶ یہ حدیثِ شریف درج ہے: لو لا انّ الشّیاطین یحومون علیٰ قلوب بنی  اٰدم لنظر واالی ملکوت السّما ء =اگر بنی آدم کے دلوں

 

۱۱۸

 

پر شیاطین نہ پھرتے ہوتے تو وہ آسمان کی روحانی سلطنت اور اسرار کو دیکھ سکتے۔ ایسے تمام شیاطین سے کس طرح چُھٹکارا حاصل ہوسکتا ہے؟ -جواب:  نفسانی موت اور ذاتی قیامت کے ذریعے سے، کیونکہ شیطان کے لئےمہلت قیامت تک ہے (۰۷: ۱۴، ۱۵: ۳۶، ۳۸: ۷۹) چونکہ عارف کی ذاتی قیامت جہادِ اکبر کی کائناتی فتح ہے، اس لئے شیطان اور نفس مغلوب ہوجاتے ہیں، اور یقیناً عارف عالمِ لطیف کو دیکھ سکتا ہے۔

سوال – ۱۳۹:  مذکورہ کتاب کے اسی مقام پر یہ تذکرہ بھی ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم سے لوگوں نے پوچھا کہ یا حضرت خدائے تعالیٰ کہاں ہے زمین میں یا آسمان میں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ایمان والے بندوں کے دل میں ہے۔ …. حدیثِ قدسی میں ارشاد ہے: نہ میری گنجائش زمین میں ہے نہ آسمان میں اور میری گنجائش میرے بندۂ مومن کے دل میں ہے جو نرم اور ساکن ہو (لَمْ یَسَعْنِیْ اَرْضِی وَلَا سَمَائیِ وَوَ سِعَنِیْ قَلْبُ عَبْدِ یَ الْمئْومِنِ اللَّیِنُ الْوَادِعُ)۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ آن حضرتؐ کو معراج اپنے قلبِ مبارک میں ہوئی تھی یا آسمان میں؟ -جواب:   حضورِ پاکؐ کی معراج عالمِ شخصی (دل) کے آسمان میں ہوئی تھی۔

سوال – ۱۴۰: حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کا قول ہے: لَنْ یَلِجَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ مَنْ لَمْ یُوْلَدْ مَرَّ تَیْنِ = جو شخص دو دفعہ

 

۱۱۹

 

پیدا نہ ہوجائے وہ آسمانوں کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہیں ہوسکتا ہے۔ کوئی شخص کس طرح دو فعہ پیدا ہوسکتا ہے؟ کیا آسمانوں کی بادشاہی سے مراد بہشت کی بادشاہی ہے؟ -جواب:   یہ روحانی ترقی کے بارے میں ہے، کہ دینِ حق کے سالکین / عارفین سب سے پہلے بقیدِ حیاتِ جسمانی اسرافیلی و عزرائیلی کے معجزے سے مرکر دوبارہ زندہ ہوجاتے ہیں، اور طئّ مراحل کے بعد مقامِ عقل پر بہت ہی نرم موت سے مرکر دوبارہ زندہ ہوجاتے ہیں، یہ ہوا دودفعہ پیدا ہوجانا، بعد ازان حظیرۂ قدس کی بہشت اور اس کی بادشاہی میں داخل ہوجاتے ہیں۔

 

۱۲۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۵

 

سوال- ۱۴۱: سُورۂ مریم (۱۹: ۱۷) میں ارشاد ہے: فَاَرْسَلْنَآ اِلَیْھَا رُوْ حَنَا فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَراً سَوِیّاً = ہم نے مریم کی طرف اپنی روح کو بھیجا جو اُن کے سامنے ایک مکمّل آدمی بن کر پیش ہوا۔ اس میں سے چند اسرارِ معرفت بیان کریں۔ -جواب:  رُوْحنا کے معنی ہیں: نور، فرشتہ، روحِ پیغمبر، روحِ امام، تَمَثَّلَ =اُس نے صورت پکڑی، بَشَراً سَوِیّاً= ہر اعتبار سے مکمّل انسان، پس وہ فرشتۂ ظاہر تھا، یا نورانی بدن میں پیغمبر یا امام کا ظہور تھا، اور جسم مثالی بھی ایسا ہی ہوتا ہے، اس میں اور بھی کئی بھید ہیں، تاہم خاص ضروری بات یہ ہے کہ یہ منازلِ روحانیّت میں سے ایک منزل ہے، جس کو منزلِ ابداع کہہ سکتے ہیں، جہاں مومنِ سالک کے لئے امامِ زما ن صلوات اللہ علیہ کا نورانی ظہور ہوتا ہے کہ حضرتِ امامؑ جُثّۂ ابداعیہ میں مومن کو دیدارِ پاک سے نوازتا ہے۔

سوال – ۱۴۲: یہ ارشادِ اِصْطَفیٰ (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) کا ترجمہ ہے: یقیناً اللہ نے آدمؑ، اور نوحؑ اور آلِ ابراہیمؑ اور آلِ عمرانؑ کو تمام دنیا والوں سے (نبوّت و امامت کے لئے) منتخب کیا، یہ ایک ہی سلسلے کے لوگ تھے،

 

۱۲۱

 

جو ایک دوسرے کی نسل سے پیدا ہوئے تھے، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) چونکہ خدا نے ان حضرات کو تمام دنیا والوں سے منتخب فرمایا تھا، تو کیا زمانۂ آدمؑ میں بھی لوگ موجود تھے؟ انتخاب کچھ خوبیوں کی بنیاد پر ہوتا ہے، ان لوگوں میں کیا خوبیاں تھیں؟ ظاہر ہے کہ اس سلسلۂ انتخاب میں آنحضرتؐ کے آباؤ اجداد کا ذکرِ جمیل بھی ہے، کیونکہ وہی حضرات بطورِ خاص آلِ ابراہیمؑ ہیں، اب آپ یہ بتائیں کہ حضورِ اکرمؐ کے آباؤ اجداد کس دین پر قائم تھے، اور ان کو اللہ نے کیا درجہ دیا تھا؟ -جواب:  جی ہاں، آیت خود بتاتی ہے کہ زمانۂ آدم میں لوگ موجود تھے، چونکہ یہ انسانانِ کامل حقیقی معنوں میں بنی آدم تھے، اور اللہ نے بنی آدم کو بہت بڑی کرامت و فضیلت عطا فرمائی ہے (۱۷: ۷۰) رسولِ پاکؐ کے جلیل القدر آباؤ اجداد مِلّت ابراھیمیہ (حنیفیّہ) پر قائم تھے، قرآن میں دیکھئے کہ اسی کا نام “اسلام” ہوا ( ۰۲: ۱۳۰، ۰۲: ۱۳۵، ۰۴: ۱۲۵، ۲۲: ۷۸) اور حضرتِ پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کے آباؤ اجداد میں سے سلسلۂ امامانِ مستقر چلا آیا تھا۔

سوال – ۱۴۳: آپ قرآنِ حکیم میں سے ہمیں کوئی ایسی دلیل پیش کریں، جو نہایت عالی، پُرازحکمت، سب سے آسان، سب سے مختصر، سب سے منطقی، زبردست فیصلہ کُن، اور حیرت انگیز ہو، جس سے ہم سب کو یقینِ کامل حاصل ہوجائے کہ سلسلۂ نور ازل سے جاری ہے۔ -جواب:   ایسی بیمثال دلیل “نُوْرٌ عَلیٰ نُوْر” ہے، جس کا مطلب ہے کہ سِلسِلۂ نور کی کڑی سے کڑی ملی ہوئی ہے، اور خدائی نور کا یہ سِلسِلہ

 

۱۲۲

 

ازل سے چلا آیا ہے، یہی اللہ کی مضبوط نورانی رسّی بھی ہے، جس کو ہمیشہ لوگوں کے درمیان موجود ہونا ہی ہے، میرا عقیدۂ راسخ یہ ہے کہ نُورٌعَلیٰ نُوْر (۲۴: ۳۵) ایک فکری اور علمی وِرد و وظیفہ بھی ہے، لہٰذا آپ باربار اس کو پڑھیں اور معنی میں خوب غور کریں، ان شاء اللہ، یہ فکری عبادت ہرگز بے ثمر نہیں ہوگی۔

سوال – ۱۴۴: سُورۂ نِسا ء (۰۴: ۵۴) میں جو آیۂ شریفہ آلِ ابراہیمؑ کے بارے میں ہے، اسی کا ترجمہ ہے: یا وہ ان لوگوں (یعنی اماموں) سے حسد کرتے ہیں، جنہیں خدا نے اپنے فضل و کرم سے بہت کچھ عطا کیا ہے، تو پھر ہم نے آلِ ابراہیمؑ کو کتاب و حکمت اور ملکِ عظیم سب کچھ عطا کیا ہے۔ اس قرآنی تعلیم کی حکمت بیان کریں، اور یہ بتائیں کہ آلِ ابراہیمؑ کون ہیں؟ اور ان کی معرفت کس طرح ہوسکتی ہے؟ -جواب:  سب سے پہلے کسی شک اور اختلاف کے بغیر رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم آلِ ابراہیمؑ ہیں اور یہ حقیقت ایسی روشن اور تابناک ہے کہ اس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں، اب رہا سوال أئمّۂ آلِ محمد کے بارے میں کہ وہ حضرات بھی خاندانِ محمد ہونے کی وجہ سے آلِ ابراہیمؑ ہیں، جس کی علامت و نشانی یا دلیل قرآن و حکمت کی وراثت اور روحانی سلطنت ہے، کہ جب تک دنیا میں قرآنِ حکیم موجود ہے، تب تک سلسلۂ وارثین بھی جاری رہے گا (۳۵: ۳۲) اور آسمانی کتاب کے ساتھ ساتھ ہمیشہ نُورِ مُنَزَّلْ بھی ہوتا ہے (۰۵: ۱۵)۔

 

۱۲۳

 

سوال – ۱۴۵: سُورۂ زُخْرُفْ (۴۳: ۲۸) میں ہے: وَجَعَلَھَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً فِیْ عَقِبِہٖ لَعَلَّھُمْ یَرْ جِعُوْنَ۔ کیا آپ اس کی تاویلی حکمت بتا سکتے ہیں؟ -جواب:  مفہوم: اور حضرتِ ابراہیمؑ نے سِرِّ معرفت کو اپنی نسل میں کلمۂ باقیہ (اسمِ اعظم) قرار دے دیا، تاکہ لوگ ہمیشہ بوسیلۂ آلِ ابراہیمؑ خدا شِناسی (معرفت) کی طرف رجوع کریں۔ یہاں یہ حقیقت صاف و صریح ہے کہ آلِ ابراہیمؑ/ آلِ محمّدؐ کا سلسلہ ہمیشہ دنیا میں جاری ہے، کیونکہ اس میں ہمیشہ باقی رہنے والا کلمہ موجود ہے۔

سوال – ۱۴۶ : کتابُ الھِمّۃ، عربی، ص ۴۶ پر یہ حدیثِ شریف درج ہے: اِنّ النّظر اِلیَ الامام ِعبادۃ، والنّظراِلی المُصْحَفِ عبادۃ = یقیناً امام کی طرف دیکھنا ایک عبادت ہے، اور قرآن کی طرف دیکھنا بھی ایک عبادت ہے۔ قرآنِ ناطق اور قرآنِ صامت کو کس نظر سے دیکھنے سے عبادت ہوتی ہے؟ اگر روحانیّت اور باطن میں امام علیہ السّلام کا نورانی دیدار اور قرآنِ پاک کا نورانی مشاہدہ ہوجائے تو وہ کیسی عبادت ہوگی؟ -جواب:   جو شخص امام ِبرحقؑ اور قرآنِ کریم کو بنظرِ عقیدت و محبّت دیکھتا ہے، اسی کی بصری عبادت ہوتی ہے، نورانی دیدار اور نورانی مُشاہدے کی عبادت تو بڑی افضل ہے، چونکہ امام کا ایک نام “آیات” ہے، اور قرآن بھی آیات کا مجموعہ ہے، لہٰذا حسبِ وعدۂ الٰہی (سنریھم اٰیٰتنا …. ۴۱: ۵۳) لوگ اپنے باطن ہی میں امامِ عالیمقامؑ اور قرآنِ عزیز کے تمام معجزات دیکھ سکتے ہیں۔

 

۱۲۴

 

سوال – ۱۴۷: آپ نے کتابِ وجہِ دین کے حوالے سے کسی لیکچر میں کہا تھا کہ اُمّ الکتاب ظاہر میں سُورۂ فاتحہ کا نام ہے، اور تاویلِ باطن میں اس سے حضرتِ علی علیہ السّلام مراد ہے، یہاں آپ ہم کو یہ سمجھائیں کہ سُورۂ فاتحہ کن معنوں میں اُمّ الکتاب ہے؟ اس حقیقت کی دلیل و مثال کیا ہے؟ سُنّتِ الٰہی سے اس امرِ واقعی کا کیا ثبوت ملتا ہے؟ کیا آپ اس کی کوئی قابلِ فہم مثال پیش کر سکتے ہیں؟ -جواب:  ان شا ء اللہ العزیز، اس بیحد ضروری سوال کا جواب کئی طرح سے ہوسکتا ہے، اس میں چند اجزأ ہیں: –

جُزوِاوّل: سورۂ فاتحہ انتہائی جامعیّت کی وجہ سے اُمّ الکتاب کہلاتی ہے، اِس کی دلیل یہ ہے کہ اس میں قرآنِ حکیم کی ساری حکمتیں یکجا اور تمام جواہر جمع ہیں، اور سُنّتِ الٰہی سے اس کا ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالی القابض بھی ہے اور الباسط بھی، اس لئے وہ ہر کائنات کو ہمیشہ ہمیشہ لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے، اور اسی میں اُس کی زبردست حکمت پوشیدہ ہے، پس قرآنِ حکیم کا اوّلین معجزہ یہ ہے کہ وہ نتیجۂ فعلِ قدرت کے مطابق لپیٹا ہوا بھی ہے اور پھیلاہوا بھی۔

جُزوِ دوم: ایک روایت کے مطابق تمام کُتُبِ سماوی کا علم قرآن میں ہے، قرآن کا سارا علم سورۂ فاتحہ میں ہے، سُورۂ فاتحہ کا جُملہ علم بِسْمِ اللہِ الرَّحمٰن الرَّ حِیْم میں ہے، جس کا خزانہ بسم ہے، بسم میں جو کچھ ہے، اُس کا خلاصہ ب ہے، ب کا قدیم اور اصل نام بَیْت (گھر) ہے، جس سے رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم مراد ہیں کہ آپؐ حکمت

 

۱۲۵

 

کا گھر ہیں اور علی علیہ السّلام اس کا دروازہ، آپ میری ایک تصنیف نقوشِ حکمت میں دیکھیں کہ ب کا نقطہ حضرتِ علیؑ کی مثال ہے، اب نقطے کے بارے میں سُنئے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جس چیز کو پیدا کیا وہ عقل ہے، جب عارفوں نےعقل کی ازلی شکل کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ گویا ایک نقطہ ہے، یعنی دُرِّیتیم، گوہرِ یکدانہ، جو کتابِ مکنون ہے، صرف خدا ہی ہے جو لولوئے مکنون میں علم و حکمت کی کائنات کو سمیٹ سکتا ہے۔

جُز وِ سِوُم: قرآنِ پاک علمِ سماوی کا شہر ہے، اور الحمد اسی شہر میں حکمتِ الٰہی کا گھر ہے، اور یہ دونوں مثالیں آنحضرتؐ ہی کے لئے خاص ہیں، اور علیّ المرتضٰیؑ اس شہر کا بھی اور اس گھر کا بھی دروازہ ہے، اب رہا سوال اُمّ الکتاب (سورہ فاتحہ) کی جامعیّت کا، کہ اس کے ہر ہر لفظ کے ساتھ قرآن کی بے شمار چیزیں وابستہ ہیں، مثال کے طور پر جیسا کہ ذکر ہُوا، الحمد کے آغاز ہی میں نقطہ آیا ہے، انتہائی حیرت کی بات ہے کہ نہ صرف معنی کے لحاظ سے بلکہ حروف کےبناوٹ کے لحاظ سے بھی اسی ایک نقطے میں تمام قرآن سمایا ہُوا ہے، وہ اس طرح کہ قرآن کی ظاہری تحریر میں حروف ہی حروف ہیں، اور اگر حروف کا تجزیہ کیاجائے تو ان سب میں نقطے ہی نقطے ہیں، آپ میری ایک کتاب میزان الحقائق میں دیکھ لیں، پس ان بے حدّ و بے حساب نِقاط یا نُقَطْ کی وحدت نُقطۂ بائے بسمِ اللہِ الحمد میں ہے، او ر اس کی کثرت ان لاتعداد نقطوں میں ہے، جن کا یہاں ذکر ہُوا، نقطۂ آغاز ہی سے قرآن کے پھیل جانے اور پھر مرکوز ہونے کی مثال بڑی عجیب و غریب ہے۔

 

۱۲۶

 

جُزوِ چہارم: سُورۂ الفاتحہ کا سب سے پہلا حرف با ء (ب) ہے جس کا اصل تلفُّظ بَیْت ہے یعنی گھر، جو بیت اور بُیُوت سے متعلق تمام آیاتِ مقدّسہ کی جامعیّت رکھتا ہے، جس میں اوّل، اوّل اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاک گھروں کا ذکرِ جمیل ہے، جیسے بیت اللہ، المسجد الحرام، قبلہ، وغیرہ، پھر لوگوں کی دُنیوی اور اُخروی مکانوں کی بات ہے، جیسے دار اور دیار، اور اس بیان میں مُژدۂ جانفزا یہ ہے کہ آسمان و زمین اور دُنیا و آخرت میں جہاں بھی اللہ کا گھر ہے، اس سے امام علیہ السّلام مراد ہے۔

جُز وِپنجم: اس کے بعد اسمِ کا ذکر آتا ہے، جو سمو سے مشتق ہے، سمو میں بلندی کے معنی ہیں، لہٰذا س م و سے سماء (آسمان) کا لفظ بھی ہے، اور جہاں تک اللہ کے اسم اور اسماء کا تعلق ہے، وہ تمام قرآنی آیات پر محیط ہیں، پس بسم اللہ کے معانی میں خدا کے کُلّ نام اور ہر نام کی قرآنی تفسیر جمع ہے، ساتھ ہی ساتھ اس میں علم الاسماء کے عظیم اسرار بھی ہیں، اور سب سے بڑی خوبی کی بات تو یہ ہے کہ بسم اللہ میں خدا کے زندہ اسمِ اعظم کا اشارہ موجود ہے، اور وہ امام ِزمان علیہ السّلام ہے، آپ اندازہ کریں کہ آیا اسمِ اعظم میں دونوں جہان کی برکتیں نہیں ہیں، پھر سماء اور سماوات کے معنی میں غور کریں، کیا ان معنوں میں کائناتِ ظاہر و باطن کا تذکرہ نہیں ہے؟ وہ بھی بکثرت؟ اس سے معلوم ہوا کہ بسم اللہ میں گنجِ قرآن مخفی ہے، نیز اس میں یکے بعد دیگرے بے پایان کائناتوں کا سِرِّ اعظم ہے۔

 

۱۲۷

 

جزوِ ششم:  لفظِ اللہ کی لُغَوی تحقیق کے لئے مفردات القرآن میں دیکھ لیں، یہ لفظ اصل میں اِلٰہٌ ہے، ہمزہ (تخفیفاً) حذف کر دیا گیا ہے، اور اس پر الف لام (تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے، اس کی صورت یہ ہے: اٖلٰہ =لٰہ، پھر ال +لٰہ =اللہ، اِلٰہٌ کے اشتِقاق میں مختلف اقوال ہیں، چونکہ قرآنِ حکیم کے ہر لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں، لہٰذا چاروں اقوال درست ہیں: (۱) اللہ کے معنی ہیں معبودِ برحق (۲) اللہ اس پاک و برتر ہستی کا نام ہے، جس کی ذات و صفات کے ادراک سے عقول مُتحیّر اور درماندہ ہیں (۳) بعض نے کہا ہے کہ اِلٰہ اصل میں وِلَا ہٌ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر اِلاہ بنا لیا ہے، اور وَلِہَ (س) کے معنی عشق و محبّت میں وارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں، اور ذاتِ باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبّت ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے، اگرچہ بعض چیزوں کی محبّت تسخیری ہے (۴) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لَا ہَ یَلُوْ ہُ لَیَاھاً سے ہے، جس کے معنی پردہ میں چُھپ جانا کے ہیں، اور ذاتِ باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور و محجوب ہے، اِس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے۔

اگرچہ ان اقوال میں سے ہر قول درست ہے، لیکن تیسرے قول میں عاشقوں کےدل کی آواز ہے، بعض حضرات کا کہنا ہے کہ قرآن میں لفظِ عشق نہیں آیا ہے، حالانکہ یہ کئی طرح سے موجود ہے، مثال کے طور پر اس کُلّیہ میں سوچ لیں: اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہرشے کی وضاحت موجود ہے (۱۶: ۸۹) اب کوئی دانا شخص یہ بتائیں کہ قرآن

 

۱۲۸

 

میں عشقِ الٰہی کی وضاحت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کس طرح؟

الغرض اسمِ “اللہ” کی سب سے بڑی جامعیّت کا اندازہ کرنا ہے، چونکہ یہ پاک نام (اللہ) اسمِ ذات کا نمائندہ ہے، لہٰذا براہِ راست بھی اور تمام اسمائے صفاتی کے توسط سے بھی جملہ قرآن اسی سے متعلق ہے، یعنی سارا قرآن اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے تو پھر تسمیہ میں تمام قرآنی معنوں کا جوہر کیوں موجود نہ ہو، جبکہ اس میں خدائے بزرگ و برتر کا اسمِ جامِعُ الجوامِع موجود ہے۔

جُزوِ ہفتم: جاننا چاہئے کہ اسمائے الٰہی کے مظاہر ہُوا کرتے ہیں، اور وہ اپنے اپنے زمانے میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہوتے ہیں، یہی حضرات بفرمودۂ قرآن اسماءُ الحُسنیٰ ہیں (۰۷: ۱۸۰) یعنی خدا کے بہت اچھّے نام، یا بہترین اسماء، کیونکہ ہر پیغمبر اور ہر امام کو اپنے وقت میں مرتبۂ اسمِ اعظم حاصل ہوتا ہے، پس تسمیہ اور الحمد میں جیسے رحمتِ کُلّ کے دو اسم (الرّحمٰن الرّحیم) آئے ہیں، ان کا مظہر رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم ہیں، جس کی روشن دلیل سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۷) میں ہے: وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ اور ہم نے آپ کو (کُلّ) عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اس کے علاوہ آپ آنحضرتؐ کے اسمائے مبارک میں دیکھیں، تاکہ آپ پر یہ حقیقت روشن ہوجائے کہ حضورِ انورؐ کے پاک ناموں میں سے بعض میں مظہریّت کے معنی نمایان ہیں، مثال کے طور پر سُورۂ حدید کے شروع (۵۷: ۰۲) میں اللہ تعالیٰ کے یہ چار اسماء آئے ہیں: الاوّل، الآخر، الظاہر، الباطن، یہی نام پیغمبر اکرمؐ کے بابرکت اسماء میں بھی ہیں: اوّل،

 

۱۲۹

 

آخر، ظاہر، باطن۔

جُزوِہشتم:  اُمُّ الکتاب کی بہت بڑی جامعیّت اور ہمہ گیری کا بیان جاری ہے، جس میں تسمیہ کے بعد ارشاد ہے: الحمد اللہ ربّ العٰلمین۔ مفہوم: بہت بڑی تعریف (حمد =عقلِ کل) اللہ کے لئے ہے کہ وہ نورِ عقل سے عوالمِ شخصی کی پرورش کرتا ہے، اس مقصد کے لئے وہ ہر زمانے میں مُربّیٔ عقل کو لوگوں کے درمیان مقرر فرماتا ہے، تاکہ خدا پر لوگوں کی حُجّت نہ ہو (۰۴: ۱۶۵) یہ قرآنِ حکیم کی نہایت عجیب و غریب حکمت ہمیشہ یاد رہے کہ جتنی آیاتِ کریمہ لفظِ “حمد” کے ساتھ وارد ہوئی ہیں، ان کی عُلُوِّ شان یہ ہے کہ وہ حظیرۂ قدس کے انتہائی عظیم اسرار سے متعلّق ہیں، کیونکہ وہاں عقلِ کلّ، نفسِ کُلّ، ناطق اور اساس کی نہروں والی بہشت ہے (۴۷: ۱۵)۔

جُزوِ نہم: ہر شخص ایک عَالم ہے، زمانہ بھر کے لوگ عالمین ہیں، اسی طرح ماضی اور مستقبل کے بے پایان ادوار میں کیسے بےشمار و بے قیاس افرادِ بشر یعنی عوالم ہوں گے، اللہ تبارک و تعالیٰ وہ پروردگار ہے، جو ان تمام عالمین کی روحانی اور عقلی پرورش کرنے کی قدرتِ کاملہ رکھتا ہے، پس “ربّ” (پروردگارِ عقل و جان) ایک ایسا پاک و بابرکت اور پُرحکمت اسم ہے، جو اکثر قرآن کی مقبول دعائیں اسی سے شروع ہوجاتی ہیں اور اس کی مشکل کُشائی اور حاجت روائی کی یہ حدّ ہے کہ جب ابلیس مرتبۂ مَلَکی سے نکالا گیا، تب بھی اس نے “میرے ربّ” کہہ کر عرض کیا، اور قیامت تک مہلت طلب کرلی (۱۵: ۳۶، ۳۸: ۷۹)۔

جزوِ دھم: الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم کی توضیح ہوچکی ہے، مٰلکِ

 

۱۳۰

 

یومِ الدّین۔ مفہوم: روزِ جزا کا مالک، صاحبِ اختیار اور بادشاہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دنیا میں اختیار دیا گیا ہے، مگر قیامت میں کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوگا، اب لفظِ “مٰلک” کے مادّہ کو دیکھتے ہیں، جو م ل ک ہے، اس کے اِشتِقاقات اور مضامین قرآنِ پاک میں بڑے شاندار ہیں، جیسے مُلْک (خدا کی بادشاہی، روحانی سلطنت) مَلیک (بادشاہ، یعنی اللہ) مالِکُ المُلک (بادشاہی کا مالک، خدا) مَلِک (بادشاہ، یعنی امام) مُلکِ عظیم (بڑی بادشاہی، یعنی امامت /روحانی سلطنت) مُلکِ کبیر (بہشت کی بڑی سلطنت) المُلُوک (سلاطین، یعنی آئمّۂ طاہرینؑ) مُلُک (وہ لوگ جو امامِ آلِ محمّدؐ میں فنا ہونے سے روحانیّت اور بہشت میں بادشاہ ہوگئے ہیں) مَلَک (فرشتہ) ملائکہ (فرشتے) مَلَکُوت (عالمِ ارواح و ملائکہ) یاد رہے کہ قرآنِ کریم میں لفظِ مَلِکَ دنیا کے کسی بھی بادشاہ کے لئے استعمال نہیں ہُوا ہے۔

جُزوِ یازدھم: قرآنِ مجید میں یَوْم کے مختلف صیغے کُلّ ۴۷۴ دفعہ آئے ہیں، ان میں سے اکثر روزِ قیامت سے متعلّق ہیں، اسی طرح قیامت کا مضمون بھی سارے قرآن میں پھیلا ہوا ہے، اور یوم الدّین میں مرکوز ہے، اگرچہ قیامت کے اور بھی بہت سے نام ہیں، لیکن ہماری تحقیق اُمُّ الکتاب کے جامع الفاظ تک محدود ہے، چُنانچہ “یَوْم” قرآنِ حکیم میں ایک عام دن کے لئے بھی آیا ہے، اور ایک خاص دن کے لئے بھی، یہ ایک زمانہ بھی ہے، ایک دَور بھی، اور ایک بہت بڑا دور بھی ہے، اور خدا کے وہاں زندہ دن بھی ہیں۔

 

 

۱۳۱

 

جُزوِ دوازدھم: دین کے معنی ہیں: مذہب، جزا، بدلہ، اطاعت، قانون، فیصلہ، تسلیم، سِپُردگی، حوالگی، سونپنا، تحویل، جیسا کہ ارشاد ہے: اِنَّ الذِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (۰۳: ۱۹)دین تو خدا کے نزدیک اسلام (تسلیم و سپُردگی) ہے۔ آخر کس چیز کی سِپُردگی؟ کس شَیْ کی حوالگی؟ صورتِ رحمان میں چہرۂ جان کی سپردگی، یہ علم و عمل کا ایک طویل سفر ہے، جس کی بہت سی منزلیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر مسافر نے اپنے ہی مبلغ کے مطابق تعریفات میں سے ایک تعریف کی، تاہم قرآنِ حکیم میں بار بار غورو فکر کرنے کا حکم ہے، لہٰذا ہم اس سلسلے میں اپنے دل سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام سے فرمایا: اَسْلِمْ (۰۲: ۱۳۱) اس کے اصل معنی کیا ہیں؟ حضرتِ ابراہیمؑ کئی درجات سے آگے گئے تھے، آیۂ کریمہ کے ماحول کو دیکھ کر اندازہ کریں کہ خدا کا یہ حکم خلیل اللہؑ کے کس درجے میں صادر ہُوا ہوگا؟ الغرض یہ حکم اسلام کی روح حاصل کرنے کے معنی میں ہے۔

جُزوِ سیزدھم: ارشاد ہُوا ہے: ایّاک نعبد و ایّا ک نستعین۔ مفہوم: اِس آیۂ مبارکہ میں معرفت، خدا شِناسی اور توحید کا اشارہ ہے، اور ہر شخص کو تقلید سے تحقیق کی طرف جانے کا حکم ہے، جس پر عمل کرنا بیحد ضروری ہے، ورنہ “ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی (تجھ ہی) سے مدد چاہتے ہیں” کی حقیقت مشکل بلکہ ناممکن ہوجائے گی، چُنانچہ یہ ایک عظیم الشّان نمائندہ آیت کی عِرفانی تفسیر ہے، ملا حظہ ہو (۰۸: ۲۴): تم حقیقی علم، خودشِناسی اور معرفت کے ذریعہ سے اِس سِرِّ اعظم کو ضرورمعلوم

 

۱۳۲

 

کرلو کہ خدا آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے (۰۸: ۲۴) دل گوشت کا لوتھڑا بھی ہے، روح بھی ہے، عقل بھی ہے اور امامِ آلِ محمّدؐ بھی ہے، اور حقیقت میں یہی دل (یعنی امامؑ) وہ مِرآتِ تجلّیّات ہے، جس کے وسیلے سے حق تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے، پس یہی اشارۂ حکمت مذکورہ آیۂ مبارکہ میں موجود ہے کہ اِس طرف آدمی (عارف) ہے، اُس طرف آئینۂ قلب، اور درمیان یعنی آئینے میں صورتِ رحمان۔

سُورۂ یٰسٓ جو قلبِ قرآن ہے، اس میں یہ ارشاد ہے: اَلَمْ اَعْھَدَ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لّاَ تَقْبُدُ وَاشَّیْطٰنَ (۳۶: ۶۰) اے اولادِ آدم! کیا میں نےتم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی پرستش نہ کرنا (کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا، کیونکہ صراطِ مستقیم یہی ہے؟ ) ظاہر ہے کہ دنیا کا کوئی شخص جان بوجھ کر شیطان کی پرستش نہیں کرتا، بلکہ یہ سب سے بڑی نافرمانی جہالت، نادانی اور بے معرفتی کے سبب سے ہوجاتی ہے، لہٰذا قرآنِ حکیم میں جس طرح بڑی کثرت سے علم و حکمت کی تعریف آئی ہے، اسی میں معرفت کی تعریف بھی ہے، پس قرآنِ مجید کے ۲۷ مقامات پر اِعْلَمُوْا کا حکم آیا ہے، جس کی میں نے “عرفانی تفسیر” کے عنوان سے وضاحت کی ہے، جو اہلِ دانش کے لئے کلیدِ گنجینہ ہے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا امر ہے، جو بیحد ضروری ہے، اِن شا ء اللہ، بامعرفت عبادت کےساتھ ساتھ آسمانی مدد بھی ملتی رہے گی، مگر یہ مدد زیادہ سے زیادہ دینی امور میں ہوگی۔

جُزوِ چہاردھم: فرمانِ خداوندی کے ذریعہ تعلیم ہے: اھدنا

 

۱۳۳

 

الصّراط المستقیم۔ مفہوم: ہمیں راہِ راست پر تا بمنزلِ مقصود آگے سے آگے چلا، جس کے لئے اپنے نورِ ہدایت کے مظہر کی معرفت ہمیں عطا فرما۔ اگراللہ تعالیٰ کی توفیق سے سوچا جائے تو داناؤں کو یقین ہوجائے گا کہ اُمُّ الکتاب کا سِرِّ اعظم اسی بابرکت دعا میں ہے۔

جز و ِ پانزدھم: ارشاد ہے: صراط الذّین انعمت علیھم۔ غیرالمغضوب علیھم ولا الضّآلّین۔ مفہوم: ہمیں ان لوگوں کی راہ پر چلا جن پر تو نے انعام فرمایا، ان کی راہ نہیں جن پر غضب ہوا یا جو گمراہ ہو گئے ہیں۔ وہ حضرات جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے، ناطقان، اساسان، امامان، اور حُجتان ہیں، اور جو بھی اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں وہ انہی درجات کی رفاقت میں ہوں گے (۰۴: ۶۹) یہی ہیں وہ چند دلیلیں جو اُمُّ الکتاب کی انتہائی جامعیّت کے باب میں درج ہوئیں۔ الحمد اللہ ربّ العالمین۔

سوال- ۱۴۸: آپ کو روحانی سائنس سے بڑی دلچسپی ہے، کیا آپ اُسی کی روشنی میں یہ بتا سکتے ہیں کہ مادّی سائنس کی مزید ترقی کہاں تک ہوگی؟ -جواب:  اس کی مزید ترقی روحانی سائنس کے ظہور تک ہوسکتی ہے، اور وہ وقت اب دور نہیں، موجودہ صورت میں بھی مادّی سائنس کے پیچھے روحانی سائنس کی کارفرمائی ہے، جیسا کہ قرآنی ارشاد کا ترجمہ ہے: سب (اپنے اپنے) فلک یعنی دوائر میں تیزی کے ساتھ چل رہے ہیں (۲۱: ۳۳) یہ ہر چیز کی روحانی حرکت کا ذکر ہے، جس کی وجہ

 

۱۳۴

 

سے تمام مادّی چیزیں گردش میں ہیں، آیۂ شریفہ میں سے کُلّیہ یہ ہے: کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ۔

سوال – ۱۴۹ : سُورۂ بقرہ کے ایک ارشادِ مبارک (۰۲: ۱۱۵) میں ہے: فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ = تم لوگ جس طرف منہ کرو اُدھر (ہی) اللہ تعالیٰ کا رخ ہے۔ اس کے وسیع ترمعنی یا ہمہ گیر حقائق و معارف کیا ہوں گے؟ -جواب:  اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ ذاتِ سبحان نے اپنے جس مظہر کو “وجہ اللہ” کا درجہ عطا کیا ہے، اُس کا نور یا نورانی ظہور ہر جگہ ہے، کیونکہ خدا کی خدائی میں بعض چیزیں کُلّ ہیں، بعض کُلّیات، اور ایک چیز بمرتبۂ کُلِّ کُلّیات ہو کر تمام چیزوں پر محیط ہوجاتی ہے، جیسے سورج کی روشنی اپنے دائرۂ نظام میں ہر جگہ موجود ہے، جیسے اللہ کا نور ارض و سما اور کون ومکان پر محیط اور ہرجا حاضر و ناظر ہے۔

سوال – ۱۵۰: قرآنِ حکیم کی کونسی آیت ایسی ہے جو علم و حکمت کے جواہر سے لبریز نہ ہو، لیکن شاید یہ بھی کوئی ہدایتی معجزہ ہے کہ ہر بار کوئی پُرحکمت آیۂ شریفہ اِس دل کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے، چنانچہ سورۂ نجم (۵۳: ۳۰) میں ہے: ذالِکَ مَبْلَغُھُمْ مِنَ الْعِلْمِ =ان لوگوں کا مبلغِ علم بس یہی کچھ ہے۔ مَبلغ کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ -جواب:  مبلغ = پہنچنا، پہنچنے کی جگہ، بُلُوغ سے مصدر میمی و اسمِ ظرف (قاموس القرآن) یعنی ہر شخص کی علمی رسائی کی جگہ، علمی درجہ، علمی سفرکی لاتعداد منازِل میں

 

۱۳۵

 

سے کوئی منزل، اس آیۂ کریمہ سے صاف طور پر یہ معلوم ہُوا کہ دینی علم میں لوگوں کے اجتماعی درجات بھی ہیں اور انفرادی درجات بھی، جس طرح مادّی ترقی کے لحاظ سے اقوامِ عالم برابر نہیں ہیں، اور نہ کسی مُلک کے تمام باشندے ظاہری علم و ہُنر میں یکسان ہوتے ہیں۔

 

۱۳۶

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۵

 

سوال – ۱۵۱:  آپ نے علمی درجات سے متعلّق قرآنِ پاک کی ایک روشن دلیل پیش کی، لیکن ہمیں اس سلسلے میں مزید دلائل کی ضرورت ہے، کیا آپ کچھ اور بتا سکتے ہیں؟ -جواب:  (۱) قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں درجات کا ذکر آیا ہے، وہ علم و عمل ہی کے درجے ہیں (۲) سُورۂ مجادلہ (۵۸: ۱۱) میں دیکھو (۳) سیڑھیوں (۷۰: ۰۳، ۳۲: ۰۵، ۵۲: ۳۸) سے درجات مراد ہیں (۴) درجات عرش تک (۴۰: ۱۵) ہیں (۵) علم و عمل کے درجات میں ترقّی کے لئے امتحان و آزمائش ہے (۶۷: ۰۲) (۶) ہر امتحان درجے کو بڑھانے کی خاطر ہے (۰۲: ۱۵۵)۔

سوال – ۱۵۲: آیا کوئی ایسی حدیثِ شریف بھی آپ پیش کر سکتے ہیں کہ اس سے لوگوں کے عقلی اور علمی درجات کا ثبوت مِل سکے؟ -جواب:  جی ہاں، ایک حدیثِ شریف یہ ہے: اِنَّا مَعَاشِرَ الْاَنْبیَاءِ نُکَلِّمُ النَّاسَ عَلیٰ قَدْرِ عُقُوْ لِھِمْ =ہم گُروہِ انبیا ء لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق بات کرتے ہیں، (احادیثِ مثنوی) ان شہادتوں اور دلیلوں سے یہ حقیقت بیش از بیش روشن ہوگئی کہ قرآن و حدیث کی پُرحکمت

 

۱۳۷

 

تعلیمات درجہ وار ہیں۔

سوال – ۱۵۳: آپ نے بحوالۂ قرآن (۰۲: ۱۲۴)یہ کہا ہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں امامت کے بڑے بڑے اسرار پنہان ہیں، لہٰذا آپ یہ بتائیں کہ تعمیرِ خانۂ کعبہ کی کیا تاویل ہے؟ قبلہ کے باطنی معنی کیا ہیں؟ بیت اللہ کو بیت العتیق کہنے میں کیا حکمت ہے؟ – جواب:  خانۂ خدا (بیت اللہ) کی تعمیر جو حضرتِ ابراہیمؑ اور حضرتِ اسماعیلؑ نے کی تھی، اس کی تاویل یہ ہے کہ پیغمبر اور امام خدا کے حکم سے ہر کامیاب عالمِ شخصی میں قبلہ (خدا کا گھر) بناتے ہیں، جیسے بعد کے زمانے میں حضرتِ موسٰیؑ اور ہارونؑ کو یہی حکم ملا تھا (۱۰: ۸۷) قبلہ کے باطنی معنی ہیں امام، کیونکہ اللہ کا خانۂ باطن امام ہے، بیت اللہ کو بیت العتیق (قدیم گھر) کہنے کا راز یہ ہے کہ امام کا نور قدیم ہے، یاد رہے کہ جس چیز میں ہمیشہ ہمیشہ تجدّد ہوتا رہتا ہے، وہ قدیم بھی ہے اور جدید بھی، جیسے خانۂ کعبہ کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ اللہ کے اس مقدّس گھر کی کئی بار تعمیرِنَو ہوچکی ہے، پھر بھی قرآن اس کو بیت العتیق (قدیم گھر) کہتا ہے، تو اس میں کیا شک ہوسکتا ہے۔

سوال – ۱۵۴: آیا یہ بات درست ہے کہ انسان ہمیشہ سَیّارہ بہ سَیّارہ مُنتقل ہوتا رہا ہے؟ کیا یہ تصوّر صحیح ہے کہ دینِ فطرت قدیم ہے؟ سُنّتِ الٰہی ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے، لیکن کس طرح؟ کیا یہ حقیقت ہے کہ آدموں کا سلسلہ دائمی ہے؟ آیا یہ بھی امر واقعی ہے کہ اس سلسلۂ دائرہ نما کا

 

۱۳۸

 

ہر آدم کُلّی بہشت سے ہوکر کسی سَیّارے پر ھُبوط کرتا ہے، اور وہاں اس کے رجوع کی خاطر ایک قبلہ (خدا کا گھر) بنایا جاتا ہے؟ کیا بیت العتیق کے یہی معنی ہوتے ہیں؟ آیا بیت العتیق امام علیہ السّلام کی مثال ہے؟ -جواب:  جی ہاں، آدم و آدمی ہمیشہ ایک زمین سے دوسری زمین پر مُنتقل ہوتے رہتے ہیں، یقیناً دینِ فطرت قدیم ہے، یعنی ہمیشہ ہے، سُنّتِ الٰہی میں تبدیلی نہ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس میں اصولی چیزیں ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہیں، ہاں یہ حقیقت ہے کہ آدموں کا سلسلہ ہمیشہ جاری ہے، کوئی شک ہی نہیں کہ ہر آدم بہشت کی نعمتوں سے ہوکر آتا ہے، اور ہر آدم کے لئے زمین پر ایک قبلہ بنایا جاتا ہے، ہاں یہ کہنا بالکل درست ہے کہ بیت العتیق کے معنی یہی ہیں، جب اللہ کا خانۂ ظاہر قدیم (عتیق) ہے تو معلوم ہوا کہ اس کا خانۂ باطن (امامؑ) قدیم ہے، الحمد للّٰہ۔

سوال – ۱۵۵: سُورۂ قَصَصْ (۲۸: ۸۸) میں ہے: کُلُّ شَیْ ءٍ ہالِکٌ اِلَّا وَجْھَہُ۔ اس فرمانِ خداوندی کی روشنی میں یہ بتائیں کہ سَیّارۂ زمین اور اس کے باشندوں کی ہلاکت کس طرح ہوگی؟ -جواب:  سُورۂ کہف (۱۸)کی آٹھویں آیت کو غور سے پڑھ لیں، جس کا ترجمہ یہ ہے: واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے، آخر کار اِس سب کو ہم ایک چَٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔ یہ ہے قرآنِ حکیم کی وہ پیش گُوئی جس کے مطالق سَیّارۂ زمین کی ساری آبادی وقت آنے

 

۱۳۹

 

پر ختم ہوجانے والی ہے، اس سے پہلے ذخیرۂ آب ختم ہوجائے گا، حوالۂ سُورۂ مومنون (۲۳: ۱۸) اور سورۂ مُلک (۶۷: ۳۰) مگر خدا لوگوں کو ضائع نہیں کرے گا، بلکہ قانونِ قیامت کے مطابق ان کے روحانی ذرّات کو امام میں جمع کرے گا (۱۷: ۷۱) یہ ہُوا وجہ اللہ (یعنی امام) کے سِوا ہر چیز کا ہلاک و فنا ہوجانا، اور رحمتِ الٰہی سے ہر شیٔ کا امامِ مُبین میں محدود و محفوظ ہوکر رہنا (۳۶: ۱۲)۔

سوال – ۱۵۶: آپ کہتے ہیں کہ تمام معرفتیں ایک ہی جگہ جمع ہو جاتی ہیں، اگر واقعی ایسا ہے تو سورۂ محمّد (۴۷: ۰۶) میں جس بہشت کی معرفت کا ذکر آیا ہے، اُس میں بھی یقیناً جُملہ معرفتیں مُجتمع ہوں گی، کیا آپ اس کی چند مثالیں پیش کر سکتے ہیں؟ -جواب:  وہ آیۂ شریفہ جس میں جنّت کی پہچان کا تذکرہ آیا ہے، اس طرح سے ہے: وَیُدْ خِلُھُمُ الجَنَّۃَ عَرَّفَھَا لَھُمْ =وہ انہیں اس جنّت میں داخل کرے گا جو انہیں پہلے سے پہچنوا چکا ہے ( ۴۷: ۰۶) بہشتِ مُجسّم و مُشَکَّل امامِ زمانؑ ہے، جس کی معرفت ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی، ظاہری معرفت علم الیقین ہے، باطنی معرفت عین الیقین اور حقّ الیقین، معلوم ہے کہ معرفت کا خزانہ باطن میں ملتا ہے، جس میں ہر چیز کی معرفت موجود ہے، پس مذکورہ آیۂ کریمہ میں زندہ شہیدوں کی تعریف ہے (۴۷: ۰۴) جن کو اللہ تعالیٰ کنزِ معرفت سے مالا مال کرتا ہے، اب آپ سوچیں کہ خزانۂ معرفت میں کس چیز کی معرفت موجود نہ ہوگی؟ کیا بہشت اللہ کے پاک دیدار و معرفت کی نعمتِ عُظمیٰ سے کبھی خالی ہوسکتی ہے؟ آیا اس میں ناطقان، اساسان، امامان، اور حُجّتان کی رفاقت نہیں

 

۱۴۰

 

ہے (۰۴: ۶۹)؟ کیا خود شِناسی میں ہر چیز کی شناخت نہیں ہے؟ آخراً میرا پُرخُلُوص مشورہ یہ ہے کہ جب بھی کسی معرفت کی امکانیت پر سوچنا ہو تو مذکورہ بابرکت آیت میں سوچ لیا کریں۔

سوال – ۱۵۷: کیا قرآنِ حکیم میں معرفت سے متعلّق اور بھی بہت سی آیات و اشارات موجود ہیں؟ اگر ہیں تو کس طرح سے؟ -جواب:  معرفت سے متعلّق طرح طرح کی چیزیں بیشمار ہیں، مثال کے طور پر قرآنِ حکیم میں عبادت کتنا اہم مضمون ہے، مگر یہ معرفت کے بغیر کچھ وقعت نہیں رکھتی، معرفت وہ چیز ہے جو علم کو نکھار بخشتی ہے، معرفت کا دوسرا نام یقین ہے، اس کا ایک اور نام حکمت ہے، اس کو “نورِمعرفت” بھی کہتے ہیں، پھر نور کے معنوں میں معرفت کے معنی بھی ہیں، چُنانچہ آپ ” اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ” کا ترجمہ یُوں بھی کرسکتے ہیں: خدا آسمانوں اور زمین کا نورِ معرفت ہے، اس سے معلوم ہوا کہ تخلیقِ کائنات کا مقصد معرفت ہے، اور نزولِ قرآن کا مقصد بھی یہی ہے، پس قرآن کے باطن میں سرتا سر معرفت ہی معرفت ہے۔

سوال – ۱۵۸: احادیثِ مثنوی میں ہے: داؤد علیہ السّلام نے عرض کیا: یَا رَبِّ لِمَاذَا خَلَقْتَ الْخَلَقَ؟ قَالَ: کُنْتُ کَنزاً مَخْفِیاً فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقّتُ الْخَلْقَ لِکَیْ اُعْرَفَ۔ اس حدیثِ قدسی کی حکمت کیا ہے؟ -جواب: ترجمہ: اے میرے پروردگار تو نے

 

۱۴۱

 

خلق کو کس مقصد کے لئے پیدا کیا؟ خدا نے فرمایا: میں ایک چُھپا ہُوا خزانہ تھا پس میں نے پسند کیا کہ میری معرفت ہو تو میں نے خلق کو پیدا کیا تاکہ مجھ کو پہچانا جائے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ نے جس خلق کو اپنی معرفت کے پیشِ نظر پیدا کیا وہ عُرَفاء ہیں، اور یہ روحانی تخلیق کا تذکرہ ہے، ورنہ عوام النّاس کے نزدیک خدائے پاک اب بھی خزانۂ مخفی ہی ہے، کیونکہ خدا شِناسی کے لئے صرف جسمانی تخلیق کافی نہیں ہے، دوسری بہت ہی عظیم حکمت یہ ہے، کہ حضرتِ ربّ کے مبارک ناموں میں سے ایک نام “کنز” بھی ہے، مگر یہ صرف اہلِ معرفت ہی کے لئے خاص ہے۔

سوال – ۱۵۹: سُورۂ بقرہ (۰۲: ۱۶۵) میں یہ ارشاد ہے: والذّین اٰمنوآ شدُّ حُبّاً لِلّٰہ = اور جو لوگ (حقیقی) مومن ہیں انہیں خدا سے شدید عشق و محبّت ہے۔ یہ ترجمہ آپ کی نظر میں کیسا ہے؟ اِس آیۂ شریفہ میں عشقِ الٰہی کا ذکر ہے یا نہیں؟ کسی مُستند عربی لغات کے حوالے سے بتائیں کہ عشق کس چیز کا نام ہے؟ -جواب:   ترجمہ بڑا عمدہ ہے، یقیناً اِس آیۂ کریمہ میں عشقِ سماوی ہی کا تذکرہ ہے، المُنجِد میں ہے: العِشْقُ =محبّت کی زیادتی، پارسائی اور غیر پارسائی دونوں طرح ہوتا ہے۔

سوال – ۱۶۰: عَنْ عَلِّیِ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ اَخَذَ بِیَدِ حَسَنٍ وَّحُسَیْنٍ قَالَ مَنْ اَحَبَّنِیْ وَاَحَبَّ ھٰذَ یْنِ وَاَبَا ھُمَا وَ اُمَّھُمَا کَانَ مَعِیَ فِیْ دَرْجَتِیْ

 

۱۴۲

 

یَوْ مَ الْقِیَامَۃِ۔ آپ اس کا ترجمہ کر کے کوئی حکمت بیان کریں – جواب:  ترجمہ: حضرتِ علیؑ ابنِ ابی طالب فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے حسنؑ اور حسینؑ کے ہاتھ پکڑے اور فرمایا: جو مجھ سے محبّت کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ ان دونوں اور ان کے والدین سے بھی محبّت کرے گا وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں ہوگا۔

۱۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ رسولِ خداؐ کا فرمان حق ہے، لیکن یہ سعادت اہلِ ایمان کو امامِ زمانؑ کے وسیلے سے نصیب ہوسکتی ہے (۲) اس حدیثِ شریف میں اُن تمام آیاتِ کریمہ کی تفسیر اور وضاحت ہے جو آنحضرتؐ کی محبّت سے متعلّق ہیں (۳) علم اور فرمانبرداری کے سِوا اتنی بڑی فضیلت کیونکہ ممکن ہوسکتی ہے (۴) یہ دراصل فنا فی الامامؑ، فنا فی الرّسولؐ، اور فنا فی اللہ کا انتہائی عظیم راز ہے۔

 

۱۴۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۷

سوال – ۱۶۱: سُورۂ صٓ کے ایک ارشاد (۳۸: ۷۵) کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے حضرتِ آدمؑ کو بنایا تھا، اس کی کیا تاویل ہے؟ یہ کونسا مقام تھا؟ -جواب:  خدائے تعالیٰ کے دونوں ہاتھوں سےعقلِ کلّی اور نفسِ کُلّی مراد ہیں، اور یہ عالمِ شخصی کی وہ اعلیٰ منزل تھی، جس کا نام مقامِ عقل ہے، جو عُرَفاء کی پیشانی میں ہے۔

سوال-۱۶۲: اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء علیہم السّلام کو مبعوث فرمایا، جو بہشت کی خوشخبری بھی دیتے تھے اور دوزخ سے ڈراتے بھی تھے، یہ دونوں چیزیں لوگوں کی اجتماعی اور انفرادی صورت میں کس طرح سے ہیں؟ -جواب:  اجتماعی طور پر لوگوں کو بُشارت دینے اور ڈرانے کے لئے آسمانی کتاب کی تعلیمات اور ہر پیغمبر کی ظاہری ہدایات کافی ہوتی تھیں، انفرادی مُژدہ روحانیّت اور نورانی خواب ہے، اور انفرادی تخویف ظلمانی خواب ہے۔

سوال -۱۶۳: قرآنِ حکیم میں جو لعنت کا مضمون ہے، اس کا

 

۱۴۴

 

اصل راز عامّۃُ النّاس نہیں جانتے، تو کیا کوئی شخص کسی چیز پر لعنت بھیج سکتا ہے؟ -جواب:  قطعاً منع ہے، جیسا کہ رسولِ کریمؐ کا ارشاد ہے: ترجمہ: لعن کرنے والا، کسی پر لعنت بھیجنے والا، فحش گوئی کرنے والا اور بدتمیزی کرنے والا مومن نہیں ہے، دوسرا ارشاد: ترجمہ: ایک شخص نے رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کے سامنے ہَوا پر لعنت بھیجی، آپ نے فرمایا: ہَوا پر لعنت نہ بھیجو یہ تو مامور ہے اور جو شخص کسی ایسی چیز پر لعنت بھیجتا ہے جو اس کی مستحق نہیں تو وہ لعنت اسی پر واپس آتی ہے  (جامعِ تِرمذی، جلدِ اوّل، ابواب البِرِّ والصِّلۃ)

سوال – ۱۶۴: حدیثِ شریف ہے: مَنْ کُنْتُ مَوْلَا ہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَا ہُ اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَا ہُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہٗ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَہٗ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ شَھِیْدِی عَلَیْھِمْ ۔ ترجمہ: جس شخص کا میں حاکم اور امیر ہوں، علیؑ بھی اس کا حاکم اور امیر ہے، اے خدا! تو دوست رکھ، اس شخص کو جو علیؑ کو دوست رکھے، اور دشمن رکھ اس شخص کو جو علیؑ کو دشمن رکھے، اور چھوڑ دے اس شخص کو جو علیؑ کو چھوڑ دے، اور مدد و نصرت کر اس شخص کی جو علیؑ کی مدد و نصرت کرے، اے خدا! تو ان پر میرا شہید اور گواہ ہے۔ آپ اس کی گہرائی سے کوئی حکمت بتائیں۔ -جواب:  (۱) یہ نُوْرٌعَلیٰ نُوْر کی نبوّی تفسیر ہے (۲) اللہ کی نورانی رسّی کی روشن دلیل ہے (۳) مولا کے معنی میں اور بھی سوچ لیں (۴) ذاتِ سبحان دوستی اور دشمنی سے برتر ہے، مگر یہاں اس حقیقت کا

 

۱۴۵

 

یقین آیا، کہ کسی شخص کی امامؑ سے دوستی گویا خدا سے دوستی ہے (۵) یہ ایک خزانۂ اسرار ہے، اور باغِ بہشت ہے، آپ اس سے فکری روشنی حاصل کریں۔

سوال – ۱۶۵: اگرچہ علمی سفر کے ہر قدم پر اور ہر منزل میں غوروفکر کی ضرورت ہوتی ہے اور کوئی موقع ایسا نہیں، جس میں فکر کی کوئی اہمیّت نہ ہو، لیکن گمانِ غالب یہ ہے کہ ضرور اس کا کوئی خاص مقام بھی ہوگا، جہاں علم و معرفت کے بلند مقامات کی وجہ سے فکر کے ذریعہ بڑے بڑے اسرار منکشف ہوتے ہوں گے، آیا فکری عمل کے لئے کوئی ایسا اعلیٰ مقام ممکن ہے؟ -جواب:  جی ہاں، یقیناً ممکن ہے، چُنانچہ قرآنِ کریم (۳۴: ۴۶) میں ایک نہایت پُرازحکمت آیت ہے، جس کا مفہوم یوں سمجھ لیں کہ خداوند تعالیٰ دین کی ہدایات و نصائح کو پھیلاتا بھی ہے اور جمع بھی کرتا ہے، پس اسی آیۂ مبارکہ میں یہی امرِ واقعی ہے: قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍ اَنْ تَقُوْ مُوْا لِلّٰہِ مَثْنٰی وَ فُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْا۔ اے رسولؐ کہدو کہ میں تو تمہیں ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں (جو تمام نصیحتوں کا مجموعہ ہے) کہ تم دو دو اور ایک ایک کھڑے ہوجاؤ (یعنی تم اِسی زندگی ہی میں کارِ قیامت کو انجام دو اور نفسانی موت سے مرکر زندہ ہوجاؤ، یہ ہُوا کھڑے ہوجانا) “دو دو اور ایک ایک” کا مطلب ہے کثرت سے دوئی کی طرف جانا اور دوئی سے وحدت کی طرف، اب چشمِ بصیرت اور فکر کا سب سے اعلیٰ مقام ہے، تاکہ اسرارِ معرفت منکشف ہوجائیں۔ جیسے ارشاد ہے: ثُمَّ

 

۱۴۶

 

تَتَفَکَّرُوْا۔ پس فکر کرو اور سوچو۔

سوال – ۱۶۶: آپ کے کہنے کے مطابق روحانی اور انفرادی قیامت کے بعد فکر کی بہت بڑی اہمیّت ہوجاتی ہے، اس کی چند مثالیں بتائیں – جواب:   قیامت سے نورِ معرفت حاصل آتا ہے، جس کی روشنی میں ہر چیز پر غور و فکر کرنے سے بڑے مفید نتائج کی اُمید ہوتی ہے، اور بعض اوقات خزانے ہی خزانے بھی مل جاتے ہیں، قرآن میں سوچو، اپنی ذات یا کائنات میں یا حدودِ دین میں تفکُرّ و تدبُّر کرو، ہر جگہ علم و حکمت کے لطیف جواہر ملتے رہیں گے، آپ نے دَورانِ قیامت آفاق و انفس کے لاتعداد عجائب و غرائب اور انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کے عظیم معجزات کو دیکھا تو تھا، لیکن وہ حالات ایسے تھے کہ ان میں آپ کسی چیز پر غور نہیں کرسکتے تھے، جب کائناتی طوفان تھم گیا، تب سوچنے کا وقت آگیا، یہ ہے مذکورہ آیۂ شریفہ کی مزید وضاحت، الحمد للّٰہ ربّ العالمین۔

سوال – ۱۶۷: سُورۂ انبیاء میں حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ لُوط علیہما السّلام کے بارے میں ارشاد ہے: وَنَجَّیْنٰہُ وَلُوْطاً اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا لِلْعٰلَمیْنَ (۲۱: ۷۱) اور ہم نے ابراہیمؑ اور لوطؑ کو اس سرزمین (شام) کی طرف نجات دی جسے ہم نے عالمین کے لئے بابرکت بنایا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ مُلکِ شام یا کوئی اور مقام تمام زمانوں

 

۱۴۷

 

میں کس طرح عوالمِ شخصی کے لئے بابرکت ہو سکتا ہے؟ -جواب: یہ اشارہ دراصل حظیرۂ قدس کی طرف ہے، جہاں عالمِ لطیف کی زمین بھی ہے اور آسمان بھی، اسی کی نورانی برکتیں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے وسیلے سے ہر عالمِ شخصی کو ملتی رہتی ہیں۔

سوال -۱۶۸: دل کا ایک قرآنی نام فُؤاد ہے، اس کی کیا توجیہہ ہوسکتی ہے؟ اور فواد  (ج   اَفْئِدَۃ) کی کیا تاویل ہے؟ -جواب:  اس کا مادّہ: ف ء د ہے، الفُؤاد کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں، فؤاد تَفَؤُّدُ سےبنا ہے، تَفَؤُّدُ کے معنی ہیں روشن ہونا، جلنا، حرارت، بخار، شدّت، اور عجب نہیں کہ اس لفظ (فُؤاد) میں آتشِ عشقِ سماوی اور نورِ معرفت کی تمثیل ہو، یقیناً یہی حقیقت ہے، کیونکہ قرآن کا مقصد یہی ہے کہ انسان اپنی تمام اعلیٰ صلاحیتوں کے ساتھ خدا کی عاشقانہ غلامی کرے، جب کوئی بندۂ مومن اپنے دل کو علم و عمل اور عشقِ حقیقی سے شمع کی طرح جلاتا رہے گا، تو ایک دن خدا اُس کو ایک نُورانی فُؤاد (قلب) عطا کرے گا، یہ معجزاتی دل امامِ عالیمقامؑ ہوگا، جس کو یہ عاشق جان و دل سے مانتا اور پہچانتا تھا، پس فُؤاد کی تاویل یہ ہے۔

سوال – ۱۶۹:  وہ آیات یا آیت کونسی ہے جس میں ایسی تاویل ہو؟ -جواب:  مثال کے طور پر دیکھیں: سورۂ نحل (۱۶: ۷۸) سورۂ مومنون (۲۳: ۷۸) سورۂ سجدہ (۳۲: ۰۹) سُورۂ مُلک (۶۷: ۲۳) ترجمہ ہے:

 

۱۴۸

 

اور اس نے تم کو کان دیئے اور آنکھ اور دل تاکہ تم شکر کرو۔ کان سے ناطق مراد ہے، آنکھ سے اساس، اور دل کی تاویل امام ہے، ایسی عظیم نعمتوں کی وجہ سے شکر گزاری واجب ہوجاتی ہے، کیونکہ یہ اللہ کا خاص احسان ہے، ورنہ ظاہری کان، آنکھ اور دل لادینوں کے بھی ہیں اور حیوانوں کے بھی۔

سوال -۱۷۰: حدیثِ نوافل میں پروردگارِ عالم کی جن نوازشات کا ذکر آیا ہے، کیا وہ حدودِ دین کے وسیلے سے ممکن ہیں یا براہِ راست؟ -جواب:  اللہ تعالیٰ کے قربِ خاص کے لئے حدودِ دین کی سیڑھی ہے، معراج (سیڑھی) کے بغیر عروج ممکن نہیں، یہ سیڑھی زندہ درجات کی ہے، آپ قرآنِ حکیم میں دیکھئے کہ درجات اور سیڑھیوں (معارج) کا ذکر ہے، جس طرح سُورۂ یٰسٓ (۳۶: ۱۲) سے یوں لگتا ہے کہ بندوں کے اعمال کو خدا خود لکھتا ہے، لیکن سورۂ انفِطار (۸۲: ۱۱) سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال لکھنے کا کام کچھ فرشتوں کے سپُرد ہے، جو کِرَاماً کَاتِبِیْن کہلاتے ہیں، یہاں پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ خدا جو حقیقی بادشاہ ہے، وہ کارکُنانِ قدرت کو مختلف کاموں پر مامور کرتا ہے، مگر وہ خود ہر کام سے پاک و بالاتر ہے۔

 

۱۴۹

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۸

 

سوال – ۱۷۱: عشقِ سماوی کی کتاب کس پیغمبر پر نازل ہوئی تھی؟ فرشتۂ عشق کا کیا نام ہے؟ قرآن کہتا ہے کہ خزائنِ الٰہی میں ہر چیز موجود ہے (۱۵: ۲۱) کیا ان میں حقیقی عشق بھی ہے؟ اگر سب مومنین یا بعض خدا سے بہت سخت محبّت رکھتے ہیں تو ایسی محبّت کو عشقِ الٰہی کہنا چاہئے یا نہیں؟ -جواب:  (۱)عشقِ سماوی کی کتاب جو زبور کے نام سے ہے، وہ حضرتِ داؤد علیہ السّلام پر نازل ہوئی تھی (۲) فرشتۂ عشق کا نام اسرافیل صاحبِ صور ہے (۳)کوئی ایسی چیز نہیں جو خزائنِ الٰہی میں موجود نہ ہو، چنانچہ اللہ کے خزانوں میں عشقِ حقیقی بھی موجود ہے (۴) جو اہلِ ایمان خدا سے بہت سخت محبّت رکھتے ہیں، ان کو مبارک ہو کہ وہ خدا کےسچّے عاشق ہیں۔

سوال – ۱۷۲: کیا قرآن اگلی کتابوں میں بھی تھا؟ اور اگلی کتابیں قرآن میں بھی ہیں؟ اگر یہ حقیقت ہے تو دلیلوں اور مثالوں سے سمجھائیں -جواب:  جی ہاں، یہ حقیقت ہے، اور اس کی پہلی دلیل: سُورۂ شُعراء(۲۶: ۱۹۶) میں ہے: وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِالْاَوَّ لِیْنَ = اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی یہ (قرآن) موجود ہے۔ دوسری دلیل: سُورۂ مائدہ (۰۵: ۴۸)

 

۱۵۰

 

پڑھیں، قرآن سابقہ کتبِ سماوی کی تصدیق کرتا ہے، اور ان کا محافظ اور نگہبان ہے، اس معنیٰ میں کہ ان کے مطالب اور خلاصہ جات اس میں موجود ہیں، تیسری دلیل: سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۱۳) میں دیکھیں کہ تمام کتبِ سماویہ کا مجموعی نام “الکتاب” ہے، اور وہ آج قرآن ہے، چوتھی دلیل: آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمّدؐ سے متعلّق آیۂ کریمہ (۰۴: ۵۴) کو دیکھئے کہ ان کو خدا نے الکتاب دی ہے جو قرآن ہے۔

سوال – ۱۷۳: مذکورۂ بالا دلائل سے یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ قرآنِ عظیم کے ظاہر و باطن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے، اور اس میں سابقہ کتبِ سماوی کا خلاصہ اور جوہر بھی محفوظ ہے، پھر بھی شاید یہ ایک مناسب سوال ہے کہ جس طرح حضرتِ داؤد علیہ السّلام مختلف سازوں کی موسیقی کے ساتھ زبور کو پڑھا کرتے تھے، آیا اُس پر قرآنِ پاک میں کوئی تنقید یا تردید کی گئی ہے؟ -جواب:  ہر گز نہیں، خدا نے خود اپنی عِنایت سے حضرتِ داؤدؑ کو آسمانی عشق کا مُعَلِّم بنایا تھا، تاکہ لوگ اسرارِ عشق سے کچھ سبق حاصل کریں۔

سوال – ۱۷۴: سُورۂ مُزَّمِّل (۷۳: ۱۸) میں ہے: السّمَآ ءُ مُنْفَطِرٌ بِہٖ کَانَ وَعْدُہٗ مَفْعُوْلاً۔ اس کی اصل حکمت کیا ہے؟ -جواب:   ترجمۂ اوّل: اس دن آسمان پھٹ پڑے گا اور اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ ترجمۂ دوم: اس دن آسمان پھٹ جانے والا ہے اور اس کا

 

۱۵۱

 

وعدہ (بارہا) پورا ہوچکا ہے۔ یعنی پہلے بھی ایسی روحانی قیامت در پردہ برپا ہوتی رہی ہے، کیونکہ مفعول کا معنوی تعلّق ماضی سے ہے۔

سوال – ۱۷۵: آپ نے کچھ دن پہلے یُدَبِّرُ الْاَمْرَ (۱۰: ۰۳) کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ خداوند تعالیٰ کلمۂ امر (کُن) کا اِعادہ کرتا رہتا ہے، کیونکہ وہ اس حکم کے ذریعے سے تخلیق کا سلسلہ جاری رکھتا ہے، کیا یہ بات درست ہے؟ -جواب:  جی ہاں، درست ہے، یہی سبب ہے جو ارشاد ہُوا ہے: وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفُعُوْلاً (۳۳: ۳۷) اور اللہ کا فرمان وہ ہے جو بارہا عمل میں آچکا ہے، پس خدا کے ہاں کوئی ایسا کام نہیں جو کبھی نہ کیا گیا ہو، مگر ہر چیز میں تجدّد ہے، جس کو خلقِ جدید کہا گیا ہے (۱۳: ۰۵، ۱۴: ۱۹، ۳۲: ۱۰، ۳۴: ۰۷، ۳۵: ۱۶، ۵۰: ۱۵، ۱۷: ۴۹، ۱۷: ۹۸)۔

سوال -۱۷۶: ازل کس چیز کا نام ہے؟ ابد کا تصوّر کس طرح کریں؟ لامکان کہاں ہے؟ -جواب:  ازل زمانِ ساکن کا نام ہے جو دھر ہے، اور ابد اس سے الگ نہیں، لامکان کے لئے کہاں کہنا درست نہیں، کیونکہ یہاں، وہاں، کہاں، جیسے الفاظ مکان کے لئے استعمال ہوتے ہیں، مگر لامکان کے لئے نہیں، اس کے لئے یوں پوچھا جائے: کیا لامکان کا علم ہوسکتا ہے؟ یا مشاہدہ اور معرفت ممکن ہے؟ اس کا جواب ہے کہ ہاں، مکان و زمان سے بالا تر ہونے کی صورت میں ازل، ابد، اور لامکان کا مشاہدہ ہوسکتا ہے۔

 

۱۵۲

 

سوال -۱۷۷: سورۂ اَنعام (۰۶: ۷۳) میں ارشاد ہے: وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ بِالْحَقِّ وَيَوْمَ يَقُولُ كُنْ فَيَكُونُ قَوْلُهُ الْحَقُّ۔ اس کی حکمت بیان کریں-جواب:   ترجمۂ اوّل: اور وہی ہے وہ ذات کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور جس دن وہ کہے گا “ہوجا” تو وہ ہوجائے گا، اس کا قول حق ہے۔ ترجمۂ دوم: اور وہی ہے وہ ذات کہ جس نے (عالمِ شخصی کے) آسمانوں اور زمین کو حق (کلمۂ امر) سے پیدا کیا اور جس وقت وہ کہتا ہے “ہوجا” تو وہ ایک عالم ہوجاتا ہے، اس کا قول (کلمۂ امر) حق ہے۔ (۱) یہ ارشاد عالمِ شخصی سے متعلق ہے (۲) حق سے کلمۂ امر مراد ہے، جو حقّ الیقین ہے (۳) وہاں ہر بار اللہ کے کُنْ (ہوجا) فرمانے سے ایک کائنات وجود میں آتی ہے۔

سوال – ۱۷۸: إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (۰۳: ۵۹)اس آیۂ کریمہ کی حکمتِ ضروریّہ بتائیں۔ -جواب:  ترجمۂ اوّل: اللہ کے نزدیک عیسیٰؑ کی مثال آدمؑ کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سےپیدا کیا اور حکم دیا کہ ہوجا اور وہ ہوگیا۔ ترجمۂ دوم: اللہ کے نزدیک عیسیٰؑ کی مثال آدمؑ کی سی ہے کہ اللہ نے اسے (قانونِ فطرت ۳۰: ۳۰ کے مطابق) مٹی سے پیدا کیا اور (روحانی ترقّی کے بعد مقامِ عقل پر ) اسے “ہوجا” فرمایا اوروہ (نورانی مخلوق) ہوگیا۔ (۱) ہر انسان ماں باپ ہی (۱۶: ۰۴، ۷۶: ۰۲) سے پیدا ہوتا ہے، آدمؑ و عیسیٰؑ بھی انسان ہی تھے (۲) مذکورہ آیۂ کریمہ سے معلوم ہُوا کہ کُنْ کا

 

۱۵۳

 

اطلاق مقامِ عقل پر ہوتا ہے، جس سے انسانِ کامل عقلی طور پر پیدا ہوجاتا ہے، اور یہی وہ مرتبہ ہے، جس میں ستر ہزار فرشتے/سترہزار کاپیاں/ستر ہزار عوالم پیدا ہوجاتے ہیں، فرشتہ، کاپی، اور عالم ایک ہی چیز ہے۔

سوال – ۱۷۹: وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا۔ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ   (۶۵: ۰۲ تا ۰۳) ترجمۂ ظاہر کےبعد حکمت بیان کریں۔ -جواب: ترجمۂ اوّل: اور جو بھی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے نجات کی راہ پیدا کردیتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال بھی نہیں ہوتا ہے۔ ترجمۂ دوم: اور جو شخص (حقیقی معنوں میں) متّقی ہو اللہ اس کے لئے ایک مخرَج (علم کا سرچشمہ) بنا دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ علمی رزق دیتا ہے جس کا گمان بھی نہیں ہوتا ہے۔ (۱) تقویٰ کا مقصدِ عالی علم ہے (۲) مخرج سے سرچشمۂ علم مراد ہے (۳) علمِ مخزون قرآن و حدیث کی ایسی جگہوں سے ملتا رہتا ہے، جس کا گمان بھی نہیں ہوتا ہے۔

سوال -۱۸۰: کیا آپ قرآنِ حکیم سے کوئی ایسی مثال پیش کرسکتے ہیں، جس کے بارے میں گمان بھی نہ ہو کہ اس میں علمِ مخزون پوشیدہ ہے؟ -جواب:  ان شاء اللہ آئیے سورۂ ہود (۱۱: ۵۶) میں دیکھتے ہیں: مَا مِنْ دَابَّةٍ إِلاَّ هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا =اور کوئی زمین پر چلنے والا ایسا نہیں ہے جس کی پیشانی کے بال اس کے ہاتھ میں نہ ہوں۔ (۱) زمین پر

 

۱۵۴

 

چلنے والا جاندار مومنِ سالک ہے، کہ صرف وہی راہِ روحانیّت پر آگے بڑھتا ہے (۲) پیشانی کے بال سے حواسِ باطن مراد ہیں، جو خدا کے ہاتھ میں ہیں، تاکہ وہ اس روحانی جاذبیّت و کشش سے منزلِ مقصود کی طرف جاسکے (۳) نیز اس کی تاویل یہ بھی ہوسکتی ہے: سالک کے حواسِ باطن ہادیٔ برحق کے عشق کی گرفت میں ہیں، جیسے آیۂ مذکورہ کا آخری حصّہ ہے: اِنَّ رَبیّ عَلیٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ (۱۱: ۵۶) یقیناً میرا ربّ سیدھی راہ پر ہے۔ اس سے ہادئ زمان مراد ہے کہ وہی خدا کی طرف سے رہنمائی کرتا ہے۔

 

۱۵۵

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۹

 

سوال – ۱۸۱: خداوندِ قدّوس کے فضل و کرم سے ہم صراطِ مستقیم کے معنی، مطلب، اور تاویلی راز کو تو جانتے ہیں، لیکن یہاں ہمارا ایک بڑا اہم سوال یہ ہے کہ سلامتی کی راہیں (سُبُلَ السَّلٰم ۰۵: ۱۶) کیا ہیں یا کون کونسی ہیں کہ جن کی ہدایت خدا اپنے نازل کردہ نور (۰۵: ۱۵) سے کرتا ہے؟ -جواب:  اس کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آپ سلام/السّلام کے معنوں کو معلوم کرلیں، اور آخراً اس حقیقت پر یقین کریں کہ ان معنوں کا اور دوسرے تمام معانی کا منبع و مصدر ایک ہی ہے، اور ان کا مرجع و مآب بھی ایک ہی ہے، اور وہ کلمۂ امر (کُنْ) ہے، یعنی قرآنی علم و حکمت کے الفاظ کے عُلوی اور اصل معانی کلمۂ امر کے خزانے سے آئے ہیں (۱۵: ۲۱) اور سلامتی کی راہیں یہ ہیں کہ آپ ان معنوں کو لوٹاتے ہوئے خزانۂ امر تک جاسکتے ہیں۔

پہلی مثال: یہ ارشادِ مبارک قلبِ قرآن (۳۶: ۵۸) میں ہے سَلاَمٌ قَوْلاً مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ  = رَبِّ رحیم کی طرف سے ایک قول (کلمۂ امر) ہے جو وہی (ہمیشہ کی) سلامتی ہے۔ دوسری مثال: قرآنِ پاک کے متعدد آیات میں پیغمبروں پر سلام آیا ہے، جیسے سُورۂ صٰفّٰت (۳۷: ۱۸۱) میں ہے،

 

۱۵۶

 

جس کی تاویل یہ ہے کہ وہ حضرات کلمۂ امر تک رسا ہوچکے تھے، تیسری مثال: بہشت میں ہر وقت سلام سلام کہا جائے گا (۵۶: ۲۶) یعنی وہاں کلمۂ امر کے اسرارِ عظیم پر گفتگو ہوگی۔ چوتھی مثال: سُورۂ اَنعام (۰۶: ۱۲۷) میں ہے: ان کے ربّ کے پاس ان کے لئے سلامتی کا گھر ہے اور وہ ان کا سرپرست ہے اس صحیح طرزِ عمل کی وجہ سے جو انہوں نے اختیار کیا۔ یعنی ان کی علمی وعرفانی رسائی اور توجّہ کا مرکز حظیرۂ قدس اور کلمۂ باری ہوگا۔ پانچویں مثال: خداوندِ تعالیٰ کا ایک مبارک نام السّلام ہے (۵۹: ۲۳) اس کے معنی یہ ہیں کہ جہاں کلمۂ امر ہے، وہاں حضرتِ ربّ العزّت کی ملاقات اور معرفت ہے۔

سوال – ۱۸۲: جب کوئی نیک بخت بندۂ مومن (سالک) نورِ ہدایت کی پَیروی میں منزلِ مقصود تک پہنچ کر فنا فی اللہ ہو جاتا ہے، پھر اس کے بعد وہ عمل کونسا ہے جو ھنوز نہیں کیا گیا ہے؟ – جواب:  ایک تو ہے خدا کی طرف چلنا، اور دوسرا ہے خدا میں چلنا، پس اس سالک کا ایک سفر تو ختم ہوگیا، اور دوسرا سفر اب شروع ہورہا ہے، جس کی علمی وعرفانی مسافتیں سلامتی کی راہیں کہلاتی ہیں۔

سوال – ۱۸۳: آیا سلامتی کی راہوں کو طریقِ تاویل بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ عملی تاویل وہ ہے، جس میں حقائق و معارف کو

 

۱۵۷

 

حظیرۂ قدس کی طرف لوٹایا جاتا ہے؟ -جواب:  یقیناً سلامتی کی راہیں دراصل تاویل ہی کی راہیں ہیں، اور یہاں سلامتی کے مبحث میں جیسی وضاحت کی گئی وہ تاویل ہی ہے، پس سلامتی کی راہوں کو طریقِ تاویل کہنا درست ہے، اور یہی حکمت بھی ہے جو خیرِ کثیر ہے۔

سوال – ۱۸۴: قرآنِ عزیز کے عظیم الشّان مضامین میں تسخیرِ کائنات کا مضمون بھی نہایت ہی ضروری ہے، یقیناً اس میں بڑے بڑے اسرار ہوں گے، لہٰذا آپ یہ بتائیں کہ خدا کے حکم سے کائنات اہلِ ایمان کے لئے مُسخّر ہوچکی ہے یا اس کی تسخیر مُستقبل میں ہونے والی ہے؟ -جواب:  تسخیر سے متعلق جتنی آیاتِ کریمہ ہیں ان کا فرمانا ہے کہ آدمی کے لئےکائنات اور اس کی ہر چیزمُسخّر کی گئی ہے لیکن جاننا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ سب سے بڑا احسان انائے عُلوی کی نسبت سے ہے، اور کاملین و عارفین کو اس حقیقت کا احساس و ادراک بھی ہوگیا ہے کہ جس روحانی بلندی پر انائے عُلوی اور یک حقیقت ہے، وہاں آپ سب کے لئے کائنات مُسَخّر کی گئی ہے، اور اس تسخیر کا دوسرا نام: بہشت کی بہت بڑی بادشاہی (مُلْکاً کَبِیْراً ۷۶: ۲۰) ہے، جو عالمِ صغیر اور عالمِ کبیر کے ظاہر و باطن پر محیط ہے۔

سوال – ۱۸۵:  آپ نے موضوعِ روح پر ایک غیر معمولی اور

 

۱۵۸

 

بے مثال و پُرحکمت کتاب “روح کیا ہے؟” تصنیف کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ آپ یقیناً روح شناس ہیں، کیا آپ روح کے چند بھیدوں کو بتا سکتے ہیں؟ روح مرئی ہے یا غیر مرئی؟ اگر دیدنی (مرئی) ہے تو اس کی شکل و صورت کیسی ہے؟ اگر روح کلام کرتی ہے تو وہ کلام کس زبان میں ہوتا ہے؟ کیا روح آپ کی تھی؟ یا مرشدِ کامل کی؟ یا دونوں کی؟ -جواب:  (۱) ان شاء اللہ، روح کے چند بھید بتا سکتا ہوں (۲) روح مرئی بھی ہے اور غیر مرئی بھی (۳) روح کی بے شمار تجلّیات کی بے شمار شکلیں ہیں، تاہم وہ اصلاً انسانی شکل میں ہے (۴) روح سالک / عارف کی زبان میں کلام کرتی ہے (۵) میری روح تھی، میرے امام کا نور تھا، اور ساری روحیں تھیں، الحمد للّٰہ۔

سوال – ۱۸۶: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً۔ اس آیۂ مبارکہ میں سے کوئی حکمت بتائیں۔ -جواب:  اور (اے رسولؐ) تم سے لوگ روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں تم (ان کے جواب میں صرف اتنا) کہدو کہ میرے پروردگار کے امر سے ہے اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے (لہٰذا تم کو اسرارِ روح کیسے بتائیں،  ۱۷: ۸۵) (۱) روح عالمِ امر سے اس طرح آئی ہے کہ یہ گویا ایک نورانی رسّی ہے، جس کا بالائی سِرا کلمۂ امر (کُنۡ) سے وابستہ ہے، اور زیرین سِرا انسانِ کامل میں ہے (۲) یہ نفسِ واحدہ کا ذکر ہے، جس سے نفوسِ جُزوی پیدا ہوجاتے ہیں (۳) آپ مذکورہ آیۂ شریفہ میں

 

۱۵۹

 

دیکھ سکتے ہیں کہ لفظ روح نہیں بلکہ الرّوح ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ تذکرہ خاص روح کا ہے (۴) حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم سے علم و حکمت کے اسرار دریافت کرنے کے لئے آپؐ کے نورانی دروازے سے داخل ہوجانا ضروری ہے، معلوم ہے کہ وہ بابِ مقدّس نورِ امامت ہے۔

سوال- ۱۸۷:  یہ تو معلوم ہے کہ زَبُور وہ کتابِ سماوی ہے جو حضرتِ داؤد علیہ السّلام پر نازل ہوئی، اس کے علاوہ کیا قرآن میں کہیں لفظِ زبور نامۂ اعمال کے لئے بھی آیا ہے؟ اس کا کیا ثبوت ہے کہ نامۂ اعمال کا نام بھی زبور ہے؟ -جواب:  جی ہاں، قرآنِ حکیم میں لفظِ زبور کتابِ اعمال کے لئے بھی استعمال ہوا ہے، وہ ارشادِ مبارک یہ ہے: وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ (۲۱: ۱۰۵) اور (کاملین و عارفین کے) نامۂ اعمال میں ذکر کے بعد ہم یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ ثبوت کے لئے ملاحظہ ہو کہ الزّبور (اعمال نامہ) واحد ہے، اور الزُّبُر (اعمال نامے) جمع، جیسا کہ سُورۂ قمر (۵۴: ۵۲) میں ارشاد ہے: وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوهُ فِي الزُّبُرِ۔ اور یہ لوگ جو کچھ کرچکے ہیں وہ سب اعمال ناموں میں (درج) ہے۔

۱۔ خداوندِ تعالیٰ نے کاملین و عارفین کے نامۂ اعمال کو زبور کے اسم سے موسوم فرمایا، لہٰذا اس نام کے تحت بہت سے عظیم اسرار ہوسکتے

 

۱۶۰

 

ہیں (۲) نامۂ اعمال کتابِ قرطاس نہیں، وہ قیامت نامہ بشکلِ عالمِ شخصی ہے، بلکہ وہ کتابِ کائنات ہے (۳) مذکورہ آیۂ مبارکہ میں جس زمین کی وراثت کا ذکر ہُوا ہے وہ کُلّ کائناتی زمین ہے، بلکہ نفسِ کُلّی کی زمین ہے (۴) قیامت نامہ (زبور =کتابِ اعمال) میں انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کے تمام روحانی معجزات ہوتے ہیں، پھر حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے معجزے کیوں نہ ہوں۔

سوال – ۱۸۸: یہ بابرکت ارشاد سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۹) میں ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ =اے ایمان والوخدا سے ڈرو اور سچّوں کے ساتھ ہوجاؤ۔ اس کی تاویلی حکمت کیا ہے؟ -جواب:  اس میں بہت بڑی تاویلی حکمت ہے، وہ یہ کہ ہر زمانے کے مسلمین و مومنین کو یہ حکم ہوا ہے کہ خدا سے ڈریں اور اپنے وقت کے صادق (امام) کے ساتھ ہوجائیں، دنیا کے معاملات میں سچ بولنے والے بہت ہیں، مگر پیغمبرؐ اور امامؑ کے سِوا روحانی علم میں سچّا کوئی نہیں، لہٰذا صداقت اور حقیقت حاصل کرنے کے لئے ظاہراً و باطناً امامِ زمانؑ کے ساتھ ہونا ضروری ہے، اگر عالمِ شخصی میں اور حظیرۂ قدّس میں امام علیہ السّلام کے ساتھ ہونا امرِ مُحال ہوتا تو ایسے ناممکن کام کے لئے حکم نہ دیا جاتا۔

سوال – ۱۸۹:  عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: قَالَ: ضَمَّنِیْ رَسُوْل اللہِ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلّمْ اِلَیْہِ، وَقَالَ اللّٰھُمَّ عَلَّمْہُ الْحِکْمَۃَ وَ تَاوِیْلَ الکِتَابِ۔ (سُننِ ابن ماجہ، جلدِ اوّل، کتاب فی الایمان) اس

 

۱۶۱

 

حدیثِ شریف کا ترجمہ کرکے مطلب بتائیں۔ -جواب:  عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے مجھے اپنے (مبارک) سینہ سے لگا یا اور دعا کی یا اللہ سکھلا دے اس کو حکمت اور تاویل قرآن کی۔

۱۔ یہ حدیثِ شریف قرآنی تاویل کی امکانیّت پر ایک واضح اور روشن دلیل ہے (۲) حکمت اور تاویل علم کی چوٹی پر ہے جہاں خیرِ کثیر کا خزانہ موجود ہے (۳) دراصل حکمت اور تاویل ایک ہی چیز ہے (۴) آنحضرتؐ صاحبِ تنزیل ہیں، او رآپؐ کا جانشین (امام) صاحبِ تاویل۔

سوال –  ۱۹۰: کیا آپ تاویل کے بارے میں کوئی اور حدیث بتا سکتے ہیں؟ -جواب:  ان شاء اللہ، حدیثِ شریف ہے: انّ منکم من بقاتل علیٰ تاویلہ کما قاتلت علیٰ تنزیلہ =یقیناً تمہارے درمیان وہ شخص بھی ہے جو قرآن کی تاویل پر جنگ کرے گا، جس طرح میں نے قرآن کی تنزیل پر جنگ کی (شرح الاخبار، جلدِ اوّل، سرایا الرّسولؐ) جاننا چاہیئے کہ سب سے بڑی تاویلی جنگ روحانی قیامت ہے، جو امام ِزمانؑ کے توسّط سے برپا ہوتی ہے (۱۷: ۷۱) جس میں روحانی جنگ ہوتی ہے، جیسا کہ قبلاً اس کا ذکر ہوچکا ہے۔

 

۱۶۲

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۰

 

سوال – ۱۹۱: کسی بابرکت زمین کی تعریف کے ساتھ ساتھ اس کے مشارِق و مغارب کی طرف زیادہ توجّہ دلانے میں کیا حکمت ہے؟ وہ زمین کونسی ہے (۰۷: ۱۳۷)؟ -جواب:  کیونکہ وہ مبارک و مقدّس سرزمین عرفانی بہشت ہے، اُس پر نورالانوار یعنی خورشیدِ عقل کثیر معنوں اور کثیر اشارات کے ساتھ طلوع و غروب ہوتا رہتا ہے، حالانکہ ایک ہی پاک و بابرکت جگہ ہے جو وہی مشرق بھی ہے اور مغرب بھی، لیکن کثرتِ معانی کی وجہ سے اس کو مشارق ومغارب کہا گیا، اور وہ زمین حظیرۂ قدس ہےجس کو خدانے امامِ مبین علیہ السّلام کی جبینِ مبارک میں رکھا ہے۔

سوال – ۱۹۲: خورشیدِ عقل کس طرح کثیر معنوں اور کثیر اشارات کے ساتھ طلوع و غروب ہوتا رہتا ہے؟ -جواب:  مثال کے طور پر خورشیدِ عقل کے طلوع و غروب سے یہ معلوم ہوا کہ بے شمار چیزیں پردۂ غیب سے ظہور پذیر ہو کر پھر غائب ہو جاتی ہیں، یہ تو طلوع و غروب کی مثال ہوئی، اب غروب و طلوع کا اشارہ دیکھتے ہیں کہ معدنیات، نباتات، حیوانات، اور انسان کی پیدائش سورج کے غروب کے بعد طلوع ہونے

 

۱۶۳

 

کی طرح ہے، اور بعض واقعات و امور بھی ایسے ہیں، جیسے حضرتِ یوسفؑ کو کنویں سے نکالنا، مچھلی کے پیٹ سے حضرتِ یُونس کی خلاصی، حضرتِ سلیمانؑ کے لئے جِنّات کا سمندر سے موتی نکالنا، وغیرہ۔

سوال -۱۹۳: کیا آپ حظیرۂ قدس کے چند دوسرے نام بتا سکتے ہیں؟ -جواب:  ان شاء اللہ (۱) قریبی بہشت (۲) کوہِ جودی (۳) مکانِ عالی (۴) مقامِ ابراہیمؑ (۵) بیت العتیق (۶) بیت المعمور (۷) قبلۂ فرشتگان (۸) مسجدِ اقصیٰ (۹) مقامِ عقل (۱۰) مقامِ معراج (۱۱) کوہِ طور (۱۲) وادیٔ مقدّسِ طُویٰ (۱۳) عِلّیّین (۱۴) مقامِ خزائن (۱۵) کُلّیۂ امامِ مُبین (۱۶) مَطوِیّات، وغیرہ۔

سوال – ۱۹۴: سَقفِ مرفوع (اُونچی چھت ۵۲: ۰۵) سے کیا مُراد ہے؟ سَقفِ محفوظ (محفوظ چھت ۲۱: ۳۲) کی کیا تاویل ہوسکتی ہے؟ -جواب:  سقفِ مرفوع سے عالمِ شخصی کا عرش مراد ہے، جو حظیرۂ قدس ہے، کیونکہ عرش کے معنوں میں چھت بھی ہے، اور سقفِ محفوظ لوحِ محفوظ کی طرح ہے کہ اس چھت (عرش) کے تحت جو کچھ بھی ہے وہ ہمیشہ محفوظ ہے، پس عالمِ شخصی کی جس چھت پر دیدار ہے وہ عرش ہے، اور جس سمندر پر بھری ہوئی کشتی ہے، وہ بھی عرش (تخت) ہے۔

 

۱۶۴

 

سوال – ۱۹۵: سُورۂ ذاریات میں ارشاد ہے:  وَفِي الأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلاَ تُبْصِرُونَ (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) اس کا اصل مطلب بتائیں-جواب:  اور (کائناتی) زمین (یعنی عالمِ اکبر) میں اہلِ یقین کے لئے نشانیاں ہیں، اور خود تمہارے اپنے وجود (عالمِ شخصی) میں بھی سب کچھ ہے۔ ارض سے کائناتی زمین مراد ہے، جس میں نفسِ کُلّی کی زمین سب سے عظیم شَیٔ ہے، کہ وہ آسمانوں کا آسمان بھی ہے، عقلِ کلّی کی زمین بھی، اور اس کے ساتھ مل کر عقلی آسمان بھی ہے، سبحان اللہ !

سوال – ۱۹۶: وَفِی السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ (۵۱: ۲۲) اِس آیۂ کریمہ میں کیا تاویلی راز ہے؟ -جواب:   ترجمۂ اوّل: آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا وعدہ تم سے کیا جارہا ہے۔ ترجمۂ دوم: عالمِ بالا ہی میں ہے تمہارا (روحانی) رزق بھی اور وہ چیز (یعنی قیامت) بھی جس کا وعدہ تم سے کیا جارہا ہے۔ ترجمۂ سِوُم: شخصِ وحدت ہی میں ہے تمہارا (باطنی) رزق بھی اور وہ چیز (روحانی قیامت) بھی جس کا وعدہ تم سے کیا جارہا ہے۔

سوال -۱۹۷: سُورۂ مائدہ (۰۵: ۴۸) میں ارشاد ہے: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا۔ اس کا حکمتی اشارہ کیا ہے؟ -جواب:  ترجمہ: ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک شریعت اور ایک طریقت مقرّر کر دی ہے۔ یعنی اسی طرح حقیقت اور معرفت بھی ضروری ہیں کہ وہ بھی

 

۱۶۵

 

خدا ہی کی طرف سے ہیں، کیونکہ اسی آیۂ کریمہ میں یہ حکم بھی ہے: فَاسْتَبِقُو الخَیْراتِ = بس تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جاؤ۔ قرآنی حکمت یہ بتاتی ہے کہ کوئی بھی نیکی صراطِ مستقیم سے ہٹ کر نہیں ہے، اور اس راہِ دین کی ابتداء سے لے کر انتہاء تک نیکیاں ہی نیکیاں ہیں، جن پر عمل کرنے کے لئے آگے سے آگے جانا پڑتا ہے، تاآنکہ مومنِ سالک فنا فی اللہ ہوجاتا ہے۔

سوال – ۱۹۸:  آپ روشن دلائل سے یہ ثابت کریں کہ اسلام روحانی ترقّی کا دین ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم نے نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے کا حکم دیا۔ ۔جواب:  (۱) اسلام دینِ فطرت ہے، اور فطرت کا بہترین نمونہ انسان ہے، انسان جسماً، روحاً، اور عقلاً بہت ترقّی کر سکتا ہے (۲) اھدنا الصّراط المستقیم کے مطابق تمام مسلمانانِ عالم ہمیشہ یہی دعا کرتے رہتے ہیں کہ خدا ان کو راہِ دین پر چلائے، تاآنکہ منزلِ مقصود آئے (۳) دیکھئے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے اس حقیقت کو واضح کر دیا کہ بندے کو حضرتِ ربّ کی طرف سفر کرنا ہے (۳۷: ۹۹) (۴) اسلام میں سیڑھی کی مثال بہت بڑی اہمیّت رکھتی ہے، کیونکہ سیڑھی (معراج) آنحضرتؐ کے روحانی سفر کو ظاہر کرتی ہے، (۵) انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام حدودِ دین سمیت اپنے اپنے وقت کی روحانی سیڑھیاں ہوا کرتے ہیں (۷۰: ۰۴)، (۶) قرآنِ عزیز میں جگہ جگہ درجات کا ذکر ہے، اور درجے بھی سیڑھی کی طرح ہوتے ہیں، جن میں ترقی کا اشارہ نمایان ہے،

 

۱۶۶

 

(۷) اگر مادّیت کی پستی سے نکل کر روحانیّت کی بلندی پر جانے کی ضرورت نہ ہوتی تو اللہ کی رسّی اس جہان میں نہ آتی (۰۳: ۱۰۳)، (۸) اگر انسان کو روحانی سفر درپیش نہ ہوتا تو نہ فرمایا جاتا کہ سب سے بہتر زادِ راہ پرہیزگاری ہے (۰۲: ۱۹۷)، (۹) ان جیسے الفاظ میں روحانی سفر کے معانی ہیں: نور، ہدایت، ہادی، سبیل، توبہ، رجوع، اِتّباع (پَیروی) سَابِقُوا (سبقت کرو) سارِعوا (جلدی کرو) فِرُّوا (بھاگو) وغیرہ۔

سوال – ۱۹۹: المُستدرک، الجزٔ الثّالث، کتاب معرفۃ الصّحابہ میں یہ حدیثِ شریف ہے: الا اِنّ مثل اھل بیتی فیکم مثل سفینۃ نوح مِن قومہٖ مَن رکبھا نجاو مَن تخلّف عنھا غرق۔ اس کی گہرائی کی کوئی خاص حکمت بتائیں۔ -جواب:  ترجمہ: خبردار ہوجاؤ یقیناً میرے اہلِ بیت کی مثال تمہارے درمیان کشتیٔ نوح کی سی ہے کہ اُس کی قوم میں سے جو شخص اس میں سوار ہوا اس کو نجات مل گئی اور جس نے اس سے مخالفت کی وہ غرق ہوگیا۔

حضرتِ نوح علیہ السّلام کا سفینۂ ظاہر مثال ہے اور سفینۂ باطن (نورِ امامت) ممثول، کیونکہ طوفان نہ صرف ظاہر میں تھا، بلکہ باطن میں بھی تھا، جس سے نجات دلانے کے لئے نورِ امامت کشتی کا کام کرتا ہے، اور یہی نور پانی پر حضرتِ ربّ کا عرش بھی ہے (۱۱: ۰۷) پس انہی تمام معنوں کے ساتھ آنحضرتؐ کے اہلِ بیت کی مثال سفینۂ نوح کی طرح ہے۔

 

۱۶۷

 

سوال – ۲۰۰: یہ بہت بڑا سوال سُورۂ مائدہ (۰۵: ۱۱۲ تا ۱۱۵) کے حوالے سے ہے کہ وہ مائدہ (خوانِ نعمت) جس کے لئے حواریوں نے درخواست کی تھی اور حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کی دعا سے نازل ہوا تھا، وہ کس نوعیت کی نعمتوں کا خوانِ کرم تھا؟ کیا وہ جسمانی غذاؤں کا مائدہ تھا؟ یا روحانی نعمتوں کا مجموعہ؟ -جواب:  حضرتِ عیسیٰؑ کے حوّاری اتنے انجان اور لاعلم نہ تھے کہ دنیا کی غذائیں آسمان سے طلب کریں، بلکہ یہ عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس کے جملہ معجزات تھے، جن میں روح اور عقل کی ہر گونہ غذا موجود ہوتی ہے، یہ ایسی روحانی چیزیں ہیں جو حدودِ دین کے درجۂ اوّل سے درجۂ آخر تک سب کے لئے ضروری ہیں۔

 

۱۶۸

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۱

 

سوال – ۲۰۱: حضرت عیسیٰؑ نے نزولِ مائدہ کے لئے اس طرح دعا کی تھی: اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا ِلأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِنْكَ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَيرُ الرَّازِقِينَ۔  اس کا مطلب بتائیں۔ -جواب:  ترجمہ: خداوندا! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے ایک خوانِ نعمت نازل فرما کہ وہ ہمارے (حدودِ دین کے) اوّل سے آخر تک (سب کے لئے) عید قرار پائے، اور تیری طرف سے معجزہ ہو، اور ہم کو (روحانی اور عقلی) رزق عطا فرما اور تو سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے (۰۵: ۱۱۴) اللہ کے خیرالرّازقین ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ روحانی اور عقلانی رزق عطا کرتا ہے، اور یہ کام کوئی اور نہیں کرسکتا ہے۔

سوال – ۲۰۲: حدیثِ شریف ہے کہ آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا: یا علی اِنّ لک کنزاً من الجنّۃ وانّک ذو قرنیھا (مسنداحمد بن حنبل، الجز ٔ الاوّل) آپ اس کی وضاحت کریں۔ -جواب:  ترجمہ: اے علی یقیناً (عالمِ شخصی کی) بہشت کا خزانہ تیرے لئے ہے اور تو اس کا

 

۱۶۹

 

ذوالقرنین ہے، یعنی تیرے پاس پھونک کر قیامت برپا کرنے کے لئے دو قرن (سینگ) ہیں، ایک نفخۂ اوّل کے لئے اور دوسرا نفخۂ دوم کے لئے ہیں، مگر درمیان میں کوئی وقفہ نہیں، بلکہ مسلسل آواز ہے۔

سوال -۲۰۳: آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا: دخلت الجنّۃ البارحۃ فنظرت فیھا فاذا جعفر یطیر مع الملائکۃ واذا حمزۃ متکّیٔ علیٰ سریر۔ اور یہ ارشاد بھی ہے: رأیت جعفر بن ابی طالب ملکاً یطیر مع الملا ئکۃ بجنا حین (المستدرک، الجزٔ الثالث) ان دونوں حدیثوں کی حکمت بتائیں۔ -جواب:  ترجمہ حدیثِ اوّل: شبِ گزشتہ جب میں جنّت میں داخل ہوگیا تو میں نے دیکھا کہ اس میں جعفر فرشتوں کے ساتھ پرواز کر رہا تھا، اور حمزہ ایک تخت پر تکیہ لگائے بیٹھا تھا۔ ترجمہ حدیثِ دوم: میں نے (بہشت میں) جعفر بن ابی طالب کو ایک فرشتہ دیکھا جو فرشتوں کے ساتھ دو پروں سے پرواز کررہا تھا۔

آنحضرتؐ کی اس پاکیزہ اور پُرحکمت تعلیم سے یہ یقین آیا کہ اعلیٰ درجے کی ایمانی روحیں فرشتہ ہوجاتی ہیں، دو پروں سے مراد دو اسموں کا کوئی ذکر ہوسکتا ہے، کیونکہ جسمِ لطیف یا نورانی بدن ظاہری بازو (پر) سے بے نیاز ہے۔

سوال – ۲۰۴: یہ فرمانِ خداوندی سورۂ فاطر کے شروع ہی (۳۵: ۰۱) میں ہے: الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلاَئِكَةِ رُسُلاً أُولِي أَجْنِحَةٍ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ۔ اس ارشاد کی توضیح کریں۔

 

۱۷۰

 

-جواب:  ترجمہ: تمام تر حمد (اسی) اللہ کو لائق ہے جو آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا ہے جو فرشتوں کو پیغام رسان بنانے والا ہے، جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار پردار بازو ہیں (۳۵: ۰۱) مذکورۂ بالا حدیث اور اِس آیت سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ مومنین و مومنات ذکر و عبادت کی کثرت اور علم و حکمت کی ترقّی سے فرشتے ہو سکتے ہیں، یہاں یہ بھی معلوم ہُوا کہ فرشتوں کے پردار بازو ذکرِ الٰہی کے ہوتے ہیں، وہ ایسا پاک و برتر اور معجزاتی ذکر ہوتا ہے، جو خود ازخود ہر وقت بولتا رہتا ہے، آپ سب سے پہلے علم الیقین کی دولت سے مالامال ہوجائیں۔

سوال -۲۰۵: سُورۂ نجم میں حضورِ اقدس صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی معراج کے اسرارِ عظیم کا ذکرِ جمیل ہے، کیا آپ اس میں سے چند بھیدوں کی طرف اشارہ کریں گے؟ -جواب:   اس کی پہلی آیت (۵۳: ۰۱) میں نورِ ازل (نورِ عقل) کی قَسم ہے جو حظیرۂ قدس کی بہشت میں اپنے طلوع و غروب کے اشاروں سے بے شمار جواہر بکھیرتا رہتا ہے، دوسری آیت میں جوابِ قسم کے طور پر ارشاد ہوا ہے کہ رسولِ خداؐ نے انتہائی حسن و خوبی سے کارِ ہدایت کا فریضہ انجام دیا ہے کہ تم سب بحدِّ قوّت معراج تک ان کے ساتھ تھے۔

تیسری اور چوتھی آیت میں آنحضرتؐ کی یہ تعریف ہے کہ آپ کی ذاتی باتیں بھی وحی کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوتی تھیں، پانچویں آیت میں تذکرہ ہے کہ خدا ہی سب سے بڑا طاقتور ہے، لہٰذا اسی نے اپنے

 

۱۷۱

 

حبیبؐ کو بے مثال تعلیم دی، چھٹی آیت کا مفہوم ہے کہ رسولِ پاکؐ اللہ کی عطا کردہ طاقت سے طاقتور ہوگئے، اور ان کو ہر طرح کا باطنی کمال حاصل ہُوا، ساتویں آیت کا کہنا ہے کہ حضورِ انورؐ اس وقت اُفقِ اعلیٰ (مقامِ عقل) پر تھے۔

آٹھویں آیت کا اشارہ ہے کہ رحمتِ عالمؐ ربّ العزّت سے بدرجۂ انتہا قریب ہوگئے، پھر آپؐ کو مرتبۂ فنا حاصل ہوا، نویں آیت کا فرمان ہے کہ پھر رُبُوبیّت اور عُبُودیّت کا تصوّر دو کمانوں (دائرہ) کی طرح بلکہ اس سے بھی نزدیک مرکزِ پرکار کی طرح ہوگیا، دسویں آیت کا فرمانا ہے کہ معراجی وحی حالتِ فنا میں ہوتی تھی، گیارھویں آیت کا ارشاد ہے کہ حضورؐ کی معراج روحانی تھی، اس لئے آپؐ کے قلبِ مبارک نے یہ سب کچھ دیکھا اور تصدیق بھی کی، بارھویں آیت میں ارشاد ہے: کیا تم پیغمبر کی دیکھی ہوئی چیزوں کے بارے میں خود رسولؐ سے نزاع کرتے ہو۔

تیرھویں آیت کااشارہ یہ ہے کہ آنحضرتؐ کو دو دفعہ معراج ہوئی تھی، چودھویں آیت کی حکمت یہ ہے کہ یہ دو دفعہ کا دیدارِ مبارک سِدرۃ المُنتھیٰ کے پاس ہوا تھا، سِدرۃ المُنتھیٰ سے نفسِ کُلّی مراد ہے، پندرھویں آیت کی تعلیم بتاتی ہے کہ اسی (سِدرہ) کے پاس جنت الماویٰ ہے، سولہویں آیت میں ہے کہ نفسِ کُلّی کے دستِ مبارک میں کوئی بہت بڑا عجوبۂ قدرت تھا، جو دکھایا بھی جارہا تھا، اور چُھپایا بھی جارہا تھا، سترھویں آیت میں آنحضرتؐ کی چشمِ بصیرت کی تعریف ہے کہ مشاہداتِ معراج کا جو مقصد تھا، اس کو رسولِ خداؐ نے تماماً و کمالاً حاصل کیا، اٹھارہویں آیت کی

 

۱۷۲

 

حکمت یہ ہے کہ حضورِ پاکؐ نے معراج میں اپنے ربّ کے انتہائی عظیم معجزات کو دیکھا، یہ ہیں آنحضرتؐ کی معراج سے متعلق چند عظیم اسرار، الحمد للہ۔

سوال – ۲۰۶: آپ نے سورۂ نجم کی مذکورہ آیاتِ کریمہ کے اسرار میں جبرائیل کا کوئی ذکر نہیں کیا، اس کی کیا وجہ ہے؟ -جواب:  (۱) یہاں دراصل جبرائیل کا کوئی ذکر نہیں ہے (۲) جبرائیل اکیلا نہیں بلکہ وحی کے فرشتے پانچ ہیں، سب سے اوپر وہ فرشتہ ہے جو قلم کے نام سے مشہور ہے، اس کے بعد جو فرشتہ ہے، وہ لوح کے نام سے ہے، پھر اسرافیل ہے، پھر میکائیل، اور سب سے نیچے جبرائیل ہے(۳) جیسا کہ حضرتِ امامِ جعفر صادق علیہ السّلام کا ارشاد ہے: فنون ملک یؤدّی الیٰ القلم و ہو ملک، والقلم یؤدّی الیٰ اللّوح و ہو ملک، واللّو ح یؤدّی الیٰ اسرافیل و اسرافیل یؤدّی الیٰ میکائیل و میکائیل یؤدّی الیٰ جبرائیل و جبرائیل یؤدّی الیٰ الانبیا ء و الرّسل (المیزان، ۱۹ ص ۳۷۶)۔

ترجمہ: پس نون ایک فرشتہ ہے جو قلم کو خبریں دیتا ہے او ر قلم بھی ایک فرشتہ ہے جو لوح تک احکام پہنچاتا ہے، اور لوح بھی فرشتہ ہے جو پیغام اسرافیل کو دیتا ہے، اور اسرافیل میکائیل کو اور میکائیل جبرائیل کو اور جبرائیل انبیاء و رُسُل کو اطلاع دیتا ہے۔

سوال – ۲۰۷: مُسند احمد بنِ حنبل، جلدِ سوم حدیث ۸۹۲۱ میں

 

۱۷۳

 

ہے: لا تقوم السّاعۃ حتّیٰ تطلع الشّمس من مغربھا = قیامت برپا نہیں ہوگی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے۔ اس حدیثِ شریف میں کیا حکمت ہے؟ کیا ابھی تک کوئی قیامت نہیں آئی ہے؟ -جواب:   اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ قیامت روحانی واقعات کا ایک سلسلہ ہے، اور یہ اُس وقت مکمّل ہوجاتا ہے، جبکہ حظیرۂ قدس کا سورج مغرب سے طلوع ہوجاتا ہے، کیونکہ وہاں مشرق و مغرب ایک ہی ہے، اس حدیثِ شریف میں روحانی قیامت کی حدِّ تکمیل کا ذکر ہے کہ قیامت کے مکمّل ہوجانے کا مقام وہ ہے جہاں تک پہنچ کر یہ مشاہدہ ہوجاتا ہے کہ سورج کا مشرق و مغرب ایک ہی جگہ پر ہے، اور قرآنِ حکیم نے بزبانِ حکمت بتا دیا کہ ہر امام کے ساتھ ایک روحانی قیامت ہے (۱۷: ۷۱)۔

سوال – ۲۰۸: حدیثِ شریف ہے: علیّ مع القرآن، والقرآن مع علیّ لن یّتفرّقا حتّیٰ یرداعلی الحوض (المستدرک، جلدِ سوم) اس حدیث کی حکمت بیان کریں۔ -جواب:  ترجمہ: علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ، دونوں ایک دوسرے سے ہر گز جُدا نہیں ہوں گے تاآنکہ دونوں حوضِ کوثر پر وارد ہوجائیں۔ یہ آیۂ نُورِ مُنَزَّل (۰۵: ۱۵) کی تفسیر ہے کہ علی سے نورِ امامت مراد ہے جو قرآنِ ناطق ہے، اور کتابِ ناطق (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) کے اندر کتابِ صامت کا ہونا لازمی ہے، پس نور اور قرآن کا یہ کام ہے کہ حقیقی مومنین کی راہنمائی حوضِ کوثر تک

 

۱۷۴

 

کریں، اس سے حضرتِ قائم القیامتؑ کی معرفت مراد ہے۔

سوال – ۲۰۹:  قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم لعلی بن ابی طالب علیہ السلام: من اطاعنی قفد اطاع اللہ و من عصانی فقد عصی اللہ ومن اطاعک فقد اطاعنی ومن عصاک فقد عصانی۔ المُستدرک)اس کا دُور رس مطلب کیا ہے؟ -جواب:   ترجمہ: آنحضرتؐ نے مولا علیؑ سے فرمایا: جس شخص نے میری اطاعت کی یقیناً اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس شخص نے تیری اطاعت کی بیشک اس نے میری اطاعت کی اور جس نے تیری نافرمانی کی اُس نے دراصل میری نافرمانی کی۔

یہ حدیثِ شریف آیۂ اطاعت کی روشن تفسیر ہے (۰۴: ۵۹) کیونکہ علی علیہ السّلام سے سلسلۂ نورِ امامت اور صاحبانِ امر مراد ہیں، بہ الفاظِ دیگر علیؑ سے علیٔ زمانؑ مراد ہے، جو امام ِزمانؑ ہے، الحمدللہ۔

سوال – ۲۱۰: صحیح البخاری، جلدِ دوم میں ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے حضرتِ علی علیہ السّلام سے فرمایا: اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ =تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ آیا یہ رشتہ جسمانی ہے؟ یا روحانی؟ یا عقلانی اور نورانی؟ -جواب:  یہ رشتہ بلکہ

 

۱۷۵

 

وحدت جسمانی بھی ہے، روحانی بھی، اور نورانی (عقلانی) بھی ہے اور قارئین خود بھی اس میں سوچیں گے۔

 

۱۷۶

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۲

 

سوال – ۲۱۱: سُنن ابنِ ماجہ، جلدِ دوم، کتاب الجہاد میں ہے کہ آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا: مَن اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصانی فقد عصی اللہ و من اطاع الامام فقد اطاعنی ومن عصی الامام فقد عصانی۔ ترجمہ اور وضاحت کریں۔ -جواب:  ترجمہ: جس نے میری اطاعت کی بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امام کی اطاعت کی یقیناً اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ اس سے ظاہر ہے کہ امامؑ خدا اور رسولؐ کی طرف سے مقرّر ہے، لہٰذا اس کی اطاعت فرض ہے، چونکہ اسلام زندہ مذہب ہے، اس لئے یہاں ہادیٔ برحق کی موجودگی اور اس کی اطاعت ضروری ہے۔

سوال – ۲۱۲: اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسولؐ کی شان میں ارشاد فرمایا: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ(۲۱: ۱۰۷) اور (اے رسولؐ) ہم نے تم کو سارے جہانوں کے حق میں از سرتاپا رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آپ

 

۱۷۷

 

اس امرِ واقعی کے بارے میں سمجھائیں کہ اس سرچشمۂ رحمت کا فیضان زمانۂ ماضی کے لوگوں کو کس طرح پہنچ سکتا تھا؟ جبکہ آنحضرت صلعم خاتم الانبیاء اور نبیٔ آخرین ہیں؟ -جواب:  یقیناً بظاہر ایسا ہے، لیکن سِرِّ باطن یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نورِ محمدّی کو پیدا کیا، جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے: اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ = خدائے بزرگ وبرتر نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا۔ یہ نور فرشتۂ اعظم ہے، جو عقلِ کلّی بھی ہےاور عرشِ اعلیٰ بھی، قلمِ الٰہی بھی ہے اور آدمِ اوّل بھی، الغرض نورِ محمّدی جو رحمتِ کلّ ہے، اس سے بتوسّطِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہر زمانے کے عوالمِ شخصی کو فیضان پہنچتا رہا، انہی  معنوں میں حضورِ انورؐ جملہ پیغمبروں کے سردار اور تمام جہانوں کے لئے سرچشمۂ رحمت ہیں، آپ آنحضرتؐ کے اسمائے گرامی کو بھی غور سے دیکھیں، حضورِ پاکؐ اوّل بھی ہیں اور آخر بھی، ظاہر بھی ہیں، اور باطن بھی، پس اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ سیّد الانبیاء سارے عوالمِ شخصی کے لئے رحمتِ کُلّ ہیں۔

سوال – ۲۱۳: رسولِ کریمؐ بحکمِ خدا مومنین کے اموال سے صدقہ لے کر ان کو پاک و پاکیزہ کیا کرتے تھے، اور ان کو آسمانی درود پہنچا کر تسکین بخشتے تھے ( ۰۹: ۱۰۳، ۳۳: ۴۳) اہلِ ایمان کی مشکل آسانی کے لئے آنحضرتؐ ہمیشہ دعا فرماتے تھے، ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر پاک کرتے اور کتاب و حکمت سکھاتے (۶۲: ۰۲) الغرض حضورِ انورؐ سے اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جتنی رحمتیں اور برکتیں حاصل ہوتی تھیں، ان کا اِحاطۂ

 

۱۷۸

 

تحریر ہوہی نہیں سکتا، بہ ہرکیف آنحضرت صلعم کی رحلت کے بعد پیغمبرانہ وحی کا دروازہ تو بند ہوگیا، اب آپ یہ بتائیں کہ حضورِ اقدّسؐ کے علم و حکمت سے لوگ کس طرح فیضیاب ہوسکتے ہیں؟ -جواب:  آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کا ارشاد ہے: انا مدینۃُ العلمِ و علیٌّ بابُھا فمن ارادَا لعلمَ فلیأتِ البابَ (شرح الاخبار) میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے پس جو شخص علم کو چاہتا ہو اس کو اسی دروازے سے آنا ہوگا۔ حضورؐ نے یہ بھی فرمایا: انا دارُ الحکمۃِ و علیٌّ بابُھا۔ (مشکوٰۃ، جلد سوم) میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم و حکمت کا دروازہ امامِ زمانؑ ہے، اور اس حقیقت میں مومنینِ بایقین کے لئے کوئی شک ہی نہیں، الحمد للہ۔

سوال -۲۱۴: آپ شروع ہی سے یہ کہتے اور لکھتے آئے ہیں کہ قیامت ایک باطنی اور روحانی واقعہ ہے، جس میں لوگوں کی صرف روحیں موجود ہوتی ہیں، یعنی لطیف ذرّات کی نمائندگی ہوتی ہے، مگر سوائے عارفوں کے کسی آدمی کو واقعۂ قیامت کی خبر نہیں ہوتی ہے، اِس حقیقت پر قرآنِ حکیم کی کون کونسی آیات شہادت دیتی ہیں؟ -جواب:  (۱) سورۂ نمل (۲۷: ۶۶) میں آیت کو پڑھیں، ترجمہ: بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ناقص رہ گیا ہے، بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں مبتلا ہیں، بلکہ یہ اس سے اندھے ہیں، آپ اس میں خوب غور کریں کہ آخرت قیامت سے بھی آگے ہے اس کے بارے میں کامل علم ہونا چاہیئے، آخرت سے

 

۱۷۹

 

متعلّق علم الیقین، عین الیقین، اور حقّ الیقین ممکن ہے، اگر قیامت اور آخرت کو دیکھنا ممکن نہ ہوتا تو نہ فرمایا جاتا کہ وہ لوگ اس کے دیکھنے سے اندھے ہیں۔

۲۔ سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۲) میں ہے، ترجمہ: اور جو اِس دُنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا (اس کی وجہ یہ ہے کہ ) وہ بہت دور کا گمراہ تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دینا ہی میں قیامت، آخرت اور بہشت کی معرفت ہوسکتی ہے (۳) سُورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۵) میں ہے: إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا  = یقیناً قیامت آنے والی ہے اور میں اسے چُھپانا چاہتا ہوں۔ یعنی قیامت روحانی اور مخفی چیز ہے۔ (۴) حدیثِ شریف ہے: مَنْ مَّاتَ فَقَد قَامَتْ قِیَامَتُہٗ (احیاء العلوم، جلد چہارم) جو کوئی مرتا ہے اس کی قیامت برپا ہو جاتی ہے۔ یعنی جو نفسانی طور پر مرجاتا ہے اس کی قیامت برپا ہوجاتی ہے، اور جو جسمانی موت سے مرجاتا ہے اس کی قیامت بھی برپا ہوجاتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کا سلسلہ ہمیشہ جاری ہے۔

سوال – ۲۱۵: سُورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۴) میں دو مقدّس چیزوں کی مثال بیان کی گئی ہے، وہ ایک پاک کلمہ ہے اور ایک پاک شجرہ (درخت) اس پاک کلمہ سے کیا مراد ہے؟ اور پاک درخت کونسا درخت ہے، جس کی جڑ زمین میں مضبوط اور شاخ آسمان میں پہنچی ہے؟ -جواب:   پاک کلمہ اسمِ اعظم ہے، پاک درخت نورِ نبوّت اور نورِ امامت ہے،

 

۱۸۰

 

جس میں مضبوط جڑ رسولِ اکرمؐ ہیں، اور شاخ جو عالمِ علوی میں ہے، وہ امامِ زمانؑ ہے، اسی طرح پاک کلمہ/ اسمِ اعظم ہے جو عالمِ شخصی کی زمین سے شروع ہو کر عالمِ بالا تک جاتا ہے، اسمِ اعظم حقیقت میں امامِ زمانؑ خود ہے، لیکن یہ بہت بڑا معجزہ ہے کہ جو اعلیٰ اسم امامؑ کسی کو عطا کرتا ہے، اس میں پہلے بحدِّ قوّت اور پھر بحدِّ فعل امامِ عالیمقام کے نور کا ظہور ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ امامِ زمانؑ اہلِ معرفت کو عالمِ شخصی میں خصوصاً حظیرۂ قدس میں علمُ الاسرار کی تعلیم دیتا ہے۔

سوال – ۲۱۶: بحوالۂ سُورۂ مائدہ (۰۵: ۴۴) یہ پوچھنا ہے کہ آیا توریت کے ظاہری الفاظ میں نور تھا یا اس کی روحانیّت میں؟ ربّانیّون (واحد ربّانی) کن حضرات کو کہا گیا ہے؟ اور احبار (واحد حِبر) کون ہیں؟ خدا کی کتاب پر گواہ (شہدأ، واحد شاھد) ہونے کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ -جواب:  (۱) ہر آسمانی کتاب کی روحانیّت میں نور ہوتا ہے (۲) ربّانیّون سے حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام مُراد ہیں (دعائم) (۳) احبار (بڑے عُلَماء) دُعاۃ ہیں (۴) اللہ کی کتاب پر گواہ عارفین ہوتے ہیں، جو کتاب کی تمام روحانی صورت کو دیکھتے ہیں اور یہ دُعاۃ ہیں۔

سوال -۲۱۷: ارشاد ہے کہ توریت اور انجیل میں ہدایت تھی اور نور تھا(۰۵: ۴۴، ۰۵: ۴۶) سوال ہے کہ ہدایت اور نور میں کیا فرق ہے؟ -جواب:  آسمانی کتاب کی روحانیّت عالمِ شخصی پر محیط ہوتی ہے،

 

۱۸۱

 

روحانی سفر کے دَوران جملہ مراحل میں ہدایت کام کرتی ہے، مگر منزلِ مقصود (حظیرۂ قدس) میں نورِ مطلق اپنا کام کررہا ہوتا ہے، جیسے ارشاد ہے: یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآءُ= اللہ اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے (۲۴: ۳۵) اس کے دو معنی ہیں، ایک ظاہری اور ایک باطنی، اس سے معلوم ہوا کہ پہلے ہدایت ہے اور آخر میں نورِ مطلق۔

سوال – ۲۱۸: سُورۂ صافات (۳۷: ۸۳) میں ہے: وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِہٖ لَاِبرٰھِیْمَ =اور یقیناً نوح ہی کے پَیروکاروں میں سے ابراہیم بھی تھے۔ آپ اس کی کوئی حکمت بتائیں۔ -جواب:  یہ اس حقیقت کی ایک روشن دلیل ہے کہ دَورِ نبوّت میں سِلسِلۂ انبیاء جاری تھا، جس طرح دَورِ امامت میں أئمّہ کا سلسلہ جاری ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ (۰۲: ۲۸۵) ہم اس کے پیغمبروں میں سے کسی کو بھی الگ نہیں مانتے (بلکہ سب کو ایک ہی سلسلہ تسلیم کرتے ہیں)۔

سوال – ۲۱۹: اللہ تعالیٰ کی رسّی (۰۳: ۱۰۳) کب سے ہے؟ اور اس سے کیا مراد ہے؟ -جواب:  خدا کی رسّی جو بہت ہی مضبوط اور بہت ہی طویل ہے، وہ ہمیشہ اور قدیم ہے، اس سے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا سلسلۂ نور مراد ہے، جو حضرتِ آدم سے چلا آیا ہے۔

 

۱۸۲

 

سوال – ۲۲۰: آیا صراطِ مستقیم، حبل اللہ (خدا کی رسّی) اور نورِ مُنَزَّل الگ الگ تین چیزیں ہیں، یا یہ ایک ہی حقیقت کے تین نام ہیں؟ -جواب:  یہ تینوں نام اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نام اور بہت سی مثالیں پیغمبرؐ اور امامؑ کے لئے ہیں۔

 

۱۸۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۳

 

سوال -۲۲۱: سُورۂ اَنعام(۰۶: ۵۹) میں ہے: اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ سورۂ زمر (۳۹: ۶۳) میں ہے: آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ اور سُورۂ شوریٰ (۴۲: ۱۲) میں ہے: آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ اِن کُنجیوں سے کیا مُراد ہے؟ -جواب: اللہ کی کنجیاں یہ ہیں: عشقِ سماوی، اسماء الحُسنیٰ، کلماتِ تامّات، اذکار، اور عبادات بشرطِ تائیداتِ غیبی، تاکہ علم و حکمت کے ابواب مفتوح ہوجائیں۔

سوال -۲۲۲: سُورۂ اعراف (۰۷: ۴۰) کے حوالے سے سوال ہے: سُوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزر جانا مفروضہ ہے یا امکانی اور تاویلی مثال ہے؟ -جواب: مفروضہ نہیں، بلکہ تاویلی مثال ہے: (۱) کوئی شخص کتنا بڑا آدمی کیوں نہ ہو، لیکن اس کو چاہیئے کہ روحانی ترقی کی خاطر وہ خود کو عاجز، حقیر اور ذرّۂ بیمقدار قرار دے (۲) جب سالک اسرافیل اور عزرائیل کی منزل میں داخل ہوجاتا ہے تو اس کی باطنی ہستی ذرّات میں بکھر جاتی ہے، اور وہ ذرّات اتنے چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں کہ یقیناً سُوئی کے ناکے سے بہ آسانی

 

۱۸۴

 

گزر سکتے ہیں۔

سوال – ۲۲۳: سُورۂ بقرہ (۰۲: ۵۰) میں ہے: یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمہارے لئے راستہ بنایا، پھر اس میں سے تمہیں بخیریت گزروا دیا، پھر وہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے فرعونیوں کو غرقاب کیا، آیا اس واقعہ کی کوئی تاویل بھی ہے؟ اگر تاویل ہے تو بتائیں کہ وہ کیا ہے اور کیسی ہے؟ -جواب: روحانیّت اور علم کی مثال پانی ہے، پانی سے آبادی بھی ہوتی ہے، اور وہ باعثِ غرقابی بھی ہے، چنانچہ حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیہما السّلام کی طوفانی روحانیّت سے بنی اسرائیل تو گزر گئے، مگر فرعون اور اس کے لوگ اس میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔

سوال – ۲۲۴: اس سوال کا تعلّق سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲) سے ہے کہ ربّ العزّت نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذرّیّت کو لیا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بنایا، یعنی انہوں نے اپنی روح کا مشاہدہ کیا، پھر پوچھا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے ربّ ہیں ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ عہدِ الست کا واقعہ عارف کی انفرادی قیامت کا حصّہ ہے یا یہ کوئی الگ واقعہ ہے؟ کیا بنی آدم سے سب لوگ مراد ہیں یا کچھ خاص لوگ بنی آدم ہیں؟ الستُ بربُکم کا سوال کس منزل میں ہوا؟ -جواب: (۱) عہدِ الست ہر عارف

 

۱۸۵

 

کی قیامت کا حصّہ ہے (۲) بنی آدم درحقیقت کاملین و عارفین ہی ہیں (۳) الست بربّکم کا سوال حظیرۂ قدس میں ہوتا ہے۔

سوال -۲۲۵: قرآنِ حکیم کی روشنی میں بتادیں کہ ذکر (یاد) خود ربّ کا ہونا چاہیئے یا ربّ کے اسم کا؟ اور کس طرح؟ -جواب: جس کو دیدارِ باطن کی سعادت نصیب ہوئی ہے وہ ربّ اور اسمِ ربّ دونوں کو یاد کرسکتا ہے، اور جن کو ابھی روحانی دیدار نہیں ہوا ہے، وہ اللہ کے زندہ اسمِ مبارک کو یاد کریں گے، کیونکہ یاد اس چیز کی ہوسکتی ہے، جس کا کبھی مشاہدہ ہُوا ہو، مگر اَن دیکھی چیز کی یاد ممکن نہیں۔

سوال – ۲۲۶: اُس آیۂ کریمہ کا حوالہ کیا ہے، جس میں اسمِ خدا کو یاد کرنے کا حکم ہے؟ اور وہ آیۂ مقدّسہ کونسی ہے، جس میں خداوند تعالیٰ کے مبارک دیدار کا تذکرہ یا اشارہ ہے؟ -جواب: (۱) سُورۂ مُزّمِل (۷۳: ۰۸) میں ہے: اور اپنے ربّ کے نام کا ذکر کئے جاؤ …. (۲) سورۂ اعراف کے آخر (۰۷: ۲۰۵) میں ہے: اور اپنے پروردگار کو اپنے عالمِ نفسی (عالمِ شخصی) میں تضرع و خوف سے اور آہستہ و آرام سے صبح و شام یاد کرو اور غافلوں سے نہ ہوجاؤ۔ یعنی تم کو عالمِ شخصی میں جہاں جہاں پاک و برتر دیدار حاصل ہوا تھا، اُس کو گریہ وزاری کے انداز میں آہستہ یاد کرو۔

سوال -۲۲۷: سُورۂ بقرہ کی ایک پُراز حکمت آیت (۰۲: ۱۵۲)

 

۱۸۶

 

کا ترجمہ ہے: لہٰذا تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا، اور میرا شکر ادا کرو، کفرانِ نعمت نہ کرو۔ یہ تو معلوم ہے کہ بندے کس طرح خدا کو یاد کرتے ہیں، آپ صرف یہ بتائیں کہ اللہ اپنے بندوں کو کس طرح یاد رکھتا ہے؟ -جواب: یہ مثال ہے مگر اس کی تاویل اس طرح سے ہے کہ نورِ صفاتِ خداوندی ہمیشہ ہمیشہ سورج کی طرح ضوفشانی کرتا رہتا ہے، خدا اپنے نورِ رحمت کی کرنوں کو کبھی روکتا نہیں، مگر بندہ خود اپنی غفلت و نافرمانی سے رکاوٹوں کو پیدا کرتا ہے، جن کی وجہ سے بندہ فیضانِ رحمت سے محروم رہتا ہے۔

سوال – ۲۲۸: اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو بھی یاد کرنے کا حکم ہے، وہ یاد کس طرح ہوگی؟ -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور شکرگزاری اس کی نعمتوں کی مناسبت سے کرنا (۲) آپ کو خدا نے ظاہری دولت دی ہے، یا علمی دولت عطا کی ہے، یا کوئی اور چیز جس سے آپ لوگوں کی مدد کرتے ہیں تو یہ اس کی نعمتوں کی علمی یاد اور عملی شکرگزاری ہے (۳) اگر کوئی شخص اہلِ معرفت میں سے ہے وہ بھی باطنی نعمتوں کو منعمِ حقیقی کے ساتھ یاد کرسکتا ہے۔

سوال -۲۲۹: قرآنِ پاک آنحضرتؐ کے قلبِ مبارک پر نازل ہُوا تھا (۰۲: ۹۷، ۲۶: ۱۹۴) لہٰذا اللہ کی کتاب حضورِ انورؐ کی روحانیّت و نورانیّت میں بلا کم و کاست موجود تھی، اگرچہ ظاہر میں بھی بتدریج یہ پاک کتاب (قرآن)

 

۱۸۷

 

لکھائی گئی تھی، اب سوال یہ ہے کہ دورانِ تنزیل اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولؐ سے فرمایا: وَاذ کُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْیَمَ / ابرٰھیمَ /موسیٰ/ اسماعیلَ/ادریس۔ حوالہ جات: ۱۹: ۱۶، ۱۹: ۴۱، ۱۹: ۵۱، ۱۹: ۵۴، ۱۹: ۵۶، اس فرمانِ الٰہی کے مطابق آیا پیغمبرِ اکرمؐ نے ان حضرات کو کتابِ ظاہر میں یاد کیا یا کتابِ باطن میں؟ -جواب: انبیاء و اولیاء کے زندہ معجزات عالمِ شخصی ہی میں محفوظ ہوتے ہیں، لہٰذا حضورِ پاکؐ نے باطنی کتاب (عالمِ شخصی) میں ان سب کو روحانی حالت میں دیکھا اور یاد کیا، کیونکہ کسی چیز کو دیکھے بغیر اس کی یاد ممکن نہیں۔

سوال – ۲۳۰: پیغمبر اکرم صلعم کے بابرکت اسماء میں سے ایک اسم “ذکر” ہے (۶۵: ۱۰ تا ۱۱) اس کی وجہِ تسمیہ کیا ہے؟ -جواب: (۱) ذکر اسمِ اعظم کو کہتے ہیں، آنحضرتؐ اپنے وقت میں اسمِ اعظم تھے (۲) ذکر (نصیحت) قرآن ہے اور رسولؐ قرآنِ ناطق تھے (۳) ذکر کے معنی ہیں ہمیشہ یاد کرنا اور کبھی نہ بھولنا، رسولؐ کی مبارک جبین میں ہر وقت خود بخود ذکرِ الٰہی جاری و ساری رہتا تھا، اور آپؐ جب خود قرآنِ ناطق تھے تو قرآنِ صامت کو کیسے فراموش کرسکتے تھے (۴) پس ذکر بہ ہر معنی رسولؐ کا نام ہے، اوراہلِ ذکر اہلِ رسول یعنی أئمّۂ طاہرینؑ ہیں۔

 

۱۸۸

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۴

 

سوال – ۲۳۱: سُورۂ صٰفٰت (۳۷: ۷۹) میں ہے: سَلٰمٌ عَلیٰ نُوْحٍ فی الْعٰلَمِینَ۔ اس کی کیا تاویل ہے؟  -جواب:  اس کی تاویل ہے کہ حضرتِ نوحؑ ہر عالمِ شخصی میں اپنے روحانی معجزات کے ساتھ زندہ اور سلامت ہیں۔ اسی طرح حضرتِ ابراہیمؑ (۳۷: ۱۰۹) حضرتِ موسیٰؑ اور حضرتِ ہارونؑ (۳۷: ۱۲۰) حضراتِ آلِ یاسین (آلِ محمّد) (۳۷: ۱۳۰) اور جُملہ مرسلین (۳۷: ۱۸۱) ہر ہر عالمِ شخصی میں اپنے اپنے پیغمبرانہ معجزات کے ساتھ زندہ اور سلامت ہیں، اور خدا کے تمام برگزیدہ بندے بھی عالمِ شخصی کی بہشت میں زندہ اور سلامت ہیں (۲۷: ۵۹)۔

سوال – ۲۳۲: سُورۂ انبیاء (۲۱: ۱۸) میں یہ ارشاد ہے: بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلیَ الْبَاطِلِ فَیَدْ مَغُہٗ فَاِذَا ہو زَاھِقٌ۔ اس کا ترجمہ اور خُلاصۂ مطلب کیا ہوگا؟ -جواب:  ترجمہ: بلکہ ہم حق بات کو باطل پر پھینک مارتے ہیں سو وہ (حق) اُس (باطل) کا بھیجا نکال دیتا ہے پھر وہ (باطل) دفعۃً نابود ہوجاتا ہے۔ اس کا یہ اشارہ ہے کہ باطل ہمیشہ باطل ہی ہے، لیکن حق کے ذریعے سے اس کو توڑ دینے

 

۱۸۹

 

کے بعد کوئی راز معلوم ہوجاتا ہے۔

سوال – ۲۳۳: آلِ عمران (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) میں ہے: بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے بنانے میں اور یکے بعدِ دیگرے رات اور دن کے آنے جانے میں نشانیاں ہیں اہلِ عقل کے لئے جن کی یہ حالت ہے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی یاد کرتے ہیں کھڑے بھی بیٹھے بھی لیٹے بھی اور آسمانوں اور زمین کے پیدا ہونے میں غور کرتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار آپ نے اس کو لایعنی پیدا نہیں کیا ہم آپ کو مُنَزہ سمجھتے ہیں سو ہم کو عذابِ دوزخ سے بچا لیجئے۔ اس کی بعض حکمتیں بیان کریں۔ -جواب:  (۱) کائنات آنے والے کل کی بہشت ہے (۲) ستاروں پر لطیف سلطنتیں ہیں (۳) رات اور دن کے گردش سے جو دائرہ بنتا ہے، اس میں ہزاروں اشارے ہیں (۴) اہلِ عقل کی ایک بڑی عجیب تعریف یہ بھی ہے کہ وہ کھڑے بھی بیٹھے بھی اور لیٹے بھی خدا کو یاد کرتے ہیں۔

سوال -۲۳۴: سُورۂ نور (۲۴: ۵۵) میں آیۂ اِستِخلاف ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے؟ اللہ نے تم میں سے صاحبانِ ایمان و عملِ صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ہے اور ان کے خوف کو امن سے

 

۱۹۰

 

تبدیل کردے گا کہ وہ سب صرف میری عبادت کریں گے اور کسی طرح کا شرک نہ کریں گے اور اس کے بعد بھی کوئی کافر ہو جائے تو درحقیقت وہی لوگ فاسق اور بدکردار ہیں (۲۴: ۵۵)۔

اس ارشاد میں سے کچھ حکمتیں بتائیں۔ -جواب:  (۱) یہ وعدۂ الٰہی اہلِ معرفت سے ہے (۲) زمین صرف یہی نہیں جس پر آج ہم سب بس رہے ہیں، بلکہ اللہ کی زمینیں بے شمار ہیں، کیونکہ ہر عالمِ شخصی ایک کائنات ہے (۳) ہر آدمی بحدِّ قوّت ایک عالمِ شخصی اور ایک کائنات ہے، ہر عالمِ شخصی جو بحدِّ فعل ہو، اس کی بہت سی کاپیاں بھی ہوتی ہیں (۴) خلافتِ الٰہیّہ کے معنی بہت ہی اعلیٰ ہیں (۵) خداوندِ عالم اپنے خاص بندوں کو تاجِ خلافت سے نوازتا ہے (۶) ہر پیغمبر اور ہر امام خلیفہ ہوتا ہے، لیکن ہر خلیفہ نبی یا امام نہیں ہوتا (۷) ہم نے قبلاً بیان کیا ہے کہ ہر قیامت میں دینِ حق غالب ہوجاتا ہے (۸) شرک کے بغیر عبادت کرنے کا راز نظریۂ یک حقیقت کی معرفت میں ہے۔

سوال -۲۳۵: سُورۂ لُقمان (۳۱: ۱۲) میں ارشاد ہے: اور ہم نے لُقمان کو حکمت عطا فرمائی (اور کہا) اللہ کا شکر ادا کرو، بےشک جو شکر ادا کرے گا وہ اپنے ہی فائدہ کے لئے شکر ادا کرے گا اور جو شخص کُفران کرے گا (تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں دے گا) کیونکہ اللہ تعالیٰ بے نیاز (اور) لائقِ تعریف ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت لقمان کو نبوّت یا امامت عطا ہوئی تھی؟ حکمت اور شکر میں کیا لُزُوم ہے؟

 

۱۹۱

 

-جواب:  (۱) حضرتِ لقمانؑ نورِ نبوّت اور نورِ امامت کا عاشقِ صادق تھا، جس کی برکت سے اس کو وہ سب سے عظیم خزانہ ملا، جس میں سب کچھ ہے، کیونکہ اس میں تمام خزانے محدود ہیں (۲) حکمت سکھانا الگ ہے، اور حکمت دینا الگ، اگر حکمت کی تعریف و وضاحت کی جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے گی، کیونکہ حکمت کے حقیقی معنوں میں تمام نعمتیں جمع ہو جاتی ہیں، ساری دنیا لقمان کو حکیم تو کہتی ہے، یہ تو ظاہری حکمت کی بات ہوئی، لیکن اس کی باطنی اور روحانی حکمت کی خبر صرف اہلِ معرفت ہی کو ہے (۳) چونکہ حکمت خیرِ کثیر ہے، لہٰذا اس انتہائی عظیم خزانے کے ملنے پر اللہ کا شکر واجب ہوتا ہے۔

سوال -۲۳۶: حضرتِ مُوسیٰ علیہ السّلام کے عصا کی کیا تاویل ہے؟ عصائے موسیٰؑ کا نہایت زبردست اور غالب معجزہ سانپ (حَیَّۃ۲۰: ۲۰) اژدھا (ثُعبان ۰۷: ۱۰۷، ۲۶: ۳۲) اور باریک سانپ (یا جِنّ و پری ۲۷: ۱۰، ۲۸: ۳۱) کی شکل میں ہوتا تھا، اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب:  (۱) حضرتِ موسیٰؑ کے عصا کی چند تاویلیں ہیں: بنیادی طور پر اسمِ اعظم، وزیر یعنی حضرتِ ہارونؑ، عالمِ شخصی کہ وہ ساری کائنات کو نگل لیتا ہے، حظیرۂ قدس کہ وہ عالمِ شخصی کو نگل لیتا ہے، علم الامام کیونکہ وہ تمام علوم پر محیط ہے، اور جسمِ لطیف جو بڑا زبردست اور غالب جِنّ ہے، جو تمام باطل قوّتوں کو نگل لیتا ہے (۲) تمام مشہور جانوروں میں صرف سانپ ہی ایک ایسا جانور ہے جو کُنڈلی مار کر گول بھی ہوسکتا ہے، اور کُھل

 

۱۹۲

 

کر لمبا بھی ہوسکتا ہے، یہ فعلِ قدرت کی طرف ایک اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات سمیت ہر چیز کو لپیٹتا بھی ہے اور پھیلاتا بھی ہے، اژدھا اور جِنّ معجزۂ عصا کی بےقیاس طاقت اور غالبیّت کی علامت ہے۔

سوال – ۲۳۷: “وحدتِ کثرت نُما” آپ کی اصطلاحات میں سے ہے، اس کے معنیٰ و مثال کیا ہے؟ -جواب:   معنیٰ ہے: ایک ایسی چیز جس کے باطن میں وحدت ہو اور ظاہر میں کثرت، جیسے انسان کہ باطن میں ایک وحدت ہے اور ظاہر میں کثرت، مثلاً تمام نفوسِ خلائق جب نفسِ واحدہ میں ہوتے ہیں تو وہ سب ایک ہی جان کی حیثیت سے ہوتے ہیں، لیکن جہاں نسل کے طور پر پھیلے ہوئے ہیں، اس میں ان کی کثرت ہوتی ہے، جیسے پانی کہ اس کے کُلّ سے اگر ایک طرف اجزاء بن جاتے ہیں تو دوسری طرف یہ اجزاء واپس کُلّ سے مل بھی جاتے ہیں، لہٰذا آپ پانی کی صورتِ حال کو وحدتِ کثرت نُما کہہ سکتے ہیں۔

سوال – ۲۳۸: یہ سوال ان لوگوں سے متعلّق ہے جن کی اس بات پر قرآن کا اعتراض ہے کہ وہ فرشتوں کو عورتیں سمجھتے ہیں، اس کا تاویلی بھید کیا ہے؟ -جواب:  اس حقیقت میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں کہ مومنین و مومنات علم و عبادت کی روحانی ترقّی سے فرشتے ہوجاتے ہیں، مگر جب خواب میں فرشتہ کسی وجہ سے زنانہ شکل میں آتا ہے تو اس کو عورت سمجھنا درست نہیں، مثال کے طور پر ایک مومن

 

۱۹۳

 

شخص کو کسی حکمت نے محبوس کیا تھا، اس نے خواب میں اپنی ایک بہن کو دیکھا، جس کا نام نجات تھا، یہ دراصل فرشتہ تھا، فرشتہ کبھی کلام کرتا ہے اور کبھی اشارہ، چونکہ اسمِ “نجات” میں رہائی کے معنی ہیں، لہٰذا فرشتہ بی بی نجات کے روپ میں آکر مومن کو اشارہ کر رہا تھا کہ تم کو اس قید سے بہت جلد رہائی ملنے والی ہے۔ حوالہ جات: ۱۷: ۴۰، ۴۳: ۱۹، ۵۳: ۲۷، الحمد للہ۔

سوال -۲۳۹: سُورۂ فجر (۸۹: ۲۲) میں ارشاد ہے: وَجَآءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفّاً صَفّاً۔ اس کی تاویلی حکمت بیان کریں۔ -جواب:   ترجمہ: اور تمہارا ربّ اور جوق جوق فرشتے آئیں گے۔ کاملین و عارفین کی ذاتی اور نمائندہ قیامت میں یہ عظیم واقعہ دو بار پیش آتا ہے، ایک دفعہ عالمِ شخصی میں، اور دوسری دفعہ حظیرۂ قدس میں، دونوں مقام پر اس واقعہ میں بڑا عجیب فرق یہ ہے کہ عالمِ وحدت (حظیرۂ قدّس) میں صرف ایک ہی مظہرِ کُلّ ہے، کہ وہی جُملہ حقائق و معارف کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے، جیسا کہ سُورۂ یٰسٓ (۳۶: ۱۲) میں ارشاد ہُوا ہے۔

سوال – ۲۴۰: بحوالۂ سورۂ حج (۲۲: ۴۶) سوال ہے: وہ زمین کونسی ہے جس میں چلنے پھرنے سے لوگوں کے قلوب عاقل و دانا ہوجاتے ہیں یا ان کے کان حقائق و معارف کو سُننے والے ہوتے ہیں؟ جو لوگ بفرمودۂ قرآن اندھے ہیں، آیا وہ سر کی آنکھ سے اندھے ہیں یا دل کی آنکھ

 

۱۹۴

 

سے؟ -جواب:  (۱) عالمِ شخصی ہی کی زمین ایسی ہے کہ اس میں روحانی طور پر چلنے پھرنے سے دلوں کو عقل و دانش اور علم و حکمت حاصل ہو جاتی ہے، اور کان اس قابل ہوجاتے ہیں کہ حقیقتوں اور معرفتوں کو حسن و خوبی سے سُن سکتے ہیں (۲) قرآنِ حکیم ان دلوں کی مُذمّت کرتا ہے جو اندھے ہیں، جیسا کہ سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۲) میں ہے: اور جو شخص اِس دنیا میں اندھا بنا رہا تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا اور (معرفت کے) رستہ سے بہت دُور بھٹکا ہُوا۔

 

۱۹۵

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۵

 

سوال- ۲۴۱: یقین کے تین درجے مانے جاتے ہیں: علم الیقین، عین الیقین، اور حقّ الیقین، آیا اِن درجات کا ذکر قرآنِ مقدّس میں موجود ہے؟ کِس سورہ اور کس آیہ میں؟ -جواب:  جی ہاں، قرآنِ حکیم میں یقین کے تینوں درجات کا ذکر آیا ہے، علم الیقین اور عین الیقین کی تعریف و توصیف سُورۂ تکاثر ( ۱۰۲: ۵، ۱۰۲: ۰۷) میں ہے، اور حقّ الیقین کی حکمت سُورۂ واقعہ (۵۶: ۹۵) اور سُورۂ حاقّہ (۶۹: ۵۱) میں ہے۔

سوال- ۲۴۲: جو عارفین جیتے جی مرکر زندہ ہوجاتے ہیں، آیا وہ غیر معمولی چیزیں دیکھ سکتے ہیں؟ کیا ان پر قیامت گزر چُکی ہوتی ہے؟ آیا جہادِ اکبر کا دوسرا نام روحانی جنگ ہے؟ جنگِ روحانی میں جو لوگ شہید ہوجاتے ہیں، ان کا ذکر قرآنِ پاک میں کہاں کہاں ہے؟ کہتے ہیں کہ عُرَفاء ہی شہدائے باطن ہیں، یہ قول کس حد تک درست ہے؟ عارف اس شخص کوکہتے ہیں جو اپنے آپ کو اور اپنے پروردگار کو پہچانتا ہے، اور پہچان دیدار کے بغیر محال ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ -جواب:  (۱) یقیناً عارفین ظاہراً وَباطناً غیر معمولی چیزوں کا

 

۱۹۶

 

مُشاہدہ کرتے ہیں (۲) اُن پر قیامت گزرچکی ہوتی ہے (۳) جی ہاں، جہادِ اکبر کا دوسرا نام روحانی جنگ ہے (۴) ہر اُس آیت میں روحانی شہادت کا ذکر موجود ہے جس میں ظاہری شہادت کا بیان ہو (۵) یقیناً یہ قول حقیقت ہے کہ عُرَفاء ہی شہیدانِ باطن ہیں (۶) اس حقیقت میں کوئی شک ہی نہیں کہ عارف وہ شخص ہے جو اپنی روح کو اور اپنےربّ کو پہچانتا ہے، اور حصولِ معرفت کی یہ سب سے عظیم سعادت مشاہدۂ روح اور دیدارِ اقدسِ الٰہی کے بعد ہی ممکن ہوجاتی ہے۔

سوال – ۲۴۳: اب آپ قرآنِ عظیم کے حوالے سے ہمیں یہ سمجھائیں کہ اگر اہلِ معرفت کو حضرتِ ربّ کا اوّلین دیدار دنیا ہی میں نصیب ہو جاتا ہے، تو اُس حقیقت کی روشن دلیل کیا ہے؟ -جواب:  (۱) سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۲) میں ہے: اور جو شخص دنیا میں اندھا رہے گا سو وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا اور زیادہ راہ گُم کردہ ہوگا۔ اس کا تابان و درخشان نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عارفوں کو چشمِ بصیرت عطا ہو جاتی ہے، جس سے وہ حق تعالیٰ کی تجلّیات کو دیکھتے ہیں، ورنہ معرفت کیونکر ممکن ہوسکتی ہے (۲) سُورۂ شوریٰ (۴۲: ۵۱) میں ہے: کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اُس سے رُو بُرو بات کرے، اس کی بات یا تو وحی (اشارے) کے طور پر ہوتی ہے، یا پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام بر (فرشتہ) بھیجتا ہے اور وہ اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے، وہ برتر اور حکیم ہے۔ (۳) اس آیۂ کریمہ کی تفسیر جتنی مشکل

 

۱۹۷

 

ہے، اُتنی مفید بھی، بعض عُلَماء کہتے ہیں کہ وحی دوقسم کی ہوتی ہے: انبیائی وحی اور اولیائی وحی، نبی کو جو وحی ہوتی ہے، اس سے نبوّت کے جُملہ امور انجام پاتے ہیں، ہاں یہ بات وحی پر عمل ہونے کے اعتبار سے درست ہے، لیکن حقیقت میں وحی ایک ہی ہے، جس کی روشنی میں نبی اور ولی (امام) دونوں اپنا اپنا کام کرتے ہیں، ولی یعنی امام کا کام یہ ہے کہ وہ نبی کی نبوّت کی گواہی دیتا ہے اور تصدیق کرتا ہے، ساتھ ہی ساتھ آسمانی کتاب کی تاویل بیان کرتا ہے، انبیاء و اولیا علیہم السّلام کے بعد وہ حدودِ دین ہیں، جو معرفت کے درجے پر فائز ہو چکے ہیں۔

سوال -۲۴۴: آپ یہ بتائیں کہ معرفت کی رسائی کیا ہے؟ کیا کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو دائرۂ معرفت سے بیرون اور بالاتر ہوں؟ پروردگار کی معرفت کس طرح حاصل ہوتی ہے؟ -جواب:  (۱) معرفت ایک ہمہ رس اور ہمہ گیر حقیقت ہے، آپ اندازہ کریں کہ جب حضرتِ ربّ کی معرفت ممکن ہے تو پھر اس کے بعد ایسی کوئی چیز کہاں ہے اور کیا ہے، جس کی معرفت نہ ہو سکے (۲) پروردگار کی معرفت خود اس کی رحمت و مہربانی اور ذرائع و اسباب سے حاصل ہوتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہادیٔ برحق کو مقرّر فرمایا، تاکہ و ہ راہِ مستقیم پر لوگوں کی رہنمائی کرے اور انہیں دیدار و معرفت کی منزلِ مقصود تک پہنچائے (۳) خداوندِ عالم نے لوگوں کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ دین شناس، خود شناس

 

۱۹۸

 

اور خدا شناس ہو جائیں۔

سوال -۲۴۵: سُورۂ اعراف کے ایک عظیم الشّان ارشاد ہے (۰۷: ۱۱) کا ترجمہ ہے: اور ہم نے تم کو پیدا کیا پھر ہم نے ہی تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجُز ابلیس کے وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ آپ اِس آیۂ مبارکہ کی کچھ حکمتوں کو بیان کریں۔ -جواب:  (۱) مومنین اور مومنات کی جسمانی تخلیق و تکمیل کے بعد روحانی کمال ہے، بعد ازان عقلی صورت عطا ہوجاتی ہے (۲) اس کا مطلب یہ ہوا کہ پرہیزگار لوگ حظیرۂ قدس کی جنّت میں داخل ہوتے ہی اپنے باپ آدمؑ کی صورت پر ہوجاتے ہیں، اور آدمؑ رحمان کی صورت پر پیدا کیا گیا تھا (۳) اب یہاں خدا کے حکم سے فرشتے آدم کو دوسری دفعہ سجدہ کرتے ہیں، انہوں نے پہلی بار عالمِ ذرّ میں سجدہ کیا تھا (۴) چونکہ مُتّقین نہ صرف حظیرۂ قدس میں جا کر آدمؑ اور صورتِ رحمان ہوجاتے ہیں، بلکہ وہ عالمِ شخصی میں شروع ہی سے آدمِ زمانؑ کے ساتھ ایک ہورہے تھے (۵) الغرض اس آیۂ کریمہ کی دُہری حکمت یہ ہے کہ فرشتوں نے بحکمِ خدا آدمؑ کو سجدہ کیا، ساتھ ہی ساتھ مُتقین کو سجدہ کیا، کہ وہ آدمؑ میں بھی تھے، اس کی کاپیاں بھی ہوگئے تھے۔

سوال -۲۴۶: بحوالۂ ہزار حکمت (ح، ۶۹۰) حدیثِ شریف کا ترجمہ ہے: تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک ساتھی جِنّوں میں سے ہے اور

 

۱۹۹

 

ایک ساتھی فرشتوں میں سے اس صورتِ حال کا اشارہ قرآنِ حکیم میں ہے؟ -جواب:  اس کا ایک اشارہ سُورۂ شمس (۹۱: ۰۸) میں ہے، وہ ارشاد یہ ہے: فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھٰا= پھر اس (انسانی نفس) کی بدکرداری اور پرہیزگاری (دونوں باتوں) کا اس کو الہام کیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے ایک جِنّ اور ایک فرشتے کو مقرر کیا، تاکہ انسان کے یہ دونوں ساتھی اس کی قلبی حالت و کیفیّت پر نظر رکھتے ہوئے اپنا اپنا کام کریں۔

ہر شخص کے ان دونوں ساتھیوں کا تذکرہ یا اشارہ سُورۂ زُخرف (۴۳: ۳۶) میں بھی ہے، جیسا کہ آیۂ شریفہ کا ترجمہ ہے: اور جو شخص رحمان کے ذکر سے تغافل برتتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مُسلّط کر دیتے ہیں اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔ اس کا اشارہ یہ ہُوا کہ ہر آدمی کے ساتھ پہلے ہی سے ایک شیطان (جِنّ) اور ایک فرشتہ مُؤکّل ہیں۔

سوال – ۲۴۷: سُورۂ نحل (۱۶: ۴۳) کے حوالے سے سوال ہے، کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ اہلِ ذکر کون ہیں؟ ان کا یہ نام کن معنوں کا حامل ہے؟ -جواب:  جیسا کہ قبلاً ذکر ہوچکا ہے کہ “ذکر” اسمائے رسولؐ میں سے ہے، لہٰذا اہلِ ذکر أئمّۂ طاہرین ہیں، جو اہلِ رسولؐ ہیں، یہی حضرات اہلِ قرآن اور اہلِ اسمِ اعظم بھی ہیں، اور ان کی روحانیّت و نورانیّت میں انبیائے کرام علیہم السّلام کے تمام باطنی اور روحانی معجزات و واقعات ریکارڈ ہیں ( ۳۶: ۱۲) یہی سبب ہے کہ لوگوں سے فرمایا گیا: اگر تم

 

۲۰۰

 

خود (پیغمبروں کے بارے میں) نہیں جانتے تو اہلِ ذکر (أئمّہ) سے پوچھ لو۔

سوال -۲۴۸: اہلِ ذکر سے ہم کس طرح علم و خبر کی باتیں پوچھ سکتے ہیں؟ آیا اس امر کے لئے کوئی خاص نظام مقرر ہے؟ اگر نظام ہے تو کب سے ہے؟ -جواب:  ایسے سوالات کا احساس سب کو ہونا چاہیئے، جی ہاں، خاص قانون ہے، جو زمانۂ آدم سے ہے، اور وہ ہے ابتدائی علم، عبادت، عشقِ سماوی، اور اسمِ اعظم، تاکہ عالمِ شخصی کا دروازہ کُھل جائے، کیونکہ اہلِ ذکر کا نورانی مدرسہ عالمِ شخصی ہی میں ہے، اہلِ ذکر یعنی امامؑ سے پوچھنے کا طریقہ یہی ہے۔

سوال – ۲۴۹: آپ کے نزدیک “فنا فی الامام” حقیقت ہے، لہٰذا ہمیں قرآن کی روشنی میں سمجھادیں کہ یہ امرِ واقعی کس طرح سے ہے؟ -جواب:   فنا دو قسم کی ہوا کرتی ہے، ایک شُعوری فنا ہے، اور دوسری غیر شعوری فنا، پس لوگ شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر اپنے امامِ زمان علیہ السّلام میں فنا ہوجاتے ہیں، جیسا کہ سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۱) میں ارشاد ہے: یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْ = جس دن ہم اہلِ زمانہ کو ان کے امام کے ساتھ (یعنی اس کی روحانیّت میں) بلائیں گے۔ ایسے میں روحانی قیامت کے زیر اثر سب لوگ فنا ہوجائیں گے، اگر کوئی شخص اس واقعۂ عظیم کو دیکھ رہا ہے تو یہ اس کی

 

۲۰۱

 

شعوری فنا اور آغازِ سلسلۂ معرفت ہے، مگر ہاں، آپ علم الیقین کے وسیلے سے حقائق و معارف کو سمجھ سکتے ہیں۔

فنا فی الامام کی دوسری دلیل یہ ہے: کُلُّ شَیْ ءٍ ہالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ (۲۸: ۸۸) ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کے چہرہ (یعنی امام) کے۔ یہ مُنظّم ہلاکت اور قیامت کا ذکر ہے، جس میں سب لوگ بالآخر چہرۂ خدا (امام) میں فنا ہوکر صورتِ رحمان ہوجاتے ہیں۔

تیسری دلیل: كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ  وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلاَلِ وَالاِكْرَامِ (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) ہر عالمِ شخصی کی بھری ہوئی کشتی میں جتنے بھی ہیں وہ سب فنا ہونے والے ہیں اور صرف تیرے رب کا چہرہ (امام) جو باجلالت اور صاحبِ کرامت ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔ یہ بھری ہوئی کشتی یا پانی پر ربّ العزّت کا عرش (تخت) نور = فرشتۂ اعظم = امام ہے، جو ہمیشہ ہمیشہ باقی ہے، اور سب اس میں فنا ہوجاتے ہیں۔

چوتھی دلیل: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو امامِ مبین میں گھیر کر (اور گِن کر) رکھا ہے (۳۶: ۱۲) کیونکہ روحانی قیامت امامِ زمان کے عالمِ شخصی میں ہوتی ہے، جس میں خدا کائنات اور مخلوقات کو لپیٹ لیتا ہے، اور اس وجہ سے تمام لوگ امامِ زمانؑ میں فنا ہوجاتے ہیں۔

سوال -۲۵۰: بعض لوگوں کو ہمارے اس طریقِ کار سے بڑا تعجّب ہوتا ہے کہ ہم اکثر تاویلات کو امام سے ملاتے ہیں، اور علمی بیان میں بار بار اسی کا ذکر کرتے ہیں، کیا آپ کے پاس کوئی ایسی قرآنی دلیل ہے،

 

۲۰۲

 

جس سے یہ ثابت ہوجائے کہ ہم امامِ مبین علیہ السّلام کی جتنی بھی تعریف و توصیف کریں وہ بہت ہی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے؟ -جواب:  (۱) چونکہ امامِ آلِ محمّدؐ وہ کتابِ ناطق ہے جو روحانیّت  و نورانیّت میں خدا کے پاس ہے (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) جس کی تاویلی حکمت سے قرآنِ صامت کی ہر آیت بھری ہوئی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قرآنِ حکیم کی آیات میں سے کوئی آیت ایسی نہیں جس میں براہِ راست یا بالواسطہ امامِ عالیمقامؑ کا کوئی ذکر نہ ہو(۲) سُورۂ مومنون (۲۳: ۶۲) اور سُورۂ جاثیہ (۴۵: ۲۹) میں اللہ تعالیٰ کی جس بولنے والی کتاب کا ذکر آیا ہے، وہ یقیناً نورِ امامت ہی ہے جو روحُ القرآن بھی ہے (۴۲: ۵۲) اور اہلِ ایمان کا نامۂ اعمال بھی، پس قرآنِ صامت کی روح و روحانیّت اور نور و نورانیّت قرآنِ ناطق میں موجود ہے، لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ خدا اور اس کے رسولؐ نے امام کو تاویلی مرکز قرار دیا ہے۔

۳۔ قرآن علم و حکمت کی لطیف کائنات ہے، اللہ جّلا جلالہ اس کو امامِ مُبین (۳۶: ۱۲) میں لپیٹتا بھی ہے، اور وہاں سے پھیلاتا بھی ہے (۴) قرآنی جواہر و اسرار کس طرح یکجا اور مرکوز ہوجاتے ہیں، اس کی مثال کتابِ مکنون (۵۶: ۷۵ تا ۷۹) کے تذکرہ میں ہے، جیسا کہ ارشاد کا ترجمہ ہے: میں (حظیرۂ قدس کے) تاروں کے گِرنے کی قَسم کھاتا ہوں، اگر تم کو اس مقام کا علم ہے تو یہ بہت بڑی قَسم ہے، بات یہ ہے کہ وہ قرآن بڑا محترم ہے، جو ایک پوشیدہ کتاب (یعنی کتابِ مکنون) میں رکھا گیا ہے، اسے پاک و پاکیزہ اشخاص کے سِوا کوئی چُھو نہیں سکتا ہے۔ اس کا مطلب

 

۲۰۳

 

یہ ہوا کہ حظیرۂ قدس کے معجزات تک رسا ہوکر کتابِ مکنون کو ہاتھ میں لینے والے حضرات صرف أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہی ہیں، الغرض آپ قرآنِ حکیم کی ہر ہر آیت میں چشمِ بصیرت سے دیکھیں، تاکہ آپ کو ایک ساتھ قرآن اور امام کی علمی عظمت کی شان معلوم ہو سکے۔

 

۲۰۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۶

 

سوال – ۲۵۱: قلم اور اَقلام کا ذکر قرآنِ مقدّس کے چار مقامات پر ہے ( ۶۸: ۰۱، ۹۶: ۰۴، ۳۱: ۲۷، ۰۳: ۴۴) آپ یہ بتائیں کہ قلم کی تاویل کیا ہے؟ اور اگر زمین میں جتنے درخت ہیں وہ قلم ہوجائیں اور سمندر جس کے بعد سات سمندر اور ان کے لئے روشنائی بن جائیں تو بھی کلماتِ خدا ختم نہ ہوں گے (۳۱: ۲۷) اس آیۂ شریفہ کی کیا تاویل ہوسکتی ہے؟ -جواب:   (۱) قلم کی تاویل ہے: عقل، نورِ عقل، گوہرِ عقل (۲) کلماتِ اللہ سے کلماتِ تامّات مراد ہیں، ان کے بے پایان علم کی یہ شان ہے کہ اگر زمین میں جتنے درخت ہیں وہ قلم ہوجائیں اور سمندر جس کے بعد سمندر اور ان کے لئے روشنائی بن جائیں تو بھی کلماتِ تامّات کی تفسیر مکمّل نہیں ہوگی۔

سوال – ۲۵۲: قرآن اور اسلام میں تَوبۃ کی بہت بڑی اہمیّت ہے، لہٰذا آپ یہ بتائیں کہ توبۃ کے لفظی معنی کیا ہی؟ اور اس کی حکمت کیا ہے؟ -جواب:  توبۃ کے معنی ہیں گناہ سے باز آنا، اور یہ اہلِ ایمان کے بہت سے درجات کے مطابق ہے، کیونکہ تَوبۃ کا مطلب ہے کسی مومن کا اپنے درجے کی طرف لوٹنا،

 

۲۰۵

 

اور درجے مختلف ہوتے ہیں، اس لئے کہا کہ تَوبۃ درجہ بدرجہ آگے جاتی ہے، تا آنکہ آخری درجے کی توبہ رجوع اِلی اللہ کے معنی میں ہوتی ہے، جیسے توبۂ آدمؑ تھی۔

سوال – ۲۵۳:  حدیثِ شریف ہے: وَ مَنْ تَابَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ قَبْلَ اَنْ تَطْلُعَ الشَّمسَ مِنْ مَغْرِبِھَا = جو شخص مغرب سے سورج نکلنے سے پیشتر توبہ کرے، اللہ اس کی توبہ قبول کرےگا۔ اس کی حکمت کیا ہے؟ -جواب:  توبہ کے آفاقی معنی ہیں لوگوں کا دینِ حق کی طرف رجوع کرنا، جس کے لئے مہلت مغرب سے سورج کے طلوع ہونے تک ہے، جس سے نورِ امامت کا طلوع ہونا مراد ہے جو صرف عالمِ شخصی ہی میں ہوتا ہے، اس کے بعد روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے۔

یاد رہے کہ عقلِ کل نورِ وحدت کا مشرقِ مطلق ہے، نفسِ کُلّ اس کا مغرب اور ناطق کا مشرق ہے، ناطق اس کا مغرب اور اساس کا مشرق ہے، اساس اس کا مغرب اور امام کا مشرق ہے، امام اس کا مغرب اور ذیلی حدود کا مشرق ہے، چُنانچہ ان حدود کے عالمِ شخصی میں جب نورِ امامت کا طلوع ہوجاتا ہے، تو یہ نور وہاں سے طلوع ہوتا ہے، جہاں اساس کا مغرب ہے، یعنی امام سے۔

سوال – ۲۵۴: آپ کی بات سے یہ معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے آفاقی معنی بھی ہیں، ہم تو توبہ کو صرف دائرۂ اسلام ہی میں محدود ایک

 

۲۰۶

 

عمل سمجھتے تھے، حالانکہ اس کا تعلق ان تمام لوگوں سے ہے، جن کی طرف اللہ نے اپنے رسولؐ کو بھیجا ہے (۰۷: ۱۵۸) نیز، یہ بھی سوچنا ہے کہ التّواب (توبہ قبول کرنے والا) جو اللہ تعالیٰ کا ایک اسمِ صفت ہے، آیا خدا کے اس نام میں اور دوسرے ناموں میں آفاقی معنی نہیں ہیں؟ اب اس کے بعد سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کے لئے چارۂ کار کیا ہے جنہوں نے مقررّہ مہلت میں توبہ نہیں کی، یعنی مسلمان نہیں ہوئے؟ -جواب:  سُورۂ ا ٰلِ عمران (۰۳: ۸۳) اور سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں طَوْعاً وَّکرھاً (خوشی سے اور بے اختیاری سے) رجوع کروانے کا جو زبردست قانونِ خداوندی ہے اس کو غور سے پڑھ لیں، طَوْعاً وَّ کَرھاً رجوع اِلی اللہ سے روحانی قیامت مراد ہے، جس کا بارہا ذکر ہوچکا ہے۔

سوال -۲۵۵: بعض حضرات کا عقیدہ یہ ہے کہ علمِ تاویل کو صرف امام علیہ السّلام ہی بیان کرسکتا ہے اور بس، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ -جواب:  یہ عقیدہ ہے علم نہیں، لہٰذا کچھ وضاحت کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے: (۱) تاویل کا اصل سرچشمہ اور جنگِ تاویل کا سردار صرف حضرتِ امامِ عالیمقامؑ ہی ہے، مگر ہر معلّم کے شاگرد اور ہر جنگی سردار کے تحت لشکر بھی ہوتے ہیں (۲) اگر آپ کسی حقیقی عالم سے سوال کریں کہ امام اپنے مریدوں کو درجہ بدرجہ علم اور تاویلی حکمت سکھا سکتا ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یقیناً نفی میں نہیں ہوگا (۳) حضرتِ مولانا امام سلطان محمّد شاہ صلوات اللہ علیہ کے ان مبارک ارشادات کو بھول نہ

 

۲۰۷

 

جانا، جو مومنین کی روحانی ترقّی سے متعلّق ہیں (۴) جب فنا فی الامام ممکن ہے تو اسی ذاتِ پاک سے علمِ تاویل کا حصول بھی ممکن ہے (۵) جہاں امام علیہ السّلام کی معرفت ہوسکتی ہے، وہاں تاویل بھی ہوسکتی ہے (۶) حضرت امامِ اقدسؑ نے اپنے جس مبارک فرمان میں باطن کی تعریف فرمائی ہے، (بمبئی ۲۲؍نومبر ۱۹۶۷ء) اس کو غور سے پڑھیں، کیا باطن کا مطلب تاویل نہیں ہے؟ (۷) آیا زمانۂ ماضی میں امام علیہ السّلام سے بعض ذیلی حدود علمِ تاویل حاصل نہیں کرتے تھے؟ کیا ہمارے مذہب میں تاویلی کتابیں نہیں ہیں؟

سوال – ۲۵۶: حق بات تویہ ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے ہر گونہ سوالات کے جوابات کے لئے ایک بہت بڑا ذخیرۂ علمی موجود ہے، یہاں پوچھنا یہ ہے کہ آپ تعلیمی سوال و جواب کو کس وجہ سے ترجیح دیتے ہیں؟ اس میں کیا راز ہے؟ -جواب:  (۱) اس عمل سے علمی گفتگو مُنظم اور منطقی ہوجاتی ہے (۲) قارئین کے لئےمطلب آسان اور دلچسپ ہو سکتا ہے (۳) سوال و جواب پر مبنی علم کی موجودگی میں بحث و مناظرہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے (۴) اس میں اور بھی بہت سے فائدے ہیں۔

سوال – ۲۵۷: سردارِ انبیاء صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا ارشاد ہے: لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ لَا یَسَعُنِیْ فِیْہِ مَلَکٌ مُقَرَّبٌ وَلاَ نَبِیٌّ مُرْسَلٌ۔ کیا اس حدیثِ شریف سے ہم کچھ معرفت کی برکتیں حاصل کر

 

۲۰۸

 

سکتے ہیں؟ -جواب:  ان شاء اللہ تعالیٰ، ترجمہ: میرے لئے اللہ کے ساتھ کوئی ایک وقت ایسا آتا ہے جس میں میرے ساتھ نہ کسی مقرّب فرشتہ کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ نبیٔ مُرسل کی۔ اس ارشاد میں ایک طرف فنائیتِ مُطلّقہ کا اشارہ ہے اور دوسری جانب گوناگون تجلّیات و ظہورات کا ایما ہے، حضورِ اکرمؐ جہاں نورِ اوّل ہیں، وہاں آپ کی ازلی اور دائمی معراج ہے، اور ظہورِ قدسی و منصبِ نبوّت کے بعد جو معراج ہوئی، وہ مثالی ہے، اور وہ بھی ایک سے زیادہ ہیں، اس کے علاوہ آنحضرتؐ جب جب فراغت کے ساتھ نورانی عبادت کرتے تو اپنے آپ کو عالمِ شخصی کی معراج پر پاتے، یہ تھی حضورِ والا صلعم کی شانِ اقدس، کبھی زمین پر اصحابِ کبار رِضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ، کبھی کسی فرشتۂ مقرّب کےساتھ، کبھی کسی نبیٔ مرسل کے ساتھ، جیسے معراج کے قصّے میں ہے، اورکبھی سب سے اعلیٰ اور برتر۔

سوال – ۲۵۸: کوکبِ دُرّی، بابِ پنجم، منقبت نمبر ۵، میں ہے کہ وعلب نامی ایک شخص نے امیرالمؤمنین علی علیہ السّلام سے بطورِ بحث سوال کیا: ھَلْ رَاَیْتَ رَبَّکَ حَتّیٰ عَرَفْتَہٗ =کیا تو نے اپنے پروردگار کو دیکھا یہاں تک کہ اس کو پہچان لیا؟ امیرؑ نے فرمایا: لَمْ اَعْبُدْ رَبَّاَلَمْ اَرَہٗ = میں نے پروردگار کی عبادت نہیں کی، جب تک اس کو نہیں دیکھا۔ وعلب نے کہا: کَیْفَ رَأیْتَہٗ = تو نے اس کو کس طرح دیکھا؟ مولا نے فرمایا: مَا رَاَتْہُ الْعُیُوْنَ بِمُشَا ھِدَۃِ الْعَیَانِ لٰکِنْ رَاَتْہُ

 

۲۰۹

 

الْقُلُوْب بِحَقَائِقِ الْعِرْفَانِ = اس کو سر کی آنکھوں نے ظاہری مشاہدے کے طور پر نہیں دیکھا، لیکن دیدۂ سِرّ یعنی چشمِ باطن نے بُرہانِ عقلی اور حُجّتِ کشفی کے طور پر اس کو دیکھا ہے۔ مولا علیؑ کے ان مبارک الفاظ میں آپ کچھ حکمتیں بتائیں۔ -جواب:  (۱) خدا شِناسی (معرفت) اسلامی امور کی چوٹی پر ہے، اگر خدا و رسولؐ کی جانب سے امام ہماری رہنمائی نہ فرماتا تو ہم سب معرفت کی لازوال دولت سے محروم رہ جاتے (۲) مولا علیؑ کے اس جواب میں دیدارِ خداوندی کا بیان، شہادت، اور تصدیق اظہر مِن الشمس ہے (۳) یہاں سے یہ بھی معلوم ہُوا کہ معرفت دیدار کا ماحصل ہے جو عبادت کی جان ہے (۴) پروردگار کا پاک دیدار دل کی آنکھ سے ہوتا ہے۔

سوال – ۲۵۹: کوکبِ دُرّی، بابِ سُوم، منقبت ۱۵۲ میں ہے: لَمْ یَکُنْ اَحَدٌ مِنَ الصَّحَابَۃِ یَقُوْلُ سَلُوْنی عَمّاَدُوْنَ الْعَرْشِ اِلَّا عَلِیٌّ۔ یعنی صحابہ میں علیؑ کے سوا اور کوئی ایسا نہ تھا، جو یہ کہے کہ تم مجھ سے عرش کے سِوا جو چاہو پوچھو۔ اس کی کوئی باطنی حکمت کیا  ہوگی؟ -جواب:  “عرش کے سوا” روایتی ترجمہ ہے، کیونکہ اصل ترجمہ ہے: عرش کے نیچے، دیکھیں المنجد، دُون =پست، نیچے، چُنانچہ مولا علیؑ نے فرمایا: سلونی عمّا دون العرش۔ یعنی عرش کے تحت جو کچھ ہے اس کے بارے میں مجھ سے پوچھ لو۔ کہ عرش قلم ہے اور اس کے نیچے کُرسی لوحِ محفوظ، قلم نُورِ محمّدؐ ہے اور لوحِ محفوظ نورِ علیؑ، پس مولا نے اپنی

 

۲۱۰

 

ذات کی لوحِ محفوظ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم جو کچھ پوچھنا چاہو تو مجھ سے پوچھ سکتے ہو۔

سوال – ۲۶۰: سُورۂ رحمٰن (۵۵: ۳۳) میں ارشاد ہے: (ترجمہ) اے گُروہِ جِنّ و انس اگر تم میں قدرت ہو کہ آسمان و زمین کے اطراف سے باہر نکل جاؤ تو نکل جاؤ مگر یاد رکھو کہ تم قوّت اور غلبہ کے بغیر نہیں نکل سکتے ہو۔ اس آیۂ شریفہ کا تعلّق آفاق سے ہے یا انفس سے؟ یا دونوں سے؟ اس آیت میں جو لفظِ سُلْطَان آیا ہے، اس سے کیا مراد ہے؟ آسمان و زمین کے اطراف سے باہر نکل جانا کیوں ضروری ہے؟ -جواب:  (۱) اِس آیۂ شریفہ کا تعلّق آفاق و انفس دونوں سے ہے کہ اللہ کی نشانیاں دونوں میں ہیں، تاہم آسمان کے دروازے عالمِ شخصی میں کُھل جاتے ہیں، (۲) سُلطان جس کے معنی ہیں: قوّت، زور، غلبہ، دلیل، اس سے امام ِزمان مراد ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اسی کو ہرگونہ طاقت کا خزانہ بنایا ہے، جیسے اسمِ اعظم، روحانی قیامت، علم و حکمت اور دلیل (۳) آسمان و زمین سے باہر نکل جانے کا روحانی سفر انسان کی اپنی ذات میں ہے، اور تمام اقوام و ادیانِ عالم کا یہ عجیب و غریب مقابلہ اور مُسابقہ بے حد ضروری ہے۔

۴۔ یہ تسخیرِ کائنات کی روحانی اور علمی جنگ ہے، یہ خدا کے معجزات کو دیکھنے کے لئے ہے، معرفت اور خدا شِناسی اس سے الگ نہیں، مکان اور زمان سے بالاتر ہوکر مشاہدۂ لامکان کا طریقِ کار بھی یہی ہے، الغرض اس آیۂ کریمہ میں ہزاروں اسرار پنہان ہیں۔

 

۲۱۱

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۷

 

سوال – ۲۶۱: ارشاد ہے: سَنَفْرُغُ لَکُمْ اَیُّہَ الثَّقَلٰنِ (۵۵: ۳۱) اے دونوں گُروہو ہم عنقریب ہی تمہاری طرف متوجّہ ہوں گے۔ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ذاتِ سبحان کو کبھی کثرتِ کار کی وجہ سے فرصت ہی نہ ہو، اور کبھی فراغت و فرصت مُیسر ہو؟ اگر نہیں تو یہ کس حقیقت کی مثال ہے؟ -جواب:   (۱) ایسا نہیں، بلکہ یہ حجابِ حقیقت اور مثال ہے (۲) اس کا اشارہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑا روحانی انقلاب آنے والا ہے، جس کی علامتیں دیکھی گئی ہیں، وہ ہیں ذرّاتی لشکر (یاجوج ماجوج) اُڑن طشتریاں، وغیرہ۔

سوال -۲۶۲: یہ ارشاد سُورۂ طٰہٰ (۲۰: ۰۵) میں ہے: اَلرَّحْمٰنُ عَلیَ الْعَرْشِ اِسْتَوٰی۔ کیا آپ اِس آیۂ کریمہ کی اصل حکمت بیان کر سکتے ہیں؟ -جواب:   اِن شاء اللہ، اس آیۂ مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے: خدائے رحمان نے عرش پر مساوات کا کام کیا۔ یعنی لوگوں کے لئے آسمانوں اور زمین میں اگرچہ درجات ہیں، لیکن عرش پر مُساوات (برابری) ہے، جس کی کئی دلیلیں ہیں: (۱) جب لوگ خدا کے فضل و کرم سے

 

۲۱۲

 

“یک حقیقت” ہوجاتے ہیں تو وہ سب کے سب یکسان اور برابر ہوتے ہیں (۲) فنا فی اللہ کا مرتبہ عرش پر ہے، عرش ایک نور ہے، نور ایک فرشتہ ہے، جو انسانِ کامل کی لطیف و نورانی ہستی ہے (۳) رحمان کی تخلیق میں تم کو کوئی فرق نظر نہیں آئے گا (۶۷: ۰۳) یہ مُساواتِ رحمانی ہے۔

سوال – ۲۶۳: سُورۂ آلِ عمران (۰۳: ۴۹) اور سُورۂ مائدہ (۰۵: ۱۱۰) کے حوالے سے سوال ہے کہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام خدا کے اذن سے جو پرندے بناتے تھے، ان کی کیا تاویل ہوتی ہے؟ -جواب:  ان کی تاویل ہے: حضرتِ عیسیٰؑ کی لطیف زندہ تماثیل /تصاویر، یعنی حضرتِ عیسیٰؑ کی ہستی کے سانچے میں ڈھلے ہوئے فرشتے، تاکہ اُس زمانے کے اہلِ ایمان ان کو جامۂ جنّت کے طور پر پہن لیا کریں۔

سوال – ۲۶۴: سُورۂ حدید (۵۷: ۲۵) میں ہے: وانزلنا الحدید فیہ بَاْسٌ شدیدٌ وّ مَنَافِعُ لِلنّاس = اور ہم نے لوہے کو نازل کیا جس میں شدید جنگ ( بھی) ہے اور لوگوں کے لئے منافع (بھی) ہیں۔ آیا آپ اس کی ظاہری اور باطنی حکمت بیان کریں گے؟ -جواب:  اِن شاء اللہ، اس کی ظاہری حکمت یہ ہے کہ ہر چیز کی روح ہے، اور لوہے کی بھی روح ہے، پس خداوند تعالیٰ نے لوہے کی روح کو نازل کیا، جس سے لوہے کی کانیں پیدا ہوئیں، اور معلوم ہے کہ تمام سامانِ جنگ لوہے سے بنائے جاتے ہیں اور بےشمار فائدے کی چیزیں بھی لوہے

 

۲۱۳

 

سے ہی بنائی جاتی ہیں۔

باطنی حکمت یہ ہے کہ جب امامِ زمان علیہ السّلام کے لشکرِ روحانی عالمِ شخصی میں اُترتے ہیں، تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوہے کا نازل ہونا، جس میں شدید حربِ روحانی ہے، اور روحانی لوہے (لشکرِ ارواح) میں جتنے فائدے ہیں، ان کا شمار ہو ہی نہیں سکتا۔

سوال – ۲۶۵: سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۵۰) میں یہ ارشاد ہے: قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِیْدًا= (اے رسولؐ) ان سے کہدو تم پتّھر یا لوہا بن جاؤ۔ اِس آیۂ کریمہ میں کس نوعیّت کا رازِ حکمت پنہان ہے؟ -جواب:  خداوندِ تعالٰی ہمیشہ ممکن بات کرتا ہے، لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں سے متعلّق خدائے پاک و برتر کا یہ فرمان ہوا، ان کی روح پتّھر یا لوہے میں تبدیل ہوگئی، کیونکہ کُنْ /کُوْنُوا (ہوجا /ہو جاؤ) ایک ایسا حکم ہے، جس کی تعمیل فوراً ہی ہوجاتی ہے، یہ حکم خدا فرماتا ہے، یا اس کے اذن سے رسولؐ، یا امامؑ۔

سوال – ۲۶۶: سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۴۹) میں ہے (حضرتِ عیسیٰؑ نے کہا) میں تم لوگوں کے لئے گارے سے ایسی شکل بناتا ہوں جیسے پرندے کی شکل ہوتی ہے پھر اس میں پھونک مارتا ہوں جس سے وہ (جاندار) پرندہ بن جاتا ہے خدا کے حکم سے، اور میں اچھا کر دیتا ہوں مادرزاد اندھے کو اور برص (جذام) کے بیمار کو اور زندہ کر دیتا ہوں

 

۲۱۴

 

مُردوں کو خدا کے حکم سے اور میں تم کو بتلا دیتا ہوں جو کچھ تم کھاتے ہو اور جو کچھ گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو۔ اس کی تاویل کس طرح ہوگی؟ -جواب:   (۱) یہ زندہ پرندہ فرشتہ ہے جو مومن کے ذرّۂ روح سے انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں بنتا ہے (۲) مادرزاد اندھے کو اچھا کرنا یہ ہے کہ پیغمبر اور امام مومن کو چشمِ بصیرت عطا کرتے ہیں (۳) برص کے بیمار کو شِفا بخشنا یہ ہےکہ ابتدائی روشنی (سفیدی) سے نکل کر آگے جانا انتہائی مشکل کام ہے، مگر جس پر روحانی طبیب مہربان ہوجائے، اس کے لئے آسان ہے (۴) مُردوں سے مردگانِ جہالت مراد ہیں، جن میں ہادیٔ برحق روح العلم پھونکتا ہے، جس سے وہ زندہ ہوجاتے ہیں (۵) انسانِ کامل کو معلوم ہے کہ لوگ کس قسم کی علمی خوراک کھاتے ہیں، اور کس درجے کی عِرفانی غذا جمع کرتے ہیں۔

سوال -۲۶۷: سُورۂ مُلک (۶۷: ۰۵) میں ہے: ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشّان چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور انہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنا دیا ہے، ان شیطانوں کے لئے بھڑکتی ہُوئی آگ ہم نے مُہیّا کر رکھی ہے۔ یہ قریبی آسمان مادّی ہے یا روحانی؟ شیاطین کس چیز کی تلاش میں آسمان کی طرف پرواز کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں؟ چراغوں (مصابیح) کا ایک کام تو شیاطین کو مار بھگانا ہے، اور دوسرا کام کیا ہے؟ -جواب:   (۱) یہ روحانیّت کا قریبی آسمان ہے، جس میں رنگ برنگ کی روشنیاں

 

۲۱۵

 

ہیں (۲) شیاطین آسمان پر جاکر فرشتوں کی باتوں کو چُرا لینا چاہتے ہیں، تاکہ اپنے چیلوں کو بتا سکیں (۳) چراغوں کا دوسرا کام سالکین کی رہنمائی کرنا ہے۔

سوال -۲۶۸: اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ سارا قرآن علم و حکمت کے عجائب و غرائب سے مملو (بھرا ہوا) ہے، خصوصاً سورۂ جِنّ کہ وہ جِنّات سے متعلّق ہے، جیسا کہ جِنّوں نے کہا: اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اس کو بھی بہت قوی نگہبانوں اور شعلوں سے بھرا ہُوا پایا، اور یہ کہ پہلے ہم وہاں بہت سے مقامات میں (باتیں) سُننے کے لئے بیٹھا کرتے تھے، مگر اب کوئی سُننا چاہے تو اپنے لئے شعلہ تیار پائے گا (۷۲: ۰۸ تا ۰۹) جِنّوں میں بعض نیکو کار ہیں اور بعض ان کے برعکس (۷۲: ۱۱) آپ یہ بتائیں کہ سُورۂ جِنّ کا بیان جِنّات کے کس گروہ سے متعلّق ہے؟ کیا یہ قریبی آسمان ہے جِس کو ٹٹولا گیا؟ آیا یہ واقعہ عالمِ شخصی کا ہے یا ظاہری کائنات کا؟ کیا یہ سچ ہے کہ حضورِ اکرمؐ کی بعثت سے پہلے شیاطین آسمان تک پہنچ کر فرشتوں کی باتیں سُنتے تھے؟ -جواب:   (۱) اس سُورہ میں جِنّوں کا مجموعی بیان آیا ہے (۲) یہ وہی قریبی آسمان ہے، جس کا ذکر س-۲۶۷ میں ہوچکا ہے (۳) یہ قصّہ دراصل عالمِ شخصی کا ہے (۴) جی ہاں یہ سچ ہے، مگر آنحضرتؐ کی بعثت کے بعد شعلوں کے ذریعے سے ان کو روک دیا گیا۔

سوال -۲۶۹: سُورۂ بقرہ کے آغاز میں ارشادِ خداوندی اس

 

۲۱۶

 

طرح سے ہے: الٓمٓ۔ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (۰۲: ۰۱ تا ۰۲) اس کی تاویلی حکمت کیا ہے؟ -جواب:   اس کے بارے میں حضرتِ علی امیرالمومنین علیہ السّلام نے فرمایا ہے: اَنَاذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ  =یعنی میں وہ کتاب ہوں، جس میں کسی قسم کا شک و رَیب نہیں ہے۔ کیونکہ علیؑ کا پاک نور قرآنِ ناطق ہے، جس میں یقین ہی یقین ہے، جس کی ہدایت سب سے پہلے پرہیزگاروں کو نصیب ہوتی ہے، یاد رہے کہ مُعلّمِ قرآن ہی نور اور کتابِ ناطق (قرآنِ ناطق ) ہے، الحمدللہ ربّ العٰلمین۔

سوال -۲۷۰: کوکبِ دُرّی، خُطبۃُ البیان میں حضرتِ مولا علی علیہ السّلام کے مُبارک و مقدّس ارشادات میں ہے: اَنَا اٰیَاتُ اللہ۔ آپ اس کی وضاحت کریں۔ -جواب:   مولائے مومنان خدا کی نشانیوں کا مجموعہ اور اس کے معجزات کا کُلّ ہے، کیونکہ آیت کے معنی ہیں: نشانی، حکم، معجزہ، اور اس کی جمع ہے آیات، اب آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ آیاتُ اللہ کہاں کہاں ہیں، سب سے پہلے قرآنِ پاک میں خداواند تعالیٰ کی نشانیاں ہیں، اور پھر بطورِ شہادت آفاق و انفس میں بھی ہیں، اور ان تینوں کتابوں یعنی قرآن، کتابِ کائنات، اور کتابِ شخصی کی مجموعی آیات کے معانی میں علیؑ ہی علیؑ ہے۔

 

۲۱۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۸

 

سوال – ۲۷۱: سب سے بہترین اور سب سے اعلیٰ ترین کتابِ شخصی (کتابِ نفسی) تو رحمتِ عالم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم تھے، حضورِ اکرمؐ کے بعد مولا علی علیہ السّلام کی مبارک شخصیّت مثالی کتاب ہے، اب آپ یہ بتائیں کہ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) سے امامِ زمین و زمان مُراد ہے یا نہیں؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ زمانے کا ہادیٔ برحق ہی امامِ مبین ہے، تو آپ بیان کریں کہ امامِ زمان علیہ السّلام کی روحانیّت و نورانیّت میں کیا کیا آیات و معجزات ہیں؟ -جواب:   (۱) کائنات اگرچہ ظاہراً پھیلی ہُوئی نظر آتی ہے، لیکن امامِ مبین میں وہ محدود، محصور، اور ملفوف ہے (۲) اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے مکان و زمان کی بے پایان وُسعتوں کو لپیٹ کر امامِ مبین کی مٹھی میں دے رکھا ہے (۳) خدا کی بادشاہی میں اِس کثرت سے چیزیں ہیں کہ ان کا شمار جِنّ و انس مل کر کرنا چاہیں تو پھر بھی ناممکن ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نےتمام اشیاء کو امامِ مبین میں بالآخر عددِ واحد میں گِن کر رکھا ہے (۴) علم و حکمت کے بحرِ بیکران کو دُرِّیتیم میں سمو دیا ہے (۵) یقیناً امامِ زمانؑ ہی امامِ مبین ہے، جس کی روحانیّت و نورانیّت میں جو آیات ہیں، وہ ہمیشہ زندہ اور جامعیّت و کاملیّت میں

 

۲۱۸

 

بے مثال ہیں۔

سوال – ۲۷۲: سوال آنحضرت صلعم کی معراجِ روحانی سے متعلّق ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ ربِّہِ الْکُبْریٰ =اُس نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھی ہیں (۵۳: ۱۸) معراج میں بڑی بڑی نشانیاں یا بڑے بڑے معجزات کیا ہیں؟ -جواب:   حظیرۂ قدس کے معجزات سب سے عظیم ہیں، مثال کے طور پر لِقائے الٰہی، اشاراتِ دیدار، وحدتِ عرش و کرسی، معجزاتِ صورتِ رحمان، آفتابِ نورِ ازل، ازل و ابد کی یکجائی، کائنات کا لپیٹ لینا اور پھیلا دینا، فنا فی اللہ، کلمۂ باری، قلمِ اعلیٰ، لوحِ محفوظ، کتابِ مکنون، تخلیقِ آدم، سُجودِ ملائکہ، سِدرۃ المنتہیٰ، مقامِ ابراہیمؑ، مظہرِ کُلّ، علِّییّن، لامکان، بہشت، کنزِ مخفی، تَوَلّدِعقلانی وغیرہ وغیرہ۔

سوال -۲۷۳: آپ مُؤَوِّلِ آلِ محمّدؐ پر جان و دل سے یقین رکھتے ہیں، انہوں نے فرمایا: “اݹ مُش او۔” اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: اس کی حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے: نظریۂ لا ابتداء اور لا انتہاء کو اپناؤ، کیونکہ خداوندِ تعالیٰ کی قدیم بادشاہی میں ہر چیز ہمیشہ ایک دائرے پر روان دوان ہے، اور ایسی دائمی حرکت میں انسان کی حیاتِ سرمدی ہے، اور یہ سِرِّعظیم عوام کی سمجھ سے بالاتر ہے، یہ کلمہ تاویلی کلیدوں میں سے ہے، لہٰذا یہ یاد رہے: –

 

۲۱۹

 

اݹ = حرفِ نفی =لا، نہ، بے، مُش =سِرا، جیسے: سِرا_______ سِرا، او =رکھ، پس ’’اݹ مُش او‘‘ کے معنی ہوئے لا ابتداء اور لاانتہاء کا نظریّہ رکھو، جیسے دوسرا قول ہے: تھݸݽ گٹݸ جݹ، مݶن شُرݸ جݹ =مجھے جامۂ نَو اور رزقِ قدیم عطا فرما ! یہ تو فنا فی الامام کے لئے درخواست ہوئی، کیونکہ وہی مولا اور بادشاہ ہے جو ہر زمانے میں جامۂ جدید اور علمِ قدیم کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے، ان شاء اللہ، اہلِ ایمان کے لئے جُملہ بُشارات سچ ثابت ہو جائیں گی۔

سوال -۲۷۴: قرآن و حدیث میں جہاں جہاں نُور کا تذکرہ آیا ہے، کیا وہاں صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ نور روشنی کو کہتے ہیں؟ یا نور کے معنی میں کوئی بہت بڑی حکمت بھی ہے؟ -جواب:   (۱) یقیناً نور کے معنی میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں (۲) نور کی بہترین تعریف اور وضاحت دعائے نور میں ہے (دعائم الاسلام، جلد اوّل، ص ۱۶۷) دل کے لئے اگر نور مقرّر ہو تو اس کی تمام قوّتیں اور صلاحیتیں زندہ ہوجائیں گی (۳) اگر نور آنکھ  کے لئے غیر معمولی روشنی ہے تو کان کے لئے نورانی آواز ہے، اور زبان کے لئے معجزانہ قوّتِ گویائی ہے (۴) اُس طرف سے بار بار محبوبِ جان کا ٹیلی فون آتا رہتا ہے، مگر افسوس کہ اِس جانب کا فون خراب پڑا ہے (۵) آؤ دوستو انتہائی عاجزی سے گریہ وزاری کریں، علم، عبادت، خدمت، اور کامل فرمانبرداری سے فائدہ اُٹھائیں۔

 

۲۲۰

 

سوال -۲۷۵:  آپ نے اذکار میں سے ذکرِ سریع کی تعریف کی ہے، اس کی قرآنی شہادت و دلیل کیا ہے اورکہاں ہے؟ -جواب: (۱) سُورۂ ذاریات (۵۱: ۵۰) میں ہے: لہٰذا اب خدا کی طرف دوڑ پڑو۔ یہ ذکرِ سریع اور نیک کاموں میں سبقت ہے (۲) سابقوا (۵۷: ۲۱) میں بھی یہی حکم ہے، اور سارعوا (۰۳: ۱۳۳) میں بھی (۳) نور کے دوڑنے (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۰۸) کے معنوں میں ذکرِ سریع بھی ہے (۴) سُورۂ عادیات (۱۰۰: ۰۱ تا ۰۲) میں ذکرِ سریع کی حکمت ہے۔

سوال – ۲۷۶: حدیثِ قدسی ہے: مَاوَسِعَنِی اَرْضِی وَلَا سَمَائی وَلٰکِن وَسِعَنْی قَلْبُ عَبدِیُ المُؤمِنُ=مجھے اپنے اندر نہ میری زمین نے سمایا نہ میرے آسمان نے، ہاں میرے بندۂ مومن کے دل نے مجھے سمایا۔ اس گنجائش کا اصل راز کیا ہے؟ -جواب: (۱) یہاں سب سے پہلے یہ سوچنا ہوگا کہ بندۂ مومن بحقیقت کون ہے؟ نبی اور ولی؟ (۲) ان کے بعد بھی ایمان کے مختلف درجات ہیں (۳) اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو جو خصوصیات عطا کی ہیں، وہ ارض و سما کو نصیب نہیں ہوئی ہیں (۴) وہ خصوصیات ہیں انسانیت سے بڑھ کر آدمیّت، نورِ ایمان، عشقِ سماوی، علم و حکمت، چشمِ بصیرت، دیدار اور معرفت، پس خدا شِناسی کا اصل راز یہی ہے۔

سوال -۲۷۷: سُورۂ اَنعام (۰۶: ۱۰۳) کی اِس سماوی تعلیم سے کیا

 

۲۲۱

 

فیصلہ ہوتا ہے؟ آیا اِس دُنیا کی زندگی میں حضرتِ ربُّ العزّت کا دیدار ممکن ہے یا محال؟ آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پالیتا ہے، وہ نہایت باریک بین اور باخبر ہے۔ -جواب:   (۱) کسی مومن کی چشمِ باطن میں وہ طاقت نہیں کہ از خود عزّت کی بلندیوں تک رسا ہوکر خدا کا دیدار کرسکے، اور اس کو پہچان سکے، مگر خدا کے لئے یہ امر بڑا آسان ہے کہ از راہِ نوازش مومن کی چشمِ بصیرت کے سامنے جلوہ گر ہوجائے (۲) اللہ جلّ جلالہ کا ایک اسم النّور ہے، اور دوسرا اسم الظّاہر ہے، اس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ اس دنیا میں دیدار اور معرفت ممکن ہے (۳) آپ اس بات پر خوب غور کریں کہ انسان از خود سورج کو نہیں دیکھ سکتا ہے، بلکہ آفتابِ عالمِ تاب خود بخود آکر اس کی آنکھوں میں سما جاتا ہے۔

سوال -۲۷۸: سُورۂ اعراف(۰۷: ۱۴۳) کے حوالے سے ایک مختصر سوال ہے، مگر حق بات تو یہ ہے کہ یہ مسٔلہ انتہائی مشکل ہے، وہ یہ پوچھنا ہے کہ حضرتِ موسیٰؑ کو ربِّ تعالیٰ کا دیدار ہوا تھا یا نہیں، جبکہ آپؑ نے درخواست کی تھی: اے میرے پروردگار اپنا دیدار مجھ کو دکھلا دے؟ -جواب: (۱) جواب اگرچہ انتہائی مشکل ہے، لیکن ان شاءاللہ مشکِل کُشا کی مدد ہوسکتی ہے، (۲) حضرتِ موسٰیؑ کا یہ قصّہ اسرافیل و عزرائیل کی منزل سے متعلّق ہے، جہاں تجلّیٔ حق تعالیٰ سے کُوہِ روح ریزہ ریزہ ہو جاتا ہےمگر نمایان دیدار نہیں ہوتا (۳) آگے سے آگے چل کر کلیم اللہؑ

 

۲۲۲

 

کو ربُّ العزّت کا پاک دیدار ہوا تھا، یہ مقام بُقعۂ مُبارکہ (۲۸: ۳۰) یعنی حظیرۂ قدس تھا (۴) جس درخت سے آواز آرہی تھی، اس سے نفسِ کُلّی مُراد ہے جو عالمِ عُلوی میں مظہرِ رحمان ہے۔

سوال – ۲۷۹: کیا یہ ناظرین (دیکھنے والے) ظاہری آنکھ کے اعتبار سے ہیں؟ یا چشمِ باطن کے لحاظ سے؟ بنی اسرائیل کے بیل کے رنگ کو دیکھنے والے (۰۲: ۶۹)؟ معجزۂ یدِ بیضأ کو دیکھنے والے (۰۷: ۱۰۸، ۲۶: ۳۳)؟ آسمان میں بُروج (محلّات) کو دیکھنے والے (۱۵: ۱۶)؟ -جواب: (۱) دُنیائے ظاہر میں طاؤس جیسا رنگین بیل کہاں ہے، جس کا رنگ ناظرین کے لئے مسحور کُن ہو، مگر صرف ابتدائی روحانیّت میں نفسِ حیوانی ہی گُویا ایک ایسا خوبصورت اور سحرانگیز بیل ہے، جس کو ذبح کرنا بیحد ضروری ہے (۲) روحانیّت کے درجۂ کمال پر معجزۂ یدِ بَیضاء موجود ہے، جس کی تمثیلات قرآنِ حکیم میں بہت زیادہ ہیں۔

سوال -۲۸۰: کہتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ حُدودِ دین کا تذکرہ آیا ہے، کیا آپ کسی ایسی آیت کی نشاندہی کر سکتے ہیں؟ -جواب: (۱) حکیم پیر ناصر خسرو ( ق س) کی شُہرۂ آفاق کتاب وجہ دین کا مطالعہ کریں (۲) ناطقِ چہارم کے ذیلی حدود کی چند مثالیں یہ ہیں: وہ نفسانی موت سے مرکر روحانیّت میں زندہ ہوگئے تھے (۰۲: ۵۶، ۰۷: ۱۵۵) (۳) حدودِ دین ہی کے روحانی سانچے میں ڈھل ڈھل کر بنی اسرائیل

 

۲۲۳

 

بادشاہ ہوگئے تھے (۰۵: ۲۰) (۴)حضرتِ موسٰی (ناطق) لاٹھی (اسمِ اعظم) حجرِ مُکرّم (اساس) بارہ چشمے (۱۲ حُجج) ہیں (۰۲: ۶۰، ۰۷: ۱۶۰)۔

 

۲۲۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۹

 

سوال- ۲۸۱: آپ نے کہا تھا کہ کسی کامل انسان میں خدائی روح پھونک دینے کے لئے صور پھونکا جاتا ہے، یعنی نَفْخِ رُوح اور نَفْخِ صُور ایک ساتھ ہیں، لہٰذا جہاں روحِ قدسی پھونکنے کا ذکر ہے، وہاں قیامت بھی ساتھ ساتھ ہے، آپ اس کی کوئی مثال بیان کریں۔ -جواب:  سُورۂ تحریم کے آخر (۶۶: ۱۲) میں ہے: اور مریمؑ بنتِ عمران کی مثال جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے ربّ کے کلمات اور کتابوں کی تصدیق کی اور وہ ہمارے فرمانبردار بندوں میں سے تھی۔ مریم سلام اللہ علیہا اپنے وقت میں حُجّت تھی اور تمام حُجَجْ کی مثال، اس کا مطلب یہ ہُوا کہ حُجتّوں پر روحانی قیامت گزرتی ہے اور یہ بیحد ضروری ہے، کیونکہ سارے باطنی علوم قیامت کے اندر ہیں، اور قیامت کے بغیر نہ حکمت ہے نہ معرفت۔

سوال – ۲۸۲: اگر مریمؑ کی قرآنی تعریف حُجّت کی تعریف ہے تو یہ بتائیں کہ حُجّت کے لئے روحانی روشنی کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟

 

۲۲۵

 

-جواب: (۱) از دلِ حُجّت بحضرت رہ بُوَد +اُو بتائیدِ دلش آگہ بُوَد۔ ترجمہ: حُجّت کے دل سے امامؑ تک راستہ ہوتا ہے، اور وہ (امام) اس کے دل کی تائید کرنے کےلئے آگاہ ہے (۲) حکیم پیر ناصر خسرو نے اپنے مشہور دیوان میں فرمایا ہے: برجانِ من چو نورِ امام ِزمان بتافت +لیلُ السَّراربُودم و شمسُ الضُحیٰ شُدم۔ ترجمہ: میری جان پر جب امامِ زمان کا نور طلوع ہوا، میں (جو قبلاً) شبِ تاریک تھا، اب روزِ روشن کی طرح ہوگیا۔

سوال – ۲۸۳: سُورۂ فیل (۱۰۵: ۰۱) میں ہے: اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيل=کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے؟ یہاں سوال یہ ہےکہ آیا اصحابِ فیل کا واقعہ آنحضرت صلعم کی ولادت سے پچاس روز پہلے پیش نہیں آیا تھا؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ ہاں واقعہ تو پہلے کا ہے تو یہاں اِشارۂ حکمت کیوں ایسا ہے جیسا کہ رسولِ پاکؐ نے ہاتھی والوں کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھا تھا؟ -جواب:   (۱) اِس قسم کے اسرار قرآنِ عظیم میں بکثرت ہیں کہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام آئینۂ روحانیّت میں دین سے متعلّق ضروری واقعات کو دیکھتے ہیں (۲) قرآنِ حکیم کے ۳۱ مقامات پر اَلَمْ تَرَ (کیا تم نے نہیں دیکھا؟ ) کا سوال آیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ اہلِ معرفت کو رسولِ اکرمؐ کے روحانی مشاہدات کی طرف توجّہ دلائی جائے۔

 

۲۲۶

 

سوال – ۲۸۴: سُورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۳) میں ہے: (اے رسولؐ) کیا تم نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا، جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ اللہ نے اُن سے فرمایا: مرجاؤ، پھر ان کو دوبارہ زندہ کیا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پربڑا فضل فرمانے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس میں کوئی بڑا عرفانی راز ہے، کیا آپ اس کو بیان کر سکتے ہیں؟ -جواب: ان شاء اللہ (۱) جب صُور پھونکا جاتا ہے اور قیامت برپا ہونے لگتی ہے تو لوگوں کے نمائندہ ذرّات ڈر کے مارے بدن سے نکل کر قیامتگاہ کی طرف بھاگتے ہیں، اور شخصِ قیامت میں پناہ لیتے ہیں (۲) رحمتِ الٰہی اسی میں ہے کہ وہ سب کے سب وہاں غیر شعوری طور پر مرکر زندہ ہوجائیں (۳) خلائقِ عالم پر اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل واحسان ہے (۴) یہ بہت بڑا انقلابی راز ہے لہٰذا آپ سب اس کی حقیقت کو سمجھ لیں۔

سوال -۲۸۵: سُورۂ فرقان (۲۵: ۴۵) میں ہے: کیا تم نے اپنے ربّ کی طرف نہیں دیکھا کہ کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا، ہم نے سورج کو اس پر دلیل بنایا، پھر ہم اس سائے کو رفتہ رفتہ اپنی طرف سمیٹتے چلے جاتے ہیں۔ اس کی تاویلی حکمت کیا ہے؟ -جواب: (۱) یہاں ظاہری سایہ حجاب اور باطنی سایہ محجوب ہے (۲) جو سایہ حجاب میں ہے، وہ ظِلِّ الٰہی ہے، یعنی عقلِ کلّ اور نفسِ کُلّ کا سایہ ہے، بمعنیٔ ارواح و عقول، جن کو خدا پھیلاتا بھی ہے،

 

۲۲۷

 

دائمی اور سرمدی بھی بناتا ہے، جیسے اہلِ بہشت، اور اپنی طرف لپیٹ بھی لیتا ہے، سورج سے نورِ عقل مراد ہے، جس کے ذریعے سے ہر قسم کی نعمتیں مہیّا ہوتی ہیں۔ (یکم جنوری ۱۹۹۹ء)۔

سوال -۲۸۶: سُورۂ ابراہیم (۱۴: ۰۵) میں ہے: اور ہم نے موسٰی کو اپنی آیات کے ساتھ بھیجا (اور حکم دیا) کہ اپنی قوم کو ظلمات سے نور کی طرف نکال لے جائے اور انہیں ایّامِ اللہ یاد دلائے، اس میں ہر صبر کرنے والے اور شکر گزار کے لئے آیات ہیں۔ آپ اس خاص سوال کا جواب دین کہ “ایّام اللہ” سے کون کون سے دن مراد ہیں؟ -جواب:   (۱)اللہ کے ان خاص دنوں سے عالمِ شخصی کی مخفی قیامت اور اس کے سات چھوٹے چھوٹے ادوار مراد ہیں، جس کا بارہا ذکر ہوچکا ہے (۲) ان روحانی اور نورانی ایّام کی یاد دہانی کی غرض سے یقین کے تین مراتب ہیں، یعنی علم الیقین، عین الیقین اور حقّ الیقین (۳) اللہ تعالیٰ کے زندہ اور پُرنور ایّام انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہیں، عالمِ شخصی میں ان کے نورِ اقدس کا ظہور قیامت ہے، جس میں علم و حکمت کے تمام خزانے موجود ہیں۔

سوال – ۲۸۷: فرمانِ اقدس ہے: مَاقِیلَ فِی اللّٰہِ فَھُوَفِیْنَا وَمَاقِیلَ فِینَا فَھُوَ فِی الْبُلَغَاءِ مِنْ شِیعَتِنَا۔ ترجمہ کریں، یہ ارشاد کس امام کا ہے؟ -جواب:   حضرتِ مولانا امام باقر علیہ السّلام

 

۲۲۸

 

نے فرمایا ہے: جو بات اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہی گئی ہے وہ ہم پر صادق آتی ہے، اور جو بات ہمارے متعلّق کہی گئی ہے وہ ہمارے بلیغ شیعوں پر صادق آتی ہے۔ یہ کنزِ مخفی کے عظیم اسرار ہیں۔

سوال -۲۸۸: آپ نے روح کے موضوع پر ایک کتاب تصنیف کی ہے، جو سوال و جواب پر مبنی ہے، لہٰذا آپ آیۂ قُلِ الرُّوْحُ (۱۷: ۸۵) کے حوالے سے یہ بتائیں کہ روح کس معنیٰ میں “پروردگار کے امر سے ہے؟”  -جواب:   (۱) یعنی خاص یا اصل روح عالمِ امر سے ہے (۲) روح کا بالائی سِرا عالمِ عُلوی میں ہے (۳) روح کا دائمی تعلّق کلمۂ امر یعنی کُن (ہوجا) سے ہے، لہٰذا اس میں ہمیشہ تجدُّد ہوتا رہتا ہے (۴) یہی وجہ ہے کہ یہ بہشت میں دائمی طور پر خلقِ جدید ہے (۵) عظیم روح ہر جا حاضر ہے۔

سوال -۲۸۹: آپ یہ بتائیں کہ عالمِ خلق اور عالمِ امر کا ذکر قرآنِ مقدّس کے کس مقام پر ہے؟ ان دونوں کے درمیان کیا فرق ہے؟ -جواب:   (۱) سُورۂ اعراف (۰۷: ۵۴) میں ہے: الا لہُ الخلقُ والامرُ تبٰرک اللّٰہُ ربُّ العٰلمین۔ آگاہ ہوجاؤ کہ (عالمِ) خلق اور (عالمِ) امر اللہ کے لئے ہے، بڑا بابرکت ہے اللہ، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔ (۲) عالمِ خلق/ عالمِ جسمانی ہے، جس کی چیزوں کے پیدا ہونے میں وقت لگتا ہے، مگر عالمِ امر/ عالمِ روحانی میں ہر چیز کُن کے امر سے فورًا ہی پیدا ہو جاتی ہے، خدا کی برکتیں دائمی ہیں، وہ کبھی ختم نہیں ہوتیں، چونکہ

 

۲۲۹

 

برکات ہمیشہ ہیں، اس لئے انسانی روح بھی ہمیشہ ہے۔ الحمدللہ۔

سوال – ۲۹۰: سُورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) میں ارشاد ہے: وَلِلَّهِ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ۔  آپ اِس آیۂ مُبارکہ کا ترجمہ کریں، اور أئمّۂ آلِ محّمدؐ نے جس شان سے اس کی تاویل کی ہے، وہ بھی ہمیں بتائیں۔ -جواب:   ترجمہ: اور بہترین نام اللہ کے لئے ہیں، پس اسے انہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اللہ کے ناموں میں کجی کرتے ہیں (وہ عنقریب اپنے اعمال کی سزا پائیں گے ۰۷: ۱۸۰)۔ (۱) حضرت مولا علیؑ نے فرمایا: اَنَا الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی الَّتِیْ اَمَرَ اللہ اَنْ یُدْعیٰ بِھَا  =یعنی میں خدا کے وہ اسمائے حُسنٰی ہوں، جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کو ان اسماء سے پکارا جائے (۲) حضرتِ امام جعفر صادقؑ کا فرمان ہے: نحنُ واللہ الاسمآءُ الحُسنٰی = خدا کی قسم! ہم (أئمّہ) اللہ کے اسمائے حُسنٰی ہیں (۳) خدا کی ہر چیز عقل و جان کے درجۂ کمال پر زندہ اور گوئندہ ہوتی ہے، پس اسی قانون کے مطابق اسمِ اعظم اور اسماءُ الحُسنٰی سے امامِ زمانؑ مراد ہے۔

 

۲۳۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۰

سوال -۲۹۱: حضرتِ مولا علی علیہ السّلام نے فرمایا ہے: لَوْ کُشِفَ الْغِطَا ءُ لَمَا ازْدَدْتُ یَقِیْناً =اگر پردہ کھول دیا جائے، تو بھی میرے یقین میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوگا۔ اِس کی وضاحت کریں۔ -جواب:   یقین کے تین درجے مشہور ہیں: علم الیقین، عین الیقین، اور حقّ الیقین، اس کے بعد یقین کا کوئی اضافی درجہ نہیں، علیؑ جبکہ خزانۂ اسرارِ حق الیقین ہے، لہٰذا اس میں یقین کی کوئی کمی نہیں، پس اگر پردہ کھولا جائے تو لوگوں کو بڑی حیرت ہوسکتی ہے، لیکن علیؑ کے لئے کوئی حیرت کی بات نہیں۔

سوال – ۲۹۲:  سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۹۵) میں ہے: کہدو: اگر رُوئے زمین پر فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم آسمان سے فرشتہ کو رسول بنا کر ان کے پاس بھیجتے۔ اس میں کیا اشارۂ حکمت ہے؟ – جواب:   اس سے ظاہر ہے کہ فرشتے جسمانی اور روحانی دو قسم کے ہوتے ہیں، جسمانی فرشتے انبیاء و اولیاء علیہم السّلام ہیں، جو ذکرِ الٰہی کے اطمینان کے ساتھ کسی ڈر کے بغیر زمین پر چلتے پھرتے ہیں، اور روحانی فرشتے خدا

 

۲۳۱

 

کے حکم سے ارضی فرشتوں کی مدد کرتے ہیں، اور دَورِ نبوّت میں پیغمبروں کے لئے وحی لاتے تھے۔

سوال – ۲۹۳:  حدیثِ شریف ہے: اِنَّ مِنْکُمْ مَنْ یُقَاتِلُ عَلیٰ تَاوِیْلِ الْقُرْاٰنِ کَمَا قَاتَلْتُ عَلیٰ تَنْزِیْلِہ = تم میں سے ایک شخص ہے کہ وہ تاویلِ قرآن پر جنگ کرے گا، جیسا کہ میں نے تنزیلِ قرآن پر جنگ کی ہے۔ معلوم ہے کہ یہ حدیث حضرتِ علیؑ کے بارے میں ہے، لہٰذا یہاں آپ یہ بتائیں کہ تاویلی جنگ اصلاً کیا چیز ہوتی ہے؟ -جواب:   (۱) تاویلی جنگ دراصل روحانی جنگ کا نام ہے، جو ایک مخفی قیامت ہے، اسی کی بُنیاد پر ظاہری تاویل بھی ہے (۲) پس تاویل کے لئے تین عظیم حدودِ دین مقرّر ہیں: اساس، امام، اور قائم، اور تاویلی جنگ ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی لشکر کے بغیر نہیں ہے۔

سوال – ۲۹۴: سُورۂ یُونس (۱۰: ۶۲) میں ارشاد ہے: أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ =آگاہ رہو کہ اللہ کے اولیاء پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ اس میں کیا اسرار ہیں؟ -جواب: (۱) خوف کا تعلّق مستقبل سے ہے، اور غم کا تعلّق ماضی سے، لیکن دوستانِ خدا کی حقیقت زمان و مکان سے بالاتر ہے (۲) خدا کے اولیاء کا ظہور بیک وقت بہشت میں بھی ہے دُنیا میں بھی، اور وہ فنا فی اللہ بھی ہوچکے ہیں، پھر ایسے میں دنیا کے عارضی

 

۲۳۲

 

خوف و غم کا پلّا کس طرح بھاری ہوسکتا ہے، (۳) اس کی ایک اور توجیہہ بھی ہے، وہ یہ کہ خداوندِ تعالیٰ کے دوستوں کے ہر خوف و غم میں رحمت اور حکمت ہے، اس معنیٰ میں بھی خوف و غم کا تصوّر ختم ہو جاتا ہے۔

سوال -۲۹۵: یہ ارشادِ رحمت آگین سورۂ اَنعام (۰۶: ۹۸) میں ہے: و ہو الّذیٓ اَنْشَاَکم مِّن نفسٍ وّاحدۃٍ فمستقرٌّ وّ مُستودَعٌ۔ کیا آپ اس کی تاویلی حکمت بتا سکتے ہیں؟ -جواب:   ان شاء اللہ، ترجمہ: اور وہی ہے وہ ذات جس نے تمہیں نفسِ واحدہ سے پیدا کیا پس (ہر شخص کے لئے) مُستقر بھی ہے اور مُستودَع بھی۔ (۱) انسان کی انائے عُلوی بہشت میں ہے، کہ بہشت مُستقر (جائے قرار) ہے (۲) انائے سِفلی دُنیا میں بھیجی گئی ہے، جو مُستودَع (جائے امانت) ہے، اسی انسانی حقیقت کی نشاندہی اور تصدیق قانونِ امامت سے ہوجاتی ہے کہ تاریخِ امامت میں امام ِمستقر تو ہمیشہ ہے، اور امام ِمُستودع کبھی کبھی ہوا ہے۔

سوال -۲۹۶: آپ نے روح شِناسی پر ایک گرانقدر کتاب لکھی ہے جو “روح کیا ہے؟” کے نام سے ہے، لیکن آپ یہاں مختصراً یہ بتائیں کہ روح کیا ہے؟ آیا یہ ایک ذرّۂ کم مقدار و محدود ہے؟ یا ایک لامحدود شَیٔ ہے؟ کیا روح مکانی ہے یا لامکانی؟ کیا ہم اس کو بسیط و محیط کہہ سکتے ہیں؟ کیا روح ایک ہمہ رس اور کائنات گیر حقیقت ہے؟ -جواب: (۱) روح خدا کی خدائی میں سب سے عجیب و غریب

 

۲۳۳

 

شیٔ ہے (۲) روح لامحدود بھی ہے اور محدود بھی (۳) روح ذاتی طور پر لامکان اور جسم کی نسبت سے مکانی ہے (۴) روح یقیناً بسیط و محیط اور ہر جا حاضر ہے (۵) روح ہمہ رس اور کائنات گیر ہے، کیونکہ وہ خدا کے نور کا عکس ہے۔

سوال -۲۹۷:  الحمد للہ، میں جملہ پیران و بزرگارنِ دین کا عقید تمند ہوں، اور اس حقیقت پر خدا میرا گواہ ہے، چنانچہ میں یہاں حکیم پیرناصر خسرو (ق س ) کا یک ایسا شعر پیش کرتا ہوں جو حلِّ مسائل کے لئے بیمثال ہے، وہ یہ ہے: ز نورِ او تو ھستی ہمچو پرتو +حجاب از پیش بردار و تو اوشو۔ احباب اور قارئینِ کرام کے لئے آپ اس کا ترجمہ و تشریح کریں۔ -جواب: ترجمہ: تو (اپنے باطن میں) اس کے نور کا عکس (زندہ تصویر) ہے، سامنے سے پردۂ خودی کو ہٹا کر تُو وہ ہوجا۔ (۱) کتنی خوبصورت اور بابرکت مثال ہے! انسانی قلب آئینۂ تجلّیات ہے (۲) اگر تو چشمِ بصیرت سے دیکھ سکتا ہے تو دیکھ لے کہ اس مِرأتِ خدا نما میں یک حقیقت کے کیسے کیسے اَسرار پنہان ہیں (۳) اِس مقام پر حدیثِ قدسی اجعلک مِثلی کو بھی یاد کرے (۴) یاد رہے کہ حظیرۂ قدس عظیم بھیدوں کی بہشت ہے۔

سوال – ۲۹۸: آیۂ شریفہ از سُورۂ یوسف (۱۲: ۰۴) ترجمہ: وہ وقت (یاد کرو) جب یوسفؑ نے اپنے باپ سے کہا: ابّاجان! میں نے خواب

 

۲۳۴

 

دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند میرے لئے سجدہ کررہے ہیں۔ اس میں کیا تاویلی حکمت ہے؟ -جواب:   (۱) حضرتِ یعقوب علیہ السّلام کے پاس امامت تھی، جو کافی پہلے حضرتِ یوسف علیہ السّلام میں منتقل ہوگئی (۲) گیارہ حدود، سابق امامؑ اور باب نے حضرتِ یوسف امامؑ کے لئے سرِ تسلیم خم کیا (۳) سجدہ کے کئی معنی ہیں، اس کا ایک مطلب اطاعت بھی ہے۔

سوال -۲۹۹: ترجمۂ ارشاد از سُورۂ احزاب (۳۳: ۴۱ تا ۴۲): اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کو بہت یاد کرو، اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو۔ کثرتِ ذکر سے کیا کیا فائدے حاصل ہو سکتے ہیں؟ یادِ الٰہی کے نہ ہونے سے کیا نقصان ہوتا ہے؟ -جواب: (۱) ذکرِ کثیر کے فائدے بےشمار ہیں، جبکہ ذکر و عبادت سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے (۲) یادِ الٰہی کے نہ ہونے سے شیطان غالب آتا ہے (۳) آپ میں جو فرشتہ مقرّر ہے، اس کو کثرتِ ذکر سے تقویت ملتی ہے، اور وہ آپ کے لئے فرشتگانہ کام کرنے لگتا ہے، جس سے آپ کی روحانی ترقی ہوسکتی ہے(۴) ذکرِ الٰہی کی کثرت سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے (۱۳: ۲۸) جو کئی معنوں اور کئی درجات میں ہے (۵) اگر آپ پروردگار کو اس کے بزرگ نام سے یاد کرتے ہیں تو یقین کرنا کہ اس پاک نام میں لاتعداد برکتیں ہیں (۵۵: ۷۸) بھول نہ جانا کہ روحانی ترقّی کا راز خدا کا زندہ اور بزرگ اسم ہے۔

 

۲۳۵

 

سوال -۳۰۰:  سُورۂ انبیاء(۲۱: ۸۱) میں ہے: ہم نے سلیمانؑ کے لئے تیز ہَوا کو مُسخّرکردیا تھا، جو اس کے حکم سے اس سرزمین کی طرف، جسے ہم نے بابرکت بنا دیا ہے، چلتی تھی۔ نیز ہَوا سے کیا مراد ہے؟ بابرکت زمین کونسی ہے؟ -جواب: انبیاء علیہم السّلام کے اصل معجزات عالمِ شخصی میں ہیں، چُنانچہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کا اصل تخت روحانی تھا، اور اس کو اپنے دوش پر لے چلنے والی تیز ہوا بھی روحانیّت میں تھی اور بابرکت سرزمین حظیرۂ قدس ہے، اگر انبیاء و اولیاء کی پرواز روحانی نہ ہوتی جسمانی ہوتی تو آج ہوائی جہاز کی عام پرواز کی وجہ سے اس کی اہمیّت و عظمت ختم ہو جاتی، مگر یہ بات ممکن نہیں۔

 

۲۳۶

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۱

 

سوال – ۳۰۱: سُورۂ نحل (۱۶: ۱۲۰) میں ارشاد ہے: اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ = ابراہیمؑ (تنِ تنہا) ایک اُمّت تھا، امرِ الٰہی کا مطیع، ہر قسم کے انحراف سے مُبرا تھا۔ آپ یہاں یہ بتائیں کہ حضرتِ ابراہیمؑ اپنی انفرادیت میں کس طرح ایک اُمّت تھے؟ -جواب: (۱) حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام اپنے وقت کا بہترین عالمِ شخصی تھا، جس میں سب لوگ فنا ہو کر فرمانبردار ہوگئے تھے (۲) ہر انسانِ کامل اگرچہ اکیلا ہوتا ہے، لیکن اس میں سے ستّر ہزار + ستّرہزار=ایک لاکھ چالیس ہزار فرشتے پیدا ہوجاتے ہیں۔

سوال – ۳۰۲: سُورۂ نوح (۷۱: ۲۶) میں ہے: نوحؑ نے عرض کیا: پروردگارا! روئے زمین پر کفار میں سے کسی ایک کو بھی بسا ہُوا نہ رہنے دے۔ حضرتِ نوح علیہ السّلام کی یہ دعا کس نوعیت کی ہے؟ کیا حضرتِ نوحؑ ظاہری کُفّار کو ختم کر دینا چاہتے تھے، یا یہ عالمِ شخصی کے کافروں کی نفسانی موت کی بات ہے؟ -جواب: (۱) حضرتِ نوحؑ کی یہ دعا پُرحکمت ہے (۲) یہ روحانی طوفان/قیامت کا قصّہ ہے، جس میں سب لوگ عالمِ شخصی میں جاکر ہلاک اور فنا ہوجاتے ہیں، اور یہ معجزہ ان کے حق میں

 

۲۳۷

 

بے حد مفید ہے (۳) خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں اسلام غالب ہوجاتا ہے اور کفر مرجاتا ہے۔

سوال – ۳۰۳: یہ ارشادِ مُبارک سُورۂ محمّد (۴۷: ۰۷) میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ = اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔ اس آیۂ شریفہ کی کوئی حکمت بیان کریں-جواب: (۱) جس طرح دین کی مدد کی جاتی ہے، اس کو خدا نے بہت بڑی عزّت و برتری عطا فرما کر اپنی مدد کا درجہ دیا (۲)اور یہ وعدہ بھی فرمایا کہ وہ ایسے مومنین کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرتے رہتے ہیں (۳) وہ ان کو شاہراہِ مستقیم پر ثابت قدمی سے گامزن ہوجانے کی ہمّت عطا کرے گا (۴) اللہ کی طرف سے مدد انفرادی بھی ہوسکتی ہے اور اجتماعی بھی، آسمانی تائید کے مختلف درجات مقرّر ہیں، اللہ تعالیٰ کی مدد بہت بڑی چیز اور بہت بڑا راز ہے۔

سوال -۳۰۴: سُورۂ اَنعام (۰۶: ۹۱) میں ارشاد ہے: تم یہ کہہ دو کہ وہ کتاب جو موسٰی لائے تھے کس نے نازل کی تھی جو لوگوں کے لئے نور اور ہدایت تھی جس کو تم نے متفرّق کاغذات (اوراق) میں تبدیل کیا ہے۔ یہاں سے یہ عظیم راز مُنکشِف ہُوا کہ جب آسمانی کتاب نازل ہوتی ہے تو وہ پہلے پہل کاغذ پر نہیں ہوتی ہے، بلکہ وہ ایک زندہ روح، نور (فرشتہ)

 

۲۳۸

 

اور لوگوں کے لئے ہدایت ہوتی ہے، آپ بتائیں کہ اس کیفیّت میں تورات کہاں تھی؟ آسمانی کتاب جب تک کاغذ پر نہ آئے کس طرح لوگوں کے لئے نور اور ہدایت ثابت ہوسکتی ہے؟ کیا تورات کے لکھنے پر خداوند تعالیٰ کو اعتراض ہے؟ -جواب: (۱) تورات جب نور اور اصل ہدایت تھی، تب وہ حضرتِ موسٰیؑ اور حضرتِ ہارونؑ کےعالمِ شخصی میں تھی (۲) آسمانی کتاب کی دوصورتیں ہیں: صورتِ اوّل نور اور ہدایت، صورتِ دوم تحریر، لہٰذا کتابِ سماوی ناطق بھی ہے اور صامت بھی (۳) تورات کے لکھنے پر اعتراض نہیں، بلکہ اس کے باطنی نور اور اصل (روحانی) ہدایت کو اہمیّت نہ دینے پر اعتراض ہے۔

سوال – ۳۰۵: سُورۂ ہود (۱۱: ۱۷) میں ارشاد ہے: تو کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے دلیلِ روشن پر ہو اور اس کے پیچھے ہی پیچھے اسی کا ایک گواہ ہو اور اس کے قبل موسٰی کی کتاب جو امام اور رحمت تھی (اس کی تصدیق کرتی ہو وہ بہتر ہے یا کوئی دوسرا)۔ خدا کی طرف سے دلیلِ روشن پر کون ہے؟ اسی کا ایک گواہ کون ہے؟ حضرتِ موسٰی کی کتاب کس طرح لوگوں کی امام اور رحمت تھی؟ -جواب: جو شخص اپنے ربّ کی طرف سے روشن دلیل پر ہے وہ آنحضرتؐ ہیں (۲) اسی کا ایک گواہ حضرتِ علیؑ ہے (۳) حضرتِ موسٰی کی وہ کتاب جو امام اور رحمت تھی، اس سے حضرتِ ہارونؑ مراد ہے، کیونکہ امام ہی کتابِ ناطق ہے، جس میں رحمت ہے۔

 

۲۳۹

 

سوال – ۳۰۶:  سُورۂ مُزّمّل (۷۳: ۱۵) میں ہے: تم لوگوں کے پاس ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بنا کر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔ حضرتِ موسٰیؑ اور حضرتِ سیّد المرسلینؐ کی مماثلت کا اصل راز کیا ہے؟ -جواب: (۱) ویسے تو جملہ انبیاء کے اوصاف و کمالات آنحضرت صلعم میں جمع تھے، تاہم قصّۂ قرآن میں موسٰیؑ اور ہارونؑ آنحضرتؐ اور علیؑ کی مثال ہیں (۲) الَمنْزِلَۃُ کے معنی ہیں: اترنے کی جگہ، گھر، مرتبہ، چُنانچہ حضورِ پاک نے مولا علیؑ سے فرمایا: انتَ مِنّی بِمنزلۃِ ہارونَ مِن موسیٰ اِلّا انّہٗ لا نبیَّ بعدی = یعنی موسیٰ سے ہارون جس منزلت پر تھا تُو مجھ سے اُسی منزلت پر ہے، مگر یہ ہے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں (۳) اس سے معلوم ہُوا کہ جس طرح حضرتِ موسٰیؑ کے نور کی منزل حضرتِ ہارونؑ تھا، اسی طرح رسولِ اکرمؐ کے نور کی منزل حضرتِ علیؑ ہے۔

سوال – ۳۰۷:  آیۂ بیعت (۴۸: ۱۰) کا حصّہ ہے: (اے رسولؐ) جو لوگ تم سے بیعت کررہے ہیں تو وہ (حقیقت میں) اللہ سے بیعت کررہے ہیں خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ اس ارشاد میں سے حکمتِ ضروریہ بتائیں -جواب:   (۱) جب رسولِ پاکؐ سے بیعت دراصل اللہ سے بیعت ہے اور حضورؐ کا پاک ہاتھ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے، تو پھر روئے زمین پر ہر زمانے میں خلیفۂ خدا کے ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے (۲) جب ایک زمانے میں لوگوں کو خلیفۂ خدا سے بیعت کرنے کی

 

۲۴۰

 

سب سے بڑی سعادت نصیب ہو جاتی ہے تو دوسرے زمانوں میں اس سے محرومی کس طرح ممکن ہے (۳) رحمتِ عالمؐ نے سچ فرمایا: مَنْ رَاٰنِیْ فَقَدْ رَاَالّٰلہ = (۱) جس نے میرا دیدار کیا اس نے خدا کا دیدار کیا (۲) جس نے مجھے خواب میں دیکھا اُس نے خدا کو دیکھا (۳) جس نے مجھے روحانیّت و نورانیّت میں دیکھا اس نے اللہ کو دیکھا۔

سوال – ۳۰۸: روئے زمین پر ہمیشہ ہمیشہ خداوندِ تعالیٰ کے مظہر موجود و حاضر ہونے کی چند روشن دلیلیں پیش کریں۔ -جواب: (۱) آپ سُورۂ نور (۲۴: ۳۵) میں خوب غور سے دیکھ لیں: نورِ الٰہی کا روشن چراغ قندیل (زجاجہ = شیشہ) میں ہے، زُجاجہ یا قندیل ستارۂ تابان کی طرح ہے، یاد رہے کہ یہ مظہرِ نورِ خدا کی تعریف ہے (۲) یہی دلیل آیۂ نورِ مُنّزل (۰۵: ۱۵) میں بھی ہے (۳) خدا کا اسم النّور مظہر ہے (۴) اللہ کا نام الظّاہر مظہر کی وجہ سے ہے (۵) حق تعالیٰ کا جو نورانی حجاب ہے ( ۴۲: ۵۱) وہ اس کا مظہر ہی ہے (۶) جب بندۂ مومن کا قلب اللہ کا عرش ہے تو خدا وندِ عالم کا مظہر سب سے اوّلین مومن ہے (۷) جب امامِ مبین میں خدائے بزرگ و برتر نے سب کچھ رکھا ہے تو یقیناً اس میں مرتبۂ مظہریّت بھی ہے (۳۶: ۱۲) الغرض اس حقیقت کی بے شمار دلیلیں ہیں۔

سوال -۳۰۹: سُورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۳) میں ہے: بےشک خدا نے آدمؑ اور نوحؑ اور خاندانِ ابراہیمؑ اور خاندانِ عمرانؑ کو سارے جہان سے

 

۲۴۱

 

برگزیدہ کیا ہے۔ یہاں یہ سوالات ہیں: کیا یہ حضرات صرف اپنے اپنے وقت میں برگزیدہ تھے، برگزیدگی کس مقصد کے لئے ہے؟ عمران تین تھے: والدِ موسٰی، والدِ مریمؑ اور والدِ علیؑ، مذکورہ آیت میں کس عمران کا ذکر ہے؟ -جواب: (۱) یہ انسانانِ کامل رہتی دُنیا تک خدا کے برگزیدہ ہیں (۲) اس انتخاب کا مقصد تمام دنیا والوں کی ہدایت کرنا ہے، جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کو منتخب فرمایا ہے (۳) عمران حضرتِ ابوطالبؑ کا اسمِ گرامی ہے، اسی کے خاندان سے سلسلۂ امامت جاری ہے، جس طرح آدمؑ کی خلافت (۰۲: ۳۰) نوحؑ کی اساسی شریعت (۴۲: ۱۳) اور آلِ ابراہیمؑ کی فضیلت (۰۴: ۵۴) ہمیشہ جاری و باقی ہیں، ہر چند کہ یہ سب حضرات نورٌ علیٰ نور کے مطابق ایک ہی سلسلۂ ہدایت کی مختلف کڑیاں ہیں۔

سوال – ۳۱۰: بحوالۂ آیۂ اِصطِفاء (۰۳: ۳۳) سوال ہے کہ جب خداوندِ عالم نے تمام اہلِ جہان سے آدمؑ، نوحؑ، خاندانِ ابراہیمؑ اور خاندانِ عمرانؑ کو برگزیدہ فرمایا تو ان حضرات نے بحکمِ خدا دنیا والوں کے لئے کیا کیا امور سرانجام دیئے؟ -جواب: (۱) اس انتخاب کا مجموعی مقصد ہدایت ہے، ساتھ ہی ساتھ حضرتِ آدمؑ کے وسیلے سے اہلِ ایمان کے لئے اسمِ اعظم اور اسمائے حُسنٰی کا بابِ اقدس مفتوح ہُوا، علم الاسماء کی روشنی پھیلنے لگی، خلافتِ کُبریٰ اور خلافتِ صغریٰ کی نوازشات کا سلسلہ شروع ہُوا، آپ قرآنِ حکیم میں قصّہ آدم کو حکمت کے ساتھ پڑھیں (۲) حضرتِ

 

۲۴۲

 

نوحؑ نے لوگوں کو کشتیٔ نجات کا نمونہ پیش کیا، اپنے عالمِ شخصی کی غِربال (چھلنی) کے ذریعے سے عالمِ انسانیت کا فِلٹر کیا، طوفانِ روحانیت کے نتیجے میں اپنے ساتھ بےشمار برکات لائیں (۱۱: ۴۸)، بھری ہوئی کشتی کا تصوّر دیا، اور بُنیادی شریعت پر عمل کرکے دکھایا (۳) خاندانِ ابراہیمؑ کے احسانات بھی ازبس عظیم ہیں، اسی پاک خاندان کے نام سے عالمِ دین/عالمِ شخصی میں کتاب، حکمت اور بہت بڑی سلطنت رکھی ہوئی ہے (۴) خاندانِ عمرانؑ أئمّۂ آلِ محمّدؐ ہیں، ان میں سے ہر ایک کے زمانے میں قیامت برپا ہوتی آئی ہے (۱۷: ۷۱) تاکہ اہلِ زمانہ کو عالمِ شخصی میں داخل کرکے آخرکار نجات دلائی جائے، اور اسی طرح تمام لوگوں کو جنّت میں داخل کیا جائے۔

 

۲۴۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۲

 

سوال – ۳۱۱: سُورۂ کھف (۱۸: ۹۴) اور سُورۂ انبیاء (۲۱: ۹۶) میں یاجوج ماجوج کا ذکر آیا ہے، ان کے بارے میں عُلَماء کے مختلف اقوال ہیں، کیا آپ اس باب میں کچھ بتا سکتے ہیں کہ یہ کونسی مخلوقات ہیں؟ -جواب: (۱) ان شاء اللہ، امامِ آلِ محمّدؐ کے صدقے سے بتا سکتے ہیں کہ یاجوج ماجوج وہ روحانی لشکر ہیں، جو ذرّاتِ لطیف کی شکل میں بہت سے امور کو انجام دیتے ہیں (۲) جب صورِ قیامت پھونکا جاتا ہے اور جب ایک داعی بُلانے لگتا ہے (۵۴: ۰۶، ۲۰: ۱۰۸) تو یاجوج ماجوج شخصِ قیامت میں حاضر ہو جاتے ہیں (۳) ان کے کثیر کاموں میں سے ایک کام ہے: عالمِ شخصی کی زمین میں فساد کرنا، تاکہ اس میں تعمیرِ نَو ہوسکے (۴) اگر میں یہ کہوں کہ وہ فرشتے بھی یہی ہیں، جنہوں نے حضرتِ آدمؑ کی شخصیّت میں گرتے ہوئے سجدہ کیا تھا تو شاید آپ کو تعجّب ہوگا (۵) یہ ارواحِ خلائق ہیں، روحانی جنگ کے لشکر ہیں، یہ ثمرات بھی ہیں، یہ جنُودِ سلیمانی بھی ہیں، یہ دُنیا کے تمام لوگ بھی ہیں جو قیامت گاہ میں حاضر ہوئے ہیں، اگر آپ عالمِ شخصی میں آدم ہوگئے ہیں تو یہ سب آپ کی ذرّیات ہیں۔

 

۲۴۴

 

سوال -۳۱۲:  سُورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۰۸) میں ہے: يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِي لاَ عِوَجَ لَهُ۔ ان مبارک الفاظ کی حکمت بیان کریں۔ -جواب:   (۱) اس روز سب کے سب (روحانی) داعی/بلانے والے کی پیروی کریں گے (یعنی قیامتگاہ کی طرف دوڑیں گے) اس کے لئے کوئی کجی نہیں (وہ ہرزبان میں بات کرسکتا ہے) (۲) اس میں یہ اشارہ ہے کہ ہرشخص کی روحانی قیامت میں جتنی باتیں ہوتی ہیں، وہ سب کی سب اس کی اپنی زبان میں ہیں (۳) خداوندِ تعالیٰ قیامت اور بہشت میں اپنے ہر بندے سے اس کی زبان میں کلام فرماتا ہے۔

سوال – ۳۱۳: سُورۂ رحمٰن کی ابتدائی چار آیات (۵۵: ۰۱ تا ۰۴) کی حکمت بیان کریں۔ -جواب: (۱) خدائے رحمٰن نے قرآن کی تعلیم دی، انسان کو پیدا کیا اور اسے بیان کرنا سکھایا (۲) نہایت مہربان خدا نے قرآن کی روح و روحانیّت اور نور و نورانیّت کی تعلیم دے کر عارف کو روحانی اور عقلی طور پر پیدا کیا، اور اس کو علمِ بیان (علمِ تاویل) سکھایا (۳) ہر عارف کی اپنی زبان میں قرآن کی باطنی اور روحانی تعلیم دی جاتی ہے، اور وقوعِ قیامت میں سب کچھ ہے۔

سوال – ۳۱۴:  قیامت کے بہت سے نام ہیں، ان میں سے ایک نام “تاویل” بھی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ -جواب:   (۱) کیونکہ قیامت روحانیّت کا سب سے عظیم واقعہ ہے، جس میں قرآنِ حکیم کی

 

۲۴۵

 

تمام تر تاویلات موجود ہیں، پس جب مومنِ سالک پر قیامت آتی ہے، تو اپنے اندر قرآنی تاویلات کو لے کر آتی ہے، لہٰذا قیامت کا ایک نام تاویل ہے (۰۷: ۵۳)۔

سوال – ۳۱۵:  سُورۂ جاثیۃ (۴۵: ۲۳)میں ہے: پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا او اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا او اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ کوئی شخص علم کے باوجود گمراہ ہوجاتا ہے؟ -جواب: (۱) جو شخص ہادیٔ برحق کے نورانی علم کے سوا اپنی خواہشِ نفسانی سے کچھ علم سیکھتا ہے وہ آخر کار گمراہ ہوجاتا ہے (۲) وہ حق بات کو نہیں سُنتا تھا اور نہ اس کو سمجھ سکتا تھا، اس نے دُنیا میں نورِ مُنزل کو نہیں پہچانا (۳) یہی سبب ہے کہ خدا نے اس کے کانوں اور دل پر مہر لگادی، اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا (۴) یہ یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں (۱۰: ۴۴)۔

سوال – ۳۱۶: قرآنِ حکیم میں عقل و جان کی از بس شیرین نعمتیں ہیں، لہٰذا ہم بار بار اس کی طرف رجوع کرتے ہیں، سُورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں ہے: اور زمین میں اہلِ یقین کے لئے آیات (نشانیاں) ہیں، اور خود تمہارے وجود کے اندر بھی آیات ہیں کیا تم دیکھتے نہیں؟ آپ

 

۲۴۶

 

ہمیں اس کےتاویلی اسرار سے آگاہ کریں۔ -جواب: (۱) زمین یہ سیّارہ ہے جس پر ہم سب بس رہے ہیں، ساری کائنات بھی زمین ہے، اور نفسِ کُلّی بھی زمین ہے، جس کے ساتھ عقلِ کلی کا آسمان ملا ہوا ہے (۲) چُنانچہ اللہ کی انتہائی وسیع زمین میں جتنی اور جیسی آیات ہیں، وہ سب کی سب بصورتِ لطیف عالمِ شخصی میں بھی ہیں (۳) مثلاً جب زمین پر دو سب سے بڑی آیتیں قرآن اور امام ہیں، تو یقیناً یہ دونوں سب سے عظیم چیزیں آپ کی ذات میں بھی ہیں (۴) اہلِ بصیرت نے اِس حقیقت کا مُشاہدہ کیا کہ عالمِ شخصی میں نورِ قرآن اور نورِ امام بحکمِ نورٌعَلیٰ نور ایک ہی ہے۔

سوال – ۳۱۷:  قرآن ہی کی روشنی میں جواب دیں کہ جب خداوندِ تعالیٰ کسی شخص کے باطن میں نورِ ہدایت کو مقرّر کرتا ہے تو وہ کس کا نور ہوتا ہے؟ -جواب: (۱) قرآن اور امام کا نور ہوتا ہے جو خدا اور رسولؐ کا نور ہے (۲) کیونکہ ہمیشہ عالمِ دین میں ہدایت کے لئے دو مقدّس چیزیں رہی ہیں، وہ کتابِ سماوی اور معلّمِ ربّانی ہیں (۳) قرآنِ حکیم میں نور کا مبارک اسم صیغۂ واحد میں اس لئے آیا ہے کہ نور اصلاً ایک ہی ہے، ہر چند کہ اشخاصِ نور الگ الگ ہیں، جس کا اشارہ نورٌعَلیٰ نور میں ہے۔

سوال -۳۱۸: آیا جِنّات، شیاطین، وغیرہ کبھی کسی انسان کے

 

۲۴۷

 

پاس ظاہر ہو کر آتے ہیں؟ اگر ایسی کوئی مخلوق سامنے حاضر ہوتی ہے تو اس کے لئے چارۂ کار کیا ہے؟ -جواب:   (۱) سُورۂ مومنون (۲۳: ۹۸) میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین کے حاضر ہوجانے کا امکان ہے، جس کے شرّ سے بچنے کے لئے پہلے ہی سے خدا کے ہاں پناہ گیر ہوجانا ضروری ہے (۲) امامِ زمان علیہ السّلام کی پناہ خدا کی پناہ ہے، جو ہر مومن اور مومنہ کو علم و عمل سے مل سکتی ہے۔

سوال – ۳۱۹: حضراتِ انبیاء علیہم السّلام کے قرآنی قصّے ظاہراً مختلف ہیں، آیا ان کی حکمتیں اور معرفتیں بھی الگ الگ اور مختلف ہیں؟ -جواب: (۱) قصصِ انبیاء کی ظاہری گونا گونی میں علمی نعمت کی فراوانی بھی ہے اور لوگوں کی آزمائش بھی (۲) جب تمام باطنی حکمتیں اور معرفتیں مربوط اور یکجا ہیں (۳) کیونکہ صراطِ مستقیم سب کے لئے یکسان ہے، منزلِ مقصود سب کی ایک ہی ہے، ہر چند کہ پیغمبروں کے درجات مختلف ہیں۔

سوال – ۳۲۰: میرے خیال میں معرفت سے متعلّق سوال عظیم سوالات میں سے ہے، سو آپ یہ بتائیں کہ وہ آیۂ کریمہ کونسی ہے جس کے حکم کے مطابق سارا قرآن معرفت کا موضوع ہوجاتا ہے؟ -جواب: وہ ارشاد سُورۂ یوسف میں ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: کہدو: یہ میرا راستہ ہے کہ میں اور میرے پَیروکار کاملِ بصیرت کے ساتھ

 

۲۴۸

 

لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، اللہ مُنزّہ ہے، اور میں مشرکین سے نہیں ہوں (۱۲: ۱۰۸) (۱) آنحضرتؐ اور آپؐ کے پَیروکار (علیؑ) کا راستہ بصیرت کا ہے، یعنی مشاہداتِ باطن اور معرفت کا راستہ ہے (۲) قرآنِ حکیم سرتا سر اسی دعوتِ بصیرت و معرفت کا مضمون ہے (۳) جو لوگ سیّدالانبیاء صلعم کی اِس پُرنور و بامعرفت دعوت کو حقیقی معنوں میں قبول کریں گے، وہ یقیناً گنجِ معرفت کو حاصل کرسکیں گے۔

 

۲۴۹

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۳

 

سوال -۳۲۱: سُورۂ احزاب (۳۳: ۴۶) میں ہے: وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا = اور تجھے اللہ کے حکم سے اسی کی طرف دعوت دینے والا اور روشنی عطا کرنے والا چراغ قرار دیا ہے۔ اس ارشادِ مبارک کی حکمت سمجھائیں۔ -جواب: (۱) اس چراغ کے نور میں نہ صرف باطنی روشنی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ چشمِ بصیرت بھی ہے، (۲) جہاں نور اور چشمِ بصیرت ہو وہاں معرفت ہی معرفت ہے (۳) تمام قرآنی الفاظ کے معانی براہِ راست اور بالواسطہ معرفت کے معنی میں تحلیل ہوجاتے ہیں (۴) کیونکہ شریعت کا خُلاصہ طریقت ہے، طریقت کا مغز حقیقت، اور حقیقت کا جوہر معرفت ہے (۵) خدا جب علمی کائنات اور اس کے بےشمار لفظوں کو لپیٹتا ہے، تو اس حال میں تمام الفاظ و معانی یکجا نظر آتے ہیں، یہ مقامِ معرفت کا تذکرہ ہے۔

سوال – ۳۲۲: ایک اور پُرمغز مثال معرفت کے بارے میں بیان کریں۔ -جواب: (۱)خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵) یعنی وہ جلّ جلالہ نورِعلم، نورِ ہدایت، اور نورِ معرفت ہے (۲) لہٰذا کائنات،

 

۲۵۰

 

عالمِ شخصی، اور قرآن کا باطن نورِالٰہی سے جگ مگ جگ مگ کررہا ہے (۳) اللہ کا نور اس کے مظہر کی قندیل میں ہے، قندیل فروزان ستارے کی مانند شفاف و درخشان ہے (۴) الغرض جہاں نور کی تعریف و توصیف ہے، وہاں چشمِ بصیرت کا اشارہ بھی ساتھ ساتھ ہے، کیونکہ نور دیکھنے اور دکھانے کے معنی میں ہوتا ہے، الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

سوال – ۳۲۳: آپ قانونِ خزائن (۱۵: ۲۱) کی طرف بار بار توجّہ دلاتے آئے ہیں، جس کا ترجمہ یہ ہے: تمام چیزوں کے خزانے ہمارے پاس ہیں، لیکن ہم مُعیّن اندازہ کے سِوا انہیں نازل نہیں کرتے۔ ہم کو اس کے بارے میں مزید سمجھائیں، کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ یہاں کچھ کلیدی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ -جواب: (۱)بِقدرٍ معلوم (معیّن اندازہ) میں علم و عبادت اور معرفت کا اشارہ ہے (۲) یعنی اللہ کے خزانوں سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے اخلاقی اور روحانی ترقّی شرط ہے (۳) خزائنِ الٰہی کے دروازے آپ کے دل ہی میں ہیں، اگر آپ درویش ہیں تو ضرور اس بات کا اندازہ ہوگا کہ دل کا کوئی دروازہ کب کُھل جاتا ہے اور پھر کیوں بند ہوجاتا ہے (۴) دانا شخص وہی ہے جو اشارات کو سمجھتا ہے، دل بھی اشاراتی زبان میں آپ سے ضروری باتیں کرتا رہتا ہے۔

سوال – ۳۲۴: آنحضرتؐ کے اُسوۂ حسنہ کا ذکرِ جمیل قرآنِ حکیم کے کس مقام پر ہے؟ اس کی نمایان حکمت کیا ہے؟ -جواب:   (۱) سُورۂ

 

۲۵۱

 

احزاب (۳۳: ۲۱) میں رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کے اُسوۂ حسنہ کا ذکر آیا ہے (۲) ترجمۂ آیۂ شریفہ یہ ہے: درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا (اور ہے) ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخر کا اُمّیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (۳) اہلِ دانش سے مخفی نہیں کہ حضورِ اکرمؐ نے اسی زندگی ہی میں قیامت، آخرت اور بہشت کا مشاہدہ کیا تھا، اور معراجِ روحانیّت میں آنحضرتؐ کو اللہ تعالیٰ کا پاک دیدار ہوا تھا (۴) پس مذکورہ آیۂ کریمہ بزبانِ حکمت اہلِ ایمان سے یہ فرماتی ہے کہ آؤ آگے بڑھو، کوئی رکاوٹ نہیں، ہادیٔ برحق کے پیچھے پیچھے چل کر فنا فی اللہ کا مرتبہ حاصل کرو، اور رسولِ پاکؐ کے بہترین نمونۂ عمل کی طرف توجّہ دلانے کا مقصد یہی ہے۔

سوال – ۳۲۵: سُورۂ حدید (۵۷: ۱۲) اور سُورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) میں اہلِ ایمان کے نور کا ذکر آیا ہے، کہ دنیا کی زندگی ہی میں باطنی اور روحانی قیامت برپا ہورہی ہے، جس میں مومنین اور مومنات کا نور حظیرۂ قدس میں دوڑ رہا ہے، آپ یہ بتائیں کہ یہ نورِ پاک دراصل کس کا ہے؟ -جواب: (۱) یہ نورِ اقدس اللہ، رسولؐ، اور امامؑ کا ہے، جس میں اطاعت اور عشق و محبّت کے ذریعے سے اہلِ ایمان فنا ہوچکے ہیں، لہٰذا اب یہ نور مومنین و مومنات کا بھی ہے (۲) یہ ایک ایسی روحانی حقیقت ہے کہ ہر قیامت میں اس کا تجدّد ہوتا ہے، (۳) یہ سِرِّعظیم ایسا ہے کہ خدا نے اس کو مخفی رکھا ہے، جیسا کہ سورۂ سجدہ (۳۲: ۱۷) میں ہے: پھر جیسا کہ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان

 

۲۵۲

 

ان کے اعمال کی جزاء میں اُن کے لئے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی شخص کو خبر نہیں ہے۔

سوال – ۳۲۶: سُورۂ حدید (۵۷: ۱۹) میں ہے: اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر (کما حقّہ) ایمان لائے ہیں وہی اپنے ربّ کے نزدیک صِدّیق اور شہید ہیں، ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے۔ آپ وضاحت سے بتائیں کہ ایسے لوگ کون ہیں، اور ان کا ایمان کس درجے کا ہے؟ -جواب: (۱) یہ اساس، امام، باب، حجّت، اور داعی ہیں، جن کے ساتھ تمام مومنین مربوط اور وابستہ ہیں، ورنہ صدّیق اساس ہے، اور شہید امام (۲) مومنین و مومنات کے بہت سے درجات حدودِ اعلیٰ کے ذریعے سے مُیسر ہوتے ہیں (۳) دعائم الاسلام، جلدِ اوّل، کتاب الجنائز، بحوالۂ روایتِ امیر المومنین علی علیہ السَّلام یہ آیۂ شریفہ مومنین کے بارے میں ہے۔

سوال – ۳۲۷: مومن کی بیماری اور موت کے بارے میں کچھ اُمید افزا باتیں بتائیں۔ -جواب: (۱)مذکورہ روایت کا حصّہ ہے کہ حضرتِ علیؑ نے فرمایا کہ بیمار خدا کے قید خانے میں ہوتا ہے، جب تک وہ اپنی عیادت کرنے والوں سے کوئی شکایت نہیں کرتا، اس کے گناہ مٹائے جاتے ہیں (۲) اور جو مومن بندہ بیماری کی حالت میں انتقال کرجاتا ہے، وہ شہید ہوتا ہے، اور یوں تو ہر مومن شہید ہے، اور ہر مومنہ

 

۲۵۳

 

حَوراء ہے (۳) مومن جس موت سے بھی مرے وہ شہید ہے، اس کے بعد مولا علیؑ نے مذکورہ آیت (۵۷: ۱۹) کی تلاوت فرمائی۔

سوال – ۳۲۸: سُورۂ سبا  (۳۴: ۱۳) میں ارشاد ہے: اِعْمَلُوْۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًاؕ-وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُوْرُ=اے آلِ داؤد، عمل کروشکر کے طریقے پر، میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہیں۔ یہ کس درجے کی نعمتوں کی عملی شکرگزاری کا حکم ہے؟ اب آلِ داؤد موجود نہیں، پھر اس حکم کا تعلّق کس خاندان سے ہوگا؟ -جواب: (۱)یہ روحانی سلطنت کی انتہائی عظیم نعمتوں کا اشارہ ہے، جو حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے جسمانی اور روحانی فرزندوں کو حاصل تھیں (۲) وارثِ تخت و تاجِ امامت اور اس کے حقیقی مُرید آلِ داؤد کے مقام پر ہیں۔

سوال – ۳۲۹: صبر کا اطلاق بحقیقت کِن لوگوں پر ہوتا ہے؟ شکر کا خاص مقام کہاں ہے؟ توکُّل پہلے ہے یا ایمان؟ یقین کس بیماری کا علاج ہے؟ اصل پرہیزگاری کیا ہے؟ علم سے باہر کیا چیز ہے؟ -جواب: (۱) صبر قیامت اور روحانی جنگ برداشت کرنے والوں کا وصف ہے (۲) شکر کا خاص مقام وہاں ہے جہاں باطنی نعمتوں کی بیحد فراوانی ہوتی ہے (۳) ایمانِ کامل کے بعد توکُّل کا مقام آتا ہے (۴) شکوک و شبہات کی بیماری کا علاج یقین ہے۔ (۵) اصل تقویٰ خوفِ خدا اور علم ہے (۶) علم سے باہر کوئی چیز نہیں۔

 

۲۵۴

 

سوال – ۳۳۰: سُورۂ توبۃ (۰۹: ۳۲) اور سُورۂ صف (۶۱: ۰۸) میں ارشاد ہے، دونوں آیتوں کا ایک ہی مضمون ہے، پہلی آیت کا ترجمہ یہ ہے: وہ چاہتے ہیں کہ اپنی پھونکوں سے نورِ خدا کو بجھا دیں لیکن اللہ اس کے سِوا کچھ نہیں چاہتا کہ وہ اپنے نور کو کامل کرے، اگرچہ کافر اسے ناپسند کرتے ہیں۔ اللہ کے نور کو بُجھانے کے لئے ناکام کوشش سب سے پہلے کس نے کی تھی؟ اس کی حکمت کیا ہے کہ خدا اپنے نور کو مکمّل کرتا ہے؟ -جواب: (۱)سب سے پہلے قابیل نے نورِ خدا کو بجھانے کی کوشش کی (۲) نور ازل میں کامل و مکمّل ہے، یعنی نور کی اپنی ذات میں کوئی کمی نہیں، لیکن جب نور شخصِ نبوّت اور شخصِ امامت میں طلوع ہوتا ہے تو ایک ہی دن میں کارنامۂ نور مکمّل نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کے لئے کچھ وقت چاہیئے، تاکہ حاملِ نور منزل بمنزل آگے سے آگے جائے، اور آخر کار نور مکمّل ہوجائے (۳) نور کی تکمیل دَور کے اعتبار سے بھی ہے کہ سات اماموں کا ایک دَور ہوتا ہے، اور سات دفعہ سات کا ایک بڑا دَور ہوتا ہے۔

 

سوال – ۳۳۱: سُورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) میں ہے: رَبَّنَآاَتْمِم لَناَ نُوْرَنَا = پروردگارا ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمّل کر دے۔ خدا سے مومنین کی یہ درخواست کس منزل میں ہوتی ہے؟ نورِ معرفت کی تکمیل کس چیز سے ہوتی ہے؟ آیا یہ نور انفرادی ہے یا اجتماعی؟ -جواب: (۱) مومنین و مومنات یہ دعا حظیرۂ قدس میں کرتے ہیں (۲) نورِ معرفت کی

 

۲۵۵

 

تکمیل اسرارِ معرفت ہی سے ہوتی ہے (۳) یہ نور انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی کیونکہ عالمِ شخصی واحد بھی ہے اور جمع بھی، اور قیامت کے تمام واقعات عالمِ شخصی میں پیش آتے ہیں۔

سوال -۳۳۲: جب کوئی مومنِ سالک آگے چل کر عارف ہو جاتا ہے اور اس کو خداوند تعالیٰ کا دیدارِ اقدس حاصل ہوتا ہے تو اُس وقت اس کا علمی اور عرفانی سفر ختم ہوتا ہوگا، کیونکہ منزلِ مقصود خدا ہی ہے؟ -جواب: (۱)خدا کی طرف جو سفر ہے وہ تو ختم ہوجاتا ہے، لیکن جو سفر خدا میں ہے، اس میں عارف کی حقیقی زندگی ہے، اور عارف کی حقیقی زندگی کیونکر ختم ہوسکتی ہے (۲) خدا یقیناً منزلِ مقصود ہے، لیکن یہ منزل کس طرح محدود ہو سکتی ہے، یہاں تو ہر لحظہ بے شمار کائناتیں بنتی رہتی ہیں۔

سوال ۳۳۳: سُورۂ رحمٰن میں سرتا سر نعمتوں ہی کا ذکر ہے، اور یہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم، اعلیٰ اور بے شمار نعمتوں سے انس و جِنّ دونوں کو ایک ساتھ نوازا ہے، ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا انس و جِنّ کے آپس میں کوئی رشتہ ہے؟ یا کوئی وحدت ہے؟ -جواب: (۱) آیۂ قرآن (۵۷: ۱۳) کے مفہوم کے مطابق ظاہر و باطن کے درمیان ایک دیوار اور اس میں ایک دروازہ ہے، جب ہم اس دروازے سے باطن میں داخل ہوجاتے ہیں، تو اس میں رحمت و

 

۲۵۶

 

علم اور نور و سرور کی فراوانی ہے، لیکن ظاہر کی طرف جب باہر آتے ہیں تو بےشمار اُلجھنوں کی وجہ سے عقلی عذاب ہے (۲) انسانوں اور جِنّوں میں نہ صرف رشتہ ہے بلکہ وحدت بھی ہے، وہ اس طرح کہ آپ انسان ہیں، لیکن آپ نے ایک لطیف انسان (جِنّ = پری) کے بارے میں بھی سنا ہے، یقین کریں کہ یہ آپ کا رشتہ دار ہے، اور عجب نہیں کہ ایک نہ ایک دن آپ خود بھی مخلوقِ لطیف ہوجائیں۔

خداوندِ قدّوس کی عِنایتِ بے نہایت سے آج یہاں کتابِ “صنادیقِ جواہر” کا حصّۂ اوّل مکمّل ہو جاتا ہے جو ۳۳۳ سوالات پر مُشتمل ہے، مولائے پاک کے علمی لشکر اور جملہ جماعتِ باسعادت سے درخواست ہے کہ وہ ہر گونہ علمی ترقّی کے لئے دعا کریں، ساتھ ہی ساتھ ہر عزیز شاگرد کو بیحد ضروری مشورہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو علم و حکمت کے اسلحہ سے لیس کر کے رکھے۔

میں ہمیشہ اپنے تمام عزیزوں کو دل و جان سے یاد کررہا ہوں، یہ میرے لئے خداوند تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہے، کیونکہ دینی محبّت و دوستی ایک بہشتی میوۂ شیرین ہے، یہ ایک دوسرے کے لئے احترام و محبّت صفتِ انسانیت اور خاصۂ آدمیت ہے۔ الحَمْدُ للہ ہم سب خدا شِناس ہیں، جس کی وجہ سے ہم دنیا و آخرت سے متعلّق غیر معمولی اُمیدیں رکھتے ہیں، ان شاءاللہ، مولائے پاک کی نورانی دعا جماعت کے لئے ہر مقام پر معجزانہ کام کرتی رہے گی۔

نورِ امامت کے انتہائی عظیم معجزات کو میں کیسے بُھول سکتا ہوں، قانونِ

 

۲۵۷

 

روحانیت و قیامت کے مطابق میں تنہا تھا اور میں تنہا نہ تھا میرے ساتھ سب تھے، خصوصاً میرے جملہ عزیزان جو آج میرے ساتھ مِل کر علمی خدمت کو حسن و خوبی سے سرانجام دے رہے ہیں، عجب نہیں کہ ہمارے بیحد پیارے ساتھیوں کی علمی خدمات تمام عالمِ اسلام اور دنیائے انسانیت کے حق میں مفید ثابت ہوں، کیونکہ اسرارِ قرآن ہی ایسے ہیں کہ تمام لوگوں کو خوشی سے یا زبردستی سے بہشت میں لے جانا ہے، ہادیٔ برحق کے امام النّاس (تمام لوگوں کا امام) ہونے کے یہی معنی ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبّ ِعلی) ہونزائی

بدھ۲؍ شوال المکرّم ۱۴۱۹ھ   ۲۰؍جنوری  ۱۹۹۹ء

 

۲۵۸

 

صنادیقِ جواہر

حصّۂ دُوُم

 

 

صندوقِ جواہر۔ ۱

 

سوال – ۳۳۴: سُورۂ معارِج کے شروع (۷۰: ۰۳) میں اللہ تعالیٰ کو “ذی المعارِج” کہا گیا ہے، اس کی کیا توجہیہ ہوسکتی ہے؟ -جواب: (۱) معارِج = سیڑھیاں، درجے، واحد معراج (۲) ہر دَور کے حدودِ دین، یعنی عقلِ کلّ، نفسِ کُلّ، ناطق، اساس، امام، باب، حُجّت، داعی، ماذون، اور مستجیب (۳) حدودِ دین ہی وہ درجات ہیں جو کبھی صراطِ مستقیم کہلاتے ہیں، کبھی اللہ کی رسّی، اور کبھی معراج (سیڑھی) (۴) یہ سارے حدود امامِ مبین میں جمع ہیں، جس کی معرفت عالمِ شخصی میں ہے۔

سوال – ۳۳۵: قرآنِ حکیم کی ہر آیۂ شریفہ اپنی باطنی حکمت میں عُقَلاء کے لئے انتہائی حیران کُن ہوتی ہے، جس طرح یہ آیۂ مبارکہ ہے: فَفِرُّوْآ اِلیَ اللہ =پس تم خدا کی طرف دوڑو (۵۱: ۵۰) آپ اس کی حکمتی وضاحت کریں۔ -جواب: (۱) اس کے معنی ہیں: صراطِ مستقیم پر تیزی سے آگے بڑھو (۲) اللہ کی یاد میں ذرا بھی سُستی نہ کرو (۳) ہر نیک کام میں سبقت کرو (۴) ذکرِ سریع سے خوب فائدہ اٹھاؤ (۵) جملہ شُرور اور خطرات سے بچنے کے لئے خدا کی پناہ گاہ کی طرف بھاگو۔

 

۲۶۱

 

سوال -۳۳۶: سُورۂ نساء (۰۴: ۱۲۵) میں ہے: وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ ۔ اس کی عظیم تر حکمت کیا ہے؟ -جواب: (۱)جو شخص اپنا چہرۂ جان خدا کے سپرد کر دے اس سے بہتر کس کا دین ہے (اور پھر وہ نیکوکار بھی ہو اور ابراہیم کے خالص اور پاک دین کا پَیرو ہو اور خدا نے ابراہیم کو اپنی دوستی کے لئے منتخب کر لیا ہے ) (۲) جو شخص علم و عمل کے ساتھ ساتھ عشقِ سماوی سے بکثرت گریہ و زاری اور بکثرت سجدہ کرتا ہے، وہ اپنے چہرۂ عقل و جان کو اللہ کے سپرد کرتا ہے، اور اللہ اس کو حضرتِ آدم کی طرح صورتِ رحمان میں حیاتِ جاویدانی عطا کرتا ہے۔

سوال -۳۳۷ : سُورۂ اَنعام (۰۶: ۷۹) میں ہے: اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا…۔ اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: (۱)حضرتِ ابراہیمؑ نے کہا: میں نے اپنا چہرۂ عقل و جان اس پاک ہستی کے لئے قرار دیا جس نےآسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے میں وحدت شِناس ہوں (۲) جب حضرتِ ابراہیمؑ کی عِرفانی رسائی عقلِ کلّی کے بعد نفسِ کُلّی تک ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو حضرتِ آدمؑ کی طرح صورتِ رحمان پر پیدا کیا (۳) جب عارف صورتِ رحمان میں فنا ہوجاتا ہے، تب اس کا چہرۂ عقل و جان اللہ جلّ شانہ کے لئے قرار پاتا ہے (۴) مذکورہ آیت کی حکمت اِس شعر میں ہے:۔

ز نورِ او تو ھستی ہمچو پر تو   +  حجاب از پیش بردار و تُو اوشو

 

۲۶۲

 

سوال – ۳۳۸: حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے لَآ اُحِبُّ الٰا فِلِیْنَ (۰۶: ۷۶) کہا، اس میں کیا رازِ معرفت ہے؟ -جواب:   (۱) میں غروب ہوجانے والوں سے محبّت نہیں کرتا (۲) اس میں نفسِ کُلّی کی خاص معرفت کا اشارہ ہے کہ وہ طلوع و غروب سے بالاتر ہے۔

سوال – ۳۳۹: حضرتِ ابراہیمؑ نے یہ بھی کہا تھا: وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (۰۶: ۷۹) اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ -جواب: (۱) ترجمہ: میں مشرکین سے نہیں ہوں (۲) یعنی میں مُوَحِّدِینْ سے ہوں کہ حقیقی معنوں میں خدا کو ایک مانتا ہوں (۳) زبانی طور پر اللہ کو ایک ماننا بڑا آسان ہے، لیکن علمِ توحید اور معرفت بہت مشکل ہے، لہٰذا اس کے لئے امامِ آلِ محمّدؐ کی ہدایت ازبس ضروری ہے (۴) کسی عارف کا حظیرۂ قدس میں جا کر صورتِ رحمان پر ہونا اگرچہ سب سے بڑی کامیابی ہے، تاہم سوچنا یہ ہے کہ آیہ یہ ایسا نیا واقعہ ہے جو پہلے کبھی پیش نہیں آیا تھا، یا یہ ازلی اور قدیم راز کا انکشاف ہے؟

سوال – ۳۴۰:  سُورۂ مومنون (۲۳: ۹۷ تا ۹۸) میں نہ صرف شیاطین کے وسوسوں کا ذکر ہے، بلکہ یہ ارشاد بھی ہے کہ وہ حاضر بھی ہوسکتے ہیں، پس سوال یہ ہے کہ جب مُضِلّ (گمراہ کرنے والا) یعنی شیطان شرّ پھیلانے کے غرض سے اتنا کچھ کرسکتا ہے، تو کیا اس کے توڑ کے لئے ہادئ برحق کے پاس کوئی چیز نہیں ہے؟ -جواب:   (۱) کیوں نہیں بہت کچھ ہے،

 

۲۶۳

 

بلکہ سب کچھ ہے (۲) امامِ اقدس و اطہر کے نور کی بہت سی مثالیں ہیں، ان میں سے ایک مثال ٹیلیفون کیسی ہے، فوجی سِگنل اور وائرلیس کی طرح بھی ہے (۳) ہادئ برحق (امامؑ) کے پاس جُثّۂ اِبداعیّہ کا عظیم معجزہ ہے، لہٰذا وہ اِس نورانی بدن میں کس مومنِ عاشق کے سامنے حاضر ہو سکتا ہے (۴) اگرچہ باطن میں بھی دیدارِ پاک کے کئی اعلیٰ مقامات ہیں، لیکن یہاں جسمِ فلکی کا ذکر ہورہا ہے، کہ وہ کیسا عظیم معجزہ ہے؟

 

۲۶۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲

 

سوال – ۳۴۱: سُورۂ رعد (۱۳: ۱۲) اور سُورۂ رُوم (۳۰: ۲۴) میں برق (بجلی) کا ذکر آیا ہے، اس سے کیا مراد ہے؟ اس میں خوف اور طمع کیوں ہے؟ -جواب: (۱)یہ امامِ زمانؑ کے جسمِ فلکی میں ظہور کا معجزہ ہے (۲) اس حال میں مومن امام کے اس مافوق الفطرت ہستی سے ڈرتا بھی ہے اور طمع بھی کرتا ہے، کہ اے کاش! میں اپنے امام میں فنا ہوجاتا، تاکہ مجھ کو اپنے اِس بیمار اور ناچار جسم سے آزادی مل جاتی (۳) اگر یہ صرف آسمانی بجلی ہوتی تو خوف درست بھی ہو، لیکن طمع کس بات کی، آپ اس کو بارش کی طمع نہیں کہہ سکتے ہیں، کیونکہ ظاہری بارش میں آبادی بھی ہے اور بربادی بھی۔

سوال – ۳۴۲: حضرتِ امامِ عالیمقام علیہ السّلام کے جُثّۂ اِبداعیّہ کے ناموں میں سے ایک نام البرق (بجلی) کیوں ہے؟ آیا کائنات میں جتنی چیزیں ہیں، ان کی نظیریں عالمِ دین میں بھی ہیں اور عالمِ شخصی میں بھی؟ -جواب:   (۱)حدیثِ شریف ہے: یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو اپنی خلق (کائنات و موجودات) کی طرح بنایا، تاکہ اس

 

۲۶۵

 

کی خلق سے اس کے دین کی دلیل لی جائے، اور اس کے دین سے اس کی وحدانیّت کی دلیل لی جائے (۲) اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح ظاہر میں کثیف (مادّی) چیزیں ہیں، اسی طرح باطن میں لطیف (روحانی) چیزیں ہیں (۳) جاننا چاہیئے کہ جہانِ کثیف مُردہ ہے، اس لئے یہاں برقی انسان ہو نہیں سکتا ہے، لیکن جہان لطیف زندہ ہے، اس لئے وہاں برقی انسان کا ظہور ہوسکتا ہے (۴) لطیف برقی انسان آج امام ہی ہے، اسی لئے اس کا نام “البرق” ہے، اور کل آپ بھی برقی کُرتا پہن کر برقی آدمی ہو سکتے ہیں۔

سوال – ۳۴۳: آپ یہ بتائیں کہ برقی کُرتا کیا ہے؟ اور اس کا ذکر قرآنِ پاک میں کہاں ہے؟ -جواب: (۱) سُورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں سرابیل (کُرتے) کی نعمتِ عظمیٰ کی تعریف کو شادمانی اور شکر گزاری سے پڑھیں، اور نہایت مہربان خدا کے وعدے پر جان و دل سے یقین رکھیں (۲) قمیصِ برقی کے بہت سے اسماء ہیں، جیسے: پیراہنِ یوسفی، پرندۂ عیسیٰ، شاہِ جِنّات، فرشتہ، جُثّۂ ابداعیہ، ایسٹرل باڈی، جامۂ جنّت، کوکبی بدن، برقی بدن، قالبِ نورانی، تختِ سلیمانی، محراب (قلعہ) لطیف عالمِ شخصی، جوہرِ کائنات، کائناتی بدن، جسمِ کُلّی، خلقِ جدید، اُڑن طشتری، وغیرہ۔

سوال – ۳۴۴: آیا کُلّیّۂ امام ِمُبین (۳۶: ۱۲) زمانۂ آدم میں بھی تھا؟ خدا کی روح اور خدا کے نور میں کیا فرق ہے؟ کیا یہ بات درست ہے کہ

 

۲۶۶

 

ہر انسانِ کامل میں خدائی روح پھونک دینے کے لئے صورِ قیامت پھونکا جاتاہے؟ -جواب: (۱)کُلّیّۂ امامِ مبین ازل سے ہے، یعنی قدیم ہے، لہٰذا قصّۂ آدم کے پس منظر میں امام ہے (۲) خدا کی روح نور ہے اور نور روح ہے، اس لئے ان دونوں لفظوں کے معنی میں کوئی فرق نہیں (۳) خدائی روح سے روح الارواح مراد ہے، جو نورِ مطلق ہے، جب یہ روح کسی کامل میں آنے لگتی ہے تو لازماً اسرافیل صور پھونکتا ہے، اور روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے(۴) اللہ تعالیٰ نے جس روح کو رُوْحِیْ (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) یا رُوْحنَا (۱۹: ۱۷، ۲۱: ۹۱) کہا ہے، وہ نسبتِ شرفی ہے، یا نسبتِ مظہریت ہے۔

سوال – ۳۴۵: سُورۂ قصص (۲۸: ۲۰) میں ہے: اور ایک شخص شہر کے پرلے سرے سے دوڑتا ہُوا آیا اور بولا: موسیٰ، سرداروں میں تیرے قتل کے مشورے ہورہے ہیں، یہاں سے نکل جا، میں تیرا خیر خواہ ہوں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ شخص کون تھا جو شہر کے بارہ بیابان سے آیا تھا؟ -جواب: (۱) یہی ہے صاحبِ جُثّۂ ابداعیّہ، کہ بیابان سے دوڑتا ہوا آیا، شہر کے کسی مرکز سے نہیں آیا (۲) انبیاءعلیہم السّلام کے قِصّوں میں معمولی باتیں نہیں ہوتیں، بلکہ اسرار ہوتے ہیں (۳) خوب یاد رہے کہ جب امام علیہ السّلام کا پاک ظہور نورانی بدن میں ہوتا ہے تو اس کا آنا جانا وغیرہ برق کی طرح ہوتا ہے۔

 

۲۶۷

 

سوال – ۳۴۶: سُورۂ یٰسٓ (۳۶: ۲۰) میں ہے: ایک شخص شہر کے دور و دراز مقام سے دوڑتا ہُوا آیا (اور) اس نے کہا: اے میری قوم! رسولانِ خدا کی پیروی کرو۔ یہ شخص کون تھا؟ وہ کیوں دوڑتا ہُوا آیا؟ کیسے پتا چلا کہ یہاں لوگ پیغمبروں کی بات نہیں مان رہے ہیں، حالانکہ وہ دور تھا؟ -جواب: (۱) یہ صاحبِ جُثّۂ اِبداعیّہ تھا (۲) دوڑنا یعنی برق رفتاری سے آنا اس کا خاصّہ ہے، کیونکہ وہ برقی بدن ہے (۳) وہ روحانی طور پر دیکھ رہا اورسُن رہا تھا، اس نے پیغمبروں کی تصدیق و حمایت کی غرض سے بات کی، ورنہ لوگ اس کو نہیں دیکھتے اور نہیں سنتے تھے۔

سوال – ۳۴۷: سورۂ اعراف (۰۷: ۲۷) میں ہے: وہ (شیطان) اور اس کے لشکر تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ شیطان اپنے لشکر کے ساتھ کسی مقام سے انسان کو دیکھ سکتا ہے؟ اس کو یہ زبردست قوّت کس غرض سے دی گئی ہے؟ اگر شیطان اس لئے لوگوں کو دیکھ سکتا ہے تاکہ ان کو گمراہ کر سکے، تو کیا ہادئ برحق لوگوں کے باطن کو دیکھ کر ہدایت نہیں کرسکتا ہے؟ -جواب: (۱) شیطان اپنے لشکر سمیت عالمِ شخصی میں داخل ہوکر وہیں سے انسان کو دیکھتا ہے، اس کا ثبوت وہ جِنّ ہے جو دل کے پاس مقرّر ہے (۲) شیطان کی اس قوّت میں انسان کی آزمائش ہے (۳) ہادیٔ برحق بھی اپنے لشکر (ارواح و ملائکہ) کے ساتھ عالمِ شخصی میں آسکتا ہے، جس کا ثبوت وہ فرشتہ ہے، جو دل کے پاس موجود ہے، تاکہ اللہ کی طرف سے جو نورِ ہدایت مقرّر ہے، وہ اہلِ

 

۲۶۸

 

ایمان کے باطن تک پہنچ سکے۔

سوال – ۳۴۸: سورۂ مُجادلہ (۵۸: ۲۱) میں ہے: اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسولان ہی غالب ہو کر رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کس جنگ کے بارے میں ہے؟ خدا اور اس کے پیغمبران کب شیطان اور اس کے لشکر پر غالب آئیں گے؟ -جواب: (۱) یہ وہ جنگ ہے جو شیطان اور اس کی پارٹی کے خلاف لڑی جاتی ہے (۲) ہر ناطق کے دَور میں کئی روحانی جنگیں یعنی قیامتیں ہوئیں، اور ہر بار خدا، صاحبِ دَور (ناطق) امام، اور اہلِ ایمان غالب آگئے۔

سوال – ۳۴۹:  یہ ارشاد قرآنِ حکیم کے آٹھ مقامات پر ہے: اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ (۰۵: ۰۴) بیشک اللہ تعالیٰ جلدی حساب لینے والا ہے۔ یہ ارشاد بھی ہے: اَلَا لَہُ الْحُکْمُ وَھُوَ اَسْرَاعُ الْحٰسِبِیْنَ (۰۶: ۶۲) خوب سن لو کہ فیصلہ اللہ ہی کا ہوتا ہے اور وہ سب سے زیادہ جلد حساب لینے والا ہے۔ یہ حساب کس چیز کا ہے؟ یوم الحساب کس دن کا نام ہے؟ -جواب: (۱) یہ حساب بندوں کے اعمال سے متعلّق ہے، جس سے قیامت مراد ہے (۲) یوم الحساب قیامت کے ناموں میں سے ہے (۳) الغرض قیامت ظاہری نہیں، بلکہ باطنی اور روحانی حالت میں ہے، جو ہر ایک امام کے زمانے میں برپا ہوتی چلی آئی ہے، اور جیسے ہی کوئی عمل انجام پاتا ہے، فوراً ہی اس کا حساب ہوچکا ہوتا ہے۔

 

۲۶۹

 

سوال – ۳۵۰: سُورۂ آلِ عمران (۰۳: ۲۷) میں ایک عظیم الشّان دعا کا آخری حصّہ ہے: وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ = اس میں جو عظیم حکمت پوشیدہ ہے، وہ کیا ہے؟ -جواب: (۱) ظاہری ترجمہ: اور تو ہی جس کو چاہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے۔ اس ترجمے کی وجہ سے دنیا کی ان قوموں کی تعریف ہوسکتی ہے، جن کے پاس آج بے پناہ دولت موجود ہے، لیکن یہ بات درست نہیں (۲) اصل ترجمہ: اور تو ہی جس کو چاہتا ہے (تجربۂ) قیامت کے بغیر بھی علم دے سکتا ہے (۳) کیونکہ دراصل خزائنِ علم و حکمت کے لئے قیامت شرط ہے۔

 

۲۷۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۳

 

سوال – ۳۵۱: سورۂ حجر (۱۵: ۸۷) میں ارشاد ہے: وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ۔ اس کا تاویلی راز کیا ہے؟ -جواب: (۱) ترجمۂ اوّل: اور ہم نے تم کو سبعِ مثانی (سُورۂ فاتحہ) اور قرآنِ عظیم عطا کیا ہے (۲) ترجمۂ دوم: اور ہم نے تم کو سبعِ مثانی (سات سات اماموں کا سلسلہ) اور قرآنِ عظیم (قائم) دیا ہے۔

سوال – ۳۵۲: سُورۂ رعد (۱۳: ۰۷) میں ارشاد ہے: اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۔  (اے رسولؐ) سوائے اس کے نہیں ہے کہ تم تو ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہوا کرتا ہے۔ آپ اس کی وضاحت کریں۔ -جواب: (۱) مُنذِر (ڈرانے والا) آنحضرت صلعم ہیں اور ہادی حضرتِ علیؑ (۲) زمانۂ آدم سے لے کر قیامۃ القیامات تک کوئی قوم ایسی نہیں، جس کے لئے خدا کی جانب سے ہادی نہ ہو۔

سوال – ۳۵۳: سُورۂ قمر (۵۴: ۱۷، ۵۴: ۲۲، ۵۴: ۴۰) میں ارشاد

 

۲۷۱

 

ہے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ = اور ہم نے تو قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے واسطے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے؟ کیا آپ یہ بات سمجھا سکتے ہیں کہ خداوندِ عالم نے کس طرح قرآن کو آسان کردیا ہے؟ آیا خود قرآن ایسی آسان کتاب ہے یا آسانی کی خاطر کچھ دوسرے ذرائع ہیں؟ -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ نے اپنی اس عظیم الشّان اور بے مثال کتاب (قرآن) کے ساتھ نور کو بھی مقرر کیا ہے (۰۵: ۱۵) تاکہ اس کی روشنی میں قرآن ذکر و عبادت کے لئے بھی اور ہدایت و نصیحت کے واسطے بھی آسان ہو (۲) قرآن کا نہ صرف ظاہر ہے، بلکہ اس کا باطن بھی ہے، اور اس کا باطنی حصّہ بہت زیادہ ہے، لہٰذا قرآن مجموعاً سخت مشکل کتاب ہے، اور اس کا ایسا ہونا سب سے بڑا معجزہ ہے، کیونکہ یہ خدائےعلیم و حکیم کا کلامِ حکمت نظام ہے، یہی سبب ہے کہ اگر انسان اور جِنّات سب کے سب قرآن جیسی کتاب لانے کے لئے جمع ہوجائیں، تو پھر بھی یہ کام ان کے لئے ناممکن ہے (۱۷: ۸۸)۔

سوال -۳۵۴: اس حکمت کی بڑی زبردست اہمیّت ہے، لہٰذا آپ اس کی مزید وضاحت کریں۔ -جواب: (۱) مذکورہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن تو ہے ہی مشکل، لیکن خدا نے اپنی طرف سے نور (مُعلّمِ ربّانی) مقرّر کر کے اسے آسان بنا دیا ہے، کیونکہ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ کا ترجمہ ہے: ہم نے (مشکل) قرآن کو آسان کردیا ہے۔ (۲) قرآنِ حکیم لوگوں

 

۲۷۲

 

کے علمی و عرفانی درجات کے مطابق آسان ہوتا ہے، قرآنِ ناطق کی معرفت میں قرآنِ صامت کی معرفت پوشیدہ ہے (۳) کیونکہ قرآن کی روح اور نور معلّمِ ربّانی میں ہے، ہم نے اس حقیقت کا بارہا ذکر کیا ہے۔

سوال – ۳۵۵: دائرۂ معرفت کتنا وسیع ہے؟ اس دائرے میں کِن کِن اشیاء کی معرفتیں شامل ہیں؟ پروردگار کی معرفت کا ذریعہ کیا ہے؟ آیا روحِ قرآن کی معرفت بھی ہوسکتی ہے؟ اگر ہوسکتی ہے تو اس کا طریقہ کیا ہے؟ -جواب:   (۱) دائرۂ معرفت بہشت اور کائنات کے برابر ہے، مگر اللہ بہشت اور کائنات کو اپنے عارفوں کے عالمِ شخصی میں نزدیک لاتا ہے، تاکہ انتہائی وسیع معرفت محدود اور آسان ہوجائے۔ (۲) اس دائرے (عالمِ شخصی) میں ہر ہر چیز کی معرفت شامل ہے (۳) پروردگار کی معرفت ہوسکتی ہے، جبکہ و ہ نور (۴۲: ۵۲) اس کا طریقہ بھی وہی ہے جو خود شناسی اور خدا شناسی کے لئے مقرّر ہے، اللہ، رسولؐ، اور امامؑ کی معرفت سے قرآن کی معرفت الگ نہیں ہے، کیونکہ یہ خدا کا کلام اور نورِ باطن ہے، جو آنحضرتؐ پر نازل ہوا، جس کا وارث امام (قرآنِ ناطق) ہے، تو پھر قرآنِ پاک کی معرفت کیونکر الگ تھلگ ہوسکتی ہے۔

سوال – ۳۵۶: بحوالۂ کتاب العلاج (قرآنی علاج، امواجِ نور، ص ۲۱۳) یہ سوال ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے جس عجیب و

 

۲۷۳

 

غریب حکمت سے دعائے نور کی تعلیم دی ہے، اس سے ہم کس طرح زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں؟ کیا اس دعا میں اہلِ دانش کے لئے معرفتِ نور کا ایک خزانہ موجود نہیں ہے؟ قرآنِ حکیم میں جس شان سے نور کا مبارک مضمون پھیلا ہوا ہے، آیا یہ دعا اس کا تعریفی خلاصہ نہیں ہے؟ -جواب: (۱) مجھے بھی اس میں بڑی حیرت ہے کہ جو لوگ نور کے عاشق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ گریہ کنان اور سجدہ کُنان اس کو کیوں نہیں پڑھتے ہیں، اور اس میں جو جو علم و معرفت کے جواہر ہیں ان کو حاصل کیوں نہیں کرتے (۲) یقیناً اس دعا میں عقل والوں کے لئے معرفتِ نور کا ایک گنجِ گرانمایہ مخفی ہے (۳) سِراجِ مُنیر (۳۳: ۴۶) اور نورِ مُنَزّل (۰۵: ۱۵) ہی کی روشنی میں مضمونِ نور کی عظیم حکمتیں ظاہر ہو سکتی ہیں، لہٰذا آپ اس دعائیہ حدیثِ شریف میں خوب غور سے دیکھیں کہ کس حکیمانہ انداز سے نور کی تعریف کی گئی ہے، اور اس کے پُرحکمت افعال کی طرف کیسے بلیغ اشارے ہیں۔

سوال -۳۵۷: سُورۂ حٰمٓ السّجدۃ (۴۱: ۵۴) میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک خاص وعدہ بھی ہے اور قرآنِ حکیم کی پیش گوئی بھی، کہ خداوندِ عالم عنقریب لوگوں کو اپنی آیات آفاق میں بھی اور ان کے نفوس میں بھی دکھائے گا، سوال ہے کہ آیا ظہورِ آیات کا وہ زمانہ یہی زمانہ ہے، جس میں سائنسی انقلاب آیا ہے؟ اگر یہ سچ ہے تو سائنسی ایجادات و آلات کی مثالو ں سے روحانی معجزات کی وضاحت کرنے سے کیوں

 

۲۷۴

 

شرمانا چاہیئے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، ظہورِ آیات کا زمانہ یہی ہے، اور سائنسی ایجادات و آلات قدرتِ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں (۲) اس میں کوئی شرم کی بات ہرگز نہیں کہ ہم مادّی سائنس کی مثالوں سے روحانی معجزات کو سمجھیں اور سمجھائیں، جبکہ قرآنِ حکیم میں واضح طور پر ارشاد ہوا ہے کہ خدا لوگوں کو اپنی آیات آفاق میں بھی اور ان کے عالمِ شخصی میں بھی دکھانے والا ہے۔

سوال -۳۵۸: سُورۂ الم نشرح (۹۴: ۰۵ تا ۰۶) میں ارشاد ہے: فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ اس کی باطنی حکمت کیا ہے؟ -جواب: (۱) ترجمہ: تو (ہاں) مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے، اور بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے (۲) ہر مشکل کام کسی نہ کسی وسیلے سے آسان ہو جاتا ہے (۳) اسی طرح قرآن اور اسلام کا ہر مشکل کام نورِ ہدایت کے وسیلے سے آسان ہوجاتا ہے، (۴) خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ مشکل کا کوئی وجود ہی نہیں، بلکہ ارشاد ہوا کہ مشکل موجود ہے، ساتھ ہی ساتھ آسانی کا وسیلہ بھی ہے، الحمد لِلّٰہ ربّ العالمین۔

سوال – ۳۵۹:  سُورۂ نمل (۲۷: ۸۲) میں یہ ارشاد ہے: اور جب ہماری بات پوری ہونے کا وقت اُن پر آپہنچے گا تو ہم اُن کے لئے ایک جانور زمین سے نکالیں گے جو اُن سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے۔ یہ دابۃ یا چلنے ولا کیا ہے؟ اور یہ زمین کونسی

 

۲۷۵

 

ہے؟ جانور کس زبان میں کلام کرے گا؟ -جواب: (۱) یہ مولاعلیؑ کا نور ہے جو داعیٔ قیامت کی حیثیّت سے عالمِ شخصی میں ہے (۲) یہ زمینِ ظاہر نہیں بلکہ زمینِ عالمِ شخصی ہے جو زمینِ دعوت ہے (۳) داعیٔ قیامت ہر زبان میں کلام کرسکتا ہے (۴) خدا کی آیات أئمّہ علیہم السّلام ہیں، جن پر اکثر لوگ یقین نہیں کرتے تھے۔

سوال – ۳۶۰: بیانِ بالا کی دلیلیں پیش کریں۔ -جواب: (۱) حضرتِ علیؑ نے فرمایا: اَنَا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ = میں ہوں دابۃ الارض (کوکبِ دُرّی) یہ علیؑ کا نور ہے جو داعیٔ قیامت کی حیثیت سے قیامتگاہ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے، ساتھ ہی ساتھ صورِ اسرافیل کی آواز بھی ہوتی ہے (۲) داعی کی آواز بعوضۃ (۰۲: ۲۶) کی آواز جیسی ہے، اس لئے مولا علیؑ نے فرمایا: اَنَا الْبَعُوْ ضَۃُ الَّتِیْ ضَرَبَاللّٰہُ بِھَا مَثَلاً = میں وہ بعوضۃ ہوں جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان فرمائی ہے (کوکبِ دُرّی ) (۳) داعیٔ قیامت جو مولا علیؑ کا نور ہے وہ دنیا کی ہر زبان میں کلام کرتا ہے، دیکھو لَا عِوَجَ لَہُ (۲۰: ۱۰۸) مولا علیؑ نے فرمایا: اَنَا الْمُتَکَلِّمُ بِکُلِّ لُغَتٍ فِی الدُّنْیَا = میں دنیا کی ہر زبان میں کلام کرتا ہوں (کوکبِ دُرّی) اور مولا نے یہ بھی فرمایا: اَنَا اٰیَاتُ اللہ = میں ہوں خدا کی آیات (کوکبِ دُرّی، باب سوم میں دیکھیں)۔

 

۲۷۶

 

صندوقِ جواہر۔ ۴

 

سوال – ۳۶۱: سُورۂ ہود (۱۱: ۵۶) میں فرمایا گیا ہے: اِنَّ رَبِّیْ عَلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ =بیشک میرا پروردگار صراطِ مستقیم پر ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے کے لوگوں کی ہدایت کے لئے ایک ہادی کو مقرّر فرمایا ہے، جو بنفسِ نفیس راہِ حق بھی ہے اور اس کا راہنما بھی، اور مظہرِ خدا بھی (۲) پس ربّ العزّت کا صراطِ مستقیم پر ہونا یہ ہے کہ اس کا مظہر صراطِ مستقیم پر ایمان والوں کی ہدایت کر رہا ہے۔

سوال – ۳۶۲: نورِ خدا کی مظہریّت کی اوّلین مثال قرآنِ کریم میں کہاں ہے؟ -جواب: (۱)یہ مثال قصّۂ آدم میں ہے، کیونکہ خداوندِ تعالیٰ نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کی پیشانی میں اپنے نورِ اقدس کو جلوہ گر فرما کر ان کو ساری کائنات کی خلافت عطا کی (۲) حضرتِ آدمؑ میں اللہ نے اپنی روح پُھونک دی تھی، یہاں روحِ خدا سے نورِ خدا مراد ہے، اور جس شخصِ کامل میں اللہ کا نور ہوتا ہے، وہی اس کی صفات کا مظہر ہوتا ہے (۳) جس طرح نظامِ شمسی کی تمام

 

۲۷۷

 

قوّتوں کا سرچشمہ سورج ہے، اسی طرح اللہ کی جملہ صفات کا منبع اس کا نور ہے، پس حاملِ نور خدا کا مظہر ہے۔

سوال ۳۶۳: اس بات کی کیا دلیل ہے کہ حضرتِ آدمؑ کو خداوندِ تعالیٰ نے ساری کائنات کی خلافت سے سرفراز فرمایا تھا؟ -جواب: (۱) سورۂ طلاق (۶۵: ۱۲) میں ہے: خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور انہی کے برابر زمین کو بھی (۲) یعنی ہر آسمان کے نیچے ایک زمین ہے، اسی طرح سات آسمان اور سات زمینیں اِس کائنات میں ہیں (۳) قرآنِ حکیم میں آسمانوں کو کبھی سمٰوٰت کہا گیا ہے اور کبھی سب کو ایک قرار دے کر سماء، اسی طرح سات زمینوں کا نام قرآن میں ارض (زمین) ہے (۴) یہی وجہ ہے جو ارشاد ہوا ہے کہ اللہ کی زمین بہت ہی وسیع ہے (۰۴: ۹۷، ۲۹: ۵۶، ۳۹: ۱۰) یاد رہے کہ خدا کی سب سے وسیع زمین روحانیّت میں ہے (۵) اب میں یہ کہوں گا کہ کائنات ایک اعتبار سے آسمان ہے اور دوسرے اعتبار سے زمین، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آسمان، زمین، اور بہشت تینوں وسعت میں برابر برابر ہیں (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ہی جگہ ہے جو ظاہراً و باطناً آسمان بھی ہے، زمین بھی، اور بہشت بھی ہے، پس معلُوم ہوا کہ حضرتِ آدم علیہ السّلام کو خدائے تعالیٰ نے اپنی کائنات کے ظاہر و باطن کا خلیفہ بنایا تھا۔

 

۲۷۸

 

سوال – ۳۶۴: ایسا لگتا ہے کہ یہ عظیم الشّان دلیلیں آپ کی نہیں، بلکہ حضرتِ امامِ اقدس و اطہرؑ کے حضور سے ہیں، لہٰذا گزارش ہے کہ ہمیں خلافتِ آدم سے متعلّق مزید حکمتوں سے آگاہ کریں۔ -جواب: (۱) عقلِ کلّ آسمان ہے، اور نفسِ کُلّ زمین، لیکن اہلِ معرفت کو یہ سِرِّعظیم معلوم ہے کہ وہ دونوں سب سے بڑے فرشتے مل کر ایک ہستی ہوگئے ہیں، لہٰذا وہاں تعینات کے لحاظ سے ارض و سماء الگ الگ بھی ہیں، اور وحدت کے لحاظ سے ایک بھی، آپ سُورۂ انبیاء (۲۱: ۳۰) میں آیۂ رَتْق و فَتْق کو دیکھیں (۲) اس سے آپ کو دُرست اندازہ ہُوا ہوگا کہ خلیفۃ اللہ کی خلافت سیّارۂ زمین تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ سات آسمانوں اور ان کے برابر کی سات کائناتی زمینوں اور عقلِ کلّ و نفسِ کُلّ کی خلافت ہے (۳) بنی آدم کے لئے جب ساری کائنات مُسخّر کی گئی ہے (۳۱: ۲۰، ۴۵: ۱۳) تو پھر آدم صفی اللہ کی خلافت صرف سیّارۂ زمین تک محدود کیونکر ہوسکتی ہے۔

سوال – ۳۶۵: یہ اسرار جو حضرتِ امامِ آلِ محمّدؐ کے خزانے سے ہیں بڑے روح پرور اور ایمان افروز ہیں، لہٰذا مزید وضاحت کریں۔ -جواب: (۱) قانونِ تجدُّد کا سِلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری ہے، چنانچہ ہر زمانے میں جدید لوگ ہُوا کرتے ہیں، اسی طرح انسانی روحوں کی ترقی سے ہر عصر میں جدید فرشتے وجود میں آتے رہتے ہیں، جن کو آدمِ زمان علم الاسماء کی تعلیم دیتا ہے (۲) قصّۂ آدم سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فرشتوں کے لئے روحانی علم کی سخت ضرورت تھی، پس یہ اُن کا گمان تھا کہ آدم

 

۲۷۹

 

کی خلافت صرف اِسی سیّارے پر ہوگی (۳) حالانکہ حضرتِ آدمؑ کو سوائے ابلیس کے کُلّ کائنات کے فرشتوں نے سجدہ کیا، اور آپ نے اپنے زمانے کے تمام جدید فرشتوں کو علم الاسماء سے بہرہ ور فرمایا۔

سوال – ۳۶۶: کہتے ہیں کہ عالمِ دین کے بھی سات آسمان اور سات زمینیں ہیں، اگر یہ بات حقیقت ہے تو آپ ہمیں سمجھائیں کہ کس طرح سے ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، عالمِ دین عالمِ ظاہر کی طرح ہے کہ اِس کے بھی سات آسمان اور سات زمینیں ہیں (۲) چنانچہ چھ ناطق اور قائم سات آسمان ہیں، اور ان کے سات حُججَ سات زمینیں ہیں (۳) اور یہ حضرات عالمِ شخصی میں بھی اسی طرح سے ہیں، تاکہ ہر گونہ معرفت کا سامان مُہیّا ہو۔

سوال – ۳۶۷: صحیح مُسلم، جلد ۲، کتاب المساجد میں یہ حدیثِ شریف ہے: بُعِثْتُ بِجَوَامعِ الْکَلِمِ۔ اس کی حکمت بیان کریں -جواب: (۱) آنحضرتؐ نے فرمایا: مجھے خدا نے وہ باتیں دے کر بھیجا جن میں لفظ تھوڑے ہیں اور معانی بہت ہیں (۲) اس سے قرآنِ حکیم کی آیت اور احادیثِ صحیحہ کے کلمات مراد ہیں، جن میں تہ بہ تہ حکمت بھری ہوئی ہوتی ہے (۳) الکلامُ الجامع = وہ کلام جس کے الفاظ کم ہوں مگر مطلب بہت ہوں، ج، جوامع، الکلمۃ، ج، کَلِمٌ (کلمات) الغرض قرآن و حدیث کے الفاظ میں معجزاتی جامعیّت ہے۔

 

۲۸۰

 

سوال – ۳۶۸: حدیثِ شریف ہے: مَا مِنْکُمْ مِنْ رَّجُلٍ اِلَّاسَیُکَلِّمُہٗ رَبُّہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَیْسَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَہٗ تَرْجُمَانٌ (تِرمذی، جلدِ دوُم، قیامت) اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: (۱) ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں کہ پروردگار قیامت کے دن اس سے بات نہ کرے اور اس دوران بندہ اور حضرتِ ربّ کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔ (۲) اس میں بہت سی عظیم حکمتیں ہو سکتی ہیں، اوّل یہ کہ اللہ اپنے بندے کی زبان میں کلام کرے گا، کیونکہ ترجمان نہ ہونے کا مطلب یہی ہے، دوم: اللہ کے کلام میں علم و حکمت کا بہت بڑا خزانہ ہوگا، کیونکہ کلامِ الٰہی کی خصوصیّت یہی ہے، سِوُم یہ سب سے بڑی سعادت عُرَفاء کو دنیا میں بھی حاصل ہوتی ہوگی، اس لئے کہ کاملین و عارفین کی قیامت ان کی جسمانی موت سے پہلے ہی آتی ہے۔

سوال – ۳۶۹:  جو سالکین جسمانی موت سے پہلے ہی نفسانی طور پر مرجاتے ہیں یعنی فنا فی اللہ کا مرتبہ حاصل کر لیتے ہیں، آیا ان کو ربِّ تعالیٰ کا پاکِ دیدار نصیب ہوتا ہے؟ کیا اُن سے خداوند تعالیٰ کلام کرتا ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، سالک /عارف کو دیدارِ الٰہی کی سب سے بڑی سعادت نصیب ہوجاتی ہے، تب ہی وہ اپنے ربّ کو پہچانتا ہے اور عارف کہلاتا ہے، اور خدا اس سے کلام کرتا ہے، جس کی وجہ سے اُس کے پاس علم و معرفت کا خزانہ ہوتا ہے (۲) آپ کو

 

۲۸۱

 

سُورۂ شورٰی (۴۲: ۵۱) میں بہت غور سے دیکھنا ہوگا، اس کا ترجمہ یہ ہے: کسی بشر کے لئے یہ قانون نہیں ہے کہ اللہ اس سے (رُوبرو) کلام کرے مگر (دیدار کے) اشارے سے یا پردے کے پیچھے سے…. (۳) دیدارِ پاک خاموش اشاراتِ عرفانی کا عظیم خزانہ ہے، اس میں اسرارِ معرفت و حکمت کی لازوال دولت موجود ہے۔

سوال – ۳۷۰:  کتابِ زاد المسافرین، قول بیست ویکم میں یہ حدیث، شریف درج ہے:  اَعْرَفُکُمْ بِنَفْسِہٖ اَعْرَفُکُمْ بِرَبِّہٖ۔ آپ اس کی تشریح کریں -جواب: (۱) ترجمہ: تم میں جو شخص سب سے زیادہ اپنی ذات کو پہچانتا ہے وہی تم میں سب سے زیادہ اپنے ربّ کو پہچانتا ہے (۲) اس سے ظاہر ہے کہ اہلِ ایمان معرفت کے مختلف درجات پر ہیں، اور معرفت کا درجۂ کمال حقّ الیقین ہے (۳) معرفت ہی کی غرض سے انسان دنیا میں بھیجا گیا ہے، کیونکہ تخلیقِ عالم و آدم کا مقصد یہی ہے، پس ہر مومن کی دانشمندی اس بات میں ہے کہ وہ حصولِ معرفت کے لئے کما حقّہ سعی کرے۔

 

۲۸۲

 

صندوقِ جواہر۔ ۵

 

سوال -۳۷۱: اس شعر کا کیا مطلب ہے؟ گنج نہانی طلب از دل و از جان خویش + تانشوی بی نوا بردر دوکان خویش۔ ۔ ۔ – جواب: (۱) ترجمہ: کنزِ مخفی کو اپنے دل اوراپنی جان ہی سے طلب کر، تاکہ تُو اپنی (مُقفّل) دکان کے دروازے پر مفلسی میں مُبتلا ہوکر نہ رہے (۲) ہر شخص کے باطن میں بحدِّ قوّت گنجِ مخفی موجود ہے، لیکن ایسے لوگ کتنے ہوں گے جو بحدِّ فعل اس کو حاصل کرلیتے ہیں، (۳) تاہم دینِ حق میں مایوسی منع ہے۔

سوال – ۳۷۲: کیا آپ ایسی آیاتِ کریمہ کا حوالہ بتا سکتے ہیں کہ ان میں حدودِ دین کا تذکرہ ہے؟ – جواب: (۱) اِن شاء اللہ العزیز، جاننا چاہیئے کہ عالمِ ظاہر سرتا سر عالمِ دین کی مثال و دلیل ہے، لہٰذا قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں یہ ذکر آیا ہے کہ خدا نے چھ دن میں کائنات کو پیدا کیا، اور پھر عرش کی طرف متوجّہ ہوا (یعنی یہ سنیچر کا دن تھا) تو اس سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھ ناطقوں کے ادوار میں عالمِ دین کو مکمل کر دیا، اور ساتواں دَور حضرتِ قائم کا ہے، جس

 

۲۸۳

 

میں رفتہ رفتہ اسرارِ مساوات رحمانی کا ظہور ہوگا۔

سوال – ۳۷۳: سورج اور چاند جو قرآن میں مذکور ہیں، وہ حدودِ دین میں سے کِن درجوں کی مثال ہیں؟ – جواب: (۱) زمانۂ ناطق میں سورج ناطق کی مثال ہے، اور چاند اساس کی (۲) عہدِ اساس میں سورج اساس کی مثال ہے، اور چاند امام کی (۳) زمانۂ امامت میں سورج امام کی مثال ہے اور چاند باب کی مثال۔

سوال – ۳۷۴: سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۲) میں ارشاد ہے کہ خداوندِ عالم نے بنی اسرائیل میں بارہ نقیب (سردار) مقرّر کئے تھے، وہ کون تھے؟ اور ان کے لئے بَعَثْنَا کا لفظ آیا ہے، اس میں کیا حکمت ہے؟ – جواب: (۱) بارہ نقیب حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کے حُجَجْ (حجّتان) تھے، جن میں حجّتِ اعظم کا مرتبہ امامِ ہارون علیہ السّلام کو حاصل تھا (۲) بَعَثْنَا کا مطلب ہے: ہم نے ان کو نفسانی موت کے بعد زندہ کیا، تاکہ قیامت اور آخرت کے علمی و عرفانی خزانوں سے ان کو مالا مال کیا جائے۔

سوال – ۳۷۵:  سُورۂ مائدہ (۰۵: ۲۰) میں ہے: یاد کرو جب موسٰیؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تمہیں عطا کی ہے، اس نےتم میں نبی پیدا کئے، تم کو سلاطین بنایا، اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا ہے۔ اس کی تاویل کیا

 

۲۸۴

 

ہے؟ – جواب: (۱) اللہ تعالیٰ کا یہ احسان بڑا عظیم بھی ہے اور بڑا عجیب بھی، کہ انبیاء علیہم السّلام اگرچہ ظاہر میں آئے تھے، لیکن ان کی باطنی تشریف آوری کے بغیر عالمِ شخصی کےمعجزات مکمّل نہیں ہوسکتے ہیں (۲) امامِ عالیمقام علیہ السّلام اور اس کے حُجج روحانی سلاطین بھی ہیں، اور قالبِ قیامت (قیامت کا سانچہ) بھی ہیں، اللہ تعالیٰ کی عنایتِ بے نہایت سے مومنین بھی قالبِ قیامت میں ڈھل ڈھل کر بہشت کے بادشاہ ہوجاتے ہیں۔

سوال – ۳۷۶: آپ یہ بتائیں کہ قیامت انفرادی ہے یا اجتماعی؟ ظاہری ہے یا باطنی؟ – جواب: (۱) ہر قیامت کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں: شعوری اور غیر شعوری، اس لئے قیامت ایک طرف سے انفرادی اور دوسری طرف سے اجتماعی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں قیامت کا بیان دوطرح سے آیا ہے (۲) قیامت باطنی اور روحانی طور پر آتی ہے، لیکن اس کے زیرِ اثر دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں آتی ہیں۔

سوال – ۳۷۷: اجتماعی قیامت کا عقیدہ تو ہم سب رکھتے ہیں، اس لئے آپ صرف یہ دلیل پیش کریں کہ اس کا اصل پہلو انفرادی ہے- جواب: (۱) سورۂ روم (۳۰: ۳۰) میں قانونِ فطرت (قانونِ دین) کا ذکر بھی ہے اور اشارہ بھی، کہ لوگ جس طرح جدا جدا وقتوں میں پیدا

 

۲۸۵

 

ہوتے ہیں اسی طرح مختلف اوقات میں فرداً فرداً مرجاتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کا انفرادی پہلو موت کی طرح جُدا گانہ ہے (۲) حدیثِ شریف ہے: مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ =جو شخص مرجائے اس کی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ یعنی جو شخص اضطراری موت سے قبل اختیاری موت سے مرجاتا ہے اس کی قیامت قائم ہوجاتی ہے، اسی انفرادی قیامت کے ساتھ ساتھ تمام اہلِ جہان کی اجتماعی قیامت بھی ہوتی ہے، مگر غیر شعوری طور پر۔

سوال – ۳۷۸: حدیثِ شریف ہے: اَنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ =اللہ تعالیٰ صاحبِ جمال ہے وہ جمال کو پسند کرتا ہے۔ آپ ہمیں اس کی مزید تشریح کریں۔ – جواب: (۱) اللہ اپنے ظہورات و تجلّیات میں بیحد حسین و جمیل ہے، پس اگر تم عاشقانِ الٰہی میں سے ہوجانا چاہتے ہو تو اخلاقی، روحانی اور عقلی طور پر اپنی ذات میں حسن و جمال کو پیدا کرو (۲) اپنے باطن میں حسن و جمال پیدا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ تم عشق سے فرمانبرداری کرو، جیسا کہ اس کا حق ہے (۳) سُورۂ سجدہ (۳۲: ۰۶ تا ۰۹) میں دیکھو کہ خدا نے جو چیز بنائی خوب بنائی۔ اللہ نے انسان پر تخلیق کے مراحل میں بڑا احسان کیا، اس میں اپنی روح پھونکی، یہ تذکرہ اگرچہ انسانِ کامل کا ہے، لیکن سوچنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ انسانِ کامل کو اپنی روح / نور سے نوازتا ہے، اور تم پر احسان رکھتا ہے، یہ کیوں ایسا ہے؟

 

۲۸۶

 

(۴) اچھی طرح سے سُنو اور یاد رکھو، کہ یہ انسانِ کامل تم سے بیگانہ ہرگز نہیں، یہ تو دراصل تمہاری اپنی جانوں کی جان ہے، یعنی روح الارواح ہے، اور تمہارے حواسِ باطن کے لئے نور ہے (۵) مذکورہ حدیثِ شریف میں دیدارِ خداوندی کی دعوت اور اس کے لئے تیاری کی ہدایت موجود ہے۔

 

سوال – ۳۷۹:  آپ نے بیانِ بالا میں ایک ساتھ تین آیاتِ کریمہ کا حوالہ دیا ہے، ان میں تیسری آیت یہ ہے: ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِنْ رُوحِهِ وَجَعَلَ لَكُمْ السَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَالأَفْئِدَةَ۔ اس کا ترجمہ اور خلاصۂ حکمت بتائیں- جواب: (۱) ترجمہ: پھر اس کو درست کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی اور تم کو (باطنی) کان اور آنکھیں اور دل دیئے (۲) اِس آیۂ مبارکہ میں بڑی عجیب و غریب حکمت ہے، کہ اس میں آدم، آدمِ زمان، وغیرہ کا ذکر ہے، پھر یہ اشارہ ہے کہ حدودِ دین اہلِ ایمان کے لئے حواسِ باطن کا کام کرتے ہیں۔

سوال – ۳۸۰: بیشک آپ نے قرآنِ پاک کے حوالے سے تضرُّع (عاجزی کرنا) کے بارے میں لکھا تو ہے، لیکن جو قرآنی دوا امراضِ باطن کے لئے زبردست مُؤثر اور ازحد مفید ہو، اس کی تعریف بار بار کیوں نہ کریں، پس آپ یہ بتائیں کہ تضرُّع کا ذکر قرآنِ حکیم میں کہاں کہاں ہے؟ اس سے انسانی دل و دماغ کی اصلاح کس طرح ہوئی

 

۲۸۷

 

ہے؟ – جواب: (۱) تضرُّع کا مضمون سات آیاتِ کریمہ میں ہے: ۰۶: ۴۲، ۰۶: ۴۳، ۲۳: ۷۶، ۰۷: ۹۴، ۰۶: ۶۳، ۰۷: ۵۵، ۰۷: ۲۰۵، آپ ان آیاتِ مبارکہ کو کامل یقین سے پڑھ لیں (۲) کمالِ تضّرع کی صورت گریہ وزاری ہے، جس کے فوائدِ روحانی بے شمار ہیں، اس سے نہ صرف ہر بلا ردّ اور ہر مُشکل آسان ہو جاتی ہے، بلکہ عذابِ الٰہی بھی ٹل جاتا ہے (۳) قساوتِ قلبی (دل کی سختی) تمام روحانی بیماریوں کی جڑ ہے، جس کا واحد علاج تضرُع ہے (۴) انبیاء، اولیاء، عارفین، عاشقین، سالکین، ذاکرین، اور عابدین کو تضرُّع اور مناجات کا عظیم راز معلوم ہے۔

 

۲۸۸

 

صندوقِ جواہر۔ ۶

 

سوال – ۳۸۱:  لوگوں کے دل میں بعض ایسے سوالات بھی ہو سکتے ہیں، جو شرم کے مارے زبان پر ظاہر نہ کرسکتے ہوں، جیسے حورانِ بہشت سے متعلّق مختلف سوالات، حالانکہ قرآن و حدیث کے ظاہر و باطن میں ہر چیز کا بیان بھی ہے، اور ہر سوال کا جواب بھی، لہٰذا ہم یہاں لوگوں کے چند نمائندہ سوالات کرتے ہیں: کیا جنّت میں پری عورتیں ہیں؟ آیا انہی کو حورانِ بہشت کہا جاتا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ نے ان حوروں کو بہشت ہی میں پیدا کیا ہے؟ قرآنِ حکیم ہی کی روشنی میں یہ حقیقت مُسلّمہ ہے کہ خداوندِ تعالیٰ نے بہشت کی حوروں کو غیر فانی حسن و جمال سے نوازا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ علمی اعتبار سے ان کی کوئی تعریف کیوں نہیں ہے؟ – جواب: (۱)  جی ہاں، بہشت میں پری عورتیں ہیں (۲) جی ہاں، انہی کو حورانِ جنّت کہا جاتا ہے (۳) اللہ تعالیٰ اپنی بے پایان رحمت سے دنیا کی عورتوں کو لطیف بدن عطا کرکے بہشت کی حوریں بنا دیتا ہے (۴) قرآنِ عظیم میں حوران کے درجات کے مطابق علمی تعریف بھی موجود ہے، لیکن یہ بات یاد رہے کہ علم کے معانی کے لئے اور بھی بہت سے الفاظ اور مثالیں ہیں (۵) مثلاً یہ ارشاد: ولھم فیھا ازواجٌ مُّطَھَّرَۃٌ

 

۲۸۹

 

(۰۲: ۲۵) اور ان کے لئے بہشت میں پاک کی ہوئی بیویاں ہیں۔ پاکیزگی ہمیشہ تین قسم کی ہوا کرتی ہے: جسمانی، روحانی، عقلانی، پس معلوم ہوا کہ بہشت کی تمام حوریں جسماً، روحاً اور عقلاً پاک کی ہوئی ہیں، اور اس میں یقیناً علم کا اِشارہ بھی آگیا، کیونکہ دُنیا کی کوئی عقل پاک نہیں ہوسکتی ہے، مگر علم و حکمت سے۔

سوال – ۳۸۲: آپ مزید قرآنی دلائل سے یہ ثبوت پیش کریں کہ جنّت کی پری عورتوں کی ذات میں عقلی اور علمی حسن و جمال بھی ہے – جواب: (۱)  سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ جنّت کا کوئی میوہ مغزِ علم و حکمت کے بغیر نہیں ہے، بالفاظِ دیگر: بہشت کی بے شمار نعمتیں تین قسم کی ہیں: جسمانی (لطیف) روحانی، عقلانی، (۲) آئیے، ہم سُورۂ واقعہ (۵۶) کا بغور مطالعہ کرتے ہیں، جس میں بہشت کی نعمتوں کا تذکرہ ہے (۳) اس سورہ میں سابقین/مُقرّبین کی حوروں کا بیان ہے، مگر سوچنے سے یوں لگتا ہے کہ وہ محض عقلی، علمی، اور عرفانی حوریں ہیں، (۴) کیونکہ وہ آپ کی چشمِ بصیرت ہوجاتی ہیں، جس سے آپ ربِّ تعالیٰ کی تجلّیات کو دیکھ سکتے ہیں، اور کتابِ مکنون کے عظیم اسرار کا مُشاہدہ کر سکتے ہیں۔

سوال – ۳۸۳: آپ نے سورۂ واقعہ کے حوالے سے جس طرح عقلی حوروں کی معرفت بیان کی، اس سے ہم سمجھ گئے کہ یہ امامِ آلِ محّمدؐ کا علمی معجزہ ہے، پس آپ اسی امامؑ کے نور کی روشنی میں یہ حکمت بھی بتائیں کہ

 

۲۹۰

 

اصحاب الیمین کی حوریں کن اوصاف سے موصوف ہیں؟ – جواب: (۱)  سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے اس قانونِ قدرت کے لئے اقرار کر لینا ضروری ہے کہ آخرت / بہشت عالمِ لطیف ہے، اور دُنیا عالمِ کثیف، پس تمام لوگ جب بہشت میں تھے تو لطیف تھے، لیکن جب وہاں سے سب کے سب نکالے گئے (۰۲: ۳۸) تو یہاں آکر کثیف ہوگئے (۲) مگر جب خدا کی رحمتِ کُلّ سے سارے لوگ جنّت میں جائیں گے، تو تمام لوگ لطیف ہو جائیں گے، اسی حالت میں جُملہ عورتیں لطافت اور نورانی بدن کی وجہ سے حوریں کہلائیں گی (۳) یہ حکمتی بیان سورہ واقعہ (۵۶: ۳۵ تا ۳۶) کی روشنی میں ہے، اور یہی اصحابُ الیمین کی حوریں ہیں۔

سوال – ۳۸۴: ہم امامِ آلِ محمّدؐ کے علمی معجزات کے معترف اور شکرگزار ہیں، لیکن ہمارے اہم سوالات ابھی ختم نہیں ہوئے، جو اس گنجینۂ اسرار سے متعلّق ہیں، سورۂ زُخرف (۴۳: ۷۰) میں ہے: اُدخلو الجنّۃَ انتم واز واجکم تُحْبَرُوْنَ۔ اس کا ترجمہ اور حکمت؟ – جواب: (۱) ترجمہ: داخل ہوجاؤ جنّت میں تم اور تمہاری بیویاں، تمہیں آراستہ کیا جائے گا۔ یعنی تمہیں نورانی بدن عطا ہوگا، جس میں حسن و جمال کے عجائب و غرائب ہیں (۲) اس سے معلوم ہوا کہ مومنین کی اپنی بیویاں بھی حوریں ہوجاتی ہیں۔

سوال – ۳۸۵: سوال ہے کہ اگر کوئی جنّتی شخص اولاد کی خواہش

 

۲۹۱

 

کرے تو کیا جنّت میں بھی اولاد ہوسکتی ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، بہشت میں بھی مومن کی اولاد ہوسکتی ہے، کیونکہ حدیث شریف میں ہے: المؤمنُ اذا شُتھیَ الولدَ فی الجنّۃِ کان حَمْلُہٗ و وَضْعُہٗ وَسِنُّہٗ فی سا عۃٍ کما یشتھی = اگر کوئی مومن جنّت میں اولاد کی خواہش کرے گا تو صرف ایک گھڑی میں حمل، پیدائش، اور اس کی عمر اس جنّتی کی خواہش کے مطابق ہوجائے گی (ترمذی، جلد دوم، جنّت کا بیان)۔

سوال – ۳۸۶: یہ حدیثِ شریف بھی مذکوہ کتاب میں ہے: فَمِیْۃٌ اَشَدُّ عَلیَ الشَّیْطَانِ مِنْ اَلْفِ عَابِدٍ = ایک فقیہ (علمِ فقہ کا عالم) شیطان کے لئے ایک ہزار عابدوں سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اس میں کیا راز ہے؟ – جواب: (۱) اس میں رازِ معرفت ہے، کیونکہ حقیقی فقیہ وہ ہے جو خود شِناس اور خدا شِناس ہے کہ وہی شخص ہے جو کہ شیاطینِ انسی و جِنّی کو شکستِ فاش دے سکتا ہے، جیسا کہ شروع ہی میں شیطان نے خود ہی کہا تھا کہ وہ اللہ کے مخلص بندوں کو گمراہ نہیں کر سکے گا (۳۸: ۸۲ تا ۸۳) مخلص وہ شخص ہے جو خدا کی توحید کو شرک کی آمیزش سے خالص اور پاک کرتا ہے، اور یہ کام صرف عارف ہی کرسکتا ہے جس سے شیطان مغلوب ہوجاتا ہے۔

سوال – ۳۸۷:  سُورۂ اَنعام (۰۶: ۱۱۲) میں ہے: اور ہم نے تو اسی طرح ہمیشہ اِنسی شیطانوں اور جِنّی شیطانوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے وہ

 

۲۹۲

 

لوگ فریب دینے کی غرض سے ایک دوسرے کی چکنی چُپڑی باتوں کی سرگوشی کرتے ہیں۔ کیا انسی شیاطین بھی ہوتے ہیں؟ انسی اور جنّی شیطانوں کے آپس میں رابطہ کس طرح ہوتا ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، انسی شیاطین ہیں، اور وہ بڑی خطرناک ہوا کرتے ہیں (۲) جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر شخص کے اندر ایک جِنّ اور ایک فرشتہ مقرّر ہیں، ان دونوں ساتھیوں میں انسان کے لئے بہت بڑی آزمائش ہے، پس یہی اندرونی جنّ ہے، جس کے ذریعے سے انسی شیطان اور جنّی شیطان کے درمیان رابطہ ہوتا ہے، اور یہی اندرونی فرشتہ ہے، جس کے وسیلے سے ارضی فرشتہ اور سماوی فرشتہ کے مابین رابطہ ہوسکتا ہے۔

سوال – ۳۸۸: یہ آیۂ مبارکہ سُورۂ نمل کے آخر (۲۷: ۹۳) میں ہے، لہٰذا اِس کی بہت بڑی اہمیّت ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: اور تم کہدو کہ الحمدللہ، وہ عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں (معجزات) دکھادے گا، تو تم انہیں پہچان لوگے۔ ظاہر ہے کہ ایسی آیات غیر معمولی ہوں گی، آیا یہ معجزات آفاق و انفس (۴۱: ۵۳) میں ہوں گے؟ کیا ان آیات و معجزات میں حظیرۂ قدس کے عظیم اسرار بھی ہیں؟ کیا ربُّ العزّت کا دیدار بہت بڑی آیت یا بہت بڑا معجزہ نہیں ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، یہ آفاق و انفس کی غیر معمولی آیات ہیں (۲) اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ سب سے عظیم آیات و معجزات حظیرۂ قدس ہی میں ہوتے ہیں(۳) کیوں نہیں، پروردگارِ

 

۲۹۳

 

عالم کا پاک دیدار سب سے بڑی آیت اور سب سے عظیم معجزہ ہے، اور معرفت کا تعلّق بھی اسی سے ہے۔

سوال – ۳۸۹: سُورۂ نجم (۵۳: ۱۸) میں ارشاد ہے: لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی۔ اس آیۂ مقدّسہ کا ترجمہ کرکے بتائیں کہ یہ بڑی بڑی آیات کیا ہیں؟ اور یہ قصّہ کیا ہے؟ – جواب: (۱) ترجمہ: انہوں (یعنی آنحضرتؐ) نے اپنے ربّ کی بڑی بڑی آیات دیکھیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار اور اس کے متعلّقات جو حظیرۂ قدس میں ہیں (۲) یہ آیۂ شریفہ قصّۂ معراج کے سلسلے میں ہے۔

سوال – ۳۹۰: سُورۂ نحل کی ایک عظیم الشّان آیت (۱۶: ۸۱) کے حوالے سے سوال ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اپنی جس مخلوق کے ظِلال (سائے) بنا کر مومنین پر احسان فرمایا ہے، وہ کیا ہیں؟ اور کہاں ہیں؟ ظلِّ الٰہی (۲۵: ۴۵) کیا ہے؟ ظلِّ ممدود (۵۶: ۳۰) سے کیا مُراد ہے؟ – جواب: (۱)  عالمِ عُلوی خدا کی پُرنور مخلوق ہے، اس کی تمام چیزیں نور سے بھرپور ہیں، چُنانچہ کلمۂ کن نور ہے، قلم نور ہے، لوح نور ہے، عرش نور ہے، کُرسی نور ہے، وغیرہ، ان کے سایوں سے مظاہر مراد ہیں، جو عالمِ دین میں بھی ہیں اور عالمِ شخصی میں بھی، یہ سائے (مظاہر) عکسِ خورشید کی طرح روشن و تابان ہیں (۲) ظِلِّ الٰہی امام ِزمانؑ ہے جو زمین پر نورِ خدا کا مظہر ہے (۳) ظِلِّ ممدود یعنی کھینچا ہوا سایہ بہشت کی وہ لطیف نعمتیں ہیں جو باطن سے لیکر ظاہر تک پھیلی ہوئی ہیں۔

 

۲۹۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۷

 

سوال – ۳۹۱: روحانی سائنس آپ ہی کی اصطلاحات میں سے ہے، اور یہ آپ کا ایک پسندیدہ مضمون بھی ہے، لہٰذا آپ اسی کی روشنی میں جواب دیں کہ آیا بہشت میں ہر شخص کے لئے زبان سے متعلّق معلومات کی نعمتیں بھی ہیں؟ اگر بہشت میں دیگر لاتعداد نعمتوں کے ساتھ ساتھ لِسانی نعمتوں کی بھی فراوانی ہے تو اس کی دلیل کیا ہے؟ – جواب: (۱) قرآنِ حکیم نے بارہا فرمایا ہے کہ جنّت میں لوگوں کی خواہش کے مطابق ہر چیز موجود ہے (مَایَشَاءُوْنَ۔ ۵ مقام پر) (۲) سُورۂ روم (۳۰: ۲۲) میں بھی دنیا بھر کی بولیوں اور زبانوں سے متعلّق بڑی روشن دلیل یہ ہے کہ یہ بولیاں اور زبانیں اللہ کی آیات میں سے ہیں، اور خدا اپنی آیات لوگوں کو دکھانے والا ہے، اس میں معلوم ہوا کہ ہم سب اپنی اپنی زبان کے عجائب و غرائب دیکھنے والے ہیں (۳) اس سلسلے کی ایک مُستند دلیل یہ بھی ہے کہ زمانۂ ماضی کے لوگوں کے نامہ ہائے اعمال میں زبان محفوظ ہے، آپ قرآنِ مقدّس میں نامۂ اعمال کے پُراز حکمت مضمون کو خوب غور سے پڑھیں۔

 

۲۹۵

 

سوال – ۳۹۲: یہ بڑی دلچسپ اور بیحد مفید بحث ہے، لہٰذا آپ مزید دلائل پیش کریں- جواب: (۱)  امام ِمبینؑ (۳۶: ۱۲) لوحِ محفوظ ہے، جس میں تمام زبانوں کی چیزیں محفوظ اور ریکارڈ ہیں، اور زبانیں بھی محفوظ ہیں (۲) عِلّیّین سے حضراتِ آئمّہ مراد ہیں جو کتابِ مرقوم ہیں، جس میں تمام نیکو کاروں کا نامۂ اعمال محفوظ ہے (۸۳: ۱۸ تا ۲۰) اور نامۂ اعمال ہر شخص کی اپنی زبان میں ہوتا ہے (۳) سُورۂ زِلزال کے آخر (۹۹: ۰۷ تا ۰۸) میں دیکھیں کہ انسان اپنے قول و فعل کا ذرّہ ذرّہ دیکھنے والا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ زبان کا ہر لفظ محفوظ ہے (۴) سُورۃ الکہف (۱۸: ۰۹) کا اشارہ ہے کہ جس طرح خدا نے معجزانہ طور پر اصحابِ کہف کو محفوظ رکھا تھا، اسی طرح وہ قدیم زبانوں اور نوشتوں (رقیم) کو بھی محفوظ رکھتا ہے، الحمدللہ۔

سوال – ۳۹۳: اس سے معلوم ہوا کہ نورانی خواب، روحانیّت، اور بہشت میں لوگ اپنی اپنی زبان کے معجزات کو دیکھتے ہیں، پس بتائیں کہ آپ نے بُروشسکی میں کیا کیا عجائب و غرائب دیکھے؟ اور خداواندِ قدّوس کی بے پایان رحمت سے کیا کیا توقعات ہیں؟ – جواب: خوشتر آن باشد کہ سِرِّ دلبران + گفتہ آید در حدیثِ دیگران۔ بہتریہ ہے کہ معشوقوں کا راز دوسروں کے قصّے میں بیان کیا جائے۔ میں بطریقِ حکمت اپنے تمام احوال داناؤں کو بیان کرتا رہتا ہوں (۲) تاہم یہاں بھی کچھ عرض کریں گے کہ روحانی انقلاب کا سارا قصّہ بروشسکی میں ہے، مجھے اُن روحانیوں کے بروشسکی کلام سے بڑی حیرت ہوئی، اور یہ سچ ہے کہ میں

 

۲۹۶

 

اپنی طفلانہ بروشسکی سے شرمندہ ہوتا تھا (۳) ہر مومن خدا سے ڈرتا بھی ہے اور اس کی رحمت کا اُمیدوار بھی ہے، پس بہشت میں سب کچھ ہے اور مذہبی کتابوں کی عظیم نعمت بھی ہے۔

سوال – ۳۹۴:  سُورۂ انفطار (۸۲: ۱۰ تا ۱۱) میں ارشاد ہے: وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ كِرَامًا كَاتِبِينَ = اس میں کوئی شک نہیں کہ تم پر (تمہارے اعمال، یاد رکھنے والے معزّز لکھنے والے مقرّر ہیں۔ یہاں یہ پوچھنا ضروری ہے کہ یہ فرشتے انسانون کے اقوال و اعمال کو کس طرح یاد کرتے ہیں اور کس طرح لکھتے ہیں؟ آیا انسان جس بولی میں بھی بولتا ہے اسی کو درج کرتے ہیں یا کسی خاص زبان میں ترجمہ کرتے ہیں؟ کیا فرشتے ہاتھ سے لکھتے رہے ہیں؟ – جواب: (۱) اگر آپ اس حقیقت کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ خاموش تاویلی انقلاب آچکا ہے تو پھر ان سوالات کے جوابات آسان ہیں، وہ یہ ہیں کہ فرشتے روحانی تماثیل کے ذریعے سے ہم سب کے اعمال کو ریکارڈ کرتے ہیں، تماثیل روحانی مُوویز کا نام ہے (۲) انسان کی جیسی بھی گفتگو ہوتی ہے، اسی کو ترجمہ کے بغیر ریکارڈ کرتے ہیں (۳) فرشتے انسانوں کی طرح نہیں لکھتے ہیں۔

سوال – ۳۹۵: تِمثال (تصویر) کی جمع تَماثیل (تصویریں) ہے، اس سے آپ نے روحانی مُوویز کو مراد لیا، یہ کس طرح سے ہے؟  کیا آپ نے اس کی تسلّی بخش وضاحت کرسکتے ہیں؟  – جواب: (۱)  ان شاء اللہ

 

۲۹۷

 

ہم ٹھیک ٹھیک وضاحت کریں گے (۲) سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ تماثیل ظاہر میں بھی ہیں اور باطن میں بھی، دونوں مقام پر ساکن بھی ہیں اور متحرک بھی، خاموش بھی ہیں اور بولنے والیاں بھی (۳) اس کا مطلب یہ ہُوا کہ و ہ تماثیل (تصاویر) جو باطن میں حرکت اور گفتگو کے ساتھ ہیں، وہ روحانی سائنس کی زبان میں نورانی مُوویز ہیں۔

سوال – ۳۹۶: نورانی مُوویز کے ثبوت میں آپ کا مُدلّل بیان بڑا عمدہ تھا، لیکن اس سے ہمارے لئے دو بڑے مشکل سوال پیدا ہوگئے، کیونکہ لفظِ تماثیل قرآنِ حکیم کے دو مقام پر موجود ہے، جس کا ظاہری ترجمہ آپ کے اس بیان سے مختلف ہے، تو کیا آپ ان دونوں آیتوں سے بھی نورانی مُوویز کی دلیل و شہادت پیش کرسکتے ہیں؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ العزیز، سُورۂ انبیاء (۲۱: ۵۲) میں ہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی قوم کے لوگ تماثیل (تصاویر، اصنام) کی پرستش کرتے تھے، جن میں آزر پیش پیش تھا، یہ تماثیل ظاہر کے علاوہ باطن میں بھی تھیں، اور روحانیّت کے ابتدائی مراحل میں جو جو روشن اور خوب سے خوبتر تماثیل (تصویریں) سامنے آتی ہیں، وہ ہرگز خدا نہیں، بلکہ اصنام ہیں، لہٰذا حضرتِ ابراہیمؑ نے ظاہری اور باطنی ہر دو قسم کی بُت پرستی کی بڑی سختی سے مذمت کی، اس سے روحانی یا نورانی موویز کی نفی نہیں ہوئی ہے، کیونکہ آفتاب پرستی کی مذمت کرنے سے آفتاب کی نفی ہرگز نہیں ہوتی۔

 

۲۹۸

 

سوال – ۳۹۷: اب تماثیل سے متعلّق صرف ایک سوال باقی ہے، وہ سُورۂ سَبا (۳۴: ۱۳) میں ہے، آپ یہ بتائیں کہ جِنّات حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے لئے کس نوعیت کی تماثیل بناتے تھے؟ مادّی تصویریں یا روحانی تصویریں؟ – جواب: (۱) قرآن ہمیشہ باطنی اور روحانی عجائب و غرائب کا تذکرہ کرتا ہے، کیونکہ مادّی چیزیں دنیا میں عام ہیں (۲) متعلّقہ آیت میں اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات کا ذکر ہےکہ جِنّات خدا کے حکم سے حضرتِ سلیمانؑ کے لئے روحانیت کے بڑے بڑے کاموں کو سرانجام دیتے تھے، مِنجملہ ایک کام یہ بھی تھا کہ وہ نورانی مُوویز بناتے تھے (۳) بعض دفعہ کس بڑے راز کو پردے میں رکھ کر لوگوں کو آزمانے کی خاطر فرشتے کا نام جِنّ رکھ لیتے ہیں، کیونکہ فرمانبردار جِنّ فرشتہ کہلاتا ہے، اور نافرمان جِنّ شیطان۔

سوال – ۳۹۸: آپ کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کا ہر احسان بیمثال ہوا کرتا ہے، لہٰذا زمانے کی ترقّی سے اس قدر و قیمت میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے، اس حقیقت کی دلیل کیا ہے؟ – جواب: (۱) دلیل یہ ہے کہ اگر تختِ سلیمان روحانیّت میں ہونے کی بجائے مادّیت میں ہوتا تو آج ہوائی جہاز اس کے مقابلے میں ہمہ رس، اور عالمگیر معجزہ قرار پاتا، لیکن ایسا نہیں، کیونکہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کا تخت روحانیّت میں ہے، وہ حق تعالیٰ کا احسان ہے، جو بے مثال اور لازوال ہے (۲) اسی طرح جِنّات کی بنائی ہوئی تماثیل روحانیّت میں ہوا کرتی ہیں،

 

۲۹۹

 

آپ کو شاید اس بات سے بڑا تعجّب ہوگا کہ آپ کی اپنی باطنی قوّتیں ہی جنّات اور فرشتے ہیں، دران حالے کہ آپ اپنی ذات میں ایک مکمّل عالم یعنی عالمِ شخصی ہیں۔

سوال – ۳۹۹: سُورۂ حشر (۵۹: ۲۱) میں ارشاد ہے: (ترجمہ) اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر (بھی) نازل کرتے تو تم اس کو دیکھتے کہ خدا کے ڈر سے دب جاتا اور ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ جملہ حکمتیں پہلے عالمِ شخصی میں اور آخراً حظیرۂ قدس میں جمع ہوجاتی ہیں، چنانچہ مذکورہ مثال کے پیشِ نظر آپ یہ بتائیں کہ عالمِ شخصی میں پہاڑ کہاں ہے؟ – جواب: (۱) کسی شک کے بغیر عالمِ شخصی میں دو پہاڑ ہیں: طُورِ روح اور طُورِعقل (۲) حضرتِ موسٰیؑ کے یہ دونوں طُور اللہ تعالیٰ کی تجلّی سے ریزہ ریزہ ہوگئے تھے، مگر یاد رہے کہ خدا کے نور (تجلّی) سے اس کی کتاب الگ نہیں ہے، چنانچہ قرآن کے نورِ باطن نےعالمِ شخصی کے دونوں پہاڑوں کو پاش پاش کردیا ہے۔

سوال – ۴۰۰: حال ہی میں ایک عزیز شاگرد نے سوال کیا: جنابِ اُستاذ! براہِ کرم آپ ہمیں یہ سمجھائیں کہ زلزلۂ قیامت کیا ہے؟ یہ ظاہر میں ہے یا باطن میں؟ آپ سورۂ حج کی دو ابتدائی آیتوں (۲۲: ۰۱ تا ۰۲) کی حکمتی وضاحت کریں؟ – جواب: (۱) زلزلۂ قیامت میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں، یقیناً یہ انتہائی شدید زلزلہ (بھونچال) ہے (۲) چونکہ

 

۳۰۰

 

قیامت باطنی اور روحانی واقعہ ہے، اس لئے زلزلۂ قیامت بھی باطنی ہے (۳) زلزلۂ قیامت کی سختی ایسی ہے کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچّے کو بھول جائے گی، اس کی تاویل یہ ہے کہ قیامت کے دَوران کوئی اُستاد اپنے شاگردوں کو تعلیم نہیں دے سکتا ہے (۴) ارشاد ہے کہ ساری حاملہ عورتیں اپنے اپنے حمل گرادیں گی، تاویل ہے کہ اُس دَوران ہر اُستاد کی روح بار بار قبض کی جاتی ہے (۵) فرمایا گیا ہے کہ اس وقت لوگ مست نظر آئیں گے، حالانکہ وہ مست نہیں ہیں، بلکہ غفلت اور اللہ کے سخت عقلی عذاب کی وجہ ہے۔

 

۳۰۱

 

صندوقِ جواہر۔ ۸

 

سوال – ۴۰۱:  کہتے ہیں کہ بعض ہستیاں خدا کے حکم سے بہشت کی انتہائی طویل زندگی بسر کر کے دنیا میں آتی ہیں، کیا یہ تصوّر درست ہے؟ اگر درست ہے تو قرآنِ حکیم میں اس کی کیا شہادت ہے؟ – جواب: (۱) اس کی مشہور گواہی یہ ہے کہ آدم و حوّا اور ان کے تمام ساتھی بہشت کی کُلّی زندگی کے بعد دنیا میں آئے (۰۲: ۳۸) اور ہر آدم کی سرگزشت اسی طرح کی ہے (۳) سُورۂ یٰسٓ (۳۶: ۲۸) میں ہے: اور جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کو (عالمِ امر سے عالمِ ) خلق میں سرنگون کردیتے ہیں، یعنی ایسے شخص کا تصوّر اوندھا ہوجاتا ہے جو عالمِ عُلوی سے عالمِ سِفلی کی طرف آرہا ہو (۴) ہر چیز ایک دائرے پر گردش کررہی ہے، اس قانون کا تعلّق انسان سے بھی ہے۔

سوال – ۴۰۲:  ارشاد (۳۶: ۲۷) کا ترجمہ ہے: اور اگر ہم چاہیں تو انہیں ان کی جگہ پر ہی مسخ کر دیں کہ نہ تو وہ آگے کو سفر جاری رکھ سکیں اور نہ ہی پیچھے کی طرف پلٹ سکیں۔ مسخ کیا ہے؟ خدا کسی آدمی

 

۳۰۲

 

کو کیوں اور کس طرح مسخ کرتا ہے؟ – جواب: (۱) مسخ = اچھّی صورت بدل کر بری صورت ہوجانا، جیسے آدمی کی صورت سے بندر یا دیگر حیوان کی صورت میں ہوجانا (۲) یہ مسخ ظاہری نہیں، بلکہ باطنی ہے جب کوئی انسان نافرمانی کے سبب سے صفاتِ دینداری سے خالی ہوجاتا ہے، تو اس میں کسی ادنیٰ جانور کی روح آکر رہنے لگتی ہے، (۳) ایسی روح اس شخص کی گری ہوئی عادت کے مطابق ہوا کرتی ہے، جبکہ تمام جانوروں کی عادتیں الگ الگ ہوتی ہیں۔

سوال- ۴۰۳: کیا آپ قرآنِ حکیم کا کوئی ایسا حوالہ دے سکتے ہیں، جس سے ہم مذکورۂ بالا حقیقت کو با آسانی سمجھ سکیں؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۹) میں غور سے دیکھ لیں، ترجمہ: اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جِنّ اور انسان ایسے ہیں، جن کو ہم نے جہنّم ہی کے لئے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کےپاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔ (۲) پس ایسے لوگ یقیناً انسان نُما حیوان ہیں، جس کی وجہ علم و آگہی کا فقدان ہے، جو غفلت کی وجہ سے ہے، اور غفلت اس لئے پیدا ہوئی کہ انہوں نے اپنے حواسِ ظاہر سے کام نہیں لیا۔

 

۳۰۳

 

سوال – ۴۰۴: یہ حقیقت سب پر روشن ہے کہ قرآنِ حکیم کے عظیم الشّان اور مبارک مضامین الگ الگ ہیں، اس کے باوجود اہلِ بصیرت کے لئے یہ بہت بڑا معجزہ ہے کہ ہر اعلیٰ مضمون سرتا سر قرآن میں پھیل جاتا ہے، اس حقیقتِ حال کے پیشِ نظر آپ یہ بتائیں کہ ہر قرآنی مضمون کے باطن میں علم و حکمت کا مضمون مخفی ہے یا نہیں؟ جواب مُدلّل ہو- جواب: (۱) حقیقت یہی ہے کہ قرآن کا ہر مضمون ظاہراً ایک مخصوص بیان کا حامل ہوتا ہے، اور باطناً علم و حکمت کا گنجینہ ہوتا ہے (۲) اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے (۳) نیز قرآن کا ہر مضمون نورٌعلیٰ نور کے قانون کے مطابق ہے، یعنی بیرونی نور اندرونی نور پر حجاب ہے، لوگ حجاب کو تو دیکھتے رہتے ہیں مگر محجوب کو نہیں دیکھ سکتے۔

سوال – ۴۰۵: اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے اوپر طُور (پہاڑ) کو معلّق کیا تھا، حوالہ جات: سورۂ بقرہ (۰۲: ۶۳، ۰۲: ۹۳) سورۂ نِساء (۰۴: ۱۵۴) سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۱) آپ بتائیں کہ اس مثال کی باطنی حکمت کیا ہے؟ – جواب: (۱) خدائے بزرگ و برتر کی عِنایت بے نہایت سے قرآنِ عظیم کے تمام زندہ معجزات بغرضِ تاویل و معرفت عالمِ شخصی میں جمع ہو کر بعد ازان حظیرۂ قدس میں مرکوز ہوجاتے ہیں (۲) چُنانچہ قرآنِ پاک میں جتنی مثالیں اور تذکرے پہاڑ (طُور = جَبَل) کے عنوان سے ہیں، ان کا تعلّق کُوہِ روح اور کُوہِ عقل سے ہے، (۳) جو لوگ عالمِ شخصی کے

 

۳۰۴

 

اسرار سے واقف و آگاہ ہیں، وہ یقیناً آپ کو بتا سکتے ہیں کہ جبلِ روح اور جبلِ عقل کیا کیا مظاہرے کرتے ہیں، اور کس طرح سروں کے اوپر معلّق ہوسکتے ہیں، آپ آیاتِ جِبال کو پڑھیں۔

سوال – ۴۰۶: قرآنِ حکیم ( ۱۹: ۲۶) میں روزۂ مریم کا تذکرہ ہے، آپ کےنزدیک اس میں کیا حکمت ہے؟ اس کا انفرادی اور اجتماعی فائدہ کیا ہے؟ – جواب: (۱) روزۂ مریم سے متعلّق آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: پھر اگر کوئی آدمی تجھے نظر آئے تو اس سے کہہ دے کہ میں نے رحمان کے لئے روزے کی نذرمانی ہے، اس لئے آج میں کسی سے نہ بولوں گی (۲) اس سے تقیّہ مراد ہے، یعنی دین کے خاص اور اعلیٰ اسرار کو بیان نہ کرنا، اس میں انفرادی اور اجتماعی امن و سلامتی کا فائدہ ہے۔

سوال – ۴۰۷:  حق و صداقت اور علم و حکمت کی گواہی کو چُھپانا بہت بڑا ظلم ہے (۰۲: ۱۴۰) اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ – جواب: (۱) چویابی محرمے با اوبگو فاش + ولیکن راز پنہان کُن زا وباش۔ (۲) آپ قرآن و حدیث کی حکمت کی زبان میں اپنی شہادتوں کو بیان کرسکتے ہیں، آپ کے لئے یہی بہترین طریقہ ہے، اور یہ سب سے اعلیٰ علمی خدمت ہے۔

سوال – ۴۰۸: کتابِ دعائم الاسلام، عربی، جلدِ اوّل، ص ۵۳

 

۳۰۵

 

پر یہ روایت ہے کہ مولا علی علیہ السّلام نے قرآنِ پاک کے بارے میں فرمایا: ظاہرہُ عملٌ موجوبٌ، و باطنہُ علمٌ مکنونٌ محجوبٌ، و ھو عِندنا معلومٌ مکتوبٌ۔ اس کی حکمت سے ہمیں آگاہ کریں۔ – جواب: (۱) ترجمہ: اِس کا ظاہر واجبی اور لازمی عمل ہے، اور اس کا باطن پوشیدہ اور درپردہ علم ہے، اور وہ ہمارے پاس معلوم اور لکھا ہوا ہے، (۲) قرآن کے ظاہر پر عمل کرنا آسان ہے، مگر اس کا باطنی علم بیحد مشکل بلکہ غیر ممکن ہے، مگر نورِ منّزل (۰۵: ۱۵) کے وسیلے سے، اور وہ نور امام زمان علیہ السّلام ہے (۳) لفظِ مکنون اس لئے ہے کہ قرآن کتابِ مکنون میں ہے، اور محجوب کا یہ اشارہ ہے کہ اللہ حجاب کے پیچھے سے کلام کرتا ہے، لہٰذا جس طرح تنزیل کے حجاب میں تاویل ہے، اس کی بہت بڑی اہمیّت ہے۔

سوال – ۴۰۹: مذکورہ کتاب میں حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام سے یہ حدیثِ شریف مروی ہے: من مات لا یعرف امام دھرہٖ حیّاً مات مِیتۃً جاھلیّۃً = جو شخص مرجاتا ہے درحالے کہ اس نے اپنے زمانے کے زندہ امام کو نہیں پہچانا تھا تو وہ شخص جاہلیّت کی موت مر جاتا ہے۔ سوال ہے کہ اس ارشاد میں خدا و رسولؐ کی معرفت کا ذکر کیوں نہیں؟ آیا ہر زمانے میں امامؑ حاضر اور موجود ہوتا ہے؟ جاہلیّت کی موت کیوں؟ – جواب: (۱) خدا اور اس کے برحق رسولؐ ہی کی معرفت کی غرض سے امامِ زمانؑ کی معرفت ازحد ضروری ہے (۲) امام

 

۳۰۶

 

نورِ خدا ہے، اس لئے وہ ہمیشہ موجود و حاضر ہے (۳) امامِ زمانؑ پیغمبرِ اکرمؐ کا دورازہ ہے، لہٰذا جس کو بابِ نبیؐ کی معرفت حاصل نہ ہو، اس کو بحقیقت نبیؑ کی معرفت نہیں ہوتی ہے۔

سوال -۴۱۰: دعائم الاسلام، عربی، جلدِ دوم، کتاب الوصایا میں دیکھیں: رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے اپنی وصیّت میں حضرتِ علی علیہ السّلام سے یہ بھی فرمایا تھا: والرّابعۃُ کثرۃُ البکاء لِلّٰہِ یُبنی لک بکُلِّ دمعۃ الفُ بیتٍ فی الجنّۃ = اور چوتھی وصیّت یہ ہے کہ تُو خدا کے لئے کثرت سے رویا کر تاکہ وہ تیرے لئے ہر قطرۂ اشک کے عوض جنّت میں ہزار گھر بنا دے۔ آپ کثرۃ البکاء کی چند حکمتیں بیان کریں – جواب: (۱) رسول پاک صلعم کی یہ مبارک وصیّت امیر المومنین علیؑ کے توسّط سے اہلِ ایمان کے لئے ہے (۲) گریہ وزاری میں عبادت کے بہت سے معانی جمع ہیں (۳) یہ عشقِ الٰہی کا خزانہ ہے (۴) اسی سے دل و جان کی پاکیزگی ہوتی ہے (۵) یہی حقیقی توبہ ہے (۶) یہی پیغمبرانہ اور اولیائی دعا و مناجات ہے (۷) اسی کو خوفِ خدا کہتے ہیں (۸) اسی سے روحانی ترقّی کا دروازہ کُھل جاتا ہے (۹) الغرض گریہ وزاری میں بےشمار فائدے ہیں۔

 

۳۰۷

 

صندوقِ جواہر ۔ ۹

 

سوال – ۴۱۱: آپ گریہ وزاری کو روحانی سائنس کی بنیاد قرار دیتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟ – جواب: (۱) کیونکہ اس سے روح میں ایک خوشگوار تبدیلی آتی ہے اور یہیں سے روحانی سائنس کا تجربہ شروع ہوجاتا ہے (۲) روحانی سائنس کا راستہ خود شناسی سے الگ نہیں، پس جو چیز حصولِ معرفت کے لئے مفید ہے، وہی روحانی سائنس کے لئے بھی مفید ہے (۳) جس طرح دودھ میں مکھن موجود ہے، مگر وہ نظر نہیں آتا، تا آنکہ اس کو نہ ہلایا جائے، اسی طرح آپ کے بدن (خلّیات) میں جسمِ لطیف بحدِّ قوّت موجود ہے، جس کو گریہ وزاری، اور علم و عبادت سے حدِّ فعل میں لایا جاسکتا ہے۔

سوال – ۴۱۲: سُورۂ یوسف (۱۲: ۱۰۵) میں دیکھیں: آسمانوں اور زمین میں کتنی نشانیاں ہیں جن پر یہ لوگ گزرا کرتے ہیں اور ان سے مُنہ پھیرتے رہتے ہیں۔ کیا آپ اس کی حکمتوں میں سے کچھ بتا سکتے ہیں؟ – جواب: (۱) اگر خدواندِ قدّوس کی بارگاہِ عالی سے ہمیں مدد ملتی ہے تو کچھ بیان ہوسکتا ہے (۲) کتابِ کائنات کی آیات بےحّد و

 

۳۰۸

 

بے شمار ہیں، ہر آیت خدا کی تعریف و تسبیح کے ساتھ ساتھ اس کی قدر کی آئینہ داری کرتی ہے، ہر شَیٔ (آیت) اپنی نوعیت کا ایک اعجوبہ ہے (۳) اس کائنات میں کونسی چیز ایسی ہے جو چشمِ بصیرت کےسامنے ازبس عجیب و غریب، حیران کُن اور ہوشرُبا نہ  ہو (۴) ان بے شمار حیرت انگیز اور مسحور کُن اشیاء میں سے مثال کے لئے کس شَیٔ کا انتخاب کریں، چلیں ٹھیک ہے، عجائباتِ قدرت میں سے بطورِ نمونہ اس پروانے کو لیتے ہیں جو ریشم کے کیڑے سے پیدا ہو جاتا ہے۔ (۵) کتنی تعجّب خیز اور قابلِ غور بات ہے کہ ریشم کے کیڑے سے پروانہ پیدا ہوتا ہے، اور پھر پروانے سے کیڑا وجود میں آتا ہے، کیا اس میں فطرت کا کوئی عظیم راز پنہان نہیں ہے؟ (۶) یقیناً اس میں دائرۂ اعظم کا راز ہے جو انسان کے لئے مقرّر ہے۔

سوال -۴۱۳:  سُورۂ مُلک (۶۷: ۱۹) کے حوالے سے سوال ہے: آیا پرندے کا اُڑنا قدرتِ خدا کی خاص نشانیوں میں سے ہے؟ پرندے کی کون کونسی حرکات معجزاتی ہیں؟ مرغِ خانگی کبوتر کی طرح کیوں پرواز نہیں کرسکتا ہے؟ – جواب: (۱) کیوں نہیں، جبکہ قرآنِ پاک بطورِ خاص اس چیز کا ذکر فرماتا ہے (۲) پرندوں کا ہوا کے سمندر کو چیرتے ہوئے اُوپر کی طرف اُڑنا بڑا عجیب ہے (۳) بڑے بڑے وزنی پرندوں کا پر پھیلائے ہوئے پرواز کرنا زیادہ تعجّب خیز ہے، پرواز کی خاصیّت دراصل پرندوں کی روح میں پوشیدہ ہُوا

 

۳۰۹

 

کرتی ہے (۴) مرغِ خانگی اور گھریلو بطخ سے پرواز کی صلاحیّت چِھن گئی ہے، اس وجہ سے کہ وہ جنگل کی آزادی سے گھر میں لاکر قید کئے گئے، اور یہ اشارہ انسان کے لئے کہ وہ بہشت میں تو پرواز کرتا تھا، مگر دنیا میں آنے سے اس کی یہ قوّت غائب ہوگئی۔

سوال – ۴۱۴:  نفسِ واحدہ کون ہے؟ آیا نفسِ واحدہ ہر زمانے میں ہوتا ہے؟ یہ لوگوں کے لئے کیا کیا مفید امور انجام دیتا ہے؟ – جواب: (۱) سب سے اوّلین نفسِ واحدہ حضرتِ آدمؑ تھا، ہر پیغمبر اور ہر امام نفسِ واحدہ کا مرتبہ رکھتا ہے، لہٰذا ہر زمانے کا امام نفسِ واحدہ ہوتا ہے (۲) لوگوں کی روحانی پیدائش اور قیامتِ روحانی نفسِ واحدہ میں ہوتی ہے، کیونکہ لوگ نہ تو ازخود روحانی طور پر پیدا ہوسکتے ہیں اور نہ ہی قیامت کی سختیوں کو برداشت کرسکتے ہیں، لہٰذا خداوندِ عالم نے تمام انسانوں کی روحانی تخلیق و بعث کو نفسِ واحدہ میں رکھا ہے۔

سوال – ۴۱۵: آیۂ نجوٰی کس سُورہ میں ہے؟ اس میں کس خاص عمل کا حکم ہے؟ – جواب: (۱) یہ آیۂ شریفہ سورۂ مُجادلہ (۵۸: ۱۲) میں ہے (۲) جس کا ترجمہ یہ ہے: اے ایمان لانے والو! جس وقت تم چاہو کہ رسولِ خداؐ کے ساتھ نجوٰی (راز کی بات) کرو تو اس سے پہلے صدقہ دیا کرو، یہ تمہارے لئے بہتر اور زیادہ پاکیزہ بات ہے ……..

 

۳۱۰

 

(۳) یقیناً اللہ تعالیٰ کے اِس فرمانِ اقدس میں کوئی عظیم راز ہوگا، لیکن حضرتِ علی علیہ السّلام کے سِوا اس پر کسی نے عمل نہیں کیا، کیونکہ صدقہ بھاری لگتا تھا (۵۸: ۱۳) میرا عقیدہ ہے کہ پیغمبرِ اکرمؐ سے تنہائی میں ملاقات یا سرگوشی کا مقصد اسمِ اعظم کا راز بھی ہوسکتا ہے (۴) کیونکہ آیۂ شریفہ کے یہ خاص الفاظ بڑے دور رس معنی رکھتے ہیں: ذٰلِکَ خَیْرٌلَّکُمْ وَاَطْھَرُ ( یہ تمہارے لئے بہتر اور زیادہ پاکیزہ بات ہے)۔

سوال – ۴۱۶: آپ نے کہا تھا کہ فرشتہ اور روح واحد بھی ہے اور جمع بھی، وہ روحانی لشکر کا ایک فرد بھی ہے، لشکر بھی، اور عسکر سے بھرا ہوا قلعہ بھی ہے، آپ ان ضروری نکات کی وضاحت کریں کہ فرشتہ یا روح میں یہ عجائب و غرائب کیون کر ہوسکتے ہیں؟ – جواب: (۱) چونکہ روحِ کامل اور فرشتہ ایک ہے، جو عالمِ امر سے ہے، یعنی وہ کلمۂ امر (کُنۡ) کے تحت ہے، لہٰذا اس میں “ہوجا” کے فرمان پر سب کچھ ہو جانے کی صلاحیّت موجود ہے (۲) اس کی مثال انسانی شخصیّت میں دیکھی جاسکتی ہے، چنانچہ جب آپ اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ “میں ایک شخص ہوں”  تو ظاہراً درست کہتے ہیں، مگر باطنی حقیقت اس کے برعکس ہے، جبکہ آپ ایک کائنات ہیں، جس میں سب کچھ ہے، مگر بحدِّ قوّت۔

سوال -۴۱۷: بیانِ بالا کی مدد سے قرآنِ عظیم کی کوئی بہت بڑی حکمت سمجھا دیں – جواب: (۱) سُورۂ فجر (۸۹: ۲۲) میں ارشاد ہے:

 

۳۱۱

 

وَجآَءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفّاً صَفّاً = تمہارا ربّ جلوہ فرما ہوگا اور فرشتے صف در صف آئیں گے (۲) اس آیۂ کریمہ کا تعلّق عالمِ شخصی کے دو مقام سے ہے، اوّل مقامِ روح، جہاں یہ معجزہ عالمِ کثرت کے مطابق ہوگا، دوم مقامِ عقل (حظیرۂ قدس) جس میں یہ معجزہ عالمِ وحدت کے مطابق ظاہر ہوگا، یعنی ایک ہی نور کی مظہریّت میں سب کچھ ہوگا (۳) بہت بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہمارے دانشمند ساتھی مقامِ وحدت کے اسرار کو جانتے ہیں، مثال کے طور پر اللہ نور ہے، انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام نور ہیں، فرشتے نور ہیں، اور مومنین ومومنات بھی آگے چل کر نور ہوجاتے ہیں (۵۷: ۱۲، ۵۷: ۱۹، ۶۶: ۰۸) یہ نور دراصل خدائے واحد کا ہے، جس میں سب فنا ہو جاتے ہیں۔

سوال – ۴۱۸: قصّۂ موسٰی کے حوالے سے سوال ہے کہ مجمع البَحرین  (۱۸: ۶۰) ظاہراً کیا ہے اور باطناً کیا ہے؟ وہ خدا کا خاص بندہ، جس کے پاس علمِ لَدُنّی کا بہت بڑا خزانہ تھا، دو دریاؤں کے سنگم پر کیوں سکونت پذیر ہُوا تھا؟ وہ روایات میں کس نام سے مشہور ہے؟ – جواب: (۱) مجمع البَحرین ظاہر میں دو دریاؤں کے سنگم کو کہتے ہیں، جس سے باطن میں دو علمی دریاؤں کا سنگم مراد ہے، اور وہ کئی مقامات پر ہے (۲) ذرّۂ مادّہ اور روح کا سنگم (۳) ظاہرو باطن کا سنگم (۴) تنزیل و تاویل کا سنگم (۵) شرّو خیر کا، جِنّ و فرشتے کا سنگم (۶) ناطق اور اساس کا سنگم (۷) عقلِ کلّ اور نفسِ کُلّ کا سنگم، وغیرہ (۸) خدا کا وہ

 

۳۱۲

 

خاص بندہ علم کے ہر سنگم پر رہنمائی کرتا رہتا ہے (۹) وہ روایات میں خِضر کے نام سے مشہور ہے، الخِضْر و الخَضِرْ = سبز، ہرا (یعنی سدا بہار اور ہمیشہ زندہ، جس سے امامِ زمانؑ مراد ہے)۔

سوال – ۴۱۹: عالمِ ذرّ کہاں ہے؟ ذرّ کے کیا معنی ہیں؟ عالمِ ذرّ کی تعریف کریں۔ – جواب: (۱) عالمِ ذرّ عالمِ دین میں ہے، جس کی معرفت عالمِ شخصی میں حاصل ہوتی ہے (۲) الذّر کے معنی ہیں: چھوٹی چیونٹیاں، کرمک، ہوا میں مُنتشر غبار، اس سے خلائق کے ذرّاتی نفوس مراد ہیں (۳) عالمِ ذرّ کی تعریف یہ ہے کہ اس کی ہر ہر چیز بشکلِ ذرّہ موجود ہے، اور وہ ذرّہ اتنا چھوٹا ہے کہ کوئی بشری آنکھ اسے دیکھ ہی نہیں سکتی، اور نہ ہی کسی سائنسدان نے ابتک اسے دیکھ لیا ہے، مگر یہ ہے کہ اہلِ معرفت نے عالمِ ذرّ کو دیکھا اور پہچان لیا ہے، جس کا مختصر بیان یہ ہے کہ عالمِ ذرّ کے لوگ ذرّاتی ہیں، فرشتے، جِنّات، چرند، پرند، ثمرات، وغیرہ تمام چیز یں ذرّاتی ہیں۔

سوال – ۴۲۰: آپ نے بفضلِ خدا اپنے بے مثال اُستادِ روحانی (امامِ آلِ محمّدؐ) کی مدد سے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ یا جوج ماجوج ذرّاتی مخلوق ہیں، کیا آپ قرآنِ پاک کے حوالے سے لشکرِ یاجوج ماجوج کا کچھ تذکرہ کریں گے؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ العزیز، سُورۂ انبیاء (۲۱: ۹۵ تا ۹۶) میں ہے = اور ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو

 

۳۱۳

 

ہم نے ہلاک کردیا ہو وہ پھر رجوع کرے، یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں گے (۲) ہر زمانے میں لوگوں کی بہت بڑی اکثریت گمراہی کی وجہ سے روحانی طور پر ہلاک ہوجاتی ہے، اور وہ رجوع نہیں کرسکتی ہے، یہاں تک کہ امامِ زمانؑ کے توسّط (۱۷: ۷۱) سے قیامت کا آغاز ہوتا ہے، اور تمام حدودِ دین (حَدَبْ) سے یاجوج و ماجوج نکل کر قیامتی لشکر کا کام کرنے لگتے ہیں، تب ہی بہت کم لوگ خوشی سے اور اکثرلوگ زبردستی کے تحت رجوع کرتے ہیں۔

 

۳۱۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۰

 

سوال – ۴۲۱: سُورۂ یٰسٓ (۳۶: ۰۹) ہم نے ایک دیوار ان کے آگے بنا دی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے پھر اوپر سے ان کو ڈھانک دیا ہے تو وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے۔ آپ اس کی تاویلی حکمت بیان کریں۔ – جواب: (۱) ان کے آگے / مستقبل کی طرف دیوارِ جہالت کھڑی ہے، اسی طرح ان کے پیچھے / ماضی کی طرف بھی دیوارِ نادانی ہے، اور ان کا زمانۂ حال بھی تاریک ہے، کیونکہ اوپر سے نور کی روشنی نہیں آتی ہے، جبکہ یہ لوگ ڈھانکے ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ منکرین گویا آفاق و انفس کی آیات سے اندھے ہیں (۲) اس سے اہلِ بصیرت کی عظیم سعادت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کی نگاہ کے سامنے کوئی دیوار نہیں، اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدۂ پاک کے مطابق ان کو آفاق و انفس میں آیات (معجزات) دکھاتا ہے۔

سوال – ۴۲۲: مذکورۂ بالا سُورۂ مبارکہ (۳۶: ۱۲) میں ہے: اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتیٰ وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَھُمْ ط وَکُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ۔ معلوم ہے کہ آپ اکثر اس آیۂ کریمہ کے

 

۳۱۵

 

آخری حصّے کا حوالہ دیتے ہیں، لیکن آج ضرور پوری آیت کی مربوط حکمت بیان کریں، تاکہ اس سے سب کو بہت بڑا عرفانی فائدہ حاصل ہو – جواب: (۱) جب امامِ زمانؑ کے توسّط سے روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے تو دنیا بھر کے لوگ ذرّات کی شکل میں آکر امام کی شخصیّت میں فنا ہوجاتے ہیں، اور خدا ان ذرّات کو امامِ مبین ہی میں زندہ کرتا ہے، اور ان کے تمام اعمال و آثار کو اسی میں محفوظ اور ریکارڈ کرتا ہے، (۲) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو امامِ مبینؑ میں گھیر کر اور گِن کر رکھا ہے (۳) اس سے معلوم ہوا کہ اس آیۂ شریفہ کا آخری حصّہ پہلے حصّے کی تفسیر ہے، کیونکہ مُردوں کو زندہ کرنے اور ان کے اعمال و آثار کو لکھنے کا خدائی کام امامِ مبین ہی میں ہوتا رہتا ہے۔

سوال – ۴۲۳: سورۂ عادیات (۱۰۰: ۰۱ تا ۰۵) میں دیکھ لیں، سرپٹ دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم جو نتھنوں سے فراٹے لیتے ہیں، پھر پتّھر پر ٹاپ مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں، پھر صبح کو چھاپہ مارتے ہیں، اور غبار بلند کرتے ہیں، پھر اس وقت (دشمن کے) دَل میں گھس جاتے ہیں۔ اس میں کیا کیا تاویلی اسرار ہیں؟ – جواب: (۱) جب رات کی تاریکی میں کوئی سالک نفس پر دباؤ ڈالتے ہوئے ذکرِ سریع کرتا رہتا ہے، اور یہی ریاضت جاری رکھتا ہے تو اس حال میں تحلیلِ نفس کی وجہ سے چنگاریاں نکلتی ہیں، (۲) روحانی جہاد کی فتح و کامیابی اکثر صبح نورانی وقت میں ہوتی ہے (۳) خوب یاد رہے کہ جو شخص کاہلی اور سُستی کے ساتھ عبادت

 

۳۱۶

 

کرتا ہے، وہ ذکر وعبادت کے معجزات سے دور رہتا ہے، خداوندِ قدّوس سب کو عاشقانہ عبادت کی توفیق عنایت فرمائے!

سوال – ۴۲۴: حروفِ مُقَطَّعات میں سے حٰمٓ کی تاویلی حکمت کیا ہے؟ کونسی سورتیں سُوَرِ حوامیم کہلاتی ہیں؟ ایسی سورتیں کتنی ہیں، اور کون کونسی ہیں؟ – جواب: (۱) حٰمٓ کی تاویل یہ ہے: قسم ہے الحیّ کی (اور) قسم ہے القیّوم کی۔ جس سے حجّتِ قائم اور حضرتِ قائم مراد ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے دو بزرگ ترین اسم ہیں، نیز ح م کی عددی تاویل ۴۸ ہے (۲) سُورۂ حوامیم وہ سورتیں ہیں جو ح م سے شروع ہوجاتی ہیں وہ سات ہیں: ۴۰: ۰۱، ۴۱: ۰۱، ۴۲: ۰۱، ۴۳: ۰۱، ۴۴: ۰۱، ۴۵: ۰۱، ۴۶: ۰۱، یہ ہے حٰمٓ کی تاویلی حکمت بفضلہ وَمَنِّہٖ۔

سوال – ۴۲۵: سُورۂ شورٰی (۴۲: ۰۱ تا ۰۲) میں ہے: حٰمٓ۔ عٓسٓقٓ۔ آپ ان حروفِ مُقَطَعات کی تاویل بیان کریں – جواب: (۱) اس کی تاویلات میں سے ایک اس طرح سے ہے: قسم ہے الحیّ کی، قسم ہے القیّوم کی۔ قسم ہے چشمۂ بہشت کی (عَین = چشمۂ مُقرّبین ۸۳: ۲۸) قسم ہے چشمۂ سلسبیل کی (۷۲: ۱۸) قسم ہے کوہِ قاف کی (۵۰: ۰۱، روحانیّت میں ایک عجیب و غریب صاف و شفاف شیشہ جیسا پہاڑ ہے، جس پر ایسے بہت سے الفاظ مرقوم ہیں کہ ہر لفظ کے آخر میں ق آیا ہے )۔

عٓسٓقٓ کی دوسری تاویل یہ ہے: قسم ہے عشق کی۔ یعنی عشقِ سماوی

 

۳۱۷

 

کی، جو بڑا مقدّس اور وسیلۂ قربِ الٰہی ہے، اور یہ تاویل اس قاعدے کے مطابق ہے کہ قرآن سات حرفوں یعنی سات قرأتوں پر نازل ہُوا ہے (جامِع ترمذی، جلدِ دوم، ابواب القرأت)۔

سوال – ۴۲۶: سُورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۳۳) اور سورۂ حدید (۵۷: ۲۱) کے حوالے سے سوال ہے کہ آیا حصولِ جنّت کے لئے دوڑنے اور ایک دوسرے سے سبقت کرنے کی ضرورت ہے؟ کیوں؟ کیا جنّت کاعرض کائنات کے عرض کا سا ہے؟ اس کے طول کا ذکر کیوں نہیں؟ – جواب: (۱) جی ہاں، جنّت حاصل کرنے کے لئے دوڑنا اور سبقت لے جانا ضروری ہے، (۲) کیونکہ جو لوگ اس عمل میں سب سے سابق ہوجائیں، ان کو زندہ بہشت بنانا ہے (۳) جی ہاں، جنّت کا عرض خود بہشت کا عرض ہے، کیونکہ کائنات بہشت کا ظاہری جسم ہے (۴) بہشت کے طول کا ذکر اس لئے نہیں کہ جو چیز گول ہوتی ہے، اس کا طول و عرض ایک ہی ہوتا ہے۔

سوال – ۴۲۷: سُورۂ نمل (۲۷: ۱۷) میں ارشاد ہے: اور سلیمان کے لئے اس کے جِنّوں، انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے اور ان کو قسم وار ترتیب دیا جاتا تھا۔ آپ اس کی تاویل بیان کریں – جواب: (۱) اِس آیۂ شریفہ میں قیامت کا حربی پہلو نمایان ہے، کیونکہ قیامت دینِ حق کی آخری دعوت بھی ہے، اور روحانی جہاد بھی (۲) حضرتِ سیلمان علیہ السّلام کو مرتبۂ امامت حاصل تھا، لہٰذا وہاں زمانے

 

۳۱۸

 

کی روحانی قیامت بھی تھی، اور تمام لشکر روحانی ذرّات کی شکل میں تھے۔

سوال – ۴۲۸: سُورۂ یُونُس (۱۰: ۱۰۰) میں ارشاد ہے: وَیَحْعَلُ الرِّجْسَ عَلیَ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ۔ اور اللہ تعالیٰ بے عقل لوگوں پر گندگی واقع کردیتا ہے۔ یہ کس نوعیّت کی بے عقلی کی اتنی سخت مذمّت ہے کیا اس فیصلے سے دینی عقل کی خود بخود بہت بڑی تعریف نہیں ہے؟ آیا اعلیٰ سے اعلیٰ پاکیزگی عقل ہی سے ہوتی ہے؟ – جواب: (۱) دینی حقائق و معارف کی طرف سے جاہل و نادان رہنے کی شدید مذّمت کی گئی ہے (۲) یقیناً اس حکم سے دینی عقل و حکمت کی بہت بڑی تعریف ثابت ہوتی ہے (۳) نہیں، اعلیٰ سے اعلیٰ پاکیزگی عقل و دانش ہی سے حاصل ہوتی ہے۔

سوال – ۴۲۹: آپ قرآنِ حکیم سے کوئی ایسا کُلّیّہ بتائیں، جس کے پیشِ نظر ہم یقین کرسکیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہر نعمت عطا کرنے والا ہے، اور اس کی رحمت میں کوئی چیز ناممکن نہیں۔ – جواب: (۱) آپ آیۂ خزائن (۱۵: ۲۱) کو غور سے پڑھیں (۲) آپ کُلّیّۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) میں خوب سوچین (۳) فنا فی اللہ و بقا باللہ سب سے بڑی یقینی حقیقت ہے، اس حال میں کونسی نعمت ناممکن ہوسکتی ہے (۴) ہزار حکمت کی اوّلین حکمت کو دیکھیں (۵) بہشت کی بادشاہی میں کوئی بھی عظیم نعمت غیر ممکن نہیں۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

۳۱۹

 

سوال -۴۳۰: مشہور حدیثِ قدسی ہے: کُنْتُ کَنْزاً مَّخفِیّاً، فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ، فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِکَیْ اُعْرَفَ۔ خداوندِ قدّوس نے فرمایا: میں چُھپا ہوا خزانہ تھا، پس میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، پھر میں نے خلق (عالمِ شخصی) کو پیدا کیا تاکہ میں پہچانا جاؤں۔ آیا یہ ترجمہ درست ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، درست ہے، کیونکہ خدا کی معرفت کا مقصد صرف عالمِ شخصی کی جسمانی، روحانی، اور عقلانی تخلیق ہی سے حاصل ہوتا ہے، (۲) جبکہ معرفت کا تعلّق عارف سے ہے، جبکہ ارشادِ من عرف کے مطابق حضرتِ ربّ کی معرفت انسان کی خود شناسی میں ہے (۳) چُنانچہ حدیثِ شریف ہے: اعرفکم بنفسہٖ اعرفکم بربّہ = تم میں جو شخص اپنی روح کو سب سے زیادہ پہچانتا ہے وہی تم میں سے اپنے پروردگار کو سب سے زیادہ پہچانتا ہے۔

 

۳۲۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۱

 

سوال – ۴۳۱: بحوالۂ سُورۂ انبیأ (۲۱: ۹۱) سوال ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مریمؑ اور ابنِ مریمؑ (حضرتِ عیسٰیؑ) کو عالمین کے لئے ایک آیت (نشانی، معجزہ) بنایا ہے، اس میں کیا حکمت ہے؟ ماں بیٹے کو ملا کر ایک ہی آیت قرار دینے میں کیا راز ہے؟ حضرتِ مریمؑ اور حضرتِ عیسیٰؑ کے روحانی معجزات کو کس درجے کے لوگ دیکھ سکتے ہیں یا سُن سکتے ہیں؟ دنیا والے یا عالمِ شخصی کے عارفین؟ – جواب: (۱) اِس مثال میں بہت سی حکمتیں ہیں (۲) حضرتِ مریمؑ صِدّیقہ اور ولیّہ تھی، اس لئے وہ اَولیاء کے مختلف درجات کی مثال ہے، اور خواتین کی روحانی ترقّی کی بھی، اور حضرتِ عیسیٰؑ میں انبیاء کا نمونہ ہے، پس اللہ تعالیٰ نے ان دونوں عظیم ہستیوں کو ایک ہی آیت قرار دے کر یہ اشارہ فرمایا ہے کہ انبیاء و اولیاء کا روحانی سفر ایک جیسا ہے، اور یقیناً منزِل مقصود بھی ایک ہی ہے (۳) حضرتِ مریمؑ اور حضرتِ عیسیٰؑ کے روحانی معجزات عالمِ شخصی میں ہیں، لہٰذا ان کا تعلّق یقین کے تینوں درجات سے ہے۔

سوال – ۴۳۲: سُورۂ توبہ (۰۹: ۰۳) میں “حجِّ اکبر” کا نام آیا ہے،

 

۳۲۱

 

اس سے کیا مراد ہے؟ – جواب: (۱)  اگرچہ حجِّ اکبر کی ظاہری توجیہہ بھی تفسیر میں موجود ہے، لیکن اس کی باطنی تاویل الگ ہے، اور وہ روحانی حجّ ہے جو عارف کی ذاتی قیامت میں ہے۔

سوال – ۴۳۳: قرآنِ حکیم میں بے شمار حکمتی مثالیں ہیں، ان میں تقابلی مثالیں بھی کافی ہیں، چنانچہ ایک تقابلی مثال کو سورۂ ہود (۱۱: ۲۴) میں دیکھیں: (منکرین اور مومنین) دونوں فریق کی مثل اندھے اور بہرے اور دیکھنے والے سُننے والے کی سی ہے، کیا یہ دونوں مثل میں برابر ہوسکتے ہیں؟ تو کیا تم لوگ غور نہیں کرتے؟ اس میں سے کوئی عظیم حکمت بتائیں – جواب: (۱) اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام مومنین علم و عمل میں یکسان نہیں ہوسکتے، بلکہ وہ مختلف درجات پر ہوتے ہیں (۲) لیکن جب مقابلے کا موقع آتا ہے تو خداوند تعالیٰ سارے مومنین کو اعلیٰ درجے میں جمع کرتا ہے، اور ان سب کو یکسان طور پر البصیر، السّمیع (دیکھنے والا، سُننے والا) قرار دیتا ہے، یہ کتنی عجیب و غریب رحمت ہے۔

سوال -۴۳۴: یہاں بھی ایک عظیم الشّان تقابلی مثال ہے، جو سُورۂ زُمر (۳۹: ۰۹) کا ارشاد ہے: قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الأَلْبَابِ = ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکسان ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں۔ آپ اِس آیۂ کریمہ کی

 

۳۲۲

 

توضیح کریں۔ – جواب: (۱)  اگر غور سے دیکھا جائے تو قرآنِ حکیم کی تمام تقابلی مثالیں ایک ہی مضمون سے متعلّق ہیں، اور وہ مضمون مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ (دونوں فریقوں کی مثال ۱۱: ۲۴ ) کا ہے۔ یہاں تقابلی مثال اس طرح سے دی گئی ہے کہ ایک طرف ایسے لوگ ہیں جو علم رکھتے ہیں، اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو علم نہیں رکھتے، یعنی وہ سب کے سب جاہل اور نادان ہیں (۳) معلوم ہے کہ جہالت و نادانی انکار کی وجہ سے ہے تو انکار اوّلین جہالت ہے، اور اقرار بُنیادی علم ہے، پس اِس تقابلی مثال کے مطابق جن لوگوں کے پاس علم ہے، ان میں اقرار یا بنیادی علم  والے بھی بہت ہیں۔

سوال – ۴۳۵: آپ قرآنِ عزیز میں س و ی کے مادّہ کے تحت مزید تقابلی مثالوں کا مطالعہ کریں، چنانچہ ایک بڑی عالیشان مثال سورۂ رعد (۱۳: ۱۶) میں بھی ہے: ترجمہ: کہو، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے؟ کیا ظلمتیں اور نور برابر ہیں؟ آپ اس مثال کی وضاحت کریں – جواب: (۱) ایک درویش نے عالمِ خیال میں دیکھا کہ کوئی بزرگ اسے یکے بعدِ دیگرے بہت سے چشمے دے رہا تھا، تاویلی اشارہ معلوم ہوا کہ انسان کی ظاہری آنکھ میں بہت سی آنکھیں پیدا ہوسکتی ہیں (۲) پس اگر کسی شخص نے چشمِ یقین حاصل نہیں کی ہے تو حقیقت میں وہ اندھا کہلاتا ہے (۳) آنکھوں والا وہ ہے جو دینِ حق کے تمام ظاہری اور باطنی معجزات کو دیکھ سکتا ہے (۴) ظلمتوں سے جہالتیں مراد ہیں (۵) نور کا

 

۳۲۳

 

سرچشمہ زندہ ہے، جس کے کئی شعبے ہیں، اور سب سے بڑا شعبہ علم سے متعلّق ہے۔

سوال – ۴۳۶: آپ سے بحوالۂ سُورۂ اَنعام (۰۶: ۷۵) ایک مختصر مگر بہت ہی ضروری اور بہت ہی مشکل سوال ہے: آپ یہ بتائیں کہ خدا وندِ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو کُلّ کائنات کی سلطنت کہاں دکھائی تھی؟ – جواب: (۱) عالمِ شخصی میں، کیونکہ کائنات اور اس کی بادشاہی / (ملکوت) مشاہدہ اور معرفت کی غرض سے عالمِ شخصی میں لائی جاتی ہے، (۲) خصوصاً حظیرۂ قدس میں، جہاں نہ صرف ہر چیز موجود ہے، بلکہ خدائے پاک کا دیدار اور ملکوت بھی ہے (۳) آپ ملکوت سے متعلّق چاروں آیات کو پڑھیں: ۰۶: ۷۵، ۰۷: ۱۸۵، ۲۳: ۸۸، ۳۶: ۸۳، اور ان میں اچھی طرح سے غور کریں۔

سوال – ۴۳۷: سُورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۸) میں حضرت زکریا علیہ السّلام کی یہ دعا ہے: قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طِیّبَۃً =دعا کی کہ اے میرے پروردگار! تو مجھے خاص اپنے پاس سے ایک پاکیزہ اولاد عنایت فرما۔ کیا ایک پیغمبر کی ایسی دعا میں صرف جسمانی اولاد مطلوب ہوتی ہے، یا کوئی عظیم مقصد بھی ہوتا ہے؟ – جواب: (۱) انبیاء علیہم السّلام کی ایسی دعا میں بظاہر جسمانی اولاد مطلوب ہوتی ہے، وہ بھی دنیا کے لئے نہیں، بلکہ دین کی غرض سے (۲) مگر باطن میں اُن کی یہ درخواست ہوتی ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ اپنے خاص حضور سے یعنی مقامِ

 

۳۲۴

 

عقل پر ایک پاکیزہ فرزند عطا فرمائے (۳) کیونکہ انسانانِ کامل کی ذُرّیّات مقامِ روح پر بھی ہوتی ہیں اور مقامِ عقل پر بھی۔

سوال – ۴۳۸: آپ کی مذکورۂ بالا وضاحت انقلابی ہے کہ ہر انسانِ کامل کی نہ صرف روحانی ذُرّیّات ہُوا کرتی ہیں بلکہ عقلی ذُرّیّات بھی ہوتی ہیں، براہِ کرم آپ کسی اور آیت سے بھی اس حقیقت کی شہادت پیش کریں – جواب: (۱) حضرتِ ایوب علیہ السّلام کے گھرانے کے لوگ چھت کے گرجانے سے دب کر مرگئے تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے بڑی حد تک ان میں اضافہ کرکے روحانیّت اور عقلانیت کے مقام پر آپؑ کو عطا کیا (۲) چنانچہ سورۂ صٓ (۳۸: ۴۳) میں دیکھیں: ہم نے اسے اس کے اہل و عیال واپس دیئے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور، اپنی طرف سے رحمت کے طور پر، اور عقل و فکر رکھنے والوں کے لئے درس کے طور پر (۳) آخر میں یہ اشارہ ہے کہ  اہلِ ایمان کو بھی یہ عظیم نعمت نصیب ہوسکتی ہے۔

سوال – ۴۳۹: اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ (۱۰۸: ۰۱) اے رسولؐ) ہم نے تم کو کوثر عطا کیا ہے۔ آپ بتائیں کہ کوثر کے کیا معنی ہیں؟ – جواب: (۱) کوثر بہشت کے ایک چشمے کا نام ہے، کوثر کا مطلب خیرکثیر بھی ہے، اور کوثر کے معنی مردِ کثیر الذّریّت کے بھی ہیں، جس سے یہاں حضرتِ علیؑ مراد ہے جس کی ظاہری اور باطنی ذرّیّت بڑی کثرت سے ہے (۲) خدا نے آنحضرتؐ کو علیؑ بطورِ فرزند عطا فرمایا تھا، پس

 

۳۲۵

 

علیؑ مقامِ روح پر بھی اور مرتبۂ جبین میں بھی رسول اللہ کی ذرّیّت کا درجہ رکھتا ہے، اور کوثر کے جتنے بھی معانی ہیں، وہ سب کے سب مولا علیؑ کے لئے ہیں، الحمدللہ۔

سوال – ۴۴۰: سُورۂ رعد (۱۳: ۳۸)  میں ارشاد ہے: وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً   =اور ہم نے تم سے پہلے اور (بھی) بہتیرے پیغمبر بھیجے اور ہم نے ان کو بیویاں بھی دیں اور ذرّیّت بھی عطا کی۔ اس کی حکمت کو ظاہر کریں – جواب: (۱) اِس آیۂ مبارکہ کا خاص تعلّق پیغمبروں کی روحانیّت اور عقلانیّت سے ہے کہ انہی دو مقام پر ان کی بیویاں بھی ہیں اور ذرّیّت بھی، ورنہ حضرتِ یحییٰ اور حضرتِ عیسیٰ علیہما السَّلام نے جسمانیّت میں کوئی شادی بھی نہیں کی تھی (۲) اس سے معلوم ہُوا کہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی ذُرّیت مقام روح پر بھی ہے اور مرتبۂ عقل پر بھی۔

 

۳۲۶

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۲

 

سوال – ۴۴۱: سورۂ مریم کے ارشادات (۱۹: ۵) میں ہے: فَھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیّاً = پس تُو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما۔ سوال ہے کہ آپ اس کی باطنی حکمت بتائیں – جواب: (۱) یہ حضرتِ زکریّا علیہ السّلام کی وہ دُعا ہے، جس میں آپ نے پروردگار سے ایک خاص فرزند کے لئے درخواست کی، کہ وہ جسمانی، روحانی، اور عقلانی کمالات کا مالک ہو (۲) مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیّاً (اپنے پاس سے ایک وارث) کے الفاظ میں بہت بڑی حکمت ہے (۳) جس علمِ لَدُّنی کی بہت بڑی تعریف ہوتی ہے، تو پھر اولادِ لَدُنی کی تعریف کیوں نہ ہو (۴) یہاں وارث کا ذکر آیا ہے، اس سے وہ شخص مُراد نہیں، جو زمین، گھر، جائداد وغیرہ کا وارث ہُوا کرتا ہے، بلکہ روحانی کتاب، اور علم و حکمت کی وراثت کا قصّہ (۵) اگر ہر پیغمبر کے لئے ایک وارث کا ہونا حتمی قانون تھا، تو آنحضرتؐ کا وارث جو علی تھا اس میں کیا شک ہوسکتا ہے۔

سوال – ۴۴۲: مذکورۂ بالا سورہ (۱۹: ۱۲) میں ارشاد ہے: یٰحَیْیٰ خُذِالْکِتَبَ بِقُوَّۃٍ = اے یحیٰی! کتاب کو مضبوط پکڑے رہو۔ اس میں کیا تاویلی حکمت ہے؟ – جواب: (۱) سُستی اور کاہلی سے عبادت کرنا

 

۳۲۷

 

بہت بڑی ناشکری ہے، لہذا اسمِ اعظم کا ذکر بھر پور قوّت سے کرو  (۲) آسمانی کتاب ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی، اس پر سخت ریاضت کرو (۳) علم و حکمت کے لئے سخت سے سخت کوشش کرتے رہو (۴) کتاب کے وسیع تر مفہوم کے مطابق یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ کتابِ صامت، کتابِ ناطق، کتابِ نفسی، اور کتابِ کائنات میں دل لگا کر غور کرو۔

سوال – ۴۴۳: خدا کے حکم سے جو خاص روح یا فرشتہ مریم سلام اللہ علیہا کے پاس آکر ایک درست اور مکمّل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا تھا ( ۱۹: ۱۷) وہ بدنی اعتبار سے کیسا تھا؟ کیا اس کا جسم عناصرِ اربع کا مرکب تھا؟ آیا وہ انسانی شکل میں فرشتہ ہی تھا؟ کیا ہم اس کو جُثّۂ ابداعیہ کہہ سکتے ہیں؟ کیا ہم اس کو مُبدَع کہہ سکتے ہیں؟ – جواب: (۱) وہ قالبِ نورانی ہوتا ہے (۲) وہ عناصر اربع سے نہیں (۳) ہاں، وہ انسانی شکل میں فرشتہ ہی ہوتا ہے (۴) وہ جثّۂ ابداعیہ ہے (۵) یقیناً وہ مُبدَع ہے، مگر فلسفۂ قدیم میں مبدَع کا مطلب کچھ اور ہے۔

سوال -۴۴۴: حضرتِ عیسیٰؑ کو مریمؑ نے نہ صرف جسمانیت میں بلکہ روحانیّت اور عقلانیت میں بھی جنم دیا، کیا آپ اس حقیقت کو قرآن کریم کی روشنی میں سمجھا سکتے ہیں؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، جب مریمؑ کے پاس ایسا عظیم فرشتہ آیا کہ جس کو خداوند تعالیٰ نے رُوْحَنَا کے لقب سے یاد فرمایا ہے، تو معلوم ہوا کہ اس وقت مریم روحانیّت کے درجۂ

 

۳۲۸

 

اعلیٰ پر پہنچی ہوئی تھی، اس حال میں فرشتے کا یہ کہنا: لِاَھَبَ لَکِ غُلمٰاً زَکِیّاً (کہ تم کو ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں) (۱۹: ۱۹) اس حقیقت کی روشن دلیل اور بشارت تھی کہ مقامِ عقل پر مریمؑ سے حضرتِ عیسیٰؑ کا عقلی تولُّد ہونے والا ہے (۲) پھر دردِ زہ مریمؑ کو کھجور کے تنے کی طرف لے گیا (۱۹: ۲۳) یہ حظیرۂ قدس اور مقامِ عقل ہے۔

سوال -۴۴۵: سُورۂ نساء (۰۴: ۱۷۱) میں ہے: مسیح عیسیٰ ابنِ مریم تو اور کچھ بھی نہیں البتہ اللہ کا رسول ہے اور اللہ تعالیٰ کا ایک کلمہ ہے جس کو خدا نے مریم کی طرف القاء کیا تھا اور خدائے تعالیٰ کی طرف سے ایک روح ہے، حضرتِ عیسیٰؑ کس معنیٰ میں خدا کا کلمہ تھا؟ اور ابنِ مریمؑ اللہ کی جانب سے ایک روح کس طرح سے ہے؟ – جواب: (۱) خدا کا کلمہ اسمِ اعظم ہے، اور حضرتِ عیسیٰؑ اپنے دَور کے لئے اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم / کلمہ تھا، یہ اسمِ اعظم جس میں بحدِّ قوت حضرتِ عیسٰی کا نور تھا مریم صدّیقہ کو عطا ہوا، جس سے رفتہ رفتہ مریمؑ کے عالمِ شخصی میں عظیم روحانی انقلاب آیا، جس کے تمام تر اشارے قرآنِ حکیم میں موجود ہیں (۲) ہر انسان میں تین روحیں ہوا کرتی ہیں: روحِ نباتی، روحِ حیوانی، اور روحِ انسانی، مگر انسانِ کامل میں ایک اور کا اضافہ ہو جاتا ہے، وہ روحِ قدسی ہے، جس میں اللہ کے کُلّ معجزات جمع ہیں، یہی روح دیگر تمام کاملین ہی کی طرح حضرتِ عیسیٰؑ میں بھی جلوہ گر ہوئی تھی۔

 

۳۲۹

 

سوال – ۴۴۶: آج صبح (۹۹/۲/۲۷) دُرِّمکنون گیسٹ کلاس میں حُبِّ علی کے خطِ چہارم کو پڑھتے وقت یہ کہا گیا تھا کہ بہشت کی جن نعمتوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے، ان کی مزید وضاحت کی جائے، پس آپ توضیح کریں- جواب: (۱) اس خط میں یہ حکمت بڑی عجیب و غریب ہے کہ: تمام انسانی صورتیں صورتِ رحمان ہی کے خزانے سے آتی ہیں (۱۵: ۲۱) یقیناً، کیونکہ جو شخص بہشت میں داخل ہوجاتا ہے، وہ اپنے باپ آدمؑ کی صورت پر ہوجاتا ہے، اور آدمؑ رحمان کی صورت پر پیدا کیا گیا تھا (۲) اب یہ حقیقت سمجھنے کے لئے بڑی آسان ہوگئی کہ بہشت میں معشوقِ حقیقی کا دیدار مختلف شکلوں میں بھی ہوسکتا ہے، جبکہ بقولِ رسولِ اکرمؐ ہر بہشتی رحمان کی صورت پر ہوجاتا ہے (۳) اب بہشت کی ان بہت سی نعمتوں کی حقیقت واضح ہوگئی، جو آنکھوں کو لذّت بخشنے کے لئے پیدا کی گئی ہیں، (۴) جیسا کہ ارشاد ہے:

وفیھا ما تشتھیہِ الا نفسُ وتلذُ الاعیُنُ (۴۳: ۷۱) اور ہر من بھاتی اور نگاہوں کو لَذّت دینے والی چیز وہاں موجود ہے۔ (۵) آپ سورۂ سجدہ (۳۲: ۱۷) میں بھی دیکھیں۔

سوال – ۴۴۷: اللہ، رسولِ پاکؐ، اور ولیّٔ امرؑ کی نورانی ہدایت کی روشنی میں قرآنِ کریم کے بہت سے تاویلی اسرار مکشوف ہوئے ہیں، چُنانچہ اگر پانی پر عرش سے مراد کشتیٔ نجات ہے جو اہلِ بیت ہیں، تو آپ یہ بتائیں قرآنِ حکیم میں جتنی مثالیں کشتی کے باب میں آئی ہیں، ان کا

 

۳۳۰

 

حکمتی تعلق کشتیٔ نجات سے ہے یا نہیں؟ اگر تعلّق ہے تو نمونہ بتائیں – جواب: (۱) قرآنِ پاک میں کشتی کی جتنی بھی مختلف مثالیں موجود ہیں، ان کی آخری تاویل کشتیٔ نجات کی طرف جاتی ہے (۲) آپ سُورۂ بقرہ (۰۲: ۱۶۴) میں دیکھیں: اور کشتی میں (اللہ کی نشانی) جو سمندر میں چلتی ہے آدمیوں کے فائدے کی چیزیں لے کر۔ سوچنے کی بات ہے کہ ظاہری کشتی اللہ کی بڑی آیت (نشانی) ہے یا باطنی کشتی؟ انسانوں کا مادّی فائدہ زیادہ ضروری ہے یا روحانی فائدہ؟ اس سے معلوم ہوا کہ ہر ظاہری کشتی کی مثال میں باطنی کشتی کی حقیقت پوشیدہ ہے۔

سوال – ۴۴۸:  آپ نے حدیثِ مماثلتِ ہارونی کی روشنی میں کبھی یہ کہا تھا کہ: “آئینہ ہارونی میں باربار علیؑ کا دیدار کر لیا کرو۔” اس کے معنی کیا ہیں؟ ایسا آئینہ کیا ہے؟ اور کہاں ہے؟ – جواب: (۱) اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ حضرتِ علیؑ کو سوائے نبوّت کے دیگر تمام معنوں میں حضرتِ ہارونؑ ہی کی طرح مانیں (۲) یہ آئینہ ان آیاتِ مبارکہ میں ہے، جو حضرتِ ہارونؑ کی شان میں وارد ہوئی ہیں (۳) پس آئینۂ ہارونی قرآن ہی میں موجود ہے (۴) انبیائے قرآن میں سب سے طویل قصّہ حضرتِ موسیٰؑ کا ہے، لہٰذا قرآنِ پاک میں ۱۳۶ دفعہ اسمِ موسیٰ آیا ہے، اس سارے قصّے میں اکثر دفعہ حضرتِ ہارونؑ بھی ساتھ ہے، اگرچہ ظاہراً حضرتِ ہارونؑ کا نام صرف ۲۰ مرتبہ آیا ہے۔

 

۳۳۱

 

سوال – ۴۴۹: بحوالۂ سُورۂ اعراف (۰۷: ۵۳) بڑا اہم اور بہت ہی نازک سوال ہے کہ آیا زمانۂ تاویل آچکا ہے؟ یہ تاویل کس چیز کی ہے؟ اس کا دوسرا نام کیا ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، زمانۂ تاویل آچکا ہے (۲) تاویل قرآنِ حکیم ہی کی ہے (۳) تاویل کا دوسرا نام قیامت ہے، قیامت یعنی تاویل باطنی طور پر بار ہا آچکی ہے، لیکن اِس دفعہ کی تاویل بہت ہی پُراثر، عمومی، اور عالمگیر ہے، اور اسی کی وجہ سے سائنسی انقلاب آیا ہے (۴) سائنسی عجائب و غرائب قدرتِ خدا کی وہ نشانیاں (آیات) ہیں، جن سے متعلّق پیش گوئی اور دکھانے کا وعدہ آیۂ آفاق و انفس (۴۱: ۵۳) میں موجود ہے۔

سوال -۴۵۰: سُورۂ ابراہیم (۱۴: ۴۸) میں ہے: جس دن زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان (دوسرے آسمان سے) اور سب کے سب اللہ واحدِ قہار کے لئے نکل کھڑے ہوں گے۔ اس سے اگر یہ مراد لی جائے کہ انسان کسی اور سیّارے پر منتقل ہونے والا ہے، تو اس صورت میں آسمان نہیں بدلیں گے، لہٰذا آپ اس کی درست تاویل بتائیں- جواب: (۱) یہ قیامت اور قیامتگاہ کا تذکرہ ہے، اور یقیناً قیامت کی جگہ عالمِ شخصی ہے، جس کے آسمان و زمین کائناتِ ظاہر سے مختلف ہیں، کیونکہ وہ باطنی اور روحانی ہیں (۲) اللہ کے واحد و قہار ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ سب لوگوں کو زبردستی سے ایک کرنے والا ہے۔

 

۳۳۲

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۳

 

سوال – ۴۵۱: سُورۂ آلِ عمران (۰۳: ۵۵) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ عیسیٰؑ سے فرمایا: اور تیری پَیروی کرنے والوں کو قیامت تک ان لوگوں پر بالادست رکھوں گا جنہوں نے تیرا انکار کیا ہے اس تعلیم میں لوگوں کے لئے بہت مشکل سوال ہے، وہ یہ کہ آیا دورِ عیسیٰؑ کے خاتمہ پر کوئی قیامت نہیں آئی تھی؟ اگر قیامت برپا نہیں ہوئی ہے تو پھر حضرتِ عیسیٰؑ کے پَیرو اب بھی حق پر ہیں، لیکن یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے؟ آپ اس سوال کا درست جواب مُہیّا کریں- جواب: (۱) سرورِ انبیاء صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی نبوّت کی ابتداء میں جو قیامت آئی تھی، اس سے دورِ عیسیٰؑ ختم ہوگیا، اور اُس دَور کے مومنین سے جو وعدہ فرمایا گیا تھا، وہ بھی پورا ہوگیا (۲) سورۂ صف (۶۱: ۰۶) میں دیکھیں کہ حضرتِ عیسیٰؑ نے اپنے بعد آنے والے رسول ( یعنی آنحضرتؐ) کی خوشخبری کس طرح دی تھی، اور بنی اسرائیل نے وقت آنے پر کیا کہہ کر انکار کر دیا۔

سوال -۴۵۲: سُورۂ صف (۶۱: ۰۸) میں ہے: وہ لوگ اپنےمنہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، لیکن اللہ اپنے نور

 

۳۳۳

 

کو مکمّل کرکے رہے گا، چاہے کافروں کو پسند نہ آئے، سُورۂ توبہ (۰۹: ۳۲) میں بھی دیکھیں، یہاں بُنیادی سوال یہ ہے کہ عالمِ خلق میں خدا کے نور کا ظہور کب ہوا؟ سب سے پہلے کس نے نور سے دشمنی کی؟ کیا وجہ تھی؟ پھونکوں سے کیا مراد ہے؟ خدا اپنے نور کو کس طرح مکمل کرتا ہے؟ – جواب: (۱) عالمِ خلق میں اللہ کے نور کا ظہور زمانۂ آدم میں اور آدم ہی کی صورت میں ہوا (۲) شروع شروع میں جس نے خدا کے نور سے دشمنی کی، وہ ابلیس تھا، پھر قابیل نے اس کی پیروی کی (۳) یہ عداوت انکار اور تکبّر کی وجہ سے پیدا ہوئی (۴) پھونکوں سے باطل دلیلیں اور ناکام کوششیں مراد ہیں (۵) اللہ اپنے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے سلسلے میں ہر بار نور کو مکمل کرتا رہتا ہے، آپ نورٌعلی نور میں بھی غور کریں۔

سوال – ۴۵۳: سُورۂ مُجَادَلَۃ (۵۸: ۲۱) میں ارشاد ہے: کكَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ =اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسولان ہی غالب ہوکر رہیں گے، فی الواقع اللہ زبردست اور زور آور ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے یہ پروگرام اپنے ہر رسول کے لئے لکھ دیا ہوگا، کہ وہ خدا کی مدد سے کائنات کو اپنے مومنین کے لئے مُسخّر کر لے گا، یا سیّارۂ زمین کو فتح کرکے اسلام ہی کو سارے ادیان پر غالب بنا دے گا لیکن ظاہر میں معلوم ہے کہ کوئی ایسی کامیابی نہیں ہوتی ہے، پس آپ بتائیں کہ اس آیۂ کریمہ کا اصل راز کیا ہے؟  – جواب: (۱) آپ کو اس حقیقت پر یقین ہوگا کہ

 

۳۳۴

 

قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، چنانچہ اس آیۂ شریفہ کے بیان کے مطابق ہر ہر جنگ میں اللہ اور اس کے رسولوں کی فتح و غالبیّت بہت ہی آسان چیز ہے، لیکن لوگوں کو دنیا میں بحیثیتِ مجموعی مہلت دی گئی ہے (۲) مگر جب جب روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے تو اس میں کسی کو کوئی مہلت نہیں ملتی، اور آپ یہ راز جان چکے ہیں کہ باطنی قیامت دعوتِ حق کی غرض سے دینی جنگ بھی ہے، جس میں خدا، رسولِ دَور، امامِ زمان، اور مومنین کو پوری کائنات پر فتح حاصل ہوجاتی ہے۔

سوال – ۴۵۴: سُورۂ نجم (۵۳: ۳۹) کی اس پُرحکمت آیت سے ہر دیندار مومن میں عالی ہمّتی اور اُولو العزمی کا جذبہ پیدا ہوسکتا ہے، لہٰذا آپ اِس کی حکمت کے بارے میں سمجھائیں، وہ آیۂ مبارکہ یہ ہے: وَاَنْ لَّیْسَ لِلاِنْسَانِ اِلّاَ مَا سَعٰی = اور یہ کہ انسان کو اُتنا ہی ملتا ہے جتنی کو وہ کوشش کرتا ہے – جواب: (۱)  یہاں لفظِ سعی (کوشش) میں علم و عمل کے تمام اعلیٰ معانی جمع ہیں، سعی و کوشش ہدایتِ حقّہ کے مطابق جسم و جان اور عقل کے ذریعے سے ہوتی ہے (۲) اس میں درست اور کامیاب ریاضت کا اشارہ موجود ہے، کیونکہ اصل کوشش وہ ہے، جس میں ایک دانا شخص اپنی تمام صلاحیتوں کو نہ صرف بیدار کرکے ان سے خوب کام لیتا ہے، بلکہ کمال یہ ہے کہ ان کو بدرجۂ اعلیٰ ترقّی بھی دیتا ہے۔

 

۳۳۵

 

سوال – ۴۵۵: یہ مقدّس ارشاد سُورۂ عنکبوت کے آخر (۲۹: ۶۹) میں ہے: الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ = اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے، اس تعلیمِ سماوی کی کوئی باطنی حکمت بتائیں – جواب: (۱) اگرچہ مومن کی کوشش شروع ہی سے درجہ بدرجہ ہدایت کی روشنی میں آگے بڑھ سکتی ہے، تاہم عقلی فنا کے بعد خاص نورانی ہدایت کا آغاز ہو جاتا ہے (۲) خدائے بزرگ و برتر کا یہ ارشاد جہادِ اکبر کا مضمون ہے، کیونکہ سعی و کوشش، جدّوجہد، اور جہادِ اکبر نفس ہی کے خلاف ہے۔

سوال – ۴۵۶: کوکبِ دَرّی، بابِ سُوم، منقبت۔ ۲۸ میں حضرتِ مولا علی صلوات اللہ علیہ کا ارشادِ مبارک ہے: اَنَا ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ = یعنی میں ہوں وہ کتاب جس میں کسی قسم کا شک و ریب نہیں۔ آپ اس کی وضاحت کریں۔ – جواب: (۱) سورۂ بقرہ کے شروع ہی میں ارشادِ خداوندی ہے: الٓمٓ۔ ذٰلک الکتٰبُ لا ریب فیہ۔ جیسا کہ آپ نے پڑھا کہ یہ مولا علی کی شان میں ہے، کیونکہ علی ہی کتابِ ناطق (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) ہے (۲) پس یہ قرآنِ ناطق یعنی امامؑ کی تعریف ہے کہ اس میں شک نہیں، یعنی اس میں یقین ہی یقین ہے، اور یقین کے تین درجے ہیں: علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین، کیونکہ شک اور یقین آمنے سامنے ہیں، چنانچہ شک کی نفی اس لئے کی گئی کہ وہاں درپردہ یقین کے معنی آجائیں۔

 

۳۳۶

 

سوال – ۴۵۷: حروفِ مُقَطَّعات کے بعد جو بھی آیۂ شریفہ آئی ہے، وہ ربط و تعلّق کے بغیر نہیں ہوتی، لہٰذا آپ یہ بتائیں کہ مذکورہ آیۂ کریمہ کس طرح الٓمّٓ  کے ساتھ مربوط ہے؟ – جواب: (۱) الف =اوّل (قلمِ اعلیٰ)، لام = لوح محفوظ، میم = مرقوم، پس اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: قسم ہے قلم کی، قسم ہے لَوح کی (اور) قسم ہے مرقوم (تحریر) کی کہ اس کتا ب (الٓمّٓ) میں کوئی شک نہیں۔ یعنی اس میں یقین ہی یقین ہے، جیسا کہ ذکر ہُوا، اور مولا علی صاحبِ تاویل کے فرمانِ اقدس سے معلوم ہوا کہ جس کتاب میں یقین کے تمام درجات موجود ہیں، وہ حضرتِ علی علیہ السّلام ہی ہے، آپ نے دیکھا کہ قسم اور جوابِ قسم کے درمیان ربط و رشتہ قائم ہے۔

سوال – ۴۵۸:  سُورہ سجدہ (۳۲: ۰۱ تا ۰۲) میں ارشاد ہے: الٓمّٓ  تَنزِيلُ الْكِتَابِ لاَ رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ = قسم ہے قلمِ اعلیٰ کی، قسم ہے لوحِ محفوظ کی (اور) قسم ہے مرقوم کی (جو لوحِ محفوظ میں ہے) کہ الٓمٓ جو الکتاب ہے جس میں شک نہیں، اس کا نازل کرنا عوالمِ شخصی کے پروردگار کی طرف سے ہے۔ اس کی حکمت کے عجائب و غرائب کیا ہیں؟ – جواب: (۱)  قلمِ اعلیٰ سے رسولِ پاکؐ کا نور مراد ہے جو عقلِ کلّ کے نام سے عظیم فرشتہ ہے، لوح محفوظ سے حضرتِ علیؑ کا نور مُراد ہے، جو فرشتۂ نفسِ کُلّ ہے، اور مرقوم سے وہ قرآنِ مجید مراد ہے جو لوحِ محفوظ یعنی نورِ علی میں موجود ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) دیکھنا یہ ہے کہ آپ ان عظیم اَسرار

 

۳۳۷

 

کو کس طرح لیتے ہیں (۲) اس آیۂ مبارکہ میں جس تنزیل کا ذکر آیا ہے، وہ ہے تنزیلِ اوّل، یعنی خدا کے حکم سے قرآن کو لوحِ محفوظ میں نازل کر دیا، اور لوح نے اسے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا (۳) فرشتۂ لوح نے بتدریج قرآن کا مکمّل عکس اسرافیل کو دیا، اسرافیل نے میکائیل کو دیا، میکائیل نے جبرائیل کو، اور جبرائیل نے آنحضرتؐ کے قلبِ مبارک پر قرآن نازل کیا۔

سوال -۴۵۹: حضرتِ امیرالمومنین علی علیہ السّلام کے ارشادات میں یہ بھی ہے: اَنَا اللَّوْحُ اَلْمَحْفُوْظُ = یعنی میں لوحِ محفوظ ہوں۔ آپ یہ بتائیں کہ قرآنِ حکیم میں لوحِ محفوظ کا نمایان تذکرہ کہاں ہے؟ اس کی تعریف کیا ہے؟ وہ کس عالم میں ہے؟ – جواب: (۱) لوحِ محفوظ کا عیان ذکر سُورۂ بُرُوج (۸۵: ۲۲) میں ہے (۲) اس کی تعریف یہ ہے کہ اس میں قرآنِ مجید (۸۵: ۲۱) ہے، اور قرآنِ مجید میں بصورتِ نقش ازل سب کچھ موجود ہے (۳) چونکہ لوحِ محفوظ سے علی / امامِ مُبین کا نور مراد ہے، اور نور جبین میں ہوتا ہے، جس کا مخفی نام عالمِ عُلوی ہے، جی ہاں، علیؑ (امامِ مبینؑ) کا نور فرشتۂ نفسِ کُلّ ہے، جو لوحِ محفوظ ہے۔

سوال – ۴۶۰: سُورۂ آلِ عمران (۰۳: ۰۱ تا ۰۲) میں ارشادِ خداوندی ہے: الم  اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ۔ آپ اس ارشاد کی وضاحت کریں۔ – جواب: (۱) قسم ہے قلمِ خدا کی، قسم ہے لوحِ

 

۳۳۸

 

محفوظ کی (اور) قسم ہے مرقوم کی ( جو لوحِ محفوظ میں ہے) کہ اللہ ہی وہ خدا ہے جس کےسِوا کوئی قابلِ پرستش نہیں ہے، وہی زندہ (اور ہر ہر عالم کا) سنبھالنے والا ہے۔ (۲) اس سے ظاہر ہُوا کہ الحیّ اور القیّوم خدا کے دو خاص اور بزرگ نام ہیں، اور ان کی بہت بڑی اہمیّت ہے، اللہ کے یہ دو پاک، مبارک، اور زندہ اسم حُجّتِ قائم اور حضرتِ قائم علیہما السّلام ہیں، یہ دونوں مقدّس اور بہت ہی عظیم نام آیَۃُ الکُرسی (۰۲: ۲۵۵) میں بھی ہیں، اور سُورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۱) میں بھی، اور حٰمٓ میں ان کا ذکر سات دفعہ آیا ہے۔

 

۳۳۹

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۴

 

سوال – ۴۶۱:  قرآنِ حکیم کی ہر آیت حکمتِ لاہوتی سے لبریز ہے، آپ اس آیۂ شریفہ کی باطنی حکمت بیان کریں: اِنَّ قراٰنَ الفجرِ کان مشھودًا (۱۷: ۷۸) – جواب: (۱) اس حکم کےتین معنی ہیں: (الف) نمازِ صبح پڑھنا (ب) بوقتِ صبح قرآن خوانی (ج) صبح اپنے وقت پر اسمِ اعظم پڑھنا (۲) الَمشھودُ وَالشّھادۃُ کے معنی کسی چیز کا مشاہدہ کرنے کے ہیں خواہ بصر سے ہو یا بصیرت سے، اور صرف حاضر ہونے کےمعنی میں بھی استعمال ہوتا ہے (مُفردات) (۳) ترجمۂ آیت: یقیناً فجر کی عبات سے (نورِ باطن کا) مُشاہدہ ہوتا ہے۔ جس کی خصوصی ہدایت صرف امامِ آلِ محمّدؐ سے مل سکتی ہے (۴) آپ سخت ریاضت کرنے کے عادی ہو جائیں، نور اقدس کے عاشقوں میں سے ہوجائیں، رات کو بروقت اٹھ کر عاشقانہ گریہ وزاری اور عبادت کریں، ان شاء اللہ، کامیابی ہوگی۔

سوال – ۴۶۲: حضرتِ امیرالمومنین علی علیہ السّلام نے فرمایا ہے کہ قرآن چار حصّوں میں نازل ہوا ہے، ایک چوتھائی تو ہماری تعریف و توصیف میں ہے، ایک چوتھائی ہمارے دشمنوں کی مذمت و منقصت میں،

 

۳۴۰

 

ایک چوتھائی سِیَر، قصص، اور امثال میں، اور ایک چوتھائی میں شریعت کے فرائض اور احکام ہیں، اور قرآن کی بہترین آیات سب ہمارے واسطے ہیں۔ اس میں کیسی کیسی حکمتیں ہیں؟ – جواب: (۱) اس میں بڑی عجیب و غریب حکمتیں ہیں (۲) مولا علیؑ کی تعریف قرآن میں براہِ راست بھی ہے، بالواسطہ بھی ہے، امثال میں بھی، احکام میں بھی، اور کرائمِ القراٰن میں بھی ہے، مگر امام شِناسی میں سب لوگ برابر نہیں ہوسکتے ہیں، لہٰذا درجات بنائے گئے۔

سوال – ۴۶۳: کَرائم الْقُرْاٰن کی کیا مثال ہے؟  – جواب: (۱) سُورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) میں ارشاد ہے: قَدْ جَاءَكُمْ مِنْ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ = تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا ہے اور ایک ظاہر کتاب (قرآن) آئی ہے، یہ ان بڑی آیات میں سے ہے جو علیؑ کی شان میں ہیں (۲) یقیناً یہ نور رسولٌ کے ساتھ اور آپؐ کے بعد حضرتِ علیؑ میں تھا، تاکہ اس نور کی روشنی میں قرآن کی باطنی حکمت نکھر نکھر کر سامنے آجائے، اس بے مثال عمل کی وجہ سے جُملۂ قرآن میں علی / امامِ مبین کی تعریف موجود ہے، مگر یہ صرف ایک ہی نمونہ ہے، جبکہ مولا علیؑ کی شان میں کرائم القرآن (قرآن کی بہترین آیات) بہت ہیں۔

سوال – ۴۶۴: کیا آپ ہمیں قرآن کی بہترین آیات کے بارے میں سمجھا سکتے ہیں کہ وہ کیا ہیں؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ،

 

۳۴۱

 

مولا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے، جس کا ترجمہ س- ۴۶۲ میں آچکا ہے: نَزَلَ الْقُرْاٰنُ اَرْبَعَۃَ اَرْباعٍ۱ فَرُبْعٌ فِیْنَا وَرُبْعٌ فِیْ عَدُوِّنَا وَ رُبْعٌ سِیَرٌ وَ اَمْثَالٌ وَ رُبْعٌ فَرَائِضٌ وَاَحْکَامُ شَرِیْعَۃٍ وَلَنَا کَرَائِمُ الْقُرْاٰنِ۔ پس قرآنِ حکیم کی جس چوتھائی میں امیرالمومنین کی تعریف و توصیف آئی ہے، اس میں سب سے خاص آیات ہیں، اور ان میں خاص الخاص آیات بھی ہیں، اور یہ کرائم القرآن ہیں، یعنی قرآن کی بہترین آیات، جس طرح کرائم المال بہترین مال کو کہتے ہیں (المُنجِد)

سوال – ۴۶۵: سورۂ نساء (۰۴: ۵۴) میں یہ ارشادِ مبارک ہے: فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا =  ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملکِ عظیم بخش دیا۔ کیا یہ آیۂ شریفہ کرائمِ القراٰن میں سے ہے؟ آیا یہ ایک خاص الخاص آیت ہے؟ – جواب: (۱)  اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ آیۂ مبارکہ کرائم القرآن میں سے ہے، اور اس سے حضرتِ علی علیہِ السّلام کے ارشاد کی تصدیق ہوجاتی ہے، کہ جس طرح انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، اسی طرح خدا نے اپنی رحمت سے ان کی خاص تعریف و توصیف بھی فرمائی ہے (۲) جی ہاں، یہ ایک خاص الخاص آیۂ شریفہ ہے، جو آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدّ کی شان میں ہے، اور اس کی طرف بار بار توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔

 

۳۴۲

 

سوال – ۴۶۶: سورۂ تحریم (۶۶: ۰۶) میں یہ حکمِ خداوندی ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہلِ و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے اس پاک فرمان پر کس طرح عمل ہوسکتا ہے؟ کوئی مومن اپنے اہل و عیال کو کسی طرح دوزخ کی آگ سے بچا سکتا ہے؟ – جواب: سب سے پہلے ہر مومن کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کے دائرۂ فرائض میں کیا کیا چیزیں ہیں، اگر وہ فرض شِناس ہے اور خدا سے ڈرتا بھی ہے، تو یقیناً وہ علم و عمل کے ذریعے سے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتشِ جہالت سے بچانے کے لئے سعی کرے گا، کیونکہ وہ آگ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، آتشِ جہالت و نادانی ہے۔

سوال – ۴۶۷: یہ آیۂ مبارکہ سُورۂ فاطر (۳۵: ۳۲) میں ہے: ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا = پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے خاص ان کو قرآن کا وارث بنایا جنہیں منتخب کیا تھا۔ یہ حضرات کون ہیں جن کو اللہ نے منتخب فرمایا تھا، اور کتاب (قرآن) کا وارث بنایا؟ اس وراثت کی دلیل کیا ہے؟ – جواب: (۱)  یہ حضرات أئمّۂ آلِ محمّدؐ ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے منتخب کرکے قرآن کا وارث بنایا ہے (۲) اس وراثت کی دلیلوں میں سے صرف دو پر اکتفاء کیا جاتا ہے: پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ

 

۳۴۳

 

نے آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمّدؐ کو آسمانی کتاب کا وارث بنایا ہے (۰۴: ۵۴) اور دوسری دلیل یہ ہے کہ قرآن کی روح و روحانیّت اور تاویلی حکمت أئمّۂ آلِ محمّدؐ کے سِوا کسی سے نہیں ملتی ہے، کیونکہ خدا و رسولؐ کی طرف سے یہی حضرات قرآن کی تاویل کے لئے مقرّر ہیں۔

سوال – ۴۶۸:  سُورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۸) کے حوالے سے سوال ہے کہ تابوتِ سکینہ سے کیا مراد ہے؟ ربّ کی طرف سے سکینہ (سکونِ قلب) کس معنیٰ میں تھا؟ اس صندوق میں آلِ موسیٰؑ اور آلِ ہارونؑ کے تبرکات تھے، ان سے کیا مراد ہے؟ – جواب: (۱) تابوتِ سکینہ (صندوقِ سکون) لپیٹی ہوئی قیامت اور روحانیّت ہے (۲) ربّ کی طرف سے سکون علم و معرفت کے معجزات میں ہوتا ہے (۳) آلِ موسیٰؑ اور آلِ ہارونؑ کی باقی ماندہ چیزوں سے نورِ نبوّت اور نورِ امامت کے اسرار مراد ہیں (۴) اس کا مطلب یہ ہُوا کہ اصل صندوق روحانیّت میں ہوتا ہے، جس میں قیامت کے تمام جواہرِ اسرار جمع ہوتے ہیں، اور وہ تین قسموں میں ہیں: اسرارِ اُلُوھِیّت، اسرارِ نبوّت، اور اسرارِ امامت۔

سوال – ۴۶۹: سُورۂ یونس کے آغاز (۱۰: ۰۱) میں ہے: الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ۔ اگر آپ کو امامِ آلِ محمدؐ کے درِاقدس سے ان حروفِ مُقَطّعات کا صدقہ ملا ہے تو بتائیں کہ ان کے اسرار کیا ہیں؟ – جواب: (۱) اللہ جَلَّ شَانَہٗ کا ارشاد ہے: قسم ہے قلمِ اعلیٰ کی قسم

 

۳۴۴

 

ہے لوحِ محفوظ کی (اور) قسم ہے رقیم کی (جو لوح میں ہے) کہ وہ کتابِ حکیم کی آیات ہیں۔ (۲) رقیم اور مرقوم دونوں کے معنی ہیں: نوشتہ، تحریر، یہ وہ قرآنِ مجید ہے جو لوحِ محفوظ میں ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) اور اس کا ذکر ہوچکا ہے کہ لوحِ محفوظ امامِ مبین کا نور ہے (۳) الف لام را کے لئے پانچ سورتوں کے آغاز میں دیکھیں: ۱۰: ۰۱، ۱۱: ۰۱، ۱۲: ۰۱، ۱۴: ۰۱، ۱۵: ۰۱۔

سوال – ۴۷۰: سُورۂ رعد کے شروع (۱۳: ۰۱) میں ارشاد ہے: المر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ۔ آپ نے أئمّۂ اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کے باطنی معجزات کو دیکھا ہے، اور عزیزانِ خاص میں سے بعض کو بتا بھی دیا ہے، پس اگر ممکن ہے تو ان حروف کے اسرار کو بھی بیان کریں۔ – جواب: (۱) خدائے دانا و بینا کا ارشاد ہے: قسم ہے اوّل کی (جو قلم ہے) قسم ہے لوحِ محفوظ کی، قسم ہے مرقوم کی (اور) قسم ہے رُؤیت کی کہ وہ معجزاتِ کتاب ہیں۔ (۲) اُس مقام پر جو سب سے بلند ترین ہے، جہاں نورِ قرآن اور نورِ امامِ مبین ایک ہی ہے، وہاں رُؤیت بھی عظیم معجزہ (آیت) ہے، یہ رُؤیت دیدار بھی ہے، مشاہدہ بھی، اور مطالعہ بھی ہے۔

 

۳۴۵

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۵

 

سوال -۴۷۱:  سُورۂ صٓ (۳۸: ۰۱ تا ۰۲) میں خدا وندِ عالم کا ارشاد ہے: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْر  بَلْ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ۔ آپ اس ارشاد کی حکمت بیان کریں۔ – جواب: (۱)  صورتِ رحمان کی قسم (اور) ذکر والے قرآن کی قسم ( کہ تم حق پر ہو) لیکن کافر لوگ غرور اور مخالفت میں ہیں۔ (۲) چونکہ صورتِ رحمان کا معجزہ عالمِ عُلوی میں ہے، لہٰذا اسی مناسبت سے قرآن کے ازلی اور دائمی معجزے کی قسم ہے جو لوحِ محفوظ میں ہے (۸۵: ۲۲) قرآن عالمِ عُلوی میں بھی ذکر کا ذریعہ ہے اور عالمِ سفلی میں بھی (۳) پس حظیرۂ قدس میں قرآنِ مجید کے روحانی اور عقلی معجزات بڑے زبردست مُؤثِّر اور ناقابلِ فراموش ہیں، جیسا کہ سُورۂ قمر (۵۴: ۱۷) میں ہے اور ہم نے قرآن کو ذکرونصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی ہے جو اس سے فائدہ حاصل کرے؟

سوال – ۴۷۲: یہ سوال سُورۂ اعراف (۰۷: ۰۱ تا ۰۲) کے حوالے سے ہے: الٓمّٓصٓ (۱) یہ ایک کتاب ہے جو نازل کی گئی ہے، پس اے نبیؐ، تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو، اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم

 

۳۴۶

 

اس کے ذریعہ سے (منکرین کو) ڈراؤ اور ایمان لانے والے لوگوں کو نصیحت ہو۔ کیا آپ امامِ آلِ محمّدؐ کے صدقے سے ان حروفِ مُقَطَّعات کے اسرار کو بتا سکتے ہیں۔ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ چار معجزاتِ عُلوی کی قسم کھاتا ہے: قسم ہے قلم کی، قسم ہے لَوح کی، قسم ہے مرقوم کی (اور) قسم ہے صورتِ رحمان کی۔ اس کے بعد جوابِ قسم ہے جو اوپر درج ہوا (۲) الف۔ لام۔ میم۔ صاد، یہ خدائی خزانے ایسے ہیں، جو انتہائی عظیم اور ازلی ہیں، جن سے آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ کے قلبِ مبارک پر قرآن نازل ہوا۔

سوال – ۴۷۳: سُورۂ قلم (۶۸: ۰۱ تا ۰۲) میں ارشاد ہے: ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ۔ آپ اس کی حکمت سے ہم کو آگاہ کریں – جواب: (۱) ترجمہ: قسم ہے نون کی، قسم ہے قلم کی اور قسم ہے ان (فرشتوں) کے لکھنے کی کہ تم اپنے ربّ کے فضل سے مجنون نہیں ہو۔ حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام سے منقول ہے کہ نون جنّت کی ایک نہر ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ جم جا، وہ جم گئی اور روشنائی بن گئی …… پھر خدا نے اپنے ہاتھ سے ایک درخت لگایا، پھر خدا نے درخت سے فرمایا کہ قلم ہوجا، جب وہ قلم ہوگیا تو حکم دیا کہ لکھ دے، اس نے عرض کیا کہ پروردگارا کیا لکھ دوں؟ ارشاد ہوا کہ جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے (۲) یہ قصّہ دراصل انسانِ کامل کے عالمِ شخصی سے متعلق ہے، یہی شخص وہ درخت ہے جو خدا

 

۳۴۷

 

اپنے ہاتھ سے لگاتا ہے، اسی درخت سے بحکمِ خدا قلمِ اعلیٰ بن جاتا ہے (۳) قلمِ عقل فرشتہ ہے، وہ واحد بھی ہے اور جمع بھی، یہی وجہ ہے کہ مذکورہ آیت میں یَسْطُرُوْنَ (وہ لکھتے ہیں) صیغۂ جمع آیا ہے۔

سوال – ۴۷۴: قرآنی لُغات میں اَمْر کے دو معنی ہیں: حکم، کام، پس سُورۂ یُونس (۱۰: ۰۳) میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا امر (حکم اور کام) بار بار اور مسلسل ہے، یعنی وہ قادرِ مطلق ہر عالمِ شخصی میں اپنی مکمّل سُنّت کا نمونہ دکھاتا ہے، اور اللہ کی سُنّت وہی ہوتی ہے، جو پہلے ہی کاملین میں گزر چکی تھی، اب آپ یہ بتائیں کہ آیا خدا کے نزدیک کوئی ایسا نیا کام بھی ہوسکتا ہے جو اب تک ناکردہ ہو؟ – جواب: (۱) اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں کوئی کام ایسا نہیں ہے جو نہ کیا گیا ہو، بالفاظِ دیگر خدا کا کوئی بھی کام نیا نہیں ہے، مگر یہ ہے کہ اس کے ہر کام میں تجدّد ہے (۲) تجدّدِ امثال کی اصطلاح ہم کو خبر دیتی ہے کہ ہر مری ہوئی چیز اللہ کے حکم سے زندہ ہوجاتی ہے اور ہر پرانی چیز نئی ہوجاتی ہے۔

سوال ۴۷۵: سُورۂ بقرہ (۰۲: ۵۸) میں ارشاد ہے: وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ (آپ پوری آیت ترجمہ کے ساتھ قرآن سے پڑھیں) یہ کونسی بستی تھی، جس میں بنی اسرائیل کو داخل ہوجانے کا حکم ملا تھا؟ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃ (یہ بستی) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ ایک طرح سے اسی بستی میں موجود تھے، جس میں داخل ہوجانے کا حکم ہوا تھا، اس میں کیا

 

۳۴۸

 

راز ہے؟ سجدہ کرتے ہوئے دروازے سے داخل ہوجانے میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ – جواب: (۱)  یہ ہر انسان کا اپنا ہی قریۂ ہستی ہے، جس کو اب ہم عالمِ شخصی کہتے ہیں، بنی اسرائیل جسمانی طور پر عالمِ شخصی میں رہتے تھے، مگر روحانی طور پر ھنوز داخل نہ ہوسکے تھے، (۲) ھٰذِہِ الْقَرْیَۃَ (یہ بستی) کے اشارے سے اس حقیقت کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ یہ بستی خود ان کی ہستی ہی میں تھی، اور یہی ایک بہت بڑا راز ہے (۳) سجدہ کرتے ہوئے دروازے سے داخل ہوجانا = پیغمبر کے باب (اساس / امام) کی حقیقی اطاعت کے ذریعے سے عالمِ شخصی میں داخل ہوجانا، جہاں پیغمبر کے علم و حکمت کے خزائن موجود ہیں۔

سوال – ۴۷۶: آپ سُورۂ مائدہ کے رکوعِ چہارم (۰۵: ۲۰ تا ۲۶) کو باترجمہ قرآن میں پڑھیں، حضرتِ موسٰی نے کہا: اے میری قوم! اس مقدّس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے، پیچھے نہ ہٹو ورنہ ناکام و نامراد پلٹو گے۔ یہ مقدّس سرزمین کونسی ہے، جس کو فتح کرلینے کے لئے بنی اسرائیل کو حکم ہوا تھا؟ آیا یہ جہادِ اکبر کا قصّہ ہے؟ -جواب: (۱) یہ سرزمین عالمِ شخصی ہے جو کئی معنوں میں مقدّس ہے، جس کی فتح تسخیرِ کائنات ہے (۲) یقیناً یہ جہادِ اکبر ہی کا قصّہ ہے۔

سوال – ۴۷۷: اسی رکوع کے شروع (۰۵: ۲۰) میں یہ حکیمانہ اشارہ آیا ہے کہ حضرتِ موسٰیؑ اور حضرتِ ہارونؑ کے مومنین میں سے جو لوگ

 

۳۴۹

 

عالمِ شخصی میں داخل ہوچکے تھے، وہ ملوک و سلاطین ہوگئے تھے، کیا یہ اللہ کی بہت بڑی عِنایت ہر زمانے میں ممکن نہیں ہے؟ -جواب: (۱) خداوندِ تعالی کی عنایت ہمیشہ ہمیشہ ممکن ہے، لیکن اس کے لئے عالمِ شخصی میں داخل ہوجانا عظیم شرط ہے (۲) عالمِ شخصی کا باب (دروازہ) امامِ زمان علیہ السّلام ہے، جس کے ذریعے سے داخل ہوجانے کے لئے اطاعت، محبّت، عشق، اور علم چاہیئے (۳) ہمارے پیروں اور بزرگوں کے عالمِ شخصی میں امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہوگیا تھا، اسی عظیم واقعہ کی بے شمار مثالیں قرآن میں موجود ہیں۔

سوال – ۴۷۸: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا؟ اس سوال کے جواب میں آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ کے پانچ ارشادات ہیں: (الف) اوّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوری (ب) اوّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ القَلَمُ (ج) اوّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ العَقْلُ (د) اوّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ  اللَّوْحُ (ھ) اوّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ الرُّوْح۔ آپ یہ بتائیں کہ پانچ مختلف چیزیں ایک ساتھ اوّل کس طرح ہوسکتی ہیں؟ کیا قلم اور لوح عقل و جان کے بغیر ہیں؟ -جواب: (۱) یہ ایک ہی حقیقت ہے کہ جس کے ازلی نام یہاں پانچ ہیں، اس کا تذکرہ کسی بھی نام سے ہوسکتا ہے، چنانچہ آنحضرت نے موقع و محل کے مطابق اس کا ایک نام ظاہر فرمایا (۲) قلم اور لوح عقل و جان کے سوا نہیں ہیں، یہ نبیؐ اور علیؑ کے نورِ واحد کے اسمائے ازل ہیں۔

 

۳۵۰

 

سوال – ۴۷۹: آپ نے تو بتایا تھا کہ نورِ محمّدؐ قلم ہےاور نورِ علیؑ لوح، کیا یہ ضروری نہیں کہ یہ دونوں چیزیں الگ الگ ہوں؟ اگر نورِ نبیؑ عرش ہے اور نورِ امامِ مبینؑ کرسی، تو کیا یہ دونوں درجے جدا جدا نہیں ہیں؟ – جواب: (۱) عالمِ شخصی کے بہت سے مراحل کے بعد حظیرۃ القدس / عالمِ وحدت آتا ہے، جس کے بارے میں عُرَفاء یہ کہتے ہیں کہ وہاں ایک ہی عظیم فرشتہ قلم بھی ہے اور لوح بھی، یہی مَلَک محمدؐ و علیؑ کا نورِ واحد بھی ہے، اور عقلِ کل و نفسِ کُلّ بھی یہی ہے (۲) یقیناً نورِ نبیؐ عرش ہے اور نورِعلیؑ کرسی، لیکن یہ نورِ واحد ہے اور فرشتۂ واحد، جو عرش بھی ہے اور کرسی بھی، بلکہ وہی عظیم فرشتہ روحانی آسمان بھی ہے اور زمین بھی۔

سوال- ۴۸۰: اکثر لوگوں کے نزدیک تصوّرِ ازل انتہائی بعید ماضی کی طرح ہے، لیکن اس کے برعکس آپ تو یہ کہتے ہیں کہ عالمِ شخصی کے روحانی سفر کے آخر میں براہِ راست ازل اور لامکان کا مشاہدہ ہوتا ہے، آپ اس عجیب و غریب حکمت کی وضاحت کریں- جواب: (۱)  عالمِ شخصی کا روحانی سفر جسم سے روح کی طرف، مکان سے لامکان کی طرف، زمین سے آسمان کی طرف، اور آخر سے اوّل کی طرف ہے (۲) چونکہ یہ سفر مُدَوّر (گول) ہے، لہٰذا ہم کو گھوم کر واپس وہاں جانا پڑتا ہے، جہاں سے ہم آئے تھے (۳) امامِ مبینؑ میں سب کچھ ہے، اس کا تجربہ عالمِ شخصی میں ہوتا ہے، خصوصاً جبین میں، جو عالمِ عُلوی ہے، جس میں ازل و ابد کے اسرار ہیں۔

 

۳۵۱

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۶

 

سوال – ۴۸۱: سُورۂ رحمٰن (۵۵: ۳۳) میں زمان و مکان یعنی کائنات کی قُیُود سے بالاتر ہوجانے کا مفہوم ہے، یہ کس طرح ممکن ہے؟ -جواب: (۱) اس کا طریقِ کار لفظِ “سلطان” میں ہے، جس کے معنی ہیں: دلیل، حجّت، اقتدار، غلبہ، مراد ہے ہدایتِ حقّہ کی روشنی میں زبردست علم اور زبردست عبادت کے ذریعے سے معجزاتِ جبین تک رسا ہوجانا، جہاں ازلی اور لامکانی اسرار ہیں۔

سوال – ۴۸۲: آپ عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس کی طرف بہت زیادہ توجّہ دلارہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ – جواب: (۱) اساسی طور پر آپ اس کو توفیقِ الٰہی سمجھیں، کیونکہ قرآنی علم وحکمت میں جو زبردست جاذبیّت و کشش ہے، وہ خداوندِ قدّوس ہی کی طرف سے ہے، اور دیگر تمام اسباب بھی اسی مُسَبِّبُ الاسباب کی جانب سے ہیں (۲) آیۂ آفاق و انفس (۴۱: ۵۳) کےمطابق عصرِ حاضر میں ظاہری اور باطنی آیات، معجزات، اور عجائب و غرائب کا مشاہدہ ہو رہا ہے، ایسے میں کم از کم علم الیقین کی سطح پر عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس کے اسرار کا بیان بیحد ضروری ہے، اور اس عمل سے

 

۳۵۲

 

بے شمار فائدے حاصل کئے جاسکتے ہیں، الحمدللہ۔

سوال- ۴۸۳: آپ ہمیں حظیرۂ قدس کے چند مبارک و مقدّس اسماء اور وہاں کی چند عظیم چیزیں بتائیں۔ -جواب: (۱) عِلِّیّین، خزائن، الٰہی، عرش، کُرسی، قلم، لوح، کتابِ مکنون (۲) لپیٹی ہوئی کائنات، مرکزِ قبض و بسط، کائناتی نامۂ اعمال، مقامِ حق الیقین، نزدیک لائی ہوئی بہشت، عقل، نفس، ناطق، اساس (۳) شاخِ شجرۂ طیّبہ، گنجِ مخفی، کلمۂ باری، درختِ طُوبیٰ، مثل الاعلیٰ، صورتِ رحمان، رُؤیت، وجہ اللہ، مقامِ فنافی اللہ، مرتبۂ یک حقیقت، عالمِ عُلوی، کُوہِ طور، کُوہِ عقل، گوہرِعقل (۴) عالمِ وحدت، مرتبۂ امامِ مبینؑ یا کُلّیّۂ امامِ مبینؑ، اُمُّ الکتاب، عالمِ امر، بیت المعمور، حکمت کا گھر، مقامِ الست، مقام ابراہیمؑ، کعبۂ باطن، بیت العتیق، مقامِ معرفت، معراجِ انبیأ علیہم السّلام، وغیرہ۔

سوال -۴۸۴:  آپ بحیثیتِ مجموعی عالمِ شخصی سے متعلّق چند الفاظ و اصطلاحات کو تحریر کریں، تاکہ آپ کے بہت ہی پیارے تلامیذ ان کے ذریعے سے اپنی معلومات کا اندازہ کرسکیں- جواب: (۱) منزلِ عزرائیلی، منزلِ اسرافیلی، قبضِ روح، یاجوج ماجوج، عالمِ ذرّ، داعیٔ قیامت، جنگِ روحانی، تسخیرِ کائنات، روحانی قیامت، موت قبل از موت (۲)، روحانی لشکر، کُوہِ روح، تَوَلُّدِ روحانی، تَوَلُّدِ عقلانی، آسمانِ دنیا، عالمِ شخصی اور عالمِ اکبرکا ایک ہوجانا، سالک، عارف، عاشق، آدمِ زمان، قریۂ ہستی،

 

۳۵۳

 

ثمرات، آلِ محمّدؐ کی روحانی سلطنت، زلزلہ (۳) روحانی خوشبوئیں، نمائندہ ذرّات، نمائندہ قیامت، تجدُّدِ امثال، جسمِ لطیف، نورانی قالب، نورانی موویز (۴) عارف کے جسمِ لطیف کی کاپیاں، کتابِ نفسی، کائنات کی کاپیاں، فنا فی الامام، دینِ حق کی آخری دعوت (۵) شعوری قیامت، غیر شعوری قیامت، حجّتِ قائم، قائم القیامت، عین الیقین، کیا آپ عزیزان ان تمام معنوں کو جانتے ہیں؟

سوال – ۴۸۵:  بحوالۂ سُورۂ بقرۃ (۰۲: ۲۴۶) اور سُورۂ اَنعام (۰۶: ۲۰) آیۂ کریمہ کا یہ مفہوم ہے کہ اہلِ کتاب حضرتِ محمّد رسول اللہؐ کو اس طرح پہچانتے تھے، جس طرح وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے، لیکن ان میں بعض ایسے بھی تھے جو دیدہ و دانستہ حق بات کو چھپاتے تھے۔ آپ اس کی حکمت بیان کریں – جواب: (۱) اس مقام پر ایک عظیم راز پوشیدہ ہے، وہ یہ ہے کہ حضرتِ موسٰیؑ اور حضرتِ عیسٰیؑ کے دَور کے حُجج اپنی اپنی روحانیّت میں نورِ واحدِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کو پہچانتے تھے، اور اسی میں آنحضرتؐ کی پہچان (معرفت) بھی تھی، یاد رہے کہ نور کے ساتھ عارف کے کئی رشتے ہیں، منجملہ نور عارف سے یہ بھی کہتا ہے کہ میں تیرا بیٹا ہوں، یہ بات دنیا میں صرف عالمِ شخصی تک محدود ہے، پس اہلِ کتاب میں آنحضرتؐ کی مذکورہ پہچان حدودِ دین کی وجہ سے تھی۔

سوال – ۴۸۶:  سُورۂ نمل کے آخر (۲۷: ۹۳) میں قرآنی جواہر کا جو

 

۳۵۴

 

خزانہ موجود ہے، اس کی خوشخبری ہی سے عاشقوں کو بیحد خوشی ہوسکتی ہے، آپ ترجمۂ آیت اور حکمت پیش کریں۔ -جواب: (۱) ترجمہ: کہہ دو: الحمد للہ! وہ بہت جلد اپنی آیات (معجزات) تمہیں دکھلائے گا تاکہ تم انہیں پہچان لو۔ (۲) یہاں سب سے پہلے آپ کو یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ یہ آیات جُزوی ہیں یا کُلّی؟ آفاق میں ہیں انفس میں؟ یا دونوں میں؟ عالمِ نفسی / عالمِ شخصی کی کس منزل میں ہیں؟ آیا یہ تمام معجزات (آیات) جو عظیم ہیں، وہ سب کے سب حظیرۂ قدس میں جمع ہیں؟ جی ہاں، جی ہاں، پھر آپ س ۴۸۳ میں دیکھیں کہ اس مقام پر کیسے کیسے عظیم معجزات ہوتے ہیں۔

سوال – ۴۸۷: نزولِ قرآن کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو اپنی آیاتِ خاص دکھانے کا وعدہ فرمایا تھا، وہ کچھ ایسے معجزات دیکھے بغیر مرگئے، اور اسی طرح آج تک صدیاں بیت گئیں، لیکن اللہ جل شانہٗ کا کوئی ایسا معجزہ دنیا والوں کے سامنے ظاہرنہیں ہوا، جو بیحد حیران کُن اور زبردست انقلابی ہو، حالانکہ خداوند تعالیٰ کا ہر وعدہ حق ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ – جواب: (۱) اس کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کا وہ اندھا پن ہے، جس کا قرآنِ پاک میں جگہ جگہ ذکر آیا ہے، خصوصاً سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۱ تا ۷۲) میں دیکھیں، اور ضرور دیکھیں (۲) تمام چھوٹے بڑے معجزات اس روحانی قیامت میں جمع ہیں، جو زمانے کے امام کے توسّط سے قائم ہو جاتی ہے (۳) پس ربّ العزّت کا ہر ہر معجزہ امام ِمبینؑ (۳۶: ۱۲) میں ہے۔

 

۳۵۵

 

سوال – ۴۸۸: آیا سُورۂ نمل کی مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ (۲۷: ۹۳) میں کوئی ایسا اشارہ بھی موجود ہے، جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ معجزات کس مقام پر ہیں؟ اور اُس منزل کا کیا نام ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، “الحمد للہ” میں یہ اشارہ ہے کہ وہ جملہ عظیم معجزات مرتبۂ عقل پر جمع ہیں جو حظیرۂ قدس میں ہے، کیونکہ حمد سے عقل مراد ہے (۲) حظیرۂ قدس کا دوسرا نام دائرۂ امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲) ہے۔

سوال – ۴۸۹: ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے پاس روحانی معلومات کا ایک عظیم ذخیرہ موجود ہے، اور ہم اس بات کو بھی جانتے ہیں کہ یہ عنایتِ بے نہایت کس مہربان بادشاہ کی طرف سے ہے، بہ ہر کیف بارِ امانت  سُبک دوشی کے لئے آپ کے پاس کیا کیا طریقے ہیں؟ کیا آپ اپنی علمی خدمت کے ان طریقوں سے مطمئن ہیں؟ – جواب: (۱) میری ایک خاص مناجات کا ایک شعر ہے: خداوندا جݺ اُنݺ ھِݣ ڎمُ ھُکن با+ جماعتݺ غُم اُݼوݣُ لُمْ تِکݺ فُکن با = خداوندا، میں تیرے دروازے کے سامنے رہنے والا ایک کُتّا ہوں، اور جماعت کے نقشِ قدم کا ایک ذرۂ خاک ہوں، لیکن اس کے کتنے عظیم احسانات ہیں، کہ آج میں صرف ایک فرد نہیں ہوں، اللہ تعالیٰ نے میری روح کے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کر کے اگرچہ کُلّ جہان میں بکھیر دیا ہے، تاہم خواہش یہ ہے کہ میری ہستی کا ہر ذرّہ علمی دوستوں سے قربان ہوجائے، (۲) خدا کے فضل و کرم سے ہمارے ادارے میں کئی طریقے ہیں، جن سے ادائے امانات کا فریضہ

 

۳۵۶

 

انجام پا رہا ہے (۳) اللہ کا شکر ہے، میرے عزیزان جس طرح علمی خدمت کررہے ہیں، میں اس سے مطمئن ہوں۔

سوال – ۴۹۰: سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۴۴) میں ارشاد ہے: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لاَ تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ = اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔ قرآنِ عظیم کا یہ بڑا عجیب و غریب کا ئناتی کُلّیّہ ناقابلِ فراموش ہے، لہٰذا اگر ہوسکتا ہے تو اس کی کوئی حکمت بیان کریں -جواب: (۱)  ہر چیز چار مقامات پر ذاتِ سبحان کی تسبیح کرتی ہے، یعنی اس کو مخلوق کی صفات سے پاک قرار دیتی ہے (۲) اوّل: جُملہ اشیاء اپنی اپنی جگہ زبانِ حال سے یہ تسبیح کر رہی ہیں (۳) دوم: ہر شیٔ کائناتی تسبیح (۱۷: ۴۴) میں شرکت و شمولیّت کر رہی ہے (۴) سوم: جب کسی شخصِ کامل پر روحانی قیامت برپا ہوتی ہے تو اُس وقت کُلّ اشیاء صورِ اسرافیل کی مسلسل آواز کی ہم آہنگی میں تسبیح خوان ہو جاتی ہیں (۵) چہارم: جب منزلِ آخرین / منزلِ حمد (عقل) آتی ہے، تو ہر چیز حمد کے ساتھ خدا کی تسبیح کرتی ہے اور فنا ہوجاتی ہے، اور یہی ہر شیٔ کی آخری تسبیح ہے۔

 

۳۵۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۷

 

سوال – ۴۹۱: ارشاد ہے: کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَا تَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ =سب اپنی اپنی نماز اور تسبیح سے باخبر ہیں ( ۲۴: ۴۱) آپ سُورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں بھی دیکھ لیں: جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے طَوعاً یا کَرھاً اللہ کے لئے سجدہ ریز ہے۔ اس سے معلوم ہُوا کہ ہر چیز اور ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی غلامی کر رہی ہے، یعنی نماز، تسبیح، اور سجدہ کے بغیر کوئی چیز نہیں، یہاں یہ سوال ہے کہ جب اِس کائناتی کُلّیّہ کے مطابق انسان اور غیر انسان سب کے سب خدا کی غلامی کررہے ہیں، تو پھر عذاب اور ثواب کا تعلّق صرف انسانوں سے کیوں ہے؟ -جواب: (۱) غلامی یا عبادت دو قسم کی ہوا کرتی ہے: ایک ہے تسخیری، اور دوسری ہے اختیاری، اختیاری صرف انسان ہی کو عطا ہوا ہے (۲) جیسے کہ قرآنی الفاظ ہیں: طَوعًا وَ کَرھًا (خوشی سے یا مجبوری سے) چنانچہ جب کوئی مومن اللہ کے لئے سجدہ کرتا ہے تو یہ اختیاری سجدہ ہے، لہٰذا اس کا ثواب ہے، لیکن درخت کا سجدہ فطری اور تسخیری ہے، اس لئے اُس کو کوئی ثواب نہیں۔

سوال – ۴۹۲:  آپ تسخیر کے بارے میں وضاحت کریں کہ وہ

 

۳۵۸

 

کیا چیز ہے اور کس طرح سے ہے؟ – جواب: (۱) تسخیر کے معنی ہیں: فرمانبردار بنانا، قرآنِ حکیم کی کئی عظیم الشّان آیات بتاتی ہیں کہ خداوندِ قدّوس نے اپنی رحمتِ بےنہایت سے انسان کے لئے کائنات کو ظاہراً وَبَاطناً مُسخّر کردیا ہے، آپ ایک ایسی عظیم، بابرکت، اور پُراز علم و حکمت آیت کو سُورۂ لُقمان (۳۱: ۳۰) میں پڑھیں، جس کا ترجمہ یہ ہے: کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے مُسَخّر کر رکھی ہیں اور اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں؟

سوال – ۴۹۳: آپ قرآنی دلیل کی روشنی میں یہ ثابت کر کے بتائیں کہ انسان صاحبِ اختیار ہے -جواب: (۱) قرآنِ حکیم میں تَوَکّلُ کے مضمون کو پڑھیں، کیونکہ تَوَکّلُ یہ ہے کہ آپ اپنا اختیار حقیقی وکیل کو دیتے ہیں وہ آپ پرنورِ ہدایت کی روشنی ڈال کر آپ کے اختیار کو محدود کرتا ہے، اس سے معلوم ہُوا کہ انسان صاحبِ اختیار ہے۔

سوال – ۴۹۴: سُورۂ احزاب (۳۳: ۷۲) میں ہے: ہم نے امانت (کا بار) آسمان اور زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا تو سب نے اس بار کو اُٹھانے سے انکار کر دیا، اور اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اُٹھا لیا، بلاشبہ وہ ظَلُوم و جَھُول تھا، آپ بتائیں کہ یہ امانت کیا تھی؟

 

۳۵۹

 

– جواب: (۱) یہ انسانی اختیار کی امانت ہے، یعنی اختیار خدا کی طرف سے انسان کو بطورِ امانت ملا ہے، تاکہ مقاماتِ تَوَکّلُ کے ذریعے سے اس کو واپس کیا جائے (۲) آپ کو نفسانی موت کا قصّہ معلوم ہے کہ منزلِ عزرائیلی میں داخل ہونے کے ساتھ مومنِ سالک کا اختیار باقی نہیں رہتا ہے، اس کا ایک لطیف اشارہ سورۂ احزاب (۳۳: ۳۶) میں بھی ہے۔

سوال – ۴۹۵:  صنادیقِ جواہر کی اس انمول کتاب میں ایک جدید اور ازبس مفید طریقۂ تعلیم یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہم گاہے گاہے عالیشان کلیدی الفاظ اپنے عزیزوں کےسامنے رکھیں، تاکہ وہ اپنے ذخیرۂ معلومات کا بخوبی اندازہ کرسکیں، پس آپ کلیدی الفاظ کی ایک سوالیہ فہرست مُرتّب کر دیں – جواب: (۱) نفسِ واحدہ؟ عالَمِ دین کے چھ دن؟ امامِ مُستقر اور امامِ مستودع؟ اساس؟ (۲) وصی؟ وصیٔ آدم؟ وصیٔ موسیٰ؟ باب؟ کوثر؟ رسولِ ناطق؟ بے پایان حشردارد؟ نفسانی موت؟ جسمانی موت؟ (۳) وزیر؟ حجاب؟ کفیل؟ حُجّت؟ ماذون؟ داعیٔ مطلق؟ مُستجیب؟ حُجّتِ جزیرہ؟ پیر؟

سوال – ۴۹۶:  کلیدی الفاظ سے پُرانی اور نئی اصطلاحا ت مراد ہیں، اور ان میں ضروری عُنوانات بھی شامل ہیں، جس طرح کسی خزانے کا مُقَفّل دروازہ ہوا کرتا ہے، جس کی ایک کلید ہوتی ہے، اور جیسے کوئی صندوقِ جواہر تالا لگا ہوا ہوتا ہے، اور اس کی ایک چابی ہوتی

 

۳۶۰

 

ہے، اسی طرح خزائنِ علم و حکمت کی بھی مفاتیح (کلیدیں) ہیں، براہِ کرم آپ کچھ اور سوالیہ فہرستیں بنائیں – جواب: (۱) قیامۃ القیامات؟ حشر؟ نشر؟ یوم الحساب؟ حجِّ اکبر؟ جہادِ اکبر؟ شہید؟ فانی؟ جدید؟ (۲) من و سلویٰ؟ اعتکاف؟ اربعین؟ ناقۂ صالح؟ دُلدُل؟ قنبر؟ سلمان؟ ابوذر؟ ذوالفقار؟ آیۂ اِنّما؟ معراج؟ لافتیٰ؟

سوال – ۴۹۷: آیا کلیدی الفاظ کی کوئی لِسٹ اس سے پہلے بھی تیار ہو چکی ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، کارنامۂ زرّین، حصّہ دوم، از ص ۵۶ – ۵۹ میں ایک عمدہ فہرست درج ہوئی ہے، اب ان شاء اللہ اپنے عزیز شاگردوں کے ذریعے سے ایک ایسی لُغات مُرتب کریں گے، جن میں قدیم و جدید اصطلاحات وغیرہ کی تشریح ہو (۲) اس کارنامۂ عظیم کے لئے ان عزیزوں کو اوّلیّت دیں گے، جو قابل اور محنتی ہیں، اور جو کلاس کے علاوہ مطالعے سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں، طریقِ کار میں اوّلین بات یہ ہے کہ عزیزوں کو اصطلاحات اور ضروری الفاظ کا بخوبی علم ہونا چاہیئے، تاکہ ہر کتاب میں سے ایک فہرست بنائی جائے، اور تمام فہرستوں میں سے لغات تیار کی جائے۔

سوال – ۴۹۸: بحوالۂ سُورۂ زُمَر ( ۳۹: ۲۳) آیۂ شریفہ: اَللّٰہُ نَزَّلَ سے مِنْ ہادٍ تک کس مقدّس چیز کی تعریف میں ہے؟ آپ اس کی بعض خوبیاں بیان کریں – جواب: (۱)  یہ آیۂ کریمہ اوّل قرآنِ پاک کی تعریف کرتی

 

۳۶۱

 

ہے، اور دُوُم اسمِ اعظم کے بارے میں ہے، قرآنِ حکیم کے اَوصاف و کمالات سب پر عیان ہیں، لیکن اسمِ اعظم کے معجزات تک رسائی بیحد مشکل کام ہے (۲) اسمِ اعظم اللہ تعالیٰ کا بہترین کلام ہے، وہ مُتَشَابہ ہے، اس کو بطورِ ذکر دُہرایا جاتا ہے، اس سے ان ذاکرین کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو خدا سے ڈرتے ہیں، اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوجاتے ہیں ……۔

سوال – ۴۹۹: شاید یہ روحانی سائنس کا مسئلہ ہے، یا روحانی علاج کا سوال ہے کہ قرآن کی تلاوت اور اسمِ اعظم کے ذکر کے زیرِ اثر بندۂ مومن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، کیا آپ اِس کی مناسب توجیہہ کر سکتے ہیں؟ -جواب: (۱) ان شاء اللہ العزیز، آدمی کا سارا بدن بے حدّ و بے حساب زندہ خلیّات کا مجموعہ ہے، جن میں بمتقضائے حکمت روحوں کی ایک عظیم کائنات سوئی ہوئی ہے (۲) جب مومن، مخلص خوفِ خدا کے ساتھ ذکرِ قلبی میں محو ہوجاتا ہے تو اس حال میں اسمِ اعظم کی نورانیت خلیّات والی روحوں میں پھیلنے لگتی ہے، جس کی وجہ سے تمام خلیّات کچھ دیر کے لئے جوش و جذبے کے ساتھ بیدار ہوجاتے ہیں۔

سوال – ۵۰۰: قرآنی تعلیمات کا ایک خاص مقصد یہ بھی ہے کہ انسان ہمیشہ قدرتِ خدا کےعجائب و غرائب میں غور کر لیا کریں،

 

۳۶۲

 

مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگوں کو فخر ہے، جس کی وجہ سے وہ بہت سی چیزوں کو حقیر سمجھتے ہیں، اور ان میں غور نہیں کرتے، چنانچہ یہاں میرا یہ سوال ہے کہ جب گدھے کے کان پر مکھی بیٹھ کر کاٹنے لگتی ہے تو گدھا کان ہلا کر اسے اڑا دیتا ہے، آپ یہ بتائیں کہ گدھے کو کس نے یہ خبر دی کہ مکھی تمہارے کان پر بیٹھی ہے، اور گدھے نے اپنے کان کو کس طرح حکم دیا کہ ظالم مکھی کو دور کردو جو خون چُوسنے کے لئے آئی ہے؟ – جواب: (۱)  حیوان ہو یا انسان، اس کے سارے خلیّات اور جسم میں روحِ حیوانی پھیلی ہوئی ہے، جس میں حِسّی پیغام رسانی کا نظام ہے، (۲) جب گدھے کے کان پر مکھی آکر ستانے لگی، تو مقامی خلیّات نے دل کو حِسّی سگنل دیا، اور دل نےفورًا حکم دیا کہ مکھی کو اُڑا دو۔

 

۳۶۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۸

 

سوال – ۵۰۱: انسان میں چار اساسی قوّتیں کام کررہی ہیں: روحِ نباتی، روحِ حیوانی، روحِ انسانی، اور عقل، اب آپ ہمیں یہ بتائیں کہ غُصّہ کس روح سے پیدا ہوتا ہے؟ کونسی روح ہے جو درد کو محسوس کر سکتی ہے؟ لَذت گیری کا خاصّہ کس روح میں پوشیدہ ہے؟ علم و حکمت کا شوق کس روح میں ہوتا ہے؟ – جواب: (۱) غُصّہ روحِ حیوانی سے ہے (۲) درد کو صرف روحِ حیوانی محسوس کرسکتی ہے (۳) لَذتیں تین قسم کی ہیں: روحِ حیوانی کے لئے، روحِ انسانی کے لئے، اور عقل کے لئے، پس حیوان کو صرف ایک قسم کی لَذت ہے، جبکہ انسان تین طرح سے لَذت گیر ہوتا ہے، (۴) علم و حکمت کا شوق عقل میں پیدا ہو سکتا ہے۔

سوال – ۵۰۲: کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ عقلِ کلّ میں نفسِ کُلّ غائب ہے یا نفسِ کُلّ میں عقلِ کلّ؟ آپ قرآن ہی کی روشنی میں بتائیں -جواب: (۱) نفسِ کُلّ میں عقلِ کلّ غائب ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرض = اس کی کُرسی نےسب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے۔ کُرسی نفسِ کُلّی ہے، جبکہ عرش عقلِ کلّی ہے۔

 

۳۶۴

 

سوال – ۵۰۳: یہاں ایک بُرُوشسکی قول ہے: تھلا تھلا تھلا نی، تھلا تھلا تھلا ژُو =آہستہ آہستہ آہستہ جا۔ آہستہ آہستہ آہستہ آ۔ ایک اصول کے مطابق اس کا تلفظ یوں بھی ہوسکتا ہے: تھلاک تھلاک تھلاک نی۔ تھلاک تھلاک تھلاک ژُو۔ اس میں کیا حکمت ہے؟  – جواب: (۱)  عالمِ عُلوی اور عالمِ سِفلی کے درمیان جو دائرۂ اعظم ہے، وہ عجب نہیں کہ چھ کروڑ سال کی مسافت رکھتا ہو۔

سوال – ۵۰۴:  سُورۂ قصص (۲۸: ۸۱) میں ہے: فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ = آخر کار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا۔ یہ قارون کا قصّہ ہے کہ اللہ نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا، کیونکہ      وہ سرکش اور نافرمان ہو چکا تھا، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آیا خدا وندِ عالم نے اسے زمینِ ظاہر میں دھنسایا یا عالمِ شخصی کی زمین میں؟ -جواب: (۱) قرآنی مثالیں الگ الگ ہیں، لیکن حقیقت ایک ہی ہے، وہ یہ کہ تمام لوگ بحکمِ خدا عالمِ شخصی ہی میں جمع ہو جاتے ہیں (۲) علم و حکمت کے راستے میں قدم قدم پر امتحان ہے، مگر آپ یقین کریں کہ روحوں کا مرکز ایک ہی ہے، اور قارون جیسے لوگ بہت ہوئے ہیں، ان سب کو قیامت کی زبردستی سے عالمِ شخصی میں لایا جاتا تھا۔

سوال – ۵۰۵:  قرآنِ حکیم (۰۳: ۴۵) میں حضرتِ عیسیٰؑ کا پورا اسم “المسیح عیسیٰ ابنِ مریم” ہے اور لفظِ المسیح قرآنِ پاک کے مختلف مقامات

 

۳۶۵

 

پر گیارہ مرتبہ آیا ہے، یہ نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا، لہٰذا آپ بتائیں کہ مسیح کے کیا معنی ہیں؟ – جواب: (۱) اگرچہ اس باب میں عُلماء کے اقوال مختلف ہیں، تاہم یہ قول درست ہے کہ عیسیٰ علیہ السّلام کے مس کرنے سے چونکہ کوڑھی تندرست ہوجاتے تھے، اس لئے آپؑ کو مسیح کے نام سے پکارا جاتا ہے (۲) حضرتِ مسیح عیسیٰ علیہ السّلام اپنے دَور کے لئے خداوندِ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم تھا، ان کی مبارک شخصیّت میں دعائے نور کے مطابق نور کی لہریں دوڑتی تھیں، پس اگر ناطق، اساس، اور امام علیہم السّلام کے نورانی کرنٹ سے روحانی امراض کا علاج ہوا ہے، تو اس میں کیا تعجّب ہوسکتا ہے۔

سوال – ۵۰۶: سیّدالانبیاء حضرتِ محمّد مصطفیٰ رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا سب سے عظیم معجزہ کونسا ہے؟ ایسا بے مثال معجزہ جس سے یہ حقیقت روشن ہو کہ بے شک آنحضرتؐ ہی محبوبِ خدا ہیں؟ – جواب: (۱) ایسا انتہائی عظیم اور بیمثال معجزہ قرآنِ حکیم ہی ہے، جس میں ایک حساب کے مطابق چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ (۶۶۶۶) معجزات ہیں، (۲) یعنی قرآنِ پاک کی ہر آیت نہ صرف معناً معجزہ ہے، بلکہ فعلاً بھی معجزہ ہے، جس کی نورانیت آٹھ مقامات پر ہے: کلمۂ باری (کُن)، قلم، لوح، جدّ، فتح، خیال، نورِ نبوّت، نورِ امامت (۳) جوہرِ قرآن اگلے لوگوں کی (آسمانی) کتابوں میں بھی موجود ہے (۲۶: ۱۹۶) قرآن کی نورانیت عُرَفاء کے عالمِ شخصی میں بھی ہے (۴) اس کی حکمت علم الیقین کے درجات میں بھی

 

۳۶۶

 

ہے، اس کی روشنی مومنین و مومنات کے اذکار، عبادات، اور تسبیحات میں بھی ہے، الغرض قرآن نہ صرف ایک عظیم معجزہ ہے، بلکہ ایک بہت بڑی معجزاتی کائنات بھی ہے (۵) لوگوں کی عادت ہمیشہ ایسی رہی ہے کہ اگر کوئی معجزہ ہوتا ہے تو وہ ان کے مفاد میں ہو، درست ہے مگر سوچنے اور جاننے کی ضرورت ہے کہ قرآنی معجزات میں باطنی شِفا کے ساتھ ساتھ بے شمار فائدے بھی ہیں۔

سوال – ۵۰۷: آپ کے اس بُرُوشسکی شعر کی مثال انتہائی دلکش اور حیرت انگیز ہے: اِنَ لݺ عجب دُربنن کون و مکان غیئچلہ + ایپچی نُکون ڈوݣ برین یارہ ھُنر بُٹ اُیَم۔ اس کے پاس ایک عجیب دوربین ہے جس سے دونوں جہان کا نظارہ ہوتا ہے، تم اس کے پاس جا کر ذرا دیکھو کہ میرے دوست کا ہنر بیحد شیرین ہے۔ البتہ اس دوربین سے چشمِ بصیرت مراد ہے، اور ہنر کا مطلب روحانیّت ہے، پس آپ نے جس فُوغلغُو (جُگنُو = کِرمِ شب تاب ) کو اپنے علاقے میں دیکھا تھا، اس کے بارے میں بتائیں کہ اس سے روشنی نکلنے کی وجہ کیا ہے؟ – جواب: (۱) سب سے پہلے ہمیں یہ اقرار کرنا چاہیئے کہ یہ آیاتِ قدرت میں سے ہے، اس کے بعد اگر ہم سے ہوسکتا ہے تو اس میں غور و فکر سے توجیہہ کریں (۲) میرا خیال ہے کہ جُگنُو سے جو روشنی نکلتی ہے، وہ روحِ حیوانی کی ایک خاص قسم کی تحلیل کے سبب سے ہے، جس طرح کائنات کے مرکز میں مادّہ کی تحلیل سے سورج کے نام سے روشنی بنتی

 

۳۶۷

 

ہے، اسی طرح روحِ حیوانی کی بھی تحلیل اور روشنی ہے، مگر روحِ انسانی کی روشنی اس سے بہت ہی اعلیٰ ہے، اور عقل کی روشنی اس سے بھی اعلیٰ ہے، لیکن وہ رنگینی سے بالاتر ہے۔

سوال – ۵۰۸: اگر آپ کے پاس جُگنُو سے متعلّق کچھ ظاہری معلومات ہیں تو وہ بھی بتائیں – جواب: (۱) اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اوّل، ص ۴۶۹ پر ہے: جُگنُو (FIRE FLY)  یہ راتوں کو اُڑنے والا، ضوافگن بھونرا ہے، جو ایک ننّھی سی بجلی کی طرح لمحہ بہ لمحہ چمکتا بجھتا رہتا ہے، یہ خاندان لمپائر ڈی(LAMPYRIDA)  کا فرد ہے اور معتدل علاقوں کی بہ نسبت حارّی علاقوں میں زیادہ کثرت سے ملتا ہے (۲) نوری اعضا شکم پر ہوتے ہیں، جہاں ننھّے ننھّے خلیوں کی کئی تہیں عاکس (REFLECTOR) کے طور پر کام کرتی ہیں اور سب سے نچلی تہہ نورزا خلیوں کی ہوتی ہے (۳) ہر خلیے میں اعصاب اور ہوا کی نالیاں ہوتی ہیں، جن کے توسط سے لیوسی فریس (LUCIFERASE) نامی خامرے کی موجودگی میں لیوسی فیرن (LUCIFERIN) کی تکسید ہو جاتی ہے (۴) روشنی کی رنگت (زرد، سبزی مائل، نیلی یا سرخی مائل ) میں نوع تا نوع فرق ہوتا ہے۔ روشنی کی تیزی اور اس کی جھلکیوں کے وقفے میں بھی فرق ہوتا ہے (۵) خیال کیا جاتا ہے کہ روشنی کا تعلّق جنسوں (یعنی نراور مادہ) کی باہمی کشش سے ہے (۶) بعض انواع کے نروں، ماداؤں کے علاوہ پہلروپوں (LARVAE) اور انڈوں سے بھی روشنی پھوٹتی ہے۔

 

۳۶۸

 

سوال – ۵۰۹: کلامِ الٰہی (قرآنِ حکیم) میں بہشت کی چار نہروں کی بڑی شاندار تعریف ہے (۴۷: ۱۵) ان میں صاف و شفاف شہد (عَسَل) کی نہر بھی ہے، نیز دُنیا میں جو ظاہری شہد ہے، اس کی بھی حکیمانہ تعریف ہے، اور یہ تذکرہ بھی ہے کہ شہد کی مکھی کو کس طرح فطری ہدایت ملتی رہتی ہے (۱۶: ۶۸ تا ۶۹) کیا آپ مادّی سائنس کی کوئی ایسی کتاب بتا سکتے ہیں، جس میں شہد کی مکھّی اور شہد سے متعلّق گرانقدر معلومات ہوں؟ – جواب: (۱) ایک بروشسکی کہاوت ہے: امݺ بِچنڎہ فِٹی اپݵ، فِٹی بچنڎہ امݺ اپݵ =جب دانت صحتمند تھے تو روٹی نہیں تھی، اور جب روٹی ملنے لگی تو دانت نہیں تھے۔

۲۔ شہد: میٹھا گاڑھا سیال جو شہد کی مکھی پھولوں کے رس سے تیار کرتی ہے، کام کرنے والی مکھّیوں کی شہد تھیلیوں میں یہ رس، ان خامروں (ENZYMES) کے عمل سے، جوتھیلی میں ہوتے ہیں، گلوکوس اور فرکٹوس میں تبدیل ہوجاتا ہے (۳) مکّھیاں شہد کو چھتّے کے کُھلے مومی خانوں میں جمع کرتی ہیں۔ تبخیر کے عمل سے مناسب قوام بن جانے کے بعد شہد ان خانوں میں خود بخود “موم بند” ہوجاتا ہے (۴) مکھّیوں کی ایک اوسط درجے کی بستی کو اپنے استعمال کے لئے سالانہ ۴۰۰ سے ۵۰۰ پاؤنڈ تک شہد درکار ہے (۵) ایک پاؤنڈ شہد بنانے کے لئے کم از کم  ۰۰۰، ۲۰ مرتبہ کھیتوں کو جانا پڑتا ہے۔ تجارتی پیمانے پر شہد نحل گاہوں (APIARIES) سے حاصل ہوتا ہے۔ شہد کی رنگت اور خوشبو پھولوں کے اس رس کی قسم پر منحصر ہوتی ہے جس سے وہ بنا ہو۔

 

۳۶۹

 

سوال – ۵۱۰: بحوالۂ سُورۂ نحل (۱۶: ۶۸ تا ۶۹) یہ امر ضروری ہے کہ شہد کی مکھّی کے عجائب و غرائب میں غور و فکر کریں، لہٰذا آپ ہمیں اس کا قصّہ بیان کریں- جواب: (۱) اُردو جامع اِنسائیکلوپیڈیا، جلد اوّل میں ہے: شہد کی مکھّی  . . . .علاوہ ازین یہ شہد اور موم بھی پیدا کرتی ہے، ان کی بستی (چھتّے) میں صرف ایک ملکہ ہوتی ہے جو کسی ایک نر سے ایک بار مل کر لاتعداد انڈے دینے لگتی ہے، (۲) نر اس ملاپ کے بعد مرجاتا ہے، ملکہ کے علاوہ ہزاہا (جنسی طور پر بے نشوونما ) کام کرنے والی لونڈیاں ہوتی ہیں۔ یہ موم کا خانہ دار چھتّا بناتی ہیں، شہد اکٹھا کرتی، چھتّے کو صاف رکھتی اور اس کی حفاظت کرتی ہیں (۳) نیز ملکہ اور پہل روپوں کو کھلاتی پلاتی ہیں اِن لونڈیوں کی عمر صرف چھ ہفتے ہوتی ہے اور زیادہ کام کا ایک موسم گزار جاتی ہیں۔ ان کے بعد نئی لونڈیاں کام سنبھال لیتی ہیں (۴) لونڈیوں کے علاوہ چند سونِکمّے نر بھی چھتّے میں ہوتے ہیں، جنہیں بعض نکھِٹّو کہتے ہیں، دیکھا گیا ہے کہ شہد کی مکّھیاں ایک دوسرے تک اشارات اور حرکات سے پیغام رسانی بھی کرتی ہیں، مثلاً کوئی مکھّی اگر اپنےچھتّے میں واپس جا کر ناچنے لگے تو یہ شہد کے کس نئے ذخیرے کی دریافت کا اشارہ ہوتا ہے۔

 

۳۷۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۹

 

سوال – ۵۱۱:  سُورۂ حدید (۵۷: ۰۳) میں ارشاد ہے: هُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ آپ اس آیۂ کریمہ کے کچھ حقائق و معارف بیان کریں۔ – جواب: (۱) ترجمہ: وہی اوّل بھی ہے اور آخر بھی، اور ظاہر بھی ہے اور باطن بھی (۲) یعنی عُرَفاء کو یہ معرفت حاصل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ سب سے اوّل ہے اور سب سے آخر، وہی سب سے ظاہر ہے اور سب سے باطن (۳) یہاں سب سے اہم سوال الظَّاہر میں ہے، جس کا جواب تین مقامات پر دینا ہوگا: عالمِ ظاہر، عالمِ دین، اور عالمِ شخصی (۴) پہلا جواب یہ ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵) اور نور ظاہر ہوتا ہے، لیکن ظہورِ نور سے قانونِ معرفت کبھی ختم نہیں ہوا (۵) دوسرا جواب: آنحضرتؐ اور امامؑ مظہرِ نورِ خدا ہیں (۶) تیسرا جواب: عالمِ شخصی دیدار اور معرفت کے لئے خاص ہے، لہٰذا اس میں تجلّیات و ظہورات کے ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے۔

سوال – ۵۱۲: الظّاہر اور النّور کے بارے میں مزید حقائق و معارف اور دلائل ضروری ہیں – جواب: (۱) یہ ایک بہت بڑا کشف

 

۳۷۱

 

ہے کہ ایک اعلیٰ مقام پر وہ جلّ جلالہ ظاہر ہوکر دیدار بھی عنایت کرتا ہے اور فوراً ہی حجاب میں محجوب بھی ہوجاتا ہے (۴۲: ۵۱) اس سے یہ معلوم ہُوا کہ وہ پاک و برتر جب حجاب کے بغیر ہے تو ظاہر ہے، اور جب حجاب میں ہے تو باطن ہے (۲) خورشیدِ انور کے لئے کئی حجابات ہیں: سورج کا بیرونی نور اندرونی نور پر حجاب ہے، پیشِ نظر نور پس منظر پر پردہ ہے، ہر قسم کا سایہ، بادل، رات وغیرہ سورج کے حجابات میں سے ہیں، اگر انسان اندھا ہے تو یہ اس کے لئے دائمی حجاب ہے (۳) الظّاہر کے بہت سے حجابوں میں نوری حجابات بھی ہیں، علمی حجابات بھی، مَلَکی اور بشری حجابات بھی ہیں۔

سوال – ۵۱۳: سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۴۵) میں ہے: جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیتے ہیں۔ اس میں کیا کیا حکمتیں ہیں؟ – جواب: (۱)  اس میں بہت سی حکمتیں ہوسکتی ہیں۔ حکمتِ اوّل: جس طرح اللہ کا حجاب ہے اسی طرح قرآن اور رسولؐ کا بھی حجاب ہے۔ حکمتِ دوم: رسولِ اکرمؐ قرآنِ حکیم کو نہ صرف ظاہر میں پڑھتے تھے بلکہ باطن میں بھی پڑھتے ہیں۔ حکمتِ سِوُم: اگر آنحضرتؐ کی مبارک ہستی پُرنور نہ ہوتی، یعنی آپؐ سراجِ مُنیر نہ ہوتے، اور آپؐ کا قرآن پڑھنا غیر معمولی نہ ہوتا تو حجاب کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ حکمتِ چہارم: آنحضورؐ کا قرآن پڑھنا یہ ہے کہ آپ کا جانشین (امامؑ) ہر زمانے میں قرآن کی تاویل بیان کرتا ہے۔

 

۳۷۲

 

سوال – ۵۱۴: قرآنِ حکیم میں جتنی آیاتِ کریمہ نور کے مضمون سے متعلّق ہیں، ان سب کو آیاتِ نور کہنا درست ہے، پس آپ آیاتِ نور کی کوئی مجموعی حکمت بتائیں- جواب: (۱)  نور کا مضمون قرآنِ حکیم میں پھیلا ہوا بھی ہے، اور آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) میں مرکوز بھی ہے (۲) جب اللہ تعالیٰ بذاتِ پاکِ خود آسمانوں اور زمین کا نور ہے تو پھر نُورِ مُنَزّل کس طرح الگ ہوسکتا ہے (۳) آپ نُورٌ علیٰ نور کے قانون میں بھی سوچیں (۴) آیۂ مصباح میں دو عظیم حکمتیں ہیں: (الف) اللہ خود کائنات کی بلندی و پستی کا نور ہے (ب) اس کے نور کی مثال ….. (۵) اگر لوگوں کو سمجھانے کی خاطر فرمایا گیا ہے: نورِ خدا، نورِ نبیؐ، نورِ امامؑ اور نورِ مومنین و مومنات، تو تجلّیات کے اعتبار سے درست ہے، لیکن نُورٌعلیٰ نور کے قانون کے مطابق یہ تمام تجلّیات و ظہورات نورِ واحد ہی کے ہیں (۶) جب اللہ عالمِ دین اور عالمِ شخصی کے آسمان و زمین کا نور ہے تو حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے بعد بہت سے اہلِ ایمان پر بھی یہ نُور طلوع ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ دنیا کا ہر انسان اس نور سے فیض حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن ایمان اور اطاعت شرط ہے۔

سوال – ۵۱۵: سُورۂ فتح (۴۸: ۲۰) میں ارشاد ہے: وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا۔ اللہ تم سے بکثرت اموالِ غنیمت کا وعدہ کرتا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے = یہ بکثرت اموالِ غنیمت مسلمانوں کو کب کب حاصل ہوئے؟ کیا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہر زمانے کے اہلِ ایمان

 

۳۷۳

 

سے نہیں ہے؟ – جواب: (۱) ظاہری جہاد مثال اور باطنی جہاد ممثول ہے، لہٰذا یہ وعدۂ الٰہی باطنی اموالِ غنیمت سے متعلّق ہے، جو کائنات بھر میں ہیں (۲) خداوندِ قدوس کا پاک وعدہ تمام زمانوں کے مومنین کے لئے یکسان مفید ہے، یعنی ہر زمانے میں امام کے ذریعے سے روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے، اور یہی قیامت جہادِ اکبر بھی ہے جس میں دینِ اسلام کی فتح تسخیرِ کائنات کی صورت میں ہوتی ہے، میری ایک کتاب “علم کی سیڑھی” میں بھی دیکھیں (از ص ۶۶ تا ۷۵)۔

سوال – ۵۱۶: آج (اتوار ۹؍ ذی الحجّہ ۱۴۱۹ ھ  ۲۸؍ مارچ ۱۹۹۹ء) کی وِزڈم سرچ میں جتنی حکمتیں تھیں، وہ سب قابلِ تعریف ہیں، شاید ان کا ریکارڈ ہوگا، ان میں سے چند انتہائی خوبصورت الفاظ کی مزید و ضاحت ضروری ہے، وہ پُرمغز اور اعلیٰ الفاظ یہ ہیں: نورِ مُجَسّم، قرآنِ مُجَسّم، اسلامِ مُجَسّم، سُنّتِ مُجَسّم، آپ سمجھائیں کہ حقیقت کیا ہے؟ -جواب: (۱) یہ تعریفی نام سب سے پہلے آنحضرتؐ کے لئے ہیں، اور پھر امامؑ کے لئے، کیا دعائے نور کے مطابق آنحضرتؐ سرتا پا نور نہیں ہوئے تھے؟ کیا اللہ نے اپنے محبوب رسولؐ کو نور بنا کر نہیں بھیجا تھا (۰۵: ۱۵)؟ (۳) آیا قرآن کی کتابت سے پہلے بھی اور بعد میں بھی حضورِ اکرمؐ قرآنِ مُجَسّم اور قرآنِ ناطق نہیں تھے؟ (۳) کیا حضرتِ سیّد الانبیاءؐ سرچشمۂ اسلام نہیں تھے؟ (۴) کیا اصل اور حقیقی سُنّت رسولِ پاکؐ خود نہیں تھے؟ ان سوالات سے، جو خود جوابات بھی ہیں، معلوم ہُوا کہ نورِ مُجَسّم، قرآنِ مُجَسّم (قرآنِ ناطق) اسلام ِمُجَسّم

 

۳۷۴

 

اور سُنّتِ مُجَسّم اہلِ بصیرت کے لئے زبردست دلائل ہیں۔

سوال – ۵۱۷: یہ ٹیلفونِک سوال اٹلانٹا (امریکہ) سے ہمارے بہت ہی عزیز و محترم صدر غلام مصطفیٰ مومن نے کیا: صاحب! آپ یہ بتائیں کہ دعوتِ حق کی غرض سے دُنیا میں جو بارہ جزائر ہیں، ان کی یہ تقسیم کس اعتبار سے ہے؟ کیا اب بھی حدودِ دین کا نظام برقرار ہے؟ آیا اس زمانے میں بھی ہر جزیرے میں ایک حُجّت اور تیس (۳۰) داعی ہوا کرتے ہیں؟ – جواب: (۱) اللہ تعالیٰ نے خلافتِ آدمؑ کے بارے میں ارشاد فرمایا: اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً = کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ یہاں زمین سے لوگ مراد ہیں، کیونکہ خدا نے نہیں فرمایا کہ: “زمین پر” بلکہ فرمایا: زمین میں (۲) اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلافتِ الٰہیّہ بعنوانِ نورِ ہدایت نہ صرف لوگوں کے ظاہر میں جاری ہے، بلکہ خلیفۂ زمان کی اصل معرفت عارفین کے باطن میں ہے (۳) چُنانچہ خدا کے امر سے آدم پر قیامت برپا ہوئی، اور خدائی روح آدم میں کام کرنے لگی (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) جس کے کرم سے کائنات مُسخّر ہوگئی، حضرت آدم علیہ السّلام کی مبارک ہستی سے ستّر ہزار انسانانِ لطیف پیدا ہوئے (۴) آگے چل کر مقامِ عقل پر ستّر ہزار فرشتے بھی پیدا ہوئے، پس خدا کے نزدیک دنیا میں بارہ اقوام ہیں جو بارہ جزائر ہیں، ہر جزیرے کے لئے انسانانِ لطیف میں سے ایک حُجّت اور تیس داعی مقرّر ہیں (۵) حدودِ دین کا باطنی نظام نہ صرف زمانۂ آدمؑ میں تھا، بلکہ اب بھی روحانیّت کا وہی قانون ہے۔

 

۳۷۵

 

سوال – ۵۱۷: آپ قرآنِ عزیز کی روشنی میں ہمیں یہ سمجھا دیں کہ دنیا میں انسانانِ لطیف بھی موجود ہیں، جو ہمیں نظر نہیں آتے، اور ان میں حدودِ دین بھی ہیں – جواب: (۱) آپ سُورۂ احقاف (۴۶: ۲۹ تا ۳۲) اور سُورۂ جِنّ (۷۲: ۰۱ تا ۱۵) میں خوب غور سے دیکھ لیں، کہ یہ جِنّات جو آنحضرتؐ کے حضورِ اقدس میں آئے تھے، وہ درحقیقت حُجَّتانِ جزائر تھے، جو انسانانِ لطیف ہیں، جو نظر نہ آنے کی وجہ سے جِنّات کہلاتے ہیں (۲) کیونکہ حدودِ دین میں حُجّتانِ شب بھی ہیں، اور وہ یہی ہیں۔

سوال – ۵۱۹: بحوالۂ سُورۂ انعام (۰۶: ۱۳۰) کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ گروہِ جِنّ کے لئے انسان سے الگ رسول آتے تھے؟ یا یہ کہ جب بھی خدا کی طرف سے کوئی رسول آیا تو جِنّ و انس دونوں جماعتوں کے لئے آیا؟ – جواب: (۱)جب جِنّات سے انسانانِ لطیف مراد ہیں تو پھر یہ مسٔلہ خود بخود ختم ہوگیا، جو جِنّ و انس کی تقسیم سے پیدا ہوا تھا (۲) قرآنِ حکیم میں جِنّ و انس کی وحدت سے متعلّق بے شمار حکمتیں موجود ہیں، خصوصاً سُورۂ رحمٰن میں دیکھیں کہ اس پاک سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام عظیم نعمتوں کا تذکرہ کس شان سے فرمایا ہے، جو جِنّ و انس کے لئے ساتھ ساتھ عطا کی گئی ہیں (۳) رحمان نے قرآن کی آسمانی تعلیم دی۔ کس کو؟ انسانِ کامل کو، آپ سُورۂ رحمان کی بارہ ابتدائی آیات حکمت کے ساتھ پڑھیں، پھر آیت ۱۳ کو دیکھیں، اگر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی سے قرآنی حکمت وغیرہ کا فائدہ گروہِ جنّ و انس کو نصیب نہ ہوتا، تو پروردگار اپنی ان نعمتوں کی طرف

 

۳۷۶

 

اُن کو پُرزور توجّہ نہ دلاتا۔

سوال – ۵۲۰: سُورۂ رحمٰن چونکہ عُرُوس القرآن ہے، لہٰذا اس میں حکمتی سوالات بہت ہیں، مثلاً آیۂ سِوُم میں ارشاد ہے: خَلَقَ الاِنْسَانَ =اسی نے انسان کو پیدا کیا۔ پھر آیت ۱۴ اور ۱۵ میں انسان اور جنّ کو پیدا کرنے کا ذکر ہے، اس میں کیا حکمت ہے؟ – جواب: (۱) آفرینشِ انسان کا پہلا بیان اجمالی ہے اور دوسرا بیان تفصیلی (۲) چنانچہ: خَلَقَ الْاِنْسَانَ۔ عَلَّمَہُ الْبَیَانَ کا مطلب یہ ہے کہ خدائے رحمان نے عارف اور اس کے عالمِ شخصی کو درجہ بدرجہ تخلیق کے مرتبۂ کمال پر پہنچا دیا، اور علم البیان (علمِ تاویل) سکھایا (۳) یہی پُرحکمت تذکرہ کچھ تفصیل کے ساتھ اس طرح سے ہے: خدا نے انسان کو ایسی مٹی سے پیدا کیا جو کھنکناتی تھی، یعنی انسانِ کامل کی باطنی تخلیق نفخۂ ناقور سے شروع ہوئی، کیونکہ اس میں خدائی روح کی نورانی پھونک جاری تھی، نیز ارشاد ہے: اور اس نے جِنّ کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا (۴) شعلہ تین قسم کا ہوتا ہے: دُود آلود، صاف، غیر مرئی، پس اللہ تعالیٰ نے انسانِ کامل کے عالمِ شخصی ہی کی مختلف روشنیوں سے جِنّ کو پیدا کیا، اور ربّ العزّت کی ایسی تمام تخلیقات میں اِنس و جِنّ کی دونوں جماعتوں کے لئے مشترکہ نعمتیں ہیں۔

 

۳۷۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۰

 

سوال – ۵۲۱: ہم بحیثیتِ انسان بیحد کمزور ہیں، لہٰذا بُحرمتِ محمّدؐ و آلِ محمّدؐ اللہ سے اِستعانت کی درخواست کرتے ہیں، تاکہ وہ اپنی عِنایتِ بے نہایت سے ہماری مدد فرمائے، سوال ہے کہ آیا آپ سورۂ رحمٰن کی کوئی تعریفی حکمت بیان کر سکتے ہیں؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، اس کی اوّلین تعریف یہ ہے کہ ہماری چھوٹی سی عقل سے عروس القرآن بالاو برتر ہے، تاہم حصولِ برکت کی غرض سے چند باتیں عرض کرتے ہیں: (۲) سُورۂ رحمٰن ایک ایسا جامع الجوامع قرآنی مضمون ہے، جس نے عرصۂ کون و مکان کا علمی احاطہ کر لیا ہے (۳) یہاں اس عظیم راز کا انکشاف ہوجاتا ہے کہ انسان، جِنّ، اور فرشتہ ایک ہی حقیقت کے تین رُوپ ہیں (۴) اس سورۂ مبارکہ کے ذیلی مضامین ۳۱ ہیں، ہر مضمون میں اِنس و جنّ کی مُشترکہ نعمتوں کا تذکرہ ہے، اور ہر ایسے مضمون کے آخر میں بطورِ خُلاصہ یہ پوچھا گیا ہے کہ: سو (اے جنّ و انس) تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جُھٹلاتے ہو؟ (۵) آپ اِن ۳۱ مضامین کو الگ الگ پڑھ کر سوچیں کہ مذکورہ نعمتیں کس  طرح اِنس و جِنّ میں مشترکہ ہوسکتی ہیں؟ (۶) اکثر مضامین ایک ایک آیت کے ہیں، مگر ان میں انتہائی جامعیّت ہے،

 

۳۷۸

 

کیوں نہ ہو جبکہ خدائے علیم و حکیم کا پاک و پُرحکمت کلام ہے، جس کی کوئی مثال نہیں۔

سوال – ۵۲۲: اکثر قرآنی سورتوں کے آخر میں کوئی ایسی عظیم الشّان آیت بھی موجود ہوتی ہے، کہ اس میں بڑے بڑے اسرارِ مخزون پوشیدہ ہوتے ہیں، لہٰذا آپ سُورۂ رحمٰن کی آخری آیت کی حکمت بیان کریں – جواب: (۱) تَبٰرَکَ اسْمُ رَبِّکَ ذِی الْجلٰلِ وَالْاِکْرَام = بڑا بابرکت نا م ہے آپ کے ربّ کا جو عظمت والا اور احسان والا ہے۔ یہ خدائے بزرگ و برتر کے اسمِ اعظم کی تعریف ہے، جو ہر زمانے میں زندہ اور گوئندہ ہے (۲) اہلِ معرفت کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نہ صرف خزائن ہیں، بلکہ خزینۃ الخزائن بھی ہے، اور وہ یقیناً امامِ مبینؑ ہے، اسی جامع الجوامع خزانے میں تمام اعلےٰ برکتیں موجود ہیں۔

سوال  – ۵۲۳: اگرچہ ہمیں اس حقیقت پر یقینِ کامل ہے کہ امامِ مبینؑ کے نورِ اقدس میں اللہ تعالیٰ کے کُلّ خزانے مجموع و محفوظ ہیں، تاہم یہ ایک علمی سوال ہے کہ آیا اس حقیقت پر ہر انسان کی ذات میں کوئی قرآنی دلیل موجود ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، کئی دلائل ہیں، ان میں سے ایک روشن دلیل یہ ہے: اور اہلِ یقین کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ اور خود تمہاری ذات میں بھی، تو کیا تم کو دکھائی نہیں دیتا؟ (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) (۲) یہ ایک ناقابلِ تردید قرآنی شہادت و دلیل ہے

 

۳۷۹

 

کہ ہر خاص و عام انسان میں کائنات بھر کی نشانیاں موجود ہیں، کیونکہ زمین سے کائنات مراد ہے، مگر اس عظیم راز میں بہت بڑا فرق یہ ہے کہ یہ ساری نشانیاں اولیا و عُرَفاء میں بحدِّ فعل موجود ہوا کرتی ہیں اور عوام میں بحدِّ قوت، پس اہلِ دانش کے لئے یہ حقیقت بیش از بیش روشن ہوگئی کہ امامِ مبینؑ کی ذات میں ہر چیز موجود اور تمام حقائق و معارف جمع ہیں۔

سوال – ۵۲۴: ہر شخص کی روح عالمِ عُلوی میں اس کی جسمانی صورت کی طرح ہے، لیکن وہ عالمِ لطیف میں ہے، لہٰذا وہ زیبائی اور رعنائی کے درجۂ کمال پر ہے، کیا قرآنِ حکیم میں اس امرِ واقعی کا کوئی حکمتی اشارہ موجود ہے؟ -جواب: (۱) کیوں نہیں، جبکہ قرآن میں ہر چیز کا بیان ہے (۱۶: ۸۹) آپ سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۹۹) اور سُورۂ یٰسٓ (۳۶: ۸۱) کی حکمت میں خوب غور کریں کہ “مِثل” کا مطلب روح ہے، جیسے آیۂ مبارکہ میں یہ الفاظ ہیں: بِقٰدِرٍ عَلٰیٓ اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَھُمْ = خدا قادر ہے کہ ان جیسوں کو پیدا کرے۔ یعنی ان کو جسم سے ان کی اپنی ہمشکل روح کی طرف لے جائے (۲) سُورۂ واقعہ اور سُورۂ دھر (۵۶: ۶۱، ۷۶: ۲۸) میں بھی دیکھیں، اسی کو جسمِ مثالی بھی کہتے ہیں، اور یہی ہر شخص کی ہمشکل روح بھی ہے۔

سوال – ۵۲۵: ارشادِ قرآنی کا ترجمہ ہے: ہم نے (روحانیّت

 

۳۸۰

 

کے) قریبی آسمان کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے اور ہر شیطانِ سرکش سے اس کو محفوظ کر دیا ہے، یہ شیاطین ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سُن سکتے، اور ہر طرف سے مارے جاتے ہیں (۳۷: ۰۶ تا ۰۸) آپ اس ربّانی تعلیم کی کوئی حکمت بتائیں -جواب: (۱) آسمانی اور روحانی بھیدوں کو چُرانے کے لئے شیاطین جس طرح گمراہانہ اور غلط کوشش کرتے ہیں، اور جیسی ان کو ناکامی، دوری، اور مایوسی ہوتی ہے، اس سے یہ قرآنی اشارہ ملتا ہے کہ مقربین کے ارتقائے روحانی میں کوئی رکاوٹ نہیں (۲) روحانیّت کے قریبی آسمان کو کواکِب کی زینت سے آراستہ کرنے کے دو بڑے مقصد ہیں: شیاطین کو اسرارِ سماوی سے دور کر دینا، خدا کے دوستوں کو خدا کی طرف ہدایت کرنا، تاکہ ان پر خزائنِ علم و معرفت مُنکشِف ہو جائیں۔

سوال – ۵۲۶: یہ اُن دو پُرحکمت آیتوں کا ترجمہ ہے جو سُورۂ قمر کے آخر (۵۴: ۵۴ تا ۵۵) میں ہیں: بے شک پرہیزگار لوگ باغوں اور نہروں میں ہیں، صدق کی مجلس میں عظیم قدرت رکھنے والے بادشاہ کے حضور۔ اس کی کوئی تاویلی حکمت؟ – جواب: (۱) سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ پرہیزگار لوگ قرآنی بہشت کے کس کس باغ میں اور کس کس نہر میں ہیں؟ اس کا جواب مُطالعۂ قرآن سے یہ ملے گا کہ قرآن سرتاسر متقین کی تعریفا ت سے مملو ہے (۲) پھر اِس آیۂ مبارکہ کا مطلب سمجھ میں آتا ہے کہ یقیناً پرہیزگار لوگ بہشت کے تمام باغوں اور ساری

 

۳۸۱

 

نہروں میں ہیں، مگر بہشت کا یہ قانون ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ وہاں کی کوئی چیز عقل و جان کے بغیر نہیں، اس لئے بہشت کا ہر باغ وگلشن اور ہر نہر زندہ ہے (۳) صدق کی مجلس سے انتہائی اعلیٰ علم کی مجلس مراد ہے، کیونکہ صدق سچ کو کہتے ہیں، اور “سچ” حقیقی علم کا نام ہے، (۴) پس یہ حقیقی علم و حکمت کی مجلس بادشاہِ دو جہان کے حضور ہی میں ہوگی، اور “عظیم قدرت رکھنے والا بادشاہ” کے معنی یقیناً لامحدود ہیں، لہٰذا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ وہ علم کی مجلس اور عظیم دربارِ خداوندی پرہیزگاروں کی وجہ سے ہے، لیکن سب لوگوں کو وہاں حاضر ہوجانا چاہیئے، تاکہ علمی خدمت کی جو بہت بڑی فضیلت ہے، وہ سب پر عیان ہوجائے۔

سوال – ۵۲۷: قرآنِ حکیم (۰۷: ۴۳، ۱۵: ۴۷) میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ جنّت کے دلوں سے دشمنی، کینہ، اور کدورت کو نکال دیتا ہے، اس میں کیا حکمت؟ – جواب: (۱) کیونکہ یہ چیزیں ہمیشہ دل میں کانٹوں کی طرح چبھتی رہتی ہیں، جس سے انسان کو ہر وقت تکلیف ہوتی رہتی ہے (۲) بہشت میں دل کی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنا ہے، اس لئے دل کی پاکیزگی ضروری ہے (۳) اس میں ایک حکمتی اشارہ یہ بھی ہے کہ خدا کے دوستوں کے پاکیزہ قلب میں کسی سے دشمنی اور کینہ نہیں ہوتا ہے (۴) اس میں البتہ ایک بڑا راز یہ بھی ہے کہ خدا وندِ عالم رفتہ رفتہ جُملہ خلائق کو بہشت میں داخل کر دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اہلِ ایمان کے دل سے ہر قسم کی دشمنی کو نکال دیتا ہے، تاکہ بہشت میں مخالفین کو

 

۳۸۲

 

دیکھ کر کسی کو تکلیف نہ ہو۔

سوال- ۵۲۸: دعائم الاسلام، جلدِ ثانی، کتاب العطایا، ص ۳۲۰) پر یہ حدیثِ شریف ہے: (ترجمہ) مخلوق (گویا) خدا کا کُنبہ ہے، اور لوگوں میں خدا کو سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اس کے کُنبے کو فائدہ پہنچاتا ہے، اور اس کے اہلِ بیت کو خوش کر دیتا ہے، اور ایک مسلمان بھائی کے کسی ضروری کام میں ساتھ چلنا خدا کے نزدیک دو ماہ تک خانۂ کعبہ میں اعتکاف کرنے سے زیادہ پسند ہے۔ اس میں کیا کیا حکمتیں ہوسکتی ہیں؟ – جواب: (۱) آنحضرتؐ کے اس مبارک ارشاد میں عجیب و غریب انقلابی حکمتیں ہیں، چُنانچہ یہاں سے معلوم ہوا کہ خداوند تعالیٰ اپنی مخلوق سے بہت محبّت رکھتا ہے (۲) اہلِ بصیرت کے لئے یہ حقیقت روشن ہے کہ خلّاقِ جہان اپنی اِس مخلوق کو جو انسان کے نام سے ہے، کبھی ضائع نہیں کرے گا۔

سوال – ۵۲۹: سُورۂ مومنون (۲۳: ۱۱۵) میں ہے: تو کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو (یوں ہی) بیکار پیدا کیا اور یہ کہ تم  ہمارے حضور میں لوٹا کر نہ لائے جاؤگے؟ اس حکم کا خلاصۂ بیان کیا ہے؟ -جواب: (۱) خدا نے لوگوں کو فضول اور بیکار پیدا نہیں کیا ہے، لہٰذا انہیں ہر حالت میں لوٹ کر خدا کے پاس جانا ہے (۲) اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع خوشی سے بھی ہوتا ہے اور زبردستی سے بھی (۰۳: ۸۳) یہ ہر

 

۳۸۳

 

زمانے میں برپا ہوجانے والی روحانی قیامت (۱۷: ۷۱) رجوع ہی کی غرض سے ہے (۳) اسی واقعۂ قیامت کے ساتھ ساتھ خدائے تعالیٰ کائنات وموجودات کو عالمِ شخصی میں لپیٹ لیتا ہے، اُس وقت القابض اور الباسِط کے دستِ مبارک میں سوائے خیر کے (۰۳: ۲۶) اور کوئی چیز باقی نہیں رہتی ہے۔

سوال – ۵۳۰: آپ کے اس قول کا واضح مطلب یہ ہے کہ جب خداوندِ قدوس ارض و سما کو لپیٹنے لگتا ہے تو اس وقت ہر گُونہ شر کا خاتمہ ہوجاتا ہے، اس سے یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ اس حال میں دوزخ پر کیا گزرتا ہے؟ اور شیطان کا کیا حشر ہوتا ہے؟ – جواب: (۱) قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کی ایسی بے مثال آسمانی کتاب ہے کہ اس میں ہر ممکن سوال کا جواب پہلے ہی سے دیا گیا ہے، چُنانچہ اس سوال کا جواب قرانِ عظیم میں یہ ہے کہ وقت آنے پر اللہ اپنی رحمت سے آتشِ دوزخ کو گلزار بناتا ہے، جیسے اس نے حضرتِ ابراہیمؑ کے لئے آتشِ نمرود کو گُلزار بنایا تھا (۲۱: ۶۹) (۲) اور شیطان کو فرشتہ بناتا ہے، کیونکہ شیطان کا کام قیامت تک تھا (۰۷: ۱۴) اور جس دوزخ میں وہ سزا بھگت رہا تھا (۰۷: ۱۸) اس کو خدا نے گلزار بنا دیا، جبکہ قبضۂ قدرت میں ہر خیر تو خیر ہی تھی، شر بھی خیر ہوگیا۔

 

۳۸۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۱

 

سوال – ۵۳۱: آپ بعض دفعہ روحانی سائنس کے موضوع پر یہ کہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ روحانی سائنس کی باتیں ہیں، تو تب پتا چلتا ہے، ورنہ کیا معلوم، جبکہ آپ کے پاس ایک جیسی معلومات کی فراوانی ہے، کیا اِس بارے میں آپ ہمیں کچھ بتائیں گے؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، ہم اِس بارے میں آپ کو چند اُصولی باتیں بتائیں گے، میرے عقیدے کے مطابق آفاق و انفس کی آیات سے متعلّق جو کچھ تجربہ ہے، وہ روحانی سائنس ہے، قیامت اور عالمِ شخصی کے بارے میں جتنی باتیں تحریر ہوئی ہیں، وہ سب کی سب روحانی سائنس کے تحت ہیں (۲) اس کا مطلب یہ ہوا کہ معرفت اور حکمت ہی کا نام روحانی سائنس ہے، اور یہی علم الآخرت (۲۷: ۶۶) بھی ہے، الغرض سارے علوم کا خزانہ دار امامِ آلِ محمّدؐ ہے، اسی سے کسی کو کوئی علمی صدقہ مل سکتا ہے۔

سوال – ۵۳۲: علم الآخرت کے بارے میں قرآنی ارشاد کیا ہے؟ – جواب: (۱) ترجمۂ آیت: بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ختم ہوگیا، بلکہ یہ لوگ اس سے شک میں ہیں، بلکہ یہ اس سے اندھے بنے ہوئے

 

۳۸۵

 

ہیں(۲۷: ۶۶) اگر علم الآخرت غیر ممکن ہوتا تو کسی کی کوئی مذمّت نہ ہوتی (۲) اگر آخرت سے متعلّق علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین کا امکان نہ ہوتا تو اس سے جو لوگ شک میں ہیں، ان پر کوئی اعتراض ہی نہ ہوتا (۳) اگر قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا وعدہ نہ ہوتا کہ وہ اپنی آیات (معجزات) دکھانے والا ہے (۲۷: ۹۳، ۴۱: ۵۳، ۵۱: ۲۰ تا ۲۱) تو پھر قرآنِ پاک کے بہت سے مقامات پر ان لوگوں کی مذمت نہ ہوتی جو دل کی آنکھ سے اندھے ہیں۔

سوال – ۵۳۳: جی ہاں، سُورۂ حج (۲۲: ۴۶)  میں یہ ارشاد ہے: کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سُننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں، یہاں بڑا اہم سوال یہ ہے: وہ زمین کونسی ہے جس میں چلنے پھرنے سے دل سمجھنے والے اور کان سُننے والے ہوتے ہیں؟ دل کی آنکھ روشن ہونے سے کیا کیا عظیم فائدے حاصل ہوسکتے ہیں؟ – جواب: (۱) یہ صرف عالمِ شخصی ہی کی زمین ہے، جس میں سیر کرنے سے چشمِ بصیرت (دل کی آنکھ) پیدا ہوجاتی ہے، اور باطنی کان سننے لگتا ہے (۲) دل کی آنکھ کے فوائد بے شمار ہیں، آپ کتابِ “عملی تصوّف اور روحانی سائنس” میں معجزۂ نوافل کو پڑھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندۂ مومن کو کس حد تک نوازتا ہے۔

 

۳۸۶

 

سوال – ۵۳۴: معلوم ہوا ہے کہ آپ کو اپنا ایک مضمون “معجزۂ نوافل” بیحد پسند ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ آیا اس میں کوئی عظیم راز موجود ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، یہ سچ ہے کہ مجھے یہ مضمون نہایت عزیز ہے، اگرچہ مجھے اپنی نظم و نثر کی ہر چیز اپنی جانِ شیرین ہی کی طرح پیاری ہے، کیونکہ وہ میری لطیف ہستی کا حصّہ ہے جو خدا کی عنایت ہے، تاہم ہر عاشقِ صادق کے لئے “فنا فی اللہ” کی تفسیر ضروری تھی، اور وہ آسمانی تفسیر حدیثِ نوافل ہے (۲) پس میرا مضمون (معجزۂ نوافل) فنا فی اللہ کی تفسیر کی تفسیر ہے، میرا خیال ہے کہ وہ اگر اس بندۂ ناچیز کی ہے توکچھ بھی نہیں، اور اگر دوستِ مہربان کی ہے تو پھر قابلِ تعریف کیوں نہ ہو۔

سوال ۵۳۵: فنا فی اللہ کی حکیمانہ دعوت قرآنِ پاک میں کہاں کہاں ہے؟ بقاء باللہ کا کوئی حکمتی اشارہ کس آیۂ کریمہ میں ہے؟ – جواب: (۱) ہر عالمِ شخصی کے بحرِ علم پر بھری ہوئی کشتی ہوا کرتی ہے (۵۵: ۲۴) اس میں جتنے بھی ہیں، وہ سب کے سب وجہ اللہ میں فنا ہوجاتے ہیں (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) یہی امرِ عظیم لوگوں کے حق میں فنا فی اللہ بھی ہے اور بقاباللہ بھی (۲) تذکرۂ فنا کے بعد وجہ اللہ کے جلیل و کریم ہونے کی تعریف آئی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ خدائے جلیل جوالاکرم الاکرم الاکرم ہے، وہ اپنے بے انتہا کرم سے اہلِ سفینہ کو اپنے ساتھ ایک کرلیتا ہے (۳) فنا فی اللہ سے متعلق دوسری آیت سُورۂ قصص کے آخر (۲۸: ۸۸) میں ہے، اس میں یہ ارشاد ہے

 

۳۸۷

 

کہ وجہ اللہ کے سوا ہر چیز فنا ہوجاتی ہے، پھر حکم یعنی کلمۂ کُنۡ اور رجوع کا ذکر ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ فنا فی اللہ اور رجوع الی اللہ کا آخری مقام حظیرۂ قدس ہے، جہاں کلمۂ کُنۡ کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔

سوال – ۵۳۶: اس بیان سے یوں لگ رہا ہے کہ لفظِ “رجوع” میں بھی کوئی آخری راز ہے، کیا آپ اس راز کا انکشاف کرسکتے ہیں؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، رجوع ایک ایسا لفظ ہے کہ اس کے معنی مرتبۂ فنا فی اللہ تک جاتے ہیں، اس کے بغیر کامل رجوع نہیں ہے، جیسے سُورۂ فجر میں ہے: اے نفسِ مُطمئِن، رجوع کر اپنے ربّ کی طرف ….. (۸۹: ۲۷ تا ۲۸) (۲) ایسے الفاظ بہت ہیں، جن کی حکمتِ بالغہ مرتبۂ فنا تک پہنچی ہوئی ہے، جیسے حضرتِ ابراہیمؑ نے کہا میں اپنے ربّ کی طرف جاتا ہوں، وہی میری رہنمائی کرے گا (۳۷: ۹۹) پس دوڑو اللہ کی طرف (۵۱: ۵۰) توبہ کرو (کئی مقامات پر ہے) اللہ سے وابستہ ہوجاؤ (۲۲: ۷۸) ایسے تمام الفاظ میں دیدار اور فنائے عشق کی حکمت پوشیدہ ہے۔

سوال – ۵۳۷: آپ کا خیال ہے کہ اِس ظاہری اور مادّی کائنات کے ذرّہ ذرّہ میں روح ہے، کیا آپ اس کی کوئی معقول دلیل پیش کرسکتے ہیں؟ – جواب: (۱) سُورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں جو آیۂ شریفہ ہے، اس کی اہمیّت اتنی بڑی اور زبردست ہے کہ اس کو قانونِ خزائن کہا جاتا ہے، جس کا ترجمہ  ہے: کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے

 

۳۸۸

 

پاس نہ ہوں، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں (۲) خزائنِ الٰہی سے عالمِ ذرّ مراد ہے، جس میں ہر چیز کا ایک ایسا عجیب و غریب ذرّہ موجود ہے، کہ وہ مادّۂ لطیف بھی ہے اور روح بھی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے انہی خزانوں (یعنی عالمِ ذرّ) سے ہر چیز کو پیدا کرتا رہتا ہے (۳) ہر کائنات، ہر ستارہ، ہر مخلوق، اور ہر شیٔ عالمِ ذرّ کے الٰہی خزانوں سے پیدا کی گئی ہے، لہٰذا کائنات کے ذرّہ ذرّہ میں روح موجود ہے۔

سوال – ۵۳۸: سُبحان اللہ! یہ روحانی سائنس کا ایک اور انقلابی کُلّیہ ہے، اگرچہ عالمِ ذرّ کا تصوّر بہت پہلے سے ہے، لیکن ہم اس کو ٹھیک طر ح سے نہیں سمجھتے تھے، یقیناً آپ پر امامِ زمانؑ بہت مہربان ہے، پس آپ بتائیں کہ مستقبل میں لوگوں کے لئے روحانی سائنس سے کیسے کیسے فائدے ممکن ہوں گے؟ – جواب: (۱) عالمِ ذرّ سے ایک خوشبودار لطیف غذا دریافت ہوسکتی ہے، جو صرف قوّتِ شامّہ سے حاصل کی جاتی ہے (۲) قیامت جو خفی ہے، وہ بِحکمِ خدا جلی ہوسکتی ہے (۰۷: ۱۸۷) اس میں بہت بڑی آزمائش ضرور ہے، لیکن بعد ازان دینِ حق کی بادشاہی سے لوگوں کو بے شمار فائدے حاصل ہوں گے۔

سوال – ۵۳۹: اس سلسلے میں مزید معلومات کیا ہیں؟ – جواب: (۱) عالمِ ذرّ امامِ مُبینؑ کی عالمگیر روح میں ہے، سب سے عجیب و غریب اور

 

۳۸۹

 

ازبس حیران کُن بات تو یہ ہے کہ عالمِ ذرّ کے تمام زندہ ذرّات جُفت جُفت ہیں، اس حقیقت پر قرآن میں کئی شہادتیں موجود ہیں (۲) جب روحانی طوفان شروع ہوا تو خداوندِ عالم نے حضرتِ نوحؑ کو حکم دیا: ہر قسم کی ذرّاتی مخلوقات کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو (۱۱: ۴۰، ۲۳: ۲۷) اس سے معلوم ہوا کہ عالمِ ذرّ میں بھی تجدّد ہوتا ہے (۳) یعنی ہر امام میں عالمِ ذرّ کی تجدید ہوتی ہے، اور وہ اسی طرح تسخیرِ کائنات اور خلافتِ آدم کا وارث ہو جاتا ہے۔

سوال – ۵۴۰:  قرآنِ حکیم میں سے ذرّاتِ عالمِ ذرّ کے چند نام بتائیں – جواب: (۱) ان روحانی ذرّات کے بےشمار ناموں میں سے چند یہ ہیں: یاجوج و ماجوج، ثمرات، جِنّ، اِنس، طَیر، جُنُود، ذرّہ، ذرّیّت، نسل، کُلُّ شَیْءٍ، اوّلین، آخرین، مجموعون، حشر، محشور (۲) کتابِ منشور، صُحُفِ مُنشرۃ، نُشور، نشر، کتابِ ناطق، مَلَک، ملائکہ، نفیر، ھَبَا، غنم، قوم (۰۵: ۵۴) وُحُوش (۸۱: ۰۵) نَملْ (۳) دابّۃ، خَردَل (رائی) صلصال، ماء، طوفان، جراد، قُمَّل، ضفادع، دم، یہ ہیں ذرّاتِ عالمِ ذرّ کے چند اسماء جو بیان ہوئے۔

 

۳۹۰

 

صندوقِ جواہر ۔ ۲۲

 

سوال – ۵۴۱: کائنات کے ہر ذرّے میں روح موجود ہونے سے متعلّق کوئی اور روشن دلیل بھی ہوسکتی ہے؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، یہ سب سے روشن ترین دلیل آیۃُ الکرسی (۰۲: ۲۵۵) میں ہے: اس کی کُرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے۔ کُرسی سے نفسِ کُلّی مراد ہے، جو کائناتی روح ہے، جو بحرِ نور ہے، جس میں ساری کائنات مُستغرق ہے (۲) یہ آیۂ مصباح کی عظیم الشّان تفسیر ہے، جس میں ارشاد ہوا ہے کہ: اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵) اس کا مطلب یقیناً یہی ہوا کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ نور کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے، روح جو نور ہے، وہ آگ سے بھی زیادہ لطیف ہے، لہٰذا آسمان و زمین کا ہر ہر ذرّہ ظاہراً و باطناً روحِ اعظم (نفسِ کُلّی) کی روشنی سے منوّر ہے۔

سوال – ۵۴۲: آیۃ ُ الکُرسی اعظم الآیات ہے، جس کے خزانۂ مخفی سے قانونِ فطرت اور نظامِ کائنات کا سب سے عظیم راز معلوم ہوگیا کہ کائنات اللہ تعالیٰ کی مُٹھی میں ہے، یعنی نفسِ کُلّی کی گرفت اور کنٹرول میں ہے، تو پھر کششِ ثقل کا نظریہ ختم ہوگیا، کیا آپ اس حقیقت

 

۳۹۱

 

پر کوئی اور دلیل پیش کرسکتے ہیں کہ کائنات نفسِ کُلّی کے کنٹرول میں ہے؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، ہر چیز یعنی کائنات اللہ کی کرسی میں محدود ہے = ہر چیز کو اللہ نے امامِ مبین میں محدود کر رکھا ہے، یہ ایک ہی مطلب ہے، کیونکہ کُرسی / نفسِ کُلّی امامِ مبینؑ کا نورِ محیط ہے (۲) آپ قرآنِ حکیم میں س خ ر کے مادّہ کے تحت دیکھیں: ۳۱: ۲۰، ۴۵: ۱۲ اور دیگر آیات، کہ خداوندِ مہربان نے ساری کائنات اب اس وقت بھی انسان کے لئے مُسخّر کر رکھی ہے، کوئی عالی ہمّت شخص امامِ مبینؑ میں فنا ہوکر تجربہ کرے تو سہی (۳) داناؤں کے لئے یہ کوئی سوال ہی نہیں کہ جو کچھ لکھنا چاہیئے، وہ خدائے سبحان بذاتِ خود لکھتا ہے یا اس کے امر سے قلم لکھتا ہے؟ آپ کو معلوم ہے کہ قلم عرش بھی ہے اور عقلِ کلّی بھی، جبکہ لوح کُرسی بھی ہے اور نفسِ کُلّی بھی (۴) پس نفسِ کُلّی اللہ کا اسمِ صفت القابض بھی ہے، اور الباسط بھی، کہ وہ ہمیشہ کائنات کو لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے۔

سوال – ۵۴۳: سُورۂ مائدہ (۰۵: ۶۴) کے حوالے سے یہ سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھوں سے کیا مراد ہے؟ -جواب: (۱) خدائے پاک و برتر کے دو ہاتھ عالمِ علوی میں عقلِ کلّ اور نفسِ کُلّ ہیں، اور عالمِ سفلی میں ناطق اور اساس (۲) اس حقیقت میں کوئی شک ہی نہیں کہ خداوندِ قدّوس اپنے تمام کاموں کو انہی ہاتھوں سے انجام دیتا ہے (۳) آپ قرآنِ عزیز میں “فضلِ خداوندی” کی بہت بڑی تعریف کو پڑھیں، اور دیکھیں کہ یہ بہت ہی عظیم خزانہ خدا کے بابرکت ہاتھ میں ہے (۰۳: ۷۳، ۵۷: ۲۹)

 

۳۹۲

 

(۴) ساری کائنات کی بے مثال و لازوال سلطنت خدا کے ہاتھ میں ہے (۶۷: ۰۱) ہر چیز کی عظیم الشّان بادشاہی اللہ کے ہاتھ میں ہے (۲۳: ۸۸، ۳۶: ۸۳)۔

سوال – ۵۴۴: سُورۂ حجّ کی دو آخری آیتیں (۲۲: ۷۷ تا ۷۸) أئمّۂ آلِ محمّدؐ کی شان میں ہیں، لہٰذا آپ اس مقام کے حوالے سے پاک اماموں کی کوئی عِرفانی حکمت بیان کریں- جواب: (۱) دینِ اسلام کی تمام ظاہری اور باطنی عبادات اور نیک اعمال کے جواہر حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام کے پاس ہیں (۲) جہادِ اکبر انہی کی نورانی ہدایت کی روشنی میں ممکن ہوجاتا ہے، کیونکہ خداوند تعالیٰ نے ان کو برگزیدہ فرمایا ہے، ان کے لئے دینی علم میں کوئی تنگی نہیں (۳) کیونکہ یہ ان کے جدِّ اعلیٰ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کا مذہب ہے، اُسی خدا نے پہلے ہی سے اماموں کا نام مسلمین رکھا ہے، یعنی حقیقی فرمانبردار اور اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دینے والے، اور قرآن میں بھی ان کے یہی نام ہیں، تاکہ رسولؐ اماموں پر گواہ بنیں، اور أئمّہ لوگوں پر گواہ بنیں….۔

سوال – ۵۴۵: حضرتِ عیسیٰؑ نے عرض کی …. وُکُنتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیھِمْ = اور میں جب تک ان کے درمیان رہا ان پر گواہ اور نگران تھا (۰۵: ۱۱۷) اس قانونِ شہادت کی روشنی میں آپ یہ بتائیں کہ رسولِ پاکؐ اماموں پر کس طرح گواہ ہوتے ہیں؟ اور حضراتِ أئمّہ کس صورت میں لوگوں پر گواہ ہوسکتے ہیں؟ – جواب: (۱) قرآنِ حکیم کے درجِ

 

۳۹۳

 

بالا الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ لوگوں کا گواہ صرف وہی شخص ہوسکتا ہے، جو ان کے درمیان حاضر ہو، چُنانچہ آنحضرتؐ اماموں پر گواہ اِس معنیٰ میں ہیں کہ ہر امام کے ساتھ رسولؐ کا نور موجود ہوتا ہے (۲) اور لوگوں پر أئمّہ اس طرح گواہ ہوتے ہیں کہ ہر زمانے میں امامِ برحق لوگوں کے درمیان حاضر اور موجود ہوتا ہے، پس قانونِ شہادت یہ ہے کہ لوگوں پر حضراتِ أئمّہ گواہ ہیں، أئمّہ پر رسولِ کریمؐ گواہ ہیں، اور رسولؐ پر اللہ گواہ ہے، اور یہ قرآنِ حکیم کی زبردست حکمتوں میں سے ہے۔

سوال – ۵۴۶: سُورۂ رعد کی آخری آیت (۱۳: ۴۳) کا ترجمہ ہے: یہ منکرین کہتے ہیں کہ تم خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہو، کہو، میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے اور پھر اس شخص کی گواہی جو کتابِ آسمانی کا علم رکھتا ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ وہ شخص کون ہے جو “الکتاب” کا علم رکھتا ہے؟ کیا الکتاب صرف قرآن ہے (۰۲: ۲۱۳) یا اس میں اگلی کتابیں بھی ہیں؟ اِس گواہِ ثانی کی گواہی کے لئے آسمانی کتاب کا علم کس طرح کام آتا ہے؟ – جواب: (۱) وہ شخص جس کے پاس آسمانی کتاب کا علم ہے اور آنحضرتؐ کی رسالت کا گواہِ دوم ہے، وہ حضرتِ علیؑ ہے (۲) الکتاب جُملہ آسمانی کُتُب کا نام بھی ہے، اور یہ قرآنِ عظیم بھی ہے، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ مولا علیؑ ہی وہ شخص ہے، جس کے پاس تمام آسمانی کتابوں کا علم موجود ہے (۳) آسمانی کتاب کا علم معمولی اور عام نہیں، بلکہ یہ معجزاتی اور مُشاہداتی علم ہے، یعنی خداوندِ تعالیٰ حضرتِ علیؑ کے لئے کان، آنکھ،

 

۳۹۴

 

ہاتھ، اور پاؤں ہوگیا (بحوالۂ حدیثِ نوافِل، (۴) کوئی عاقل اور دانا شخص ہمیں یہ بتائے کہ حضرتِ علیؑ کے پاس آسمانی کتابوں کا معجزاتی اور مُشاہداتی علم تھا یا نہیں؟ پس یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ مولا علیؑ کو بھی آنحضرتؐ کی رسالت پر گواہ بنا دیا ہے۔

سوال – ۵۴۷: کیا یہ صفت ہر امام کی ہوتی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا؟ آیا ہر امام مولا علیؑ ہی کی طرح آسمانی کتاب کا معجزاتی اور مشاہداتی علم رکھتا ہے؟ کیا وہ رسولِ پاکؐ کی رسالت پر گواہ بھی ہوسکتا ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، ہر امام حاملِ نورِ مُنَزَّل ہوتا ہے، لہٰذا وہ اپنے زمانے میں علمِ الٰہی کا خزانہ ہوتا ہے (۲) اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ آلِ محمّدؐ و اولادِ علیؑ کا ہر امام علیؑ ہی کی طرح آسمانی کتاب کا چشم دید معجزاتی علم رکھتا ہے، یعنی آسمانی کتاب کا اوّلین خزانہ رُؤیت ہے، جس میں اشارۂ ناطق بھی ہے اور اشارۂ صامت بھی، دوسرا خزانہ کلمۂ کُن ہے، تیسرا خزانہ قلمِ اعلیٰ، چوتھا خزانہ لوحِ محفوظ، پھر تین عظیم فرشتے، پھر نبی اور ولی کا عالمِ شخصی ہے (۳) چنانچہ خداوندِ تعالیٰ ہر امام کو اپنے تمام خزائن اور جملہ مقاماتِ نزول کا مشاہدہ کراتا ہے، اور پھر وہ امام سارے انبیا و رُسُل کی نبوّت و رسالت کا گواہ بن جاتا ہے۔

سوال – ۵۴۸: سُورۂ تطفیف میں ہے: ہرگز ایسا نہیں، بےشک نیک لوگوں کا نامۂ اعمال عِلّیِّین میں ہے، اور تمہیں کیا خبر کہ وہ عِلّیِّین کیا

 

۳۹۵

 

ہے، ایک لکھی ہوئی کتاب ہے، جس کو مقرّب بندے دیکھ سکتے ہیں (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) اس کی حکمتی وضاحت کریں- جواب: (۱) ہر گز ایسا نہیں جس طرح عوام کہتے ہیں، یقیناً نیک لوگوں کا اعلیٰ اور اجتماعی نامۂ اعمال حظیرۂ قدس کی برتر ہستیوں میں ہے، وہ لکھی ہوئی ایک زندہ کتاب کی طرح ہیں، اس کا مُشاہدہ دنیا میں صرف مقرّبین ہی کر سکتے ہیں۔

سوال – ۵۴۹: سُورۂ بقرہ (۰۲: ۱۴۳) میں یہ فرمانِ الٰہی ہے: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا۔ اس میں کیا حکمت ہے؟ – جواب: (۱) یہ آیۂ شریف أئمّۂ آلِ محمدؐ کے بارے میں ہے، ترجمہ: اور اس طرح ہم نے تم کو عادل اُمّت بنایا تاکہ تم لوگو ں پر گواہ بنو اور رسول(محمد) تم پر گواہ  بنیں(۲) اس کی حکمت یہ ہے کہ جب تک دنیا میں لوگ موجود ہیں، تب تک أئمّہ طاہرین کا سلسلہ جاری و باقی ہے، تاکہ کسی بھی زمانے کے لوگ قیامت کے دن یہ نہ کہیں کہ دنیا میں ہدایت کا کوئی ذریعہ ہی نہ تھا۔

سوال – ۵۵۰: سورۂ توبۃ (۰۹: ۱۰۵) میں ہے: اور اے رسولؐ، ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم عمل کرو، اللہ اور اس کا رسولؐ اور مومنین تمہارے کاموں کو دیکھیں گے۔ ایسے بابصیرت اور باطن شِناس مومنین کون ہوسکتے ہیں، جو خدا اور رسولؐ کے بعد لوگوں کے اعمال کو دیکھتے ہوں؟ – جواب: (۱) ایسے باکمال مومنین امامانِ برحق ہیں (دعائم الاسلام،

 

۳۹۶

 

جلد اوّل، ولایتِ أئمّۂ اہلِ بیتؑ) کیونکہ اہلِ ایمان جو عام ہیں، وہ دوسروں کے اعمال کو دیکھ ہی نہیں سکتے ہیں۔

 

۳۹۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۳

 

سوال – ۵۵۱: لُغاتُ الحدیث میں ہے: اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ، یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللہِ  = مومن کی فراست سے ڈرو، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ کیا یہ ہر مومن کی صفت ہوسکتی ہے؟ اگر تمام مومنین خدا کے نور سے دیکھ سکتے ہیں تو کس کو کس سے ڈرنا چاہیئے؟ جبکہ سب ایک جیسے ہیں؟ آخر ڈرنے کا مقصد کیا ہے؟ – جواب: (۱) ایسا نور کسی مومن میں نہیں آتا مگر فنا فی الامام، فنا فی الرّسول، اور فنا فی اللہ کے بعد اور وہ علمی مقصد کے لئے ہوتا ہے (۲) مومن کے خاص معنی ہیں: امن دینے والا، یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفات میں سے ہے (۵۹: ۲۳) آپ جانتے ہیں کہ امامِ عالی مقامؑ اسمائے الٰہی کا مظہر ہے، لہٰذا مومن (امن دینے والا) حضرتِ امامؑ ہے (۳) “مومن کی فراست سے ڈرو، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔” امام کے علم سے ڈرو، یعنی احترام کرو، اور بحث نہ کرو، کیونکہ یہ علم اللہ کے نور کی روشنی میں ہے۔

سوال – ۵۵۲: آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کے مطابق: “وہ زیتون کا مبارک درخت جو نہ مشرق کا ہے اور نہ مغرب کا۔”  پھر وہ کہاں کا ہے؟

 

۳۹۸

 

اور کیا ہے؟ – جواب: (۱) اس مثال کا تعلّق کائناتِ ظاہر سے بھی ہے، اور عالمِ شخصی سے بھی، پس یہ بابرکت درختِ زیتون نفسِ کُلّی ہے، جو زمان و مکان کی قُیُود سے بالا و برتر اور لامکانی ہے۔

سوال – ۵۵۳: سُورۂ زُخرُف (۴۳: ۲۸) میں ارشاد ہے: وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ۔ آپ اس کا تاویلی ترجمہ کریں- جواب: (۱) اور ابراہیمؑ نے اس (اسمِ اعظم اور امامت) کو اپنی اولاد میں ہمیشہ باقی رہنے والا کلمہ قرار دیا تاکہ لوگ رجوع کریں (۲) حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے پاس عظیم امامت کی ذمہ داری تھی، اس لئے آپؑ اپنی اولاد (آلِ ابراہیمؑ) میں کلمۂ باقیہ چھوڑ گئے۔

سوال – ۵۵۴: سُورۂ شُعرآ ء (۲۶: ۸۴) میں ہے کہ حضرتِ ابراہیمؑ نے خدا سے یہ دعا کی: وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الآخِرِينَ۔ اس آیۂ کریمہ کا رازِ حکمت کیا ہے؟ – جواب: (۱) ترجمہ: اور (اے پروردگار) آئندہ آنے والی نسلوں میں میرے لئے صدق کی زبان بنا دے (۲) یعنی میرے اپنے سلسلۂ اولاد (آلِ ابراہیمؑ) میں میرے لئے علم و حکمت بیان کرنے والی زبان بنا دے (۳) اس کا مطلب یہ ہوا کہ آلِ ابراہیمؑ میں ایک طرف امامانِ مُستقر کا سلسلہ تھا، اور دوسری جانب امامانِ مستودع کا سلسلہ۔

سوال -۵۵۵: آپ یہ بتائیں کہ قرآنِ عظیم میں امام شِناسی

 

۳۹۹

 

کا دائرہ کس حد تک وسیع ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ حضرتِ ابراہیمؑ کے قصّۂ قرآن میں نورِ امامت کے کیسے کیسے عظیم اَسرار پنہان ہیں؟ – جواب: (۱) حق بات تو یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں امامِ شناسی کا دائرہ تمام دائروں پر محیط ہے، آپ قلبِ قرآن (۳۶: ۱۲) میں دیکھیں (۲) آپ یقین کریں کہ قرآن میں حضرتِ ابراہیمؑ کا قصہ سرتاسر نورِ امامت کے اسرار سے لبریز ہے (۳) کیوں نہ ہو جبکہ خدائے علیم و حکیم نے اپنے خلیل کو تمام لوگوں کے لئے امام بنا یا تھا (۰۲: ۱۲۴) پھر ان کا قصّہ لازمی طور پر قصّۂ امامت ہونا ہی تھا۔

سوال – ۵۵۶: سُورہ ابراہیم (۱۴: ۳۷) میں ہے کہ جناب خلیل اللہؑ نے کہا: پروردگار !میں نے ایک بے آب وگیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصّے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے، پروردگار! یہ میں نے اس لئے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تُو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل (ثمرات) دے، شاید کہ یہ شکرگزار بنیں۔ آپ اس کی کوئی حکمت بتائیں۔ – جواب: (۱) یہاں وادیٔ عقل، کعبۂ باطن، اور مرتبۂ امامت کا تذکرہ ہے، نماز کی تاویل دعوت ہے، لوگوں کے دل میں اماموں سے عشق و محبت ہونے کے لئے دعا کی گئی ہے، اور پھر ایسے سب لوگوں کے لئے ثمراتِ علمی مطلوب ہیں، کیونکہ اللہ کے باطنی گھر کی یہی خاصیت ہے کہ جس کی طرف ہر چیز کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں (۲۸: ۵۷)۔

 

۴۰۰

 

سوال – ۵۵۷: قرآنِ حکیم اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلامِ حکمت نظام ہے، لہٰذا اس کے تمام الفاظ و کلمات مغزِ علم و حکمت سے مملو اور لبریز ہیں، پس سُورۂ قَصَص (۲۸: ۸۵) کے حوالے سے یہ سوالات ہیں: کیا ہر چیز کا ظاہری پھل ہوتا ہے؟ آیا صرف ثمردار درختوں ہی کے ثمرات ہوا کرتے ہیں، یا کُلّ اشیاء کے ثمرات ہوتے ہیں؟ کیا تمام چیزوں کے ثمرات حرمِ ظاہر کی طرف کھچے چلے آتے ہیں؟ – جواب: (۱) ظاہر میں صرف میوہ دار درختوں کے ثمرات ہوتے ہیں اور بس، کُلّ اشیاء کے ثمرات باطن میں ہوتے ہیں، اور وہ دو قسم کے ہوا کرتے ہیں: روحانی اور عقلی، تمام چیزوں کے باطنی میوے حرمِ باطن کی طرف از خود کھچے چلے جاتے ہیں۔

سوال – ۵۵۸: سُورۂ کہف (۱۸: ۰۷ تا ۰۸) میں ہے: واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں کہ (عِلماً و) عملاً کون زیادہ اچھا ہے۔ آخرکار اس سب کو ہم ایک چَٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔ یہاں آپ یہ بتائیں کہ یہ تذکرہ اور پیش گوئی کس زمین کے بارے میں ہے؟ زمینِ ظاہر؟ زمینِ عالمِ شخصی؟ یا دونوں؟ آخر کیوں؟ – جواب: (۱) دونوں کے لئے فنائیت کا ایک ہی قانون ہے، مگر ایک زمین کی عمر بڑی طویل ہے، اور دوسری کی عمر بہت ہی مختصر (۲) جب پروردگار سیّارۂ زمین کے ذخیرۂ آبی کو لے جائے گا (۲۳: ۱۸) تو اس وقت نباتات، حیوانات،

 

۴۰۱

 

اور انسان سب کے سب مر جائیں گے، تاہم انسانوں کے لئے کثیف سے لطیف ہوجانا یا وجہ اللہ میں فنا ہوجانا بھی ممکن ہے۔

سوال – ۵۵۹: آپ یہ بتائیں کہ زمینِ عالمِ شخصی کس طرح چَٹیل ہوجائے گی؟ – جواب: (۱) اگر آپ چاہیں تو اس حقیقت کو براہِ راست قرآنِ حکیم کی کئی آیات میں دیکھ سکتے ہیں کہ زمینِ ظاہر موسمِ سرما میں مرچکی ہوتی ہے، پس اللہ تبارک و تعالیٰ آسمان سے بارش برسا کر اس کو موسمِ بہار میں زندہ کرتا ہے، یہ بیحد حسین و دل آویز موسم ظاہراً کلیوں اور پھولوں کی محبوبیّت اور بادشاہت کا زمانہ ہوتا ہے، اس کے بعد موسمِ گرما آتا ہے، جس میں طرح طرح کے پھل تیار ہوجاتے ہیں، بحقیقت پھولوں کے موسم سے پھلوں کا موسم بہتر ہوتا ہے، اور آخراً موسمِ خزان آتا ہے، جو تمام موسموں کا ماحصل اور نتیجہ ہے، یا یوں کہا جائے کہ یہ پھولوں اور پھلوں سے بھی زیادہ مفید اور آرام کا موسم ہے، کیونکہ اس وقت تمام اشیائے خوردنی گھروں میں جمع ہوتی ہیں، پس اس حال میں باغ اور کھیت بیابان جیسے لگتے ہیں، یہی مثال عالمِ شخصی کی بھی ہے کہ وادیٔ عقل کا قرآنی اور روحانی تصوّر بیابان جیسا ہے۔

سوال – ۵۶۰: کیا سبب ہے یا کیا دلیل ہے کہ وادیٔ عقل کا تصوّر ایک بیابان کی طرح ہے؟ – جواب: (۱) عالمِ شخصی کے ابتدائی مراحل دنیا کی مثال پر ہیں، اور آخری منزل آخرت کے نمونے پر ہے،

 

۴۰۲

 

اس کے بیابان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کھیتی باڑی نہیں ہوتی، کیونکہ یہ وہ مقامِ اعلیٰ ہے، جہاں اشیائے کُل کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں (۲۸: ۵۷) (۲) سُورۂ ابراہیم (۱۴: ۳۷) میں دیکھیں کہ حضرتِ امام اسماعیلؑ فرزندِ حضرتِ ابراہیمؑ وادیٔ عقل میں رہتا تھا، جس کا ایک ترجمہ بے کھیتی کا بیابان ہے (وَادٍ غَیْرِذِ یْ زَرْعٍ)۔

 

۴۰۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۴

 

سوال – ۵۶۱: آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا ہے: میں علم کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا ہے: میں حکمت کا گھر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے۔ اس علم و حکمت کا قرآن سے کیا تعلّق ہے؟ اس کے حصول کے لئے کیا طریقہ بتایا گیا ہے؟ – جواب: (۱) اس علم و حکمت کا براہِ راست تعلّق قرآن ہی سے ہے، کیونکہ حضورِ پاکؐ خود قرآنِ مُجسّم اور قرآنِ ناطق تھے (۲) اس علم و حکمت کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ آپ روحانی طور پر علیٔ زمانؑ میں فنا ہوجائیں، تاکہ آپ قرآنِ ناطق اور قرآنِ صامت کے خزانوں تک رسا ہو سکیں۔

سوال – ۵۶۲: آیا قانونِ باب / قانونِ دروازہ ایک کائناتی حقیقت ہے؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ: “ہاں” تو پھر آپ اس کی چند مثالیں پیش کریں- جواب: (۱) جی ہاں، اس قانون میں ذرا بھی شُبہہ نہیں (۲) جبکہ آسمان کے دروازے (۰۷: ۴۰) ہیں (۳) دورزخ کے دروازے (۱۵: ۴۴) ہیں(۴) بہشت کے دروازے (۳۹: ۷۳) ہیں (۵) ہر گھر، ہر خانۂ خدا، اور ہر چیز کا دروازہ ہوا کرتا ہے (۶) پس اس حقیقت کی تردید کوئی

 

۴۰۴

 

نہیں کرسکتا کہ اللہ کے نور کا دروازہ رسولؐ ہیں، رسولؐ کا دروازہ اساس، اساس کا دروازہ امام اور امام کا دروازہ حُجّت وغیرہ ہوتا رہا ہے۔

سوال – ۵۶۳: سُورۂ طُور (۵۲: ۰۱ تا ۰۶) میں ہے: وَ الطُّوْرِ۔  وَ كِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ۔  فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ۔  وَّ الْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ۔ وَ السَّقْفِ الْمَرْفُوْعِ۔ وَ الْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ۔ ان آیات کریمہ کی حکمت بیان کریں – جواب: (۱) قسم ہے طورِ روح اور طورِ عقل کی، جو عالمِ شخصی میں ہے، اور قسم ہے لکھی ہوئی کتاب کی جو بکھرے ہوئے ذرّات میں ہے، اور قسم ہے آباد گھر کی، اور قسم ہے بلند کی ہوئی چھت (عرش) کی، اور قسم ہے موجزن سمندر کی۔ (۲) عالمِ شخصی میں کوہِ روح اور کوہِ عقل کے بےشمار معجزات ہیں (۳) لکھی ہوئی کتاب جو بکھرے ہوئے ذرّات پر مبنی ہے، وہ کتابِ ناطق بھی ہے، اور عارف کا نامۂ اعمال بھی (۴) بیت المعمور یعنی اللہ تعالیٰ کا آباد گھر بھی عالمِ شخصی میں ہے، جس کا طواف ہر روز ستّر ہزار فرشتے کرتے ہیں (۵) سقفِ مرفوع عرشِ اعلیٰ کا نام ہے، (۶) بحرِ مسجور (بھرا ہُوا سمندر) علم کا سمندر ہے، جس پر عرشِ الٰہی کا ظہور ہوتا ہے، اور یہ بات آپ سب کو معلوم ہے کہ تمام معجزات اور دیگر بے شمار معجزات عالمِ شخصی ہی میں ہوا کرتے ہیں۔

سوال – ۵۶۴: آپ کا یہ خیال ہے کہ خدوندِ قدّوس نے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو جو عظیم امامت عطا فرمائی تھی (۰۲: ۱۲۴) اس کا نور نہ

 

۴۰۵

 

صرف آپ کی شخصیت میں جلوہ گر تھا، بلکہ آپؐ کے آباؤاجداد اور آئندہ نسل میں بھی یہی نورِ ہدایت جاری و باقی ہے، آپ مثال اور دلیل سے سمجھائیں کہ یہ بات کس طرح ممکن ہے- جواب: (۱)  ارشاد ہے: قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ (۰۲: ۱۲۴) میں تجھے سب لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ یعنی میں تجھے امام بناؤں گا، اور ساتھ ہی ساتھ علم الاسرار عطا کروں گا، جس سے تجھ پر یہ راز کُھل جائے گا کہ تو ماضی میں بھی امام تھا، اور مستقبل میں بھی امام ہونے والا ہے، کیونکہ اس کا ایک لطیف اشارہ “ناس” میں موجود ہے کہ یہ لفظ یہاں اپنے معنی میں محدود نہیں بلکہ مطلق ہے (۲) نورِ امامت کے باب میں دو حقیقتیں مُسَلّمہ ہیں: ایک ہے نورِ مجرّد اور دوسرا ہے جامۂ نور، کیونکہ جب بھی نور کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس میں یا تو نورِ مجرّد کا اشارہ ہوتا ہے یا جامۂ نور کا، جیسے اللہ نور السّمٰوٰت والارض میں نور ہی کا ذکر ہے، لیکن نورٌعلیٰ نور میں جامۂ نور کا بیان نمایان ہے، پس اس بات کا انحصار کسی مومن کی عرفانی رسائی پر ہے کہ وہ حضرتِ ابراہیمؑ کو جامۂ نور مانتا ہے یا تمام زمانوں کے لئے نور تسلیم کرتا ہے۔

سوال ۵۶۵: حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں اسرارِ نبوّت و امامت کے خزانے مخفی ہیں۔ ان تک عاشقوں کی رسائی کس طرح ہوسکتی ہے؟ – جواب: (۱) اس کے لئے اوّلین شرط حقیقی اطاعت ہے، اور سب سے بڑی چیز نورانی ہدایت و تائید ہے، پھر قصّۂ ابراہیمؑ

 

۴۰۶

 

کا بغور مطالعہ قرآنِ حکیم کے ۶۹ مقامات پر کریں، کیونکہ اس قصّے کا سلسلہ ہر اُس مقام پر ہے، جہاں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کا اسمِ مبارک آیا ہے، اور یہ نام قرآنِ پاک میں ۶۹ بار آیا ہے (۲) اس بابرکت اور پُرحکمت قصّے کے کئی عالیشان پہلو ہیں، ان میں ایک پُرمغز، انتہائی جامع اور بے مثال پہلو آلِ ابراہیمؑ سے متعلق ہے، اس ذیلی مضمون میں وہ دعائیں بھی شامل ہیں جو حضرتِ ابراہیم خلیل اللہؑ نے اپنی ذرّیّت کے حق میں کی ہیں (۳) آپ قصّۂ خلیل اللہؑ کی حکمت کو سمجھنے کی غرض سے متعلقہ دینی کتابوں کو بھی پڑھیں۔

سوال – ۵۶۶: الحمد للہ، ہر پیغمبر کے آئینۂ ذات میں نورِ محمّد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ مُتجلّی ہے، اب آپ یہ بتائیں کہ محمد و آلِ محمدؐ اِس دَور کے لئے اسماء الحُسنیٰ ہیں یا نہیں؟ یہی حضرات صراطِ مستقیم اور حبل اللہ ہیں یا نہیں؟ یہی مُبارک ہستیاں سُلَّم النجاۃ (نجات کی سیڑھی) ہیں یا نہیں؟ اور یہی صاحبان سفینۂ نوح کی مثال ہیں یا نہیں؟ – جواب: کیوں نہیں، جبکہ سب کچھ یہی حضرات ہیں، اور جبکہ اللہ کے عظیم خزانے یہی انسانانِ کامل ہیں۔

سوال – ۵۶۷: سُورۂ نساء (۰۴: ۹۷) میں ہے: جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم

 

۴۰۷

 

زمین میں کمزور و مجبور تھے، فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ اس آیت کے ظاہری معنی اپنی جگہ پر ہیں، آپ اس کی تاویلی حکمت بتائیں – جواب: (۱) خدا کی انتہائی وسیع زمین عالمِ شخصی ہے، کیونکہ وہ ساری کائنات پر محیط ہے، اور اس میں ہجرت کرنا یہ ہے کہ لوگ خودشِناسی کے طریق پر اپنے عالمِ شخصی میں داخل ہوجائیں (۲) یہ بھی ایک ضروری سوال ہے کہ لوگ کس طرح اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نافرمانیوں کی صورت میں اپنی روح پر ظلم کرتے ہیں، اگر سچ مچ کمزوری اور مجبوری ہے تو اس سے علم و عبادت میں کوئی رکاوٹ کس طرح ہوسکتی ہے۔

سوال – ۵۶۸: سورۂ ابراہیم (۱۴: ۴۸) میں ہے: جس دن یہ زمین بدل کر دوسری زمین سامنے لائی جائے گی اور (اسی طرح) آسمان (بھی بدل دیئے جائیں گے) اور سب لوگ خدائے واحدِ قہار کے روبرو نکل کھڑے ہوں گے۔ یہ کونسا دن ہے؟ زمین و آسمان کس طرح بدل جائیں گے؟ اور خدائے واحدِ قہار کا معنوی راز کیا ہے؟ – جواب: (۱) یہ انفرادی اور روحانی قیامت کا دن ہے، جب عارف عالمِ شخصی کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس ظاہری اور مادّی زمین سے وہاں کی زمین بالکل الگ اور مختلف ہے، جبکہ وہ روحانی اور لطیف ہے، اور اسی طرح وہاں کے آسمان بھی روحانی اور لطیف ہیں (۲) خدائے واحدِ قہار کے یہ معنی ہیں کہ اللہ جَلَّ شَانَہٗ قیامت کی آخری منزل میں سب لوگوں کو

 

۴۰۸

 

زبردستی سے ایک کر لیتا ہے، جس طرح ابتداءً  سب لوگ شخصِ واحد کی صورت میں تھے۔

سوال – ۵۶۹: سُورہ فرقان (۲۵: ۴۵ تا ۴۶) میں جہاں کَیْفَ مَدَّالظِّلَّ کا حکمت سے لبریز ارشاد ہے، اس کے عظیم اسرار کو بیان کرنے کے لئے سعیٔ بلیغ کریں- جواب: (۱) ترجمہ: کیا تم نے اپنے ربّ کی طرف نہیں دیکھا کہ وہ کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا، ہم نے سورج کو اپنی دلیل (رہنما) بنایا، پھر ہم اس سائے کو آسانی سے اپنی طرف لپیٹ لیتے ہیں۔

اسرارِ حکمت: یہ مبارک خطاب سب سے پہلے حضرت سیّد الانبیاءؐ سے ہے، پھر ہر امام سے ہے، اور پھر ہر عارف سے ہے کہ آیا تو نے اپنے پروردگار کی طرف نہیں دیکھا کہ کس طرح وہ اپنا سایہ (جو تیرا باطنی وجود ہے) مقامِ روح پر بھی اور مقامِ عقل پر بھی ہزاروں بار پھیلاتا اور لپیٹتا رہتا ہے، اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا، اس سے امام مراد ہے جو ہمیشہ کے لئے ظِلِّ الٰہی ہے، اس پر سورج دلیل ہے، یعنی یہ سارے معجزات نورِ ہدایت کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں، اور سائے کو لپیٹنے کی بات ہوچکی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ہی قیامت کے اندر بےشمار قیامات کا مثالی مظاہرہ ہوتا ہے۔

سوال – ۵۷۰: خدا کا سایہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے، درحالے

 

۴۰۹

 

کہ سایہ تاریک ہوا کرتا ہے، اور خدا تاریکی سے پاک و برتر ہے؟ – جواب: (۱) ہر چیز کا سایہ تاریک نہیں ہوتا، بعض چیزوں کے سائے تاریک اور بعض کے سائے روشن ہوا کرتے ہیں، جیسے سورج، چاند، ستارے، آگ وغیرہ کے سائے ہمیشہ تابناک ہوتے ہیں، آپ سُورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں اس فرمانِ خداوندی کو پڑھیں: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِمَّا خَلَقَ ظِلاَلاً۔ اور خدا نے تمہارے لئے اپنی ہر مخلوق کے (جسمانی، روحانی، اور عقلانی) سائے بنائے۔ یعنی تمہارے عالمِ شخصی میں چار انوار (عقلِ کلّ، نفسِ کُلّ، ناطق، اور اساس) کے نوری سائے ہیں (۲) چونکہ یہ صفاتِ خدا کے مظاہر ہیں، اس لئے ان کا نورانی سایہ خدا کا سایہ ہے جو اصلاً نور ہے، اور عالمِ ذرّ ہر چیز کا روحانی سایہ بھی ہے اور لطیف جسمانی سایہ بھی۔

 

۴۱۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۵

 

سوال – ۵۷۱: کہتے ہیں کہ حضرتِ یوسف علیہ السّلام اپنے زمانے کا امام تھا، اس کا سارا قصّہ تاویلی رُموز سے بھرا ہوا ہے، پس آپ یہ بتائیں کہ اس کے بےمثال حسن و جمال میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں؟ – جواب: (۱) اس کی اوّلین حکمت یہ ہے کہ حضرتِ یوسفؑ کے جمالِ ظاہری کے مقابلے میں جمالِ باطنی بیحد اعلیٰ و افضل اور لازوال تھا (۲) اس میں یہ اشارہ بھی تھا کہ تمام انسانانِ کامل باطنی حسن و جمال اور دیگر کمالات میں یکسان ہوا کرتے ہیں (۳) علم و حکمت کی تجلیات بڑی عجیب و غریب ہوا کرتی ہیں، پس علم و حکمت کی لا انتہا خوبصورتی خدا کے حکم سے یوسفِ صدّیق میں مُجَسّم ہوگئی تھی (۴) حدیثِ شریف کا ترجمہ ہے: اللہ صاحبِ جمالِ باطن ہے، وہ جمالِ باطن کو پسند فرماتا ہے، مگر کوئی شخص علم کے بغیر باطن میں حسین و جمیل ہو ہی نہیں سکتا۔

سوال – ۵۷۲: سُورۂ یوسف (۱۲: ۸۷) میں ہے کہ حضرتِ یعقوبؑ نے کہا: میرے بچو، جا کر یوسفؑ اور اس کے بھائی (بنِ یمین) کی کچھ تلاش کرو، اللہ کی رحمت (رَوح/ رُوح) سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت

 

۴۱۱

 

سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ رَوح اور رُوح ایک ہی لفظ ہے (بحوالۂ مُفردات القرآن) پس حضرتِ امام یوسف علیہ السلام اپنے وقت کے لئے رحمۃ اللہ بھی تھا اور رُوح اللہ بھی، اوریہی صفت ہر امام کی ہوا کرتی ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ – جواب: (۱) یہ بیان بالکل درست اور حقیقت ہے، میں صرف اتنا اضافہ کروں گا کہ ان جیسی جملہ صفات کے ساتھ امام ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے (۲) اگرچہ کسی شک کے بغیر رحمتِ کُل آنحضرتؐ کی ذاتِ اقدس ہی ہے، لیکن علیٔ زمانؑ رسول اللہؐ کے صرف علم و حکمت کا دروازہ نہیں، بلکہ حضورؐ کی تمام صفات کا دروازہ ہے، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ یقیناً اللہ کی رحمت رسولؐ کے توسط سے اور رسولؐ کی رحمت امامؑ کے توسط سے آتی ہے۔

سوال – ۵۷۳: سُورۂ یوسف کی آیت ۱۲: ۱۰۰ کا تاویلی مفہوم بتائیں – جواب: (۱) اور یوسفؑ نے اپنے روحانی ماں باپ کو عالمِ شخصی کے عرش (تخت) پر بٹھایا، اور وہ دونوں نیز دیگر تمام حدودِ دین یوسفؑ کے لئے سجدہ کرتے ہوئے گر پڑے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (۲) یعنی یوسفؑ نے جب اپنے عالمِ شخصی کو فتح کرلیا تو اس کے تختِ سلطنت پر امام اور باب کو بٹھایا، پھر امام نے یہ سلطنت واپس یوسف کو عطا کر دیا، اس کے معنی ہیں کہ یوسفؑ کو امامت عنایت ہوئی، اور سب حدودِ دین اطاعت کرنے لگے (۳) سجدہ کی تاویل اطاعت ہے، پس یوسفؑ نے جو خواب دیکھا تھا کہ گیارہ ستارے اور شمس و قمر اس کو سجدہ کر رہے ہیں، اس کی تاویل یہی

 

۴۱۲

 

ہوئی کہ گیارہ حُجَج، سابق امامؑ، اور باب حضرتِ یوسفؑ کی اطاعت کرنے لگے۔

سوال – ۵۷۴: آیا ہر عالمِ شخصی میں ایک روحانی سلطنت قائم ہوسکتی ہے؟ کیا جہادِ اکبر اسی مقصد کے لئے ہے؟ انسان کی ذات میں بحدِّ قوت یا بحدِّ فعل ایک عظیم بادشاہی موجود ہونے کی کیا دلیل ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، ہر آدمی کے باطن میں ایک روحانی سلطنت قائم ہوسکتی ہے، یقیناً جہادِ اکبر اسی مقصد کے پیشِ نظر ہے (۲) انسان میں ایک عظیم سلطنت کی امکانیّت پر بےشمار دلائل ہیں (۳) سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں غور سے دیکھ لیں کہ عالمِ شخصی میں بھی دنیائے ظاہر کی طرح بہت سی سلطنتیں ہیں، لیکن وہ ساری کی ساری دینِ حق کے تحت ایک ہیں، اور ان سب ممالک کا شاہنشاہ خدائے واحدِ قہار ہے (۴۰: ۱۶) اس اعتبار سے یہ کہنا حقیقت ہے کہ عالمِ شخصی کی بہشت میں ایک ہی بہت بڑی شاہنشاہی (مُلکاً کبیراً ۷۶: ۲۰) ہے، لیکن اس کے تحت بہت سی سلطنتیں بھی ہیں۔

سوال – ۵۷۵: دو بڑی حکمتوں کا یکجا نتیجہ: خدا نے آلِ ابراہیمؑ کو کتاب، حکمت اور بہت بڑی سلطنت عطا فرمائی ہے (مفہوم: ۰۴: ۵۴) خدا نے ہر چیز کو امامِ مبین میں گھیر دیا ہے ( مفہوم: ۳۶: ۱۲) نتیجہ: امامِ مبین میں سب کچھ ہے، کتاب و حکمت بھی ہے اور بہت بڑی سلطنت بھی،

 

۴۱۳

 

اور وہ امامِ مبین آلِ ابراہیمؑ و آلِ محمدؐ بھی ہے، یہ طریقہ کیسا ہے؟ -جواب: (۱) یہ فطری منطق ہے، جو انتہائی عجیب و غریب اور زبردست انقلابی ہے۔

سوال – ۵۷۶: کل بروزِ سہ شنبہ ۱۰ ؍ محرم الحرام ۱۴۲۰ھ، ۲۷؍ اپریل ۱۹۹۹ء کو میری بہت ہی عزیز خواہر زادی بی بی گل اندام کا انتقال ہوگیا، جو ہمارے گرامی قدر غلام قادر بیگ صاحب کی والدۂ محترمہ تھیں، لہٰذا ایصالِ ثواب کی نیت سے ہم یہاں ایک حکمتی سوال کرتے ہیں: سورۂ واقعۃ (۵۶: ۸۸ تا ۹۱) میں ارشاد ہے: پس اگر (مرنے والا خدا کے) مقرّبین سے ہے، تو (اس کے لئے) آرام و آسائش ہے، اور خوشبودار پھول اور نعمت کے باغ، اور اگر وہ اصحابِ یمین میں سے ہے، تو (اس سے کہا جائے گا کہ) تم پر اصحابِ یمین کی طرف سے سلام ہو۔ اس فرمانِ خداوندی کی تفصیلی حکمت بیان کریں- جواب: (۱) مقربین کے لئے بہشت میں روح اور روحانیّت کی ہر گونہ دولت حاصل ہے، طرح طرح کے پھول اور محض خوشبوؤں کی صورت میں قوتِ شامّہ سے حاصل ہونے والی غذائیں ہیں، اور ایسے حسین و دل آویز باغات ہیں، جو لطیف جسمانی، روحانی، اور عقلی نعمتوں سے بھرے ہوئے ہیں (۲) یہ روح اور رَیْحان کی تھوڑی سی تشریح ہوئی، آپ مُقرّبین کے مکمل مضمون کو قرآن میں پڑھ سکتے ہیں، اور اصحابِ یمین کے مضمون کو بھی۔

 

۴۱۴

 

سوال – ۵۷۷: قیامت، آخرت، اور جنّت کے احوال کس طرح معلوم ہو سکتے ہیں؟ – جواب: (۱) علم الیقین، عین الیقین، اور حقّ الیقین کے ذریعے سے، بالفاظِ دیگر معرفت کے وسیلے سے (۲) اگر چشمِ بصیرت پیدا کرنے کی ذمہ داری لوگوں پر عائد نہ ہوتی تو کبھی نہ فرمایا جاتا کہ یہ لوگ اندھے ہیں (۳) اگر عالمِ شخصی میں عالمِ آخرت اور سب کچھ نہ ہوتا تو خود شناسی کو خدا شناسی کا درجہ نہ دیا جاتا، اور خداوندِ تعالیٰ اپنی ذاتِ پاک کو گنجِ معرفت نہ قرار دیتا (۴) جسمانی موت سے قبل نفسانی موت اس وجہ سے بیحد ضروری ہے، تاکہ قیامت، آخرت، اور بہشت کی کامل معرفت حاصل ہو۔

سوال – ۵۷۸: آپ کسی عام مومن یا مومنہ کی روح کو مقربین میں کس طرح شمار کر سکتے ہیں؟ – جواب: (۱) جب ساری مخلوق (گویا) خدا کا کنبہ ہے تو علیٔ زمانؑ کے نیک بخت مریدوں میں کوئی عام شخص کہا ں سے پیدا ہوا؟ کسی بزرگ کا قول ہے: بُوَد زنجیر باز نجیر پیوند+ سرِ زنجیر در دستِ خداوند = زنجیر وہ چیز ہے جس کی کڑی سے کڑی ملی ہوئی ہوتی ہے (یعنی سلسلۂ حدودِدین) اور اس زنجیر کا (بالائی) سِرا مولا و آقا کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ حدودِ دین کا سلسلہ اسی طرح مولا سے وابستہ ہے، اور یہ مثال بڑی منطقی ہے (۲) سورۂ تطفیف (۸۳) کو غور سے پڑھیں، کہ اگرچہ اصحابُ الیمین سے مقربین کا درجہ اعلیٰ ہے، لیکن آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ دونوں کا نامہ اعمال کتابِ مرقوم

 

۴۱۵

 

میں ہے، جو علّییّن میں ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ مقربین آج بھی نامۂ اعمال کو دیکھ رہے ہیں۔

سوال – ۵۷۹: آپ نے روح پر ایک کتاب تصنیف کی ہے، جو “روح کیا ہے؟” کے عنوان سے ہے، کیا آپ اس کتاب سے مُطمئن ہیں؟ کیا یہ حدیثِ مَنْ عرف کی ہدایت کے تحت ہے؟ کیا اس میں عالمِ شخصی کی معرفت ہے؟ آیا عالمِ شخصی میں معرفت کا سب سے بڑا خزانہ موجود ہے؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، میں بڑا مطمئن ہوں (۲) جی ہاں، یہ کام اسی نورانی ہدایت سے ہوا ہے (۳) جی ہاں، اس میں عالمِ شخصی کی معرفت ہے (۴) کیوں نہیں، عالمِ شخصی میں معرفت کا سب سے عظیم خزانہ موجود ہے (۵) کتاب “روح کیا ہے؟” میرے نزدیک اتنی ضروری ہے کہ اس پر ریسرچ ہونی چاہیئے، کیونکہ اس میں روح کے معجزات کا بیان ہے۔

سوال – ۵۸۰: بہت سے لوگ میرے خیال میں آکر طرح طرح کے سوالات کیا کرتے ہیں، چُنانچہ پوچھا گیا: بہشت میں ہر قسم کے پھول تو ہوں گے نا؟ کیا وہاں بھی موسمِ گُل کا انتظار ہوتا ہے؟ قرآنِ حکیم کے کِن کِن الفاظ میں پھولوں کا تذکرہ یا اشارہ موجود ہے؟ -جواب: (۱)  ہر قسم کے اصل اور لطیف پھولوں کا باغ و گلش تو بہشت ہی ہے (۲) بہشت عالمِ امر ہے، اس لئے وہاں کسی نعمت کے ظہور کے لئے

 

۴۱۶

 

ذرا بھی وقت نہیں لگتا (۳) قرآنِ پاک میں جہاں جہاں لفظِ “جنت” یا اس کا کوئی مترادف آیا ہے، وہاں یقیناً پھلوں اور پھولوں کا ذکر موجود ہے، جاننا چاہیے کہ اس مقصد کے لئے یہی لفظ (جنّت) سب سے بڑی جامعیّت کا حامل ہے (۴) پھولوں کا ذکرِ جمیل اُن آیاتِ کریمہ میں بھی ہے، جو بہشت کی بصری نعمتوں سے متعلق ہیں۔

 

۴۱۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۶

 

سوال – ۵۸۱: جب بہشت میں ہر قسم کی بصری نعمتیں ہوسکتی ہیں، تو پھر وہاں ہر طرح کی سمعی نعمتیں کیوں نہیں ہوسکتی ہیں؟ کھلا سوال ہے کہ بہشت میں موسیقی ہے یا نہیں؟ – جواب: (۱) میرا نظریہ مجھے یہ بتا تا رہتا ہے کہ جنّت میں موسیقی ایک سمعی نعمت کے طور پر ہمیشہ موجود ہے، اس کے اِثبات میں بے شمار دلیلیں ہوسکتی ہیں، لیکن یہاں ہم مختصر بات کریں گے کہ قرآنی شہادت (۱۶: ۳۱، ۲۵: ۱۶، ۳۹: ۳۴، ۴۲: ۲۲، ۵۰: ۳۵) کے مطابق جنت میں ہر وہ نعمت موجود ہے، جس کو اہلِ جنت چاہتے ہیں (یَشَآءُوْنَ)آیا بہشت کی موسیقی کو نہ چاہنے کی کوئی وجہ ہوسکتی ہے؟ کیا وہاں بھی نفسِ امّارہ اور شیطان کا کوئی خطرہ ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں ہر گز نہیں۔

سوال – ۵۸۲: جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ بہشت کی نعمتیں اہلِ بہشت کی خواہشات کے مطابق ہیں، چنانچہ اہلِ جنت کے بعض لوگ حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے معجزۂ خوش الحانی اور موسیقی کے ساتھ زبور کی خواندگی کو دیکھنا چاہتے ہیں، آپ بتائیں کہ یہ نعمت بہشت میں ممکن

 

۴۱۸

 

ہے یا نہیں؟ – جواب: (۱) بہشت میں کوئی نعمت غیر ممکن نہیں، وہاں ہر پیغمبر کو اس کے تمام معجزات کے ساتھ دیکھا جاتا ہے (۲) بہشت میں ایسے لوگوں کی بڑی کثرت ہے، جن پر غیر شعوری قیامت گزرچکی ہے، ان کو معرفت کی غرض سے بہشت میں صورِ اسرافیل کا نرم نمونہ سنایا جائے گا، تب معلوم ہوجائے گا کہ ناقور میں موسیقیت ہے یا نہیں؟ نیز بہشت میں موسیقی ہوسکتی ہے یا نہیں؟

سوال – ۵۸۳: سورۂ حِجرْ کے قانونِ خزائن (۱۵: ۲۱) کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہر دانا شخص کو بس یہی ماننا پڑے گا کہ موسیقی بھی دوسری تمام چیزوں ہی کی طرح خزائنِ الٰہی سے نازل ہوئی ہے، اور معلوم ہے کہ اللہ کے تمام خزانے بہشت ہی میں ہیں، اگر یہ بیان درست ہے تو آپ اس کی تصدیق کریں، اور اگر یہ بات حکمتِ قرآن سے ہٹ کر ہے تو وہ بتائیں – جواب: (۱) یہ بیان ایسا مُدَلّل اور اتنا روشن ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی (۲) موسیقی دنیا کی تمام نعمتوں میں وہ واحد نعمت ہے، جو عاشقانِ الٰہی کے لئے ازبس مفید ثابت ہوسکتی ہے، سوچنے کی بات ہے کہ حضرتِ داؤد علیہ السّلام نے اپنی بے مثال رسیلی آواز کے باوصف زبور پڑھنے کے لئے سازوں کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ کیا یہ سب کے لئے ایک نمونۂ عمل نہیں ہے؟

سوال – ۵۸۴: سورۂ سبا (۳۴: ۱۳) میں ہے: اے آلِ داؤد،

 

۴۱۹

 

عملی طور پر شکر کرو، میرے بندوں میں عملی شکرگزار بہت ہی کم ہیں۔ اس کی تاویلی حکمت کیا ہے؟ – جواب: (۱) آلِ داؤد سب سے پہلے حضرتِ سلیمان ہے جو امام تھا، جس کو خدا نے حکم دیا کہ صفِ اوّل کے مومنین کو درجہ بدرجہ روحانیّت اور علم و حکمت عطا کرے، یہ اماموں کی عملی شکرگزاری ہوتی ہے (۲) ایک شکرگزاری قولی ہے اور دوسری شکرگزاری عملی، قولاً شکر کرنے والے بےشمار ہیں، لیکن عملاً شکر بجا لانے والے بہت ہی قلیل ہیں۔

سوال – ۵۸۵: سُورۂ بقرہ (۰۲: ۵۶) میں ہے: پھر تمہیں تمہارے مرنے کے بعد ہم نے جِلا اُٹھایا تاکہ تم شکر کرو۔ یہ خطاب کن لوگوں سے ہے؟ یہ کون سی موت ہے؟ یہ شکر قولی ہے یا عملی؟ – جواب: (۱) خطاب بنی اسرائیل کے حجج سے ہے، موت جسمانی نہیں نفسانی ہے، یعنی فنا فی الامام، جس میں علم و معرفت کے عظیم خزانے ہیں، اسی لئے ان کو عملی شکرگزاری کی ہدایت کی گئی ہے (۲) یہ میرا تجربہ اور کامل یقین ہے کہ بہت سے الفاظ ایسے ہیں، جن کے آخری معنوں میں علم و معرفت ہی کا تذکرہ ملتا ہے، جیسے لفظِ “شکر” ہے، کہ اس کے پہلے معنی ہیں: مُنعِم کی نعمت کی قدردانی، دوسرے معنی ہیں، حقیقی مُنعِم کی نعمت کی شکر گزاری، اور تیسرے معنی ہیں: حقیقی مُنعِم کی خاص نعمت یعنی علم و معرفت کی عملی شکرگزاری کے طور پر علم دینا، اور اللہ تعالیٰ کے لئے ایسی شکرگزاری صرف انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہی کرسکتے ہیں۔

 

۴۲۰

 

سوال- ۵۸۶: سُورۂ نحل (۱۶: ۱۲۰ تا ۱۲۱) میں ہے: بےشک ابراہیمؑ اپنی شخصیّت میں ایک پوری اُمت تھا اللہ کا حقیقی فرمانبردار اور یک سُو، وہ کبھی مشرک نہ تھا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا، اللہ نے اُس کو منتخب کر لیا اور سیدھا راستہ دکھایا۔ حضرتِ ابراہیمؑ کس طرح اپنی شخصیت میں ایک پوری اُمت تھا؟ دیگر اوصاف؟ -جواب: (۱) یہ مثال ہر پیغمبر اور ہر امام کے لئے ہے کہ اس میں سب لوگ بذریعۂ قیامت فنا ہوجاتے ہیں، اور وہ انسانِ کامل نفسِ واحدہ یعنی ایک پوری اُمّت ہوجاتا ہے (۲) حقیقی فرمانبرداری یہ ہے کہ نفسِ واحدہ لوگوں کو بحالتِ فنا خدا سے واصل کر دیتا ہے (۳) یک سُو کا مطلب عشقِ الٰہی کا غلبہ ہے (۴) مشرک نہ ہونا یہ ہے کہ عارف فنا فی اللہ اور مُوَحِّد ہوتا ہے (۵) اللہ کی نعمتوں کی شکرگزاری یہ ہے نبی اور ولی لوگوں کو اللہ کی باطنی نعمتوں سے مالا مال کر دیتے ہیں (۶) اللہ نے حضرت ابراہیمؑ کو امامت کے لئے منتخب فرمایا اور اس کو راہِ مستقیم کا راہنما بنایا۔

سوال – ۵۸۷: سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۰۳) میں ارشاد ہے: (ترجمہ) اے ذرّاتِ رُوحانی! جن کو ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا، بیشک (نوحؑ) بڑا شکر گزار بندہ تھا۔ اس مقدس تعلیم میں کیا تاویلی حکمت ہے؟ – جواب: (۱) خدا جس طرح کائنات کو لپیٹتا ہے اسی طرح آیات کو بھی لپیٹتا ہے (۲) پس یہ آیت بلکہ تمام آیات سورہ ہود کی آیۂ ہفتم (۱۱: ۰۷) میں ملفوفہ ہیں، جس کا ترجمہ یہ ہے: اور وہ اللہ ہی تو ہے جس نے (عالمِ

 

۴۲۱

 

شخصی کے) آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا، اور اس کا عرش پانی (یعنی بحرِ علم) پر ظاہر ہوا، تاکہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں (علم و) عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے (۳) اسرارِ قرآن میں سے ایک عظیم سِرّ لفظِ “ذرّیّت” میں ہے، کہ اس کا خاص معنی ہیں: روحانی ذرّات، پس بھری ہوئی کشتی (۳۶: ۴۱) کا نورانی خواب اس طرح سے ہے کہ کشتی میں صرف شخصِ واحد ہے، اور باقی سب اُس کی ذرّیّت یا ذرّاتِ روحانی ہیں جو نظر نہیں آتے (۴) یہی شخصِ کامل بحرِ علم پر اللہ کا عرش بھی ہے، جس کا ذکر ہوا (۵) اس انتہائی اہم علمی و عرفانی مثال میں حضرتِ نوحؑ تمام انبیاء و أئمّہ کا نمائندہ ہے۔

سوال – ۵۸۸: سورۂ فتح (۴۸: ۱۰) میں ہے: اے رسولؐ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے، ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا…..۔ یہاں یہ بنیادی اور ضروری سوال ہے کہ اس آیۂ کریمہ کے قانون کے مطابق اصحابِ رسولؐ نے گویا اللہ تعالیٰ سے بیعت کرنے کی سب سے بڑی سعادت حاصل کر لی تھی، اور یہ عمل دینی اطاعت کا عہد و پیمان تھا، لیکن بڑا اہم مسئلہ یہ ہے کہ جب حضرتِ خاتم الانبیاء صلّی اللہ علیہ و آلہٖ کی رحلت ہوئی تو اس وقت  بیعتِ الٰہیہ کی نمائندگی کا یہ عظیم مرتبہ کس انسانِ کامل کو ملا؟ – جواب: (۱) آیاتِ قرآنی اور احادیثِ صحیحہ سے یہ حقیقت اظہر مِن الشمس ہے کہ علیٔ عالیؑ وہ امام ہے جس کو خدا و رسول نے مقرر فرمایا تھا۔

 

۴۲۲

 

سوال – ۵۸۹: حدیث بخاری، جلدِ دوم میں ہے کہ آنحضرتؐ سے پوچھا گیا: یا رسول اللہؐ! آپ پر سلام کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے لیکن آپ پر “صلوٰۃ”  کا کیا طریقہ ہوگا؟ آنحضورؐ نے فرمایا کہ یوں پڑھا کرو:  اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد۔ آپ نے قبلاً درود شریف کی مختلف حکمتیں بیان کی ہیں، یہان اس کی خاص تاویل بتائیں۔ – جواب: (۱) درود (صلوٰۃ) کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور سے روحانیّت اور نورانیّت کی بارش، (بارانِ رحمت و علم) (۲) خدا اور اس کے فرشتے اس طرح درود بھیجتے ہیں کہ خدا حکم فرماتا ہے اور فرشتے رحمت و علم کی بارش محمدؐ و آلِ محمدؐ پر اسی طرح برساتے ہیں، جس طرح ابراہیمؑ اور آلِ ابراہیم پر برسائی گئی تھی، پھر محمدؐ و آلِ محمدؐ (أئمّہ طاہرینؑ) اس سماوی درود کو اہلِ ایمان کی طرف بھیجتے رہتے ہیں۔

سوال – ۵۹۰: حضرتِ محمد مصطفیٰ رسولِ خداؐ جبکہ سیّد الانبیاء ہیں، تو پھر آنحضرتؐ کو آسمانی درود میں حضرتِ ابراہیمؑ کے برابر رکھنے میں کیا راز ہے؟ – جواب: (۱) اور بھی کئی اسرار ہوسکتے ہیں، لیکن ایک سِرِّ عظیم (بڑا راز) یہ ہے کہ اس درود میں آلِ ابراہیمؑ کی مثال سے آلِ محمدؐ کے تمام قرآنی فضائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے (۲) کیونکہ لوگوں کے لئے سب سے

 

۴۲۳

 

بڑا مشکل مسٔلہ آلِ محمدؐ کی معرفت ہے (۳) حالانکہ قرآن سرتاسر أئمّۂ آلِ محمدؐ کے ذکرِ جمیل سے بھرا ہوا ہے، اور یہ حقیقت طرح طرح کی بے شمار مثالوں میں بیان کی گئی ہے (۴) ان مثالوں میں ایک مثال درود (صلوٰۃ) ہے، جو دراصل رحمت اور علم ہے کہ رحمت سرچشمۂ نفسِ کُلّی سے ہے، اور علم خزانۂ عقلِ کلّی سے، (۵) جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشادِ مبارک ہے: رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا (۴۰: ۰۷) اے ہمارے ربّ! تو نے ہر چیز کو رحمت اور علم میں سمالیا ہے۔

 

۴۲۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۷

 

سوال – ۵۹۱: بہشت میں کھیتی باڑی، تجارت اور کارخانہ چلانے کی طرح کوئی بھی جسمانی مشقت کا کام نہیں، یہ تو سب جانتے ہیں، پھر آپ بتائیں کہ بہشت کے وہ مشاغل کیا ہیں جن میں تعمیر و ترقی کی حقیقی خوشی ہو؟ – جواب: (۱) اس کا پُراز حکمت جواب قلبِ قرآن کی چار آیاتِ کریمہ (۳۶: ۵۵ تا ۵۸) میں موجود ہے: (ترجمہ) بیشک اہلِ جنت آج کے دن طرح طرح کے (روحانی اور علمی /عقلی) مشاغل میں مزے کر رہے ہوں گے، وہ اور ان کی بیویاں (مُتعلّمین) سب جنت کی چھاؤں (حظیرۂ قدس) میں تخت پر تکیے لگائے آرام کر رہے ہوں گے، ان کے لئے تازہ بتازہ (روحی اور عقلی) میوے ہوں گے اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی وہ چاہیں گے، ربِّ رحیم کی طرف سے ایک قول باعثِ سلامتی ہے (یعنی بہشت کی سب سے اعلیٰ نعمت، جس میں سلامتی کی ضمانت ہے، وہ کلمۂ کُن ہے)۔

سوال – ۵۹۲: چونکہ یہ بیان بیحد ضروری ہے، بیحد ضروری اور انقلابی ہے، لہٰذا براہِ کرم آپ اس کی مزید وضاحت کریں- جواب: (۱)

 

۴۲۵

 

دینِ اسلام میں ازدواجی زندگی کی بہت بڑی اہمیت ہے، اور نکاح و شادی میں بہت بڑی حکمت ہے، جس کی تاویل نکاحِ روحانی ہے، یعنی مُعلّمی اور مُتعلّمی کا قانون (۲) پس بہشت کی سب سے بڑی خوشی معلمین کے علم دینے اور متعلّمین کے علم لینے میں ہے، اور اہلِ جنّت کی بیویوں اور حوروں سے وہاں کے علمی شاگرد مراد ہیں (۳) اوپر کے ترجمۂ آیات میں غور سے دیکھیں، بہشت کا مرکوز اور یکجا نمونہ حظیرۂ قدس ہے، اس کے اسرار سب سے عجیب و غریب ہیں (۴) اہلِ جنّت کی بیویاں یعنی تلامیذ چار درجوں پر ہوا کرتے ہیں، جسمانی، لطیف جسمانی (از قسمِ جِنّ و پری)، روحانی اور عقلانی۔

سوال – ۵۹۳: سُورۂ حدید (۵۷: ۰۳) میں ہے: وہی اوّل بھی ہے اور آخر بھی، اور ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ ان چار اسماء کی تاویل کیا ہے؟ – جواب: (۱) اللہ تعالیٰ کے یہ پاک اسماء عقلِ کُلّ، نفسِ کُلّ، ناطق، اور اساس ہیں، یہی خدا کے زندہ اور عظیم خزانے اس کے بزرگ نام اور مظاہر بھی ہیں (۲) خداوندِ قدوس کے اسماءُ الحُسنیٰ پر نور، زندہ، گوئندہ اور بدرجۂ کمال عاقل و دانا ہوا کرتے ہیں، تاکہ اللہ کے ان اسمائے عظام کی معرفت سے اہلِ ایمان کے بے شمار فائدے حاصل ہوں۔

سوال –  ۵۹۴: سُورۂ حِجر (۱۵: ۰۹) میں ارشاد ہے: بیشک ہم ہی

 

۴۲۶

 

نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔ آپ اس کی حکمت بیان کریں کہ یہ نگہبانی کس طرح سے ہے؟ – جواب: (۱) اسی سورہ میں ذرا آگے چل کر قانونِ خزائن (۱۵: ۲۱) کو دیکھیں کہ خدا کے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں، چنانچہ قرآن بھی خزائنِ الٰہی سے نازل کیا گیا ہے، اور وہ کبھی ختم نہ ہونے والے قرآنی خزانے یہ ہیں: (۲) کلمۂ کُنۡ، قلم (فرشتہ / عقلِ کُلّ) لوح (فرشتہ / نفسِ کلّ)، اسرافیل، میکائیل، جبرائیل، ناطق، اساس، امامِ مبین، اور قرآن، ان خزائن میں قرآن محفوظ ہے۔

سوال – ۵۹۵: آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کے بعد جو ارشاد ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: (یہ چراغ) ایسے گھروں میں ہے جن کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور اس کا نام ان میں لیا جائے، ان میں صبح و شام وہ لوگ اس کی تسبیح کیا کرتے ہیں۔ ایسے گھر کہاں ہوتے ہیں؟ یہ کن بزرگ انسانوں کے گھروں کی تعریف ہے؟ – جواب: (۱) ہر پیغمبر، ہر امام، اور ہر عارف کے عالمِ شخصی کے گھر میں اللہ کے نور کا چراغ روشن ہوتا ہے (۲) یہ گھر شروع شروع میں زمین پر ہوتا ہے، بعد ازان خدا کے حکم سے حظیرۂ قدس میں مرفوع ہو جاتا ہے (اَنْ تُرْفَعَ) وہاں جا کر یہ گھر خدا کا گھر اور کعبۂ باطن ہو جاتا ہے، جس میں بے شمار معجزے ہوا کرتے ہیں۔

سوال – ۵۹۶: سُور ۂ یونس (۱۰: ۸۷) میں یہ ارشاد ہے: اور ہم

 

۴۲۷

 

نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی (ہارونؑ) کی طرف وحی کی کہ تم دونوں اپنی قوم کے لئے مصر میں کچھ گھر بناؤ اور اپنے ان گھروں کو قبلہ قرار دو اور (ان میں) نماز پڑھا کرو اور مومنین کو خوشخبری سناؤ۔ اس میں کیا کیا تاویلی اسرار ہیں؟ -جواب: (۱) اس کے اسرار بھی وہی ہیں جو اوپر بیان ہوئے، مصر عالمِ شخصی کے ناموں میں سے ہے، چنانچہ خداوندِ عالمِ نے موسیٰؑ اور ہارونؑ کو حکم دیا کہ اپنی قوم کے لئے عالمِ شخصی میں چند گھر بنائیں، اور ان کو علم و عبادت اور ذاتی قیامت سے ترقی دیکر حظیرۂ قدس میں خانۂ خدا اور قبلۂ باطن قرار دیں، اور اہلِ ایمان کو خوشخبری سنائیں، کہ وہ بھی حدودِ اعلیٰ ہی کی طرح ترقی کر سکتے ہیں، اگر کسی وجہ سے خاطرخواہ ترقی نہ ہوسکی تو کوئی مایوسی نہیں، کیونکہ مومنین اور مومنات کی روحیں امامِ مبینؑ کے ساتھ ہوتی ہیں۔

سوال – ۵۹۷: آپ نے کہا کہ “مِصر” عالمِ شخصی کے ناموں میں سے ہے، اور یہ خوبصورت لفظ قرآنِ حکیم کے پانچ مقام پر آیا ہے: ۱۰: ۸۷، ۱۲: ۲۱، ۱۲: ۹۹، ۴۳: ۵۱، ۰۲: ۶۱ تو کیا آپ ہمیں یہ سمجھائیں گے کہ واقعی “مصر” کی تاویل عالمِ شخصی ہے؟ – جواب: (۱) آیۂ (۱۰: ۸۷) میں لفظِ مصر کی تاویل ہوچکی (۲) المِصرُ: ہر محدود شہر کو (جس کے گرد فصیل ہو) مصر کہتے ہیں (مفردات القرآن) حضرتِ یوسفؑ کا اصل قصّہ عالمِ شخصی میں ہے (۱۲: ۲۱) مصر میں داخل ہو جانے سے مراد عالمِ شخصی میں داخل ہوجانا ہے (۱۲: ۹۹) (۳) فرعون نے عالمِ شخصی کے بادشاہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا (۴۳: ۵۱) اِھْبِطُوْا مِصْراً =

 

۴۲۸

 

تم حظیرۂ قدس سے عالمِ شخصی کی زمین میں اتر جاؤ (۰۲: ۶۱) یہ تھی لفظِ مصر کی مختصر تاویل۔

سوال – ۵۹۸: حضرتِ مریم سلامُ اللہ علیہا نہ تو نبی تھی، اور نہ ہی امام، لیکن پھر بھی قرآنِ عظیم میں قصّۂ مریم انتہائی عظیم معجزات سے لبریز اور بڑا حیران کن ہے، آپ بتائیں کہ اس میں کیا حکمت ہے؟ – جواب: (۱) ہاں، یہ درست ہے کہ مریمؑ کے پاس بنوّت اور امامت کا کوئی درجہ نہ تھا، لیکن یقیناً وہ ایک صدیقہ (۰۵: ۷۵) تھی (۲) آپ اسے حُجّت اور عارفہ کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ کلیدی نکتہ یاد رہے کہ حُجّتِ خدا پیغمبر اور حجّتِ پیغمبر امام ہے، پس مریم امام کی حُجّت تھی۔

سوال – ۵۹۹: اللہ تعالیٰ نے مریم علیہا السّلام میں جو روح پھونک دی تھی (۲۱: ۹۱، ۶۶: ۱۲) اور اس کے بعد کسی اور موقع پر جو روح یا فرشتہ مریمؑ کی طرف بھیجا گیا تھا (۱۹: ۱۷) ان دونوں میں کیا فرق تھا؟ کیا یہ ایک ہی روح تھی؟ اس کا کیا نام ہے؟ – جواب: (۱) وہ روح بھی تھی، اور وہ فرشتہ بھی تھا، اس لئے وہ ایک ہی ہستی تھی، جب وہ روح یا فرشتہ خدا کے حکم سے مریم کے پاس آیا، تو انسانِ لطیف (جُثّۂ ابداعیہ) کی شکل میں ظاہر ہوا (۲) وہ قدسی اور برتر روح ہے، لہٰذا خدا نے اُسے “روحنا” فرمایا ہے، وہ قیامتی اور معجزاتی روح ہے، یعنی انسانِ کامل کی روح اور جبرائیل (۳) وہ ایسی روح ہے جو نور ہی نور ہے، کوئی شخص شاید یہ

 

۴۲۹

 

خیال کرے کہ یہ صرف ایک ہی روح ہے، حالانکہ اس الٰہی روح کے تحت جملہ ارواح جمع ہو جاتی ہیں۔

سوال – ۶۰۰: آپ قرآنِ مقدّس کی پُرحکمت نصائح میں سے کوئی ایسی نصیحت کریں، جس کی روشنی میں پیارے پیارے بچوں کے والدین اپنے فرائض کو اچھی طرح سے سمجھ سکیں، اور اپنی پیاری اولاد کی اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے سخت کوشش کرتے رہیں – جواب: (۱) سُورۂ تحریم (۶۶: ۰۶) میں ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ ۔ ۔ ۔ (۲) اس قرآنی حکم سے صاف طور پر یہ معلوم ہوا کہ ہر شخص کو خدا کی طرف سے یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ہی جان کو بلکہ اپنے اہل و عیال کو بھی آتشِ جہالت و نادانی سے بچائے (۳) جیسا کہ حدیثِ شریف کا ارشاد ہے: ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، لیکن (اکثر) اس کے ماں باپ ہی اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی (آتش پرست) بناتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں بہت بڑی اکثریت ایسے والدین کی ہے جو اپنے موافق بہ اسلام یا فطری مسلمان بچوں کو دینِ حق سے دور لے جاتے ہیں۔

 

۴۳۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۸

 

سوال – ۶۰۱: آپ ہی بتائیں کہ مذکورۂ بالا حدیثِ فطرت کس آیۂ کریمہ کی تفسیر کر رہی ہے؟ – جواب: (۱) آئیے ہم نورِ اسلام کے عشق کے ساتھ قرآنِ عظیم میں دیکھتے ہیں، پس ہمیں سورۂ روم (۳۰: ۳۰) میں آیۂ فطرت ملتی ہے جو اس طرح سے ہے: فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَاؕ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ۔ اللہ کا دینِ فطرت (اور قانون) یہی ہے جس کے مطابق اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، خدا کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں۔ (۲) مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ معلوم ہوا کہ اس آیۂ کریمہ میں جس فطرت کا ذکر آیا ہے، وہ اسلام کا قدیم نام ہے، اور دین کو “فطرت” اس لئے کہا گیا کہ یہ قانونِ فطرت کے عین مطابق ہے۔

سوال – ۶۰۲: آیۂ فطرت(۳۰: ۳۰) کے شروع کا یہ حصہ ہے: فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاؕ۔ یوں لگتا ہے اس میں کوئی انتہائی عظیم راز ہے، آپ بتائیں کہ وہ سِرِّ اسرار کیا ہے؟ – جواب: (۱) تاویلی مفہوم: اے محبوب پیغمبر، تم اپنے چہرۂ جان کو دینِ حنیف کے لئے صورتِ رحمان قرار دو۔

 

۴۳۱

 

سوال -۶۰۳: کتابِ صامت، کتابِ ناطق، کتابِ نفسی، اور کتابِ کائنات، کیا یہ چاروں کتابیں ہمیشہ الگ الگ ہوتی ہیں، یا ان کے ایک ہوجانے کا بھی کوئی وقت ہے؟ – جواب: (۱) اللہ نے اہلِ معرفت کے لئے ہر کتاب اور ہر چیز کو امامِ مبین میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲) اور ہر عارف اپنے امامِ زمان علیہ السّلام کا یہ انتہائی عظیم مرتبہ عالمِ شخصی میں دیدۂ باطن سے دیکھتا ہے، اور پہچانتا ہے (۲) آپ نے قرآنِ حکیم میں مضمون قیامت کی ہمہ رس اور ہمہ گیر شان دیکھی ہوگی ایسا لگتا ہے کہ ہر ہر آیت میں کسی نہ کسی پہلو سے قیامت کا تذکرہ ہے، اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اتنی بڑی محیط قیامت کا مرکز کہاں؟ حضرتِ امام عالیمقام علیہ السلام کے وہاں (۱۷: ۷۱)۔

سوال – ۶۰۴: آپ نے کبھی مُؤمِنَیْن اور کَافِرَینْ (دو مومن اور دو کافر) کا تذکرہ شروع کیا تھا، مگر کسی وجہ سے شاید یہ حکمت نامکمل رہ گئی تھی، تو کیا وہ راز اس پُرمغز کتاب میں ظاہر کریں گے؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ تعالیٰ، آپ نے یہ تو پڑھا یا سُنا ہوگا کہ عالمِ شخصی میں دو ساتھی، یعنی ایک جِنّ اور ایک فرشتہ ہیں، ان دونوں میں تَجَدُّدْ کا سلسلہ اس طرح جاری و ساری ہے کہ فرشتے میں دو دو مومن اور جِنّ میں دو دو کافر ہر وقت آتے جاتے رہتے ہیں، تاکہ یہ اسی طرح دو بھی کہلائیں، چار بھی، اور اس میں زیادہ بھی ثابت ہوجائیں۔

 

۴۳۲

 

سوال – ۶۰۵: آیا یہی دو فرشتے ہارُوت اور مارُوت بھی ہیں (۰۲: ۱۰۲)؟ کیا مُنکر اور نکیر بھی یہی ہیں؟ کیا وہ فرشتے بھی یہی ہیں جو ہر انسان کے اعمال کو ریکارڈ کرتے ہیں (۸۲: ۱۰ تا ۱۱) – جواب: (۱) جی ہاں، یہ ہاروت اور ماروت بھی ہیں، منکر و نکیر بھی، اور کاتبانِ اعمال بھی یہی ہیں، اور عالمِ شخصی کے لئے چار فرشتے بھی یہی، کیونکہ جو کچھ کائنات میں ہے، اور جو کچھ عالمِ دین میں ہے، وہ سب عالمِ شخصی میں بھی ہے (۵۱: ۲۰ تا ۲۱)۔

سوال – ۶۰۶: سورۂ حدید (۵۷: ۱۲) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) میں ہے: اُس دن مومنین اور مومنات کا نور ان کے آگے اور دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا …۔ نور کے دوڑنے کی کیا وجہ ہے؟ آگے اور دائیں جانب کیوں؟ – جواب: (۱) یہ زبردست پُرحکمت تذکرہ حظیرۂ قدس کا ہے، جہاں زمانے کے مومنین اور مومنات امامُ الوقت میں جمع ہوتے ہیں، اور ان کا نور آگے اور دائیں، آگے اور دائیں، آگے اور دائیں بشکل دائرہ دوڑتا ہے، جس میں بے شمار حکمتی اشارے ہیں (۲) یہ دائمی اور ابدی زندگی کا نمونہ ہے، جو دائرۂ اعظم پر ہے، یہ اِس بات کی مثال ہے کہ ہر چیز ایک دائرے پر گردش کرتی رہتی ہے (۳) یہاں نور کا دوڑنا دراصل برق رفتاری کے معنی میں نہیں، بلکہ اتنہائی قلیل وقت میں ہزاروں، لاکھوں، اور کروڑوں سال کے واقعات کو سمیٹنے کے معنی میں ہے۔

 

۴۳۳

 

سوال – ۶۰۷: سُورۂ ابراہیم (۱۴: ۱۹) میں ارشاد ہے: اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ = وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے۔ آپ ہمیں اس کی تاویلی حکمت سمجھائیں کہ وہ کس طرح سے ہے؟ -جواب: (۱) یہاں صرف خلقِ جدید کے بارے میں وضاحت ضروری ہے کہ وہ کیا چیز ہے؟ خلقِ جدید (نئی خلقت) کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دنیا والے سب کے سب مرجائیں، اور ان کی جگہ ان جیسے لوگ پیدا ہوجائیں، بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ خدا کے حکم سے جسمِ کثیف کا دور ختم ہونے والا ہے، اور جسمِ لطیف کا زمانہ آنے والا ہے، اور اسی لطیف جسم کا نام “خلقِ جدید” ہے، کیونکہ اس نوری بدن میں شعلۂ چراغ کی طرح ہر لحظہ تجدُّد ہوتا رہتا ہے، لہٰذا کہنگی (پُرانا پن ) اس کے قریب بھی نہیں آسکتی (۲) جنّات یعنی پری مرد و زن، فرشتے، اور بہشت کی خلقت یہ سب لطیف ہیں۔

سوال – ۶۰۸: سورۂ حجر کے آخر (۱۵: ۹۹) میں ہے: وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ۔ اس آیۂ شریفہ کے ترجمہ میں مسٔلہ ہے، لہٰذا آپ ترجمہ کر کے ہمیں سمجھائیں -جواب: (۱) ترجمہ: اور جب تک تم کو یقین (معرفت) حاصل نہ ہو، اپنے ربّ کی عبادت کرتے رہو (۲) عبادت کا مقصد دیدار اور معرفت ہے، جو حق الیقین اور فنا فی اللہ کی صورت میں ہے، اس لئے تاکید کی گئی ہے کہ عبادت کا معیار دیدار اور یقین (معرفت) ہے، نہ کہ جسمانی موت عبادت کی آخری حد ہے۔

 

۴۳۴

 

سوال – ۶۰۹: سورۂ تکاثر (۱۰۲: ۰۵؛ ۱۰۲: ۰۷) میں علم الیقین اور عین الیقین کا تذکرہ موجود ہے، سورۂ واقعۃ (۶۵: ۹۵) اور سورۂ حاقۃ (۶۹: ۵۱) میں حق الیقین کا ذکر آیا ہے، یقین کے ان تینوں درجات کے بارے میں آپ ہمیں کچھ بتائیں -جواب: (۱) جو علم یقینی، حقیقی، اور روحانی ہونے کی وجہ سے شکوک و شبہات سے پاک و برتر ہے، اس کو علم الیقین کہتے ہیں (۲) جو علم، معرفت، اور یقین چشمِ باطن سے حاصل آتا ہے، وہ عین الیقین ہے (۳) جو گنجِ اسرار حظیرۂ قدس میں رُؤیت اور فنا فی اللہ کے بعد ہے وہ حق الیقین ہے۔

سوال – ۶۱۰:  سورۂ واقعۃ اور سورۂ حاقۃ کے آخر میں جس طرح سے حق الیقین کے بارے میں ارشاد ہوا ہے، اس کی حکمت بیان کریں – جواب: (۱) دونوں سورتوں میں روحانیت، قیامت، اور آخرت کے حالات اور واقعات کا تذکرہ کرکے آخراً فرمایا گیا ہے کہ ان تمام حقائق و معارف کا زندہ نورانی آئینہ مرتبۂ حق الیقین ہے، جس کو صرف عارفین دیکھ سکتے ہیں، قانون یہ ہے کہ ہر مومن سالک ہوسکتا ہے، اور ہر سالک عارف ہوسکتا ہے۔

 

۴۳۵

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۹

 

سوال – ۶۱۱: مفرداتُ القرآن: ح ق ق میں ہے کہ آنحضرتؐ نے ایک صحابی سے فرمایا تھا: لِکُلِّ حَقٍّ حَقِیْقَۃٌ فَمَاحَقِیْقَۃُ اِیْمَانِکَ = کہ ہر حق چیز کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے، تو تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے، یعنی یہ کیسے معلوم ہوا کہ جس چیز کے تم مدعی ہو وہ حق ہے۔ آیا یہ حدیثِ شریف اپنی نوعیت کا ایک کُلّیہ نہیں ہے؟ کیا ہم اس قانون کے مطابق یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن حق ہے اور اس کی ایک حقیقت ہے؟ کیا اس میں یہ واضح اشارہ بھی ہے کہ اسلام کی جس طرح ایک شریعت اور ایک طریقت ہے (۰۵: ۴۸) اسی طرح ایک حقیقت اور ایک معرفت بھی ہے؟ -جواب: (۱) یقیناً یہ ایک زبردست کُلّیہ ہے (۲) کیوں نہیں، قرآنِ حکیم کی ایک حقیقت بھی ہے، اور وہ اس کی باطنی حکمت ہے (۳) جی ہاں، اسلام میں خدا تک جانے کے لئے چار منزلیں ہیں: شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت۔

سوال – ۶۱۲: آیا قرآنِ پاک میں درجات کا ذکر ہے؟ اگر اسلام میں درجات ہیں تو وہ کس اعتبار سے ہیں؟ -جواب: (۱) آپ

 

۴۳۶

 

دیکھ سکتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں کئی طرح سے درجات کا ذکر آیا ہے، اس کی پہلی مثال: سابِقوا (۵۷: ۲۱) اور سارِعوا(۰۳: ۱۳۳) ہے کہ خدا نے حکم دیا: علم و عمل میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو اور جلدی کرو۔ ظاہر ہے کہ اس سے درجات بنیں گے (۲) دوسری مثال صراطِ مستقیم (راہِ راست) ہے، اس پر خدا کی طرف چلنے والے مسافر آگے پیچھے ہوں گے، سب لوگ دوش بدوش چل نہیں سکتے، یعنی علم و عمل میں کمی بیشی کی وجہ سے درجات کا ہونا لازمی ہے (۳) اسلام میں جو مختلف درجات ہیں، وہ ایمان، اور علم و عمل کے اعتبار سے ہیں (۴) قرآنِ حکیم میں خود درجات کا پُرحکمت مضمون بھی ہے (۵) قرآن اور اسلام میں درجات کی سب سے روشن مثال سیڑھی ہے، یعنی آنحضرتؐ کی معراج، کیونکہ حضورِ انورؐ اپنی روحانیّت و نورانیّت میں درجہ بدرجہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی تک پہنچ گئے تھے۔

سوال – ۶۱۳: کیا معراج آنحضرتؐ کے روحانی سفر اور عروج کا نام ہے یا اس نام سے عالمِ عُلوی میں کوئی خاص مقام ہے؟ معراج کے معجزات کہاں ہوئے تھے؟ ظاہری آسمان میں؟ یا عالمِ شخصی کے آسمان میں؟ -جواب: (۱) معراج سیڑھی کو کہتے ہیں، جو رسول اللہؐ کے روحانی عروج کی مثال ہے (۲) پیغمبر اکرمؐ کی معراج کے معجزات حظیرۂ قدس میں محفوظ ہیں۔

سوال – ۶۱۴: سورۂ انعام کی ایک عظیم الشّان اور جواہرِ علم و

 

۴۳۷

 

حکمت سے مملو آیت (۰۶: ۱۲۲) میں سے ترجمہ کرکے عنایاتِ خداوندی کا کوئی راز بتائیں -جواب: (۱) ترجمہ: کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے (اولیائی روح میں) زندہ کیا اور اسے ایک نور مقرر کیا جس کی روشنی میں وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے ….۔ (۲) ہر شخص عام طور پر لوگوں کے درمیان چلتا ہے، لیکن یہ عارفین کا تذکرہ ہے کہ وہ عالمِ شخصی میں لوگوں کی نمائندہ روحوں کے درمیان چلتے ہیں، اور وہ معرفتِ روح سے باخبر ہیں۔

سوال – ۶۱۵: سورۂ نمل (۲۷: ۶۲) میں دیکھیں: کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور (کون ہے جو ) تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ اس تعلیمِ سماوی کا اشارہ اور قاقون بڑا عجیب و غریب ہے، آپ اس کی حکمت بیان کریں -جواب: (۱) مشکلات اور تکالیف اس لئے آتی ہیں کہ اہلِ ایمان دعا، مناجات، اور گریہ و زاری کا سلسلہ جاری رکھیں، تاکہ خداوندِ قدوس ان کی عاجزانہ دعا کو سنے اور قبول فرما کر ان کی تکالیف کو رفع کرے (۲) اسی طرح اللہ اپنے خاص بندوں کو آج بھی اور کل بھی عالمِ شخصی کی خلافت اور سلطنت سے نوازنے کی قدرت رکھتا ہے۔

سوال – ۶۱۶: آپ سورۂ عصر (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۳) کی مزید تاویل بیان کریں – جواب: (۱) ترجمہ: زمانے کی قسم، انسان درحقیقت خسارے

 

۴۳۸

 

میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو (حقیقی معنوں میں ) ایمان لائے اور (علم کے ساتھ) نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے (۲) عصر پھل وغیرہ نچوڑنے کو کہتے ہیں، چنانچہ امامِ زمانؑ کی مثال بہت زیادہ ہیں، ان میں سے امام کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ زمانہ اور اہلِ زمانہ کا نچوڑ، خلاصہ اور جوہر ہے، (۳) پس اللہ نے امامِ زمانؑ کی قسم کھائی اور اشارہ فرمایا کہ انسان کا سب سے بڑا خسارہ یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانتا ہے۔

سوال – ۶۱۷: حدیثِ شریف ہے: تم جسماً مرجانے سے قبل نفساً مرجاؤ۔ یہ حکم قرآنِ حکیم میں کہاں ہے؟ -جواب: (۱) اس کے بارے میں کئی آیات ہیں، جیسے ارشاد ہے: فَتُوْبُوْۤا اِلٰى بَارِىٕكُمْ فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ (۰۲: ۵۴) تم اپنے خالق کی بارگاہ میں توبہ کرو اور اپنے اپنے نفس کو (بذریعۂ سخت ریاضت) قتل کرو۔ یہی تفسیر بالکل درست ہے، کیونکہ اصل امتحانی بچھڑا باطن میں ہے، جس سے بچ کر آگے جانے کے لئے کامل ریاضت اور علم و معرفت کی ضرورت ہے، آپ سورۂ نساء (۰۴: ۶۶) میں بھی ٹھیک طرح سے سوچیں۔

سوال – ۶۱۸: سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۳) میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی برگزیدگی کا ذکر آیا ہے، اس کے بعد ان سب کی ذرّیّت کے بارے میں یہ ارشاد ہے: ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ (۰۳: ۳۴) اس کا اصل مطلب کیا

 

۴۳۹

 

ہے-جواب: (۱) مفہومِ آیتِ اوّل: خدا نے آدمؑ، نوحؑ، ابراہیمؑ، عمرانؑ اور ان چاروں حضرات کے خاندانوں کو سارے جہان سے برگزیدہ کیا ہے۔ مفہومِ آیتِ دوم: یہ ایک دوسرے کی ذرّیّت سے ایک نورانی سلسلۂ نسب ہیں، خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے (۲) یہی سلسلۂ پاک اللہ کی رسی اور صراطِ مستقیم ہے۔

سوال – ۶۱۹: ہمیں سلسلۂ آلِ ابراہیمؑ سے متعلق مزید حقائق و معارف کس طرح حاصل ہوسکتے ہیں؟ -جواب: (۱) بہت سی آیاتِ قرآنی ایسی ہیں، جن میں آلِ ابراہیمؑ کے اوصاف بیان ہوئے ہیں، لیکن ہم یہاں ان سب میں سے صرف ایک ہی کلیدی آیت کو لیتے ہیں، جس سے تین عظیم خزانوں کے دروازے کھل سکتے ہیں (۲) ارشادِ خداوندی کا ترجمہ ہے: ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی ہے اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی ہے (۰۴: ۵۴) آلِ ابراہیمؑ آنحضرتؐ سے اس طرف آلِ محمّدؐ ہی ہیں، جو امامانِ برحقؑ ہیں، اور انہی حضرات کو اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتاب (قرآن) کی وِراثت، باطنی حکمت اور عظیم روحانی سلطنت عطا فرمائی ہے۔

سوال – ۶۲۰:  کہتے ہیں کہ نہ تو خدا کا کُنْ فرمانا نیا ہے، نہ ہی اس کا کام، اور نہ اس کا وعدہ، بلکہ اس کی ہر چیز ہمیشہ ہمیشہ ہوتی رہتی ہے، آیا ان حقائق کا ذکر قرآن میں موجود ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، بالکل

 

۴۴۰

 

یہی ذکر قرآنِ حکیم میں موجود ہے، آپ مفعولاً والی سات آیاتِ کریمہ کو قرآن میں دیکھیں (۰۴: ۴۷، ۰۸: ۴۲، ۱۷: ۰۵، ۱۷: ۱۰۸، ۳۳: ۳۷، ۷۳: ۱۸) (۲)  خدا کی ذات قدیم ہے، اس کی ہر صفت بھی قدیم ہے، اور اس کا ہر کام بھی قدیم ہے، مگر وہ تجدّد سے فعلِ قدیم کو جدید بنا سکتا ہے (۳) قدیم کے معنی ہیں ہمیشہ یا لا ابتداء اور لاانتہاء۔

 

۴۴۱

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۰

 

سوال – ۶۲۱: آپ نے اپنے ایک بہت ہی عزیز دوست اور عملدار کی گریہ و زاری کا تجزیہ کیا ہے، اور ایسی عاجزانہ و عاشقانہ مناجات میں تقریباً بیس معانی پوشیدہ طور پر موجود ہونے کا ذکر کیا ہے، سوال ہے کہ گریہ وزاری میں اس کثرت سے خوبیاں کیوں ہوتی ہیں؟ – جواب: (۱) سچ بات تو یہ ہے کہ گریہ وازری کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، کیونکہ وہ تمام اخلاقی خوبیوں کی مرکزیّت اور بابِ روحانیّت کا افتتاح ہے (۲) اسی میں دوستانِ خدا کی روحانی ترقی کا راز پنہان ہے (۳) اے کاش لوگ اس کے عظیم فوائد کو سمجھ لیتے! اے کاش ہم آسانی سے گریہ وزاری کرسکتے !

سوال – ۶۲۲: سورۂ بلد (۹۰: ۱۱ تا ۱۲) کے حوالے سے سوالات ہیں؛ دشوار گزار گھاٹی سے گزر جانے سے کیا مراد ہے؟ کسی گردن کو غلامی سے کس طرح چھڑائیں؟ فاقہ کی تاویل کیا ہے؟ قریبی یتیم کون ہے؟ اور خاک نشین مسکین کون ہے؟ -جواب: (۱) گھاٹی سے گزر جانا = جہادِ باطن میں کامیاب ہوجانا (۲) کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا = سب

 

۴۴۲

 

سے پہلے اپنے آپ کو نفس کی غلامی سے چھڑانا، اور گنجِ علم و معرفت سے مالامال ہوجانا (۳) فاقہ = علمی قحط (۴) قحط کے دن قریبی یتیم کو کھانا کھلانا = اپنے یگانۂ روزگار امامؑ کے مریدوں کے لئے علمی غذاؤں کی دعوت و ضیافت کا اہتمام کرنا (۵) خاک نشین مسکین کو کھانا دینا = حجّت اور پیر کے حلقۂ دعوت میں علم پھیلانا۔

سوال – ۶۲۳: سورۂ کہف (۱۸: ۸۲) میں ہے: اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں، اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لئے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک صالح آدمی تھا اس لئے تمہارے ربّ نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ اس میں کیا تاویلی اسرار ہیں؟ -جواب: (۱) عالمِ شخصی عالمِ دین کے نمونے پر ہے، اس میں سب کچھ ہے، اور دو لطیف نورانی بچے بھی ہیں، یہ گویا بحدِّ قوّت امام مستقر اور امامِ مستودع ہیں (۲) جیسے عالمِ دین میں حضرتِ اسماعیلؑ اور حضرتِ اسحاقؑ تھے، ایسا لگتا ہے کہ امامت کے اسرار بڑے عجیب و غریب ہیں (۳) جس دیوار کے نیچے یا اس کے عقب میں خزانہ پوشیدہ تھا، اس کا ذکر یقیناً سورۂ حدید (۵۷: ۱۳) میں بھی ہے، یہ دیوار وہ ہے جو ظاہر اور باطن کو الگ الگ کر دیتی ہے۔

سوال – ۶۲۴: حضرتِ امامِ عالیمقام کی پاک و پاکیزہ شخصیت میں یقیناً نورِ الٰہی موجود ہوتا ہے، لیکن وہ کیسے کیسے معجزات کا حامل ہوتا

 

۴۴۳

 

ہے؟ -جواب: (۱) بہت سے لوگ نور کا قیاس ظاہری روشنی پر کرتے ہیں، لیکن اصل نور ایک عظیم فرشتہ ہے، جو کائنات پر محیط بھی ہے، اور امامِ مبین میں محدود بھی ہے (۲) جس کو آپ اللہ کا نور کہتے ہیں، اس کو آپ اللہ کی روح بھی کہیں، اور فرشتۂ عظیم بھی مانیں، تاکہ اس سے حکمتِ قرآن کے سمجھنے میں آسانی ہو (۳) امام علیہ السّلام مغرب میں ہے اور آپ مشرق میں، لیکن علم و عمل اور عشق و محبّت کے باوصف مشکلات آئی ہیں، تو عجب نہیں کہ امامِ آلِ محمدؐ آپ کے پاس تشریف فرما ہوجائے۔

سوال – ۶۲۵: کیا جثّۂ ابداعیہ، اور پیراہنِ یوسفی دراصل فرشتہ ہوتا ہے؟ کیا سرابیل =معجزاتی کُرتے =(۱۶: ۸۱) فرشتے ہیں؟ اور حضرت داؤدؑ کی زرہیں؟ -جواب: (۱) جی ہاں، جثّۂ ابداعیہ اور پیراہنِ یوسفی وہی نور اور فرشتہ ہے، جس کا اوپر ذکر ہوا (۲) حضرتِ داؤد کی زرہیں مثال ہیں، دراصل اس کے نور سے ایسے فرشتے وجود میں آتے تھے، جو صفِ اوّل کے مومنین کی طرف سے اضافی روحوں کے طور پر روحانی جنگ کرتے تھے۔

سوال – ۶۲۶: انسانِ لطیف، جِنّ (پری) فرشتہ، اور جثّۂ ابداعیہ میں کیا فرق ہے؟ -جواب: (۱) یہ ایک ہی مخلوق ہے، مگر اس کے بہت سے نام ہیں، تاکہ لوگوں کو آزمایا جائے (۲) جو لوگ علم الیقین،

 

۴۴۴

 

عین الیقین، اور حق الیقین کے لئے کمربستہ ہی نہیں ہوتے، وہ امامِ مبین کے خزانۂ عجائب و غرائب میں کیونکر داخل ہوسکتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ جو خوش نصیب مرید امامِ عالیمقام کے عاشق ہیں، وہ پہلی ملاقات علم الیقین کے باغات میں کیوں نہیں کرتے؟

سوال – ۶۲۷: خداوندِ قدّوس کے فضل و کرم سے آپ کے بہت سے جوان ہاتھ ہیں، جو بیمثال علمی خدمات انجام دے رہے ہیں، اور مشرق و مغرب میں آپ کے بہت سے مُمِدّو معاون علمی دوست ہیں، کیا آپ ان سب سے بیحد خوش ہیں؟ آج کل جو نئی کتاب آرہی ہے، وہ کس نام سے ہے؟ – جواب: (۱) الحمدللہ! میں نہ صرف بیحد خوش ہوں، بلکہ بڑی خوشی کے ساتھ اپنے تمام عزیزوں سے قربان ہوجانا چاہتا ہوں، بلکہ پیشگی طور پر قربان ہوچکا ہوں (۲) ان شاء اللہ، ایک گرانقدر کتاب صنادیقِ جواہر کی تصنیف مکمل ہورہی ہے، اور یہ بھی پروردگار کے احساناتِ عظیم میں سے ہے کہ فرشتۂ قلم کی پُراز حکمت کتاب “ہفت دریائے نورانیت” کا چرچا ہے (۳) پیاری کتاب کی ایڈٹ جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی صاحب کریں گے، جس سے کتاب کی خوبیوں میں زبردست اضافہ ہوجائے گا۔

سوال – ۶۲۸: عالمِ شخصی کے طوفانی معجزات کب شروع ہوجاتے ہیں؟ تسخیرِ کائنات کا مظاہرہ کس منزل میں ہوتا ہے؟ تسخیر کا مطلب فتح

 

۴۴۵

 

ہے، پس جب ساری کائنات فتح ہوجاتی ہے، تو پھر کیا عالمِ شخصی کائنات پر محیط ہوجاتا ہے؟ -جواب: (۱) قیامت کا آغاز ہی طوفانی معجزات کا آغاز ہے (۲) تسخیرِ کائنات کا عظیم معجزہ منزلِ عزرائیلی ہی میں ہوتا رہتا ہے (۳) شاید یہی راز ہے کیونکہ خدا کے حکم سے فرشتے عالمِ شخصی کو بار بار کائنات میں پھیلاتے رہتے ہیں، اور اسی طرح کائنات کو بار بار عالمِ شخصی میں لپیٹتے رہتے ہیں، اس میں بے شمار حکمتیں ہو سکتی ہیں۔

سوال – ۶۲۹: سورۂ آلِ عمران(۰۳: ۱۳۹) اور سورۂ محمد (۴۷: ۳۵) کی ان دو آیتوں میں باطنی حکمت کیا ہے؟ ۔جواب: (۱) ان کی باطنی حکمت میں جہادِ اکبر کا حکم ہے، جیسا کہ پہلی آیت کا ترجمہ ہے: اور سست نہ ہو جاؤ اور غم نہ کرو، تم ہی غالب ہوجاؤ گے، اگر تم (حقیقی) مومن ہو (۲) وَلاَ تَھِنُوْا (سست نہ ہوجاؤ) کے ارشاد سے ظاہر ہے کہ یہ جہاد کا معاملہ ہے، تاہم ان دونوں آیتوں کی باطنی حکمت جہادِ اکبر سے متعلق ہے، کیونکہ حقیقی مومنین کی غالبیّت باطن میں ہے۔

سوال – ۶۳۰: سورۂ بقرہ (۰۲: ۳۶، ۰۲: ۳۸) اور سورۂ اعراف (۰۷: ۲۴) میں جہاں قصۂ آدم ہے، وہاں اِھْبطُوا (تم سب اتر جاؤ) کا حکم آیا ہے، حالانکہ بہشت سے ظاہراً صرف آدم و حوّا نکالے گئے تھے، اس میں صیغۂ جمع آنے کا کیا سبب ہے؟ -جواب: (۱) اس کا سبب یہ ہے کہ یقیناً

 

۴۴۶

 

کئی آدم اور ان کے ساتھ بہت سے لوگ تھے، جو سب کے سب فردوس سے نکالے گئے (۲) لیکن یہاں ایک بہت بڑا راز یہ ہے کہ پانی اپنے مرکز (سمندر) میں ٹھہرا ہوا بھی ہے، اور اپنے دائرے پر گردش بھی کررہا ہے یہی مثال اہلِ فردوس کی بھی ہے، کہ وہ اپنی اصل کے اعتبار سے ہمیشہ بہشت میں رہتے ہیں، اور اپنے سائے (۱۶: ۸۱) کے لحاظ سے دنیا میں آتے رہتے ہیں (۳) یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم نے اہلِ جنّت کے خلود اور ھُبود دونوں کا الگ الگ ذکر فرمایا ہے (۴) ہمیں اعلیٰ حقائق کا تصوّر کُلّی طور پر کرنا چاہیئے، خصوصاً روحِ انسانی کے بارے میں کہ وہ ایک ہمہ رس اور ہمہ گیر حقیقت ہے۔

 

۴۴۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۱

 

سوال – ۶۳۱: سورۂ انبیاء (۲۱: ۰۷) میں ارشاد ہے: اور اے رسولؐ، تم سے پہلے بھی ہم نے جن رسولوں کو بھیجا تھا، وہ سب مرد ہی تھے جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے، تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہلِ ذکر سے پوچھ لو۔ آپ بتائیں کہ اہلِ ذکر سے اہلِ بیت مراد ہیں، یعنی امامِ عالیمقام علیہ السّلام، جس کا عالمِ شخصی بخدا آئینۂ ملکِ خدا ہے (۲) حضرتِ امامؑ سے اسرارِ معرفت پوچھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے امامِ برحقؑ کی حقیقی فرمانبرداری اور عشق و محبّت میں مرکر زندہ ہو جائیں، یہ فنا فی الامام کی ایک اچھی وضاحت ہے۔

سوال – ۶۳۲: فرمانِ خداوندی کا ترجمہ: لوگو! ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو، (۲۱: ۱۰) آپ یہ بتائیں کہ قرآنِ پاک میں لوگوں کا ذکر کس طرح سے ہے؟ -جواب: (۱) اوّل یہ ہے کہ قرآن کا خطابِ مجموعی لوگوں سے ہے (۲) دوم یہ کہ ماضی میں بھی انہی لوگوں کی نمائندگی

 

۴۴۸

 

تھی، جس کا ذکر ہے، یا یوں کہا جائے کہ تم سب شروع ہی سے لشکرِ ارواح میں شامل تھے (۳) سوم: حضرتِ آدمؑ کے عالم ذرّ میں بھی، ذرّیت میں بھی، ساجدین میں بھی، اور خود مسجود میں بھی تم ہی تو تھے (۴) چہارم: آیۂ اَلَستْ کو پڑھیں، ھَلْ اَتیٰ کو پڑھیں، اور دیکھیں کہ قرآنِ عظیم میں اِنس، انسان، اور ناس (لوگ) جیسے الفاظ و عنوانات کتنی دفعہ آئے ہیں؟ (۵) الغرض قرآنِ حکیم میں ہر چیز کا بیان ہے (۱۶: ۸۹) پھر اس میں لوگوں کے ظاہری اور باطنی احوال کا ذکر کیوں نہ ہو۔

سوال – ۶۳۳: آپ نے جو کچھ بیان کیا، وہ بہت ہی عمدہ ہے، خصوصاً ساجدین میں بھی ہونا اور مسجود (یعنی آدمؑ) میں بھی ہونا، یہ قرآن ہی سے ایسے لوگوں کا علاج ہے جو ہر وقت مایوس رہتے ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ آیا حضرتِ آدم خلیفۃ اللہؑ کے بعد ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے باپ آدم کا وارث اور مسجودِ ملائک ہوا ہے؟ اگر یہ ایک حقیقت ہے تو اس کی دلیل کیا ہے؟ – جواب: (۱) چونکہ خلافتِ الہٰیہ رہتی دنیا تک ہے، لہٰذا ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے وقت میں جانشینِ آدم اور خلیفۂ زمان ہوا کرتا ہے، اور یقیناً وہ دیگر تمام اوصاف و کمالات کے ساتھ ساتھ مسجودِ ملائک بھی ہوا کرتا ہے، اس حقیقت کے بارے میں بہت سی دلیلیں پیش کی جاسکتی ہیں، لیکن یہاں صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ شرفِ آدمؑ سنّتِ الٰہی ہے، اور سنتِ الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں۔

 

۴۴۹

 

سوال – ۶۳۴: ارشاد: اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ (۲۱: ۱۰۱) آپ اس کی تاویلی حکمت بیان کریں۔ -جواب: (۱)  ترجمہ: جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے بھلائی کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہوگا، تو وہ یقیناً اُس (دوزخ) سے دور رکھے جائیں گے … (۲) اللہ کی طرف سے بھلائی کا فیصلہ پہلے ہی ان لوگوں کے حق میں ہوچکا ہوتا ہے، جن کو خدائے تعالیٰ علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین کے خزانوں سے نوازتا ہے۔

سوال – ۶۳۵: فرمانِ الٰہی کا ترجمہ ہے: اُن کو (قیامت کی) بڑی گھبراہٹ غم میں نہ ڈالے گی، اور فرشتے ان سے ملاقات کریں گے اور کہیں گے کہ یہ ہے تمہارا دن جس کا وعدہ تم سے کیا جاتا تھا (۲۱: ۱۰۳) یہ لوگ کون ہیں جو بڑی گھبراہٹ (الفزعُ الاکبر ) سے غمگین نہ ہوں گے؟ اس کا کیا سبب؟ -جواب: (۱) یہ وہ قیامت ہے جو عالم الآخرت (۲۷: ۶۶) اور دیدار و معرفت کی غرض سے قبل از موتِ جسمانی برپا ہو جاتی ہے (۲) یہ شب خیز مومنین ہیں، جو ایسی قیامت کے آرزومند اور حضرتِ قائم القیامت کے عاشق تھے، لہٰذا وہ لوگ قیامت کو یوم الفتح قرار دیتے ہیں، اور آزمائش سے غمگین نہیں ہوتے ہیں۔

سوال – ۶۳۶: آپ ہی نے کہا تھا کہ قرآنِ حکیم میں یہ ذکر بھی ہے کہ بعض لوگوں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں، سوال ہے کہ وہ

 

۴۵۰

 

کیسے لوگ ہوتے ہیں؟ اس عظیم سعادتمندی کا سبب کیا ہے؟ -جواب: (۱) وہ سالکین ہیں، جو جہادِ اکبر کے سلسلے میں جیتے جی مر جاتے ہیں (۲) جس کے سبب سے ان پر قیامت گزرنے لگتی ہے، اور فرشتوں کا نزول ہوتا ہے (۳) آپ سورۂ حٰمٓ السّجدہ (۴۱: ۳۰) میں بنظرِ حکمت دیکھیں، یہ قرآنی سِرِ اسرار بڑا انقلابی ہے الحمد للہ۔

سوال – ۶۳۷: جی ہاں، یہ کوئی معمولی راز ہرگز نہیں، بلکہ سب سے عظیم انقلابی راز ہے، پس آپ اس آیۂ کریمہ کے کلیدی الفاظ کی حکمتی وضاحت کریں -جواب: (۱)  انّ الذین قالو ا ربُّنا اللہ =  جن لوگوں (ذاکرین) نے (بزبانِ اسمِ اعظم) کہا کہ ہمارا ربّ اللہ ہے۔ ثمّ اسْتقا موا =پھر وہ (قیامت کے زیرِ اثر مردگی سے زندہ ہو کر) کھڑے ہو گئے …. (۲) جو آیت خاص الخاص ہوتی ہے، اس کا عام ترجمہ مناسب نہیں (۳) لفظِ قیامت ق و م کے مادّہ سے ہے، لہٰذا اس کے کئی صیغوں میں قیامت کے معنی پوشیدہ ہیں (۴)  سورۂ احقاف (۴۶: ۱۳) میں بھی یہی حکمت موجود ہے۔

سوال – ۶۳۸: سورۂ زمر (۳۹: ۴۲) میں ہے: خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کر لیتا ہے اور جو مرے نہیں ان کی (روحیں) سوتے میں (قبض کرلیتا ہے)۔ اس آیۂ کریمہ کی حکمت بتائیں – جواب: (۱) اس تعلیمِ سماوی میں تین قسم کی موت کا ذکر ہے:

 

۴۵۱

 

جسمانی موت، نفسانی موت، اور نیند (۲) چونکہ اس آیۂ کریمہ میں لفظِ منام (خواب، نیند) موجود ہے، جس کے معنی ہیں عوام میں خوابِ غفلت اور خواص میں خواب ِ روحانیّت (۳) پس پیغمبرانہ خواب، اولیائی خواب، اور عارفانہ خواب میں بھی کچھ روحیں خارج اور کچھ داخل ہوتی رہتی ہیں۔

سوال – ۶۳۹: سورۂ صٰفّٰت (۳۷: ۱۰۲) میں ہے: ابراہیمؑ نے اس سے کہا، بیٹا، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ آپ بتائیں کہ حضرتِ ابراہیم خلیل اللہؑ کا یہ خواب کس نوعیّت کا تھا؟ -جواب: (۱) یہ پیغمبرانہ خواب تھا، اور خوابِ روحانی اور نورانی تھا کہ اگر یہ آسمانی وحی کی طرح یقینی نہ ہوتا تو اس پر عمل نہ ہوتا۔

سوال – ۶۴۰: سورۂ جاثیہ (۴۵: ۲۳) میں ہے: بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور اللہ نے اس کو علم کے باوجود گمراہ کر دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے …۔ ایسے انسان کی گمراہی کے اسباب و عِلل کیا ہے؟ -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ پاکؐ نے ہدایت کے لئے جس نور کو مقرر فرمایا ہے، اس کی پیروی نہ کرنے سے یہی حال ہوتا ہے (۲) اس کے پاس ایک ظاہری اور غیر مفید علم ہے، مگر حقیقی علم سے وہ بےنصیب رہا، جس کی وجہ سے اللہ نے اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا۔

 

۴۵۲

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۲

 

سوال – ۶۴۱: ہمیں یقین ہے کہ قرآنِ حکیم کے ہر قصّہ، ہر بیان، ہر واقعہ، ہر مثال، ہر جملہ، ہر کلمہ، ہر لفظ، ہر معنی، ہر اشارہ، اور ہر چیز میں علم ہی علم پوشیدہ ہے، جیسے عالمِ شخصی میں بالآخر پانی ہی پانی (یعنی علم کا سمندر) نظر آتا ہے، پس سوال ہے کہ قصّۂ سلیمان میں علم و حکمت کا کونسا خزانہ مخفی ہے؟ اور اس میں کیا کیا اشارے ہیں؟ -جواب: (۱) اس قصّے میں روحانی سلطنت سے متعلق علم و حکمت کا خزانہ موجود ہے، جس میں خاص خاص اسرارِ باطن پائے جاتے ہیں (۲) روحانی سلطنت انتہائی عظیم شیٔ ہے، کیونکہ اس کا حقیقی مالک اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے، تاہم خدا اپنی بادشاہی انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کو عطا فرماتا ہے (۳) جو لوگ اطاعت اور عشق و محبت سے اپنے امامؑ اور رسولؐ میں فنا ہوجاتے ہیں، ان کو بھی یہ ملکِ عظیم (۰۴: ۵۴) اور ملکِ کبیر (۷۶: ۲۰) یعنی بہت بڑی بادشاہی عطا ہو جاتی ہے (۴) پس قصّۂ سلیمان میں یہ سارے اشارے موجود ہیں۔

سوال – ۶۴۲: سورۂ نمل (۲۷) کے حوالے سے سوال ہے: عرشِ

 

۴۵۳

 

الٰہی کی تاویل کیا ہے؟ بلقیس کے عرش سے کیا مراد ہے؟ (۲۷: ۲۳) حضرتِ سلیمانؑ کو ملکۂ سبا (بلقیس) کا عرش کیوں مطلوب تھا؟ تخت کو جلدی حاضر کرنے میں مقابلہ سا کیوں ہوا؟ – جواب: (۱) عرشِ الٰہی کی ایک تاویل عقلِ کل ہے جو فرشتۂ عظیم ہے (۲) بلقیس کے عرش سے اس کی عقل و جان اور بادشاہی مراد ہے (۳) قانون یہ ہے کہ ظاہری بادشاہی آخرکار روحانی بادشاہی کے لئے مسخر ہو جاتی ہے، لہٰذا حضرتِ سلیمانؑ نے ملکۂ سبا کے تخت کو طلب کیا (۴) تخت کو سلیمان کے حضور فوراً حاضر کر دینے میں علم اور دیگر روحانی قوّتوں کے درمیان مقابلہ ہوا، جس میں علم کو برتری حاصل ہوئی، کیونکہ یہ تمام زمانوں کے لوگوں سے امتحان ہے، جس کو علم ہی نے حل کر دیا، اور بتایا کہ جب حضرتِ سلیمان امامِ مبین ہے اور اس کے عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس میں سب کچھ موجود ہے تو پھر بلقیس کی عقل و جان اور بادشاہی امامِ مبین کی قیامتی گرفت سے کیونکر باہر ہوسکتی ہے۔

سوال – ۶۴۳: مذکورۂ بالا سورہ (۲۷: ۱۶) میں ہے: اور داؤدؑ کا وارث سلیمانؑ ہوا، اور اس نے کہا، لوگو! ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں دی گئی ہیں۔ آیا ہر پیغمبر اور ہر امام کا کوئی وارث ہوتا ہے؟ پرندوں کی بولیوں سے کیا مراد ہے؟ حضرتِ سلیمانؑ کو ہر طرح کی چیزیں کس طریق پر دی گئی تھیں؟ -جواب: (۱) جی ہاں! حدیثِ شریف میں ہے کہ ہر پیغمبر کا ایک وارث ہوتا ہے (اور ہر امام کا بھی) آپ قرآنِ پاک میں و۔ ر۔ ث کے الفاظ میں دیکھیں (۲) پرندوں

 

۴۵۴

 

کی بولیوں سے ارواح و ملائکہ کی گفتگو مراد ہے، اور یہ معجزہ ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں ظہور پذیر ہوتا ہے، (۳) حضرتِ سلیمانؑ کو امامِ مبین کا مرتبہ حاصل تھا، اس لئے خدا نے تمام چیزیں اس میں گھیر کر رکھی تھیں۔

سوال – ۶۴۴: ہمیں آیاتِ تسخیر کے بارے میں حُسنِ ظن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نوازنا چاہتا ہے، آپ ہی بتائیں کہ اللہ کی عنایتِ بے نہایت اور نوازش جو تسخیرِ کائنات کی باطنی صورت میں ہے، وہ کیسی ہے؟ -جواب: (۱) کائنات کی باطنی تسخیر سے قبل اس کی بشارت ہی انتہائی عجیب و غریب ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کائنات کو لپیٹ کر عالمِ شخصی میں رکھ دیتا ہے (۲) انفرادی قیامت کا ہر معجزہ بہشت کی سلطنت اور تسخیرِ کائنات کی عملی خوشخبری ہے۔

سوال – ۶۴۵: ان شاء اللہ، دانشگاہِ خانۂ حکمت کے جملہ عملداران و ارکان فردِ واحد کی طرح یکجان ہیں، لہٰذا یہاں ایک کی کامیابی سب کی کامیابی ہے، دینی اور روحانی وحدت کا یہ خاص طریقہ کتنا اچھا اور قابلِ تعریف ہے، کہ ایک شخص معاشرے سے الگ تھلگ ہوکر اتنی خوشیاں کبھی حاصل نہیں کرسکتا ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ -جواب: (۱) خشتِ اوّل چون نہد معمار کج + تا ثریا می رود دیوار کج۔ بہت سے لوگ نفسِ واحدہ کو نہیں پہچانتے ہیں، جس سے ان کو بہت سے معنوں میں خسارہ ہورہا ہے (۲) چنانچہ کئی ہزار سال پہلے جو آدمؑ

 

۴۵۵

 

ہو گزرا ہے، اس کی اولاد ہونے کی وجہ سے جو برادری انسانوں کے آپس میں ہے، وہ بہت پرانی ہوچکی ہے، پس یہ حقیقت ہے کہ زمانے کا نفسِ واحدہ، ہی آدمِ زمان ہے، اور تمام انسان اِسی آدم کی روحانی اولاد ہیں (۳) مزید بران عالمِ ذرّ میں نظر کریں کہ وہاں لوگ کس طرح ساتھ ساتھ کام کرتے رہتے ہیں، اور بھی آگے جاکر حظیرۂ قدس میں دیکھ لیں، وہاں تو سارے انسان ازلی اور ابدی وحدت میں فنا ہوکر نفسِ واحدہ ہو چکے ہیں۔

سوال – ۶۴۶: آپ کے اس پُرحکمت بیان کا یہ مطلب ہوا کہ اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو لوگوں کے آپس میں ایک بیمثال حقیقی اور روحانی برادری بھی ہے، کہ وہ سب کے سب امامِ زمان (نفسِ واحدہ) کی روحانی اولاد ہیں، اور ان کی ایک لازوال وحدت بھی ہے کہ وہ حظیرۂ قدس میں شخصِ واحد ہیں، لیکن جو لوگ ان بھیدوں کو نہیں جانتے ہیں، ان کو فی الوقت اس رشتۂ نورانی اور وحدتِ ازلی سے کوئی بھی خوشی نہیں ہوسکتی ہے، آپ ہی بتائیں-۔جواب: (۱) جی ہاں! یہ بیان بالکل درست ہے، یہی وجہ ہے کہ خداوندِ تعالیٰ نے عصر کی قسم کھا کر فرمایا کہ انسان خسارے میں ہے (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۲) (۲) پس مبارک ہیں وہ لوگ جو اسرارِ معرفت سے باخبر ہیں، یقیناً معرفت ہی سب سے بڑا خزانہ ہے، اور ہاں، معرفت علم الیقین سے شروع ہو جاتی ہے۔

 

۴۵۶

 

سوال – ۶۴۷: سورۂ انعام (۰۶: ۹۸) میں ارشاد ہے: وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ۔ آپ اس کی حکمت بیان کریں- جواب: (۱) ترجمہ: اور (خدا) وہی ہے جس نے ایک جان سے تم کو پیدا کیا پھر ہر ایک کے لئے ایک توجائے قرار ہے اور ایک جائے امانت ہے۔ (۲) نفسٍ وَّاحِدَۃٍ کے عام معنی ہیں ایک جان، اور خاص معنی ہیں سب کو ایک کر لینے والی جان، کیونکہ واحدہ بروزنِ فاعِلہ (مذکر: فاعل) آدمِ زمان کی روحِ اعظم کی صفت ہے، جو مخفی قیامت میں تمام ارواحِ خلائق کو اپنے ساتھ ایک کر لیتی ہے، اسی وجہ سے قرآن نے آدمِ زمان کو نفسٍ وّاحدہ کہا (۳) ہر شخص کے لئے جائے قرار (مستقر) اور جائے امانت (مستودع) اس طرح سے ہے کہ روح کا بالائی سِرا ہمیشہ عالمِ علوی میں ہے اور پائینی سِرا کچھ وقت کے لئے عالمِ سفلی میں ہے (۴) اس دنیا میں ہم میں سے ہر ایک اپنی انائے علوی کا سایہ ہے۔

سوال – ۶۴۸: سورۂ بقرۃ (۰۲: ۲۷۵) میں ہے: جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) کھڑے نہ ہوسکیں گے مگر اس شخص کی طرح کھڑے ہوں گے جس کو شیطان نے لپٹ کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ اس کی تاویل کیا ہے؟ -جواب: (۱) اللہ، رسولؐ، اور ولیٔ امرؑ کی حقیقی اطاعت کے نتیجے میں جو علم ملتا ہے، وہ نجات کی طرح ہے، جو حلال ہے، اس قانون کے سوا جو علم کمایا جاتا ہے، وہ سود کی مثال ہے، جو حرام ہے (۲) وہ حرام اس لئے ہے کہ غلط اور گمراہ کن ہے۔

 

۴۵۷

 

سوال – ۶۴۹: حضرتِ مولانا محمد باقر علیہ السّلام کا ارشادِ گرامی ہے: مَاقِیلَ فِی اللّٰہِ فَھُوَفِیْنَا وَمَاقِیلَ فِینَا فَھُوَ فِی الْبُلَغَاءِ مِنْ شِیعَتِنَا= جو بات اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہی گئی ہے وہ ہم (اماموں) پر صادق آتی ہے۔ آپ اس فرمانِ مبارک کی کچھ وضاحت کریں – جواب: (۱) میں اس گنجینۂ معرفت کی کیا وضاحت کروں کہ یہ خود واضح اور مثلِ خورشیدِ انورضوفگن اور نورافشان ہے (۲) میں یہاں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ نورانی تعلیم معرفت کی انتہائی بلندی پر ہے، اور اس میں نہ صرف تمام مشکل سوالات کا حل موجود ہے، بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ روحانی ترقی کی دعوت بھی ہے۔

سوال – ۶۵۰: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۳۷) میں ہے: اور ہم نے ان لوگوں کو جو کہ بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے اس سرزمین کے مشارق و مغارب کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے (بے شمار) برکتیں رکھی ہیں۔ سوال ہے کہ یہ سر زمین کونسی ہے؟ اس کے مشارق و مغارب کی طرف خاص اشارہ کیوں ہے؟ اس کی برکتیں کس نوعیت کی ہیں؟ -جواب: (۱) یہ حظیرۂ قدس ہے جو دنیا ہی میں بہشت برائے معرفت ہے (۲) یہ عالمِ وحدت کے شمس و قمر اور نجوم کے یکجا مشارق و مغارب  ہیں، جن کے ساتھ تمام اسرارِ حکمت وابستہ ہیں، لہٰذا مشارق و مغارب کی طرف خاص اشارہ ہے (۳) اس کی برکتیں ازلی، ابدی، باطنی، روحانی، عقلی، علمی، عرفانی، اور ربّانی ہیں۔

 

۴۵۸

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۳

 

سوال – ۶۵۱: سورۂ مجادِلہ کی آخری آیت (۵۸: ۲۲) میں حِزبُ اللہ کا ذکر ہے، اس میں دو سوال ہیں: اللہ تعالیٰ ان کے دل میں کس طرح ایمان لکھ دیتا ہے؟ خدا اپنی جس روح سے ان کی تائید کرتا ہے وہ کونسی روح ہے-جواب: (۱) اللہ ان کے دل میں روحانی تحریر سے ایمان ثبت کرتا ہے، یعنی اسرارِ معرفت کے معجزات دکھاتا ہے (۲) وہ روحِ قدسی ہے جو ہادیٔ زمانؑ کا نور ہے، جس سے علمی اور عرفانی مدد فرماتا ہے، اس کے قرآنی الفاظ یہ ہیں: وَاَیَّدَ ھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ۔

سوال – ۶۵۲: توبہ اور طہارت (پاکیزگی) کے باب میں ارشاد ہے: اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (۰۲: ۲۲۲) یقیناً اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتا ہے پاک صاف رہنے والوں سے۔ آپ توبہ اور پاکیزگی کے بارے میں سمجھائیں کہ وہ کس طرح سے ہے؟ -جواب: (۱) بندے کی توبہ تین قسم کی ہے: توبۂ ظاہری، توبۂ روحانی، اور توبۂ عقلانی (عرفانی) (۲) اسی طرح

 

۴۵۹

 

پاکیزگی (طہارت) بھی تین قسموں میں ہے: جسمانی، روحانی، اور عقلانی، کیونکہ انسان صرف جسم نہیں، بلکہ روح اور عقل بھی ہے، اور ان تینوں چیزوں کی طہارت و پاکیزگی الگ الگ ہے۔

سوال – ۶۵۳: کل اتوار کے دن (۳۰ مئی ۱۹۹۹ ء) جبکہ وِزڈم سرچ کی کلاس ہورہی تھی، اور پیاری کتاب ذکرِ الٰہی کی رسمِ رونمائی بھی تھی، جس میں ایک نہایت پسندیدہ اور بیحد مفید اصطلاح “بہشت برائے معرفت” کے بارے میں پہلی بار گفتگو ہوئی، جس میں تمام حاضرین انتہائی شادمان ہوئے، اب آپ سے یہ معلوم کرلینا ہے کہ اگر بہشت برائے معرفت حظیرۂ قدس کا نام ہے تو اس کا اشارہ قرآن میں کہاں ہے؟ -جواب: (۱) آپ سورۂ محمد (۴۷: ۰۴ تا ۰۶) میں دیکھیں: اور جو لوگ خدا کی راہ میں شہید کئے گئے۔ یہ لوگ زندہ شہید ہیں جو بہشت برائے معرفت یعنی حظیرۂ قدس کو پہچانتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ لوگ اور ان کے تمام ساتھی جسمانی موت کے بعد بہشتِ کُلی میں داخل کردیئے جائیں گے (۴۷: ۰۶) (۲) امامِ مبینؑ میں علم و معرفت کی ہر چیز موجود ہوتی ہے، یہ معجزہ حظیرۂ قدس میں ہوتا ہے، اور حظیرۂ قدس کا ظہور شہیدانِ باطن کی جبین میں ہوتا ہے، پس اسی کا نام بہشت برائے معرفت ہے۔

سوال – ۶۵۴: سورۂ لقمان کے آخر (۳۱: ۳۴) میں جو گنجِ اسرار بصورتِ آیۂ شریفہ موجود ہے، اس میں سے دو سوال ہیں: الف:

 

۴۶۰

 

اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃٍ = (بیشک خدا ہی کے پاس قیامت کا علم ہے) کیا اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ علم القیامت کا حصول غیر ممکن ہے؟ ب: وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَ یِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ( اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا ہے کہ وہ کس سرزمین پر مرے گا) آیا یہ ارشاد جسمانی موت سے متعلق ہے؟ -جواب: (۱) علم القیامت غیر ممکن نہیں، بلکہ یہ ارشاد بتاتا ہے کہ مقربین تجربۂ قیامت سے گزرتے ہوئے اللہ کے حضور میں پہنچتے ہیں (۲) اکثر لوگ حالات کی روشنی میں اس بات کو ضرور جانتے ہیں کہ ان کی جسمانی موت کہاں واقع ہونے والی ہے، لیکن نفسانی موت کے بارے میں لوگوں کو علم نہیں ہوتا کہ وہ کس عالمِ شخصی میں جا کر فنا ہونے والے ہیں؟

سوال – ۶۵۵: یہ ارشاد سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۵۰) میں ہے: قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِیْدًا =کہدو، تم پتھر ہوجاؤ یا لوہا۔ اس میں کیا راز ہے؟ – جواب: (۱)  اس میں بڑا انقلابی راز ہے، وہ یہ کہ ہر شخص میں بے شمار روحیں ہوتی ہیں، پس اگر خدا چاہے تو کسی انسان کے ذرّاتِ روحانی میں سے کوئی ذرّہ پتھر یا لوہا  ہوسکتا ہے (۲) اس سے روح اور مادّہ کے درمیان حدِ فاصل کا تصوّر ختم ہوگیا، اور یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ ہر چیز میں روح ہے۔

سوال – ۶۵۶: سورۂ سجدہ کی آیتِ پنجم (۳۲: ۰۵) کی حکمت سمجھنے

 

۴۶۱

 

کے لئے کوئی مفہوم بتائیں -جواب: (۱) خدا کا ایک دن ہم انسانوں کے شمار کے مطابق ہزار سال کا ہوتا ہے (۲۲: ۴۷) (۲) وہ ہر یوم یعنی ہزار سالہ کام کے لئے پروگرام بناتا ہے، جس کے لئے وہ صرف کُنْ (ہوجا) فرماتا ہے، پس وہ کام بظاہر جیسا بھی لگے، لیکن باطناً بالکل مکمل ہوجاتا ہے (۳) آسمان سے زمین کی طرف خدا کا یہ حکم (کُنْ = ہوجا) بار بار ہوتا رہتا ہے (یُدَبِّرُ الْاَمْرَ) اور ہر ہزار سال کے بعد ایک بنا بنایا ہوا کام آسمانِ روحانیّت کی طرف بلند ہو جاتا ہے۔

سوال – ۶۵۷: یہ تو معلوم ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں عالمِ دین کو پیدا کیا، یعنی چھ ہزار سال میں، خدا کے چھ بابرکت زندہ اور عاقل و دانا دن یہ حضرات ہیں: آدمؑ، نوحؑ، ابراہیمؑ، موسیٰؑ، عیسیٰؑ اور سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ و علیہم اجمعین، اور حضرتِ قائم القیامت وہ ہفتۂ دین ہے، جس میں خدا نے عرش سے متعلق امور کو انجام دیا، آپ یہ بتائیں کہ اللہ کے ان ایام کی معرفت کہاں ہے؟ اور کس طرح سے ہے؟ -جواب: (۱) عالمِ دین اور خدا کے ایام کی مکمل معرفت عالمِ شخصی میں ہے، جس کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔

سوال – ۶۵۸: سورۂ ابراہیم کی آیتِ پنجم (۱۴: ۰۵) میں ایَّامِ خدا سے متعلق جو ارشاد ہوا ہے، اس کی کوئی حکمت بیان کریں -جواب: (۱) مفہومِ آیت: خدا نے حضرتِ موسیٰؑ کو ظاہری اور باطنی معجزات دے کر

 

۴۶۲

 

بھیجا تھا، تاکہ وہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نور کی طرف نکالے، اور عالمِ شخصی میں ان کو ایّامِ خدا کی معرفت سے مالامال کرے، اس میں ہر صبر کرنے والے قدردان کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔

سوال – ۶۵۹: قرآنِ حکیم میں ھَلْ یَنْظُرُوْنَ کی چھ آیات ہیں: ۰۲: ۲۱۰، ۰۶: ۱۵۷، ۰۷: ۵۳، ۱۶: ۳۳، ۴۳: ۶۶، ۴۷: ۱۸، ان آیاتِ کریمہ میں کن عظیم واقعات کی پیش گوئی ہے؟ -جواب: (۱) مجموعی طور پر واقعۂ قیامت کی پیش گوئی ہے، اور حضرتِ قائم القیامت کا ذکر ہے کہ وہ عالمِ دین میں تشریف فرما ہوگا (۲) دورِ قیامت اور زمانۂ تاویل کی پیش گوئی ہے۔

سوال – ۶۶۰: اہلِ بہشت میں سے ایک شخص آدمؑ کی طرح ہو جانا چاہتا ہے، کیا یہ معجزہ ممکن ہے؟ اگر یہ بہت بڑی نعمت ممکن ہے تو اس کی کوئی مناسبت بھی ہے یا نہیں؟ اگر مناسبت ہے تو بتائیں کہ وہ کیا ہے؟ -جواب: (۱) بہشت کی کوئی نعمت غیر ممکن نہیں (۲) آدم کے ساتھ اہلِ بہشت کی مناسبت، رشتہ، اور وحدت سب کچھ ہے، کیا یہ لوگ اپنے آدمِ زمانؑ کی اولاد نہیں ہیں؟ آیا یہ اس کے عالمِ ذرّ میں سجدہ کرنے والے فرشتے نہ تھے؟ کیا انہوں نے اس کے روحانی لشکر میں کام نہیں کیا؟ (۳) یہی وہ لوگ ہیں جو آدم کی ہستی کے سانچے میں ڈھل ڈھل کر آدم کی

 

۴۶۳

 

کاپیاں ہوگئے تھے، اور جب حضرتِ آدمؑ حظیرۂ قدس میں داخل ہوکر صورتِ رحمان پر ہوگیا، تو اس وقت بھی یہ سب آدم میں فنا تھے۔

 

۴۶۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۴

 

سوال – ۶۶۱: سورۂ انعام (۰۶: ۳۸) میں ارشاد ہے (ترجمہ): اور (عالمِ شخصی کی) زمین میں کوئی بھی چلنے والا یا دونوں پروں سے پرواز کرنے والا طائر ایسا نہیں ہے جو تمہاری طرح کی جماعت نہ رکھتا ہو، ہم نے (عالمِ شخصی کی زندہ) کتاب میں کسی شے کی کوئی کمی نہیں کی ہے اس کے بعد سب اپنے پروردگار کی طرف سمیٹ لئے جاتے ہیں۔ آپ کی نظر میں یہ ترجمہ کیسا ہے؟ -جواب: (۱) بالکل درست ہے، کیونکہ انسان کی خود شناسی اور حضرتِ ربّ کی معرفت عالمِ شخصی ہی میں ہے، اور اسی میں جو روحیں موجود ہیں، وہی سب اللہ کے پاس جمع کئے جاتے ہیں، اور دنیا کے جانوروں کا کوئی حشر نہیں۔

سوال – ۶۶۲: سورۂ سبا (۳۴: ۱۴) میں حضرتِ سلیمانؑ کی موت کا ذکر ہے، لیکن سوال ہے کہ یہ کونسی موت تھی؟ نفسانی یا جسمانی؟ دَآبَّۃُ الْاَرض کس جانور کا نام ہے؟ مِنْسَاَتَہٗ (عصا) سے کیا مراد ہے؟ – جواب: (۱) یہ نفسانی موت کا تذکرہ ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم نفسانی موت کے بیان کو اہمیت دیتا ہے، جبکہ اس میں بہت بڑی

 

۴۶۵

 

حکمت ہے (۲)  دَآبَّۃُ الْاَرض (زمین پر چلنے والا) یاجوج ماجوج کا لشکر ہے (۳) مِنْسَاۃَ (لاٹھی) جسم یا روحِ حیوانی ہے، جس کو یاجوج ماجوج چاٹ کھاتے ہیں، جس میں عظیم حکمت ہے۔

سوال -۶۶۳: سورۂ نمل کی آیۂ چہاردھم (۱۶: ۱۴) کی تاویلی حکمت بیان کریں -جواب: (۱) اور خدا وہی ہے جس نے سمندر (بحرِ روحانیّت) کو مسخر کر دیا ہے تاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھا سکو (یعنی تازہ علم حاصل کر سکو) اور پہننے کے لئے زینت کا سامان نکال سکو (یعنی گوہر عقل سے استفادہ کرسکو) اور تم دیکھ رہے ہو کہ کشتیاں کس طرح پانی کو چیرتی ہوئی چلتی جارہی ہیں (یعنی پانی پر عرشِ خدا کا ظہور جو یہی بھر ی ہوئی کشتی بھی ہے)….۔

سوال – ۶۶۴: کیا یہ درست اور حقیقت ہے کہ حدودِ دین کی مثال گھریلو جانوروں سے بھی دی گئی ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں درست ہے، جیسا کہ سورۂ نحل (۱۶: ۰۷) میں ہے: اور وہ (چوپائے یعنی حدودِ دین) تمہارے بوجھ بھی (لاد کر) ایسے شہر (یعنی شہرِ روحانیّت) کو لے جاتے ہیں جہاں تم بدونِ جان کو محنت میں ڈالے ہوئے (خود کبھی) نہیں پہنچ سکتے تھے۔

سوال – ۶۶۵: سورۂ اِنشِقاق (۸۴: ۰۱ تا ۰۹) میں ہے: جب

 

۴۶۶

 

آسمان پھٹ جائے، اور سن لے حکم اپنے ربّ کا، اور وہ آسمان اسی لائق ہے، اور جب زمین پھیلا دی جائے، اور نکال ڈالے جو کچھ اس میں ہے اور خالی ہوجائے، اور سن لے حکم اپنے ربّ کا اور وہ زمین اسی لائق ہے، اے انسان تجھ کو تکلیف اٹھانی ہے اپنے ربّ تک پہنچنے میں سہ سہ کر، پھر اس سے ملنا ہے، سو جس کو ملا اس کا نامۂ اعمال داہنے ہاتھ میں، تو اس سے حساب لیا جائے گا ایک آسان حساب، اور پھر کر آئے گا اپنے لوگوں کے پاس خوش ہوکر۔ سوال ہے کہ روحانی قیامت کے یہ عظیم واقعات عالمِ ظاہر سے متعلق ہیں یا عالمِ شخصی سے؟ آپ وضاحت کریں -جواب: (۱) قیامت ایک عظیم روحانی واقعہ ہے، جس کا اوّلین تعلق عالمِ شخصی یعنی عارف سے ہے (۲) سرِ عارف آسمان ہے اور بدن زمین، قیامت سر کے آسمان سے شروع ہو جاتی ہے، جبکہ صورِ اسرافیل کی فلک شگاف آواز سے عام سماعت کا دائرہ اور خول پھٹ جاتا ہے (۳) ہم نے قبلاً اسرارِ قیامت کے بارے میں بہت سی وضاحتیں کی ہیں۔

سوال – ۶۶۶: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۰) میں ہے: یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایان فوقیت بخشی۔ آپ اس قرآنی تعلیم کے کچھ اسرار کو ظاہر کریں -جواب: (۱) آدمِ اوّل اور آدمِ زمان کی خاص

 

۴۶۷

 

اولاد کے بارے میں یہ ارشاد ہے کہ ان کو اللہ نے حدودِ دین کی سواریاں عطا کرکے ظاہراً وَ باطناً آگے سے آگے بڑھایا (۲) ان سواریوں میں آخری چیز بھری ہوئی کشتی ہے، پاکیزہ چیزوں سے لطیف غذائیں مراد ہیں، جو طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں خدا کے دوستوں کو علامتی طور پر ملتی ہیں (۳) اور یہ خوشبوئیں جو ہر علم کی مثال بھی ہیں (۴) بہت سی مخلوقات پر بنی آدم کی فضیلت و فوقیّت کا یہ مطلب ہوا کہ عالمِ شخصی افضل و اعلیٰ ہے کائناتِ ظاہر سے (۵) پھر ہمیں بار بار عالمِ شخصی کا تذکرہ کرنے سے کیوں شرمانا چاہیئے۔

جمعرات ۱۸؍صفرا لمظفر ۱۴۲۰ھ   ۳؍جون ۱۹۹۹ء

الحمد اللہ ربّ العلمین، آج صنادیقِ جواہر کا حصّہ دوم مکمل ہوا، میری اس قابلِ رحم کہن سالی، بیماری، کمزوری، سرجری، اور تکالیف کے باؤجود خداوندِ قدّوس کا یہ معجزاتی احسانِ عظیم شاید اس لئے ہوا کہ بہت سے عزیزان اپنی پُرسوز گریہ وزاری میں اپنے ناچار استاد کے حق میں دعا کرتے رہتے ہیں، علاوہ بران ان سب کے نمائندہ ذرّات میرے ساتھ ہیں، پس وہ دور بھی اور نزدیک بھی میری علمی خدمت میں شریک ہیں، یا یوں کہنا چاہیئے کہ ہم سب اس مقدّس کام میں مجموعاً ایک ہی شخص کی طرح ہیں۔

بیحد شادمانی اور شکر گزاری کا موقع ہے کہ جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی صاحب کا ایک عظیم کارنامۂ علمی مکمل ہوچکا ہے، وہ ہے:

 

۴۶۸

 

اھل البیت الاطہار فی الاحادیث النبویَّہ، ہر عظیم چیز کے کئی نام ہوا کرتے ہیں، لہٰذا ہم اس کو گنجینۂ جواہر احادیث بھی کہیں گے، تمام عزیزان اور اہلِ علم کو “گنجِ جواہرِ احادیث” مبارک ہو!

 

۴۶۹

 

صنادیقِ جواہر

حصہ سِوم

 

 

سوال – ۶۶۷: سورۂ یونس (۱۰: ۲۵) میں ارشاد ہے: وَاللّٰہُ یَدْعُوْآ اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ = اور اللہ دارالسلام کی طرف بلاتا ہے۔ یہاں ضروری سوال یہ ہے کہ دارالسّلام بہشت کو بھی کہتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا نام بھی ہے، بس آپ ہی بتائیں کہ خدا لوگوں کو کس منزلِ مقصود کی طرف بلاتا ہے؟ بہشت کی طرف جو دارالسّلام (خانۂ سلامتی ) کے نام سے ہے؟ یا خدا کے گھر کے طرف (دار السّلام = خدا کا گھر)؟ یا خود اپنی ذاتِ پاک کی طرف (شاید وہ خود ازل و ابد میں سلامتی کا گھر ہو)؟ -جواب: (۱) یہ دعوت سب سے پہلے بہشت کی طرف ہے (۲) پھر خانۂ خدا کی طرف، اور آخر میں ذاتِ خدا یعنی فنا فی اللہ کی طرف دعوت ہے۔

سوال -۶۶۸: کسی ذریعے سے یہ معلوم ہوا کہ یاجوج ماجوج ایک ہی والدین کی ذرّیات ہیں، یعنی ذرّاتی نسل، جنہوں نے ھنوز شکمِ مادر کو نہیں دیکھا ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ -جواب: (۱) یہ بات بالکل درست اور حقیقت ہے، تاہم یہ ایک عظیم راز رہا ہے (۲) یعنی یہ ان بھیدوں میں سے ہے جن کی وضاحت بہت خاص ہے۔

سوال – ۶۶۹: جہاں یاجوج ماجوج کے بارے میں بہت زیادہ اختلافات ہیں، وہاں اگر آپ بفضلِ خدا کوئی انقلابی حکمت بیان کرسکتے ہیں تو کیا حرج ہے؟ کیا یہ روحانی سائنس نہیں ہے؟ -جواب:

 

۴۷۳

 

(۱) حضرتِ آدم اور بی بی حوّا علیہما السّلام دونوں سے بنی آدم بھی ہیں اور یاجوج ماجوج بھی، (۲) ان دونوں میں یہ فرق ہے کہ بنی آدم شکمِ مادر میں پرورش پاکر پیدا ہوگئے، لیکن یاجوج ماجوج کے ذرّات شکم یعنی رحم میں نہ جاسکے، اور وہ بے شمار تھے، وہ ذرّیت تھے، اور ذرّیت ہی رہے، یعنی ان کی تولید نہیں ہوئی۔

سوال – ۶۷۰: اللہ تعالیٰ اپنے عارفین کو “بہشت برائے معرفت” میں ہر معجزہ دکھاتا ہے، آیا یہ بھی ایک ایسا معجزہ نہیں تھا کہ اس نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذرّیت کو لیا، اور حظیرۂ قدس میں ان کو اپنی اپنی اعلیٰ روح کا مشاہدہ کرایا، یہ ان کے ربّ کے پروگرام کو بشارت تھی ( ۰۷: ۱۷۲) کیا آیۂ الست کا یہ مفہوم درست ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں درست ہے، کیونکہ یہ تو روحانیّت میں لوگوں کے لئے خوشخبری ہے، جس کو صرف عُرَفاء ہی دیکھتے ہیں۔

 

۴۷۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۱

 

سوال – ۶۷۱: آیۂ الست(۰۷: ۱۷۲) میں غور کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذرّیت کو لیا، جبکہ آدم کی پشت سے اس کی ذرّیت کو نہیں لیا تھا، حالانکہ اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، اور نہ اس کے قول و فعل میں کوئی تضاد ہے، پس آپ یہ بتائیں کہ آدم اور بنی آدم کی روحانیّت میں یہ بڑا فرق کیوں ہے؟ -جواب: (۱) جب ہمارا نظریہ یہ ہے کہ آدموں کا کوئی شمار ہی نہیں تو پھر ہر آدم ایک طرف سے بنی آدم ہے، اور دوسری طرف سے آدم (۲) لہٰذا اس سے نہ صرف یہ سوال ختم ہوگیا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر آدم دراصل بنی آدم بھی ہے۔

سوال – ۶۷۲: قرآنِ حکیم (۱۴: ۳۶) میں ہے کہ حضرتِ ابراہیمؑ نے کہا: فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ۔ اس کی حکمت بیان کریں -جواب: (۱)جو میرے طریقے پر چلے وہ یقیناً میرا ہے (۲) یعنی جو شخص تابمنزلِ فنا امامِ زمان کی پیروی کرتا ہے وہ بحقیقت “فنا فی الامام” ہوجاتا ہے، پھر ایسے شخص کو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیئے۔

 

۴۷۵

 

سوال- ۶۷۳: سورۂ یوسف (۱۲: ۱۰۸) میں ارشاد ہے: قُلْ هٰذِهٖ سَبِیْلِیْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِیْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْؕ۔  آپ اس کی حکمت بیان کریں- جواب: (۱)ترجمہ: تم ان سے کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی بصیرت پر ہوں اور میرا پیرو بھی (۲) رسولِ پاکؐ نے چشمِ بصیرت سے تمام احوالِ باطن کو دیکھا، اور پھر اپنے راستے پر لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا، اور آپؐ کے پیرو (علیؑ) نے بھی اسی بصیرت سے یہی دعوت کی، اور أئمّۂ اولادِ علی نے بھی دعوت کا یہی فریضہ انجام دیا۔

سوال – ۶۷۴: مذکورۂ بالا آیۂ شریفہ میں علیؑ و أئمّۂ اولادِ علیؑ کا ذکر کس طرح سے ہے؟ – جواب: (۱)اس آیۂ کریمہ میں اللہ کے دین کا ایک مکمل پروگرام نظر آتا ہے: راہِ رسولؐ(صراطِ مستقیم) دعوتِ اِلی اللہ، بصیرت (نورِ منزل) رسولؐ کی حقیقی اطاعت (جو أئمّۂ آلِ محمد نے بجا لائی) اسلام کے چار عُنصر یہی ہیں (۲) خدا نے اپنے محبوب رسولؐ کو جو بصیرت عطا فرمائی تھی، وہ نورِ منزل ہے (۰۵: ۱۵) جو أئمّۂ آلِ محمدؐ کے سلسلے میں جاری ہے، اس سے نہ تو راہِ رسولؐ الگ ہے اور نہ ہی دعوت اِلی اللہ۔

سوال  -۶۷۵: حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوٰت اللہ علیہ نے آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کی حکمتوں کی بہت تعریف فرمائی ہے، کیا حضرتِ

 

۴۷۶

 

امامؑ کے علمِ روحانی کی روشنی میں آپ کچھ وضاحت کر سکتے ہیں؟ -جواب: (۱)ذاتِ سبحان کے نور کا خاص تعلق عالمِ دین سے ہے، جس کا مکمل نمونہ عالمِ شخصی ہے (۲) اللہ عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کا نور ہے، یعنی شروع سے لے کر آخر تک عالمِ شخصی کے ہر درجہ میں اُسی کے نورِ اقدس ہی کی روشنی ہے (۳) ہر پیغمبر اور ہر امام کے بعد ہر عارف کے عالمِ شخصی میں بھی اللہ کا نور طلوع ہوجاتا ہے، مگر رسولؐ اور امامؑ کے توسط سے۔

سوال – ۶۷۶: آپ کے نزدیک عالمِ شخصی کی سب سے بڑی تعریف کیا ہے؟ -جواب: (۱)عالمِ شخصی کی سب سے اعلیٰ تعریف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے آسمانوں اور زمین کا نور ہے، خدا کی بادشاہی اسی میں ہے (۲) عرش، کرسی، قلم، لوح، وغیرہ عین شین میں ہے، اللہ کے پاک نور کی رسی (سلسلۂ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ) عش کے سوا اور کہاں ہوسکتی ہے، اسی عالم (عش) میں ہر آسمانی کتاب نازل ہوئی، اور یہ ہے ایک تفسیر کُلیۂ امامِ مبین کی۔ الحمدللہ۔

سوال – ۶۷۷: آسانی کی خاطر عالمِ شخصی کا مخفف: ع ش = عین شین = عش بڑا عمدہ طریقہ ہے، اب آپ یہ بتائیں کہ عالمِ شخصی کا اوّلین ذکر قرآنِ حکیم میں کہاں ہے؟ -جواب: (۱)ع ش کا پہلا ذکر قرآنِ پاک کے آغاز ہی میں ہے: الحمد اللہ ربِّ العٰلمین = تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام عوالمِ شخصی کا پروردگار ہے (سورۂ

 

۴۷۷

 

فاتحہ) (۲) خدا کے نزدیک عالمِ شخصی کی پرورش، کہ وہ انسان ہے، انتہائی بڑی پرورش ہے، اور اس میں لفظِ “حمد” کی وجہ سے ایک خاص اشارہ بھی ہے، وہ یہ کہ اللہ خزانۂ عقل سے پرورش کرتا ہے، اور یہی پرورش قابلِ تعریف ہے۔

سوال – ۶۷۸: سورۂ طور (۵۲: ۰۴) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالْبِیْتِ الْمَعْمُوْرِ = اور قسم ہے آباد گھر کی۔ سوال ہے کہ یہ آباد گھر کیا ہے؟ کہاں ہے؟ اور کن معنوں میں آباد ہے؟ -جواب: (۱)یہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا پاک گھر ہے جو ع ش کے آسمان میں ہے (۲) یہ ان معنوں میں آباد ہے کہ اس میں اللہ کی ہر ہر چیز موجود ہے (۳۶: ۱۲) عَلَی الخصوص اس مقدّس گھر میں اللہ کا پاک دیدار ہے، یعنی صورتِ رحمان کے جملہ معجزات ہیں۔ (۳) اس کا  واضح مطلب یہ ہوا کہ خدا کا آباد گھر امامِ مبین ہی ہے (۳۶: ۱۲) اور عارفوں کو اس حقیقت کا مشاہدہ حظیرۂ قدس میں ہوتا ہے جو تاویلی آسمان اور عالمِ علوی ہے۔

سوال – ۶۷۹: سورۂ اعراف (۰۷: ۴۰) میں ایک عظیم اور عجیب و غریب سوال پیدا ہوجاتا ہے، جو اس طرح سے ہے: جو شخص خدا کی ہستی سے منکر ہے، وہ کبھی یہ نہیں کہتا کہ اللہ کی آیات جھوٹی ہیں، نہ وہ اپنے آپ کو آیات کے مقابلے میں بڑا سمجھتا ہے، کیونکہ اللہ کی ذات کو نہ ماننے کی وجہ سے وہ کافر خدا کی صفات میں بحث نہیں کرسکتا

 

۴۷۸

 

چونکہ اس کی ہر بات غیر منطقی ہوجاتی ہے، آپ اس کا جواب دیں- جواب: (۱)اس کا جواب مولا علیؑ کے اس ارشاد میں موجود ہے: انا اٰیاتُ اللہِ الکُبریٰ الّتی اراھَا اللہُ فِرعونَ وعصیٰ = یعنی میں اللہ تعالیٰ کی آیاتِ کُبریٰ ہوں، جو اللہ نے فرعون کو دکھائیں اور اس (فرعون) نے عصیان اور نافرمانی کی (کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت ۹۰)۔

سوال – ۶۸۰: جس آیۂ شریفہ کے بارے سوال ہوا، اس کا ترجمہ اس طرح سے ہے: یقین جانو، جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور ان کے مقابلہ میں بڑائی کی ہے ان کے لئے آسمان کے دروازے ہر گز نہ کھولے جائیں گے، ان کا جنّت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا….۔ یہ کونسا آسمان ہے جس کے دروازے منکرین کے لئے بند ہیں؟ کیا ظاہری آسمان کے دروازے مقفل ہیں؟ سوئی کے ناکے سے اونٹ گزرجانے میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: (۱)یہ ع ش کا آسمان ہے، ظاہری آسمان نہیں، ظاہری آسمان کا کوئی دروازہ ہی نہیں، اگر ہے بھی تو وہ آج سب کے لئے کھلا ہے کہ کوئی بھی انسان سائنس کے ذریعے سے آسمان میں جاسکتا ہے  (۲) اونٹ کی تاویل یہاں فخر اور بڑائی ہے، سوئی کے ناکے سے کسرِ نفسی مراد ہے، یعنی نفس کو توڑ کر ذرّہ ذرّہ بنانا۔

 

۴۷۹

 

صندوقِ جواہر۔ ۶

 

سوال – ۶۸۱: آپ تو یہ کہتے رہتے ہیں کہ سب لوگ بہشت میں جاتے ہیں، جبکہ یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ اکثریت کے لئے یہ امر محال ہے، تو بتائیں کہ اس کا کیا جواب ہے؟ ۔جواب: (۱) اللہ وہ قادرِ مطلق ہے جو غیر ممکن کو بھی ممکن بناتا ہے، چنانچہ خدا کے حکم سے جب امام علیہ السّلام قیامت کو برپا کرتا ہے (۱۷: ۷۱) تو اس وقت ہر نفس ٹوٹ کر ذرّہ ذرّہ ہوجاتا ہے، ایسے میں فخر و تکبر کا ہر اونٹ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے (۲) اب آسمانِ عین شین کے ابواب سب لوگوں کے لئے کھل جائیں گے، اور سب کے سب جنّت میں جائیں گے۔

سوال – ۶۸۲: حدیث شریف ہے: انا دارُالحکمۃِ وَ علیٌّ بَابھا = میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ یہ حدیثِ نبوّی کس آیۂ کریمہ کی تفسیر ہے؟ آیا اس کا تعلق آیۂ اطاعت سے بھی ہے؟ یہ حکمت کونسی ہے؟ -جواب: (۱) یہ عظیم الشّان حدیث آیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کی واضح تفسیر ہے (۲) یقیناً یہ آیۂ اطاعت کی بھی تفسیر ہے (۳) یہ حکمت نورانی اور قرآنی ہے، یعنی

 

۴۸۰

 

تاویل ہے۔

سوال – ۶۸۳: آیا یہ بات ممکن ہے کہ آپ ہمیں سمجھائیں کہ اللہ نے کس طرح ہر چیز کو امامِ مبین میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے؟ -جواب: (۱) ان شاء اللہ، خوب یاد رہے کہ یہ سب لطیف چیزیں ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ لپیٹتا ہے یا گھیر لیتا ہے، یعنی جوہرِ کائنات کو بصورتِ ارواح و عقول امامِ مبین میں گھیر لیتا ہے (۲) جواہرِ کائنات کو قرآن کُل چیزوں کے ثمرات (۲۸: ۵۷) بھی کہتا ہے، جو بڑی عالیشان مثال ہے کہ خدا کی خدائی کی ہر چیز کا ثمرہ (میوہ) کشان کشان خدا کے گھر یعنی امامِ مبین میں داخل ہوجاتا ہے (۳) اسی طرح قرآنی ثمرات بھی حرمِ باطن (امامؑ) کی طرف آتے رہتے ہیں۔

سوال – ۶۸۴: اگرچہ آپ کو اس میں کچھ احتیاط بھی ہے، تاہم واقعۂ قیامت کے حوالے سے جو اسرار بیان ہوئے ہیں، اور جو حقائق و معارف تحریر میں آچکے ہیں، ان سےاولاً اپنے دوستوں میں علمی انقلاب آیا ہے، لہٰذا آپ ہمیں روحانیّت اور روحانی سائنس کی باتیں بتائیں -جواب: (۱) خدا کرے کہ ہر مومن اور مومنہ خود شناسی میں کامیاب ہوجائے، کیونکہ یہی سب سے بڑی دولت بلکہ سب سے بڑا خزانہ ہے (۲) آپ نے اپنے عین شین میں جو کچھ دیکھا اور تجربہ ہوا، وہ روحانی سائنس ہے (۳) خصوصاً اس لئے کہ قرآن اس کی تصدیق

 

۴۸۱

 

کرتا ہے، پھر ہم قرآن اور امام سے بار بار قربان کیوں نہ ہوجائیں (۴) جبکہ مادّی سائنس کے نظریات کی تصدیق کے لئے کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے، تاہم روحانی سائنس کا عظیم فائدہ روح کے لئے ہے۔

سوال – ۶۸۵: الکتاب لا ریب فیہ (۰۲: ۰۲، ۱۰: ۳۷، ۳۲: ۰۲) یہ کونسی کتاب ہے؟ -جواب: (۱) وہ کتاب جس میں شک نہیں، کتابِ ناطق / قرآنِ ناطق (امامِ مبین) ہے، جس میں یقین ہی یقین ہے (۲) اس کتاب میں شک کیوں نہیں، اور یقین کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود بولتی ہے اور حقیقت بیانی کرتی ہے، کیونکہ وہ نورِ منزل ہے (۰۵: ۱۵)۔

سوال – ۶۸۶: قرآنِ حکیم کی کئی آیات میں یہ فرمایا گیا ہے کہ “قیامت کے دن میں شک نہیں” اس میں کیا معنی ہیں؟ -جواب: (۱) یعنی اس میں عین الیقین، اور حق الیقین کا ظہور ہے، اس لئے اس میں کوئی شک نہیں (۲) قیامت مظاہرۂ نور کا نام ہے، اور وہ امام علیہ السّلام کا روحانی کام ہے، جو کہ خدا نے اس کو دیا ہے، لہٰذا روحانیّت میں امام ہی روزِ قیامت ہے، اور جو خوش نصیب لوگ حضرتِ امام عالیمقامؑ کے اس روحانی معجزے کو دیکھتے ہیں، ان کے آخری شکوک و شبہات ختم ہوجاتے ہیں۔

 

۴۸۲

 

سوال – ۶۸۷: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۵۷) کے حوالے سے سوال ہے: وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ۔ (اور انہوں نے اس نور کی پیروی کی جو رسولؐ کے ساتھ نازل ہوا) اس نور سے کیا مراد ہے؟ -جواب: (۱) یہ نور حضرتِ علیؑ ہے جو نورِ امامت ہے، جو قرآنِ ناطق اور جانشینِ رسولؐ ہے (۲) آپ کو غور سے دیکھنا ضروری ہے کہ اس آیۂ کریمہ میں الذین سے لے کر وَنَصَرُوْہُ تک جس طرح سے ارشاد ہوا ہے، اس کے ایک ایک لفظ میں رسولؐ کی تعریف اس وجہ سے ہے کہ آپؐ پر قرآن نازل ہوا (۳) اسی طرح اشارہ اشارہ میں قرآن کے ذکر کے بعد اس نور کا تذکرہ ہے جو آنحضرتؐ کے ساتھ ساتھ نازل ہوا ہے (۴) اس کا مطلب یہ ہوا کہ محمد و علی علیہما السّلام قبل از آدمؑ نورِ متحد تھے، جس کو آپ ایک بھی کہہ سکتے ہیں اور دو بھی، دیکھیں: کو کبِ درّی، بابِ دوم، منقبت نمبرا۔

 

۴۸۳

 

سوال – ۶۸۹: حدیثِ شریف ہے: اِنَّ عَلِیّاً مِنّیْ وَاَنَا مِنْ عَلِیٍّ وَھُوَ وَلِیٍّ کُلِّ مُوْمِنٍ وَ مُؤمِنَۃٍ بَعْدِیْ لَا یُؤَدِّیْ عَنِّیْ دَیْنِیْ اِلّاَ عَلیٌّ۔ آپ اس ارشادِ نبوی کا حکمتی ترجمہ کریں – جواب: (۱) (اس دورِ اعظم میں) علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، اور وہ میرے بعد ہر مومن اور مومنہ کا ولیٔ امر ہے، اور میرے دین (قرض) کو میری طرف سے علی کے سوا اور کوئی ادا نہ کرے گا (یعنی علم و حکمت کا قرض میری طرف سے علیؑ ہی لوگوں کو ادا کرے گا)۔

سوال – ۶۹۰: آپ اس بات کی وضاحت کریں کہ پیغمبرِ اکرمؐ پر علم و حکمت کا قرض کس طرح ثابت ہوسکتا ہے؟ -جواب: (۱) قرآنِ حکیم میں کئی آیات ایسی بھی ہیں، جن میں یہ حکم ہے کہ اللہ کو قرضِ حسنہ دو، اس حکم پر عمل ہونے کی وجہ سے خدا اور اس کا رسولؐ یقیناً اہلِ ایمان کے قرضدار ہوگئے (۲) آیۂ بیعت (۴۸: ۱۰) کی تفسیر سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۱) میں ہے: حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال جنت کے بدلے خرید لئے ہیں۔ جب امرِ واقعی یہی ہے تو خداوند تعالیٰ مومنین کا قرضدار ہے، اس کی طرف سے رسولؐ اور آنحضرتؐ کی طرف سے امامِ زمانؑ۔

 

۴۸۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۳

 

سوال – ۶۹۱: یہ آیۂ کریمہ خزائنِ قرآن میں سے ایک خزانہ ہے، جو سورۂ عنکبوت (۲۹: ۴۹) میں ہے: بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَؕ۔ آپ اس کا ترجمہ کریں  -جواب: (۱) بلکہ وہ (قرآن) بصورتِ روشن معجزات ان لوگوں (یعنی أئمّہ) کے سینوں میں ہے جن کو علم دیا گیا ہے۔ آپ شیعی تفاسیر میں بھی دیکھ سکتے ہیں (۲) یہ قرآن کی اس روحانی اور نورانی صورت کا ذکر ہے، جبکہ وہ انسانِ کامل کے عین شین میں ہوتا ہے۔

سوال – ۶۹۲: سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) میں ارشاد ہے: قَدْ جَآءَکُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ۔ اس آیۂ شریفہ کا کوئی عظیم تر راز بتائیں -جواب: (۱) اللہ کی طرف سے تمہارے پاس نور اور کتابِ مبین آئی ہے۔ اس میں سب سے عظیم راز یہ ہے کہ اس نور کا مشاہدۂ باطن ممکن ہے، جبکہ کتاب کا مشاہدۂ ظاہر ممکن ہے (۲) نورِ مجسم تو آنحضرتؐ اور علیؑ تھے، لیکن اب ظاہراً ہمارے پاس موجود نہیں، اور امامِ زمانؑ بھی قرآن کی طرح ظاہر میں ہرشخص کے پاس نہیں، اگرچہ وہ نورِمجسم ہے، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہر عاشق کے لئے

 

۴۸۵

 

مشاہدۂ نور بھی ممکن ہو، جس طرح قرآنِ حکیم سامنے ہے۔

سوال – ۶۹۳: سورۂ حدید (۵۷: ۲۸) میں ہے: اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو (جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے) اور (بحقیقت) اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ تاکہ وہ اپنی رحمت کے دو حصّے تمہیں بخش دے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دے جس کی روشنی میں تم چل سکو گے۔ یہ کونسا نور ہے؟ یہ نور کن راہوں میں چلنے کے لئے ہے؟ -جواب: (۱) یہ نورِ امامت ہے، جو نورِ قدیم اور نورِ ازل ہے، جس طرح س۔ ۶۸۸ میں ذکر ہوا (۲) یہ نور علم و حکمت کی راہوں میں چلنے کے لئے ہے، جو سلامتی کے راستے ہیں اور وہ کتابِ نفسی (عین شین) کتابِ ناطق (امام)، قرآن، اور کتابِ کائنات میں ہیں۔

سوال – ۶۹۴: سورۂ مومنون (۲۳: ۱۰۱) میں ہے: پھر جونہی کہ صور پھونک دیا گیا، ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ اور یہی آسمانی تعلیم سورۂ عَبَسَ ( ۸۰: ۳۴ تا ۳۶) میں بھی ہے: اس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ قیامت کے دن تمام رشتوں کے ٹوٹ جانے کا کیا سبب ہے؟ یہ رشتے صور کے پھونکنے سے کیوں ٹوٹ جاتے ہیں؟ پھر بہشت میں رشتوں کا ذکر کیوں ہے؟ -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ نے انسان کو بڑی عجیب و

 

۴۸۶

 

غریب مخلوق بنایا ہے، اس کی بہت سی مثالیں اور بہت سے پہلو ہیں (۲) انسان ایک اعتبار سے عالمِ اصغر ہے، دوسرے اعتبار سے عالمِ اکبر ہے، اور تیسرے اعتبار سے یہ دونوں جہان کا مجموعہ ہے (۳) پس انسان پر بہت سے احوال گزرتے ہیں، منجملہ یہ بھی ہے کہ صورِ اسرافیل کی دعوت پر ہر روح پرواز کرکے آدمِ زمانؑ کی اولاد قرار پاتی ہے، اور اس کے تمام جسمانی رشتے کالعدم ہوجاتے ہیں، کیونکہ یہ ابھی ابھی پشتِ آدمؑ سے پیدا ہوجانے کے مرحلے میں ہے۔

سوال – ۶۹۵: پھر بہشت میں رشتوں کا ذکر کیوں ہے؟ – جواب: (۱) بہشت وہ معجزاتی مقام ہے، جہاں کالعدم نعمتیں بھی دوبارہ بحال ہوجاتی ہیں، کتنی بڑی خوشی کی بات ہے کہ تم نفسِ واحدہ (آدمِ زمان = خلیفۂ خدا) کے بیٹے ہو (۲) قرآنِ پاک میں جہاں جہاں بنی آدم کا ذکر آیا ہے، وہ تمہارا ذکر ہے۔

سوال – ۶۹۶: قیامت کہاں واقع ہوتی ہے؟ دنیا میں یا آخرت میں؟ بقولِ قرآن (۱۷: ۷۱) قیامت کے ساتھ امامِ زمانؑ کا کیا تعلق ہے؟ -جواب: (۱) قیامت دنیا ہی میں واقع ہوتی ہے، مگر روحانی طور پر (۲) قیامت کے ساتھ امام کا تعلق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت امامؑ کو قیامت کا ذریعہ یعنی صاحبِ قیامت بنایا ہے، کیونکہ زمانے میں وہی نفسِ واحدہ ہے (۳۱: ۲۸) لہٰذا لوگوں کی غیر شعوری قیامت امام علیہ

 

۴۸۷

 

السّلام میں برپا ہوجاتی ہے (۳) جیسا کہ سورۂ یسٓ (۳۶: ۵۱) میں ہے: اور جب صور پھونکا جائے گا تو وہ سب قبروں سے اپنے ربّ کی طرف دوڑیں گے۔ ربّ کا لفظ (اسم) اللہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، اور انسان کے لئے بھی (۱۲: ۴۲) چنانچہ صور پھونکنے کے ساتھ لوگ فوراً ہی اللہ کے حضور نہیں جاسکتے، بلکہ صرف امامؑ کی طرف دوڑتے ہیں کہ وہی صاحبِ قیامت بھی ہے اور مرکزِ قیامت بھی (۴) اِلیٰ رَبِّھِمْ یَنْسِلُوْنَ کے خاص معنی ہیں: وہ سب اپنے مُرَبیّ اور مالک (یعنی آدمِ زمان) کی نسل قرار پاتے ہیں۔

سوال – ۶۹۷: آپ نے کہا: صور پھونکنے کے ساتھ لوگ فوراً ہی اللہ کے حضور نہیں جاسکتے، پس سوال ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ کسی آیت سے کیسے معلوم ہوگا کہ اس میں لوگ اللہ کے روبرو ہیں؟ -جواب: (۱) کسی عالمِ شخصی کو حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں آ کر عرفانی معجزات کے قابل ہونے تک پچاس ہزار سال کا عرصہ لگتا ہے (۷۰: ۰۴) تاہم صور پھونکنے کے ساتھ قیامت کا آغاز ہوجاتا ہے (۲) پھر چند سال تک لوگ منازلِ قیامت میں سفر کرتے جاتے ہیں، بالآخر وہ سب کے سب ہادئ برحق میں فنا ہو کر فردِ مجرّد ہوجاتے ہیں، اور اب اسی صورت میں وہ سب اللہ کے روبرو ہوجاتے ہیں (۳) یہ واقعہ حظیرۂ قدس میں ہوتا ہے، اور آیت کی حکمت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ مقامِ دیدار ہے۔

 

۴۸۸

 

سوال – ۶۹۸: آپ نے کہا کہ قیامت صورِ اسرافیل کی آواز کے ساتھ شروع ہوجاتی ہے، پھر آپ یہ بھی بتائیں کہ یہ کس مقام پر جا کر مکمل ہوجاتی ہے؟ -جواب: (۱) اس کی ایک مثال طوفانِ نوح ہے، اور طوفان اس وقت تھم گیا تھا، جب سفینہ کوہِ جودی (۱۱: ۴۴) پر پہنچ گیا، کوہِ جودی جبلِ عقل کی مثال ہے، جو حظیرۂ قدس میں ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کا سلسلہ حظیرۂ قدس تک جاتا ہے۔

سوال – ۶۹۹: سورۂ نازعات (۷۹: ۴۴) میں ارشادِ باری ہے: اِلٰی رَبِّکَ مُنْتَھٰھَا = اس (قیامت) کی انتہا تمہارے پروردگار تک ہے۔ آیا یہ آیت بھی یہی بتاتی ہے کہ قیامت مقامِ دیدار (حظیرۂ قدس) تک جاکر مکمل ہو جاتی ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، مگر یاد رہے کہ ایسی آیات کریمہ بہت ہیں، جن میں یہی مطلب ہے، مثلاً ہر وہ آیت جس میں رجوع الی اللہ کا کوئی آخری اشارہ ہو۔

سوال – ۷۰۰: اس باب میں یہ آیۂ شریف بڑی باحکمت ہے: وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ (۰۶: ۹۴)۔ آپ اس کی حکمت بیان کریں – جواب: (۱) ترجمہ: تم ہمارے پاس اسی طرح اکیلے اکیلے آئے جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ خطاب انسانِ کامل سے ہے جو عین شین میں نفوسِ خلائق کی ایک کائنات ہوتا ہے، مگر حظیرۂ قدس تک

 

۴۸۹

 

جاتے جاتے سب لوگ اس میں فنا ہوجاتے ہیں، اور وہ بالآخر فردِ مجرّد یا نفسِ واحدہ ہوتا جاتا ہے (۲) فرٰدٰی (اکیلے اکیلے ) میں بے شمار قیامات کا اشارہ موجود ہے (۳) الغرض یہ اس بات کی تحقیق ہے کہ قیامت میں لوگ کس طرح اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں؟ پس معلوم ہوا کہ اہلِ زمانہ اپنے امامؑ میں فنا ہوکر اسی کی وحدت کی صورت میں خدا کے پاس جاسکتے ہیں۔

 

۴۹۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۴

سوال – ۷۰۱ :  اسی اعلیٰ مضمون سے متعلق سورۂ مریم (۱۹: ۹۵) میں یہ ارشاد ہے: وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا۔ آپ اس کی وضاحت کریں -جواب: (۱) ترجمہ: اور سب لوگ قیامت کے روز فرداً فرداً اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ (۲) سب کے سب انسانِ کامل میں فنا ہوجاتے ہیں، اور وہی سب کی طرف سے فردِ مجرّد ہو جاتا ہے، چونکہ اسی میں سب کی وحدت ہے، لہٰذا یہی ایک سب کا نمائندہ ہے۔

سوال – ۷۰۲: صحیح البخاری، جلد سوم، کتاب الرقاق میں یہ حدیثِ قدسی حدیثِ نوافل کے آغاز میں ہے: اِنَّ اللہَ قَالَ: مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیّاً فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ = اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے۔ یہ حدیث قدسی کسی آیۂ قرآنی سے مربوط ہے؟ -جواب: (۱) قرآنِ حکیم کی بہت سی آیاتِ کریمہ دوستانِ خدا کے بارے میں ہیں، آپ سورۂ یونس (۱۰: ۶۲ تا ۶۴) میں بھی دیکھیں: آگاہ رہو کہ اللہ

 

۴۹۱

 

کے اولیا (دوستانِ خدا) پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی انہیں کوئی حزن و غم ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو (بحقیقت) ایمان لائے اور خدا سے ڈرتے تھے، ان ہی لوگوں کے واسطے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی بشارت ہے، خدا کے کلماتِ تامّہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوا کرتی، یہی تو عظیم کامیابی (اور سعادت) ہے۔

سوال – ۷۰۳: جب کوئی بدنصیب انسان خدا کے کسی ولی سے دشمنی کرتا ہے تو خداوند تعالیٰ اس سے اتنا ناراض کیوں ہوتا ہے کہ اس کے خلاف اعلانِ جنگ فرماتا ہے حالانکہ دنیا میں برے لوگ اور بھی بہت ہیں؟ -جواب: (۱) دوستانِ خدا زمین پر اللہ کے لشکر ہیں، اور اللہ کے کسی سپاہی سے عداوت رکھنا گویا اللہ سے دشمنی رکھنا ہے، پس ایسے بدبخت کے خلاف آسمانی جنگ کا اعلان پہلے ہی سے موجود کیوں نہ ہو۔

سوال – ۷۰۴: مذکورۂ بالا قرآنی تعلیم سے یہ معلوم ہوا کہ اولیائے خدا پہلے تو بہت ڈرتے رہتے ہیں، بعد ازان انہیں بڑی حد تک تسکین مل جاتی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ – جواب: (۱) قانونِ فطرت اور آئینِ دین یہی ہے کہ آپ آسمانی عشق اختیار کریں اور گریہ وزاری کرتے رہیں، نافرمانیوں سے ڈریں، ہر نیکی میں آگے بڑھیں، علم و عبادت اور خدمت میں بہت ترقی کریں (۲) سخت کوشش

 

۴۹۲

 

کریں کہ زندگی ہی میں عزرائیلی معجزات کو دیکھ سکیں، اگر اللہ کے ولی کی دستگیری نصیب ہوئی تو آپ نہ صرف دوستانِ خدا کو پہچان ہی سکیں گے بلکہ آپ خود بھی ان میں شامل ہوجائیں گے (۳) جب فرشتے ہر طرح کی خوشخبری سنائیں گے تو آپ کا خوف و غم ختم ہوجائے گا۔

سوال – ۷۰۵: مذکورۂ بالا آیت (۱۰: ۶۴) کا یہ حصّۂ مبارکہ وضاحت طلب ہے: لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللہِ۔ آیا اس میں کوئی راز ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں بہت بڑا راز ہے، وہ یہ کہ دوستانِ خدا (عارفین) کے لئے مقاماتِ روحانیّت پر کلماتِ تامّات ہوا کرتے ہیں، جو سرچشمۂ علم و حکمت کا کام دیتے ہیں (۲) علاوہ بران ان میں بشارتیں بھی ہیں، لہٰذا فرمایا گیا کہ اللہ کے کلماتِ تامّات میں جو جو وعدے اور جیسی جیسی بشارتیں ہیں، وہ سب کی سب بے بدل اور اٹل ہیں (۳) آپ سورۂ تحریم (۶۶: ۱۲) میں دیکھ لیں کہ آسمانی کتابیں الگ ہیں اور کلماتِ تامات الگ ہیں۔

سوال – ۷۰۶: آپ نے سورۂ تحریم (۶۶: ۱۲) کا حوالہ دیا، اس کا ترجمہ یہ ہے: اور (خدا) عمران کی بیٹی مریم کی مثال دیتا ہے جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی، پھر ہم نے اپنی روح میں سے اس میں پھونکا اور اس نے پروردگار کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی، اور وہ اطاعت کرنے والوں میں سے تھی۔ آپ اس کی

 

۴۹۳

 

تاویل بیان کریں- جواب: (۱) مریم نے اپنے کان کو اہلِ باطل کی باتوں سے محفوظ رکھا، تب خدا نے اپنے نور سے اس میں پاک روح پھونک دی، جس سے روحانی قیامت برپا ہوئی، جس کی روشنی میں اس نے اپنے ربّ کے کلماتِ تامّات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی، اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی۔ (۲) مریم سلام اللہ علیہا حدودِ دین میں سے حجّت کی مثال ہے، آپ حجّت کو عارفِ کامل بھی کہہ سکتے ہیں۔

سوال – ۷۰۷: کون کہہ سکتا ہے کہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کی عظیم الشّان گریہ وزاری عشقِ الٰہی کے نور سے خالی ہوتی تھی، آپ علم و حکمت کی روشنی میں بتائیں کہ دوستانِ خدا کی گریہ وزاری میں کیا کیا معانی جمع ہو جاتے ہیں؟ -جواب: (۱)  اس میں چند معنوں کی بات ہی نہیں، کیونکہ جب تک اعلیٰ معنوں کا ایک لشکرِ جرار نفسِ مومن پر حملہ آور نہیں ہوتا، تب تک اس سے عاشقانہ گریہ وزاری ہو نہیں سکتی ہے (۲) یقین جانو کہ عاشقانہ گریہ و زاری روحانی ترقی کا اساسی معجزہ ہے، جس کے بغیر رحمتِ الٰہی کے دروازے نہیں کھلتے ہیں۔

سوال – ۷۰۸: حدیثِ شریف ہے: لَا تَدْخُلُ الْمَلاَ ئِکَۃُ بَیْتاً فِیْہِ کَلْبٌ وَّلَا تَصَاوِیْرُ = فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جہاں کتا ہو یا مورتیں ہوں۔ آپ اس کی باطنی حکمت (تاویل) بتائیں

 

۴۹۴

 

-جواب: (۱) فرشتے اس دل میں داخل نہیں ہوتے جس میں غصے کا کتا موجود ہو یا دنیوی عشق کی تصویریں ہوں (۲) دل کے گھر میں غیض و غضب کا کتا نہ ہو، اور اصنام (بتُ یا بتوں کی تصویریں) نہ ہوں، اور ہر آلائش سے قلب پاک ہو تو اس میں رحمت اور علم کے فرشتے آسکتے ہیں۔

سوال – ۷۰۹: قرآنِ حکیم میں اصنام پرستی کی سختی سے مذمت کی گئی ہے، آیا صنم پرستی جیسا شرک صرف ظاہرتک محدود ہے یا اس کی جڑیں باطن میں مضبوط ہیں؟ -جواب: (۱) بڑی مہلک قسم کی اصنام پرستی تو باطن میں پائی جاتی ہے، جس سے چھٹکارا پانا ہر شخص کے بس کی بات نہیں، مگر اللہ اپنے دوستوں کے قلوب میں اپنی پاک محبت کو بھر دیتا ہے، جس سے وہ اغیار کی محبت سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔

سورل – ۷۱۰: یہ عالیشان آیت جس کی تعریف کرنے سے ہم عاجز ہیں سورۂ رعد (۱۳: ۲۸)  میں ہے: اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ = خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔ آپ ذکرِ الٰہی کی کوئی عظیم حکمت بتائیں -جواب: (۱) ذکرِ الٰہی کی کئی قسمیں اور چند درجات ہیں، ذکر پر ہماری ایک تصنیف بھی ہے جو ذکرِ الٰہی کے نام سے شائع ہوچکی ہے (۲) اصل ذکر زندہ اسمِ اعظم پر ہوا کرتا ہے، اسی سے حاصل شدہ اطمینان کی سیڑھی حظیرۂ قدس کی بلندیوں تک پہنچی ہوئی ہے (۳) اللہ تبارک

 

۴۹۵

 

و تعالیٰ جس چیز کو اطمینان کے نام سے یاد فرماتا ہے، وہ ہے اطمینانِ کلّی، اور وہ سب سے بڑا خزانہ “بہشت برائے معرفت” ہے۔

 

۴۹۶

 

صندوقِ جواہر۔ ۵

 

سوال – ۷۱۱: سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۴ تا ۲۵) میں جس کلمۂ پاک اور جس شجرۂ پاک کی مثال بیان ہوئی ہے، اس کو بار بار پڑھنا اور سمجھنا علمی عبادت ہے، لہٰذا آپ ہمیں اس کی کوئی حکمت بتائیں -جواب: (۱) پاک کلمہ اسمِ اعظم ہے جو امامِ زمانؑ کی طرف سے عطا ہوتا ہے جو عین شین میں کام کرتا ہے (۲) پاک شجرہ (درخت) پیغمبرؐ اور امامؑ ہیں کہ اصل (جڑ) اور تنہ رسولؐ ہیں اور فرع فی السماء امامؑ ہے (۳) یہ شجرِ پاک اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت نورانی ہدایت اور علم و حکمت کا پھل دیتا رہتا ہے (۴) اس ارشادِ مبارک کی ہر حکمت از بس قابلِ توجہ ہے۔

سوال – ۷۱۲: یقیناً عملی عبادت سے علمی عبادت افضل ہے، اس لئے آپ قرآن و حدیث کی جن خاص حکمتوں کو بار بار بیان کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، کیونکہ عبادت ہمیشہ ہوتی رہتی ہے، پس یہاں بہت بڑا سوال ہے کہ آیا قرآنِ حکیم کی ہر آیت کا معنوی رخ امامِ مبین کی طرف ہے؟ -جواب: (۱) کیوں نہیں، جبکہ ہر لطیف شَیٔ امامِ مبین

 

۴۹۷

 

میں گھیری ہوئی ہوتی ہے، جبکہ امامِ عالیمقام کا نور لوحِ محفوظ ہے، جس میں قرآنِ کریم بحالتِ نورانیّت موجود ہے (۲) پس ہر آیت کے باطنی معنی (تاویل) امام علیہ السّلام میں ہوتے ہیں، ان معنوں کو صرف اہلِ حکمت ہی جانتے ہیں۔

سوال – ۷۱۳: آپ ہمیں حضرتِ امام علیہ السّلام کا کوئی ایسا مبارک فرمان بتائیں، جس میں روحانی معجزے کی مثال مادّی سائنس سے دی گئی ہو – جواب: (۱) وہ مثال یہ ہے: مومن کا دل ٹیلیگراف اور ٹیلیفون کی طرح ہے، جس کے ایک سرے پر مرشد ہے، اور دوسرے سرے پر مومن ہے، …. (امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام )۔

سوال – ۷۱۴: فرمانِ اقدس ہے: حقیقی مومن ہر جگہ خدا کو دیکھتا ہے۔ اس کی توضیح و توجیہہ کس طرح سے ہے؟ -جواب: (۱) قرآنِ پاک میں ہے: فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ (۰۲: ۱۱۵) پس تم لوگ جس طرف منہ کرو اُدھر (ہی) اللہ تعالیٰ کا رخ ہے۔ (۲) کیونکہ وہ ہر جگہ حاضرو ناظر ہے، ہر جگہ اس کی قدرت، نور، اور معجزہ ہے (۳) حقیقی مومن (عارف) کو ایسی باکمال بصیرت عطا ہوئی ہے کہ وہ بہت سے معنوں میں خدا کو دیکھتا ہے (۴) خداوند تعالیٰ تجلّیات و ظہورات کا مالک ہے، جن کا مشاہدہ صرف عارف ہی کرسکتا ہے۔

 

۴۹۸

 

سوال – ۷۱۵: سورۂ حدید (۵۷: ۰۳) میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفاتی میں سے چار ایسے اسماء مذکور ہیں، جن میں یقیناً نورِ معرفت کی دعوت ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟ ۔جواب: (۱) جی ہاں، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ان مبارک اسماء میں سے ہر لحظہ معرفت کی روشنی جگ مگ جگ مگ کر رہی ہے (۲) وہ اسمائے مبارک یہ ہیں: الاوّل، الآخر، الظاہر، الباطن، خدا کے ان بابرکت ناموں کا انتخاب معرفت ہی کی غرض سے ہے (۳) مظہریّت اور معرفت کے معنی میں یہی پاک اسماء رسولِ کریمؐ اور امامِ مبینؑ کے لئے بھی ہیں۔

سوال – ۷۱۶: ان اسمائے گرامی میں سے “الظاہر” کی مزید وضاحت ضروری ہے-جواب: (۱)  الظاہر کا مطلب النور بھی ہے، پس النور اور الظاہر کے مظہر محمد و علی علیہما السّلام ہیں، اسی مقصد کے پیشِ نظر اللہ نے ان کو بھی نور بنایا ہے (۲) اب معلوم ہوا کہ یہ چار اسماء دوسرے تمام اسماء میں سے منتخب کیوں ہیں؟ اور ان میں الظاہر کا اسم کیوں ہے؟ جی ہاں، یہ اللہ کی طرف سے لوگوں کے لئے منصوبۂ معرفت ہے۔

سوال – ۷۱۷: سورۂ دہر (۷۶: ۲۱) میں فرمانِ الٰہی ہے: وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا = اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا۔ اس ارشاد میں کیا تاویلی حکمت ہے؟ -جواب:

 

۴۹۹

 

(۱) شرابِ طہور حقیقی عشق بھی ہے اور روحانی علم بھی ہے، کیونکہ دل و جان کی انتہائی پاکیزگی اور اعلیٰ درجے کی خوشی اسی میں ہے (۲) چونکہ اس میں دیدارِخداوندی کا واضح اشارہ ہے، لہٰذا عشق اور علم کے معنی لازمی ہیں (۳) ہم نے قبلاً لکھا ہے کہ دیدارِاقدس میں بہت سے حکمتی اشارے ہوا کرتے ہیں (۴) مذکورہ آیۂ شریفہ کے مطابق شرابِ طہور پلانے والا حضرتِ ربّ خود ہے، ایسے میں تجلّیات و ظہورات کی گوناگونی ممکن ہے۔

سوال – ۷۱۸: آپ مانتے ہیں کہ بہشت میں ربِّ تعالیٰ کی گوناگون تجلّیات و ظہورات ہیں، آپ بتائیں کہ اس کی دلیل کیا ہے؟ -جواب: (۱) اس کی دلیل بڑی روشن اور قابلِ تعریف ہے، وہ یہ کہ اہلِ جنّت کو ہر وہ نعمت مل جاتی ہے، جسے وہ چاہتے ہوں (۲) یہ دلیل اس دانشگاہ میں زبان زدِ خاص و عام ہوگئی ہے کہ بہشت میں کوئی نعمت غیر ممکن نہیں، اور یہ ساری باتیں قرآن ہی کی روشنی میں ہیں (۳) بہشت میں خوش منظر اور قابلِ دید نعمتوں کی فراوانی ہے (۳۲: ۱۷، ۴۳: ۷۱) جن کو دیکھنے سے بے قیاس لذّت اور شادمانی ہوتی ہے۔

سوال – ۷۱۹: ذاتِ سبحان کے اسماء الحُسنیٰ کیا ہیں یا کون ہیں؟ -جواب: (۱) اسماء الحُسنیٰ انبیاء و أئمّۂ علیہم السّلام ہیں، لہٰذا بہشت میں ان میں سے ہر ایک آئینۂ تجلّی ہے، اس کے علاوہ بہشت میں جو بھی

 

۵۰۰

 

داخل ہوجاتے ہیں، وہ اپنے باپ آدم کی صورت پر ہوجاتے ہیں، اور آدم رحمان کی صورت پر تھا (۲) اس سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ بہشت میں جاکر سب لوگ صورتِ رحمان میں فنا ہوجاتے ہیں، پس معشوقِ حقیقی کا دیدار گوناگون تجلّیات کا عالم ہے۔

سوال – ۷۲۰: آپ نے قرآنِ حکیم (۱۵: ۲۱) کے حوالے سے کہا تھا کہ جس طرح دنیا کی چیزیں خزائنِ الٰہی سے آئی ہیں، اسی طرح انسانی صورت بھی اللہ کے ایک خزانے  سے آئی ہے، وہ خزانہ کونسا ہے؟ -جواب: (۱) وہ سب سے عظیم اور سب سے مقدّس خزانہ معجزۂ صورتِ رحمان ہے۔

 

۵۰۱

 

 

 

 

 

 

صندوقِ جواہر۔ ۶

 

سوال – ۷۲۱: قرآنِ حکیم میں کل ۱۷ (سترہ) دفعہ لفظِ تاویل آیا ہے، آپ یہ بتائیں کہ تاویل کیا ہے؟ اور جب جب تاویل آتی ہے تو کس طرح آتی ہے؟ -جواب: (۱) تاویل کی لفظی تحلیل تو کتبِ لغت میں کی گئی ہے، لہٰذا ہم تاویل کی ما ہیّت بیان کرتے ہیں کہ جب کسی عارف پر ذاتی اور روحانی قیامت واقع ہونے لگتی ہے تو یہ اس کے لئے تاویل آنے کا آغاز ہے (۲) کیونکہ عین شین میں سرتاسر قیامت ہی تاویل ہے، جس میں آسمانی کتاب کے اسرار موجود ہیں (۳) ہر امام کے ساتھ قیامت اور تاویل ضرور ہے، لیکن اس کی ضرورت زیادہ سے زیادہ اس وقت ہوتی ہے، جبکہ احوالِ زمانہ بدل چکے ہوتے ہیں، جیسے عصرِ حاضر کے حالات ہیں۔

سوال – ۷۲۲: آیا کچھ دوسرے الفاظ بھی ہیں، جن میں تاویل کے معنیٰ موجود ہوں؟ اگر ہیں تو وہ کون کونسے الفاظ ہیں -جواب: (۱) جی ہاں، ایسے ہم معنی الفاظ تو بہت ہیں، ان میں سے چند کو ہم یہاں درج کرتے ہیں: حکمت، باطن، روحانیّت، نورانیّت، بصیرت،

 

۵۰۲

 

مشاہدہ، یقین، معرفت، رؤیّت، لقاء، بیان، شہادت (حاضری) (۲) عالمِ شخصی، حظیرۂ قدس، علم الروح، علم الاسماء، علمِ حقائقِ اشیاء، علم القیامت، علم الآخرت، علم الاسرار وغیرہ (۳) بعض مترادفات لغات کے مطابق ہوتے ہیں، مگر جو مترادفات حکمت کی رو سے ہیں، وہ بڑے عجیب و غریب ہیں۔

سوال – ۷۲۳: قرآنِ حکیم کے نہایت اعلیٰ اور حکمت سے لبریز الفاظ میں سے ایک بابرکت لفظ الفرقان ہے، جو قرآنِ پاک کے سات مقامات پر موجود ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ الفرقان عظیم معجزات کے معنوں میں آیا ہے، اب آپ سورۂ انفال (۰۸: ۲۹) میں دیکھیں: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لئے ایک فرقان (؟ ) مقرر کرے گا اور تمہاری برائیوں کو تم سے دور کرے گا اور تمہارے قصور معاف کرے گا، اور اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ پس آپ بتائیں کہ یہاں فرقان کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ نورِ ہدایت؟ راہِ روحانیّت؟ معجزۂ علم و حکمت؟ -جواب: (۱) جیسا کہ آپ حکمتِ بالغہ کے قانون کو جانتے ہیں، حق بات تو یہ ہے کہ یہاں فرقان سے نورِ ہدایت مراد ہے، جس کی معجزاتی کسوٹی درجہ بدرجہ کام کرتی ہے (۲) فُرْقاناً = نورِ ہدایت جو حق کو باطل سے جدا کرتا ہے، اور یہ صراطِ مستقیم پر رہنمائی کا کام کر رہا ہے، لہٰذا اس کا معجزہ درجہ وار ہے۔

 

۵۰۳

 

۷۲۴: بہت خوب وضاحت ہوئی کہ نورِ ہدایت کا معجزہ یعنی فرقان پرہیزگاروں کے لئے درجہ بدرجہ کام کرتا ہے، گویا یہ نورانی سیڑھی ہے اور اس کا بالائی سرا حظیرۂ قدس سے متصل ہے، ایسے میں یہ پوچھنا ضروری ہوگیا کہ آیا یہ معجزہ (فرقان) دراصل نورِ منزل اور کتابِ مبین (۰۵: ۱۵) کا معجزہ نہیں ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، بالکل درست ہے، یہ وہی نورِ ہدایت اور قرآن ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ معجزہ فرقان کے نام سے ہے، جبکہ نور اور قرآن کی باطنی وحدت کا نام فرقان ہے (۲) اس سے معلوم ہوا کہ خدا ترسی کی بڑی حد تک کمی ہے، ورنہ نور اور قرآن کا معجزہ (فرقان) دور نہیں۔

سوال – ۷۲۵: قرآنِ حکیم (۱۸: ۵۴) میں ہے: اور ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں (کے سمجھانے) کے واسطے ہر طرح کی مثالیں پھیر بدل کر بیان کر دی ہیں مگر انسان تمام مخلوقات سے زیادہ جھگڑالو ہے (نیز ۱۷: ۸۹) اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب سے آخری اور سب سے اعلیٰ حقیقت ایک ہی ہے، مگر اس کی مثالیں طرح طرح سے دی گئی ہیں، آپ بتائیں کہ وہ حقیقت کیا ہے؟ ہر مثال میں وہی ایک حقیقت پوشیدہ کس طرح ہوسکتی ہے؟ -جواب: (۱) شاید اس بات سے کسی کو انکار ہی نہیں ہوگا کہ انسان جس عظیم مقصد کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہے، وہ معرفت ہی ہے، اور تمام مثالیں اسی کے سلسلے میں ہیں (۲) مثالوں کی کثرت میں علم و حکمت کی فراوانی ہے، مگر ان سب کا

 

۵۰۴

 

آخری جوہر ایک ہی ہے، جس میں ایک ہی حقیقت جھلکتی ہے، اور وہ معرفت ہی ہے۔

سوال – ۷۲۶: قرآنِ پاک کی مختلف مثالوں کا ایک ہی مطلب کس طرح ہوسکتا ہے؟ -جواب: (۱) خداوند تعالیٰ القابض بھی ہے اور الباسط بھی، اس لئے جب وہ تمام مثالوں کو حظیرۂ قدس میں لپیٹ لیتا ہے، تو وہاں یہ سب اپنے جوہر کی وجہ سے معرفت ہی معرفت ہوجاتی ہیں، اور جب سے اس نے ان کو قرآن میں پھیلائی ہیں، تب سے یہ یہاں مختلف مثالیں ہیں۔

سوال – ۷۲۷: آدمی پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے بے شمار و بے پایان احسانات ہیں، کہ اس ذاتِ بابرکات نے اپنے فضل و کرم سے ہر شخص کو چار عالم کا مالک بنایا ہے، وہ عالمِ بیداری، عالمِ خیال، عالمِ خواب، اور عالمِ روحانیّت ہیں، اس میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، بالکل درست اور حقیقت ہے، اور میرا نظریہ بھی یہی ہے، عالمِ بیداری کی اپنی خصوصیات کی وجہ سے ایک بہت بڑی شان ہے، یہ بیحد و بے حساب ظاہری نعمتوں کی کائنات ہے (۲) بہت سے لوگوں نے ابھی تک عالمِ خیال کے عجائب و غرائب کی طرف توجہ ہی نہیں دی، کم از کم خیال کی رفتار پر غور ہونا چاہیئے، جس کے مقابلے میں برق کی رفتار کچھ بھی نہیں،

 

۵۰۵

 

ان شاء اللہ ہم آپ کو بتائیں گے کہ اس میں کیا راز ہے۔

سوال – ۷۲۸: آپ نکاتِ بالا کی مزید وضاحت کریں۔ ۔جواب: (۱) قوّتِ خیال ایک زبردست جنّ یا ایک طاقتور فرشتہ ہے، لیکن انسان کے درجۂ کمال کے بعد، کل عالمِ روحانی میں فرشتۂ خیال آپ کے لئے انتہائی سرعت کے ساتھ کام کرے گا (۲) قوّتِ خیال اللہ کے زندہ معجزات میں سے ایک فرشتہ اور ایک عظیم کائنات ہے، وہ ظاہر و باطن کی ہر ہر نعمت کو لے کر آپ کے سامنے حاضر ہے (۳) اسی طرح اپنے بے شمار عجائب و غرائب کے ساتھ خواب بھی ایک زندہ جہان ہے، اور روحانیّت تو اس دنیا میں بہشت برائے معرفت ہے۔

سوال – ۷۲۹: داعیٔ قیامت کون ہے؟ اللہ تعالیٰ؟ اسرافیل؟ نورِ نبی؟ نورِ امام؟ یا دیگر حدودِ دین؟ -جواب: (۱) خداوندِ قدوس بادشاہ حقیقی ہے، وہ ہر کام کے لئے حکم کرتا ہے، اسرافیل دعوتِ قیامت کا مؤکل ہے، رسولِ پاکؐ دینِ حق (اسلام) کے داعیٔ کل ہیں (۳۳: ۴۶) امامِ زمانؑ نمائندۂ خاص برائے قیامت ہے (۱۷: ۷۱) اور حدودِ دین لشکرِ قیامت کے مقدم ہیں۔

سوال -۷۳۰: سورۂ قمر (۵۴: ۰۶) میں ہے: یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ

 

۵۰۶

 

اِلٰى شَیْءٍ نُّكُرٍ = جس دن بلانے والا ایک انجان اور ناگوار چیز کی طرف بلائے گا۔ یہ داعی کون ہے؟ انجان اور ناگوار چیز کیا ہے؟ -جواب: (۱) یہ داعی (بلانے والا ) اسرافیل ہے، انجان اور ناگوار چیز قیامت ہے، کیونکہ لوگوں کے پاس نہ تو قیامت کا علم ہے اور نہ معرفت۔

 

۵۰۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۷

 

سوال – ۷۳۱: سورۂ توبہ (۰۹: ۵۲ ) کے حوالے سے سوال ہے: إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ (دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی) کا کیا مطلب ہے؟ -جواب: (۱) مثال کے طور پر زمانۂ نبوّت میں لشکرِ اسلام کی فتح یا شہادت دو بھلائیوں میں سے ایک تھی (۲) اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں، مطلب یہ ہے کہ بندۂ مومن نیک کاموں کے لئے حقیقی معنوں میں سعی کرتا ہے، کامیابی ہو یا نہ ہو، ہر حالت میں اس کے لئے بھلائی یعنی ثواب ہے۔

سوال – ۷۳۲: آپ اربعین (۴۰) کی اہمیت و عظمت کی چند مثالیں بتائیں -جواب: (۱) اس کے بارے میں قبلاً لکھا گیا ہے، تاہم یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر ۴۰ مومنین کسی مومن کے جنازے پر نماز پڑھتے ہیں اور اس کے لئے خوب دعا بھی کرتے ہیں تو یہ ان کی وجہ سے قبول ہو جاتی ہے، یہ روایت مولا علی علیہ السلام سے ہے (دعائم الاسلام، کتاب الجنائز)۔

 

۵۰۸

 

سوال – ۷۳۳: علم و حکمت کی فضیلت و برتری کے باب میں بہت سی قرآنی آیات ہوسکتی ہیں، لیکن آپ اس سلسلے میں ہمیں صرف چند آیات کی نشاندہی کریں -جواب: (۱) اگرچہ مطالعۂ قرآن کی پہلی نگاہ میں اہلِ ایمان کی سب سے اعلیٰ صفت تقویٰ اور خوفِ خدا ہے، لیکن حقیقی معنوں میں خدا سے ڈرنے والے عُلَماء (أئمّہ علیہم السّلام) ہی ہوتے ہیں (۳۵: ۲۸) اس سے معلوم ہوا کہ خداوند تعالیٰ نے تقویٰ اور علم کو بہت بلندی پر رکھا ہے، اور وہ بلندی مرتبۂ امامت ہے۔

سوال – ۷۳۴: دوسری آیت کی طرف اشارہ کریں -جواب: (۱) سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۸) میں ہے: خدا نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور (یہی شہادت) تمام فرشتوں نے بھی دی ہے، اور صاحبانِ علم (انبیاء وأئمّہ) نے بھی (یہی شہادت) ح دی ہے، جو انصاف پر قائم ہیں۔ (۲) اللہ پاک نے اپنی وحدانیّت کی گواہی علم سے دی ہے، فرشتوں نے یہی گواہی علم و معرفت کی روشنی میں دی ہے، اور یہی گواہی صاحبانِ علم نے بھی علم و معرفت کی روشنی میں دی ہے، تاہم خدا نے اولوالعلم کو انصاف کی صفت سے بھی نوازا، اور ہر معاملے میں انصاف کی ضرورت لوگوں کو پیش آتی ہے (۳) چونکہ یہ علمی انصاف کا تذکرہ ہے، لہٰذا خدا و رسولؐ کی طرف سے انصاف یہ ہوا ہے کہ ہر زمانے میں علم و حکمت کا سرچشمہ قائم اور

 

۵۰۹

 

جاری ہے، اور علم و حکمت کی برتری یہ ہے کہ وہ ایک عظیم الشّان نور ہے۔

سوال – ۷۳۵: تیسری آیت کی نشاندہی کریں -جواب: (۱) سورۂ زمر (۳۹: ۰۹) میں ارشاد ہے: قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الأَلْبَابِ= ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکسان ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں۔ (۲) اس تعلیمِ ربّانی کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں جو حقیقی علم والے ہیں، وہ سب سے بہتر اور برتر ہیں، یہی لوگ صاحبانِ عقل ہیں، اور قرآنِ پاک کی حکیمانہ نصیحت (علم و حکمت ) عقل و علم والے ہی قبول کرتےہیں (۳) اس سے علم و دانش کی برتری روشن ہو جاتی ہے۔

سوال -۷۳۶: آج کی دنیا میں بہت سے علوم مشہور ہیں، اور ہر علم اپنے میدان میں بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے، پس آپ بتائیں کہ قرآنِ عظیم جس علم کو بڑی زبردست اہمیّت دیتا ہے، اور جس کی انتہائی تعریف کرتا ہے، وہ علم کونسا ہے؟ -جواب: (۱) وہ علمِ دین ہے، چونکہ وہ ہمہ رس، ہمہ گیر، اور کائناتی ہے، لہٰذا اس کے بہت سے نام ہیں (۲) جیسے علم الاسماء (علمِ حقائقِ اشیاء)، علمِ روحانی، علم توحید، علمِ باطن، حکمتِ دین، علم تاویل، علمِ الآخرت، معرفت وغیرہ۔

 

۵۱۰

 

سوال – ۷۳۷: آپ علمِ دین کی کچھ تعریف و توصیف کریں -جواب: (۱) علم کنزِ ازل ہے، نورِ ازل ہے، گوہرِ بحرِ ازل ہے، گنجینۂ اسرارِ ازل ہے، یہ وہ کتابِ مکنون ہے، جس کو نہ تو کوئی پا سکتا ہے اور نہ ہی چھو سکتا ہے مگر وہ لوگ جو پاک کئے گئے ہیں (۲) قرآن علم و حکمت کے موتیوں کا بحرِ عمیق ہے، امام قرآنِ ناطق یعنی علم و حکمت کی بولتی کتاب ہے (۳) کائنات و موجودات کی کوئی ایسی چیز نہیں، جس میں علم کا کوئی عجیب و غریب راز نہ ہو، پھر قرآن کی کوئی چیز کس طرح علم و حکمت سے خالی ہوسکتی ہے، جبکہ اس کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، اور اس کے باطن درباطن کا سلسلہ سات یا ستر تک جاتا ہے۔

سوال – ۷۳۸: قرآنِ حکیم کی معرفت کے سلسلے میں یہ ایک اہم سوال ہے: آیا قرآنِ پاک آنحضرتؐ پر بتدریج نازل ہوا ہے یا مجموعاً ایک ہی دفعہ عطا ہوا ہے؟ جیسا کہ سورۂ حجر (۱۵: ۸۷) میں ہے؟ -جواب: (۱) ہر آسمانی کتاب بحکمِ خدا کسی پیغمبر پر بتدریج بھی نازل کی گئی ہے اور مقامِ معراج پر مجموعاً بھی عطا ہوئی ہے (۲) کیونکہ وہاں خزانے ہی خزانے عطا ہوجاتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو کائناتیں عنایت فرماتا ہے۔

سوال – ۷۳۹: بحوالۂ سورۂ بَیِنہ (۹۸: ۰۲ تا ۰۳) سوال ہے کہ

 

۵۱۱

 

یہاں قرآن کا ایک نام صُحُف آیا ہے، جس کے معنی ہیں: صحیفے، کتابیں، نوشتے، اوراق، اس کے بعد ارشاد ہے: فیھا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ = اس میں مضبوط کتابیں ہیں۔ آپ بتائیں قرآنِ حکیم کس طرح صُحُف (صحیفوں کی جمع ) ہے؟ اور کس طرح قرآن میں مضبوط اور قائم رہنے والی کتابیں ہیں؟ – جواب: (۱) قرآنِ پاک اگلی آسمانی کتابوں / الکتاب کا محافظ و نگہبان بھی ہے (۰۵: ۴۸) اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بھی قرآن کے معجزات میں سے ہے کہ اس میں سابقہ کتب سماوی کے خلاصے بھی موجود ہیں اس اعتبار سے اس کا نام صحف ہے (۲) قرآنِ حکیم کا ہر مضمونِ عالی بجائے خود ایک مضبوط و مستحکم کتاب ہے، اس میں صاحبانِ عقل کے لئے یہ اشارہ بھی ہے کہ ہر مضمون کو تمام متعلقہ آیات کے ساتھ پڑھیں۔

سوال – ۷۴۰: سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۱۳) میں ہے: سب لوگ ایک ہی طریق کے تھے، پھر اللہ نے پیغمبروں کو بھیجا جو کہ خوشی (کے وعدے) سناتے تھے اور ڈراتے تھے، اور ان کے ساتھ کتابِ برحق (الکتاب) نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے تھے، ان کا فیصلہ کرے۔ اس میں پہلا سوال یہ ہے: لوگ کب اور کہاں ایک ہی طریق پر تھے؟ دوسرا سوال: آیا تمام پیغمبروں پر ایک ہی کتاب نازل کی گئی ہے جس کا نام “الکتاب” ہے؟ – جواب: (۱) حدیثِ شریف کے مطابق سب لوگ حالتِ روحانی میں جمع شدہ لشکر کی حیثیت سے ایک ہی گروہ ہیں، لیکن حالتِ جسمانی میں ان

 

۵۱۲

 

کے درمیان اختلافات ہیں، درحالے کہ ان کی طرف انبیاء علیہم السّلام بھیجے گئے ہیں (۲) جملہ آسمانی کتابیں دراصل ایک ہی ہیں، کیونکہ وہ سب کی سب خدائے واحد کے پاک کلام پر مبنی ہیں، یہی وجہ ہے کہ کتبِ سماوی کا مجموعی نام الکتاب مقرر ہوا۔

 

۵۱۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۸

 

سوال – ۷۴۱: حدِّ قوّت اور حدِّ فعل کے بارے میں مثال پیش کرکے سمجھائیں کہ ان دونوں کے درمیان کیا فرق ہے؟ -جواب: (۱)  ان دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے، قرآنِ حکیم میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں، جیسے سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں ارشاد ہے: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمان میں اور جو کچھ زمین میں ہے، سب کو اللہ نے تمہارے لئے مسخر کردیا ہے، اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دی ہیں۔ چونکہ یہ تسخیرِ کائنات وہ نہیں، جس طرح لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ یہ فنا فی اللہ و بقاء باللہ کے درجے کی روحانی سلطنت ہے، لہٰذا یہ سب سے عظیم نعمت خاصانِ خدا کو بحدِّ فعل حاصل ہے، اور باقی سب کے لئے یہ نعمت ھنوز بحدِّ قوّت ہے۔

سوال – ۷۴۲: سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) کا ایک مفہوم ہے: اور زمینِ کائنات میں اہلِ یقین کے لئے آیات و معجزات ہیں، اور یہ تمام معجزات تمہارے نفوس میں بھی ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے؟ آپ اس

 

۵۱۴

 

کی وضاحت کریں -جواب: (۱) اس ارشاد میں لوگوں کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ موقنین (اہلِ یقین) کے پیچھے پیچھے آفاق و انفس میں معجزات کو دیکھیں، تاکہ ان کو گنجِ معرفت حاصل ہوجائے (۲) ہر شخص کی ذات میں بحدِّ قوّت (بحدِ امکان) ہر چیز اور سب کچھ موجود ہے، لیکن اسے علم و عمل کے ذریعے سے حدِّ فعل میں لانے کی دیر ہے۔

سوال – ۷۴۳: آپ کے بہت ہی عزیز شاگرد کبھی کبھی ٹیلیفونک سوالات بھی کرتے رہتے ہیں، اگر علم و حکمت کے مسائل ہیں تو آپ شادمان ہوجاتے ہیں، چنانچہ آج صبح (۶ ؍جولائی ۱۹۹۹ء) اٹلانٹا (امریکہ) سے موکھی نزار علی کچھ سوالات کر رہے تھے، اور آپ بڑی خوشی سے جواب دے رہے تھے، کیا آپ اس کا کوئی خلاصہ بتا سکتے ہیں؟ -جواب: (۱) ہمارے تلامیذ جو مغرب میں ہیں، وہ سب کے سب حقیقی علم کے عاشق ہیں، لہٰذا وہ ہر وقت علمی تجلّیات کے لئے بے تاب و بیقرار رہتے ہیں (۲) پس میں موکھی نزار علی کے سوالات سے بھی اور ان کی علمی ترقی سے بھی خوش ہوں، اور وہاں عاشقانِ مولا اور بھی ہیں (۳) سلسلۂ سوال و جواب میں بڑی عمدہ باتیں تھیں، وہ ان سطور سے زیادہ ہیں۔

سوال – ۷۴۴: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۱۰۴) میں ارشاد ہے کہ قیامت کے دن اللہ لوگوں کو لپیٹ کر اپنے حضور کی طرف لے جاتا

 

۵۱۵

 

ہے، اس امرِ واقعی کی کیفیت کس طرح سے ہے؟ -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ کی وہی سنتِ بے بدل ہے جس کا بار ہا ذکر ہوچکا ہے کہ زمانے کے امام کے ذریعے سے روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، جس میں عالمِ انسانی نفسِ واحدہ میں لپیٹ لیا جاتا ہے، (۲) یعنی جس طرح آدم سے نفوسِ خلائق پھیلائے گئے تھے، اسی طرح سب کے سب واپس وارثِ آدم یا آدمِ زمان میں لپیٹ لئے جاتے ہیں (۳۱: ۲۸)۔

سوال – ۷۴۵: جنّ اور پری میں کیا فرق ہے؟ اگر میں کہوں: “پری مرد اور پری عورت” تو کیا یہ بات غلط ہوگی؟ -جواب: (۱) جنّ اور پری میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ ایک ہی لطیف مخلوق اور ایک ہی قوم ہے، جس کو عربی میں جنّ اور فارسی میں پری کہتے ہیں (۲) چونکہ “پری” قوم کا نام ہے اس لئے پری مرد اور پری عورت کہنا بالکل درست ہے (۳) لفظِ پری “پریدن” کا مخفف ہے، جس کے معنی ہیں پرواز کرنا، چونکہ یہ مخلوق (جنّ = پری) برق رفتاری سے آتی جاتی ہے، لہٰذا پری (پریدن = اُڑنا) اس کا نام مقرر ہوا۔

سوال – ۷۴۶: کہتے ہیں کہ جب مومن کثیف سے لطیف ہو جاتا ہے، یعنی جب اس کو زندہ جسمِ لطیف مل جاتا ہے، تو اسی سے وہ پری ہوجاتا ہے، آپ چاہیں تو اس کو فرشتہ یا جنّ بھی کہہ سکتے ہیں، کیا یہ بات درست ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، یہ بات یقیناً درست

 

۵۱۶

 

ہے، کیونکہ جب مومن کی روحانی ترقی ہوتی ہے تو وہی پری، جنّ، فرشتہ، اور انسانِ کامل ہوجاتا ہے (۲) اس نوعیت کے بے شمارمعجزے عالمِ شخصی میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔

سوال – ۷۴۷: ارشادِ نبوّی ہے: اِنّ لِکُلِّ شَیْءٍ قَلْباً وَّقَلْبُ الْقُرْاٰنِ یٰسٓ  = ہر چیز کا دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۂ یٰسٓ ہے۔ آپ اس کی حکمت بتائیں -جواب: (۱) ہر چیز کا قلب اس کی نوعیت اور ضرورت کے مطابق ہوا کرتا ہے، چنانچہ قرآن کا قلب نور (۰۵: ۱۵) اور روح (۴۲: ۵۲) ہے اور سورۂ یٰسٓ میں اسی مبارک قلبِ قرآن کا ذکرِ جمیل موجود ہے (۳۶: ۱۲) (۲) قرآنِ حکیم کی حکمت سمجھنے کے لئے لغات کے الفاظ کافی نہیں ہوسکتے ہیں، جب تک کہ آسمانی لغات و تفسیر یعنی خود قرآن میں خوب غور نہ کیا جائے۔

سوال – ۷۴۸: قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کی سب سے کامل و مکمل اور بے مثال و لاجواب کتاب ہے، تاہم قرآن فرماتا ہے کہ خدا کے پاس ایک بولنے والی کتاب بھی ہے (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) کیا اللہ کی یہ دونوں کتابیں قطعاً الگ الگ ہیں یا مربوط ہیں؟ اگر الگ الگ ہیں تو اِس میں اُس کی کمی ہوگی، اور اُس میں اِس کی کمی، آپ بتائیں کہ حقیقت کیا ہے؟ -جواب: (۱) خداوند تعالیٰ کی کتابِ صامت اور کتابِ ناطق دونوں بظاہر الگ الگ بباطن مربوط اور ایک ہیں، یہی تو کمالِ

 

۵۱۷

 

معجزہ اور لوگوں سے زبردست امتحان ہے (۲) ہم سب قرآنِ مقدّس کو معجزۂ محمدی تو کہتے ہیں، لیکن اے کاش ہم کو اس کے عظیم روحانی معجزات کی معرفت یا خبر ہوتی !

سوال – ۷۴۹: کیا آپ قرآنِ حکیم کے عظیم روحانی معجزات کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟ -جواب: (۱) ان شاء اللہ، خوب یاد رہے کہ قرآن خدائے لایزال کا قدیم کلام ہے، اس کے اوّلین ظہورات و معجزات مقامِ ازل یا بہشت برائے معرفت میں ہیں (۲) قرآن امر ہے، اس لئے یہ ہمیشہ کلمۂ کنۡ میں متجلّی ہے، قرآن عقل اور علم و حکمت ہے، لہٰذا یہ قلمِ اعلیٰ (عقلِ کلّی) کا دائمی معجزہ ہے (۳) قرآن کے اسرار کبھی ختم نہیں ہوتے، یہی سبب ہے کہ قرآن کتابِ مکنون میں بھی ہے اور لوحِ محفوظ میں بھی ہے۔

سوال – ۷۵۰: پروردگار سے آنحضرتؐ تک نزولِ وحی کے لئے جو وسائط تھے، وہ کیا کیا ہیں؟ -جواب: (۱) قلم (عقلِ کلّ) لوح (نفسِ کلّ) اسرافیل، میکائیل، اور جبرائیل۔

 

۵۱۸

 

صندوقِ جواہر۔ ۹

سوال – ۷۵۱: آپ کا سب سے جدید اور سب سے انوکھا موضوع “روحانی سائنس” بڑا انقلابی اور حیران کن ہے، پس آپ یہ بتائیں آیا بیابانوں میں لطیف مخلوقات رہتی ہیں؟ اگر رہتی ہیں تو اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: (۱) انسانی آبادی سے باہر کوہ، دشت، اور بیابان جیسے مقامات میں لطیف مخلوقات رہتی ہیں، جس میں یہ حکمتی اشارہ ہے کہ کائنات کے تمام بیابان ستاروں پر مخلوقِ لطیف رہتی ہے (۲) کتابِ دعائم الاسلام، عربی، حصّہ اوّل ص ۲۹۱ پر ہے کہ قبل از آدمؑ سیّارہ زمین کے ہر مقام پر جنّات یعنی پری قوم رہتی تھی، پھر ان کو بیابانوں کی طرف ہٹایا گیا، تاہم جس طرح انسان کبھی کبھی کوہ و صحرا کی طرف جاتا ہے، اسی طرح جنّ و پری بھی یہاں آسکتے ہیں۔

سوال – ۷۵۲: آپ نے قبلاً کہا ہے کہ انسانِ لطیف ہی جنّ اور پری ہے، پھر آپ ہی بتائیں کہ اس کی غذا کیا ہے؟ -جواب: (۱) اس کی غذا جوہرِ اشیاء ہے یعنی روحانی ثمرات غذا ہیں، یہ ثمرات روحانی ذرّات کی شکل میں ہیں (۲) ان میں زبردست خوشبو بھی ہے

 

۵۱۹

 

اور انرجی بھی ہے، بعض دفعہ صرف ذرّات ہوتے ہیں اور بعض دفعہ خوشبوئیں بھی (۳) یہ غذائیں کسی باغ و گلشن سے نہیں، بلکہ خزانۂ غیب سے ہیں۔

سوال – ۷۵۳: ہر قرآنی حکایت صرف حکایت نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے باطن میں حکمت بھی ہے، سو بتائیں کہ آیا قرآنِ پاک میں کہیں روحانی غذا کا ذکر موجود ہے؟ ۔جواب: (۱) جی ہاں، کلامِ الٰہی میں جگہ جگہ روحانی غذاؤں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، سب سے نمایان بیان قصّۂ بنی اسرائیل میں ہے، جو من و سلوٰی کے عنوان سے ہے (۲) من  ثمرۂ روحانی / جوہرِ روحانی ہے، اور سلوٰی روحانی خوشبو ہے، خوشبو پھلوں کا جوہر بھی ہے اور غذاؤں کا جوہر بھی (۳) کہتے ہیں کہ سلوٰی بٹیرکی طرح ایک پرند تھا، جو آسمانی غذا کے طور پر ایک خاص وقت میں بنی اسرائیل کے لئے نازل ہوتا تھا، مگر عقل، منطق، اور حکمت کہتی ہے، کہ وہ ایک معجزانہ غذائی جوہر تھا، نہ کہ ظاہری مرغ کی طرح کوئی پرند (۴) دنیا کے حلال پرندوں کو ذبح کرنا، صاف کرنا، اور پکانا پڑتا ہے، لیکن آسمانی غذائیں بہشت کی غذائیں ہوتی ہیں، وہ جوہر اور طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں ہوا کرتی ہیں۔

سوال – ۷۵۴: آپ کہتے ہیں کہ ہر چیز کا روحانی ثمرہ (پھل) یعنی جوہر ہوتا ہے، تو کیا پتھر جیسی چیزوں کا بھی کوئی پھل یا جوہر ہوتا ہے؟

 

۵۲۰

 

-جواب: (۱) جی ہاں، چونکہ ہر چیز خدا کے خزانوں سے نازل ہوئی ہے (۱۵: ۲۱) لہٰذا ہر چیز کی ایک روح ہے، اور یہی روح ثمرہ اور جوہر بھی ہے، اور ہر چیز نازل ہوجانے کے باوجود خزائنِ الٰہی میں بھی ہے (۲) پس خداوند تعالیٰ پتھر جیسی اشیاء سے بھی میوۂ روح / ذرۂ روح پیدا کرکے عارف کے کام میں لگا دیتا ہے، آپ اشارۂ قرآن (۳۱: ۱۶) کو دیکھ لیں۔

سوال – ۷۵۵: کیا عارف کی نمائندہ قیامت میں آسمان و زمین کی ہر مخلوق اور ہر شیٔ سے ذرۂ روح آجاتا ہے؟ اس کی کیا دلیل ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، اور اس کی دلائل میں سے ایک دلیل سورۂ لقمان (۳۱: ۱۶) میں اس طرح سے ہے: بیٹا، اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل ہو (یعنی ذرۂ روح) اور وہ کسی پتھر کے اندر ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو تو اس کو بھی خدا (بوقتِ قیامت) حاضر کرے گا (۲) سورۂ زلزال (۹۹: ۰۷ تا ۰۸) میں بھی دیکھ لیں: پس جو کوئی ذرہ بھر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا، اور جو کوئی ذرہ بھر برائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔

سوال – ۷۵۶: سورۂ طلاق کا آخری ارشاد  (۶۵: ۱۲): اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنْ الأَرْضِ مِثْلَهُنَّ = اللہ وہی ہے جس نے سات آسمانوں کو پیدا کیا اور انہی کی طرح زمین بھی۔

 

۵۲۱

 

سوال ہے کہ آیا آسمانوں ہی کی طرح زمینیں بھی سات ہیں؟ کیا مِثْلَھُنَّ (انہی کی طرح) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سات آسمان اور سات زمین سب کے سب تعداد میں بھی اور طول و عرض میں بھی برابر برابر ہیں؟ -جواب: (۱) جی ہاں، آیۂ کریمہ سے صاف ظاہر ہے کہ آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات ہیں (۲) یقیناً سات آسمان اور سات زمین سائز میں بھی برابر برابر ہیں، اس کا یہ مطلب ہوا کہ یہی ایک کائنات ۷ x  ۲ = ۱۴ ہے، اور اس کی تاویل یہ ہے کہ سات صاحبانِ ادوار آسمان ہیں، اور ان کے سات حجت زمین ہیں۔

سوال – ۷۵۷: سورۂ طور (۵۲: ۳۸) میں ارشاد ہے: أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ =کیا ان کے لئے کوئی سیڑھی ہے کہ وہ اس پر چڑھ کر (آسمان کی خبریں) سن لیتے ہیں؟ پس ان کا سننے والا کوئی کھلی دلیل لائے۔ اس مثال کے ممثول اور باطنی حکمت کو بیان کریں، تاکہ قارئین کو فائدہ ہو-جواب: (۱)  روحانی ترقی آسمانی سیڑھی ہے، اور قرآن کی عملی تاویلات آسمانی خبریں لانے کی طرح ہیں۔

سوال – ۷۵۸: قرآنِ پاک سے علم و عمل کے فائدے حاصل کرنے کے بہت سے طریقے ہیں، تو کیا چشمِ باطن سے قرآن کا باطنی مشاہدہ اور معرفت بھی ممکن ہے؟ اگر ممکن ہے تو کس طرح سے ہے؟

 

۵۲۲

 

-جواب: (۱) جب حدیثِ مَنْ عَرَف کے مطابق معرفتِ نفس اور معرفتِ ربّ ممکن ہے، تو پھر کلامِ الٰہی کی معرفت غیر ممکن نہیں ہے (۲) قرآنِ عظیم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جس کی اوّلین سماعت کلمۂ کُنْ سے بار بار ہوتی رہتی ہے، (۳) ساتھ ہی ساتھ دیدارِ پاک کی انتہائی نوازش بھی ہے، اور قلمِ الٰہی ایک نور اور فرشتہ ہے، وہ لوحِ محفوظ میں لکھا رہتا ہے (۴) لوحِ محفوظ بھی ایک نور اور فرشتہ ہے، اسی مقام پر کتابِ مکنون بھی ہے، وہ ایک نور ہے، جس میں اسرارِ قرآن پوشیدہ ہیں، الغرض یہ تمام معجزات آیاتِ کُبریٰ کے نام سے ہیں، پس بہشت برائے معرفت میں پروردگار کی معرفت کے ساتھ ساتھ قرآن کی معرفت کیوں نہ ہو، جبکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلامِ حکمت نظام ہے۔

سوال – ۷۵۹: آیا قرآنِ حکیم کی معرفت حضرتِ ربّ العزّت کی معرفت کے ساتھ ہے یا اس سے الگ ہے؟ وہ آیۂ شریفہ کونسی ہے، جس میں قرآن کی باطنی معرفت کا ذکرِ جمیل موجود ہے؟ -جواب: (۱) قرآنِ عظیم کی معرفت خدا کی معرفت سے جدا نہیں، کیونکہ کلمۂ امر میں معجزۂ قرآن کا تجدّد ہوتا رہتا ہے (۲) قرآن کی معرفت کا تذکرہ سورۂ نمل کے خاتم یعنی آخری آیت (۲۷: ۹۳) میں ہے۔

سوال – ۷۶۰: مذکورہ آیۂ کریمہ سے سمجھا دیں کہ معرفتِ قرآن کس صورت میں ہے؟ -جواب: (۱) ترجمۂ آیت: اور کہہ دو حمد (عقلِ

 

۵۲۳

 

کل) خدا کے لئے ہے وہ عنقریب تمہیں اپنے معجزات (آیات) دکھائے گا، پھر تم انہیں پہچان لو گے (یعنی حظیرۂ قدس کے معجزات، جن کا مجموعہ قرآن ہے) (۲) قرآنِ حکیم لوحِ محفوظ میں ہے، لیکن اس طرح سے نہیں جیسے کوئی بہت پرانا ریکارڈ خاموش پڑا ہو، بلکہ اس میں تجدّد کا معجزہ ہے، اس لئے وہاں ہر وقت نزولِ قرآن کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔

 

۵۲۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۰

 

سوال – ۷۶۱: پیغمبرِ اکرمؐ کا سب سے بڑا معجزہ کیا ہے؟ اور امامِ عالی مقامؑ کا سب سے عظیم معجزہ کیا ہے؟ – جواب: (۱) اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرتؐ کا عظیم ترین معجزہ تنزیلِ قرآن ہے، اور امامِ برحقؑ کا معجزہ تاویلِ قرآن ہے (۲) یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم کے تاویلی اسرار امامؑ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے، اور جن مومنین کو فنا فی الامام کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے، وہی علمِ تاویل سے فیضیاب ہوسکتے ہیں، کیونکہ امامِ آلِ محمدؐ ہی قرآن و حدیث کے علم و حکمت کا دروازہ ہے۔

سوال – ۷۶۲: لفظِ کرسی قرآنِ حکیم ( ۰۲: ۲۵۵، ۳۸: ۳۴) میں صرف دو دفعہ آیا ہے، مقامِ اوّل پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی کرسی کا تذکرہ ہے، اور مقامِ دوم پر حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی کرسی کا بیان ہے، آپ یہ بتائیں کہ خدا کی کرسی کیا ہے؟ اور سلیمانؑ کی کرسی کیا ہے؟ -جواب: (۱)  اللہ تعالیٰ کی کرسی نفسِ کلّی ہے اور حضرتِ سلیمانؑ کی کرسی نفسِ مطمئنہ ہے۔

 

۵۲۵

 

سوال – ۷۶۳: قرآنِ حکیم فرماتا ہے (۳۸: ۳۴) کہ بطورِ آزمائش حضرتِ سلیمانؑ کی کرسی پر ایک جسد (جسمِ لطیف) ڈالا گیا تھا، اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: (۱) جس طرح جسمِ کثیف میں بہت سی مخلوقات ہیں، اسی طرح جسمِ لطیف میں بھی ہیں، چنانچہ حضرتِ سلیمان کی روح و روحانیّت پر ایک آزمائشی جسمِ لطیف بھی ڈالا گیا تھا (۲) پھر بہت جلد یہ تکلیف دور ہوئی تھی۔

سوال – ۷۶۴: آیا یہ بات حقیقت ہے کہ انبیائے قرآن کے سارے معجزات صراطِ مستقیم پر زندہ اور موجود ہیں؟ کیا وہ منزلِ مقصود (حظیرۂ قدس) میں سب معجزات جمع بھی ہیں؟ – جواب: (۱) جی ہاں، یہ حقیقت ہے، کیونکہ کوئی بھی معجزہ صراطِ مستقیم سے ہٹ کر ہو ہی نہیں سکتا (۲) یہی سبب ہے کہ سالکین و عارفین کے لئے ہر گو نہ معرفت حاصل ہوسکتی ہے۔

سوال – ۷۶۵: سورۂ حاقۃ (۶۹: ۱۱) میں ارشاد ہے: اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ حَمَلْنٰكُمْ فِی الْجَارِیَةِ۔ اس آیۂ کریمہ کی حکمت بیان کریں- جواب: (۱) ترجمہ: پس ہم نے اس وقت جب پانی میں طغیانی آئی تو تمہیں کشتی میں سوار کردیا (۲) اللہ تعالیٰ کا یہ پاک خطاب ہر زمانے کے مومنین سے ہے کہ ہر زمانے میں قیامت برپا ہوجاتی ہے، جس میں طوفانِ روحانی بھی ہے اور کشتیٔ نجات بھی۔

 

۵۲۶

 

(۳) سفینۂ نوح یعنی نجات اہلِ بیتِ اطہار ہیں۔

سوال – ۷۶۶: آپ نے اس دفعہ بھی اپنے دوستانِ مغرب کو حکمت کی حیران کن باتیں بتائیں، تو کیا آپ “علمُ الآخرت” کے بارے میں مزید وضاحت کرسکتے ہیں؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، سورۂ نمل (۲۷: ۶۶) میں غور سے دیکھ لیں، جس میں تین دفعہ علم الآخرت کی طرف واضح اشارہ فرمایا گیا ہے: (الف) بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ختم ہوگیا (ب) بلکہ وہ اس کی طرف سے شک میں ہیں (ج) بلکہ وہ اس سے دل کے اندھے بنے ہوئے ہیں۔

سوال – ۷۶۷: سورۂ حجر کے آخر (۱۵: ۹۹) میں ارشاد ہے: وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ۔ اس آیۂ کریمہ کا اصل ترجمہ اور حکمت کیا ہے؟ -جواب: (۱) ترجمہ: اور اپنے پروردگار کی عبات کرو یہاں تک کہ تمہیں حق الیقین آجائے (۲) اکثر ترجموں میں یقین سے موت مراد لی گئی ہے، لیکن حق بات تو یہ ہے کہ عبادت حصولِ معرفت کی غرض سے ہے نہ کہ موت حاصل کرنے کے لئے، جبکہ یقین معرفت کا دوسرا نام ہے۔

سوال – ۷۶۸: سورۂ یٰسٓ (۳۶: ۶۰ تا ۶۱) میں ہے: اے اولادِ آدم! کیا میں نے تم سے یہ عہد نہ لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت

 

۵۲۷

 

نہ کرنا یقیناً وہ تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے، اور یہ کہ تم میری ہی عبادت کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے۔ سوال ہے کہ بنی آدم کس طرح شیطان کی عبادت کرتے ہیں؟ -جواب: (۱) کوئی شخص شعوری طور پر شیطان کو معبود قرار دے کر عبادت نہیں کرتا ہے، مگر شیطان چونکہ نفسِ امّارہ کے روپ میں بھی ہے، اس وجہ سے اکثر لوگ اس کی غلامی کر تے رہتے ہیں (۲) پس شیطان کی عبادت سے اس کی غلامی مراد ہے۔

سوال – ۷۶۹: قرآنِ حکیم کے مادّہ س خ ر میں یہ ذکر ہے کہ خدا نے کائنات کو انسان کے لئے مسخر کردیا ہے، آپ یہ بتائیں کہ تسخیر کی شرط کیا ہے؟ اور تسخیر کی سورتیں کیا کیا ہیں؟ -جواب: (۱) اس کی عظیم شرط حصولِ معرفت ہے، تسخیر کی ایک صورت عالمِ شخصی میں ہے کہ اس میں ارض و سما لپیٹا ہوا ہے (۲) تسخیر کی دوسری صورت اپنی جگہ پر کائنات ہے، جس پر انسانی روح بذریعۂ عالمگیر روح محیط ہے۔

سوال – ۷۷۰: اب آپ یہ بتائیں کہ عالمِ کبیر کونسا ہے، اور عالمِ صغیر کونسا؟ انسانِ کبیر کس کا نام ہے، اور انسانِ صغیر کون ہے؟ -جواب: (۱) عالمِ کبیر کائناتِ ظاہر کا نام ہے، جبکہ عالمِ صغیر انسان کو کہتے ہیں، جس کو ہم عالمِ شخصی بھی کہتے ہیں(۲) کائنات کی عقل جان ہے، اس لئے وہ انسانِ کبیر ہے، اور آپ اس کے مقابلے میں انسانِ صغیر ہیں۔

 

۵۲۸

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۱

 

سوال – ۷۷۱: اسرافیلی اور عزرائیلی معجزے کے دوران عارف کی روح قبض کرکے کائنات میں پھیلائی جاتی ہے، اور کائناتی روح عارف میں ڈال دی جاتی ہے، پس آپ بتائیں کہ اس معجزۂ اعظم کی کیا کیا تاویلیں ہوسکتی ہیں؟ -جواب: (۱) اس کی بہت سی تاویلیں ہیں، مثلاً یہ تسخیرِ کائنات کا مظاہرہ ہے، عارف وہ بہشت ہوگیا، جو کائنات کے طول و عرض میں ہے (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) اس معجزے کے ظہور سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دراصل انسانی ذات اور کائنات ایک ہی حقیقت ہے (۲) اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ ناسوت بھی ہیں اور ملکوت بھی۔

سوال – ۷۷۲: اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے اس میں سے تمہارے لئے سائے قرار دیئے (۱۶: ۸۱) وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ = اور پھیلائے ہوئے سائے (۵۶: ۳۰) آپ ان دونوں آیتوں کی حکمت بیان کریں – جواب: (۱) اللہ نے انوارِ عالمِ علوی کے مظاہر عالمِ دین میں بھی اور عالمِ شخصی میں بھی بنائے، جیسے عالمِ بالا میں قلم اور لوح دو نور (دو فرشتے ) ہیں، اور ان کے مظہر عالمِ دین میں ناطق اور اساس ہیں، اور عالمِ شخصی میں دو

 

 

۵۲۹

 

مظہر عقل و جان ہیں (۲) ظِلِّ ممدود نورِ معرفت کا پھیلاؤ ہے، چنانچہ اگر آپ کے پاس گنجِ معرفت ہے تو یقیناً آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ: “میری اصل حقیقت خدا میں ہے، لہٰذا سب کچھ میرا ہے۔”

سوال – ۷۷۳: سورۂ صف کی آخری آیت (۶۱: ۱۴) بھی بڑی عجیب و غریب ہے، اس میں ایک عظیم آسمانی ٹائٹل کا ذکر ہے، وہ انصار اللہ ہے، یعنی خدا کے مددگار، جیسا کہ اس آیۂ کریمہ کا ترجمہ ہے: اے وہ لوگو! جو ایمان لاچکے، تم اللہ تعالیٰ کے مددگار (انصار اللہ) ہوجاؤ، جیسا کہ عیسیٰ ابنِ مریم نے حواریوں سے کہا کہ کون اللہ تعالیٰ کی طرف (جانے میں) میرے مددگار ہیں؟ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مددگار ہیں (۶۱: ۱۴) اس مقام پر یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ اہلِ ایمان (مومنین و مومنات) کس طرح خدائے قادرِ مطلق کے کاموں میں مددگار ہو سکتے ہیں؟ -جواب: (۱) اس سوال کا جواب خود اس آیۂ کریمہ میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مددگار ہونا یہ ہے کہ پیغمبر اور امام کے کاموں میں مدد کی جائے، اور اسی طرح ایماندار لوگ اللہ تعالیٰ کے مدد گار ہوسکتے ہیں۔

سوال – ۷۷۴: آیا قرآنِ حکیم کے کسی اور مقام پر بھی ایسا حکم موجود ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، ایسا ارشاد سورۂ محمد (۴۷: ۰۷) میں بھی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ

 

۵۳۰

 

کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا۔ (۲) یعنی اگر تم حقیقی مومنین کی حیثیت سے پیغمبرؐ اور امامؑ کی مدد کروگے تو اللہ باطنی کاموں میں تمہاری مدد کرے گا، اور تم کو ذکر و عبادت اور علم و حکمت کے راستے پر ثابت قدم رکھے گا، جس سے تم کسی لغزش کے بغیر آگے سے آگے چلو گے۔

سوال -۷۷۵: آپ شرق و غرب کے اپنے عزیزوں / شاگردوں کو بیحد چاہتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ – جواب: (۱) اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے تاکہ ہم ایک ہی جان (روح) اور ایک ہی عالمِ شخصی بن کر علمی خدمت کو سرانجام دے سکیں (۲) احباب کے قلوب سونے کے ٹکڑوں کی طرح ہیں، دینی محبت آگ کی مثال ہے، پس جس طرح آگ سونے کی ڈلیوں کو پگھلا کر ایک کر دیتی ہے، اسی طرح حقیقی محبت اہلِ ایمان کے دلوں کو ایک کر دیتی ہے۔

سوال – ۷۷۶: آپ کے نزدیک دینی محیّت کی حدود کیا ہیں؟ -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ کی محبّت، رسولِ پاکؐ کی محبّت، أئمّۂ طاہرینؑ کی محبّت، جماعت کی محبّت، دیگر مسلمانوں کی محبّت، اور بہشت میں تمام انسانوں کی محبّت (۲) کیونکہ بہشت میں سب لوگ جمع ہوجاتے ہیں، جس میں محبّت ہی محبّت ہے، اور وہاں عداوت کے لئے کوئی جگہ نہیں۔

 

۵۳۱

 

سوال – ۷۷۷: قصّۂ اصحابِ کہف کی کیا تاویل ہوسکتی ہے؟ ان کی اصل تعداد کیا ہے؟ -جواب: (۱) یہ وہ معجزۂ روحانی ہے، جس کا تعلق چھ ناطق اور قائم سے بھی ہے، نیز چھ امام اور قائم سے بھی، اور کلب (کتا) دونوں مقام پر صاحبِ عالمِ شخصی ہے، لہٰذا ان کی تعداد ۷  +۱ = ۸ ہے (۲) غار سے روحانیّت اور حظیرۂ قدس مراد ہے، وہ سب جوان ہیں، کیونکہ روحانیّت اور جنّت میں ہر شخص جوان ہوتا ہے (۳) انسان کے ساتھ کتے کا شمار حکمت سے خالی نہیں، اس جانور کی خصوصیات میں سے مالک و آقا کی پیروی، وفاداری، پاسبانی، اور جان نثاری ملحوظِ نظر ہیں (۴) ہفت انوار (اصحابِ کہف) ہمیشہ اپنے میں سے ایک کو سکۂ علم و حکمت (گوہرِعقل) کے ساتھ دنیا میں بھیجتے رہتے ہیں، یہ دورِ نبوّت میں کوئی پیغمبر ہوتا ہے، اور دورِ امامت میں کوئی امام۔

سوال – ۷۷۸: قصّۂ اصحابِ کہف کے شروع (۱۸: ۰۹) میں رقیم (نوشتہ) کا تذکرہ بھی ہے، ان دونوں تذکروں کے درمیان کیا مناسبت ہے؟ -جواب: (۱) اصحابِ کہف اور رقیم کی مناسبت یہ ہے کہ ساری روحانیّت ہفت انوار سے متعلق خدائی تحریر (رقیم) ہے، اور خدائی تحریر کئی طرح کی ہوسکتی ہے۔

سوال – ۷۷۹: ان الفاظ کی تاویلی حکمت بیان کریں: إِذْ أَوَى

 

۵۳۲

 

الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ (۱۸: ۱۰)فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ (۱۸: ۱۱) ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ (۱۸: ۱۲)وَرَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ (۱۸: ۱۴)لَوْلاَ يَأْتُونَ عَلَيْهِمْ بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ(۱۸: ۱۵)  -جواب: (۱) جب وہ چند نوجوان غارِ روحانیّت میں پناہ گزین ہوئے (۲) پس ہم نے ان کے کانوں پر صورِ اسرافیل کا یک ضربہ لگادیا (۳) پھر ہم نے ان کو موتِ نفسانی کے بعد زندہ کیا (۴) اور ہم نے ان کے دلوں کو نورِ معرفت سے مربوط کیا (۵) یعنی اگر وہ خدا شناس ہیں اور ان کی بیان کردہ توحید درست ہے تو حق الیقین کی کوئی روشن دلیل کیوں پیش نہیں کرتے ہیں۔

سوال – ۷۸۰: آپ کوئی ایسی محکم اور روشن دلیل پیش کریں، جس سے ہم کو یقینِ کامل حاصل ہو کہ قرآنِ حکیم کے ہر قصّے کی روحانیّت اور تاویل ہے -جواب: (۱) جب حدیثِ شریف کے مطابق ہر آیۂ قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، بلکہ سات بواطن ہیں، تو پھر قصّۂ اصحابِ کہف یا کوئی اور قصّہ تاویل سے خالی کس طرح ہو سکتا ہے (۲) آپ ذرا غور کریں، کیا اللہ تعالیٰ نے کل اشیاء کو امام ِمبین میں محدود نہیں کیا ہے؟

 

۵۳۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۲

 

سوال – ۷۸۱: سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰) میں ہے: ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو۔ اس کی باطنی حکمت کیا ہے؟ -جواب: (۱) اس کی حکمت یہ ہے کہ قرآن کے باطن میں ہر جگہ عالمِ شخصی کا ذکر آیا ہے، اس معنیٰ میں انسان کا تذکرہ سارے قرآن میں پھیلا ہوا ہے (۲) دوسری حکمت یہ ہے کہ ذکر سے معرفت مراد ہے، جس میں انسان کی عظمت ہے، اور انسان کی معرفت قرآنِ حکیم ہی میں ہے۔

سوال – ۷۸۲: عالمِ شخصی کی نمایان نشاندہی اور تعریف کس سرچشمۂ علم و حکمت سے شروع ہوئی ہے؟ -جواب: (۱) حضرتِ امیرالمومنین علی علیہ السّلام کے بابرکت کلام سے، جس کا ترجمہ یہ ہے: کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر (ساری کائنات) سمایا ہوا ہے (۲) مولا علیؑ کے اس مبارک کلام میں ان تمام آیاتِ قرآنی کی روشن تفسیر ہے جو کائنات کے لپیٹنے سے متعلق ہیں۔

 

۵۳۴

 

سوال – ۷۸۳: سورۂ حاقہ (۶۹: ۱۷) میں ہے: اور آٹھ فرشتے اس روز تیرے ربّ کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اس ارشاد کی حکمت بیان کریں -جواب: (۱) یہاں عرش سے نورِ عرش مراد ہے، جس کے حاملان سات امام علیہم السّلام اور صاحبِ عالمِ شخصی ہے، جس پر قیامت گزرتی ہو۔

سوال – ۷۸۴: آپ نے حاملانِ عرش کا مطلب حاملانِ نورِ عرش بتایا، کیا انوار الگ الگ ہیں یا ایک ہی نور کے بہت سے معانی ہیں؟ -جواب: (۱) نور ایک ہی ہے، لیکن اس کے معانی کثیر ہیں، جیسے خداوند تعالیٰ ایک ہی ہے، اور اس کے اسمائے صفات بہت ہیں (۲) حاملانِ عرش، یعنی حاملانِ نورِ عرش أئمّہ علیہم السّلام ہیں، اگر آپ انہی حضرات کو فرشتے کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں، مگر ان کے سوا دوسرے فرشتے حاملانِ عرش نہیں ہوسکتے ہیں۔

سوال – ۷۸۵: اللہ تعالیٰ کا نور، رسولِ پاکؐ کا نور، امامِ برحقؑ کا نور، اور مومنین و مومنات کا نور (۵۷: ۱۲، ۵۷: ۱۹، ۶۶: ۰۸) آیا یہ الگ الگ چار انوار ہیں؟ -جواب: (۱) نہیں نہیں، نور دراصل صرف ایک ہی ہے، کیونکہ ہمہ رس، ہمہ گیر، اور ہر طرح سے کافی نور ایک ہی ہوتا ہے (۲) جب اللہ تبارک و تعالیٰ کا نورِ واحد بسیط، محیط، اور ہر جا حاضر ہے، تو پھر کوئی دوسرا نور کیونکر ممکن ہوسکتا ہے۔

 

۵۳۵

 

سوال – ۷۸۶: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۵۷) میں ہے: جو لوگ اس (یعنی محمدؐ) پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔ آپ بتائیں کہ آنحضرتؐ کے ساتھ کونسا نور نازل ہوا تھا؟ -جواب: (۱) وہ نور جو پیغمبرِ اکرمؐ کے ساتھ نازل ہوا حضرتِ علیؑ ہے، ملاحظہ ہو حدیثِ شریف جو کوکبِ دری، باب دوم، منقبت نمبر ۱ میں درج ہے (۲) مذکورہ آیت میں رسولؐ پر ایمان لانے کا ذکر پہلے ہے، جس میں آنحضرتؐ پر قرآن نازل ہونے کا اشارہ ہوچکا، اور آخراً اسی ایمان کے سلسلے میں نور کی پیروی کا ذکر ہے، پس یہ نور یقیناً علیؑ ہے جو رسولِ اکرمؐ کا جانشین ہے۔

سوال – ۷۸۷: آپ نُوْرٌعَلیٰ نُوْر کی بار بار تعریف کرتے ہیں، لہٰذا آج ہمیں اس کی کوئی نرالی حکمت بتائیں- جواب: (۱) نُورٌعَلیٰ نُوْر کا یہ بابرکت کلیہ ایک عظیم آئینۂ اسرار ہے، چنانچہ اس آئینے میں آدم کو دیکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ ابتدائی نور نہیں ہے، بلکہ وہ نور پر نور کے سلسلے میں ہے، (۲) اسی طرح ہر پیغمبر اور امام کو آئینۂ ھٰذا میں دیکھ لیں، وہ نُورٌعَلٰی نُوْر کے قانون کے مطابق سلسلۂ نور کی ایک کڑی نظر آئے گا، تاآنکہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ پر نبوّت تو ختم ہوگئی، لیکن سلسلۂ نور جاری و باقی ہے۔

 

۵۳۶

 

سوال – ۷۸۸: سورۂ صٰفّٰت (۳۷: ۱۰۹) میں ہے: سَلٰمٌ عَلٓیٰ اِبْرٰھِیْمَ۔ اس میں کیا تاویلی حکمت ہے؟ -جواب: (۱) ترجمہ: ابراہیم پر سلامتی ہے(۲) یعنی ابراہیمؑ ہر عالمِ شخصی میں زندہ اور سلامت ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اس کے تمام روحانی معجزات بھی موجود ہیں، اور تمام کاملین اسی طرح سے ہیں۔

سوال – ۷۸۹: “آلِ یاسین / آلِ محمدؐ کا نور عالمِ شخصی میں زندہ اور سلامت ہے۔” اس حکمت کا قرآنی حوالہ کہاں ہے؟ -جواب: (۱) سورۂ صٰفّٰت (۳۷: ۱۳۰) میں ہے (۲) کیونکہ سَلٰمٌ عَلٓیٰ اِلْ یَاسِیْنَ کو حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام نے سَلٰمٌ عَلٓیٰ اٰلْ یَاسِیْنَ پڑھا ہے (دعائم الا سلام، عر بی، حصّۂ اوّل ص ۳۱)۔

سوال – ۷۹۰: سورۂ مریم (۱۹: ۱۵) میں حضرتِ یٰحیٰؑ کے بارے میں ارشاد ہے: وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا۔ اس آیۂ شریفہ کی تاویلی حکمت بیان کریں – جواب: (۱)  انسانِ کامل کی روحانی زندگی کے تین مراحل ہوا کرتے ہیں: اوّل وہ خاموش روشنیوں کو دیکھنے لگتا ہے، یہ اس کا یومِ پیدائش ہے، دوم آغازِ قیامت، یہ اس کی نفسانی موت اور روحانی حیات کا دن ہے، سوم فنائے روحانی اور بقائے عقلانی کا زمانہ (۲) اسی کو قرآن نے کہا ہے: دو دفعہ مرنا اور دو دفعہ زندہ ہو جانا (۴۰: ۱۱) الغرض کاملین

 

۵۳۷

 

کی روحانی زندگی کے تینوں مراحل میں سلام و سلامتی یعنی آسمانی تائید حاصل ہوتی ہے۔

 

۵۳۸

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۳

 

سوال – ۷۹۱: انسانِ کامل کی موت کو کس طرح سلامتی (سلام) اور تائیدِ الٰہی کہا جاسکتا ہے، جبکہ موت میں بے ہوشی کا عالم ہوتا ہے؟ -جواب: (۱) آپ نے ایک عام آدمی کی جسمانی موت کو دلیل بنایا، جو بالکل غلط ہے، جبکہ دوستانِ خدا / اولیاء کی نفسانی موت برائے معرفت ایک عظیم معجزہ ہے، اور جو چیز معرفت کی غرض سے ہوا کرتی ہے، اس کا مشاہدہ ضروری ہوتا ہے (۲) الغرض انسانِ کامل کی اس موت میں اللہ کی زبردست تائید ہوتی ہے۔

سوال – ۷۹۲: اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآنِ عزیز روح و روحانیّت اور معرفت کے بھیدوں سے لبریز ہے، پس آپ اس آیۂ شریفہ کی باطنی حکمت بیان کریں:  قَالَ رَبِّ اجْعَل لِي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَ لَيَالٍ سَوِيًّا (۱۹: ۱۰) زکریا نے عرض کی الٰہی میرے لئے کوئی معجزہ مقرر کردے، ارشاد ہوا تمہارے لئے معجزہ یہ ہے کہ تم مسلسل تین رات لوگوں سے بات نہیں کر سکو گے -جواب: (۱) لوگوں نے گمان کیا کہ حضرتِ زکریاؑ کا لوگوں سے بات نہ کرسکنا اور کچھ وقت کے لئے

 

۵۳۹

 

گونگا ہوجانا ہی اللہ کا معجزہ تھا، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے (۲) اس کی جبین میں اسمِ اعظم کا ذکر آٹومیٹک ہوکر دل و دماغ پر چھا گیا، اب وہ لوگوں سے کیسے بات کرسکتا تھا (۳) جب تک انسان کے دل میں وسوسہ اور حدیثِ نفسی باقی ہے، تب تک وہ صرف زبانی ہی عبادت کرتا رہتا ہے، لیکن دل میں لوگوں سے باتیں ہورہی ہیں، لہٰذا اسمِ اعظم کا انقلابی معجزہ ضروری ہے۔

سوال – ۷۹۳: ترجمۂ آیت (۱۹: ۱۱): پھر زکریاؑ محراب سے اپنی قوم پر ظاہر ہوا اور اس نے ان کی طرف اشارہ (وحی) کیا کہ تم لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو۔ آپ اس کی حکمتی تحلیل کریں۔ -جواب: (۱) محراب سے یہاں حظیرۂ قدس کا مرکز مراد ہے، اور محراب کے معنی ہیں: آلۂ حرب اور قلعۂ عسکر، کیونکہ شیطان اور اس کے لشکر کے خلاف سب سے بڑا آلۂ جنگ اور سب سے عظیم قلعہ حظیرۂ قدس میں ہے (۲) حظیرۂ قدس میں نور (سورج) بڑی سرعت سے دوڑتا رہتا ہے، لہٰذا یہ فرمانا کہ تم صبح و شام تسبیح کیا کرو۔ یہ ہر وقت عبادت کرنے کے لئے حکم ہے، کیونکہ وہاں صبح و شام اور دن رات ایک ہی وقت ہے۔

سوال – ۷۹۴: ترجمۂ آیت (۱۹: ۱۲): اے یحییٰ کتاب کو مضبوطی کے ساتھ پکڑو، اور ہم نے اسے بچپن ہی میں اپنی بارگاہ سے حکم (قوّتِ فیصلہ) دیا۔ آپ اس کی حکمت بتائیں -جواب: (۱) جس کتاب کو سختی اور

 

۵۴۰

 

مضبوطی سے پکڑنا چاہئے، وہ اسمِ اعظم کا مبارک ذکر ہے کہ وہ بحدِّ قوّت کتاب بھی ہے اور فعلاً شمشیرِ بُران بھی، جنگ میں تلوار کو بھر پور قوّت سے استعمال کرتے ہیں (۲) کتاب سے ذاتی روحانیّت بھی مراد ہے، جو آسمانی کتاب کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

سوال – ۷۹۵: ترجمۂ آیت (۱۹: ۴۰): اس میں شک نہیں کہ (ایک دن) زمین اور جو کچھ اس پر ہے (اس کے) ہم ہی وارث ہوں گے، اور سب کے سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے۔ اس کی باطنی حقیقت بتائیں۔ -جواب: (۱) کل آخرت میں سیّارۂ زمین اپنے تمام باشندوں اور جملہ اشیاء کے ساتھ لطیف شکل میں تبدیل ہوجانے والا ہے، اُس وقت ہر چیز کا وارث خدا ہی ہوگا (۲) یہ اللہ تعالیٰ ہی کی بادشاہی کا تذکرہ ہے کہ اس دن سب لوگ اسی کی طرف لوٹا دیئے جائیں گے (۳) اس روز خداوند تعالیٰ اپنے دوستوں کو قدیم سلطنت سے نوازے گا۔

سوال – ۷۹۶: آیا یہ بات درست ہے کہ ہر عارف کے لئے روحانیّت اور قرآنی تاویل اس کی اپنی ہی زبان میں ہوا کرتی ہے؟ -جواب: (۱)  جی ہاں، بالکل درست ہے، جیسے بہشت کا قانون ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص سے اس کی زبان میں کلام کرتا ہے، اور اس نے ہر پیغمبر کو قومی زبان میں بھیجا ہے (۱۴: ۰۴) (۲) جب بھی کوئی روحانی یا فرشتہ کسی مومن سے بات کرتا ہے تو اسی مومن کی زبان میں بات کرتا ہے، اور

 

۵۴۱

 

ہر آدمی کے خواب کی گفتگو کا بھی یہی حال ہے۔

سوال – ۷۹۷: کیا ہر شخص کا نامۂ اعمال اس کی اپنی زبان میں ہوتا ہے؟ آیا کتابِ ناطق (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) بالفاظِ دیگر قرآنِ ناطق (امام علیہ السّلام ) دنیا کی تمام زبانوں کو جانتا ہے؟ -جواب: (۱) یقیناً قرآنِ ناطق دنیا کی ہر ہر زبان کو جانتا ہے، کیونکہ اگر سوال کیا جائے کہ خدا کی بولنے والی کتاب کس زبان میں بولتی ہے؟ تو اس کا نیچرل جواب یہی ہوگا کہ: “دنیا کی ہر زبان میں۔” (۲) آپ مولاعلیؑ کے ان ارشادات کو پڑھیں جو نورِ امامت کے اوصاف کے بارے میں ہیں۔

سوال – ۷۹۸: کہتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں ایک ایسی پُرحکمت آیت بھی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ مقامِ روحانیّت پر قرآن کی تاویل ہر زبان میں موجود ہے، ایسی آیت قرآن میں کہاں ہے؟ آپ اس کی وضاحت کریں – جواب: (۱) اس نوعیت کی آیاتِ کریمہ بہت ہیں، مثال کے طور پر سورۂ یوسف (۱۲: ۰۲) میں دیکھیں: اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۔  ترجمۂ اوّل = ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی زبان میں تاکہ تم اس کو اچھی طرح سمجھ سکو۔ ترجمۂ دوم = ہم نے اسے (لوحِ محفوظ میں ) نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی (یعنی تم سب کی) زبان میں تاکہ تم اس کو اچھی طرح سمجھ سکو (۲) عربی کہتے ہیں ملکِ عرب کی زبان کو، نیز عربی اپنی زبان کو کہا جاتا ہے، جبکہ عجمی غیر زبان کو کہتے ہیں (۳) یہ صرف

 

۵۴۲

 

مقامِ روحانیّت اور مقامِ تاویل کی بات ہے، یہ بیان اہلِ دانش کے لئے کافی ہے۔

سوال – ۷۹۹: آپ ہمیں قرآنِ پاک کے روحانی اور باطنی مقامات سے آگاہ کریں -جواب: (۱) قرآنِ کریم ازل میں خزانۂ امرِ الٰہی یعنی کلمۂ کُنْ میں تھا اور اب بھی وہاں موجود ہے، پھر وہاں سے غائب ہوئے بغیر اس کا نزول قلمِ اعلیٰ میں ہوا، پھر لوحِ محفوظ میں نازل ہوا، درحالے کہ قلم میں بھی کاملاً موجود ہے (۲) پھر اسرافیل لوحِ محفوظ میں سے پڑھنے لگا، اور میکائیل کو سناتا رہا، اور میکائیل نے جبرائیل پر وحی نازل کی، پھر جبرائیل نے آنحضرتؐ کے قلبِ مبارک پر رفتہ رفتہ قرآنِ پاک کو نازل کیا (۳) ساتھ ہی ساتھ قرآنِ پاک کی کتابت ہوتی رہی، اور خدا کے حکم سے قرآن کی روح و روحانیّت اور نور و نورانیت رسولؐ کے ذریعے سے آپؐ کے وصی (علیؑ) کی طرف منتقل ہونے لگی۔

سوال – ۸۰۰: آیا حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم کے لئے نزولِ وحی کا یہی طریقہ شروع سے لے کر آخر تک جاری تھا؟ -جواب: (۱)  نہیں یہ طریقہ صرف واقعۂ معراج تک تھا، جس میں رسولِ پاکؐ نفسِ کلّی کے آسمان پر تشریف لے گئے، جہاں آنحضرتؐ نے حجاب کے پیچھے سے اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کو سنا، کبھی خاموش دیدار ہوتا تھا، خاموش رؤیت (دیدار) میں

 

۵۴۳

 

بے شمار اشارے پوشیدہ ہیں، لہٰذا یہ سب سے اعلیٰ وحی ہے (۲) یہ اسرارِ معرفت بھی ہیں، اور اسرارِ قرآن بھی۔

 

۵۴۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۴

 

سوال – ۸۰۱: آیا قرآنِ حکیم کاغذ یا کسی اور مادّی چیز پر لکھا لکھایا نازل ہوا تھا؟ اگر نہیں تو پھر اس کے نزول کی کیا صورت تھی؟ -جواب: (۱) قرآن کاغذ وغیرہ پر تحریری صورت میں نازل نہیں ہوا تھا (۰۶: ۰۷) بلکہ یہ ایک روح اور نور کی حیثیت سے تھا (۴۲: ۵۲) (۲) انسانی قلم نور کو کاغذ پر منتقل نہیں کرسکتا ہے، پس سرورِ انبیاءؐ میں قرآن کا جو نور تھا، وہ آپؐ کے جانشین علی المرتضیٰؑ میں منتقل ہوگیا۔

سوال – ۸۰۲: سورۂ انعام (۰۶: ۹۱) کے حوالے سے ایک قابلِ توجہ سوال ہے کہ توراۃ جبکہ حضرتِ موسیؑ اور حضرتِ ہارونؑ میں لوگوں کے لئے نور اور ہدایت تھی، اس کو یہود نے قراطیس (کاغذات) بنا ڈالا، جس پر قرآن سخت اعتراض فرماتا ہے، اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ – جواب: (۱) آسمانی کتاب کو کاغذ پر لانا بھی ضروری ہے، لیکن اس سے کہیں زیادہ ضرورت اس بات کی تھی کہ یہود اپنے پیغمبر اور امام کے نور میں توراۃ کے نور کو دیکھ لیتے، تاکہ ان کو اس کی روشنی میں

 

۵۴۵

 

آسمانی کتاب کے علم و حکمت سے آگہی ہوتی (۲) یہ اعتراض حدودِ دین کی نسبت سے نہیں، بلکہ عوام کی وجہ سے ہے۔

سوال – ۸۰۳: آپ کوئی ایسی محکم اور روشن دلیل پیش کریں، جس سے سب کو یقین ہو کہ آسمانی کتاب کی روحانیّت و نورانیّت پیغمبر اور امام کی ذات میں موجود ہوتی ہے -جواب: (۱) اس حقیقت پر محکم اور روشن دلائل بہت ہیں، مثال کے طور پر سورۂ انبیاء (۲۱: ۴۸) میں غور سے دیکھیں، اللہ تعالیٰ نے حضرتِ موسیٰؑ اور حضرتِ ہارونؑ دونوں کو فرقان، ضیاء (روشنی) اور ذکر عطا فرمایا تھا، اور یہ دولتِ لازوال پرہیزگاروں کے لئے تھی (۲۱: ۴۸) یعنی پرہیزگار (حجّتان) بھی اپنے رسولؐ اور امامؑ کے ان روحانی معجزات کو عالمِ شخصی میں دیکھتے تھے (۲) تو کیا آپ کو حدیثِ مماثلتِ ہارونی یاد نہیں ہے؟ کیا آنحضرتؐ کے لئے علیؑ ایسا نہیں ہے جیسا حضرتِ موسٰی کے لئے ہارونؑ تھا، مگر حضورؐ کے بعد کوئی نبی نہیں، یعنی حضرتِ ہارونؑ کے تمام قرآنی اوصاف ماسوائے نبوّت کے علیؑ میں جمع ہیں، حقیقی مومنین کے لئے یہ دلیل کافی ہے۔

سوال – ۸۰۴: نبوّت تو یقیناً اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق بنیٔ اکرمؐ پر آکر ختم ہوگئی، کیا اسی کے ساتھ سلسلۂ نُورٌعَلیٰ نُور بھی ختم ہوگیا؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر آنحضرت صلعم میں جو

 

۵۴۶

 

نورِ قرآن اور نورِ ہدایت تھا، وہ کہاں گیا؟ -جواب: (۱) نُورٌعَلیٰ نور کے قانون پر گفتگو ہوچکی ہے، اس کا سلسلہ کسی ابتدا و انتہاء کے بغیر ہمیشہ جاری ہے، لہٰذا یہ لازمی امر تھا کہ قرآنِ پاک کی زندہ روح /نور رسولِ اکرمؐ سے امامِ مبینؑ میں منتقل ہوجائے (۲) خوب غور سے دیکھئے کہ قرآنِ حکیم بصورتِ روح و روحانیّت نازل ہوا تھا، پھر خداوندِ قدوس نے اس روح کو زندہ نور بنایا تھا (۴۲: ۵۲)۔

سوال – ۸۰۵: ایک انتہائی عمیق، انتہائی دقیق، انتہائی مشکل، اور انتہائی مفید سوال کی باری آئی ہے، جو سورۂ انعام (۰۶: ۹۴) میں ہے، وہ اس طرح سے ہے کہ: ہر انسان کو سب کچھ اپنے پیچھے چھوڑ کر بالآخر اللہ کے پاس اسی طرح اکیلا (فرداً) جانا ہے، جس طرح وہ پہلی بار پیدا کیا گیا تھا۔ اس کی حکمتی وضاحت کیا ہے؟ -جواب: (۱) یہ ہر انسانِ کامل کے بارے میں ہے کہ وہ عالمِ شخصی میں رفتہ رفتہ جسمانی، روحانی، اور عقلی چیزوں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر حظیرۂ قدس میں فنا فی اللہ ہو جاتا ہے، (۲) یہ ہوا اس کا فرد (یگانہ اور بے مثال) ہوجانا، یعنی اللہ میں حَیّ ہوجانا، ورنہ عوام الناس نفسِ واحدہ سے پیدا ہوئے ہیں، اور ان کا رجوع بھی وہاں تک محدود ہے، تاہم انسانِ کامل میں لوگوں کی نمائندگی بھی ہے۔

سوال – ۸۰۶: ہر پیغمبر اور ہر امام عارف بھی ہے، لیکن ہر عارف

 

۵۴۷

 

پیغمبر اور امام نہیں ہے، پس آپ یہ بتائیں کہ فرداً فرداً اللہ کے حضور جانے کے کیا معنی ہیں (۰۶: ۹۴)؟ کیا یہ حقیقت ہے کہ قیامت کو صرف عارف دیکھتا ہے کیونکہ وہ ایک روحانی واقعہ ہے؟ کیا قیامت کا تعلق زمانے کے امام سے ہے؟ آیا یہ بات بھی درست ہے کہ ہر عارف کی قیامت ایک پہلو سے انفرادی اور دوسرے پہلو سے اجتماعی ہوا کرتی ہے؟ -جواب: (۱) مختلف زمانوں کے کاملین فرداً فرداً اللہ کے حضور اس لئے جاتے ہیں کہ ہر زمانے کے لئے ایک الگ قیامت ہے، حالانکہ اس میں ذرّاتی نمائندگی سب لوگوں کی ہوتی ہے (۲) جی ہاں، یہ سچ ہے کہ قیامت کا روحانی مشاہدہ صرف عارف کرتا ہے (۳) اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ قیامت کا تعلق امامِ زمان سے ہے (۱۷: ۷۱) (۴) ہاں یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ ہر عارف کی ذاتی قیامت میں سب لوگوں کی اجتماعی قیامت پوشیدہ ہوتی ہے، مگر لوگ اس سے بے خبر ہیں۔

سوال – ۸۰۷: آیۂ زیرِ بحث کا ترجمہ ہے: اور تم فرداً فرداً ہمارے پاس آگئے اسی طرح جیسے ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ آپ یہ بتائیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب عالمِ شخصی کے کس مقام پر ہوتا ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ ایک ہے رجوع اِلی اللہ، اور دوسری ہے پیدائشِ اوّل، یہ دونوں چیزیں کس طرح ایک جیسی ہوسکتی ہیں؟ -جواب: (۱) خداوندِ قدّوس کا یہ بابرکت خطاب انسانِ کامل سے اس وقت ہوتا ہے، جبکہ وہ مقامِ جبین پر حظیرۂ قدس میں داخل ہوچکا ہوتا ہے (۲) چونکہ

 

۵۴۸

 

حظیرۂ قدس میں تمام حقائق و معارف کے نمونے مجرّد اور ایک جیسے ہیں، لہٰذا انبعاث اور ابداع (رجوع اور پیدائشِ اوّل) ایک ہی چیز ہے، یعنی تجلیٔ گوہر ابداع بھی اور انبعاث بھی ہے۔

سوال – ۸۰۸: سورۂ تکاثر کے آخر (۱۰۲: ۰۸) میں ارشاد ہے: ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ  = پھر ضرور اس روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔ یہ کس قسم کی نعمتیں ہوں گی، جن کے بارے میں لوگوں سے سوال کیا جائے گا؟ -جواب: (۱) عموماً دنیوی نعمتیں، خصوصاً دینی نعمتیں، جیسے ہمیشہ امام کا دنیا میں موجود و حاضر رہنا، علم و معرفت وغیرہ، اور یہ تمام روحانی اور قرآنی نعمتیں، جن کی ہم ذرا بھی قدر نہیں کر رہے ہیں، ہم امامِ عالیمقامؑ کے علمی معجزات کو بہت ہی معمولی چیزیں سمجھ رہے ہیں (۲) مگر ہم میں چند عزیزان ہیں، جن کی گریہ وزاری اور مناجات سے ہم قربان۔

سوال – ۸۰۹: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۸۹) میں ہے: اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے طرح طرح کی مثالیں بیان کی ہیں پس کفور کے سوا اکثر لوگوں نے انکار کیا۔ اس کی وضاحت کریں- جواب: (۱) یہاں ایک عظیم حکمت پر حجاب لفظِ کُفُوْراً ہے، جس سے دراصل وہ لوگ مراد ہیں، جن کو خداوندِ قدوس نے علم و معرفت کی لازوال دولت سے مالا مال فرمایا ہے، مگر وہ بڑے ناشکر ے (کفور) ہیں (۲) آپ

 

۵۴۹

 

لغات القرآن وغیرہ میں اس لفظ کی اچھی طرح تحقیق کریں۔

سوال – ۸۱۰: سورۂ دہر کی آیتِ اول (۷۶: ۰۱) کی حکمت بتائیں – جواب: (۱) ترجمۂ ارشاد: کیا انسان پر دہر میں سے وہ وقت آیا ہے جس میں وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں رہتا ہے؟ یعنی یہ ایسے وقت میں فنا فی اللہ و بقا باللہ کے عالم میں ہوتا ہے (۲) اس انتہائی عظیم راز کا تجربہ ہر عارف کو چوٹی کی معرفت میں حاصل ہوتا ہے۔

 

۵۵۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۵

 

سوال – ۸۱۱: سورۂ دہرکی آیتِ دوم (۷۶: ۰۲) کی تاویل بیان کریں- جواب: (۱) فرمانِ خداوندی کا ترجمہ ہے: ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا ہم اس کو آزماتے ہیں ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ (۲) خدا نے جس طرح ہر انسان کو جسمانی والدین کے مخلوط نطفے سے پیدا کیا ہے، اسی طرح وہ اس کو روحانی ماں باپ یعنی ناطق اور اساس کی تنزیل و تاویل سے روحاً پیدا کرتا ہے، اور اسے روحانی سماعت و بصیرت عطا کرتا ہے (۳) جس طرح ظاہری والدین کے سوا جسمانی اولاد ممکن نہیں، اسی طرح باطنی ماں باپ کے بغیر روحانی اولاد مُحال ہے۔

سوال – ۸۱۲:  اگر ہوسکے تو آیۂ سوم (۷۶: ۰۳) کا بھی کوئی راز بتائیں – جواب: (۱) ترجمۂ آیۂ کریمہ ہے: ہم نے اسے راستہ دکھایا، یعنی ہادیٔ برحق کو مقرر کیا، جس کا وہ یا تو شکر کرتا ہے یا نا شکرا ہوجاتا ہے (۲) اس آیۂ شریفہ میں جو لفظِ کفورا آیا ہے اس کا مطلب لادین کافر نہیں بلکہ اس سے وہ شخص مراد ہے جس کو اللہ نے بہت سی نعمتیں عطا

 

۵۵۱

 

فرمائی ہیں، مگر وہ انسان بڑا ناشکرا ہے (۳) کیونکہ آیت کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی ایسی ہدایتِ کاملہ کا ذکر ہے کہ وہ شکر کرنے والے اور ناشکرے دونوں کے حق میں پوری طرح سے عمل میں آچکی ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ شکر کرنے یا نہ کرنے کا واقعہ نعمتوں کے بعد پیش آتا ہے، اور ہوسکتا ہے کہ شکر گزاری کا عمل بہت ہی نازک اور ازحد مشکل ہو۔

سوال – ۸۱۳: صحیح معنوں میں شکر گزاری کی کوئی مثال پیش کریں- جواب: (۱) بحوالۂ قرآن (۱۷: ۰۳) حضرتِ نوح علیہ السّلام اللہ تعالیٰ کا  ایک شکر گزار بندہ تھا، اس میں راز کی دو باتیں ہیں: اوّل یہ کہ حضرتِ نوحؑ کو علم و حکمت کی بہت بڑی کثرت عطا ہوئی تھی، اور دوم یہ کہ وہ ہمیشہ گریہ وزاری اور مناجات کیا کرتا تھا (۲) گریہ و زاری سے ناشکری کا خطرہ ٹل جاتا ہے، عشقِ سماوی کے آنسوؤں میں بہت بڑی حکمت ہے۔

سوال – ۸۱۴: کہتے ہیں کہ قرآنِ عظیم میں جہاں جہاں علم کا نمایان مضمون آیا ہے وہ تو ہے، اس کے علاوہ دیگر تمام مضامین کے باطن میں بھی علم و حکمت کے اسرار مذکور ہوئے ہیں اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ – جواب: (۱) یہ بات بالکل درست اور حقیقت ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ حکیم میں سرتا سر علم و حکمت

 

۵۵۲

 

ہی کا بیان ہے، جو براہِ راست بھی ہے اور بالواسطہ بھی، (۲) جیسے شکر کے مضمون میں علم و حکمت کا ذکر پوشیدہ ہے، جس کا بیان ہوچکا۔

سوال – ۸۱۵: مقامِ شکر حقیقی معنوں میں کہاں ہے؟ روحانی سفر کے آغاز میں؟ یا درمیان میں؟ یا منزلِ مقصود میں؟ آخری منزل کے بہت سے نام ہوسکتے ہیں، تو کیا کشتیٔ نوحؑ میں سوار ہوجانا منزلِ مقصود میں پہنچ جانا ہے (۱۷: ۰۳)؟ وہ کس طرح؟ -جواب: (۱)  مومن سالک کے لئے مقامِ شکر دراصل منزلِ مقصود ہی میں ہے، اس لئے کہ اب اس کی ساری مشقتیں اور آزمائشیں ختم ہوگئیں، اور اس لئے کہ یہاں تمام باطنی نعمتیں جمع اور حاضر ہیں (۲) کشتی نوح سے اللہ تعالیٰ کا عرش مراد ہے، لہٰذا یہ منزلِ مقصود ہے۔

سوال – ۸۱۶: سوال ہے کہ اسلام، ایمان، یقین، محبت، صبر، تقویٰ، توکّل، تسلیم، رضا اور دیگر تمام قرآنی مضامین کے باطن میں علم و حکمت کا بیان کس طرح ہوسکتا ہے؟ -جواب: (۱) صراطِ مستقیم روحانی سفر کا راستہ ہے، جو روحانیّت، نورانیّت اور علم و حکمت سے بھر پور ہے، پس قرآنِ حکیم کا ہر مضمون صراطِ مستقیم پر واقع ہے، جو نورِ علم و حکمت کا راستہ ہے (۲) پھر ہر مضمون کے باطن میں علم و حکمت ہے، کیونکہ تمام مضامین کا تعلق باطنی علم و حکمت سے ہے، اور یہ سچ ہے کہ صراطِ مستقیم سے باہر سوائے گمراہی کے کچھ بھی نہیں۔

 

۵۵۳

 

سوال – ۸۱۷: حدیثِ شریف کے مطابق ہر مومن شہید ہے اور ہر مومنہ حوراء ہے، ہمیں اس کی حقیقت سمجھائیں- جواب: (۱) جب عارف میں نمائندہ قیامت برپا ہوجاتی ہے، تو اسی میں دنیا بھر کے لوگ آکر مرجاتے ہیں، پھر زندہ ہوجاتے ہیں، مگر ہر مومن یہاں آکر شہید ہوجاتا ہے، اور ہر مومنہ اسی عالمِ شخصی میں مرکر حوراء ہو جاتی ہے (۲) یہ معجزات امام ِمبین (۳۶: ۱۲) کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں، کیونکہ قیامت کے معنی ہیں: امام علیہ السّلام کا نور کسی عارف میں طلوع ہو جانا۔

سوال – ۸۱۸: آپ نے کہا ہے کہ جنّت کی سب سے عظیم اور سب سے پُر لذّت نعمت علم دینا اور علم لینا ہے، اور اس کی دلیل کے لئے آپ نے ان تمام آیاتِ کریمہ کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں بہشت کی ازدواجی زندگی کا ذکر ہے، یعنی بہشت کی حوروں سے متعلّمین مراد ہیں، کیا یہ تصوّر درست ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، یہ حقیقت ہے، کیونکہ جنّت کے لوگوں کی اکثریت لا علم ہے، اور یہ شروع شروع کی بات ہے  (۲) قیامت کے عنوان سے جو دعوتِ حق ہے، اس کے نتیجے میں اقوامِ عالم کے لوگ سب کے سب زبردستی سے بہشت میں داخل کئے جاتے ہیں، مگر ان کے پاس ذرا بھی علم نہیں ہوتا ہے۔

سوال -۸۱۹: مثال کے طور پر ایک مومن شخص سے خواب

 

۵۵۴

 

یا خیال یا روحانیّت میں کہا گیا کہ فلان مشہور لادین قوم کی عورتیں تمہارے نکاح میں آنے والی ہیں، اس کے کیا معنی ہیں؟ -جواب: (۱) اس کے دو معنی ہیں: ظاہری اور باطنی، باطنی تاویل یہ ہے کہ وہ شخص بہشت میں اس قوم کا معلّم ہوگا (۲) اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ جنگِ قیامت کی روحانی فتح کے ساتھ بکثرت اموالِ غنیمت عطا کریگا (۴۸: ۲۰) آپ تحقیق کریں کہ زمانۂ نبوّت میں مالِ غنیمت میں کیا کیا چیزیں ہوا کرتی تھیں؟

سوال – ۸۲۰: آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگرچہ قرآنی مضامین ظاہراً مختلف چیزوں سے متعلق ہیں، لیکن باطناً دیکھا جائے تو ہر مضمون میں علم و حکمت ہی کے بھیدوں کا تذکرہ ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہشت کی تمام نعمتوں کے تذکرے میں علم و حکمت کے اسرار موجود ہیں، آیا یہ بات درست ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، بالکل درست ہے، بہشت کی گونا گون نعمتوں کی تاویل علم ہے۔

 

۵۵۵

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۶

 

سوال – ۸۲۱: آج ہر ایمانی روح اپنی ذات میں بحدِّ قوّت بہشت ہے، اور کل ان شاء اللہ بحدِّ فعل (یعنی عملاً) بہشت ہوگی، جس میں تمام کائنات مسخر ہوگی ( ۳۱: ۲۰) اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہر عالمِ شخصی کی بہشت میں خداوندی سلطنت ہوگی، کیا یہ بیان صحیح ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، صحیح اور حقیقت ہے، اور اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اس بہشت میں دنیا کے سب لوگ ہوں گے، جن کو دینِ حق کی تعلیم دی جائے گی (۲) چونکہ بہشت کی ہر نعمت بیحد لذیذ و شیرین، اور بدرجۂ انتہا فرحت بخش ہوا کرتی ہے، لہٰذا وہاں کی تعلیم دینے اور تعلیم لینے کی کئی مثالیں ہیں، ان میں سے ایک مثال حورانِ بہشت کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کی طرح ہے۔

سوال – ۸۲۲: سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں ہے: وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعاً و کرھاً (خوشی سے اور زور سے) سجدہ کررہی ہے۔ اس کی تاویلی وضاحت کریں – جواب: (۱) سجدہ کے معنی ہیں اطاعت، یعنی کچھ لوگ خوشی سے خدا کی اطاعت

 

۵۵۶

 

کرتے ہیں اور کچھ لوگ زبردستی سے، پھر بہشت میں جا کر وہ بادشاہ ہوں گے، اور یہ رعایا (۲) یہ حقیقت ہے کہ بہشت میں بہت بڑی سلطنت ہے (۷۶: ۲۰) جب وہاں بہت بڑی بادشاہی ہے تو لازمی طور پر بہت بڑی رعیت بھی ہے (۳) بہشت کا بادشاہ کتنا فیاض اور مہربان ہے کہ رعیت کو علم میں درجہ بدرجہ بلند کررہا ہے۔

سوال – ۸۲۳: سورۂ حج (۲۲: ۱۸) میں ہے: کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے لئے سر بسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں؟ اس سے ظاہر ہے کہ کائنات کی ہر چیز اور ہر مخلوق اللہ کے لئے سجدہ کرتی ہے، جس میں بہت سے لوگ یعنی سب لوگ ہیں، پھر عذاب کیوں؟ -جواب: (۱) بہت سی مخلوقات ایسی ہیں، جن کو عقل اور اختیار کی صلاحیت عطا نہیں ہوئی ہے، اس لئے ان کو نہ ثواب ہے اور نہ عذاب، ہاں انسان وہ مخلوق ہے، جس کے پاس عقل و اختیار ہے، لہٰذا اس پر واجب ہے کہ سجدۂ تسخیری سے آگے بڑھ کر سجدۂ عرفانی کرے(۲) بے جان اور بے عقل چیزیں صرف سجدۂ تسخیری کرتی ہیں، اور مومنینِ بایقین سجدۂ عرفانی بجالاتے ہیں۔

سوال -۸۲۴: یہ ارشادِ مبارک سورۂ یونس (۱۰: ۳۹) میں ہے:

 

۵۵۷

 

بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ۔  اس کی تاویلی حکمت بتائیں – جواب: (۱) ترجمہ: بلکہ ایسی چیز کی تکذیب کرنے لگے جس کو اپنے احاطۂ علمی میں نہیں لائے اور ھنوز ان کو اس کی تاویل نہیں آئی (۲) قرآنِ حکیم کی تصدیق نورِ منزل ہی کی روشنی میں ہوسکتی ہے (۰۵: ۱۵) یہی نور اس کا احاطۂ علمی ہے اور یہی اس کی تاویل ہے (۳) سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) کے اس پُرحکمت ارشاد کو کوئی مسلمان کس طرح بھول سکتا ہے: تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور ظاہر کتاب آچکی ہے۔

سوال – ۸۲۵: آپ حکمتِ قرآن کی روشنی میں سنتِ الٰہی کا کوئی عظیم راز بتائیں -جواب: (۱) اللہ کی سنت (عادت) بنیادی اور اصولی طور پر ماضی، حال، اور مستقبل میں ایک جیسی رہتی ہے، اور اس میں کوئی بھی تبدیلی نہیں ہوتی ہے (۲) اس بہت بڑے بھید کے جاننے کے منطقی اور علمی فوائد بے شمار ہیں، لیکن عقل و دانش سے کام لینے کی سخت ضرورت ہے۔

سوال – ۸۲۶: آپ کہتے ہیں کہ قرآنِ پاک کا اندازِ بیان ہر مقام پر ممتحنانہ (امتحان لینے والے کی طرح) ہے، آخر کیوں؟ -جواب: (۱) اس لئے کہ انسانی عقل کی نشوونمائی غور و فکر ہی سے ہوتی ہے، جس کے لئے امتحانی باتوں کی ضرورت پڑتی ہے (۲) چنانچہ

 

۵۵۸

 

اگر قولِ قرآن پر آزمائشی حجاب نہ ہوتا، تو غور و فکر کی طرف اتنی توجہ نہ دلائی جاتی۔

سوال – ۸۲۷: کہا جاتا ہے کہ قرآن ایک طرف سے بہت ہی مشکل ہے اور دوسری طرف سے بہت ہی آسان ہے، اس میں کیا راز ہے؟ -جواب: (۱) راز یہ ہے کہ آپ اگر آسمانی کتاب کو نور کی روشنی (۰۵: ۱۵) میں پڑھتے ہیں، یعنی معلّمِ ربّانی سے سیکھتے ہیں، تو بہت ہی آسان ہے، ورنہ بہت ہی مشکل ہے (۲) آپ سورۂ قمر (۵۴: ۱۷؛ ۵۴: ۲۲؛ ۵۴: ۲۳؛ ۵۴: ۴۰) میں دیکھ لیں، تاکہ معلوم ہوجائے کہ قرآنِ عظیم بہت ہی مشکل تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اسے آسان کردیا۔

سوال – ۸۲۸: قرآنِ حکیم جو موجودہ صورت میں ہمارے سامنے ہے، اس کو خدائے علیم و حکیم نے کس طرح آسان کر دیا ہے؟ -جواب: (۱) اللہ وہ ہے جو ہمیشہ کائنات کو لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے، درحالے کہ بظاہر کائنات اپنی جگہ پر قائم ہے، اسی طرح خدا قرآن کی روح و روحانیّت کو آئینۂ اسمِ اعظم میں دکھاتا رہتا ہے (۲) خداوندِ تعالیٰ کے لئے کوئی بھی انتہائی عظیم معجزہ کیونکر ناممکن ہوسکتا ہے۔

سوال – ۸۲۹: ارشادِ مبارک ہے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ

 

۵۵۹

 

لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (۵۴: ۱۷) اور ہم نے قرآن کو ذکر کے لئے آسان کر دیا ہے، تو کیا کوئی یاد آور ہے؟ آپ بتائیں کہ ذکر کے کیا معنی ہیں؟ -جواب: (۱) ذکر کے معنی ہیں: رسولؐ (۶۵: ۱۰ تا ۱۱) امامؑ (۲۱: ۰۷)، اسمِ اعظم، نصیحت (قرآن) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو سب سے پہلے رسولِ کریمؐ کے لئے آسان کر دیا ہے، پھر أئمّۂ آلِ محمدؐ کے لئے کہ وہ اہلِ ذکر ہیں (۲) پس تمام لوگوں کو معجزۂ معرفتِ قرآن کے لئے پیغمبرؐ اور امامؑ سے رجوع کرنا چاہیئے، تاکہ حقیقی اطاعت کے ساتھ وہ خوش نصیب مومنین آئینۂ اسمِ اعظم / عالمِ شخصی میں قرآن کی روح و روحانیّت اور نور و نورانیّت کا مشاہدہ کر سکیں۔

سوال – ۸۳۰: اگرچہ اصل اور حقیقی اسمِ اعظم امامِ زمان علیہ السّلام خود ہی ہے، تاہم وہ لفظی اسمِ اعظم بھی ضروری ہے جو حضرتِ امامؑ بعض مریدوں کو عطا فرماتا ہے، تاکہ اس سے امامؑ کے نورِ اقدس تک رسائی کے لئے ایک روحانی پُل تعمیر ہوجائے، آپ کا کیا خیال ہے؟ آیا یہ انتہائی عظیم کارنامہ بیحد مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ بدرجۂ انتہا مفید بھی ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، جی ہاں، امامِ زمان علیہ السّلام میں فنا ہوجانا، پھر رسولؐ اور اللہ میں فنا ہوجانا کیوں مشکل نہ ہو (۲) کلیۂ امامت (۳۶: ۱۲) کا فرمانا یہ ہے کہ فنا فی الامام میں سب کچھ ہے، قرآن کی کُل خوشخبریاں اسی سے متعلق ہیں، فتحِ روحانی اور تسخیرِ کائنات اسی میں ہے، خود شناسی اور خدا شناسی بھی اسی

 

۵۶۰

 

خزانے میں ہے، اور سچ تو یہ ہے کہ قرآنِ عظیم کی جملہ آیاتِ کریمہ اپنے تمام معنوں کے ساتھ یہاں (۳۶: ۱۲) مرکوز ہوجاتی ہیں۔

 

۵۶۱

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۷

 

سوال – ۸۳۱: اس میں کوئی شک نہیں کہ اسمِ اعظم کی مبارک عبادت و ریاضت کی کامیابی پرعالمِ شخصی میں حضرتِ امامِ زمانؑ کا نورِ اقدس طلوع ہوجاتا ہے، لیکن یہاں ایک بہت ہی ضروری سوال یہ ہے کہ آیا قرآنِ اقدس میں کوئی ایسا حکم یا اشارہ موجود ہے کہ تم اسمِ اعظم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص عبادت کر لیا کرو؟ ۔جواب: (۱) جی ہاں، ایسے اشارے تو سارے قرآن میں موجود ہیں، مثال کے طور پر جگہ جگہ یہ حکم آیا ہے کہ تم ہر وقت اللہ کی یاد کرتے رہو، عقل پوچھتی ہے کہ کس نام سے خدا کو یاد کریں؟ اس کا قدرتی اور منطقی جواب یہ ہے کہ اسمِ اعظم سے اللہ کو یاد کیا جائے (۲) قرآنِ کریم میں اس سلسلے کے اشارات بہت زیادہ ہیں، ان کے علاوہ اسمِ اعظم کی عبادت کا حکمِ صریح بھی ہے۔

سوال – ۸۳۲: وہ آیۂ کریمہ قرآن میں کہاں ہے جس میں یہ حکمِ صریح ہے کہ تم اسمائے عظام سے خدا کی یاد و عبادت کر لیا کرو؟ -جواب: (۱) یہ حکمت خوب یاد رہے کہ قرآنِ حکیم کی زبان میں اسماءُ

 

۵۶۲

 

الحُسنیٰ ہی اسماءُ العِظام ہیں، جو لفظی بھی ہیں اور شخصی بھی ہیں (۲) چنانچہ اسماءُ الحُسنیٰ کا نمایان تذکرہ قرآنِ پاک کے چار مقام پر ہے، اور ان میں سے ایک آیت (۰۷: ۱۸۰) کا ترجمہ یہ ہے: اللہ کے اسمائے عظام ہیں، اس کو انہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں کجرا ہی کرتے ہیں (۳) اہلِ دانش کے لئے یہ ایک انقلابی تصوّر ہے، آپ اس میں غورو فکر کریں۔

سوال – ۸۳۳: اسماءُ الحسنیٰ کے بارے میں حضرتِ امیر المومنین علی علیہ السّلام کا کیا ارشاد ہے؟ -جواب: (۱) مولائے مومنان کا ارشاد گرامی یہ ہے: اَنَا الْاَسْمَآءُ الْحُسْنَی الَّتِیْ اَمَرَ اللّٰہُ اَنْ یُّدْ عیٰ بِھَا = میں وہ خدا کے اسمائے حسنٰی ہوں جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کو انہی اسماء سے پکارا جائے (۲) اسماء الحسنیٰ کی یہ تفسیر و تاویل باطنی حکمت سے مملو ہے، کیونکہ یہ مولا علیؑ کی ہے کہ علیؑ قرآنِ ناطق بھی ہے اور مؤولِ قرآنِ صامت بھی ہے، اور رسولِ اکرمؐ کے علم و حکمت کا دروازہ بھی۔

سوال – ۸۳۴: سورہ مریم (۱۹: ۶۵) میں ارشاد ہے: ھَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیّاً = کیا تیرے علم میں اس کا ہمنام ہم پلہ کوئی اور بھی ہے؟ اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: (۱) خداوند تعالی اپنے مبارک نام میں بےمثال ہے، کیونکہ اس کا نام زندہ، پرنور، ناطق، اور

 

۵۶۳

 

دانا ہے، کسی انسان کے نام کی طرح محض لفظی نہیں (۲) انسان قدیم (ہمیشہ کا) نہیں، حادِث ہے، یعنی پہلے نہ تھا اور اب ہے، مگر خدا تعالیٰ ذات میں بھی اور صفت میں بھی قدیم ہے، اللہ کی پاک صفت / صفات کی فعلی تجلّیات ہیں، جو تمام معنوں میں نہایت حسین و جمیل ہیں، اور یہی اسماء الحسنیٰ ہیں، جن کا ذکر ہوچکا۔

سوال – ۸۳۵: یہ سوال ان آیات و احادیث کے بارے میں ہے، جن میں ظاہراً یہ ذکر ہے کہ جو لوگ مرجاتے ہیں، ان کی روح تا قیامت قبر ہی میں رہتی ہے، اس کے بارے میں آپ کی تحقیق کیا ہے؟ -جواب: (۱) قبر ہے، لیکن یہ اصل قبر نہیں جو زمین میں بناتے ہیں، یہ تو صرف علامت اور مثال کے سوا کچھ بھی نہیں، دو اصل قبریں عالمِ شخصی میں ہیں، ایک قبر اسرافیل اور عزرائیل کے مقام پر ہے، اور دوسری بہت آگے چل کر حظیرۂ قدس میں (۲) بحکمِ حدیثِ شریف تمام ارواح ہمیشہ جمع شدہ لشکر کی حیثیت سے کاملین کی روحانیّت میں کام کرتی رہتی ہیں (۳) روحِ مومن بعد از جسمانی موت ایک قالب میں رکھی جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ (ہزار حکمت / ح ۶۷۲) یہ حدیث فیصلہ کرتی ہے کہ روح مٹی کی قبر میں نہیں جاتی ہے۔

سوال – ۸۳۶: منکر اور نکیر کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ یا نظریہ ہے؟ -جواب: (۱) یہ دو فرشتے ہیں جو عالمِ شخصی میں کئی

 

۵۶۴

 

امور کو انجام دیتے ہیں، ایک خیر کی نمائندگی کرتا ہے اور دوسرا شر کی (۲) دونوں ہی فرشتے ہیں، مگر حکمت کے تحت ایک کو جنّ اور دوسرے کو فرشتہ کہا گیا ہے (۳) ان کو قرآنِ حکیم نے ہاروت و ماروت بھی کہا ہے (۰۲: ۱۰۲)۔

سوال – ۸۳۷: سورۂ نحل (۱۶: ۱۴) میں ہے: خدا وہی ہے جس نے تمہارے لئے سمندر کو مسخر کر رکھا ہے تاکہ تم اس سے ترو تازہ گوشت لے کر کھاؤ اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیں تم پہنا کرتے ہو۔ یہاں سمندر، تروتازہ گوشت، اور زینت کی چیزوں کی کیا تاویل ہوسکتی ہے؟ -جواب: (۱) سمندر سے بحرِ روحانیّت مراد ہے، تروتازہ گوشت علمِ روحانی ہے، اور زنیت کی چیزیں وہ اسرارِ معرفت ہیں جو اشاراتِ عقل سے حاصل ہوتے ہیں (۲) اس سے ظاہر ہوا کہ یہ تمام عظیم ترین نعمتیں امامِ زمان علیہ السّلام ہی کی نورانیّت میں حقیقی مومنین کو حاصل ہو جاتی ہیں، الحمد للہ۔

سوال – ۸۳۸: ترجمۂ آیۂ کریمہ (۱۷: ۴۵) ہے: جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پوشیدہ حجاب ڈال دیتے ہیں۔ آپ اس کی حکمت کو بیان کریں -جواب: (۱) جو لوگ حقیقی معنوں میں آخرت پر ایمان نہیں لاتے ہیں، ان کو چشمِ بصیرت نصیب نہیں ہوتی ہے، لہٰذا

 

۵۶۵

 

نورِ رسولؐ اور معجزاتِ قرآن کو یہ لوگ دیکھ ہی نہیں سکتے ہیں (۲) ایمان کے بہت سے درجات ہیں، پس یہاں جس طرح آخرت پر ایمان لانا مقصود ہے، وہ ایمانِ کامل ہے، جس کو نورِ ایمان بھی کہتے ہیں۔

سوال – ۸۳۹: آپ کے تمام عزیزان (تلامیذ) ہر اعتبار سے قابلِ تعریف ہیں، الحمد للہ کہ وہ حکمتِ قرآن کے شیدائی ہیں، ان شاء اللہ ان کی سعئ بلیغ سے علمِ قیامت کی روشنی پھیل جائے گی، امید ہے کہ وہ لشکرِ ارض و سماء کے ساتھ مل کر کام کریں گے، آپ کا کیا خیال ہے؟ -جواب: (۱) ان شاء اللہ، یہ تمام باتیں قرآن اور امام کی پیش گوئی کے مطابق ہیں (۲) ہم سب کے سب حضرتِ قائم القیامت کے علمی لشکر ہیں، بس اتنا اشارہ کافی ہے۔

سوال – ۸۴۰: قرآنِ حکیم فرماتا ہے کہ حضراتِ أئمّہؑ لوگوں پر گواہ ہیں، اور اماموں پر رسولِ پاکؐ گواہ ہیں (۰۲: ۱۴۳، ۲۲: ۷۸) اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: (۱) اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ ہر زمانے کا امام لوگوں پر گواہ اس معنیٰ میں ہے کہ وہ ظاہراً و باطناً لوگوں کے سامنے حاضر ہے پس جو شخص امام کو ظاہر میں دیکھنا چاہے، تو دیکھ سکتا ہے، اور جو باطن میں دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرے تو یقیناً امام کو دیکھ سکتا ہے، اور علم و ہدایت حاصل

 

۵۶۶

 

کر سکتا ہے (۲) امامؑ پر رسولؐ گواہ اس لئے ہیں کہ امام کی روحانی اور نورانی ہدایت رسولؐ سے حاصل ہوتی ہے۔

 

۵۶۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۸

 

سوال – ۸۴۱: یہ بڑی خوبصورت اور عظیم الشّان دلیل ہے کہ امام ہمیشہ لوگوں پر گواہ ہے، یعنی ظاہراً و باطناً لوگوں کے درمیان حاضر اور موجود ہے، جبکہ گواہ (شاہد / شہید، جمع شہداء) حاضر اور موجود ہوتے ہیں، پس قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں امامِ عالیمقامؑ کے گواہ ہونے کا ذکر آیا ہے، وہاں عاشقوں کے لئے سب سے بڑی بشارت ہے کہ مومنِ عاشق کو ہر جگہ حضرتِ امامؑ کا باطنی دیدار ہوتا ہے، کیا آپ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں؟ جواب: (۱) خدائے بزرگ و برتر کی قسم میں اسے تسلیم کرتا ہوں، کیونکہ یہ میرے نزدیک سب سے بڑی روشن حقیقت ہے (۲) آپ قرآن کے مضمونِ گواہی میں غور سے دیکھیں۔

سوال – ۸۴۲: بعض علماء نے فقۂ جدید کی ضرورت و اہمیت کو محسوس کیا ہے، لیکن یہ کام بہت مشکل ہے، اس باب میں ہمارا نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ ہادیٔ برحق موجود ہے، اسی ولی امر کا قول و فعل ہمارے لئے فقۂ جدید کا درجہ رکھتا ہے، وہ جس کو چاہے قرآنی تاویل کی روشنی بھی دے سکتا ہے، تاکہ اس کو یقین ہو کہ امامِ عالیمقامؑ

 

۵۶۸

 

کا ہر کام خدا اور اس کے محبوب رسولؐ کے منشا کے عین مطابق ہوا کرتا ہے، کیا یہ بیان درست ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، بالکل درست اور روشن حقیقت ہے، کیونکہ آسمانی کتاب کی وراثت آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کے پاس ہے، مگر انسان بہت ہی جلد اصولات کو بھول جاتا ہے (۲) اسی لئے خدا نے قسم کھا کر فرمایا کہ انسان بڑے خسارے میں ہے۔

سوال – ۸۴۳: بعض نادان غیر مسلم جو عقل و دانش سے بہت ہی دور ہیں، وہ سوال کرتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ) کی ازواج اتنی زیادہ کیوں تھیں؟ ہمارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ -جواب: (۱) ہمارے پاس بہت سے قرآنی، عقلی، منطقی، اور تاریخی جوابات موجود ہیں، لیکن ہم یہاں اس پر طویل بحث نہیں کریں گے، کیونکہ اس کتاب میں سوال و جواب کے لئے جو سائز مقرر ہے، وہ محدود ہے، لہٰذا ہم صرف ایک تاریخی جواب پر اکتفاء کرتے ہیں: (۲) حضرتِ سلیمان علیہ السلام کی ایک ہزار بیویاں تھیں، جن میں سات سو شہزادیاں اور تیں سو حَرَمیں تھیں، اور عجیب بات یہ ہے کہ سلیمانؑ کی اکثر بیویاں آبائی دیوتاؤں کو مانتی تھیں (۳) ملا حظہ ہو: کتابِ مقدّس (اردو) یعنی پرانا اور نیا عہد نامہ، ۱۔ سلاطین، ص ۳۴۰۔ ب ۱۱

سوال -۸۴۴: کیا قرآنِ حکیم میں حضرتِ سلیمان علیہ السلام پر

 

۵۶۹

 

کوئی اس قسم کا اعتراض ہے؟ کیا ان کی تعریف میں کوئی کمی نظر آتی ہے؟ -جواب: (۱) نہیں، ہر گز نہیں، حضرتِ ابراہیم علیہ السلام سے اس طرف جتنے بھی انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہیں، وہ سب کے سب آلِ ابرہیم ہیں (۲) ان کو اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتاب کی وراثت، حکمت، اور عظیم سلطنت عطا فرمائی ہے (۰۴: ۵۴) (۳) اکثر لوگ اپنے پیغمبر اور امام کی بشریت کی وجہ سے شکوک و شبہات کا شکار ہوتے گئے ہیں، لہٰذا خداوندی مصلحت اور حکمت یہ تھی کہ روحانی سلاطین میں سے صرف ایک کو ظاہر کرکے لوگوں کو آزمایا گیا، اور وہ حضرتِ سلیمانؑ تھا۔

سوال – ۸۴۵: قرآنِ حکیم میں اھل الکتٰب کن لوگوں کا نام ہے؟ کب سے یہ نام مقرر ہوا؟ کیوں؟ -جواب: (۱) قرآنِ پاک نے یہود و نصاریٰ کو اہل الکتٰب (کتاب والے) کہا ہے، ان لوگوں کے لئے یہ نام زمانۂ نزولِ قرآن سے مقرر ہوا (۲) کیونکہ وہ ماضی کی کتاب پر ٹھہرے رہے، اور نورِ منزل (۰۵: ۱۵) سے منکر ہوگئے (۳) اس سے قبل ان کا ایسا نام نہیں تھا۔

سوال – ۸۴۶: سورۂ مائدہ (۰۵: ۰۵) کے حوالے سے یہ بتائیں کہ آیا مسلمان اور اہلِ کتاب ایک دوسرے کا کھانا کھا سکتے ہیں؟ کیا ایک مسلمان مرد یہودی یا عیسائی عورت سے شادی کر سکتا ہے اور وہ اپنے دین پر قائم رہ سکتی ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں،

 

۵۷۰

 

جی ہاں، مسلم اور کتابی ایک دوسرے کا کھانا کھا سکتے ہیں (۲) ایک مسلمان مرد کتابی عورت سے نکاح کرسکتا ہے، وہ اگر چاہے تو کتابی ہی رہ سکتی ہے۔

سوال -۸۴۷: جب حکمتی سوالات کا سلسلہ جاری ہے تو حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بھی کوئی سوال ہونا چاہیئے، سوال کے جواب سے قبل آپ متی کی انجیل، ب۱، آیات ا تا ۲۵ کو بھی غور سے پڑھیں، اور بتائیں کہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کی جسمانی ولادت کس طرح ہوئی؟ -جواب: (۱) مذکورہ انجیل کے الفاظ اس طرح ہیں: اب یسوع مسیح کی پیدائش اس طرح ہوئی کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوگئی تو ان کے اکٹھے ہونے سے پہلے وہ روح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی (۲) پس اس کے شوہر یوسف نے جو راست باز تھا اور اسے بدنام کرنا نہیں چاہتا تھا اسے چپکے سے چھوڑ دینے کا ارادہ کیا (۳) وہ ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ خداوند کے فرشتہ نے اسے خواب میں دکھائی دے کر کہا، اے یوسف ابنِ داؤد! اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر، کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے، وہ روح القدس کی قدرت سے ہے۔

اس نورانی خواب سے جو بڑا معجزانہ اور وحی کی طرح شفاف اور منظم و مربوط تھا یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ مریم کا شوہر یوسف کوئی روحانی شخص یا کوئی خلیفہ تھا (۲۴: ۵۵) لہٰذا یہاں روح القدس سے یوسف کا جسمِ

 

۵۷۱

 

لطیف مراد ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عالمِ شخصی (انسان) میں تمام معجزات کو جمع کر رکھا ہے (۵۱: ۲۰ تا ۲۱)۔

سوال – ۸۴۸: آپ وضاحت کرکے بتائیں کہ عالمِ شخصی میں روح القدس / جبرائیل کس طرح ہوسکتا ہے؟ -جواب: (۱) عالمِ شخصی دراصل عالمِ دین کا نمونہ ہے، اس لئے اس میں سب کچھ ہے (۲) انسان میں طرح طرح کی قوّتیں موجود ہیں، اور انہی میں قوّتِ جبریلیہ، قوّتِ میکائیلیہ، قوّتِ اسرافیلیہ، اور قوّتِ عزرائیلیہ بھی ہیں، اور وقت آنے پر یہ قوّتیں اپنا اپنا کام کرنے لگتی ہیں، (۳) چنانچہ بحکمِ آیۂ قرآن (۱۹: ۱۷) یوسف کی قوّتِ جبریلیہ خود یوسف کے جسمِ لطیف میں مریم کے سامنے ظاہر ہوگئی ہو تو کیا تعجب ہو سکتا ہے۔

سوال – ۸۴۹: سورۂ اٰلِ عمران (۰۳: ۵۹) میں ہے: اللہ کے نزدیک عیسیٰؑ کی مثال آدمؑ کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہوجا اور وہ ہوگیا، اس کی حکمت بیان کریں -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آدمؑ اور عیسیٰؑ کو مٹی سے پیدا کیا، بلکہ تمام انسانوں کو بھی مٹی ہی کے جوہر سے پیدا کیا (۲۳: ۱۲ تا ۱۴) پس ٹھیک طرح سے سوچیں کہ جسمانی تخلیق سب کی ایک جیسی ہے (۲) مگر روحانی ولادت اور عقلی ولادت کی سعادت صرف کاملین ہی کو نصیب ہو جاتی ہے (۳) یاد رہے کہ جس طرح حضرتِ عیسیٰؑ کے والدین تھے، اسی طرح

 

۵۷۲

 

حضرتِ آدمؑ کے بھی والدین تھے۔

سوال – ۸۵۰: سورۂ رحمنٰ جو عروس القرآن ہے، اس میں حورانِ بہشت کی تعریف و توصیف ہے، اس میں کیا شک ہوسکتا ہے، لیکن ہمیں اسرارِ معرفت کی جستجو ہے، لہٰذا سوال ہے کہ وہ حوریں (۵۵: ۵۶) کس درجے کی ہیں؟ درجۂ جسمِ لطیف؟ درجۂ روحانی؟ یا درجۂ عقلانی؟ ۔جواب: (۱) اگرچہ بہشت میں ہر درجہ کی حوریں ہیں، لیکن اس آیۂ شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حورانِ عقلانی بصورتِ اسرارِ عرفانی ہیں، (۲) ترجمۂ آیت ہے: جنہیں ان جنتیوں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جنّ نے نہ چھوا ہے۔ یعنی یہ اسرارِ معرفت اور رموزِ حکمت ایسے نہیں، جن کو قبلاً کوئی انسان یا جنّ جانتا ہو (۳) اس کے بعد دوشیزہ اور اچھوتی ہونے کی صفت روحانی اور لطیف جسمانی حوروں کے لئے بھی ہے۔

 

۵۷۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۹

 

سوال – ۸۵۱: آپ کے اس عمدہ بیان سے ایک اور عظیم سوال پیدا ہوجاتا ہے، وہ یہ ہے کہ آیا یہ ممکن ہے کہ اللہ کی قدیم بادشاہی میں ایسے بے شمار بھید ہوں، جن کو ہنوز کاملین نہ جانتے ہوں، اور وہ صرف اہلِ بہشت کے لئے محفوظ ہوں؟ -جواب: (۱) ایسا نہیں، بلکہ اللہ کی قدیم بادشاہی میں تجدّد کا نظام ہے، وہ ہر بار صفحۂ روزگار سے علم کو اٹھاتا بھی ہے، اور ازسرِنّولکھتا بھی ہے (۱۳: ۳۹) (۲) یہ تجدّد اور خلقِ جدید ہی ہے (۱۴: ۱۹) کہ خداوند تعالیٰ دنیا کی عمر رسیدہ عورتوں کو بہشت میں لے جاکر دوشیزہ اور اچھوتی پریاں بنا دیتا ہے (۳) پھر اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ ہر عالمِ شخصی کو اسرارِ معرفت سے لبریز کر دے۔

سوال – ۸۵۲: آپ کی اس حکمت سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ بھول جانا اگرچہ ایک طرف سے شر ہے لیکن دوسری طرف سے خیر ہے، کیا یہ نظریہ درست ہے؟  -جواب: (۱) جی ہاں، بالکل درست ہے، چنانچہ دانشمند انسان وہ ہے، جو ہر بات کو پہلے ہی سے

 

۵۷۴

 

جانتا ہے کہ اس میں خیر ہے یا شر (۲) یہاں ایک خاص نکتہ قابلِ ذکر ہے، وہ ہے ذکرِالٰہی میں خود فراموشی کا نتیجہ، جو بہت بڑی کرامت ثابت ہو سکتا ہے (۳) ہاں، سب سے عظیم کامیابی کا راز اسی میں ہے کہ مومن خدا کو یاد کرتے کرتے اپنے آپ کو بھول جائے، پھر عجب نہیں کہ ایک نہ ایک دن اس پر بابِ روحانیّت مفتوح ہوجائے۔

سوال – ۸۵۳: آپ دنیا اور آخرت کے لفظی معنی اور حکمت بتائیں  -جواب: (۱) دنیا کے معنی ہیں قریب، بہت نزدیک، یعنی یہ جہان، آخرت کے معنی ہیں عاقبت، دارالبقا، دوسرا جہان (۲) کاملین و عارفین دنیا ہی میں قیامت و آخرت کو دیکھتے ہیں، اس لئے ان کے پاس علم الآخرت کا ایک خزانہ موجود ہوتا ہے، ایک مومن جب مرجاتا ہے، تب وہ قیامت اور آخرت کو عملی طور پر دیکھ سکتا ہے، مگر پوری امت کی عمر کے پیشِ نطر ہنوز قیامت بہت دور ہے۔

سوال – ۸۵۴: یہ سوال شاید از حد ضروری ہے: آیا قرآنِ حکیم میں کوئی ایسی آیت موجود ہے، جس کی حکمت یہ بتائے کہ اہلِ ایمان بہشت میں خاطر خواہ رہ کر دنیا میں آئے ہیں، اور یہ راز ان پر اس وقت کھل جاتا ہے، جبکہ وہ دوبارہ جنت کے علمی پھل کھانے لگتے ہی؟  -جواب: (۱) جی ہاں، ایسی بہت سی آیات ہیں، مگر آپ کا اشارہ اس آیۂ شریفہ کی طرف ہے، جس کا ترجمہ اس طرح سے ہے: جب

 

۵۷۵

 

ان کو کھانے کے لئے ان (باغات) سے پھل ملے گا تو وہ کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو ہم کو پہلے مل چکا تھا (۰۲: ۲۵) (۲) بہشت سے باہر آنے کا جو وقفہ ہے، وہی آج بہشت پر حجاب ہے، لیکن اہلِ بصیرت اس کے باؤجود بہشت کو دیکھتے ہیں۔

سوال – ۸۵۵: آپ نے کہا: خداوندِ تعالیٰ اپنی رحمتِ بیکران سے دنیا کی عمر رسیدہ عورتوں کو بھی بہشت کی اچھوتی حوریں بناتا ہے، کیا آپ متعلّقہ آیت کی نشاندہی اور وضاحت کریں گے؟  -جواب: (۱) سورۂ واقعہ (۵۶: ۳۵ تا ۳۶) میں ہے: یقیناً ہم نے ان (عورتوں کو دنیا میں) پیدا کیا اور پرورش کی جیسا کہ حق تھا، پھر ہم نے ان کو باکرہ بنایا (یعنی جسم لطیف میں منتقل کر دیا) (۲) میں سمجھتا ہوں کہ یہ عظیم انقلابی راز ہے، کیونکہ جسمِ لطیف صرف حورانِ بہشت ہی کے لئے نہیں، بلکہ تمام اہلِ بہشت کے لئے ہے۔

سوال – ۸۵۶: دانشگاہِ خانۂ حکمت کی یہ روحانی سائنس بڑی عجیب و غریب ہے، اس کی کائناتی معلومات کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، اسی اعتماد پر سوال ہے: کیا عظیم روحیں، فرشتے، جنّات (مردان و زنانِ قومِ پری) وغیرہ انسان ہی کے مظاہر ہیں؟  -جواب: (۱) جی ہاں یہ بات بالکل درست ہے، کیونکہ تسخیر کائنات کے یہی معنی ہیں (۲) عالمِ شخصی میں ہر چیز موجود ہونے کا مطلب بھی یہی ہے، القابض

 

۵۷۶

 

اور الباسط کی حکمت بھی یہی بتاتی ہے (۳) قانونِ خزائن بھی یہی کہتا ہے، اور یہ کہ بہشت میں کوئی نعمت غیر ممکن نہیں۔

سوال – ۸۵۷: کیا آپ نے سچ مچ جنّات کے بادشاہ کو دیکھا تھا، جیسا کہ ایک انٹرویو میں آپ کا یہ قول موجود ہے؟  ۔جواب: (۱) جی ہاں، یہ بالکل سچ ہے کہ میں نے روحانی انقلاب کے دوران بیشمار عجائب و غرائب کا مشاہدہ کیا ہے، اور چشمِ ظاہر کے سامنے حجّتِ قائم اور حضرتِ قائم کے دو انتہائی عظیم معجزے ہوئے، (۲) انہی میں سے اوّل کو عشق کی سرمستی میں جنّات کا بادشاہ کہا، اور یہ بالکل صحیح بھی ہے (۳) یہ سلیمانِ زمانؑ  کا جثّۂ ابداعیہ تھا، اور سچ مچ شاہِ جنّات، انتہائی خوبصورت اور لطیف انسانی شکل، زبان تمہاری اپنی، دیدار بھی اور حجاب بھی، وہ کسی دروازے کو ہاتھ بھی نہیں لگاتا، بلکہ وہ روحانی برق سے بڑی تیزی سے کھلتا اور بند ہو جاتا ہے۔

سوال – ۸۵۸: یہاں سے دو مفید سوال اور پیدا ہوگئے اوّل یہ کہ جنّ اور جثّہ ابداعیہ کے لئے دروازے کی کیا ضرورت ہے، وہ لطیف ہے، اس کو درودیوار روک نہیں سکتی ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا جثّۂ ابداعیہ یا جنّ کی ہستی برقی ہے؟  -جواب: (۱) جثّۂ ابداعیہ کے لئے کسی دروازے کی ضرورت تو نہیں، لیکن اس کا دروازے سے آنا علامتی ہے کہ وہ حدودِ دین میں سے ہے، (۲) نیز اس میں یہ

 

۵۷۷

 

اشارہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی مومن دشمن کے قید خانے میں محبوس ہو تو برضائے مولا اس کو نکالا جاسکتا ہے، لیکن خدا کے دوست کا زندان میں رہنا بڑا پُرحکمت کارنامہ ہے (۳) جثّۂ ابداعیہ جوہرِ نورانیّت سے ہے، لہٰذا آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ برقی مخلوق ہے یا جوہرِ آتش سے ہے، جیسے قرآن میں ارشاد ہے کہ جنّ کی تخلیق آگ سے ہے۔

سوال – ۸۵۹: سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۷) کے حوالے سے سوال ہے کہ آیا یہ بات ممکن ہوسکتی ہے کہ جس نارِ مقدّس نے ہابیل کی قربانی قبول کرلی تھی، اس سے جثّۂ ابداعیہ مراد ہو؟ کیونکہ مادّی آگ جو عقل و جان کے اوصاف سے عاری ہے، وہ کس طرح خدا کی نمائندہ ہوکر متّقی اور غیر متّقی کے درمیان کوئی فیصلہ کرسکتی ہے؟  -جواب: (۱) آپ کا سوال بہت ہی خوب، بڑا عقلی اور منطقی ہے، یقیناً یہ سوال خود ہی جواب بھی ہے (۲) بیشک جثّۂ ابداعیہ کے ایسے کئی عظیم معجزے ہوں گے، جواب تک پردۂ راز میں ہیں۔

سوال – ۸۶۰: ہم بیچاروں اور غریبوں سے اللہ تعالیٰ کے امتحانات بڑے عجیب و غریب ہیں، ایک طرف یہ فیصلہ کن ارشاد ہوچکا ہے کہ ہر چیز امام مبینؑ میں محدود ہے، یعنی کوئی معجزہ، کوئی علم، اور کوئی بھید امام کے عالمِ شخصی سے باہر نہیں، پھر الگ الگ بہت سی چیزوں کا ذکر بھی ہوا ہے، تاکہ دیکھا جائے کہ لوگ امام کے بارے

 

۵۷۸

 

میں کیا سوچتے ہیں، آپ کا کیا خیال ہے؟  -جواب: (۱) یہ بڑا مشکل امتحان ہے، جب تک کوئی مومن بحرِعلم اور دریائے عشق میں مستغرق نہ ہوجائے، تب تک امتحان سخت ہی رہے گا (۲) ذکر و عبادت اور گریہ و زاری سے آپ کو ہر گونہ مدد مل سکتی ہے، علم الیقین بہت بڑی نعمت ہے۔

 

۵۷۹

 

صندوقِ جواہر۔۲۰

 

سوال – ۸۶۱: قرآنی ارشاد کا مفہوم ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک ہی حقیقتِ عالیہ کو طرح طرح کی مثالوں میں بیان فرمایا ہے (۱۷: ۸۹، ۱۸: ۵۴) کیا آپ اس کے بارے میں کچھ سمجھا سکتے ہیں؟ -جواب: (۱)  ان شاء اللہ العزیز۔ یاد رہے کہ جس طرح انسانی زندگی کا سب سے اہم اور سب سے خاص مرکز دل ہے، اسی طرح قرآنی علم و حکمت کا سب سے عظیم مرکز کلیہ امامِ مبین ہے (۳۶: ۱۲) جو بمرتبۂ قلبِ قرآن ہے، اب اسی اعلیٰ حقیقت کی گونا گون مثالوں کے لئے سارے قرآن میں دیکھنا ہوگا (۲) کلیۂ امامِ مبین کی دوسری مثال قانونِ خزائن ہے (۱۵: ۲۱) تیسری مثال لوحِ محفوظ ہے (۸۵: ۲۲) چوتھی مثال ام الکتاب ہے (۱۳: ۳۹)۔

سوال – ۸۶۲: آپ نے وزڈم سرچ کے ایک لیکچر میں کہا تھا کہ قرآن فہمی کے خاص خاص اصولات ہیں، پس یہ سب سے بہترین اصول ہے، لہٰذا آپ اس کو آگے بڑھائیں – جواب: (۱) پانچویں مثال حظیرۂ قدس ہے، چھٹی مثال عالمِ شخصی (انفس) ہے، ساتویں مثال کتابِ احصا ہے (۷۸: ۲۹) (۲) آٹھویں مثال یہ ہے کہ خدا نے تمام چیزوں کو عددِ واحد میں گھیر لیا ہے (۷۲: ۲۸) نویں مثال یہ ہے کہ اللہ کائنات کو لپیٹتا ہے (۲۱: ۱۰۴)

 

۵۸۰

 

دسویں مثال یہ ہے کہ مجموعۂ کائنات اللہ کی مٹھی میں ہے (۳۹: ۶۷) یہ اور ان کے علاوہ وہ دوسری بہت سی مثالیں امامِ مبین کی ذاتِ اقدس کی تعریف میں ہیں۔

سوال – ۸۶۳: قرآنِ حکیم میں چار دفعہ لفظِ مَلَکُوْت کا ذکر آیا ہے، آپ بتائیں کہ مَلَکوت کے معنی کیا ہیں؟ اللہ کے ہاتھ میں مَلَکوت ہونے کا کیا مطلب ہے؟ -جواب: (۱) اگر آپ اس کے ظاہری معنی چاہتے ہیں تو لغات میں دیکھیں، اگر آپ اس کے باطنی معنی چاہتے ہیں تو قرآن میں سوچیں (۲) سورۂ انعام (۰۶: ۷۵) میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو آسمانوں اور زمین کے ملکوتی معجزات دکھا رہا تھا، کہاں؟ عالمِ شخصی میں، اور یہ سلسلہ کہاں جاکر مکمل ہوا؟ حظیرۂ قدس میں (۳) خدا کے ہاتھ میں ہر چیز کی ملکوت سے کیا مراد ہے؟ وہ ایک انتہائی گرانقدر چیز ہے، جس کے بے شمار نام ہیں، اور اس کو لولوئے مکنون بھی کہا گیا ہے، اللہ تعالیٰ سب کو حصولِ معرفت کے لئے عالی ہمتی عطا فرمائے!

سوال – ۸۶۴: ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت سے کس طرح ہوتی ہے؟ -جواب: (۱) ایک آیۂ شریفہ (۳۶: ۸۳) میں ہے کہ اللہ کے ہاتھ میں ہرچیز کی مَلَکوت ہے، دوسری آیۂ کریمہ (۶۷: ۰۱) میں ہے کہ خدا کے ہاتھ میں مَلَک (بادشاہی) ہے، تو معلوم ہوا کہ مَلَکوت کے معنوں

 

۵۸۱

 

میں سے ایک معنی ہیں: بادشاہی (۲) یہ ایک آیت سے دوسری آیت کی تفسیر کی ایک مثال ہے۔

سوال – ۸۶۵: سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۶۹) میں حکمت کی تعریف اس طرح فرمائی گئی ہے: وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اسے حقیقت میں خیر کثیر مل گئی۔ آپ کسی اور آیت سے بھی اس کی تفسیر کریں -جواب: (۱) حکمت عطا کرتا ہے (دیتا ہے) یہ فعل خدا کے ہاتھ کا ہے، اور اس کا براہِ راست تعلق اس بے مثال اور انتہائی عالی قدر چیز سے ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے (۲) پس اس کی تفسیر وہ تمام آیاتِ کریمہ ہیں، جو دستِ خدا کی تعریف سے متعلق ہیں، جیسے ارشاد ہے: تیرے ہاتھ میں خیر ہے (۰۳: ۲۶) یعنی جب بھی تو کائنات کو لپیٹتا ہے، تو اس میں شر کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور تیرے ہاتھ میں خیر ہی خیر باقی رہتا ہے (۳) اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکمت خیرِ کل ہے، جو تسخیرِ کائنات ہے، اور یہی بہشت کی بادشاہی بھی ہے۔

سوال – ۸۶۶: آیا قرآنِ حکیم میں عالمِ شخصی کی معرفت کی دعوت ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، یہ دعوت کئی طرح سے ہے، مِن جملہ سورۂ عنکبوت (۲۹: ۱۹) میں دیکھیں: کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کس طرح خلقت (انسان) کو پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر (کس طرح) اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے (۲) یہ نہ صرف عالمِ شخصی کی معرفت کی طرف عظیم

 

۵۸۲

 

دعوت ہی ہے، بلکہ نتیجۂ دعوت یعنی معرفت بھی ہے کہ منزلِ عزرائیلی میں خدا انسان کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے، اور اسی طرح مرتبۂ عقل پر بھی (۳) اس آیۂ کریمہ میں “الخلق” سے انسان مراد ہے کہ معرفت اسی سے وابستہ ہے۔

سوال – ۸۶۷: سورۂ قیامہ (۷۵: ۱۴) میں ارشاد ہے: بَلْ الإِنسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ۔ آپ اس کی حکمت بتائیں – جواب: (۱) بلکہ انسان چشمِ دل سے اپنے آپ کو بخوبی دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے (۲) یعنی عارفِ کامل تمام لوگوں کے لئے نمونہ اور مثال ہے، لہٰذا ہر شخص کی روحانی ترقی، خود شناسی، اور خدا شناسی ممکن ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

سوال – ۸۶۸: آج ہم آپ سے ایک غیر معمولی اور بڑا عجیب و غریب سوال کرتے ہیں، وہ ہے نظریۂ  کلّیت، آپ بتائیں کہ نظریہ کلّیت کیا ہے؟ -جواب: (۱) کلّیات میں سے کسی کُلّ کو اس کے تمام اجزأ کے ساتھ دیکھنا، پھر اس کے حقائق و معارف پر تبصرہ کرنا نظریۂ کلّیت ہے (۲) جیسے اگر آپ کو پانی کے بارے میں کچھ کہنا ہے تو اس کے دائرہ کُلّ کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔

سوال – ۸۶۹: آیا انسانی روح پر بھی نظریۂ کلّیت کا اطلاق

 

۵۸۳

 

ہو سکتا ہے؟ -جواب: (۱) کیوں نہیں، جبکہ روح ایک کائنات یعنی عالمِ شخصی ہے، اور اس کے لاتعداد اجزأ ہیں، جو تمام احوال پر محیط ہیں (۲) روح اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے، لہٰذا اس میں صفاتِ الٰہیہ کی جو جو تجلّیات ہیں، ان کا کما حقہ بیان ممکن نہیں (۳) ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ روح مکان و لامکان میں ہرجا حاضر ہے، اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کی کلّی روح کا ایک پہلو ہمیشہ بہشت میں رہتا ہے۔

سوال -۸۷۰: کیا عالمِ شخصی سے عالمِ انسانیّت مراد ہے؟ قرآنِ حکیم میں لفظِ “العٰلمین” کتنی بار آیا ہے؟ العٰلمین سے کون کونسے جہان مراد ہیں؟ -جواب: (۱) جی ہاں، عالمِ شخصی ہی دراصل عالمِ انسانیّت ہے (۲) قرآنِ پاک میں لفظِ العٰلمین کل ۷۳ دفعہ آیا ہے، (۳) العٰلمین سے عوالمِ شخصی مراد ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسولؐ کو عوالمِ شخصی ہی کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے (۲۱: ۱۰۷) کیونکہ عالمِ جمادات، عالمِ نباتات، اور عالمِ حیوانات اس رحمتِ رسولؐ کے قابل نہیں ہیں۔

 

۵۸۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۱

 

سوال – ۸۷۱: سورۂ یونس (۱۰: ۱۰۰) میں ارشاد ہے:  وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ۔ اس کی حکمت کیا ہے؟ -جواب: (۱)(ترجمہ) اور جو لوگ بے عقل ہیں ان پر وہ (کفر و جہالت کی) نجاست ڈالتا ہے (۲) جو لوگ حقیقی عقل سے عاری ہیں، ان کی سخت مذمت کی گئی ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ اسلام عقلی مذہب ہے (۳) قرآنِ حکیم میں ایسی بہت سی آیات وارد ہوئی ہیں، جن میں عقل و دانش اور علم و حکمت کی تعریف ہے۔

سوال – ۸۷۲: کیا آپ یہ عظیم رازِ معرفت بتا سکتے ہیں کہ خداوندِ تعالیٰ کس طرح روحانی کائنات کو لپیٹتا ہے؟ ۔جواب: (۱) ان شاء اللہ۔ جب کسی انسانِ کامل کی قیامت برپا ہوجاتی ہے تو اس وقت باطنی کائنات دو مرحلوں میں لپیٹ لی جاتی ہے، پہلے عالمِ شخصی میں، اور کچھ مدت کے بعد حظیرۂ قدس میں (۲) یہی سبب ہے کہ قرآن نے فرمایا کہ تمام چیزیں جفت جفت ہیں۔

 

۵۸۵

 

سوال – ۸۷۳: سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۰۵) میں ارشاد ہے: الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى۔ آپ کے نزدیک اس آیۂ کریمہ کا صحیح ترجمہ کس طرح ہے؟ -جواب: (۱)ترجمہ: (خدائے) رحمٰن نے عرش پر برابری کا کام کیا۔ یعنی پہلے خدا کی مخلوقات کے درجات مقرر ہوتے ہیں، لیکن جب اللہ تعالیٰ ساری کائنات کو حظیرۂ قدس / عرش پر لپیٹ لیتا ہے تو اس وقت وہ مساوات و برابری کا کام کرتا ہے (۲) یہ عالمِ شخصی کا تذکرہ ہے۔

سوال – ۸۷۴: سورۂ مُلک (۶۷: ۰۳) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ  = (اے عارف!) تجھ کو رحمٰن کی خلق میں کچھ فرق و تفاوت نظر نہیں آئے گا۔ آیا یہ آیت بھی مذکورہ برابری کے بارے میں ہے؟ -جواب: (۱)جی ہاں، اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں لوگوں کے لئے درجات بھی ہیں، اور مساوات و برابری بھی ہے (۲) یہ خدا کی مخلوق کے بارے میں نظریۂ کلّیت ہے، اس سے معترضین کے تمام سوالات ختم ہوجاتے ہیں۔

سوال – ۸۷۵: بیانِ بالا سے معلوم ہوا کہ سنتِ الٰہی میں مخلوق کے لئے درجات بھی ہیں، اور برابری بھی ہے، اب آپ یہ بتائیں کہ اس باب میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام نے کس طرح عمل کیا؟ -جواب: (۱) ان حضرات نے سب لوگوں کو یکسان طور پر نورانی

 

۵۸۶

 

ہدایات دیں، اور لوگوں پر ان کا انتہائی عظیم احسان یہ ہوا کہ لوگ اپنے اپنے صاحبِ قیامت میں فنا ہوکر اس کی نورانی کاپیاں ہوگئے (۲) یہ کاپیاں بھی ہیں، اور یہی وحدت بھی ہے۔

سوال – ۸۷۶: آیا یہ حقیقت ہے کہ حظیرۂ قدس میں نہ صرف شخصِ وحدت کی بے شمار کاپیاں موجود ہیں، بلکہ ان کاپیوں کی وحدت بھی ہے، کیا آپ اس کی کوئی معقول مثال پیش کر سکتے ہیں؟ -جواب: (۱)جی ہاں، حظیرۂ قدس میں بےشمار کاپیاں تو ہیں، مگر بیک وقت ظاہر نہیں ہوسکتی ہیں، کیونکہ وہ عالمِ وحدت ہے، لہٰذا وہاں ایک وقت میں صرف ایک ہی ظہور ہوسکتا ہے (۲) لوگ خدا کی رحمت سے عالمِ شخصی میں جاکر کس طرح انسانِ کامل کی زندہ اور ہوبہو کاپیاں ہوجاتے ہیں، اس کی ایک نمایان مثال حضرتِ ابراہیمؑ ہے، جیسا کہ آیۂ کریمہ (۱۶: ۱۲۰) کا ترجمہ ہے: واقعہ یہ ہے کہ ابراہیمؑ اپنی ذات (کی کاپیوں) سے ایک پوری امت تھا اللہ کا فرمانبردار اور عارف۔

سوال – ۸۷۷: سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں زبردست معجزاتی کُرتوں (سرابیل) کا ذکر آیا ہے، کیا یہ امامِ زمانؑ کے جثّۂ ابداعیہ کی کاپیاں ہیں؟ -جواب: (۱) جی ہاں، کیونکہ خداوندِ تعالیٰ نے امامؑ کو لوگوں کی نجات کے لئے مقرر فرمایا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ امامِ مبین علیہ السّلام میں تمام چیزیں موجود ہیں (۲) امامِ زمان یقیناً تمام انبیاء  کے باطنی معجزات

 

۵۸۷

 

کا وارث ہے، اگر ہر پیغمبر کے ساتھ اس کا معجزہ بھی چلا جاتا تو پھر دین کے تمام کمالات اور عجائب و غرائب زمانۂ ماضی کا حصّہ بن جاتے، اور اب دین میں کوئی معجزہ نہ ہوتا۔

سوال – ۸۷۸: سورۂ قصص (۲۸: ۰۵) میں ہے: اور ہم چاہتے تھے (اور چاہتے ہیں) کہ جو لوگ ملک میں کمزور کردیئے ہیں ان پر احسان کریں اور ان کو أئمّہ (پیشوایان) بنائیں اور انہیں وارث کریں۔ یہ آیت بنی اسرائیل کے بارے میں ہے، آپ بتائیں کہ اللہ نے موسیٰؑ اور ہارونؑ کے مومنین کو کس طرح أئمّہ بنایا؟ -جواب: (۱) بنی اسرائیل کے حقیقی مومنین کو حضرتِ امام ہارونؑ کی منزلِ عزرائیلی میں بھی اور مقامِ عقل پر بھی یہ مرتبہ عطا ہوا (۲) اسی معنیٰ میں ہے کہ خداوند تعالیٰ نے حضرتِ موسیٰؑ کی قوم کو ملوک یعنی روحانی سلاطین بنایا تھا (۰۵: ۲۰)۔

سوال – ۸۷۹: کیا آپ یہی حقیقت کسی اور دلیل سے بھی سمجھا سکتے ہیں؟ -جواب: (۱)ان شاء اللہ۔ آپ کو وہ حدیثِ قدسی یاد ہوگی، جس میں نفسِ کلّی نے فرمایا ہے: اے ابنِ آدم! میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو میری اپنی مثال بناؤں گا (۲) اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ امامِ عالیمقامؑ مومنین و مومنات کا روحانی باپ بھی ہے اور ماں بھی، اور لازمی ہے کہ امام کے فرزندانِ روحانی جو فرمانبردار ہیں وہ روحانیّت اور کل بہشت میں اپنے باپ امام علیہ السّلام کی طرح بادشاہ ہو جائیں۔

 

۵۸۸

 

سوال – ۸۸۰: سوال ہے کہ عرش و کرسی کیا ہیں، اور تہ بر تہ سات آسمان کیا ہیں (۶۷: ۰۳)؟ -جواب: (۱) جاننا چاہئے کہ عرش سے فرشتۂ عقلِ کُلّ مراد ہے، کرسی فرشتۂ نفسِ کُلّ ہے، اور ان دونوں عظیم فرشتوں کی وحدت ہے، جس میں صرف نفسِ کلّ کی رؤیت ہوسکتی ہے (۲) سات آسمان جو تہ بر تہ ہیں، وہ سات صاحبانِ ادوار ہیں، جن کو نفسِ کُلّ کی کرسی نے اپنے اندر لے رکھا ہے (۰۲: ۲۵۵) اس کا مطلب یہ ہوا کہ محیط و بسیطِ کلّ کرسی ہے، اور کلِّ کلّیات بھی وہی ہے۔

 

۵۸۹

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۲

 

سوال – ۸۸۱: مکانی بہشت کہاں ہے؟ لامکانی بہشت کی کیا خصوصیت ہے؟ نزدیک لائی ہوئی بہشت کہاں ہو سکتی ہے؟ -جواب: (۱) مکانی بہشت کائنات بھر میں ہے (دیکھو: ۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) (۲) لامکانی بہشت کی خصوصیت یہ ہے کہ مکان کی محتاج نہیں (۳) نزدیک لائی ہوئی بہشت عالمِ شخصی میں ہوا کرتی ہے، اور یہی بہشت برائے معرفت ہے۔

سوال – ۸۸۲: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۸) میں ارشاد ہوا ہے: اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا۔ اس کی حکمت بیان کریں- جواب: (۱) قرآن کے معنی ہیں کلامِ الٰہی، نیز اس کے معنی ہیں اسمِ اعظم پڑھنا (۲) چنانچہ ارشاد ہے کہ بوقتِ فجر باقاعدہ اسمِ اعظم کے پڑھنے سے روحانیّت کے مشاہدات ہوا کرتے ہیں۔

سوال -۸۸۳: آپ یہ بتائیں کہ اسمِ اعظم کا ذکر کب خود کار (AUTOMATIC) ہوجاتا ہے؟ کیا اس معجزے کا ذکر یا اشارہ

 

۵۹۰

 

قرآنِ پاک میں موجود ہے؟ -جواب: (۱) یہ معجزہ حقیقی معنوں میں قیامِ قیامت کے ساتھ شروع ہوجاتا ہے، اور چند اسمائے عظام خود بخود بولنے لگتے ہیں (۲) اس کا ایک اشارہ سورۂ فتح (۴۸: ۲۶) میں موجود ہے۔

سوال – ۸۸۴: سورۂ طلاق کے آخر (۶۵: ۱۲) میں ہفت آسمان اور ہفت زمین کا ذکر آیا ہے، اس کی تاویل کیا ہے؟ -جواب: (۱) عالمِ دین کے سات آسمان یہ ہیں: چھ حضراتِ ناطقانؑ، اور حضرتِ قائمؑ، کلُ سات آسمان ہوئے، اور ان میں سے ہر ایک کا ایک حجتِ اعظم ہے، اور وہ مجموعاً سات ہوگئے، جو دین کی سات زمین ہیں (۲) یہ سات باطنی آسمان اور سات باطنی زمین کرسی (نفسِ کُلّی) کے اندر ہیں (۰۲: ۲۵۵)۔

سوال – ۸۸۵: مثال کے بغیر کوئی ممثول نہیں، ظاہر اور باطن جسم وجان کی طرح ہیں، اور جب تک تنزیل نہ ہو تو تاویل نہیں ہوسکتی ہے، لہٰذا عجب نہیں کہ ظاہری اور باطنی آسمان و زمین کا قصّہ کسی حد تک ایک جیسا ہو، آپ کا کیا خیال ہے؟ -جواب: (۱) آپ کی بات دلیلِ روشن پر مبنی ہے، پس ممکن ہے کہ اس کائناتِ ظاہر میں بیک وقت یا باری باری سے ہفت زمین موجود ہوں (۲) جب ہم عالمِ دین پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر بڑے دور کے لوگ صرف ایک ہی جفت آسمان و زمین سے فائدہ حاصل کرنے کے

 

۵۹۱

 

پابند ہوا کرتے ہیں، پھر زیادہ سے زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ سات زمین باری باری سے وجود میں آتی ہیں، جس طرح ہفتے کے سات دن تو ہیں، مگر وہ سب ایک ساتھ سامنے نہیں آتے۔

سوال – ۸۸۶: خدا کی قسم! آپ کی اکثر باتوں میں روحانی سائنس ہے، آپ نے آسمان و زمین کے بارے میں چند تاویلیں کی ہیں، ان میں یہ بھی کہا ہے کہ یہی کائنات اگر ایک پہلو سے آسمان ہے تو دوسرے پہلو سے زمین ہے، اس کی دلیل کیا ہے؟ -جواب: (۱) سورۂ انبیاء (۲۱: ۳۰) میں ایک عظیم کائناتی بھید ہے، جس کا نام قرآن میں رَتْق و فَتَقْ ہے، جس کا ایک ترجمہ ہے، اور اس کی تاویل حظیرۂ قدس میں ہے (۲) وہ یہ ہے کہ دراصل آسمانِ عقلِ کلّ اور زمینِ نفسِ کلّ بحیثیتِ فرشتۂ واحد کام کر رہے ہیں، تاہم وہاں جو اشارۂ کلّ ہے، وہ یہ ظاہر کررہا ہے کہ آسمان زمین قرآنی بیان میں ایک بھی ہے اور دو بھی ہیں (۳) دوسری دلیل: جب باطن کے ہفت آسمان اور ہفت زمین کرسی کے اندر ہیں، اور عرش بھی کرسی کے ساتھ مل کر ہے تو پھر مادّیت کے آسمانون اور زمینوں کو کائنات کی صورت میں کیوں ایک نہ ہونا چاہیئے۔

سوال – ۸۸۷: سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں یہ قرآنی تعلیم ہے: اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لئے،

 

۵۹۲

 

اور خود تمہارے اپنے وجود میں بھی ہیں، یہاں پوچھنا ہے کہ یہ زمین کونسی ہے، جس میں نشانیاں یا معجزات ہیں؟ – جواب: (۱) یہ سیّارہ ہے، جس کو لوگ زمین کہتے ہیں، کائناتی زمین ہے، اور ارضِ نفسِ کلّ ہے، جس میں عالمِ دین کے سات آسمان اور سات زمین موجود ہیں، اور عقلِ کلّ بھی اس کے ساتھ ہے (۲) یہ تمام معجزے انسان میں بھی ہیں، جو عالمِ صغیر یا عالمِ شخصی ہے۔

سوال – ۸۸۸: سورۂ یوسف (۱۲: ۷۰، ۱۲: ۷۲) کے حوالے سے سوال ہے کہ السِّقایَۃ (پانی پلانا، پلانے کی جگہ، پینے کا برتن) اور صُوَاع (پینے کا بڑا جام جس میں شراب پی جاتی ہے، نیز “صَاع” کو صُوَاع کہتے ہیں جو ایک مشہور پیمانہ ہے) ایک ہی چیز ہے، اس کی تاویل کیا ہے؟ -جواب: (۱) اس کی تاویل ہے گوہرِعقل، کیونکہ یہ جملہ معانی جو یہاں مذکور ہیں اور دوسرے تمام معانی اسی سے وابستہ ہیں (۲) وہ باطنی حاجیوں کو آبِ علم پلانے کی جگہ ہے، وہ جامِ کوثر ہے، وہ جامِ شربِ جنّت ہے، وہ حقائق و معارف کا پیمانہ ہے۔

سوال -۸۸۹: جب بوسفؑ ان بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تو اس نے اپنے بھائی (بن یمین) کے سامان میں اپنا پیالہ (سِقایہ =صواع) رکھ دیا (۱۲: ۷۰)۔ آیا امامِ یوسفؑ نے اپنے بھائی کو حدودِ دین کا کوئی درجہ دیدیا تھا؟ -جواب: (۱) یقیناً مرتبۂ حجتی پر فائز کر دیا ہوگا۔

 

۵۹۳

 

سوال – ۸۹۰: حضرتِ امام یوسف علیہ السّلام کے انتہائی حسین و جمیل ہونے میں کیا حکمت (تاویل) ہے؟ -جواب: (۱) حضرتِ یوسفؑ کا حسنِ ظاہری صرف علامت اور مثال ہے، جبکہ اصل اور حقیقی حسن و جمال باطن میں ہوا کرتا ہے (۲) سب سے بڑا حسین و جمیل اللہ تعالیٰ ہے، ہر پیغمبر، ہر امام، اور ہر عارف جمالِ معنوی کا مالک ہوتا ہے (۳) تھوڑی دیر کے لئے جمالیات (حسن شناسی) کی طرف توجّہ دیں، اور عالمِ جمادات کے حسن (جواہر) کو دیکھیں، قیمتی پتھروں کو دیکھ کر یقیناً ہر شخص دنگ رہ جاتا ہے، حالانکہ یہ حسن درجۂ اسفل ہی کا ہے۔ (۴) بعد ازان آپ بنظرِ دقیق عالمِ بناتات کے حسن یعنی طرح طرح کے پھولوں کا نظارہ کریں، آپ کا دل حیرت سے کہنے لگے گا کہ یہ کیسا مسحور کن منظر ہے: اب آپ عالمِ حیوانات میں خوب غور و فکر کریں، جہاں آپ کو روحِ حسی کی وجہ سے زیادہ خوبیاں نظر آئیں گی، مثال کے طور پر جانوروں کے خوبصورت، چنچل اور نخرے باز بچے، جن کی مستانہ حرکتیں بڑی عجیب و غریب ہوا کرتی ہیں (۵) آئیے اب ہم آپ کو عالمِ انسان کی طرف لے چلتے ہیں، جب انسان اشرف ترینِ خلائق ہے، اور وہ ظاہر میں صورتِ رحمان کی علامت ہے تو اس کے باطنی حسن و جمال کا کیا عالم ہوگا، جس نے روح کو دیکھا ہے، اس کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی انسانی رعنائی اور زیبائی سے روحانی جمال ہزار درجہ اعلیٰ ہے، یہ سچ ہے کہ باطنی آنکھ روح کے نورانی دیدار سے چندھیا جاتی ہے۔

 

۵۹۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۳

 

سوال – ۸۹۱: بحوالۂ سورۂ نور (۲۴: ۵۵) آپ ہمیں یہ بتائیں کہ اس آیۂ شریفہ میں جس زمین کی خلافت کا ذکر ہوا ہے؟ وہ کونسی زمین ہے؟ اس خلافت کا وعدہ کس درجہ کے مومنین سے ہوسکتا ہے؟ ماضی میں اللہ نے کیسے لوگوں کو اپنا خلیفہ بنایا تھا؟ -جواب: (۱) یہ زمینِ عالمِ شخصی اور بعد ازان زمینِ بہشت ہے، جس پر حقیقی مومنین کو اللہ اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہے (۲) خداوند تعالیٰ نے اس حکم سے پہلے جن حضرات کو خلیفہ بنایا تھا، ان میں سب سے اوّل حضرتِ آدمؑ کا نام آتا ہے، ورنہ سنتِ الٰہی ایسی نہیں ہے کہ شروع شروع کی خلافت انتہائی عظیم ہو، پھر رفتہ رفتہ کم سے کمتر ہوتی چلی جائے۔

سوال- ۸۹۲: اس آیۂ کریمہ کے مطابق خلافتِ الہٰیہ کے لئے شرط یہ ہے کہ لوگ ایمان لائیں اور نیک کام کریں، سوال یہ ہے کہ آیا دینِ اسلام میں کبھی ایسے لوگ پیدا نہیں ہوئے، جو خلافت کی ان شرطوں کو بجالائیں؟ -جواب: (۱) یقیناً ہر زمانے میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جنہوں نے کما حقہٗ ایمان لایا، اور علم و حکمت کے ساتھ نیک

 

۵۹۵

 

کام کئے، پھر خدا نے اپنے وعدے کے مطابق ان کو عالمِ شخصی اور بہشت کی خلافت عطا فرمائی (۲) کتنی بڑی عجیب بات ہے کہ اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے انعامات کو دنیائے ظاہر ہی میں حاصل کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ وہ انعامات باطنی اور اخروی ہیں (۳) دانشمند مومنین و مومنات پر واجب ہے کہ وہ علم و حکمت کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی ظاہری اور باطنی نعمتوں کو پہچانیں۔

سوال – ۸۹۳: سورۂ فجر (۸۹: ۲۲) میں ارشاد ہے: وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا = اور تیرا ربّ آجائے گا اور فرشتے صفیں باندھ کر (آجائیں گے)۔ آیا قیامت کا یہ انتہائی عجیب و غریب واقعہ ظاہر میں پیش آئےگا؟ -جواب: (۱) آنے جانے کا فعل خدا کے لئے تمثیلی ہے، جس کی تاویل ہے، اللہ ہر جگہ حاضر و ناظر اور موجود ہے، خدا نور کا وہ سمندر ہے (۲۴: ۳۵) جس میں ساری کائنات مستغرق ہے (۲) جب نور کے سمندر سے ذرہ بھر جگہ بھی خالی نہیں ہے تو پھر یقین آتا ہے کہ اس آیۂ مبارکہ میں کوئی بہت بڑی تاویل پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ اس سے حضرتِ قائم القیامت کا ظہور مراد ہے۔

سوال – ۸۹۴: آج آپ نے بفضلِ خدا عاشقانِ نور کے لئے سب سے بڑے راز کو کھول دیا، الحمد للہ، براہِ کرم، حضرتِ قائم القیامت علینا مِنہ السّلام سے متعلق مزید اسرار؟ -جواب: (۱) قائمِ

 

۵۹۶

 

آلِ محمدؐ خدا و رسولؐ کی جانب سے نمائندۂ قیامت ہے، چونکہ وہ اللہ کے نور کا مظہر اور نمائندۂ قیامت ہے، لہٰذا اس کا عالمِ دین میں آنا خدا کے آنے کی طرح ہے (۲) غور سے سن لیں کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ بادشاہِ مطلق ہے، وہ امر کا مالک ہے، اس لئے اس کے تمام کاموں کو ملائک، انبیاء اور أئمّہ ہی انجام دیتے ہیں۔

سوال – ۸۹۵: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) آیا وہ (کسی اور معجزے کا) انتظار کرتے ہیں سوائے اس کے کہ خدا (یعنی اس کا نمائندۂ قیامت) ان کے پاس بادل کے سائبانوں میں آئے اور فرشتے (بھی آئیں) اور معاملہ طے ہوجائے (۰۲: ۲۱۰)؟ (۲) لوگوں سے بہت بڑا امتحان ہے، آپ قرآنِ حکیم میں دیکھیں کہ اللہ کا حجاب ہوا کرتا ہے (۴۲: ۵۱) اور حجاب سے اللہ کا مظہر مراد ہے۔

سوال – ۸۹۶: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) امامِ مبینؑ میں تمام چیزوں کے جمع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قرآنی تاویل کا مکمل خزانہ حضرتِ قائمؑ کے نور میں ہے، پس ع ش میں حضرتِ قائمؑ کے ظہور سے قیامت برپا ہوکر تاویل آجاتی ہے (۲) جیسا کہ سورۂ اعراف (۰۷: ۵۳) میں ہے: آیا وہ لوگ (کسی اور قیامت کا) انتظار کرتے ہیں سوائے اس کتاب (قرآن) کی تاویل کے (۳) اس سے معلوم ہوا کہ قیامت قرآن کی زندہ تاویل ہےجو حضرتِ قائمؑ سے وابستہ ہے۔

 

۵۹۷

 

سوال – ۸۹۷: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) اے کاش لوگ حضرتِ قائم، قیامت، عالمِ ذرّ اور عالمِ شخصی کی معرفت حاصل کرسکتے! یا علم الیقین کی کتابوں کا خوب غور سے مطالعہ کرتے رہتے! (۲) ع ذ (عالمِ ذرّ) لوگوں کی وہ نمائندہ کائنات ہے، جس میں نہ صرف انسان بلکہ ہر ہر چیز بشکلِ ذرہ موجود ہے، ع ذ میں بے شمار کلیدی حکمتیں مخفی ہیں (۳) حدیثِ شریف میں ہے: الا رواحُ جُنودٌ مُّجَنَّدَۃ (روحیں جمع شدہ لشکر کی حیثیت سے ہیں) یقیناً یہی ارواح عالمِ ذرّ ہے (۴) الذرّ کے معنی ہیں: چھوٹی چیونٹیاں، کرمک، نیز اس کے معنی ہیں: ہوا میں منتشر غبار۔

سوال – ۸۹۸: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) اطاعت کی ترتیب یہ ہے: اللہ تعالیٰ کی اطاعت، رسولِ کریمؐ کی اطاعت، اور صاحبِ امرؑ (امامِ زمانؑ) کی اطاعت، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عشق و فنا کی ترتیب یہ ہے: فنا فی الامام، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ (۲) مگر یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ فنا صرف ایک عقیدہ نہیں، بلکہ ضروری عمل بھی ہے، ہر چند کہ یہ اختیاری موت ہے، تاہم کتنی عظیم الشّان موت ہے !

سوال – ۸۹۹: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) اے عزیزان! عجب نہیں کہ جملہ قرآن میں عشق و فنا کا تذکرہ ہو، کیونکہ وہ ہر کائنات کو لپیٹتا ہے اور پھیلاتا ہے اور عاشقانِ الٰہی کو اللہ کا یہ بہت بڑا معجزہ

 

۵۹۸

 

قرآن ہی میں نظر آتا ہے (۲) کہ وہ قرآنِ عظیم میں جس مضمون کو دیکھنا چاہتے ہیں، وہی مضمون سرتا سر کلامِ الٰہی میں پھیلتا جاتا ہے (۳) کیونکہ خداوند تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ح ق (حظیرۂ قدس) میں قرآنی الفاظ کی معنوی وحدت بنائی ہے، اور اس سے نیچے نیچے معنوی کثرت ہے۔

سوال – ۹۰۰: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) جیسا کہ قرآنِ حکیم (۳۴: ۱۱) میں آیا ہے کہ خداوندِ کریم نے حضرتِ داؤد علیہ السّلام کو ظاہری اور باطنی (علمی) زرہیں بنانے کی تعلیم دی تھی، جس میں اندازے سے کڑیوں کو جوڑنے کا حکم ہے (۲) اس سے معلوم ہوا کہ روحانی اور علمی زِرہ ظاہری زِرہ کی طرح حلقہ در حلقہ ہوا کرتی ہے، یعنی روحانی علم وہ ہے، جس کی تمام کڑیاں باہم مربوط و مستحکم ہوتی ہیں، اگر آپ کو قرآنی اور روحانی حکمت کی ایک کڑی نظر آتی ہے تو بہت بہت مبارک ہو کہ باقی تمام کڑیاں اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔

 

۵۹۹

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۴

 

سوال – ۹۰۱: سورۂ حدید (۵۷: ۰۳) میں ہے کہ اللہ اوّل بھی ہے آخر بھی، ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، یہی اسمائے مبارک رسول اللہؐ کے بھی ہیں، اور مولاعلیؑ نے اپنی ذات کو اسماء الحسنیٰ قرار دیا ہے، آپ اس کی حقیقت سمجھائیں -جواب: (۱) اس حقیقت کے بارے میں قبلاً گفتگو ہوچکی ہے کہ حضرتِ محمد رسولِ خداؐ اور أئمّۂ آلِ محمدؐ اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ ہیں، جن کے ذریعے سے اللہ کو پکارنے کا حکم دیا گیا ہے (۰۷: ۱۸۰) (۲) پس قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کے جتنے اسمائے ظاہر آئے ہیں، ان سب کی تاویل اسماء الحسنیٰ ہیں، جن کا ذکر ہوچکا۔

سوال – ۹۰۲: آپ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہر چیز زندہ، بولنے والی، اور نورِعقل کی خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ہے، اس کی کوئی مثال بتائیں- جواب: (۱) اللہ کا قلم بے مثال ہے کہ وہ ایک عظیم فرشتہ اور نورِعقل ہے، اسی طرح لوحِ محفوظ کی بہت بڑی تعریف ہے، (۲) عرش و کرسی دو بڑے زندہ فرشتے ہیں، اللہ کے اسماء الحسنیٰ کا ذکر ہوا جو زندہ ہیں (۳) خدا کا نور زندہ ہے، اس کی رسی زندہ ہے،

 

۶۰۰

 

اللہ کی کتاب ایک مقام پر برائے امتحان خاموش ہے، مگر دوسرے مقام پر بولتی ہے، صراطِ مستقیم زندہ ہے اور بولتی رہتی ہے۔

سوال – ۹۰۳: فرمانِ اقدس ہے کہ جب حضرتِ امامِ عالیمقامؑ بولنے کے لئے دہنِ مبارک کھولتے ہیں تو جواہر کا ڈھیر بن جاتا ہے، کیا مولا کے اس مبارک ارشاد میں کوئی باطنی اشارہ ہے یا یہ صرف ظاہری ارشادات انمول ہونے کی تعریف ہے؟ -جواب: (۱) اس میں دونوں باتیں ہیں، چنانچہ جب کوئی عاشقِ صادق ع ش پھر ح ق میں داخل ہو جاتا ہے تو وہ وہاں سب سے عظیم معجزات کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے (۲) من جملہ دال میم کے جواہرِ اسرار گویا انبارِ در و گوہر ہیں، جو خدا کی ساری خدائی میں انمول ہے (۳) آپ اندازہ کریں کہ مقامِ ازل پر مظہرِ نورِ الٰہی کے کلامِ حکمت نظام کی کیا شان ہوگی، جبکہ اس میں قرآنی تاویل کا بہت بڑا خزانہ موجود ہو!

سوال – ۹۰۴: کیا آپ کے پاس بعض بروشسکی روحانی یا عرفانی کلمات ہیں؟ – جواب: (۱) جی ہاں، وہ یہ ہیں: اݹ مُش او = نظریۂ دائرہ، اݹ منسن اپݵ = کوئی نعمت ناممکن نہیں (۲) تھݸݽ گٹو جݹ، مݶن شرݸ جݹ =  مجھے جامۂ نو دے اور رزقِ قدیم دے، تھلا تھلا تھلانی، تھلا تھلا تھلا ژُو =  آہستہ آہستہ آہستہ جا، آہستہ آہستہ آہستہ آ، ان کے بہت سے معانی ہیں۔

 

۶۰۱

 

سوال – ۹۰۵: ان پُرحکمت کلمات کی کچھ وضاحت کریں- جواب: (۱) مُش کے معنی ہیں: سِرا، آغاز، انجام، ابتداء، انتہا، اول، آخر، اݹ مُش = لا ابتدا اور لا انتہا، اݹ مُش او کا مطلب ہے لا ابتدائی اور لا انتہائی کا نظریہ رکھو جو نظریۂ دائرہ ہے (۲) اس سے تصورِ آفرینش مراد ہے، جس کی بنیاد پر حقائق و معارف کی عمارت بنائی جا سکتی ہے، اور یہ سچ ہے کہ تصوّرِ آفرینش ایک عظیم دائرے کی طرح گول ہے۔

سوال – ۹۰۶: ” اݹ منسن اپݵ” میں کیا کیا بھید ہوسکتے ہیں؟ -جواب: (۱) اس کے معنی ہیں: بہشت وہ جگہ ہے جہاں کوئی نعمت غیر ممکن نہیں، یہ قرآنِ حکیم کی ایسی آیاتِ شریفہ کی مجموعی تاویل ہے، جن میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ بہشت میں لوگوں کی خواہش کے مطابق تمام نعمتیں موجود ہیں (۲) علم و معرفت کی ضرورت ہے، تاکہ بہشت کی ہر ممکن نعمت کی شناخت اور خواہش ہو۔

سوال – ۹۰۷: تھݸݽ گٹو جݹ، مݶن شرݸ جݹ؟ – جواب: (۱) مجھے جامۂ نَو (خلقِ جدید) اور رزقِ قدیم (علمِ ازل) عطا فرما! یہ تجدّدِ امثال کی تاویلی حکمت ہے (۲) میں نے بار بار سوچا ہے، ان تمام کلمات میں انتہائی جامعیت ہے، ان میں زبردست روحانیّت اور قرآنی حکمت ہے (۳) ہر کلمہ میرے لئے ایک علمی ورد و وظیفہ ہے یا فکری

 

۶۰۲

 

عبادت ہے، لہٰذا میں نے ان سے بہت فائدہ اٹھایا۔

سوال -۹۰۸: آپ نے یہ کلمہ اس طرح سے بھی لکھا ہے: تَھ لاک تَھ لاک تَھ لاک نی، تَھ لاک تَھ لاک تَھ لاک ژو، اس کے کیا معنی ہیں؟ – جواب: (۱) کروڑ کروڑ کروڑ  دفعہ جا، اور کروڑ کروڑ کروڑ دفعہ آ (۲) ایسا لگتا ہے کہ یہ چھ کروڑ سال کا کوئی دور ہے، ممکن ہے کہ یہی دورِ اعظم ہو (۳) خداوند تعالیٰ جو القابض اور الباسط ہے، وہ مکان و زمان کو جس طرح چاہے سمیٹ سکتا ہے اور پھیلا سکتا ہے۔

سوال – ۹۰۹: “مجموعی تاویل” یہ آپ کی اصطلاح بڑی عجیب و غریب ہے، کیا آپ اس کے باب میں کچھ سمجھا سکتے ہیں؟ -جواب: (۱)  ان شاء اللہ۔ ۔ ۔ ہر کلمۂ تامّہ مجموعی تاویل کا کام کرتا ہے، کیونکہ وہ ہزاروں سوالات کا واحد جواب ہے (۲) خدا و رسولؐ گواہ ہیں کہ امامِ زمانؑ کے نورِ باطن میں اسی طرح قرآنی تاویل سکھانے کا معجزہ موجود ہے۔

سوال – ۹۱۰: آپ نے ایک دفعہ قرآنِ عظیم کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ قرآنِ حکیم نہ صرف آنحضرتؐ کا سب سے بڑا معجزہ ہے، بلکہ یہ زندہ معجزات کی کائنات ہے، آپ ہم کو یہ حقیقت اچھی طرح سے سمجھائیں کہ کس طرح سے ہے؟ -جواب: (۱) آپ کو یہ سوال شاید اس لئے پیدا ہوا ہو کہ کائنات متحرک اور قرآن ساکن اور

 

۶۰۳

 

خاموش ہے، لیکن نہیں، قرآن کے ساتھ نور بھی ہے (۰۵: ۱۵) روح بھی ہے (۴۲: ۵۲) قرآن لوحِ محفوظ میں بھی ہے (۸۵: ۲۲) اور یہی پاک قرآن یقیناً کتابِ ناطق میں بھی ہے (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) (۲) قرآنِ حکیم کے باطن اور پس منظر میں بہت کچھ ہے، لیکن یہاں اس سے زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں۔

 

۶۰۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۵

 

سوال – ۹۱۱: بیانِ بالا سے یہ آیت یاد آئی: الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ (۱۵: ۹۱) جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ اس کے کیا معنی ہیں؟ -جواب: (۱) اس کے معنی ہیں: قرآن کے ظاہری اور باطنی اجزاء اور لوازم کو الگ الگ قرار دینا (۲) کیونکہ خزائنِ الٰہی (۱۵: ۲۱) قرآنِ عظیم کی تاویل اور معرفت کے سرچشمے ہیں۔

سوال – ۹۱۲: سورۂ حجر (۱۵: ۰۹) میں ارشاد ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ= ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ یہاں یہ ضروری سوال ہے کہ قرآن کے ظاہر پر ہمارا ایمان ہے، لیکن قرآن کی یہ حفاظت دراصل کونسی ہے؟ -جواب: (۱) چونکہ قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کا کلامِ حکمت نظام ہے، لہٰذا اس کا باطن خدا کے نور میں قائم اور لازوال ہے، اس کی دلیل لوحِ محفوظ ہے، جس میں ہمیشہ قرآنِ پاک محفوظ ہے، اور اس عظیم حفاظت گاہ کا دوسرا نام امامِ مبین ہے (۲) ایک اور نام ام الکتاب ہے (۱۳: ۳۹)۔

 

۶۰۵

 

سوال – ۹۱۳: بحوالہ سورۂ حجر (۱۵: ۸۷) سبعِ مثانی اور قرآنِ عظیم کی توجیہہ و تعریف کریں۔ -جواب: (۱) سبعِ مثانی = الحمد کی سات آیتیں جو نمازوں میں دہرائی جاتی ہیں، اس کی تاویل ہے ہفت در ہفت امام، اور قرآن عظیم سے حضرتِ قائم مراد ہے (۲) نیز قرآنِ عظیم یہی قرآن ہے، لیکن جس طرح لوگ مانتے ہیں، اس سے بہت ہی عظیم ہے، کیونکہ اس کا باطنی پہلو بڑا زبردست ہے (۳) چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ کلمۂ امر، قلمِ اعلیٰ، لوحِ محفوظ، کتابِ ناطق، روح، نور، امامِ مبین، اور خزائنِ الٰہی قرآن کے ساتھ ہیں۔

سوال – ۹۱۴: حقیقی معرفت کی روشنی میں بتائیں کہ رسولِ پاکؐ کے بابرکت عالمِ شخصی میں قلمِ اعلیٰ کا مشاہدہ کب اور کہاں ہوا تھا؟ -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ نے بوقت عرفانی قیامت آسمان، زمین عرش اور کرسی کو آنحضرتؐ کے عالمِ شخصی میں گھیر کر رکھ دیا تھا، پس نزولِ قرآن کے جملہ معجزات حضورِ اکرمؐ ہی کے عالمِ شخصی میں رونما ہوئے (۲) آپؐ کو اپنی جبین مبارک میں سب سے اعلیٰ معراج کا شرف حاصل ہوا، اسی حال میں آپؐ نے تمام اسرارِ ازل کا مشاہدہ کیا، اور ان عظیم اسرار میں سرِ قلم بھی تھا۔

سوال – ۹۱۵: حضورِ پاک صلعم اپنے عالمِ شخصی کے کن مقامات میں علم کا شہر تھے، اور کس مقام پر حکمت کا گھر تھے؟ – جواب: (۱)

 

۶۰۶

 

حضورِ اقدسؐ اپنے مبارک عالمِ شخصی میں علم کا شہر اور اپنی نورانی جبین میں حکمت کا گھر تھے (۲) آپ نے ارشادِ نبوّی پڑھا ہوگا کہ اس مدینۂ علم اور دارِ حکمت کا دروازہ علیؑ ہے، یعنی زمانے کا امامؑ ہے۔

سوال – ۹۱۶: کلامِ الٰہی میں جگہ جگہ جبینی معجزات کا تذکرہ آیا ہے، کیونکہ جبین (پیشانی) عالمِ شخصی کی بہشت ہے، چنانچہ سورۂ واقعہ (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) میں ہے کہ کتابِ مکنون کو کوئی چھو ہی نہیں سکتا، مگر وہ لوگ جو پاک کئے گئے ہیں، اس میں سوال ہے کہ کتابِ مکنون کیا ہے اور کہاں ہے؟ پاک کرنے والا کون ہے؟ اور وہ لوگ کون ہیں جو پاک کئے گئے ہیں؟ -جواب: (۱) کتابِ مکنون قرآن کا مجموعۂ اسرار ہے جو قرآنِ کریم کے نام سے ہے، جو جبینی بہشت میں ہے (۲) جو شخص اپنے علم و حکمت کے ذریعے سے لوگوں کو پاک کر سکتا ہے، وہ امامِ آلِ محمدؐ ہے، تاکہ اس پاکیزگی کے بعد کوئی مومن کتابِ مکنون سے فائدہ حاصل کر سکے۔

سوال – ۹۱۷: کیا ہمیشہ دنیا میں ہدایتِ الٰہی کا یہی سلسلہ جاری ہے کہ آسمانی کتاب بھی ہے، ہر جبین میں کتابِ مکنون بھی، اور معلّمِ ربّانی بھی موجود ہے، تاکہ مومنین و مومنات میں جو جو عالی ہمت ہیں، ان کو معراجِ جبین تک پہنچائے؟ -جواب: (۱) یقیناً اللہ تعالیٰ کی نورانی ہدایت کا یہی سلسلہ ہمیشہ جاری ہے (۲) کیونکہ حدیثِ شریف

 

۶۰۷

 

ہے کہ الخلقُ عیال اللہ (لوگ گویا خدا کا کنبہ ہیں) پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت انسانی شکل میں نورِ ہدایت کو مقرر فرماتا ہے (۳) اس حقیقت پر سینکڑوں دلیلیں پیش کی گئی ہیں، تاہم عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس کا ذکرِ جمیل دمِ آخرین تک ہوتا رہے گا۔

سوال – ۹۱۸: یہاں سوال قلم کے بارے میں ہے، جو از بس ضروری ہے کہ خدا نے جس قلم کی قسم کھائی ہے (۲۸: ۰۱) وہ کونسا قلم ہے یعنی ارضی قلم ہے یا سماوی؟ کیا یہ ذاتِ سبحان کا قلم ہے؟ یا فرشتوں کا؟ یا کاملین کا؟ -جواب: (۱) یہ قلم عالمِ علوی میں ہے، اللہ کی ملکیت ہے، نور اور فرشتہ ہے، اس لئے خدا کے حکم سے خود لکھتا رہتا ہے (۲) یہ فرشتوں اور کاملین کی جمع بھی ہے اور واحد بھی ہے، لہٰذا اس کے لئے دونوں باتیں درست ہیں: یہ لکھتا ہے، یہ لکھتے ہیں۔

سوال – ۹۱۹: سورۂ علق (۹۶: ۰۴ تا ۰۵) کے حوالے سے سوال ہے کہ جب ربِ اکرم نے قلم کے ذریعے سے انسان کو سب کچھ سکھایا۔ تو یہ قلم کیا تھا؟ اور یہ انسان کون تھا؟ -جواب: (۱) قلم فرشتۂ عقل بھی تھا اور نورِ محمدی بھی، انسان فرشتۂ لوح بھی تھا اور نورِعلی بھی (۲) جس طرح قلم کا فعلی وجود لوح سے قائم ہے، اسی طرح نورِ نبوّت کی معرفت نورِ ولایت سے ہے۔

 

۶۰۸

 

سوال – ۹۲۰: یہ تاویلی سوال سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۴۴) سے ہے: آیت کی تفسیر ہے: ہر شخص نے اپنا قلم آبِ روان میں ڈال دیا، جس میں تمام قلم بہہ گئے، مگر حضرتِ زکریاؑ کا قلم پانی کے بہاؤ کے خلاف تیرنے لگا۔ اس میں کیا تاویل ہوسکتی ہے؟ -جواب: (۱) ہر عقلِ جزوی دریائے علم میں شناوری نہیں کرسکتی ہے، وہ اس میں بہہ جاتی ہے، لیکن انسانِ کامل کی عقل ہی ہے جو علم کے دریا میں ہر طرف تیرتی ہے اور غواصی کرتی ہے (۲) یہ بی بی مریمؑ کی روحانی تعلیم و تربیت کا قصّہ ہے، اور اس میں اشارہ یہ ہے کہ صرف انسانِ کامل ہی کسی کو روحانی تعلیم دے سکتا ہے۔

 

۶۰۹

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۶

 

سوال – ۹۲۱: قرآنی آیات کی روشنی میں قلم کی چند دوسری مثالیں بتائیں -جواب: (۱) کتابِ مکنون، خیر، ملک (بادشاہی) ملکوت، مطویۃ (جمع مطویات ) (۲) قبضۃ، حکمت، الفضل، کوثر، کنز، نور، لولوئے مکنون، حور، غلمان، میوۂ بہشت، یوسفؑ ، یونسؑ، دفنانا، قبر سے زندہ ہو کر اٹھ جانا (۳) عقلی پیدائش، غواصی، کنویں سے پانی نکالنا، دنیا کے کنویں سے بذریعۂ حبل اللہ نکل کر عالمِ علوی میں جانا، وغیرہ۔

سوال – ۹۲۲: قلم کی مزید مثالیں بتائیں -جواب: (۱) بیعت، صدقہ، زکات، جان و مال دے کر اللہ کے ساتھ بہشت کا سودا کرنا، دن رات اور طلوع و غروب کے اشارے، صبحِ ازل، شامِ ابد، کوہِ جودی، کوہِ طور، پہاڑ کا سروں کے اوپر معلق ہونا(۲) حجرِ ابیض، گرتے ہوئے پتھر سے پانی نکلنا، بارہ چشموں کا پتھر، حدید، یاقوت، مرجان، موتی اور دیگر بہت سی مثالیں ہیں، جو قلم اعلیٰ سے وابستہ ہیں۔

سوال -۹۲۳: قلم کے مزید اشارات بتائیں – جواب:

 

۶۱۰

 

(۱) ہر اس چیز کا اشارہ جو کُنۡ (ہوجا) سے وجود میں آتی ہے، ہر چیز کے فنا ہوجانے کی مثال، تجدّد، نزول، ظہور، عروج، عطیہ کے نمونے، لا ابتدائی اور لا انتہائی کا مظاہرہ، کسی چیز کو رقم کرنے کی مثال، (۲) لپیٹنا، پھیلانا، حشر، نشر، قرب، رجوع، وصال، وحدت، جدائی، کلام، امر، نہی، وحی (اشارہ) پس قلمِ اعلیٰ میں اسی طرح کے اور بھی بہت سے اشارات ہیں۔

سوال – ۹۲۴: سورۂ ہود (۱۱: ۵۶) میں دیکھا جائے تو یہ خیال آتا ہے کہ پروردگار صراطِ مستقیم پر جلوہ فرما ہے، اور سورۂ حجر کے ایک ارشاد (۱۵: ۴۱) کو پڑھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ صراطِ مستقیم ربِّ تعالیٰ تک جاتی ہے، آپ اس کی حکمت سمجھائیں -جواب: (۱)صراطِ مستقیم دنیا کی کوئی سڑک ہر گز نہیں ہوسکتی، یہ تو امامِ زمانؑ اپنی نورانیّت میں خود ہی ہے، پس اپنے مظہر کے باطن میں شروع سے لیکر منزلِ مقصود تک گویا حضرتِ ربّ خود ہی ہے، ورنہ الظاہر اور مظہر کے کیا معنی ہو سکتے ہیں (۲) صراطِ مستقیم ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی، ظاہر میں حقیقی اسلام ہے، اور باطن میں امام علیہ السّلام، اور یہی وجہ ہے کہ شروع ہی میں یہ دعا سکھائی گئی ہے: اھد نا الصّراط المستقیم۔ ہمیں راہ راست (یعنی امام کی نورانیّت ) پر چلا۔

سوال – ۹۲۵: یہ سوالات سورۂ مائدہ رکوعِ ہفتم سے ہیں:

 

۶۱۱

 

اوّل: نور آسمانی کتاب میں کس طرح ہوتا ہے (۰۵: ۴۴، ۰۵: ۴۶)؟ دوم: کتابِ خدا کے محافظ کس طرح مقرر کئے جاتے ہیں؟ سوم: کیا آسمانی کتاب کے باطنی احوال پر کوئی گواہ ہوسکتا ہے؟ -جواب: (۱)آسمانی کتاب کا باطن امام ہے، جس میں نور ہوتا ہے، اور یہی آسمانی کتاب کا نور ہے (۲) جس شخص کے پاس کتاب کا نور ہے وہی اس کا عالم، معلّم، اور محافظ ہے (۳) جی ہاں، گواہ ہوسکتے ہیں، جیسے امام ہارونؑ، باب، حجت، اور داعی تھے (۰۵: ۴۴)۔

سوال – ۹۲۶: کیا چشم دید گواہ ہونے کے لئے آسمانی کتاب کے تمام باطنی معجزات کا تفصیلی مشاہدہ ہوسکتا ہے؟ – جواب: (۱)یقیناً امامؑ اور اس کے قریب کے حدودِ دین آسمانی کتاب کے جملہ باطنی معجزات کو دیکھتے ہیں، اس کے بغیر نہ گواہی ہوسکتی ہے، نہ تصدیق، نہ حکمت، نہ معرفت، اور نہ ہی تاویل ہوسکتی ہے (۲) لوحِ محفوظ / امامِ مبین / حظیرۂ قدس اللہ تعالیٰ کا وہ زبردست معجزہ ہے، جس میں ہر عظیم واقعہ تازہ بتازہ محفوظ و موجود ہے، کیونکہ اس میں تجدّد کا سلسلہ جاری ہے۔

سوال – ۹۲۷: سورۂ مائدہ (۰۵: ۴۴) کے حوالے سے سوال ہے کہ رَبَّانِیُّونْ (واحد ربانی) کون ہیں؟ اور احبار کون ہوتے ہیں؟ – جواب: (۱) رَبَّانِیُّونْ سے أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام مراد ہیں، جو اپنے علوم و معارف سے لوگوں کی تربیت کرتے ہیں، اور احبار سے

 

۶۱۲

 

دعاۃ مراد ہیں (دعائم الا سلام ) (۲)آپ بزرگارنِ دین کی کتابوں کو عشق سے پڑھیں، تاکہ آپ خود امامِ زمانؑ کے معجزاتِ تاویلی کو دیکھ سکیں، الحمد للہ۔

سوال – ۹۲۸: حضرتِ امیر المومنین علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: اَنَا رَبَّانیُّ ھٰذہِ الاُمَّۃِ۔ اس کی حکمت کیا ہے؟ – جواب: (۱)اس میں کئی حکمتیں ہیں، لفظِ ربّانی کا ترجمہ المنجد میں اس طرح ہے: الرّبّانی = اللہ والا، عارف باللہ، بڑا عالم۔ (۲) لیکن لغات نویس زبان کے عام پہلو کی ترجمانی کرتا ہے، ہمارے نزدیک “علی کا ربّانی ہونا” اور وہ بھی پوری امت کے لئے، بڑا جامع اشارہ ہے، کیا اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جب تک امتِ محمدی دنیا میں موجود ہے تب تک علی کا نور بھی ساتھ ساتھ ہے۔

سوال – ۹۲۹: المُستَدرَک، الجزء الثالث، ص ۱۳۴ پر یہ حدیثِ شریف درج ہے: عَلِیٌّ مع القراٰن والقراٰن مع علیّ لن یّتفرقا حتّٰی یَرِدا عَلیَ الحوض۔ آپ اس کی حکمت بیان کریں۔ جواب: (۱)علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے تا ٓنکہ حوضِ کوثر پر وارد ہوجائیں۔ (۲) جب تک دنیا میں قرآن موجود ہے تب تک ظاہراً  و باطناً علی قرآن کے ساتھ اور قرآن علی کے ساتھ ہے، اور ان دونوں

 

۶۱۳

 

کا تعلق حوضِ کوثر پر اترنے تک برقرار رہے گا (۳) کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ صرف کتاب آئی ہے، بلکہ نور بھی آیا ہے (۰۵: ۱۵)۔

سوال – ۹۳۰: آیا نور اور کتاب کی ہدایت و رہنمائی حوضِ کوثر تک جاتی ہے؟ حوض کی تاویل کیا ہے؟ -جواب: (۱)اس میں کوئی شک ہی نہیں، کہ نورِ امامت اور کتابِ مبین (۰۵: ۱۵) کی ہدایت و رہبری حوضِ کوثر تک جاتی ہے، کیونکہ یہی جگہ منزلِ مقصود ہے (۲) حوضِ کوثر سے حضرتِ قائم القیامت کا علم التاویل مراد ہے، جو حظیرۂ قدس کے معجزاتی تالاب میں بھرا ہوا ہے (۳) اگرچہ کوثر کے کئی معنی ہیں، لیکن یہاں اس لفظ کا اشارہ بہت سے علوم کی طرف ہے۔

 

۶۱۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۷

 

سوال – ۹۳۱: آبِ کوثر کی نہر میں اور حوض (تالاب) میں کیا کیا حکمتی اشارات ہیں؟ -جواب: (۱)جس طرح نہر کا پھیلا ہوا پانی تالاب میں جا کر وحدت کی شکل اختیار کرتا ہے، اسی طرح قرآنِ حکیم کے تمام الفاظ، معانی، اور تاویلات حظیرۂ قدس میں بلند ہوکر تاویلِ جامعۂ جامعات ہو جاتی ہیں، (۲) نیز اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ دنیا بھر کی منتشر روحیں حظیرۂ قدس میں جا کر تالاب کے پانی کی طرح ایک ہوجاتی ہیں، پس یہ حکمت سب سے عجیب بھی ہے، اور سب سے عظیم بھی کہ کوثر کے معنی دیکھا جائے تو بہت بڑی کثرت ہے، اور حوض (تالاب) کے پانی کو دیکھا جائے تو وحدت ہی وحدت ہے۔

سوال – ۹۳۲: سورۂ طارق (۸۶) سے چند سوالات ہیں: النّجمُ الثّاقِب (۸۶: ۰۳) کیا ہے؟ ہر شخص پر حافظ (۸۶: ۰۴) مقرر ہونے سے کیا مراد ہے؟ بارش برسانے والا آسمان (۸۶: ۱۱) کونسا ہے؟ -جواب: (۱)نجمِ ثاقب عالمِ علوی کا وہ ستارۂ تابان ہے، جو کبھی سورج، کبھی چاند، اور کبھی ستارہ ہوجاتا ہے (۲) اعمال ریکارڈ کرنے والے فرشتے پہلے

 

۶۱۵

 

ایک سے زیادہ ہوتے ہیں، لیکن مقامِ وحدت پر جاکر مجموعاً ایک ہی فرشتہ ہوتا ہے، اس لئے حافظ کا اسمِ واحد آیا ہے، جو حافظین کی جگہ پر ہے (۳) یہ علم کی بارش برسانے والا آسمان عالمِ بالا میں ہے۔

سوال – ۹۳۳: سورۂ لَیل (۹۲) سے سوالات ہیں: رات (۹۲: ۰۱)؟ دن (۹۲: ۰۲)؟ مرد، عورت (۹۲: ۰۳) مال دینا (۹۲: ۰۵)؟ اچھائی کی تصدیق (۹۲: ۰۶)؟ پاک ہونے کے لئے مال دینا (۹۲: ۱۸)؟ – جواب: (۱)رات = باطن، دن = ظاہر، مرد = معلِّم، عورت = متعلّم، مال دینا =  علم دینا، اچھائی کی تصدیق = تاویل کے ذریعے سے دین کی باتوں کی تصدیق، مال دینے سے پاکیزگی ہوتی ہے =  علم دینے سے زیادہ پاکیزگی ہوتی ہے۔

سوال – ۹۳۴: قرآنِ حکیم میں کوئی ایسی مثال نہیں جس میں ایک زبردست عجیب و غریب حکمت پنہان نہ ہو، چنانچہ سوال ہے، اس مثال کے بارے میں جو سورۂ جمعہ (۶۲: ۰۵) میں ہے، وہ مثال اس طرح ہے: جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں، جو لوگ خدا کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں، ان کی مثال بری ہے، اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ اس کی حکمت ظاہر کریں -جواب: (۱) مثال میں جو ممثول ہے وہ اظہر من الشمس ہے، وہ یہ کہ اگر وہ لوگ علم و حکمت کے ساتھ آسمانی کتاب

 

۶۱۶

 

پر کماحقہٗ عمل کر لیتے تو ان کی ایسی بری مثال نہ ہوتی (۲) اس دنیا میں زمانۂ قدیم سے ایسے لوگ بھی ہیں، جو خدا کی ہستی سے منکر ہیں، پھر وہ لوگ منطقی طور پر نہیں کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی آیات جھوٹ ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ذمہ دار لوگ آیات کی تصدیق نہیں کرتے ہیں تو تکذیب ہوجاتی ہے، (۳) أئمّۂ آلِ محمد کو تسلیم نہ کرنا بھی آیاتِ خداوندی کو جھٹلانا ہے، کتاب کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت نمبر ۸۰ میں حضرتِ مولا علی علیہ السّلام کا فرمانِ مبارک ہے: اَنا آیاتُ اللہ، یعنی میں خدا کی آیات و معجزات ہوں، پس یقیناً امام کے لئے اقرار، اطاعت، محبت، اور اس کی معرفت آیاتِ خدا کی تصدیق ہے، ورنہ خدا کی آیات کو جھٹلانے کا ارتکاب ہوجاتا ہے، قرآنِ حکیم میں بہت سی آیات ایسی ہیں، جن میں آیات اللہ کو جھٹلانے کا ذکر ہے، ان سب کی مجموعی تاویل یہی ہے، جو بیان ہوئی۔

الحمد للہ، یہ تمام انمول تحائف امامِ عالیمقامؑ کے عاشقوں کے لئے ہیں۔

سوال – ۹۳۵: دعائم الاسلام جلد اوّل ص ۵۳ پر مولا علیؑ کا یہ ارشاد درج ہے، جو قرآن سے متعلق ہے: ظاھِرہٌ عملٌ مَوجُوبٌ وبا طِنہٗ عِلْمٌ مکنُوْنٌ مَحْجُوْبٌ وَھُوَ عِنْدَنَا مَعْلُومٌ مکتوبٌ آپ اس کی وضاحت کریں۔ -جواب: (۱)یہ سب سے روشن ترین کلیہ ہے (۲) قرآن کا ظاہر وہ عمل ہے جو واجب کیا گیا ہے، اور اس کا

 

۶۱۷

 

باطن علم مکنون ہے جو حجاب میں رکھا گیا ہے، (۳) اور وہ ہمارے پاس معلوم اور مکتوب ہے۔ (۴) قرآن باطن میں علمِ مکنون ہے، اس سے کتابِ مکنون مراد ہے، جو حضرتِ امام کے عالمِ شخصی میں محجوب ہے، مگر امام کے پاس معلوم اور مرقوم ہے۔

سوال – ۹۳۶: آیا آپ یہ بتا سکتے ہیں، کہ اسلام اور مسلم کی تعریف حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے نزدیک کس طرح تھی -جواب: (۱)ظاہر ہے کہ یہ سوال سخت مشکل ہے، تاہم امامِ آلِ محمد کی یاری سے ممکن ہے (۲) اس کی اوّلین شرط انبیاء و اولیاء کی معرفت ہے، اگر یہ کلّی اور ہمہ گیر معرفت ہے تو پھر کوئی سوال مشکل نہیں، ورنہ مشکل ہے (۳) لفظِ اسلام س ل م (سلم) سے ہے، اس مادّہ کے بہت سے مشتقات ہیں، (۴) حضرت ابراہیم علیہ السّلام اسلام کے تمام معنوں کے مصداق تھے، (۵) اسلام حضرتِ ابراہیمؑ کے نزدیک ظاہراً و باطناً حقیقی اطاعت و فرمانبرداری کا مذہب تھا، جس کی وجہ سے آپ فنا فی اللہ، خود شناس، خدا شناس، اور مُوَحِّدِ اعظم ہوگئے، پس آپؑ کا مثالی اسلام اپنی تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں کے ساتھ بڑا حیران کن ہے، جس کی تعریف خداوندِ ذوالجلال نے بار بار فرمائی ہے (۶) حضرتِ ابراہیمؑ اپنی معرفت کی نظر میں وہ مسلم تھا جس کا چہرۂ جان حظیرۂ قدس میں صورتِ رحمان ہو چکا تھا، (۰۶: ۷۹) (۷) جب خداوندِ تعالیٰ کے دوستوں پر روحانی قیامت گزرتی ہے تو تب ہی اسلام اور مسلم کی روحانی اور

 

۶۱۸

 

عقلانی خوبیوں کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔

سوال – ۹۳۷: سوال آلِ ابراہیم سے متعلق ہے کہ قرآنِ حکیم میں آلِ ابراہیم کی ایسی تعریف آئی ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی (۰۴: ۵۴) پھر آپ ہم کو یہ سمجھائیں کہ حضرتِ محمد اور حضرتِ علی علیہما السّلام کے آباو اجداد جو آلِ ابراہیم تھے، ان حضرات پر اس آیۂ کریمہ کا اطلاق کس طرح ہو سکتا ہے وہ آیۂ شریفہ یہ ہے: فقد اٰتینآاٰل ابرٰھیم الکِتٰب والحکمۃَ واٰتینٰھُم مُّلکاً عظیماً (۰۴: ۵۴)   جواب: (۱) وہ حضرات أئمّہ مستقر اور ان کے حدود تھے، (۲) جیسے حضرتِ اسماعیلؑ ابنِ ابراہیم امامِ مستقر اور اساس تھا اور حضرتِ اسحاقؑ امامِ مستودع تھا، اسی طرح ان دونوں کے خاندان تھے (۳) پس بنی اسماعیل یعنی آنحضرت کے آباؤاجداد کے پاس بطورِ وارثت تین انتہائی عظیم چیزیں تھیں: آسمانی کتاب کی روحانیّت، حکمت روحانی سلطنت۔

سوال – ۹۳۸:  یہ سوال سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۴) سے ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: یقیناً اللہ نے آدمؑ اور نوحؑ اور آلِ ابراہیمؑ اور آلِ عمرانؑ کو تمام عوالمِ شخصی پر ترجیح دے کر منتخب کیا تھا یہ ایک سلسلے کے لوگ تھے جو ایک دوسرے کی نسل سے پیدا ہوئے تھے۔ یہاں دراصل چند سوالات ہیں: اوّل، آیا یہ منتخب حضرات سب کے سب انبیاء ہیں؟ دوم، یہ حضرتِ عمران کون ہے؟ سوم، اس الٰہی انتخاب

 

۶۱۹

 

میں اولادِ آدم اور اولادِ نوح کا ذکر نہیں، کیا اس میں کوئی راز ہے؟ چہارم، آیا اس آیۂ شریفہ میں اسلام کے مکمل نظامِ ہدایت کا ذکر ہے؟ -جواب: (۱)یہ منتخب حضرات انبیاء و أئمّۂ علیہم السّلام ہیں (۲) یہ عمران حضراتِ امامِ ابو طالبؑ ہے، آپؑ کا اسمِ شریف عمران تھا (۳) یہ ایک سلسلے کے لوگ تھے جو ایک دوسرے کی نسل سے پیدا ہوئے تھے، ان الفاظ میں اولادِ آدم اور اولادِ نوح تمام نیکو کاروں کا ذکر آگیا، اس کے علاوہ دیکھیں: سورۂ مریم (۱۹: ۵۷) اور سورۂ حدید (۵۷: ۲۶)، جی ہاں اس آیۂ شریفہ میں اسلام کے مکمل نظامِ ہدایت کا ذکر موجود ہے۔

سوال – ۹۳۹:  حضرتِ ابو طالبؑ کی امامت کے ثبوت میں روشن دلائل کی ضرورت ہے؟ – جواب: (۱)آیۂ اصطفا (۰۳: ۳۳) نے واضح طور پر بتا دیا کہ آلِ ابراہیم جن کو اللہ تعالیٰ نے کتاب، حکمت اور عظیم سلطنت عطا فرمائی تھیں، وہ ایک سلسلے کے لوگ تھے (۲) پس اسی سلسلۂ نور میں آنحضرتؐ کے والد عبداللہ اور مولا علی کے والد ابوطالب بھی تھے، پس یہ دونوں صاحبان آلِ ابراہیم کی اس خاص خدائی عنایت سے بے نصیب ہوسکتے تھے، (۳) نورٌعلیٰ نور کے خدائی قانون کو جن مومنین نے بخوبی سمجھ لیا ہے، ان کے نزدیک یہ روشن حقیقت ہے کہ پیغمبر اور امام کا باپ نور ہوتا ہے (۴) ورنہ نورٌعلیٰ نور کی منطق سمجھ میں نہیں آتی ہے (۵) یہ سوچنے کی بات ہے کہ مذکورہ آیۂ کریمہ میں زیادہ سے زیادہ آنحضرت کی تعریف ہے کہ حضرتِ ابراہیم رسولِ خدا

 

۶۲۰

 

کے جدِ اعلیٰ ہیں، آلِ ابراہیم آپؐ کے آباواجداد ہیں (۶) اور عمران آپ کا مہربان چچا اور امامِ مقیم تھا، جس طرح آدم کے ساتھ امام ِمقیم ھنید تھا۔ (۷) ہر رسولِ ناطق کی روحانی تربیت کے لئے ایک امامِ مقیم ہوا کرتا ہے، چنانچہ حضورِ اکرم کے لئے امامِ مقیم حضرتِ عمران (ابو طالب) علیہ السّلام تھا۔

سوال – ۹۴۰:  حضرتِ ابی طالب کے بارے میں مزید معلومات؟ -جواب: (۱) کتابِ سرائر، ص ۸۰ پر ابی طالب کا نام عمران لکھا ہوا ہے (۲) مذکورہ کتاب سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرتِ ابوطالب حضورِ اکرمؐ کے حجج میں سے تھا۔

 

۶۲۱

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۸

 

سوال – ۹۴۱: یہ حدیثِ شریف اور اس کی پُرنور تاویل کتابِ سرائر میں ہے: (۱) نزل القراٰن علیٰ سبعۃِ احرفٍ کُلّ حرفٍ منھا شافٍ کافٍ پس قرآن سے آنحضرتؐ کا وصی اور اساس یعنی علیؑ مراد ہے، کیونکہ وہ اس کا صاحبِ تاویل اور اس کے عجائب و غرائب کا مظہر ہے (۲) اور سات حروف سے اولادِ علیؑ کے سات امام مراد ہیں، (۳) ان میں سے ہر امام اپنے عصر کے لوگوں کے لئے کافی شافی ہے۔

سوال – ۹۴۲: حضرتِ اسماعیلؑ ابنِ ابراہیمؑ کے فضائل بیان کریں؟ -جواب: (۱) ابھی اسماعیل بچہ ہی تھا کہ حضرتِ ابراہیمؑ نے حکمِ خداوندی کے مطابق اس کو وادیٔ مکہ میں جو اس زمانہ میں بالکل غیر آباد تھی ان کی ماں حضرتِ ہاجرہ کے ساتھ لا بٹھایا (۱۴: ۳۷)۔ (۳) تعمیرِ خانۂ کعبہ کے مقدس کام میں اور اس وقت کی خاص دعاؤں میں حضرتِ اسماعیل اپنے عظیم والد کے ساتھ تھا (۰۲: ۱۲۹)۔ (۴) حضرتِ اسماعیلؑ کا مبارک نام قرآنِ پاک میں ۱۲ دفعہ آیا ہے (۵) حضرتِ اسماعیل

 

۶۲۲

 

امامِ مستقر اور اساس تھا، آپ کا لقب ذبیح اللہ ہے (۶) رسولِ خدا صلعم اور امامِ علیؑ آپ کی نسل سے ہیں، اور ان کی سب سے بڑی فضیلت ہے۔

سوال – ۹۴۳: آپ فنا فی اللہ کے بارے میں بتائیں کہ یہ اعلیٰ ترین قانون کن حضرات کے لئے مقرر ہے؟ -جواب: (۱) فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مقدّس اور عظیم و اعلیٰ قانون سب سے اوّل انبیاء و اولیاء کے لئے ہے (۲) بعد ازان عارفوں کے لئے (۳) اور اہلِ ایمان میں سے جو بھی صراطِ مستقیم پر ترقی کرنا چاہیں ان کے لئے ہے۔

سوال – ۹۴۴: قرآنِ حکیم کی کس آیۂ شریفہ میں فنا فی اللہ کا ذکر آیا ہے؟ -جواب: (۱) اس باب میں بہت سی آیاتِ کریمہ وارد ہوئی ہیں، (۲) منجملہ دیکھیں (۰۲: ۲۱۳) کو جس میں فبعث اللہ النبیین کا جملہ ہے اس کا ظاہری ترجمہ ہے کہ اللہ نے پیغمبروں کو بھیجا (۳) لیکن اس کی تاویل یہ ہے کہ اللہ نے ہر نبی کی روحانی قیامت برپا کر دی، جس میں سب کچھ ہے، اور یقیناً اس میں فنا فی اللہ و بقا باللہ بھی ہے، (۴) قیامت میں سب کچھ ہے، کیونکہ اس میں علم و معرفت کی کائنات سمیٹ لی جاتی ہے، یعنی اس وقت تمام جبینی معجزات کا مشاہدہ ہوتا ہے یہ معجزات امامِ مبین کے ہیں، اور حظیرۂ قدس کے ہیں۔

 

۶۲۳

 

سوال – ۹۴۵: (۵) انبیاء و اولیاء کی معرفت کی غرض سے عرفاء کو بھی فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ عطا ہو جاتا ہے، (۶) اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں اصل معرفت کا کوئی نام و نشان نہ ہوتا، اور اہلِ ایمان کے لئے یہ نعمتِ عظمیٰ ناممکن ہوجاتی (۷) پھر قرآن میں معرفت کا کوئی ذکر نہ ہوتا، حالانکہ قرآنِ مقدّس میں جگہ جگہ معرفت کا ذکر ہے۔ (۸) آیت / معجزات دکھانے کی غرض معرفت ہی ہے (۴۱: ۵۳)، (۲۷: ۹۳)، (۰۲: ۱۴۶)۔

سوال – ۹۴۶: سید الانبیاؐ نے مقامِ معراج میں اپنے ربّ کے بڑے بڑے معجزے دیکھے تھے (۵۳: ۱۸) کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہاں آنحضرتؐ کے سامنے کیا کیا معجزات تھے؟ -جواب: (۱) رؤیت کا سب سے بڑا معجزہ (۲) کلمۂ کن کا سب سے عظیم معجزہ (۳) کائنات کو لپیٹنے اور پھیلانے کا بے مثال معجزہ (۴) کتابِ مکنون کا وہ معجزہ جس کی تعریف ہو نہیں سکتی (۵) قلم اور لوح کے اسرار جو باعثِ حیرت ہیں (۶) یہ معجزات دراصل ہزار در ہزار ہیں، لہٰذا ان کا تفصیلی احاطہ ممکن نہیں، کیونکہ اس میں بہشت کی کل نعمتوں کی نمائندگی ہے۔

سوال – ۹۴۷: قصّۂ معراج قرآن میں کہاں کہاں ہے؟ – جواب: (۱)سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۰۱، ۱۷: ۶۰)، سورۂ نجم (۵۳: ۰۱ تا ۱۸) احاطۂ معراج =حظیرۂ قدس ہے، جو احاطۂ امامِ مبین ہے، جو احاطۂ جبین ہے، جو

 

۶۲۴

 

احاطۂ دارِ حکمتِ رسول ہے۔ یقیناً عالمِ شخصی رسولِ پاک کا مدینۂ علمِ ہے، اس شہر کا رہنما اور دروازہ علی ہے۔ الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

سوال – بنی اسرائیل کے بارہ نقیبوں کا ذکر قرآن میں کہاں پر موجود ہے؟ -جواب: (۱) سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۲) میں دیکھیں۔

سوال – ۹۴۹: انسانِ لطیف، جنّ، اور پری میں کیا فرق ہے؟ -جواب: (۱) کوئی فرق نہیں، یہ تینوں مخلوقِ لطیف ہیں (۲) انسان جب لطیف ہو جاتا ہے تو مومن جنّ / پری اور فرشتہ ہوجاتا ہے، (۳) دنیا کے بارہ جزیروں میں بارہ لطیف باطنی حجّت ہیں، (۴) آپ سورۂ جنّ (۷۲) کو غور سے پڑھیں، یہ آنحضرت کے حجّتانِ باطن کا قصّہ ہے، (۵) سورۂ رحمٰن سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں میں انس و جنّ ساتھ ساتھ ہیں۔

سوال – ۹۵۰: سورۂ زمر (۳۹: ۲۳) میں ایک عظیم الشّان آیت ہے، اس کے الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے حکمت بتائیں – جواب: (۱) اللہ تعالیٰ معجزۂ فنا سے کسی مومن کے سینہ یعنی دل کو اسلام کی کائنات گیر روح کے لئے کشادہ کر دیتا ہے، پس وہ اپنے ربّ کی طرف سے نور کی روشنی میں چلتا ہے، کیا وہ گمراہوں کے برابر ہوسکتا ہے، افسوس تو ان لوگوں پر ہے جن کے دل خدا کی یاد سے غافل ہوکر سخت

 

۶۲۵

 

ہو گئے ہیں یہ لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہیں (۲) اس کے بعد جس معجزاتی کتاب کی تعریف فرمائی گئی ہے، وہ قرآنِ کریم بھی ہے، اور اسمِ اعظم بھی ہے، یعنی احسن الحدیث، (۳) اس تعلیمِ سماوی میں براہِ راست روحانی سائنس ہے، کیونکہ ظاہر ہے کہ ذکرِ الٰہی کا اثر خلیات پر بھی ہوتا ہے، اور یہ سارے بدن میں ہیں، (۴) جس ذکرِ الٰہی سے رونگٹے کھڑے ہوجائیں / خلیات بیدار ہو جائیں، اور قلوب نرم ہو جائیں، اُس میں روحانی علاج کیوں نہ ہو، مگر ان تمام معجزات کا سبب خوفِ خدا ہے۔ آپ روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کو پڑھیں (۵) اسلام صرف ایک لفظ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک کائنات گیر روح ہے۔

یاد رہے کہ معجزۂ فنا سے روحانی قیامت مراد ہے، جس میں بےشمار حقائق و معارف پوشیدہ ہیں۔ ہم نے روحانی قیامت کا بار بار ذکر کیا ہے۔ روحانی قیامت = ذاتی قیامت = نمائندہ قیامت، یعنی عارف میں سب کی روحانی قیامت، جس کا علمی اور عرفانی فائدہ صرف عارف کو ہے، مگر علم الیقین کی لازوال دولت سب کو مل سکتی ہے۔

 

۶۲۶

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۹

 

سوال – ۹۵۱: سورۂ مومن (۴۰: ۱۵) کی اس آیۂ شریفہ کی مربوط حکمت بتائیں؟ -جواب: (۱)سب سے پہلے یہ ارشاد کہ اللہ درجات کا بلند کرنے والا ہے، اور پھر یہ فرمان کہ وہ صاحبِ عرش ہے، اس میں یہ اشارہ ہے کہ اگرچہ روحانی ترقی کے بہت سے درجات ہیں، لیکن فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ صاحبِ عرش میں ہے، اور اس کے بعد ہر بڑی سے بڑی نعمت مل سکتی ہے۔

سوال – ۹۵۲: آپ لفظِ تضَرُّع کے معنی بتائیں؟ -جواب: (۱) تضَرُّع = عاجزی کرنا، گڑگڑانا، (۲) تضَرُّع کے عجیب و غریب بھیدوں کے لئے قرآنِ حکیم میں دیکھیں: سورۂ انعام (۰۶: ۴۲)، (۰۶: ۴۳)، (۰۷: ۲۰۵)۔

سوال – ۹۵۳: پوچھنا یہ ہے کہ پرہیزگاروں کا مسکن جنت میں کیسا یا کس نوعیت کا ہوگا؟ -جواب: (۱) قرآن میں ارشاد ہے کہ

 

۶۲۷

 

متقی لوگ بہشت کے باغات میں بھی ہوں گے، چشموں میں بھی، تختِ شاہی پر بھی، سورۂ حجر (۱۵: ۴۷)۔ سورۂ قمر کے آخر (۵۴: ۵۵) میں دیکھیں۔ (۲) متقین کو بہشت میں کیا کیا مرتبے حاصل ہونے والے ہیں! کہ وہ بہشت کے باغات میں ہوں گے اور بہشت کی نہروں میں بھی، وہ صدق یعنی حقیقی علم کی نشست میں زبردست قدرت والے بادشاہ کے پاس ہوں گے (۳) جنت میں متقین کے لئے غرفات، یعنی بلند عمارتیں ہیں جو منزل پر منزل بنی ہوئی ہیں، سورۂ زمر (۳۹: ۲۰)۔

۴۔ میں نے یہ سوال اس لئے کیا ہے کہ ان آیاتِ کریمہ میں زبردست تاویلی حکمت ہے، وہ یہ ہے کہ خدا بہشت میں اپنے دوستوں کو تمام تر کمالات و معجزات سے آراستہ کرتا ہے (۵) خدا کے فضل و کرم سے متقین جنت میں ہر جگہ موجود ہوسکتے ہیں۔ تاکہ بہشت کی ہر گونہ نعمتوں کو حاصل کرسکیں۔

سوال – ۹۵۴: اس میں کیا حکمت ہے کہ خداوندِ قدوس اپنے دوستوں کو بہشت کے چشموں اور نہروں میں جگہ دیتا ہے؟ -جواب: (۱) اس میں خداوندِ دوجہان کی بہت بڑی نوازش اور عظیم حکمت ہے (۲) کہ وہ نہایت مہربان اپنے دوستوں کو ان عظیم حدود کے ساتھ ملا کر ایک کردیتا ہے، (۳) جن سے بہشت کے جملہ باغات معمور و آباد ہیں، (۴) جیسے عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اساس، اور أئمّۂ طاہرین، (۵) جو بہشت کے چشمے بھی ہیں اور نہریں بھی۔

 

 

۶۲۸

 

سوال – ۹۵۵: یہ سوال بڑا عجیب و غریب اور زبردست حیران کن ہے، وہ یہ کہ آیا جنت بہت پہلے ہی سے تیار کر کے محفوظ رکھی ہوئی ہے؟ یا یہ پرہیزگاروں کو وراثت کے عنوان سے ملتی رہتی ہے؟ یا یہ ہر زمانے میں خدا کے دوستوں کے اعمال سے تازہ بتازہ، نو بنو بنائی جاتی ہے؟ -جواب: (۱) قرآنِ حکیم کے مطابق یہ تینوں تصوّرات بالکل درست اور حقیقت ہیں، (۲) متقین کے لئے جنت پہلے ہی سے تیار کی گئی ہے، اس کی ایک مثال کو سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۳) میں دیکھو۔

۳۔ جنت کی وراثت کا ذکر سورۂ اعراف (۰۷: ۴۳) میں ہے (۴) اب یہ بتانا ہے کہ ہر زمانے میں خدا کے دوستوں کے اعمال سے ایک جدید بہشت بنائی جاتی ہے، اور وہ ہر طرح سے محفوظ اور اچھوتی ہوتی ہے، سورۂ رحمان (۵۵: ۵۶، ۵۵: ۷۴) میں غور سے دیکھیں اور یقین کریں کہ یہ جنت محفوظ اور اچھوتی ہے، جس طرح اس کی حوریں جنّ و انس سے محفوظ اور اچھوتی ہیں۔

سوال – ۹۵۶: کیسے لوگ زندہ بہشت ہوجاتے ہیں؟  جواب: (۱) خدا کے ایسے دوست، جو علم و حکمت کے ساتھ تمام کاموں میں دوسروں سے سبقت کرتے ہیں، پس وہی خوش نصیب لوگ اپنی ہستی میں زندہ بہشت ہو جاتے ہیں۔

 

۶۲۹

 

سوال – ۹۵۷: کیا آلِ ابراہیم کی معرفت سے مزید آگہی ہو سکتی ہے؟ -جواب: (۱)جی ہاں، ہوسکتی ہے (۲) سورۂ زخرف (۴۳: ۲۸) میں ہے: اور اسی اسمِ اعظم اور معرفت کو ابراہیمؑ اپنی اولاد میں ہمیشہ باقی رہنے والا کلمہ چھوڑ گئے تاکہ وہ رجوع کریں۔ (۳) اسمِ اعظم اور اس کا ماحصل معرفتِ امامت سے الگ نہیں ہے، لہٰذا یہ قول حقیقت ہے کہ کلمۂ باقیہ سے امامت مراد ہے (۴) پس یہ آیہ شریفہ بھی آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کی شان میں ہے (۵) حکمت اسی میں ہے کہ آپ ان تمام آیاتِ کریمہ کو جو آلِ ابراہیمؑ کی شان میں ہیں، مربوط اور معنوی وحدت کے ساتھ پڑھیں۔

۶۔ بزرگانِ دین کی کتابوں میں أئمّۂ طاہرین کی تعلیم کے مطابق یہ وضاحت ہے کہ قرآنِ حکیم میں امامانِ حق کا اجتماعی نام امتِ مسلمہ ہے، جیسے حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام کی دعا میں ہے۔ رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ (۰۲: ۱۲۸) (۷) یہ خاص الخاص امتِ مسلمہ اولادِ ابراہیم اور اولادِ اسمٰعیل کے امامانِ مستقر ہیں، جو حضرتِ محمد رسول اللہؐ اور حضرتِ امام علیؑ کے آباواجداد ہیں، اور اسی پاک سلسلے میں یقیناً حضرتِ امام ابوطالب علیہ السّلام بھی ہے۔

مذکورہ دعا میں یہ بھی ہے: اے ہمارے ربّ ان میں انہی میں سے ایک رسول (یعنی حضرتِ محمدؐ) مبعوث فرما۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ نورِ محمدی اپنے آباؤ اجداد (امامانِ مستقر) کے عالمِ شخصی میں

 

۶۳۰

 

جلوہ گر تھا۔ کیونکہ حضراتِ أئمّہ لوگوں پر گواہ ہیں، رسول اماموں پر گواہ ہے، اور اللہ تعالیٰ رسول پر گواہ ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کے لئے علم امامِ زمان سے حاصل ہوسکتا ہے، امام کا علم رسول سے ہے، اور رسول کا علم خدا سے ہے۔

یہاں سے یہ بہت بڑا بھید بھی معلوم ہوا کہ آلِ ابراہیمؑ کے ہر نبی اور ہر امام کے عالمِ شخصی میں نورِ محمدی جلوہ گر تھا، یہ مذکورہ آیت (۰۲: ۱۲۸) کی تفسیر ہے۔ الحمد للہ۔

سوال – ۹۵۸: ارشادِ خداوندی ہے: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (۰۲: ۱۴۳) (۱) اس آیۂ شریفہ کا وہ ترجمہ اور تاویل بتائیں، جو حضرتِ امام باقر علیہ السّلام سے منقول ہے (۲) دعائم الاسلام میں ہے: اور ہم نے تم (اماموں) کو ایک ایسی امت (جماعت) بنادی ہے جو نہایت عادل ہے (۳) تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہے (۴) امام باقر علیہ السّلام نے سائل سے فرمایا کہ ہم أئمّۂ اہلِ بیت (علیہم السّلام) امتِ واسطہ ہیں، اور ہم ہی خلائق پر خدا کے گواہ اور پشتِ زمین پر اس کی طرف سے حجّت مقرر کئے گئے ہیں۔

سوال – ۹۵۹: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۱) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ۔

 

۶۳۱

 

اس آیۂ کریمہ کی حکمت بیان کریں؟ -جواب: (۱) ترجمہ: اور ہماری مخلوقات سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو دینِ حق کی ہدایت کرتے ہیں اور حق ہی کے ساتھ انصاف بھی کرتے ہیں۔ (۲) ایسے لوگ انبیاء اور أئمّہ علیہم السّلام ہی ہیں، اور ان کے سوا کوئی اور جماعت (امت) ایسی نہیں ہے۔

سوال – ۹۶۰: یہاں پر یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ ہدایتِ حقہ کے لئے فردِ واحد ہوتا ہے یا ایک جماعت (امت) ہوتی ہے؟ -جواب: (۱) فرد واحد ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ دین کے دیگر حدود بھی ہوتے ہیں، حدودِ دین کی معرفت کے لئے، کتابِ وجہِ دین کو پڑھیں، مذکورہ آیۂ شریفہ میں ہر دور کے حدودِ دین کا ذکر ہے، اور اس میں آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کی تعریف ہے۔

 

۶۳۲

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۰

 

سوال – ۹۶۱: قرآنِ حکیم سے حدودِ دین کی کوئی نمایان مثال بتائیں؟ -جواب: (۱) سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۲) میں ارشاد ہے: وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمْ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا=اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب مقرر کئے تھے .. .. .۔

سوال -۹۶۲: یہ ارشاد سورۂ اعراف (۰۷: ۱۵۹) میں ہے: وَمِنْ قَوْمِ مُوسَى أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ،  اس آیۂ مبارکہ کی حکمت بیان کریں کہ کس طرح سے ہے؟  جواب: (۱) ترجمہ: موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو حق کے مطابق ہدایت کرتا اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا تھا، (۲) اس سے حدودِ دین کا نظامِ ہدایت مراد ہے (۳) یعنی ناطق، اساس، امام، بارہ حجت اور تین سو ساٹھ داعی (۴) یہی نظام اسلام میں بھی ہے۔

سوال – ۹۶۳: آیا آنحضرتؐ کے لئے کوئی وزیر مقرر تھا، جیسے

 

۶۳۳

 

حضرتِ موسیٰؑ کے لئے ایک وزیر مقرر تھا؟ جواب: (۱) جی ہاں، جس طرح حضرتِ موسیٰؑ کے لئے اس کا بھائی ہارونؑ وزیر تھا اسی طرح آنحضرتؐ کے لئے آپؐ کا بھائی علیؑ وزیر مقرر تھا، اور یہی اللہ کی عنایت ہر ناطق کے لئے تھی (۲) یہی قانونِ الٰہی آپ کو قرآن و حدیث میں ملے گا (۳) آپ دعائم الاسلام عربی، حصّۂ اوّل ص۔ ۱۶ پر دیکھیں۔

سوال – ۹۶۴: آپ یہ بتائیں کہ قرآن میں کہاں کہاں حضرتِ موسیٰ کے وزیر کا ذکر آیا ہے؟ جواب: (۱) سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۲۹) (۲) سورۂ فرقان (۲۵: ۳۵)۔

سوال – ۹۶۵: کیا آپ آنحضرتؐ کے وہ مبارک الفاظ بتا سکتے ہیں جن میں حضورِ اکرمؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر پیغمبر کے ساتھ ایک وزیر مقرر کیا تھا؟ -جواب: (۱) اس کے لئے آپ مذکورہ دعائم الاسلام ص – ۱۶ کو دیکھیں (۲) اِنَّ اللہ لم یبعث نبیّاً اِلاَّ جعل لہ و صیّاً و وزیرًا. . .۔ ۔

سوال – ۹۶۶: وزیر کے لفظی معنی کیا ہیں؟ -جواب: (۱) وزیر کا لفظ وزر سے ہے، وزر بوجھ کو کہتے ہیں، پس وزیر کے معنی ہیں کسی بادشاہ کا وہ خاص شخص جو امورِ سلطنت میں بادشاہ

 

۶۳۴

 

کا بوجھ بٹاتا ہے اور اس کو مشورہ دیتا ہے (۲) لیکن ہم نے قرآن میں یہ نہیں دیکھا کہ حضرتِ ہارونؑ، حضرتِ موسیٰؑ کو ظاہر میں کوئی مشورہ دیتا تھا (۳) لیکن یقیناً یہ حقیقت ہے کہ حضرتِ ہارونؑ باطن میں حضرتِ موسیٰؑ کے کاموں میں مدد دیتا تھا، بحوالۂ قرآن (۲۰: ۳۲)۔

سوال – ۹۶۷: کسی پیغمبر کا وزیر کن معنوں میں اپنے پیغمبر کے لئے وزارت کا فریضہ انجام دیتا ہے؟ -جواب: (۱) یہ بہت بڑا روحانی راز ہے (۲) کتابِ ناطق، وصی، اخی، وارث اور (۳) حدودِ دین میں سے اساس، باب اور حجت کے معنوں میں۔

سوال – ۹۶۸: آپ عُرْوَۃ الوثقیٰ کے معنی اور حکمت بیان کریں؟ -جواب: (۱) ترجمہ=مضبوط کڑا یا حلقہ (۲) یعنی حضرتِ علیؑ کی محبّت اور دوستی (۳) یعنی جو کوئی علیؑ کی دوستی سے وابستہ ہو جاتا ہے تو اس کے قدم میں لغزش نہیں آتی ہے، (۰۲: ۲۵۶)۔ یعنی وہ صراطِ مستقیم پر ثابت قدم سے چل کر منزلِ مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔

سوال – ۹۶۹: سوال سورۂ کہف (۱۸: ۲۲) سے ہے؟ : کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ اصحابِ کہف کی اصل تعداد کیا ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں ان شاء اللہ (۲) اصحابِ کھف سات ہیں، اور آٹھواں ان کا کتا ہے، اور اس کی تاویل عالمِ شخصی میں ہے، وہ یہ کہ

 

۶۳۵

 

عارف کے عالمِ شخصی میں صاحبانِ ہفت ادوار پنہان ہیں، اور کتا ان کا آٹھواں ہے، جس سے عارف مراد ہے کہ وہ غلامی اور وفا میں امامِ زمانؑ کا کتا ہے۔

سوال – ۹۷۰: اس کی دلیل کیا ہے کہ اصحابِ کہف مقدّس ہستیاں ہیں؟ -جواب: (۱) اس کی کئی دلیلیں ہیں اور ایک روشن دلیل یہ ہے کہ جہاں غار تھا وہاں ایک مسجد بنائی گئی اور قرآن اسی کی تصدیق کرتا ہے بجائے اس کے کہ کوئی اور یاد گار بنائی جائے (۲) (۱۸: ۲۱)۔

 

۶۳۶

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۱

 

سوال – ۹۷۱: ذوالقرنین کون ہے؟ اس کے لفظی معنی کیا ہیں؟ اس کی حکمت کیا ہے؟ -جواب: (۱) ذوالقرنین کے لفظی معنی ہیں دو سینگ والا (۲) اس کی حکمت ہے صاحبِ ناقور یا صاحبِ صور، یعنی مولا علی (۳) ایک اعرابی نے آنحضرتؐ سے پوچھا کہ یا حضرت صور کیا ہے؟ حضورِ پاک نے فرمایا کہ وہ ایک قرن (سینگ) ہے، یعنی وہ سینگ کی آواز ہے، اور قرآن کے مطابق یہ دو آوازیں ہیں، اس لئے قرنین کا لفظ آگیا۔

سوال – ۹۷۲: آپ کہتے ہیں کہ ہر پیغمبر پر ذاتی اور روحانی قیامت گزرچکی ہے، اب آپ یہ بتائیں، کہ حضرتِ آدم علیہ السّلام کی ایسی قیامت کا ذکر قرآنِ حکیم میں کہاں ہے؟ -جواب: (۱) اس کا تذکرہ ان آیاتِ کریمہ میں ہے، جن میں آدم کے لئے بحکمِ خدا فرشتوں کے سجدہ کرنے کا بیان ہے: (۱۵: ۲۹)، (۳۸: ۷۲)، (۰۲: ۳۴)وغیرہ۔

سوال – ۹۷۳: حضرت ادریس علیہ السّلام کی روحانی قیامت

 

۶۳۷

 

کا تذکرہ کس آیۂ شریفہ میں ہے؟ -جواب: (۱)سورۂ مریم (۱۹: ۵۶)، (۱۹: ۵۷) میں دیکھیں: (۲) اے رسول، کتابِ روحانیّت میں ادریس کو یاد کرو، وہ صدیق تھا، یعنی قیامت کے جملہ حقائق و معارف کا تصدیق کرنے والا اور ایک نبی تھا (۳) اور ہم نے اسے بلند مقام یعنی حظیرۂ قدس پر اٹھایا تھا۔

سوال – ۹۷۴: وہ آیۂ مبارکہ کونسی ہے، جس میں حضرتِ نوحؑ کی روحانی قیامت شروع ہونے کا واضح اشارہ موجود ہے؟ -جواب: (۱) سورۂ ہود (۱۱: ۴۰) (۲) سورۂ مومنون (۲۳: ۲۷) طوفان کی مثال میں حضرتِ نوحؑ کا عالمِ شخصی سفینۂ نجات تھا، اور قیامت کے معنی میں قیامت کا مرکز (۳) یہ قیامت حظیرۂ قدس میں جاکر ختم ہوئی تھی۔

سوال – ۹۷۵: حضرتِ سید الانبیاء صلعم کی روحانی قیامت کا ذکرِ جمیل کس سورہ میں ہے؟ اور کس طرح ہے؟ – جواب: (۱) آپ سورۂ نصر (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۳) کو پڑھیں: جب اللہ کی مدد اور فتح آئی (۲) یعنی جب اسرافیل اور میکائیل آگئے، اور روحانی قیامت برپا ہوئی (۳) اور تم نے تمام لوگوں کو دیکھا کہ فوج در فوج اللہ کے دین (یعنی تمہارے عالمِ شخصی) میں داخل ہورہے ہیں (۴) تو اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو۔

 

۶۳۸

 

سوال – ۹۷۶: قیامت سے متعلق مولاعلیؑ کا کیا ارشاد ہے؟  جواب: (۱)حضرتِ مولا علیؑ کا ارشاد یہ ہے (۲) اَنَا السَّاعَۃُ الَّتِی لِمَن کَذَّبَ بِھَا سَعِیرًا (۳) یعنی میں وہ ساعت (قیامت) ہوں کہ جو شخص اس کو جھٹلائے اور اس کا منکر ہو، اس کے لئے دوزخ واجب ہے، کوکبِ دری بابِ سوم، منقبت ۲۷۔

سوال – ۹۷۷: آیا مریم سلام اللہ علیہا کو اسمِ اعظم ملا تھا؟ اور کیا مریمؑ پر روحانی قیامت واقع ہوچکی تھی؟ جواب: (۱)جی ہاں، (۲) قصۂ مریم اسمِ اعظم اور قیامت کے بھیدوں سے بھرا ہوا ہے (۳) سب سے عجیب اور سب سے عظیم راز یہ ہے کہ حظیرۂ قدس میں ابنِ مریم اور مریم کا عقلی تولد ایک ساتھ ہوا تھا۔

سوال – ۹۷۸: سورۂ روم (۳۰: ۲۲) میں ہے: اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش، اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے، یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانشمند لوگوں کے لئے۔ کیا آپ زبان کے بارے میں کوئی بھید بتا سکتے ہیں؟ -جواب: (۱)ان شاءاللہ جب اہلِ ایمان بہشت میں ہوں گے، تو اس وقت وہ اگر حضرتِ آدم کی زبان کو سننا چاہیں تو سن سکیں گے، اور ان کو بڑی حیرت ہوگی (۲) وہ اپنی قدیم زبان کو بھی سنیں گے جو کئی ہزار سال پہلے دنیا میں استعمال ہوئی تھی (۳) ایسی

 

۶۳۹

 

اصل زبان آپ کے قدیم آباؤ اجداد کے نامہ ہائے اعمال میں محفوظ ہے (۴) بہشت میں علم اور معلومات کی کونسی نعمت ناممکن ہے۔

سوال – ۹۷۹: آیا جنّت میں دوسروں کی کتابِ اعمال کو دیکھنے کی اجازت ہوتی ہے؟ -جواب: (۱)جی ہاں، کیوں نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ سب اس کے نامۂ اعمال کو پڑھیں (۲) کیونکہ بہشت میں ہر کامیابی کی تعریف بہت ہی اچھی لگتی ہے (۳) دیکھیں سورۂ حاقہ (۶۹: ۱۹)۔

سوال – ۹۸۰: جو لوگ خدا و رسول کے حکم کے مطابق امامِ آلِ محمدؐ سے دوستی اور محبت کرتے ہیں، اور بحقیقت امام میں فنا ہوجاتے ہیں تو ان کی کتابِ اعمال کی کیا شان ہوگی؟ -جواب: (۱) ایسے میں ان حقیقی عاشقوں پر یہ احسانِ عظیم ہوگا کہ امامِ عالیمقام بذاتِ خود ان کا نامۂ اعمال ہوگا (۲) کیونکہ وہ کتابِ ناطق جو خدا کے پاس ہے، جو سچ سچ بولتی ہے، وہ امامِ برحق ہے، اور وہ یقیناً اہلِ ایمان کا نامۂ اعمال بھی ہے (۲۳: ۶۲)، (۴۵: ۲۹) الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

 

۶۴۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۲

 

سوال – ۹۸۱: جو نیک بخت لوگ فنا فی الامام ہو جاتے ہیں، وہی لوگ حقیقت میں فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ بھی ہوتے ہیں، آپ کا کیا خیال ہے؟ -جواب: (۱) یہ نکتۂ روح پرور بالکل درست اور حقیقت ہے (۲) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امامِ مبین کو خزانۂ خزائن بنا یا ہے (۳۶: ۱۲) (۳) امامِ زمان یقیناً اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم ہے، جس سے عارف کے عالمِ شخصی میں ذاتی اور روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، جس کے فوائد بے شمار ہیں (۴) کیا قیامت فیصلے کا دن نہیں ہے، آیا اس میں حق و باطل کے درمیان فیصلہ نہیں ہوتا ہے؟

سوال – ۹۸۲: امام شناسی کے کتنے درجے ہیں؟ -جواب: (۱)امام شناسی کے تین درجے ہیں، ان میں سے ایک درجہ ظاہر میں ہے اور دو درجے باطن میں ہیں (۲) امام شناسی کا درجہ ظاہر میں ہے وہ علم الیقین ہے (۳) دو درجے جو باطنی ہیں، وہ عین الیقین اور حق الیقین ہیں، وہ عارف کے عالمِ شخصی میں ہیں۔

 

۶۴۱

 

سوال – ۹۸۳: کیا آپ یقین کو معرفت کہتے ہیں؟ -جواب: (۱)جی ہاں، چونکہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کا یقین معرفت کے معنی میں تھا (۰۶: ۷۵) کیونکہ انہوں نے اپنے عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کے بھیدوں کی معرفت حاصل کرلی تھی (۲) آپ سورۂ بقرہ (۰۲: ۰۱ تا ۰۲) میں کتاب لاریب فیہ۔ میں یہ تاویل کر سکتے ہیں: اس میں شک نہیں = یعنی یقین ہے  =یعنی معرفت ہے (۳) پس الم میں معرفت ہے، تو اس سے حضرت علیؑ مراد ہے، جیسا کہ مولا علی نے فرمایا: انا ذالک الکتاب لاریب فیہ۔ یعنی میں وہ کتاب ہوں جس میں کوئی شک نہیں، بلکہ یقین ہے، یعنی معرفت ہی معرفت ہے۔

سوال – ۹۸۴: سورۂ اعراف کی آیۂ چہلم (۰۷: ۴۰) کو غور سے پڑھیں، اس میں سوال یہ ہے کہ اللہ کی کونسی آیات کو جھٹلایا جاتا ہے؟ -جواب: (۱) اللہ کی آیات أئمّۂ طاہرین ہیں، جن کو نادان لوگ جھٹلاتے ہیں (۲) جیسا کہ مولا علیؑ کا ارشاد ہے: انا آیات اللہ و امین اللہ (کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت۔ ۸۰) (۳) اس تاویل کے سوا اللہ کی دوسری آیات کو جھٹلانے کی کوئی منطق نہیں ہے۔

سوال – ۹۸۵: سوال ہے کہ أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کن معنوں میں اللہ تعالیٰ کی آیات ہیں؟ -جواب: (۱)حضراتِ أئمّہ خدا کے سب سے عظیم معجزات ہیں (۲) امامانِ حق کتابِ ناطق یعنی قرآنِ ناطق

 

۶۴۲

 

اور اس کی جملہ آیات ہیں (۳) أئمّہ علیہم السّلام قرآنِ حکیم کی حکمت اور تاویلی اسرار ہیں (۴) أئمّۂ ھُدا اللہ کی مقدّس آیات و معجزات ہیں، جن کا ظہور عارف کے عالمِ شخصی میں ہوتا ہے۔

سوال – ۹۸۶: سوال سورۂ حج (۲۲: ۴۶) سے ہے: کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ کیا یہ عالمِ شخصی کی زمین میں چلنے پھرنے کا اشارہ ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، جس کا دل اندھا ہو جاتا ہے، اس کا کیا انجام ہوتا ہے؟ -جواب: (۱) وہ دنیا میں دل کا اندھا ہوکر معرفت سے محروم ہو جاتا ہے، اور آخرت میں بھی یہی حالت رہتی ہے، (۱۷: ۷۲)۔

سوال -۹۸۷: سورۂ ابراہیم (۱۴: ۱۰) میں ہے: تب ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اس کی حکمت بیان کریں -جواب: (۱) مطلب یہ ہے کہ خدا کے بارے میں شک نہیں بلکہ یقین ہے (۲) جب یقین ہے تو بالفاظِ دیگر معرفت ہے (۳) پس یہ طریقہ حکمت کے عجائب و غرائب میں سے ہے کہ معرفت کے بیان کو ایسے حجاب میں رکھا گیا ہے، مگر یہ اس کا بہت بڑا احسان ہے۔

 

۶۴۳

 

سوال – ۹۸۸: کیا آپ آنحضرتؐ کے حدودِ روحانی اور ان کے مظاہر کے اسماء بتا سکتے ہیں؟ -جواب: (۱) ان شاء اللہ (۱) حدودِ روحانی کے نام یہ ہیں: سابق، تالی، جد، فتح، خیال (۲) ان کے مظاہر یہ ہیں: ابو طالب، خدیجہ، زیدبن عمرو، عمرو بن نفیل، میسرہ۔ از کتابِ سرائر، ص۔ ۸۱۔

سوال – ۹۸۹: آپ کو حجّتِ قائم اور حضرتِ قائم کا عشق شروع شروع میں کیسے پیدا ہوا؟ -جواب: (۱)حکیم پیر ناصر خسرو (ق س) کی شہرۂ آفاق کتاب وجہ دین سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کیا (۲) یہ مبارک کتاب جو تقریباً ایک ہزار سال پہلے لکھی گئی ہے، علم الیقین کا بڑا زبردست خزانہ ہے (۳) اس مقدّس کتاب میں جگہ جگہ حجّتِ قائم اور خود قائم کا مدلّل بیان ملتا ہے، دراصل یہ سب کچھ خداوندِ قدّوس کی رحمت سے ہوا (۴) اللہ کے فضل و کرم سے میں ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوا تھا، جو بڑا دیندار اور اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کا دوستدار تھا۔

سوال – ۹۹۰: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) حجّت اور قائم دونوں اللہ تعالیٰ کے بزرگ نام ہیں، اس لئے وہ قرآن اور روحانیّت میں الحیّ القیوم ہیں (۲) نیز وہ قرآن کے سات مقام پر حٰمٓ ہیں ح = الحیّ، م= القیوم (۳) وہ مرکزِ قیامتِ عظمیٰ ہیں، قرآنِ حکیم ان کے نورانی تذکروں سے مملو ہے (۴) امام شناسی انہی کی معرفت سے مکمل ہو جاتی ہے۔

 

۶۴۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۳

 

سوال – ۹۹۱: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) قائم القیامت کو کوئی نہیں پہچان سکتا، مگر ان پانچ حدود میں سے کسی ایک کے ذریعے سے، (۲) وہ حدود یہ ہیں: اساس، امام، باب، حجّت اور داعی۔ (وجہ دین، حصّۂ دوم، کلام۔ ۳۳)

سوال – ۹۹۲: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) حضرتِ قائم القیامت کی معرفت کے تین درجے ہیں: (۲) علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین۔ (۳) یعنی قائم علیہ السّلام کی ابتدائی پہچان ظاہر میں ہوتی ہے، دوسری اور تیسری پہچان باطن (عالمِ شخصی) میں ہے۔ (۴) اور اسی معرفت میں کل معرفتیں جمع ہو جاتی ہیں۔

سوال – ۹۹۳: چھ ناطقوں میں سے ہر ناطق کی روحانی تربیت کے لئے ایک امامِ مقیم مقرر تھا، کیا آپ ان چھ امامانِ مقیم کے اسمائے گرامی بتا سکتے ہیں؟ -جواب: (۱) ان شاءاللہ، حضرتِ آدمؑ کے لئے مولانا ھنید امامِ مقیم تھا (۲) حضرتِ نوحؑ کے لئے مولاناھود امامِ مقیم

 

۶۴۵

 

(۳) حضرتِ ابراہیمؑ کے لئے مولانا صالح امامِ مقیم (۴) حضرتِ موسٰیؑ کے لئے مولانا آد امامِ مقیم (۵) حضرتِ عیسیٰؑ کے لئے مولانا خزیمہ امامِ مقیم (۶) حضرت محمدؐ کے لئے مولانا ابو طالب / عمران امامِ مقیم تھا، الحمد للہ۔

سوال – ۹۹۴: اللہ ُ نور السّمٰوٰتِ والارض = اللہ آسمانوں اور زمین کا (زندہ اور بولنے والا)  نور ہے (۲۴: ۳۵)۔ آیا اس کا اطلاق کائناتِ ظاہر پر ہوتا ہے یا عالمِ شخصی پر؟ جواب: (۱) حق بات تو یہ ہے کہ اس کا اطلاق عالمِ شخصی پر ہوتا ہے، کیونکہ اللہ کے نور کا مظہر بحقیقت انسانِ کامل ہے اور عارفین (۲) اگر اللہ کے نور کی تجلّیات ظاہری کائنات میں ہوتیں تو عالمِ ظاہر ہی اللہ کی معرفت کے لئے مکلّف ہوتا مگر ایسا نہیں ہے بلکہ خدا شناسی کے لئے انسان ہی مکلّف ہے (۳) ظاہر ہے کہ انسانوں ہی میں سے عارف ہوتے ہیں، سیّاروں، ستاروں اور پہاڑوں میں سے نہیں ہوتے (۴) پس معلوم ہوا کہ اللہ کے نور کے ظہورات و تجلّیات عالمِ شخصی ہی میں ہیں (۵) آپ یقین جانیں کہ قرآنِ حکیم کی ساری تعلیمات اسی قانون کے مطابق ہیں۔

سوال – ۹۹۵: اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے نور کی پھیلی ہوئی روشنی موجود ہوتی، تو قرآن نہ فرماتا کہ یقیناً تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا ہے اور ایک ظاہر کتاب آئی ہے (۰۵: ۱۵)۔ کیا یہ

 

۶۴۶

 

دلیل درست ہے؟ – جواب: (۱)بالکل درست ہے (۲) اگر اللہ کا حقیقی نور کائناتِ ظاہر میں پھیلا ہوا موجود ہوتا تو پتھر بھی علم و حکمت کی باتیں کرتا رہتا (۳) ایسے میں جانور انسان کے لئے کوئی کام ہی نہ کرتا وہ آدمی سے کہتا جاتا کہ جا جا تجھ میں اور مجھ میں کیا فرق ہے (۴) حقیقت یہ ہے کہ اللہ عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔

سوال – ۹۹۶: نورِ محمدی کے چند دوسرے اسماء کیا ہیں؟ جواب: (۱)عقلِ اوّل (۲) قلمِ الٰہی (۳) عرشِ اعلیٰ (۴) آدمِ اوّل (۵) آفتابِ ازل (۶) نورِ قدیم (۷) آفتابِ عالمِ دین (۸) سراجِ منیر (۹) نور الانوار (۱۰) نورِ واحد، یعنی محمدؐ و علیؑ کا نور (۱۱) نبوّت و امامت کا واحد نور وغیرہ وغیرہ۔

سوال – ۹۹۷: ازل، لامکان اور بہشت کی معرفت کہاں ہے؟ جواب: (۱)حظیرۂ قدس میں (۲) کیونکہ امامِ مبین کا معجزۂ کل یہاں ہے (۳) بہشت برائے معرفت بھی یہیں ہے (۴) روحانی قیامت میں سارے آسمانوں اور زمین کو اسی مقام میں لپیٹ لیا جاتا ہے (۵) پس حظیرۂ قدس میں ان اسرارِ عظیم کا مشاہدہ ہوتا ہے، جو زمان و مکان سے بالا تر ہیں۔

سوال – ۹۹۸: کیا آپ کو اس حقیقت کا یقین ہوچکا ہے کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں ظاہری شہیدوں کا ذکر آیا ہے، وہاں باطنی شہیدوں کا تذکرہ بھی ہے؟ جواب: (۱) جی ہاں، الحمد للہ (۲) ایک

 

۶۴۷

 

ایسا تذکرہ سورۂ محمد (۴۷: ۰۴ تا ۰۶) میں بھی ہے (۳) یہی زندہ شہید عالمِ شخصی میں امامِ مبین (۳۶: ۱۲) اور بہشت کی معرفت کو حاصل کرتے ہیں، آپ مذکورہ سورہ میں اس حوالے کو غور سے پڑھیں۔

سوال – ۹۹۹: کیا آپ کو اس کتاب کے مکمل ہونے پر شکر گزاری کے آنسو بہانے کا شوق ہے؟ جواب: (۱)جی ہاں، جی ہاں، لیکن کیا کروں، ضعیف العمری اور کئی بیماریوں کی وجہ سے خاطر خواہ گریہ و زاری نہیں ہوتی ہے (۲) لہٰذا میں اپنے تمام ساتھیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ سب کے سب اس اجتماعی نعمت کے لئے شکر گزاری کے کچھ آنسو بہائیں، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ہم سب ایک جان کی طرح ہیں۔ الحمد للہ۔

سوال – ۱۰۰۰: اے سب سے حقیر نصیر (تم اپنے ماضی کو ایک بار پھر یاد کرو، بتاؤ  سچ سچ بتاؤ تم کو اتنی بڑی ترقی کس نے دی؟ جواب: (۱)امامِ عالی مقام (روحی فداہ) نے (۲) مولائے پاک نے اس بندۂ ناچیز کے لئے بے شمار معجزے کئے (۳) جب بھی موقع ملا تو میں نے مولائے پاک کے عظیم معجزات کا تذکرہ دوستوں سے کیا ہے (۴) اور نظم و نثر میں اکثر انہی معجزات کا ذکر یا اشارہ ہوتا رہا ہے (۵) یہ مولائے مہربان کے احسانات کا ذکرِ جمیل ہے (۶) یہ عشق نہیں جنون ہے، مولا مولا اب بھی تیری مدد کی سخت ضرورت ہے (۷) بحرمتِ اہلِ بیتِ اطہار علیہ السّلام، و بحرمتِ

 

۶۴۸

 

مومنان و مومناتِ حضرتِ قائم القیامت، برحمتک یا ارحم الراحمین۔

 

اتوار  ۲۲؍ شعبان المعظّم  ۱۴۲۰ھ   ۲۱؍نومبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۴۹

 

صنادیقِ جواہر

ضمیمہ

 

 

ایل۔ اے۔ ایس

 

میں حبِ علی ثانی ابن امین الدین ابن ایثار علی ابن نصیر الدین ابنِ حبِ علی اوّل تمام ساتھیوں کو صمیمیتِ قلب سے یا علی مدد کہتا ہوں، میں بڑے شوق سے آپ سب کو مبارکبادی کا گلدستہ پیش کرتا ہوں کہ خدا کے فضل و کرم سے آپ سب کی دوسری عظیم کتاب صنادیقِ جواہر مکمل ہوئی ہے، یہ بے مثال اور انمول کتاب آپ سب کی ہے، اس لئے کہ یہ دانشگاہِ خانۂ حکمت کی ہے، یہ میرے دادا جان کی بھی ہے، لہٰذا یہ میری بھی ہے، اور یقیناً ایل اے ایس کی بھی ہے، کیونکہ ہم سب ایک ہی بستی کے باشندے ہیں، اور یہ کتاب اس مبارک بستی کی بابرکت نہر ہے، جس کا پانی بہت ہی پاک و صاف اور بیحد شیرین ہے۔

میرا دادا جان مجھ کو بہت چاہتا ہے اس کو مجھ سے بہت محبت ہے وہ تمام ایل اے ایس کو بھی بیحد عزیز رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ میری اس محبت میں ایک حکمتی روح ہے، ان شاء اللہ آگے چل کر یہ روح اپنا کام کرے گی۔

 

حبِّ علی ثانی ہونزائی

۲۲؍نومبر ۱۹۹۹ ء

 

۶۵۳

 

آپ کی مقدّس دعاؤوں کا شکریہ

 

ہمارے روحانی عزیزان! آپ کی مقدّس دعاؤوں کا بہت بہت شکریہ، خیر خواہی، ہمدردی، اور دل سوزی کا بیحد شکریہ، یقیناً آپ کے مقدس آنسوؤں کی گوہر افشانی میں بہت سی برکتیں ہیں، الحمد للہ۔

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ خداوندِ قدوس کارساز ہے، تاہم یہ وسیلہ بھی اسی نے بنایا ہے، وہ اپنے لشکر سے کام لیتا ہے، اس کے لشکر سے قربان!

عزیزانِ من! چراغِ آفتاب کی ضوافشانی کا کوئی ایک رخ نہیں، بلکہ وہ ہر طرف سے روشنیوں کی بارش برساتا رہتا ہے، یہی مثال آفتابِ علم کی بھی ہے۔

یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ خداوند تعالیٰ اہلِ زمانہ میں سے کچھ لوگوں کو علم و معرفت کے لئے منتخب فرماتا ہے، یہ بات غیر معمولی ہے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۳؍نومبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۵۴

 

ایک بے مثال اور لازوال تحفہ

 

عزیزانِ من، اگر ہم تاویلی اسرار کو معمولی چیزوں کی طرح سمجھیں تو یہ بہت بڑی ناشکری ہوگی، اس لئے ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے حضرتِ قائم القیامت کے ہر معجزے کی قدر دانی اور شکر گزاری کرنی ہوگی۔

شام کو ہم مل کر گریہ وزاری کر رہے تھے، صبح کسی قرآنی حکمت کے لئے کچھ دیر تک سوچتا رہا، پھر ایک عظیم راز منکشف ہوگیا، وہ یہ ہے: کسی انسان کو کیا معلوم کہ وہ کس سرزمین میں مرنے والا ہے، لیکن پھر بھی بہت سے لوگ جہاں پیدا ہوئے ہیں وہیں مر جاتے ہیں، لہٰذا اس آیۂ شریفہ میں بہت بڑی تاویل ہے وہ یہ ہے کہ کسی شخص کو خبر ہی نہیں کہ وہ حدودِ جسمانی کی زمین میں کہاں یعنی کس حد میں مرنے والا ہے، اور وہ دنیا کے کس جزیرے میں ہوگا۔ سورۂ لقمان، آیت ۳۴۔ ارشاد ہے: وَمَا تَدْرِیْ نفسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْ تُ۔ (۳۱: ۳۴) ترجمہ: اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سر زمین میں اس کو موت آنی ہے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۵؍ شعبان المعظّم  ۱۴۲۰ ھ

۲۴؍نومبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۵۵

 

قیامت کے دو پہلو

 

قیامت کے شعوری اور غیر شعوری دو پہلو ہیں، معلوم ہے کہ ہر امام کے ساتھ ایک قیامت ہے (۱۷: ۷۱) قرآن اور روحانیّت میں قیامت کے بے شمار عجائب و غرائب ہیں، آپ سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۳) میں غور سے دیکھیں، جس کا ترجمہ یہ ہے: کیا تم نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے گھروں سے نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ اللہ نے ان سے فرمایا: مرجاؤ، پھر اس نے ان کو دوبارہ زندہ کیا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔

یہ سوالیہ خطاب انسانِ کامل سے ہے کہ اُس نے روحانی قیامت میں لوگوں کو بشکل ذرّات عالمِ شخصی میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا ہے، لوگوں کا یہ رجوع قیامت کی زبردستی کی وجہ سے ہے، اور یہ امامِ عالی مقام علیہ السلام کا بہت بڑا احسان ہے، ورنہ لوگ از خود رجوع نہیں کر سکتے تھے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۶؍ شعبان المعظّم  ۱۴۲۰ ھ

۲۵؍نومبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۵۶

 

ایل اے ایس اینڈ ہائی ایجوکیٹرز

 

میرا ایمان اور یقین ہے کہ ہر نیک کام کی توفیق و ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے، الحمد للہ ننھے فرشتوں کی بیحد پیاری تنظیم اور ہائی ایجو کیٹرز یعنی اعلیٰ معلمین خدائے مہربان کے انعامات میں سے ہیں، ان میں دونوں جہان کی خوشی اور شادمانی بھری ہوئی ہے، میرے دل کو یہ بشارت مل رہی ہے کہ ان شاء اللہ، یہ ادارہ رفتہ رفتہ بہت ترقی کرے گا۔

خدا کے فضل و کرم سے میرے گھر میں ایل اے ایس کا ایک بہت ہی پیارا سفیر موجود ہے، وہ ہےحبِّ علی ثانی ہونزائی ابنِ امین الدین حبِّ علی کی پیاری ممی عرفت روحی امین الدین اپنے لختِ جگر حبِّ علی کی بہتریں تریبت کے لئے کوشش کرتی رہتی ہیں، عرفت روحی ہائی ایجو کیٹر کے علاوہ پرسنل سیکریٹری اور پروف انچارج آفیسر بھی ہیں، عرفت روحی اور چیف ایڈوائزر ٹو علامہ پروانۂ علم روبینہ برولیا نے صنادیقِ جواہر کے پروف کی خدمت میں بیحد محنت سے کام کیا، خداوندِ قدوس تمام خدمت کرنے والے نفوس کو دونوں جہان کی عزّت عطا فرمائے! آمین!

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۸؍نومبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۵۷

 

قرآنی بہشت

آلِ ابراہیمؑ

 

یہ اصطلاح: قرآنی بہشت، سچ اور حقیقت ہے، جس سے علم و حکمت مراد ہے، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے، عزیزانِ من! قرآنی بہشت میں تمام نعمتوں کی سردار نعمت امام شناسی ہی ہے، اس حقیقت کی روشن دلائل کثرت سے ہیں۔ جب ہم کلیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کے مطابق یہ حقیقت تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزیں امام مبین میں گھیر کر رکھی ہیں، تو پھر ہم کو یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ قرآنِ حکیم کی جملہ آیات اور ان کے تمام معانی اور حکمتیں امامِ مبین میں محدود ہیں، اور ایسے میں ہر پیغمبر کی دعوت بھی امامِ مبین کے لئے قرار پاتی ہے، یعنی امامِ مبین کی طرف جاتی ہے جس طرح کل اشیاء امام میں مرکوز ہو جاتی ہیں۔

ہم نے قرآنی بہشت میں یقیناً یہی دیکھا ہے کہ لوگوں کو سب سے پہلے خدا کی طرف دعوت دی گئی ہے، بعد ازان رسول کی طرف، اور آخری اور مکمل دعوت امام کی طرف ہے، عجب نہیں کہ یہ تیسری اور آخری دعوت زیادہ تر باطنی حکمت میں ہو، کیونکہ امام کا تعلق باطن سے ہے۔

اگرچہ امام شناسی جملہ قرآن میں اور ہر نبی کے قصّے میں ہے، لیکن میں

 

۶۵۸

 

عزیزوں کی آسانی کی خاطر صرف حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیمؑ سے فرمایا: میں تم کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں (۰۲: ۱۲۴)۔ اس اعلانِ خداوندی سے اہلِ دانش پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ خدا ہر زمانے میں لوگوں کے لئے ایک امام مقرر فرماتا ہے، کیونکہ دین کے ضروری کاموں میں اللہ کی سنت ایک جیسی رہتی ہے، یعنی اس کی سنت گاہے چنین گاہے چنان نہیں ہوتی (۳۳: ۶۲)۔ اور شروع سے لے کر آخر تک سلسلۂ امامت ایک ہی خاندان سے ہے، جیسا کہ آیۂ اصطفاء (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) میں ہے، ذرّ یَّۃً بعَضُھا مِن بعض = (۰۳: ۳۴) ان مبارک الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نبوّت اور امامت کا پاک سلسلہ ایک ہی مقدّس خاندان سے ہے۔ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا یہی سلسلہ اللہ کی رسی بھی ہے (۰۳: ۱۰۳) جو زمانۂ آدم سے چلی آئی ہے، اور یہی سلسلہ زمین پر سلسلۂ نورِ الٰہی ہے۔

سورۂ نساء (۰۴: ۵۴) میں ارشاد ہے: ہم نے تو آلِ ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی ہے اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی ہے۔ اس آیۂ شریفہ کی روشنی میں یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے کہ دورِ محمدی میں آلِ ابراہیم محمد و آلِ محمد ہیں، کیونکہ کتاب (قرآن) اور اس کی تاویلی حکمت، اور عظیم روحانی سلطنت انہی حضرات کے پاس ہے، اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلے گا جب تک دنیا میں قرآن جاری و باقی ہے، یہ وہی حقیقت ہے، جس کو ہم آیۂ قد جاءکم  (۰۵: ۱۵) کی تفسیر میں بیان کرتے رہتے ہیں۔

 

۶۵۹

 

اے عزیزان، قرآنِ حکیم اور أئمّۂ آلِ محمدؐ روحانیّت اور نورانیّت میں ہمیشہ ساتھ ساتھ ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہی حضرات کو اپنی کتاب (قرآن) کا وارث بنایا ہے، کہ خدا نے انہیں اپنے بندوں میں سے منتخب فرمایا ہے (۳۵: ۳۲)۔

آپ نے دیکھا کہ دورِ محمدیؐ میں آلِ ابراہیمؑ سے مراد آلِ محمدؐ ہی ہیں، آپ سورۂ حج کی آخری آیت (۲۲: ۷۸) کو بھی پڑھیں، خصوصاً ان الفاظ کو: مِلَّۃَ ابیکم ابراھیم = تمہارے باب ابراہیم کے مذہب کو تمہارا مذہب بنایا۔ یہ خطاب صرف أئمّۂ آلِ محمدؐ ہی سے ہے، پس قرآن میں جہاں جہاں حضرتِ ابراہیمؑ کی ذریّت کا ذکر آیا ہے، وہاں آلِ محمدؐ کا تذکرہ بھی ہے، جیسے سورۂ ابراہیم از آیت ۱۴: ۳۵ تا ۴۱۔ اس مقام پر امن والا شہر سے عالمِ شخصی اور مرتبۂ اساس مراد ہے، اصنام یعنی بت پرستی = معرفت کے سوا ہر چیز بت پرستی ہے، یہاں بت پرستی کی مذمت اس لئے کی گئی ہے تاکہ معلوم ہو کہ بحقیقت خدا پرستی اور معرفت حق الیقین کے مقام پر ہے۔

آل ابراہیم کی شان میں قرآن میں بہت سی آیاتِ کریمہ وارد ہوئی ہیں اس لئے یہ تحریر اس سلسلے کا ایک مکمل مضمون نہیں بلکہ صرف چند نمونے ہیں ان شاءاللہ پھر کبھی آلِ ابراہیم کے بارے میں مزید وضاحت کریں گے، تاہم آپ کو میرا پُرخلوص مشورہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے تمام قصّۂ قرآن کا بغور مطالعہ کریں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ آلِ ابراہیمؑ کے بارے میں کیسی کیسی عظیم قرآنی حکمتیں ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعۃ المبارک ۲۴ ؍ شعبان المعظّم  ۱۴۲۰ ھ

۳؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۶۰

 

ایک عجیب و غریب نورانی خواب

 

میں نے آج ایک نورانی خواب دیکھا، جو بڑا عجیب و غریب تھا۔ میں ہونزہ کے کسی مقام پر ہوتا ہوں، میرے ساتھ چند لوگ ہوتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ وہ کون کون تھے مگر ایک شخص خوب یاد ہے، وہ میرا چچازاد بھائی ماسٹر موکھی تولد شاہ ہے جو محترمہ اسکالر شاہ ناز سلیم ہونزائی کے سسر ہیں۔ ہونزہ وغیرہ میں زمین کی کمی کی بات ہوتی ہے میں کہتا ہوں ارے دوستو! زمین تقسیم ہوتے ہوتے کم ہوگئی ہے تو کیا فکر کی بات ہے، کیونکہ میرا مولا وہ ہے جو ایک نئے سیّارۂ زمین کو پیدا کرے گا، جس میں زمین کی فراوانی ہوگی، جس طرح سیّارۂ زمین کی آبادی کے آغاز میں ایک شخص کو ایک پورا ملک آبادی کے لئے دیا جاتا تھا۔ اور اسی طرح بڑے بڑے ممالک ان لوگوں کے نام سے آباد ہوئے جن لوگوں کو یہ ممالک حصّے میں ملے تھے۔

اس کے بعد میں القابض اور الباسط کا تصوّر کرنے لگا اور اس وقت ایک نئے سیّارہ زمین کا خیال آرہا تھا۔ اس کے بعد خواب کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور جاگنے کے ساتھ خیال آیا کہ خواب غیر معمولی

 

۶۶۱

 

ہو سکتا ہے اس لئے ہم نے اس کو اپنے عزیزوں کے ذریعے سے نوٹ کرایا۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

اتوار ۵؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۶۲

 

قرآنِ حکیم مشکل بھی ہے اور آسان بھی

 

اِنَّ مع العُسرِ یُسْرًا (۹۴: ۰۶) یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ حکیم اگرچہ ایک پہلو سے مشکل ہے، لیکن دوسرے پہلو سے آسان ہے، آپ سورۂ قمر (۵۴: ۱۷) میں دیکھیں: وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ = اور ہم نے تو قرآن کو ذکر و عبادت، نصیحت اور علم و حکمت کے واسطے آسان کر دیا ہے، تو کیا کوئی سمجھنے والا ہے؟ اب یہ سوچنا ہوگا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کس طرح مشکل قرآن کو آسان بنا دیا ہے؟

اوّل: اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ صرف قرآن آیا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ کا ایک نور بھی ہے، تاکہ لوگ اللہ کے نور کی روشنی میں اُس کے کلامِ پاک کو پڑھیں، اسی طرح خداوند قدوس کی رحمت سے قرآن فہمی آسان ہوگئی ہے۔

دوم: اسمِ اعظم میں قرآن لپیٹا ہوا ہے، آپ جب جب اسمِ اعظم کا ذکر کرتے ہیں تو یقین جانیں کہ قرآن کا ذکر کرتے ہیں، پھر عجب نہیں

 

۶۶۳

 

کہ ایک نہ ایک دن اسمِ اعظم میں سے قرآن کی روحانی اور نورانی صورت آپ کے سامنے ظاہر ہوجائے، اس سے بڑھ کر قرآن کی آسانی اور کیا ہوسکتی ہے۔

سوم: قرآنِ صامت مشکل ہے، اور قرآنِ ناطق آسان، پس اللہ جس کو چاہے تو قرآنِ ناطق کے ذریعے سے قرآنِ صامت کی حکمتوں کو سمجھا سکتا ہے، اور یہ اس کی بہت بڑی رحمت اور نوازش ہے۔

چہارم: علم و حکمت کی کائنات جو قرآنِ ظاہر میں پھیلی ہوئی ہے، وہ سب کی سب امام مبین میں محدود ہے، خدا جن مومنین کو چاہے وہ اپنے عالمِ شخصی میں قرآن اور امامِ مبین کو دیکھ سکتے ہیں۔

پنجم: قرآن ظاہر میں کتابِ صامت ہے، مگر باطن میں یہ کتابِ ناطق ہے، آپ دعا کریں کہ خداوند تعالیٰ اپنی کتابِ ناطق کے وسیلے سے آپ کے لئے قرآن آسان بنا دے !

ششم: قرآن کی آخری آسانی یہ ہے کہ تم عالمِ شخصی میں داخل ہوجاؤ تاکہ امامِ مبین وہاں تمہاری اپنی زبان میں قرآن کی حکمتیں سکھلائے، اور یہ نعمتِ عظمیٰ بہشت برائے معرفت میں غیر ممکن نہیں ہے۔

ہفتم: سورۂ ابراہیم (۱۴: ۰۴) میں دیکھیں، قانونِ الٰہی یہ ہے کہ ہر پیغمبر اپنی قوم کی زبان میں آیا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ناطق کی تنزیل کسی ایک زبان میں ہوتی ہے، لیکن اساس کی تاویل ہر زبان میں ہوتی ہے، جیسے مولا علیؑ کا ارشاد ہے: انا المتکلم بکلِ لُغَتٍ فی الدّنیا (کوکبِ دری، منقبت ۳۴)۔

 

۶۶۴

 

ہشتم: کتنا عظیم معجزہ ہوگا! کہ حضرتِ امام عالی مقام کا نورِ اقدس تمہارے عالمِ شخصی میں طلوع ہو جائے اور تمہارے زبان میں قرآنی تاویل کی باتیں کرے، یہ معجزہ اس کے لئے مشکل نہیں، مگر یہ سچ ہے کہ تم شکر گزاری نہیں کرسکو گے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۶؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۶۵

 

چند تاریخی کلماتِ زرین

 

یہ ہم تمام ساتھیوں کی سب سے بڑی سعادتمندی ہے کہ ہم امامِ آلِ محمدؐ کی علمی افواج میں سے ایک نیکنام علمی فوج ہیں، ہم دینِ اسلام کی طرف سے جہالت و نادانی کے خلاف جنگ کرتے رہتے ہیں، الحمد للہ ربّ العالمین۔

میں مونو ریالٹی کی خمرِ بہشتی سے سرشار ہوکر کہتا ہوں کہ میرے قول میں یقیناً تمام عزیزوں کی آواز ہے، اور میری تحریر میں ان سب کا ہاتھ ہے، تو کیا یہ وحدانی معجزہ مونوریالٹی کی بہشت میں ناممکن ہوسکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں جو جو علمی کارنامے انجام دیئے گئے ہیں وہ سب کے سب، ہمارے تمام عزیزان کی اجتماعی کوششوں کی وجہ سے ہیں، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

خدماتِ زرین کی ایک تابناک مثال: ہمارے ادارے کا ایک مرکز اٹلانٹا میں بھی ہے، جس کے پریزیڈنٹ سابق موکھی نزار علی، اور وائس پریزیڈنٹ ان کی بیگم الماس سابقہ موکھیانی ہیں، یہ دونوں عزیزان اور ان کی تینوں صاحبزادیاں انٹرنیشنل لائف گورنرز بھی ہیں، صاحبزادیوں کے اسماء یہ ہیں: نایاب، ایل اے ایس، حِنا، ایل اے ایس، اور صبا، ایل اے ایس۔

 

۶۶۶

 

نزار علی کے والدِ مرحوم کا نام ہے: علی بھائی ابنِ ولی محمد، والدہ کا نام رتن بائی زوجہ ٔ علی بھائی۔

الماس کے والد کا نام ہے: نور محمد ابنِ علی جی، والدہ کا نام رحمت بائی اہلیۂ نور محمد۔

 

از قلم

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۸؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۶۷

 

یکے از تاویلاتِ آیۂ مصباح

 

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ یعنی خداوندِ قدوس عالمِ دین اور عالمِ شخصی کے زندہ اور دانا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ نورِ خدا کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی روشن چراغ کسی طاق میں رکھا ہو اور وہ چراغ ایک فانوس میں ہو اور وہ فانوس فروزان ستارے کی مانند شفاف و درخشندہ ہو …..یہاں صرف اتنا بتانا کافی ہے کہ یہ سب حظیرۂ قدس کے اسرارِ عظیم ہیں، اور درختِ مبارکِ زیتون سے نفسِ کلّی مراد ہے کہ وہ شرق میں یا غرب میں محدود نہیں، بلکہ وہ محیط برکائنات ہے، نیز وہ لامکان اور لامکانی ہے۔

نورٌعلیٰ نور کا ایک اشارہ تو یہ ہے کہ حاملانِ نور کا سلسلہ ازبس دراز ہے، اس کا دوسرا اشارہ یہ ہے کہ سلسلۂ نور میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ایک ہیں، تیسرا اشارہ یہ ہے کہ حضرتِ خاتم الانبیاءؐ کے بعد بھی سلسلۂ نور جاری ہے، اور آدم سے پہلے بھی یہ سلسلہ جاری تھا، چوتھا اشارہ یہ ہے کہ آیا آپ ذاتِ سبحان کو نورٌعلی نور کہہ سکتے ہیں، نہیں، نہیں، پھر؟ کیونکہ یہ اس کے مظاہر کی صفت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جس طرح کائناتِ ظاہر کی روشنی کے لئے سورج، چاند

 

۶۶۸

 

اور ستاروں کو پیدا کیا ہے، اسی طرح اس نے عالمِ دین میں بھی ایک سورج، ایک چاند، اور بہت سے ستارے بنائے ہیں، پس سورج ناطق، چاند اساس، اور ستارے أئمّہ ہیں۔

 

النور یقیناً اللہ کا نام ہے، اور خدا کا یہ زندہ اور بزرگ نام آنحضرتؐ اور امامؑ ہیں، اور اللہ کے اسمأ الحسنیٰ یہی ہیں، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۹؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۶۹

 

آیۂ مصباح اور انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام

 

اس روشن حقیقت میں کسی مومن کو کیا شک ہوسکتا ہے کہ آیۂ مصباح کا تعلق انبیاء و اولیاء علیہم السّلام سے ہے، کیونکہ یہی حضرات عالمِ دین اور عالمِ شخصی کے آسمان و زمین ہیں، اور انہی کے مبارک وجود میں اللہ کا پاک نور جلوہ نما ہے، حظیرۂ قدس انہی مقدس ہستیوں کی پاکیزہ جبین میں ہے، جس میں تمام اسرارِ معرفت جمع ہیں۔

اللہ اپنے نور کی طرف جس کو چاہے ہدایت دیتا ہے، جس سے عارف اپنے عالمِ شخصی میں خدا کے نور یعنی امام ِمبین (۳۶: ۱۲) کو دیکھنے لگتا ہے۔

اس بیان کو آپ بڑی توجّہ اور احساسِ ذمہ داری سے سن لیں کہ نورِخدا کا یہ چراغ عالمِ شخصی کے ان گھروں میں روشن ہے، جن کے بارے میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان کو حظیرۂ قدس تک بلند کرو، یعنی تم اپنے ان گھروں کو جو عالمِ شخصی میں ہیں ترقی دو اور بلند کرو یہاں تک کہ یہ حظیرۂ قدس میں جاکر قبلہ یعنی خانۂ خدا ہوجائیں، اور ان میں نورِ خدا کا چراغ روشن ہوجائے (۲۴: ۳۶) جیسا کہ سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) میں ارشاد ہے: اور وحی کی ہم نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی کی طرف کہ اپنی قوم کے واسطے مصر (یعنی عالمِ شخصی) میں کچھ گھر بناؤ اور ان اپنے گھروں کو (ترقی دے کر ) قبلہ بناؤ (یعنی ان کو حظیرۂ قدس تک مرفوع کرکے خدا کا گھر بناؤ)۔

 

۶۷۰

 

یہاں یہ سرِعظیم بھی مکشوف ہوگیا کہ حضرتِ امامؑ اپنے عارفین کے لئے پہلے عالمِ شخصی میں گھر بنا دیتا ہے، پھر ان گھروں کو حظیرۂ قدس میں اٹھا کر بیت اللہ کا درجہ دیتا ہے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعۃ یکم رمضان المبارک   ۱۴۲۰ ھ

۱۰؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۷۱

 

عالمِ شخصی کے چند اسما ء

 

۱۔ عالمِ شخصی / انفس (۴۱: ۵۳) (۲) ارضُ اللہ (۲۹: ۵۶، ۳۹: ۱۰) (۳) ارضِ مُقَدّسَۃ (۰۵: ۲۱) (۴) بَلَدُ الطَّیِّبُ = پاکیزہ شہر (۰۷: ۵۸) (۵) بَلَدِ الامین = امن والا شہر = اساس / عالمِ شخصی (۹۵: ۰۳) (۶) شہرِ علم (بحوالۂ حدیث) (۷) مِصر / شہر (۱۰: ۸۷) (۸) حرم (۲۸: ۵۷) (۹) جائے ثواب، جائے امن (۰۲: ۱۲۵) (۱۰) مقامِ ابراہیم (۰۳: ۹۷)۔

۱۱۔ مقامِ حجِ اکبر (۰۹: ۰۳) (۱۲) قریۃ = گاؤں، بستی (کئی حوالہ جات)  (۱۳) کُنُوزٍ و مقامٍ کریم (۲۶: ۵۷ تا ۵۸) (۱۴) جَنّۃ (قصۂ آدم) (۱۵) بہشت برائے معرفت (۴۷: ۰۶) (۱۲) آخرت (۲۷: ۶۶) (۱۷) عین الیقین (۱۰۲: ۰۷) (۱۸) آخرۃ (۰۲: ۰۴) (۱۹) معرفتِ آیاتِ و معجزات (۲۷: ۹۳) (۲۹) عالمِ معرفت / مقامِ خود شناسی (حدیثِ من عرف)۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۱۱؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۷۲

 

حظیرۂ قدس / عالمِ وحدت

 

جب صورِ اسرافیل کے ذریعے سے آدمؑ میں خدائی روح پھونک دی گئی، تو عالمِ ذرّ کے جملہ ذرّاتی فرشتے سجدہ کرتے ہوئے آدمؑ کی ہستی میں گرگئے، لیکن آگے چل کر عالمِ وحدت میں جس طرح فرشتوں نے آدمؑ کے لئے سجدہ کیا وہ انتہائی عجیب و غریب تھا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمؑ کی تخلیق حظیرۂ قدس میں صورتِ رحمان پر ہوئی، اور تمام فرشتے سجدۂ اطاعت سے آدمؑ کے ساتھ ایک ہوگئے، اور اس وحدت میں بھی سجدہ کرتے تھے، تو ایسے میں یہ سجدہ خود آدمؑ کررہا تھا، یا فرشتے کررہے تھے؟ ہمارے نزدیک یہ دونوں باتیں درست ہیں۔ یعنی اس وحدت میں آدمؑ بھی ساجد و مسجود تھا اور فرشتے بھی۔

آپ اس نکتۂ جانفزا کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ عالمِ وحدت کے تمام حقائق ڈائمنڈ کی طرح کئی پہلو رکھتے ہیں، اور پہلو دار حقیقت کے کئی معنی ہوتے ہیں۔

سورۂ حدید (۵۷: ۱۲): اس دن جبکہ تم مومنین و مومنات کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا ۔ یہ واقعہ عالمِ وحدت میں دیکھا جاتا ہے، جس میں صرف امام موجود اور

 

۶۷۳

 

تمام مومنین و مومنات اسی کی ہستی میں فنا اور غائب ہوتے ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۳؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۷۴

 

اب آپ سے سوال ہے؟

 

۱۔ نفس کے تین نام بتائیں؟ (۲) یقین کے کتنے درجے ہیں؟ اور ان کے کیا نام ہیں؟ (۳) عاشق، عارف، اور سالک کو ترتیب سے لکھو، اور ان الفاظ کے معنی بتاؤ؟ (۴) ام الکتاب کے لفظی معنی کیا ہیں؟ اور اس سے کیا مراد ہے؟

۵۔ کیا آپ حظیرۂ قدس کے کچھ اسرار بتا سکتے ہیں؟ وجودِ انسانی میں آدمؑ کی بہشت کہاں ہے، کوہِ طور اور مقامِ معراج کہاں ہے؟ (۶) آیا عالمِ شخصی میں سب کچھ موجود ہے؟ اس کی کیا دلیل ہے؟ (۷) آپ یہ بتائیں کہ خدا شناسی پہلے ہے یا خود شناسی؟ اس میں کیا راز ہے کہ معرفت کا تعلق صرف اسمِ “ربّ” کے ساتھ ہے؟

۸۔ کیا فرشتوں نے آدمؑ کے علاوہ کسی اور پیغمبر کو بھی سجدہ کیا ہے؟

۹۔ آپ آیتِ استخلاف (۲۴: ۵۵) کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

۱۰۔ بہشت میں درجۂ اوّل کے مومنین کا کیا شغل ہوگا؟

۱۱۔ جب بہشت میں ہر قسم کی نعمتیں ممکن ہیں، تو کیا وہاں کتابیں بھی ہوں گی؟

۱۲۔ نامۂ اعمال کس زبان میں ہوگا؟

۱۳۔ بہشت کی تمام تر نعمتیں اہلِ جنت کی خواہش کے مطابق ہیں،

 

۶۷۵

 

تو کیا وہاں تمام آسمانی کتابیں اصلی صورت میں ہوں گی؟

۱۴۔ کیا بہشت میں آفرینشِ کائنات سے متعلق معلومات ہو سکتی ہیں؟

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۶؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۷۶

 

قیامت روحانی اور مخفی ہے

 

مجھے یہاں قیامت پر کوئی بڑا مضمون نہیں لکھنا ہے، صرف چند آیاتِ کریمہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس مضمون پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، اور کل بہشت میں آپ کو معلوم ہوگا کہ خدا کے فضل سے یہاں قرآنی حکمت پر جو عظیم کارنامہ ہوا ہے، وہ کہیں بھی نہیں ہوا ہے، الحمد للہ۔

سورۂ بقرۃ (۰۲: ۲۱۰) تاویلی مفہوم: کیا یہ لوگ واقعۂ قیامت کے بارے میں کسی اور چیز کا انتظار کرتے ہیں؟ مگر یہ ہے کہ اللہ ان پر آئے ابر کے سائبانوں میں اور فرشتے اور طے ہو جائے قصّہ۔ یہ عالمِ شخصی میں حضرتِ قائم کے آنے کا ذکر ہے۔ اور ان حوالہ جات کو بھی دیکھیں: ۰۶: ۱۵۸، ۰۷: ۵۳، ۱۶: ۳۳، ۴۳: ۶۶، ۴۷: ۱۸۔ آپ تاویل کو سمجھنے کے لئے لفظ بلفظ ترجمۂ قرآن کو لیں، جیسے شاہ عبدالقادر کا ترجمۂ قرآن، وغیرہ ہے۔

قیامت کے دن ربّ آئے گا، اور قطار در قطار فرشتے آئیں گے (مگر روحانیّت میں ) (۸۹: ۲۲)۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

بدھ ۱۳ رمضان المبارک ۱۴۲۰ھ

۲۲؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۷۷

 

علمی انٹرویو

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے لئے ساری کائنات و موجودات کو مسخر کر دیا ہے، اور اپنی تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں اسے عطا فرمائی ہیں (سورۂ لقمان: ۳۱: ۲۰) یہ قرآنِ حکیم کا بے مثال کلّیہ اور خداوند تعالیٰ کا اٹل حکم اور فیصلہ ہے، آپ قرآنِ حکیم میں مضمونِ تسخیر سے متعلق آیات کو خوب غور سے پڑھیں۔

آیاتِ تسخیر: ۱۳: ۰۲، ۱۴: ۳۲، ۱۴: ۳۳، ۱۶: ۱۲، ۱۶: ۱۴، ۲۲: ۲۵، ۳۱: ۲۰، ۴۵: ۱۳، اب بہت مناسب اور بہت ہی ضروری سوال یہ ہے کہ انسان کے لئے کائنات کس طرح مسخر ہے؟ ظاہر میں یا باطن میں؟ عالمِ کبیر میں یا عالمِ شخصی میں؟ فنا فی اللہ کے بعد یا اس سے پہلے؟ عالمِ ذرّ میں یا حظیرۂ قدس میں؟ یا بہشت میں داخل ہو جانے کے بعد؟

اے عزیزانِ من! اگر تم عشقِ سماوی اور فنا فی اللہ کے لئے گریہ و زاری کر کے آنسوؤں کی گوہر افشانی کر سکتے ہو تو کرو، کیونکہ اس کے بغیر روحانی ترقی ناممکن ہے، عاشقوں کے آنسوؤں کی بہار عجیب و غریب ہے۔

اے فرشتۂ حدِّ قوّت! تم کو حدِّ فعل میں آکر عالمِ علوی کی طرف اڑ جانا ہے، تیرے لئے ہر وہ قول و فعل ممنوع ہے، جس سے تیری

 

۶۷۸

 

پرواز میں رکاوٹ ہوتی ہو۔

مضمونِ بالا محترمہ صائمہ بنتِ شوکت علی میگھانی کے انٹرویو کی تمہید ہے۔

انٹرویو از محترمہ صائمہ:۔

آپ کی تاریخ پیدا ئش ۲۲؍ فروری ۱۹۷۹ء ہے، دنیوی تعلیم میں آپ نے بی کام تک تعلیم حاصل کی ہے اور مستقبل میں ایم۔ اے انگلش کا ارادہ رکھتی ہیں۔ آپ نے آغاغان اسکول پری پرائمری گارڈن میں دوسال تک مونٹیسری ٹریننگ کی جس کے دوران چھ ماہ تک اسسٹنٹ پروگرام آفیسر اور سوا سال تک چیف کو آرڈنیٹر رہیں۔ صائمہ پچھلے ۹ ماہ سے گارڈز پبلک اسکول کراچی میں مونٹیسری انچارج ہیں اور اس کے علاوہ جماعت ششم اور ہفتم کو حساب بھی پڑھاتی ہیں۔

صائمہ نے ۲۵ ؍ اکتوبر ۱۹۹۶ء میں دانش گاہِ خانۂ حکمت کراچی سے وابستگی اختیار کی اور اس وقت سے ہی آپ نے استاد کی کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کیا ہے۔ اس کے علاوہ آپ اپنے استاد کی تمام آڈیو کیسٹوں کی کیسٹوگرافی کا ارادہ رکھتی ہیں اور اب تک ابتدائی دس کیسٹوں کو TRANSCRIBE  کر چکی ہیں، صائمہ شوکت علی علمی لشکر ۱ کے خوش نصیب ممبروں میں شامل ہیں۔

دینی تعلیم کے سلسلے میں آپ صائمہ کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ آپ نے میٹرک فرسٹ کلاس فرسٹ ڈویژن میں

 

۶۷۹

 

پاس کیا۔ HRE  میں پانچویں پوزیشن لے کرپوزیشن ہولڈرز میں شامل رہی ہیں۔ ARE سالِ اوّل میں زیرِ تعلیم ہیں۔ اور لابیلا نائٹ اسکول میں جماعت نہم کو پڑھاتی ہیں۔

جماعتی خدمت میں بھی آپ پیش پیش رہی ہیں۔ دو سال تک گرلز گائیڈ میں رہیں اور اب تین سال سے پلاٹینم پانی اینڈ شوز سروس میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔

صائمہ ۲۴ ؍ اکتوبر ۱۹۹۹ ء سے استاد کے پڑپوتے حبِ علی ابنِ امین الدین کی  FUNDAMENTAL EDUCATION  کے لئے معلِّمہ مقرر ہوئی ہیں۔ الحمد للہ۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۶؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۸۰

 

علمی انٹر ویو

علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی سےذاتی سوالات

(پہلی قسط) ص ۱

 

سوال – ۱: علامہ صاحب، آپ ہمیں یہ بتائیں کہ اوّل اوّل آپ کے پاس اسمِ اعظم اور کارِ بزرگ کی تعریف و توصیف کس نے کی تھی؟  – جواب: میں اس وقت چھوٹا سا بچہ تھا، میرے ماموں جان خلیفہ حاجی قدیر شاہ بمبئی اسماعیلی جماعت کے حوالے سے میرے والدین کو بڑے کام کا تذکرہ کر رہے تھے جس کو میں نے بڑے تعجب سے سنا تھا۔

سوال – ۲: عبادت یا گریہ وزاری یا مناجات کی اوّلین

 

ص۱: علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی سے ذاتی سوالات کی باقی قسطیں ’’روحانی سائنس کے عجائب و غرائب‘‘ (نیا ایڈیشن) میں شائع کی گئی ہیں۔

 

۶۸۱

 

لذّت کب محسوس ہوئی تھی؟ – جواب: میں اس زمانے میں بہت چھوٹا تھا، میرے والد محترم پچھلی رات کو اٹھ کر گھر کی چھت پر عبادت اور مناجات کرتے تھے، ان کی مناجات میں سے ایک انتہائی شیرین آواز میرے کان میں پڑتی تھی۔

سوال – ۳: آپ کے خاندان میں مناجات کی روایت کب سے تھی؟ – جواب: میں نے اپنے والدین سے سنا ہے کہ میرے دادا جان خلیفہ محمد رفیع اپنی مشکلا ت کے وقت قاضی الحاجات کی بارگاہِ عالی میں مناجات کیا کرتے تھے۔

سوال – ۴: کیا آپ کے والد کے زمانے میں ذکرِ جلی کا کوئی حلقہ موجود تھا؟ – جواب: جی ہاں، ذکرِ جلی کی روایت بہت پہلے سے چلی آئی تھی، اور یہ ذکر دعوتِ بقا میں بھی شامل تھا۔

سوال – ۵: آپ نے جب پہلی بار امامِ برحقؑ کا دیدار حاصل کیا، تو اُس وقت بھونچال کا معجزہ ہوا، اس کی کیا تاویل ہو سکتی ہے؟ – جواب: اس کی تاویل یہ ہے کہ ہر امام صاحبِ قیامت ہوا کرتا ہے، علی الخصوص حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوٰت اللہ علیہ۔

سوال – ۶: جب مولائے پاک نے دستِ مبارک سے

 

۶۸۲

 

اپنی نورانی جبین کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تھا کہ یہاں بہشت ہے، تو اس وقت آپ اس فرمانِ عالی کی عظیم حکمتوں کو آج کی طرح نہیں جانتے تھے، کیا یہ بات درست ہے؟ – جواب: جی ہاں، بالکل درست ہے۔

سوال – ۷: کیا آپ اس فرمانِ اقدس کی چند حکمتیں بتا سکتے ہیں؟ – جواب: ان شاء اللہ، یہ بہشت برائے معرفت ہے (۴۷: ۰۶) یہاں علم الآخرت ہے (۲۷: ۶۶) یہاں حظیرۂ قدس ہے، یہ عالمِ علوی ہے، یہ وہ مقدس مقام ہے جہاں خدا نے علم و حکمت کی کائنات کو لپیٹ کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲) یہی علیّین، یعنی عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اوراساس کی وحدت بھی ہے۔

سوال ۸: عارف کے لئے عالمِ شخصی کا طویل روحانی سفر صراطِ مستقیم کا سفر ہے، جس میں سر تا سر معجزات ہی معجزات ہیں، آپ یہ بتائیں کہ اس کی منزلِ مقصود کہاں ہے؟ جواب: اس کی منزلِ مقصود حظیرۂ قدس ہے، جو جبین میں ہے۔

مضمونِ بالا اس انٹرویو کا علمی حصہ ہے۔

ایل اے ایس حبِّ علی ثانی ابنِ امین الدین ابن ایثار علی ابنِ

 

۶۸۳

 

نصیرِ الدین ابنِ حبِّ علی اوّل، پیارے حبِّ علی کے نام رکھنے کا قصّہ یوں ہے: میرے دونوں عزیزان پوتا امین الدین اور نواسی روحی نے اپنے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی چند مذہبی ناموں کی ایک فہرست مجھ سے طلب کی تھی، میں نے خوشی سے یہ اسماء لکھ کر دیئے تھے: (۱) حبِّ علی (۲) ناصر علی (۳) منیر الدین (۴) نوازش سلطان (۵) کرامت کریم (۶) کرامت علی (۷) نصیر الدین (۸) پرتوِ شاہ۔ الحمد للہ سرِ فہرست جو انتہائی خوبصورت اور پُرکشش نام تھا اسی کا انتخاب ہوا، جس سے میں بیحد شادمان ہوا، کیونکہ ہمارے نزدیک یہ نام بہترین اور بڑا پیارا ہے، اور اس سے ہمیشہ علی کی محبت کی خوشبو آتی رہتی ہے، الحمد للہ۔

حبِّ علی کی یہ بہت بڑی سعادت ہے کہ یہ ایل اے ایس میں شامل ہے، ایل اے ایس یعنی لٹل اینجلز سولجرز جو دراصل حضرتِ قائم القیامت کے علمی لشکر ہیں، ان کو علم القیامت کے اسلحہ سے لیس ہونا ہے۔

پیارے حبِّ علی کی ہائی ایجوکیٹر خود اس کی پیاری ممی عرفت روحی ہے ان کی تاریخِ پیدائش: ۲۴؍ نومبر ۱۹۷۲ء ہے، تعلیم بی ایس سی فارسٹری۔ روحی میری بہت ہی عزیز نواسی ہے، اللہ کے فضل و کرم سے میری عزیز فدا بی بی کی ہر اولاد فرشتہ خصلت ہے، ان میں سے ہر ایک میں اخلاقی خوبیوں کا ایک انمول خزانہ موجود ہے، اور یہ خداوندِ قدوس کا بہت بڑا احسان ہے، چنانچہ محترمہ روحی اپنے نورِ نظر اور لختِ جگر حبِّ علی کی ابتدائی تعلیم و تربیت کے لئے سعیٔ  بلیغ کرتی رہتی ہیں اور ہر وقت کچھ نہ کچھ سکھایا کرتی ہیں۔

 

۶۸۴

 

پیارے حبِّ علی کی ہائی ایجوکیٹر کا مختصر BIODATA کچھ اس طرح سے ہے:

دنیوی تعلیم: آغاخان رورل سپورٹ پروگرام فارناردرن ایریاز آف پاکستان سے بی ایس سی فارسٹری کے لئے اسکالر شپ حاصل کیا اور سال ۱۹۹۴ء میں پاکستان فاریسٹ انسٹیٹیوٹ (پی ایف آئی) پشاور سے گریجویشن کی ڈگری لے کر دو سال تک مذکورہ ادارے کے دو پروگرام ایریاز گلگت اور بلتستان کی تنظیموں میں شعبۂ جنگلات میں کام کیا۔ حبِّ علی کی ممی کو ناردرن ایریاز آف پاکستان کی پہلی تین خواتین فارسٹرز میں شامل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

سال ۱۹۹۶ ء میں امین الدین ابنِ ایثار علی کے ساتھ نکاح ہوا۔ شادی کے کچھ عرصے کے بعد ہی AKRSP  کی طرف سے فارسڑی میں ماسٹرز کے لئے نامزد گی ہوئی۔

تعلمی قابلیت: بی ایس سی سیکنڈ ڈویژن، ایف ایس سی فرسٹ ڈویژن، میٹرک فرسٹ کلاس فرسٹ ڈویژن۔

ٹریننگ: (۱) پارٹیسپیٹری رورل اپریزل (PRA)

۲BEE KEEPING TRAINING  (

۳) WOMEN IN WOOD ENERGY DEVELOPMENT (THAILAND)۔ وغیرہ۔

دینی تعلیم: المعز نائٹ اسکول کراچی میں جماعت ہفتم تک تعلیم حاصل کی اور ہر جماعت میں اوّل پوزیشن لی، دعا پڑھانے کے مقابلوں میں بھی شرکت کی اور پوزیشن حاصل کی۔ اس کے علاوہ گنان خوانی کا بے حد

 

۶۸۵

 

شوق ہے اور یہ شوق پیارے حبِّ علی میں بھی منتقل ہوتا جارہا ہے۔

حالیہ عہدے:

ہائی ایجوکیٹر، لائف گورنر، علمی لشکر 1، پرسنل سیکرٹیری ٹو علامہ، پروف سیکشن انچارج، ممبر میڈیکل پیٹرن بورڈ۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۷؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۸۶

 

From: Kiran Hunzai kiran_hunzai@hotmail.com

To: hunzai@aol.net.pk

Sent: Thursday, December 02, 1999 6:02 PM

 

Ayarum Dada,

Ya ali madad,

 

I wanted to congratulate you on your great effort and achievement of publishing yet another magnificent book. Dada I never really got a chance to tell you how much your wisdom and desire to achieve the impossible has inspired our lives, although we haven’t spent a lot of time together and are unaware of your brilliant achievements. Our lives have always been blessed with your prayers and I can not neglect the effect it has made on the kind of life we are able to lead today. I am very fortunate to be able to relate my self with the most exceptional being of all. And I thank you for giving me the best years of my life under your influence and I hope that my soul will be content with everything you have don for all of us.

 

With all my love,

kiran

۶۸۷

 

From: para hunzai kute_girl2@yahoo.com

To: hunzai@aol.net.pk

Sent: Saturday, December 04, 1999 10:52 AM

 

Dear ayarum dada

Ya ali madad,

 

I heard about your new book, and I am very proud of you, for all that you have done. I always wanted to tell you that today who I am and tomorrow who I would be will be because of you. You mean so much to me that I can’t put it in words. And I want you to know that I will always love you. I tell all my friends about you here, and every time I talk about you, I feel proud because you are the only one in my life who I am proud of, and inshallah when I grow up and become a journalist I will tell the whole country about you. Because you have inspired me in every way, even though I have never lived with you, but I have always felt you in me. Because I love to write and I feel that it is you who have given me the skill. I work on it everyday, I write about everyone in my family including you. And I will always be proud of you and you will always be a part of me!

 

Love always

Para

 

۶۸۸

عشقِ سماوی

عشقِ سماوی

آغازِ کتاب

۱۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ ربّی! تیرا یہ بندۂ کمترین پہلے ہی سے عاجز و ناتوان تھا، اور اب تو بیش از بیش زار و ضعیف اور قابلِ رحم ہو چکا ہے، اے پروردگارِ دانا و بینا! المدد المدد، الغیاث الغیاث، یا ربّ العزّت! سب سے بڑی اور افسوسناک کمزوری یہ ہے کہ میں تیری لامحدود نعمتوں کی ذرا بھی شکرگزاری نہیں کر سکتا، اے کاش! آسمانی عشق کا مجھ پر کوئی ایسا غلبہ ہوتا کہ جس سے میں بےتحاشہ رو رو کر بار بار سجدے میں گر پڑتا تو شاید اس عاجزانہ عمل سے دل کا غبار دھل جاتا، اے ذاتِ سبحان! ہم اپنی کم علمی اور بےچارگی سے نالان ہیں کہ تیری حمد و ثنا سے عاجز و قاصر ہیں، اے رحمان و رحیم! تو ازراہِ عنایت آسمانی عشق ہم پر مسلط کر دے، تا کہ اس مقدّس عشق کی سرمستی میں جو کچھ بھی طفلانہ تیری تعریف کریں، وہ سب کچھ تیری نظرِ رحمت سے منظور ہو، ورنہ یا ربّ! ہم کہاں جائیں گے، یا طبیبی! بحرمتِ اسماء الحسنیٰ

 

۷

 

تو اپنے پاک و پُرلذّت عشق سے ہمارے جملہ ظاہری و باطنی امراض کا علاج فرما! آمین!!

 

۲۔ اے دوستانِ عزیز! میں سمجھتا ہوں کہ “عشقِ سماوی” کی یہ اصطلاح ہم سب کے لئے ایک بہت بڑا انعام ہے، لہٰذا ہم قلبی شکرگزاری کے ساتھ اس کی وضاحت کریں گے کہ عشقِ سماوی کے معنی ہیں: اللہ، رسول، اور امامِ زمانؑ کا نورانی اور معجزانہ عشق، کیونکہ اس کا عظیم الشّان ذکر اور فرضیت آسمانی کتاب (قرآن) میں ہے، قرآن و حدیث کی تحقیق و تصدیق سے ہر عاشقِ صادق کو یقیناً بےحد خوشی ہوگی کہ آسمانی عشق روح الایمان کے لئے غذا بھی ہے اور دوا بھی، اے دوستانِ عزیز! آپ سب کو امامِ حیّ و حاضر کا مقدّس عشق مبارک ہو! کہ یہی عشقِ رسول اور خدا کا عشق بھی ہے، پس اسی پاک و پاکیزہ دریائے عشق میں ہمیشہ مستغرق رہنا کہ اسی عمل میں سعادتِ دارین ہے، اور اسی میں روحانی ترقی اور عقلی روشنی ہے۔

 

۳۔ اس کتاب کا نام: کسی کتاب کے نام مقرر کرنے میں کبھی اتنی تاخیر نہیں ہوئی تھی، شاید اس میں بھی کوئی راز ہوگا، لیکن آخرکار اس کتاب کے مضامین کو دیکھا، ان میں ایک مضمون ہے: “آسمانی عشق کی حکمتیں” اسی سے خیال آیا کہ اس کتاب کا نہایت خوبصورت نام “عشقِ سماوی” ہونا چاہئے، ان شاء اللہ، دوستانِ عزیز اور قارئینِ کرام کو بھی یہ نام پسند ہوگا، یہ اسم اس وجہ سے نہیں کہ

 

۸

 

اس کتاب میں سر تا سر عشقِ سماوی ہی کا موضوع ہے، بلکہ اس کا وسیع تر مفہوم و اشارہ یہ ہے کہ میں نے بحیثیتِ مجموعی اپنی تحریروں خصوصاً نظموں میں عشقِ سماوی کا تذکرہ کیا ہے، اور میرا عقیدہ ہے کہ اسی نے میرے عالمِ شخصی کو معمور کیا، پس میں عشقِ سماوی کے اس مبارک نام سے تَیَمُّناً وَ تَبَرُّکاً. اپنی ایک پسندیدہ کتاب کا ٹائٹل بنا رہا ہوں، تا کہ اہلِ دانش اگر چاہیں تو تحقیق کر سکیں کہ اس نام کا پس منظر کیا ہے۔

 

۴۔ کتاب کے اس نام (عشقِ سماوی) میں ان حقائق کی طرف دعوتِ فکر ہے: حضرتِ داؤد علیہ السّلام کی زبور ظاہراً و باطناً عشقِ سماوی سے لبریز تھی، کاملین، عارفین، اور عاشقین کی باطنی قیامت میں ناقورِ عشق کا غلغلہ ہوتا ہے، بہشت کی بہت بڑی نعمت خداوندِ تعالیٰ کا عشق ہے جو شرابِ طہور وغیرہ کے نام سے ہے، اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا، لیکن وہ اس کے ایک محبوب بندے میں تھی، یعنی عقل عشقِ الٰہی سے پیدا ہوتی ہے، قرآن، حدیث، اور ارشاداتِ أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام میں آسمانی عشق و محبّت کی اہمیّت و فضیلت کو دیکھیں، حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے ۱۹۴۰ء میں اپنے جس نورِ محبّت کے طلوع ہو جانے کی پیش گوئی فرمائی تھی، وہ یقیناً لشکرِ اسرافیلی کے ناقورِ عشق سے طلوع ہو چکا ہے، یہی سبب ہے کہ میں ان سے بار بار فدا ہو جانا چاہتا ہوں۔

 

۹

 

۵۔ دانشگاہِ خانۂ حکمت کی ترقی: خداوندِ عالم کی عنایتِ بے نہایت سے ہمارے ادارے کی روز افزون ترقی ہو رہی ہے، اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے اسباب و ذرائع مہیا کر دیتا ہے، چنانچہ اُس ذاتِ پاک کی توفیق و ہدایت سے بہت سی عظیم ہستیوں نے اس ادارے میں شرکت و شمولیت اور رکنیت اختیار کی، پھر بعض کو عملداری دی گئی، بعد ازان گورنرز اور علمی لشکر مقرر ہوئے، جس سے ادارے کی بہت ترقی ہوئی، اور کتابوں کے انگریزی ترجمے سے تو انقلاب آ گیا، دوسری زبانوں میں بھی ترجمے ہیں، الحمد للہ۔

 

۶۔ انتسابِ جدید ۔ اوّل: میرے بےحد عزیز، جانی دوست، نہایت پیارے تلمیذ، اور روحانی بھائی امین کوٹاڈیا چیئرمین آف مرکزِ علم و حکمت لنڈن بڑے نیک بخت ہیں کہ ان کی برانچ نے زبردست ترقی کی ہے، اس برانچ کے لئے انہوں نے بےشمار خدمات انجام دی ہیں، ان کی فرشتہ خصلت بیگم مریم بھی ہر خدمت میں ان کے ساتھ ہیں، ان کے دونوں فرشتے جیسے فرزند سلمان اور ابو ذر مجھے از حد عزیز ہیں، یہ پیارے بچے ایامِ طفولیت ہی سے دین کی عمدہ عمدہ باتیں کرتے ہیں، ظاہری تعلیم میں بھی بہت ہی ذہین ہیں، یہ فیملی مولا کی محبّت اور ایمان کی دولت سے مالامال ہے۔

 

۱۰

 

۷۔ ہمارے بہت ہی عزیز امین کوٹاڈیا کے والدِ محترم کا اسمِ گرامی حبیب کوٹاڈیا ہے، وہ ہندوستان میں پیدا ہوئے، اور دس سال کی عمر میں مشرقی افریقہ گئے، امین کی والدہ صاحبہ کا نام روشن بانو حبیب ہے، ان کی جائے پیدائش یوگنڈا ہے۔

 

۸۔ حبیب کوٹاڈیا اور روشن بانو کی شادی خانہ آبادی ۱۴ نومبر ۱۹۴۱ء میں یوگنڈا کے شہر کمپالا میں نامدار پرنس علی خان کی نورانی موجودگی میں ہوئی تھی، ان کے پانچ صاحبزادے اور ایک صاحبزادی ہیں، امین کے والدین آج کل کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں۔

 

۹۔ امین کے والدین بڑے دیندار اور متقی ہیں، وہ ہمیشہ عبادت بندگی اور جماعت خانے کی حاضری میں پابند ہیں، نکورو میں سب سے پہلے جا کر صبح و شام جماعت خانے کا دروازہ کھولا کرتے تھے، وہ عرصۂ دراز تک کامڑیا اور موکھی رہ چکے ہیں، ان کو یہ سعادت اور اعزاز مشرقی افریقہ کے مختلف جماعت خانوں میں نصیب ہوا، اور حاضر امام صلوات اللہ علیہ نے ان کو ۱۹۵۷ء میں حضور موکھی کے ٹائٹل سے نوازا۔

 

۱۰۔ جناب حبیب کوٹاڈیا شب خیز مومن ہیں، بہت ہی سویرے جماعت خانہ جا کر عشق و محبت سے گنان شریف پڑھا کرتے ہیں، ان کو ایسے بہت گنان یاد ہیں، جو پُرمغز اور حکمت آگین ہیں، اگرچہ کینیڈا میں ان کا گھر جماعت خانہ سے کسی قدر دور ہے، لیکن پھر بھی وہ گھر سے جلدی ہی نکل جاتے ہیں، تا کہ ٹھیک وقت پر گنان

 

۱۱

 

خوانی کی سعادت نصیب ہو جائے، امین کوٹاڈیا کے والدین نے اپنے تمام بچوں کو نیک عادتیں سکھا دی ہیں، اس میں بنیادی چیز مولائے پاک کی مقدّس محبّت ہے، الحمد للہ۔

 

۱۱۔ انتسابِ جدید۔ دوم: ہمارے جوان سال اور جوانِ صالح دوست اور علمی رفیق سہیل رحمانی بڑے دیندار اور خدا پرست انسان ہیں، امریکہ میں ان کی ملاقات سے مجھے بےحد خوشی ہوئی، وہ حقیقی علم کے دلدادہ ہیں، ان میں علمی ترقی کی صلاحیت موجود ہے، مجھے امید ہے کہ وہ بہت ترقی کریں گے، اور علمی خدمت میں نمایان حصّہ لیں گے۔

 

۱۲۔ ان کے والدِ محترم کا نام شوکت علی رحمانی ہے، محترمہ والدہ کا نام زرینہ شوکت علی ہے، سہیل رحمانی کی تاریخِ پیدائش جولائی ۱۸، ۱۹۶۹ء ہے، جائے پیدائش کراچی، تعلیم انٹرمیڈئیٹ کامرس ہے، آپ اکتوبر ۱۹۹۵ء میں امریکہ تشریف لے گئے، جماعتی خدمت اور مذہبی تعلیم کا شوق ان کو والدین سے ورثے میں ملا ہے، آپ نے رحمانی گارڈن (کراچی) کے جماعت خانے میں چاندرات مجلس کے کامڑیا کے فرائض انجام دیئے، آپ ڈیکوریشن کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے ہیں، اور الازہر نائٹ اسکول (رحمانی گارڈن) میں ریلیجس ٹیچر بھی تھے۔

 

۱۳۔ فرمانِ اقدس اور عشقِ سماوی: حضرتِ مولانا امام

 

۱۲

 

سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ و سلامہ نے آسمانی عشق کے بارے میں در افشانی فرمائی ہے، آپ کے لئے بےحد ضروری ہے کہ ان مبارک ارشادات کا عقیدت و محبّت سے مطالعہ کریں، تا کہ اس باب میں آپ کو یقینِ کامل حاصل ہو جائے، کیونکہ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کا پاک فرمان ہمارے لئے قرآن و حدیث کی حقیقی ترجمانی ہے، آپ اپنے مولائے پاک (روحی فداہ) کے اس نورانی فرمان میں ذرا غور کریں، ارشاد ہے:

 

دیکھو! پروانہ شمع کی روشنی دیکھ کر عشق و محبّت سے اپنی جان جلا دیتا ہے، اس کو اتنی (شدید) محبّت اور عشق ہے کہ بہت سے پروانے جان دے دیتے ہیں، آپ کو بھی ایسی محبّت خداوند تعالیٰ کے لئے رکھنی چاہئے، آپ ایسے عاشق بنیں، خداوند تعالیٰ سے عشق و محبّت کریں، عبادت اور بندگی بھی عشق و محبّت کے ساتھ کریں۔ آپ کو شاید معلوم ہو گا کہ حقیقی عشق کے باب میں مولائے پاک کے ارشادات بہت ہیں۔

 

۱۴۔ د۔ خ۔ ح۔ ریجنل برانچ، اسلام آباد: اللہ تعالیٰ کی بےشمار نعمتوں کا شکر ہے، کہ اُس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز کی بہت سی نوازشات ہیں، منجملہ یہ بھی اس کی ایک بہت بڑی رحمت ہے کہ اسلام آباد میں جو ہماری برانچ تھی، اس کی اب ترقی ہوئی ہے، اور وہ اب ’’دانشگاہِ خانہ حکمت، ریجنل برانچ، اسلام آباد‘‘

 

۱۳

 

کہلاتی ہے، جس کے ریجنل صدر بازگل ابنِ خلیفہ امان علی شاہ ہیں، جو بہت ہی دیندار اور مولا کے سچے عاشق اور حقیقی درویش ہیں، ان کی فرشتہ خو بیگم مسماۃ ماہرو ایڈوائزر مقرر ہوئی ہیں، میں نے ان جیسی ایماندار خواتین بہت ہی کم دیکھی ہیں، وہاں کے سیکریٹری عبد الکریم مہدی ابنِ صوبیدار (ر) محمد حیات ہیں جو بہت ہی قابل، ایماندار، حلیم الطبع، اور نہایت شریف انسان ہیں، الحمد للہ۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی۔ کراچی

جمعہ ۱۴ شعبان المعظم ۱۴۱۹ھ ، ۴ دسمبر ۱۹۹۸ء

 

۱۴

 

ترجمۂ ہزار حکمت: اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اب ہزار حکمت کا ترجمہ عالمی زبان میں ہوا۔ اور یہ بہت بڑا کارنامہ میرے عظیم دوست نے سرانجام دیا، وہ میری جان کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ عزیز ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حقیقی علم کے بہت بڑے شیدائی اور بہت بڑے عالم ہیں، اس وصفِ کلّ کے تحت ان میں بہت سے اوصاف و کمالات جمع ہوگئے ہیں، وہ قوم کا بہت بڑا اثاثہ، امامِ عالی مقام کا ایک علمی خزانہ، پیروں کا گنجینہ، زندہ کتب کا نمونہ، دریائے علم کا گوہرِ یکدانہ، عالی ہمتی میں یگانۂ زمانہ، چراغِ نورِ امامت کا پروانہ، دوستوں کی کامیابی کا نشانہ اور سلطانی قلم کا نگینہ ہیں، یہ ذکرِ جمیل جناب ڈاکٹر (پی۔ ایچ۔ ڈی۔) فقیر محمد ہونزائی صاحب کا ہے۔

 

موصوف کی رفیقۂ حیات محترمہ صمصام رشیدہ نور محمد ہونزائی کی علمی شخصیّت بڑی حیران کن ہے، ان کا ہر لیکچر معنوی گل افشانی اور حقیقی درفشانی ہے، معجزۂ عشقِ مولا کی گلوگیر آواز میں علم کو بیان کرنا ہے تو کوئی نیک بخت یہ بےمثال ہنر صمصام سے سیکھے، لیکن یہ ہنر نہیں ہے، بلکہ معجزہ ہے، جو عطیۂ الٰہی ہے، ایسی پاکیزہ روحیں اور ایسے عظیم فرشتے عالمِ علوی سے اس دنیا میں اس لئے آئے ہیں کہ وہ سب مل کر کرۂ ارض پر قرآنی علم و حکمت کی روشنی پھیلائیں، الحمد للہ۔

 

۱۵

 

مرکزِ علم و حکمت لندن کے جملہ عزیزان کی روز افزون علمی ترقی سے ہمیں انتہائی شادمانی ہو رہی ہے، تاہم یہاں ریکارڈ آفیسر، لائف گورنر، ایم۔ ایس۔ آئی چیف ظہیر لالانی کی حوصلہ افزائی کا موقع ہے، ان کی بہت سی خوبیاں اور بہت سی خدمات ہیں، لہٰذا ان کی ایک زرین اور تابناک تاریخ بننے والی ہے، جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی صاحب اور صمصام صاحبہ ان کی بہت تعریف فرماتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ عزیزم ظہیر لالانی علمی خدمت کی وجہ سے روحاً ایک فرشتۂ زمانہ ہو گئے ہیں، اب ان شاء اللہ ان کا گھر علم کا گہوارہ ہونے والا ہے۔

 

انتسابِ جدید: اس کتابِ مستطاب کے انتساب کی سعادت اٹلانٹا کی تین ایمانی فیملیز کو نصیب ہوئی، پہلی فیملی یہ ہے: موکھی نزار علی علی بھائی، موکھیانی الماس نزار علی ایل جی، نایاب نزار علی ایل جی، حنا نزار علی ایل جی، صبا نزار علی ایل جی، دوسری فیملی: نصیر الدین خان جی ایل جی، خیر النسا نصیر الدین ایل جی، حنا نصیر الدین ایل جی، کاشف نصیر الدین ایل جی، کومل نصیر الدین ایل جی، تیسری فیملی: سلطان علی لاڈجی ایل جی، شوکت بانو سلطان علی ایل جی، عظیم علی سلطان علی ایل جی۔

 

اس حقیقت میں کوئی شک ہی نہیں کہ ہر مفید کتاب علمی بہشت کا ایک سدا بہار اور پُرثمر باغ ہے، جس میں سے بےشمار مومنین

 

۱۶

 

و مومنات میوہ ہائے عقل و جان حاصل کرتے جائیں گے، اور اس کارِ خیر کا اجر و صلہ (ان شاء اللہ) علم و حکمت کی خدمت کرنے والوں کو ملتا رہے گا۔

 

ایمانی اور علمی دوستی و محبت بے مثال بھی ہے اور لازوال بھی، یقیناً یہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، جب میں اٹلانٹا گیا تو خدا کے فضل و کرم سے اس نعمت میں بڑا زبردست اضافہ ہوا، شاگردوں کی محبت تارِ برقی کی طرح کام کرتی ہے، حقیقی تلامیذ اولاد ہی کی طرح بڑے پیارے ہوتے ہیں، اور اس میں بہت بڑی حکمت ہے، الحمد للہ۔

 

۲۳ جون ۱۹۹۸ء

 

۱۷

 

عالمِ جان و دل

 

۱۔ ایک ہے عالمِ آب و گل اور دوسرا ہے عالمِ جان و دل، یعنی دنیائے ظاہر اور عالمِ باطن یا عالمِ شخصی، جو لوگ دانا ہیں، وہ ہر چیز کو اس کے نام سے جانتے ہیں، خدا کے فضل و کرم سے ہمارے ساتھی سب کے سب وہ ہیں جو ہمیشہ عالمِ جان و دل کی باتیں پسند کرتے ہیں، جس کی کئی وجوہ ہیں۔

 

۲۔ یہاں قرآن اور امام کے معجزۂ علم نے بہت سے دلوں کو ایک کر دیا ہے، لہٰذا وہ ایک دوسرے کو بےحد چاہتے ہیں، میں بھی انہی میں سے ہوں، اس لئے میں جانتا ہوں کہ نور اور قرآن کے عشق و محبت میں کیسی کیسی نعمتیں ہوتی ہیں، چنانچہ جب جب ہمارے احباب عاشقانہ عبادت کے بعد فون پر یا سامنے سے گفتگو کرتے ہیں، تو ان کے کلام سے بہشت کی سی خوشبو آتی ہے، میں سچ کہتا ہوں، مجھے مولا نے سچائی کی دولت سے مالامال فرمایا ہے، پس مجھے سچ سچ حقیقی علم کی تعریف کرنی ہے، اور اس علم کے خادموں کی حوصلہ

 

۱۸

 

افزائی کرنی ہے۔

 

۳۔ جب آخرت کی کلّی بہشت میں اہلِ ایمان کی بہت بڑی تعریف ہونے والی ہے، تو دنیا کی جزوی بہشت (علم و عبادت) میں تھوڑی سی تعریف کیوں نہ ہو، جبکہ قرآنِ حکیم فرماتا ہے: اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو (۰۵: ۰۲) مدد کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں، ان میں سے ایک حوصلہ افزائی بھی ہے، ان شاء اللہ، ہم اپنے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے کوشش کریں گے۔

 

۴۔ ہمارے عالمِ جان و دل میں بہشت کا سا منظر ہے، وہاں ہر وہ مجلس نورانی موویز میں ریکارڈ ہے، جس میں ہمارے احباب علم کی باتیں سن رہے تھے، یا عاشقانہ عبادت ہو رہی تھی، یا مولا کی تعریف میں منظوم کلام پڑھا جاتا تھا، یا مناجات اور گریہ و زاری ہو رہی تھی، میں ان کی آواز سے قربان! میں ان کے آنسوؤں سے قربان! میں کیسے قربان نہ ہو جاؤں، کہ یہ روحانی آبادی کی بارش ہے، اور جبکہ یہ عاشقانہ عبادت ہے، اور کسی حد تک پیغمبرانہ عبادت بھی ہے۔

 

۵۔ خداوندِ قدّوس نے اپنے بندوں کے لئے عاشقانہ عبادت آسان بنا دی ہے، جبکہ عاقلانہ (عالمانہ) عبادت مشکل ہے، لیکن ناممکن نہیں، میں نے کئی ممالک میں مولائے پاک کے بہت سے

 

۱۹

 

عاشقوں کو دیکھا، وہ طرح طرح کی خصوصیات کے حامل تھے، تاہم مجھے خاموش گریہ و زاری کرنے والے عاشقوں پر رشک آیا، اشک پر رشک تعجب ہے، کیوں نہ ہو، یہ اللہ کی بہت بڑی رحمت ہے۔

 

۶۔ سورۂ انبیا (۲۱: ۱۰۴ تا ۱۰۷) میں دیکھیں، یہاں خلاصۂ مفہوم یہ ہے: ہر کامیاب مومن کے لئے ایک ذاتی قیامت اور کائنات کی ایک کاپی ہوگی، عبادت اور معرفت جن کی مکمل ہو جاتی ہے، ان کے نامۂ اعمال (زبور) میں خدا یہ لکھ کے رکھتا ہے کہ اس کے نیک بندے کائنات (ارض) کے وارث ہوں گے، اور خدا کا یہ بہت بڑا پیغام خصوصی عبادت کرنے والوں کو پہنچانا ہے، اور اسی مقصد کے پیشِ نظر خدا نے اپنے حبیب کو عوالمِ شخصی کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

 

۷۔ یہ حدیثِ شریف قبلاۛ مقالے میں درج کی گئی ہے: ان اللہ جمیل یحب الجمال = یقیناۛ اللہ تعالیٰ صاحبِ جمالِ باطنی ہے اس لئے وہ جل جلالہ باطنی جمال کو پسند فرماتا ہے۔ باطنی حسن و جمال علم و حکمت کے بغیر نہیں ہے، آپ یقین کر سکتے ہیں کہ علم و حکمت ہی وہ ارتقائی سیڑھی ہے، جس کے سوا کوئی شخص حسن و جمالِ باطن کو دیکھ ہی نہیں سکتا، اور نہ ہی وہ آئینۂ صورتِ رحمان میں اپنے آپ کو پہچان سکتا ہے۔

 

۸۔ الحمد للہ، یہ نویدِ جان فزا اور مژدۂ دل کشا ہے کہ ہمارے

 

۲۰

 

ساتھیوں نے اپنے زمانے کی علمی جنگ جیت لی ہے، کتنی بڑی سعادت ہے، جب یہ سچ اور حقیقت ہے تو اس بے مثال نعمت کی شکرگزاری کرنی ہو گی، اور دل میں سب کی خیرخواہی اور دعا ہو، بفضلہ و منہ۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

اسلام آباد

۱۴ ، اپریل ۱۹۹۸ء

 

۲۱

 

اللہ کا باطنی گھر

 

۱۔ اگرچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مکان و لامکان سے بے نیاز و برتر ہے، تاہم سب جانتے ہیں کہ عالمِ ظاہر میں اللہ کا ایک مقدّس گھر ہے، اور وہ خانۂ کعبہ ہے، جو خدا کے باطنی گھر کی مثال اور دلیل ہے، اور وہ ممثول و مدلول زمانے کا امام علیہ السّلام ہی ہے، جو خداوندِ قدّوس کا حقیقی اور نورانی گھر ہے، جس میں یقیناۛ رویّت اور معرفت کا کنزِ ازل موجود ہے۔

 

۲۔ قرآنِ حکیم اس حقیقت کی طرف پُرزور توجہ دلاتا ہے کہ کل چیزیں دو دو یعنی جفت جفت ہیں (۵۵: ۵۲، ۱۳: ۰۳، ۵۱: ۴۹، ۳۶: ۳۶) پس کسی شک کے بغیر اللہ تبارک و تعالیٰ کے دو گھر ہیں، ایک ظاہر میں ہے جو مثال ہے، اور دوسرا باطن میں ہے جو ممثول ہے اور وہ حضرتِ امام علیہ السّلام ہے جو اللہ کا نورانی گھر یعنی بیت المعمور ہے، جس میں خداوند تعالیٰ کا سب کچھ ہے (۳۶: ۱۲)۔

 

۳۔ قرآنِ پاک کے بہت سے مقامات پر خدائے بزرگ و برتر

 

۲۲

 

کے باطنی گھر (امام) کی تعریف آئی ہے، جیسا کہ آیۂ مبارکہ کا یہ ترجمہ ہے: اور کہتے ہیں کہ اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو اپنے ملک سے اُچک لئے جائیں، کیا ہم نے ان کو حرم میں جو امن کا مقام ہے جگہ نہیں دی، جہاں تمام چیزوں کے ثمرات کھچے چلے جاتے ہیں (اور یہ) رزق ہماری طرف سے ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے (۲۸: ۵۷) جو شخص امامِ عالی مقام کو نورانیّت میں پہچانتا ہے، وہ خدا کے حرم (پناہ گاہ) میں داخل ہو جاتا ہے، جہاں اس کے پاس ہر چیز کا میوہ خود بخود آتا ہے، یہ اللہ کے حضور سے خصوصی رزق ہے، ظاہر میں صرف چند درختوں کے سوا اور کسی چیز کا میوہ نہیں ہوتا ہے، لیکن باطن میں ہر چیز کی روح ہی اس کا میوہ ہے، جس میں کئی نعمتیں ہیں۔

 

۴۔ ذرّاتِ ارواح کا ہم نے اپنی تحریروں میں بار بار تذکرہ کیا ہے، قرآنِ حکیم میں ان کی کئی مثالیں ہیں، یہ ثمرات بھی ہیں، لوگ بھی، جنود بھی، پرندے بھی، یاجوج ماجوج بھی، فرشتے بھی، کُل شیٔ بھی ہیں، وغیرہ، چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام اپنے وقت میں امام اور بیت اللہ تھے، اللہ تعالیٰ نے اُن سے فرمایا: وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ۔۔۔ (۲۲: ۲۷) اور لوگوں میں حج کے لئے ندا کر دو کہ تمہاری طرف پیدل اور دبلے دبلے اونٹوں پر جو دور (دراز) راستوں سے چلے آتے ہوں (سوار ہو کر) چلے آئیں (۲۲: ۲۷) اس

 

۲۳

 

حکم کی تعمیل اس طرح ہوئی کہ حضرتِ ابراہیم کی قوّتِ اسرافیلیہ نے صورِ قیامت پھونکا اور دنیا بھر کے لوگ بشکلِ ذرّات آپ کی زیارت (حج) کے لئے حاضر ہو گئے۔

 

۵۔ حضرتِ امام علیہ السّلام جو خداوندِ تعالیٰ کا باطنی گھر ہے، اس میں ذرّاتِ ارواح (یعنی لوگ) کئی مثالوں میں آتے ہیں، آپ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۱) میں دیکھیں: یوم ندعوا کل اناس بامامھم = جس دن ہم اہلِ زمانہ کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔ یہ آیۂ شریفہ ایک طرف سے کلّیۂ امامت ہے اور دوسری طرف سے کلّیۂ قیامت، کہ ہر امام کے زمانے میں ایک باطنی اور روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، اور ہر قیامت امامِ وقت سے وابستہ ہے، یہی قیامت حضرتِ ابراہیمؑ کی مثال میں حجِ باطن ہے، اور انہی ذرّاتِ ارواح کی بہت سی مثالیں ہیں۔

 

۶۔ حضرتِ ربِّ جلیل، رسول، اور امام کی معرفت، نیز عارف کی اپنی معرفت کا یہ سارا خزانہ عالمِ شخصی ہی میں ہے، لہٰذا یہ امر بےحد ضروری ہے کہ اہلِ ایمان علم الیقین کا درجۂ کمال حاصل کریں، تا کہ جس کے نتیجے میں وہ مرتبۂ عین الیقین کے دروازے سے داخل ہو سکیں، اور اس کے مشاہدات کے بعد حق الیقین کی طرف بلند ہو جائیں، مگر یہ انتہائی مشکل سفر ہادیٔ زمان کی رہنمائی کے سوا ممکن ہی نہیں، بہ ہر کیف علم الیقین

 

۲۴

 

از بس ضروری ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

مارگلہ ٹاورز۔ اسلام آباد۔

جمعرات ۱۸ ذوالحجہ ۱۴۱۸ھ

۱۶ اپریل ۱۹۹۸ء

 

نوٹ: جن عزیزوں کی گرانقدر خدمات ہیں، ان کے بارے میں چند تاریخی کلمات لکھنے کا منصوبہ ہے، چونکہ امریکہ بہت دور ہے، لہٰذا وہاں کے دوستوں کو اولیّت دیں گے، گورنرز اپنے قیمتی مشوروں سے ہماری مدد فرمائیں، شکریہ!

نصیر الدین

 

۲۵

 

آدموں کا سلسلہ

 

۱۔ اللہ تعالیٰ کے بابرکت اسماء میں سے ایک مبارک و مقدّس اسم الحکیم ہے، جس کے معنی ہیں: دانا، پختہ کار، حکمت والا، اور قرآنِ پاک کا ایک نام بھی الحکیم ہے، جیسے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: یٰسٓ  وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِ (۳۶: ۰۱ تا ۰۲) اے سیّد! قسم ہے پُرحکمت قرآن کی۔ اس سے ظاہر ہے کہ قرآنِ عظیم دائمی حکمت کا سرچشمہ ہے، جس سے مستفیض ہونے کے لئے حکمت کے اصولوں اور طریقوں کا جاننا از بس ضروری ہے، اور جس طرح قرآنِ عزیز میں خداوند تعالیٰ نے حکمت کی تعریف فرمائی ہے، وہ بےمثال ہے۔

 

۲۔ ربّ العزّت نے اپنے کلامِ پاک میں بہشتِ جاودانی کی لازوال نعمتوں کا پُرحکمت تذکرہ فرمایا ہے، جس میں بہشت کے چشموں اور نہروں کی تعریف و توصیف نمایان ہے، سوال ہے کہ آیا چشمہ اور نہر میں کبھی وقفہ، ٹھہراؤ یا جمود ہو سکتا ہے؟ خصوصاً بہشت کے چشموں اور نہروں میں؟ اگر نہیں تو اس روانی اور

 

۲۶

 

تسلسل میں کیا اشارۂ حکمت ہے؟ آیا یہ کہنا درست ہے کہ نورِ منزّل اور کتابِ مبین (قرآن) علم و حکمت کے دو سرچشمے ہیں؟ اگر یہ حقیقت ہے تو ان میں تمام زمانوں کے لئے تدریجی ہدایت اور جدید مسائل کا حل موجود ہوگا، اور یہ دلیل یقیناً بڑی منطقی ہے۔

 

۳۔ خدائے دانا و بینا کے فرمانِ اقدس (۴۱: ۵۳) کے مطابق عالمِ ظاہر اور عالمِ نفسی میں بھی آیات ہیں، جن کے مطالعے سے سنّتِ الٰہی اور قانونِ فطرت کا علم ہو سکتا ہے، چنانچہ قرآن اور آفاق و انفس کی روشن دلیلوں سے اس حقیقت کا پختہ یقین ہو چکا ہے کہ خدا کی خدائی میں آفرینش ہمیشہ کی چیز ہے، جس کی نہ تو کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، لہٰذا آدموں کا سلسلہ بھی ایسا ہی ہے کہ وہ ابتداء و انتہا کے بغیر ہمیشہ جاری و ساری ہے۔

 

۴۔ جس طرح بہشت سب سے اعلیٰ مقام ہے، اسی طرح اس کے بےمثال نعمتوں میں عظیم اسرار پوشیدہ ہیں، سب سے عجیب بات تو یہ ہے کہ جو چیز دنیا میں غیر ممکن ہو، وہ بہشت میں جا کر ممکن ہو جاتی ہے، جیسے بازارِ جنّت کی تصویروں کے اسرار، کہ جو شخص جس تصویر کی طرح ہو جانا چاہے تو اسی طرح ہو سکتا ہے، تصویریں البتہ بےجان نہیں، بلکہ ان سے حوران، غلمان، اور دیگر اہلِ جنّت مراد ہیں، کیونکہ بہشت میں بےجان اور بےعقل چیزیں

 

۲۷

 

نہیں ہوتی ہیں۔

 

۵۔ تاریخی کلمات: ہمارے بےحد عزیز شاگردوں میں سے بعض امریکہ جیسے عظیم ملک میں اسلامی اور ایمانی زندگی گزار رہے ہیں، وہ سب کے سب اس زمین پر خدائے واحد کے لئے سجدہ کرتے آئے ہیں، اور محمد و آلِ محمد پر صلوات پڑھتے ہیں، مزید برآن نورانی علم کی شمعیں روشن کر رہے ہیں، ان مومنین و مومنات پر یقیناً رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی رہتی ہیں، اب ہم سب مل کر ایک علمی ادارہ ہو گئے ہیں، جس کی بہت بڑی اہمیّت ہے، ایک دانشگاہ بھی، ایک علمی لشکر بھی، ایک عالمِ شخصی بھی، ایک کائنات بھی، ایک مجموعی نامۂ اعمال بھی، ایک قیامتِ صغریٰ بھی، ایک تصویرِ جانان بھی، ایک شمشیرِ بران بھی، اور بہت کچھ، بہت کچھ۔

 

۶۔ گورنرز اور علمی سولجرز خواہ مشرق میں ہوں یا مغرب میں، ان کے اسمائے گرامی ہمارے ادارے کے کارنامۂ زرین میں ہمیشہ کے لئے زندہ اور تابندہ رہیں گے، میرا یقین ہے کہ دنیا میں سب سے عظیم اور بےمثال خدمت صرف ایک ہی ہے، اور وہ ہے قرآنِ کریم اور امامِ مبین کے علم و حکمت کی روشنی کو پھیلانا، امیدِ واثق ہے کہ ہر ایسے خادم پر مولائے پاک بہت مہربان ہو گا، جس کی رحمت سے عزیزوں کی ہر نیک مراد پوری

 

۲۸

 

ہو گی، آمین!

 

۷۔ محترمہ شاہِ ناز سلیم ہونزائی کے زرنگار اور برق رفتار قلم نے ہمارے بعض ساتھیوں کے انٹرویو میں بڑا شاندار کام کیا ہے، اب انہیں اس کارنامے کو مزید آگے بڑھانا ہے، جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ تاریخ نویسی کا منصوبہ اور ابتدائی کام مختلف صورتوں میں بہت پہلے شروع ہوا تھا، مثلاً کسی عزیز کے لئے انتساب لکھنا، جو جدید طریقے پر ہونے کی وجہ سے طویل ہوتا ہے، ورنہ عام رواج کے مطابق ایک ہی جملے میں ختم ہو جاتا ہے، علمی خطوط کی روایت کو جاری کرنا، کتابوں کی رسمِ رونمائی کے موقع پر عزیزوں کے لئے لکھے ہوئے الفاظ، تصاویر اور ریکارڈنگ کے ذرائع، میٹنگیں، تقرریاں، مجالس، ویلکم، الوداع، وغیرہ، یہ ساری چیزیں وہ ہیں، جن سے تاریخ کی یادداشت مل سکتی ہے، چنانچہ ہم آپ کو ایک مکمل سوالنامہ بنا کر بھیجنے والے ہیں، آپ اپنی یادداشت وغیرہ سے اس کے جوابات مہیا کر کے رکھیں، کیونکہ آپ کے ادارے نے خاموش انقلاب کا سب سے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، اور اس کے انکشافاتِ روحانی، آفاقی، اور تاویلی بڑے عجیب و غریب ہیں، لہٰذا اس کی تاریخ لکھنے کا یہی وقت ہے، ورنہ آگے چل کر آپ بہت سی گرانقدر باتیں بھول جائیں گے، اور آپ مجھ کو بھی نہیں پائیں گے۔

 

۲۹

 

۸۔ شروع شروع میں ہمارا پیارا ادارہ بہت ہی چھوٹا، محدود، اکیلا، اور بےسہارا تھا، قدم قدم پر رکاوٹیں اور مشکلات آتی تھیں، لیکن مولائے مہربان کے دامنِ اقدس سے اس بندۂ کمترین کا ہاتھ کبھی نہیں چھوٹا، تا آنکہ رفتہ رفتہ آزمائشیں کم اور کمتر ہونے لگیں، اور اسی طرح خداوندِ قدّوس کی پوشیدہ عنایات نمایان ہونے کا وقت آ گیا، حضرتِ امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کے علم و حکمت کے روشن چراغ نے خود بخود اپنے باخبر پروانوں کو بلا بھی لیا، جِلا بھی دیا، اور پُرنور حیاتِ سرمدی سے سرفراز بھی فرمایا۔

 

۹۔ ہمارے ادارے کے عظیم مقاصد یہ ہیں: ۱۔ اللہ اور اس کے محبوب رسول کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نورِ منزّل اور کتابِ مبین (قرآن) کے علم و حکمت کو پھیلانا، ۲۔ قرآن اور روحِ اسلام کی عظمت و برتری اور کائناتی حکمت کے ثبوت کے طور پر روحانی سائنس پر ریسرچ کرنا، ۳۔ اسماعیلی مذہب کے علمی و عرفانی تعارف کی ایک تجدید، تا کہ اس سے اتحاد بین المسلمین کی راہیں ہموار ہو سکیں، ۴۔ دینِ اسلام میں جو آفاقیت و انسانیّت ہے، اس کے بھیدوں کو اجاگر کرنا، وغیرہ۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

مارگلہ ٹاورز، اسلام آباد

ہفتہ، ۲۰ ذوالحجہ ۱۴۱۸ھ

۱۸ اپریل ۱۹۹۸ء

 

۳۰

 

علمی خط بطرزِ جدید ۔ ۱

 

۱۔ ڈالاس (امریکہ) میں میرے عزیزان: یا علی مدد! علی نامِ خدا ہے، علی اسمِ مرتضیٰ ہے، علیٔ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم ہے، اور قرآنِ عزیز کا حکم ہے کہ تم اللہ کو اسمِ اعظم سے پکارا کرو (۰۷: ۱۸۰) چنانچہ ہم یا علی مدد کہہ کر خدا کو اسماء الحسنیٰ سے پکارتے ہیں، میں ایک علمی اور دینی خط لکھ رہا ہوں یا علمی عبادت کر رہا ہوں یا دونوں کام ایک ساتھ ہو رہے ہیں؟ اللہ کی جو بھی رحمت ہو، میں جب جب اپنے عزیزوں کو یاد کرتا ہوں تو میں طوفانی خوشی کے عالم میں ہوتا ہوں، اتنی شادمانی اور ایسی خوشی کہاں ہو سکتی ہے، مگر ہاں صرف بہشت میں، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

۲۔ میرے جان و دل کے عزیزان شمس الدین جمعہ، کریمہ شمس، کامڑیا حسن اور کریمہ حسن یہ سب عملداران اور لائف گورنرز میرے دل کے لطیف باغات ہیں، جن میں بہت خوبصورت روحانی پھول

 

۳۱

 

اور بہت لذیذ میوے ہیں، وہ میرے پیارے، وہ میرے دلارے، وہ میرے سہارے ہیں، اور میرے بہت ہی عزیز سلمان، یہ سب میرے دل میں بستے بستے میری جان کا حصّہ بن چکے ہیں، ہر چہ در کانِ نمک رفت نمک شد۔

 

۳۔ حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام پر اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک معجزاتی محبّت کا پَرتَو ڈالا تھا (۲۰: ۳۹) تا کہ آسیہ (زنِ فرعون) کے پاکیزہ دل میں موسیٰ کے لئے خاص محبّت پیدا ہو، اسی طرح خداوندِ قدّوس جملہ عزیزان پر اپنی مقدّس اور بابرکت محبّت کا عکس ڈال رہا ہے، تا کہ مجھے ان سے ایسی شدید محبّت ہو، جس طرح مادرِ مشفقہ کو اپنے پیارے بچے سے بےحد محبّت ہوا کرتی ہے، تا کہ میں تندرستی میں بھی اور بیماری میں بھی ان کی علمی ترقی کے لئے کام کروں۔

 

۴۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین و مومنات کو امامِ زمان علیہ السّلام میں فنا کر کے زندۂ جاوید بنا دیا ہے، اور ان کو نور عطا فرمایا ہے (نورھم: ۵۷: ۱۲، ۵۷: ۱۹، ۶۶: ۰۸) اور حضرتِ امام یہ چاہتے ہیں کہ وہ تمام مرید جن کو اسمِ اعظم عطا ہوا ہے وہ خاص علم اور خاص عبادت کے ذریعہ اس نور کو دیکھیں، چنانچہ عارفین و کاملین نور کو روحانی قیامت کے ساتھ دیکھتے ہیں، جس کے کئی مقامات ہیں، اور نور کا اصل مقام حظیرۂ قدس ہی ہے، جہاں کنزِ مخفی ہے،

 

۳۲

 

جس میں تمام اسرارِ معرفت جمع ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

مارگلہ ٹاورز، اسلام آباد

۲۳ اپریل ۱۹۹۸ء

 

۳۳

 

علمی خط بطرزِ جدید ۔ ۲

 

۱۔ شکاگو (امریکہ) میں میرے عزیزان: یاعلی مدد! حضرتِ امیر المومنین علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: انا الاسماء الحسنیٰ التی امر اللہ ان یدعیٰ بھا = یعنی میں خدا کے وہ اسماءِ حُسنیٰ ہوں جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کو ان اسماء سے پکارا جائے (کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت ۲۹) دورِ ششم کے اسماءُ الحسنیٰ میں سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ گرامی ہے، آپ کے بعد مولا علی اور دیگر تمام أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام اسماءُ الحسنیٰ ہیں، لیکن ایک میں سب ہوتے ہیں، لہٰذا امامِ اوّل (اساس = علی) نے اپنے اس ارشاد میں ہر امام کے مرتبۂ نورانیّت سے آگاہ کر دیا، پس جن عرفاء نے اپنے وقت کے امام کو چشمِ باطن سے دیکھا ہے، وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ زمانے کا امام خزانۂ الٰہی کا مرتبہ رکھتا ہے، جس میں خدا کی ہر چیز

 

۳۴

 

موجود ہوتی ہے۔

 

۲۔ شکاگو میں اگرچہ میرے عزیزان بہت ہیں، لیکن میں بطورِ نمونہ صرف چند عزیزوں کے اسماء کو یہاں درج کرتا ہوں، وہ یہ ہیں: نور الدین راجپاری لائف گورنر جن کی بہت خدمات ہیں، اور جماعت میں ان کی بڑی عزّت ہے، عبد المجید پنجوانی لائف گورنر، زینت پنجوانی لائف گورنر، برکت گیلانی، رخسانہ گیلانی، اکبر علی بھائی، شمسہ علی بھائی، مظہر علی عاشق علی، اور کریم عیسیٰ، میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ عزیزان مولائے پاک کے علمی لشکر میں سے ہیں، یہ مجھے بےحد عزیز ہیں، اس لئے بار بار انہیں یاد کرتا ہوں، اور یقیناً ایسی یادوں میں ایک خاص دعا بھی پوشیدہ ہوا کرتی ہے۔

 

۳۔ دنیا میں جب کوئی شخص سوال کرتا ہے، تب ہی اس کو جواب دیا جاتا ہے، لیکن قرآنِ حکیم میں ہر سوال کا جواب پہلے ہی سے تیار کیا ہوا موجود ہے، مثال کے طور پر بعض لوگوں کی زبان پر یا دل میں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اگر تمہارا امام برحق ہے تو اس کو خدا نے کیا کیا معجزے عطا کئے ہیں؟ اس کے ایک جواب کی بجائے کم از کم ہزار جوابات ہو سکتے ہیں، لیکن ہم یہاں صرف ایک ہی جواب پر اکتفا کریں گے، وہ یہ کہ ہر امام کے پاس خدا کی طرف سے ایک تو کائناتی علم ہوتا ہے، اور دوسرا کائناتی جثّۂ ابداعیہ (۰۲: ۲۴۷) ان دونوں معجزوں کو صرف وہی لوگ دیکھ سکتے ہیں، جو

 

۳۵

 

امام کے عارف ہو چکے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

مارگلہ ٹاورز، اسلام آباد

۲۴ اپریل ۱۹۹۸ء

 

۳۶

 

مدرّسِ عشقِ مولا

 

۱۔ “مدرّسِ عشقِ مولا” یہ کتنا پسندیدہ اور کیسا پیارا نام ہے! اس طرح کا عظیم الشّان نیچرل ٹائٹل کسی بہت ہی خوش نصیب مومن یا مومنہ کے لئے خداوندِ تعالیٰ کا بہت ہی بڑا انعام ہے، جس میں کسی مخلوق کی سفارش کا کوئی دخل ہی نہیں، اور نہ ہی اس میں کوئی تصنع (بناوٹ) ہے، بلکہ یہ ان تمام خوبیوں کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا ہوئی ہیں، آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں مولائے پاک کے ان عزیز بچوں اور بچیوں کی بجا طور پر تعریف و توصیف کرنا چاہتا ہوں جو اپنی بےحد لطیف و شیرین آواز سے ہر وقت پرمغز منقبت یا گنان پڑھتے رہتے ہیں، اس بےمثال عاشقانہ طریقِ عبادت سے جماعتِ باسعادت کو جیسا اور جتنا روحانی فائدہ مل رہا ہے، وہ ان شاء اللہ بےقیاس و بےاندازہ ہے۔

 

۲۔ میں تو ہر فرشتہ صفت منقبت خوان کو “مدرسِ عشقِ مولا” کہوں گا، کیونکہ وہ پیاری جماعت کے خوش بخت افراد کے قلوب کو

 

۳۷

 

پاک مولا کے عشق و محبّت کا پاکیزہ درس دے رہا ہے، لہٰذا وہ خود ایک زندہ مدرسہ بھی ہے، اور مدرّس بھی، ورنہ مدرسۂ عشقِ سماوی کہاں ہے؟ جبکہ آج کی مادّی دنیا میں ہر علم و فن کے لئے ایک مدرسہ یا کوئی ٹریننگ سنٹر ہوا کرتا ہے، لیکن خدا، رسول، اور امامِ زمانؑ کے مقدّس عشق و محبّت جیسی حکمت یا روحانی سائنس سکھانے کا ذریعہ کیا ہے؟ آیا مولا کی محبّت کے سوا دین کوئی اور چیز ہے؟

 

۳۔ حال ہی میں ایک بڑی اہم اور بہت ہی مفید کتاب “قانونِ کل” کے نام سے مکمل ہوئی ہے، جس کا مقصد ہے: کلّ یا کلّیات یا کلِّ کلّیات کے تصوّر کی مدد سے معلومات حاصل کرنا، مثال کے طور پر بحوالۂ قرآن (۳۶: ۱۲) امامِ مبین اپنے باطن میں لطیف آسمانی کلّ یا مجموعہ یا خزانہ ہے، ایسے میں بڑا عجیب و غریب حکمتی سوال یہ ہے کہ: آیا امامِ مبین میں دیگر تمام اہم چیزوں کے ساتھ ساتھ روحانی زبور بھی موجود ہے یا نہیں؟ ایسا انوکھا سوال کبھی کسی نے نہیں کیا ہوگا، بہرکیف اس کا جواب یقیناً یہی ہے: کیوں نہیں، روحانی زبور امامِ مبین کے عالمِ شخصی میں موجود ہوتی ہے، اس کی چند چیزیں یہ ہیں: فرشتۂ عشق (جدّ = اسرافیل) ناقورِ قیامت، پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح خوانی، وغیرہ، اس سے معلوم ہوا کہ حضرتِ داؤدؑ کی بولنے والی زبور روحانیّت میں تھی، اور خاموش زبور ظاہر میں،

 

۳۸

 

پس مقدّس موسیقی کے ساتھ عشقِ مولا کی منقبت خوانی زبورِ ظاہر و باطن کے عین مطابق ہے، الحمد للہ۔

 

۴۔ سورۂ سبا (۳۴: ۱۳) میں حق سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِعْمَلُوْۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًاؕ-وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُوْرُ = اے داؤد کی اولاد عملی شکرگزاری کرو کیونکہ میرے بندوں میں عملی شکرگزار تھوڑے ہیں۔ داؤد علیہ السّلام اپنے وقت کا امام تھا، لہٰذا اس آیۂ شریفہ کی حکمت (تاویل) داؤدِ زمان (امامِ زمان) علیہ السّلام اور اس کی روحانی اولاد سے متعلق ہو جاتی ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ امامِ وقتؑ میں تمام چیزیں موجود ہیں، اور وہ تمام روحانی نعمتیں بھی موجود ہیں، جو حضرتِ داؤدؑ کو عطا ہوئی تھیں، پس مومنین کے لئے حکم ہے کہ وہ اپنے روحانی باپ کے نقشِ قدم پر چل کر تمام روحانی نعمتوں کو حاصل کریں، اور اسی طرح عملی شکرگزاری کریں۔

 

۵۔ سورۂ صٓ (۳۸: ۲۶) میں ارشاد ہے: یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ= اے داؤد ہم نے تم کو (آدم کی طرح) زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ اس سے یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے کہ ہر امام اپنے وقت میں کائناتی زمین و آسمان کا خلیفہ ہوتا ہے، کیونکہ کائناتی زمین سے نفسِ کلّی مراد ہے، اور کائناتی آسمان عقلِ کلّی ہے، یہ دونوں الگ الگ بھی ہیں، اور ایک بھی ہیں، پس آپ کو

 

۳۹

 

بھی اپنے روحانی باپ کی طرح خلیفۂ کائنات ہو جانا ہے۔

 

۶۔ عالمِ شخصی میں کتبِ سماوی کی روح موجود ہے، جیسے صحف، توریت، زبور، انجیل، الکتاب، وغیرہ، سورۂ انبیاء میں ارشاد ہے: اور ہم نے (عارف کے) ذکر و عبادت کے بعد زبور (کتابِ عالمِ شخصی) میں لکھ دیا ہے کہ میرے نیکوکار بندے کائناتی زمین کے وارث ہوں گے (۲۱: ۱۰۵) عالمِ شخصی کی کتاب کو زبور اس لئے کہا گیا کہ وہ حضرتِ داؤد کی زبور بھی ہے، جیسے میرے بروشسکی اشعار میں کہیں صورِ اسرافیل کا ذکر ہے، کہیں ناقور کا، اور کہیں پریلو (بانسری) کا تذکرہ ہے، جیسا کہ یہ شعر ہے: جݺ دَیلَم صورِ اسرافیل پُریلوݺ معجزا ہینن+ قیامتݺ گون دُوَرِلا خیر یݺ مُو دالِن لݺ ایرن دݣ= میں نے صورِ اسرافیل (کی آواز) کو سنا جونائے (عشق) کی معجزانہ موسیقی ہے، شاید اب صبحِ قیامت ہو چکی ہے ساتھیوں خواب غفلت سے بیدار ہو جاؤ۔

 

۷۔ میں نے بعض منقبت خوان ارضی فرشتوں کو دیکھا ہے، اور بڑی حیرت ہوئی کہ ان کی سریلی آواز میں جادوئے حلال ہے، یا یہ کہ ان کی مبارک آواز میں ناقورِ قیامت کا معجزہ ہے، چشمِ بد دور! ان کی فرشتگانہ خصلتوں میں کبھی کوئی کمی نہ ہو! بلکہ روز بروز اور زیادہ ترقی ہو! آمین!!

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

مارگلہ ٹاورز، اسلام آباد

اتوار ۲۸ ذوالحجہ ۱۴۱۸ھ

۲۶ اپریل ۱۹۹۸ء

 

۴۰

 

علمی خط بطرزِ جدید ۔ ۳

 

۱۔ یوسٹن (امریکہ) میں میرے عزیزان: یاعلی مدد! خدا نے علیؑ سے رسولؐ کی مدد فرمائی تھی (کوکبِ درّی، بابِ دوم، منقبت ۱۶) حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ و سلامہ کے ارشادات کو جان و دل اور عشق سے پڑھو، ان میں روحانی ترقی کے لئے خصوصی ہدایت اور زبردست حوصلہ افزائی ہے، امام کی ظاہری ہدایات پر کاملاً عمل کرنے کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی کا معجزانہ دروازہ کھل جاتا ہے، اور وہ باب القیامۃ ہے، جس کا تذکرہ قرآنِ پاک کے شروع سے لے کر آخر تک ہے، جیسا کہ سورۂ زمر (۳۹: ۶۷) میں ہے: اور انہوں نے خدا کی قدر شناسی جیسی کرنی چاہئے تھی نہیں کی، اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ یہ عالمِ شخصی کی زمین و آسمان کا بیان ہے، اور کائناتِ لطیف کا

 

۴۱

 

تذکرہ ہے۔

 

۲۔ میری پیاری روح کے پیارے پیارے اجزاء نور علی مومن، یاسمین نور علی، نادر نور علی، یاسمین نادر، نسرین دخترِ نور علی، ظاہر مومن، عرفان ہیمانی یہ سات عزیزان لائف گورنرز ہیں، امین قاسم اور ریاض بھی زرّین کارنامے انجام دے رہے ہیں، نور علی اور یاسمین کا گھر گویا میرا اپنا گھر ہے، اس لئے میں بار بار اس پیارے گھر کو نیک دعاؤں کے ساتھ یاد کرتا ہوں، میں عالمِ خیال میں اپنے سب عزیزوں کو دیکھنا چاہتا ہوں، خیال اور تصوّر مشکل نہیں، لیکن اس میں روحانیّت کی روشنی چاہئے۔

 

۳۔ میں اس خط میں تمام ساتھیوں کو ایک گرانقدر تحفہ پیش کر رہا ہوں، وہ یہ کہ قرآنِ حکیم میں دو قسم کی مثالیں آئی ہیں: مثبت اور منفی، آپ ہرگز یہ خیال نہ کرنا کہ مثبت مثالوں میں علم ہوتا ہے، مگر منفی مثالیں علم سے خالی ہیں، میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ قرآنِ عظیم کی کوئی بھی چیز بدونِ علم و حکمت نہیں ہے، دیکھئے قرآن: ۰۶: ۸۰، ۰۷: ۸۹، ۲۰: ۹۸، ۴۰: ۰۷، جیسے قرآنِ حکیم میں یاجوج ماجوج کا قصّہ ہے (۱۸: ۹۴، ۲۱: ۹۶) جس کے ظاہر میں شر و فساد کے سوا کچھ نہیں، مگر باطن میں علم و حکمت کا ایک عجیب و عظیم خزانہ ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

مارگلہ ٹاورز، اسلام آباد

پیر ۲۹ ذوالحجہ ۱۴۱۸ھ

۲۷ اپریل ۱۹۹۸ء

 

۴۲

 

علمی خط بطرزِ جدید ۔ ۴

 

۱۔ برمنگھم (امریکہ) میں میرے عزیزان: یاعلی مدد! حدیثِ شریف میں مولا علی کی تعریف و توصیف دو طرح سے ہے: براہِ راست اور بالواسطہ، بالواسطہ تعریف یہ ہے کہ حضورِ اکرمؐ نے حضرت علیؑ کو مثیلِ ہارون قرار دیا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ حکیم میں جو جو اوصاف حضرتِ ہارونؑ کے ہیں، وہی اوصاف و کمالات حضرتِ علیؑ کے بھی ہیں، مگر یہ ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد کوئی نبی نہیں، اسی طرح رسولِ خدا نے جس درود کی تعلیم دی ہے اس کی رو سے آلِ محمدؐ اور آلِ ابراہیمؑ کا درجہ ایک جیسا ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ قرآنِ عزیز میں جو جو ارشادات آلِ ابراہیمؑ کے بارے میں ہیں، وہی ارشادات یقیناً آلِ محمدؐ کے بارے میں بھی ہیں، یہ ہے قرآن و حدیث کی حکمت کا ایک خاص طریقہ۔

 

۲۔ ہمارے قلب و جان کے عزیزان اور یک حقیقت (مونوریالٹی)

 

۴۳

 

کے قدر شناسان عزیز راجپاری، نفیسہ راجپاری، سابق صدر محمد عبد العزیز، یاسمین محمد، نصراللہ خان یہ پانچ عزیزان لائف گورنرز ہیں، بے شمار خدمات کی وجہ سے محمد اور یاسمین کو لائف گورنری کی ترقی دی گئی، اس برانچ میں کریمہ ناتھانی اور سہیل جیسے حقیقی علم کے پروانے بھی ہیں، سلمیٰ اسلم اور امین فاضل جیسے فرشتے بھی، الحمد للہ۔

 

۳۔ دل بار بار قرآن میں امام کے تاویلی معجزات دیکھنا چاہتا ہے، جب کوئی ایسا معجزہ ہوتا ہے تو فوراً عزیزان یاد آتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہم سب حکمت کی کھرل میں پس کر یکجان ہو گئے ہیں، سوائے روحانی طبیب کے ہماری جانوں کو کون کھرل کر سکتا ہے، جب رشتوں میں اتنا مزہ ہے تو وحدت میں کتنا مزہ ہو گا!

 

۴۔ قرآن فرماتا ہے کہ جنّت کا طول و عرض کائنات کے برابر ہے (۵۷: ۲۱، ۰۳: ۱۳۳) اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات کا جسمِ لطیف بہشت بھی ہے اور ارض اللہ بھی (۲۹: ۵۶، ۳۹: ۱۰) جس میں بےشمار لطیف سلطنتیں ہیں، کیونکہ بہشت کی سب سے بڑی نعمت وہاں کی بہت بڑی بادشاہی ہے (۷۶: ۲۰) اور یہی بادشاہی خلافت بھی ہے (۲۴: ۵۵) اس بیان سے معلوم ہوا کہ قرآنِ حکیم کے تمام اسرار باہم ملے ہوئے ہیں، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ حظیرۂ قدس میں جملہ حکمتوں کی یکجائی اور وحدت ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی۔

مارگلہ ٹاورز، اسلام آباد

پیر ۲۹ ذوالحجہ ۱۴۱۸ھ

۲۷ اپریل ۱۹۹۸ء

 

۴۴

 

علمی خط بطرزِ جدید ۔ ۵

 

۱۔ اٹلانٹا (امریکہ) میں میرے عزیزان: یا علی مدد! حضرتِ مولانا علی علیہ السّلام کا مبارک ارشاد ہے: انا وجہ اللہ فی السماوات و الارض = میں آسمانوں اور زمین میں وجہ اللہ (چہرۂ خدا) ہوں (کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت ۶۹) سمیٹے ہوئے آسمان (مَطْوِیّٰت، ۳۹: ۶۷) حظیرۂ قدس میں ہیں، جہاں مولا علی بمرتبۂ مظہر چہرۂ خدا اور صورتِ رحمان ہے، اور زمین پر مولائے پاک چہرۂ خدا اس طرح سے ہے کہ بحوالۂ قرآن (۱۱: ۰۷) عالمِ شخصی جو عالمِ دین کا نمونہ ہے اس کی تکمیل کے بعد عرفاء کو ایک دن پانی پر ۔۔۔۔۔ کا مشاہدہ اور دیدار ہوتا ہے۔

 

۲۔ ہمارے دل و جان کے پسندیدہ ساتھی اور عزیزانِ علمی غلام مصطفیٰ مومن، ممتاز مومن، نادیہ دخترِ غلام مصطفیٰ، نوشاد پنجوانی، روزینہ نوشاد، نزار علی بھائی، الماس نزار علی، نایاب دخترِ

 

۴۵

 

نزار علی، حنا دخترِ نزار علی، صبا دخترِ نزار علی، بدر الدین، ماہِ محل بدر الدین، سلطان علی، یہ تیرہ عزیزان لائف گورنرز ہیں، مسز شوکت سلطان علی بہت دیندار شخصیّت ہیں، چشمِ بد دور کہ اس برانچ میں سب سے زیادہ گورنرز ہیں۔

 

۳۔ یہ تمام عزیزوں کے لئے بہت ہی بڑی اور بہت ہی عظیم انقلابی حکمت ہے کہ سمیٹے ہوئے آسمان (مطویّات، ۳۹: ۶۷) انسانِ کامل کے حظیرۂ قدس میں ہیں، جب حقیقت یہی ہے تو یقیناً ان جملہ آیاتِ مبارکہ کا باطنی تعلق عالمِ شخصی یا حظیرۂ قدس سے ہوگا، جن میں آسمان یا آسمانی چیزوں کا کوئی ذکر آیا ہو، اور ایسی آیاتِ کریمہ بہت بڑی تعداد میں ہیں۔

 

۴۔ اگرچہ فنا ایک سلسلہ ہے، لیکن بڑی فنائیں دو ہیں، ایک اسرافیلی اور عزرائیلی منزل میں ہے، اور دوسری فنا حظیرۂ قدس میں، فنائے اوّل میں تکلیف ہے، مگر فنائے دوم میں کوئی تکلیف نہیں، بلکہ راحت ہے، شاید اس لئے کہ یہاں بہشت ہے، کہ اس میں کوئی تکلیف ہو نہیں سکتی، پس وہاں فنا کے لئے صرف دیدارِ پاک چاہئے، کیونکہ دیدار ہی اصل سے واصل ہو جانا ہے، یہی رجوع ہے، حقیقی توبہ بھی یہی ہے، جب آپ نے عالمِ وحدت میں صورتِ رحمان (وجہ اللہ) کا مقدّس دیدار کیا تو اس کی خاصیّت یہ ہے کہ آپ اُس میں فنا ہو گئے، قرآن

 

۴۶

 

)۲۸: ۸۸، ۵۵: ۲۷(  میں دیکھئے کہ ہر چیز اور ہر شخص صورتِ رحمان یا چہرۂ خدا کے سامنے جا کر فنا ہو جاتا ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

مارگلہ ٹاورز، اسلام آباد

بدھ ۲ محرم الحرام ۱۴۱۹ھ

۲۹ اپریل ۱۹۹۸ء

 

۴۷

 

علمی خط بطرزِ جدید ۔ ۶

 

۱۔ سیاٹل (امریکہ) میں میرے عزیزان: یاعلی مدد! احادیثِ قدسی بھی قرآنی آیات ہی کی طرح بے انتہا مفید ہیں، چنانچہ جی چاہتا ہے کہ بار بار ان خزانوں کے جواہرات کا تذکرہ کریں، حق بات تو یہ ہے کہ ہر خزانہ حظیرۂ قدس میں نظر آتا ہے، جہاں خزینۃ الخزائن لقاءُ اللہ ہے، اس مقامِ عالی کو حاصل کرنے کے لئے علم و حکمت اور عاشقانہ عبادت کے ساتھ ساتھ بہت مفید خدمت چاہئے، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کوئی روحانی ترقی ناممکن نہیں۔

 

۲۔ ہماری بہت ہی عزیز اسٹوڈنٹ بیٹی رابعہ امین نہ صرف تنہا فرشتۂ ارضی ہیں، بلکہ ان کے بھائی مراد، بہن شاہ نور، اور کریمہ شمس بھی فرشتگانِ ارضی میں سے ہیں، ہم نے چند سال پہلے کراچی میں محترمہ رابعہ کی ایک خاموش مثالی گریہ و زاری دیکھی تھی، وہ میرے تصوّر میں ناقابلِ فراموش ہے، رابعہ کے پاکیزہ دل

 

۴۸

 

میں ہمیشہ حضرتِ امام علیہ السّلام کی نورانی محبّت موجود ہوتی ہے، اس لئے آپ ہر وقت یادِ الٰہی کے ساتھ ساتھ جماعتی خدمات میں مصروف رہتی ہیں۔

 

۳۔ سورۂ طلاق آیتِ سوم (۶۵: ۰۳) کے شروع میں ہے: اور (خدا) اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا، جہاں سے (وہم و) گمان بھی نہ ہو۔ یعنی قرآنِ کریم کی کوئی ایسی آیت نہیں جس کا ایک ظاہر اور ایک باطن نہ ہو، اور باطن میں کوئی غالب و زبردست حکمت نہ ہو، اس کے علاوہ آفاق و انفس کی آیات ہیں، جن میں اہلِ بصیرت کے لئے بہت کچھ ہے۔

 

۴۔ قرآنِ حکیم میں صورِ قیامت کے اسرار حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے قصّے میں بھی ہیں، اور بعض دوسری آیات میں بھی ہیں، چنانچہ خدا نے پہاڑوں اور پرندوں (کی روحوں) کو حکم دیا کہ داؤد (خلیفۃ اللہ) کے ساتھ تسبیح کرو (۳۴: ۱۰) پس اس حکمِ الٰہی پر ہر چیز ناقورِ قیامت کے ساتھ ہم آہنگ ہوگئی، اور یہ سرِ اسرار بہت ہی عظیم ہے، جس سے دوسرے اسرار پر بھی روشنی پڑتی ہے، کہ ہر شیٔ صورِ اسرافیل کی ہم نوائی میں تسبیح کرتی ہے (۱۷: ۴۴) الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

مارگلہ ٹاورز، اسلام آباد

جمعرات ۳ محرم الحرام ۱۴۱۹ھ

۳۰ اپریل ۱۹۹۸ء

 

۴۹

 

علمی خط بطرزِ جدید ۔ ۷

 

۱۔ اٹلانٹا (امریکہ) میں میرے عزیزان: یاعلی مدد! یہ ایک مقدّس سلام و دعا ہے جو بڑی پسندیدہ روایت بھی ہے، اور روشن حقیقت بھی، اب ہم (ان شاء اللہ) کوئی علمی نکتہ بیان کریں گے: قرآنِ عزیز کے آٹھ مختلف مقامات (۱۳: ۰۵، ۱۴: ۱۹، ۳۲: ۱۰، ۳۴: ۰۷، ۳۵: ۱۶، ۵۰: ۱۵، ۱۷: ۴۹، ۱۷: ۹۸) پر “خلقِ جدید” کا تذکرہ موجود ہے، خلقِ جدید کے ظاہری معنی ہیں: مر جانے کے بعد از سرِ نو پیدا ہو جانا، مگر اس کی تاویلِ باطن ہے: قالبِ نورانی، جثّۂ ابداعیہ، جس میں بعد از موت مومن کی روح رکھی جاتی ہے (ہزار حکمت، ح ۶۷۲) اس لطیف اور زندہ جسم (جثّۂ ابداعیہ) کا نام خلقِ جدید اس لئے ہے کہ یہ ہمیشہ جدید اور تر و تازہ ہی رہتا ہے، جس کی وجہ دائمی تجدّد ہے، یعنی وہ ایک دائمی شعلۂ چراغ کی طرح ہے، جو لمحہ بہ لمحہ اپنی جدّت کو قائم رکھتا ہے، میرے نزدیک یہ انتہائی

 

۵۰

 

عظیم راز ہے، جس سے اہلِ بہشت کے ہمیشہ ہمیشہ جوان رہنے کا بھید بھی منکشف ہو گیا، یہی تاویل “تھݸݽ گٹݸ جݹ، مݶن شرݸ جݹ” میں بھی ہے۔

 

۲۔ میرے قلب و جان کے عزیزان اور دونوں جہان کے رفیقان ڈاکٹر رفیق جنّت علی، ڈاکٹر شاہ سلطانہ رفیق، شفیق ابنِ رفیق، گلاب خانم دخترِ رفیق، عمران فتح علی، چھوٹا فرشتہ نصیر الدین نوشاد، اور دیگر عزیزوں کی سلامتی اور ترقی کے لئے بہت سی دعائیں کرتا ہوں، دونوں ڈاکٹرز نے بہت سی خدمات انجام دی ہیں، اور عزیزم عمران کو بھی گوناگون خدمات کی وجہ سے یہاں سب یاد کررہے ہیں۔

 

۳۔ مولا علی علیہ السّلام کا ارشادِ مبارک ہے: انا الذی عندی خاتم سلیمان = یعنی میں ہوں وہ شخص جس کے پاس سلیمان کی انگوٹھی موجود ہے (کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت ۶) اس انگوٹھی سے اسمِ اعظم مراد ہے، جو حضرتِ امامؑ کے پاس ہے، جس میں روحانی سلطنّت کا راز پوشیدہ ہوتا ہے، ہر امام سلیمانؑ ہی کی طرح اپنے وقت کا روحانی سلطان ہوتا ہے، کیونکہ بحوالۂ قرآن (۰۴: ۵۴) خدا نے روحانی سلطنت آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کو عطا کیا ہے، آپ عالمِ شخصی میں جا کر اس کی مکمل

 

۵۱

 

معرفت حاصل کر سکتے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

مارگلہ ٹاورز، اسلام آباد

جمعہ ۴ محرم الحرام ۱۴۱۹ھ

یکم مئی ۱۹۹۸ء

 

۵۲

 

علمی خط بطرزِ جدید ۔ ۸

 

۱۔ فرانس میں میرے عزیزان: یاعلی مدد! یہ بیان سورۂ حدید (۵۷: ۲۵) کے حوالے سے ہے: آسمانی کتاب کے لئے جس میزان (ترازو) کی ضرورت ہے، وہ امام ہے جو صاحبِ تاویل ہے (علیہ السّلام) اور خدا نے جس طرح لوہا نازل کیا، اس کی کم سے کم تاویلیں تین ہیں: (الف) لوہے کی معدنی روح نازل کی گئی، جس سے لوہے کی کان بن گئی، (ب) جو لوگ روحانیّت کے قابل ہیں، ان پر روحانیّت اتاری گئی، (ج) جو لوگ روحانی علم کی اہلیّت رکھتے ہیں، ان کو یہ علم دیا گیا، اس میں سخت (روحانی) جنگ ہے، اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں ۔۔۔۔۔

 

۲۔ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ داؤدؑ کے لئے لوہے کو مثلِ موم نرم کر دیا تھا (۳۴: ۱۰) یعنی لوہا، روحانیّت، اور علم، تا کہ مکمل زرہیں بنائی جائیں، اس سے معلوم ہوا کہ بکتر (زرّہ) تین قسم کے ہوتے

 

۵۳

 

ہیں: جسمانی، روحانی، اور عقلانی، پھر جنگیں بھی تین ہیں، ان میں سے دو جنگوں کی بہت بڑی اہمیّت ہے، وہ حربِ روحانی اور حربِ عقلی (علمی) ہیں۔

 

۳۔ میرے جانی اور جگری دوست، علمی ساتھی، اور روحی عزیز کریم امام داد اگرچہ فرانس میں اکیلا نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت میں تنہا نہیں ہیں، ان کے ساتھ روحوں کا بہت بڑا لشکر ہے، ان کی بہت بڑی خوش نصیبی ہے، کہ ان کو حضرتِ امامِ عالی مقام کا مقدّس دیدار ہوتا رہتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہم سب کی روحیں جا کر ان کی آنکھوں سے اپنے امام کا پاک دیدار کرتی ہیں، میں اپنے بہت ہی عزیز دوست کریم امام داد اور ان کے فرزندِ دل بند سلمان کی سلامتی اور ہر گونہ ترقی کے لئے دعا کرتا ہوں۔

 

۴۔ علمی جنگ سب سے بڑی اور سب سے آخری جنگ ہے، اسی لئے سارے قرآن میں ظاہراً و باطناً علم ہی کا ذکر ہے، پس ہوشمند مومن وہ ہے جو بار بار علمی دیدار کے لئے گریہ و زاری کرتا ہے، ہم بیچارے کون ہوتے ہیں کہ علم کے لئے مناجات و عاجزی نہ کریں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول سے فرمایا: وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا (۲۰: ۱۱۴) اور دعا کرو کہ میرے پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے!

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

مارگلہ ٹاورز، اسلام آباد

ہفتہ ۵ محرم الحرام ۱۴۱۹ھ

۲ مئی ۱۹۹۸ء

 

۵۴

 

علمی خط بطرزِ جدید ۔ ۹

 

۱۔ لنڈن میں میرے عزیزان: یا علی مدد! انبیا و اولیا علیہم السّلام اور کاملین و عارفین دنیا ہی میں قیامت، روحانیّت، آخرت، اور بہشت کو دیکھتے اور معرفت حاصل کرتے ہیں، اس کی بہت سی دلیلوں میں سے تین کے لئے دیکھیں: ۱۷: ۷۲، ۴۷: ۰۶، ۷۶: ۲۰، اس کے علاوہ حدیثِ نوافل اور فنا فی اللہ کا تصوّر بھی کریں، جب خدا اپنے بندے کی آنکھ ہو جاتا ہے تو اس حال میں ایسی کون سی چیز ہے جو دکھائی نہ دے؟ اس سے معلوم ہوا کہ خزائنِ الٰہی میں ہر نعمت موجود ہے، جس کو حاصل کرنے کے لئے ہمّت اور علم چاہئے، اور اللہ کی رحمت ہر چیز سے مقدم ہے۔

 

۲۔ بہشت کے لئے نفسِ واحدہ کا قانون اپنی جگہ اٹل ہے، وہ یہ کہ سب کی ولادتِ روحانی اور ولادتِ عقلانی اسی کے عالمِ

 

۵۵

 

شخصی میں ہوتی ہے (۳۱: ۲۸) یعنی لوگوں پر قیامت کے جملہ احوال نفسِ واحدہ کے باطن میں گزرتے ہیں، اور لوگوں سے اللہ کا یہ سوال: “کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟” بھی اسی کے حظیرۂ قدس میں ہوتا ہے، درحالے کہ لوگ پرورش کے اس مقام پر صورتِ رحمان میں فنا ہو کر یک حقیقت ہو جاتے ہیں۔

 

۳۔ یک حقیقت کی سب سے اعلیٰ تعریف یہ ہے کہ وہ صورتِ رحمان ہے، جو بازارِ جنّت کی تصویروں کی تاویل بھی ہے (ہزار حکمت ح ۵۱۲) لنڈن کے عزیزان کو خط لکھتے ہوئے یہ بےمثال تاویل بھی آ گئی کہ ہماری ازلی وحدت صورتِ رحمان ہے کہ وہی سب کی مونوریالٹی ہے، اور وہ حظیرۂ قدس میں موجود ہے، پس اب یہ کہنا قابلِ فہم ہو گیا کہ میں سب عزیزوں میں رہتا ہوں، اور وہ مجھ میں رہتے ہیں، تاہم بہشتِ کلّی میں یہ حقیقت نمایان اور معجزانہ ہو جائے گی۔

 

۴۔ لنڈن میں ہماری اپنی پیاری پیاری روحیں یہ ہیں: ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی، صمصام رشیدہ نور محمد ہونزائی، ظہیر لالانی، عشرت رومی ظہیر، درِ مکنون ظہیر، یہ پانچ فرشتے دوسرے اوصاف کے ساتھ ساتھ لائف گورنرز بھی ہیں، امین کوٹاڈیا، مریم امین، سلمان امین، ابو ذر امین، عبد الرحمان، نعمت رحمان، فرید رحمان، خلیل رحمان، محبوب چتور، فیروزہ محبوب، ذوالفقار جمانی،

 

۵۶

 

فرحت جمانی، رضی الدین جمانی۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

مارگلہ ٹاورز، اسلام آباد

اتوار ۶ محرم الحرام ۱۴۱۹ھ

۳ مئی ۱۹۹۸ء

 

۵۷

 

قصّۂ طالوت کا باطنی پہلو

 

۱۔ بحوالۂ سورۂ بقرہ (۲) آیاتِ کریمہ از ۲۴۶ تا ۲۵۱۔ (۰۲: ۲۴۶ تا ۲۵۱)۔ بیان بطورِ خلاصہ یہ ہے کہ القتال (جنگ = روحانی جنگ) قیامت ہے، اور وہ دینِ حق کی آخری دعوت بھی ہے، مَلِک (بادشاہ) امام ہے، جس کے سوا روحانی جنگ یعنی قیامت ممکن ہی نہیں (۱۷: ۷۱) اور بَعَثَ کا صیغہ بَعْث سے ہے، جس کے معنی ہیں: زندہ کرنا، اٹھا کھڑا کرنا، جی اٹھنا، بھیجنا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرتِ طالوت خدا کے حکم سے مر کر زندہ ہو گیا تھا، چنانچہ خدائے پاک اور اس کے نبی (شموئیل) نے طالوت کو بنی اسرائیل کا بادشاہ (امام) بنا دیا، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو سات عظیم باطنی معجزے قبلاً و بعداً عطا ہوئے، جن کا تذکرہ ذیل کی طرح ہے:

 

۲۔ (الف) مر کر زندہ ہو جانا، یہ بہت بڑا معجزہ ہے، آپ ہماری کتابوں میں اس کی تفصیلات کو دیکھیں، (ب) کائناتی علم، (ج) کائناتی جسم، یعنی جثّۂ ابداعیہ کہ بسطۃ فی العلم و الجسم کا

 

۵۸

 

ارشاد ہے، (د) میراثِ انبیاء، جس میں عظیم روحانی چیزیں ہوتی ہیں، (ھ) امامت جو یکتا اور بےمثال ہوا کرتی ہے کہ زمانے میں امام کی طرح کوئی اور شخص ہو نہیں سکتا، (و) اللہ کی ہدایت، (ز) قیامت یا روحانی جنگ، جس سے ساری کائنات مسخّر ہو جاتی ہے۔

 

۳۔ سورۂ رعد (۱۳: ۰۸) میں ارشاد ہے: وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ= اور ہر چیز اس کے نزدیک ایک خاص اندازے (اور پیمانے) کے مطابق ہے۔ یعنی بہشت کا طول و عرض کائنات کے برابر ہے، علم کی وسعت کائنات کے برابر ہے، کہ اس سے باہر جاننے کے لئے کوئی چیز ہے ہی نہیں، جسمِ لطیف کی سیاحت حدودِ کائنات تک ہے، اور اس آیۂ کریمہ کا اشارہ یہ بھی ہے کہ خود کائنات یا کائناتیں مجموعاً ایک مقدار کے مطابق ہیں، اگرچہ وہ پھیلتی ہیں، لیکن واپس محدود بھی ہو جاتی ہیں، اور خدا وہ قادرِ مطلق ہے جو محدود شیٔ سے لامحدود شیٔ بناتا ہے، جیسے دن رات کے تجدّد سے ہفتہ، مہینہ، سال، صدی، اور بےپایان زمانہ بناتا ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

مارگلہ ٹاورز، اسلام آباد

منگل ۸ محرم الحرام ۱۴۱۹ھ

۵ مئی ۱۹۹۸ء

 

نوٹ: مذکورۂ بالا قرآنی حکمتیں امام شناسی کے لئے بےحد ضروری ہیں۔

 

۵۹

 

عالمِ شخصی کی سلطنت

 

۱۔ حدیثِ معرفت (من عرف) سے اہلِ دانش کو یقین آتا ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اپنی رحمتِ بے نہایت سے عالمِ شخصی کو معرفتِ کلّی کا ذریعہ بنایا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ آسمانوں اور زمین (کائناتِ لطیف) کو عارف کے ع ش ؎۱ میں لپیٹ دیتا ہے تاکہ اس کو اپنی ذات ہی میں گنجِ معرفت حاصل ہو، اور یہ اپنے بندوں پر حضرتِ ربّ العزّت کا انتہائی عظیم احسان ہے، اگرچہ عنوانِ معرفت میں ظاہراً خود شناسی کا ذکر ہے، لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ مومنِ سالک سب سے پہلے فنا فی الامام کی عظیم سعادت حاصل کرے، تا کہ وہ اسی وسیلے سے فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کے سب سے اعلیٰ مقصد کو حاصل کر سکے، اس وسیلے کے بغیر عالمِ شخصی اور کائنات کی تسخیر ممکن ہی نہیں۔

 

۲۔ حضرتِ مولا علی علیہ السّلام نے اپنے دیوان میں ارشاد

 

۶۰

 

فرمایا ہے: کیا تیرا یہ گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں (بحدِّ قوّت) عالمِ اکبر سمایا ہوا ہے؟ پس ہم یقین سے کہتے ہیں کہ جو نیک بخت سالکین “فنا فی الامام” جیسی انتہائی مشکل ریاضت میں کامیاب ہو جاتے ہیں، وہ چشمِ باطن سے قیامت کے تمام عظیم معجزات کو دیکھتے ہیں، ان کو حشر و نشر سے متعلق ہر سوال کا جواب عملی طور پر ہی مل جاتا ہے، الغرض قیامت ظاہری نہیں، بلکہ باطنی اور روحانی ہے، جس سے عالمِ شخصی میں سلطنتِ روحانی قائم ہو جاتی ہے۔

 

۳۔ عالمِ شخصی کی عجیب و غریب مثالوں میں روحانی سلطنت کی مثال بھی بہت بڑی اہمیّت کی حامل ہے، جو کئی ناموں سے ہے، چنانچہ سب سے پہلے سلطنتِ روحانی حضرتِ آدم علیہ السّلام کو عطا ہوئی، جو خلافتِ الٰہیہ کے نام سے تھی، کیونکہ دین کا ہر ضروری دستور سنّتِ الٰہی کے مطابق شروع ہی سے جاری ہوتا ہے، نہ آنکہ بعد میں پیدا ہو جاتا ہے، یعنی آلِ ابراہیم اور آلِ محمد کو خدا نے جو عظیم بادشاہی عطا کی (۰۴: ۵۴) وہ اللہ کی عنایت زمانۂ آدم ہی سے چلی آئی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفے کو اہلِ زمانہ سے برگزیدہ کر کے سلطنتِ روحانی سے سرفراز فرمایا تھا (۰۳: ۳۳)۔

 

۴۔ علیٔ زمانؑ یقیناً محمد رسول اللہ کے علم و حکمت کا دروازہ ہے، لہٰذا جو مومنِ سالک امامِ مبین (۳۶: ۱۲) میں فنا ہو جاتا ہے، وہ اپنے

 

۶۱

 

عالمِ شخصی ہی میں حضرتِ امامِ عالی مقامؑ کی روحانی بادشاہی کے بے شمار عجائب و غرائب اور زبردست معجزات کو دیکھتا رہتا ہے، ہر معجزہ علم و حکمت سے لبریز ہوتا ہے، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ امام کے پاس قرآن کی روح و روحانیّت موجود ہے، اس معنیٰ میں وہ قرآنِ ناطق اور نور برائے کتابِ مبین ہے، پس حضرتِ امامِ اقدس و اطہر سے براہِ راست قرآنی تاویل کا گرانمایہ فائدہ حاصل کرنا ہے تو آپ عشق و محبّت اور علم و اطاعت سے اپنے امامِ وقت میں فنا ہو جائیں، یہی ایک فنا خوش بختی سے آپ کے لئے تین فناؤں کا کام کرے گی۔

 

۵۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ قصّۂ طالوت کے باطن میں کیسے کیسے کنوزِ جواہر پنہان ہیں! میں علیٔ زمان علیہ السّلام کے علمی معجزات کو بیان بھی کرتا ہوں، اور بہت ڈرتا بھی ہوں کہ کہیں ہم سب سے ان باطنی نعمتوں کی ناشکری اور بےقدری نہ ہو جائے، آپ سب کے سب نیک توفیق کے لئے دعا اور مناجات کریں، اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کے لئے انتہائی کوشش بھی کریں کہ علم میں بڑے مضبوط ہو کر سب کی پُرخلوص علمی خدمت انجام دے سکیں، تا کہ اسی طرح عملی شکرگزاری ہو۔

 

۶۔ حضرتِ امام علیہ السّلام مظہر العجائب و الغرائب ہے، اس کا فرمان ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی، قولاً بھی ہے اور فعلاً بھی،

 

۶۲

 

واضح الفاظ میں بھی ہے اور خاموش اشارات میں بھی، لہٰذا کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں کسی خاص کام کا حکم دیا گیا ہو، اور ہم غافل رہیں، یقیناً ہمیں بہت بڑی ذمّہ داری اور عظیم خدمت سونپی گئی ہے۔

 

۷۔ اے عزیزانِ من! اگر حضرتِ امامِ اقدس اپنے کسی مرید کو نورانی علم عطا کرتا ہے تو اس میں کوئی مصلحت و حکمت ہوگی، اور یہ پروگرام امام ہی کا ہوگا پھر ایسے مرید کو کسی چیز سے خوفِ بےجا کیوں ہونا چاہئے، ان شاء اللہ، علم کی روشنی پھیلانے سے مخالفانہ سوالات کم ہوتے جائیں گے، اور حقیقی علم سے دلچسپی رکھنے والوں کو کافی مدد ملے گی، الحمد للہ۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

مارگلہ ٹاورز، اسلام آباد

بدھ ۹ محرم الحرام ۱۴۱۹ھ

۶ مئی ۱۹۹۸ء

 

نوٹ: ؎۱ ع ش = عالمِ شخصی

 

۶۳

 

قصّۂ آدم میں دعوتِ باطن

 

۱۔ حضرتِ آدم علیہ السّلام (ناطقِ اوّل) کے قصّے میں دعوتِ حق کے بڑے بڑے اسرار پوشیدہ ہیں، جیسا کہ قرآنِ حکیم (۰۲: ۳۰) میں ارشاد ہے:وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ = اور (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں۔ حکمتِ اوّل: اس آیۂ شریفہ میں ہر آدم کا اشارہ بھی ہے اور آدمِ دور کا قصّہ بھی۔ حکمتِ دوم: “ارض” سیّارۂ زمین بھی ہے، عالمِ شخصی بھی، کائنات بھی ہے، نفسِ کلّی بھی ہے، اور عقلِ کلّی بھی۔ حکمت سوم: یہ بھی ایک بہت بڑا راز ہے کہ آدم کی خلافت آسمان پر بھی تھی، ان شاء اللہ ہم اس کی دلیل پیش کریں گے۔

 

۲۔ جب اللہ تعالیٰ کی سنتِ قدیم ایک جیسی ہے، اور اس میں کبھی کوئی تبدیلی ممکن نہیں، تو پھر خلافتِ الٰہیہ ہمیشہ کی چیز ثابت

 

۶۴

 

ہوتی ہے، یہ کبھی نبوّت کے نام سے ہے، اور کبھی امامت کے نام سے، لیکن خلافتِ کبریٰ کا سلسلہ دنیا میں ہمیشہ جاری ہے، کیونکہ اس کے دوام کی علامت “ارض” ہے، پس جب تک ارض (زمین، یعنی عالمِ انسانیت) موجود ہے، تب تک خلافتِ آدم کا سلسلہ جاری رہے گا، کیونکہ اس سے نورِ ہدایت مراد ہے، اور لوگوں کے لئے ہمیشہ ہدایت کی سخت ضرورت رہتی ہے۔

 

۳۔ سیارۂ زمین کوخلافتِ آدم و اولادِ آدم کے دوام کی علامت اور حد قرار دینا گویا درسِ اوّل کے طور پر درست ہے، اور اس سے آگے ترقی کی تعلیم یہ ہے کہ خدا کی زمین مجموعاً بےنہایت وسیع ہے، کیونکہ ہر عالمِ شخصی، ہر سیّارہ، ہر ستارہ، فضائے محیط، کائنات، عالمگیر روح، اور عالمگیر عقل اس کی زمین ہے، اور کوئی شک ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی وہ زمین، جس کی وسعت کی تعریف قرآنِ حکیم خود فرماتا ہے یہی ہے (۲۹: ۵۶، ۳۹: ۱۰) پس خلافتِ کبریٰ درپردہ خدا ہی کی بادشاہی ہے، جو قدیم ہے، جس میں نہ صرف انسانوں ہی سے بلکہ فرشتوں سے بھی بہت بڑا علمی امتحان ہے۔

 

۴۔ آدم علیہ السلام کی تخلیق دوسرے انسانانِ کامل ہی کی طرح تین مرحلوں میں ہوئی: جسمانی تخلیق، روحانی تخلیق، اور عقلانی تخلیق، آخری (عقلی) تخلیق حظیرۂ قدس میں ہوئی، جس میں خدا نے اس کو

 

۶۵

 

صورتِ رحمان پر پیدا کیا، اب وہ آئینۂ صفاتِ الٰہی ہوگیا، اسی مقام پر وہ فرشتوں کو علم الاسماء کی تعلیم دیتا تھا، اور یہی وہ جگہ ہے جہاں فرشتوں نے آدم کو آخری بار سجدہ کیا۔

 

۵۔ جب بموجبِ حدیثِ شریف یہ حقیقت ہے کہ قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، تو پھر ہم باطن کی تلاش سب سے پہلے قصّۂ آدم میں کیوں نہیں کرتے ہیں؟ کیونکہ دعوتِ باطن کا آغاز یہیں سے ہو جاتا ہے، جبکہ ہر ناطق، ہر اساس، اور ہر امام اپنے اپنے وقت کے آدم ہیں، ان میں سے ہر ایک میں خدا اپنی روح پھونکتا ہے، جس طرح آدمِ دور میں اس نے اپنی روح پھونک دی تھی (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) خدا کی روح سے اس کا نور مراد ہے، روح پھونکنے اور صور پھونکنے کے لئے ایک جیسا لفظ (نفخ) آیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب جب کسی کامل میں روحِ قدسی ڈالنے کا وقت آتا ہے تب حضرتِ اسرافیل علیہ السّلام صورِ قیامت پھونکتا ہے، یہی وہ سرِاعظم ہے جو عوام کے علم سے بالاتر ہے۔

 

۶۔ چار قسم کے فرشتوں کا پتا چلا ہے: ذرّاتی فرشتے، جسمانی فرشتے، روحانی فرشتے، اور کائناتی فرشتے (اجرامِ فلکی) ان سب فرشتوں نے آدم خلیفۃ اللہ کے لئے اپنے اپنے طور سے سجدہ کیا، اور سجدہ کے اصل معنی ہیں اطاعت کرنا، ہر پیغمبر اور ہر امام کے لئے جملہ ملائکہ سجدہ کرتے ہیں، یہ سجدہ اس روح

 

۶۶

 

کے لئے ہے، جس کا اوپر ذکر ہوا، اور وہ زندہ نور ہے، نور کی بہت بڑی تعریف یہ ہے کہ اس میں تمام صفاتِ الٰہیہ جمع ہیں۔

 

۷۔ سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۳) میں دیکھئے: اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ = خدا نے آدم اور نوح اور خاندانِ ابراہیم اور خاندانِ عمران کو تمام جہان کے لوگوں میں منتخب فرمایا تھا۔ اس سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ زمانۂ آدم میں بھی لوگ تھے، جن میں سے اللہ تعالیٰ نے آدم کا انتخاب فرمایا، جس کی مثال باقی حضرات کے انتخاب ہی کی طرح ہے، اگر آدم کے وقت میں لوگ نہ ہوتے تو یوں نہ فرمایا جاتا، اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے لئے رشد و ہدایت اور علم و حکمت کا سرچشمہ جاری رہے۔

 

۸۔ قصۂ آدم میں دعوتِ باطن اس طرح سے ہے کہ جو خلافتِ کبریٰ حضرتِ آدم علیہ السّلام کو عطا ہوئی تھی، اس میں مرتبۂ نبوّت اور مرتبۂ امامت دونوں کے اسرارِ جمع تھے، سجدۂ فرشتگان ہر قسم کی اطاعت و فرمانبرداری کے معنی میں تھا، اور سجود و اطاعت کرنے والے فرشتے بطورِ خاص مومنین ہی تھے، اس سے معلوم ہوا کہ قصّۂ آدم میں نبیٔ پاک اور امامِ عالی مقام کے اسرار پوشیدہ ہیں۔

 

۹۔ آپ قرآنِ حکیم میں سنّتِ الٰہی کے مضمون کو خوب غور

 

۶۷

 

سے پڑھیں، اور سورۂ مومن کے آخر (۴۰: ۸۵) میں خاص طور سے دیکھ لیں، تا کہ یہ معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کی سنّت (عادت) کسی تبدیلی کے بغیر اس کے خاص بندوں کے عوالمِ شخصی میں ایک ہی شان سے چلی آئی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلافتِ آدم کے زندہ حقائق و معارف آج بھی ہیں، ان کو جو مومنین و مومنات دیکھنا چاہیں تو اپنی ذات یعنی عالمِ شخصی میں دیکھ سکتے ہیں، اگرچہ یہ کام سخت مشکل ہے، لیکن ناممکن نہیں۔

 

۱۰۔ زمانۂ ماضی میں دنیوی بادشاہوں کو ظلِ الٰہی کہا جاتا تھا، اس میں کوئی حقیقت نہ تھی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر نبی اور ہر ولی (امام) اپنے وقت میں ظلِّ الٰہی (سایۂ خدا) ہوا کرتا ہے، مگر یہ نکتہ یاد رہے کہ اس سائے میں روشنی ہی روشنی ہے، کیونکہ جب خورشیدِ انور کا سایہ نہیں ہوتا، بلکہ عکس ہوتا ہے، تو معلوم ہوا کہ ظلِ الٰہی سے نورِ منزل (۰۵: ۱۵) مراد ہے، آپ ظلِ الٰہی سے متعلق آیۂ کریمہ کے لئے سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵) میں دیکھیں، اور سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں بھی، پس جس انسانِ کامل کو بحقیقت ظلِّ الٰہی کہنا چاہئے، وہی مظہرِ صفاتِ خدا اور آئینۂ جمالِ کبریا بھی ہے۔

 

۱۱۔ یقیناً یہ ایک بہت بڑا راز ہے کہ خداوندِ قدّوس نے حضرتِ آدمؑ کو ساری کائنات کی خلافت سے سرفراز فرمایا تھا، اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سارے آسمانوں اور زمین کو

 

۶۸

 

آدم کے عالمِ شخصی میں لپیٹ دیا، یہی تسخیرِ کائنات بھی ہے (۴۵: ۱۳) خداوندِ عالم نے حضرتِ آدمؑ کو علم الاسماء سکھایا تھا، جس کی روشنی میں وہ دیکھ رہا تھا کہ اسمائے صفاتی کس طرح کام کر رہے ہیں، مثلاً القابض کے فعل سے آسمان اور زمین باہم مل کر اللہ کی مٹھی میں آتے ہیں، اور الباسط کے مطابق واپس ہو کر اپنی اپنی جگہ پر پھیل جاتے ہیں، اس سے آسمان و زمین کے رتق و فتق (۲۱: ۳۰) کا سِرّ بھی منکشف ہو گیا۔

 

۱۲۔ خدائے بزرگ و برتر کی بےمثال اور لازوال بادشاہی میں دو انتہائی حیران کن چیزیں ہیں، وہ قانونِ درجات اور قانونِ مساوات ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ جب جب حظیرۃ القدس میں کائنات کو لپیٹتا ہے، تو اس سے گوہرِعقل میں سب کی مساوات (ہمسری = برابری = یک حقیقت) ہو جاتی ہے، اور جب اس کو پھیلاتا ہے تو بےشمار درجات ہو جاتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی خدائی میں نہ صرف درجات ہیں، بلکہ مساوات بھی ہے۔

 

۱۳۔ شیاطین دو قسم کے ہوا کرتے ہیں: شیاطینِ انسی اور شیاطینِ جنّی (۰۶: ۱۱۲) ان کو خدا نے ہر نبی کا دشمن بنا دیا تھا، اور اس میں بہت بڑی حکمت ہے، یہی قانون حضرتِ آدم علیہ السّلام کے لئے بھی مقرر تھا، شیاطین کی جنگ اگرچہ بڑی سخت اور مکر و فریب سے پُر ہوتی ہے، لیکن بالآخر کلّی فتح خدا کے دوستوں

 

۶۹

 

کی ہوتی ہے۔

 

۱۴۔ آدم و حوّا اور بہشت کی چند تاویلات میں سے ایک تاویل یہ ہے کہ عقل و روح عالمِ شخصی میں آدم و حوّا ہیں، اور حظیرۂ قدس بہشت ہے، پھر آپ قرآنِ پاک (۰۲: ۳۵) میں دیکھیں، آیۂ شریفہ کا ترجمہ یہ ہے: اور ہم نے کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو بےروک ٹوک کھاؤ (پیو) لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا، نہیں تو ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔

 

۱۵۔ دائرۂ آب یعنی پانی کے بارے میں آپ نے سوچا ہوگا کہ وہ اپنے بہت سے اجزاء کا “کل”  ہے، اور کلّ کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کئی متضاد صفات کا حامل ہوا کرتا ہے، جیسے پانی کہ وہ بیک وقت بلند بھی ہو رہا ہے اور پست بھی، وہ کہیں ٹھنڈا ہے اور کہیں گرم، وہ ٹھہرا ہوا بھی ہے اور جاری بھی، وہ منجمد بھی ہے اور سیال بھی، وہ قطرہ بھی ہے اور دریا بھی، پس میں اس آفاقی دلیل کی روشنی میں یہ کہوں گا کہ حضرتِ آدم انائے سفلی میں بہشت سے باہر آیا، لیکن انائے علوی میں بہشت ہی میں تھا، یاد رہے کہ قصّۂ آدم سب سے بڑا امتحان ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

مارگلہ ٹاورز، اسلام آباد

پیر ۱۴ محرم الحرام ۱۴۱۹ھ

۱۱ مئی ۱۹۹۸ء

 

۷۰

 

نورِ منزل اور کتابِ مبین

 

اے عزیزانِ با سعادت! اے عاشقانِ نورِ ہدایت! آپ نے بارہا نورِ منزّل کے بارے میں سنا ہے اور پڑھا ہے، البتہ ہر بار اس کی ایک نئی شان اور ایک جدید تجلّی تھی، یہی تو قرآنِ حکیم کی خاصیت ہے کہ اس کے عجائب و غرائب کبھی ختم نہیں ہوتے، اور آج بھی (ان شاء اللہ) ایسی ہی ہوگی، آئیے ہم یہاں کلامِ الٰہی کی روشنی میں اس بات کی تحقیق کرتے ہیں کہ آیا کتابِ ظاہر نور ہے یا صاحبِ کتاب؟ یا دونوں الگ الگ نور ہیں؟ یا باطن میں دونوں کا ایک ہی نور ہے؟ اس کا جوابِ شافی قرآنِ حکیم (۰۵: ۱۵) میں موجود ہے، وہ اس طرح سے ہے: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌ = اللہ کی طرف سے تمہارے پاس نور اور واضح کتاب آئی ہے (۰۵: ۱۵) اس آیۂ شریفہ سے معلوم ہوا کہ معلّمِ کتاب (رسولِ پاک) نور ہیں اور قرآنِ مقدس کتاب، لیکن آنحضرت کے باطن میں قرآن بھی روح اور نور ہے (۴۲: ۵۲)۔

 

۷۱

 

۲۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نزولِ قرآن سے پہلے ہی نور ہو چکے تھے، بعد ازان آپ کے قلبِ مبارک پر بتدریج روحِ قرآن نازل ہوئی، اور خدا نے اسی زندہ روح سے قرآن کا باطنی نور بنایا، یہ حکمتی مفہوم سورۂ شوریٰ کے آخر (۴۲: ۵۲) میں ہے، جس کو سمجھنا از بس ضروری ہے، پس یہ حقیقت ہے کہ اللہ کا کلام (قرآن) ظاہراً ایک مقدّس کتاب اور باطناً ایک زندہ نور ہے، لیکن آپ یہ حقیقت کبھی بھول نہ جائیں کہ باطن میں جو کتاب کا زندہ نور ہے، وہ معلّمِ کتاب کے نورِ باطن کے ساتھ متحد ہے، کیونکہ انوار کے آپس میں وحدت ہوتی ہے۔

 

۳۔ یہ حکمت ہمیشہ کے لئے خوب یاد رہے جو بےحد ضروری ہے کہ آسمانی کتاب ناطق، اساس، اور امام کے باطن میں زندہ روح اور زندہ نور کی صورت  میں ہوتی ہے، یہی اشارۂ حکمت قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ موجود ہے، جیسے سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵، ۰۵: ۴۴، ۰۵: ۴۶) میں ہے، کہ قرآنِ عزیز سے پہلے تورات اور انجیل اسی طرح ناطق، اساس، اور امام کے باطن (عالمِ شخصی) میں نور تھیں، چنانچہ آیۂ کریمہ کا ترجمہ ہے: ہم نے (موسیٰ کے باطن میں) تورات کو نازل کیا جس میں ہدایت اور نور تھا، انبیا جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیا تھا اسی (باطنی تورات) کے مطابق یہودیوں میں فیصلہ کرتے تھے، اور (اسی طرح) ربّانیون

 

۷۲

 

(أئمّہ) اور احبار (دعاۃ = داعیان) بھی اس کتاب کے مطابق حکم کرتے تھے جو ان کے سپرد تھی اور وہ اس پر گواہ تھے ۔۔۔۔ (۰۵: ۴۴)۔

 

۴۔ آپ دعائم الاسلام (عربی) جلدِ اوّل، ص ۳۶ پر دیکھیں کہ ربّانیون اور احبار کا ترجمۂ بالا حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام کے ارشاد کے مطابق ہے، پس روحانی تورات، انبیاء، أئمّہ، اور دعاۃ کے عالمِ شخصی میں سپرد تھی، لہٰذا وہ حضرات اس کی روح و روحانیّت اور نور و نورانیّت کو دیکھ رہے تھے، اسی لئے وہ اس پر گواہ تھے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ناطق کے بعد اساس، امام، باب، حجّت، اور داعی کے آئینۂ دل پر نورِ قرآن کا عکس پڑتا رہتا ہے، یعنی یہ حدودِ دین وہ ہیں، جن میں اوپر سے نیچے کی طرف ایک روحانی انقلاب آتا ہے، جس میں قرآن کی باطنی نعمتیں بھری ہوئی ہیں۔

 

۵۔ انجیل کے بارے میں ارشاد ہے: اور ہم نے عیسیٰ کو انجیل دی جس میں ہدایت اور نور تھا (۰۵: ۴۶) یعنی جو انجیل حضرتِ عیسیٰؑ کے عالمِ شخصی میں تھی، اسی میں روحانی ہدایت اور بولنے والا نور تھا، نور کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے کہ نور خود اللہ تعالیٰ ہے، جیسے ارشاد ہے: اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (۲۴: ۳۵) یعنی خدا عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ پس اللہ کا وہ پاک کلام نور تھا، جو باطن اور روحانیّت

 

۷۳

 

میں حضرتِ عیسیٰؑ کو سنائی دیتا تھا، کبھی کلام کی جگہ رویت کا اشارہ (وحی) ہوتا ہے، اور کبھی کلام کا مظہر فرشتہ، نبی، اساس، اور امام، یہ تجلّیاتِ نور کی ایک مختصر تعریف ہے۔

 

۶۔ سورۂ انبیاء (۲۱: ۴۸) میں ارشاد ہے: وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَ = اس فرمانِ خداوندی میں ان تین عظیم نعمتوں کا تذکرہ ہے جو اللہ جلّ شانہ کی طرف سے حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیہما السّلام کو عطا ہوئی تھیں، وہ ہیں: فرقان (مجموعۂ معجزات) نور، اور ذکر (اسمِ اعظم = مجموعۂ اسماء الحسنیٰ = نصیحت) انہی معنوں میں باطنی تورات بھی پوشیدہ ہے، اور یقیناً یہ سب سے اعلیٰ نعمتیں حدودِ دین کو بھی درجہ وار حاصل ہوتی تھیں، کیونکہ متّقین سے حدودِ دین مراد ہیں۔

 

۷۔ سورۂ مائدہ (۰۵: ۴۸) میں ارشاد ہے: وَاَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مُهَیْمِنًا عَلَیْهِ = اور اس کتاب کو ہم نے حق کے ساتھ تم پر نازل کیا جبکہ یہ گزشتہ کتب کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی محافظ اور نگہبان ہے۔ اگلی کتابوں کی اصل صورت باطن اور روحانیّت میں تھی، قرآن اسی صورت کی تصدیق کرتا ہے، نہ کہ کسی تحریف شدہ کتاب کی، اور اللہ تعالیٰ کی یہ پاک کتاب

 

۷۴

 

سابقہ کتبِ سماوی کی محافظ اس طرح سے ہے کہ ان کتابوں کی زندہ روح اور نور اس کتاب کی روح اور نور میں موجود اور محفوظ ہیں، کیونکہ روح میں روحیں ہو سکتی ہیں، اور نور میں انوار۔

 

۸۔ ناطق، اساس، اور امام کے نورِ اقدس میں کتبِ سماوی کی روحانیّت اور نورانیّت تجدّدِ امثال کا مظاہرہ کرتی رہتی ہیں، جس سے ان حضرات کو ہر آسمانی کتاب کے جملہ اسرار روشن ہو جاتے ہیں، مگر سوال ہے باب، حجّت، اور داعی کے بارے میں کہ یہ صاحبان کتابِ سماوی کی زندہ روح اور زندہ نور کو دیکھتے ہیں یا نہیں؟ اگر دیکھتے ہیں تو کس حد تک؟ اس کا ایک اعلیٰ جواب تو آچکا ہے، پھر بھی مزید معلومات کی غرض سے بہت سے جوابات مہیا ہو سکتے ہیں، منجملہ مریم سلام اللہ علیہا کا قرآنی قصّہ بطورِ جواب بہت مناسب ہے، کیونکہ وہ واقعاً باب، حجّت، اور داعی کی مثال ہے، آپ درجِ ذیل قرآنی حقائق و معارف کو دیکھیں جو مریم سے متعلق ہیں:۔

 

۹۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مریم کو روحانی ترقی کی غرض سے اسمِ اعظم دیا گیا تھا، قرآنِ پاک (۰۴: ۱۷۱) میں اسمِ بزرگ کو کلمۃ اللہ اور روح اللہ کہا گیا ہے، جس میں حضرت عیسیٰؑ کا نور تھا، دوسری بات: فرشتے صرف انبیاء و اولیاء علیہم السّلام سے کلام کرتے ہیں، مریم علیہا السّلام اولیاء اللہ میں

 

۷۵

 

سے تھی، اس لئے فرشتوں نے اس سے نہ صرف کلام کیا، بلکہ کئی بڑی بڑی بشارتیں بھی دیں، اور ان میں ایک بشارت یہ بھی ہے: اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم ! خدا نے تجھے چنا اور پاک کیا اور تمام جہان کی عورتوں پر برتری اور فضیلت دی (۰۳: ۴۲) یعنی خدا نے مریم کو تمام تر فضیلتوں کے ساتھ ساتھ خزانۂ علم و معرفت سے مالامال بھی فرمایا تھا، کیونکہ خدا جس کو پاک کرتا ہے، وہ جسماً، روحاً، اور عقلاً پاک ہو جاتا ہے، اور جو عقلی طور پر پاک کیا گیا ہو، وہ کتابِ مکنون کو ہاتھ میں لے سکتا ہے، جس میں آسمانی کتاب کے سارے اسرار جمع ہیں (۵۶: ۷۷ تا ۷۹)۔

 

۱۰۔ مریم سلام اللہ علیہا کا آسمانی ٹائٹل “صدیقۃ” ہے (۰۵: ۷۵) حکمت کی زبان میں اس کے معنی ہیں: ایسی عالی مرتبت خاتون جو کتبِ سماوی کی تاویل سے انبیاء علیہم السّلام کی تصدیق کرتی ہے، جیسا کہ سورۂ تحریم (۶۶: ۱۲) میں ہے: اسی طرح مریم بنتِ عمران کی مثال بیان فرمائی ہے جس نے اپنی (ظاہری و باطنی) شرمگاہ کی حفاظت کی تھی، پھر ہم نے اس کے اندر اپنی روح میں سے پھونک دی (یعنی صورِ اسرافیل اور قیامِ قیامت سے یہ کام کیا گیا) اور اس نے اپنے ربّ کے کلماتِ تامّات (اور اسمائے عظام) اور اس کی کتابوں کی (تاویلی) تصدیق کی اور وہ (حقیقی) فرمانبرداروں میں سے تھی۔

 

۷۶

 

۱۱۔ مریم کے پاس نہ تو نبوّت تھی اور نہ ہی امامت، لیکن اس کی ذات میں باب، حجّت، اور داعی کی روشن مثالیں تھیں، ساتھ ہی ساتھ اس کی شخصیّت میں قرآن و حدیث کی عظیم المرتبت عورتوں کا نمونہ بھی تھا، مثلاً خدیجۃ الکبریٰ، فاطمۃ الزھرا، وغیرہ، چنانچہ قرآن و روحانیّت کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مریم کی روحانی ترقی منزلِ مقصود (حظیرۂ قدس) تک ہو چکی تھی (۲۳: ۵۰) اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرتِ عیسیٰ ابنِ مریمؑ اور ان کی والدہ کو اپنی آیت اور آخری منزل کا نشان بنا دیا تھا۔

 

۱۲۔ نورِ باطن کا یہ کام ہے کہ وہ پاک و پاکیزہ دلوں میں طلوع ہوتا رہتا ہے، اس مقالے کو اچھی طرح سے پڑھ کر آپ یہ بتائیں کہ نور میں کیا نہیں ہے؟ اگر آپ سب یہ کہتے ہیں کہ نور میں سب کچھ ہے، تو پھر قرآن، حدیث، اور فرمان کی روشنی میں علم الیقین حاصل کریں، تا کہ اس کے بعد عین الیقین اور حق الیقین حاصل ہو، تا کہ یہ مشاہدہ ہو سکے کہ یہی نور بالآخر مومنین و مومنات کا نور ہو جاتا ہے (۵۷: ۱۲، ۵۷: ۱۹، ۶۶: ۰۸)۔

 

۱۳۔ جسمانی چیزیں اپنی اپنی جسامت کے مطابق جگہ گھیر لیتی ہیں، اس لئے کسی محدود جگہ میں تمام مادّی اشیاء سما نہیں سکتی ہیں، اس کے برعکس روحانی چیزیں لامکانی ہیں، ان کے

 

۷۷

 

لئے مکان (جگہ) کوئی مسئلہ نہیں، لہٰذا ایک ہی روحِ قرآن (۴۲: ۵۲) میں جملہ آسمانی کتابیں سما سکتی ہیں، اسی معنیٰ میں قرآنِ کریم کی صفت مھیمن (محافظ = نگہبان) ہے (۰۵: ۴۸) اور خدا کا ایک اسمِ صفت بھی مھیمن ہے (۵۹: ۲۳) اور قدرتِ خدا کے تمام معجزات پر یقین رکھنے کے لئے مرتبۂ امامت کا یہ کلّیہ ہے: وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) مولا علیؑ کا فرمان ہے: انا الذی عندی الف کتاب من کتب الانبیاء = یعنی میں ہوں وہ شخص جس کے پاس انبیا علیہم السلام کی کتابوں میں سے ہزار کتابیں موجود ہیں (کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت ۳۳)۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

ہفتہ ۱۹ محرم الحرام ۱۴۱۹ھ

۱۶ مئی ۱۹۹۸ء

 

۷۸

 

ایل۔ اے۔ ایس۔

 

۱۔ LITTLE ANGELS’ SOLDIERS  یہ دانشگاہِ خانۂ حکمت کے بےحد پیارے اطفال کا ادارہ ہے، جس کی تاسیس آج ۲۴ مئی ۱۹۹۸ء کو ہوئی، کل کی بات ہے کہ جب ہم لنڈن کے ائیرپورٹ پر پہنچ گئے تو علمی لشکر کے سب سے اہم دستے نے بہترین اور خوبصورت ترین گلدستوں کے ساتھ ہم کو گھیر لیا، ہم یکایک ملاقات کی طوفانی خوشیوں میں مستغرق ہو گئے، یا اللہ! تو نے اپنے بندوں کے لئے کیسی کیسی پُرلذّت نعمتیں بنائی ہیں! اے خدا تو گواہ ہے کہ ادھر پاکستان کے تمام دوستوں نے بھی ہم کو شادمانی کی دولت سے مالامال فرمایا ہے، اور امریکہ کے احباب کے لئے جو توصیفی خطوط لکھے گئے تھے، وہ موجود ہیں۔

 

۲۔ لنڈن کے علمی پروانوں نے پھول اور گلدستے سب کے سب اپنے نہایت پیارے بچوں کے ہاتھوں میں دیئے تھے، جس سے خوبصورت بچوں کے آئینۂ رخسار میں بھی پھول ہی پھول نظر

 

۷۹

 

آتے تھے، اس پُرکشش منظر نے مجھے خصوصی دعوتِ فکر دی، جس کے نتیجے میں یہاں کے تمام عزیزان کو میری یہ تجویز بہت ہی پسند آئی کہ ہم اپنے ادارے کے بےحد پیارے اطفال کے لئے ایل۔ اے۔ ایس کے نام سے ایک چھوٹا سا جدید ادارہ بنائیں گے، جس کا آغاز مرکزِ علم و ادب لنڈن سے ہو گا، جس کے ارکان کے اسمائے گرامی درجِ ذیل ہیں:۔

 

۱۔ درِ مکنون ظہیر                     ۲ سال

۲۔ خلیل علی رحمان رینر            ۴ سال

۳۔ ابو ذر علی امین محمد              ۱۰ سال

۴۔ فرید رحمان رینر                    ۱۰ سال

۵۔ شازیہ محبوب چتور                 ۱۰ سال

۶۔ سلمان کریم امین محمد            ۱۳ سال

۷۔ رضی الدین ذوالفقار                 ۱۴ ماہ (کانڈیڈیٹ)

 

۳۔ مذکورۂ بالا میٹنگ میں میرا دوسرا مشورہ بھی پسند کیا گیا کہ اب ہم دانشگاہِ خانۂ حکمت کی ہر کلاس کو وزڈم سرچ (WISDOM SEARCH) کہا کریں گے، تا کہ یہ نام آئندہ تاریخ میں ہمارے بےحد عزیز ساتھیوں کی علمی ترقی کی علامت ہو، یہ ایک روشن حقیقت ہے، اور اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں، مولائے پاک کے فضل و کرم سے ہمارے تمام عزیزان قرآن اور اسلام کی حکمت کی بےمثال

 

۸۰

 

خدمات انجام دے رہے ہیں، اس حقیر و ناتوان خادم نے جہاں دس ہزار صفحات پر خامہ فرسائی کی ہے، وہاں ریسرچ کر کے ضرور دیکھنا ہو گا کہ خاص خاص حکمتیں کتنی ہیں؟ ہزار ہیں یا اس سے بھی زیادہ؟

 

۴۔ حکمت ایک ایسی اعلیٰ و ارفع شیٔ ہے کہ اسی کے ساتھ خیرِ کثیر کی وابستگی ہے، لہٰذا حکمت کی خدمت میں بہت سی خدمات جمع ہیں، پس ہر وہ انسان بڑا خوش نصیب ہے، جو حکمت کی تعلیم حاصل کرتا ہے اور اس کی خدمت کرتا رہتا ہے، آپ قرآنِ حکیم میں مضمونِ حکمت سے متعلق جملہ آیاتِ کریمہ کا بغور مطالعہ کریں، اور تفسیرِ حکمت کے طور پر ہماری تمام کتابوں کو پڑھیں، پس ہماری مجموعی کتابوں کا نام: تفسیرِ حکمت (ان شاء اللہ تعالیٰ) درست ہے۔

 

۵۔ حضرتِ امام علیہ السّلام کا ہر حقیقی مرید پروانۂ چراغِ امامت ہے، چنانچہ ہم نے جب لنڈن ائیرپورٹ پر نورِ عشق کے پروانوں کو دیکھا، تو دل کہنے لگا کہ تم ان تمام بچوں اور بڑوں سے یکبارگی قربان ہو جاؤ، بڑوں میں یہ عزیزان تھے:۔

 

۱۔ ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی صاحب، ۲۔ رشیدہ نور محمد ہونزائی، ۳۔ امین کوٹاڈیا، ۴۔ مریم کوٹاڈیا، ۵۔ رحمان رینر، ۶۔ نعمت رحمان رینر، ۷۔ فیروزہ محبوب چتور، ۸۔ ظہیر لالانی، ۹۔ عشرت رومی ظہیر۔

 

۸۱

 

الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نوٹ: ہماری کتابوں کا مجموعی نام: “تفسیرِ حکمت” ہے، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، لنڈن

۲۴ مئی ۱۹۹۸ء

 

۸۲

 

ہای ایجوکیٹرز

 

۱۔ سورۂ تحریم (۶۶: ۰۶) میں ارشاد ہے:  یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا ۔۔۔۔ = اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو (جہالت و نادانی کی) آگ سے بچاؤ ۔۔۔۔۔ اہلِ دانش کو معلوم ہے کہ جہالت ہی آتشِ دوزخ ہے، جس سے بچنے اور بچانے کا ذریعہ علم ہی ہے، جیسے حدیثِ شریف کے یہ الفاظ ہیں: الجاہل فی النار = نادان (اس وقت بھی) آگ میں ہے۔

 

۲۔ بیانِ بالا سے ظاہر ہے کہ جہالت و نادانی دراصل آتشِ دوزخ ہے، جس سے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و اولاد کو علم کے وسیلے سے بچانا ہر مومن کا فرض ہے، پس اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دانشگاہِ خانۂ حکمت میں ہای ایجوکیٹرز کی ایک تعداد مقرر ہو رہی ہے، چونکہ یہ اہل۔ اے۔ ایس کو تعلیم دینے کا ادارہ ہے، لہٰذا اس میں سب سے چھوٹے چھوٹے بچوں کے والدین

 

۸۳

 

کو اس کارِ خیر کی ذمّہ داری قبول کرنی ہو گی، اگرچہ ماں باپ خود بھی اپنے پیارے بچوں کی تعلیم کے لئے سعی کرتے رہتے ہیں، تاہم ادارے کی سرپرستی سے کئی فائدے ہو سکتے ہیں۔

 

۳۔ ایل۔ جی۔ حسن حیدر علی، وائس پریذیڈنٹ اور ایل۔ جی۔ کریمہ حسن کے فرزند لٹل اینجل سولجر سلمان نے یوسٹن کی ایک مجلس میں کئی تسبیحات پڑھ کر ایک حیرت انگیز کارنامہ قائم کیا، جس کی قدردانی اور ہمت افزائی کے طور پر ایک عالی قدر انعام (یعنی ایک قرآنِ پاک) دیا گیا، جس سے نہ صرف والدین بلکہ تمام عزیزان بےحد شادمان ہو گئے، اور یہی سبب ہے کہ ہمارے دل میں ہای ایجوکیٹر کی تنظیم کا خیال آیا، الحمد للہ۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، لنڈن

۱۶ جون ۱۹۹۸ء

 

۸۴

 

پیغامِ روحانی بزبانِ حال

من جانبِ غزالہ مرحومہ

 

اے قبلہ نہ کر غم کہ یہاں زندہ ہوئی میں

یہ اُس کی نوازش ہے کہ تابندہ ہوئی میں

ہیں حور و پری ساتھ کہ میں خود بھی پری ہوں

اس انجمنِ نور میں خوشیوں سے بھری ہوں

میں دخترِ روحانیٔ مولائے زمان ہوں

شہزادیٔ عالم ہوں مگر سب سے نہان ہوں

ہم نور کی اولاد ابھی نور ہوئے ہیں

دنیا کی مصیبت سے بہت دور ہوئے ہیں

جنّت میں عجب شاہی محل ہم کو ملا ہے

ہم زندۂ جاوید ہوئے فضلِ خدا ہے

شاہوں کی طرح شاد ہیں ہم اس کا کرم ہے

بیماری نہیں، موت نہیں، اور نہ ہی غم ہے

ہاں تیری غزالہ پہ علی سایہ فگن ہے

وہ اس لئے جنّت میں سدا زندہ چمن ہے

صدگونہ خوشی ہے ہمیں دیدارِ علی سے

گنجینہ ملا ہے ہمیں اسرارِ علی ہے

طوفانی خوشی ہے ہمیں، تم ہم پہ نہ رونا

ڈیڈی! ممی! تم کبھی بےصبر نہ ہونا

لینا ہے تمہیں علم و عبادت کا سہارا

ہے دینِ خدائی میں یہی شیوہ ہمارا

کس شان سے آیا ہے یہ پیغامِ غزالہ

روشن ہو زمانے میں سدا نامِ غزالہ

 

غزالہ بنتِ امام یار بیگ، جنرل منیجر، آغا خان ہیلتھ سروسز، پاکستان، ناردرن ایریاز اینڈ چترال۔

غزالہ کی تاریخِ پیدائش: ۱۵ جولائی ۱۹۸۷ء ، تاریخِ وفات: ۸ جنوری ۱۹۹۹ء

 

اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ (۰۲: ۱۵۶)

 

۸۵

 

علمی خط برائے ایل۔ اے۔ ایس۔ ۱

 

۱۔ ہر بچہ والدین کی نظر میں غنچۂ نیم باز اور گلِ نو شگفتہ سے بہت زیادہ حسین و جمیل لگتا ہے، آیا آپ نے کبھی اس پر غور کیا ہے؟ کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ ماں باپ کے دل میں بچوں کی ایسی شدید محبّت کیوں پیدا کی گئی ہے؟ اس کے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں، لیکن سب سے بڑا مقصد کیا ہے؟ ج: بچوں سے والدین کو جیسی بےحد محبّت ہوتی ہے، اس کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ اس قدرتی محبّت کی زبانِ حال سے ہر بچہ اپنے پیارے والدین سے کہتا ہے: اے میرے گرامی قدر ماں باپ! آپ نے میری تعلیم و تربیت کے لئے عزمِ مصمم کر لیا ہو گا، اور اس پر عمل کرنا بےحد ضروری ہے، کیوں کہ محبّت میں بہت سے معانی پنہان ہوتے ہیں، چنانچہ آپ کبھی کہتے ہیں: “میری جان” اگر یہ بات سچ ہے، تو اے مادرِ مشفقہ، اور اے والدِ محترم، اپنی جان یعنی

 

۸۶

 

فرزندِ عزیز کی دینی اور دنیوی بہتری کے لئے بہت کچھ کرنا پڑے گا، اسی طرح آپ کبھی کہتے ہیں: “میں تجھ سے قربان” آپ خوب سوچیں کہ اس کے کیا معنی ہوتے ہیں؟

 

۲۔ قرآنِ حکیم ایک بےمثال ہدایت نامۂ سماوی ہے، اس عظیم اور پاک کتاب میں پُرحکمت ہدایات کی فراوانی ہے، ربّانی رہنمائی کے اس سرچشمے میں اطفال کی بنیادی تعلیم و تربیت کو بہت بڑی اہمیّت دی گئی ہے، چنانچہ والدین کے لئے قرآنِ مجید میں یہ مثالی ہدایت موجود ہے کہ وہ باسعادت اولاد کے لئے ربِّ کریم سے عاجزانہ دعا کرتے رہتے ہیں، اور جب عورت کا حمل ٹھہرتا ہے، تب بھی اولاد کی نیکی کے لئے دعا کرتے رہیں، آپ ان پُرحکمت ہدایات کے لئے دیکھیں: سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۵ تا ۳۸)، سورۂ مریم (۱۹: ۰۱ تا ۰۶)، سورۂ انبیا (۲۱: ۸۹ تا ۹۱)۔

 

۳۔ دعا کی ضرورت بہت پہلے سے ہوتی ہے، مگر بچے کی ظاہری تعلیم و تربیت پیدائش کے بعد اُس وقت شروع ہو جاتی ہے، جبکہ وہ حواسِ ظاہر سے ذرا ذرا کام لینے لگتا ہے، ماں جب اپنے پیارے بچے کو لوری سناتی ہے، اور بچہ جب اس کو محسوس کر سکتا ہے، ایسے میں اگر اس کو لوری کی طرح کوئی مذہبی نظم سنائی جائے تو اس ابتدائی تعلیم سے بہت برکت ہو سکتی ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۲۸، جون ۱۹۹۸ء

 

۸۷

 

علمی خط برائے ہای ایجوکیٹرز ۔ ۲

 

۱۔ الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ، بحیثیتِ مجموعی دانشگاہِ خانۂ حکمت کی بےحد ترقی ہو رہی ہے، ہمارے ساتھیوں اور دوستوں کی بہت بڑی سعادتمندی ہے کہ وہ اس علمی قحط کے زمانے میں حضرتِ قائم القیامت علیہ السّلام کے دسترخوانِ علم و حکمت کو جگہ جگہ پھیلا رہے ہیں، سبحان اللہ! ہمارے عزیزان کتنی عظیم الشّان اور کیسی عالی قدر خدمات انجام دے رہے ہیں! اس مشکل زمانے میں جبکہ ساری دنیا میں مادّی ترقی کا بہت بڑا طوفان برپا ہو چکا ہے، نہ معلوم اس میں اہلِ جہان کی کتنی بڑی اکثریت بہہ گئی اور ڈوب چکی ہے، ایسے میں قرآنی اور روحانی علم و حکمت کی تلوار سے جہالت و نادانی کے خلاف جہاد کرنا کوئی آسان کام تو نہیں۔

 

۲۔ ایل۔ اے۔ ایس۔ اور ہای ایجوکیٹرز کا مقصد ایک ہی ہے،

 

۸۸

 

لہٰذا یہ اس سلسلے کا دوسرا خط ہے، اس میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک ایسی خاص ہدایت کا ذکر کرتے ہیں کہ یہ نہ صرف چھوٹے چھوٹے بچوں کی ہرگونہ سلامتی کے لئے بےحد ضروری ہے، بلکہ بڑوں کو بھی اس کی بہت بہت ضرورت ہے، آنحضرتؐ کا وہ ارشادِ مبارک یہ ہے: اِنَّ قَوۡلَ “لَا حَوۡلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ” کنزٌ من کنوزِ الجنّۃ، و ھو شِفاء مِن تِسعۃ و تِسعینَ داء اوّلھا الھمّ = یہ قول: لَا حَوۡلَ وَ لَا قُوّۃَ اِلّا بِاللہِ العَلِیّ العظیم بہشت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، اور یہ ننانوے (۹۹) بیماریوں کے لئے دوا اور شفا ہے، اس شمار میں سب سے پہلے ھمّ (یعنی غم) ہے (کتاب دعائم الاسلام، عربی، جلدِ ثانی، ص ۳۳۱) کتابِ وجہِ دین کے آخر میں بھی دیکھیں۔

 

۳۔ بہشت کا خزانہ دنیا کے سارے خزانوں سے انتہائی گرانقدر ہوتا ہے، لہٰذا دانشمندی یہ ہے کہ اہلِ ایمان اس بابرکت قول کو کثرت سے پڑھ کر بھرپور فائدہ اٹھائیں اور اپنے بچوں کو بھی سکھائیں، اگر ہم ایمان اور ایقان میں کمزور ہیں تو ہمارے لئے اس کا کوئی بھی معجزہ ظاہر نہیں ہوگا، لہٰذا ہمیں خدا، رسول اور امام سے عشق ہونا چاہئے، تا کہ ہم ہر نورانی ہدایت سے پورا پورا فائدہ حاصل کر سکیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۲۹ جون، ۱۹۹۸ء

 

۸۹

 

عزیزوں کی شیرین یادیں

 

۱۔ الحمد للہ ربّ العالمین، اُس کی رحمتِ بےپایان کی گوناگونی بڑی عجیب شیٔ ہے، بحرِ رحمت کی ہر موج انتہائی حیران کن ہوا کرتی ہے، اسی سمندر میں ساری کائنات ڈوبی ہوئی ہے، اور بحرِ رحمت نورِ علم کے وسیع سمندر میں مستغرق ہے، جس طرح انسانی بدن کا خلیہ خلیہ روح میں غرق ہے، اور روح غریقِ حوضِ عقل ہے۔

 

۲۔ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام نے اس خدا کی تعریف کی، جس نے اپنے کمالِ قدرت سے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی ہے، اس سلسلے میں سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ جو شخص اپنے مرتبۂ اعلیٰ کو پہچانتا ہے وہی اپنے پروردگار کو پہچانتا ہے، یقیناً سرِ اعظم اسی معرفت میں پوشیدہ ہے۔

 

۳۔ ہر مومن کی دانائی اس بات میں ہے کہ وہ حقیقی علم کی دولتِ لازوال کو حاصل کرنے میں ذرا بھی سستی نہ کریں، ورنہ افسوس ہوگا،

 

۹۰

 

بےحد افسوس ہو گا، جبکہ جنّت میں درجات ہوں گے۔

 

۴۔ ہمارے بےحد عزیز ساتھیوں نے حضرتِ امام علیہ السّلام کے باطنی علم و حکمت کی روشنی پھیلانے کے سلسلے میں جتنے کارنامے انجام دیئے ہیں وہ سب کے سب انتہائی انوکھے، نرالے، اور بےمثال ہیں، ان پر دنیا، زمانہ، اور اہلِ زمانہ گواہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ میں اپنے جملہ عزیزوں کو نہ صرف چاہتا ہوں، بلکہ ان سے روحانی اور علمی طور پر فدا (قربان) بھی ہو جاتا ہوں، کیونکہ وہ میرے مولا کے عشاق ہیں، میرے دل کے پیوند، اور روح کی کاپیاں ہیں، ان کی یادیں میرے لئے ازحد شیرین ہیں، لہٰذا میں بار بار ان کو یاد کرتا ہوں، الحمد للہ۔

 

۵۔ جب علمی خدمت تمام خدمات پر بادشاہ ہے تو علمی دوستی جملہ دوستیوں پر بادشاہ کیوں نہ ہو، ہاں اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ہمارے آپس کی دوستی بادشاہ کی طرح عظیم اور بالانشین ہے، یہ نعمت بہشت میں جا کر لازوال ہو جائے گی۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

۸ جولائی ۱۹۹۸ء

 

۹۱

 

آپ سب عزیزان

 

۱۔ آپ سب عزیزان میرے لئے انعامِ خداوندی ہیں، اے میری جانِ شیرین کی کاپیو! تصوّرِ یک حقیقت کی روشنی میں بتاؤ کہ میرے نامۂ اعمال کے زندہ ابواب کون ہیں؟ میری علمی بہشت کے بولنے والے باغات کون سے لوگ ہو سکتے ہیں؟ میرے پاک مولا کے علمی لشکر؟ علیٔ زمان کے نورانی علم کے پروانو! بتاؤ، سچ سچ بتاؤ، زمانے میں حکمتِ قرآن کے عاشقین کون ہیں؟ علمی حرب کے فاتحین کون ہو سکتے ہیں؟ صفِّ اوّل کے مومنین؟ زمانے کے موحدین؟ بندگانِ سلطانِ دین؟ جان نثارانِ امامِ مبین؟ چونکہ یہاں ایک قیامتگاہ ہے اور معرفتِ حضرتِ قائمؑ کی دانشگاہ، لہٰذا دنیا بھر کی روحیں ایک بار پھر جمع ہو گئی تھیں۔

 

۲۔ اے عزیزانِ باسعادت! قرآنِ حکیم کے تمام مضامین کو حکمت کی روشنی میں پڑھنا، اور آزمائش و امتحان کے مضمون کو ضروری طور پر پڑھنا، کیونکہ مومن کی ساری زندگی امتحانی ہے،

 

۹۲

 

دوستانِ عزیز! دریائے علم میں شناوری تو آپ کرتے ہیں، پھر غواصی کون کرے گا؟ کوشش کریں اور عالی ہمتی سے کام لیں کہ اس بحرِ عمیق کی تہ میں درِ یتیم موجود ہے۔

 

۳۔ چشمِ معرفت نے اللہ تعالیٰ کے سب سے بڑے معجزے کو دیکھا ہے کہ وہ قادرِ مطلق بعنوانِ روحانی قیامت ساری کائنات کو قبلاً عالمِ شخصی میں لپیٹتا ہے، اور بعداً وہاں سے حظیرۂ قدس میں مرکوز کرتا ہے، اب وہاں کے عظیم اسرار انتہائی عجیب و غریب ہیں، سبحان اللہ! کاش! ہم گریہ و زاری کے ساتھ ان چوٹی کے اسرار کو بیان کر سکتے! وہ ان کے مقدس آنسو، وہ موتی جیسے آنسو جو عشقِ مولا میں برس رہے تھے، مجھے یاد ہیں، وہ نعرۂ “نارِ عشق نورِ عشق” مجھے یاد ہے، وہ محفل اور اہلِ محفل ہیں، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

گلگت، ذوالفقار آباد

۹ جولائی ۱۹۹۸ء

 

۹۳

 

عزیزوں کا حق

 

۱۔ دینِ اسلام میں ایک جانب حقوق اللہ ہیں، اور دوسری جانب حقوق العباد، ان تمام حقوق کا تفصیلی بیان قرآنِ عزیز میں موجود ہے، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ نہ صرف استاد کا حق شاگردوں پر ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جان نثار شاگردوں کا بھی استاد پر یہ حق ہے کہ وہ ان کو تعلیم دینے کے علاوہ کچھ قدردانی اور حوصلہ افزائی کا اہتمام بھی کرے، تا کہ دانشگاہِ خانۂ حکمت پر تحقیق (ریسرچ) کرنے والے سکالرز کو یہ معلوم ہو سکے کہ اس عظیم ترین کارنامۂ علمی کے سامنے کتنی سخت سے بڑی سخت مشکلات حائل تھیں، اگر یہاں استاد کے دل میں شاگردوں یعنی عملداران اور ارکان کے لئے بے پناہ محبّت نہ ہوتی اور ان سب میں جذبۂ جان نثاری نہ ہوتا تو یہ ارادہ کبھی کامیاب نہ ہوتا۔

 

۲۔ میں دوسرے کاموں ہی کی طرح اس کام سے بھی نہایت مطمئن اور شادمان ہوں کہ میں نے اپنے عزیزوں کے انفرادی اور

 

۹۴

 

اجتماعی کارناموں کو تحریری صورت دی ہے، بعض تحریریں اگرچہ مختصر ہیں، لیکن ان میں بڑی جامعیّت موجود ہے، مثال کے طور پر ایک عزیز صدر بھی ہے، گورنر بھی، اور ہای ایجوکیٹر بھی ہے، تو اس کی تاریخ اس طرح سے لکھی جائے گی کہ وہ اس نیکنام ادارے میں تین قسم کی خدمات انجام دے رہا تھا۔

 

۳۔ علیٔ زمان علیہ السّلام ظاہراً و باطناً امام ہے، لہٰذا اس کا ایک دروازۂ ظاہر ہے اور ایک دروازۂ باطن، یہی وجہ ہے کہ اسماعیلی مذہب میں باطنی علم کی بہت بڑی اہمیّت ہے، یقیناً یہ مذہب کی جان ہے، خدا کا لاکھ لاکھ شکرہے کہ آپ اور ہم اسی علم کے خادم بھی ہیں اور عاشق بھی۔

 

۴۔ جو باتیں ازحد ضروری ہیں، وہ آپ کو بار بار بتا دی جاتی ہیں، تا کہ آپ ان عظیم حکمتوں کو خوب یاد رکھیں، پس آپ درودِ شریف کو بڑی کثرت سے پڑھیں، کیونکہ وہ خلاصہ اور جوہرِ اسماء الحسنیٰ ہے، اس کی تفصیل بعد میں آئے گی۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقارآباد، گلگت

۱۰ جولائی ۱۹۹۸ء

 

۹۵

 

اسماء الحسنیٰ کے اَسرار

 

۱۔ قرآنِ حکیم اللہ تبارک و تعالیٰ کا سب سے بڑا خزانۂ علم و حکمت ہے، اہلِ دانش کے نزدیک یہ حقیقت کسی شک کے بغیر مسلّمہ ہے کہ قرآنِ پاک کی تعلیمات لوگوں کے مختلف درجاتِ عقل کے مطابق درجہ بدرجہ ہیں، تا کہ اولوا الالباب (صاحبانِ عقل) علم کی سیڑھی سے زینہ بزینہ بامِ عروج پر چڑھیں، بالفاظِ دیگر ان کو معراجِ یقین حاصل ہو، اور وہ حظیرۂ قدس میں داخل ہو جائیں، جہاں بہشت اور اس کی ہر نعمت موجود ہے۔

 

۲۔ ذکرِ جمیل اسماء الحسنیٰ ہی کا ہے، اور یہ حکمت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ خدا کی ہر چیز زندہ، گویندہ، اور دانندہ ہوا کرتی ہے، چنانچہ دورِ ششم کے اسماء الحسنیٰ محمد و آلِ محمد صلی اللہ علیہ وعلیہم اجمعین ہیں، جو حسن و جمالِ ظاہری و باطنی کے درجۂ کمال پر ہیں، یہی حضرات خداوندِ عالم کے اسمائے بزرگ ہیں، اور انہی مبارک ناموں سے خدا کو پکارنے کا حکم ہوا ہے (۰۷: ۱۸۰) اور قرآن و حدیث میں “محمد و آلِ محمد

 

۹۶

 

پر صلوات” کی بہت بڑی فضیلت اس معنیٰ میں ہے کہ یہ اسماء الحسنیٰ کا خلاصہ اور جوہر ہے، الحمد للہ۔

 

۳۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء دو قسموں میں ہیں: ۱۔ وہ اسماء جو حروفِ تہجی کی ترکیب سے ہیں، جن کو کاتب لکھتا ہے، وہ اپنی تحریز کو کسی وجہ سے مٹاتا بھی ہے، ۲۔ دوسرے وہ اسماء ہیں جو زندہ، بولنے والے، عاقل و دانا، اور اشرف و اعلیٰ ہیں، جیسے انبیاء، اوصیاء اور أئمّۂ معصومین علیہم السّلام (المجالس المؤیدیہ)۔

 

۴۔ آپ قرآنِ حکیم کے ان حوالہ جات میں اسماء الحسنیٰ کے مضمونِ مبارک کو پڑھ کر فیضِ علم و حکمت کو حاصل کریں: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰)، سورۂ اسراء (۱۷: ۱۱۰)، سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۰۸)، سورۂ حشر (۵۹: ۲۴)۔ ان لوگوں کی کتنی بڑی سعادت ہے جو اسماء الحسنیٰ سےخدا کو پکارتے ہیں، پس یہی لوگ (ان شاء اللہ) بہشت کے بادشاہ ہوں گے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

۱۱ جولائی ۱۹۹۸ء

 

۹۷

 

خزینۃ الخزائن ۔ امامِ مبین

 

۱۔ اے برادران و خواہرانِ روحانی! آپ تمام جو نیک بختی سے عالمِ اسماعیلیّت میں رہتے ہیں، ایک بہت بڑی قرآنی حکمت کو سن لیں، میرا عقیدۂ راسخ ہے کہ یہ عظیم حکمت ہم سب کے لئے ایک بےمثال اور لازوال انعام ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے خزانۂ خزائن سے ہے، اور وہ جامع الجوامع خزانہ امامِ مبین علیہ السّلام ہی ہے (۳۶: ۱۲) آپ سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں دیکھیں کہ خدا کے بڑے بڑے خزانے ہیں، اور قلبِ قرآن (۳۶: ۱۲) میں دیکھیں کہ سارے خزانے اور تمام چیزیں امامِ مبین میں گھیری اور گنی ہوئی ہیں، لہٰذا یہ کہنا حقیقت ہے کہ امامِ مبین یقیناً اللہ کا خزینۃ الخزائن ہے۔

 

۲۔ اللہ جلّ جلالہ ہر قیامت میں کائنات کو کہاں اور کس چیز میں لپیٹ لیتا ہے؟ امامِ مبین میں ۔ وہ قادرِ مطلق اُس وقت اپنے الگ الگ خزانوں کو کس مقام پر جمع کرتا ہے؟ حضرت امامِ اقدس و اطہر میں ۔ آیا خدا جسمانی کائنات کو

 

۹۸

 

امامِ زمان میں لپیٹتا ہے یا اس کے جوہر کو؟۔۔۔۔۔۔۔ جوہر کو ۔۔۔۔۔۔۔ کیا قدرتِ خدا کی اس لپیٹ سے کوئی چیز مستثنیٰ ہو سکتی ہے، جیسے عرش، کرسی، قلم، لوح، ملائکہ وغیرہ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں، کوئی چیز مستثناء نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے میں دیدارِالٰہی اور اس کی جملہ صفات کا تصوّر کہاں ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امامِ مبین ہی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

۳۔ پروردگارِ عالم نے کائناتِ لطیف کے ساتھ ساتھ جملہ معجزاتِ قیامت کو بھی امامِ مبین میں گھیر کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲) جیسا کہ آیۂ شریفہ (۱۷: ۷۱) کا مفہوم ہے کہ ہر امام کے زمانے میں قیامت کا تجدّد ہوتا ہے، یہاں یہ سرِعظیم منکشف ہوگیا کہ تذکرۂ قیامت نہ صرف صیغۂ مستقبل ہی میں ہے، بلکہ صیغۂ ماضی اور صیغۂ حال میں بھی ہے، آپ قرآنِ عزیز میں خوب غور سے دیکھیں، مگر یہ سب کچھ تاویل اور حکمت کی زبان میں ہے، جیسے سورۂ یٰسٓ (۳۶: ۱۲) میں ماضی کی بےشمار قیامات کا ذکر ہے کہ ہر امام کے ساتھ ایک قیامت تھی، اور خدا اس کے عالمِ شخصی میں تمام چیزوں کو گھیر کر رکھتا تھا۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

۱۳ جولائی ۱۹۹۸ء

 

۹۹

 

جیتے جی قیامت

 

۱۔ اگر کوئی مضمون نہایت اہم ہے، تو اس پر بار بار کیوں نہ لکھیں، مضمونِ قیامت انتہائی اہمیّت کا حامل اس وجہ سے ہے کہ اس میں دیگر تمام مضامین سمیٹے ہوئے ہیں، کیونکہ قیامت وہ بڑا عجیب و غریب دن ہے، جس میں اللہ تعالیٰ ساری کائناتِ لطیف کو دستِ قدرت میں لپیٹ لیتا ہے، ایسے میں سب علمی مضامین معجزانہ طور پر مضمونِ قیامت ہو جاتے ہیں، اور اس حقیقت میں کسی دانشمند کو کیا شک ہو سکتا ہے۔

 

۲۔ کاملین و عارفین پر جیتے جی قیامت گزرتی ہے، کیونکہ روحانی قیامت کے سوا نہ تو کوئی کمال حاصل ہو سکتا ہے، اور نہ ہی معرفت ممکن ہے، ہاں تمام مومنین و مومنات کے لئے علم الیقین کی دولت عام ہو سکتی ہے، تاہم عین الیقین اس سے برتر ہے، اور حق الیقین سب سے اعلیٰ ہے، جہاں کنز الکنوز ہے۔

 

۳۔ جیتے جی جو باطنی قیامت واقع ہوتی ہے، اس کے بارے

 

۱۰۰

 

میں یہ حدیثِ شریف ہے: من مات فقد قامت قیامتہ = جو کوئی مرتا ہے اس کی قیامت برپا ہو جاتی ہے (احیاء العلوم، جلدِ چہارم، دوسرا باب) یعنی جو شخص نفسانی طور پر مر جاتا ہے اس کی روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، اس قیامت کا دوسرا نام فنا فی الامام، فنا فی الرسول، اور فنا فی اللہ ہے، جس میں اہلِ ایمان کے لئے بےشمار فائدے ہیں۔

 

۴۔ اس فنا کے عظیم اسرار اور روحانی معجزات کیسے ہوں گے؟ ایسے میں عالمِ شخصی کی کیا شان ہوگی؟ ارواح و ملائکہ کس طرح کلام کرتے ہوں گے؟ ذکر یا اذکار کا کیا عالم ہوگا؟ دیدار کہاں کہاں جلوہ نما ہوتا ہوگا؟ یہاں یہ ضروری سوال بھی ہے کہ قیامت کے ساتھ علم الیقین کا کیا رشتہ ہے؟ آیا یہ عین الیقین اور حق الیقین کی پیداوار ہے؟

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

۱۴ جولائی ۱۹۹۸ء

 

۱۰۱

 

علامہ نصیر کی بروشسکی نظموں پر سوالات

 

۱۔ آپ یہ بتائیں کہ نصیر کی اوّلین بروشسکی نظم کونسی ہے؟ یہ کس کی شان میں ہے؟ اور کب لکھی گئی تھی؟

۲۔ دیوانِ نصیری میں کل کتنی نظمیں ہیں؟ اشعار کی کیا تعداد ہے؟ بہشتݺ اسقرݣ میں کتنی نظمیں درج ہیں؟ اور اس میں کتنے اشعار ہیں؟

۳۔ ان دونوں کتابوں کا مجموعی موضوع کیا ہے؟ حمد؟ نعت؟ منقبت؟ کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ ان میں لفظِ امام کل کتنی دفعہ آیا ہے؟ سلطان کتنی بار؟ اور کریم کتنی دفعہ ہے؟

۴۔ نصیر الدین کے اس عارفانہ کلام میں کتنی نظمیں امام سلطان محمد شاہ کی توصیف میں ہیں؟ اور کتنی حاضر امام کی تعریف میں ہیں؟

۵۔ آیا اس کلام میں تاریخی نوعیت کے اشعار بھی ہیں؟ کیا ان

 

۱۰۲

 

نظموں میں جشنِ سیمین (سلور جوبلی) کا ذکرِ جمیل بھی ہے؟ ایسی نظموں کی نشاندہی کریں۔

۶۔ امامِ عالی مقام کی تشریف آوری اور پاک دیدار کے بارے میں کون سی نظمیں ہیں؟ مولائے زمان کے پاک حضور میں کب ایسی کوئی نظم یا چند اشعار پڑھے گئے تھے؟ ان اشعار کو گلگت اور ہونزہ میں کن افراد نے پڑھا تھا؟

۷۔ آیا نصیر الدین کے مجموعۂ اشعار میں صوفیانہ کلام بھی ہے؟ اگر ایسی نظمیں بھی ہیں تو عنوانات بتائیں؟

۸۔ اس شاعری میں دعائیہ نظمیں کون کون سی ہیں؟ مطلع پڑھ کر بتائیں؟ کیا آپ نے وہ نظم پڑھی ہے جو آبِ شفا کی توصیف میں ہے؟ اور وہ نظم جو شاہِ زمان کے فرمانِ اقدس کے بارے میں ہے؟

۹۔ امامِ زمان علیہ السّلام نے ان نظموں کو جس طرح شرفِ قبولیت بخشا ہے، آیا اس کے بارے میں کوئی پاک فرمان بھی ہے؟ وہ کس نامدار کونسل کے توسط سے ملا تھا؟ اور کس کتاب میں محفوظ ہے؟

۱۰۔ کہتے ہیں کہ علامہ نصیر کی بروشسکی شاعری سے علاقے میں ایک خاموش انقلاب آیا ہے، کیا یہ سچ ہے؟ آپ اس کی کچھ مثالیں بیان کریں۔

۱۱۔ ان پرکشش بروشسکی نظموں میں کیا کیا موضوعات ہیں؟ آیا یہ بات درست ہے کہ بعض نظموں کے اشعار میں مضامین کی

 

۱۰۳

 

گوناگونی ہے، اور بعض کا مضمون شروع سے لے کر آخر تک ایک ہی ہے؟

۱۲۔ علاقے کے دانشوروں کا کہنا ہے کہ علامہ نصیر ہونزائی کی بروشسکی شاعری لاجواب، بےمثال، اور لازوال ہے، اس میں نہ صرف جماعتِ باسعادت کے لئے ان گنت فائدے ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اہلِ زبان اور دنیا کے محققین کے لئے بھی اس میں بےحد دلچسپی ہو سکتی ہے، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

۱۳۔ کیا آپ نے حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے ان مقدّس ارشادات کو پڑھا ہے جو تمام جماعت کی علمی اور روحانی ترقی کے بارے میں ہیں؟ پس جب حضرتِ امامؑ کو جماعت کی ترقی بےحد عزیز ہے، تو ہمارے نامور اور عظیم پیروں کو بھی یہی بات عزیز رہی ہوگی، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ماں باپ ہمیشہ اپنی اولاد کی ترقی چاہتے ہیں۔

۱۴۔ آپ یہ بتائیں کہ آیا اس مجموعۂ کلام میں کئی پیش گوئیاں اور بشارتیں بھی ہیں؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ ہاں ہیں، تو ان کی کچھ مثالیں پیش کریں۔

۱۵۔ یہ کوئی اہتمام اور پروگرام کی بات نہیں، بلکہ حسنِ اتفاق سے ایسا ہوا کہ نصیر کی اوّلین بروشسکی نظم کو مولا کے جن عاشقوں نے پہلی بار پڑھ کر افتتاح کرنے کی عظیم سعادت حاصل کر لی، وہ

 

۱۰۴

 

گلگت سکاؤٹس کے دو نامور حوالدار تھے، جن کا تعلق قبیلہ درمتݣ سے تھا، کیا آپ ان کے نام بتا سکتے ہیں؟

۱۶۔ علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کے اشعار کا پس منظر قرآن اور روحانیّت ہے، لہٰذا اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ان کی ہر نظم کے ترجمہ و تشریح سے ایک کتاب ہو سکتی ہے، اس حقیقت کا ایک روشن ثبوت “رموزِ روحانی” ہے، کیا آپ نے یہ کتاب پڑھی ہے؟

۱۷۔ خداوند تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ بڑی عجیب و غریب ہے، اس نے اپنے بعض بندوں کو لحنِ داؤدی کی بےحد شیرین و دلنواز نعمت عطا کی ہے، چنانچہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ ہوا، جس میں ایک اسرافیلی لشکر سازِ عشق اور سوزِ عشق سے جملہ جماعت کی مقدّس خدمت کر رہا ہے، کیا آپ اس حقیقت پر روشنی ڈالیں گے؟

۱۸۔ ایک بہت خوبصورت اور دلکش تاریخی نظم ایسی بھی ہے جو مولانا حاضر امام کے سفرِ چین کی یاد کو تازہ کرتی رہتی ہے، آپ یہ بتائیں کہ اس کا عنوان کیا ہے؟ اور اس کے کل اشعار کتنے ہیں؟

۱۹۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہر منقبت خوان عشقِ مولا کا مدرّس بھی ہے، ایک زندہ مدرسہ بھی، اور ایک عجیب خوش الحان خدمتی ادارہ بھی ہے، کیا آپ کے نزدیک یہ بات درست ہے؟

۲۰۔ یہ لشکرِ اسرافیلی کون ہیں، جن کے ساز و آواز سے محفلِ عشاق میں قیامتِ صغریٰ برپا ہو رہی ہے؟ یہاں استادِ معظم کا ایک

 

۱۰۵

 

شعر یاد آیا، جس کا ترجمہ اس طرح ہے: ارے ساتھیو! آؤ، قیامت برپا ہو رہی ہے (اس لئے) مقامِ ذکر میں جمع ہو جاؤ، اور سنو کہ ذاکر کے کان میں نغمۂ اسرافیل بےحد شیرین ہے۔ آپ اس کا اصل بروشسکی شعر پڑھ کر سنائیں۔

۲۱۔ اگر آپ نے زبورِ عاشقین کا بغور مطالعہ کیا ہے تو یہ بتائیں کہ اس کا موضوع کیا ہے؟ اور اس میں کن مسائل سے بحث کی گئی ہے؟

۲۲۔ استادِ معظم نے صورِ قیامت کو “عشقے برغو” (ناقورِ عشق) کہا ہے، اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اور صاحبِ صور کو شرئیشے اسرافیل (شادمانی کا اسرافیل) کہہ کر یاد کیا ہے، کیوں؟ حالانکہ قیامت اور اس کی بہت سی چیزیں بڑی خوفناک ہیں؟

۲۳۔ علامہ ہونزائی نے حقیقی عشق سے سرشار ہو کر اپنی ہستی کو بانسری سے تشبیہہ دی، اور کہا کہ بانسری کا کوئی نغمۂ محبت از خود نہیں بنتا ہے، بلکہ یہ بجانے والے کی پھونک اور انگلیوں کا کرشمہ ہے، آپ یہ بتائیں کہ اس مفہوم کا اصل شعر اور ترجمہ کیا ہے؟

۲۴۔ بروشسکی میں بانسری کے دو نام ہیں؟ گبی، پریلو، ہر چند کہ دنیا میں صورِ اسرافیل کی کوئی مثال ہے ہی نہیں، لیکن کسی حد تک نغمگی کی مشابہت و مطابق کی وجہ سے صورِ قیامت کو گبی یا پریلو کہا گیا ہے، جیسا کہ علامہ کا یہ شعر ہے: جہ دیلم صورِ اسرافیل پریلوݺ معجزا ہینن + قیامتݺ گݸن دورلا خݶر یہ مݹ دالن لے ایرن دݣ۔ آپ اس شعر کا ترجمہ کریں۔

 

۱۰۶

 

۲۵۔ اسماعیلی مذہب معرفت کے جواہر سے بھرا ہوا ہے، معرفت امام شناسی کا دوسرا نام ہے، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ استادِ معظم کی ہر کتاب اسی دولتِ لازوال سے مالامال ہے، چنانچہ شعر ہے: نصیرؔ مینہ ایلتران قرآنہ برکݽ؟ زمانا رہنما الحمد للہ۔ قرآنہ برکݽ = خزانۂ قرآن، یہ کتابِ مکنون میں ہے، آپ یہ بتائیں کہ آیۂ کتابِ مکنون قرآنِ پاک میں کہاں ہے؟

۲۶۔ خدا، رسول، اور امام کا عشق و محبّت دین کی اصل و اساس ہے، جس کے بغیر کوئی عبادت و نیکی قبول نہیں ہو سکتی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس مقصدِ عالی کے حصول کی خاطر یہاں نظم و نثر میں بےحد مفید کام ہوا ہے، آپ یہ بتائیں کہ آیا حمد، نعت، اور منقبت جو مغزِ علم و حکمت سے مملو ہو، وہ دینی عشق و محبّت کا بہترین ذریعہ نہیں ہے؟

۲۷۔ خدا کا قولی فرمان بھی ہے، اور فعلی فرمان بھی، جب اللہ پاک اپنے کسی بندے کو علم کی لازوال دولت سے مالامال فرماتا ہے تو اسی کے ساتھ یہ حکم بھی ہے کہ وہ علمی زکات دیتا رہے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو ظالموں میں سے ہو جائے گا، کیونکہ جو علم اس کو دیا گیا ہے، وہ پھیلانے کی غرض سے ہے، آیا یہ بات درست نہیں ہے؟

۲۸۔ اہلِ دانش پر یہ حقیقت روشن ہے کہ مرضِ جہالت کے

 

۱۰۷

 

لئے صرف اور صرف علم ہی دوا ہے، اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ علم دوا بھی اور عقلی غذا بھی ہے، پس یقیناً ان بروشسکی نظموں میں حقیقی عشق بھی ہے اور روحانی علم بھی، اس باب میں آپ کا کیا خیال ہے؟

۲۹۔ کیا بروشسکی بولنے والوں اور اس کے سمجھنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا ایک خاص احسان نہیں ہوا ہے؟ آیا یہ خدا کی رحمتِ بےپایان نہیں ہے کہ بروشسکی ایک ادبی زبان ہو رہی ہے؟ کیا بروشسکی علاقائی زبانوں میں شامل نہیں ہے؟

۳۰۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پیارے علاقے کی تمام زبانوں کی خاطر خواہ ترقی ہو، اس سلسلے میں علامہ نصیر نے جس طرح انتہائی جانفشانی سے زبان کی بےشمار خدمات انجام دی ہیں، وہ سب بےمثال کیوں نہ ہوں، تاہم اب بھی اور آئندہ بھی ہر دانا شخص اپنی مادری زبان کی مفید خدمات انجام دے سکتا ہے، کیا یہ کام غیر ممکن ہے؟

۳۱۔ اللہ تعالیٰ اپنے تمام بندوں کو نیک اعمال کی توفیق دے! اسی کا بزرگ نام بلند ہو! اور اہلِ ایمان کو آسمانی عشق کی نورانیّت نصیب ہو! آمین!!

 

دانشگاہِ خانۂ حکمت، گلگت مرکز

۲۱ جولائی ۱۹۹۸ء

 

۱۰۸

 

آسمانی عشق کی حکمتیں

 

حکمت۔۱: آسمانی عشق وہ ہے، جس کا نور آسمان سے نازل بوا ہے، جس کو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے سب سے خاص وسیلہ بنا دیا ہے، وہ ہے خدا، رسول، اور امامِ زمانؑ کا مقدّس عشق، جس کا ذکرِ جمیل قرآنی حکمت میں جا بجا موجود ہے، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ جہاں حکمت ہے، وہاں اس کے ساتھ خیرِ کثیر ہے، اور خیرِ کثیر کی جان آسمانی عشق و محبّت ہی ہے۔

 

حکمت۔۲: اگر ہم عشقِ سماوی کی تعریف کے لئے حقیرانہ اور عاجزانہ سعی نہ کریں، تو یہ بہت بڑی ناشکری ہوگی، ہاں دوستانِ عزیز! یہ سچ ہے کہ خدا اور رسولِ کریم کے عشق و محبّت کا واحد وسیلہ امامِ زمانؑ ہی ہے، کیونکہ مرتبۂ “فنا فی اللّٰہ” کسی سالک کے لئے ممکن ہی نہیں، جب تک کہ “فنا فی الرسول” کا مرتبہ حاصل نہ ہو، اور نبیٔ اکرمؐ کا دروازہ صرف امامِ زمانؑ ہی ہے، اس لئے

 

۱۰۹

 

تمہیں اوّل اوّل امامؑ کے عشق میں فنا ہو جانا بےحد ضروری ہے، جس کے سوا فنائے دوم اور فنائے سوم محال ہے۔

 

حکمت۔۳: حدیثِ قدسی جو نوافل کے عنوان سے ہے، اس میں انقلابی حکمتیں ہیں، اس میں اولوا الالباب (صاحبانِ عقل) کے لئے بہت بڑی روشنی ہے، تصوّف کی بڑی بڑی کتابیں اس کے تذکرہ اور حوالہ کے بغیر نہیں ہیں، اور یہ سب کچھ عشقِ سماوی کا نتیجہ ہے، جس کا اوپر ذکر ہوا، خدا کی قسم! یہ اللّٰہ، رسول، اور امام کے مقدّس عشق کا سب سے بڑا معجزہ ہے، آپ “عملی تصوّف اور روحانی سائنس” میں دیکھیں، کہ خدا اپنے خاص بندوں کو کس طرح نوازتا رہتا ہے، یہی ہے فرائض و نوافل کا نتیجہ، یہی ہے عشق و محبّت کا میوہ، یہی ہے اللہ سے دوستی کا ثمرہ، اور یہی ہے اسرارِ معرفت کا خزانہ۔

 

حکمت۔۴: آپ کو یہاں ٹھہر کر خوب سوچنا ہوگا کہ جب خدا اپنے عاشق کا کان ہو جاتا ہے تو اس حال میں عاشق کیا سنتا ہے؟ کس کے کلام کو سنتا ہے؟ اللّٰہ کے کلام کو؟ جب حضرتِ ربّ اس کی آنکھ ہو جاتا ہے تو عاشق کو کیا کیا چیزیں دکھائی دیتی ہیں؟ کیا ایسے میں اس کو اللّٰہ کا پاک دیدار بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ نیز یہ بھی ازحد ضروری سوال ہے کہ جس وقت خداوند تعالیٰ اپنے عارف (عاشق) کا ہاتھ ہو جاتا ہے، تو اس کیفیّت میں وہ کس چیز کو پکڑتا ہے؟ کس

 

۱۱۰

 

کائنات کو تخلیق کرتا ہے؟ اور آخری سوال ہے کہ جب اللّٰہ اپنے بندۂ عاشق کا پاؤں ہو جاتا ہے، تو وہ طرفۃ العیّن میں آسمان زمین، دنیا و آخرت، اور مکان و لامکان کی سیر کرتا ہوگا، کیا یہی بات درست ہے؟

 

حکمت۔۵: مذکورۂ بالا مثالوں سے یہ معلوم ہوا کہ ہم لوگوں نے حدیثِ نوافل کی عجیب و غریب حکمتوں میں ٹھیک طرح سے نہیں سوچا ہے، حالانکہ اس میں ایک انتہائی گرانقدر خزانہ پوشیدہ ہے، پس آپ حالتِ “فنا فی اللّٰہ” کے بارے میں خوب سوچ لیں، یہ مرتبہ اللّٰہ کے سچے عاشقوں کو اسی جہان میں حاصل ہو جاتا ہے، یہ معجزہ جسمانی طور پر مر جانے کے بعد ہرگز نہیں، کیونکہ قرآنِ حکیم واشگاف الفاظ میں فرماتا ہے: وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا  (۱۷: ۷۲) اور جو اس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا اور راستہ پانے میں سب سے زیادہ گمراہ قرار پائے گا۔

 

حکمت۔۶: صحیح بخاری، جلدِ سوم، کتاب الاستئذان میں یہ مشہور حدیثِ شریف ہے: خلق اللہ اٰدم علیٰ صورتہ = اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی (رحمانی) صورت پر پیدا کیا۔ آدم کی جسمانی پیدائش زمین پر ہوئی تھی، روحانی پیدائش عالمِ شخصی میں، اور عقلی پیدائش حظیرۂ قدس (بہشتِ جبین) میں، جہاں اس کو

 

۱۱۱

 

صورتِ رحمان عطا ہوئی، اور مذکورہ کتاب کے اسی مقام پر یہ حدیثِ شریف بھی ہے: کل من یدخل الجنۃ علیٰ صورت اٰدم = ہر وہ شخص جو (اپنی جبین کی) بہشت میں داخل ہوتا ہے وہ آدم (کی طرح رحمان) کی صورت پر ہو جاتا ہے۔ یہی حقیقت فنا فی اللّٰہ بھی ہے۔

 

حکمت۔۷: سورۂ یونس کی آیتِ ہفتم (۱۰: ۰۷) کا ترجمہ ہے: حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے (یعنی دیدار) کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں، اور جو ہماری آیات سے غافل ہیں ۔۔۔ اس کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ جو لوگ مظہرِ نورِ خدا کے عاشق ہیں، وہ کبھی ملاقاتِ خداوندی سے مایوس نہیں ہوتے ہیں، وہ دنیوی زندگی سے نہیں بلکہ دینی زندگی سے راضی اور مطمئن ہیں، اور وہ آیاتِ الٰہی یعنی امام علیہ السّلام سے غافل نہیں ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

۲۵ جولائی ۱۹۹۸ء

 

۱۱۲

 

اُس نے کہا:

“میں تیرا دل ہوں”

 

سچ ہے کہ کہا اس نے اک گنجِ خدا ہے دل

جب عشقِ حقیقی سے ویرانہ پڑا ہے دل

ہر گونہ تسلّی ہے دیدار کی دولت سے

ہر چند کہ ظاہر میں آہوں سے بھرا ہے دل

اس قالبِ خاکی میں دل عالمِ اکبر ہے

دل دائرۂ کل ہے اور ارض و سما ہے دل

اسرارِ شہِ خوبان اس دل کے خزانے ہیں

صد بار فدا ہے جان صد بار فدا ہے دل

در پردہ کہا اس نے دل میرے حوالے کر

اے جانِ جہان، واللّٰہ! یہ لے کہ تیرا ہے دل

 

۱۱۳

 

اس مرتبۂ دل کو عارف ہی سمجھتا ہے

گر پاک کرے کوئی تب عرشِ خدا ہے دل

دلدادۂ  الفت ہوں اب مجھ میں کہاں ہے دل؟

دلبر نے لیا دل کو عاشق میں کجا ہے دل؟

صد شکر کہ اب جانان خود میری خودی ہوگا

جب جان ہے فدا اس سے جب اس میں فنا ہے دل

اشعارِ نصیری میں اسرارِ نہانی ہیں

دل عقدۂ  لاینحل اور عقدہ کشا ہے دل

 

بموقعِ  ’علامہ نصیر الدین کے ساتھ ایک شام‘  زیرِ اہتمام حلقۂ اربابِ ذوق گلگت ،

۲۸ ، جوالائی ۱۹۹۸ء بمقامِ ریویریا ہوٹل۔

 

۱۱۴

 

بروشسکی کے رشتے

 

۱۔ ہونزہ، نگر، اور یاسین میں زمانۂ قدیم سے بروشسکی زبان بولی جاتی ہے، بروشسکی اور شنا زبان کے بہت سے الفاظ مشترک ہیں، اس کے علاوہ ہونزہ کی یہ روایت بھی رہی ہے کہ قومی سطح پر تمام تر توصیفی گیت ݽنݳ زبان میں گائے جاتے تھے، جیسے میرانِ ہونزہ کے تعریفی ترانے، شادی بیاہ کے گانے، جنگی بہادروں کے اوصاف پر مبنی گیت، اور کاہن (بٹن، SHAMAN) کی پیش گوئی کے گیت۔

 

۲۔ ہونزہ اور بلتستان کے درمیان بھی لسانی اور ثقافتی رشتے مضبوط ہیں، چونکہ یہاں کی زبانوں کے بہت سے الفاظ آپس میں مخلوط ہیں، لہٰذا علاقائی زبان کے میدانِ عمل میں سب سے بڑی کامیابی ممکن ہی نہیں جب تک کہ بروشسکی لغات کے ساتھ ساتھ ݽنݳ لغات، وخی لغات، بلتی لغات، اور کھوار لغات نہ ہوں، پس میرا عاجزانہ مشورہ یہ ہے کہ اس عظیم منصوبے کو سر انجام

 

۱۱۵

 

دینے کے لئے علاقے کے تمام معزز سکالرز ایک ہی عزم کے ساتھ اپنا اپنا کام شروع کریں، ان شاء اللہ، بہت ہی کم عرصے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

 

۳۔ یہ ایک بڑا اہم سوال ہے کہ آیا زبان کی تخلیق لوگ ہی کرتے ہیں یا یہ ایک قدرتی چیز ہے؟ اس کا جواب میرے نزدیک یہ ہے کہ ہر زبان آیاتِ قدرت میں سے ہے، اور قرآنِ حکیم کی تعلیم یہی ہے، آپ سورۂ روم (۳۰: ۲۲) میں غور سے دیکھیں، پس زبان اللّٰہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ہے۔

 

۴۔ میں نے نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے تک بروشسکی پر ریسرچ کا کام کیا، اس منجمد اور انتہائی مشکل زبان میں اوّلین شاعر کی حیثیت سے شاعری کی، اور خدا کے فضل و کرم سے بڑی نیکنامی نصیب ہوئی، اس دوران مجھے اپنی مادری زبان کے بےشمار عجائب و غرائب کا انکشاف ہوا، یہ سچ ہے کہ اس کے گرامر کے بعض قواعد غیر معمولی ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

۳۱ جولائی ۱۹۹۸ء

 

۱۱۶

 

لشکرِ اسرافیلی

 

۱۔ قرآنِ حکیم کے بہت سے ارشادات میں اللّٰہ تعالیٰ کے لشکر کا ذکر آیا ہے۔ جیسے سورۂ فتح (۴۸: ۰۴، ۴۸: ۰۷) میں فرمایا گیا ہے: وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ = اور آسمان و زمین کے (تمام) لشکر اللّٰہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔ یعنی خداوند تعالیٰ کی بادشاہی میں روحانی اور جسمانی ہر قسم کے لشکر موجود ہیں، اور ان میں اسرافیلی لشکر بھی ہیں، چنانچہ آج یہاں ہم لشکرِ اسرافیلی کا کچھ تذکرہ کریں گے۔

 

۲۔ اسرافیلی لشکر وہ خوش نصیب اور نیک بخت مومنین و مومنات ہیں، جن کو ربِّ کریم نے لحنِ داؤدی کی نعمتِ عظمیٰ سے نوازا ہے، جن کے توسط سے ہمیشہ اہلِ ایمان کے لئے غذائے روحانی مہیا ہوتی رہتی ہے، ان کی شیرین اور سریلی آواز گویا صورِ اسرافیل کا معجزہ ہے، کیونکہ وہ اپنی خداداد صلاحیّت سے ہوا جیسی بےجان چیز میں نغمگی کی روح ڈال کر اس کو زندہ کر دیتے ہیں،

 

۱۱۷

 

اور یہ پُرحکمت عمل آیاتِ قدرت میں سے ہے، لہٰذا اس میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔

 

۳۔ وہ پاکیزہ نفوس بڑے باسعادت ہیں، جو ساز و آواز کے اسلحہ سے لیس ہو کر نفسانیّت، جہالت، اور غفلت کے خلاف جہاد کرتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے مولائے پاک کے عاشقوں کو گریہ و زاری اور محویّت و فنائیّت کی عظیم نعمت حاصل ہو جاتی ہے، ہم سب لشکرِ اسرافیلی کے شکرگزار اور ممنون ہیں کہ وہ ہم کو بار بار پگھلاتے ہیں، ترجمۂ آیۂ شریفہ ہے: کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو (۱۷: ۴۴) یقیناً ہر چیز اپنی جگہ پر زبانِ حال سے بھی تسبیح پڑھتی ہے، اور انسانِ کامل میں آکر زبانِ قال سے بھی تسبیح خوانی کرتی ہے، جیسا کہ آیۂ کریمہ کا ترجمہ ہے: ہمیں اُسی خدا نے گویائی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویا کر دیا ہے (۴۱: ۲۱) یعنی جہاں انسانِ کامل میں روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، وہاں صورِ اسرافیل کی ہمہ رس آواز سے تمام چیزیں زندہ ہو کر جمع ہو جاتی ہیں، اور ناقور کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر تسبیح خوانی کرتی رہتی ہیں، آپ حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے قصّے میں بھی دیکھیں: ۲۱: ۷۹، ۳۴: ۱۰، ۳۸: ۱۸۔

 

۴۔ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے (۲۴: ۴۱) کائنات کی ہر چیز اللہ کے لئے سجدہ کرتی ہے (۱۶: ۴۹) اس سے معلوم ہوا کہ

 

۱۱۸

 

ساز و آواز میں بھی عبادت کا راز ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرتِ داؤد علیہ السّلام زبور کو مختلف سازوں کے ساتھ پڑھا کرتے تھے، اسی لئے زبور کو مزامیرِ داؤد کہتے ہیں: مزامیر کے معنی ہیں: مزمار کی جمع، بانسریاں، مطربوں کے ہر قسم کے ساز، راگ، گیت، راگ میں کی جانے والی دعائیں۔

 

۵۔ زبور میں شریعت کے احکام نہ تھے، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ بنی نوع انسان کو آسمانی عشق کی تعلیم دی جائے، اور قانونِ فطرت کے مطابق یہ امر بھی ضروری تھا کہ سازوں کی حکمت سے نفس کو فنا کر دیا جائے، اگر یہ بات نہ ہوتی تو قرآنِ حکیم زبور کے ساتھ موسیقی کے استعمال پر تنقید کرتا، جس طرح توریت اور انجیل میں تحریف و آمیزش کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔

 

۶۔ حضرتِ داؤد علیہ السّلام آسمانی عشق کی کتاب (زبور) کو مختلف سازوں کی موسیقی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے، یقیناً ان کا یہ طرزِ عمل اللّٰہ تعالیٰ کی خوشنودی کے مطابق تھا، کیونکہ ربِّ کریم نے ہر پیغمبر کو ایک خاص معجزہ عطا کیا تھا، اگرچہ باطن اور روحانیّت میں سارے معجزات جمع ہو جاتے ہیں، تاہم ظاہر میں ایسا نہیں، پس معلوم ہوا کہ حضرتِ داؤد (ع) ناقورِ قیامت کی نمایان مثال تھے، تا کہ لوگ اللّٰہ کے پیغمبروں کی طرف دیکھیں، اور ان کے نمونوں سے فائدہ اٹھائیں۔

 

۱۱۹

 

۷۔ جو لشکرِ اسرافیلی ہیں، وہ خود کو اور اپنے کام کو خوب جانتے ہیں، ان پر خداوندِ قدّوس کا بہت بڑا احسان ہے، ہم سب ان کو بہت بہت چاہتے ہیں، وہ ہماری روح (جان) ہیں، کیونکہ ہم سب ایک ہی بادشاہ کے لشکر ہیں، اور مل کر ایک عظیم فتح حاصل کرنی ہے، ان شاء اللّٰہ، ہم فتحیاب ہو جائیں گے۔

 

۸۔ لشکرِ اسرافیلی کو ہم سب سلامِ محبّت پیش کرتے ہیں، پُرخلوص دست بوسی بھی قبول ہو! یاد رہے کہ اہلِ ایمان کے لئے بہشت میں سب کچھ ہے، ہر چیز ہے، ہر خزانہ ہے، اور ہر مرتبہ ہے، اور وہاں کوئی بھی نعمت غیر ممکن نہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

یکم اگست ۱۹۹۸ء

 

۱۲۰

 

یارِ بدیعُ الجمال

 

جانِ جہان کون ہے؟ یارِ بدیعُ الجمال

دل میں نہان کون ہے؟ یارِ بدیعُ الجمال

جلوہ نما ہے ادھر حیرتِ اہلِ نظر

غیرتِ شمس و قمر یارِ بدیعُ الجمال

چہرہ مجھے یاد ہے حور و پری زاد ہے

شاد ہے آزاد ہے یارِ بدیعُ الجمال

پیکرِ حسن و جمال با ہمہ وصفِ کمال

دہر میں ہے بیمثال یارِ بدیعُ الجمال

جانِ بہار جانِ من رونقِ باغ و چمن

غنچہ دہن گلبدن یارِ بدیعُ الجمال

جلوہ دکھا جا ذرا دل میں سما جا ذرا

روح میں آ جا ذرا یارِ بدیعُ الجمال

 

۱۲۱

 

سب میں اسی کا مکان سب ہیں اسی کے نشان

سب کی وہی جانِ جان یارِ بدیعُ الجمال

نورِ سحر تجھ سے ہے علم و ہنر تجھ سے ہے

لعل و گہر تجھ سے ہے یارِ بدیعُ الجمال

عشق و فنا کی قسم! وصل عطا کر صنم

کل کو رہیں گے نہ ہم یارِ بدیعُ الجمال

عشق میں اک ساز ہے جس میں ترا راز ہے

اس پہ مجھے ناز ہے یارِ بدیعُ الجمال

اے مرے ماہِ منیر یاد تری دلپذیر

تجھ سے فدا ہے نصیرؔ یارِ بدیعُ الجمال

 

“حلقۂ اربابِ ذوق”  گلگت کی خدمت میں۔

 

نصیر الدین نصیر ہونزائی

کراچی

جمعہ ۱۳، ربیع الثانی ۱۴۱۹ھ،  ۷، اگست ۱۹۹۸ء

 

۱۲۲

 

اسمِ اعظم بحدِّ قوّت

 

۱۔ اسمِ اعظم عالمِ دین میں بحدِّ قوّت ہمیشہ موجود ہے، اور یہ ہر اس مومن کے لئے حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں آتا ہے، جو اس کے احکام و شرائط کو بجا لاتا ہے، جاننا چاہئے کہ حقیقی اور زندہ اسمِ اعظم امامِ زمان علیہ السّلام ہی ہے، اور جو علامتی اسماء الحسنیٰ قرآنِ حکیم میں ہیں، وہ حضرتِ امامِ عالی مقام کی طرف اشارے اور دلیلیں ہیں، مثلاً قرآنِ پاک کے تین مقامات پر “الحی القیوم” کے دو تحریری اسم ایک ساتھ آئے ہیں، ان کا اشارہ یہ ہے کہ حقیقی اسمِ اعظم وہ ہے جو ہمیشہ زندہ، بولنے والا، اور دانا ہوتا ہے نیز وہ ہمیشہ قائم ہے اور قیامت کو برپا کر سکتا ہے۔

 

۲۔ قرآنِ مقدّس بار بار اس حقیقت کو سمجھاتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جملہ اشیاء کو جفت جفت بنایا ہے، یعنی ایک چیز مثال ہے، اور دوسری ممثول، یا ایک شیٔ دلیل ہے، اور دوسری مدلول، چنانچہ جو اسمِ اعظم لفظی اور تحریری ہے وہ مثال اور دلیل ہے، اور جو

 

۱۲۳

 

اسمِ بزرگ شخصی اور نورانی ہے، وہ ممثول اور مدلول ہے، جیسے قرآنِ عظیم کی سات سورتیں حٰمٓ سے شروع ہو جاتی ہیں: ۴۰: ۰۱، ۴۱: ۰۱، ۴۲: ۰۱، ۴۳: ۰۱، ۴۴: ۰۱، ۴۵: ۰۱، ۴۶: ۰۱، حٰمٓ الحی القیّوم کا مخفف ہے، اس سے حجتِ قائم اور حضرتِ قائم علیہما السّلام مراد ہیں، کہ وہ کارِ قیامت میں دونوں ایک ہیں، مگر شخصیّت میں دو، جس طرح حٰمٓ ایک ہے، جس کا عدد ۴۸ ہے، مگر الحیّ القیّوم دو اسم ہیں۔

 

۳۔ اگر آپ کو سچ مچ امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام سے عشق ہے، تو آئینۂ علم و حکمت میں اس کی تجلّیات کو دیکھ لیں، اس کی ہر تجلّی میوۂ بہشت ہے، آپ ہمیشہ علم الیقین کے باغ و گلشن ہی میں رہنے کی عادت بنالیں، تا کہ عین الیقین کا راستہ آسان ہو۔

 

۴۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح دو دو کا قانون بنایا ہے، وہ بڑا مضبوط اور اٹل ہے: ۵۵: ۵۲، ۱۱: ۴۰، ۱۳: ۰۳، ۵۱: ۴۹، ۳۶: ۳۶، تاکہ اہلِ دانش پر یہ حقیقت روشن ہو جائے کہ قرآن کے ساتھ زندہ نور بھی ہے (۰۵: ۱۵) رسول کے ساتھ وصی بھی ہے (۱۰۸: ۰۱) ظاہر کے ساتھ باطن بھی ہے (۳۱: ۲۰) اور مثال کے ساتھ ممثول بھی ہے (۰۳: ۱۰۳) یہ قانون ایسا ہے کہ اس سے کوئی دانا انکار نہیں کر سکتا ہے۔

 

۵۔ خدا کی خدائی میں قانونِ درجات بھی ہے اور قانونِ مساوات بھی، ان دونوں حقیقتوں کی دلیلیں الگ الگ ہیں،

 

۱۲۴

 

درجات کے ثبوت کے لئے دیکھ لیں: خود لفظِ  “درجات” جو قرآنِ پاک میں چودہ (۱۴) دفعہ مذکور ہے، اور مساوات کا ذکر اکثر وہاں ملتا ہے، جہاں عرشِ الٰہی کا بیان آیا ہے، اس کی کئی مثالوں میں سے ایک مثال یہ ہے: اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى (۲۰: ۰۵) خدائے رحمان نے عرش پر مساوات کا کام کیا۔ یہ مونوریالٹی کا عظیم راز ہے۔

 

۶۔ عرش کے چند معنی ہیں، ان میں سے ایک معنی چھت کے ہیں، چھت پر مساوات (برابری) ہے، اور درجات کی سیڑھی اس کے نیچے ہے، نیز یہ حقیقت بھی یاد رہے کہ علم کے سمندر پر اللّٰہ کا عرش (تخت، ۱۱: ۰۷) دوسری مثال میں بھری ہوئی کشتی ہے (۳۶: ۴۱) جس میں اہلِ ایمان کی روحیں سوار ہیں، تو یہ مونوریالٹی (یک حقیقت) کا واضح ثبوت ہے، آپ سورۂ ملک (۶۷: ۰۳) میں بھی دیکھیں کہ جو روحیں مساواتِ رحمانی میں ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔

 

۷۔ اللہ تعالیٰ القابض بھی ہے اور الباسط بھی، لہٰذا وہ جل شانّہ ہمیشہ لوگوں کو انسانِ کامل (نفسِ واحدہ) میں لپیٹ کر مساوات بھی کرتا ہے، اور پھیلا کر درجات بھی بناتا ہے، اور یہ حکمت بڑی عجیب و غریب ہے۔

 

۸۔ جہاں عرشِ اعلیٰ کو ایک عظیم فرشتہ ماننا حقیقت ہے، وہاں

 

۱۲۵

 

وہ لازماً ایک جیسی مقدّس روحوں کی کائنات اور بھری ہوئی کشتی ہے، وہ امامِ عالی مقام کی مبارک ہستی ہے، جو حدیثِ شریف کے مطابق کشتیٔ نوح ہے، جس میں جتنے بھی سوار ہیں، وہ سب کے سب ناجی ہیں، اور عجب نہیں کہ اس میں قانونِ مساوات کے مطابق بالآخر کل نفوس جمع ہو جائیں، کیونکہ جب درجات میں سب آتے ہیں، تو مساوات بھی سب کے لئے ہے، جبکہ خدا کی لپیٹ سے کوئی چیز باہر نہیں ہو سکتی ہے۔

 

۹۔ ہم مانتے ہیں کہ الخلق عیال اللہ کے ارشادِ نبوّی میں آخری اور انقلابی تعلیم ہے، اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں ایسی تعلیمات نہ ہوں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز کا ذکر سب سے پہلے قرآن میں ہے، اور اس کے بعد بطورِ تفسیر حدیثِ شریف میں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر ۱۶، ربیع الثانی ۱۴۱۹ھ

۱۰ ، اگست ۱۹۹۸ء

 

۱۲۶

 

یہ تیرا عشق

 

یہ تیرا عشق مجھے ہے شراب سے بہتر

شمیمِ کوچۂ جانان گلاب سے بہتر

تم آ کے دل میں رہو میں حجاب ہو جاؤں

تو پھر بھی کیسے بنوں اس حجاب سے بہتر؟

وہی ہے گنجِ کرم اور وہی ہے کانِ عطا

نہیں ہے کوئی سخی آن جناب سے بہتر

ترا خیالِ حسین مجھ کو خوابِ راحت ہے

ہے کوئی خواب کہیں میرے خواب سے بہتر؟

جمال و حسن ترا اک کتابِ قدرت ہے

نہیں ہے بشری کتاب اس کتاب سے بہتر

اگرچہ چاند ستاروں میں مثلِ سلطان ہے

ہے میرے دل کا حسین ماہتاب سے بہتر

 

۱۲۷

 

سوال ایسا کیا جس میں گنجِ حکمت ہے

کہ عقل جس کو کہے : ہر جواب سے بہتر

زوالِ عہدِ جوانی سے مجھ کو غم نہ ہوا

کہ فکر و عقلِ کُہن سال شباب سے بہتر

خطابِ عشق و فنا گر کرے زراہِ کرم

یہی خطاب مجھے ہر خطاب سے بہتر

یہ دردِ عشق کی تلخی عجیب شیرین ہے

شرابِ عشق ہے یہ ہر شراب سے بہتر

عتاب میں بھی تجلی تری عجیب و غریب

نہیں ہے کوئی عطا اس عتاب سے بہتر

وہی ہے نورِ ازل آفتابِ عالمِ دل

ہزار درجہ وہ اس آفتاب سے بہتر

حبابِ دل چہ عجب بحر اس پہ عرشِ خدا!

نہیں ہے بحر کوئی اس حباب سے بہتر

سنو کہ میرا صنم ہے بتوں کا شاہنشاہ

نہیں ہے کوئی مرے انتخاب سے بہتر

بگڑ گیا ہے اگر باغ پھر خراج نہیں

خرابِ عشق ہوں میں ہر خراب سے بہتر

 

۱۲۸

 

عذابِ عشق نصیرا چہ خوب جنت ہے!

یہی عذاب مجھے ہر ثواب سے بہتر

 

کراچی

جمعرات ۲۰، اگست ۱۹۹۸ء

 

۱۲۹

 

انسانی حقیقت اور اس کا سایہ

 

یہ سچ ہے اور اس میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں کہ انسان کی اصل حقیقت عالمِ علوی میں ہے، اور اس کا سایہ (جسمِ خاکی) عالمِ سفلی میں، اور اس امرِ واقعی کی روشن دلیلیں درجِ ذیل ہیں:۔

 

دلیلِ اوّل: قرآنِ حکیم کے کئی ارشادات میں یہ ذکر آیا ہے کہ جملہ اشیائے موجودات پیدائش ہی سے دو دو ہیں، اور کوئی چیز اس قانونِ دوئی سے مستثنا ہو کر ایک اکیلی نہیں ہو سکتی ہے، جبکہ صرف ذاتِ سبحان ہی واحد اور طاق ہے، اور دوسری کوئی شیٔ ہرگز ایسی نہیں۔

 

دلیلِ دوم: سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں اللّٰہ تعالیٰ کا یہ فرمانِ اقدس ہے کہ اس نے اپنی ہر مخلوق کا ایک سایہ بھی پیدا کیا، تا کہ اس سے انسان کو فائدہ ہو۔ یعنی اس قادرِ مطلق نے عالمِ امر میں انسانی روح کو پیدا کیا، اور عالمِ خلق میں جسم کو اس کا سایہ بنایا، جس طرح قلمِ اعلیٰ کا مظہر (سایہ) رسولِ پاک ہیں، اور لوحِ

 

۱۳۰

 

محفوظ کا مظہر (سایہ) امامِ مبین، ہاں اس آیۂ شریفہ میں مظہریّت کی حقیقت بھی ہے کہ روحِ لطیف جو بہشت (عالمِ علوی) میں ہے اس کا بدنِ کثیف بطورِ مظہر (سایہ) اس جہان میں ہے۔

 

دلیلِ سوم: مذکورۂ بالا آیت ہی میں یہ اشارۂ حکمت بھی ہے کہ ہر کامیاب مومن اور مومنہ کو معجزاتی پیراہن مل سکتا ہے، یہ انسان کی اصل حقیقت اور روح کا علوی سرا ہے جو بہشت میں ہے، چنانچہ جب کوئی نیک بخت شخص اس نورانی پیراہن (جامۂ بہشت) کو پہن لے گا، تو وہ اپنے آپ کو بہشت میں دیکھے گا، یہ ہے آدمی کا اپنی اصل حقیقت سے واصل ہو جانا۔

 

دلیلِ چہارم: آپ یقیناً دو دو ہیں، یعنی آپ میں سے ہر ایک بیک وقت بہشت میں بھی ہے اور یہاں اس دنیا میں بھی، اور اس کی روشن دلائل میں سے ایک دلیل ہزار حکمت کی ابتدا ہی میں ہے، جیسا کہ ارشادِ قرآنی کا ترجمہ ہے: اور دیا تم کو ہر چیز میں سے جو تم نے مانگی (۱۴: ۳۴) یہ فرمانِ الٰہی آپ کی اُس پاکیزہ اور لطیف ہستی کے پیشِ نظر ہے، جو بہشتِ برین میں مطمئن ہے، نہ کہ دنیوی وجود کے اعتبار سے، اور ہر دانا اس دلیل کی بہت قدر کرے گا۔

 

دلیلِ پنجم: آپ قرآنِ حکیم میں دیکھتے ہیں کہ لوگِ نفسِ واحدہ / آدمِ زمانؑ سے پیدا کئے جاتے ہیں، اور پھر اسی میں وہ

 

۱۳۱

 

لپیٹ لئے جاتے ہیں، اس کا یہ مطلب ہوا کہ یہی مرتبۂ علیّا ہی ہر شخص کی انائے علوی اور روح کا بالائی سرا ہے، جو بہشت میں ہے۔

 

دلیلِ ششم: اللّٰہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں قدیم ہے، اس لئے وہ جلّ جلالہ ہمیشہ ہمیشہ کل اشیا کو مرکز میں لپیٹتا بھی ہے اور پھیلاتا بھی ہے، اس سے تمام چیزوں کا وہ جوہرِ وحدت مرکز سے کبھی ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ نقشِ ازل کی حیثیت سے باقی و برقرار رہتا ہے، جیسے قرآنِ حکیم جب لوحِ محفوظ سے اس دنیا میں نازل ہوا، تو اس کے لئے یہی قانون تھا کہ عالمِ امر کے مطابق وہاں بھی رہے، اور عالمِ خلق کے مطابق یہاں بھی آئے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲)۔

 

دلیلِ ہفتم: قرآنِ عزیز میں جہاں اللّٰہ کی رسی کی مثال آئی ہے (۰۳: ۱۰۳) وہاں وہ کوئی معمولی بات ہرگز نہیں ہے، بلکہ اس کی حکمت میں انتہائی جامعیّت ہے، اور اس کا ایک واضح اشارہ یہ ہے کہ انسانی روح بھی حبل اللّٰہ سے وابستہ ایک چھوٹی سی رسی ہے، رسی میں سالمیّت بھی ہے، اور اس کے دو سرے بھی ہیں، اس کا بالائی سرا بہشت میں ہے، اور زیرین سرا دنیا میں، اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی اصل حقیقت بہشت میں ہے۔

 

دلیلِ ہشتم: ارشاد ہے: من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ = جس نے اپنے آپ (یا اپنی روح) کو پہچان لیا، یقیناً اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ مگر یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی

 

۱۳۲

 

آدمی اپنی روحِ نباتی، روحِ حیوانی، اور عام روحِ انسانی کے قیاس پر اپنے ربّ کو پہچانے؟ ہاں یہ حقیقت ہے کہ نفسہ (اپنے آپ = اپنی روح) سے انسانِ کامل مراد ہے کہ عارف کی اصل جان (نفس = روح) وہی ہے، اور اسی کی معرفت حضرتِ ربّ کی معرفت ہے، دران حالے کہ حقیقی مرشد کی روح (نور) مرید میں آ کر رہنمائی کرتی رہتی ہے، کیونکہ انسانِ کامل وہ ہے جو خدا کے عطا کردہ نور کے ذریعے سے لوگوں کے باطن میں چل سکتا ہے (۰۶: ۱۲۲) اس سے پتا چلا کہ امامِ عالی مقام عموماً تمام لوگوں اور خصوصاً مریدوں کی چوتھی روح ہے، جس میں بہشت ہے، اسی معنیٰ میں آپ بہشت میں بھی ہیں، اور دنیا میں بھی۔

 

دلیلِ نہم: سورۂ فرقان کی اس آیۂ کریمہ کی طرف بہت سے صوفیوں اور عارفوں کی نگاہیں جاتی رہی ہیں کہ یہ سایہ کون سا ہے؟ عام ہے یا خاص؟ یا خاص الخاص؟ سبحان اللّٰہ! یہ ظلِّ الٰہی ہے (۲۵: ۴۵) کیونکہ یہ سوال مقامِ دیدار (حظیرۂ قدس) سے متعلق ہے، اور یہ سب سے بڑا راز ہے کہ جب سورج کا کوئی سایہ نہیں، تو ظلِ الٰہی کیونکر ممکن ہو سکتا ہے؟ لیکن یہ نکتۂ دلپذیر یاد رہے کہ عکسِ خورشید ہی اس کا سایہ ہے، اور اسی طرح مظہرِ نورِ خدا ہی ظلِّ الٰہی ہے، اور وہ آپ کی انائے علوی ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

پیر یکم جمادی الاوّل ۱۴۱۹ھ

۲۴ اگست ۱۹۹۸ء

 

۱۳۳

 

سورۂ تین کے تاویلی اسرار

 

سورۂ تین (۹۵: ۰۱ تا ۰۸) کا ترجمہ: بنامِ خدائے رحمان و رحیم۔ قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی، اور طورِ سینا کی، اور اس امن والے شہر کی، یقیناً ہم نے انسان کو بہترین تقویم میں پیدا کیا، پھر ہم نے اس کو پست ترین حالت کی طرف پلٹا دیا، سوائے ان لوگوں کے جو (بحقیقت) ایمان لائے اور (علم کے ساتھ) نیک عمل کرتے رہے کہ ان کے لئے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے، پھر تم کو روزِ جزا کے بارے میں کون جھٹلا سکتا ہے؟ کیا خدا سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟

 

تاویل: تاویل کے تین درجات ہیں: علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین، آپ علم الیقین کو بزرگانِ دین کی گرانمایہ کتابوں سے حاصل کرتے رہیں، یہی ابتدائی اور کلیدی تاویل ہے،  علمِ تاویل کا ایک بہت بڑا خزانہ “وجہِ دین” کے نام سے ہے، اللہ تعالیٰ نے اس سورہ کے آغاز میں جن چار چیزوں کی قسم کھائی ہے، وہ عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اور اساس ہیں، تفصیل کے لئے

 

۱۳۴

 

دیکھیں: وجہِ دین، گفتار (کلام) ۱۱۔

 

اس عظیم الشّان سورہ کی ایک خاص کلیدی حکمت لفظِ “تقویم” میں پوشیدہ ہے، تقویم کا لفظی ترجمہ ہے: سیدھا کرنا، درست کرنا، لیکن آیتِ پنجم! “پھر ہم نے اس کو پست ترین حالت کی طرف پلٹا دیا” میں سوچنے سے معلوم ہوا کہ تقویم کا مفہوم ارتقائی سیڑھی ہے، یعنی انسانِ کامل کی روحانی تخلیق بہترین ارتقائی سیڑھی پر ہوتی ہے، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ روحانی سیڑھیوں کا مالک ہے (۷۰: ۰۳) اور حضرتِ محمد سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صاحبِ معراج ہیں۔

 

سورۂ احزاب (۳۳: ۲۱) میں رسولِ پاک کے اسوۂ حسنہ سے متعلق جو ارشاد ہے، اس کی حکمت کو سمجھنا بےحد ضروری ہے، اس کا ایک ترجمہ یہ ہے: درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللّٰہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللّٰہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللّٰہ کو یاد کرے (۳۳: ۲۱) اس پُرحکمت ارشاد کی تفسیر حدیثِ نوافل ہے، کہ یہاں ارتقائی سیڑھی پر کاملین کی روحانی تخلیق کا ذکر ہے، جبکہ پیغمبرِ اسلام کا بہترین نمونہ اسی مقصد کے پیشِ نظر ہے، ہاں معراج کی رات رسول اللّٰہ کو فنا فی اللّٰہ کا انتہائی عظیم مرتبہ حاصل ہوا تھا، اس کے معنی یہ ہوئے کہ حضورِ انور کو لامکان میں صورتِ رحمان عطا ہوئی، لیکن اس کے باوجود ظاہری اعتبار سے زمین پر تشریف لے آئے، پس آپ نورانیّت

 

۱۳۵

 

میں آسمان پر تھے، اور جسمانیّت میں زمین پر۔

 

آپ کو قرآن و حدیث اور عقل و منطق کی روشنی میں ٹھیک ٹھیک سوچنا ہوگا کہ جو لوگ فنا فی الامام، فنا فی الرسول، اور فنا فی اللّٰہ ہو جاتے ہیں، ان کی روحانی ترقی کا کیا عالم ہوگا؟ کیا وہ ارتقائی سیڑھی سے عروج کر کے حظیرۂ قدس میں داخل نہیں ہوں گے؟ آیا ان کو صورتِ رحمان عطا نہیں ہوگی؟ یہاں حدیثِ نوافل کو بھول نہ جائیں، خدا جو گنجِ مخفی ہے اس کا بھی تصوّر کریں، اس خزانۂ غیب میں اسرار ہی اسرار ہیں، اگر آپ بہشتِ جبین میں جا کر صورتِ رحمان پر ہو جاتے ہیں، تو بتائیں کہ یہ واقعہ زمان و مکان کے تحت ہوگا یا اس سے بالاتر؟ یہ سوال اس لئے ضروری ہے، کہ اگر آپ کو صورتِ رحمان لامکان میں عطا ہو جاتی ہے تو یہ اسرارِ ازل میں سے ہے اور سرِ قدیم ہے۔

 

خداوند تعالیٰ ہر انسانِ کامل کی ذاتی اور روحانی قیامت کے دوران تمام روحوں کو ارتقائی سیڑھی سے چڑھا کر اپنی ربّوبیّت کا اقرار بھی لیتا ہے: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ یہ عالمِ شخصی کی بادشاہی کی چیزیں ہیں، جو محفوظ رہتی ہیں، لیکن ظاہری اعتبار سے لوگ سب کے سب عالمِ سفلی کی طرف لوٹا دئے جاتے ہیں، کیونکہ دنیا کشت گاہِ آخرت ہے۔

 

اس سے اگلے مقالے (انسانی حقیقت اور اس کا سایہ) کو

 

۱۳۶

 

پھر سے پڑھیں، یہ سچ ہے کہ انسان کی اصل حقیقت عالمِ علوی میں ہے، اور اس کا سایہ زمین پر، اسی تصوّر سے البتہ سورۂ تین کی حکمت سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے، پس دوستانِ عزیز کو میرا پُرخلوص مشورہ یہ ہے کہ وہ علم الیقین سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں، کہ اس میں حق الیقین کے اسرار ہوتے ہیں، پس آپ علم الیقین کے عنوان سے حق الیقین کے جواہر کو حاصل کرتے رہیں، کتنا بڑا امتحان ہے کہ بعض لوگ اس علم سے بھاگ جاتے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعہ ۵ جمادی الاول ۱۴۱۹ھ

۲۸ اگست ۱۹۹۸ء

 

۱۳۷

 

ایک عجیب و غریب خط

 

حبِّ علی ہونزائی (ایل۔ جی) لٹل اینجلز سولجرز کے مقدّس ادارے میں شامل ہے، اس کی تاریخِ پیدائش ہے: یومِ جمعہ ۱۶ جنوری ۱۹۹۸ء، یہ ننھا بچہ اس بندۂ حقیر (نصیر) کا پڑپوتا ہے، جو خداوندِ قدوس کی عنایات میں سے ہے، یہ پیارا بچہ زبانِ حال سے یوں کہتا ہے:

 

دادا جان! آپ مجھ سے اتنی زیادہ محبت کرتے ہیں، اور ہر روز میری سلامتی اور بہتری کی نیّت سے لا حول و لا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم پڑھا کرتے ہیں، تو آپ ہمارے تمام لٹل اینجلز سے بھی محبت کریں نا، اور لاحول سب کو سکھائیں نا، پیارے دادا جان! آپ اپنے سب سے چھوٹے ادارے کی ترقی کے لئے دعا بھی کرنا، اور کچھ تعلیم بھی دینا۔

 

دادا جانو! میرے والدین بہت زیادہ خوش ہیں، لیکن ان کی دانائی یہ ہو گی کہ وہ میری سلامتی اور ترقی کے لئے ہر وقت دعا کرتے رہیں، اگر میں ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں، تو وہ بڑی کثرت

 

۱۳۸

 

سے خداوند تعالیٰ کا شکر کرتے رہیں۔

 

میری جان دادا! میرے والدین کو نرم نصیحت ضرور کرنا، لیکن کبھی دل سے ناراض نہ ہو جانا، وہ آپ کی پیاری اولاد ہیں، ہمیشہ آپ کی خدمت کرتے رہتے ہیں، ان شاء اللّٰہ وہ اب دین، ایمان، اور حقیقی علم میں ترقی کریں گے، کیونکہ وہ پہلے بچے تھے، اب خدا کے فضل و کرم سے والدین ہو گئے۔

 

دادا جان! یہ بھی آپ کا انوکھا اور نرالا طریقہ ہے کہ آپ بچوں کی محبّت کے ذریعے سے بھی کچھ مفید باتیں کرتے ہیں، الحمد للّٰہ، لیکن دادا، دادا! ہم دونوں مل کر کبھی کبھی لٹل اینجلز کو کوئی مفید خط لکھیں گے، اور ان کے والدین سے گزارش کریں گے کہ وہ ہائی ایجوکیٹرز کا فریضہ حسن و خوبی سے انجام دیں، اور امید ہے کہ جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی صاحب بھی مدد فرمائیں گے۔

 

میں (نصیر الدین) کہتا ہوں کہ “زبانِ حال” سب سے پہلے ایک قرآنی حقیقت ہے، لہٰذا یہ بھی علم کے میدانوں میں سے ایک خوبصورت میدان ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات ۱۱ جمادی الاول ۱۴۱۹ھ

۳ ستمبر ۱۹۹۸ء

 

نوٹ: ہمارے ہر عزیز کو پہنچا دینا ضروری ہے۔

 

۱۳۹

 

پیغمرانہ یا اولیائی موت

 

۱۔ قرآنِ حکیم میں اکثر جسمانی موت کے پس منظر میں نفسانی موت کا بیان ہے، اور ظاہری شہادت کی مثال میں باطنی شہادت کی حقیقت پنہان ہے، یہ اس لئے ایسا ہے کہ تمام چیزیں  دو دو (جفت جفت) پیدا کی گئی ہیں، تا کہ ایک شیٔ مثال ہو، اور دوسری ممثول، یا ایک چیز دلیل ہو، اور دوسری مدلول، جیسے ارشاد ہے: كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ = ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے (۰۳: ۱۸۵) آپ تحقیق کر سکتے ہیں کہ ذائقہ (چکھنا) تجربہ کے معنی میں ہے، اور موت کا زیادہ سے زیادہ تجربہ وہ شخص حاصل کر سکتا ہے، جو جیتے جی مر کر زندہ ہو جاتا ہے، اور اس کارنامۂ عظیم میں بےشمار فائدے ہیں، اس کلّیہ سے معلوم ہوا کہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام نہ صرف قیامتی موت کے جملہ احوال سے باخبر ہوتے ہیں، بلکہ عالمِ شخصی کے تمام مراحل سے آگے جا کر مرتبۂ فنا فی اللّٰہ کی سب سے بڑی معرفت کو بھی حاصل کرتے ہیں۔

 

۱۴۰

 

۲۔ اسی طرح ظاہری شہادت کے بیان میں باطنی شہادت کا تذکرہ پوشیدہ ہے، مثال کے طور پر دیکھ لیں: ترجمہ: اور خبردار راہِ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پا رہے ہیں (۰۳: ۱۶۹) یہ ارشاد ایک جانب سے شہدائے ظاہر کے بارے میں ہے، اور دوسری جانب سے شہیدانِ باطن کے بارے میں، جس میں باطنی شہادت کی تعریف اس طرح سے ہے: کہ وہ مر کر بھی نہیں مرے ہیں، نیز ان کو نورانی بدن میں ابدی زندگی مل رہی ہے، اور ان کو علمِ لدنی حاصل ہو رہا ہے، یہ روحانی شہید بھی ہیں، اور ذبیح بھی۔

 

۳۔ آیۂ مبارکہ (۰۲: ۲۱۳) کے ان الفاظ میں غور کریں: بَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ َ = پہلا ترجمہ: پھر خدا نے پیغمبروں کو بھیجا۔ دوسرا ترجمہ: پھر خدا نے انبیا کو (تجربۂ موت کے بعد) دوبارہ زندہ کیا۔ اس معنی کے بغیر کسی شخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اللّٰه  تعالیٰ نے اپنے جن خاص بندوں کو تاجِ نبوّت سے سرفراز فرمایا، وہ ظاہراً کہیں دور سے نہیں آئے تھے، بلکہ وہ اپنی اپنی قوم ہی میں تھے، جیسے ہمارے پیغمبرِ اکرم صلی اللّٰه علیہ و آلہ و سلم، پھر بھیجنے کے معنی میں کیا راز ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر پیغمبر اپنی حیات ہی میں موت کا عجیب و غریب تجربہ حاصل کرتا ہے، اور روحانیّت کے جملہ مراحل سے گزر کر فنا فی اللّٰه کی معراج تک

 

۱۴۱

 

پہنچ جاتا ہے، اور خدا کے اُسی قربِ خاص سے اُس کو لوگوں کی طرف بھیجا جاتا ہے یا نازل کیا جاتا ہے، کیونکہ محولہ آیۂ مبارکہ (۰۲: ۲۱۳) میں ہے: وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ  = اور ان کے ساتھ کتاب نازل کی۔ اس سے ظاہر ہوا کہ انبیا علیہم السّلام کا روحانی مرتبہ بھی عالمِ علوی سے آتا ہے۔

 

۴۔ راہِ روحانیّت میں تمام کاملین و عارفین دو دفعہ مرکر زندہ ہو جاتے ہیں، سب سے پہلے منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی میں، اور آخراً مرتبۂ عقل میں جا کر، جہاں تمام حقائق و معارف مرکوز ہو جاتے ہیں، پس یہی ہے پیغمبرانہ یا اولیائی موت جو بڑی پُرحکمت اور معجزاتی ہے۔

 

۵۔ قاموس القرآن میں ہے: بعث = زندہ کرنا، اٹھا کھڑا کرنا، جی اٹھنا، بھیجنا، اور خود قرآنِ حکیم میں ہے:  یَوْمِ الْبَعْثِ٘ = جی اٹھنے کا دن (۳۰: ۵۶) جیسے سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) میں ہے: مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍؕ = تم سب کی خلقت اور تم سب کا دوبارہ زندہ کرنا سب ایک ہی آدمی جیسا ہے۔ یعنی تمہاری غیر شعوری قیامت نفسِ واحدہ میں گزرتی ہے، اور شعوری قیامت نفسِ واحدہ کی طرح ہوتی ہے۔

 

۶۔ مولانا جلال الدین رومی کی شہرۂ آفاق کتاب “مثنوی” کے دفترِ ششم میں یہ حدیثِ شریف درج ہے: موتوا قبل

 

۱۴۲

 

ان تموتوا = مر جاؤ قبل اس کے کہ مرو۔ اس کے بعد بطورِ سند حکیم سنائی کا یہ بیت بھی ہے: بمیر اے دوست پیش از مرگ اگر می زندگی خواہی + کہ ادریس از چنین مردن بہشتی گشت پیش از ما = اے دوست! مرنے سے پہلے مر جا، اگر تو زندگی چاہتا ہے، کیونکہ ادریس ہم سے پہلے ایسے مرنے سے بہشتی بن گئے ہیں۔

 

۷۔ حضرتِ ادریس علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد ہے: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا = اور ہم نے ان کو بلند مقام تک پہنچا دیا (۱۹: ۵۷) اللّٰه تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہر پیغمبر، ہر ولی، اور ہر عارف کو قیامت خیز موت کا تجربہ ہوتا ہے، جو مرگِ جسمانی سے پہلے آتی ہے، مذکورہ آیۂ شریفہ میں اسی موت اور اسی ذاتی اور روحانی قیامت کا ذکر ہے کہ خداوند تعالیٰ نے حضرتِ ادریس کوعالمِ شخصی کے تمام درجات سے بلند کر کے علیّین (حظیرۂ قدس) تک پہنچا دیا، علیّین یا علیّون مقام جبین کی بہشت ہے، وہ زندہ ہے، وہ بولنے والی کتاب ہے، وہ کامل بھی ہے اور کاملین بھی، وہ واحد بھی ہے اور جمع بھی، وہ عاشق بھی ہے اور معشوق بھی، وہ مکان بھی ہے اور لامکان بھی، وہ سب کچھ ہے، کیونکہ وہ خزانۂ الٰہی اور امامِ مبین ہے (۳۶: ۱۲)۔

 

۸۔ ارشادِ قرآنی کا ترجمہ ہے: اور ان کے لئے ہماری ایک نشانی (معجزہ) یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کے (روحانی) ذرّات کو

 

۱۴۳

 

بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا (۳۶: ۴۱) آپ کو بفضلِ خدا بھری ہوئی کشتی کا انتہائی عظیم راز معلوم ہے، یہ ہر نبی اور ہر ولی کے عالمِ شخصی میں اپنے وقت پر ظاہر ہوتی ہے، اس مقدّس کشتی کی کئی مثالیں اور تاویلیں ہیں: ۱۔ یہ سفینۂ نوح ہے جو سفینۂ نجات ہے، ۲۔ یہ اہلِ بیتِ محمدؐ میں سے امامِ زمانؑ کی مثال ہے، ۳۔ یہ الجاریۃ (۶۹: ۱۱) ہے، یعنی علمی طوفان کی غرقابی سے بچانے والی کشتی، ۴۔ نیز دیکھیں اس کی جمع الجوار (۴۲: ۳۲، ۵۵: ۲۴)، ۵۔ یہ بحرِعلم پر حضرتِ ربّ کا عرش ہے، کہ عرش زندہ ہے جو ایک فرشتہ ہے یا انسانِ کامل ہے، جو مظہرِ یک حقیقت ہے۔

 

۹۔ سورۂ رحمان (عروس القرآن) کی اس عالی قدر آیت کے معنی میں خوب غور کریں: وَ لَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَــٴٰـتُ فِی الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِ (۵۵: ۲۴) پہلا ترجمہ: اسی کی ہیں بلند کی ہوئی کشتیاں جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح کھڑی رہتی ہیں۔ دوسرا ترجمہ: اسی کی ہیں وہ تربیت و ترقی دادہ (زندہ) کشتیاں جو (علمی) سمندر میں سرداروں کی طرح ہیں۔ اس میں تمام عوالمِ شخصی کا عرفانی تذکرہ ہے۔

 

۱۰۔ مُنْشَـأتُ: انشأ سے ہے، اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں، عموماً یہ لفظ زندہ چیز ۔۔۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے (مفردات القرآن)۔ العَلَم: ۱۔ کپڑے کا نقش،

 

۱۴۴

 

جھنڈا، قوم کا سردار، ج: اعلام۔ العَلَم: ۲۔ راہ کا نشان، اونچا پہاڑ، علامت، نشان، منارہ، ج: اَعْلَام و علام۔ (المنجد)۔

 

۱۱۔ وہ سب جوان زندہ کشتیوں میں ہیں فنا ہو جانے والے ہیں (۵۵: ۲۶) صرف تیرے ربّ کا چہرہ (صورتِ رحمان) جو صاحبِ جلال و اکرام ہے وہی باقی رہتا ہے (۵۵: ۲۷) اس سے معلوم ہوا کہ جو روحیں بھری ہوئی کشتیوں میں ہیں، ان کی فنائیّت اور وحدت صورتِ رحمان میں ہے، وجہ اللّٰہ یا صورتِ رحمان امامِ زمانؑ ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر، جمادی الاول ۱۴۱۹ھ

۷ ستمبر ۱۹۹۸ء

 

۱۴۵

 

روحانی شہد = علمِ تاویل

 

۱۔ ظاہری اور جسمانی نعمتوں میں سب سے عجیب و غریب اور سب سے لذیذ و لطیف نعمت شہد ہی ہے، جو بہترین غذا بھی ہے اور مفید ترین دوا بھی، آپ نہ صرف طب کی مستند کتابوں میں شہد کے خواص (تاثیرات) کو دیکھ سکتے ہیں، بلکہ قرآن و حدیث کی مقدّس طب میں بھی یہ ایک بہترین دوا ہے، قدرتِ خدا کی کارفرمائی سے شہد کی مکھیاں جس طریقِ کار سے شہد بناتی ہیں، وہ بڑا حیرت انگیز اور بےمثال ہے، شہد کی مکھیوں کا سارا نظام انوکھا، نرالا، حیران کن، اور لاجواب اس وجہ سے ہے، کہ یہ ایک عظیم روحانی معجزے کی مثال ہے، اور وہ ہے روحانی شہد بنانے کا سب سے بڑا معجزہ۔

 

۲۔ معجزۂ تنزیل ناطق کا ہے، اور معجزۂ تاویل اساس کا، کہ وہ حجّتِ ناطق ہے، امام میں بھی یہ معجزہ ہے، کہ حجّتِ اساس ہے، اور باب میں بھی یہ معجزہ ہے کہ وہ حجّتِ امام ہے، تا کہ علم و حکمت کا دروازہ کبھی بند نہ ہو جائے، پس شہد کی مکھی جس کا ذکر سورۂ نحل

 

۱۴۶

 

(۱۶: ۶۸ تا ۶۹) میں ہے وہ حدودِ مذکور کی مثال ہے، تاہم روحانیّت میں تاویلی شہد بنانے کی ساری خدمت کا موقع مومنین و مومنات ہی کی روحوں کو حاصل ہے، جیسے ظاہری شہد کی مکھیوں کا نظام ہے، اس سے یہ معلوم ہوا کہ حقیقی مومنین ظاہراً و باطناً تاویل سے اس طرح وابستہ ہیں کہ وہ کبھی اس سے الگ نہیں ہو سکتے۔

 

۳۔ ترجمۂ ارشاد: اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کو اشارہ دیا کہ تو پہاڑوں میں گھر بنا لے اور درختوں میں اور اونچی اونچی چھتوں میں جو لوگ بنا لیتے ہیں (۱۶: ۶۸) پھر ہر پھل میں سے تو کھا اور اپنے پروردگار کے مسخر کردہ راستوں پر چلی جا، اسی مکھی کے پیٹ سے ایک شربت رنگ برنگ کا نکلتا ہے جس میں آدمیوں کے لئے شفا ہے، بے شک غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں ایک نشانی (موجود) ہے (۱۶: ۶۹)۔

 

۴۔ تاویل: تمہارے ربّ نے اساس کو الہام کیا کہ تم تاویلی حکمت کی غرض سے حظیرۂ قدس کے پہاڑوں میں اپنا گھر بنا لو اور وہاں کے درختوں میں اور وہاں کی چھتوں (عروش) میں، پھر ہر میوۂ علم و حکمت میں سے کھا لو اور اپنے ربّ کے تائیدی علم کا سرچشمہ ہو کر چلو، صاحبِ تاویل کے باطن سے مختلف تاویلات ظاہر ہوتی ہیں، جن میں لوگوں کے امراضِ روحانی کے لئے

 

۱۴۷

 

شفائے کلّی ہے، یقیناً غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں عظیم معجزہ ہے۔

 

۵۔ سوال: علمِ تاویل کے لئے حظیرۂ قدس کی طرف رجوع کیوں ضروری ہے؟ جواب: کیونکہ وہ علیّین ہے، اس میں خزائنِ الٰہی ہیں، عرش و کرسی اور قلم و لوح ہیں، کتابِ کلّ شیٍٔ ہے، وہاں ساری کائنات لپیٹی ہوئی موجود ہے، اس میں خدا قبض و بسط کرتا ہے، وہ مقامِ حق الیقین ہے، یہ نزدیک لائی ہوئی بہشت ہے، یہاں عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اور اساس کا نورِ واحد ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں پاک درخت پھل دیتا رہتا ہے، وہاں کتابِ مکنون ہے، گنجِ مخفی بھی، اَسرارِ ازل و ابد بھی، درختِ طوبیٰ بھی، درختِ سدرہ بھی، درختِ زیتون بھی، وہاں مثل الاعلیٰ بھی ہے اور کلمۂ باری بھی، دیدارِ خداوندی بھی ہے اور فنا فی اللّٰہ بھی۔

 

۶۔ عالمِ علوی بھی ہے اور یک حقیقت بھی کوہِ طور بھی ہے اور کوہِ عقل بھی، مظاہرۂ گوہرِعقل بھی ہے اور عالمِ وحدت بھی، وہاں ام الکتاب بھی ہے اور عالمِ امر بھی، بیت العتیق بھی ہے اور بیت المعمور بھی، یہ مقامِ ابراہیم بھی ہے اور مقامِ معراج بھی، وہاں وجہ اللّٰہ کی رویّت و معرفت بھی ہے اور ید اللّٰہ کی بے مثال فیاضی بھی، آئینۂ روحِ قرآن بھی ہے، گنجینۂ اسرارِ فرقان بھی، وہاں نورِ محمدؐ کی اولیّت بھی ہے اور نورِ علی کی حقیقت بھی، وہاں علم کا شہر

 

۱۴۸

 

بھی ہے اور حکمت کا گھر بھی، عالمِ شخصی کا مرکز بھی ہے اور مقامِ الست بھی، الغرض یہ امامِ مبینؑ میں تمام چیزیں محدود ہونے کی ایک بہت مختصر تفسیر ہے۔

 

۷۔ یہ صندوقِ جواہر نوادر جملہ احباب کے لئے تحفہ ہے، جو عزیز روحانی علم کا جتنا عاشق ہوگا، وہ اس گرانمایہ صندوق سے اتنا خوش ہوگا، خدا کرے کہ سب میں علمی عشق پیدا ہو! سب کو جگائے، سب کو تڑپائے، اور بالآخر یہ سب کو نصیب ہو! آمین! یا ربّ العالمین!!

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۹ ستمبر ۱۹۹۸ء

 

۱۴۹

 

ایک انمٹ یاد

 

میرے بےحد عزیز جانی بھائی نیاز علی کی انمٹ یاد میں

 

جان نثار خلیفہ نیاز علی سابق موکھی، ابنِ خلیفہ عافیت شاہ ابنِ خلیفہ محمد رفیع ہم کو غموں کے سپرد کر کے جنّت کی طرف چلے گئے، وہ وہاں خندان ہم یہاں گریان، وہ ہر قسم کی ذمہ داریوں سے سبکدوش، ہم بارِ گران کی سنگینی سے بےہوش، وہ بہشت کی لطیف زندگی سے شادمان، ہم آئے دن بیماریوں سے نالان، انہیں ہر قسم کی مسرّت، ہمیں ہر طرح کی حسرت، وہ روحانیوں کے ساتھ شرابِ عشقِ مولا سے سرشار، ہم دنیوی وسوسوں میں گرفتار اور خوار و زار، ہم میں اور ان میں اتنا بڑا فرق کیوں ہے؟ ج: اس لئے کہ وہ جسمِ لطیف میں منتقل ہو گئے۔

 

س۔ کیا نیاز علی اپنے خاندان کے افراد اور دوستوں کو دیکھ سکتے ہیں؟ ج: جی ہاں، دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ وہ اب (ان شاء اللّٰہ)

 

۱۵۰

 

جسمِ لطیف میں ہیں، س: کیا وہ اتنی جلدی قیامت اور حساب سے فارغ ہو گئے؟ ج: وہ ان لوگوں میں سے تھے، جن کو قیامت کی سختی اور حساب کے بغیر فوراً ہی بہشت کی نعمتیں ملنے لگتی ہیں، آپ قرآن (۰۳: ۳۷) اور حقیقی علم کی کتابیں پڑھیں، س: بہشت میں موکھی نیاز علی کا خاص شغل کیا ہوگا؟ ج: وہ بےشمار لوگوں کو اسلامی تعلیم دیتے ہیں، س: لیکن ان کے پاس اتنا زیادہ علم کہاں تھا؟ ج: ٹھیک ہے میں مانتا ہوں، ان کے پاس جو بھی علم تھا، وہ قانونِ اجر کے مطابق بڑھا کر دس گنا کر دیا گیا (۰۶: ۱۶۰)۔

 

س: کیا موت سے روح کو نقصان پہنچتا ہے یا جسم کو؟ ج: مومن کی روح نہیں مرتی ہے، بلکہ دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف منتقل ہو جاتی ہے، جس میں اس کو قالبِ نورانی اور بہشت کی دائمی نعمتیں ملتی ہیں، س: مومنین اور مومنات کے نامۂ اعمال کی سب سے بڑی خوبی کیا ہے؟ ج: اس کی سب سے عظیم یا بےمثال خوبی یہ ہے کہ وہ کتابِ ناطق (بولنے ولی کتاب) ہے جو خدا کے پاس ہے، یعنی خود امامِ زمان علیہ السّلام ہی اہلِ ایمان کے لئے نامۂ اعمال ہو جاتا ہے، الحمد للّٰہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

اتوار ۱۲ جمادی الثانی ۱۴۱۹ھ

۴ اکتوبر ۱۹۹۸ء

 

۱۵۱

 

عجیب و غریب خط ۔ ۲

 

حبِّ علی ہونزائی ایل۔ جی۔، ایل۔ اے۔ ایس۔ کی جانب سے تمام پیارے پیارے ننھے منھے ساتھیوں اور جملہ بزرگوں کو پرخلوص یا علی مدد قبول ہو! معلوم ہوا کہ ہمارا اگلا خط پسند کیا گیا، لیکن کیا کریں خواہش اور فرمائش کے باوجود میرے پیارے دادا جان کو بہت کم فرصت ملتی ہے۔

 

ہم سب لٹل اینجلز سولجرز بڑے خوش نصیب ہیں کہ ہمارے ادارے کے قیام کے بعد دانشگاہِ خانۂ حکمت کی بہت بڑی ترقی ہوئی، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

 

میری اپنی جان کی طرح عزیز دادا جان ہر روز میرے سامنے خدا کا نام لیتے ہیں، میں اگرچہ ایک شیرخوار بچہ ہونے کی وجہ سے نہیں سمجھتا ہوں، لیکن میرا فرشتہ اس کو ٹھیک ٹھیک سنتا ہے، اور مجھ پر ایک عجیب خوشگوار روحانی اثر ڈالتا ہے، اگر دادا جان کی یہ سعیٔ جمیل جاری رہی اور میرے لئے اسی عمر سے مذہبی ماحول مہیا ہو سکا تو ان شاء اللّٰہ

 

۱۵۲

 

فائدہ ہوگا۔

 

ننھے ساتھیو! ہم سب کتنے خوش نصیب ہیں، اسلام میں پیدا ہو گئے، اسماعیلیّت میں، عظیم امام کے زمانے میں، اچھے اچھے مذہبی گھرانوں میں، بےمثال حکمتی کتابوں کے خزانوں میں، اور ابھی سے ہمیں مذہبی تعلیم دینے کی فکر ہو رہی ہے۔

 

عزیز ساتھیو! غصّہ نہیں کرنا، مت روٹھنا، مت رونا، ممی اور پپا / ڈیڈی  کی بات کو ماننا، مارا ماری والی فلم کو نہ دیکھنا، مولا باپا کی تصویرِ مبارک کو پیار کرنا، جماعت خانہ جانا، وقت پر سو جانا، اور سو جانے سے پہلے تسبیح پڑھنا، اچھی عادتیں سیکھنا، تا کہ گھر والے سب آپ سے محبّت کریں، میرے گھر والے سب مجھ سے محبت کرتے ہیں۔

 

میں اپنے “حبِ علی” کے اس پیارے نام سے بہت ہی شادمان ہوں، جو شخص علی کی وجہ سے اس نام کو پسند کرے اور علی کی محبت کی طرف مائل ہو جائے، یقیناً اس میں بھلائی ہو گی، ان شاء اللّٰہ۔

 

میں (نصیر الدین) کہتا ہوں کہ “زبانِ حال”  قرآنی بھیدوں میں سے ایک بھید ہے، لہٰذا اسے اجاگر کرنا ضروری ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات ۱۵ رجب المرجب ۱۴۱۹ھ

۵ نومبر ۱۹۹۸ء

 

۱۵۳

 

عزیز راجپاری

 

بہت ہی عزیز و محترم عزیز راجپاری

خلوص و محبت کے ساتھ یا علی مدد!

 

آپ کی پُراز معلومات ای۔ میل۔ مل گئی، بہت بہت شکریہ! آپ کی ہر کوشش قابلِ تعریف ہے، آپ جب ۱۹۹۵ء میں گلگت آئے تھے، اس وقت بھی آپ کی دانشمندی سے لوگ تعجب کرتے تھے، اور مجھے ڈگری ملنے پر آپ کو جو خوشی مل رہی تھی، وہ بھی غالب تھی، رفتہ رفتہ آپ کی اور ہماری دوستی بہت مضبوط ہوگئی، یہ دوستی آپ کے برادرِ بزرگ نور الدین راجپاری کا تحفہ ہے کہ انہی کی وجہ سے آپ سے ملاقات ہوئی تھی، الحمد للّٰہ۔

 

ہمارے تمام شاگرد جو امریکہ میں ہیں، وہ علم میں بہت ہی ترقی کر رہے ہیں وہ مزید ترقی کریں گے، دنیا میں حقیقی علم کا کوئی ایسا گروپ نہیں ہے، جیسے مشرق و مغرب میں ملا کر ہمارے عزیزوں کا گروپ ہے۔

 

۱۵۴

 

جب یہ علم کسی شک کے بغیر امام علیہ السّلام ہی کا ہے تو اس کی تعریف کیوں نہ ہو، اگر یہ معلوم ہو جائے کہ سچ مچ یہ علم حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا ہے تو ہمارے عزیزوں کو بہت بہت بہت مزہ آئے گا۔

 

تمام عزیزوں کو یا علی مدد اور دست بوسی!

 

آپ کا دعاگو

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۲۸ اگست ۱۹۹۷ء

 

۱۵۵

عطر افشان

عطر افشان

گزارش نامہ

۱۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میرے بہت ہی عزیز ساتھیو اور دوستو! ہم سب کو، جو شرق و غرب میں اس انتہائی اہم اور مقدّس علمی خدمت سے منسلک ہیں، پگھلتے ہوئے دلوں اور برستے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ سر بسجود ہوکر خدائے بخشندہ و مہربان کی بے مثال و لازوال نعمتوں کا شکر کرنا واجب ہے، کیونکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کے کیسے کیسے عظیم احسانات ہوتے آئے ہیں، ایسا نہ ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور مہربانیوں کو اپنی کوشش اور خدمت سمجھ بیٹھیں، حالانکہ یہ اس کی عنایات و نوازشات ہیں، اور ہم ازخود کچھ بھی نہیں، چنانچہ پروردگارِ عالم کی لاتعداد نعمتوں اور احسانات کو پہچاننے اور اپنی نیستی کا اندازہ کرنے کی مثال یہ ہے کہ اگر ہم اپنی حقیر سی ہستی و حیثیت کی سچائی سے تحلیل و تجزیہ کرتے ہوئے بنیاد و آغاز کی طرف چلے جائیں، تو اس سلسلے

۳

میں ہم سب سے پہلے اپنے آپ کو حقیر پائیں گے، پھر حقیر تر، پھر حقیر ترین، اور اس کے بعد ہمارے وجود کی کسی شیٔ کا پتا ہی نہیں چلے گا، کہ اس سے بحث کی جائے، اور اسے میں یا ہم جیسی “انا” قرار دیا جائے، اس مثال سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ دراصل ہم نے کوئی خدمت ہی نہیں کی ہے، بلکہ ہوا یہ ہے کہ ہم بڑی نادانی اور انتہائی گستاخی سے اس کے انعامات و احسانات کو اپنی خدمات سمجھتے آئے ہیں، تاہم اس کی شانِ کریمی بڑی عجیب و غریب ہے، کہ ایسا لگتا ہے، جیسے ہماری ان عقلی کمزوریوں اور بچگانہ خیالات پر اس کا لطفِ عمیم مسکرا رہا ہو۔

۲۔ دوستانِ عزیز! ہم اپنی روحوں کو کس طرح ترقی دے سکتے ہیں؟ خدا، رسولؐ اللہ اور امامِ برحقؑ کی اطاعت سے، جماعت کی خدمت سے، مقدّس اداروں کے احترام سے، حقیقی علم کے حصول سے، اس کی روشنی پھیلانے سے، عبادت، بندگی، عاجزی اور اخلاق کی درستی سے، ظاہری اور باطنی تقویٰ سے، اور ملک و قوم کی خدمت سے، کیونکہ ہر شخص کو ترقی عزیز ہے، تو ہم بھی کوشش کرسکتے ہیں، اور دین یہی سکھاتا ہے کہ ہر شخص میدانِ عمل میں آگے بڑھے۔

۳۔ خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کو قرآنی حکمت کی خدمت کے سلسلے میں جو توفیقات و تائیدات عنایت ہوئی ہیں، وہ کوئی

۴

معمولی بات ہرگز نہیں، مجھے صاف صاف بتا دینا ہوگا ورنہ خیانت ہوگی کہ یہ نورِ امامت کے علمی معجزات ہیں، اور حضرتِ امام علیہ السّلام ہمیشہ اسی طرح کام کرتا رہا ہے، آپ کو یہاں اس موقع پر یہ بھی جاننا ہے کہ خدا حقیقی بادشاہ ہے، اس لئے وہ بقولِ قرآن اپنے اکثر کاموں کو فرشتہ، روح، پیغمبر اور امام سے کراتا ہے، مگر یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ ادیانِ عالم کے بہت سے لوگ مذکورہ درجات میں سے تین کو تو مانتے ہیں، مگر امام کو نہیں مانتے، حالانکہ امامِ مبین کی ذاتِ مقدس میں لوگوں کے لئے سب کچھ موجود ہے۔

۴۔ روحانی تجربہ یا عقیدہ ذاتی معاملہ ہوا کرتا ہے، لیکن قرآنی فکر کا نتیجہ اور ہر ایسی بات جو قرآن کی روشنی میں کہی گئی ہو، وہ تمام مسلمانوں کے لئے قابلِ توجہ رہتی ہے، لہٰذا ہماری کوشش ہر وقت یہی ہوتی ہے کہ جو بات ہونی چاہئے، وہ قرآنِ حکیم سے ہو یا قرآنی حکمت کے مطابق ہو، اس سلسلے میں ان شاء اللہ مستقبل میں ہمارے ادارے کے کاموں پر ریسرچ ہوگی، مثال کے طور پر ہمارے یہاں ریسرچ (تحقیق) کے لئے انقلابی موضوعات یہ ہیں:

۵۔ روحانی تجربات، روح کیا ہے؟ تصوّرِ امامت، تصوّرِ قیامت، تصوّرِ ازل، تصوّرِ آفرینش، عالمِ شخصی، عالمِ ذرّ، اسرارِ انبیاء، انسانِ کامل، قرآنی حکمت، ابداع و انبعاث، توحید،

۵

نبوّت، امامت، خلافت، انسانی عظمت، جسمِ لطیف، بہشت، فرشتہ، عالمِ خواب، ذکرِ الٰہی، بروشسکی شاعری اور دیگر بہت سے مضامین۔

۶۔ جماعتی خدمت اپنی جگہ بے حد ضروری ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کی بھی کچھ خدمت ہونی چاہئے، چنانہ اس دفعہ اسی مقصد کے پیشِ نظر کتاب “قرآنی علاج” لکھی گئی تھی، اور وہ بفضلِ خدا بہت کامیاب ہوئی، آپ سب دعا کریں کہ ہم مزید کوئی خدمت انجام دے سکیں، ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے محدود سوچتے تھے، لیکن امامِ اقدس و اطہر نے اپنے قول و عمل سے بتا دیا کہ اسلام کا طول و عرض کیا ہے، اور مسلمانوں کی یکجہتی کتنی ضروری ہے۔

۷۔ مجھے اس رسالے کو تحریر کرتے ہوئے روحانی مسرّتوں کا زبردست احساس ہو رہا تھا، ایک دن ان خوشیوں کے طوفانی عالم میں میرے دل نے مجھ سے کہا کہ اس کتابچے کا نام “عطر افشان” ہونا چاہئے، کیونکہ اس میں بہشت کے پھولوں کی گوناگون خوشبوؤں کا ایک غیر فانی ذخیرہ موجود ہے، یہ بات سوچے بغیر تھی، لہٰذا میں نے اسے معجزانہ قرار دیا، تاہم میں نے اس باب میں اپنے دوستوں سے مشورہ کیا، اور انہوں نے اس نام کو بہت پسند فرمایا، اور کہنے لگے کہ بے شک یہ کتاب عطر افشان اور عطر بیز (خوشبو پھیلانے

۶

والی) ہے، ہمارے لنڈن کے احباب ان مضامین کو خاص اہتمام سے پڑھتے اور سنتے تھے، مگر اکثر ترجمہ کرنے کے بعد پھر خدا کی یاد ہوتی تھی، جس سے بعض عزیزان پر گریہ و زاری کی کیفیت طاری ہو جاتی، بعض حضرات کا کیا کہنا، وہ تو وجد میں آتے تھے، اور میں خود اشک فشانی سے لطف اندوز ہو جاتا تھا۔

۸۔ لنڈن کی اسماعیلی جماعت کئی اعتبار سے بڑی خوش نصیب ہے، کہ یہاں سے مرکزِ امامت قریب ہے، یہاں مولا کا سب سے بڑا علمی دفتر موجود ہے، اور مشہور اسماعیلی سنٹر (جماعت خانہ) بھی یہیں ہے، اس کے علاوہ دنیوی طور پر لنڈن ایک ایسا شہر ہے، جس میں مادّی ترقی کی کوئی کمی نہیں، تاہم یہاں بھی محنت کی سخت ضرورت پڑتی ہے اور اس کے بغیر یہاں کوئی شخص زندگی نہیں گزار سکتا۔

۹۔ ہمیں دین کی ہر ہر نعمت پر صمیمیتِ قلب سے خدائے بزرگ و برتر کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہمارے لنڈن کے عزیزوں نے حضرتِ امام علیہ السّلام کے علم کی خاطر بڑی جانفشانی سے کام کیا ہے، اس سلسلے میں پہلے سے زیادہ ترقی ہوئی ہے، جہاں کسی فرد کو شکوک و شبہات یا سوالات پیدا ہو جاتے ہیں، وہاں اس کو ایک کتاب دی جاتی ہے، جس کے ذریعے سے وہ مطمئن ہو جاتا ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر جگہ ایسا ہو رہا ہے، الحمد

۷

للہ ربِّ العالمین، کتابوں کے انگریزی ترجمے کا کام جاری ہے، دوسرے نمبر پر فرنچ ترجمہ ہے، اور اب جرمن زبان میں بھی ترجمہ کرنے کے لئے ایک دخترِ بلند اختر نے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔

۱۰۔ قرآنِ حکیم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پہلا اور امامِ برحق دوسرا معجزہ ہیں، اور یہی میرا ایمان ہے، اب سوچنے اور کوئی منطقی نتیجہ نکالنے کی بات ہے کہ بے شک یہ دونوں عقلی معجزے تو ہیں، جن میں سے ایک خاموش ہے اور دوسرا بولتا ہے، ایک آپ کے پاس ہے، اور دوسرا دور، لیکن آپ ان دونوں کو کیسے ملائیں گے؟ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ہمیشہ کے لئے ملا رکھا ہے، اور اسی لئے رسولِ خداؐ نے ارشاد فرمایا کہ: و لن یتفرقا حتیٰ یردا علی الحوض = اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر وارد ہوں۔ آپ نے دیکھا کہ جہاں قرآن ہے وہاں امام بھی ہیں، اور جس جگہ امام ہیں اس جگہ قرآن بھی ہے، سو آنحضرتؐ کے ان دونوں معجزوں سے بصد شوق میں اپنے خاندان سمیت فدا ہو جاؤں! کیا آپ نے اس حدیث کی حکمت میں کبھی غور کیا تھا؟ اگر نہیں تو اب غور کریں (کوکبِ دری، ص ۱۷۳، منقبت ۸۳)۔

۸

۱۱۔ معجزہ اپنی زبردست طاقت سے کسی کو مجبور نہیں کرتا، بلکہ یہ ہر شخص کے علم و عمل اور عشق کے مطابق کام کرتا رہتا ہے، آپ اس بات کو معمولی نہ سمجھیں، اس میں بہت سے سوالات کے لئے منطقی جوابات موجود ہیں، مثال کے طور پر لوگ پوچھیں گے کہ اگر امام معجزہ ہے تو فلان فلان کام کرکے دکھائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بھیا! قرآن اور امام حسّی معجزے نہیں کرتے، اگر آپ کے نزدیک کرتے ہیں تو پہلے قرآنِ پاک سے یہ معجزہ کراکے دیکھو، ظاہر ہے کہ وہ یہ کام نہیں کرے گا، کیونکہ قرآنِ حکیم اور امامِ مبین دونوں مل کر عقلی معجزے کرتے رہتے ہیں اور عقلی معجزات کو دیکھنے کے لئے بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔

۱۲۔ اب آخر میں مشرق و مغرب کے تمام عزیزوں کی طرف سے اور اپنی جانب سے چیئرمین امین کوٹاڈیا، اور سیکریٹری مریم کوٹاڈیا کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، کہ انہوں نے اپنے محبوب امام علیہ السّلام کے عزیز علم کی روشنی پھیلانے کی خاطر بہت سی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں، دعا ہے کہ پروردگار اپنے خزائنِ عنایات و تائیدات سے ان کو اور جملہ معزز ارکان کو نوازتا رہے! اور دونوں جہان کی کامیابی و سربلندی عطا فرمائے! اس موقعِ شکر گزاری پر ہمارے امریکا کے عزیزان بھی یاد آتے ہیں، جو امامِ برحق کے علم کے عاشق ہیں، خداوندِ عالم ان کی ہر نیک مراد

۹

پوری کر دے!

۱۳۔ ان شاء اللہ، میں پاکستان واپس پہنچتے ہی صدر فتح علی حبیب اور صدر محمد عبد العزیز سے درخواست کروں گا، تا کہ وہ چیئرمین امین کوٹاڈیا (لنڈن) اور چیئرمین نور دین راجپاری (امریکا) کو ان کے حسنِ کارکردگی کا ایک ایک خط لکھیں، میں صدر غلام قادر (گلگت) اور چیف ایڈوائزر خان محمد (کراچی ) سے بھی اس مقصد کے لئے گزارش کروں گا۔

نصیر الدین نصیر، ہونزئی
لنڈن
۶ ربیع الثانی ۱۴۰۸ھ
۲۸ نومبر ۱۹۸۷ء

۱۰

نورانی وقت

۱۔ نورانی وقت کا تفصیلی ذکر سورۂ مزمل میں موجود ہے، وہ اس طرح کہ رات کی طوالت جیسی بھی ہو، اس کے مطابق شب کے تین یا دو حصے کئے جاتے ہیں، چنانچہ اگر کوئی مؤمن نیند سے بیدار ہوکر رات کی تقریباً دو تہائی کو ذکرِ الٰہی میں صرف کرتا ہے، تو یہ نورانی وقت کو پانے کے لئے درجۂ اوّل کی تیاری ہے، اگر یہ عمل نصف شب سے شروع کرتا ہے، تو دوسرے درجے کی تیاری ہے اور اگر وہ صرف رات کی آخری تہائی کو بندگی میں گزارتا ہے، تو یہ تیسرے درجے کی تیاری ہے، تاہم کئی دیگر شرائط بھی ہیں، جن کی تکمیل بے حد ضروری ہے۔

۲۔ شب و روز کے جملہ اوقات و تمام حالات میں اللہ تبارک و تعالیٰ کو یاد کئے بغیر نہ تو ذکرِ کثیر (۳۳: ۴۱) کے حکم پر عمل ہو سکتا ہے،

۱۱

اور نہ ہی تقرب بوسیلۂ نوافل ممکن ہے، لیکن اس امرِ واقعی کے باوصف یہ بھی ایک قرآنی حقیقت ہے کہ دن کے مقابلے میں رات کی عبادت بہت بڑی اہمیّت کی حامل ہوتی ہے (۷۳: ۰۶) اور رات کی کامیابی کا مرکز نورانی وقت ہے جو دورانِ عبادت کسی بھی مرحلے میں سامنے آسکتا ہے۔

۳۔ ایک حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ: خمرت طینۃ اٰدم بیدی اربعین صباحا = میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے (مسلسل) چالیس یوم تک ہر صبح قالبِ آدم کی مٹی گوندھی۔ ظاہر ہے کہ اس سے حضرت آدم علیہ السّلام کی روحانی تخلیق مراد ہے، جو خود آدم کی مسلسل ذکر و عبادت کا نتیجہ تھی، خصوصاً اس وقت کی عبادت کا جو پچھلی رات اور صبح سویرے کرلیا کرتے تھے، جس میں نورانی وقت پوشیدہ ہوتا ہے۔

۴۔ قرآنِ حکیم کی زبان جو عربی ہے، وہ عجیب و غریب اور عظیم حکمتوں سے مملو ہے، اس کی ایک مثال کے لئے لفظِ “مصباح” کو لیجئے، جو صبح سے اسمِ آلہ ہے، یعنی چراغ جو صبحِ صادق کی طرح روشنی پھیلاتا ہے، اب اس پُرحکمت لفظ کو اس آیۂ کریمہ میں دیکھئے، جو تمام آیاتِ نور کے لئے مرکزی اور اساسی اہمیّت رکھتی ہے، وہ آیۂ مبارکہ یہ ہے: اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ (۲۴: ۳۵) خدا تو سارے

۱۲

آسمان و زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثل ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے جس میں ایک روشن چراغ ہو (۲۴: ۳۵) اب یہاں اگر کوئی ہوشمند یہ سوال کرے کہ خصوصی بندگی اور مشاہدۂ نور کے لئے کون سا وقت انسب (زیادہ مناسب) ہے؟ تو اس کا جواب لفظِ “مصباح” سے یہ دیا جائے گا کہ اس عظیم عمل کے لئے صبح کا وقت مقرر ہے، لیکن خود کو مستعد کر لینے کی خاطر بہت پہلے جاگنا پڑے گا۔

۵۔ مصباح کا مطلب ہے آلۂ صبح، یعنی سورج اور چراغ، کیونکہ صبح کا آلہ دراصل سورج ہی ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ عربی زبان کے رواج میں مصباح چراغ کا نام ہے، نیز یہ بات بھی درست ہے کہ وہ آفتاب یا چراغ جو نورِ الٰہی کی مثل ہے، پیغمبر اور امام ہیں، کیونکہ قرآنِ حکیم انہی کی ذاتِ اقدس کو نورِ منزل قرار دیتا ہے (۰۵: ۱۵) اور فرمایا گیا ہے کہ خدا کا نور (جو نازل کیا گیا ہے، وہ ) بجھایا نہیں جا سکتا (۰۹: ۳۲، ۶۱: ۰۸) اس کے علاوہ یہ نکتہ بھی از بس قابلِ توجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لفظاً روشن چراغ، اور معناً خورشیدِ انور ہیں، کیونکہ خدائے بزرگ و برتر کا چراغ ایک آفتابِ عالم تاب کی طرح ہوا کرتا ہے، جیسے سورۂ نبا (۷۸: ۱۳) میں سورج کو روشن چراغ کہا گیا ہے۔

۶۔ اصبحتم کے دو معنی ہیں: تم نے صبح کی، تم ہوگئے،

۱۳

جیسے ارشاد فرمایا گیا ہے: وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ  اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ  بِنِعْمَتِهٖۤ  اِخْوَانًا (۰۳: ۱۰۳) اور خدا کی نعمت کو یاد کرو جو تمہیں عطا ہوئی جب تم آپس میں دشمن تھے تو خدا نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی تو تم اس کی نعمت سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، یعنی تم نے ایسی حالت میں صبح کی کہ تم آپس میں بھائی بھائی ہوگئے تھے۔ پس اس حکم میں صبح کا ذکر اس لئے ہے کہ بوقتِ سحر خصوصی بندگی کے بعد فیصل شدہ امور کی رونمائی ہوتی ہے، یا احساس ہوتا ہے، جیسے سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۸) میں ہے: اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا (۱۷: ۷۸) بے شک صبح کی بندگی مشاہدے کا باعث ہوتی ہے۔

۷۔ ثواب ہو یا عذاب، اکثر صبح کے وقت وقوع پذیر ہوجاتا ہے (۵۴: ۳۴، ۱۱: ۸۱) یہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید نے ان مؤمنین کی تعریف و توصیف کی ہے، جو بوقتِ سحر توبہ و استغفار کرتے ہیں (۰۳: ۱۷، ۵۱: ۱۸) کیونکہ خدائے تواب و غفار اپنی رحمتِ عمیم سے بوقتِ نورانیّت ان کی توبہ اور دعائے مغفرت قبول فرماتا ہے جبکہ طلوعِ فجر کا وقت رحمتوں، برکتوں اور بخششوں کا موقع ہوا کرتا ہے۔

۸۔ خدائے قادرِ مطلق اپنے ہر کام کو کُنۡ (ہو جا) کے امر سے

۱۴

چشمِ زدن میں مکمل کر دیتا ہے (۰۳: ۵۹، ۴۰: ۶۸) پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قالبِ آدم کا گارا چالیس (۴۰) صبحوں میں تیار کیا؟ یہ دراصل حضرت آدم علیہ السّلام کی خصوصی عبادت اور اس کے نتیجے میں روحانی تخلیق و تکمیل کا عمل ہے، لیکن اس کے وسائل خداوند تعالیٰ کی طرف سے تھے، لہٰذا یہ خدا کا فعل قرار پایا، اور ایسی بہت سی مثالیں ہیں، یاد رہے کہ حضرت آدم کی اربعین صباح، حضرتِ موسیٰ کی چالیس رات (۰۲: ۵۱، ۰۷: ۱۴۲) اور حضورِ اکرم کے غارِ حرا کی راتیں ایک ہی سنتِ الٰہی کے مطابق حصولِ نورانیّت کے لئے مقرر تھیں۔

۹۔ انسان کو جب بھی قسم کھانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ برتر اور مقدّس چیزوں کی قسم کھاتا ہے، لیکن خدائے تعالیٰ سے کوئی چیز بالاتر نہیں، اس لئے وہ ایسی چیزوں کی قسم کھاتا ہے، جو اس کے نزدیک مقدّس اور بابرکت ہوتی ہیں، جیسے سورہ مدثر میں ہے: سن رکھو (ہمیں) چاند کی قسم اور رات کی جب جانے لگے اور صبح کی جب روشن ہو جائے (۷۴: ۳۴) اس میں بڑی عجیب و غریب حکمت پوشیدہ ہے کہ پوری رات کی قسم نہیں، بلکہ اس حصے کی قسم ہے، جو صبح کے قریب ہے، جس کی مثال اس خط سے ظاہر ہو جاتی ہے:

پس یقیناً یہ نورانی وقت ہے، یہی مطلب سورۂ تکویر میں بھی

۱۵

ہے: اور رات کی قسم جب ختم ہونے کو آئے اور صبح کی قسم جب روشن ہو جائے (۸۱: ۱۷ تا ۱۸) اس سے آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ پچھلی رات کی عبادت کیوں ضروری ہے۔

۱۰۔ اگرچہ مرتبۂ قربِ الٰہی کو حاصل کرنے کے لئے شب و روز کی جملہ عبادات لازمی ہیں، تاہم رات کی بندگی اس سے بھی زیادہ ضروری ہے، اور نورانی وقت کی عبادت تو سب سے زیادہ ضروری ہے، جس کی وجہ صبحِ ازل ہے، کہ اس میں ایک نور طلوع ہوا تھا، اور ہمیشہ طلوع ہوتا رہتا ہے، کیونکہ ازل کو انتہائی بعید کا ماضی سمجھنا غلط ہے، جبکہ وہ زمانۂ ناگزرندہ ہے، یعنی وہ ٹھہرا ہوا زمان ہے، پس دنیوی صبح کی عبادت صبحِ ازل کے تصوّر اور بھیدوں کو پانے کے لئے ہے، کیونکہ خدا شناسی انہی اسرار میں پوشیدہ ہے۔

۱۱۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جب روحانی طور پر معراج ہوئی تو وہ البتہ رات کے نورانی وقت میں پیش آئی، جس کی خدا نے قسم کھائی ہے، وہ پچھلی رات سے لے کر صبح تک کا وقت ہوسکتا ہے، کیونکہ پُرحکمت اور با برکت وقت یہی ہے، جیسا کہ سورۂ مزمل میں ارشاد ہے، جس کا نقشہ ذیل کی طرح بنتا ہے:

۱۶

۱۔ تھوڑی دیر سو کر باقی تمام رات میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی یاد کرنا۔
۲۔ نیم شب سے بندگی کا آغاز کرنا۔
۳۔ آدھی رات کے بعد عبادت شروع کرنا۔
۴۔ نصف شب سے پہلے ذکرِ خداوندی کی ابتداء کرنا (۷۳: ۰۱ تا ۰۴)

۱۷

۵۔ رات کی دو تہائی (۲\۳) یادِ خدا میں صرف کرنا۔
۶۔ آدھی رات کو عبادت میں گزارنا۔
۷۔ شب کی ایک تہائی (۱\۳) بندگی کرنا (۷۳: ۲۰)۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
لنڈن
۳۰ اکتوبر ۱۹۸۷ء

۱۸

 

عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ

۱۔ قلم اور دوات:

سورۂ قلم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَ (۶۸: ۰۱) قسم ہے نون (یعنی دوات) اور قلم کی اور قسم ہے اس چیز کی جو لکھتے ہیں۔ پس دوات مقامِ ازل پر نفسِ کلّ ہے، قلم عقلِ کلّ، اور وہ چیز جو لکھی جاتی ہے کلمۂ باری ہے، اور مظاہرۂ عقل کے اشارات ہیں۔

۲۔ عرش و کرسی:
پروردگارِعالم کا ارشاد ہے: وَ یَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَىٕذٍ ثَمٰنِیَةٌ (۶۹: ۱۷) اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اس دن آٹھ فرشتے اپنے سروں پر اٹھائے ہوں گے۔

۱۹

ان آٹھ فرشتوں سے نفسِ واحدہ مراد ہے، جو کرسی بھی ہے اور نفسِ کلّی بھی، جس میں آٹھ عظیم فرشتوں کی یگانگت ہے، کیونکہ وہ نورٌعلیٰ نور کے قانون کے مطابق آٹھ بھی ہیں، اور ایک بھی، یعنی حضرتِ آدمؑ، حضرتِ نوحؑ، حضرتِ ابراہیمؑ، حضرتِ موسیٰؑ، حضرتِ عیسیٰؑ، حضرتِ محمدؐ، حضرتِ قائمؑ، اور خلیفۂ قائمؑ۔

۳۔ آدم و حوّا:
قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے: خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا (۳۹: ۰۶) اسی نے تم سب کو ایک ہی شخص سے پیدا کیا پھر اس سے اس کی بیوی کو پیدا کیا۔ یہ اوّل عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ہیں، پھر آدم و حوّا ہیں۔

۴۔ مجمع البحرین:
دو دریاؤں کے ملنے کا مقام، سنگم، یعنی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کا مرتبۂ اتصال، جس میں وہ دونوں گوہر مل کر کام کرتے ہیں اور یہی وہ دو بحرِ محیط ہیں، جن سے سورۂ رحمان (۵۵: ۱۹ تا ۲۲) کے ارشاد کے مطابق ہمیشہ علم و حکمت کے موتی اور مونگے نکلتے رہتے ہیں، اور حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کا وہ قصّہ جو سورۂ کہف (۱۸: ۶۰ تا ۸۲) میں ہے، اسی سنگم تک پہنچ جاتا ہے۔

۲۰

۵۔ قلم اور لوح:
سورۂ طور میں ہے: وَ الطُّوْرِ وَكِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ (۵۲: ۰۱ تا ۰۳) پہاڑ کی قسم اور اس کتاب کی (قسم) جو کشادہ اوراق میں لکھی ہوئی ہے۔ پہاڑ یا طور کا مطلب گوہرِعقل ہے، جو قلم ہے، اور کتابِ مسطور نفسِ کلّی ہے، جو لوحِ محفوظ ہے، کہ وہ وسیع روحانی اوراق میں ہے۔

۶۔ رحمت اور علم:
سورۂ مؤمن (۴۰: ۰۷) میں بزبانِ حاملانِ عرش فرمایا گیا ہے: رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّ عِلْمًا (۴۰: ۰۷) پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ یعنی کوئی شیٔ رحمت و علم کے بغیر نہیں، پس کائنات اور اس کی تمام چیزیں بحرِ رحمت (نفسِ کلّی) اور بحرِ علم (عقلِ کلّی) میں ڈوبی ہوئی ہیں۔

۷۔ ہدایت و رحمت:
آفتابِ ہدایت عقلِ کلّ ہے، اور سرچشمۂ رحمت نفسِ کلّ، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم کی متعدد آیاتِ کریمہ میں یکجا طور پر ہدایت و رحمت کا تذکرہ آیا ہے، جیسے سورۂ یوسف کے آخر میں ارشاد ہے:

۲۱

وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ (۱۲: ۱۱۱) اور ایمانداروں کے واسطے ہدایت و رحمت ہے۔

۸۔ کتاب و حکمت:
کتاب و حکمت ہو یا علم و حکمت، اس میں پہلے عقلِ کلّی کا ذکر ہے، اس کے بعد نفسِ کلّی کا، اسی طرح علم میں ناطق کی طرف اشارہ ہے، اور حکمت میں اساس کی جانب، اگرچہ یہ دو روحانی اور دو جسمانی فرشتے ایک دوسرے کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔

۹۔ ہدایت اور نور:
اگر ایک ہی آیۂ کریمہ میں پہلے ہدایت پھر نور کا ذکر ہو، تو ہدایت کا تعلق عقلِ کلّ اور ناطق سے ہو گا، اور نور کا لگاؤ نفسِ کلّ اور اساس سے، چنانچہ توراۃ (۰۵: ۴۴) انجیل (۰۵: ۴۶) اور قرآن (۲۴: ۳۵) میں جتنی ہدایات ہیں، وہ سب کی سب نور کی طرف جاتی ہیں۔

۱۰۔ قرآنِ کریم اور کتابِ مکنون:
باکرامت قرآن کتابِ مکنون یعنی گوہرِ عقل میں پوشیدہ

۲۲

ہے، اور یہ گوہر نفسِ کلّی میں پنہان ہے، جس کو صرف وہی حضرات چھو سکتے ہیں، جن کو خدا نے پاک کر دیا ہے (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) اور یہی مطلب اس آیۂ مبارکہ میں بھی ہے: بل ھو قراٰن مجید۔ فی لوحٍ محفوظٍ (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) بلکہ وہ تو قرآنِ مجید ہے، جو لوحِ محفوظ میں پوشیدہ ہے۔

۱۱۔ چہرۂ خدا:
اس کے چہرے کے سوا ہر چیز فنا ہو جانے والی ہے (۲۸: ۸۸) یعنی کائنات (۲۱: ۱۰۴) اور سورج (۸۱: ۰۱) کو لپیٹ لیا جاتا ہے، اور وہ خورشیدِ عقل نفسِ کلّی (چہرۂ خدا) کے مغرب میں ڈوب جاتا ہے اور نفسِ کلّی کا مظہر امامِ مبین ہے۔

۱۲۔ سدرۃ المنتہیٰ:
وہ بیری کا درخت جس پر سفرِ روحانی ختم ہو جاتا ہے، اس سے نفسِ کلّ مراد ہے، اور یہ درخت جس چیز کو چھپا رہا تھا، وہ گوہرِ عقل تھا (۵۳: ۱۴ تا ۱۶)۔

۱۳۔ درختِ زیتون:
زیتون کا وہ مبارک درخت جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی،

۲۳

بلکہ پوری کائنات پر محیط ہے، اس سے نفسِ کلّی مراد ہے، اور اس درخت کے تیل سے جو چراغ روشن ہے، وہ عقلِ کلّی ہے، اور نورٌعلیٰ نور کا مطلب ہے: خورشیدِ عقل کے ایک طلوع کے بعد دوسرا طلوع ہو جانا۔

۱۴۔ قرآن اور انسان:
سورۂ رحمان کے آغاز (۵۵: ۰۱ تا ۰۲) میں جیسے ارشاد ہوا ہے، اس کے مطابق لفظِ “قرآن” کا اشارہ عقلِ کلّ کی طرف ہے، اور “انسان” سے نفسِ کلّ مراد ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں عظیم فرشتوں میں سے پہلے کو تنزیل اور دوسرے کو تاویل (بیان) سکھائی ہے۔

۱۵۔ معجزۂ یدِ بیضا:
عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ تک عظیم انبیاء علیہم السّلام کی رسائی ہوا کرتی ہے، چنانچہ حضرتِ موسیٰؑ کے معجزۂ علمی کا یہ عالم تھا کہ آپ گویا درّفشانی بھی کرتے تھے، اور ہاتھ میں ان موتیوں کو اٹھا کر دکھاتے بھی تھے، اور اس عمل کا نام یدِ بیضا ہے (۲۶: ۳۳)۔

۲۴

۱۶۔ آسمان و زمین کا رتق و فتق:
سورۂ انبیاء (۲۱: ۳۰) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَاؕ-وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّؕ (۲۱: ۳۰) کہ آسمان اور زمین دونوں باہم ملے ہوئے تھے تو ہم نے دونوں کو الگ کیا، اور ہم ہی نے ہر جاندار چیز کو پانی سے پیدا کیا۔ یعنی آفتابِ عقل نفسِ کلّ کے مغرب میں ڈوبا ہوا تھا، وہ وہاں سے بحکمِ خدا طلوع ہو گیا، اور عقلی دنیا کی ہر چیز علم کے پانی سے زندہ ہو جاتی ہے۔

۱۷۔ آٹھ بہشت:
عقلِ کلّی عرش ہے، اور نفسِ کلّی حاملِ عرش، مگر وہ آٹھ عظیم فرشتوں کا مجموعہ ہے، اس معنیٰ میں حاملانِ عرش آٹھ ہیں، اور یہی آٹھ  فرشتے آٹھ بہشت بھی ہیں، یعنی چھ ناطق، جن میں تمام انبیاء جمع ہیں، حضرتِ قائمؑ جن کی ذات میں سارے أئمّہ ایک ہیں، اور خلیفۂ قائم، یہ آٹھ بہشت ہیں، اور بہشت سب سے بڑی روح اور سب سے بڑی عقل کے ساتھ ہے۔

۱۸۔ خلافتِ معنوی:
سورۂ نور کی آیتِ استخلاف (۲۴: ۵۵) میں دقتِ نظر اور چشمِ

۲۵

بصیرت سے دیکھنے کی ضرورت ہے، تا کہ معلوم ہو سکے کہ یہ خلافت کون سی ہے؟ اور وہ زمین کون سی ہے، جس پر بیک وقت بہت سارے نیکوکار مؤمنین کو خلافت عطا ہوگی؟ کیا یہی ایک زمین ہے جس پر لوگ بس رہے ہیں؟ نہیں، زمینیں تو بہت سی ہیں، کیونکہ ہر آدمی ایک عالمِ شخصی ہے، جس میں بحدِّ قوّت سب سے بڑا آسمان عقلِ کلّی ہے، اور سب سے وسیع زمین نفسِ کلّی (۰۴: ۹۷، ۲۹: ۵۶، ۳۹: ۱۰)۔

۱۹۔ خلافتِ آدم:
حضرتِ آدم علیہ السّلام کی خلافتِ معنوی نفسِ کلّ میں چلتی تھی، اور خلافتِ صوری سیّارۂ زمین پر، اور وہ اسی مرتبۂ اعلیٰ میں فرشتوں کو حقائقِ اشیاء کی تعلیم دیتے تھے، یاد رہے کہ خلیفۂ خدا میں تمام صفات و کمالات موجود ہوا کرتے ہیں۔

۲۰۔ امام اور امامت:
قرآنِ حکیم میں لفظِ خلیفہ کو دوسرا ہم معنی اسم “امام” ہے، جس کی جامعیّت کے بارے میں کتابِ “امام شناسی” میں لکھا گیا ہے، تاہم یہاں اس سلسلے کی دو شہادتیں ضروری

۲۶

ہیں: اوّل یہ کہ امام کا تذکرہ قلبِ قرآن (سورۂ یاسین) میں ہوا ہے، یا یوں سمجھ لیں کہ جس سورے میں کلیۂ امامت کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس کا نام اسی وجہ سے قلبِ قرآن ہوا، اور لفظِ امام کی انتہائی جامعیّت کی دوسری شہادت یہ کلیہ ہے: وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے ہر چیز کو ایک صریح و روشن پیشوا میں گھیر دیا ہے۔ گھیرنے کے معنی خود قرآنِ حکیم کے مطابق یہ ہیں:
آسمانوں اور زمین کو لپیٹنا (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) دونوں جہان کی قدروں اور قیمتوں کو یکجا کرکے خزانہ بنانا (۱۵: ۲۱) جملۂ کائنات و موجودات کو ایک عظیم درختِ زیتون کی صورت دے کر اس کے تیل سے ایک چراغ کو روشن کر دینا (۲۴: ۳۵) امامِ اطہر کے عالمِ شخصی میں کائناتِ اکبر کی لطیف صورت کو سما دینا (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) امامِ برحق کو آفاقی نامۂ اعمال بنا دینا (۴۵: ۲۸ تا ۲۹) امامِ اقدس کو عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، اور لطیف جسمِ کلّ کا درجہ دینا وغیرہ۔

نوٹ: زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے متعلقہ آیاتِ قرآنی کی روشنی میں مقالات کو پڑھیں۔

 

نصیر الدین نصیر ہونزائی
لنڈن
۲ نومبر ۱۹۸۷ء

۲۷

عظمتِ قرآن اورحقائقِ ازل و ابد

۱۔ قرآنِ حکیم کی ازلی و ابدی عظمت و بزرگی اور مجد و کرامت کا ایک روشن ثبوت اس کا وہ کائناتی احاطۂ علمی ہے، جس کے حکیمانہ بیان سے کوئی چیز باہر نہیں رہ سکتی، یہاں تک کہ ازل و ابد کے جملہ حقائق و معارف بھی اس دائرۂ ہمہ گیر میں محدود ہو جاتے ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ (۱۶: ۸۹) اور ہم نے تم پر کتاب (قرآن) نازل کی جس میں ہر چیز کا (شافی) بیان ہے۔

۲۔ قرآنِ پاک قولِ خدا ہے، اور آفاق و انفس (یعنی دنیائے ظاہر اور عالمِ شخصی، ۴۱: ۰۳) فعلِ خدا، یقیناً جیسا اس کا قول ہے، ایسا ہی اس کا فعل بھی ہے، کیونکہ یہ امر محال و ناممکن ہے کہ خدائے دانا و بینا کے کلام اور کام کے درمیان تضاد واقع ہو، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن جو کچھ تحریر میں فرماتا ہے، آفرینش وہی زبانِ حال سے کہتی ہے، پس اس کے معنی یہ ہوئے کہ قرآنی حقیقتوں اور معرفتوں کی عملی اور روشن شہادتیں آفاق میں بھی ہیں

۲۸

اور انفس میں بھی، جیسے قرآنِ کریم کا ارشاد ہے: وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ (۵۱: ۲۰) وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (۵۱: ۲۱) اور اہلِ یقین کے لئے زمین میں نشانیاں ہیں، اور خود تم میں بھی ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں۔
۳۔ قرآنِ کریم کا واضح مفہوم ہے کہ دینِ اسلام میں من عند اللہ (خدا کی طرف سے) نور بھی ہے اور کتاب (قرآن) بھی (۰۵: ۱۵) اور جس طرح کتاب ہمیشہ کے لئے موجود ہے، اسی طرح نور بھی ایسا ہے، کہ اس کو کوئی نہیں بجھا سکتا (۰۹: ۳۲، ۶۱: ۰۸) اس حقیقت کی تصدیق آفاق سے یوں ہوتی ہے کہ آفتاب، ماہتاب، اور ستارے عالمِ ظاہر کے لئے نور ہیں، اور کائنات ایک کتاب ہے، اور عالمِ شخصی کی شہادت یہ ہے کہ عقل سورج کی طرح، روح چاند جیسی اور حواسِ باطن اپنی بے شمار شاخوں کے ساتھ ستاروں کی طرح انوار ہیں، اور عالمِ شخصی ایک کتاب ہے، پس معلوم ہوا کہ قرآنِ پاک کی ہر حقیقت کی صداقت پر عالمِ ظاہر اور عالمِ نفسی سے دو شہادتیں ملتی ہیں۔

۴۔ مشاہدۂ آفاق کے دو پہلو ہیں، ایک عام ہے، جسے

۲۹

عوام چشمِ ظاہر سے دیکھتے ہیں، اور دوسرا خاص، جو اہلِ بصیرت کے سامنے ہے، اسی طرح عالمِ شخصی کے بھی دو مرحلے ہوتے ہیں، مرحلۂ اوّل پر وہ شبِ تاریک کی طرح ہوتا ہے، اور مرحلۂ دوم پر روزِ روشن جیسا، کیونکہ اس وقت اس میں آفتابِ معرفت طلوع ہوچکا ہوتا ہے، جس کی روشنی میں بحکمِ خدا عالمِ شخصی کے عرفانی عجائب و غرائب کا مشاہدہ ہو سکتا ہے۔

۵۔ قرآنِ حکیم اہلِ ایمان کے لئے ہدایت و رحمت ہے، وہ اسرارِ علم و حکمت سے مملو ہے، وہ ہرگونہ مسائل پر روشنی ڈالتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کی اس بے نظیر کتاب میں ہر جگہ ازل و ابد کے اشارے اور تذکرے ملتے ہیں، خصوصاً اس انمول خزانے کا بیان ان بابرکت آیات میں نمایان ہے، جو کلمۂ کُن (یعنی ہو جا) سے متعلق ہیں، کیونکہ کلمۂ امر میں ابداع و انبعاث کا ذکر ہے، اور ازل و ابد کا یکجا تصوّر بھی اسی مقام پر ہے۔

۶۔ یاد رہے کہ جب خدا، اور اس کے قول و فعل کی معرفت اور کہیں نہیں صرف روحِ انسانی ہی میں پائی جاتی ہے، تو پھر یقین کرنا ہوگا کہ مظاہرۂ ازل اور نمونۂ ابد بھی عالمِ شخصی ہی میں پنہان ہے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے: بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ (۰۲: ۱۱۷) (وہی) آسمان و زمین کا موجد ہے، اور جب کسی کام کا کرنا ٹھان لیتا ہے تو اسے کہہ دیتا ہے کہ “ہو جا” پس وہ ہو جاتا ہے۔ اس ربّانی اور نورانی تعلیم میں خوب غور کیجئے، تا کہ آپ کو یہ عظیم بھید معلوم ہو جائے کہ تصوّرِ آفرینش دائرے کی شکل میں ہے،

۳۰

کیونکہ اللہ تعالیٰ عالمِ کبیر اور عالمِ صغیر کے آغاز میں بھی اور انجام میں بھی کُنۡ فرماتا ہے، اور چونکہ ہر انسان ایک عالمِ شخصی ہے، اس لئے بحدِّ فعل یا بحدِّ قوّت اس پر کُنۡ کا اطلاق ہو جاتا ہے، اسی طرح ہر شخص کی روح میں کلمۂ کُنۡ، اور ازل و ابد پوشیدہ ہے۔

۷۔ سورۂ انعام (۰۶: ۷۳) میں غور کریں: وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّؕ-وَ یَوْمَ یَقُوْلُ كُنْ فَیَكُوْنُ ﱟ قَوْلُهُ الْحَقُّؕ (۰۶: ۷۳) وہی تو وہ (خدا) ہے جس نے حق (یعنی کلمۂ کُنۡ) سے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور جس دن (عالم کو) کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہو جاتا ہے اس کا قول (کلمۂ کُنۡ) حق ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر بندۂ فرمانبردار کے لئے کلمۂ امر (کُنۡ) سے ایک عالمِ شخصی بنایا جاتا ہے، جس میں جہانِ ظاہر مجموعاً سمایا ہوا ہوتا ہے، اور اسی طرح اگر جسمانی اعتبار سے دیکھا جائے تو لوگوں کی ازلیں (آزال) اور ابدیں (آباد) الگ الگ ہوا کرتی ہیں، لیکن، چونکہ مقامِ روحانیّت اور مرتبۂ کُنۡ پر قبضۂ قدرت میں تمام چیزیں ایک ہو جاتی ہیں، لہٰذا وہاں صرف ایک ہی ازل ہے، جس میں ابد بھی ہے۔

۸۔ قرآنِ مجید میں اللہ کی عادت (سنت) کا موضوع بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے، خدا کی عادت کسی تبدیلی کے بغیر (۳۵: ۴۳) انبیائے کرام اور أئمّۂ عظام کے عوالمِ شخصی میں ظہور پذیر ہوتی چلی

۳۱

آئی ہے (۴۰: ۸۵) اور اس میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ وہ تبارک و تعالیٰ تخلیقِ جسمانی کے بعد تکمیلِ روحانی کے لئے “کن”  فرماتا ہے، جیسے حضرتِ آدم اور حضرتِ عیسیٰ علیہما السّلام کے بارے میں سورۂ آلِ عمران، ۰۳: ۵۹) میں ارشاد ہوا ہے، کہ ان دونوں عظیم پیغمبروں کو کلمۂ امر اور مرتبۂ ازل نے جو ان کے باطن میں تھا ایک کر لیا تھا، اگرچہ ظاہراً ان کے درمیان ایک بہت بڑی زمانی مسافت حائل تھی، یہی مثال تمام انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے لئے بھی ہے، اور پھر درجہ بدرجہ سب انسانوں کے لئے بھی۔

۹۔ جب پانی کا کوئی قطرہ دریا میں جا گرتا ہے، تو اس کے کم از کم تین معنی ہوتے ہیں:
الف: قطرہ دریا میں فنا ہوگیا، کیونکہ اب اس کا اپنا کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا ہے،
ب: قطرہ دریا سے واصل ہوکر دریا بن گیا، اور اب قطرہ اپنی انائے علوی میں موجود ہے،
ج: قطرہ کیا تھا؟ دریا ہی کا ایک ظہور، اگر قطرہ دریا سے مل گیا، تو دراصل اس عمل میں دریا نے اپنی جلوہ نمائی کی ایک دنیا مکمل کر لی۔

۱۰۔ میرا خیال ہے کہ مذکورۂ بالا مثال قانونِ وجود کی ایک گونہ

۳۲

تشریح ہے، لہٰذا آئیے، اب ہم ایک قرآنی خزانے کی طرف چلتے ہیں، جو سورۂ بقرہ کی آیت ۲۸ ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: کیونکر تم خدا کا انکار کر سکتے ہو حالانکہ تم مرے ہوئے تھے تو اسی نے تم کو زندہ کیا (۰۲: ۲۸) اس کا مطلب ہے کہ لوگ ازل میں بحالتِ موت تھے، لیکن یہ سوال ضروری ہے کہ وہ موت کس نوعیت کی تھی؟ اس کا جواب قرآنِ حکیم میں پہلے ہی سے کئی طرح سے دیا گیا ہے، چنانچہ اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ وہ موت بے نام و نشان ہونے کی تھی، یعنی قطرۂ روح نفسِ واحدہ کے سمندر میں موجود تو تھا، مگر اس کا کوئی تذکرہ، کوئی تعیّن، اور کوئی اپنا نام نہ تھا، جس طرح سورۂ دہر میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْــٴًـا مَّذْكُوْرًا (۷۶: ۰۱) کیا انسان پر دہر (یعنی زمانِ نا گزرندہ) میں سے وہ وقت (دوبارہ) آ چکا ہے جس میں کہ وہ کوئی چیز قابلِ ذکر نہ تھا۔ پس اس میں دائرۂ آفرینش کی لا ابتدائی اور لا انتہائی کا ذکر موجود ہے، آپ نکتہ نمبر ۹ کو غور سے دیکھ لیجئے۔

۱۱۔ خدائے علیم و حکیم اپنی جس پُرحکمت کائنات کی آیاتِ قدرت و صنعت میں فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے (۰۲: ۱۶۴، ۰۳: ۱۹۱) اس کائنات کی تمام چھوٹی بڑی آیات سب کی سب مل کر ایک ایسے دائرے کا تصوّر پیش کرتی ہیں کہ اس کا کوئی سرا نہیں، یعنی آسمان

۳۳

اور اجرامِ فلکی نہ فقط شکل ہی میں مدوّر (گول) ہیں، بلکہ ان کی دائمی حرکت بھی مستدیر یعنی دائرہ نما ہے، زمین اوّل خود گول ہے، پھر اس کی روزانہ گردش اور سالانہ گردش گول ہے، اس پر روز و شب کا تبادلہ، مہینوں، موسموں اور سالوں کا آنا جانا، پانی اور ہوا کا خول اور حرکت و گردش سب گول ہے، غرض دنیائے ظاہر میں کوئی ایسی چیز نہیں، جو اپنے مخصوص دائرے پر ہمیشہ روان دوان نہ ہو، چنانچہ قرآنِ کریم اسی قانونِ کلّ کی تصدیق کرتا ہے (۲۱: ۳۳، ۳۶: ۴۰) پس کائنات بھر کے دائرے متحد اور ہم آہنگ ہو کر زبانِ حال سے یہ گواہی دے رہے ہیں کہ دائرۂ آفرینشِ دائمی گول ہے، جس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، یہ دائرہ عالمِ خلق اور عالمِ امر کو اس طرح ملا لیتا ہے کہ ان دونوں میں زمانی اعتبار سے کوئی تقدیم و تاخیر نہیں، کیونکہ دونوں کا نام ملکِ خدا (یعنی اللہ کی بادشاہی) ہے، اور خدا کی بادشاہی قدیم ہے۔

۱۲۔ آسمان کی گردشِ مستدیر جو کائنات کی سب سے بڑی آیت ہے، جس میں روزِ ازل سے سنتِ الٰہی کی کارفرمائی چل رہی ہے، وہ ہر وقت بہ اشارۂ حکمت کہتی رہتی ہے کہ اے اہلِ بصیرت! ازل کا تصوّر کرو، کیونکہ اسی مقام پر جو سب سے اعلیٰ ہے اسرارِ خداوندی کا گنجِ مخفی موجود ہے اور وہیں پر یہ بھید کھل جاتا ہے کہ ہر چیز کا سفر ایک دائرے پر کیوں ہے۔

۳۴

۱۳۔ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے جامۂ مبارک میں نورِ امامت نے ایک بہت بڑی علمی قیامت برپا کر دی ہے، اس کا مقصد دنیا میں اسلام کے حقیقی علم کو پھیلانا ہے، اگر علم کو ہمیشہ کے لئے چھپانا اور کسی کو نہ بتانا مقصود ہوتا، تو مولائے مہربان جو مظہرِ نورِ خدا ہیں، ظاہراً و باطناً علم کے دروازوں پر ایسے سخت تالے لگا دیتے کہ کوئی ان کو نہیں کھول سکتا۔

۱۴۔ کیا آپ نے امامِ عالی مقام کے ارشادات میں “تصوّرِ آفرینش” کی وضاحت کو نہیں دیکھا ہے اور نہیں پڑھا ہے؟ وہ بہت ضروری ہے، انتہائی ضروری، کیونکہ وہ ایک ایسا ازلی اور اوّلین تصوّر ہے کہ اسی کو اصل و اساس قرار دے کر ہزاروں فروعی تصوّرات کئے جاتے ہیں، پس اگر کوئی شخص اس اہم ترین مقام کے بارے میں غلط تصور کر بیٹھتا ہے تو آپ اندازہ کریں کہ ذیلی تصورات و تفکرات میں کتنی ساری غلطیاں ہوں گی، چنانچہ آپ کی دانشمندی اسی میں ہو گی، کہ آپ ہر شے کو بنیاد ہی سے سمجھنے کی کوشش کریں، خصوصاً تصورِ آفرینش کو، جس کا تعلق سنتِ ازل سے ہے۔

۱۵۔ سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۲۶ تا ۲۷) میں علمی و عرفانی عجائب و غرائب کا ایک عظیم الشّان نرالا خزانہ موجود ہے، آپ اس گنجِ سماوی کو

۳۵

لفظاً و معناً ہمیشہ کے لئے اپنائے ہوئے رکھیں، یعنی آپ اس کی گہری حکمتوں کو سمجھتے ہوئے بطورِ دعا پڑھا کریں، جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دونوں جہان (عالمِ خلق اور عالمِ امر) کسی تقدیم و تاخیر کے بغیر ہر وقت ایک دوسرے سے موجود ہوتے رہتے ہیں، جس کی مثال نقشۂ ذیل سے ظاہر ہے:

۱۶۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ کسی ازل میں خالقِ اکبر مخلوق کے بغیر ہو، ربّ ہو، مگر مربوب نہ ہو، وہ رازق کہلائے، لیکن مرزوق کا نام و نشان نہ ملے، ذاتِ قدیم کی صفات حادث ہوں،

۳۶

ایسا نہیں، بلکہ خدا ہر اعتبار سے قدیم ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس کے قول و فعل میں حدوث نہیں، یعنی ایسا نہیں کہ اس کا کلام یا کام نیا ہو، اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اس کا قول یعنی کلمۂ امر اور نتیجۂ امر دونوں قدیم ہیں، مگر وہ قدیم چیزوں کو جدید شکل و صورت میں پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے، (لفظِ جدید قرآن کے آٹھ مقامات پر ہے) جیسے موسمِ بہار کوئی نئی چیز ہے نہیں، لیکن ہر سال یہی پرانی بہار جدت و تازگی کی بے شمار مسرتیں لے کر آتی ہے، جس کے دلکش نظاروں کو سب لوگ بڑے شوق سے دیکھنا چاہتے ہیں، اسی طرح خدائے بزرگ و برتر ہمیشہ اپنی قدیم بادشاہی میں نئے نئے لوگوں کو پیدا کر کے ان کے باطن میں جدید کائناتیں بنا دیتا ہے، تا کہ اس صورت میں بشرطِ اطاعت ہر شخص کو ایک بھرپور کائنات کی سلطنت عطا کر دی جائے، اس بیدریغ، عظیم اور بے مثال انعام کے سوا اس کی بے پایان رحمت کا تقاضا پورا نہیں ہو سکتا تھا (۱۴: ۳۴)۔

۱۷۔ اب دائرۂ آفرینش کو غور سے دیکھئے، کہ یہ عالمِ خلق اور عالمِ امر (۰۷: ۵۴) دونوں کو ظاہر کرتا ہے، چنانچہ اس مثال کے مطابق دونوں جہان ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں، جب آپ پرکار سے دائرہ کھینچنے لگتے ہیں، تو اس کا سرا ضرور ہوتا ہے، مگر جوں ہی دائرہ مکمل ہو جاتا ہے، تو اس کا انتہائی سرا

۳۷

جا کر ابتدائی سرے میں گم ہو جاتا ہے، اسی طرح ہر وہ مؤمن جو پیدا ہو کر راہِ مستقیم پر گامزن ہو جاتا ہے، تو اس حال میں وہ اپنی زندگی کے متعلق محدود خیالات رکھتا ہے، لیکن جب وہ اپنی روح کو دیکھتا ہے اور اپنے پروردگار کو پہچانتا ہے، تو وہ انسانی زندگی کی لاانتہا ترقی کو ایک دائرے پر ہمیشہ کے لئے روان دوان پاتا ہے۔

۱۸۔ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں رات کا تذکرہ ہوا ہے، وہ عالمِ امر کی مثال ہے، اور عالمِ امر ممثولِ شب ہے، اسی طرح دن عالمِ خلق کی مثال ہے، اور عالمِ خلق ممثولِ روز ہے، چنانچہ رات کو دن میں، اور دن کو رات میں داخل کرنے (۰۳: ۲۷) کے معنی یہ ہیں کہ خدا ہمیشہ عالمِ لطیف کو مادّی صورت دے کر یہاں لاتا ہے، اور عالمِ کثیف کو مجرّد بناکر وہاں لے جاتا ہے، پس اسی قانون کے مطابق بیک وقت دنیا و آخرت ایک دوسرے سے پیدا ہوتی رہتی ہیں، مثال کے طور پر جب تک کوئی مؤمن پیدا نہیں ہوتا، تب تک اس کی انفرادی دنیا کا وجود نہیں بنتا، اور نہ ہی اس کی ذاتی جنّت تیار کی جاتی ہے، لیکن جس وقت وہ یہاں آکر نیک اعمال کو انجام دیتا ہے، تو انہی اچھے کاموں سے ایک طرف اس کی دنیا بنتی ہے اور دوسری طرف قدیم بہشت میں اس کے لئے ایک مخصوص نئی جنتِ اعمال تیار

۳۸

ہو جاتی ہے۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
لنڈن۔ یو۔ کے۔
۱۰ نومبر ۱۹۸۷ء

۳۹

کنوزِ قرآن

۱۔ خزانے کی تعریف:

دنیائے ظاہر کا کنز (جس کی جمع کنوز ہے) یا خزانہ اس جگہ کا نام ہے، جہاں کسی بادشاہ یا حکومت کے سکۂ رائج الوقت کا بہت بڑا ڈھیر ہو، مملکت بھر کا سونا، چاندی اور انمول جواہر جمع ہوں، اور عصرِ حاضر کے اعتبار سے اس میں امیروں کی دولت بھی امانت ہو تو وہ شاہی خزانہ یا بینک کہلاتا ہے، اس کے برعکس خزانۂ خداوندی کتابی شکل میں ہوتا ہے، یعنی قرآنِ کریم، نیز یہ ایک نورِ گوئندہ ہوا کرتا ہے، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان خزانوں میں جو چیزیں ہیں، وہ دنیوی زرّ و گوہر کے ڈھیروں سے بدرجہ ہا گرانمایہ ہوتی ہیں، جی ہاں، یہ حقیقت ہے، اور اس میں ذرہ بھر شک و شبہ

۴۰

نہیں کہ خدا کے خزانے ہیں، اور ان میں بھی اپنی نوعیت کا دینی اور روحانی سکۂ رائج الوقت ہے، جس سے وہ حقائق و معارف مراد ہیں، جو امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی اطاعت و معرفت کے بارے میں ہیں، پھر آسمانی سیم و زر ہے، یعنی علم و حکمت، اور روحانی لعل و گوہر ہیں، یعنی اسرارِ معرفت۔

۲۔ قانونِ خزائن:
سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں خوب دل جمعی سے غور و فکر کیا جائے: وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘-وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (۱۵: ۲۱) اور کوئی چیز نہیں مگر اس کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم اس چیز کو نازل نہیں کرتے ہیں مگر بقدرِ علم (و عمل) اللہ جل شانہ کا یہ قانون آفتابِ عالمتاب سے بھی زیادہ روشن ہے کہ تمام عقلی، فکری، علمی، عرفانی، روحانی اور لطیف جسمانی چیزیں سب کی سب خزائنِ خداوندی میں ہیں، وہ یوں نازل نہیں ہوتیں، بلکہ مشروط ہیں، وہ ایک دن میں نہیں، بلکہ بتدریج آسکتی ہیں، جیسے نفوسِ خلائق، رزق، بخت، دولت، علم، ہنر، ایجاد، انکشاف، سائنس وغیرہ کی مثال ہے، چونکہ “عندنا (ہمارے پاس)” کا مطلب مکانی اور جغرافیائی نہیں، بلکہ اس سے عندیتِ شرفی مراد ہے، لہٰذا یہ خزائن قرآنِ حکیم اور اس کے ربّانی معلّم میں ہو سکتے

۴۱

ہیں، کیونکہ اس جہانِ ظاہر میں یہی دو مبارک و مقدّس چیزیں ہیں، جن کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی قربت و عندیت کا درجہ حاصل ہے، جبکہ ایک کامل نور ہے (۰۵: ۱۵) اور دوسری مکمل کتاب (۰۵: ۱۵) جبکہ یہ دونوں چیزیں خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں، اور رسول کی نمائندگی کرتی ہیں۔

۳۔ نوح خزانۂ خدا:
حضرتِ نوح علیہ السّلام اپنے وقت میں خزانۂ خدا تھے، وہ اس طرح کہ ان کے زمانے میں طوفانِ ظاہر کے پس منظر میں ایک روحانی طوفان بھی برپا ہونے والا تھا، جس کی زد میں آ کر عقل، روح، اور جسمِ لطیف کے تمام ذرّات ہلاک ہوسکتے تھے، اس لئے پروردگارِ عالم کے حضور سے حضرتِ نوحؑ کو حکم ہوا کہ ذرّاتی کائنات کی تمام مختلف چیزوں میں سے ایک ایک جوڑا اپنی شخصیّت کی کشتی میں لے لو (۱۱: ۴۰، ۲۳: ۲۷) پس حضرتِ نوحؑ کے اندر سے ایک ندائے قیامت بلند ہوئی، جس کو سن کر تمام ذرّاتِ روح آپ میں جمع ہوگئے، اور اس طرح آپ خزانۂ الٰہی ہوگئے، اور یہی مرتبت جملہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کو حاصل ہے۔

۴۔ خزانۂ نور:
جس طرح کسی مملکت کے سارے اداروں اور عوام کا مالی

۴۲

اور معاشی نظام خزانہ یعنی بینک کے ذریعہ چلتا ہے، اسی طرح نظامِ شمسی (کائنات) کا دارومدار سورج پر ہے، کیونکہ سورج جو روشنی اور طاقت کا بے پایان خزانہ ہے، وہ بے دریغ خرچ ہو رہا ہے، جس کے بغیر دنیا مادّی طور پر زندہ نہیں رہ سکتی، پس یہ روشن مثال امامِ زمان علیہ السّلام کے لئے ہے کہ آپ کا نورِ اقدس عالمِ دین اور دنیائے بشریّت کے واسطے خزانۂ خدا کی مرتبت میں صرف ہوتا رہتا ہے، درحالیکہ اہلِ معرفت کے سوا کوئی شخص اس رازِ خداوندی کو نہیں جانتا۔

۵۔ خزینہ دار:
اگرچہ قرآنِ حکیم کی ہر آیۂ کریمہ کی ایک تاویل ہے، بلکہ کئی تاویلیں ہیں، تاہم سورۂ یوسف تاویل کا موضوعِ خاص ہے، اس لئے ہمیں غور کرنا اور دیکھنا ہوگا کہ آیا حضرتِ یوسف علیہ السّلام صرف مصر کے خزینہ دار تھے، یا روئے زمین کے تمام خزائن پر مقرر تھے (۱۲: ۵۵)؟ حالانکہ حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کو خدا کی جانب سے زمین کی خلافت عطا ہوتی ہے، اور اگر خزائنِ ارضی بھی انہی حضرات کے پاس ہوں، تو اس میں کیا تعجب ہوسکتا ہے، جیسا کہ آیۂ مبارکہ (۱۲: ۵۵) میں اس کا اشارہ موجود ہے۔

۴۳

۶۔ آسمان و زمین کے خزائن:
ارشاد فرمایا گیا ہے: وَ لِلّٰهِ خَزَآىٕنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (۶۳: ۰۷) اور سارے آسمان اور زمین کے خزانے خدا ہی کے ہیں۔ سماوات سے عقلِ کلّ کے مراتب مراد ہیں، اور ارض کا مطلب نفسِ کلّ ہے، یہ عالمِ روحانی کے آسمان و زمین ہیں، اور اسی طرح عالمِ جسمانی کے آسمان ناطق ہیں، اور زمین اساس، جبکہ ناطق مظہرِ عقلِ کلّ ہیں، اور اساس مظہرِ نفسِ کلّ، پس انہی معنوں میں آسمان و زمین امام اور وارثِ امام ہیں۔

۷۔ بہشت کا ایک خزانہ:
حکیم پیر ناصر خسرو قس کی شہرۂ آفاق کتاب “وجہِ دین” کی آخری گفتار نمبر ۵۱ میں ” لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللَّهِ الۡعَلِیِ الۡعَظِیۡم” کے بارے میں تحریر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: کنز من کنوز الجنۃ۔۔۔ یعنی مذکورہ قول بہشت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ اس حدیثِ شریف کی چند حکمتیں اس طرح ہیں: الف: چونکہ “لا حول”  بحکمِ حدیث جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، لہٰذا قرآنِ حکیم میں ایسے بہت سے خزانے ہیں۔ ب: بہشت کے خزائن عقلی، علمی، عرفانی اور روحانی ہوا

۴۴

کرتے ہیں، جن کا ایک پہلو دنیا میں ہے اور دوسرا جنّت میں۔ ج: آیاتِ کریمہ، کلماتِ تامّہ، اور اسماء الحسنیٰ میں خدا کے خزانے پوشیدہ ہیں۔ د: لا حول کے بارے میں کوئی شخص کچھ نہیں جانتا تھا، لیکن اس خزانے کی کنجی پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی نے عنایت کر دی، اس مثال سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نہ صرف خزانے ہیں، بلکہ اس کے خزانہ دار بھی ہیں۔

۸۔ وہاب کی حکمت:
خداوندِ بخشندہ و مہربان کا ارشاد ہے: اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىٕنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِیْزِ الْوَهَّابِ (۳۸: ۰۹) یا (اے رسول) تمہارے زبردست فیاض پروردگار کی رحمت کے خزانے ان کے پاس ہیں۔ اس قرآنی تعلیم میں اسمِ وہاب کی دو حکمتیں موجود ہیں، ایک یہ کہ اللہ اپنے خزانوں میں سے چیزیں دیتا ہے، اور دوسری حکمت یہ کہ وہ جن کو چاہے خزانے ہی خزانے عطا کر دیتا ہے، کیونکہ خدا کے خزانے یہاں “العزیز الوہاب” کے تحت مذکور ہیں۔

۹۔ ایک سوال:
کیا رسولِ اکرم کے پاس خدا کے دئے ہوئے خزائن تھے؟ آیا حضور غیب کی باتیں جانتے تھے؟ کیا آنحضرتؐ فرشتہ تھے (۰۶: ۵۰،

۴۵

۱۱: ۳۱)؟ جی ہاں، حضرتِ خاتمِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس اللہ کے عطا کردہ خزانے تھے، اس کا ثبوت خزائنِ قرآن ہیں، آپ بذریعۂ وحی غیب کی چیزیں جانتے تھے (۷۲: ۲۶ تا ۲۷) اور قرآنِ کریم میں جو کچھ ہے وہ سب غیب ہی سے تو ہے، اور حضورِ انور باعتبارِ جسمانیّت بشر، مگر بلحاظِ روحِ پاک مَلک (فرشتہ) تھے، جس کی دلیل واقعۂ معراج ہے، تاہم دعوتِ اسلام کے دوران افشائے راز مقصود نہ تھا۔

۱۰۔ گنجِ مخفی:
حدیثِ قدسی کا یہ ارشاد عجیب و غریب حکمتوں کا حامل ہے: کنت کنزاً مخفیاً فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق ۔ میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا سو میں نے چاہا کہ میری شناخت ہو تو میں نے خلق کو خلق کیا۔ یعنی جسمانی کو روحانی بنا دیا، کیونکہ یہاں خلق کا لفظ دو دفعہ آیا ہے، جس میں صرف روحانی تخلیق کا ذکر ہے، کائناتِ ظاہر اور جسمِ انسانی کی پیدائش کا تذکرہ نہیں، اب یہاں ایک بڑا اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پروردگار کہاں اور کس حجاب کے پیچھے پوشیدہ تھا؟ جب سب سے بڑے خزانے (یعنی خدا) کی معرفت حاصل ہوئی، تو پھر دوسرے تمام خزانوں کے بارے میں کیا ہوا؟ اور یہ بتائیں کہ ربّ العزّت کن معنوں میں خزانہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو اپنے آپ کو پہچانتا ہے وہ اپنے پروردگار کو پہچانتا ہے، اسی دلیل سے یہ کہنا حقیقت

۴۶

ہے کہ خدا کا مبارک دیدار عالمِ شخصی میں حجابِ خودی کے پیچھے پوشیدہ ہے، قانون یہی ہے کہ تمام خزانوں کی مرکزیّت ہو، اور وہ سارے خزانوں کا مالک اس معنیٰ میں گنجِ ازل ہے کہ تمہاری انائے علوی بس وہی ہے لیکن اس کا دارومدار تمہارے علم و عمل پر ہے۔

۱۱۔ امامِ مبین:
آپ ذرا لفظِ کنز کا لغوی تجزیہ کرکے دیکھ لیں، دراصل کنز (اکٹھا کرنا، ذخیرہ کرنا) مصدر ہے، لیکن مفعول کے معنی میں مستعمل ہے، جیسا کہ قرآن (۰۹: ۳۴) میں ہے: وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ ۔ اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں۔ چنانچہ قرآنِ حکیم میں کنز اور خزائن کی بہت سی مثالیں ہیں، جیسے کائنات کو لپیٹنا (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷)، سورج کو لپیٹنا (۸۱: ۰۱)، ہر چیز کا ملکوت (۳۶: ۸۳)، ملک (۶۷: ۰۱)، بے شمار چیزوں کو عددِ واحد میں جمع کر دینا (۷۲: ۲۸)، ہر چیز کو ایک کتاب میں محدود کرنا (۷۸: ۲۹) اور ہر چیز کو امامِ مبین میں گھیر لینا (۳۶: ۱۲) ان ساری مثالوں میں کنزِ ازل کی گہری حکمتیں موجود ہیں۔
ازل کے تصوّر یا معرفت میں وہ سارا علم بصورتِ کنز یکجا ہو جاتا ہے، جو کائنات و موجودات میں بکھرا ہوا ہے (۰۶: ۸۰) پس قرآنِ حکیم نے یا تو اس مقام کی تشبیہہ و تمثیل خزانے سے دی ہے، یا کہا ہے کہ دیکھو یہاں تمہارے لئے سب کچھ موجود

۴۷

ہے، اللہ تعالیٰ جملہ اہلِ ایمان کو کنوزِ قرآن کی معرفت عطا فرمائے!

نصیر الدین نصیر ہونزائی
لنڈن
۱۳ نومبر ۱۹۸۷ء

۴۸

تصوّرِ ازل اور سنتِ الٰہی

۱۔ یہاں سب سے پہلے سنتِ الٰہی کی وضاحت از حد ضروری ہے، کیونکہ اس کی اصل معرفت میں کئی انقلابی تصوّرات کی کلیدیں پوشیدہ ہیں، چنانچہ سنت کے معنی ہیں: عادت، راہ، رسم، دستور، طریقۂ جاریہ، دستورِ حکمت، اور قانونِ قدرت، جیسے سورۂ احزاب میں ارشاد ہوا ہے: سُنَّةَ اللّٰهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُؕ-وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَا (۳۳: ۳۸) جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ان میں بھی خدا کی (یہی) عادت (جاری) رہی ہے، اور خدا کا حکم اندازے سے مقرر کیا ہوا ہے۔ یعنی سنتِ الٰہی کی اصل شناخت انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے باطن میں پوشیدہ ہے، اور کلمۂ امر کا وقوع علم و عبادت کی مقررہ مقدار مکمل ہو جانے کے بعد ممکن ہے۔

۴۹

۲۔ کچھ آگے چل کر اسی سورہ (۳۳: ۶۲) میں دیکھیں، کہ خدا کی عادت میں کوئی تغیّر و تبدّل نہیں ہے، اب ہمیں قرآن ہی کی روشنی میں یہ سوچنا اور دیکھنا ہوگا کہ سنّت اللہ کی عظیم حکمتوں کا تصوّر کس طرح ہو سکتا ہے؟ کیا خدا کی عادت کا تعلق اس کے قول سے ہے؟ یا فعل سے؟ یا دونوں سے ہے؟ نیز یہ سوال بھی ضروری ہے کہ آیا یہ دستورِ الٰہی کسی ایک اسم کی وجہ سے ہے؟ یا جملہ اسماء کے سبب سے؟

۳۔ خدا کی پُرحکمت عادت مقامِ ازل پر اس کے قولِ پیہم (کلمۂ امر) میں بھی ہے، فعلِ مسلسل میں بھی (جیسا کہ وہ کائنات کو لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے) اور اس کا تعلق تمام اسمائے صفات سے بھی ہے، جن کے منشاء کے ظہورات قول و فعل ہی سے ہوتے رہتے ہیں، لیکن یہ بات ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت اپنے تمام معنوں کے ساتھ لوگوں کے باطن میں جاری و ساری ہے (۳۵: ۴۳، ۴۰: ۸۵) اور اس کی مکمل معرفت پیغمبروں اور اماموں کی ذات میں پوشیدہ طور پر چلتی رہی ہے، چنانچہ سنتِ ازل کا اطلاق نہ صرف آدم و اولادِ آدم ہی پر ہوتا ہے، بلکہ ان سے پہلے جو لوگ تھے، وہ بھی کسی شک کے بغیر اسی طریقۂ جاریہ کے تحت آجاتے ہیں، جیسا کہ خدائے علیم و حکیم کا پاک ارشاد ہے: كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً (۰۲: ۲۱۳) (انبیاء کے مبعوث ہو جانے سے پہلے) سب لوگ ایک ہی دین رکھتے

۵۰

تھے۔ وہ دین بقولِ قرآن دینِ قائم ( قَیِّم ) تھا (۰۹: ۳۶) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس دورِ عظیم سے پہلے بھی لوگ دنیا میں رہتے تھے، اور دین و دستورِ الٰہی بھی جاری تھا۔

۴۔ اس سلسلے میں سورۂ روم کے اس ارشادِ مبارک کی حکمت کو بھی اچھی طرح سے ذہن نشین کر لینے کی ضرورت ہے: فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَاؕ-لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ (۳۰: ۳۰) خدا کا قانونِ آفرینش وہ ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا خدا کی خلقت میں کوئی تغیّر و تبدّل نہیں، یہی دینِ قائم ہے۔ اس آیۂ حکمت آگین کی روشنی میں خوب نتیجہ خیز غور و فکر کریں، تاکہ گوہرِ حقیقت حجابِ معنی سے باہر آئے، وہ یہ ہے کہ خدا نے لوگوں کو پیدا کیا۔ درحالیکہ ہمیشہ سے فعلاً اس کی یہ فطرت (سنّت) چلی آرہی تھی، یعنی اس کے لئے یہ کوئی نیا کام نہیں تھا، کیونکہ خدا کی آفرینش دائرۂ لا ابتداء و لا انتہاء پر ہمیشہ جاری و ساری ہے، اس لئے اس کی تخلیق میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی، اور اسی مناسبت سے اسلام کو دینِ قائم کہا جاتا ہے، یا یوں سمجھ لینا کہ حضرتِ قائمؑ کی وجہ سے یہ سب کچھ ایسا ہے، مذکورہ آیۂ کریمہ میں دائرۂ ذیل کا تصوّر موجود ہے:

۵۱

۵۔ جس چیز کی ابتداء ہو، اس کی لازمی طور پر انتہا بھی ہوتی ہے، اور اس کے اوّل و آخر میں تبدیلی پائی جاتی ہے، اس کے برعکس جس سلسلے کا کوئی آغاز و انجام ہی نہ ہو، تو وہ ہمیشہ چلتا رہتا ہے، اور اس میں بحیثیتِ مجموعی کوئی تغیّر و تبدّل نہیں پایا جاتا، چنانچہ آپ مذکورۂ بالا آیۂ مقدّسہ کو پہلے خطِ فرضی کے سامنے رکھ کر دیکھ لیں، اور اس کے بعد دائرۂ فطرت کی مدد سے اس میں غور

۵۲

کریں، اور آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ کون سا تصوّر درست ہے۔

۶۔ اسلام میں سب سے بنیادی اور سب سے آخری اہمیّت جس چیز کی ہے، وہ توحید ہے، کیونکہ جہاں توحید نہ ہو، وہاں شرک ہوتا ہے، توحید کا دوسرا نام معرفت یا خدا شناسی ہے، جس کا راستہ خود شناسی ہے، جو صرف عالمِ شخصی ہی میں ممکن ہے، پھر “تصوّرِ ازل اور سنتِ الٰہی” کا یہ مضمون اس سے باہر کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔

 

۷۔ نقشۂ بالا میں ایک: جسم، ۲: روح، ۳: عقل، اور ۴: معرفت

۵۳

کو ظاہر کرتا ہے، یہ چیزیں اسی ترتیب سے عالمِ ناسوت، عالمِ ملکوت، عالمِ جبروت، اور عالمِ لاہوت کی مثالیں ہیں، اب اس مکمل اور کامیاب ڈایاگرام کی مدد سے آپ بہت سے اساسی حقائق و معارف کو سمجھ سکتے ہیں، مثال کے طورپر مندرجہ نقشہ سے باہر دونوں طرف ۴ کے تحت جو جو سب سے اہم عنوانات درج ہوئے ہیں، وہ سارے دراصل مقامِ معرفت پر ہیں، چنانچہ آپ ان میں سے ہر ایک کا تصوّر سنتِ ازل کی روشنی میں کر سکتے ہیں، مثلاً آپ کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ اپنی سنتِ ازل کے مطابق ہمیشہ عوالمِ شخصی کو پیدا کرتا رہتا ہے، اور ان میں لوگوں کے لئے شروع سے لے کر آخر تک تمام عجائب و غرائب نئے ہوتے ہیں، مگر ذاتِ خدا کے لئے کوئی بات نئی نہیں ہو سکتی، کیونکہ وہ بطریقِ لا ابتداء و لا انتہا خالقِ اکبر ہے۔

۸۔ جب پروردگارِ عالم کا قول و فعل قدیم ہے، تو لازماً اس کی سنت بھی قدیم ہے، اور جو شیٔ قدیم ہو، وہ مقامِ ازل پر موجود ہوتی ہے، وہ کسی ابتداء و انتہا کے بغیر ہمیشہ کی چیز ہوتی ہے، کیوں نہ ہو جبکہ کلمۂ امر عالمِ بالا کا درجہ رکھتا ہے، اور اس میں تمام لطیف اشیاء مجموع ہیں، جن کے وجود کے بغیر مشاہدۂ عقلی اور نتیجۂ عرفانی ممکن نہیں، مگر یہ بات خوب یاد رہے کہ عالمِ علوی کی بے شمار چیزیں سب کی سب سلکِ وحدت میں پروئی ہوئی ہوتی ہیں، چنانچہ اگر کسی کو وہاں کی ایک نعمت عطا ہو جاتی ہے، تو

۵۴

ساری نعمتیں اس سے وابستہ ہو کر اس کو مل جاتی ہیں۔

۹۔ خالقِ اکبر ہمیشہ عوالمِ انسانی کو پیدا کرتا ہے، خصوصاً ہر پیغمبر اور ہر امام کی ذاتی دنیا کا تذکرہ ہونا چاہئے، کیونکہ نورِ معرفت کا سورج اسی سے طلوع ہو جاتا ہے، اسی میں خدا تعالیٰ بار بار کائناتِ ظاہر اور اس کے واقعات کو لپیٹتا اور پھر پھیلاتا رہتا ہے، اور اسی طرح خدائے بزرگ و برتر گویا علم و حکمت کے آسمان و زمین کو ریوائنڈ اور فارورڈ کرتا رہتا ہے، تا کہ دیکھنے والوں کو اس کی آیات کی مکمل معرفت حاصل ہو (۴۱: ۵۳، ۵۱: ۲۱)۔

۱۰۔ سوال: بحوالۂ شیعی تفاسیر دربارۂ آیت نمبر ۱۷ از سورۂ ہود (۱۱: ۱۷) حضرتِ علی علیہ السّلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوّت و رسالت کے ظاہری اور روحانی گواہ ہیں، اور مولا علیؑ سے نورِ امامت مراد ہے، پس یہاں پوچھنا یہ ہے کہ آیا امامِ اطہر قرآنِ پاک کو بمشاہدۂ باطن اس حال میں دیکھ لیتا ہے، کہ وہ حضورِ اکرمؐ پر نازل ہو رہا ہے؟ اور مذکورۂ بالا قانونِ قدرت کے مطابق اس کے بار بار منزل و مرفوع ہو جانے کے تفصیلی معجزات ہو رہے ہیں (۸۰: ۱۴)؟
جواب: جی ہاں، امامِ عالی مقام کے مقدّس عالمِ شخصی میں سنتِ ازل کے تمام ظہورات و معجزات ہوتے ہیں، اور وہ سب قرآن ہی کی نورانی آیات ہیں، جو أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کے سینہ ہائے پاک

۵۵

میں ہوا کرتی ہیں (۲۹: ۴۹) اور انہی معنوں میں أئمّۂ ہدا لوگوں پر گواہ ہیں (۰۲: ۱۴۳)  کہ محمد رسول اللہ برحق ہیں۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
لنڈن
۱۷ نومبر ۱۹۸۷ء

۵۶

فرشتوں کی معرفت

۱۔ اے میرے بہت ہی عزیز دوستو! کیا آپ نے آیۂ بیعت (۴۸: ۱۰) میں کبھی ٹھیک طرح سے غور و فکر کیا ہے؟ آیا یہ حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مبارک ہاتھ دین کے اہم امور میں ید اللہ (دستِ خدا) کا درجہ رکھتا تھا؟ جی ہاں، اس میں کوئی شک نہیں، کیونکہ حضورِ اکرمؐ اپنے وقت میں پیغمبرِ محبوب اور خلیفۃ اللہ تھے، اس لئے آپ کے پاک و پاکیزہ قول و فعل کو خدائے بزرگ و برتر کے کلام اور کام کی نمائندگی حاصل تھی، جیسے ارشاد ہے: وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى (۵۳: ۰۳) اور وہ تو اپنی نفسانی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں۔ نیز سورۂ انفال میں دیکھئے: وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ رَمٰىۚ (۰۸: ۱۷) تم نے نہیں پھینکا جبکہ تم نے پھینکا بلکہ خود خدا نے پھینکا۔ ان پُرحکمت قرآنی تعلیمات سے یہ تابناک حقیقت زیادہ سے زیادہ قابلِ

۵۷

یقین ہو جاتی ہے کہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے خاص امور خدا کی طرف سے ہوا کرتے ہیں۔

۲۔ سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۴۹) اور سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۱۰) میں تفکّر و تدبّر کریں کہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام جو معجزات کرتے تھے، وہ دراصل خدائی کام تھا، لیکن چونکہ آپ میں نورِ الٰہی کی براہِ راست کار فرمائی تھی، لہٰذا یہ عظیم معجزے ان سے منسوب ہو گئے، چنانچہ ہم یہاں حضرتِ عیسیٰؑ کے تمام معجزات میں سے صرف ایک کا ذکر کریں گے، جس کے ساتھ ہمارے اس موضوع کا خاص تعلق ہے، وہ یہ کہ حضرتِ عیسیٰؑ طین (گارا) سے بحکمِ خدا پرندے بناتے تھے، اب اگر ہم اس کی حکمت کو نہ سمجھیں، تو یہ شاید بنظرِ ظاہر صرف ایک ایسا حسّی معجزہ قرار پائے گا کہ اس کا کوئی دور رس فائدہ نہیں، مگر اہلِ دانش جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو جو جو معجزے دئے ہیں، وہ سب کے سب پُرحکمت اور بے حد مفید ہیں۔

۳۔ حضرتِ عیسیٰؑ بسلسلۂ سفرِ روحانی جب منزلِ عزرائیلی میں داخل ہوگئے، تو ان پر تقریباً ایک ہفتہ روحانی موت کا واقعہ گزرتا رہا، اسی دوران ان کی شخصیّت کے سانچے میں کائناتی روح ڈھال کر ان جیسے فرشتے بنائے جاتے تھے، اور یہ معجزہ ہر نبی اور ہر امام کی روحانیّت میں موجود ہوا کرتا ہے، تا کہ تمام امتوں کے مؤمنوں کے لئے ان عظیم فرشتوں سے بے شمار فائدے حاصل ہوں، جیسے

۵۸

حضرتِ عیسیٰؑ نے کہا: اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ (۰۳: ۴۹) اس کی مراد یہ ہے کہ تمہارے روحانی فوائد کی خاطر خدا میرے عالمِ شخصی سے ایسے فرشتے بنا دیتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ منزلِ فنا ہے، اس لئے یہاں خدا عیسیٰؑ کے حق میں جو کچھ کر رہا ہے، وہ عیسیٰؑ کا فعل قرار پا رہا ہے، ورنہ عام طور پر دیکھا جائے، تو فرشتوں کو پیدا کرنا خدا ہی کا کام ہے، اور اس قانون کو بھی بھول نہ جائیں کہ ایسے میں فعل کا اطلاق اس طرف ہوتا ہے، جس طرف کہ خدا چاہے۔

۴۔ کتابِ “کوکبِ دری” کے صفحہ ۱۷۷ پر منقول ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: (ترجمہ:) اللہ تعالیٰ نے علی بن ابی طالب کے روئے مبارک کے نور سے ستر (۷۰) ہزار فرشتے پیدا کئے ہیں جو قیامت تک اس کے لئے اور اس کے دوستوں کے لئے طلبِ مغفرت کرتے رہیں گے۔ پروردگارِ عالم کی یہ بہت بڑی رحمت ہر پیغمبر اور ہر امام کے ساتھ موجود ہوا کرتی ہے، اور اس کا قانونِ قرآن وہی ہے جو حضرت عیسیٰؑ سے متعلق درج ہوا، اس کلیے سے ظاہر ہوا کہ فرشتے نورِ نبوّت اور نورِ امامت سے بنائے جاتے ہیں۔

۵۔ آیۂ کریمہ (۰۵: ۲۰) کا ترجمہ ہے: (اے رسول ان کو وہ وقت یاد دلاؤ) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم جو نعمتیں خدا نے تم کو دی ہیں ان کو یاد کرو اس لئے کہ اس نے تم ہی لوگوں سے پیغمبر بنائے اور تم لوگوں کو بادشاہ (ملوک) بنایا (۰۵: ۲۰) آپ سوچ

۵۹

سکتے ہیں کہ خداوندِ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰؑ نے اپنی قوم سے جیسا خطاب کیا تھا، اس سے کسی شک کے بغیر یہ علم ہو جاتا ہے کہ خدا نے اپنی رحمتِ بے پایان سے بنی اسرائیل کے ہر فرد کو تاجِ سلطانی سے سرفراز فرمایا تھا، لیکن ظاہر میں دیکھا جائے تو کوئی ایسی بات ہے نہیں، مگر حقیقت یہی ہے کہ پیغمبروں اور اماموں سے ان کے لئے ایسے فرشتے بنائے گئے تھے کہ ہر فردِ مؤمن اپنے عظیم فرشتے میں بادشاہِ روحانی تھا، یا یوں کہنا چاہئے کہ پیغمبر اور امام کی منزلِ عزرائیلی میں خود ہر مؤمن کو فرشتہ اور بادشاہ بنایا جاتا ہے، اس تصوّر سے آپ کی قرآنی معلومات کی دنیا میں انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔

۶۔ ہر پیغمبر کے ساتھ امام تھا، اور ختمِ نبوّت کے بعد بھی ہے، جس کی معرفت میں یہ نعمتِ عظمیٰ پوشیدہ ہوا کرتی ہے، چنانچہ آپ جانتے ہوں گے کہ قرآنِ حکیم ایک ہی حقیقت کو طرح طرح کی مثالوں میں بیان کرتا ہے (۱۷: ۸۹، ۱۸: ۵۴) سو اس قانون کا ذکر فرمایا گیا کہ ہر چیز کا ایک سایہ ہوا کرتا ہے (۱۶: ۸۱) خواہ وہ نور ہی کیوں نہ ہو، پس ارشاد ہوا: وَّجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْكُمُ الْحَرَّ= اور اس نے تمہارے لئے کرتے بنائے جو تمہیں گرمی سے محفوظ رکھتے ہیں۔ یعنی مرتبۂ امامت کے بہت سے زندہ کرتے (فرشتے) جو عقلی دوزخ (جہالت) سے تم کو بچانے کے لئے ہیں۔ وَ سَرَابِیْلَ تَقِیْكُمْ بَاْسَكُمْؕ= اور کرتے جو تمہیں ہتھیاروں کی زد سے محفوظ رکھتے ہیں۔ یعنی مرتبۂ قیامت کے

۶۰

بہت سے زندہ کرتے (فرشتے) ہیں، جو قیامت کی علمی جنگ میں تمہیں غلبہ و فتح عطا کر سکتے ہیں۔

۷۔ ہر گرانمایہ خزانہ صرف کسی مضبوط و محکم حجاب کے پیچھے ہی مخفی اور محفوظ رہ سکتا ہے، اور اس قانون کے سلسلے میں سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ خداوندِ دو جہان نے اپنی ذاتِ اقدس کے لئے حجاب کو پسند فرمایا (۴۲: ۵۱) جس کی وجہ سے جملہ گنجینہ ہائے قرآن بھی حجابات میں آگئے، چنانچہ ان مختلف قرآنی حجابوں میں سے ایک حجاب لفظِ “جنّ” بھی ہے، سو آئیے، ہم حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن کو دیکھتے ہیں، مگر فی الوقت صرف محاریب اور تماثیل (یعنی قلعوں اور تصویروں) کو (۳۴: ۱۳) محاریب، یعنی زندہ قلعے فرشتے ہیں، جو حضرتِ قائم علیہ السّلام کے کرتے ہیں، جو اڑن طشتریوں کی طرح کام کرتے ہیں، اور تماثیل (زندہ تصاویر) علمی فرشتے ہیں، جو حضرتِ امام علیہ السّلام کے کرتے ہیں، یعنی پیکر ہائے انوار۔

۸۔ قرآنِ مجید کا اشارہ ہے کہ فرشتے سماوی و ارضی یا روحانی اور جسمانی دو قسم کے ہوا کرتے ہیں (۰۶: ۰۹، ۱۷: ۹۵) ان دونوں کے درمیان جو گہرا رشتہ ہے، وہ اٹوٹ ہے، اور خود قرآنِ حکیم سے اس حقیقت کی ایک یقینی شہادت یہ ہے کہ شیاطین بھی دو قسم کے ہوتے ہیں، جو شیاطینِ انسی اور شیاطینِ جنّی کہلاتے ہیں (۰۶: ۱۱۲، ۰۶: ۱۲۱) جس طرح بذریعۂ آفتابِ جہان تاب کثیف سمندر سے لطیف بادلوں کا وجود بنتا

۶۱

ہے، اسی طرح بوسیلۂ نور جسمانی فرشتوں یعنی انبیائے کرام اور أئمّۂ عظام علیہم السّلام کے مبارک وجود سے روحانی فرشتے پیدا ہوجاتے ہیں، اور اسی قانون کے مطابق انسی شیاطین سے جنّی شیاطین موجود ہوجاتے ہیں۔

۹۔ قرآنِ پاک میں جہاں جہاں پرندوں کا ذکر آیا ہے، وہ بزبانِ حکمت ارواح و ملائکہ کا تذکرہ ہے، جیسے سورۂ نمل (۲۷: ۱۶) میں ہے: اور سلیمان داؤد کے وارث ہوئے (یعنی سلطنتِ سلیمانی جو بہت مشہور ہے، وہ زمانۂ آدم سے پوشیدہ پوشیدہ چلی آ رہی تھی) اور کہا لوگو! ہم کو پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے (یعنی روحوں اور فرشتوں کی بولی جو ہر پیغمبر اور ہر امام کے لئے لازمی ہے) اور ہمیں ہر چیز عطا کی گئی ہے (یہ مذکورہ نعمتوں کی مزید وضاحت ہے)۔

۱۰۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے فرشتوں کو اس طرح سے بنایا ہے کہ وہ کائنات و موجودات کی ہر ہر چیز کی حیثیت و کیفیت کے مطابق کام کر سکتے ہیں، اور ان کے مختلف درجات مقرر ہیں، مگر جو عظیم فرشتے ہیں، ان کے بہت سے نام ہیں، مثال کے طور پر: رعد (بجلی کی کڑک) برق (بجلی، چمک) صاعقہ (کڑک، دھماکہ) نار (آگ) روح، ریح، سحاب، وغیرہ، کیونکہ ان کے جیسے نام ہیں، ایسے کام بھی ہیں۔

۱۱۔ سوال: اگر پوچھا جائے کہ روح اور فرشتہ کی شکل کیسی ہے؟

۶۲

اور ان کی گفتگو کس بولی میں ہوتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ ہر چیز کی روح اسی چیز کی شکل پر ہے، مثلاً کائنات کی روح ایک لطیف کائنات ہے، سیّارۂ زمین کی روح ایسی ہی ایک روحانی دنیا ہے، مگر چونکہ روح، اس لئے اسے بہت زیادہ درخشندہ و تابندہ ہونا ہے، اسی طرح انسانی روح اپنی اصل حالت میں ایک لطیف اور انتہائی شکیل و جمیل انسان ہے، اور فرشتہ بھی ایسا ہے، اب رہا زبان یا بولی کا مسئلہ، تو اس کے لئے قانون یہ ہے کہ ہر شخص کی روح اور فرشتوں کی بولی وہی ہوتی ہے، جو کچھ اس آدمی کی اپنی ہوتی ہے۔

۱۲۔ سوال: وہ طریقہ کون سا ہے، جس کو اختیار کرنے سے کوئی مؤمن فرشتوں کی معرفت حاصل کر سکتا ہے؟ یا ان کے قریب ہوسکتا ہے؟ یا ان کی تائید سے مستفیض ہو سکتا ہے؟ جواب: اس کے لئے صراطِ مستقیم کے ہوتے ہوئے کسی اور طریق کی ضرورت کیوں کر پیش آسکتی ہے، وہی مکمل اطاعت ازحد ضروری ہے، جو خدا و رسول، اور امامِ زمانؑ کے پُرنور ارشادات کی بجا آوری میں کی جاتی ہے، چنانچہ نورِ امامت کے فرمانہائے مبارک روحانی ترقی کی ہدایات سے بھرے ہوئے ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ مؤمن ہی اطاعت، عبادت، اور حقیقی علم سے فرشتہ بن سکتا ہے، چنانچہ فرشتوں کی چند خصوصیات یہ ہیں: الف: اعلیٰ درجے کی فرمانبرداری (۱۶: ۵۰)، ب: خوفِ خدا (۱۶: ۵۰)، ج: عاجزی (۲۱: ۱۹)، د: کثرتِ ذکر و عبادت (۲۱: ۲۰)، ھ: علم و حکمت (۴۰: ۰۷)،

۶۳

و: مؤمنین کے لئے خیر خواہی اور دعا (۴۰: ۰۷)، ز: اہلِ ایمان کی خدمت (مدد) اور دوستی (۴۱: ۳۱، ۵۸: ۲۲)۔

۱۳۔ اگرچہ حکیم پیر ناصر خسرو قس کی ہر کتاب اسرارِ علم و حکمت کے جواہر کا ایک انمول گنجینہ ہے، تاہم “وجہِ دین” حجّتِ امامِ عالی مقام کی ایک ایسی بے مثال کتاب ہے، کہ اس میں جگہ جگہ ہوشمند اور با سعادت مؤمنین کے لئے امام شناسی کے بے بہا موتی بکھیر دئے گئے ہیں، چونکہ وہ ایک عارفِ کامل اور پیرِ روشن ضمیر کی بے حد کامیاب تصنیفات کی آخری کتاب ہونے کی حیثیت سے چوٹی پر ہے، نیز یہ کہ وہ ایسی کتاب ہے جس کی تاویلی حکمتیں روحانی اور عقلانی مشاہدات پر مبنی ہیں، لہٰذا آپ اس کا مطالعہ کریں، لیکن بڑی باریک نگاہی اور بھرپور توجہ سے یہ عمل ہو، تا کہ اس سے نہ صرف فرشتوں کے بارے میں معلومات کا ایک گرانمایہ ذخیرہ حاصل ہوگا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے خزانے ملیں گے جو لازوال ہیں۔

۱۴۔ نکیر و منکر کا ہونا حق ہے، مگر ان کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کس قبر میں سوال و جواب یا بحث کرتے ہیں؟ کیونکہ قانونِ خداوندی کے مطابق تمام چیزیں دو دو، یعنی جفت جفت ہیں، ان میں سے ایک مثال ہے، اور دوسری چیز ممثول، چنانچہ قبرِ خاکی مثال ہے، اور خود زندہ آدمی اس کا ممثول، لہٰذا مذکورہ دو فرشتے جو خیر و شر کے نمائندے ہیں، ہماری زندگی ہی میں اپنا مقررہ کام پورا

۶۴

کر لیتے ہیں، پس اس مرحلے میں آسانی کے لئے حقیقی علم اور نیک عمل از بس ضروری ہے۔

۱۵۔ رسولِ اکرم رحمتِ عالم فخرِ بنی آدم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دو دائمی اور عقلی معجزے قرآن اور امام ہیں، صدقے جائیں ہم صاحبِ ثقلین سے، اور ثقلین سے، آؤ دوستو، یہاں نورِ منزل اور کتابِ مبین (۰۵: ۱۵) کے غیر فانی خزائن میں سے ایک عجیب و غریب خزانہ ہے، لیکن خدا کے واسطے اس گنجِ گوہر کی قدر و قیمت کو سمجھ لینا، وہ ارشاد جو روحانی حکمتوں سے لبریز ہے، یہ ہے: وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ (۰۷: ۱۱) اس میں تو شک ہی نہیں کہ ہم نے تم کو (جسمانی طور پر) پیدا کیا پھر (بعد ازان) تمہاری (روحانی) صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم سب آدم کے لئے سجدہ کرو (۰۷: ۱۱) اس میں حکمتِ بالغہ کی کئی کلیدیں ہیں، مثلاً: الف: اس دور کے آدم سے پہلے بھی لوگ تھے، اور ان میں سے بعض فرشتے ہوگئے تھے۔ ب: پہلے جسمانی تخلیق ہے، اس کے بعد روحانی تکمیل، اور پھر مشاہدہ اور معرفت کے سلسلے میں حضرتِ آدمؑ کا روحانی واقعہ سامنے آتا ہے۔ ج: روحانیّت زمان و مکان سے بالاتر ہے، لہٰذا اہلِ معرفت دیدۂ باطن سے واقعاتِ قرآن کو حالِ اصل میں دیکھ سکتے ہیں۔ د: خدا تعالیٰ لوگوں کو باطن میں اپنے وہ معجزات (آیات، ۴۱: ۵۳) دکھا سکتا ہے جو

۶۵

اس نے انبیاء علیہم السّلام کے لئے کئے تھے۔ ھ: جب یہ حقیقت مسلّمہ ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ہر لطیف چیز کو امامِ مبین کے نورِ اقدس میں محدود کر دیا ہے (۳۶: ۱۲) تو پھر جو لوگ امام کو نورانیّت میں پہچان لیں، وہ قرآن کو بھی روحانیّت میں پہچان لیں گے اور انبیاء و ملائکہ کو بھی۔ و: اگر یہ ممکن ہے کہ انسان کی اپنی معرفت سے خدا کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے تو ایسے میں کلامِ الٰہی (یعنی قرآن) کی معرفت کیسے الگ ہو سکتی ہے۔

۱۶۔ آدم علیہ السّلام خلیفۂ خدا تھے، کہاں؟ سیّارۂ زمین پر، اور فرشتے کہاں تھے؟ آسمان میں، اور ہر جگہ، پھر یہ کیسے ممکن ہوا، کہ کائنات بھر کے فرشتے اپنے اپنے کاموں کو چھوڑ کر آدم کے پاس زمین پر آگئے، تاکہ اس کے سامنے سجدے میں گر پڑیں، اور علمِ اسماء حاصل کریں؟ اگر یہی بات درست ہے تو پھر آدم کی طرف رجوع کیا، تاہم بتائیں کہ اس میں اصل راز کیا ہے؟ اصل راز یہ ہے کہ آسمان و زمین کی کئی قسمیں ہیں، مگر آخری سمٰوٰت و ارض عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ہیں، جن کی عظمت و بزرگی کا اندازہ ہر ہوشمند کر سکتا ہے، چنانچہ حضرتِ آدمؑ زمینِ نفسِ کلّی میں خلیفہ تھے، وہ اگر ایک طرح سے زمین ہے تو دوسری طرح سے آسمان ہے، مگر یہ بات بھول نہ جائیں کہ نفسِ کلّ صرف روحانی ہی ہے، مادّی ہرگز نہیں۔

۶۶

۱۷۔ آپ یہ نکتہ بھی یاد رکھیں کہ دنیا کی چیزیں ہمیشہ متفرق و منتشر ہوتی ہیں، مگر خدا کی چیزیں اس کی صفتِ وحدانیّت اور سنتِ ازل کے مطابق دستِ قدرت میں ایک ہوکر قائم رہتی ہیں، چنانچہ خدا کی زندہ زمین یعنی نفسِ کلّ، اور اس کا خلیفہ ایک ہوگئے تھے، پس اسی عالمگیر روح کے وسیلے سے حضرتِ آدم علیہ السّلام کی علمی آواز آسمان و زمین کے سارے فرشتے سنتے تھے۔

۱۸۔ یہ بات بارہا زیرِ بحث آچکی ہے، اور ایک روشن حقیقت کے طور پر تسلیم کی گئی ہے کہ جو روحِ خدا (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) حضرتِ آدم علیہ السّلام میں تھی، وہ دوسرے الفاظ میں خدا کا نور تھا، پس اسی کو ہم کائناتی روح یا ارض اللہ (۰۴: ۹۷، ۲۹: ۵۶، ۳۹: ۱۰) کہہ سکتے ہیں، جس میں حضرتِ آدمؑ کی خلافتِ کبریٰ تھی، اور اسی میں امامت کے معنی بھی پوشیدہ ہیں، جیسا کہ آپ کلیۂ امامت کو جانتے ہیں، پس یہ قرآنی حکمت کا کتنا بڑا حیرت انگیز اور زبردست تصوّر ہے کہ حضرت آدم صفی اللہ کو ارض اللہ (کائناتی روح) کی خلافت عطا ہوئی تھی، اور خلافت اب بھی ہے، کیونکہ پیدا ہونے والے ملائکہ کو علمِ آدم کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بغیر وہ ان سیڑھیوں سے چڑھ کر بارگاہِ خداوندی تک نہیں پہنچ سکتے، جن کی مسافت پچاس ہزار سال کی ہے (۷۰: ۰۳ تا ۰۴) دیکھئے کہ ہر چیز اور ہر مثال میں علم ہے (۲۰: ۹۸) تو پھر یہ سیڑھیاں

۶۷

مادّیت کی کیوں کر ہوسکتی ہیں۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
لنڈن
۲۰ نومبر ۱۹۸۷ء

۶۸

بہشت کی معرفت

۱۔ قانونِ دوئی:

سورۂ ذاریات میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ (۵۱: ۴۹) اور ہم نے ہر چیز کے دو دو جوڑے بنائے تاکہ تم لوگ نصیحت حاصل کرو۔ یہ ذاتِ سبحان کا بنایا ہوا قانونِ دوئی ہے، اور اس سے موجودات کی کوئی چیز ہرگز خارج نہیں ہو سکتی، اب ہم اسی قانون کی روشنی میں یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ شہادت دو قسم کی ہوا کرتی ہے، پہلی شہادت ہے روحانی اور دوسری جسمانی، اگر کچھ خوش بخت مؤمنین قبل از مرگِ جسمانی بوسیلۂ علم، عبادت، اور ریاضت منزلِ عزرائیلی کا تجربہ حاصل کر لیتے ہیں، یعنی روحانی طور پر مر جاتے

۶۹

ہیں، تو یہ ان کی روحانی یا باطنی شہادت ہے، اور دوسری شہادت جو جسمانی اور ظاہری ہے وہ تو سب کو معلوم ہی ہے، اور کسی سے پوشیدہ نہیں۔

۲۔ شہدائے باطن:
اب سورۂ محمد (۴۷: ۰۴ تا ۰۶) میں دیکھ لیں: (ترجمہ: ) اور جو لوگ خدا کی راہ میں شہید کئے گئے ان کی کارگزاریوں کو خدا ہرگز اکارت نہ کرے گا۔ انہیں عنقریب منزلِ مقصود تک پہنچائے گا اور ان کی حالت سنوار دے گا۔ اور ان کو اس بہشت میں داخل کرے گا جس کا انہیں (پہلے سے) شناسا کر رکھا ہے ( عَرَّفَهَا لَهُمْ، ۴۷: ۰۴ تا ۰۶) کوئی شک نہیں کہ یہ تینوں آیاتِ مقدسہ نہ صرف شہدائے باطن کے بارے میں ہیں، بلکہ شہیدانِ ظاہر کی شان میں بھی ہیں، اس حقیقتِ حال کے باوصف اگر آپ ان آیتوں کی حکمت کو تفکر و تدبر سے دیکھیں، تو ظاہری شہیدوں کی فضیلت اپنی جگہ مسلمہ ہے، لیکن اللہ تعالیٰ صرف انہی لوگوں کو پہلے سے جنّت کی معرفت عطا کر دیتا ہے، جو اس کی راہ میں جیتے جی شہید ہو جاتے ہیں، آپ سورۂ حدید میں بھی دیکھیں (۵۷: ۱۹) کہ جو مؤمنین زندہ شہید ہوتے ہیں، وہ نورِ معرفت سے فیض حاصل کرتے رہتے ہیں۔

۷۰

۳۔ معرفتیں یکجا ہیں:
بہشت کی معرفت دیگر معرفتوں سے الگ تھلگ نہیں، جبکہ تمام کی تمام معرفتیں آپس میں مل کر یکجا ہیں، پس جو خوش نصیب لوگ اپنے آپ کو اور اپنے ربّ کو پہچانتے ہیں، وہ لازماً بہشت کو بھی پہچان سکتے ہیں، ایسے میں جو علم ہوگا، وہ روحانی اور حقیقی کہلائے گا، اور اس سے یقیناً جنت کی شناخت میں بڑی مدد ملے گی۔

۴۔ لاکھ سوال ایک جواب:
جنّت میں کیا کیا نعمتیں عطا ہو سکتی ہیں؟ اور کون کون سی چیزیں نہیں ملتیں؟ اس کے علم کے لئے بھی قرآنِ کریم نے ایک کلیہ عطا کر دیا ہے، جس کا ذکر چند مقامات پر ہے، اور اس کی ایک صورت یہ ہے: لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِیْهَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ (۵۰: ۳۵) اس (بہشت) میں یہ لوگ جو چاہیں گے ان کے لئے حاضر ہے اور ہمارے ہاں تو (اس سے بھی) زیادہ ہے۔ اس باکرامت آیت میں ایک ایسا حکیمانہ جواب موجود ہے کہ اگر لاکھ سوال ہوں، تو اس حال میں بھی یہ سب کے لئے کافی ہو سکتا ہے، غرض یہ ہے کہ جنّت میں ہر مطلوبہ نعمت موجود ہے۔

۷۱

۵۔ ابداعی بدن:
بہشتی لوگ جسمِ لطیف رکھتے ہیں، جو موجودہ بدن کے برعکس ہے، وہ نورانی اور ابداعی قوّتوں کا حامل ہے، کیونکہ وہ جسمِ فلکی ہے، اس لئے عناصرِ اربعہ سے برتر ہے، اس کی لطافت و پاکیزگی کی تشبیہ و تمثیل یا تو شعلۂ شمع سے یا سورج کی شعاعوں سے دی جا سکتی ہے، ابداعی بدن تنفس اور نظامِ تنفس سے پاک ہے، نہ وہ حرکتِ قلب اور دورانِ خون کا محتاج ہے، اور نہ اس کو نیند کی ضرورت ہے، اس میں شب و روز ذکرِ خدا خود از خود چلتا رہتا ہے، جس کی بدولت وہ جہاں چاہے پرواز کر کے جا سکتا ہے، اس کے حواسِ ظاہر و باطن ایک ساتھ کام کرتے ہیں، لہٰذا وہ دنیا کو بھی دیکھتا ہے اور آخرت کو بھی، اہلِ جنّت ہماری طرح کی غذائیں نہیں کھایا کرتے، ان کو بہشت کی لطیف خوشبوؤں سے قوّت ملتی رہتی ہے، ان کا طعام و شراب (کھانا پینا ) خوش بو ہائے گوناگون سے ہے۔

۶۔ جامۂ جنت:
دنیاوی کپڑے بے جان، بے حس، اور خاموش ہوتے ہیں، لیکن جامۂ جنّت عقل و جان اور احساس کی خوبیوں سے آراستہ پیراستہ

۷۲

ہوا کرتا ہے، اسے کوئی انسانِ کامل، یا فرشتہ، یا روحِ اضافی سمجھ لیں، جس کا پہن لینا یوں ہے کہ اپنی جان کے ساتھ اسے ایک کر لیا جائے، آپ نے شاید قمیصِ یوسف کو ایک ظاہری کرتا سمجھا ہوگا، مگر یہ بات نہیں، وہ تو بہشت کا ایک کرتا تھا، یعنی لباسِ نور، یہی سبب ہے کہ حضرتِ یعقوب کے چہرے پر ڈالا گیا (۱۲: ۹۳، ۱۲: ۹۶) اس کے یہ معنی ہیں کہ قمیص کا تعلق جسم سے نہیں، بلکہ حواسِ باطن سے تھا، پس یہ جامہ ہائے بہشت کی ایک روشن مثال ہے، دنیا کے کپڑوں میں کوئی اختیار نہیں، اس لئے آپ اپنی مرضی سے انہیں استعمال کرلیتے ہیں، لیکن جہاں جامۂ بہشت ایک فرشتہ ہے، وہاں یہ دونوں باتیں درست ہیں کہ ایک اعتبار سے آپ اسے پہن لیتے ہیں، اور دوسرے اعتبار سے وہ آپ کو پہن لیتا ہے۔

۷۔ جنّت میں دیدار:
قرآنِ حکیم کی بہت سی آیاتِ کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاک دیدار کا ذکر موجود ہے، کہ خدائے بخشندہ و مہربان اپنے ظہورات و تجلّیات کی بے مثال اور لازوال دولت سے اہلِ بہشت کو نوازتا رہے گا، ربِّ کریم کی ہر گونہ ملاقات سے جمال و جلالِ اسرار کا عالم ہوگا، جیسا کہ ارشاد ہے: وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌ (۷۵: ۲۲) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (۷۵: ۲۳) اس روز بہت سے چہرے

۷۳

ترو تازہ بشاش ہوں گے (اور) اپنے پروردگار کو دیکھ رہے ہوں گے۔ ہر بہشتی شخص خدا کے عالمِ تجلّیات کو دیکھنے کی خواہش کرے گا، اور جب اسے دکھایا جائے گا، تو اسے بے حد مسرّت و شادمانی اور حیرت ہوگی۔

۸۔ دیدار ۔ معرفت کا سرچشمہ:
قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی کامل ترین اور جامعِ جوامع کتاب ہے کہ اس میں نہ صرف حیاتِ دنیوی سے متعلق علم و ہدایت کی فراوانی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بہشتِ جاودانی کی لاثانی اور غیر فانی نعمتوں کے بھید بھی ہیں، اور قرآنِ مجید کے ان خزانوں تک رسا ہو جانے کے لئے تفکر و تدبر کی سخت ضرورت ہے، مثال کے طور پر جب ہم لقاء اللہ (خدا سے ملنا، ملاقات کرنا، ۲۹: ۰۵ ) پر یقین رکھتے ہیں، تو پھر ہمیں قرآنِ کریم کی روشنی میں یہ بھی سوچنا اور دیکھنا ہوگا کہ رجوع الی اللہ (خدا کی طرف لوٹ جانا) یا دیدار و ملاقات کس کیفیت میں ہوگی، اور اس کے متعلقات کیا ہوسکتے ہیں، چنانچہ یہ بندۂ کمترین، خاکِ پائے مؤمنین، کفش بردارِ عاشقین اور سگِ درِ سلطانِ دین بہشت میں دیدارِ خداوندی کے باب میں ایسا عقیدہ رکھتا ہے:

۹۔ الف: بہشت میں خدا سے ملنا گنجِ مخفی کو پانا ہے،

۷۴

ب: پروردگار کا ہر دیدار علم و حکمت کے انوار کے تموج میں ہوگا، ج: اہلِ بہشت اپنے ربّ کو دیکھیں گے کہ وہ کس طرح کائنات کو لپیٹ رہا ہے (۳۹: ۶۷) د: دستِ قدرت کا مشاہدہ ہوگا کہ اس میں بادشاہی بھی ہے اور ہر چیز کی ملکوت بھی (۶۷: ۰۱، ۳۶: ۸۳)، ھ: قلمِ الٰہی کا دیدار ہوگا کہ اس کی ہزاروں مثالیں ہیں، و: لوحِ محفوظ کا مشاہدہ ہوگا کہ اس میں قرآنِ کریم موجود ہے، اور یہ لوح انسانی شکل کا ایک عظیم فرشتہ ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲)، ز: کلمۂ کُنۡ کو سنیں گے کہ وہ ہر مؤمن کی اپنی زبان میں ہے (۱۴: ۰۴)، ح: اگر مؤمنین اللہ تعالیٰ کے اسرارِ ازل و ابد کو جاننا چاہیں، تو ان کی یہ خواہش بھی پوری ہو جائے گی، ط: بہشت والے ان اسرارِ عظیم کے جاننے سے بدرجۂ انتہا شادمان ہو جائیں گے کہ اللہ کے نزدیک امامِ مبین کے بہت سے نام ہیں، مثلاً لوحِ محفوظ، نفسِ واحدہ، کرسی، کتابِ ناطق، ام الکتاب، ارض اللہ، اسمِ اکبر، نوراللہ، حبل اللہ، عروۃ الوثقیٰ، روحِ اعظم، کتابِ مکنون، شاہد، صدیق، وغیرہ۔
۱۰۔ بہشت جوہرِ دنیا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ: دنیا آخرت کی کھیتی باڑی ہے۔ چنانچہ بہشت دنیا کا پھل، خلاصہ، ست اور جوہر ہے، کیونکہ جب تک کوئی انسان یہاں آکر اپنے لئے علم و عمل

۷۵

کی ایک دنیا تعمیر نہیں کرتا، تب تک اس کی ذاتی جنت تیار نہیں ہوسکتی، اور جب قولاً و فعلاً ہر گونہ تیاری سے اس کا عالمِ شخصی مکمل ہو جاتا ہے، تو اس کی ذاتی کائنات کا چھلکا اتارا جاتا ہے (۸۱: ۱۱) تا کہ اس کا باطن یعنی روحِ کلّی بحیثیتِ بہشت اس کے سامنے آئے، کیونکہ دنیا و آخرت ایک ساتھ ہیں، وہ اس طرح کہ جسمِ کلّی دنیا ہے، اور اس میں نفسِ کلّی آخرت ہے، جیسے قرآنِ حکیم نے ارشاد فرمایا کہ جنّت کی وسعت سارے آسمان زمین کے برابر ہے (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) یعنی آسمانوں اور زمین کے باطن میں جو عالمگیر روح ہے، وہی دائمی بہشت ہے۔

۱۱۔ کائنات کا چھلکا اتارنا:
ارشادِ ربّانی ہے: وَ اِذَا السَّمَآءُ كُشِطَتْ (۸۱: ۱۱) اور جس وقت آسمان (یعنی ساری کائنات) کا چھلکا اتارا جائے گا۔ جب کسی حکم کا اطلاق کل پر ہوتا ہے تو اس کے تمام اجزاء اس حکم کے تحت آتے ہیں، اور کوئی جزو اس سے مستثنا نہیں ہوسکتا، چنانچہ اس آیۂ مبارکہ میں بہت سے لطیف و بلیغ اشارے موجود ہیں، مثال کے طور پر: الف: یہ جہان جو سب کے سامنے ہے چھلکا ہے، اور وہ جہان اس کا میوہ و مغز، ب: آدمی کے اندر ایک اصل آدمی ہے، پس یہ جو ظاہر میں ہے بشر ہے، اور

۷۶

جو باطن میں ہے وہ فرشتہ (بحدِّ فعل یا بحدِّ قوّت) ج: بہشت میں سلطان اور سلطنت کے بہت سے درجات ہیں، لہٰذا وہاں سب لوگوں کے لئے گنجائش ہے، د: اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ قرآنی مثال سے ممثول کو سمجھ لیا جائے، اور حجاب ہٹا کر محجوب کو پہچان لیا جائے۔

۱۲۔ سرزمینِ بہشت:
سورۂ زمر (۳۹: ۷۴) میں دیکھئے کہ وہاں ارضِ بہشت کا ذکر فرمایا گیا ہے، جس سے نفسِ کلّی مراد ہے، اور اس کا آسمان عقلِ کلّی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنّت کی زمین روحانی ہے، اور آسمان عقلانی، اور اسی طرح جنّت پوری کائنات پر محیط ہے، پس بہشت والے جو فلکی جسم میں ہیں، جہاں چاہیں جا سکتے ہیں اور ٹھہر سکتے ہیں، کیونکہ سرزمینِ بہشت (یعنی عالمگیر روح) بہت وسیع ہے، جس طرح قرآنِ پاک میں اس کی وسعت کی تعریف کی گئی ہے (۰۴: ۹۷، ۲۹: ۵۶، ۳۹: ۱۰)۔

۱۳۔ عوالمِ بہشت:

۷۷

۷۸

نوٹ: قرآنِ کریم میں دیکھئے کہ بہشت کے لئے صیغۂ واحد (۵۷: ۲۱، ۰۳: ۱۳۳) بھی آیا ہے، اور صیغۂ جمع (۰۲: ۲۵، ۰۳: ۱۵) بھی، وہ نہ صرف ایک عالم ہے، بلکہ اس میں بہت سے عوالم بھی ہیں، کیونکہ بہشت اللہ تبارک و تعالیٰ کی بے دریغ نوازشات کی جگہ ہے، جب کہ وہاں خدا لوگوں کو عظیم سلطنتیں بھی دیتا ہے، یاد رہے کہ جنّت مقامِ ابداع ہے اس لئے وہاں ہر لحظہ ایک نئے جہان کا ظہور ہو سکتا ہے، میرے خیال میں یہ ڈایاگرام بڑا عجیب و غریب اور نہایت ہی ضروری ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ آپ اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھائیں۔

۱۴۔ ظہوراتِ جنّت:
دیکھنے والوں کی خواہش کے مطابق بہشت کے پرنور نظارے گوناگون ظہورات میں بدلتے ہوں گے، کیونکہ وہ عالمِ امر ہے، جس میں کن فیکون کی کارفرمائی جاری و ساری رہتی ہے، اس لئے جنّت والوں کو جو نعمت مطلوب ہو، جس چیز کی وہ تمنا کریں، اور عوالم میں سے جو عالم دیکھنا چاہیں، وہی ان کی نگاہوں کے سامنے آئے گا، اس کی مثال اگر قرآنی نعمتوں سے دی جائے تو بہتر اور مفید تر ہوگا، کیونکہ قرآنِ کریم عوالمِ بہشت میں سے وہ عالم ہے، جس کا ظہور دونوں جہان میں ہے، اور وہ مثال ذیل کی

۷۹

طرح ہے:

اگر آپ قرآنی بہشت کے مختلف ظہورات و معجزات کا تصوّر کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں، جیسے آپ نے کہا کہ قرآنِ مجید اپنے اس باکرامت پھیلاؤ کے باوجود ام الکتاب میں جلوہ فگن ہے، صرف یہی نہیں، بلکہ اس کا ظہورِ اوّل نقطۂ بائے بسم اللہ میں ہوا، وہ انتہائی بلندی سے مربوط ایک زندہ روح اور ایک تابندہ نور ہے (۴۲: ۵۲) قرآنِ مجید لوحِ محفوظ میں بھی ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) یہ کیسا عظیم معجزہ ہے کہ قرآنِ عزیز قلمِ الٰہی اور کتابِ مکنون میں بھی ہے (۵۶: ۷۷ تا ۷۸) اس کا ایک کامل و مکمل نزول و ظہور آنحضرت کے قلبِ مبارک پر ہوا (۲۶: ۱۹۴) اگر قرآنِ پاک کی کوئی پوشیدہ حکمت سمجھ میں آتی ہے یا کوئی بھید کھل جاتا ہے، تو اس کی روشنی خزائنِ الٰہی سے آتی ہے (۱۵: ۲۱) یعنی قرآنی فکر پر روشنی ڈالنے کے لئے نور مقرر ہے (۰۵: ۱۵) اور روحانی تائید کے لئے خدا کی جانب سے ایک خاص روح معیّن ہے (۵۸: ۲۲) یہ نور اور روح دراصل امامِ مبین کی ذاتِ اقدس میں موجود ہے (۳۶: ۱۲) کیونکہ جس طرح مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی، اسی طرح نور اور روح کا قیام شخصیتِ کامل کے بغیر نا ممکن ہے، اس قسم کے بے شمار قرآنی تصوّرات ہو سکتے ہیں، مگر جنّت میں یہ سب روحانی اور عقلانی ظہورات و مشاہدات ہوں گے۔

۸۰

۱۵۔ لذائذِ جنان:
بہ اشارۂ قرآنِ حکیم (۱۶: ۹۷) اہلِ ایمان قیامت کے دن جسمِ فلکی میں زندہ ہو جائیں گے، جس کی زندگی بزبانِ قرآن حیاتِ طیبہ (پاک و پاکیزہ زندگی) کہلاتی ہے، جس کا ذکر ہوچکا ہے، پس جنت میں تین قسم کی لذات ہوں گی: لطیف جسمانی، اعلیٰ روحانی، اور کامل عقلی، ان لطیف و پاکیزہ لذّتوں کی مثال دنیا میں ہر کسی کو نصیب نہیں ہو سکتی، مگر صرف اہلِ بصیرت ہی ہیں، جو ان نعمتوں کو پہچانتے ہیں، اس مضمون کے بعد اب بہتر یہ ہوگا کہ آپ قرآنِ پاک میں لذائذِ جنان کے موضوع کو خوب غور سے پڑھیں، اور متعلقہ احادیثِ نبوّی کا بھی مطالعہ کریں، تاکہ بہشت کی معرفت کے لئے بڑی حد تک مدد مل سکے۔ والسلام۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
لنڈن
۲۵ نومبر ۱۹۸۷ء

۸۱

طوافِ کعبۂ حقیقت

۱۔ ایک فارسی کہاوت ہے: اگر بگویم، مشکل۔۔ اگر نگویم، مشکل۔ (اگر میں بات کروں تو مشکل ہو جائے گی، اگر نہ کروں تو مشکل اپنی جگہ قائم ہی رہے گی) اس طرح مجھے ہمیشہ نہیں توبعض دفعہ دو مشکلیں سامنے ہوتی ہیں، وہ یہ ہیں کہ اس علمِ امامت کی تعریف و توصیف کرنے سے بعض حضرات کو یہ گمان ہو سکتا ہے کہ اس میں خود ستائی کا عنصر موجود ہے، اور اگر ان اہم ترین موضوعات کے بارے میں کچھ نہ کہوں، تو مشکل یہ ہو جاتی ہے کہ جن عزیزوں کے پاس کوئی خاص معیار نہ ہو، وہ ایسے مضامین کو ٹھیک طرح سے پرکھ نہیں سکتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ بات ممکن ہو جاتی ہے کہ اس علم کو بہت کم اہمیت دی جائے، پس ہمیں ایسے میں کیا کرنا چاہئے؟ اس کا چارۂ کار یہ ہے کہ ہم اپنی طرف سے اخلاصِ عمل کے لئے

۸۲

سعئ پیہم کریں، اور بار بار اپنی ناچیز ہستی کی نفی کرتے رہیں، جس کے بہت سے طریقے ہیں، اور ایک معقول طریقہ وہ بھی ہے، جس سے “گزارش نامہ” میں کام لیا گیا ہے، مزید برآن میری ہستی کی نفی ذیل کی طرح بھی ہو سکتی ہے:

۲۔ سورۂ نساء (۰۴: ۲۸) میں ارشاد ہوا ہے: وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا (۰۴: ۲۸) اور آدمی کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ اس حکمِ ربّانی میں کتنی بڑی اور کیسی ہمہ گیر صداقت کی روشنی ہے، جس کو دیکھنے سے دیدۂ عقل چکا چاندھ ہو جاتی ہے، اب اس قرآنی فیصلے کے بعد ممالک، اقوام، قبائل، اور افراد میں سے کوئی بحقیقت یہ دعویٰ ہرگز نہیں کر سکتا کہ وہ طاقتور ہے، جبکہ ہر شخص ضعیف و ناتوان ہے، اور جبکہ ہر آدمی کی تاریخ کمزوریوں، اور ناکامیوں سے بھری ہوئی ہے، تا کہ ہم اپنے ماضی پر نظر ڈالیں کہ شروع شروع میں ہم کہاں تھے، ہماری کیا حیثیت تھی؟ علم و ہنر میں ہمارا کیا مقام تھا؟ ہمارا واسطہ کس نوعیت کے کاموں سے رہا؟ وغیرہ؟

۳۔ اب اس علم کی بجا طور پر تعریف و توصیف کی جا سکتی ہے، جو بخدا اس بندۂ کمترین کا اپنا نہیں، بلکہ اس عظیم المرتبت معلّمِ ربّانی کا ہے، جو ہر اعتبار سے با کمال اور بے مثال ہے، مگر آہ آہ! یہ طفلانہ الفاظ میرے ہیں، جیسے ذخیرۂ لعل و گوہر کو بوری میں، اور سونے چاندی کے ڈھیر کو گودڑی میں پیش کر رہا ہوں، اے

۸۳

کاش میں ایسے بلند ترین حقائق کو شایانِ شان لفظوں میں بیان کر سکتا، میری ادبی مفلسی اور قلمی بے چارگی کو خداوند تعالیٰ دیکھتا ہے، اور اس غیب دان سے کوئی حال پوشیدہ نہیں۔

۴۔ طوافِ کعبۂ حقیقت کا یہ تصوّر اور یہ موضوع مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے، جیسے کوئی عظیم خزانہ مل گیا ہو؟ یا جیسے کسی فلک بوس پہاڑ پر کانِ جواہر کا سراغ مل گیا ہو؟ شاید اس واقعہ کے پس منظر میں کوئی بہت بڑا راز پوشیدہ ہے، مجھے یقینِ کامل ہے کہ ہر ایسا شخص اس موضوع سے اور اس کتاب سے بدرجۂ انتہا شادمان و محفوظ ہو جائے گا، جو حضرتِ امامِ عالی مقام صلوات اللہ علیہ و سلامہ کے علمی حسن و جمال کا شیدائی اور عاشق ہے، عرض یہ ہے کہ کعبۂ حقیقت بمشاہدۂ باطن عرصۂ وجود کے مرکز میں ہے، جس کے گرداگرد حسبِ مراتب طواف کے لئے لاتعداد دائرے مقرر ہیں، اور ہر چیز بمعنئ طواف اپنے دائرے پر گردش کرتی رہتی ہے (۳۶: ۴۰)۔

۵۔ سورۂ انبیاء (۲۱: ۳۳) اور سورۂ یاسین (۳۶: ۴۰) میں ارشاد ہے: (ترجمہ: ) سب (کلّ) ایک ایک دائرے میں تیر رہے ہیں۔ یعنی خدا کی خدائی میں جتنی بے شمار چیزیں ہیں، اتنے لاتعداد دائرے مقرر ہیں، اور ہر شیٔ دائم اپنے دائرے پر کعبۂ حقیقت کا طواف کر رہی ہے، مثال کے طور پر ہمارے نظامِ شمسی میں جتنے بھی سیّارے اور

۸۴

ستارے منظم ہیں، وہ سب کے سب بظاہر سورج کے گرد طواف کرتے رہتے ہیں، لیکن ان کے اندر جو فطری ہدایت (۱۷: ۸۴، ۲۰: ۵۰) پوشیدہ ہے، اس کے حوالے سے یہ سب کعبۂ حقیقت کا طواف کرتے ہیں، ہر چند کہ ان کا یہ عمل معرفت کے بغیر ہے۔

۶۔ کہتے ہیں کہ ایٹم میں چھوٹے پیمانے پر نظامِ شمسی قائم ہوتا ہے، جس میں ایٹم کا مرکزہ گویا سورج ہے، اور الیکٹرونز جو مرکزے کے گرد گھومتے ہیں، سیّاروں کی حیثیت رکھتے ہیں، مرکزہ جو سورج کی حیثیت رکھتا ہے، پروٹونز اور نیوٹرونز سے مل کر بنا ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ ایٹم میں بھی قانونِ طواف موجود ہے، یاد رہے کہ یہ کائنات اور اس کی ہر چیز ایٹموں سے بنی ہے۔

۷۔ دعائم الاسلام، جلدِ اوّل، کتاب الحج، اور وجہِ دین، گفتار نمبر ۳۴ میں دیکھئے کہ فرشتے عرش اور بیتِ معمور کے گرد با معرفت طواف کرتے ہیں، جس میں حکمت ہائے گوناگون پوشیدہ ہیں، سیّارۂ زمین پر بحکمِ خدا خانۂ کعبہ کی تعمیر سب سے پہلے فرشتوں نے کی تھی، جس کا طواف پہلے پہل حضرت آدم علیہ السّلام نے کیا، یہ گھر زمانۂ طوفان میں آسمانِ چہارم پر اٹھایا گیا، جس میں ہر روز ستر ہزار (۷۰۰۰۰) فرشتے داخل ہو جاتے ہیں، اور طواف کر کے چلے جاتے ہیں، پھر دوبارہ نہیں آتے، حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے اسی گھر کی بنیاد پر بیت اللہ بنایا۔

۸۵

۸۔ خانۂ خدا اپنے اپنے زمانے میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہیں، طوفانِ نوح روحانی انقلاب اور انفرادی قیامت کی مثال ہے، خانۂ کعبہ کو آسمان پر اٹھانے کی تاویل ہے: منزلِ عزرائیلی میں ہر پیغمبر اور ہر امام کے قرطۂ ابداعی کا عروج، ہر روز کے معنی ہیں: ہر نبی یا ہر امام، اور ستر ہزار فرشتے جو ہر روز کعبۂ حقیقت میں داخل ہو جاتے ہیں، وہ زندہ کرتے ہیں، جو اللہ تبارک و تعالیٰ اسی منزل میں ہر پیغمبر اور امام کے نورِ اقدس و اطہر سے اہلِ ایمان کے لئے بنا دیتا ہے (۱۶: ۸۱)۔

۹۔ آپ کائناتی نور یا عالمگیر ہدایت (۲۴: ۳۵) کے بارے میں سوچیں، اُس آیۂ کریمہ کو بھی دیکھیں، جو ہر چیز کی ہدایت سے متعلق ہے (۲۰: ۵۰) اور اس کلیہ کو بھی، جو درجاتِ ہدایت کے باب میں ہے (۱۷: ۸۴) پھر اس کے بعد آپ یہ بتائیں کہ فطری اور ضروری ہدایت سے کون کون سی چیزیں محروم ہیں؟ آپ یقیناً یہی کہیں گے کہ ہدایتِ الٰہی سے کوئی چیز محروم نہیں؟ جبکہ انسان اختیاری ہدایت کے تحت ہے، اور غیر انسان کو فطری یا جبری ہدایت دی گئی ہے، اب اگر ہمیں کائنات و موجودات کی ہدایت کے بارے میں کچھ جاننا ہے، تو ایٹم کی مثال پر خوب غور کریں گے، کیونکہ جب کائنات اور اس کی ہر چیز ایٹموں سے بنی ہے، تو پھر ایٹم بجائے خود آسمان زمین کی ہر چیز کا نمونہ ہے، چنانچہ آپ نے پڑھا کہ ایٹم میں نظامِ طواف

۸۶

کارفرما ہے، پس یہاں یہ سرِّ عظیم منکشف ہوا کہ ہدایت بشکلِ طواف اپنا کام کر رہی ہے، اور اس کا مقصد مرکز ہے، یعنی کعبۂ حقیقت۔

۱۰۔ آیاتِ سجدہ، خصوصاً سورۂ نحل کی آیۂ مبارکہ نمبر ۴۹ کی روشنی میں دیکھئے کہ آسمان زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ کرتی ہے، سجدہ کے معنی اطاعت کریں یا اسے سجدہ ہی رکھیں، بہ ہر معنی اور بہ ہر حال ایٹم طواف کی صورت میں سجدہ کر رہا ہے، اور اس کی ایک روشن ترین دلیل قرآنِ حکیم کے حوالے سے یہ ہے کہ ہر چیز کا بنیادی فعل ایک جیسا ہے، مگر قرآنِ پاک کے نزدیک اس کی تشبیہات مختلف ہیں، چنانچہ ایک مثال میں ارشاد ہوا کہ کائنات و موجودات کی کوئی چیز تسبیح خوانی کے بغیر نہیں (۱۷: ۴۴) دوسری مثال میں فرمایا گیا کہ ہر چیز اللہ کے لئے سجدہ کرتی ہے (۱۶: ۴۹) تیسری مثال میں کہا گیا کہ سب کو اپنی اپنی نماز اور تسبیح معلوم ہے (۲۴: ۴۱) اور چوتھی مثال میں ہے کہ تمام چیزیں میوہ ہائے کعبۂ جان کی حیثیت رکھتی ہیں (۲۸: ۵۷) غرض یہ ہے کہ ہر چیز خدا کے لئے سجدہ کرتی ہے، اور اسی طرح ایٹم بھی اپنے اندرونی کیفیت میں، جو گردش و طواف کی شکل میں ہے، سجدہ کرتا رہتا ہے۔

۱۱۔ جتنے درجات مخلوقات کے ہیں، اتنے درجات طوافِ کعبۂ حقیقت کے بھی ہیں، یعنی یہ طواف دور سے دورتر بھی ہے، اور نزدیک سے نزدیک تر بھی، جس کی مثال کے لئے نقشۂ

۸۷

ذیل کو دیکھئے:
۱۲۔ ہدایتِ ربّانی کے سوا اور کوئی طاقت نہیں، جو کائنات اور اس کی تمام چیزوں کو حرکت میں لائے، جس کی بدولت ہر شیٔ ایک طرح سے کعبۂ حقیقت کے گرداگرد طواف کر سکتی ہے، اس

۸۸

کا مطلب یہ ہوا کہ جو عالمگیر روح ہمیشہ عظیم آسمانوں کو گھما رہی ہے، وہی ہر ایٹم کے اندر ننھے ننھے الیکٹرونز کو بھی گردش دیتی رہتی ہے، اسی روحانی پس منظر کا تصوّر کرتے ہوئے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ایٹم کے اندر طوافِ کعبۂ حقیقت کی ایک جیتی جاگتی مثال موجود ہے، اور یہ آیاتِ خداوندی میں سے ہے، آیت بمعنی معجزہ اور نشانی (۴۱: ۵۳)۔

۱۳۔ اسلامی انسائیکلوپیڈیا (از سید قاسم محمود) میں ہے کہ: “طواف کرنا: خانۂ کعبہ کے چاروں طرف گھوم کر اور پھر کر دعا مانگنا، اس رسم کو ادا کرنا ہے، جو حضرتِ ابراہیمؑ کے عہد میں نذر اور قربانی کو قربان گاہ کے چاروں طرف پھر کر ادا کی جاتی تھی، چونکہ حاجی (مثال کے طور پر ) اپنے آپ کو قربان گاہ پر چڑھاتا ہے۔۔۔ اس لئے وہ اس کے چاروں طرف پھرتا ہے، اور اس گردش میں اللہ تعالیٰ سے اپنی مغفرت کی دعائیں کرتا ہے۔

طواف حقیقت میں ایک قسم کی ابراہیمی نماز ہے، جو اس پرانے عہد کی یادگار ہے، اس لئے آنحضورؐ نے فرمایا کہ: خانۂ کعبہ کا طواف بھی گویا نماز ہے، صرف فرق یہ ہے کہ تم اس میں بول سکتے ہو، مگر نیک بات کے سوا اس حالت میں کچھ اور نہ بولو” (ترمذی و نسائی)۔
۱۴۔ نکتہ نمبر ۹ میں ایک اہم ترین انکشاف یہ تھا کہ ہدایت بشکلِ طواف اپنا کام کر رہی تھی، جس کی وضاحت یہ ہے کہ سمندر، بادلوں،

۸۹

بارشوں، ندیوں اور دریاؤں کی صورت میں پانی کی گردش اور طواف کو دیکھئے، جس میں فطری ہدایت کام کر رہی ہے، اور اس میں کتنی بے شمار برکتیں ہیں، اسی طرح آدمی کو جو اختیاری ہدایت حاصل ہے، جس کی بدولت اس کا جو علم و عمل ہے وہ بصورتِ طواف گردش کرتا ہے، کیونکہ ہر نیکی کے دو ثواب ہیں، ایک جزوی طور پر دنیا کے لئے، اور دوسرا کلّی طور پر آخرت کے لئے (۰۳: ۱۴۸) چنانچہ اگر آپ نے علم و حکمت کی ایک انتہائی پاکیزہ بات حاصل کر لی اور اس کے مطابق کوئی بہت اچھا کام بھی کیا تو یہ علم بوسیلۂ عمل مرفوع ہو کر خدا کے حضور پہنچ جائے گا (۳۵: ۱۰) اور فوراً ہی اس کا دنیوی ثواب آپ کو مل جائے گا، اس مثال میں حقیقت کے گرد طواف کا صرف ایک ہی دور ہوا، لیکن آپ ایسے بابرکت طواف سے کس طرح پیچھے ہٹ سکتے ہیں، بہتر یہ ہے کہ آپ اسے جاری رکھیں، تا کہ ہر بار آپ کو بارگاہِ ربّ العزّت سے ایک تازہ آسمانی دولت ملتی رہے، ظاہر ہے کہ اسی طرح آپ کا طواف زیادہ سے زیادہ نتیجہ خیز، بار آور، اور مفید ہوتا جائے گا۔

۱۵۔ جنّت کی نعمتوں کا ویسے تو شمار ہی نہیں ہو سکتا، مگر وہ تین بڑی قسموں میں ہیں: لطیف جسمانی نعمتیں، روحانی نعمتیں، اور عقلانی نعمتیں، جس طرح اس مادّی دنیا میں آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، شب و روز، ماہ و سال، وغیرہ گھومتے ہوئے یعنی طواف کی شکل میں خدمت کرتے رہتے ہیں، اسی طرح غلمان (بہشت کے خادم)

۹۰

جو لؤلوئے مکنون کی طرح ہیں، عقلی نعمتیں پیش کرتے ہوئے فوری طواف کر جاتے ہیں، یعنی طلوع ہو کر فوراً غروب ہو جاتے ہیں (۵۲: ۲۴، ۵۶: ۱۷، ۷۶: ۱۹، ۳۷: ۴۵، ۴۳: ۷۱، ۷۶: ۱۵)۔

۱۶۔ یہاں ایک بڑا عجیب و غریب اور بہت ہی اہم سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ کائنات و موجودات کی ہر چیز کعبۂ حقیقت کا طواف کیوں کرتی ہے؟ اور خدامِ جنت (غلمان) کس چیز کا طواف کرتے ہیں؟ نیز یہ پوچھنا بے حد ضروری ہو جاتا ہے کہ عقلی نعمتوں کا طواف سے کیا تعلق ہے؟ اور یہ بھی ایک حیرت انگیز سوال ہے کہ آیا خدا تعالیٰ کا عرش /تخت الگ مقام پر، اور بیت المعمور اس سے جدا ہے؟
جواب: کعبۂ حقیقت سے امامِ مبین علیہ السّلام کی ذاتِ عالی صفات مراد ہے، جس کے نورِ پاک کی بے شمار شعاعوں کی رسیوں سے تمام چیزیں وابستہ ہیں، اس معنیٰ میں کہ سب چیزوں کا عالمِ ذرّ امامِ زمان میں ہے، لہٰذا ہر شیٔ شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر اس کعبۂ حقیقت کے گرد گھومتی رہتی ہے، خدامِ جنّت کے طواف کا رخ اگرچہ بظاہر اہلِ بہشت کی طرف ہے، تاہم اس میں اور بھی لاتعداد معنی ہیں، عقلی نعمتوں کا تعلق طواف سے اس لئے ہے، کہ کائنات کی ہر چیز اپنے دائرے پر ہمیشہ گردش کرتی رہتی ہے، لیکن یہ بھید لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ کون سی طاقت اسے گردش میں لاتی ہے؟ اور کس طرح؟ نیز اس میں کیا کیا حکمتیں ہیں؟ چنانچہ ان سارے بھیدوں

۹۱

کی نشاندہی اور وضاحت غلمان کے طواف سے کی جائے گی، کیونکہ سنّتِ ازل و ابد یہی ہے کہ وہاں جملہ اسرار صرف آفتابِ نور کے طلوع و غروب اور کلمۂ امر کی روشنی میں پڑھے جاتے ہیں، جہاں حقیقی بادشاہ کا محل (گھر) ہے، وہاں اس کا تخت بھی ہے، یعنی امام کی پاک روح خدا کا گھر (بیت المعمور) اور آپ کی عقل اللہ کا تخت ہے، اور اس حقیقت کے مزید ثبوت کے لئے ان شاء اللہ صدہا روشن دلائل پیش کئے جا سکتے ہیں، الحمدللہ علی منہ و احسانہ۔

نوٹ: ہر اعلیٰ سطح کی کتاب کا بار بار مطالعہ کرنے سے دل و دماغ میں روحانی تائید کی کوئی کرامت ہو سکتی ہے (۵۸: ۲۲) اور اس سعادت کے لئے یقینی علم اور امامِ زمان کی محبت لازمی ہے۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی
۱۵ ربیع الثانی ۱۴۰۸ھ
۷ دسمبر ۱۹۸۷ء

۹۲

نورِ نبی کی معرفت

۱۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرتِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بمرتبۂ خاتم الانبیاء بھیج کر عموماً دنیائے انسانیّت پر اور خصوصاً عالمِ اسلام پر جتنے احسانات کئے ہیں، ان کا حساب و شمار کسی فردِ بشر سے ہرگز نہیں ہوسکتا، جیسے خدائے علیم و حکیم کا پُرحکمت ارشاد ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (۲۱: ۱۰۷) اور (اے رسول) ہم نے تو تم کو سارے دنیا جہان کے لوگوں کے حق میں از سر تا پا رحمت بنا کر بھیجا۔ یہاں ہر اُس شخص کو خوب غور کرنا چاہئے، جو عشقِ رسول کے کسی درجے پر ہو، کہ پیغمبرِ اکرم کی ذاتِ عالی صفات کیسی کیسی رحمتوں اور مہربانیوں کی ایک کائنات ہے، اور ہر ایسے آدمی کو بھی اچھی طرح سوچنا ضروری ہے، جو آنحضرتؐ کو کما کان حقہ نہیں پہچانتا، کیونکہ یہ رحمت ایک ایسا قرآنی لفظ ہے، جس کے

۹۳

معنی میں تمام عوالمِ شخصی کے لئے ہر گونہ روحانی حاجت روائی اور ہر نوع کی مہربانی کا ذکر ہے، اور یہ رحمتِ کل خلافت و جانشینی کی صورت میں مستقل اور دائم ہے۔

۲۔ سورۂ توبہ کے آخر (۰۹: ۱۲۸) میں ہے: لوگو تم ہی میں سے ( من انفسکم ) ایک رسول تمہارے پس آچکا ہے (جس کی شفقت کی یہ حالت ہے کہ ) اس پر شاق ہے کہ تم تکلیف اٹھاؤ اور اسے تمہاری بہبودی کا ہَوکا ہے ایمانداروں پر حد درجہ شفیق مہربان ہے (۰۹: ۱۲۸) اب ہم اس آیۂ کریمہ کی حکمت کو اجاگر کرتے ہوئے بجا طور پر یہ کہیں گے کہ حضورِ انور عالمِ انسانیّت کی جان سے جان تک آئے ہوئے اور چھائے ہوئے ہیں، وہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ وہ یوں کہ من انفسکم (تمہاری جانوں سے) کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ آئے ہیں وہاں سے، جہاں تمام ارواح ایک لشکر کے طور پر جمع ہیں (الاروح جنود مجندۃ، صحیح بخاری، جلد دوم، باب ۳۰۳) اور پھر آپؐ سراجِ منیر کس طرح صرف ظاہر میں محدود ہو سکتے تھے (۴۶: ۳۳) سو حضورؐ دلوں کو منور کر دینے کے لئے جانوں میں بھی داخل ہو گئے، کیونکہ جو عظیم المرتبت ہستی خداوندِ عالم کی جانب سے رحمتِ کلّ بنا کر بھیجی گئی ہے، اس کا یہی تو کام ہے کہ ظاہر و باطن کے ہر مقام پر رحمتوں اور مہربانیوں کی بارش برساتی رہے، اس آیۂ مبارکہ کی حکمت نے صاف صاف یہ بتا دیا کہ رسول کی

۹۴

معرفت سے سارے مشکل عقدے کھل جاتے ہیں، مگر ساتھ ہی ساتھ یہ قاعدہ بھی خوب یاد رہے کہ اس معرفت کا دروازہ امامِ زمان ہیں۔

۳۔ سورۂ جمعہ (۶۲: ۰۱ تا ۰۴) کے شروع کی چار حکمت آگین آیات کو ترجمہ کے ساتھ خوب غور سے دیکھیں، اور خلوصِ دل سے یہ بڑی حسرت پیدا کریں کہ: اے کاش! میں بھی زمانۂ نبوّت کے ان نیک بخت مؤمنین کے ساتھ ہوتا! جن پر رسولِ کریم اپنی زبانِ مبارک سے آیاتِ خداوندی کی تلاوت فرماتے تھے، ان کو پاک کرتے، اور کتاب و حکمت سکھایا کرتے تھے، تو وہیں سے آپ کو جوابِ حکیمانہ ملے گا کہ اس میں ذرا بھی مایوسی نہیں، تم چاہو تو اپنے ہی زمانے میں جیتے ہوئے ان لوگوں سے ملحق ہو سکتے ہو، کیونکہ خدا غالب حکمت والا ہے (۶۲: ۰۳) یعنی امامِ عالی مقام جو نہ صرف صراطِ مستقیم اور راہ نما ہیں، بلکہ حکمتِ رسول کا دروازہ بھی ہیں، وہ تم کو بہ امرِ خدا روحانی راستے پر گامزن کرتے ہوئے رسول اللہ سے واصل کر سکتے ہیں، تا کہ تم بھی پیغمبرِ اکرم کی روحانیّت اور علم و حکمت سے پاک و پاکیزہ ہو سکو۔

۴۔ سورۂ بقرہ کے ایک مقام (۰۲: ۱۴۶) میں ارشاد ہوا ہے: (ترجمہ:) جن لوگوں کو ہم نے کتاب (توراۃ و انجیل) دی ہے وہ پیغمبر کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں (۰۲: ۱۴۶) یہ اس وقت کی بات ہے، جبکہ اہلِ کتاب اپنے اپنے زمانے میں حق پر قائم

۹۵

تھے، جس میں نورِ نبی آلِ ابراہیم کے انبیاء و أئمّہ کے سلسلے میں چلا آ رہا تھا، چنانچہ ان حضرات نے رسول اللہ کو نورانیت میں اپنی ذرّیت کے طور پر پہچان لیا، اور ویسے بھی نور کے بہت سے رشتے ہوا کرتے ہیں، کیونکہ نور موتیوں کی لڑیوں کے دھاگے کی طرح کام کرتا ہے۔

۵۔ روحانیّت لامکان و لازمان ہے، یعنی وہ مکان و زمان سے بالاتر ہے، کیونکہ اس میں مکان کی لطیف صورت ہے، اور زمان سب حال ہی حال ہے، پس ایسے میں اساس (علیؑ) نورِ ناطقؐ کو دیکھتے ہیں، اس لئے تمام اسرارِ نبوّت و رسالت اساس کو معلوم ہیں، امامِ زمانؑ نورِ اساس کو دیکھتے ہیں، لہٰذا اساس کے سارے خزانے امامِ زمانؑ میں موجود ہیں، اور مؤمنین مختلف درجات میں امامِ زمانؑ کے نور کو دیکھ رہے ہیں، اس لئے وہ علم و معرفت کے مختلف درجات پر فائز ہیں، جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے: طوبیٰ لمن رآنی، و طوبیٰ لمن رأی من رآنی، و طوبیٰ لمن رأی من رأی من رآنی ۔ (درختِ طوبیٰ کی ) خوشحالی ہے اس کے لئے جس نے مجھ کو دیکھا، اور خوشحالی ہے اس کے لئے جس نے میرے ناظر کو دیکھا، اور خوشحالی ہے اس کے لئے جس نے میرے ناظر کے ناظر کو دیکھا۔ (حدیث از المجالس المؤیدیہ، الماءۃ الاولیٰ، مجلس ۳۳، ص ۱۶۲) نورِ نبیؐ کی معرفت کا وسیلہ بس

۹۶

یہی ہے۔

۶۔ مولا علی علیہ السّلام کے اس مبارک فرمان کو دیکھئے: نحن نور من نور اللّٰہ و شیعتنا منا ۔ ہم (أئمّہ) نورِ خدا سے ایک نور ہیں اور ہمارے دوست دار ہم سے ہیں۔ یہاں أئمّۂ طاہرین صلوات اللہ علیہم کے محبّان کے لئے بہت بڑی بشارت ہے، کیونکہ منا (ہم سے ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ: ہمارے دوستدار ہمارے نور سے ہیں، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ اہلِ ایمان کے پاس نورِ امامت نہ صرف ظاہر ہی میں ہے، بلکہ ان کی عقل و جان سے مل کر باطن میں بھی ہے، اور یہ بھی معلوم ہے کہ نورِ ہدایت صراطِ مستقیم اور سلامتی کی راہوں پر چلنے کے لئے مقرر ہے (۵۷: ۲۸، ۰۵: ۱۵ تا ۱۶) تاکہ معرفت کے لازوال خزانوں کا علم ہو، جن میں ہر بندۂ مؤمن کی خود شناسی، امام شناسی، پیغمبر شناسی اور خدا شناسی کے دُرّ و گوہر، اور سیم و زر کے عظیم ذخائر موجود ہیں۔

۷۔ یہاں مزید اطمینان کی خاطر بذریعۂ سوال و جواب چند اہم نکات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرائی جاتی ہے:
س نمبر۱: آیا دراصل ایک ہی نور ہے، یا مختلف انوار ہیں؟
ج: نور بحقیقت واحد ہی ہے، جو اپنے گوناگون ظہورات میں بہت سے انوار کا کام بھی کر سکتا ہے، جیسے نورٌعلیٰ نور (۲۴: ۳۵) میں اس کا راز پوشیدہ ہے۔

۹۷

س نمبر ۲: نور کی رسائی کہاں کہاں تک ہے؟ یا یوں پوچھنا چاہئے کہ نور کن کن چیزوں پر روشنی ڈالتا ہے؟ دنیا؟ آخرت؟ ظاہر؟ باطن؟ ازل؟ ابد؟ جسم؟ روح؟ عقل؟
ج: نور کے لئے رسائی جیسے کمتر الفاظ درست نہیں، جبکہ نور کائنات پر نہ صرف محیط ہی ہے، بلکہ بحرِ نور نے تمام کائناتوں کو اپنی گہرائیوں میں ہمیشہ کے لئے ڈبوئے رکھا ہے۔

س نمبر ۳: کیا آپ خوش اور مطمئن ہیں کہ آپ نے نورِ نبی کی معرفت سے متعلق کچھ قلمی کاوش کی؟
ج: نہیں، ہرگز نہیں، میں خاکِ پائے غلامانِ محمد مصطفیؐ، کون ہوتا ہوں، جو اس موضوع کا حق ادا کر سکوں، “چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک۔” یہ تو حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذکرِ جمیل سے بہشت کی خوشبوئیں سونگھ لینے کے لئے صرف ایک بہانہ ہے، لہٰذا میں اگرچہ اس وقت عشقِ رسولؐ کی لذّتِ جان محسوس کر رہا ہوں، اور بے حد مسرور و شادمان ہوں، لیکن اس ناچیز اور انتہائی ناچیز خدمت سے میں کیسے مطمئن ہو سکتا ہوں۔

۸۔ ایک بات مجھے ذرہ بھر ڈھارس دے رہی ہے، وہ یہ کہ “نورِ نبی کی معرفت” کا مضمون دیگر معرفتوں سے الگ نہیں، لہٰذا مجھے انتہائی عاجزی سے یہ عرض کرتے ہوئے قارئینِ کرام کو

۹۸

آگاہ کر دینا چاہئے کہ یہ موضوع کسی حد تک میری کئی تحریروں میں پھیلا ہوا ہے، جب کہ بہت سے مضامین آپس میں ملے ہوئے اور مربوط ہوا کرتے ہیں، کیونکہ معرفت جس طرح سب سے اعلیٰ اور آخر ہے، اسی طرح سب سے عظیم اور سب سے زیادہ ہمہ گیر موضوع بھی ہے، کیوں نہ ہو، جبکہ نورِ معرفت مقامِ ازل میں طلوع ہو کر کل اشیاء کو اپنی انتہائی تابناک شعاعوں میں گھیر لیتا ہے۔

۹۔ اللہ، رسول، اور صاحبِ امر کے نہ صرف الگ الگ اسماء ہیں، بلکہ بعض نام ایسے بھی ہیں، جو قرآنِ حکیم میں خدا تعالیٰ اور پیغمبرِ اکرم صلعم کے بعد امامِ عالی مقام کے لئے استعمال ہوئے ہیں، مثال کے طور پر: نور، ہادی، شہید، وغیرہ، ایسے اسمائے گرامی میں بہت سی حکمتیں پنہان ہو سکتی ہیں، اور ایک حکمت یہ ہے کہ ان سے خدائے بزرگ و برتر کے زندہ ناموں کا ثبوت مل جاتا ہے، کیونکہ پروردگارِ عالم کے مذکورہ زندہ اسماء رسولِ برحقؐ اور پاک امامؑ ہیں، یہ بات سب جانتے ہیں کہ مخلوقات کے نام عقل و جان کے بغیر ہوتے ہیں، لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کے عظیم نام (اسماء الحسنیٰ، ۰۷: ۱۸۰) اس لئے اچھے اور خوبصورت کہلاتے ہیں کہ یہ زندہ ہیں، اور ان میں روحِ مقدّس، عقلِ سلیم، اور نورِ کامل ہے۔

۱۰۔ کتاب الزینۃ، ص ۱۳۰ پر اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں کے بارے میں یہ حدیثِ نبوّی درج ہے: للّٰہ تسعۃ و تسعون

۹۹

اسماء، من احصاھا دخل الجنۃ ۔ اس کا ترجمہ حدیث کی کتابوں میں اس طرح ہے: اللہ تعالیٰ کے ننانوے (۹۹) نام ہیں، جو ان کو یاد کرے گا جنّت میں جائے گا۔ اس میں اہلِ دانش کا ایک بڑا معقول سوال ہے کہ آیا اگر کوئی غیر مسلم شخص ان مبارک اسماء کو حفظ کر لے، تو وہ بہشت میں داخل ہو گا؟ اگر نہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ بس یہی وجہ ہے کہ رسول کے بغیر ایسی کوئی سعادت ممکن ہی نہیں، اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ خزائنِ اسماء کی کلیدیں آنحضرتؐ اور پھر آپؐ کے جانشین کے پاس محفوظ ہیں، چنانچہ من احصاھا کا مفہوم یہ ہے کہ: جو خدا کے ان تمام اسماء کو عرفانی طور پر اس کے زندہ نام یعنی امامِ مبینؑ میں گھیر لے گا، وہ بہشت میں جائے گا، اس حدیث میں یہی سرِ معرفت پوشیدہ ہے، آپ کو قرآنِ پاک کی یہ تعلیم معلوم ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو امامِ مبین میں گھیر کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲) پس اسمائے الٰہی خزانے (۱۵: ۲۱) سے باہر کس طرح ہو سکتے ہیں، آپ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جو لفظ ( احصینٰہ ) کلیۂ امامت (۳۶: ۱۲) میں ہے، وہ ( احصاھا) اس حدیث میں بھی ہے۔

۱۱۔ خدائے پاک و برتر نے اپنے محبوب پیغمبرؐ کے لئے دو عظیم معجزے کئے، جو دائمی، عقلی اور علمی ہیں، ایک نورِ منزل ہے، جس کی حامل شروع شروع میں خود حضورِ اکرمؐ کی ذاتِ عالی صفات

۱۰۰

ہی تھی، اور دوسرا معجزہ کسی شک کے بغیر قرآنِ مجید ہے (۰۵: ۱۵) ہدایت کے یہ دونوں سرچشمے اہلِ بصیرت کے لئے دو محدود معجزے نہیں، بلکہ حقیقت میں دو معجزاتی کائنات ہیں، کیونکہ نور اور قرآن بہشت ہیں، اور بہشت کا پھیلاؤ کائنات کے برابر ہے (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) آپ نے کلام اللہ (۲۶: ۹۰، ۵۰: ۳۱) میں پڑھا ہوگا کہ روحانیّت میں، یا قیامت میں جنّت نزدیک لائی جاتی ہے، پس نورِ مجسم اور کتابِ خدا اس عظیم عمل کا ایک روشن ثبوت ہیں۔

۱۲۔ جب قرآنِ کریم یہ فرماتا ہے کہ خدا کا نور نہ تو بجھتا ہے اور نہ بجھایا جا سکتا ہے، (۰۹: ۳۲، ۶۱: ۰۸) تو اس حال میں قرآن کا منشاء یقیناً یہی ہے کہ ہم زمانۂ آدم سے قیامت تک ایک شخصیّت سے دوسری شخصیّت میں نور کی منتقلی کے قانون کو تسلیم کریں، اس کے سوا زندہ اور گویندہ نورِ منزل کا کوئی تصوّر ہی نہیں، چنانچہ وہ نور جو حضرتِ خاتمِ انبیاءؐ میں تھا (۰۵: ۱۵) آپ کے وصی (مولا علیؑ) میں منتقل ہو گیا، تا کہ علومِ قرآن کا دروازہ بند نہ ہو، اور اسلام کی آئندہ ہدایت کا وسیلہ ہمیشہ مہیا رہے۔

۱۳۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قرآنی اسماء سو (۱۰۰) ہیں، چنانچہ ہر اسم کی توضیح و تشریح سے ایک بہت بڑی ضخیم کتاب بن سکتی ہے، پس اگر دنیائے علم و ادب کی چوٹی کے علماء اور دانشور رسولِ کریم کے سو مبارک ناموں کی وضاحتوں پر مشتمل سو (۱۰۰) الگ الگ کتابیں لکھنے کا منصوبہ بنائیں، اور اس میں کامیاب بھی ہو جائیں، تو اس صورت

۱۰۱

میں قرآنِ پاک کی کوئی آیت اور حدیثِ نبوی کا کوئی ارشاد اس فضیلت و توصیف سے لاتعلق نہ رہے گا، اس کے ساتھ ساتھ سیرتِ طیبہ پر جو کچھ لکھا گیا ہے، وہ دوبارہ استعمال ہو گا، تاریخ یکسر نچوڑ لی جائے گی اور ادب کا وہ خزانہ گویا خالی ہو جائے گا، جو عمدہ الفاظ کے جواہر سے بھرا ہوا ہے، لیکن پھر بھی رسول اللہ کی باکمال اور بے مثال شخصیت کا نورانی پہلو محجوب ہی رہے گا۔

۱۴۔ کتاب “المنتخبات” میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یہ اسماء بھی درج ہیں: صحفِ آدم میں: مقنع، سربلند؛ صحفِ شیث میں: صام صام، روشن دلائل سے بہت کاٹنے والا؛ صحفِ ابراہیم میں: اخری یا قدما، سب سے آخر سب سے اوّل؛ توراۃ میں: مار ماد، یعنی موجود؛ اشعیا اور ارمیا کے صحف میں: قانع، قناعت کرنے والا؛ زبور میں: بارقلیط، حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا؛ انجیل میں: طاب طاب، پاک و پاکیزہ؛ پرندوں میں: عبدا لجبار؛ بہایم میں: عبد الغفور: جنّات کے نزدیک: نبی الرحمۃ؛ اور شیاطین کے نزدیک: نبی الملحمۃ، کھانے پینے کے پیغمبر۔

۱۵۔ جب سرورِ انبیاءؐ کو معراج ہوئی، تو اس حال میں آپ نے اسرارِ ازل و ابد کو یکجا دیکھا، اس مقام پر کنز الکنوز یا گنجِ مخفی موجود تھا، اس میں جملہ کائنات و موجودات کے سارے بھید اور

۱۰۲

دونوں جہان کے تمام جواہر محفوظ تھے، خدا کی خدائی کا کوئی راز اس خزانے سے باہر نہ تھا، اور خزانہ جو عقل و جان کی دولت سے معمور و مملو تھا، زبانِ حکمت اور حرکتِ عقلی سے ایک ایک کر کے اپنے بھیدوں کو بیان کر رہا تھا، یہ انتہائی عظیم الشّان واقعہ یا معجزہ ایسا نہ تھا جو فراموش ہو جائے، لہٰذا روحانی معراج کے بعد بھی ایک طرح سے اشاراتِ ازل آنحضورؐ کے قلبِ انور میں جاری رہے، اور وحی کے دوسرے ذرائع اس کے علاوہ تھے۔

۱۶۔ رحمتِ عالم کے ایک ارشاد کا ترجمہ ہے کہ: “میرے اور میرے پروردگار کے درمیان پانچ وسائط ہیں: قلم، لوح، اسرافیل، میکائیل، اور جبرائیل۔”  لیکن جب معراج ہوئی تو اس میں رسول اللہ نے براہِ راست اس امرِ عظیم کا مشاہدہ کیا کہ قلم قرآنِ کریم کو لوحِ محفوظ پر حروفِ وحدت میں لکھ رہا تھا، اور وہ صرف سات حروف ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا، اور اس سے قرآن کا وہ نزول مراد ہے، جو قلم سے لوحِ محفوظ پر ہو گیا تھا، یہ حروف سات انوار ہیں، جو حضرتِ آدم، حضرتِ نوح، حضرتِ ابراہیم، حضرتِ موسیٰ، حضرتِ عیسیٰ، حضرتِ محمد مصطفی، اور حضرتِ قائم صلوات اللہ علیہم سے منسوب ہیں۔

۱۷۔ جملہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا راستہ اور منزلِ مقصود ایک ہی ہے، اور وہ معراج ہے، پس سورۂ فاتحہ میں مسلمین کو یہ تعلیم

۱۰۳

دی گئی ہے کہ وہ انہی حضرات کے پیچھے پیچھے چلنے اور اسی منزلِ آخرین تک پہنچ جانے کی دعا کرتے رہیں، اور آپ جانتے ہیں کہ قرآنِ حکیم ناممکن کام کے لئے حکم نہیں دیتا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قیامۃ القیامات تک امت کے جتنے لوگ رسول میں فنا ہو جائیں گے، وہ اپنے عالمِ شخصی میں آنحضرتؐ کے معجزۂ معراج کا مشاہدہ کرکے نورِ نبیؐ کی معرفت حاصل کر لیں گے، کیونکہ حضورِ اکرمؐ کی معرفت منازلِ روحانیّت میں ہے، اور کمالِ معرفت معراج پر ہے۔ والسلام۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی
۲۴، ربیع الثانی ۱۴۰۸ھ
۱۶، دسمبر ۱۹۸۷ء
۱۰۴

علم کی سیڑھی

علم کی سیڑھی

انتساب

یہ کتاب ہماری بہت ہی عزیز بیٹی کریمہ سہیل رحمانی، جن کی (ان کے شوہر محترم سہیل رحمانی کے ساتھ) دانش گاہِ خانۂ حکمت کے حقیقی علم کے فروغ کے لئے بیش بہا خدمات ہیں، کی بھتیجی زینب اکبر (لٹل اینجل) کے لئے اس کے سالگرہ کے تحفے کے طور پر چھپوائی جارہی ہے۔

 

زینب ہمارے امریکہ کے عزیزان اکبر ناتھانی اور پروین اکبر کی صاحبزادی ہیں جن کی تاریخِ پیدائش ۱۶ فروری ۲۰۰۱ء ہے۔

 

والدین نے بچپن ہی سے زینب کی پرورش ایک مخصوص مذہبی و روحانی ماحول میں کی ہے جس کی بنا پر ان کی شخصیّت ایک خاص مذہبی سانچے میں ڈھلتی چلی گئی ہے، نیز زینب کی تربیت کے لئے سہیل اور کریمہ جیسی علم پرور اور دیندار ہستیوں کی خصوصی توجّہ اور ان کی شفقت و محبّت کے خزانے ایک لازوال آسمانی تحفہ ہیں۔

 

دعا ہے کہ خداوندِ ربّ العزّت زینب کے والدین اور سہیل اور کریمہ کی یہ خصوصی کاوشیں اپنے حضور میں قبول فرمائیں، اور زینب کو دینی و دنیوی طور پر بھرپور ترقی عنایت کرتے ہوئے ایک عظیم شخصیت بنائے!

 

سلمان غریبم قلبِ تو اللہ مولانا علی

 

۲۲ ستمبر ۲۰۰۴ء

 

ج

 

پیش لفظ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اے میری ناچیز انائے سفلی! تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان عظیم احسانات کی عاجزانہ اور پُرسُوز شکرگزاری کرتے کرتے فنا ہوجا، اے دلِ ہیچ مدان! ہرگز ہرگز یہ دعویٰ نہ کر کہ کوئی علمی کام تو نے انجام دیا ہے، اے عقلِ جزوی تو اپنے وقتِ بے مائیگی کو نہ بھولنا، کہ علم کی دولت تیرے بس کی بات نہ تھی، اے نصیرِ حقیر! تو ذرا اپنے ماضی کا تصوّر کر کے دیکھ لے، کہ اس میں خزائنِ علم و حکمت کے ابواب کیسے مغلق و مقفل تھے، بتا دے کہ آخر کس مہربان بادشاہ نے یہ دروازے کھول دئے؟ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے برحق جانشین نے، جو نورِ مجسّم اور امامِ مکرّم (صلوات اللہ علیہ و سلامہ ) ہیں۔

 

کتاب کا نام:

قارئینِ کرام! کتاب یعنی “علم کی سیڑھی” آپ کے سامنے ہے، یہ کتاب بھی دوسرے کئی کتب کی طرح چند مقالوں کا مجموعہ ہے، جب اس بندۂ خاکسار (نصیر) نے بحقیقت اقرار کر لیا ہے کہ علم اس کا نہیں، کسی مقدّس ہستی کا ہے، تو پھر اس کتاب کے علمی و عرفانی تعارف میں خود ستائی کا شک کیونکر ہو سکتا ہے، پس حق بات یہ ہے کہ اس کتاب کا ہر مقالہ بجائے خود ایک انتہائی مفید

 

۱

 

کتاب ہے، اور “علم کی سیڑھی” اس معنیٰ میں کئی کلیدی کتابوں پر مشتمل ہے، اور مجھے یقینِ کامل ہے کہ ہر دانشمند اس رسالے کو اسی نظر سے دیکھے گا، اور یہی اہمیت دے گا۔

 

سیڑھی:

اگرچہ ظاہراً ایک عام چیز ہے، لیکن اس کی مثال قرآنِ حکیم اور اسلام میں بڑی پُرحکمت ہے، اس کا قرآنی لفظ ایک تو سلم (۵۲: ۳۸، ۰۶: ۳۵) ہے، اور دوسرا معراج (۴۳: ۳۳، ۷۰: ۰۳) اس کے علاوہ قرآنِ پاک میں جا بجا درجاتی سیڑھی کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

 

ہر چیز سیڑھی کی طرح:

موالیدِ ثلاثہ یعنی جمادات، نباتات، اور حیوانات میں سے ہر چیز تکوین و تخلیق کے اعتبار سے گویا ایک سیڑھی ہے، کیونکہ وہ زینہ بزینہ ترقی کرکے مکمل ہو جاتی ہے، یہی قانونِ فطرت ہے، اور اسلام اسی قانون کے مطابق ہے، پس دنیاوی اور دینی علم بھی سیڑھی کی طرح ہے، لیکن بہت ہی افسوس کی بات ہوگی، کہ اگر ہم میں سے ہر ایک اس بات کا یقین نہ کرے کہ حقیقی علم بھی دوسری تمام چیزوں کی طرح ایک سیڑھی ہے، جس کے بہت سے زینے (یعنی درجات) ہیں، اور ہر عالی ہمت مومن خداوندِ تعالیٰ کی تائید سے اس علمی نردبان (سیڑھی) سے پایہ بپایہ چڑھ سکتا ہے، کیونکہ سیڑھی رحمت ہے، اگر یہ نہ ہوتی، تو پھر مایوسی ہوتی۔

 

صراط اور سیڑھی:

قرآنِ کریم کے حوالے سے نورِ ہدایت کی تشبیہہ و تمثیل نہ صرف صراط و سبیل سے دی گئی ہے، بلکہ یہی نور مثال کے طور پر خدا کی رسی اور علم کی سیڑھی بھی ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم میں جتنی مثالیں آئی ہیں، ان سب کا آخری ممثول صرف ایک ہی ہے، اور وہ نور

 

۲

 

ہے۔

 

عرش کی سیڑھی:

جس طرح سورج کی روشنی کا زیرین سرا زمین پر اور بالائی سرا خود سورج میں ہوتا ہے، اسی طرح خدا کی نورانی رسی کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا سرا لوگوں کے درمیان ہوتا ہے، یہی مثال صراطِ مستقیم بھی ہے اور نور کی سیڑھی بھی، جو درجات کی سیڑھی ہے، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے: رَفِیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِۚ (۴۰: ۱۵) وہ درجات کا بلند کردینے والا ہے وہ عرش کا مالک ہے۔ اشارہ ہے کہ درجات کی سیڑھی آسمانوں سے گزر کر عرش سے جا لگی ہے، اور صاحبِ عرش کا یہ منشا ہے کہ حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے پیچھے پیچھے دوسرے تمام درجوں کو بھی نورِعرش تک رفعت دے، کیونکہ مذکورہ آیۂ کریمہ کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ خداوندِ عالم نہ صرف بڑے درجات کو بلکہ چھوٹے درجات کو بھی عرش تک بلند کر دیتا ہے، اور یہ حقیقت فنا فی اللہ یا اصل سے واصل ہو جانے سے ہرگزمختلف نہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ عرش (تخت) نہیں، بلکہ اس کا مالک ہے، یعنی جب اللہ کا انتہائی قرب اور وصال ممکن ہے تو عرش تک رسائی کس طرح ناممکن ہو سکتی ہے۔

 

معارج (سیڑھیاں):

سورۂ معارج (۷۰: ۰۳ تا ۰۴) میں ارشاد ہے کہ خدا تعالیٰ سیڑھیوں کا مالک ہے ان سیڑھیوں سے فرشتے اور روحیں پچاس ہزار برس کی مدت میں چڑھ کر اس کے پاس جاتی ہیں۔ اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ ۵۰۰۰۰ کا جملِ اصغر ۵ (پانچ) ہے، اس طرح : ۰ +۰+ ۰+۰ +۰+ ۵ =۵، جس کی مراد ہے: ناطق، اساس، امام، حجت، اور داعی، کہ لوگ اسی سیڑھی سے خدا کے حضور پہنچ جاتے ہیں،

 

۳

 

کیونکہ بفرمودۂ رسولِ اکرمؐ ہر چیز کا ایک دروازہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ اللہ پاک کا دروازہ پیغمبر، پیغمبر کا دروازہ اساس، اساس کا دروازہ امام، امام کا دروازہ حجت اور حجت کا دروازہ داعی ہے۔

 

تاویل کی مختلف صورتیں:

میرے ایک معزز اسماعیلی دوست نے ازراہِ اخلاص و محبت تاویل کے بارے میں چند سوالات کئے، میں نے جواباً عرض کیا: امامِ زمان صلوات اللہ علیہ معلمِ قرآن کی مرتبت میں تنزیل سکھاتے ہیں یا تاویل؟ انہوں نے فرمایا کہ امام صاحبِ تاویل ہوا کرتے ہیں، لہٰذا آپ کی ہدایات و تعلیمات اکثر و بیشتر تاویلات ہوا کرتی ہیں، میں نے بڑی عاجزی سے کہا: جزاک اللہ! آپ نے سچ فرمایا، شروع سے لے کر اب تک أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام نے بحکمِ خدا تاویل کی ایک دنیا بنادی ہے، ہم اسی دنیائے تاویل میں رہنے کے عادی ہیں، لہٰذا ہم اسی کی باتیں کرتے ہیں، اور اسی میں اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔

 

تاویل کا ایک دوسرا لفظ حکمت ہے، اگر کوئی شخص آپ سے یا مجھ سے کہے کہ تم حکمت نہ سیکھو اور نہ کسی اور کو سکھاؤ، تو یہ قرآنِ پاک کے خلاف بات ہوگی، جبکہ خیرِ کثیر حکمت میں ہے، اس کے علاوہ قرآنِ کریم حکمت کی مختلف صورتوں کی طرف توجّہ دلاتا ہے۔

 

الف: اللہ تعالیٰ کی باطنی نعمتیں (۳۱: ۲۰) کیا ہیں؟ روحانی علم، یعنی تاویل۔

ب: قرآن، کائنات، اور اپنی ذات میں غور و فکر کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے، سو یہ کامیاب فکری نتیجہ کس نام سے ہوگا؟ حقیقت، حکمت، اور تاویل کے نام سے۔

 

۴

 

ج: امامِ عالی مقام کی ذاتِ اقدس میں نورِ قرآن پوشیدہ ہے، جس کی روشنی میں اگر کسی مومن کو کوئی تاویل روشن ہوجاتی ہے، تو اس سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔

د: اس وقت کوئی پیر اور حجت امام کے پاک خاندان کے سوا نہیں، لیکن اس کے باؤجود مولائے اقدس و اطہر نے روحانی ترقی کے دروازے کو مومنین پر بند نہیں فرمایا ہے، وہ تو ہمیشہ کی طرح کشادہ ہے، یہاں اس سلسلے کی اتنی باتیں کافی ہیں۔

 

چھوٹی چھوٹی کتابیں:

بعض حضرات بطریقِ خیر خواہی فرمائش کرتے ہیں کہ ہم بڑی ضخیم کتابیں شائع کیا کریں، ہم جان و دل سے ان کے اس نیک مشورے کے ممنون ہیں، تاہم اپنی مجبوری کو بھی ظاہر کئے بغیر نہیں رہ سکتے، وہ یہ کہ آج اس مادّی ترقی کے طوفان میں قارئین چھوٹی چھوٹی مذہبی کتابوں کو البتہ بوقتِ فرصت ایک ایک کرکے پڑھ لیتے ہیں، مگر بڑی ضخامت والی کتابوں کے مطالعے کا امکان بہت کم ہے، یہی سبب ہے کہ چند سال پہلے جناب غلام حیدر بندہ علی نے ، جو اس وقت اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کے پریذیڈنٹ تھے، مجھے چھوٹی چھوٹی کتابیں شائع کرنے کے لئے مشورہ دیا تھا۔

 

نسلِ آئندہ کے لئے تاریخ: قوموں کا تاریخی ذخیرہ ان کا ایک بڑا سرمایہ ہوا کرتا ہے، اور جس قوم کی کوئی تاریخ نہ ہو، یا ادھوری ہو، تو اس سے سب کو افسوس ہوتا ہے، یہی حال کسی ادارے کا بھی ہو سکتا ہے، چنانچہ میں خانۂ حکمت، ادارۂ عارف، اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کے معزز و محترم عملداروں کو پرخلوص مشورہ دیتا ہوں کہ وہ حضرات

 

۵

 

تمام تاریخی نوعیّت کے واقعات کو ضبطِ تحریر میں لاتے رہیں، تا کہ بوقتِ ضرورت مواد فراہم ہوسکیں۔

 

وہ تاریخ جو نسلِ آئندہ کے لئے بنے گی خانۂ حکمت کے لائف پریسیڈنٹ جناب فتح علی حبیب، اور ادارۂ عارف کے پریسیڈنٹ جناب محمد عبد العزیز کی انمول خدمات کو کس طرح نظر انداز کر سکتی ہے یا بھول سکتی ہے، جبکہ انہوں نے شدید مشکلات کی آندھیوں میں بھی بلا خوف و خطر جوانمردی کا جوہر دکھایا ہے، اگر میں ان جیسے علم کے قدر دانوں کی مساعیٔ جمیلہ مورخین کی نظر سے چھپاؤں، اور ہر کارنامے کو اپنی ناچیز ذات سے منسوب کروں، تو فردائے قیامت خدا مجھ سے ضرور پوچھے گا، جس طرح کہ پوچھنا ہے، ان کی اتنی بڑی کامیابی اس لئے ممکن ہوئی ہے کہ دوسرے تمام عملداران اور ممبران بھرپور تعاون کرتے رہتے ہیں۔

 

یہ بھی ہمارے مشرق و مغرب کے دوستوں اور عزیزوں کی تاریخ سازی کا ایک اہم حصّہ ہے کہ گلگت میں یہ سب مل کر ایک دفتر تعمیر کر رہے ہیں، اور یہ کام ایک قابلِ فخر تعمیراتی کمیٹی کی نگرانی میں انجام پا رہا ہے، جس کے چئیرمین جناب صوبیدار میجر (ریٹائرڈ) عبد الحکیم ہیں، جنہوں نے ملک و قوم کے لئے انتہائی اہم خدمات انجام دی ہیں، یہ صاحب اور جناب قربان علی خان صاحب نہ صرف اس کمیٹی میں کام کرنے کی وجہ سے عزیز و محترم ہیں، بلکہ یہ قوم کے ان نامور نمائندوں میں سے ہیں، جو ہر وقت قومی ضرورت و مفاد کی خاطر پیش پیش رہتے ہیں۔

 

بعض کتب کا ترجمہ:

اس درویشِ دلریش کی گریہ و زاری کے کئی مواقع ہوا کرتے ہیں، جن کا کبھی تفصیل سے ذکر ہونا

 

۶

 

چاہئے، ان میں سے ایک موقع اس وقت ہے جب کہ اس بندۂ حقیر کی کسی تصنیف کا ایک انتہائی شاندار و دلکش ترجمہ سامنے آ کر پڑھا جاتا ہے، نہ معلوم اس میں خداوند کا کیا رازِ حکمت پوشیدہ ہے، ہاں، یہ گمان ضرور گزرتا ہے کہ شاید اس میں ایک طرف شکرگزاری ہے، اور دوسری طرف بدرجۂ انتہا عاجزانہ دعا، ان حضرات کے حق میں جو شب و روز کی زبردست مشقت سے خون اور دل و دماغ کی شمع کو جلا جلا کر اتنا عظیم کارنامہ انجام دیتے ہیں، اسی طرح ان عظیم المرتبت محبِّ قوم سکالرز نے خانۂ حکمت کی چند کتابوں کا ترجمہ کر دیا ہے، ان شاء اللہ وقت آنے پر دنیا ان کی بجا طور پر قدر کرے گی۔

 

کیا میری کتابیں مشکل ہیں؟

بعض دوستوں کو یہ شکایت ہے کہ میری کتابیں الفاظ و معانی کے اعتبار سے انہیں مشکل ہوتی ہیں، اس لئے وہ مشورہ دیتے ہیں کہ میں بہت ہی آسان لفظوں کو استعمال کروں، اس بارے میں میری گزارش یہ ہے کہ میں اکثر جن موضوعات پر لکھتا ہوں، وہ مضامین بعض نو آموز حضرات کو مشکل ہوں تو ہوسکتے ہیں، ورنہ میں اکثر عام فہم انداز میں لکھتا ہوں، جو احباب میری کتابوں کو شروع سے پڑھتے ہیں، ان کو کوئی ایسی شکایت نہیں۔

 

علمی و ادبی ترقی اس کے بغیر ناممکن ہے کہ وہ ہربار کچھ نئے الفاظ و مطالب کوقبول کریں، بار بار مستند لغات کی ورق گردانی کریں، روز بروز ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہوتا جائے، کچھ دوستوں سے بھی سنیں، کچھ بولیں، کچھ کسی کو سکھائیں، کچھ علمی محفل میں بیٹھا کریں، کچھ عبادت کریں، کچھ دعا مانگیں، کچھ علم کی خدمت کریں، علم کا جذبہ پیدا کریں، قرآن، حدیث، اور فرمان کی روشنی میں علم کی تعریف کو دیکھیں اور سوچیں کہ وہ کس طرح علم میں ترقی کر سکتے ہیں، کیونکہ جو کامیاب تاجر ہے، وہ اس

 

۷

 

لئے کامیاب ہے، کہ وہ اپنی تجارت کی مضبوطی اور ترقی کے ہر گُر کو خوب جانتا ہے، اسی طرح سوچنا ہوگا کہ علم کی زیادہ سے زیادہ ترقی کس بات سے ہو سکتی ہے۔

 

ہماری کتابوں کا مجموعہ ایک ارتقائی سیڑھی ہے، لہٰذا ہر ہوشمند قاری سے گزارش ہے کہ وہ نیچے سے لے کر اوپر تک زینہ بزینہ چڑھتا جائے، تا کہ اس کوشش کا صحیح اندازہ کیا جا سکے، آئیے کہ ہم سب مل کر بارگاہِ ایزدی میں عجز و انکساری سے دعا کریں کہ: یا خداوند! تیری رحمت اور علم ہر چیز پر محیط ہے، ہماری تقصیرات سے درگزر فرما! اس ناچیز علمی خدمت میں توقع سے بہت زیادہ برکت پیدا کر، اور اسے سب کے لئے نافع بنا دے !آمین یا ربّ العالمین!!

 

بندۂ حقیر

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۱۳ ربیع الثانی ۱۴۰۶ھ

۲۶ دسمبر ۱۹۸۵ء

 

۸

 

قلبِ قرآن میں ایک عظیم سوال

 

اس عنوان کا یہ مطلب ہے کہ قلبِ قرآن یعنی سورۂ یاسین میں ایک بہت ہی عظیم سوال ہے، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ چند بڑے اہم سوالات کا مجموعہ ہے، جس کی طرف کماحقہٗ توجہ نہیں دی گئی ہے، چنانچہ میں ایک عالی مرتبت پروفیسر کا بے حد شکرگزار اور ممنون ہوں کہ انہوں نے ازراہِ علم دوستی ۲۵ مارچ ۱۹۸۵ء کو بذریعۂ فون اس پُرحکمت سوال کی طرف توجہ دلائی، جو درجِ ذیل ہے:۔

 

سورۂ یاسین (۳۶) آیہ ۱۳ تا ۲۲ پیشِ نظر ہو (۳۶: ۱۳ تا ۲۲)۔

 

سوال۔ الف: اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو حکم دیا کہ آپ انہیں گاؤں والوں کی مثال بیان کریں، جن کے پاس یکے بعدِ دیگرے تین پیغمبر آئے تھے، اب اس قرآنی تعلیم سے متعلق پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ خداوند تعالیٰ نے وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا (آپ ان کے لئے ایک مثال بیان کریں) کیوں فرمایا؟ کیونکہ خود خدائے برتر نے قرآنِ حکیم میں جتنی مثالیں بیان فرمائی ہیں، وہ سب کی سب متشابہات کی حیثیت سے تاویل طلب ہیں؟ کیا یہاں ہمارا یہ تصوّر درست ہو سکتا ہے جو مانیں کہ اللہ کا یہ فرمان مقامِ روحانیّت پر مثال پیش کرنے سے متعلق ہے؟

سوال۔ب: وہ کون سا گاؤں تھا، جس میں خدا کی طرف سے دو پیغمبر

 

۹

 

آئے، مگر لوگوں نے ایمان نہیں لایا؟ ایک تیسرا پیغمبر بھی آیا، پھر بھی وہ لوگ انکار کرتے رہے، حالانکہ وہ رحمان کے قائل تھے؟ تیسرے پیغمبر سے کس طرح قوّت دی گئی؟ یعنی وہ قوّت کس نوعیت کی تھی؟

سوال۔ج: آیت ۱۵ سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ مذکورہ گاؤں والے وجودِ باری تعالیٰ کے منکر یا کافر تو نہ تھے، مگر پیغمبروں کو جھٹلاتے تھے، اس کا اصل سبب کیا تھا۔

سوال۔د: جب وہ پیغمبر جھٹلائے گئے، تو ان حضرات نے نہ تو کوئی معجزہ دکھایا اور نہ ہی کوئی دوسری دلیل پیش کی، صرف اتنا فرمایا کہ: “ہمارا پروردگار جانتا ہے کہ بے شک ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں۔” اس میں راز کیا ہے؟

سوال۔ھ: اس موقع پر ان لوگوں نے نحوست و بدشگونی کو پیغمبروں سے کیوں منسوب کیا؟ اور یہ کیوں کہا کہ: “اگر تم اس دعوت سے باز نہیں آؤ گے تو ہم تم کو سنگسار کریں گے اور ہم سے تم کو ایک دردناک عذاب لگے گا؟”

سوال۔و: یہاں یہ نکتہ بڑا عجیب ہے کہ شہر کے دور افتادہ کنارے سے ایک مرد دوڑتا ہوا آیا، اور کہنے لگا کہ: “اے میری قوم! ان رسولوں کی پیروی کرو۔” یہ کون تھا؟ اور اس کے دوڑنے کی کیا تاویل ہو سکتی ہے؟ اس کو کس نے خبر دی کہ تمہاری قوم کا نقصان ہو رہا ہے؟

سوال۔ز: وہ شخص جو برق رفتاری سے وہاں پہنچا اور جس طرح اس نے اپنی فطرت و پیدائش کے حوالے سے دعوتِ حق کی تائید و حمایت کی، اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ آیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ قرطۂ (کرتۂ) ابداعی کا مالک تھا؟

 

۱۰

 

جواب نمبر۱: سب سے پہلے یہ اہم اصول خوب یاد رہے کہ جب قرآنِ حکیم میں بیک وقت ایک سے زیادہ رسولوں کے ہونے کا ذکر ہوتا ہے، تو اس میں دراصل ایک ہی رسول ہوا کرتا ہے اور باقی اس کے حدود ہوتے ہیں، اور ان پر لفظِ رسول کا اطلاق لغوی معنی میں ہوسکتا ہے، جیسے زمانۂ نبوّت میں آنحضرتؐ کے کسی ایلچی کو بھی رسول کہا جاتا تھا، یعنی رسولِ خدا کا فرستادہ، آپ سورۂ نمل (۲۷: ۳۵) میں دیکھ سکتے ہیں کہ قرآنِ حکیم نے بلقیس (ملکۂ سبا) کے ایلچیوں کا “المرسلون” کہا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مذکورۂ بالا قریہ میں آئے ہوئے رسول عام ایلچیوں کی طرح تھے، بلکہ میں نے پہلے ہی عرض کیا ہے کہ وہ حضرات ناطق اور حدودِ ناطق تھے، اس مطلب کی وضاحت یہ ہے کہ خداوندِ تعالیٰ نے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قبل ہر دورِ مہین (بڑا دور) کے ناطق کے ساتھ ایک اساس کو مقرر فرمایا، اور پھر امامِ زمانؑ کے تقرر سے ان کی دعوت کو تسلسل دے کر تقویت بخشی، اور پوشیدہ تاویل کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنایا، چنانچہ حضورِ اکرمؐ نے بحکمِ خدا مقامِ روحانیّت پر اس امرِ واقعی کی عملی مثال پیش کی۔

 

جواب نمبر ۲: اللہ تعالیٰ کی پُرحکمت عادت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اور ہر وقت درجات کی چوٹی پر کلام فرماتا ہے، تاکہ اس حکم کا تعلق خصوصاً درجۂ اعلیٰ سے اور عموماً ذیلی درجوں سے ہو، اس کے یہ معنی ہوئے کہ “قریہ” سے یہ جہان مراد ہے، جس میں ہر ناطق اسی شان سے آیا، جس کا اوپر ذکر ہوا، یعنی سب سے پہلے ناطق کا ظہور، پھر اساس کا قیام اور اس کے بعد ہر زمانے میں امام کا ہونا، اب اسی قریہ کے تحت قریۂ ہستی بھی آتا ہے، کیونکہ مطلوبہ مثال روحانیّت میں ہے، اور روحانیّت عالمِ صغیر میں ہے، جو عالمِ کبیر کا نمونہ اور آئینہ ہے، اور جس کے

 

۱۱

 

کئی نام ہیں، جیسے عالمِ شخصی، عالمِ ذرّ، خلافتِ صغریٰ، وغیرہ، پس روحانیّت کی مثال میں دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کس طرح عالمِ دین میں سب سے پہلے رسولِ ناطقؐ کا ظہور ہوا، پھر اساس اور أئمّہ کیسے ہوئے، اور امامِ زمانؑ نے کس طرح علم و حکمت سے ناطق اور اساس کی تصدیق کی۔

 

جواب نمبر ۳: گاؤں (دنیا) والوں نے کبھی اللہ تعالیٰ کی ہستی سے انکار نہیں کیا، لیکن وہ اپنے پیغمبر اور حدود کونہیں پہچان سکتے تھے، اگر وہ اپنے آپ کو پہچانتے تو رسول کو پہچانتے، اور بشریّت کو موضوعِ بحث نہ بناتے، لیکن وہ ایسا نہ کر سکے، اس کی وجہ بس یہی تھی، کہ وہ اپنی ہی خام و ناتمام بشریّت کی کسوٹی سے کامل انسانوں کو پرکھنے کی کوشش کرتے تھے، مگر یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا، کہ ناقص کامل کا وزن کرے، اور پرکھ لے۔

 

جواب نمبر۴: لوگوں کے حق میں سب سے بڑا مفید معجزہ علم و حکمت ہے، لہٰذا ان پیغمبروں نے: “ہمارے پروردگار کو علم ہے کہ بے شک ہم تمہارے پاس بھیجےگئے ہیں” کہہ کر علم کی طرف اشارہ کیا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر لوگ جاہل نہ ہوتے اور دانا ہوتے، تو وہ پیغمبروں کو پہچانتے، اور ان کی اطاعت کرتے، جس سے ان کو فائدہ ہوتا۔

جواب نمبر۵: اس دنیا میں لوگوں سے مصائب و آلام کی آزمائش ہوتی رہتی ہے، جس میں درد اور دکھ کا اصل سبب وہ خود ہوا کرتے ہیں، لیکن منکرین نے جہالت و نادانی کی وجہ سے اس چیز کو بھی پیغمبروں سے منسوب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی نحوست سے ہے، سنگسار کرنے سے بحث و مناظرہ میں غلبہ حاصل کرنا مراد ہے، اور دردناک عذاب کی تاویل عقلی اذیت ہے، یعنی جاہلوں نے بزعمِ خود یہ سمجھا کہ حضراتِ انبیاء کو مناظرے میں شکست دے کر

 

۱۲

 

عقلی عذاب پہنچانا آسان بات ہے، حالانکہ وہ خود عذابِ جہالت و نادانی میں مبتلا تھے۔

 

جواب نمبر۶: شہر کے دور افتادہ کنارے سے جو شخص بڑی تیزی سے آیا، وہ امامِ متم تھا، جو کرتۂ ابداعی میں ملبوس تھا، اور اسی وجہ سے وہ برق کی طرح آیا، اس کا تعلق شہرِ جسمانیّت کے اس کنارے سے ہے، یعنی وہ حدودِ جسمانی کے آخری سرے پر ہوتا ہے، یاد رہے کہ کوکبی بدن (ASTRAL BODY) امامِ ہفتم کے لئے خاص ہوا کرتا ہے، چنانچہ شہر کے دور کنارے سے جسمِ لطیف مراد ہے، جو حضرت قائم القیامت کا معجزاتی لباس ہے۔

 

جواب نمبر۷: وہ شخصِ کامل و مکمل جو شہرستانِ جسمانیّت کے آخری مقام سے بڑی سرعت کے ساتھ حاضر ہوگیا، امامِ متم یعنی حضرتِ قائم صلوات اللہ علیہ تھا، جس نے اپنی ابداعی پیدائش کو دینِ حق کا سب سے بڑا معجزہ قرار دیتے ہوئے دعوتِ حقہ کی تصدیق کی، ہاں اس کے پاس قرطۂ ابداعی ہوا کرتا ہے، جیسا کہ فرمایا گیاہے:۔

 

اور اسی کے معجزات میں سے ہے کہ وہ تم کو بجلی (یعنی نوری بدن) دکھاتا ہے جس سے ڈر بھی ہوتا ہے اور امید بھی (۳۰: ۲۴) یہی ارشاد سورۂ رعد (۱۳: ۱۲) میں بھی ہے، اگر کوئی شخص جسدِ نور کو دیکھے تو وہ یقیناً خوف و امید کی کش مکش میں پڑ جاتا ہے، آپ اپنے دل سے پوچھ لیں کہ کیوں ایسا ہونا چاہئے؟ اگر کسی آدمی کے پاس بوقتِ تنہائی کوئی یو۔ایف۔او۔ (یعنی اڑن طشتری) آ جائے تو ظاہر ہے کہ اس شخص کو نہ صرف خوف ہو گا، بلکہ امید بھی ہوگی، کہ کاش یہ اس کو مسخر کر سکتا!

 

سورۂ یاسین کی جن خاص آیات کے بارے میں سوالات پیدا ہو گئے

 

۱۳

 

تھے، ان کے جوابات کافی حد تک دئے گئے، اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کس معنیٰ میں اس سورے کو قلبُ القرآن کا نام عطا کیا ہے؟ جیسا کہ آنحضورؐ نے ارشاد فرمایا:۔ ان لکل شیءٍ قلبا و قلب القرآن یس (جامع ترمذی، جلدِ دوم، باب نمبر ۳۵۸) رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے، اور قرآن کا دل یٰسین ہے۔ عقل والے جانتے ہیں کہ سورۂ یاسین کی یہ اہمیّت، اور تعریف و توصیف اس کے معنی اور علم و حکمت کی وجہ سے ہے، یقیناً اس میں کوئی راز ہوگا، کوئی کلید ہوگی، دل جیسی کسی مرکزی طاقت کی نشاندہی ہوگی، جی ہاں، بالکل درست ہے کہ اس میں امامِ مبین کی ہمہ گیر حیثیت کا ذکر ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا پُرحکمت ارشاد ہے:  اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى: بے شک ہم روحانی اور جسمانی مردوں کو زندہ کرتے ہیں، مردے دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو جسمانی موت سے قبل روحانی کیفیت میں مر جاتے ہیں، جس میں بہت بڑی ترقی ہے، اور دوسرے وہ لوگ جو بدنی طور پر مر جاتے ہیں، وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْۣؕ: اور ہم لکھتے ہیں وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے تمام چیزوں کو ایک پیشوائے ظاہر میں گھیر کر رکھا ہے۔

 

امامِ مبین کا دوسرا نام عالمِ ذرّ ہے، جس میں خدائے پاک و برتر قیامت کو برپا کرکے مردوں کو زندہ کر دیتا ہے، اور لوگوں کے دینی و دنیوی اعمال بھی اسی میں درج ہوتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ امامِ عالی مقام کے عالمِ شخصی میں کائنات و مخلوقات کا عقلی، روحی، اور جسمی جوہر مرکوز کیا گیا ہے، اب آپ کے نزدیک

 

۱۴

 

یہ ایک روشن حقیقت ہوگی کہ قادرِ مطلق جس طرح آسمان و زمین (یعنی ہر ہر چیز) کو دستِ قدرت میں لپیٹ لیتا ہے، وہ خدائی معجزہ بھی اور اس کا مشاہدہ بھی امامِ مبینؑ کی ذاتِ اقدس میں ہوتا ہے، غرض قرآنِ حکیم میں کوئی ایسی آیت نہیں، جس میں چیزوں (یعنی ذرّاتِ روح) کے جمع ہو جانے کا ذکر ہو، اور وہ مذکورۂ بالا موضوع سے مربوط نہ ہو۔

 

قلبِ قرآن کی حکمت کو سمجھنے کے لئے قلبِ انسان کی مثال میں ٹھیک طرح سے غور کرنا چاہئے، وہ یہ کہ قلب یعنی دل انسانی جسم میں بذریعۂ خون نہ صرف زندگی کی لہر دوڑاتا رہتا ہے، بلکہ اسی دورانِ خون کے عمل سے حیات و بقا کو واپس مرکوز بھی کر لیتا ہے، تا کہ اس میں جدّت و تازگی پیدا کرے، اسی طرح قلبِ قرآن (یعنی امامِ مبین) ہے، جو بحکمِ خدا ایک طرف روحِ تاویل کو جملہ قرآن میں پھیلاتا بھی ہے، اور دوسری طرف سمیٹتا بھی ہے، تا کہ روحِ کتاب قانونِ فطرت کے مطابق ہمیشہ تر و تازہ رہے۔

 

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قلبِ قرآن کی اس مثال میں کتابِ سماوی کی مرکزیّت کی طرف اشارہ فرمایا ہے، جس کا ثبوت زمانۂ نبوّت ہے، کہ اس وقت آنحضرتؐ قرآن کا دل اور مرکز تھے، اس کے معنی ہیں نورِ قرآن یا روحِ قرآن، جو ایک مسلمہ حقیقت ہے۔

 

خانۂ حکمت ، ادارۂ عارف

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۷ مارچ ۱۹۸۵ء

 

۱۵

 

نورانی حرکت

 

۱۔ “نورانی حرکت” کے اس موضوع میں پہلے تو ظاہری روشنی کا ذکر ہو جانا چاہئے، اور اس کے بعد باطنی روشنی کا، تا کہ مثال کے ذریعے سے ممثول کی شناخت ہو سکے، چنانچہ اس سلسلے میں انتہائی ضروری ہے کہ حکمتِ الٰہی کے منشاء کے مطابق ایک روشن چراغ کی مثال کو پیشِ نظر رکھا جائے، تا کہ حقائق و معارف قرآن پاک کی روشنی میں ظاہر ہو جائیں، جبکہ قرآنِ حکیم میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نورِ اقدس کی تشبیہہ و تمثیل مصباح (چراغ، ۲۴: ۳۵) اور سراجا (چراغ، ۳۳: ۴۶) سے دی گئی ہے، ظاہر ہے کہ یہ دونوں نام چراغ ہی کے ہیں، اور اس مثل میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

 

۲۔ خوب سوچنا اور جاننا چاہیے کہ چراغِ روشن پانچ مراتب پر مبنی ہوا کرتا ہے، وہ درجات یہ ہیں: ظرفِ چراغ، تیل، بتی، شعلہ، اور پھیلی ہوئی روشنی، اسی طرح لفظِ مصباح اور سراجا کے بھی پانچ پانچ اجزاء یعنی حروف ہیں، جیسے مصباح: م، ص، ب، ا، ح اور جس طرح سراجا: س، ر، ا، ج، ا، یہ اشارہ پانچ حدودِ روحانی اور پانچ حدودِ جسمانی کی طرف ہے، چنانچہ روحانی حدود یہ ہیں: قلم، لوح، اسرافیل، میکائیل، اور جبرائیل، جسمانی حدود اس طرح ہیں: ناطق، اساس، امام،  حجت، اور داعی، اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ قرآنِ مقدّس میں جہاں جہاں لفظِ نور اور اس کے

 

۱۶

 

مترادفات موجود ہیں، ان سب میں لازمی طور پر چراغ کی مثال بھی ہے، اور حدودِ مذکورہ کا حکیمانہ ذکر بھی، کیونکہ جملہ آیاتِ نور کا ایک ہی معنوی اور تشبیہی مرکز ہے، اور وہ مرکز وہی ہے، جس میں آسمان و زمین کی مادّی روشنی کے تمام ذرائع کو چھوڑ کر چراغِ خانہ سے نورِ خداوندی کی تشبیہہ و تمثیل دی گئی ہے۔

 

۳۔ پانچ حدودِ روحانی کے بارے میں یہاں ایک حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ کتاب الزینہ ، باب القلم کے آغاز میں ہے: “یروی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ (و آلہ و سلم) کان یاخذ الوحی عن جبرئیل و جبرئیل عن میکائیل، و میکائیل عن اسرافیل و اسرافیل عن اللوح، و اللوح عن القلم: روایت کی جاتی ہے کہ رسولِ خدا وحی کو جبرائیل سے لیتے تھے، جبرائیل میکائیل سے، میکائیل اسرافیل سے، اسرافیل لوحِ محفوظ سے، اور لوحِ محفوظ قلم سے لیتی تھی۔”

 

اسی طرح پانچ جسمانی حدود ہیں، جن کے توسط سے نورِ تاویل مومنین تک پہنچ سکتا ہے، وہ ناطق، اساس، امام،حجت، اور داعی ہیں۔

 

۴۔ سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۴) اور سورۂ زمر (۳۹: ۶۷) میں جس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے، اس کا مختصر مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کو اپنے بابرکت ہاتھ میں لپیٹ لے گا، اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو موجودات و مخلوقات کی کوئی چیز ضائع نہیں کی جاتی ہے، بلکہ دستِ قدرت کائنات کی کل اشیاء کو اپنی پُرحکمت مٹھی میں لیتا ہے، چنانچہ اس حکم کا اطلاق نہ صرف عالمِ شخصی پر ہوتا ہے، بلکہ اس میں عالمِ دین کا بھی ذکر ہے کہ اس کے تمام حدود دورِ قیامت میں امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے پاس جمع ہوں گے، اور آج امرِ واقعی ایسا ہی ہے، کیونکہ قیامت کو اگر ظاہری اور اجتماعی پہلو

 

۱۷

 

سے دیکھنا ہے تو وہ ایک عظیم اور طویل زمانہ ہے، جس کا آغاز ہوچکا ہے، تاہم جہاں تک “علمِ حدود” کا تعلق ہے، وہ ہر دانشمند مومن کے لئے ضروری ہے، کیونکہ جس طرح علمِ تاریخ ماضی کی شخصیات پر مبنی ہوتا ہے، اسی طرح علمِ تاویل حدودِ دین سے وابستہ ہے، پس تاویل کے لئے “حدود شناسی” کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

 

۵۔ اب ہمیں مادّی روشنی کی حرکت کے بارے میں دیکھنا چاہیے کہ اس کی کیفیّت کیا ہے، چنانچہ ہر شخص اس صورتِ حال میں غور کر سکتا ہے کہ چراغ کے تیل میں از خود کوئی حرکت نہیں، مگر وہ فتیلہ (بتی) اور شعلہ کے ذریعہ حرکت کر کے آگے بڑھ جاتا ہے، اور نور بن کر اعلیٰ و بسیط ہو جاتا ہے، یہ واقعہ اس حقیقت کی مثال ہے کہ ہر مومنِ صادق ہادیٔ زمان کی پیروی میں ترقی کرتے کرتے اس مقام تک پہنچ جاتا ہے، جہاں نور ہی نور ہے، جس میں جب وہ فنا ہو جاتا ہے، تو اس پر یہ عظیم راز کھل جاتا ہے کہ وہ ازلی و ابدی طور پر اصل سے واصل ہے۔

 

۶۔ چراغ کا تیل فتیلہ کے وسیلے سے شعلہ میں مسلسل فنا ہوتا جاتا ہے، اور شعلہ بھی لحظہ بہ لحظہ منتشر روشنی میں فنا ہوتا رہتا ہے، اگر بکھری ہوئی روشنی گھر کی ہر سو ٹھہر سکتی، تو شعلۂ چراغ کو مزید دوام دینے کی ضرورت نہ رہتی ، مگر قانونِ فطرت میں ایسا نہیں کہ ایک بار کی پھیلی ہوئی روشنی اپنے سرچشمہ سے منقطع ہو جانے پر بھی قائم رہ سکے، اور ماحول کو منور کرے، لہٰذا شعلے کو اپنے حال پر رکھنا پڑتا ہے، تا کہ اس کے نورانی فوارے سے ہر لمحہ روشنی کے بادل چھائے رہیں، یہ مثال صرف گھر کے چراغ ہی کے لئے محدود نہیں، بلکہ روشنی کے ہر ذریعے کا یہی حال ہے، خواہ وہ سرچشمۂ آفتاب ہی کیوں نہ ہو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کارخانۂ نور چاہے ظاہری ہو یا باطنی دائمی حرکت میں ہے، وہ کسی وقفہ اور تاخیر کے بغیر مسلسل روشنی

 

۱۸

 

بکھیرتا رہتا ہے، جیسے کسی انتہائی ترقی یافتہ شہر کا بجلی گھر شب و روز کام کرتا ہے، اور لوگوں کے لئے راحت و آسائش اسی میں ہے کہ وہ ہمیشہ چلتا رہے۔

 

۷۔ ظرفِ چراغ داعی کی مثال ہے، روغنِ زیتون حجت ہے، اس میں فتیلہ کا ممثول امام ہے، کہ ہدایت کا وسیلہ وہی ہے، شعلہ کی تاویل اساس ہے، کیونکہ اسی کا مرتبہ نورِ فاعل ہے، اور منتشر روشنی درجۂ ناطق کی مثال ہے، اس لئے کہ آنحضرت رحمتِ عالم ہیں۔

 

۸۔ اس قرآنی حقیقت میں کسی مسلمان کو کیا شک ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو عالمین یعنی دنیاؤں کے لئے رحمت بناکربھیجا ہے (۲۱: ۱۰۷) لیکن ہر طالبِ حقیقت کے دل میں یہ سوال پوشیدہ ہے کہ وہ دنیائیں کون سی ہیں، جن کے حق میں پیغمبرِ خدا رحمتِ کل کی عظیم مرتبت میں تشریف لائے؟ آیا اس کا جواب اس طرح درست ہو سکتا ہے جو کہا جائے کہ یہ عالمین (دنیائیں) جو ہزاروں کی تعداد میں ہیں، جمادات، نباتات، حیوانات، وغیرہ سے متعلق ہیں؟ نہیں، یہ جواب درست نہیں، کیونکہ رحمان و رحیم کی رحمت انتہائی خاص چیز ہے، لہٰذا ہمیں یوں کہنا چاہئے کہ یہ قانونِ کرامت و فضیلت (۱۷: ۷۰) کے مطابق بنی آدم کے لئے مخصوص ہے، پس عالمین سے آدم و اولادِ آدم مراد ہیں، کہ ان میں جو خواص ہیں، وہ بحدِّ فعل عوالمِ شخصی (ذاتی دنیائیں) ہیں، اور جو عوام ہیں وہ بحدِّ قوّت ایسے ہیں، اس بیان کا خلاصہ یہ ہوا کہ رسول اللہ کا نورِ اقدس ہر کامل انسان کے عالمِ شخصی میں بعنوانِ رحمت فعلاً محیط ہو جاتا ہے۔

 

۹۔ سورۂ احزاب (۳۳: ۴۵ تا ۴۶) میں خدائے علیم و حکیم کا ایک بڑا اہم اور پُرحکمت ارشاد اس طرح ہے:  یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا (۳۳: ۴۵ تا ۴۶) ۔

 

۱۹

 

اے نبی ہم نے بے شک آپ کو اس شان کا رسول بنا کر بھیجا ہے کہ آپ گواہ ہیں اور آپ بشارت دینے والے ہیں اور ڈرانے والے ہیں اور (سب کو) اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے ہیں اور آپ ایک روشن چراغ ہیں۔

 

اس بابرکت ارشاد کی چند حکمتیں اس طرح ہیں:

 

الف: مذکورہ دونوں آیتیں (جن کے آخر میں روشن چراغ کا ذکر ہے) براہِ راست اس انتہائی عظیم اور اعلیٰ حکمتوں سے بھرپور آیۂ مقدّسہ یعنی “اللہ نور السمٰوٰت” کے ساتھ مربوط و وابستہ ہیں، جس میں نورِ خداوندی کی مثال ایک روشن چراغ سے دی گئی ہے (۲۴: ۳۵) اس سے اہلِ دانش کو اس بات کا مکمل یقین ہو جاتا ہے، کہ بے شک اللہ کا نور رسول کا نور ہے، اور رسول کا نور اللہ کا نور، اور ایک ہی نور کی یہ نسبتیں ہیں کہ کبھی یہ خدا سے منسوب ہو جاتا ہے اور کبھی پیغمبر سے۔

 

ب: سراجِ منیر کی حرکتِ نورانی انتہائی تیز ہے، یہ روشن چراغ جہاں جسمِ لطیف میں مجسّم ہے اور جہاں نوری تصوّر میں متصوّر ہے، وہاں یہ چشمِ زدن میں زمان و مکان کی کلی مسافتوں کو طے کرتا ہے، اور آنِ واحد سے پہلے ہی مقامِ ازل و ابد پر پہنچ جاتا ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں رجل یسعیٰ (۲۸: ۲۰، ۳۶: ۲۰) فرمایا گیا ہے، جو ابداعی لطیف انسان کے بارے میں ہے، اور جس طرح یسعیٰ نورھم (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۰۸) کا ارشاد ہے، وہ باطنی نور کے باب میں ہے، مذکورہ آیتوں کی تاویل میں نور کی تیز حرکت کا ذکر ہے۔

 

ج: چراغِ ہدایت کی ضرورت تین مقامات پر ہے: مقامِ جسم جو ظاہر ہے، مقامِ روح جو باطن ہے، اور مقامِ عقل جو باطن کا باطن ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم اپنے مخصوص تاویلی اشارے میں یہ فرماتا ہے کہ نور کے تعیّن و تقرر کا

 

۲۰

 

مقصد یہ ہے کہ مومنین ان مقامات میں چلتے رہیں اور ہر مقام پر ترقی کریں (تمشون بہ،۵۷: ۲۸، تا کہ تم اس نور کی روشنی میں چل سکو گے)۔

د: حضورِ اکرم رشد و ہدایت اور علم و حکمت کے روشن چراغ تھے، آپ صرف دعوتِ حق ہی کی تدریجی تعلیمات سے لوگوں کے دل وجان کو منور کر سکتے تھے، چنانچہ جنہوں نے اسلام کو قبول کیا، وہ روشنی کے درجات میں فطری طور پر آگے پیچھے اور مختلف تھے، اور اس میں کیا تعجب ہو سکتا ہے کہ خدا و رسول نے اس سلسلے میں ایک شخص کو کامل اور مکمل نور بنا لیا ہو، تا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں لوگوں پر پوری ہو جائیں۔

 

۱۰۔ انسان کا خیال خواہ زیادہ روشن ہو یا کم، لیکن وہ بہرحال انتہائی تیزی سے حرکت کر سکتا ہے، آپ کا خیال لمحہ بھر میں نہ صرف مشرق و مغرب میں جا پہنچتا ہے، بلکہ آسمان کی بلندیوں پر بھی جا سکتا ہے، آپ پلک جھپکاتے میں ایک طرح سے عرشِ اعلیٰ تک تصوّراتی پرواز کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر کسی شخص نے جیسے ہی قصّۂ معراج کی طرف توجّہ دی، تو فوراً ہی اس کا خیال عرش پر گیا، چنانچہ خیال انسان میں وہ روحانی اڑان ہے، جس سے وہ کسی تاخیر کے بغیر زمان و مکان کی تمام تر مسافتوں کو طے کر سکتا ہے، دوسری مثال میں خیال وہ حیرت انگیز آئینۂ قدرت ہے، جو مسموعات ، مشاہدات، اور معلومات کی کسی بھی چیز کو فوراً ہی ذہنِ انسانی کے سامنے پیش کر دیتا ہے، پھر بھی ایک عام آدمی کی یہ صلاحیت خام و ناتمام ہونے کی وجہ سے شکوک و شبہات اور لا علمی کے اندھیروں میں کام کرتی ہے، ان مثالوں سے ایک ہوشمند مومن یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ قادرِ مطلق نے جس مبارک و مقدّس ہستی کو نورِ ہدایت کا روشن چراغ بنایا ہے، اس کی عالمگیری اور ہمہ رسی کی کیا شان ہوگی، اور عالمِ شخصی کے آسمان و زمین پر کس آسانی سے محیط ہوگا۔

 

۱۱۔ ہر شخص اپنے باطن میں ایک ذاتی اور انفرادی دنیا رکھتا ہے، جو عالمِ ظاہر

 

۲۱

 

سے بنائی جاتی ہے، اس کے وجود کی دو معتبر شہادتیں خواب اور خیال ہیں، اسی شخصی عالم کا ذکر قرآنِ پاک میں کثرت سے فرمایا گیا ہے اور اسی میں قیامت اور آخرت پوشیدہ ہے، اگر آپ اور بہت سے دوسرے حضرات بہ نتیجۂ علم و عمل اپنی روحانی دنیا کو منوّر و درخشندہ دیکھتے ہیں، اور اس کے آسمان و زمین کا مشاہدہ کرتے ہیں، تو یہ نور، جس نے اس کو جگمگا دیا ہے، کس کا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ کا ہوگا، کیونکہ وہ آسمان و زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵) آنحضرتؐ کا نور ہوگا، اس لئے کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے (۳۳: ۴۶) نیز یہ نور امام کا ہوگا، کہ زمانۂ نبوّت میں مستقبل کی ہدایت کا اہتمام اسی مرتبت میں کیا گیا ہے (۵۷: ۲۸) اور یہ نور اہلِ ایمان کا بھی ہے، کیونکہ اللہ، رسول، اور صاحبِ امر کی حقیقی اطاعت کا مکمل نتیجہ نور کی صورت میں ملتا ہے (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۰۸) اور بس نور ہی سب کچھ ہے۔

 

۱۲۔ نورانی حرکت کے بارے میں صرف چند نکات و اشارات مقصود تھے، ورنہ یہ مضمون تفصیلاً خاصا طویل ہوسکتا تھا۔ بہر کیف نور کا موضوع ہر پہلو سے بڑا اہم ہے، کیونکہ اس میں قرآنِ حکیم کے جملہ مطالب مرکوز ہو جاتے ہیں، اور پھر یہیں سے سارے قرآن میں پھیل جاتے ہیں، جس طرح سرچشمۂ آفتاب میں جملۂ کائنات رفتہ رفتہ جمع ہوکر نور بن جاتی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ واپس پھیلتی رہتی ہے، پس نور کی اصلی اور کلی حرکت مستدیر (گول) ہے۔

 

خانۂ حکمت، ادارۂ عارف

 

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۶ جون ۱۹۸۵ء

 

۲۲

 

نورانی رشتے

 

۱۔ رشتہ دو قسم کا ہوتا ہے، جسمانی رشتہ اور روحانی رشتہ، رشتۂ روحانی کا دوسرا نام نورانی رشتہ ہے، یہ آسمانی رشتہ جو ہر قسم کے ظاہری و جسمانی رشتوں سے بلند و برتر اور پاک وپاکیزہ ہے، سب سے پہلے اور سب سے اعلیٰ درجے پر انبیاء و أئمّہ صلوات اللہ علیہم کو ایک دوسرے سے منسلک کردیتا ہے، اور ان نفوسِ قدسی کے یہ موتی، جو اس وحدت و یگانگت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں، گوہرِ یکدانہ یعنی نفسِ واحدہ کی طرح (۰۶: ۹۸، ۳۱: ۲۸) ایک ہی کرتۂ بدن میں سما جاتے ہیں، اور اگر اس حقیقتِ حال کو دیدۂ دل سے دیکھا جائے، تو ضرور معلوم ہو جائے گا کہ یہ وہ نمونۂ عمل ہے، جو ہادیانِ برحق نے اجتماعی طور پر تمام امتوں کے سامنے پیش کیا، تا کہ وہ اپنے اپنے وقت کی ہدایت کے مطابق صراطِ مستقیم پر چل کر رشتۂ نور سے وابستہ ہو جائیں۔

 

۲۔ رشتہ کے اصل معنی دھاگا کے ہیں، اور انسانوں کے آپس میں ماں باپ وغیرہ سے جو نسبت و قرابت ہوتی ہے، اس کو رشتہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس دھاگے کی طرح ایک چیز ہے، جو تسبیح کے دانوں کو ایک دوسرے سے وابستہ رکھتا ہے، یا جس میں پروکر موتیوں کی لڑی بنائی جاتی ہے، یا جس کی وجہ سے پھولوں کا ایک ہار منظم ہو جاتا ہے، اور یہاں یہ نکتہ بھی خوب یاد رہے کہ قرآنِ حکیم نے

 

۲۳

 

کوئی موضوع اور کوئی مثال اپنے احاطۂ بیان سے باہر نہیں چھوڑی ہے، چنانچہ رشتۂ نورانیّت کی قرآنی مثال اللہ تعالیٰ کی “رسی” ہے (۰۳: ۱۰۳) اور اسی کے ساتھ مسلمانوں کے روحانی طور پر بھائی بھائی ہونے کا ذکر ہے (۰۳: ۱۰۳) آپ یہ جانتے ہیں کہ دینِ اسلام کا دروازہ سارے اہلِ جہان کے لئے کشادہ ہے (۰۷: ۱۵۸) پس ہر امت کے لوگ خدائی رسی کے ساتھ بمضبوطی وابستہ ہو کر نورانی رشتے کی وحدت میں مدغم ہو سکتے ہیں۔

 

۳۔ زمانۂ موسیٰؑ اور زمانۂ عیسیٰؑ کے ان لوگوں نے، جو دائرۂ دین میں داخل ہو گئے تھے، ایک بار خدا کی رسی پکڑ لی تھی، مگر ان میں سے اکثر کا دستِ علم و عمل ڈھیلا تھا، اسی سبب سے وقتِ آزمائش آنے پر ان سے نور کی رسی چھوٹ گئی، اور اسی کے ساتھ ان کا رہا سہا نورانی رشتہ بھی ٹوٹ گیا، اور اسی واقعہ کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ہم مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے: اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور فرقہ فرقہ نہ ہو جاؤ (۰۳: ۱۰۳) مگر آج جو صورتِ حال ہے وہ سب کے سامنے ظاہر ہے۔

 

۴۔ جس طرح قصصِ قرآن میں حضرتِ آدمؑ کا قصّہ بنیاد کا درجہ رکھتا ہے، اسی طرح رشتۂ نور کا موضوع بھی وہیں سے شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم (۰۷: ۲۶، ۰۷: ۲۷، ۰۷: ۳۱، ۰۷: ۳۵، ۰۷: ۱۷۲، ۱۷: ۷۰، ۱۹: ۵۸، ۳۶: ۶۰) میں بنی آدم اور ذریّتِ آدم کا ذکر فرمایا گیا ہے، جس کا ترجمہ ہے اولادِ آدمؑ، اگر میں یہاں یہ سوال کروں کہ قرآنِ پاک کے نزدیک اولادِ آدم کون سے لوگ ہیں؟ تو آپ میں سے کوئی فوراً یہ جواب دے گا کہ بنی آدم یہ تمام انسان ہیں، جو دیگر تمام مخلوقات پر بادشاہ ہیں، اگرچہ یہ جواب عوام کے نزدیک درست ہے، لیکن خواص کے نزدیک صحیح نہیں، کیونکہ قرآنِ حکیم کے کہنے کے مطابق بہت سے لوگ درجۂ آدمیّت سے گر کر چوپایوں

 

۲۴

 

میں شامل ہو گئے ہیں (۰۷: ۱۷۹، ۲۵: ۴۴) ایسے لوگوں کی یہ حالت نافرمانی کی وجہ سے ہے، اور اللہ کا قانون یہی ہے کہ ہر نافرمان شخص کو رشتۂ نور سے خارج کیا جائے، خواہ وہ پسرِ نوح کیوں نہ ہو، پس اولادِ آدم بحقیقت پانچ گروہ کے سوا کوئی نہیں، وہ گروہ یا درجات یہ ہیں:۔

 

انبیاء، صدیقین، شہدا، صالحین، اور مطیعین (فرمانبردار لوگ) یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقی معنوں میں اولادِ آدم ہونے کی وجہ سے نورانی رشتے رکھتے ہیں، یعنی ایک طرف ان کا نورانی رشتہ حضرت آدم علیہ السّلام سے ہے، اور دوسری طرف ان کے آپس میں (۰۴: ۶۹)۔

 

۵۔ سوال: اس میں کیا راز ہے کہ قرآنِ حکیم نے آدم و حوّا علیہما السّلام کو لوگوں کے ماں باپ قرار دیا، حالانکہ وہ دادا اور دادی ہیں (۰۷: ۲۷)؟

جواب: کوئی شخص اس کو عربی زبان کا رواج کہہ سکتا ہے، لیکن اس کی حقیقت کچھ اور ہے، وہ یہ کہ جسمانی رشتہ وقت گزر جانے کے ساتھ ساتھ دور سے دور تر ہوتا جاتا ہے، مگر اس کے برعکس روحانی (نورانی) رشتہ ہمیشہ تازہ رہتا ہے، کیونکہ نورٌعلیٰ نور (۲۴: ۳۵) کے بموجب ہادیٔ زمانؑ میں نورِآدم موجود ہوتا ہے اور انبیاء و أئمّہ صلوات اللہ علیہم نفسِ واحدہ کی طرح ایک ہوتے ہیں۔

 

۶۔ سوال: قرآنِ پاک نے ہابیل اور قابیل کو اِبۡنَیۡ آدَمَ ( آدم کے دو بیٹے، ۰۵: ۲۷) کہا، کوئی شک نہیں کہ شروع شروع میں قابیل حضرت آدمؑ کے بیٹوں میں سے تھا، مگر اس کے رشتۂ نور سے منقطع ہو جانے کا ذکر کہاں ہے؟

جواب: حسد بہت بُری چیز ہے، جس کی وجہ سے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا، اور بحکمِ خدا وہ زیان کاروں میں شامل ہوگیا (۰۵: ۳۰) اور اس کا سب سے بڑا زیان یہ کہ اب وہ آدم کی اولاد نہ رہا، نور سے اس کا رشتہ ٹوٹ گیا، جبکہ

 

۲۵

 

خدا کی رسی سے اطاعت و فرمانبرداری کا ہاتھ چھوٹ گیا، پس ہر مومن کو حسد سے بچنا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ یہ کسی مومن بھائی کے نقصان پر ابھارے، آپ ایسا ہرگز نہ سوچیں کہ قابیل شروع ہی سے برا آدمی تھا، کیونکہ اس کے اچھے اچھے اعمال تھے، مگر جب اس کے دل میں حسد پیدا ہوگیا، تو اس نے جملہ اعمال کو اس طرح کھا لیا، جس طرح آگ لکڑی کو کھاتی ہے، اور اسی معنیٰ میں وہ زیان کار ہوگیا، اعمال سے متعلق یہ ساری وضاحت لفظِ خاسرین (۰۵: ۳۰) میں پوشیدہ ہے۔

 

۷۔ سوال: قصّۂ آدم میں لفظِ نور کیوں نہیں؟ آیا حضرتِ آدمؑ نے فرشتوں کو علمِ اسماء کی تعلیم ظاہر میں دی تھی یا باطن میں؟ ملائکہ کا حضرت آدم علیہ السّلام سے کون سا رشتہ تھا؟

جواب: قصّۂ آدم میں اگرچہ لفظِ نور موجود نہیں، لیکن نورِ خداوندی کا ذکر لفظِ “روحی” (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) اور “روحہ” (۳۲: ۰۹) میں فرمایا گیا ہے، کیونکہ خدائی روح نورِ الٰہی ہے، حضرت آدمؑ نے عالمِ شخصی میں فرشتوں کو تعلیم دی تھی، جو عالمِ باطن ہے، فرشتوں کا حضرت آدمؑ سے نورانی رشتہ تھا، کیونکہ وہ فرشتے اس زمانے کے مومنین کی ارواح تھے، نورانی علم سے نور کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے، اور حضرت آدمّ نے اہلِ ایمان کی روحوں کو نورانی علم سے منوّر کر دیا تھا۔

 

۸۔ حضرت نوح علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں خدا کی رسی اور رشتۂ نور سے متعلق واضح مثالیں موجود ہیں، ایک تو یہ کہ حضرت نوحؑ کا بیٹا کنعان جو جسمانی اعتبار سے پیغمبر زادہ تھا نافرمانی کی وجہ سے سلسلۂ روحانیّت اور رشتۂ نورانیّت سے منقطع ہوکر دور جا پڑا، اور حضرت نوحؑ کی سفارش اس کو نہ بچا سکی، کیونکہ اس کا عمل غیر صالح تھا (۱۱: ۴۶) دوسری مثال یہ ہے کہ کئی مومنین اطاعت و فرمانبرداری کے وسیلے سے خانۂ نور میں داخل ہوکر اہلِ بیّت کہلائے، اور وہاں ان کا نورانی رشتہ

 

۲۶

 

بدرجۂ انتہا مضبوط ہوگیا (۷۱: ۲۸) اور تیسری مثال یہ ہے کہ اگرچہ بعض لوگ روحانیّت کے گھر میں نہیں تھے، تاہم وہ ایمان کے وسیلے سے رشتۂ نور سے منسلک ہو گئے تھے (۷۱: ۲۸)۔

 

۹۔ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی ترجمانی کرتے ہوئے قرآن نے فرمایا: فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ (پھر جو شخص میری راہ پر چلے وہ میرا ہے، ۱۴: ۳۶) اس میں نور کے تمام رشتوں کا ذکر ہے، جیسے نورانی فرزند، نورانی ماں باپ، بھائی بہن وغیرہ، اس کی وضاحت یوں ہے: کہ حضرت اسماعیلؑ نے حضرت ابراہیمؑ کی پیروی کی، جس سے وہ پہلے تو نور کا بیٹا ہوگئے، پھر خود نور بن گئے، اور اس کے بعد نور کا باپ، یہ عالمِ دین کی بات ہوئی، اور عالمِ شخصی میں بھی اس کی نظیریں موجود ہیں، وہ اس طرح کہ سلمانِ فارسی سب سے پہلے نور کا بیٹا قرار پایا، پھر رفتہ رفتہ نور بن گیا، اور اس کے بعد عالمِ شخصی میں نور نے اس سے کہا کہ اب میں تیرا بیٹا ہوں، اس معنیٰ میں وہ نور کا باپ بن گیا، یہ نور کی انتہائی نوازش ہے۔

 

۱۰۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ (۱۶: ۱۲۰) بے شک ابراہیم (اپنے باطن میں) ایک فرمانبردار امت تھے بالکل ایک ہی طرف کے ہو رہے تھے۔ اس آیۂ کریمہ کی حکمت یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے عالمِ شخصی میں اوّلین و آخرین کی ارواح جمع تھیں، ان میں سے مقربین کی روحیں جناب ابراہیم کی “انا” بن چکی تھیں، اور اسی معنیٰ میں آپ ایک امت ہوگئے تھے، پس یہ نورانی رشتہ کا آخری درجہ ہے۔

 

۱۱۔ آپ قرآنِ پاک (۰۸: ۲۸، ۶۳: ۰۹) میں دیکھ سکتے ہیں کہ دنیوی مال و اولاد ایک فتنہ (آزمائش) اور یادِ الٰہی سے غافل بنانے کا باعث ہے، اگر ایسا ہے تو حضرت یعقوب علیہ السّلام اپنے فرزند یوسف علیہ السّلام کے لئے کیوں آنسو بہایا

 

۲۷

 

کرتے تھے؟ اس میں جسمانی رشتے کی بات نہیں، بلکہ نورانی رشتے کا قصّہ ہے، کیونکہ بحکمِ خدا امامت حضرت یعقوب سے حضرت یوسف میں منتقل ہوگئی تھی، لہٰذا آپ نورِ امامت کے دیدار کی خاطر گریہ و زاری کرتے تھے، پس نورِ امامت کی اس سے بڑھ کر اور کیا عظمت و شان ہو، کہ اگر امام عالی مقام کے باپ ہیں تو وہ بھی فخر سے سر اونچا نہیں کرتے، بلکہ عجز و انکساری کے ساتھ نورِ امامت کے سامنے جھک جاتے ہیں، جیسے حضرت یعقوبؑ نے یہ نمونہ پیش کیا (۱۲: ۱۰۰)۔

 

۱۲۔ خدا تعالیٰ اپنے حضورِ خاص سے ہر پیغمبر اور ہر امام پر ایک آسمانی محبت ڈالتا ہے، اگر کسی خوش بخت شخص کو رسول اور امامِ زمانؑ کی یہ محبت حاصل ہو گئی، تو نتیجے کے طور پر نورِ اقدس سے اس کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے، اس امر کی مثال قرآنِ کریم میں آسیہ زوجۂ فرعون ہے، کہ اس کے دل میں حضرت موسیٰؑ کی طرف سے حقیقی محبت کی بجلی چمک اٹھی تھی (۲۰: ۳۹) جس کی بدولت خدا تعالیٰ سے اس کو توفیق ملی کہ یہ دعا کرے: رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَكَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ (۶۶: ۱۱) اے میرے پروردگار میرے واسطے جنّت میں اپنے قرب میں مکان بنا دے۔

 

۱۳۔ جس طرح ابراہیم میں مقرب درجے کی بہت سی روحیں فنا ہو کر آپ کی “انا” ہو چکی تھیں (۱۶: ۱۲۰) اسی طرح أئمّۂ طاہرین کے نور میں حقیقی مومنین واصل ہو جاتے ہیں، اور اسی وصال میں ان کی بہشت اور روحانی سلطنت ہے، جیسا کہ بقولِ قرآنِ حضرت موسیٰؑ نے اپنے دور کے مومنین سے فرمایا: اور وہ وقت بھی قابلِ ذکر ہے جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کے انعام کو جو تم پر ہوا ہے یاد کرو، جب کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں بہت سے پیغمبر بنائے اور تم کو ملوک (بادشاہ، یعنی بہ نتیجۂ فنا أئمّہ) بنایا اور تم کو وہ چیزیں دیں جو اہلِ جہان میں کسی کو نہیں دیں (۰۵: ۲۰)۔

 

۲۸

 

۱۴۔ یہ اساسی قانون خوب یاد رہے کہ ہر قرآنی پیغمبر اپنی بہت سی صفات میں دوسرے تمام پیغمبروں اور اماموں کی نمائندگی کرتا ہے، چنانچہ حضرتِ عیسیٰؑ کا خدائی کلمہ ہونا (۰۳: ۴۵) اس حقیقت کی دلیل ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے وقت میں “کلمۂ خدا” یعنی اسمِ اعظم ہوا کرتا ہے، یہی امرِ واقعی حضرت عیسیٰ کے لقب “مسیح” میں بھی ہے، مسیح کے معنی ہیں ہاتھ پھیرنے والا، اس سے مراد یہ ہے کہ آپ بیماروں پر ہاتھ پھیرکر ان کو تندرست کر دیتے تھے، اس کی تاویل یہ ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے کوکبی بدن میں مومنین کے پاس پہنچ سکتا ہے، تا کہ ان کی روحانی بیماریوں کا علاج کیا جائے، تا کہ وہ نور سے واصل ہو جانے کے قابل ہو جائیں، اس کے لئے تقویٰ ، علم، اور کثیر ذکر و عبادت شرط ہے۔

 

۱۵۔ سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۴۶) اور سورۂ انعام (۰۶: ۲۰) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے کتاب دی تھی وہ رسول کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ حدودِ دین میں سے جو حضرات کتابِ سماوی کی روح و روحانیّت کا مشاہدہ و مطالعہ کرتے تھے، وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان کے عالمِ شخصی میں رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نورانی جنم ہوا ہے، اس معنیٰ میں آپ ان لوگوں کے بیٹے ہیں، اور وہ آسمانی کتاب جو نورانیّت میں ان کے سامنے ہے آنحضرتؐ کی ہے، اس مضمون سے ظاہر ہوا کہ نور نے لوگوں کو کئی طرح کے رشتوں سے منسلک کر لیا ہے۔

 

۱۶۔ اگر ہم قرآنِ حکیم کے لفظِ “بنی آدم” سے “آدم کی روحانی اولاد” مراد لیں، تو اس سے دو حقیقتیں روشن ہو جائیں گی، ایک یہ کہ اب تک حضرت آدم کی خلافت و دعوت کا نظام اپنی جگہ پر قائم ہے، اور یہ صرف سلسلۂ انبیاء و أئمّہ ہی کے توسط سے ممکن ہو گیا ہے، دوسری حقیقت یہ ہے کہ ہر زمانے میں آدم کا ایک

 

۲۹

 

جانشین ہوا کرتا ہے، جس کی روحانی نسبت سے مومنین بنی آدم کہلاتے ہیں۔

 

۱۷۔ سوال: آپ نے”تصورِ بنی آدم” کو جس طرح پیش کیا، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بنی آدم سب کے سب اہلِ سعادت ہیں، جن کو نجات کے علاوہ درجات بھی حاصل ہیں، لیکن ہم سورۂ یاسین (۳۶: ۶۰ تا ۶۲) میں دیکھتے ہیں کہ بنی آدم شیطان کی عبادت کرنے پر ماخوذ ہو جاتے ہیں، اور ان کو حکم دیا جاتا ہے کہ جہنم میں داخل ہو جاؤ، اس کے بارے میں آپ کیا وضاحت کریں گے؟

جواب: اس میں میری عرض یہ ہے کہ بنی آدم کا تصوّر جیسا پیش کیا گیا، وہ بالکل درست اور حقیقت ہے کہ اس میں انبیاء ، صدیقین، شہداء، صالحین، اور مطیعین (فرمانبردار لوگ) ہیں، یعنی پیغمبروں، اساسوں، اماموں، حجتوں، اور داعیوں کے ساتھ مومنین، ان درجات سے حسبِ مرتبہ عہد لیا جاتا ہے، چنانچہ شیطان کی عبادت نہ کرنے کا عہد سب سے نچلے درجے سے متعلق ہے، یاد رہے کہ کوئی کوئی شخص دیدہ و دانستہ شیطان کی عبادت نہیں کرتا، مگر وہ عبادت اس معنیٰ میں ہے کہ اہلِ ایمان میں سے کچھ لوگ ہادیٔ برحق کے مخالف (شیطان) کی باتوں کو مانتے ہیں، اور گمراہ ہو جاتے ہیں، اور یہی شیطان کی پرستش ہے۔

 

۱۸۔ سورۂ احزاب میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: نبی (نورانی رشتے میں) مومنوں کے ساتھ خود ان کے نفوس سے بھی قریب تر ہیں اور آپ کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں (۳۳: ۰۶) اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ مومنین کی “حقیقی انا” عالمِ علوی میں ہے، جس سے پیغمبرِ اکرم جیسے قریب ہیں، ایسی قریب ان کی اپنی جانیں بھی نہیں، کیونکہ آپ مومنوں کے روحانی باپ ہونے کی وجہ سے عالمِ بالا سے وابستہ ہیں، اور آنحضرتؐ کے حجّتان ان کی روحانی مائیں ہیں، جیسے رسولِ خدا نے اپنے حجّتِ اعظم (باب یعنی علیؑ) سے فرمایا: انا و انت یا علی ابو المومنین = اے علی

 

۳۰

 

میں اور آپ مومنین کے (روحانی) ماں باپ ہیں۔

 

۱۹۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ان علیا منی و انا منہ = تحقیق علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ یعنی علی کا نور مجھ سے ہے، اور میرا نور علی و أئمّۂ اولادِ علی کے سلسلے میں قائم و برقرار رہے گا۔

 

۲۰۔ سوال: قرآنِ حکیم (۰۴: ۰۱، ۰۶: ۹۸، ۰۷: ۱۸۹، ۳۹: ۰۶) میں ارشاد ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا، پھر اسی سے اس کا جوڑا (بیوی) بنایا۔ آپ ہمیں اس کا مطلب سمجھا دیں کہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ تنہا باپ سے سارے بال بچے پیدا ہو گئے، اور ان کی ماں بعد میں پیدا ہوئی؟

جواب: اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ بے شک سب سے پہلے ایک مرد کی پشت میں لاتعداد ذرّاتِ روح کی تخلیق ہوتی ہے، جس میں عورت کی کوئی شرکت نہیں، پھر اس مرد کی کوئی بیوی ہوتی ہے، اور بیوی ایک اعتبار سے اپنے شوہر سے پیدا ہو جاتی ہے، جبکہ اسے بیوی اور ماں ہونے کی جملہ صفات شوہر کی بدولت حاصل ہیں، یہ جسمانی تخلیق کے صرف مرحلۂ اوّل کی مثال ہے، اب اسی طرح روحانی تخلیق و تکمیل کے بارے میں سن لیجئے، کہ شروع شروع میں ناطق کی تنزیل سے مومنین کا ابتدائی وجود بن جاتا ہے، وہ اس وقت گویا پشتِ پدر میں ذرّیت ہوتے ہیں، مگر اولاد نہیں کہلا سکتے، کیونکہ وہ ہنوز بطنِ مادر میں منتقل نہیں ہوئے ہیں، پس بحکمِ: ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا (۳۹: ۰۶، پھر اسی سے اس کا جوڑا یعنی بیوی بنایا) ناطق کی روحانیّت و تعلیمات سے مرتبۂ اساس مکمل ہوگیا، اور مومنین ان کی تحویل میں آگئے تا کہ اساس کی تاویل سے ان کی آخری ہستی کی تکمیل ہو، یہ کامل سپردگی ایسی ہے، جیسے تخمِ انسانی جسمانی تخلیق و تکمیل کی غرض سے رحمِ مادر میں داخل ہو جاتا ہے، اس بیان سے یہ حقیقت کسی شک کے

 

۳۱

 

بغیر روشن ہوگئی کہ تخلیقِ انسانی، خواہ جسمانی ہو یا روحانی، دو مرحلوں میں مکمل ہوجاتی ہے، مرحلۂ اوّل باپ ہے، اور مرحلۂ دوم ماں، تاہم یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اس سلسلے میں ماں کا کردار بڑی اہمیّت کا حامل ہے۔

 

۲۱۔ سورۂ حج (۲۲: ۰۵) میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جنین (بچۂ بطنِ مادر) کو اللہ جتنا چاہے نام بردہ وقت تک ٹھہرائے رکھتا ہے۔ اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ بہت سے مومنین روحانی اعتبار سے ہنوز شکمِ مادر میں پڑے ہیں، یعنی ابھی ان کا روحانی جنم نہیں ہوا، آپ اس صورتِ حال کو خدا کی مرضی مانیں یا انسان کی غفلت و سستی بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے، مگر ہاں، وہ ہمیشہ کے لئے ماں کے پیٹ میں نہیں رہ سکتے، لہٰذا کسی نہ کسی دن وہ روحانی طور پر پیدا ہو جائیں گے۔

 

۲۲۔ قرآنِ کریم اپنی متعدد آیاتِ مقدّسہ میں اس قانونِ فطرت کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ ذاتِ خدا کے سوا جو کچھ بھی ہے، وہ جفت اور جوڑے کے بغیر نہیں، پھر اسلام میں، جو دینِ فطرت ہے، یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ دینی اور روحانی باپ ہو، اور ماں نہ ہو، حالانکہ قرآنِ حکیم میں جتنی مثالیں ہیں، وہ سب کی سب دین کی حقیقتِ حال سمجھانے کی خاطر ہیں، اس سے یہ حقیقت بدرجۂ انتہا یقینی ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اور امام صلوات اللہ علیہما ہمارے روحانی ماں باپ ہیں۔

 

۲۳۔ عالمِ شخصی میں عقل و جان (روح) آدم و حوّا کی مثال ہیں، یہاں حوّا سے حضرت آدمؑ کا باب یعنی حجّتِ اعظم مراد ہے، نیز عقل و روح ناطق اور اساس کی دلیل ہیں، چنانچہ اہلِ دانش جانتے ہیں کہ عقل سے روحِ مومن کی نشاۃِ ثانیہ ہو جاتی ہے، جس طرح حضرتِ آدمؑ کے علم سے آپ کا اساس (حجّتِ اعظم = باب) علمی طور پر پیدا ہوا ، اور جیسے آنحضرتؐ کی نورانی تعلیم سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اساس (علیؑ) کا مرتبہ مکمل ہوا، پس ان تینوں مقامات کی حقیقتیں قانونِ

 

۳۲

 

فطرت کے مطابق ایک جیسی ہیں۔

 

خانۂ حکمت ، ادارۂ عارف

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۸ جولائی ۱۹۸۵ء

نوٹ: تمام کتابوں اور مقالوں کے سلسلے میں ہر حوالۂ آیت کو قرآن میں دیکھئے، تا کہ مطالعہ زیادہ سے زیادہ مفید ہو سکے۔

 

۳۳

 

عالمِ خیال

 

۱۔ عالم کہتے ہیں دنیا، جہان، حالت کو، اور خیال کے معنی ہیں گمان، وہم، دل و دماغ میں کسی بیرونی چیز کی صورت، خواہ یہ صورت بیداری میں ہو یا خواب میں، کوئی غیر مادّی شکل، کسی شیٔ کا عکس جو آئینے میں نظر آتا ہے، ڈراوا، یعنی وہ چیز جس کو کھیت میں نصب کر دیتے ہیں، تا کہ چوپائے اور پرندے ڈر جائیں۔

 

۲۔ اس عالمِ ظاہر یا عالمِ کبیر میں جتنے انسان رہتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کا ایک عالمِ صغیر ہے، آپ اس کو عالمِ شخصی (ذاتی دنیا) بھی کہہ سکتے ہیں، اس

میں چار عوالم (دنیائیں) شامل ہیں، بیداری، خیال، خواب، اور روحانیّت، چنانچہ آج کا موضوع “عالمِ خیال” ہے، جہاں جہاں خیال کے بارے میں جزوی طور پر لکھا گیا ہے، وہاں آپ کو بخوبی اندازہ ہوا ہوگا کہ خیال کے باب میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے، کیونکہ شروع شروع میں انسان کے پاس کوئی ایسا نمونہ یا ایسی مثال موجود نہیں ہوتی، کہ وہ اس کی مدد سے روحانیّت اور آخرت کی کچھ حالت و کیفیّت کو سمجھ سکے، مگر اس مقصد کے لئے دو بہترین عملی مثالیں ہیں، جو خیال اور خواب ہیں، خیال اور خواب ایک ہی دریا کے دو نام ہیں، مگر اس میں ضرور یہ نمایان فرق ہے، کہ خیال میں آپ کو اختیار حاصل ہے، لہٰذا آپ اپنی مرضی اور مہارت کے مطابق تیراکی اور غوطہ زنی کا لطف اٹھا سکتے ہیں، اگر یہ غواصی موتی نکالنے کی غرض سے

 

۳۴

 

ہے، تو اور بھی قابلِ تعریف ہے، اس کے برعکس آدمی بحالتِ خواب یا تو اس پانی میں ڈوب جاتا ہے یا دریا کا بہاؤ اسے کہیں دور لے جاتا ہے، کیونکہ وہ مجبور ہے، آپ اس میں خوب غور و فکر کریں۔

 

۳۔ مشرق و مغرب کے بہت سے علمی حلقوں میں طرح طرح کے سوالات اور خدا کے فضل سے ان کے تسلی بخش جوابات ہوگئے، ان میں ایک سوال ایسا بھی تھا، جو ہر جگہ اور ہر بار ایک جیسا اور مشترک رہتا تھا، وہ سوال تھا کہ: “ذکر و عبادت کے دوران پیش آنے والے برے خیالات سے کس طرح چھٹکارا حاصل ہو سکتا ہے؟” اس کا تفصیلی جواب تو کتاب “ذکرِ الٰہی” کی صورت میں دیا گیا ہے، تاہم عالمِ خیال کی زبردست اہمیّت اپنی جگہ پر ہے، کیونکہ جب علم و عمل میں کسی دیندار کی واجبی ترقی ہوتی ہے، تو اس وقت “عالمِ خیال” رفتہ رفتہ عالمِ  روحانیّت بن جاتا ہے، صرف یہی نہیں، بلکہ اسی کے ساتھ ساتھ خواب کی کیفیّت بھی ایک روحانی حالت ہو جاتی ہے۔

 

۴۔ شیطان جو مومن کا دشمن ہے، وہ عالمِ شخصی کے مضبوط قلعے میں از خود داخل نہیں ہو سکتا، مگر اس کا ایک جاسوس اس حصار کے اندر موجود ہے، جو بعض دفعہ دشمن کو اندر لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، ورنہ گویا ایک قسم کی وائرلیس (WIRELESS) پر اس سے رابطہ رکھتے ہوئے نمائندگی کرتا ہے، شیطان کے اس جاسوسِ جہان سوز اور خطرناک نمائندے کو تو سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ نفسِ امّارہ ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم نے اس کو اور اس کے وسوسوں کو بے نقاب کر دیا ہے (۵۰: ۱۶) لیکن ایک معمولی کوشش سے اس کو پامال نہیں کیا جا سکتا، یا شکست نہیں دی جا سکتی، جب تک کہ اس کے خلاف “جہادِ اکبر” نہ کیا جائے، تا کہ اس کی شکست خوردگی پر برے خیالات کاخاتمہ ہو، اور پھر روشن خیالی کا

 

۳۵

 

دور دورہ ہو جائے۔

 

۵۔ قلم اور لوح دو انتہائی عظیم فرشتے ہیں، ان کے بعد تین بڑے فرشتوں کے نام یہ ہیں: جدّ (عظمت و بزرگی = اسرافیل)، فتح (کشائش= میکائیل)، اور خیال (یعنی نورِ خیال = جبرائیل) اگرچہ فرشتہ اپنے مختلف ظہورات میں محدود و مرکوز بھی ہوسکتا ہے، اور ظاہراً و باطناً مجسّم و مشکّل بھی ہو سکتا ہے، لیکن وہ دراصل ایک بسیط جوہر ہے، جیسے جبرائیل کے اس نام سے ظاہر ہے کہ وہ “نورِ خیال” ہے، یعنی وہ روشنی جو عالمِ انسانیّت کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے، مگر انسان کی نافرمانی اس کا پردہ ہے، اور اگر یہ تصوّر نہ ہو، تو ایک اندھیرا گھپ خیال جبرائیل کا اسمِ صفت نہیں ہوسکتا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر دنیا بھر کے لوگ ایک ساتھ مشاہدۂ نورِ خیال کے قابل ہوسکتے، تو خدا کے حکم سے جبرائیل بآسانی سب کے دل و دماغ کو منوّر کر دیتا، بغیر اس کے کہ وہ کہیں سے آئے اور کہیں جائے، جبکہ وہ بسیط اور ہمہ جا ہے۔

 

۶۔ قرآنِ پاک دعوتِ حق کے سلسلے میں جہاں لوگوں کو توحید کی تعلیم دیتا ہے، وہاں وہ بڑی سختی سے ہرگونہ بت پرستی کی مذمت بھی کرتا ہے، چونکہ اصنام باعتبارِ ظاہر و باطن دو قسم کے ہوا کرتے ہیں، لہٰذا صنم (بت) پرست بھی دو طرح کے ہوتے ہیں، ان میں ایک گروہ وہ ہے، جس کا ظاہر میں کوئی منظم مندر (بت خانہ) ہوتا ہے، اور دوسرا وہ فرقہ ہوتا ہے، جس کے خیالات ہی میں جگہ جگہ بت پائے جاتے ہیں، یہ واقعہ شعوری طور پر بھی ہو سکتا ہے، اور غیر شعوری طور پر بھی، جیسا کہ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۳۸) میں ارشاد ہوا ہے، جس کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ: جب اللہ نے بنی اسرائیل کے اہلِ روحانیّت کو عالمِ خیال میں ذرّاتِ روح کے طوفانی دریا سے پار اتار دیا، تو انہوں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جو خیالی اصنام کی پرستش میں لگے ہوئے تھے، وہ یہ سمجھنے لگے کہ شاید ہمیں اسی روحانی منزل میں ٹھہرنا ہے، مگر حضرت موسیٰ علیہ السّلام

 

۳۶

 

نے ان کو آگاہ کیا کہ یہ خیالی اور باطنی بت پرستی ہے۔

 

۷۔ قرآنِ حکیم سرچشمۂ حکمت اور قانونِ جمعیّت ہے، چنانچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی ہر ایک آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، اور یہ حقیقت سردارِ رسل صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادِ گرامی ہی سے ثابت ہے، پس یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآنِ پاک میں جہاں جہاں بت پرستی کی مذمت کی گئی ہے، اس میں ظاہری و باطنی دونوں قسم کے بتوں کی مذمت ہے، اس کی ایک قابلِ فہم مثال سورۂ انبیاء (۲۱: ۵۲ تا ۶۷) میں موجود ہے، جہاں اصنام کو تماثیل کہا گیا ہے، جس کی واحد تمثال ہے، جو مورت، مجسّمہ، اور تصویر کو کہتے ہیں، اس کا تاویلی واقعہ یوں ہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی دعوتِ توحید سے پہلے لوگوں کی روحانی ترقی صرف اتنی ہو سکی تھی کہ ان کے خیال کی روشنی میں طرح طرح کی تصویریں نظر آتی تھیں، اور روحانیّت سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی اس پیش رفت سے مطمئن تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے جنابِ ابراہیم کو بمرتبۂ موحدِ اعظم روحانی انقلاب لا کر لوگوں کو وحدانیّت سے قریب ترکر دینے کے لئے بھیجا تھا، لہٰذا آپ نے عالمِ خیال کے سب سے بڑے صنم کو چھوڑ کر باقی تمام اصنام کو توڑ پھوڑ کے رکھا، اور اس عمل میں بہت سی حکمتیں جمع تھیں۔

 

۸۔ آپ کو اس بات سے شاید بڑی حیرت ہوئی ہوگی کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے لوگوں کے دل و دماغ میں یہ کیسے تصرّف اور معجزہ کیا کہ آپ نے ظاہراً و باطناً بڑے بت کے ماسوا بتوں کو توڑ دیا، لیکن آپ کی یہ حیرت اس وقت ختم ہو جائے گی، جبکہ آپ قرآنِ حکیم کی روشنی میں فرشتہ، جنّ، شیطان، وغیرہ کے ان عجیب و غریب کاموں کے بارے میں خوب سوچ لیں گے، جو انسان کے باطن میں انجام دیتے ہیں، حالانکہ یہ سب انبیاء علیہم السّلام کے خادم ہیں، چنانچہ

 

۳۷

 

اس امرِ واقعی کی چند قرآنی مثالیں درجِ ذیل ہیں:

 

۹۔ مثالِ اوّل: فرشتے: تمام مخلوقاتِ جسمانی و روحانی پر خلیفۂ خدا (یعنی ہر پیغمبر اور ہر امام) کی فوقیّت و برتری اور کرامت و فضیلت کا روشن ثبوت اس طرح ہے:

الف: انسانِ کامل کی روحانی اور عقلی تخلیق و تکمیل اللہ احسن الخالقین (۲۳: ۱۴) کے دونوں ہاتھوں سے انجام پاتی ہے (۳۸: ۷۵) اور یہ سب سے بڑی فضیلت کسی دوسری مخلوق کو نصیب نہیں۔

ب: سب فرشتے بصورتِ ذرّات سجدہ کرتے ہوئے خلیفۂ خدا کی پاکیزہ شخصیّت میں داخل ہو گئے، جبرائیل، میکائیل، اسرافیل، اور عزرائیل نے اپنے اپنے لشکر کے ساتھ متعلقہ خدمات انجام دیں۔

ج: جس نے اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر سجدۂ آدم سے انکار کیا، وہ شیطانِ رجیم کہلایا۔

 

۱۰۔ مثالِ دوم: جنّات: سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۲) پیشِ نظر ہو، عالمِ خیال (روحانیّت) میں حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی روحانی سلطنت تھی، اور اس میں خدا تعالیٰ کے حکم سے جنّات گوناگون خدمات بجا لاتے تھے، جیسے غور و فکر کے سمندر میں غوطہ لگا کر علم و حکمت کے موتیوں کو نکالنا، سورۂ نمل (۲۷: ۳۹) میں دیکھئے، کہ حضرت سلیمان کے حکم کرنے پر ایک زبردست طاقتور جنّ کس طرح ملکۂ سبا کے تخت یعنی لطیف شخصیّت کو حاضر کر دیتا ہے، یہ تخت دو دفعہ لایا گیا تھا، سورۂ سبا (۳۴: ۱۲ تا ۱۳) کے ارشاد کے مطابق جنّوں کا ایک بڑا اہم کام یہ بھی تھا، کہ وہ بادشاہ (سلیمان) کے نظارۂ عالمِ خیال کے لئے تماثیل (تصویریں، ۳۴: ۱۳) بنا دیا کریں، علاوہ برین آپ کے لئے اور بھی بہت سی چیزیں بنائی جاتی تھیں، اس بیان سے

 

۳۸

 

یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ عالمِ خیال دراصل ذاتی دنیا (عالمِ شخصی) کی روحانی سلطنت کا نام ہے، جس میں قانونِ قدرت کے مطابق خیر و شر کی تمام طاقتیں عمل پیرا ہیں۔

 

۱۱۔ مثالِ سوم: شیاطین: آپ ہمیشہ کے لئے یہ کلیدی حکمت یاد رکھیں، کہ خدائے علیم و حکیم نے خیر کو مستقل اور شر کو عارضی بنا کر دونوں کے مقابلے میں پلۂ خیر کو بھاری رکھا ہے، ورنہ حق و باطل کے درمیان کبھی کوئی فیصلہ ہی نہ ہوسکتا، ہاں یہ سچ ہے، کیونکہ باطل ختم ہو جانے والا ہے (۲۱: ۱۸، ۱۷: ۸۱)، شیطان کو ایک مہلت دی گئی ہے (۰۷: ۱۵، ۱۵: ۳۷، ۳۸: ۸۰) حزب الشّیطان پر حزب اللہ غالب آنے والا ہے (۵۸: ۱۹ تا ۲۱) پھر اس کی منطق یقیناً یہی بنتی ہے کہ اللہ جلّ شانہ نے مضل (شیطان) کے مقابلے میں ہادیٔ برحق کو زیادہ قدرت دے رکھی ہے، اگر آپ کے نزدیک یہ بات بالکل درست اور حقیقت ہے تو پھر قرآنی حکمت کی روشنی میں یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ شیطان لوگوں کو گمراہ کرنے کی غرض سے کیا کیا کر سکتا ہے، اور ایسی حکمت آگین آیات میں جو “تقابلی اشارے” پوشیدہ ہیں، وہ ہادیٔ برحق کے بارے میں کیا کہتے ہیں، مثال کے طور پر: شیطان اور اس کے ساتھی تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے (۰۷: ۲۷) اس میں بڑا حکیمانہ اشارہ بھی ہے اور تمام لوگوں کی آزمائش بھی، کہ اگر مضل اسی طرح دیکھتا ہے تو کیا نورِ ہدایت نہیں دیکھ سکتا؟ اگر باطل کی صوت یعنی شیطان کی آواز ظاہر و باطن میں سنائی دیتی ہے (۱۷: ۶۴) تو اس رمز کا مطلب یہ ہوا کہ حق (یعنی ہادی) کی آواز بھی قلوبِ مومنین میں گونج سکتی ہے، قرآنِ پاک فرماتا ہے کہ شیطان لباسِ لطیف میں کسی کے پاس حاضر بھی ہو سکتا ہے (۲۳: ۹۸) یہ بھی ہم سب سے ایک بہت بڑا عرفانی یا اعتقادی امتحان ہے ، گویا پوچھا جاتا ہے: “اس بارے میں تمہارا کیا خیال

 

۳۹

 

ہے؟ آیا امامِ عالی مقام کے پاس کوئی پیراہنِ یوسفی (قرطۂ سماوی) نہیں ہے؟” یقیناً امامِ اقدس و اطہر صلوات اللہ علیہ کے پاس سب کچھ ہے۔

 

۱۲۔ مثالِ چہارم: کائنات: قرآنِ حکیم کی متعدد آیات میں فرمایا گیا ہے کہ خدائے قادرِ مطلق نے آسمانوں اور زمین کی جملہ اشیاء تمہارے لئے مسخر کر دی ہیں، جیسے سورۂ جاثیہ (۴۵: ۱۳) میں ارشاد ہوا ہے، اللہ تعالیٰ کا یہ احسانِ عظیم کس طرح ہے یا ہوگا، اس کو سمجھنے کے لئے حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی مثال کو دیکھنا ضروری ہے، چنانچہ آپ اس مقالے کی مدد سے قرآنِ پاک میں دیکھ سکتے ہیں کہ شیاطین دنیا میں شر پھیلانے کی غرض سے کیا کچھ نہیں کرتے، لیکن خیر کی طاقت ایسی زبردست ہے کہ وہ آخرکار انسانِ کامل کے خدمت گزار بن جاتے ہیں، جیسا کہ قصّۂ سلیمان میں ہے (۲۱: ۸۲، ۳۸: ۳۷) کہ شیاطینِ انسی و جنّی دونوں حضرت سلیمان کے کاموں میں لگے ہوئے تھے، پس عالمِ خیال تمام کائنات و موجودات کی اس روحانی صورت کا نام ہے، جو عالمِ شخصی میں نظر آتی ہے، جس میں سلیمانِ زمان کی سلطنتِ روحانی قائم ہو جاتی ہے، اب ان مثالوں کی روشنی میں آپ یقین کریں گے کہ زمانے کا معلمِ توحید (امامِ وقت) جو خدا و رسول کی طرف سے مقرر ہے، وہ ظاہری اور باطنی بتوں کو توڑ سکتا ہے، جس طرح حضرت ابراہیمؑ نے اپنے وقت میں توڑا تھا، کیونکہ توحید اور خدا شناسی دین کی جان و جوہر ہے، اور اگر اس کے بغیر دین ہے تو وہ شرک ہے، و ما توفیقی الا باللہ۔

 

خانۂ حکمت، ادارۂ عارف

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۱۷ جولائی ۱۹۸۵ء

 

۴۰

 

عبادت کا آفاق گیر تصوّر

 

۱۔ عبد کہتے ہیں انسان، غلام، خادم کو، اور عبادت کے معنی ہیں اللہ کو ایک جاننا، پرستش کرنا، غلامی کرنا، خدمت کرنا، ذلیل ہونا، خشوع و خضوع کرنا، لفظِ عبد اور عبادت کی یہ لغوی وضاحت مستند کتبِ لغت کے مطابق ہے، اور اس تجزیہ و تحلیل میں سب سے پہلے جو کہا گیا ہے: “اللہ کو ایک جاننا” اس میں بڑی اہمیّت کے ساتھ خدا شناسی اور معرفت کا واضح اشارہ موجود ہے، کیونکہ خدا تعالیٰ کی توحید کا زبانی و ظاہری اقرار و عقیدہ اگرچہ آسان ہے، لیکن اس کی قلبی اور باطنی تصدیق بڑی دشوار چیز ہے، بلکہ ایک اعتبار سے یہ غیر ممکن ہے، لہٰذا پروردگارِ عالم نے وسیلۂ معرفت کو پیدا کیا، تا کہ اس کی مدد سے وحدانیّت کی شناخت اور قلبی و روحانی کیفیّت میں تصدیق ہو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں معبودِ برحق کی عبادت کا ذکر موجود ہے، وہاں لازمی طور پر خدا شناسی کا بھی اشارہ فرمایا گیا ہے، کیونکہ خدائے واحد کی مقبول عبادت کا نمونہ صرف انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی ذاتِ عالی صفات میں پایا جاتا ہے، چنانچہ پیغمبرانہ عبادت اور اولیائی عبادت کی یہ شان ہے کہ وہ درجۂ اوّل کی عارفانہ عبادت قرار پاتی ہے، تاکہ مسلمین و مومنین ان ہادیانِ راہِ راست کے نقشِ قدم پر چل کر کامیاب ہو جائیں۔

 

۲۔ جب ہم عبادت کے دائرۂ خاص کی حدود سے گزر کر اس کی عمومیت پر

 

۴۱

 

نظر ڈالتے ہیں تو کائنات و موجودات کی ہر چیز اور ہر مخلوق ایک غیر شعوری عبادت یا اس کے کسی جزو سے وابستہ نظر آتی ہے، کیونکہ آسمان و زمین کی کوئی شیٔ خدا کی اس غلامی کے بغیر، جس کے لئے یہ پیدا کی گئی ہے، اپنے وجود کو قائم و برقرار نہیں رکھ سکتی، اسی طرح عبادت یعنی اللہ تعالیٰ کی غلامی کا تصوّر عالمگیر ہو جاتا ہے۔

 

۳۔ قرآنِ حکیم کا پاک و پاکیزہ ارشاد ہے: اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ کہ آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ زبردست (اور) حکمت والا ہے (۵۷: ۰۱، ۵۹: ۰۱، ۶۱: ۰۱) یعنی اس وسیع و عریض کائنات کی ہر چیز اور ہر مخلوق زبانِ قال سے یا زبانِ حال سے خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتی رہتی ہے، اور اس سلسلے میں یہ ارشاد بھی ہے: اور کوئی چیز ایسی نہیں جو حمد کے ساتھ اس کی پاکی (قالاً یا حالاً) بیان نہ کرتی ہو لیکن تم لوگ ان کی پاکی بیان کرنے کو سمجھتے نہیں ہو (۱۷: ۴۴) پس یہ حکمِ خداوند ایک ایسا کلّیہ ہے کہ اس سے کوئی چیز مستثنا نہیں ہوسکتی، لہٰذا کائنات و مخلوقات کی کسی چیز کی طرف انگلی اٹھا کر نہیں کہا جا سکتا کہ فلان شیٔ یا مخلوق خدا کی تسبیح نہیں کرتی ہے۔

 

۴۔ سورۂ نور کے رکوعِ ششم (۲۴: ۴۱) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: کیا تم کو معلوم نہیں ہوا کہ اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ کہ آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور پرندے جو پر پھیلائے ہوئے (اڑتے پھرتے) ہیں سب کو اپنی اپنی نماز اور تسبیح معلوم ہے (۲۴: ۴۱) آپ چاہیں تو اپنے طور پر بھی غور کرسکتے ہیں کہ جملہ مخلوقات کی یہ نماز و تسبیح، جس میں آسمان و زمین کی ہر شیٔ شامل ہے، خاص نہیں بلکہ عام ہے، کیونکہ زبانِ قال سے نہیں، اور نہ شعوری طور پر ہے، یہ تو زبانِ حال کی غیر شعوری طاعت ہے، مثال کے طور پر سورج، چاند، ستارے، جمادات، نباتات، اور حیوانات جس خدمت و بندگی کو کرتے رہتے ہیں، وہ ان کا فطری

 

۴۲

 

فعل ہے، جو دنیائے ظاہر کے نظام کو قائم رکھنے کے لئے بہت ضروری ہے، مگر چونکہ اس میں شعور، اختیار، اور معرفت نہیں، اس لئے ان کو کوئی ثواب و صلہ نہیں، اور نہ ان پر کوئی عتاب و عذاب ہے۔

 

۵۔ آسمانوں اور زمین کی ساری مخلوقات جس طرح اللہ تعالیٰ کی تسبیح یعنی پاکی بیان کرتی ہیں، وہ باعتبارِ غیر ذوی العقول (ان موجودات کے پیشِ نظر، جن کی عقل نہیں) تسخیری تسبیح ہے، عقل والی مخلوق کی طرح ارادہ و اختیار سے نہیں، لہٰذا وہ زبانِ حال سے کہتی ہیں کہ خدا اس بات سے پاک و منزہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی طرح ہو، جیسے اس قرآنی تعلیم میں یہ پُرحکمت اشارہ ہے کہ: “پرندے اپنی پرواز کے فعل سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں (۲۴: ۴۱)۔” یعنی وہ اپنے اس عمل کی زبانی یہ کہہ رہے کہ اللہ جلّ شانہ اڑنے اور آنے جانے سے پاک و برتر ہے، اور اسی طرح ہر مخلوق اپنی صفت سے خالقِ یکتا کو پاک و برتر قرار دیتی ہے، اور یہ صرف زبانِ حال کی تسبیح ہے۔

 

۶۔ ارشاد ہے: كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِیْحَهٗؕ (۲۴: ۴۱) سب کو اپنی اپنی نماز اور تسبیح معلوم ہے۔ تسبیح کے بارے میں اوپر عرض کی گئی، اب صلاۃ /صلوٰۃ کے باب میں گزارش یہ ہے کہ اس کے کئی معنوں میں سے یہاں پیروی مراد ہے، یعنی کسی کے پیچھے چلنا، اس کی مثال یہ ہے کہ عربی میں “سابق” اس گھوڑے کو کہا جاتا ہے جو دوڑ میں آگے ہوتا ہے، اور “مصل” اس گھوڑے کو کہتے ہیں، جو بالکل سابق کے پیچھے ہوتا ہے چنانچہ یہ معنی درست ہیں کہ اس کائنات کی ہر چیز قانونِ قدرت اور نظامِ فطرت کی پیروی کرتی ہے، اور یہی اس کی صلاۃ (نماز) ہے۔

 

۷۔ اب اس عالمگیر عبادت کے سلسلے میں، جس سے ہرہر مخلوق فطری طور

 

۴۳

 

پر وابستہ ہے، سجود کا ذکر کرنا ہے، کہ سجود کے اصل معنی اطاعت و فرمانبرداری کے ہیں، چنانچہ سر جھکانا، عاجزی، فروتنی، اور خاکساری کرنا یہ سب مطیع و فرمانبردار ہونے کی علامتیں ہیں، یہاں قصّۂ آدم کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السّلام کو کس طرح سجدہ کیا؟ آیا ملائکہ روح ہوتے ہیں یا جسم؟ اگر آپ ملائک کو روحانی مانتے ہیں، تو بتائیے کہ انہوں نے کس طریقے سے جسمانیوں کی طرح سجدہ کیا؟ پس یاد رہے کہ وہ فرشتے، جنہوں نے حضرت آدمؑ کو سجدہ کیا ذرّاتِ لطیف کی صورت میں تھے، اور ان کے سجدہ کرنے کی کیفیّت یہ تھی کہ وہ خلیفۂ خدا کی پاک ہستی میں اطاعت (فرمانبرداری) کے لئے جا گرتے تھے، جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے: فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) اس کی تنزیل یہ ہے: سو میں جب اس کو پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح ڈال دوں تو تم سب اس کے لئے سجدے میں گر پڑنا۔ اور اس کی تاویلی حکمت یہ ہے: پس میں جب اس کو روحانی طور پر مکمل کر چکوں اور اس میں اپنا نور رکھ دوں تو تم سب اس کے عالمِ شخصی میں اطاعت کرتے ہوئے گر جانا، وقوع (گرنا) سے قعوا (گرو) کا صیغۂ امر ہے، اور اس میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

۸۔ سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) سے ظاہر ہے کہ مخلوقاتِ سماوی و ارضی سب کی سب خوشی سے اور مجبوری سے خدا کے لئے سجدہ کرتی ہیں، اور ان کے سائے بھی صبح و شام سجدہ کرتے ہیں، اس ربّانی تعلیم سے معلوم ہوا کہ سجدہ جو دراصل اطاعت ہے، وہ دو قسم کی ہوتی ہے، ایک خوشی سے ہے، اور دوسری مجبوری سے، خوشی کی اطاعت فرشتے اور مومنین کرتے ہیں، جس میں ارادہ، اختیار اور عرفان ہوتا ہے، اور ان کے سوا جو بھی ہیں، وہ مجبوری کی اطاعت کر رہے ہیں، جس کی مثال یہاں خود

 

۴۴

 

آدمی کے سائے سے دی گئی ہے، کہ جہاں وہ مجبوراً سجدہ یا اطاعت کر رہا ہے، وہاں اس کا اپنا کوئی مستقل وجود نہیں، وہ قیام و بقا کے لئے دوسروں کا محتاج ہے، صبح اس کا عارضی وجود بن جاتا ہے، اور شام کے وقت مٹ جاتا ہے، چونکہ اس کا یہ سجدہ مجبوری سے ہے، لہٰذا اس سے سائے کو کوئی فائدہ نہیں۔

 

۹۔ سورۂ نحل (۱۶: ۴۸ تا ۴۹) میں دیکھئے کہ ہر مخلوق کے سائے ہوا کرتے ہیں، اور وہ کس طرح ذلت کے ساتھ سجودِ تسخیری کی مثال پیش کرتے رہتے ہیں، کہ سایہ میں کوئی ذاتی حرکت نہیں، کیونکہ اس میں جان، عقل، ارادہ، اور اختیار نہیں، جس کی وجہ سے وہ کبھی اس طرف اور کبھی اس طرف گرتا پڑتا رہتا ہے، اس کا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے، جن کو قرآنِ حکیم نے: “اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍۚ (۱۶: ۲۱، مردے ہیں زندہ نہیں)۔” کہا ہے، آسمان زمین کی تمام چیزیں اللہ کے لئے سجدۂ اطاعت کرتی ہیں، مگر ان میں جو بے جان ہیں، وہ تو سائے کی طرح ہیں ہی، علاوہ برین ایسے لوگ بھی سایوں میں شمار ہوتے ہیں، جو روح الایمان سے خالی ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم نے سجدہ کے موضوع میں سایہ کے تسخیری سجود کی طرف توجّہ دلائی ہے، اس ارشاد میں فرشتوں کے سجود کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے، کہ ان کا سجدۂ اطاعت عاجزی اور خوفِ خدا سے معمور و پُرنور ہے۔

 

۱۰۔ جب ہم اس سلسلے میں سورۂ حج (۲۲: ۱۸) میں دیکھتے ہیں تو اس موضوع پر اور زیادہ روشنی پڑتی ہے، اس ارشاد کا ترجمہ یہ ہے: کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے لئے سجدہ کرتے ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان، اور بہت سے ایسے ہیں جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں (۲۲: ۱۸) اس بابرکت اور پُرحکمت آسمانی تعلیم میں پانچ درجات کی مخلوقات کے سجدہ کرنے کا ذکر فرمایا گیا ہے:

 

۴۵

 

جمادات، نباتات، حیوانات، انسان، اور فرشتے، ان میں سے کسی کو آزمانا نہیں تھا، مگر صرف انسان ہی سے امتحان لینا مقصود تھا، چنانچہ انبیاء علیہم السّلام کے توسط سے لوگوں سے فرمایا گیا کہ دین کو قبول کرو، اور کسی قسم کے شرک کے بغیر یعنی خدا شناسی اور معرفت کی روشنی میں معبودِ برحق کے حضور میں سر جھکایا کرو، چنانچہ اس دعوتِ حق کے نتیجے میں بہت سے لوگوں نے سجدۂ اختیاری کیا، مگر ان میں سے کثیر لوگوں کی عبادت معرفت نہ ہونے کی وجہ سے مشرکانہ تھی، اس لئے وہ عذابِ الٰہی میں گرفتار ہو گئے، اسی طرح بہت تھوڑے تھے، جن کو نجات ملی۔

 

۱۱۔ حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی ذاتِ عالی صفات میں آسمان و زمین کی جملہ مخلوقات بصورتِ عالمِ ذرّ سمائی ہوئی ہوتی ہیں، جہاں صورِ اسرافیل کی گونج سے ہم آہنگ ہو کر ہر شیٔ خدا کی تسبیح کرتی رہتی ہے، اور اس حقیقت کی قرآنی مثال حضرت داؤد علیہ السّلام کا قصّہ ہے (۲۱: ۷۹، ۳۸: ۱۸) جس میں ذرّاتِ جمادات کو پہاڑ، اور نباتات، حیوانات، انسانوں، اور فرشتوں کے ذرّات کو پرندے کہا گیا ہے، قرآنِ حکیم کی ایک خصوصی تعلیم یہ بھی ہے کہ ہر چیز خدا کے حکم سے بولتی ہے (۴۱: ۲۱) خواہ وہ پتھر ہی کیوں نہ ہو، اور ایسی جگہ جہاں ہر بے جان کو جان اور ہر بے زبان کو زبان ملتی ہے، عالمِ ذرّ ہے، لیکن کسی کو یہ خیال نہ ہو کہ اس دنیا کی ہر چیز کا عالمِ ذرّ میں ہونا ہی اس کی نجات ہے، یہ بات درست نہیں، اس واقعہ کو سمجھانے کے لئے ایک عمدہ مثال پیش کی جاتی ہے، وہ یہ کہ ایک عظیم بادشاہ باغ و چمن وغیرہ کے دلکش مناظر کی فلم اتار کر اپنے محل میں لے جاتا ہے، اب سوال یہ کرنا ہے کہ آیا اسی کے ساتھ مذکورہ مادّی چیزیں اپنی جگہ سے ہٹ کر بادشاہ کے محل میں داخل ہوسکتی ہیں؟ درختوں، پھولوں، اور پرندوں کو اس عمل سے کیا لذّت و شادمانی حاصل ہو سکتی ہے کہ ان کی زندہ تصویریں شاہی محل میں ہیں؟

 

۴۶

 

ہاں اگر ان میں عقل و معرفت ہوتی تو یقیناً سب کچھ ہوتا۔

 

۱۲۔ عالمِ ذرّ میں ساری مخلوقات کی تسبیحات و عبادات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے، کیونکہ وہ عالمِ وحدت سے قریب تر ہے، لیکن عالمِ کثرت یعنی دنیائے ظاہر کا معاملہ اس کے برعکس ہے، کیونکہ یہاں عبادت کے مدارج و مراحل ہیں، اور مخلوقات درجات پر ہیں، چنانچہ سب سے بلند ترین عبادت انبیاء و أئمّہ صلوات اللہ علیہم کی ہوتی ہے، کہ ان کی بندگی میں ارواح و ملائکہ ہم نوا ہوتے ہیں، ان حضرات کے بعد مومنین و مسلمین کی بندگی کے کئی درجات ہیں، پھر اہلِ کتاب کی عبادت ہے، پھر دوسرے ادیان والوں کی عبادت ہے، پھر ان لوگوں کی عبادت ہے، جن کا کوئی دین نہیں، پھر جانوروں کی عبادت ہے، پھر نباتات یعنی درختوں وغیرہ کی عبادت ہے، اور سب سے نیچے جمادات کی عبادت ہے، یہ ہے “عبادت کا آفاق گیر تصور” جس کی وضاحت قرآنِ پاک کی روشنی میں کی گئی۔ الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ۔

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

 

خادمِ مسئول

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۵ جولائی ۱۹۸۵ء

 

۴۷

 

اسلام کا باطنی پہلو

 

۱۔ اسلام جو دینِ فطرت اور دینِ قیم (قائم، ۳۰: ۳۰) ہے، وہ حضرت محمد مصطفیٰ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دین ہے، جو سنت و قانون کے معنی میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا دین ہے، اسی کا نام صراطِ مستقیم یعنی راہِ راست ہے، اور اسی کی طرف جملہ انبیاء علیہم السّلام نے لوگوں کو بلایا، اور اس مقدّس و پُرحکمت دعوت کا مرکز سرورِ انبیاء صلعم کا وجودِ مبارک تھا۔

 

۲۔ سورۂ مومنون (۲۳) کی آیت ۵۱ تا ۵۳ (۲۳: ۵۱ تا ۵۳) کا ذرا غور سے مطالعہ کیجئے، تا کہ یہ حقیقت آپ پر روشن ہو کہ قرآنِ پاک کی اس حکیمانہ تعلیم میں کس طرح رفعِ زمان کرکے (یعنی زمانے کو اٹھا کر) تمام پیغمبروں کو یکجا کیا گیا ہے، جیسے وہ سب حضرات ہم عصر و ہم زمانہ ہوں، پھر ان سب سے ایک ساتھ فرمایا جاتا ہے کہ: اے پیغمبرو تم پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو (۲۳: ۵۱) چنانچہ جاننا چاہئے کہ اس ربّانی ارشاد میں “طیبٰت” کا بابرکت لفظ آیا ہے، جس کے ظاہری معنی ہیں پاکیزہ چیزیں، اور باطنی معنی ہیں پاکیزہ علم، یعنی وہ علم جو براہِ راست ملتا رہتا ہے، جو ہمیشہ عقل و جان کی غذا کا کام کرتا ہے، کیونکہ جب مقصودِ خدا عملِ صالح ہے، تو اس کا اصل سہارا روحانی علم سے ملتا ہے، نہ کہ عمدہ عمدہ چیزیں کھانے سے، لہٰذا پروردگارِ عزت نے ہر زمانے میں نورِ علم کے سرچشمے کو اس دنیا میں جاری کیا، اور تمام امتوں

 

۴۸

 

کو ایک بڑی امت قرار دیا (۲۳: ۵۲) جس میں مومنینِ اوّلین و آخرین آپس میں بھائی بھائی ہیں، اور جملہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اس دینی اور روحانی وحدت و سالمیّت میں نفسِ واحدہ یعنی ایک شخص کی طرح ہیں۔

 

۳۔ اس بیان سے یہ مطلب واضح اور روشن ہوگیا کہ دینِ حق فی الاصل ایک ہی ہے، اور وہ اسلام ہے، جو دینِ فطرت ہے، جس پر سارے پیغمبروں نے اپنے اپنے وقت کے مطابق عمل کیا، کیونکہ یہ امر ممکن ہی نہ تھا کہ رسولوں کے لئے الگ الگ ادیان مقرر کئے جائیں، جبکہ خدائے واحد کی سنت کے مطابق ایک ہی دینِ فطرت تھا، اور حضراتِ انبیاء علیہم السّلام اسی دینِ یگانہ پر یکجا و متحد ہونے والے تھے، مگر لوگوں نے ہر بار ظہورِ حق کے بعد اختلاف کیا جس کا ذکر قرآنِ حکیم کے بہت سے مقامات پر موجود ہے۔

 

۴۔ اس حقیقت کی کوئی تردید ہی نہیں ہو سکتی، کہ اسلام کامل و مکمل دین ہے، اور یہ ظاہراً و باطناً اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے (۰۵: ۰۳) جیسا کہ خود قرآن نے خدا کی ظاہری و باطنی نعمتوں کا ذکر فرمایا (۳۱: ۲۰) چنانچہ اسماعیلی مذہب اکثر و بیشتر امور کے اعتبار سے اسلام کا باطنی پہلو ہے، اور یہ اس کی ایک بے مثال خوبی ہے کہ قرآنِ حکیم کا باطنی رخ اسماعیلیّت کی طرف ہے، یہی وجہ ہے کہ اسماعیلی مذہب ہمیشہ سے اسلامی تاویلات کا مرکز رہا ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ اسلام کے علومِ باطنی کا گہوارہ یہی ہے، آپ جانتے ہیں کہ یہاں یہ سب کچھ کیونکر ممکن ہوگیا؟ جی ہاں یقیناً نورِ امامت کے طفیل سے دین کی یہ ساری نعمتیں میسر ہوگئیں، اور خدا و رسول یہی چاہتے تھے۔

 

۵۔ اسماعیلی مذہب اسلام کی تدریجی ہدایت اور عروج و ارتقاء کا ایک روشن ثبوت ہے، جبکہ اسلام دینِ فطرت ہے، اور “دینِ فطرت” کے صحیح معنی جاننے

 

۴۹

 

کے لئے عقلِ سلیم سے کام لے کر سوچنے کی ضرورت ہے، چنانچہ اس سلسلے میں بطورِ مثال قرآنِ حکیم کے ایک اسمِ صفت کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، اور وہ ہے: کتاب مبارک (۰۶: ۹۲، ۰۶: ۱۵۵، ۳۸: ۲۹، یعنی بڑی برکت والی کتاب) اب ہمیں “برکت” کی کیفیت وحقیقت کو سمجھنے کے لئے قرآنِ حکیم ہی سے رجوع کرنا ہوگا کہ کتابِ سماوی کے حقائق و معارف کی لا انتہا برکتوں کی ظاہری اور مادّی تشبیہہ و تمثیل کہاں اور کس چیز سے دی گئی ہے، چنانچہ ہم قرآنِ پاک کی (۴۱: ۱۰) میں واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ جب خداوندِ عالم نے سیّارۂ زمین کو پیدا کیا، تو اس وقت پہاڑ نہیں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے زمین پر پہاڑوں کو بنایا، اور ان میں گوناگون برکتیں رکھ دیں، اور یہ مادّی برکتیں دنیا والوں کو جس طرح ابتداء سے حاصل ہوتی آئی ہیں، اسی طرح اس کا سلسلہ رہتی دنیا تک جاری رہے گا، اب اس مثال سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ قرآنِ حکیم میں علم و حکمت کی جو بے پناہ برکات سمائی گئی ہیں، ان کا ظہور زمان و مکان کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ بتدریج ہوتا رہتا ہے، اور دینِ فطرت کا مطلب یہی ہے۔

 

۶۔ قرآنِ کریم کے سلسلۂ برکات کو سمجھنے کی دوسری مثال “بارش کا برسنا” ہے، اور اس کا ذکر بھی خود قرآنِ مقدس (۵۰: ۰۹) میں موجود ہے، یعنی خدائے حکیم نے بارش کے پانی کو برکتوں کا سرچشمہ قرار دیا ہے، اس کا تاویلی اشارہ یہ ہے کہ قرآن کی روح و روحانیّت ہماری عقلی رسائی سے بالاتر ہے، لہٰذا دین کا یہ درجہ ہمارا روحانی اور علمی آسمان ہے، اور ہم ہر وقت اس امر کے محتاج ہیں کہ نورِ قرآن، یعنی آفتابِ ہدایت اپنے اس آسمان سے بار بار علم و حکمت اور رشد و ہدایت کی بارش برساتا رہے، تا کہ کتابِ مبارک (یعنی قرآنِ پاک) کی برکتوں کا سلسلہ جاری و ساری رہے، اور خدا تعالیٰ کی لاتعداد نعمتوں کی دلیل ہو (۱۴: ۳۴)۔

 

۵۰

 

۷۔ اللہ تعالیٰ نے تین جگہوں کو مقاماتِ غور و فکر ٹھہرایا ہے، ان میں سب سے پہلا مقام قرآنِ مجید ہے، دوسرا عالمِ کبیر (یعنی کائناتِ ظاہر) ہے، اور تیسرا عالمِ شخصی، ان تینوں میں ربّ العزّت کی آیات ہیں، اور مقصودِ خدا یہ ہے کہ انسان ہر جگہ آیات میں غور و فکر سے کام لیا کرے، اب یہاں یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ اسلام میں غور و فکر یا تفکر و تدبر کی اتنی زیادہ اہمیّت کیوں ہے، جبکہ فکر یا سوچ عقل کے اس فعل کا نام ہے، جس میں وہ (عقل) کسی عقلی چیز کے باطن یا گہرائی میں جاتی ہے؟ حالانکہ قرآنِ پاک کے ظاہر میں جو احکام فرمائے گئے ہیں، وہ سب ظاہر اور واضح ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ اگر قرآنِ حکیم اور دیگر مقامات پر غور و فکر کرنے کی تجویز کسی انسان کی طرف سے ہوتی تو اس صورت میں کسی کا سوال جائز ہوتا، لیکن جب پروردگارِ عالم آیات میں غور کرنے والوں کو اہلِ دانش قرار دیتا ہے تو پھر ایسے سوال کے لئے کوئی جواز نہیں، مگر ہاں، جاننے کی خاطر فرضی سوال ہو تو وہ اور بات ہے۔

 

۸۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَ لِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (۳۸: ۲۹) یہ بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر اس واسطے نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تا کہ اہلِ دانش نصیحت حاصل کریں۔ آپ اس ربّانی تعلیم کو واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں ہر زمانے کے لئے برکتیں پوشیدہ ہیں، اور ان سے فیض حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر ہر آیت میں غور کیا جائے۔

 

۹۔ دنیائے قرآن پر روشنی ڈالنے کی غرض سے خدا و رسول نے ایک نور مقرر فرمایا ہے، اگر ہم اس نور کے وسیلے سے قرآن، آفاق، اور عالمِ شخصی کی آیات میں غور و فکر کرتے ہیں تو بے شک کامیابی یقینی ہے، ورنہ یہ امر محال ہے، کیونکہ

 

۵۱

 

غور و فکر کرتے کرتے کسی آیت کے گنجِ مخفی تک جا پہنچنا صرف اور صرف ہدایتِ حقہ کی روشنی میں ممکن ہے۔

 

۱۰۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مومنین کو کتاب و حکمت سکھا کر (۰۲: ۱۵۱)، صلوٰۃ دے کر (۰۹: ۱۰۳) اور ان کے حق میں خدا سے بخشش مانگ کر ان کو پاک و پاکیزہ کیا کرتے تھے (۰۴: ۶۴) آپ ہرگز یہ گمان نہیں کرسکتے ہیں کہ یہ کوئی معمولی بات ہے حالانکہ دین کی سب سے بڑی سعادت اور ایمان کا سب سے عظیم فائدہ یہی ہے کہ مومنین جیتے جی پاک ہو جائیں، لیکن اب سوچنا یہ ہے کہ آنحضرت کی رحلت کے بعد بھی یہی وسیلۂ رحمت موجود ہے یا نہیں؟ اگر کہا جائے کہ اس زمانے میں علم و حکمت کا سرچشمہ، صلوٰۃ و دعا کا منبع اور مغفرت کا وسیلہ موجود نہیں، تو یہ رحمتِ خداوندی سے مایوسی و ناامیدی کی بات ہوگی، حالانکہ قرآنِ حکیم میں مایوسی کی ممانعت کی گئی ہے (۳۹: ۵۳) اور اگر مانا جائے کہ جب اللہ کی پاک کتاب موجود ہے، تو اس کے علم و حکمت سکھانے کا وسیلہ بھی موجود ہے، تو یہ حقیقت ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ماننا چاہئے کہ صلوٰۃ اور مغفرت کا ذریعہ بھی وہی ہے۔

 

۱۱۔ قرآنِ حکیم میں فرمایا گیا ہے: (ترجمہ:) سو ہم نے ابراہیمؑ کے خاندان کو کتاب و حکمت بھی دی ہے اور ہم نے ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی ہے (۰۴: ۵۴) آلِ ابراہیمؑ کا سلسلہ اس دور میں أئمّۂ آلِ محمدؐ کے ذریعے سے جاری و باقی ہے، کتاب سے قرآن مراد ہے، جو سابقہ کتبِ سماوی کا مُهَیْمِنً (۰۵: ۴۸، محافظ) ہے یعنی اس میں ان کے حقائق و معارف محفوظ ہیں، اور یہاں یہ سوچنا ضروری ہے کہ کتاب و حکمت کس معنیٰ میں خاندانِ ابراہیم کو دی گئی ہے؟ نیز کس لئے؟ حالانکہ قرآنِ پاک تمام مسلمانوں کے پاس موجود ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ خدائے حکیم امامِ زمانؑ کو آسمانی کتاب کی روح و روحانیّت اور علم و حکمت عطا فرماتا ہے،

 

۵۲

 

تاکہ کتابِ سماوی کی برکتوں کا سرچشمہ جاری رہے، اور خاندانِ ابراہیم یعنی خاندانِ محمدؐ کو قرآن سے وابستہ عظیم روحانی سلطنت دینے کا اشارہ یہ بتاتا ہے کہ لوگ ہمیشہ حصولِ روحانیّت اور تاویلِ قرآن کے لئے آلِ محمد کی طرف رجوع کریں۔

 

۱۲۔ تقریباً سب مسلمان اس حدیث کو مانتے ہیں کہ مولا علیؑ آنحضرتؐ کے علم و حکمت کا دروازہ تھے، لیکن اس بارے میں کچھ مزید باتوں کو جاننا ہے:

 

اوّل: وہ بے نظیر علم و حکمت جو خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول کو دیا قرآن میں ہے، چنانچہ اس مشہور حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ علیؑ قرآن کا دروازہ ہیں۔

دوم: حضورِ اکرمؐ نے قرآنِ حکیم کے جس تاویلی دروازے کو بحکمِ خدا کھڑا کر دیا تھا، وہ صرف اس وقت کے لئے نہیں بلکہ ایک مستقل اصول کے طور پر تھا، لہٰذا ہمارا یہ ماننا بالکل درست ہے کہ أئمّۂ طاہرین میں سے ہر امام اپنے وقت میں قرآن کا دروازہ ہوا کرتا ہے۔

سوم: کیا آنحضرتؐ ہی کے زمانے سے ایسا ہوا کہ آسمانی کتاب میں داخل ہو جانے کے لئے ایک دروازہ قائم کیا گیا؟ آیا اس سے پہلے یہ قانون نہیں تھا؟ ایسی بات نہیں، بلکہ یہ قانون ابتداء ہی سے چلا آیا ہے، جیسا کہ رسولِ کریمؐ کا ارشادِ گرامی ہے کہ: “ہر چیز کے لئے ایک دروازہ ہوا کرتا ہے۔”

چہارم: باب اور ابواب کے تحت آپ قرآنِ حکیم میں دیکھ سکتے ہیں کہ تمام چیزوں کے دروازے ہیں (۰۶: ۴۴) جیسے آسمان کے (۰۷: ۴۰) بہشت کے (۳۹: ۷۳) دوزخ کے (۳۹: ۷۱) اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان خزانوں کے دروازے ہیں، جو آسمانوں میں بھی ہیں اور زمین پر بھی (۶۳: ۰۷) پس قرآنِ پاک نہ صرف زمین پر خدا کا سب سے بڑا خزانہ ہے ، بلکہ یہ آسمان میں بھی اس کا عظیم ترین خزانہ ہے، اس سے یہ حقیقت بدرجۂ انتہا روشن ہو گئی کہ گنجِ قرآن کا زندہ دروازہ اور خزینہ دار امامِ زمانؑ صلوات اللہ علیہ ہیں۔

 

۵۳

 

۱۳۔ اسلام کا باطنی پہلو ایسا نہیں کہ اس کے وجود سے کوئی بھی دانشمند انکار کر سکے، اور اس مقالے میں شروع سے آخر تک جو کچھ لکھا گیا، وہ سب اسی عنوان کے تحت ہے، دینِ اسلام میں جتنی چیزیں بھیدوں کی طرح مخفی اور پوشیدہ ہیں، ان کا شمار نہیں ہوسکتا، مگر ان میں سے یہاں ایک انتہائی ضروری اور عظیم چیز کا ذکر کیا جاتا ہے، اور وہ “کتابِ مکنون” ہے، جس میں قرآنِ حکیم کی روح و روحانیّت پوشیدہ ہے (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) آپ کو یاد ہوگا کہ کتابِ مکنون کے معنی ہیں مخفی کتاب، یعنی زمانے کا امام، جو دنیا میں ظاہر ہیں، مگر ان کی مرتبت و معرفت لوگوں سے پوشیدہ ہے، جن کی روحِ اعظم لوحِ محفوظ ہے، جس میں قرآنِ مجید کی زندہ روح و روحانیّت محفوظ ہے۔

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

 

خادمِ مسئول :نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۲ اگست ۱۹۸۵ ء

 

۵۴

 

اسلام میں روحانی جہاد کا تصوّر ۔ ۱

 

۱۔ حضورِ اکرم رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: بعثت بجوامع الکلم: میں کلماتِ جوامع کے ساتھ بھیجا گیا ہوں، یعنی قرآنِ پاک اور حدیثِ صحیح، جن کے مبارک الفاظ و کلمات میں پہلے ہی سے انتہائی بڑی جامعیّت رکھی ہوئی تھی، تا کہ خدا و رسول کا پاک وپاکیزہ کلام اپنی ہمہ گیر معنویّت کے معجزات میں بے نظیر ہو، اب ہم اسی اصولِ “جوامعِ کلم” کی روشنی میں قرآن و حدیث میں دیکھتے ہیں کہ روحانی جہاد کے بارے میں کیا فرمایا گیا ہے، چنانچہ اس باب میں آنحضرتؐ کے ایک خاص فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ: مومن کا اپنے نفسِ امّارہ کے خلاف لڑنا “جہادِ اکبر” ہے۔ یہ حقیقت ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں، تاہم اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ: یہ کیوں ایسا ہے؟ تنہا نفس کو کچل دینے سے کیا حاصل ہوسکتا ہے؟ اس کے لئے جواب یہ ہے کہ نفس کو اکیلا خیال کرنا سراسر غلط ہے، جبکہ اس کے ساتھ شیطان ملا ہوا ہے، اور شیطان کے ساتھ دنیا بھر کی طاغوتی روحیں ملی ہوئی ہیں، پس یہی وجہ ہے کہ صاحبِ جوامع الکلم صلعم نے نفسِ امّارہ کے خلاف جنگ کو جہادِ اکبر یعنی روحانی جہاد قرار دیا۔

 

۲۔ اس سلسلے میں آپ قرآنِ پاک کے بعض حربی (جنگی) الفاظ و اصطلاحات کو غور سے دیکھیں، تا کہ نورِ حکمت کی روشنی میں روحانی جہاد کے حقائق و معارف

 

۵۵

 

ظاہر ہوں، جیسے مادّہ: ب أ س (باس = جنگ)، مادّہ: ج ہ د (جہاد)، ج ن د (جند = لشکر) ، ف ت ح (فتح)، ح ر ب (حرب= لڑائی) ، غ ل ب (غالب)، ہ ز م (ہزیمت = شکست)، غ ن م (غنیمت = لُوٹ)، ر ع ب (رعب = ڈر) ، ق ت ل (قتل)، ش ہ د (شہید)، ذب ح (ذبح)، ق ر ب (قربان)، ف د ی (فدا، فدیہ)، س ل م (سلم = صلح)، ث خ ن (اثخان = خونریزی)، ا س ر (اسیر = قیدی)، ل ب س (لبوس = زرہ)، غ ی ر (مغیرات= لوٹنے والیاں، یعنی مجاہدین کے گھوڑے) ی ج ج (یاجوج)، م ج ج (ماجوج) ، وغیرہ، مواد سے بنے ہوئے الفاظ میں تاویلاً روحانی جہاد کا ذکر موجود ہے۔

 

۳۔ مادّہ: ب أ س : باس (جنگ) سے متعلق کئی آیاتِ کریمہ میں روحانی جہاد کا ذکر آیا ہے، مثال کے طور پر سورۂ نساء (۰۴: ۸۴) میں بغور دیکھا جائے، جہاں یہ پیش گوئی فرمائی گئی ہے کہ ظاہری اور مادّی جنگ مستقبل میں کسی بھی وقت ختم ہو جائے گی، اور اسی کے ساتھ ارشاد ہوا ہے: و اللہ اشد باسا ( اور خدا جنگ کرنے میں سب سے زیادہ شدید ہے) اس نورانی تعلیم کا اشارہ یہ بتاتا ہے کہ باطنی جنگ ہی کے نتیجے میں ظاہری جنگ ختم ہو جائے گی، کیونکہ افعالِ خداوندی میں سے ایک زبردست فعل روحانی جنگ ہے، اور اس کا میدان یہی دنیائے ظاہر ہے۔

 

۴۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۰۵) میں اللہ تعالیٰ کے لشکرِ روحانی کی دو خوبیوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، ایک تو یہ ہے کہ وہ اطاعت و بندگی کے معنی میں خدا کے خاص بندے ہیں، اور دوسرا وصفِ کمال یہ ہے کہ وہ بڑی زوردار روحانی جنگ لڑنے والے ہیں، جو ذرّاتِ لطیف کی شکل میں ہیں، جو روحانی ترقی کی  اعلیٰ سطح پر نہ صرف نظر آتے ہیں، بلکہ فعلاً ان کے مظاہروں کا تجربہ بھی ہوتا ہے،

 

۵۶

 

چنانچہ مذکورہ آیۂ مقدّسہ میں جس طرح روحانی لشکر کا تذکرہ ہوا ہے، وہ بنی اسرائیل کے حدودِ دین کے روحانی تجربات کے ضمن میں ہے، چونکہ خدائی لشکر اپنی ذات ہی میں تمام آہنی اسلحہ جیسی صلاحیت رکھتا ہے، لہٰذا اس کو “حدید ، لوہا” کا ٹائٹل عطا ہوا، اور فرمایا گیا: وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ (۵۷: ۲۵) اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں شدید لڑائی ہے اور (اس کے علاوہ اس میں) لوگوں کے لئے بہت سے فائدے بھی ہیں۔

 

۵۔ روحانی لشکر کا حال بڑا عجیب و غریب اور اس کی شان بہت ہی نرالی ہے، کہ وہ کبھی تو رعد کی طرح گرجتا ہے، کبھی برق کی طرح چمکتا ہے، اور کبھی بارش کی طرح برس کر طوفان برپا کرتا ہے، کہنا یہ ہے کہ وہ گوناگون ظہورات میں کام کرتا ہے، آسمانی لشکر ایک ایسا زندہ معجزاتی کرتہ ہے کہ اس پر کوئی بھی گرمی اثر انداز نہیں ہوسکتی، نیز وہ انسانی شکل کا ایک ایسا بکتر ہے کہ دنیا کی کوئی جنگ اس کو متاثر نہیں کر سکتی ہے (۱۶: ۸۱)۔

 

۶۔ سورۂ مائدہ کی آیت ۵۴ (۰۵: ۵۴) میں عسکرِ روحانی کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ وہ چھ معانی میں عالی صفات ہیں۔

الف: خدا تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے۔

ب: وہ خدا سے محبت کرتے ہیں۔

ج: مومنین کے حق میں نرمی سے پیش آنے والے ہیں۔

د: کافروں پر سخت گیری کرنے والے ہیں۔

ہ: وہ راہِ خدا میں جہاد کریں گے۔

و: وہ لوگ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے (۰۵: ۵۴) ۔

 

۷۔ سورۂ عنکبوت کے آخر (یعنی ۲۹: ۶۹) میں جس طرح ارشاد ہوا ہے، اس

 

۵۷

 

کا مفہوم یہ ہے: جو لوگ راہِ خدا میں اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ حقائق و معارف کے راستے دکھاتا ہے یا دکھائے گا، جس کے نتیجے میں ان کا ذاتی جہاد لشکرِ روحانی کے جہاد سے مل کر ایک ہوجائے گا، اور اسی طرح یہ جہادِ اکبر کہلائے گا، جیسا کہ شروع میں بتایا گیا۔

 

۸۔ دین و دنیا کے عساکر کا نظام امیر (سردار) کے بغیر ممکن ہی نہیں، چنانچہ زمانے کا امام جو ولیٔ امر ہے، وہی روحانی لشکر کا امیر بھی ہوا کرتا ہے، آپ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے حضرت سلیمان علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن کا مطالعہ کرسکتے ہیں، حضرت سلیمانؑ اپنے عہد کے امام اور روحانی عسکر کے سردارِ اعلیٰ تھے، اور اسی معنیٰ میں وہ بادشاہ بھی تھے، بادشاہ اس شخص کو کہتے ہیں، جو اکثر و بیشتر کاموں کو بذریعۂ حکم دوسروں سے کرواتا ہے، اور خود ان کے کرنے سے بالاتر رہتا ہے، پس سلیمان بادشاہ آئینۂ قرآن میں اسی طرح نظر آتے ہیں۔

 

۹۔ اگر آپ حضرات میں سے کوئی عزیز ایسا سمجھتا ہو کہ: “سلطنتِ سلیمانی صرف حضرت سلیمان ابنِ داؤد کی ذات تک محدود تھی، ایسی بادشاہی پہلے اور بعد میں کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔” تو یہ بات درست نہیں، اور اس کے برعکس درست یہ ہے کہ روحانی سلطنت کسی ابتداء و انتہا کے بغیر ہمیشہ ہمیشہ موجود ہے، جس کے بہت سے نام ہیں، مگر ان میں ایک نام ایسا بھی ہے کہ اس میں ہوشمند مومن غور و فکر کر کے بہت کچھ سمجھ سکتا ہے، اور وہ ہے: خلافتِ الٰہیہ یعنی “زمین پر خدا تعالیٰ کی جانشینی” اور کسی شک کے بغیر اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلیفۂ خدا زمین پر دینی اور روحانی بادشاہ ہوا کرتا ہے، اور روحانی عساکر اسی کے تحت کام کرتے ہیں۔

 

۱۰۔ خلیفۂ خدا کے حضور میں روحانی جنگ کی غرض سے ایسے کرتے بنتے ہیں کہ وہ ہر قسم کے ابداعی عجائب و غرائب اور معجزات سے بھرپور ہیں ( لبوس، ۲۱: ۸۰،

 

۵۸

 

سرابیل،۱۶: ۸۱) یہ ایک بہت بڑا راز ہے، جس پر پردہ رکھنے کی خاطر “کرتہ” جیسے عام نام سے اس کا ذکر فرمایا گیا، ورنہ یہ ابداع و انبعاث کا سب سے بڑا معجزہ ہے، چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اپنے وقت میں بمرتبۂ خلیفۂ خدا یہی کرتے بناتے تھے، وہ اس طرح کہ آپ گویا ایک سانچا ( قالب) بن گئے تھے، اور عملِ عزرائیلی سے اس مبارک سانچے میں عالمگیر روح میں سے ڈال ڈال کر آپ کی پاک و پاکیزہ کاپیاں (نقلیں) نکالی جاتی تھیں (۰۳: ۴۹، ۰۵: ۱۱۰) اور یہ روحانی معجزہ ہر پیغمبر اور ہر امام کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔

 

۱۱۔ آپ اسلامی تعلیمات، مثلاً تصوّف اور امامِ عالی مقام کے ارشادات کی روشنی میں یہ یقین کرتے ہیں کہ مومنین حقیقی علم اور نیک عمل کے ذریعے سے فرشتے بن جاتے ہیں، یہ بات حقیقت ہے، چنانچہ حضرت عیسیٰ طین (گارا، ۰۳: ۴۹) سے اپنے لوگوں کے لئے پرندے بناتے تھے، اور “طین” کی تاویل مومن ہے، اگرچہ تمام انسانی ارواح عالمگیر روح کے اجزاء ہیں، لیکن لفظِ طین کے اشارۂ حکمت کے مطابق یہ صرف مومنین ہی کا خاصہ ہے، کہ وہ انسانِ کامل کے سانچے میں ڈھل کر فرشتے بن جاتے ہیں، جن کو قرآنِ حکیم نے طیر (پرندہ، ۰۳: ۴۹، ۰۵: ۱۱۰) کے نام سے یاد فرمایا ہے، اور یہی وہ معجزاتی کرتے ہیں، جن کا اوپر ذکر ہوچکا۔

 

۱۲۔ سالہا سال کی انتہائی محنت و مشقت کے بعد آج سائنسدانوں نے جو کچھ بنایا ہے، جو کچھ آئندہ بنانے والے ہیں، اور جن چیزوں کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں، وہ سب چیزیں عقل و جان کی تمامتر خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ہوکر روحانیّت میں موجود ہیں، مثال کے طور پر کسی سپر پاور کے سائنسدان یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ ان کا ایک ایسا قلعہ ہو جو بہت سارے لشکر کو لئے ہوئے بڑی تیزی سے پرواز کرے، نہ اس کی کوئی آواز ہو، اور نہ

 

۵۹

 

وہ نظر آئے، تو اس نوعیت کے قلعے، بلکہ اس سے نہایت ہی اعلیٰ قلعے حضرت سلیمان علیہ السّلام کے لئے بنائے جاتے تھے، وہ محاریب (۳۴: ۱۳) کہلاتے ہیں، جس کے معنی قلعے کے بھی ہیں اور جنگجو رجال کے بھی، وہ اجسادِ ابداعی ہیں، ان میں کس طاقت کی کمی ہے؟ اور وہ کیا نہیں کر سکتے ہیں؟

 

۱۳۔ سورۂ فتح (۴۸) میں فرمانِ خداوندی ہے: وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا (۴۸: ۲۰) اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر رکھا ہے جن کو تم لوگے۔ اس حکم میں عالمگیر روحانی جہاد کا ذکر ہے کہ وہ اہلِ ایمان کی کلّی اور دائمی فتح پر منتج ہوگا، اور دنیا بھر کی غیر مسلم روحیں بطورِ غنیمت ملیں گی، چونکہ یہ جہادِ اکبر ہے، لہٰذا اس کے نتائج و ثمرات کی بہت بڑی اہمیّت ہے، پس یہ ارواح جو مومنین کی مِلکِ یمین (لونڈی غلام) ہیں بہشت میں داخل ہوں گی، اور وہ لوگ وہاں اہلِ جنت کی سلطنت میں حور و غلمان بن کر خدمات انجام دیں گے۔

 

۱۴۔ خداوندِ عالم نے سورۂ عادیات (۱۰۰) میں صبح نورانی وقت کے ذکرِ قلبی کی توصیف فرمائی ہے، کہ اگرچہ یہ ظاہراً خاموش اور لب دوز حالت میں ہے، لیکن باطن میں بڑا تیز اور انقلابی ہوا کرتا ہے، اس لئے اس کی تشبیہہ و تمثیل مجاہدینِ ظاہر کے گھوڑوں سے دی گئی ہے، جیسا کہ ارشاد کا ترجمہ ہے: قسم ہے ان گھوڑوں کی جو ہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں پھر (پتھر پر) ٹاپ مار کر آگ جھاڑتے ہیں پھر صبح کے وقت تاخت و تاراج کرتے ہیں (۱۰۰: ۰۱ تا ۰۳) اس نورانی تعلیم سے ظاہر ہے کہ ہر ایسا مومن جو ذکر و بندگی میں باقاعدہ ہو روحانی جہاد کا مجاہد ہے، اور وہ ہر صبح کامیاب عبادت کے گھوڑے پر سوار ہوکر دشمنانِ اسلام پر حملہ آور ہو جاتا ہے، اور ان کو لوٹ لیتا ہے۔

 

۱۵۔ جس طرح ظاہر میں اسلامی فوج کے لئے دو چیزوں کی خاص ضرورت

 

۶۰

 

ہوتی ہے، وہ کھانے پینے کی چیزیں اور اسلحہ ہیں، اسی طرح روحانی جہاد کرنے والوں کے لئے ذکر و عبادت کی غذا اور علم و حکمت کے ہتھیار کا ہونا لازمی ہے، کیونکہ ایسا سپاہی کیا بہادری دکھا سکتا ہے جو خوب کھاتا پیتا ہو، مگر اس کے پاس کوئی ہتھیار نہ ہو اور ایسا فوجی جوان کب تک لڑے گا جس کے پاس سامانِ جنگ تو ہیں، لیکن پیٹ میں کچھ بھی نہیں، چنانچہ عبادت اور علم کی تیاری کے بعد اب یہ دیکھنا ہوگا کہ دشمن کون ہے؟ کہاں ہے؟ اور کس طرح حملہ کرتا ہے؟ اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ دشمن نفسِ امّارہ ہے، شیطان ہے جو دینی دشمن ہے اور کافر، اور یہ تینوں آپس میں مل کر ایک ہوگئے ہیں، جس طرح شروع میں بتایا گیا ہے، اب توجہ فرمائیں کہ شیطان ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی (۰۶: ۱۱۲) وہ صراطِ مستقیم پر چلنے والوں کے خلاف حملہ کرتا ہے، آگے سے پیچھے سے داہنی جانب سے اور بائیں جانب سے (۰۷: ۱۷) مومن کے آگے مستقبل ہے، پیچھے ماضی، داہنی طرف باطن، اور بائیں جانب ظاہر ہے، چنانچہ صرف ہادیٔ برحق ہی مستقبل کی ہدایت و رہنمائی کر سکتا ہے، اسی کی خبریں ماضی سے متعلق حق ہیں، وہی قرآن اور اسلام کے باطن پر روشنی ڈال سکتا ہے، اور اسی کی ظاہری تعلیمات میں دین و دنیا کی ترقی اور کامیابی ہے۔

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

 

خادمِ مسئول

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۸ اگست ۱۹۸۵ ء

 

۶۱

 

اسلام میں روحانی جہاد کا تصوّر ۔ ۲

 

۱۔ سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: “القرآن ذلول ذو وجوہ فاحملوہ علیٰ احسن وجوہہ = یعنی قرآن بہت ہی رام ہو جانے والی چیز ہے، اور وہ متعدد پہلو (وجوہ) رکھتا ہے لہٰذا تم اسے اس کی بہترین وجہ پر محمول کرو” (الاتقان اردو، دوم، ص ۵۷۰) : قرآنِ حکیم کی یہ صفت کہ وہ مسخر و مطیع ہو جاتا ہے، اس کے تمام پُرحکمت الفاظ کی بنیاد پر ہے کہ ان میں سے ہر لفظ کے کئی کئی معنی ہیں، اور یہ کتابِ سماوی اسی سبب سے “ذو وجوہ” کہلاتی ہے، یعنی نگینۂ پہلو دار کی طرح ہے، اور تاویل انہی پہلوؤں سے بنتی ہے، پس اس حقیقت میں ذرہ بھر شک نہیں کہ ظاہری جہاد سے متعلق قرآنی الفاظ کے باطن میں روحانی جہاد کا ذکر موجود ہے۔

 

۲۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا عظیم احسان ہے کہ اس بے نیاز نے مومنین کی حقیر جانوں اور برائے نام مالوں کو خرید لیا ہے، تا کہ وہ مہربان اس بہانۂ رحمت سے بہشتِ جاودانی میں ان پر نوازشات کی بارش برساتا رہے (۰۹: ۱۱۱) اس آسمانی سودے کا مقصد یہ ہے کہ ایمان والے ہر اعتبار سے غازیوں کی طرح زندگی گزاریں اور شہیدوں کی موت مر جائیں، اور یہ سب سے بڑی سعادت ہر زمانے کے

 

۶۲

 

مومنوں کو اس لئے حاصل ہوسکتی ہے کہ خداوندِ عالم نے روحانی جہاد کے حکم کو تمام زمانوں پر محیط کر دیا، جبکہ اوّلین و آخرین کا ہر مومن اس بیعت (خرید و فروخت) میں شامل ہے جس کا ذکر سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۱) میں ہے۔

 

۳۔ سورۂ حدید کے ایک ارشاد (۵۷: ۱۹) کا مفہوم یہ ہے: اور جو لوگ خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لا چکے ہیں جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے ایسے ہی لوگ اپنے پروردگار کے نزدیک صدیقوں اور شہیدوں کا درجہ رکھتے ہیں، ان کے لئے اجر اور نور ہے (۵۷: ۱۹) اس مقام پر یہ بات یاد رہے کہ ایسا ایمان جو یہاں مذکور ہے، صرف ظاہری اور زبانی نہیں، بلکہ تمام شرائط کے ساتھ کامل اور مکمل ایمان ہے، اس کی ایک دلیل “تصدیق” ہے اور دوسری دلیل “شہادت،” یعنی اس نورانی تعلیم میں جن مومنین کی اس شان سے تعریف و توصیف کی گئی ہے، انہوں نے لسانی اقرار کے علاوہ قلبی (روحانی) طور پر ایمان کی عرفانی تصدیق بھی کی ہے، اور انہوں نے جسمانی موت سے قبل نفسانی کیفیت میں مرتے ہوئے جامِ شہادت بھی نوش کیا ہے، مگر شہادت کا یہ بہت بڑا مرتبہ علمی اور روحانی جہاد کے بغیر ممکن نہیں۔

 

۴۔ آپ کو یہ سن کر شاید تعجب ہوگا کہ حضرت امام حسین علیہ السّلام جسمانی طور پر شہید ہو جانے سے پہلے روحانیّت میں شہید ہوچکے تھے، کیونکہ انسانِ کامل کی یہ ایک لازمی صفت ہے کہ جسمانی موت سے پیشتر روحانی موت کا تجربہ کرے، اور حقیقی تقویٰ اسی عمل کا نام ہے، یہاں یہ بھی یاد رہے کہ سب سے پہلے دُہری شہادت (یعنی روحانی اور جسمانی شہادت) مولانا ہابیل علیہ السّلام نے پائی تھی، آپ حضرت آدم علیہ السّلام کے اساسِ اوّل تھے، اساسیت امامت کا ایک بڑا درجہ ہے، حضرت ہابیل کے مرتبۂ روحانیّت کا حکیمانہ ذکر قرآنِ پاک کے دو

 

۶۳

 

لفظوں میں موجود ہے، وہ “قربان” اور “متقین” ہیں، قربان کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ جنابِ ہابیل نے ایک دنبہ کو ذبح کرکے بطورِ قربانی خدا کے حضور میں پیش کیا تھا، جس کو ایک مقدّس معجزاتی آگ نے کھا لیا تھا، اور اسی طرح حضرت ہابیلؑ کی قربانی بارگاہِ ایزدی میں قبول ہوئی تھی، اس کی تاویل یہ ہے کہ دنبہ کی قربانی سے راہِ خدا میں نفسِ حیوانی کو قتل کرنا مراد ہے، آسمانی آگ روحانیّت کے ناموں  میں سے ایک نام ہے، چنانچہ ہابیل کی روحانی (نفسانی) قربانی ہوئی تھی، جس کو آتشِ روحانیّت ایک طرح سے کھا گئی تھی، پس اسی طرح جسمانی موت سے قبل روحانی طور پر مرنا ہے، یہی روحانی شہادت ہے، اسی عمل کا نام تقویٰ ہے، اور یہی انفرادی قیامت ہے۔

 

۵۔ سورۂ آلِ عمران کے اس (۰۳: ۱۶۹ تا ۱۷۰) ارشاد میں دیکھیں، مفہوم: اور (اے مخاطب) جو لوگ راہِ خدا میں (روحانی طور پر یا جسمانی طور پر) قتل کئے گئے ان کو مردہ مت خیال کر بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے ربّ کے مقرّب ہیں اور ان کو عقل و جان کا رزق دیا جاتا ہے وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ نے اپنے فضل سے عطا فرمائی (یعنی حقائق و معارف) اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اس ربّانی تعلیم میں جہادِ اکبر اور جہادِ اصغر دونوں کا ایک ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے، چنانچہ دونوں قسم کے شہید حقیقی معنوں میں زندہ ہو جاتے ہیں، اور وہ حیاتِ طیبہ (۱۶: ۹۷) نہ صرف عقل و روح کی زبردست ترقی ہے، بلکہ اس میں جسم کی بھی انتہائی جدت ہے، کیونکہ وہ خلقِ جدید (۵۰: ۱۵) ہے، یعنی جسمِ ابداعی ، جس کا “کلمۂ کن” کے تحت ہر آن ایک نیا (جدید) ظہور ہوتا رہتا ہے۔

 

۶۔ اسلام کی وہ ظاہری جنگ جو پیغمبرِ اکرمؐ یا آپؐ کے برحق جانشین کے

 

۶۴

 

حکم سے ہو جسم کا درجہ رکھتی ہے، اور باطنی جنگ اس کی روح ہے، چنانچہ ہر جسمانی جہاد کے پس منظر میں ایک روحانی جہاد بھی ہوا کرتا ہے، جس کی ایک مثال غزوۂ خندق ہے (۳۳: ۰۹ تا ۱۱):۔

مفہوم: اس واقعہ کو سب نہیں صرف خاص مومنین دیکھ سکتے تھے کہ غزوۂ خندق کے موقع پر لشکرِ اسلام ایک روحانی جنگ سے بھی دوچار ہوا تھا، چنانچہ جب دشمنانِ دین کی طرف سے ایک لاتعداد ذرّاتی لشکر نے مسلمانوں پر حملہ کیا، تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے اس لشکر پر ایک غیبی آندھی اور ایک نادیدنی فوج بھیجی، وہ ذرّاتی لشکر مومنوں کے سر سے اور پاؤں سے داخل ہوچکے تھے، حقیقی مومنین کو اس سے بڑی حیرت ہو رہی تھی، ان کی ارواح (قلوب) جیتے جی نفسانی موت سے گزارنے کی خاطر حلق اور سر کی طرف کھینچ لی جاتی تھیں، اور یہی موت ان کی روحانی شہادت بھی تھی، وہ خدا کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرتے تھے، شاید وہ یہ سوچتے تھے کہ یہ قطعی اور جسمانی موت ہے یا اجتماعی قیامت ہے، وغیرہ (۳۳: ۰۹ تا ۱۱)۔

 

۷۔ قرآنِ مجید کی بہت سی آیاتِ کریمہ میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ادیانِ عالم پر اسلام غالب آنے والا ہے، اور اس نوعیت کی قرآنی پیش گوئی کو دیکھنے کے لئے تین مقامات خاص ہیں، مقامِ اوّل: سورۂ توبہ (۰۹: ۳۲ تا ۳۳) ، مقامِ دوم: سورۂ فتح(۴۸: ۲۸ تا ۲۹) ، اور مقامِ سوم: سورۂ صف (۶۱: ۰۸ تا ۰۹) چنانچہ ان پُرحکمت آیات کا مشترکہ اور مرکزی مفہوم یہ ہے کہ: کوئی شخص نورِ خداوندی کو بجھا نہیں سکتا، اللہ اپنے نور کو درجۂ تمام و کمال پر پہنچائے گا، ہر چند کہ خدا کا یہ کام شر کی طاقتوں کو پسند نہیں، قادرِ مطلق نے اپنے رسول کو ہدایت (قرآن اور امام) اور دینِ حق کے ساتھ اس مقصد کے پیشِ نظر بھیجا ہے تا کہ وہ اس کو دوسرے تمام ادیان پر غالب کر دے۔ آپ مذکورۂ بالا آیاتِ مقدّسہ کو خود قرآنِ پاک میں غور سے دیکھیں، تو یہ حقیقت آپ

 

۶۵

 

کے سامنے زیادہ سے زیادہ روشن ہو جائے گی کہ اسلام کا ضروری اور اصل جہاد باطنی اور روحانی طرز کا ہے، جو خدا و رسول کی جانب سے ہے، جس کی سرپرستی ہر زمانے میں صاحبِ امر کرتا ہے۔

 

۸۔ خداوند تعالیٰ جو کچھ چاہتا ہے یا جیسا ارادہ کرتا ہے، وہ دراصل امر کہلاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جس کام کے لئے امر فرماتا ہے، وہ مفعول ( یعنی کیا ہوا، ۳۳: ۳۷) ہوتا ہے، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ جب پروردگارِ عالم نے چاہا کہ اسلام کی فتح اور سربلندی ہو، تو یہی اس کا چاہنا اس چیز کو “کن” (ہو جا) فرمانا تھا، لہٰذا وہ ہوگئی، چنانچہ اگر کوئی شخص مکان و زمان سے ماوراء (بالاتر) ہوکر تصوّر کرے، تو اسے یقین آئے گا کہ دینِ فطرت یعنی اسلام ابتداء ہی سے غالب و فاتح رہا ہے، آپ درجِ ذیل آیۂ کریمہ میں خوب غور کرکے دیکھیں:

فرمانِ خداوندی ہے: كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْؕ (۵۸: ۲۱)

اللہ تعالیٰ نے یہ بات (اپنے حکمِ ازلی میں) لکھ دی ہے کہ میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے۔ کیا میں حقائق کی طرف توجہ دلانے کی خاطر آپ سے ایک دوستانہ سوال کر سکتا ہوں؟ وہ پوچھنا یہ ہے کہ انبیاء علیہم السّلام کو بظاہر دینِ حق کی روشنی پھیلانے میں محدود کامیابی ہوئی، اور وہ حضرات اپنے اپنے وقت پر رحلت کرگئے، آیا مذکورۂ بالا آیت کا مطلب صرف اتنا ہی ہے؟ نہیں نہیں، یہ ظاہر اور جسمانیّت کی بات نہیں، بلکہ باطن اور روحانیّت کا ذکر ہے کہ ہر دور کے رسول اور أئمّہ علیہم السّلام نے بحکمِ خدا باطنی اور روحانی جہاد سے کام لے کر خداوندِ عالم کی اس پیش گوئی کو عمل میں لایا۔

 

۹۔ آپ اس کو امامِ عالی مقام کے خزانۂ معرفت کا ایک سرِ عظیم (بڑا بھید) سمجھ لیں، کہ اعلیٰ روحانیّت، روحانی جہاد، اور انفرادی قیامت ایک ہی چیز ہے،

 

۶۶

 

اس کی ایک قرآنی دلیل لفظِ “فتح” ہے، کہ اس میں یہ تین معانی ایک ہوگئے ہیں، یعنی فتح (کشائش، کھولنا) روحانیّت بھی ہے، جنگ کا کامیاب نتیجہ بھی ہے، اور روزِ قیامت کا فیصلہ بھی، چنانچہ یہ لفظ (فتح) قرآنِ حکیم میں جہاں بھی ہو، ان تینوں معنوں کے ساتھ ہوگا، تاہم ترجمہ و تفسیر یا خود تنزیل کی وجہ سے کہیں کہیں ان میں سے کوئی ایک معنی نمایان بھی ہوسکتے ہیں، اس صورت میں باقی دو معنی تاویلی حکمت کے لئے مخصوص ہوں گے۔

 

۱۰۔ سورۂ فتح کے آغاز کا ارشاد ہے: انا فتحنا لک فتحا مبینا (۴۸: ۰۱) (اے محمد) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح بھی صریح و صاف۔ اس میں دو طرفہ جہاد کے نتائج حضورِ اکرمؐ کے سامنے ہیں، کہ ظاہراً فتحِ مکہ ہے، اور باطناً فتحِ روحانیّت، جو عالمگیر فتح اور روحانی جہاد کا بے پایان اجر و صلہ ہے، اور یہی روحانیّت آنحضرتؐ کی انفرادی قیامت بھی تھی، جس میں آپ نے حق و باطل کے درمیان خدائی فیصلے کو دیکھا۔

 

۱۱۔ سورۂ انبیاء (۲۱: ۹۶) میں ہے: فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَ مَاْجُوْجُ۔ اس کے معنی ہیں کہ یاجوج اور ماجوج کھول دئے جائیں گے، نیز یہ معنی بھی درست ہیں کہ یاجوج اور ماجوج فتح کر لئے جائیں گے، یعنی ان پر غلبہ حاصل ہو گا، اور وہ اب امامی لشکر میں مل کر کام کریں گے، یاجوج حضرت آدمؑ جیسے کسی دور کے انسانِ اوّل کا خطاب ہے، اور ماجوج حضرت حوّا جیسی خاتونِ اوّل کا ٹائٹل ہے، پھر اسی نسبت سے ان کے ذرّاتِ نسل کو یاجوج و ماجوج کہا گیا۔

 

۱۲۔ تاویل کا ایک قدرتی نظام ہے، جس کے مطابق سیّارۂ زمین یا اقوامِ عالم کے بارہ حصے ہیں، ہر حصہ جزیرہ کہلاتا ہے، چنانچہ ہر جزیرے میں دن

 

۶۷

 

رات کے دو حجّت مقرر ہیں، جو کثیف یا لطیف جسم میں ہوتے ہیں، اور وہ ۱۲ x ۲ = ۲۴+ ۲= ۲۸

ہیں، یہ حضرات روحانیّت، علم، اور تجربہ کے اعتبار سے سب سے بڑے اور سب سے بوڑھے (معمر ترین) ہیں، لہٰذا قرآنِ حکیم نے ان کو خمیدہ پشت (حدب، ۲۱: ۹۶) کہا، نیز ذرّاتِ روح کے بارِ گران سے ان کی کمر جھکی ہوئی ہے، اس لئے بھی وہ حدب کہلاتے ہیں، پس انسانِ کامل کی انفرادی قیامت میں جب صور پھونکا جاتا ہے، تو اس کی آواز سن کر دنیا بھر کے ذرّاتِ روح، جو ان حجّتوں میں ہیں، اس طرف پرواز کرتے ہیں۔

 

۱۳۔ اگرچہ حضرت آدمؑ کی روحانیّت کا مظاہرہ ہر زمانے میں ہوتا ہے، تاہم زمانۂ آدمؑ ہی کی بات کریں گے، کہ ابتداء میں حضرت آدمؑ کی خاص روحانی اولاد آپ کے حجّتانِ شب و روز تھے، لہٰذا عہدِ الست کی غرض سے سب سے پہلے ان حجّتوں کے توسط سے لوگوں کے ذرّاتِ روح وارثِ آدم میں لئے گئے تھے (۰۷: ۱۷۲) اور یہ وہی تاویل ہے، جس کا اوپر ذکر ہوچکا ہے، اس وقت جانشینِ آدم کے کانوں میں صور بج رہا تھا، یہی اس کی تکمیلِ روحانیّت کا سلسلہ بھی تھا، روحانی جہاد بھی، اور ذاتی قیامت بھی تھی، خداوندِ قدوس کا بہت بڑا احسان ہے کہ یہاں تک روحانی جہاد کے بارے میں بہت سی کلیدی حقیقتیں روشن ہو گئیں۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

 

خادم

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۳ ستمبر ۱۹۸۵ء

 

۶۸

 

قرآنی تاویل پر سوال و جواب

 

س۱: لفظِ “تاویل” کا مادّہ کیا ہے؟ مصدر کیا ہے؟ یہ کس وزن پر ہے؟ اس کے لغوی اور اصطلاحی معنی کیا ہیں؟

ج: اس کا مادّہ: ا ، و، ل (اوّل) ہے، لفظِ تاویل خود مصدر ہے، جو تفعیل کے وزن پر ہے، اس کے لغوی معنی ہیں: کسی چیز کو اوّل (اصل) کی طرف لوٹانا، اور جس اوّل یا اصل کی طرف کوئی چیز لوٹ کر آئے، اسے مَوئِل (۱۸: ۵۸) یعنی جائے بازگشت کہا جاتا ہے، اور تاویل کے اصطلاحی معنی ہیں: قرآن اور اسلام کی کسی چیز کی باطنی حکمت و حقیقت کو بیان کرنا۔

 

س۲: آپ کسی واضح مثال سے ہمیں یہ سمجھا دیں کہ لفظِ تاویل کے لغوی معنی اور اصطلاحی معنی کے درمیان کیا مناسبت و مشابہت موجود ہے؟

ج: ان دونوں معنوں کے مابین رشتہ و مماثلت یہ ہے کہ جس طرح تاویل کے لغوی معنی میں کسی چیز کو اس کی اصل (اوّل) کی طرف لوٹایا جاتا ہے، اسی طرح اصطلاحی معنی میں بھی کسی چیز کی مثال کو ممثول (حقیقت) کی جانب پھیر دیا جاتا ہے، چنانچہ حبل اللہ (۰۳: ۱۰۳، خدا کی رسی) قرآنی مثالوں میں سے ہے، سو آپ تاویل کرتے ہوئے اس کو ممثول کی طرف راجع کر دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اس کے باطنی معنی یا تاویل یا حکمت یہ ہے۔

 

۶۹

 

س۳: سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۰۷ تا ۰۹) میں تاویل سے متعلق بنیادی احکام موجود ہیں، انہی ارشادات کی روشنی میں آپ ہمیں یہ بتا دیں کہ جو حضرات اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک علم میں راسخ (۰۳: ۰۷، یعنی پختہ کار) ہیں، وہ کون ہیں؟ اور علم کے اس رسوخ (مضبوطی) کے کیا معنی ہیں؟

ج: وہ حضرات پیغمبرِ اکرم اور أئمّۂ طاہرین صلوات اللہ علیہ و علیہم اجمعین ہیں، جو علم میں معیارِ خداوندی کے مطابق بڑے مضبوط اور پختہ کار ہیں، ان مقدّس و پاکیزہ ہستیوں کی اس علمی و عرفانی مضبوطی اور استواری کی یہ تعریف و توصیف خدا خود ہی فرماتا ہے، لہٰذا یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان عالی مرتبت کامل انسانوں کو محکمات اور متشابہات دونوں کا علم عطا کر دیاہے، اس کا صاف صاف مطلب یہ ہوا کہ خدا اور اس کے برحق رسول کے بعد أئمّۂ ہدا قرآنی تاویل کے مالک ہیں، آپ سورۂ نساء کی آیت: ۱۶۲ (۰۴: ۱۶۲) کی روشنی میں یہ حقیقت معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ آسمانی ٹائٹل ، یعنی “الراسخون فی العلم” ظہورِ اسلام سے قبل اہلِ کتاب میں بھی نظر آتا ہے، اور یہ مرتبہ اس ارشاد کے حکم کے مطابق جملہ مومنین کے درجات سے اوپر ہے، پس ظاہر ہے کہ علم میں پختہ کار (۰۳: ۰۷) حضرت محمد رسول اللہ اور أئمّۂ آلِ محمدؐ ہی ہیں، اور انہی حضرات کے وسیلۂ پیروی سے دوسروں کو علمِ تاویل کی برکتیں مل سکتی ہیں۔

 

س۴: کیا آپ علمِ تاویل کی اہمیّت و افادیت کے بارے میں کوئی اور قرآنی دلیل پیش کریں گے؟ آیا قرآنِ حکیم میں ایسی کوئی نظیر موجود ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ ماضی میں کوئی کامل انسان خدا کی جانب سے تاویل کے لئے مقرر کیا گیا تھا؟

ج: جی ہاں! قرآنِ مقدّس میں تاویل کی بہت بڑی اہمیت ہے، اور

 

۷۰

 

اس کی زبردست افادیت ہے، کیونکہ تاویل کا دوسرا نام حکمت ہے، اور قرآن کا ارشاد ہے کہ: جس کو حکمت دی جائے، اس کو خیرِ کثیر مل جاتی ہے (۰۲: ۲۶۹) اسی طرح دین کی تمام تر نیکیاں تاویل کے ساتھ وابستہ ہیں، جبکہ تاویل سے قرآن اور اسلام کا باطن مراد ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی جملہ مخفی نعمتیں مجموع ہیں (۳۱: ۲۰) چنانچہ ہر باطنی نعمت بجائے خود تاویل کی اہمیّت و افادیت کی دلیل ہے، پس جس طرح یہ نعمتیں بے شمار ہیں، اسی طرح یہ دلائل بھی لاتعداد ہیں، لہٰذا آئیے اب ہم قرآنِ حکیم میں یہ دیکھیں کہ عملی تاویل کہاں کہاں مذکور ہے، اور اس کو کسی پیغمبر یا کسی امام نے کیسے انجام دیا  ہے:۔

قرآنِ عزیز میں اگرچہ عملی تاویل کی مثالوں کی فراوانی ہے، تاہم سورۂ یوسف اس سلسلے کا بہترین نمونہ ہے، جس میں قانونِ تاویل سے متعلق ہر گونہ سوالات کے لئے حکیمانہ جوابات موجود ہیں (۱۲: ۰۷) یہاں سب سے پہلے یہ اہم نکتہ یاد رہے کہ حضرت یوسفؑ نے جس طرح گیارہ ستاروں، سورج، اور چاند کو دیکھا تھا، وہ دراصل عالمِ خیال اور روحانیّت کا واقعہ تھا، جس کی آنے والی تاویل آپ کے والدِ محترم حضرت یعقوب نے بتائی (۱۲: ۰۴ تا ۰۶) اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ خدا تعالیٰ نے حضرت امام یعقوبؑ کو علمِ تاویل عطا کر دیا تھا، چنانچہ انہوں نے اسی آسمانی اور لدّنی علم کی روشنی میں اپنے فرزندِ ارجمند حضرت یوسفؑ کو یہ بشارت دی کہ پروردگار ان کو مرتبۂ امامت کے لئے برگزیدہ فرمائے گا، اور ان کو علمِ تاویل کی نعمتِ عظمیٰ حاصل ہوگی، یہ نعمت اسی طرح بدرجۂ تمام و کمال ان کے آباو اجداد کو بھی عطا ہوئی تھی۔

 

تاویل کی اصطلاح تنزیل کے مقابلے میں ہے، یعنی اگر کوئی چیز باطن اور روحانیّت کی بلندی سے ظاہر اور مادّیت کی پستی پر اترگئی ہے تو یہ تنزیل کہلاتی ہے، اور جب بھی امامِ عالی مقام اسے لوٹاکر باطن اور روحانیّت کی بلندی پر دیکھتا

 

۷۱

 

ہے، تو یہ عملی تاویل ہے، سو کسی بات کی تاویل کرنے کے کئی درجات ہیں، اور اس کا بلند ترین درجہ مقامِ عقل ہے، پھر مقامِ روح و روحانیّت، جہاں حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام خدائے علیم و حکیم کے اذن سے متعلقہ چیز کی عقلانی اور روحانی صورت کو دیکھ سکتے ہیں، جیسے حضرت یوسفؑ نے “تاویلِ پیش بینی” کے طور پر اپنے قید خانہ کے دونوں ساتھیوں کو بتا دیا کہ تم کو اس قسم کا کھانا آ رہا ہے، آپ نورِ خیال کی روشنی میں اسے دیکھ رہے تھے ، اور یہ عملی تاویل کی ایک عمدہ مثال ہے (۱۲: ۳۷)۔

 

س۵: آیا امام یوسف علیہ السّلام صرف خوابوں کی تعبیر جانتے تھے، جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے؟ یا علمِ تاویل کے عالم تھے؟ تعبیر اور تاویل میں کیا فرق ہے؟

ج: اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت یوسفؑ کو تمام باتوں کی تاویل سکھائی تھی (۱۲: ۰۶، ۱۲: ۲۱، ۱۲: ۱۰۱)، جو چار عوالم سے متعلق ہے: عالمِ روحانیّت، عالمِ خیال، عالمِ خواب، اور عالمِ بیداری، اس سے ظاہر ہے کہ تعبیر صرف خواب کی حد تک محدود ہے، مگر تاویل چاروں عوالم پر محیط ہے، اور یہی وہ فرق ہے جو تعبیر اور تاویل کے درمیان پایا جاتا ہے، اس کے علاوہ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ لفظِ تعبیر قرآنِ کریم میں صرف ایک بار آیا ہے، جو سورۂ یوسف (۱۲: ۴۳) میں موجود ہے، مگر یہ حضرت یوسف کے لئے استعمال نہیں ہوا ہے، بلکہ فعلِ تعبیر (تعبرون، ۱۲: ۴۳، تم تعبیر بیان کرتے ہو) بادشاہ کے سرداروں سے متعلق ہے۔

 

س۶: آیا قرآنِ حکیم کے ان مبارک الفاظ میں ان حضرات کے خواب دیکھنے کا ذکر موجود نہیں، جن کے متعلق یہ مذکور ہیں؟ وہ الفاظ یہ ہیں: الرویا (۱۲: ۴۳، ۱۷: ۶۰، ۳۷: ۱۰۵، ۴۸: ۲۷)، رویاک (۱۲: ۰۵)، رویای (۱۲: ۴۳، ۱۲: ۱۰۰)،

 

۷۲

 

اگر یہ نیند کی حالت میں سپنا (خواب) دیکھنے کی بات نہیں، تو پھر بتائیے کہ یہ کیا چیز ہے؟

ج: آپ اس بات پر دل و جان سے یقین رکھتے ہوں گے کہ قرآنِ پاک کا ہر لفظ ربّانی حکمت سے لبریز ہے، تا کہ ہمیشہ اہلِ ایمان کے لئے نورِ امامت کی روشنی میں کلامِ الٰہی کے علمی معجزات کا سلسلہ چلتا رہے، چنانچہ مذکورہ الفاظ اگرچہ بظاہر خواب سے متعلق ہیں، لیکن حق بات تو یہ ہے کہ ان پاکیزہ لفظوں میں نیند کی کسی کیفییت کا کوئی ذکر نہیں، جس طرح لفظِ “منام” میں نیند کا ذکر موجود ہے، پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اولیاء اللہ (یعنی انبیاء و أئمّہ) کی معجزاتی نیند ہے، جو صرف آنکھیں بند کر لینے کے لئے ہوا کرتی ہے، جس میں دل ذکرِ خدا میں فنا ہو کر کلّی طور پر جاگتا ہے، اور یہ حال انہی حضرات کا “خواب دیکھنا” کہلا سکتا ہے، جس کا احساس و شعور بیداری سے روشن تر اور بالاتر ہوتا ہے، پس اس بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ مندرجۂ صدر الفاظ میں عالمِ خیال اور عالمِ روحانیّت کے مشاہدات کا تذکرہ فرمایا گیا ہے۔

 

س۷: ایسا لگتا ہے کہ سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۵۲۔۵۳  (۰۷: ۵۲ تا ۵۳) میں موضوعِ تاویل سے متعلق کچھ کلیدی حکمتیں پوشیدہ ہیں، کیا آپ ان کی کچھ وضاحت کریں گے؟

ج: اس میں پہلی آیت کا تاویلی مفہوم یہ ہے: اور ہم نے ان لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب پہنچا دی ہے، جس کو ہم نے (اپنے نور یعنی امام کے) علمِ تاویل سے بہت ہی واضح کرکے بیان کر دیا ہے جو ذریعۂ ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو حقیقی معنوں میں ایمان لائے ہیں (۰۷: ۵۲) اور دوسری آیت کا تاویلی مفہوم اس طرح ہے: کیا وہ کسی چیز کا انتظار کرتے ہیں؟ سوائے اس (یعنی قرآن) کی تاویل کے؟ جس روز۱ (بصورتِ انقلاباتِ روحانی و مادّی) قرآن کی تاویل آئے گی

 

۱: روز سے زمانہ مراد ہے

 

۷۳

 

اس روز جو لوگ اس کو پہلے سے بھولے ہوئے تھے یوں کہنے لگیں گے کہ واقعی ہمارے ربّ کے پیغمبر سچی سچی باتیں لائے تھے سو اب کیا کوئی سفارش کرنے والا ہے کہ وہ ہماری سفارش کر دے؟ (۰۷: ۵۳) ۔ امامِ عالی مقام صلوات اللہ علیہ جس طرح خدا کا نور ہے اسی طرح یہ اس کا علمِ تاویل ہے جس کی روشنی میں قرآن کی وضاحت ہو جاتی ہے، اسی عالمگیر نور سے سلسلۂ قیامات جاری و ساری ہے، اور اسی کی ایک عظیم الشّان قیامت کا آنا تاویلِ قرآن کا آنا ہے۔

 

س۸: قرآنِ پاک اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلام ہے، لہٰذا یہ ایک لازمی امر ہے کہ قرآنِ حکیم میں خدا کی عادت پائی جائے، کیا آپ اس باب میں کوئی مثال پیش کریں گے؟

ج: یہ سوال بڑا انقلابی اور بے حد مفید ہے، چنانچہ عرض ہے کہ اللہ کی عادت کی تشریح اس کے مبارک ناموں میں ہے، اور ان بابرکت اسمائے صفات میں سے چار یہ ہیں: اوّل، آخر، ظاہر، باطن (۵۷: ۰۳) اسی طرح یقیناً قرآن ازل میں بھی تھا، ابد میں بھی ہوگا، ظاہر میں بھی ہے، اور باطن میں بھی، اور قرآن کے باطن سے تاویل مراد ہے، نیز اللہ کی عادت میں یہ بات بھی ہے کہ وہ پہلے تو حجاب سے کلام فرماتا ہے، پھر اس کے بعد وقت آنے پر دیدارِ اقدس کے گنجِ مخفی سے نوازتا ہے (۴۲: ۵۱) چنانچہ اللہ کی اس پُرحکمت عادت کے مطابق قرآن کا ظاہر خدا کے باحجاب کلام کرنے کی طرح ہے، اور اس کا باطن (یعنی تاویل) بے حجاب دیدارِ خداوندی کی طرح ہے۔

 

س۹: آپ کے انقلابی تصوّرات میں سے ایک “خدا کا علمی دیدار” ہے، کیا آپ اس کی مزید وضاحت کر کے ہمیں سمجھائیں گے کہ یہ حقیقت کس طرح

 

۷۴

 

ہے؟

ج: آپ سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۱۴۳ (۰۷: ۱۴۳) کو چشمِ حقیقت بین سے دیکھیں، کیونکہ اس میں سب سے بلند ترین حقیقتوں اور معرفتوں کا خزانہ پوشیدہ ہے، یہ مثالی قصّہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا ہے، کہ آپ نے اپنے اس اعتکاف کے دوران (جو کوہِ طور پر کیا کرتے تھے) اللہ تعالیٰ کے دیدارِ پاک کے لئے درخواست کی تھی، جس کے نتیجے میں جو حکمتوں سے بھرپور واقعہ پیش آیا، اس کا ذکر اپنی جگہ موجود ہے، مگر یہاں یہ حقیقت خوب یاد رہے کہ یہ وہی روحانی اور عقلانی مظاہرہ تھا، جو حقائق و معارفِ ازل سے متعلق ہر پیغمبر اور ہر امام کے مشاہدۂ باطن میں آتا ہے، چنانچہ خداوندِ تعالیٰ نے ازل میں کوہِ عقل پر اپنے علمی و عرفانی جلال و جمال اور وصفِ کمال کا بے مثال جلوہ ڈالا، جس کے زیرِ اثر عقلی پہاڑ کے ایسے لاتعداد ٹکڑے ہوگئے، کہ وہ علم و حکمت کے پہلودار، آراستہ، پیراستہ، اور منظم جواہرات تھے، گوہر ہائے ایقان و عرفان کا یہ ذخیرہ، اور اسرارِ ازل کا یہ انمول خزانہ دراصل قرآنِ حکیم ہی تھا، جس کے ہر گوہرِ معنوی کے آئینۂ باطن میں تجلیٔ وجہ اللہ کا ایک لازوال عکس موجود ہے، سو قرآنِ مجید کی ہر باطنی حکمت کا مشاہدہ کرنا خداوندِ تعالیٰ کا علمی و عرفانی دیدار ہے، نیز اس حکمِ الٰہی میں بھی سوچنا چاہئے، ترجمۂ آیۂ کریمہ: پس تم جس طرف بھی منہ کرو وہیں چہرۂ خدا موجود ہے (۰۲: ۱۱۵) جب ہر جگہ خدا کا دیدار ہو سکتا ہے تو اس کا اطلاق سب سے پہلے دنیائے قرآن پر ہوتا ہے، یعنی اشارہ ہے کہ ہر آیت میں مرتبۂ وجہ اللہ کا ایک علمی مشاہدہ اور ایک معرفت پنہان ہے۔

 

س۱۰: کیا آپ حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادِ مبارک سے ہمیں تاویلِ قرآن کی اہمیت سمجھا سکتے ہیں؟

 

۷۵

 

ج: جی ہاں، اس کے ثبوت میں آنحضرتؐ کے کئی ارشاداتِ گرامی موجود ہیں، مگر یہاں صرف ایک ہی حدیث پر اکتفاء کیا جاتا ہے کہ حضورِ اکرمؐ نے فرمایا: “خیرکم منکم من یقاتلکم علیٰ تاویل القرآن کما قاتلتکم علیٰ تنزیلہ۔ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو تاویلِ قرآن پر تم سے جنگ کرے، جس طرح میں نے اس کی تنزیل پر تم سے جنگ کی ہے۔” (وجہِ دین، کلام ۳۵) رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد امت میں بہترین شخص مولا علی صلوات اللہ علیہ ہیں، اور آپ ہی نے قرآن کی تاویل پر ظاہراً و باطناً جہاد کیا، اور آلِ محمد و اولادِ علیؑ کے سلسلے میں یہ کام ہوتا رہا ہے، کہ یہ سلسلۂ امامت اور حبل اللہ ہے۔

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

 

خادمِ مسئول

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۱۱ ستمبر ۱۹۸۵ ء

 

۷۶

 

 

تصوّرِ رفعِ زمان

 

۱۔ خدائے علیم و حکیم نے سورۂ عصر (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۲) میں زمانے کی قسم کھا کر انسان کے ایک بہت بڑے خسارے کی طرف اشارہ فرمایا ہے، آدمی کا یہ خسارہ کسی اور چیز میں نہیں بلکہ اس انتہائی عظیم علم و حکمت میں ہے، جو عصر و زمان سے متعلق ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان پُرحکمت بھیدوں کی قسم کھائی ہے جو عصر (زمانہ) کے پس منظر میں مخفی ہیں، کیونکہ جہاں خداوندِ پاک و برتر کی کوئی قسم ہوتی ہے، وہاں قرآنی علم و عرفان کا ایک بہت بڑا خزانہ پوشیدہ ہوتا ہے، سو آئیے کہ ہم نورِ ہدایت کے حضور میں انتہائی عاجزی اور حاجتمندی سے درخواست کریں ، کہ وہ اپنی خصوصی تائید سے ہماری دستگیری فرمائے، تا کہ ہم “تصورِ رفعِ زمان” کے کچھ بھیدوں کو بیان کر سکیں۔

 

۲۔ رفعِ زمان کے تصوّر میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ بعض آیاتِ کریمہ میں کس طرح زمانے کو سامنے سے اٹھایا گیا ہے؟ کیوں یہ اشارہ فرمایا گیا ہے کہ لوگ زمان و مکان سے بالاتر ہوکر بھی سوچیں؟ آیا تصوّر و تفکر کے اس طریقِ کار سے ہمیں کچھ علمی و عرفانی فائدے حاصل ہو سکتے ہیں؟ چنانچہ اس سلسلے میں سب سے پہلے آیۂ اطاعت کو دیکھئے: اے ایمان والو تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں (۰۴: ۵۹) یہ

 

۷۷

 

حکم زمانۂ نبوّت میں نازل ہوا تھا، اس وقت کے اعتبار سے صرف زمانۂ حال کے مسلمان موجود تھے، جن کی تعداد بہت کم تھی، اور زمانۂ مستقبل کے بے شمار مسلمین ہنوز پیدا نہیں ہوئے تھے کہ ان کو زمانۂ رسول کے مسلمانوں کی طرح مخاطب کیا جائے، لہٰذا خداوندِ عالم نے دنیا میں آنے والے تمام مسلمین و مومنین کے سامنے سے ماضی کو ہٹا دیا، جس کی بدولت ہر زمانے کے اہلِ ایمان کو براہِ راست اطاعت و فرمانبرداری کا یہ ارشاد فرمایا گیا۔

 

۳۔ قرآنِ حکیم جو پروردگارِ عالم کا کلامِ حکمت نظام ہے، وہ اپنے “روحانی پہلو” سے “قدیم” ہے، اور جو چیز قدیم ہو، وہ زمان و مکان سے بالاتر اور اس پر محیط ہوتی ہے، چنانچہ قرآنِ پاک کے قدیم ہونے کی مثال یہ ہے کہ اس کا خطاب مرتبۂ عقل اور مقامِ روح پر ازل سے جاری اور غیر فانی ہے، یہ لوحِ محفوظ (۸۵: ۲۲) پر “ہر طرح سے محفوظ” ہے، مگر اس کی حفاظت و نگہداشت کی مثال دنیا کی کسی خاموش، بے جان، اور بے عقل تحریری ریکارڈ سے نہیں دی جا سکتی، جبکہ لوحِ محفوظ میں قرآنِ مجید “عقلی، نورانی، علمی اور روحانی” کیفیات میں زندہ و گویندہ ہے، اور وہ لمحہ لمحہ اپنے پُرنور معجزات کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) بلکہ وہ ایک باعظمت (بزرگ) قرآن ہے جو لوحِ محفوظ میں موجود ہے۔

 

۴۔ لفظِ مجید خدائے بزرگ و برتر کے عظیم ناموں میں سے ہے (۱۱: ۷۳) جس کے معنی ہیں وہ ذات جو اپنے خصوصی فضل و کرم سے نوازنے میں انتہائی وسعت اور فراخی سے کام لینے والی ہو، خداوندِ عالم نے اپنے اسی بابرکت اسم سے عرشِ عظیم اور کتابِ عزیز (قرآن) کو بھی مسمیٰ فرمایا ہے، لہٰذا یہاں قرآنِ پاک کے درجۂ

 

۷۸

 

لوحِ محفوظ کی جیسی تعریف و توصیف کی گئی، وہ اگرچہ لفظی حسن میں شایانِ شان نہیں، لیکن حقیقت پر مبنی ہے۔

 

۵۔ قرآنِ مجید جہاں لوحِ محفوظ میں ہے، وہاں یہ مکانی اور زمانی حالات و کیفیات سے پاک و برتر ہے، کیونکہ عالمِ لوح و قلم دراصل عالمِ لامکان و لازمان ہے، وہ جسم نہیں، جس کے ابعادِ ثلاثہ (طول، عرض، عمق) ہوتے ہیں، اور اس میں دنیائے ظاہر کی طرح زمانہ نہیں پایا جاتا، کہ اس کے ماضی، حال ، اور مستقبل ہو، بلکہ اس میں نہ گزرنے والا زمان ہے، جس کو آپ لازوال اور ہمیشہ ٹھہرا ہوا زمانہ کہہ سکتے ہیں، کیونکہ وہ “دہر” ہے (۷۶: ۰۱) جس کا دوسرا نام ازل ہے، اور یہی ازل دوسرے اعتبار سے ابد ہے، چنانچہ اگر آپ کسی قرآنی حقیقت کا تصوّر کلمۂ باری (یعنی کُنۡ) یا قلمِ الٰہی یا لوحِ محفوظ میں کرتے ہیں، تو یہ رفعِ زمان کا تصوّر ہے، کیونکہ ایسی صورت میں زمانۂ ظاہر کا حجاب سامنے سے اٹھ جاتا ہے۔

 

۶۔ قرآنِ حکیم میں فعلِ مضارع کا استعمال کثرت سے ہوا ہے، جس میں بہت بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں، آپ جانتے ہیں کہ مضارع وہ فعل ہے، جس میں حال اور مستقبل دونوں زمانے پائے جاتے ہیں، سو درحقیقت یہ مناسب نہیں کہ ہم ایسے لفظ کے دو زمانوں میں سے ایک کو لے کر دوسرے کو مہمل قرار دیں، بلکہ حق تو یہ ہے کہ دونوں معنوں کو برابر کی اہمیت دی جائے، جس کی ایک بہترین مثال ملاحظہ ہو:۔

وَ یَوْمَ یَقُوْلُ كُنْ فَیَكُوْنُ (۰۶: ۷۳) چونکہ صیغۂ یقول مضارع ہے، لہٰذا یہ حکم ہمیشہ زمانۂ حال اور مستقبل کے درمیان مشترک ہے، سو اس کا ترجمہ دونوں زمانوں سے متعلق ہو گا:۔

الف: اور جس دن (خدا) کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہو جاتا ہے۔

 

۷۹

 

ب: اور جس دن (خدا) کہے گا کہ ہو جا تو وہ ہو جائے گا۔ یہ امر انفرادی قیامت اور عالمِ شخصی کے روحانی ظہور سے متعلق ہے، جو حال میں بھی ہے اور مستقبل میں بھی، اب اگر اس حکمِ خداوندی کے نتیجے کو حال میں دیکھنا ہے تو روحانیّت میں اس کا تصوّر کرنا لازمی ہے، اور اگر مستقبل میں دیکھنا ہے تو جسمانی موت کا انتظار کرنا پڑے گا۔

 

۷۔ سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۴) میں ارشاد ہے: پہلا ترجمہ: جس روز ہم آسمان (یعنی تمام کائنات) کو لپیٹ لیتے ہیں۔ دوسرا ترجمہ: جس روز ہم آسمان (یعنی تمام کائنات) کو لپیٹ لیں گے۔ یہ دو ترجمے اس لئے ضروری ہیں کہ اس آیۂ کریمہ میں لفظِ “نطوی” مضارع ہے، پس ہمیں یقینِ کامل ہے کہ قادرِ مطلق اس ظاہری اور مادّی دنیا کو نہیں، بلکہ اس کی عقلی اور روحانی حیثیت و ہستی کو ہمیشہ اور ہر زمانے میں اپنے دستِ راست میں لپیٹ لیتا ہے، جبکہ انفرادی قیامات کے سلسلے میں کوئی قیامت واقع ہو جاتی ہے۔

 

۸۔ سورۂ احزاب (۳۳: ۳۷) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا (۳۳: ۳۷) اور خدا کا امر کیا ہوا ہے۔ یعنی نہ صرف “کُنۡ” (ہو جا) کا حکم کیا گیا ہے، بلکہ جو کچھ ہو جانا چاہئے وہ بھی ہوچکا ہے، یہ عالمِ امر کی کیفیت و حقیقت ہے، کہ وہاں اللہ کا کوئی کام مستقبل پر چھوڑا ہوا نہیں ہے، وہاں تو مستقبل کا وجود ہی نہیں، چنانچہ کلمۂ باری (کُنۡ) ازل میں صرف ایک بار چشمِ زدن کی طرح فرمایا گیا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے:

وَ مَاۤ اَمْرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۭ بِالْبَصَرِ (۵۴: ۵۰) اور ہمارا حکم (یعنی کُنۡ فرمانا) چشمِ زدن کی طرح صرف ایک بار ہے۔ آپ کو اس رازِ قرآنی سے بڑی حیرت ہو سکتی ہے کہ اس حقیقتِ حال کے باؤجود کہ کلمۂ باری صرف ایک بار

 

۸۰

 

فرمایا گیا ہے، لیکن پھر بھی کئی آیات سے یہ شہادت ملتی ہے کہ خداوندِ عالم چیزوں کو وجود میں لانے کے سلسلے میں ہمیشہ اور ہر وقت کُنۡ (ہو جا) فرماتا رہتا ہے، جیسے ہر کامل انسان پر جسمانی تخلیق اور روحانی تکمیل کے بعد اس کا اطلاق ہو جاتا ہے، جس کی مثال حضرت آدمؑ اور حضرت عیسیٰؑ ہیں (۰۳: ۵۹)۔

 

اس مسئلہ کے بارے میں عرض یہ ہے کہ یقیناً عالمِ روحانی میں کلمۂ امر نہ صرف اپنی ذات میں ایک ہے، بلکہ وہ اپنے جملہ ظہورات کو بھی ایک کر لیتا ہے، یہ ظہورات سلسلۂ نورِ ہدایت میں پائے جاتے ہیں، پس کلمۂ باری خورشیدِ انور ہے، جس کا عکسِ منیر (جو علم و حکمت کا سرچشمہ ہے) مکان و زمان کے حجابات کو سامنے سے ہٹا کر آئینۂ قلبِ مظہر کو اپنے ساتھ واصل کر لیتا ہے، جیسے آفتابِ ظاہر اپنے عکس کو آئینے سے اٹھا کر اپنی ذات سے ملا لیتا ہے، پھر ایسے کثیر آئینوں میں سورج کی دوئی اور کثرت ایک عارضی اور مجازی بات بن جاتی ہے۔

 

۹۔ بعض دفعہ انسان درازیٔ زمانہ کے باب میں سوچتے سوچتے ذہنی پریشانی اور حیرت سے دوچار ہو جاتا ہے، وہ یوں سمجھتا ہے کہ طولِ زمانہ بے پایان ہے، ازل ایسے لا انتہا بعید ماضی کا نام ہے، جس کا آغاز بے قیاس ہے، وغیرہ۔ مگر حقیقت میں پریشانی کی کوئی بات ہے ہی نہیں، کیونکہ زمان دراصل دہر سے ہے (۷۶: ۰۱) جو گردشِ آسمان کے توسط سے بنتا ہے، اور قانونِ بقا و فنا یہ ہے کہ جو چیز جہاں سے پیدا ہو جاتی ہے، بالآخر وہاں جا کر فنا ہو جاتی ہے، اس سے یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ ظاہری زمانہ دہر (زمانِ ساکن، ٹھہرا ہوا زمان، یعنی ازل) سے بنتا ہے اور پھر یہ جا کر دہر میں فنا ہو جاتا ہے، پس یہ کہنا کوئی منطق ہی نہیں کہ: “کارخانۂ قدرت میں محدود چیز تو لا محدود ہوتی جاتی ہے، مگر غیر محدود شیٔ کبھی محدود نہیں ہو سکتی۔” جبکہ قرآنِ حکیم میں یہ تذکرہ موجود ہے کہ قادرِ مطلق تمام پھیلی ہوئی اور بکھری

 

۸۱

 

ہوئی چیزوں کو لپیٹ لیتا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) محدود کر دیتا ہے (۳۶: ۱۲، ۷۸: ۲۹) عددِ واحد میں گن کر رکھتا ہے (۱۹: ۹۴، ۷۲: ۲۸) اور اسی طرح ہر چیز اس کے نزدیک ایک مخصوص مقدار میں ہے (۱۳: ۰۸، ۵۴: ۴۹) جس کا یہیں ذکر ہوچکا۔

 

۱۰۔ خدائے رحمان و رحیم اپنے نیک بندوں کے محدود اعمال کو بصورتِ اجر و ثواب کائنات بھر میں پھیلا دیتا ہے، اور خدائی رنگ (۰۲: ۱۳۸) کی نورانیّت سے رنگین کرکے ان سے بہشت بناتا ہے، پھر اسی بہشتِ برین کو جو کائناتی عقل، روحِ محیط، اور عالمگیر جسمِ لطیف کی شکل میں تھی (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) اپنے بابرکت ہاتھ کی مٹھی میں محدود کر کے مومنین کو عطا کر دیتا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) اور اسی آسمان کے لپیٹنے میں یہ حکیمانہ اشارہ بھی پوشیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ کل زمانوں (یعنی عالمِ ظاہر کی مدتِ عمر) کو مرکوز کر کے دہر (ازل = ابد) میں فنا کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں اہلِ ایمان کے وہ تمام نیک اعمال جو زمانۂ ظاہر میں کئے گئے تھے لازوال بن جاتے ہیں۔

 

۱۱۔ قانونِ قرآن بڑے صاف و صریح الفاظ میں کہتا ہے کہ چہرۂ خدا کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ ہلاک ہو جاتا ہے (سورۂ رحمان، ۵۵: ۲۷؛ سورۂ قصص، ۲۸: ۸۸) ، اور زمانۂ ظاہر بھی ہلاک ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ فانی چیزوں سے وابستہ ہے، مثال کے طور پر جب سیّارۂ زمین ختم ہو جائے گا، تو اس کا زمانۂ گردش بھی ختم ہو جائے گا، مگر سوال ہے کہ زمانہائے ظاہر کہاں اور کس طرح ہلاک ہو جاتے ہیں؟ جواب عرض ہے کہ وہاں جہاں چہرۂ خدا کا دیدار اور معرفت کا سب سے اعلیٰ مقام ہے، اور جہاں دہر، ازل، اور ابد مل کر ایک ہے، اور وہ ہلاکت اس طرح ہے کہ یہ مادّی زمانہ فنا ہو کر روحانی

 

۸۲

 

زمانہ یعنی دہر بن جاتا ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗؕ (۲۸: ۸۸) چہرۂ خدا کے سوا ہر چیز ہلاک ہو جانے والی ہے۔

 

۱۲۔ جب ہم محوِ خواب ہو جاتے ہیں، تو اس دوران ہمارا ظاہری وقت فنا ہو کر عالمِ خواب کا وقت بن جاتا ہے جو قطعاً مختلف ہے، جیسے ہی جاگ اٹھتے ہیں، اسی کے ساتھ دنیائے خواب دنیائے بیداری میں فنا ہو جاتی ہے، جہاں ہم دنیا زمانے سے آنکھیں بند کر کے عالمِ خیال میں چلے جاتے ہیں، وہاں ہمارے مادّی لمحات فکری و خیالی لمحات میں بدل جاتے ہیں، اور اگر “خیال” علم و عبادت کے وسیلے سے “روحانیت” میں فنا ہو جائے، تو ظاہر ہے کہ اس کا زمانہ الگ اور سب سے نرالا ہو گا، کیونکہ وہ دنیا کے تمام زمانوں پر بادشاہ ہے، جبکہ ہر ماضی، حال، اور مستقبل اس کے تحت ہے، جس کی بہت سی مثالیں قرآنِ حکیم میں موجود ہیں، جیسے سورۂ جمعہ (۶۲: ۰۲ تا ۰۳) میں بزبانِ حکمت ارشاد ہے کہ ہر زمانے کے مومنین بوسیلۂ امامِ زمان راہِ روحانیّت پر پیش رفت کر کے زمانۂ نبوّت اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فیوض و برکاتِ باطن کو پہنچ سکتے ہیں، اور یہی رفعِ زمان کا واضح تصوّر ہے۔

 

۱۳۔ سورۂ رحمان (۵۵) جو “عروس القرآن” ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کے ان تمام عظیم الشّان احسانات و انعامات کا تذکرہ ہے، جو انسانوں اور جنّات کو حاصل ہیں، یہاں آپ بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ ان جملہ ظاہری و باطنی نعمتوں کی چوٹی پر ایک انتہائی گرانقدر نعمت درخشان و تابان ہے، جو نہ صرف سب سے افضل و اعلیٰ ہے، بلکہ یہ لازوال، غیر فانی، ازلی، اور ابدی بھی ہے، اور ایسی نعمت جس کی تعریف کا قلمی احاطہ نہیں ہو سکتا نتیجۂ محویّت و فنائیّت ہے، وہ اس طرح کہ روحانیّت کے بحرِ محیط میں خدا کے بنائے ہوئے عظیم سمندری جہاز (یعنی عوالمِ شخصی) ذرّاتِ روح سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں، اور یہ فضل دیگر فضائل سے کیوں بڑھ کر نہ ہو کہ ان

 

۸۳

 

روحانی جہازوں میں جو بھی ہیں وہ سب کے سب چہرۂ خدا (یعنی معرفتِ توحید) میں فنا ہوکر اس کی صفتِ جلالت و کرامت میں زندۂ جاوید ہو جاتے ہیں (۵۵: ۲۴ تا ۲۷، کی روشنی میں خوب غور فرمائیں)۔

 

۱۴۔ قرآنِ پاک کے پُرحکمت و بابرکت ناموں میں سے دو مرفوع اور مطہر (۸۰: ۱۴) ہیں، جن کے معنی ہیں: بلند کیا گیا، اور پاک کیا گیا، آپ جانتے ہیں کہ یہ دونوں مبارک نام اسمِ مفعول ہیں، اب کسی ہوشمند کے دل میں یہ سوال ضرور ہوگا کہ قرآن پر بلند کرنے کا فعل کیسے واقع ہوا؟ آیا وہ نزول سے پہلے کبھی زمین کی پستی پر تھا؟ کس طرح اس کی تطہیر ہوئی؟ کیا وہ ازل ہی سے پاک و پاکیزہ اور برتر نہیں؟

 

اس کے جواب کے لئے گزارش یوں ہے کہ قرآنِ پاک بلاشک من عند اللہ (یعنی خدا کی جانب سے) نازل ہوا ہے، اس کے وجودِ پاک کے دو پہلو ہیں، ایک میں اللہ کی وہ پاک اور پیاری باتیں ہیں جو براہِ راست آسمان سے نازل ہوئی ہیں، اور دوسرے پہلو میں اہلِ زمین کی باتیں ہیں، جو آسمانِ علم و حکمت پر اٹھا کر پاک و پاکیزہ کی گئی ہیں، چنانچہ اسی پہلو کے اعتبار سے قرآنِ حکیم کے یہ دو نام مرفوع (بلند کیا گیا) اور مطہر (پاک کیا گیا) مقرر ہو گئے، اس کا واضح و عیان مطلب یہ ہوا کہ خدائے علیم و حکیم نے اپنی پُرحکمت کتاب (قرآن) میں جہاں جہاں کافروں، مشرکوں، وغیرہ کی ترجمانی کی ہے، وہاں بھی قرآنِ حکیم کے دوسرے مقامات ہی کی طرح باطنی بھیدوں کے خزانے موجود ہیں، بلکہ گنجہائے گرانمایہ بطورِ خاص ایسی جگہوں میں مخفی رہ سکتے ہیں کہ جہاں لوگوں کو اس کا گمان ہی نہ ہو سکے۔

 

۱۵۔ مذکورۂ بالا کلیدی حکمت کی روشنی میں آپ قرآنی بھیدوں کے بیش از بیش خزائن کو دیکھ سکتے ہیں، مثال کے طور پر سورۂ جاثیہ (۴۵) کی آیتِ کریمہ ۲۴  (۴۵: ۲۴) ملاحظہ ہو، کہ اس میں لفظِ دہر موجود ہے، آپ اس کو سورۂ دہر (۷۶) کی ابتدائی

 

۸۴

 

آیت (۷۶: ۰۱)  سے ملا کر پڑھیں، نیز ہلاک (۲۸: ۸۸) اور فنا (۵۵: ۲۶) کی حکمت پیشِ نظر ہو، پھر سب سے پہلے یہ سوچ لیا جائے کہ “دہر” کیا ہے؟ اگر دہر چہرۂ خدا کے سوا کسی اور چیز کا نام ہے، تو اسے وہاں فنا یا ہلاک ہو جانا چاہئے، جہاں ذاتِ خدا کے سوا جو کچھ ہے وہ فنا یا ہلاک ہو جاتا ہے، مگر ایسا نہیں، پس ظاہر ہے کہ دہر حقیقتِ حقائق کا ایک مخفی نام ہے۔

 

۱۶۔ انسان جب دہر کے مقام پر پہنچ جاتا ہے، تو وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر فنا ہو جاتا ہے، یہ بات شخصیّت میں بھی ہو سکتی ہے اور ذرّاتِ ارواح میں بھی، مگر اس فنا کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انسان اس حال میں نیست و نابود ہو جاتا ہو، بلکہ اس کی ایک مادّی مثال لوہے کے اس ٹکڑے کی طرح ہے جو دہکتے ہوئے انگاروں میں رہ کر سرخ انگارا بن جاتا ہے، اسی طرح انسان علم و عبادت کے ذریعے سے مکان و زمان سے بالاتر ہوکر اصل سے واصل ہو جانے کا تجربہ کرسکتا ہے، ایسے میں کچھ دیر کے لئے یا زیادہ عرصے کے لئے “انسان” کا یہ نام اٹھ جاتا ہے، جیسا کہ سورۂ دہر کے آغاز (یعنی ۷۶: ۰۱) میں ارشاد ہے: کیا انسان پر دہر سے ایک وقت آیا ہے جس میں وہ فنا ہو چکا تھا۔ اس میں واضح اشارہ یہ ہے کہ وہ وقت انسان پر پھر آنے والا ہے، یعنی انسان اس منزلِ فنا میں ایسا نہ تھا کہ اس کی اپنی طرف سے کوئی نام و نشان ہو۔

 

۱۷۔ صوفیوں کا نظریۂ “ہمہ اوست” (یعنی خدا سب کچھ ہے) بہت ہی خوب ہے، لیکن اس کا اطلاق دراصل فنا پذیر چیزوں پر نہیں ہوتا، بلکہ اس کا تعلق عالمِ امر کے لازوال اور غیر فانی حقائق سے ہے، جن کا مشاہدہ “محویت و فنائیت” کے بعد ہو جاتا ہے (۵۵: ۲۲ تا ۲۷) اگر یہ مانا جائے کہ منصورِ حلاج ایک کامیاب اور چوٹی کا صوفی تھا، تو پھر اس صورت میں لازماً ہمیں یہ بھی کہنا پڑے گا کہ اس

 

۸۵

 

کے سامنے سے زمانۂ ظاہر کا پردہ ہٹ گیا تھا، اور اس نے عالمِ امر میں اپنی “انائے علوی کا مشاہدہ” کر لیا تھا، اور اسی وجہ سے اس نے نعرۂ انا الحق بلند کیا۔

 

۱۸۔ وہ آیۂ کریمہ انتہائی اہمیّت و جامعیّت کی حامل ہے، جس کو “قانونِ خزائن، (۱۵: ۲۱)” کے پیارے نام سے ہمیشہ یاد کرنا چاہئے، ہم ایسی بابرکت آیات سے علمی و عرفانی روشنی حاصل کرنے کے لئے جتنی دفعہ بھی رجوع کریں کم ہے، چنانچہ یہ جاننا ازبس ضروری ہے کہ خداوندِ تعالیٰ کا قرب و حضور مکانی اور مادّی نہیں، بلکہ عقلی اور روحانی کیفیت میں ہے، لہٰذا یہ خزانے جن کا ذکر آیۂ محولۂ بالا میں ہے، زندہ اور بولنے والے ہیں، کیونکہ یہ عقل و جان کے سرچشمے ہیں، اور اسی وجہ سے ان کو پروردگارِ عالم کی انتہائی قربت و نزدیکی کا مرتبہ حاصل ہے، اس سلسلے میں ضروری طور پر یہ بھی سوچنا ہے کہ آیا انسانی صورت جو دراصل صورتِ رحمان ہے، وہ ان خدائی خزانوں سے باہر کہیں ہوسکتی ہے؟ نہیں ہرگز نہیں، کیونکہ ہر چیز ان خزائن میں ہے یا ان سے وابستہ ہے، پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر گنجِ الٰہی انسانی شکل کا ایک عظیم فرشتہ ہے، اور تمام اعلیٰ حقائق جیسے دہر، ازل، ابد، بہشت وغیرہ ایسے ہی زندہ خزانوں میں محدود ہیں، جس طرح آیۂ قانونِ خزائن (۱۵: ۲۱) میں اس امر کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

 

۱۹۔ قرآنِ حکیم میں لفظِ السمآء (آسمان) اکثر کل کائنات کے لئے آیا ہے، کیونکہ یہ سارا جہان کرۂ فلک کے تحت ہے، چنانچہ سمآء یعنی آسمان کے بارے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ قانونِ کلّ کا درجہ رکھتا ہے، جیسے ارشاد ہے: وَ اِذَا السَّمَآءُ كُشِطَتْ (۸۱: ۱۱) اور جس وقت کہ آسمان کی کھال اتاری جائے گی۔ یعنی روحانیّت اور قیامت میں اس جہان کے ظاہری وجود کو ہٹا کر اس کے باطن کو سامنے لایا جاتا ہے، اسی طرح زمانۂ ظاہر کا چھلکا اتارا جاتا ہے، تا کہ اس کے نیچے سے بھرپور حسن و

 

۸۶

 

خوبی کے ساتھ دہر کا مشاہدہ ہو، جو تمام ظاہری زمانوں کی جان ہے، پس جس طرح آسمان کی کھال یا چھلکا یا ظاہر ہے، اسی طرح اس مادّی کائنات کی ہر چیز کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، اور اسی سلسلے میں یہ کہنا حقیقت ہے کہ ہر آدمی کے اندر ایک صاف ستھرا بلکہ حسین و جمیل آدمی (یعنی روح) پوشیدہ ہے، کہ یہ چھلکا ہے اور وہ خوبصورت مغز، اس کے یہ معنی ہوئے کہ اس کائنات کے ظاہر کا نام دنیا ہے، اور اس کا باطن آخرت، روحانیّت، اور بہشت ہے اور اسی معنیٰ میں ارشاد ہوا ہے کہ جنّت طول و عرض میں اس جہان کے برابر ہے (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱)۔

 

فتح علی حبیب، صدرِ خانۂ حکمت

محمد عبد العزیز، صدرِ ادارۂ عارف

 

خاکسار خادم:

نصیر الدین نصیر ہونزائی

منگل ۸ محرم الحرام ۱۴۰۶ھ

۲۴ ستمبر ۱۹۸۵ء

 

۸۷

 

مسئلۂ شہادت

 

۱۔ شہادت کے معنی ہیں کسی چیز کا مشاہدہ کرنا۱، خواہ چشمِ ظاہر سے ہو یا دیدۂ دل سے، شہادت راہِ خدا میں شہید ہو جانا بھی ہے، حاضر ہونے کو بھی کہتے ہیں، اور گواہی کو بھی، جیسے سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۸) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: اللہ تعالیٰ نے خود شہادت (گواہی) دی کہ بے شک اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور فرشتوں نے بھی، اور صاحبانِ علم (اولوا العلم) نے بھی، جو عدل کے ساتھ قائم ہیں (۰۳: ۱۸) یہ حضرات کون ہیں جو خدا اور ملائکہ کے ساتھ حقیقی معنوں میں وحدانیّت کی گواہی دیتے ہیں، جن کو ربِّ کریم نے آسمانی علم کے مرتبۂ اعلیٰ پر اٹھا کر “اولوا العلم” کے اسم سے موسوم فرمایا ہے، اور جو عدل و انصاف کے ساتھ قائم ہیں؟ یہ انبیاء و اوصیاء علیہم السّلام ہیں، کیونکہ کامل خدا شناسی (معرفت) علمِ توحید، اور عدل جیسے اعلیٰ اوصاف سے صرف یہی مقدّس ہستیاں موصوف ہیں۔

 

۲۔ آپ نے غور سے دیکھا کہ مذکورۂ بالا شہادت جو اللہ تعالیٰ کی وحدت و یکتائی سے متعلق ہے، وہ عام نہیں بلکہ خاص اور سب سے بالا و برتر ہے، کیونکہ وہ

 

۱: (جو روحانی شہید ہو، وہ آج دنیا ہی سے حقائق و معارف کا مشاہدہ کرنے لگے گا، اور جو جسمانی شہید ہو، وہ کل آخرت میں مشاہدہ کرے گا)

 

۸۸

 

اللہ اور فرشتوں کی گواہی کے ساتھ ہے، اور آسمانی علم و معرفت اور حقیقی عدل کی روشنی میں ہے، یعنی روحانی اور عقلی ظہورات و تجلّیات کے مشاہدۂ باطن اور کامل معرفت کے بعد ہے، کیونکہ اس کے بغیر وحدانیّت کی بحقیقت شہادت نہیں ہوسکتی ہے، اور یہ قانونِ حکمت ہمیشہ یاد رہے کہ جب بھی کوئی شہادت خداوندِ تعالیٰ کی شہادت سے جا ملتی ہے، وہ عالمِ روح اور عالمِ عقل کے “بھرپور مشاہدات” اور مکمل خدا شناسی پر مبنی ہوا کرتی ہے، جیسا کہ سورۂ رعد کی آخری آیۂ کریمہ (یعنی ۱۳: ۴۳) میں خداوندِ عالم کا فرمان ہے: اور (اے رسول) کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم پیغمبر نہیں ہو تو تم (ان سے) کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان (میری رسالت کی) گواہی کے واسطے خدا اور وہ شخص جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا علم ہے کافی ہیں۔

 

اہلِ دانش کے نزدیک یہ حقیقت کتنی تابناک اور قابلِ فہم ہے کہ جہاں آنحضرتؐ کی رسالت کا پہلا گواہ خدا خود ہے، وہاں اس حقیقت کا دوسرا گواہ امام یعنی مولا علیؑ ہے، اس امر سے ہر دانا شخص بحسن و خوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ امامِ عالی مقام کا باطنی مرتبہ کتنا بلند ہے، اور اس نے کس طرح نبوّت و رسالت کے جملہ احوالِ روحانی و عقلی کو چشمِ بصیرت سے دیکھا ہے، کیونکہ اس کے سوا نہ تو خدا کے معیار کے مطابق کوئی شہادت ہو سکتی ہے، اور نہ ہی آسمانی کتاب کا نورانی علم ممکن ہے۔

 

۳۔ سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالتِ عالیہ پر خداوندِ تعالیٰ کی شہادت قرآن کی تنزیل ہے، اور امامِ اقدس و اطہر کی شہادت قرآن کی تاویل ہے، یعنی جب اللہ نے قرآن کو نازل فرمایا، اور جب بحکمِ خدا نورِ امامت نے اس کی تاویل کا آغاز کیا، تو پہلی بار یہ دونوں عالی شان شہادتیں مکمل ہوئیں، تاہم تنزیل کی شہادت کے ساتھ ساتھ تاویل کی شہادت بھی ہمیشہ لازمی تھی ، لہٰذا اس

 

۸۹

 

کا ذریعہ یعنی امامِ عالی مقام ہر زمانے میں موجود اور حاضر ہے، اور اسی آیۂ کریمہ (یعنی ۱۳: ۴۳) کے مطابق حدیثِ ثقلین ہے، جس میں اسی شہادت کے ساتھ ساتھ امت کی ہدایت بھی مقصود ہے۔

 

۴۔ سورۂ ہود کی اس نورانی تعلیم کو دیکھئے: پس کیا وہ شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہو (یعنی رسول) اور ایک گواہ اس کے پیچھے ہی پیچھے آتا ہو جو اسی کا جزو ہو (یعنی علی، ۱۱: ۱۷) آپ کو یہ معلوم ہے کہ اسلام کے ظاہری معاملات میں جہاں گواہی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہاں غیر مسلم کو نہیں بلکہ دو ایسے معتبر مسلمانوں کو بطورِ گواہ لیا جاتا ہے، جنہوں نے متعلقہ واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو، لیکن کارِ نبوّت و رسالت “باطنی اور نورانی معجزات کا مجموعہ” ہے، جس کو خدا، رسول، اور صاحبِ امر (یعنی امام) ہی دیکھ سکتے ہیں، لہٰذا اس کی شہادت کے لئے اللہ پاک نے اپنے ساتھ امامِ برحق کو لیا، جو پیغمبرِ اکرم کی جان ہے، پس یہ “شہادتِ رویت” ہے۱۔

 

۵۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ ہے (۲۲: ۱۷) اسی طرح وہ رسول پر بھی گواہ ہے، آنحضرت أئمّۂ طاہرین پر گواہ ہیں (۰۲: ۱۴۳، ۲۲: ۷۸) یعنی نورِ امامت نورِ نبوّت سے واصل ہے، اور حضراتِ أئمّہ اپنے اپنے زمانے کے لوگوں پر گواہ ہیں (۰۲: ۱۴۳، ۲۲: ۷۸) اس کے یہ معنی ہوئے کہ خدا کا دروازہ پیغمبر ہیں، اور پیغمبر کا دروازہ امام، اور یہی بے بدل سنت اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔

 

۶۔ سورۂ زمر (۳۹: ۶۹) کے اس ارشاد کو دیکھئے: اور زمین اپنے ربّ کے نور سے چمک اٹھے گی اور کتاب رکھ دی جائے گی اور پیغمبروں اور گواہوں کو لایا جائے

 

۱: چشم دید گواہی

 

۹۰

 

گا (۳۹: ۶۹) مذکورہ زمین جو اپنے پروردگار کے نور سے منوّر ہوجاتی ہے ارضِ عالمِ شخصی ہے، اس کتاب کو آپ نامۂ اعمال یا کتابِ روح یا روحانیّت کہہ سکتے ہیں، اور انبیاء کے ساتھ جو گواہ ہیں، وہ اوصیاء (یعنی أئمّہ) ہیں جیسے سورۂ ق (۵۰: ۲۱) میں ارشاد ہے: اور ہر نفس (یعنی روح) آئے گا (اس حال میں کہ) اس کے ساتھ ایک ہانکنے والا اور ایک گواہ ہوگا (۵۰: ۲۱) یعنی اوّلین و آخرین کی ہر روح اپنے پیغمبر اور امام کے ساتھ آئے گی، کہ انبیاء لوگوں کو قانونِ شریعت کے مطابق چلاتے ہیں، اور أئمّہ لوگوں پر گواہ ہیں۔

 

۷۔ خدا تعالیٰ ہر جگہ حاضر ہے، اس معنیٰ میں وہ ہر چیز پر گواہ ہے، اور اس سلسلے میں وہ لوگوں پر بھی گواہ ہے، مگر ظاہری قانون یہ ہے کہ جس کو گواہ ہونا ہے، وہ غائب نہ ہو، بلکہ حاضر ہو، چنانچہ خداوندِ عالم نے ہر دور میں ایک پیغمبر کو بھیجا ، تاکہ وہ اپنی زندگی کے دوران لوگوں پر گواہ رہے، یعنی خدا کی گواہی کی نمائندگی کرے، اور پھر اپنے جانشین کو اس شہادت کے لئے مقرر کرے، اسی حقیقت کا یہاں قرآنِ حکیم کی روشنی میں ذکر ہو رہا ہے، اور یہی حقیقت سورۂ مائدہ کی ایک آیۂ کریمہ (یعنی ۰۵: ۱۱۷) میں نمایان طور پر جھلکتی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: اور میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھ کو وفات دی تو تو ہی ان پر مطلع تھا (۰۵: ۱۱۷) یہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کا تذکرہ ہے، کہ آپ اپنی حیاتِ طیبہ میں لوگوں پر گواہ تھے، اور آپ کے بعد آپ کے دور کے أئمّہ اس سماوی شہادت کی نمائندگی کرتے تھے، اور حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں بھی ایسا ہی ہے۔

 

۸۔ قیامت کے بارے میں جتنے ارشادات فرمائے گئے ہیں، وہ سب کے سب امثال کی صورت میں ہیں، چنانچہ ہر مثال کی مدد سے اس کے ممثول کی معرفت

 

۹۱

 

ضروری ہے، اور اگر یہ بات نہ ہوسکی تو مثال کا جو مقصد تھا، وہ لا حاصل ہو کر رہ جائے گا، جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے: پھر ہم ایک خاص علم سے ان کو بیان کریں گے اور ہم غائب نہ تھے ( ۰۷: ۰۷) یعنی مثالیں سب کی سب اس ظاہری دنیا میں رہ جائیں گی، اور مقامِ روحانیّت جو قیامت و آخرت ہے، اس میں ایک خاص علمِ الٰہی کے تحت ممثولات ہی ممثولات سامنے آئیں گے۔

 

یہاں یہ ارشاد:  وَّ مَا كُنَّا غَآىٕبِیْنَ (اور ہم غائب نہ تھے) زیادہ سے زیادہ توجہ طلب ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم کے الفاظ عربی زبان اور لغت کی بنیاد پر قائم و استوار کئے گئے ہیں، چنانچہ مذکورہ آیۂ کریمہ میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر خدائے واحد “غائبین” نہ تھے تو لازمی طور پر “حاضرین” تھے لیکن یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم کسی واحد کو جمع تسلیم کریں، اور کسی غائب کو سامنے حاضر دیکھیں؟ جواباً عرض ہے کہ ان پُرحکمت الفاظ میں حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا ذکر ہے کہ وہ صاحبان بہت سے معنوں میں اللہ پاک کی خلافت، نیابت، اور نمائندگی سے سرفراز ہوئے ہیں، اور کوئی بادشاہ اپنے نمائندوں کے بارے میں لوگوں سے یہ کہہ سکتا ہے کہ: “دیکھو یہ ہمارے نمائندے تمہاری طرف آ رہے ہیں، بلکہ یوں سمجھ لو کہ ان کی صورت میں ہم خود ہیں۔”

 

۹۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۸) کا ایک پُرحکمت مفہوم اس طرح ہے: بے شک صبح کا قرآن (پڑھنا) بمعنی نورانی عبادت مشہود (حاضر کیا گیا) ہے، یعنی اس کے نتیجے میں عالمِ روحانیّت کا مشاہدہ ہو جاتا ہے، پس یہی ذکر و عبادت قرآن کی خصوصی تلاوت ہے، اور یہی نورانی منظر قرآن کی روح و روحانیّت ہے، جیسے فرمایا گیا ہے (۰۵: ۴۴) کہ تورات کے پہلوئے ظاہر میں ہدایت تھی اور پہلوئے باطن میں نور تھا، تا کہ انبیاء ، أئمّہ (ربّانیوں) ، حجّج و دعاۃ (احبار) اپنے اپنے

 

۹۲

 

درجے کے مطابق اس نور کی روشنی میں لوگوں کو تورات کی تعلیم دیں (مفہوم: ۰۵: ۴۴)۔

 

مذکورۂ بالا آیۂ مقدّسہ میں : وَ كَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَآءَ (اور وہ اس پر بحالتِ روحانی حاضر تھے) کا ارشاد کلیدی حکمت کا حامل ہے، جس سے یہ واضح اشارہ مل جاتا ہے، کہ آسمانی کتاب کا نور پیغمبر اور امام کی ذاتِ عالی صفات میں اپنی بھرپور روحانی اور عقلی تجلّیات کے ساتھ موجود ہوتا ہے، اور انہی کے وسیلے سے حجّتوں اور داعیوں کو بھی اس کا مکمل تجربہ ہو سکتا ہے۔

 

۱۰۔ آپ کو شاید اس بھید کے سننے سے بڑا تعجب ہوگا کہ جو حضرات جسمانی موت سے پہلے نفسانی موت کا تجربہ کر لیتے ہیں، تو ان کی “ذاتی قیامت” برپا ہو جاتی ہے، ان کو بہت بڑی کامیابی کے ساتھ نامۂ اعمال دیا جاتا ہے، اس میں آسمانی کتاب کی عملی تاویل ہوا کرتی ہے، اور اسی کو کہتے ہیں تاویل کا آنا ایسے لوگ مقربین کہلاتے ہیں، دیکھئے سورۂ تطفیف (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) ہرگز ایسا نہیں، بے شک نیک لوگوں کا نامۂ اعمال علّیّین میں ہے اور تم کو کیا معلوم کہ علیّون کیا ہے وہ ایک تحریر پذیر کتاب ہے جس کو مقرّب لوگ (جیتے جی) دیکھ سکتے ہیں (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) واضح رہے کہ علّیّین اور علیّون۱ سے علی اور أئمّۂ آلِ محمدؐ و اولادِ علیؑ مراد ہیں، جن کی مجموعی حیثیت کتابِ مرقوم ہے، یعنی ایسی کتاب کہ اس میں امامت کے عظیم کارنامے ہر وقت درج ہوتے رہتے ہیں، یہ کتاب بولنے والی ہے (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) یعنی قرآنِ ناطق، اور امامِ مبین، پس حقیقی مومنین کا نامۂ اعمال اسی نورانی کتاب کے اندر ہے، جس کو عالی ہمت مومنین صرف کل نہیں، بلکہ آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔

 

۱۱۔ یہ بھی امامِ عالی مقام صلوات اللہ علیہ کے خزانۂ علم و عرفان کا

 

۱: یہ علیؑ کی جمع ہے، وہ لوگ جو شہر کے اونچے مقامات پر رہتے ہیں، المنجد

 

۹۳

 

ایک عظیم راز ہے کہ جب کوئی کامل انسان روحانیّت کے دروازے سے داخل ہو جاتا ہے، تو اس وقت خدا تعالیٰ اس شخص کے سامنے عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کرتا ہے، اور اس کی روح و عقل کو درجۂ کمال پر پہنچا دیتا ہے، چنانچہ منفی سے مثبت کی طرف اشارہ کرنے کے اصول سے فرمایا گیا ہے کہ: میں نے ان کو نہ تو آسمانوں اور زمین پیدا کرنے کے وقت حاضر کیا اور نہ خود ان کے پیدا کرنے کے وقت (ان کوگواہ بنا لیا، ۱۸: ۵۱) اس کی ایک مشہور تاویل یہ بھی ہے کہ اہلِ باطن کے عقائد و نظریات ایسے نہیں ہو سکتے کہ ان کے ثبوت میں آفاق و انفس سے شہادت مل سکے۔

 

۱۲۔ حضرت آدمؑ کے مرتبۂ خلافت و نیابتِ الٰہیہ اور علم و عرفان کے ورثے کو اپنانے کے معنوں میں انبیاء و أئمّہ ہی بنی آدم ہیں، چنانچہ یہ عالمِ ذرّ کا واقعہ ہے کہ اللہ ہر پیغمبر اور ہر امام کی پشتِ مبارک سے ان تمام ذرّاتِ ارواح کو لیتا ہے، جو دنیا بھر کے لوگوں کے نمائندے یا انائیں ہیں، پھر ان کو اسی انسانِ کامل کے نور کی روشنی میں اپنی روح و روحانیّت کا بھرپور مشاہدہ کراتا ہے، اور اسی طرح ہر شخصِ کامل میں عہدِ الست کی تجدید ہوتی رہتی ہے (۰۷: ۱۷۲)۔

 

۱۳۔ قرآنِ حکیم کا ہر لفظ اعلیٰ حکمتوں کا ایک مرکز ہے، ایک ایسا پُرحکمت لفظ “جدید” ہے، اور اہلِ بصیرت کے لئے اس میں بہت بڑی حکمت یہ ہے کہ ہر بار اس کو پرانی چیز سے نئی چیز بنانے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، تاکہ تصوّرِ آفرینش کے بارے میں کوئی ہوشمند ہرگز یوں نہ سوچے کہ خدا نے اس جہان اور انسان کو ایسا جدید (نیا)  بنایا ہے کہ اس سے پہلے کچھ بھی نہ تھا، جبکہ قرآن قدیم سے جدید، اور جدید سے قدیم بنانے کی مثالیں پیش کرتا ہے، اسی طرح “مسلسل تجدید کا عمل” لازوال اور ابدی بہشت کا موجب بن جاتا ہے۔

 

۹۴

 

۱۴۔ خلقِ جدید (۱۳: ۰۵، ۰۱: ۱۹، ۳۲: ۱۰، ۳۴: ۰۷، ۳۵: ۱۶، ۵۰: ۱۵، ۱۷: ۴۹، ۱۷: ۹۸) سے جسمِ لطیف مراد ہے، جو بطریقِ ابداع یعنی بذریعۂ کُنۡ (ہو جا) ذرّاتِ لطیف سے متشکل ہو جاتا ہے، مذکورہ آٹھ مقامات پر دراصل نہ صرف انبعاث کا ذکر ہے، بلکہ وہی خود ابداع بھی ہے۔

 

صدر فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

خادم:

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۳۰ ستمبر ۱۹۸۵ء

 

۹۵

 

تاویلِ قصّۂ ایوب

 

تاویل میں اختلافات کیوں؟

بعض لوگ علمِ تاویل کے عروج و ارتقاء کی صورت کو یا اس کی گوناگون برکتوں اور کثیر حکمتوں کو ایک دوسرے کی مخالف و متضاد تاویلات سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ بات ہرگز نہیں، کیونکہ تاویل جو حکمت اور خیرِ کثیر ہے (۰۲: ۲۶۹) وہ دراصل اولوالامر کو دی گئی ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اولوالامر ہی صاحبانِ تاویل ہیں، چنانچہ انہی حضرات میں سے ہر ایک کے لئے آیۂ اطاعت (۰۴: ۵۹) میں یہ حکیمانہ اشارہ فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے وقت میں ذخیرۂ تاویل میں سے بہ تقاضائے زمان و مکان تاویل بیان کرے، اور اسی بنیاد پر پورے دور میں پھیلے ہوئے مومنین کو حکم ہوا کہ وہ تاویل میں اپنے اپنے زمانے کے صاحبِ امر کی اطاعت کریں، اس سے ظاہر ہے کہ ہر ولیٔ امر (یعنی زمانے کا امام) اسلام کی “تدریجی ہدایت” کے سلسلے میں کچھ “جدید تاویلات” بیان کرتا ہے، جیسا کہ زمانۂ نزولِ قرآن میں ارشاد ہوا تھا کہ: جس دن اس کی تاویل آئے گی (۰۷: ۵۳) اس کامطلب یہ ہے کہ تاویل تو شروع ہی سے بتدریج آتی رہی ہے، اور کوئی زمانہ اس کے ظہور سے خالی نہیں رہا ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عجب نہیں کہ اس کا “نتیجۂ مجموعی اور زور” ایک خاص زمانے میں انقلابی شکل اختیار کرے۔

 

۹۶

 

عالمِ شخصی:

ایک تو ہے عالمِ ظاہر، یعنی یہ مادّی کائنات، دوسرا عالمِ دین، اور تیسرا عالمِ شخصی، چنانچہ تاویل کے معاملے میں ان تینوں عوالم کا ربط و رشتہ اس طرح ہے کہ مثالیں عالمِ ظاہر کی چیزوں سے دی گئی ہیں، مگر ممثولات عالمِ دین اور عالمِ شخصی میں دکھانا مقصود ہے، جیسے اس دنیا کے سورج اور چاند سے پیغمبر اور امام کی تشبیہہ و تمثیل دی گئی ہے، جو عالمِ دین کے آسمان سے ضیا پاشی کرتے ہیں، اور یہی نورانی شمس و قمر “عالمِ شخصی میں بھی اپنا کام کر رہے ہیں،” پس اس اعتبار سے تاویل کی دو قسمیں ثابت ہو گئیں، پہلی قسم عالمِ دین سے متعلق ہے، اور دوسری قسم عالمِ شخصی کے بارے میں ہے۔

 

یہاں ہم عنوانِ بالا کے تحت جو کچھ عرض کر دینا چاہتے ہیں، وہ عالمِ شخصی کی تاویل ہوگی، جیسا کہ ارشادِ قرآنی کا ترجمہ ہے: اور ایوب کا تذکرہ کرو جبکہ اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ مجھ کو یہ تکلیف پہنچ رہی ہے اور تو سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے، ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کو جو تکلیف تھی اس کو دور کر دیا اور ہم نے اس کو اس کا کنبہ عطا فرمایا اور ان کے ساتھ (شمار میں) ان کے برابر اور بھی اپنی خصوصی رحمت سے اور عبادت کرنے والوں کے لئے نصیحت کی غرض سے (۲۱: ۸۳ تا ۸۴)۔

 

تکلیف یا ایذا (الضُّرُّ):

حضرت ایوب علیہ السّلام دورِ ابراہیمی کے ساتھ امامانِ مستودع میں سے امامِ پنجم تھے، آپ کو سنتِ الٰہی کے مطابق مراحلِ روحانیّت سے گزرتے ہوئے وہی ساری مصیبتیں اٹھانی تھیں، جو عوام کی نسبت سے خاص اور بالاتر ہیں، لیکن تمام انبیاء و أئمّہ کے لئے عام اور مشترک ہیں، ان بلاؤں اور آزمائشوں کے بغیر کوئی کامل انسان “روح اور عقل کی سلطنت” کو

 

۹۷

 

حاصل نہیں کرسکتا، اور یہ سب امتحانات ظاہر میں بھی ہیں اور باطن میں بھی، خصوصاً اس کا روحانی پہلو بہت ہی بھاری اور بڑا عجیب و غریب ہوا کرتا ہے، جبکہ وہ دنیا بھر کی تکالیف کا جوہر ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کی تشبیہہ و تمثیل طرح طرح سے دی گئی ہے، حالانکہ وہ صرف ایک ہی چیز ہے، یعنی روح، جو بے شمار ذرّات پر مشتمل ہے، اور یہی ذرّاتِ روح خیر و شر کے تمام نمونے پیش کر سکتے ہیں۔

حضرت ایوبؑ کے بدنِ مبارک میں کیڑے:

سورۂ فاطر (۳۵: ۱۲) میں کوئی دانشمند غور سے دیکھے تو اسے یہ راز معلوم ہو جائے گا کہ اگرچہ انسان کے نزدیک صرف خیر (راحت) ہی پسندیدہ ہے، اور شر (مصیبت) بالکل ناپسند ہے، لیکن خدا تعالیٰ نے اس کے تجربۂ روحانیّت میں علمی اور عرفانی فائدے کی خاطر خیر و شر کے دو دریا پیدا کر دئے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: اور دونوں دریا برابر نہیں (بلکہ) ایک تو شیرین پیاس بجھانے والا ہے جس کا پینا بھی آسان ہے (یعنی خیر) اور ایک شور تلخ ہے (یعنی شر) اور تم ہر ایک سے تازہ گوشت کھاتے ہو (نیز) زیور نکالتے ہو جس کو تم پہنتے ہو (۳۵: ۱۲)۔

 

جب انسانِ کامل کی ذاتی قیامت قائم ہو جاتی ہے، تو اس میں سب سے پہلے یاجوج اور ماجوج کے عنوان سے ذرّاتِ روح آ کر شخصِ کامل کی روحِ حیوانی کو ایک طرح سے چاٹ چاٹ کر کھاتے ہیں، اور یہی واقعہ ہے جس کی تمثیل قصّۂ ایوب میں ان کے بدنِ مبارک کو کیڑوں کے کھانے سے دی گئی ہے، اس روحانی سرگزشت کی کئی مثالیں ہیں:

الف: ذوالقرنین کی قائم کردہ دیوار کو ریزہ ریزہ کر دینا (۱۸: ۹۸)

ب: یاجوج اور ماجوج کا زمین میں فساد مچانا۔

ج: مقدّس آسمانی آگ کا کسی متقی کی قربانی کو کھا لینا (۰۵: ۲۷)

 

۹۸

 

د: حجِ بیت اللہ میں قربانی کے گوشت میں سے کھانا اور کھلانا (۲۲: ۲۸)

ہ: غیبت کے معنی میں اپنے مردہ دین بھائی کے گوشت کو کھا لینا (۴۹: ۱۲)

و: گرنے پر مایل دیوار کو گرا کر نئے سرے سے بپا کر دینا، تا کہ خزانہ قبل از وقت ظاہر نہ ہو (۱۸: ۷۷)

ز: یہ آتشِ نمرود بھی ہے (۲۱: ۶۸ تا ۶۹)

ح: “آتشِ فرعون” بھی ہے (۲۸: ۳۸) ، وغیرہ۔

 

حضرت ایوب کی آل و اولاد:

حضرت ایوب کی آل و اولاد اور جملہ متعلقین مرچکے تھے، لیکن خدا نے اپنی قدرتِ کاملہ سے انہیں زندہ کر دیا، صرف یہی نہیں بلکہ آپ کو مزید اتنے افراد اور بھی عطا کر دئے، جس کی تاویل یہ ہے کہ مردِ کامل (پیغمبر / امام) خلیفۂ خدا اور جانشینِ آدم ہوا کرتا ہے، جس کی ہستی میں دنیا بھر کے “لوگ بصورتِ ذرّات” جمع ہوتے ہیں، جو اس “آدمِ زمان” کی خاص اور عام ذرّیات کہلاتے ہیں، چنانچہ جب یہ شخصِ کامل جسمانی موت سے پہلے روحانی موت کا تجربہ کر لیتا ہے تو اسی وقت یہ سب لوگ بھی مر جاتے ہیں جو ذرّاتِ روحانی کی شکل میں تھے، پھر یہ اور وہ سب زندہ ہو جاتے ہیں، اور انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں جتنے نفوس ہیں، “اتنی عقول” بھی ہوتی ہیں۱، پس یہ ہوا حضرت ایوبؑ کے لوگوں کا مر کر زندہ ہو جانا، اور ان کا دو چند ہونا، مگر یہاں ایک ضروری نکتہ یاد رہے کہ نفوس الگ الگ ہوتے ہیں، مگر عقول جتنی بھی ہیں وہ سب کی سب مل کر ایک ہی ہو جاتی ہیں، اس

 

۱: نفوس پہلے اور عقول بعد میں بنتی ہیں

 

۹۹

 

کا مطلب یہ ہوا کہ گوہرِعقل اگرچہ ایک ہی ہے، تاہم اس میں سب لوگ ہیں، بلکہ اس میں تمام کائنات ملفوف اور لپٹی ہوئی ہے۔

 

شیطان کی ناکام کوشش:

جیسا کہ اس کا ذکر ہوچکا کہ آزمائش کے لئے خیر کے ساتھ شر کا بھی ہونا لازمی ہے، آپ سورۂ انعام (۰۶: ۱۱۲) میں یہ دیکھ سکتے ہیں کہ خدائے علیم و حکیم نے بربنائے حکمت و مصلحت ہر کامل انسان کے لئے انسی اور جنّی شیاطین میں سے کئی دشمن بنا دئے ہیں، چنانچہ اس شیطان نے جو انسانی شکل میں تھا، حضرت ایوبؑ کی تبلیغ و دعوت کی وجہ سے آپ کی شدید مخالفت اور بدخواہی کی، جس کے نتیجے میں جنّی شیطان نے ان کے خواب میں ایک “جانور کا روپ” دھار کر جسمِ مبارک کو چھو لیا، جس سے آپ سخت علیل ہوگئے، مگر خدا کے برگزیدہ دوستوں کی طرح صابر رہے، حکم ہوا کہ: اُرْكُضْ بِرِجْلِكَ (۳۸: ۴۲، “اپنا پاؤں مارو۔” یعنی زبردست و کثیر ذکر کرو) چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس کے نتیجے میں آپ کے سامنے روحانی علم و حکمت کا ایک انتہائی صاف شفاف اور بے حد شیرین سرچشمہ جاری ہوا، جس سے نہانے دھونے اور پینے کے لئے فرمایا گیا۔

 

ضغث کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَخُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَلَا تَحْنَثْؕ- (۳۸: ۴۴) اور تم اپنے ہاتھ میں ایک مٹھا سینکوں کا لو اور اس سے مارو اور قسم کو نہ توڑو۔ ضغث کے معنی ہیں گھاس کا مٹھا، نیز اس کے معنی ہیں کسی چیز کا مجموعہ، اور اس سے “مجموعۂ ذرّاتِ روح” مراد ہے، چنانچہ ان ذرّات کی لاتعداد مثالوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان سے شخصیّت پر ایک پُرحکمت ضرب پڑتی ہے، جیسے آپ کو کسی دوست نے ایک گلدستے سے مارا، پھر اس نے نہ صرف پھولوں کو شمار

 

۱۰۰

 

کیا، بلکہ پنکھڑیوں کو بھی گن لیا، پس اس آیۂ کریمہ میں انتہائی لطیف اشارے ہیں۔

 

حضرتِ ایوب علیہ السّلام کی “تین بیویاں تھیں”: جسمانیت میں ایک خاتون، عالمِ دین میں حجّتِ اعظم (باب) اور عالمِ شخصی میں روح، جس کا دوسرا نام نفس ہے، جبکہ آپ کو “اپنی ذات میں عقل کا درجہ” حاصل تھا، چنانچہ یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ آپ کا نفس پاک اور بے عیب تھا، لیکن قانونِ اصلاح و تزکیہ کا نمونہ پیش کرنا قسم کی طرح ضروری تھا، لہٰذا آپ کے نفسِ مطمئنہ (۸۹: ۲۷) پر مجموعۂ ذرّاتِ لطیف (ضغث) سے ایک پُرحکمت ضرب پڑی۔

 

آپ کو اس حقیقت پر یقین ہے کہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ذاتی قیامت کو دیکھنے کے سلسلے میں سب سے پہلے “نفسانی موت کا تجربہ” کر لیتے ہیں، یہ تجربہ مومنین کے لئے اگرچہ سخت دشوار ہے، لیکن ناممکن کیسے ہو سکتا ہے، جبکہ اسلام کے “سارے معجزات صراطِ مستقیم پر واقع ہیں،” نہ کہ اس سے ہٹ کر، اور جبکہ وہ حضرات اس راہِ راست پر پیشرو ہیں اور جملہ مومنین پیرو۔

 

آئیے مذکورۂ بالا “ضرب” کی بہت سی قرآنی حکمتوں میں سے کسی اور حکمت کو بھی دیکھیں، بنی اسرائیل نے بحکمِ خدا جس بیل کو ذبح کیا تھا (۰۲: ۷۱) وہ درحقیقت نفس کُشی کی مثال و علامت ہے، یعنی جسمانی موت سے قبل نفسانی موت مر کر زندہ ہو جانے کی دلیل ہے، جبکہ اس کے ایک ٹکڑے سے مارنے پر ایک مردہ شخص زندہ ہو جاتا ہے، اس مقام پر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لفظِ “ضرب” یعنی اضربوہ (۰۲: ۷۳، اس کو مارو) استعمال ہوا ہے، اور “کذالک” (اسی طرح) فرما کر اس معجزے کو ایک ایسے عام قانون کا درجہ دیا گیا ہے کہ جس شخص کو جیتے جی مر کر زندہ ہو جانا عزیز ہو، وہ اپنے نفس کے بیل کو ذبح کرے، اور اس کے

 

۱۰۱

 

ایک ٹکڑے سے اپنی شخصیّت کو پُرحکمت ضرب لگائے۔

 

حضرت ایوبؑ کے اوصاف و کمالات:

سورۂ نساء (۰۴: ۱۶۳) میں آپ کا ذکرِ جمیل اس طرح فرمایا گیا ہے کہ آپ ان بابرکت اور عظیم المرتبت پیغمبروں میں سے تھے، جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی ہے، سورۂ انعام (۰۶: ۸۴) میں آپ کی تعریف و توصیف یہ ہے کہ آپ دوسرے انبیاء کی طرح ہدایت یافتہ تھے، آپ کو ذرّیتِ ابراہیم ہونے کا شرف بھی حاصل تھا، اور آپ کو خدا نے وہ بدلہ اور مرتبہ عطا فرمایا تھا، جو محسنین کو عطا فرمایا جاتا ہے۔

 

حضرت ایوب علیہ السّلام کا خاص قصّہ سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۳ تا ۸۴) اور سورۂ ص (۳۸: ۴۱ تا ۴۴) میں ہے، جس کی تاویلی حکمت بفضلِ خداوندِ برحق بیان کی گئی، ذکر و بندگی کے نتیجے میں ہر شخص کو اس کے مقام کے مطابق کس طرح کوئی انعام مل جاتا ہے، اس کے لئے آپ مثال تھے (۲۱: ۸۴) خدا تعالیٰ نے ان کو صابر، اپنا بندۂ خاص، اور رجوع ہونے والا قرار دیا ہے، اور آپ کے قصّے کو عابدوں اور دانشمندوں کے لئے نمونہ بنا دیا ہے، اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ آپ پر جو جو معجزات گزرے ہیں، وہ قانونِ معرفت سے مختلف نہ تھے۔

 

طرح طرح کی مثالیں:

اللہ تعالیٰ کی سنت جو بے بدل ہے اور جس میں کوئی تغیر نہیں، اس کا تعلق دین کے بنیادی امور سے ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اساسی حقیقتیں ہمیشہ سے ایک جیسی ہیں، جس طرح حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی روحانیّت ایک ہی ہے، لیکن اس کی مثالیں قرآنِ حکیم میں طرح طرح سے دی گئی ہیں (۱۷: ۸۹، ۱۸: ۵۴) اس طریقِ کار کی وجہ آزمائش بھی ہے اور حقیقت کی وسعت بھی، یعنی روحانیّت

 

۱۰۲

 

کا سمندر ایسا بے پایان ہے کہ اس کا نمونہ پیش کرنے کے لئے دنیا بھر کی مثالوں کے ظروف سے کام لیا گیا ہے۔

 

نوٹ: خانۂ حکمت کی تحریروں کی جو بھی اہمیّت و افادیّت ہے، وہ آپ کے سامنے ہے، علاوہ برآن اس مضمون کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کی فرمائش ایک ایسے ذی علم، دانشمند سکالر کی جانب سے آئی تھی کہ میں ذاتی طور پر ان کو لاکھوں میں ایک تسلیم کرتا ہوں۔

 

صدر : فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

 

خاکسار و ناچار

نصیر ہونزائی

۵ اکتوبر ۱۹۸۵ء

 

۱۰۳

 

انسان کا بہشتی لباس

 

۱۔ حضرتِ انسان کا وہ خاص لباس یا خلعت جو خدا تعالیٰ کی طرف سے جنت میں اسے پہنایا جائے گا کس نوعیت کا ہوگا؟ کیا بہشت کا حریر (ریشمی کپڑا) سندس (باریک ریشمی کپڑا)، استبرق (دبیز ریشمی کپڑا) وغیرہ دنیا ہی کے کپڑوں کی طرح ہوں گے؟ اگر بہشتی لباس دنیوی پوشاک سے مختلف نہیں ہے تو پھر اس کی ایسی شان سے تعریف و توصیف کیوں کی گئی ہے؟ اور اگر جامۂ روحانی پوششِ جسمانی سے مختلف ہے تو بتائیں کہ اس کی خصوصیات کیا ہیں؟ آیا جنت اور اس کی نعمتوں کی معرفت (۴۷: ۰۶) کے سلسلے میں پوشاکِ بہشت کی شناخت بنیادی اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے یا نہیں؟ یہ اور ان جیسے بہت سے اہم سوالات بہشتی لباسات سے متعلق ہر طالبِ حقیقت کے دل دماغ میں دبے ہوئے ہو سکتے ہیں، لہٰذا اس ضروری اور پسندیدہ موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے بصد عاجزی و خاکساری درخواست کی جاتی ہے کہ خداوندِ برحق جملہ مومنین کے صدقے اس میں ہماری دستگیری فرمائے! آمین!!

 

۲۔ اس باب میں سب سے پہلے یہ جان لینا نہایت ہی ضروری ہے کہ بہشت کی کوئی چیز عقل و جان کے بغیر نہیں ہے، اس لئے کہ آخرت کا گھر کلّی طور پر زندہ ہے (۲۹: ۶۴) اور اس دنیا میں زندگی کا سب سے بہترین نمونہ انسان ہے جو تمام مخلوقات

 

۱۰۴

 

میں بہ حقیقت اشرف و اعلیٰ ہے، چنانچہ بہشت جو عقلی اور روحانی کیفیت میں ہے، وہ ایک کامل و مکمل نورانی شخص کی طرح ہے، اور وہی شخصیّت بہشتی لباس بھی ہے، کیونکہ قانونِ جنّت کے مطابق جو بہترین لباس عقل و جان کی خوبیوں سے آراستہ ہو سکتا تھا وہ انسانی صورت ہی ہے، یعنی انسان کا نوری بدن یا جسمِ لطیف، جس کے بہت سے نام ہیں۔

 

۳۔ آدمی نہ تو سب کے سب ایک ساتھ پیدا ہو جاتے ہیں، اور نہ ایک ہی وقت میں ان تمام پر موت واقع ہو جاتی ہے، بلکہ وہ فرداً فرداً جنم پاتے اور جدا جدا وقتوں میں انتقال کر جاتے ہیں، اسی طرح اس کائنات کے ستارے اور سیّارے مختلف زمانوں میں جداگانہ طور پر پیدا ہوکر پھر اپنے اپنے وقت پر فنا ہو جاتے ہیں، اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ انسانوں کی عمریں بہت ہی مختصر ہیں، مگر ہر ستارے اور سیّارے کی عمر بہت زیادہ ہے، چنانچہ ایک سائنسی اندازے کے مطابق سیّارۂ زمین کو وجود میں آئے ہوئے تقریباً پچاس لاکھ برس گزر چکے ہیں، اور اسی نوعیت کا دوسرا تخمینہ یہ ہے کہ انسان کم و بیش پندرہ لاکھ سال سے زمین پر رہ رہا ہے، اب سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اس سے پہلے کہاں تھا؟ جواب: کسی دوسرے سیّارے پر رہتا تھا۔ وہاں سے کس طرح یہاں منتقل ہو سکا؟ جواب: چونکہ اس سیّارے پر لطافت و روحانیّت کی بہشت تھی، لہٰذا وہ اپنے بہشتی لباس یعنی جسمِ لطیف سے پرواز کر کے سیّارۂ زمین پر اتر آیا، تاہم جامۂ بہشتی ایسا ہے کہ وہ کسی سیّارے کے بغیر بھی موجود ہو سکتا ہے۔

 

۴۔ سورۂ حج (۲۲: ۲۳) سورۂ فاطر (۳۵: ۳۳) اور سورۂ دہر (۷۶: ۱۲) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اہلِ جنّت کا لباس ریشم (حریر) کا ہے، جس کا حکیمانہ اشارہ یہ ہے کہ

 

۱۰۵

 

بہشت والوں کا لباس زندہ، معجزاتی، اور ابداعی قسم کا ہے، اور وہ کوکبی بدن ہے، یعنی جسمِ لطیف کیونکہ ریشم ایک ایسے جانور کی پیداوار ہے کہ اس میں خلقِ جدید (جسمِ لطیف) کی مثال موجود ہے، وہ ریشم کا کیڑا ہے، جو نہ صرف انسان کے جیتے جی مر کر زندہ ہو جانے کا نمونہ ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ وہ اس امر کی بھی دلیل و علامت ہے کہ آدمی مذکورہ انبعاث کے بعد فرشتہ بن کر پرواز کرنے لگتا ہے، ہر چند کہ اس مثال میں ایک فرق بھی موجود ہے، وہ یہ کہ اُدھر کیڑا غائب (یعنی مر چکا) ہے اور پروانہ حاضر ہے، لیکن اِدھر آدمی سامنے ہے اور فرشتہ غائب، پس یہی بہت بڑا امتحان ہے۔

 

۵۔ آپ سورۂ قارعہ (۱۰۱: ۰۴) میں دیکھیں: یَوْمَ یَكُوْنُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ (۱۰۱: ۰۴) جس روز لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گے۔ قرآنی مثالوں کی غرض سے جن چیزوں کا انتخاب فرمایا گیا ہے، ان میں سے ہر ایک چیز میں بہت سی حکمتیں جمع ہیں، چنانچہ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں انسانی روحوں کی تشبیہہ و تمثیل پروانوں سے دے کر یہ اشارہ فرمایا گیا ہے کہ انسان اگرچہ جسمِ کثیف میں کیڑے کی طرح زمین پر رینگتا ہے، لیکن وہ جسمِ لطیف میں بمرتبۂ فرشتہ کائناتی بہشت کی فضاؤں میں پرواز کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

 

۶۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو آزمانے کے لئے حقیقتِ حقائق کی مثالیں طرح طرح سے بیان فرمائی ہیں، جن کو دیکھنے سے بظاہر ایسا لگتا ہے، کہ ان تمام مثالوں کے ممثولات الگ الگ ہیں، حالانکہ یہ بات نہیں، بلکہ حقیقتوں کی حقیقت صرف ایک ہی ہے، جس کی گوناگون مثالیں دی گئی ہیں، چنانچہ سوچنا چاہئے کہ آیا پیراہنِ یوسفی (۱۲: ۹۳)، زرۂ داؤدی (۲۱: ۸۰) ، محرابِ سلیمانی (۳۴: ۱۳) ، پرندۂ مسیحائی (۰۳: ۴۹) اور سرابیلِ ربّانی (۱۶: ۸۱) الگ الگ کرتے ہوا کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں، وہ

 

۱۰۶

 

صرف ایک ہی پیراہنِ ابداعی ہونے کے سبب سے سب کچھ ہے، اس میں نہ صرف طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں روحانی غذائیں مہیا ہو جاتی ہیں، بلکہ اس میں بدرجۂ اعلیٰ بصیرت بھی ہے، وہ بکتر بھی ہے، قلعہ بھی، اور وہ پرندے کی طرح جہاں چاہے پرواز بھی کر جاتا ہے، وہ گرمی سے اور جنگ سے بچا بھی سکتا ہے، اور یہی کرتا بہشتی لباس ہے، جو زمانے کے امام علیہ السّلام سے مل سکتا ہے۔

 

۷۔ جب ایک سائنس دان کوئی ایسی مشین یا آلہ بنا دیتا ہے کہ اس سے کئی مختلف کام لئے جا سکتے ہیں، تو لوگوں کے نزدیک وہ چیز بڑی مفید اور قابلِ تعریف ثابت ہو جاتی ہے، یہ تو انسان کی مثال ہے جو اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے میں بڑا کمزور بلکہ بسا اوقات عاجز بھی ہے، لیکن قادرِ مطلق اپنی قدرتِ کاملہ سے جس طرح ہمیشہ شخصِ کامل کی شخصیّت کے سانچے میں ڈھال کر اہلِ ایمان کے لئے جامۂ بہشت بنا دیتا ہے، وہ ایسا معجزاتی اور عجائب و غرائب سے بھرپور ہے کہ اس کی تعریف و توصیف کا حق ادا نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہی بہشتی لباس سب کچھ ہے، جو پوری کائنات کے نچوڑ سے بنایا گیا ہے، جس میں جنّت کی جملہ نعمتیں مومنین کے انتہائی نزدیک لائی گئی ہیں (۵۰: ۳۱) اور یہی وہ عالمِ شخصی ہے جس میں گنجِ مخفی اور خدا کی خدائی سے متعلق ہر عظیم بھید موجود ہے۔

 

۸۔ یہ معرفت یا غور و فکر ہر مومن کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ عالمِ شخصی کس طرح کائنات بھر میں پھیلا ہوا ہے؟ اور وہ وسیع و عریض کائنات کس صورت میں اس عالمِ شخصی یعنی انسان کے اندر سمٹ گئی ہے؟ چنانچہ اہلِ سعادت اپنا رشتۂ عقلی و روحی مظہرِ نورِ خدا کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں، تا کہ وہ اسی کے توسط (وسیلہ) سے اپنے آپ کو تمام کائنات میں پائیں، اور ساری کائنات کو اپنی ذات میں دیکھیں، جبکہ

 

۱۰۷

 

وہی ولیٔ خدا کائناتی عقل (عرشِ عظیم) اور کائناتی روح (کرسیٔ خدا) ہے، اور یہی کرسی اور امامِ مبین جملہ اشیائے عقلی، روحی، اور مادّی پر محیط ہے (۰۲: ۲۵۵، ۳۶: ۱۲)۔

 

۹۔ قرآنِ حکیم کے پانچ مقامات (۱۸: ۳۱، ۳۶: ۵۶، ۷۶: ۱۳، ۸۳: ۲۳، ۸۳: ۳۵) پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جنت والے ارآئک پر ہوں گے، ارآئک اریکۃ کی جمع ہے، اریکۃ کے معنی ہیں آراستہ و مزین تخت، مسہری، حجلہ، چھپرکھٹ، یعنی پردہ دار تخت یا پلنگ، ان تمام معنوں کا مصداق جسمِ لطیف ہے، کیونکہ اس میں مومن کی روحانی سلطنت پوشیدہ ہے، سو یہی نورانی جسد بہشت کا زندہ گھر، بولنے والا تخت، اور پرواز کرنے والا لباس ہے، بلکہ یہ بہشت کا مجموعہ یعنی سب کچھ ہے۔

 

۱۰۔ اس سلسلے میں جنّ (پری) کی مثال بڑی دلچسپ بھی ہے اور بہت مفید بھی، لیکن یہاں یہ بات یاد رہے کہ لوگوں نے کہانیوں کی بنیاد پر جنّ کو پری سے ایک الگ مخلوق قرار دیا ہے، حالانکہ جس لطیف مخلوق کا عربی نام جنّ ہے، اسی کا فارسی نام پری ہے، اگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی، تو قرآنِ حکیم میں کسی دوسرے نام سے پریوں کا جداگانہ ذکر ملتا، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایسا نہیں، صرف جنّ کا تذکرہ ہے اور یہی پری ہے، اگر آپ اس حقیقت کو قبول کر سکتے ہیں تو نتیجے کے طور پر آپ کے سامنے سے روح کے بہت سے حجابات خود بخود ہٹ جائیں گے، کیونکہ قرآن فہمی میں بھی اور خود شناسی میں بھی جنّ (جو پری اور مخلوقِ لطیف ہے اس) کی شناخت بہت ہی ضروری ہے۔

 

۱۱۔ کوئی شک ہی نہیں کہ جنّات میں بھی آدمیوں کی طرح اچھے اور برے دو قسم کے نفوس ہوا کرتے ہیں، جو اچھے ہیں، ان کی قرآنی تعریف و توصیف

 

۱۰۸

 

لفظ صالحون (۷۲: ۱۱) میں ہے، صالحون کا صیغۂ واحد صالح ہے، جس کا مطلب نہ صرف نیک ہی ہے بلکہ نیکوکار بھی ہے، یعنی درست کام کرنے والا، اور یہ لفظ (یعنی صالح، صالحون، صالحین، وغیرہ میں سے ہر صیغہ) قرآنی حکمت میں اتنی بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے طرح طرح سے اس کی توصیف فرمائی ہے۔

 

۱۲۔ اب اس مدلّل بیان کے بعد کہ جنّ ہی پری ہے، اور وہ سب کے سب خوبصورت ہیں، اور بعض نیک سیرت بھی ہیں، یہاں یہ عرض کی جائے گی کہ بہشتی لباس ایک نیکوکار اور فرمانبردار جنّ کی طرح کام کرتا ہے، وہ چشمِ زدن میں ہزاروں میل کی مسافت طے کر لیتا ہے، اس لئے کہ اس کی پرواز برق کی طرح ہے، وہ آسمانی بجلی کی کوند (چمک) کی طرح نظر بھی آتا ہے اور غائب بھی ہو جاتا ہے، اس میں اور جنّ میں کوئی فرق نہیں، کہ دونوں لطیف ہیں، لہٰذا وہ ہر قسم کی دیوار کو چیر کر گھر میں داخل ہو سکتا ہے، لیکن ہر گھر میں اس کے دروازے سے داخل ہو جانے کا حکم ہے (۰۲: ۱۸۹) اس لئے وہ جب برق رفتاری سے دروازے پر آتا ہے، تو انتہائی بند دروازہ بھی ازخود کھل کر پھر اپنے آپ اسی طرح بند ہو جاتا ہے، اور یہ عمل بڑی سرعت سے انجام پاتا ہے۔

 

۱۳۔ خدا کی خدائی اور اس بادشاہ کی بادشاہی میں جتنی چیزیں ہیں، وہ سب کی سب رحمت اور علم کے گوناگون ظہورات کی نمائندگی کر رہی ہیں (۴۰: ۰۷) تاہم اس سلسلے میں بعض چیزیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، مثال کے طور پر اس زمانے میں، جبکہ روحانی دور کا آغاز ہو چکا ہے، اڑن طشتری (U.F.O) کا وجود لوگوں کے سامنے ہے، جس کے بارے میں اگرچہ سائنسدان حیرت میں پڑ گئے ہیں، اور کچھ نہیں بتا سکتے ہیں کہ یہ کونسی مخلوق ہے، اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کو “ناشناختہ (یعنی غیر پہچانی ہوئی) چیز جو پرواز کرتی ہے” قرار دیا ہے، جس

 

۱۰۹

 

کے انگریزی الفاظ اس طرح ہیں:  (unidentified flying object)، ظاہر ہے کہ یہ چیز دنیا والوں کے لئے ایک معما ہے، اور عجب نہیں کہ آگے چل کر اس کا راز لوگوں پر کھل جائے، بہر حال یہ بھی جامۂ بہشت ہی کی طرح ایک معجزاتی چیز ہے، جو پریوں کی طرح پرواز کرتی ہے، اگر یہ روحانی انقلاب سے یا سائنس کے عنوان سے انسان کے لئے مسخر و رام ہو جائے تو اس سے تسخیرِ کائنات میں بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے۔

 

۱۴۔ قانونِ قرآن (۴۰: ۰۷) کے مطابق ہر چیز کو ایک رحمت اور ایک علم نے گھیر لیا ہے، سو رحمت روح کے لئے ہے اور علم عقل کا حصّہ ہے، چنانچہ اڑن طشتری میں روح و عقل کے لئے بہت کچھ ہے، کہ ہم اس کو جامۂ بہشت کا نمونہ قرار دے سکتے ہیں، ترقی یافتہ انسان کہہ سکتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ عجب نہیں کہ یہ جنّ (پری) بھی ہو اور فرشتہ بھی، نیز یہی مخلوق آدمی کا انائے علوی اور جسمِ لطیف کہلائے، کیونکہ ایسے بہت سے نام ہیں، جو ایک ہی حقیقت سے متعلق ہیں، اور وہ حقیقت انسان کی ہے۔

 

۱۵۔ یہ حقیقت کسی شک کے بغیر سب کے نزدیک مسلّمہ ہے کہ انسان عالمِ صغیر ہے، اور اس میں وہ سب کچھ ہے، جو کچھ کہ عالمِ کبیر میں ہے، یعنی عالمِ شخصی اپنے لاتعداد ذرّات سے، جو روح اور جسمِ لطیف سے مرکب ہیں، پوری کائنات کی نمائندگی کر رہا ہے، اور آسمان و زمین میں کوئی ایسی چیز نہیں، جس کا نمونہ انسان کے وجود میں نہ ہو، جبکہ عالمِ صغیر عالمِ کبیر کا خلاصہ اور نچوڑ ہے، گویا جہانِ ظاہر ایک انتہائی عظیم درخت ہے اور انسان اس کا میوہ و مغز، اس کے معنی یہ ہوئے کہ جب آدمی بطریقِ اطاعت اپنی انا کی گٹھلی باغبانِ ازل کے سپرد کر دیتا ہے تو وہ اسے باغِ فطرت میں بو کر نشونما دیتا ہے، جس کے نتیجے میں انسان ایک لطیف کائنات بن جاتا

 

۱۱۰

 

ہے، کیونکہ قانونِ پیدائش (فطرت) یہی ہے کہ درخت سے بیج (گٹھلی) پیدا ہو، اور پھر بیج سے درخت، اس سے پتہ چلا کہ جہاں بنی بنائی بہشت ہے، وہ کائنات بھر میں پھیلی ہوئی ہے، لیکن اس کو اپنائیّت کی حکمت سے زیادہ سے زیادہ باحقیقت اور عملی جنت بنانے کی غرض سے ہر مومن میں لپیٹ دی جاتی ہے، تا کہ علم و عمل اور رنگِ خدا سے بہشت تازہ اور حقیقی ہو سکے۔

 

۱۶۔ قرآنِ حکیم ہر شخص کی نظر اور عقل کے مطابق کام کرتا ہے، اور اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی مختلف لوگوں سے ان کی عقلی مراتب کے مطابق گفتگو فرمائی ہے، چنانچہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اہلِ وحدت کو جو سب سے خاص چیز نظر آتی ہے وہ ہے جملہ حقائق کی ہم آہنگی، یکجائی، اور وحدت، جیسے عالمِ صغیر اور عالمِ کبیر کا ایک ہو جانا، ازل میں بھی اور ابد میں بھی سب انسانوں کی یگانگت، ایک ہی انسان کا مختلف ظہورات میں جلوہ گر ہونا، مثلاً بشر، فرشتہ، پری (جنّ)، جسمِ مثالی، اڑن طشتری، جامۂ بہشتی، وغیرہ۔

 

۱۷۔ یہ ضروری نکتہ ہمیشہ کے لئے دل نشین ہو کہ ایک ہی عظیم فرشتہ کبھی جمع کہلاتا ہے اور کبھی واحد، جمع اس لئے کہ وہ اپنی ذات میں ایک روحانی کائنات ہے، اور جب بھی ارادۂ ’’کُنۡ‘‘ ہو جائے تو اس سے کسی تاخیر کے بغیر بے شمار فرشتوں کا ظہور ہو سکتا ہے، اور واحد اس معنیٰ میں کہ وہ سب فرشتے ذات و صفات میں مختلف و متضاد نہ ہونے اور ایک ہی جوہر سے ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ متحد ہو چکے ہیں، جیسا کہ قولِ قرآنِ پاک ہے:

ترجمہ: اور تمہارا ربّ جلوہ فرما ہوا (ہوگا) اس حال میں کہ فرشتے صف در صف کھڑے تھے (کھڑے ہوں گے، ۸۹: ۲۲)۔ اگرچہ عالمِ ذرّ میں فرشتوں کی کثرت درست ہے، لیکن مقامِ عقل اور مرتبۂ ابداع میں صرف ایک ہی انتہائی

 

۱۱۱

 

عظیم فرشتہ ہوا کرتا ہے، اور وہی وحدت و کثرت دونوں کی نمائندگی کرتا ہے، اگر یہاں سوال: صَفّاً صَفّا (قطار باندھ کر جیسا کہ اس کا حق ہے) کے بارے میں ہو، تو جاننا چاہئے کہ اس نوعیت کے قرآنی الفاظ کا مطلب اپنی انتہا پر پہنچ جاتا ہے، چنانچہ فرشتوں کے صف باندھنے کی آخری حد یہ ہے کہ وہ سب ایک ہو جاتے ہیں۔

 

۱۸۔ اگر عالمِ شخصی کا روحانی سفر مدوّر (گول) ہے، تو پھر آپ آخر کار گھوم کر وہاں آئیں گے، جہاں سے روانہ ہو گئے تھے، اس صورت میں نقطۂ آغاز پر جو چیز ہے، وہ آپ کے نزدیک اوّل بھی ہوگی، اور آخر بھی، چنانچہ عرش سے متعلق آیۂ کریمہ (۱۱: ۰۷) کے یہ دونوں ترجمے درست ہیں:

الف: اور اس کا تخت پانی (علم) پر تھا۔

ب: اور اس کا تخت پانی (علم) پر ہوگیا (یعنی عرش پہلے ہی سے ایسا تھا، مگر مشاہدہ بعد میں ہوا)۔

 

۱۹۔ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام اپنے وقت میں ایک کامل و مکمل عالمِ شخصی تھے، لہٰذا آپ اگرچہ فردِ واحد تھے، لیکن آپ کی ذات میں تمام نفوس جمع تھے، ان سب میں سے صرف نفوسِ قدسی ہی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے فرمایا گیا: اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ (۱۶: ۱۲۰) بے شک ابراہیم ایک نہایت فرمانبردار امت تھے بالکل یک طرف ہو رہے تھے۔ یعنی آپ میں بے شمار ارواح تھیں۔

 

۲۰۔ سب اگلے اور پچھلے لوگ زمانے کے عالمِ شخصی (یعنی امامِ وقت) میں جمع کئے جاتے ہیں، کیونکہ میقات (وقتِ مقرر = جائے مقرر) وہی ہے، وقتِ مقرر اس کی ذاتی قیامت ہے، اور جائے مقرر اس کی مبارک شخصیت، اور اس قیامت کا کلی نتیجہ یومِ معلوم کہلاتا ہے (۵۶: ۴۹ تا ۵۰)۔

 

۱۱۲

 

۲۱۔ قرآنِ حکیم اپنی حکمت کی مخصوص زبان میں کہہ رہا ہے کہ تمام بزرگ انبیاء و مرسلین کے جملہ فضائل و معجزات آنحضرت صلی اللہ علیہ و ا ٓلہ و سلم میں جمع ہوئے تھے، جس کی ایک مثال یہ ہے: پس تم بھی ان (پیغمبروں) کی ہدایت کی پیروی کرو۔ (۰۶: ۸۹) اس میں اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ حضورِ اکرمؐ انبیائے سلف کے طریق پر چلتے ہوئے ان کے سارے معجزات کو اپنائیں، اس کلیہ سے یہ حقیقت روشن ہوکر سامنے آتی ہے کہ سردارِ رسل کی روحانیّت سے کوئی فضیلت اور کوئی معجزہ باہر نہ تھا۔

 

۲۲۔ خداوندِ تعالیٰ جس مخلوق کی تخلیق پر اپنی ذاتِ پاک کی تعریف و توصیف فرماتا ہے وہ مخلوق بہترین ہوا کرتی ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے: ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَؕ-فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ (۲۳: ۱۴) پھر ہم نے اس کو آخری (درجے کی) مخلوق بنا دیا پس بہت برکت والا ہے اللہ جو تمام پیدا کرنے والوں سے بڑھ کر ہے، جیسا کہ بتایا گیا کہ عالمِ شخصی میں جو چیز سب سے آخر میں ہوتی ہے، وہی سب سے پہلے بھی ہوا کرتی ہے، چنانچہ یہ خلقِ آخر جس کا ذکر اس آیۂ مقدسہ میں ہوا اس طرف سے حضرت قائم القیامت ہے اور اس طرف سے حضرت مبدع۔ جامۂ بہشت کے بارے میں بہت سے اسرارِ معرفت کا ذکر ہوا۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نوٹ: خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کے تمام عملداروں کا مشورہ یہ ہے کہ آپ حضرات ہمارے جملہ مقالوں اور کتب کا بخوبی مطالعہ کریں، کیونکہ یہ ساری تحریرات “ایک دوسرے کی تشریح” کے اصول پر قائم ہیں۔

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

خادمِ کمترین: نصیر الدین نصیر ہونزائی

۱۷ اکتوبر ۱۹۸۵ء

 

۱۱۳

 

علم اور اس کی ضد کی مثالیں

 

۱۔ علم کی اہمیّت و افادیّت:

اگر عالمِ ظاہر، عالمِ روح، اور عالمِ عقل کو تین سمندر کہا جائے، تو یہ تینوں سمندر علم ہی کے ہوں گے، درحالیکہ اصل سمندر عقل کا ہوگا، جس سے روح کا سمندر بھر گیا ہوگا، اور اس سے عالمِ جسمانی کا سمندر پُر ہوچکا ہوگا، یہ بات حقیقت ہے، مگر حیرت اس میں ہے کہ عقلی، روحی، اور جسمی سمندر جو علم سے بھرے ہوئے ہیں، وہ ایک اعتبار سے الگ الگ ہیں، اور دوسرے اعتبار سے مل کر ہیں، جیسے لوہے کا ایک بڑا گولہ ہو، جس کو لوہار نے آتشدان (بھٹی) میں سرخ انگارا بنایا ہے، اب اس عمدہ مثال میں ہر شخص کو خوب غور کرنا چاہئے کہ گولہ کائناتِ جسمانی ہے، حرارت کائناتی روح ہے، اور روشنی کائناتی عقل، جیسا کہ حاملانِ عرش اور اس کے گرداگرد کے فرشتوں نے خداوندِ تعالیٰ سے درخواست کی کہ: رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّ عِلْمًا  (۴۰: ۰۷) اے ہمارے پروردگار تو نے ہر چیز کو رحمت اور علم میں سما لیا ہے۔ یعنی تیری رحمت اور علم ہر چیز کو محیط ہے۔

 

۲۔ علم اور جہالت (جہل):

قرآنِ حکیم میں تمام حقائق و معارف کی مثالیں موجود ہیں، ہر مثال کے مثبت و منفی دو پہلو ہوا کرتے ہیں، تاکہ سمجھنے والوں کے لئے حقیقت فہمی میں آسانی ہو، چنانچہ

 

۱۱۴

 

رسولِ خدا خاتمِ انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کی آلِ پاک کے أئمّۂ ہدا صلوات اللہ علیہم کے وسیلے سے یہاں علم اور اس کی ضد (جہالت) کی بعض قرآنی مثالیں بیان کی جاتی ہیں، تا کہ قارئینِ کرام میں جو حصولِ علم کا جذبہ ہے وہ شدت اختیار کرے، اور جہالت جہاں بھی ہو، اور جس نام سے بھی ہو، وہ بے نقاب ہو جائے، تاکہ اس کو ختم کرنے کے لئے ہر شخص انتہائی محنت سے کام لے، ان شاء اللہ العزیز۔

 

۳۔ یقین اور شک:

علم کے بہت سے ناموں اور مثالوں میں سے ایک “یقین” ہے، جس کے تین درجے مشہور ہیں، یعنی علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین، یقین کی ضد “شک” بھی ہے اور “گمان” بھی، پس یقین کے درجات کے مقابلے میں شک اور گمان کے بھی تین تین درجے مقرر ہوگئے، اسی طرح جہاں یقین کے معنی میں علم کی تعریف کی گئی ہے، وہاں شک و گمان کے معنی میں جہالت و نادانی کی مذمت کی گئی ہے، تا کہ براہِ راست بھی اور بالواسطہ بھی علم کی اہمیت ظاہر ہو، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے: وہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں (۰۲: ۰۲) یعنی اس میں تین درجے کے شکوک میں سے ایک بھی نہیں، اس کا صاف و صریح مطلب یہ ہوا کہ اس کتاب (یعنی الٓمٓ) میں حق الیقین ہے، اور وہ نورِ امامت ہے۔

 

۴۔ شفا اور بیماری:

اس دنیا میں بےشمار لوگ جہالت و نادانی کے مریض تھے، لہٰذا خدا تعالیٰ کو رحم آیا، اور اس نے قرآنِ حکیم کو ایسی بیماری کی دوا اور شفا بنا کر نازل فرمایا، مگر جیسے جسمانی مرض میں علاج کے لئے کسی طبیب حاذق یا ماہر ڈاکٹر سے رجوع ضروری ہوتا ہے، ویسے روحانی بیماری کے معالجہ کی خاطر اس روحانی ڈاکٹر سے رجوع لازمی ہے،

 

۱۱۵

 

جس کو خدا و رسول نے مقرر فرمایا ہے، اور اس آیۂ کریمہ کی حکمت میں یہی سب کچھ ہے: اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت اور جو سینوں کے اندر (امراضِ روحانی) ہیں ان کے لئے شفا آگئی ہے اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت (آ چکی ہے) (۱۰: ۵۷)۔

 

۵۔ نور اور ظلمت:

قرآنِ پاک میں نور سے علم اور ظلمت سے جہالت و نادانی مراد ہے، کیونکہ علم ہی وہ روشنی ہے جس میں حقیقتیں اپنی اصل صورت میں نظر آتی ہیں، اگر آپ اپنے باطن میں کوئی لطیف روحانی روشنی دیکھتے ہیں تو آپ بڑے خوش نصیب ہیں، تاہم یاد رہے کہ یہ اصل نور نہیں، بلکہ یہ اس کی مثال ہے، کیونکہ حقیقی انوار علم و حکمت کی شکل میں سامنے آنے والے ہیں، پس ظاہر میں ہو یا باطن میں روشنی علم کی مثال ہے اور تاریکی جہالت کی۔

 

۶۔ ہدایت اور ضلالت (گمراہی):

ہدایت علم کی مثال اور گمراہی جہالت کی مثال ہے جب کہ ہدایت کا ثمرہ علم کی صورت میں ملتا ہے، اور گمراہی کے انجام میں جہالت کی سزا مل جاتی ہے، کیونکہ مثال پہلے اور ممثول بعد میں آتا ہے، نیز یہ حقیقت ہے کہ تمام الفاظ و امثال اپنے ہنگامی معنوں سمیت رحمت اور علم کے لئے مختلف ظروف کی حیثیت سے ہیں، یا یوں سمجھ لیں کہ الفاظ و معانی کا بابا آدم علم ہے اور بی بی حوّا رحمت، پس جس طرح ہر شخص میں آدمیّت و حوائیّت (یعنی ابتدائی والدین کی خاصیت) ہوتی ہے، اسی طرح ہر لفظ کے معنی میں رحمت و علم (یا علم و رحمت) کے معنی موجود ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ مقدّس کے سب الفاظ کے معانی حکمت کی بلندی پر پہنچ کر رحمت، پھر علم بن جاتے ہیں، جیسے اگر آپ چاہیں تو بنی آدم کو تاریخی طور

 

 

۱۱۶

 

پر اٹھا کر حوّا، اور آدم سے ملا سکتے ہیں۔

 

۷۔ غنا اور فقر (دولتمندی اور مفلسی):

علم دولت و دولت مندی ہے، اور اس کا نہ ہونا مفلسی ہے، جیسا کہ سورۂ آلِ عمران کے ایک ارشاد (۰۳: ۱۸۱) کا ترجمہ ہے: بے شک اللہ تعالیٰ نے سن لیا ہے ان لوگوں کا قول جنہوں نے یوں کہا کہ خدا مفلس ہے اور ہم دولت مند ہیں۔ آپ سوچ کر اس حقیقت کو معلوم کر سکتے ہیں کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے قائل ہیں وہ ہرگز ہرگز ایسی بات نہیں کرتے ہیں، اور جو لوگ وجودِ باری تعالیٰ سے منکر ہیں، وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ: “خدا موجود تو ہے مگر مفلس ہے۔۔۔” کیونکہ ان کے نزدیک خدا سرے سے ہے ہی نہیں، پس اس آیۂ کریمہ میں تاویلی حکمت ہے، وہ یہ کہ ایک لادین گروہ نے جو فلسفیوں اور دہریوں میں سے تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حق میں یہ بات کہی تھی، اگرچہ بظاہر یہ ناحق اور بے جا طعنہ رسول کو دیا گیا تھا، لیکن تاویلی معنی میں خدا تعالیٰ کو دیا گیا، کیونکہ حضورِ انور پیغمبرِ خدا ہونے کی حیثیت سے جانشینِ خدا (یعنی خلیفہ) تھے، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ رسولِ کریم اور امامِ برحق کو روحانی علم کی دولت سے خالی سمجھنا ایسا ہے، جیسے کوئی شخص یا کوئی گروہ خدا کو مفلس قرار دیتا ہو۔

 

۸۔ بصیرت اور کور باطنی:

روحانی علم کا ایک نام بصیرت (چشمِ باطن) ہے اور اس کا نہ ہونا کور باطنی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (اے رسول!) کہہ دو یہ ہے میرا راستہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں (بھی) اور وہ (بھی) جس نے میری پیروی کی ہے، بصیرت پر ہیں (۱۲: ۱۰۸)۔ حضورِ اکرمؐ کی پیروی یعنی آپ کے پیچھے پیچھے چلنا بحقیقت یہ ہے کہ ظاہر کے علاوہ باطن میں بھی یہ عمل درجۂ انتہا کو پہنچ جائے، اور ایسی پیروی امیر المومنین حضرت علی علیہ السّلام

 

۱۱۷

 

نے کی ہے، اور آپ کی اولاد کے أئمّۂ ہدا علیہم السّلام نے یہی پیروی بجا لائی ہے، پس بصیرت کے معنی میں مشاہدۂ روح و روحانیّت اور علم و عرفان کے تمام درجات پیغمبر اور امام کو حاصل ہیں۔

 

۹۔ بولنے والا اور گونگا:

معلمِ قرآن جو نور (۰۵: ۱۵، یعنی امام) ہے وہ روحانی زبان سے بولتا ہے، لیکن کوئی بھی جاہل یہ زبان نہیں رکھتا، اس لئے وہ گونگا ہے، اور یہی مثال قرآنِ پاک میں موجود ہے، ملاحظہ ہو: اور اللہ تعالیٰ نے دو آدمیوں کی مثال دی ہے کہ ان میں سے ایک گونگا ہے جو کسی چیز پر قدرت نہ رکھتا ہے اور وہ اپنے آقا پر بوجھ ہے وہ (آقا) اس کو جس طرف بھی بھیجے کبھی ٹھیک کام نہیں کرتا، کیا وہ اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے، جو عدل کا حکم دیتا ہے اور خود بھی سیدھے راستے پر قائم ہے (۱۶: ۷۶)۔

 

۱۰۔ سننے والا اور بہرا:

مولا علی صلوات اللہ علیہ کے بہت سے قرآنی ناموں میں سے ایک اُذُنٌ وَّاعِیَةٌ (۶۹: ۱۲) ہے، جس کے معنی ہیں: “یاد رکھنے والا کان” قرآنِ کریم کا فرمانا ہے کہ حضراتِ أئمّہ لوگوں پر گواہ ہوا کرتے ہیں اور رسول اماموں پر گواہ ہیں (۰۲: ۱۴۳) اس کا واضح اور صاف مطلب یہ ہے کہ نورِ نبوّت قرآنِ حکیم کی روح و روحانیّت کے ساتھ نورِ امامت کے سامنے حاضر اور گواہ ہے، پس اسی طرح ہر امام نورانی علم کی آواز کو یاد رکھنے والا کان ہے کہ پیغمبر سے قرآن کو سنتا ہے اور اسے یاد رکھتا ہے، اور اسی روحانی تعلیم کی غرض سے امام ظاہراً و باطناً لوگوں کے سامنے حاضر اور گواہ ہے۔

۱۱۔ خیر اور شر:

علم و حکمت میں خیرِ کثیر ہے (۰۲: ۲۶۹) اور اس کے برعکس جہالت و نادانی میں شرِ کثیر ، اس میں

 

۱۱۸

 

کوئی شک نہیں کہ غیب کا علم صرف خدا ہی جانتا ہے، لیکن خداوندِ کریم نے اپنے رسول کو غیب کی باتوں سے آگاہ فرمایا ہے (۷۲: ۲۶ تا ۲۷) جس کا عملی ثبوت قرآنِ حکیم ہے کہ یہ قبل از نزول علمِ غیب تھا، جیسا کہ ارشاد ہے: وَمَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ (۸۱: ۲۴) اور وہ (جبرائیل یا پیغمبر) غیب کی باتوں پر بخیل نہیں۔ اس میں اعلان فرمایا گیا ہے کہ جو شخص علم و حکمت کو چاہتا ہو، وہ پیغمبرِ اکرمؐ کی طرف رجوع کرے مگر دروازے کی شناخت بہت ہی ضروری ہے، کیونکہ آنحضرتؐ اپنی نورانیّت میں بیت اللہ ہیں جو حکمت کا گھر ہے، اور مولا علیؑ یعنی ہر امام اپنے وقت میں اُس گھر کا دروازہ ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ اْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا۪ (۰۲: ۱۸۹) اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو۔

 

۱۲۔ بلندی اور پستی:

علم بلندی ہے اور جہالت اس کے مقابلے میں پستی، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پاک و پاکیزہ پانی ہمیشہ بلندی سے آتا ہے، ایسی بلندیاں جہاں سے آبِ طہور آتا ہے دو ہیں، جو آسمان اور پہاڑ ہے، پیغمبرِ اکرم آسمان ہیں اور امامِ برحق پہاڑ، آسمان کی دوسری برکتوں کے ساتھ ساتھ پانی کی برکت بھی پہاڑ میں جمع ہو جاتی ہے، یعنی وہ چشموں، برف کے ذخائر، اور گلیشیرز (GLACIERS) کا حامل ہوتا ہے، جس سے بتدریج موسم کی ضرورت کے مطابق پانی آتا رہتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ امامِ عالی مقام کی ذاتِ عالی صفات میں ہر گونہ علم کے سرچشمے، ذخائر، اور منجمد اسرار موجود ہیں۔

 

۱۳۔ طہارت اور نجاست:

ظاہری طہارت (پاکیزگی) کو سب جانتے ہیں کہ وہ پانی سے ہوا کرتی ہے، مگر باطنی

 

۱۱۹

 

طہارت ایسے علم سے ہوتی ہے جو اصل سرچشمہ سے ہونے کی وجہ سے پاک ہو، علم کا پانی جہالت کی نجاست کو دھوتا ہے، کیونکہ جہالت بدترین نجاست ہے، اور جیسے مشرکین ناپاک ہیں (۰۹: ۲۸) تو اس کی وجہ ان کی جہالت و نادانی ہے، ان کو حرمت والی مسجد یعنی خانۂ کعبہ کے قریب جانے کی اجازت نہیں (۰۹: ۲۸) اس کی تاویل یہ ہے کہ خدا کا گھر امام ہے، جس کی طرف ظاہر میں آنے کے لئے علم چاہئے، اور باطن میں امام کا دیدارِ اقدس حاصل کرنے کے لئے اور زیادہ علم چاہئے، لیکن یہ علم خالص اور پاک ہو۔

 

۱۴۔ دوستی اور دشمنی:

روحانی علم کا سب سے اساسی اور عظیم وسیلہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی پاک دوستی ہے، اور آپ سے دشمنی جہالت و نادانی کا اصل سبب ہے، دوستی کا دوسرا لفظ محبت ہے، اور شدید محبت کا نام عشق ہے اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ مومنین اس کے نمائندوں سے شدید محبت (یعنی عشق) رکھیں (۰۳: ۳۱، ۰۲: ۱۶۵)، تاکہ علم و حکمت کے مراحل بآسانی طے ہو جائیں، وہ نمائندے رسولِ خدا اور أئمّۂ ہدا صلی اللہ علیہ و علیہم ہیں، خدا کی اطاعت کے بعد پیغمبرِ اکرمؐ کی اطاعت ہے، اور پھر پاک اماموں کی اطاعت ضروری ہے، تاکہ حقیقی عشق اپنا معجزہ دکھائے، اور روحانی علم کے دروازے مفتوح ہوں۔

 

۱۵۔ انسانیّت اور حیوانیّت:

انسانیّت علم کی مثال ہے، اور اس کے مقابل میں حیوانیت جہالت کا نمونہ ہے، آپ قرآنِ حکیم میں دیکھیں اور غور کریں کہ جنّ و انس میں سے بہت سے ایسے

 

۱۲۰

 

ہیں جو اپنے درجے سے گر کر چوپایوں کی طرح ہو گئے ہیں (۰۷: ۱۷۹) جس کی وجہ جہالت ہے، پس اگر یہ ممکن ہے کہ بعض لوگ انسانی شکل ہی میں جہالت کی وجہ سے چوپائے قرار پاتے ہیں، تو دوسری جانب سے یہ بھی ممکن ہے کہ بعض لوگ بشری جسم ہی میں علم کے سبب سے فرشتے کہلائیں، ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء و أئمّہ صلوات اللہ علیہم عظیم جسمانی فرشتے ہوا کرتے ہیں۔

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

 

خاکسار خادم:

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۲ اکتوبر ۱۹۸۵ء

 

۱۲۱

 

رنگِ رحمان میں روح کی رنگینی

 

۱۔ بعض حقائق و معارف بے حد ضروری ہوتے ہیں، لہٰذا بار بار تذکرہ کرکے ان کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا جاتا ہے، تا کہ سامعین و قارئین کے ذخیرۂ معلومات میں تسلی بخش اضافہ ہو، اگرچہ آپ حضرات نے رنگِ خدا (صبغۃ اللہ) کے بارے میں جزوی طور پر پڑھا ہے، تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس سے متعلق کوئی مکمل مضمون آپ صاحبان کی نظر سے نہیں گزرا ہے، چنانچہ یہ بندہ، جو از خود مفلس ہے، بصد حاجتمندی و عاجزی اس بادشاہِ پر نور کے حضور میں علمی صدقہ اور دریوزہ کے لئے رجوع کرتا ہے، جس کو خدا و رسول نے موروثی طور پر تاجِ علم و حکمت سے سرفراز فرمایا ہے، اور وہ ولیٔ امر زمانے کا امام ہے۔

 

۲۔ اگر صحیح معنوں میں سوچ لیا جائے تو قرآنِ حکیم کی کوئی آیت رنگِ خدا کے برملا ذکر یا رمز و اشارت سے خالی نہیں، لیکن اس کا مرکزی اور سب سے نمایان تذکرہ سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۳۸) میں ہے، وہ بابرکت ارشاد جس میں ہمہ گیر معنویّت کی ایک انتہائی رنگین و حسین دنیا پوشیدہ ہے، یہ ہے: صِبْغَةَ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً٘-وَّ نَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ (۰۲: ۱۳۸) ہم نے خدا کا رنگ اختیار کر لیا ہے اور خدا سے بہتر کون رنگ دینے والا ہے اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے ہیں۔

 

۱۲۲

 

صبغۃ کے معنی ہیں رنگنے کا طریقہ، الصبغ کے اصل معنی تغیّر و تبدّل، یعنی تبدیلی پیدا کردینے کے ہیں، صبغ الثوب کے معنی ہیں کپڑا رنگنا، صبغ یدہ بالماء کے معنی ہیں اس نے اپنا ہاتھ پانی میں ڈبو لیا، صبغ فلانا فی النعیم ، فلاں شخص کو نعمتوں میں ڈبو دیا، سالن کو صبغ کہتے ہیں، کیونکہ اس میں روٹی ڈبو کرکھائی جاتی ہے، عیسائی اپنے بچوں کو بپتسما دینے کے لئے پانی میں غوطہ دیتے ہیں، اسے صبغۃ یا اصطباغ کہا جاتا ہے۔

 

۳۔ روحانیّت و نورانیّت کے مختلف رنگوں کا وجود ہے یا نہیں اس کے بارے میں کتاب الزینۃ، باب العرش میں حضرتِ امام زین العابدین علیہ السّلام سے ایک مستند اور پُرحکمت روایت درج کی گئی ہے اور وہ یہ ہے: ۔۔۔ ثم خلقہ من الوان انوار مختلفہ، من ذالک نور اخضر منہ اخضرت الخضرۃ، و نور اصفر منہ اصفرت الصفرۃ، و نور احمر منہ احمرت الحمرۃ، و نور ابیض، و ھو نور الانوار، و منہ ضوء النہار ۔

پھر خدا تعالیٰ نے عرش کو مختلف رنگوں کے انوار سے بنایا ، ان (انوار) میں سے سبز نور ہے، جس سے سبز رنگ بنا، زرد نور ہے، جس سے زرد رنگ بنا، سرخ نور ہے، جس سے سرخ رنگ پیدا ہوا، اور سفید نور ہے، جو تمام انوار کا نور ہے، اور جس سے دن کی روشنی بنی۔ اس مبارک ارشاد سے یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ صبغۃ اللہ کی حکمت میں مختلف رنگ کے انوار کا ذکر موجود ہے، یعنی خداوندِ تعالیٰ کے حضور میں جتنے رنگ ہیں، وہ سب بصورتِ انوار ہیں، اور یہ رنگین روشنیاں وہی ہیں، جن سے عالمِ شخصی میں عرش بنایا جاتا ہے۔

 

۴۔ عقیدت، حقیقی محبت، علم، اور معرفت (خدا شناسی) جیسی صفات کے ساتھ عبادت میں مستغرق ہو جانا، بالفاظِ دیگر اپنے آپ کو نورِ بندگی کے رنگ میں ڈبو لینا، اور اپنے باطن میں انقلاب یا تبدیلی لانا، یہ سب حکیمانہ اشارے آیۂ

 

۱۲۳

 

مقدّسہ صبغۃ اللہ میں موجود ہیں، کیونکہ قرآنی الفاظ کی حکمتیں لغوی معنوں کے ساتھ مربوط ہوا کرتی ہیں، اور یہاں جن معانی سے بحث ہے، ان کا ذکر ہو چکا ہے، نیز یہاں یہ بات بھی بتا دینا ضروری ہے کہ اس آیۂ کریمہ کا اوّلین تعلق رسولِ خدا اور أئمّۂ ہدا صلوات اللہ علیہ و علیہم اجمعین سے ہے، اور پھر اہلِ ایمان کے مختلف درجات اس سے وابستہ ہیں۔

 

۵۔ عالمِ ظاہر کے ہفت رنگ یہ ہیں: سیاہ، سفید، سرخ، سبز، پیلا، قرمزی، کبود (نیلا) ان تمام رنگوں کا ذکر قرآنِ پاک میں موجود ہے، یہ حقیقت مسلّمہ ہے کہ علمِ کثیف کی ہر چیز عالمِ لطیف سے آئی ہے، اسی طرح اس مادّی دنیا میں جتنے رنگ ہیں، وہ سب روحانی عالم سے آئے ہیں، مگر یہ وہاں روحِ لطیف اور نورِ حسن و جمال سے وابستہ ہیں، بلکہ یہ خود مختلف رنگ کے انوار ہیں، جن سے بہشت کی بے نظیر رنگینیاں بنی ہیں، مگر یہ الوان (رنگہا) جیسے ہی اس دنیا میں آ گئے تو اسی وقت یہ کثیف ہو چکے تھے، یا یوں کہا جائے کہ وہ خود یہاں نہیں آ سکتے تھے، صرف ان کے سائے آ سکتے تھے، لہٰذا یہ کہنا درست ہو گا کہ دنیا کی نعمتیں آخرت کی نعمتوں کے سائے ہیں۔

 

۶۔ اس حقیقت میں کسی مسلمان کو کیا شک ہو سکتا ہے کہ آیۂ مبارکۂ صبغۃ اللہ میں روحِ ایمان کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، اگر ایسا ہے تو آئیے کہ ہم براہِ راست ایمان کو دیکھیں، جیسا کہ ارشاد ہے: خدا تعالیٰ نے ایمان کو تمہاری طرف (یعنی تمہارے لئے) محبوب بنا دیا اور تمہارے دلوں (باطن) میں اس کو زینت دی ہے (۴۹: ۰۷) اس میں مشاہدۂ باطن کا ذکر ہے، جبکہ نورِ ایمان خدائی رنگوں سے رنگین ہو کر انتہائی محبوبیّت و دلکشی کے ساتھ عالمِ شخصی میں طلوع ہو جاتا ہے، دنیائے ظاہر کا سورج مادّی چیزوں کو صرف سطحی طور پر روشن کر دیتا ہے مگر اس کے برعکس

 

۱۲۴

 

باطنی نور ہر روحانی چیز کو اندر سے بھی اور باہر سے بھی اپنی روشنی میں ڈبو لیتا ہے، جیسے سورج کی شعاعوں میں صاف شفاف (TRANSPARENT) شیشہ ظاہراً و باطناً غرق ہو جاتا ہے، اور جس طرح ایک کوئلہ آگ کی حرارت و روشنی میں اندرونی و بیرونی طور پر ڈوب جاتا ہے، یہ نورِ ایمان کی مثال ہے جو رنگِ رحمان ہے، جس میں مومن کی روح کلّی طور پر رنگین ہو جاتی ہے۔

 

۷۔ عالمِ امر جو لطیف اور سراسر عقل و جان ہے، جہاں کلمۂ کُنۡ کے تحت ہر چیز کا وجود ظہور و تجلّی سے بن جاتا ہے، وہاں اگر گلِ سرخ کا مشاہدہ ہو جاتا ہے تو وہ نورِ احمر کا ایک جلوہ ہے، اگر سبزہ زار اور درخت ہیں تو یہ نورِ اخضر کے ظہورات ہیں، اگر گلہائے زرد ہیں تو یہ نورِ اصفر کی تجلّیات ہیں، اگر سفید پھول ہیں یا موتی ہیں تو یہ نورِ ابیض کے معجزات میں سے ہیں، اسی طرح ہر چیز کے وجود کے لئے اسی رنگ کے نور کا ظہور ہوتا ہے، تا کہ رنگِ رحمان اور نورِ ایمان کا نظارہ و مشاہدہ نمونۂ بہشت کے طور پر ہو۔

 

۸۔ صبغۃ اللہ کے سلسلۂ تشریح سے متعلق ایک خاص نکتہ یہ بھی ہے کہ جب عالمِ شخصی پر رحمتِ خداوندی کی بارش برستی ہے تو اس کے نتیجے میں یہاں ایسے لطیف و رنگین روحانی باغ و گلشن (حدائق ذات بھجۃ، ۲۷: ۶۰) کا ظہور ہوتا ہے، جو انوار کی رنگینیوں سے بھرپور ہونے کی وجہ سے انتہائی رونق دار، بدرجۂ کمال خوبصورت اور نہایت روح پرور ہوا کرتے ہیں، تا کہ دیکھنے والوں کو خود شناسی اور خدا شناسی کے عظیم بھیدوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہو کہ عالمِ شخصی کی جنت میں باغبانِ ازل کیسے کیسے پرنور درختوں اور پھولوں کو اگا دیتا ہے۔

 

۹۔ جب اللہ تعالیٰ کائنات و موجودات کے ظاہر کا چھلکا یا پردہ (۸۱: ۱۱، ۵۰: ۲۲)

 

۱۲۵

 

اٹھائے تو اسی وقت عالمِ لطیف بصورتِ بہشت سامنے ہوتا ہے، جس میں چار اصل (دو روحانی اور دو لطیف جسمانی) چار عناصر بھی ہیں، اور چار دریا (نہریں) بھی، اور ان چاروں دریاؤں سے کائناتی اور عالمِ شخصی کی جنت خداوندِ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق معمور و پُرنور ہو گئی ہے، جس میں وہ تمام نعمتیں موجود و مہیا ہیں، جن کی خواہش بشری نفوس میں پائی جاتی ہے، علی الخصوص ایسی نعمتیں، جن سے اہلِ بہشت کو عینی لذات حاصل ہو جاتی ہیں (۴۳: ۷۱) عینی لذّتوں کا بلند ترین درجہ نورِ خداوندی کا دیدارِ اقدس ہے، اور اس بابرکت دیدار کے گوناگون ظہورات و تجلّیات ہیں۔

 

۱۰۔ منازلِ روحانیّت میں سب سے پہلے چشمِ باطن کھل جانے کے بعد روح کی حیرت انگیز رنگینی نظر آتی ہے، جو اس حقیقت کی مثال اور بشارت ہے کہ کچھ آگے چل کر عقل و جان علم و حکمت سے رنگین ہو جانے والی ہیں، جیسا کہ سورۂ مومنون (۲۳: ۲۰) میں فرمایا گیا ہے: وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَيْنَاءَ تَنبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِّلْآكِلِينَ (۲۳: ۲۰) اور ایک (زیتون) کا درخت بھی (ہم نے پیدا کیا) جو کہ طورِ سینا میں پیدا ہوتا ہے، جو اگتا ہے تیل لئے ہوئے اور کھانے والوں کے لئے سالن لئے ہوئے۔ درختِ زیتون نفسِ کلّی ہے، پھر ناطق، اساس، اور امام یہ درخت ہیں، طورِ سینا سے پیشانی مراد ہے، تیل کی تاویل عقلِ کلّی ہے، جس کا ذکر سورۂ نور (۲۴: ۳۵) میں بھی ہے، سالن کی تاویل کلمۂ باری ہے، جو حکمتوں کا سرچشمہ ہے، پس روحانی غذا کھانے والے تنزیل کی روٹی کو تاویلی حکمت کے سالن میں ڈبو کر کھاتے ہیں، جس سے یہ روٹی رنگین ہو جاتی ہے یعنی ظاہری علم باطنی علم سے مل کر پُرمایہ اور عالی شان ہو جاتا ہے۔

 

۱۱۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے قصّے میں چار پہاڑ موجود ہیں، ان میں سے ایک ظاہر اور تین پوشیدہ ہیں، جو ظاہر ہے وہ سب کو معلوم ہے، اور جو پہاڑ

 

۱۲۶

 

مخفی ہیں، وہ کوہِ پیشانی، کوہِ روح، اور کوہِ عقل ہیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بھی ایسے چار پہاڑ تھے، اس کے علاوہ ناطق، اساس، اور امام کے حجج (حجتان) قرآنی پہاڑوں کا کام کرتے ہیں، مثال کے طور پر حضرت داؤد علیہ السّلام کے ساتھ جبال اور پرندے تسبیح کیا کرتے تھے (۲۱: ۷۹) پس پہاڑوں سے یہاں آپ کی پیشانی، روح، عقل ، اور حجج مراد ہیں، اور پرندے دیگر سب ارواح ہیں، اور یہ سارے آپ کے ساتھ مل کر ذاتِ سبحان کی پاکی بیان کرتے تھے۔

 

۱۲۔ چمن کے خوش منظر اور دلفریب پھول کچھ دن اپنے رنگ و بو کی دولت لٹا دینے کے بعد اگرچہ مرجھا مرجھا کر ختم ہو جاتے ہیں، لیکن ان کے مجموعی وجود کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا، اسی طرح میوہ دار درختوں کے پھول محویّت و فنائیّت کے وسیلے سے اپنے اپنے پھلوں میں منتقل ہوجاتے ہیں، جہاں ان کی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے، انسان بھی بچپن میں غنچۂ نا شگفتہ جیسا پیارا اور نوجوانی میں گلِ خندان کی طرح خوبرو ہوتا ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ آیا یہ پھول بھی آگے چل کر اپنی نوعیت کا کوئی بیش بہا، خوشبو، اور خوشذائقہ میوہ بن سکتا ہے یا نہیں؟ کیوں نہیں، جب کہ ہر کلی زبانِ حال سے پھول کی خوشخبری دیتی ہے، اور ہر پھول جو درختِ ثمر دار سے متعلق ہے، وہ بجائے خود پھل کی بشارت ہے۔

 

۱۳۔ قادرِ مطلق جب عالمِ شخصی کو رنگ دیتا ہے، تو وہ ہر طرح سے اور ہر معنی میں رنگین ہو جاتا ہے، جس کی صرف ایک مثال یہ کہ اس میں لطیف باغ و گلشن کا ظہور ہوتا ہے، جو دراصل یہ تمام چیزیں سبز نور کی تجلیات ہیں، اب ایسی بہار کے پھول اپنے اپنے پھلوں اور بیجوں کی طرف آگے بڑھ جائیں گے، یا ان پھولوں سے جنت کا عطر نکالا جائے گا، یا ان سے بہشت کا شہد بنایا جائے گا، یا ان کے رنگوں (یعنی انوار) سے خدا کے لئے ایک تخت (عرش) بن جائے گا، یہ ساری مثالیں اپنی اپنی جگہ

 

۱۲۷

 

درست ہیں، جن کا ممثول علم و حکمت ہے۔

 

۱۴۔ ہر چیز، ہر لفظ، اور ہر مثال میں ایک رحمت اور ایک علم ہے، چنانچہ رنگوں کی مثال میں بطورِ خاص رحمت و علم ہے، جیسا کہ حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقل ہے کہ آپ سے اس آیۂ کریمہ کے بارے میں پوچھا گیا: ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ (۶۸: ۰۱) قسم ہے نون کی اور قلم کی اور اس چیز کی جو لکھتے ہیں۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا: نون نھر فی الجنۃ اشد بیاضا من الثلج و احلیٰ من الشھد۔ قال اللہ لہ: اجمد! فجمد۔ ثم قال للقلم: اکتب! فکتب القلم ما ھو کائن الیٰ یوم القیامۃ۔ (کتاب الزینۃ، باب القلم، صفحہ ۱۴۴)۔

نون بہشت میں ایک نہر ہے جو برف سے زیادہ سفید اور شہد سے بڑھ کر شیرین ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا: منجمد ہو جا! پس وہ منجمد ہو گئی، پھر خدا نے قلم کو حکم دیا: لکھ دے ! تو قلم نے لکھ دیا جو کچھ کہ قیامت تک ہونے والا تھا۔ اس قول میں انقلابی حکمتیں پوشیدہ ہیں، کہ نون یعنی قلمِ عقل کی دوات (دہنِ مبارک) کی مداد (روشنائی) سفید ہے، یعنی نورِ ابیض، اور یہ بہشت کی ایک نہر کی حیثیت سے ہے، جو حلاوت میں شہد سے بڑھ کر ہے، اور اسی کے منجمد ہونے سے عالمِ شخصی میں قلمِ قدرت کا ظہور ہو جاتا ہے۔

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۹ اکتوبر ۱۹۸۵ء

 

۱۲۸

 

واحد اور جمع

 

۱۔ قرآنِ حکیم میں علم و حکمت کے عجائب و غرائب بے شمار ہیں، لیکن سب سے بڑا عجوبہ اس قانونِ وحدت کا حکیمانہ ذکر ہے، جس کے مطابق ایک میں سب پوشیدہ ہوا کرتے ہیں، اور سب میں ایک پنہان ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا (۳۹: ۰۶) اس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا۔ یہ عالمِ شخصی کی بات ہے، کہ اس میں جب انسانِ کامل کی روحانی تخلیق ہوتی ہے، تو اسی کے ساتھ ساتھ اس کے روحانی بچوں کے ذرات کی بھی تخلیق ہوتی ہے، کیونکہ یہ لوگ اس کے اجزا ء ہیں، پھر عالمِ دین میں روحانی ماں باپ سے ان کی مکمل تولید ہوتی ہے، اور مومنین کے روحانی والدین ناطق و اساس ہیں، پھر اساس و امام، اور پھر امام و باب ہیں۔

 

۲۔ نفسِ واحدہ کے معنی ہیں ایک جان، نیز اس کے معنی ہیں ایک کرنے والی جان، کیونکہ واحدہ بروزنِ فاعلہ میں ایک کرنے کے معنی پوشیدہ ہیں، اس کی مثال روحِ نباتی، روحِ حیوانی اور روحِ انسانی ہیں، کہ ان میں سے ہر ایک نے بحدِّ قوت اپنی نوعیت کی لاتعداد روحوں کو ایک کر لیا ہے مگر انسانِ کامل بحکمِ خدا فعلاً نفسِ واحدہ ہے، یعنی وہ تمام نفوس کو اپنی ذات میں ایک کر لیتا ہے، اور دوسرے میں بھی ایک

 

۱۲۹

 

کر دیتا ہے، اسی طرح وہ ذرّاتِ روح کو مجتمع بھی کرتا ہے اور منتشر بھی۔

 

۳۔ لفظِ انسان واحد ہے، اور اس کی جمع اناسی ہے، مگر قرآنِ کریم میں کل انسانوں کا ذکر اکثر صیغۂ واحد (یعنی انسان) میں فرمایا گیا ہے، ایسے میں سب انسان ایک نظر آتے ہیں، اسی طرح جن کا تذکرہ ہے، جس میں سارے جنّات ایک ہیں، پھر اس میں کیا تعجب ہے کہ اسی نہج پر لفظِ آدم میں بھی بہت سے آدموں کا ذکر موجود ہو، اور خدا تعالیٰ نے رفعِ زمان کے طور پر ان سب آدموں سے متعلق ارشاد فرمایا ہو کہ: قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا (۰۲: ۳۸) ہم نے حکم فرمایا نیچے جاؤ اس بہشت سے سب کے سب۔

 

۴۔ آسمان اگرچہ سات ہیں، لیکن جس طرح وہ باہم ملے ہوئے ہیں، اس کے پیشِ نظر وہ ایک ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں آسمانوں کا ذکر صیغۂ جمع (سماوات) میں بھی ہے، اور صیغۂ واحد (سماء) میں بھی تا کہ “وحدتِ کثرت نما” کے بھیدوں سے لوگ واقف و آگاہ ہو جائیں، آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات ہیں (۶۵: ۱۲) لیکن قرآنِ مقدّس میں ہر جگہ زمین کا تذکرہ اسمِ واحد (ارض) میں فرمایا گیا ہے، اور ان اعداد کی ایک بہت دلنشین تاویل ہے وہ یہ کہ سات آسمان سے روحانیّت کے سات درجات مراد ہیں، جو صاحبانِ ہفت ادوار سے متعلق ہیں، مگر اس کے باوجود روحانیّت ایک ہی ہے، اور صاحبانِ ادوار بھی ایسے متحد ہیں، جیسے ایک نے اپنے باطن میں سب کو سما لیا ہو، اور سات زمین کی تاویل ان حضرات کے ابواب (حجّتانِ اعظم) ہیں، جو سات ہیں، اور مل کر ایک ہو گئے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ آسمان و زمین سات سات بھی ہیں، اور ایک ایک بھی۔

 

۵۔ جبرائیل، میکائیل، اسرافیل، اور عزرائیل علیہم السّلام میں سے ہر ایک واحد بھی ہے اور جمع بھی، واحد اس لئے کہ وہ ایک فرشتہ ہے، اور جمع اس معنیٰ میں کہ وہ

 

۱۳۰

 

فرشتوں کا ایک بہت بڑا لشکر ہے، جیسے سورۂ سجدہ (۳۲: ۱۱) میں ارشاد ہوا ہے کہ موت کا فرشتہ ایک ہے (یعنی عزرائیل) لیکن سورۂ انعام (۰۶: ۶۱، ۰۶: ۹۳) میں جیسی ربّانی تعلیم ہے، اس سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ عزرائیل دراصل بہت سے فرشتوں کی وحدت کا نام ہے، جبکہ قبضِ ارواح کے لئے بہت سے فرشتے مقرر ہیں۔

 

۶۔ پیغمبر اور امام صلوات اللہ علیہما واحد بھی ہیں، اور جمع بھی، وہ ایک ایک ہیں، اس لئے واحد ہیں، اور اس بات کے سمجھنے میں کسی کو دقت نہیں ہو سکتی، مگر سوچنا یہ ہے کہ وہ کس طرح جمع ہیں؟ اس کے بارے میں عرض یہ ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے اندر ایک عالمِ شخصی رکھتا ہے، جس میں اگرچہ ہر چیز اور سب لوگ ہوتے ہیں، تاہم مومنین کو اس میں خاص مقام حاصل ہے، اور وہ مقام یہ ہے کہ ہر مومنِ صادق کی “انائے علوی” پیغمبر اور امام سے ملی ہوئی ہوتی ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بنی اسرائیل پر اللہ جلّ شانہ کا سب سے بڑا احسان یہ تھا کہ ان کو اس دور کے أئمّہ کی “نورانیت و معرفت” کے وسیلے سے روحانی سلطنت عطا کر دی گئی تھی، اس بابرکت آیت کا ترجمہ یہ ہے:

اور وہ وقت بھی ذکر کے قابل ہے جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کے انعام کو جو تم پر ہوا ہے یاد کرو جب کہ اس نے تم میں بہت سے پیغمبر بنائے اور تم کو سلاطین بنایا اور تم کو وہ چیزیں دیں جو دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیں (۰۵: ۲۰) اور یہی مفہوم سورۂ قصص (۲۸: ۰۵) میں بھی ہے، دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام بحقیقت ملوک و سلاطین ہیں، اور جو لوگ علم و عمل کے ذریعہ “فنا فی الامام” (ف ن ا ف ی ا ل ا م ا م) کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں، وہ بھی روحانیّت و قیامت میں بادشاہ ہوں گے۔

 

۱۳۱

 

۷۔ ظاہر میں سب لوگ بنی آدم کہلاتے ہیں، مگر حقیقی معنوں میں صرف حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام بنی آدم ہیں، اسی طرح “بنی آدم کی ذریّت” بھی خاص و عام دو قسم کی ہے، چنانچہ خداوندِ تعالیٰ نے اولادِ آدم کے ہر پیغمبر اور ہر امام کی پشتِ مبارک سے اس کی روحانی ذریّت یعنی ارواحِ مومنین کو لیا، اور ان کو نورِ معرفت سے واقف کر دیا، پھر پوچھا کہ آیا با این ہمہ میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں (۰۷: ۱۷۲) اس سے ظاہر ہے کہ خدا شناسی اور توحید کا دروازہ ہر وقت کشادہ ہے۔

 

۸۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السّلام ایک امام تھے، مگر آپ میں سب أئمّہ جمع تھے، لہٰذا وہ تمام آیات و احادیث جن میں مولا علیؑ کی ولایت و امامت کا ذکر ہے، وہ سب آپ کے بعد ہر امام سے متعلق ہو جاتی ہیں، علی مرتضیٰ واحد ہونے کے باوجود کس طرح جمع تھے، اس کی ایک قرآنی مثال ملاحظہ ہو: ماسوا اس کے نہیں کہ تمہارا ولی (حاکم اور دوست) اللہ تعالیٰ ہے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لا چکے نماز قائم کرتے اور زکات دیتے ہیں، در آنحالیکہ وہ رکوع کرنے والے ہیں (۰۵: ۵۵) مشہور و مستند روایت ہے کہ یہ آیۂ کریمہ مولا علی صلوات اللہ علیہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، کیونکہ آپ ہی نے حالتِ رکوع میں ایک سائل کو زکات دی تھی، لیکن جاننے کی خاطر یہ ایک سوال ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر خدا اور پیغمبر کے ذکر کے بعد جیسا ارشاد ہوا ہے وہ سب صیغہ ہائے جمع میں کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں خدا تعالیٰ نے زمانۂ مستقبل کو اٹھا کر تمام اماموں کو ابو الأئمّہ مولا علی علیہ السّلام کی صورتِ مبارکہ میں جمع کر دیا ہے، جس طرح اس نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام میں ایک امت جمع کر دی تھی (۱۶: ۱۲۰)۔

 

۹۔ اعداد کی ترتیب کا جو قاعدہ و قانون ہے، وہ سب کو معلوم ہے کہ سب سے

 

۱۳۲

 

پہلے ایک ہے، پھر دو، پھر تین، وغیرہ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ “ایک” حضرت آدم کی مثال ہے کیونکہ وہ نفسِ واحدہ کی حیثیت سے انسانِ اوّل ہے (۰۷: ۱۸۹، ۳۹: ۰۶) دو کا عدد بی بی حوّا کی مثال ہے، اس لئے کہ جس طرح ایک سے دو پیدا ہو جاتا ہے، اسی طرح آدم سے حوّا پیدا کی گئی ہے، اور باقی اعداد جتنے بھی ہیں وہ سب کے سب اولادِ آدم کی مثال ہیں، رسمہ ملاحظہ ہو:۔

اولادِ آدم

آدم     حوّا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱      ۲      ۳      ۴      ۵     ۶     ۷      ۸      ۹      ۱۰     ۱۰۰     ۱۰۰۰ وغیرہ

 

یہاں ایک اعلیٰ درجے کا سوال اٹھایا جاتا ہے، جس کا جواب بے حد مفید ہو سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ بحوالۂ قرآن (۰۷: ۱۸۹، ۳۹: ۰۶) کس طرح یہ امر ممکن ہوا کہ خدا تعالیٰ نے نفسِ واحدہ یعنی صرف آدم ہی سے سارے آدمیوں کو پیدا کیا، جبکہ حوّا ہنوز پیدا نہیں ہوئی تھی؟ اس کا جواب کئی طرح سے دیا جا سکتا ہے:

الف: یہ عالمِ ذرّ (عالمِ ارواح) تھا، جہاں ذرّاتِ ارواح کی تخلیق ہوئی تھی۔

ب: یہ تصویری تخلیق تھی، جس میں ایک اکیلے آدم کی بے شمار تصویریں بنا کر ذرّاتِ لطیف یا جسمِ لطیف سے وابستہ کی گئی تھیں، اور ہر تصویر کا نام آدمی یا انسان تھا، تا کہ وقت آنے پر ساری انسانیّت پھر اصل سے رجوع کرے، اور جتنی تصویریں ہیں، وہ سب کی سب صاحبِ تصاویر یعنی نفسِ واحدہ سے مل جائیں۔

ج: حکماء کا قول ہے کہ: لا تلد الوحدۃ الا الوحدۃ (وحدت صرف وحدت ہی کو جنم دیتی ہے) چنانچہ نفسِ واحدہ (یعنی آدم) جو واحد تھا، سو اس نے وحدت کو جنم دیا، یعنی عددِ واحد سے بے شمار اعدادِ واحد بنے جیسے:

 

۱۳۳

 

۱،۱،۱،۱،۱،۱،۱، وغیرہ، تا کہ رجوع کا علم و عمل آسان ہو۔

د: وجودِ آدم گزشتہ دور کا خلاصہ، جوہر اور نچوڑ تھا، جس میں جملہ ذرّاتِ ارواح منتقل ہو چکے تھے، ان کا سابقہ رشتہ بحکمِ قرآن (۲۳: ۱۰۱) ختم ہو چکا تھا، اور اب ان کو “تخلیق در تخلیق” کے قانونِ فطرت کے مطابق اس آدم کی روحانی اولاد بنانا تھا۔

 

۱۰۔ واحد اور جمع میں سے ایک کو حقیقی اور دوسرے کو مجازی ہونا ضروری ہے چنانچہ معلوم ہے کہ واحد بحقیقت واحد ہے، اور جمع مجازاً جمع کہلاتی ہے، جس کی یہاں ایک عددی مثال درج کی جاتی ہے:

ایک (۱)، دو (۱+۱ = ۲) ، تین (۱+۱+۱= ۳)، چار (۱+۱ + ۱ + ۱ = ۴)، پانچ (۱+۱+ ۱+۱+ ۱ = ۵)، چھ (۱+۱+۱+ ۱+۱ +۱ = ۶)، سات (۱+۱+۱+۱+۱+۱+۱ = ۷)، آٹھ ( ۱+۱ + ۱ + ۱ + ۱+۱+ ۱ + ۱ = ۸)، نو    (۱+۱ + ۱ + ۱+  ۱+۱ + ۱ + ۱ +۱ =  ۹)، دس ( ۱+۱ + ۱ + ۱ + ۱+۱+  ۱ + ۱+ ۱+ ۱  = ۱۰ )۔

آپ دیکھتے ہیں کہ عددِ واحد کا وجود جداگانہ بھی ہے، اور دوسرے اعداد میں پوشیدہ بھی، لہٰذا وہ حقیقی اور باقی سب مجازی ہیں، آپ حضرات اس میں خوب غور کریں۔

 

۱۱۔ روح ایک لامکانی چیز ہے، وہ اپنی اصلیت میں جگہ کے بغیر موجود ہو سکتی ہے، تاہم ادراک، احساس، اور فعل کے لئے اسے یا تو ذرۂ لطیف چاہئے، یا جسمِ لطیف، یا جسمِ کثیف، ان تینوں میں سب سے چھوٹا اور انتہائی کم مقدار جسم ذرہ ہے، وہ البتہ تکوینِ جسم کا نقطۂ آغاز اور تجزیۂ مادّہ کا آخری ریزہ ذرہ ہے لیکن اس کے باوجود اس میں روح کی ایک مکمل دنیا سمائی ہوئی ہے، یہ ذرہ انتہائی تیزی سے پرواز کر سکتا ہے، اور قرآنِ حکیم میں بہت سے ناموں کے تحت اس کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

 

۱۲۔ ہر قسم کا ظرف (برتن) جسم ہے، اور اس میں جو چیز رکھی جاتی ہے، وہ بھی

 

۱۳۴

 

جسم ہے، چنانچہ جسم میں جسمانی چیز ایک حد تک سما سکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں، مگر اس کے برعکس روح میں تمام روحانی چیزیں سما جاتی ہیں، کیونکہ روح لامکانی ہے، لہٰذا اس میں جگہ کی تنگی کا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں، پس ہر شخص کی روح میں سب روحیں آ سکتی ہیں، اور اسی طرح ہر فرد کی روح سب میں چل سکتی ہے، اور آپ بے حد شادمان ہوں گے کہ یہ کلیہ بدرجۂ اعلیٰ مفید اور قرآنِ حکیم (۰۶: ۱۲۲) کے عین مطابق ہے، وہ یہ ہے: وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ (۰۶: ۱۲۲، اور ہم نے اس کے لئے ایک نور بنا دیا ہے وہ اس کے ذریعہ لوگوں میں چلتا ہے) یاد رہے کہ یہاں باطن اور روح میں چلنے کی بات ہے، اور اس کے لئے وسیلہ نورِ ہدایت ہے۔ والسلام۔

 

نوٹ: صدر فتح علی حبیب اور صدر محمد عبد العزیز کا فرمانا ہے کہ اگر اس سلسلۂ مقالات و کتب سے جیسا کہ چاہئے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر پیاری جماعت کی ایک اہم علمی خدمت کس طرح انجام دی جا سکتی ہے۔

 

خاکسار خادم

نصیر فقیر

۵ نومبر ۱۹۸۵ء، ۲۱  صفر ۱۴۰۶ھ

 

۱۳۵

 

حکمتِ عددی ۔ چالیس (۴۰)

 

۱۔ حقیقی مومنین کو اس امرِ واقعی میں کوئی شک و شبہ نہ ہوگا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے مقدّس ارشاد (۳۶: ۱۲) کے بموجب کائنات و موجودات کی ہر چیز کو رشتۂ قدرت و حکمت میں پرو کر امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کی ذاتِ بابرکات سے وابستہ کر دیا ہے، تمام اشیائے ظاہری کی ارواحِ لطیفہ اور اسرارِ بدیعہ کو مرتبۂ امامت میں سما دیا ہے، اور کون و مکان کی وسعتوں کو اسی مظہرِ صفاتِ قدسیہ کے بحرِ نورانیّت میں غرق اور محدود کر کے رکھا ہے، پس جاننا چاہئے کہ عالمِ ہست و بود کے ظاہر و باطن میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے، جو زبانِ حال اور لسانِ حکمت سے اس حقیقت کی شہادت نہ دیتی ہو کہ امامِ برحق دنیا میں ہمیشہ کے لئے حیّ و حاضر ہیں، چنانچہ ہم یہاں بتوفیقِ نورِ الٰہی چالیس (۴۰) کی حکمتِ عددی میں سے کچھ بیان کر دیتے ہیں۔

 

۲۔ خدائے علیم و حکیم نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چالیس (۴۰) برس مکمل ہونے کے بعد نبوّت و رسالت کے مرتبۂ عالی سے نوازا، اگرچہ حضورِ اکرمؐ بچپن ہی سے بلکہ پیدائشی طور پر انتہائی پاک و پاکیزہ تھے، اور آپ شروع ہی سے اخلاقِ حمیدہ اور خصائلِ محمودہ کے مالک تھے، لہٰذا آپ کو حضرتِ یحییٰؑ اور حضرتِ عیسیٰؑ کی طرح ابتدائی عمر میں درجۂ پیغمبری کی موہبت و عنایت ممکن تھی، لیکن اس امرِ عظیم کے اعلان کے لئے چالیس سال کی شرط محض اسی لئے لازمی ہوئی کہ نبوّت و امامت

 

۱۳۶

 

کا ایک مخصوص عدد ۴۰ ہے، پس معلوم ہوا کہ چالیس کا عدد پیغمبر اور امام علیہما السلام کے خاص درجات میں سے ہے۔

 

۳۔ حضرت پیر ناصر خسرو قدّس سرّہ (اس کی روح (راز) پاک ہے) کی مشہور کتاب وجہِ دین کے کلام نمبر ۳۰ میں زیرِ عنوانِ: “تاویلِ صدقۂ گوسفند۔” ارشاد ہوا ہے کہ حدودِ دین کا مجموعہ چالیس (۴۰) ہے، یعنی : ۵ + ۲ + ۷ + ۲۴ + ۲ = ۴۰، تشریح: پانچ حدودِ روحانی (عقل، نفس، جد، فتح، خیال)، ناطق، اساس، سات امام، چوبیس حجّتانِ روز و شب، داعی اور ماذون، ان سب کا مجموعی عدد ۴۰ ہے، پس یہی عدد یعنی چالیس پیغمبر اور امام کا بھی ہے، کیونکہ نبوّت و امامت کا نور ایک ہی ہے اور اس پاک نور میں جملہ حدودِ دین مجموع ہیں۔

 

۴۔ سورۂ احقاف (۴۶: ۱۵) میں جیسے ارشاد ہوا ہے، اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ اکثر انسانی سمجھ بوجھ کی تکمیل اور عقل و شعور کی پختگی چالیس برس میں ہوتی ہے چنانچہ ایک نیکوکار اور دور اندیش انسان عمر کی اس حد میں پہنچ کر اپنے پروردگار سے اس بات کی توفیق طلب کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بڑے پیمانے پر اخلاقی اور روحانی انقلاب لا سکے، پس جاننا چاہئے کہ انسانی عمر میں چالیس (۴۰) کے عدد کی یہ اہمیّت اس حقیقت کے پیشِ نظر ہے کہ اس کی تاویلی حکمت کا تعلق پیغمبر اور امام سے ہے۔

 

۵۔ حدیثِ شریف میں ہے کہ دستِ قدرت نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے قالب کا گارا چالیس صبحوں میں گوندھ کر تیار کیا، یعنی ہر صبح نورانیّت کے وقت آدم کے جسمانی وجود کا خمیر تیار ہوتا رہا، تا آنکہ چالیس (۴۰) دن گزر گئے، اس کی تاویل یہ ہے کہ آدم صفی اللہ کی اعلیٰ روحانی ہستی چالیس (۴۰) صبحوں کی کامیاب اور عارفانہ عبادت سے مکمل ہوئی تھی، نیز یہ روحانی تخلیق ۴۰ حدود کے زیرِ اثر تھی، پس چالیس (۴۰) کے عدد کی تاویل میں نبوّت و امامت کے اسرارِ معرفت پنہان ہیں۔

 

۱۳۷

 

۶۔ قرآنِ پاک کے قولِ حکمت آگین سے ظاہر ہے کہ حضرتِ موسیٰؑ کوہِ طور پر جس مسلسل عبادت کے لئے گئے تھے، اس کی مدت چالیس (۴۰) راتوں کی تھی (۰۷: ۱۴۲) تا کہ حضرتِ موسیٰؑ اس خصوصی اور اعلیٰ اعتکاف کے ذریعے اپنے ربّ کے زیادہ سے زیادہ نزدیک ہو سکیں، جس کا تاویلی اشارہ یہ ہے کہ نورِ نبوّت و امامت کی معرفت کے بغیر روحانیّت کے مراحل طے نہیں ہو سکتے، کہ وہی چالیس (۴۰) حدودِ دین کا مرکز ہے۔

 

۷۔ فریضۂ جہاد ترک کرنے کی سزا میں بنی اسرائیل کو ارضِ مقدّس (ملکِ شام) سے چالیس (۴۰) سال تک محروم کر دیا گیا، اور انہیں اس عرصے میں وادیٔ تیہ میں محدود ہو کر سرگردان ہونا پڑا، اس کی تاویل بھی یہی ہے کہ انہوں نے اپنے پیغمبر اور امامِ وقت کی نافرمانی کی تھی، جن کا نشان چالیس (۴۰) تھا، لہٰذا انہیں ۴۰ سال کی سزا ملی، تا کہ غور و فکر کرنے والے اس حکمت کو سمجھ سکیں۔

 

۸۔ جملِ کبیر کے سلسلے میں چالیس (۴۰) کے عدد کا حرف “م” ہے، اور میم (م) عربی میں ایک ایسا انتہائی عجیب حرف ہے کہ اس کے اسماء و الفاظ کے شروع میں داخل ہونے سے طرح طرح کے معنوں کا تعین ہو جاتا ہے، اور ان سب میں اسرارِ امامت پوشیدہ ہوتے ہیں، مثلاً اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک اسم جو علمِ الٰہی سے متعلق ہے، وہ علیم ہے، یا علام یا اعلم ہے یا الاعلم ہے، یہ ظاہری بات ہوئی، مگر حقیقت میں اس سلسلے کا سب سے بڑا نام معلّم یا کہ المعلم ہے۔ جس میں حرفِ میم ہے، جس کی بزرگی کی دلیل یہ ہے کہ کسی ہستی کے علم و دانش رکھنے میں اتنی فضیلت نہیں جتنی کہ دوسروں کو علم سکھانے کی فضیلت ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو تمام اسماء کا علمِ حقیقت سکھایا (۰۲: ۳۱) اس سے صاف ظاہر ہے کہ خداوندِ عالم خود ہی آدم صفی کا معلّم تھا، اس بیان سے نہ صرف یہی حقیقت واضح و روشن ہو گئی کہ حرفِ “میم” میں معنویّت و حقیقت کی انتہائی بلندی ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی

 

۱۳۸

 

معلوم ہوا کہ “علم الاسماء” میں تمام حقائق و معارف کے خزانے موجود ہیں۔

 

۹۔ بیانِ بالا میں حقیقی اور دانشمند مومنین کے لئے بہت کچھ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نور ہی ہر زمانے میں ظاہراً و باطناً صحیح معنوں میں معلم و رہنما ہے، اور یہی نور یعنی امامِ زمانؑ قادرِ مطلق کا اسمِ اعظم ہیں، یہ بیان ایسا ہے کہ اس میں حقائق و معارف کی جملہ کلیدیں شامل ہو جاتی ہیں۔

 

۱۰۔ خوب جاننا چاہئے کہ چالیس (۴۰) کے عدد کا جملِ اصغر ۴ ہے، اور محمد و علی صلوات اللہ علیہما کے مبارک و مقدّس اسموں کا جملِ اصغر بھی ۴ ہے، یہ اس طرح سے ہے: ۴۰ = ۰ +۴ = ۴ ، جواب (جملِ اصغر) اب محمد و علی کے پُرحکمت ناموں کا بسطِ حرفی ملاحظہ ہو: م ح م د ع ل ی، ان پاکیزہ حروف کے اعداد اور مجموعہ یہ ہیں: ۴۰ + ۸ + ۴۰ + ۴ + ۷۰ + ۳۰ + ۱۰ = ۲۰۲، دو سو دو کا جملِ اصغر یہ ہے: ۲+۰+۲=۴ جواب (یعنی جملِ اصغر) اس عددی تاویل سے ظاہر ہے کہ محمد و علی صلوات اللہ علیہما وہ چہل (۴۰) شب ہیں، جن میں کوہِ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے خصوصی اعتکاف کیا تھا۔

 

۱۱۔ سورۂ احقاف (۴۶: ۱۵) میں ضروری طور پر اس حکمت کو دیکھ لیجئے کہ اس کا تعلق سب سے پہلے ناطق سے ہے، پھر اساس، امام، حجّت، اور داعی پر اس کا اطلاق ہو جاتا ہے، بعد ازان یہ حکم مومنین کی طرف آتا ہے، اور ان تمام درجات میں سے ہر درجہ کے لئے روحانی والدین ہوا کرتے ہیں، جی ہاں، آنحضرتؐ کے بھی اصولاً روحانی ماں باپ تھے، اس آیۂ کریمہ میں اشارہ ہے کہ جس طرح انسان کی جسمانی ماں بڑی مشقت کے ساتھ اس کو پیٹ میں رکھتی ہے، اور بڑی مشقت کے ساتھ اس کو جنتی ہے، یہی حال روحانی ماں کا بھی ہے۔

 

۱۲۔ مذکورۂ بالا آیت کا تاویلی مفہوم ہے کہ جب انسان یعنی نورِ ہدایت کا پیرو علم و عمل اور روحانیّت کی بھرپور جوانی کو پہنچ جاتا ہے، اور چالیس (۴۰) حدود کی مجموعی

 

۱۳۹

 

معرفت کو حاصل کرتا ہے، تو وہ اس نعمتِ عظمیٰ کی شکر گزاری کے لئے اپنے پروردگار سے توفیق طلب کرتا ہے، اور وہ اس معرفت کی روشنی میں یہ بھی جانتا ہے، کہ اس کے روحانی والدین پر خدا تعالیٰ کے کیسے کیسے احسانات ہوئے ہیں (۴۶: ۱۵)۔

 

۱۳۔ ارشاد ہے: وَاَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي (۴۶: ۱۵) اور میری ذریت میں بھی میرے لئے صلاحیت پیدا کر دے، یعنی مجھے رفیقِ اعلیٰ (انائے علوی) سے ملا دے، اور میری انائے سفلی کے لئے میری ذریت کو اس قابل بنا دے کہ میں ایک طرح سے ان میں رہ کر نیک کام کرتا رہوں، کیونکہ بہشت میں ہر خواہش پوری ہوتی ہے، اور ایک بہت بڑی خواہش یہ ہے کہ انسان ہمیشہ زندہ رہ کر نیک کام کرنا چاہتا ہے، اور یہ ممکن نہیں، مگر دوسروں میں زندہ ہوکر، پس مذکورۂ بالا دعا میں یہی اشارہ موجود ہے۔

 

۱۴۔ قرآن کہتا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضراتِ أئمّہ پر گواہ (یعنی حاضر) ہیں، اور أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام لوگوں پر گواہ ہیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ نورِ نبوّت کی کارفرمائی نورِ امامت میں ہوتی ہے، اور أئمّہ علیہم السلام لوگوں کے ظاہر و باطن میں کام کرتے ہیں، خصوصاً اپنی روحانی ذریات میں، اور یہ سلسلہ بہشت کا ہے، لہٰذا یہ مومنین تک پہنچ جاتا ہے، پس ہر انسان جو صحیح معنوں میں انسان ہو، اور بحقیقت مومن ہو، وہ مذکورۂ بالا آیت کا مصداق ہو گا، وہ اپنے روحانی والدین کے حق میں احسان کر سکے گا، جبکہ وہ علم و عمل اور حدود شناسی کے چالیس (۴۰) سال کو پہنچ جاتا ہے، اور اپنی ذریت میں زندہ رہ کر نیک کام کرے گا۔

 

۱۵۔ اس آیۂ مقدّسہ کے آخر میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے: اِنِّي تُبْتُ اِلَيْكَ وَاِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (۴۶: ۱۵) میں نے تیری طرف توبہ کی اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ توبہ کی تاویل ہے خدا کی طرف رجوع کرنا اور اس سے انتہائی

 

۱۴۰

 

نزدیک ہو جانا، اور مسلم کی تاویل ہے اپنی انائے علوی کو خدا کے سپرد کر دینے والا، پس اس آیۂ حکمت آگین میں روحانی والدین اور حدودِ دین کا ذکر ہے، جس کی یہاں کچھ وضاحت کی گئی۔

 

۱۶۔ ایک عزیز دوست نے بڑی سادگی سے یہ سوال اٹھایا اور کہنے لگا کہ اب اس زمانے میں امامِ وقت کے سوا حدودِ دین کہاں ہیں؟ جب ہر چیز کے ساتھ ساتھ حدودِ دین بھی امامِ مبین میں جمع ہیں (۳۶: ۱۲) تو پھر حدودِ دین کے عنوان سے مزید مسائل پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

میں نے خلوص، محبت اور عاجزی سے عرض کیا کہ: آپ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ حدودِ دین کہاں ہیں؟ اور دوسری طرف خود ہی جواب دیتے ہیں کہ وہ حدود امامِ زمان میں ہیں، اس منطق سے سوال کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا سوال کا آخری حصہ غیر منطقی ہو کر رہ گیا ہے، تاہم جواباً عرض ہے:

الف: قرآنِ حکیم اور حدیثِ شریف کی تاویل حدودِ دین کے نظام کے مطابق ہے، چنانچہ علمِ تاویل کے لئے علمِ حدود شرط ہے۔

ب: اگر کہا جائے کہ حدودِ دین کا تعلق گزشتہ زمانے سے ہے، تو پھر بھی ان کی اہمیّت اپنی جگہ پر قائم ہو گی، کیونکہ کوئی بھی دانشمند قوم اپنی تاریخ کو بھلانا نہیں چاہتی ہے، پس علمِ حدود تاریخی اعتبار سے بھی ضروری ہے۔

ج: زمانۂ ماضی کے ہمارے دینی بزرگوں کو نورِ امامت سے جیسی جیسی تاویلات حاصل ہوئی تھیں، اور ان کی گرانمایہ کتابوں میں سے جتنی آج دستیاب ہیں، ان کی تحلیل علمِ حدود کے بغیر ناممکن ہے۔

د: اگرچہ خاندانِ امامت سے باہر آج کوئی حجت اور کوئی پیر نہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ اس وقت روحانی اور علمی ترقی کا دروازہ

 

۱۴۱

 

بند ہو چکا ہے، جبکہ امام شناسی یا معرفت کے عنوان کے تحت بہت کچھ ہے۔

ہ: دینِ حق ایک سیدھی راہ کی طرح ہے، نیز یہ ایک پل کی طرح بھی ہے، اور ایک سیڑھی کی مثال پر بھی، جس طرح کہ آنحضرت کی معراج اور آیۂ معارج (۷۰: ۰۳) سے اس حقیقت کی تصدیق ہو جاتی ہے، اور معراج (سیڑھی) ، معارج (سیڑھیاں) سے درجات یعنی حدودِ دین مراد ہیں۔

 

والسلام

 

نوٹ: صدر فتح علی حبیب اور صدر محمد عبد العزیز ، نیز یہاں کے دوسرے عملداران و ارکان ان تمام خوش نصیب حضرات کو “مبارک باد” کہتے ہیں، جو اس انتہائی کامیاب گشتی کورس میں شرکت کر رہے ہیں۔

 

نصیر ہونزائی

۱۵ نومبر ۱۹۸۵ء

 

۱۴۲

 

انسان در انسان

 

۱۔ یہ سورۂ انعام کے ایک ارشاد (یعنی ، ۰۶: ۱۲۲) کا ترجمہ ہے: ایسا شخص جو کہ پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ بنا دیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دے دیا کہ وہ اس کے ذریعہ آدمیوں (کے باطن) میں چلتا ہے کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کی حالت یہ ہو کہ وہ تاریکیوں میں ہے ان سے نکلنے ہی نہیں پاتا (۰۶: ۱۲۲)۔

 

اللہ تعالیٰ کبھی نچلی سطح کی بات نہیں کرتا، اور نہ ہی درمیانی درجے کی بات کرتا ہے، بلکہ وہ علیم و حکیم ہمیشہ اور ہر وقت امور، واقعات، اور حالات کی چوٹی پر کلام فرماتا ہے، اور اسی درجۂ اعلیٰ سے فرمانِ خداوندی کی روشنی تمام درجات پر پڑتی رہتی ہے، چنانچہ آیۂ بالا میں حق و باطل کی دو چوٹیوں کا تقابلی تذکرہ فرمایا گیا ہے، یعنی انسانِ کامل اور اس کے مخالف کا قصّہ ہے، لہٰذا یہاں ایک تقابلی نقشہ درج کیا جاتا ہے، آپ اس کو خوب غور سے دیکھیں، اور بہت سے مفید منطقی نتائج اخذ کریں:۔

 

تقابلی نقشہ

مخالف (وہ، اُس) انسانِ کامل (یہ، اِس)  
وہ بحقیقت مردہ ہے یہ بحقیقت زندہ ہے ۱
وہ بے نور اور تاریک ہے یہ بانور اور روشن ہے ۲

 

۱۴۳

 

وہ لوگوں کے باطن میں نور کے ساتھ نہیں چل سکتا یہ لوگوں کے باطن میں نور کے ساتھ چل سکتا ہے ۳
وہ اپنوں کو روشنی نہیں دے سکتا یہ اپنوں کو روشنی دے سکتا ہے ۴
وہ باطن میں آ کر علم نہیں دے سکتا یہ باطن میں آ کر علم دے سکتا ہے ۵
اُس کے پیرو ایسے نہیں ہو سکتے اس کے پیرو زندہ اور بانور ہو سکتے ہیں ۶
اُس کے پیرو ایسے نہیں چل سکیں گے اِس کے پیرو بھی باطن میں بانور چل سکیں گے ۷

 

۲۔ “انسان در انسان” یعنی ایک آدمی کے اندر دوسرے آدمی کا موجود ہونا، یا داخل ہو جانا کس طرح ممکن ہے، اس کی ایک روشن دلیل آیۂ مذکورۂ بالا میں ہے، جس کی عام فہم منطقی وضاحت یہاں نقشے کی مدد سےکی گئی ہے، اور یہ نقشہ بے حد مفید ہے، جس سے ہر دانشمند طرح طرح کے مثبت نتائج اخذ کر سکتا ہے، اس کے علاوہ یہ بھی سوچنا ہے کہ صلبِ پدر (باپ کی پشت) میں بصورتِ ذرّات کس طرح بے شمار چھوٹے چھوٹے انسان پوشیدہ ہیں، کہ اگر ان کو سیّارۂ زمین کے باشندوں میں تقسیم کر دیا جائے، تو فی کس ایک ذرہ کے اندازے سے بھی زیادہ ہوں گے، تا کہ ہر مرد اپنی زندگی ہی میں بحدِّ قوّت تمام انسانوں کا باپ ہو۔

 

۳۔ “آدمی در آدمی” کی ایک نمایان اور مادّی مثال وہ بچہ ہے جو شکمِ مادر میں ہوتا ہے، وہ پشتِ پدر سے لے کر جنم دن تک جن مراحل سے گزر جاتا ہے، اور جیسا یہ سفر ہے، اس میں زبردست حکمتیں پوشیدہ ہیں، کیونکہ بہ فرمودۂ مولا علی صلوات اللہ علیہ انسان کتابِ مبین (بولنے والی کتاب) ہے، یہ صفت انسانِ کامل میں بحدِّ فعل موجود ہوتی ہے، اور دوسروں میں بحدِّ قوّت، پس جس طرح جسمانیّت میں “انسان در انسان” ہے، اسی طرح روحانیّت میں بھی آدمی کے اندر آدمی رہتا ہے، مگر اس میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ جسم مکانی ہونے

 

۱۴۴

 

کی وجہ سے محدود ہے، اور روح لامکانی ہونے کے سبب سے غیر محدود۔

 

۴۔ سورۂ حدید کے آخر (۵۷: ۲۸) میں ذرا غور سے دیکھئے، جہاں ارشاد ہوا ہے کہ: اور تم کو ایسا نور مقرر کرے گا کہ تم اس کے ذریعہ چلو گے پھرو گے (۵۷: ۲۸) جاننا چاہئے کہ اس نور کی روشنی میں جن جن مقامات میں چلنا چاہئے، ان میں سے اوّلین عالمِ انسانیت کا باطن ہے، جیسا کہ اس مضمون کے شروع میں قرآنِ پاک کے حوالے سے ذکر ہوا، اور نقشے سے اس کی وضاحت کی گئی ہے، پس ایک انسان دوسرے انسان میں اس طرح داخل ہو جاتا ہے جس طرح کہ نورِ ہدایت سلسلۂ أئمّۂ طاہرین میں منتقل ہوتا رہتا ہے، یعنی نور کے اس عمل میں کہ وہ ایک شخصِ کامل سے دوسرے شخصِ کامل میں منتقل ہوتا رہتا ہے، انسان در انسان کا عملی نمونہ موجود ہے۔

 

۵۔ ایک بروشسکی شعر یاد آیا، جو اسی موضوع سے متعلق ہے، اور وہ اس طرح ہے:

مُردہ قبرر اکی اُن تِکُ لو پسوم عاشقݺ رُو!

دوستݺ جسمُ لو دُکوَر ڞا گنݺ زندَلو ھُرُٹ

ترجمہ: اے روحِ عاشق! مردہ قبر میں داخل نہ ہو جا، تو مٹی میں رہے یہ تیری شان نہیں، دوست کے جسم میں زندہ ہو جا، اور ہمیشہ کے لئے اس زندۂ جاوید میں جاگزین ہو جا۔

 

۶۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے: بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ = میری قبر اور منبر کے درمیان بہشت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔ دیکھئے کتابِ “وجہِ دین” گفتار نمبر ۱۹ کے آخر میں زیرِ عنوان “حکایت” کہ حضورِ اکرمؐ کی قبرِ مبارک آپ کے وصی (مولا علیؑ) ہیں اور منبر حضرتِ قائمؑ، اس سے یہ حقیقت روشن ہو

 

۱۴۵

 

جاتی ہے کہ روح زندہ قبر میں جاتی ہے، اور جسم بے جان قبر میں دفنایا جاتا ہے۔

 

۷۔ انسانی قلب و روح اگر پاک و پاکیزہ ہے، تو وہ ایک ایسے معجزاتی آئینے کی طرح کام کرتی ہے، جس میں ہر چیز کی لطیف صورت نظر آتی ہے، اور وہ لطیف انسانوں کی ایک دنیا دکھاتی ہے اس کی ایک چھوٹی سی مثال ایسے دو آئینوں سے دی جا سکتی ہے، جو ایک دوسرے کے آمنے سامنے قائم ہوں، یہ دونوں آئینے الگ الگ بھی ہیں، اور ایک دوسرے میں بھی، مادّیت میں صرف چند آئینے یہ کام کر سکتے ہیں، کیونکہ زیادہ ہونے سے رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے، مگر آئینۂ روح کے لئے نہ تو کم و زیادہ سے کوئی فرق ہوتا ہے، اور نہ دور و نزدیک سے۔

 

۸۔ لفظِ ربّ ۔ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، اور انسان کے لئے بھی، جیسے کہتے ہیں: ربّ الدّار = گھر کا مالک، ربّ الفرس= گھوڑے کا مالک، اسی طرح قرآنٗ کریم میں ہے: اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ (۱۲: ۴۲) اپنے آقا سے میرا تذکرہ کرنا، اب سورۂ یاسین کے ایک ارشاد (۳۶: ۵۱) کا تاویلی مفہوم ملاحظہ ہو: اور جب انسانِ کامل کی ذاتی قیامت کا صور بجتا ہے تو وہ سب یکایک انسانی اجسام کی قبروں سے اپنے آقا (یعنی امام) کی طرف دوڑ جاتے ہیں (۳۶: ۵۱) إِلَى رَبِّهِمْ يَنسِلُونَ کے دو معنی ہیں:

الف: اپنے آقا (مربی) کی طرف دوڑتے ہیں۔

ب: اپنے مربی کی روحانی نسل ہو جاتے ہیں، کیونکہ ہر قیامت کے آنے پر لوگوں کا سابقہ رشتہ ختم ہو جاتا ہے (۲۳: ۱۰۱) اور زمانے کے علمی ربّ (مربّی) سے ایک “جدید رشتہ” قائم ہو جاتا ہے، پس جملہ ذراتِ روحانی انسانِ کامل کی شخصیت میں داخل ہو جاتے ہیں، اور سب کے

 

۱۴۶

 

سب اسی کی نسل قرار پاتے ہیں۔

 

۹۔ دینِ اسلام میں خلافتِ الٰہیہ کا منصب سب سے بنیادی اور ضروری ہے، مگر اکثر لوگ خلیفہ اور خلافت کے معنوں اور بھیدوں سے قطعاً نابلد ہیں، حالانکہ اللہ پاک نے بزبانِ حکمت سب کچھ بتا دیا ہے، مثال کے طور پر:

الف: اعلانِ خداوندی کا یہ اشارہ کہ یہ خلافت کسی ایک ملک اور محدود زمانے کے لئے نہیں، بلکہ اس کا سلسلہ رہتی دنیا تک چلتا رہے گا، جبکہ خلیفہ کا تعلق پوری زمین سے ہے، جس سے تمام زمانوں کے لوگ مراد ہیں۔

ب: اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو فرشتوں میں سے کسی کو خلیفہ اور علم کا سرچشمہ بناتا، مگر اس نے انسان کو اپنا نائب بنا کر روئے زمین کا اختیار دے دیا، اور یہ خلیفۂ خدا کی کتنی بڑی سرفرازی ہے کہ خدا خود اس کا معلم ہے اور وہ فرشتوں کا معلم!

ج: قرآنِ حکیم اشاراتی زبان میں کہہ رہا ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام خلیفۂ خدا کا فریضہ انجام دیتا ہے۔

د: خلیفۂ زمان اپنے وقت کے فرشتوں یعنی نیک لوگوں (مومنین) کو ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی حقیقی علم سکھاتا ہے، باطنی اور روحانی تعلیم کا واحد طریقہ یہ ہے کہ نائبِ خدا کے عالمِ ذرّ میں لوگ بصورتِ ذرات جمع ہو جاتے ہیں، اور عالمِ ذرّ سے انسانِ کامل کی شخصیت مراد ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ “انسان در انسان” کا اصل نمونہ شخصِ کامل کی ذاتِ عالی صفات ہے۔

 

۱۰۔ ایک کشادہ مکان میں گھر والوں کے علاوہ کچھ مہمان بھی رہ سکتے ہیں، یا

 

۱۴۷

 

لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، یہی مثال آپ کے بدن کی بھی ہے، کہ اس میں آپ کی اپنی روح کے بے شمار ذرّات کے ساتھ ساتھ دوسرے لاتعداد “نمائندہ ذرات” بھی ہیں، لیکن اس حقیقت کے لئے گھر کی مثال بہت چھوٹی ہے، لہٰذا ایک عظیم ملک کی مثال لیجئے، کہ اس میں کس طرح اصل باشندوں کے علاوہ بیرونی ممالک کے لوگوں کا آنا جانا اور بسنا ہوتا ہے، اسی طرح آپ کی “روح کی مملکت” ہے، جس کی سلطنت آپ کے نام پر ہو سکتی ہے۔

 

۱۱۔ قرآنِ حکیم ایک ہی حقیقت کو گوناگون مثالوں میں پیش کرتا ہے، چنانچہ آپ کی روح گویا “ارضِ مقدّس” ہے (۰۵: ۲۱) جس کو علم و عمل کے شدید جہاد سے فتح کر لینا آپ کے لئے ضروری ہے، جیسا کہ حضرتِ موسیٰ نے اپنے لوگوں سے فرمایا: اے میری قوم تم اس پاک زمین (ملک) میں داخل ہو جاؤ کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے واسطے لکھ دیا ہے اور پیچھے واپس مت چلو کہ پھر خسارے میں پڑ جاؤ گے (۰۵: ۲۱) یہ قصّہ تاویلی اعتبار سے بے حد ضروری ہے، لہٰذا آپ ۰۵: ۲۰ تا  ۰۵: ۲۶  بغور دیکھیں، اس میں فرمایا گیا ہے کہ: “تم دروازے سے داخل ہو کر ان پر حملہ کرو۔” جس میں یہ اشارہ ہے کہ تم امامِ زمانؑ کے توسط سے ملکِ روحانی کو فتح کر سکتے ہو، کہ امامِ وقت ہی روح و روحانیّت، اور علم و حکمت کے باب (یعنی علیؑ) کا جانشین ہے۔

 

۱۲۔ روح خدا سے واصل ہو جانے کے لئے “سلامتی کا راستہ” ہے، یہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک پل کی طرح کام کرتی ہے، اور عقلی آسمان کی چھت پر چڑھنے کے لئے یہی سیڑھی ہے، اس میں ایک درخشان و تابان علم پوشیدہ ہے، جس میں بہشتِ جاودانی معمور ہے، جہاں ہر ہر نعمت موجود و مہیا ہے، اس میں کوہِ قاف ہے، روح میں سلطنتِ سلیمانی رکھی ہوئی ہے،

 

۱۴۸

 

یہ جملہ بھیدوں کی “بولنے والی کتاب” ہے، یہ خانۂ خدا ہے، عرشِ رحمان ہے، گنجِ مخفی ہے، خزانۂ غیب ہے، بحرِ گوہر زا (موتیوں کو جنم دینے والا سمندر) ہے، یہ ایک گاؤں بھی ہے، اور ایک ملک بھی، ایک اکیلا بشر بھی ہے، اور بے شمار انسانوں کی “وحدت و سالمیت” بھی، غرض قرآنِ حکیم میں بہت سے ناموں اور مثالوں میں روح کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، کسی چیز کے کثیر نام اس کی اہمیت ، عظمت، اور منفعت پر دلیل ہیں۔

 

۱۳۔ روح ایک انتہائی سریع الحرکت چیز ہے، یہ لمحہ بھر میں عالمِ انسانیّت کی سیر کر سکتی ہے، اور ہمیشہ حرکت میں ہے، حرکت ہی ہر زندہ مخلوق کی زندگی کا نام ہے، پس “انسان در انسان” ایک حقیقت ہے، لہٰذا آپ بیک وقت بہت سے نیک انسانوں میں زندہ ہو جانے کے لئے سعی کریں۔

 

والسلام

 

خادمِ مسئول:

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۰ نومبر ۱۹۸۵ء

 

۱۴۹

 

پیغمبرانہ عبادت ۔ مثالی عبادت

 

۱۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی خالص عبادت و یاد کے سلسلے میں ترقی کے لئے مومنین جس قدر زیادہ کوشش کریں، اور جیسی بیش از بیش معلومات انہیں حاصل ہوں، اس قدر اور ویسی پیشرفت و فائدہ ممکن ہے، کیونکہ قانونِ خزائن (۱۵: ۲۱) (ہر مضمون سے متعلق آیات کو قرآنِ پاک میں دیکھئے، ماقبل اور ما بعد کو بھی) میں غور کرنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ آسمانی رحمت کی چیزیں اہلِ زمین کے لئے اتنی نازل ہو جاتی ہیں، جتنی کہ ان کی معلومات ہیں، اس لئے کہ “رحمت علم کے تحت ہے” پس لوگوں پر ان کے “علم کی مقدار کے مطابق” خدا کی رحمت اترتی رہتی ہے۔

 

۲۔ پیغمبرانہ عبادت، یعنی مثالی عبادت کے اس موضوع میں سب سے پہلے بطریقِ سوال و جواب چند حقائق و معارف بیان کئے جاتے ہیں، تا کہ قارئین کو مضمون سے کافی دلچسپی ہونے کے ساتھ ساتھ حکمت کی بعض کلیدوں کی نشاندہی بھی ہو:

 

(سوال و جواب اگلے صفحہ پر ملاحظہ کریں)

 

۱۵۰

 

(ان سوالات و جوابات کو خوب غور سے دیکھیں اور ان میں سے ہر ایک کی اچھی طرح سے وضاحت کر کے نتائج اخذ کریں)

 

جواب سوال
انبیاء علیہم السلام کی عبادت۔ ۱۔ قرآنِ حکیم میں مثالی عبادت کون سی ہے؟
حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی راہ۔ ۲۔ صراطِ مستقیم کن حضرات کی راہ کہلاتی ہے؟
حضرت ابراہیمؑ اور آنحضرتؐ میں۔ ۳۔ تمام انبیاء و أئمّہ کس عظیم پیغمبر میں جمع ہیں؟
حضرت ابراہیمؑ اور رحمتِ عالمؐ کے اسوۂ حسنہ کا۔ ۴۔ قرآنِ پاک میں کس کے اسوۂ حسنہ کا ذکر ہے؟
ہمیشہ آسمانی کتاب اور معلم کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا۔ ۵۔ سنتِ الٰہی میں کوئی تبدیلی نہ ہونے سے کیا مراد ہے؟
نور، ہادی، کتابِ ناطق، اور امامِ زمان۔ ۶۔ ایسے معلم کا کوئی دوسرا نام بتائیے۔
دو موضوع ہیں: ہدایت اور نور (۰۵: ۴۴، ۰۵: ۴۶، ۲۴: ۳۵) ۷۔ تورات، انجیل، اور قرآن کے اصل اور اساسی موضوع کتنے اور کون کون سے ہیں؟
یقیناً نور ہے، مگر معلم کی ذات میں (۲۹: ۴۹) ۸۔ کیا آسمانی کتاب نور نہیں ہے؟
اس لئے کہ ہدایت کتابِ سماوی ہے، اور نور اس کا معلم۔ ۹۔ ہدایت اور نور کا ذکر الگ الگ کیوں ہے؟ (۰۵: ۴۴)
وہ جگہ جس کو خدا، رسول، اور صاحبانِ امر نے مقرر فرمایا ہے۔ ۱۰۔ عبادت و ذکر کے لئے بہترین مقام کون سا ہے؟

 

۱۵۱

 

وہ عبادت جو خدا کی شدید محبت اور معرفت کے ساتھ کی جائے۔ ۱۱۔ مثالی عبادت سے کیا مراد ہے؟
معرفت، یعنی خدا شناسی۔ ۱۲۔ عبادت کی خاص شرط کیا ہے؟
سورۂ فاتحہ میں، جہاں ایاک نعبد (۰۱: ۰۴) ہے۔ ۱۳۔ قرآنِ پاک میں معرفت کا اولین ذکر کہاں ہے؟
پیغمبرِ اکرمؐ اور أئمّۂ طاہرینؑ۔ ۱۴۔ “ایاک نعبد” کے مصداق کون سے حضرات ہیں؟

 

۳۔ سورۂ مریم (یعنی ۱۹: ۵۸) میں دیکھئے کہ حضراتِ انبیاء علیہم السلام کی گریہ و زاری کے نمونۂ عمل کی کیا شان ہے، اور وہ کامل اشخاص ظاہر و باطن میں آیاتِ رحمان کو سن کر کس طرح آنسو بہاتے ہوئے سجدۂ خاکساری میں جاتے تھے! ان برگزیدہ اور مکمل انسانوں کی محویّت و فنائیّت کا یہ عالم، اور پے در پے گرنے والے آنسوؤں کے تابناک موتی زبانِ حال سے کیا کہتے تھے؟ ان کا کہنا تھا کہ لوگو! پیغمبروں کی مثال کو خوب غور سے دیکھو، اگر تم چاہو تو “آسمانی محبت اور عشق” کے گوہرِ آبدار بن سکتے ہو، جن کو خدا تعالیٰ بڑی قدردانی سے خرید لیتا ہے۔

 

۴۔ سورۂ بنی اسرائیل کے آخری رکوع (۱۷: ۱۰۷، ۱۷: ۱۰۹) میں اولیاء اللہ (أئمّۂ طاہرین) کے اس حال کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، جبکہ وہ “اپنے باطن میں” آیاتِ قرآن کو سن کر ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں، وہ روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گرتے ہیں، اور قرآن اپنی روحانی آواز سے ان کا خشوع اور بڑھا دیتا ہے۔ اس میں لوگوں کے لئے اشارہ ہے کہ وہ انبیاء و

 

۱۵۲

 

اولیاء کے نقشِ قدم پر چل کر آگے بڑھ جائیں، اور عشقِ الٰہی کی آگ میں جل جل کر “نور بن جائیں،” ممکن ہے کہ فوری طور پر روشنی نہ ہو دھواں ہو، تاہم ہرگز مایوسی نہیں، کیونکہ آگے چل کر دھوئیں کی جگہ شعلہ پیدا ہو جانے والا ہے۔

 

۵۔ قرآنِ پاک اپنے حکیمانہ اشاروں سے گریہ و زاری کے ساتھ ساتھ سجدۂ عاجزی کو لازمی قرار دیتا ہے، جب تنہا سجدہ قربِ خدا ہے (۹۶: ۱۹) تو پھر “آنسوؤں سے بھرپور سجدہ” ایک طرح کی فنا فی اللہ کیوں نہ ہو، درحالیکہ بندۂ مومن اپنے آپ کو انتہائی خاکسار و ناچیز پاتا ہے، اور اس کیفیت میں دینداری کی بہت سی خوبیاں جمع ہو جاتی ہیں، جیسے خوفِ خدا، توبہ، عشق، تحلیلِ نفسی، تزکیۂ قلب، وغیرہ۔

 

۶۔ سورۂ نجم کی چار آخری آیات (۵۳: ۵۹ تا ۶۲) کو دیکھئے: تو کیا تم لوگ اس بات سے تعجب کرتے ہو، اور ہنستے ہو اور روتے نہیں، اور تم اس قدر غافل ہو، تو خدا کے آگے سجدے کرو اور (اسی کی) عبادت کرو (۵۳: ۵۹ تا ۶۲) یاد رہے کہ دل کا پتھر کی طرح سخت بن جانا عبادت سے غافل ہو جانے کی وجہ سے ہے، جس کا علاج سجود، عبادات، اور کثرتِ ذکر میں پوشیدہ ہے۔

 

۷۔ اگر کسی شخص کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت چاہئے، تو اس کے لئے قرآنِ پاک کا حکم ہے کہ وہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی کرے (۰۳: ۳۱) اور اہلِ ایمان پر یہ بھی فرض ہے کہ آنحضرتؐ کے قرابت داروں کو دوست رکھیں (۴۲: ۲۳) یعنی جان و دل اور محبت و عشق سے أئمّۂ پاک کی اطاعت کریں، تا کہ یہ لوگ ایسے مومنین میں سے ہوں، جن کی تعریف و توصیف میں فرمایا گیا ہے: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ (۰۲: ۱۶۵) اور جو لوگ ایماندار ہیں وہ ان سے کہیں بڑھ کر خدا کی محبت رکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی “شدید محبت کا دوسرا نام عشق ہے۔”

 

۱۵۳

 

۸۔ “الحب للہ و البغض للہ” کی حکمت میں خوب غور کر کے جواب دیجئے کہ آیا امامِ برحقؑ کی محبت رسولؐ کے لئے، اور آنحضرتؐ کی محبت خدا کے لئے نہیں ہے؟ اگر آپ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں، تو پھر یہ بھی سن لیجئے کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں کسی منظور و مقبول عبادت کا ذکر ہو، وہاں لازمی طور پر “نورِ امامت کا راز پوشیدہ” ہوا کرتا ہے، کیونکہ قانونِ دین کی بنیادیں ہمیشہ سے ایک جیسی مستحکم ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیغمبرانہ عبادت کے بھیدوں سے واقف و آگاہ ہو جانے کے لئے “بابِ امامت” سے داخل ہو جانا ضروری ہے۔

 

۹۔ بنی اسرائیل کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم سے کہا کہ اس گاؤں (یعنی قریۂ ہستی، جو پیغمبر کا شہر ہے) میں داخل ہو جاؤ اور اس میں سے جہاں چاہو فراغت سے کھاؤ اور دروازے پر سجدہ کرتے ہوئے اور حطہ (بخشش) کہتے ہوئے اندر آؤ تا کہ ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور نیکی کرنے والوں کی نیکی بڑھا دیں گے (۰۲: ۵۸) یعنی ہر عظیم پیغمبر اپنے دور کے لئے علم کا شہر اور حکمت کا گھر ہوا کرتا ہے، اور اس کا “اساس” باب (یعنی دروازہ) ہوتا ہے، چنانچہ بنی اسرائیل سے فرمایا گیا کہ تم اساس کی اطاعت کرتے ہوئے قریۂ باطن (عالمِ شخصی) میں داخل ہو جاؤ کہ مدینۂ علم اور دارِ حکمت یہی ہے، اور اسی میں ہر قسم کی روحانی غذائیں مہیا ہیں، اس سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ پیغمبرانہ عبادت (مثالی عبادت) کا راز “امام شناسی” میں پوشیدہ ہے۔

 

۱۰۔ یہ پیغمبرانہ اور موحدانہ عبادت ہی کی تعلیم ہے، جو ارشاد فرمایا گیا ہے: قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۚ (۶۰: ۰۴) تمہارے واسطے تو ابراہیم اور ان کے ساتھیوں (کے قول و فعل) کا اچھا نمونہ موجود ہے (۶۰: ۰۴) ۔

 

۱۵۴

 

حضرتِ ابراہیمؑ کے روحانی ساتھی انبیاء و أئمّہ تھے، جن کا اسوۂ حسنہ ہر زمانے میں زندہ اور موجود رہا ہے، جس کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ایسی عبادت و بندگی مطلوب ہے کہ وہ ظاہری اور باطنی (ہر قسم کی) بت پرستی سے خالص اور پاک و پاکیزہ ہو، یعنی اس میں جسمانی اور نظریاتی بت تو درکنار، خیالی لغزش کا بت بھی نہ ہو، کیونکہ ہر موحد کے نزدیک وحدت کے سوا جو کچھ بھی ہو، وہ بت قرار پاتا ہے۔

 

۱۱۔ عظیم پیغمبروں اور پاک اماموں کو اصنامِ ظاہر و باطن کی آلائش سے پاک و بالاتر سمجھنا کافی نہیں، بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ان قدسیوں کے طریقِ عبادت کو جاننا ہے، کہ اس میں وہ حضرات دنیا و مافیہا کے علاوہ اپنے آپ کو بھی بھول جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی عبادت ایک زندہ نور بن کر حسبِ منشا خود بخود بولتی جاتی ہے، جیسے کوئی مصنوعی سیّارہ جب کششِ زمین (کششِ ثقل) سے آزاد ہوکر خلا میں پہنچ جاتا ہے، تو وہ اندرونی طاقت کے بغیر بھی گردش کرتا رہتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ برگزیدہ اور کامل اشخاص اس حال میں عالمگیر روح سے واصل ہو جاتے ہیں۔

 

۱۲۔ قرآنِ مقدّس میں فرشتوں کے سجود کا ذکر ہے (۱۶: ۴۹) ان کی عبادت و تسبیح کا تذکرہ ہے (۲۱: ۱۹ تا ۲۰) لیکن یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ ایسی اہم چیزیں اور اتنی اعلیٰ حقیقتیں خلیفۂ خدا کے عالمِ شخصی سے باہر ہوں، جبکہ وہاں تمام چیزیں محدود یکجا ہیں، پس پیغمبرانہ اور اولیائی عبادت کی ایک اہم ترین مثال یہ ہے کہ نورِ نبوّت اور نورِ امامت کے دائرۂ خاص میں فرشتے شب و روز ذکر و عبادت کرتے رہتے ہیں، چونکہ ملائکہ قانونِ وحدت کی رو سے سرچشمۂ نور کی بے شمار شعاعوں کی حیثیت سے ہوا کرتے ہیں، لہٰذا فرشتوں کی یہ نورانی عبادت بھی دراصل انسانِ کامل ہی کی عبادت ہے۔

 

۱۵۵

 

۱۳۔ سورۂ انشراح (الم نشرح، ۹۴) میں غور سے دیکھئے، جہاں سردارِ انبیاء و رسل صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیاتِ طیبہ کی ایک طرح سے تصویر کشی کی گئی ہے، حقیقت روشن ہے کہ شروع شروع میں حضورِ اکرمؐ کے سامنے بہت سی مشکلات تھیں، جن کے باؤجود آپ نے ذکر و عبادت کے سلسلے کو نہ صرف قائم رکھا، بلکہ اسے پُرمعنی اور جاندار بنا کر آگے بڑھا دیا، تا آنکہ خدا تعالیٰ نے آنحضرتؐ کے سینۂ مبارک کو علم و حکمت سے کشادہ کر دیا، آپؐ پر سے اختیار اور ذمہ داریوں کے بوجھ کو اتار دیا، یعنی اب ہر بات آسمانی ہدایت کے ذمہ ہو گئی، کیونکہ اس حال میں رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اسمِ اعظم، ذکر، تسبیح اور عبادت قلبِ مبارک سے بلند ہو کر “پیشانیٔ پاک” میں پہنچ گئی تھی، جہاں اللہ تعالیٰ کا اسمِ بزرگ خود معجزاتی زبان سے اپنا ذکر کرتا رہتا ہے، اور کئی دوسرے اسمائے بزرگ بھی، آپ اس درجہ کے ایسے زندہ و گویندہ اسماء ُ الحسنیٰ (۰۷: ۱۸۰) کو فرشتے کہہ سکتے ہیں، جن کی نورانی عبادت کا ذکر ہو چکا ہے، چنانچہ حضورِ انور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ اقدس میں معجزۂ عبادت کی انہی آسانیوں کے پیشِ نظر فرمایا گیا ہے کہ: پس تحقیق مشکل کے ساتھ آسانی ہے، تحقیق مشکل کے ساتھ آسانی ہے (۹۴: ۰۵ تا ۰۶) اس قانون کی اہمیت کی طرف توجہ دلانے کی غرض سے یہ آیۂ مبارکہ دہرائی گئی ہے۔

 

۱۴۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پیغمبرانہ عبادت یا اولیائی عبادت کا موضوع کتنا عالی شان اور کس قدر مشکل ہے، پھر میں ناچیز کماحقہ کیسے بیان کر سکتا تھا، لیکن جس طرح ایک گونگا بچہ بہت کچھ کہنا چاہتا ہے مگر نہیں کہہ سکتا، پھر بھی وہ آواز سے اور ہاتھ سے کچھ اشارے کرتا ہے، جن کو اس کی ماں اور گھر کے افراد ہی جانتے ہیں، اسی طرح میں نے اس

 

۱۵۶

 

بلند ترین موضوع پر کچھ خامہ فرسائی کی ہے، اور دانشمندوں سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ حضرات اس انتہائی مفید مضمون میں سوچ سوچ کر عزیزوں کے لئے اشارات کی وضاحت کریں گے۔

 

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۶ نومبر ۱۹۸۵ء

 

۱۵۷

 

خیر خواہی

 

۱۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: الدین النصیحۃ، فقیل: لمن یا رسول اللہ؟ قال: للہ و لرسولہ و لائمّۃ المومنین و لجماعتھم = دین (کا مطلب) اخلاص و خیر خواہی ہے، پس پوچھا گیا: یا رسول اللہ کس کے لئے؟ آنحضرتؐ نے فرمایا: خدا تعالیٰ، اس کے پیغمبر، أئمّۂ مومنین اور ان کی جماعت کے لئے (دعائم الاسلام، جلدِ اوّل، عربی، صفحہ ۱۳۴) ۔

 

۲۔ ہر حدیثِ صحیحہ کسی ایک آیت یا چند آیات کی وضاحت کرتی ہے، چنانچہ مذکورۂ بالا ارشادِ نبوّی میں اس اخلاص و خیر خواہی کی صراحت فرمائی گئی ہے، جس کا ذکر سورۂ توبہ (۰۹: ۹۱) میں موجود ہے، یعنی خلوص و خیر اندیشی سب سے پہلے خدا کے لئے ہے، پھر رسول کے لئے، پھر امامِ وقت کے لئے، اور پھر جماعتِ مومنین کے لئے، لیکن یہاں بظاہر سب سے نچلے درجے کے لئے خیر خواہی مشکل نظر آتی ہے، اگرچہ حقیقت ایسی نہیں ہے۔

۳۔ قرآنِ حکیم مسلمانانِ عالم کو براہِ راست اور بالواسطہ خیر خواہی کا درس دیتا ہے، جبکہ قرآنِ پاک سراسر نصیحت ہے اور نصیحت کا مطلب خیر خواہی ہے، جبکہ اسلامی عبادات کا لبِ لباب دعا ہے، اور دعا میں بندۂ مومن نہ صرف اپنی ذات کے لئے طلبِ خیر کرتا ہے، بلکہ تمام مومنین و مسلمین کے حق میں بھی نیک دعائیں

 

۱۵۸

 

کرتا رہتا ہے، اور جبکہ خیر کے سوا جو کچھ ہے، وہ شر ہے، اور شر وہ چیز ہے کہ جس سے خود کو بچانے کے لئے اللہ کے حضور میں پناہ لی جاتی ہے۔

 

۴۔ دین کا ہر قول و فعل نیک نیت کے بغیر مقبول نہیں، نیک نیتی کا دوسرا لفظ ہی خیر خواہی کہلاتا ہے، جس دل میں خیر خواہی ہو، وہ فرشتوں کا مسکن ہے، اس میں شیطان داخل نہیں ہو سکتا، اور نہ وہ وہاں ٹھہر سکتا ہے، کیونکہ شیطان ایسے دل میں رہ سکتا ہے، جس میں شر کی آلودگی ہوتی ہے، جیسے مکھیوں کی بھنبھناہٹ اس جگہ ہوتی ہے، جہاں غلاظت و گندگی پائی جاتی ہے۔

 

۵۔ قرآنِ مقدّس میں دیکھئے کہ عظیم فرشتوں کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت دعا ہے (۴۰: ۰۷ تا ۰۹) جس سے خیر خواہی مراد ہے، یہ صفت ان کی پاک باطنی اور علم کی وجہ سے ہے، قرآنِ حکیم (۵۳: ۲۶) میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ بہت سے آسمانی فرشتے انسانوں کے حق میں سفارش کرتے رہتے ہیں، کیونکہ بڑے فرشتے ہمیشہ خیر خواہ ہوا کرتے ہیں، مگر یہ بات الگ ہے کہ کوئی شخص اس سفارش سے فائدہ اٹھا سکتا ہے یا نہیں، بہر کیف یہ خیر خواہی کی تعریف ہے کہ جو مومن ہمیشہ خیر خواہی کرتا ہو، وہ فرشتوں کے انتہائی قریب ہو جاتا ہے۔

 

۶۔ ہر حکمت نہ صرف ایک اکیلی خیر ہے، بلکہ وہ خیرِ کثیر بھی ہے (۰۲: ۲۶۹)، چنانچہ مومنین اور مسلمین کی خیر خواہی کرنے میں حکمت پوشیدہ ہے، اور اگر آپ تمام لوگوں کی خیر خواہی کر سکتے ہیں تو یہ سب سے بڑی حکمت ہے، وہ یہ ماننا ہے کہ مومنین کی خیر خواہی اور سفارش سے اہلِ دوزخ بھی آخر کار بہشت میں جائیں گے، کیونکہ لوگ جس طرح ازل میں ایک تھے، اسی طرح ان کو ابد میں بھی ایک ہو جانا ہے۔

 

۷۔ اللہ تعالیٰ کے بابرکت ہاتھ میں کیا نہیں، اس میں جملہ اشیاء “یک حقیقت”

 

۱۵۹

 

ہو گئی ہیں، حقیقتِ واحدہ کے بے شمار ناموں میں سے ایک خیر بھی ہے (۰۳: ۲۶) پس جو مومن علم کی روشنی میں لوگوں کا خیر خواہ ہو، اس کو خداوندِ عالم اپنے مبارک ہاتھ سے خیر عطا فرمائے گا، جس میں روحانی سلطنت ہے (۶۷: ۰۱)۔

 

۸۔ آپ شاید سوال کریں گے: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم کافروں کی خیر خواہی کریں، جبکہ مومنین سے دوستی اور کافرین سے دشمنی رکھنے کا حکم ہے (۰۹: ۱۶)؟ اس کا جواب یہ ہے ، کہ ہاں، مگر خوب جان لیں کہ یہ دوستی مستقل ہے، اور دشمنی عارضی، چنانچہ آپ تاریخِ اسلام میں یہ واقعہ دیکھ سکتے ہیں کہ زمانۂ نبوّت میں جب کوئی کافر مسلمان بن جاتا تھا، تو یہ دشمنی جو صرف ایک وقت کے لئے تھی دوستی میں بدل جاتی تھی، اسی طرح قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اسلام دوسرے تمام ادیان پر غالب آنے والا ہے، مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: ۰۹: ۳۳، ۴۸: ۲۸، ۶۱: ۰۹، پس اسی قرآنی پیش گوئی کو حقیقی علم کی روشنی میں سمجھ لینا عالمِ انسانیّت کی خیر خواہی ہے، اور بے حد خوشی کی بات ہے کہ سب لوگ بہشت کی سلطنت میں یکجا ہو جائیں گے۔

 

۹۔ اس سلسلے میں کسی کو ہرگز ہرگز یہ گمان نہ ہو کہ دوزخ اور اس کا عذاب نہیں ہے، وہ تو حق ہے، مگر یہ جاننا ضروری ہے کہ سب سے بڑا عذاب عقلی کیفیت میں ہے، اور وہ جہالت ہے جس سے چھٹکارا حقیقی علم کے ذریعہ ہو سکتا ہے، چنانچہ جہالت باطل ہے جو زائل ہو جانے کے لئے ہے، اور علم حق ہے جو قائم رہنے کے لئے ہے (۱۷: ۸۱)۔

 

۱۰۔ خیر خواہی کے اس موضوع میں “خیر و شر” سے بھی کچھ بحث لازمی ہے، وہ یہ کہ خیر دائمی یا مستقل ہے، اور شر ہنگامی یعنی عارضی ہے، اور اس کے برعکس اگر دونوں چیزیں برابر یعنی مستقل ہوتیں، تو پھر کبھی قیامت برپا نہ ہوتی،

 

۱۶۰

 

نہ شیطان کو دی ہوئی مہلت کسی وقت ختم ہو جاتی اور نہ ہی باطل پر حق کا غلبہ ہوتا، اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ مختلف حکمتوں کے تحت شر کا خاتمہ ہو جاتا ہے، اور خیر ہی خیر باقی رہ جاتی ہے۔

 

۱۱۔ یہ ایک عقلی کیفیت کی مثال ہے کہ جب خداوندِ تعالیٰ کائنات اور اس کی تمام چیزوں کو دستِ راست میں لپیٹ لیتا ہے یا آئندہ زمانے میں لپیٹ لے گا (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) تو اس وقت یومِ بعث ہوگا، جس میں شیطان کی مہلت ختم ہو جانے کے ساتھ ساتھ شر خود بخود ختم ہو جائے گی، اور اللہ کے ہاتھ میں آ کر شر بھی خیر ہو جائے گی، جس طرح کافر اسلام میں داخل ہو کر مومن ہو جاتا ہے۔

 

۱۲۔ علم و معرفت ہی سے آپ کی خیر خواہی کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ تمام انسانوں کی خیر خواہی پیدا ہو جاتی ہے، کیونکہ دراصل آپ ہی کی روح کو پھیلا کر سب لوگ بنائے گئے ہیں، اور سب کو لفیف (۱۷: ۱۰۴) یعنی لپیٹے بغیر آپ کامل و مکمل نہیں ہو سکتے ہیں، اور نہ اللہ کے حضور پہنچ سکتے ہیں، لہٰذا ہر بندۂ مومن کے لئے عرفانی طور پر بنی نوع انسان کی خیر خواہی ضروری ہے۔

 

۱۳۔ انسان جسم، روح، اور عقل تین چیزوں کا مرکب یا مجموعہ کیوں ہے؟ اس لئے کہ وہ تین عالم سے تعلق رکھتا ہے: عالمِ جسم یعنی یہ دنیا، عالمِ روح، اور عالمِ عقل، چنانچہ ہم تصوّف کی زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان در حقیقت (یعنی عالمِ وحدت یا عالمِ عقل میں) صرف ایک ہی ہے، عالمِ روحانی میں وحدت و کثرت دونوں کا حامل ہے، اور عالمِ کثرت میں وہ اپنے کثیر مظاہر میں منتشر ہے، پس دانشمند جب تمام لوگوں کی خیر خواہی کرتا ہے، تو حقیقت میں وہ اپنے آپ کی خیر خواہی کرتا ہے، کیونکہ لوگ اس کے اجزاء ہیں۔

 

۱۴۔ قرآنی حکمت یہ بتاتی ہے کہ جب رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو

 

۱۶۱

 

معراج ہوئی، تو اس وقت مقامِ روح پر تمام روحیں آپ کے ساتھ تھیں، اور مرتبۂ عقل پر جملہ عقول آپ کی ذاتِ عالی صفات میں فنا ہو چکی تھیں، اور آپ جانتے ہیں کہ فنا کا مطلب ایک ہو جانا ہے، یہ ہوئی حضورِ انورؐ کی رہنمائی کی شان کہ آنحضرتؐ نے لوگوں کو بحدِّ قوّت خدا تعالیٰ سے واصل کر دیا، اب یہ ہر شخص کا فریضہ ہے کہ وہ راہِ مستقیم پر چلے اور علم و حکمت کے دروازے سے داخل ہو کر اپنے آپ کو رسولؐ میں فنا ہو جانے کی معرفت حاصل کرے، یہ اسوۂ حسنہ کی روشنی میں چل کر سب کے ایک ہو جانے کی بہترین مثال ہے۔

 

۱۵۔ بد خواہی سے بچ کر کامل طور پر خیر خواہی کو اپنانے کے لئے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ انسانی وحدت و سالمیت کو خوب سمجھ لیا جائے، وہ اس طرح کہ عالمِ وحدت یعنی مرتبۂ ازل میں صرف ایک ہی انسان پیدا کیا گیا ہے، ہر چند کہ آج یہاں عالمِ کثرت میں اس کے بہت سے ظہورات ہیں، اور جب یہ لوٹ کر عالمِ وحدت میں جائے گا، تو پھر پہلی حالت کی طرح ایک اکیلا فرد ہو جائے گا، درحالیکہ دنیا بھر کے لوگ اس میں عقلی کیفیت میں مدغم و متحد ہوں گے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے کہ لوگوں کو ایک ایک ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور جانا ہے (۰۶: ۶۴) مگر یہ نکتہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ ایک ہو جانے کے کم سے کم تین طریقے ہیں:۔

 

اوّل یہ کہ ایک کو لے کر باقی سب کو چھوڑ دیا جائے، دوم یہ کہ سب کو ایک کر کے لیا جائے، اور سوم یہ ہے کہ ظاہراً ایک کو اور باطناً (یعنی عقلی طور پر) سب کومتحد کرلیا جائے، پس تیسرا طریقہ انسانی وحدت کے لئے مقرر ہے، اور اسی کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے۔

 

۱۶۔ سورۂ حشر کی ایک آیۂ کریمہ (۵۹: ۱۰) سے ظاہر ہے کہ حقیقی مومن کسی بھی مومن

 

۱۶۲

 

سے کوئی عداوت و کینہ نہیں رکھتا، یہ ظاہری زندگی کی بات ہوئی، اب مومنین کی علمی ترقی اور روحانی زندگی کا حال سنیے، جس کا نام بہشت ہے، چنانچہ سورۂ حجر (۱۵: ۴۷) میں ارشاد فرمایا گیا ہے:

 

ترجمہ: اور ان کے دلوں میں جو کینہ تھا ہم وہ سب دور کر دیں گے کہ سب بھائی بھائی کی طرح (الفت و محبت سے) رہیں گے تختوں پر آمنے سامنے بیٹھا کریں گے (۱۵: ۴۷) یہ کینہ کون سا ہو سکتا ہے، جو مومنین کے دلوں سے جنّت میں نکالا جاتا ہے؟ یہ تو ناممکن ہے کہ اہلِ ایمان بہشت میں داخل ہونے تک آپس میں دشمنی اور کینہ رکھتے ہوں، لہٰذا یہ کہنا حقیقت ہے کہ یہ کینہ وہی ہے جو بربنائے مصلحت و حکمت دعوتِ اسلام کی غرض سے وقتی طور پر دینی دشمنوں سے ہوتا ہے، لیکن جب انفرادی یا اجتماعی قیامت برپا ہو جاتی ہے، تو اس وقت سب لوگ دینِ خدا کی بہشتِ روحانیّت میں داخل ہو جاتے ہیں، اور کینہ ختم ہو جاتا ہے۔

 

۱۷۔ دینِ اسلام میں بہ سلسلۂ جہاد و سزا جس طرح کسی کو قتل کر دیا جاتا تھا، وہ ایک دور رس اور نتیجہ خیز خیر خواہی کے تحت ہے، اور ایسا نہیں کہ اس میں کوئی حقیقی اور ابدی دشمنی ہو، ہاں اگر دشمنی کہا جائے تو وہ ظاہری، سطحی، اور ہنگامی نوعیت کی ہو سکتی ہے، جو دینی مقصد کی خاطر ہوتی ہے، مگر جب وہ مقصد پورا ہو جاتا ہے، تو پھر باہمی اخوت و الفت پیدا ہو جاتی ہے۔

 

۱۸۔ جو شخص بدباطنی کی وجہ سے لوگوں کی برائی چاہتا ہو، اور اس کا دل ہمیشہ کینہ سے خالی نہ ہو، وہ ہر وقت ذہنی عذاب میں مبتلا رہتا ہے، اور یہ اس کی بد نیتی کی سزا ہے، اس کے برعکس جو انسان دینی ہدایات کی روشنی میں لوگوں کے حق میں نیک خیالات رکھتا ہو، وہ یقیناً خیر خواہی کی بہشت میں ہے، ایسا

 

۱۶۳

 

آدمی بڑا خوش نصیب ہے، کہ وہ خالق اور اس کی مخلوق کے بارے میں حسنِ ظن رکھتا ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم کا مفہوم ہے کہ اللہ وہ ہے جس کے قانونِ رحمت کے تحت لوگوں کو دو طرح سے جنت میں داخل کر دیا جاتا ہے: جاننے والوں کو رضا و رغبت سے، اور نہ جاننے والوں کو زبردستی سے (۰۳: ۸۳، ۲۳: ۱۱۵) اس حقیقت کی ایک روشن مثال دعوتِ اسلام ہے، جبکہ اسلام بحدِّ قوّت بہشت ہے، جس میں لوگ نہ صرف خوشی سے داخل ہو گئے تھے، بلکہ بذریعۂ جہاد زبردستی سے بھی مسلمان بنائے گئے تھے، اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس طرح ارادہ فرمایا ہے، وہ آخر کار پورا ہو کر رہے گا، جس کی خاطر دوزخِ جہالت میں سزا پا کر بھی لوگ اہلِ جنت میں شامل ہو جائیں گے، الحمد للہ ربّ العالمین!

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

خادمِ مسئول

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۲ دسمبر ۱۹۸۵ء

 

۱۶۴

علم کے موتی

علم کے موتی

حرفِ آغاز

خداوندِ قدّوس کے پاک حضور میں بصد عجز و انکساری سجدۂ شکرانہ بجا لانے کے بعد بندۂ ناچیز (نصیر ہونزائی) یوں عرض کرتا ہے کہ تقریباً ایک سال قبل خانۂ حکمت کی علمی سکیموں کے سلسلے میں یہ بھی تجویز ہوئی تھی، کہ ادارۂ ہٰذا اور عارف کے ارکان کے نام پر ایسے سو (۱۰۰) علمی خطوط اور چھوٹے چھوٹے مضامین لکھے جائیں، جن کا پس منظر روحانیّت اور قرآنی حکمت ہو، تاکہ اس طریقِ کار سے عام خط و کتابت کی بجائے ایک مؤثر اور مفید علمی خدمت انجام پائے، الحمد للہ، کہ اب یہ سکیم بڑی کامیابی کے ساتھ عمل میں آچکی ہے، یعنی مطلوبہ ۱۰۰ (سو) علمی خطوط اس خادم نے کنیڈا اور ہونزہ میں اپنے قیام کے دوران مکمل کرکے خانۂ حکمت کو بھیج دئے ہیں، اور یہ کتاب “علم کے موتی” جو آپ کے سامنے پیش کی گئی ہے، انہی خطوط اور مضامین میں سے ہے۔

 

انسانی فطرت کے بھیدوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی بعض دفعہ دور دور سے آئی ہوئی باتوں سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہے، خواہ یہ مسافت و دوری مکانی ہو یا زمانی، اسی طرح وہ اپنے خیرخواہوں

 

۴

 

کے خطوط کو بھی بڑی سختی کے ساتھ چاہتا ہے، یہ تو عام خطوط کی بات ہوئی، جن میں دعا و سلام، خیر و عافیت اور حال و احوال کے علاوہ اگر کوئی چیزہوتی ہے تو وہ تھوڑی  سی خوشامدی ہے اور بس، اب اگر کسی شائق دیندار کو دینی علم پر مشتمل کوئی خط لکھا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ نہ صرف خوش ہو جائےگا بلکہ زیادہ سے زیادہ اثر بھی قبول کرے گا، چنانچہ ہمیں تجربہ ہوا ہے کہ خط و کتابت کے ذریعہ محدود پیمانے پر علم پھیلانے کا اصول خوب اور کامیاب ہے، خصوصاً اس صورت میں جبکہ وہ لوگ آپ کے علم کو بہت پسند کرتے ہوں۔

 

اس سلسلے میں حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا ایک مبارک ارشاد ہے، جس کامفہوم یہ ہے کہ مومنین آپس کی خط و کتابت میں دنیا کی ضروری باتوں کے علاوہ دینی علم کی باتیں بھی لکھا کریں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر حقیقی علم بیٹھے بٹھائے نہیں ملتا تو خط و کتابت کے طریق سے بھی حاصل کرنا ضروری ہے، کیونکہ مذہبی تعلیم دنیا کی ہر ہر چیز سے زیادہ ضروری ہے۔

 

چونکہ یہ کتاب الگ الگ لکھے ہوئے مکتوبات و مضامین سے ترتیب پائی ہے، لہٰذا اگر موضوعات کے آپس میں ربط و ترتیب نہ بھی ہو تو کوئی حرج نہیں، تاہم سارے موضوعات اپنے مقصدِ عالی میں باہم مل کر ایک ہو جاتے ہیں، اور وہ عظیم مقصد حضرت امام صلوات اللہ علیہ کے علمِ

 

۵

 

روحانی کا ثبوت پیش کرنا ہے، کہ آپؑ کس طرح کتابِ ناطق اور معلمِ قرآن ہیں، اور اس لحاظ سے یہ کتاب معنوی طور پر بالکل مربوط و منظم ہے۔

 

سرورق ہی سے ظاہر ہے کہ اس پیاری کتاب کا پیارا نام “علم کے موتی” ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کا ایک عظیم الشّان پس منظر بھی درج کیا گیا ہے، اور وہ ہے “امامِ عالی مقام کے علمی اور روحانی معجزات” جی ہاں، یہ حقیقت ہے اور اس میں ذرا بھی شک نہیں، لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ اس فقیر کو علم و بزرگی کا کوئی دعویٰ ہے، بلکہ اس کا صاف صاف مطلب تو یہ ہے کہ میں دراصل مفلس اور گدا ہوں، اور حقیقی علم کے غنی میرے شاہنشاہ ہیں، جو برحق امام ہیں، ہاں اس روحانی علم کو، جو انتہائی پاک و پاکیزہ ہے، پیش کرنے میں اگر کچھ لفظی خامیاں رہ گئی ہوں تو وہ اس خاکسار کی طرف سے ہیں۔

کسی آدمی میں ہمیشہ کی گریہ و زاری اور بڑائی دونوں متضاد چیزیں جمع نہیں ہو سکتی ہیں، یعنی ان میں سے کوئی ایک ہو سکتی ہے اور اس کی ضد نہیں ہو سکتی، سو میری دعا ہے کہ خدا مجھے خشک خشک بزرگی اور بڑائی نہ دے، بلکہ وہ مجھے حقیقی محبت کے آنسو اور عاجزی عطا فرمائے! کیونکہ میں اپنے روحانی والدین کا شیرخوار بچہ ہوں، لہٰذا مجھے آنسووں کی قربانی کے بغیر علم کا تازہ ترین دودھ نہیں ملتا ہے، ان باتوں سے مقصد ظاہر ہے کہ میں نے کبھی بڑائی کا دعویٰ ہی نہیں

 

۶

 

کیا اور نہ ہی علم کا، جبکہ میں خود مفلس ہوں، اور ہادیٔ برحق (یعنی امامِ زمان) علیہ السّلام کے مقدّس در سے علمی زکات مانگا کرتا ہوں۔

 

مجھے کامل یقین ہے کہ مستقبلِ قریب میں اسلام کی عالمگیر روح حرکت میں آئے گی، جس کے نتیجے میں ایک عظیم روحانی انقلاب برپا ہونے کو ہے، اس وقت روحانی علم کی سخت ضرورت ہوگی، اور حقیقت میں اب بھی وہی حال ہے، کیونکہ قیامت اور روحانیّت بہت ہی قریب ہے۔

 

مجھے جان و دل کی گہرائی سے “خانۂ حکمت” اور “عارف” کے عزیزان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ وہ سعادت مند ارکان ان علمی مکتوبات کا باعث بنے، یہ بات صرف رسمی طور پر کہنے کی حد تک محدود نہیں، بلکہ حقیقت ہے، کیونکہ خداوندِ عالم کی بارگاہِ اقدس میں ایک شخص کی نسبت زیادہ مومنین کی دعا مقبول تر ہوتی ہے، اور وہ ان کے نیک کاموں میں زیادہ مدد فرماتا ہے۔

 

خانۂ حکمت اور عارف کے سرپرست حضرات، عملداران اور ارکان کی گرانقدر خدمات کی شکرگزاری کے لئے عمدہ سے عمدہ الفاظ چاہئیں، لیکن حق بات تو یہ ہے کہ ان کی عظیم قربانیاں لفظوں اور جملوں کی ظرفیت سے باہر ہیں، لہٰذا انتہائی عاجزی سے دعا ہے کہ پروردگارِ دو جہان ان عزیزوں کی جملہ نیک مرادات کو پوری کر دے!

 

۷

 

اور ان کو دنیا و آخرت کی سرخروئی و سرفرازی سے نوازے! آمین!!

 

جب تک گلشن کے پھولوں میں سے خوشبوئیں پھیلتی رہتی ہیں تب تک وہ زبانِ حال سے باغبانوں کی شکرگزاری اور خیر خواہی کرتی رہتی ہیں، مگر موسمِ خزاں کے آنے کے ساتھ ہی دعا و ثنا کا یہ سلسلہ خاموش ہو جاتا ہے، اس کے برعکس ہمارے خانۂ حکمت اور عارف کے شفیق و مہربان باغبانوں نے کتابوں کے جو جو باغ و گلشن پیاری جماعت کے لئے سجائے ہیں ان کے پھولوں اور پھلوں کی مسلسل دعاؤں کا کیا کہنا کہ یہ تو ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت تک جاری و باقی ہوں گی۔

 

امامِ زمانؑ کا ایک ادنیٰ غلام

نصیر ہونزائی

روزِ جمعہ ۲۴ صفر المظفر ۱۴۰۱ھ

جنوری ۱۹۸۱ء ۲

سالِ مرغ

 

نوٹ: اگرچہ اس کتاب میں براہِ راست یہ ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کے علمی و روحانی معجزات کن کن صورتوں میں وقوع پذیر ہو جاتے ہیں اور ان کی کیفیت و حقیقت کیا ہے، تاہم ایسے باسعادت مومنین کے لئے ان پر یقین رکھنا کوئی مشکل نہیں، جنہوں نے یا تو ذاتی

 

۸

 

طور پر روحانیّت کا مشاہدہ اور تجربہ کیا ہے یا بہت سے اسلامی کتب کے بعد اسماعیلی تاویلات کا مطالعہ کیا ہے، یا یہ کہ وہ عام علم رکھنے کے باوجود امام کی محبت اور دینی عقیدت کی روشنی میں اس امر کی تحقیق کر سکتے ہیں۔

 

۹

 

گوہرِ عقل

 

۱۔ اللہ تعالیٰ نے جن معنوں میں کائنات و موجودات کو پیدا کیا، اس کی تشریح یہ ہے کہ اُس حکمت والے نے سب سے پہلے صرف ایک ہی چیز بنائی، آپ اسے عقلِ کلّی مانیں یا قلمِ قدرت یا نورِ محمدیؐ، نام اور اصطلاح کچھ بھی ہو مطلب ایک ہی ہے، پھر اس سے دوسرا درجہ پیدا ہوا اور پھر ہر چیز پیدا کی گئی۔ دوسرے درجے کا مطلب نفسِ کلّی ہے۔

 

اب یہ سوچنا اور دریافت کرنا ہے کہ انسان جو اس دنیا میں آیا ہے وہ جب بھی واپس خدا کے حضور جائے گا اس میں کیا وہ درجات کی اس سیڑھی سے زینہ بزینہ چڑھ کر جائے گا یا اس کے بغیر کسی اور راستہ سے جائے گا؟

 

۲۔ قرآنِ حکیم کی حکمتوں کی روشنی میں دیکھنے سے صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ آنے اور جانے کا راستہ صرف ایک ہی ہے، لہٰذا وہ

 

۱۰

 

جیسے دنیا میں آیا تھا ویسے واپس اپنے اصل مقام کی طرف چلا جائے گا۔

 

۳۔ ارشادِ خداوندی ہے: یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ كَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِؕ-كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗؕ (۲۱: ۱۰۴)۔

ظاہری ترجمہ کے لئے آپ کسی مستند مترجم قرآن کو لیجئے، میں صرف اس کے تاویلی پہلو سے بحث کروں گا کہ اس فرمانِ الٰہی میں قیامت کے دن کے اُس واقعہ کا ذکر ہے جس میں کہ اللہ تعالیٰ کائنات کو اسی طرح سمیٹ لے گا جس طرح کہ یہ پیدا ہوتے وقت سمیٹی ہوئی تھی، اور اشارہ یہ ہے کہ نہ صرف مادّی کائنات کو بلکہ عالمِ روحانیّت کو بھی سمیٹ لیا جائے گا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بندۂ مومن کی روحانی اور عرفانی قیامت نہیں ہوتی ہے، جب تک کہ وہ علمی اور روحانی مشاہدے میں یہ نہ دیکھے کہ “گوہرِ عقل” (عقل کا موتی) کے مقام پر عالمِ دین اور کائناتِ علم ایک گوہر کی طرح متحد ہے۔ شروع اور آخر میں کائنات کے سمیٹنے کے یہی معنی ہیں۔

 

۴۔ آیۂ مبارکہ کے اشارے میں فرمایا گیا ہےکہ جس طرح کتابوں کے ہزاروں بلکہ لاکھوں مختلف لفظوں اور جملوں کے لئے ایک ہی سیاہی سے کام لیا جا سکتا ہے، اسی طرح کائنات و موجودات کے آغاز و انجام میں ایسی وحدت ہے جیسے دوات کی سیاہی میں یا سیاہی

 

۱۱

 

کے گولے میں ہوتی ہے۔

 

۵۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کے خزانے میں بس صرف ایک ہی موتی ہے، جو دونوں جہاں کی قیمت رکھتا ہے، کیونکہ وہ دونوں جہاں کا خلاصہ ہے اور دونوں کا سرمایہ و سرچشمہ، اس لئے کہ دونوں جہاں بصورتِ لطافت اس میں سمو گئے ہیں، اور بڑی عجیب بات ہے کہ وہی سب کچھ ہے۔

 

۶۔ وہی موتی پھیلتے پھیلتے ایک کائنات کی شکل اختیار کرتا ہے اور وہی سمٹتے سمٹتے ایک گوہر بن جاتا ہے، وہی علم کی ایک عظیم کائنات ہے اور وہی علم کا ایک ہی کلمہ ہے، وہی خدا کا ایک نام ہے اور وہی سب نام، وہی ایک بھی ہے اور بے شمار بھی، وہی قلم بھی ہے اور ساری تحریرات بھی، وہی نورِ محمدیؐ بھی ہے اور سارے انبیاء بھی، وہی روحِ اعظم بھی ہے اور تمام روحیں بھی اور وہی دنیا بھی ہے اور آخرت بھی۔

 

۷۔ جس کسی کو کائنات و موجودات کی وحدت کی یہ مثال سمجھ آتی ہے، وہ دین کی وحدت کو سمجھ سکتا ہے اور خدا کی توحید کو بھی سمجھ سکتا ہے، اور وہ اس کا حقدار ہے کہ روحانی سلطنت اس کی ہو جائے، کتنی عمدہ اور پُرحکمت بات ہے، کہ ظاہر و باطن کی تمام چیزیں ایک گوہر کی شکل میں جمع ہو کر خزانۂ الٰہی بن جاتی ہیں اور بس ہر مومن کو وہی

 

۱۲

 

ایک گوہر چاہئے۔

 

۸۔ ذرا غور کرنے سے معلوم ہو جائے گا، کہ یہ بات کتنی بلندی کی ہے اور اس کے اندر کتنا علم سمویا ہوا ہے، اور عزیزوں کو مولا کیا کیا دینا چاہتا ہے، میرے نزدیک اس سے اعلیٰ کوئی بات نہیں، کیونکہ گوہرِ عقل پر بات ختم ہو جاتی ہے، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اب ہم بات ہی نہیں کریں گے، کیونکہ ہماری باتیں ختم ہوگئیں، ہم تو اب پہلے سے کہیں زیادہ باتیں کریں گے، مگر پھر عرض کرتا ہوں کہ یہ بات دوسروں کو کیوں بتانا چاہئے، کیا وہ اس کے اہل ہیں؟ کیا وہ اس کو سمجھ سکیں گے؟ بہر حال آپ سوچیں اور خوب سوچیں۔

 

۹۔ مزید تشریح کسی اور وقت کریں گے، اب اس سلسلے کی دوسری آیت پیش کرتا ہوں تا کہ آپ کو اور زیادہ قوّت اور علم و حکمت کی روح ملے، وہ ارشاد یہ ہے:

 

۱۰۔ اور ان لوگوں نے خدا کی جیسی قدر کرنی چاہئے تھی اس کی قدر نہیں کی اور زمین قیامت کے دن خدا کی مٹھی میں ہو گی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے (۳۹: ۶۷) ہمیشہ خدا کی تاویل امام ہی ہوا کرتے ہیں، پس ارشاد ہے کہ انہوں نے امام کی قدر نہیں کی اس معنیٰ میں انہوں نے خدا کی قدر نہیں کی، اور مشاہدۂ روحانیّت میں زمینِ دعوت (اور زمینِ روحانیّت) اسمِ اعظم کی روح میں امام

 

۱۳

 

کے قبضۂ قدرت میں ہوگی اور علم و حکمت کے سارے آسمان گوہرِعقل میں سموئے ہوئے ہوں گے جو امامؑ اپنے داہنے ہاتھ سے دکھائیں گے۔

 

۱۱۔ یہ تو روحانیّت کی عملی تاویل ہے جو کسی توجیہہ کے بغیر براہِ راست کی گئی ہے، اس کے علاوہ ظاہری عقل و منطق سے بھی بات کریں تو بھی یہی بات بنتی ہے، کہ دانشمند  جانتا ہے کہ یہ بات ظاہری اور مادّی طور پر ناممکن ہے، لہٰذا اس کی تاویل ہے اور تاویل کا دارومدار روحانیّت کی مثالوں پر ہے، اور روحانیّت کے ہر مقام پر امام ہی ہیں جومظہرِ نورِ خدا کی حیثیت سے خدا کی نمائندگی کرتے ہیں، چنانچہ امامِ اقدس ہی کے قبضے میں زمینِ روحانیّت ہے اور وہی گوہرِ عقل دکھاتے ہیں جس میں کائنات سموئی ہوئی ہے، ورنہ خدا ہاتھ پاؤں وغیرہ کے تصوّر سے برتر ہے۔

 

۱۲۔ جب قبضہ کا اور ہاتھ کا ذکر ہے تو ظاہر میں یا باطن میں اس کا ہونا ضروری ہے، اسی طرح جب زمین اور آسمان کا ذکر ہے تو اس میں یا تو مادّی زمین و آسمان ہو گا یا روحانی، اس سے اگر قبضۂ قدرت مراد لیا جائے تو صحیح نہیں ہے، کیونکہ قبضۂ قدرت میں تو اب بھی ہے، یہاں اشارہ ایک خاص وقت کے لئے ہے اور وہ قیامت ہے یعنی روحانیّت۔

 

ہم نے اپنے کمزور اور تھکے ہوئے شکستہ قلم سے یہ باتیں لکھی ہیں، اس اعتماد پر کہ ہمارے عزیزان ان باتوں سے فائدہ حاصل کریں گے اور عالی شان خدمت کے لئے تیار ہو جائیں گے، اگر کوئی سوال پیدا

 

۱۴

 

ہوتا ہے تو نوٹ کریں، اور بوقتِ ملاقات پوچھیں۔

 

جب باطن میں وہ گوہر امام ہی دکھاتے ہیں، تو جاننے کی ضرورت ہے کہ امام ہی سب کچھ ہیں اور جس کو امام مل جاتا ہے، تو خداوندی کا سارا خزانہ بحدِّ قوّت (potentially)  مل چکا ہوتا ہے، لہٰذا اب صرف عمل کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ بحدِّ فعل وہ خزانہ حاصل ہو۔

 

آپ کا دعا گو

نصیر ہونزائی

 

۱۵

 

عظیم آیات

 

قرآنِ حکیم کی ہر ہر آیت عظیم ہے، اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس لئے کہ کوئی آیت اپنے اندر حکمت کا ایک گرانمایہ خزانہ لئے بغیر نہیں، تاہم یہ بھی اللہ کی حکمت و مصلحت ہے کہ بعض آیات زیادہ اہمیت رکھتی ہیں، اس کی مثال ایسی ہے، کہ اگر ہم کو اللہ تعالیٰ کے سب ناموں کے روحانی خزانے چاہئیں، تو وہ تمام کے تمام خزائن صرف ایک مبارک نام کے اندر جمع ہیں، اور وہ پاک نام اسمِ اعظم ہے، اگر ہمارا دل سابقہ آسمانی کتابوں کے لئے جلتا ہے تو وہ سب قرآنِ حکیم میں یکجا مل سکتی ہیں، اگر ہم ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو بڑی سختی سے چاہتے ہیں تو یہ تمام انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ملیں گے، اگر ہم نورِ مصطفیٰؐ کو چاہتے ہیں اور اس چاہت کی شرطوں کو بھی بجا لا سکتے ہیں تو یہ مقدّس نور ہم کو ذاتِ علیٔ عالی میں ملے گا، اور اگر ہم علیؑ اور أئمّۂ آلِ علیؑ کو جملہ فضائلِ صوری و معنوی کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ سب أئمّۂ طاہرین زمانے کے امام علیہ السّلام کی پاکیزہ شخصیّت اور نورانیّت میں ملیں گے، اس مثال سے ایک طرف تو یہ پتہ چلتا ہے کہ امامِ مبین کی ذاتِ اقدس میں کس طرح سب چیزیں جمع ہیں، اور دوسری طرف یہ ثبوت ملتا ہے کہ بے شک قرآنِ حکیم کی چند عظیم آیات ایسی

 

۱۶

 

ہیں کہ اُن میں دوسری سب آیتوں کا مطلب اور مغز سمو گیا ہے، جیسے سورۂ فاتحہ میں سارے قرآن کا خلاصہ آگیا ہے اور اس معنیٰ میں یہ سورہ ام الکتاب ہے۔

 

حضرت مولانا امیر المومنین علی علیہ السّلام کے ایک ارشادِ مبارک کے مطابق قرآنِ پاک کی بڑی بڑی آیتوں کا نام “کرائم القرآن” ہے، یعنی قرآن کی بزرگ آیات، اسی پاک ارشاد میں فرمایا گیا ہے کہ قرآن کی یہ بزرگ آیات علیؑ اور أئمّۂ اولادِ علیؑ کی شانِ اقدس میں ہیں اور پھر مذکورہ اصول کے مطابق یہ ساری فضیلتیں امامِ زمانؑ سے متعلق ہو جاتی ہیں۔

 

امامِ زمانؑ کا نور ہی قرآن سے باخبر مومنین کو بتا سکتا ہے کہ وہ آیات کون کون سی ہیں جن کے اندر سارے قرآن کا مطلب جمع ہو جاتا ہے، اور اس کے لئے مومنین میں سے جو بھی چاہیں تو خود کو تیار کر سکتے ہیں، کیونکہ یہ ایک بلند ترین مرتبہ ہے جو اپنے مقام سے نیچے نہیں آسکتا ہے بلکہ اس کے حصول کے لئے ارتقاء کی ضرورت ہے، تا کہ اس وسیلے سے مومنین کو معراجِ یقین حاصل ہو۔

 

اب ہمارے عزیزوں کی طرف سے یہ سوال ضرور پیدا ہو گا کہ آیا یہ ممکن ہے کہ علم الیقین کے طور پر ان آیاتِ بزرگ میں سے بعض کی نشاندہی کی جائے یا کوئی مثال بتا دی جائے؟ سو اس کا جواب

 

۱۷

 

اثبات میں ہے، اور ہم اس سلسلے میں سب سے پہلے آیۂ نور (۲۴: ۳۵) کو لیتے ہیں کہ یہ نور سے متعلق تمام آیات کی چوٹی پر ہے، اور اس سے نور کے موضوع کی ہر آیت پر روشنی پڑتی ہے، چنانچہ آیت:

“اللہ نور السمٰوٰت” سورج کی طرح ہے اور باقی آیاتِ نور چاند اور ستاروں کی طرح ہیں، یہ گویا قرآن کی روشنی کی دنیا ہے، جس میں معنوی طور پر سب کچھ ہے، اور یہ سب کچھ نور کی عظیم آیت میں مل جاتا ہے، جیسے مادّی روشنیوں کے تمام خزانے سورج کی اصل میں پائے جاتے ہیں۔

 

آیاتِ نور کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟ اور ان کی قابلِ فہم حکمتیں کون کون سی ہیں؟ اگر اس بارے میں بھی کچھ وضاحت کی جائے تو شاید دوسری اہم آیتوں کی بابت بھی کچھ اندازہ ہو، سو وہ وضاحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین (اسلام) کی بنیاد اپنی مخلوقات کی مثالوں پر رکھی تاکہ خلق سے اس کے دین کی دلیل ملے اور دین سے اس کی وحدانیّت کی دلیل ملے (حدیث) اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح اس مادّی کائنات کی تمام برکتوں اور قوّتوں کا سرچشمہ صرف ایک ہی ہے، اور وہ سورج ہے، جس سے دنیا بھر کی چیزیں قائم ہیں اور ان کی ہر ہر ضرورت پوری ہو جاتی ہے، اسی طرح عالمِ دین میں نورِ ہدایت کا سورج ہے جو تمام روحانی خزانوں کا اساسی اور اصلی خزانہ ہے اور کل طاقتیں اور فضیلتیں یہیں سے

 

۱۸

 

عطا کی جاتی ہیں، چنانچہ آیاتِ نور میں دین اور روحانیّت کی سب سے عظیم طاقت کی نقشہ کشی کی گئی ہے، اور وہ نقشہ سورج، چاند اور ستاروں کی طرح ہے تاکہ عالمِ ظاہر اور عالمِ باطن (یعنی دین) کے درمیان مشابہت ہو، جیسا کہ مذکورہ حدیث کا بیان ہے۔

 

قرآن میں نورانی آیات اور ان کا مضمون ایک پل کی طرح ہے جو ظاہر کو باطن سے اور دنیا کو آخرت سے ملا دیتا ہے، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بندوں کو خدا سے ملا دیتا ہے، کیونکہ نور کے تصوّر نے خدا شناسی سے متعلق تمام مشکلات آسان اور ساری مایوسیاں ختم کر دی ہیں، جبکہ اللہ پاک نے اپنے آپ کو بلندی و پستی کا نور قرار دے کر اس حقیقت کا اعلان فرما دیا کہ زمین پر بھی خدا کا نور مل سکتا ہے جبکہ “نورٌعلیٰ نور” کے ارشاد میں توحیدِ نور کے اس اصول کا ذکر ہے کہ ایک نور پر دوسرا نور ہے، اور دونوں کی حقیقت ایک ہے، یعنی ذاتِ خدا کی جو روشنی آسمان پر ہے اور جو روشنی زمین پر ہے اس میں بحقیقت کوئی دوئی نہیں ہے بلکہ اس میں وحدت ہی وحدت ہے، کیونکہ کائنات سے متعلق اللہ تعالیٰ کے نور کا تصوّر ایسا نہیں جیسے سورج کی روشنی کا ہے، کہ ظاہری اور مادّی روشنی کائنات کی سطحوں کو جگمگانے کے لئے بکھر بکھر کر اصل سرچشمہ سے دور جا پڑتی ہے، اس کے بالکل برعکس باطنی اور روحانی روشنی مسافت و دوری کے

 

۱۹

 

بغیر آسمان و زمین کی روحانی اور نورانی شکل کو اپنی ذات میں یعنی لامکانی طور پر پیش کرتی ہے، اس سے دانشمند پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ دراصل یا فی نفسہٖ نور میں دوئی اور کثرت کا کوئی امکان نہیں، مگر ظاہری اور مجازی طور پر دوئی اور کثرت کی بات درست ہے۔

 

نورٌعلیٰ نور (ایک نور پر دوسرا نور ہے) میں نور کی کثرت و وحدت دونوں کا ذکر ہے، جس میں کثرت ظاہر کی طرف ہے اور وحدت باطن کی طرف، مثال کے طور پر جب اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ وہ پاک و برتر ذات آسمانوں اور زمین کا نور ہے، تو اس کی یہ تاویل ہوتی ہے کہ اس کا نور حدودِ روحانی اور حدودِ جسمانی میں طلوع ہوا ہے، یعنی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کی ذات میں یہ نور طلوع ہوا ہے جو دو عظیم فرشتے اور روحانیّت کے آسمان ہیں، اور ناطق اور اساس کے باطن میں یہ نور طلوع ہوا ہے جو دو کامل انسان اور روحانیّت کی زمین ہیں، پس “نورٌعلیٰ نور” میں مظاہرِ نور کی ظاہری کثرت اور باطنی وحدت کا ذکر ہے، ورنہ ذاتِ سبحان کے تصوّر  میں “نور پر نور ہے” کا کوئی مطلب نہیں بنتا ہے۔

 

آیاتِ نور کی یہ شان دیکھئے کہ “نورٌعلیٰ نور” پوری آیت بھی نہیں صرف ایک ٹکڑا ہے جس میں ایک اعتبار سے تین لفظ ہیں، دوسرے اعتبار سے دو ہیں اور تیسرے اعتبار سے صرف ایک اسم ہے (نور)

 

۲۰

 

اور ایک حرف (علیٰ) مگر یہ حکمت کا ایک مکمل باب ہے، جس کی تعلیم کی روشنی میں ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ نورِ خداوندی کے وہ مظاہر جو تمام فرشتوں کے لئے مقرر ہیں اور وہ مظاہر جو انسانوں کے لئے بھیجے گئے ہیں، کس طرح آپس میں ایک ہو سکتے ہیں، صرف یہی نہیں کہ عظیم فرشتوں اور انبیاء و أئمّہ کی نورانیت کو ایک وحدت کے طور پر مان لیا جائے، بلکہ ارواحِ مومنین بھی اسی نورانی وحدت میں فنا ہوکر ایک ہو سکتی ہیں۔

 

جب مومنین کی کم علمی کے سائے نورِ علم کی روشنی سے مٹ جائیں گے تو وہ بغیر سایہ کے نور سے مل جائیں گے، جیسے قرآن میں وجودِ انسانی کی تشبیہہ سائے سے اور نورِ خدا کی مثال سورج سے دی گئی ہے، وہ ارشاد یہ ہے:

اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّۚ-وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًاۚ-ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًا ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا(۲۵: ۴۵ تا ۴۶)۔ (اے رسول) کیا تم نے اپنے پروردگار کی قدرت کی طرف نظر نہیں کی کہ اُس نے کیوں کر سایہ کو پھیلا دیا اور اگر وہ چاہتا تو اسے (ایک جگہ) ٹھہرا ہوا کر دیتا پھر ہم نے آفتاب کو اس کا رہنما بنا دیا پھر ہم نے اس کو بڑی آسانی سے اپنی گرفت میں لیا۔

 

دنیا میں ظاہری چیزوں کا سایہ دو قسم کا ہے، جزوی سایہ یعنی

 

۲۱

 

درختوں وغیرہ کا، کلّی سایہ یعنی زمین کا، جو رات کے نام سے ہے، مگر ان میں کوئی سایہ ایسا نہیں جو سورج کی رہنمائی کے نتیجے میں خدا کی مٹھی میں چلا جاتا ہو، کیونکہ درختوں اور دوسری بہت سی چیزوں کے سائے تو غروبِ آفتاب کے ساتھ ساتھ رات کے کنارے سے مل کر اسی میں صبح سورج کے نکلنے تک ڈوبے رہتے ہیں اور رات تو کرۂ ارض پر ہمیشہ گھومتی رہتی ہے۔ وہ اپنی کلیّت میں پھیلتی اور سمٹتی نہیں ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ سایہ انسانوں کا مجموعی وجود ہے، سورج جس کی مراد نورِ خداوندی ہے، اسی کی رہنمائی کرتا ہے، جس کے نتیجے میں سب انسان آپس میں ملتے ملتے آخر میں فردِ واحد میں جمع ہو جاتے ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) میں سب کی قیامت برپا ہو جاتی ہے یعنی وہاں ان کا حشر ہوتا ہے۔

 

ہم نے اپنی بساط کے مطابق عظیم آیات کی ایک وضاحت کی، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اگر کسی پیاسے نے ایک بے پایان سمندر سے پانی پی لیا تو وہ کچھ کم ہوگیا، مگر بات دراصل یہ ہے کہ جو نور کا پانی امامِ برحق کی ہدایت و رہنمائی میں ملتا ہے وہ کس قدر شیرین اور صاف و شفاف ہے۔

 

۲۲

 

گویلف

۲۲ اپریل ۱۹۸۰ء

 

آئینۂ خانۂ قرآن

 

مثال کے طور پر ایک پاک و صاف مکان ہے جس کے اندر چھ اطراف میں چھوٹے بڑے ہر قسم کے آئینے نصب کئے گئے ہیں، مکان کے درمیان ایک روشن چراغ تابناک شعاعیں بکھیر رہا ہے، اب اس روشنی میں گھر کی تمام چیزیں ہر آئینے میں دکھائی دے رہی ہیں، آپ جس طرف بھی جائیں جس آئینے کو بھی دیکھیں، اس میں گھر کی سب چیزیں نظر آئیں گی۔ آپ جانتے ہیں کہ اس کا ممثول کیا ہے؟ گھر قرآنِ پاک ہے، آئینے آیات ہیں، چراغِ روشن امام ہیں اور گھر کی چیزیں حقائق و معارف ہیں، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ نورِ امامت کی روشنی میں دیکھا جائے تو قرآن کی ہر آیت بجائے خود حقیقتوں اور معرفتوں کی ایک مکمل کتاب ہے۔

 

مذکورہ گھر میں باہر سے کوئی آدمی آتا ہے جس کی آنکھوں میں ایک ایسی بیماری تھی کہ جس سے اس کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں پھر وہ یکایک آنکھیں بند کر لیتا ہے جس سے وہ وہاں کچھ نہیں دیکھ سکتا ہے۔ یہ مثال

 

۲۳

 

ہے ان لوگوں کی جو نورِ امامت سے انکار کرنے کے نتیجے میں قرآنی حکمتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔

 

اسی گھر میں کچھ دوسرے لوگ آتے ہیں، جن میں سے بعض کے پاس فلم اتارنے کے سامان ہیں بعض تصویریں لے سکتے ہیں اور بعض صرف آنکھوں سے چیزوں کو وقتی طور پر دیکھتے ہیں، یہ اُن لوگوں کی مثال ہے جو روحانیّت کے مختلف درجات پر خانۂ قرآن میں داخل ہو جاتے ہیں، جن کو امام کی معرفت حاصل ہے۔

 

سائنس کا ظاہری مقصد مادّی ترقی ہے، اور اس کا باطنی مقصد یہ ہے کہ ہم اس کی مثال سے روحانیّت کو سمجھ لیں، وہ یہ کہ جس طرح باور کیا جاتا ہے کہ ہر عمدہ چیز بہشت سے آئی ہے اور بہشت روحانیّت کا نام ہے، سو سائنس کی مفید چیزیں بہشت سے یعنی روحانیّت سے آئی ہیں، مگر یہ ہے کہ یہ چیزیں روحانیّت میں اعلیٰ سے اعلیٰ ہیں اور مادّیت میں ادنیٰ سے ادنیٰ، چنانچہ اسی سائنس کی روشنی میں آپ سوچیں کہ آج کے زمانے میں کسی اہم واقعے کو کن کن طریقوں سے ریکارڈ (محفوظ) کیا جاتا ہے؟ بہت سے طریقے ہیں نا؟

 

پس باور کرنا چاہئے کہ روحانیّت میں قرآن کی نزولی صورت مکمل طور پر محفوظ ہے، جس کا مشاہدہ حصولِ معرفت کے سلسلے میں ہو سکتا ہے، اس سے پہلے نہیں۔

 

۲۴

 

یہ بات بہت ضروری ہے اس لئے دوبارہ بتاتا ہوں کہ اصلی سائنس خدا کی طرف سے ہے، اس لئے اس کی مزید ترقی ہوگی، اور آنے والے وقت میں یہ روحانیّت کی شکل میں ظاہر ہونے لگیں گی، اُس وقت لوگ بہت سی چیزوں کو نئے سرے سے سمجھنے لگیں گے اور اس کا ذکر قرآن میں موجود ہے، اُس زمانے میں قرآن کی روح کے متعلق بھی باور کیا جائے گا کہ وہ روحانیّت میں محفوظ  اور موجود ہے۔

 

روحِ قرآن کو پہچاننے کے لئے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ روحِ نباتی پر روحِ حیوانی قائم ہے، روحِ حیوانی پر روحِ انسانی ٹھہری ہوئی ہے، جس پر روحِ قدسی قائم ہوسکتی ہے اور اسی میں قرآن کی روح بھی ہے۔

 

اس سے معلوم ہوا کہ روح میں روح ہے یا یوں کہا جائے کہ روح پر روح قائم ہے، سو قرآن کی روح امام میں ہے اور نور ہی روح ہے، جس میں قرآن کی بولتی حکمتیں موجود ہیں۔

 

مومنین کی کتنی بڑی سعادت ہے، کہ ایسی قدسی روح یعنی نور سے جو امام میں ہے ان کو بھی روشنی ملتی ہے، اور اس روشنی کی ترقی اس حد تک ممکن ہے کہ مومن کی ہستی کا قطرہ امام کے نور کے سمندر میں گم ہو جائے، تا کہ معرفت جیسا کہ حق ہے حاصل ہو اور دوئی درمیان سے اُٹھ جائے۔

 

میرے عزیز! میں اس معیار کے خطوط بہت بڑی توجہ اور

 

۲۵

 

ذمہ داری سے لکھتا ہوں، مجھ کو معلوم ہے کہ ایک وقت میں ان خطوط کی بہت ضرورت ہوگی، میرے عزیزوں کو معلوم ہے کہ ایک وقت میں ان خطوط کی بہت ضرورت ہوگی، میرے عزیزوں کو معلوم ہے کہ میں یہ باتیں کہاں سے اور کس طرح کرتا ہوں، وہ میرے کام سے خوب واقف ہیں، انہوں نے قدردانی کے ساتھ میری تحریروں کا بغور مطالعہ شروع کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ یہ خطوط یوں ہی شغل کے طور پر نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک جدید اور کامیاب طریقہ ہے جس میں زیادہ توجہ اور دلچسپی کے ساتھ علم کی اعلیٰ باتوں کو ذہن نشین کیا جا سکتا ہے، ان شاء اللہ خداوند کو منظور ہوا تو ایسے سو خطوط مکمل کریں گے۔

 

۲۶

 

ہر آیت آئینۂ امامت

 

آئیے عزیزانِ من! آج بھی دنیائے قرآن کی عظیم عظیم حکمتوں کا کچھ نظارہ کریں، آئیے، ہم اپنی خودی کے آہنی پنجرے کو توڑ کے عالمِ قرآن کی معنوی بلندیوں میں پرواز کریں، آئیے نورِ اقدس سے تائیدِ روحانی طلب کر کے بحرِ حقیقت سے کچھ موتی نکالنے کی کوشش کریں، آمین! یا ربّ العالمین!!

 

یہ بات نہ صرف روایت کی حد تک محدود ہے بلکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ نورِ امامت کے مبارک تذکروں سے قرآنِ پاک کی کوئی آیت خالی نہیں، خواہ آیت کا موضوع کچھ بھی ہو، لیکن اس کی تاویل و حکمت میں براہِ راست یا بالواسطہ مولا علی اور أئمّۂ پاکِ اولادِ علی (علیہم السّلام) کا ذکر ضرور موجود ہے، ہم ذیل میں اس ہمہ گیر حقیقت کی کچھ مثالیں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں:

 

۱۔ قرآن میں “ایمان اور مومنین” ایک بہت بڑا موضوع ہے، اور اس کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ قرآن کا کوئی صفحہ بلکہ کوئی آیت اس موضوع سے باہر نہیں، اور ایسے عظیم قرآنی موضوع میں امامِ عالی قدر کا پاک ذکر تفسیر و تاویل دونوں لحاظ سے موجود ہے، تفسیر میں اس لئے

 

۲۷

 

کہ علی ہی نے سب سے پہلے آنحضرتؐ کی نبوّت و رسالت کی تصدیق کی ہے (جس کوظاہری لفظ ایمان میں لانا کہا جاتا ہے) علیؑ ہی امیر المومنین ہیں، یعنی مومنوں کے سردار و سرتاج، پس امام ہی ایمان کے سرچشمہ اور مرکز ہیں، چنانچہ قرآن میں جہاں کہیں مومنین کی تعریف و توصیف آتی ہے وہاں پر امیرِ مومنان پیش پیش ہوتے ہیں، اور جہاں جہاں مومنین کی کسی کمزوری کا بیان آتا ہے تو اس کا اطلاق امیر المومنین پر ہرگز نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس میں بھی مومنین کے سردار کو معیارِ ایمان قرار دے کر فرمایا جاتا ہے کہ تم اپنے امیر (اولوالامر) کے نقشِ قدم پر کیوں نہیں چلتے ہو اور نمونۂ عمل کو کیوں نہیں اپناتے ہو، آپ کو مستند تفاسیر میں ایسی بہت سی باتیں ملیں گی جن سے اس تصوّر کی تصدیق ہوتی ہے، اور تاویل کے لحاظ سے ایمان کا سرچشمہ امام اس لئے ہیں کہ حقیقت میں ایمان اس وقت کامل ہوتا ہے جبکہ خدا و رسول کے ساتھ امام پر بھی ایمان لایا جائے، کیونکہ خدا پر ایمان لانا کافی نہیں ہے، اس لئے کہ بغیر پیغمبر کے دین کا کام اور خدا کا مقصد پورا نہیں ہوتا ہے، یہ تو صرف رسول کی زندگی کے زمانے کی بات ہوئی، آپؐ کے بعد پھر وہی خدا کی نمائندگی کی ضرورت پیدا ہوتی ہے، لہٰذا حضورؐ کے بعد خدا و رسولؐ کا خلیفۂ برحق امامؑ ہیں پس ایمان انہی کی ذاتِ اقدس سے متعلق ہو جاتا ہے، جس طرح کہ پیغمبر کے وقت میں ایمان لانا رسولؐ ہی کے وسیلے سے تھا۔ (اس میں

 

۲۸

 

بڑا راز ہے)۔

 

۲۔ قرآن میں کتابِ سماوی کا تذکرہ ہے اور کتاب و قرآن کی تاویل امامؑ ہیں، کیونکہ کتابِ صامت کے معلّم اور خود کتابِ ناطق امامؑ ہی ہیں، اور کتاب کا مقصد ہدایتِ الٰہی ہے تو پروردگارِ عالم کی ظاہری و باطنی ہدایت امامِ برحق ہیں جو منہ بولتی ربّانی ہدایت ہیں۔

 

۳۔ قرآن میں نور کا ذکر عالی شان طور پر فرمایا گیا ہے، اور نورِ الٰہی امامِ زمانؑ ہیں، جس کی روشنی میں صراطِ مستقیم کی ہدایت مل سکتی ہے، یہ وہ نور ہے جس میں فنا ہو جانے سے کائنات و موجودات کے تمام بھیدوں کا خزانہ مل سکتا ہے، کیونکہ خدا نے خود کو نور قرار دے کر فرمایا کہ وہ سماوات و ارض کا نور ہے، جس کا اشارہ ہے کہ جو بھی اس نور کی روشنی کو پائے وہ آسمان و زمین کے باطن کے اسرار کو دیکھ سکے گا، اور وہ کائنات و موجودات کی روحانی سلطنت کو پائے گا۔

 

۴۔ قرآن میں فرشتوں اور عظیم روحوں کا ذکر ہے، جو امامؑ کے نورِ مطلق کی شعاعیں (rays)  ہیں، پس فرشتوں اور روحوں کے تذکروں میں آگے سے آگے چلیں تو امامؑ کا براہِ راست ذکر ملتا ہے، اس کے علاوہ امامؑ کی مبارک شخصیّت کو بھی قرآن کی زبان میں فرشتہ کہا ہے اور ایسے فرشتے کی علامتیں بھی بتائی گئی ہیں۔

 

۵۔ قرآن میں علم کا ذکر ہے جو بہت بڑا موضوع ہے اور قرآن

 

۲۹

 

خود شروع سے لے کر آخر تک علم ہی ہے، اور نورِ علم کا سرچشمہ امامؑ ہے، اور علم نور کے معنی سے الگ نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہدایت سے جدا ہے، بلکہ یہ تینوں حقیقتیں ایک ہی ہیں مگر اس کے الگ الگ تین نام ہیں اور اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں۔

 

۶۔ قرآن میں بہشت کا بیان آیا ہے جو پوری کائنات میں پھیلی ہوئی ہے (۵۷: ۲۱، ۰۳: ۱۳۳) یہ امام کا جسمِ لطیف، روحِ کلّی اور عقلِ کلّی کا دوسرا نام ہے، امامؑ کا لطیف جسم کائنات کے برابر ہے اور کائنات پر محیط ہے اور اسی میں نفسِ کلّی اور عقلِ کلّی کی بہشت موجود ہے جو امام کی عظیم روح و عقل ہے۔

 

ایسا نہیں کہ یہ بہشت روائتی بہشت سے کچھ کم ہے بلکہ روائتی بہشت کی حقیقت یہی ہے اور اس میں سب کچھ ہے، جو کچھ کہ انسانی عقل و جان کی لذّت و راحت کے لئے ہونا چاہئے اور جو کچھ کہ خدا تعالیٰ کی حکمت کے بموجب ہونا چاہئے، لطیف جسم میں جسم کی سب حاجتیں پوری ہو جاتی ہیں، عظیم روح میں روح کی کل نعمتیں موجود ہیں اور عظیم عقل میں ساری عقلی راحتیں مہیا ہیں۔

 

۷۔ قرآن میں انبیاء کے اوصاف کا ذکر ہے، جو سب کے سب کامل انسانوں کی حیثیت سے تھے، اور امام ہر زمانے میں کامل انسان ہیں، اور پیغمبروں کے وزیر اور وصی رہے ہیں، لہٰذا جہاں کہیں

 

۳۰

 

قرآن میں کسی پیغمبر کا قصّہ آتا ہے تو اس میں امامؑ کا ذکر موجود ہے، اور نور ازل سے اس طرف ایک ہی چلا آتا ہے۔

 

۸۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا ذکر ہے، اور یہ صفات ۱۰۰ (سو) ہیں، اور تمام قرآن خدا کے ۱۰۰ ناموں کے گھیرے میں ہے، یعنی ایک اعتبار سے قرآن کے صرف سو مضامین ہیں، اس سلسلے میں خدا کا ہر نام ایک موضوع ہے چنانچہ خدا کا ایک نام علیم ہے جو علم کا موضوع ہے، حکیم حکمت کا مضمون ہے، اور خالق خلقت و تخلیق کا موضوع، علیٰ ہٰذا القیاس، پس ہر آیت کسی اسمِ الٰہی کی تفسیر و تشریح ہے، اور اسم آیت کا خلاصہ ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ اکثر دفعہ آیت کے آخر میں کوئی اسم آتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آیت اسم کے تحت بولتی تھی، اسم کے قانون کے مطابق کام کرتی تھی، اسم کی تشریح تھی اور آخر میں اسم میں مطلب جمع ہوگیا، جیسے آیت اپنے لفظوں کی شاخوں کے ساتھ درخت ہے اور اسم پھل، اسم کے پھل سے آیت کا درخت پیدا ہوگیا اور آخر میں جب اسم کا پھل ہے تو آیت کا سارا درخت پھل میں سمو گیا۔

 

پس خدا کی سب صفات امام میں ہیں، جو پورے قرآن کو لئے ہوئے ہیں، اور خدا کی حقیقی صفت بے مثال ہے، جو بیان سے برتر ہے (وجہِ دین کو دیکھیں) جیسے اللہ خود کو کائنات کا نور قرار دیتا ہے، مگر پھر فرماتا ہے کہ اس نے رسول کو روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے

 

۳۱

 

اور دانشمند جانتا ہے کہ یہ چراغ ایسا نہیں کہ اس کی روشنی صرف ایک گھر یا صرف ایک انجمن کے لئے کافی ہو بلکہ یہ چراغ وہی ہے جس کا ذکر سورۂ نور (۲۴: ۳۵) میں ہے تو پھر عقل و دانش کی نظر میں ساری صفات رسولؐ سے متعلق ہوگئیں، اور اُس آیت کے مطابق جس میں رسولؐ کے جانشینِ نور مقرر کرنے کے بارے میں ہے (۵۷: ۲۸) نور کا تعلق ہمیشہ کے لئے امام سے ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر صفاتِ خداوندی پیغمبر اور امام میں نہ ہوتیں اور نمائندگی کا تصوّر غلط ہوتا تو پھر خدا کو یہ نہ فرمانا چاہئے کہ اُس نے نور بھیجا ہے اور پیغمبر روشن چراغ ہیں، جبکہ وہ خود آسمان و زمین کے نور ہیں، تو زمین کا مطلب یہ ہونا چاہئے کہ خدا کسی مظہر کے بغیر بذاتِ خود دنیا میں ظاہر ہے اور خود ہی لوگوں کی ہدایت کرتا ہے، مگر ایسا نہیں ہے، خدا آسمان و زمین کا نور اس معنی میں ہے کہ اس کا مظہر ایسا ہے اور مظہر کی صفت مُظہر کو پہنچتی ہے۔

 

نور جب یہ دیکھتا ہے کہ بندے اس کی عظمتوں کو نہیں سمجھ رہے ہیں، تو اُن میں سے کسی ایک نیک بخت کو روحانیّت کی بلندیوں پر اُٹھا کر اپنی خدائی کا اعلان کر دینے پر مجبور کر دیتا ہے، یہ نور کو غیرت آنے کا ثبوت ہے کہ دیکھو سوچو اور صحیح صحیح جواب دو، چنانچہ جب منصور نے انا الحق کہا تو نظریات میں انقلاب آیا، اس کو تو ہر طرح سے گزر جانا تھا گزر گیا مگر یہ واقعہ اپنے اثرات مرتب کرنے کے لحاظ سے

 

۳۲

 

ایک عظیم جنگ جیتنے سے کم نہ تھا، جس طرح کہا جاتا ہے کہ “اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔”

 

مادّی طور پر غور کیا جائے تو بھی یہی بات بنتی ہے کہ اس دنیا میں جمادات، نباتات اور حیوانات (جس میں انسان بھی ہے) میں سے جو جو چیزیں موجود ہیں وہ سب کی سب سورج کی بدولت قائم ہیں اور ان کا مادّی وجود سورج ہی سے ہے، نظامِ شمسی کے حدود میں جو شیٔ پائی جاتی ہے وہ سورج سے الگ ہوکر وجود میں آئی ہے اور پھر ایک وقت میں یہ چیز سورج کی زد میں آ کر فنا ہو جانے والی ہے یا کہ سورج کے سمندر میں گر کر نور بن جانے والی ہے۔ یہی حال عالمِ انسانیت کا بھی ہے۔

 

اب ذرا سوال کے انداز میں بات کرتے ہیں جو دلچسپی سے خالی نہیں کہ بموجب سورۂ حدید (۵۷) آیت ۱۲ (۵۷: ۱۲)، جب اُس روز (روحانیّت اور قیامت میں) مومنین کا نور ان کے آگے یا داہنی طرف رہنمائی کرتا ہوا منازل کو بڑی سرعت سے طے کرتا ہو گا۔۔۔۔ تو یہ کس کا نور ہوگا؟ خدا کی ذات کا؟ رسول کا؟ امام کا؟ قرآن کا؟ یا مومن کا؟ خدا کا نور اس لئے کہ اُس نے فرمایا تھا کہ بلندی و پستی کا نور وہی ہے، پس اگر ہمیں سوچے سمجھے بغیر اس آیتِ کریمہ کے ظاہر پر عمل کرنا ہے تو یہ قبول کریں گے کہ نور خدا ہی کا ہے پھر اس صورت میں رسول کو نور کے طور پر بھیجنے کا حکم عبث ہوگا اور اسی طرح امامت کا درجہ بھی، مگر

 

۳۳

 

یہ بات نہیں، حقیقت یہ ہے کہ مومنین کا یہ نور امام کا ہے جو خدا و رسول سے منسوب ہو سکتا ہے اور بجا ہے اور دوسری طرف سے مومنین سے منسوب ہے، اور یہی ایک عمدہ مثال ہے مونوریالزم کی۔

 

۳۴

 

کنیڈا

۱۶ اپریل ۱۹۸۰ء

 

سنتِ الٰہی

 

میرے عزیزوں کو چاہئے کہ سنتِ الٰہی جیسے حکمتِ دین کے اہم اور بنیادی موضوع پر لکھنے یا بولنے کے لئے متعلقہ آیاتِ مقدّسہ کا خوب مطالعہ کریں، میں یہاں اس باب میں کچھ اصولی باتیں اور چند امدادی نوعیت کے سوالات لکھ دیتا ہوں تا کہ عزیزوں اور دوسرے اہلِ علم حضرات کو اُن آیاتِ کریمہ کی حکمتوں کے سمجھنے کا شوق پیدا ہو جو سنتِ الٰہی کے بارے میں وارد ہوئی ہیں، اور وہ سوالات ذیل کی طرح ہیں:

 

سوال ۱: اللہ تبارک و تعالیٰ کی سنت کے ذکر میں بنیادی باتیں کیا کیا ہیں؟ اس پاک سنت کی تعریف کرو اور آخری مقصد بتاؤ۔

 

سوال ۲: سنت کے لغوی معنی کیا ہیں؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سنت عادت کا دوسرا نام ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو سنتِ خدائی اور قانونِ قدرت ایک ہی ہے یا یہ دو چیزیں ہیں؟

 

سوال ۳: خدا کی سنت اور آنحضرتؐ سے قبل کے رسولوں کی سنت کے درمیان کیا فرق ہے؟ یا دونوں کے آپس میں کیا نسبت اور رشتہ ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ خدا کی سنت اور پیغمبر کی سنت

 

۳۵

 

کے درمیان تضاد ہو؟ اگر ایسا نہیں تو اس کی توجیہہ کرو۔

 

سوال ۴: اس ارشادِ قرآنی کا مطلب کہ: “اللہ کی سنت وہ ہے جو اگلے لوگوں میں گزر چکی ہے” بیان کرو، کیا اس کے معنی ایسے کچھ ہیں کہ سنتِ الٰہی پوری طرح سے عمل میں آکر قائم رہی یا ختم ہوکر چلی گئی؟ اور اگر ختم ہوئی ہوتی تو نہ فرمایا جاتا کہ تم خدا کی عادت میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔

 

سوال ۵: خداوندِ عالم نے قرآنِ پاک میں کافروں کی عادت کا بھی ذکر فرما دیا ہے، آپ درست مطالعہ کرکے بتائیے کہ ان کی کون سی چیز کفر کی بنیاد لگتی ہے؟

 

سوال ۶: جب قرآن کہتا ہے کہ آنحضورؐ سے پہلے سنتِ الٰہی کی واضح اور مکمل مثال قائم ہوچکی تھی، اور وہ یہ کہ چراغِ ہدایت ہمیشہ روشن رہتا تھا، تو پھر کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر پیغمبر یا اس کا جانشین اپنے وقت میں خدا کی سنت یا سنت کا مظہر ہوا کرتا ہے؟

 

جاننا چاہئے کہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اللہ تعالیٰ کی عملی سنت ہوا کرتے ہیں، ان بابرکت ہستیوں کی موجودگی کے بغیر سنتِ الٰہی کا کوئی تصوّر نہیں ملتا ہے، کیونکہ خدا کی عادت کے پس منظر میں جو سب سے عظیم حکمت ہے اس کا تقاضا بس یہی ہے کہ دنیا میں نورِ ہدایت قائم و دائم رہے،

 

۳۶

 

تا کہ زمین خلیفۂ خدا سے خالی نہ ہو۔

 

آپ جس قدر قرآنِ حکیم میں دقتِ نظر سے دیکھیں گے، اس قدر سنتِ الٰہی کو انبیائے کرام کی شخصیّت و ہستی سے وابستہ پائیں گے، یہاں تک کہ اگر بفرضِ محال سلسلۂ ہدایت کو لوگوں کے درمیان سے اٹھا لیا جائے تو اسی کے ساتھ ساتھ خدا کی سنت بھی چلی جائے گی، اس سے یہ حقیقت روشن تر ہوگئی کہ سلسلۂ ہدایت ہی پر سنتِ خدائی کا قیام و دوام ہے۔

 

سنت اللہ کے معنی خدا کی عادت کے ہیں اور اس سے دستور و قانون مراد ہے، جو کامل انسانوں کی ذات میں پوشیدہ رہتا ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے:

سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖۚ-وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ (۴۰: ۸۵)

خدا کی عادت یہی ہے جو اپنے خاص بندوں میں گزرتی رہی ہے اور کافر اسی مقام پر گھاٹے میں رہے ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ کی پاک عادت کو سب سے پہلے اور سب سے اعلیٰ درجے پر اپنانے والے انبیاء و اولیاء علیہم السّلام ہوا کرتے ہیں اور انہی حضرات کی ذاتِ بابرکات اس کا منبع و مرکز رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن (۱۷: ۷۷) نے واضح الفاظ میں بتا دیا کہ رسولوں کی عادت اللہ کی عادت

 

۳۷

 

تھی، جس میں کوئی تبدیلی نہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ مرکزِ ہدایت کی حیثیت سے ہمیشہ ہمیشہ ایک پاک شخصیت موجود ہوا کرتی ہے۔

 

سنتِ الٰہی سے متعلق جتنی آیات ہیں ان کا مجموعی مقصد یہ ہے کہ ہم سنتِ الٰہی کو پانے کے لئے آنحضرتؐ سے قبل کے انبیاء کے قوانین میں ایک ایسی چیز کی تلاش کریں جو تمام پیغمبروں کے لئے یکسان اور بنیادی اہمیت کی حامل تھی، اس لئے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تھی، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی بے بدل چیز نورِ ہدایت ہی ہے، یعنی انسانِ کامل کی موجودگی، جو اللہ کی طرف سے مقرر ہوا کرتا ہے، اسی امر میں اللہ کی سنت قائم و دائم چلتی آئی ہے، اور باقی جتنی بھی چیزیں ہیں ان میں خدا کی مصلحت و حکمت سے تبدیلی آتی رہتی ہے، پس یہ حقیقت ہے کہ سلسلۂ ہدایت کا جاری رکھنا اللہ کی سنت رہی ہے جو ہمیشہ قائم رہتی ہے۔

 

اس بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ رسولِ اکرمؐ زمانۂ نبوّت میں خدا کی سنت تھے اور اپنی سنت تھے، اور دورِ امامت میں ہر امام خدا و رسول کی سنت رہا، کیونکہ سنتِ الٰہی کی نورانی تفسیر و تاویل نورٌعلیٰ نور میں کی گئی ہے، یعنی جس طرح دورِ نبوّت میں خدائی سنت سلسلۂ انبیاء میں جاری تھی، اسی طرح دورِ امامت میں بھی یہ شجرۂ امامت میں باقی رہے گی۔

 

۳۸

 

حکمت کا ایک خزانہ

 

میرے بہت ہی عزیز اور انتہائی پیارے نام والے فتح علی حبیب، پریذیڈنٹ

 

میں آپ کو اور دوسرے عزیزوں کو اس جذبۂ خیر خواہی سے “یا علی مدد” کہتا ہوں کہ یہ پاک دعا دراصل عرش کے اٹھانے والے عظیم فرشتوں سے شروع ہو اور برگزیدہ روحیں اس میں شریک ہو جائیں!

 

یہ بات یوں ہی کہنے کے لئے نہیں بلکہ اصولِ روحانیّت اور عملی تاویل کے تحت ہے، اور اگر میں اپنے بہت پیارے بچوں کے لئے اس نکتۂ دل پذیر کی تشریح بھی کروں تو عقل و روح کے لئے کتنا مزیدار قصّہ ہوگا، ہاں ضرور، اور پھر میں اس کے سوا کیا دے سکتا ہوں، سب سے پہلے نورِ معرفت کی روشنی میں حملۃ العرش (۴۰: ۰۷) کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ عرش کے اٹھانے والے فرشتے مومنین کے حق میں دعا کرتے ہیں، دیکھیں اور خوب سوچیں کہ وہ کتنی عالی شان اور پُرحکمت دعا کرتے ہیں۔

 

اس حقیقت یعنی روحانی مدد کا دوسرا حوالہ سورۂ انبیاء (۲۱: ۷۹) سے دیا جاتا ہے کہ جب داؤد علیہ السّلام خدا تعالیٰ کی حمد و ثناء کی تسبیح کرتے تھے،

 

۳۹

 

تو آپ کے ساتھ اس تسبیح و عبادت میں پہاڑ اور پرندے بھی ہم آہنگ ہو جاتے تھے۔

 

اگرچہ ظاہری طور پر دیکھنے سے یہ واقعہ حضرت داؤدؑ ہی کا مخصوص معجزہ لگتا ہے، لیکن راہِ ہدایت اور مشاہدۂ روحانیّت کی روشنی میں یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے، کہ یہ معجزہ اور انبیاء علیہم السّلام کے دوسرے لاتعداد معجزات صراطِ مستقیم کے مختلف مراحل پر واقع ہیں اور ہادیٔ برحق کے نورِ ہدایت کی روشنی میں جو مومنین آگے بڑھتے ہیں وہ ان تمام معجزات کو دیکھ سکتے ہیں اور روحانیّت کے عظیم واقعات کے مشاہدے کے بغیر معرفت مکمل نہیں ہو سکتی ہے۔

 

چنانچہ پہاڑ کی کئی تاویلیں ہیں، اور انفرادی تاویل میں بندۂ مومن کا سر پہاڑ ہے، کیونکہ جس طرح پہاڑ زمین کا سب سے اونچا حصّہ ہے، اسی طرح انسانی بدن میں سر بلند ترین عضو ہے، اور جیسی زمین کو پہاڑ سے بہت سی برکتیں حاصل ہیں، ایسے ہی بدن کو سر سے بہت سی برکتیں حاصل ہوتی ہیں۔ مختصر یہ کہ بہت سی باتوں میں انسان کا سر پہاڑ کے مشابہ ہے، پس داؤدؑ پیغمبر کی تسبیح و عبادت میں پہاڑ کی شرکت و ہم آہنگی یہ ہے کہ ان کے سرِ مبارک کا ذرہ ذرہ ان کے پیغمبرانہ ذکر میں شامل ہو جاتا تھا، اور اعلیٰ روحانیّت میں حقیقی مومنین پر بھی یہ واقعہ گزرتا ہے۔

 

۴۰

 

چونکہ تاویل میں سر پہاڑ ہے لہٰذا یہ طور بھی ہے اور غارِ حرا بھی، پیغمبروں کے قصّے میں پہاڑ کا ذکر آنا اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ روحانیّت کی بڑی کامیابی اس وقت شروع ہو جاتی ہے جبکہ مومن روحانی طور پر اپنے سر کے طُور پر چلا جاتا ہے، جبکہ پیشانی کے غارِ حرا میں ذکر کرنے لگتا ہے اور جبکہ کھوپڑی کے پہاڑ کا ذرہ ذرہ اس کے ساتھ نورانی عبادت میں مصروف ہو جاتا ہے۔

 

اب پرندوں کی تاویل سنیے کہ وہ کس طرح انبیاء و اولیاء اور حقیقی مومنین کی نورانی عبادت میں شریک ہو جاتے ہیں، سو جاننا چاہئے کہ عظیم روحانیّت میں جسمِ لطیف (Astral Body) کے انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات پر جو فرشتے اور ارواح آتی ہیں، وہ تاویل کی زبان میں پرندے ہیں، جبکہ یہ معجزاتی ذرّات اڑ کر آتے ہیں، میں نے کئی مجالس میں اس عظیم واقعہ کا ذکر کر دیا ہے، چنانچہ حضرت داؤدؑ کا ذکر جب آپ کے ماتھے میں آٹومیٹک (Automatic)  ہوگیا تو داخلی اور خارجی تمام روحیں یک زبان ہوکر آپ کے ساتھ نورانی تسبیح کرنے لگ گئیں اور یہ اعلیٰ روحانیّت کے اصولات میں سے ہے۔

 

اب میں اسی جذبۂ خیر خواہی سے آپ عزیزوں کو کچھ اور حکمتیں بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ ایسی عظیم حکمتیں ہیں کہ آپ ان کے

 

۴۱

 

جاننے سے بہت شادمان اور مسرور ہوجائیں گے، سو اس سے پیشتر چلئے ہم اپنے خداوند کو ایک بار اسی خوشی میں یاد کریں کہ ہماری ساری پونچی اسی کی طرف سے ہے ورنہ ہم کیا ہیں کچھ بھی نہیں۔

 

اس شکرگزاری کے بعد بڑی ذمہ داری سے یہ تاویل بیان کرتا ہوں اور آپ بھی ذمہ داری قبول کریں اور وہ یہ کہ اس عظیم الشّان حکمت کو جو صرف اور صرف امامِ عالی مقام کے خزانے سے مل سکتی ہے یاد کریں اور میرے دوسرے بچوں سے بھی کہیں کہ وہ بھی اس کو ذہن نشین کر لیں کیونکہ اس میں نور کی غذائیں ہیں جن سے دائمی طاقت بن جاتی ہے۔

 

وہ عظیم حکمت یہ ہے کہ جس طرح روحوں کو ایک اعتبار سے پرندے کہا گیا ہے جس کا ذکر ہوچکا، اسی طرح دوسرے اعتبار سے ارواح کو پھل کا نام دیا گیا ہے، کیونکہ جیسے پھل درختوں کا خلاصہ اور نتیجہ ہوا کرتے ہیں، اور درختوں کو اگانے کا مقصد بھی پھل ہی ہوتا ہے، ایسے ہی اجسام کا مقصدِ عالی ارواح ہوا کرتی ہیں، لہٰذا روحانیّت اور جنّت کے پھلوں کی تاویل ارواح ہیں، پس قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں پھلوں کا ذکر آیا ہے، اس سے روحانی پھل مراد ہیں اور وہ روحوں کی شکل میں ہیں، اب ہم اُس آیۂ کریمہ کے مفہوم کو لیتے ہیں جس کی تاویل میں ہمارے لئے سب کچھ ہے اور وہ مفہوم یہ ہے:

مکہ کے کچھ کافروں نے پیغمبرِ اسلام سے یہ کہہ کر ایمان لانے

 

۴۲

 

سے گریز کیا کہ اگر وہ آنحضرتؐ کے ساتھ دینِ حق کی پیروی کریں تو اس وقت ان کو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے اذیت دی جائے گی اور وہ اُن کو ان کے مقام سے اُچک کر لے جائیں گے، خداوندِ عالم نے ان کے اس اعتراض کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ: “آیا ہم نے اِن کے لئے حرمِ مکہ کو امن کی جگہ یعنی جائے پناہ مقرّر نہیں کیا ہے جہاں پر تمام چیزوں کے پھل کھنچ کھنچ کر آتے ہیں جو ہماری طرف سے خصوصی رزق ہے لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں (۲۸: ۵۷)۔

 

سبحان اللہ! کیا شان ہے قرآنِ حکیم کی اور امامِ برحقؑ کی، کہ اس آیۂ کریمہ میں امامِ اقدس و اطہرؑ کا ذکر ہے، کہ وہی بحقیقت حرمِ خدا ہیں، کیونکہ حرم کے معنی ہیں وہ خاص جگہ جہاں عوام یعنی بیگانہ نہیں جا سکتے ہیں، نیز حرم کے معنی ہیں عزت و حرمت کی جگہ، اور اس سے وہ پاک جگہ مراد ہے جہاں پر حرام تو حرام ہی ہے حلال میں سے بھی بعض چیزوں کو ترک کیا جاتا ہے، اور یہ تمام اوصاف ظاہراً خانۂ کعبہ کے ہیں اور باطناً امام کے ہیں، یعنی امام کی پاک شخصیّت حقیقت میں نورِ خداوندی کا حرم سرا ہے، جس کی روحانی نزدیکی صرف محرمِ اسرار ہی کو حاصل ہے اور کوئی بیگانہ اس کے بھیدوں کو نہیں پا سکتا ہے۔

 

چنانچہ جب بندۂ مومن کو امام کی نورانی معرفت حاصل ہوتی ہے،

 

۴۳

 

تو گویا وہ روحانیت کے کعبہ میں داخل ہو جاتا ہے اور امام کے مقدّس نور کو مشاہدۂ نورانیت میں جاننا ایسا ہے جیسے کوئی خانۂ کعبہ میں رہتا ہو اور اس کے لئے دنیا بھر کے میوے کھنچ کھنچ کر آتے ہوں، یہ واقعہ ظاہر کی نسبت باطن میں زیادہ ممکن ہے، یعنی امام کی معرفت میں رہنا خدا کے گھر میں رہنا ہے، اور خدا کے اس روحانی گھر میں کل جہان سے کھنچ کھنچ کر جو پھل آتے ہیں وہ روحانی نعمتیں ہیں جو عقل و جان اور علم و حکمت کے رنگ میں ہیں، چونکہ یہ روحانیّت اور جنّت کے میوے ہیں، لہٰذا ان کی خوبیوں اور لذّتوں کی تعریف و توصیف کا حق جیسا کہ چاہئے ادا نہیں ہو سکتا ہے۔

 

خانۂ کعبہ جو خدا کا ظاہری گھر ہے اور جو اللہ کے باطنی گھر کی مثال ہے، وہ آج سے نہیں بلکہ بہت پہلے سے ہے جس کو حضرت آدمؑ نے بنایا، پھر طوفانِ نوحؑ نے اسے منہدم کر دیا، جس کی وجہ سے حضرتِ ابراہیمؑ کے زمانے میں یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ یہ گھر کدھر تھا، مگر خدا کی طرف سے ہدایت آئی اور حضرتِ ابراہیمؑ نے اِسی جگہ پر خانۂ کعبہ کی از سرِ نو تعمیر کی، اور آنحضرتؐ نے خانۂ کعبہ کو بتوں کے وجود سے پاک کر دیا، اس سے دانشمند مومن کو یہ یقین آتا ہے کہ خدا کا وہ گھر جو لاثانی اور غیر فانی ہے نورِ امامت ہے کہ نور کو قرآن نے لازوال اور غیر فانی قرار دیا ہے، پس اگر ہم صرف خانۂ کعبہ کو بغیر تاویل کے امن کی جگہ

 

۴۴

 

مانیں تو بہت سے سوالات ابھریں گے، مثلاً کسی کا یہ کہنا کہ جن جن زمانوں میں خدا کا ظاہری گھر موجود نہیں تھا تو اس میں امن کی جگہ کہاں تھی؟ خدا کے گھر پر کافروں کا قبضہ کیوں ہوا، کہ انہوں نے اس میں اتنے سارے بُت نصب کر دئے؟ وغیرہ وغیرہ۔

 

چنانچہ جاننا چاہئے کہ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں جس امن کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ روحانی امن ہے، اور اس امن کے حصول کے لئے جس گھر کا حوالہ دیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا باطنی اور روحانی گھر ہے جس کا ذکر ہوا، اس کے سوا دنیا میں امن کہاں ہے، اس مثال میں بہت حکمت ہے کہ جب کافروں نے آنحضرتؐ کو اذیت دینے کے لئے فیصلہ کیا تو خدا کے حکم سے حضورؐ مکہ مکرمہ (جہاں خانۂ کعبہ ہے) کو چھوڑ کر مدینہ چلے گئے، اور اگر اس میں خداوند تعالیٰ کی حکمت و مصلحت ہوتی تو آپ خانۂ کعبہ میں پناہ لیتے۔

 

جب حقیقی مومنین کو راہِ خدا میں سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جب دشمنانِ دین ان کو اذیت دیتے ہیں، تو اس وقت خدا کا وہ معجزانہ گھر جو روحانیّت میں ہے گویا اپنی جگہ سے اٹھ کر ان مومنین کے پاس آتا ہے اور ان کو اپنے اندر سمو کر روحانی طور پر ان کی حفاظت کرتا ہے، یہ ہوا بوقتِ مصیبت خانۂ خدا میں پناہ لیتا یا امن پانا۔

 

۴۵

 

اللہ تعالیٰ کی ہدایت و رحمت کسی ایک وقت کے لئے یا کسی ایک ملک کے لئے محدود نہیں ہوتی ہے، وہ تو دائمی اور ہمہ رس ہوتی ہے، کاش! لوگوں کو خبر ہوتی کہ خانۂ خدا کی تاویل کیا ہے، کاش! ان کو قرآنِ حکیم کی اِس پُرحکمت آیت کے اسرار معلوم ہوتے، خدا کرے کہ دنیا والے قرآن اور امام کی عظمتوں سے آگاہ ہو جائیں!

 

فقط آپ کا دعاگو

نصیر ہونزائی

۳۰ مارچ ۱۹۸۰ء

 

۴۶

 

بیت المعمور

 

میری روح کا ایک بہت پیارا ٹکڑا

فتح علی حبیب

 

یا علی مدد اس معنی میں کہ دین کی ساری خیر خواہی اسی دعا میں پوشیدہ ہے، مولا میرے عزیزوں کو دین و دنیا کی سلامتی اور کامیابی عطا فرمائے! آمین!!

 

میں سمجھتا ہوں کہ یہ خط بھی اِس سفر کی یادگار چیزوں میں سے ایک ہے، کیونکہ آج اس لفافے میں واپسی کی تاریخ لکھ رہا ہوں، لہٰذا چلئے اس خوشی کے موقع پر بھی علم کی کوئی اہم بات کریں، تا کہ اس سے بہت سے اسماعیلیوں کو فائدہ ہو۔

 

آج بیت المعمور کے بارے میں کچھ تذکرہ کریں گے، کہ بیت المعمور کے معنی ہیں آباد گھر، یہ نام قرآنِ پاک (۵۲: ۰۴) میں مذکور ہے، اور یہ اُن عظیم چیزوں میں سے ہے، جن کی عظمت و بزرگی کی خداوند تعالیٰ نے قسم کھائی ہے، یہ بیت المعمور کی علوِ شان کی دلیل ہے۔

 

جاننا چاہئے کہ بیتِ معمور (یعنی خدا کا آباد گھر) زمانے کا امام ہے،

 

۴۷

 

کہ خدا کا یہ گھر ہر طرح سے اور ہر معنیٰ میں آباد ہے، یعنی اس میں خدا کی شانِ اقدس کے مطابق جو کچھ ہونا چاہئے وہ سب موجود ہے، اور اس مبارک گھر کے دائرۂ اختیار سے کوئی چیز باہر نہیں۔

 

روایت ہے کہ بیتِ معمور خانۂ کعبہ کے بالمقابل آسمان میں ہے، اور وہ فرشتوں کا قبلہ ہے، جس کی تاویل ہے کہ ظاہر و جسمانیّت زمین ہے اور باطن و روحانیّت آسمان، سو اسی طرح ظاہر و باطن ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں اور اسی معنی میں خانۂ کعبہ اور بیتِ معمور ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں، نیز یہ ہے کہ خانۂ کعبہ مثال ہے اور بیتِ معمور ممثول، چنانچہ مثال اور ممثول ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں، ورنہ یہ ممکن نہیں کہ آسمان کا کوئی مخصوص قطعہ ہمیشہ خانۂ کعبہ کے ٹھیک اوپر رہے، جبکہ آسمان و زمین دائم مختلف زاویوں سے گردش کرتے ہیں، اور دانشمند اس حقیقت کو اچھی طرح سے سمجھ سکتا ہے۔

 

بیت المعمور کے قبلۂ فرشتگان ہونے کی حکمت یہ ہے کہ مومنین روحانیّت میں فرشتے ہیں اور امامؑ ان کا روحانی قبلہ، پس اہلِ ایمان کی روحیں مرتبۂ امام کے گرداگرد طواف کرتی ہیں۔

 

خدا کے آباد گھر (بیتِ معمور) میں مومنین کے لئے ملاقاتِ خداوندی کے تمام مواقع حاصل اور ربّانی معرفت کے سارے خزانے مہیا ہوتے ہیں، اور معرفت مومن کی آخری سعادت ہے۔

 

۴۸

 

اللہ تعالیٰ کے گھر کا تصوّر دانشمند کے نزدیک ایسا ہے کہ یہ دین کے سارے علم و حکمت اور جملہ فضیلت و کرامت کو ایک ہی مرتبے میں محدود کرتا ہے، کیونکہ گھر کا مطلب تمام اختیارات کا مرکز ہے، اور یہ مرتبہ امامؑ کا ہے، جس کی ذاتِ اقدس میں ہر چیز محدود ہے۔

 

خانۂ معمور (آباد گھر) میں جو آبادی کے معنی ہیں، وہ ربّانی آبادی ہے، انسانی آبادی نہیں، یعنی خدا کے گھر میں خدا کی تمام صفات موجود ہیں، جن کے سبب سے اللہ کا یہ مقدّس گھر آباد ہے اور جن کی وجہ سے اُس کی بادشاہی قائم ہے۔

 

آسمانِ روحانیّت و فضیلت کا یہ عالی شان گھر اللہ تعالیٰ نے خود ہی اپنے دستِ قدرت سے تعمیر کیا ہے، اس میں کسی انسان کا کوئی دخل نہیں، اور جس میں ہمیشہ کے لئے نورِ الٰہی کا چراغ روشن ہے، اور یہ فرشتوں یعنی حقیقی مومنوں کو نورانی دیدار کی لازوال دولت سے مالامال کر دینے کے لئے ہے، کیونکہ یہ صرف انہی کے لئے خاص ہے۔

 

میرے عزیز! یہ ہیں بیت المعمور سے متعلق تاویلی اسرار، یہ بھید امامؑ کے خزانے ہی میں ہوتے ہیں، اور ایسے بھیدوں کے جاننے سے روحِ مومن کو ترقی ملتی ہے، اس لئے کہ ان سے پردے کھلتے ہیں۔

 

امید ہے کہ ہمارے عزیزان ان حکمتوں کو قدردانی کے ساتھ

 

۴۹

 

قبولتے جائیں گے، تاکہ ان پر عین الیقین کے دروازے کھل جائیں اور پھر ذاتی طور پر ہر حقیقت کا مشاہدہ کر سکیں۔

 

تمام عزیزوں کو ایک بار پھر یاعلی مدد قبول ہو! ان شاء اللہ تعالیٰ اس خط سے پہلے میرے یہاں سے پاکستان کی طرف روانہ ہونے کا ٹیلیگرام آپ کوملے گا، آج ٹکٹ پر تاریخ درج ہو رہی ہے۔

فقط آپ کا عزیز سر

نصیر ہونزائی

۳۰ اپریل ۱۹۸۰ء

 

۵۰

 

درود کا ماحول

 

میرے بہت ہی عزیز، بہت ہی پیارے اور بہت ہی پسندیدہ رفیق پر دائم خداوند پاک کی رحمتیں نازل ہوتی رہیں!

 

میں “یا علی مدد” اس یقینِ کامل سے کہتا ہوں کہ اس پُرحکمت جملے میں سلام و دعا کے ہزاروں معنی پوشیدہ ہیں، میں یہ پیار کے خزانوں سے بھرپور خط صبح نورانی وقت کے بعد لکھ رہا ہوں، مولا کی ذاتِ اقدس پر امید ہے کہ اس میں علم و آگہی کی طاقتور روح سموئی ہوئی ہوگی۔

 

آپ کے دونوں پیارے پیارے خطوط جو اخلاص و محبّت کے انمول موتیوں کا ایک عظیم ذخیرہ لئے ہوئے تھے ملے اور زبردست خوشی ہوئی، اور خداوند کی عنایتوں کا شکر بجا لایا، کہ اسی کارساز نے یہ سارے وسائل مہیا کر دئے ہیں۔

 

میرے عزیز، بہت ہی پیارے! آپ نے اپنی فرشتگانہ عادت کے مطابق کتنا عالی شان خط لکھا تھا، کتنی اچھی تفصیلات تھیں! پروردگار ہمیشہ آپ پر مہربانیوں اور نوازشوں کی بارش برسائے اور میرے دوسرے عزیزوں پر بھی۔

 

۵۱

 

پیارے رفیق! ہم سب کو کتنی بڑی خوشی ہے کہ امامِ عالی مقام خانۂ حکمت اور عارف کی علمی خدمت سے راضی ہے، جس کا ثبوت اس امر سے ظاہر ہے کہ ہماری ناچیز کوششیں ہر مقام پر آگے بڑھ رہی ہیں، اور امامؑ کی معجزانہ تائید حاصل ہے۔

 

عزیزِ من! آپ میرے عزیزوں کو یہ خوشخبری سنائیے کہ “دیوانِ نصیری” کا ایک کام اللہ کی رحمت سے ختم ہوا، یعنی لاطینی حروف میں ٹائپ کر دینے کا کام، جو ماہِ فروری کی ۲۵ تاریخ کو مکمل ہوا، اب دوسرا کام چلتا ہے جو گریمر اور لیکچرز سے متعلق ہے۔

 

آپ سب کی نیک دعاؤں سے قربان ہو جاؤں، کہ مولا نے ہمارے لئے کتنے معجزات کئے ہیں، جن کی وضاحت مشکل ہے، آپ سب نے جو وہاں کام کیا ہے، اس میں بڑی رحمت ہے، ان شاء اللہ اور بھی ترقی ہوگی۔

 

مجھے مکمل یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے میرے عزیزوں پر درود بھیجتے ہیں، کیونکہ خدا نے قرآنِ حکیم میں اس سعادت کے حصول کے لئے جو شرائط بتائی ہیں وہ ہمارے عزیزوں سے پوری ہو رہی ہیں، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ قرآن کی زبان میں “درود” کو صلوات کہا جاتا ہے، اور قرآنِ پاک (۰۲: ۱۵۷) کے مطابق آسمانِ روحانیّت سے صلوات (درود) حاصل

 

۵۲

 

کرنے کی بنیادی شرط صبر ہے، اور صبر کے کئی مواقع ہیں، ان میں سے ایک اہم موقع یہ ہے کہ بندۂ مومن جماعت کی مفید خدمت کے سلسلے میں ہر قسم کی تکلیف کو صبر سے کام لے کر برداشت کرے۔

 

ذاتی اور انفرادی مصیبت کے دوران بھی صبر کا موقع ہے اور اس میں بھی صبر کا وجود بن سکتا ہے، لیکن سب سے زیادہ نتیجہ خیز اور فائدہ بخش صبر وہ ہے جو جماعتی خدمت میں اختیار کیا جاتا ہے، اور صبر کا اصل مقصد بھی یہی ہے۔

 

مطلب بڑا سادہ اور آسان ہےکہ قانونِ دین کے مطابق فرد کی راحت کے مقابلے میں ہمیشہ جماعت کی راحت کو ترجیح دی گئی ہے، لہٰذا جو دانشمند مومن اپنے جسمانی آرام و راحت کو قوم کی فلاح و صلاح کے لئے قربان کر دیتا ہے، اور اس سلسلے میں ہمیشہ ذہنی اور جسمانی دکھوں کو برداشت کرتا رہتا ہے تو یہ اس کی صفتِ صبر ہے، جس کی وجہ سے اُس پر خدا کی جانب سے درود نازل ہوگی۔

 

آیۂ کریمہ (۰۲: ۱۵۷) کے مطابق ایک طرح سے دیکھا جائے تو مسلسل خدمت کی سختی برداشت کرنا صبر کہلاتا ہے، صبر کا پھل صلوات (درود) ہے، صلوات کا میوہ رحمت ہے اور رحمت کا نتیجہ ہدایت، یعنی پروردگار کی طرف سے درود، رحمت اور ہدایت، جو اس پُرحکمت آیت میں مذکور ہیں۔

 

۵۳

 

مومن پیغمبر اور امام کے مبارک نام پر درود پڑھ کر یہ سمجھتا ہےکہ اُس نے اُن قدسی ہستیوں کو کوئی ایسا تحفہ پیش کیا جو ان کے پاس نہیں تھا، حالانکہ قرآنی حکمت کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ درود کا رخ واپس بندۂ مومن ہی کی طرف ہے، بالکل اسی طرح جیسے بہت سے مذہبی آداب خدا و رسول اور امام کے نام پر بجا لائے جاتے ہیں، مگر ان کا فائدہ صرف مومنین ہی کو پہنچتا ہے، کیونکہ نور ہمیشہ سے کامل اور مکمل ہے اور اس میں کسی اضافے کی کوئی گنجائش نہیں، صرف اتنا ہے کہ نور اپنے اوپر احسان رکھتا ہے تاکہ اس سے بندوں کی حوصلہ افزائی ہو۔

 

عوام درود کے معنی نہیں جانتے ہیں، اس لئے کہ انہوں نے معلّمِ قرآن کو چھوڑ دیا، درود جس کا قرآنی لفظ صلوات ہے اپنے اندر کافی معنوی وسعت رکھتا ہے، چنانچہ صلوات جو آسمانی ہے اور جو روحانی ہے، وہ ایک جذبے کی شکل میں ہے، وہ سب سے پہلے جذبۂ فرمانبرداری ہے، اس کا دوسرا نام توفیقِ اطاعت ہے، وہ توفیقِ عبادت ہے، وہ توفیقِ خدمت ہے اور توفیقِ علم، اس لئے کہ صلوات کے ایک لغوی معنی پیچھے پیچھے چلنے کے ہیں۔

 

حقیقی مومنین کو امامِ اقدسؑ کی جانب سے صلوات کے نتیجے میں سکونِ قلب ملتا ہے جس کا ذکر قرآن کی ۰۹: ۱۰۳  میں موجود ہے،

 

۵۴

 

زکات مالی ہو یا علمی، زکات ہی ہے، بلکہ سچ پوچھو تو بتائیں کہ علمی زکات بہت ہی اہم ہے، اس لئے کہ یہ ہمہ رس ہے اور اس لئے کہ ہمیشہ اس کی ضرورت ہے۔

 

مذکورہ آیت میں فرمایا گیا ہے کہ اے رسولؐ آپ ان کے مالوں میں سے ایک صدقہ یعنی زکات لیجئے تاکہ آپ اس وسیلے سے ان کو مالی اور جانی طور پر پاک و پاکیزہ کر سکیں، اور ان کو دعا (صلوات) دیجئے کیونکہ آپ کی دعا (صلوات) میں ان کے لئے سکونِ قلب ہے۔ چنانچہ تاویل کے مقام پر علمی زکات میں کہیں زیادہ پاکیزگی اور سکونِ قلب حاصل ہوتا ہے، جبکہ یہ علمی زکات امامؑ قبول فرماتا ہے اور صلوات دیتا ہے، یعنی بندۂ مومن پر درود نازل ہوتی ہے، جس کا اس آیت میں ذکر ہے۔

 

میں یہاں درود اور اس کے ماحول کا ذکر کر رہا ہوں، ماحول کا مطلب ہے کہ اس کے گرد و پیش کیا کیا چیزیں ہیں، سو معلوم ہوا کہ درود کا تعلق اگر ایک طرف صبر سے ہے جو جماعتی خدمت میں ہونا چاہئے تو دوسری طرف مالی اور علمی زکات سے ہے جو جماعتی خدمت کی ایک اہم شکل ہے۔

 

اب ہم اُس آیۂ کریمہ کی طرف جاتے ہیں جو درود کے بارے میں مرکزی اہمیت کی حامل ہے وہ ہے سورۂ احزاب (۳۳) آیت ۴۳ (۳۳: ۴۳)،

 

۵۵

 

جس میں فرمایا گیا ہے کہ خدا اور اس کے ملائکہ تم پر دورد نازل کرتے ہیں تاکہ اس سے تم کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لایا جایا جائے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ آسمانی درود ایک محرک طاقت ہے جو تاریکیوں سے نکل کر روشنی کی طرف آنے کا ذریعہ بن سکتی ہے، وہ جذبۂ تابعداری ہے یعنی توفیقِ اطاعت، جو علم و عمل کی ہمت ہے۔

 

آج جو مومنین جہالت و نادانی کی تاریکیوں سے نکل کر نورِ علم کی روشنی میں پرسکون مذہبی زندگی گزار رہے ہیں ان کو شکر گزار ہونا چاہئے کہ خدا اور فرشتے اُن پر مسلسل درود نازل کرتے رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ تاریکی سے ہٹ کر روشنی میں (یعنی نورِ علم میں) آگئے ہیں۔

 

شروع والی آیت پر غور کیا جائے تو پھر بھی یہی معنی ہوتے ہیں کہ خدمت اور صبر کے انجام میں درود، درود سے رحمت، رحمت سے ہدایت اور ہدایت کا مطلب حقیقی علم ہے، جیسے ارشاد ہے: یہ وہی لوگ ہیں جن پر ان کے ربّ کی طرف سے درود نازل ہوتی ہے اور رحمت اور یہی لوگ ہدایت پر ہیں (۰۲: ۱۵۷) اس میں پہلے درود کا ذکر ہے، پھر رحمت کا اور آخر میں ہدایت کا۔

 

ہم نے اپنے عزیزوں کو درود کے بارے میں بہت سی عمدہ باتیں بتائی ہیں، اور لکھ کر دیا ہے، ان تمام باتوں پر نظر رکھنا چاہئے، جب تک اُن تمام آیات پر یکجا نظر نہ ڈالی جائے اور تمام تشریحات

 

۵۶

 

کا خلاصہ نہ کیا جائے، تو ممکن ہے کہ کوئی سوال باقی رہے۔

 

خدا اور اس کے ملائکہ کی طرف سے مومنین پر درود نازل ہونے کی عالی شان تاویل یہ ہے کہ خدا کی تاویل امام ہیں کیونکہ صفاتِ خداوندی کے مظہر وہی ہیں، اور ملائکہ کی تاویل اعلیٰ سطح کے مومنین، پس آیۂ مبارکہ کا تاویلی مطلب یہ ہے کہ امام اور درجۂ اوّل کے مومنین کی دعا اور روحانی فیض عام مومنین کے لئے کام آتا ہے۔

 

شریعت اور تنزیل کے مقام پر جب فرمایا جاتا ہے کہ خداوند تعالیٰ اور فرشتے فلاں کام کرتے ہیں، تو حقیقت اور تاویل کے مقام پر یقیناً اس کا یہ مطلب ہوتا ہے، کہ وہ کام امامِ زمانؑ اور اس کے حدود کرتے ہیں۔ اسماعیلیّت کا یہ ایک عام اصول ہے کہ مومنین کی روحیں فرشتوں کی حیثیت سے ہیں۔

 

سورۂ احزاب ہی میں وہ آیت بھی ہے جس کے مطابق محمدؐ و آلِ محمدؐ کے نام پر درود پڑھی جاتی ہے، اور آیت کا ترجمہ یہ ہے: بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی (محمد) پر درود بھیجتے ہیں تو اے ایمان والو! تم بھی صلوات بھیجا کرو اور سلام کیا کرو جیسا کہ اس کا حق ہے (۳۳: ۵۶) اس کی تاویل ہے کہ امامؑ اور حدود آنحضرتؐ کی پیروی اور تابعداری کرتے ہیں تو تم بھی ایسا ہی کرو۔

 

جوحقیقتیں تاویل کے اندر پوشیدہ ہوتی ہیں، وہ بہت ہی عالی قدر

 

۵۷

 

ہوتی ہیں، اور ان میں کافی روشنی ہوتی ہے، چنانچہ صلوات کے اسرار بہت ہی اہم ہیں، جن کے جاننے میں مومن کی سعادت ہے ان شاء اللہ تعالیٰ عزیزوں کو خداوند علمی طور پر بہت آگے بڑھا دے گا۔

 

۵۸

 

قرآن اور روحِ قرآن

 

میرے انتہائی عزیز بچوں کے نام پر

 

بڑے اشتیاق اور حقیقی محبت کے جذبات سے بھرپور یاعلی مدد ہو! میں یہ پیارا سا خط گویلف سے لکھتا ہوں، جہاں میرے بہت ہی عزیز شیراز شریف اور مینا رہتے ہیں، امید ہے کہ یہ خط بھی یادگار خطوط میں سے ہوگا۔

 

ہماری عادت یہ ہوئی کہ دنیا کی باتوں کو خط میں اہمیت نہ دیں، خواہ کتنی ضروری کیوں نہ ہوں، بس علم ہی کی باتیں کریں، تا کہ مولا راضی ہو، جس میں سب کچھ ہے، چنانچہ جاننا چاہئے کہ مومن کے لئے حقیقت کا راستہ بڑا آسان اور صاف ہے، وہ یہ کہ اسلام برحق ہے جسے پیغمبرِ اکرمؐ نے دنیا والوں کے سامنے پیش کیا، اور یہ کہ قرآنِ پاک اسلام کا سب سے عظیم سرمایہ ہے، در حالے کہ امام قرآن کا نور اور روح ہے۔

 

آنحضرتؐ اپنے وقت میں قرآن کی روح تھے اور نور، اس سلسلے میں کچھ لوگوں نے نور اور روح کا مطلب نہیں سمجھا، جس کی وجہ سے وہ قرآن کی حکمتوں سے قاصر رہے۔

 

۵۹

 

روح یہاں خلاصہ، مغز، ست اور نچوڑ جیسے بے جان معنوں کے لئے نہیں، بلکہ اس سے وہ زندہ اور بولنے والی روح مراد ہے، جو خود روحانیّت اور نورانیّت کا قرآن ہے اور وہ نور بھی کہلاتا ہے، کیونکہ اسی سے قرآنِ صامت پر روشنی پڑتی ہے اور یہ روح امام میں ہے۔

 

میں قرآن و حدیث ہی کی بنیاد پر بات کرتا ہوں کہ حضرتِ ہارونؑ حضرتِ موسیٰؑ کے وزیر تھے، یعنی بوجھ بٹانے والے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ موسیٰؑ پر جو آسمانی کتاب نازل ہوئی تھی اس کی زندہ روح یا نور کے حامل ہارونؑ تھے، اسی طرح ہارونؑ موسیٰؑ کی کتاب تھے، یعنی کتابِ ناطق۔

 

ایک بہت بڑا سوال یہ کرنا ہے کہ کیا حضرتِ موسیٰؑ کے زمانے میں جو ایک ساتھ تین عظیم چیزیں تھیں، یعنی رسول، آسمانی کتاب اور وزیر، وہ سنتِ الٰہی کے مطابق ایک امر تھا یا اس کے خلاف؟ اگر کہا جائے کہ دین کی بنیادی بات جو رسالت ہے وہ خلافِ سنتِ الٰہی کس طرح واقع ہو سکتی ہے، تو پھر ماننا پڑے گا کہ ہر دور میں پیغمبر کے ساتھ ساتھ امام بھی ہوا کرتا ہے، اور اگر کہا جائے کہ پیغمبر کے ساتھ وزیر کا ہونا صرف موسیٰؑ کے لئے خاص ہے، تو پھر یہ نظریہ اُس حکمِ قرآنی سے متصادم ہو گیا، جس میں فرمایا گیا ہے کہ خدا کی عادت جو

 

۶۰

 

رسولوں کو بھیجنے سے متعلق ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔

 

موسیٰؑ اور ہارونؑ کے قصّۂ قرآن میں محمدؐ و علیؑ کی میٹھی میٹھی تاویلی باتیں ہیں، ایسی باتیں جن میں امامت کے بھید پوشیدہ ہیں، یہ بھید ایسے عظیم ہیں کہ ان کے جاننے سے مومن کو سکون ملتا ہے۔

 

حضرت ہارونؑ حضرت موسیٰؑ کے وزیر تھے، اس سے کوئی شخص قرآن کو مانتے ہوئے انکار نہیں کر سکتا ہے، مگر ہر شخص یہ نہیں بتا سکتا ہے کہ یہ وزارت کس نوعیت کی تھی؟ کیونکہ اس کے بارے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ صرف حکمت کی زبان میں ہے اور حکمت عوام نہیں سمجھتے ہیں۔

 

مرتبۂ امامت ہمیشہ سے مرتبۂ نبوّت کی وزارت ہے، سو امامت خدا و رسول کی خلافت اور نمائندگی ہے، لہٰذا امام کی ذاتِ اقدس میں اللہ اور اس کے رسولِ پاکؐ کے اسرار پوشیدہ ہیں، اور قرآن کی روح و روحانیّت بھی انہی بھیدوں میں سے ہے۔

 

اس سلسلے میں سب سے بڑا راز یہ ہے کہ یہ وزارت روح اور نور کی کیفیت میں چلتی ہے، اور میں نے اس مختصر سی بات میں بہت سے بھید بتا دئے بشرطیکہ کوئی میری زبان سمجھتا ہو، میرے لفظوں سے باخبر ہو اور میرے نظریہ کو جانتا ہو۔

 

اے کاش لوگ قرآن کو جانتے! اے کاش وزیرِ رسول کو پہچانتے!

 

۶۱

 

اے کاش علم و حکمت کے دروازے کو سمجھتے! اے کاش وہ تاویل سے باخبر ہوتے! اے کاش وہ معرفت رکھتے! اے کاش روحانیّت عام ہوتی! اے کاش نور کی پہچان ہوتی! اے کاش خدا کی رسی کو تھام لیتے! اے کاش کتابِ ناطق کے لئے اقرار کرتے! اے کاش انسانِ کامل سے آگاہ ہوتے! اے کاش خلیفۂ خدا کے دامن کو پکڑ لیتے! اور اے کاش امامِ وقت سے محبت کرتے!

 

فقط بہت سی دعاؤں کے ساتھ

آپ کا علمی خادم

نصیر ہونزائی

۳۰ اپریل ۱۹۸۰ء

 

۶۲

 

علمی اور روحانی رشتہ

 

میرے بہت ہی پسندیدہ اور پیارے پیارے علمی بچوں کے نام پر

 

مولا علی دونوں جہان کا شاہنشاہ آپ سب عزیزوں کی معجزاتی مدد کرتا رہے! اس کی پُرحکمت مدد مکمل فرمانبرداری کی صورت میں حاصل ہوتی رہے، ذکر و عبادت اور علم و عمل کے ہر موقع پر اس کی روحانی مدد و دستگیری کرے! آمین!!

 

عزیزانِ من! آج نہ معلوم میری روحانی مسرتوں میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے، خدا جانے میں اتنا شادمان ہوں تو کس وجہ سے، میری روح اتنی خرسند کس لئے ہے، یہ مولا کی عنایت، مولا پاک کی کوئی عظیم رحمت کے سوا اور کیا چیز ہو سکتی ہے، کیونکہ خداوند کی رحمت کے بغیر دنیا کی کوئی چیز یہ خوشی نہیں دے سکتی ہے۔

 

میرے پیارے بچے میرے خداوند کی عظیم عظیم رحمتوں میں سے ہیں، آپ قرآن میں دیکھیں کہ علمی اولاد رحمتِ خداوندی ہے یا نہیں؟ آپ شاید تعجب سے پوچھنا چاہیں گے کہ قرآن میں یہ اصطلاح کہاں ہے؟ ارے میری آنکھوں کے تارو! آپ حکمت کی عینک لگا

 

۶۳

 

کر دیکھیں تو سہی، یا میری آنکھوں سے دیکھیں، علم اور روحانیّت کے بارے میں آپ مجھ سے آنکھوں کا کام لیں۔

 

انبیائے قرآن کے پُرحکمت قصّوں کو پڑھیں اور سنیں، ہمارے مہربان خداوند نے تاویل کا سب سے آسان حصہ ان قصّوں میں رکھا ہے، اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو امام کی ہدایت کی روشنی میں اساس التاویل کی کتاب نہ بنتی جو صرف انبیاء کے قصّوں پر مشتمل ہے، آپ قرآنی قصّوں کو ضرور یاد کریں، تاکہ ان سے بہت سی حکمتیں حاصل ہوسکیں۔

 

ان قصّوں میں پیغمبروں کی اولاد کا ذکر بھی آپ کو ملے گا، اور پھر پیغمبر زادوں کے لازماً دو دو پہلو تھے، جسمانی اور روحانی، اور پھر آپ دیکھیں گے کہ اگر کسی نبی کا کوئی فرزند اپنے باپ کے دینی اور روحانی مرتبے کو قبول نہیں کرتا ہے تو اس کا جسمانی رشتہ بے کار ہو جاتا تھا، اس کے صاف صاف معنی یہ ہوئے کہ قرآن میں جہاں کسی پیغمبر کی اولاد کو اگر رحمت قرار دیا گیا ہے تو وہ صرف دین اور علم کے کام کرنے کی بنیاد پر ہے، اور چونکہ انبیاء نمونۂ عمل ہیں لہٰذا ان کی اولاد کے تذکروں میں ہمارے لئے بہت کچھ نصیحت ہے، اور اس نصیحت کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں علمی اولاد کی حوصلہ افزائی اور تعریف ہے، اور دینی و علمی رشتے کی تصدیق ہے،

 

۶۴

 

جیسے حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا کہ جو میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے (۱۴: ۳۶) یعنی جو میرا شاگرد یا مرید ہے اور میرے علم کو قبول کرتا ہے تو وہ روح کے رشتے میں میرے اسماعیلؑ اور اسحاقؑ کی طرح ہے۔

 

یہ بات صرف ابراہیمؑ کی نہیں ہے بلکہ تمام انبیاء میں مشترک ہے، آپ حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں کے قصّے میں سوچ کے ذرا ایک دوسرے کی مدد کرنا، نیز یہ سوچنا کہ نوحؑ کے بیٹے نے جو باپ سے رشتہ توڑا وہ کس طرح ممکن ہوا؟ یہ تو منفی پہلو ہے اور اس کا مثبت پہلو کیا ہے؟ کیا یہ بات بالکل صحیح ہے کہ حضرت نوحؑ کا نافرمان بیٹا اور سلمان فارسی مرکزِ نور سے رشتہ توڑنے اور جوڑنے کا نمونہ ہیں، کہ ایک نے توڑ دیا اور دوسرے نے جوڑ لیا؟ آپ علم و حکمت کی خاطر اس میں بھی ذرا سوچیں۔

 

اب میں علم کی کوئی دوسری بات بتانا چاہتا ہوں، کیونکہ مجھے اپنے بچوں سے باتیں کرنے میں بڑا مزہ ہے، سو میرے بہت ہی پیارے بچو! یاد رہے کہ حقیقی علم جو امام کے نور سے ملتا ہے وہ حضرت موسیٰؑ کی لاٹھی کی طرح معجزانہ ہے کہ وہ اژدہا بن جاتی تھی، چنانچہ امام ہی کا روحانی علم ہے جو اژدہے کی طرح سارے سوالات کو معجزاتی طور پر نگل لیتا ہے، یعنی سارے سوالات ختم ہو جاتے ہیں۔

 

میرے عزیز بچو! یہ بات یاد رکھنا کہ اگر قرآنِ حکیم کی تشریح خدا و رسول کی خوشنودی کے مطابق ہے تو وہ بھی روحانی اور حقیقی علم

 

۶۵

 

ہے، اور وہ یہ کہ امامِ زمانؑ کے نور کی روشنی میں قرآن کے علم و حکمت کو حاصل کیا جائے۔

 

یہ بات بھی ضروری طور پر یاد رہے کہ “سنتِ رسول” سنتِ خدا کے مطابق ہے، کیونکہ اس سلسلے میں سب سے پہلے قرآن میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ خدا کی کوئی سنت ہے یا نہیں، اور اگر خدا کی کوئی سنت ہے تو پھر رسول کی سنت اللہ کی سنت سے کس طرح مختلف ہو سکتی ہے، جبکہ خداوند تعالیٰ نے اپنی سنت کی تعریف (شناخت) کے لئے آنحضرتؐ سے قبل کے زمانے کا حوالہ دیا ہے اور حضورؐ کے زمانے کو اسی کا نمونہ قرار دیا ہے، اور اشارہ یہ ہے آئندہ بھی خدا کی یہ سنت قائم رہے گی، یعنی کوئی زمانہ ہادیٔ برحق کے بغیر نہ ہوگا، پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا اپنی سنت میں ہادیٔ برحق کے وجود کو ثابت کرے اور پیغمبر کسی اور چیز کو۔

 

جب آنحضرتؐ دنیا میں تشریف رکھتے تھے، تو اُس وقت حضورؐ کی زندہ سنت کیا تھی؟ آپؐ ہی اپنے نور کے ساتھ اپنی سنت تھے، اور آپؐ کے بعد آپؐ کا برحق جانشین خدا و رسولؐ کی وہی زندہ سنت تھے، خدا نے کب فرمایا کہ رسولِ عربیؐ کے بعد اس کی سنت و عادت میں وہ تبدیلی آنے والی ہے جو اس سے پہلے کبھی یہ تبدیلی نہیں آئی تھی۔ ہمیں اپنوں کو یہ موضوع اچھی طرح سمجھا دینا ہے اس لئے یہ بہت ہی ضروری ہے کہ آپ سنتِ الٰہی سے متعلق آیات کا خوب مطالعہ کر کے

 

۶۶

 

عملی طور پر پریکٹس کریں، اور یہ سوچیں کہ آیا یہ ممکن ہے کہ خدا کی سنت اور ہو، اور اس کے پیغمبر کی سنت اور؟ یا یہ ممکن ہے کہ رسول کی سنت خدا کی سنت کی تشریح کی حیثیت سے ہو؟

 

میرا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عادت و سنت کا مرکز اپنے اپنے وقت میں انبیاء تھے اسی طرح آنحضورؐ اپنی نبوّت کے زمانے میں خدا کی سنت تھے اور رسولؐ کے بعد ہر زمانے میں امامِ وقتؑ خدا اور رسولؐ کی پاک سنت ہیں۔

 

مجھے امید ہے کہ آپ ان باتوں پر غور کریں گے، ان کو اہمیت دیں گے اور ان سے فائدہ اٹھائیں گے، تب ہی میری ساری مشقت  راحت بن جائے گی۔ الحمد للہ۔

 

“دیوانِ نصیری”  لاطینی حروف میں یونیورسٹی کو بڑی کامیابی کے ساتھ پیش ہوا ہے مبارک ہو! حسنِ کارکردگی کا ایک یا دو بڑے عالی شان خط بھی مل رہے ہیں وہ اپنے ساتھ لاؤں گا، “دیوان” پر خانۂ حکمت کا پیارا نام درج ہے، ایک کتاب آپ کے ریکارڈ اور نمائش کے لئے لا رہا ہوں، جس نمائش کے لئے ہم کبھی سوچ رہے تھے وہ اب بہت کامیابی کے ساتھ کریں گے، ہو سکتا ہے کہ ہم نقوشِ حکمت وغیرہ کی نمائش کراچی کے علاوہ ہونزہ، گلگت، سکردو، مسگر وغیرہ میں بھی کریں۔

 

فقط بہت سی دعاؤں کے ساتھ

نصیر ہونزائی

 

۶۷

علمی بہار

علمی بہار

خزینۂ خزائن کیا ہے؟

اس سوال کا جواب صرف ایک ہی ہے، مگر مثالیں الگ الگ ہیں، جیسے: خزینۂ خزائن ایک زندہ کتاب ہے (۷۸: ۲۹)، وہ لوحِ محفوظ ہے (۳۶: ۱۲) ، وہی امامِ مبین ہے (۳۶: ۱۲) وہ حظیرۃ القدس ہے، وہ بہشت ہے، وہ مرتبۂ عقل ہے، وہ مقامِ ازل و ابد ہے، وہ منزلِ فنا ہے، وہ معراجِ عقلانی ہے، وہ عرشِ اعلیٰ ہے، وہ کرسیٔ خدا ہے، وہ اللہ کا نورانی گھر ہے، وہ نفسِ واحدہ ہے، وہ آدمِ زمانؑ ہے، وغیرہ۔

 

میں علم کا یہ صندوقچہ جس میں حکمت کی کلیدیں ہیں، جناب انور راجپاری اور ان کی نیک بخت فیملی کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، ان شاء اللہ یہ قیمتی تحفہ ان کے حق میں مفید ثابت ہوگا، آمین!!

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی ، ۲۴۔ ۲۔ ۹۴۔

۳

 

پیش لفظ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ یہ قرآنِ عظیم کی آیۂ مبارکہ و مفتاح بھی ہے، خداوندِ سبوح و قدوس کا اسمِ اکبر بھی، یہ اس اوّل الاوّلین کے رحمت آگین اسماء بھی ہیں، اور مہر و محبت والے کلماتِ عالیہ بھی، اس لانہایت بابرکت آیت کے چار کلمے یہ ہیں: بسم ، اللہ، الرحمٰن، الرحیم، اس کے ۱۹ حروف یہ ہیں: ب، س، م، ا، ل، ل، ھ، ا، ل، ر، ح، م، ن، ا، ل، ر،ح، ی، م، دو کھڑے زبر اس عدد میں شامل نہیں، تسمیہ کے ۹ پارے ہیں، اس طرح: بسم، ا، للہ، ا، لر، حمن، ا، لر، حیم، اس کے اساسی حروف دس ہیں: ب، س، م، ا، ل، ھ، ر، ح، ن، ی، ان میں سے پانچ غیر مکرر ہیں، وہ یہ ہیں: ب، س، ھ، ن، ی، اور پانچ حروف مکرر ہیں: م، ا، ل، ر، ح، اس کی تاویلی حکمت کتابِ وجہِ دین گفتار یا کلام ۱۴ میں دیکھ لیں۔

 

اسلام میں عملی اور علمی دو قسم کی عبادات ہیں، اور دونوں ضروری ہیں، تاہم کسی شک کے بغیر علمی عبادت افضل ہے، اور اس نکتے میں  دانشمندوں کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا، کیونکہ قرآنِ حکیم شروع سے لے کر آخر تک نہ صرف جہالت و نادانی کی مذمت اور علم و حکمت کی تعریف کر رہا

۷

ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اہلِ یقین کے لئے فعلاً عقل و دانش کی روشنی بھی پھیلا رہا ہے، پس اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ علمی عبادت کی بہت بڑی فضیلت ہے۔

 

اے کاش! ہم عاجز بندوں سے خداوندِ قدوس کے عظیم احسانات کا شکر ادا ہوسکتا، جیسا کہ اس کا حق ہے، کاش! ہم عاشقانہ و عارفانہ گریہ و زاری اور مناجات کر سکتے، اور اپنی خودی کو مٹاتے ہوئے سجدۂ عشق سے دیر دیر تک سر نہ اٹھاتے، تا آنکہ دل و جان میں جانِ جان کی کوئی تجلّی ہو، تجلّی کیسی؟ کس چیز کی؟ توفیق کی، تائید کی ، نورانی ہدایت کی، علم وحکمت کی، امید و یقین کی، اور دیدارِ اقدس کی۔

 

عزیز بھائیو، بہنو، اور دوستو! یہ ایک اور چھوٹی سی کتاب “درسِ مکرر” کے نام سے آپ کے سامنے ہے، امامِ برحق علیہ السّلام کی نورانی ہدایات کی برکت سے ان چھوٹی چھوٹی کتابوں میں جو علم و حکمت کے خزائن ہیں، وہ بازار سے ملنے والی بڑی بڑی کتابوں میں نہیں ہیں، لیکن یہ لازوال دولت ہماری ناچیز کوشش کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس کا اصل سبب ولیٔ امر کا باطنی پروگرام ہے۔

 

عالمِ شخصی کی برکتیں:

ہمارے بکھرے ہوئے تفکرات و تصوّرات کی یکجائی و مرکزیت اس امر میں ہے کہ ہم عالمِ شخصی کے قائل ہو جائیں، کیونکہ اس کے سوا حصولِ  علم و معرفت ممکن ہی نہیں ، آپ حضرتِ مولا علی صلواۃ اللہ علیہ کے اس ارشادِ گرامی میں خوب

۸

غور کرکے بتائیں کہ آیا گنجِ معرفت اور کنزِ مخفی انسان کی ذات یا روح سے باہر کہیں مل سکتا ہے؟ مولا کا وہ مبارک ارشاد یہ ہے:

من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ = جس نے اپنی ذات (روح) کو پہچان لیا، یقیناً اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ ہر چند کہ اس فرمانِ اقدس کے پُرحکمت الفاظ صرف چھ ہیں، لیکن عقلاء و عرفاء کے نزدیک اس کی تفسیر و توضیح چھ ہزار صفحات پر محیط ہوسکتی ہے، کیونکہ اگرچہ عارف کا روحانی سفر بوسیلۂ نور برق رفتاری سے ہو سکتا ہے، تاہم اصل مسافت پچاس ہزار برس کی ہے۔

 

اس بابرکت ارشاد میں “نفسہ” سے کیا مراد ہے؟ اپنی جان، اپنی روح، اپنی ذات، اپنی انائے علوی، جانِ جان، یعنی جانان، جو اپنی حقیقت اور مونوریالٹی ہے، یہی حقیقتِ واحدہ ہے، یہی روحِ اعظم ، اور یہی نفسِ کلّ، اور یہ دعوت اسی کی ہے:

یا بن آدم اطعنی اجعلک مثلی حیا۔۔۔ اے ابنِ آدم! میری فرمانبرداری کر، تاکہ میں تجھ کو ایسا زندۂ جاوید بناؤں گا کہ تو کبھی نہ مرے اور ایسا معزز کہ تو کبھی ذلیل نہ ہو جائے اور ایسا غنی کہ تو کبھی مفلس نہ ہو جائے (زاد المسافرین، ص ۱۸۳، اور المجالس المؤیدیہ، المائدۃ الاولی، ص ۵۵)۔

 

دوستانِ عزیز! یہ نورانی خطاب فرداً فرداً آپ ہی سے ہے، کیونکہ آپ ہی آدمِ زمان صلواۃ اللہ علیہ و سلامہ کی نورانی اولاد ہیں، اور اسی آدم کا رشتہ تازہ بتازہ نو بنو ہے، آپ نے قرآنِ پاک میں دیکھا اور سوچا ہوگا کہ ہر عصری قیامت میں اگلا روحانی رشتہ ختم ہو جاتا ہے، اور نیا رشتہ شروع ہو جاتا

۹

ہے (۲۳: ۱۰۱،  ۳۶: ۵۱) یہ بہت بڑا راز اسرارِ قیامت میں سے ہے۔

حدیثِ قدسی:

کنت کنزاً کا سب سے بڑا خزانہ بھی عالمِ شخصی ہی میں مخفی ہے، جس وقت کسی عارف کی روحانی اور عقلانی تخلیق مکمل ہوجاتی ہے، اسی وقت وہ پاک خزانہ (جس میں سب کچھ ہے) عارف کو بحیثیتِ انائے علوی مل جاتا ہے، یہ ہوا معرفت اور انعامِ معرفت کی غرض سے فرداً فرداً عرفاء کو خلق کرنا، یعنی ایک ایک کرکے عارفوں کو پیدا کرنا، کیونکہ جب لوگ جسماً بیک وقت پیدا نہیں ہوتے تو روحاً و عقلاً بھی دفعۃً پیدا نہیں ہوتے، اور نہ ہی خدا کے حضور سب ایک ساتھ جا سکتے ہیں (۰۶: ۹۴) آپ اس حدیثِ قدسی میں دوبارہ غور کریں کہ خلق کا ذکر ہے، خلائق کا نہیں، مگر یہ بات الگ ہے کہ ایک میں بحدِّ قوّت سب ہوتے ہیں۔

 

جب آپ عالمِ خیال میں طوفانی روشنیوں کو دیکھنے لگتے ہیں تو یہ آپ کا روحانی جنم نہیں ہے، روحانی جنم اس وقت ہے، جبکہ آپ عزرائیلی عمل سے فارغ ہو جاتے ہیں، اور آپ کے حواسِ باطن کام کرنے لگتے ہیں، اور عقلی جنم کافی وقت کے بعد بڑی بلندی پر ہوتا ہے۔۔۔ جو کاملین کی جائے پیدائش ہے، جہاں حضرت عیسیٰؑ پیدا ہوئے تھے، جہاں کا مشرق و مغرب ایک ہی ہے۔

۱۰

 

عالمِ شخصی اور نورِ عقل:

یہ قانون خوب یاد رہے کہ عالمِ شخصی تین چھوٹے چھوٹے ادوار میں مکمل ہو جاتا ہے، سب سے پہلے شخصِ کامل کی جسمانی پیدائش اور جسمانی دور ہے، اس کے بعد روحانی جنم اور روحانی دور چلتا ہے، اور آخر میں عقلی جنم کے بعد عقلی دور کا آغاز ہو جاتا ہے، چونکہ اللہ تعالیٰ نے عقل کو تمام مخلوقات پر کرامت و فضیلت بخشی ہے، اس اعتبار سے حقیقی زندگی عقل ہی سے شروع ہو جاتی ہے، اور اس مقام کے بارے میں ایک اصطلاح ہے: “موجود بحق۔” یعنی حقیقی معنوں میں پیدا شدہ، کیونکہ اس سے پیشتر عالمِ شخصی پر کلمۂ کُنۡ (ہو جا) کا اطلاق نہیں ہو سکتا ہے، چنانچہ حضرتِ امام محمد الباقرعلیہ السّلام سے روایت کی گئی ہے:

لما خلق اللہ العقل استنطقہ ثم قال لہ: اقبل فاقبل ثم قال لہ: ادبر فادبر ثم قال لہ: و عزتی و جلالی ما خلقت خلقاً ھو احب الی منک و لا اکملتک الا فی من احب ، اما انی ایاک آمر، و ایاک انھی و ایاک اعاقب، و ایاک اثیب = جب اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا تو اسے بولنے (اور احساس و ادراک) کی قوّت بخشی اور فرمایا: آگے آ تو وہ آگے آئی، پھر اسے فرمایا: پیچھے جا تو وہ پیچھے گئی، پس اس سے فرمایا: میری عزّت و بزرگی کی قسم! میں نے کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی ہے جو مجھے تجھ سے زیادہ محبوب ہو، اور نہ میں نے سوائے محبوب کے کسی اور میں تجھے مکمل کیا، لیکن میرے امر و نہی اور ثواب و عقاب کا تعلق تجھ ہی سے ہوگا۔

۱۱

 

یہ عالمِ دین بھی ہے اور عالمِ شخصی بھی، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس سے قبل سب کچھ نہ تھا، اور یہ عقل کائنات و موجودات کی ابتدائی چیز تھی، ایسا ہرگز نہیں، کیونکہ اللہ جلّ جلالہ اپنی ذات و صفات میں قدیم ہے، اس لئے اس کی سنت بھی قدیم ہے، جس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، اور نہ کبھی ہوگی، اور ہر روز اس کی ایک نئی شان مخلوق کی نسبت سے ہوتی ہے، جس کے لئے ہمیشہ ہمیشہ مخلوق کا ہونا لازمی ہے۔

 

کائنات اور اہلِ معرفت:

سورۂ ذاریات کے اس ارشاد میں غور کریں: وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ  وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) اور زمین میں اہلِ یقین (اہلِ معرفت) کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں، اور خود تمہارے نفوس میں بھی ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے ہو؟

 

الارض = زمین، کائنات، نفسِ کلّ، اساس، ان میں جو بے شمار نشانیاں ہیں، وہ سب کی سب عالمِ شخصی میں بھی ہیں، تاکہ مومنین و مومنات کے لئے ان کی ذات ہی میں ہرگونہ اسبابِ معرفت مہیا رہیں، مثلاً زمین پر اجتماعی ہدایت کے لئے اللہ کی دو بہت بڑی نشانیاں قرآن اور امامِ زمانؑ موجود ہیں، اور عالمِ شخصی میں بھی انفرادی ہدایت کے واسطے ان کو حاضر رہنا ہی ہے، لیکن ظاہراً قرآن ایک کتاب اور امامؑ ایک شخصیت ہے، اس لئے یہ دونوں الگ الگ ہیں، اور روحانیّت میں وہ بھی نور ہے،

۱۲

اور یہ بھی نور ہے، پس نورٌعلیٰ نور کے قانون کے مطابق دونوں کی وحدت کا ایک ہی نور ہے۔

عہدِ الست کا تجدّد:

اگر آپ اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ آدمِ سراندیبی سے قبل بھی لاتعداد آدموں کے ادوار گزر چکے ہیں تو پھر عہدِ الست کیونکر ایک دفعہ کا روحانی واقعہ ہوسکتا ہے؟ اگر کوئی شخص ایک ہی آدم کا نظریہ رکھتا ہو تو پھر بھی یہ حقیقت اپنی جگہ پر قائم و روشن ہے کہ ہر نبی، ہر ولی (امام) ، ہر باب، ہر حجّت وغیرہ کے عالمِ شخصی میں الست بربّکم= کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ (۰۷: ۱۷۲) فرمایا جاتا ہے، چونکہ یہ ایک ہی نوعیت کا واقعہ ہے جو مختلف زمانوں میں دہرایا جاتا ہے، اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ عہدِ الست کا تجدّد ہوتا رہتا ہے، کیونکہ یہ اسرار بنی آدم سے متعلق ہیں، اور بنی آدم حقیقی معنوں میں کاملین ہیں، جو تمام زمانوں میں ہوتے ہیں۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

ن۔ن۔(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات، ۳ ذیقعدہ ۱۴۱۴ھ ، ۱۲ مئی ۱۹۹۴ء

۱۳

 

روحانی بہار

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ وَاللّٰهُ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰهُ اِلٰى بَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَحْیَیْنَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاؕ-كَذٰلِكَ النُّشُوْرُ= اور خدا ہی وہ (قادر و توانا) ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو ہوائیں بادلوں کو اڑائے اڑائے پھرتی ہیں، پھر ہم اُس بادل کو مردہ (افتادہ) شہر کی طرف ہنکا دیتے ہیں، پھر ہم اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کے مر جانے کے بعد زندہ کر دیتے ہیں۔ یوں ہی (مردوں کو قیامت میں) جی اٹھنا ہو گا (۳۵: ۰۹)۔

 

اس آیۂ کریمہ کا ظاہری پہلو آپ کے سامنے ہے، لیکن باطنی پہلو جس میں گہری حکمت موجود ہے، وہ پوشیدہ ہے، وہ یوں کہ جس طرح مادّی بہار کے لئے ذرائع ہیں، جیسے ، سورج، ہوا، بادل، بارش، وغیرہ، ایسے ہی روحانی بہار کے واسطے بھی وسائل ہیں، وہ نور، روح الایمان، غمِ عشق، اور گریہ و زاری ہے، جس سے عالمِ شخصی کا مرا ہوا شہر زندہ ہو جاتا ہے، یعنی جب حقیقی مومن میں عقیدۂ نور سورج کی طرح کام کرنے لگتا ہے، ایمانی روح ہواؤں کی طرح حرکت میں آتی ہے، غمِ عشق کے بادل چھائے ہوئے ہوتے ہیں، اور شوقِ دیدار کی گریہ و زاری کی عادت ہوتی ہے تو اس وقت

۱۴

روحانی بہار کی آمد آمد ہوتی ہے۔

 

اس کتاب کا نام درسِ مکرّر رکھا گیا تھا، تاہم ہمارے عزیز و محترم صدر فتح علی حبیب کسی اور پُرکشش نام کو چاہتے تھے، لہٰذا مذکورہ آیۂ پاک سے استخراج کرکے اس کا دوسرا نام “علمی بہار” مقرر کرتے ہیں، جس کی وجہ مخفی نہیں۔ جناب صدر فتح علی حبیب، ان کی رفیقۂ حیات گل شکر ایڈوائزر، اور ان کے پیارے بچوں کی سعادت مندی پر ارواح و ملائکہ رشک کرتے ہوں گے، کیونکہ ان کے بابرکت گھر میں جس طرح حقیقی علم کی خدمت کی جاتی ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، پُرسوز قلبی دعا ہے کہ تمام علمی دوستوں اور جملہ مومنین کو خداوندِ عالم دونوں جہان کی کامیابی اور سربلندی سے نوازے! آمین!

ن۔ ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

ہفتہ ، ۲ ذوالحجہ ۱۴۱۴ھ، ۱۴ مئی ۱۹۹۴ء

۱۵

 

شبِ قدر اور ایک وفات

 

۱۔ شبِ قدر کی تنزیلی و تاویلی دہری اہمیّت و فضیلت ہے، کیونکہ وہ ظاہر میں ماہِ رمضان کی سب سے افضل رات ہے، جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے، اور باطن میں حجّتِ قائم (علینا منہ السّلام) ہے، جس میں صاحبِ قیامت اور جملہ اسرارِ قیامت پوشیدہ ہیں، چنانچہ جس کو حجّتِ قائم (ع۔م۔س) کی معرفت حاصل ہو جائے، اس کو حضرتِ قائمؑ اور قیامت کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے، اور گنجِ اسرارِ مخفی اسی بندۂ مومن کے نام پر یا ایسے مومنین و مومنات کے نام پر ہو جاتا ہے۔

 

۲۔ آپ تمام عزیزوں کے لئے ازحد ضروری ہے کہ سورۂ قدر (۹۷: ۰۱ تا ۰۵) کو بغور بار بار پڑھیں، اور اس کی تاویل کتابِ “وجہِ دین” میں دیکھیں، خاص کر گفتار سی و سوم (۳۳) میں ، جس کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ حضرتِ قائم القیامت کی شناخت نہیں ہو سکتی ہے، مگر پانچ حدود کے توسط سے، جیسے اساس، امام، باب، حجت، اور داعی۔

 

۳۔ خدا کے بارے میں ہمیشہ حسنِ ظن سے کام لینا بڑی دانشمندی ہے، چنانچہ ہم یہ کہیں گے کہ: عائشہ بیگم (علامہ نصیر الدین کی اہلیہ) پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہوئی کہ عرصۂ دراز تک بیماری کی بندگی ،

۱۶

 

ریاضت اور آزمائش کے بعد دارالفناء سے دار البقاء کی طرف اٹھا لی گئیں، زہے نصیب کہ اس نیک بخت کی وفات یومِ شنبہ ۲۳ رمضان المبارک (۱۴۱۴ھ) ، ۵ مارچ (۱۹۹۴ء) کو ہوئی، جب کہ تدفین کے چند گھنٹے بعد آفتابِ عالم تاب لیلۃ القدر کی مبارک رات کے لئے غروب ہوا، اور یہ بڑا عجیب حسنِ اتفاق یا پُرحکمت موت کا پروگرام تھا کہ شبِ قدر کی تاویل ہے، حجّتِ قائم، اور سنیچر کی تاویل ہے، حضرتِ قائم اور اس کا اشارہ یقیناً یہی ہے کہ ان کے گھر میں حجّت اور قائم علیہما السّلام کی شناخت ہے۔

 

۴۔ محترمہ عائشہ بیگم (مرحومہ) کا پدری نسب اس طرح ہے: عائشہ بیگم بنتِ اسد اللہ بیگ (عرف بلبل) ابنِ محمد رضا بیگ فراج ابنِ وزیر اسد اللہ بیگ ابنِ وزیر پونو، اور مادری شجرہ یہ ہے: عائشہ بیگم بنتِ تائفہ بانو بنتِ ترنگفہ سلطان محمود ابنِ غلامو ابنِ سلطان بیگ ابنِ خوش بیگ ابنِ جٹوری۔

 

۵۔ عائشہ بیگم کی پیدائش کا سال ۱۹۲۲ء ہے، تقریباً سات سال کی عمر میں وہ میرے نکاح میں لائی گئی تھیں، اور میں شاید اس وقت بارہ برس کا لڑکا تھا، بڑی عجیب بات ہے کہ ایسی نوعمری میں یہ شادی ہوئی، اس کی وجہ البتہ یہی ہے کہ میرے والدین کسی اچھے خاندان سے اپنی بہو کا انتخاب کرنا چاہتے تھے۔

۱۷

 

۶۔ میری رفیقۂ حیات عائشہ بیگم (مرحومہ) ہونزہ کی ان عالی ہمت خواتین میں سے تھیں، جو جذبۂ جان نثاری اور کامل وفاداری سے لوگوں کو ورطۂ حیرت میں ڈالتی ہیں، جبکہ ان کے شوہر عرصۂ دراز تک وطن سے دور کہیں ہوتے ہیں، ہونزہ میں اس کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔

 

۷۔ میں نے اس واقعہ کو بہت غور سے سنا ہے، اور میں تصدیق کرتا ہوں کہ عائشہ بیگم کو کبھی کبھی نورانی خواب میں ایک باجلالت و با کرامت بزرگ کا دیدار ہوا کرتا تھا، میری تحقیق کے مطابق وہ نورِ امامت کی ایک تجلّی ہوا کرتی تھی، لیکن میں اس معجزے کی بہت کم تعریف کرتا تھا، تاکہ بیگم غرور کا شکار نہ ہو جائیں، ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں یارقند (چین) میں تھا کہ عائشہ بیگم میرے متعلق لوگوں کی باتوں سے بہت مغموم ہو رہی تھیں، اندران حال انہوں نے خواب میں اپنے بزرگ کو دیکھا، جو فرما رہے تھے: “بیٹی! تم ہرگز غمگین اور مایوس مت ہو جاؤ، میرا بیٹا میرے دامنِ اقدس کے نیچے محفوظ و سلامت ہے، اور وہ آج سے تین مہینے کے بعد آنے والا ہے، تم کسی غریب عورت کو تین روز اپنا کھانا دینا۔” انہوں نے بزرگ کی ہدایت پر عمل کیا، اور یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔

 

۸۔ عائشہ بیگم نے زمانۂ غریبی کو دیکھ لیا تھا، اس لئے جب ہماری مالی حالت کچھ بہتر ہوگئی تو آپ اپنی عادت کے مطابق گاہ و بے گاہ سخاوت کا مظاہرہ کرتی تھیں، یہاں تک کہ بعض دفعہ گھر کے استعمال کی

۱۸

کوئی ضروری چیز بھی کسی حاجت مند کو دینے سے دریغ نہیں کرتیں۔

 

۹۔ مرحومہ بڑی حد تک مذہبی ہونے کی وجہ سے جماعت خانہ اور روحانی مجلس کی شیدائی اور امامِ عالی مقام علیہ السّلام کی منظومہ تعریف سننے کی دلدادہ تھیں، ان کے دل کو جوان سال فرزند (ایثار علی) کی اچانک موت نے مجروح اور بہت نرم بنا دیا تھا، بنا برین ذکر و مناجات کی محفل میں ان کی بہت گریہ و زاری ہوا کرتی تھی، بے شک دلِ مجروح کی مناجات حضرتِ قاضی الحاجات کو پسند آتی ہے، اور ہر مصیبت میں رجوع الی اللہ کی یہی حکمت و مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔

 

۱۰۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہر نیک عورت اپنے بچوں سے بہت زیادہ مادرانہ محبت رکھتی ہے، اسی طرح عائشہ بیگم اپنی ہر اولاد کو جانِ عزیز سے بھی زیادہ عزیز رکھتی تھیں، لیکن تعجب اس چیز میں ہے کہ وہ سیف سلمان خان کو بھی بڑی شدت سے چاہتی تھیں، ان کا سچے دل سے یہ کہنا تھا کہ آپ بے شک خدا کے دوست ہیں، لہٰذا یہ اسی کی توفیق اور حکمت تھی کہ آپ نے یارقند کی سخت مسافرت اور محبوس زندگی میں دوسری شادی کا سہارا لیا، جس کا میوۂ شیرین آج ہمارے لئے ایثار علی کی جگہ پر سیف سلمان خان ہے، اور ہر وقت ان کا یہی اصرار ہوتا تھا کہ سلمان کو یہاں لائیں، چنانچہ خوش بختی سے گزشتہ سال سلمان مختصر وقت کے لئے پاکستان آیا، اور اس نے اپنی بیمار ماں کی پہلی اور آخری

۱۹

ملاقات کرلی، اور اس کو اس ادھوری خوشی سے زیادہ افسوس ہوا۔

 

۱۱۔ اب میں اجتماعی مفاد سے متعلق کوئی بات کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ میں ایسی رسمِ چراغ روشن کے حامیوں میں سے ہوں، جو سادہ، اور کم خرچ پر مبنی ہو، لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ ساتویں دن کی رسم کا پس منظر کیا ہے، اس لئے میں نے عائشہ بیگم کی وفات کے یومِ ہفتم (تھلے کدۛ) کے اخراجات کو صدقۂ جاریہ کے طور پر پاک جماعت خانہ میں پیش کیا، اور امید ہے کہ (ان شاء اللہ) آئندہ ہوشمند لوگ ایسا ہی عمل کریں گے، موکھی صاحب نے اس مثالی کام کو بڑی فراخدلی سے سراہا، اور بہت ساری عمدہ دعائیں دیں، یہ مبارک دعائیں دراصل حضرتِ مولا کی تھیں، جو نامدار موکھی کی پاکیزہ زبان سے ادا ہوئیں، الحمدللہ!

 

۱۲۔ مجھے پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ ہونزہ وغیرہ سے بہت سے لوگ فاتحہ خوانی اور اظہارِ ہمدردی کے لئے گاڑیوں پر گلگت آئیں گے، جس کی وجہ سے جماعت یا قوم کے ہزاروں روپے خرچ ہوں گے، اور بالکل ایسا ہی ہوا، حالانکہ میں نے اعلان کیا تھا کہ ہم نے اس رسم کو محدود کرنا ہے، اس لئے دور سے لوگ نہ آئیں، میں نے علی آباد کے بعض اکابرین سے گزارش کی کہ اگر آپ حضرات گلگت آنے جانے کا ٹوٹل کرایہ کسی جماعتی کام میں خرچ کرتے، اور مجھے صرف ایک چھوٹا سا تعزیت نامہ لکھتے، تو بہت اچھی بات ہوتی، میں نے مزید عرض کی کہ آپ جماعت کو آئندہ کے لئے سمجھائیں کہ وہ

۲۰

بڑی تعداد میں دور دور تک فاتحہ خوانی کی غرض سے نہ جایا کریں (ہر قسم کی دعا اور فاتحہ خوانی کی بہترین جگہ خدا کا گھر ہے) وہ دانا تھے، اس لئے یہ باتیں ان کو پسند آئیں۔

 

۱۳۔ انہی مجالس میں وقت کے موضوع پر بھی گفتگو ہوئی کہ وقت کیا ہے؟ وقت عمرِ عزیز کے ایک حصے کا نام ہے، اگر فرد کی زندگی انمول ہے تو قوم کی زندگی اس سے کہیں زیادہ انمول ہے، لہٰذا اجتماعی زندگی کے قیمتی ٹکڑوں (یعنی اوقات) کو غیر ضروری کاموں میں صرف نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ خرچ شدہ دولت مل سکتی ہے، لیکن صرف شدہ زندگانی واپس نہیں آ سکتی۔

 

۱۴۔ میں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ شمالی علاقہ جات میں ایصالِ ثواب کی یہ رسم بہت اچھی ہے، لیکن یہ کہاں کی ہمدردی ہے کہ غمزدہ خاندان کو ذرا بھی آرام کی اجازت نہیں ہے، صبح سے لے کر شام تک باادب اور ہوشیار بیٹھنا ضروری ہے، کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ دن کے تقریباً دو بجے تک لوگ آیا جایا کریں؟ ورنہ غمگین لوگوں کو حسبِ دستور تکلیف ہوتی رہے گی، پھر علم و ترقی اور ڈاکٹروں کے مشوروں کا کیا فائدہ، الغرض بعض روایات میں سوچ سمجھ کر ترمیم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

 

۱۵۔ اس بندۂ عاجز نے ہونزہ ریجنل کونسل کے صدر جناب ڈاکٹر اسلم صاحب کی خدمت میں ایک بہت اہم مسئلہ پیش کیا تھا، اب میں وہ

۲۱

دوسرے الفاظ میں عرض کرتا ہوں کہ “مومن آباد” کے نام کا مشورہ میں نے ہی دیا تھا، اور بفضلِ خدا وہ کامیاب ہو گیا، کیونکہ وہ ہمارے بہت ہی عزیز، روحانی بھائی ، جو مومن آباد میں رہتے ہیں، بڑے راسخ العقیدۃ مومنین ہیں، لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ ان کے ایمان اور اخلاص کی قدردانی نہیں کی جاتی ہے، کیا وہ اور ہم سب ایک ہی امام علیہ السّلام کی روحانی اولاد نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو پھر ان کو “برادری اور برابری” کے حقوق کیوں حاصل نہیں ہیں؟ میں ان کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ پرامن طریقے سے نامدار کونسل سے رجوع کریں، شاید اصلاحِ احوال کے لئے وقت لگے گا لیکن مسئلہ ان شاء اللہ حل ہو جائے گا!

 

۱۶۔ خداوندِ قدّوس کا شکر ہے کہ دعا کی غرض سے آئی ہوئی ہر جماعت کے سامنے علم کا کوئی نہ کوئی مناسب نکتہ بیان کیا، اور مجموعی طور پر البتہ علم و حکمت کی کافی باتیں ہوئیں، اس کے علاوہ بہت سے مومنین و مومنات کی پُرخلوص دعاؤں کی سعادت و برکت بھی حاصل ہوئی، میں  آخراً ان تمام افراد مومنین و مومنات کا قلبی گہرائی سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے عائشہ بیگم کی طویل علالت کے دوران بے مثال خدمات انجام دی ہیں، میں ان سب خواتین و حضرات کے حق میں عاجزانہ دعا کرتا ہوں جنہوں نے اس خدمت، عیادت اور تعزیت میں حصّہ لیا، کہ ربّ العزّت ان کو دین و دنیا کی لامحدود حسنات سے مالامال فرمائے! آمین!!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات ، ۴ شوال ۱۴۱۴ھ ، ۱۷ مارچ ۱۹۹۴ء

۲۳

 

 

درسِ مکرر (۱)

 

۱۔ زمانے کا امام:

سورۂ بنی اسرائیل کا آٹھواں رکوع اس طرح شروع ہوتا ہے: (ترجمہ) جس دن ہم ہر زمانے کے لوگوں کو ان کے امام کے توسط سے بلائیں گے تو جن (کے اعمال) کی کتاب ان کے داہنے ہاتھ میں دی جائے گی، وہ اپنی کتاب کو (خوش ہو ہو کر) پڑھیں گے، اور ان پر دھاگے برابر بھی ظلم نہیں ہوگا (۱۷: ۷۱) اور جو شخص اس (دنیا) میں اندھا ہو، وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا، اور (نجات کے) رستے سے بہت دور (۱۷: ۷۲)۔

 

آپ اگر خوب غور سے دیکھیں تو معلوم ہو جائے گا کہ مذکورہ آیۂ کریمہ (۱۷: ۷۱) میں قیامت القیامات کا ذکر نہیں، بلکہ ہر زمانے میں واقع ہونے والی قیامت کا تذکرہ ہے، کیونکہ ہر زمانے کے لئے ایک امام ہوا کرتا ہے، اور اسی کے ساتھ اہلِ زمانہ کی قیامت وابستہ ہے، چنانچہ جب حدودِ دین میں سے کسی کے عالمِ شخصی میں روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، تو وہاں امامِ زمان علیہ السّلام اپنی نورانیّت میں موجود ہوتا ہے، اور اسی کے توسط سے ذراتِ خلائق کو بلایا جاتا ہے۔

۲۴

 

۲۔ حدودِ دین ہی حواسِ باطن ہیں:

جن لوگوں نے ناطق، اساس ، اور امام علیہم السّلام کو پہچان لیا، ان کو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی چشمِ معرفت حاصل ہوئی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس عظیم احسان کا ذکر فرماتا ہے: (ترجمہ) اور وہی تو ہے جس نے تمہارے کان اور آنکھیں ، اور دل (یعنی ناطق، اساس، اور امام) بنائے (لیکن) تم کم شکر گزاری کرتے ہو (۲۳: ۷۸) یہ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ کی ایک وضاحت ہے۔

 

۳۔ امام ہی مومن کا قلب ہے:

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ وَ اَنَّهٗۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ (۰۸: ۲۴) اور جان رکھو کہ خدا آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ یعنی امام جو آدمی اور آدمیت کا دل اور مرکز ہے، اس کو خداوندِ تعالیٰ اسرارِ معرفت کے حجاب میں رکھتا ہے، تا کہ امام شناسی سب سے بڑا امتحان ، اور اس کا صلہ سب سے عظیم انعام ہو۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

۳۔۳۔ ۹۴۔

۲۵

 

درسِ مکرر (۲)

 

۱۔ نورِ معرفت کی برق رفتاری:

جس دن یعنی جس زمانے میں مومنین و مومنات کو نورِ علم = نورِ عقل= نورِ معرفت حاصل ہوگا، وہ ان کے لئے برق رفتاری سے علمی و عرفانی کام کرے گا، چنانچہ قرآنِ پاک میں ایک ایسے طویل دن کا بھی اشارہ مل رہا ہے، جس میں صبح کوئی بچہ پیدا ہو جائے تو شام سے پہلے ہی بوڑھا ہو کر مر جاتا ہے (۷۳: ۱۷) ایک ایسا دن بھی ہے جو دنیا کی ہزار سالہ مدت کے برابر ہے (۲۲: ۴۷) اور ایک بڑا لمبا دن وہ بھی ہے، جو پچاس ہزار برس کا ہے (۷۰: ۰۴) لیکن مومنین و مومنات کا نور (۵۷: ۱۲،  ۵۷: ۱۹، ۶۶: ۰۸) اپنے خاص مظاہرۂ رہنمائی میں ان تمام زمانی مسافتوں کو چند ہی سیکنڈوں میں طے کر لیتا ہے۔

 

۲۔ کائنات اور بہشت و دوزخ کی عمریں:

اگر کوئی پوچھے کہ جنت اور جہنم کا وجود کب تک قائم و باقی رہے گا؟ اس کو قرآنِ حکیم (۱۱: ۱۰۷ تا ۱۰۸) کی روشنی میں یہ جواب دیا جائے گا کہ جب تک آسمانوں اور زمین کا وجود و قیام ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جتنی لمبی عمر کائنات کی ہے، اتنی لمبی عمر بہشت و دوزخ کی بھی ہے، اور اگر یہ سوال بھی ہو کہ: کائنات کی

۲۶

مدتِ عمر کب تک ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے: کہ اللہ تعالیٰ ہر قیامت کے دن کائنات کو لپیٹ کر فنا کر دیتا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) پھر فوراً ایک جدید کائنات کو پیدا کرتا ہے، اور یہ سلسلۂ لا متناہی ہمیشہ جاری ہے۔

 

۳۔ گنجِ اسرار = خزینۂ امامِ مبین:

مومنین و مومنات کا نور گنجِ اسرار یا خزینۂ امامِ مبینؑ تک رسا ہو جاتا ہے، جس میں تمام بھید آپس میں ملے ہوئے موجود ہیں، جن کی تفصیل قرآنِ حکیم میں ہے: (۱۰: ۳۷) یہ حقیقت ہے کہ قرآنی تفصیلات کے بغیر “الْكِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْهِ” (۱۰: ۳۷) کی ترجمانی نہیں ہوسکتی، مگر ہر تفصیل خود اسی نور کی روشنی میں ہوسکتی ہے، الغرض اللہ تعالیٰ نے خزینۂ امامِ مبین میں معرفت کے تمام بھیدوں کو محدود کر دیا ہے، جس میں تمام معرفتوں کی نمائندہ معرفت ایک ہی ہے، اور جملہ حقیقتوں کی نمائندہ حقیقت ایک ہی ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ وہ نورِ واحد جو بے شمار مومنین و مومنات کا ہے، وہی خود اللہ، رسول، اور امام کا نور بھی ہے، اور وہی یک حقیقت (مونوریالٹی) ہے، الحمد للہ !

 

ن۔ن۔ (ح۔ع۔) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

۴۔۳۔۹۴۔

۲۷

 

درسِ مکرر (۳)

 

۱۔ جوانی اور روحانی ترقی

قرآنِ حکیم کا ایک خاص اشارہ جو مغزِ حکمت سے مملو ہے، یہ ہے کہ مومن کی نوجوانی روحانی ترقی کے لئے سب سے بہترین وقت ہے، کیونکہ عنفوانِ شباب ہی میں نفسِ امّارہ کے خلاف جہاد زبردست نتیجہ خیز اور بے حد مفید ثابت ہوسکتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے تمام تر انبیاء علیہم السّلام کو ان کی نوجوانی ہی میں نبوّت اور حکمت و علم عطا کر دیا، پھر وہ حضرات اخلاقِ حسنہ اور جہادِ اکبر میں اہلِ جہان کے لئے روشن نمونہ ہوگئے، جیسے حضرت یوسف علیہ السّلام (۱۲: ۲۲) اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام (۲۸: ۱۴) کے بارے میں الگ الگ ارشاد ہے، کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے انہیں جوانی ہی میں حکمت اور علم عطا ہوا تھا، اور دونوں مقام پر ہزار گونہ مسرّت و شادمانی سے بھرا ہوا عظیم و عجیب راز درجِ ذیل ہے:

 

۲۔ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ (۱۲: ۲۲، ۲۸: ۱۴) ۔ اور نیکوکاروں کو ہم اسی طرح بدلا دیا کرتے ہیں، یعنی پیغمبروں نے جس طرح لوگوں پر احسان کیا، اس کا بڑا کامیاب طریقِ کار یہ ہے کہ ان حضرات

۲۸

نے اوّل اوّل نوجوانی ہی میں نفسانی جہاد کے ذریعے سے نفسِ امّارہ (۱۲: ۵۲) کو نفسِ لوّامہ (۷۵: ۰۲) بنایا، اور پھر نفسِ لوّامہ کو نفسِ مطمئنہ (۷۹: ۲۷) یہ ہوا دوسروں پر احسان کرنے سے قبل اپنے آپ پر احسان کرنا، اور اس کے بعد انبیائے کرامؑ نے لوگوں پر حقیقی معنوں میں احسان کیا۔

 

۳۔ محسنین = احسان کرنے والے:

مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ کی حکمت کے مطابق انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے بعد ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے اہلِ ایمان بھی محسنین (نیکوکار) ہیں، لہٰذا ایسے مومنین و مومنات اللہ تبارک و تعالیٰ کی عنایتِ بے نہایت سے پیغمبرؐ اور امامؑ کے نورِ واحد کو اپناتے ہوئے علم و معرفت کے درجۂ انتہا تک پہنچ جاتے ہیں، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

۴۔ کذالک:

ویسے تو قرآنِ پاک کی ہرآیت ایک ازلی و ابدی اور عقلی معجزہ ہے، تاہم یہ بات بھی حق ہے کہ بعض قرآنی معجزات کی طرف خصوصی اشارہ ہوا ہے، ان میں سے ایک خاص معجزہ لفظ “کذالک” ہے۔

 

نوٹ: “کذالک” قرآنِ پاک میں کہاں کہاں ہے، اس کی نشاندہی کی ایک فہرست محترمہ ماہِ محل (سیکریٹری) بدر الدین نے بنا دی ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت۔

۱۰۔۳۔ ۹۴۔

۲۹

 

درسِ مکرر (۴)

 

۱۔ غراب کی تاویلی حکمت:

اگر یہاں یہ کہا جائے کہ لفظِ غراب میں غریب کے معنی پوشیدہ ہیں تو شاید آپ کو تعجب ہوگا، کیونکہ بظاہر دیکھا جائے تو غراب (کوا) اور غریب (اجنبی) میں نہ کوئی مشابہت و مناسبت ہے، اور نہ ہی کوئی رشتہ، تاہم لفظی، معنوی، اور تاویلی تحقیق کے بعد ہی یہ راز منکشف ہو سکتا ہے کہ غراب، غریب اور غروب جیسے الفاظ ایک ہی مادّہ سے ہونے کی سب سے بڑی حکمت کیا ہے۔

 

۲۔ آپ سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۷ تا ۳۱) میں قصّۂ قابیل و ہابیل کوغور سے پڑھ لیں، اور ان کلمات میں زیادہ سوچیں: فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ۔ معنیٔ اوّل: تو خدا نے ایک کوے (غراب) کو بھیجا کہ وہ زمین کو کریدنے لگا۔ معنیٔ دوم: غرب (ن) غرابۃ و غربا و غرابۃ = وطن سے جدا ہونا، پردیسی ہونا، یعنی غریب (اجنبی) ، پھر اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب و غریب فرشتے کو بھیجا جو عالمِ شخصی کی زمین میں کرید رہا تھا، معنیٔ سوم: پس خداوند تعالیٰ نے ایک غریب (اجنبی = نورِ حضرتِ قائم) کو بھیجا، اور وہ مرتبۂ عقل پر زمینِ نفسِ کلّی میں ایک قبر بنانے لگا۔

۳۰

 

۳۔ حدیثِ شریف ہے: بداالاسلام غریبا و سیعود کما بدا غریبا۔ معنیٔ اوّل: اسلام شروع شروع میں غریب تھا، اور آگے چل کر پھر آغاز کی طرح غریب ہو جائے گا۔ معنیٔ دوم: اسلام ابتداء میں (لوگوں کے لئے) غیرمانوس تھا، اور آخر میں جا کر پھر پہلے کی طرح غیر مانوس ہو جائے گا۔ معنیٔ سوم: ناطق اور اساس اسلامِ مجسم ہیں، لیکن لوگوں کی نظر میں غریب (اجنبی= غیر مانوس) ہیں۔

 

۴۔ غریب حضرتِ قائم القیامت (علینا منہ السّلام) کا ایک مخفی اسمِ مبارک ہے، کیونکہ وہ عالمِ علوی سے آیا ہوا غریب الوطن، اجنبی اور پردیسی شخص ہے، جس طرح امام کا ایک بابرکت نام یتیم اور حجّت کا ایک نام مسکین ہے، جبکہ یتیم کے معنی ہیں: منفرد اور یگانہ، اور مسکین کے معنی ہیں: تسکین دینے والا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

رہائش گاہِ کراچی

نوروزِ مبارک، دو شنبہ، ۸ شوال ۱۴۱۴ھ، ۲۱ مارچ ۱۹۹۴ء

۳۱

 

درسِ مکرر (۵)

 

۱۔ عالمِ شخصی کی سلطنت:

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: یا بنی عبد المطلب اطیعونی تکونوا ملوک الارض و حکامھا = اے اولادِ عبد المطلب! میری فرمانبرداری کرو، تا کہ تم زمین پر سلاطین اور حکام ہو جاؤگے۔ اس سے عالمِ شخصی کی روحانی سلطنت مراد ہے۔

 

۲۔ ناطق کی فرمانبرداری اساس کے وسیلے سے، اور اساس کی فرمانبرداری امامِ زمانؑ کے توسط سے کی جاتی ہے، کیونکہ نورِ ہدایت اور روحانی سلطنت کا راستہ یہی ہے۔

 

۳۔ ملکِ عظیم اور ملکِ کبیر:

آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کی روحانی سلطنت کا نام ملکِ عظیم ہے (۰۴: ۵۴) اور اہلِ بہشت کی بادشاہی کا نام ملکِ کبیر (۷۶: ۲۰) اور یہ قانون اس لئے ایسا ہے کہ لوگ دنیا میں اپنے وقت کے روحانی بادشاہ کو کما حقہٗ پہچانیں، تاکہ اس عظیم الشّان معرفت کے لازوال انعام میں ان کو بہشت کی بادشاہت عطا کی جائے۔

۳۲

 

۴۔ پیراہنِ یوسفی:

حضرت یوسف علیہ السّلام کے پیراہن سے جثّۂ ابداعیہ مراد ہے، میں یہاں کامل اشارے کے طور پر اپنا ایک شعر پیش کرتا ہوں:

یوسفِ دوران لے رومڎے کردینڎ بیئن

ایڎ ڎہ اُیم نس ایسل روحی عطر بٹ ایم

زمانے کے یوسف کے پاس (بہت سے) روحانی کرتے ہیں، ان میں خوشبو کو دیکھ لے، روحانی عطر بے حد پسندیدہ ہے۔

 

۵۔ الغرض جتنے بے شمار لوگ جنت میں داخل ہو جائیں گے، ان سب کے لئے بہشتی لباس کی کوئی کمی نہیں ہوگی، یعنی ہر فرد کو ایک جثّۂ ابداعیہ ملے گا، جس میں روحانی سلطنت ہے، کیونکہ ہر آدمی بحدِّ قوّت اپنی ذات میں ایک کائناتی سلطنت مخفی رکھتا ہے، یا یوں کہا جائے کہ ہر شخص دراصل صورتِ آدم بلکہ صورتِ رحمان کی روحانی اور نورانی کاپی ہے، تصویر اور کاپی تو ہر چیز کی ہوا کرتی ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں ہر چیز کی کاپی کو ظل (جمع، ظلال ، ۱۶: ۸۱) کہا گیا ہے۔

 

کراچی

۲۲۔۳۔۹۴۔

۳۳

 

درسِ مکرر (۶)

 

۱۔ خواب کے عجائب و غرائب:

قرآنِ حکیم (۳۰: ۲۳) میں دیکھ لیں کہ نیند اور خواب آیاتِ قدرت میں سے ہیں، اور قدرت کی نشانیوں میں غور و فکر کرنا ضروری ہے، ورنہ غفلت اور ناشکری کا ارتکاب ہوسکتا ہے، کیونکہ حدیثِ شریف ہے: رویا المومن جزء من ستۃ و اربعین جزء من النبوۃ = مومن کا خواب نبوت کے ۴۶ (چھیالیس) اجزاء میں سے ہے۔ لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ مومن کو حقیقی معنوں میں مومن ہوناچاہئے ، تاکہ اس کا خواب روحانیّت اور نورانیّت سے معمور ہوسکے۔

 

۲۔ آپ باور کریں گے کہ روحانی ترقی کی صورت میں بندۂ مومن کا خیال اور خواب روحانیّت میں بدل جاتا ہے، کیونکہ حقیقی علم اور ذکر و عبادت کی کثرت کی وجہ سے خواب تمام خامیوں سے پاک ہوکر اصل شکل میں سامنے آتا ہے، اور اصل خواب انبیاء علیہم السّلام کا ہے، کہ وہ روحانیّت کے عجائب و غرائب سے بھرپور ہوتا ہے۔

۳۴

 

۳۔ خواب میں دیدار:

سنن الدارمی، کتاب الرویا میں ہے کہ: آنحضرتؐ نے فرمایا: رایت ربّی فی احسن صورۃ = میں نے اپنے ربّ کو ایک حسین ترین صورت میں دیکھا۔ قال: فیم یختصم الملاء الاعلی؟ فقلت: انت اعلم یا رب۔ فرمایا: ملاءِ اعلیٰ کس چیز کے بارے میں باہم بحث کر رہے تھے؟ میں نے عرض کیا: یا ربّ ! تو ہی بہتر جانتا ہے۔

 

۴۔ مرتبۂ نبوّت پر خواب کی روحانیّت اور بیداری کی روحانیّت ایک جیسی ہوتی ہے، جس کا ثبوت حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا نورانی خواب ہے کہ آپ کو خواب ہی میں اپنے فرزندِ دلبند کی قربانی کا حکم ملا، اور یہ بیداری کی طرح ایک مکمل وحی تھی۔

 

۵۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: و من رانی فی المنام فقد رای الحق = رسولِ خدا نے فرمایا: جس نے خواب میں مجھ کو دیکھا، اس نے یقیناً خدا کو دیکھا (کیونکہ عالمِ وحدت میں خدا، رسول، اور امام کا ایک ہی نور ہوتا ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پیغمبرؐ اور امامؑ خدا کے مظہر اور آئینہ ہیں)۔

 

۶۔ حدیثِ شریف ہے: من رای ربہ فی المنام دخل الجنۃ = جس نے خواب میں اپنے ربّ کا دیدار کیا، وہ بہشت میں داخل ہو جائے گا۔ اس کی تاویل ہمارے نزدیک یہ ہے کہ: دیدارِ الٰہی بلا واسطہ ممکن نہیں،

۳۵

بالواسطہ ممکن ہے، اس لئے مظہرِ نورِ خدا، آئینۂ حق نما اور قائلِ “انا وجہ اللہ” کا دیدار گویا خدا کا پاک دیدار ہے۔

 

۷۔ ایسا نورانی خواب، جس میں دیدارِ الٰہی کی سب سے بڑی سعادت حاصل ہو جاتی ہے، روحانیّت ہی ہے، اور وہ ہادیٔ برحق کی پیروی کا نتیجہ ہے، جیسے مولا علی علیہ السّلام نے ہر سالک کے سامنے دیدار اور معرفت کے لئے ایک اٹل قانون کو رکھا ہے اور وہ یہ ہے: من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ = جس نے (ہادیٔ زمان کی ہدایت سے) اپنے آپ کو پہچان لیا، یقیناً اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔

 

۸۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ (و آلہ) و سلم: الرویا ثلاث: فالرویا الحسنۃ بشری من اللہ، و الرویا تحزین من الشیطان، والرویا مما یحدث بہ الانسان نفسہ فاذا رای احدکم ما یکرھہ فلا یحدث بہ و لیقم ولیصل = رسولِ خدا صلعم نے فرمایا: خواب تین قسم کا ہوتا ہے، پس اچھا (نورانی) خواب اللہ کی جانب سے خوشخبری ہے، اور جس خواب سے رنج و غم ہو وہ شیطان کی طرف سے ہے، اور ایک خواب خود انسان کے عمل کی وجہ سے ہے، پس تم میں سے کوئی جب برا خواب دیکھے تو کسی کو نہ بتائے، اور اُٹھ کر نماز پڑھے (اور ذکر بندگی میں مصروف ہو جائے)۔

 

۹۔ کان یقول: لا تقصوا الرویا الا علیٰ عالم

۳۶

او ناصح = آنحضرتؐ فرماتے تھے: عالم یا خیر خواہ آدمی کے سوا تم اپنے خواب کا ذکر کسی سے نہ کیا کرو۔ اگر خواب میں تاویلی حکمت پوشیدہ نہ ہوتی تو عالم سے رجوع کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی، اور ناصح (خیر خواہ = نصیحت کرنے والا) کوئی باہوش انسان ہوسکتا ہے، جو اچھے خواب کے علاوہ برے خواب میں بھی علم و حکمت مخفی ہونے کا حسنِ ظن رکھے۔

 

نوٹ: اس درس کی تمام احادیث سننِ دارمی ، جلدِ دوم، کتاب الرویا سے لی گئی ہیں۔

 

ن۔ن۔(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۳۔۴۔۹۴۔

۳۷

 

درسِ مکرر (۷)

 

۱۔ سرِّ سجود:

کامل و مکمل اور عظیم الشّان عاشقانہ سجدہ وہ ہے، جس میں اصل کامیابی کا راز مضمر ہوتا ہے، جس کا مقام و مرتبہ محویت و فنائیت ہی میں ہے، ایسے درجے کے سجدے کا ذکر کرتے ہوئے سورۂ علق کے آخر (۹۶: ۱۹) میں فرمایا گیا ہے: وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ= اور سجدے کرتے رہو، اور قرب حاصل کرو۔ یعنی خاصانِ الٰہی کا سجدۂ سینہ سوز ہی قربِ خداوندی کا وسیلہ ہو جاتا ہے، جبکہ آہوں اور آنسوؤں کے ساتھ مناجات کرتے ہوئے پیشانی زمین پر رکھتے ہیں، کیونکہ ہر ایسے سجدے کی کوئی قدر و قیمت ہی نہیں، جو جوزِ بے مغز (بے مغز اخروٹ) کی طرح اندر سے خالی ہو، یعنی جس میں عملی عاجزی و خاکساری کے معنی ہی نہ ہوں۔

 

۲۔ لفظِ “سجدہ” کی تحلیل:

سجد (ن) سجودا: عاجزی و خاکساری سے جھکنا، عبادت میں پیشانی و ناک زمین پر رکھنا، اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار کرنا،

۳۸

صفت: ساجد، جمع سَجَدَ و سجود (ساجدین)، مونث: ساجدہ، جمع: ساجدات و سواجد، مثال: (۱) عین ساجدۃ = جھکی ہوئی آنکھ، مثال: (۲) نخلۃ ساجدۃ = جھکا ہوا کھجور کا درخت، السجاد = بہت سجدہ کرنے والا، السجدہ = سجد کا اسم ، یعنی سجدۂ معروف، السجادہ = جائے نماز، مصلیٰ ۔ المسجد و المسجد= سجدہ گاہ، عبادت کی جگہ، نیز نماز و عبادت (۰۷: ۲۱) جمع مساجد، جیسے سورۂ اعراف (۰۷: ۲۹) میں ارشاد ہے: وَاَقِیْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ = معنیٔ عام: اور ہر عبادت میں اپنا رخ ٹھیک رکھو، معنیٔ خاص: اور ہر عبادت میں اپنا چہرۂ جان جانان (خدا) کی طرف قائم رکھو۔

 

۳۔ ہر چیز کی نماز، تسبیح اور سجدہ:

اس باب میں قرآنِ کریم کا فرمانا یہ ہے کہ آسمان و زمین کی کوئی مخلوق اور کوئی شے ایسی نہیں، جو اپنے طور سے خدا کے لئے نماز نہ پڑھتی اور تسبیح نہ کرتی ہو، جیسا کہ ارشاد ہے: كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِیْحَهٗؕ = ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے (۲۴: ۴۱)۔ اوراسی طرح ہر شے کی تسبیح خوانی کے بارے میں سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۴۴) میں بھی دیکھ لیں، نیز ہر موجودِ سماوی و ارضی کے سجدہ سے متعلق آیات کے لئے الرعد (۱۳: ۱۵)، النحل (۱۶: ۴۹) اور الحج

۳۹

(۲۲: ۱۸) کو دیکھئے۔

 

۴۔ ایک بڑا اہم سوال:

اس بنیادی گفتگو کے بعد یہاں یہ بہت ہی ضروری سوال سامنے آتا ہے کہ، جب تمام مخلوقات کی نماز، تسبیح اور سجدہ بجا اور درست ہے تو پھر بلا پرسش سب کے لئے فوری نجات اور بہشت کا وعدہ کیوں نہیں فرمایا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مقصودِ اصلی تنہا عبادت نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ معرفت بھی ضروری ہے، اور معرفت عقل کے بغیر محال ہے، چنانچہ عقلِ جزوی کا عطیۂ الٰہی نہ ملنے کی وجہ سے جمادات، نباتات اور حیوانات علم و معرفت کے اس امتحان سے مستثنیٰ قرار پاتے ہیں، اور یہ میدان صرف اور صرف انسانوں ہی کے لئے رہ جاتا ہے، یا مخصوص ہو جاتا ہے۔

 

۵۔ جنّ و انس کی عبادت:

جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا کہ کائناتی ، کلّی اور فطری عبادت سے کوئی بھی مخلوق خالی نہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ ذوی العقول (جنّ و انس) کے سامنے ایک مخصوص عبادت بھی ہے، جس کو عرفانی عبادت کہنا چاہئے، اور اس کے بارے میں یہ ارشاد ہے: وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (و لیعرفون، ۵۱: ۵۶) اور میں نے جنّوں اور آدمیوں کو اسی

۴۰

غرض سے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں (اور میری معرفت حاصل کریں)۔

 

حضرت امامِ حسین بن علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: ان اللہ عز و جل ما خلق العباد الا لیعرفوہ، فاذا عرفوہ عبدوہ، فاذا عبدوہ استغنوا بعبادتہ عن عبادۃ من سواہ = یقیناً اللہ عز و جلّ نے اپنے بندوں کو (کسی اور کام کے لئے ) پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ اس کو پہچانیں، جب انہوں نے اس کو پہچان لیا تو اس کی عبادت کی، پھر جب انہوں نے اس کی عبادت کی تو وہ اس کی عبادت کی بدولت ماسوا کی پرستش سے بے نیاز ہوگئے (بحوالۂ المیزان، جلد نمبر ۱۸، ص ۳۹)۔

 

۶۔ ایمان، علم، عشق ، اور معرفت:

خداوندِ قدوس نے قرآنِ عزیز میں جابجا اپنے خاص بندوں کا ذکرِ جمیل فرمایا ہے، پس اگر ان کی دیگر خوبیوں کے ساتھ ساتھ سجدۂ عشق کا تذکرہ دیکھنا ہے تو سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۱۰۷ تا ۱۰۹) اور سورۂ مریم (۱۹: ۵۸) میں دیکھ لیں، قرآنِ حکیم میں انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کے عظیم اور اعلیٰ نمونے اس لئے ہیں کہ ہم سب ان کی پیروی کریں، تاکہ منزلِ عشق و فنا نصیب ہو جائے، جس کے سوا کوئی قرار و سکون نہیں، اے دوستانِ عزیز! ایمان، علم، عشق ، اور معرفت کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھنا۔

 

۷۔۴۔۹۴۔

۴۱

 

درسِ مکرر (۸)

 

۱۔ درود کی حکمت:

سورۂ احزاب کے اس مبارک ارشاد میں جس طرح مومنین پر درود نازل ہونے کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس میں آپ کو خوب غور و فکر کرنا ہے: (ترجمہ) خدا وہی تو ہے جو خود تم پر درود بھیجتا ہے، اور اس کے فرشتے (بھی) تاکہ تم کو (جہالت کی) تاریکیوں سے نکال کر (علم وحکمت) کی روشنی میں لے آئےاور اللہ مومنین پر بڑا مہربان ہے (۳۳: ۴۳)۔

 

پہلی حکمت: اس بابرکت سماوی درود کا مقصد یہ ہے کہ مومنین و مومنات کو باقی ماندہ غفلت و نادانی کی تاریکیوں سے نکال کر ذکر و عبادت اور علم و معرفت کے عملی اور حقیقی نور کی طرف لایا جائے، اور یہ مقصد اس وقت پورا ہوسکتا ہے، جبکہ اہلِ ایمان فعلاً نور کی روشنی میں ہوتے ہیں۔ (۵۷: ۱۲، ۵۷: ۱۹، ۶۶: ۰۸)۔

 

دوسری حکمت: قانونِ درود (صلاۃ ، صلوٰۃ) قانونِ خزائن (۱۵: ۲۱) سے الگ نہیں، لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے زندہ خزانوں سے مومنین پر درود بھیجتا ہے، اور وہ زندہ خزانے عقلِ کلّ ، نفسِ کلّ، ناطق، اساس اور امامِ زمانؑ ہیں، اور یہی سماوی و ارضی فرشتے بھی ہیں،

۴۲

جو خدا کی صلاۃ کو مومنین تک پہنچا دیتے ہیں۔

 

تیسری حکمت: صلاۃ (درود) کے معنی میں اگرچہ اختلاف ہے، لیکن آیۂ کریمہ کے حکیمانہ اشارے سے پتہ چلتا ہے کہ، اس میں توفیق، ہدایت، تائید، اور علم کے معنی ہیں، کیونکہ غفلت و جہالت کی تاریکیوں سے مومنین کو یہی قوّتیں نکال کر نورِعقل تک پہنچا سکتی ہیں۔

 

چوتھی حکمت: مومن کی خاص ضرورتیں دو قسم کی ہیں: روحانی، اور عقلی، پس درود کے معنی میں روح کے لئے رحمت اور عقل کے واسطے علم مطلوب ہے، لیکن بہت سے لوگ رحمت کو تو یاد کرتے ہیں، اور علم کو بھول جاتے ہیں۔

 

پانچویں حکمت: جب جب مومنین و مومنات ربّانی حکم (۳۳: ۵۶) کے مطابق اللّٰھم صل علیٰ محمد و آل محمد کہا کرتے ہیں تو وہ اس میں یہ دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ! (مومنین کے لئے تو نے جس درود کا ذکر فرمایا ہے وہ) درود محمد و آلِ محمد پر نازل فرما ( تاکہ اس وسیلے سے ہمیں حقیقی معنوں میں درود نصیب ہو)۔

 

چھٹی حکمت: درود کا مطلب توفیق، ہدایت، تائید اور علم ہے، اس لئے درود تمام مدارج پر ضروری ہے، اور سب سے بلند ترین درود اس مقام پر ہے جہاں گوہرِعقل کا صدقہ دیا اور لیا جاتا ہے (۰۹: ۱۰۳) اور وہاں پُرسکون درود کلمۂ امر کی صورت میں مل جاتا ہے۔

 

ساتویں حکمت: دین و ایمان کی کوئی چیز شرائط کے بغیر نہیں

۴۳

مل سکتی، چنانچہ مومنین کے لئے جو صلاۃ (درود) حاصل ہونے والی ہے، اس کی شرطیں ہیں، ان میں اساسی اور خاص شرط محمدؐ و آلِ محمدؐ کی پیروی ہے، کیونکہ لفظِ صلاۃ میں پیروی کے معنی بھی ہیں۔

 

آٹھویں حکمت: قوانینِ قرآن میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ کوئی چیز رحمت و علم کے معنوں کے بغیر نہیں (۴۰: ۰۷) یاد رہے کہ رحمت میں روحانی نعمتیں ہیں اور علم میں عقلانی نعمتیں، پس صلاۃ قرآنِ عظیم کی ایک خاص چیز ہے، اس لئے اس میں ایک خصوصی رحمت اور ایک خصوصی علم ہے۔

 

نویں حکمت: ہر عظیم شے کی کوئی قابلِ تعریف خصوصیت ہوا کرتی ہے، اور درود کی ایک عظیم الشّان خصوصیت یہ ہے کہ اس کے نزول و صعود کا دائرہ لاہوت، جبروت، ملکوت، اور ناسوت کے درمیان جاری و ساری ہے۔

 

دسویں حکمت: اللہ کا درود بھیجنا یہ ہے کہ وہ اسے ایک نور بنا دیتا ہے، جس کو لے کر فرشتے آنحضرتؐ پر نازل ہوتے ہیں، حضورِ اکرمؐ نے بحکمِ وصل علیہم (۰۹: ۱۰۳، اور ان پر درود بھیج دو) اپنی ہدایات و تعلیمات سے اس نور کا رخ اہلِ ایمان کی طرف کر دیا، جس میں آپ کے وصی نے نورِ کامل کو حاصل کر لیا، اور بہت سے مومنین اس کو صرف ایک پُراثر دعا سمجھنے لگے۔

 

گیارہویں حکمت: جب اللہ اور اس کے فرشتے مومنین پر

۴۴

درود بھیجتے ہیں تو باور کرنا چاہئے کہ خدا کا یہ کام رسول اور امام کے توسط سے انجام پاتا ہے، کیونکہ وہ پاک و برتر اگر عالمِ باطن میں فرشتوں سے کام لیتا ہے، تو عالمِ ظاہر میں پیغمبر اور اماموں سے بھی کام لے سکتا ہے، کیونکہ وہ بادشاہِ مطلق ہے، اس لئے وہ صرف امر فرماتا ہے۔

 

نصیر الدین نصیر ہونزائی

کراچی

اتوار، ۵ ذیقعدہ، ۱۴۱۴ھ، ۱۷ اپریل ۱۹۹۴ء

۴۵

 

درسِ مکرر (۹)

 

کلماتِ درود:

قال: قل: اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم و آل ابراہیم انک حمید مجید ۔ اللھم بارک علیٰ محمد و علیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم و آل ابراہیم انک حمید مجید۔

 

المیزان فی تفسیر القرآن ، جلد ۱۶، ص ۳۲۴ پر بہت سے حوالہ جات کے ساتھ درج ہے کہ ایک شخص کے سوال کرنے پر رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے درود کے بارے میں فرمایا: کہو: یااللہ ! درود نازل فرما حضرتِ محمدؐ پر اور حضرتِ محمدؐ کی اولاد پر، جس طرح کہ تو نے درود نازل فرمایا حضرت ابراہیمؑ پر اور حضرتِ ابراہیمؑ کی اولاد پر، بے شک تو تعریف کے لائق اور صاحبِ بزرگی ہے، اے اللہ ! برکت نازل فرما حضرت محمدؐ پر اور حضرت محمدؐ کی اولاد پر، جس طرح کہ تو نے برکت نازل فرمائی حضرت ابراہیمؑ پر اور حضرتِ ابراہیمؑ کی اولاد پر، بے شک تو لائقِ تعریف اور صاحبِ بزرگی ہے۔

۴۶

 

پہلی حکمت: اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنےمحبوب رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عوالمِ شخصی کے لئے رحمتِ کل بنا کر بھیجا ہے (۲۱: ۱۰۷) اس لئے سب لوگ آپ کی شفاعت کے لئے محتاج ہیں، مگر حضورؐ کی ذاتِ عالی صفات لوگوں کی سفارش سے بے نیاز و برتر ہے۔

 

دوسری حکمت: آپ اچھی طرح سے سوچ کر جواب دیں کہ آیا ہر مومن اور مومنہ کے عالمِ شخصی میں محمدؐ و آلِ محمدؐ (امامِ زمانؑ) کا نورِ اقدس طلوع ہو چکا ہے؟ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ صلاۃ کے عمل میں تجدّدِ امثال ہے، اس لئے آپ اپنے عالمِ شخصی کے تناظر میں درود پڑھا کریں تاکہ اس کا ہلال (ماہِ نو) بدرِ منیر ہو جائے۔

 

تیسری حکمت: کائنات کا تصوّر الگ ہے، عالمِ دین کا تصوّر جدا، اور عالمِ شخصی کا تصوّر الگ ہے، چنانچہ اللہ اور فرشتوں کا درود بھیجنا (۳۳: ۵۶) آنحضرتؐ کا درود بھیجنا (۰۹: ۱۰۳) اور مومنین کا درود بھیجنا (۳۳: ۵۶) یہ سب کچھ عالمِ شخصی کی روحانی اور نورانی ترقی کی خاطر ہے، کیونکہ محمدؐ و آلِ محمد (علیہما السّلام) کا نور اگرچہ ان کی ذات میں ہر طرح سے کامل اور مکمل ہے، لیکن ہر عالمِ شخصی میں ہنوز اس کا عکس مکمل نہیں ہوا، جس کی وجہ لوگوں کی اپنی کوتاہی ہے۔

 

چوتھی حکمت: درودِ شریف کے مذکورہ الفاظ و کلمات سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ خداوندِ عالم نے حضرتِ ابراہیمؑ اور آلِ ابراہیمؑ پر جیسی پُرنور و حکمت آگین صلاۃ نازل فرمائی تھی، ویسی ہی صلاۃ حضرت

۴۷

 

محمدؐ و آلِ محمدؐ کے حق میں بھی ضروری ہے، اور ایسی مشترکہ صلاۃ (درود) کی تفسیر و توضیح کے لئے قرآنِ پاک میں دیکھنا ہوگا۔

 

پانچویں حکمت: مذکورۂ بالا مشترکہ درود کی تفسیر و تشریح اس آیۂ مبارکہ میں ہے: فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا (۰۴: ۵۴)۔ ہم نے ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی ہے، اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی۔ یہی عنایاتِ الٰہی أئمّۂ آلِ محمدؐ کو بھی حاصل ہیں، پس کسی شک کے بغیر یہ آیۂ کریمہ درود شریف کی تفسیر ہے۔

 

چھٹی حکمت: اللہ تعالیٰ نہ صرف کائنات ہی کو لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے، بلکہ یہی اس کی سنت (عادت) اور حکمت ہے کہ وہ جلّ جلالہ ہر چیز کو ایسا کرتا ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں جتنے چوٹی کے الفاظ ہیں، ان میں سے ہر ایک میں علم و حکمت کی ایک دنیا لپیٹی ہوئی ہے، اور صلاۃ (درود) سب سے اعلیٰ لفظوں میں سے ہے، کیونکہ خدائے بزرگ و برتر کے بارے میں ہے: یصلی (۳۳: ۵۶) یعنی خدا صلوات کا نور بناتا ہے۔

 

ساتویں حکمت: جو لوگ أئمّۂ اہلِ بیت علیہم السّلام کی معرفت رکھتے ہیں، ان کے لئے درود کے معنی و مطلب کو سمجھنا البتہ مشکل نہیں ہے، کیونکہ امامِ وقت جو آلِ محمدؐ اور امامِ مبین (۳۶: ۱۲) ہیں، ان کی روحانیّت و نورانیّت میں تمام چیزوں کو گھیر لینے کا تجدّدِ امثال جاری و ساری ہے، کوئی بندۂ مومن عالمِ شخصی میں جا کر دیکھے تو معلوم ہو جائے گا کہ نورِ منزل

۴۸

(۰۴: ۱۷۴، ۰۵: ۱۵) پر خدا کے نورِ مطلق سے مسلسل نورانی بارش برستی رہتی ہے، جس طرح چاند پر لگا تار سورج کی کرنوں کی بارش برستی رہتی ہے، اور درود کی باطنی اور کائناتی تفسیر بس یہی ہے، اسی میں ساری حقیقتیں اور معرفتیں جمع ہیں، اور کوئی عمدہ لفظ یا کوئی اعلیٰ معنی اس مثال سے باہر نہیں۔ الحمدللہ ربّ العالمین۔

 

ن۔ ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل، ۷ ذیقعدہ ۱۴۱۴ھ، ۱۹ اپریل ۱۹۹۴ء

۴۹

 

درسِ مکرر (۱۰)

 

آدم یا آدموں کا قصّہ؟

یعنی یہ قصّہ جو قرآنِ عزیز میں ہے، آیا وہ تنہا ایک ہی آدم سے متعلق ہے؟ یا یہ بطریقِ حکمت بہت سے آدموں کا قصّہ ہے؟ اس کا تسلی بخش جواب حقیقی علم کے ذخائر میں موجود ہے، اور قرآنِ حکیم تو خزینۃ الخزائن ہے، اسی کے بحرِ محیط سے علم کی نہریں جاری ہیں۔

 

سیدنا جعفر بن منصور الیمن کے اس ارشاد میں خوب غور کر کے ایک بہت ہی مفید منطقی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے: و ان آدم فی نفس الحقیقۃ بشرح التاویل انما کان احد مستجیبی امام الزمان، متحمل الذکر، و کان مجتھدا شدید الاجتہاد۔۔۔۔

ترجمہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ آدم در حقیقت تاویل کی روشنی میں امامِ زمان کے مستجیبین میں سے ایک مستجیب تھا، جو ذکر کا حامل (یعنی اسمِ اعظم دیا گیا) تھا، اور وہ ذکر و عبادت وغیرہ میں بڑا سخت مجاہدہ کرتا تھا۔۔۔

 

آدمِ سراندیبی کا خاص نام تھا تخوم بن بجلاح بن قوامہ بن ورقۃ الرویادی، کہتے ہیں کہ “آدم” دراصل نام نہیں، بلکہ لقب ہے، جس کا اطلاق اپنے دور

۵۰

میں ہر ناطق پر اور اپنے زمانے میں ہر امام پر ہوتا ہے، پس حضرتِ تخوم علیہ السّلام جو ناطقِ اوّل اور اس دورِ کبیر کے آدمِ نخستین تھے، اُن کے عالمِ شخصی میں قانونِ تجدّد کے مطابق ایک نئی کامل و مکمل اور ہمہ رس و ہمہ گیر کائنات وجود میں آنے والی تھی، جس کی خلافت و نیابت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا:

اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ (۰۲: ۳۰)

“میں ایک خلیفہ زمین میں مقرر کرنے والا ہوں”

 

اب یہاں ایک بہت بڑا مسئلہ سامنے آتا ہے کہ یہ فرشتے کون سے ہیں؟ ذاتی ہیں؟ یا کائناتی ؟ عالمِ ذرّ میں ہیں؟ یا عالمِ ابداع میں؟ بحدِّ قوّت ہیں؟ یا بحدِّ فعل؟ سماوی ہیں؟ یا ارضی؟ نیز یہ سوال بھی ہے کہ فرشتوں نے جو کچھ کہا، وہ زبانِ قال سے ہے؟ یا زبانِ حال سے؟ سب نے کہا؟ یا بعض نے؟

 

الجواب: تجدّدِ امثال ایک پُرحکمت اصطلاح اور ایک کلیدی قانون ہے، جس کی روشنی میں بہت سے حقائق و معارف کا انکشاف ہوسکتا ہے، چنانچہ خالقِ اکبر ہر آدم کے لئے اس کے عالمِ شخصی میں کائنات کی تجدید کرتا ہے، اور خدا کا یہ کام كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ (وہ ہر روز ایک (نئی) شان میں ہے ، ۵۵: ۲۹) کی ایک عملی تفسیر ہے، پوری آیت کا مفہوم اس طرح سے ہے: جتنے لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں، سب اس کے انتہائی عظیم انعامات کے لئے درخواست کرتے ہیں، اور اللہ

۵۱

تبارک و تعالیٰ جب چاہے ان کو کائناتوں کی خلافت و سلطنت سے نوازتا ہے، اسی طرح ہر روز (یعنی ہر دور میں) اس کی ایک نئی شان ہوتی رہتی ہے۔

 

الغرض شروع شروع میں جن بحدِّ قوت فرشتوں نے بحکمِ خدا آدم کو سجدہ کیا، وہ عالمِ ذرّ کے جملہ ذرات تھے، جن میں ہر مخلوق کی نمائندگی تھی، ظاہر ہے کہ ذرات کا سجدہ انسانی سجدے سے قطعاً مختلف ہے، وہ یہ کہ ذراتی فرشتے آدم کے جسم و جان میں گرگئے، تا کہ ذاتی قیامت برپا کریں، یہ فرشتے جو ابتداءً شیرخوار بچوں ہی کی طرح علم و حکمت سے نا واقف تھے، وہ بعد میں حضرت آدم کے علم الاسماء کی برکتوں سے رفتہ رفتہ کامل فرشتے ہوگئے، اور انہوں نے آگے چل کر لولوئے عقل کے ذریعے سے بھی آدم کے لئے سجدۂ فرمانبرداری بجا لایا۔

 

قرآنِ عظیم کا ایک بڑا اہم قانون یہ بھی ہے کہ جس چیز کو زبانِ قال نہ دی گئی ہو، اس کی زبانِ حال کی شنوائی ہو جائے، یعنی نظامِ رحمت اس کی ترجمانی اور نمائندگی کرے، چنانچہ خلافتِ آدم کے اعلان پر ذرّاتی فرشتوں نے زبانِ قال سے کچھ نہیں کہا تھا، لیکن جس طرح ان کے امکانی جذبات اور زبانِ حال کی ترجمانی کی گئی ہے، اس میں عظیم حکمتیں بھی ہیں، اور آزمائشیں بھی۔

 

اسی زبانِ حال میں یہ ذکر بھی ہے کہ آدم زمین پر فساد اور خونریزی کرے گا، اس کا ظاہری مطلب تفاسیر وغیرہ میں موجود ہے، مزید برآن اس میں یہ حکمت بھی ہے کہ فرشتوں نے گویا دنیا میں شروع سے لے کر آخر تک نظامِ

۵۲

خلافت و امامت کو قائم و برجا دیکھا، اور اسی کو جملہ احوالِ جہان کا ذمہ دار ٹھہرایا، اور اس میں حکمت کا یہ پہلو بھی ہے کہ بعض حدودِ دین کے عوالمِ شخصی میں روحانی انقلاب برپا ہوگا اور شکوک و شبہات کا خون بہایا جائے گا، نیز زمینِ دعوت میں بھی فساد برائے تعمیر ہوتا رہے گا۔

 

فرشتوں نے زبانِ حال سے یہ بھی کہا: وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ (۰۲: ۳۰) تاویلی مفہوم: اور ہم زبانِ حال سے مقامِ عقل پر بالواسطہ تیری تسبیح کرتے ہیں، اور مرتبۂ امر پر بلا واسطہ تیری تقدیس۔ کیونکہ اشارۂ گوہرِعقل اور کلمۂ امر میں ہر چیز کا تصوّرِ مجرّدِ محض موجود ہے، چونکہ عقل (حمد) اللہ تبارک و تعالیٰ کا اسمِ سبوح اور امر اسمِ قدّوس ہے، لہٰذا ان دونوں بزرگ ناموں میں کل چیزوں کی زبانِ حال سے اللہ کی تسبیح و تقدیس ہوتی رہتی ہے (۱۷: ۴۴)، الحمد للہ!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

اتوار، ۱۲ ذیقعدہ ۱۴۱۴ھ، ۲۴ اپریل ۱۹۹۴ء

۵۳

درسِ مکرر (۱۱)

 

زلزلۂ روحانی بہت بڑا معجزہ:

پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ: جو شخص مر جائے اس کی قیامت برپا ہو جاتی ہے (من مات فقد قامت قیامتہ) اور یقیناً آپ اس حقیقت سے آگاہ ہیں، کہ پُرحکمت موت وہ ہے جو جسمانی زندگی ہی میں بے شمار عجائب و غرائب کے ساتھ سامنے آتی ہے، اس سے یہ مطلب ظاہر اور روشن ہوا کہ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ جس قیامت کا ذکر آیا ہے، وہ دراصل ذاتی اور انفرادی قیامت ہے، جس میں بحالتِ عالمِ ذرّ اوّلین و آخرین سب موجود ہیں۔

 

زلزلۂ قیامت سے متعلق قرآنی اور روحانی معلومات کے لئے آپ عزیزان سب سے پہلے اس ربّانی تعلیم میں واجبی طور پر غور کریں، آیۂ مقدّسہ کا ترجمہ یہ ہے: کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ (روحانیّت کی) بہشت میں پہنچ ہی جاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تمہیں اگلے زمانہ والوں کی سی حالت نہیں پیش آئی؟ انہیں طرح طرح کی سختیوں اور مصیبتوں نے گھیر لیا تھا (و زلزلوا) اور زلزلے میں اس قدر جھنجوڑے گئے کہ آخر پیغمبر اور ایمان والے جو ان کے ساتھ تھے کہنے

۵۴

لگے: خدا کی مدد کب آتی ہے؟ خدا کی مدد یقیناً بہت قریب ہے (۰۲: ۲۱۴)۔

 

مذکورہ آیۂ کریمہ میں جس جنت کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ روحانیّت بھی ہے اور مستقل بہشت بھی، جس میں داخل ہو جانے کی بہت سی شرطیں ہیں، ان شرائط کا خلاصہ یہاں علی التّرتیب الْبَاْسَآءُ (سختی) الضَّرَّآءُ (مصیبت) اور زُلْزِلُوْا میں بیان ہوا ہے، تاہم سب سے آخری چیز زلزلہ ہے، اور یہ ایک ایسا سرِّ عظیم اور بہت بڑا معجزہ ہے کہ خاصانِ الٰہی کے سوا اس سے کوئی شخص واقف نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ بوسیلۂ دستِ قدرت تطہیر کا عمل ہے، اس آیۂ شریفہ کے آخر میں نَصْرُ اللّٰهِؕ (خدا کی مدد) کا بھی ذکر ہے، جس سے فرشتۂ خیال مراد ہے، لیکن یہ قانون یاد رہے کہ خیال تنہا نہیں ہوتا، بلکہ دوسرے فرشتے بھی ساتھ ہوا کرتے ہیں۔

 

دوسرا متعلقہ ارشادِ مبارک سورۂ حج کے شروع (۲۲: ۰۱ تا ۰۲) میں ہے، جس کا ایک ترجمہ یہ ہے: لوگو! اپنے ربّ کے غضب سے بچو، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے، جس روز تم اسے دیکھو گے، حال یہ ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی، ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا، اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا (۲۲: ۰۱ تا ۰۲)۔

 

ہر عالمِ شخصی کلّیات میں سے ایک کل ہوا کرتا ہے، جس میں تمام مثالیں اور ممثولات موجود ہیں، وہ ان جملہ مثالوں کے سلسلے میں ایک ایسی

۵۵

انتہائی عجیب و غریب عورت یا مجموعۂ خواتین بھی ہے، جس کے نہ صرف بہت سے شیر خوار اطفال ہی ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کے بطن (باطن) میں بے حساب روحوں کا حمل بھی ہے، لیکن جب شخصی قیامت کی بہت بڑی سختی کا عالم ہوتا ہے تو اس وقت وہ اپنے دودھ پیتے بچوں سے غافل ہوجاتی ہے، اور اس کا حمل جو بے شمار روحوں پر مشتمل تھا، وہ گر جاتا ہے، یعنی عزرائیلی عمل سے عالمِ شخصی کی ساری روحیں نکالی جاتی ہیں۔

 

ایسی روحانی اور عرفانی قیامت کے مقابلے میں دیکھا جائے تو لوگ اپنے اپنے خیالات و نظریات میں مست ہیں، یعنی ان کو قطعاً معلوم ہی نہیں کہ عالمِ شخصی میں کیا ہو رہا ہے، جس طرح کوئی شرابی جب شراب پی کر مست و لا یعقل ہو جاتا ہے، تو اس کی عقل زائل ہو جاتی ہے، اور وہ دین ودنیا سے بے خبر ہو جاتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ کوئی اچھی مستی نہیں، بلکہ عذابِ الٰہی کی شدّت ہے، یعنی عقلی عذاب ہی کا نشہ ہے۔

 

زلزلۂ روحانی کا تیسرا تذکرہ سورۂ احزاب کے رکوعِ دوم (۳۳: ۰۹ تا ۱۱) میں ہے، جہاں روحانی جنگ کی مثال میں قیامت کے تجدّد کا بیان ہوا ہے، بے حد مسرّت و شادمانی اور بہت بہت زیادہ شکرگزاری کی بات ہے کہ اگرچہ کاملین کی روحانی قیامت ایک جانب سے ذاتی ہے تاہم دوسری جانب سے کائناتی ہے، جس میں سب سے پہلے تمام مومنین و مومنات کی نمائندگی ہوتی ہے، اور پھر درجہ بدرجہ سب کی، پس آپ اس اصولِ گوہرین کو ہمیشہ کے لئے یاد رکھیں: “ہر عالمِ شخصی کلّیات میں سے ایک کلّ ہوا کرتا ہے جس

۵۶

میں تمام مثالیں اور ممثولات موجود ہیں۔”

 

قرآنِ حکیم کے ظاہر میں تاریخِ اسلام کے واقعات کا تذکرہ ضرور ہے، لیکن اس کے باطنی اور تاویلی پہلو کا تعلق تمام زمانوں سے ہے، چنانچہ محولۂ بالا تینوں آیاتِ کریمہ کی تنزیل میں جنگِ خندق کے بعض حالات بیان ہوئے ہیں، اور تاویل میں اس نعمتِ عظمیٰ کا ذکر فرمایا گیا ہے، کہ عالمِ شخصی کے روحانی جہاد میں جنگِ خندق کی مثال بھی موجود ہے، چنانچہ اس واقعہ میں روحانی پہلو ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے:

 

وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ = اور (تمہارے) قلوب گلوں سے چڑھنے لگے (۳۳: ۱۰) یعنی یہ قصّہ منزلِ عزرائیلی سے متعلق ہے، جہاں روحانی جنگ بھی ہے، اور قبضِ روح کا عمل بھی، کیونکہ یہاں قلوب سے جانیں یا روحیں مراد ہیں، هُنَالِكَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا = یہاں پر مومنوں کا امتحان لیا گیا تھا، اور بڑی شدت سے ہلائے گئے (۳۳: ۱۱)۔

 

زلزلۂ روحانی کا چوتھا اور آخری تذکرہ سورۂ زلزال (۹۹: ۰۱ تا ۰۸) میں ہے، جس میں بہت سے تاویلی اسرار مخفی ہیں، پہلے اس کا ایک مستند ترجمہ پیش کیا جاتا ہے، اور اس کے بعد تاویلی حکمت کے لئے سعی کی جاتی ہے:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی، اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈالے گی، اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہو رہا ہے؟ اس روز وہ اپنے (اوپر گزرے

۵۷

ہوئے) حالات بیان کرے گا، کیونکہ تیرے ربّ نے اسے (ایسا کرنے کا) حکم دیا ہوگا۔ اس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے، تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں، پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا۔

 

تاویلی حکمت: جس طرح قبلاً آیاتِ قرآنی کی روشنی میں ہر بار یہ حقیقت نکھر کر سامنے آئی کہ زلزلۂ قیامت کا تعلق صرف اور صرف مومنین و کاملین کے عالمِ شخصی ہی سے ہے، پھر کسی شک کے بغیر مذکورہ زمین اور اس کا شدید روحانی زلزلہ عالمِ شخصی ہی میں ہے، کیونکہ مومنِ سالک جس پر قیامت گزر رہی ہو، انسانی بدن رکھتا ہے، جو بے شمار خلیات کا مجموعہ ہے، جن میں بے حد و بے حساب روحیں اس طرح سے ہیں کہ گویا بہت سی روحیں مردہ ہیں، بہت سی ارواح نیم مردہ ، بہت سی جانیں خوابیدہ ہیں، بہت سی نیم خوابیدہ، اور بہت سے نفوس بیدار مگر غافل ہیں، لہٰذا قانونِ قیامت کی رو سے یہ امر نہایت ضروری ہوا کہ عالمِ شخصی کی تمام روحوں کو بڑی سختی کے ساتھ ہلا ہلا کر جگا دیا جائے، اور پُرحکمت تحلیلی حرکت سے کثافتوں کو دور کرکے ان کو پاک و پاکیزہ اور لطیف بنایا جائے۔

 

عالمِ شخصی کی زمین میں جو بارہائے گران (اثقال ، واحد ثقل) پوشیدہ ہیں، وہ دنیا بھر کی نمائندہ روحوں کے ذرات ہی ہیں، ان کو ہر ایسی قیامت میں جو ذاتی بھی ہے، اور کائناتی بھی، اسرافیلی اور عزرائیلی طاقت سے

۵۸

ہلا ہلا کر باہر نکالنا ہے، اور اس عظیم عمل میں بہت سے اسرارِ مخفی موجود ہیں۔

 

جب مومنِ سالک پر یہ عجیب و غریب واقعہ گزرنے لگے گا تو ضرور اس میں تعجب سے یہ سوال پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ پیغمبرانہ وحی کی بات ہرگز نہیں، لیکن پروردگارِ عالم سالک کے دل کی زمین کو اولیائی اور عرفانی وحی کرے گا، جس سے وہ اپنے حالات یعنی خودشناسی اور خدا شناسی کے اسرار بیان کرے گی، اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی ہے کہ وہ مہربان قیامت کے دن فرمانبردار لوگوں سے کلام کرے گا، اور ان کو اپنی نظرِ عنایت یعنی دیدارِ پاک سے سرفراز فرمائے گا، جس کی برکت سے وہ پاک و پاکیزہ ہو جائیں گے (۰۲: ۱۷۴، ۰۳: ۷۷)۔

 

اُس روز ادیان و مذاہبِ عالم کے سب لوگ عالمِ شخصی کے قبرستانوں سے الگ الگ نکلیں گے، تا کہ اپنے انفرادی اور اجتماعی اعمال کو دیکھیں، پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی، وہ اس کو کثیر زندہ ذرّات کی صورت میں دیکھے گا، اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی، وہ اس کو اسی مقدار میں دیکھے گا۔

 

اگرچہ زلزلہ کا تذکرہ بظاہر چار مقام پر ہے، لیکن قرآنِ حکیم کی معنوی گہرائی میں ایسی موضوعاتی جامعیت ہے کہ اس کی روشنی میں ہر مضمون تمام قرآن میں پھیلا ہوا نظر آتا ہے، مثال کے طور پر تضرع، گریہ و زاری، مناجات، توبہ، آسمانی محبّت، عشق، وغیرہ میں بھی زلزلہ یا کپکپی ہے، آپ

۵۹

قرآنی علاج کے آخر میں “کپکپی سے علاج”  کے مضمون کو بھی پڑھیں، تا کہ زلزلۂ روحانی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ مفید معلومات حاصل ہو سکیں، اور آپ تمام عزیزان انتہائی عاجزی سے مناجات کریں کہ حضرتِ ربّ العزّت تمام عوالمِ شخصی کو نورِ علم سے منور کر دے ! آمین!!

 

ن۔ن۔(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات، ۲۳ ذیقعدہ ۱۴۱۴ھ، ۵ مئی ۱۹۹۴ء

۶۰

تاویلی سوالات

 

س ۱: سورۂ ہمزۃ (۱۰۴: ۰۱ تا ۰۹) میں جس کثیر مال کا ذکر آیا ہے، وہ کیا ہے؟ اور آخر میں جن لمبے لمبے ستونوں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، وہ کیا ہیں؟

ج: ایسے شخص کا مال کثیر غیر مفید علم ہے، اور فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ (لمبے لمبے ستون) روحانیّت کی سیڑھیاں ہیں، کہ ان میں اکثر لوگ عقلی طور پر قید ہیں، اور یہ ستون وہ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے سماواتِ روحانی و عقلانی کو بلند کیا ہے (۱۳: ۰۲)۔

 

س۲: قرآنِ حکیم میں سیڑھیوں کا ذکر الگ ہے، اور ستونوں کا بیان الگ، پھر دو جدا جدا چیزیں کس طرح ہو سکتی ہیں؟

ج: روحانیّت کی چیزیں ایک ہیں، ہر چند کہ ان کی مثالیں الگ الگ بیان کی گئی ہیں، چنانچہ ربُّ العرش کے پاس جانے کا وسیلۂ واحد ہادیٔ زمان صلوات اللہ علیہ کی پیروی ہی ہے، جس کی بہت سی مثالیں ہیں، جیسے صراطِ مستقیم پر چلنا، خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا، آسمانی سیڑھی پر چڑھنا، پلِ صراط سے گزر جانا وغیرہ۔

 

س۳: سورۂ رعد کی دوسری آیۂ کریمہ کے ان کلمات کا اصل ترجمہ کیا ہو سکتا

۶۱

ہے؟ اَللّٰهُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا (۱۳: ۰۲)۔

ج: اس کا اصل ترجمہ اس طرح ہے: اللہ وہی تو ہے جس نے آسمانوں کوغیر مرئی ستونوں پر بلند کیا۔ یعنی آسمانِ ظاہر کے ستون ہیں لیکن تم انہیں دیکھ نہیں سکتے، پھر کیسے ممکن ہے کہ آسمانِ باطن کے ستونوں کو دیکھ سکو۔

 

س۴: ترجمۂ آیۂ کریمہ: (اے رسول) کیا تم نے ان لوگوں (کے حال) پر نظر نہیں کی جو موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل بھاگے اور وہ ہزاروں آدمی تھے تو خدا نے ان سے فرمایا کہ سب کے سب مر جاؤ (اور وہ مر گئے) پھر خدا نے انہیں زندہ کیا، بے شک خدا لوگوں پر بڑا مہربان ہے، مگر اکثر لوگ اس کا شکریہ ادا نہیں کرتے (۰۲: ۲۴۳) ۔ اس کی تاویلی حکمت بتائیے۔

ج: یہ بہت بڑا واقعہ دنیا بھر کے لوگوں پر اس وقت گزرتا ہے جبکہ ہر زمانے میں انفرادی قیامت کا صور بجنے لگتا ہے، جس سے تمام آدمیوں کے نمائندہ ذرّات ڈر کے مارے خانہ ہائے ابدان سے نکل کر شخصِ قیامت میں داخل ہو جاتے ہیں، جس میں خدا ان کو نفسانی موت کا مزہ چکھاتا ہے، اور پھر ان کو زندہ کر دیتا ہے۔

 

س۵: قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں لقاء اللہ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی ملاقات کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس سے کیا مراد ہے؟ آیا یہ ربّ العالمین کا دیدارِ پاک ہے یا کوئی اور چیز؟ اگر یہ دیدار ہی کا تذکرہ ہے تو کسی دوسری آیت سے بھی شہادت پیش کریں۔

ج: پروردگارِ عالم کی ملاقات خود اس کا دیدارِ اقدس ہی ہے، جو صرف چشمِ بصیرت ہی سے ممکن ہے، اور ایسی آنکھ

۶۲

اگر دنیا میں نہیں کھلتی ہے تو پھر آخرت میں خدا کا دیدار ناممکن ہے (۱۷: ۷۲) خداوندِ دو جہان کے دیدارِ اقدس کے ثبوت میں کئی آیات پیش کی جا سکتی ہیں، تاہم ایک ہی آیۂ جامعہ ایسی ہے کہ اس کی روشنی میں حقیقت کلی طور پر روشن ہو سکتی ہے، وہ آیۂ کریمہ یہ ہے: وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌ (۷۵: ۲۲) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (۷۵: ۲۳)۔ اُس روز کچھ چہرے ترو تازہ ہوں گے، اپنے ربّ کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔

 

س۶: سات آسمان اور سات زمین کے بارے میں بتائیے کہ وہ کس طرح ہیں؟

ج: اس کا جوابِ باصواب سورۂ طلاق کے آخر میں موجود ہے، وہ ارشاد یہ ہے: (ترجمہ) خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور انہیں کے برابر زمین کو بھی، اس کے درمیان امرِ الٰہی نازل ہوتا رہتا ہے (۶۵: ۱۲) یعنی چھ ناطق اور حضرتِ قائم علیہم السّلام عالمِ دین کے سات آسمان ہیں، اور ان کے حجت سات زمین، یہاں کا ہر آسمان خدا کے امر سے متعلقہ زمین کو رفتہ رفتہ آسمان اور اپنا جانشین بنا دیتا ہے، اس طرح ہر چھوٹے دور میں سات امام سات آسمان اور ان کے سات حجت سات زمین ہیں، اور عالمِ شخصی کا روحانی نظام بھی ایسا ہی ہے، اور یہ سبع المثانی ہیں (۱۵: ۸۷) یعنی ایسی سات آیتیں جو دہرائی جاتی ہیں۔

 

س۷: آپ کی کتابوں میں امام اور امامت کے بارے میں کافی معلومات ملتی ہیں، لیکن خلیفہ اور خلافت کے باب میں چندان تفصیلات نہیں ہیں، اب یہاں پوچھنا یہ ہے کہ، آیا منصبِ خلافت اور منصبِ امامت ایک ہی ہے

۶۳

یا دو الگ الگ چیزیں ہیں؟

ج: باطنی خلافت دراصل امامت کا دوسرا نام ہے، ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ خلافت یقیناً امامت ہی ہے، لیکن یہ لفظ اور قصّہ قرآنِ پاک میں مرتبۂ امامت کے لئے حجاب کے طور پر آیا ہے، تا کہ امامِ زمانؑ کی معرفت اوّلین و آخرین کے لئے سب سے بڑا امتحان ہو، چنانچہ آدمِ اوّل کی خلافت سے متعلق ربّ العزّت نے فرشتوں سے فرمایا کہ: اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ = میں زمین میں (اپنا) ایک نائب بنانے والا ہوں (۰۲: ۳۰) یہاں زمین سے دنیائے انسانیت مراد ہے، اور خلیفہ یعنی خدا کے نائب میں امام کے معنی پوشیدہ ہیں، جس طرح حضرتِ آدم علیہ السّلام میں ان کی اولاد کی امامت مخفی تھی۔

 

س۸: اس آیۂ مبارکہ کی حکمت بیان کیجئے: وَ لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَّلٰٓىٕكَةً فِی الْاَرْضِ یَخْلُفُوْنَ  (۴۳: ۶۰) اگر ہم چاہیں تو تم سے فرشتے پیدا کردیں جو زمین میں جانشین بنیں۔

پہلی حکمت: یہ اشارہ أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کی طرف ہے،کیونکہ وہی حضرات مومنین میں سے ارضی فرشتے اور خلیفے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کا جثّۂ ابداعیہ بھی ہوتا ہے۔

دوسری حکمت: جب حقیقی مومنین علم و عبادت اور روحانی ترقی کے وسیلے سے “فنا فی الامام” کے درجۂ اعلیٰ پر فائز ہو جاتے ہیں تو ان کو بھی اللہ تعالیٰ ارضی فرشتے اور خلفاء بنا دیتا ہے (۲۴: ۵۵)۔

تیسری حکمت: ہرشخص اپنی ذات میں بحدِّ قوّت ایک عالم

۶۴

ہے، جس کی خلافت بشرطِ اطاعت خود اسی شخص کو مل سکتی ہے۔

چوتھی حکمت: اس کائنات کی بے پایان وسعتوں میں لاتعداد ستاروں کی دنیائیں اور لطیف مخلوقات ہیں، اور ان میں سے ہر ایک دنیا میں ایک بہشتی خلافت قائم ہو سکتی ہے۔

پانچویں حکمت: سب سے اعلیٰ آسمان عقلِ کلّی ہے، اور سب سے وسیع زمین نفسِ کلّی، اور اللہ وہ قادرِ مطلق ہے جو ہر آدمی کے عالمِ شخصی میں نفسِ کلّی کو ظہور دے سکتا ہے، پس جو مومن “وجہ اللہ” میں فنا ہوجاتا ہے اس کو بفضلِ خدا زمینِ نفسِ کلّی (ارض اللہ، ۲۹: ۵۶، ۳۹: ۱۰) کی خلافت و سلطنت عطا ہو جاتی ہے۔

 

س۹: عالمِ ظاہر کے اعتبار سے نہیں بلکہ عالمِ شخصی کے تناظر سے اس حدیثِ قدسی کے بھیدوں کواجاگر کریں: کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق = میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، سو میں نے چاہا کہ میری پہچان ہو تو میں نے خلق کو پیدا کیا۔ جب تک مومنِ سالک کی روحانی ترقی نامکمل اور عالمِ شخصی ناتمام ہو، تب تک ذاتی لحاظ سے (یعنی اس کے حق میں) خدا ایک پوشیدہ خزانہ ہوتا ہے، لیکن جب حضرتِ ربّ اپنی معرفت کی لازوال دولت سے اس مومن کو مالامال کر دینا چاہتا ہے، اور عالمِ شخصی کی روحانی اور عقلانی ترقی کی صورت میں اُسے اسرارِ ازل تک پہنچا دیتا ہے تو اس وقت یہ خزانۂ خداوندی اس مومنِ سالک ہی کا ہو جاتا ہے، یاد رہے کہ مذکورہ تخلیق دفعۃً نہیں بلکہ ہمیشہ ہے

۶۵

اور وہ ہر انسانِ کامل کی روحانی اور عقلانی پیدائش ہے، اس لئے آپ اس کو تجدّد بھی کہہ سکتے ہیں۔

 

س۱۰: آپ نے اپنی تحریروں میں بار بار جسمِ لطیف کا تذکرہ کیا ہے، جس کے تمام تر حوالے قرآنِ کریم سے دئے ہیں، سو یہاں پوچھنا یہ ہے کہ آیا حدیثِ شریف میں بھی کوئی ایسا تذکرہ یا اشارہ موجود ہے؟

ج: جی ہاں! حدیثِ نبوّی میں بھی واضح طور پر جثۂ ابداعیہ کا ذکر آیا ہے، اور وہ پُرحکمت ارشاد یہ ہے: رایت جعفرا لہ جناحان فی الجنۃ = میں نے جعفر کو دیکھا بہشت میں اس کے دو بازو ہیں۔ یعنی وہ جسمِ لطیف میں جنت کی زندگی گزار رہا ہے، اور جب جب چاہے تو ذکر و عبادت کے دو بازوؤں سے پرواز بھی کرتا ہے، چنانچہ جعفر بن ابو طالب کا نام تاریخِ اسلام میں جعفرِ طیار مشہور ہوا۔

 

س۱۱: یہ سورۂ فاطر کی پہلی آیت (۳۵: ۰۱) کا ترجمہ ہے: تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رسان مقرر کرنے والا ہے، (ایسے فرشتے) جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار بازو ہیں (۳۵: ۰۱) یہاں یہ سوال ہے کہ فرشتے کس شکل کے ہوتے ہیں؟ اور ان کے بازو (پر) کہاں اور کیسے ہوتے ہیں؟ آیا وہ پرندوں کی طرح ہیں؟

ج: فرشتہ درحقیقت آدمی کی ترقی یافتہ صورت ہے، اس لئے وہ ایک انتہائی حسین و جمیل انسان ہی کی طرح ہوتا ہے، اور اس کے بازو جو اللہ کے بزرگ اسماء ہیں، باطن میں پوشیدہ ہوتے ہیں، آپ قرآنِ حکیم میں اس حقیقت کو

۶۶

دیکھ سکتے ہیں، کہ جب فرشتے حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے (۱۱: ۶۹، ۵۱: ۲۶) اور جس وقت حضرت لوط علیہ السلام کے پاس گئے (۱۱: ۷۷ تا ۸۱) تو وہ انسانوں کی صورت میں تھے، نیز جہاں حضرتِ مریم علیہا السّلام کے پاس روح القدس کا ظہور ہوا (۱۹: ۱۷) وہاں بھی وہ فرشتہ ایک مکمل آدمی ہی کی طرح تھا۔

 

انسان اپنی مجموعی ہستی میں کثیف بھی ہے اور لطیف بھی، پس وہ اپنی کثافت میں بشر اور لطافت میں فرشتہ ہے، پھر خوشخبری ہے ان مومنین و مومنات کے لئے جو اپنے باطن میں علم و عبادت کے بازوؤں سے عالمِ علوی کی طرف پرواز کر جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ وہ ایک دن اپنے رفیقِ اعلیٰ (انائے علوی) کو دیکھیں گے، جو فرشتۂ اعظم اور سب کچھ ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

ن۔ن۔(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

اتوار ، ۱۴ شوال ۱۴۱۴ھ ، ۲۷ مارچ ۱۹۹۴ء

۶۷

امامِ مبین کا علمی معجزہ

 

حضرتِ امامِ زمان صلواۃ اللہ علیہ و سلامہ کا نورِ اقدس ہی تمام علمی و عرفانی کرامات و معجزات کا اصل سرچشمہ ہے، لہٰذا جملہ مومنین و مومنات کے لئے یہ امر ازبس ضروری و لازمی ہے کہ وہ روحانی اور عقلی معجزات سے پہلے علم الیقین کے درجات میں معجزانہ علم کو پہچانتے ہوئے حاصل کریں، وہ اسے حقیقی علم کے عنوان سے قبول کریں، اور عقل و دانش کی کسوٹی سے لوگوں کی علمی باتوں کو پرکھ لیں کہ خاص بات کون سی ہے اور عام بات کون سی؟

 

عقل و دانش کی کسوٹی بھی حقیقی علم ہی میں مہارت حاصل کر لینے کا نام ہے، چنانچہ ہوشمند مومنین ذکر و عبادت اور عاجزی کی بنیاد پر ہر وقت علم الیقین کی روشنی سے مستنیر ہوتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اس میں درجۂ کمال حاصل کر لیتے ہیں، اور پھر ان شاء اللہ ، عین الیقین کی منزل آتی ہے، جس میں ایک ساتھ بے شمار برکتیں ہیں۔

 

ڈاکٹروں کی پرخلوص خدمات:

یہ سچ ہے کہ اس وقت کہن سالی کی وجہ سے مجھے بعض چھوٹی بڑی بیماریوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، ایسے میں ڈاکٹروں کی مدد بے حد ضروری ہوتی ہے، پس مجھے خداوندِ قدوس کی اس خاص نعمت پر بھی بہت زیادہ شکر

۶۸

کرنا چاہئے کہ اس کریمِ کارساز نے ہمیں کئی مخلص، مہربان اور فرشتے جیسے ڈاکٹروں کی آنریری خدمات سے نوازا ہے، ان خوش خصال ڈاکٹروں کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

 

جناب ڈاکٹر رفیق جنت علی، ان کی بیگم محترمہ ڈاکٹر شاہ سلطانہ، محترمہ ڈاکٹر زرینہ حسین علی (مرحوم)، محترمہ ڈاکٹر نیلوفر بابر خان، محترمہ ہیڈ نرس روبینہ برولیا، اور محترمہ ہیڈ نرس عشرت (رومی) ظہیر لالانی۔

 

میں صدر فتح علی حبیب اور صدر محمد عبد العزیز سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ براہِ مہربانی اعترافِ خدمت کے یہ چند کلمات “بورڈ آف میڈیکل ایڈوائزرز اینڈ پیٹرنز” کے اعزاز میں پڑھائیں۔

 

نوٹ: یکم جنوری ۱۹۹۴ء سے ریکارڈ آفیسر روبینہ برولیا اور ریکارڈ آفیسر عشرت رومی (ظہیر لالانی) مذکورہ بورڈ میں شامل کی گئی ہیں، ان کو یہ منصب مبارک ہو!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد، گلگت

۲۔۳۔ ۹۴

۶۹

گورخیز تھا یا جنّ؟

 

کتابِ “قرآنی مینار” ص ۲۶۱۔۲۶۲ پر ملاحظہ ہو، جہاں ایک گورخیز کا قصّہ مرقوم ہے، میں نے سنا تھا کہ سریقول میں بھی ایک ایسا واقعہ ہو گزرا ہے، پس میں نے اس کے بارے میں جناب قربان علی خان صاحب سے پوچھا تو انہوں نے ازراہِ کرم اس کا تفصیلی قصّہ لکھ کر دیا، جس کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے:

 

۱۹۴۷ء کا ایک بڑا عجیب و غریب اور نہایت حیران کن واقعہ ہے، کہ تاشغورغان میں قرغز قوم کا ایک آدمی بیبت کے نام سے رہتا تھا جو بائیں پاؤں سے لنگڑا ہونے کے باؤجود برٹش کونسل کی ڈاک رسانی کی ملازمت کر رہا تھا، جس کا کام تھا پیک پڑاؤ میں ڈاک لانا لے جانا، مجھے یاد ہے کہ یہ شخص ماہِ مارچ ۱۹۴۷ء میں فوت ہو گیا، لیکن بڑی حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ تدفین کے تیسرے دن سے مرا ہوا بیبت کفن کے ساتھ بوقتِ شب بعض لوگوں کے گھروں میں آکر کھڑا ہونے لگا، لوگ اس کو پہچانتے تھے، اور کچھ پوچھتے تھے، مگر وہ کوئی بات ہی نہ کرتا اور خاموشی سے واپس چلا جاتا، اسی طرح تین چار دن تک یہ خوفناک واقعہ ہوتا رہا، آخر کار وہاں کے لوگوں نے اس کی قبر پر جا کر دیکھا، تو قبر حسبِ دستور بند ہی تھی، پھر بھی انہوں نے بغرضِ تحقیق قبر کو کھول کر دیکھا تو بیبت کا مردہ جسم اسی طرح پڑا ہوا تھا، مگر انہوں نے صرف اتنا دیکھا کہ اس کا ایک پاؤں دوسرے

۷۰

پاؤں پر رکھا ہوا تھا۔

 

بڑی عجیب و غریب بات ہے کہ ان لوگوں نے یا تو سزا کے طور پر یا چلنے پھرنے سے روک دینے کی غرض سے مردے کی ٹانگوں اور پیروں کو کلہاڑی سے کاٹ کاٹ کر رکھ دیا، سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کہاں کی بات ہے۔

 

جنّی شیطان کسی کو دو طرح سے گمراہ کر سکتا ہے: ایک دل میں وسوسہ ڈال کر، اور دوسرا خود سامنے حاضر ہوکر، جیسا کہ سورۂ مومنون (۲۳: ۹۷ تا ۹۸) میں ارشاد ہے: (ترجمہ) اور دعا کرو کہ پروردگار! میں شیاطین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور اے میرے ربّ! میں اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس حاضر ہو جائیں۔ پس اس قرآنی تعلیم سے ظاہر ہے کہ شیطانِ جنّی لوگوں کے سامنے حاضر بھی ہو سکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح بری روح جسمِ لطیف میں حاضر ہو سکتی ہے اسی طرح اچھی روح بھی جسمِ لطیف میں سامنے آسکتی ہے۔

 

۲۶۔۷۔ ۹۴۔

 

۷۱

 

جدید طریقِ انتساب ۔ قسط ۔ ۲۔

 

۴۱۔ تینوں اسماء بڑے پیارے:

ادارۂ عارف امریکا کے سعادت مند نائب الصدر حسن (سابق کامڑیا) ان کی نیک بخت بیگم محترمہ کریمہ (سابقہ کامڑیانی) جو علامہ نصیر ہونزائی کی پرسنل سیکریٹری برائے امریکا ہیں، اور ان کے قرۃ العین لٹل اینجل سلمان تینوں کے اسماء بڑے پیارے ہیں، کیونکہ یہ نام اہلِ بیت اطہار علیہم السلام کے مبارک اسماء میں سے بطورِ تبرک لئے گئے ہیں، پس مونوریالٹی کی خاص دعا ہے کہ یہ عزیزان، ان کے خاندان، آباء و اجداد اور آئندہ نسلیں امامِ برحق کی لازوال علمی دولت سے مالامال ہو جائیں! آمین!!

 

نصیر الدین نصیر ہونزائی

کراچی

۱۰۔۱۔۹۴۔

 

۴۲۔ ایک پیارا سا علمی گھرانا:

ہر ایسا نیک بخت خاندان “علمی گھرانا” کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے جو

۷۲

حقیقی علم سے آراستہ ہو کر حضرتِ امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کی پیاری جماعت کی علمی خدمت کر رہا ہو، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس کی عمدہ مثالیں مل رہی ہیں، جیسے امریکا میں ہمارے بہت ہی عزیز دوست نور علی مامجی کا “پیارا سا علمی گھرانا” جس میں ان کی فرشتہ خصال بیگم محترمہ یاسمین ریکارڈ آفیسر مرکز کی طرح کام کر رہی ہیں، دونوں کا سرو قد (خوش قامت) بیٹا نادر علی ایڈوائزر اور دخترِ نیک اختر نسرین علم و ہنر اور خدمت کے میدان میں ترقی کر رہے ہیں، بڑی خوشی کی بات ہے کہ اس معزز فیملی نے مخلص اور قدر دان ممبروں کے اضافے سے بھی “یاسمین نور علی برانچ” کو نیک نام بنا لیا ہے۔

ن۔ن۔(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

اتوار، ۲ رمضان المبارک ۱۴۱۴ھ، ۱۳ فروری ۱۹۹۴ء

۴۳۔ علمی خدمت کی ایک جدید مثال:

جن لوگوں کی نیک بخت اور پاکیزہ روحیں ہمیشہ مولائے برحق کے دریائے عشق میں مستغرق رہتی ہیں، ان کو یقیناً نیک توفیقات اور نورانی ہدایات کی نوازشات ہوتی رہتی ہیں، چنانچہ عزیزانم ظہیر لالانی، عشرت رومی، اور روبینہ برولیا، تینوں ریکارڈ آفیسرز نے اس علمی دسترخوان کے بچھانے میں اُس وقت بھرپور تعاون کیا جب کہ جمعہ ۴ فروری ۱۹۹۴ء کو عشرت رومی ظہیر لالانی کے نکاح میں آئیں، یہ (کتاب) گویا اس مبارک شادی کے موقع پر بچھایا ہوا اعلیٰ، اور

۷۳

عمدہ نعمتوں کا ایک دائمی دسترخوان ہے، اسی معنیٰ میں کہا گیا کہ یہ “علمی خدمت کی ایک جدید مثال” ہے، پس ہماری عاجزانہ دعا ہے کہ ربِّ کریم نورِ علم کی روشنی پھیلانے والے تمام عزیزوں کو دین و دنیا میں جزائے خیر سے نوازے! آمین!!

 

ن۔ن۔(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۲۲۔۲۔ ۹۴۔

۴۴۔ مونوریالٹی:

ایم دشن ئیڎبا ایلے سس ایون ببر بان

ازلے ببر بم جون ابدے ببر بٹ ایم

ترجمہ: میں نے ایک اعلیٰ مقام کو دیکھا ہے، جہاں سارے لوگ یکسان اور برابر ہیں، جس طرح ازل میں سب برابر اور ایک تھے، اسی طرح ابد میں بھی تمام انسانوں کا مساواتِ رحمانی (یک حقیقت = مونوریالٹی) کے تحت ایک ہو جانا زبردست مزے کی بات ہے (بہشتے اسقرݣ)۔

 

جناب نور الدین راجپاری سابق صدر ادارۂ عارف امریکا برانچ ہمارے خاص دوستوں میں سے ہیں، آپ عرصۂ دراز سے حقیقی علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں، ان کو یکم اگست ۱۹۹۳ء سے مزید ترقی دے کر ریسرچ انچارج کا عہدہ دیا گیا ہے، نور الدین راجپاری نہ صرف امریکا میں جماعت کی علمی خدمت

۷۴

انجام دے رہے ہیں بلکہ ان کی خدمت کا دائرہ رفتہ رفتہ وسیع تر ہو رہا ہے آپ کو مونوریالٹی کا ہر مضمون بے حد پسند ہے، دعا ہے کہ خداوندِ عالم ان کے علم کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دے !آمین!!

 

ن۔ن۔ (حبِ_ علی) ہونزائی

کراچی

۲۳۔۲۔۹۴۔

 

۴۵۔ خزینۂ خزائن کیا ہے؟

 

اس سوال کا جواب صرف ایک ہی ہے، مگر مثالیں الگ الگ ہیں، جیسے خزینۂ خزائن ایک زندہ کتاب ہے (۷۸: ۲۹)، وہ لوحِ محفوظ ہے (۳۶: ۱۲) وہی امامِ مبین ہے (۳۶: ۱۲) وہ حظیرۃ القدس ہے، وہ بہشت ہے، وہ مرتبۂ عقل ہے ، وہ مقامِ ازل و ابد ہے، وہ منزلِ فنا ہے، وہ معراجِ عقلانی ہے، وہ عرشِ اعلیٰ ہے، وہ کرسیٔ خدا ہے، وہ اللہ کا نورانی گھر ہے، وہ نفسِ واحدہ ہے، وہ آدمِ زمان ہے، وغیرہ۔

 

میں علم کا یہ صندوقچہ جس میں حکمت کی کلیدیں ہیں، جناب انور راجپاری اور ان کی نیک بخت فیملی کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، ان شاء اللہ یہ قیمتی تحفہ ان کے حق میں مفید ثابت ہوگا، آمین!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی ) ہونزائی

کراچی

۲۴۔۲۔۹۴۔

۷۵

۴۶۔ وحدتِ ارواح یا اضافی روحیں:

ازل میں ارواحِ خلائق کی جیسی وحدت و سالمیت تھی، ویسی ہی یگانگت ابد میں بھی ہونے والی ہے، یہ “رازِ رضوان” ہے، یعنی دوزخ اور بہشت سے بھی عظیم بھید ہے، میں یہ بات قرآن اور روحانیّت کی روشنی میں کر رہا ہوں کہ مذکورہ وحدت کے لئے لوگ یا تو خوشی سے ایک ہو جائیں گے، یا زبردستی سے ایک کئے جائیں گے، مگر یہ بہت بڑا کام ایک دن میں کیسے ہو سکتا ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے قریب والے ایک ہو جائیں، پس اس حقیقت کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر عالمِ شخصی میں مولا ہی مرکزِ وحدت ہے، اور ہم سب ایک دوسرے کی اضافی روحیں ہیں، مثلاً آپ سب میرے اضافی نفوس ہیں، یہ تمام باتیں آپ کے حق میں علم الیقین کے مقام پر ہیں، اور اگر ہم میں سے کوئی فرد ہمت سے کام لے تو وہ بڑی خوشی سے نہ صرف عین الیقین کی ہر چیز کو دیکھ سکتا ہے، بلکہ حق الیقین سے بھی تمام حقیقتوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔

 

میں یہ انمول موتیوں کا لازوال تحفہ جناب عزیز راجپاری اور ان کے خاندان کو پیش کرتا ہوں، کیونکہ آپ علم کے بڑے قدردان ہیں۔ الحمد للہ!

 

ن۔ن۔(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۲۴۔۲۔۹۴۔

۷۶

۴۷۔ خدمتِ قرآن اور حکمتِ قرآن:

اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت عطا کی گئی، اسے خوبیوں کی بڑی دولت ہاتھ لگی، اور عقلمندوں کے سوا کوئی نصیحت مانتا ہی نہیں (۰۲: ۲۶۹) یوتی الحکمۃ = وہ حکمت دیتا ہے۔ دینے کا تعلق ید اللہ سے ہے، اور اس کا مشاہدہ مرتبۂ عقل پر، جہاں بے شمار حقائق و معارف مرکوز ہیں، وہاں المثل الاعلیٰ (۱۶: ۶۰) بھی ہے، جس میں وہ تمام مثالیں جمع ہیں، جو قرآنِ حکیم میں بیان کی گئی ہیں۔

 

اب خدمتِ قرآن کی بات کرتے ہیں، اور یہ شروع سے لے کر اب تک ایک وسیع کائنات ہے، جس میں ہر گونہ خدمت کی گنجائش ہے، اور اس میں ہمیں اور ہمارے عزیز ساتھیوں کو “حکمتِ قرآن” کی خدمت سونپی گئی ہے، زہے نصیب!

 

سدا بہار پھولوں کا یہ گلدستہ میں صدر فتح علی حبیب، صدر محمد عبد العزیز، صدر بابر خان، دیگر عملداران، اور تمام ارکان کی جانب سے عزیزم نوشاد پنجوانی کو پیش کرتا ہوں، قبول ہو! میرے بہت ہی عزیز جانی دوست، میرے دل کے مکین، اور میرے بہت پیارے سٹوڈنٹ نوشاد کی (ان شاء اللہ تعالیٰ) بہت ترقی ہوگی، ان کا پہلا انتساب “مفتاح الحکمت” میں دیکھیں۔

 

ن۔ن۔(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۲۴۔۲۔۹۴۔

۷۷

ادارۂ عارف امریکہ برانچ کے عملداران

 

۱۔ جناب نور الدین راجپاری، ایسٹ اینڈ ویسٹ ریسرچ انچارج۔

۲۔ جناب شمس الدین جمعہ، صدر۔

۳۔ ان کی بیگم محترمہ کریمہ سیکریٹری۔

۴۔ جناب حسن (سابق کامڑیا) نائب صدر۔

۵۔ ان کی بیگم محترمہ کریمہ (سابقہ کامڑیانی) پرسنل سیکریٹری برائے علامہ نصیر۔

۶۔ جناب اکبر اے علی بھائی چیف ایڈوائزر۔

۷۔ ان کی بیگم محترمہ شمسہ ریکارڈ آفیسر۔

۸۔ جناب بدر الدین نور علی ایڈوائزر۔

۹۔ ان کی بیگم محترمہ ماہِ محل سیکریٹری اور “برانچ۔”

۱۰۔ محترمہ یاسمین نور علی ریکارڈ آفیسر اور “برانچ۔”

۱۱۔ جناب نادر علی ایڈوائزر۔

۱۲۔ جناب عزیز راجپاری ایڈوائزر اور “برانچ ۔”

۱۳۔ جناب عبد المجید پنجوانی اور محترمہ زینت کے فرزندِ ارجمند جناب عزیز ریکارڈ آفیسر۔

۷۸

۱۴۔ محترمہ مرینہ شفین (صدر الدین، ولی محمد) “برانچ۔”

 

بہشت کے پھولوں کا تصوّر:

گلہائے جنت کیسے ہوں گے؟ بڑے عجیب و غریب قسم کے ہوں گے، ان کو صرف سدا بہار پھول کہنا کافی نہیں، وہ جان و عقل کی لازوال دولت سے مالامال ہیں، کیونکہ بہشت کی ہر چیز زندہ اور گویندہ ہوا کرتی ہے، اس لئے بہشت کے پھول گوناگون تجلّیوں کے اوصاف و کمالات میں بے مثال ہیں۔ یعنی وہاں کا ہر پھول ہزار ہا پھولوں کے جلوے دکھاتا ہے، چونکہ بہشت عالمِ امر ہے، جو عالمِ خلق کے برعکس ہے، اور “امر” کا یہ خاصہ ہے کہ ہر وہ چیز جو اس (ادارۂ کن) کے تحت ہو چشمِ زدن میں حاضر ہو جاتی ہے، اور پلک جھپکنے میں غائب ہو جاتی ہے، اسی طرح ایک ہی شے کی بے شمار تجلّیات ہوا کرتی ہیں، اور یہ سب کچھ باری تعالیٰ کے امر سے ہوتا ہے، الحمد للہ، مومنین و مومنات کے لئے علم الیقین اور روحانیّت میں بہشت کی شناخت رکھی ہوئی ہے۔

 

یہ گویا بہشت کے حسین پھولوں کا ایک بہت ہی خوبصورت گلدستہ ہے، جو ہمارے تمام ساتھیوں کو “جشنِ خدمتِ علمی” کے موقع پر پیش ہو رہا ہے، ویسے تو ہر ایمانی روح عالمِ شخصی کی بہشتِ برین ہے، اور جنّت جو باغ کے معنی میں ہے، اس میں ہر قسم کے درختوں اور ہر طرح کے پھولوں کے ساتھ سب کچھ ہے۔

 

ن۔ن۔(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعہ، ۳ ذیقعدہ ۱۴۱۴ھ، ۱۵ اپریل ۱۹۹۴ء

۷۹

علمی خزانہ

علمی خزانہ

(پنج مقالہ سیٹ)

کتابی خزانہ

میرے عزیز دوست فردوس مومن ادارۂ عارف برانچ امریکا کے رکنِ رکین ہیں، ان کی نظر میں ہر پُرحکمت کتاب ایک انمول خزانہ ہے، اسی سبب سے آپ علم و حکمت کے عاشقوں کی صفِ اوّل میں ہیں۔

 

 

بحضور مستطاب حضرت اجل اکرم فاضل گرامی جناب آقای نصیر الدین صاحب المحترم دامت برکاتہ

 

السلام علیکم

پس از عرض سلام و تشکر و امتنان از مراحم عالی باستحضار خاطر مبارک میرساند: کہ کتابہای قیمتی و نفیس اھدائے آن سرور ارجمند توسط برادر عزیز جناب آقای عباس برہانی صاحب واصل گردید از درگاہ خداوند متعال سلامتی و طول عمر جنابعالے و توفیق روز افزون شمارا در راہ خدمت بیشتر بہ نحو احسن را مسئلت می نمایم۔

 

با تقدیم احترام

جزاک اللہ تعالیٰ و کل اللہ مساعیک بالنجاح

 

ادارۃ الثقافۃ الاسلامیۃ ۳۔۲ حامد علی منزل ۵ سول لائن

یونیوسٹی ایریا۔ علی گڑھ نمبر ۲

انڈیا

 

الدکتور علی محمد ظہیر

رئیس کلیۃ معارف الاسلامیۃ

 

 

پنج مقالہ نمبر ۱

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرفِ آغاز

اللہ تعالیٰ ۔ قیوم و قادر ۔ کا بے حد و بے حساب شکر ہو کہ ہم ایسے عاجز و ناتوان بندوں سے بھی گاہے بگاہے ایک چھوٹی سی علمی خدمت لی جاتی ہے، پروردگارِ عالم کی اس بڑی نعمت اور اس عظیم احسان کے لئے اگر ہم سجدۂ شکرگزاری سے آخری دم تک سر نہ اٹھائیں، تو بھی ذرہ برابر حق ادا نہ ہوگا۔
پنج مقالہ کے اِس نام سے صاف طور پر ظاہر ہے کہ یہ کتاب صرف پانچ موضوعات کا مجموعہ ہے لیکن میرے نزدیک اس کا ہر موضوع بڑی اہمیّت و افادیّت کا حامل، پُرمغز اور جامع قسم کا ہے، اس لئے اگر کہا جائے کہ ہر مقالہ بجائے خود ایک ضخیم کتاب کی حیثیت سے ہے تو بے جا نہ ہوگا، اور ویسے تو کتاب کی قدر و قیمت کی تقدیر کرنے کا انحصار قارئین کی آراء پر ہے۔
“پنج مقالہ نمبر ۱” میں سب سے پہلے وہ مقالہ ہے جس میں قرآنِ حکیم کی روشنی میں “اسماءِ حسنیٰ” یعنی اللہ تعالیٰ کے بزرگ ناموں

 

۷

 

کے حقائق و معارف بیان کئے گئے ہیں، اس مضمون میں عقل و دانش اور رشد و ہدایت سے کام لینے والے مومن کے لئے ہزاروں سوالات کے جوابات مہیّا و موجود ہیں، کیونکہ جب مانا گیا کہ دنیا میں لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم بصورتِ انسانِ کامل حاضر اور موجود ہے، تو اس کے بہت سے منطقی نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں اور ان سے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
دوسرا مقالہ “خدا کی رسی” ہے جو قرآنِ پاک کا ایک تاویلی موضوع ہے، جس کی ان حکمتوں کی مدد سے جو یہاں بتائی گئی ہیں، قرآنِ مجید کی بہت سی حقیقتیں کھل کر سامنے آسکتی ہیں، جبکہ تائیدِ الٰہی رہنمائی اور دست گیری کرے۔
تیسرا مقالہ “تقویٰ” ہے اور تقویٰ کی اہمیت یہ ہے کہ وہ تمام اسلامی عبادات و معاملات کا مغز ہے اور حق یہ ہے کہ شروع ہی سے تقویٰ کی اہمیّت و ضرورت رہی ہے، یعنی تمام انبیائے سلف علیہم السّلام کی دعوتوں اور شریعتوں میں مقصدِ تقویٰ ہی ملحوظِ نظر تھا، لہٰذا اس موضوع پر خامہ فرسائی کرنا اور اس کو یہاں جگہ دینا ایک ضروری امر تھا۔
چوتھا مقالہ “فلسفۂ عقیدہ” ہے اور اس موضوع کی ضرورت

 

۸

 

اس لئے ہے کہ دنیا کے اکثر لوگ عقیدہ کی اہمیّت کو نہیں سمجھ رہے ہیں، اسی سبب سے وہ دین اور مذہب کے دائرے سے نکل کر لا دینیت کے بیابان میں سرگردان پھر رہے ہیں، وہ آج اپنا قلبی سکون اور امیدِ فردا کھو چکے ہیں، لہٰذا اس بڑے عالمگیر خطرے کے پیشِ نظر فلسفۂ عقیدہ کی کچھ بنیادی باتیں سمجھ لینا حقیقی دیندار کا ایک اہم فریضہ ہوتا ہے۔
پانچواں مقالہ “اسلام کی بنیادی حقیقتیں” ہے جس میں چالیس (۴۰) اہم نکات بیان کئے گئے ہیں، میرے خیال کے مطابق ان میں سے ہر نکتہ اہلِ دانش کے لئے بہت سے جوابی معنی رکھتا ہے، بشرطیکہ ذرا غور و فکر سے کام لیا جائے، کیونکہ مطلب و معنی کا مغز صرف غور و فکر ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔
اس مختصر تمہید کے بعد مجھے ان علم پرور حضرات کی گوناگون معاونت کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جو دنیائے اسماعیلیّت کے مختلف مقامات پر سکونت پذیر ہیں، جن کی دور رس نگاہوں میں علم کی بہت بڑی قدر و منزلت ہے جو ہمیشہ علم کی روشنی پھیلانے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں جن کی عقل و روح کی غذا علم و معرفت اور ذکر و عبادت ہے، جن کا سب سے پسندیدہ شغل دینی کتابوں کا مطالعہ ہے، اور اسی طرح روز بروز اپنی مذہبی معلومات کے ذخیرے میں

 

۹

 

اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں، جس سے ان کی روحانی ترقی یقینی ہو جاتی ہے، ان کے شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے، اور نتیجے کے طور پر خداوند تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں ان پر شب و روز نازل ہوتی رہتی ہیں۔

فقط بندۂ عاجز
نصیر الدین نصیر ہونزائی
بروز یک شنبہ ۶ ، رمضان ۱۳۹۷ھ
۲۱ ، اگست ۱۹۷۷ء

۱۰

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خدا کے بزرگ نام

۱۔ وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا ۰۷: ۱۸۰۔ اور اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے نام ہیں، پس اسے انہیں (ناموں) سے پکارو۔
۲۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا کہ:
“للہ الاسماء الحسنیٰ” ہم ہیں کہ ہماری معرفت کے بغیر کسی کا کوئی عمل قبول ہی نہ کیا جائے گا۔
۳۔ اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کے نام دو قسموں میں ہیں، کلماتی یا قولی نام اور نورانی نام، خدا کے نورانی نام یا اسمائے عظام أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہی ہیں، جن کے وسیلے سے خدا کو پکارنے کے لئے فرمایا گیا ہے۔
۴۔ خدا کا وہ اسمِ اعظم جس کی شناخت وقت اور زمانے کے لحاظ سے نہایت ہی ضروری اور لازمی ہے، امامِ زمان ہی ہیں، مذکورۂ بالا آیت کی روشنی میں اس حقیقت کو ذہن نشین کر لو۔
۵۔ خدا کی ذات و صفات میں کوئی درجہ بندی نہیں، کیونکہ وہ

 

۱۱

 

ہر اعتبار سے ایک ہی ہے لیکن جہاں خدا تعالیٰ کے اوصاف کو ظاہر کرنے اور سمجھانے کے لئے مختلف معنوں اور جدا جدا چیزوں سے کام لیا گیا ہے، ان میں فرق ہے، نیز اس میں زمان و مکان کی ضرورت بھی پیشِ نظر ہے۔
۶۔ چنانچہ قولی اسماء کے مقابلے میں خدا کے نورانی نام اسمائے عظام ہیں جو انبیاء اور أئمّہ علیہم السّلام ہیں، اور اس سلسلے میں امامِ زمانؑ موجودہ وقت کا اسمِ اعظم ہیں۔
۷۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا کے کچھ نام صامت (خاموش) ہیں اور کچھ ناطق (بولنے والے) ہیں، یعنی ہدایت دینے والے اور نجات دلانے والے ہیں۔
۸۔ اللہ تعالیٰ کا عرش زندہ ہے، قلم زندہ ہے، کرسی زندہ ہے اور لوح زندہ ہے، غرض آنکہ جو چیز خاصِ خدا ہو وہ زندہ، گویندہ اور عقل والی ہوا کرتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لئے جو مثال دی گئی ہے وہ اعلیٰ ہی ہوتی ہے، وہ اس طرح کہ جب کہا جائے “خدا کا ہاتھ” تو یہ مثال ہے، اور اس کا اعلیٰ ہونا یہ ہے کہ پیغمبرؐ اور امامؑ کو خدا کا ہاتھ قرار دیا گیا ہے، اسی طرح خدا کا چہرہ بھی یہی ممثول رکھتا ہے۔
۹۔ اب آپ مذکورۂ بالا کلمات کی روشنی میں بتلائیے کہ خدائے

 

۱۲

 

بزرگ کے اسمِ بزرگ سے کون لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ کیا اسمِ اعظم سب لوگوں کے لئے قابلِ رسا ہو سکتا ہے یا نہیں؟
۱۰۔ اللہ پاک نے جو ارشاد فرمایا کہ: تم اللہ کو اس کے اچھے ناموں سے پکارا کرو۔ اس کا مطلب کیا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ بات ہو سکتی ہے کہ جو شخص خدا کے حقیقی نام کو نہیں جانتا ہو اس کا کچھ بھی سنا نہیں جائے گا؟
۱۱۔ کیا یہ بات درست ہے کہ پیغمبر اور امام خدا کے حقیقی نام ہیں اس لئے انہیں کے وسیلے سے خدا کو پکارنا چاہئے اور انہیں کے ذریعے سے خدا کی طرف رجوع کرنا چاہئے؟
۱۲۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ خدا کا اسمِ اعظم اور خدا کا خلیفہ دو الگ الگ چیزیں نہیں ہو سکتیں، اگر ایسا ہوا ہوتا تو دونوں کے مرتبے ناتمام اور غیرمکمل ہوتے، جبکہ اسمِ بزرگ میں خلافتِ الٰہیہ کے اوصاف نہیں ہوتے اور جبکہ خلیفۂ خدا اسمِ اعظم کی جگہ پر نہ ہوتے۔
۱۳۔ یہ کتنی صاف اور ستھری منطق ہے کہ جو پیغمبر اور امامِ زمانؑ خدا کا خلیفہ اور نمائندہ ہو سکتے ہیں، وہ اسمِ اعظم کی جگہ پر بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ جہاں ذاتِ خدا کی خلافت و نمائندگی ممکن ہے، وہاں اس کے اسماء کی جانشینی اور بھی زیادہ ممکن ہے۔

 

۱۳

۱۴۔ جب سے حضرت آدم علیہ السّلام اللہ جلّ شانہٗ کی خلافت و نیابتِ جلیلہ پر فائز ہوئے، تب سے یہ عظیم الشّان منصب انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے مقدّس سلسلے میں چلتے آیا ہے اور کبھی ایسا نہیں فرمایا گیا کہ اب اللہ تعالیٰ کی خلافت آسمانی کتاب کے ذمہ ہوگی، یا بیت اللہ کو حاصل ہوگی یا فرشتوں میں سے کوئی خلیفۂ خدا ہوگا، اس سے معلوم ہوا کہ امرِ خلافت منصبِ نبوّت اور مرتبۂ امامت سے الگ ہرگز نہیں، پس انسانِ کامل ہی (جو کبھی پیغمبر اور کبھی امام کی صورت میں ہوتا ہے) اسمِ اعظم بھی ہے۔

۱۴

اللہ تعالیٰ کی رسی

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں جتنی پُرحکمت مثالیں بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک نہایت خوبصورت اور انتہائی جامع مثال حبل اللہ (یعنی خدا کی رسی) ہے، اور اس مثال کا ممثول یقینی طور پر اللہ پاک کا نورِ ہدایت ہی ہے جو ازل سے موجود ہے اور انبیائے کرام و أئمّہٌ عظام علیہم السّلام کے مقدّس سلسلے میں ظاہر ہوکر دنیا والوں کی ہدایت و رہنمائی کرتے چلے آیا ہے، چنانچہ ہم یہاں خدا تعالیٰ کی توفیق سے اس نورانی رسی کے بارے میں کچھ حقائق و معارف بیان کرتے ہیں۔

جاننا چاہئے کہ قرآنِ حکیم میں اس نوعیت کی بہت سی آیتیں موجود ہیں، جن میں قربِ الٰہی کا وسیلہ ڈھونڈھنے اور اللہ تعالیٰ کو محکم پکڑنے کے لئے ارشاد ہوا ہے اور ایک وہ آیت ہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ:
“تم سب لوگ مل کر خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور

 

۱۵

 

فرقہ فرقہ نہ ہو جاؤ۔” (۳: ۱۰۳) اس فرمانِ خداوندی سے اہلِ دانش پر یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ حبل اللہ کی یہ آیۂ مبارکہ ان تمام آیاتِ مقدّسہ کی ترجمانی اور وضاحت کرتی ہے، جن میں ہدایتِ الٰہی سے وابستہ رہنے، اس کی طرف نزدیک ہو جانے اور اس کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کی تاکید فرمائی گئی ہے، کیونکہ اگر کسی وسیلے کے بغیر خدا مل جاتا اور انسان کا ہاتھ اس کے دامن کو چھو سکتا تو پھر یہ نہ فرمایا جاتا کہ تم خدا کی رسی کو پکڑو اور صراطِ مستقیم کی ہدایت اور ہادی کی ضرورت ہی باقی نہ رہتی، پس یہاں سے صاف طور پر یہ مطلب روشن ہوگیا کہ یہ آیتِ پُرحکمت جو حبل اللہ سے متعلق ہے، کلیدی حیثیت کی حامل ہے، لہٰذا دانشمندوں کو اس آیت کی حکمتوں پر غور کرنا چاہئے۔

حکمت نمبر ۱:
خدا تعالیٰ نے جس طرح سلسلۂ نورِ ہدایت کی تشبیہہ و تمثیل رسی سے دی ہے اس کی مراد یہ ہے کہ خدائی ہدایت کا یہ سلسلہ ازل سے ابد تک غیر منقطع اور قائم و مستحکم ہے جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا لوگوں کے درمیان ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ ہدایتِ الٰہی کی رسی ازل و ابد اور عالمِ علوی و عالمِ سفلی کے درمیان دائرے کی صورت میں واقع ہے، اور اس

 

۱۶

 

دنیا میں ہمیشہ اس کا ظہور ہادئ زمان علیہ السّلام کی شخصیّت میں ہوتا رہتا ہے۔

حکمت نمبر ۲:
یہ دنیا جو عالمِ سفلی ہے عالمِ علوی کے مقابل میں ایک تنگ و تاریک کنویں کی طرح ہے کہ انسان خدائی ہدایت کی رسی سے وابستہ ہوکر رہے، تا کہ اس کو روحانی اور نورانی طور پر بلند کرکے عالمِ ملکوت کی روشن فضاؤں میں پہنچا دیا جائے، کیونکہ دنیاوی مثال میں بھی رسی اور کمند سے کام لینے کا ایک وقت وہ ہوتا ہے جبکہ کوئی انسان کسی وجہ سے کسی گہرے کنویں میں یا عمیق کھڈے میں گر کر مبتلا ہو جاتا ہے۔

حکمت نمبر ۳:
قانونِ قدرت کی رو سے یہ امر ممکن تھا کہ بعض لوگ خدا کی رسی کو حاضر و موجود پانے کے باوجود بھی نہ پکڑیں، یہ بھی ہو سکتا تھا، کہ کچھ لوگ ڈھیلے ہاتھوں سے پکڑیں اور اس بات کی بھی امکانیت تھی کہ بعض شروع شروع میں اسے پکڑے رہیں، پھر یکایک اسے چھوڑ کر الگ الگ ہو جائیں، اور واقعاً ایسا ہی ہوا، اور اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ خوب جانتا تھا اسی لئے فرمایا کہ: و اعتصموا: مضبوطی سے پکڑو (یعنی ڈھیلا پنے سے نہیں) بحبل اللّٰہ: خدا کی رسی (یعنی سلسلۂ نورِ ہدایت) کو، جمیعاً: سب کے سب

 

۱۷

 

(یعنی الگ الگ نہیں) و لا تفرقوا: اور فرقہ فرقہ نہ ہو جاؤ (یعنی اگر تم سب مل کر نورِ ہدایت کی رسی کو تھامے ہوئے نہ رہو تو تم فرقہ بازی میں مبتلا ہو جاؤ گے) اللہ تعالیٰ کے اس ارشادِ مبارک میں حبل اللہ سے وابستہ رہنے کی مکمل ہدایت موجود ہے۔
حکمت نمبر ۴:
حبل اللہ کی اس آیۂ شریفہ کے بموجب دینِ اسلام میں تفرقہ اور انتشار سے سختی کے ساتھ ممانعت کی گئی تھی جس کی تاکیدی صورت معلوم کرنے کے لئے کلامِ ربّانی کے ربط اور ماحول کو دیکھا جائے کہ اس ارشاد سے قبل اور اس کے بعد کن کن امور کا ذکر ہوا ہے، مطلب یہ ہے کہ افتراق و انتشار دین کے جس مقام پر بھی ہو، یعنی یہ امت میں ہو یا جماعت میں، کسی مذہبی ادارے میں ہو یا کسی مؤمن کے خیالات میں، ایک بہت بڑا خسارہ ہے، لہٰذا اس بنیادی ہدایت میں اس کی ممانعت کی گئی ہے، اور اس کے تدارک و سدِ باب کے لئے فرمایا گیا ہے کہ تم ہمیشہ خدا کی رسی سے وابستہ رہو۔

حکمت نمبر ۵:
ہدایتِ ربّانی کی رسی کے لئے جس طرح یہ ضروری ہے کہ وہ ہر زمانے میں ظاہر اور موجود ہو اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ہر شخص کو پہنچ سکے، اور یقیناً وہ ہدایت اور

 

۱۸

 

امر و فرمان کی صورت میں ہر فرد تک پہنچ سکتی ہے تاکہ اس حیثیت میں ہر شخص کے سامنے خدا کی رسی موجود ہو اور ہر آدمی کے لئے خدا کے حکم کی تعمیل ممکن ہو۔

حکمت نمبر ۶:
رسی کے چند اجزاء ہوا کرتے ہیں، چنانچہ خدا کی رسی کا ایک جزو قرآن کی روح اور روحانیّت ہے جسے ہم حقیقت، حکمت اور تاویل جیسے ناموں سے بھی یاد کر سکتے ہیں اور دوسرا جزو امام کا نور ہے مگر چونکہ دنیا کی رسی ایک مادّی چیز ہوتی ہے، اس لئے اس کے اجزاء ایک دوسرے سے الگ کئے جا سکتے ہیں، اور دین کی رسی روحانی اور نورانی قسم کی چیز ہوتی ہے لہٰذا اس کے اجزاء ایسے باہم ملے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔

حکمت نمبر ۷:
ارشادِ ربّانی ہے کہ: اور تم کیونکر کفر کروگے حالانکہ اللہ کی نشانیاں تم پر پڑھی جاتی ہیں اور تمہارے درمیان اس کا پیغمبر موجود ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کو محکم پکڑے پس تحقیق وہ سیدھی راہ پر لگ گیا (۰۳: ۱۰۱)۔

اس فرمانِ خداوندی سے ظاہر ہے کہ زمانۂ رسول میں خدا کو یعنی خدا کی رسی کو مضبوط پکڑانے اور راہِ راست کی ہدایت دینے

 

۱۹

 

کی صورت یہی تھی کہ مسلمین و مؤمنین کو آنحضرت بحکمِ خدا دینی یک رنگی و یک جہتی کی مقدّس تعلیمات دے دیا کرتے تھے اس لئے حضورؐ خود ہی اپنے عہدِ مبارک میں خدا کی رسی کا درجہ رکھتے تھے۔

حکمت نمبر ۸:
رسولِ اکرم صلعم کے بعد مولانا علیؑ اور آپ کے سلسلۂ اولاد کے أئمّۂ برحق میں سے ہر امام اپنے وقت میں اللہ تعالیٰ کی پاک رسی کی حیثیت سے ہے، اور اللہ تعالیٰ کی یہ رسی ہمیشہ دنیا میں حاضر اور موجود رہے گی تاکہ دین و ایمان والوں کے لئے ذریعۂ اتحاد اور وسیلۂ نجات مہیا رہے۔

حکمت نمبر ۹:
جب اللہ جل شانہٗ حکم دیتا ہے کہ تم سب مل کر خدائی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور متفرق نہ ہو، تو اس قطعی اور ضروری فرمان کے سننے اور سمجھنے کے بعد یہ تصوّر ہی نہیں کیا جا سکتا کہ قرآن، اسلام، رسول اور امام الگ الگ ہیں اور ان میں سے کوئی ایک اللہ کی رسی ہے اور دوسرے نہیں، حالانکہ اس حکم کا مطلب ہی یہی ہے کہ خدا کی چیزیں تو پہلے ہی سے ایک ہیں انسان ایک ہو جائیں، کیونکہ یہ امرِ مبارک ایسا ہے کہ اس میں دین کے درجات کو ایک دوسرے کے قریب ماننے اور انسان کی ایمانی طاقتوں کو ایک کرنے کی تعلیم دی گئی ہے تا کہ دینی اتحاد و اتفاق اور یکجائی

 

۲۰

 

و مرکزیت اور اخوّت و یگانگت قائم ہوسکے۔

حکمت نمبر ۱۰:
حبل اللہ (خدا کی رسی) کا مطلب جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے سلسلۂ ہدایت ہی ہے، جو انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے نورِ ہدایت کا سلسلہ ہے یعنی خدا اور رسول کا نور ہی (جس کا مظہر امامِ زمانؑ ہے) خدا کی رسی ہے جس کی ہدایت کے مطابق عمل کرنا اس سے وابستہ ہو جانا ہے۔

حکمت نمبر ۱۱:
امامِ زمانؑ جو حق تعالیٰ کی مضبوط رسی ہے وہی ہادئ برحق بھی ہے اور صراطِ مستقیم بھی، کیونکہ ان تمام مثالوں کا آخری ممثول اور مطلب ایک ہی ہے، اور تمام قرآن میں اسی ایک حقیقت کی مختلف مثالیں بیان کی گئی ہیں (۱۷: ۸۹)۔

حکمت نمبر ۱۲:
امامِ زمان صلوات اللہ علیہ خداوند تعالیٰ کی پاک رسی ہیں کیونکہ آپ خدا و رسول کے خلیفۂ برحق اور نائب و نمائندہ ہیں، پس امام کی بیعت، اطاعت اور محبت سے وابستہ ہو جانا گویا خدا کی رسی سے وابستہ ہو جانا ہے۔

حکمت نمبر ۱۳:
اس حقیقت کے باؤجود کہ حق سبحانہ تعالیٰ کی شانِ عالی انسانِ ضعیف البنیان کی رسائی سے نہایت ہی برتر و بالا ہے، اس کا یہ فرمانا کہ تم سب مل کر خدا کو مضبوطی سے پکڑو، اور

 

۲۱

 

اس کی وضاحت کے طور پر یہ ارشاد کہ تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو یہ اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی مہربانی ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، کیونکہ اس میں حق تعالیٰ کی انتہائی قربت و نزدیکی کی نمائندگی کا اظہار کیا گیا ہے۔

حکمت نمبر ۱۴:
جب کوئی آدمی اس امرِ خداوندی کے بموجب حبل اللہ کو محکم پکڑے گا تو اس کے معنی یوں ہوں گے کہ اس نے خدا کو پکڑا اور حقیقتاً اسے اپنا راہنما و رہبر اور وکیل قرار دیا، تو ایسے انسان کو اب یہ فکر لاحق نہ ہو سکے گی کہ میں دین کے معاملات میں کس طرح سوچوں، کس طرح بولوں، اور کیا کیا کروں، کیونکہ اس نے خدا کو جو پکڑا ہے تو ہادی اور وکیل کے معنی میں پکڑا ہے اور وہ اس مثال میں اللہ کے بہت ہی قریب ہے بلکہ اللہ اس کے ساتھ ہے۔

حکمت نمبر ۱۵:
ہر قسم کے اتحاد، ہر طرح کے اتفاق اور ہر نوع کی جمعیّت و مرکزیّت کے لئے کوئی وسیلہ اور مرکز ہوا کرتا ہے، ورنہ ایسا کوئی کام ہی ناممکن ہے جس میں مختلف مزاج و خیال کے لوگ ایک ہوسکیں، چنانچہ دینی اور ملی یک جہتی اور وحدت کا بھی ایک ذریعہ اور مرکز ہے، اور وہ یہی حبل اللہ ہے، جس کو ہاتھ سے چھوڑ دینے سے اہلِ دین کے درمیان تفرقہ پیدا ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ سب کو حق بات سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

۲۲

نوٹ: اس مضمون کے سلسلے میں مزید معلومات کے لئے قرآن سے رجوع ہو، خصوصاً ۰۳: ۱۰۱، ۰۳: ۱۰۳، ۰۴: ۱۴۶، ۰۴: ۱۷۵، ۲۲: ۷۸ کا مطالعہ ضروری ہے۔

۲۳

تقویٰ

تقویٰ دینِ اسلام کی جملہ عبادات اور تمام معاملات کی روح اور جوہر کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کے بغیر نہ کوئی قول درگاہِ الٰہی میں مقبول ہوسکتا ہے اور نہ کوئی عمل، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک ایسے اقوال و اعمال کی کوئی قدر و قیمت ہی نہیں، جو تقویٰ کے مغز سے خالی ہوں۔

تقویٰ کا مطلب پرہیزگاری ، خدا سے ڈرنا اور ہر قسم کے گناہ سے بچنا ہے، لہٰذا تقویٰ کا معیار عوام کے لئے عام بھی ہے اور خواص کے لئے خاص بھی، یا یوں کہنا چاہئے کہ تقویٰ کے بہت سے درجات ہیں اور ان درجات کے آخر میں درجۂ کمال ہے جو انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا خاصہ ہے۔

تقویٰ کی ابتدائی منزلیں نیت کے حدود میں واقع ہیں، درمیانی منزلیں قول کے سلسلے سے متعلق ہیں اور آخری منزلیں اعمال کی راہ سے تعلق رکھتی ہیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ تقویٰ کی اصل و بنیاد

 

۲۴

 

دل کی کیفیّت و نیّت سے شروع ہو جاتی ہے اور افکار و خیالات کے مختلف مدارج کو طے کرنے کے بعد تقویٰ قول کے مراحل میں داخل ہو جاتا ہے اور ان سے آگے گزر کر عمل کے میدان میں وارد ہو جاتا ہے۔

اس سے صاف طور پر یہ معلوم ہوا کہ تقویٰ کی اصل و اساس اور مرکز انسان کے دل میں ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے:
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ (۴۹: ۰۳)۔
یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو خدا نے پرہیزگاری کے لئے جانچ لیا ہے۔

نیز ارشاد ہے:
وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ (۲۲: ۳۲)۔
اور جس شخص نے خدا کی نشانیوں کی تعظیم کی تو کچھ شک نہیں کہ یہ بھی دلوں کی پرہیزگاری سے حاصل ہوتی ہے۔

سرورِ عالم سیدِ بنی آدم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو ارشاد فرمایا کہ اعمال کا انحصار نیات پر ہے، اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ بغیر صحیح نیت کے کوئی عمل درست نہیں ہوسکتا، اور صحیح نیت دل کی پرہیزگاری کے بغیر ناممکن ہے، لہٰذا بندۂ مومن پر یہ اساسی فرض عائد ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو نیک نیت رکھنے

 

۲۵

 

کا عادی بنائے، جو صرف دل کی پرہیزگاری کی صورت میں ہو سکتا ہے۔

انبیائے قرآن کے تذکروں سے یہ حقیقت واضح اور روشن ہو جاتی ہے کہ تقویٰ دعوتِ انبیاء علیہم السّلام کی جان ہے، اور ان حضرات کی مختلف شرائع میں سے کوئی شریعت ایسی نہیں، جس میں تقویٰ کو خاص اہمیت نہ دی گئی ہو، بلکہ اس کی ضرورت و اہمیت کا یہ عالم ہے کہ پیغمبرِ اوّل حضرت آدمؑ ہی کی شریعت میں یہ کلیہ قائم کرتے ہوئے ارشاد کیا گیا کہ:
قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ (۰۵: ۲۷)۔
اُس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ صرف پرہیزگاروں ہی کا عمل قبول کرتا ہے۔

تقویٰ کی جو معنوی وسعت اور قدر و منزلت ہے، اس کا اندازہ اس قرآنی حقیقت سے ہوسکتا ہے، جو ارشاد ہے کہ:
“اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت (یعنی آدم و حوّا) سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کر سکو اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑا عزت دار وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو

 

۲۶

 

اللہ خوب جاننے والا پورا خبردار ہے” (۴۹: ۱۳)۔

اس آیۂ کریمہ کی روشنی میں ایک طرف تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ ایک ایسی صفت ہے جو دین، مذہب اور انسانیّت کے لئے ناگزیر ہے، اور بنی نوع انسان کے ہر فرد کو تقویٰ کی کسی نہ کسی منزل پر ہونا چاہئے، کیونکہ یہ آیۂ شریفہ زمانۂ آدم سے لے کر واقعۂ قیامت تک پائی جانے والی تمام دنیائے انسانیّت سے مخاطب ہے، اور اس کے معنی میں کوئی فردِ بشر تقویٰ کے اس مقابلہ سے مستثنیٰ نہیں، دوسری طرف اس آیتِ پُرحکمت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تقویٰ ایک ایسی انسانی صفت ہے جو عوام کے لئے عام اور خواص کے لئے خاص ہونے کی وجہ سے تمام انسانوں میں مشترک ہے، یہی سبب ہے کہ انسانوں کی مجموعی عزت کی شرط تقویٰ قرار پایا، اس حقیقت کے برعکس کہ خصوصی عزّت کی شرط حکمت ہے، اور حکمت وہ خیرِ کل ہے جس میں خیر و صلاح کی ایک دنیا سموئی ہوئی ہے اور اس میں تقویٰ بھی داخل ہے۔

جہاں تقویٰ کے معنی خوفِ خدا کے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ بندۂ مومن کے دل میں قانونِ الٰہی کا ڈر ہونا چاہئے، جو مکمل اطاعت و فرمانبرداری کی صورت میں ہوسکتا ہے، اور ظاہر

 

۲۷

 

ہے کہ ہر انسان اپنے عقیدہ یا نظریہ کے مطابق قانونِ قدرت کی کچھ نہ کچھ اطاعت کرتا ہے یہ خوفِ خدا عام ہونے کا ایک بین ثبوت ہے جہاں تقویٰ کے معنی پرہیزگاری کے ہیں، اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ جو خیالات و افکار اور جو اقوال و افعال حرام ہیں ان سے کنارہ کشی کی جائے اور خدا کی نافرمانیوں سے اپنے آپ کو بچا لیا جائے، تقویٰ کے یہی معنی ہیں۔

اگر ہم تقویٰ کے لفظ ہی میں محدود ہوکر قرآنِ حکیم کا مطالعہ کریں تو ہمیں اس سے متعلق ڈھائی سو سے کچھ زیادہ آیتیں ملیں گی، اور اگر ہم تقویٰ کے وسیع معنی کو پیشِ نظر رکھیں تو کوئی آیت اس موضوع سے خالی نہ ہو گی، قرآنِ حکیم کی وحدتِ معنوی کا یہی عالم دوسرے سب موضوعات کے بارے میں بھی ہے۔

چنانچہ تقویٰ کی ہمہ رسی اور جامعیّت کے ثبوت میں ایک مثال پیش کی جاتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا (۶۶: ۰۶)۔
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتشِ جہنم سے بچاؤ، ظاہر ہے کہ “قُوْآ” (بچاؤ) کا یہ حکم تقویٰ سے براہِ راست مربوط ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ دوزخ سے بچنے کا واحد رستہ

 

۲۸

 

صرف خدا کی اطاعت ہی ہے جیسا کہ قرآن میں اس کا ذکر ہے، لیکن خدا کی یہ اطاعت ایسی ہے کہ اس کے سلسلے میں خدا و رسول اور صاحبانِ امر کی جانب سے دی ہوئی تمام ہدایات پر عمل واجب ہوتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ قرآنِ حکیم کے جامع الفاظ میں سے ہے اور اس کے مفہوم میں دین کے تمام احکام داخل و شامل ہو جاتے ہیں۔

سورۂ اعراف (۷) کے تیسرے رکوع کے آغاز میں ارشاد ہوا ہے کہ تقویٰ روحِ مومن کا بہترین لباس سے، جس کے معنی یہ ہیں، کہ پرہیزگاری وہ روحانی صفت ہے جو روح کے لئے لباس کا کام دیتی ہے، چنانچہ یہ نکتہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ جب کوئی انسان خود کو خواب میں ننگا یا پھٹے پرانے کپڑوں میں دیکھتا ہو، تو اسے روح کا یہ اشارہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ دینی طور پر بدپرہیزی کا شکار ہوگیا ہے، اور اگر وہ اپنے آپ کو عالمِ خواب میں یا نورانیّت کے ساتھ عالمِ خیال میں عمدہ لباس میں ملبوس پاتا ہے، تو اسے مبارک ہو کہ اس کی پرہیزگاری بہترین لباس میں متمثل ہو رہی ہے۔

قرآنِ مقدّس کی چند آیتوں میں فرمایا گیا ہے ، کہ خدا متقین سے دوستی کرتا ہے، یعنی حق تعالیٰ پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے،

 

۲۹

 

اور اس واقعہ کی تحقیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ جس آدمی کو اپنے متعلق یہ گمان ہو کہ وہ بڑا پرہیزگار ہے، تو اسے پرہیزگاری کے فوری میوہ اور نتیجہ کے لئے جو اس دنیا میں خدا کی دوستی کی صورت میں ملتا رہتا ہے اپنے باطن میں دیکھنا چاہئے کہ آیا اسے خدا کی محبت حاصل ہو رہی ہے، اور ایسی کوئی تاثیر و کشش پائی جاتی ہے جو ہر وقت یا بعض اوقات اس کے دل کو خدا کی طرف متوجہ کر دیتی ہو، کیونکہ خدا کی دوستی و محبت بغیر اثر اور بغیر کشش کی ایک خاموش اور غیر محرک چیز نہیں ہوسکتی، بلکہ وہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے، جو انسان کو زیادہ سے زیادہ خداوند تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کا جذبہ اور حوصلہ بخشتی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کی محبت سے متعلق آیات کا ارشاد اور اس کی حکمت ہے۔

قرآنِ پاک میں یہ بھی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ خدا متقین کے ساتھ ہے، اس تصوّر کا مقصد و منشاء یہ ہے کہ خدا کے متقی بندوں میں ان کے تقویٰ کے نتیجے پر صفاتِ بہیمیہ اور وساوسِ شیطانیہ ختم ہوکر صفاتِ رحمانیہ کی جلوہ آرائی ہونے لگتی ہے، اور جس دل میں خدا کی صفات کی جلوہ نمائی ہو، تو اس کے لئے سب کچھ ہے، اور کسی کے ساتھ خدا ہونے کے یہی معنی ہیں۔

 

۳۰

قرآنِ حکیم میں مذکور ہے کہ عفو و درگزر سے کام لینا اور عدل و انصاف کرنا تقویٰ سے بہت قریب ہے، اس سے معلوم ہوا کہ پرہیزگاری عفو سے بھی اور عدل سے بھی بالاتر ہے، حالانکہ عفو اور عدل انسان کے خاص اوصاف میں سے ہیں۔

سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۱۲۸ (والعاقبۃ للمتقین، ۰۷: ۱۲۸) کے بموجب یہ جاننا ضروری ہے کہ عاقبت کا مطلب انجامِ کار ہے، اور انجامِ کار کم از کم چار ہیں، ان میں سے دو کا تعلق انسانوں کی مجموعی حیثیت سے ہے اور دو کا تعلق ان کی انفرادی حیثیت سے ہے، وہ اس طرح ہے کہ ایک اعتبار سے تمام دنیا والوں کا انجامِ کار آخرت ہے اور دوسرے اعتبار سے سارے زمانہ والوں کا انجامِ کار آخر زمانہ ہے، اسی طرح انفرادی صورت میں ایک لحاظ سے ہر انسان کی زندگی کا آخری حصہ اس کی عاقبت ہے اور دوسرے لحاظ سے ہر عمل کا فوری نتیجہ عاقبت ہے، اس سے یہ حقیقت قطعی طور پر روشن ہوکر سامنے آ گئی کہ متقین کے لئے عاقبت کا عطیہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف آخرت اور زمانۂ آخر ہی میں صلاح و فلاح کے مالک ہوں گے بلکہ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی زندگی کے آخری حصّے میں بھی اور ہر نیک کام کے انجام میں بھی خوش و خرم ہوں گے۔

۳۱

سورۂ زخرف (۴۳) کی آیت ۶۷ میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، مگر متقین میں ایسا نہ ہوگا، (۴۳: ۶۷)۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ دوستی جو دنیاوی غرض کے لئے ہوتی ہے، اس روز باعثِ دشمنی بن جائے گی، مگر جو دوستی خدا و رسولؐ اور اولیائے برحقؑ کی نسبت سے متقین نے قائم رکھی ہے وہ قائم ہی رہے گی، جب قائم رہے گی تو ظاہر ہے کہ اس سے فائدہ ہوگا۔

البقرہ (۲) کی آیت ۱۹۷ میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
“اور نیکی کا کوئی سا کام بھی کرو تو خدا اس کو خوب جانتا ہے اور (راستہ کے لئے) زادِ راہ مہیا کرلو اور سب سے بہتر زادِ راہ پرہیزگاری ہے،” (۰۲: ۱۹۷)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عموماً ہر نیک کام سے اور خصوصاً تقویٰ سے راہِ روحانیّت اور منزلِ آخرت کا توشہ اور زادِ سفر مہیا ہو جاتا ہے، چنانچہ جاننا چاہئے کہ جو مومنین روحانی ترقی کے خواہشمند ہیں لیکن اس کے باوجود کہ بہت سے نیک کام انجام دے رہے ہیں، روحانی طور پر آگے نہیں بڑھ سکتے، تو اس کا

 

۳۲

 

سبب یقیناً یہی ہے کہ ان کے پاس راہِ روحانیّت کا بہترین توشہ یعنی پرہیزگاری موجود نہیں۔

اسلام کے سات ارکان یعنی ولایت، طہارت، صلوٰۃ، زکوٰۃ، صوم، حج اور جہاد میں سے کوئی ایک بھی تقویٰ کے مقصد کے بغیر نہیں، بلکہ اگر ان سے متعلقہ آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوّی میں دیکھا جائے، تو معلوم ہوگا، کہ ان تمام کا مقصدِ اعلیٰ تقویٰ ہی ہے، اور ان کی اصل و اساس بھی تقویٰ ہی ہے۔

چونکہ انسان تین چیزوں کے مجموعے کا نام ہے، یعنی جسم، روح اور عقل، اس اعتبار سے خوفِ خدا اور پرہیزگاری کے بھی تین درجے ہیں، وہ جسمانی پرہیزگاری، روحانی پرہیزگاری اور عقلی پرہیزگاری ہیں اور سب سے بلند ترین درجہ عقلی پرہیزگاری کا ہے، چنانچہ اسی درجے سے متعلق قرآنِ حکیم کا یہ مبارک ارشاد ہے:
اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ (۳۵: ۲۸)۔
خدا سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو (حقیقی) علماء ہیں۔ یہاں ظاہر ہے کہ آخری درجے کا تقویٰ حکمت و معرفت کے بغیر محال و ناممکن ہے۔

جاننا چاہئے کہ عقل و دانش اور علم و حکمت ہی کے ذریعے

 

۳۳

 

سے خدا شناسی حاصل ہوسکتی ہے اور پرہیزگاری و خوفِ خدا سمجھ میں آسکتا ہے اور یہ فرق کیا جا سکتا ہے کہ لاتعداد نظریات و عقائد میں سے کس کس کو اپنانا چاہئے اور کس کس سے پرہیز کرنا چاہئے، تا کہ جہالت و نادانی اور باطل و شرک کی آلائشوں سے دل و دماغ پاک و صاف ہوسکے، قرآنِ حکیم نے حقیقی علماء کو جو تقویٰ اور خوفِ خدا کا نمونہ قرار دیا ہے اس کی وجہ یہی ہے۔

یہ اصول بھی قرآنِ مجید ہی کی تعلیمات میں سے ہے کہ سختی اور دشواری جھیلنے کے بعد سہولت و آسانی خود بخود سامنے آجاتی ہے، چنانچہ تقویٰ کے متعدد مراحل طے کرنے کے بعد روحانیّت کے سلسلے میں ایک ایسی منزل بھی سامنے آتی ہے جہاں تقویٰ ایک زندہ کلمہ یعنی خود بخود بولنے والا اسمِ اعظم بن کر حقیقی مومنین کی روحانیّت میں ایک ذاتی قسم کی قیامت یا کہ انقلاب برپا کر دیتا ہے، جسے اہلِ معرفت طاقتِ عزرائیلیہ کہتے ہیں اور جس کے بارے میں قرآنِ حکیم کا یہ ارشاد ہے:

فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَاؕ (۴۸: ۲۶)۔
تو خدا نے اپنے رسول اور مومنین (کے دلوں) پر اپنی طرف

 

۳۴

 

سے (روحانی) سکون نازل فرمایا اور ان کو “کلمۂ تقویٰ” سے پیوستہ کر دیا اور وہ اس کے زیادہ حقدار اور اس کے اہل تھے۔

ہم نے یہاں خدائے بزرگ و برتر کی توفیق و تائید سے موضوعِ تقویٰ کی چند بنیادی اور ضروری باتیں بیان کر دیں، اللہ تعالیٰ مومنین کے لئے انہیں نافع قرار دے! آمین یا ربّ العالمین!

 

۳۵

 

فلسفۂ عقیدہ

لفظی تحلیل:
لفظِ عقیدہ عقد سے نکلا ہے، اور عقد کے معنی ہیں گرہ (گانٹھ) چنانچہ عَقَدَ (رسی کو) گرہ لگانے کے لئے کہتے ہیں، اور عَقَّدَ کے معنی ہیں (رسی کو) سخت گرہ لگانا، اسی معنی میں عقیدہ دین کی ایسی باتوں اور روایتوں کے لئے استعمال ہونے لگا جن کو لوگ عموماً مانتے ہیں مگر صحیح طور پر جانتے نہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ تعلیم و تحقیق اور حکمت و معرفت سے قبل جس صلاحیت کی بناء پر دینی امور کے متعلق باور کیا جاتا ہے، اس کو عقیدہ کہا جاتا ہے۔

عقیدہ ایمان ہے:
یہاں پر یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ عقیدہ ایمان کا دوسرا نام ہے، مگر یہ وہ ایمان ہے جو ابتدائی نوعیت کا ہوتا ہے، جس کو

 

۳۶

 

لغت میں باور کرنا کہتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے کہ:
“اے ایمان والو! خدا اور اس کے رسول پر (جیسا کہ چاہئے) ایمان لاؤ (۰۴: ۱۳۶)”۔ یعنی اے لوگو! جنہوں نے صرف عقیدہ کی حد میں محدود ہو کر دین کے اصول و فروع کو تسلیم کر لیا ہے، اب حقیقتوں اور معرفتوں کی روشنی میں ایمان لاؤ اور صحیح معنوں میں مومن ہو جاؤ، چنانچہ دین و دانش کا تقاضا بھی تو یہی ہے کہ پہلے مرحلے میں خدا و رسول اور صاحبِ امر کی مقدّس باتوں اور متعلقہ روایتوں کو لوگ عقیدۂ راسخ قرار دے کر مان لیں اور اس کے بعد رفتہ رفتہ حقائق و معارف سے کام لیتے ہوئے ایمان کو درجۂ کمال پر پہنچا دیں۔

عقیدۂ راسخ:
لوگوں کے عقائد ایک جیسے تو نہیں ہوتے، بلکہ وہ مختلف درجات کے ہوتے ہیں، ان کے عقائد میں ایسا عقیدہ بھی ہے جو بالکل نہ ہونے کے برابر ہے اور ایک عقیدہ وہ بھی ہے جو انتہائی درجے کا راسخ ہے، اور جو شخص عقیدۂ راسخ رکھتا ہو وہی دین کے راستے میں

 

۳۷

 

ترقی کر سکتا ہے، اور عقیدے کا استحکام و ارتقاء حقیقی محبت اور فرمانبرداری میں ہے، پس بڑے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو دینی محبت سے سرشار، امامِ برحق کے فرمانبردار اور راسخ العقیدت ہیں، ایسے ہی انسان اخلاقی، دینی اور روحانی طور پر کامیابی حاصل کرتے ہیں، اور یہی وہ لوگ ہیں جو آگے چل کر اپنے عقیدے کو ایمانِ کامل کی صورت دے سکتے ہیں۔
عقیدہ وسیلہ ہے:
جاننا چاہئے کہ عقیدہ ایمان کی اصل و اساس ہے، جس کے بغیر ایمانِ کامل اور یقینِ محکم پیدا نہیں ہو سکتا، عقیدہ اور اعتقاد ہی وہ وسیلہ ہے جس سے انسان خود کو علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے سرچشموں تک پہنچا سکتا ہے، جس آدمی کا عقیدہ نہ ہو وہ نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ کسی انسان کے مذہبی وجود کا تصوّر صرف اسی وقت درست ہوتا ہے جبکہ وہ کوئی عقیدہ اپناتا ہے۔

عقائد کی بنیاد:
عقائد کی بنیاد خدا و رسول اور أئمّۂ کرام کے مقدّس ارشادات

 

۳۸

 

پر قائم ہوتی ہے اور اس سلسلے میں تشریح و توضیح کے طور پر روایات و رسومات بھی آتی ہیں جو اعتقادات کی بقا و دوام کے لئے ضروری ہیں، کیونکہ عقیدہ کے وجود کے لئے دین کی معمولی سے معمولی چیزیں بھی بڑی اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہیں، جس کی مثال ہم کسی میوہ دار درخت کی نازک نازک شاخوں اور باریک باریک جڑوں سے لے سکتے ہیں، کہ جن شاخوں میں میٹھے میٹھے پھل پیدا ہوتے ہیں، وہ ایک عام انسان کی نگاہ میں چھوٹی چھوٹی اور حقیر سی چیزیں نظر آتی ہیں، اور اسی طرح درخت جہاں زمین سے اجزائے قوّت جذب کر لیتا ہے، وہاں درخت کی جڑیں اتنی چھوٹی چھوٹی اور ایسی بے ترتیب پھیلی ہوئی چیزیں ہیں کہ کوئی بے بصیرت انسان ان کو قطعاً فضول سمجھ بیٹھے، حالانکہ درخت کے سرسبز و شاداب ہونے اور پھلنے پھولنے کا دارومدار انہی ننھی منی جڑوں اور نرم و نازک شاخوں پر ہے۔

عقائد کا احترام:
جو شخص قلعۂ دین کی پناہ میں ہونے کے باوجود عقائد کا احترام نہیں کرتا، وہ حقائق تک نہیں پہنچ سکتا ہے، اور نہ وہ ان کا احترام کر سکتا ہے، یہ بات بالکل ایسی ہی ہے جیسے ایک بچہ اگر

 

۳۹

 

گھر میں والدین کی حرمت بجا نہیں لاتا تو وہ آگے چل کر اسکول میں ماسٹر کی حرمت بھی نہیں کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے معلّم کے فیضِ علم سے محروم رہ جاتا ہے، چنانچہ جاننا چاہئے کہ عقائد و رسومات کا مرحلہ مومن کے لئے والدین کی پرورش کی طرح ہے اور حقائق و معارف کا مقام معلّم کے علم جیسا ہے۔

عقائد کے لئے خطرہ:
عقائد کے لئے سب سے بڑا خطرہ لادینیت کا تصوّر ہے، اس کے علاوہ کوئی بھی مخالف نظریہ ہماری نئی نسل کو گمراہ کر سکتا ہے، لہٰذا عقیدہ کو لادینی قسم کے لوگوں کے اثرات اور غیروں کی تبلیغی کوششوں سے محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جانا چاہئے، ورنہ عقیدہ جیسی عظیم روحانی دولت کے سرمایہ سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

۴۰

اسلام کی بنیادی حقیقتیں

۱۔ اسلام اللہ تعالیٰ کا دین ہے، اس لئے یہ ہمیشہ سے موجود اور قائم ہے (۰۹: ۳۶، ۱۲: ۴۰، ۳۰: ۳۰، ۳۰: ۴۳) اور یہ حقیقت میں زمانے کے مطابق ہوا کرتا ہے، اور اسی وجہ سے یہ دینِ فطرت کہلاتا ہے، کیونکہ خدا تعالیٰ نے لوگوں کو اپنی فطرت یعنی اپنے دین و آئین کے مطابق بنایا ہے (۳۰: ۳۰) اور دینِ فطرت کا مطلب سمجھنے کے لئے فطرت کے بہترین نمونے پر غور کیا جائے، وہ نمونہ انسان ہے کہ کس طرح ایک چھوٹا سا بچہ پیدا ہوکر اپنی زندگی میں ترقی کے مراحل سے گزرتا جاتا ہے اور بتدریج درجۂ کمال کو پہنچ جاتا ہے، پس اسلام بھی اسی طرح اپنی معنوی حیثیت میں قولاً و فعلاً ترقی کے مدارج کو رفتہ رفتہ طے کرتا ہے، اور نورِ اسلام کامل اور مکمل ہو جاتا ہے (۰۲: ۳۲) اور اسلام کی اس ہمہ گیر ترقی کے نتیجے میں نور کے درجۂ تمامی پر پہنچنے کی نشانی یہ ہے کہ اس وقت دینِ حق یعنی اسلام دنیا کے تمام ادیان پر غالب آئے گا (۱۲: ۳۳)۔

۲۔ یہ بات قرآنی حقیقتوں میں سے ہے کہ اسلام کے مبلغِ اعظم،

 

۴۱

 

داعئ اکبر اور مرکزِ متین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی ہیں، اور ویسے تو یہ دین نہ صرف حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے زمانے سے جاری ہے (۲۲: ۷۸) بلکہ یہ دین ایک اعتبار سے حضرت نوح علیہ السّلام کے وقت میں شروع ہوا (۴۲: ۱۳) اور ایک لحاظ سے یہ حضرت آدم علیہ السّلام کے عہد سے ہے (۲۳: ۵۱ تا ۵۲)۔

۳۔ نورِ اسلام ایک ہی ہے، مگر اس کے ظہورات اور جلوے وقت اور زمانے کے مطابق مختلف اور الگ الگ ہوا کرتے ہیں، چنانچہ حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور آنحضرتؐ کے زمانوں میں بحقیقت ایک ہی اسلام اور ایک ہی دین تھا، مگر ان حضرات کے زمان و مکان کے حالات اور تقاضے مختلف تھے، لہٰذا ان کی شریعتیں اور ہدایتیں بھی مختلف تھیں۔

۴۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ قرآنِ مجید سابقہ امتوں کی آسمانی کتابوں میں بھی موجود تھا (۲۶: ۱۹۶) اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ زبان اور ظاہری بیان کے لحاظ سے قرآنِ حکیم انبیائے سلف کے الہامی کتب میں مذکور تھا، بلکہ ان کتبِ سماوی کی روح، روحانیّت، نور اور مغزِ باطن کے اعتبار سے موجود تھا، پس اسی طرح امامِ زمانؑ

 

۴۲

 

کے مقدّس ارشادات میں بھی قرآنِ پاک کی تاویلی اور باطنی ہدایتیں ہوتی ہیں۔

۵۔ جو صحیح راستہ خدا تک جاتا ہے یا جس راہ پر خدا مل جاتا ہے، وہ صرف ایک ہی ہے، جو اسلام ہے، اور اسلام ہی صراطِ مستقیم ہے، یعنی سیدھا راستہ، پس “اھدنا الصراط المستقیم” (۰۱: ۰۵) میں حقیقی اسلام کے علم و عمل اور اس کے نتیجے میں خدا کی شناخت تک رسائی کی تعلیم دی گئی ہے اور اس میں سب سے پہلے ہادئ برحق کا وسیلہ مطلوب ہے۔

۶۔ معلوم ہوا ہے کہ راہِ اسلام کی منزلِ مقصود خدا شناسی ہے، یعنی معرفت، اور یہی مرحلہ دراصل منزلِ نجات ہے اور یہی بہشتِ حقیقی ہے، اور اسی کے لئے تمام انبیاء کی دعوتیں وقف تھیں۔

۷۔ جس طرح انبیاء علیہم السّلام کی دعوت کا مقصد اور ان کا دین ایک ہے اسی طرح ان کی کتاب بھی ایک ہے، ہر چند کہ بظاہر ان کی شریعتیں اور کتابیں متعدد اور مختلف نظر آتی ہیں۔

۸۔ قرآنِ پاک جو پروردگارِ عالم کی آخری کتاب ہے وہ تمام چیزوں کے بیانات کا مجموعہ ہے (۱۶: ۸۹) اس میں شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کی ساری تعلیمات اور جملہ ہدایات مذکور ہیں،

 

۴۳

 

وہ تنزیل بھی ہے اور تاویل بھی، وہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، وہ علم بھی ہے اور حکمت بھی، وہ پھل بھی ہے اور پھل کا مغز بھی، اس لئے اس کے ظاہر و باطن میں نہ صرف ماضی ہی سے متعلق احکامات موجود ہیں بلکہ اس میں حال اور مستقبل کی ہدایات کی بھی کوئی کمی نہیں، مگر ان تمام چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کے لئے نور کی ضرورت ہے اور وہ نور دنیا میں ہمیشہ قرآن کے ساتھ ساتھ موجود ہے (۰۴: ۱۷۴)۔

۹۔ قرآنِ حکیم یقیناً اللہ کی مقدّس ہدایت ہے، مگر صرف اس کا ظاہر ہدایت نہیں، بلکہ اس کا باطن بھی ہدایت ہے اور ایک حدیث کے مطابق قرآن کا باطن اس کے ظاہر سے سات گنا زیادہ ہے، اور دوسری روایت کے مطابق ستر گنا زیادہ ہے، اور قرآنِ مجید کی ہدایتوں کی یہ فراوانی اس لئے ہے تا کہ ان ہدایات کی روشنی میں مسلمین و مومنین دینی اور دنیاوی طور پر آگے بڑھیں اور ترقی کریں، اور یہ ساری باتیں اس وقت ممکن ہیں، جبکہ وہ قرآنِ کریم کو اس کے نور کی روشنی میں پڑھیں، سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔

۱۰۔ کوئی بھی آسمانی کتاب پیغمبر اور اس کے جانشین کے بغیر امت کے لئے مفید نہیں ہو سکتی اور نہ ہی آسمانی کتاب کسی صورت میں اور کسی وقت میں اکیلی رہی ہے، چنانچہ وہ ازل میں قلمِ الٰہی کے وجودِ عقلی

 

۴۴

 

میں تھی، پھر وہ لوحِ محفوظ کی روحانی تحریر میں آگئی، پھر جبرائیل کے حفظِ روحانی سے کام لیا گیا، بعد ازان حضورِ انورؐ کے قلبِ مبارک پر نازل کی گئی اور آخر میں پیغمبرِ برحقؐ کے حقیقی جانشین کو معلّمِ کتاب قرار دیا گیا، اور قرآن انہی کے سپرد ہوا، اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ قرآن کسی وقت میں بھی اکیلا نہیں رہا ہے نہ اب اکیلا ہے اور نہ کبھی ہوگا۔

۱۱۔ اگر قرآن فہمی کوئی آسان بات ہوتی اور راسخون فی العلم (۰۳: ۰۷) سے رجوع کی ضرورت پیش نہ آتی تو یہ بات سب سے پہلے ان مسلمانوں کو میسر ہوتی، جو رسولِ خدا کے زمانے میں عرب میں تھے وہ نہ صرف زبان اور لغت کے اعتبار سے قرآن کے انتہائی قریب تھے، بلکہ بظاہر جن تقاضوں کے مطابق قرآن نازل ہوا تھا وہ بھی انہی لوگوں کے احوال کے تقاضے تھے جیسے ان کے درپیش مسائل کے حل، ان کی ضروری ہدایات وغیرہ، لیکن پھر بھی حضور سے فرمایا گیا کہ:
“اور ہم نے قرآن آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ آپ ہی لوگوں کو بتائیں جو کچھ ان کے لئے نازل ہوا ہے”(۱۶: ۴۴) پس سرورِ کائنات کے بعد بھی ہمیشہ کے لئے معلّمِ کتاب کا ہونا ضروری ہے، اور وہ زمانے کا حاضر امام ہی ہے۔

۴۵

۱۲۔ دینِ اسلام میں جس طرح کسی دعویٰ کی صداقت کی شہادت کے لئے دو عادل گواہ مطلوب ہوا کرتے ہیں اسی طرح حضورِ اقدسؐ کی نبوّت کی سچائی کے ثبوت میں دو عظیم الشّان دائمی معجزے اس دنیائے ظاہر میں ہمیشہ موجود ہیں، ایک قرآنِ پاک ہے اور دوسرا اس کا معلّم جو خدا اور رسول کی جانب سے مقرر ہے، یعنی زمانے کا امام، یہی دو گرانقدر چیزیں نہ صرف اثباتِ نبوّت کے دو عظیم اور لازوال معجزے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ اسی حقیقت کی شہادت کے دو عادل گواہ بھی ہیں۔

۱۳۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور آنحضرتؐ کی رسالت کی گواہی کے بنیادی کلمے بھی دو ہی ہیں، جن کو شہادتین کہا جاتا ہے، یہ اس لئے کہ کسی دعویٰ کی صداقت و حقانیت کا انحصار جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے دو گواہوں پر ہوتا ہے، لہٰذا قانونِ خداوندی کی طرف سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نبئ رحمت کی نبوّت کے اثبات کے طور پر دو عادل گواہ موجود ہیں، جو قرآنِ مقدّس اور امامِ زمانؑ ہیں۔

۱۴۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انبیائے کرام علیہم السّلام کے معجزات ہوا کرتے تھے، اور سب سے عظیم اور مفید ترین معجزہ وہ ہے جو عقلی، علمی اور دائمی قسم کا ہو، اور صرف ایسا ہی معجزہ ہمہ گیر اور دور رس نتائج کا

 

۴۶

 

حامل ہوتا ہے، چنانچہ ایسے دو متبرک معجزے رسولِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے رہتی دنیا تک جاری و باقی ہیں، جو قرآن اور امام ہیں۔

۱۵۔ جب یہ مانا گیا کہ قرآن حضورِ انورؐ کا پہلا معجزہ ہے کہ قرآن جیسی بے نظیر اور پُرحکمت کتاب پیش کرنے سے جنّ و انس عاجز ہیں اور امامِ برحقؑ آنحضرتؐ کا دوسرا معجزہ ہے کہ جنّات اور انسان کا کوئی فرد بجز امام کے قرآن کی تاویلی حکمت بیان نہیں کرسکتا، کیونکہ قرآنِ حکیم کے باطنی معانی پیغمبرِ اکرمؐ کے بعد صرف امامِ زمانؑ ہی کے پاس ہیں، پس امام کے ذاتی معجزہ کے بارے میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جبکہ امامِ وقتؑ خود رسولِ اکرمؐ کا معجزہ ہے۔

۱۶۔ اس کے علاوہ عوام کے لئے امام کے معجزات و کرامات ضروری بھی نہیں ہیں، جبکہ یہ حقیقت ہے کہ وہ خود قرآن کے ساتھ ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا زندہ معجزہ ہے، کیونکہ قرآن کے بارے میں کوئی مسلمان یہ نہیں کہتا کہ قرآن کوئی معجزہ دکھائے تا کہ ہم اس کو کلامِ الٰہی مانیں، جبکہ قرآن خود سراپا معجزہ ہی معجزہ ہے، لیکن چشمِ بصیرت چاہئے تا کہ کوئی دیکھ سکے کہ قرآن اور امام کس طرح معجزہ ہیں۔

۴۷

 

۱۷۔ مذکورہ صورتِ حال کے باؤجود خواص امامِ برحقؑ کو ہمیشہ مظہرالعجائب پاتے ہیں، یعنی وہ دل کی آنکھ سے امامِ عالی مقامؑ کے عجائبات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں، اور یہ عجائبات تخیّلات و تصوّرات سے آگے بڑھ کر حقیقی روحانیّت اور قرآنی تاویلات کے مراتب تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ جن کو عقلی، روحانی اور نورانی معجزات کہتے ہیں۔

۱۸۔ کوئی منصف مزاج دانشور ذرا تکلیف گوارا کرکے دیکھے تو سہی کہ اسماعیلی بزرگوں کی تاویلی کتابوں میں قرآنِ حکیم کی کیسی کیسی عالیشان حکمتیں بیان کی گئی ہیں، ان عظیم حکمتوں کے حصول کا وسیلہ کیا ہے؟ امامِ برحقؑ کے نورِ اقدس کی تائید، پس جن کے پاس مقابلۃً حکمت زیادہ ہے انہیں کے پاس خیرِ کثیر ہے اور قرآن و امام کی موجودگی کا مقصدِ اعلیٰ یہی ہے۔

۱۹۔ قرآنِ کریم کے اشارات کے مطابق خدا تعالیٰ کے نورِ اقدس کا ایک بڑا معجزہ یہ ہے کہ اس کو کوئی نہیں بجھا سکتا، چنانچہ ظاہراً حضرت امام حسین علیہ السّلام کو میدانِ کربلا میں شہید کیا گیا، یہ خدا کے پاک نور کو بجھانے کی ایک ناکام کوشش تھی، لیکن خدائی مصلحت کے مطابق نور کو ہمیشہ کے لئے زندہ اور تابندہ رہنا تھا، جو آج تک حیّ و حاضر ہے اور بحکمِ خدا قیامت تک زندہ رہے گا۔

۴۸

۲۰۔ قرآن اور امامؑ کی علمی اور نورانی حیثیت خدا کی رسی ہے، اور اس کو مضبوطی سے پکڑ لینا یہ ہے کہ قرآن اور امامؑ کے امر و فرمان پر عمل کیا جائے، یعنی امامؑ ہی کی تعلیم و ہدایت کے مطابق قرآن پر عمل کیا جائے کیونکہ وہی قرآنی علم میں راسخ ہے۔

۲۱۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نورِ ہدایت کی مثال سورج جیسے روشنی کے عظیم سرچشمے سے کیوں نہیں دی گئی ہے، کہ گھر کے چراغ سے دی گئی ہے، یہ اس لئے کہ سورج کو ہر شخص بنظرِ دقت دیکھ کر غور نہیں کر سکتا، لیکن چراغ پر سب لوگ غور و فکر کر سکتے ہیں کہ کس طرح چراغ کا شعلہ بظاہر ایک حال پر رہتا ہے، لیکن دراصل اس میں ہر لمحہ اور ہر آن تجدید ہوتی رہتی ہے، یعنی تیل کے ذریعے سے چراغ کے نور کا سرچشمہ ہمیشہ چلتا رہتا ہے، اور روشنی فوارے کی طرح بکھرتی رہتی ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ جس علم و حکمت اور رشد و ہدایت کو نور کہا گیا ہے، وہ اپنی نورانی حرکت میں روان دوان ہے، اس میں بجلی کی سی روانی ہے، اس کا سلسلہ کسی چشمے کی طرح جاری ہے، جو کبھی نہیں رکتا، وہ ایک ایسی گفتگو کی طرح ہے جو مسلسل اور لا انتہا ہو، وہ نور کی ایک ایسی بارش ہے جو کسی وقت میں بھی تھم جانے والی نہیں، وہ ایک زندہ شے ہے اور زندگی میں مسلسل

 

۴۹

 

حرکت ہوتی ہے، یعنی نورِ ہدایت ہر سیکنڈ تازہ بتازہ نو بنو روشنی بکھیرتا رہتا ہے، جس کا احساس حقیقی مومنین کو نہ صرف ظاہر میں ہوتا ہے بلکہ ان کے دل و دماغ میں بھی اس کی لہریں دوڑتی رہتی ہیں۔

۲۲۔ دین اور مذہب کے جتنے اقوال و اعمال یا جو باتیں اور رسومات آج ہمارے درمیان موجود ہیں، وہ رسول اللہ کے وقت میں دو طرح سے پائی جاتی تھیں کچھ تو حدِّ فعل اور کچھ حدِّ قوّت میں پوشیدہ تھیں، اور دین میں ایسی بے شمار چیزیں ہیں جو نبئ رحمت کے بعد حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں آگئی ہیں، جیسے قرآنِ مجید کی موجودہ تحریر، اعراب اور علامتیں، جیسے ترجمے، تفاسیر اور دوسرے تمام قرآن سے متعلق علوم، حدیث کی تحریری صورت، فقہ اور ان کے اصولات، نیز امامت، خلافت اور اسلامی سلطنت اور ان کے متعلقہ قوانین کی بہت سی باتیں اس کے علاوہ اہلِ طریقت یعنی صوفیوں کے عقائد و نظریات اور ان کی اصطلاحات و تاویلات اور بہت سے ایسے دیگر علوم و فنون اور ان کے ایجادات جو اس سائنسی انقلاب کے بعد مذہب میں مستعمل ہو رہے ہیں، جیسے ٹیلیفون، تارِ برقی، لاؤڈ سپیکر، ریڈیو، اخبار، ٹیلی وژن، ریل، موٹر، جہاز وغیرہ وغیرہ تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ جو بات یا جو چیز ایسی ہو کہ وہ پیغمبرِ اسلام کے بعد پیدا کی گئی ہے،

 

۵۰

 

اور وہ دینی اعتبار سے مفید بھی ہو، تو وہ چیز خدا اور رسولؐ کی طرف سے ہرگز ممنوع نہیں ہو سکتی ہے، جبکہ قرآنِ حکیم کی ظاہری و باطنی ہدایت میں تمام جائز اور مناسب وسائل و ذرائع سے فائدہ اٹھا کر اسلام کو مضبوط بنانے کی ترغیب و تشویق دی گئی ہے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے کہ:
اور (مسلمانو) ان کفار کے (مقابلہ کے) واسطے جہاں تک تم سے ہوسکے کسی بھی قوّت سے اور بندھے ہوئے گھوڑوں سے (لڑائی کا) سامان مہیا کرو اس سے خدا کے دشمن اور اپنے دشمن اور اس کے سوا دوسرے لوگوں پر بھی اپنی دھاک بٹھا لو گے جنہیں تم نہیں جانتے ہو، مگر خدا تو ان کو جانتا ہے، اور خدا کی راہ میں تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے، وہ تمہیں پوری طرح سے دے دیا جائے گا، اور تم پر کسی طرح کا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا (۰۸: ۶۰)۔

اس ربّانی ہدایت سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ ہر زمانے کے مسلمان دینِ اسلام کی مضبوطی و ترقی اور تحفظ کے لئے خود ہی سوچیں اور فیصلہ کر لیا کریں، کہ وقت کا کیا تقاضا ہے؟ دشمن کے پاس کیا کیا طاقتیں موجود ہیں؟ اور کس طاقت کے ذریعے سے دشمن کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟ کیونکہ یہاں صرف گھوڑوں کی تیاری کے ذکر کے بغیر

 

۵۱

 

کسی اور چیز کا نام نہیں بتایا گیا ہے بلکہ یہ بات مسلمانوں پر چھوڑ دی گئی ہے کہ وہ خود عقلی، علمی، اخلاقی، روحانی، مالی، سیاسی، فنی اور حربی طاقتوں میں سے جو مناسب سمجھیں اسی سے دینی دشمن کے مقابلہ کی تیاری کر رکھیں، تا کہ دشمن مرعوب ہوکر دب جائے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام میں دراصل ترقی ہی ترقی ہے، اور اس سلسلے میں دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے ہر نیک اور مفید قول و عمل کی آزادی دی گئی ہے۔

۲۳۔ قرآن پر عمل کے اعتبار سے کون سے لوگ اچھے ہو سکتے ہیں؟ وہی لوگ جو بحیثیتِ مجموعی ماضی، حال اور مستقبل میں قرآن کے ظاہر پر بھی عمل کریں اور باطن پر بھی، کیونکہ قرآن اپنے ظاہری علم کے لحاظ سے جنّت کا بے نظیر پھل ہے اور باطنی حکمت کے اعتبار سے پُرمایہ مغز ہے، اور اس مثال میں زیادہ فائدہ انہی لوگوں کو حاصل ہے جو پھل کو بھی کھائیں اور مغز کو بھی۔

۲۴۔ ہر شخص فطرتاً یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں جس رستے پر ہوں، وہی راہِ راست ہے، مگر مقابلے میں یہ دیکھنا ہو گا کہ تقویٰ کس میں زیادہ ہے اور کس میں کم، کیونکہ مذہب اور اس کی ساری عبادات و معاملات کا مغز تقویٰ ہی ہے اور دین و مذہب کا معیار بھی یہی ہے۔

۲۵۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ دینِ اسلام ہر طرح سے کامل اور مکمل

 

۵۲

 

ہے (۰۳: ۰۵) نیز ارشاد ہے کہ خدا کی ظاہری نعمتیں بھی اور باطنی نعمتیں بھی مکمل ہیں (۳۱: ۲۰) پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ امامِ زمانؑ جو معلّمِ قرآن اور ہادئ برحق ہے وہ موجود اور حاضر نہ ہو، بفرضِ محال اگر امام موجود اور حاضر نہ ہوتا، تو دین نامکمل ہوتا اور خدا کی روحانی اور علمی نعمتوں میں بڑی حد تک کمی واقع ہوتی۔

۲۶۔ آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد تمام مسلمان اس بات پر متفق ہوگئے تھے کہ پیغمبرِ اکرمؐ کے جانشین کا ہونا بہت ہی ضروری ہے، اور یہ مسئلہ الگ ہے کہ کون ہو اور کون نہ ہو، حالانکہ وہ وقت ایسا تھا کہ اس میں ابھی اتنے زیادہ مسائل پیدا نہیں ہوئے تھے، جتنے کہ بعد میں پیدا ہوئے، پھر بھی انہوں نے خدا اور رسول کے حکم سے یا اپنی عقل کے فیصلے سے خلیفہ یا امام کے وجود کو تسلیم کر لیا، پھر اس وقت جبکہ دینی اور دنیاوی مسائل کی ایک بھرپور دنیا سامنے ہے تو ایسے میں امام کیوں نہ ہو۔

۲۷۔ شرعِ شریف اپنی جگہ پر حق ہے، مگر بعض لوگ شریعت ہی کی کسوٹی پر طریقت، حقیقت اور معرفت کی چیزوں کو بھی پرکھنا چاہتے ہیں حالانکہ یہ بات درست نہیں، کیونکہ شریعت کا معیار صرف شریعت ہی کے لئے مقرر ہے، اور اس کے بعد کی منزلوں کے معیار الگ الگ ہیں، مثلاً شرعی نماز کی بہت سی شرطیں مقرر ہیں، جو ذکرِ الٰہی

 

۵۳

 

میں نہیں ہیں، جن کو ہر ہوشیار مومن جانتا ہے۔

۲۸۔ بعض دفعہ اسماعیلیوں سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ جب بھی چاہیں تو مسجد میں آ سکتے ہیں اور اس میں کسی کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں، لیکن غیر اسماعیلیوں کو جماعت خانہ جانے کی اجازت نہیں ملتی، اس کا سبب کیا ہے؟ اس کا جواب بڑا سادہ اور بہت آسان ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے مسجد ہے، جو مقامِ شریعت ہے اور یہ سب مسلمانوں کے لئے ہے، پھر خانقاہ ہے، جو مرحلۂ طریقت ہے، وہ سب کے لئے نہیں، صرف صوفیوں کے لئے ہے، اور اس کے بعد جماعتخانہ ہے جو منزلِ حقیقت ہے اور وہ فقط اسماعیلیوں ہی کے لئے مخصوص ہے چنانچہ جب تک کوئی مسلمان کسی شیخِ راہ اور پیرِ طریقت کے حلقۂ مریدی میں داخل نہیں ہوتا اور جب تک کہ بیعت نہیں ہوتی تو وہ اس کی خانقاہ میں جا نہیں سکتا، حالانکہ خانقاہ والے اور اس کے باہر والے دونوں گروہ مسلمان ہی ہیں، اور جماعتخانے کی بھی یہی مثال ہے، پس اگر ہم مسجد جائیں تو اس مبارک مقام پر اصلاً کوئی شے ہمارے عقیدہ سے باہر نہیں ہے، اس کے برعکس اگر آپ خانقاہ یا جماعت خانہ جائیں، تو اس کے آداب آپ کے لئے غیر مانوس ہوں گے، اور نہ ہی آپ وہاں

 

۵۴

 

اعتقاد و احترام کی شرطوں سے جانا چاہتے ہیں، لہٰذا اگر آپ جماعتخانہ جائیں تو یہ حقیقی معنوں میں بغیر اجازت اور بغیر ثواب کا کام ہو گا۔

۲۹۔ امامِ عالی مقام قرآنِ پاک کا زندہ نور اور کتابِ ناطق (یعنی بولنے والی کتاب) ہے اس لئے وہ لوگوں پر خدا تعالیٰ کی حجت ہے کہ دنیا میں اس کے موجود اور حاضر ہونے کے بعد لوگوں کو قیامت کے دن خدا پر کوئی حجت نہ ہو گی، یعنی کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے گا کہ دنیا میں میرے لئے کوئی ہادی موجود نہ تھا۔

۳۰۔ پیغمبرِ اسلام پر جہاں ۲۳ سال تک قرآنِ حکیم نازل ہوتا رہا، وہاں اس میں کچھ آیتیں منسوخ بھی ہو گئیں، اور ان کے احکام ناسخ آیتوں کے احکام سے بدل گئے، اس عرصے میں آنحضرتؐ کی بعض حدیثوں میں بھی وقت کے مطابق ترمیمات ہوئیں، چنانچہ اگر حضورِ انورؐ جسمانی طور پر آج موجود ہوتے تو یقیناً ان چودہ سو سالوں میں بھی ایسی بہت سی ترمیمات ہوتیں، اور یہی حقیقت ہر زمانے کے امامؑ کی تازہ بتازہ ہدایت میں موجود ہے۔

۳۱۔ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے کہ: اے ایمان والو خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور امر والوں کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں، اس حکمِ ربّانی سے معلوم ہوا کہ رسول کی اطاعت

 

۵۵

 

خدا کی اطاعت کے علاوہ ہے اور امر والوں کی اطاعت رسول کی اطاعت کے علاوہ ہے، اور ہر درجہ کی اطاعت اختیار و ہدایت کی وجہ سے ہے، یعنی خدا اور اس کے رسول کے بعد امامِ زمانؑ صاحبِ اختیار ہے، اس لئے وہ نہ صرف خدا اور رسول کی ہدایت کو لوگوں تک پہنچاتا رہتا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنے اختیار سے زمان و مکان کے تقاضا کے مطابق ذاتی ہدایت بھی کرتا ہے۔

۳۲۔ بیماری جسمانی قسم کی بھی ہوتی ہے، اور روحانی نوعیت کی بھی، وہ دنیاوی بھی ہے اور دینی بھی، پس تمام دینی اور روحانی بیماریوں کی واحد دوا امامِ وقتؑ کی محبت ہے، کیونکہ صرف محبت ہی سے امامِ زمانؑ کی حقیقی اطاعت بالکل آسان ہو جاتی ہے، اور انکار کا مادّہ مومن کے وجود سے یکسر ختم ہو جاتا ہے۔

۳۳۔ آج اسلام میں تفرقہ کیوں ہے؟ آج مسلم قوم دوسروں سے بڑھ کر طاقتور کیوں نہیں ہو سکتی؟ آج ایک ہی قرآن کی اتنی مختلف تفسیریں کیوں کی گئی ہیں؟ آج مسلم برادری میں کم از کم یہ کیوں نہیں کہ وہ بوقتِ ضرورت متفق و متحد ہو جائیں؟ اے کاش! ایسے میں پیغمبرِ برحقؐ موجود ہوتے، یا یہ کہ حضورِ انورؐ کے حقیقی جانشین کی سب کو پہچان ہوتی اور وہ اس کی پیروی اور اطاعت کرتے۔

۵۶

۳۴۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رسی سے یہ کبھی نہیں فرمایا کہ اے میری رسی، تم لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لو، بلکہ یہ حکم لوگوں ہی کو دیا گیا ہے، کہ تم سب مل کر خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو، اس سے ظاہر ہے کہ حجت لوگوں پر ہے کہ انہوں نے امامِ برحق علیہ السّلام کو کیوں نہیں پہچانا، نہ کہ امام پر کہ اُس نے روشن معجزات کے ذریعے سے اپنا تعارف کیوں نہیں کرایا۔

۳۵۔ مولا علیؑ کا ارشادِ گرامی ہے کہ مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ تم مجھ کو گم کر دو گے، اس سے صاف طور پر ظاہر ہے کہ بعض لوگ آگے چل کر امام کو گم کر دینے والے تھے، اور اسی کے ساتھ پوچھنے کا رستہ بھی ان کے لئے منقطع ہونے والا تھا، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ لوگ پہلے تو امام کے لئے اقرار کریں اور پھر پوچھیں جس طرح کہ پوچھنا چاہئے، جیسے قرآنی ارشاد ہے کہ: پس پوچھو اہلِ ذکر سے اگر تم نہیں جانتے (۱۶: ۴۳)۔

۳۶۔ سورۂ ابراہیم میں علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے پاک درخت کا ذکر آیا ہے، یہ مقدّس درخت پیغمبر اور امام ہیں، جن کے نور کی بدولت مومنین کو ہمیشہ ظاہری و باطنی ہدایت کا پھل ملتا رہتا ہے، پس اسلام میں سدا بہار درخت رسولِ کریمؐ کے بعد امامِ زمانؑ

 

۵۷

 

ہیں۔

۳۷۔ قرآنِ مجید میں ہے کہ: اور اچھے نام (یعنی اسمائے بزرگ) خدا تعالیٰ کے ہیں پس خدا کو انہیں ناموں سے پکارا کرو (۰۷: ۱۸۰)۔ حضرت امام جعفر الصادقؑ کے ارشاد کے مطابق خدا کے اچھے نام یعنی بزرگ نام أئمّہ علیہم السّلام ہیں، پس زمانے کا امام اللہ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم ہے، جس کے توسط سے خدا کو پکارنا افضل ترین عبادت ہے۔

۳۸۔ بہت سے استاد لوگ جہاں کوئی موجودہ حقیقت نہیں بتا سکتے وہاں اپنے معتقدین کو ماضی کے قصّوں کہانیوں میں مصروف رکھتے ہیں تا کہ ان کے وہم و گمان کی تاریکی میں ہر چیز عظیم اور ہیبت ناک نظر آئے اور سوال و تحقیق کا سلسلہ ہی ختم ہو جائے۔

۳۹۔ زمانۂ آدم سے لے کر قیامت تک دین کے جو احکام ہیں وہ دو قسم کے ہیں ایک قسم کے وہ ہیں جن میں کوئی ترمیم نہیں ہو سکتی، اور دوسری قسم کے وہ ہیں جن میں مناسب وقت پر ترمیم ہو سکتی ہے تا کہ زمان و مکان کے تقاضا کے مطابق سازگاری پیدا کی جا سکے۔

۴۰۔ دین کا آغاز و انجام اللہ تعالیٰ کی توحید ہے، یعنی اسلام میں سب سے پہلے خدا کی وحدت و یکتائی کا اقرار اور عقیدہ ہے، اور آخرکار تمام دینی اقوال و اعمال کے نتیجے میں یہ جاننا چاہئے کہ

 

۵۸

 

خدائے برحق کی وحدانیت و یگانگی کی معرفت کیا ہے۔

ہماری توحید وہی ہے جس کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے جس کا بیان حضرت مولانا امام علی علیہ السّلام نے اپنی عظیم الشّان کتاب نہج البلاغہ میں فرمایا ہے، اسی توحید کی حقیقی شناخت کے لئے ہمارے پاک اماموں نے تاکید فرمائی ہے، ہمارے بزرگانِ دین نے فلسفہ، حکمت اور تاویل کی زبان میں اسی توحید کی وضاحت کی ہے، جیسے سیدنا حمید الدین کرمانی کی مشہور کتاب راحۃ العقل اور پیر ناصر خسرو کی تعلیمات سے ظاہر ہے۔

 

۵۹

 

پنج مقالہ نمبر ۲

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ابتدائیہ

اے ربّ العالمین! اے ہمارے جسم و جان کے مالک! اے خداوندِ عزّت! اپنے محبوب رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حرمت سے اور آنحضرتؐ کے جانشین أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کی حرمت سے اس بندۂ عاجز و ناتوان کو ایسی عالی ہمتی اور بلند حوصلگی عطا فرما! اور اس نوعیت کی نورانی توفیق و تائید عنایت کر کہ جس سے یہ خاکسار و مسکین تیری عظیم اور انتہائی عظیم نعمتوں کی جیسا کہ چاہئے شکرگزاری کر سکے، لیکن اے پروردگار! ان عالیشان توفیقات کے باؤجود ہم ایسے ناشکرگزار بندوں سے شکر (جیسا کہ اس کا حق ہے) کہاں ادا ہو سکتا ہے۔

کتاب “پنج مقالہ نمبر ۲” آپ کے سامنے ہے، آپ خود اس کا بغور مطالعہ کریں اور کتاب شناسی کے معیار سے اس کو پرکھ لیں، اہمیّت و افادیّت کے لحاظ سے جیسی بھی ہے، فوراً ہی معلوم ہو جائے گا اور پھر کتاب کے تعارف کی بھی ضرورت نہ رہے گی، کیونکہ یہ قول مشہور ہے کہ: “مشک آن است کہ خود ببوید نہ آنکہ عطار بگوید”

 

۶۳

 

یعنی کستوری وہ ہے جو خود بخود خوشبو دے اور عطار زبان سے جو “کستوری” کا لفظ ادا کرتا ہے وہ کستوری تو نہیں، تاہم ہزاروں میں کوئی ایسا فرد بھی ہو سکتا ہے جو علم کی کستوری کی روح پرور خوشبو کو بآسانی محسوس نہ کر سکتا ہو، لہٰذا یہ امر بھی ہمارے فرائض میں سے ہے کہ ہم اس کتابچہ کا قدرے تعارف کرائیں تا کہ اس سے نہ صرف کسی کی علمی بے حسی کا علاج ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ باذوق قارئین کی دلچسپی میں بھی اضافہ ہو۔

چنانچہ اس کتاب کے پہلے مقالہ کا موضوع ہے “سورہ مزمل کی چند حکمتیں” یہ سورہ ترتیبِ نزولی کے لحاظ سے مکہ میں تیسرے نمبر پر نازل ہوا تھا، مگر موجودہ ترتیب میں اس کا نمبر ۷۳ ہے، اس کی بیس آیتیں اور دو رکوع ہیں، اس سورۃ کی بڑی بڑی خصوصیات ہیں، اور ان میں سے ایک یہ کہ اس میں ذکر و عبادت اور خصوصاً اسمِ اعظم کے کام کو آگے بڑھانے کی حکمتیں بیان کی گئی ہیں، لہٰذا ہم نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سوال و جواب کی صورت میں سورۂ مزمل کی کچھ حکمتیں ظاہر کر دینے کی کوشش کی ہے۔

کتاب کا دوسرا مقالہ “بابِ نبی” ہے، جس کے معنی ہیں پیغمبر کا دروازہ، اور یہ ایک ایسا تصوّر ہے کہ جس سے نہ صرف ہر بڑے نبی

 

۶۴

 

کی زندگی میں امام کا موجود ہونا لازم آتا ہے بلکہ ہر عظیم پیغمبر کے بعد بھی سلسلۂ امامت کا جاری و باقی رہنا ضروری ہوتا ہے، کیونکہ یہ کوئی اصول ہی نہیں کہ پیغمبر کی موجودگی میں نبوّت کے علم و حکمت کا دروازہ ہو اور آپ کے بعد ہر شخص خود بخود کسی شک کے بغیر علم و حکمت کو اس طرح بآسانی حاصل کر سکے کہ وہ زمانۂ نبوّت سے بھی زیادہ آسان ہو، ایسا خیال کبھی درست نہیں ہو سکتا، بابِ نبی (پیغمبر کا دروازہ) کا یہ تصوّر خلافت و امامت کے تصوّر سے ہرگز مختلف نہیں، بلکہ دونوں باتیں ایک ہی ہیں، چنانچہ جب یہ حقیقت ہے کہ ہر چیز کا ایک دروازہ ہوا کرتا ہے تو اسی طرح خدا و رسول کے علم و حکمت کے بھی دروازے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے باب پیغمبر ہیں اور پیغمبر کے باب اساس، اساس کے باب امام ہیں اور امام کے باب حجّتِ اعظم، علیٰ ہٰذا القیاس، سو اسی اہمیّت و ضرورت کی وجہ سے ہم نے یہ مقالہ یہاں رکھا ہے۔

تیسرا مقالہ ہے “حضرت عیسیٰ روح ہیں یا جسم؟” یہ سوال جتنا بڑا ہے اتنا اہم بھی ہے، اور اس کے جواب کے سلسلے میں بہت سی روشن حقیقتیں سامنے آگئی ہیں، جن کی روشنی میں ایک طرف سے تو متعلقہ سوال کا جواب مہیا ہو جاتا ہے اور دوسری

 

۶۵

 

طرف سے قرآن فہمی اور دین شناسی کے علاوہ روح اور انسانِ کامل کی شناخت میں بھی کافی حد تک مدد مل سکتی ہے، یہی سبب ہے کہ یہاں اس موضوع سے بحث کی گئی ہے۔

چوتھا مقالہ “حلِ مسئلہ” ہے، اور یہ ایک ایسے یادگار خط کا متن ہے جو میرے ایک عظیم المرتبت اور انتہائی عزیز دوست کے حضور لکھا گیا تھا، اس مقالے کی یہاں ضرورت اس لئے تھی کہ اس میں رسولِ برحق کی عصمت و طہارت کا ذکر ہے اور آنحضرتؐ کے ہر طرح سے پاک و پاکیزہ ہونے کے دلائل بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ ان روشن اور واضح دلیلوں سے نہ صرف رسولِ خدا کے معصوم ہونے کا یقینِ کامل ہو جاتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ حضورِ اقدس کے اہلِ بیت کے پاک و طاہر ہونے کا بھی ثبوت ملتا ہے، اور آلِ محمدؐ و اولادِ علیؑ کے أئمّہ علیہم السّلام کے تقدّس و پاکیزگی کا بھی۔

پانچواں اور آخری موضوع “اسرارِ فطرت” ہے اور یہ اس مقصد کے پیشِ نظر ہے کہ اسرارِ فطرت کا مطلب ہے کائنات و موجودات کی تخلیق کے رازہائے سربستہ، یعنی ہر قسم کی پیدائش کے چھپے ہوئے بھید، اور ایسے بھید جو ظاہر نہ ہوں وہ مل نہیں سکتے، مگر قرآنی حکمت اور تاویل سے اور عملی تاویل کے لئے اعلیٰ سطح کی روحانیّت

 

۶۶

 

چاہئے، اور ایسی ہی روحانیّت کے سلسلے میں خلقتِ آدم و اولادِ آدم کے اسرارِ سربستہ مل سکتے ہیں، بہرحال اس مقالے کا مقصد و منشاء دین کے اُن اصولی اور بنیادی بھیدوں کی طرف توجہ دلانا ہے جو انسان کی پیدائش سے متعلق ہیں کیونکہ دین ہو یا دنیا اس میں بھید ہی بہت بڑی چیز ہیں، اگر کوئی عظیم الشّان بادشاہ کسی دوست کو اپنا محرمِ راز اور بھیدی بنا لیتا ہے تو اس عمل میں وہ اس کو دوسروں پر کس قدر فوقیّت اور کتنی فضیلت دیتا ہے، لہٰذا حقیقی مومنین کو چاہئے کہ وہ دینی علم کی چوٹی کی باتوں میں خدا کے بھیدوں کی تلاش کرتے رہیں، تاکہ وہ اس وسیلے سے اللہ تعالیٰ کے انتہائی نزدیک اور پھر اس کے نور سے واصل ہو سکیں۔

اب مجھے اُن علم دوست حضرات کو بڑی قدردانی کے ساتھ یاد کرنا چاہئے، جو ہمیشہ نام و نمود سے بالاتر اور بے نیاز ہوکر محض علمی خدمت کو آگے بڑھانے کی خاطر مجھ سے تعاون کرتے رہتے ہیں، کیونکہ ان کی سب سے بڑی خوشی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ جس قدر بھی ہوسکے امامِ عالی مقام کے تائیدی علوم کے روشن چراغوں کے ذریعے سے جہالت و لا علمی کی ظلمتوں کو مٹا دیا جائے قرآنی حکمت، تاویلات، دین فہمی، اسلامی ارتقاء، امام شناسی،

 

۶۷

 

روح اور روحانیّت، حلِ مسائلِ جدیدہ، مذہب اور سائنس وغیرہ پر کتابیں لکھ کر شائع کر دی جائیں۔

وہ امامِ برحق صلوات اللہ علیہ کے علمی لشکر میں سے ہیں، وہ خود کو خوش نصیب سمجھتے ہیں اور بجا طور پر فخر کرتے ہیں کہ ان کو دینی علم کے فروغ سے دلچسپی ہے، ان کا کہنا ہے کہ مذہبی کتابوں کا باذوق مطالعہ باغ و گلشن کے سیر و سیاحت سے زیادہ مسرت بخش اور بہت مفید ہے، کیونکہ باغ و چمن کی رنگینی اور لذّت و راحت دنیاوی، جسمانی اور چند روزہ ہے اور علم و حکمت کی جنّت کے پھول اور پھل ایسے تو نہیں کہ کبھی ان کے رنگ و بو کو زوال آئے اور ان کی حلاوت و شیرینی میں کمی واقع ہو، وہ نعمتیں اور لذّتیں دینی اور اخروی ہیں، جو روح اور عقل کے لئے ہیں، اسی لئے وہ دائمی اور غیر فانی ہیں۔

ہم سب کو بارگاہِ خداوندی سے یہ دعا مانگنی چاہئے کہ پروردگارا تمام اہلِ ایمان کو علم کی لازوال دولت سے مالامال کر دینا! اور اس کے وسیلے سے انہیں دونوں جہان کی سعادت مندی اور سرفرازی عطا کر دینا! آمین یا ربّ العالمین!!

فقط جماعت کا ایک علمی خادم
نصیر الدین نصیر ہونزائی
جمعرات ۱۰ رمضان المبارک ۱۳۹۷ھ
اگست ۱۹۷۷ء ۲۵

۶۸

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سورۂ مزمل کی چند حکمتیں
سوال و جواب کی صورت میں

سوال نمبر۱: کپڑوں میں لپٹنے والا کون ہے؟ اور اس خطاب کی وجہ کیا ہے؟

جواب: کپڑوں میں لپٹنے والا یا چادر لپیٹنے والا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک ناموں میں سے ہے، اس کی وجہ بعضوں نے یہ بتائی ہے کہ ابتدائے نبوّت میں کفارِ قریش نے حضورِ اکرمؐ کو ساحر (یعنی جادوگر) کہا، آپؐ کو یہ خبر سن کر رنج ہوا اور رنج کی حالت میں کپڑوں میں لپٹ گئے، اور بعض کے نزدیک اس خطاب کی وجہ یہ ہے کہ شروع شروع میں جب سرورِ کونین پر نزولِ وحی کی کیفیت گزرتی تھی، تو آپؐ پسینہ پسینہ ہو جاتے تھے، اور فرماتے تھے کہ مجھے کپڑے سے لپیٹ دو، جس کی تاویل ہے کہ میری باطنی حیثیت کو ( جو اسرارِ حقیقت سے مملو ہے) دنیا والوں کی نظر سے پوشیدہ رکھو۔

سوال نمبر ۲: خدائے حکیم نے یہاں اشارہ فرمایا ہے کہ رات

 

۶۹

 

کو بروقت سوکر پھر جلد ہی ذکر و عبادت کے لئے جاگ اٹھو، اس میں کیا حکمت ہے؟ اور ساری رات جاگنے کے لئے کیوں نہیں فرمایا؟

جواب: اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اس سے نہ صرف تھکا ہوا جسم تازہ دم ہو جاتا ہے، بلکہ مومن کا دل و دماغ بھی ہر قسم کی فکری الجھنوں سے آزاد و فارغ ہو جاتا ہے، اور ذکر و عبادت میں توجہ کی یکسوئی صرف ایسی ہی حالت میں ہو سکتی ہے، قرآنِ حکیم میں تمام رات سخت ریاضت و عبادت میں گزارنے کا بھی ذکر ہے (۷۶: ۲۶) جس کی حکمت و منفعت اس سے علیحدہ ہے۔

سوال نمبر۳: سورۂ مزمل کے ارشاد کے مطابق رات کے کس وقت سے ذکر و عبادت کا آغاز ہونا چاہئے؟

جواب: رات کی ایک تہائی گزر جانے کے بعد یا نصف شب سے یا دو تہائی کے بعد خصوصی عبادات کا آغاز ہونا چاہئے۔

سوال نمبر ۴: مذکورہ سورہ میں قرآن پڑھنے کے لئے ارشاد ہوا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب: قرآن کا مطلب قرآنِ مجید ہے، جو سرورِ انبیاء صلعم پر نازل ہوا ہے، اور اللہ تعالیٰ کا ہر بزرگ اسم قرآنِ مقدّس کا ایک

 

۷۰

 

اہم جزو ہے، کیونکہ یہ قرآنِ مجید میں سے ہے، بلکہ اس میں ایک شرط کے ساتھ قرآن شریف کی معجزانہ روح اور نور پنہان ہے۔

سوال نمبر ۵: رات کی عبادت کے وقت میں کمی بیشی کرنے کی یہ گنجائش کیوں رکھی گئی ہے؟

جواب: اس لئے کہ مومن کی جسمانی حالت ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی وہ کبھی زیادہ تھکا ماندہ ہوتا ہے، کبھی بیمار رہتا ہے اور کبھی سفر پر ہوتا ہے۔

سوال نمبر ۶: ترتیلِ قرآن کا مطلب بتاؤ۔

جواب: ترتیلِ قرآن کا مطلب ہے قرآن کو حسنِ ترتیب سے پڑھنا، اور اگر عبادت میں قرآن میں سے کوئی اسمِ الٰہی دیا گیا ہے تو اسے مکمل توجہ، درست تلفظ اور دل کی بیداری سے پڑھنا۔

سوال نمبر ۷: عبادت کس چیز کے حصول کے لئے تیاری ہوتی ہے؟

جواب: ذکر و عبادت کی تکمیل حقیقی مومن کی وہ تیاری ہے کہ اس کے نتیجے میں اس کو اللہ پاک کی جانب سے نیک توفیق، خاص ہدایت اور عالی ہمتی ملتی ہے۔

۷۱

سوال نمبر ۸: قولِ ثقیل کا کیا اشارہ ہے؟

جواب: قولِ ثقیل کا خاص تعلق آنحضرتؐ کی ذاتِ شریف سے ہے اور وہ ایک عظیم حکمت ہے، اور مومن کے لئے اس کا اشارہ روحانی ترقی ہے بے حد ترقی۔

سوال نمبر ۹: رات کی عبادت سے کیا کیا فائدے حاصل ہو سکتے ہیں؟

جواب: اس سے نفسِ امّارہ خوب کچل جاتا ہے، ذکرِ الٰہی آگے بڑھتا ہے اور عقل و دانش کی اصلاح و ترقی ہو جاتی ہے۔

سوال نمبر ۱۰: نفسِ امّارہ کن کن چیزوں سے پامال ہو جاتا ہے؟

جواب: فضول باتوں سے خاموشی، خلوت نشینی، فاقہ کشی اور سب سے بڑھ کر رات کے ذکر و عبادت سے نفسِ امّارہ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

سوال نمبر ۱۱: شب خیزی سے ذکر کی ترقی ہونے کا سبب کیا ہے؟

جواب: چونکہ رات نہ صرف فراغت اور سکون کا وقت ہے، بلکہ اس میں خدا کے امر سے یہ تاثیر بھی ہے کہ ذکرِ الٰہی معجزانہ حد تک آگے بڑھ جاتا ہے (۲۵: ۶۲)۔

سوال نمبر ۱۲: اس میں کیا حکمت ہے، جو آنحضرتؐ سے فرمایا

 

۷۲

 

گیا کہ آپ رات کو عبادت کے لئے اٹھا کریں، کیونکہ دن کو تو آپ کے لمبے لمبے شغل ہوتے ہیں، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ رسولِ اکرم ایسے لمبے مشاغل کے باؤجود دن کو بھی ذکر و عبادت سے کبھی خالی نہیں رہتے تھے؟

جواب: یہ دن کی عبادت پر رات کی عبادت کی فضیلت کا ایک روشن ثبوت ہے۔

سوال نمبر ۱۳: ارشاد ہے کہ اپنے ربّ کا نام یاد کرتے رہو اور سب سے قطع کرکے اسی کی طرف متوجہ رہو، اس میں کیا راز ہے کہ یہاں ذکر پہلے آیا ہے اور توجہ بعد میں ہے؟

جواب: چونکہ باطنی اور روحانی توجہ کوئی ظاہری تعلیم کی چیز ہے نہیں، وہ تو کثرتِ ذکر کے نتیجے میں خود بخود پیدا ہوتی ہے، اس لئے آیت میں ذکر کا بیان پہلے آیا اور توجہ کا بعد میں۔

سوال نمبر ۱۴: ذکر کے وقت کن کن چیزوں کو بھولنا چاہئے؟

جواب: ذکر کے دوران ذاکر ہر چیز کو قطعاً بھول جائے، یہاں تک کہ اپنے آپ کو بھی فراموش کرے، سوائے اس کے کہ اسم کے معنی اور حقیقت سے خدا کو جدا اور دور نہ سمجھے۔

سوال نمبر ۱۵: ارشاد ہے کہ “وہ مشرق و مغرب کا پروردگار ہے”

 

۷۳

 

اس تعلیمِ ربّانی کا اشارہ کیا ہے؟

جواب: یعنی اللہ تعالیٰ عالمِ دین کے تمام حدود کی تائیدی پرورش فرماتا ہے، اس لئے مومنِ ذاکر کو یہ توقع رکھنی چاہئے کہ وہ جس درجے میں بھی ہو، اسے ذکر و عبادت کا ثمرہ ملتا رہے گا۔

سوال نمبر ۱۶: یہاں آیت ۹ میں فرمایا گیا ہے کہ تم معبودِ برحق کو اپنا وکیل بناؤ، تو بتائیے کہ توکل پہلے ہے یا عبادت؟

جواب: پہلے معبودِ برحق کی عبادت ہونی چاہئے اور وہ بھی معرفت کی روشنی میں، اس کے بعد توکل کا مقام آتا ہے، مذکورہ آیۂ کریمہ سے یہی حقیقت ظاہر ہے۔

سوال نمبر ۱۷: یہاں صبر کس معنی میں ہے؟

جواب: اگر سورۂ مزمل کو ذکر و عبادت کا ایک مسلسل اور مربوط مضمون قرار دیں، تو یہاں صبر کے معنی یہ ہوں گے کہ منکرین کی باتوں سے نہ صرف ظاہری طور پر رنج ہوتا ہے، بلکہ اس سے ذکر و عبادت کے دوران بھی وسوسوں کی صورت میں اذیت پہنچتی رہتی ہے، جس کا علاج صبر و ثبات سے ذکرِ الٰہی میں مصروف رہنا ہے۔

سوال نمبر ۱۸: یہاں آیت ۱۱ میں جھٹلانے کا ذکر آیا ہے اس کا مطلب کیا ہے؟

۷۴

جواب: دین اور اس کی روح کو نہ سمجھنا ہی خدا و رسول کو جھٹلانا ہے، کیونکہ دین کی معرفت نہ ہونے سے انکار کی صورت بنتی ہے۔

سوال نمبر ۱۹: حدیثِ نفسی کیا ہے؟ اور کس طرح بنتی ہے؟

جواب: نفسِ امّارہ اپنے آپ فضول باتیں کرتا ہے، جس کو حدیثِ نفسی کہتے ہیں، اور یہ واقعہ اکثر عبادت کے دوران پیش آتا ہے، جو دنیاوی آلائشوں کے سبب سے ہے۔

سوال نمبر ۲۰: کافروں اور منافقوں کے لئے مہلت کہاں سے کہاں تک ہے؟

جواب: ان کے لئے مہلت تین قسم کی ہے، زیادہ سے زیادہ مہلت قیامت تک ہے، کم سے کم مہلت کسی ناگہانی عذاب نازل ہونے تک ہے اور درمیانی مہلت موت کے آنے تک ہے۔

سوال نمبر ۲۱: گلے میں پھنسنے والی غذا کی تاویل بتائیے۔

جواب: خدا اور دین کے بارے میں جو غلط تعلیمات ہوتی ہیں، وہ غیر عقلی اور غیر منطقی ہونے کی وجہ سے روح کے لئے ناگوار اور گلوگیر ہوا کرتی ہیں۔

سوال نمبر ۲۲: آسمان، پہاڑ اور زمین کی تاویل کیا ہے؟

جواب: پیغمبر اور امام کا نور روحانیّت کا آسمان ہے،

 

۷۵

 

حجّت درجے کی روحیں پہاڑ ہیں اور مریدوں کی روحیں زمین اور مٹی ہیں۔

سوال نمبر ۲۳: قیامت کے دن زمین اور پہاڑ کیوں ہلیں گے اور پہاڑ کیونکر ریگِ روان ہوں گے؟

جواب: کیونکہ قیامت برپا ہونے کے ساتھ مریدوں کی روحوں اور حجّتوں کو حرکت کرنی ہے، اور پیر درجے کی بڑی بڑی روحوں سے لاتعداد عام انسانی روحیں بکھر جائیں گی، جیسے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر ریت کے ٹیلے بن رہے ہوں۔

سوال نمبر ۲۴: آنحضرتؐ کی رسالت کو جنابِ موسیٰؑ کی رسالت سے کیوں تشبیہہ دی گئی، جبکہ موسیٰؑ کی رسالت سے انکار کرنے پر خدا نے فرعون اور اس کی قوم کو سختی سے پکڑا، مگر آنحضور کی رسالت سے انکار کرنے والوں کو نہیں پکڑا؟

جواب: رسولِ برحق کی نبوّت و رسالت اس طرح حضرت موسیٰؑ کی رسالت کے مشابہ ہے کہ جس طرح موسیٰؑ کے وزیر ہارون تھے اسی طرح پیغمبر اکرمؐ کے وزیر مولانا علیؑ تھے، اور حضرت محمدؐ رسول اللہ کی رسالت سے انکار کرنے والوں کو بظاہر نہیں پکڑا گیا کیونکہ قیامت بہت قریب ہے اس لئے ان کو مہلت دینے

 

۷۶

 

کے لئے فرمایا گیا۔

سوال نمبر ۲۵: سرورِ انبیاءؐ امت پر کس طرح گواہ ہیں؟

جواب: حضورؐ امت پر گواہ اس معنی میں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نور یعنی امامِ زمانؑ ہمیشہ دنیا میں حیّ و حاضر ہیں۔

سوال نمبر ۲۶: بچوں کو بوڑھا کر دینے والا دن کون سا ہے اور کس طرح سے ہے؟

جواب: وہ روحانی دور ہے، جس میں چھوٹے چھوٹے بچے بوڑھوں کی طرح عقل و دانش کا مظاہرہ کریں گے۔

سوال نمبر ۲۷: آسمان کیسے پھٹے گا اور کیوں؟

جواب: قیامت کے دن آسمان پھٹ کر گرنے کے یہ معنی ہیں کہ روحانی دور میں دنیا والوں پر روحانیّت مسلّط ہو جائے گی۔

سوال نمبر ۲۸: خدا کا وعدہ مفعول ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ پہلے ہی عمل میں آچکا ہے، وہ کس طرح سے ممکن ہے؟

جواب: کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے بارے میں جو کچھ وعدہ کیا ہے وہ وہی ہے جو اس سے پہلے بھی ہمیشہ عمل میں آچکا ہے، جبکہ خدا کی عادت و سنت اب بھی وہی ہے جو پہلے گزر چکی تھی (۴۸: ۲۳)۔

۷۷

سوال نمبر ۲۹: انسان اپنے پروردگار کی طرف کس طرح راستہ اختیار کرے؟

جواب: ہادئ برحق کی ہدایت کی روشنی میں اطاعت و عبادت کرنے سے خدا تعالیٰ کی قربت و نزدیکی حاصل ہوتی ہے۔

سوال نمبر ۳۰: اگر آنحضرتؐ پہلے ہی سے رات کی تقریباً دو تہائی یا نصف یا ایک تہائی جاگا کرتے تھے، تو پھر کیوں اس سورہ کے شروع میں ایسا کرنے کا حکم دیا گیا؟

جواب: اس حکم کا اشارہ مومنوں کی طرف ہے کہ وہ اس طرح سے جاگا کریں۔

سوال نمبر ۳۱: آنحضرتؐ کے ساتھ والوں میں سے کون سے لوگ اسی طرح باقاعدہ عبادت کے لئے جاگا کرتے ہیں؟

جواب: أئمّۂ طاہرین اور مومنین انہی اوقات میں اٹھتے ہیں۔

سوال نمبر ۳۲: اس کا کیا مطلب ہے کہ خداوند تعالیٰ دن رات کا اندازہ کرتا ہے؟

جواب: اس کا اشارہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس مومن کی مدد کرتا ہے اس کو اپنی عبادت کا وقت بہت ہی مختصر اور کم محسوس ہوتا ہے، اور جب خدا کی مدد نہیں ہوتی، تو وہ عرصہ اگرچہ کم ہو

 

۷۸

 

بہت زیادہ معلوم ہوتا ہے۔

سوال نمبر ۳۳: عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْہُ  کا مطلب اور حکمت بتائیے۔

جواب: اس کے معنی ہیں: خدا نے جان لیا کہ تم اس کی گنتی نہ کر سکو گے، یعنی اسمِ اعظم کو مقررہ وقت میں جس تعداد میں پڑھنا چاہئے وہ تم سے نہ ہو سکے گا اور شمار بھی نہ کر سکو گے، اس لئے تم سے جتنا ہو سکے اتنا پڑھو۔

سوال نمبر ۳۴: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن سے جو کچھ ممکن ہو پڑھو، مگر بہت سے لوگ قرآن نہیں پڑھ سکتے ہیں، پھر اس حکمِ ربّانی کی تعمیل کس طرح سے ہو؟

جواب: مومنین کے لئے ذکرِ الٰہی قرآن کا قائم مقام ہے۔

سوال نمبر ۳۵: کیا بیماروں، مسافروں اور مجاہدوں پر بھی قرآن کا پڑھنا فرض ہے؟ دن کو یا رات کو؟ اگر دن کو ہو تو وہ کیسے جبکہ آنحضرتؐ سے فرمایا گیا کہ دن کو آپ کے لمبے لمبے شغل ہوا کرتے ہیں؟

جواب: دن کو ہو یا رات کو بیمار، مسافر اور مجاہد پر خدا کے اسم کو پڑھنا فرض ہے، اور یہی اسم قرآن کی جگہ پر ہے۔

سوال نمبر ۳۶: سورہ کے آخر میں نماز قائم کرنے کے لئے فرمایا

 

۷۹

 

گیا ہے، کیا اس سے قبل جس عبادت کے لئے ارشاد ہوا ہے وہ نماز نہیں ہے؟

جواب: ہاں وہ ذکرِ الٰہی تھا اور یہ نماز ہے۔

سوال نمبر ۳۷: یہاں پر دو قسم کی مالی قربانی کا ذکر آیا ہے، زکوٰۃ اور قرضِ حسنہ، تو بتائیے کہ زکوٰۃ کیا ہے اور قرضِ حسنہ کیا ہے؟

جواب: زکوٰۃ مال (یعنی آمدنی) کا دسواں حصہ وغیرہ ہے اور قرضِ حسنہ مہمانی ہے۔

سوال نمبر ۳۸: امر ہے کہ زندگی ہی میں اچھے اعمال کر کے آگے بھیج دئے جائیں، تو کیا وہ نیک کام جو مردوں کے حق میں کئے جاتے ہیں باطل ہیں؟

جواب: انسان کے لئے ضروری اور سب سے بہتر یہی ہے کہ وہ زندگی میں ہی نیکی کرکے آگے بھیجے تاکہ اس کو ثواب اور نجات ملے، بشرطیکہ خدا کو پہچانتا ہو، اور مرنے کے بعد جو کارِ خیر اس کے لئے کیا جاتا ہے وہ اگرچہ باطل تو نہیں لیکن اس کا ثواب بہت ہی کم ملتا ہے۔

سوال نمبر ۳۹: مرنے کے بعد نیک اعمال کا ثواب کہاں اور کس مقام پر ملے گا؟

۸۰

جواب: مرنے کے بعد انسان کے نیک اعمال کا ثواب صرف خدا ہی کے حضور سے ملے گا جبکہ اس نے خدا کی شناخت حاصل کی ہو اور خدا تک پہنچ گیا ہو، ورنہ نہیں۔

سوال نمبر ۴۰: جو لوگ خدا کے قائل نہیں، مگر وہ نیک کام کرتے ہیں تو کیا اُن کو آخرت میں ثواب ملے گا؟

جواب: اس میں دو باتیں ہیں اوّل یہ کہ نیک کام وہی ہے اور صرف وہی ہے جو خدا اور رسول اور صاحبِ امر نے فرمایا ہو، دوم یہ کہ اگر ایسے لوگوں کے کچھ کاموں کو نیک بھی سمجھ لیا جائے تو اس صورت میں بھی شرائط کے نہ ہونے سے ایسے کام ناقبول ہو جاتے ہیں۔

سوال نمبر ۴۱: اس سورہ میں استغفار کا حکم سب سے آخر میں کیوں آیا ہے؟

جواب: یہ اشارہ ہے کہ جب مومنین سورۂ مزمل کے تمام احکام پر بالتّرتیب عمل کریں گے تو اس کے نتیجے میں ان کے گناہ بخش دئے جائیں گے، یعنی نیک اعمال کی انجام دہی کے بغیر توبہ اور استغفار نہیں ہے۔

سوال نمبر ۴۲: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ہی ثواب دینے

 

۸۱

 

میں بہتر اور بڑا ہوں، تو کیا خدا کے علاوہ بھی کوئی ہے جو اس سے کم ثواب دے سکتا ہو؟

جواب: ویسے تو نیکی کا ایک چھوٹا سا عارضی بدلہ انسان بھی دے سکتا ہے، مگر سب سے بڑا اور دائمی بدلہ صرف خدا ہی دیتا ہے۔

سوال نمبر ۴۳: اللہ تعالیٰ گناہوں کو کس طرح معاف کرتا ہے؟

جواب: پروردگارِ عالم ذکر و عبادت اور علم و حکمت کے وسیلے سے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔

سوال نمبر ۴۴: سورۂ مزمل کس قسم کا موضوع ہے؟

جواب: یہ ذکر و عبادت اور روحانی ترقی کا موضوع ہے۔

 

 

۸۲

 

حدیث کی حکمتیں
بابِ نبی

باب کے معنی ہیں دروازہ، اور بابِ نبیؐ کا مطلب ہے نبئ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دروازہ، اور ا س سے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السّلام مراد ہیں، کیونکہ آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:  انا مدینۃ العلم و علی بابھا : میں علم کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہے، اور آنحضرتؐ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ: انا دارالحکمۃ و علی بابھا : میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے، اور قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ: وَ اْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا۪ ۔ ۰۲: ۱۸۹۔ اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور حدیثِ شریف میں ہے کہ:  لکل شیءٍ باب : ہر چیز کا ایک دروازہ ہوا کرتا ہے، غرض یہ کہ مولا علی علیہ السّلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علم و حکمت کا دروازہ ہیں۔

۸۳

پہلی حکمت: بیت اللہ یعنی خانۂ خدا کا تصوّر اسلام کے بنیادی تصوّرات میں سے ہے، اس میں ایک خاص حکمت کے بموجب یوں فرض کر لیا گیا ہے جیسا کہ اس مقدّس گھر میں اللہ تعالیٰ کا پاک دیدار ہوتا ہو، اور یہ بہت بڑی پُرحکمت مثال ہے اور اس کا ممثول اپنے وقت میں حضورِ اکرم تھے، یعنی سرورِ دو عالم فخرِ بنی آدم نبئ رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خدا تعالیٰ کے وہ حقیقی اور نورانی گھر تھے جس میں کہ خاص بندوں کو خداوندِ برحق کا دیدارِ مبارک اور اس کی پاکیزہ معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس کا دروازہ علی علیہ السّلام تھے، یعنی علی کے توسط سے اور علی کے ذریعے سے مومنوں کو یہ شرف حاصل ہوتا تھا۔

دوسری حکمت: اس مثال میں جب سرورِ انبیاءؐ نے اپنی ذاتِ اقدس کو علم کا شہر اور حکمت کا گھر اور علیؑ کو اس شہر اور اس گھر کا دروازہ قرار دیا، تو ہر مسلم کو یہ ماننا پڑے گا کہ اس وقت قرآن اور اسلام کی تمام دوسری مثالیں بھی حضورؐ کے پیشِ نظر تھیں، چنانچہ حضرتؐ نے اس مثال میں قرآن اور اسلام کے علم و حکمت کی تمام چیزوں کو اپنی نورانی حیثیت میں محدود کر لیا، اور اس کے گرداگرد علیؑ کی شخصیت و مرتبت کے درودیوار سے

 

۸۴

 

احاطہ کیا گیا۔

تیسری حکمت: خدا تعالیٰ کی بادشاہت (یعنی کائنات و موجودات) کی کوئی چیز ایسی نہیں ملے گی، جو قدرت کے نظامِ حفاظت کے مطابق محفوظ نہ ہو، مثلاً بحر و بر کی معدنیات اور جواہرات کو دیکھو کہ قانونِ فطرت نے کس طرح ان کے وجود کی حفاظت کی ہے، درختوں کے متعلق سوچو، کہ اس کے جڑیں زیرِ زمین پوشیدہ ہیں، تنے کو سخت چھلکوں کا لباس پہنا دیا گیا ہے، نازک شاخیں زمین سے بلند کی گئی ہیں، پھل کو چھلکے میں محفوظ رکھا گیا ہے اور مغز کو گٹھلی کے غلاف کے درمیان رکھا ہوا ہے، اسی طرح جانوروں اور انسانوں کی قدرتی حفاظت کے باب میں سوچا جائے، تو نتیجے کے طور پر یہ اقرار کرنا ہوگا کہ دین کا علم و حکمت جو دنیا کی قیمتی چیزوں سے بدرجہ ہا گرانمایہ ہے بہتر اور مضبوط تر طریقے سے محفوظ ہے۔

چوتھی حکمت: قرآنِ حکیم (۳۹: ۶۳، ۴۲: ۱۲) میں آسمانوں اور زمین کی کنجیوں کا ذکر آیا ہے کہ وہ خدا ہی کی ہیں، نیز ارشاد ہے کہ آسمانوں اور زمین کے خزانے خدا ہی کے ہیں (۶۳: ۰۷)۔ اس قرآنی ارشاد اور مذکورہ حدیث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن کے علم و حکمت کا خزانہ رحمتِ عالم کی ذاتِ اقدس ہے اور اس

 

۸۵

 

کے خزینہ دار مولا علیؑ مشکل کشا ہیں۔

پانچویں حکمت: قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے کہ: اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِیْمٌ  فِیْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ  لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) بے شک یہ قرآن ہے عزت والا ایک پوشیدہ کتاب میں اس کو وہی چھوتے ہیں جو پاک بنائے گئے ہیں، یعنی قرآنِ کریم نورِ محمدیؐ کی پوشیدہ کتاب میں ہے اور پاک اہلِ بیتؑ کے أئمّہ علیہم السّلام ہی کو اس تک رسائی حاصل ہے اور اس میں سے جن کو جتنا علم حاصل ہوا ہے تو انہی حضرات کے وسیلے سے ظاہر ہوا ہے۔

چھٹی حکمت: سورۂ نور کی آیت نمبر ۳۶ (۲۴: ۳۶) میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے جس میں ایک روشن چراغ ہو، ان مبارک تعلیمات میں طاق کی مناسبت سے (کہ وہ اور کہیں نہیں گھر ہی میں ہوتا ہے) ایک گھر کا ذکر ہے یعنی خدا کے نور کی مثال جس روشن چراغ سے دی گئی ہے وہ حضرت محمد مصطفیؐ کی پاک شخصیت کے طاق میں ہے تو پھر ظاہر ہے کہ اسی پاک گھر میں سب کچھ موجود ہے جو خانۂ حکمت ہے، جس کا دروازہ علی ہیں۔

ساتویں حکمت: اھدنا الصراط المستقیم کی تعلیم کی

 

۸۶

 

مراد یہ ہے کہ ہم نہ صرف لفظی طور پر یہ دعا کر لیا کریں بلکہ اس مطلب کی مثال کو بھی خوب ذہن نشین کر لیں کہ پیغمبر اور امام کی رہنمائی و پیروی میں خدا کے حضور پہنچ جانے کا راستہ اسلام ہی ہے جس پر شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کی منزلیں سامنے آتی ہیں، چنانچہ اس سے ظاہر ہے کہ جہاں دینِ حق ایک سیدھا راستہ کے مشابہ ہے وہاں اس کی منزلِ مقصود ایک گھر کے مانند ہے، جو معرفت اور حکمت کا گھر ہے جس کا دروازہ امامِ برحق ہیں۔

آٹھویں حکمت: سورۂ نساء کی آیت ۱۷۵ میں جیسا کہ ارشاد ہوا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے:
پس جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور انہوں نے اللہ کو مضبوط پکڑا تو ایسوں کو خداوند اپنی رحمت اور فضل میں داخل کرے گا اور اپنے تک ان کو سیدھا راستہ بتلائے گا۔ (۰۴: ۱۷۵)۔
ربّ العزّت کے اس فرمانِ اقدس کا مفہوم یہ ہے کہ ہادئ برحق کے دامنِ اطاعت کو پکڑنا خدا کو مضبوط پکڑنا ہے اور اس کی ہدایات و تعلیمات کی روشنی میں راہِ راست کی منزلِ مقصود کو پہنچ جانا ایسا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خود ہی صراطِ مستقیم پر ہدایت کرکے

 

۸۷

 

کسی کو اپنی ذاتِ اقدس کی معرفت تک رسا کر دیا اور خدا کی ملاقات و معرفت تک ایسی رسائی صرف خانۂ حکمت ہی میں ممکن ہے جس کا دروازہ امامِ برحق ہیں۔

نویں حکمت: ارشادِ خداوندی ہے کہ:
“وہ جس کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی تو بے شک اُسے بہت زیادہ خیر و برکت دی گئی” (۰۲: ۲۶۹)۔
اس مقدّس تعلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں علم کا شہر اور حکمت کا گھر ہے وہاں سب کچھ ہے اور اس سے کوئی بھلائی اور بہتری باہر نہیں۔

دسویں حکمت: جب کسی شہر کا کوئی دروازہ ہوتا ہے تو لازمی طور پر اس کی چاروں طرف کوئی مضبوط فصیل اور شہر پناہ بھی ہوا کرتی ہے تا کہ وہ دشمنوں اور چوروں سے محفوظ رہے اور کسی گھر کی بھی یہی مثال ہے اور حفاظتی دیوار کے بغیر دروازے کا کوئی تصوّر ہی نہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ علی نہ صرف علم کے شہر اور حکمت کے گھر کا دروازہ ہی ہیں بلکہ آپ ان کی دیوار بھی ہیں اور اسی معنی میں فرمایا گیا ہے کہ: وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲)

 

۸۸

 

اور ہم نے ہر چیز امامِ مبین میں محدود کر رکھی ہے۔

۸۹

حضرت عیسیٰؑ روح ہیں یا جسم؟

اہلِ دانش کے لئے یہ ایک بڑا پیچیدہ مسئلہ رہا ہے کہ آیا حضرت عیسیٰ علیہ السّلام جسمِ عنصری کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف اٹھا لئے گئے ہیں یا کہ صرف اور صرف روح کی حیثیت میں؟ آئیے ہم آیاتِ قرآنی کی حکمت کی روشنی میں اس اہم سوال کا صحیح حل تلاش کریں۔

ارشادِ خداوندی ہے کہ:
“جبکہ فرشتوں نے کہا کہ اے مریم بے شک اللہ تعالیٰ تم کو بشارت دیتا ہے ایک کلمہ کی جو اللہ کی جانب سے ہو گا اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا” (۰۳: ۴۵)۔
اس ارشادِ قرآنی کی حکمت سے یہ مطلب ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کا حقیقی وجود پہلے پہل ایک مقدّس کلمے کی صورت میں مکمل و معین ہوا تھا اور اسی زندہ کلمے کو روح بھی کہا جاتا ہے یہی بولتا کلمہ اور یہی زندہ و پائندہ روح بحیثیتِ اسمِ اعظم بی بی مریمؑ کے کان سے القاء کی گئی تھی، جو بعد میں جامۂ بشریت میں ملبوس اور مجسم ہوگئی،

 

۹۰

 

اور پھر اپنی عمر کے آخری وقت میں جسم چھوڑ کر بالکل اسی طرح مجرّد ہوگئی جس طرح کہ پہلے تھی۔

اس سلسلے میں ہمیں وجود کی حقیقت کے بارے میں بھی خوب سوچنا چاہئے، کہ وجود دو قسموں میں ہے، یعنی ذہنی و خارجی، یا ظاہری و باطنی یا روحانی اور جسمانی یا حقیقی و اضافی یا نورانی و ظلمانی وغیرہ وغیرہ، چنانچہ انسان کا نورانی وجود اس کی روح ہے اور ظلمانی وجود جسم، جس کی ایک ظاہری مثال درخت اور اس کا سایہ ہے، ہمارا جسم جو ہمارے ظلمانی وجود کی حیثیت سے ہے، یہ بے شک کسی حد تک ہمارے نورانی وجود کے مشابہ ہے کیونکہ ہر چیز کا سایہ کلّی طور پر اس چیز کی طرح تو نہیں ہوسکتا، جیسے پتھر کا سایہ پتھر کی طرح ٹھوس اور حارج نہیں ہوتا، درخت کے سائے سے کوئی پھل نہیں ملتا، پھول کے سائے میں کوئی رنگ و بو نہیں ہوتی اور بادلوں کے سائے سے کوئی بارش نہیں برستی، مطلب یہ ہے کہ اصل چیز اور ہے اور اس کا سایہ اور، دن کے وقت تو سایوں میں بھی کچھ روشنی ملی ہوئی ہوتی ہے، اور اپنی اپنی چیزوں کے ساتھ لگے رہنے سے سایوں کی کچھ رونق بھی ہوتی ہے، مگر جب نور کا سرچشمہ ان سے دور ہو جاتا ہے تو یہ تمام سائے ایک تاریک سمندر میں ڈوب کر فنا ہو جاتے

 

۹۱

 

ہیں، یہ سمندر کرۂ ارض کا سایہ ہے، جسے رات کہا جاتا ہے یہی مثال جسمِ انسانی کی ہے کہ جب تک اس میں روح کی روشنی پھیلی ہوئی ہے، تب تک اس کا حسن و خوبی اور شان و عزّت برقرار ہے، جوں ہی طائرِ روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگیا تو اس کی قدر و قیمت ختم ہو گئی، اور اس کے اجزاء بحکمِ “کل شیءٍ یرجع الیٰ اصلہٖ ” عناصر کے ساتھ مل گئے۔

حضرت عیسی علیہ السّلام کی بابت خدائے قدّوس کا مبارک ارشاد ہے کہ:
“جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے عیسیٰؑ بے شک میں تم کو وفات دینے والا ہوں اور میں تم کو اپنی طرف اٹھائے لیتا ہوں اور تم کو ان لوگوں سے پاک کرنے والا ہوں جو منکر ہیں”  (۰۳: ۵۵)۔

اللہ تعالیٰ کے اس فرمانِ اقدس میں حضرت عیسیٰؑ کی جسمانی وفات اور روحانی طور پر خدا کی طرف اٹھائے جانے کا ذکر صاف اور عیان ہے، اور جہاں فرمایا ہے کہ “انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ ان کو سولی پر چڑھایا” اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب عیسیٰؑ روح اللہ ایک پاک روح اور ایک معجزاتی کلمے کی حیثیت

 

۹۲

 

سے تھے لہٰذا روح اور کلمہ کو نہ تو سولی پر چڑھایا جاسکتا تھا اور نہ ہی قتل کیا جاسکتا تھا اور یہ بات ہمیں تعجب خیز کیوں نظرآتی ہے، جبکہ اس قرآنی حقیقت میں کوئی تعجب ہی نہیں جو ارشاد ہے کہ:
“اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے اُن کو مردہ مت خیال کر بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے پروردگار کے نزدیک ان کو رزق دیا جاتا ہے” (۰۳: ۱۶۹)۔

اس حکمِ الٰہی سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ شہید لوگ اگر ایک لحاظ سے مقتول ہیں تو دوسرے لحاظ سے زندہ ہیں، یعنی شہداء جسمانی طور پر راہِ خدا میں مقتول ہوتے ہیں اور روحانی طور پر دنیا ہی سے زندہ عالمِ آخرت کو چلے جاتے ہیں، پس معلوم ہوا کہ یہاں لفظِ قتل کا اطلاق جسم پر اور لفظِ زندہ کا اطلاق روح پر ہوا ہے جیسا کہ حدیث کا ارشاد ہے:
“مومن نہیں مرتا لیکن دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف کوچ کر جاتا ہے” مگر اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مؤمن جسم سے نہیں مرتا۔

سورۂ مریم کی سترہویں آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:
فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا  (۱۹: ۱۷)۔

۹۳

 

پس ہم نے اُن (یعنی مریم) کے پاس اپنے فرشتہ کو بھیجا اور وہ ان کے پاس ایک پورا آدمی بن کر ظاہر ہوا۔ چنانچہ اگر روح اور فرشتہ مکمل طور سے انسانی شکل اختیار کرکے ظاہر ہوسکتا ہے تو ایک کامل انسان بھی جسمِ عنصری چھوڑ کر روح اور فرشتہ بن سکتا ہے تاکہ یہ اصول درست ہو کہ عالمِ جسمانی میں جسم ہی ظہور کا ذریعہ ہے اور عالمِ روحانی میں روح ہی کے وسیلے سے رسائی ہوسکتی ہے جیسا کہ خود حضرت عیسیٰؑ جو آسمانی اور الہامی کیفیّت میں ایک روح اور ایک مجرّد کلمہ تھے، آپ بغیر جسم کے دنیا میں ظاہر نہیں ہوسکتے تھے اور اسی طرح جسم چھوڑے بغیر آسمانِ روحانیّت میں ہمیشہ کے لئے مقیم بھی نہیں ہوسکتے تھے۔

نیز حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے بارے میں قرآنِ حکیم کی ۰۲: ۸۷ اور ۰۲: ۲۵۳ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:
وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ: اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو واضح اور روشن معجزے دئے اور پاک روح کے ذریعے سے ان کی مدد کی۔

اس فرمانِ خداوندی میں جنابِ عیسیٰؑ کو دو آسمانی چیزیں

 

۹۴

 

دی جانے کا ذکر ہے، ایک چیز آپ کے معجزات ہیں جو واضح اور نمایان تھے اور دوسری چیز تائیدِ ایزدی ہے جو انہیں روح القدس کے توسط سے حاصل ہوتی رہتی تھی، جو ان کی ذات میں پوشیدہ و پنہان تھی، یہی سبب ہے کہ معجزات کا الگ نام لیا گیا اور تائید کا الگ، ورنہ ان دونوں حقیقتوں کو ایک ہی نام سے یاد کیا جاتا، دوسری خاص بات اس میں یہ ہے کہ ان کے ظاہری معجزات ایک مقررہ وقت تک تھے اور تائیدِ الٰہی جو ایک روحانی حقیقت تھی آپ کو اس وقت بھی حاصل ہوتی رہتی تھی جبکہ آپ جسمِ خاکی کو چھوڑ رہے تھے اور جبکہ یہود بزعمِ خود انہیں سولی پر چڑھا رہے تھے، لیکن آپ کو تائیدِ الٰہی کی بدولت نہ کوئی خوف تھا نہ کوئی غم اور نہ ہی کوئی درد و الم، کیونکہ خدا کی تائیدِ کلّی کے یہی معنی ہیں، اور ایسی تائید کی وضاحت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ دراصل ایک پاک روح اور پُرحکمت کلمے کی حیثیت میں زندہ رہ سکتے تھے، پس روح اللہ اور کلمۃ اللہ کو کس طرح سولی اور قتل کا خوف و ہراس اور دکھ ہو سکتا ہے، اور کوئی ایسی معجزانہ ہستی جس کی بقا و زندگی اور احساس و ادراک مقدّس روح اور پاک کلمے کی صورت میں ہو وہ کس طرح مصلوب و مقتول ہوسکتی ہے۔

۹۵

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰـكِنْ شُبِّهَ لَهُمْؕ (۰۴: ۱۵۷)۔ انہوں نے ان کو (یعنی حضرت عیسیٰ کو) نہ قتل کیا اور نہ ان کو سولی پر چڑھایا لیکن ان کو (یعنی لوگوں کو) اشتباہ ہوگیا (اور جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ اس واقعہ سے شک میں مبتلا ہیں ان کو اس کا کوئی علم نہیں مگر وہ گمان کی پیروی کرتے ہیں اور انہوں نے ان کو یقینی بات ہے کہ قتل نہیں کیا بلکہ ان (یعنی حضرت عیسیٰ کو) خدا نے اپنی طرف اٹھا لیا)۔ (۰۴: ۱۵۸)۔

ان ارشاداتِ خداوندی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے نزدیک حضرت عیسیٰؑ مقتول و مصلوب نہیں ہوئے، لیکن کافروں کو ایسا ہی نظر آیا جیسے وہ لوگ عیسیٰؑ کو سولی پر چڑھا کر قتل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہوں کہ کسی طرح سے بھی زندہ نہ بچیں، جس کے معنی یہ ہیں کہ بندۂ خاصِ خدا روحانی اعتبار سے ایسا نہیں کہ اس کو سولی پر چڑھا کر قتل کیا جا سکے، خصوصاً حضرت عیسیٰؑ کو جو روح اللہ کا عظیم درجہ رکھتے تھے جو شروع ہی سے روحانی ہی روحانی تھے، جو درویشی کا ایک مکمل نمونہ ہونے کی وجہ سے برائے نام جسمانیّت رکھتے تھے، جن کی پاک روح کو اللہ تعالیٰ نے حسبِ وعدہ

 

۹۶

 

کافروں کے درمیان سے اٹھا لیا، اور ان کا مبارک جسم جو روح کے جامۂ فرسودہ کی حیثیت سے تھا، کافروں کو دے دیا، تاکہ وہ ازروئے قانون انتہائی گنہگار قرار پائیں اور شُبِّهَ لَهُمْ کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کی ظاہری شخصیّت کے متعلق یہ گمان ہوتا ہے کہ آدمی یہی کچھ ہے، چنانچہ کافروں نے عیسیٰؑ کے جسم پر قابو پاکر یہ سمجھا تھا کہ عیسیٰؑ یہی کچھ ہے حالانکہ حقیقی، روحانی اور نورانی عیسیٰؑ اور تھے، جس پر یہ لوگ ہرگز قابو نہیں پا سکتے تھے، یعنی عیسیٰؑ تو آغاز میں بھی اور انجام میں بھی روح تھے، لہٰذا فرمایا گیا کہ ان کو اشتباہ ہوگیا اور یہ اشتباہ کچھ اس معنی میں نہیں کہ انہیں کوئی شک گزرا ہو بلکہ اس کا مطلب زبانِ قدرت کی ترجمانی ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰؑ کے جسم سے جو سلوک کیا وہ انہیں بالکل ایسا لگا جیسے ان کی روح سے یہ سلوک کیا ہو۔

 

۹۷

 

حلِّ مسئلہ

گزارشِ خدمتِ عالیہ آنکہ یقیناً حضورِ انور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیدائشی طور پر پاک و پاکیزہ اور طاہر و معصوم تھے، جس کے ثبوت کے لئے قرآن و حدیث اور عقل و نقل کے بہت سے دلائل موجود ہیں، چنانچہ منجملہ چند دلیلیں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:

۱۔ سورۂ ابراہیم (۱۴: ۳۵) میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے اور اپنی موجودہ و آئندہ اولاد کے حق میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی تھی کہ پروردگارِ عالم انہیں بتوں کی پرستش سے بچائے رکھے، کیونکہ بت پرستی نہ صرف گمراہی ہے (۱۴: ۳۶) بلکہ ناپاکی بھی ہے (۲۲: ۳۰) اور اس دعا میں ظاہری و باطنی دونوں قسم کی بت پرستی کا ذکر ہے، مختصر یہ کہ اس دعائے ابراہیمی میں جملہ اقسام کے گناہوں سے بچ کر پاک و معصوم رہنے کی التجاء کی گئی ہے، اور آنحضرتؐ نے فرمایا ہے کہ: “میں اپنے جدِ امجد حضرت ابراہیمؑ کی دعا کا ثمرہ ہوں۔” پس معلوم ہوا کہ آلِ ابراہیمؑ کے جملہ انبیاء

 

۹۸

 

و أئمّہ علیہم السّلام پیدائشی طور پر پاک و معصوم ہیں۔

۲۔ اللہ تعالیٰ کے مقدّس ارشاد:  لَعَمْرُکَ (آپ کی عمر کی قسم، ۱۵: ۱۲) کی حکمت سے ظاہر ہے کہ حضورِ اکرمؐ کی تمام زندگی عصمت و طہارت کی حامل تھی، اگر یہ حقیقت نہ ہوتی تو پروردگار اپنے حبیب کی عمر کی قسم نہ کھاتا، جبکہ قسم صرف پاک و معصوم ہی چیزوں کی کھائی جاتی ہے۔

۳۔ پیغمبرِ برحق پاک و معصوم ہی تھے، اسی لئے آپ کی شان میں ” وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ” (اور بے شک آپ کے اخلاق بڑے اعلیٰ درجے کے ہیں، ۶۸: ۰۴) فرمایا گیا ہے، ظاہر ہے کہ خُلُقِ عظیم کے معانی سے امانت گزاری، تقویٰ اور عصمت و پاکیزگی باہر ہرگز نہیں۔

۴۔ نیز  اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ (۴۹: ۱۳) کی صفتِ تقویٰ کا اطلاق سب سے پہلے اور سب سے اعلیٰ درجے پر خیر البشر ہی پر ہوتا ہے، پس تقویٰ کا دوسرا نام عصمت ہے۔

۵۔ اب رہا سوال  وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى (اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو روحانیت سے ناواقف پایا سو اُس نے آپ کی رہنمائی کی، ۹۳: ۰۷) تو اس بارے میں عرض یہ ہے کہ اگر یہ ارشاد

 

۹۹

 

کسی ایک عام انسان کی بابت ہوتا تو اس کا مطلب اس شخص کے جملہ احوال کو پیشِ نظر رکھ کر متعین ہو جاتا اور شاید کہا جاتا کہ وہ عام انسان راہِ دین پر نہیں تھا، سو خدا نے اسے دین کا راستہ بتلا دیا، یا کہا جاتا کہ وہ آدمی جاہل تھا، اسے عالم بنا دیا وغیرہ، مگر چونکہ یہ ارشاد سردارِ رسل اور ہادئ سبل کی شان میں ہے، جن کی عصمت و طہارت کے باب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا  طٰہٰ یعنی اے طاہر و معصوم (۲۰: ۰۱) لہٰذا آنحضرتؐ کی جملہ قرآنی صفات کے پیشِ نظر مذکورہ ارشاد کا مطلب متعین ہوگا، اور وہ یہ ہے کہ آغاز میں آنحضرتؐ روحانیّت، وحی و الہام اور کارِ نبوّت سے بے خبر تھے، پھر آپ پر وحی نازل ہوئی اور ہدایت کے مختلف مدارج کو طے کرتے ہوئے ہادی بن گئے کیونکہ “فھدیٰ” میں حضور سے خطاب ہونے کے سبب سے ہدایتِ کاملہ ہی کا ذکر ہے، جو ہادی و رہنما کا درجہ ہے، اور اسی آخری ہدایتِ عالیہ کی نسبت سے اور وحی و الہام کے معیارِ اعلیٰ کے پیشِ نظر حضورِ اکرمؐ کو ابتدائی وقت میں ضالاً کہا گیا ہے کہ اُس وقت آپ ایسے نہیں تھے۔ اس حقیقت کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک ہے انتہائی پستی اور ایک ہے انتہائی بلندی اور ان دونوں کے درمیان مسافت کے جتنے بھی درجات ہیں ان میں

 

۱۰۰

 

سے ہر درجہ اگر نیچے سے دیکھا جائے تو بلند ہے اور اگر اوپر سے دیکھا جائے تو پست ہے یہی حال حقیقت میں ہدایت کا بھی ہے۔

۶۔ چنانچہ قرآن ہی نے آنحضرتؐ کی ابتداء سے لے کر انتہا تک ساری زندگی کو اسوۂ حسنہ قرار دے دیا، پس معلوم ہوا کہ یہ لفظ ضآلاً یہاں معیارِ انسانیت اور راہِ دین کے اعتبار سے ہرگز نہیں، بلکہ راہِ ملکوت اور معراجِ عالمِ بالا کے لحاظ سے ہے۔

۷۔ یہ حقائق سرورِ انبیاء کی جسمانی زندگی سے متعلق ہیں، اور آپ کی نورانی زندگی بحیثیتِ عقل کلّی ازلی و ابدی ہے، جس کی مثال پانی سے دی جا سکتی ہے کہ پانی کا وجود دو درجوں میں ہے، یعنی ایک وہ پانی جو سمندر کہلاتا ہے اور دوسرا وہ پانی جو سمندر سے نکل کر بخارات، برف و باران، ندی اور دریا کی صورت میں روان دوان سمندر سے واپس جا ملتا ہے۔ چنانچہ ” اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ ” (۲: ۱۵۶) کا ارشاد تمام انسانوں کے لئے یہی نظریہ پیش کرتا ہے، مگر یہ مثال سب سے پہلے پیغمبر اور امام پر صادق آتی ہے۔

۸۔ تخلیقِ کائنات کے تصوّر کے باب میں یوں عرض کی جاتی ہے کہ بموجبِ كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ ، ۲۱: ۳۳ (تمام چیزیں ایک دائرے پر چکر لگا رہی ہیں) ہستی اور نیستی روز و شب کی طرح ایک ایسے دائرے پر گردان ہیں، کہ اس کی نہ تو کوئی

 

۱۰۱

 

ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، یعنی ہمیشہ سے اس عظیم کائنات میں تعمیر بھی ہے اور تخریب بھی جیسا کہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ نے “اسلام میرے مورثوں کا مذہب” کے عنوان کے تحت فرمایا ہے اور حضرت پیر ناصر خسرو نے جو فرمایا کہ نفسِ کلّی کے مقصد کی تکمیل کے بعد یہ عالم فنا ہو جائے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جملہ حالات دگرگون ہوں گے، کیونکہ انہوں نے کتابِ وجہِ دین میں فنا سے تبدیلئ حالات مراد لی ہے۔ نیز انہوں نے فرمایا ہے کہ نیستی دراصل ابداع کو کہا گیا ہے، یعنی عالمِ امر جو عالمِ خلق کے ساتھ ساتھ ہے، یعنی نیستی کا حال ایسا نہیں جیسا کہ عام لوگوں کے وہم و گمان میں ہے، پس ظاہر ہے کہ عدمِ محض محال ہے۔

۹۔ نیز حضرت پیر کی مجموعی حکمت سے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب موجودہ نفسِ کلّ عقلِ کلّ کے درجے میں پہنچے گا تو اس کے بعد کے درجے کی ایک عظیم روح پھر وہی عمل شروع کرے گی، جو سابقہ نفسِ کلّ نے کیا تھا اور قرآنِ حکیم میں بھی ایسے اشارے ملتے ہیں۔

۱۰۔ غرض یہ کہ حکمتِ قرآن کی روشنی میں کائنات کبھی ختم ہوتی نظر نہیں آتی، بجز آنکہ اس عظیم کائنات کے اندر ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لئے فنا و بقا کا عمل جاری ہے، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ اس

 

۱۰۲

 

کے علاوہ یہ کائنات کلّی طور پر لا انتہا دفعات میں فنا و بقا کی کیفیت سے گزرتی رہے اور اس کی ہر فنا و بقا کے لئے بے شمار سال مقرر ہوں، مگر اس صورت میں بھی بقا کو عالمِ خلق اور فنا کو عالمِ امر کہا جائے گا اور یہ قطعی معدومیّت نہ ہوگی، مگر زیادہ صحیح وہی بات ہے جو عرض کی گئی کہ عالمِ خلق اور عالمِ امر یا کہ بقا و فنا ایک ساتھ جاری ہیں۔ والسلام۔

۱۰۳

اسرارِ فطرت

جیسا کہ اہلِ دانش سے اس عنوان کے لفظی معنی پوشیدہ نہیں، کہ اسرار بھیدوں یعنی چھپی حقیقتوں کو کہتے ہیں، اور فطرت پیدائش و طریقِ پیدائش کا نام ہے، چنانچہ “اسرارِ فطرت” ایک ایسا اہم اور ضروری موضوع ہے کہ اس کی بنیادی باتوں کے سمجھنے سے نہ صرف قرآن فہمی اور دین شناسی میں بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ قانونِ قدرت اور آئینِ فطرت کے سربستہ اسرار بھی کھل جاتے ہیں، کیونکہ قرآن اور دینِ اسلام قدرت و فطرت کے عین مطابق ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایان رحمت و مہربانی ہے کہ اُس رحمان و رحیم نے اپنی عزیز کتاب اور دینِ حق کو کائنات و موجودات اور خود انسان کی فطرت کے تقاضوں کے موافق بنایا تاکہ آفاق، انفس، کتابِ سماوی اور اسلام ایک دوسرے کی تفسیر و تشریح کرتے رہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فطرت کے بے پناہ بھیدوں کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور اس کے بعد الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ (۰۳: ۰۷)

 

۱۰۴

 

جانتے ہیں، جو پیغمبرِ برحق اور أئمّہ علیہم السّلام ہیں، اور ہاں انہی حضرات کے وسیلے سے علم و حکمت کا فیضان مومنینِ بایقین کے لئے حاصل ہوتا ہے۔

۱۔ قرآنِ حکیم کا ارشادِ مبارک ہے کہ:
اللہ تعالیٰ کی فطرت کا طریقہ وہی ہے جس پر کہ اس نے لوگوں کو پیدا کیا (۳۰: ۳۰)۔ یعنی خدا کی خدائی و بادشاہی میں ایک ہی طریقِ فطرت ہے اور ایک ہی فطرت و پیدائش، تمام انسان اسی یکتا فطرت کے مطابق پیدا کئے گئے اور آئندہ بھی قانونِ فطرت میں کوئی تبدیلی نہ ہوگی۔

۲۔ حدیثِ شریف میں ہے کہ: ہر مولود فطرت کے مطابق پیدا ہوتا ہے (اور اسلام دینِ فطرت ہے) اور اس کے والدین (بعض دفعہ) اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔

۳۔ مذکورۂ بالا آیت و حدیث کی وضاحت کے بعد کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ سکتا کہ اسلام وہ واحد دین ہے، جو قانونِ فطرت کے تقاضوں کو تمام زمانوں میں پورا کر سکتا ہے، کیونکہ یہ اصل میں دنیا اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے خلاف

 

۱۰۵

 

نہیں، چونکہ اسے دنیا زمانے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ اور قائم رہنا ہے۔
۴۔ جاننا چاہئے کہ جو عقیدہ اور نظریہ قانونِ فطرت کے خلاف رکھا جائے، اس کا بالآخر خاتمہ ہو جاتا ہے، کیونکہ کسی چیز کی قانونِ الٰہی سے مخالفت و تصادم اس کے لئے باعثِ ہلاکت ہے۔

۵۔ دنیا میں جتنی قومیں صفحۂ ہستی سے مٹ چکی ہیں، ان کے نیست و نابود ہو جانے کا سبب بس یہی تھا کہ انہوں نے قانونِ فطرت کے بھیدوں کو نہیں سمجھا اور زمان و مکان کے تقاضوں کے مطابق عمل نہیں کیا، سو اس بڑی خلاف ورزی کے نتیجے میں وہ سب کے سب ہلاک ہو گئے۔

۶۔ جب یہ حقیقت مسلّمہ ہے کہ ہر انسانی بچہ دینِ فطرت یعنی اسلام کے مطابق پیدا ہوتا ہے، تو لازمی طور پر یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ چھوٹے چھوٹے بچے عموماً جس انداز سے طرح طرح کے سوالات کرتے ہیں، اور جیسی فی البدیہہ باتیں پوچھتے رہتے ہیں، وہ دراصل قانونِ فطرت ہی کی کارفرمائی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ دینِ فطرت (یعنی اسلام) میں سوال کرنا اور پوچھنا بنیادی ضرورتوں میں سے ہے۔

۱۰۶

۷۔ جب یہ بات واقعی حقیقت ہے کہ دین و دنیا کی ضروری معلومات حاصل کر لینے کی خواہش انسانی فطرت میں داخل ہے جس کو نیک توفیق کہنا چاہئے، تو پھر یہ ایک لازمی امر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے لوگوں کے درمیان ایک ایسا معقول ذریعہ بھی موجود اور حاضر ہو، جو کہ ہر ہر سوال کا بخوبی جواب دے سکے، کیونکہ اگر عالمِ انسانیّت میں صرف سوال ہی کی صلاحیت ہوتی اور جواب کا کوئی وسیلہ موجود و مہیا نہ ہوتا تو پھر (نعوذ باللہ) خدا تعالیٰ کی ہدایت و رحمت میں بہت بڑی کمی رہتی۔

۸۔ قرآنِ حکیم کے جس ارشاد میں فرمایا گیا ہے کہ: اللہ تعالیٰ کی فطرت وہی ہے جس کے مطابق خدا نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات و موجودات جس قانونِ فطرت کے مطابق پیدا کی گئی ہیں، اس کا بہترین اور پُرحکمت نمونہ انسان ہے، یعنی انسان کی روحانی اور جسمانی تخلیق و ہستی فطرتِ الٰہیہ کی کامل ترین مثال ہے۔

۹۔ مذکورۂ بالا فرمانِ الٰہی کا اشارہ یہ ہے کہ انسان اپنے ظاہر و باطن کی کیفیّت و حقیقت جیسا کہ چاہئے سمجھ لے تا کہ وہ اسرارِ فطرت کے مقاصد کو سمجھ سکے اور یہ سب کچھ اس کی اپنی ذات میں موجود ہے۔

۱۰۷

۱۰۔ اگر انسان کی اپنی ذات میں فطرت کے بھیدوں کے انمول خزانے پوشیدہ نہ ہوتے، تو خدا تعالیٰ وجودِ انسانی کو تمام فطرتوں کا جامع اور نمونہ قرار دے کر یہ تاکید نہ فرماتا کہ وہ حصولِ معرفت کے لئے اپنی ذات کی طرف متوجہ ہو جائے۔

۱۱۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ قانونِ فطرت کے بموجب پہلے سوال ہے اور اس کے بعد جواب، یعنی پہلے طلب ہے پھر مطلوب، اس کے یہ معنی ہوئے کہ اگرچہ انسان کی ذات میں علم و حکمت اور اسرارِ فطرت کے خزانے پوشیدہ ہیں، لیکن ان کا حصول ہادئ برحق کی ہدایت و رہنمائی کی بغیر قطعاً ناممکن ہے۔

۱۲۔ جب مانا گیا کہ قانونِ فطرت کا بہترین عملی نمونہ انسان ہے تو یہ بھی جاننا چاہئے کہ انسان کی جسمانی اور روحانی تخلیق و تکمیل یکایک نہیں بلکہ رفتہ رفتہ ہو جاتی ہے، اس لئے ہمارا یہ کہنا بالکل درست اور صحیح ہے کہ دینِ حق بھی ایک دن میں نہیں بلکہ بتدریج درجۂ کمال کو پہنچتا ہے، خواہ دینی ترقی ایک فرد کی ہو یا پوری قوم کی۔

۱۳۔ مذکورۂ بالا آیت و حدیث کی روشنی میں جب یہ حقیقت صاف طور پر ظاہر ہے کہ ہر مولود اسلامی مزاج کے مطابق پیدا ہوتا ہے، خواہ وہ جس پیغمبر کے زمانے میں بھی ہو، پھر اس سے تین حقیقتیں

 

۱۰۸

 

روشن ہوکر سامنے آتی ہیں، ایک یہ کہ دینِ فطرت یعنی اسلام اُس وقت سے ہے جب سے کہ بشریت کا آغاز ہوا، جس کی تبلیغ و دعوت جملہ انبیاء علیہم السّلام نے کی، دوسری یہ کہ اسلام اوّل سے لے کر آخر تک ایک ہی ہے، مگر اس کی ظاہری صورتیں مختلف زمانوں میں مختلف رہی ہیں، تیسری یہ کہ اسلام میں کوئی جمود و تنگی نہیں، بلکہ یہ تدریجی ہدایت اور ارتقائی فعالیّت کا سرچشمہ ہے۔

۱۴۔ قرآنِ حکیم کے جس ارشاد میں فطرتِ انسانی پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے، اس کے تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم ماضی اور مستقبل کے لوگوں کے فطری احوال جاننے کے لئے ذاتی معرفت کا تجربہ حاصل کریں، کیونکہ عجائباتِ فطرت کا مشاہدہ کرنے کے لئے یہی ایک ذریعہ فرمایا گیا ہے۔

۱۵۔ اس آیت میں جس میں فطرتِ الٰہیہ کی کلیدی حکمت سمو دی گئی ہے، انبیاء و اولیاء اور تمام لوگوں کی فطرت کا یکجا طور پر ذکر کیا گیا ہے، جس کی روشنی میں متعدد حقیقتیں واضح ہو جاتی ہیں اور ان میں ایک اساسی حقیقت یہ ہے کہ انسانی روحوں کی ازلی و ابدی وحدت برحق ہے۔

۱۶۔ اس آیۂ مقدّسہ کی تعلیم سے یہ یقین حاصل آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ

 

۱۰۹

 

نے جس طریقِ فطرت پر حضرتِ انسان کو پیدا کیا ہے وہی طریقہ دوسرے تمام طریقوں میں سے ارفع و اعلیٰ اور پُرحکمت ہے، اور باقی سب طریقے اس کے سامنے ماند پڑ جاتے ہیں۔

۱۷۔ اس کلّیہ کی گہری حقیقتوں کو سمجھنے کے بعد عقل یہ ماننے لگتی ہے کہ فی الاصل حضرت آدمؑ اور حضرت عیسیٰؑ بھی اسی فطرتِ مشترکہ کے مطابق پیدا کئے گئے تھے۔

۱۸۔ آیۂ فطرت کا اشارہ یہ ہے کہ نورِ خداوندی کے درجۂ معرفت پر جو حضرات فائز ہو چکے ہیں، وہ چشمِ بصیرت اور دیدۂ دل سے اُن اسرارِ فطرت کا انتہائی باریک نگاہی سے مشاہدہ کرتے ہیں، جو آسمان، زمین، جمادات، نباتات اور حیوانات میں پوشیدہ ہیں۔

۱۹۔ پیر ناصر خسرو قدّس اللہ سرّہ کا ارشاد ہے کہ یہ کائنات ایک درخت کی طرح ہے، اور ہم انسان اس کے پھل ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آسمانوں کی تاثیر سے عناصر پیدا ہوتے ہیں، عناصر کے امتزاج سے موالیدِ ثلاثہ کی تخلیق عمل میں آتی ہے، موالید کی تحلیل سے انسانی شخصیّت وجود میں آتی ہے اور اس میں نفسِ نباتی و حیوانی پیدا ہوتا ہے، جس کی تزکیہ کرنے سے روحِ انسانی پھر

 

۱۱۰

 

عقل کا وجود بنتا ہے، اور یہی اللہ تعالیٰ کی دائمی فطرت ہے۔

۲۰۔ فطرت سے متعلق قرآنِ پاک کی اس حکیمانہ تعلیم سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی فطرت انسان ہی کے لئے مخصوص ہے، یعنی انسان کی فطرت میں وہ تمام قوّتیں اور صلاحیتیں رکھی ہوئی ہیں، جو کچھ پروردگارِ عالم کی قدرتِ کاملہ اور رحمتِ کل کے تقاضوں کے مطابق ممکن تھیں۔

۲۱۔ اسرارِ فطرت سے واقفیت و آگہی کا طریقہ یہ ہے کہ ہر دانشمند انسان ذاتی معرفت کے عالم میں چشمِ باطن سے آفاق و انفس کے حقائق و معارف کا واجبی طور پر مشاہدہ کرے، کیونکہ روحانی اور جسمانی موجودات و مخلوقات کی پیدائش و تخلیق کے بھیدوں کا یہی ایک مرکز ہے۔

اس مختصر بیان کے خاتمے پر میں یہ کہنے کے لئے مجبور ہوں کہ اسرارِ فطرت کے بارے میں سوائے چند اشاروں کے کچھ نہ کہا جا سکا۔

 

۱۱۱

 

پنج مقالہ نمبر ۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سخنہای گفتنی

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور رسولِ برحق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور أئمّۂ پاک علیہم السّلام کی ظاہری و باطنی ہدایت و تائید سے “پنج مقالہ نمبر ۳” آپ کے سامنے ہے، اس کتاب کی علمی اہمیّت و افادیّت بھی بحیثیتِ مجموعی میری دوسری کتابوں کی طرح ہے، تاہم اس میں جو خاص خاص باتیں ہیں وہ بالترتیبِ موضوعات ذیل میں درج کی جاتی ہیں:

اس کتاب میں سب سے پہلے آیۂ تطہیر کی کچھ حکمتیں بیان کی گئی ہیں، جو اہلِ بیتِ کرامؑ اور أئمّۂ آلِ محمد علیہم السّلام سے متعلق ہیں، اور ان حضرات کی یہ عالی شان مرتبہ کہ خداوندِ عالم نے ان کو ہر طرح سے پاک و پاکیزہ رکھا ہے اسلام کی ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد دینِ حق کے بہت سے بھید کھل جاتے ہیں، مثال کے طور پر پنجتنِ پاک اور أئمّۂ اطہار علیہم السّلام کی عصمت و پاکیزگی کی حقیقت کو تسلیم کرنے سے قرآنی مشکلات اس طرح آسان ہو جاتی

 

۱۱۵

 

ہیں اور حکمتوں کے چھپے ہوئے خزانے ایسے مل جاتے ہیں کہ ارشاد ہے:

اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِیْمٌ ۵۶: ۷۷۔ فِیْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ ۵۶: ۷۸۔ لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ ۵۶: ۷۹۔
یقیناً یہ ایک مکرم قرآن ہے جو ایک محفوظ کتاب میں درج ہے کہ اس کو بجز پاک حضرات کے کوئی ہاتھ نہیں لگانے پاتا۔ اس ارشاد سے صاف صاف ظاہر ہے کہ پنجتن اور أئمّۂ اہلِ بیتؑ کے پاک و پاکیزہ ہونے کا مقصدِ اعلیٰ یہ ہے کہ یہ مقدّس ہستیاں کتابِ مکنون تک رسا ہو جائیں جس میں قرآن محفوظ ہے، یہ کتابِ مکنون خواہ لوحِ محفوظ ہو یا روحانیّت کی عملی تاویل، بہرحال یہ دوسروں کی رسائی سے بالاتر ہے اور اس کے معنی یہ ہوئے کہ حضراتِ اہلِ بیت (جن میں أئمّۂ طاہرین بھی ہیں) کے سوا اور کوئی شخص قرآنی روحانیّت اور عرفانی حکمت کے اس درجے پر فائز نہیں ہوسکتا، سو ایسی حقیقتوں کی طرف توجہ دلانے کی غرض سے یہاں آیۂ تطہیر کے موضوع کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔

دوسرا مقالہ خاصف النعل ہے، جس میں حدیثِ نبوّیؐ کے مطابق علی و أئمّۂ اولادِ علی علیہم السّلام کے صاحبانِ تاویل ہونے کی حکمتیں بیان کی گئی ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ مولا علیؑ کی مقدّس شخصیّت کے زمانے میں تاویلِ قرآن کا آغاز ہوا اور ہر زمانے کے امام نے

 

۱۱۶

 

اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق تاویل کا ایک حصّہ لوگوں کے سامنے پیش کیا اسی طرح رفتہ رفتہ قرآنی تاویل امامِ وقتؑ کے توسط سے ظاہر ہوتی چلی آئی، اس امرِ واقعی سے ایک طرف تو یہ ثابت ہوا کہ خدا و رسولؐ کے بعد اولوالامرؑ کی اطاعت فرض ہے، اور اولوالامر أئمّۂ ہدا علیہم السّلام ہیں، اور دوسری طرف یہ حقیقت روشن ہوئی کہ دینِ اسلام کے عروج و ارتقاء کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ اولوالامر کے وسیلے سے تدریجی تاویل کے احکام پر عمل کیا جائے، تا کہ بمقتضائے زمان و مکان اسلامی ضابطۂ حیات کے مطابق دین و دنیا کی کامیابی حاصل ہو۔

تیسرا مضمون “تدریجی ہدایات” ہے جس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ قانونِ فطرت کے عمل کی تکمیل اور اسلامی ہدایات کا نفاذ تدریجی صورت میں ہے، اور اس کا ثبوت آنحضرتؐ سے پہلے ایک شریعت کے بعد دوسری شریعت کا آنا ہے اور حضورِ اقدسؐ کے دور میں تنزیل کے بعد تاویل پر عمل کرنا ہے، جیسا کہ حدیثِ خاصف النعل سے ظاہر ہے کہ نبئ اکرم صلعم کی تنزیلی جنگ آنحضرتؐ کی حیاتِ طیبہ میں تھی، اور علئ مرتضیٰؑ اور آپ کے جانشین اماموں کی تاویلی جنگ بعد میں ہونے والی تھی۔

۱۱۷

چوتھا مضمون “قربانی کی حکمت” ہے جس کی اہمیت یہ ہے کہ یہ عبادت اتنی قدیم اور اس کی تاریخ اتنی طویل ہے کہ زمانۂ آدمؑ سے لے کر آج تک کوئی وقت ایسا نظر نہیں آتا جس میں طرح طرح کی حق اور باطل قربانیاں نہ گزاری جاتی ہوں، چنانچہ یہ امر ضروری تھا کہ قربانی سے متعلق کچھ مفید باتیں بتائی جائیں۔

پانچواں مقالہ ہے “تین سوال انڈیا سے” ہمارے نزدیک سوال کا جواب دینا اور اس کی اشاعت کرنا اس لئے انتہائی ضروری ہے کہ سوال دین کی اُن باتوں کے بارے میں کیا جاتا ہے جن میں لوگوں کو شک و شبہ پیدا ہوتا ہو، پس اگر ایسے سوالات کے لئے جوابات مہیا نہ کئے جائیں تو رفتہ رفتہ دین لوگوں کو مشکوک نظر آئے گا، اور یہ بات بھی درست ہے کہ ہر سوال کا جواب یا تو براہِ راست ہوتا ہے یا بالواسطہ، ان دونوں میں سے جو مناسب ہو وہی کرنا چاہئے، اگر آپ عام حالت میں اپنے لوگوں کے سامنے علم کے موتی بکھیر دیں تو پھر بھی ان کی طرف بہت کم توجہ دی جائے گی، اس کے برعکس اگر آپ بحث و مناظرہ کے انداز میں علم کی باتیں کریں گے تو آپ کے لوگ چونک اٹھیں گے اور کان کھڑے کرکے خوب غور سے سننے لگیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ کے

 

۱۱۸

 

لئے عقل و دانش کی برتری اور فتح دیکھنے کا جذبہ رکھتا ہے یا یہ کہ وہ ہمیشہ مقابلہ دیکھنے کا متمنی رہتا ہے لہٰذا سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ضروری علم کو منظرِ عام پر لانا چاہئے، مگر یہ بات الگ ہے کہ آپ سوال کا جواب دے سکتے ہیں، لیکن کسی مصلحت کی بناء پر جواب نہیں دینا چاہتے۔

اگر اسماعیلی علوم عمدہ عمدہ کتابوں کی صورت میں عام ہو جائیں تو سوالات کم سے کم ہو جائیں گے، یہ بات ایسی ہے جیسے آپ نے طرح طرح کے سوالات کے لئے جوابات پہلے ہی سے تیار کر رکھے ہوں، اور جو جو کتابیں کامیاب ہوئی ہیں ان کی ایک علامت یہی ہوتی ہے کہ ان کے مطالعہ سے بہت سے سوالات حل ہو جاتے ہیں، اسی طرح شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے، اور جب شک چلا جاتا ہے تو اس کی جگہ پر یقین آتا ہے، سو ایسا ہی علم ہے جو علم الیقین کہلاتا ہے۔

ہمیں پروردگارِ عالم کی علمی نعمتوں کے لئے دل و جان سے شکر کرنا چاہئے کہ اُس نے اپنے فضل و کرم سے یہ پاک و پاکیزہ نعمتیں عنایت فرمائیں، اور علم کے مقصد کو آگے بڑھانے کے لئے ظاہری و باطنی وسائل فراہم کر دئے، وہی خداوندِ برحق

 

۱۱۹

 

ہے جس نے اہلِ ایمان کی نیک دعاؤں کے وسیلے سے خدمت کا جذبہ پیدا کیا اور بہت سے علم دوست حضرات کو توفیق دی کہ وہ علمی خدمت کے سلسلے میں بھرپور تعاون کریں، الحمد للہ علیٰ احسانہٖ۔

فقط جماعت کا ایک علمی خادم
نصیر الدین نصیر ہونزائی
اتوار ۲۰ رمضان المبارک ۱۳۹۷ھ
۴ ستمبر ۱۹۷۷ء

۱۲۰

قرآن کی حکمتیں
آیۂ تطہیر اور اہلِ بیت

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا ۳۳: ۳۳۔ ماسوائے اس کے نہیں کہ اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ اے اہلِ بیت (نبوّت) وہ تم سے ہر قسم کی ناپاکی کو دور رکھے اور تمہیں ایسا پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے۔

یہ روایت مشہور ہے کہ آیۂ مذکورۂ بالا پنجتنِ پاک کے بارے میں نازل ہوئی اور یہ واقعہ اُمِّ سلمہ آنحضرت کی زوجہ کے گھر میں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین علیہم السّلام کو بلایا اور ان پر اپنی چادر اوڑھا دی، اور آپ خود بھی اس میں داخل ہوگئے، پھر فرمایا: اے میرے

 

۱۲۱

 

اللہ! یہ ہیں میرے اہلِ بیت جن کے بارے میں تو نے میرے ساتھ وہ وعدہ کیا جو کچھ کہ تو نے کیا، یا اللہ ان سے رجس کو دور رکھ اور انہیں پاک رکھ جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے۔ اس پر اُمِّ سلمہ بولی: یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان میں شامل ہوسکتی ہوں؟ آپؐ نے فرمایا: اے اُمِّ سلمہ! نہیں، خوش خبری ہو کہ تو نیکی پر ہے۔

حکمت نمبر ۱:
اس آیۂ مقدّسہ سے یہ حقیقت کلّی طور پر ظاہر اور روشن ہو جاتی ہے کہ حضراتِ پنجتن ایسے انتہائی درجے پر پاک ہیں، کہ حق سبحانہ نے ان کو بکمالِ رحمت و مہربانی جیسا کہ چاہئے پاک رکھا ہے اور ان کو ہر طرح کی طہارت و پاکیزگی کا نمونہ اور ہر قسم کی پاکی و صفائی کا سرچشمہ بنایا ہے۔

حکمت نمبر ۲:
اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کی یہ پاکیزگی ظاہری بھی ہے اور باطنی بھی، روحانی بھی ہے اور جسمانی بھی، دینی بھی ہے اور دنیاوی بھی، غرضیکہ وہ بزرگواران ہر طرح سے پاک و طاہر ہیں، اور اس میں ذرہ بھر شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔

حکمت نمبر ۳:
اس آیۂ مبارکہ میں جو آیۂ تطہیر کے نام سے مشہور ہے، پنجتن کے انتہائی درجے پر پاک و پاکیزہ ہونے کا ذکر ہے، اور یہ ایسی پاکیزگی ہے کہ عالمِ بشریت میں اس سے اوپر

 

۱۲۲

 

اور کوئی دوسری پاکیزگی نہیں ہوسکتی، جبکہ اس مبارک ارشاد میں ذواتِ مقدسِ پنجتن کی عصمت و طہارت کا ذکر صیغۂ مبالغہ پر ختم ہوا ہے۔

حکمت نمبر ۴:
سب قائل ہیں کہ رسولِ پاک شروع ہی سے پاک تھے، لہٰذا جب حضورؐ خود بھی اہلِ بیت کی تطہیر کے اس عمل میں شامل ہوگئے، تو اس میں پاکیزگی کا تصوّر بہت ہی بلندی پر گیا، اور اس سے کئی حقیقتیں ثابت ہوگئیں، اور ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جو تصوّر حضورؐ کے اوصافِ حمیدہ کا ہے وہی تصوّر اہلِ بیتِ کرامؐ کے دوسرے افراد کے اخلاقِ عالیہ کا بھی ہے، کیونکہ خداوند عالم نے اس آیۂ پُرحکمت میں تمام اہلِ بیتِ اطہارعلیہم السّلام کو عصمت و طہارت کے ایک ہی درجے میں یاد فرمایا ہے۔

حکمت نمبر ۵:
اس آیۂ مقدّسہ میں اللہ تعالیٰ کے ارادے کا ذکر ہے جو اہلِ بیت کو ہر قسم کی برائی سے پاک رکھنے سے متعلق ہے، تو جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ حادث نہیں بلکہ قدیم ہے، یعنی جن بزرگ ہستیوں کے بارے میں پروردگارِ عالم کا یہ ارادہ ہو کہ وہ پاک ہو جائیں تو وہ ارادہ بہت پہلے سے موجود ہوتا ہے اور وہ

 

۱۲۳

 

حضرات اس ارادۂ الٰہی کے زیرِ اثر بہت پہلے سے پاک ہوتے ہیں، نہ کہ بعد میں۔

حکمت نمبر ۶:
اب رہا سوال آیۂ تطہیر کے نزول کا اور اس عمل کا کہ رسولِ اکرمؐ نے بعد میں اپنے اہلِ بیتِ اطہارؑ کو بلا کر ان پر اپنی چادر اوڑھا دی اور ان کے حق میں پاکیزگی کی دعا فرمائی جس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کی پاکیزگی اس وقت عمل میں آئی جبکہ خدا تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا اور جبکہ رسولِ اکرمؐ نے اس کے لئے دعا مانگی، لیکن بات دراصل یہ ہے کہ خدا و رسول کی جانب سے اس ازلی حقیقت کا عملی ثبوت پیش کرنا تھا کہ اہلِ بیت عظام ایسے پاک ہیں تا کہ عوام اس کو بآسانی سمجھ سکیں۔

حکمت نمبر ۷:
قرآنِ حکیم کی بہت سی آیتوں میں مومنین کی روحانی اور جسمانی پاکیزگی کا بھی ذکر آیا ہے، جس سے اہلِ بیتِ کرامؑ کی عصمت و طہارت اور بھی اونچی نظر آتی ہے، وہ اس طرح کہ مومنین کا پاک ہو جانا رسول اور اہلِ بیت ہی کے وسیلے سے ہے اور جب بھی کوئی مومن پاک ہو جاتا ہے، تو اس کو اہلِ بیت کی برترئ عصمت کا یقین اس طرح آتا ہے

 

۱۲۴

 

جیسے ایک چھوٹا سا بچہ یوں سمجھتا تھا کہ پہاڑ کی چوٹی آسمان کو چھو رہی ہے مگر اسے جب اس چوٹی پر پہنچایا گیا تو اسے یہ معلوم ہوا کہ یہ اس کا گمان ہی تھا کہ آسمان کی چھت پہاڑوں کی چوٹیوں پر رکھی ہوئی ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ آسمان پہاڑوں سے بھی بہت ہی بلند ہے۔

حکمت نمبر ۸:
بشریت کے مقام پر طہارت و پاکیزگی اور صاف دلی و پاک باطنی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو کہ خدا تعالیٰ کامل انسانوں کو شروع ہی سے اخلاقِ حسنہ کے مرتبۂ اعلیٰ پر رکھتا ہے اور ان کو اپنے نورِ ہدایت کا مظہر بنا کر ہر قسم کی نیکی اور بھلائی کا ذریعہ قرار دیتا ہے، نبوّت اور ولایت کا درجہ ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔

حکمت نمبر ۹:
اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنے رسولِ برحق کو نورِ ہدایت کے حامل بنانے کے لئے شروع ہی سے پاک رکھا تھا، اسی طرح حضورؐ کے اہلِ بیتؑ کو بھی ابتداء ہی سے پاک رکھا تاکہ ہمیشہ کے لئے سلسلۂ ہدایت جاری رہے، اور اس میں کسی قسم کی آلودگی نہ ہو۔

حکمت نمبر ۱۰:
قرآنِ حکیم میں حضورِ اکرمؐ کے پاک اخلاق اور پاک باطن کے جتنے اشارے اور تذکرے موجود ہیں ان میں آپ کے اہلِ بیت بھی شامل ہیں، اور ان حضرات کی یہ خصوصی عصمت و

 

۱۲۵

 

طہارت رسولؐ کے ساتھ ساتھ اس لئے ہے تاکہ پیغمبرِ خدا کے بعد بھی دین میں علم و حکمت اور رشد و ہدایت کا مرکز قائم اور باقی رہے۔

حکمت نمبر ۱۱:
قرآنِ کریم (۲۲: ۳۰) میں بت پرستی ناپاکی قرار دی گئی ہے اور وہ دو قسم کی ہوتی ہے یعنی ظاہری بت پرستی اور باطنی بت پرستی، ظاہری بت پرستی سے بچ جانا بہت آسان ہے مگر باطنی بت پرستی سے بچنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں سوائے اہلِ بیتِ اطہارؑ کے کہ وہ حضرات ہر قسم کی برائی سے پاک و پاکیزہ ہیں اور باطنی بت پرستی یہ ہے کہ کوئی انسان خدا کو نہ پہچانتا ہو، غیر کو خدا مانتا ہو، حرام اور ناجائز سے محبت کرتا ہو اور حلال میں اعتدال سے کام نہ لیتا ہو، خدا کی نظر میں یہ سب چیزیں رجس (ناپاکی) ہیں، جن سے اہلِ بیتِ کرامؑ کو خدا نے پاک رکھا ہے۔

حکمت نمبر ۱۲:
یہ اسلام کا ایک عام عقیدہ ہے کہ تزکیۂ نفس اور صفائیٔ باطن سے مردِ درویش کے دل و دماغ میں روحانیّت کی روشنی پیدا ہوتی ہے اور ایسا شخص گویا فرشتہ بن جاتا ہے پس اگر ایک عام مومن کی پاک باطنی کا یہ عالم ہے تو ان مقدّس اور بزرگ ہستیوں کی پاکیزگئ قلب کی کیا کیفیت ہوگی، جن کو خدا نے خود ازل ہی سے پاک و پاکیزہ بنایا ہے، یہاں سے صاف طور پر ظاہر ہوا کہ اہلِ بیتِ

 

۱۲۶

 

اطہار علیہم السّلام اس معنی میں خدا کے نور ہیں۔

حکمت نمبر ۱۳:
قرآن (۱۷: ۸۵) میں ہے کہ روح دراصل عالمِ امر سے ہے، یعنی وہ عالمِ خلق سے نہیں، اس لئے وہ ایک ازلی جوہر اور نور ہے، وہ ایک روشن عالم ہے، اس میں خدا کی قدرت و توانائی کے عجائب و غرائب نظر آتے ہیں مگر آئینۂ روح کے یہ سارے اوصاف رسول اور آپ کے خاندان کے لئے خاص ہیں کہ جن کے بارے میں خدا تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ اپنی اصلی اور ازلی صورت میں پاک و پاکیزہ ہیں۔

حکمت نمبر ۱۴:
جاننا چاہئے کہ اہلِ بیت سب سے پہلے پنجتن پاک ہیں اور پھر آلِ نبیؐ و اولادِ علیؑ کے تمام أئمّۂ طاہرین ہیں، کیونکہ اہلِ بیت کا یہ اشارہ رسول اللہ کے ایسے گھر والوں کی طرف ہے جو جسمانی رشتہ کے علاوہ آسمانی علم و ہدایت کے مرتبے میں بھی حضورؐ کے اقرب اور ہم نشین ہیں، یہی حضرات اہلِ ذکر، صاحبانِ امر اور أئمّۂ برحق کہلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہی بزرگواروں کو ہر قسم کی بشری کمزوری، ہر طرح کی خامی اور ہر نوع کی برائی سے پاک و پاکیزہ رکھا ہے۔

۱۲۷

حدیث کی حکمتیں
خاصف النعل

یہ حدیث سنی اور شیعہ (اثنا عشری اور اسماعیلی) کے کتبِ احادیث میں مشہور ہے اور میں نے “حالات و مقالاتِ صحابہ” سے نقل کی ہے:

ابو سعید الخدری نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ چلے جا رہے تھے تو آپ کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ گیا، اس وقت علیؑ نے اس کو اٹھا لیا، اور تسمہ کو درست کرنے لگے، جوتے کو درست کرنے کے بعد آپ پھر چل پڑے اور فرمایا:
یا ایھا الناس ان منکم من یقاتل علیٰ تاویل القرآن کما قاتلت علیٰ تنزیلہ۔ قال ابو سعید فخرجت فبشرتہ بما قال رسول اللّٰہ

 

۱۲۸

 

صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم فلم یلتفت بہ فرحا گانہ قد سمع
ترجمہ: اے لوگو وہ شخص تم میں سے ہے جو قرآن کی تاویل پر لڑائی کرے گا جس طرح میں نے قرآن کی تنزیل پر لڑائی کی ہے۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں میں مجمع سے نکلا اور علیؑ کو وہ بشارت سنائی جو رسول اللہ صلعم نے ہمیں سنائی تھی، لیکن علیؑ اس پر زیادہ خوش نہ ہوئے، معلوم ہوتا تھا کہ علیؑ یہ بشارت سن چکے تھے۔

۱۔ یہاں سب سے پہلے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تنزیل اور تاویل کی یہ دو اصطلاحیں خدا و رسول کے منشاء کے مطابق ہیں، کیونکہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو ایسی معتبر حدیث میں اس کی اہمیت و افادیت اور موقع و محل کا ذکر ہی نہ ہوتا اور نہ ہی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا جاتا کہ تنزیل کا زمانہ عہدِ نبوّت تھا اور تاویل امامت کے پورے دور میں پھیلی ہوئی ہے۔

۲۔ اس حدیثِ شریف سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورِ اکرمؐ صاحبِ تنزیل ہیں اور مولانا علیؑ صاحبِ تاویل، اور تنزیل و تاویل دونوں میں آسمانی احکام و ہدایات ہیں، پس یہ امر لازمی ہے کہ خدا و رسول کے حکم کے مطابق تنزیلی احکام کے بعد تاویلی ہدایتیں بھی

 

۱۲۹

 

شروع ہو جائیں، تا کہ رفتہ رفتہ دونوں قسم کی ہدایتوں سے مومنین کو فیض و فضیلت حاصل ہو۔

۳۔ تنزیل سے مراد قرآن کے ظاہری معنی ہیں اور تاویل قرآن کی باطنی حقیقت ہے، چنانچہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ علیؑ پیغمبرِ اکرمؐ کے جانشین اس لئے ہیں کہ حضورِ اقدس کے بعد دنیا اور زمانہ کی تبدیلی سے جو بھی مسائل پیدا ہوں گے ان کا حل اگر تنزیل سے نہ ہو تو تاویل سے بتا دیا جائے، اور اسی کو استنباط بھی کہتے ہیں۔

۴۔ اس حدیث کی حکمت سمجھنے سے معلوم ہوگا کہ حضرت محمدؐ کے زمانہ سے لے کر قیامت تک سلسلۂ امامت جاری اور باقی رہنے والا ہے، کیونکہ علیؑ اس حدیث میں سلسلۂ نورِ امامت کا عنوان ہیں، یعنی جس کام کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ علیؑ کرے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بے شک وہ کام علیؑ کرے گا مگر نہ صرف شخصی اور ذاتی طور پر بلکہ اپنی پاک اولاد کے سلسلۂ امامت کے ذریعے سے بھی۔

۵۔ پیغمبرِ برحق کے اس مبارک ارشاد میں ظاہری جہاد کے بعد باطنی جہاد کرنے کا ذکر آیا ہے جو کہ امام ہر زمانے میں علم کی

 

۱۳۰

 

ذوالفقار سے کرتے رہیں گے جس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ دین میں صرف شریعت نہیں ہے بلکہ طریقت، حقیقت اور معرفت بھی ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو تاویلی جنگ بے معنی ہو جاتی۔

۶۔ جس طرح تنزیل محدود ہے، اور تنزیلی جہاد بھی محدود ہے، اسی طرح تاویل غیر محدود ہے اور تاویلی جہاد بھی غیر محدود ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ظاہری جہاد صرف جسمانی طور پر کیا جاتا ہے اور باطنی جہاد روحانی و علمی طور پر کیا جاتا ہے، جس کے بہت سے طریقے ہیں۔

۷۔ علیؑ جو زمانے کے امام کے لباس میں موجود اور حاضر رہتا ہے اس کی طرف سے ایک ہمہ گیر اور دور رس جہاد یہ ہے کہ دنیا والے احوالِ زمانہ سے متاثر ہو کر اپنے نظریات میں ترمیمات کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو وہ زمانے کے ساتھ ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔

۸۔ یہ بات سب کے نزدیک حقیقت ہے کہ اسلام دینِ فطرت ہے، اور فطرت کا سب سے بہترین نمونہ اور سب سے عمدہ مثال انسان ہے اور انسان میں قانونِ فطرت کا ظہور یہ ہے کہ وہ بتدریج ترقی کرتا ہے، بدل جاتا ہے، وہ بہت سے حالات سے گزر جاتا

 

۱۳۱

 

ہے، اور منزل بہ منزل درجۂ کمال پر پہنچ جاتا ہے، چنانچہ دینِ حق کی بھی یہی مثال ہے اور اسی مقصد کے حصول کے لئے تاویلی جہاد ضروری ہے۔

۹۔ یہاں سے ظاہر ہے کہ شریعت کے ساتھ ساتھ بھی اور شریعت کے بعد بھی طریقت، حقیقت اور معرفت کی تعلیمات پر لوگوں کو عمل کرانا ہے اور اگر انہوں نے اس سے انکار کیا تو ان کے خلاف تاویلی جنگ لازمی ہوگی اور وہ یہ کہ دنیا زمانہ ان کے لئے طرح طرح کی مشکلات پیدا کر دے گا۔

۱۰۔ اس حدیث سے یہ حقیقت بھی روزِ روشن کی طرح ظاہر اور عیان ہو جاتی ہے کہ رسول کے بعد امامِ برحق قرآنِ حکیم کی گوناگون تاویلات سے مکمل طور پر واقف و آگاہ ہیں اور امامِ زمانؑ کے وسیلے سے وہ حضرات بھی تاویل کے اصولوں کو جانتے ہیں جو مرکزِ دعوت یعنی امامِ وقتؑ کی جانب سے علمی جہاد کے لئے مقرر ہوا کرتے ہیں۔

۱۱۔ جاننا چاہئے کہ تاویل کے تین مقامات ہیں، پہلا مقام قرآن ہے جہاں پر تاویل مغزِ معنی و حکمت کی حیثیت میں ہے، دوسرا مقام امامِ زمانؑ اور اس کے حدود ہیں، جہاں تاویل روحانی مشاہدات و

 

۱۳۲

 

تجربات کی صورت میں موجود ہے، اور تیسرا مقام دنیائے ظاہر ہے جس میں تاویل عظیم انقلابات و حادثات کی شکل میں رونما ہو جاتی ہے۔

۱۲۔ قرآنِ حکیم میں تاویل کے متعلق جو کچھ ارشاد فرمایا گیا ہے اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ تاویل نزولِ قرآن کے بعد رفتہ رفتہ آنے والی ہے، ملاحظہ ہو (۰۷: ۵۳) اور (۱۰: ۳۹)، اس میں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ آیا قرآنِ کریم کی تنزیل کے ساتھ ساتھ تاویل نہیں اتری تھی؟ اور کیا آنحضرتؐ کی ذاتِ اقدس پر تاویل نازل نہیں ہوئی تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک قرآن کی تنزیل کے ساتھ تاویل بھی تھی اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تاویل کو سب سے پہلے جانتے تھے، لیکن تیسرے مقام کی تاویل جس کا اوپر ذکر ہوا رسول اللہ کے زمانے میں ابھی نہیں آئی تھی، جو بتدریج انقلاباتِ زمانہ کے رنگ میں ظہور پذیر ہونے والی تھی اور تاویل کے اسی پہلو کی وجہ سے ارشاد ہوا تھا کہ ابھی تاویل نہیں آئی ہے، اور وہ مستقبل میں آنے والی ہے، اس کے علاوہ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ انفرادی اور اجتماعی حالات میں روحانی دور کا آنا تاویل کا آنا ہے۔

۱۳۔ تاویل جس مقام کی بھی ہو، پہلے وہ دعوت کی حیثیت رکھتی ہے، اگر قبول نہ کی گئی تو یہ جنگ کی صورت اختیار کر لیتی ہے، لہٰذا تاویل امامِ برحق کی دعوت بھی ہے اور اس کی جنگ بھی۔

 

۱۳۳

تدریجی ہدایات

ہر فردِ مسلم کے نزدیک یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے اور اس میں کسی کو کوئی شک ہی نہیں کہ اسلام دینِ خدائی اور دینِ فطرت ہے، کیونکہ یقیناًاسلام ہی وہ واحد آفاقی دین ہے، جو بموجبِ ارشادِ خداوندی (۶۱: ۰۹) آگے چل کر ادیانِ عالم کو اپنے رنگ کے ساتھ ہمرنگ کر لینے والا ہے، جب یہ حقیقت پوری طرح سے واضح ہوگئی کہ اسلامی ہدایات کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کی اس فطرت کے مطابق ہے، جس پر کہ اس نے تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلامی ہدایات کا نفاذ تدریجی طور پر ہوتا ہے، یعنی اگرچہ نورِ ہدایت ہمیشہ سے موجود ہے، لیکن اس سے زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے نئے تقاضوں کے مطابق تازہ بتازہ ہدایت جاری رہتی ہے، تاکہ جدید مسائل کا حل جدید انداز سے نکالا جائے، اور نئی مشکلات پر قابو ہو، چنانچہ ہم اس موضوع کے تحت قرآنِ حکیم کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بحیثیتِ مجموعی اسلامی ہدایت تدریجی انداز میں ہے۔

۱۳۴

دلیل نمبر ۱:
فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَاؕ-لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُۗ ۳۰: ۳۰۔ یہی اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ۔ خدا کی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی یہی دینِ قائم ہے۔

اس آیۂ مقدسہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے ، کہ لوگوں کو قانونِ فطرت کے موافق پیدا کیا گیا ہے اور اس قانون میں کوئی تبدیلی نہیں اور نہ اس تخلیق میں کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے، اور دینِ قائم بھی ایسا ہی ہے، پس یہاں سے معلوم ہوا کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور اس کی ہدایات تدریجی صورت میں ہیں، یعنی اس کی ہدایت درجہ بدرجہ اور منزل بمنزل آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔

دلیل نمبر ۲:
سورۂ انعام (۰۶: ۷۵ تا ۷۹) میں جہاں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو آسمانوں اور زمین کی روحانیّت کے مشاہدہ کرانے کا ذکر موجود ہے، اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے، کہ ہدایتِ الٰہی دنیا والوں کو تدریجی صورت میں دی جاتی ہے، جیسے جناب ابراہیمؑ نے سب سے پہلے ایک ستارے پر غور کیا، پھر چاند میں فکر کرتا رہا، اس کے بعد سورج کے بارے میں سوچنے لگا اور آخر کار ذاتِ خداوندی کی طرف متوجہ ہوا، یہ اس واقعہ کی تنزیلی صورت

 

۱۳۵

 

ہوئی، اور اس کی تاویل یہ ہے کہ ستارا، چاند اور سورج حدودِ دین ہیں، جن کے وسیلے سے حضرت ابراہیم خلیل اللہ خدا کی معرفت کو پہنچ گئے، اور ان کی یہ ہدایت تدریجی حالت میں تھی، یعنی رفتہ رفتہ نئی نئی ہدایتوں پر عمل کرنے کا طریقہ کار فرما تھا۔

دلیل نمبر ۳:
سورۂ بقرہ کے دوسرے رکوع میں اشارہ فرمایا گیا ہے کہ انسان مذہبی ترقی کے راستے پر ایک ایسے مسافر کی طرح ہے، جو رات کی تاریکی میں قدم قدم پر روشنی کی نئی نئی شعاعوں کا محتاج رہتا ہے، اس کی رہنمائی کے لئے ایسے نور کی ضرورت ہے کہ وہ تازہ بتازہ نورانی کرنوں کی مسلسل بارش برسا سکے، اور اگر اس کے برعکس روشنی ایسی ہو کہ وہ کبھی تو نمودار ہوتی ہے اور کبھی غائب، تو ایسی روشنی میں مسافر صرف چند ہی قدم آگے بڑھ کر رہ جاتا ہے، جیسے آسمانی بجلی چمکنے کی روشنی میں، اور جیسے کسی جگہ پر پڑی پڑی جلتی ہوئی آگ کی روشنی میں، اس مثال سے معلوم ہوا کہ قرآنِ پاک میں جس نورِ ہدایت کی تعریف و توصیف کی گئی ہے وہ تدریجی ہدایت کا لازوال سرچشمہ ہے۔

دلیل نمبر ۴:

سورۂ حدید (۵۷) آیت نمبر ۲۸ (۵۷: ۲۸) میں ذرا غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی فرد اور کوئی گروہ صراطِ مستقیم پر ثابت

 

۱۳۶

 

قدمی سے چل نہیں سکتا، مگر اُس نورِ ہدایت کی روشنی میں جسے خدا و رسول نے مقرر فرمایا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا اور زمانے میں دین و مذہب ایک رستے کی طرح ہے، جس پر چلنے والوں کو ہدایت کی تازہ بتازہ نو بنو روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، جو گرد و پیش کی ہر چیز کو ظاہر کر سکے تا کہ مذہب کا مسافر وقت اور جگہ کے حالات سے تاریکی میں نہ رہے اور منزلِ مقصود کی طرف قدم بڑھائے۔

دلیل نمبر ۵:
قرآنِ مقدس (۰۶: ۱۲۲) میں ہے: کیا وہ شخص جو مردہ تھا پس ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور قرار دیا جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا ہے اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو اندھیروں میں پڑا ہو جن سے وہ نکل ہی نہ سکے۔

اِس آیۂ مبارکہ کی تعلیم یہ ہے کہ اِس مادّی دنیا میں مذہبی زندگی گزارنے اور صحیح معنوں میں زندہ ہو جانے کے لئے ایک فرد کو خدا تعالیٰ کی جس ہدایت و رحمت کی ضرورت ہے، وہی ہدایت و رحمت پوری قوم کے لئے بھی چاہئے، ورنہ یہاں مردگی اور تاریکی کے سوا کچھ بھی نہیں، یعنی اس دنیا میں بحقیقت زندہ صرف اور صرف وہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے علم و معرفت کی روح میں زندہ کر دیا ہے اور انہیں اپنے نورِ ہدایت سے وابستہ کر لیا ہے، اس مطلب

 

۱۳۷

 

میں ذرا غور کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے، کہ دنیا میں نہ صرف غفلت و جہالت کی موت اور تاریکی کے سامان ہمیشہ کے لئے موجود و مہیا ہیں، بلکہ اس کے مقابلے میں ذکر و معرفت کی زندگی کا وسیلہ اور نور کا ذریعہ بھی دائمی طور پر جاری ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو قیامت کے دن خدا تعالیٰ پر لوگوں کی حجت ہوتی اور کہا جاتا کہ پروردگارا! دنیا میں ظلمت ہی ظلمت تھی اور اس میں کوئی نور نہ تھا۔

اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ دنیا میں نورِ ہدایت حی و حاضر ہے اور وہ اس لئے ہے کہ صرف اسی کی ہدایت کی روشنی میں دینی اور دنیاوی زندگی کے مراحل امن و سلامتی سے طے کئے جائیں، تا کہ یہ سفر ہر طرح بے خطر اور کامیاب ہو جائے، جیسا کہ آیۂ مذکورۂ بالا سے ظاہر ہے کہ نور اس لئے ہوتا ہے کہ اس کی روشنی میں تکالیف و خطرات سے محفوظ ہوکر راہِ راست پر چلا جائے اور منزلِ مقصود تک رسائی ہو اور اسی چیز کا نام تدریجی ہدایت ہے۔

دلیل نمبر ۶:
کتابِ عزیز (۶۷: ۲۲) میں ہے کہ پھر کیا وہ شخص جو اپنے منہ کے بل اوندھا چلتا ہے زیادہ ہدایت یافتہ ہے یا وہ جو سیدھے راستہ پر برابر چلتا ہے۔

اس آیۂ کریمہ میں صراطِ مستقیم پر چلنے اور اس سے گم گشتگی

 

۱۳۸

 

کے درمیان جو فرق پایا جاتا ہے، اس کی مثال دی گئی ہے، یہ مقام بڑی سنجیدگی سے سوچنے کا ہے کہ اگر ایک شخص کو منزلِ مقصود کا راستہ نہیں مل رہا ہو اور اس پر مزید بدبختی یہ کہ وہ ایک تندرست آدمی کی طرح چل بھی نہیں سکتا، تو وہ منہ کے بل چل کر کہاں پہنچ سکتا ہے اور سوائے ناکام کوشش اور بے فائدہ تکلیف برداشت کرنے کے وہ کیا کر سکے گا، الغرض گمراہی روحانی قسم کا رنج و عذاب ہے، اور اس کے مقابلے میں ہدایت راحت و ثواب ہے۔

جب اللہ تعالیٰ خود ضلالت کی مذمت کرتا ہے اور پھر بھی قانونِ عدل کی رو سے ضلالت و گمراہی کے سامان کی کوئی کمی نہیں، تو کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ جو ہدایت پروردگارِ عالم کی خوشنودی کے مطابق ہے اس کے ذرائع مکمل نہ ہوں، یا کسی وقت مکمل ہو جانے کے بعد پھر ان میں کچھ تخفیف کی گئی ہو، یہ تو ہرگز نہیں ہو سکتا، اس بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ گمراہی ابتداء ہی سے ہے، اور انسان کے لئے اکثر کوئی نیا مسئلہ گمراہی کا باعث بن جاتا ہے، اسی طرح دوسری جانب ہدایت بھی شروع ہی سے ہے، اور ذریعۂ ہدایت کا ضروری کام یہ ہے کہ وہ پیش آمدہ مسائلِ نو پر تازہ ترین ہدایت کی روشنی ڈالتا ہے، جیسے کوئی مسافر جب اندھیری رات میں کسی روشنی

 

۱۳۹

 

کو لئے ہوئے سفر کرتا ہے تو روشنی پسِ پشت نہیں رکھتا بلکہ وہ اسے آگے آگے لئے جاتا ہے، تا کہ ہر نئے قدم رکھنے سے پیشتر قدم گاہ پر نئی روشنی ڈالی جائے، اور وہ امن و امان اور سلامتی سے منزلِ مقصود پر پہنچے۔

دلیل نمبر ۷:
سورۂ احزاب (۳۳) کی آیت نمبر ۶۲ (۳۳: ۶۲) میں فرمایا گیا ہے کہ: یہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے ان لوگوں میں جو پہلے گزر گئے اور تم ہرگز اللہ تعالیٰ کے طریقہ میں تبدیلی نہ پاؤگے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کی عادت و سنت کا مکمل نمونہ آنحضرتؐ سے قبل کے زمانے میں گزر چکا ہے اور اب عہدِ نبوّت سے لے کر قیامت تک اللہ کی وہی عادت کسی تبدیلی کے بغیر جاری رہے گی، وہ یہ کہ لوگ قبول کریں یا نہ کریں ہر حالت میں نورِ ہدایت کا تدریجی فیضان دنیا میں جاری رہے گا، اور زمان و مکان کی ضرورت کے مطابق ہدایت کی روشنی ممکن الحصول رہے گی۔

دلیل نمبر ۸:
سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۶۹  (۰۲: ۲۶۹) کو سامنے رکھ کر ہم یہ وضاحت کریں گے کہ اگر حکمت صرف اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت سے کسی کو مل سکتی ہے، اور اس کے حصول میں خیرِ کثیر ہے، تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حکمت اور خیرِ کثیر ایسی تدریجی ہدایت کی صورت میں ہے جو وقت اور جگہ کی ضرورت کے مطابق حاصل ہوتی رہتی ہے۔

دلیل نمبر ۹:
سورۂ فتح کے آخری رکوع میں ایک انتہائی اہم ارشاد

 

۱۴۰

 

کا یہ مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایتِ کاملہ اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ دینِ حق یعنی اسلام کو تمام ادیانِ عالم پر غالب کر دیا جائے، قرآنِ حکیم کی اس پیش گوئی سے یہ حقیقت کلّی طور پر روشن ہو جاتی ہے کہ دینِ اسلام کی سب سے بنیادی اور سب سے عظیم طاقت جو عالمگیر ہے ہدایت اور حقانیت ہی ہے (جیسا کہ بالھدیٰ و دینِ الحق ۴۸: ۲۸ سے ظاہر ہے) اور یہ روحانی طاقت مرتبۂ نبوّت کے بعد درجۂ امامت کے سرچشمہ سے تازہ بتازہ نو بنو جاری ہوکر مذاہبِ عالم کو رفتہ رفتہ دینِ خدائی کی یک رنگی و یک جہتی عطا کرے گی۔

دلیل نمبر ۱۰:
قرآنِ پاک (۰۶: ۹۰) میں فرمایا گیا ہے کہ آنحضرت صلعم انبیائے سلف کی مجموعی ہدایت کی پیروی کر لیا کریں، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ (نعوذ باللہ) حضورِ اکرمؐ قرآنِ حکیم کو چھوڑ کر اگلے پیغمبروں کی ہدایات پر عمل کریں، بلکہ اس کا مقصد تو یہ ہے کہ سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآن ہی کی صورت میں گزشتہ زمانے کے پیغمبروں کی ہدایت کی پیروی کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے تمام انبیاء علیہم السّلام کو بحیثیتِ مجموعی جو ہدایت دی تھی، وہ ہدایت قرآن کی تنزیل و تاویل کے احاطے سے باہر نہیں، پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ عہدِ نبوّت سے لے کر قیامت

 

۱۴۱

 

تک پورے دور کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ہدایت مقرر ہے، وہ زمان و مکان کی نئی ضرورتوں کے مطابق تدریجی صورت میں ہے، جس طرح کہ آنحضرتؐ سے قبل کے انبیاء کی ہدایت زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی چلی آئی تھی۔

دلیل نمبر ۱۱:
قرآنِ مجید میں ہے: قَالَ هٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ (۱۵: ۴۱) (یعنی خدا نے) فرمایا یہی سیدھا راستہ ہے جو مجھ تک (پہنچتا) ہے۔

اس سے یہ مطلب صاف صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ دینِ حق یعنی اسلام ہی وہ سیدھا راستہ ہے، جس کے ذریعے سے لوگ خدا تک پہنچ سکتے ہیں، اور یہی وہ واحد سیدھا راستہ ہے، جس کی ہدایت کا آغاز حضرت آدم علیہ السّلام نے کیا اور ہر پیغمبر نے اپنے وقت کے مطابق اس راہِ خدا کی ہدایت کی، تا آنکہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا زمانہ آیا، اور آنحضرتؐ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں اُس وقت کے مطابق مسلمانوں کی ہدایت و رہنمائی فرمائی اور مستقبل کی ایسی تدریجی ہدایت کے لئے حضورؐ نے بحکمِ خدا اپنا جانشین مقرر فرمایا، اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری و باقی رہا، پس معلوم ہوا کہ خدا کی جانب سے لوگوں کے لئے جو دینی اور

 

۱۴۲

 

دنیاوی ہدایت کا مرکز مقرر کیا گیا ہے، وہ زمان و مکان کی ضرورت کے مطابق تدریجی ہدایت کی روشنی پھیلاتا ہے۔

دلیل نمبر ۱۲:
قرآنِ مقدّس میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: اے ایمان والو! خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور (اللہ کے) امر والوں کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں (۰۴: ۵۹)۔ یہ ایک ایسا حکم ہے جو زمانۂ نبوّت سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والے اہلِ ایمان کو پیشِ نظر رکھ کر فرمایا گیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ خدا کی فرمان برداری رسول کے توسط سے کی جائے اور رسول کی فرمانبرداری اپنے وقت کے امام کے ذریعے سے بجا لائی جائے، جبکہ امامِ وقت کی اطاعت کا واضح اشارہ “منکم” میں موجود ہے، اس سے ہر دانش مند پر یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اگر ہر انسان خود بخود قرآن کی ہدایات کو سمجھ پاتا تو فرمایا جاتا کہ تم صرف اللہ ہی کی اطاعت کرو اور بس اور اس میں رسول کی اطاعت کا کوئی حکم نہ ہوتا، نیز اگر رسول کی ہدایت کے بعد کسی اور کی ہدایت کی ضرورت نہ رہتی تو یہ حکم ہرگز نہ دیا جاتا کہ صاحبانِ امر کی اطاعت کرو، اور اسی طرح اگر چند ابتدائی أئمّۂ اطہار علیہم السّلام کے بعد امامت و ہدایت کا سلسلہ ختم ہوا ہوتا یا زمانے کے امام کی ہدایت میں کوئی بھی نئی

 

۱۴۳

 

بات نہ ہوتی اور لوگوں کو بظاہر یہ سوال پیدا نہ ہوتا کہ “اگلے اماموں کی ہدایت سے موجودہ امام کی فلان ہدایت مختلف ہے اب کس پر عمل کیا جائے؟” تو اس صورت میں خدا یہ نہ فرماتا کہ تم ایسے اختلاف کی صورت میں اپنے ہی وقت کے امام کی اطاعت کرو۔

دلیل نمبر ۱۳:
ارشادِ خداوندی ہے:
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَهٗؕ-یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلُهٗ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّۚ-فَهَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَآءَ فَیَشْفَعُوْا لَنَاۤ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُؕ- (۰۷: ۵۳)۔ کیا وہ لوگ سوائے اس کی تاویل کے (کسی چیز کے آنے کا) انتظار کرتے ہیں جس دن اس کی تاویل آئے گی تو وہ لوگ جنہوں نے اسے پہلے ہی بھلا رکھا تھا کہیں گے بے شک ہمارے پروردگار کے رسول حق لے کر آئے تھے پھر کیا ہمارے لئے بھی کوئی شفاعت کرنے والے ہیں جو ہماری شفاعت کریں یا ہمیں واپس بھیج دیا جائے کہ جیسے عمل ہم کیا کرتے تھے ان کے خلاف عمل کریں۔

اس آیۂ کریمہ کا واضح مطلب یہ ہے کہ دنیا اور زمانے کے نئے نئے واقعات و حادثات اور جدید تقاضوں کے نتیجے میں قرآن کی

 

۱۴۴

 

تاویلی ہدایت کی روشنی سلسلۂ امامت کے وسیلے سے بتدریج پھیلتی رہے گی، اور نتیجے کے طور پر ایک دن اس دنیا میں تبدیلیوں کی ایک عظیم قیامت برپا ہوگی، جن کو نظریاتی طور پر صرف وہی لوگ برداشت کر سکیں گے، جو پہلے ہی سے اسے قبول کرتے آئے ہیں۔

دلیل نمبر ۱۴:
سورۂ یونس (۱۰: ۳۹) میں ہے کہ بلکہ انہوں نے اسے (یعنی قرآن کو) جھٹلا دیا اس سبب سے کہ وہ اس کے علم کا احاطہ نہ کر سکے اور جبکہ اس کی تاویل ان کے پاس نہیں آئی ۔ (۱۰: ۳۹)۔ اس آیۂ کریمہ میں بھی بزبانِ حکمت یہی فرمایا گیا ہے کہ پہلے تو قرآن کی تنزیل مکمل ہوئی ہے، پھر اس کے بعد رفتہ رفتہ اس کی تاویل ظاہر ہوتی چلی جاتی ہے، اور اگر قرآن کی ہر آیت کی تنزیل میں ایک حصہ ہدایت ہے تو اس کی تاویل میں ستر حصہ ہدایت ہے، اسی طرح قرآن کے باطن میں بے شمار ہدایات ہیں جو کسی ایک وقت کے لئے نہیں بلکہ پورے دور کے لئے ہیں، اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ ظاہراً و باطناً قرآنی ہدایات سلسلہ وار اور درجہ وار ہیں، جس کو تدریجی ہدایات کہتے ہیں۔

دلیل نمبر ۱۵:
تنزیل و تاویل کی ان فراوان آسمانی ہدایات کی روشنی میں خدا و رسول کا خلیفہ امورِ دین کا مختار ہوا کرتا ہے، اس لئے

 

۱۴۵

 

کہ اللہ اور اس کے رسول نے اسے صاحبِ امر قرار دیا ہے، اور ظاہر ہے کہ صاحبِ امر صاحبِ اختیار ہوتا ہے، اور خلیفہ کے بھی یہی معنی ہیں کہ خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور یہاں “جاء” کے مرادی معنی مرتبہ اور اختیار کے ہیں نہ کہ اس کا مطلب کوئی ظاہری اور مادّی محل و مقام ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ۔ ۳۸: ۲۶۔ اے داؤد یقیناً ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا پس تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا کرو۔

اس سے ظاہر ہوا کہ حضرت داؤد علیہ السّلام اپنے وقت میں خدا اور اس کے اُن پیغمبروں کے جو قبلاً گزر چکے تھے خلیفۂ مختار تھا، کیونکہ اگر خدا تعالیٰ خود ہی ہر بات کا فیصلہ فرماتا اور خلیفۂ خدا کا اس میں کوئی اختیار ہی نہ ہوتا تو یہ ہرگز نہ فرمایا جاتا کہ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرنا، اس دلیل سے یہ ثابت ہے کہ ہر زمانے کا امامؑ جو اپنے وقت میں اللہ و رسول کا خلیفہ ہے دینی امور میں مختار ہوا کرتا ہے اور اس کی ہدایت تدریجی ہدایت ہوتی ہے۔

۱۴۶

دلیل نمبر ۱۶:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی بات آئی انہوں نے اُسے مشہور کر دیا اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور ان میں سے جو (اللہ کے) امر والے ہیں ان کی طرف پھیر دیتے تو جو بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں وہ اِس (کی حقیقت) کو جان لیتے (۰۴: ۸۳)۔

اس ارشادِ خداوندی میں یہ حکمت ہے کہ رسولِ خدا صلعم کے بعد صرف حضراتِ اولوالامر ہی ہیں جو آیاتِ قرآنی میں سے استنباط کرکے احکامِ دین کی وضاحت اور حالاتِ زمانہ کے مطابق لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کر سکتے ہیں، صاحبانِ امر یعنی أئمّۂ اطہار علیہم السّلام ہی کے لئے استنباط مخصوص ہونے کے معنی یہی ہیں۔

دلیل نمبر ۱۷:
قرآنِ مجید کی ۰۳: ۱۹  میں فرمایا گیا ہے
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۫۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک (سچا) دین اسلام ہی ہے، نیز اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ یقیناً خدا کے نزدیک دین یہ ہے کہ امرِخداوندی کے لئے ہمیشہ تسلیم کی جائے، جو پیغمبر اور أئمّۂ ہدا ہی کے ذریعے ممکن ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ دینی ہدایت یکبارگی طور پر اور دفعۃً نہیں دی جاتی بلکہ اس کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے، پس یہی

 

۱۴۷

 

سبب تھا کہ دینِ محمدی اسلام کے اسم سے موسوم ہوا، یعنی ایسا دین جس کی نہ صرف اصل و اساس ہی میں تسلیم و فرمانبرداری ضروری ہے بلکہ اس میں ہر وقت ہدایتِ جاریہ کی اطاعت لازمی ہوتی ہے۔

دلیل نمبر ۱۸:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (۰۴: ۶۵)۔ پس ایسا نہیں ہے (اے رسول) آپ کے پروردگار کی قسم یہ لوگ کبھی مومن نہ ہوں گے جب تک کہ ان جھگڑوں میں جو ان کے درمیان پڑے ہیں آپ کو منصف نہ بنا لیں پھر جو آپ فیصلہ کریں اس سے وہ اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں اور ایسی تسلیم کریں جو تسلیم کرنے کا حق ہے۔

اس آیۂ پُرحکمت سے ظاہر ہے کہ قضیہ خواہ دینی ہو یا دنیاوی ہر حالت میں اس کے فیصلہ کے لئے ہادئ برحق کی طرف رجوع کرنا چاہئے، اور وہ جیسا بھی حکم دے اسے دل و جان سے قبول کرنا ضروری ہے اس کے بغیر اسلام و ایمان ناممکن ہے۔

دلیل نمبر ۱۹:
ارشاد ہے: اور تا کہ میں تم پر اپنی نعمت

 

۱۴۸

 

پوری کر دوں اور اس لئے کہ تم ہدایت یافتہ ہو جاؤ، جیسے تم میں ایک رسول تم ہی میں سے بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں پڑھتا ہے اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور تمہیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔ (۰۲: ۱۵۰ تا ۱۵۱)۔

اس فرمانِ الٰہی میں کافی وضاحت کے ساتھ یہ اشارہ فرمایا گیا ہے کہ جس طرح زمانۂ نبوّت میں دینی اور دنیاوی ہدایت کا سلسلہ جاری تھا، اسی طرح دورِ امامت میں بھی یہ سلسلہ جاری و باقی رہے گا، اور کارِ ہدایت میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی، چنانچہ فرمایا گیا: اور تاکہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کر دوں (یعنی ولایت و امامت جو خدا تعالیٰ کی خاص نعمت ہے) اور اس لئے کہ تم ہدایت یافتہ ہوجاؤ (یعنی امام اور امامت کا مقصد ہی ہدایت ہے) پھر اس کے بعد مثال بیان فرماتا ہے کہ جس طرح رسولِ اکرم صلعم کے وجودِ مبارک سے طرح طرح کے روحانی اور جسمانی فیوض و برکات حاصل ہیں، اسی طرح امام کی پاک شخصیّت سے بھی علم و حکمت اور رشد و ہدایت کا فیضان حاصل ہوتا رہے گا۔

دلیل نمبر ۲۰:
آیۂ نور (۲۴: ۳۵) کے پُرحکمت اجزاء میں سے

 

۱۴۹

 

ایک جزو “نور علیٰ نور” ہے، بمعنی وہ نور بالائے نور ہے، یعنی ایک امام کے بعد دوسرا امام ہوتا رہے گا اور اسی طرح علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے ایک دور کے بعد دوسرا دور چلتا رہے گا، چنانچہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں جو نورِ ہدایت مقرر ہے وہ یکے بعد دیگرے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی مقدّس ہستیوں کے سلسلے میں قائم رہا ہے، اس پاک سلسلے کا ہر فرد اپنے وقت کا ہادئ برحق ہوا کرتا ہے، جس کی ہدایت کی پیروی اہلِ زمانہ پر واجب ہوتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ دینِ اسلام کی ہدایت تدریجی صورت میں ہے۔

۱۵۰

قربانی کی حکمت

قربانی کی لفظی تحلیل یہ ہے کہ یہ لفظ قربان سے ہے اور قربان قرب سے نکلا ہے جس کے معنی نزدیکی اور قریب ہونے کے ہیں، اور قربان کے معنی ہیں ہر وہ چیز جس سے اللہ تعالیٰ کی قرب جوئی کی جائے، اور عرف میں قربان اور قربانی اس جانور کو کہتے ہیں جو خدا کے نام پر ذبح کیا جائے۔

قرآنِ پاک میں حضرت آدم علیہ السّلام کے زمانے سے متعلق قربانی کا تذکرہ اس طور پر آیا ہے
اور (اے رسول!) آپ اُن کو آدم کے دو بیٹوں کا قصّہ صحیح طور پر پڑھ کر سنائیے جبکہ دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی، اور اُن میں سے ایک کی تو مقبول ہوگئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی وہ دوسرا کہنے لگا کہ میں تجھ کو ضرور قتل کروں گا اُس ایک نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں ہی کا عمل قبول کرتا

 

۱۵۱

 

ہے۔ (۰۵: ۲۷)۔

یہاں پر یہ حقیقت صاف صاف روشن ہے کہ نہ صرف قربانی ہی کی سب سے بڑی شرط تقویٰ ہے بلکہ ہر وہ نیک عمل جو تقویٰ کے بغیر ہو درگاہِ الٰہی میں قطعی نامقبول ہے۔

کہتے ہیں کہ آدم کے مذکورہ دو بیٹے ہابیل اور قابیل تھے، اور ان کا قصّہ یوں ہے کہ حضرت آدمؑ ہابیلؑ کو ان کی پرہیزگاری اور قابلیت کی بناء پر اسمِ اعظم بتا کر اپنا وصی بنانا چاہتے تھے، یہ سن کر قابیل کے دل میں رشک و حسد کی آگ بھڑک اُٹھی، اور اپنے باپ سے گستاخانہ کہنے لگا کہ جانشینی کا تو مجھے حق ہے، حضرت آدمؑ نے قصّہ چکانے کی غرض سے فرما دیا کہ تم دونوں خدا کی بارگاہ میں اپنی اپنی قربانیاں پیش کرو جس کی قربانی قبول ہوگی وہی اس منصب کا مستحق سمجھا جائے گا، چنانچہ ہابیل نے ایک گوسفند پہاڑ پر لے جا کر رکھا اور قابیل نے کھیت سے کچھ بالیاں لے کر رکھ آیا، اس کے بعد حسبِ دستور آسمان سے آگ کا ایک شعلہ اترا اور ہابیل کی نذر (قربانی) کو کھا گیا اور قابیل کی نذر جوں کی توں رہ گئی، قابیل کو یہ دیکھ کر اور رشک و حسد پیدا ہوا اور اُس نے ہابیل کو مار ڈالا، یہاں صرف قربانی ہی کی حکمتیں مقصود ہیں، اس لئے ہم اس قصّہ کی تفصیلی بحث کرنا نہیں چاہتے۔

۱۵۲

قربانی کا سب سے عظیم الشّان اور انتہائی سبق آموز نمونہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السّلام کی ذاتِ گرامی سے متعلق ہے، جس کا ایک مختصر اور جامع تذکرہ قرآنِ حکیم کے سورہ الصفت (۳۷) کی آیات ۱۰۱ تا ۱۰۷ (۳۷: ۱۰۱ تا ۱۰۷) میں موجود ہے، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اس مثالی عمل سے یہاں پر چند حکمتیں واضح کر دی جاتی ہیں:

پہلی حکمت:
چونکہ حضرت ابراہیم اللہ تعالیٰ کے خلیل یعنی دوست تھے، اس لئے ان کے نہایت ہی عزیز فرزند حضرت اسماعیل کی قربانی کی مثال سے خدا تعالیٰ نے لوگوں پر یہ ظاہر کیا کہ جن حضرات کی خدا سے سچی محبت اور حقیقی دوستی ہوتی ہے، وہ خدا کی مرضی کے مطابق ہر بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی ہرگز دریغ نہیں کرتے۔

دوسری حکمت:
کیونکہ جناب ابراہیمؑ نہ صرف اپنے وقت کے ایک جلیل المرتبت پیغمبر ہی تھے بلکہ آپ اس کے ساتھ ساتھ ایک عالی شان امام بھی تھے، لہٰذا خدا کے نزدیک کافۂ انام کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا مقصود تھا کہ پیغمبر اور امام کی ذاتِ اطہر میں یہ وصف بھی ہوتا ہے، کہ اگر خدا کی جانب سے امر ہو تو وہ کسی تامل کے بغیر جان کی قربانی بھی دے سکتے ہیں۔

تیسری حکمت:
قرآنِ مقدّس (سورۂ توبہ کی آیت ۱۱۱؛ ۰۹: ۱۱۱) میں ہے

 

۱۵۳

 

کہ پروردگارِ عالم نے انبیاء، اولیاء اور ہر دور کے اہلِ ایمان کی جانوں اور مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے، کہ ان کو جنّت ملے گی، پس حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے اپنے فرزندِ جگر بند کی قربانی کا تہیہ اور عزمِ صمیم کرکے اس حقیقت کا عملی ثبوت پیش کیا، کہ بے شک اہلِ ایمان کے نفوس ہوں یا اموال سب کچھ اللہ تعالیٰ کا خریدا ہوا ہے۔

چوتھی حکمت:
جیسا کہ قبلاً بتایا گیا کہ لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ کی ایک واضح ہدایت یہ بھی ہے، کہ وہ جل جلالہ پیغمبروں کی حسنِ سیرت سے مثال دے کر ہر پسندیدہ عمل کو ظاہر فرماتا ہے، چنانچہ حضرت ابراہیمؑ کے دل میں پروردگارِ عالم کی محبت کے سوا اور کسی چیز کی محبت ہی نہ تھی، کیونکہ آپ اپنے زمانے کے حنیف اور موحدِ اعظم تھے، لیکن رفتہ رفتہ یہ امکانیّت پیدا ہوگئی کہ خدا کی محبت کے ساتھ ساتھ اپنے فرزند حضرت اسماعیلؑ کی محبت بھی ہو، لہٰذا قانونِ الٰہی کی طرف سے حکم ہوا کہ خلیل اللہ کے سامنے سے وہ ذریعہ ہی ہٹا دیا جائے، جس کی وجہ سے آپ کے دل میں خدا کے ماسوا کی محبت پیدا ہو رہی تھی، تاکہ اس سے لوگوں کو یہ سبق حاصل ہو کہ بندۂ مومن کے دل میں جس قدر دنیاوی محبت بڑھ جاتی ہے، اس قدر خدا کی محبت میں کمی واقع ہوتی ہے۔

۱۵۴

پانچویں حکمت:
حضرت ابراہیم علیہ السّلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جدِّ اعلیٰ اور دینِ اسلام کے بانئ اوّل کی حیثیت رکھتے تھے، لہٰذا خدا کے قانون میں یہ ایک ضروری امر تھا، کہ دنیا میں قیامِ قیامت تک پیدا ہونے والے مسلمانوں کے لئے آپ قربانی کی یہ عدیم المثال سنت چھوڑ جائیں، تاکہ اس کی روشنی میں ملتِ اسلامیہ کے ماننے والے اپنے آپ میں بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کا جذبہ پیدا کر سکیں۔

چھٹی حکمت:
حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو تمام مسلمین ذبیح اللہ کے لقب سے یاد کر لیا کرتے ہیں، حالانکہ آپ فی الواقع ذبح تو نہیں ہوئے تھے، لیکن آپ نے امرِ الٰہی کی تعمیل کے لئے جان و دل سے جس صبر و ثبات کا نمونہ پیش کیا اور جس شان سے خدا کی خوشنودی حاصل کی، اس کے نتیجے میں یہ لقب آپ کے شایانِ شان ہے، اور یہ اس حقیقت کی ایک روشن دلیل ہے، کہ بعض حقیقی مومنین مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں لیکن وہ حقیقتاً شہید کہلاتے ہیں، کیونکہ ان میں فرمانبرداری کے وہی جذبات اور اوصاف موجود ہیں، جو شہیدوں میں ہوا کرتے ہیں۔

ساتویں حکمت:
جب عظیم باپ بیٹے نے اس لازوال قربانی

 

۱۵۵

 

کے لئے ہر طرح سے آمادگی ظاہر کی، تو خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کی جانی قربانی معاف کر دی، اور اس کے بدلے میں مالی قربانی کو بالکل اسی طرح انتہائی عظمت و فضیلت کے ساتھ قبول فرمایا، یہ اس امر کا اشارہ ہے، کہ اگر خدا چاہے تو اپنی حکمت سے حقیقی مومنین کی مالی قربانی کا بھی وہی ثواب اور درجہ دے سکتا ہے، جو ان کی جانی قربانی کے نتیجے میں دیا جانا چاہئے۔

آٹھویں حکمت:
چونکہ قربانی کا مطلب خدا کی نزدیکی کا وسیلہ و ذریعہ ہے، اور اس معنی میں سب سے عظیم قربانی وہ ہے، جو صرف ایک ہی فرد یا چند افراد کے لئے محدود نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے قربِ الٰہی کا وسیلہ ہوسکے، چنانچہ حضرت اسماعیل ذبیح اللہ کی عظیم ترین قربانی یہ ہے، کہ آپ کی پاک نسل سے أئمّۂ ہدا کا مقدّس سلسلہ جاری رہا اور آگے چل کر اسی شجرۂ طیبہ سے حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیؐ کا مبارک ظہور ہوا، پھر آپ کے بعد ہمیشہ کے لئے آلِ محمدؐ و اولادِ علیؑ کے أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہوتے رہے، اب ظاہر ہے کہ ان تمام حضرات کی مقدّس زندگیوں کی جس قربانی سے دنیائے اسلام کے لاتعداد لوگوں کو راہِ راست کی ہدایت اور خدا کی قربت حاصل ہوئی ہے، وہ حقیقت میں حضرت اسماعیلؑ کی جانی قربانی سے بہت

 

۱۵۶

 

بڑی ہے، پس جاننا چاہئے کہ ” وَ فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ،  ۳۷: ۱۰۷”  کی ایک تاویل یہ ہے۔

نویں حکمت:
معلوم ہوا، کہ قربانی ایک ایسا جامع لفظ ہے کہ اس کے معنی میں تمام نیکیاں داخل ہو آتی ہیں، اور کوئی نیک عمل اس سے باہر نہیں رہ سکتا، کیونکہ قربانی قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے اور ہر نیکی بجائے خود یہی وسیلہ ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ قربانیاں بہت قسم کی ہیں، لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ فی الوقت دین اور مذہب اُس سے کس قسم کی قربانی کا تقاضا کر رہا ہے، یہ تو صاحبِ امر ہی بہتر جانتا ہے، لہٰذا صاحبِ امر کی اطاعت لازمی اور ضروری ہے۔

دسویں حکمت:
مذکورۂ بالا قربانی کے سلسلے میں قرآنِ حکیم (۳۷: ۱۰۶) کا ارشاد ہے، کہ یہ ایک کھلی آزمائش تھی، یعنی اس قربانی سے اللہ تعالیٰ کا مقصد حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل سے آزمائش و امتحان لینا تھا، اور اس آزمائش و امتحان کے لئے قرآنی لفظ بلاء مستعمل ہے، حالانکہ عام سمجھ کے مطابق لفظ بلا کو بہت برا سمجھا جاتا ہے، لیکن یہاں پر یہ حقیقت صاف اور روشن ہے کہ ہر بلا آزمائش ہے اور ہر آزمائش قربانی اور قربِ خداوندی کا وسیلہ ہے۔

۱۵۷

گیارہویں حکمت:
معلوم ہوا کہ ہر قربانی خواہ چھوٹی ہو یا بڑی اپنی حیثیت کی ایک آزمائش کی صورت میں سامنے آتی ہے، اور آزمائش و بلا کا دوسرا نام مصیبت ہے، پس ظاہر ہوا کہ ہر مصیبت بجائے خود ابتلا و امتحان ہے اور ہر امتحان بصورتِ کامیابی ایک قربانی اور قربِ خدا کا وسیلہ ہے، پیشِ نظر ہوں ابتلا و امتحان کی یہ تین آیتیں
وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ  الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ ۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷
قربانی کی حکمتیں اور تاویلیں ان کے علاوہ اور بھی ہیں، لیکن اس چھوٹے سے مقالے میں اس سے زیادہ گنجائش نہیں، آپ اگر چاہیں تو کتابِ وجہِ دین اور دوسری تاویلی کتابوں میں قربانی کی مزید حکمتوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ والسلام۔

۱۵۸

تین سوال انڈیا سے

سوال نمبر ۱:
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جبرائیل کے ذریعہ وحی نازل ہوتی تھی یا یہ آنحضرتؐ کی اپنی کوئی روحانی طاقت ایسی تھی؟

سوال نمبر ۲:
قرآن شریف میں حضرت علی علیہ السّلام کے بارے میں کون کون سی آیات نازل ہوئی ہیں؟ اور کہاں کہاں پر نازل ہوئی ہیں؟

سوال نمبر ۳:
خداوند تعالیٰ نے اس دنیا کو کیوں پیدا کیا؟ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ اپنے آپ سے شناسا کر دینے کے لئے دنیا کو پیدا کیا ہے، تو پھر کیا ہماری ارواح روزِ ازل سے خدا کی پہچان نہیں رکھتی ہیں؟ جبکہ خداوند تعالیٰ نے فرما دیا کہ: اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْؕ (۷: ۱۷۲) تو ہماری روحوں نے جواباً کہا تھا کہ: قَالُوْا بَلٰىۚ (اس بارے میں

 

۱۵۹

 

وضاحت فرمائیے)۔

الجواب

نمبر ۱:
جی ہاں، پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جبرائیل فرشتہ کے ذریعہ وحی نازل ہوتی تھی، کیونکہ یہ قرآن ہی کا فیصلہ ہے، آپ قرآن میں دیکھیں: ۲: ۹۷، ۱۶: ۱۰۲، ۲۶: ۱۹۳ ۔ وغیرہ۔

لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ فرشتے انسانِ کامل کی روحانی قوّتوں سے باہر نہیں ہیں، یعنی پیغمبر اور امام کی لاتعداد روحانی قوّتیں ہی فرشتوں کی حیثیت سے ہیں، چنانچہ ان کی قوّتِ دانش جبرائیل فرشتہ ہے، قوّتِ فہم میکائیل، قوّتِ نطق اسرافیل اور قوّتِ خیال عزرائیل ہے، اور اس کے علاوہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ انسانِ کامل کی یہ طاقتیں (جو فرشتے ہیں) مختلف انسانوں کی شکل میں متشکل ہوتی ہیں، کیونکہ فرشتوں کی اپنی شکلیں نہیں ہوا کرتی ہیں۔ سو یہی وجہ ہے کہ آنحضرتؐ کی قوّتِ جبریلیہ (یعنی قوّتِ دانش) حضرت سلمان فارسی کی شکل میں متشکل ہوکر کام کرتی تھی، پس اس حقیقت کے کئی پہلو ہوئے، وہ یہ کہ جبرائیل علیہ السّلام ایک عظیم فرشتہ ہے، اور یہ درست ہے،

 

۱۶۰

 

اور یہ بھی صحیح ہے کہ انسانِ کامل کی قوّتِ دانش جبرائیل ہے، اور یہ بھی حق ہے کہ ایک اعلیٰ درجے کے حقیقی مومن کی روح کو جبرائیلؑ کا درجہ دیا جاتا ہے، جیسے سلمان فارسی کی مثال ہے، جو اوپر بتائی گئی۔

نمبر ۲:
قرآنِ شریف میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السّلام کی شانِ اقدس میں جتنی آیتیں نازل ہوئی ہیں، ان کا باقاعدہ شمار کرنا اور جائے نزول بتانا مشکل ہے، اور اگر یہ کام کیا جائے تو اس موضوع پر ایک ضخیم کتاب لکھنے اور کافی ریسرچ کرنے کی ضرورت ہوگی، لیکن ہمارا ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے، لہٰذا اس امر کے لئے ان کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے، جو مناقبِ علی کی حیثیت سے ہیں، مثلاً “کوکبِ دری،” “ارجح المطالب” وغیرہ، اور سب سے پہلے شیعی تفاسیر پیشِ نظر ہوں۔

اس کے علاوہ ہم اس لمبے چوڑے کام کو مختصر سے مختصر بھی کر سکتے ہیں، وہ یہ ہے جو خود مولا علیؑ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
نزل القرآن ارباعا، فربع فینا و ربع فی عدونا و ربع سیر و امثال و ربع فرآئض و احکام و لنا کرائم القرآن۔
قرآنِ مجید چار حصوں میں نازل ہوا ہے، سو اس کی ایک چوتھائی ہماری شان میں ہے، ایک چوتھائی ہمارے دشمنوں کے

 

۱۶۱

 

بارے میں ہے، ایک چوتھائی میں قصّے اور مثالیں ہیں اور ایک چوتھائی میں فرائض و احکام ہیں، اور قرآنِ مجید کی بزرگ آیتیں ہماری شان میں ہیں۔ (کتاب ارجح المطالب صفحہ نمبر ۵۹)۔

میں اس کلامِ مولا کی وضاحت کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ قرآن کی جو چوتھائی نمایان طور پر مولا علی علیہ السّلام کی شان میں ہے وہ تو ہے ہی، اس کے علاوہ باقی تین چوتھائی میں بھی امیر المؤمنین کی تعریف و توصیف ہے، وہ اس طرح سے ہے کہ پیغمبرِ برحق نے فرمایا تھا کہ اے اللہ دوست رکھ اس کو جو علی کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی کو دشمن رکھے (اللّٰھم وال من والاہ و عاد من عاداہ) اس سے یہ مطلب روشن ہو جاتا ہے کہ قرآنِ مقدّس کے جس چوتھائی حصے میں خدا و رسول کے جن دشمنوں کا جیسا ذکر آیا ہے وہ دراصل علی و أئمّۂ اولادِ علیؑ کے دشمنوں کا ذکر ہے، پھر جہاں ایسے دشمنوں کی مذمت کی گئی ہے، وہاں تاویلی طور پر امیر المومنین کی تعریف و توصیف ہے۔

قرآن کے جس چوتھائی میں قصّے اور مثالیں بیان کی گئی ہیں، وہ بلا واسطہ اور بالواسطہ انبیاء علیہم السّلام کے بارے میں ہیں، اور آنحضرتؐ کا ارشاد ہے:

۱۶۲

 

یا علی کنت مع الانبیاء سراً و معی جھراً
اے علی آپ تمام پیغمبروں کے ساتھ پوشیدہ طور پر موجود تھے اور میرے ساتھ آپ آشکار ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علی نہ صرف سب انبیاء کے ساتھ ہیں، بلکہ ان سے متعلق تمام قصّوں کے بھی مرجع ہیں۔
اب ہم قرآنی مثالوں کے بارے میں عرض کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی بعض مثالیں مثبت پہلو سے اور بعض منفی پہلو سے حقیقت الحقائق کے تمام درجات کی حکمت بیان کرتی ہیں، چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌؕ۔ (۲۱: ۱۸)۔
بلکہ ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں پس وہ (حق) اس (باطل) کا بھیجا نکال دیتا ہے، سو وہ دفعۃً جانے والا ہوتا ہے۔ اس ارشاد سے نہ صرف یہی معلوم ہوا کہ قرآن کے خاص خاص حقائق مثالوں میں بیان کئے گئے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ظاہر ہوا کہ حق و باطل کا آخری فیصلہ بھی انہی مثالوں میں موجود ہے سو یہی وجہ ہے جو رسولِ اکرم صلعم نے فرمایا کہ: الحق مع علی۔
یعنی حق علی ہی کے ساتھ ہے۔ جب یہ معلوم ہوا کہ حق اور

 

۱۶۳

 

حقیقت علیؑ ہی کے ساتھ ہے اور حقیقتیں قرآن کی مثالوں میں بیان کی گئی ہیں، تو ظاہر ہے کہ قرآن کا وہ حصہ بھی علیؑ ہی کی شان میں ہے، جس میں حقیقتِ حقائق کے درجات کی مثالیں ہیں۔

اب رہی قرآن کی آخری چوتھائی، جس میں فرائض اور احکام مذکور ہوئے ہیں، اس کے بارے میں عرض یہ ہے کہ فرائض اور احکام کی بجا آوری خدا کی اطاعت کہلاتی ہے، مگر خدا کی یہ اطاعت رسول اور اولوالامر (یعنی أئمّۂ برحق) کے وسیلے سے کی جاتی ہے، کیونکہ یہی حضرات ہیں، جو خدا کے فرمائے ہوئے فرائض و احکام کی تفصیلات لوگوں کو بمقتضایٔ زمان و مکان بتایا کرتے ہیں، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اے ایمان والو! تم اللہ کی فرمان برداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور اولوالامر کی فرمانبرداری کرو جو تم میں سے ہیں۔

جب یہ معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید کے اُس حصے میں بھی مولانا علیؑ کا ذکرِ جمیل موجود ہے جس میں فرائض و احکام مذکور ہیں تو اب ہم عرض کر سکتے ہیں کہ قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں، جس میں کسی نہ کسی طرح سے علیؑ یعنی نورِ امامت کا تذکرہ نہ کیا گیا ہو، یہ آپ کے دوسرے سوال

 

۱۶۴

 

کا مکمل جواب ہے۔

نمبر ۳:
یقیناً یہ دنیا اس لئے پیدا کی گئی کہ یہاں آ کر روحوں کو خداوند تعالیٰ کی عملی شناخت حاصل ہو، اور اگر موقع “الست” کی معرفت ہمیشہ کے لئے کافی اور باقی ہوتی تو سب انسان پیدائشی طور پر عارف ہوتے، ظاہر ہے کہ وہ ہماری معرفت جس کا ذکر قرآن (۰۷: ۱۷۲) میں ہے، عالمِ ذرّات (یعنی روحوں کے ذرّات کی دنیا) میں تھی، اور اس سے پہلے ایک تفصیلی معرفت بھی حاصل ہوئی تھی، مگر اُن معرفتوں کی تجدید کے لئے روحوں کو دنیا میں آنے کی ضرورت تھی، لہٰذا سب انسان دنیا میں آ گئے اور ابتلاء و امتحان کے میدان میں اترآئے، اور اس میں صرف تھوڑے سے کامیاب ہوگئے باقی سب ناکام ہوئے۔

اس سوال کا جواب دوسری طرح سے بھی دیا جا سکتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ تخلیق کا سلسلہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا، اور اس کا مقصد ایک نہیں بہت سے مقاصد ہیں، جو ایک سے ایک بڑھ کر ہیں، چنانچہ مجموعی طور پر اس میں روحوں کی تجلّیات اور ظہورات مقصود ہیں اور ان تمام چیزوں کے لئے ہماری روح محتاج ہے اور خدا ہرگز محتاج نہیں ہے۔

 

۱۶۵

 

سپاسنامہ
بخدمت جناب الواعظ العلامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی صاحب
منجانب
دی پاک اسماعیلیہ ہونزہ (شناکی) ملٹی پرپز کو آپریٹو سوسائٹی لمیٹڈ کراچی

جنابِ والا!
ریاست ہونزہ و گلگت کی اسماعیلی جماعت کے لئے اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کی شاخ کے قیام اور جنابِ والا کی اس کے انچارج کی حیثیت سے تقرری کے مبارک و مسعود تاریخی موقع پر شناکی اسماعیلی جماعت کی دینی و دنیوی اور معنوی و صوری خوشیوں اور مسرّتوں کی کوئی انتہا نہیں۔ اس موقع پر اولاً مولائے کائنات و موجودات کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے اپنی بے پایاں و بیکران رحمت سے آپ جیسے علم و دانش، حکمت و معرفت جیسی جملہ صفاتِ عالیہ اور صدق و صفا، حلم و تقویٰ جیسے جملہ اخلاقِ حسنہ سے ممتاز و متصف دینی بزرگ کو خوش آمدید و خیر مقدم کرنے کی توفیق عنایت فرمائی۔

 

۱۶۶

 

ثانیاً ہم جنابِ والا کے بھی نہایت ممنون ہیں کہ آپ نے وقت کی قلت اور مصروفیات کی کثرت کے باوجود ہماری ناچیز دعوت کو شرفِ قبولیت سے نوازا۔

جنابِ والا! یہ ناچیز تقریب نہ تو کسی رسمی تعارف کی خاطر منعقد کی گئی ہے اور نہ جناب کی شخصیت اس کی محتاج ہے بلکہ اس کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ اس عظیم تاریخی موقع پر، جو ہونزہ، گلگت، پونیال، اشکومن، یاسین، کوہِ غذر بلکہ پورے وسطی ایشیا کی اسماعیلی جماعت کی روحانی اور علمی ترقی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جنابِ والا کی ان مخلصانہ، بے لوث اور تاریخ ساز خدماتِ جلیلہ کے اعتراف میں صمیمِ قلب سے اظہارِ عقیدت و محبت اور تقدیمِ تبریک و تہنیت کریں جو آپ نے تقریباً ربع صدی میں باوجود گوناگون مصائب و عوائق کے امامِ حیّ و حاضر کی دعوتِ حق کی تبلیغ و اشاعت اور اسماعیلی جماعت کی روحانی ترقی و رستگاری اور دنیوی فلاح و بہبود کے لئے زندگی کے ہر شعبے میں انجام دی ہیں آپ نے دینِ حق کی تبلیغ و اشاعت کے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔ قید و بند کی صعوبات سے لے کر یار و اغیار کے شکوے شکایات اور دیگر تکالیف کو صبر و تحمل اور خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ آج کے دن ہمارے ان عظیم جانباز و سرفروش داعیانِ سلف کی زندگی سامنے آتی ہیں جنہوں نے امامِ وقت کی خوشنودی اور دین و ایمان کے تحفظ اور حکمت و فلسفہ کی ترقی کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا

 

۱۶۷

 

اور بالآخر امامِ زمانؑ کی دعا و برکات اور اپنی سعئ پیہم سے میدانِ علم و حکمت اور جادۂ دین و ایمان میں ایسے نقوشِ جاودان چھوڑ گئے جو رہتی دنیا تک مٹائے نہیں مٹ سکتے۔

جنابِ والا! آپ کی ذاتِ گرامی ان ہی داعیانِ سلف کی زندہ تصویر ہے جس سے علم و حکمت اور تاویل و حقائق کی ضیاء بیزی اور ضوفشانی ہوتی ہے۔ اسماعیلی داعیوں کا یہ طرۂ امتیاز رہا ہے کہ وہ اسلام جیسے کامل، زندہ، حرکی، فطری اور آفاقی دین کی حکمت و موعظت کے ذریعے اپنے دور کی مروج و متداول فلسفیانہ اور سائنسی زبان و اصطلاحات میں تبلیغ کریں تاکہ مستجیبانِ دعوت اسلام کی حقیقتِ علم و حکمت کی روشنی میں عقل و روح کی گہرائیوں سے قبول کریں اور علم و حکمت کی روشنی میں انہیں دنیوی مزخرفات پر دین اور روحانیّت کی عظمت و برتری ثابت ہو جائے جو تمام مذاہبِ عالم کی تعلیمات کا زبدہ و خلاصہ ہے۔

اس مقصدِ عظیم کے پیشِ نظر جائزہ لیا جائے تو جنابِ والا کی تبلیغی خدمات نہایت قابلِ ستائش ہیں اور ان کا صحیح جائزہ صرف اس وقت لیا جا سکتا ہے کہ آپ کی مایۂ ناز کتب سلسلۂ نورِ امامت، میزان الحقائق، مفتاح الحکمت، پیر ناصر خسرو اور روحانیّت، درختِ طوبیٰ وغیرہ کا دقتِ نظر سے بار بار مطالعہ کیا جائے۔ ان کتابوں میں جنابِ والا نے نورِ امامت کی دائمیّت،

 

۱۶۸

 

امامت کے مقدّس اسرار، امامِ وقت کی باطنی تائید اور اس کے ذریعے روحانی ترقی، مادیّت و روحانیّت کا باہمی رشتہ اور مادیّت پر روحانیّت کی عظمت و برتری جیسے ادق مضامین پر حکمت اور سائنس کی زبان و اصطلاحات میں جو تشریحات و توضیحات فرمائی ہیں، ان کی کوئی صاحبِ عقلِ سلیم داد دئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

جنابِ والا! آپ کی علمی عظمت کا یہ عالم ہے کہ اس انقلابی دور میں جہاں ہر علم و فن میں برق رفتار مادّی ترقی کے نتیجے میں نت نئے انکشافات اور خاص کر تسخیرِ ماہتاب اور مصنوعی انسان جیسے ناقابلِ تصوّر واقعات کے رونما ہونے پر کائنات و انسان کے بارے میں بہت سے متداول عقائد و نظریات مثلاً مرکزیتِ زمین اور مقامِ انسانیّت وغیرہ کے زیر و زبر ہو جانے سے اہلِ علم و فکر اور بالخصوص علمائے مذاہب گوناگون مسائلِ لا ینحل سے پریشان ہیں اور جہاں دنیا کی آبادی کا بیشتر حصہ مادیّت کی یلغار سے گھبرا کر زندگی کے مادّی پہلو ہی کو سب کچھ سمجھنے لگا ہے۔ وہاں جنابِ والا امامِ حیّ و حاضر کے ہمہ گیر و ہمہ رس تائیدی علم سے مسلح اور اسپِ حکمت پر سوار ہوکر شمشیرِ زبان اور تیغِ قلم سے روحانیّت کے مقابلے میں آنے والے مادیّت کے ہرگونہ علمی اور اعتقادی حملے کے دفاع کے لئے ہمہ وقت مستعد ہیں۔ یعنی آپ ہر پیش آنے والے مسئلے کا شافی و کافی جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔ فلسفہ ہو یا سائنس یا مذہب کوئی بھی ایسا سوال نہیں ہے جس کا فوری حل آپ کے پاس نہ ہو۔ آپ ہر ادق

 

۱۶۹

 

سے ادق مسئلے کا جواب بڑی خندہ پیشانی اور سہولت کے ساتھ دیتے ہیں۔ بالخصوص جناب موصوف جب قرآنی حکمت اور اسرارِ روحانیّت کے لئے لب کشائی فرماتے ہیں تو آپ کے دلائل و براہین میں وہ طمانیت بخش معجزاتی استدلالی قوّت ہوتی ہے کہ اگر کوئی منکرِ دین بھی سنے تو وہ بھی طوعاً و کرہاً دین و روحانیّت کی عظمت کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا، ایسے موقع پر آپ کی تبحرِ علمی سے واقعاً عقل سر در گریبان ہو جاتی ہے اور مومنوں کو یقینِ کامل ہوتا ہے کہ بلاشبہ یہ امامِ حیّ و حاضر کی تائید ہی کا ثمرہ ہے، جس کے فیض کے اثر سے ہر فردِ بشر مسیحائی کردار ادا کر سکتا ہے۔

جنابِ والا! آپ کی زبانی اور تحریری تعلیم سے مشرق سے لے کر مغرب تک متعدد طالبانِ علم و معرفت فیض یاب ہو چکے ہیں۔ آپ نے اسماعیلی مذہب کی مختلف حیثیتوں اور صورتوں میں خدمات انجام دی ہیں اور ان میں سے ایک عظیم خدمت دار الحکمۃ کے قیام کا کارنامہ ہے۔ یہ کارنا مہ اس قابل ہے کہ اسے اسماعیلی تاریخ میں آبِ زر سے لکھا جائے۔ اس لئے کہ موجودہ دور میں اس ادارے سے قلیل عرصے میں بغیر مادّی وسائل کے اسماعیلی مذہب پر تصنیف و ترجمہ کی صورت میں جو بیش بہا کتابیں شائع ہوئی ہیں وہ کیفی اور کمی ہر دو لحاظ سے قابلِ تعریف ہیں اور موجودہ دور کی پیدا شدہ ضروریات کے عین مطابق ہیں۔

۱۷۰

جنابِ والا! اس کے علاوہ آپ کا وہ دور بھی نہایت اہم رہا ہے جس میں آپ نے اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کے مرکز میں روحانیّت اور علمِ تاویل کے محقق اور معلّم کی حیثیت میں تحریروں اور تقریروں کی صورت میں بیش بہا خدمات انجام دی ہیں۔ چنانچہ اسی دور کا ایک اہم تحقیقی رسالہ “پیر ناصر خسرو اور روحانیّت” کے نام سے شائع ہو چکا ہے، جس میں آپ نے روحانیّت کے بحرِ ذخائر کو کوزے میں سمو دیا ہے۔ اور آپ کی زبانی تعلیم کا یہ اثر ہے کہ آپ سے علمِ باطن کے چند نکات کی تعلیم کے بعد دوسروں کے دلائل خواہ کتنے ہی حکیمانہ اور فلسفیانہ کیوں نہ ہوں، طفلانِ مکتب کے دلائل لگتے ہیں، اور کیوں نہ ہو، اسماعیلی داعیوں کی ہر زمانے میں یہی شان رہی ہے اور یہی ہماری حقیقی میراث ہے، چنانچہ سیدنا پیر ناصر خسرو قدّس سرّہ روحنا فداہ فرماتے ہیں:
چون من ز حقائق سخن کشایم

سقراط و فلاطون سزدعیالم
نیز فرماتے ہیں:
دان بندہا کہ بست فلاطون بہ پیش من

موم است و سست پیش کہین پیشکارِ من

فامّا سامعینِ کرام کے لئے ملحوظِ رہے کہ اسماعیلی داعیوں کا یہ دعویٰ شاعرانہ تعلّی نہیں ہے بلکہ عین حقیقت ہے اور یہ وہ خاص علم ہے جس کے متعلق جناب الواعظ صاحب خود فرماتے ہیں کہ:

۱۷۱

 

خاصہ علم است کہ ہر جا رسد و کم نشود

زانکہ ثبتش بسر صفحۂ عصر و ز من است
اور اس ہمہ گیر و ہمہ رس علم کا منبع اسماعیلی داعیوں کے پاس (جیسا کہ پہلے اشارہ کیا گیا ہے) امامِ زمانؑ ہی ہیں جن کی تائید اور ولایت و محبّت اور مدح و منقبت کے بغیر یہ علم حاصل نہیں ہو سکتا، جیسا کہ سید نا پیر ناصر خسرو قدّس سرّہ فرماتے ہیں:
مرا جز بتائیدِ آلِ رسول

نہ تصنیف بود و نہ قال و نہ قیل
نیز پیر فرماتے ہیں:
کی شدی این نفس من بر اسپ حکمتہا سوار

گر نہ ممدوحم سوارِ دلدلِ شہباستی

اسی طرح جناب واعظ صاحب بھی اس علم کا ذریعہ امامِ زمانؑ کے درِ اقدس کی گدائی کو قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں

نصیر گکھر ڎم اکوغن کھک عقلہ لعلہ برݣ
دݼنمݣ عقلݣہ سلطانہ برہ گدا ان با

جنابِ والا! ان عمومی خدمات کے علاوہ ریاستِ ہونزہ کی تاریخ میں آپ کی ایک منفرد اور خصوصی حیثیت بھی ہے اور وہ یہ کہ آپ ریاستِ ہونزہ جیسے پسماندہ علاقے کی حیرت انگیز اور برق رفتار ترقی کے روحانی نقیب کی حیثیت بھی رکھتے ہیں، جس کا آغاز جیسا کہ اہلِ دانش و بینش حضرات پر روشن ہے حضرت مولانا سلطان محمد شاہ علیہ الصلواۃ والسّلام کے اس فرمانِ مبارک سے ہوا ہے جو سرکار نے دہلی ریڈیو سے ۱۱ مارچ ۱۹۴۰ء کو ارشاد فرمایا تھا کہ

 

۱۷۲

 

“جماعتِ اسماعیلیہ ہونزہ و بدخشان را سلام می رسائم و مہربانی خود۔ یقین دارید کہ نورِ محبت من مثلِ آفتاب بر جماعتِ ہونزہ خواہد رسید۔” اس میں کوئی شک نہیں کہ جنابِ والا نے آفتابِ امامت کے نورِ محبت و رحمت سے فیض پذیری میں قابل ترین جوہر ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اس لئے کہ یہاں کی روحانی اور علمی ترقی جو کسی بھی قوم و ملت کی ترقی کا حقیقی معیار ہے، کا آغاز آپ کے کلامِ جانفزا سے ہوا اور جس کو زمانے کے امام حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی علیہ الصلواۃ و السّلام نے گنان کا مرتبہ عنایت فرمایا ہے۔ آپ نے اپنے کلام میں علمِ توحید، آنحضرتؐ اور آپ کی اولادِ اطہار کی نعت و منقبت اور اسماعیلی فلسفے کو سمو کر یہاں کے مرد و زن، صغیر و کبیر ، برنا و پیر میں ایک ولولہ خیز روح پھونکی ہے۔ آپ کا کلام اردو، فارسی اور ترکی کے علاوہ مقامی زبان بروشسکی میں ہونے سے جہاں ایک طرف سہل الفہم ہے وہاں دوسری طرف ایک روحانی عالم کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور اس کے اثر کا یہ عالم ہے کہ امامِ زمانؑ کے نور کے حقیقی عاشق اس کو سنتے ہی حدودِ مکان سے نکل کر لامکان پہنچتے ہیں۔ آپ کی روحانی مجالس روحانیّت کے معمل کے حیثیت رکھتی ہیں، جہاں امامِ حیّ و حاضر کے نور کے شیدائی عملاً روحانیّت کے تجربہ و مشاہدہ سے فیض یاب ہوتے ہیں۔

جنابِ والا! آپ کی گوناگون خدمات کو اس مختصر سپاسنامے میں

 

۱۷۳

 

بیان کرنے کی نہ گنجائش ہے اور نہ استطاعت۔ مختصراً یہ کہ آپ امامِ زمانؑ کے معجزۂ علمی کی نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی ہیں۔ آپ کی منثور و منظوم کتب اور آپ کی روحانی مجالس حضرت مولانا سلطان محمد شاہ علیہ الصلواۃ و السّلام کے اس پاک فرمان کا ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ “اسماعیلی مذہب روحانیت کا تخت ہے۔”

آخر میں دعا ہے کہ جنابِ والا کی زیرِ نگرانی اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کی جو شاخ قائم ہوئی ہے وہ ہماری گزشتہ اسماعیلی دعوت کی صحیح جانشین ثابت ہو اور یہاں سے علم و حکمت اور روحانی تربیت سے آراستہ و پیراستہ ایسے باکمال دعاۃ و وعاظ پیدا ہوں جو امامِ حیّ و حاضر کی مقدّس ہدایت کی روشنی میں دینِ اسلام کی صحیح خدمت انجام دے سکیں اور وہ اس علاقے بلکہ چار دانگ عالم میں داعیانِ سلف کی طرح اسلام کی حقیقت اور علم و حکمت کا غلغلہ پیدا کریں۔ نیز دعا ہے کہ: جنابِ والا جس عظیم مقصد کے لئے جس اہم عہدے پر فائز ہوئے ہیں خداوندِ ربّ العزّت اس میں بدرجۂ اتم کامیابی عنایت کرے۔

۱۱جون ۱۹۷۲ء

طالبانِ دعا:
صدر و اراکین
دی پاک اسماعیلیہ ہونزہ (شناکی) ملٹی پرپز کوآپریٹیو سوسائٹی لمیٹڈ کراچی

 

۱۷۴

 

پنج مقالہ نمبر ۴

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

افتتاحیہ

خداوندِ قدّوس کے عظیم الشّان احسانات کا محرک اور با اثر تصوّر ہو، تاکہ ہمارا دل جذبۂ شکرگزاری سے معمور اور دنیا و آخرت کی نیک امیدوں سے مسرور ہو جائے، پروردگارِ عالم کا سب سے بڑا احسان، جس میں تمام احسانات سموئے ہوئے ہیں، یہ ہے کہ اُس نے اپنی بے پایان رحمت سے ہمیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آنحضرتؐ کے حقیقی جانشین کی معرفت کی دولت سے مالا مال فرمایا ہے، اس حقیقت کو صرف جاننے والے ہی جانتے ہیں کہ یہ دولت حقیقی اور غیر فانی ہے اور اس میں سب کچھ ہے۔

میں اس بات کا پورا پورا یقین رکھتا ہوں کہ “پنج مقالہ نمبر ۴” بھی بفضلِ خدا میری دوسری کتابوں کی طرح مقبولِ خاص و عام اور پھر کامیاب ہو جائے گی، کیونکہ ہماری یہ ناچیز کوشش امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے مبارک منشاء کے مطابق ہے، اور حق بات تو یہ ہے کہ علمی خدمت کی یہ

 

۱۷۷

 

توفیق امامِ برحق کے نور کے وسیلے سے ملی ہے، بلکہ اسی معنیٰ میں وضاحت کے طور پر یہ کہنا چاہئے کہ امام ہی ہیں جو خصوصی اہتمام سے اپنے علمی خدمت گزاروں کو تیار کرتے ہیں، اگرچہ کسی اجنبی اور ناواقف شخص کے لئے یہ ایک سوال ہو سکتا ہے کہ امامِ زمانؑ کس طرح اپنے علمی نمائندوں کو روحانی علم اور باطنی حکمت دے سکتے ہیں؟

امامِ زمان علیہ السّلام خدا تعالیٰ اور رسولِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے ہادئ دین ہیں، ہادی ہدایت کرتا ہے، یعنی علم و عمل کا راستہ بتلاتا ہے، آپ اس میں ذرا غور کریں کہ آیا ہدایتِ کاملہ کا صحیح تصوّر یہ نہیں کہ ہادی ظاہر و باطن میں ہدایت کر سکتا ہے؟

ہادئ برحق یعنی امامِ زمانؑ کا دوسرا نام خلیفۂ خدا اور خلیفۂ رسول ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ نورِ ہدایت اور گنجِ علم و حکمت جو اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبرِ برحق کی طرف سے عالمِ بشریت میں ہونا چاہئے وہ امامِ حیّ و حاضر ہی ہیں، جب وہ اس خلافتِ عظمیٰ کی یکتا مرتبت پر فائز ہیں تو یقین رکھنا چاہئے کہ امامِ زمان بحکمِ خدا مکانی مسافتوں اور جغرافیائی رکاوٹوں کے باؤجود حقیقی علم ان خوش نصیب افراد کو پہنچا سکتے ہیں جو اس کے حصول کی اہلیت رکھتے ہیں۔

یہاں پر دین کی ایک بلند ترین حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہوں

 

۱۷۸

 

کہ “سبحان اللہ” قرآنی ارشادات میں سے ہے، جس کے معنی ہیں خدا پاک ہے، لیکن سوال ہے کہ وہ کن کن چیزوں سے پاک ہے؟ کیا ہم اس معنیٰ میں صرف اسی پر اکتفا کریں کہ اللہ تمام عیوب سے پاک ہے؟ یا یہ کہیں کہ خدا ہر چیز سے پاک ہے، یہاں تک کہ قول و فعل سے بھی پاک ہے؟ آپ سنجیدگی سے سوچیں، میرا ذاتی عقیدہ اس سلسلے میں یہی ہے کہ خداوند تعالیٰ جس طرح ہر چیز سے بے نیاز ہے اسی طرح ہر چیز سے پاک بھی ہے، اور ان دونوں باتوں کا مطلب ایک ہی ہے، لیکن یہ جائز اور روا ہے، کہ اچھی اچھی صفات ذاتِ سبحان سے منسوب کی جائیں، کیونکہ ایسی اونچی اونچی صفتیں ان مقدّس چار اصولِ دین کی ہیں جو خدا کے امر کے تحت ہیں۔

آپ جب دقتِ نظر سے مطالعہ کریں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ “پنج مقالہ نمبر ۴” حقیقی علم اور دین شناسی کی معلومات سے کس طرح پُر ہے اور اس کو مصنف کی دوسری کتابوں کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے کس حد تک علمی روشنی میں اضافہ ہو سکتا ہے، چنانچہ امید ہے کہ آپ اپنے مذہبی جنرل نالج کے ذخیرہ کو زیادہ سے زیادہ کرکے مہیا رکھنے کے لئے دینی کتابوں کو پیشِ نظر رکھیں گے، تاکہ آپ قومی، جماعتی، خاندانی اور ذاتی سطح پر علمی مسائل کو بآسانی حل کر سکیں۔

۱۷۹

ہوشیار مومن حصولِ علم کی ذمہ داریوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ مقدّس فریضہ کس قدر اہم اور کتنا ضروری ہے، اس لئے وہ ادائے فرض اور خدا کی خوشنودی کی خاطر حقیقی علم حاصل کرنے میں جانفشانی سے کام لیتا ہے، اور خداوند تعالیٰ اس کی سخت سے سخت محنت کو دیکھ کر رحم فرماتا ہے اور رفتہ رفتہ اپنے علمی خزانوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے، جیسا کہ ہادئ زمانؑ کے توسط سے کرنا چاہئے۔

ان پانچ مقالات میں سب سے پہلے سورۂ زلزال کی حکمتیں بیان کی گئی ہیں، جن میں روحانی ترقی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے مفید معلومات موجود ہیں، اس میں معیارِ روحانیّت کا اندازہ بتایا گیا ہے کہ ذکرِ الٰہی یعنی خصوصی عبادت سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کے لئے کتنی سخت محنت درکار ہے۔

دوسرا مقالہ “ظہوراتِ اسلام” ہے جس سے نہ صرف اسلام کی ازلی حقیقتوں کے متعلق ایک صحیح تصوّر ملتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قلمِ الٰہی یا نورِ محمدیؐ جیسی نورانی ہستیوں کی شناخت کا راستہ بھی متعیّن ہو جاتا ہے، تا کہ ہماری عقلی نظر صحیح سمت پر لگی رہے اور توجہ بار بار بھٹک نہ جائے۔ لوگ دینِ خدا کے قدیم ہونے کا زبانی اقرار تو کر سکتے ہیں، مگر اس کے ازلی و ابدی حقائق و معارف کا اتا پتا

 

۱۸۰

 

نہیں بتا سکتے۔

تیسرا مضمون ہے “ایک جوابی خط کا اہم حصہ” جس میں ایک عالی قدر دوست کے چند علمی سوالات کے جوابات درج ہیں، ظاہر ہے کہ سوال و جواب کے گھیرے میں علم کی جتنی باتیں آتی ہیں وہ سب کی سب بہت ہی معقول اور مفید ہوتی ہیں، خصوصاً ایسی باتیں جو علم دوستی کے ماحول میں کی جاتی ہیں۔

چوتھا مقالہ ہے “حقیقت کی ترجمانی” یہ شیخ عطار کے دیوان کی ایک پسندیدہ نظم اور اُس کا ترجمہ و تشریح ہے، جس میں تصوّف یعنی طریقت کے بہت سے بھیدوں کی نشاندہی کی گئی ہے، اور وہ اپنی نوعیت کے عجائب و غرائب سے بھرپور ہے۔

پانچواں مقالہ “عقیدۂ توحید” ہے، جو بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے، چونکہ دین کا آغاز و انجام توحید ہی ہے، اور توحید کی ترجمانی کے بغیر کسی مذہب کے متعلق معلوم ہی نہیں ہو سکتا کہ اس کا معیار کیا ہے؟ عقائد کیسے ہیں؟ اور عبادات شرک سے کس حد تک پاک ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

مذہب کی تمام تعلیمات کی اصل و اساس توحید کے اس تصوّر پر قائم ہے جو اہلِ مذہب کے نزدیک مسلّمہ ہے، لہٰذا کسی بھی

 

۱۸۱

 

مذہب کی تفصیلات میں جانے سے پیشتر ضروری ہوتا ہے کہ اُس مذہب کے عقیدۂ توحید کو دیکھا جائے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی تعریف کن الفاظ میں اور کس طرح سے کی گئی ہے، اور اس کی حقیقت کیا ہے۔

اس تمہید کے بعد میں علمِ حقیقت کے روشن چراغ کے اُن پروانوں کے حق میں بارگاہِ ایزدی سے دعا مانگتا ہوں، جو نورِ علم کی تجلّیوں کے دلدادہ اور مشتاق ہیں، جو قابلِ قدر قربانیاں دے کر علم کو فروغ دینا چاہتے ہیں کہ خداوندا! تو قادر و قیوم ہے، تو دانا و بینا ہے، اے غنی بادشاہ! اے توانا و توانگر! تو اپنی رحمتِ بے پایان سے اس مقدّس خدمت میں تعاون کرنے والوں کو عقل و جان اور جسم کی گوناگون برکتوں سے نوازنا، اُن سے ہر وقت راضی رہنا اور انہیں ہر طرح سے خوش رکھنا، ان کی نیک مرادوں کی تکمیل فرمانا، خداوندا! ان عزیزوں کو دونوں جہان کی سلامتی اور سرخروئی عطا ہو، آمین!! یا ربّ العٰلمین

فقط جماعت کا علمی خادم
نصیر الدین نصیر ہونزائی
بروز چہار شنبہ: ۲۸ شوال ۱۳۹۷ھ
۱۲ اکتوبر ۱۹۷۷ء

۱۸۲

سورۂ زلزال کی چند حکمتیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جب زمین بڑے زوروں کے ساتھ زلزلہ میں آ جائے گی اور زمین اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی، اور (اس حالت کو دیکھ کر) آدمی کہے گا کہ اس کو کیا ہوا، اُس روز وہ اپنے سب حالات بیان کر دے گی، کیونکہ آپ کے پروردگار نے اس کو وحی کی ہوگی، اُس دن لوگ گروہ گروہ ہوکر نکلیں گے تاکہ اپنے اعمال کو دیکھیں تو جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھ لے گا اور جس شخص نے ذرہ برابر بدی کی ہے تو اسے دیکھ لے گا۔ ۹۹: ۰۱ تا ۰۸۔

حکمت نمبر۱:
مٹی اور زمین تاویل میں بندۂ مومن ہے، کیونکہ صرف مومن ہی آسمانِ روحانیّت کے جملہ فیوض و برکات کو قبول کر سکتا ہے، زلزلہ حقیقی مومن کی روحانی ترقی کے سلسلے کا ایک معجزانہ وسیلۂ تطہیر ہے، یہ زلزلہ خفی سے خفی تر بھی ہے اور جلی سے جلی تر بھی، یہ مقدّس کیفیت خواب میں بھی ہوتی ہے اور بیداری میں بھی، اور روحانی دور

 

۱۸۳

 

میں اس کا دائرہ بہت وسیع ہو سکتا ہے۔

حکمت نمبر ۲:
سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۱۴ (۰۲: ۲۱۴) میں فرمایا گیا ہے کہ: کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ بہشت میں پہنچ ہی جاؤگے حالانکہ ابھی تک تمہیں اگلے زمانہ والوں (یعنی حقیقی مومنوں) کی سی حالت نہیں پیش آئی کہ انہیں طرح طرح کی تکلیفوں اور سختیوں نے گھیر لیا اور زلزلہ میں اس قدر جھنجھوڑے گئے کہ آخر (عاجز ہوکے) پیغمبر اور ایمان والے جو اُن کے ساتھ تھے کہنے لگے (دیکھئے) خدا کی مدد کب ہوتی ہے، دیکھو (گھبراؤ نہیں) خدا کی مدد یقیناً بہت قریب ہے۔

اس فرمانِ خداوندی میں اسی روحانی زلزلے کا ذکر ہے، جس سے ہم یہاں بحث کر رہے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ حقیقت دنیاوی تکالیف سے الگ تھلگ اور ان کے بعد آتی ہے، جیسا کہ ترتیبِ بیان سے واضح ہے کہ ہر قسم کی تکلیف اور ہر طرح کی سختی سے مراد جسمانی اور دنیاوی مشقتیں ہیں، اور پھر اس کے بعد زلزلہ کا ذکر آتا ہے جو روحانیّت کا امتحان ہے اور اسی سے مومن کی تطہیر یعنی پاکیزگی ہوتی ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی خصوصی تائید اور روحانیّت کی بہشت آتی ہے۔

حکمت نمبر ۳:
چونکہ روحانی ترقی راہِ خدا میں سخت محنت و مشقت اور مسلسل عبادت کے بغیر ناممکن ہے اور اگر جسمانی طور پر

 

۱۸۴

 

یہ تمام شرائط پورے ہوگئے تو تب زلزلہ آسکتا ہے ورنہ نہیں، چنانچہ غزوۂ خندق کی بے پناہ مشقتوں کے بعد حقیقی مومنوں پر جو معجزانہ زلزلہ آیا تھا، اس کے بارے میں ارشاد ہے کہ:
اے ایماندارو! خدا کی ان نعمتوں کو یاد کرو جو اُس نے تم پر نازل کی ہیں (جنگِ خندق میں) جب تم پر (کافروں کا) لشکر (اُمنڈ کے) آ پڑا تو ہم نے (تمہاری مدد کو) ان پر آندھی بھیجی اور (اس کے علاوہ فرشتوں کا) ایسا لشکر (بھیجا) جس کو تم نے دیکھا تک نہیں، اور تم جو کر رہے ہو خدا اسے خوب دیکھ رہا ہے، جس وقت وہ لوگ تم پر تمہارے اوپر سے آ پڑے اور تمہارے نیچے کی طرف سے بھی پل گئے اور جس وقت (ان کی کثرت سے)تمہاری آنکھیں خیرہ ہو گئی تھیں اور (خوف سے) کلیجے منہ کو آ گئے تھے اور تم خدا پر طرح طرح کے خیال کرنے لگے تھے یہاں پر مومنوں کا امتحان لیا گیا تھا اور خوب اچھی طرح سے ان کو ہلایا گیا تھا ( وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا، ۳۳: ۰۹ تا ۱۱)۔

اس آیت کا اشارہ یہ ہے کہ جب تک کوئی آدمی حقیقی مومن کی حیثیت سے بہت سے نیک کاموں کے علاوہ پیغمبر اور امام کی معیت میں جہاد کا مقدّس فریضہ انجام دینے کے برابر مفید دینی خدمت نہ کرے تو اس کی روحانی ترقی ناممکن ہے۔

۱۸۵

حکمت نمبر ۴:
جو لوگ اپنی روحانی ترقی نہ ہونے کو اپنی بد قسمتی سمجھتے ہیں وہ کتنی بڑی غلطی کرتے ہیں، جبکہ وہ محنت نہیں کرتے، ان کو غزوۂ خندق کے مومنین کے تاریخی قصّے کا خوب مطالعہ کرکے اندازہ کرنا چاہئے کہ اُن جانباز مومنوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق پیغمبر اور امام علیہما السّلام کو سامنے رکھتے ہوئے اس جہاد میں کتنی سخت ترین تکالیف برداشت کی ہیں، اور پھر مزید آٹومیٹک ریاضت اور تطہیر کے طور پر ان پر روحانی زلزلہ مسلط کر دیا گیا۔

حکمت نمبر ۵:
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ: یقیناً بخار ربِّ غفور کی طرف سے (مومن کی) تطہیر ہے، ویسے تو مومن کی ہر بیماری اس کے گناہوں کا کفارہ ہو سکتی ہے، مگر بخار زیادہ سے زیادہ ذریعۂ تطہیر اس لئے ہے کہ وہ مذکورۂ بالا روحانی زلزلہ کا بہترین نمونہ ہے، جس میں روحانیّت کی پاکیزگی اور روح کی صفائی ہے۔

حکمت نمبر ۶:
سورۂ زلزال کی دوسری آیت میں یہ جو فرمایا گیا کہ زمین اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی، جس کی تاویل ہے کہ اس تطہیر کے نتیجے میں مومن پر سے گناہ کا بوجھ اتار دیا جائے گا، چنانچہ قرآنِ حکیم میں جہاں کہیں خدا و رسول اور امامِ برحقؑ کی جانب سے

 

۱۸۶

 

مومنین کی پاکیزگی کا ذکر آیا ہے وہاں پر تاویلاً اسی زلزلے کا بھی ذکر موجود ہے۔

حکمت نمبر ۷:
تیسری آیت میں اس روحانی معجزۂ زلزلہ سے مومن کی حیرت کا ذکر آیا ہے، کہ وہ پہلے پہل بہت حیران ہو جائے گا، کہ کبھی اس کا جسمِ عنصری متزلزل ہو جائے گا، کبھی جسمِ لطیف جو اس میں پوشیدہ ہے، کبھی خواب میں یہ واقعہ پیش آئے گا اور کبھی بیداری میں، کبھی مکان سمیت اس کو ہلا دیا جائے گا کہ صرف وہی مومن یہ محسوس کرے گا اور دوسروں کو قطعاً اس کا کوئی احساس نہ ہوگا اور کبھی مکان کے بغیر ایسا ہوگا، لہٰذا اس میں حیرت ہی حیرت اور تعجب ہی تعجب ہے۔

حکمت نمبر ۸:
چوتھی آیت میں جیسے ارشاد ہوا ہے اس کا مطلب ہے کہ مومن کی زمینِ روحانیّت اس روحانی زلزلہ کے فوراً بعد زندہ ہو جائے گی اور روحوں کی ایک بھرپور دنیا گفتگو کرنے لگے گی، اور اس روحانی گفتگو کا زیادہ سے زیادہ تعلق مومن کی اپنی ذات سے ہوگا۔

حکمت نمبر ۹:
مومن کی روحانیّت کی یہ خبریں ہر چند کہ بعض دفعہ وہ اچھی طرح سے کان کی گرفت میں نہیں آ سکتیں کسی اور کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ پاک کی جانب سے ہیں جو ابتدائی درجے کی وحی کے طریق پر ہیں۔

حکمت نمبر ۱۰:
اُس دن لوگ گروہ گروہ ہوکر نکلیں گے تاکہ اپنے

 

۱۸۷

 

اعمال کو دیکھیں، یعنی جب حقیقی مومن کی ذاتی قیامت مذکورہ طریق پر برپا ہوتی ہے، تو اس میں دنیا بھر کے لوگوں کی ارواح حاضر ہو جاتی ہیں، اگرچہ لوگ جیتے جاگتے اور اس واقعہ سے بے خبر ہیں، تاہم ان کی روحوں کا ایک ایک ذرّہ جہاں صور پھونکا جا رہا ہے وہاں جاتا ہے، اور اسی طرح ہر شخص اپنے اُس ذرے کی نمائندگی میں لاشعوری طور پر اپنے اعمال کی صورتِ حال کا جائزہ لیتا ہے اور قیامت کا منظر دیکھتا ہے۔

حکمت نمبر ۱۱:
تو جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھ لے گا، اور جس شخص نے ذرہ برابر بدی کی ہے تو اسے دیکھ لے گا، یعنی جن کی ایسی قیامت ذاتی ہے وہ تو شعوری طور پر یہ سب کچھ دیکھ لیں گے اور باقی لاشعوری طور پر، جیسا کہ ارشاد ہے:
بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ ، ۲۷: ۶۶۔ بلکہ (سچ یہ ہے کہ) وہ اس (قیامت) سے اندھے ہیں، یعنی قیامت ان کے سامنے ہے لیکن وہ اسے نہیں دیکھتے اور آئندہ بھی نہیں دیکھیں گے۔ غرض آنکہ قیامت بہت سے لوگوں پر اندھا پنے میں گزرنے والی ہے۔

۱۸۸

ظہوراتِ اسلام
اسلام اسمائے الٰہی میں

عقل و دانش، علم و حکمت اور ایمان و ایقان کی نظر میں یہ بات بنیادی حقیقتوں میں سے ہے، کہ اسلام خدائے علیم و حکیم کا وہ واحد برحق اور قدیم دین ہے، جو ازل سے اللہ تعالیٰ کی سنت و عادت، دینِ فطرت، دینِ قیم اور قانونِ قدرت کے ناموں سے چلا آ رہا ہے، اور اس کی ہدایات و تعلیمات کا اوّلین سرچشمہ صفاتِ خداوندی کی نورانیّت میں تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے۔

قرآنِ حکیم اور دینِ اسلام کی ایمان افروز اور روح پرور تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ سچا دین ایک ہی ہے، جو خدا و رسول کا دین ہے، جو اسلام کے نام سے مشہور و معروف ہے، جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ کا مبارک ارشاد ہے کہ:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۫، ۰۳: ۱۹۔
یعنی دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہی ہے۔ چنانچہ جب خدا کے

 

۱۸۹

 

نزدیک صرف اسلام ہی برحق دین ہے، تو یہ امر یقینی ہے کہ یہی دین اللہ تعالیٰ کے ازلی قانون کی حیثیت سے ہے، اور یہی دینِ حق دے کر تمام پیغمبر مبعوث کئے گئے ہیں، پس معلوم ہوا کہ خدا اور جملہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا برحق دین اسلام ہی ہے اور یہ مبارک و مقدّس دین اللہ تعالیٰ کی سنت و عادت اور دینِ فطرت کی حیثیت سے ہے، لہٰذا ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ دینِ اسلام سب سے پہلے ازلی حقیقتوں کی صورت میں خدا کی صفات میں موجود تھا، کیونکہ اسلام ہدایات و تعلیمات کا نور ہے اور نور کا اوّلین سرچشمہ خدا کی صفات ہیں۔

اسلام نورِ محمدی میں
سرورِ عالم اشرفِ بنی آدم حضورِ اکرمؐ کے ارشادِ گرامی سے معلوم ہوتا ہے کہ خالقِ کائنات نے سب سے پہلے اپنے اسمائے صفات سے حضرت خاتم الانبیاءؐ کے نورِ اقدس کو پیدا کیا، اسی نورِ محمدیؐ کو قلمِ قدرت اور عقلِ اوّل بھی کہا جاتا ہے، اور نورِ اسلام بھی یہی ہے، چنانچہ نورِ اسلام کا پہلا ظہور نورِ محمدیؐ کی صورت میں ہوا، جس کی نورانیّت میں اسرارِ ہدایت اور رموزِ حکمت

 

۱۹۰

 

کے بے پایان خزانے موجود تھے، چونکہ نور کا اپنا اصلی وجود عقلی اور علمی ہیئت میں ہوتا ہے، اس کے برعکس اگر یہ حال فرض کر لیا جائے کہ نورِ محمدیؐ میں اسلام کی ازلی، اساسی اور حقیقی ہدایات و تعلیمات کا کوئی وجود نہ تھا، تو پھر ہم کیسے یہ دعویٰ کر سکتے کہ آنحضرتؐ کا نورِ مقدّس ازل میں کامل اور مکمل پیدا کیا گیا ہے، نیز ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرتؐ تخلیقِ آدم سے قبل بھی اپنی نورانیّت میں نبی تھے، حالانکہ نورِ کامل اور نورِ نبوّت علومِ اسلامیہ کا سرچشمہ ہوتا ہے۔

یہاں یہ حقیقت جاننا ازبس ضروری ہے کہ انسان عقل و شعور اور تحقیق و تدقیق کے بعد صحیح معنوں میں دین قبول کر سکتا ہے، اور یہ دین اس کے لئے ضابطۂ حیات اور وسیلۂ نجات ہے، لیکن اس کے برعکس خداوند تعالیٰ کے لئے دین نہ تو ضابطۂ حیات ہے، نہ وسیلۂ نجات اور نہ ہی اُس نے انسان کی طرح کچھ وقت کے بعد دین کو اپنایا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دینِ اسلام خدا کی سنت و عادت اور قانونِ فطرت کی حیثیت سے ہے، پس اس بیان سے یہ ثابت ہوا کہ یہ مقدّس دین ازل ہی سے قانونِ فطرت رہا ہے، جس کے عین مطابق خداوندِ عالم نے نورِ محمدیؐ کو پیدا کیا،

 

۱۹۱

 

اور اس میں اسلام کا نورانی، عقلی اور علمی ظہور تھا۔

اسلام لوحِ محفوظ میں
ہم یہاں یہ بحث نہیں کرتے کہ لوحِ محفوظ کی کیفیت و حقیقت کیا ہے، ہمیں صرف یہ ثابت کرنا ہے، کہ دینِ اسلام کا دوسرا ظہور لوحِ محفوظ پر ہوا، جو قرآنِ پاک کی روحانی تحریر کی صورت میں تھا، کیونکہ قرآن کی روح اسلام کی روح ہے، یعنی جب قلمِ الٰہی نے ہر چیز کی روحانی شکل و صورت لوحِ محفوظ پر ثبت کر دی، تو اس روحانی تحریر و عکاسی کے مجموعے کا نام ام الکتاب مقرر ہوا، جس میں قرآنِ مجید اور دوسری سب آسمانی کتابیں ایک ہی تھیں، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۔۸۵: ۲۱ تا ۲۲۔
بلکہ وہ قرآنِ بزرگ ہے لوحِ محفوظ میں، پس یہ آیۂ کریمہ اس حقیقت کی ایک روشن دلیل ہے کہ قرآن اور اسلام کا نقشِ ازلی اور صورتِ ابدی لوحِ محفوظ میں موجود ہے، کیونکہ قرآن اور اسلام کی حقیقت اور روح ایک ہی ہے، جس طرح اس عالمِ ظاہر میں اسلام کو قرآن سے جدا اور الگ نہیں کیا جا سکتا،

 

۱۹۲

 

اسی طرح اسلام کے علمی اور تصوّراتی خزانوں سے لوح و قلم کی ذات خالی نہیں ہوسکتی، پس معلوم ہوا کہ ازل میں اسلام کا دوسرا ظہور لوحِ محفوظ میں ہوا تھا۔

اسلام کتبِ سماوی میں
سطورِ بالا سے اس حقیقت کی وضاحت ہوچکی کہ لوحِ محفوظ یا کہ ام الکتاب میں تمام آسمانی کتابیں قرآنِ عظیم کی حیثیت سے ایک ہیں، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
وَ اِنَّهٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ۲۶: ۱۹۶۔ اور تحقیق وہ (قرآن) سابقہ امتوں کی آسمانی کتابوں میں بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگلی کتبِ سماوی کی صرف روحانی اور اصلی حالت ہی میں قرآنِ حکیم کی ایسی موجودگی ثابت ہے۔

جب یہ ثابت کیا گیا، کہ سابقہ آسمانی کتابیں نہ صرف لوحِ محفوظ میں قرآن کے ساتھ ایک ہیں بلکہ اس دنیا میں نازل ہونے کے بعد بھی جس حد تک تحریف کے بغیر اپنی اصلی حالت پر ہیں اُس حد تک وہ قرآنِ پاک کے سابقہ احکام کی حیثیت سے ہیں، تو اب ہم اس مقام پر یہ کہہ سکتے ہیں، کہ نورِ اسلام کا طلوع و ظہور مختلف زمانوں میں کتبِ سماوی کے نزول کی صورت میں ہوا، یہ سب مقدّس الہامی

 

۱۹۳

 

کتابیں دینِ حق کی تحریری شکلیں تھیں، اور دینِ حق ازل سے ابد تک ایک ہی ہے، جو اس دور میں اسلام کے نام سے پہچانا جاتا ہے، قرآنِ حکیم کی ۲۳: ۵۱ تا ۵۲  میں خوب غور کیا جائے۔

اسلام انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام میں
اسلام کا چوتھا ظہور انبیاء و اولیاء (أئمّہ) علیہم السّلام کی مبارک و مقدّس ہستیوں میں ہوا، کیونکہ اسلام اصلی حالت میں ایک زندہ نور اور ایک عظیم روح ہے، جس کا تعلق کامل انسانوں سے ہے، چنانچہ انبیاء و اولیاء کے دل و دماغ میں ان کی حیثیت و مرتبت کے مطابق توفیق، ہدایت، الہام، وحی، اور سماوی کتب کے نزول سے دینِ حق کی نورانی، عقلی، علمی اور عرفانی صورت مکمل ہوتی ہے، کیونکہ اسلام مسلم کی صفت ہے، اور سب جانتے ہیں کہ صفت موصوف کی ذات میں پیدا ہوتی ہے، اور موصوف کے بغیر کسی بھی صفت کی عملی شکل ناممکن ہے، پس جاننا چاہئے کہ ہر نبیؐ اور ہر ولی (یعنی امامؑ) اپنے زمانے کا مسلمِ اوّل ہوا کرتا ہے، یا اس مطلب کو یوں سمجھنا چاہئے، کہ دینِ حق انسانِ کامل کی ہستی میں ایک زندہ روح اور ایک مجسّم حقیقت بن جاتا ہے، جس طرح قبلاً

 

۱۹۴

 

اشارہ کیا گیا، کہ دینِ خدائی کا نورانی اور عقلی وجود بھی ہے، روحانی ہستی بھی، تحریری صورت بھی اور عملی شکل بھی، اسی طرح حقیقی اسلام اور مکمل ایمان انسانِ کامل کے لباسِ جسمانیّت میں ملبوس ہے۔

اسلام آنحضرتؐ کے زمانے میں
اگرچہ دینِ اسلام کے بنیادی حقائق اور اساسی معارف ازل ہی سے خدا کے نورِ اقدس میں موجود تھے، قلم و لوح میں اسی دینِ حق کے بھیدوں کے خزانے پوشیدہ تھے، آسمانی کتابیں اسی کی ہدایات و تعلیمات پھیلانے کی غرض سے نازل ہوئی تھیں، حضرت آدمؐ کا علمِ اسماء اسی کی حقیقتوں پر مبنی تھا، حضرت نوحؑ کو اسی دین کی شریعت بتائی گئی تھی، اور حضرت ابراہیمؑ نے اسی دینِ حق کا نام اسلام مقرر کیا تھا، لیکن یہ حقیقت سب پر روشن ہے، کہ اسلام کا مکمل عملی ظہور پیغمبرِ آخرِ زمان صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر آکر ہوا، کیونکہ حضورِ اکرمؐ کل جہانوں اور سارے زمانوں کے لئے سرچشمۂ رحمت تھے، لہٰذا اسلام کا ظہورِ کامل آپ ہی کے وسیلے سے ہونا تھا، اور ازل میں بھی اسلام کا نورانی ظہور حضورؐ ہی کے نورِ پاک میں ہوا تھا، جیسے خود رسالت مآب کا ارشادِ گرامی ہے کہ:

 

۱۹۵

کنت نبیّاً و آدم بین المآء و الطین یعنی میں خلقتِ آدم سے پہلے بھی نبی تھا۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ اوّل میں بھی اور آخر میں بھی آپ ہی اسلام و ایمان اور نبوّت و رسالت کے مرکزِ متین تھے، چنانچہ آنحضورؐ ہی کے جسمانی ظہور سے اسلام کی تکمیل کے وسائل و ذرائع مکمل و مہیا ہوگئے، جو قرآنِ حکیم اور ہادئ برحق کی حیثیت سے ہیں۔

سرورِ کونین صلعم کا وجودِ مبارک و مقدّس اسلام اور ایمان کا پیکرِ اکمل تھا، یعنی حضورِ اکرمؐ کی ذاتِ بابرکات قولاً و فعلاً دینِ حق کے تمام ظاہری و باطنی اوصاف کے اعلیٰ نمونوں اور مثالوں کا مجموعہ تھی، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی حیاتِ طیبہ اسلام اور مسلمین کی جملہ خوبیوں کی حقیقی جان تھی، جس کے ہر لمحے سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی تھی کہ دینِ اسلام کی لاتعداد رحمتوں اور برکتوں کا دارومدار ہادئ برحق کی موجودگی پر ہے، چنانچہ نزولِ قرآن اور ظہورِ اسلام کے لئے آپ کا اس دنیا میں موجود ہونا ضروری تھا، آپ کی موجودگی ہی کی برکت سے عرب کے مختلف قبائل نہ صرف مشرف باسلام ہوئے، بلکہ وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر خوشگوار زندگی گزارنے لگے، حضورؐ کے علم و حکمت اور شخصیت

 

۱۹۶

 

کی موجودگی ہی نے زمانۂ نبوّت کے مسلمانوں کو مثالی قسم کے اتفاق و اتحاد کے رشتے میں منسلک کرکے دین و دنیا کی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کر دیا۔

اسلام حضورِ انور کے بعد
یہاں افسوس کے ساتھ اس تلخ حقیقت کا بھی کچھ تذکرہ کرنا پڑا ہے کہ پیغمبرِ آخر زمانؐ کی جسمانی رحلت کے بعد مسلمانوں کے آپس میں نظریاتی اختلاف کا سلسلہ شروع ہوا، جس کی وجہ سے ملتِ اسلامیہ کی وحدت و سالمیت کا شیرازہ بکھر جانے لگا، اور نتیجے کے طور پر مسلمان مختلف فرقوں میں بٹ گئے، حالانکہ ان کی اجتماعی و انفرادی صلاح و فلاح اس امر میں تھی، کہ وہ ایسے اختلافات کو دائرۂ اذہان و افکار ہی میں محدود رکھتے، اور ان کو تلاشِ حقیقت کا ذریعہ بناتے اور انہیں مذہبی رنگ دے کر عمل میں نہ لاتے، جب چار و ناچار اُن اختلافات کی تشکیلات بن چکیں، اور اسلام کے مختلف مکاتبِ فکر وجود میں آئے، تو پھر بھی چارۂ کار ہو سکتا تھا، جبکہ مسلمانوں کی اصولی اخوت و یگانگت برقرار و باقی ہے۔

۱۹۷

 

ایک جوابی خط کا اہم حصہ

میں شکرگزار ہوں کہ آپ نے ازراہِ کرم اس جانب توجہ فرمائی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ اس طرح کی خط و کتابت سے بھلائی ہی بھلائی ہوگی اور یقین ہے کہ مولا پاک کی خوشنودی بھی اسی میں ہے، کہ ہم آپس میں دینی طور پر خط و کتابت کریں، تاکہ اس ارتباط و اتحاد کے نتیجے سے جماعت کو فائدہ حاصل ہو۔

۱۔ آپ نے سوال فرمایا ہے کہ: روح کیا ہے، جبکہ امام ہمیں اس کے بارے میں غور و فکر کرنے کے لئے فرماتے ہیں؟

جواب: روح ایک حقیقت ہے، ایک جوہرِ بسیط، ایک لطیف زندگی، ایک عظیم دنیا، ایک باطنی شعور، ایک حقیقی بیداری، ایک بے مثال شے، ایک مخفی خزانہ، ایک لازوال سلطنت، ایک نورانی ہستی، ایک خدائی عکس، ایک قدیم ذات، ایک توحیدِ صفات، ایک نمونۂ حیات، ایک لطیف کائنات، ایک آئینۂ معجزات، ایک سرچشمۂ برکات، ایک جامعِ آیات، ایک مجموعۂ حالات، ایک مرکزِ

 

۱۹۸

 

عنایات، ایک وسعتِ جَنّات، ایک رفعتِ درجات وغیرہ۔

انہی الفاظ کی کچھ تشریح و توضیح کے طور پر کہتا ہوں کہ روح ایک محدود شے نہیں، بلکہ وہ اپنی ذات میں ایک پوری کائنات ہے، انسان جب خواب کی کیفیت میں ہوتا ہے، تو وہ دراصل کسی اور چیز کو نہیں بلکہ اپنی روح اور روحانیّت کو دیکھتا ہے، اگرچہ اکثر خواب روشن نہیں ہوتے ہیں، تاہم یہ روح کی شناخت کے لئے ایک عام مثال ہے، یہی خواب خصوصی ذکر و عبادت کے نتیجے میں ترقی کرتے کرتے عارف کے لئے نمونۂ روح اور روحانیّت بن جاتے ہیں، اور اسی طرح عالمِ خیال یعنی بیت الخیال روح اور روحانیّت کی شناخت کا اسکول ہے۔

چند ہی الفاظ میں روح کی تعریف مشکل بلکہ ناممکن ہے، لہٰذا اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ روح خدا کے نور کا ایک عکس ہے، اور یہ حقیقت پیغمبر اور امام میں بحیثیتِ انسانِ کامل سب سے نمایان اور بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے، چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ:
جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اُس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا، اگر انسانی روح خدا کے نور کا عکس نہ ہوتی، تو اس کی معرفت خدا کی معرفت نہ ہو سکتی، پس ظاہر ہے کہ روح خدائی نور کا پرتو یعنی عکس ہے،

 

۱۹۹

 

اور عکس کی مثال وہ سورج ہے جو آئینہ میں یا کسی صاف پانی میں نظر آتا ہے، جس میں اور حقیقی سورج میں بہت بڑا فرق تو ہے، لیکن یہ فرق بھی ایک طریقے سے دور ہو سکتا ہے اور وہ یہ جاننا ہے کہ اصل میں سورج اور اس کے عکس میں کوئی دوئی نہیں، کیونکہ عکس فریبِ نظر کے سوا کچھ بھی نہیں، یعنی اس میں نگاہ کو دھوکہ ہو رہا ہے، چونکہ آئینہ میں کچھ بھی نہیں ماسوائے اس کے کہ وہ ہماری نظر کو آسمان کی طرف اچھال رہاہے، جس سے ہم سورج کو آسمان ہی میں دیکھتے ہیں نہ کہ آئینہ میں، لیکن گمان کرتے ہیں کہ یہ سورج آئینہ میں ہے۔

بہرحال روح لامکانی کیفیت میں عالمِ باطن اور عالمِ امر ہے، اس میں سب کچھ ہے، اس لئے کہ وہ روحِ کلّی سے مل کر ہے الگ نہیں، مگر ہاں جس کی معرفت جتنی ہو روح کی بلندی اور وسعت بھی اتنی نظر آتی ہے، مثال کے طور پر ہم سیّارۂ زمین پر تقریباً ۹ کروڑ میل سورج سے دور رہ کر آئینہ میں سورج کا عکس اتنا محدود اور چھوٹا دیکھتے ہیں مگر جوں جوں آئینہ کو سورج سے قریب کرتے جائیں گے، توں توں سورج کا عکس بھی بڑھتا جائے گا، یہاں تک کہ ایک مقام پر جا کر

 

۲۰۰

 

آئینہ جل کر ختم ہو جائے گا، اس وقت نہ تو عکس نظر آئے گا اور نہ ہی دوئی کا کوئی شک ہو گا۔

روح اگرچہ ایک محدود شے نہیں بلکہ وہ ایک کامل اور مکمل کائنات ہے کیونکہ وہ اس عالمِ ظاہر کی زندہ روحانی صورت ہے، تاہم اس کی ایک مخصوص صورت بھی ہے اور وہ انسانی شکل ہے، یعنی روح اپنے خاص درجے میں ایک انتہائی حسین و جمیل انسان کی صورت میں ہے، اور انسان کا ہمیشہ جمالیاتی ذوق رکھنا اس لئے ہے کہ روحِ انسانی خود جمال و جلالِ خداوندی کی مظہر ہے۔

۲۔ آپ کا دوسرا سوال ہے کہ: صلوات کے حقیقی معنی کیا ہیں؟ اور یہ کن احساسات کے ساتھ پڑھنی چاہئے؟

جواب: صلوات کے کئی معنی ہیں، اور جہاں صلوات پیغمبرِ اکرمؐ اور آپؐ کی آلِ پاک کی شان میں پڑھی جاتی ہے وہاں اس کے تاویلی معنی پیچھے پیچھے چلنے کے ہیں، یعنی پیروی کرنے کے، ملاحظہ ہو کتاب وجہِ دین حصۂ دوم کلام نمبر ۵۰ صفحہ نمبر ۲۲۴، نیز مفردات القرآن کے صفحہ ۵۹۲ پر درج ہے کہ: اور آیتِ کریمہ لم نک من المصلین ، ۷۴: ۴۳، ہم مصلین سے نہیں تھے، کے معنی یہ ہیں کہ ہم انبیاء کی پیروی نہیں کرتے تھے۔

۲۰۱

چنانچہ جس آیت میں محمدؐ و آلِ محمدؐ کے لئے صلوات پڑھنے کا حکم ہے، اس کے یہ معنی ہوں گے کہ: کوئی شک نہیں کہ خدا اور اس کے فرشتے (ایک اعتبار سے) نبی محمدؐ کے پیچھے چلتے ہیں تو اے ایمان والو تم بھی اس کے پیچھے چلو اور فرمانبرداری کرو جیسا کہ فرمانبرداری کا حق ہے۔ ۳۳: ۵۶۔

جب ہم کہتے ہیں کہ: اللّٰھم صل علیٰ محمد و آل محمد تو اس کی تاویل ہوتی ہے کہ: اے اللہ مجھے محمد و آلِ محمد کے پیچھے پیچھے چلا، یعنی اے خداوند تو مجھے اس بات کی توفیق و ہمت عنایت فرما کہ میں آنحضرتؐ اور آپؐ کی آلِ پاک کے أئمّۂ طاہرینؑ کی پیروی کر سکوں۔

جاننا چاہئے کہ صلوات پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے اور اس کی خاص وجہ حکمت میں پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ خدا اور اس کے ملائکہ نبئ کریمؐ کے پیچھے اس معنیٰ میں چلتے ہیں کہ یہاں خدا کی تاویل ہے نمائندۂ خدا، مظہرِ نورِ خدا اور خلیفۂ خدا، جو پیغمبر اور امامِ زمانؑ ہیں، مگر یہاں ظاہر ہے کہ اس کی مراد امامِ وقتؑ ہیں، چنانچہ اس آیۂ شریفہ کی تاویل زمانۂ نزول کے اعتبار سے یہ ہے کہ: کوئی شک نہیں کہ خدا یعنی نمائندۂ خدا (علیؑ) اور اس کے ملائکہ یعنی (سلمان فارسی جیسے)

 

۲۰۲

 

حقیقی مومنین نبی محمدؐ کی صحیح پیروی کرتے ہیں تو اے ایمان والو تم بھی پیروی کرو اور کماحقہ فرمانبرداری کرو۔ اس مطلب کی آخری وضاحت یہ ہے کہ جس طرح نمائندۂ خدا اور خلیفۂ رسول یعنی امامِ زمانؑ اور اس کے حقیقی مومنین آنحضرتؐ کی حقیقی پیروی کرتے ہیں اسی طرح تمام ایمان والوں کو آنحضورؐ کی پیروی اور فرمانبرداری کرنی چاہئے۔

آپ نے تیسرے سوال میں اس فرمانِ خداوندی کا مطلب پوچھا ہے کہ: اے ایمان والو! نہ تو خدا اور رسول کی (امانت میں) خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو حالانکہ تم سمجھتے بوجھتے ہو، ۰۸: ۲۷۔ چنانچہ جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی امانت سب سے پہلے اصحابِ رسولؐ کے سپرد ہوئی تھی، جو قرآنی تعلیمات کی حیثیت سے تھی، جس کے بارے میں پہلے پہل انہی سے فرمایا جاتا ہے کہ تم ہیئتِ قرآن اور اس کی تعلیمات و ہدایات میں ذرا بھی خیانت نہ کرنا، یعنی ایسا نہ ہو کہ کہیں اپنی ہی غرض سے قرآن کی اصل میں یا ادائے مطلب میں کوئی خیانت کرنے لگو یا کسی حقیقت کو دیدہ و دانستہ غلط بیان کرو، اور رسول کی امانت حدیث و سنت ہے، اور اس میں خیانت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے مطلب کے لئے اس میں ہیر پھیر سے کام لے یا کوئی ایسی بات پیغمبر سے منسوب کرے جو آنحضرتؐ کی نہ ہو، اور

 

۲۰۳

 

اس کے بعد مسلمانوں کے آپس کی امانتوں کا ذکر ہے، جو نہ صرف مادّی اور ظاہری ہیں، بلکہ روحانی اور اخلاقی بھی ہیں، جن میں خیانت نہ کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے۔ اگر بیانِ بالا کے مطابق خدا و رسول اور لوگوں کی امانتیں الگ الگ نہ ہوتیں تو اس آیۂ کریمہ میں تین درجوں کی خیانت کا ذکر جدا جدا نہ آتا، یعنی اگر ساری امانتیں ایک جیسی ہوتیں، تو مختصر کر کے فرمایا جاتا کہ : اے ایمان والو! امانتوں میں خیانت نہ کرو حالانکہ تم سمجھتے بوجھتے ہو۔ جبکہ قرآن زائد الفاظ سے پاک ہے اور انتہائی معنوی جامعیّت قرآنی معجزات میں سے ہے۔

۲۰۴

تصوف کے جواہر پارے
حقیقت کی ترجمانی
از دیوانِ عطار

۱۔ چارہ نیست از تو ام چہ چارہ کنم

تا بتو از ہمہ کنارہ کنم

۲۔ چکنم تا ہمہ یکی بینم

بیکی در ہمہ نظارہ کنم

۳۔ آنچہ زو ہیچ ذرہ پنہان نیست

ہمچو خورشید آشکارہ کنم

۴۔ ذرہ ای چون ہزار عالم است

پردہ بر ذرہ ذرہ پارہ کنم

۵۔ تا کہ ہر ذرہ را چو خورشیدی

بر براقِ فلک سوارہ کنم

۶۔ صد ہزاران ہزار عالم را

پیش روی تو پیشکارہ کنم

۷۔ پس بیک یک نفس ہزار جہان

تحفۂ چون تو ماہ پارہ کنم

۸۔ چون کنم قصدِ این سلوکِ شگرف

کوکبِ کفش از ستارہ کنم

۹۔ شیر دو شم ہزار دریا بیش

لیک پستان زسنگ خارہ کنم

۱۰۔ ذرہ ہائ دو کون را زان شیر

ہمچو اطفال شیر خوارہ کنم

۱۱۔ چون کمالِ بلوغ ممکن نیست

چکنم گور گہوارہ کنم

۱۲۔ ای عجب چون بسازم این ہمہ کار

ہیچ باشد ہمہ چہ چارہ کنم

۲۰۵

 

۱۳۔ عاقبت چون فلک فروریزم

این روش گر ہزار بارہ کنم

۱۴۔ ہمہ چون چرخ گردِ خود گردم

گرچہ خورشید پشتوارہ کنم

۱۵۔ نرہم از دوکون یک سر موی

مگر از خویشتن گزارہ کنم

۱۶۔ چون ز معشوق محو گشت فرید

تا کیش مرغِ عشق بارہ کنم

ترجمہ و مطلب:
۱۔ اے حقیقی محبوب تو میرے بارے میں کوئی تدبیر نہیں کرتا، اس کے لئے میں کیا چارہ کروں (تو میرا چارہ کر) تاکہ میں تیری وجہ سے سب سے کنارہ کش ہو جاؤں، یعنی سالک اور عاشق اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ پروردگارِ عالم کی طرف سے ذکر و عبادت میں مکمل یکسوئی اور عشقِ الٰہی کا غلبہ ہو تاکہ اسے دنیا و مافیہا کے خیالات سے چھٹکارا حاصل ہو سکے۔

۲۔ میں اس کے لئے کیا کروں کہ تمام موجودات یا ساری حقیقتوں کو ایک قرار دے سکوں، اور سب کو ایک مانوں، ایک دیکھوں، اور ایک ہی کے ذریعے سے سب میں دیکھ سکوں اور سب کا نظارہ و مشاہدہ کر سکوں۔

۳۔ وہ ذات جس کی ہمہ بین نظر سے کائنات و موجودات کا کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں، میں چاہتا ہوں کہ اسے سب پر آفتابِ عالم تاب کی طرح ظاہر و آشکار کر دوں۔

۲۰۶

۴۔ ذرۂ روح ایک ایسا ذرہ ہے کہ وہ ہزاروں دنیاؤں کے برابر ہے، لیکن میں اس کو پردے میں رکھنے اور چھپانے کے لئے صرف ایک ذرے کے ٹکڑے ہی سے کام لوں گا۔

۵۔ میں یہ کام اس مصلحت و حکمت کے تحت کروں گا، تاکہ ذراتِ ارواح میں سے ہر ذرے کو زمین کی پستی سے اٹھا کر آسمان کی بلندی کے براق پر سوار کر دوں۔

۶۔ میں یہ ممکن سمجھتا ہوں کہ لاکھوں دنیاؤں کو تیرے حضور میں خدمتگار کے طور پر رکھوں۔

۷۔ اس کے بعد پھر دم بدم یعنی ہر لحظہ ہزار ہزار جہاں تجھ ایسے چاند کے ٹکڑے کو تحفہ بنا کر پیش کروں۔

۸۔ جب میں اس عجیب و غریب سیر و سلوک اور اس انتہائی دور دراز سفر کے لئے عزمِ مصمم کر چکا ہوں گا، تو اس وقت میرے ایسے بے پناہ لمبے سفر کے لئے ستاروں کے جوتے بنا کر استعمال کرنے پڑیں گے۔

۹۔ اس اثنا میں مجھے بہت سے ناممکن کاموں کو ممکن کر کے دکھانا پڑے گا، مثلاً میں ہزاروں دریاؤں سے زیادہ دودھ دُہ لوں گا، لیکن اس کے لئے سخت پتھر کے پستان بناؤں گا۔

۲۰۷

۱۰۔ دونوں جہان کے روحانی و جسمانی ذرات کو، اس دودھ میں سے پلانے کے شیر خوار اطفال بناؤں گا، یعنی اس لمبے عرصے میں یہ سب کچھ واقعاً ہو کر رہے گا۔

۱۱۔ جب تک روحانیّت اور عقلانیّت کے اعتبار سے کماحقہ بلوغ یعنی مراتبِ عالیہ کا حصول ممکن نہیں، تو میں کیا کروں، سوائے اس کے کہ قبر کو گاہوارہ قرار دوں اور حقیقی بلوغ کا منتظر رہوں یعنی ایک عام انسان جس طرح خود کو بالغ سمجھتا ہے، وہ حقیقت کی نگاہ میں درست نہیں، کیونکہ بلوغ وہ ہے، جس کا یہاں ذکر ہے۔

۱۲۔ یہ بڑی تعجب خیز بات ہے کہ جب میں مذکورۂ بالا تمام کام کر چکا ہوں گا، تو پھر یہ سب کچھ ہیچ ہوگا، میں کیا کر سکتا ہوں۔ یعنی جو کچھ کرنا ہے وہ یہی ہے اور اس سے زیادہ کیا ہوگا۔

۱۳۔ آخر کار جب میں آسمان کو گرا دوں گا، اور میں یہ سلوک اور کام ہزار بار بھی کروں گا (تو پھر بھی اس میں کوئی نئی بات نہیں ہوگی، بلکہ وہی عمل ہوگا جو بارہا کیا گیا ہے)۔

۱۴۔ یہ سارا کام جو میں نے انجام دیا کچھ بھی نہیں کیا صرف اتنا ہے کہ میں اپنے آپ میں اور اپنے وجود کے گرداگرد آسمان کی طرح گھوم رہا ہوں اگرچہ میں سورج کے بوجھ کا گٹھا پیٹھ پر لئے پھرتا ہوں۔

۲۰۸

۱۵۔ دونوں جہان کی پابندئ فکر اور قیدِ غم سے مجھے بال برابر خلاصی نہیں ہوسکتی جب تک کہ میں اپنے آپ سے گزر کر فنا نہ ہو جاؤں ، یعنی جب تک اپنی خودی کو نہ مٹاؤں۔

۱۶۔ جب فرید الدین عطار معشوقِ حقیقی کے عشق کے ذریعے سے اپنے آپ سے مٹ گیا تو یہ اس کی کامیابی ہے، تاکہ میں اب اسے عشق کی آگ برسانے والا پرندہ یعنی ققنس بناؤں گا۔

۲۰۹

عقیدۂ توحید

دینِ اسلام کا بنیادی و اساسی عقیدہ یا کہ اصل الاصول توحید ہے، جس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی وحدت و یکتائی کا اقرار کرنا، اسے ایک ماننا اور یہ باور کرنا کہ خدا لاشریک اور بے نیاز ہے۔

قرآنِ حکیم اپنی صوری و معنوی ہیئت میں آسمانی علم و حکمت کی ایک وسیع و عظیم کائنات ہے، اس میں علومِ مختلفہ کے گہرے اور بے پایان سمندر پنہان ہیں، اور ان سب کا سرچشمہ و منبع علمِ توحید ہے، چنانچہ قرآنِ پاک میں جو لاتعداد مثالیں بیان کی گئی ہیں، ان سب کا مقصد و منشاء علمِ توحید ہی ہے، نیز اللہ تعالیٰ کی اسی آخری کتاب میں، جو ہمارے پیغمبرِ اکرم حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلعم پر نازل ہوئی ہے، جہاں جہاں آنحضرتؐ سے قبل کے پیغمبروں کے تذکرے موجود ہیں، ان کی روشنی میں یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح صاف ظاہر ہو جاتی ہے، کہ جملہ انبیاء علیہم السلام کی تبلیغ و دعوت کی بنیاد و اساس کسی اور علم پر نہیں بلکہ علمِ توحید پر قائم کی گئی تھی، اور ان سب خدا کے برگزیدہ

 

۲۱۰

 

رسولوں کی اشاعتِ دین اور ہدایت و نصیحت کا مقصدِ اعلیٰ بھی صرف یہی تھا، کہ دنیا والوں کو ان کی سمجھ بوجھ اور ذہنیت کے مطابق علمِ توحید سے مستفیض کر دیا جائے، تاکہ فردائے قیامت وہ اہلِ نجات میں سے ہوں۔

اسی طرح حضرت رسول مقبول صلعم کے مبارک و مقدّس نظامِ دعوت کا بھی یہی اصول رہا مگر چونکہ ہر چیز اپنی مدتِ معینہ کے آخر میں مکمل اور جملہ خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ہو جاتی ہے، چنانچہ دینِ حق کی تعلیمات، جن کی ابتداء حضرت آدمؑ نے کی تھی، جب پیغمبرِ آخر الزمانؐ نے پیش کیں، تو وہ علمِ توحید کے معانی و مطالب سے مملو اور خدا شناسی و عرفان کی حکمتوں سے بھرپور تھیں، جیسا کہ پروردگارِ عالم کا ارشادِ گرامی ہے کہ:
اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ۔ ۱۶: ۱۲۵۔
(اے رسول!) تم (لوگوں کو) اپنے پروردگار کی راہ پر حکمت اور اچھی اچھی نصیحت کے ذریعہ سے بلاؤ اور بحث و مباحثہ کرو بھی تو اس طریقہ سے جو سب سے اچھا ہو۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے، کہ خدائے علیم و حکیم نے دعوتِ اسلام

 

۲۱۱

 

کا جو اصول آنحضرتؐ کے سامنے رکھا ہے، وہی اصول قرآنی تعلیمات و ہدایات میں بھی کارفرما ہے، یعنی حکمت، نصیحت، اور بحث و مباحثہ تینوں ذریعوں سے خدائے واحد و یکتا کی وحدانیت و یگانگت کی طرف لوگوں کو بلانا، کیونکہ لوگ عقل و دانش کے اعتبار سے یکسان نہیں ہیں، بلکہ وہ عام طور پر تین درجوں میں منقسم ہیں، درجۂ اوّل کے لوگ اپنی اعلیٰ دماغی صلاحیتوں کے سبب سے اس قابل ہیں کہ اگر ان کو حکمت سکھائی جائے، تو سیکھ سکتے ہیں، درجۂ دوم کے لوگ وہ ہیں، کہ نصیحت کو سن سکتے ہیں اور اس پر عمل بھی کر سکتے ہیں اور اس کے بعد حکمت بھی سیکھ سکتے ہیں، اور درجۂ سوم کے لوگ ایسے ہیں کہ وہ نہ تو حکمت سیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی نصیحت سن سکتے ہیں، سوائے آنکہ ان سے بحث و مباحثہ کیا جائے، ممکن ہے کہ وہ اس سے دینِ اسلام اور خدا کی توحید کو قبول کریں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس کو قبول ہی نہ کریں، اگر وہ قبول نہیں کرتے ہیں، تو دعوتِ حق کے اس آخری طریقے سے ان پر حجت تو قائم ہو جائے گی، کہ انہوں نے دعوتِ توحید سے صریحاً انکار کیا۔

اب رہا سوال، کہ توحید کی کیفیت و حقیقت کیا ہے؟ اور اس کی تعریف و تشریح کس طرح ہو سکتی ہے؟ یا یوں کہنا چاہئے

 

۲۱۲

 

کہ علمِ توحید کا خلاصہ کیا ہے؟ اور وہ مناسب و موزون الفاظ و اسماء کون سے ہیں، جو حقیقتِ توحید کی صحیح صحیح ترجمانی اور اللہ تعالیٰ کی ہُویّت کی بجا طور پر عکاسی کر سکیں؟

اس انتہائی مشکل مسئلہ کے بارے میں علمائے دین کے بہت سے اقوال ہیں، اور ان سب کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ الفاظ و اسماء کے معنی میں یہ گنجائش کہاں، کہ باری تعالیٰ کی ذات و صفات اور توحید کی حقیقت و چگونگی پر محیط و حاوی ہو سکے، کیونکہ ذاتِ سبحان درجۂ عقل و علم سے بالا و برتر ہے، جیسے حضرت حکیم پیر ناصر خسرو قدس سرہ اپنی ایک منظوم کتاب روشنائی نامہ میں فرماتے ہیں:

بنامِ کردگارِ پاک داور

کہ ہست از وہم و عقل و فکر برتر
ترجمہ: باری سبحانہ کے نام سے (آغاز کرتا ہوں) جو وہم، عقل اور فکر کی رسائی سے بالا و برتر ہے۔

ہمو اوّل ہمو آخر ز مبدا

نہ اوّل بودہ و نے آخر او را
ترجمہ: وہی مبدا (یعنی عقلِ اوّل کی نسبت) سے اوّل بھی ہے اور وہی اس سے آخر بھی ہے (مگر ذاتی طور پر) نہ اس کی کوئی ابتداء

 

۲۱۳

 

ہے اور نہ کوئی انتہا۔

خرد حیران شدہ از کنہہِ ذاتش

منزہ دان ز اجرام و جہاتش
ترجمہ: عقل و دانش اس کی ذاتِ پاک کی حقیقت (سمجھنے سے قاصر اور) حیران رہ گئی ہے، اس کو اجسام و اطراف (کے تعین اور حد بندی) سے پاک و برتر سمجھنا۔

کجا او را بچشمِ سر توان دید

کہ چشمِ جان تواند جانِ جان دید
ترجمہ: سر کی آنکھ سے اس کو کہاں اور کیسے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ روحانی آنکھ سے صرف جان کی جان یعنی نفسِ کلی کو دیکھا جا سکتا ہے۔

و رایِ لا مکانش آشیان است

چہ گویم ہر چہ گویم بیش ازان است
ترجمہ: اس کا مقام لامکان سے بھی ماوراء ہے، میں اس کی توصیف میں کیا کہوں! جو کچھ کہتا ہوں وہ اس سے بڑھ کر ہے۔

خدا کی معرفت

کتابِ مستطاب نہج البلاغہ خطبۂ اوّل میں حضرت امیر المومنین

 

۲۱۴

 

علی علیہ السّلام کا ارشادِ گرامی ہے کہ:

تمام حمد اُس اللہ کے لئے ہے، جس کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی نہیں، جس کی نعمتوں کو گننے والے گن نہیں سکتے، نہ کوشش کرنے والے اس کا حق ادا کر سکتے ہیں، نہ بلند پرواز ہمتیں اسے پا سکتی ہیں، نہ عقل و فہم کی گہرائیاں اس کی تہہ تک پہنچ سکتی ہیں، اس کے کمالِ ذات کی کوئی حد معین نہیں، نہ اس کے لئے توصیفی الفاظ ہیں، نہ اس کی ابتداء کے لئے کوئی وقت ہے، جسے شمار میں لایا جا سکے، نہ اس کی کوئی مدت ہے، جو کہیں پر ختم ہو جائے، اُس نے مخلوقات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا، اپنی رحمت سے ہواؤں کو چلایا، تھرتھراتی ہوئی زمین پر پہاڑوں کی میخیں گاڑیں۔

دین کی ابتداء اس کی معرفت ہے، کمالِ معرفت اس کی تصدیق ہے، کمالِ تصدیق توحید ہے، کمالِ توحید تنزیہ و اخلاص ہے، اور کمالِ تنزیہ و اخلاص یہ ہے، کہ اُس سے صفتوں کی نفی کی جائے، کیونکہ ہر صفت شاہد ہے، کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے، اور ہر موصوف شاہد ہے، کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے، لہٰذا جس نے ذاتِ الٰہی کے علاوہ صفات مانے، اُس نے ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیا، اور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا، اُس نے دوئی

 

۲۱۵

 

پیدا کی، جس نے دوئی پیدا کی، اُس نے اس کے لئے جز بنا ڈالا، اور جو اس کے لئے اجزاء کا قائل ہوا، وہ اس سے بے خبر رہا، اور جو اُس سے بے خبر رہا، اس نے اسے قابلِ اشارہ سمجھ لیا، اور جس نے اسے قابلِ اشارہ سمجھ لیا، اس نے اس کی حد بندی کر دی، اور جو اسے محدود سمجھا، وہ اسے دوسری چیزوں ہی کی قطار میں لے آیا، جس نے کہا کہ وہ کس چیز میں ہے، اُس نے کسی شے کے ضمن میں فرض کر لیا، اور جس نے یہ کہا، کہ وہ کس چیز پر ہے، اُس نے اور جگہیں اس سے خالی سمجھ لیں۔

وہ ہے ہوا نہیں، موجود ہے مگر عدم سے وجود میں نہیں آیا، وہ ہر شے کے ساتھ ہے نہ جسمانی اتصال کی طرح، وہ ہر چیز سے علیحدہ ہے نہ جسمانی دوری کے طور پر، وہ فاعل ہے لیکن حرکات و آلات کا محتاج نہیں، وہ اس وقت بھی دیکھنے والا تھا، جبکہ مخلوقات میں کوئی چیز دکھائی دینے والی نہ تھی، وہ یگانہ ہے، اس لئے کہ اس کا کوئی ساتھی ہی نہیں ہے، کہ جس سے وہ مانوس ہو، اور اسے کھو کر پریشان ہو جائے۔

اُس نے پہلے پہل خلق کو ایجاد کیا، بغیر کسی فکر کی جولانی کے اور بغیر کسی تجربہ کے، جس سے فائدہ اُٹھانے کی اسے ضرورت

 

۲۱۶

 

پڑی ہو، اور بغیر کسی حرکت کے جسے اُس نے پیدا کیا ہو، اور بغیر کسی ولولہ اور جوش کے جس سے بے تاب ہوا ہو۔

خدا شناسی و معرفت کے درجات

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے اور اس سے کسی بھی دانشمند کو ہرگز انکار نہیں ہو سکتا، کہ جس طرح ایمان و ایقان اور خدا کی نزدیکی و عندیت کے مختلف درجات مقرر ہیں، اسی طرح خدا شناسی و معرفت اور توحید کے بھی جدا جدا مراحل اور الگ الگ درجات ہوتے ہیں، جس کی وجہ صاف طور پر ظاہر ہے کہ خدا پرستی اور توحید دینِ حق کی جان ہے، دینِ حق ہی صراطِ مستقیم یعنی سیدھی راہ ہے، اور جو لوگ اس راہِ دین کے مسافر ہیں، ان کے لئے یہ بات ناممکن ہے، کہ وہ یکایک خدا کے حضور پہنچ سکیں، بلکہ وہ منزل بمنزل اور درجہ بدرجہ ہوتے ہوتے خدا تعالیٰ کے انتہائی حضور تک پہنچ سکتے ہیں، اس سے یہ حقیقت چشمِ بصیرت کے سامنے روشن ہوئی، کہ دین و ایمان اور خدا شناسی و توحید کے الگ الگ درجات ہیں۔

قرآنِ مقدّس کے حکیمانہ ارشادات سے یہ نکتہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام درجۂ اوّل کے موحد تھے، اور

 

۲۱۷

 

آپ کا نظریۂ توحید دنیائے اسلام کے لئے مثالی حیثیت رکھتا ہے، آپ نے اپنی زندگی میں کسی قسم کی بھی اصنام پرستی نہیں کی، یہ بالکل درست اور حقیقت ہے، اور اس میں ذرہ بھر شک نہیں، لیکن یہ اہلِ دانش کے لئے سوچنے اور سمجھنے کا مقام ہے کہ بموجب خلاصۂ آیات ۷۴ تا ۷۹ سورۂ انعام (۰۶: ۷۴ تا ۷۹) یہ کہنا بھی درست اور حقیقت ہے، کہ ابراہیم خلیل اللہ کی خدا شناسی اور توحید بتدریج اور سلسلہ وار آگے بڑھتی جاتی ہے، یعنی سب سے پہلے آپ بت پرستی کی مذمت کرتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ آپ کو آسمانوں اور زمین کے ملکوت کا مشاہدہ کراتا ہے، اور آپ سورج اور چاند کو چھوڑ کر ایک ستارے میں ایقان و عرفان کی جستجو کرتے ہیں، اس کے بعد سورج کو فروگذاشت کرکے چاند پر تبصرہ و تحقیق کرتے ہیں، اور اخیر میں سورج کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، اور ان مظاہرِ قدرت کے ظاہر و باطن میں غور و فکر کے نتیجے پر آپ خدائے برحق کی معرفتِ اعلیٰ حاصل کرتے ہیں، پس اس ترتیب سے معلوم ہوا، کہ خدا شناسی اور توحید کے درجات ہیں، ورنہ حضرت ابراہیم جیسی معجزانہ ہستی کی نظر سورج کو فروگذاشت کر کے چاند کی طرف نہ جاتی اور نہ آپ چاند کو چھوڑ کر ستارے پر تبصرہ کرتے۔

دراصل یہ ایک تاویلی قصّہ ہے، اس لئے یہاں ستارہ، چاند

 

۲۱۸

 

اور سورج کی مراد حدودِ دین ہی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی نزدیکی و عندیت اور معرفت و توحید کے درجات ہیں، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

هُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللّٰهِؕ -وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ۔( ۰۳: ۱۶۳)۔
وہ (حدودِ دین) خدا کے نزدیک درجات ہیں اور خدا ان کے اعمال کو خوب جانتا ہے۔

توحید کتابِ جامع الحکمتین میں

عقل و دانش اور بصیرت و حکمت کی نظر میں یہ ایک روشن اور واضح حقیقت ہے، کہ حکیم پیر ناصرِ خسرو قدّس اللہ سرّہ کے تمام تر کُتب خدا شناسی اور توحید کی پُرحکمت تعلیمات سے مملو ہیں، جیسا کہ آپ خود اپنی ایک غیر مطبوعہ نظم میں ارشاد فرماتے ہیں:

خدا شناس شوی راہِ دین بیاموزی
اگر تو بر سخنِ ناصری شوی پیرو
ترجمہ: اگر تم ناصر خسرو کے اقوال کی پیروی کرو گے، تو خدا شناس ہو جاؤ گے اور دینِ حق کی راہ پر گامزن ہو سکو گے۔

چنانچہ پیر صاحب نے اپنی مایۂ ناز کتاب جامع الحکمتین کے صفحہ ۳۰ سے لے کر ۷۳ تک توحید کے موضوع سے حکیمانہ انداز

 

۲۱۹

 

پر بحث کی ہے، اور نہایت ہی پرمغز اور مدلل اسلوب بیان سے توحید کی حقیقتوں کو اجاگر کر دیا ہے، آپ اس پُرحکمت مضمون کے آغاز میں فرماتے ہیں کہ بحیثیتِ مجموعی دینِ حق کے علم کا مقصد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شناخت ہے، جو وحدانیتِ محض سے اور توحیدِ مطلق کے ایسے اثبات سے حاصل ہو سکتی ہے، کہ وہ تشبیہہ سے دور اور تعطیل سے پاک ہو، جس کی تکمیل محل اور عبودیت کے اعتبار سے حضرت رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مرتبۂ مقامِ محمود اور خلقِ عظیم میں ہوتی ہے، اور خصوصاً اس وقت جبکہ آنحضرتؐ کے دین کا شرف تمام ادیانِ عالم پر ظاہر ہوگا۔

پیر صاحب نے اس فصل میں بڑی عمدگی اور صفائی سے بنی نوع انسان کے اخلاقیات اور اعتقادات کے بنیادی فرق اور اختلاف کا ذکر کیا ہے، آپ فرماتے ہیں، کہ نظریات و عقائد کے لحاظ سے لوگوں کے بنیادی و اساسی فرقے دو ہیں، ایک فرقہ دہریہ ہے، یعنی اہلِ تعطیل، جن کا کہنا ہے، کہ عالم قدیم ہے اور اس کا کوئی خالق و صانع نہیں، بلکہ نباتات اور حیوانات جیسی مخلوقات کو اس عقل و خرد ہی نے پیدا کیا ہے، جو آسمانوں اور ستاروں میں موجود ہے، جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لئے رہے گی۔

۲۲۰

دوسرا فرقہ اہلِ ادیان کا ہے، جو خدا اور اس کی خدائی کے لئے اقرار کرتا ہے، اس کے بھی دو گروہ ہیں، ایک گروہ ان لوگوں کا ہے، جو کہتے ہیں، کہ خدا ایک سے زیادہ ہیں، جیسے ترسا (نصاریٰ) کہ وہ تین کو مانتے ہیں، یعنی باپ، بیٹا اور روح القدس، اور جیسے ثنوی (ثنویہ) جو دو خداؤں کا عقیدہ رکھتے ہیں، ایک یزدان اور دوسرا اہرمن اور نور و ظلمت کو یہ لوگ قدیم مانتے ہیں۔

اہلِ ادیان کے دوسرے گروہ کا کہنا ہے، کہ خدا ایک ہے، اور اس کے باوجود کہ وہ ایک خدا کے معتقد ہیں، پرستش و عبادت کے لحاظ سے ان کی پانچ صنف ہیں۔

ان پانچ اصناف میں سے ایک صنف وہ ہے، جس کا عقیدہ ہے کہ خدا ایک تو ہے، لیکن قابلِ پرستش ایک سے زیادہ ہیں، اور ایسے لوگ بت پرست ہیں جو خدا کا اقرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بتوں کی پرستش محض اس لئے کرتے ہیں تا کہ جس کے ذریعے  سے ہمیں خدا کی نزدیکی حاصل ہو، جیسا کہ ارشادِ باری ہے:

وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَۘ-مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰىؕ۔ ۳۹: ۰۳۔
اور جن لوگوں نے خدا کے سوا (اوروں کو) اپنے اولیاء بنا لئے ہیں (اور کہتے ہیں کہ)

 

۲۲۱

 

ہم تو ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ لوگ خدا کی بارگاہ میں ہمارا تقرب بڑھا دیں گے۔ اس آیۂ کریمہ کے بارے میں اہلِ تاویل کا قول ہے، کہ یہ بات امت میں سے کچھ ایسے لوگوں پر مثل ہے، جو کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اور آپؐ کے عترت کے سوا ایسے لوگوں کو دوست رکھنا چاہئے، کہ جن کی وجہ سے ہمیں خدا کی نزدیکی میں اضافہ ہو۔

دوسری صنف ترسا ہیں، جو تین خداؤں کے قائل ہیں، اور کہتے ہیں کہ تینوں ایک ہے اور وہی قابلِ پرستش ہے، تیسری صنف ثنوی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ خدا دو ہیں، لیکن قابلِ پرستش ایک ہے، جو یزدان ہے، چوتھی صنف فلاسفہ ہیں، جن کا کہنا ہے، کہ لوگوں پر خدا تعالیٰ کی پرستش واجب نہیں، بلکہ خدا اور اس کی قدرت و عظمت اور اس کی بادشاہی کے بارے میں علم ضروری ہے، اور پانچویں صنف موحدین ہیں، جو ایمان رکھتے ہیں، کہ خدا ایک ہے اور لائقِ عبادت بھی وہی ہے۔

جب ہم یہ حقیقت ثابت کریں گے، کہ خدا ایک ہے، تو اس سے نہ صرف یہی کہ دہریت کا بطلان ظاہر ہوگا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ نصرانیّت اور ثنویّت بھی باطل قرار پائیں گی۔

۲۲۲

موحدین جو خدائے واحد اور معبودِ برحق کو مانتے ہیں، بہت سے اختلافات کے ساتھ وہ بھی توحید کے لحاظ سے تین گروہ ہیں، ان میں سے ایک گروہ اہلِ تقلید کا ہے، اور اکثر لوگ اسی گروہ کے ساتھ ہیں، وہ قرآنِ مقدّس کے صرف ظاہر پر ٹھہرے ہوئے ہیں، اور کہتے ہیں، کہ ہم اللہ تعالیٰ کو صرف ان ہی صفات کے ساتھ مانتے ہیں، جو خدا نے اپنی کتاب میں خود اپنائی ہوئی ہیں، اور جو صفت ایسی ہو، کہ وہ خدا کے قابل نہیں، مگر قرآن نے اس سے منسوب کر دیا ہے، تو ہم اس کو نہیں جانتے، نہ ایسی صفت سے بحث کرتے ہیں، اور اس کی تاویل خدا ہی جانتا ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے

وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ  ۔ ۰۳: ۰۷۔ (اور اس کی تاویل اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا) اور وہ آیت کے اس حصے میں اور الفاظ نہیں بڑھاتے ہیں۔

موحدین کا دوسرا گروہ معتزلہ اور کرامی جیسے متکلمین ہیں، وہ کہتے ہیں کہ توحید کے بارے میں فکر و نظر کی ضرورت ہے، اور ہم دلائل و براہین اور فکری بصیرت کے ذریعہ حق سبحانہ سے تشبیہہ کی نفی کرتے ہیں۔

موحدین کا تیسرا گروہ خاندانِ رسولِ مقبول صلعم کے شیعہ ہیں،

 

۲۲۳

 

جو کہا کرتے ہیں، کہ خدا کی کتاب کی تاویل ہے، وہ کہتے ہیں، کہ ہم تاویلِ عقلی کے ذریعے مخلوق کی صفات کو خالق سے نفی کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے، کہ تشبیہہ و تعطیل کے مابین ایک منزلت ہے، جس پر ہماری توحید قائم ہے، وہ حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت کرتے ہیں آپ سے پوچھا گیا، کہ توحید کے بارے میں حق تعطیل ہے یا کہ تشبیہہ؟ آپ نے فرمایا: منزلۃ بین المنزلتین ۔

توحید کتابِ وجہِ دین میں

پیر ناصر خسرو کی تاویلی کتاب “وجہِ دین” میں جگہ جگہ بلا واسطہ اور بالواسطہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے حقائق و معارف بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ مذکورہ کتاب کے ترجمۂ حصّۂ اوّل کے صفحہ ۷۳ پر ہے کہ:

تیسری قوّت عقل ہے، جس کے ذریعہ انسان توحید کو تشبیہہ اور تعطیل سے مجرّد کرتا ہے، (یعنی اللہ تعالیٰ جلّ شانہٗ کو نہ تو کسی چیز کے مانند قرار دیتا ہے اور نہ ہی اس کے ارادۂ فعل سے انکار کرتا ہے)

 

۲۲۴

 

اور وہ جانتا ہے، کہ انسان کی عقل تمام چیزوں پر حاوی ہو جاتی ہے، اور وہ عقل اس کے لئے ایک عطا ہے، کہ وہ عطا اسے ایک ایسی ذات کی طرف سے ہے، جو خود اس کی احتیاج سے برتر ہے، اور یہ توحید کو مجرّد کرنے کا ایک اشارہ ہے۔

کتاب کے مذکورہ حصے کے صفحہ ۸۵ پر ایک مشہور حدیث درج ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ:

یقیناً اللہ نے اپنے دین کی بنیاد اپنی خلقت کی طرح رکھی، تاکہ اس کی خلق سے اس کے دین کی دلیل لی جائے۔ اور اس کے دین سے اس کی وحدانیّت کی دلیل لی جائے۔

صفحہ ۸۸ پر مذکور ہے کہ: پس میں کہتا ہوں کہ روا نہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدا تعالیٰ کو دیکھا ہو، کیونکہ یہ امر ناممکن ہے، لیکن آپ کے لئے حق تعالیٰ کی وحدانیت پر دو عادل گواہوں نے گواہی دی، اور ساری مخلوق ان دو گواہوں کی گواہی سننے سے عاجز و قاصر تھی، اور ان دو گواہوں میں سے ایک تو آفاق (عالمِ جسمانی) تھا اور دوسرا انفس، کہ وہ دونوں آنحضرتؐ کے لئے ایک واضح قول میں گواہی دے رہے تھے، کہ خدائے واحد

 

۲۲۵

 

کے سوا کوئی خدا نہیں، یہاں تک کہ آنحضرتؐ نے حق و صداقت کے ساتھ ان کی گواہی پر گواہی دی۔

صفحہ ۸۹ کے نصفِ آخر اور ۹۰ کے اوپر کے حصے پر تحریر ہے کہ: پس شہادت سے مخلوق کا حصہ خدا تعالیٰ سے ان صفات کی نفی کرنا ہے، جو صفات جسمانیوں اور روحانیوں میں باقی ہیں، اور جو حصّہ باری تعالیٰ کی وحدت کی جانب ہے، وہ کسی آمیزش کے بغیر ایک ایسی حقیقت کے ذریعہ اثباتِ محض کرنا ہے، کہ وہ حقیقت لطیف اور کثیف دونوں مخلوق کی صفات میں موجود نہیں، نہ نفی کے طریقہ پر اور نہ اثبات کے طور پر، اور اس قول کے یہ معنی ہیں، کہ جسمانی یعنی مخلوقِ کثیف دکھائی دینے والی اور سنائی دینے والی ہے، دکھائی نہ دینے والی اور سنائی نہ دینے والی نہیں، اور روحانی یعنی مخلوقِ لطیف کے بارے میں کہوں گا، کہ دکھائی نہ دینے والی اور سنائی نہ دینے والی ہے، دکھائی دینے والی اور سنائی دینے والی نہیں۔

پس باری تعالیٰ سبحانہ سے ان دونوں اثباتوں اور دونوں نفیوں کی نفی کرنا چاہئے، وہ تجھے یوں کہنا ہوگا، کہ وہ (خدا) دکھائی دینے والا اور سمجھ میں آنے والا نہیں، دکھائی نہ دینے والا

 

۲۲۶

 

اور سمجھ میں نہ آنے والا نہیں، کیونکہ یہ سب مخلوق کی صفات ہیں، یہی سبب ہے کہ رسولِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نفی و اثبات پر اس کلمے کی بنیاد رکھی۔

نیز صفحہ ۱۲۳ پر ہے کہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’قل ہو اللّٰہ احد ۔ اے محمد (صلعم) کہہ دیجئے کہ وہ خدا ایک ہے۔” اس کی تاویل اس طرح ہے کہ جیسے “ھو” کہتا ہے اس سے خدائے تعالیٰ کی مراد ایک ایسا کلمہ ہے، جو ھویتِ محض ہے، اور ھویت کے لئے حقیقت کے بغیر چارہ نہیں (یعنی وہی کلمۂ باری ہی خدائے تعالیٰ کی ھویت اور اس کی حقیقت ہے) اور لفظ اللہ کے ان چاروں حروف سے مراد چار اصولِ دین ہیں، کیونکہ وہی چار اصول کلمۂ باری کے اثرات کے لئے چنے ہوئے ہیں جن میں سے اپنے اپنے مرتبے کے مطابق دو روحانی اور دو جسمانی ہیں، اور احد سے یہ مراد لیتا ہے، کہ جب ان چار اصول میں سے ہر ایک نے کلمۂ باری سے اپنا حصّہ جو کچھ حاصل کرنا تھا حاصل کر لیا تو انہوں نے توحید کو جملہ صفات سے پاک اور بے نظیر مانا، اور ہر اُس چیز سے بھی پاک و بے نظیر مانا جس کی جفت ہے، خواہ لطیف ہو یا کثیف، اور انہوں نے سبحانہ کو ایسی صفات والے ناموں سے

 

۲۲۷

 

موسوم کرنے سے برتر سمجھا، جو صفات قول کے اعتبار سے اور روحانی و طبعی عمل کے لحاظ سے ایک دوسرے کی مقابل یعنی ضد یا مخالف ہوں، جیسے ہست اور نیست، مکانی اور لامکانی، تعریف کیا ہوا اور تعریف نہ کیا ہوا وغیرہ وغیرہ۔

پھر وہ چار اصول ساری روحانی اور جسمانی مخلوقات میں سے اسی بزرگی کے سبب سے ممتاز ہوئے، اور اسی وجہ سے بے نظیر ہوئے، پس فرمایا: “اللہ الصمد” یعنی خدا صمد ہے، اور صمد کے معنی سید کے ہیں (یعنی جس کی طرف مہمات میں رجوع کیا جائے نیز صمد کے معنی ٹھوس کے ہیں) یعنی جس میں جوف یا کہ کھوکھلاپن نہ ہو (نیز یہ بے نیاز کے معنی میں بھی آیا ہے) اس آیت کی تاویل یہ ہے، جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان چار حدود نے جن پر (لفظ اللہ کے) یہ چار حروف دلالت کرتے ہیں، جب خدا کی توحید کو بحقیقت پہچان لیا، تو انہوں نے اس کو ہر قسم کی آلائش سے پاک مانا، اور ان میں سے ہر ایک حد روحانیوں کا سید و سردار ہوا، اور سارے روحانیوں اور جسمانیوں نے فائدہ حاصل کرنے کے لئے انہی کی طرف رجوع کیا، مگر وہ خود بے نیاز ہیں، اور ان حدود کی حقیقتِ حال معلوم کرنے کے لئے ان کے ماتحت روحانیوں اور جسمانیوں کو ان کی ذات کی طرف کوئی راستہ نہ ملا، یہ ایک ایسی

 

۲۲۸

 

ٹھوس چیز کی مثال کی طرح ہے، جس کے درمیان (جھانکنے کے لئے) کوئی راستہ ہی نہ ہو، تو جو کچھ اس کے اندر پوشیدہ ہے، کوئی شخص اس کی اطلاع نہیں پا سکتا پھر فرمایا قولہ تعالیٰ
لم یلد و لم یولد ۔ ۱۱۲: ۰۳ یعنی نہ اُس نے کسی کو جنا اور نہ کسی نے اُس کو جنا۔  اس کی تاویل یہ ہے، کہ باری سبحانہ جو کسی سابقہ مایہ اور ذریعہ کے بغیر چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے، اور اُس نے ابتدائی چیز (عقل) کو دوسری چیزوں کے لئے علت (یعنی سبب و مایہ) ٹھہرا دی ہے، اور وہ خود اس بات سے برتر ہے، کہ کسی چیز کی علت و مایہ ہو، چنانچہ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ چیزیں اسی (باری سبحانہ) سے پیدا ہوئی ہیں، اگر واقعاً ایسا ہی ہوتا تو وہ خود ہی چیزوں کی علت ہو جاتا (حالانکہ) علت چیزوں کے باپ کے مانند ہے، اور باپ جننے والے کے مانند ہے، اور فرزند گویا اس کا جنا ہوا ہے، اور وہ جلیل القدرت خدا چیزوں کی علت نہیں، یہ لم یلد کی تاویل ہوئی۔

و لم یولد کی تاویل یہ ہے، کہ وہ جلت عظمۃ کسی چیز سے پیدا نہیں ہوا، تاکہ وہ چیز اس کی علت کہلائے، اور وہ جل جلالہ معلول بنے، چنانچہ فرزند باپ کا معلول ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جس کی کوئی علت ہو، تو گویا وہ اپنی علت ہی کی جنی ہوئی ہوتی ہے، پس خدا تعالیٰ

 

۲۲۹

 

جس طرح چیزوں کی علت نہیں، اسی طرح وہ ان کا معلول بھی نہیں، اور جو کوئی خدا تعالیٰ کو عالم کہتا ہے یا حکیم یا قادر کہتا ہے، تو ایسا شخص علم، حکمت اور قدرت کو اس کی علت مانتا ہے، اس لئے کہ عالم کی علت اس کا علم ہے، حکیم کی علت اس کی حکمت ہے اور قادر کی علت اس کی قدرت ہے، پس اُس شخص نے (نتیجے کے طور پر) یہ کہا ہوگا، کہ خدا کو جنم دیا گیا ہے، پھر فرمایا:

و لم یکن لہ کفواً احد ۔ ۱۱۲: ۰۴۔ یعنی اس کے برابر کا کوئی نہیں ۔ اس کی تاویل یہ ہے، کہ احدیت (یکتائی) جو ابداع ہے (یعنی کسی سابقہ مایہ و ماخذ کے بغیر چیزوں کو ایجاد کرنے کی طاقت) وہ عقلِ کلّ کی علت ہے، اور عقلِ کلّ اپنی تمام لطافت و جلالت کے باوجود مبدعِ حق کے برابر نہیں، اور ابداع وہ ہے، کہ انسانی اوہام (یعنی تصوّرات) کے لئے فوری طور پر اُس حقیقت تک راستہ مل نہیں سکتا، اس لئے دانا حکماء نے ابداع کو “نیست” کا نام دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے، کہ وہ سب سے پہلا موجود، جس سے دوسری تمام موجودات پیدا ہوئیں، عقلِ کلّ تھا، اور عقلِ کلّ احدیت سے پیدا ہوا، اور انسانی عقل کے فیصلے سے یہ لازم آتا ہے، کہ ہست نیست ہی سے پیدا ہو، اور جب احدیت

 

۲۳۰

 

کے لئے کوئی اثبات ہی نہ تھا، تو انہوں نے اس کو “نیست” کا نام دیا، اور کسی انسانی وہم و تصوّر کی یہ طاقت نہیں، کہ مایۂ اوہام (وہموں کی بنیاد) یعنی عقلِ کلّ سے آگے گزر سکے، تاکہ عقلِ کلّ کے پیدا کرنے والے تک پہنچ جائے، اگر کوئی شخص (اس مقام تک پہنچنے کے لئے ) قوّتِ واہمہ چلائے، تو یہ ایک ناممکن چیز کی طلب ہوگی، مگر چیزیں تو محسوس کے مشاہدے سے (اس کو) جانتی ہیں، اسی لئے گواہی دیتی ہیں، کہ مماثل ہستیوں کے مانند قرار دئے جانے سے خدا پاک ہے۔

وحدانیّت اور ازل
حکیم پیر ناصر خسرو قدّس اللہ سرّہ زاد المسافرین کے صفحہ ۱۹۵ پر فرماتے ہیں کہ: ازل خدا کی وحدت کا اثبات ہے، اس سے حضرت پیر کی مراد یہ ہے، کہ ازل  ہی کا تصوّر اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کا مناسب و موزوں اور آسان تصوّر ہے، یعنی خدائے قدوس اور واحد و لا شریک تمام روحانی اور جسمانی موجودات و مخلوقات کی صفات سے کس طرح پاک ہے، اور وہ ان کی شرکت سے کیسے بے نیاز ہو سکتا ہے، اس کا ثبوت ازل کی حقیقت ہے، اور پیر صاحب کا یہ نظریۂ توحید اہلِ بصیرت کے لئے اس قدر روشن ہے، کہ وہ اس اصولِ وحدانیت کی روشنی میں توحید کے تمام تر نکات کو سمجھ سکتے ہیں۔

۲۳۱

اسی مقام پر آپ نے ازل اور ازلی و ازلیّت کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے، جس کا مطلب یہ ہے، کہ عقلِ اوّل کو ازل کی طرف راجع کرکے اسے ازلی کہنا چاہئے، اور ازلیّت وہ حقیقت ہے، جس سے ازلی چیز کا ثبوت ملے اور وہ ازلیّت ابداع ہے، اور ابداع کے معنی ہیں بغیر آلہ بغیر مادّہ اور بغیر مکان و زمان کے کسی شے کو ایجاد کرنا، چنانچہ ظاہر ہوا، کہ ازل خدا کی وحدت و یکتائی کا ثبوت ہے، ازلی عقلِ اوّل کی صفت ہے اور ازلیّت کی مثال ابداع ہے، یعنی عقل کو ایجاد کرنا۔

اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے، تو خدا کی توحید کا موضوع مذکورہ کتاب میں ابتداء سے لے کر انتہا تک پھیلا ہوا ہے، تاہم واضح اور نمایان طور پر اس کا آغاز صفحہ ۱۸۵ سے ہوتا ہے اور کتاب کے انتہائی آخر میں صفحہ ۴۸۶ پر جا کر ختم ہو جاتا ہے۔

مبدعِ حق اور ھویت

مبدِع کے معنی ہیں بغیر مادّہ اور بغیر سابقہ نمونہ کے پیدا کرنے والا، اللہ تعالیٰ، اور ہویّت کے معنی ہیں حقیقتِ مطلقہ، چنانچہ پیر صاحب کتاب “خوان الاخوان” کی صفحہ نمبر ۲۳ میں فرماتے ہیں، کہ مبدعِ

 

۲۳۲

 

حق ھویت و ناھویت سے دور اور برتر ہے، کیونکہ ھویت عقلِ اوّل کے لئے ہے، جبکہ حقیقی ہستی اسی کی ہے، اور ناھویت ابداع کی ہے، یعنی مبدعِ حق نے بغیر کسی سابقہ مادّہ و نمونہ کے عقلِ اوّل کو جس طرح سے ایجاد کیا، وہ ابداع و اختراع اور ناھویت ہی ہے۔

اس بیان سے پیر صاحب کی مراد یہ ہے، کہ جب مبدعِ حق نے عقلِ اوّل کو تخلیق کے طور پر نہیں بلکہ ابداع و اختراع کے طریق سے نیستی سے ہستی میں لایا، تو نیستی اور ابداع ناھویت ہے، اور عقلِ اوّل کی ہستی ھویت ہے، لیکن مبدعِ حق خود ہستی اور نیستی دونوں سے پاک و برتر ہے، لہٰذا اس کی نہ کوئی ھویت ہے اور نہ ناھویت، بلکہ وہ اس ھویت و ناھویت سے بے نیاز ہے۔

آپ فرماتے ہیں، کہ عقلِ اوّل نے اپنی ہستی اور ابداع کی نیستی کی دلیل سے اپنے مبدع کو پہچان لیا، اور اپنے پیدا کرنے والے سے ان دونوں صفتوں یعنی ہستی و نیستی کی نفی کی، اور عقل نے اپنی ہستی کی شناخت کے نتیجے پر باری تعالیٰ کی ھویّت کو ہست اور ناہست سے برتر قرار دیا۔

 

۲۳۳

 

پنج مقالہ نمبر ۵

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرفِ اوّل

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور نورِ نبئ مختار صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روحانی نصرت و تائید سے آج بوقتِ سوا بارہ بجے شبِ سہ شنبہ مورخہ ۲۵ اکتوبر ۱۹۷۷ء کو “پنج مقالہ نمبر ۵” کا دیباچہ لکھ رہا ہوں، اور ان شاء اللہ تعالیٰ یہ کتاب بھی عنقریب شائع ہو جائے گی، خدا کرے کہ اہلِ ایمان کو ان کتابوں کے مطالعے سے دلچسپی اور فائدہ ہو!

حقیقی اسماعیلی کتب

بجائے اس کے کہ میں یہاں صرف اپنی ہی کتابوں، مقالوں اور تحریروں کا تعارف کراؤں کیوں نہ تمام حقیقی اسماعیلی کتب کی تعریف کروں، تاکہ انتہائی مفید مشورے کی باتیں جو میں بتانا چاہتا ہوں وہ خودی اور خود ستائی کے شکوک و شبہات سے بالا اور پاکیزہ رہیں اور ساتھ ہی ساتھ علمِ حقیقت کے قدر دانوں کا دائرۂ مفاد بھی وسیع تر ہو۔ چنانچہ ایسی اسماعیلی کتابوں کی تعریف درجِ ذیل کی طرح ہے:

۲۳۷

۱۔ یہ نہ صرف دعویٰ ہی ہے بلکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ اسماعیلیت قولاً و فعلاً صراطِ مستقیم ہے، یعنی یہی علم و حکمت اور رشد و ہدایت کا راستہ ہے جس سے کہ معرفت اور نجات حاصل ہوتی ہے، تو پھر اس مذہب کے کتب صداقت و حقیقت کی عکاسی اور ترجمانی کیوں نہ کریں۔

۲۔ اسماعیلی کتب قرآن و حدیث کی ظاہری و باطنی حکمتوں اور حقیقتوں سے پر ہیں، کیونکہ یہ کتابیں دراصل أئمّۂ ہدا صلوات اللہ علیہم کے مقدّس ارشادات کی روشنی میں لکھی گئی ہیں۔

۳۔ ہمارے عظیم المرتبت پیروں اور بزرگوں نے اپنے اپنے زمانے کے امامِ عالی مقام کی نورانی تائید سے تعلیم و تربیت کی نہایت ہی درست اور بہت ہی مستحکم بنیادیں رکھ دی ہیں، اور ان حضرات نے اس سلسلے میں بڑی جانفشانی سے بہت کچھ کام کیا ہے، جس کے نتیجے میں علم و حکمت کا یہ قلعہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا آیا ہے۔

۴۔ یہ حقیقت ہے کہ امامِ زمانؑ کا نورِ اقدس سرچشمۂ رشد و ہدایت بھی ہے اور خزینۂ علم و حکمت بھی، لیکن چونکہ وہ شہنشاہِ دین ہیں اس لئے کارِ ہدایت کو تو ہمیشہ خود ہی انجام دیتے ہیں اور علم و تعلیم کی خدمت اکثر دفعہ حجت، داعی یا پیر، بزرگ، عالم اور معلم کے

 

۲۳۸

 

سپرد کر دیتے ہیں، اُس صورت میں اِن حدودِ دین کا علم دراصل امام ہی کا علم ہوتا ہے یا یوں سمجھنا چاہئے کہ امامِ برحق اپنے علمی نمائندوں کو طریقِ نورانیت سے علم دے سکتا ہے، اگر آپ کے نزدیک یہ بات صحیح ہے، تو پھر آپ سوچیں کہ حقیقی کتابوں میں کس کی باتیں ہیں؟

۵۔ حقیقی کتابوں کے ان اوصاف کے باوجود جن کا اوپر ذکر کیا گیا کبھی کبھار کسی کتاب میں ایک آدھ کمزوری بھی ہو سکتی ہے، لیکن امامِ زمان علیہ السّلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں، اور نہ ہی اتنی سی چھوٹی بات میں کوئی وزن ہو سکتا ہے کہ جس سے پوری کتاب کا رجحان حق کی طرف سے پھر جائے، لہٰذا لغزشِ بشری معاف ہو سکتی ہے، مگر قصد نہیں۔

۶۔ اگر آپ کسی حکیم، فلاسفر، عالمِ دین، دانشور، شاعر وغیرہ کے نقطۂ نظر کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو اس کی تمام کتابوں اور تحریروں کا یکجا طور پر دقیق مطالعہ کریں، تاکہ معلوم ہو جائے کہ اُس نے اپنے بیان کے سلسلے میں جہاں جہاں اشارے کئے ہیں، اُن کی وضاحتیں کہاں کہاں پائی جاتی ہیں؟ جو سوالات پیدا ہوئے ہیں، ان کے جوابات ملتے ہیں یا نہیں؟ وہ اپنے نظریہ پر قائم ہے یا رفتہ رفتہ بدلتا گیا ہے؟ اور اگر اس میں تبدیلی پائی جاتی ہے تو وہ ترقی ہے یاکوئی اور چیز؟ وغیرہ وغیرہ، تاکہ آپ کے اس تحقیقی منصوبہ پر عمل کرنے سے نہ صرف صحیح علم حاصل ہوگا، بلکہ اس

 

۲۳۹

 

کے ساتھ ساتھ آپ کے دل و دماغ میں ریسرچ کی مختلف صلاحتیں بھی اُجاگر ہو جائیں گی۔

۷۔ علم و حکمت الگ ہے اور شخصیت و شہرت الگ، اگرچہ بعض دفعہ ان دونوں چیزوں کے کسی انسان میں جمع ہو جانے سے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے کہ وہ بآسانی علم کی طرف رجوع کر جاتے ہیں، لیکن جب شخصیّت و شہرت اصلی اور حقیقی نہیں بلکہ جعلی اور بناوٹی ہوتی ہے، اور اس کا مقصد نچلے درجے کے علم کو بڑھا چڑھا کر دکھانا ہوتا ہے، تو اس صورت میں لوگوں کا بہت بڑا نقصان ہوتا ہے، کہ اصلیت و حقیقت سے محروم اور دور رہ جاتے ہیں۔

۸۔ مذہبی کتابیں گویا جنت کے باغات ہیں، ان میں عقل و جان کے گوناگون شیرین پھل اور رنگ برنگ کے خوشبودار پھول کسی موسم کی تخصیص کے بغیر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے موجود و مہیا ہوتے ہیں، ان باغوں کے حقیقی مالک امامِ عالی مقام ہی ہیں اور آپ کے حکم سے جنہوں نے ان کی تعمیر و تکمیل کا مقدّس فریضہ انجام دیا ہے وہ صرف اور صرف باغبانوں کی حیثیت سے ہیں۔

۹۔ جب یہ نظریۂ اسلام کی ایک اساسی حقیقت ہے کہ خلیفۂ خدا رسول ہیں اور خلیفۂ رسول امامِ برحق ہیں، تو پھر دین کے اس

 

۲۴۰

 

اٹل قانون میں کسی کو کیا شک ہو سکتا ہے، کہ مذہب کا سارا نظام خلافت و نیابت اور جانشینی و نمائندگی ہی پر قائم ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ جماعت کے کام کرنے والے تمام ادارے اور خصوصی خدمات انجام دینے والے افراد امامِ زمانؑ کے خلفاء اور نمائندوں کی حیثیت سے ہیں، ظاہر میں نام کچھ بھی ہوں مگر یہ نظام خلیفگی اور جانشینی کے معنوں سے ہرگز الگ نہیں ہو سکتا، پس اس صورت میں بھی وہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ امام کے علمی نمائندوں کی حقیقی کتابیں گویا امام کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں، جبکہ امام کا ہر قائم مقام ادارہ اور ہر نمائندہ جماعتی کام کے اعتبار سے مولا کا ہاتھ ہے اور مذہبی ہدایت کے لحاظ سے مولا کی زبان۔

۱۰۔ سورۂ فاطر (۳۵) کی آیت نمبر ۳۲ (۳۵: ۳۲) کی شیعی تفسیر سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد قرآن حکیم کی وراثت أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کو عطا کر دی ہے، اور حقیقی کتابیں قرآنی علم و حکمت پر مشتمل ہوتی ہیں، چنانچہ معلوم ہوا کہ مرکزِ نبوّت و امامت سے باہر قرآن کا کوئی علم نہیں، اور اگر کوئی علم نظر آتا ہے تو وہ حضرت رسولؐ اور أئمّۂ ہدا کے ارشادات کی بدولت ہے، پس ثابت ہوا کہ حقیقی علم امامِ زمانؑ کی ملکیت ہے اور اگر یہ کسی اور کے پاس بھی کچھ

 

۲۴۱

 

حصّہ پایا جاتا ہے، تو اُسی کا عطیہ ہے۔

اس کتاب کی اہمیت

پنج مقالہ نمبر ۵ کا پہلا موضوع ہے “چند تاویلات سورۂ رحمان میں سے۔” اس سورہ کی اہمیت و افادیت یہ ہے کہ اس کی باطنی اور معنوی حیثیت میں جن عظیم الشّان اور خوب ترین روحانی نعمتوں کا حکیمانہ ذکر فرمایا گیا ہے اس کی وجہ سے اس سورہ کا نام عروس القرآن (قرآن کی دلہن) مشہور ہے، اس سورہ کے کل تین رکوع میں سے یہاں دو کی تنزیل و تاویل درج ہے۔

دوسرا مقالہ سورۂ دہر سے متعلق ہے، جس میں سب سے پہلے انسان کی ازلی و ابدی حقیقت یعنی انا کا ذکر ہے، کہ انسان کی خودی تخلیق سے پہلے ایک ایسی بے مثال حقیقت تھی کہ اس کا نہ تو کوئی نام تھا اور نہ کوئی نشان، جیسا کہ مولای روم کہتے ہیں کہ:

من آن روز بودم کہ اسما نبود

نشان از وجودِ مسما نبود
ترجمہ: میں اُس وقت بھی تھا جبکہ نام نہیں تھے، مسما کی ہستی کا کوئی نشان نہیں تھا۔ روایت مشہور ہے کہ یہ پورا سورہ حضرت امیر المومنین،

 

۲۴۲

 

جناب فاطمۂ زہرا اور حسنین علیہم الصلواۃ و السّلام کی شان میں نازل ہوا ہے۔

تیسرا مقالہ “حدیثِ مماثلتِ ہارونی” ہے، جو تصوّرِ امامت کی کلیدی حدیثوں میں سے ہے، جس کی روشنی میں دیکھنے سے ان تمام قرآنی آیات سے، جو حضرت ہارون علیہ السّلام کے بارے میں ہیں، یہ ثبوت ملتا ہے کہ تمام انبیاء کے ساتھ بھی اور ان کے بعد بھی دین میں امام کا حیّ و حاضر رہنا انتہائی ضروری امر ہے، نیز ان آیتوں سے یہ حقیقت بھی روشن ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اور امام روحانیّت و نورانیّت میں ہمیشہ سے ایک ہوا کرتے ہیں۔

چوتھا مضمون ہے “قرآنِ پاک اسمِ اعظم میں” عنوان ہی سے اس کی اہمیت ظاہر ہے کہ قرآن کی روح و روحانیّت اللہ تعالیٰ کے اسمِ بزرگ میں پوشیدہ ہوتی ہے، چنانچہ قرآن کے روحانی پس منظر کی تحقیقی وضاحت لازمی تھی، تاکہ اس سے اہلِ ایمان کو ایک طرف قرآن کی شناخت میں مدد ملے اور دوسری طرف ان کے شوقِ عبادت میں اضافہ ہو اور وہ ذکرِ الٰہی میں ترقی کریں تا کہ وہ اپنے باطن ہی میں قرآنِ ناطق کو حاصل کر سکیں۔

اس کتاب کا پانچواں اور آخری موضوع “ہمہ اوست” ہے، یہ

 

۲۴۳

 

بہت ہی اہم اور بڑا دلچسپ موضوع ہے، اس سے روح اور خدا کی حقیقت سمجھنے کے دروازے کھل جاتے ہیں، اور سب سے اونچی حقیقت یعنی حقیقت الحقائق کا پتہ چلتا ہے۔

خداوندِ برحق کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج کے دن “پنج مقالہ نمبر ۵” تحریری طور پر مکمل ہوئی، اور یہ پانچ پانچ مقالوں کے اس سلسلے کی آخری کتاب ہے، یہ سلسلہ گویا ایک سپیشل کورس ہے، اور ان پانچ کتابوں میں ۲۵ مقالے اور دیباچوں کو بھی ملا کر ۳۰ مقالے اس پُرمغز اور اعلیٰ درجے کے کورس کے انتہائی منظم اور نہایت ہی معلوماتی لیکچرز ہیں، پس آپ کم از کم ان پانچوں کتابوں کے مطالعے کا یہ کورس عملاً خوب محنت سے کرکے دیکھیں کہ میرا دعویٰ حق بجانب ہے یا نہیں، مجھے یقین ہے کہ اگر آپ نے جیسا کہ چاہئے ذمہ داری اور فرض شناسی سے اس کورس کو مکمل کر لیا تو آپ کے علم میں زبردست اضافہ ہوگا، اور آپ کے بہت سے سوالات شعوری طور پر بھی اور لاشعوری طور پر بھی حل ہو جائیں گے۔

میں سچے دل سے شکرگزار اور احسان مند ہوں اُن دینداروں، دوستوں اور عزیزوں کا، جن کے گوناگون تعاون کے بغیر میری یہ علمی خدمت آگے نہیں بڑھ سکتی ہے، میں اس بات سے بے حد خوش

 

۲۴۴

 

ہوں کہ یہاں اُن عقیدتمندوں کو بڑی قدردانی سے یاد کر رہا ہوں، جن کو مذہبی علم انتہائی عزیز ہے، وہ ہر وقت مادّی دولت پر علم کی دولت کو ترجیح دیتے ہیں، ان کی نظر میں علم ہی حقیقی دولت اور لازوال عزت ہے، اسی بناء پر وہ کتابوں کو اصل گنجینہ قرار دیتے ہیں۔ آئیے ہم سب مل کر ربّ العزّت کی بارگاہِ عالی سے عاجزانہ دعا مانگیں، کہ “اے خداوندِ عالم! تواپنی بے پناہ رحمت کے پیشِ نظر علم کے خدمت گزاروں اور خیرخواہوں کو ہر شر سے اور ہر بلا سے اپنی پناہ میں رکھنا، ان کی تمام نیک مرادوں کو پوری کر دینا اور ان کو دونوں جہان کی صلاح و فلاح سے سرفراز! فرمانا
(آمین یا ربّ العٰلمین)

فقط آپ کا ملی خادم
نصیر الدین نصیر ہونزائی
بروز چہار شنبہ
۱۳ ذیقعدہ ۱۳۹۷ھ
۲۶ اکتوبر ۱۹۷۷ء

 

۲۴۵

چند تاویلات سورۂ رحمن (۵۵) میں سے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تنزیل نمبر۱: رحمان نے قرآن کی تعلیم دی۔ (۵۵: ۰۱ تا ۰۲)
تاویل: خدائے رحمان نے قرآن کی یہ تعلیم سب سے پہلے کس کو دی؟ اور یہ کب کی بات ہے؟ خداوند تعالیٰ نے یہ تعلیم ازل میں عقلِ اوّل کو دی، جس کو عقلِ کلّ اور قلمِ الٰہی بھی کہا جاتا ہے۔

تنزیل نمبر۲: اُس نے انسان کو پیدا کیا، اُس کو گویائی سکھائی۔ (۵۵: ۰۳ تا ۰۴)
تاویل: یہ انسان کون ہے؟ اور وہ گویائی کس نوعیت کی ہے؟ یہ انسان عقلِ ثانی ہے، جس کو نفسِ کلّ اور لوحِ محفوظ بھی کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اسی کو علمِ بیان یعنی تاویل سکھائی۔

تنزیل نمبر۳: سورج اور چاند ایک حساب کے ساتھ ہیں، اور بوٹیاں بیلیں اور درخت سجدہ کرتے ہیں۔ (۵۵: ۰۵ تا ۰۶)
تاویل: سورج ناطق ہیں یعنی نبئ آخر زمان اور چاند اساس

 

۲۴۶

 

ہیں، یعنی علی مرتضیٰؑ جن کی تنزیل و تاویل ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور دونوں کا مقصد ایک ہی ہے، اور بوٹیوں بیلوں سے نفوسِ خلائق مراد ہیں اور درختوں کے معنی حدودِ دین ہیں کہ یہ سب اپنے اپنے طور سے خدا کے لئے سجدہ یعنی اطاعت کرتے ہیں۔

تنزیل نمبر۴: اور اسی نے آسمان کو بلند کیا اور ترازو رکھ دی تا کہ تم تولنے میں کمی بیشی نہ کرو اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو اور تول کم نہ کرو۔ (۵۵: ۰۷ تا ۰۹)
تاویل: روحانیت کی زمین کو پستی سے اُٹھا کر آسمان کا درجہ دیا اور علم و حکمت کا معیار اسی آسمان میں رکھا، اور اگر علم و حکمت اور رشد و ہدایت کی یہ کسوٹی زمینِ روحانیّت پر رکھی جاتی تو اس کے استعمال میں کمی بیشی ہو جاتی، اس لئے یہ ترازو روحانیّت کے اونچے درجات کے سپرد کی گئی، اس مقام پر تمام حدودِ دین کو مخاطب کیا گیا ہے، اور سب کے فعل کو ایک قرار دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ تمہارے لئے آسانی اور درستی اسی میں ہے کہ تم حقیقتوں اور معرفتوں کی ترازو کو حدودِ بالا کے وسیلے سے کام میں لاؤ۔

تنزیل نمبر۵: اور اسی نے خلقت کے واسطے زمین کو رکھ دیا۔ (۵۵: ۱۰)

تاویل: زمینِ روحانیّت قابلِ رسا بنا دی کہ وہ آسمانِ روحانیّت

 

۲۴۷

 

کی طرح بلند اور مشکل نہیں تاکہ سب لوگ جو کمزور ہیں کیا خویش اور کیا بیگانہ اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔
تنزیل نمبر۶: اس (زمین) میں میوے ہیں اور کھجور کے درخت ہیں جن (کے پھل) پر غلاف ہوتا ہے، اور غلہ ہے جن میں بھوسہ (بھی ہوتا ہے) اور (اس میں) غذا کی چیز (بھی) ہے۔ (۵۵: ۱۱ تا ۱۲)

تاویل: یعنی اس روحانی زمین میں روحانی قسم کی غذا اور مسرت و شادمانی کی چیزیں ہیں، کہ ان کا فائدہ بآسانی اور بغیر دقت کے حاصل ہو سکتا ہے، مگر کچھ چیزیں تاویل طلب بھی ہیں، جیسے بعض میوے اور غلہ جات، کہ کچھ میوؤں کے اوپر غلاف ہوتا ہے اور غلوں کو تو بہت کچھ کام کرنے کے بعد کھایا جا سکتا ہے۔

تنزیل نمبر۷: سو اے جنّ و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
تاویل: پس اے مخلوقِ لطیف اور مخلوقِ کثیف تم اپنے ربّ کی مذکورہ نعمتوں میں سے کن کن نعمتوں سے انکار کرو گے، جبکہ یہ تمام نعمتیں تمہارے فائدے کی خاطر پیدا کی گئی ہیں، روحانیّت کے آسمان و زمین اور تمام وہ چیزیں جو ان میں ہیں سب کی سب نعمتیں ہیں مخلوقِ لطیف اور مخلوقِ کثیف کے لئے۔

۲۴۸

تنزیل نمبر۸: اُسی نے انسان کو ایسی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکرے کی طرح بجتی تھی، اور جنات کو خالص آگ سے پیدا کیا سو اے جنّ و انس تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ (۵۵: ۱۴ تا ۱۶)

تاویل: یہ اشارہ انسان کی روحانی تخلیق کی طرف ہے کہ اس کی یہ تخلیق اُس وقت شروع ہو جاتی ہے جبکہ ایک کھنکھناتی ہوئی لطیف آواز اس کے کان میں سنائی دیتی ہے، یہ آواز کیا ہے؟ صورِ اسرافیل بجنے کا آغاز ہے، جس کی ابتداء بار بار کان بجنے سے ہوتی ہے، یہ مخلوقِ کثیف کی تخلیق کی علامت ہوئی، جو انسانی جسم کے وسیلے سے ہے، اور مخلوقِ لطیف کی تخلیق یہ ہے کہ اسی انسان کی اعلیٰ ترین روحانیّت سے مخلوقِ لطیف کو پیدا کیا، یعنی خاموش، سلجھی ہوئی ، اور بے رنگ روحانیّت سے، جس طرح آگ دو قسم کی ہوتی ہے، دکھائی دینے والی اور نہ دکھائی دینے والی، یعنی ایک تو شعلوں اور انگاروں کی صورت میں ہوتی ہے، جس میں گرمی، روشنی اور رنگ ہوتا ہے اور یہ آگ نظر آتی ہے، اور دوسری آگ وہ ہے جو نظر نہیں آتی، جس میں گرمی اور جلانے کی قوّت تو موجود ہوتی ہے، مگر روشنی اور رنگ نہیں ہوتا، لہٰذا وہ دکھائی نہیں دیتی، جیسے ٹیبل لیمپ وغیرہ کے شعلے کے ذرا اوپر ایسی نادیدنی آگ موجود ہوتی ہے کہ اس

 

۲۴۹

 

میں کاغذ کے ذرا چھو جانے سے آگ ظاہر ہو جاتی ہے۔

تنزیل نمبر۹: وہی دونوں مشرقوں کا پروردگار ہے اور دونوں مغربوں کا پروردگار ہے، سو اے دو گروہ تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ (۵۵: ۱۷ تا ۱۸)
تاویل: دین اور روحانیّت میں ہر اوپر کا درجہ مشرق ہے اور ہر نچلا درجہ مغرب، اسی طرح دینی تعلیم میں ہر استاد مشرق اور ہر شاگرد مغرب ہے، کیونکہ ہمیشہ توحید اور تعلیم کا نور اوپر کے درجے سے طلوع اور نچلے درجے میں غروب ہوتا رہتا ہے، چنانچہ بحیثیتِ مجموعی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ نورِ توحید کے دو مشرق ہیں اور ناطق و اساس اس کے دو مغرب ہیں، کہ ہمیشہ نورِ توحید کا سورج اُن دونوں سے طلوع اور اِن دونوں میں غروب ہوتا رہتا ہے۔

تنزیل نمبر ۱۰: اِسی نے دو دریاؤں کو ملایا کہ باہم ملے ہوئے ہیں (اور) ان کے درمیان ایک حجاب ہے کہ دونوں بڑھ نہیں سکتے، سو اے دونوں گروہ تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ (۵۵: ۱۹ تا ۲۱)
تاویل: یہ دو دریا روحانیّت اور جسمانیّت ہیں، خیر و شر ہیں، دنیا اور آخرت ہیں وغیرہ، جو ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور باہم مل کر ہیں، اور ان دونوں کے درمیان پردہ ہے، اس لئے یہ دونوں

 

۲۵۰

 

درجے اپنی اپنی حیثیت کو ختم کرکے قطعی طور پر ایک نہیں ہو سکتے، اور ان کے اسی طرح پیدا کئے جانے میں بہت سی حکمتیں اور نعمتیں ہیں۔

تنزیل نمبر ۱۱: ان دونوں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں، پس تم دونوں گروہ اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ (۵۵: ۲۲ تا ۲۳)

تاویل: یعنی حدودِ روحانی اور حدودِ جسمانی اسی روحانیّت اور جسمانیّت کے دو دریاؤں کے موتی اور مونگے ہیں۔

تنزیل نمبر ۱۲: اور اسی کے ہیں جہاز جو پہاڑوں کی طرح سمندر میں کھڑے نظر آتے ہیں، پس تم دونوں گروہ اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت سے انکار کروگے۔ (۵۵: ۲۴ تا ۲۵)
تاویل: یہ وسیع و عریض کائنات لطیف فلکی جسم یا کہ ایتھر کا ایک انتہائی عظیم سمندر ہے اور اس میں جتنے سیّارے ستارے موجود ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کے جہاز ہیں، اور ان میں سے ایک جہاز سیّارۂ زمین ہے۔

تنزیل نمبر ۱۳: جتنے لوگ روئے زمین پر موجود ہیں سب فنا ہونے والے ہیں، آپ کے پروردگار کی ذات جو عظمت و کرامت والی ہے باقی رہ جائے گی، سو اے جنّ و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ (۵۵: ۲۶ تا ۲۸)

۲۵۱

 

تاویل: ہر سیّارے اور ستارے پر (سوائے سورج کے) البتہ کسی نہ کسی وقت بھرپور آبادی ہوتی ہے یا لطیف جسمانیّت میں مخلوقات رہتی ہیں، اور جب وقت آتا ہے تو سب لوگ فنا ہو جاتے ہیں، مگر یہاں جس فنا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ہے، کیونکہ اس سورہ میں پروردگارِ عالم نے اکثر اپنے بڑے بڑے احسانات کا تذکرہ فرمایا ہے، پس ہر دنیا والوں کا مقررہ وقت پر فنا ہو جانا یہ ہے کہ وہ جسمِ کثیف سے جسمِ لطیف میں منتقل ہو جائیں گے اور پھر فنا فی اللہ اور بقا باللہ کی سب سے بڑی نعمت عطا ہوگی، لیکن اس عظیم واقعہ سے قبل بہت سے لوگ جہالت و نادانی کی موت مرچکے ہوں گے۔

تنزیل نمبر ۱۴: جتنے لوگ سارے آسمان و زمین میں ہیں (سب) اسی سے مانگتے ہیں، وہ ہر روز (یعنی ہر وقت) کسی نہ کسی شان میں رہتا ہے، سو اے جنّ و انس تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤگے۔ (۵۵:  ۲۹ تا ۳۰)

تاویل: روحانیّت کے آسمان و زمین میں اور مادیّت کی بلندی و پستی میں جتنی مخلوقات موجود ہیں، وہ سب اُسی پروردگار سے اپنی حاجتیں طلب کرتی ہیں، وہ ہر دور میں اور ہر وقت کسی ایک

 

۲۵۲

 

شان میں ہوتا ہے، یعنی اس کی صفات کے مختلف ظہورات میں سے کوئی ظہور ہوتا ہے۔

تنزیل نمبر ۱۵: اے جنّ و انس ہم عنقریب تمہارے لئے فارغ ہو جاتے ہیں، سو اے دو گروہ تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ (۵۵: ۳۱ تا ۳۲)
تاویل: اللہ تعالیٰ کے فارغ ہو جانے کی تاویل دورِ روحانیّت کا آنا ہے، کہ اس میں سب لوگ روحانی طاقت کے گھیرے میں ہوں گے۔

تنزیل نمبر ۱۶: اے جنّ اور انسان کے گروہ اگر تم سے ہو سکتا ہے کہ آسمان اور زمین کے حدود سے باہر نکل جاؤ تو نکلو مگر زور کے بغیر نہیں نکل سکتے، پس تم جنّ و انس اپنے پروردگار کی کس کس نعمت سے انکار کرو گے۔ (۵۵: ۳۳ تا ۳۴)
تاویل: یہ اشارہ ہے کہ زمان و مکان کے تصوّر کی قید و پابندی سے نکل جانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، مگر علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے زور سے اور سخت عبادت و ریاضت اور گریہ و زاری کے وسیلے سے، نیز اشارہ ہے کہ “سلطان” کے بغیر یعنی اس کے دنیا میں آنے سے پیشتر ظاہراً و باطناً عالمِ بالا تک

 

۲۵۳

 

پہنچ جانا ممکن نہیں۔

تنزیل نمبر ۱۷: تم دونوں پر آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑا جائے گا، پھر (اس کو) تم نہ ہٹا سکو گے، سو اے جنّ و انس تم اپنے ربّ کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ (۵۵: ۳۵ تا ۳۶)
تاویل: روحانیّت کی بلندیوں کی طرف نہ جا سکنے کے دو سبب ہوتے ہیں، یا تو ابتدائی قسم کی جو تیز روشنی ہے وہ ہمیشہ سامنے آتی رہتی ہے جس سے دل کی آنکھ خیرہ ہو جاتی ہے یعنی اس میں چکا چوندھی آتی ہے، جس کی وجہ سے انسان آگے نہیں بڑھ سکتا، یا باطن میں بالکل اندھیرا ہی اندھیرا رہتا ہے، جیسے دھوئیں کا طوفان اٹھا ہو۔

تنزیل نمبر ۱۸: پھر جب آسمان پھٹ کر تیل کی طرح لال ہو جائے گا، تو تم دونوں اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں سے مکرو گے، تو اس دن نہ تو کسی انسان سے اس کے گناہ کے بارے میں پوچھا جائے گا اور نہ کسی جنّ سے تم دونوں اپنے مالک کی کس کس نعمت کی ناشناسی کرو گے۔ (۵۵: ۳۷ تا ۳۹)
تاویل: انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی حالت میں جب بھی قیامت برپا ہو، تو اس وقت انسان کے تصوّر کے سامنے سے

 

۲۵۴

 

روحانیّت کے بہت سے پردے ہٹا دئے جاتے ہیں، اور آسمان کے پھٹ جانے کے معنی یہی ہیں، اُس وقت دیدۂ دل کے سامنے جو روشنی آتی ہے اس کا رنگ مذکورہ نشاندہی کے مطابق سرخ ہوتا ہے۔

تنزیل نمبر ۱۹: تو اُس روز کسی انسان اور جن سے اُس کے جرم کے متعلق نہ پوچھا جائے گا، سو اے جنّ و انس تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے، گنہگار لوگ تو اپنے چہروں ہی سے پہچان لئے جائیں گے، سو (ان کے) سر کے بال اور پاؤں پکڑ لئے جائیں گے، سو اے جنّ و انس تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے۔ (۵۵: ۳۹ تا ۴۲)
تاویل: یعنی جب روحانی دور آئے گا، تو اس میں روحانی کیفیت جنّ و انس کے ہر فرد پر اس کے اعمال کے مطابق گزرے گی، اور ہر کام خود بخود جاری ہوگا، یہاں سر کے بال سے ظاہری اور باطنی حواس مراد ہیں اور قدموں کے معنی ہیں خیالات و عبادت کہ ان کے ذریعے ذہنی طور پر چلا جاتا ہے، چنانچہ روحانیّت جب بھی کسی پر مسلط ہو جاتی ہے تو وہ حواسِ ظاہر و باطن اور خیالات و افکار اور عبادات و اذکار کو اپنی گرفت میں لے کر مسلط ہو جاتی ہے۔

تنزیل نمبر۲۰: یہی وہ جہنم ہے جسے مجرم لوگ جھٹلایا کرتے تھے، یہ لوگ دوزخ اور حد درجہ کھولتے ہوئے پانی کے درمیان

 

۲۵۵

 

چکر لگاتے پھریں گے، پس تم دونوں اپنے ربّ کی کن کن نعمتوں سے انکار کرو گے۔ (۵۵: ۴۳ تا ۴۵)
تاویل: یعنی غیرمانوس، تکلیف دہ اور سخت قسم کی روحانیّت ان کے لئے جہنم ہے، اور وہ روحانی باتیں جو کسی کو فنا کر دینے کے لئے مقرر ہیں گرم پانی ہیں۔

۲۵۶

سورۂ دہر (۷۶) کی چند حکمتیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حکمت نمبر ۱: کیا انسان پر دہر میں سے وہ وقت آیا ہے جس میں کہ وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا (۷۶: ۰۱)۔۔۔ یعنی انسان کی “انا” ازل میں بغیر کسی شے کے اور بغیر کسی نام و نشان کے تھی اور آگے چل کر پھر یہی حال اُس پر گزرنے والا ہے ۔۔۔ یہاں اشارہ فرمایا گیا ہے کہ انسان شے اور لا شے اور صفت اور لاصفت کے دائرے پر گردش کر رہا ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ وہ ہستی اور نیستی کے دن رات سے گزرتا رہتا ہے۔

حکمت نمبر ۲: ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا کہ اسے آزمائیں تو ہم نے اسے سنتا دیکھتا بنایا (۷۶: ۰۲)۔۔۔ یعنی جس طرح مرد عورت دونوں کے نطفے سے مل کر انسان پیدا ہوتا ہے، اسی طرح انسانی حقیقت بقا و فنا یعنی ہستی اور نیستی پر مشتمل ہے ۔۔۔ یہاں یہ بھی سوچنا

 

۲۵۷

 

ہے کہ حضرت آدمؑ اور حضرت عیسیٰؑ بھی اس عمومی حکم کے تحت ہیں یا نہیں؟ جبکہ انسان کے نام سے کوئی فردِ بشر باہر نہیں ہو سکتا۔

حکمت نمبر ۳: ہم نے اس کو (خیر کا بھی اور شر کا بھی) راستہ دکھا دیا خواہ وہ شکرگزار ہو خواہ ناشکرا(۷۶: ۰۳) (یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو ہادئ برحق کو خیر کا وسیلہ قرار دیا اور دوسری طرف مضل یعنی گمراہ کن = شیطان کو شر کا ذریعہ بنایا)۔

حکمت نمبر ۴: ہم نے کافروں کے لئے زنجیریں، طوق اور دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے (۷۶: ۰۴) (یعنی غلط روایات، کورانہ تقلید اور جہالت)۔

حکمت نمبر ۵: بے شک نیکوکار لوگ شراب کے وہ ساغر پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی (۷۶: ۰۵) (یعنی نہ صرف آخرت میں بلکہ دنیا میں بھی اُن پر حقیقی عشق کی کیفیت طاری ہوگی، اور ایسی پاک شراب میں کافور کی آمیزش کی تاویل ہے حقیقی محبت کا وہ خاصہ جو دل و دماغ کو منوّر اور گناہ کو دور کر دینے سے متعلق ہے، جیسے لفظِ کافور سے ظاہر ہے کہ اس کے معنی چھپانا اور دور کر دینا۔

حکمت نمبر۶: ایک چشمہ ہے جس میں خدا کے (خاص) بندے پئیں گے اور جہاں چاہیں گے بہا لے جائیں گے (۷۶: ۰۶) (یعنی علمِ روحانی جس کا سرچشمہ ایک پاک کلمے کے اندر ہے جس کا ذکر سورۂ

 

۲۵۸

 

ابراہیم میں بھی ہے، یہ پاک کلمہ اپنی معنوی امکانیّت میں ہموار میدان کے چشمے کی طرح ہے، کہ اس کا پانی جس جانب کو بھی چاہیں بہا کر لے جا سکتے ہیں)۔

حکمت نمبر ۷: یہ وہ لوگ ہیں جو نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے جس کی سختی ہر طرف پھیلی ہوگی ڈرتے ہیں۔ (۷۶: ۰۷) (یعنی وہ مزید اور خصوصی عبادات اور خوفِ آخرت کو اپنا شیوہ بناتے ہیں، نذر کے معنی ہیں کسی حادثہ کی وجہ سے غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کر لینا، یعنی ایسی عبادات اپنے اوپر لازم کر لینا جو عام سطح سے بلند ہیں)۔

حکمت نمبر ۸: اور اس (اللہ) کی محبت میں مسکین اور یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں (۷۶: ۰۸)  (قرآن کی ۰۳: ۳۱ کے بموجب خدا کی دوستی و محبت کی شرط رسول اللہ کی پیروی ہے، لہٰذا ظاہر ہے کہ جن حضرات کی یہاں تعریف و توصیف ہو رہی ہے اُن میں یہ شرط پوری ہے، وہ اہلِ بیتِ رسول اور حقیقی مومنین ہیں، یہاں یہ اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اہلِ ایمان کی ہر ہر نیکی حقیقی عشق سے ہونی چاہئے)۔

حکمت نمبر ۹: (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو تم کو بس خالص خدا کے لئے کھلاتے ہیں ہم نہ تم سے بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ

 

۲۵۹

 

شکرگزاری کے (۷۶: ۰۹)  (لوجہ اللہ کا مطلب خدا کے دیدار کی خاطر بھی ہو سکتا ہے جو مومن کا مقصدِ اعلیٰ ہے اور محبتِ خداوندی سے اس کا تعلق ہے)۔

حکمت نمبر ۱۰: ہم کو تو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر ہے جس میں منہ بن جائیں گے (اور) چہرے پر ہوائیاں اڑتی ہوں گی (۷۶: ۱۰) (یعنی قیامت کی ہولناکی اور سختی کی وجہ سے)۔

حکمت نمبر ۱۱: تو خدا انہیں اس دن کی تکلیف سے بچا لے گا اور ان کو تازگی اور خوش دلی عطا فرمائے گا (۷۶: ۱۱) (یعنی مذہبی زندگی کی کامیابی اور اس کے اجر و صلہ سے بے پناہ خوشی حاصل ہوگی)۔

حکمت نمبر ۱۲: اور ان کے صبر کے بدلے جنّت اور ریشم (کی پوشاک) عطا فرمائے گا (۷۶: ۱۲) (صبر کا مطلب ہے ظاہراً و باطناً دینی امور کی انجام دہی کے سلسلے میں ہر طرح کی تکلیف برداشت کرنا، جنت دو قسم کی ہے جزوی اور کلّی، جزوی جنت اس دنیا میں روحانیّت کا مشاہدہ ہے، اور کلّی جنّت موت کے بعد عالمِ روحانیّت کی کامیاب زندگی ہے، جب حقیقی مومنین جزوی جنّت میں اپنی روحوں کے جمال و جلال کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ان کو انتہائی حیرت اور بے حد خوشی ہوتی ہے کہ ان کی روحیں اللہ تعالیٰ کے نورِ مقدّس کے رنگ میں رنگی ہوئی ہوتی ہیں، اور ان کی لطیف شخصیّت کا جلوۂ حسن یوں نظر

 

۲۶۰

 

آتا ہے جیسے وہ ریشمی نمونے کے نورانی لباس میں ملبوس ہوں)۔

حکمت نمبر ۱۳: وہاں وہ تختوں پر تکئے لگائے (بیٹھے) ہوں گے نہ وہاں (آفتاب کی) دھوپ دیکھیں گے اور نہ شدت کی سردی (۷۶: ۱۳) (تختوں کا مطلب ہے اسمائے الٰہی اور کلماتِ تامّات جن کے ساتھ مومنین کا خیال و شعور وابستہ ہوگا انہیں از خود سوچنے اور کسی طرح کی تکلیف کرنے کی ضرورت نہ ہوگی بلکہ اُن اسماء اور کلمات کا نور ان کی خودی اور علمی تحلیل کا کام انجام دے گا، دھوپ اور سردی وہاں نہ ہونے کے معنی ہیں کہ وہ راحت دراصل روحانی قسم کی ہے مادّی قسم کی نہیں)۔

حکمت نمبر ۱۴: اور گھنے درختوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے اور میوؤں کے گچھے ان کے بہت قریب ہر طرح ان کے اختیار میں (۷۶: ۱۴)  (یعنی حدودِ دین کے فیوض و برکات گھنے درختوں کے سائے ہیں اور تائیدی علم و حکمت میوے ہیں)۔

حکمت نمبر ۱۵: اور ان کے سامنے چاندی کے ساغر اور شیشے کے نہایت شفاف گلاس کا دور چل رہا ہو گا (۷۶: ۱۵) (بہشت کی شراب کے لئے چاندی کے ساغر اور شیشے کے گلاس ہونے کی تاویل ہے کہ حقیقی عشق کا ظہور انتہائی پاک و پاکیزہ تجلّیات سے ہوگا جو درجۂ اساس اور درجۂ امام سے متعلق ہیں)۔

۲۶۱

حکمت نمبر ۱۶: اور شیشے بھی (کانچ کے نہیں) چاندی کے جو ٹھیک اندازے کے مطابق بنائے گئے ہیں (۷۶: ۱۶) (یعنی ظہوراتِ لطائفِ تاویلی، یاد رہے کہ سونا ناطق کی مثال ہے، چاندی اساس کی اور شیشہ امام کی مثال ہے)۔

حکمت نمبر ۱۷: اور وہاں انہیں ایسی شراب پلائی جائے گی جس میں زنجبیل کی آمیزش ہوگی (۷۶: ۱۷) (یعنی ایسی مسرت و شادمانی جس کی بنیاد علمِ باطن اور معرفت کے بھیدوں پر ہے جیسی زنجبیل خوشبودار جڑیں ہیں اور جڑیں زمین کے باطن میں پوشیدہ ہوتی ہیں)۔

حکمت نمبر ۱۸: یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے (۷۶: ۱۸) (یعنی ہادئ برحق کا نور، جیسے “سل” معنی پوچھ اور “سبیل” معنی راستہ۔ سل + سبیل =سلسبیل (راستے سے پوچھ) یعنی ہادئ برحق سے ہدایت حاصل کر کہ وہی صراطِ مستقیم یعنی زندہ راہِ خدا ہے)۔

حکمت نمبر ۱۹: اور ان کے سامنے ہمیشہ ایک حالت پر رہنے والے نوجوان لڑکے چکر لگاتے ہوں گے جب تم ان کو دیکھو تو سمجھو کہ بکھرے ہوئے موتی ہیں (۷۶: ۱۹) (یعنی نہ صرف جسمِ لطیف کے ذرات میں بلکہ تصوّراتی تجلّیات میں بھی اور ابدی جنت میں بھی)۔

۲۶۲

حکمت نمبر۲۰: جب تم (یہاں) دیکھو گے پھر (وہاں بھی) دیکھو گے نعمت اور عظیم الشّان سلطنت (۷۶: ۲۰)  (یعنی جنّت کا نمونہ دنیا میں روح کی شناخت ہے پھر موت کے بعد جنّت کی نعمتیں ہیں اور اخیر میں روحانیّت کی عظیم سلطنت ہے)۔

حکمت نمبر۲۱: ان جنتیوں پر باریک ریشم کے کپڑے ہوں گے اور دبیز ریشم کے کپڑے بھی اور ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا (۷۶: ۲۱) (ریشمی لباس سے روح کی نورانی تجلّیات مراد ہیں، چاندی کے کنگن دائرۂ لا انتہائی کا علم ہے اور ربّ کا ساقی ہونا کلامِ الٰہی اور دیدارِ خداوندی کی مسرّت و شادمانی ہے)۔

حکمت نمبر۲۲: یہ یقیناً تمہارے لئے ہو گا  (تمہاری کارگزاریوں کے) صلہ میں اور تمہاری کوشش قابلِ شکرگزاری ہے (۷۶: ۲۲) (یہ ساری تعریف اہلِ بیتِ رسول کی شان میں ہے، اور انہی حضرات کے طفیل سے اوروں کو بھی اس سے حصہ مل سکتا ہے)۔

حکمت نمبر ۲۳: (اے رسول) ہم نے آپ پر قرآن کو رفتہ رفتہ نازل کیا (۷۶: ۲۳)  (یعنی تقریباً ۲۲ سال، ۵ ماہ اور ۱۴ دن کے عرصے میں قرآن کی تنزیل ہوتی رہی اور قیامت کے آخر تک

 

۲۶۳

 

اس کی تاویل آنے کا سلسلہ جاری رہے گا)۔

حکمت نمبر۲۴: تو آپ اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کیجئے اور ان لوگوں میں سے گنہگار اور ناشکرے کی پیروی نہ کرنا (۷۶: ۲۴) (ظاہر ہے کہ ربّانی ہدایت و فیصلہ کے لئے انتظار بھی کرنا پڑتا ہے مگر ہرگز گنہگار اور کافر کی بات نہیں ماننی چاہئے)۔

حکمت نمبر ۲۵: اور صبح و شام آپ اپنے پروردگار کا نام لیتے رہیں (۷۶: ۲۵)  (پروردگار کے نام کے ذکر کو تو ہر وقت کرنا چاہئے مگر یہاں صبح و شام کو ترجیح دی گئی کیونکہ زیادہ اہمیّت اور فضیلت صبح و شام کی عبادت کی ہے یہ البتہ عام مومنین کے لحاظ سے ہے)۔

حکمت نمبر۲۶: اور کچھ رات میں سے اس کا سجدہ کرو اور لمبی رات تک اس کی تسبیح کرتے رہو (۷۶: ۲۶)  (سجدہ کو رات میں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ سجدہ اکثر گریہ و زاری کا نتیجہ ہوتا ہے اور گریہ و زاری کا بہترین وقت رات ہے تاکہ خلوت و تنہائی میں مناجات ہوسکے، اور لمبی رات تسبیح کرنے کا مطلب ہے پوری رات عبادت کرنا نیز اُس رات عبادت کرنا جو سال میں سب سے لمبی ہوتی ہے، اس رات کو فارسی میں شبِ یلدا کہتے ہیں، جو

 

۲۶۴

 

موسمِ خزان کی آخری رات اور موسمِ سرما کی پہلی رات ہوتی ہے، جب سورج برج جدی میں داخل ہونے کو ہوتا ہے یعنی ۳۰ دسمبر کی رات)۔

حکمت نمبر ۲۷: بے شک یہ لوگ فوری زندگی کو پسند کرتے ہیں اور بڑے بھاری دن کو اپنے پسِ پشت چھوڑتے ہیں (۷۶: ۲۷) (یعنی دنیاوی زندگی کو ترجیح دے کر آخرت کے کام کو نظر انداز کرتے ہیں)۔

حکمت نمبر ۲۸: ہم نے ان کو پیدا کیا اور ان کے اعضاء کو مضبوط بنایا اور اگر ہم چاہیں تو ان کے بدلے ان ہی کے ایسے لوگ لے آئیں (۷۶: ۲۸)  (یہاں تبدلِ امثال کا ذکر ہے وہ انسان کی جزوی تبدیلی بھی ہے جو ذرات کے بدل جانے سے بنتی ہے، اس کی مراد جسمِ مثالی بھی ہے اور اس کا مطلب ایک قوم کی جگہ پر دوسری قوم کا آنا بھی ہے)۔

حکمت نمبر ۲۹: بے شک یہ قرآن سراسر نصیحت ہے تو جو شخص چاہے اپنے پروردگار کی راہ لے (۷۶: ۲۹) (یعنی قرآن میں ہر سطح کے لئے ہدایت و نصیحت ہے جو کوئی چاہے اپنے پروردگار سے جا مل سکتا ہے)۔

حکمت نمبر۳۰: اور تم کچھ چاہتے ہی نہیں مگر وہی جو اللہ چاہتا ہے بے شک خدا بڑا جاننے والا اور نہایت حکمت والا ہے (۷۶: ۳۰) (یعنی تمہارا چاہنا بھی اللہ کے چاہنے کے تحت ہے)۔

۲۶۵

حکمت نمبر ۳۱: جس کو چاہے اپنی رحمت میں داخل کرے اور ظالموں کے واسطے اُس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے (۷۶: ۳۱) (اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیاوی اور دینی زندگی میں کچھ لوگ تو خدا کی رحمت کے اندر ہیں اور کچھ اس کے باہر، اور یہ رحمت حقیقی مہر و محبت ہی ہے پس حقیقی محبت سب کچھ ہے)۔

۲۶۶

حدیث کی چند حکمتیں
حدیثِ مماثلتِ ہارونی

بحوالۂ کتاب “مفتاح کنوز السنۃ” صفحہ ۳۵۲، شائع کردہ سہیل اکیڈمی لاہور۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن الترمذی، سنن ابنِ ماجہ، طبقاتِ ابنِ سعد، مسندِ احمد بن حنبل اور مسند الطیاسی میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السّلام سے فرمایا:
اما ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ
ترجمہ: کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو، کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسا کہ حضرت ہارون کا حضرت موسیٰ کے پاس تھا۔ یہ ارشاد اُس موقع پر فرمایا گیا جب کہ حضورؐ غزوۂ تبوک کے لئے تشریف لے جانے لگے اور حضرت علیؑ کو مدینۂ منورہ میں خلیفہ مقرر کرگئے تو علی علیہ السّلام نے کہا کہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جاتے ہیں۔

 

۲۶۷

 

چنانچہ ہم ذیل میں اللہ تعالیٰ کی توفیق و یاری سے اس حدیثِ شریف کی چند حکمتیں بیان کرتے ہیں:

حکمت نمبر۱: یہ انتہائی جامع قسم کی حدیث ہے، کیونکہ اس ارشاد کے بموجب قرآنِ حکیم کی وہ تمام آیات مولانا علی علیہ السّلام کے اوصاف سے بھی متعلق ہو جاتی ہیں، جو حضرت ہارون علیہ السّلام کے بارے میں ہیں، جبکہ علیؑ زمانے کے ہارونؑ ہیں سوائے نبوّت کے کہ حضورؐ کے بعد کوئی نبی نہیں۔

حکمت نمبر۲: خدائے برتر کا ارشاد ہے کہ:
و قال موسیٰ لاخیہ ہارون اخلفنی فی قومی و اصلح ۔ ۰۷: ۱۴۲۔
یعنی موسیٰؑ نے (کوہِ طور کی طرف) چلتے ہوئے اپنے بھائی ہارونؑ سے کہا کہ: میرے پیچھے تم میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور اصلاح کرتے رہنا (یعنی میری تنزیل کی تاویل بتاتے رہنا) یہاں سے معلوم ہوا کہ علیؑ نبیؐ کے برحق جانشین اور تاویل کے مالک ہیں۔

حکمت نمبر ۳: اور یقیناً ہم موسیٰؑ اور ہارونؑ کو فرقان اور روشنی اور ذکر عطا کر چکے ہیں متقی لوگوں کی بھلائی کے لئے (۲۱: ۴۸)۔ اس سے ظاہر ہے کہ آسمانی کتاب کی روحانیّت، نور اور ذکر میں علیؑ

 

۲۶۸

 

نبیؐ سے الگ نہ تھے بلکہ وہ دونوں حضرات ایسے باہم شریک تھے جیسے موسیٰؑ اور ہارونؑ۔

حکمت نمبر ۴: ارشاد ہے کہ: ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو وزیر (مددگار) کے طور پر لگایا (۲۵: ۳۵)۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جس طرح ہارون موسیٰؑ کے وزیر تھے، اسی طرح علیؑ آنحضرتؐ کے وزیر تھے، اور سب جانتے ہیں کہ کسی بادشاہ کا وزیر ایسا شخص ہو سکتا ہے جو نظامِ بادشاہت کے تمام بھیدوں کو خوب جانتا ہے، چنانچہ یہاں کتاب اور وزیر کا ایک ساتھ ذکر آیا ہے، جس کے یہ معنی ہیں کہ زمانے کا ہارونؑ آسمانی کتاب کی تاویلی بیان سے مومنین کی رہنمائی کرتے ہوئے پیغمبر کی مدد کرتا ہے۔

حکمت نمبر ۵: اور اُن سے اُن کے پیغمبر نے فرمایا کہ ان کے (یعنی طالوت کے خدا کی جانب سے) بادشاہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آ جاوے گا جس میں تسکین (اور برکت) کی چیز ہے تمہارے ربّ کی طرف سے اور بچی ہوئی چیزیں جن کو آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون چھوڑ گئے ہیں اس صندوق کو فرشتے لے آویں گے اس میں تم لوگوں کے واسطے نشانی (یعنی معجزہ) ہے

 

۲۶۹

 

اگر تم حقیقی مومن ہو (۰۲: ۲۴۸)۔

جاننا چاہئے کہ یہ اشارہ بھی زمانے کے امامؑ کی طرف ہے کہ وہی اللہ کی طرف سے روحانی سلطنت کے مالک ہیں اور انہی کی بدولت مومنین کو اسرارِ روحانیّت کا صندوق (جس میں معجزات اور طرح طرح کی برکتیں ہیں ) آ سکتا ہے، جس میں آلِ محمدؐ و اولادِ علیؑ کا علم و حکمت موجود ہے، کیونکہ مومنین کی تسکین علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے بغیر اور کسی چیز میں نہیں ہے۔

حکمت نمبر۶: اور ہم نے موسیٰؑ اور ہارونؑ پر احسان کیا اور ہم نے ان دونوں کو اور ان کی قوم کو بڑے غم سے نجات دی اور ہم نے ان سب کی مدد کی سو یہی لوگ غالب آئے اور ہم نے ان دونوں کو واضح کتاب دی اور ہم نے ان دونوں کو سیدھے راستہ پر قائم رکھا (۳۷: ۱۱۴ تا ۱۱۸)، اس سے ظاہر ہے کہ جو احسان آنحضرتؐ پر فرمایا گیا ہے وہ علیؑ پر بھی ہے اور آسمانی کتاب یعنی قرآن کا علم و حکمت صرف پیغمبر اور امام ہی کے وسیلے سے مل سکتی ہے۔

۲۷۰

قرآنِ پاک اسمِ اعظم میں

یہ نکتہ روشن حقیقتوں میں سے ہے کہ قرآنِ مقدّس کا مقصد و منشاء علم و حکمت اور رشد و ہدایت ہے، یعنی قرآنِ مجید دنیا میں اس لئے بھیجا گیا ہے کہ لوگ اس کے ذریعے خدا و رسول اور اولوالامر کی اطاعت کریں، تاکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو جس میں جسم و جان کی سلامتی اور دونوں جہان کی صلاح و فلاح پوشیدہ ہے۔

آپ فراخدلی سے سوچیں کہ آیا قرآن کلامِ الٰہی ہونے کی حیثیت سے محدود ہونا چاہئے یا غیر محدود؟ اس سوال کا تسلی بخش جواب آپ کو سورۂ لقمان (۳۱) کی آیت نمبر ۲۷ (۳۱: ۲۷) اور سورۂ کہف (۱۸) کی آیت نمبر ۱۰۹ (۱۸: ۱۰۹) سے ملے گا، نیز آپ خوب سوچ کر یہ بتائیں کہ جو کچھ خدا تعالیٰ کے پاس سے آیا وہ کبھی ختم ہو جاتا ہے، مثلاً قرآن، جو اس ظاہری دنیا میں نازل ہوا ہے؟ کیا یہ اب اللہ کے حضور میں بالکل اُسی طرح موجود نہیں، جیسے یہ ازل میں تھا؟ اس بارے میں قرآنِ کریم کا ارشاد تو یہ ہے کہ جو کچھ انسان کے پاس ہے وہ تو ختم

 

۲۷۱

 

ہو جاتا ہے، اور جو کچھ خدا کے پاس ہے وہ باقی رہتا ہے (۱۶: ۹۶) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگرچہ قرآنِ مقدّس کا نورانی ظہور سب سے پہلے قلمِ الٰہی کی صورت میں “امرِ کن” سے ہوا، لیکن اس کے باوجود کلمۂ کُنۡ یعنی امرِ کلّ میں قرآن کی امری کیفیت و اصلیت ویسی کی ویسی باقی و برقرار تھی، کیونکہ امرِ باری تعالیٰ ازلی و ابدی طور پر ممکنات کا سرچشمہ ہے، جو اشیائے ممکنہ سے کبھی خالی نہیں ہوتا۔

پھر قلمِ الٰہی کے ذریعے قرآنِ مجید لوحِ محفوظ میں درج ہوا جیسا کہ اس مقام پر درج ہونا چاہئے، لیکن کوئی دانشمند ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب قلمِ قدرت میں قرآن نہیں رہا، اس وجہ سے کہ وہ لوحِ محفوظ میں نازل ہوا ہے، اہلِ دانش کے تصوّر کے مطابق قلمِ الٰہی کی ذات میں قرآن بلا کم و کاست اس معنیٰ میں موجود ہے کہ وہ قلم عقلی وجود رکھتا ہے، یعنی وہ عقلِ کلّی ہے، اور جب عقل کے سرچشمے سے کوئی چیز خارج ہوجاتی ہے تو اس کی کیفیت مادیّت کے برعکس ہوتی ہے، یعنی اس کی جگہ خالی نہیں ہوتی، بلکہ وہی چیز اصلاً وہاں پر بھی موجود ہوتی ہے، عقلِ کلّ کی مثال قلم سے اس لئے دی گئی ہے کہ قلم میں لکھنے کی صفات کا جو خزانہ ہے وہ خرچ ہوتے ہوئے بھی کم نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ قلم سے جو کچھ لکھا جائے وہی اگر چاہیں تو ہزار

 

۲۷۲

 

بار بھی لکھا جا سکتا ہے، اس مثال سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ قرآنِ پاک نہ صرف اس ظاہری دنیا میں موجود ہے، بلکہ یہ کلمۂ کُنۡ، قلمِ الٰہی اور لوحِ محفوظ میں بھی ہے۔

قرآنِ حکیم کی امری کیفیت و حقیقت اور عقلی وجود کے بیان کے بعد اس کی روحانی تحریر کا ذکر آتا ہے، جو لوحِ محفوظ میں ہے، اور اس کے لئے سورۂ بروج (۸۵) کی ان دو پُرحکمت آیتوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ:
بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ۔ ۸۵: ۲۱۔ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۔ ۸۵: ۲۲۔
بلکہ وہ ایک باعظمت قرآن ہے جو لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔

ظاہر ہے کہ قرآن لوحِ محفوظ میں روح اور روحانیّت کے طور پر درج ہے نہ کہ ظاہری اور مادّی تحریر میں، کیونکہ لوحِ محفوظ نفسِ کلّی ہے، چنانچہ اس مقام پر ہم قرآن کے اس روحانی وجود کو روحانی تحریر بھی کہہ سکتے ہیں، بہرحال یہ حقیقت تو واضح ہوگئی کہ قرآن روحانی طور پر لوحِ محفوظ میں ہمیشہ کے لئے موجود ہے، جبکہ لوحِ محفوظ کا مطلب کائناتی روح کا تختہ ہے، جس کے اندر نہ صرف قرآنِ مجید ہمیشہ کے لئے محفوظ ہے، بلکہ اس میں ہر چیز کی دائمی نگہداشت

 

۲۷۳

 

کی گئی ہے۔

اگر آپ کو اس امرِ واقعی کے بارے میں سوال ہو کہ کس طرح قرآنی آیات کائناتی روح میں مکتوب و محفوظ ہیں، تو سورہ نمبر ۴۱ کی آیت نمبر ۵۳ میں ذرا غور و فکر کیجئے، جس کا مفہوم و مطلب یہ ہے کہ اس وسیع کائنات میں بھی اور نفوسِ انسانی میں بھی اللہ تعالیٰ کی آیات پوشیدہ ہیں جن کو عوام الناس دیکھ نہیں سکتے، لیکن اس کے باوجود ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے، کہ اس میں خدا ان کو اپنی یہ نشانیاں دکھا دے گا، اس سے ثابت ہوا کہ کائنات کے ظاہر و باطن میں اور خود انسان کی ذات میں ربِّ کریم کی آیات (نشانیاں) درج ہیں، مگر خدائی تحریر انسانوں کی تحریر سے بالکل مختلف اور انتہائی اعلیٰ ہے، اور یہ بھی جاننا چاہئے کہ خداوند تعالیٰ کی تمام آیات، خواہ وہ آفاق میں ہوں یا انفس میں، قرآن ہیں، اگرچہ وہ آیات نشانیوں کے معنی میں ہوں یا زندہ معجزات کے معنی میں، جبکہ قرآن نشانۂ الٰہی بھی ہے اور معجزۂ قدرت بھی، یہ ایک واضح ثبوت ہے جو لوحِ محفوظ میں قرآنِ مجید کی روحانی تحریر کے بارے میں پیش کیا گیا۔

مزید برآن یہاں پر ایک عام فہم مثال بھی درج کی جاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب ایک دانشور کوئی کتاب تصنیف کرتا ہے، تو وہ کتاب زمانۂ قدیم کی صورتِ حال کے مطابق بیک وقت کم سے کم چار

 

۲۷۴

 

مقامات پر موجود ہوتی ہے، یعنی دانشور کے دل و دماغ میں بھی، قلم میں بھی، دوات میں بھی اور کتاب کے صفحات پر بھی، ہر چند کہ کتاب کی شکل و صورت ان چاروں مراحل میں مختلف ہوتی ہے، چنانچہ کتاب مصنف کے دل و دماغ میں الگ الگ درجات کے افکار و خیالات کی حیثیت سے ہے، قلم میں حروف سے متعلق طرح طرح کی حرکات کی صورت میں ہے، دوات میں نقاطِ علم و حکمت کی وحدت کے طور پر ہے اور صفحات پر معین حروف کی شکل میں پھیلی ہوئی ہے، سو اگر کوئی جلالی فرشتہ کتاب کی تکمیل سے پہلے یا اس کے بعد نورِ خداوندی کی روشنی میں دانشور کے ذہن و ضمیر پر نظر ڈالے تو اس کو فکری صورت میں وہی کتاب ملے گی جو خارجی طور پر معرضِ وجود میں آنے والی ہے یا وجود میں آچکی ہے، اسی طرح وہ قلم کی تمام حرکتوں کا بھی روحانی اور علمی مشاہدہ کر کے پوری کتاب کی باتیں بتا سکتا ہے، اور وہ خدا کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے سیاہی کے باطن سے بھی کتاب کی ساری تفصیلات پڑھ سکتا ہے، کہ کس طرح نقطۂ واحد نے۔۔۔۔ جو ہر بار دوات سے قلم کی نوک پر منتقل ہوتا رہا ۔۔۔۔۔ اپنے مختلف ظہورات کی بدولت سارے حروف کی تشکیل کی۔

مذکورۂ بالا چار صورتوں کے علاوہ دورِ جدید کی ایسی بہت سی

 

۲۷۵

 

حقیقتیں ہیں، جن کی مدد سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی کتاب نہ صرف ظاہری اور نمایان تحریر میں موجود ہو سکتی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کی اور بھی بہت سی صورتیں ہیں، جن میں سے بعض میں وہ بولتی ہے اور بعض میں خاموش ہے، مثلاً گراموفون کو لیجئے جس میں ریکارڈ ہونے کے بعد آپ چاہیں تو کتاب بولتی ہے ورنہ خاموش رہتی ہے، اور اس میں ایک طرح سے محفوظ بھی ہے، ٹیلیفون، وائرلیس اور ریڈیو پر غور کیجئے کہ آیا یہ چیزیں ایک قسم کی کتاب کا کام دے سکتی ہیں یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ ٹیپ ریکارڈ بھی کتاب کا کام دیتا ہے، سینما اور ٹیلی وژن تو روحانیّت کی زندہ کتاب کی ایک بہترین مثال ہیں، مائیکروفلم اور فِش فلم خود ایک قسم کی خاموش کتاب ہیں، لیکن یہ سب چیزیں بڑی عجیب و غریب ہونے کے باوجود ظاہری، مادّی اور دنیاوی ہیں، اور یہ سب کچھ ایسے خام و ناتمام انسانوں کی کوششوں کی پیداوار ہے، جو اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کے سامنے ہیچ ہیں، تو کیا پھر بھی ہم قلمِ قدرت اور لوحِ محفوظ کو مادّی اور انسان کی بنائی ہوئی چیزوں کی طرح عقل و جان کی صفاتِ عالیہ سے عاری سمجھیں؟ یا یہ کہ ہم قلم اور لوح کو دو عظیم فرشتے مانیں، جو عقلِ کلّی اور نفسِ کلّی اور محمدؐ و علیؑ کے نور ہیں؟ سو یہ حقیقت ہے کہ قلم نورِ محمدیؐ کا نام ہے اور

 

۲۷۶

 

لوحِ محفوظ نورِ علیؑ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قلم و لوح اور قرآن کی روح و روحانیّت کے متعلق علم الیقین حاصل کرنے کے لئے مذکورۂ بالا مادّی مثالوں سے بہت کچھ مدد مل سکتی ہے، لیکن یہاں یہ نکتہ بھی خوب یاد رہے کہ عقل و روح کی حقیقت اور مادّہ کی کیفیت کے درمیان آسمان زمین کا فرق پایا جاتا ہے، تاہم ظاہر سے باطن میں جانے کے لئے اور ادنیٰ کی مثال سے اعلیٰ کی حقیقت سمجھنے کے لئے یہی ایک راستہ ہے، تاکہ ہم قرآن کی روحانیّت و نورانیّت کی شناخت کے سلسلے میں علم الیقین سے عین الیقین کی طرف قدم بڑھا سکیں، جہاں پر کل حقیقتوں کا براہِ راست مشاہدہ ہوتا ہے، اور اسی طرح تمام عقلی اور روحانی چیزوں کو یقین کی آنکھ سے دیکھنے اور پہچاننے کا نام معرفت ہے، جس میں قرآن کے تمام درجات بھی شامل ہے، لیکن بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف خدا ہی کی پہچان معرفت ہے، اگر یہ بات مان لی جائے تو اس کے معنی یوں ہوں گے کہ ازل، ابد، لامکان، مکان، لازمان، زمان، قلم، لوح، روح، جنت، دوزخ اور کائنات و موجودات کی بقا و فنا کا مشاہدہ اور پہچان خدا کے دیدار اور معرفت سے زیادہ مشکل ہے، حالانکہ یہ تصوّر درست نہیں، اور

 

۲۷۷

 

درست یہی ہے جیسا کہ بتایا گیا کہ تمام معقولات کو عینِ یقین سے دیکھنے اور پہچاننے کا نام معرفت ہے۔

سورۂ زخرف کی آیت نمبر ۳ و نمبر ۴ کا ارشاد ہے کہ:
اِنَّا جَعَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ (۴۳: ۰۳)۔ وَ اِنَّهٗ فِیْۤ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَكِیْمٌ ۔ (۴۳: ۰۴)۔

ہم نے اس کو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ (اے عرب) تم (آسانی سے) سمجھ لو اور وہ ہمارے پاس ام الکتاب میں بڑا عالیقدر اور حکمت والا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ قرآن جہاں ام الکتاب میں خدا کے حضور میں ہے وہاں اس سے بھی زیادہ عالی شان اور پُرحکمت ہے، یعنی کہ وہ روحانی تحریر اور خدائی زبان میں ہے جو حکمتی زبان ہے، بالفاظِ دیگر وہ زندہ اور گویندہ ہے، اور قرآن جس سرزمین میں نازل ہوا وہاں عربی زبان میں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا پہلے سے یہی قانون رہا ہے کہ اُس نے ہر پیغمبر کو اس کی قوم کی زبان میں بھیجا ہے (۱۴: ۰۴) چنانچہ ظاہری اعتبار سے زمانۂ رسول کے عرب مسلمانوں کو مسلم قوم کی مرکز کی حیثیت حاصل ہے اور تمام مسلمان ایک ہی قوم ہیں اور ان کی قومی اور ملی لسان عربی ہے۔

حضرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ ام الکتاب ظاہر میں سورۂ فاتحہ کا نام ہے اور باطن میں ام الکتاب علیؑ ہیں، اور

 

۲۷۸

 

یہ دونوں حقیقتیں اپنی اپنی جگہ پر بجا اور صحیح و درست ہیں، لیکن یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ سورۂ الحمد کے احاطے میں جس قدر الفاظ سموئے ہیں وہ سب کے سب صرف اسی سورہ کے لئے ہیں اور باقی قرآن کا حصہ اس کے بعد سینکڑوں صفحات پر پھیلا ہوا ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم سورۂ فاتحہ میں تمام قرآن سمو جانے کا تصوّر کریں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح کسی درخت کے پھل کی گٹھلی میں مغز ہوتا ہے اور مغز میں ایک عظیم درخت پیدا کر دینے کی صلاحیت پنہان ہوتی ہے، اسی طرح ام الکتاب (سورۂ فاتحہ) میں معنوی طور پر پورا قرآن پوشیدہ ہے۔

نیز جس طرح سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۶۱ (۰۲: ۲۶۱) کی مثال ہے کہ ایک ہی دانۂ گندم سے سات خوشے اور ہر خوشہ میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں، اور اس حساب سے ایک ہی فصل میں ایک کے سات سو دانے بنتے ہیں، اور نتیجے کے طور پر اس میں اتنے اضافے کی گنجائش ہے کہ دنیا بھر کی کاشت کے لئے بیج کافی ہو جائیں، مگر اس کے لئے وقت چاہئے، اسی طرح لیکن کسی تاخیر کے بغیر ام الکتاب کے معنی میں ایک ساتھ تمام قرآن کے معانی سموئے ہوئے ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ سورۂ فاتحہ کے الفاظ اور مطالب اتنے جامع اور

 

۲۷۹

 

ایسے ہمہ گیر ہیں کہ اس میں قرآن کی ساری حقیقتیں اور حکمتیں سموئی ہوئی ہیں، اور یہ اللہ تعالیٰ کی سنت و عادت ہے کہ وہ اپنے کمالِ قدرت سے ایک پوری کائنات کو ایک انتہائی چھوٹی سی چیز میں سمو دیتا ہے، اور پھر چھوٹی سی چیز کو عالم کی بے پناہ وسعتوں کے برابر پھیلا دیتا ہے، جیسا کہ وہ ہمیشہ سے “کُنۡ” کے ایک ہی کلمے سے پوری کائنات کو پیدا کرتا ہے اور پھر تمام کائنات و موجودات کو ایک لطیف گوہر بنا کر اسی کلمۂ کن میں سمو دیتا ہے (۰۶: ۷۳)۔

یہاں تک اس موضوع کے سلسلے میں جو حقائق و معارف بیان ہوئے، ان سے صاف صاف ظاہر ہے کہ کلامِ الٰہی لامحدود ہے، اور اس کے کئی سرچشمے ہیں، چنانچہ قرآن کی امری کیفیت کلمۂ “کُنۡ” میں ہے، اس کی نورانی صورت اور عقلی وجود قلمِ الٰہی میں ہے، وہ روحانی طور پر لوحِ محفوظ میں ہے، جو نفسِ کلّی ہے، اس کا معنوی مغز ام الکتاب میں ہے اور قرآن اپنی تنزیلی شکل میں جیسا کہ ہونا چاہئے دنیا میں ظاہر ہے، اور یہ راز سوائے اہلِ حقیقت کے اور کوئی نہیں جانتا کہ امامِ مقیم حضرت مولانا ابو طالب علیہ السّلام نے آنحضورؐ کو اسمِ اعظم کی تعلیم دی تھی اور اسی ذریعے سے آنحضرتؐ اللہ تعالیٰ کا خصوصی ذکر کر لیا کرتے تھے، جس کے نتیجے میں آپ

 

۲۸۰

 

پر قرآن نازل ہوا جو شروع شروع میں قلم، لوح، اسرافیل، میکائیل اور جبرائیل کے توسط سے تھا۔

ہم اوپر بتا چکے ہیں کہ ظاہر میں سورۂ فاتحہ ام الکتاب ہے اور باطن میں مولانا مرتضیٰ علی علیہ السّلام ام الکتاب ہیں، کیونکہ امامِ مبین بھی اور لوحِ محفوظ بھی وہی ہیں، جبکہ نورِ نبوّت عقلِ کلّی ہے اور نورِ امامت نفسِ کلّی، اور جبکہ نورِ محمد عرشِ عظیم ہے اور نورِ علی کرسئ قدیم، پس معلوم ہوا کہ پروردگارِ عالم نے نورِ محمدی کے قلم سے نورِ علیؑ کی لوحِ محفوظ پر قرآنِ مجید ثبت کر دیا ہے، پھر قرآن بتدریج تنزیل و تاویل کی صورت میں آنحضرتؐ کی شخصیت پر نازل ہوا اور آنحضرتؐ نے اسمِ اعظم کی تعلیم کے ذریعے سے قرآن کی روح اور روحانیّت یعنی عملی تاویل کی حکمتوں کو اپنے برحق جانشین مولا علیؑ کے سپرد کر دی، اور یہ امرِ عظیم سلسلۂ امامت میں نسلاً بعد نسل جاری و باقی رہا، یعنی ہر امام نے اپنے جانشین امام کو اسمِ اعظم کے توسط سے قرآن کی روح (نور) روحانیّت، نورانیّت اور عملی تاویل سونپ دی، یہ سنت نہ صرف حضورِ انورؐ اور آپؐ کے جانشین أئمّۂ اطہار کی ہے، بلکہ اس سے پہلے حضرت ابراہیمؑ نے بھی اسی سنت کے مطابق عمل کیا تھا، چنانچہ

 

۲۸۱

 

ارشاد ہے:
وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ ۔ ۴۳: ۲۸۔
اور ابراہیم نے اُس (روحانیّت و نورانیّت) کو اپنی اولاد میں باقی رہنے والا کلمہ (یعنی اسمِ اعظم) قرار دیا تا کہ لوگ (اسمِ اعظم کی وجہ سے) رجوع کرتے رہیں، یہی قانون خدا تعالیٰ کی سنت ہے جو تمام پیغمبروں کے لئے مقرر ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ:
اور جبکہ اللہ تعالیٰ نے عہد لیا انبیاء سے کہ جو کچھ میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آوے جو تصدیق کرنے والا ہو گا اس کا جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اُس رسول پر باور کرنا اور اس کی مدد کرنا فرمایا کہ آیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا عہد قبول کیا وہ بولے ہم نے اقرار کیا ارشاد فرمایا پھر تم گواہ رہنا اور میں اس پر تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں ۔ ۰۳: ۸۱۔

اس ارشادِ مبارک سے ایک طرف تو اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ دورِ نبوّت میں انبیاء علیہم السّلام کا سلسلہ کلّی طور پر پیوستہ اور کسی انقطاع کے بغیر چلے آیا تھا اور دوسری طرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر پیغمبر نے اپنے بعد کے پیغمبر پر نہ صرف باور کیا بلکہ اسمِ اعظم کی تعلیم دے کر ہر طرح سے اس کی مدد بھی کی، اور اسی مقصد کے لئے خداوند تعالیٰ

 

۲۸۲

 

نے انبیاء علیہم السّلام سے عہد لیا تھا۔

پیغمبروں کو اسی اسمِ اعظم کے وسیلے سے نور و نورانیّت اور کتاب و حکمت حاصل ہوئی تھی، کیونکہ خدائے بزرگ و برتر اپنے اچھے اچھے ناموں کے وسیلے سے سنتا ہے اور عقل و روح کی تمام برکتیں اللہ تعالیٰ کے اسمِ اعظم میں پوشیدہ ہیں، جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ:
تَبٰرَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِی الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ۔ ۵۵: ۷۸۔
بڑا بابرکت نام ہے آپ کے پروردگار کا جو جلالت والا اور کرامت والا ہے۔ جاننا چاہئے کہ یہاں ربّ کے نام سے اسمِ اعظم مراد ہے، اور اس کے بابرکت ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ تمام ظاہری و باطنی برکتیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہیں اسمِ اعظم کے خزانوں سے ملا کرتی ہیں، اور انہی برکتوں میں حقیقی مومنین کے لئے آسمانی کتاب کا علم و حکمت بھی ہے، جس کے معنی ہیں قرآن کی پاک روح اور روحانیّت، یعنی عملی تاویل، چنانچہ سورۂ قمر (۵۴) کی آیت نمبر ۱۷، ۲۲، ۳۲ اور ۴۰ (۵۴: ۱۷، ۵۴: ۲۲، ۵۴: ۳۲، ۵۴: ۴۰) میں اللہ تعالیٰ کا تاکیدی فرمان ہے کہ: وَ لَقَدْ تَّرَكْنٰهَاۤ اٰیَةً فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۔ اور ہم نے قرآن کو ذکر و نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے سو کوئی یاد کرنے ولا ہے۔ قرآن کو ذکر و نصیحت

 

۲۸۳

 

کے لئے آسان بنا دینا یہ ہے کہ وہ مختصر سے مختصر ہوکر اسمِ اعظم میں سمویا ہوا ہے تاکہ حقیقی مومنین بآسانی اس کا ذکر کر لیا کریں، اور نتیجے کے طور پر اس کی روحانیّت سے قرآن کی زندہ اور منہ بولتی حقیقتیں سامنے آئیں اور یہی قرآن کی حکمت اور عملی تاویل ہے۔

حق تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو جو علمِ اسماء عطا کیا تھا، وہ دراصل اسمِ اعظم کے نتائج و ثمرات کی شکل میں تھا، اور آدم علیہ السّلام نے ناموں کے متعلق فرشتوں کو جو آگہی دی تھی وہ بھی کوئی ظاہری تعلیم نہیں تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے بزرگ ہی کی تعلیم تھی، جو حضرت آدمؑ کی آسمانی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔

دورِ نبوّت میں زمانے کا پیغمبر ہی خدا تعالیٰ کے نورانی اسمِ اعظم کی حیثیت سے ہوتا ہے، اور دورِ امامت میں امام وقتؑ یہی مرتبہ رکھتا ہے، اور حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام میں سے ہر ایک اپنے وقت کے بعض حقیقی مومنوں کو کوئی لفظی اسمِ اعظم عطا کر دیتا ہے، اور اس سلسلے میں جب ایسے مومنین کی ترقی اور کامیابی ہوتی ہے تو انہیں روحانیّت کے مختلف ذرائع سے قرآنی علم و حکمت کا فیضان حاصل ہونے لگتا ہے، بزرگارنِ دین نے حقائق و معارف کے جو موتی بکھیر دئے ہیں، وہ اسی اسمِ اعظم کی بدولت ہیں۔

۲۸۴

اسمِ اعظم خدا و رسول اور امامِ زمانؑ کا نور ہے، یہی نور قرآن کی روح اور روشنی ہے، یہی روح نورِ ہدایت اور نورِ ایمان ہے، یہی مومنین کا نور ہے، اور یہی سراجِ منیر (یعنی روشن چراغ) ہے، اسی سے اہلِ ایمان کی دنیائے دل روشن ہو جاتی ہے اور یہی نور کائنات کی بلندی و پستی کی روشنی ہے۔

جب اللہ تعالیٰ کے اسمِ بزرگ کی خصوصی عبادت و ریاضت میں کوئی بندۂ مومن اعلیٰ درجے پر کامیابی حاصل کرتا ہے، تو اس کے لئے رحمتِ خداوندی کے ابواب کشادہ ہو جاتے ہیں، مومن سے روح اور روحانیین کی مخاطبت ہوتی ہے ایک ایسی بے مثال کائنات جو روحانیّت اور نورانیت سے معمور ہے، جس کا ہر ذرہ اپنی ہزارگونہ جلوہ نمائی اور بے پناہ ضوفشانی سے دیدۂ دل کو خیرہ کر دیتی ہے، وہ شب و روز مومن کے سامنے رہتی ہے، وہ اس ظاہری اور مادّی دنیا کے برعکس ہے، کیونکہ اس کے چار عناصر عقل و جان اور تنزیل و تاویل کے ہیں، وہ ایک ایسی دنیا ہے جس کی ہر چیز ایک بولتی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے، کیوں نہ ہو جبکہ وہ عالمِ روحانیّت اور اسمِ اعظم کی نورانیّت ہے، اور جبکہ وہ قرآنی علم و حکمت کی جنت ہے۔

انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے نقشِ قدم پر مومن کی روحانی ترقی،

 

۲۸۵

 

جو اسمِ اعظم کے وسیلے سے ہوسکتی ہے، اس موضوع کی تفصیلات کے مطابق ہے جو بیان کی گئیں، لیکن میں نہیں کہہ سکتا ہوں کہ مجھ سے قرآنِ مقدّس اور اسمِ اعظم جیسی دو عظیم الشّان حقیقتوں کا حقِ تعریف و توصیف ادا ہو سکا۔

۲۸۶

ہمہ اوست
از دیوانِ شیخ فرید الدین عطار

۱۔ ہر چہ ہست اوست و ہر چہ اوست توی + او توی و تو اوست نیست دوی
ترجمہ: (وجود و ہستی میں) جو کچھ ہے وہ ہے اور جو کچھ وہ ہے تو ہے، پس وہ تو ہے اور تو وہ ہے کوئی دوئی نہیں۔
شرح: حضرت شیخ فرید الدین عطار علیہ رحمۃ فرماتے ہیں کہ اے طالبِ حقیقت! تیرا حقیقی معشوق عرصۂ امکان کی ہست و بود کا سب کچھ ہے اور جس طرح بحدِّ فعل وہ سب کچھ ہے اسی طرح بحدِّ قوّت تو سب کچھ ہے، کیونکہ کل جزو پر حاوی اور محیط ہے اور جزو کلّ میں شامل اور داخل ہے جب ان معنوں میں وہ تو ہے اور تو وہ ہے، تو پھر جاننا چاہئے کہ اس کے اور تیرے درمیان بحقیقت کوئی دوئی نہیں۔

۲۔ در حقیقت چو اوست جملہ تو ہیچ + تو مجازی دو بینی و شنوی
ترجمہ: جب حقیقت میں وہ سب کچھ ہے، تو تو کچھ بھی نہیں ، تو مجازی طور پر دو (۲) دیکھتا ہے اور سنتا ہے۔

۲۸۷

 

شرح: جب حقیقت و اصلیت میں یہ مانا گیا کہ ھوالکل (یعنی ہمہ اوست ، وہ سب کچھ ہے) کا نظریہ برحق ہے تو پھر حقیقتاً تو اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں، ہاں اگر تو اس کے ساتھ ایک ہو سکتا ہے، تو یہی صفت تیری بھی ہے، اور جس طرح تو خود کو اور مطلوبِ روحانی کو دو (۲) دیکھتا ہے یہ تو تیرا ظاہری اور مجازی مشاہدہ ہے۔

۳۔ کی رسی در وصالِ خود ہرگز +کہ تو پیوستہ در فراقِ خودی
ترجمہ: تو اپنے دیدار تک کب پہنچے گا! ہرگز نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ تو ہمیشہ اپنی جدائی میں گرفتار ہے۔
شرح: عطار فرماتے ہیں کہ تیرا حقیقی وجود یہ تو نہیں جو تو اس وقت رکھتا ہے بلکہ وہ محبوب خود ہی تیری اصلی خودی اور تیری ازلی روح ہے جس کا وصال تیرے لئے بہت ہی ضروری ہے۔ تجھ سے اس کی یہ جدائی دراصل تجھ کو اپنے آپ کی جدائی ہے، تو اپنے روحانی دیدار تک نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ تو مجاہدۂ نفس سے گریز کر کے اپنی اصلیت سے دور ہو جاتا ہے اور اپنی حقیقی روح کی جدائی میں مبتلا رہتا ہے۔

۴۔ زاں خبر نیست از تویِّ خودت +کہ تو تافوقِ عرش تو بتوی

۲۸۸

 

ترجمہ: تجھے اپنی خودی اور انا کی خبر اس لئے نہیں، کہ تو (زمین سے لے کر) عرشِ عظیم کے اوپر تک تہ بتہ اور پیچ در پیچ ہے۔
شرح: فرمایا جاتا ہے کہ تجھے اپنی خودی و ہستی سے واقفیت و آگہی اس لئے نہ ہو سکی ہے کہ تیرے کلی وجود کے اجزاء زمین سے لے کر بالائے عرشِ عظیم تک اس طرح درہم برہم اور پیچ در پیچ ہیں کہ ان کی حقیقت و اصلیت کا جاننا تیرے لئے بہت مشکل ہو گیا ہے۔
۵۔ تا وجودِ تو کلِّ کل نشود +جزو و با شی بکل کجا گروی
ترجمہ: جب تک تیرا وجود (فنا ہوکر) کُل کی حقیقت نہ بنے، تب تک تو جزو ہی رہے گا (اور) کُل تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔
شرح: عطار صاحب اس مقام پر ” اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ ” (۰۲: ۱۵۶) کی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب تک تو معاد سے مکمل رجوع ہوکر اپنے وجود کے قطرے کو وجودِ کل کے سمندر میں نہیں ملا دیتا تب تک تو قطرہ اور جزو ہی رہے گا اور کُل تک کیسے اور کہاں پہنچے گا۔

۶۔ نقطہ ای از تو بر تو ظاہر گشت +تو بدان نقطہ دائماً گروی

۲۸۹

 

ترجمہ: تجھ پر تیری ہستی میں سے صرف ایک نقطہ ظاہر ہوا ہے، اور تو ہمیشہ اسی نقطے کی طرف متوجہ رہا ہے۔
شرح: تیرے وجودِ کلی میں سے فی الحال تجھ پر صرف ایک نقطہ ظاہر ہو چکا ہے یعنی تو جس طرح کُل ہے اس کا تجھے کوئی علم نہیں، صرف اتنا ہے کہ تو اپنی ظاہری شخصیت ہی کو جانتا ہے یہ تو تیرے عظیم وجود کا ایک چھوٹا سا نقطہ ہے، افسوس ہے کہ صرف اسی جزوی ہستی کے نقطے سے تیرا رجوع ہے۔

۷۔ نقطۂ تو اگر بدائرہ رفت +رو کہ کونین را تو پیش روی
ترجمہ: اگر تیرا نقطہ دائرے میں داخل ہوگیا تو چلے جا کہ تو (اب) دونوں جہان کا پیشوا اور مقتدا ہے۔
شرح: اگر کوئی خوش نصیب انسان روحانی اور عرفانی طور پر اپنے نقطۂ وجود کو وجود کے دائرۂ کلّی کے مرکز پر پہنچا دیتا ہے۔ تو ایسے عارفِ ربّانی سے کہا جائے گا کہ جا مبارک ہو اب تو کونین کا پیشوا بن گیا۔

۸۔ ور درین نقطہ باز ماندی تو +اینت سجینِ صعب و ضیقِ قوی
ترجمہ: اور اگر تو اسی نقطے میں رہ گیا، تو یہی تیرا سخت اور

 

۲۹۰

 

بہت ہی تنگ دوزخ ہے۔
شرح: فرماتے ہیں کہ اگر تجھے بقایِ کلّی کی معرفت حاصل نہ ہو اور صرف اپنی ظاہریت ہی کے نقطے میں محدود رہا تو بس یہی حال تیرے لئے سخت اور انتہائی تنگ جہنم ہے۔

۹۔ چون تو در نقطہ کشتہ باشی تخم +نہ ہمانا کہ دائرہ در وی
ترجمہ: جب تو نقطہ (جتنی جگہ) میں کوئی بیج بوتا ہے تو کیا ایسا نہیں ہے کہ تو دائرہ بھر فصل کاٹتا ہے۔
شرح: نقطہ سے دائرہ کس طرح بنتا ہے وہ پرکار کی مثال سے ظاہر ہے کہ پرکار نقطۂ مرکز پر قائم ہو کر دائرہ بناتا ہے اسی طرح نقطہ بھر جگہ میں بیج بوکر ایک دائرہ جتنی فصل حاصل کی جاتی ہے، چنانچہ اگر نقطۂ خودی کی معرفت حاصل ہونے سے دائرۂ امکان کی ابدی سلطنت مل جاتی ہے تو اس میں کیا تعجب ہے۔

۱۰۔ نتوان رست از چنین ضیقی +جز بخورشیدِ نورِ مصطفوی
ترجمہ: ایسے تنگ مقام سے چھٹکارا نہیں مل سکتا، نورِ محمدی کے سورج کے بغیر۔
شرح: بیج خواہ درخت کا ہو یا کسی فصل کا جب زمین میں بو دیا جاتا

 

۲۹۱

 

ہے، تو وہ زمین کے اندر نقطہ بھر تنگ و تاریک جگہ میں مقید و محبوس رہتا ہے، اور اسے ہمہ وقت سورج کی حرارت و روشنی کی سخت ضرورت پڑتی ہے تاکہ وہ بیج تنگئ زمین سے نکل کر پروان چڑھے، اور پھلے پھولے، بالکل اسی طرح جزوی ہستی کے نقطے کی تنگی سے کسی فردِ بشر کو نجات نہیں مل سکتی ہے مگر اس وقت جبکہ اس کے دل و دماغ پر نورِ محمدیؐ کا سورج ضوفشانی کرنے لگتا ہے پھر ایسے سعادت مند انسان کی روحانی و علمی بالیدگی شروع ہو جاتی ہے۔

۱۱۔ کرد عطار در علو پرواز +تا بدو تافت اخترِ نبوی
ترجمہ: عطار نے بلندی کی طرف پرواز کیا، جبکہ پیغمبر (صلعم) کے ستارے نے اس پر روشنی ڈالی۔
شرح: جب اندھیری رات میں کسی مسافر کے آگے آگے کوئی روشن مشعل چلتا رہتا ہے، تو اس کا مقصد و منشاء یہ ہوتا ہے کہ مسافر اس کے پیچھے پیچھے چلا جائے، اسی طرح جب سرورِ انبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ستارۂ عزت و رفعت نے عطار کے باطن پر ضوفشانی کی تو عطار روحانیّت کی فضاؤں میں پرواز کر گیا۔

 

۲۹۲

عملی تصوّف اور رُوحانی سائنس

 

عملی تصوّف اور روحانی سائنس

و

روحانی سائنس کے عجائب و غرائب

دیباچہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ حضرتِ محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شانِ اقدس میں بہت سے قرآنی ارشادات ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہئے: قرآن تمام وصفِ کمالِ محمد است۔ ان میں سے ایک ارشاد یہ ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (۲۱: ۱۰۷) اور (اے رسولؐ) ہم نے تو تم کو سارے (انسانی) عوالم کے حق میں از سر تا پا رحمت بنا کر بھیجا۔ صدق اللہ العلی العظیم۔

 

۱۔ “عملی تصوّف اور روحانی سائنس” کے نام سے یہ کتاب آپ کے سامنے ہے، اس مضمون میں خلوصِ نیت سے یہ سعیٔ بلیغ کی گئی ہے کہ قرآنی حکمت اور روحانیّت کے خزائن میں جو تمام لوگوں کے لئے بے شمار فائدے پنہان ہیں، ان کی طرف توجہ دلائی جائے، اگرچہ اس پاک خدمت میں یہ بندۂ ناچیز سب سے کمزور اور سب سے پیچھے ہے، لیکن کارِ خیر میں ثواب کی امید پر حقیر سی کوشش کی گئی ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو یہ کوشش مفید ہو سکتی ہے۔

۲۔ قرآنِ حکیم معجزۂ یکتا و بے ہمتا ہے، بلکہ یہ کائناتِ معجزات ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس میں غور و فکر کرنے کی عادت کی سعادت نصیب ہوئی، ہر بار نتیجہ اور ثمرہ خوب سے خوب تر تھا، اس کی برکات سے اسلامی روحانیّت کے زیرِ اثر رہا، جس سے مطالعۂ قرآن میں زبردست مدد ملتی رہی، اور جب جب کوئی اتفاقی چلہ ہوگیا، اس میں بھی حکمتِ قرآن اور روحانی سائنس کے سوا اور کوئی خاص بات نہ تھی، پس خیال آیا کہ اب خامہ فرسائی ہونی چاہئے، چنانچہ یہ کام ۱۹۵۷ء سے شروع ہوا، الحمد للہ اب تک جاری ہے، اور یہ ناچار

۷

اسّی (۸۰) سال کا بوڑھا ہے، کیونکہ سالِ پیدائش ۱۹۱۷ء ہے۔

 

۳۔ عملی تصوّف کہیں یا بار بار کا اتفاقی چلہ یا روحانیّت، جو کچھ بھی ہے وہ سب کچھ خدا کی رحمت سے حاصل ہوا، اس کے لئے میرا کوئی پروگرام نہیں تھا، کیسی پُرحکمت تھیں وہ آزمائشیں جن کی وجہ سے میں شب و روز مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات کرتا رہا، چونکہ دعا سوزشِ دل کے ساتھ تھی، اس لئے بارگاہِ ایزدی میں قبول ہوئی، اور خداوندِ قدوس کی طرف سے احسان پر احسان ہوتا رہا، تا آنکہ ہمارے لئے ایک مبارک عالم معمور ہو گیا، جس میں بہت سے عوالمِ شخصی آباد ہیں۔

۴۔ عملی تصوّف اور روحانی سائنس سے متعلق جو کچھ اس کتاب میں لکھا گیا ہے، وہ ان شاء اللہ مبنی بر حقیقت ہے، کیونکہ اتنی ساری سخت ریاضت سچائی کی روشنی پھیلانے کے لئے کرائی گئی ہے، اور اسی میں خداوند تعالیٰ کی خوشنودی ہے، ہاں یہ سچ اور حقیقت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے۔

 

۵۔ ہماری تمام تصانیف میں دیکھنے سے معلوم ہو جائے گا کہ ہم نے “روحانی سائنس” کی اصطلاح کب سے شروع کی ہے؟ کہاں کہاں اس کو استعمال کیا ہے؟ اور کیوں؟ یہ دراصل روحانی تجربہ اور عملی حکمت ہی ہے، لیکن عصرِ حاضر میں جس طرح مادّی سائنس کی طوفانی ترقی ہوئی ہے، اس کی وجہ سے اکثر لوگ صرف سائنسی موضوعات ہی سے دلچسپی رکھتے ہیں، لہٰذا یہ ایک مصلحت تھی کہ اہلِ زمانہ کی زبان کے مطابق حکمت کا ترجمہ لفظ سائنس سے کرتے ہوئے روحانی سائنس کہا جائے، تاکہ اس کے فوائد کا دائرہ وسیع تر ہوسکے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

۶۔ ہم مادّی سائنس کے بھی قدردان ہیں، بعض دفعہ اس کی مثالیں تقریر و تحریر میں اس طرح استعمال کرتے ہیں: (الف) کامیاب مومن کا نامۂ اعمال کاغذی کتاب نہیں، بلکہ نورانی موویز (movies) کی شکل میں کتاب ہے، جس کی بہت سی کاپیاں بھی ہیں۔ (ب) اسرافیلی اور عزرائیلی منزل میں داخل ہونے پر انسانِ کامل کی ہزاروں کاپیاں بنائی جاتی ہیں، تاکہ یہ اہلِ بہشت کے لئے نورانی ابدان ہو جائیں۔ (ج) جس طرح آپ کا

۸

ٹیلیفون سیٹلائٹ (satellite) کے ذریعے سے وسیع تر دائرے میں کام کرسکتا ہے، اسی طرح آپ کی آواز روحانیّت کے توسط سے کائنات میں پھیل جاتی ہے۔

 

۷۔ مجھے یقین ہے اور میرے تمام احباب بے حد شادمان ہیں، نیز امیدِ قوّی ہے کہ ہماری سینیئر یونیورسٹی کنیڈا کو بھی ازحد خوشی ہوگی کہ روحانی سائنس کی جدوجہد میں زبردست کامیابی ہوئی ہے، انکشافات کی فہرست بعد میں تیار ہوسکتی ہے، لیکن روحانیّت کی طرف دیکھنے والے لوگ اس دنیا میں بہت ہی کم ہیں، آج قرآنِ حکیم نے ہمیں سورج کے تجدّد سے متعلق جو انتہائی عظیم راز بتا دیا ہے، وہ انکشاف اگر کسی ظاہری سائنسدان کے ذریعے سے ہوتا تو نہ معلوم یہ خبر دنیا میں کس طرح پھیل جاتی، اور اس کو کتنا بڑا کارنامہ قرار دیا جاتا۔

 

۸۔ سب سے پہلے آپ اس بات کو قبول کریں کہ قرآنِ حکیم میں بطریقِ حکمت ہر چیز کا بیان ہے (۱۶: ۸۹) بعد ازان سورۂ فرقان (۲۵: ۶۱) سورۂ نوح (۷۱: ۱۶) اور سورۂ نباء (۷۸: ۱۳) میں دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورج کو روشن اور بہت تابناک چراغ بنایا ہے، اس کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ یقیناً آفتاب ہماری کائنات کا ایٹمی چراغ ہے، جس کا شعلہ بار بار ازسرِ نو بنتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے پورے نظامِ شمسی میں دو طرفہ حرکت پیدا ہوتی ہے، ایک  ہر طرف سے سورج کی جانب اور دوسری حرکت سورج سے حاشیۂ عالم کی طرف ہوتی رہتی ہے۔ (اس کتاب میں مضمون کو دیکھیں: آفتابِ عالمتاب = چراغِ روشن)۔

 

۹۔ خلاقِ علیم نے عالمِ شخصی (عالمِ صغیر) کو بھی چھ دن یعنی چھ چھوٹے چھوٹے ادوار میں پیدا کیا، پھر عارف کے نورانی خواب میں فی المثل عرش (کشتی نما تخت) کا ظہور پانی پر ہوگیا، یہ بحرِ علم کی مثال ہے، اس بھری ہوئی کشتی میں صرف ایک ہی پُرنور شخصیت تھی، جس میں سب پہلے ہی سے فنا ہو چکے تھے (حکمتی مفہوم: ۱۱: ۰۷)۔

 

۱۰۔ سوال: سورۂ رعد (۱۳: ۲۸) میں ارشاد ہے: اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ =خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے۔ اس حکم کی کچھ عارفانہ یا صوفیانہ تفسیر کس طرح ہوگی؟ جواب: قلوب کی واحد قلب ہے، قلب

۹

سے مراد دل، جان، اور عقل ہے، ان تینوں چیزوں کو جب تک کلی طور پر تسکین نہ ملے تو وہ حقیقی معیار کے مطابق اطمینان نہیں کہلائے گا، لہٰذا وہ اطمینان ہے: علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کی دولتِ لازوال۔

 

۱۱۔ بعض آیتوں کا حوالہ بار بار اس لئے دیا جاتا ہے کہ وہ بہت ہی ضروری ہوتی ہیں، جیسے سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) کا یہ ارشاد ہے: وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ = اور اہلِ یقین کے لئے زمین میں (بہت سی) نشانیاں ہیں، اور خود تمہاری جانوں میں تو کیا تم دیکھتے نہیں؟ صرف زمین کی سطح پر نہیں، بلکہ اس کے باطن میں بھی بے شمار معجزات ہیں اور انسانوں کی جانوں میں بھی معجزات ہیں، تو کیا تم چشمِ باطن سے نہیں دیکھتے؟ اس ارشاد میں ذرا غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ زمین کی ایک بڑی روح ہے، اور اللہ کا یہ فرمانا: “تو کیا تم دیکھتے نہیں؟” اس معنیٰ میں ہے کہ عارفین اپنے عالمِ شخصی میں دیکھتے ہیں۔

 

۱۲۔ انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں سب لوگ ایک ہی امت ہوا کرتے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً = سب لوگ ایک ہی امت تھے (اور ہیں، ۰۲: ۲۱۳) پہلے سارے لوگ عالمِ ذر میں بشکلِ ذرات ہوتے ہیں، اور آخراً عالمِ عقل میں جا کر سب کے سب فردِ واحد بن جاتے ہیں، جیسے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد ہے: یقیناً ابراہیم ایک امت (اور امام) تھے خدا کے فرمانبردار اور موحد تھے (۱۶: ۱۲۰) چونکہ عالمِ شخصی میں سب کچھ ہے اور اس میں انبیاء و رسل بھی ہیں اور امتِ واحدہ بھی ہے، لہٰذا یہاں اللہ تعالیٰ نے رسولوں سے فرمایا: بے شک یہ تمہاری امت (دراصل) ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا (واحد) پروردگار ہوں تو بس مجھ سے ہی ڈرتے رہو (۲۳: ۵۲)۔

 

۱۳۔ قرآنِ حکیم اور حدیثِ صحیحہ دونوں جوامع الکلم ہیں، جس کے تمام الفاظ منتخب اور مشترک المعانی ہیں، مثال کے طور پر لفظِ بعث کو لیتے ہیں کہ بعث کے یہ معنی ہیں: زندہ

۱۰

کرنا، اٹھا کھڑا کرنا، جی اٹھنا، بھیجنا، پس بعث کے معنی ہیں، اُس نے دوبارہ زندہ کیا، اس نے بھیجا، اب ایک متعلقہ آیۂ کریمہ کو لیتے ہیں، تفسیر: یہ کسی کلی ابتداء کے بغیر ہر دور کا تذکرہ ہے کہ لوگ عالمِ شخصی میں ایک ہی امت تھے، پھر وہ دنیا میں پیدا کئے گئے، اور ان کے لئے انبیاء علیہم السلام کا اہتمام اس طرح سے ہوا کہ ہر نبی اپنے وقت میں جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مر گیا، اور اللہ نے تمام پیغمبروں کو دوبارہ زندہ کر دیا (فبعث اللہ النبیین، ۰۲: ۲۱۳)۔

 

۱۴۔ یہ بہت ہی عزیز کتاب میرے جملہ عزیزان کی جانب سے عالمِ اسلام اور دنیائے انسانیت کے لئے تحفۂ لاجواب ہے، میرے عزیزوں کا کیا کہنا وہ تو سب کے سب بے مثال ہیں، وہ میرے تینوں اداروں کے عملداران اور ارکان ہیں، جو بڑے معزز گورنرز اور علمی لشکر ہیں، لائف گورنرز، فرسٹ گورنرز، سیکنڈ گورنرز، علمی لشکر ۱، علمی لشکر ۲، اور علمی لشکر ۳، مجھے یقین ہے کہ میرے تمام شاگرد انسانی وحدت و سالمیت کے عظیم اسرار کو سمجھتے ہیں، وہ علم و حکمت کے ہزار بھیدوں کو جانتے ہیں، وہ اور بھی زیادہ علم رکھتے ہیں، کیونکہ ہزار حکمتیں تو صرف ایک ہی کتاب میں ہیں، ان میں جو صفِ اوّل کے ہیں، وہ بفضلِ خدا حقائق و معارف کے کامل استاد ہو چکے ہیں، اے خداوندِ قدوس! یہ سب کچھ تیرے فضل و کرم سے ہے۔

 

۱۵۔ مجھے اپنے تمام شاگرد بے حد عزیز ہیں، کیوں نہ ہوں، جب کہ وہ اپنے خزانۂ عمر کے انمول جواہر کو حصولِ علم کی خاطر صرف کرتے ہیں، اور علمی خدمت کے لئے ہر قسم کی قربانی اور جان نثاری کو اپنے حق میں بڑی سعادت سمجھتے ہیں، اور ترجمہ کرنے والے صاحبان، خصوصاً انگلش میں ترجمہ کرنے والے حضرات ہم سب کی جانِ شیرین کی طرح شیرین اور عزیز ہیں، الغرض ہم سب یقین سے کہتے ہیں کہ ہم کو ایک انتہائی عظیم اور عجیب و غریب بھید معلوم ہوگیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم سب (یعنی تمام انسان) شخصِ کامل کی مبارک پیشانی میں “یک حقیقت” ہیں، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

جمعہ، ۲۵ ذیقعدہ ۱۴۱۷ھ، ۴ اپریل ۱۹۹۷ء

۱۱

تسخیرِ کلّی اور ظاہری و باطنی نعمتیں

)انتساب(

 

اے عزیزانِ محترم! آپ ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ علمی گفتگو کے دوران آپ کا عزیز استاد کسی نہ کسی عجیب و غریب حکمت کی طرف بھی اشارہ کرے، تو لیجئے آج کی بڑی عجیب و غریب حکمت یہ ہے جو آپ پر منکشف کی جاتی ہے: خداوند تعالیٰ جو علیم و حکیم ہے، اس نے اپنے کمالِ قدرت سے قرآنِ عظیم کو جگہ جگہ لپیٹ کر بھی رکھا ہے اور وہاں سے پھیلا بھی دیا ہے، پس ایک ایسی آیۂ شریفہ جس میں قرآن کی تمام حکمتیں مرکوز و مجموع ہیں، جو سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں ہے، اس آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: “کیا تم لوگوں نے (چشمِ بصیرت سے یہ) نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) خدا ہی نے یقیناً تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے اور تم پر اپنی تمام ظاہری و باطنی نعمتیں پوری کر دی ہیں۔”

 

اے عزیزانِ سعادت مند! اس آیۂ مبارکہ میں تسخیرِ کلی اور تمام ظاہری و باطنی نعمتوں کا عظیم الشّان ذکر ہے، جس کی تفصیلات تعلیماتِ دانش گاہِ خانۂ حکمت میں بیان ہوتی آئی ہیں، اور وہ یہ ہے کہ کبھی آپ کو بہشت برائے معرفت کے عنوان سے بہت سے اسرار بیان ہوئے کبھی براہِ راست روحانیّت کا تذکرہ ہوتا رہا، کبھی روحانی سائنس کے عنوان کے تحت بہت سی حکمتیں بیان کی گئیں، اور کبھی قرآنی سائنس کی اصطلاح کے تحت علم و حکمت کے جواہرات کا مظاہرہ ہوتا رہا، الغرض آپ تمام عزیزان عنوانِ بالا کے مطالب کو جانتے ہیں، لہٰذا آپ پر واجب ہے

۱۲

کہ عملی شکرگزاری کریں، وہ یہ ہے کہ آپ دانش گاہِ خانۂ حکمت کی کتابوں کو زیادہ سے زیادہ پڑھتے رہیں، اور خداوند تعالیٰ کے ان بے شمار احسانات کا جیسا کہ حق ہے شکر ادا کرتے رہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں کی شکرگزاری ہوتی رہے۔

 

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے ساتھیوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں، جو ان نعمتوں کی شکرگزاری میں آنسو بہاتے ہوئے سجدوں میں گر پڑتے ہیں، وہ اکثر اوقات ذکر و عبادت میں مصروف رہتے ہیں، اور ان نیک بخت مومنین و مومنات نے علمی خدمت کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے، ایسے ارضی فرشتوں پر خداوندِ قدوس کی طرف سے نورانی بارش برستی رہتی ہے، ان کے قلوب میں نورِ ایمان کی روشنی داخل ہوچکی ہے، اس لئے وہ اپنے باطن میں خرسند و شادمان ہیں، ان کو نیک اعمال سے شادمانی حاصل ہوتی رہتی ہے، ان شاء اللہ وہ روز بروز علم الیقین کی راہ میں آگے سے آگے جا سکیں گے۔

 

حقیقی علم کی روشنی پھیلانا دین کی سب سے بڑی خدمت ہے، اور اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ آج جو لوگ حقیقی علم کی خدمت کرتے رہتے ہیں، کل بہشت میں وہی لوگ نورانی علم کی خدمت کریں گے، اور انہی نیک بخت لوگوں کو بہشت کی انتہائی عظیم بادشاہی سے خداوند تعالیٰ با نصیب کرے گا۔

 

خداوند تعالیٰ جب کسی خاص چیز کو وجود میں لانا چاہتا ہے تو اس کے جملہ اسباب و ذرائع کو مہیا کر دیتا ہے، ہمارے ادارے کے سینیئر اور جونیئر اسکالرز اور اہلِ قلم ہم پر اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات ہیں، اور ہم امید رکھتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ اس ادارے کو مزید اسکالرز سے نوازے گا، تاکہ ہم قرآن، اسلام، جماعت اور انسانیت کی خدمت کر سکیں۔

یہ پسندیدہ انتساب جناب سابق موکھی نزار علی علی بھائی، انٹرنیشنل لائف گورنر اینڈ لوکل پریذیڈنٹ اور ان کے باسعادت اہلِ خانہ کے لئے لکھا

۱۳

گیا ہے، اس مبارک گھر کے جملہ افراد انٹرنیشنل لائف گورنری کے رتبۂ عظمیٰ پر فائز ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء

یوسٹن، امریکہ

 

۱۴

ہر چیز ۔ سب کچھ

(انتساب)

 

خزائنِ الٰہی میں کیا کیا نہیں ہے؟ ہر چیز موجود ہے، سب کچھ حاضر ہے، فیاضِ ازل نے اپنے بندوں کو سب کچھ دے رکھا ہے (۱۴: ۳۴) کائنات کی ہر چیز مسخر کر دی ہے (۴۵: ۱۳) اُس رحمٰن و رحیم نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں اہلِ ایمان پر پوری کر رکھی ہیں (۳۱: ۲۰) درختِ پاک کی پُرثمر شاخ عالمِ شخصی کے آسمان (حظیرۂ قدس) میں پہنچی ہے (۱۴: ۲۴) آپ ان تمام آیاتِ کریمہ کو قرآنِ پاک میں پڑھ لیں۔

 

۱۔ ہمیں امید ہے کہ ظاہری سائنسدان کچھ آگے چل کر اس حقیقت کے قائل ہو جائیں گے کہ اس کائنات کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، اُسی قادرِ مطلق نے آسمانوں اور زمین کو بنایا ہے اور ہر وقت بناتا ہے (یعنی تجدّد کر رہا ہے) قرآنِ حکیم نے علی الاعلان فرمایا کہ: لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ (۳۰: ۳۰) خدا جس طرح پیدا (تجدّد) کرتا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں۔ جیسے سنتِ الٰہی کے بارے میں ارشاد ہے: وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا (۳۳: ۶۲) اور تم خدا کی عادت میں ہرگز تغیر و تبدل نہ پاؤ گے۔ اس کلیدی حکمت میں اہلِ دانش کے لئے بہت سے مفید اشارے ہیں۔

 

۲۔ قرآنِ عزیز فرماتا ہے کہ کوئی شیٔ علم سے خالی نہیں، یعنی ہر چیز کے ظاہر و باطن میں علم رکھا ہوا ہے، مثال کے طور پر اس ارشاد میں دیکھ لیں: اے ایمان والو، خدا سے

۱۵

ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ (۰۹: ۱۱۹) دنیوی معاملات میں سچائی بہت عام بات ہے، لیکن علم میں سچائی بہت مشکل چیز ہے، لہٰذا ہر زمانے کے اہلِ ایمان کو حکم ہوا کہ وہ خدا سے ڈرتے رہیں اور اوصیائے رسول کے ساتھ ہو جائیں کہ علم میں سچ بولنے والے صرف وہی حضرات ہیں۔

 

۳۔ قرآن کی ہر چیز میں علم ہے، جیسے سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۵) میں ہے: اور بہشت میں ان کے لئے صاف ستھری بیویاں ہوں گی۔ یعنی ان کا لطیف جسم (نورانی بدن) ہوگا، پاکیزہ روح اور علم سے بھرپور عقل ہوگی، کیونکہ دنیا ہو یا آخرت علم کے سوا پاکیزگی کا کوئی تصوّر ہی نہیں، پس قرآن کے ہر مقام پر طہارت و پاکیزگی کے معنی میں علم کا تذکرہ ہے۔

 

۴۔ ثمرات (میوے) کا ذکر قرآن میں ۱۶ بار آیا ہے، جس میں علم کے معنی پوشیدہ ہیں، فاکھۃ (میوہ = پھل) ۱۱ دفعہ اور فواکہ ۳ دفعہ ہے، جو علم کے معنی میں ہیں، اکل (پھل) قطوف (میوے) اور جنی (تازہ چنا ہوا میوہ) یہ سب علم کی مثالیں ہیں، جیسا کہ قرآنی ارشاد کا ترجمہ ہے: اور اُسی نے آسمان سے پانی برسایا پھر اسی نے تمہارے کھانے کے لئے پھل پیدا کئے (۰۲: ۲۲) یعنی جب آسمانی علم کی بارش تمہارے دل کی زمین پر برس پڑی تو اس سے تمہارے لئے طرح طرح کے علمی میوے پیدا ہوگئے۔

 

۵۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندۂ سالک کی انفرادی قیامت میں روحانی اور علمی کائنات کو حظیرۃ القدس میں لپیٹ دیتا ہے، تو اس وقت تمام حقیقتیں اور معرفتیں یکجا اور جمع ہو جاتی ہیں، ایسے میں عالمِ کثرت یقیناً عالمِ وحدت ہو جاتا ہے، جس میں صرف نفسِ واحدہ ہی سب کی نمائندگی کرتا ہے۔

۶۔ حظیرۂ قدس عرفا کی پیشانی میں ہے، جہاں کائنات بھر کی پھیلی ہوئی چیزیں گھیری ہوئی ہیں، اور ان گنجِ ازلِ تجدّد سے کوئی علمی چیز باہر نہیں، کیونکہ یہ وہ بہشتِ برین ہے جو دور دور سے نزدیک لائی گئی ہے، پس حظیرۂ قدس یعنی پاک احاطے میں ہر چیز ہے اور سب کچھ ہے، جیسے قرآنِ پاک کی بہت سی آیاتِ مقدّسہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہر نعمت عطا فرمائی ہے۔

۱۶

۷۔ سوال: کیا بہشت میں قرآنِ کریم کے علاوہ دوسری تمام آسمانی کتابیں بھی مشاہدے میں آسکتی ہیں، کیونکہ کتبِ سماوی بہت بڑی نعمت ہیں؟ جواب: یقیناً بہشت میں حسبِ خواہش ہر نعمت ملتی ہے، مزید برآن یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ قرآنِ حکیم کے کمالات و معجزات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں سابقہ کتبِ سماوی کا خلاصہ اور جوہر شامل ہے، پس آپ قرآنِ عظیم کو اسی نیت سے پڑھیں کہ اس میں سب کچھ ہے، اور قرآنِ کریم کو کتابِ مکنون میں چھو لینے کی سعیٔ بلیغ بھی کریں (۵۶: ۷۷ تا ۷۹)۔

 

۸۔ سوال: ہر نیکوکار مسلمان / مومن قرآن کی حرمت و محبت کرتا ہے اور اس کے احکام کے مطابق عمل کرتا ہے، تو آپ یہ بتائیں کہ اس کے نامۂ اعمال میں قرآنِ حکیم ہوگا یا نہیں؟ اگر ہو تو کس طرح ہوگا؟ جواب: مومنین کا نامۂ اعمال قرآن اور اس کے معلم (۰۵: ۱۵) کے تعلق اور گواہی کے بغیر کیوں کر ممکن ہوسکتا ہے، آپ سورۂ مومنون (۲۳: ۶۲) اور سورۂ جاثیہ (۴۵: ۲۹) میں خدا کی کتابِ ناطق کے بارے میں پڑھیں، یہ خود قرآن اور معلّم ہے جو نامۂ اعمال بھی ہے۔

 

۹۔ اگر قرآنِ پاک کو عارف کے نامۂ اعمال میں دیکھا جائے جو حظیرۂ قدس میں ہے تو وہاں یہ انطوٰی کے سبب سے نہایت جامع الجوامع اور ناقابلِ فراموش تذکرہ ہے، اگر کوئی چاہے تو اس کو یاد کر سکتا ہے، وہ معزز صحیفوں (کلماتِ تامّات) میں ہے جو بلند کردہ اور پاک کردہ ہیں (۸۰: ۱۱ تا ۱۴) یہ سورۂ عبس کا حوالہ ہے، جس میں قرآن کا ایک نام مرفوعہ (بلندکردہ) ہے جو اسمِ مفعول ہے، جس پر بلند کرنے کا فعل واقع ہوگیا ہے، یعنی فرشتوں نے عارف کے نامۂ اعمال کے ساتھ قرآن کو زمین سے آسمان پر اٹھا لیا ہے۔

۱۰۔ اب اس مقام پر میں کچھ تاریخی کلمات درج کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ میرے سب شاگرد مجھے بہت ہی عزیز ہیں، بلکہ وہ میری اپنی جانی اور جگری اولاد ہی کی طرح بے حد شیرین اور دلنواز ہیں، اس نعمتِ عظمیٰ پر مجھے اپنے ربّ کے لئے گریہ کنان سجدۂ

۱۷

شکر بجا لانا ہے، مجھے وحدتِ انسانی کا عرفانی راز معلوم ہوگیا ہے، اسی لئے میں اپنے تمام عزیزوں کو پارہ ہائے جان سمجھتا ہوں، اور میری نظر کے مطابق قرآن و حدیث میں انسانی وحدت کی بہت سی خوبصورت مثالیں ہیں، جن میں سے ہر ایک میں بے حد شادمانی ہے۔

 

۱۱۔ میرے موصوف ساتھیوں نے ہمہ وقت میری معاونت فرمائی ہے، اداروں کو حسن و خوبی سے جاری رکھا ہے، عظیم کارنامے انجام دئے ہیں، ان کے بے شمار خدمات اور بے حساب قربانیاں ہیں، تب ہی ہمارے اس نیک نام ادارے کی (بہت سےممالک میں) ایک خاص پہچان ہوئی ہے، الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

 

۱۲۔ معزز گورنرز، علمی لشکر، عملداران اور ارکان میں سے آج جن عزیزوں کے بارے میں چند تعریفی کلمات لکھنے کا پروگرام ہوا ہے وہ ہیں ڈاکٹر رفیق جنت علی چیف سیکریٹری آف خانۂ حکمت، میڈیکل ایڈوائزر اینڈ پیٹرن، اور فرسٹ گورنر، ان کی فرشتہ خصلت بیگم ڈاکٹر شاہ سلطانہ، چیئرپرسن آف خانۂ حکمت برانچ کریم آباد، میڈیکل ایڈوائزر اینڈ پیٹرن، فرسٹ گورنر، اور ان کے دونوں پیارے بچے گلاب خانم اور شفیق، علمی لشکر، جو آگے چل کر (ان شاء اللہ) دو عظیم انسان ہوں گے۔

 

۱۳۔ ہر آزمائش میں دل و جان سے خدا کو یاد کرتے کرتے اور علم کی ہر تحریر کو پڑھتے پڑھتے امید ہے کہ ایک دن ڈاکٹر رفیق جنت علی کوہِ علم ہو جائیں گے، پھر اس کا دور رس فائدہ نہ صرف خاندان اور آئندہ نسل تک ہی محدود ہوگا، بلکہ اس کے لازوال فوائد اسلام اور انسانیت کے لئے بھی ہوں گے اور آخرت کی حیاتِ سرمدی کے لئے تو علم کی بے حد ضرورت ہے، ڈاکٹر رفیق اور ڈاکٹر شاہ کے حسنِ اخلاق پر فرشتے رشک کرتے ہوں گے، ایسے تمام ارضی فرشتوں کی دم قدم کی برکت سے ہمارے ادارے کی اتنی ترقی ہوئی ہے، یہ دونوں عزیزان ہماری تعلیمات کے عظیم قدردانوں میں سے ہیں، ان شاء اللہ العزیز تمام خدا شناس بندے عالمِ شخصی کے بادشاہ ہوں گے، آمین!

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

بدھ، یکم ذی الحجہ ۱۴۱۷ھ، ۹ اپریل ۱۹۹۷ء

۱۸

قانونِ فطرت

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اے دوستان و عزیزانِ من! قرآنِ حکیم سورۂ قمر (۵۴: ۰۵) میں اپنی جس بے مثال اور عالی شان حکمتِ بالغہ کا ذکر فرماتا ہے، وہ یقیناً اس معنیٰ میں حکمتِ بالغہ ہی ہے کہ اہلِ بصیرت کے دل و دماغ اور تصوّر کو حظیرۃ القدس کے نورانی عجائب و غرائب تک پہنچا سکتی ہے، جہاں علم و معرفت اور اسرارِ فطرت کا سب سے عظیم خزانہ موجود ہے، کیونکہ لفظِ “بالغہ” بروزنِ فاعلہ (بلوغ سے) اسمِ فاعل ہے، جس کے معنی ہیں پہنچنے اور پہنچانے والی چیز، ساتھ ہی ساتھ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ قرآنِ حکیم جو ہم سب کے لئے ہدایت نامۂ الٰہی ہے، اس کی حکمت کی بڑی زبردست اہمیت ہے، جیسا کہ آیۂ شریفہ کا ترجمہ ہے: اور جس کو (خدا کی طرف سے) حکمت عطا کی گئی تو اس میں شک ہی نہیں کہ اسے خوبیوں کی بہت بڑی دولت ہاتھ لگی (۰۲: ۲۶۹)۔

 

دوستانِ عزیز! آئیے اب ہم سب مل کر بڑی عاجزی اور خلوصِ دل سے دعا کریں کہ خداوندِ قدوس اپنے نورِ علم و حکمت سے ارضِ عالمِ دین اور زمینِ دنیائے انسانیت کو ہمیشہ کے لئے منور فرمائے! جیسے قرآنِ حکیم میں اس کے ایسے سچے وعدے موجود ہیں، اور ہمیں کامل یقین ہے کہ اس کی سنتِ عالیہ میں ہرگز ہرگز کوئی وعدہ خلافی نہیں ہے، ان شاء اللہ، اب ظہورِ اسرار کا زمانہ آچکا ہے، یعنی جب خدا ہی نے آفاق کو مادّی سائنس کی دولت سے مالا مال فرمایا ہے تو یقیناً اسی کے ساتھ ساتھ یا اس کے بعد انفس کو بھی کوئی ضروری اور اعلیٰ نعمت عطا ہو گی (۴۱: ۵۳) ہم ایسی نعمتِ عظمیٰ کو روحانی سائنس کہہ سکتے ہیں۔

۱۹

قانونِ فطرت سے متعلق آیۂ کریمہ کا ترجمہ: پس (اے رسولؐ اور ان کے مومنین!) تم باطل سے کترا کے اپنا رخ دین کی طرف کئے رہو، یہی خدا کی بناوٹ (فطرت) ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں، یہی بالکل راست اور درست دین ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں (۳۰: ۳۰)۔

 

حکمت ۱: قرآنِ حکیم کی ہر ہدایت میں حکمتِ بالغہ پنہان ہے، لہٰذا یہ کسی بھی درمیانی منزل تک محدود و موقوف نہیں، بلکہ یہ منزلِ مقصود (حظیرۃ القدس) تک جا پہنچتی ہے، چنانچہ مذکورہ آیۂ کریمہ کی حکمت یہ ہے: پس اے رسولؐ اور ان کی اطاعت کرنے والو! تم عارف ہوکر اپنا چہرۂ جان دین کے لئے اُس روحانی بلندی پر قائم کرو، جہاں صورتِ رحمان کا آئینۂ وحدانیت سامنے آتا ہے، اللہ کا قانونِ فطرت یہی ہے جس کے مطابق اس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا۔ یعنی فطرت کا بہترین اور سب سے اعلیٰ نمونہ انسان ہی ہے، کیونکہ یہ کائنات و موجودات کا خلاصہ اور جوہر ہے، درحالیکہ یہ عالمِ صغیر ہے (یعنی عالمِ شخصی) لیکن خدائے قادرِ مطلق عالمِ اکبر کو اس میں لپیٹ دیتا ہے، مگر یہ عملی حقیقت مادّی طور پر نہیں بلکہ روحانی کیفیت میں ہے، پس یہ کہنا بالکل درست اور بجا ہے کہ ارض و سما کی فطرت کے اسرار عالمِ شخصی میں پنہان ہیں۔ یعنی آسمان، زمین، سورج، چاند، انجم، زمان اور مکان کے تمام بھید انسان کے باطن میں پوشیدہ ہیں، اور اس حقیقت پر محکم شہادتیں اور روشن دلیلیں قرآنِ عزیز میں جا بجا ملتی ہیں۔

 

حکمت ۲: زیرِ بحث آیۂ کریمہ میں یہ ارشاد بھی ہے کہ: خلق اللہ کے لئے کوئی تبدیلی نہیں (۳۰: ۳۰) اس میں دنیا کے سب سے بڑے سوال کا جواب موجود ہے جو تصورِ آفرینش سے متعلق پیدا ہوسکتا ہے، وہ یہ کہ آیا کبھی کوئی ایسا زمانہ ممکن ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ خالقیت کے تحت فعلاً مخلوق نہ ہو؟ اس کا جواب مذکورہ آیت میں اس طرح سے ہے: خلق اللہ کے لئے کوئی تبدیلی نہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ خالقیت میں کوئی تغیر و تبدل ممکن ہی نہیں کہ وہ پہلے بحدِّ قوّت موجود ہو، اور پھر بحدِّ فعل اس کا ظہور ہونے لگے، یہ مفروضہ محال اور ناممکن ہے، اس کے برعکس حقیقت تو یہ ہے کہ خدا کی ہر صفت فعلاً قدیم

۲۰

ہے، چنانچہ وہ خالقِ قدیم ہے، اسی کے حکم سے ہمیشہ بقا و فنا کا سلسلۂ لا ابتدا و لا انتہا جاری ہے۔

 

حکمت ۳: یہ تمام حقائق و معارف دینِ اسلام میں موجود ہیں، لہٰذا آیۂ مبارکہ کے آخر میں دینِ قائم کی تعریف کی گئی ہے، جو انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کا دین ہے، اور ان کی پیروی کرنے والوں کا دین ہے، جس کا آخری مرتبہ دیدارِ الٰہی اور فنا فی اللہ ہے، ایسے میں کائنات بھر کی ارواح ساتھ ہوتی ہیں، اگر خدا کا حکم ہوا تو ان روحوں کی وجہ سے فطرت کے بہت سے بھیدوں کا پتا چل سکتا ہے۔

آسمان، زمین، سورج، چاند، انجم، زمان  (time) اور مکان (space)  سب کی روح ہے، جس کا انسانی روح سے نہ صرف رشتہ ہے بلکہ وحدت بھی ہے، یہی سبب ہےجو اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی کو کائنات و موجودات کی باطنی اور روحانی فطرت کو جاننا ہے تو وہ اپنی روحانی فطرت کی معرفت کو حاصل کرے، کیونکہ قانونِ فطرت ایک ہی ہے، جس کے مطابق خداوند تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، تاکہ ہر عارف اپنی ذات کی شناخت سے نہ صرف خالق کی معرفت کو حاصل کرے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کے اسمائے صفات کی نسبت سے مخلوقات کو بھی پہچانے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

اتوار ۲۵ شعبان المعظم ۱۴۱۷ھ

۵ جنوری ۱۹۹۷ء

۲۱

آفاق و انفس

 

سورۂ حٰمٓ السجدہ کی آخری دو آیتوں کا ترجمہ ہے: ہم عنقریب ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ بے شک وہ حق ہے، کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا ربّ ہر چیز کا گواہ ہے؟ آگاہ رہو، یہ لوگ اپنے ربّ کی ملاقات میں شک رکھتے ہیں، سن رکھو، وہ ہر چیز پر محیط ہے (۴۱: ۵۳ تا ۵۴)۔

 

حکمت ۱: سوال: (الف) اللہ تعالیٰ کا ارشادِ بالا کن لوگوں کے بارے میں ہے؟ جواب: بظاہر اُن لوگوں کے بارے میں ہے جو قرآنِ حکیم سے ہٹ کر ہیں، سوال: (ب) آیات کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ جواب: ان کے معنی ہیں معجزات اور قدرت کی نشانیاں، سوال: (ج) بہت سے ایسے لوگ مرگئے در حالے کہ انہوں نے حسبِ وعدۂ الٰہی کوئی معجزہ نہیں دیکھا تھا، اس باب میں آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب: ان کے نمائندہ ذرات نے انسانِ کامل کی باطنی قیامت میں بہت کچھ دیکھا تھا، مزید برآن جب وہ مرگئے تو عالمِ آخرت میں معجزات نے ان کو گھیر لیا، سوال: (د) کیا آفاق و انفس کے معجزات کو دیکھنے کے لئے کوئی خاص زمانہ مقرر ہے؟ جواب: جی ہاں، وہ روحانی دور ہی ہے، لیکن دیکھنے والے ہر وقت دیکھ سکتے ہیں، سوال: (ھ) خداوند تعالیٰ لوگوں کو آفاق و انفس میں آیات دکھائے گا، اس میں نفسِ واحدہ کا کیا کردار ہوگا؟ جواب: نفسِ واحدہ (انسانِ کامل) ہی ہے، جس کی انفرادی قیامت میں سب کی اجتماعی قیامت قائم ہو جاتی ہے (۳۱: ۲۸)، سوال: (و) آپ عصرِ حاضر کی مادّی سائنس کے کمالات کو کیا

۲۲

سمجھتے ہیں؟ جواب: یہ خدائے بزرگ و برتر کی قدرت کی وہ نشانیاں یا معجزات ہیں، جن کی طرف مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ کا خاص اشارہ ہے۔

 

حکمت ۲: اُفق (۸۱: ۲۳) = کنارۂ آسمان، اس کی جمع آفاق ہے، جس کے معنی ہیں وہ جگہ جہاں زمین آسمان ملے ہوئے نظر آتے ہیں، اس سے جسمِ لطیف مراد ہے کہ وہ آسمانِ روحانیّت اور زمینِ جسمانیّت کے کنارے پر ہے، وہ جوہرِ جسم بھی ہے اور مظہرِ روح بھی، وہ ذرہ بھی ہے اور عالمِ ذرّ بھی، وہ بحرِ محیط بھی ہے اور اس کا گوہر بھی، وہ برقِ طور بھی ہے اور ظہورِ نور بھی، الغرض وہ بہت کچھ ہے بلکہ سب کچھ۔

 

حکمت ۳: آسمان اور زمین میں جیسی اور جتنی بے شمار چیزیں ہیں وہ سب کی سب یقیناً اللہ کی قدرت کی نشانیاں تو ہیں، لیکن اکثر لوگ چشمِ بصیرت نہ ہونے کی وجہ سے ان میں غور و فکر نہیں کرتے ہیں، لہٰذا خداوندِ عالم کے حکم سے آج کے دور میں جسمِ لطیف کے زبردست معجزے ظہور پذیر ہو رہے ہیں، ان کی ایک نمایان اور قابلِ دید مثال ظاہری سائنس کے عجائب و غرائب ہیں، تاکہ تمام سائنسدان اور دیگر لوگ اللہ تعالیٰ پر یقین رکھیں اور مادّی سائنس کو خدا کی ایک بہت بڑی نعمت قرار دیں، لیکن معلوم ہے کہ اب تک ایسا نہیں ہوا ہے، لہٰذا قرآنِ پاک کی پیش گوئی کے مطابق اب آفاق کے معجزوں کے ساتھ ساتھ انفس کے معجزات بھی شروع ہو جائیں گے، جن کے احساس و ادراک کے بعد کوئی شخص خدا سے انکار نہ کر سکے گا۔

 

حکمت ۴: اگر ان لوگوں سے پوچھا جائے جو حقیقی عقل رکھتے ہیں کہ ارض و سما اور ان کی ہر ہر چیز کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو وہ فوراً جواب دیں گے کہ خالقِ یکتا نے پیدا کیا ہے، جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان کو کس نے بنایا؟ خداوندِ عالم نے، انسان کو عقل و جان کس کی طرف سے عطا ہوئی؟ اُسی خدائے مہربان کی طرف سے، ہر قسم کے علم و حکمت اور ظاہری و باطنی سائنس کے خزانوں کا حقیقی مالک کون ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ پس حقیقت یہی ہے، اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں، اس کے برعکس کسی بھی سائنسدان کا یہ کہنا کہ کائنات ازخود پیدا ہوگئی ہے، یہ اس کی بہت بڑی جہالت

۲۳

و نادانی اور بھول ہے۔

 

حکمت ۵: اس آیۂ کریمہ کے لئے سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں دیکھئے: اور یقین کرنے والوں (اہلِ معرفت) کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تم میں بھی ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں؟ قرآنِ حکیم کی ہر آیۂ مبارکہ میں جو بھی حکمت ہوتی ہے، وہ اپنے مضمون کے لحاظ سے کامل اور مکمل ہوتی ہے، چنانچہ اس ربّانی تعلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص بحکمِ من عرف۔۔۔ اپنی روح کو پہچان لیتا ہے تو وہ اپنے ربّ کو اس کے اسمائے صفاتی کے افعال کے ساتھ پہچان سکتا ہے، مثال کے طور پر اللہ اس بات پر قادر ہے کہ کائنات کو لپیٹ کر فنا کر دے، اور اس کی جگہ ایک نئی کائنات بنائے تاکہ عارف پر یہ عملی معرفت روشن ہو جائے کہ اللہ کس طرح خالقِ کائنات ہے، یہ قیاس اور مفروضہ ہرگز نہیں، بلکہ حقیقت ہے، اللہ تعالیٰ کے ہر اسمِ صفت کا فعل یا معجزہ عالمِ کبیر اور عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) دونوں میں مکرر، مسلسل، اور جاری ہے، جس کو تجدّدِ امثال کہا جاتا ہے، چونکہ خدا ذات میں بھی اور صفات میں بھی قدیم ہے، اس لئے تصوّرِ آفرینش خط (لکیر) کی طرح نہیں، جس کی ابتداء اور انتہاء ہوا کرتی ہے، بلکہ ایک دائرۂ دائمی جیسا ہے۔

 

حکمت ۶: جو نشانیاں (آیات = معجزات) زمین میں ہیں، وہی آیات نفسِ انسانی میں بھی ہیں، اس کا اشارہ یہ ہے کہ جس طرح آدمی کی عقل و روح ہے، اسی طرح سیّارۂ زمین کی بھی اپنی عقل و روح ہے، اور یہ بہت بڑا انقلابی تصوّر ہے، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے کم از کم ہمارے نزدیک “نظریۂ کششِ ثقل” ختم ہوگیا، جب کہ اس انکشاف سے معلوم ہوا کہ زمین اپنی عقل اور روح کی مضبوط گرفت میں منظم، مرکوز اور بکھر جانے سے محفوظ ہے، جس کی مثال انسان کی ہستی ہے، جو قانونِ فطرت کا بہترین نمونہ ہے (۳۰: ۳۰) اب اس سے یہ بھی پتا چلا کہ کائنات کے ہر سیّارہ اور ہر ستارہ کی عقل و جان ہے، جیسے حکیم ناصر خسرو ق س کا قول ہے:

 

گرفتہ ہر یکی عقلی و جانی

بکارِ خویشتن ہر یک جہانی

۲۴

ہر سیّارہ (اور ہر ستارہ) کو ایک عقل اور ایک جان (روح) حاصل ہے تاکہ ان میں سے ہر عالم اپنا کام کر سکے (روشنائی نامہ)۔

 

حکمت ۷: سورۂ ابراہیم (۱۴: ۴۸) میں ارشاد ہے: جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی (بدل دئے جائیں گے)۔ معنیٔ اوّل: جب کوئی سالک اپنے عالمِ شخصی میں داخل ہوکر مشاہدہ کرنے لگتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی زمین ظاہری زمین سے قطعاً مختلف، لطیف، اور پُرنور ہے، اور اس کے آسمان کا کیا کہنا کہ اس سے علم و حکمت کے موتیوں کی بارش برستی رہتی ہے، معنیٔ دوم: وہ بڑا عجیب و غریب زمانہ آنے والا ہے جس میں لوگ جسماً یا روحاً اس طرح کثیف سے لطیف ہو جائیں گے، جیسے کیڑوں سے پروانے بنتے ہیں (فراش =۱۰۱: ۰۴) اس وقت لوگوں کو کسی دوسرے سیّارے پر منتقل کر دیا جائے گا، اس حال میں موجودہ زمین دوسری زمین میں بدل جائے گی اور آسمان بھی بدل جائیں گے۔

 

حکمت ۸: آیۃ الکرسی (۰۲: ۲۵۵) کو اعظم الآیات کہتے ہیں، اس کی عظمت و بزرگی کا راز اس کی باطنی حکمت میں پوشیدہ ہے، چنانچہ اس کا ایک جملہ یہ ہے: وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ = اس کی کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے۔ یعنی کائنات اپنے تمام اجزاء اور ذرات کے ساتھ نفسِ کلّ کے بحرِ محیط میں مستغرق ہے، جس کی بدولت ہر ذرہ کے ظاہر و باطن میں روح موجود ہے، کیونکہ کائنات روح جو روح الارواح (نفسِ کلّی) ہے، وہ کائنات پر صرف خول کی طرح نہیں، بلکہ اس کی مثال انسانی روح ہے، جس کی لہر ہمیشہ تمام بدن میں دوڑتی رہتی ہے، پس ہر سیّارہ اور ستارہ نفسِ کلّ کے تحت ایک ذیلی کائنات ہے، جس کو ایک مخفی عقل و جان کا عطیہ ملا ہے۔

 

حکمت ۹: صوفیائے کرام وغیرہ انسانِ کامل کو “جانِ جہان” کہتے ہیں، یہ بات بے دلیل نہیں ہوسکتی، اس کی ضرور کوئی معقول وجہ ہوگی، شاید انبیاء و اولیاء علیہم السّلام اس زمین یا کائنات کے دل و دماغ کا درجہ رکھتے ہیں، اور ان کے

۲۵

نور سے بقا و شعور کی لہریں جہان میں دوڑ رہی ہوں گی، جس طرح تمام انسانی اعضاء کو عقل و جان کا بھرپور فیض و فائدہ تو ملتا رہتا ہے، مگر عقل کا مرکز دماغ ہے اور حیات کا سرچشمہ دل۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۲۹ شعبان المعظم ۱۴۱۷ھ

۹ جنوری ۱۹۹۷ء

۲۶

کلمۂ کن کے اسرارِ عظیم

 

اے دوستانِ عزیز! عنوانِ بالا کی بہت بڑی اہمیت و افادیت کی وجہ سے یہاں چند سوالات ضروری ہیں، سوالِ اوّل: لفظِ کُنۡ واقعی ہے یا عبارت؟ دوم: یہ خطابِ الٰہی عدمِ محض سے ہے یا عالمِ غیب کی کسی شیٔ سے؟ سوم؟ آیا یہ اللہ تعالیٰ کا قولی حکم ہے یا صرف ارادہ؟ چہارم: عالمِ شخصی میں اس کی معرفت ہوسکتی ہے یا نہیں؟ پنجم: کیا یہ کلمۂ تامّہ بھی ہے؟ ششم: کیا یہ ہمیشہ کا تجدّد ہے یا صرف ایک بار کا فرمانِ خداوندی ہے؟ ہفتم: اس امرِ عظیم کا اطلاق روح پر ہوتا ہے یا جسم پر یا دونوں پر؟ ہشتم: جسمانی، روحانی اور عقلانی تخلیق کے کس مرحلے میں حضرتِ آدمؑ اور حضرتِ عیسیٰؑ کو کُنۡ فرمایا گیا تھا؟ نہم: کُنۡ (ہو جا) کا امرِ پاک تو عربی ہی ہے، کیا یہ کسی اور زبان میں بھی ہو سکتا ہے؟

 

۱۔ لفظِ کُنۡ ایک پُرازحکمت عبارت ہے ۲۔ اللہ کی بادشاہی ہر طرح سے کامل اور معمور ہے اس میں عدمِ محض کا کوئی تصوّر ہی نہیں، لہٰذا کُنۡ کا خطاب عالمِ غیب (عالمِ امر) کی کسی چیز کو ظہور دینے کے لئے ہے، بالفاظِ دیگر خزائنِ غیب سے کسی شیٔ کو نازل کرنے کے معنی میں ہے، آپ قرآنِ حکیم (۱۵: ۲۱) میں بغور دیکھیں، کیا تمام ممکن چیزیں پروردگارِ عالمین کے خزانوں میں موجود نہیں ہیں؟ ۳۔ امر خدا کا ارادہ بھی ہے اور قول بھی ۴۔ جب حضرتِ ربّ کی معرفت ہوسکتی ہے تو ظاہر ہے کہ کلمۂ کُنۡ کی معرفت بھی ہوسکتی ہے ۵۔ جی ہاں، یہ آخری کلمۂ تامّہ ہے ۶۔ یہ تجدّدِ قدیم ہے، جیسا کہ سورۂ رحمان (۵۵: ۲۹) میں ہے: ہر روز اس کی ایک نئی شان ہے ۷۔ کلمۂ باری کا اطلاق پہلے روح پر اور آخر میں عقل پر ہوتا ہے ۸۔ چیزیں دو دو ہیں، اس لئے یہ کہنا حقیقت ہے کہ نہ

۲۷

صرف حضرتِ آدمؑ اور حضرتِ عیسیٰؑ (۰۳: ۵۹) ہی کی بات ہے بلکہ ہر انسانِ کامل سے اس کا تعلق ہے کہ پہلے روحانی تخلیق کے لئے اور آخر میں جا کر عقلی پیدائش کے لئے فرمایا جاتا ہے: کُنۡ (ہو جا) تو وہ ہو جاتا ہے ۹۔ چونکہ ہر زبان آیاتِ قدرت میں سے ہے (۳۰: ۲۲) اس لئے جو بھی عارف ہوگا اور جیسی بھی اس کی مادری زبان ہوگی، اس میں کلمۂ کُنۡ کی ترجمانی (عبارت) ضرور ہوگی۔

 

قرآنِ حکیم میں حقائق و معارف سے متعلق بہت سے کلّیات (قوانین) ہیں، اور ہر کلّیہ لفظِ “کلّ” سے شروع ہوجاتا ہے، مثلاً سورۂ انبیاء (۲۱: ۳۳) میں ہے: كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ = یعنی رات، دن، سورج اور چاند ہرایک، ایک ایک دائرے میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ یہ کلّیہ ہر چیز کے لئے مقرر ہے، پس آفرینش اور کلمۂ کُنۡ بھی ایک دائرے پر ہے، اسی معنیٰ میں یہ کہنا درست اور بجا ہے کہ حق تعالیٰ کے کُنۡ (ہو جا) فرمانے کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، بلکہ یہ اُس ذاتِ قدیم کے ہمیشہ ہمیشہ کا فرمان ہے۔

 

تسخیرِ کائنات نہ صرف مادّی سائنس کا سب سے بڑا دلچسپ موضوع ہے، بلکہ اس کا خاص تعلق روحانی سائنس سے ہے، چنانچہ تسخیر سے متعلق جتنی قرآنی آیات ہیں، ان سب میں علم و حکمت والوں کے واسطے زبردست بشارتیں ہیں، اور ان خوشخبریوں میں یہ اشارہ ہے کہ ستاروں پر بہشت کی لطیف سلطنتیں ہیں، جن کی لازمی شرط خود شناسی اور خدا شناسی ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کلمۂ کُنۡ کے عظیم اسرار کی لازوال دولت عطا فرمائے، کیونکہ امرِ کُنۡ ہی ہے، جس کے لئے شمس و قمر اور ستارے فرمانبرداری کرتے ہیں، جیسے سورۂ نحل (۱۶: ۱۳) میں ارشاد ہے: اسی نے تمہارے واسطے شب و روز اور شمس و قمر کو تابع بنا دیا ہے اور ستارے بھی اسی کے امر سے (تمہارے) تابعدار ہیں، کچھ شک ہی نہیں کہ اس میں عقل والوں کے واسطے بہت سی نشانیاں ہیں۔ یعنی جب تک کنزِ معرفت حاصل نہ ہو جائے، تب تک نہ تو کلمۂ کُنۡ کے اسرارِ عظیم منکشف ہوجاتے ہیں اور نہ ہی تسخیرِ کائنات کا مقصد حاصل ہو سکتا ہے۔

۲۸

اگر آفتاب، ماہتاب، اور ستارگان کے باطنی پہلو میں کوئی عقل و جان نہ ہوتی تو وہ امرِ کُنۡ کے لئے ہمیشہ کے تابعدار نہ ہوتے (۰۷: ۵۴، ۱۶: ۱۲) جیسا کہ اسی مضمون میں قبلاً تخلیقِ آدمؑ اور تخلیقِ عیسیٰؑ کے حوالے سے یہ ذکر ہو چکا کہ کلمۂ کُنۡ کا تعلق جسم سے نہیں بلکہ روح اور عقل ہی سے ہے (۰۳: ۵۹) پس کہنا یہ ہے کہ آیۂ فطرت (۳۰: ۳۰) کے مطابق کائنات باطناً انسانِ کبیر ہے، جس کی سب سے بڑی روشن دلیل: ” اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ ” ہے،(۲۴: ۳۵)  یعنی خدا کائنات کا نور ہے، ذاتِ سبحان کی یہ تجلّی نفسِ کلّی کے نام سے ہے، جس کے بہت سے اسماء میں سے چند یہ ہیں: روحِ اعظم، روح الارواح، عالمگیر روح، جانِ جہان، نفسِ واحدہ، کرسی وغیرہ۔

 

بیانِ بالا سے معلوم ہوا کہ کائنات میں دراصل کششِ ثقل کا کوئی وجود ہی نہیں، بلکہ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور اس کی عطا کردہ فطری ہدایت ہے، آپ قرآنِ حکیم کے پُرحکمت مضامین میں سے مضمونِ ہدایت کو خوب غور سے پڑھ کر بتائیں کہ آیا آسمان و زمین میں کوئی ایسی چیز بھی موجود ہے جس کی حیثیت اور ضرورت کے مطابق ہدایت مہیا نہ کی گئی ہو؟ جب خدا خود یا اس کا کوئی عظیم نمائندہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے تو کیا اس پاک نور میں کائناتی اور عالمگیر ہدایت نہیں ہے؟ ضرور ہے، پس نظامِ کائنات نورِ ہدایت سے قائم و دائم ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

۱۲ جنوری ۱۹۹۷ء

۲۹

 

آفتابِ عالمتاب = چراغِ روشن

 

قرآنِ حکیم نے آفتابِ عالمتاب کو چراغِ روشن کے لقب سے ملقب فرمایا ہے (۲۵: ۶۱، ۷۱: ۱۶، ۷۸: ۱۳) اگر ظاہراً دیکھا جائے تو گھر کا چراغ بمقابلۂ خورشیدِ انور ایک نہایت ہی چھوٹی سی چیز کے سوا کچھ بھی نہیں، جبکہ سورج اپنی بے پناہ جسامت و ضخامت کے ساتھ روشنی کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے، اس کے طوفان خیز شعلوں کی شدت بیان سے باہر ہے، کائنات گیر روشنی، جہان سوز حرارت، اور بے قیاس ایٹمی طاقت کا تذکرہ کیوں کر ممکن ہوسکتا ہے؟ جب ان زبردست اوصاف کے باؤجود نیرِ اعظم کی تشبیہہ و تمثیل چراغ سے دی گئی ہے تو یقین کرنا ہوگا کہ اس حیران کن مثال میں کوئی بہت ہی بڑا راز پوشیدہ ہے، اور اگر فی الواقع وہ سرِعظیم منکشف ہو جاتا ہے تو ہم غریبان بڑی عاجزی اور شکر گزاری کے ساتھ اس کی کچھ وضاحت کرنے کے لئے سعی کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

خداوندِ قدوس کی توفیق و ہدایت کی امید کے ساتھ وضاحت کی جاتی ہے کہ آفتابِ جہان تاب کی مثال چراغِ خانہ سے دینے میں بہت سی حکمتیں ہوسکتی ہیں، لیکن یہ ناچیز بندہ بہت ہی محدود باتیں جانتا ہے:

 

۱۔ چراغ میں ایندھن (تیل) ڈالا جاتا ہے، اسی طرح سورج کے انتہائی عظیم چراغ میں بھی ایندھن (fuel) پڑتا رہتا ہے، وہ البتہ ایتھر (ether)  ہے، کوئی اور نام بھی ہوسکتا ہے، یاد رہے کہ اس کائنات میں کہیں ذرہ بھر خالی جگہ (خلا)  (space vacuum)  نہیں، کیونکہ کائنات سر تا سر لطیف مادّہ اور اجرامِ سماوی سے بھری ہوئی ہے۔

 

۲۔ چونکہ ظرفِ چراغ بہت ہی چھوٹا اور تنگ ہے اس لئے وقفہ وقفہ سے اس

۳۰

میں تیل ڈالتے ہیں، جبکہ دستِ قدرت سورج میں مسلسل برق رفتاری سے ایندھن ڈالتا رہتا ہے، اور اسی سرعت سے نورِ آفتاب کی لہریں اور کرنیں پھیلتی رہتی ہیں۔

 

۳۔ چراغِ خانہ میں ایک طرف سے شعلہ نکلتا ہے اور دوسری طرف سے تیل ڈالا جاتا ہے، مگر چراغِ کائنات ایسا نہیں، وہ تو اپنی گول شکل میں اندر سے اور باہر سے شعلہ ہی شعلہ ہے، لہٰذا اس کے گول ایٹمی شعلے کو چیرتے ہوئے ایندھن داخل ہو جاتا ہے، اس طرح کہ داخل ہو جانا اور خارج ہو جانا آگے پیچھے نہیں بلکہ ایک ساتھ ہے۔

 

۴۔ قرآن ہی نے فرمایا (۳۰: ۳۰) جس کا مفہوم یہ ہے کہ قانونِ فطرت کا بہترین نمونہ انسان خود ہے، اگر وہ اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے تو اپنے ربّ اور اس کی مخلوق (کائنات) کو پہچانتا ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم اس مثال سے اہلِ بصیرت کو دعوت دیتا ہے کہ وہ چراغ کی پانچ مثالوں میں بجا طور پر غور و فکر کریں، پہلی مثال اللہ کے نور سے متعلق ہے (۲۴: ۳۵) دوسری مثال نورِ رسول کے بارے میں ہے (۳۳: ۴۶) تیسری مثال چراغِ کائنات کی ہے، چوتھی مثال چراغِ خانہ کی ہے، اور پانچویں مثال ہے چراغِ حیات (دل = قلب) کی۔

 

۵۔ جس طرح انسانی زندگی کا سرچشمہ اور مرکز دل ہے، اسی طرح نظامِ شمسی کا مرکز اور سینٹر سورج ہے، اس لحاظ سے یہ کہنا بالکل صحیح اور درست ہے کہ چراغِ حیات (قلبِ انسانی) کی اصل معرفت سے چراغِ کائنات (سورج) کی شناخت میں بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے، جی ہاں، ایک مثال کے مطابق یہ دو چراغ ہیں، اور دوسری مثال میں یہ دو دل ہیں، جب یہ دل ہیں تو دونوں کا کام ہے ہمیشہ دھڑکنا، کائناتی دل (آفتاب) کی دھڑکنیں انتہائی زور دار اور مسلسل ایٹمی دھماکوں کی صورت میں جاری ہیں، کیونکہ اس عالم کی بقا کے لئے ایسی ہی زبردست طاقتور دھڑکنوں کی ضرورت ہے، مگر انسانی قلب کی دھڑکن جسمانی ضرورت کے مطابق بہت ہی نرم، آہستہ اور مختصر وقفوں کے ساتھ چلتی ہے۔

 

۶۔ حرکتِ قلب کی بدولت انسان کے بدن میں خون کی گردش کا نظام قائم ہے،

۳۱

جس سے زندگی کے سارے فوائد وابستہ ہیں، اسی طرح سورج ہی ہے جو نظامِ شمسی کے دل کی حیثیت سے کام کر رہا ہے، جس کی وجہ سے دورانِ خون کی طرح مادّۂ کائنات گردش کر رہا ہے، مادّہ یا ایتھر کی گردش کا یہ دائرہ سورج اور کائناتی ایتھر کے مابین ہے، یہ سرکل (circle) بڑا عجیب و غریب ہے کہ اس پر ایک اعتبار سے سورج گھوم رہا ہے اور دوسرے لحاظ سے ایتھر، جیسے سمندر اپنے مرکز پر ٹھہرا ہوا بھی ہے اور اپنے دائرے میں گردش بھی کر رہا ہے، اسی طرح دل اپنے مقام پر ساکن بھی ہے اور خون، حرارت، اور انرجی (energy)  کی شکل میں گردش بھی کر رہا ہے۔

 

۷۔ سورج میں قدرتِ خدا کے جو عظیم اسرار پنہان ہیں، ان کو دنیا کا کوئی فلاسفر یا سائنسدان نہیں جانتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات و موجودات کے خاص خاص بھیدوں کا خزانہ قرآنی حکمت میں پوشیدہ ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کی وہ بے مثال کتاب ہے، جس میں ہر چیز کا بیان آیا ہے (۱۶: ۸۹) اس سے روحانی سائنس کی عظمت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

۱۴ جنوری ۱۹۹۷ء

۳۲

قانونِ قبض و بسط

 

اے عزیزانِ من! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ خدائے بزرگ و برتر کے بابرکت ناموں میں “القابض، الباسط” بھی ہیں، ان کے معنی ہیں: ۱۔ قانونِ قبض و بسط کا مالک ۲۔ واللہ یقبض و یبصط (۰۲: ۲۴۵) اور خدا (کائنات کو لپیٹ کر اپنی) مٹھی میں بھی لیتا ہے اور اسے پھیلاتا بھی ہے۔ ذیلی معانی اپنی اپنی جگہ پر موجود ہیں، لیکن حقیقتِ عالیہ اور حکمتِ بالغہ اس امر کی مقتضی ہے کہ اعلیٰ معنوں کے لئے سعیٔ بلیغ کی جائے، تاکہ حلِ مسائل کے ساتھ ساتھ اہلِ زمانہ پر قرآنِ حکیم کی عظمت و بزرگی بھی روشن ہو جائے۔

 

۱۔ یہ تو آپ مانتے ہیں کہ نہ صرف ذاتِ خدا ہی قدیم ہے بلکہ اس کی تمام صفات بھی قدیم ہیں، اللہ کے قدیم ہونے کے معنی ہیں کہ وہ بادشاہِ ازل ہے، یعنی وہ ہمیشہ ہمیشہ ہے، وہ حادث نہیں کہ پہلے نہ ہو اور پھر وجود میں آئے، اس کی ہر صفت قدیم ہے بغیر اس کے کہ مخلوق قدیم ہو، کیونکہ مخلوق ہونے اور نہ ہونے کے تجدّد سے گزرتی رہتی ہے۔

 

۲۔ حسبِ وعدۂ قرآن اہلِ بصیرت خدا کی آیات (معجزات: ۲۷: ۹۳، ۴۱: ۵۳، ۵۱: ۲۰) کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن یہ نہیں فرمایا گیا کہ بس چند ہی معجزات پر اکتفا کیا جائے گا، اگر اللہ کی رحمت شاملِ حال ہوئی اور عبادت و ریاضت کا ثمرہ ملنے لگا تو آپ تمام ضروری معجزات کا مشاہدہ کریں گے، جن کا تعلق علم و حکمت اور اسرارِ کائنات سے ہے، ان تمام معنوں کو معرفت کہتے ہیں، اور دراصل معرفت کو جملہ معنوں پر فوقیت دی گئی ہے، کیونکہ یہ فنا فی اللہ  کے بعد مکمل ہو جاتی ہے۔

۳۳

۳۔ یہ آیۂ قدرت سب لوگوں کے سامنے ہی ہے کہ خداوند تعالیٰ گٹھلی (بیج) سے درخت کو پیدا کرکے جڑوں اور شاخوں کی صورت میں پھیلاتا ہے اور پھر اسی گٹھلی میں شجر کو بصورتِ جوہر لپیٹ لیتا ہے، اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو حیوان اور انسان کے لئے بھی یہی قانونِ فطرت مقرر ہے، تو کیا تخلیقِ کائنات کا قانون اس سے بالکل مختلف ہوسکتا ہے؟ آپ اس قرآنی مثال میں سوچیں: کائنات وہ بے مثال اور بابرکت زیتون کا درخت ہے جو نہ مشرق کا ہے اور نہ مغرب کا (۲۴: ۳۵) جس کو اللہ پاک ہمیشہ (یعنی ابتداء و انتہا کے بغیر) تخمِ خورشید سے پیدا کرکے پھیلاتا اور خورشید ہی میں بار بار لپیٹتا رہتا ہے، قبض و بسط کی سب سے بڑی مثال یہی ہے، یہی عمل خود دائرۂ لا ابتداء و لا انتہا بھی ہے، اور تجدّدِ امثال بھی۔

 

۴۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اگر کوئی نیک بخت مومن قبل از جسمانی موت نفسانی موت کا مکمل تجربہ حاصل کرتا ہے تو وہ ان اسرارِ قیامت کا مشاہدہ کر سکتا ہے، جن کا ذکر قرآنِ عزیز میں موجود ہے، جیسے القابض اور الباسط کے معنی میں خدا کا کائنات کے باطن کو لپیٹنا اور پھیلانا، اور متواتر ایسا کرنا، یہ معجزہ اس لئے ہے تاکہ عارف یقین کرے کہ کائنات از خود پیدا نہیں ہوئی، بلکہ خدا ہی اس کو ہمیشہ پیدا کرتا رہتا ہے، اور سنبھال رہا ہے۔

 

۵۔ اس دنیا میں جو لوگ وجودِ باری تعالیٰ کے قائل ہیں، ان کو اس حقیقت میں کیا شک ہوسکتا ہے کہ خدا حقیقی بادشاہ ہے، جیسے قرآنِ عظیم کی متعدد آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور آپ دنیوی دستورِ بادشاہت کو ضرور جانتے ہیں کہ جو شخص صاحبِ تخت و تاج ہوتا ہے، وہ فرمان روا اور حاکم ہوتا ہے، لہٰذا وہ اکثر امورِ سلطنت کی انجام دہی کے لئے دوسروں کو حکم دیتا ہے، اور خود بہت سی چیزوں سے بالاتر رہتا ہے، یہ مثال عبث اور فضول ہرگز نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی عظیم بادشاہی کے قانون کو سمجھنے کے لئے ہے۔

 

۶۔ خدا کی بادشاہی کو ہر شخص اپنی علمیت کے مطابق دیکھتا ہے، اور عارفین اسے

۳۴

نورِ معرفت کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے:

 

الف۔ قلمِ اعلیٰ اور لوحِ محفوظ سے مراد عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ہیں جو ہماری کائنات کی عقل اور جان ہیں، اس معنیٰ میں کائنات انسانِ کبیر ہے، جبکہ آدمی انسانِ صغیر ہے۔ ب۔ جب پوری کائنات اپنے اجزاء سمیت ایک آدمی کی طرح زندہ اور باشعور ہے تو مادّی سائنس کے وہ نظریات جو وجودِ کائنات سے متعلق ہیں درست نظر نہیں آتے ہیں، کیونکہ ان میں خالق اور مخلوق کا تصوّر نہیں ہے۔ ج۔ اہلِ معرفت کہتے ہیں کہ آدمی کا دل آئینۂ حق نما بھی ہے اور حقائق نما بھی، اس لئے وہ اپنی ذات میں آیاتِ قدرت کا مشاہدہ کر سکتا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم (۲۷: ۹۳، ۴۱: ۵۳، ۵۱: ۲۰) میں ہے۔ د۔ یہ بھی معرفت ہی کی دلیل ہے کہ ظاہری سائنسدان نے روح کو نہیں دیکھا، جب وہ ذرۂ روح کو دیکھے گا تو اس کے نظریات میں انقلاب آئے گا۔

 

۷۔ اہلِ دانش کو اس حقیقت میں ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ ربِّ جلیل کے ہر اسمِ صفت کا مضمون تمام قرآن میں پھیلا ہوا ہے، چنانچہ القابض اور الباسط کے عالم گیر معنی کو قرآن اور روحانیّت کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت  ہے، تا کہ روحانی سائنس کا حق ادا ہو سکے، ہاں، عملی روحانیّت میں داخل ہو جانا ہر شخص کے بس کی بات تو نہیں، پھر بھی علم الیقین کا سہارا بہت بڑی چیز ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

۱۶ جنوری ۱۹۹۷ء

۳۵

 

اللہ تعالیٰ کے مبارک اسماء

 

جاننا چاہئے کہ خداوندِ قدوس کا ہر اسمِ صفت کسی ایسے خاص کام کے معنی میں ہوتا ہے جو صرف خدا ہی کر سکتا ہے اور اسی کے اختیار میں ہوتا ہے، جیسے: الخالق (پیدا کرنے والا) اسمائے الٰہی میں بڑے بڑے اصولی اور کلیدی اسرار پوشیدہ ہوا کرتے ہیں، مثال کے طور پر خالق کے معنی میں غور کرتے ہیں: آیا یہ خیال درست ہے کہ خدا نے پہلے کچھ پیدا نہیں کیا تھا، پھر اس نے ارض و سماء کو پیدا کیا، اور اب وہ تخلیقِ کائنات سے فارغ ہے؟ یہ خیال یا مفروضہ ممکن اور درست نہیں، کیونکہ اللہ کی ہر صفت قدیم ہے، حادث نہیں، اس کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں (۳۳: ۶۲، ۴۰: ۸۵)۔

 

۱۔ ہمیں آیۂ قانونِ فطرت (۳۰: ۳۰) میں خوب غور کرکے یہ سمجھنا ہوگا، کہ عالمِ کبیر (کائنات) اور عالمِ صغیر (انسان) کی فطرت و آفرینش کے لئے ایک ہی قانون مقرر ہے، وہ یہ ہے کہ دونوں میں تخلیق در تخلیق یا تجدّدِ امثال کا سلسلہ ابتداء و انتہاء کے بغیر جاری ہے، دونوں کا نام مذکورہ آیت میں خلق اللہ ہے، جس میں کوئی تبدیلی نہیں (لا تبدیل لخلق اللہ، ۳۰: ۳۰)۔

 

۲۔ “خلق اللہ” دائرۂ اعظم کا نام ہے جس پر سب کچھ اور سارے احوال ہیں، جن سے انسان ہمیشہ ہمیشہ گزرتا رہتا ہے، اور یہ اس کی لاانتہا ترقی کا دائرہ ہے، یا یوں کہا جائے کہ یہ ترقی سے بھی بہت بڑی چیز ہے، کیونکہ ترقی اور ارتقاء کے لفظی معنی ہیں: پہاڑ پر چڑھنا، سیڑھی کے ڈنڈوں پر چڑھنا، اس میں یہ محدود تصوّر ہے کہ انسان کسی پستی میں گرفتار ہے، لہٰذا اسے وہاں سے نکل بھاگنا ہے، یہ کوئی خاص بات نہیں، بلکہ خاص بات

۳۶

تو یہ ہے کہ بندۂ مومن کے لئے ہر روز ایک نئی شان ہے۔

 

۳۔ سورۂ رحمان میں ارشاد ہے: كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ (۵۵: ۲۹) یعنی خدا ہر روز (مخلوق کی نسبت سے) ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔ سورج کے اندر اور اردگرد نہ بادل ہے، نہ بارش، نہ موسموں کی تبدیلی، نہ شب و روز کا ادل بدل، نہ کوئی پہاڑ اور جنگل، نہ چشمہ، نہ کوئی ندی اور نہر، نہ دریا، نہ باغ و گلشن، نہ چرند و پرند اور آدمی، مگرسورج کے فیوض و برکات سے جوکچھ ہوتا ہے وہ سب زمین ہی پرموجود ہے، اس سے یہ شاندار حقیقت نکھر کر سامنے آگئی کہ صفاتِ الٰہیہ کا مظہر انسان، علی الخصوص انسانِ کامل ہی ہے۔

 

۴۔ اللہ جل جلالہ کی صفتِ خالقیت اور صفتِ علم کے بارے میں ہے: الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ (۱۵: ۸۶، ۳۶: ۸۱) یعنی پیدا کرنے والا (اور) جاننے والا۔ یہاں دوسرا اسم (علیم) تفسیر کے طور پر آیا ہے، جس میں یہ اشارہ ہے کہ اگرچہ تخلیق کے بہت سے درجات ہیں، لیکن آخری درجہ وہ ہے، جس میں نورِ علم کے ذریعے سے عقلی تخلیق ہوتی ہے اور یہ روحانیّت کا سب سے اعلیٰ مقام ہے۔

 

۵۔ اسمائے الٰہی کے مضمون میں آدمِ دور کا ذکر بھی ضروری ہے، کیونکہ ربِّ کریم نے آدم خلیفۃ اللہ کو اسمائے صفات کے نور کی روشنی میں حقائقِ اشیاء کی تعلیم دی تھی، چونکہ کائنات (آسمان زمین) اشیاء کا مجموعہ ہے، اس لئے حقائقِ اشیاء سے علم الکائنات مراد ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ آدمؑ کو خزائنِ اسماء سے کائناتی علم سکھایا تھا۔

 

۶۔ آدم خلیفۂ خدا کی ہستی میں گرتے ہوئے سب سے پہلے جن فرشتوں نے سجدہ کیا، وہ مادّۂ لطیف اور روح پر مبنی ذرات تھے، ان کے بہت سے ناموں میں سے چند یہ ہیں، ذرّات، ذرّیت، ارواح، ملائکہ، یاجوج و ماجوج، جنود، ثمرات، طوفان، طیر (واحد و جمع) حجارۃ، نجوم، جبال، وغیرہ، ذرّاتِ لطیف کے بہت سے نام اس لئے ہیں کہ وہ بہت سی مثالوں میں کام کرتے ہیں، اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ حضرتِ آدمؑ کے

۳۷

علم الاسماء کی کیا شان تھی، وہ صرف الفاظ ہی میں نہ تھا، بلکہ اس کے ساتھ بے مثال عملی نمونے بھی تھے۔

 

۷۔ حضرت آدم علیہ السّلام کے عالمِ شخصی میں روحانی علم کے سارے ذرائع مہیا تھے، جیسے عالمِ ذرّ، جس کا اوپر ذکر ہوا، روحانی قیامت، نورانی موویز(movies) مشاہداتِ عین الیقین، وحی، الہام، تجلّیات، تمثیلات، اور آگے چل کر حظیرۃ القدس میں بہت کچھ بلکہ سب کچھ تھا، اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کو بدرجۂ انتہا علم کی دولت سے نوازا۔

 

۸۔ چونکہ یہ کتاب روحانی سائنس سے متعلق ہے، لہٰذا کسی جھجک کے بغیر یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں قصّۂ آدم آیا ہے، وہاں درحقیقت بے شمار آدموں کا نمائندہ قصّہ ہے، جیسے “انسان” اگرچہ اسمِ واحد ہے، لیکن یہ قرآنِ پاک میں تمام انسانوں کی نمائندگی کر رہا ہے، آیۂ استخلاف (۲۴: ۵۵) میں خوب غور سے دیکھئے کہ اس میں بے حساب خلیفوں کا اشارہ موجود ہے، کیوں نہ ہو جب کہ ہر ستارے پر بہت سے خلفاء کی گنجائش ہے، اور ستارے اس کثرت سے ہیں کہ ان کا شمار بے حد مشکل ہے۔

 

۹۔ تصوّرِ آفرینش کا تذکرہ بار بار ہونا چاہئے کہ وہ ایک دائمی دائرہ ہے جس کا کوئی سرا ہی نہیں، جب بہشت اور اس کی نعمتیں ہمیشہ ہیں، جب بہشت کی مخلوق ہمیشہ ہے تو کائنات بھی ہمیشہ ہے، کیونکہ بہشت کا قیام کائنات پر ہے، اور یہ تمام باتیں قرآن اور روحانیّت کی روشنی میں ہیں (دائم: ۱۳: ۳۵، مخلدون: ۵۶: ۱۷، دامت: ۱۱: ۱۰۸)۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

ہفتہ ۸ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ

۱۸ جنوری ۱۹۹۷ء

۳۸

قانونِ خلود

 

انسانی روح کی مثال پانی ہے، پانی کا مرکز اور کل سمندر ہے، روح کا مرکز اور کل عالم گیر روح (نفسِ کلّی) ہے، جس طرح پانی کے اجزاء بہت سے مقامات پر ہیں، اسی طرح روح کے بہت سے ظہورات ہیں، اگر پانی کا دائرہ ہے تو روح کا بھی دائرہ ہے، پس آپ کی روح ہمیشہ کی بہشت میں بھی ہے، آپ اس تمام مضمون میں غور کریں:

 

۱۔ ہم نفسِ کلّ کے اجزاء میں سے ہیں، اس لئے ہماری موجودہ زندگی کلّی نہیں بلکہ جزوی ہے، ہماری اصل زندگی جو ازلی اور ابدی ہے وہ نفسِ کلّ میں ہے، جو بہشتِ دائم (۱۳: ۳۵) کی زندگی ہے، پس یقین کرنا ہوگا کہ جب قطرہ سمندر سے جا ملے تو کہے گا کہ میں ہمیشہ سمندر رہا ہوں، قطرے کے سامنے حجاب تھا، اب حجاب اٹھایا گیا۔

 

۲۔ بہشت میں ایسے نہایت حسین و جمیل لڑکے ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ لڑکے ہی رہتے ہیں (۵۶: ۱۷، ۷۶: ۱۹) خوب غور کریں کہ یہ لڑکے کہاں سے آتے ہوں گے؟ اگر یہ انسان زاد ہیں تو لازماً ان کی جائے پیدائش دنیا ہی ہوگی، اور فطرت کے اٹل قانون (۳۰: ۳۰) کے مطابق ماں باپ کے مخلوط نطفے سے پیدا ہوئے ہوں گے (نطفۃ امشاج ، ۷۶: ۰۲) یقیناً یہی حقیقت ہے، مگر اس میں یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ بہشت زمان و مکان سے بالاتر ہے، لہٰذا جو حضرات و خواتین بہشت میں داخل ہو جاتے ہیں، وہ خود کو ازلی و ابدی جوان پاتے ہیں، یہ قانونِ خلود کی تشریح ہے (الخلود، ۵۰: ۳۴)۔

 

۳۔ کائنات بھر کی باطنی اور روحانی جنت پرہیزگاروں کے لئے پہلے ہی سے تیار کی گئی ہے (اعدت، ۰۳: ۱۳۳) آخرت کا گھر زندگی سے بھرپور ہے (الحیوان، ۲۹: ۶۴)

۳۹

چنانچہ وہاں کی ہر چیز عقل و جان کی تمام تر خوبیوں سے آراستہ ہے، پس لباسِ بہشت روحِ قدسی اور عقلِ کامل کے ساتھ ایک نورانی شخصیت ہے، جو زمان و مکان سے بالاتر ہونے کی وجہ سے ازلی و ابدی ہے، پس کسی روح کا ایسی شخصیّت میں داخل ہو جانا خلود (بہشت میں ہمیشہ رہنا) ہے۔

۴۔ حضرتِ علی علیہ السّلام کہتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جنت میں ایک بازار ہوگا جس میں خرید و فروخت نہیں ہوگی، ہاں اس میں عورتوں اور مردوں کی تصویریں ہوں گی جو جسے پسند کرے گا اسی کی طرح ہو جائے گا (جامعِ ترمذی، جلدِ دوم، جنت کے بازار)۔

 

۵۔ بہشت کی کوئی چیز عقل و روح کے بغیر نہیں، لہٰذا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ بازارِ جنت کی مذکورہ تصویریں نہ تو کاغذی ہو سکتی ہیں، اور نہ ہی بے جان فلمی، بلکہ وہ ایسی تصویریں ہیں، جو عقل و جان کے اوصاف سے آراستہ ہوتی ہیں، الغرض وہ باکمال، پسندیدہ اور کامیاب اٍنسانوں کی لطیف ہستی کی کاپیاں ہیں، جو تجلّیاتِ جنت اور جامہ ہائے بہشت کے طور پر ہیں، بہشت کوئی عام خواب و خیال نہیں، افسانہ نہیں، جادو نہیں، بلکہ معجزۂ خداوندی اور حقیقت ہے اور کوئی ایسی نعمت نہیں جو انسانوں کی امکانی خواہش میں ہو، مگر بہشت میں فعلاً موجود نہ ہو۔

 

۶۔ روح کا اصل سرچشمہ ہمیشہ ہمیشہ بہشت میں ہے، وہ یہاں آبِ نہر کی طرح آئی ہے، دوسری مثال میں ایسی رسی کی طرح آئی ہے جس کا بالائی سرا بہشت میں ہے، اور تیسری مثال بقولِ مولای رومی: ہم آئے نہیں ہیں، یہ ہمارا سایہ ہے۔

 

روح کی یہ تینوں مثالیں قرآنِ عزیز ہی کی روشنی میں ہیں، جیسے ارشاد ہے کہ: متقین بہشت کے باغوں اور چشموں میں ہیں (۱۵: ۴۵، ۴۴: ۵۲، ۵۱: ۱۵) یعنی پرہیزگار لوگوں کی بہشتی ہستی عقلِ کلّ، نفسِ کلّ وغیرہ کے چشموں میں ہے، جن کی نہریں اس دنیا تک پہنچی ہوئی ہیں، اسی طرح اللہ کی رسی کی مثال ہے (۰۳: ۱۰۳) اور سایہ کے بارے میں ارشاد ہے: اور خدا ہی نے تمہارے لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے (۱۶: ۸۱) یہ

۴۰

ایسے سایوں کی بات نہیں جن سے جانور بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں، بلکہ یہ ان سایوں کا ذکر ہے جو خاص اور اعلیٰ ہیں، وہ بہشت کی عظیم ہستیوں کے سائے ہیں۔

 

۷۔ روح کا اصل سرچشمہ آفتاب کی طرح ہمیشہ ہمیشہ بہشت میں ہے، جس کی مسلسل کرنیں انسان کے باطن پر برستی رہتی ہے، اسی غیر مرئی نورانی بارش کے سلسلے کا نام روح اور حیات ہے، آپ اگر صحیح معنوں میں کوشش کریں تو آئینۂ دل میں خورشیدِ روح کو دیکھ سکتے ہیں، واللہ یہ امر کیوں کر ناممکن ہوسکتا ہے؟ اسی مقصد کے لئے اسلام میں سب کچھ ہے۔

 

۸۔ اے عزیزانِ من! آپ “قانونِ خلود” کو بھول نہ جائیں، یہ قرآنی قوانین میں سے ہے، لہٰذا اس میں بہت سی علمی برکتیں ہیں، جب آپ ان مضامین کو غور سے بار بار پڑھیں گے تو ان شاء اللہ حقیقت روشن ہو جائے گی، یاد رہے کہ عالمِ ظاہر کا زمانہ گزرتا جاتا ہے، لیکن عالمِ باطن (بہشت) کا زمانہ ساکن (ٹھہرا ہوا) ہے، آپ کا سرچشمۂ روح بہشت کا بادشاہ ہے، آپ کسی مقصدِ عالی کی خاطر بطورِ نوکر یہاں آئے ہیں، اگر امتحان میں کامیابی نصیب ہوئی تو آپ بہشت میں واپس اس طرح ہو جائیں گے کہ آپ کی جنت کا وقت کچھ بھی صرف نہ ہوا ہوگا، کیونکہ وہ تو ٹھہرا ہوا زمانہ ہے، اس معنیٰ میں یہ کہنا بالکل درست ہے کہ آپ ہمیشہ ہمیشہ بہشت میں رہتے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

۲۰ جنوری ۱۹۹۷ء

۴۱

روحانی سائنس کا ایک اعلیٰ نمونہ

 

روحانی سائنس کی بہترین مثالیں مطلوب ہوں تو یہ حضراتِ انبیاء و اولیاءعلیہم السّلام کی ذواتِ قدسیہ سے مل سکتی ہیں، آپ جان و دل اور صدق و یقین سے قرآن میں دیکھیں، یہاں یہ ایک بنیادی سوال ضروری ہے کہ خاصانِ الٰہی کیوں بار بار آنسو بہایا کرتے ہیں؟ یہ ان کی شدید گریہ و زاری کسی بڑی مصیبت کی وجہ سے ہے یا یہ سب کچھ بہانۂ عشق ہے؟ کیا اس عملِ پُرحکمت سے کسی درویش کے باطن میں انقلاب آسکتا ہے؟ آیا یہ چیز خود روحانی سائنس کی بنیاد نہیں ہے؟ جواباً کہنا چاہئے کہ یہی شیٔ بنیاد ہے۔

 

۱۔ حضرتِ داؤد علیہ السّلام کسی بھی بہانے سے عشقِ سماوی کی گریہ و زاری اور مناجات کرتے رہتے تھے، قرآنِ حکیم کا ہر قصّہ اور ہر آیت اشارۂ حکمت کے بغیر نہیں ہے، چنانچہ قرآنِ مجید (۲۱: ۷۹ تا ۸۰) میں یہ ذکر ہے کہ خدا کے حکم سے تمام پہاڑ اور پرندے حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے تابع ہوکر آپ کے ساتھ تسبیح خوانی کرتے تھے۔ اس باب میں قانونِ فطرت بڑے وثوق کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ یہ عالمِ ذر کی تسخیر کا تذکرہ ہے، یہاں بطریقِ حکمت پہاڑوں اور پرندوں کا ذکر اس لئے فرمایا گیا ہے کہ پہاڑ جمادات اور بناتات کا نمائندہ ہے اور پرندہ تمام حیوانی اور انسانی روحوں کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ روحیں پرواز کرتی ہیں، پس قرآنِ پاک کی برکت سے آپ پر یہ عظیم راز منکشف ہوگیا کہ تسخیرِ کائنات کا مرحلۂ اوّل عالمِ ذرّ ہے جو عالمِ شخصی میں داخل ہوتا  ہے اور مرحلۂ دوم حظیرۃ القدس۔

 

۲۔ پہاڑ اور دیگر جمادات میں اگر روح نہ ہوتی تو یہ عالمِ ذرّ میں شامل ہوکر حضرتِ

۴۲

داؤد علیہ السّلام میں نہ آتی، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر چیز کی نماز، تسبیح اور سجدہ اللہ کے لئے عالمِ شخصی میں ہے (۲۴: ۴۱، ۱۷: ۴۴، ۲۲: ۱۸) یہ رازِ سربستہ بھی خوب یاد رہے کہ اَنْطَقَ كُلَّ شَیْءٍ (خدا نے ہر چیز کو گویا کر دیا ہے، ۴۱: ۲۱) کا زبردست معجزہ عالمِ شخصی ہی میں رونما ہوتا ہے۔

 

۳۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی قدرتِ کاملہ اور عنایت تھی کہ حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے کارخانۂ روحانیّت میں عجیب و غریب قسم کی زندہ معجزاتی زرہیں بنتی تھیں، اور اس میں اہلِ معرفت کو کوئی شک ہی نہیں کہ یہ معجزہ ہر نبی اور ہر ولی کے لئے خاص ہوتا ہے، اس زندہ زرہ (لبوس = پوشش، ۲۱: ۸۰) کے بہت سے نام ہیں: جثۂ ابداعیہ، جسمِ لطیف، محراب، قرطۂ ابداعیہ، قمیصِ یوسف (۱۲: ۹۳)، ریش (۰۷: ۲۶)، سرابیل (۱۶: ۸۱) دفءٌ (۱۶: ۰۵)  جسمِ مثالی، جسمِ فلکی، کوکبی بدن

(astral body)

جامۂ جنت وغیرہ۔

 

۴۔ لوگوں نے جس مخلوقِ لطیف کو اڑن طشتری کا نام دیا ہے وہ حقیقت میں طشتری یعنی تھالی کیوں کر ہوسکتی ہے؟ کیا آپ نے کبھی بے جان اور بے حس تھالی کو سچ مچ اڑتے ہوئے دیکھا ہے؟ مجھے یقین نہیں کہ آپ نے یا کسی اور نے ایسی چیز دیکھی ہے، پھر یہ ماننا ہی پڑے گا کہ یہ ایک لطیف مخلوق ہے، جس کا ظہور عصرِ حاضر میں ہوا ہے، ہر چند کہ یہ زمانۂ آدم ہی سے ہے، ہاں یہی ہے جسمِ لطیف، جس کے بہت سے نام بتائے گئے۔

 

۵۔ سورۂ یوسف کے اس ارشاد کو دیکھ لیں: اور آسمانوں اور زمین میں (خدا کی قدرت کی) کتنی نشانیاں ہیں جن پر یہ لوگ گزرا کرتے ہیں اور ان سے منہ پھیرتے رہتے ہیں (۱۲: ۱۰۵) یعنی قرآنِ پاک کو اس بات پر اعتراض ہے کہ یہ لوگ آسمان اور زمین کی چیزوں میں خدا کی قدرت اور حکمت کا مطالعہ کیوں نہیں کرتے ہیں؟ قرآنِ حکیم میں ایسی آیاتِ کریمہ بہت ہیں، جو آیاتِ قدرت میں غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔

 

۶۔ قرآنِ عظیم کی ہر مثال مغزِ معنی سے بھرپور اور حکمتِ بالغہ سے مملو ہے، چنانچہ سورۂ قارعہ (۱۰۱: ۰۴) میں ہے: یَوْمَ یَكُوْنُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ۔ جس

۴۳

روز لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گے۔ یہ نمائندہ قیامت کا ذکر ہے جس میں لوگ کثیف سے لطیف ہو جائیں گے یعنی ذراتِ لطیف اور اجسامِ لطیف میں، جیسے خاص کیڑوں سے پروانے ہو جاتے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت چشمِ بصیرت کے سامنے روشن ہوگئی کہ آدم اور ان کے ساتھی جب بہشت میں تھے تو اس وقت وہ جسمِ لطیف میں پرواز کرتے رہتے تھے، لیکن وہ سب جب دنیا میں آئے تو لطافت اُن سے اٹھالی گئی، تاہم کائناتی بہشت جسمِ لطیف کے سوا ممکن نہیں۔

۷۔ سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) میں یہ سرِ عظیم پوشیدہ ہے کہ جب خداوندِ عزّ و جلّ کسی مومنِ سالک کی روحانی تخلیق و تکمیل نفسِ واحدہ کے نمونے پر کرنا چاہتا ہے تو اس کی ذاتی اور نمائندہ قیامت برپا کرکے ساری کائنات کو اس کے عالمِ شخصی میں لپیٹ دیتا ہے، پھر اس کی ہزاروں زندہ اور عاقل کاپیاں بناتا ہے اور یہ جسمِ لطیف کی حقیقت ہے۔

 

۸۔ خدائے واحد کا کلامِ حکمت نظام قرآنِ حکیم کے نام سے ہے، جس کے ایک ہونے میں کوئی شک ہی نہیں، اور یہ حقیقت بھی سب کے سامنے روشن ہے کہ آج اس کی بے شمار کاپیاں دنیا میں موجود ہیں تاکہ جو شخص چاہے اس کے پاس وہی قرآنِ پاک حاضر ہو، اسی طرح ہر اعلیٰ روح کی کاپیاں ہوا کرتی ہیں، اور یہ اس روح کے نیک اعمال کا بیرون از شمار ثواب ہے، تاکہ بہت سے لوگوں کو انسانِ کامل کی کاپی ہونے کی سعادت حاصل ہو۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

۲۱ جنوری ۱۹۹۷ء

۴۴

قانونِ خزائن

 

قرآنِ حکیم گویا علم و حکمت کی یکتا اور بے مثال کائنات ہے، اس کے عظیم پہاڑوں میں انمول جواہر اور عمیق سمندروں میں بے بہا موتی پنہان ہیں، جن کے حصول کے لئے سعیٔ بلیغ، فکرِ جدید، مناسب اجتہاد اور کماحقہ استنباط کی ضرورت ہے، چنانچہ “روحانی سائنس” کی اصطلاح افکارِ جدید میں سے ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ مسلمانانِ عالم اس کی پُرحکمت کتاب (قرآن) میں بجا طور پر غور و فکر کرتے رہیں، اس لئے کہ قرآنِ عظیم تمام زمانوں پر محیط ہونے کے انداز پر نازل ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کی ہدایت و حکمت تہ بہ تہ پائی جاتی ہے تاکہ ہر زمانے کے علماء اس میں غور و فکر کریں، اور انقلاباتِ زمانہ سے جو جو نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں، ان کا حل نکالیں۔

 

۱۔ قانونِ خزائن بے حد مفید اصطلاح ہے، اس سے روحانی سائنس کے تصوّر کو سمجھنے میں بیش از بیش مدد مل سکتی ہے، کیونکہ متعلقہ آیۂ کریمہ سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اشیائے ممکنہ سب کی سب اللہ تبارک و تعالیٰ کے خزانوں میں ہیں، اور اس ارشاد میں جہاں لفظِ عندنا (ہمارے پاس) فرمایا گیا ہے، اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ خدا کے خزانے اصلاً حظیرۃ القدس میں ہیں، جو باطنی، روحانی، عقلی، اور امری ہیں، جہاں تک مادّی اشیاء نہیں جا سکتے ہیں، مگر ہر چیز کی حقیقتِ مجرّدہ وہاں موجود ہے، چنانچہ اس آیۂ مبارکہ کا ایک مستند ترجمہ یہ ہے:

 

کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں (۱۵: ۲۱) بقدر معلوم = معلومات کی

۴۵

مقدار کے مطابق۔ یہ بھی ہو سکتا ہے۔

 

۲۔ آیۂ خزائن کی بعض حکمتیں: (الف) خداوندِ تعالیٰ القابض بھی ہے اور الباسط بھی، اس لئے وہ کائنات (کے جوہر اور معنوں) کو حظیرۃ القدس کے خزانوں میں لپیٹتا ہے، اور پھر اسے پھیلاتا ہے، وہ ہمیشہ ایسا کرتا رہتا ہے، اور حظیرۃ القدس انسانِ کامل کی پیشانی میں ہے، اسی پھیلانے میں کسی چیز کے نزول کا امکان بھی ہے۔ (ب) یہاں خدا کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہی اور کنٹرول (ملکوت، ۳۶: ۸۳) ہونے کی صراحت ہوئی۔ (ج) آپ کے پاس اصلی اور حقیقی معلومات کی جو بھی مقدار ہوگی اور آپ کی جیسی بھی علمی بلندی ہوگی اسی کے مطابق قانونِ خزائن سے فائدہ ملتا رہے گا۔ (د) اس سے یہ حقیقت بھی منکشف ہوگئی کہ کوئی ایسی علمی چیز ہے نہیں جو خدا کے خزانوں میں موجود نہ ہو اور وہ کبھی آپ کو عطا نہ ہو جائے۔

 

۳۔ سورۂ رعد (۱۳) کی آیت ۳۹ میں ایک بڑی زبردست حکمت مخفی ہے جو حلِ مسائل کے لئے بے مثال، بے حد حیران کن اور بیش از بیش ثمر بخش ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب (لوحِ محفوظ = حظیرۃ القدس) ہے (۱۳: ۳۹) اس ارشادِ مبارک کے دوسرے مطالب بھی اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں، لیکن یہاں اس کی کائناتی حکمت کی وضاحت ضروری ہے، وہ یہ کہ خداوندِ تعالیٰ ایک زمانے کے بعد کسی ستارے کو مٹاتا ہے اور ایک زمانے کے لئے کسی ستارے کو باقی رکھتا ہے، کیونکہ ان خزائن میں جو حظیرۃ القدس میں اس کے پاس ہیں، یعنی کلمۂ کُنۡ، قلمِ اعلیٰ اور لوحِ محفوظ میں اصل اور مجرّد چیزیں ہمیشہ ہمیشہ موجود ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ تمام ستارے نہ تو ایک ساتھ پیدا ہو جاتے ہیں اور نہ ہی یکبارگی مٹ جاتے ہیں، بلکہ یہ انسانوں ہی کی طرح ہیں کہ کوئی مر جاتا ہے اور کوئی پیدا ہوتا ہے، اور یہ سب کچھ خدا کے حکم سے ایسا ہے۔

 

۴۔ اے عزیزانِ من! اب یہاں یہ بتانے کا موقع ہے کہ ہر جزوی تخلیق کی ابتداء و انتہاء ہوا کرتی ہے، مگر دائرۂ کلّ (دائرۂ اعظم) کا سلسلۂ آفرینش ایسا نہیں کہ اس کا کوئی
۴۶

سرا مل جائے، اور یہ بھی یاد رہے کہ کائنات مجموعۂ عوالم ہے، کیونکہ اس میں ہر ستارہ ایک عالم ہے، ہر انسان ایک عالمِ شخصی ہے، اور دین سب سے اشرف و افضل عالم ہے، لہٰذا قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں آفرینشِ ارض و سماء کا ذکر آیا ہے، وہاں خوب غور سے دیکھنا ہوگا کہ یہ کس عالم کا تذکرہ ہے؟

 

۵۔ سورۂ انبیاء (۲۱: ۳۰) میں ارشاد ہے: کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے پس ہم نے انہیں الگ الگ کر دیا؟ یہ پُرحکمت مثال سب سے پہلے عالمِ شخصی سے متعلق ہے کہ اس میں ابتداءً آسمانِ عقل اور زمینِ روح مخلوط ہوتے ہیں پھر خدا عقلی آسمان کو روحانی زمین سے بلند کر دیتا ہے، یہی مثال حظیرۃ القدس میں آسمانِ عقلِ کلّ اور زمینِ نفسِ کلّ کے بارے میں بھی ہے کہ وہ دونوں باہم ملے ہوئے ہیں، لیکن گوہرِ عقل کے اشارے سے آسمان کی برتری ظاہر ہو جاتی ہے، ہماری زمین بھی ایک عالم ہے، اس میں بھی البتہ عقل و روح کی یہی مثال ہے، اور عالمِ دین میں بھی۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی۔ کراچی

جمعرات ۱۳ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ

۲۳ جنوری ۱۹۹۷ء

 

۴۷

 

عالمِ ذرّ

 

عالمِ ذرّ کی باطنی حکمت زمانۂ آدم سے شروع ہوئی ہے، کیونکہ جن فرشتوں نے شروع شروع میں بحکمِ خدا حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کو سجدہ کیا، وہ سب مجموعاً عالمِ ذرّ ہی تھے، چونکہ ان تمام لطیف ذرّات کا سجدہ کرنا اطاعت اور تسخیرِ کائنات کے معنی میں تھا، اور وہ ذرّاتی فرشتے عالمِ کبیر اور عالمِ صغیر کی کلیدی قوّتیں تھے، لہٰذا اس میں نہ صرف اشارہ تھا بلکہ یہ پیش گوئی بھی تھی کہ آدم اور اولادِ آدم کے لئے کائنات مسخر ہونے والی ہے، اور یہ بہت بڑا کام ظاہری اور باطنی سائنس ہی سے ہوسکتا تھا۔

 

۱۔ عالمِ ذرّ کی تعریف میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں ہر مخلوق کی نمائندہ روح موجود ہے، یہاں تک کہ اس میں پتھر اور لوہے کی روح بھی حاضر رہتی ہے، اور کوئی ایسی چیز نہیں جس کی روح عالمِ ذرّ میں نہ پائی جائے، عالمِ ذرّ کے کثیر ناموں سے آپ کو اس کے کثیر کاموں کا اندازہ بھی ہوگا اور تعجب بھی کہ ذرّاتِ لطیفِ روحانی کی اس کثرت سے حکمتیں ہیں؟ سبحان اللہ!

۲۔ لطیف مادّہ اور روح پر مبنی ذرّات روحانی لشکر ہیں، اس لئے ان کا ایک نام جنود ہے، یہ وہ روحانی لشکر ہے جس نے کئی نافرمان لوگوں کو تباہ و برباد کر دیا، یاجوج و ماجوج کے نام سے عالمِ شخصی میں فساد کرتے ہیں، تاکہ اس میں تعمیرِ نو کا کام کیا جائے، ان کا ایک نام حجارۃ (حجر کی جمع = پتھر) بھی ہے (۱۱: ۸۲، ۱۰۵: ۰۴) یہ آسمان سے گرے ہوئے ستارے ہیں (۵۶: ۷۵) یہ کوہِ روح ہے جو ریزہ ریزہ ہوچکا ہے، یہ کل اشیاء کے ثمرات ہیں، یہ چیونٹیاں ہیں (۲۷: ۱۸) یہ حضرتِ سلیمان کے لشکر ہیں، جو جنّ، انس، اور پرندوں پر مشتمل ہیں (۲۷: ۱۷) الغرض ان کے اور بھی بہت سے نام ہیں۔

۴۸

۳۔ الذرّ کے معنی ہیں: چھوٹی چیونٹیاں، کرمک، ہوا میں منتشر غبار، اسی سے عالمِ ذرّ کی اصطلاح بنی ہے، جس سے ذرّاتِ روح مراد ہیں، جن کی شبیہہ و تمثیل چھوٹی چیونٹیوں یا غبارِ منتشر سے دی گئی ہے، مومنِ سالک کو جب سے باطنی قیامت کا تجربہ ہونے لگتا ہے تب سے عالمِ ذرّ اس کے لئے کام کرتا رہتا ہے، اور یہ روحانی سائنس کا بہت بڑا انقلاب ہے۔

 

۴۔ چونکہ یہ ذرّات جوہرِ کائنات اور خلاصۂ موجودات ہیں، اس لئے یہ کوئی ایک چیز نہیں ہیں، بلکہ ان میں ہر چیز کی نمائندگی ہے، لہٰذا ان کا ایک ضروری نام “کل شیء” (ہر چیز) ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں کل شیء کا ذکر آیا ہے، وہاں اس مجموعۂ کائنات کا ذکر ہے جو عالمِ ذرّ کی صورت میں ہے، اور اس کا اطلاق حظیرۃ القدس پر بھی ہوتا ہے، کہ وہ وحدتِ اشیاء کا مرتبہ ہے، جیسے ارشاد ہے: وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ (۱۳: ۰۸) اور ہر چیز کے لئے اس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے۔ اگر کائناتیں ایک سے زیادہ ہیں تو پھر بھی عالمِ شخصی میں ایک ہی عالمِ ذرّ اور ایک ہی حظیرۃ القدس ہے۔

 

۵۔ یاجوج و ماجوج عالمِ شخصی کی جس دیوار کو چاٹ چاٹ کر ختم یا خراب کر دیتے ہیں، وہ نفسِ حیوانی کا حجاب ہے جو ظاہرو باطن کے درمیان قائم ہے، چنانچہ جس عرصہ کے لئے یہ دیوار نہیں ہوتی، اس میں حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن مل کر کام کرنے لگتے ہیں جس کے سبب سے آنکھیں ذرّاتِ لطیف کو دیکھتی ہیں، کان روحانی آوازوں کو سنتے ہیں، ناک باطنی خوشبوؤں کو سونگھتی ہے اور اسی طرح عجائب و غرائب اور بڑے بڑے معجزات کا عالم ہوتا ہے۔

۶۔ قرآنِ عزیز (۰۳: ۳۷) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ حضرتِ مریم سلام اللہ علیہا کے پاس خدا کے حکم سے کچھ غذائیں آتی تھیں، میرا عقیدہ ہے کہ روحانی غذائیں آتی تھیں، جو خوشبوؤں کی صورت میں ہوا کرتی ہیں، جن کا تجربہ خدا کے دوستوں کو ہوتا ہے، اسی امکانیّت کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ شاید مستقبل میں یہ غذا عام ہو جائے، کیونکہ اللہ

۴۹

تعالیٰ نے اپنے معجزات دکھانے کا وعدہ فرمایا ہے (۴۱: ۵۳)۔

 

۷۔ مولا علی علیہ السّلام کا یہ ارشاد: “من عرف نفسہ فقد عرف ربہ” کتنا مختصر اور جامع الجوامع کلام ہے؟ کیا انسان سچ مچ اپنے چھوٹے سے جسم میں کوئی ایسی عجیب و غریب کائنات ہے، جس میں کائناتِ اکبر سما گئی ہو؟ کیا اس میں ہر روحانی چیز کا مشاہدہ اور خدا کا دیدار ممکن ہے؟ اگر نہیں تو معرفت کیوں کر ممکن ہو سکتی ہے؟ آیا ہم ذات و کائنات کی معرفت کو روحانی سائنس کا نام دے سکتے ہیں؟ اگر عالمِ ذرّ اور حظیرۃ القدس کا نام کل شیء ہے تو کیا اس مجموعۂ کلّ میں اسرارِ قرآن بھی ہو سکتے ہیں؟

 

۸۔ ایک مثال کے مطابق کائنات و موجودات کا خلاصہ انسان ہے، انسان کا خلاصہ عالمِ ذرّ ہے، اور عالمِ ذرّ کا خلاصہ و جوہر حظیرۃ القدس، جہاں معرفت کے انتہائی عظیم اسرار انتہائی جامعیت کے ساتھ ہیں، اور فنا فی اللہ کا بے مثال و لازوال مرتبہ اسی مبارک مقام پر ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

سنیچر ۱۵ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ

۲۵ جنوری ۱۹۹۷ء

۵۰

جنّات کے بارے میں چند سوالات

 

روحانی سائنس کے سلسلے میں یہ بھی ایک اہم موضوع ہے کہ قرآنِ حکیم اور روحانیّت کی روشنی میں جنّات سے متعلق بطریقِ سوال و جواب کچھ معلومات فراہم کریں، کیونکہ بعض لوگ اس مخلوقِ لطیف کے وجود ہی سے انکار کرتے ہیں، اور بعض کو انکار تو نہیں، لیکن وہ جنّ کی اصل حقیقتوں سے نا آشنا اور نا بلد ہیں، لہٰذا ہماری کلیدی معلومات درجِ ذیل ہیں:

 

۱۔ س: جنّ اور پری قوم کے درمیان کیا فرق ہے یا کیا رشتہ ہے؟ لفظی لحاظ سے جنّ کے کیا معنی ہیں؟ اور پری کو کس معنیٰ میں پری کہا گیا؟ ج: جنّ اور پری ایک ہی قوم ہے، اس لئے فرق اور رشتے کا سوال خود بخود ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ ایک ہی قوم اور ایک ہی مخلوق ہے، جس کا نام عربی میں جنّ اور فارسی میں پری ہے، لفظِ جنّ پوشیدہ ہونے اور نظر نہ آنے کے معنی کو ظاہر کرتا ہے، جب کہ پری (پریدن سے) اڑنے کو کہتے ہیں۔

۲۔ س: سورۂ نمل (۲۷: ۱۷) میں ایک آیۂ کریمہ وَ حُشِرَ تا یُوْزَعُوْنَ ہے، جس کا ترجمہ ہے: سلیمان کے لئے جنّ اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے۔ یہاں یہ ایک فطری سوال ہے کہ پرندے آدمیوں سے بھاگتے ہیں اور آدمی جنّات سے ڈرتے ہیں، پھر ان لشکروں کی یکجائی کیوں کر ممکن ہو سکتی ہے؟ ج: عالمِ ذرّ میں تمام مخلوقات اور جملہ اشیاء ایک جیسے ذرّات ہیں، لہٰذا ماننا ہوگا کہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے یہ تمام لشکر ذرّاتی اور روحانی صورت میں تھے۔

۵۱

۳۔ س: یہ تو معلوم ہی ہے کہ ابلیس سجودِ آدم سے انکار کرنے پر راندہ ہوگیا، اس سے قبل وہ فرشتوں میں سے تھا (۰۲: ۳۴) یہ شہادت چند آیاتِ کریمہ میں موجود ہے، اور سورۂ کہف کے ایک ارشاد (۱۸: ۵۰) میں ہے کہ وہ اس نافرمانی سے پہلے جنّات میں سے تھا، آپ یہ بتائیں کہ اس میں کیا راز ہوسکتا ہے؟ جواب: اس میں بہت بڑا راز یہ ہے کہ مومن جنّ ہی فرشتہ ہوتا ہے، اور فرشتہ ہی مومن جنّ ہوتا ہے۔

 

۴۔ س: کہا جاتا ہے کہ انسان میں عاجزی اور حلیمی اس وجہ سے ہے کہ اس کی سرشت مٹی سے ہوئی، اور جنّ میں سرکشی اس سبب سے ہے کہ وہ شعلۂ آتش سے پیدا کیا گیا ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ج: خیر و شر کی یہ توجیہہ بڑی عجیب ہے، کیونکہ سارے انسان عاجز و حلیم نہیں ہیں، اور نہ ہی تمام جنّات سرکش ہو سکتے ہیں، آپ سورۂ جنّ (۷۲) میں آیت ۱۱ اور ۱۴ کو ذرا غور سے پڑھ لیں، مزید برآن نکتۂ راز تو یہ ہے کہ جنّ کو خداوند تعالیٰ آدمی کی روحانی ترقی سے پیدا کرتا ہے، یعنی جنّ انسان کا جسمِ لطیف ہی ہے کہ جب کوئی مومن عشقِ سماوی کی آگ میں جلتے رہنے کی سعادت حاصل کرتا ہے تو اسی حال میں شعلۂ عشق سے جنّ (فرشتہ = جسمِ لطیف) کا ظہور ہوتا ہے۔

 

۵۔ س: آپ سورۂ رحمان (۵۵) کی آیاتِ شریفہ ۱۴ تا ۱۶ کی حکمت بیان کریں۔ ج: اسی (خدا) نے انسان کو ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی ہوئی مٹی (یعنی صورِ اسرافیل کی ابتدائی آواز) سے پیدا کیا اور اسی نے جنّات کو آگ کے شعلے (یعنی سالک کے نورِ عشق) سے پیدا کیا۔ پس اے جنّ و انس! تم اپنے ربّ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اور جنات قانونِ کثرت کے تحت الگ الگ بھی ہیں، اور قانونِ وحدت کے مطابق ایک بھی ہیں۔

 

۶۔ س: اے گروہِ جنّ و انس! اگر تم سے ہو سکتا ہے کہ تم آسمانوں کے اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو (چلو) نکل جاؤ حالانکہ بغیر غلبہ تم نکل نہ سکو گے (۵۵: ۳۳) کیا آپ اس ارشاد کی کوئی حکمت بتا سکتے ہیں؟ ج: (ان شاء اللہ تعالیٰ) یہ بہت بڑا امتحان روحانی سفر سے متعلق ہے جو انسان کی اپنی ذات میں ہے کہ اگر کوئی مومنِ سالک علم و عبادت کے

۵۲

زور سے ذاتی کائنات کی چھت پر چڑھ سکتا ہے تو وہ یقیناً ان خزائنِ معرفت کو حاصل کر لیتا ہے جو زمان و مکان سے بالاتر ہیں، کیونکہ تمام تر مشکل مسائل قید خانۂ کائنات ہی میں ہیں۔

 

۷۔ س: آپ قرآنِ پاک کے حوالے سے یہ بھی کہتے ہیں کہ بہشت کائنات کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے، اور ستاروں پر لطیف زندگی ہے، ایسے میں کائنات سے باہر جانے کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ ج: کائنات بہشت معرفت سے مشروط ہے، معرفت کے خزانے لامکان میں ہیں، آپ اس کائنات کو دماغ میں رکھتے ہوئے ازل کا تصوّر نہیں کر سکتے ہیں، نہ لامکان کو پہچان سکتے ہیں، اور حظیرۃ القدس کے اسرار سے آگہی ہو سکتی ہے، پس سالک کے لئے یہ سفر ضروری ہے کہ وہ اپنے جنّات یعنی فرشتوں میں مدغم ہو کر عالمِ شخصی کی چھت پر چڑھ کر ایک بار دیکھے تا کہ تمام علمی و عرفانی عقدے کھل سکیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر ۱۷ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ

۲۷ جنوری ۱۹۹۷ء

۵۳

معجزۂ نوافل

(قسطِ اوّل)

 

اہلِ ایمان کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ دینِ فطرت (اسلام) کی عظیم تر نعمتوں کو سمجھیں اور علم و عمل سے انہیں حاصل کریں، جو لوگ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روشن تعلیمات سے حقیقی معنوں میں فیض یاب ہوتے ہیں، وہ فی الواقع بڑے خوش نصیب ہیں، آپؐ کے نورِ ظاہر و باطن کی ہدایات میں احادیثِ قدسی بھی ہیں، جیسا کہ حدیثِ نوافل کا ارشاد ہے، جس کا ترجمہ درجِ ذیل ہے:

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے، اور میرا بندہ میری طرف سے فرض کی ہوئی اُن چیزوں سے جو مجھے پسندیدہ ہیں، میرا قرب حاصل نہیں کر سکتا، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔۔۔ (صحیح البخاری، جلدِ سوم، کتاب الرقاق، باب ۸۴۴، تواضع)۔

 

۱۔ اہلِ دانش کے لئے اس حدیثِ قدسی میں علم و معرفت کا وہ بے مثال اور لازوال خزانہ ہے جسے خداوندِ عالم نے کائناتِ علم و حکمت کو سمیٹ کر بنایا ہے، یہ گنجِ اسرار ایسا نہیں جو وضاحت کرنے سے ختم ہو جائے، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ خدا کے ولی

۵۴

سے دشمنی بدبختی اور باعثِ ہلاکت ہے، اگر کسی کو اس سے دوستی ہے تو یقیناً اس میں اللہ کی خوشنودی ہے۔

 

۲۔ بے شک دینِ اسلام میں فرائض کے ساتھ اور فرائض کے بعد نوافل ہیں، جن کے ذریعے رفتہ رفتہ قربِ الٰہی کی منزلیں طے ہو جاتی ہیں، آسمانی محبت یکطرفہ ہرگز نہیں، جب تک ہم اس مقدّس محبت کو عشقِ سماوی نہ کہیں تو مزہ نہیں آئے گا، عشقِ الٰہی، عشقِ رسول، اور عشقِ ولی کی تعریف کوئی عاشق بھی نہیں کر سکتا ہے۔

 

۳۔ اس حدیثِ قدسی کا حکیمانہ مضمون ہے: فنا فی الولی، فنا فی الرسول، اور فنا فی اللہ، اس بے مثال اور انتہائی عظیم عمل کے بغیر قربِ خداوندی کی اصل صورت نہیں بنتی ہے، اگر عام طور پر سوچا جائے تو کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں خدا نہ ہو، وہ تو ہر آدمی کے لئے رگِ جان سے بھی قریب تر ہے، پھر اس قربِ خاص کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ فنا، فنا، فنا۔

 

۴۔ خدا اپنے عاشقوں کا کان بن جاتا ہے: عاشقانِ الٰہی جن کے کان میں خداوند تعالیٰ کا ظہور یا نور ہو، وہ کیسے کیسے عظیم بھیدوں کو سنتے ہوں گے؟ کیا ایسے میں بھی تسخیرِ کائنات کے اسرار سنائے نہیں جائیں گے؟ آپ خوب غور کرکے بتائیں کہ وہ کون کون سی آوازوں کو نہیں سنتے ہوں گے؟ وہ “فنا فی اللہ و بقا باللہ” کے اعلیٰ معنی میں جیتے جی مرکر زندہ ہو گئے ہیں، اس لئے انہوں نے ذاتی قیامت کے بے شمار اسرار کو سنا اور دیکھا ہوگا؟ یقیناً انہوں نے ذات و کائنات کے بہت سے روشن معجزات کو دیکھا ہوگا؟

 

۵۔ خدا اپنے عاشقوں کی آنکھ بن جاتا ہے: یعنی ربِّ کریم اپنے خاص بندوں کی عین الیقین اور چشمِ بصیرت بن جاتا ہے تا کہ وہ ان تمام اسرارِ باطن کا مشاہدہ کرسکیں جو ہر گونہ معرفت سے متعلق ہیں، یہ بڑا عجیب و غریب انقلابی تصوّر ہے، اس مقصدِ عالی اور نعمتِ عظمیٰ کے حصول کے لئے جانوں کی روحانی قربانی درکار ہے، اور اگر ہم اس گنجِ گرانمایہ کی طلب سے غافل رہتے ہیں تو یہ ہماری بہت بڑی نادانی ہوگی، الغرض حدیثِ نوافل کے مژدۂ جانفزا سے سالکینِ دینِ مبین کو زبردست حوصلہ ملتا

۵۵

ہے۔

 

۶۔ خدا اپنے عاشقوں کا ہاتھ بن جاتا ہے: اس حدیثِ قدسی کے انتہائی عظیم اسرار کی شکرگزاری اور قدردانی نہ ہونے کا ڈر رہتا ہے، کیونکہ یہ جملہ احوال وہ ہیں جو فنا فی اللہ و بقا باللہ کے بعد عارفِ کامل کے سامنے آتے ہیں، جیسے گوہرِ مقصود کو ہاتھ میں لینا اور افعالِ قدرت کا مظاہرہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔

۷۔ خدا اپنے عاشقوں کا پاؤں بن جاتا ہے: یعنی وہ پاؤں جو کعبۂ روحانی اور قبلۂ عقلانی تک چل سکتا ہے، وہ کامیاب ذکرِ خفی اور ذکرِ قلبی ہے، وہ اسمِ اعظم کا سب سے بڑا معجزہ ہے، وہ تمام ستاروں پر جسمِ لطیف کی سیاحت ہے، وہ عالمِ شخصی میں چلنا پھرنا ہے، اور وہ جنت کی سیر ہے۔

 

۸۔ معجزۂ نوافل سنتِ الٰہی کے مطابق ہے، لہٰذا یہ ہمیشہ اس جہان میں جاری و ساری ہے، کیونکہ یہ امر محال ہے کہ خورشیدِ انور کی شعاعیں کبھی کائنات میں برستی رہیں اور کبھی بند ہو جائیں، اب اس بیان کے بعد روحانی سائنس کے موضوع پر بے حد روشنی پڑتی ہے، اور بڑی جرأت مندی سے کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تمام مسلم ممالک میں روحانی سائنس پر ریسرچ سے متعلق ادارے قائم کئے جائیں، تاکہ اس کوشش سے مستقبل میں بڑے بڑے مسلم سائنسدان پیدا ہو جائیں اور وہی دانشمند ظاہری و باطنی حکمت (سائنس) کی روشنی میں یہ ثابت کر سکیں کہ مادّی سائنس کی بنیاد میں خدا کی ہستی سے انکار کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۲۸ جنوری ۱۹۹۷ء

۵۶

معجزۂ نوافل

(قسطِ دوم)

 

نفل: وہ عبادت جو فرض نہ ہو، وہ نماز جو فرض، واجب اور سنت کے علاوہ پڑھی جائے، زائد عبادت جو شکرانہ کے طور پر ادا کی جائے،جمع: نوافل۔

 

حدیثِ نوافل میں ایک خاص اشارہ ذکرِ الٰہی کی طرف بھی ہے، کیونکہ قرآن و حدیث میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی بابرکت یاد کا بیان کثرت سے آیا ہے، یقیناً خدائے بزرگ و برتر کے اسمِ بزرگ میں نور و سرور کا سرچشمہ پنہان ہے، جس سے ہر مومن اپنے علم و عمل کے مطابق فائدہ حاصل کر سکتا ہے، اور حکمت اسی میں ہے کہ آپ ہر لحظہ حضرتِ ربّ کو یاد کرتے رہیں، اور ہرگز ہرگز غافلوں میں سے نہ ہو جائیں۔

 

۱۔ اللہ تعالیٰ کی سنت (عادت) ہمیشہ ایک ہی ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں، صراطِ مستقیم ایک ہی ہے، اور جن حضرات نے اس پر چل کر نمونہ دکھایا (۰۴: ۶۹) وہ بھی اس راہ کی روحانیّت اور معرفت میں ایک ہی ہیں، اور معجزۂ نوافل کا خاص تعلق بھی انبیاء و اولیاء علیہم السّلام ہی سے ہے، کیونکہ وہی حضرات پیشرو اور رہنما ہیں، لیکن پھر بھی راہِ مستقیم پر چلنے والوں کے لئے ربّ العالمین کے کیسے کیسے انعامات ہیں کہ پیشرو آگے آگے اور پیرو ان کے پیچھے پیچھے روحانی معجزات کرتے ہوئے منزلِ مقصود کی طرف روان دوان ہیں۔

 

۲۔ سورۂ فاتحہ کی پُرحکمت تعلیمات میں غور سے دیکھیں: ہم کو سیدھے رستے چلا، ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل و کرم کرتا رہا (۰۱: ۰۵ تا ۰۶) یہ خاص الخاص دعا اللہ نے اپنے

۵۷

بندوں کو سکھا دی ہے، جس میں نہ صرف انبیاء و اولیاء کی پیروی اور روحانی ترقی مطلوب ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام روحانی نعمتیں (از قسمِ مشاہداتِ اسرار) بھی مقصود ہیں جو ان حضرات کو حاصل تھیں۔

 

۳۔ اے عزیزان! یہ نکتہ ہمیشہ یاد رہے کہ فنا فی اللہ کا اصل راز جذبِ دیدار ہے، اس لئے جب کسی سالک کو انتہائی قرب کا درجہ حاصل ہوتا ہے، تو وہ فوراً ہی فنا فی اللہ ہو جاتا ہے، چنانچہ حدیثِ نوافل میں بالآخر انتہائی قرب یعنی فنا فی اللہ و بقا باللہ کا تذکرہ ہے، اسی وجہ سے ہم معجزۂ نوافل کے عنوان سے کچھ حقائق و معارف بیان کرنے کی جسارت کر رہے ہیں تاکہ روحانی سائنس کے تصوّر کو زیادہ سے زیادہ تقویّت حاصل ہو سکے۔

 

۴۔ شاید لوگوں کو یہ گمان ہو کہ “فنا فی اللہ” اس دنیا میں کسی بشر کے لئے ممکن ہی نہیں، ایسا خیال اس وجہ سے آتا ہوگا کہ عوام کی نظر ہمیشہ ظاہر اور جسم ہی پر رہتی ہے، وہ روح کے باطنی احوال کو دیکھ نہیں سکتے ہیں، اور ان کو کوئی گلہ بھی نہیں ہے، کیونکہ خود شناسی اور خدا شناسی انتہائی مشکل کام ہے، لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس بہت بڑی کمی کے لئے کوئی چارۂ کار نہ ہو، جاننا چاہئے کہ یقین (معرفت) مرحلہ وار ہے، جیسے علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین، پس ہر شخص کو اوّل اوّل علم الیقین سے وابستہ ہو جانا چاہئے۔

 

۵۔ قرآنِ حکیم کی ایسی آیاتِ کریمہ میں “فنا فی اللہ” کا ذکرِ جمیل زیادہ نمایان ہے جن میں وجہ اللہ اور لقاء اللہ یا لقائے ربّ جیسے پاک و مبارک الفاظ آئے ہیں، کیونکہ فنا کا اصل راز جذبِ دیدارِ پاک ہی ہے، اس کے بعد بھی کوئی آیۂ مقدّسہ ایسی نہیں جس کی حکیمانہ ہدایت منزلِ مقصود کی طرف نہ جاتی ہو، اور وہ پاک منزل خداوندِ عالم ہی ہے اور اُس کا دیدارِ اقدس، جس میں جذبِ دیدار ہے، آپ نے دیکھا کہ قرآنِ عظیم میں کس طرح ہر چیز کا بیان ہوسکتا ہے۔

 

۶۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ روحانی سائنس ہی کا ذریعہ اور سلسلہ ہے کہ اگر حضرتِ خالق کی ملاقات کے اسرار معلوم ہو سکتے ہیں تو مخلوق (کائنات) کے ضروری بھید کیوں معلوم نہیں ہوسکتے؟ یقیناً دوستانِ خدا نورِ معرفت کی روشنی میں روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کو

۵۸

بیان کر سکتے ہیں۔

 

۷۔ انسان (بوسیلۂ مرشدِ کامل) کارخانۂ قدرت بھی ہے اور آئینۂ حسن و جمالِ الٰہی بھی، قادرِ مطلق عالمِ شخصی کے کارخانے میں ہمیشہ کے لئے کائناتیں بناتا ہے، ہر کائنات ایک عظیم فرشتے کی صورت میں زندہ اور عاقل ہوا کرتی ہے، اور وہ انسانِ لطیف بھی ہے، نیز وہ اس موجودہ کائنات کی جان بھی ہے، کیونکہ کائنات ہی خام مال کے طور پر اس کارخانے میں استعمال ہوتی رہتی ہے، اور یہ عملِ تجدّد کا سلسلۂ لاابتداء و لاانتہاء ہے۔

 

اب آپ یہ بتائیں کہ کائنات زندہ اور باشعور ہے یا نہیں؟ اگر یہ سچ مچ زندہ و عاقل آدمی کی طرح ہے تو یہ خدا ہی کی تعریف ہے کہ اسی نے ایسا عجیب و غریب عالم بنایا ہے، پھر مادّی سائنس کے ان نظریات کو رد کرنا ہوگا، جن سے وجودِ باری تعالیٰ کی نفی کی بو آ رہی ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

فرسٹ ہیڈکوارٹر کراچی

جمعرات ۲۰ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ

۵۹

۳۰ جنوری ۱۹۹۷ء

عالمِ شخصی

 

جیسا کہ آپ جانتے ہیں ظاہری کائنات انسان کی نسبت سے عالمِ کبیر کہلاتا ہے جبکہ انسان کو عالمِ صغیر کہا جاتا ہے، اور اسی کو ہم عالمِ شخصی بھی کہتے ہیں، یعنی ایسا جہان جو ہر شخص کے اندر پوشیدہ ہے یا ہر آدمی کی ذاتی کائنات جو اس کی ہستی میں پنہان ہے، چنانچہ عالمِ شخصی کی بے حد اہمیت اور بے قیاس قدر و قیمت اس وجہ سے ہے کہ اس کی حقیقی اور کلی معرفت حضرتِ ربّ کی معرفت ہو جاتی ہے۔

 

۱۔ حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: اعرفکم بنفسہٖ اعرفکم بربہٖ = تم میں جو شخص سب سے زیادہ اپنی ذات کا عارف ہے وہی شخص تم میں سب سے زیادہ اپنے ربّ کا عارف ہے (زاد المسافرین، ص ۲۸۷) اس حدیثِ شریف سے ایک طرف عالمِ شخصی کی بڑی زبردست اہمیت کا ثبوت ملتا ہے اور دوسری طرف صاف طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ پروردگارِ عالم کی معرفت کے درجات ہیں، جن پر لوگ اپنی اپنی سعی کے مطابق فائز ہو سکتے ہیں۔

 

۲۔ عالمِ شخصی کی تعریف دیوانِ علی میں اس طرح ہے: (ترجمہ) تیری دوا تیرے باطن ہی میں ہے اور تجھ کو خبر نہیں، اور تیری بیماری تجھ ہی سے پیدا ہوتی ہے اور تو دیکھتا نہیں، اور تو خیال کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے، اور تو ہی وہ کتابِ مبین ہے کہ جس کے حرفوں سے پوشیدہ راز ظاہر ہوتے ہیں۔

 

یہ عام باتیں نہیں بلکہ انتہائی خاص باتیں یا حکمتیں ہیں، خدا کرے کہ اسرارِ حکمت بہت سے دلوں میں نقش کالحجر ہو جائیں!

۶۰

۳۔ فرمایا گیا کہ ساری کائنات عالمِ شخصی میں سمائی ہوئی ہے، تاکہ کائنات (ارض و سما) کے بھیدوں کی تحقیق کی جائے، چنانچہ عارفین و کاملین کے توسط سے بہت سے کلیدی اسرار منکشف ہوگئے ہیں، جیسے کائنات و موجودات کے نمائندہ ذرّات کو عالمِ شخصی میں بلانا، انفرادی حشر اور عالمِ ذرّ کا ظہور، ذرّۂ لطیف کا انکشاف، جو روح اور مادّہ کا سنگم ہے، اور یہی وہ بنیادی دریافت ہے جس پر روحانی سائنس کا دعویٰ کرنے والے فخر نہیں تو شکر کر سکتے ہیں، کیونکہ یہ انتہائی عجیب و غریب شیٔ ہے، اور یہی نمائندۂ کُلّ ہے، اس لئے کہ یہ جوہرِ عالم اور گوہرِ آدم و ابنِ آدم ہے، سورج، چاند اور ستاروں کا نمونہ ہے، مادّۂ فلکی، آگ، ہوا، پانی اور مٹی کی مثال ہے، جماد، نبات، حیوان (چرند و پرند وغیرہ) انسان، جنّ اور فرشتہ کا نمونہ ہے۔

 

۵۔ خداوندِ تعالیٰ قادر علی الاطلاق (یعنی قادرِ مطلق) ہے، وہ ارض و سما اور ظاہر و باطن کی لامحدود چیزوں کو سمیٹ کر عالمِ شخصی میں محدود بناتا ہے، پھر انسان کے باطن کو کائنات میں پھیلا کر لامحدود بناتا ہے، درحالے کہ کائنات اور آدمی اپنی اپنی جگہ موجود بھی ہیں، یہ تسخیرِ کائنات کا عملی نمونہ ہے، اور اس ہمہ گیر اور بدرجۂ انتہا عظیم معجزاتی عمل سے کائناتی بہشت کا ظہور عالمِ شخصی میں ہونے لگتا ہے، جس کا اشارہ اور تذکرہ قرآنِ کریم کے کئی مقامات پر آیا ہے۔

۶۱

۶۔ سورۂ محمد (۴۷: ۰۶) میں بہشت کے مشاہدہ اور معرفت کے بارے میں انقلابی فیصلہ فرمایا گیا ہے: وَ یُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ۔ اور ان کو اس بہشت میں داخل کرے گا جس کا انہیں (پہلے سے) شناسا کر رکھا ہے۔ یہ آیۂ کریمہ خصوصاً شہدائے باطن کے بارے میں ہے کہ وہی نیک بخت لوگ جیتے جی روحانی جہاد میں جامِ شہادت نوش کرکے بہشت کے عظیم الشّان نمونوں کو دیکھتے ہیں، آپ مذکورہ سورہ (۴۷: ۰۶) میں دیکھیں کہ ربطِ مضمون جہاد فی سبیل اللہ اور شہداء سے متعلق ہے، اور شہید جیسا کہ معلوم ہے روحانی و جسمانی دو قسم کے ہوتے ہیں، جن میں سے روحانی شہیدوں کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ حضرات نہ صرف نفسانی موت اور ذاتی قیامت کو سر تا سر دیکھ لیتے ہیں، بلکہ عالمِ شخصی میں ان کو بہشت کی معرفت بھی حاصل ہو جاتی ہے جبکہ یہ اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

 

۷۔ عالمِ شخصی کے بہت سے باطنی درجات ہیں، ان میں سب سے اعلیٰ درجہ حظیرۃ القدس کے نام سے ہے یہ گویا عالمِ شخصی کے چھت (عرش) ہے، جہاں پہنچ جانے پر مکان و زمان کی سرحدیں ختم ہو جاتی ہیں، اور لامکان و دہر کے معجزات رونما ہوتے ہیں، وہاں کے معجزے بے شمار ہیں، لیکن عالمِ وحدت کی وجہ سے وہ سب اپنے اپنے خزانوں میں ایک ہوگئے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

اتوار ۲۳ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ

۲ فروری ۱۹۹۷ء

 

۶۲

 

شعوری فنا اور غیر شعوری فنا

 

جاننا چاہئے کہ ہر انسان بحدِّ قوّت کائنات و مشمولات کی ہو بہ ہو کاپی  (copy)  ہے، اسی لئے ہم مانتے ہیں کہ: “ایک میں سب ہوتے ہیں۔” پس اگر کوئی سالک نیک بختی سے فنا فی المرشد، فنا فی الرسول، اور فنا فی اللہ ہو جاتا ہے تو ایسی فنا اس کے حق میں شعوری اور عرفانی ہوتی ہے، مگر ان سب لوگوں کے لئے جو اس سالک میں بشکلِ ذرات موجود ہیں، یہ حالت غیر شعوری فنا ثابت ہو جاتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ شعور کے اعتبار سے فنا دو (۲) قسم کی ہوا کرتی ہے، یعنی ایک شعوری فنا ہے اور دوسری غیر شعوری فنا۔

 

۱۔ غیر شعوری فنا کی پہلی مثال مٹی (جماد) ہے جو نبات میں فنا ہو جاتی ہے، دوسری مثال نبات ہے جو حیوان میں فنا ہو جاتی ہے، اور تیسری مثال حیوان ہے جو انسان میں فنا ہو جاتا ہے، لیکن ان چیزوں میں قطعاً شعور نہیں ہے، اس لئے ان کو نہ اپنی ترقی کی کوئی خبر ہے اور نہ اس سے انہیں خوشی ہو سکتی ہے، جس کی وجہ بس یہی کہ یہ چیزیں غیر شعوری طور پر فنا ہو رہی ہیں کیونکہ ان میں عقل اور علم کی ذرہ بھر بھی روشنی نہیں۔

 

۲۔ آپ قرآنِ عزیز میں دیکھ لیں کہ بہت سے لوگ ظاہراً انسان ہونے کے باوصف چوپایوں میں کیوں شمار ہوتے ہیں (۰۷: ۱۷۹، ۲۵: ۴۴)؟ اس لئے کہ وہ حقائق و معارف کی طرف توجہ نہیں دیتے اور عقل کی نعمتِ عظمیٰ سے کام نہیں لیتے، ان کو انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کی کوئی پہچان نہیں، وہ قانونِ فنا کو نہیں جانتے ہیں، لہٰذا ان کو کوئی حقیقی خوشی نہیں۔

 

۳۔ قرآنِ کریم میں سر تا سر عقل و دانش اور علم و حکمت کی تعریف و توصیف آئی ہے، منجملہ

۶۳

صرف ایک ہی مثال پر اکتفا کرتے ہیں، وہ ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک بہت بڑا لقب: “اولوا الالباب” جو قرآنِ حکیم کے ۱۶ مقامات میں ہے، جس کے معنی ہیں صاحبانِ عقل، اور عقل والوں کے کیا کیا اوصاف ہیں، ان سب خوبیوں کو آپ قرآن بھر میں دیکھ سکتے ہیں، یہاں نفسِ مضمون سے متعلق اولوا الالباب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ حضرات اسرارِ فنا کو جانتے ہیں۔

 

۴۔ شعوری فنا کی تعریف سے زبان قاصر اور قلم عاجز ہے، اس سلطنتِ بے مثال و لازوال کے فوائد کبھی ختم ہونے والے نہیں، آپ علم الیقین کے ذریعہ غیر شعوری فنا سے فائدہ حاصل کرنے کی بات کیجئے، کہ تمام انسانوں کے نمائندہ ذرّات ہر نبی اور ہر ولی کے عالمِ شخصی میں موجود ہوتے ہوئے آئے ہیں، یہ تصوّر بڑا ایمان افروز اور روح پرور ہے، اور بار بار سمجھنے سے یہ آپ کے علم الیقین کا حصہ بن جاتا ہے، اب آئیے ہم قرآنِ حکیم میں اس کی چند مثالیں دیکھیں:

 

۵۔ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۱) میں ہے: اور ہم نے تم کو پیدا کیا پھر ہم نے ہی تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے۔ یعنی خدا تعالیٰ نے آپ کو اور ہمیں دیگر تمام لوگوں کے ساتھ حضرتِ آدم کے عالمِ ذرّ میں بشکلِ ذرّات پیدا کیا، ہم سب اس حال میں ذرّاتی فرشتے تھے، پس ہم سب نے خدا کے حکم سے عالمِ ذرّ میں آدم کے لئے سجدہ کیا جس سے ہماری ترقی ہوئی، اور ہم آگے چل کر خلیفۃ اللہ میں فنا ہوگئے تب خدا نے ہم سب کو عقلی صورت دے کر فرمایا کہ آدم کے لئے اب بارِ دوم سجدہ کرو پس سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔

 

۶۔ اے عزیزانِ من! قرآنِ پاک میں جو سنتِ الٰہی کی حکمتوں کا مضمون ہے اس کو خوب غور سے پڑھنے اور سمجھ لینے کی ضرورت ہے، اور اس میں یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ باطنی امور کے اعتبار سے اللہ کی سنت (عادت) میں کوئی تبدیلی نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر نبی اور ہر ولی کی روحانیّت میں قصّۂ آدم کے باطنی پہلو کا تجدّد ہوتا رہا ہے تاکہ

۶۴

علم و معرفت کا سرچشمہ کسی کمی کے بغیر جاری رہے۔

 

۷۔ حدیثِ شریف ہے: ان للقراٰن ظھراً و بطناً و لبطنہ بطن الیٰ سبعۃ ابطن۔ بے شک قرآن کا ظاہر اور باطن ہے اور اس کے باطن کا بھی باطن ہے، سات باطنوں تک (مثنوی مولانا روم، دفترِ سوم)۔

 

حضرتِ نوح علیہ السّلام کی ظاہری کشتی مثال تھی اور باطنی کشتی ممثول، چنانچہ ہم سب لوگ بحالتِ ذرات ہر پیغمبر کے ساتھ تھے، اور اسی طرح حضرتِ نوحؑ کی روحانی کشتی میں بھی سوار ہوئے تھے، جیسا کہ سورۂ یاسین (۳۶: ۴۱) میں ارشاد ہے: اور ان کے لئے یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ ہم نے ان کے (روحانی) ذرّات کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا۔ یہاں ایک قفلِ حکمت یہ ہے کہ جب کشتی پہلے ہی سے بھری ہوئی تھی تو اس میں مزید سواریوں کے لئے کیسے جگہ پیدا ہوگئی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ تمام نمائندہ ذرّات صاحبِ کشتی میں فنا ہوگئے تھے، اور یہاں یہی اشارہ مقصود ہے۔

 

۸۔ عالمِ شخصی کے روحانی سفر کے اختتام پر سالک کو فنا فی اللہ ہو جانا ہے، ایسے میں مقامِ فنا کون سا ہوگا؟ عرشِ سماوی؟ عرشِ ارضی؟ کعبۂ حقیقی؟ بیت المعمور؟ حظیرۃ القدس؟ یا وہ عرش جو علم کے پانی پر ہے؟ پس عجب نہیں کہ فنائیں ایک سے زیادہ ہوں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ پانی پر، جو عرشِ الٰہی ہے اُس کا دوسرا نام بھری ہوئی کشتی ہو، کیونکہ اللہ کی ذات صمد ہے، یعنی وہ اس بات سے بے نیاز اور پاک و برتر ہے کہ کوئی شخص اس میں داخل ہو جائے، اور صمد کے معنوں میں سے ایک معنی ٹھوس کے ہیں، اس کا اشارہ یہ ہوا کہ ذاتِ خدا میں کوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی ہے، پس فنا فی الولی اور فنا فی الرسول کے بعد دیدارِ خدا ہی بمرتبۂ فنا فی اللہ ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۲۵ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ

۴ فروری ۱۹۹۷ء

 

۶۵

 

قرآنِ حکیم اور روحانی سائنس

 

یہ سورۂ نحل کے ایک ارشادِ مبارک کا ترجمہ ہے: اور ہم نے تم پر کتاب (قرآن) نازل کی جس میں ہر چیز کا (شافی) بیان ہے اور مسلمانوں کے لئے (سر تا پا) ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے (۱۶: ۸۹) اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ قرآنِ عزیز تمام ضروری اور مفید علوم پر حاوی اور محیط ہے، اور اس کے علم و حکمت اور روح و روحانیّت کے احاطے سے کوئی چیز باہر نہیں۔

 

۱۔ اس آیۂ مبارکہ کے چار عنوانات کولیتے ہیں: (الف) قرآنِ پاک کے ظاہر و باطن میں اہلِ بصیرت کے لئے ہر چیز کا بیان موجود ہے۔ (ب) قرآن دین و دنیا میں آگے بڑھ جانے کے لئے روشن ہدایت ہے تاکہ مسلمانانِ عالم خصوصی طور پر سب سے آگے بڑھ سکیں۔ (ج) قرآن رحمت ہے یعنی یہ اخلاقی اور روحانی ترقی کا وسیلہ ہے۔ (د) قرآن خوشخبری ہے یعنی جو بھی اس پر عمل کرے اس کو روحانی اور نورانی خوش خبری مل سکتی ہے، اور یہ مکمل روحانیّت اور درجۂ معرفت کا اشارہ ہے۔

 

۲۔ اگر کوئی صوفیٔ صافی قرآن اور اسلام کی روشنی میں فنا فی المرشد یا فنا فی الشیخ یا فنا فی الامام ہو جاتا ہے، اور اس کے بعد وہ فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ ہو جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ایسا بڑا خوش نصیب صوفی اسرارِ کائنات کو جانتا ہوگا، اور اسی وسیلے سے کائنات و مخلوقات کے باطنی قوانین کو جاننا روحانی سائنس ہی ہے، آپ اس کتاب میں معجزۂ نوافل کو پڑھیں اور یہ بتائیں کہ خدا اپنے جس بندۂ مومن کے حواسِ باطن کا نور بن جاتا ہے، کیا اس بندے کے پاس کوئی خاص علم نہیں ہو گا؟ کیوں نہیں، ضرور اس کے پاس علمِ لدنی

۶۶

ہو گا۔

 

۳۔ کہتے ہیں کہ آدم علیہ السّلام سے قبل سیّارۂ زمین پر جنّ و پری رہتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سب لطیف انسان تھے، کیونکہ انسان ہی ہے جو دورِ کثیف اور دورِ لطیف سے ہمیشہ گزرتا رہتا ہے، جس کی مثال ریشم کا کیڑا ہے جس کو زندگی کے دائرے پر رینگنا بھی ہے اور پروانہ بن کر اڑنا بھی ہے، اور یہ ہمیشہ کی بات ہے، اگر یہاں یہ کہا جائے کہ آگے چل کر انسان لطیف بن کر پرواز کرنے والا ہے تو شاید اکثر لوگ باور نہیں کریں گے، حالانکہ یہ بات اہلِ معرفت کے نزدیک ایک روشن حقیقت ہے۔

 

۴۔ ظاہری سائنسدان ابھی اس امکانیت پر ریسرچ کر رہے ہیں کہ آیا سیّارۂ زمین کے علاوہ اور کہیں زندگی ہے یا نہیں؟ درحالے کہ قرآنِ عزیز فرماتا ہے: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے یہ زمین اور آسمانوں کی پیدائش، اور یہ جاندار مخلوقات جو اس نے دونوں جگہ پھیلا رکھی ہیں، اور وہ جب چاہے انہیں اکٹھا کر سکتا ہے (۴۲: ۲۹) سورۂ شوریٰ کی یہ آیۂ مبارکہ اس حقیقت کی برہانِ قاطع ہے کہ کائنات کا کوئی مقام کوئی گوشہ خدا کی مخلوقات سے خالی نہیں، مخلوق کثیف ہو یا لطیف، انس ہو یا جنّ، فرشتہ ہو یا روح، ذرّہ ہو یا جثۂ ابداعیہ، بہ ہر حال زمین کی طرح آسمان بھی مخلوقات سے بھری ہوئی ہے۔

 

۵۔ کائنات اپنے باطن میں ارواح و ملائکہ کا بحرِ محیط ہے، لہٰذا کسی ایک سیّارے پر زندگی موجود ہونے کی بحث ہی نہیں، اگر کائنات کے ہر ذرّہ میں ایک زندہ اور باشعور جہان پوشیدہ نہ ہوتا تو قرآنِ حکیم نہ فرماتا: اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے) (۲۴: ۳۵) کیونکہ آپ کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا جمادات، نباتات، اور حیوانات کا نور ہے، جبکہ نور کا تعلق عقل اور روح سے ہے۔

 

۶۔ ظاہری سائنسدان شاید کائنات کی ہر مخلوق کو جسمِ کثیف کی زندگی کی کسوٹی سے پرکھنا چاہتے ہیں، حالانکہ جسمِ لطیف اس سے بہت مختلف ہے، وہ جسمِ فلکی ہے اس لئے اس کو گرمی، سردی، خشکی اور تری سے کوئی گزند نہیں پہنچ سکتا ہے، یعنی مخلوقِ لطیف کا تذکرہ ہو رہا ہے، کہ وہ نورانی ہستی ہے، جو جنّ (یعنی پری) اور فرشتہ کی طرح پرواز کرتی

۶۷

ہے، وہ آسمان و زمین میں ہر جگہ موجود ہے، قرآنِ عزیز میں اس کے کئی نام آئے ہیں، آپ اس کتاب میں جگہ جگہ اس کے ناموں کو دیکھ سکیں گے، یہ انسانِ لطیف ہے جو سب کچھ ہے۔

 

۷۔ قرآنِ مجید میں ایسی بہت سی آیاتِ شریفہ موجود ہیں، جن کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ آسمانوں میں لطیف مخلوقات رہتی ہیں، جیسے سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں ہے: اور آسمانوں اور زمین میں (مخلوقات سے) جو کوئی بھی ہے سب طوعاً و کرہاً اللہ ہی کے لئے سجدہ کر رہے ہیں۔ یہی حقیقت سورۂ نحل (۱۶: ۴۹) اور سورۂ حج (۲۲: ۱۸) میں بھی ہے، الحمد للہ قرآن اور روحانیّت کی روشنی میں ایک کہن سال درویش روحانی سائنس پر ریسرچ کر رہا ہے، بلکہ چشم دید واقعات بیان کر رہا ہے، بہت ممکن ہے کہ میرے قریبی دوستوں سے کوئی علمی ادارہ انٹرویو کرے، اور یہ کام کسی وقت بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا میں اپنے تمام شاگردوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ قرآنِ کریم، دینِ اسلام، اور دنیائے انسانیت کی خدمت کے لئے خود کو تیار رکھیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی ہیڈ آفس

۶ فروری ۱۹۹۷ء

 

۶۸

 

حقیقی محبت یا عشق

 

اے دوستانِ عزیز کی تمام پاکیزہ روحو! آؤ آؤ، تم سب خدا کے حکم سے تائیدی فرشتے بن کے آؤ، کیونکہ مجھے “حقیقی محبت یا عشق” کے موضوع پر کچھ لکھنا ہے، لیکن میں کیسے لکھوں اور کیا لکھوں! جبکہ اس وقت طفلِ دل گریہ کنان نہیں، لہٰذا تم سب ایک ایک قطرۂ اشکِ عشق بطورِ صدقہ مجھے دے دو یا سودا کرو میری زندگی کا سارا ثواب لے لو، میں آتشِ عشق سے اپنے دل کو پگھلانا، خود کو رلانا، اور غفلت کو مٹانا چاہتا ہوں، اے کاش ہم ہر وقت دریائے عشق میں مستغرق رہتے۔

 

۱۔ میرے نزدیک عقیدت، محبت، اور عشق ایک ہی حقیقت کے مختلف درجات ہیں، میرا خیال ہے کہ بہشت میں سب کچھ ہے مگر گریۂ عشق کی نعمتِ عظمیٰ وہاں موجود نہیں، اس لئے حضرتِ آدمؑ کو بہشت سے باہر آکر عشقِ الٰہی میں رونا پڑا، میں سمجھتا ہوں کہ وہ مقدّس نارِ سماوی جس نے حضرتِ ہابیلؑ کی قربانی کو قبول کیا آتشِ عشق ہی تھی (۰۵: ۲۷) قرآن ہی کی روشنی میں میرا یقینِ محکم یہ ہے کہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کا طرۂ امتیاز ربِّ جلیل کا پاک عشق ہے، پس کوئی نبی اور کوئی ولی ایسا نہیں جو گریۂ عشق سے خالی رہا ہو (۱۷: ۱۰۹، ۱۹: ۵۸)۔

 

۲۔ گریۂ عشقِ سماوی میں ایسے اعلیٰ معانی پوشیدہ ہوتے ہیں: کیفیتِ توبہ، مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات، حاجت طلبی، خصوصی ذکر و عبادت، نفسِ امّارہ کے خلاف جہاد، خوفِ خدا، اظہارِ عاجزی، سب کے حق میں دعا، شکرگزاری، جذبۂ عشق، شوقِ دیدار، محویّت و فنائیت، تطہیرِ باطن، علاجِ روحانی، رجوع الی اللہ، انقلابی ریاضت، تحلیلِ نفس، نورانی تائید کے لئے درخواست، انبیاء و اولیاء کی پیروی، کم علمی کا احساس، وغیرہ، جس عبادت میں

۶۹

اس کثرت سے خوبیاں ہوں، اس سے روحانی ترقی کیوں نہ ہو۔

 

۳۔ میں اس حقیقت پر پورا  پورا یقین رکھتا ہوں کہ حضرتِ اسرافیل فرشتۂ عشق ہے، نفخۂ صور زمزمۂ عشق و فنا برائے اولیاء ہے، یہاں منزلِ عزرائیل کے عظیم معجزات بھی ہیں، عالمِ ذرّ کے عجائب و غرائب بھی، حضرتِ داؤد علیہ السّلام کی ملکوتی تسبیح خوانی بھی، اور اس انتہائی عاشقانہ تسبیح کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کی روحانی ہم آہنگی بھی ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے (۲۱: ۷۹، ۳۴: ۱۰) خوب یاد رہے کہ عشق و فنا کے یہ تمام معجزے دوستانِ خدا کی ذاتی قیامت اور عالمِ ذرّ سے متعلق ہیں، کیونکہ تصوّف کا ایک خاص اصول ہے: جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مر جانا، یہ عمل اگرچہ انتہائی مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں، ایسا کرنا نہ فرض ہے نہ واجب، بلکہ یہ نوافل میں سے ہے، جیسے اس کتاب میں “معجزۂ نوافل” کا بیان ہے۔

 

۴۔ ذاتی اور انفرادی قیامت کے بارے میں ارشادِ نبوّی یہ ہے: من مات فقد قامت قیامتہ = جو شخص (نفسانی طور پر) مر گیا تو بے شک اس کی (ذاتی اور روحانی) قیامت برپا ہو جاتی ہے (احیاء العلوم، جلدِ چہارم، بابِ دوم) یہ مرشدِ کامل، رسولِ پاک، اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے شدید محبت کرنے کا پُرلذّت ثمرہ ہے، یہ پُرجلال آسمانی عشق کا لازوال انعام ہے، یہ جوابِ باصوابِ نامۂ عشق ہے، یہ لپیٹی ہوئی کائنات ہے، یہ وہ بہشتِ برین ہے جو نزدیک لائی گئی ہے، اور یہ کتابِ اعمالِ عشق ہے جو عقل و دانش اور علم و حکمت کی باتیں بتاتی ہیں۔

 

۵۔ جس بندۂ مومن کے پاکیزہ قلب میں عشقِ سماوی کا غلبہ ہو، وہ بڑی کثرت سے خدا کو یاد کرتا رہتا ہے، اس کو علم و عبادت کے بغیر کوئی قرار ہی نہیں، کیونکہ خدا اس کا محبوب ہے اور علم و عبادت محبوب کی محبوب چیزیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ خدا جس سے بہت راضی ہوتا ہے اس کو علم و عبادت کے شوق سے نوازتا ہے، کیونکہ علم عقلی نعمت ہے، عبادت روحانی نعمت اور عشق شرابِ جنت ہے۔

 

۶۔ آسمانی عشق کی خاص خاص باتیں قرآنِ حکیم کے اسرارِ باطن میں سے ہیں، جیسے ولی،

۷۰

نبی، اور خدا کی محبت کی تشبیہہ و تمثیل بہشت کی شرابوں سے دینا، ان میں سے ایک مثال شرابِ طہور (نہایت پاکیزہ شراب، ۷۶: ۲۱) کی ہے، جس سے آسمانی عشق مراد ہے کہ اسی سے اہلِ ایمان کا باطن کماحقہ پاک و پاکیزہ ہو جاتا ہے، یہ شرابِ عشقِ حقیقی دنیا میں بھی ہے اور بہشت میں بھی، تاہم دنیا میں اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ دنیا ہی میں ہر وقت نافرمانی اور گناہ کی آلودگی کا خطرہ رہتا ہے، مگر بہشت میں ایسی کوئی بات نہیں۔

 

۷۔ قرآنِ عظیم کے ظاہر و باطن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے، اور ساتھ ہی ساتھ ہر اہم اور بڑا مضمون سر تا سر قرآن میں پھیلا ہوا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے اعلیٰ مضامین خداوند تعالیٰ کے اسمائے صفاتی سے متعلق ہوتے ہیں، جیسے محبت و عشق کے مضمون کا تعلق خدا کے اسمِ ودود (بہت محبت کرنے والا، ۱۱: ۹۰، ۸۵: ۱۴) سے ہے اور یہ اسم خود بھی اور دوسرے اسماء سے مل کر بھی سارے کلام اللہ کے معنی میں موجود ہے، اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآنِ حکیم کی کوئی آیۂ کریمہ ایسی نہیں جس میں آسمانی محبت کا کوئی ذکر یا کوئی راز نہ ہو۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۸ فروری ۱۹۹۷ء

۷۱

کنوزِ احادیث

 

عنوانِ بالا کا مطلب یہ ہے کہ ہر حدیثِ شریف بجائے خود علم و حکمت کا ایک لاثانی و غیر فانی خزانہ ہے، اہلِ سعادت ہمیشہ ایسے بے مثال خزانوں کے پوشیدہ اسرار کو جاننا چاہتے ہیں، اور ایسی اعلیٰ چاہت دراصل حق تعالیٰ کی جانب سے عطا شدہ توفیق و تائید ہی ہوا کرتی ہے، لہٰذا ایسے میں ہر ہوشمند مومن خداوند تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے تاکہ کفرانِ نعمت نہ ہو۔

 

۱۔ صورتِ رحمان کے سرِ اسرار: فان اللہ خلق آدم علیٰ صورتہ فاعرف نفسک یا انسان تعرف ربّک = پس بے شک اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا آدمؑ کو اپنی صورت پر پس پہچان اپنے نفس کو اے انسان تاکہ پہچانے اپنے ربّ کو (کیمیائے سعادت، عنوانِ مسلمانی، فصل ۲)۔

 

اس حدیثِ شریف کی تابناک اور بے مثال تعلیم بدرجۂ انتہا دلنشین ہے، وہ روشن ہدایت یہ کہ جب مومنِ سالک عالمِ شخصی اور خود شناسی کے سفر میں آگے سے آگے جانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ حظیرۂ قدس میں داخل ہو جاتا ہے تو اس وقت وہ اپنے باپ آدم کی صورت پر ہو جاتا ہے، اور آدمؑ رحمٰن کی صورت پر پیدا کیا گیا تھا، اور یہ معرفت کے درجۂ کمال کا اشارہ ہے۔

 

۲۔ چارۂ کار، حفاظت کی جگہ: اللہ تعالیٰ نے حضرتِ داؤدؑ پر وحی نازل کی اور فرمایا: ان بدک اللازم فالزم بدک = میں تیرا لازمی چارۂ کار (یا حفاظت گاہ) ہوں پس تو نے میرے ساتھ رہنا ہے، لہٰذا میری دوستی کا سامان

۷۲

فراہم کر (مذکورہ کتاب، دوسرا عنوان، فصل ۸)۔

 

۳۔ عجائب و غرائبِ حکمت: حکمت کی عجیب و غریب باتیں قرآن و حدیث میں پوشیدہ ہیں، اسی لئے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: روحوا انفسکم ببدیع الحکمۃ فانھا تکمل کما تکمل الابدان = حکمت کی عجیب اور غریب باتوں سے اپنی جانوں کو راحت دو، جان اس طرح پوری ہوتی ہے جیسے بدن ہوتا ہے (لغات الحدیث، لفظ: بدیع) یعنی جس علم و حکمت سے شادمانی ہوتی وہی عقل و جان کی تکمیل کا باعث ہو سکتا ہے۔

 

۴۔ نورانی قالب = جسمِ لطیف: ارشادِ نبوّی ہے: روح المومن بعد الموت فی قالب کقالبہ فی الدنیا = مومن کی روح مرنے کے بعد ایک قالب میں رکھی جاتی ہے جو اسی صورت کا ہوتا ہے، جیسے دنیا میں اس کا قالب تھا (لغات الحدیث، لفظ: قالب) اس سے جسمِ لطیف مراد ہے، کہ وہ ایک نورانی انسان ہے جو بہشت میں رہتا ہے، وہ مومن کے لئے زندہ اور عاقل جامۂ جنت ہے، اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں۔

 

۵۔ کنزِ مخفی = گنجِ معرفت: حضرتِ داؤدؑ نے پروردگارِ عالم سے پوچھا: یا ربّ تو نے خلق کو کس غرض سے پیدا کیا ہے؟ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: کنت کنزاً مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق لکی اعرف = میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا پس میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں تو میں نے خلق کو پیدا کیا تاکہ میری شناخت ہو (احادیثِ مثنوی)۔

 

اس حدیثِ قدسی میں اس بے مثال و لازوال گنجِ ازل کا ذکرِ جمیل ہے جو عارفِ کامل کے لئے عالمِ شخصی کے حظیرۂ قدس میں پنہان رکھا ہوا ہے، یہاں جس تخلیق کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ روحانی اور عقلانی تخلیق ہے، کیونکہ اس کے سوا کوئی شخص حضرتِ ربّ کی معرفت تک رسا نہیں ہو سکتا، اور نہ وہ انمول خزانہ کسی کو حاصل ہو سکتا ہے

 

۶۔ تصوّف کے چار ارکان: تصوّف کی بعض کتابوں میں یہ حدیثِ شریف درج ہے: الشریعت اقوالی، الطریقت افعالی، الحقیقت احوالی،

۷۳

و المعرفت سری = شریعت میرے اقوال کا نام ہے، طریقت میرے اعمال کا، حقیقت میری باطنی کیفیت کا، اور معرفت میرا راز ہے (روحانیّتِ اسلام، از مولانا الحاج (کپتان) واحد بخش سیال چشتی صابری)۔

 

۷۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے لوگوں نے پوچھا کہ یا حضرت خدائے تعالیٰ کہاں ہے؟ زمین میں یا آسمان میں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ایمان والے بندوں کے دل میں ہے۔

 

حدیثِ قدسی میں ارشاد ہے:  نہ میری گنجائش زمین میں ہے نہ آسمان میں، اور میری گنجائش میرے بندۂ مومن کے دل میں ہے جو نرم اور ساکن ہو (احیاء العلوم، جلدِ سوم، بابِ اوّل، بیان ۶)۔

 

۸۔ مفرد لوگ آگے بڑھ گئے: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: مفرد لوگ آگے بڑھ گئے، یا (فرمایا:) خوشی اور مبارکبادی ہے مفرد لوگوں کے لئے، عرض کیا مفرد لوگ کون ہیں؟ فرمایا: وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی یاد میں جھومتے رہتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کی یاد پر حریص ہیں (۔۔۔ حضراتِ صوفیہ نے فرمایا: مفرد وہ لوگ ہیں جن کو خداوند کریم کا عشق ہے، ما سوٰی اللہ سے ان کو کچھ غرض نہیں) (لغات الحدیث، لفظِ فرد)۔

 

۹۔ عیال اللہ = خدا کی عیال: الخلق عیال اللہ، فاحب الخلق الی اللہ من نفع عیال اللہ، و ادخل علیٰ اہل بیت سرورا = مخلوق تمام کی تمام خدا کی عیال ہے، لہٰذا خدا کے نزدیک محبوب ترین شخص وہ ہے جو خدا کی عیال کو نفع پہنچائے اور اہلِ بیت کو خوشی دے (میزان الحکمت ۲، ص ۳۴۷)۔

 

۱۰۔ سب سے زیادہ محبوب شخص: سئل النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عن احب الناس الیہ، فقال: انفعھم للناس = حضرتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب شخص کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا:

۷۴

جو لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے (مذکورہ ص ۳۴۷)۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

۲ شوال المکرم ۱۴۱۷ھ

۱۰ فروری ۱۹۹۷ء

۷۵

اسرارِ سالکین

 

اے عزیزان! جو باسعادت مومن اسلامی روحانیّت کی راہ پر چلتا ہو وہ سالک ہے، اور دینِ اسلام کے فیوض و برکات اور روشن تعلیمات کی یہ شان ہے کہ یہاں ہر زمانے میں سالکین و عاشقین پیدا ہوتے جاتے ہیں، سالک کا یہ نام دراصل علم الیقین سے آگے چل کر عین الیقین سے شروع ہو جاتا ہے، اگر سالک کی ذات میں دینِ اسلام کی تمام تر خوبیاں موجود نہ ہوں تو وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا ہے، خصوصاً علم و عبادت، گریہ و زاری، عشقِ سماوی، فنا، فنا اور آخری فنا کا بے حد شوق لے کر منزل بمنزل آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور کوئی قدم تائیدِ الٰہی کے بغیر ممکن نہیں۔

 

۱۔ اس زندگی کے باؤجود دو دفعہ پیدا ہو جانا: وجودِ انسانی جسم، روح اور عقل کا مجموعہ تو ہے، لیکن عملی تصوّف کی نظر میں یہ تینوں چیزیں اصلی اور حقیقی نہیں بلکہ علامتی اور آزمائشی ہیں، لہٰذا سالکینِ دینِ مبین کے لئے یہ امر ضروری ہے کہ وہ اپنی جسمانی زندگی ہی میں عالی ہمتی اور خدا کی یاری سے دو دفعہ مر کر دو دفعہ پیدا ہو جائیں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ پہلے وہ منزلِ عزرائیلی میں نفسانیت سے مر کر روحانیّت میں زندہ ہو جائیں، پھر بہت آگے چل کر روحانیّت سے بھی مر جائیں اور عقلانیت میں پیدا ہو جائیں، ایسے میں مومنینِ سالکین حظیرۂ قدس میں حقیقتِ واحدہ ہو کر اسرارِ ازل کا مشاہدہ کریں گے، یہ ہوا دو دفعہ پیدا ہو جانا۔

 

۲۔ مشاہدۂ ملکوت کی دو عظیم شرطیں: جاننا چاہئے کہ صرف اور صرف ظاہری اور جسمانی پیدائش کوئی قابلِ ستائش چیز نہیں ہو سکتی، جب تک

۷۶

کہ انسان کی روحانی اور عقلانی تولد (پیدائش = جنم) نہ ہو، کیونکہ جسمانی تخلیق تو معدنیات، نباتات، حیوانات اور دین سے بیگانہ لوگوں کی بھی ہوتی آئی ہے، پس یہی سبب ہے کہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا: لن یلج ملکوت السمٰوٰت من لم یولد مرتین =  جو شخص (اسی زندگی میں) دو دفعہ پیدا نہ ہو جائے وہ آسمانوں کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہیں ہو سکتا ہے (احادیثِ مثنوی، فارسی، ص ۹۶، ۱۹۴)۔

 

۳۔ اولیاء اللہ کی پُرحکمت توصیف: خدا کے خاص دوستوں کی نہایت عالی شان تعریف و توصیف یہ ہے: اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ = آگاہ رہو اس میں شک نہیں کہ دوستانِ خدا پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں (۱۰: ۶۲) ظاہر ہے کہ اولیاء کا مرتبہ انتہائی عظیم ہے اور وہ ہے فنا فی اللہ و بقا باللہ، اور ایسے میں وہ حضرات عالمِ شخصی کے حظیرۃ القدس کے تمام عظیم اسرار سے واقف و آگاہ ہوتے ہیں، مثلاً: ذاتی کائنات کی چھت (عرش) پر چڑھ کر چشمِ بصیرت سے یہ دیکھنا کہ عالمِ عُلوی (عالمِ امر) کا نظام عالمِ سُفلی سے قطعاً مختلف ہے، وہاں ازل و ابد ایک ہی حقیقت ہے، وہی دہر یعنی زمانِ نا گزرندہ ہے، وہاں سورج کے ساتھ چاند اور تمام ستارے ایک ہیں، وہی نورِ واحد نورِ ازل ہے، اسی کا نام نورِ عقل ہے، اسی کو نورِ معرفت اور نور الانوار کہتے ہیں، یہی سراجِ منیر بھی ہے، اور اس کے بے شمار نام ہیں، کیونکہ یہ عالمِ عقل کا مجموعۂ کُل شی ہے، الغرض وہاں اللہ تعالیٰ نے عالمِ باطن کو لپیٹ کر رکھا ہے یا یہ کہ خزائنِ ازل ہمیشہ ہمیشہ اپنی جگہ قائم ہی ہیں، جبکہ ان کے فیوض و برکات کا نزول ہی کائنات و مخلوقات کے لئے کافی وافی ہوتا رہتا ہے۔

 

۴۔ سالکین = عارفین: سالکین بعد از فنائے مطلق عرفاء و اولیاء میں شامل ہو جاتے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ان مبارک و مقدّس ہستیوں کو جو کچھ انعام ملتا ہے اس کی قدر و قیمت کا کیا کہنا، تسخیرِ کائنات، لازوال سلطنت، بہشتِ جاویدان، حیاتِ سرمدی، گنجِ اسرارِ ازل، وصلِ جانان، رضوانِ اکبر، فنا فی اللہ، بقا باللہ اور سیر فی اللہ۔

 

۵۔ کنزِ مخفی کے اشارے: اے عزیزِ من! اس حدیثِ قدسی کو خوب غور

۷۷

سے سن لیں: میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا پس میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے خلق (یعنی ہر عارف) کو پیدا کیا تاکہ مجھ کو پہچانے۔ جاننا چاہئے کہ یہ ارشاد یقیناً عالمِ شخصی سے متعلق ہے اور یہ عارف کی روحانی اور عقلانی تخلیق ہے، اور یہاں ایک اشارہ تو یہ ہے کہ عارف مشاہدہ اور پہچان کی غرض سے گنجِ مخفی (صفاتِ رحمانیہ) کے اندر داخل ہو جائے، جس کے بغیر معرفت ممکن ہی نہیں، اس نکتۂ دل نشین سے فنا فی اللہ کی تصدیق ہوگئی، دوسرا پُرحکمت اشارہ یہ ہے کہ عارف اس گنجِ مخفی کو بطورِ انتہائی عظیم انعام حاصل کرکے ہمیشہ ہمیشہ اپنائے رکھے، اور یہ حقیقت بقا باللہ اور سیر فی اللہ سے مختلف ہرگز نہیں۔

 

۶۔ حکمت مومن کی کھوئی ہوئی چیز ہے: ارشادِ نبوّی ہے: الحکمۃ ضالۃ المومن = حکمت مومن کی گمشدہ چیز ہے (میزان الحکمت ۲، ص ۷۶۶)۔ حدیثِ شریف میں بھی حکمتِ بالغہ پوشیدہ ہوتی ہے، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکمت جو مومن کی گمشدہ متاع ہے وہ عالمِ علوی میں ہے، جس سے انسان الگ ہوکر بہت دور آیا ہے، اور اسی معنیٰ میں حکمت اس سے کھو گئی ہے۔

 

۷۔ الفاظ تھوڑے اور معانی بے شمار: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے: بعثت بجوامع الکلم = میں جوامع الکلم (تھوڑے الفاظ میں بہت سے معانی کو سمو دینا) کے ساتھ بھیجا گیا ہوں (صحیح بخاری، جلدِ سوم، کتاب الاعتصام، نیز لغات الحدیث) جوامعِ کلم سے قرآن و حدیث مراد ہیں کہ ان کے ارشادات میں الفاظ کم اور معانی بسیار ہوتے ہیں، اور یہ خدا و رسول کے کلام کا ایک معجزہ ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

۱۳ فروری ۱۹۹۷ء

۷۸

روحانی دستر خوان

 

اے عزیزانِ من! آپ یہ بتائیں کہ انبیاء علیہم السّلام کی معرفت ممکن ہے یا محال (غیر ممکن)؟ اور اس سوال کا جواب بھی دیں کہ آیا قرآنِ پاک کی معرفت ہو سکتی ہے یا نہیں؟ درحالے کہ آپ کی اپنی ذات کی معرفت حضرتِ ربّ کی معرفت ثابت ہو جاتی ہے؟ آپ خوب سوچ کر جواب دینا، میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ ہر چیز کی معرفت ممکن ہے، جبکہ پروردگار کی معرفت ہو سکتی ہے۔

 

۱۔ انبیاء و اولیاء کی معرفت: ظاہراً دیکھا جائے تو انبیاء و اولیاء علیہم السّلام الگ الگ ہیں، لیکن نفسِ واحدہ کی قیامت و روحانیّت میں سب ایک ہیں (۳۱: ۲۸) جبکہ خدا تعالیٰ نے سب کے لئے ایک ہی معرفت مقرر کر دی ہے کیونکہ ربِّ کریم اہلِ ایمان کے لئے آسانی چاہتا ہے، ان کو مشکلات میں رکھنا نہیں چاہتا، پس خداوندِ قدوس کے فضل و کرم سے جس نے اپنی ذات (روحِ علوی) کو پہچانا اس نے اولیاء، انبیاء اور پروردگار کو پہچانا، اب ایسی عالی شان اور ہمہ گیر معرفت سے کوئی شیٔ کس طرح باہر ہو سکتی ہے۔

 

۲۔ ایمان اور یقین: ایمان شروع سے لے کر آخر تک بہت سے درجات پر مبنی ہے، مگر یقین کافی آگے چل کر شروع ہو جاتا ہے، کیونکہ ایمان کے ابتدائی معنی باور کرنے کو کہتے ہیں اور لفظِ یقین معرفت کا ہم معنی ہے، پس جہاں سے یقین کا آغاز ہو جاتا ہے، وہاں ایمان کا دوسرا نام یقین ہو جاتا ہے، جیسے سورۂ نساء (۰۴: ۱۳۶) میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا  ۔۔۔ اے ایمان والو یقین حاصل کرو۔

۷۹

۳۔ آسمانی کتب کی تصدیق: یہاں ابتداءً یہ سوال بھی ہوا تھا: آیا قرآنِ پاک کی معرفت ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اگرچہ ایک طرح سے اس کا جواب مثبت انداز سے دیا گیا ہے، تاہم مزید اطمینان کی خاطر مریم علیہا السّلام کی ایک قرآنی مثال پیش کی جاتی ہے: اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے پروردگار کے کلمات کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرمانبرداروں میں تھی (۶۶: ۱۲) یعنی مریمؑ ہمیشہ اپنے کان کو باطل باتوں سے محفوظ رکھتی تھی، تب اللہ کی رحمت سے اس کی روحانی قیامت برپا ہوئی، اور نفخۂ صور کے ذریعہ اس میں روحِ قدسی پھونک دی گئی، پھر نورِ معرفت کی روشنی میں اس نے کلماتِ تامّات اور کتبِ سماوی کی تصدیق کی اور وہ خاص فرمانبرداروں میں سے تھی، یہاں سے معلوم ہوا کہ آسمانی کتاب کی روح و روحانیّت ہے، جس کے تفصیلی مشاہدے سے کتابِ سماوی کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔

 

۴۔ مائدۂ روحانی کی معرفت: لفظِ الشہید کے تین معانی ہیں: حاضر، گواہی میں امین جس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہ ہو، اللہ کے راستے میں مارا جانے والا (المنجد) خدا کے سچے عشاق جو فنا فی اللہ ہو جاتے ہیں وہ یقیناً شہدائے باطن کا مرتبہ رکھتے ہیں، وہ عالمِ شخصی کی ساری روحانیّت میں حاضر ہوتے ہیں، جملہ معجزاتِ انبیاء پر گواہ ہیں، وہ خدا کے راستے میں قتل کئے گئے ہیں، یہ سچ اور حقیقت ہے اور اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ ایسے کامل عارفین اللہ تعالیٰ کے نور سے انبیاء علیہم السّلام کے تمام معجزات کو دیکھتے اور پہچانتے ہیں، چنانچہ انہوں نے مائدۂ باطنی کا بھی مشاہدہ کیا ہے اور ان کو اس میں سے لذّت گیری کا تجربہ بھی ہو چکا ہے۔

 

۵۔ تین قسم کی اعلیٰ غذائیں: اہلِ معرفت کے نزدیک کثیف (جسمانی) خوراک کی کوئی تعریف ہی نہیں، کیونکہ وہ چوپایہ بھی کھا سکتا ہے، قابلِ ہزار ستائش وہ بے مثال اور عالی شان لطیف غذا ہے جو گوناگون خوشبوؤں کی صورت میں بہشتِ برین سے آتی رہتی ہے، جو خالص جوہر اور ہر طرح سے پاک و پاکیزہ ہے، جو بہشتی غذا بھی ہے اور آسمانی دوا بھی، اس سے بالاتر روحانی غذا ہے، جو ہر قسم کی عبادت اور ذکرِ الٰہی کی شکل میں

۸۰

ہے، اور سب سے بلند ترین غذا عقلی ہے، جو اعلیٰ علم و حکمت اور اسرارِ معرفت کے نام سے حاصل ہوتی رہتی ہے۔

 

۶۔ معجزانہ خوشبو والی غذا: یہ غذا دوستانِ خدا کو روحانی تجربات کے دوران ملتی ہے جب کہ وہ شدید ریاضت اور خصوصی عبادت کی وجہ سے یا دنیا کی کسی آزمائش کے سبب سے ظاہری خوراک کو ترک کرتے ہیں یا نہیں ملتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ حیوانی خوراک کھاتے ہوئے ملکی (فرشتگی) غذا کا تجربہ محال ہے۔

 

۷۔ روحانی طب ایک قدیم مثال: اگرچہ “روحانی سائنس” ایک جدید اصطلاح ہے، لیکن اس کی ایک قدیم مثال طبِ روحانی ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السّلام کو عطا ہوئی تھی، اور اسلام میں طبِ نبوّی کا علاج بے مثال ہے، شریعتِ اسلامیہ کا کون سا فریضہ ایسا ہے جس میں روحانی طب کا کوئی فائدہ نہ ہو، جسم، روح، اور عقل کی کوئی ورزش نہ ہو، ہم اپنے دل و دماغ کی بیماریوں کو محسوس کریں یا نہ کریں، بہرحال نیک اعمال کی وجہ سے وہ رفع دفع ہو جاتی ہیں، یہ خاموش اور مخفی روحانی سائنس ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ اب روحانی سائنس کا دور شروع ہو رہا ہے، عجب نہیں کہ اس سے اہلِ دنیا کو بے شمار فوائد حاصل ہوں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

ہفتہ ۷ شوال المکرم ۱۴۱۷ھ

۱۵ فروری ۱۹۹۷ء

۸۱

نور کی گوناگونی

 

یہ ہمارا عقیدۂ راسخ، ایمان اور یقین ہے کہ حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نورِ مجسّم تھے، کیونکہ حضورِ اکرمؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بمرتبۂ نور مبعوث ہوئے تھے (۰۵: ۱۵) آپؐ کو خدا نے چراغِ روشن بنا دیا تھا (۳۳: ۴۶) اگر دنیا کا کوئی چراغ فی المثل زندہ، ناطق اور دانا ہوتا تو اس کی سماعت، بصارت، بصیرت اور گویائی (قوّتِ ناطقہ) بھی نور ہی کی ہوتی، وہ بڑی آسانی سے نور کو سن سکتا، نور کو ظاہر و باطن میں دیکھ سکتا، اور وہ جب بھی بولتا تو صرف اور صرف نور افشانی کرتا، یعنی پُرنور باتیں کرتا، کیونکہ اس کی روشن و پاکیزہ ذات میں ماسوائے نور کے اور کوئی چیز نہ پائی جاتی، یہ آنحضرتؐ ہی کی مثال در مثال ہے، پس معلوم ہوا کہ حضورِ پاکؐ کو سراجِ منیر کہنے کا مطلب یہی ہے کہ یقیناً آنحضرتؐ سرتاپا نور تھے، لہٰذا آپؐ کے حواسِ ظاہر و باطن نور ہی تھے، اور آپؐ کا کلامِ حکمت نظام بصورتِ قرآن و حدیث نور ہی تھا، یہی حقیقت دعائے نور سے بھی روشن ہو جاتی ہے، جو درجِ ذیل ہے آپ اسے غور سے پڑھیں:

 

۱۔ کتبِ احادیث میں رسول اللہ کی یہ انتہائی جامع دعا موجود ہے، جس سے ایک طرف تو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ حضورِ پاکؐ سراپا نورِ مجسم تھے، اور دوسری طرف یہ پتا چلتا ہے کہ تجلّیاتِ نور میں گوناگونی ہے، اس پُرحکمت دعا کا ترجمہ اس طرح سے ہے: یا اللہ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کر دے، اور میرے کان، آنکھ اور زبان میں بھی نور بنا دے، میرے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں اور رگوں میں بھی نور بنا دے، اورمیرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر، اور نیچے بھی نور مقرر فرما!

۸۲

۲۔ اس تمہیدی بیان اور دعائے نور سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ خداوندِ عالم نے نور کو انسانِ کامل ہی میں پیدا کیا ہے، اس لئے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ نور کی اصل صورت نبی اور ولی ہیں، اور یہ ضروری نکتہ بھی یاد رہے کہ مذکورۂ بالا دعا کے مطابق انسانِ کامل ظاہراً و باطناً دریائے نور میں مستغرق ہو جاتا ہے، تب اس کی شخصیت کو سانچے کے طور پر استعمال کر کے بہت سے فرشتے بنائے جاتے ہیں، جو اس کے ہمشکل ہوا کرتے ہیں، اور یہ معجزانہ عمل اسرافیلی اور عزرائیلی منزل میں انجام پاتا ہے، حدیثِ شریف میں ایسے فرشتوں کا نام “بازارِ جنت کی تصویریں” ہے (جامعِ ترمذی، جلدِ دوم، جنت کے بازار)۔

 

۳۔ نور کی تجلیات کی گوناگونی انسان کے حواسِ ظاہر و باطن کے مطابق ہوا کرتی ہے، چنانچہ کان کے لئے جو نورہے وہ کئی طرح کی آواز میں ہے، آنکھ کے لئے جو نور ہے وہ مشاہدۂ آیات و معجزات میں ہے، اسی طرح ہر احساس و ادراک کے لئے نور کی ایک تجلّی مقرر ہے، تعجب خیز ذکر و علمی گفتگو، حیرت انگیز روحانی خوشبوئیں وغیرہ سب ظہورِ نور ہی کی وجہ سے ہیں، مومنِ سالک کے عرفانی مشاہدات، تجربات اور معلومات کے لئے چار عوالم ہیں: عالمِ بیداری، عالمِ خیال، عالمِ خواب، اور عالمِ روحانیّت، جن میں سے ہر ایک میں تجلّیاتِ نور کے بے شمار عجائب و غرائب ہیں، کیونکہ ایسے میں ہر حالت پر نور غالب آتا ہے۔

 

۴۔ دعائے نور کے سلسلے میں شاید کوئی عزیز یہ سوال کرے، کہ بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں اور رگوں کے لئے جو نور مطلوب ہے اس کے کام کی نوعیت کیا ہوگی؟ اس کا کلی جواب تین حصوں میں ہے: (الف) نور کے بے شمار کاموں میں سے ایک زبردست مفید کام روحانی علاج ہے، لہٰذا جسم کے ان اجزاء میں نور کے آنے سے ہر قسم کی بیماری دور ہو جائے گی (ب) ان اجزاء میں روحِ نباتی اور روحِ حیوانی کام کر رہی ہے، اس لئے نور کی روشنی میں ان روحوں کی معرفت ہوگی (ج) جب عارف کے اجزائے جسمانی سب کے سب نور میں مستغرق ہو جاتے ہیں تو اس وقت اس کا نورانی بدن مکمل ہوکر الگ ہو جاتا ہے، جس کا اسی مضمون میں ذکر ہو چکا۔

 

۵۔ دوسرا امکانی سوال یہ بھی ہے کہ کوئی پوچھے کہ آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر،

۸۳

اور نیچے نور کس طرح ہو سکتا ہے؟ اور ایسے  میں کیا کیا فائدے حاصل ہوں گے؟ اس کا جواب دو طرح سے ہے، اوّل یہ کہ فی الواقع نور چھ اطراف سے آتا ہے اور ہر جانب سے کام کرتا رہتا ہے، یعنی آگے (پیشانی اور چہرہ)، پیچھے (پشت)، دائیں (گوشِ راست)، بائیں (گوشِ چپ)، اوپر (سر کا بالائی حصہ)، اور نیچے (پاؤں) دوسرا یہ کہ آگے= مستقبل ہے، پیچھے = ماضی، دائیں = ظاہر، بائیں = باطن، اوپر = عالمِ علوی، اور نیچے = عالمِ سفلی، ان میں سے ہر مقام کے لئے ایک نور کی ضرورت ہے، تاکہ علم و معرفت کے بے شمار فائدے حاصل ہو سکیں۔

 

۶۔ صوفیائے کرام کا یہ نظریہ بالکل صحیح ہے کہ جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مر جانا ضروری ہے، اس کے سوا معرفت کے لئے کوئی راستہ نہیں، نفسانی موت کے بعد ہی سالک حقیقی معنوں میں زندہ ہو جاتا ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: کیا جو شخص پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور مقرر کیا جس کے ذریعے سے وہ لوگوں میں چلتا ہے اُس شخص کا سا ہو سکتا ہے جس کی حالت یہ ہے کہ اندھیروں میں پھنسا ہوا ہے کہ وہاں سے نکل ہی نہیں سکتا (۰۶: ۱۲۲) یہاں ایک بڑا اہم سوال یہ ہے کہ خدا نے جس شخص کو نورِ معرفت میں زندہ کیا ہے وہ کس طرح لوگوں میں چلتا ہے؟ کیا یہ چلنا وہی ہے جس طرح دوسرے سب لوگ چلتے ہیں؟ آیا یہ شخص لوگوں کے باطن میں چل سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا عارف اپنے عالمِ شخصی میں لوگوں کی روحوں کے درمیان چلتا ہے جہاں ہر چیز کی معرفت ہے، اور یہ بڑی قابلِ تعریف بات ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

پیر ۱۷ فروری ۱۹۹۷ء

۸۴

روح بعد از موت

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: روح المومن بعد الموت فی قالب کقالبہ فی الدنیا = مومن کی روح مرنے کے بعد ایک قالب میں رکھی جاتی ہے جو اسی صورت کا ہوتا ہے، جیسے دنیا میں اس کا قالب تھا (صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ دنیا کا قالب کثیف تھا وہ لطیف اور نورانی ہوتا ہے۔ لغات الحدیث، جلدِ سوم، لفظِ قالب)۔

 

۱۔ روحِ مومن بحکمِ خدا عالمِ امر سے نورانی رسی کی طرح عالمِ خلق میں اتر آئی ہے، اس کا بالائی سرا اپنی اصل سے واصل ہی ہے، اور زیرین سرا قالبِ عنصری سے وابستہ ہے، روح کی دوسری مثال سیڑھی کی سی ہے، جو عالمِ علوی سے عالمِ سفلی تک لگی ہوئی ہے، تیسری مثال پل جیسی ہے جو آخرت اور دنیا کے درمیان ہے، چوتھی مثال میں روح گویا ایک نہر ہے جو چشمۂ بہشت سے لے کر تمہارے بدن تک جاری ہے، پانچویں مثال میں نفسِ کلّی سورج جیسا ہے اور نفوسِ جزوی کرنوں کی طرح ہیں، چھٹی مثال میں سرچشمۂ روح گویا بجلی گھر ہے اور انسان کی روح ایک بلب، جو کسی مکان میں لگا ہوا ہو، اور ساتویں مثال میں عالمِ بالا دارالسلطنت ہے، جہاں سے مومن کی روح بڑی اہم خدمات پر مامور ہو کر دنیا میں آئی ہے، اور اس کے ساتھ ایک وائرلیس (لاسلکی) سیٹ  (set)  بھی ہے، مگر افسوس کہ یہ کچھ خراب ہو گیا ہے۔

 

۲۔ جب سے روحِ لطیف جسمِ کثیف میں آتی ہے تب سے یہ عالمِ علوی کے ساتھ رابطہ نہیں کر پا رہی ہے، جس کی وجہ نفسانی کدورتیں ہیں، تاہم کوئی عالی ہمت مومن مایوس

۸۵

نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ فرائض و نوافل کے راستے پر سعی کرتا رہتا ہے، تا آنکہ ایک نہ ایک دن اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کی دستگیری کرتی ہے، اور وہ خودشناسی اور خدا شناسی میں کامیاب ہوکر اپنے نورانی بدن (جثۂ ابداعی) کو دیکھتا ہے، اور یہ بہت بڑا معجزہ ہے۔

 

۳۔ خداوندِ مہربان کی قدرتِ کاملہ اور رحمتِ بے پایان میں یہ عجب نہیں کہ مومن زندگی ہی میں اپنی کامیاب اور عارفانہ موت اور جسمِ لطیف کو دیکھے، اور اس کو یہ راز بھی معلوم ہو کہ روحِ مومن کس طرح نورانی قالب میں رکھی جاتی ہے، کیونکہ مومن کی روح اپنی اصل اور کُلّ کی ایک مکمل کاپی  (copy)  ہے، لہٰذا اس کی اپنی معرفت میں ہر چیز کی معرفت ہے۔

 

۴۔ روحِ مومن بعد از موت جس قالب میں منتقل ہو جاتی ہے، اس کا نام جسمِ مثالی ہے، کیونکہ وہ اگرچہ نورانی اور لطیف ہے، لیکن آج دنیا میں جس شکل کا جسم ہے اسی کی مثال پر ہے، لہٰذا اس کا نام جسمِ مثالی ہوا، آپ اس باب میں قرآنِ حکیم کے کم سے کم حوالہ جات کے لئے دیکھیں: بنی اسرائیل (۱۷: ۹۹)، یاسین (۳۶: ۸۱)، صٓ (۳۸: ۴۳) ان آیاتِ کریمہ میں اجسامِ مثالی کے لئے لفظِ مثلھم آیا ہے۔

 

۵۔ جسمِ مثالی کا دوسرا نام “خلقِ جدید” ہے، آپ کو یہ نام قرآنِ پاک کے آٹھ مقامات پر ملے گا، خلقِ جدید (نئی پیدائش) جو جسمِ مثالی ہے، وہ اگرچہ زمانۂ آدم سے بھی قدیم ہے، لیکن پھر بھی جدید ترین ہے، کیونکہ وہ جثۂ ابداعیہ ہے، اور اس میں شعلۂ چراغ کی طرح تجدّد کا سلسلۂ دائم جاری ہے، اور یہ جاننے کے لئے بڑا عجیب و غریب راز ہے کہ جب چاہے تو دکھائی دیتا ہے اور جب چاہے غائب ہو جاتا ہے، اس کے لئے در و دیوار یا اور کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے۔

 

۶۔ کتبِ احادیث میں ہے: الارواح جنود مجندۃ = روحیں جمع شدہ لشکر تھیں۔ اور وہ ہمیشہ اسی طرح سے ہوتی ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے بدل اور اٹل سنت کے مطابق انسانِ کامل ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے، جو نفسِ واحدہ کی مثال اور معرفت کا نمونہ ہوا کرتا ہے، جس کے عالمِ شخصی میں ماضی کی تمام مثالوں کا مظاہرہ ہوتا ہے، تا کہ

۸۶

خزانۂ معرفت ہر وقت موجود ہو، اور اس میں ارواح کے دو مخالف لشکروں کی جنگ کا مظاہرہ بھی شامل ہے، جس کا مقصد عالمِ شخصی میں دینی سلطنت کو قائم کرنا ہے۔

 

۷۔ اسرارِ روح کو سمجھنا کسی مبتدی کے لئے اگرچہ بڑا مشکل کام ہے، لیکن کوئی بھی مشکل ہمیشہ کے لئے مشکل نہیں رہتی ہے، آپ خلوصِ نیت اور صدقِ دل سے اللہ کو یاد کریں اور کمرِ ہمت باندھ کر خود شناسی کے راستے پر آگے بڑھیں، ان شاء اللہ، کامیابی ہوگی، آپ کی روح بڑی عجیب و غریب شیٔ ہے، اس کا بالائی سرا اصل سے واصل ہے، پھر سمجھ لیں کہ یہ نفسِ کلّی میں بھی ہے، جس کے توسط سے یہ ہر اعلیٰ مقام تک پہنچی ہوئی ہے، جیسے آپ کا ٹیلیفون جب سیٹلائٹ سے مل جاتا ہے تو اس وقت آپ کی آواز دنیا بھر میں جا سکتی ہے، اسی طرح اگر آپ کی کوئی پاکیزہ دعا صاحبِ عرش کے امرِ کُنۡ (ہو جا) میں فنا ہو جاتی ہے (۳۵: ۱۰) تو پھر ایسی دعا ساری خدائی میں پھیل سکتی ہے، کیونکہ فنا فی اللہ، بقا باللہ اور سیر فی اللہ معمولی باتیں نہیں ہو سکتی ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

۲۰ فروری ۱۹۹۷ء

۸۷

عالمِ شخصی اور روحانی سفر

 

ہم میں سے ہر ایک کا عقیدۂ راسخ تو یہی ہے کہ صرف اسلام ہی دینِ فطرت ہے، تاہم یہ امر ضروری ہے کہ لفظِ فطرت کے درست ترین معنیٰ و منشا کو سمجھیں: الفطرۃ، وہ صفت کہ ہر موجود اپنی ابتدائے پیدائش میں اس کے ساتھ متصف ہو، طبعی حالت، دین، سنت، طریقۂ پیدائش (المنجد) چنانچہ قرآنِ حکیم (۳۰: ۳۰) میں ارشاد ہے: اللہ کے پیدا کرنے کا طریقہ (دین = سنت) وہ ہے جس کے مطابق اس نے لوگوں کو پیدا کیا (اور پیدا کرتا رہے گا) اور خدا کی آفرینش میں کوئی تبدیلی نہیں۔ یعنی بنیادی قوانین اور دائرۂ اعظم میں کوئی تغیر نہیں۔

 

۱۔ انسان عالمِ امر میں ایک ازلی و ابدی حقیقت ہے، جس میں کوئی تبدل و تغیر نہیں، لیکن وہ عالمِ خلق میں ہمیشہ تبدیلیوں سے گزرتا رہتا ہے، آپ واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ آدمی ہر وقت اپنی ظاہری زندگی کے مختلف مراحل میں روان دوان ہے، جیسے قرآنِ پاک (۲۳: ۱۲ تا ۱۴) کا مفہوم ہے کہ: وہ شروع شروع میں سلالہ (جوہرِ خاک) ہوتا ہے، پھر نطفہ بن کر رحمِ مادر میں ٹھہرتا ہے، پھر علقہ (جما ہوا خون) ہو جاتا ہے، پھر مضغہ (گوشت کا لوتھڑا) پھر عظام (ہڈیاں) پھر لحم (گوشت) ہو جاتا ہے اور پھر خلقِ آخر کے نام سے پیدا ہو جاتا ہے، یہ تو آدمی کا صرف ابتدائی سفر تھا جس کو اس نے شکمِ مادر ہی میں طے کیا، اب جنم لینے کے بعد سفر کا دوسرا حصہ شروع ہو جاتا ہے جو بڑا طویل اور پُرمشقت ہے۔

 

۲۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ سارا سفر صرف ظاہر میں ہو اور باطن میں کوئی سفر نہ ہو، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کا مشکل ترین راستہ عالمِ شخصی میں ہے، جس پر سالک کو چلنا بے حد ضروری ہے، کیونکہ اسلام صراطِ مستقیم (راہِ راست) ہے جو علم و عمل سے چلنے کے لئے

۸۸

مقرر ہے، جیسے دعائے اوّلین ہے: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ= (۰۱: ۰۵)  ہم کو سیدھے رستے چلا۔ یعنی ہمیں انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کی پیروی نصیب فرما۔

 

۳۔ قرآنی الفاظ جوامع الکلم ہیں، لہٰذا جہاں جہاں چلنے اور آگے بڑھنے سے متعلق الفاظ آئے ہیں، وہاں یہ معنوی معجزہ ہوتا ہے کہ قرآن کے دوسرے تمام لفظوں سے بھی یہی حکمتی اشارہ ملنے لگتا ہے، جیسے صراط، سبیل، ہادی، ہدایت، نور، وغیرہ ہیں کہ ان میں سے ہر لفظ کا جو آخری مطلب ہے اس کے ساتھ دیگر سارے مطالب مل جاتے ہیں، اور ایسا ہونا قرآنِ کریم کے عظیم معجزات میں سے ہے، کیونکہ یہ اُس قادرِ مطلق کا کلامِ حکمت نظام ہے جس نے ہر شخص میں بحدِّ قوّت سب لوگوں کو جمع کر رکھا ہے۔

 

۴۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانِ واجب الاذعان بڑا پُرحکمت ہے: فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِؕ = پس تم اللہ کی طرف دوڑو (۵۱: ۵۰) یعنی تم کامل اطاعت، عبادت اور علم کی تیز رفتاری سے جلد از جلد قربِ الٰہی کو حاصل کرو، اور جملہ آفات و بلیات سے اُسی کی پناہ میں رہو، دوڑنے کی مثال میں اور بھی لطیف حکمتیں پنہان ہیں کہ اس میں مجاہدانہ اعمال کا اشارہ ہے، جیسے ذکرِ سریع کہ وہ شیطان اور نفسِ امّارہ کے خلاف جہاد ہے، اسی طاقت سے عالی ہمت مومن وسوسوں کو کچل ڈالتا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

۵۔ سورۂ صافات (۳۷: ۹۹) میں ارشاد ہے: وَ قَالَ اِنِّیْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ۔ اور (ابراہیم نے) کہا کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جاتا ہوں وہ میری (خصوصی) ہدایت کرے گا۔ روحانی سفر کے بارے میں یہ بڑی روشن مثال ہے، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ صراطِ مستقیم تمام انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کا راستہ ہے جس پر وہ حضرات عالمِ شخصی میں چلتے چلتے منزلِ مقصود تک پہنچ جاتے ہیں، اور وہ خدائے تعالیٰ ہی ہے۔

 

۶۔ قرآنِ حکیم میں اتباعِ انبیاء (پیغمبروں کی پیروی) ایک بڑا مضمون ہے، اس لفظ کا مادّہ “ت ب ع” ہے، آپ قرآنِ پاک میں اس کے بہت سے صیغے دیکھیں گے جن کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ سب لوگ راہِ مستقیم پر انبیاء علیہم السّلام کے پیچھے پیچھے

۸۹

چلیں، خصوصاً حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اتباع (پیروی) بے حد ضروری ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے: (اے رسول) کہہ دو کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میرا اتباع (پیروی) کرو کہ خداوند تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کر دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا بڑا عنایت فرمانے والا ہے (۰۳: ۳۱)۔

 

۷۔ یہ سورۂ نساء کے ارشادات میں سے ہے: اور اس شخص سے دین میں بہتر کون ہوگا جس نے اپنا (باطنی) چہرہ خدا کے سپرد کر دیا اور وہ نیکوکار بھی ہے اور ابراہیم کے طریقہ پر چلتا ہے جو باطل سے کترا کے چلتے تھے۔۔۔ (۰۴: ۱۲۵) چہرۂ باطن کو خدا کے سپرد کرنا یہ ہے کہ کوئی مومنِ سالک منزلِ فنا تک رسا ہو جائے اور اپنا چہرۂ باطن صورتِ رحمان میں فنا کر دے، اور یہ سب سے بڑی نعمت روحانی سفر کے بغیر ممکن نہیں۔

 

۸۔ سچ تو یہ ہے کہ قرآنِ حکیم شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت کے پُرمغز مضامین سے لبریز ہے، ان میں سے ہر مضمون اپنی جگہ بے حد ضروری ہے، ہر عالی ہمت صوفی عملی طور پر شرعِ شریف کا سخت پابند ہوتا ہے اور علمی طور پر بہت آگے جانے کی کوشش کرتا رہتا ہے، کیونکہ علم کے تو بہت سے درجات ہیں، جیسا کہ سورۂ یوسف میں ارشاد ہے: ہم جسے چاہتے ہیں اس کے درجے بلند کر دیتے ہیں اور ہر صاحبِ علم سے بڑھ کر ایک اور عالم ہے (۱۲: ۷۶) اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنی علم و حکمت میں علمائے کرام یکسان نہیں بلکہ وہ مختلف درجات پر فائز ہیں۔

 

۹۔ قرآنِ عظیم کے ظاہر و باطن میں عرفانی بہشت کی کبھی ختم نہ ہونے والی نعمتیں موجود ہیں، چنانچہ اگر کسی مبتدی کو سلامتی کی راہوں اور صراطِ مستقیم کا راز معلوم ہو جائے تو یقیناً اس کو ایک بہت بڑی لازوال خوشی حاصل ہو سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ سلامتی کی راہیں صراطِ مستقیم سے الگ نہیں بلکہ یہ اس کی چار منزلیں ہیں جو شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے نام سے ہیں، آپ سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) میں غور سے دیکھ سکتے ہیں۔

 

۱۰۔ دین کی خاطر ہجرت ظاہری بھی ہے اور باطنی بھی، ہجرتِ باطن یہ ہے کہ کوئی مومن اپنے عالمِ شخصی میں چلا جائے، جیسے فرمایا گیا ہے: اور جو شخص خدا کی راہ میں ہجرت کرے گا

۹۰

تو اس کو زمین میں (مراغم) بھاگنے کی جگہ بڑی کثرت اور بڑی وسعت سے ملے گی (۰۴: ۱۰۰) یعنی جب کوئی مومن / سالک / عارف اپنے عالمِ شخصی کو فتح کر لیتا ہے تو اُسی سے وابستہ ہوکر ساری کائنات بھی فتح ہو جاتی ہے، ہم نے اس کا ذکر بار بار کیا ہے، پھر اس کو پاؤں سے بھاگنا نہیں بلکہ برقِ نور سے اپنے بے شمار کائناتوں میں بھاگنا ہو گا۔

 

۱۱۔ قرآنِ پاک زمین میں چل پھر کر آیاتِ قدرت دیکھنے کا حکم دیتا ہے، اس کے لئے ایک تو زمینِ ظاہر ہے اور دوسری زمینِ باطن، زمینِ باطن عالمِ شخصی میں ہے، اس کی ایک بڑی عالی شان اور عجیب و غریب مثال سورۂ عنکبوت (۲۹: ۱۹ تا ۲۰) میں یہ ہے: کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا ہے کہ کس طرح اللہ خلق کو بارِ اوّل پیدا کرتا ہے پھر اس کو دوبارہ پیدا کرتا ہے؟ یقیناً یہ (کام) اللہ کے لئے بڑا آسان ہے، ان سے کہو کہ (عالمِ شخصی کی) زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ وہ کس طرح خلق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر اللہ بارِ دیگر پیدا کرتا ہے یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

 

۱۲۔ جب علم الیقین کی بہت بڑی تعریف ہے اور اس کی بے حد ضرورت ہے تو بڑے شوق سے اس کے حصول کے لئے کمر بستہ ہو جانا پڑے گا، اگر آپ علم الیقین کے وصفِ کمال کو جاننا چاہتے ہیں تو سورۂ تکاثر (۱۰۲: ۰۱ تا ۰۸) کو خوب غور سے پڑھیں، تا کہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ علم الیقین کس طرح ابتدائی معرفت کا کام کرتا ہے، اگر آپ خدا کے فضل و کرم سے عارف ہیں اور دوستوں کو عین الیقین اور حق الیقین کے اسرارِ مخفی میں سے انکشاف کرتے ہیں تو یہی اصل علم الیقین ہے، اور یہ دولتِ لازوال عالمِ شخصی کے کامیاب سفر کی برکات میں سے ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر ۱۶ شوال ۱۴۱۷ھ ، ۲۴ فروری ۱۹۹۷ء

۹۱

انسان کے دو (۲) ہمنشین

(جنّ اور فرشتہ)

 

مشکوٰۃ، جلدِ اوّل، بابِ وسوسہ میں بحوالۂ مسلم ارشاد ہے: ما منکم من احد الا وقدو کل بہ قرینہ من الجن و قرینہ من الملٰئکۃ۔ قالوا و ایاک یا رسول اللہ، قال و ایای و لکن اللہ اعاننی علیہ فاسلم فلا یامرنی الا بخیر = آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جس کا ایک ہمنشین (ساتھی) جنّات میں سے اور ایک فرشتوں میں سے مقرر نہ کیا گیا ہو، صحابہ نے یہ سن کر پوچھا: اور یا رسول اللہ آپ کے لئے؟ فرمایا: ہاں، میرے لئے بھی، لیکن اللہ نے اس پر مجھ کو (اپنی مدد سے) غلبہ بخشا ہے، پھر اس نے اسلام اختیار کیا، اور وہ مجھ کو (اب ہر وقت) بھلائی کی ہدایت کرتا ہے۔

 

۱۔ کتابِ شافی، جلدِ چہارم، باب ۲۳۷ میں بھی دیکھیں، اسی باب میں حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام کا ارشاد درج ہے: (ترجمہ) ہر دل کے دو کان ہوتے ہیں، ایک کان کے پاس ہدایت کرنے والا فرشتہ مقرر ہے اور دوسرے کے پاس فتنہ پرداز شیطان، یہ (نیکی کا) حکم دیتا ہے اور وہ منع کرتا ہے، شیطان گناہوں کا حکم دیتا ہے اور فرشتہ اس کو روکتا ہے، اور فرمایا کہ سورۂ قٓ (۵۰: ۱۷ تا ۱۸) میں یہ تذکرہ ہے۔

 

۲۔ چونکہ یہ کتاب روحانی سائنس کے ثبوت میں پیش ہو رہی ہے، لہٰذا خداوندِ قدوس کی تائید سے اسرارِ روحانیّت کی باریکیوں کو بیان کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی کے یہی دو ساتھی بے شمار عجائب و غرائب کا خزانہ ہیں، جیسے: (الف) دو ملنے والے، متلقیان (۵۰: ۱۷ تا ۱۸)، ان کا یہ نام اس معنیٰ میں ہے کہ قانونِ تجدّد کے مطابق ہر بار دو (۲)

۹۲

نئے فرشتے آ کر ملتے ہیں، اور اسی طرح لاتعداد فرشتوں اور روحوں کو عالمِ انسانیت میں حافظین اور کراماً کاتبین کے مرتبے پر کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے (۸۲: ۱۰ تا ۱۱)۔

 

۳۔ (ب) یہ فرشتے جو بندوں کے نامۂ اعمال کو تیار کرتے ہیں، حافظین اور کاتبین کے نام سے ہیں، ان کا لکھنا مثال ہے اور ممثول یہ ہے کہ ہر قول و فعل ان کی ذات میں خود بخود ریکارڈ ہو جاتا ہے، اور یہی ریکارڈ جیسا ہو ویسا بولتا رہتا ہے۔ (ج) سورۂ قٓ (۵۰) کی آیت ۱۶ تا ۱۸ کو انصاف و دانشمندی کے ساتھ پڑھنے سے صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی کے دل میں جو وسوسہ پیدا ہوتا ہے وہ اس کے اپنے نفسِ امّارہ ہی کی وجہ سے ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ شیطان کا وسوسہ صرف گنبد کی آواز ہے (د) جبکہ واقعی وسوسہ نفسِ امّارہ پیدا کرتا ہے، جس کے سبب سے انسان بڑے خسارے میں ہے (۵۰: ۱۶)۔

 

۴۔ (ھ) یہی دو فرشتے عرفانی قبر کے منکر اور نکیر بھی ہیں، کیونکہ جب صوفیانہ اور عارفانہ موت زندگی ہی میں واقع ہوتی ہے تو پھر لازمی طور پر اسی کے ساتھ احوالِ قبر بھی ہیں، یاد رہے کہ قبر تین قسم کی ہوا کرتی ہے، قبرِ جسمانی، قبرِ روحانی، اور قبرِ عقلانی (و) آدمی کے یہ دونوں ساتھی ہاروت اور ماروت بھی ہیں (۰۲: ۱۰۲) اور دو یتیم لڑکے بھی، جن کا باپ بڑا نیک آدمی تھا وہ جیتے جی عارفانہ طور پر مر گیا تھا (۱۸: ۸۲)۔

 

۵۔ (ز) دو یتیم لڑکوں میں قانونِ تجدّد کے مطابق لاتعداد لڑکے کام کرتے ہیں لہٰذا وہ سب سے بڑا خزانہ جو کنزِ معرفت ہے، ان تمام کو ملے گا جو عقلی معنوں میں جوان ہو جاتے ہیں (۱۸: ۸۲)۔

 

۶۔ صاحبِ جوامع الکلم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہر ارشاد جواہرِ حکمت کا ایک عظیم صندوق ہوتا ہے، چنانچہ مذکورہ حدیثِ شریف کی چند حکمتیں اس طرح سے ہیں: اوّل: اس حدیث سے صاف طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ شر عارضی ہے اس لئے وہ ختم ہو جاتا ہے، اور خیر مستقل ہے لہٰذا وہ ختم ہونے والی نہیں، اور شر کا ختم ہو جانا اس طرح ہے کہ وہ خیر میں بدل جاتا ہے، دوم: شیطان کے لئے جو مہلت دی گئی ہے وہ انبعاث تک ہے (۰۷: ۱۴ تا ۱۵) چنانچہ جب عارف کی ذاتی قیامت مکمل ہو جاتی ہے تو اس وقت اس کا ذاتی

۹۳

جنّ مسلمان ہو جاتا ہے، سوم: انسان کی لوحِ ضمیر پر ہر لحظہ اعمالِ نیک و بد کی تحریریں بنتی رہتی ہیں، نیکی ہے تو اس کو فوراً ہی فرشتہ پڑھتا ہے، جس سے مومن کو خوشی کا احساس ہوتا ہے، اور اگر بدی ہے تو اس کو جنّ پڑھتا ہے جس سے اداسی ہوتی ہے۔

 

۷۔ سورۂ زخرف (۴۳: ۳۶) میں ہے: اور جو شخص رحمان کی یاد سے اندھا بنتا ہے ہم اس کے واسطے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہی اس کا (ہر دم کا) ساتھی ہے۔ اس کی دوسری حکمت یہ ہے کہ جو شخص حقیقی معنوں میں خدا کو یاد کرتا ہے اس کے لئے ایک فرشتہ مقرّر کیا جاتا ہے اور وہ ایسے مومنِ ذاکر کا ہمنشین ہو جاتا ہے، پس بڑے مبارک ہیں وہ لوگ جو بڑی کثرت سے خدا کو یاد کرتے ہیں، اور فرشتہ بحکمِ خدا ان کے کاموں میں مصروف ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

بدھ ۱۸ شوال المکرم ۱۴۱۷ھ

۲۶ فروری ۱۹۹۷ء

۹۴

 

جہادِ اکبر اور باطنی شہادت

 

کیا تم لوگوں نے (عالمِ شخصی میں) نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں؟ سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) کی اس ایمان افروز اور روح پرور تعلیم میں بڑی یقینی بشارتیں اور عظیم تر حکمتیں ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ ہر ظاہری نعمت کے پیچھے ایک باطنی نعمت موجود ہے، کیونکہ ظاہری نعمت مثال ہے، اور اُس جیسی مگر لطیف و عالی شان باطنی نعمت ممثول۔

 

۱۔ حضرتِ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: رجعنا من الجہاد الاصغر الی الجہاد الاکبر = اب ہم چھوٹے جہاد سے لوٹ کر بڑے جہاد کی طرف آئے (اب ہم نفس سے جہاد کریں گے۔ احیاء العلوم، جلدِ سوم، بابِ اوّل)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بھی فرمایا ہے: المجاہد من جاہد نفسہ = بڑا مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے (جیسا کہ جہاد کا حق ہے)۔ حضورِ اکرمؐ کے اس ارشاد میں بھی غور کریں: اعدیٰ عدوک نفسک التی بین جنبیک = تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا وہ نفس ہے جو تیرے دو (۲) پہلوؤں کے درمیان ہے۔ آنحضرتؐ کی ان روشن تعلیمات سے صاف ظاہر ہے کہ نفس کے خلاف جنگ کرنے کا نام جہادِ اکبر ہے، اور وہ انتہائی ضروری امر ہے۔

 

۲۔ جب بنی اسرائیل نے بچھڑے کو معبود مان کر اپنے آپ پر شرک کا بہت بڑا ظلم کیا تو اس وقت سزا اور باری تعالیٰ کی طرف لوٹ جانے کی غرض سے اُن پر نفس کشی

۹۵

واجب کی گئی، اور فاقتلوا انفسکم (۰۲: ۵۴) کے اصل معنی یہی ہیں، کیونکہ توبہ آدمی کا ذاتی عمل ہے، جس میں دوسرے کی تلوار کا کوئی دخل نہیں، نیز توبہ کے حقیقی معنی ہیں رجوع الی اللہ، یعنی مراحلِ روحانیّت سے آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا، پس فاقتلوا انفسکم میں بنی اسرائیل کی مثال کے حجاب میں خواص کو یہ حکم ہے کہ وہ اضطراری موت سے قبل اختیاری موت کے ثمرات سے فائدہ اٹھائیں۔

 

۳۔ ظاہری جہاد میں کوئی مومن یا غازی ہو سکتا ہے یا شہید، لیکن روحانی جہاد بڑا عجیب معجزہ ہے کہ اس میں جو شہید ہے وہی زندہ غازی بھی ہے، اس کی وجہ اور عظیم حکمت یہ ہے: (ترجمہ) اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے ربّ کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں (۰۳: ۱۶۹) اس آیۂ کریمہ میں شہادتِ ظاہر اور شہادتِ باطن دونوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، شہدائے ظاہر کی یہ نشانی ہے کہ وہ جسماً مر جاتے ہیں، مگر روحاً زندۂ جاوید ہو جاتے ہیں، اور شہدائے باطن کی یہ علامت ہے کہ وہ نفساً مرکر فنا فی اللہ کا عظیم درجہ رکھتے ہیں، اس لئے ان کے پاس اعلیٰ رزق یعنی علمِ لدنی ہوتا ہے، یاد رہے کہ عند ربھم کا مطلب فنا فی اللہ ہے، کیونکہ عالمِ وحدت میں کثرت و دوئی ٹھہر نہیں سکتی، جیسے کوئی ذرۂ آہن یا تو مقناطیس سے دور رہ سکتا ہے یا مل کر، مگر انتہائی قریب ٹھہر ہی نہیں سکتا ہے۔

 

۴۔ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کے بعد عرفاء بھی جہادِ اکبر کے شہداء ہوا کرتے ہیں، آپ کو شاید ہمارے اس بیان سے بڑا تعجب ہوگا کہ روحانی شہادت کی عظیم فضیلت سب سے پہلے حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کو نصیب ہوئی تھی، چونکہ قانونِ فطرت ہرگز ایسا نہیں کہ جمادات، نباتات، حیوانات، اور عام انسانوں میں الٰہی روح پھونک دی جائے، بلکہ یہ صرف اور صرف کاملین میں پھونک دی جاتی ہے، چنانچہ حضرتِ آدمؑ تمام تر صفاتِ بشریت سے آراستہ ایک کامل انسان تھا، جب روحانیّت میں اسرافیل، عزرائیل وغیرہ کی منزل آئی تو آدمِ صفی اللہ پر انفرادی اور نمائندہ قیامت کے وہی تمام احوال گزرنے لگے جو دوسرے کاملین پر گزرتے ہیں، پس آدمؑ کے بہت سے کمالات

۹۶

میں روحانی شہادت کا کمال بھی تھا۔

 

۵۔ اے نورِ عینِ من! یہ کلّیۂ پُرحکمت خوب یاد رہے کہ قصّۂ قرآن میں انبیاء علیہم السّلام نفسِ واحدہ کی طرح ہیں، لہٰذا ان میں سے ایک کی تعریف سب کی نمائندگی کر رہی ہے، بلکہ نفسِ واحدہ آدم و اولادِ آدمؑ کا نام ہے، اب کاملین کی بے مثال قربانی اور شہادت کو حضرتِ اسماعیلؑ ذبیح اللہ علیہ السّلام کی پاک ہستی میں دیکھ لیں، وہ خواب میں ذبیح ہو چکے تھے، اور بیداری میں بھی ان کو بصد شوق خنجرِ عشق سے ذبح ہو جانا تھا، کیونکہ عظیم المرتبت باپ کو خداوند تعالیٰ کا حکم آیا تھا، لیکن ربِّ کریم نے حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام کے عزمِ صمیم اور بے مثال جذبۂ قربانی کو قبول فرماتے ہوئے ذبحٍ عظیمٍ کا فدیہ لیا، جس کی تفسیر آیۂ آلِ ابراہیم (۰۴: ۵۴) ہے۔

 

۶۔ سورۂ صافات (۳۷) میں حضرتِ اسماعیل ذبیح اللہ کی قربانی کی حکمتوں کو پڑھ لیں، قربانی اور شہادت جسمانی، روحانی، اور عقلانی ہے، جسمانی قربانی اس معنیٰ میں ہے کہ خوش نصیب سالک پر روحانی ترقی کا عظیم بابرکت دروازہ اس طرح کھولا جاتا ہے کہ ایک دن حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام اپنے بے شمار لشکر کے ساتھ آکر اس مومنِ سالک کی روح کو تقریباً ایک ہفتے تک اس نہج پر بار بار قبض کرتا اور واپس کرتا رہتا ہے کہ سوائے دماغ کے باقی بدن ہزارہا بار شہید اور قربان ہو جاتا ہے، اور اسی سلسلے میں روح بھی بار بار جانان کے لئے فدا ہوتی رہتی ہے، جبکہ جسمانی شہید صرف ایک دفعہ جانِ شیرین کی قربانی پیش کرتا ہے۔

 

۷۔ یہ عرفانی قصّہ اہلِ معرفت کی روحانی شہادت سے متعلق ہے، جس میں حضرتِ اسماعیلؑ سمیت تمام انبیاء، اولیاء، کاملین، اور عارفین شامل ہیں، چنانچہ حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام کے قصّۂ ظاہر میں حکمتِ باطن محفوظ ہے تاکہ بوقتِ انکشاف بعض اس پر یقین کریں اور بعض اس کی طرف توجہ نہ دیں، بہ ہرکیف اس مبارک قصّے میں لفظِ جبین (پیشانی) حظیرۃ القدس کی نشاندہی کر رہا ہے (۳۷: ۱۰۳) جیسا کہ ارشاد ہے: فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِ = (مفہوم) پھر جب دونوں نے منازلِ روحانیّت میں بدرجۂ کمال فرمانبرداری

۹۷

کی اور باپ نے بیٹے کو جبین (حظیرۂ قدس) کے اسرار کا پیرو بنا دیا (یعنی مطالعۂ اسرارِ ازل کے قابل بنا دیا)۔

 

۸۔ ہر چند کہ روحانی قربانی اور شہادت اسرافیلی اور عزرائیلی منزل سے شروع ہو جاتی ہے، لیکن یہ مکمل نہیں ہوتی، جب تک کہ مرتبۂ “سعی” (۳۷: ۱۰۲) نہ آئے، السعی دوڑنے کو کہتے ہیں، اور یہ نور کے دوڑنے کا نام ہے، جس کا مقام پیشانی (جبین) ہے، آپ نور کے دوڑنے کے بارے میں دیکھیں: سورۂ حدید (۵۷: ۱۲، ۵۷: ۱۹) سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸)۔ الغرض حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام کی جسمانی اور روحانی قربانی و شہادت کے بعد احاطۂ مقدّس میں عقلی قربانی بھی ہوگئی، اور یہ انتہائی حیرت انگیز روحانی سائنس ہے کہ ان تینوں قربانیوں میں سے ہر قربانی ہزاروں کی تعداد میں ہے، تاکہ اس سے بہشت میں خلقِ خدا کو زبردست فائدہ ملے۔

 

۹۔ حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام کی ظاہری قربانی کا فدیہ ذبحِ عظیم (بہت بڑی قربانی) سے دیا گیا، وہ آلِ ابراہیم کی روحانی قربانی ہے، جو قیامۃ القیامات تک جاری اور باقی ہے، جس میں سب سے پہلے خود ذبیح اللہ کی روحانی قربانی ہوگئی تھی، جیسا کہ ذکر ہوچکا، اور اس قسم کی لطیف جسمانی، روحانی اور عقلانی قربانی میں تمام لوگوں کے حق میں انتہائی عظیم فائدے کا راز پوشیدہ ہے، یہ فدیۂ ذبحِ عظیم کی تفسیر ہے۔

 

۱۰۔ اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ انسانِ کامل کی روحانی قربانی اور شہادت سے اہلِ زمانہ کو کس طرح کوئی بہت بڑا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسانِ کامل نفسِ واحدہ ہے، وہ کُل ہے اور اہلِ زمانہ اس کے اجزاء ہیں، پس جب اس کی شعوری قیامت برپا ہو جاتی ہے تو خلائق کی غیر شعوری قیامت قائم ہو جاتی ہے، اور جب وہ روحانی طور پر قربان اور شہید ہو جاتا ہے تو سارے لوگ بھی اس میں قربان اور شہید ہو جاتے ہیں، لیکن ان کو اس کی خبر نہیں ہوتی، اسی وسیلے سے سب کے سب بہشت میں داخل ہو جاتے ہیں، اس کی ایک بہت بڑی دلیل وہ حدیثِ شریف ہے، جس کا عنوان ہے: الخلق عیال اللہ (مخلوق گویا خدا کا کنبہ ہے)۔

۹۸

۱۱۔ سورۂ فتح میں دو مقام (۴۸: ۰۴، ۴۸: ۰۷) پر یہ مبارک ارشاد پڑھ لیں: وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ = اور سارے آسمان و زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں۔ آسمانی لشکر فرشتے ہیں اور زمینی لشکر ارواحِ اہلِ ایمان، اور اللہ کے یہ لشکر ہر زمانے میں موجود ہیں، پس جب انسانِ کامل کی نمائندہ قیامت برپا ہو جاتی ہے تو وہی روحانی جنگ بھی ہے، اور اسی میں فتح بھی ہے اور شہادت و حیات بھی، کیونکہ شہیدوں کا مرنا ہمیشہ زندہ ہو جانے کے لئے ہے، لہٰذا وہ شہید بھی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ زندۂ جاوید بھی۔

 

۱۲۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں ہیں، ان کے رہنے کے لئے قندیلیں ہیں جو عرشِ مبارک سے لٹک رہی ہیں (صحیح مسلم، جلدِ پنجم، کتابِ امارت) ان پرندوں سے اجسامِ لطیف مراد ہیں، جو ظاہراً و باطناً پرواز کرتے ہیں، ان کی عرفانی رسائی عرش تک ہے، اور اس مثال میں شہداء فرشتے ہوگئے ہیں، کیونکہ اہلِ ایمان روحانی ترقی سے فرشتے ہو جاتے ہیں۔

 

۱۳۔ آپ کے عالمِ شخصی میں حدّ و حساب سے باہر روحیں رکھی ہوئی ہیں، اگر آپ آسمانی عشق میں شہید ہو گئے تو خداوندِ قدوس آپ کو زندہ بہشت بنا دے گا، آپ کی ذاتی بہشت میں دنیا بھر کے لوگ زندہ ہو جائیں گے، وہ سب آپ کے بڑے احسان مند ہوں گے، کیونکہ آپ نے خدا کے حکم سے ان سب کو زندہ کر دیا، جیسے قرآنِ حکیم میں ہے: وَمَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ= اور جس نے ایک آدمی کو زندہ کیا تو گویا اس نے سب لوگوں کو زندہ کیا (۰۵: ۳۲) کوئی انسان جب تک خود حقیقی معنوں میں زندہ نہ ہو وہ کسی اور کو کس طرح زندہ کر سکتا ہے، ہاں اگر وہ مر کر زندہ ہوگیا ہے تو گویا اُس نے ایک آدمی (یعنی اپنے آپ) کو زندہ کیا اور اس کے عالمِ شخصی میں سارے جہان والوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا، یہ ہے جہادِ اکبر اور روحانی شہادت کا بیان، الحمد للہ ربِّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

اتوار ۲۲ شوال المکرم ۱۴۱۷ھ، ۲ مارچ ۱۹۹۷ء

۹۹

کائناتی ہدایت کی معرفت

 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (۲۴: ۳۵) خدا تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس آیۂ مبارکہ کی کثیر حکمتوں میں سے چند اس طرح سے ہیں: (الف) کائنات، اس کے بڑے بڑے اجزاء اور چھوٹے چھوٹے ذرّات سب کے سب نورِ ہدایت کے سمندر میں مستغرق ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ افلاک، سورج، چاند، انجم، زمین، اور ہر ذرّہ ان سب کے لئے اجتماعی ہدایت بھی ہے اور انفرادی ہدایت بھی (ب) سورج میں فطری ہدایت جس طرح کام کر رہی ہے وہ بڑی زبردست اور عجیب و غریب ہے، اور ذرے (ایٹم) میں جیسی ہدایت ہے وہ بھی حیرت انگیز ہے (ج) مٹی، پانی، ہوا، اور آگ فطری ہدایت کے بغیر نہیں (د) جمادات کی ہدایت سے نباتات کی ہدایت بڑھ کر ہے، نباتات کی ہدایت سے حیوانات کی ہدایت اوپر ہے (ھ) انسانوں کی ہدایت بہت سے درجات میں ہے، اس میں ایماندار لوگ آگے ہیں، ان سے اولیاء آگے ہیں، اور سب سے انبیاء آگے ہیں۔

 

۱۔ سچ تو یہ ہے کہ کائنات میں کششِ ثقل  (gravity)  کے لئے کوئی جگہ ہے نہیں، کیونکہ ہر مادّی چیز حسبِ ضرورت ایک فطری ہدایت کے ساتھ پیدا کی گئی ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے خاص مقام کی طرف مائل ہو جاتی ہے، اگر کششِ ثقل کا نظریہ واقعاً درست ہوتا تو ہر بار پانی کا ایک بڑا حصہ بخارات کی شکل میں سمندر سے جدا ہوکر بلندی پر نہ جاتا، بڑے بڑے پہاڑ زمین سے نہیں اگتے، درخت پیدا نہ ہوتے، سورج کی کششِ ثقل کی وجہ سے روشنی اور گرمی خارج نہ ہو سکتی، اور سورج ہی اپنے نظام

۱۰۰

(یعنی نظامِ شمسی) کی کشش کا بہت بڑا مرکز ہوتا، جس میں تمام اجرامِ فلکی گر کر تباہ ہو جاتے، مگر ایسا نہیں ہوتا ہے، کیونکہ کششِ ثقل کا کہیں کوئی وجود ہی نہیں، بلکہ ہر جگہ ہدایت ہی ہدایت ہے، جس کی بدولت ہر چیز ایک دائرے میں گردش کر رہی ہے۔

 

۲۔ کائنات کوئی بے کار پڑی ہوئی چیز کی طرح نہیں، اس میں ہر لحظہ دستِ قدرت تجدّد اور تعمیرِ نو کا کام کر رہا ہے، اگر آپ کائنات کے بھیدوں کو جاننا چاہتے ہیں تو اپنے آپ کو ضرور پہچان لیں، کیونکہ جملہ اسرار کا خزانہ آپ کے باطن میں ہے، ازان جملہ تجدّد کا راز جاننا ازحد ضروری ہے، چنانچہ آپ میں تجدّد کی بعض خفی و جلی مثالیں یہ ہیں: سانس، نبض، حرکتِ قلب، چشمِ زدن (پلک جھپکنا)، دورانِ خون، سونا، جاگنا، کھانا پینا، بھوک، پیاس، خون اور خلیات کی تعمیرِ نو، شیو (حجامت)، نہانا دھونا، پہننا، ناخن تراشنا، مسواک کرنا وغیرہ، یہ سب تجدّد کے نمونے ہیں، اسی طرح کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز میں تخلیق و تعمیر کے تجدّد کا سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری ہے تاکہ کائنات کی تخلیق، بقا اور فنا چشمِ بصیرت کے سامنے رہے۔

 

۳۔ آپ نے تین سب سے بڑی چیزوں کے بارے میں شاید سنا ہوگا، وہ ہیں: اعظم الاسماء (اسمِ اعظم)، اعظم الآیات (آیۃ الکرسی)، اور اعظم السُّوَر (سورۂ فاتحہ) چنانچہ آیۂ کرسی کی عظیم الشّان حکمتوں میں سے ایک حکمت اس طرح ضوفگن ہے: وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ = اُس کی کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے (۰۲: ۲۵۵) کیسا پُرنور اور دل افروز ارشاد ہے اس سرِّعظیم کا انکشاف کرنا کہ کائنات کے باطن کا ذرّہ ذرّہ نفسِ کلّی کے نورانی سمندر میں ڈوبا ہوا ہے، کیونکہ کرسی سے نفسِ کلّی مراد ہے۔

 

۴۔ ارشادِ بالا کی اشاراتی حکمتیں یہ ہیں: (الف) کائنات کی ہر چیز میں روح ہے کوئی شیٔ روح سے خالی نہیں، حتیٰ کہ جمادات اور معدنیات میں بھی ایک گونہ روح موجود ہے، کیونکہ جب آپ لوہا اور پتھر جیسی ٹھوس چیزوں کو پانی میں ڈالتے ہیں تو پانی ان کے اندر داخل نہیں ہو سکتا، لیکن جب لوہے کو آگ میں رکھتے ہیں تو یہ تھوڑی ہی

۱۰۱

دیر میں سرخ ہو جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آگ پانی سے زیادہ لطیف ہے، اور یاد رہے کہ روح آگ سے بھی زیادہ لطیف ہے، اس مثال سے معلوم ہوا کہ کائنات کا کوئی حصّہ، کوئی جزو، اور کوئی ذرّہ روح کے بغیر نہیں، کیونکہ تمام عالم نفسِ کلّی کے سمندر میں مستغرق ہے۔

 

۵۔ (ب) ممکن ہے کہ سائنسدانوں کے کہنے کے مطابق ہماری کائنات کے علاوہ اور بھی کائناتیں ہوں، مگر لامحدود نہیں ہوسکتیں، کیونکہ ارشاد ہوا ہے کہ خدا کی کرسی (نفسِ کلّ) نے تمام آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے (ج) اس سے معلوم ہوا کہ بگ بینگ  (big bang)   وہ ابتدائی دھماکہ جس سے کائنات کا آغاز ہوا، ایک غیر منطقی قیاس پر مبنی نظریہ ہے جو سراسر غلط ہے جس کی تفصیل بعد میں بتائیں گے (د) انسان میں کششِ ثقل جیسی کوئی چیز موجود نہیں، پھر کائنات میں یہ چیز کہاں سے آئی، کیونکہ وہاں بھی اور یہاں بھی روح ہی روح ہے، وہ انسانِ کبیر ہے اور یہ انسانِ صغیر، اِس میں بھی اور اُس میں بھی روح کی گرفت، ہولڈ، کنٹرول، اور حفاظت ہے، یعنی جس طرح آدمی کا ہر ہر کام روح ہی سے چلتا ہے، اسی طرح کائنات کا سارا نظام روحِ اعظم (نفسِ کلّی) سے چلتا ہے۔

 

۶۔ سورۂ طٰہٰ کا ایک ارشاد ہے: موسیٰؑ نے کہا ہمارا ربّ وہ ہے جس نے (عالمِ امر کی) ہر چیز کو (اس جہان میں) ایک خلقی صورت دی پھر اس کی رہنمائی فرمائی (۲۰: ۵۰) اس کلّیہ سے ظاہر ہے کہ ہر درجہ کی مخلوق کو اس کی ضرورت کے مطابق ہدایت عطا کی گئی ہے، اور کوئی چیز کلّیۂ ہدایت سے مستثنیٰ نہیں، اور یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ ہدایت و رہنمائی کا تعلق کسی بھی درجے کی روح سے ہے، اور روح کے بغیر ہدایت پذیری ممکن ہی نہیں، پس مذکورہ آیۂ کریمہ میں کائناتی ہدایت کا ذکر ہے۔

 

۷۔ سورۂ حدید میں ہے: اور ہم نے ہی لوہے کو نازل کیا۔۔۔ (۵۷: ۲۵) یعنی اللہ تعالیٰ نے عالمِ روحانی سے لوہے کی روح کو نازل کیا جس نے کسی زمین یا پہاڑ میں جا کر لوہے کے ذخائر بنانے کا کام انجام دیا، اس سے یقینی طور پر معلوم ہوا کہ ہر قسم

۱۰۲

کی معدنیات کی بھی روحیں ہوا کرتی ہیں، جیسے سونا، چاندی، پیتل، سیسا وغیرہ، پس یہ اس سلسلے کی ایک نمائندہ آیت ہے کہ جس سے اہلِ دانش بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ جمادات کی بھی روح ہوتی ہے کیونکہ ہدایت کا تعلق روح سے ہے، مثال کے طور پر جب سونے کی روح مادّہ کے ذرّات کو بتدریج سونا بنا لیتی ہے تو اس وقت اس کی فطری ہدایت کام کرتی ہے، کتنی بڑی عجیب بات ہے کہ روح الذہب کو خدا نے سونا بنانے کی جو ہدایت دی ہے، اس کا راز دنیا میں کسی کو معلوم ہی نہیں، اگر کوئی دنیا پرست آدمی روحِ زرّ یا روحِ سیم کے ہنر کو جانتا تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔

 

۸۔ جو لوگ مر جانے کے بعد از سرِ نو پیدا کئے جانے پر ایمان نہیں لاتے تھے، ان کے بارے میں ارشاد ہوا: قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِیْدًا = (اے رسولؐ) کہہ دو کہ تم پتھر ہوجاؤ یا لوہا (۱۷: ۵۰) میرا یقین ہے کہ ایسے لوگ جن کو یہ امر ہوا روحانیّت میں روح الحجر یا روح الحدید ہو گئے، کیونکہ قرآنِ حکیم میں غیر ممکن مثالیں نہیں ہیں، پس یہ روحِ منجمد کی مثال ہے، یعنی جمادات کی روح۔

 

۹۔ قرآنِ حکیم فرماتا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جو خزائنِ عالمِ روحانی سے نہ آئی ہو (مفہوم ۱۵: ۲۱) پس یقیناً پتھر، لوہا وغیرہ بھی دوسری تمام چیزوں ہی کی طرح خداوند تعالیٰ کے خزانوں سے آئے ہیں، لیکن عالمِ روحانی میں ہر چیز روح ہے جو دنیا میں آتے آتے مادّہ بن جاتی ہے، جیسے حدیثِ شریف میں حجرِ اسود سے متعلق ارشاد ہے: نزل الحجر الاسود من الجنۃ و ھو اشد بیاضا سودتہ خطایا بنی اٰدم = حجرِ اسود بہشت میں سے اترا، وہ بہت سفید تھا، لیکن لوگوں کے گناہوں نے اس کو کالا کر دیا (لغات الحدیث، لفظِ حجر) دنیا کے بڑے بڑے علمی اداروں میں روح اور مادّہ کا مسئلۂ لا ینحل زیرِ بحث ہو سکتا ہے، لیکن جوابِ شافی بہت مشکل ہے، کیونکہ صرف روحانی سائنس ہی ہے جس کی روشنی  میں ہر مشکل سوال کا جواب ممکن ہے۔

 

۱۰۔ حجرِ اسود دنیا میں نازل ہوا، اور یقیناً وہ عالمِ عُلوی میں اپنی جگہ موجود بھی ہے، یہ وہاں نور (روح = گوہر) ہے اور یہاں پتھر، اس عظیم الشّان

۱۰۳

حقیقت سے بہت سی حقیقتوں کی نمائندگی ہوتی رہتی ہے، وہ اس طرح ہے کہ بہشت سے یا خزائنِ الٰہی سے چیزیں دنیا میں نازل ہوتی رہتی ہیں، درحالے کہ وہ روحانی طور پر وہاں موجود بھی رہتی ہیں، گویا اصل چیزیں وہاں ہیں، اور ان کے سائے یہاں نمودار ہو رہے ہیں، پس سوچنے والوں کے لئے قرآن و حدیث کی حکمت (روحانی سائنس) میں بہت کچھ ہے۔

 

۱۱۔ قرآنِ حکیم اپنے تمام کمالات و معجزات کے ساتھ نازل ہوچکا ہے اور اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ یہ دنیا میں سب کے سامنے موجود ہے، اور اس حقیقت میں بھی کوئی شک ہی نہیں کہ قرآنِ مجید لوحِ محفوظ میں بھی ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) حجرِ اسود خانۂ کعبہ میں بھی ہے اور عالمِ بالا میں بھی۔ آدم دنیا میں بھی آیا، اور اسی وقت وہ بہشت میں بھی تھا، اصل انسان ہمیشہ بہشت میں مقیم ہے، اور اس کا سایہ جیسا وجود اس دنیا میں آیا ہے۔

 

۱۲۔ روحانی سائنس دراصل بہت سے روحانی انکشافات کا نام ہے، منجملہ ایک بہت بڑا انکشاف یہ ہوا ہے کہ کائنات میں قانونِ انقباض و انبساط ہمیشہ جاری ہے، قبض سے انقباض (سکڑنا، بھینچنا) بسط سے انبساط (پھیلنا) اور یہ فعلِ قدرت ہے، جیسے اسی کتاب میں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ القابض بھی ہے اور الباسط بھی، اور قرآنِ حکیم میں ان دونوں اسموں کی تفسیری آیت بھی ہے، وہ یہ ہے: وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪-وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ = اور اللہ تعالیٰ(کائنات کو) اپنی مٹھی میں لیتا ہے اور اس کو پھیلاتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹا دئے جاؤ گے (۰۲: ۲۴۵)۔

 

۱۳۔ کائناتی انقباض کی لہریں تمام نظامِ شمسی سے سورج کے مرکز کی طرف دوڑتی رہتی ہیں، اور وہاں سے انبساط کی لہریں اس نظام کے حواشی کی طرف دوڑتی رہتی ہیں، اور یہ ایک سلسلہ ہے جو ہمیشہ جاری ہے، اور انقباض و انبساط کا یہی قانون زمین وغیرہ کے لئے بھی ہے، اور انسان کے واسطے بھی یہی قانون ہے جو عالمِ شخصی ہے، کہ جس کی وجہ سے دل سکڑتا ہے اور کھلتا ہے، یعنی ہمیشہ حرکتِ قلب سے القابض الباسط کی ترجمانی ہو رہی ہے، جیسے ارشادِ نبوّی ہے: ان القلوب کلھا بین اصبعین من اصابع

۱۰۴

الرحمٰن = تمام دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے بیچ میں ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ان کو پھیر دیتا ہے (لغات الحدیث، جلدِ سوم، لفظِ قلب)۔

 

۱۴۔ سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں ارشاد ہے: اور اہلِ یقین کے لئے زمین میں (قدرتِ خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں (فی الارض = یعنی زمین کے اوپر اور زمین کے اندر) اور خود تم میں بھی ہیں تو تم کیا دیکھتے نہیں؟ اس کا یہ مطلب ہوا کہ جس طرح آدمی میں انسانی روح کام کرتی ہے، اسی طرح زمین میں آفاقی روح کام کررہی ہے، اور جیسے انسان میں قلب حیات اور طاقت کا مرکز ہے، ایسے ہی کرۂ ارض کے بیچوں بیچ اس کی روح اور طاقت کا سینٹر ہے، جس کو ظاہری سائنسدان کششِ ثقل کا مرکز سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ نظریہ غلط ہے، جس کا ذکر ہوچکا، بلکہ یہ روحِ زمین کے انقباض و انبساط کا مرکز ہے۔

 

۱۵۔ سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۰۶) میں کرۂ ارض کے بیچوں بیچ روح الارض کے مرکز ہونے کا اشارہ موجود ہے، جیسا کہ ارشادِ مبارک ہے: لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا وَ مَا تَحْتَ الثَّرٰى = جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ ان دونوں کے بیچ میں ہے اور جو کچھ (زمین کی) مٹی کے نیچے ہے سب اسی کا ہے۔ زمین کی مٹی کے نیچے ضرور کوئی بہت بڑا راز ہے اور یقیناً قلبِ زمین یعنی مرکزِ روحِ زمین ہے، جہاں سے قبض و بسط کی لطیف لہریں دوڑتی ہیں، جیسا کہ حدیثِ شریف ہے: ان لکل شیءٍ قلبا و قلب القراٰن یس (لغات الحدیث، جلدِ سوم، قلب) = ہر چیز کا دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۂ یس ہے۔ پس بڑے شاندار طریقے سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ زمین کا جو مرکز ہے وہی اس کا قلب ہے، اور یہ روحانی سائنس کے بڑے بڑے انکشافات میں سے ہے۔

 

۱۶۔ سورۂ سبا (۳۴: ۰۲) اور سورۂ حدید (۵۷: ۰۴) کے اس مبارک ارشاد میں خوب غور کریں: یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْهَاؕ= جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو اس میں سے نکلتا ہے اور جو آسمان سے اترتا ہے اور جو اس پر چڑھتا ہے وہ سب کچھ جانتا ہے۔ اس میں کلیاتِ دائم

۱۰۵

کے طور پر دیکھنا ہوگا کہ سطحِ زمین کی ہر جانب یعنی گولائی سے انقباضِ روحانی کی پیاپے موجیں داخل ہو جاتی ہیں تا آنکہ مرکز میں پہنچ جاتی ہیں اور عملِ تحلیل کے فوراً بعد انبساط کی لہریں بن کر زمین کی گولائی سے خارج ہو جاتی ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

سنیچر ۲۸ شوال المکرم ۱۴۱۷ھ

۸ مارچ ۱۹۹۷ء

 

۱۰۶

 

کائنات کا لف و نشر

 

اس عنوان کے معنی ہیں: کائنات کے باطن کو لپیٹنا اور پھیلانا، یہ کام صرف اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے، کیونکہ وہی قادرِ مطلق القابض بھی ہے اور الباسط بھی، یعنی قانونِ قبض و بسط کا مالک وہی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَاللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪-وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ (۰۲: ۲۴۵) اور اللہ ہی (کائنات کو لپیٹ کر اپنی) مٹھی میں بھی لیتا ہے اور اسے پھیلاتا بھی ہے اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔ ان شاء اللہ، ہم یہاں اس باب میں کچھ وضاحت کریں گے۔

 

۱۔ قرآنِ حکیم کو تجربۂ روحانیّت اور حکمت کے ساتھ پڑھنے سے روحانی سائنس کا خاص میدان سامنے آتا ہے، اور یہ غیر معمولی کام ہے اور اس کے نتائج بھی غیر معمولی ہیں، مثال کے طور پر قرآنِ پاک ہی کی روشنی میں یہ ثابت کرنا روحانی سائنس ہی کا کرشمہ ہے کہ آدمِ دور سے پہلے بھی بہت سے ادوار اور بہت سے آدم گزرے ہیں، اس کی بہت سی دلیلیں قرآنِ پاک میں موجود ہیں، اور ان روشن دلائل میں سے ایک آیۂ شریفہ اصطفا ہے، جو سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۳) میں ہے، وہ ارشادِ مبارک یہ ہے: اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ = اللہ نے آدمؑ اور نوحؑ اور آلِ ابراہیمؑ اور آلِ عمرانؑ کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر منتخب کیا تھا۔ اس آیۂ شریفہ سے یہ ثبوت مل جاتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرتِ آدم کو اہلِ زمانہ میں سے منتخب فرمایا تھا، جیسے اس آیت میں مذکور و موصوف دوسرے حضرات کا انتخاب ہوا تھا۔

 

۲۔ سوال: اگر زمانۂ آدم میں اہلِ زمانہ موجود تھے تو ان سے بھی دنیا میں بہت

۱۰۷

سی نسلیں پھیل چکی ہوں گی، درین صورت کیوں کر تنہا آدم ابوالبشر ہوسکتا ہے اور کس طرح آج تمام لوگ بنی آدم کہلا سکتے ہیں؟ جواب: جب خداوندِ قدوس کے حکم سے انسانِ کامل کی باطنی قیامت برپا ہونے لگتی ہے تو اس وقت تمام اہلِ جہان کی نمائندہ روحیں جمع ہوکر اس کی نسل قرار پاتی ہیں اور ان کے سارے اگلے رشتے ختم ہو جاتے ہیں (۲۳: ۱۰۱) لہٰذا حضرتِ آدم کے ابوالبشر ہونے میں کوئی شک ہی نہیں۔

 

۳۔ ہر انسانِ کامل نمائندۂ آدم اور نفسِ واحدہ ہے، جس کی انفرادی قیامت میں سب کی اجتماعی قیامت پوشیدہ ہوتی ہے، اور اسی طرح ہر قیامت میں کائنات کے لف و نشر کا تجدّد ہوتا ہے، اور قرآنِ پاک میں جتنے واقعاتِ قیامت مذکور ہیں، وہ سب کے سب عارف پر گزرتے ہیں، تاکہ اس کے لئے خزائنِ معرفت کے ابواب مفتوح ہو جائیں، کیونکہ خداوند تعالیٰ اس بات سے بے نیاز ہے کہ اپنی ذاتِ پاک کے لئے کسی خزانے کو پوشیدہ رکھے، جبکہ وہ کنزِ مخفی کو بھی اپنے دوستوں سے دریغ نہیں رکھتا ہے، پس اختیاری موّت اور انفرادی قیامت میں اولیاء کے لئے بہت کچھ ہے بلکہ سب کچھ ہے۔

 

۴۔ جب نفسِ واحدہ (انسانِ کامل) کی نمائندہ قیامت قائم ہو جاتی ہے تو اس حال میں اللہ تعالیٰ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لوگوں کو انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں سمیٹ لیتا ہے جو لطیف اور زندہ ذرّات کی شکل میں ہوتے ہیں، پھر ان سب کو سمیٹ کر مقامِ عقل (پیشانی) پر لے جاتا ہے، جہاں یہ سب نفسِ واحدہ کی صورت میں ایک ہی چہرہ نظر آتے ہیں، جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۱۰۴) میں ہے: فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِیْفًا = پھر جب آخرت کا وعدہ آپہنچے گا تو ہم تم سب کو سمیٹ کر لے آئیں گے۔

 

۵۔ پھیلی ہوئی کائنات کے ظاہر کو نہیں بلکہ باطن کو لپیٹنا مقصود ہے تاکہ عارف کو علم و معرفت کا سب سے عظیم خزانہ حظیرۂ قدس ہی میں مل جائے، آپ سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۴) میں آیۂ شریفہ کو پڑھیں: (ترجمہ) جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جیسے خطوں کا طومار لپیٹ لیتے ہیں، جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلے پیدا کیا تھا اُسی طرح دوبارہ پیدا کردیں گے۔ یعنی جب مومنِ سالک منزلِ مقصود (منزلِ فنا) میں پہنچ

 

۱۰۸

 

جاتا ہے تو وہاں ربِّ کریم اس کی آسانی کی خاطر علم و حکمت کی پھیلی ہوئی کائنات کو لپیٹ کر محدود بنا دیتا ہے، اور یہی مثال قرآنِ عظیم کی بھی ہے، جیسے تاکید و توجہ کے لئے ایک ہی سورہ (سورۂ قمر ۵۴) میں چار بار ارشاد ہوا ہے:

 

۶۔ وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ = اور ہم نے تو قرآن کو نصیحت (اور ذکر و عبادت اور علم و حکمت) کے واسطے آسان کر دیا تو کوئی ہے جو اس بات کو سمجھے؟ (۵۴: ۱۷) یعنی اوّل سر تا سر قرآن، دوم سورۂ فاتحہ جو امُ الکتاب ہے، سوم اسمِ اعظم، اور چہارم کتابِ مکنون، تاکہ علم کے تمام درجات میں قرآن ہی قرآن کی آسانی ہو، پھر ایسے میں ان شاء اللہ مجموعی قرآن آسان ہوجائے گا، اے عزیزِ من! آپ برائے نام آسانی کو چاہتے ہیں یا حقیقی آسانی کو؟ اگر حقیقی آسانی چاہئے تو قرآنِ عزیز کی اس ہدایت پر عمل کرنا ہوگا: اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاﭤ = بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے (۹۴: ۰۶) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن فہمی کے چند طریقوں میں سے ایک طریقہ نہایت آسان ہو اور وہ اسمِ اعظم کی نورانیت میں قرآنی معرفت حاصل کرنے کا اصول ہو۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل یکم ذیقعدہ ۱۴۱۷ھ

۱۱ مارچ ۱۹۹۷ء

۱۰۹

چند کلیدی سوالات

 

سوال ۱: آپ نے روح پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے “روح کیا ہے” تو کیا روح سے ملاقات ہو سکتی ہے؟ اس سے گفتگو؟ کیا اس کی کوئی خاص شکل ہے؟ وہ کس زبان میں بولتی ہے؟ ملاقاتِ روح کے لئے کیا کیا شرطیں ہیں؟ جواب: ہاں روح کے موضوع پر میری ایک قابلِ اعتماد تصنیف ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہوئی تو روح سے ملاقات ہو جاتی ہے، اور خاص اصول کے مطابق گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے، روح کے بہت سے ظہورات ہیں، اس کی خاص شکل انسان کی سی ہے، مگر بہت ہی لطیف و جمیل، روح ہر شخص کی مادری زبان میں گفتگو کرتی ہے، روح سے ملاقات کے لئے شدید شرائط ہیں۔

 

سوال ۲: کیا آپ نے جنّ کو دیکھا ہے؟ وہ کیسی مخلوق ہے؟ جنّ کیا کھاتا ہے؟ آیا انسان اور جنّ کے درمیان کوئی رشتہ ہے؟ جواب: جی ہاں، میں نے جنّ کو بارہا دیکھا ہے، وہ بہت ہی اچھی مخلوق ہے، جنّ کی خوراک خوشبوؤں کی صورت میں ملتی ہے، جن دراصل انسان کے جسمِ لطیف کا نام ہے، لہٰذا یہ انسان کی ترقی یافتہ شکل ہے، مگر بے علم کہانیوں کی وجہ سے جنّ کا تصوّر وحشت ناک ہوگیا ہے۔

 

سوال ۳: جنّ اور پری میں کیا فرق ہے؟ ان دونوں کے لفظی معنی کیا ہیں؟ آیا یہ درست ہے کہ جنّ و پری صحراؤں، بیابانوں، اور پہاڑوں میں رہتے ہیں؟

۱۱۰

آخر کیوں ایسا ہے؟ جواب: جنّ اور پری ایک ہی مخلوق کے دو نام ہیں، جنّ عربی نام ہے اور پری فارسی، جنّ کے معنی ہیں پوشیدہ ہونا، نظر نہ آنا، اور پری کے معنی ہیں پرواز کرنا، اڑنا، ہاں یہ درست ہے کہ جنّات (یعنی پری مرد و زن) کا مسکن ایسے مقامات پر ہوتا ہے جہاں انسانوں کا گزر بہت کم ہوتا ہے یا گزر ہی نہیں ہوتا، اس میں تین حکمتوں کا پتا چلا ہے (الف) وہ لطیف اور پاکیزہ ہیں، اس لئے ان کو لوگوں کے گناہوں سے دور رہنا ہے (ب) تاکہ یہ اس حقیقت کی دلیل ہو کہ پروردگارِ عالم اپنی کائنات کے کسی مقام کو مخلوق سے خالی نہیں رکھتا، چنانچہ اس نے جس طرح سیّارۂ زمین کے بیابانوں میں جنّات کو جگہ دی ہے اسی طرح ان بے شمار ستاروں پر لطیف مخلوقات کو ٹھہرایا ہے جن پر کثیف مخلوق کی کوئی آبادی نہیں (ج) تاکہ لوگ جب ایسے پاکیزہ مقامات پر جاتے ہیں تو بڑی کثرت سے خدا کو یاد کرتے رہیں، کیونکہ یہ لطیف مخلوقات کا علاقہ ہے۔

 

سوال ۴: کبھی کبھار کوئی آدمی یہ شکایت کرنے لگتا ہے کہ اس کے گھر میں جنّ آ گیا ہے، جس کی وجہ سے گھر والوں کو ہر وقت خوف رہتا ہے، کیا یہ سچ ہے یا گمان؟ اگر سچ ہے تو یہ جنّ بیابان یا پہاڑ سے آبادی میں کیوں آیا؟ اس بیماری کا کیا علاج ہوسکتا ہے؟ جواب: امکان ہے کہ سچ مچ گھر میں جنّ آئے، دوسری طرف سے یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا نہ صرف وہم و گمان ہو، اگر واقعاً جنّ ہے تو گھر میں اکثر قرآنِ پاک پڑھنے سے چلا جائے گا، کیونکہ قرآنِ حکیم (۴۶: ۲۹) میں اس کا حکمتی اشارہ موجود ہے اور ہر قسم کے خوف سے امتحان لینے کا ذکر بھی ہے (۰۲: ۱۵۵)۔

 

سوال ۵: آیا کوئی ایسا عمل ہے جس کے ذریعے سے ہر مومن اپنے گھر کو بلاؤں اور آفتوں سے محفوظ رکھ سکے؟ جواب: جی ہاں، بڑا یقینی اور قابلِ اعتماد عمل ہے، وہ یہ ہے کہ گھروں میں بلند آواز سے خدا کا ذکر کیا جائے، ان میں صبح و شام تسبیح پڑھی جائے (۲۴: ۳۶) آپ نے سورۂ رحمان کی فضیلت کے بارے میں سنا ہوگا

۱۱۱

اسی عروس القرآن کے آخر میں ہے: (اے رسولؐ) تمہارا پروردگار جو صاحبِ جلال و کرامت ہے اس کا نام بڑا بابرکت ہے (۵۵: ۷۸) یعنی جس گھر میں اور جس دل میں اللہ کے مبارک نام کو کثرت سے یاد کیا جائے گا اس میں ہرگونہ برکت ہوگی۔

 

سوال ۶: بحوالۂ سورۂ نمل (۲۷: ۱۸ تا ۱۹) وہ چیونٹی کیا تھی جس کی گفتگو سے حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کو تعجب ہوا تھا؟ اور وادیٔ نمل کہاں ہے؟ جواب: عالمِ ذرّ کی ایک سردار روح کو چیونٹی کے نام سے یاد فرمایا گیا ہے جو حضرتِ سلیمانؑ کے کان میں بول رہی تھی، وادیٔ نمل روحانی سائنس کی زبان میں کان (گوش) کو کہتے ہیں، اور مذکورہ روح کو بعوضہ (مچھر، ۰۲: ۲۶) کا نام بھی دیا گیا ہے۔

 

سوال ۷: آپ روحانی سائنس کی روشنی میں اس کا جواب دیں: آیا انسان بہ یک وقت ایک سے زیادہ اجسام میں یا ہستیوں میں موجود ہوسکتا ہے؟ اگر ایسا ہونا ممکن ہے تو کوئی مثال بتائیں۔ جواب: اگر کوئی دانا شخص نورِ معرفت یا علم الیقین کی روشنی میں دیکھ سکتا ہے تو وہ یقین کرے گا کہ یہ نعمت غیر ممکن نہیں، جبکہ انسانِ کامل کی پیشانی میں جو معجزۂ وحدت ہے اس میں آدم و اولادِ آدم سب کے سب ایک ہی ہیں، پس یہ وحدت آپ بھی ہیں اور دنیا بھر کے لوگ جو اس وحدت کے ظہورات ہیں، وہ بھی آپ ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۱۲ مارچ ۱۹۹۷ء

۱۱۲

بہشت میں ہر نعمت ممکن ہے

 

قرآنِ حکیم وہ واحد بے مثال آسمانی کتاب ہے، جس میں اعلیٰ علوم سے متعلق ہزاروں سوالات کے حکیمانہ جوابات پہلے ہی سے مہیا کئے ہوئے ہیں، ان میں لازمی طور پر ہر ایسے سوال کا جواب بھی موجود ہے جو بہشت کی نعمتوں سے متعلق ہوسکتا ہے، مثلاً کسی شخص کا یہ پوچھنا کہ اہلِ بہشت کو وہاں کیا کیا نعمتیں مل سکتی ہیں؟

 

جوابِ اوّل: سورۂ قٓ (۵۰: ۳۵) میں ارشاد ہے: لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِیْهَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ = بہشت میں یہ لوگ جو چاہیں گے ان کے لئے حاضر ہے اور ہمارے ہاں تو (اس سے بھی) زیادہ ہے۔ ایسے جواب والی آیات کل پانچ ہیں، یاد رہے کہ انسان کو بہشت میں تین قسم کی نعمتیں ہمیشہ ملتی رہیں گی، لطیف جسمانی نعمتیں، روحانی نعمتیں اور عقلانی نعمتیں، کیونکہ انسان کا وجود تین چیزوں پر مبنی ہے: جسم، روح، اور عقل، مگر بہشت میں کثیف جسم کی جگہ لطیف جسم ہوگا، پس اہلِ بہشت کی چاہت مذکورہ تین طرح کی نعمتوں میں ہوگی۔

 

جوابِ دوم: سورۂ ابراہیم (۱۴: ۳۴) میں ہے: خدا نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا، اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے۔ یہاں ایک لطیف اشارہ یہ ہے کہ تم حقیقی علم حاصل کرو تاکہ اس کی روشنی میں اعلیٰ سے اعلیٰ نعمتیں طلب کر سکو۔

 

جوابِ سوم: سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں ہے: کیا تم نے (چشمِ بصیرت سے) نہیں

۱۱۳

دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو تمہارے لئے مسخر کر رکھا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہیں  اور جو کچھ زمین میں ہیں اور اس نے تم پراپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دی ہیں۔ دیکھنے والوں نے خوب دیکھا اور بتایا کہ یہ کل کائنات کی بادشاہی عطا کرنے کی بات ہے۔

 

جوابِ چہارم: ایک طرف اپنی تمام نعمتوں کے ساتھ بہشت ہے، اور دوسری طرف رضوان (۰۹: ۷۲) یعنی اللہ کی خوشنودی یا ایک عظیم فرشتہ یا خدا خود ہے جو بہشت سے بھی اکبر (بہت بڑا) ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہشت کے ساتھ اور بہشت کے بعد خدا مل سکتا ہے، اس طرح کہ پھر کبھی ہم اس سے جدا نہ ہو جائیں۔

 

جوابِ پنجم: اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ قرآن اور اسلام کے مطابق لوگوں کے لئے درجات ہیں، چنانچہ سارعوا (۰۳: ۱۳۳) اور سابقوا (۵۷: ۲۱) کے حکم کی تعمیل میں جو لوگ سب سے سبقت لے جائیں گے، ان کے عالمِ شخصی کو کائنات کے ساتھ ملا کر بہشت بنا دیا جائے گا، یہ قدیم و جدید بہشت ہوگی، جس میں اہلِ زمانہ سب کے سب داخل ہو جائیں گے۔

 

جوابِ ششم: جنت میں ربّ العزّت اپنے خاص دوستوں کو بہت بڑی سلطنت عطا کرے گا (۷۶: ۲۰) ایسی بلند ترین عزّت اور عظیم ترین نعمت کی تعریف ہم جیسے ناچار بندوں سے کیوں کر ہوسکتی ہے، الغرض بہشت کی بادشاہی میں ایسی عظیم الشّان نعمتیں ہیں کہ ان کی مثال صرف وہ خود ہیں۔

 

جوابِ ہفتم: سورۂ قمر کے آخر (۵۴: ۵۴ تا ۵۵) میں ارشاد ہے: بے شک پرہیزگار لوگ باغوں میں اور نہروں میں ہوں گے مقامِ صدق میں قدرت والے بادشاہ کے پاس۔ جب کبھی اللہ تعالیٰ کے قربِ خاص کا ذکر ہو تو وہ فنا فی اللہ کے معنی میں ہوتا ہے، کیونکہ دیدارِ پاک کے بعد بحقیقت عارف فنا ہو جاتا ہے۔

 

جوابِ ہشتم: بہشت کی نعمتیں دنیا میں نہیں آسکتی ہیں، مگر اُن کے سائے یہاں کی نعمتوں کے نام سے ہیں، آدمی جب شکمِ مادر میں تھا تو اس وقت وہ نہ اصل نعمت کو جانتا تھا اور نہ ظلِ نعمت کو، لیکن جب سے وہ پیدا ہوکر ہوش سنبھالنے لگا،

۱۱۴

تب سے اس میں محدود خواہشات پیدا ہوتی گئیں جو سایہ جیسی نعمتوں کی بنیاد پر تھیں، جب ایسے لوگ خدا کے فضل و کرم سے بہشت میں جائیں گے تو ان کی خواہشات محدود اور وہاں کی نعمتیں لامحدود ثابت ہوں گی۔

 

جوابِ نہم: آپ سورۂ تطفیف کو پڑھیں، اور اس ارشاد میں غور کریں: ہرگز ایسا نہیں، بے شک نیک لوگوں کا نامۂ اعمال بلند مرتبہ فرشتوں میں ہے، اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ بلند مرتبہ فرشتے کیا ہیں؟ وہ لکھی ہوئی کتاب ہیں، جس کو مقربین (دنیا میں بھی) دیکھ سکتے ہیں (۸۳: ۱۸ تا ۲۱)۔ نیکوکاروں کا نامۂ اعمال بلند مرتبہ فرشتوں کی صورت میں ہے، جس کو دنیا کی روحانیّت میں اگرچہ سب نیک لوگ تو نہیں دیکھ سکتے ہیں، لیکن مقربین جو اہلِ معرفت ہیں وہ ایسے عجیب و غریب نامۂ اعمال کو چشمِ بصیرت سے دیکھ لیتے ہیں، یہ عظیم فرشتے بالآخر حظیرۂ قدس میں ہوتے ہیں، کراماً کاتبین ہیں، جو چند ہیں، مگر مقامِ وحدت پر سب کو ایک ہونا ہے، لہٰذا وہاں صرف ایک ہی ہے اور بس۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعہ ۴ ذیقعدہ ۱۴۱۷ھ، ۱۴ مارچ ۱۹۹۷ء

 

۱۱۵

 

حق تعالیٰ کا دیدارِ اقدس

 

حدیثِ شریف میں ہے: ان الناس قالوا یا رسول اللہ ہل نریٰ ربنا یوم القیٰمۃ قال ہل تمارون فی القمر لیلۃ البدر لیس دونہ سحاب قالوا لا یا رسول اللہ قال فھل تمارون فی الشمس لیس دونھا سحاب قالوا لا قال فانکم ترونہ کذالک = کہ لوگوں نے پوچھا، یا رسول اللہ، کیا ہم قیامت میں اپنے ربّ کو دیکھ سکیں گے؟ آپ نے (جواب کے لئے) پوچھا، کیا تمہیں چودھویں کے چاند میں جبکہ اس کے قریب کہیں بادل بھی نہ ہو، کوئی شبہ ہوتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! پھر آپؐ نے پوچھا، اور کیا تمہیں سورج میں جب کہ اس کے قریب کہیں بادل نہ ہو شبہ ہوتا ہے؟ لوگ بولے کہ نہیں، پھر آپؐ نے فرمایا کہ ربّ العزت کو تم اسی طرح دیکھو گے (صحیح البخاری، جلدِ اوّل، کتاب الاذان، باب ۵۲۰)۔

 

دلیلِ اوّل: سورۂ قیامت (۷۵: ۲۲ تا ۲۳) میں ہے: وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ = اُس روز بعض چہرے تروتازہ ہوں گے، اپنے ربّ کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ ایسے چہروں کی تروتازگی کا سبب پوشیدہ نہیں کہ ان کو پروردگارِ عالم کا پاک دیدار حاصل ہوگا، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کے لئے سب سے بڑا انعام ہے۔

 

دلیلِ دوم: سورۂ تطفیف کے اس مبارک ارشاد کا مجموعی مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن کچھ لوگ خداوند تعالیٰ کے دیدارِ مقدّس سے مستنیر و مستفیض ہوں گے، اور کچھ لوگ دیدارِ الٰہی سے محروم ہو جائیں گے، جیسے ارشاد ہے: كَلَّاۤ اِنَّهُمْ عَنْ

۱۱۶

رَّبِّهِمْ یَوْمَىٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ (۸۳: ۱۵) ہرگز ایسا نہیں یہ لوگ اس روز اپنے ربّ (کا دیدار دیکھنے) سے روک دئے جائیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرتِ ربّ العزت کا دیدار حق ہے۔

 

دلیلِ سوم: یہ پُرحکمت ارشاد سورۂ انعام (۰۶: ۱۰۳) میں ہے: لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ = (وہ ایسا ہے کہ) نگاہیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ نگاہوں کو ادراک کر سکتا ہے اور وہ بھید جاننے والا خبردار ہے۔ اگر سورج کی روشنی برق رفتاری سے چل کر ہماری آنکھوں کے سامنے نہ آتی تو ہم سورج کو کبھی دیکھ ہی نہیں سکتے، اسی طرح خدا جب اپنے عاشقوں کی آنکھ ہو جاتا ہے تو یقیناً ان کو دیدارِ پاک کا سب سے بڑا شرف حاصل ہو جاتا ہے۔

 

دلیلِ چہارم: آپ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کی ملاقات (لقاء اللہ، لقاء ربّ، لقاءنا، لقائہٖ) سے متعلق تمام آیات کو غور سے پڑھیں، لقاء کے معنی ہیں: آمنے سامنے آنا، ملنا، ملاقات کرنا، کیا ملاقات دیدار کا دوسرا لفظ نہیں ہے؟ آپ اس آیۂ کریمہ میں خوب سوچ لیں: قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ (۱۰: ۴۵) فی الواقع سخت گھاٹے میں رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا اور ہرگز وہ راہِ راست پر نہ تھے۔

 

دلیلِ پنجم: آپ نے اس کتاب میں “معجزۂ نوافل” کے مضمون کو پڑھا ہوگا، جو عملی تصوّف کے بارے میں جاننے کے لئے بے حد ضروری ہے، جس میں یہ ذکر ہوا ہے کہ خدا اپنے عاشق کی آنکھ بھی ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی اس عنایتِ بے نہایت کا سب سے بڑا مقصد یہی تو ہے کہ جس کی تجلی چشمِ بصیرت ہی میں ہوتی ہے، اس کا دیدارِ اقدس اور کنزِ معرفت حاصل ہو۔

 

دلیلِ ششم: سورۂ نجم (۵۳: ۱۱) کے ارشادِ مبارک: مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى (قلب نے دیکھی ہوئی چیز میں کوئی غلطی نہیں کی) سے متعلق ابنِ عباس کا یہ قول ہے: رای محمد ربّہ عزّ و جل بقلبہ مرتین = حضرتِ محمدؐ نے اپنے

۱۱۷

ربّ عزّ و جل کو دیدۂ دل سے دو دفعہ دیکھا تھا (بحوالۂ مسند، جلدِ اوّل، ص ۳۶۹)۔

 

دلیلِ ہفتم: قرآنِ حکیم کی بعض سورتوں کے آخر میں عظیم الشّان اور حیران کن اسرارِ معرفت پنہان ہیں، جیسے سورۂ قصص کے اختتام پر ارشاد ہے: (ترجمہ) سب چیزیں فنا ہونے والی ہیں بجز اُس کے چہرہ (وجہ) کے۔ یعنی اے سالک، تم اپنے عالمِ شخصی کے روحانی سفر میں تمام چیزوں کو پیچھے چھوڑ کر منزلِ دیدار کی طرف آگے جانے والے ہو، جہاں چہرۂ جانان (صورتِ رحمان) ہے جس میں اپنی حقیقتِ ازل کو پانے کے لئے تمہیں علمی طور پر فنا ہو جانا ہے، جیسے مذکورہ آیۂ شریفہ کا آخری حصّہ ہے: اسی کا امر ہے اور اسی کی طرف تم لوگ لوٹائے جاؤ گے (۲۸: ۸۸) اس ارشاد میں فنا کی بات پہلے ہے اور رجوع کا تذکرہ بعد میں، جس سے معلوم ہوا کہ یہی وہ سب سے اعلیٰ حقیقت ہے جس کو “فنا فی اللہ و بقا باللہ” کہتے ہیں۔

 

دلیلِ ہشتم: سورۂ رحمٰن میں ارشادِ عالی ہے: (ترجمہ) وہ سب جو (عوالمِ شخصی کی مذکورہ ۵۵: ۲۴) کشتیوں میں ہیں فانی ہیں، اور تمہارا ربّ جو عظمت و کرامت والا ہے اس کا چہرہ (یعنی مظہر) غیر فانی ہے۔ ہر عالمِ شخصی میں ایک بھری ہوئی کشتی نمائندۂ عرش علی المآء ہے (۱۱: ۰۷) جس میں انسانِ کامل وجہ اللہ اور مظہرِ خدا ہے، اس میں وہ سب فنا ہو چکے ہیں جو فلکِ مشحون میں تھے (۳۶: ۴۱)۔

 

دلیلِ نہم: اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدمؑ کو اپنی (رحمانی) صورت پر پیدا کیا۔ عقلی تخلیق کا یہ کام خدا نے حظیرۃ القدس میں کیا جو عالمِ شخصی کی بہشت ہے، اسی تخلیق کے ساتھ ساتھ آدم کو دیدارِ خدا اور مرتبۂ فنا بھی حاصل ہوا، پس جو شخص بھی بہشت (حظیرۂ قدس) میں داخل ہو جائے وہ آدم علیہ السّلام کی صورت پر ہوگا (صحیحِ بخاری، جلدِ سوم، استئذان) اس سے ظاہر ہوا کہ دیدار کے بغیر فنا فی اللہ نہیں ہے۔

 

دلیلِ دہم: بزرگانِ دین نے آیۂ مصباح کی بڑی زبردست تعریف فرمائی ہے، اس کے ابتدائی کلمات ہی سے امواجِ نور کائنات کی بلندی و پستی میں پھیل رہی ہیں، اس آیۂ مبارکہ کا اوّلین حصّہ یہ ہے: اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (۲۴: ۳۵)

۱۱۸

اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ یعنی اللہ نورِ ہدایت ہے کہ اسی نے عالمگیر روح اور عالمگیر عقل و پیدا کیا، اور خدا خاص طور پر عالمِ شخصی کا نور ہے، جس کی نہ صرف مثال بلکہ مرکز بھی سراجِ منیر ہے (۳۳: ۴۶) پس نور یا النور اللہ جل جلالہ کا ایک اسمِ صفت ہے جو چشمِ بصیرت کے سامنے ظہور فرما ہونے کے معنی رکھتا ہے، اور اس حقیقت کی تائید و تصدیق خدا کے ایک اور اسم سے ہو رہی ہے اور وہ اسم ہے: الظاہر (۵۷: ۰۳) یعنی اہلِ معرفت کے دل میں جلوہ نما ہونے والا اور ان کو دولتِ دیدار سے نوازنے والا۔

 

دلیلِ یازدہم: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۲) میں ارشاد ہے: وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا = اور جو شخص دنیا میں اندھا رہے گا سو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا اور زیادہ راہ گم کردہ ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر زمانے میں مظہرِ نورِ خدا موجود ہوا کرتا ہے، جس سے ہدایت اور چشمِ بصیرت مل سکتی ہے، اگر دنیا میں کوئی ایسا وسیلہ نہ ہوتا تو آخرت کی بے بصیرتی سے ایسی شدید وارننگ (تنبیہہ) نہ دی جاتی۔

 

دلیلِ دوازدہم: لغات الحدیث، کتاب “ف” میں ہے: اتقوا فراسۃ المومن فانہ ینظر بنور اللہ = مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ ایسا مومن انسانِ کامل ہی ہے، کہ خدا اس کی آنکھ ہوگیا ہے، اس نے دیدۂ دل سے خدا کو دیکھا ہے اور اسرارِ باطن کا مشاہدہ کیا ہے، اس کی فراست سے ڈرنے کے معنی ہیں کہ اس کے علم سے ڈرو، اور اس سے مباحثہ و مناظرہ نہ کرو، ورنہ تمہاری خفت و کم مائیگی ظاہر ہو جائے گی۔

 

دلیلِ سیزدہم: عشق کا مقصد دیدار ہے، فنا دیدار ہی سے واقع ہوتی ہے، آنکھوں کی ٹھنڈک دیدار میں ہے، تجلیات دیدار ہی کے لئے ہیں، عقل و جان کی پاکیزگی دیدار سے ہوتی ہے، معرفت دیدار ہی کا نتیجہ ہے، اشارۂ خاص دیدار ہی سے ہوتا ہے، اصل سے واصل ہو جانے کا راز دیدار ہی میں ہے، حظیرۂ

۱۱۹

قدس دیدار کا مقام ہے، کنزِ مخفی دیدار ہی سے ملتا ہے، اللہ کے جمیل ہونے کی نعمت دیدار کے لئے ہے، بصیرت کا میوہ دیدار ہے، نور کا ثمرہ دیدار ہے، اور حق الیقین کا مرتبہ دیدار ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل ۸ ذیقعدہ ۱۴۱۷ھ

۱۸ مارچ ۱۹۹۷ء

۱۲۰

نرالی نرالی حکمتیں

 

روحانی سائنس کے ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ سیّارۂ زمین کے گرداگرد اس کا اپنا غیر مرئی آسمان ہے، جس کا نام قرآنِ حکیم میں “السمآء الدنیا” ہے (۳۷: ۰۶، ۴۱: ۱۲، ۶۷: ۰۵) جس میں ذرّاتِ لطیف کے ستاروں کا گویا سمندر ہے، نیز اس نزدیک ترین آسمان میں لطیف محلات ہیں جن کو بروج کہا گیا ہے (۱۵: ۱۶) یہ بہشت کے محلات ہیں، کیونکہ بہشت افسانہ نہیں، خواب و خیال نہیں، بلکہ ٹھوس حقیقت ہے، لہٰذا یہ جسمانی، روحانی، اور عقلانی طور پر موجود ہے۔

 

۱۔ قرآنی حکمت ہی میں ہے کہ خداوندِ عالم نے سیّارۂ زمین کو پہلے پیدا کیا، اور اس کے ماحولی آسمان کو بعد میں بنایا، یہ کائناتِ اکبر کا تذکرہ نہیں، صرف ایک سیّارے کی بات ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین و آسمان کو ایک بڑی روح کے نظم و نسق میں رکھا، اور اس ذیلی کائنات میں خارجی، داخلی، عروجی اور نزولی بہت سے راستے بنائے، آپ سورۂ سبا (۳۴: ۰۲) اور سورۂ حدید (۵۷: ۰۴) میں دیکھ لیں۔

 

۲۔ سورۂ ابراہیم (۱۴: ۴۸) سے یہ حکمت مستنبط ہو جاتی ہے کہ ایک زمانے میں پروردگارِ عالم سارے لوگوں کو اس زمین سے دوسری زمین پر منتقل کر لے گا، یہ بڑی قیامت کا عظیم واقعہ ہوگا، اس وقت لوگ جسمِ لطیف میں خدائے واحد و قہار (غالب) کے سامنے ہوں گے، اور سب کے سب دین کے ایک ہی طریق پر جمع ہوں گے، پس اگر ہر سیّارے کا اپنا وابستہ اور ماحولی آسمان نہ ہوتا، اور صرف نظامِ شمسی کا سب سے بڑا آسمان ہوتا تو اس صورت میں زمین تو بدل جاتی، مگر آسمان وہی رہتا، اس

۱۲۱

روشن دلیل سے معلوم ہوا کہ ہر مکمل سیّارے کا اپنا آسمان ہے، بلکہ سات آسمان ہیں۔

 

۳۔ یہ ارشاد سورۂ حجر (۱۵: ۱۶) میں ہے: (ترجمہ) اور ہم ہی نے آسمان میں برج (بروج) بنائے اور دیکھنے والوں کے واسطے اُن کو آراستہ کیا۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا برج محل ہے اور بروج محلات ہیں، مگر ان کو سب نے نہیں دیکھا، صرف دیکھنے والوں نے ہی دیکھا، وہ عارفین ہیں، جنہوں نے آسمانوں کے زندہ پرواز کرنے والے محلات کو دیکھا، جو اشخاصِ لطیف ہیں۔

 

۴۔ یہ ارشادِ مبارک سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۲) میں ہے: وَفِی السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ = اور تمہاری روزی اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے آسمان میں ہے۔ اس آیۂ کریمہ کا اشارہ یہ ہے کہ آسمان میں بہشت ہے، جہاں سے زمین پر ہر رزق کی روح نازل ہوتی ہے، تاکہ زمین سے طرح طرح کی ظاہری نعمتیں پیدا ہو جائیں، نیز آسمان سے براہِ راست لطیف غذائیں بھی آتی ہیں۔

 

۵۔ کیا ہم آپس میں یہ سوچ سکتے ہیں کہ انسان کس چیز کے بل بوتے پر کسی دوسرے سیّارے کو اپنا مسکن بنا سکے گا؟ اس سلسلے میں ظاہری سائنسدانوں کی موجودہ کوشش بھی آیاتِ قدرت میں سے ہے، اور امید ہے کہ اس تحقیق میں بہت ترقی ہوگی، ساتھ ہی ساتھ یہ توقع بھی ہے کہ ایک نہ ایک دن جسمِ لطیف (UFO) کا راز معلوم ہو جائے، اور اسی کے ذریعے سے تسخیرِ کائنات کا عمل شروع ہو، کیونکہ قرآنِ پاک میں مختلف ناموں سے اس کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ بہشت کا زندہ اور گویندہ کرتہ ہے، آپ اسے پہن لیں اور قدرتِ خدا کو دیکھیں۔

 

۶۔ آپ کی روح دراصل کائناتی روح کی کاپی (copy)  ہے، اس لئے یہ مکان و زمان پر محیط و بسیط اور ہمہ رس و ہمہ گیر حقیقت ہے۔ انسانی روح کو اس کی تمام تر خوبیوں کے ساتھ نہ ماننا اور نہ پہچاننا بہت بڑی غفلت اور ناشکری ہے، پس آپ کثرتِ ذکر اور اعلیٰ علم کی روشنی میں سوچیں کہ آپ اس کائنات کے کس چمکتے ہوئے ستارے پر موجود نہیں ہیں؟ روحانی سائنس کا ایک عجیب دور ایسا بھی آنے والا ہے جس میں کسی سواری

۱۲۲

کے ذریعے سے نہیں، بلکہ صرف توجہ اور خیال ہی سے ستاروں پر جانا ہوگا، کیونکہ آپ کی روح کا پھیلاؤ ہر جگہ پہلے ہی سے موجود ہے، کیا قرآن میں یہ ذکر نہیں ہے کہ کائنات تمہارے لئے مسخر کی گئی ہے؟ آیا اللہ جل شانہ نے نہیں فرمایا کہ تمہیں سب کچھ دیا گیا ہے؟

 

۷۔ یہ آپ کے خیال کو ایسی بلند پروازی کی صلاحیت کیوں عطا ہوئی ہے؟ کہ آپ خیال ہی خیال میں بیک چشمِ زدن آسمانوں کو عبور کرتے ہیں؟ خیال کوئی محدود چیز نہیں، بلکہ یہ ایک عالم ہے، جو فی الوقت حدِّ قوّت میں ہے، آگے چل کر یہ حدِّ فعل میں آئے گا، یعنی آپ کا عالمِ خیال عالمِ روحانی بن جائے گا، جس میں سچ مچ آپ کائنات میں ہر سو پرواز کر سکیں گے یا یہ کہ کائنات آپ کے عالمِ شخصی میں محدود کر دی جائے گی، اور رفتہ رفتہ اس کے بھید کھول دئے جائیں گے، الغرض خیالی پرواز مہمل نہیں، اس میں معنی پوشیدہ ہیں، وہ یہ کہ جس طرح طفلِ شیر خوار کے ہاتھ پاؤں کی حرکت اور منہ سے بغیر الفاظ کی آواز فضول نہیں، بلکہ یہ مشقیں ہیں اور خواہشات ہیں چلنے، پھرنے، کام کرنے، اور بولنے کی، اسی طرح آپ کی خیالی پرواز بہشت کی اصل پرواز کی مشق اور آرزو ہے، ان شاء اللہ العزیز۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات ۱۰ ذیقعد ۱۴۱۷ھ

۲۰ مارچ ۱۹۹۷ء

۱۲۳

بہشتِ برین کے علمی مشاغل

 

سورۂ یاسین (۳۶: ۵۵) میں ارشاد ہے: (ترجمہ) بے شک اہلِ بہشت آج (حسبِ مراتب) اپنے اپنے شغل سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔ اس ربّانی تعلیم سے روشنی حاصل کر کے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بہشت میں سب سے بہترین شغل عقل ودانش اور علم و حکمت سے متعلق ہوگا، بلکہ اس کے تو بہت سے مشاغل ہوں گے، ان میں سے ایک خاص مشغلہ حقیقی علم سکھانا ہے، کیونکہ بہشت میں علمی درجات ہیں، نیز بہشت میں دنیا بھر کے لوگ زبردستی سے داخل کئے جائیں گے، ان کے پاس علم نہ ہو گا، لہٰذا انہیں بتدریج علم دینا ہوگا۔

 

۱۔ ہر چیز گویا علمی میوہ ہے: بہشتِ برین کی تمام تر نعمتوں کی تشبیہہ و تمثیل پھلوں سے دی گئی ہے، جیسے سورۂ واقعہ (۵۶: ۳۲ تا ۳۳) میں ارشاد ہے: وَّ فَاكِهَةٍ كَثِیْرَةٍ لَّا مَقْطُوْعَةٍ وَّ لَا مَمْنُوْعَةٍ = اور میوہ ہائے کثیرہ (کے باغوں) میں، جو نہ کبھی ختم ہوں اور نہ ان سے کوئی روکے۔ اس تعلیمِ سماوی میں بہت بڑا راز اور بہت سے بنیادی سوالات کے لئے جوابِ واحد موجود ہے، وہ حقیقتِ لا ابتدائی و لا انتہائی ہے، وہ اس طرح سے ہے کہ خط (لکیر) شروع میں بھی اور آخر میں بھی مقطوع (کٹا ہوا) ہوتا ہے، جیسے یہ لکیر ہے: مقطوعہ          مقطوعہ، اس کے برعکس دائرہ ہے جو “لا مقطوعہ” ہے، اس سے نہ صرف بہشت کی لا ابتدائی و لا انتہائی کا ثبوت ملتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ بہشت ہمیشہ آباد ہے۔

 

۲۔ ہر چیز گویا جواہرِ علم کا ایک صندوق ہے: پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ مبارک ہے: اللھم ارنا الاشیاء کما ھی = یا اللہ ! ہمیں چیزیں اصل

۱۲۴

صورت میں دکھا دے (کتاب: احادیثِ مثنوی) یعنی ہمیں کائنات، سورج، چاند اور ستاروں کی حقیقت سے آگہی عطا فرما، ہمیں اپنے جسم و جان اور عقل کی معرفت عنایت کر، اور قرآنِ حکیم کے عظیم اسرار ہم پر منکشف کر دے، الغرض یہ ایک ایسی پُرحکمت کلی دعا ہے کہ اس کی جامعیّت سے کوئی علمی یا عرفانی چیز باہر نہیں ہے، پس عارف کی نظر میں ہر چیز گویا ایک علمی صندوق ہے، جس سے انمول دُرِّ شہوار برآمد ہو سکتے ہیں۔

 

۳۔ ہر چیز کی معرفت ضروری ہے: صاحبِ جوامع الکلم کی مذکورہ دعائے مبارک میں چشمِ بصیرت اور ہر شیٔ کی معرفت مطلوب ہے، کیونکہ ارنا (ہم کو دکھا دے) میں مشاہدۂ باطن کے لئے درخواست ہے، تاکہ اہلِ ایمان کو عالمِ شخصی میں تمام اشیاء کی معرفت حاصل ہو جائے، اس لئے کہ ہر چیز کی معرفت ضروری ہے، اور یہ امر ناممکن نہیں۔

 

۴۔ علم الاسماء: حضرتِ آدم علیہ السّلام کو جو علم الاسماء سکھایا گیا تھا، کہتے ہیں کہ وہ دراصل حقائق و معارفِ اشیاء کا علم تھا، کیونکہ کسی چیز کے ظاہری نام جاننے میں چندان فائدہ نہیں، جب تک کہ اس چیز کی باطنی حقیقت معلوم نہ ہو، مثال کے طور پر آپ کسی جڑی بوٹی کے نام کو جانتے ہیں، مگر اس کے طبی خواص و تاثیرات کو نہیں جانتے ہیں تو اس کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں۔

 

۵۔ بہشت کے اکثر لوگ بھولے بھالے ہیں: حدیثِ شریف میں آیا ہے: اکثر اہل الجنۃ البلہ = اہلِ بہشت میں سے اکثر بھولے بھالے ہیں (لغات الحدیث، ب) یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ جنت میں جو علمی نعمت ہے وہ سیکھنے اور سکھانے کی صورت میں ہے، لہٰذا یہ بھولے بھالے لوگ آگے چل کر عالم و دانا ہو جائیں گے۔

 

۶۔ بہشت میں ہر دل خواستہ نعمت ہے: کوئی ایسی نعمت ممکن ہی نہیں جو دلوں کی خواہش میں ہو، مگر بہشت میں نہ ہو، قرآنِ پاک میں بہشت کی ان نعمتوں کا ذکر بھی نمایان ہے، جن سے آنکھوں کو لذّت ملتی ہے، وہ سب سے اعلیٰ درجے پر حق سبحانہ و تعالیٰ کی تجلّیات ہیں، جس کو رویت یا دیدار کہتے ہیں، جس کے مظاہر ہو

۱۲۵

سکتے ہیں، اہلِ معرفت کہتے ہیں کہ بہشت میں معجزاتی کتابیں بھی ہیں، وہ آسمانی کتابیں ہو سکتی ہیں اور اچھے اچھے نامہ ہائے اعمال بھی ہو سکتے ہیں، جیسا کہ قرآن (۶۹: ۱۹) میں ہے: فَیَقُوْلُ هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِیَهْ = وہ تو (خوش ہوکر لوگوں سے) کہے گا کہ لو میرا نامۂ اعمال پڑھو۔

 

سوال: دنیا میں ہر کتاب کی کاپیاں ہوا کرتی ہیں، اور قرآنِ حکیم کی تو بے شمار کاپیاں ہیں، کیا بہشت میں ہر نبی اور ہر ولی کے نامۂ اعمال کی بے شمار کاپیاں ہو سکتی ہیں تاکہ بے شمار لوگ ان کو پڑھ کر شادمان ہو سکیں؟ جواب: جی ہاں، قانونِ بہشت کے مطابق ہر نعمت ممکن ہے، یہ تو ایک نعمتِ عظمیٰ ہے، اس لئے اس کا ہونا لازمی ہے، اس آیۂ کریمہ میں ایک پُرحکمت لفظ ھآؤم (تم پکڑو، تم لو) ہے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ تم میرے نامۂ اعمال کی یہ کاپی لے لو۔

 

۷۔ نامۂ اعمال خود انسان ہی کی طرح ہوتا ہے: راہِ روحانیّت کی اسرافیلی اور عزرائیلی منزل میں بھی اور آخری منزل میں بھی خود عارف کی لاتعداد کاپیاں بنتی ہیں، ان کے بہت سے نام ہیں، جیسے نامۂ اعمال کی کاپیاں، خود عارف کی کاپیاں، فرشتے، پرندے، جنّات (پری مرد و زن)، اجسامِ لطیف، لباسِ جنّت، سرابیل، بروج (محلات)، محاریب (قلعے)، بازارِ جنّت کی تصویریں، وغیرہ۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر ۱۴ ذیقعدہ ۱۴۱۷ھ

۲۴ مارچ ۱۹۹۷ء

۱۲۶

نامۂ اعمال کی معرفت

 

“عملی تصوف اور روحانی سائنس” کے موضوع کے سلسلے میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم نامۂ اعمال کے بارے میں کچھ تحریر کرنے کے لئے حقیر سی کوششیں کریں، ان شاء اللہ، محمد و آلِ محمد کا صدقۂ علمی ملتا رہے گا، ان کے بابِ اقدس پر حسبِ عادت شیئاً للہ کی صدا لگاتے رہیں گے، تا آنکہ کشکولِ گدائی میں کچھ دریوزہ رکھ دیا جائے، اے کاش! ہم اس درِ دولت سے وابستگی کی نعمتِ عظمیٰ پر کما حقہ خدا کا شکر ادا کر سکتے۔

 

۱۔ نامۂ اعمال ۔ کتابِ ذرّاتِ لطیف: نامۂ اعمال کی چند صورتیں ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عالمِ ذرّ میں ذرات پر مبنی ہوتا ہے، یعنی وہ سب سے عجیب و غریب کتاب ہے جو بکھرے ہوئے لطیف زندہ ذرّات کی شکل میں آتی ہے، جیسے سورۂ انفطار (۸۱: ۱۰) میں فرمایا گیا ہے: وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ = اور جب نامہ ہائے اعمال منتشر کر دئے جائیں گے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں بھی اسی کتابِ منشور (بکھری ہوئی کتاب) کا ذکر ہے: (ترجمہ) اور ہم نے ہر انسان کا عمل اس کی گردن سے چسپان کر دیا ہے اور (پھر) قیامت کے دن ہم اس کا نامۂ اعمال اس کے واسطے نکال کر سامنے کر دیں گے جس کو وہ بکھرا ہوا دیکھ لے گا، اپنا نامۂ اعمال (خود) پڑھ لے آج کے دن اپنی ذات کا حساب لینے کو تو خود ہی کافی ہے (۱۷: ۱۳ تا ۱۴)۔

 

۲۔ حشر، نشر، اور ناشرات: جو مومنِ سالک جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مر جاتا ہے، اس کی ذاتی قیامت برپا ہو جاتی ہے، یہ البتہ قیامتِ صغریٰ ہے، جو ہر اعتبار سے قیامتِ کبریٰ ہی کی طرح ہوتی ہے، صرف اتنا فرق ہوتا ہے کہ اہلِ دنیا کو اس

۱۲۷

کی کوئی خبر نہیں ہوتی، درحالے کہ سالک میں سب کا حشر ہوتا ہے، اور یہیں سے نشر ہوتا ہے، یعنی اسرافیلی اور عزرائیلی قوّت سے کائنات بھر کی روحوں کو مرکزِ قیامت پر جمع کرنا حشر ہے، پھر ان کو کائنات میں بکھیر دینا نشر ہے، اور اسرافیل و عزرائیل کے روحانی لشکر سات رات اور آٹھ دن مسلسل روحوں کو جمع کرتے اور بکھیرتے رہتے ہیں، اس لئے ان کا ایک نام ناشرات (۷۷: ۰۳) ہے، بڑی عجیب بات ہے کہ یہی منتشر روحیں مومنِ سالک کا نامۂ اعمال بھی ہیں۔

 

۳۔ تمام چیزیں ایک کتاب میں گھیری ہوئی ہیں: حضرتِ ربّ العزّت نے علم و معرفت کے آسمان و زمین کو اپنے بندوں کے نامۂ اعمال میں لپیٹ کر رکھ دیا ہے، تاکہ خزانۂ اسرارِ مومن کی ذات سے دور نہ ہو، چنانچہ ارشاد ہے: وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ كِتٰبًا (۷۸: ۲۹) اور ہم نے ہر (علمی و عرفانی) چیز کو کتابی صورت میں گھیر کر رکھا ہے۔ یہ نامۂ اعمال ہے، جس کی ایک اور صورت انسانِ کامل ہے۔

 

۴۔ انفرادی قیامت کی روشن دلیل: سورۂ انشقاق (۸۴: ۰۶ تا ۰۹) میں ارشاد ہے: (ترجمہ) اے انسان! تو محنت سے کوشان رہتا ہے اپنے ربّ کے پاس پہنچنے تک پس تیری اُس سے ملاقات ہوکر رہتی ہے، پس جس کو نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا گیا، تو اس سے حساب آسانی سے لیا جائے گا، اور وہ اپنے لوگوں کی طرف شادان و فرحان لوٹے گا۔ اس عظیم الشّان ربّانی تعلیم کا تعلق ہر عارف سے ہے جو دنیا ہی میں ذاتی قیامت کی کامیابی کے بعد گنجِ معرفت کی شادمانی کے ساتھ قوم کی طرف لوٹتا ہے، اگر اجتماعی قیامت ہوتی تو سب کے احوال پر کچھ روشنی ڈالی جاتی، جیسے سورۂ عبس (۸۰: ۳۳ تا ۴۲) میں ہے۔

 

۵۔ نامۂ اعمال کا عروج و ارتقاء: چونکہ عارف کی انفرادی قیامت میں سب کی اجتماعی قیامت پوشیدہ ہوتی ہے، لہٰذا اس کے نامۂ اعمال میں یقیناً سب کی نمائندگی ہے، پس کتابِ اعمال سب سے پہلے بائیں کان میں بولتی ہے، پھر دائیں کان میں، اور آخراً یہ کتابِ ناطق پیشانی میں منتقل ہو جاتی ہے، یہ اصحاب الشمال، اصحاب الیمین،

۱۲۸

اور مقربین کے نامہ ہائے اعمال کی مثالیں ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عارف کا نامۂ اعمال درجہ بدرجہ بلند ہوتا جاتا ہے، تا آنکہ علیین میں پہنچ جاتا ہے (۸۳: ۱۸ تا ۲۱)۔

 

۶۔ کتابِ ناطق: سورۂ مومنون (۲۳: ۶۲) اور سورۂ جاثیہ (۴۵: ۲۹) میں کتابِ ناطق کا ذکر آیا ہے، یہ بے شک نامۂ اعمال ہے، مگر مرشدِ کامل کی صورت میں، اور یہ عارف خود ہے، لیکن مرشد میں فنا ہوکر، بلکہ سب ہیں، ہاں ہاں غیر شعوری طور پر، یہ تو صرف فنا فی المرشد کی بات ہوئی، حالانکہ اس میں فنا فی الرسول، اور فنا فی اللہ کی حقیقت بھی ہے، پس اب کتابِ ناطق (نامۂ اعمال) بہت بڑا انقلابی تصوّر بن کر سامنے آیا، نامۂ اعمال = کتابِ ناطق؟ فنا فی اللہ کا سب سے بڑا انعام؟ کتابِ ناطق بشکلِ انسانِ کامل؟

 

۷۔ نامۂ اعمال کی زبان؟ علم و ادب کے حلقوں اور باذوق افراد کی طرف سے یہ سوال ہو سکتا ہے کہ کتابِ ناطق کی زبان کیا ہے؟ اور اس کی تحریر کیسی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصولاً ہر شخص کا اعمال نامہ اس کی اپنی (مادری) زبان میں ہوتا ہے، روحانیّت میں تحریر اور عجیب و غریب کتابوں کے نمونے ضرور موجود ہیں، مگر نامۂ اعمال ایک زندہ کائنات کے طور پر ہوتا ہے، جس میں بے شمار چیزیں شامل ہیں، ان میں سے بعض چیزوں کی تشبیہہ و تمثیل ظاہری سائنس کے سمعی و بصری آلہ جات سے دی جا سکتی ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

بدھ ۱۶ ذیقعدہ ۱۴۱۷ھ

۲۶ مارچ ۱۹۹۷ء

۱۲۹

قرآنِ حکیم اور اسرارِ معرفت

 

عملی تصوّف اور روحانی سائنس کا مضمون اسرارِ معرفت ہی کی بنیاد پر قائم ہے، لہٰذا ہمارے لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ بحث معرفت ہی سے کریں، لیکن آپ جانتے ہیں کہ تنہا بحث کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، جب تک کہ خدا تعالیٰ کسی کو عملی تجربہ کی ہدایت و توفیق عطا نہ کرے، پس جاننا چاہئے کہ یہ قرآنِ کریم کے معجزات میں سے ہے کہ اس میں غور و فکر کرنے سے کوئی محدود مضمون لا محدود ہو جاتا ہے، مثال کے لئے دور کیوں جائیں، معرفت ہی کو لیجئے کہ اس کا مادّہ ع ر ف ہے، جس کے مختلف صیغے قرآن کے کل ۷۱ مقامات پر موجود ہیں، چنانچہ پہلی نظر میں مضمونِ معرفت کا دائرہ صرف اتنا ہی لگتا ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ دوسرے بہت سے الفاظ میں بھی معرفت کے معنی پوشیدہ ہیں، آپ اس مضمون کو غور سے پڑھ لیں۔

 

۱۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، یعنی نورِ معرفت کہ اس کی روشنی میں آسمان زمین کی ہر چیز اور قرآن کے ہر لفظ سے سرِ معرفت منکشف ہو جاتا ہے، وہ نورِ ہدایت ہے، اس لئے اہلِ ایمان کو ہر آیت سے لے کر دیدارِ اقدس تک جو معنوی راستہ ہے اس پر روشنی ڈال سکتا ہے، اللہ کا ایک اسم النور ہے اور وہ الظاہر بھی ہے، اور خدا نے عالمِ شخصی میں دونوں معنی میں تمام روحوں کو دیدارِ پاک عطا فرما کر پوچھا کہ: الست بربکم؟ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا: کیوں نہیں (۰۷: ۱۷۲) پس حضرتِ ربّ العزّت کے اس عظیم الشّان سوال میں کم سے کم تین معانی پوشیدہ ہیں: کیا میں نے تمہاری روحانی اور عقلانی پرورش نہیں کی؟ کیا میں تمہارے سامنے ظاہر نہیں ہوں اور یہ میرا دیدار نہیں

۱۳۰

ہے؟ آیا میں تمہارا کنزِ مخفی یعنی خزانۂ معرفت نہیں ہوں؟

 

۲۔ اہلِ معرفت کے لئے اس راز میں زبردست روحانی خوشی اور شادمانی ہے کہ قرآنِ عظیم کی معنوی اور عرفانی تجلّیات ہیں، جیسے تجلیٔ عقل، جس میں قرآنِ حکیم شروع سے لے کر آخر تک موضوعِ عقل ہو جاتا ہے، اسی طرح تجلیٔ علم، تجلیٔ رحمت، تجلیٔ محبت، تجلیٔ عشق، تجلیٔ نور، تجلیٔ ہدایت، تجلیٔ حکمت، تجلیٔ دیدار، تجلیٔ معرفت، وغیرہ، ان تجلیات کو دیکھنے کے لئے چشمِ بصیرت کا ہونا ضروری شرط ہے، چنانچہ یہاں تجلیٔ معرفت کی وضاحت ہو رہی ہے۔

 

۳۔ اگرچہ نزولِ قرآن کے کثیر مقاصد ہیں، لیکن سب سے آخری اور سب سے اعلیٰ مقصد معرفت ہی ہے، کہ ہر شخص اپنے آپ کو اور اپنے ربّ کو پہچان لے، جیسا کہ آیۂ الست کے ارشاد سے یہ منشائے الٰہی ظاہر ہے (۰۷: ۱۷۲) کہ ربِّ کریم اپنی ربّوبیت کے بارے میں جن روحوں سے پوچھنا چاہتا ہے ان کو پہلے درجۂ کمال پر نورِ معرفت کی روشنی میں لاتا ہے، اور اس کے بعد سوال فرماتا ہے، ورنہ روحانی اور عقلی پرورش، دیدار، اور معرفت کے بغیر یہ سوال ممکن ہی نہیں۔

 

۴۔ اگر معرفت کے نہ ہونے سے آخرت میں کسی کا کوئی نقصان نہ ہوتا تو قرآنِ حکیم ایسے لوگوں کو ملامت نہ کرتا جو چشمِ باطن سے اندھے ہیں، جیسے سورۂ حج (۲۲: ۴۶) میں ارشاد ہے: (ترجمہ) کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ جو دل سینے میں ہیں وہ اندھے ہو جایا کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ حقائق و معارف کا مشاہدہ دل کی آنکھ سے ہوتا ہے۔

 

۵۔ قرآنِ عزیز میں ذکر یعنی یادِ الٰہی کا مضمون بہت بڑی اہمیت کے ساتھ موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کس طرح خدا کو یاد کر سکتے ہیں، جب کہ آپ نے کبھی اپنے ربّ کو دیکھا ہی نہیں؟ کیونکہ کسی نادیدہ و ناشنیدہ چیز کی یاد نہیں بن سکتی، جواب: (الف) اسمِ اعظم کا ذکر خدا کی یاد ہے (ب) دیگر اسماء کا ذکر خدا کا ذکر ہے (ج) نیز علم الیقین، عبادت اور کثرتِ ذکر کے ساتھ ساتھ واقعۂ الست کا عاشقانہ تصوّر

۱۳۱

بھی یادِ الٰہی ہے۔

 

۶۔ نزولِ قرآن کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ جل جلالہ لوگوں کو اپنی آیات (معجزات) دکھائے گا، اس کی غرض معرفت تھی، چنانچہ خداوندِ تعالیٰ ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں تمام لوگوں کو روحانیّت اور قیامت کا منظر دکھاتا ہے، اور اس کے بعد ظاہر و باطن کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے جس میں ایک دروازہ ہوتا ہے (۵۷: ۱۳) اس کے اندر کی جانب تو رحمت ہے اور باہر کی جانب عذاب۔

 

۷۔ سورۂ حدید (۵۷: ۱۲ تا ۱۳) میں خوب غور سے دیکھ لیں، یہاں معرفت ہی کا مضمون ہے، یہ لفیف (۱۷: ۱۰۴) اور نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) کا مقام ہے، اس لئے یہاں مومنین و مومنات کا مجموعہ صرف ایک ہی شخص ہے، اسی کے سامنے جو کچھ ہو رہا ہے وہ گویا ان اہلِ ایمان کے سامنے ہو رہا ہے، پس جو شخص اس دروازے سے داخل ہو جائے، وہ اسرارِ معرفت کا مشاہدہ کرے گا، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

پیر ۲۱ ذیقعدہ ۱۴۱۷ھ، ۳۱ مارچ ۱۹۹۷ء

۱۳۲

ذکرِ الٰہی کے چھوٹے بڑے معجزات

 

اے نورِ عینِ من! قرآنِ عزیز کی عالی شان حکمتوں کو عقل و دانش سے سن لو، اور اُن پر جان و دل سے عمل کرو تاکہ اس سے بھرپور فائدہ حاصل ہوگا، اگر تم کسی کام کی اہمیت و افادیت کو اوّل اوّل علم وحکمت کی روشنی میں دیکھ سکتے ہو تو یہ بہت ہی عمدہ بات ہے کیونکہ ہر نیک کام حکمت سے وابستہ ہے، پس اگر حکمت ہے تو خیرِ کثیر ہے اور سب کچھ ہے، اور اگر حکمت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔

 

۱۔ سورۂ رعد میں گنجِ سعادت کی یہ کلید سب کے لئے رکھی ہوئی ہے، اور وہ یہ ہے: اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ = خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے (۱۳: ۲۸) اطمینان کے خاص خاص معانی چوٹی پر ہیں، یعنی اس سے درحقیقت بڑے بڑے معجزے مراد ہیں، لیکن بڑے معجزات صرف وہی خوش نصیب لوگ دیکھ سکتے ہیں، جنہوں نے پہلے ہی سے چھوٹے چھوٹے عجائب و غرائب اور معجزات دیکھنے کی نیک عادت بنا لی ہو، کیونکہ ہر عالی شان چیز کے بہت سے درجات ہوا کرتے ہیں۔

 

۲۔ حدیثِ شریف میں ہے: ان لکل شیء قلبا و قلب القراٰن یٰسٓ = ہر چیزکا دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۂ یاسین ہے (لغات الحدیث) پس ایک صحیح آدمی کی ہستی میں تین قلب ہیں: قلبِ جسم، قلبِ جان اور قلبِ عقل، اور اسی بناء پر اطمینان بھی تین قسموں میں ہے: جسمانی، روحانی، اور عقلانی، نیز بے اطمینانی یا بیماری بھی تین قسم کی ہوا کرتی ہے، اس سے ایک جانب تو یہ معلوم ہوا کہ اطمینان کی بہت سی

۱۳۳

قسمیں اور بہت سے درجات ہیں، اور دوسری جانب یہ پتا چلا کہ ذکرِ الٰہی شفاخانۂ سماوی ہے، جس میں ہر قسم کے مریضوں کا علاج و معالجہ ہو سکتا ہے۔

 

۳۔ سوال: آپ روحانی سائنس کی روشنی میں یہ بتائیں کہ ذکرِ الٰہی سے کس طرح اطمینان کی بنیاد شروع ہو جاتی ہے؟ کیوں کر آگے بڑھتی ہے؟ اور کہاں تک اس کا عروج ممکن ہے؟

 

جواب: ہر انسان کے دو روحانی ہمنشین ہیں، ایک جنّ اور ایک فرشتہ، خدا کا ذکر بہشت کا راستہ ہے، جس سے فی الوقت بہشت کی کچھ غذائیں اور دوائیں آسکتی ہیں، پس اگر آدمی سلسلۂ ذکر کو قائم اور جاری رکھتا ہے تو راہِ جنت کھل جاتی ہے اور ذرّہ بعد ذرّہ بہشت کی غذا اور دوا آنے لگتی ہے، یعنی روح الایمان، روح العشق، اور عقل کے لئے غذا اور دوا کے ذرات حاصل ہونے لگتے ہیں، جس میں ایک طرف سے جنّ رکاوٹ ڈالتا رہتا ہے، اور دوسری طرف سے فرشتہ بڑھ چڑھ کر بندۂ ذاکر کی مدد کرتا رہتا ہے، اگر عالی ہمتی اور اولوا العزمی سے کام لے کر علم و عبادت کی شرطیں پوری کی جاتی ہیں تو ممکن ہے کہ سلسلۂ اطمینان عین الیقین کے بہت سے مراحل سے آگے گزر کر حق الیقین کے درجۂ کمال پر پہنچ جائے، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں، کیونکہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کی حقیقی پیروی کی یہی شان ہوتی ہے۔

 

۴۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۹۵) میں ارشاد ہے: (ترجمہ) (اے رسولؐ) تم کہہ دو اگر زمین پر فرشتے (بسے ہوئے) ہوتے کہ اطمینان سے چلتے پھرتے تو ہم ان لوگوں کے پاس فرشتہ ہی کو رسول بنا کر نازل کرتے۔ اس سے یہ بہت بڑا راز معلوم ہوگیا کہ فرشتے دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک ارضی فرشتے اور دوسرے سماوی فرشتے، ارضی فرشتوں کی صفت یہ ہے کہ وہ ذکر و عبادت اور علم و حکمت کی راہوں میں کسی رکاوٹ کے بغیر اطمینان سے چلتے پھرتے ہیں اور ان پر آسمانی فرشتے نازل ہوتے رہتے ہیں، یہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کا عظیم مرتبہ ہے، اور اس میں اطمینان کی مثال بھی ہے۔

 

۵۔ جمادات، نباتات اور حیوانات کے بعد انسان کی تخلیق و ترقی اس طرح سے

۱۳۴

ہے، نفسِ نباتی، نفسِ حیوانی، نفسِ امّارہ، نفسِ لوّامہ، اور نفسِ مطمئنہ، اور اسی آخری درجہ کے نفس (جان = روح) کو مکمل اطمینان حاصل ہو جاتا ہے، اسی وجہ سے اس کو نفسِ مطمئنہ کہا جاتا ہے، جیسے قرآنی ارشاد کا ترجمہ ہے: اے اطمینان پانے والی جان (روح) اپنے پروردگار کی طرف چل تو اس سے خوش وہ تجھ سے راضی، تو میرے (خاص) بندوں میں داخل ہوجا اور میری بہشت میں داخل ہو جا (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) آپ دیکھتے ہیں کہ اطمینان کے معنی بہشت تک جاتے ہیں، اور اطمینان کی یہ دولتِ لازوال ذکرِ الٰہی کی پیداوار ہے۔

 

۶۔ قرآنِ کریم (۰۳: ۱۲۶، ۰۸: ۱۰) میں ارشاد ہے کہ جنگِ بدر میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نازل کرکے مسلمانوں کی مدد فرمائی تھی، یہ عالمی فتح کی خوشخبری ہونے کی وجہ سے سب کے لئے اطمینان تھا، کیونکہ ہر انسانِ کامل کی ذاتی قیامت میں اسلام کی روحانی دعوت، جنگ، اور عالمی فتح پوشیدہ ہے، اور یقیناً ہر زمانے میں ایسی قیامت کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ خداوندِ کریم اکثر اہلِ زمانہ کو زبردستی سے بہشت میں لے جاتا ہے، جبکہ خوشی سے بہشت میں جانے والے لوگ بہت تھوڑے ہیں، جیسے قرآن میں طوعاً و کرہاً (خوشی سے یا زبردستی سے، ۰۳: ۸۳، ۱۳: ۱۵) رجوع اور سجدہ کا قانون موجود ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

ہفتہ ۴ ذی الحجہ ۱۴۱۷ھ

۱۲ اپریل ۱۹۹۷ء

۱۳۵

روحانی سائنس کے بعض انقلابی تصوّرات

 

۱۔ سب سے بڑا جدید انقلابی تصور سورج سے متعلق ہے، آپ “عملی تصوّف اور روحانی سائنس” کی اس کتاب کو پڑھیں۔

۲۔ ستاروں پر بہشتِ برین کی لطیف ابدی زندگی موجود ہے۔

۳۔ ابداعی مخلوق کو لوگوں نے اڑن طشتری کا نام دیا، جن (پری)، فرشتہ، اور لطیف انسان ابداعی مخلوقات ہیں۔

۴۔ عوام کا کہنا ہے: ایک جسم میں ایک جان ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، وہ یہ کہ ہر آدمی کی بحدِّ قوّت پھر بحدِّ فعل بے شمار جانیں ہیں۔

۵۔ ایک ایسا اڑنے والا ذرّہ دیکھا گیا ہے جو مادّہ اور روح کا مرکب ہے، بلکہ یہی جسمِ لطیف اور روحِ شریف کے ایک ہونے کا نمونہ ہے۔

۶۔ جن کے بارے میں دنیا بھر میں غلط فہمی پھیل گئی ہے، مثال کے طور پر لوگوں نے جن کو الگ اور پری کو الگ سمجھا ہے، حالانکہ دونوں نام ایک ہی مخلوق کے لئے ہیں، اس خوبصورت لطیف مخلوق کا نام فارسی میں پری ہے اور عربی میں جنّ۔

۷۔ جسمِ لطیف / جسمِ فلکی  / ایسٹرل باڈی / کوکبی بدن گرمی، سردی، خشکی، تری سے بالاتر ہے، لہٰذا وہ کسی بھی ستارے پر اور کسی بھی مقام پر رہ سکتا ہے۔

۸۔ روحانیّت کے بے شمار عجائب و غرائب میں سے ایک عجوبہ لطیف روحانی غذا ہے جو طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں ملتی ہے۔

۹۔ روح کا بالائی سرا جو ہمیشہ اصل سے واصل ہے وہ انائے علوی ہے اور جو

۱۳۶

نچلا سرا جسم سے وابستہ ہے، یہ انائے سفلی ہے، یہ بڑا انقلابی تصوّر ہے۔

۱۰۔ آگے چل کر اقوامِ عالم کا کلی اتفاق ہونے والا ہے، پھر وہ سب ایک ہو جائیں گے، ان شاء اللہ العزیز۔

۱۱۔ اب عنقریب دنیا سے جنگ کو ختم ہو جانا چاہئے تاکہ سیارۂ زمین امن کا گہوارہ بن جائے۔

۱۲۔ مادّی سائنس کے تمام سمعی و بصری آلہ جات کے بعد انسان میں روحانی قوّتیں کام کرنے لگیں گی۔

۱۳۔ تسخیرِ ذات ہی سے تسخیرِ کائنات ممکن ہو سکتی ہے۔

۱۴۔ اولوا الالباب (صاحبانِ عقل) ہر چیز میں قدرت و حکمت کو دیکھتے ہیں، چنانچہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جس طرح بعض کیڑے ایک وقت کے بعد پروانے بن کر اڑنے لگتے ہیں، اسی طرح بعض انسان وقت آنے پر فرشتے بن جاتے ہیں۔

۱۵۔ انسانِ کامل خداوند تعالیٰ کا وہ کارخانۂ قدرت ہے، جس میں ہر گونہ عجائب و غرائب تیار ہوتے رہتے ہیں۔

۱۶۔ کوکبی بدن (لطیف نوری انسان) میں خون وغیرہ جیسی کوئی چیز نہیں، سانس اور نیند بھی نہیں۔

۱۷۔ دین و دنیا کا ہر نیک کام اللہ تبارک و تعالیٰ کی توفیق و ہدایت سے ہو سکتا ہے۔

۱۸۔ خدا شناسی کے لئے خود شناسی بے حد ضروری ہے، اس کے سوا معرفت ممکن ہی نہیں، پس کتابِ نفسی کتابِ معرفت ہے۔

۱۹۔ سورۂ مائدہ (۰۵: ۴۸) میں غور سے پڑھ لیں: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًاؕ = تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے شریعت اور طریقت مقرر کی ہے۔

۲۰۔ قرآنِ حکیم میں لفظِ “حق / الحق” کثرت سے آیا ہے، اسی میں حقیقت کا ذکر ہے، کیونکہ حقیقت حق سے مشتق ہے، نیز حق و حقیقت کے ایک ہی معنی ہیں، جیسے المنجد
۱۳۷

میں ہے: حق الخبر = خبر کی حقیقت تک پہنچنا، الحق، سچائی، راستی، یقین، انصاف، ثابت شدہ، نصیب، مال، ملک، ہوشیاری، فیصل شدہ امر، موت، ج: حقوق۔

۲۱۔ قرآنِ عزیز کی متعدد آیاتِ مقدسہ میں معرفت کا بھی تذکرہ آیا ہے، جیسے یہ ارشاد ہے کہ پیغمبرِ اکرمؐ کے ظہورِ قدسی سے قبل ہی آپؐ کی معرفت اہلِ کتاب کے عارفوں کو حاصل ہو چکی تھی (۰۲: ۱۴۶، ۰۶: ۲۰) انہوں نے اپنی روحانیّت میں رسولِ پاکؐ کے نورِ اقدس کا دیدار کیا تھا۔

۲۲۔ ہم نے اپنے ہی دائرۂ کار میں زیادہ سے زیادہ اسرارِ معرفت پر لکھنے کی سعی کی ہے، کیونکہ قرآنِ عظیم میں جن سلامتی کی راہوں کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ یقیناً شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت کی راہیں ہیں (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۹۔۹۔۹۶

بدھ ۱۵ ذی الحجہ ۱۴۱۷ھ

۲۳ اپریل ۱۹۹۷ء

۱۳۸

روحانی سائنس کے عجائب و غرائب

(قسطِ اوّل)

آج سے تقریباً چودہ سو (۱۴۰۰) سال قبل قرآنِ پاک نے بڑے واضح الفاظ میں یہ پیش گوئی فرمائی تھی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ لوگوں کو آفاق و انفس میں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھانے کا سلسلہ شروع کرے گا (۴۱: ۵۳) چنانچہ ہم کسی شک کے بغیر یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی وہ نشانیاں یا عجائب و غرائب آج مادّی سائنس اور اس کے ایجادات کی شکل میں لوگوں کے سامنے ظاہر ہیں، اور قدرتِ خدا کی یہی نشانیاں کل بحیثیتِ روحانی سائنس عالمِ شخصی میں اپنا انتہائی حیرت انگیز کام کرنے والی ہیں۔

اگر قادرِ مطلق کی ظاہری و مادّی نشانیوں کو سائنس کا نام دیا جا سکتا ہے تو یقیناً اس کی باطنی و روحانی نشانیوں کو روحانی سائنس کہا جا سکتا ہے، کیونکہ آفاق و انفس اور ان میں ظہور پذیر ہونے والی آیات سب کی سب خدا ہی کی ہیں، تاہم ان آیات اور اس سائنس کی بہت بڑی اہمیت و فضیلت ہوگی، جس کے حیران کن معجزات عالمِ شخصی میں رونما ہونے والے ہیں، کیونکہ انسان کا مرتبہ تمام کائنات و موجودات سے ارفع و اعلیٰ ہے۔

روحانی سائنس کے عظیم الشّان ظہور سے متعلق قرآنِ حکیم کی یہ پُرحکمت پیش گوئی عوام النّاس اور اکثریت کی نسبت سے فرمائی گئی ہے، ورنہ حضراتِ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام اور عارفین و کاملین کے نزدیک روحانی سائنس انسانی تاریخ کی ابتداء ہی سے اپنا کام کرتی چلی آئی ہے، جس کی مثالیں کتبِ سماوی میں بکثرت ملتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ روحانی ترقی کی بدولت روحِ اعظم کے عظیم اسرار سے ہمیشہ استفادہ کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ:

۱۴۱

خواجہ حافظ کا یہ مشہور شعر ہے

فیضِ روح القدس ار باز مدد فرماید
دیگران ہم بکنند آنچہ مسیحا می کرد

روح القدس کا فیض اگر پھر سے مدد فرمائے، تو دوسرے لوگ بھی ایسے معجزے کریں گے جیسے حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کرتے تھے۔
اگر آج مجھ ایسا ایک ناچیز عام آدمی روحانی سائنس کے بھیدوں سے بحث کر رہا ہو تو ضروری طور پر آپ یوں سمجھ لیجئے کہ اب وہ بابرکت زمانہ آ رہا ہے جس میں مذکورۂ بالا قرآنی پیش گوئی کے مطابق خاص روحانی سائنس عوام کی خاطر عام ہونے والی ہے تاکہ حقیقی معنوں میں عالمِ انسانیّت کی مادّی، اخلاقی اور روحانی ترقی ہوسکے، جی ہاں، یقیناًیہ بات زرِّ خالص کی طرح صاف اور سچ ہے کہ جب تک روحانی سائنس کا عظیم الشّان انقلاب نہ آجائے تب تک دنیا والوں کے یہ تمام سخت پیچیدہ مسائل ختم نہیں ہوسکتے، اور نہ ہی سیّارۂ زمین کی غربت و جہالت کا خاتمہ ہوسکتا ہے، کیونکہ صرف روحانی سائنس ہی ہے جس میں پروردگارِ عالمین نے تمام لوگوں کے لئے بے حد و بے حساب علمی برکتیں رکھی ہیں، جس کی ایک روشن مثال مادّی سائنس ہے جس کی وجہ سے دنیا کی ظاہری ترقی ہوئی ہے۔

خدائے بزرگ و برتر نے ارض و سماء کی جملہ اشیاء کو انسان کے لئے بحدِّ فعل یا بحدِّ قوّت مسخر بنا دیا ہے۔ اس عظیم ترین احسان کا ذکر قرآنِ پاک کی متعدد آیاتِ کریمہ میں آیا ہے، اس ربّانی تعلیم میں ظاہری و باطنی دونوں قسم کی سائنس کی طرف بھرپور توجہ دلائی گئی ہے، اب ہم سطورِ ذیل میں روحانی سائنس کی بعض ایسی اہم اور عجیب و غریب چیزوں کا ذکر کر دیتے ہیں جن کا کسی ادارے کو مشاہدہ اور کسی حد تک تجربہ ہو چکا ہے

سب سے پہلے اس بے مثال حقیقت کی تصدیق کی جاتی ہے کہ انسان نہ صرف عالمِ شخصی (عالمِ صغیر) ہی ہے، بلکہ یہ خدا کی خدائی میں واحد روحانی عجائب گھر بھی ہے، اس عجائب خانۂ قدرت میں بے حد و بے حساب زندہ اور بولنے والے عجائب و غرائب موجود ہیں، منجملہ یہاں طرح طرح کی پُرحکمت مثالوں پر محیط ذی حیات ذرّات پائے جاتے

۱۴۲

ہیں، یہ آپ کو نہ صرف یاجوج و ماجوج اور روحانی لشکر کی حیران کن مثال پیش کرسکتے ہیں، بلکہ عالمِ ذرّ سے متعلق تمام عرفانی اسرار کا عملی مظاہرہ کرنا بھی انہی کا کام ہے، چنانچہ جسمِ لطیف اور روح پر مبنی ان چھوٹے چھوٹے لاتعداد ذرّات کا انوکھا قصّہ بڑا طویل ہے۔

اس سلسلے میں یہ بھی بتا دینا ضروری ہے کہ روحانی سائنس میں حواسِ ظاہر و باطن مل کر کام کرتے ہیں، لہٰذا ان کی روحانی تربیت بے حد ضروری ہے، جس طرح کسی قابل شخص کو خلا میں بھیجنے سے قبل شدید بدنی مشقیں کراتے ہیں، پھر اس کو سیّارۂ زمین کی کشش سے باہر جانا پڑتا ہے، اسی طرح روحانی سائنس کے تجربے کی خاطر انتہائی شدید ریاضت کے ساتھ ساتھ کرّۂ نفسانیت کی کشش سے بھی بالاتر ہو جانے کی سخت ضرورت ہے، ورنہ ممکن ہے کہ کوئی آدمی یہ کہنے کی جرأت کرے کہ “روحانی سائنس” نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔

بابرکت روحانی سائنس کا ایک عظیم اور بڑا مفید تجربہ یہ بھی ہوا ہے کہ آدمی کی قوّتِ شامّہ کو ایسی گوناگون خوشبوئیں حاصل ہو سکتی ہیں، جن میں لطیف جوہری غذائیں بھی ہیں اور مختلف بیماریوں کے لئے روحانی دوائیں بھی، اس مقام پر خوب غور و فکر کرنے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ہر چیز کی اصل جوہر کا خزانہ روح ہی ہے، یعنی ہر پھول، پھل اور جڑی بوٹی میں جیسا رنگ اور جس قسم کی خوشبو ہے، وہ روح کی وجہ سے ہے، کیونکہ یہ روح ہی کا کمال ہے جو رنگ و بو اور ذائقہ لے کر پھول، پھل، فصل اور دیگر نباتات میں آتی ہے۔

چلہ جیسے شدید حالات کسی درویشِ دلریش کے حق میں کتنے بابرکت ہوا کرتے ہیں، اس کا اندازہ صرف اہلِ دانش ہی کر سکتے ہیں، ایک ایسے گرانقدر وقت میں جبکہ بھوک اور پیاس بے حد عزیز لگ رہی تھی مؤکل نے پوچھا: بتاؤ کن کن خوشبوؤں کی کیفیت میں لطیف غذا کا تجربہ چاہتے ہو؟ عرض کی گئی کہ میں روحانی دولت کے لئے بے حد محتاج اور غریب ہوں، لہٰذا چند ایسے پھولوں، پھلوں اور نباتات کی الگ الگ خوشبوؤں کا تجربہ چاہتا ہوں، تو ان خوشبوؤں کا تجربہ کرایا گیا، جس کو اگر روحانی سائنس کی خوشخبری قرار دی

۱۴۳

جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

روحانی سائنس کا ذاتی تجربہ بطورِ خاص اس منزل میں شروع ہو جاتا ہے، جہاں سالک پر جیتے جی نفسانی موت واقع ہو جاتی ہے، اس موت کے تجدّد کا سلسلہ سات رات اور آٹھ دن تک جاری رہتا ہے تاکہ اس کے عظیم الشّان معجزات اور عجائب و غرائب پر خوب غور و فکر کیا جا سکے، اُس حال میں کائنات و موجودات کا روحانی نچوڑ یا جوہر بشکلِ ذرات سالک میں بھر دیا جاتا ہے، اور سالک کی روح کائنات میں پھیلا دی جاتی ہے، اور یہ عمل مذکورہ عرصے تک دہرایا جاتا ہے، اسی معنٰی میں دو سانچے مقرر ہو جاتے ہیں، ایک سانچا (قالب) عالمِ کبیر کا، دوسرا سانچا عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) کا، تاکہ کائنات انسانی سانچے میں ڈھل کر انسانِ کبیر ہو جائے، اور انسان کائناتی قالب میں ڈھل کر عالمِ اکبر ہو جائے، جیسا کہ مولا علیؑ  نے فرمایا:
اے انسان! کیا تو گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر سمایا ہوا ہے، پس روحانی سائنس اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا عطیہ ہے جس سے نہ صرف عالمِ شخصی اور کائنات کی تسخیر ہو جاتی ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان دونوں کی بے شمار کاپیاں حاصل ہو سکتی ہیں۔

اب ایک بہت بڑا عالمی مسئلہ سامنے ہے، اور وہ ہے: یو۔ ایف۔ اوز سے متعلق سوال کہ وہ در حقیقت کیا چیزیں ہیں؟ یہ سوال جتنا مشکل اور جیسا ضروری ہے، اس کا جواب اتنا دلچسپ اور ایسا مفید بھی ہے، وہ یہ ہے کہ یو۔ ایف۔ او اُس ترقی یافتہ انسان کا عارضی نام ہے جو کسی سیّارے سے آتا ہے یا اس دنیا میں رہتا ہے، کیونکہ انسان ہی ہے جو کثیف سے لطیف ہو کر پرواز کر سکتا ہے، اور انسان ہی سے جنّ و پری ہو جاتا ہے، اس لطیف مخلوق پر خدا ہم کو آزما رہا ہے، نیز اس کے ظہور سے یہ اشارہ بھی مل رہا ہے کہ روحانی سائنس کا زمانہ آچکا ہے ، اور “یو۔ ایف۔ او” وہ انسان ہے جو وقت آنے پر فرشتہ ہوچکا ہے، اور بحکمِ خدا اپنے ظہور سے یہ سگنل دے رہا ہے کہ دیکھو زمانہ بدل گیا، اور روحانیّت کا دور آ گیا۔

۱۴۴

کیا جمادات کی ترقی یافتہ صورت نباتات نہیں ہیں؟ کیا نباتات سے حیوانات کا وجود نہیں بنتا ہے؟ آیا حیوان کا خلاصہ انسان نہیں ہے؟ آیا انسان روحانی ترقی سے فرشتہ نہیں بنتا ہے؟ کیا فرشتہ پوشیدہ ہونے کے معنی میں جنّ نہیں کہلاتا ہے؟ کیا مخلوقات کے آپس میں ظاہراً رشتہ اور باطناً وحدت نہیں ہے؟ اس کا مجموعی جواب اور خلاصہ یہ ہے کہ یو۔ ایف۔ اوز حقیقت میں دوسرے سیّاروں کے ترقی یافتہ انسان ہیں، جن کی روحانی سائنس درجۂ کمال پر پہنچ چکی ہے۔

عالمی یا بین الاقوامی سطح پر ہمیشہ قانونِ اخلاق یہی حکم دیتا ہے کہ ہر وہ ملک و قوم جس نے ترقی کی ہے، وہ پس ماندہ لوگوں کی مدد کرے، چنانچہ دوسرے سیّاروں پر رہنے والے انسانوں یا فرشتوں کا مقدّس فریضہ یہی ہے کہ وہ اپنے ان بھائیوں کو جو روحانی سائنس میں غریب ہیں، زمین سے اُٹھا کر دوسرے ستاروں پر پہنچا دیا کریں، اللہ کے حکم سے یقیناً ایسا ہی ہوگا، یہ اُڑن طشتریاں جہاز کی شکل میں کیوں نظر آتی ہیں؟ یہ اشارۂ حکمت ہے، جس میں ان کا یہ کہنا ہے کہ ہم تمہارے کائناتی جہاز ہیں تاکہ تم کو مستقبل میں کائنات کی سیاحت کرا دی جائے۔

عظمت و بزرگی اور سلطنت و سلطانی کا ایک عجیب منشا یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ بادشاہ کبھی کبھار بھیس بدل کر اپنے ملک میں گھومے پھرے، تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ لوگ کسی بھی علامت و نشان سے اس کو پہچانتے ہیں یا نہیں، خصوصاً ایسا امتحان رات کے وقت ہوا کرتا تھا، رات لا علمی کی مثال بھی ہے اور یہ باطن بھی ہے چنانچہ ترقی یافتہ انسان یا فرشتے اُڑن طشتریوں کے بھیس میں آ کر دنیا کے بڑے دانشمندوں، سائنس دانوں اور بڑی بڑی قوموں سے امتحان لیا کرتے ہیں۔

“یو۔ ایف۔ او” دراصل وہ مافوق الفطرت بشر ہے جس کو جثۂ ابداعیہ یا آسٹرل باڈی کہا جاتا ہے، نیز یہ وہ معجزاتی کُرتا ہے جس کو پہن کر یعنی اس میں منتقل ہوکر آپ نہ سردی محسوس کریں گے نہ گرمی، اور نہ ہی کوئی جنگ اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، لندن
۱۴ جولائی۱۹۹۵ء

۱۴۵

روحانی سائنس کے عجائب و غرائب
(قسطِ دوم)

اگر قصّۂ آدم پر روحانی سائنس کی روشنی ڈالی جائے تو یقیناً اس میں سے فائدۂ بنی آدم کے بہت سے اسرار منکشف ہو سکتے ہیں، مثال کے طور پر یہ سوال کیا جائے کہ خدا کے حکم سے جن فرشتوں نے پہلے پہل حضرتِ آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا وہ کونسے فرشتے تھے؟ ان کی ہستی کا تصوّر کیا ہے؟ سجود میں کیا حکمت پنہان تھی؟ آیا اس میں اولادِ آدم کے لئے بھی کوئی نویدِ جانفزا ہے یا نہیں؟

اس کے لئے روحانی سائنس میں یہ جواب ہے: سب سے پہلے عالمِ ذرّ کے ملائکہ نے حضرتِ آدمؑ کو سجدہ کیا، وہ ہستی کے اعتبار سے صرف ذرّات ہی تھے، وہ آدمؑ کی ہستی میں گر رہے تھے اور یہی سجدے کی ظاہری شکل تھی، یہ فرشتے بظاہر ذرّات لیکن بباطن تسخیرِ ذات و کائنات کی کلیدیں تھے، لہٰذا سجود اظہارِ اطاعت کے معنی میں تھا کہ یہ فرشتے آدمؑ کے لئے عالمِ شخصی اور کائنات کو حقیقی معنوں میں مسخر کر دیں گے، جی ہاں، قانونِ رحمتِ الٰہی ہرگز ایسا نہیں کہ باپ کو تاجِ خلافت سے سرفراز فرما کر مسجودِ ملائک بنا دیا جائے، اور اولاد کو ہمیشہ کے لئے آتشِ دوزخ میں دھکیل دیا جائے، لہٰذا یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ حضرتِ ابو البشر کے لئے جس طرح فرشتوں نے عالمِ ذرّ میں بھی اور آگے چل کر عالمِ عقل میں بھی سجدۂ فرمانبرداری بجا لایا، اس میں اس کی اولاد کے لئے دو مرحلوں میں خوشخبری ہے

مرحلۂ اوّل یہ کہ دورِ خواص میں فضائل و کمالاتِ آدمؑ صرف انبیاء و اولیاء (علیہم السّلام)

۱۴۶

ہی کو حاصل ہو جائیں گے، اور مرحلۂ دوم میں بشارت یہ ہے کہ دورِ عوام میں روحانی انقلاب کے آنے سے آدم کی روحانیت عوام کے لئے بھی کام کرنے لگے گی، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں بنی آدم کی کرامت و فضیلت بیان ہوئی ہے، اور ان کے لئے نصیحت بھی ہے۔

روحانی سائنس کی روشنی میں یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ فرشتوں نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے لئے دوسرا اور آخری سجدہ عالمِ عقل میں کیا، جس میں وہ سب کے سب ایک ہی عظیم فرشتہ تھے، جب روحانی اور عقلانی قوّتوں نے فرشتوں کی مثال میں سجدہ کیا تو حضرتِ آدمؑ کی خلافت کائناتی زمین میں فعلاً قائم ہوگئی، یہاں یہ ضروری نکتہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ خلافت صرف سیّارۂ زمین تک محدود نہیں، بلکہ یہ کائنات بھر کی خلافت ہے، کیونکہ قرآنِ پاک کا فرمانا ہے کہ خلافتِ الٰہیہ کی زمین بے حد وسیع ہے (۲۴: ۵۵،  ۲۹: ۵۶،  ۳۹: ۱۰) اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ زمین (۱) نفسِ کلّ ہے (۲) کائنات اور اس کے سارے ستارے ہیں (۳) اور عوالمِ شخصی ہیں۔
قصّۂ آدم کے روحانی اسرار بہت سے ہیں، ان میں سے صرف چند مثالیں پیش کرنے کے بعد اب ہم اُس نویدِ جانفزا کی طرف آتے ہیں جو بنی آدم کے عوام کے لئے ہے، وہ یہ کہ جب خلافتِ آدم کا اعلان فرمایا گیا تو اس میں یہ ہمہ رس و ہمہ گیر خوشخبری تھی کہ یہ خلافت آدم کی حیاتِ جسمانیہ تک محدود نہیں بلکہ اس کے سلسلۂ وارثین (انبیاء و اولیاء علیہم السّلام) میں یہ ہمیشہ جاری و باقی رہے گی، اور جب دورِ عوام آئے گا تو اس وقت خلافتِ آدم کے عظیم معجزات ظاہر ہو جائیں گے تاکہ عوام الناس کو روحانی سائنس کے بے شمار فائدے حاصل ہو سکیں۔

اللہ جل جلالہ کے اسرارِ حکمت بڑے عجیب و غریب ہوا کرتے ہیں، وہ تعالیٰ شانہ لوگوں کو ظاہر میں اختیار دیتا ہے کہ کوئی اس کی عبادت کرے یا نہ کرے مرضی ہے، لیکن باطن میں سب لوگوں کو زبردستی سے ہدایت و عبادت کے راستے پر چلاتا رہتا ہے، اور یہ بڑا حیرت انگیز کام انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں ہوتا ہے، آپ سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں دیکھ لیں: اور اللہ ہی کے لئے سجدہ کرتے ہیں جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین

۱۴۷

میں ہیں خوشی سے اور مجبوری سے۔ نیز سورۂ نور (۲۴: ۴۱) میں پڑھیں: سب کو اپنی اپنی دعا /نماز اور اپنی تسبیح معلوم ہے۔ اس نوعیت کی آیاتِ کریمہ اور بھی ہیں۔

جی ہاں، یہ بات سچ اور حقیقت ہے کہ عالمِ ذرّ میں تمام چیزوں کے نمائندہ ذرات موجود ہیں، اور اس میں ہر خاص و عام انسان کا بصورتِ ذرّۂ نمائندہ حاضر رہنا از بس ضروری ہے، چنانچہ مذکورۂ بالا قرآنی حوالہ جات کے مطابق عالمِ ذرّ میں (جو شخصِ کامل میں ہے) اللہ ہی کے لئے سب کے سب عبادت اور سجدہ کرتے ہیں، جیسا کہ سورۂ مریم میں ہے۔

إِن کُلُّ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِیْ الرَّحْمَنِ عَبْداً = جتنے بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں سب کے سب خدا تعالیٰ کے روبرو غلام ہوکر حاضر ہوتے ہیں (۱۹: ۹۳)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہت سے مشکل اور پیچیدہ مسائل ایسے ہیں جن کی تحلیل صرف روحانی سائنس ہی سے ہو سکتی ہے، جس کا ظہور بتوسطِ عالمِ شخصی دورِ عوام میں ہونے والا ہے، جیسا کہ سورۂ زمر میں ربّ العزت کا ارشاد ہے:

وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّھَا = اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہو جائے گی (۳۹: ۶۹)۔ یہ قیامت القیامات کا ذکر ہے، جس میں روحانی سائنس یعنی ربّانی علم و حکمت سے زمین منور ہو جانے والی ہے، اور یہاں زمین سے باشندگانِ زمین مراد ہیں، پس حسبِ وعدۂ الٰہی (۴۱: ۵۳) آفاق کے بعد انفس (عوالمِ شخصی) میں بھی آیاتِ قدرت کا ظہور ہوگا، اور اسی مجموعۂ معجزات کا نام روحانی سائنس ہے، جس کی مدد سے لوگ ایسی عجیب و غریب روحانی قوّتوں کو استعمال کر سکیں گے جو مادّی سائنس سے تیار کردہ آلہ جات کی مثال پر ہیں، لیکن ان سے بدرجہ ہا برتر اور بہتر ہیں، ایسی زبردست روحانی ترقی کے دور میں یہ امر ممکن ہے کہ ظاہری آلہ جات رفتہ رفتہ ختم ہوتے چلے جائیں، مثال کے طور پر اگر ٹیلی پیتھی (اشراق) کا رواج عام ہو جائے تو ظاہری ٹیلی فون کا دردِ سر کون مول لے گا، اگر اُڑن طشتریاں رام ہو جاتی ہیں تو پھر ہوائی جہاز کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔

۱۴۸

انسانوں کی روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ سیّارۂ زمین پر بڑی بڑی تبدیلیاں آنے کا ذکر ہے، سورۂ کہف (۱۸: ۰۷ تا ۰۸) ہم نے زمین پر کی چیزوں کو اس کے لئے باعثِ رونق بنایا تاکہ ہم لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں زیادہ اچھا عمل کون کرتا ہے، اور ہم زمین پر کی تمام چیزوں کو ایک صاف میدان کر دیں گے۔ یعنی جب سارے انسانوں کو خوشبوؤں کی روحانی غذا ملتی رہے گی، اس کے نتیجے میں وہ جسمِ لطیف ہو جائیں گے، اور کھیتی باڑی کی ضرورت ہی نہ رہے گی، کیونکہ لوگ لطیف ہستی کی بہشت میں ہوں گے۔
قرآنِ حکیم فرماتا ہے: کَانَ النَّاسُ أُمَّۃً وَاحِدَۃ (۰۲: ۲۱۳) لوگ سب ایک ہی امت تھے (اور ہیں) یعنی تصوّرِ ازل و ابد اور عالمِ ذرّ میں تمام انسان ایک ہی جماعت ہیں،اور سب سے بڑی قیامت میں بھی سب ایک ہو جانے والے ہیں، لیکن وہ اس دور میں مختلف نظریات رکھتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ظاہر میں لوگوں کو اختیار دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ متفرق و منتشر ہوگئے ہیں، اور باطن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا اختیار ہے، جس کے سبب سے وہ انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں سلکِ وحدت سے پروئے ہوئے ہیں۔

بعض قرآنی سورتوں کے آخر میں بطورِ خلاصہ زبردست علم و حکمت والی آیاتِ کریمہ وارد ہوئی ہیں، جن کو علمائے علوم القرآن “خواتم” کے نام سے جانتے ہیں، ایک ایسی پر از علم و حکمت آیۂ شریفہ سورۂ نمل کے آخر میں ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے:
اور آپ کہہ دیجئے کہ تمام خوبیاں اللہ ہی کے لئے ہیں وہ تم کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھلا دے گا سو تم ان کو پہچانو گے اور آپ کا ربّ ان کاموں سے بے خبر نہیں ہے جو تم سب لوگ کر رہے ہو (۲۷: ۹۳)۔ قرآنِ عظیم کا یہ حکمت آگین خطاب بتوسطِ حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم تمام انسانوں سے فرمایا گیا ہے، جس میں ظاہری اور باطنی سائنس کی شکل میں معجزاتِ قدرت کے ظہور، مشاہدہ اور معرفت کی پیش گوئی ہے، یہ ان عظیم آیات و معجزات کا ذکرِ جمیل ہے جن کے مشاہدۂ عین الیقین اور حق الیقین سے مومنِ سالک کو اپنی ذات اور حق تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔

۱۴۹

میں یہاں اپنے مضمون کی دونوں قسطوں کے اصل مطلب کو واضح کر دینے کے لئے ایک بڑا اہم سوال کرتا ہوں، وہ یہ کہ خالقِ اکبر نے تمام لوگوں کو کس ارادے سے پیدا کیا؟ آیا خدا یہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگ خوشی سے یا زبردستی سے اس کے پاس لوٹ جائیں؟ کیا حقیقت کچھ ایسی نہیں ہے کہ اگر ایک آدمی اپنے اختیار سے بڑا غلط کام کرتا ہے تو اس کو ایک وقت کے لئے سزا دی جاتی ہے، لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ کے ارادۂ ازل کے مطابق فیصلہ ہو جاتا ہے جس میں خیر ہی خیر ہے؟
اس کا پُرحکمت جواب یہ ہے: الخَلقُ عِیالُ اللّٰہ، وَ اَحَبُ الخلقِ اِلَی اللّٰہِ مَن نَفَعَ عِیالَہ، وَ اَدْخَلَ السّرورَ عَلیٰ اَہلِ بَیتہ۔ ساری مخلوق (گویا)اللہ کا کنبہ ہے، لہٰذا خدائے بزرگ و برتر کے نزدیک سب سے محبوب و پسندیدہ شخص وہ ہے جو اُس کے کنبے کو زیادہ فائدہ پہنچائے اور اس کے اہلِ خانہ کو مسرور و شادمان کر دے۔

والسلام مع الاحترام
نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لندن
۱۸ جولائی۱۹۹۵ء

۱۵۰

علم و عمل کی افضلیت

 

خورشیدِ عیان عالمِ جان علم و عمل ہے

معمارِ جہان گنجِ نہان علم و عمل ہے

تحقیق یہی ہو گئی ہے فکر و نظر سے

سرمایۂ اقوامِ جہان علم و عمل ہے

ہر فرد کی معراجِ ترقی بھی یہی ہے

ہاں مرتبۂ کون و مکان علم و عمل ہے

یہ خاصۂ انسان ہے یہ فضلِ خدا ہے

عزّت کے لئے روحِ روان علم و عمل ہے

پتھر کی نہ قیمت ہے نہ سودا کبھی ہوگا

بس بیش بہا گوہرِ کان علم و عمل ہے

فردوسِ برین جانِ چمن چہرۂ  جانان

در عالمِ دل جلوہ کنان علم و عمل ہے

ہے اشرف و اعلائے خلائق وہی انسان

ہوجائے اگر اس سے عیان “علم و عمل” ہے

جو چیز سدا باعثِ صد فخر و خوشی ہے

وہ میوۂ  دل راحتِ جان علم و عمل ہے

اک بھید ہے اس عالمِ شخصی میں بڑا سا

وہ سرِّ ازل رازِ جنان علم و عمل ہے

اک نغمۂ قدسی ہے نہان ذاتِ بشر میں

وہ زمزمۂ پیر و جوان علم و عمل ہے

علیین میں اک زندہ کتاب بول رہی ہے

وہ معجزۂ  شرح و بیان علم و عمل ہے

کچھ اور خزانہ نہیں مطلوب نصیرا!

دنیا میں فقط گنجِ گران علم و عمل ہے

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

۳۰ جولائی ۱۹۹۵ء

۱۵۱

فُصُولِ پاک

فصولِ پاک

بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمہید

صاحبانِ امر:
سورۂ نساء (۴) کی آیت ۸۳ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ مبارک فرمان ہے کہوَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖؕ-وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِی الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْؕ  ترجمہ: اور جب ان لوگوں کو امن یا خوف سے متعلق کسی امر کی خبر پہنچتی ہے تو وہ اس کو مشہور کر دیتے ہیں اور اگر وہ لوگ اس کو رسول صلعم کی طرف اور اپنے صاحبانِ امر کی طرف پھیر دیتے، تو ان کے یہ حضرات (یعنی پیغمبر اور صاحبانِ امر صلوات اللہ علیہم) جو اس کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں البتہ اس کو جان ہی لیتے۔ (۰۴: ۸۳)

اس مقام پر ایک اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا امن یا خوف سے متعلق مذکورہ امر کا مطلب

۷

کوئی ظاہری اور دنیاوی قول و خبر ہے؟ یا اس سے صرف اللہ تعالیٰ ہی کا پیغام و فرمان مراد ہے؟ اس کا مفصل جواب بھی خود اسی ارشادِ الٰہی میں موجود ہے اور وہ اس انداز میں کہ اس ارشاد میں مذکورہ امر کو رسول اور اولو الامر علیہم السّلام کی طرف پھیر دینے کا جو منشاء ظاہر کیا گیا ہے اور ان حضرات کو جس طریقِ حکمت سے تنزیل و تاویل، قرآن کی منزل، مظہر اور معلم قرار دیا گیا ہے، اس سے یہ حقیقت پوری طرح سے واضح اور روشن ہو جاتی ہے کہ اس امر کا مطلب کوئی دنیاوی اور انسانی خبر ہرگز نہیں، بلکہ اس سے وہ پیغامِ الٰہی مراد ہے جو حضور انور صلعم پر نازل ہوا ہو کیونکہ پھیر دینے کے معنی سوائے اس کے کچھ نہیں کہ جو چیز جس طرف سے آئی ہو اس کو اسی طرف لوٹا دیا جائے۔

نیز یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ  (یعنی وہ اس کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں، وہ اس کی تاویل کر سکتے ہیں) سے بھی اس حقیقت

۸

کی تائید و تصدیق ہو جاتی ہے کہ اس امر کی گہرائیوں تک پیغمبر اور اولو الامر علیہم السّلام کے سوا دوسرے لوگ اس لئے نہیں پہنچ سکتے ہیں کہ یہ عوام النّاس کا کوئی قول اور دنیا کی کوئی خبر ہے نہیں، بلکہ یہ احکم الحاکمین کا کلامِ حکمت نظام ہی ہے۔ لہٰذا اس میں جو گہری حکمتیں پوشیدہ ہیں، ان کا استخراج و استنباط صرف رسولِ اکرمؐ اور صاحبانِ امر علیہم السّلام ہی کر سکتے ہیں۔ پس یہی حضرات اللہ جل شانہ کے فرمان گزار، تنزیل و تاویل کے حامل اور دینِ حق کے کار فرما ہیں۔

آیۂ مذکورۂ بالا کا یہ ترجمہ اور تفسیر شیعی اسماعیلی مکتبۂ فکر کے عین مطابق ہے، چونکہ اس مکتبۂ فکر کی اصولی تعلیمات کے بموجب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اہلِ بیت اطہار یعنی أئمّۂ برحق (صلوات اللہ علیہم) ہی اولوا الامر کے درجے پر فائز ہیں جو آلِ محمدؐ کے پاک سلسلے میں یکے بعد دیگرے روزِ قیامت تک اس

۹

دنیا میں ظاہر و موجود ہوتے رہیں گے۔ بس یہی حضرات ہیں جو بتائیدِ الٰہی قرآن و حدیث سے تاویل و حکمت کا استخراج و استنباط کر کے بمقتضای زمان و مکان دنیا والوں کی ہدایت و رہنمائی کر سکتے ہیں۔

چنانچہ یہی مطلب آیۂ مقدسۂ مذکورہ سے صاف طور پر ظاہر ہے کہ اس میں قانونِ الٰہی کی طرف سے کچھ لوگوں پر یہ عتاب و اعتراض آیا ہے کہ وہ لوگ امن یا خوف سے متعلق کسی امر کے نازل ہوتے ہی کیوں اس کے سطحی معنی کو مشہور کرنے لگتے ہیں حالانکہ انہیں اس امر کی معنوی گہرائی تک رسا ہو جانے کے لئے پیغمبر اور صاحبانِ امر سے رجوع کرنا چاہئے کہ یہ حضرات ان کو آسمانی کتاب یعنی قرآن مجید کے ظاہر سے خوب واقف و آگاہ اور علمِ تاویل سے مستفیض کر کے نادانی اور جہالت کی پلیدیوں سے پاک کر دیتے ہیں۔

۱۰

آلِ ابراہیم:
سورۂ بقرہ (۲) کے پندرھویں رکوع میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی جن دعاؤں کا بیان آیا ہے ان میں سے بعض ضروری باتیں جو وہ دونوں حضرات چاہتے تھے یہ ہیں کہ “اے ہمارے پروردگار! ہم دونوں کو اپنے واسطے انتہائی درجے کے فرمانبردار بنائیے اور ہماری اولاد سے بھی اپنے واسطے ایک ایسی ہی فرمان بردار جماعت پیدا کیجئے۔۔۔ اے ہمارے پروردگار اور اس جماعت کے اندر انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر بھی مقرر کیجئے جو ان کو آپ کی آیتیں پڑھ کر سنایا کرے اور ان کو آسمانی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیا کرے اور ان کو پاک کر دے۔”(۰۲: ۱۲۸ تا ۱۲۹)

چنانچہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السّلام کی یہ دعا پروردگارِ عالم کی بارگاہِ اقدس میں قبول ہوئی، وہ اس طرح کہ ذریّت اسماعیل سے أئمّۂ مستقر کا سلسلہ دنیا میں قیامت تک جاری و ساری

۱۱

رہا اور ذریّت اسحاق سے أئمّۂ مستودع (جن میں سے بعض پیغمبر بھی تھے) کا سلسلہ آنحضرت صلعم کے ظہور تک قائم رہا، ان دونوں سلسلوں کا قرآنی نام “آلِ ابراہیم” ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:  فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا  ۔ ۰۴: ۵۴۔ یقیناًہم نے آلِ ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی ہے اور ہم نے ان کو ایک (دینی اور روحانی ) سلطنت عنایت کی ہے۔

آلِ ابراہیم کے انبیاء اور ائمہ علیہم السلام اس جماعت کے اندر انہی میں سے جس خاص پیغمبر کے مبعوث ہونے کی دعا کی گئی تھی، وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلعم کا مقدس نور تھا، جس نے مذکورہ دعا کے بموجب سلسلۂ آلِ ابراہیم کے جملہ انبیائے عظام و ائمۂ کرام علیہم السلام کو خدا کی آیتیں پڑھ کر سنائیں، ان کو آسمانی کتاب اور حکمت کی تعلیم دی اور ان کو پاک کر دیا، اسی معنی میں حضورِ اکرم صلعم کا ارشادِ گرامی ہے کہ:  کنت نبیا و آدم بین الماء

۱۲

و الطین، یعنی میں اس وقت بھی پیغمبر تھا جبکہ آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھا۔ پس اسی لئے پیغمبرِ آخر زمانؐ کا مبارک لقب “رحمت للعالمین” ہے۔

رسول اور أئمّہ علیہم السّلام:
سورۂ بقرہ (۲) آیت ۱۴۳ میں ارشاد ہے کہ: وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ  ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تمہیں اعتدال والا گروہ بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہے۔ (۰۲: ۱۴۳)۔ وسط کے معنی ہیں درمیان معتدل اور واسطہ (وسیلہ) اور امت کے معنی ہیں گروہ، جماعت، طریق، وقت وغیرہ۔ پس یہ صفت أئمّۂ برحق علیہم السّلام کی ہے کیونکہ صرف یہی حضرات ایک ایسا گروہ ہیں جس کے سلسلے کے افراد خدا و رسول صلعم کی جانب سے ہمیشہ دنیا میں یکے بعد دیگرے موجود و حاضر رہتے ہوئے خلائقِ عالم پر گواہ ہیں، یہی گروہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مومنین و

۱۳

مسلمین کے لئے ہدایتِ غیبی کا واسطہ اور نجاتِ ابدی کا وسیلہ بنایا ہے کیونکہ ربّ العزّت نے اس گروہ پر رسولِ اکرم صلعم کو روحانی و نورانی حیثیت میں ہمیشہ کے لئے حاضر و موجود اور گواہ رکھا ہے اور یہی جماعت أئمّۂ کرام احکم الحاکمین کی حکمت سے خدا کا وہ سیدھا راستہ (صراطِ مستقیم) اور طریقِ معتدل ہے جو افراط و تفریط سے پاک و صاف ہے اور بندگانِ خدا کو خدا تک پہنچا دیتا ہے۔

مذکورۂ بالا حقائق و معارف کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ خدائے رحمان الرحیم نے کسی بھی زمانے میں دین و دنیا کو ہادئ برحق علیہ السّلام کے مبارک وجود سے خالی نہیں چھوڑا ہے، نہ اس نے کبھی صراطِ مستقیم کی ہدایت کے ذرائع و وسائل میں کوئی کمی کر دی ہے، نہ اس نے زمان و مکان کے پیدا کردہ مسائل کے حل تلاش کرنے میں پہلے کی نسبت اب کوئی دشواری کر دی ہے، نہ اس نے کبھی صاحبِ تاویل کو چھوڑ کر قرآن و حدیث کی تاویلات کے

۱۴

ناقابلِ برداشت بوجھ کو عوام الناس پر ڈال دیا ہے اور نہ کسی وقت اس کی عادت و سنت میں کوئی تبدیلی پائی جاتی ہے بلکہ فی الواقع اس کا اٹل اور بے بدل قانون اب بھی ویسا ہے جیسا کہ اس سے پہلے تھا اور اس قانون کی بنیادی بات یہ ہے کہ جس طرح اس مادّی دنیا میں اس جسمانی سورج کا ہمیشہ موجود ہونا اتنا ضروری ہے کہ اگر یہ نہ ہو تو ہمارا یہ سیّارۂ زمین اور یہ ساری وسیع و عظیم کائنات ظلمتِ نیستی میں چلی جائے گی، کیونکہ جاننے والے حضرات اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں اور اگر طبعیات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ واقعہ سب کو روشن ہو سکتا ہے کہ روحِ حیوانی زندہ جسموں میں جو کچھ کام کرتی ہے، سورج وہی کام اس وسیع و عظیم کائنات میں کر رہا ہے، اس سے یہ حقیقت صاف ظاہر ہے کہ سورج کے نہ ہونے سے کائنات اس طرح فنا ہو جائے گی جس طرح کہ روحِ حیوانی کے نکل جانے سے انسان اور حیوان مر جاتا ہے۔

۱۵

دینی سورج:
اسی طرح عالمِ دین میں بھی اپنی نوعیت کا ایک عظیم المرتبت زندہ سورج ازل سے ہمیشہ کے لئے موجود ہے اگر یہ نہ ہوتا تو عالمِ دین بھی نہ ہوتا کیونکہ جب عالمِ دین مختلف مذاہب اور لادینیت کے جدا جدا نظریات کی مجموعی صورت میں قائم و باقی ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ اس کے اندر وہ روحانی سورج بھی موجود ہے جس سے کہ دینی عالم کا یہ نظامِ حکمت برجا و برقرار ہے چنانچہ دینی عالم کی ہر چیز زبانِ حال سے دینی سورج کے موجود و حاضر ہونے کی شہادت دے رہی ہے، مثلاً عالمِ دین میں جہاں روز دین کی روشنی ہے، تو یہ اس حقیقت کی ایک بین دلیل ہے کہ وہاں روحانیّت کے آسمان پر نورانی سورج موجود ہے اور ضوفشانی و نور پاشی کر رہا ہے اور جہاں شبِ دین کی تاریکی چھائی ہوئی ہے تو یہ حال اس بات کا ایک واضح ثبوت ہے کہ اس طرف کے آسمان پر سورج موجود نہیں بلکہ وہ زمینِ دین کے روشن پہلو کی

۱۶

جانب ہے اور یہ تاریک پہلو اس کے عقب میں واقع ہے۔

اگر عالمِ دین میں کہیں کہیں ایسے پہاڑ ہوں کہ ان سے صاف و شفاف ندیوں، گھنے جنگلات، سر سبز چراگاہوں اور قیمتی جواہر کی کانوں کے لامحدود فوائد لوگوں کو حاصل ہو رہے ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ اس قسم کے پہاڑ اپنی صلاحیتوں کی بناء پر دائم الوقت سورج سے مستفیض و مستفید ہوتے رہے ہیں اور جو پہاڑ اس حال کے برعکس ندیوں، جنگلوں، چراگاہوں اور کانوں میں سے کچھ بھی نہ رکھتے ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں وہ صلاحیتیں نہیں جو دوسرے پہاڑوں میں ہیں۔ مثلاً اونچی اونچی چوٹیاں، جو فضا میں اڑتے ہوئے بادلوں کو چھو کر بآسانی برف و بارش حاصل کرسکیں، اور ان پر برف و یخ کے بے پناہ ذخائر جمع ہوں جن سے ہمیشہ کے لئے ندیاں، نالے اور چشمے جاری رہتے ہیں، ایسی مناسب زمین اور نرم مٹی، جس میں ہر قسم کے جنگلی درخت اور گھاس اُگ سکیں اور پتھر

۱۷

کی خصوصی ذات، جس میں قیمتی جواہر کی کانیں پیدا ہو سکیں۔ پس یہ دو قسم کے پہاڑ روحانی سورج کی ہستی اور وجود کی گواہی دے رہے ہیں۔ چنانچہ پہلی قسم کے پہاڑ اپنی زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ روحانی سورج موجود و حاضر ہے اور ہم اس سے فائدہ لے رہے ہیں، دوسری قسم کے پہاڑ کہہ رہے ہیں کہ دینی سورج موجود تو ہے مگر ہم اس کے فائدے لینے سے قاصر ہیں اسی لئے ہمارا یہ حال ہے۔

اگر زمینِ دین کا کوئی حصّہ آباد و شاداب ہے اور اس میں ہرے بھرے لہلہاتے ہوئے کھیت، عمدہ پھلوں سے لدے ہوئے ہر قسم کے درختوں کے باغات اور رنگ برنگ کے مہکتے ہوئے پھولوں کے دلکش گلشن موجود ہیں تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ زمین کے اس حصّے کو دینی سورج کے فیوض و برکات حاصل ہیں جو اپنی قسم کی روشنی، گرمی، پانی اور ہوا کی صورت میں مہیّا ہیں اور اگر

۱۸

اس کے برخلاف زمینِ دین کا کوئی حصّہ غیر آباد پڑا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ وہاں یہ فیوض و برکات میسر نہیں یا اگر بعض ہیں تو بعض نہیں۔ پس زمین کی یہ صورت حال اور نتیجہ، کہ سورج کی رحمتوں اور برکتوں سے مستفیض ہونے سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے اور ان سے محروم رہ جانے سے کیا نقصان آتا ہے، سورج کی ہستی اور موجودگی کی نشاندہی کرتا ہے۔

یہ دینی اور روحانی سورج فی الاصل خدا ہی کا نور ہے جو پیغمبروں اور اماموں (علیہم السّلام) کی روحِ مقدّس کے توسط سے عالمِ دین میں ہدایت کی روشنی بکھیرتا رہتا ہے، چنانچہ اسی معنی میں أئمّۂ برحق علیہم السّلام اولوا الامر کہلاتے ہیں اور اسی دلیل کی بناء پر یہ کہنا حقیقت ہے کہ قرآن و حدیث کے جملہ علوم و معارف کے خزانوں کی کلیدیں انہی حضرات کے پاس محفوظ ہیں اسی سبب سے ان کی روایت و درایت بالکل درست اور انتہائی معتبر اور ان کا

۱۹

فیصلہ بدرجۂ اتم صحیح ہوا کرتا ہے۔ پس ان کی تابعداری عین فرض اور حلال و حرام کے درمیان فرق و تمیز کرنے کے لئے ان سے رجوع نہایت ہی ضروری ہے۔

کتاب دعائم الاسلام:
اسماعیلی فقہ کے مستند و معتبر کتب میں سب سے جامع عربی کتاب “دعائم الاسلام” کے نام سے مشہور و معروف ہے۔ یہ کتاب جو دینی رشد و ہدایت کے فیوض و برکات سے مملو ہے دو ضخیم جلدوں میں مکمل کی گئی ہے جس کو نامور اسماعیلی قاضی قضاۃ سیدنا ابو حنیفہ النعمان (قدس اللہ سرہ) نے حضرت مولانا الامام المعز الدین اللہ علیہ السّلام (امامت از ۳۴۱ھ تا ۳۶۵ھ) کی ہدایاتِ علمی اور برکاتِ روحانی کے بموجب اور آپ ہی کی زبانِ اقدس سے املا کرکے مرتب کیا ہے، کتاب دعائم الاسلام قرآن کی آیات، حدیث شریف کے ارشادات اور أئمّۂ اہلِ بیت اطہار علیہم

۲۰

السّلام کے فرمودات کا ایک نادر اور بے مثال مجموعہ اور فاطمی علوم و معارف کا ایک بے پایان خزانہ ہے۔ یہ گرانمایہ اور بلند پایہ کتاب زمانۂ قدیم کے معمول کے مطابق عرصۂ دراز تک قلمی نسخوں کی صورت میں مروجہ و متداول تھی، حتیٰ کہ ۱۹۶۰ / ۱۳۷۹ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جناب پروفیسر آصف بن علی اصغر فیضی نے چند قلمی نسخوں سے تقریباً پندرہ سال تک ریسرچ (تحقیق) کرکے انتہائی صحت و صفائی کے ساتھ چھپوا کر مصر جیسے قدیم و جدید اسلامی علوم و فنون کے مرکز سے شائع کر دیا، یقیناً پروفیسر آصف نے اسماعیلی عالم اور علمی دنیا کے لئے ایک قابلِ قدر اور ہمہ رس خدمت انجام دی ہے۔

دعائم الاسلام کا اردو ترجمہ:
عربی دعائم الاسلام شائع ہونے کے تقریباً سات سال بعد یعنی ۱۹۶۷ء میں ایک دینی عالم جناب یونس

۲۱

شکیب مبارکپوری نے مذکورہ کتاب کی دونوں جلدوں کا جدا جدا ترجمہ کر کے “ادارۂ ادبیاتِ فاطمی بدری روڈ سورت نمبر ۲” سے شائع کر دیا ہے۔ اس ترجمے کی دونوں جلدوں کی مجموعی ضخامت کا اندازہ تقریباً گیارہ سو ساٹھ صفحات سے لگایا جا سکتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یونس صاحب کی اس علمی خدمت کا ثمرہ نہ صرف اسماعیلی مذہب کے معتقدین تک ہی محدود ہے بلکہ اس سے تحقیق و تدقیق کے جملہ ادارے اور فقہی مسائل سے دلچسپی رکھنے والے تمام حلقے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں لہٰذا جناب یونس شکیب لائقِ صد تحسین و آفرین ہیں۔

فصولِ پاک اور اس کی وجہِ تسمیہ:
اس کتاب یعنی فصولِ پاک کے مرتب کرنے کے بنیادی اسباب و علل یہ ہوئے ہیں، کہ اگرچہ یہ خیال خود مجھے آج سے بہت پہلے پیدا ہوا تھا اور اس کے بارے میں بہت

۲۲

سے اسماعیلی احباب نے بھی مجھے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ بالعموم تمام اسماعیلی جماعت کو اور بالخصوص دینی مراسم کے ذمہ دار حضرات اور متعلمین کو فقہی مسائل سمجھانے کے لئے آسان اردو کتابوں کا مرتب کرنا بے حد ضروری ہے تاہم اس خیال اور تجویز کو عملی جامہ پہنانے کا موقع اس وقت ملا جبکہ میں ۱۹۷۱ء کے اخیر میں مرکز اسماعیلیہ گلگت کی کونسلات کے حکم سے نومل، رحیم آباد (متم داس) وغیرہ کے دورہ پر گیا اور گفت و شنید کے درمیان ان مقامات کی جماعتوں کے بعض بیدار مغز اور با شعور افراد نے کتبِ ضروریہ کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے مجھے پرزور الفاظ میں مشورہ دیا کہ شرعی مسائل کی آسان ترین تحلیل صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ اس موضوع پر چھوٹی چھوٹی اردو کتابیں شائع کر دی جائیں پس میں نے بتوفیقِ خداوند تعالیٰ شب و روز کی سخت محنت سے ایک قلیل عرصے میں اس کتاب کو ترتیب دیا۔

۲۳

اب میرے اس علمی کام کے متعلق ایک سوال ممکنات میں سے ہے کہ آیا اس کتاب کے مندرجات اور مطالب عربی دعائم الاسلام سے بلا واسطہ ترجمہ کر کے لئے گئے ہیں؟ یا کلیۃً یونس شکیب کے ترجمے پر اعتماد کیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے احساسِ ذمہ داری اور اصولِ احتیاط کے پیشِ نظر مطالب کو اس کتاب میں منتقل کر لینے سے قبل ان کی عربی اصل صورت اور اس کے مذکورہ ترجمے کو باہم مقابل کر کے تنقیدی نظر سے دیکھ لیا ہے، پس جہاں ترجمہ درست تھا، اس کو اسی طرح لیا ہے اور جہاں کہیں کوئی غلطی نظر آئی تو وہاں میں نے اپنے طور و طریق پر ترجمہ کر لیا ہے اسی سلسلے میں یونس شکیب کے ترجمے کی جلدِ ثانی مطبوعہ ۲۷ نومبر ۱۹۶۷ء کے چند صفحات کو دقتِ نظر سے دیکھنے کا موقع ملا ہے وہ صفحات یہ ہیں: از ۱۱۹ تا ۱۲۶، از ۱۲۸ تا ۱۳۱، از ۱۶۴ تا ۱۷۷، اور اس کی عربی اصل کے صفحات دعائم الاسلام جلدِ ثانی میں

۲۴

یہ ہیں: از ۱۲۰ تا ۱۲۷، از ۱۲۹ تا ۱۳۳، از ۱۶۶ تا ۱۷۹۔ پس مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یونس صاحب کے ترجمے کے مذکورہ صفحات میں سے بعض پر کچھ غلطیاں پائی گئی ہیں۔

ایک اور سوال کہ میں نے اس کتاب کا نام “فصولِ پاک” کیوں رکھا؟ جواباً اس کی وجہ عرض کی جاتی ہے کہ اس کتاب کے اصل موضوعات میں جو کچھ منقول ہے وہ سب کے سب قرآنِ پاک، حدیثِ شریف اور أئمّۂ اطہار علیہم السّلام کے فرامینِ مبارک اور ان کی تشریحات پر مبنی ہے، لہٰذا لفظِ “پاک” میں ان پاک و مقدّس اقوال کی طرف اشارہ ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ پاک سے وہ تمام صاف ستھری اور پاکیزہ چیزیں مراد ہیں جو نجس و ناپاک اور حرام نہ ہوں۔ چونکہ اس کتاب میں حرام و ناپاک چیزیں چھوڑ کر حلال اور پاک چیزوں کی طرف متوجہ ہونے کی تعلیمات مندرج ہیں اس لئے اس کتاب کے نام میں لفظِ “پاک” کا آنا

۲۵

ضروری ہوا۔

اسی طرح فصل کی جمع فصول کا مطلب ہے کتاب یا مضمون کے حصّے نیز فصول کے معنی ہیں حق و باطل اور حلال و حرام کے درمیان کئے ہوئے فیصلے، نیز اس کے معنی ہیں حدیں اور پردے، پس “فصولِ پاک” کے معنی ہوئے: ۱۔ پاک اقوال کے ذریعہ سے کئے ہوئے فیصلے۔ ۲۔ پاک چیزوں سے متعلق فیصلے۔ ۳۔ پاک فصلیں۔ ۴۔ پاک حدیں،  وغیرہ۔

اب میں آخراً دنیائے علم و ادب کے اصول اور مذہبی و اخلاقی فرض کے طور پر اپنی طرف سے نیز تمام اہلِ علم اور جملہ جماعت کی جانب سے “ہز رائل ہائنس پرنس آغا خان اسماعیلیہ لوکل کونسل گلگت مرکز” کے عہدہ داروں اور اراکین کے حق میں صمیمیتِ قلب سے شکر گزاری اور احسان شناسی کا اظہار کرتا ہوں کہ انہوں نے اس

۲۶

کتاب کی طباعت و اشاعت کے تمام مصارف اپنے ذمے لے کر دینی علوم کو فروغ دینے اور جماعت کی علمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایک بہترین مثال قائم کر دی ہے۔

یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح ساری قوم پر ظاہر و عیان ہے کہ یہ نامدار کونسل دینداری، علم دوستی، ترقی پسندی اور فرض شناسی ایسی اعلیٰ تنظیمی صفات میں اپنی مثال آپ ہے جس کا ایک اصل سبب یقیناً یہی ہے کہ گلگت اسماعیلی مرکز کی منظم نیک نام اور قابلِ فخر جماعت قدرتی طور پر ایسے فرمانبردار و معتقد اور دیندار افراد و اشخاص پر مشتمل ہے جو امامِ عالی مقام علیہ السّلام کی پاک ہدایات کے مطابق دینی اور دنیاوی ترقی کے لئے ہر لحاظ سے شائستہ و بائستہ اور ہر اعتبار سے لائق و فائق ہیں، جیسے عقل و دانش والے تعلیم یافتہ حضرات جن کو دینی علم کے علاوہ فلاح و بہبود کے کاموں سے بھی کافی دلچسپی ہے ہوشیار و تجربہ کار معزز تاجرین جو قومی اور دینی ترقی کے

۲۷

لئے مالی قربانیاں پیش کرنے سے کبھی نہیں تھکتے ہیں، باشعور و دانا اور سنجیدہ کاریگر اور پیشہ ور جو شروع ہی سے مذہبی خدمت کو اپنا شعار سمجھتے آئے ہیں، نظم و ضبط کی تعلیم و تربیت پائے ہوئے شیر دل فوجی جوان جو ہمیشہ سے قومی و جماعتی ترقی کے سلسلے میں ممد و معاون ثابت ہوتے رہے ہیں، با ادب و با سلیقہ اور شریف ملازمین جن کا سب سے بڑا نصب العین ابتداء سے یہ رہا ہے کہ قوم اور جماعت کو روحانی اور مادّی طور پر آگے بڑھانے کے لئے ہمہ وقت پابندی سے امامِ زمانؑ کے پاک فرمان پر عمل کیا جائے۔

پس عاجزانہ و فقیرانہ دعا ہے کہ خدائے اکرم الاکرمین نامبردہ کونسل اور مذکورہ جماعت کو نیز سطحِ زمین کی تمام جماعتوں کو آفاتِ سماوی و ارضی اور ہمومِ روحانی و جسمانی سے اپنے حفظ و امان میں محفوظ و مامون رکھے! ان کے ایمان، جان، اولاد اور مال میں برکت عطا فرمائے! ان کو دنیا و آخرت کی کامیابی، سرخروئی اور سربلندی نصیب

۲۸

ہو! آمین!! یا ربّ العالمین!!!

فقط احقر العباد
نصیر الدین نصیر ہونزائی
بروز اتوار ۲۸ ذیقعدہ ۱۳۹۱ھ
۱۶ جنوری ۱۹۷۲ء

۲۹

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فصل ۔ ۱
کھانے کی چیزوں میں حلال و حرام

۱۔ چار حرام چیزیں:
سورۃ الانعام (۶) آیت ۱۴۵(۰۶: ۱۴۵)  میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے: (اے رسول صلعم) آپ فرما دیجئے کہ مجھ پر جو وحی آئی ہے میں تو اس میں کسی کھانے والے پر کوئی چیز جو اس کو کھائے حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت کہ یہ پلید چیزیں ہیں یا نافرمانی کا ذبیحہ جس پر غیر خدا کا نام لیا گیا ہو پس جو شخص حالت اضطراری میں ہو نہ بغاوت کرنے والا اور نہ حد سے گزرنے والا تو یقیناً آپ کا پروردگار بہت بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔

۳۱

اس کے بعد ربّ العزّت نے آنحضرت صلعم پر یہ آیۂ کریمہ نازل فرمائی جو المائدہ (۵) کی تیسری آیت ہے: (۰۵: ۰۳)

۲۔ گیارہ حرام چیزیں:
حرام کیا گیا تم پر مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر بوقتِ ذبح اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور گلا گھٹ کر مرا ہوا اور چوٹ کھا کر مرا ہوا اور بلندی سے گر کر مرا ہوا اور سینگ لگ کر مرا ہوا اور وہ جسے درندہ نے پھاڑ کھایا ہو مگر جسے تم (مرنے کے قابل) ذبح کر لو اور وہ جانور جو بتوں کے تھان پر چڑھا کر ذبح کیا جائے اور یہ کہ تم تیروں سے قسمت معلوم کرو یہ سب نافرمانی ہے۔۔۔ پس جو شخص بھوک میں بے قرار ہو جائے (لیکن) گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو تو بے شک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

۳۲

مذکورہ قسم کے قرآنی ارشادات کے علاوہ باری تعالیٰ و تقدّس نے اپنے پیغمبرِ برحق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانِ مبارک پر جو چیزیں حرام قرار دی ہیں ان کی بابت آگہی اور صحیح روایت و خبر أئمّۂ اطہارِ آلِ محمد علیہم السّلام کے توسط سے مل سکتی ہے۔

۳۔ جو چیزیں زمین سے پیدا ہوتی ہیں:
حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپ نے اپنے ایک مجمل قول میں کھانے کی چیزوں میں حلال و حرام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ زمین سے جو چیزیں پیدا ہوتی ہیں ان میں سے جن چیزوں کا کھانا انسان کے لئے حلال ہے وہ کل تین قسم کی غذائیں ہیں چنانچہ قسمِ اوّل میں ہر نوع کے دانے ہیں جیسے گیہوں، چاول، دال وغیرہ دوسری قسم میں تمام انواع کے پھل ہیں اور تیسری قسم میں طرح طرح کی سبزیاں اور نباتات ہیں۔ پس

۳۳

ان اشیاء میں سے جو چیز انسان کی غذا اور قوّت و نفع کا موجب ہے اس کا کھانا حلال ہے اور ان میں سے جو چیز انسان کے لئے مضر اور نقصان دہ ہے اس کا کھانا حرام ہے مگر یہ ہے کہ اس سے دوا کا کام لیا جائے۔

۴۔ حلال حیوانات:
جن حیوانات کا گوشت کھانا حلال ہے، وہ یہ ہیں: گائے، اونٹ اور بکری کا گوشت، وحشی یعنی جنگلی جانوروں میں سے جن کے کچلی کے دانت اور پنجے نہ ہوں (یعنی جو جانور درندوں کی طرح دانت اور پنجے نہ رکھتے ہوں) ان کا گوشت کھانا حلال ہے پرندوں میں سے جن کے پوٹے ہوں تو ان کا گوشت کھانا حلال ہے اور دریا کے جس شکار میں مچھلی کی طرح چھلکا ہو تو اس کا کھانا حلال ہے ان مذکورہ قسموں کے سوا جو بھی ہیں ان کا کھانا حرام ہے۔

۳۴

۵۔ انڈے:
انڈوں میں سے جن کے دونوں سرے ایک دوسرے سے مختلف ہوں یعنی برابر نہ ہوں تو ان کا کھانا حلال ہے اور جن انڈوں کے دونوں سرے مساوی اور برابر ہوں تو یہ ان پرندوں کے انڈے ہیں جن کا گوشت کھایا نہیں جاتا پس ایسے انڈے حرام ہیں۔

۶۔ درندہ اور شکاری پرندہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے، آپ نے فرمایا کہ ہر وہ درندہ جو چیرنے پھاڑنے والے دانت رکھتا ہو اور ہر وہ پرندہ، جس کا شکار گیر پنجہ ہو، حرام ہے۔

۷۔ درندے:
حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے

۳۵

منقول ہے آپؐ نے فرمایا کہ بھیڑیا، تیندوا، چیتا شیر، گیدڑ ریچھ، بجو اور ہر وہ درندہ جانور جس کے شکار گیر پنجے ہوں ان سب کا گوشت کھانا حرام ہے۔

۸۔ خرگوش:
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ آپ نے خرگوش کو کھانا مباح (حلال) قرار دیا ہے۔

۹۔ سوسمار یعنی گوہ:
آنحضرت صلعم سے مروی ہے کہ ایک دفعہ آپ کی خدمت میں ایک گوہ پیش کیا گیا تو آپ نے اسے نہیں کھایا اور ناپسند فرمایا یعنی اسے کراہیت کی نظر سے دیکھا۔

۱۰۔ حشرات الارض:
حضرت مولانا مرتضیٰ علی علیہ السلام سے منقول

۳۶

ہے کہ آپ نے گوہ اور جنگلی چوہا وغیرہ جیسے حشرات الارض (زمین میں گھسنے والے جانور) کھانے سے منع فرمایا۔

۱۱۔ مچھلی اور ٹڈی:
حضرت امیر المومنین علی علیہ السّلام سے روایت کی گئی ہے، آپؐ نے فرمایا کہ مچھلی ذبح شدہ ہے اور ٹڈی بھی مذبوحہ ہے، ان کا زندہ پکڑنا ذبح کرنے کے برابر ہے۔

۱۲۔ گھوڑا:
حضرت علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے مروی ہے، آپؐ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مرد انصاری کے پاس سے گزرے جو اپنے ایک گھوڑے کے پاس کھڑا تھا اور گھوڑا مر رہا تھا، آنحضرت نے اس مرد انصاری سے فرمایا کہ اس کو ذبح کر دو تو تم کو دو اجر ملیں گے، ایک اجر اس بات کا ہو گا کہ تم نے

۳۷

اس گھوڑے کو ذبح کر دیا اور دوسرا اجر اس پر صبر کرنے کے سبب سے حاصل ہوگا۔ اس وقت اس مرد انصاری نے عرض کیا کہ اے پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، کیا اس ذبیحہ میں میرا بھی کچھ حصہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں تم بھی کھاؤ اور مجھ کو بھی کھلاؤ۔ پس اس شخص نے اس گھوڑے کی ران آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بطور ہدیہ بھیجا جس کو آپؐ نے تناول فرمایا اور ہم کو بھی کھلایا۔

حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؐ نے گھوڑے کو ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے۔ پس ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے صرف گھوڑوں میں سے صحیح و سالم گھوڑے کو ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ حق تعالیٰ نے ان کو راہِ خدا میں جہاد کے لئے مستعد اور تیار رکھنے کا حکم دیا ہے اور رسولِ اکرم

۳۸

صلعم سے یہاں جو روایت کی گئی ہے اس کا مقصد ان میں سے ایک ایسے گھوڑے کو ذبح کرنا ہے جو موت سے قریب تر ہو یا جس (کی بری عادت) سے مالک کی ہلاکت کا خوف ہو۔

۱۳۔ گدھا:
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے آپ نے فرمایا کہ پالتو گدھے حرام ہیں۔ آپ نے جنگِ خیبر میں ان کا گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا۔

۱۴۔ خچر:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے، آپ نے فرمایا کہ خچر نہ کھایا جائے۔

۱۵۔ گندہ خور جانور:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے، آپؐ

۳۹

نے فرمایا کہ آد می کے بول و براز جیسی گندی چیزیں کھانے والے جانوروں کو جب تک کہ اصول استبراء کے مطابق پاک نہ کر لیا جائے، ان کا گوشت، دودھ اور انڈا نہ کھانا چاہئے، جلالہ ایسے جانوروں کو کہتے ہیں جو آدمی کی جائے ضرورت کی طرف جاتے ہیں اور وہاں سے نجاست کو کھاتے ہیں۔

حضرت علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے مروی ہے، آپ نے فرمایا کہ ایسی نجاست کھانے والی اونٹنی کو چالیس دن تک گھاس وغیرہ خوراک پر باندھ رکھنا چاہئے، گائے کو بیس دن تک، بھیڑ بکری کو سات دن تک، بطخ کو پانچ دن تک اور مرغی کو تین دن تک، پھر اس کے بعد ان کا گوشت کھایا جا سکتا ہے اور ان میں سے جن کا دودھ ہو وہ پیا جا سکتا ہے اور ان میں سے جو پرندے انڈے دیتے ہوں وہ انڈے کھائے جا سکتے ہیں۔

۴۰

۱۶۔ شراب کا سرکہ:
حضرت امام باقر علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپ اس سرکہ کو مکروہ سمجھتے تھے جو شراب بگڑ کر بنتا ہے جبکہ سرکہ بن جانے کا سبب سوائے شراب کے کچھ نہ ہو۔

۱۷۔ حلال میں مکروہ:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؐ غدود، ریڑھ کی ھڈی کا مغز، تلی، نر و مادہ کے اعضائے تناسل، خصبیے اور گردوں کا اندرونی حصہ کھانا مکروہ سمجھتے تھے۔

۱۸۔ مردہ مچھلی وغیرہ:
حضرت امیر المومنین علی علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؐ نے اس دریائی شکار کو کھانے سے منع فرمایا

۴۱

جو پکڑنے سے پہلے (خود بخود) مر کر پانی کی سطح پر پایا جاتا ہے۔

۱۹۔ حلال دریائی جانور:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے، آپ نے فرمایا کہ دریائی جانوروں میں سے صرف انہی جانوروں کو کھانا چاہئے جن کے چھلکے ہوں، آپ کچھوا، کیکڑا، سانپ جیسی مچھلی اور سیپوں میں رہنے والے جانور اور ان اقسام کے تمام جانوروں کو کھانا مکروہ سمجھتے تھے۔

۲۰۔ حرام اور مجبوری:
حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے منقول ہے، آپؑ نے فرمایا کہ مضطر و مجبور آدمی مردار چیز کو کھا سکتا ہے اور ہر حرام چیز کھا سکتا ہے جبکہ وہ اس کو کھانے کے لئے مجبور ہو۔

۴۲

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے، آپؑ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص مردار کھانے پر مجبور ہو جائے تو وہ اتنا کھائے کہ اس کا پیٹ بھر جائے اور جب شراب نوشی کے لئے مجبور ہو تو اتنی پئے کہ سیراب ہو جائے لیکن اس کو یہ عمل بار بار کرنے کا اختیار نہیں ہے مگر یہ ہے کہ وہ پھر مجبور ہو جائے۔

۲۱۔ اہلِ کتاب کا کھانا:
صادقِ آلِ محمد علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ نے اہلِ کتاب کا کھانا کھانے کی رخصت دی ہے اور ان کے علاوہ دوسرے (غیر مسلم) فرقوں کا بھی کھانا کھانے کی رخصت دی ہے، بشرطیکہ کھانے کے اندر ان کا ذبیحہ کا گوشت نہ ہو۔

۲۲۔ مشرکین کا پنیر:
امام باقر علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ سے

۴۳

اس پنیر کا ذکر کیا گیا جس کو مشرکین بناتے ہیں اور وہ اس میں بکری کے ایسے بچے کے پیٹ سے مایہ نکال کر لگاتے ہیں کہ وہ بچہ یا تو مردار ہوتا ہے یا بغیر بسم اللہ کا ذبیحہ، تو آپؑ نے فرمایا کہ جب ایسا معلوم ہو تو اس کو نہ کھایا جائے اور اگر پنیر کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ اس کو کس نے بنایا ہے اور وہ مسلمانوں کے بازار میں فروخت ہوتا ہو تو تم اس کو کھاؤ۔

۲۳۔ شراب کا برتن:
امام باقر علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ سے شراب کے برتن کے متعلق پوچھا گیا تو آپؑ نے اس کو دھو کر استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔

۲۴۔ وہ کھانا جس میں مکھی وغیرہ مر جائے:
حضرت علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے مروی ہے

۴۴

کہ آپؑ نے اس سالن اور کھانا کھانے کی اجازت و رخصت دی ہے جس میں کیڑا مکوڑا، مکھی اور بے خون کا جانور گر کر مر گیا ہو، آپؑ نے فرمایا کہ وہ کسی چیز کو نہ ناپاک کر دیتا ہے اور نہ حرام۔ پس اگر سالن اور کھانے میں خون والا جانور مر کر مائع بن جائے تو وہ کھانا فاسد ہو جاتا ہے اور اگر وہ جانور جامد ہے تو اس کے اردگرد کا حصّہ فاسد ہو جاتا ہے اور کھانے کا بقیہ حصہ کھایا جا سکتا ہے۔

۴۵

فصل۔ ۲
پینے کی چیزوں میں حلال و حرام

۲۵۔ پانی:
سورۃ الفرقان (۲۵) آیت ۴۸ تا ۴۹  میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے: اور ہم نے بلندی سے انتہائی پاک اور نتھرا ہوا پانی برسایا تاکہ ہم اس کے ذریعہ سے مردہ (ویران) شہر کو زندہ (آباد ) کریں۔ (۲۵: ۴۸ تا ۴۹)۔

حضرت امام جعفر الصادقؑ سے، آپؑ کے پدرِ بزرگوار امام باقرؑ سے اور آپؑ کے آبائے کرام علیہم السّلام سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ پانی دنیا و آخرت میں پینے کی چیزوں کا سردار ہے چنانچہ اس پانی کا پینا حلال ہے جس کو اللہ تعالیٰ ہی نے اپنی قدرتِ کاملہ سے پیدا کیا ہے، اس میں آدمیوں کی صنعت

۴۶

کا کوئی دخل نہیں جب تک کہ اس میں کوئی نجاست مخلوط نہ ہو یا کسی ایسی چیز کی آمیزش نہ ہو کہ اس کی وجہ سے اس پانی کا پینا حرام ہو جائے، ہماری معلومات کے مطابق اس پر سب کا اتفاق ہے۔

۲۶۔ دودھ:
اسی طرح جن جانوروں، شکاروں اور چوپایوں کا گوشت کھایا جاتا ہے، ان تمام کا دودھ پینا بھی حلال ہے اور جن کا گوشت کھانا حلال نہیں ہے تو ان کا دودھ پینا بھی حلال نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص مضطر و مجبور ہو تو اس کے لئے جائز ہے۔

حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ سے گدھی کا دودھ بطور علاج و دوا استعمال کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپؑ نے اس کی اجازت و رخصت دی تھی۔

۴۷

۲۷۔ انگور وغیرہ کا رس:
حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے، آپؑ نے فرمایا کہ شراب بننے سے قبل تازہ رس کے پینے میں کوئی حرج نہیں ہے جب تک کہ وہ نشہ آور نہ ہو۔

۲۸۔ شراب:
المائدہ (۵) آیت ۹ میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لا چکے ہو، ماسوا اس کے نہیں ہے کہ شراب اور جوا اور بت اور فال نکالنے کے تیر شیطانی کی پلیدی ہیں۔ پس تم اس شیطانی عمل سے بچے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (۰۵: ۰۹)۔ پس آنحضرت صلعم نے اس ارشادِ الٰہی کے مطابق شراب نوشی سے منع فرمایا ہے، جس طرح کہ حضورؐ نے دوسرے تمام حرام کاموں سے منع فرمایا تھا۔

۴۸

امام جعفر الصادقؑ سے، آپؑ کے پدرِ بزرگوار امام باقرؑ سے اور آپؑ کے آبائے کرام علیہم السّلام سے مروی ہے، کہ آنحضرت صلعم نے فرمایا ہے کہ شراب حرام ہے اور آنحضور صلعم نے عین شراب، اس کے نچوڑنے والے، نچوڑ لینے کے سامان، فرشندہ، خریدار، پینے والے، پلانے والے، اٹھانے والے، رکھنے کے مقام اور اس کی قیمت و آمدنی کھانے والے پر لعنت بھیجی ہے۔

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے، آپؑ نے فرمایا، کہ وہ شخص جو شراب نوشی کا عادی ہو، جب بھی خدا کے حضور میں پیش ہو جائے تو وہ ایک بت پرست کی طرح پیش ہوگا اور جو شخص شراب سے صرف ایک گھونٹ بھی پئے تو پروردگارِ عالم چالیس دن تک اس کی نماز و عبادت قبول نہ کرے گا۔

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے، آپ

۴۹

نے فرمایا کہ تین اشخاص پر جنت حرام کی گئی ہے، وہ شرابی، بت پرست اور آلِ محمد صلعم کا دشمن ہیں، اور جو شخص شراب نوشی کرکے چالیس دن کے اندر اندر مر جائے تو وہ خداوندِ عالم کے حضور میں بت پرست کی طرح پیش ہوگا۔

۲۹۔ منشیات:
حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ نے رسولِ خدا صلعم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں کسی بھی نشہ آور چیز کو حلال قرار نہیں دیتا، ہر نشہ آور چیز، خواہ کم ہو یا زیادہ، حرام ہے۔

حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے مروی ہے، آپؑ نے فرمایا کہ اس شخص سے دوستی و

۵۰

محبت نہ رکھا کرو جو نشہ آور چیز کو حلال ثابت کرنے کا کوشاں ہو کیونکہ جو شخص اسے حرام سمجھتے ہوئے پیتا ہے، وہ نافرمانی میں اس طرح ہلاک نہیں ہو رہا ہے جس طرح کہ کوئی شخص نشہ آور چیز کو اپنے لئے حلال ٹھہراتے ہوئے یا دوسرے کے لئے حلال قرار دیتے ہوئے نافرمانی کی ہلاکت سے ہلاک ہو رہا ہے اور اگرچہ وہ خود نہ پیتا ہو لیکن اسے حلال قرار دینا ہی اس معنی کے لئے کافی ہے کہ وہ پیغمبرِ برحق صلعم کے لائے ہوئے احکام سے بیزاری اور ان کی تردید کر رہا ہے اور نافرمان شیاطین کو خوش کر رہا ہے۔

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے، آپؑ نے فرمایا کہ جس نے کوئی نشہ آور چیز پیا اور اپنی عقل کھو بیٹھا تو اس سے روح الایمان نکل گئی۔

۵۱

فصل۔ ۳
ذبح کرنے کے آداب

۳۰۔ بوقتِ ذبح خدا کا نام:
سورۃ الانعام (۶) آیت ۱۱۸ میں باری تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ: اگر تم اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو تو جس ذبیحہ پر خدا کا نام لیا گیا ہو اس میں سے کھاؤ۔ (۰۶: ۱۱۸)۔

۳۱۔ تیز چھرا:
امام جعفر الصادقؑ سے، آپ کے پدرِ بزرگوار امام باقرؑ سے اور آپؑ کے آبائے کرامؑ سے مروی ہے کہ رسولِ خدا صلعم نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی ذبیحہ کو ذبح کرے تو اسے چاہئے کہ اپنے چُھرے کو تیز

۵۲

کرے اور اپنے ذبیحہ کو نسبتاً آرام پہنچائے۔

۳۲۔ قبلہ اور نخاع:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے، آپؑ نے فرمایا کہ جب تم کسی ذبیحہ کو ذبح کرنا چاہو تو جانور کو غیر ضروری عذاب نہ دو، چُھری تیز کر لو، شرطِ قبلہ کو بجا لاؤ اور بوقتِ ذبح چُھری کو گردن کی ہڈی کے جوڑ سے گزار کر حرام مغز تک نہ پہنچاؤ، حتیٰ کہ اس کی جان نکل جائے۔

امام عالی مقام کے اس ارشادِ گرامی میں “لا تنخعھا” فرمایا گیا ہے جس کے معنی ہیں کہ چُھری کو اس کے ذبح کرنے کی آخری جگہ سے آگے گزار کر حرام مغز تک نہ پہنچاؤ اور ذبح کی آخری حد یہ ہے کہ گردن کی چار رگوں (حلقوم، نرخرہ، اور دونوں شہ رگ) کو کاٹنے کے بعد چھری

۵۳

گردن کی ہڈی کے جوڑ پر ہی روک لی جائے کیونکہ ذبیحہ کی گردن کو توڑ کر حرام مغز کاٹنا سنت کے خلاف ہے جب تک کہ اس میں سے قطعی طور پر جان نہ نکل جائے۔

۳۳۔ بغیر قبلہ کا ذبیحہ:
امام باقر اور امام جعفر الصادق علیہما السّلام سے منقول ہے، ان دونوں حضرات نے ایسے شخص کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے جس نے قبلہ کے بغیر ذبح کیا ہے اور وہ ارشاد یہ ہے کہ اگر اس نے غلطی، بھول اور نادانی کے سبب سے ایسا کیا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اس کا ذبیحہ کھایا جا سکتا ہے اور اگر اس نے قصداً بغیر قبلہ کے ذبح کر دیا ہے تو برا کیا ہے، ایسا ذبیحہ کھایا نہیں جا سکتا جب کہ اس نے قصداً خلافِ سنت عمل کیا ہے۔

۵۴

۳۴۔ بسم اللہ و اللہ اکبر:
حضرت علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے منقول ہے، آپؑ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی جانور کو ذبح کرے تو اسے “بسم اللہ و اللہ اکبر” کہنا چاہئے۔

امام باقر علیہ السّلام کا ارشاد ہے کہ ذبح کرنے والے کو اللہ کا ذکر کرنا بھی کافی ہے، یعنی وہ ذبیحہ پر از قسم تسبیح یا تہلیل جو کچھ بھی اللہ کا ذکر کرے وہ اس کی طرف سے کافی ہے اور اگر قصداً بسم اللہ کہنا چھوڑ دے تو اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے۔ پس اگر اس سے نادانی ہوئی یا وہ بھول گیا تو جب یاد آئے اور کھائے بسم اللہ کہے۔

۳۵۔ حیوان کو عذاب نہ دو:
رسول اللہ صلعم سے منقول ہے کہ آنحضرتؐ نے

۵۵

حیوان کو عذاب دینے سے اور جانوروں کو “صبر” کرنے سے منع فرمایا ہے۔ صبر کے معنی ہیں حبس و قید کرنا جس شخص نے کسی جاندار شے کو قید و بند کر دیا تو اس نے اسے “صبر” کر دیا چنانچہ اسی معنی میں کہا جاتا ہے “قتل فلان صبراً” یعنی فلان شخص کو قید کر کرکے مارا گیا جبکہ اس کو مرتے دم تک حبس میں رکھا جائے پس مصبور و مجبور جانور وہ ہیں جن کو آب و دانہ اور گھاس چارا سے روک رکھا ہو، جیسے جانوروں میں سے مرغی کو باندھ دیا جائے اور اس کو ایک خاص جگہ میں رکھ لیا جائے پھر اس کو آب و دانہ کے بغیر اس طرح پڑی رہنے دیا جائے کہ وہ مر جائے۔

۳۶۔ بغیر ذبح:
امام باقر علیہ السّلام سے مروی ہے، آپؑ نے فرمایا کہ کسی شخص نے کوئی چڑیا بے کار مار ڈالی تو خداوندِ عالم اس شخص کو قیامت کے دن اپنی عدالت گاہ میں

۵۶

حاضر کر لے گا، وہ چڑیا چیخ مار کر کہے گی، اے پروردگار! آپ اس آدمی سے پوچھئے کہ اس نے مجھے بغیر ذبح کے کیوں مار ڈالا؟ پس تم میں سے ہر شخص کو چاہئے کہ حیوان کو تکلیف دینے سے بچے، چھری کو تیز کر لے اور جانوروں کو عذاب نہ دے۔

۳۷۔ کھال اتارنا اور سر جدا کرنا:
رسولِ خدا صلعم سے مروی ہے کہ آپؐ نے ذبیحہ کی کھال اتارنے یا سر کاٹنے سے منع فرمایا ہے، یہاں تک کہ اس کی جان نکل جائے اور حرکت بالکل بند ہو جائے۔

۳۸۔ گلے میں ذبح کی جگہ:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے، آپؑ نے فرمایا کہ جانور کو مذبح پر ذبح کرو یعنی سر اور

۵۷

گردن کے درمیان جہاں غلصمہ ہے اس کے نیچے اس طرح ذبح کرو کہ غلصمہ سر کے ساتھ بالکل سالم رہ جائے، چھری کو گردن کی ہڈی کے جوڑ سے گزار کر حرام مغز تک نہ پہنچاؤ، اور گردن نہ توڑو حتیٰ کہ اس کی جان نکل جائے۔

غلصمہ کو معلوم کر لینے کے لئے ہاتھ سے جانور کے حلق پر ٹٹولا جا سکتا ہے۔ غلصمہ حلقوم کی گرہ کا نام ہے، بعض کے نزدیک یہ زبان کی جڑ ہے، اور بعض کے نزدیک یہ حلقوم کا سرا ہے مگر ان ناموں سے ذبح کی جگہ کے تعین میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

۳۹۔ چھری کو حرام مغز تک نہ پہنچاؤ:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آپؑ سے اس شخص کی بابت پوچھا گیا جس نے ذبیحہ کی جان نکل جانے سے قبل چھری کو گردن کی ہڈی کے جوڑ سے

۵۸

گزار کر حرام مغز تک پہنچا دیا ہے یعنی اس کی گردن توڑ دیتا ہے، آپؑ نے فرمایا کہ اس نے برا کیا لیکن اس کو کھانے میں کوئی حرج نہیں۔

۴۰۔ ذبح کے ساتھ سر جدا کر دینا:
رسول اللہ صلعم سے منقول ہے کہ آنحضرتؐ نے ذبح کرتے وقت ذبیحہ کا سر جدا کر دینے سے منع فرمایا ہے۔

۴۱۔ قصاب کو ہدایت:
حضرت علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ نے حضرت رفاعہ کو خط لکھا، یہ وہی رفاعہ بن شداد ہے جو شہر اہواز میں حضرت امیر المومنین علیہ السّلام کا قاضی تھا، خط کا موضوع یہ تھا کہ قصابوں کو حکم دو کہ وہ جانوروں کو عمدگی سے ذبح کریں اور جو

۵۹

قصاب ہڈیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے تو اس کو سزا دو اور اس نے جو جانور ذبح کیا ہے اس کو کتوں کے سامنے ڈلوا دو۔

ہڈیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا شاید اس لئے منع کیا گیا ہے کہ اگر ہڈی کا کوئی چھوٹا سا ٹکڑا یا ریزہ غذا کے ساتھ غلطی سے کھا لیا جائے تو یہ منہ یا حلق یا آنتوں وغیرہ میں جا کر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ لہٰذا قصاب کے علاوہ بھی گوشت کاٹتے وقت احتیاط اور ہوشیاری سے کام لیا جائے۔

۴۲۔ نادانستگی سے سر کو جدا کر دینا:
امام باقر علیہ السّلام سے مروی ہے، آپؑ نے فرمایا کہ ذبح کرنے والا قصداً ذبیحہ کے سر کو بوقتِ ذبح جدا نہ کر دے۔ اگر اس نے نادانستگی سے ایسا کیا ہے تو پھر کوئی حرج نہیں۔

۶۰

۴۳۔ تیز چھری کی وجہ سے سر کا جدا ہو جانا:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آپؑ نے اس شخص کے متعلق فرمایا جو بوقتِ ذبح قصداً سر کو الگ تو نہیں کرتا مگر چھری تیزی کے سبب سے گزر جاتی ہے اور ذبیحہ کے سر کو علاحدہ کر دیتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر اس نے قصداً ایسا نہیں کیا ہے تو اس کے ذبیحہ کو کھایا جا سکتا ہے۔

۴۴۔ حلق کے سوا ذبح:
رسولِ خدا صلعم سے مروی ہے کہ آپؐ نے حلق کے سوا کہیں اور ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے، یعنی جبکہ اس سنت پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

امام باقر علیہ السّلام نے فرمایا کہ ایسا ذبیحہ نہ کھایا جائے جس کو ذبح کرنے کی جگہ سے ذبح نہ کیا گیا ہو۔

۶۱

امام جعفر الصادق علیہ السّلام نے فرمایا کہ اگر کوئی بیل یا اونٹ کنویں یا گڑھے میں گر پڑے یا قابو سے نکل جائے اور اس کے مذبح و منحر (ذبح اور نحر کی جگہ) پر قدرت حاصل نہ ہو تو بسم اللہ کہہ کر جہاں ممکن ہو نیزہ مارا جائے اور اسے کھایا جائے۔

۴۵۔ لوہے کے بغیر ذبح:
رسول اللہ صلعم سے منقول ہے کہ آپؐ نے لوہے کے بغیر کسی اور چیز سے ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے نیز حضرت علی مرتضیٰ ، امام باقر اور امام جعفر الصادق علیہم السّلام سے مروی ہے، ان تمام حضرات أئمّۂ طاہرین  علیہم السّلام نے فرمایا ہے کہ لوہے کے ہتھیار کے سوا کسی اور چیز سے ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔

۶۲

۴۶۔ چھوٹی عمر کے جانوروں کا ذبح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ آپؐ نے مادہ جانور کے پیٹ کے بچے کو نیز ان جانوروں کے دودھ پیتے بچوں کو کسی خاص سبب کے بغیر ذبح کرنا مکروہ قرار دیا ہے۔

۶۳

فصل ۔ ۴
کسی کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانے یا نہ کھانے کا مسئلہ

۴۷۔ یہودی، نصرانی وغیرہ کا ذبیحہ:
امام باقر علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آپؑ سے یہودی، نصرانی اور مجوسی کے ہاتھ کا ذبیحہ نیز اہلِ خلاف کے ہاتھوں کے ذبائح کھانے یا نہ کھانے کی بابت پوچھا گیا تو آپؑ نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد تلاوت فرمایا جو سورۃ الانعام (۶) آیت ۱۱۸ میں ہے کہ: فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ ۔ یعنی جس ذبیحہ پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہے اس کو کھاؤ۔ (۰۶: ۱۱۸)۔

آپؑ نے فرمایا کہ جب تم ان کو بوقتِ ذبح اللہ کا ذکر کرتے ہوئے سنو تو ان کا ذبیحہ کھاؤ اور جس ذبیحہ پر اللہ کے نام کا ذکر نہ ہو تو اس کو نہ کھانا، اور ان اہلِ ادیان میں سے جو گروہ یا جو شخص بوقتِ ذبح

۶۴

اللہ کا نام ترک کرنے میں متہم ہو اور اللہ کا نام لئے بغیر اسے حلال سمجھتا ہو تو اس کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں مگر یہ ہے کہ ذبیحہ کو بوقتِ ذبح دیکھا گیا ہو اور اس نے سنت کے مطابق ذبح کر دیا ہو اور اس پر اللہ کا نام لیا ہو تو پھر اس کا کھانا جائز ہے اور اگر ایسی جگہ ذبح کیا ہے جہاں تم نے نہیں دیکھا ہو تو ایسا ذبیحہ نہ کھایا جائے۔

۴۸۔ بازاری گوشت:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے آپ سے اس گوشت کے بارے میں پوچھا گیا جو بازاروں میں فروخت ہوتا ہے اور یہ معلوم نہیں کہ قصابوں نے جانور کو کیسے ذبح کیا ہے تو آپؑ نے فرمایا کہ اس گوشت کے کھانے میں کوئی حرج نہیں جب کہ ان کے ذبح کے متعلق کوئی ایسی اطلاع نہ ہو کہ انہوں نے خلافِ

۶۵

سنت ذبح کیا ہے۔

۴۹۔ اعراب نصرانی کا ذبیحہ:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ نے اعراب نصرانیوں کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا ناپسند اور مکروہ فرمایا ہے۔

واضح رہے یہودی، نصرانی، مجوسی وغیرہ کے ذبیحہ کا ذکر اس سے قبل ہو چکا ہے یہاں صرف اعراب نصرانی کے ذبیحہ کا بیان ہے چنانچہ اعراب کے معنی ہیں عرب کے گنوار اور بدو، اور نصرانی عیسائی کو کہتے ہیں پس اعراب نصرانی کا مطلب ہے عرب کے بدو یا صحرا نشین عیسائی۔

۵۰۔ مرتد کا ذبیحہ:
امام باقر علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آپؑ نے

۶۶

مرتد کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانے سے منع فرمایا ہے (مرتد وہ ہے جو دینِ اسلام سے پھر گیا ہو)۔

۵۱۔ بچے، اندھے اور عورت کا ذبیحہ:
امام باقر اور امام جعفر الصادق علیہما السّلام سے منقول ہے کہ دونوں حضرات نے بچے کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانے کی رخصت دی ہے، جب کہ وہ ذبح کر سکتا ہو اور جس طرح ذبح کرنا چاہئے اسی طرح ذبح کرے اسی طرح اندھے کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانے کی رخصت دی ہے جب کہ اس کو قبلہ رو سیدھا کر دیا گیا ہو، نیز ان حضرات نے عورت کے ذبیحہ کو کھانے کی رخصت و اجازت دی ہے، جب کہ وہ عمدگی کے ساتھ ذبح کرے۔

۵۲۔ طہارت اور ذبح:
حضرت علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے منقول ہے

۶۷

کہ آپؑ سے طہارت کے بغیر ذبح کرنے کی بابت پوچھا گیا تو آپؑ نے اس کی رخصت دے دی۔

۵۳۔ گونگے کا ذبیحہ:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ نے گونگے کا ذبیحہ کھانے کی رخصت دی ہے، جب کہ وہ بسم اللہ کہنا سمجھتا ہو اور وہ (اپنی آواز وغیرہ سے) اس کا اشارہ کرتا ہو۔

۶۸

فصل۔ ۵
صحیح ذبح کی شناخت

 

سورۃ المائدہ (۵) آیت ۱ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: احلت لکم بھیمۃ الانعام ، یعنی تمہارے لئے چرنے والے مویشی حلال کئے گئے۔ (۰۵: ۰۱)

۵۴۔ جانور کے پیٹ کا بچہ:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ سے آیۂ کریمہ “احلت لکم بھیمۃ الانعام” کے متعلق سوال کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ جانور کا وہ بچہ جو اپنی ماں کے پیٹ میں ہو جب اس پر بال اور اون نکل آئے تو اس کا ذبح کرنا (بس یہی کہ) اس کی ماں کو ذبح کرنا ہے امام علیہ السّلام کے اس ارشاد کے معنی یہ ہیں کہ (جانور کو ذبح کیا جائے اور اس کے پیٹ کے بچے کو ذبح نہ کیا جائے کیونکہ) خود ماں کو ذبح

۶۹

کرنا ہی بچے کو ذبح کرنا ہے اور اگر جنین یعنی پیٹ کے بچے پر بال اور اون نہ نکلے ہوں تو اس کو نہ کھایا جائے۔

۵۵۔ پاک ذبیحہ:
جو شخص کسی حلال اور جائز جانور کو حلق پر “غلصمہ” کے نیچے ذبح کرے اور ذبح سنت کے مطابق ہو چنانچہ اس نے حلقوم، نرخرہ اور گردن کی دونوں شہ رگوں کو کاٹ ڈالا اور خون کو بہا دیا اور اس کے اس فعل سے ذبیحہ کی جان نکل گئی تو ہمارے علم کے مطابق اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ایسا ذبیحہ پاک ہے۔

۵۶۔ اگر جانور کا کوئی حصہ کٹ کر جدا ہو جائے:
امام زین العابدین اور امام باقر علیہما السلام

۷۰

سے منقول ہے دونوں حضرات نے فرمایا کہ ذبح کرنے سے قبل حیوان کے جسم سے اگر کوئی حصہ کٹ کر جدا ہو جائے تو وہ حصہ مردار کے برابر ہے اسے نہ کھایا جائے اگر ایسے جانور کو ذبح کرنے کے لئے بروقت رسائی ہو سکے تو اسے ذبح کر کے باقی حصہ کھایا جائے۔

۵۷۔ صحیح ذبح کی علامت:
حضرت علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ صحیح ذبح کی علامت تو یہ ہے کہ ذبیحہ بوقتِ ذبح آنکھ پھرائے یا اس کا پیر حرکت کرے یا اس کی دم یا کان ہل جائے پس اگر ان علامتوں میں سے کچھ بھی نہ ہو اور ذبیحہ سے بوقتِ ذبح صرف خون بہہ جائے جب کہ اس نے کوئی حرکت نہیں کی ہے تو اسے نہ کھایا جائے۔

۷۱

۵۸۔ پیروں پر چھری سے مارنا:
امام باقر علیہ السّلام سے مروی ہے آپؑ نے فرمایا کہ ذبیحہ کے ساتھ نرمی کی جائے ذبح سے پہلے اور بعد میں اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کی جائے چنانچہ آپؑ نے ذبیحہ کے پیروں کو چھری سے مارنا ناپسند فرمایا ہے۔

۵۹۔ اگر ذبیحہ بلند جگہ سے گر جائے یا پانی یا آگ میں لڑھک پڑے:
امام باقر علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آپؑ سے ایسے ذبیحہ کی بابت پوچھا گیا جو ذبح کے بعد بلند جگہ سے گر جاتا ہے یا پانی یا آگ میں لڑھک پڑتا ہے آپؑ نے فرمایا کہ اگر تم نے عمدہ طریقے سے ذبح کر دیا ہے اور جو واجب ہے اس کو ادا کر دیا ہے تو پھر اس کو کھاؤ۔

۷۲

۶۰۔ جانور کو لٹا کر ذبح کیا جائے:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپ سے اس بکری کے بارے میں پوچھا گیا جس کو کھڑا رکھ کر ذبح کیا جاتا ہے آپؑ نے فرمایا کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے سنت تو یہ ہے کہ اسے پہلو کے بل قبلہ رو لٹا کر ذبح کر دیا جائے۔

۶۱۔ اونٹ نحر کرنے کا طریقہ:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے آپ سے پوچھا گیا کہ اونٹ کو ذبح کیا جائے یا نحر کیا جائے؟ آپؑ نے فرمایا کہ سنّت تو یہ ہے کہ اسے نحر کیا جائے، عرض کیا گیا کہ نحر کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ آپؑ نے فرمایا کہ اونٹ کو قبلہ رو کھڑا کیا جائے اور اس کا ایک ہاتھ باندھ دیا جائے اور جو شخص نحر کرے وہ قبلہ کی طرف کھڑا رہے اور چوڑی چھری سے اس کی چھاتی اور گردن کے

۷۳

درمیان منحر (نحر کرنے کی جگہ) میں مارے یہاں تک کہ وہ اس کو کاٹے اور کافی گہرا پھاڑ ڈالے اور اس کا دل چر جائے۔

اونٹ کے نحر کرنے کی جگہ کا نام عربی میں لبۃ (منحر) ہے فارسی میں “گودئ بین گردن و سینہ” لکھا ہے یعنی وہ گڑھا جو اونٹ کی گردن اور سینہ کے درمیان واقع ہے بروشسکی میں ایس کھپون کہا جاتا ہے۔

۶۲۔ آیا گائے کو ذبح کیا جائے یا نحر؟
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپ سے گائے کے متعلق پوچھا گیا کہ اس کے ساتھ کیا کیا جائے؟ آیا اس کو ذبح کیا جائے یا نحر کیا جائے؟ آپؑ نے فرمایا کہ سنت تو یہ ہے کہ اس کو پہلو کے بل لٹا کر ذبح کیا جائے اور اگر (بوقتِ ضرورت) نحر کیا گیا تو کوئی حرج نہیں۔

۷۴

۶۳۔ سنت کے خلاف ذبح:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے آپ سے ایسے ذبیحہ کے متعلق پوچھا گیا جو گردن کے پیچھے سے ذبح کیا گیا ہو آپؑ نے فرمایا کہ اگر یہ قصداً نہ کیا گیا ہو تو پھر اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر کسی نے قصداً پسِ گردن سے ذبح کیا ہے حال آنکہ وہ سنتِ نبوّی سے واقف تھا تو اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے اور اس کو اچھی طرح سے ادب سکھایا جائے۔

۶۴۔ اگر حلال و حرام مخلوط ہو جائیں:
حضرت علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آپؑ سے دو مذبوحہ بکریوں کی بابت پوچھا گیا جن میں سے ایک پاک ہے اور دوسری ناپاک، اب پتہ نہیں چلتا کہ ان دونوں میں سے پاک کون سی ہے، آپؑ نے فرمایا کہ ایسی صورت میں دونوں کو پھینک دیا جائے۔

۷۵

فصل ۔ ۶
شکار میں حلال و حرام

۶۵۔ شکار کرنا حلال ہے:
سورۃ المائدہ (۵) آیت ۹۶ میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ اُحِلَّ لَكُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَ طَعَامُهٗ مَتَاعًا لَّكُمْ وَ لِلسَّیَّارَةِۚ-وَ حُرِّمَ یعنی تمہارے اور قافلے کے فائدے کے لئے دریائی شکار اور اس کا کھانا ( تو ہر حالت میں ) حلال کر دیا گیا ہے اور جب تک تم حالتِ احرام میں رہو تم پر خشکی کا شکار حرام کر دیا گیا ہے۔ (۰۵: ۹۶)۔ نیز اسی سورۃ (۵) کی آیت ۲ میں ارشادِ ربّانی ہے کہ  وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْاؕ ، اور جب تم احرام کھولو تو شکار کر سکتے ہو۔ (۰۵: ۰۲)۔

۶۶۔ گھونسلے میں پرندے کا شکار:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ

۷۶

رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ پرندہ اپنے گھونسلے میں خدا کی امن و پناہ میں محفوظ ہے پس جب اڑ جائے تو اگر تم چاہو تو شکار کر سکتے ہو۔ امام جعفر الصادق علیہ السّلام نے فرمایا کہ پرندوں میں سے وہی پرندہ شکار ہو جاتا ہے جس نے اپنے ربّ کی تسبیح و تقدیس کو ضائع کر دیا ہو۔

۶۷۔ کبوتر کا شکار:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آپؑ نے شہروں میں کبوتر کا شکار کرنے سے منع فرمایا ہے، اور دیہات میں اس کے شکار کی اجازت دی ہے۔

۶۸۔ شکار کا حق کس کو ملنا چاہئے؟
حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے مروی ہے ، آپؑ نے فرمایا، کہ شکار کے جانور پر اسی کا حق

۷۷

ہے، جو پکڑنے یا مارنے میں سابق ہو۔

۷۸

فصل۔ ۷
شکاری جانوروں کا شکار

سورۃ المائدہ (۵) آیت ۴ میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ: وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِ حِ مُكَلِّبِیْنَ، اور وہ شکاری جانور جن کو تم نے سکھایا ہے۔ (۰۵: ۰۴)۔

۶۹۔ شکاری جانور:
امام جعفر الصادقؑ سے، آپؑ کے پدر بزرگوار امام باقرؑ سے اور آپؑ کے آبائے کرام علیہم السّلام سے مروی ہے کہ علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے آیتِ مذکورہ کی بابت پوچھا گیا توآپؑ نے فرمایا کہ اس آیت میں “جوارح” سے کتے مراد ہیں اور “جارح” کمانے والے کو کہتے ہیں اور اس معنی میں خداوند تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ: وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ، اور تم نے دن میں جو کچھ کمایا ہے اللہ

۷۹

اس سے واقف ہے۔ (۰۶: ۶۰)

۷۰۔ سکھائے ہوئے کتوں کا شکار:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ سکھائے ہوئے شکاری کتے جس شکار کو پکڑ لیں اس کا کھانا حلال ہے اور اگرچہ شکاری کتے اس جانور کو جان سے مار ڈالیں، لیکن جس شکار کو ایسے کتے مار ڈالیں کہ وہ سکھائے ہوئے نہیں ہیں تو اسے نہیں کھایا جا سکتا اس کے معنی یہ ہیں کہ شکاری کتے کو چھوڑتے وقت بسم اللہ کہا گیا ہو تو اس کا پکڑا ہوا شکار کھایا جا سکتا ہے اور اگر بھول کر بسم اللہ نہ کہا گیا ہو تو ایسے شکار کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۷۱۔ اگر شکاری جانور شکار سے کچھ کھائے:
امام باقر اور امام جعفر الصادق علیہما السّلام سے

۸۰

منقول ہے کہ دونوں حضرات نے ایسے شکار کے کھانے کی اجازت دی ہے جس کو سکھائے ہوئے کتے نے پکڑا ہو اور اگرچہ کتے نے اسے جان سے مار ڈالا اور اس میں سے کچھ کھا لیا ہو مگر ان دونوں حضرات نے ایسے شکار کو کھانے کی اجازت نہیں دی ہے جس کو شکاری پرندے نے پکڑ کر اس میں سے کچھ کھا لیا ہو۔

حضرت امام مہدی باللہ علیہ السّلام فرماتے تھے کہ شکاری پرندہ جس شکار کو پکڑے اس کو کھایا جا سکتا ہے، آپؑ یہ بھی فرماتے تھے کہ کتا کبھی کبھار دیوانہ ہو جاتا ہے اور آپؑ کے اس قول سے آپؑ کے آبائے کرام علیہم السّلام کے قول کی مخالفت نہیں ہوتی کیونکہ آپؑ کے آبائے کرام علیہم السّلام نے دیوانہ کتے کا پکڑا ہوا شکار کھانے کی اجازت نہیں دی ہے انہوں نے تو صرف اس کتے کے شکار کو کھانے کی اجازت دی ہے جو سکھایا ہوا تندرست ہو یعنی جس میں داء الکلب (کتے کی بیماری)

۸۱

نہ ہو اور امام مہدی با للہ علیہ السّلام کا یہ ارشاد کہ شکاری پرندے کا پکڑا ہوا شکار کھایا جا سکتا ہے تو یہ شکاری پرندہ ان شکاری جانوروں میں سے ہے جن کے پکڑے ہوئے شکار کو کھانا اللہ تبارک و تعالیٰ نے حلال کر دیا ہے۔

۷۲۔ شکاری پرندے:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے کہ حضرت علی مرتضیٰ علیہ السّلام نے فرمایا کہ شکرے اور باز شکاری جانوروں میں سے ہیں۔

۷۳۔ چیتا اور اس کا شکار:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے آپؑ نے فرمایا کہ سکھایا ہوا چیتا کتے کی طرح ہے اور وہ جس شکار کو پکڑے اس کو کھایا جا سکتا ہے اور امام جعفر الصادق علیہ السّلام کا یہ ارشاد اس بنیاد (یعنی آیۂ کریمہ)

۸۲

پر ہے جس کا ہم نے قبلاً شکاری جانوروں کے متعلق تذکرہ کیا ہے۔

۷۴۔ کالا کتا:
رسول اللہ صلعم سے منقول ہے کہ آپؐ نے کالے کتے کا شکار کھانے سے منع فرمایا ہے اور اسے مار ڈالنے کا حکم دیا ہے اور یہ حکم صرف اس کتے کی بابت ہے جو بالکل ہی کالا ہو۔

۷۵۔ سکھائے ہوئے کتے:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے، آپؑ نے فرمایا کہ سکھائے ہوئے کتے سب کے سب ایک ہی درجہ رکھتے ہیں، ان میں کردی کتا سلوقی کتے کی طرح ہے۔

۸۳

۷۶۔ بغیر بسم اللہ کا شکار:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے، آپؑ نے شکار کے بارے میں فرمایا کہ جس نے شکار کی طرف کتے کو چھوڑتے ہوئے بسم اللہ نہ کہا ہو تو وہ اس کو نہ کھائے یعنی صرف اس شکار کو نہ کھایا جائے جو بالکل مر چکا ہو اور جس کی طرف کتے کو چھوڑتے ہوئے بسم اللہ کہنا قصداً ترک کر دیا ہو پس اگر بسم اللہ نہ کہنے کا سبب صرف فراموشی اور نادانستگی ہو تو اس صورت میں وہ شخص اپنے شکار کو کھا سکتا ہے اور اگر ایسے کتے کا شکار زندہ ہے تو اسے سنت کے مطابق ذبح کیا جائے۔

۷۷۔ شکار کا زندہ ہاتھ آ کر پھر مر جانا:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ نے ایسے شکار کے بارے میں فرمایا جسے شکاری کتا پکڑتا ہے اور آدمی اس کو زندہ پاتا ہے پھر وہ شکار کتے

۸۴

کے پکڑنے کی وجہ سے وہیں مر جاتا ہے، آپؑ نے فرمایا کہ تم اسے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے پیشِ نظر کھاؤ ” فَكُلُوْا مِمَّاۤ اَمْسَكْنَ عَلَیْكُمْ یعنی تم اس شکار کو کھاؤ جسے شکاری جانوروں نے تمہارے واسطے پکڑ رکھا ہو، سورۃ ۵ آیت ۴ (۰۵: ۰۴)” البتہ وہ شکار جسے خود شکاری نے زندہ پکڑا تھا لیکن اس نے اس کو ذبح کرنے میں سستی کی یا اپنے گھر کی طرف لے کر چلا گیا پس وہ شکار مر گیا جب کہ کتے نے اسے مارا نہیں تھا تو اس صورت میں اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔

۷۸۔ مجوسی کا کتا:
حضرت علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے مجوسی کے کتے کے بارے میں فرمایا کہ اس کا شکار نہ کھایا جائے مگر یہ ہے کہ مسلمان نے اس کو لے کر گلے میں پٹہ باندھا ہو اور سکھا کر اس کو شکار پر

۸۵

چھوڑا ہو پس اگر ایسے کتے کو مسلمان شکار پر چھوڑے تو اس کا شکار کھانا جائز ہے خواہ اس نے کتے کو سکھایا بھی نہ ہو۔

۸۶

فصل ۔ ۸
شکاریوں کے اسلحہ کا شکار

۷۹۔ ہتھیار اور ہاتھ کا شکار:
المائدہ (۵) آیت ۹۴ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُهٗۤ اَیْدِیْكُمْ وَ رِمَاحُكُمْ” یعنی اے وہ لوگو! جو ایمان لا چکے ہو، ضرور اللہ تعالیٰ شکار میں سے ایسی چیز سے تمہاری آزمائش کرے گا، جس پر تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچیں گے۔ (۰۵: ۹۴)۔

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ جب کوئی آدمی شکار پر تلوار مار کر یا اس میں نیزہ لگا کر یا اس کو تیر کا نشانہ بنا کر مار ڈالتا ہے ساتھ ہی ساتھ اس نے بسم اللہ بھی کہا ہے تو

۸۷

اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۸۰۔ شکار کا ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا:
آپ نے ایسے شخص کی بابت ارشاد فرمایا جو شکار کی طرف تیر چلاتا ہے مگر یہ تیر شکار تک نہیں پہنچتا اور اس سے پیشتر کہ یہ شخص شکار کے نزدیک پہنچ جائے کچھ دوسرے لوگ جلدی سے جا کر اپنی تلواروں سے اس شکار کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں آپ نے فرمایا کہ اس کا کھانا حلال ہے۔

آپ سے ایسے وحشی حمار یعنی گورخر کے بارے میں پوچھا گیا جس کی طرف لوگ بھاگ کر اس کو گھیرتے ہوئے اپنی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے ہیں اور انہوں نے اس پر خدا کا نام بھی لیا ہے آپ نے فرمایا کہ وہ فوری قسم کا ذبیحہ ہے اس کا گوشت حلال ہے۔

۸۸

۸۱۔ شکار کا مردہ پایا جانا:
امام جعفر الصادق علیہ السلام سے مروی ہے آپ نے ایسے شخص کے متعلق فرمایا ہے جو کسی شکار کو مارتا ہے پس وہ شکار زخم کو برداشت کرتے ہوئے اِدھر اُدھر بے قرار پھرتا ہے کیوں کہ اس میں تیر یا نیزہ پھنسا ہوا ہوتا ہے یا شدید زخم کی وجہ سے ایسا ہی ہوتا ہے پھر وہ شکاری کی نظروں سے غائب ہو جاتا ہے پھر دوسرے دن شکاری ایسے شکار کو مرا ہوا پاتا ہے اور اس میں اس کا اپنا تیر وغیرہ ہوتا ہے یا ایسا ہو کہ شکاری نے تلوار یا تیر سے شکار کے کسی نازک حصے میں مارا تھا (بہر حال اسی روز یا دوسرے روز) معلوم ہوا کہ یہ شکار کسی اور سبب سے نہیں بلکہ اسی شکاری کے فعل سے مر گیا ہے تو اس کا کھانا حلال ہے۔

 

۸۹

فرہنگِ تمہید:

 

صاحبانِ امر۔
تبارک: بابرکت، برکت والا۔
تعالیٰ: بلند ہوا، اصطلاحاً بلند ہے۔
مبارک: برکت دینے والا۔
مبارک: برکت دیا ہوا۔
فرمان: شاہی پروانہ، شاہی حکم، اصطلاحاً امام کا امر۔
منشاء: ہونے کی جگہ، پیدا ہونے کی جگہ، مراد، مطلب، سبب۔
تنزیل: نازل کرنا، اتارنا، ترتیب دینا، قرآنِ شریف ، اصطلاحاً ظاہری معنی، جس میں تاویل نہ ہو۔
تاویل: حقیقت، اصلیت، اصطلاحاً باطنی معنی، حکمت
منزلِ تاویل: تاویل اور حکمت اترنے کی جگہ، یعنی پیغمبر اور امام علیہما السلام۔
مظہر: جائے ظہور، ظاہر ہونے کی جگہ۔

استخراج : نکالنا، نکال لینا۔

۹۱

استنباط: باطنی معنی نکالنا۔
فرمان گزار : حکم ادا کرنے والا، حکم پہنچانے والا۔
کارفرما : کام بتانے والا، حکم کرنے والا، آقا۔
اہلِ بیت : گھر والے، گھر کے لوگ، اصطلاحاً پنجتنِ پاک اور أئمّۂ برحق علیہم السّلام۔
أئمّہ : امام کی جمع۔
سلسلہ : زنجیر ، ترتیب، نسل، اولاد، خاندان، شجرۂ نسب۔
تائید: مدد کرنا، قوّت دینا، اصطلاحاً وہ معجزانہ مدد جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔
بمقتضای زمان و مکان : وقت اور جگہ کے تقاضہ کے مطابق، یعنی زمانہ اور ملک کی صورتِ حال کے موافق۔
عتاب : غصہ کرنا، خفا ہونا، ملامت کرنا۔
معنوی گہرائی : معنی کی گہرائی، باطن کی گہرائی
رجوع : لوٹنا، پھرنا، توجہ کرنا، لوٹانا
آسمانی کتاب: وہ کتاب جو آسمان سے نازل ہوئی ہے، وہ کتاب جو روحانیّت کی بلندی سے کسی پیغمبر

۹۲

کے مبارک دل میں اترنے کے بعد ظاہر ہوتی ہے۔

آلِ ابراہیم۔
امامِ مستقر: امام کے درجات میں سے ایک درجہ، جس میں امامت نسلاً بعد نسل ہمیشہ کے لئے ٹھہری رہتی ہے، مستقر کے معنی ہیں جائے قرار، ٹھہرنے کی جگہ۔
امامِ مستودع : امامت کے درجات میں سے ایک درجہ جس میں امامت ایک پشت یا چند پشتوں تک امانت ہوتی ہے، مستودع کے معنی ہیں جائے امانت، امانت رکھنے کی جگہ، مستقر اور مستودع کی یہ دونوں اصطلاحیں قرآنِ پاک کی ۰۶: ۹۸ اور ۱۱: ۰۶ سے ماخوذ ہیں۔
عظام : عظیم کی جمع، بزرگ۔
کرام : کریم کی جمع، سخی اور بزرگ لوگ۔

۹۳

رسول اور أئمّہ علیہم السّلام۔
افراط : زیادتی، حد سے بڑھنا۔
تفریط : کسی کام میں کمی اور کوتاہی کرنا۔
صاحبِ تاویل: تاویل کا مالک یعنی امام علیہ السّلام۔
درایت : عقل، دانائی۔

کتاب دعائم الاسلام۔
دعائم: دعامہ کی جمع، ستون۔
فقہ: دین کا علم، شریعت کا علم، قانونِ شریعت۔
مملو: بھرا ہوا۔
املا: لکھنا۔
متداول: مروج، ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں جانے والی چیز۔
شائع: عام، مشہور، ظاہر، پھیلا ہوا۔

۹۴

دعائم الاسلام کا اردو ترجمہ۔
ثمرہ: میوہ، پھل، نتیجہ۔
معتقدین: اعتقاد رکھنے والے۔
تدقیق: باریک بات کا نکالنا، بات کی باریکی میں جانا۔

فصولِ پاک اور اس کی وجہِ تسمیہ۔
وجہِ تسمیہ: نام رکھنے کی وجہ۔
اسباب: سبب کی جمع۔
علل: علت کی جمع، اسباب، وجوہ۔
مبنی: بنایا گیا۔
تبرکاً و تیمناً: خیر و برکت کے لحاظ سے، مبارک اور متبرک جان کر۔

۹۵

فرہنگِ فصول

۱۔ حرام: حلال کی ضد، ناجائز، ممنوع۔
مردار:  مرا ہوا، ناپاک، وہ جانور جو بغیر شرعی ذبح کے مر چکا ہو۔

شرعی طور پر جانور کے گلے کو کاٹنا۔ :ذبح
ذبیحہ: وہ جانور جو شرعاً ذبح کہا جانے والا ہے یا ذبح کیا گیا ہے۔
مجبوری، لاچاری۔ :اضطراری

بت خانہ، بت کدہ، مندر، آتشکدہ وغیرہ  :۲۔ تھان
نیاز گزارنا، قربانی کرنا۔:چڑھانا
تیروں سے قسمت معلوم کرنا: زمانۂ جاہلیت کی ایک رسم جس میں تیروں سے فال کا کام لیا جاتا تھا۔

جس میں بہت سا مطلب جمع کیا ہو۔:۳۔ محمل
قسم، گونہ۔ :نوع
قسمیں۔:انواع

۹۶

نبات کی جمع، سبزیاں، اگنے والی چیزیں۔:نباتات
باعث، سبب۔:موجب

حیوان کی جمع، جانور، جاندار۔  :۴۔ حیوانات
جنگلی، جو جانور پالتو نہ ہو۔:وحشی
شکاری جانوروں کے دانت، اگلے دانت۔:کچلی
سنگ دان، حوصلہ، جو حلال پرندوں میں ہوتا ہے۔:پوٹا

۸،۷،۶۔ درندہ: چیرنے پھاڑنے والا جانور۔
بجو: ایک شکاری جانور، جس کو عربی میں ضبع اور فارسی میں کفتار کہتے ہیں۔
مباح: جائز کیا گیا، روا، حلال۔

۹،۱۰،۱۱۔ سوسمار: گوہ جس کو عربی میں ضب کہتے ہیں، جو چھپکلی کی قسم کا مگر اس سے بہت بڑا جانور ہے۔
جنگلی چوہا: اس کو عربی میں قنفذ اور فارسی میں خارپشت کہتے ہیں۔
مذبوحہ : ذبح کیا گیا۔

۹۷

۲۰،۱۹،۱۵۔  استبراء : بے عیب ہونا، پاک ہونا۔
سیپ: عربی اور فارسی میں اس کو صدف کہتے ہیں، یہ ایک قسم کے سمندری جانوروں کا خول ہوتا ہے، موتی پیدا کرنے والا جانور بھی سیپ اسی قسم میں شامل ہے اور اس کا بھی ایسا ہی خول ہے۔
مضطر: مجبور، لاچار۔

۲۱،۲۲،۲۴۔ اہلِ کتاب: یہود اور نصاریٰ ، موسیٰ علیہ السّلام کی قوم اور عیسیٰ علیہ السلام کی قوم۔
مشرکین : خدا کی ذات و صفات میں کسی دوسرے کو شریک کرنے والے، آنحضرت صلعم کی نبوّت و رسالت کی تکذیب کرنے والے، یعنی اہلِ اسلام کے ماسوا جو بھی ہیں (دیکھو کتاب دعائم الاسلام حصّۂ دوم عربی صفحہ ۲۴۷۔۲۴۸ روایت نمبر ۹۴۲)۔
مائع : سیال، رقیق چیز، پتلی چیز، بہنے والی شے۔

۹۸

فاسد:  خراب، بگڑا ہوا، تباہ۔

۲۸،۲۹۔ جوا کھیل: قمار بازی، ہر وہ کھیل جو روپیہ لینے دینے کی شرط پر کھیلا جائے۔

منشیات:  منشی کی جمع، نشہ والی چیزیں، نشہ آور چیزیں۔

۳۲،۳۴۔ نخاع:  حرام مغز، ریڑھ کی ہڈی کا گودا، حیوان کی گردن کی وہ سفید رگ، جس میں حرام مغز ہوتا ہے، جو پشت کے مہروں سے گزر کر دم کے آخری مہرہ تک لمبائی میں چلی گئی ہے، دعائم الاسلام حصّہ دوم عربی کے صفحہ ۱۷۲ پر لکھا ہے: “و ھو عظم فی العنق” یعنی وہ (نخاع) گردن میں ایک ہڈی ہے، اس ہڈی سے شاید وہ جوڑ مراد ہے، جو کہ ذبیحہ کی گردن پیچھے کی طرف کھینچنے سے جدا ہوتا ہے اور اس کے نیچے سے حرام مغز ظاہر ہو جاتا ہے۔

تسبیح: خدا کی پاکیزگی بیان کرنا، سبحان اللہ

 

۹۹

یعنی خدا پاک ہے کہنا۔

 

تہلیل:  لا الٰہ الا اللہ کہنا۔
۴۷،۵۵۔ مجوسی:  گبر، آتش پرست ، آفتاب پرست، ماہتاب پرست، ستارہ پرست۔
اہلِ خلاف:  وہ لوگ جن کے نظریات مخالف ہوں۔
حلقوم: حلق کی وہ رگ (نلی) جس سے دانہ پانی جاتا ہے۔
نرخرہ : وہ رگ (نلی) جس سے جانور سانس لیتا ہے۔

۶۵،۶۶،۶۸۔  احرام: حج کے آداب میں سے ابتدائی ادب، جس میں حج سے پہلے بعض حلال و مباح چیزوں کو اپنے اوپر حرام و ناجائز قرار دیا جاتا ہے اور ایسا کرنے کے لئے بیت اللہ شریف کے چو طرف میلوں دور مقامات مقرر ہیں۔

تقدیس:  خدا کی پاکیزگی بیان کرنا۔

۱۰۰

سابق:  سبقت لے جانے والا، آگے بڑھا ہوا۔

 

نصیر ہونزائی
تمام شد

۱۰۱

تصانیفِ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی

شمار نامِ کتاب
۱۔ سلسلۂ نورِ امامت
۲۔ نغمۂ اسرافیل
۳۔ میزان الحقائق
۴۔ شرافت نامہ
۵۔ منظوماتِ نصیری
۶۔ مفتاح الحکمت
۷۔ فلسفۂ دعا
۸۔ مطلوب المؤمنین
۹۔ ثبوتِ امامت
۱۰۔ وجہِ دین حصۂ اول
۱۱۔ وجہِ دین حصۂ دوم
۱۲۔ پیر پندیاتِ جوانمردی
۱۳۔ پیر ناصر خسرو اور روحانیت
۱۴۔ مقالاتِ نصیری حصۂ اول
۱۵۔ فصولِ پاک

۱۰۲

۱۶۔ آئینۂ روح (غ م)
۱۷۔ درسِ اخلاق (غ م)
۱۸۔ تفسیرِ کلمۂ طیبہ (غ م)
۱۹۔ تفسیرِ سورۂ فاتحہ (غ م)
۲۰۔ درختِ طوبیٰ فارسی (غ م)
۲۱۔ درختِ طوبیٰ اردو (غ م)
۲۲۔ تحفہ بہ اسماعیلیان (غ م)
۲۳۔ گلشنِ خودی (غ م)
۲۴۔ نقوشِ حکمت (غ م)
۲۵۔ قرآن اور امام (غ م)
۲۶۔ روشنائی نامہ (غ م)
۲۷۔ امام شناسی (غ م)
۲۸۔ خضر نامہ (غ م)
۲۹۔ تجہیز و تکفین (غ م)
۳۰۔ حقیقتِ نور (غ م)

نوٹ: غ م کا مطلب ہے غیر مطبوعہ یعنی چھپی نہیں۔

۱۰۳

ضروری تصحیحات

سطر صفحہ
مطبع ۵ ۲
تنزیل و تاویلِ قرآن ۷ ۸
تک اس دنیا ۱۵ ۹
علیہم السلام کی اس ۸ ۱۲
لتکونوا ۶ ۱۳
اسی گروہ ۲ ۱۴
آیۂ کریمہ ۲ ۳۲
(مرنے کے قبل) ۹ ۳۲
علیہما السلام ۱۴ ۸۰
علیہ السلام ۹ ۸۳

 

۱۰۴

قانونِ کُل

قانونِ کل

دیباچہ

۱۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو خدا نے تمہارے قابو میں کر دیا ہے، اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دی ہیں، اور بعض لوگ ایسے ہیں کہ خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں نہ علم رکھتے ہیں نہ ہدایت اور نہ کتابِ روشن (سورۂ لقمان۳۱: ۲۰)۔ اَ لَمْ تَرَوْا= کیا تم نے نہیں دیکھا؟ قرآنِ حکیم کا یہ خطاب یقیناً  اہلِ معرفت سے ہے کہ یہی حضرات فنا فی اللہ کے بعد کائنات کو اپنے لئے مسخر دیکھتے ہیں، کیونکہ ایسے میں خدا عارف کا ہاتھ ہو جاتا ہے، جس سے یہ کائنات کو لپیٹتا اور پھر پھیلاتا ہے، یعنی وہ اس کائنات کو فنا کر کے ایک اور کائنات کو پیدا کرتا ہے (حدیثِ قدسی: اجعلک مثلی، حدیثِ نوافل)۔

۲۔ اس آیۂ کریمہ کی تعلیم میں علم و حکمت کا سارا جہان سمیٹا ہوا ہے، اور یہ خداوندِ علیم و حکیم کی شانِ قدرت ہے، کہ اس کی ہر

۵

آیۂ شریفہ ایک صحیفۂ سماوی ہے، جس کے اسرارِ حکمت کو صرف اہلِ بصیرت دیکھ سکتے ہیں، چنانچہ تسخیرِ کائنات جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، اور تمام ظاہری و باطنی نعمتوں کا خداوندی انعام، انتہائی جامع الجوامع مضمون ہے، جس کی کوئی تفسیر لکھنے کے لئے ایک طویل عمر بھی کم ہے، مگر یہاں ایک بہت ہی ضروری اور مختصر سوال یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے قرآنِ پاک کی نعمتوں کو جاننا اپنا فرض سمجھتے ہیں: قرآنِ مقدس کی ظاہری نعمتیں کیا ہیں؟ اور باطنی نعمتیں کیا ہیں؟

۳۔ جواب: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ ۔ ۔ ۔ (ھزار حکمت، لفظِ تاویل۲۱ دفعہ) ظاہر سے مراد تنزیل ہے اور باطن کا مطلب تاویل، پس قرآن کی ظاہری نعمتیں تنزیل میں ہیں، اور باطنی نعمتیں تاویل میں، قرآنی حکمت آشکار نہیں، بلکہ پنہان ہے، اس لئے یہ تاویل ہی ہے، چنانچہ حکمت کی جس شان سے تعریف فرمائی گئی ہے، وہ تاویل کی تعریف ہے، اسرارِ قرآن سب کے سب باطنی نعمتیں ہیں، اور وہ تاویلات ہیں، سورۂ یوسف کی آیتِ ششم (۱۲: ۰۶) میں ذرا غور سے دیکھئے کہ تاویل خدا کی نعمت ہے، اگر کسی مومن پر روحانی قیامت گزرتی ہے، تو اس واقعۂ عظیم کی ساری باتیں بلکہ تمام چیزیں تاویل کہلاتی ہیں، جو باطنی نعمتیں ہیں۔

۴۔ آپ نے آیۂ کریمہ کے آخری حصے میں بھی غور کیا ہوگا،

۶

وہ یہ ہے: اور بعض لوگ ایسے ہیں کہ خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں (حالانکہ) نہ علم رکھتے ہیں نہ ہدایت اور نہ کتابِ روشن (۳۱: ۲۰) یہاں علم سے علم الیقین مراد ہے، ہدایت عین الیقین کا نام ہے، اور کتابِ منیر حق الیقین ہے، انہی درجات میں معرفت ہوتی ہے، جس کے بغیر اللہ کے بارے میں اگر کوئی شخص بحث کرتا ہے تو وہ گویا ایک جھگڑا ہے علم و معرفت ہرگز نہیں۔

۵۔ قرآنِ حکیم سر تا سر اسرارِ علم و حکمت سے مملو ہے، ان اسرا رمیں سب سے بڑا سر (بھید) اَلحَیُّ القَیُّوْمُ ہے (۰۲: ۲۵۵، ۰۳: ۰۲، ۲۰: ۱۱۱) انتہائی حیرت کی بات ہے کہ یہ راز سب کے سامنے عیان ہے پھر بھی نہان ہی ہے، اور یہی راز حوامیم (حٰمٓ کی جمع) میں بھی ہے، اور حٰمٓ سات سورتوں کے آغاز میں ہے، جیسے سورۂ دخان (۴۴: ۰۱ تا ۰۳) میں ہے: حٰمٓ۔ وَ الکِتٰب اْلمُبِیْنِ۔ اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَتہٍ مُّبٰرَکَتہٍ: قسم ہے اَلْحَیُّ الْقَیّوم کی اور قسم ہے کتابِ مبین کی کہ ہم نے اس (یعنی قائم) کو ایک بابرکت رات (یعنی حجت) میں نازل کیا ہے۔ ح= الحی، م= القیوم یعنی خدا کے دو بزرگ نام بصورتِ دو بزرگ امام، جن کا تعلق ساتویں قیامت سے ہے، وہ الحیّ القیوم کی طرح دو بھی ہیں، اور حٰمٓ کی طرح ایک بھی، ان کی عددی تاویل یہ ہے: ح= ۸، م=۴۰، جمع: ۴۸، الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

۶۔ سورۂ شوری (۴۲: ۰۱ تا ۰۲) میں ہے: حٰمٓ۔ عٓسٓقٓ= الحیّ القیوم

۷

کی قسم اور(مقدّس) عشق کی قسم۔ چونکہ قرآنِ حکیم سات حرفوں پر نازل ہوا ہے، لہٰذا یہاں عٓسٓقٓ میں حرفِ سین کو شین پڑھنا بھی درست ہے، خدائے بزرگ و برتر، رسولِ کریمﷺ، اور أئمّۂ طاہرینؑ کا مقدّس عشق بیحد گران قدر ہونے کی وجہ سے بطورِ خزانہ مخفی رکھا گیا ہے، جس کو صرف عشاق ہی تلاش کرکے حاصل کر لیتے ہیں، راہِ دین میں ترقی کی خواہش تقریباً سب کو ہے، اور بہت سے لوگ کوشش بھی کرتے رہتے ہیں، لیکن مختلف وجوہ سے عشق حاصل نہیں ہوتا ہے، بنا برین نا کامی ہوتی ہے۔

۷۔ نظریات میں اختلاف ہوتا رہتا ہے، اس کی کوئی بات نہیں، لیکن بہت ہی ضروری سوال یہ ہے کہ عشق کے نام سے انسان میں ایک زبردست صلاحیت یا قوّت موجود ہوتی ہے یا نہیں؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ ہاں ہوتی ہے، تو میں دوسرا سوال کروں گا کہ عشق کی قوّت انسان میں کس مقصد کے پیشِ نظر پیدا کی گئی ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہاں آپ کو ٹھیک ٹھیک سوچ کر کچھ کہنا پڑے گا، میں تو یہ کہوں گا کہ قوّتِ عشق دنیا کے لئے نہیں، بلکہ دین کے لئے ہے۔

۸۔ قرآنی ارشاد ہے کہ قیامت اچانک (نا گاہ، ناگہان) یعنی لوگوں کی بے خبری اور غیر شعوری میں آنے والی ہے (۴۳: ۶۶، ۴۷: ۱۸) اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ایک باطنی اور روحانی واقعہ ہے، بَغْتۃً

۸

کا ترجمہ”اچانک” ہے، بَغَتَہ بمقابلۂ جَھْرَۃ بھی آیا ہے (۰۶: ۴۷) آپ ان حوالہ جات میں غور کریں، قیامت یقیناً باطنی اور روحانی ہے، وہ انتہائی عظیم واقعات کا مجموعہ ہے، ہر چند کہ لوگوں کو آزمانے کی غرض سے قرآنِ حکیم نے واقعاتِ قیامت کو الگ الگ بیان فرمایا ہے، وقوعِ قیامت کے بغیر عالمِ شخصی کے کچھ معنی نہیں ہیں، خود شناسی اور خدا شناسی واقعۂ قیامت ہی کے خزانوں میں پوشیدہ ہے، اور روحانی قیامت ہی سے قدردانو ں کو علم الیقین کے تازہ بتازہ تحائف ملتے رہتے ہیں۔

۹۔ کتاب کی وجہ تسمیہ: اس کتا ب کا پسندیدہ نام “قانونِ کل” ہے، جس کی خاص وجہ یہ نہیں کہ اس کتاب کے تمامتر مضامین میں قانونِ کل کا براہِ راست بیان ہے، ایسا تو نہیں، لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ ان شاء اللہ ہماری علمی خدمت کی ہر ناچیز کوشش قرآنی قانونِ کل کی روشنی میں کی گئی ہوگی، جب ہم یہ مانتے آئے ہیں کہ خدا کائناتِ علمی کو لپیٹتا بھی ہے اور پھیلاتا بھی ہے، چونکہ خود کلامِ الہٰی ایک علمی کائنات ہے، لہٰذا قادرِمطلق قرآن کو ہر کلّیہ میں سمیٹتا ہے اور پھیلاتا ہے، اس کا عظیم تر مقصد یہ ہے کہ قرآنی علم و حکمت کی اس یکجائی سے اہلِ ایمان بآسانی استفادہ کر سکیں، جیسے سورۂ قمر (۵۴: ۱۷) میں ہے: اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کر دیا تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟ اللہ تعالٰی نے قرآن کے ساتھ ساتھ

۹

اپنی طرف سے ایک زندہ نور بھی نازل کیا، جس کی وجہ سے نہ صرف قرآن فہمی آسان ہو گئی، بلکہ قرآن کی روح و روحانیّت تک رسائی اور معرفت بھی ممکن ہو گئی، اور یہی سبب ہے کہ یہاں ہر کلّیہ میں قرآن مرکوز ہونے کی بات ہو رہی ہے۔

۱۰۔ جدید انتساب: میں آج بھر پور شادمانی کے ساتھ اٹلانٹا کے اپنے عزیزوں کا ذکرِ جمیل کرنا چاہتا ہوں کہ کس طرح ذکر و مناجات اور علم میں ان کی ترقی ہو رہی ہے، کس خوبی سے وہ اپنے فرائض کو انجام دے رہے ہیں، ان کی عاجزی، نرم دلی، خوش خلقی، دینداری، گریہ وزاری، شب خیزی، اخلاص، مولا کے لئے محبت، علمی خدمت کا جذبہ، اور دیگر بہت سی خوبیاں قابلِ تعریف ہیں، میں ان کی اچھی اچھی عادات کے بارے میں سنتا رہتا ہوں، وہ صفِ اوّل کے مومنین میں سے ہیں، کتنی بڑی نیک بختی ہے کہ وہ پاک مولا کے عشق میں آنسو بہاتے ہیں، ان شاء اللہ ان سب کی روحانی اور علمی ترقی ہو رہی ہے، وہ اب میری کتابوں سے بہت دلچسپی رکھتے ہیں، لہٰذا میں ان کو اور دوسرے تمام شاگردوں کو بیحد عزیز رکھتا ہوں، یہ پیاری پیاری کتابیں دراصل میری نہیں ہیں، میرے بیحد محبوب جانان کی ہیں، یہ بات سچ اور حقیقت ہے، کیونکہ یہ کتابیں اگر میری ہوتیں تو اس وقت بھی موجود ہوتیں، جبکہ میں ہنوز جانان میں فنا نہیں ہوا تھا، پھر یہ کتنا بڑا

۱۰

امتحان ہے کہ کہا جاتا ہے کہ یہ نصیر الدین کی کتابیں ہیں۔

۱۱۔ میرے بہت ہی عزیز لائف گورنر غلام مصطفی مومن سیکریٹری، اور بہت ہی عزیز لائف گورنر موکھی نزار علی، علی بھائی کوآرڈینیٹر، ان دونوں عملداروں کے ساتھ گفتگو ہوئی تھی، اور اب ان کی طرف سے یہ خوش آئند مشورہ بھی آیا ہے کہ میں اٹلانٹا کے دو خوش نصیب خاندانوں کے اسمائے گرامی کو دانشگاہِ خانۂ حکمت کی تاریخ میں درج کروں، وہ پیارے پیارے نام حسبِ ذیل ہیں۔

پہلی فیملی: لائف گورنرسلطان علی لاڈجی، تاریخِ پیدائش: ۲۰ فروری ۱۹۵۸۔ شوکت بانو لاڈجی، وائف، ۹ اپریل۱۹۵۹۔

عظیم سلطان علی، بیٹا، ۴ مارچ ۱۹۹۲ء۔

دوسری فیملی: نصیر الدین خان جی، تاریخِ پیدائش: ۸اپریل۱۹۶۰ء

خیر النساء خان جی، وائف، ۲۰اپریل۱۹۶۶۔

حنا خان جی، بیٹی، ۸اپریل۱۹۹۱ء۔

کاشف خان جی، بیٹا، ۲۴اپریل۱۹۹۲ء۔

کومل خان جی، بیٹی، ۳۰۔ اپریل۱۹۹۴ء۔

۱۲۔ میں صبح نورانی وقت کی بندگی کے بعد اپنے جملہ عزیزان کے حق میں بڑی عاجزی سے دعا کرتا ہوں، میری ہستی میں جتنے کروڑ سیلز (خلیات) ہیں، میری روح کے جس کثرت سے بھی ذرات ہیں، اور ہمارے ایک ہوشمند شاگرد مسٹر عظیم علی، وزیر علی

۱۱

لاکھانی کی ریسرچ کے مطابق ہماری اوریجنل کتابوں کے دس ہزار سے زیادہ صفحات ہیں، یہ ساری چیزیں دعا کرتی رہتی ہیں ان شاء اللہ، یہ تمام دعائیں قبول ہو جائیں گی، اور خداوندِ قدوس کے خزائنِ رحمت سے فیوض و برکات کی روح پرور بارش برستی رہے گی۔ آمین !یا ربّ العالمین!!

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

مارگلہ ٹاورز۔ اسلام آباد

منگل ۲۳ ذوالحجہ ۱۴۱۸ھ ۲۱ اپریل ۱۹۹۸

۱۲

قانونِ کل

 

۱۔ اللّٰھُمَّ اِنّیِ اَسْئَالُکَ بِاَسْماءِ کَ الْحُسْنیٰ (۰۷: ۱۸۰، ۱۷: ۱۱۰، ۵۹: ۲۴) اے اللہ! میں تجھ سے بھیک مانگتا ہوں تیرے اسماءُ الحسنیٰ کی حرمت سے۔ جن کا ذکرِ جمیل قرآن و حدیث اور ارشاداتِ أئمّہ علیہم السّلام میں موجود ہے، یا اللہ! یہ بندۂ زار و ضعیف و ناتوان جو از بس نادان و نالائق ہے وہ تجھ سے ہمت و توفیق کے لئے گریہ کنان درخواست کرتا ہے، اے مالک اے میرے آقا! یہ تیرا غلامِ کمترین اب نہ جانے کیوں بار بار “یا طبیبی یا طبیبی” کہتا رہتا ہے!اے حکیمِ آسمانی اے طبیبِ روحانی! ہم مریضانِ ظاہر و باطن کو سوزو سازِ عشق سے علاج کر، ہمیں ایسی پُرحکمت گریہ و زاری عطا فرما، جو تیرے پاک دیدار اور تیری خوشنودی کی غرض سے ہو، یا ربّ العزّت! تیرے نور سے زمینِ باطن اور زمینِ ظاہر کب منور ہو جائے گی (۳۹: ۶۹)؟

۲۔ اے رفیقان و عزیزان!علم کو بیان کرنے سے قبل میں

۱۳

اپنے آپ کی نفی کرتا ہوں کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں، میں خاکِ پائے اہلِ ایمان کے برابر بھی نہیں ہوں، لیکن جو نعمتِ عظمیٰ عنایت ہوئی ہے۔ اس سے میں ہرگز ہرگز انکار نہیں کر سکتا ہوں، کیونکہ علمی گواہی کو چھپانا بہت بڑا ظلم ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: (۰۲: ۱۴۰)وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَھَادَۃً عِنْدَہ‘ مِنَ اللہِ= اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے جو اپنے پاس موجود خدائی شہادت کو چھپائے۔ پس اے دوستانِ عزیز! آئیے ہم مل کر قانونِ کل کی باتیں کریں، تاکہ اس سے رفتہ رفتہ سب کو فائدہ حاصل ہو، آمین!

۳۔ قانونِ کل سے اصلاً سنتِ الٰہی مراد ہے، جس کی ترجمانی و تفصیل نورِ منزل اور کتابِ مبین میں ہے، اور ان دونوں سر چشموں کا خلاصۂ مطلب بعض ایسی آیاتِ کریمہ میں ہے، جن کی معنویت و حکمت میں ہمہ رسی و ہمہ گیری ہوتی ہے، لہٰذا ہم نے اس نوع کی آیاتِ مبارکہ کے مجموعے کو قانونِ کل کہا، کیونکہ ایسے ارشادات میں اکثر لفظِ “کل” آتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ لِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا= نیز لوگوں نے جیسے کام کئے ہوں گے انہی کے مطابق سب کے درجے ہوں گے (۴۶: ۱۹) اس کلیہ سے یہ معلوم ہوا کہ بہشت میں لوگوں کے الگ الگ درجات ہوتے ہیں۔

۴۔ ہر ایسی آیۂ شریفہ بھی قانونِ کل میں سے ہے جو وَ اِنْ مِّن شَیْئٍ کے الفاظ کے ساتھ ہے (۱۵: ۲۱، ۱۷: ۴۴) اگر ارض و سما سے متعلق

۱۴

کوئی تذکرہ ہے تو یہ بھی قانونِ کل ہی کا ذکر ہے، کیونکہ آسمان و زمین میں کل پھیلائی ہوئی چیزیں موجود ہیں، اب شاید یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ قانونِ کل کے جاننے سے کیا کیا فائدے ہو سکتے ہیں؟ اس کا جواب یوں ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو سچ مچ کوزے میں دریا کو بند کر سکے، لیکن اس کے برعکس خداوند تعالٰی وہ قادرِ مطلق ہے جو اپنے علم کے بحرِ محیط کو کوزۂ قانونِ کل میں بند کر کے دکھاتا ہے، یہ کام کائنات کو اپنے مبارک ہاتھ میں لپیٹنے سے مختلف نہیں، پس قرآن کے ہر کلیہ (قانونِ کل) میں بے شمار فائدے ہیں۔

۵۔ بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ قرآن میں ان بیشمار چیزوں کا کوئی تذکرہ کیوں نہیں ہے جو آج کی دنیا میں بڑی اہمیت کے ساتھ موجود ہیں؟ میں کہتا ہوں کہ ہر چیز کا ذکر سب سے پہلے قانونِ کل میں موجود ہے، جیسے سورۂ نحل (۱۶: ۸۹) میں ارشاد ہے: وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ = اور یہ ایسی کتاب (قرآن) ہم نے تم پر اتاری ہے جو تمام چیزوں کا بیان کرنے والی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآنِ عزیز کئی طریقوں سے کل اشیاء کو بیان کرتا ہے، اور کوئی چیز اس کے احاطۂ بیان سے باہر نہیں ہے، کیونکہ قرآن کا ایک ظاہر ہے، اور ایک باطن، اور باطن در باطن کا سلسلہ سات یا ستر تک جاتا ہے، اور قرآن کے تمام بواطن عالمِ شخصی میں ہوتے ہیں، اور عالمِ شخصی کائنات کی حدود

۱۵

تک پھیل جاتا ہے، درین صورت قرآن کا باطن بھی ساری کائنات پر محیط ہو جاتا ہے، پھر یقین کریں کہ قرآنِ حکیم کی گہرائی اور گیرائی میں اشیائے کائنات مستغرق ہیں، پس کتابِ الٰہی کے ظاہر و باطن اور کلّیات (قانونِ کل) کے بیان سے باہر کوئی چیز کس طرح ہو سکتی ہے۔

۶۔ آج مادّی سائنس کی انقلابی ترقی کے ساتھ ساتھ دنیا میں جتنی نت نئی اور عجیب چیزیں ایجاد ہوئی ہیں، ان سب کا حکیمانہ تذکرہ قرآنِ عظیم کے بہت سے ارشادات میں آیا ہے، خاص کر ایسی آیاتِ مبارکہ میں، جن کو ہم قانونِ کل کہتے ہیں، جیسے یہ ارشاد ہے: وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘-وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (۱۵: ۲۱) اور کوئی شیٔ ایسی نہیں جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں اور ہم ہر شیٔ کو ایک معلوم مقدار میں نازل کرتے ہیں۔ اس کلّیہ کی تعلیم اس طرح سے ہے کہ خدا کی نظرمیں کوئی نئی چیز نہیں ہے، جبکہ تمام اشیائے ممکنہ اس کے خزانوں میں ہمیشہ موجود ہیں، یہاں یہ نکتۂ دلپذیربھی یاد رہے کہ اس جہان میں اللہ کے دو نمائندہ اور رہنما خزانے ہیں، وہ نورِ منزل اور کتابِ مبین ہے (۰۵: ۱۵) جب آپ مرتبۂ عین الیقین پر فائز ہو جائیں گے تو خدا کی قسم!اس وقت آپ اپنے عالمِ شخصی ہی میں نور(امامؑ) اور کتاب (قرآن) کے معجزۂ وحدانیت کو دیکھیں گے اور دوسرے خزائن بھی وہیں ملیں

۱۶

گے، اب آپ ہی کچھ بتائیں کہ یہ دونوں نمائندہ اور رہنما خزانے کیسے ہیں؟ کیا ان میں صرف اشیائے ممکنہ کا ظاہری بیان ہے یا ہر چیز کا عرفانی مشاہدہ بھی ہے؟

۷۔ سورۂ یاسین کی تعریف میں یہ حدیثِ شریف مشہور ہے: اِنَّ لِکُلِّ شَیْئٍ قَلْباً وّ قَلْبُ الْقُرْاٰنِ یٰسنٓ = ہر چیز کا دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۂ یٰسینٓ ہے۔ یہ ایک بہت بڑا راز بھی ہے اور امتحان بھی، انسان کا دل تین معنوں میں ہوتا ہے: قلبِ جسمانی، قلبِ روحانی اور قلبِ عقلانی، قرآن کا دل اس کا نور ہے (۰۵: ۱۵) قرآن کا دل سورۂ یٰسٓ اس وجہ سے ہے کہ اس میں امامِ مبین کا عظیم کلّیہ مذکور ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَكُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے تمام اشیائے لطیف کو امامِ مبین میں گھیر کر رکھا ہے۔ یعنی اللہ تعالٰی کے سارے خزانے امامِ مبین میں جمع ہیں۔

۸۔ فنا کی ترتیب یہ ہے: فنا فی الامامؑ، فنا فی الرسولؐ، فنا فی اللہ، کیونکہ خدا تک جانے کا حقیقی راستہ یہی ہے، حالانکہ سب سے بڑی چیز قرآن ہے، پھر بھی فنا فی القرآن کی اصطلاح کہیں نہیں ملتی ہے، آیا اس میں کوئی نا شکری ہو سکتی ہے؟ نہیں نہیں، جب ہم امامِ زمانؑ میں فنا ہو جائیں گے تو اسی میں ہم کو دیگر خزانوں کے ساتھ گنجِ قرآن بھی ملے گا، کیونکہ امام قرآن میں بھی ہے

۱۷

اور قرآن امام میں بھی ہے جبکہ امام علیہ السّلام ہی لوحِ محفوظ ہے جیسا کہ مولاعلی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: اَنَا اللوح الْمَحْفُوظٍ= یعنی میں ہی لوحِ محفوظ ہوں (کوکبِ دری) اور سورۂ بروج میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے: بَلْ ھُوَ قُرْآنٌ مَّجِیْدٌ۔ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) بلکہ وہ باعظمت قرآن ہے جو لوحِ محفوظ میں موجود ہے۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ عالمِ علوی میں نورِ محمدؐ ہی قلمِ اعلیٰ ہے اور نورِعلیؑ لوحِ محفوظ، اللھم صل علٰی محمد و آل محمد۔

۹۔ اے عزیزِ من! آپ کو یہ تو معلوم ہے کہ ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت سے ہوتی ہے۔ لہٰذا آئیے ہم اعظم الاٰیات (آیت الکرسی) کو دیکھتے ہیں، جس میں کلیۂ امام (۳۶: ۱۲) سے متعلق سب سے اعلیٰ اور لاجواب تفسیر ہے، جس کو مولائے پاک کا ہر عاشق ہمیشہ عشق و محبت سے یاد کرتا رہے گا، وہ عظیم اور پُرازحکمت کلمات یہ ہیں: وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ (۰۲: ۲۵۵) اس کی کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے۔ یہ کلیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کی سب سے عظیم الشّان تفسیر ہے، کیونکہ حقیقت یوں ہے: کرسی= نفسِ کلّی= لوحِ محفوظ= امامِ مبین، حضرتِ امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام بظاہراس دنیا میں ہے، بباطن عالمِ علوی میں، جہاں اس کا مرتبہ ہے: وجہُ اللہ (صورتِ رحمان) اس انتہائی پاک چہرے سے نور الانوار کا خورشیدِ تابان ہمیشہ طلوع و غروب ہوتا رہتا ہے۔

۱۸


۱۰۔ اس خورشید میں تمام حقائق و معارف جمع ہیں، من جملہ یہ لپیٹی ہوئی کائنات بھی ہے، چنانچہ جب یہ آفتابِ نورِ اقدس صورتِ رحمان (کرسی ) میں غروب ہو جاتا ہے، تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ: خدا کی کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندرلے رکھا ہے (۰۲: ۲۵۵) نیز اس کے معنی ہیں: اور ہم نے تمام اشیائے لطیف (جوہرِ کائنات) کو امامِ مبین میں گھیر کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲)۔

۱۱۔ “منزہ مالک الملکی کہ بے پایان حشر دارد” کے مطابق قیامت باطنی طور پر ہمیشہ جاری و ساری ہے، اور اللہ جل جلالہٗ ہر مخفی قیامت میں صرف علم و حکمت کے آسمانوں اور زمین کو لپیٹتا ہے، نہ کہ مادّی کائنات کو، جیسے سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۴) میں اس کا واضح اشارہ موجود ہے کہ قیامت میں ارض و سما کو لپیٹنا اس طرح ہے جس طرح خطوط یا (چھاپ شدہ) کتابو ں کے کاغذ کو فولڈ کیا جاتا ہے (کَطَیِّ السِّجِلِّ اِلْکُتُبِ) اس سے معلوم ہوا کہ خداوندِ عالم اپنے بے پابان علم کے سمندر کو کوزۂ قانونِ کل میں بند کرتا ہے، یا یہ کہ وہ پاک اپنے جملہ اسرارِ معرفت کا سب سے عظیم خزانہ بنا دیتا ہے، تاکہ جس سے اپنے بندوں کو بدرجۂ انتہا نوازے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مالا مال فرمائے، الحمد للہ۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی۔ کراچی

بدھ ۱۸ ذی قعدہ  ۱۴۱۸ھ ۱۸ مارچ ۱۹۹۸ء

۱۹

کثرتِ ذکر اور اطمینانِ کُلی

 

۱۔ سورۂ رعد میں حق سبحانہ‘ و تعالٰی کا ارشادِ مبارک ہے: الا بذکر اللہ تطمئن القلوب (۱۳: ۲۸) یاد رکھو کہ ذکرِ خدا ہی سے قلوب مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یعنی حضرتِ ربّ العزّت کو بکثرت اور ہمیشہ ہمیشہ یاد کرنے سے اہلِ ایمان کو اطمینانِ کلّی کی دولتِ لازوال نصیب ہوجاتی ہے، اور اس حقیقت میں کوئی شک ہی نہیں کہ ذکرِ الٰہی اسماءُ الحسنٰی ہی سے کیا جاتا ہے، اور وہ بڑی کثرت سے کرنا ضروری ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں اس کا حکم موجود ہے، تاکہ ذاکرین کو اطمینانِ کلّی حاصل ہو، جس سے ہر قسم کا قلبی سکون مراد ہے۔

۲۔ آیۂ مذکورۂ بالا کے حقیقی اور اوّلین مصداق تو انبیاء و اولیاء علیہم السّلام ہی ہیں کہ انہی حضرات کو اللہ تعالٰی ذکرِ کثیر کی نعمتِ عظمٰی عطا فرماتا ہے، اور جبینی درجے کے اطمینان بخش معجزات سے نوازتا رہتا ہے، تاہم اس کی رحمت میں بے پایان وسعت ہے،

۲۰

لہٰذا ان قدسیوں کے پیچھے پیچھے راہِ مستقیم پر چلنے والوں کو بھی اسی طرح نوازتا ہے، پس ہمیشہ خدا کی یاد میں مصروف رہنے والے مومنین و مومنات کے لئے تمام قرآن میں بشارت ہی بشارت ہے، آپ دیکھیں اور جملہ شرائط کو خوب غور سے پڑھیں۔

۳۔ جب خداوندِ قدوس اپنے پاک عشق اور پُرنور ذکر سے کسی بندے کے قلب کو منور اور مطمئن کر دینا چاہتا ہے تو ایسے شخص کو دائمی ذکر و عبادت کی توفیق و ہمت عنایت فرماتا ہے تاکہ وہ علم و عبادت کی مسلسل ریاضت سے رفتہ رفتہ اپنے نفسِ امّارہ کو نفسِ لوّامہ بنائے، اور نفسِ لوّامہ کو بالآخر نفسِ مطمئنہ کے درجے پر لائے، ان شاء اللہ تعالٰی، اور مومن کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:۔

تو اے سکون و اطمینان یافتہ نفس! اپنے ربّ کی طرف پلٹ جا، اس حالت میں کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ بھی تجھ سے راضی ہے، پس میرے خاص بندوں (کی وحدت) میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا (سورۂ فجر۸۹: ۲۷ تا ۳۰) یہ عظیم الشّان ارشاد یقیناً عارفین و کاملین کے بارے میں ہے جو زندگی ہی میں کثرتِ ذکر اور حقیقی علم سے فنا فی اللہ ہوکر گنجِ مخفی حاصل کر لیتے ہیں، پس ذکرِ خدا سے دلوں کو اطمینانِ کلّی حاصل ہونے کے معنی یہی ہیں۔

۲۱


۴۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ قرآنِ حکیم سر تا سر حکمتِ بالغہ ہے، یعنی اس کے ہر مضمون، ہر بیان، ہر مثال، اور ہر آیت میں ایسی عجیب و غریب، عظیم، اور مضبوط حکمتیں ہیں کہ ان میں سے ہر ایک حکمت نورانی رسی کی وحدت میں نازل کی گئی ہے تاکہ آپ جب جب علم و معرفت کی روشنی میں کسی بھی حکمت کی رسی سے منسلک ہوجائیں گے تو وہ آپ کو معجزانہ طور پر فوراً ہی حظیرۂ قدس میں پہنچا دے، پس حکمتِ بالغہ کی یہ ایک مثال ہے۔

۵۔ یہ بالکل سچ اور حقیقت ہے کہ اہلِ ایمان کے قلوب دنیا میں کسی طرح سے بھی مطمئن نہیں ہوتے مگر یادِ الہٰی سے، جس میں علم ومعرفت کا انتہائی عظیم راز ہے، جس کا بیان ہوچکا، ہاں یہ درست ہے کہ ذکرِ خدا سے جو اطمینان ملتا ہے، وہ آسمان تک ایک سیڑھی کی طرح ہے، جو زینہ بزینہ اور درجہ بدرجہ چڑھنے کے لئے ہے، اور ہاں اللہ تعالیٰ کی پاک یاد بھی حکمتِ بالغہ (خدا تک پہنچا دینے والی حکمت ) ہے، لہٰذا اسمِ اعظم اور اس کا ذکر بھی آسمانی رسی اور سیڑھی ہے تاکہ ہر نیک بخت آدمی کثرتِ ذکر اور اعلیٰ علم کے اس وسیلے سے عالمِ علوی کی طرف لوٹ سکے۔

۶۔ جیسا کہ آپ اس ارشادِ نبوّی سے باخبر ہیں کہ ہر شخص کے دل کے پاس دو ساتھی ہیں: ایک جنّ اور ایک فرشتہ، وہ اگر

۲۲

خدا کو بھول جاتا ہے تو جنّ (شیطان) پریشان کن وسوسوں کاسلسلہ شروع کرتا ہے، اور اگر کوئی با سعادت مومن دائم الذّکر ہو جاتا ہے تو فرشتہ نہ صرف ذکر ہی میں ہم آہنگی کرتا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ خدا کے حکم سے نیک توفیق، ھدایت، اورالقائے علم کا کام بھی کرتا رہتا ہے، یقیناً  یہ روحانی ترقی کا اعلیٰ مقام ہے، پس آپ بصد عاجزی گریہ وزاری کرتے کرتے دائم الذّکر ہو جائیں، اس سے آپ کو دین و دنیا میں بے شمار فائدے ملیں گے۔

۷۔ قلب کے دراصل تین درجے ہیں: جسمانی، روحانی، اور عقلانی، چنانچہ خدا کی مبارک یاد میں گونا گون برکتیں ہیں، اور اس میں ہر قسم کی شفا بھی ہے، لہٰذا یہاں یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ ذکرِ الہٰی جسم و جان اور عقل کے لئے باعثِ صحت و سلامتی اور وسیلۂ سکون و اطمینان ہے، پس ہر مومن کی دانشمندی اسی میں ہے کہ وہ دائم الذّکر ہو جائے تاکہ جنّ (شیطان) مغلوب و مایوس ہو جائے، اور فرشتہ بھر پور مد د کرسکے۔

۸۔ قرآنِ حکیم کا یہ ایک بہت بڑا حکمت آگین اور گنج بخش ارشاد ہے: جن لوگوں نے (دل سے) کہا ہمارا ربّ اللہ ہے، پھر اس پر (بحقیقت) قائم ہوگئے، تو ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ نہ ڈرو، نہ ہی غم کرو اور تمہیں اس بہشت کی خوشخبری ہو

۲۳

جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم تمہاری اس دنیوی زندگی میں بھی تمہارے یارو مددگار ہیں اور آخرت میں بھی اور تمہارے لئے بہشت میں وہ سب کچھ فراہم ہے جو تم چاہو گے، اور جو کچھ تم طلب کرو گے تمہیں دیا جائے گا (۴۱: ۳۰ تا ۳۱)۔

” دل سے کہنا ہمارا ربّ اللہ ہے”یہ ذکرِ کثیر کی طرف اشارہ ہے،” پھر اس پر بحقیقت قائم ہونا، یعنی کھڑا ہو جانا” ان کاملین کی ذاتی قیامت ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں تاکہ علم و معرفت کے طریق میں مدد کریں۔

۹۔ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ (۱۳: ۲۸) یاد رکھو کہ ذکرِ خدا ہی سے قلوب مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اس آیۂ شریفہ میں آخری اور کلی درجے کے اطمینان کا بیان ہے، جو اولیاء اللہ اور کاملین کو نصیب ہوتا ہے، اور وہ یقیناً  دنیوی زندگی ہی میں انفرادی قیامت کے بعد ہے، کیونکہ جب تک کوئی بندۂ مومن یوم الحساب سے فارغ نہ ہو تو وہ بحقیقت مطمئن نہیں ہو سکتا ہے، لیکن دوستانِ خدا کی شان میں جیسا کہ ارشاد ہوا ہے، اس میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف وہی حضرات کلی طور پر مطمئن ہوتے ہیں، جیسے سورۂ یونس (۱۰: ۶۲) میں اللہ کا فرمان ہے: اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ = آگاہ رہو کہ اللہ کے دوستانِ خاص پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی انہیں کوئی

۲۴

حُزن و غم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ صاحبان نفسِ مطمئنہ ہوکر ابھی سے حظیرۂ قدس کی بہشت میں داخل ہو چکے ہیں (۸۹: ۲۷ تا ۳۰)۔

۱۰۔ کثرتِ ذکر میں شیطان بار بار رکاوٹ ڈال سکتا ہے، اس لئے حقیقی علم اور عشقِ الٰہی کا سہارا بیحد ضروری ہے، اصل علم سے شیطان کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے، اور عشق سے ذکر کی پرواز یا رفتار تیزتر ہو جاتی ہے، نیز اس سے ذکر خود بخود اپنے آپ کو دہراتا رہتا ہے، ایسے میں لغزش کس طرح آ سکتی ہے، لیکن ایسا علم اور ایساعشق کوئی آسان کام نہیں، اس کے لئے سب سے پہلے آسمانی تائید چاہئے، تاکہ کوئی مومن شدید محنت کے ساتھ بڑی بڑی قربانیاں دے سکے، آپ قرآنِ حکیم میں کوشش (سعی) کی اہمیت کو دیکھیں۔

۱۱۔ تاریخی کارنامے: میں بصد خوشی جان و دل سے اقرار و اعتراف کرتا ہوں کہ آج تک دانشگاہِ خانۂ حکمت کو جس قدر بھی کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں، وہ بفضلِ خدا ہمارے تمام عزیزوں کے عظیم الشّان کارناموں کی وجہ سے ہیں، ان شاء اللہ یہ سلسلہ اور بھی آگے بڑھے گا، سکالرز، گورنرز اور علمی سولجرز کو استاد قلبی محبت سے سلام کرتا ہے، اور اسے معلوم ہے کہ ایسی پُرخلوص سلام کی معنوی گہرائی میں کیسی کیسی دعائیں پنہان ہیں، خدا کرے کہ سب اہلِ ایمان کا حشر نفسِ واحدہ میں ہو! تاکہ اس ذریعے سے

۲۵

سب کے سب شخصِ واحد (انسانِ کامل) کے ساتھ ایک ہو جائیں۔

۱۲۔ اب باری آئی ہے کہ ہم اپنے ادارے کی ایک ایسی ہر دل عزیز اور پسندیدہ شخصیّت کا ذکرِ جمیل کریں، جس سے جو جو عزیزان واقف ہوگئے، انہوں نے اس کو فرشتۂ ارضی قرار دیا، اور یہ بالکل سچ ہے، کیونکہ تاریخِ ادیانِ عالم گواہ ہے کہ ناسوت میں ملکوت کا ظہور ہوتا رہا ہے، الغرض وہ قابلِ توصیف اور لائقِ ستائش شخصیت محترمہ ڈاکٹر زرینہ ہیں جو ڈاکٹر حسین علی (مرحوم و مغفور) کی بیگم ہیں، آپ ایک بہت بڑی لائق، تجربہ کار، سینئیر لیڈی ڈاکٹر ہیں، آپ کے دو کامیاب کلینک چلتے ہیں، اور گورنمنٹ میں باعزت ڈاکٹر بھی ہیں، اس کے باوجود علمی ذوق کا یہ عالم ہے کہ جب بھی استاد کا لیکچر ہوتا ہے تو چیف پیٹرن اور لائف گورنر ڈاکڑ زرینہ صاحبہ قلم اور بیاض لے کر تشریف لاتی ہیں۔

۱۳۔ محترمہ ڈاکٹر زرینہ کے فرزندِ ارجمند جناب غلام مرتضیٰ ہمارے مشرق و مغرب کے والینٹئیرز کے کرنل ہیں، آپ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہوشمند نوجوان ہیں جو علمی خدمت کو ہمہ وقت اوّلیّت دیتے آئے ہیں، عزیزم غلام مرتضیٰ علی فرسٹ گورنر بھی ہیں، ان کی بیگم محترمہ ڈاکٹر امینہ فرسٹ گورنر اپنی تماتر نیک عادات

۲۶

کی وجہ سے گھر اور کلینک کے لئے باعثِ برکت ہیں، ان کی سنجیدگی اور شرافت مثالی ہے، خداوندِ قدوس کی ایسی عنایات پر ڈاکٹر زرینہ شکر ادا کرتی ہیں۔

نصیر الدین نصیر(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

بدھ ۱۹ جمادی الثانی ۱۴۱۸ھ  ۲۲ اکتوبر ۱۹۹۷ء

۲۷

چند اعلیٰ علمی اور عرفانی سوالات

 

سوال نمبر۱: آپ قرآنِ حکیم کا کوئی ایسا ارشادِ مبارک دکھائیں جس میں واضح طور پر یہ اشارہ ہو کہ بہشت کی ابتدائی اور ضروری معرفت دنیا ہی میں ممکن ہے، اور اس کی ایک بڑی شرط جسمانی موت سے قبل نفسانی موت ہے، جس کو روحانی شہادت بھی کہتے ہیں، آیا قرآنِ عظیم میں ایسے اشارے بھی ہیں؟ ج: جی ہاں، کلامِ الہٰی میں حکمتِ بالغہ کے لا تعداد اشارات آئے ہیں، لیکن اس باب میں بہت ہی آسان اور قابلِ فہم اشارہ بلکہ تذکرہ سورۂ محمد (۴۷: ۰۶) میں ہے، آپ اس آیۂ شریفہ کو خوب غور سے پڑھیں، اس سے پہلے شہادتِ جسمانی اور شہادتِ روحانی کا ذکر بھی ہے (۴۷: ۰۴)۔

سوال نمبر۲: کیا سچ مچ بہشت کی معرفت نفسانی موت سے مشروط ہے؟ آیا یہ صرف بہشت ہی کی معرفت ہے یا اس سے معرفتِ کلی مراد ہے؟ ذات و کائنات کی معرفت؟ حضرتِ ربّ

۲۸

العزت کی معرفت (بعد از دیدار ہائے باطنی و نورانی و عقلی)؟ ج: جی ہاں، نفسانی موت (روحانی شہادت) کے سوا چشمِ بصیرت عطا نہیں ہوتی ہے، چشمِ بصیرت سے دل کی آنکھ مراد ہے، جس سے ہر عارف ناسوت، ملکوت، جبروت، اور لاہوت کا نظارہ کرسکتا ہے، جس سے کلّی معرفت حاصل آتی ہے، یعنی بہشت کی معرفت ہی میں ہر گونہ معرفت موجود ہوتی ہے، کیونکہ عشقِ کامل کو حدیثِ نوافل سے یہ خوشخبری ملتی ہے کہ خداوندِ قدوس اپنے عاشقِ عارف کی آنکھ ہونے والا ہے(ھزار حکمت ص۵۰۹)۔

سوال نمبر۳: کیا کلامِ الہٰی میں نفسانی موت اور روحانی شہادت سے متعلق اور بھی آیاتِ کریمہ مل سکتی ہیں؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو براہِ کرم دس ایسی آیاتِ مبارکہ کے حوالہ جات بتائیں، تاکہ ہم دیکھیں اور علم الیقین سے استفادہ کریں۔ ج: اگرچہ یہ سرِ عظیم خود حضرتِ آدمؑ سے شروع ہوا ہے، لیکن آپ کی آسانی کی خاطر حضرتِ ادریسؑ کا حوالہ دیتے ہیں کہ ان کو دوسرے تمام انسانانِ کامل کی طرح نفسانی موت اور جہادِ اکبر کی شہادت کا پُرمغز تجربہ ہوا تھا، اور انہیں عالمِ شخصی کی بہشت (حظیرۂ قدس) تک بلند کیا گیا تھا (مکاناً علیاً ۱۹: ۵۷) دوسرے حوالہ جات یہ ہیں: (۱) بعنوانِ قتلِ نفس۲: ۵۴ (۲) بعنوانِ دیدار۰۲: ۵۵ (۳) بعنوانِ موتو ثم احیاھم۰۲: ۲۴۳ (۴) بعنوانِ مشاہدۂ

۲۹

موت۰۳: ۱۴۳ (۵) بعنوانِ شہادت۰۳: ۱۶۹ (۶) بعنوانِ ذائقۂ موت۰۳: ۱۸۵ (۷) بعنوانِ شہادت۰۴: ۶۹ (۸) بعنوانِ جہاد۲۲: ۷۸ (۹) بعنوانِ شہادت۵۷: ۱۹، پس آپ ان آیاتِ مقدّسہ میں خوب غور سے دیکھیں۔

سوال نمبر۴: ہمارا ایمان اور یقین اس طرح سے ہے کہ قرآنِ پاک سماوی رُشد و ھدایت اور علم و حکمت کے خزائن سے بھرا ہوا ہے، چنانچہ اللہ جل شانہٗ کے اس کلامِ حکمت نظام کا ہر موضوع آسمانی جواہر کا ایک انمول خزانہ ہے، لہٰذا ہم سر دست گنجِ دیدارِ الہٰی سے متعلق کوئی ایسی حکمتِ بالغہ سننا چاہتے ہیں کہ اس سے عشاق کو ایک انوکھی اور نرالی بیداری اور شادمانی ملے، آیا ایسی کوئی بات ممکن ہے؟ ج: ان شاء اللہ تعالیٰ، مضمونِ دیدار کا ذہنی سفر خود ہر عاشقِ صادق کے لئے ایک زبردست روح پرور خوشی ہے، گزارش یہ ہے کہ جب اور جہاں یہ حقیقت ہے کہ دیدارِپاک ہر عارف کو فنا کرکے گنجِ ازل بنا دیتا ہے، پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ دیدارِ اقدس سے متعلق ہر روشن دلیل اپنی پر تاثیر علمی حرارت سے قلوبِ عاشقان کو پگھلا دیتی ہے، مثال کے طور پر سورۂ ھود (۱۱: ۹۰) اور سورۂ بروج (۸۵: ۱۴) میں دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک اسمِ مبارک الودود (بہت محبت کرنے والا) یعنی حقیقی مومنین کو دوست رکھنے والا ہے، اور ان دونوں

۳۰

حوالوں میں ٹھیک غور سے دیکھ کر بتائیں کہ اس پاک دوستی کی کیا کیا شرطیں ہیں؟ نیز یہ بھی آپ ہی بتائیں کہ دونوں جہان میں ایسے مہربان دوست کا دیدار ممکن ہے یا غیر ممکن ؟

سوال نمبر۵: بعض حضرات کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار صرف قیامت اور آخرت میں ہوگا، اس کے بارے میں آپ کی کیا دلیل ہے؟ ج: یہ بات بالکل درست ہے کہ قیامت سے قبل دیدار ممکن نہیں، لہٰذا عارفوں کے نزدیک یہ امر بیحد ضروری ہوا کہ وہ جیتے جی نفسانی طور پر مرکر قیامت اور آخرت کو دیکھیں، اور اللہ کے دیدارِ اقدس سے کنزِ مخفی کو حاصل کریں، اس بیان سے یہ حقیقت روشن تر ہوگئی کہ الودود کا اسمِ مبارک دیدار دینے کے معنی میں ہے، کیونکہ کوئی معشوق ایسا بھی ہوسکتا ہے جس کو عاشق پسند نہ ہو، لیکن جب خداوند تعالیٰ کا مبارک نام ودود (بہت محبت کرنے والا) ہے تو یہ نامِ گرامی اس معنٰی میں ہے کہ اللہ محب بھی ہے اور محبوب بھی، پس اس دلیل سے دیدار کی امکانیّت روشن ہوگئی۔

سوال نمبر۶: کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دو با ر اللہ کا دیدار ہوا تھا، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ج: یہ قول اس اعتبار سے درست ہے کہ بڑی چیز کو چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو وہ ایک بھی ہے، دو

۳۱

بھی، اور کثرت سے بھی ہے، چنانچہ حضورِ انورؐ اپنے روحانی سفر کے دوران عالمِ کثرت سے عالم وحدت کی طرف تشریف لے جا رہے تھے، لہٰذا آپؐ نے ابتداءً خواب و خیال کی نورانیّت میں خدا کی کئی تجلیوں کو دیکھا، آگے چل کر عالمِ ابداع میں حضورِ اکرمؐ کو دو دفعہ دیدار ہوا، اور آخر میں جاکر مقامِ معراج پر(عالمِ وحدت میں) معجزۂ وحدانیّت کا دیدار ہوا، جس کی تعریف بیان سے بالاتر ہے۔

سوال نمبر۷: قرآنِ حکیم کی بہت سی آیاتِ کریمہ میں انبیاء علیہم السّلام کے پیچھے پیچھے چلنے کا حکم آیا ہے، صراطِ مستقیم کے اس نیک سفر میں اہلِ ایمان کو پیغمبروں کی ہدایت اور رفاقت کی سعادت کس منزل تک جاری رہتی ہے؟ ج: ہر سفر کی کوئی نہ کوئی منزلِ مقصود ہوا کرتی ہے، چنانچہ دینی اور روحانی راستے کی منزلِ مقصود خدا ہی ہے، یہ بات الگ ہے کہ کوئی مسافر ھادیٔ برحق کے دامن کو چھوڑ دے، یا چلنے سے ہمت ہار بیٹھے، ورنہ اللہ تعالیٰ کی ھدایتِ کاملہ اس بات کی مقتضی ہے کہ ہر مومن کو منزلِ فنا فی اللہ تک پہنچا دیا جائے۔

سوال نمبر۸: کہا جاتا ہے کہ وحی کے درجات ہیں، آیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ سب سے اعلیٰ درجے کی وحی کس طرح سے ہے؟ یا کس نام سے ہے؟ اور اس کا ایک خاص بیان قرآنِ پاک کے

۳۲

کس مقام پر ہے؟ ج: ان شاء اللہ، اسی کی توفیق و یاری سے بتا سکتے ہیں کہ سب سے بلند ترین وحی (اشارہ) خاموش رویت (دیدار) کی کیفیت میں ہے، وحی کے اصل معنی اشارہ کے ہیں، پس عالمِ ابداع کے پہلے دیدار میں حجاب کے ساتھ کلام بھی ہے اور وحی بھی، دوسرے دیدار میں صرف وحی ہے مگرکلام نہیں، اور عالمِ وحدت میں جو دیدار ہے، اس کے ساتھ کلامِ مجموع و مرکوز بھی ہے اور وحی بھی ہے اور آپ جس متعلقہ آیۂ کریمہ کی شناخت چاہتے ہیں، وہ سورۂ شوریٰ کے آخر(۴۲: ۵۱) میں ہے، پس مذکورہ وحی جو اشارہ ہے، وہ سب سے بڑا خزانۂ اشارات ہے۔

سوال نمبر۹: کیا اشارہ (وحی) صرف رویت ہی میں ہے اور کلامِ الہٰی وغیرہ میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے؟ ج: کیوں نہیں، میں نے تو یہ بتا دیا کہ وہاں کلامِ مرکوز و مجموع ہے، اس کا مطلب کلمۂ کُنۡ (ہوجا کا حکم) ہے جس میں امرِ کُل کے تمام اشارے جمع ہیں، نیز یہاں یہ نکتہ بھی خوب یاد رہے کہ قرآنِ عظیم کے ناموں میں سے ایک نام وحی (اشارہ) ہے، یہی وجہ ہے کہ اس بیمثال آسمانی کتاب میں سر تا سر حکمت کے اشارے بھر ے ہوئے ہیں۔

سوال نمبر۱۰: آپ نے کہا: “پس مذکورہ وحی (دیدار) جو اشارہ ہے، وہ سب سے بڑا خزانۂ اشارات ہے” کیا آپ ان الفاظ کی کچھ وضاحت کریں گے؟ ج: جی ہاں، ان شاء اللہ العزیز،

۳۳

جاننا چاہئے کہ یہ پاک دیدار صورتِ رحمان/ وجہُ اللہ کا ہے، جس میں حضرتِ آدمؑ سے شروع کر کے تمام انبیا و أئمّہ علیہم السّلام کی آئینہ داری/ چہرہ شناسی / معرفت اور شناخت ہے، اور اس میں جملہ فرشتوں اور اہلِ جنّت کی بھی ایسی ہی معرفت ہے، کیونکہ یہ وہ بلند ترین مرتبہ ہے، جس کو “فنا اللہ و بقا باللہ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

سوال نمبر۱۱: سورۂ شمس (۹۱: ۰۷ تا ۰۸) میں ارشاد ہے: وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا  قسم ہے انسان کی جان (روح) کی اور جس نے اسے درست کیا، پھر اسے فجور و تقویٰ (شر و خیر) کا الہام کیا۔ آپ اس کی کچھ حکمت بیان کریں۔ ج: یہ روحِ خاص ہے، کیونکہ اللہ نے اس کی قسم کھائی اور اس کی درستی کا ذکر فرمایا، اور اس میں بمقتضائے حکمت شرّ و خیر کے دونوں ذریعے بنائے، وہ ایک تو جنّ ہے اور دوسرا فرشتہ، یہ ہوا فجور اور تقویٰ کا الہام کرنا، تاکہ عقل والے مومنین فرشتے کی حمایت سے (جنّ) شیطان کے خلاف روحانی اور علمی جہاد کرکے اسے مسلمان بنائیں۔

سوال نمبر۱۲: سورۂ قٓ (۵۰: ۱۶) میں ہے (ترجمہ): ہم نے انسان کو پیدا کیا، ہم اس کے نفس کے وسوسوں کو جانتے ہیں اور ہم تو اس کی شہ رگ (حبل الورید) سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ اس قرآنی تعلیم میں حبل الورید سے کیا مراد ہے؟ ج: حبل الورید کا

۳۴

لفظی ترجمہ ہے: وہ رسی جو اوپر سے وارد ہوئی ہے، اور اس کی حکمت ہے وہ فرشتہ جو انسان میں خیر کا ذریعہ ہے، اور وہ عالمِ علوی کے ساتھ رابطۂ نورانیت کی رسی ہے، تاہم اللہ اس فرشتے سے بھی زیادہ انسانی حقیقت کے قریب ہے، اور یہ پاک اشارہ کلام اور دیدار کی امکانیت کی طرف ہے۔ الحمد للہ رب العٰلمین۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعہ ۶ رجب المرجب ۱۴۱۸ھ  ۷ نومبر۱۹۹۷ء

۳۵

پُرحکمت امتحانی سوالات

(۱)

۱۔ سب سے پہلے آپ یہ بتائیں کہ تصورِ آفرنیش کے بارے میں حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ و سلامہ نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ کیا پہلے کبھی خدا اپنی صفتِ خالقیت سے کام نہیں لے رہا تھا؟ آیا یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ اللہ کا اسمِ مبارک “ربّ العالمین” تو تھا، مگر فعلاً پرورش پانے کے لئے کوئی عالم موجود نہ تھا؟ آفرنیش کا تصور خط (لکیر) کی طرح ہے یا دائرے کی طرح؟

۲۔ بعض علما کا قول ہے کہ قرآنِ حکیم میں صرف ایک ہی آدم کا قصّہ ہے، جبکہ دوسرے علما کہتے ہیں کہ ایک آدم کے قصّے میں بے شمار آدموں کا تذکرہ پوشیدہ ہے، اس میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ اور اپنے نظریئے پر کیا دلائل ہیں؟

۳۔ آدمی اور جنّ (پری) میں کیا رشتہ ہے؟ فرشتہ کس چیز سے ہے؟ کیا مومن اور مومنہ کی روح کبھی فرشتہ ہو سکتی ہے؟ کس طرح؟

۳۶

قرآن اور فرمان کی دلیلیں پیش کریں۔

۴۔ کیا آپ جیتے جی فنا کے قائل ہیں؟ اگر ہیں تو پہلی فنا کونسی ہے؟ آخری فنا کیا ہے؟ کتنی فنائیں ہیں؟ کیا فنا سے متعلق کوئی آیۂ شریفہ آپ بتا سکتے ہیں؟

۵۔ آپ عالمِ صغیر یا عالمِ شخصی کے بارے میں سمجھائیں کہ وہ کیا ہے؟ اس میں کیا کیا چیزیں ہیں؟ جسمِ لطیف کس چیز کا نام ہے؟ عالمِ ذرّ کیا ہے؟ وہ کہاں ہے؟ یاجوج ماجوج کون ہیں؟

۶۔ منزلِ عزرائیلی کے بارے میں آپ نے کیا سنا ہے یا پڑھا ہے؟ مومنِ سالک کتنی مدت تک نفسانی موت کی آزمائش میں رہتا ہے؟ کیا ایسے میں عزرائیل کے ساتھ ساتھ اسرافیل بھی ہوتا ہے؟ بلکہ دوسرے دو فرشتے بھی؟ اور ان چاروں سرداروں کے تمام لشکر بھی ہوتے ہیں؟

۷۔ علم الیقین کس نوعیت کے علم کو کہتے ہیں؟ عین الیقین جو یقین کا دوسرا درجہ ہے، اس میں علم و معرفت کے کیسے کیسے فائدے ہیں؟ حق الیقین میں کس درجے کا یقین حاصل ہوتا ہے؟ شک اور یقین دو برعکس معنی ہیں، پس اگر ایک شخص کے دل میں دینی اعتبار سے شک ہے تو یہ کس طرح دور ہو سکے گا؟

۸۔ علمِ لدّنی کا ذکر قرآنِ پاک میں ہے یا نہیں؟ یہ کس طرح سے ہے؟ اور کس درجے کا علم ہے؟ مجمع البحرین ظاہر میں ہے یا باطن

۳۷

میں؟ علمِ لدّنی کے لئے حضرتِ موسیٰؑ کا سفر ظاہر میں تھا یا اپنے عالمِ شخصی ہی میں؟ آپ کے نزدیک حقیقت جیسی بھی ہو، اسے دلیل سے ثابت کریں۔

۹۔ قرآنی حکمت سے خیرِ کثیر وابستہ ہے، آپ بتائیں کہ حکمت کا دروازہ بند ہے یا کھلا؟ اگرآپ کہتے ہیں کہ حکمت اور خیر کا دروازہ کبھی بند نہیں ہو سکتا، تو پھر آپ ہی بتائیں کہ حصولِ حکمت کا ذریعہ کیا ہے؟

۱۰۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے: میں حکمت کا گھر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے۔ آپ بتائیں کہ اس صورت میں ہم میں سے ہر ایک کس طرح حکمت حاصل کر سکتا ہے؟ اور اس مقصدِ عالی کے لئے کیا کیا شرائط ہیں؟

۱۱۔ قرآنِ حکیم، حدیثِ شریف، اور ارشاداتِ أئمّۂ آل محمدؐ کے مطابق ہر زمانے کا امامؑ علم و حکمت کا دروازہ ہوا کرتا ہے، اور یقیناً  حقیقت یہی ہے، لیکن ایک بڑا اہم سوال یہ ہے کہ خاص علم و حکمت کی غرض سے امامِ اقدسؑ تک راستہ ظاہری ہے یا باطنی؟ یا دونوں ہیں؟ آپ کی نظر میں جو بھی طریقہ ہو، اس کی دلیل پیش کریں۔

۱۲۔ وہ آیۂ کریمہ کونسی ہے جس میں یہ مفہوم ہے کہ قرآنِ پاک ان حضرات کے پاک سینوں میں ہے جن کو علم دیا گیا ہے؟ ایسے

۳۸

صاحبان کون ہیں؟ آیا وہ أئمّۂ طاہرینؑ ہیں؟ آیا قرآن کی روح و روحانیّت سینہ بہ سینہ چلی آئی ہے؟ آیا یہ بات درست ہے کہ جو لوگ حقیقی معنوں میں امامِ زمانؑ کے عاشق ہوں ان کے سینے میں بھی قرآنی روح آسکتی ہے؟

۱۳۔ آپ خود کلامِ الہٰی (۴۲: ۵۲) میں دیکھ کر بتائیں کہ قرآن حکیم آنحضرتؐ کے سینۂ مبارک میں ایک زندہ روح اور ایک بولتا نور کی حیثیت سے نازل ہوا تھا یا نہیں؟ کیا ایسے میں رسولِ خدا اوّلین قرآن ناطق نہیں تھے؟ اگرآپ کہتے ہیں کہ حقیقت یہی ہے، تو پھر زمانۂ نبوّت ہی سے قرآنِ صامت کے ساتھ ساتھ قرآنِ ناطق کا ثبوت بھی مل گیا، تو کیا اس میں کوئی شک ہے؟

۱۴۔ کیا سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) میں بھی نور سے مراد قرآن ناطق (آنحضرتؐ) اور کتابِ مبین کا مطلب قرآنِ صامت نہیں ہے؟ آپ بتائیں قرآنِ پاک میں کہاں کہاں نمایان طور پر بولنے والی کتاب (قرآنِ ناطق) کا ذکر آیا ہے؟ یقیناً حضرتِ امام علیہ السّلام ہی دنیا میں کتابِ ناطق اور قیامت میں نامۂ اعمال ہے(۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹)۔

۱۵۔ یہ پُرمغز اور عدیم المثال شعر کس حکیم کا ہے؟ کیا یہ اپنی نوعیت کے ایک بڑے مضمون کا جوہر نہیں ہے؟ ز دنیا تا بہ عقبیٰ نیست بسیار+ ولی در رہ وجودِ توست دیوار۔ ترجمہ: دنیا سے آخرت تک کچھ زیادہ

۳۹

مسافت نہیں ہے، لیکن راستے میں تیری اپنی ہستی دیوار بنی ہوئی ہے۔

۱۶۔ جنّ و انس اللہ تعالیٰ کی جس عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں (۵۱: ۵۶) وہ دراصل کیسی عبادت ہے؟ معرفت کے ساتھ ہے یا اس کے بغیر؟ کیا رسول اللہؐ کی عبادت بصیرت اور معرفت کے ساتھ نہ تھی؟ آیا حضورانورؐ اور آپؐ کے وصیؑ نے اسی بصیرت (اور معرفت) کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف نہیں بلایا (۱۲: ۱۰۸)؟

۱۷۔ یاد رہے کہ بصیرت دل کی بینائی کو کہتے ہیں، اور معرفت اسی سے حاصل ہوتی ہے، آیا سورۂ تکاثر(۱۰۲: ۰۵ تا ۰۷) میں سب کے لئے علم الیقین اور عین الیقین کی اہمیت و ضرورت کا ذکر نہیں ہے؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ تمام لوگوں کے لئے اس کی بڑی سخت ضرورت ہے، توآپ کو جاننا چاہئے کہ چشمِ باطن کو عین الیقین کہتے ہیں۔

۱۸۔ آپ کے استاد (علامہ نصیر) کی تصنیفات کتنی ہیں؟ ترجموں کے ساتھ ملا کر کتنی بنتی ہیں؟ استاد کیا کہتے ہیں: روح مرئی ہے یا غیر مرئی؟ آیا معرفتِ نفس سے معرفتِ روح مراد ہے؟ کونسی روح؟ کیا یہ نظر یہ درست ہے کہ حضرتِ ربّ العزّت خود ہماری جانوں کی جان ہے؟ یعنی ہماری اپنی سب سے اعلیٰ روح ہے، لہٰذا اسی کی معرفت ہماری اپنی معرفت ہے۔

۴۰

۱۹۔ دانشگاہِ خانۂ حکمت کے کتنے سکالرز ہیں؟ گورنرز کی کیا تعداد ہے؟ علمی لشکر؟ کل ممبرز؟ تمام شاگرد؟ اس ادارے کی کتابیں بڑھنے والے؟ کیسیٹ سننے والے؟ کتابوں کے نمونے دنیا کے کن کن ملکوں میں گئے ہیں؟

۲۰۔ آپ نے اپنے پیارے استاد کی کتنی پیاری پیاری کتابوں کا بغور مطالعہ کیا ہے؟ آپ کو کونسی کتاب بہت اچھی لگتی ہے؟ کیا آپ عالمِ شخصی پر ایک عمدہ مضمون لکھ سکتے ہیں؟ روحانی سائنس کی تعریف کس طرح کی گئی ہے؟ علامہ نصیر نے وجودِ آفتاب کے بارے میں جو انقلابی تصوّر پیش کیا ہے۔ آپ اس کی وضاحت کریں، وہ بیحد ضروری ہے۔

۲۱۔ ھبوطِ آدم کے بارے میں کیا کیا امکانات ہیں؟ کیا اس ھبوط میں صرف ایک ہی آدم تھا یا بہت سے آدموں کا قصہ ہے؟ آدم کا زمین پر اترنا روحانی طور پر تھا یا جسمِ لطیف کی پرواز سے؟ آدمِ سراندیبی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آیا وہ سیلون (لنکا= سری لنکا) میں پیدا ہوا تھا؟ کیا اس کے ماں باپ تھے؟ کیا وہ شروع شروع میں صرف ایک مرید تھا، اور اس کو امامِ زمانؑ کی جانب سے اسمِ اعظم کے ذکر کا اذن ملا تھا؟ (کتاب سرائر)۔

۲۲۔ قرآنِ حکیم میں جو آیۂ استخلاف ہے (۲۴: ۵۵) اس کی حکمت تلاش کریں اور بتائیں کہ اس میں بے شمار آدموں کا اشارہ ہے یا

۴۱

نہیں؟ آیا یہ بات حقیقت ہے جو کہتے ہیں کہ ہر آدم صاحبِ جثۂ ابداعیہ ہوا کرتا ہے، جس کی وجہ سے یہ کہنا بالکل درست ہو کہ آدم بہشت سے آیا تھا؟ کیا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ آدمِ سراندیبی جسمِ کثیف کے اعتبار سے سیلون میں پیدا ہوا تھا، مگر روحِ قدسی اور نورانی بدن کے لحاظ سے جنت سے آیا تھا؟

۲۳۔ کیا انسان اپنے جسمِ کثیف کے ساتھ بہشت میں داخل ہو سکتا ہے؟ وہاں ہمیشہ یا کچھ وقت کے لئے سکونت کر سکتا ہے؟ اگر نہیں تو حقیقت یہی ہے کہ بہشت کی پاکیزہ زندگی کے لئے جثۂ ابداعیہ بیحد ضروری ہے۔

۲۴۔ کتابِ دعائم الاسلام، جلد اول (عربی) ص۲۹۱پر بہت ہی مختصر یہ ذکر ہے کہ اس زمین پر قبل از آدمِ اول جنات رہتے تھے، اگر ہم جن کو لطیف انسان مانتے ہیں تو اس سے بڑے بڑے اسرارکھل جائیں گے، کیا آپ ان میں سے کچھ بتا سکتے ہیں؟

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل۱۰ رجب المرجب ۱۴۱۸ھ ۱۱ نومبر۱۹۹۷ء

۴۲

پُرحکمت امتحانی سوالات

(۲)

 

۱۔ ہر چیز کے قلب (دل، مرکز، وغیرہ) کی اہمیت کیوں نہ ہو، اور قلبِ قرآن کی اہمیت تو انتہائی عظیم ہے، پس قرآنی قلب میں جو خزانۂ اعظم ہے، وہ کلیۂ امامت ہی ہے، جس کو آپ ہمیشہ پڑھتے رہتے ہیں، اس کی تفسیر یہ ہے کہ اللہ جلّ شانہ کی قدرتِ کاملہ سے دین کی تمام لطیف ذراتی، روحانی، نورانی، عقلی، علمی، اور عرفانی چیزیں امامِ مبینؑ کی نورانیّت میں گھیری ہوئی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اس خزانۂ خزائنِ الٰہی سے لوگوں کو فیضِ عام کس طرح مل سکتا ہے؟ اور معجزاتی فیضِ خاص حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

۲۔ آپ کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پاک محبت و دوستی صرف رسولِ کریمؐ ہی کے وسیلے سے ممکن ہے، آنحضرتؐ کی مقدّس دوستی امامِ زمانؑ کے ذریعے سے ہو سکتی ہے، یعنی امام سے حقیقی عشق و محبت پیغمبرِ پاک کی وجہ سے ہے، اور آنحضورؐ سے عشق و محبت خداوندِ قدوس کے لئے ہے، تو ایسے میں آپ ہی بتائیں

۴۳

کہ ہمارے عشق و محبت کا کیا درجہ ہونا چاہیے؟ آیا خاص علم اور خاص عمل کے بغیر ہمارے دل میں آسمانی عشق ٹھہر سکتا ہے؟

۳۔ صراط مستقیم کی وجہ سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا دین ایک سفر ہے؟ اس کی منزلیں بھی ہیں؟ شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت؟ کیا اس سفر کی منزلِ مقصود خدا کی معرفت ہی ہے؟ آیا یہ درست ہے کہ صراط مستقیم سے ھادیٔ برحق مراد ہے۔ اس لئے ھدایت، صراط، اور سبیل ایک ہی چیز ہے، یعنی امام؟

۴۔ کہا جاتا ہے کہ قرآنِ مجید اورھادیٔ زمانؑ اگرچہ ظاہراً الگ الگ ہیں، لیکن ان دونوں کا باطنی نور ایک ہی ہے، کیا آپ اس حقیقت کو مثال و دلیل سے ثابت کرکے سمجھا سکتے ہیں؟ کیا آپ زمانۂ نبوّت سے اس حقیقت کی کوئی عمدہ مثال پیش کر سکتے ہیں؟

۵۔ حق تعالٰی کا ارشاد ہے: وَ اِنَّهٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ (۲۶: ۱۹۶) اس آیۂ مبارکہ کا اصل ترجمہ اور تفسیر کس طرح سے ہے؟ آپ چند مستند تراجم کو بھی دیکھ سکتے ہیں، اور بتائیں کہ اگر”قرآن اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی ہے” تو کس طرح ہے؟ کیا لسانی لفظوں میں ہے یا معنوں میں؟ یا صرف تعریف و تذکرہ ہے؟ آپ علمی مسائل حل کرنے کی عادت بنا لیں۔

۶۔ آپ نے میرا ایک مقالہ (کتابچہ) “روحانی سائنس کے

۴۴

عجائب وغرائب” پڑھا ہوگا، اس میں سے چند حکمتیں بیان کریں، یہ مقالہ کس تقریب کے لئے لکھا گیا تھا؟ اور کب چھپ کر شائع ہوا تھا؟

۷۔ اس کتاب کا کیا نام ہے جو روحانی اسرار سے مملو ایک بروشسکی نظم کے ترجمہ و تشریح پر مبنی ہے؟ اس نظم کا مطلع کیا ہے؟ آیا ان اشعار کا کوئی مربوط مضمون ہے؟ یا ہر شعر کا ایک جدا گانہ مطلب ہے؟ اگر وہ ایک مربوط اور مکمل مضمون ہے تو بتائیں کہ وہ کیا مضمون ہے؟

۸۔ ہماری کس کتاب میں کپکپی سے علاج کا بیان ہے؟ کابوس کس مرض کا نام ہے؟ قرآنِ حکیم کے بارے میں میرا یقین ہے کہ اس میں تمام بیماریوں کے لئے لاہوتی نسخے (PRESCRIPTIONS) اور جبروتی دوائیاں ہیں، جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے: خیر الدوا القران = بہترین دوائی قرآن ہے۔ کیا آپ اس آفاقی طریقِ علاج سے فائدہ اٹھانے کی خاطر میری کتابوں کو پڑھتے ہیں؟

۹۔ اسمِ اعظم اور اسماء الحسنیٰ کے بارے میں آپ کے پاس کیا معلومات ہیں؟ اس باب میں حضراتِ أئمّہؑ کے کیا ارشادات ہیں؟ کیا یہ درست ہے کہ اصل اسم اعظم امامِ زمانؑ خود ہی ہوتا ہے؟ کیا آپ نے قرآنِ حکیم میں اسماء الحسنیٰ کی تعریفی

۴۵

آیات پڑھی ہیں (۰۷: ۱۸۰، ۱۷: ۱۱۰، ۲۰: ۰۸، ۵۹: ۲۴)؟

۱۰۔ توبہ کے لفظی معنی؟ اصطلاحی معنی؟ تاویلی حکمت؟ توبہ اور رجوع الی اللہ میں کیا فرق ہے؟ دیدار پہلے ہے یا معرفت؟ وجہ اللہ سے کیا مراد ہے؟

۱۱۔ ای نسخۂ نامۂ الٰہی کہ توئی+ ای آئینۂ جمال شاہی کہ توئی+ بیرون ز تو نیست ہر چہ درعالم ھست + درخود بطلب ہر انچہ خواہی کہ توئی، یہ رباعی کس کی ہے؟ ہماری کس کتاب میں ہے؟ آپ اس کے معنی بتائیں، ایک عارف کس طرح نسخۂ نامۂ الٰہی ہو سکتا ہے؟ کیا عالمِ شخصی میں قلم اور لوح بھی ہیں؟ کیا اس میں عرش و کرسی بھی ہیں؟ بتائیں یہاں کیا کیا چیزیں موجود نہیں ہیں؟

۱۲۔ دانشگاہِ خانۂ حکمت کی کونسی کتاب ہے جس میں درودِ شریف کی گیارہ عظیم حکمتیں درج کی گئی ہیں؟ کیا آپ ہماری چند کتابوں میں سے درود کے مضمون کو یکجا لکھ سکتے ہیں؟ کتابِ علمی بہارص۴۰۔ ۴۱ پڑھ کر بتائیں کہ جنّ و انس کی حقیقی عبادت کی سب سے بڑی شرط کیا ہے؟ ہماری تصانیف میں کل کتنے علمی نقشے ہیں؟ آپ کو کون کون سے نقشے بہت مفید لگتے ہیں؟ کیا آپ ان تمام نقوشِ حکمت پر کوئی کامیاب ریسرچ کر سکتے ہیں؟

۱۳۔ کتاب لعل و گوہر میں “عبد الاحد کا اشارہ” بڑاعجیب و غریب

۴۶

مضمون ہے، آپ نے ضرور پڑھا ہوگا، بتائیے اس میں کون کونسی عرفانی باتیں غیر معمولی ہیں؟ ستاروں کے بارے میں قرآنِ حکیم کا کیا ارشاد ہے؟ آیا زمین ہی کی طرح ستارے بھی انسان کے لئے مسخر ہونے والے ہیں؟ کیا وہ ہمارے لئے بہشت کی وسیع زمینیں ہیں؟ کیا یہ بات حقیقت ہے کہ ستاروں کی بہشت میں ہمیشہ رہنے کے لئے اہلِ ایمان کو نورانی ابدان (اجسامِ لطیف) ملنے والے ہیں؟

۱۴۔ عبد الاحد ایک مصیبت زدہ مومن تھا، ا س نے رجوع کیا، اور وہ فرشتہ ہوگیا، کیا قرآنِ پاک میں بہت سے کہکشانی نظاموں کا اشارہ موجود ہے؟ نظامِ شمسی اور نظامِ کہکشانی میں کیا فرق ہے؟ آپ خوب سوچ کر بتائیں کہ قرآنِ کریم میں جہاں جہاں چھوٹے بڑے ستاروں کا ذکر آیا ہے وہاں کہکشانی ستاروں کا تذکرہ بھی ہے یا نہیں؟

۱۵۔ قرآنی ارشاد ہے: (ترجمہ) ہم نے قریب والے آسمان کو چراغوں سے آراستہ کیا اور اس کو (خوب محفوظ کیا اور) محافظ بنایا (۴۱: ۱۲)۔ آیا اس ھدایتِ سماوی سے یہ ظاہر نہیں ہے کہ یہ قریبی کہکشانی نظام کا ذکر ہے؟ کیونکہ چراغوں سے چھوٹے بڑے تمام ستارے مراد ہیں جن میں کہکشانی ستارے بھی شامل ہیں؟ کیا قریبی آسمان یا کہکشانی نظام کہنے کا یہ اشارہ نہیں ہے کہ اور بھی

۴۷

نظام ہائے کہکشانی ہیں، مگر وہ علی الترتیب دور ہیں؟ کیا قرآنِ حکیم جگہ جگہ یہ نہیں فرماتا کہ خدا لوگوں کو قیامت تک امتحان میں رکھتا ہے، پھر اس کے بعد اصل بھیدوں کو ظاہر فرماتا ہے؟

۱۶۔ سورۂ رحمان میں ایک ایسی آیت ہے جو دہرائی گئی ہے، آپ بتائیں، وہ کتنی دفعہ دہرائی گئی ہے؟ اس کے کیا معنی ہیں کہ اللہ نے قرآن کو ذکر کے لئے آسان کر دیا ہے؟ (بحوالۂ سورۂ قمر۵۴)۔ کہا جاتا ہے کہ اسمِ اعظم قرآن پاک کے تین مقامات پر ظاہر ہے، پھر بھی وہ گویا لوگوں سے غائب ہے، اس کا سبب کیا ہو سکتا ہے ؟ نور ایک ایسا اسم صفت ہے جو خدائے تعالیٰ کے بعد رسولِ اکرمؐ اور امامِ عالیمقامؑ کے لئے بھی آتا ہے، کیا آپ کے علم میں ایسے مشترک اسماء اور بھی ہیں؟ خدا، پیغمبرؐ، اور امامؑ کے اسماء میں دیکھ لیں۔

۱۷۔ کتاب وجہ دین کے مطابق لیلۃ القدر(شبِ قدر) کی تاویل بیان کریں، آیا مذکورہ بے مثال کتاب میں عصر حاضر سے متعلق کئی پیش گوئیاں موجود ہیں ؟ کیا آپ اس بارے میں چند ضروری باتیں احبابِ خاص کو بتا سکتے ہیں؟ زمانۂ تاویل کس چیز سے وابستہ ہے؟ وہ کب آئے گا؟ کیا آپ حجت قائم کی تعریف کر سکتے ہیں؟

۱۸۔ مؤول کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ مؤول (تاویل کرنے والا)

۴۸

امام ہے، لیکن یہ تو بتاؤ کہ اس کا طریقِ کارکیا ہے؟ اس کام کے لئے یا اس علم کے لئے امامؑ کے خاص باطنی شاگرد بھی ہوتے ہیں یا اس کا ہر کام صرف ظاہر تک محدود ہوتا ہے؟ نیز یہ پوچھنا ہے کہ آیا تاویل اپنی نوعیت کی ایک جنگ نہیں ہے؟ اگر آپ مانتے ہیں کہ ہاں بموجبِ حدیث شریف تاویل علمی جنگ ہے تو پھر آپ ہی بتائیں کہ آیا تاویلی جنگ یا جہاد لشکر کے بغیر اکیلا سردار خود ہی کرتا ہے؟ کیا آنحضرتؐ نے تنزیلی جنگ کے لئے لشکرِ اسلام کو استعمال نہیں کیا تھا؟ کیا آپ نے کبھی اعلیٰ کتابوں میں بزرگانِ دین کی حیران کن تاویلیں نہیں دیکھی ہیں؟

۱۹۔ حضرت امام علیہ السّلام اللہ تعالیٰ کا وہ نورِ علم و ھدایت ہے جو دلوں میں طلوع ہو کر کام کراتا ہے، اس باب میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا یہ درست ہے کہ آنحضرتؐ نے مولا علیؑ کے مرتبۂ نورانی کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے، وہ ہر زمانے کے امام سے متعلق ہے؟ آپ نورٌعلیٰ نور کی کچھ حکمت بیان کریں، آیۂ مصباح کونسی ہے؟ نور منزل کسے کہتے ہیں؟

۲۰۔ سورۂ کوثرکی شان نزول کیا ہے؟ اسے بیان کریں، امامِ اقدس و اطہرؑ کن معنوں میں وارثِ کتاب (قرآن) کہلاتا ہے (۳۵: ۳۲) کیا یہ صحیح ہے کہ تمام چیزیں علمی ظروف کا کام انجام

۴۹

دے رہی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کوئی چیز علم سے خالی نہیں ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

ہفتہ (مولاناشنبہ(، ۱۴ رجب المرجب ۱۴۱۸ھ

۱۵ نومبر۱۹۹۷ء

۵۰

حظیرۂ قدس = علمی بہشت

 

۱۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ حظیرۂ قدس اہلِ بصیرت کے لئے علمی اور عرفانی بہشت ہے، کیونکہ حقائق و معارف کا عالم وحدت یہی ہے، جبکہ یہی وہ مقامِ عالی ہے جہاں خداوندِ قدوس امام مبین کی نورانیّت میں تمام چیزوں کو گھیر کر رکھتا ہے، لہٰذا یہ خدا کا وہ سب سے عظیم خزانہ ہے جس میں بہت سے خزانے جمع ہوتے ہیں، نیز یہ وہ زندہ اور بولنے والی کتاب ہے، جس کی تعریف و توصیف قرآن پاک کی متعدد آیات میں موجود ہے، الغرض یہاں جو نور ہے اس کی بہت سی مثالیں اور بہت سے اسماء ہیں، کیونکہ قانون یہ ہے کہ جو کوئی جتنے زیادہ کاموں کو جانتا ہے، اس کے اتنے زیادہ نام ہوتے ہیں۔

۲۔ س: حظیرۂ قدس یقیناً  علمی بہشت ہے، جس میں انتہائی عظیم اسرار بھرے ہوئے ہیں، پس آپ ہمیں یہ بتائیں کہ حظیرۂ قدس میں اہلِ ایمان کا نور کیوں دوڑتا ہے؟ کیوں آہستہ آہستہ

۵۱

نہیں چلتا؟ ایسی برقی رفتاری میں کیا حکمت ہے یا کیا راز ہے؟ (سورۂ حدید۵۷: ۱۲۔ سورۂ تحریم۶۶: ۰۸)۔ ج: دوری یا مسافت دو قسم کی ہواکرتی ہے: مسافتِ مکانی، اور مسافتِ زمانی، چنانچہ نور میں یہ خدائی طاقت موجود ہے کہ وہ آپ کو زمان و مکان کی قید سے چھڑا کر لا مکان تک لے جا سکتا ہے، جہاں یہ مادّی جگہ نہیں، جہاں ماضی اور مستقبل بھی نہیں، بلکہ وہاں ہر چیز آپ کی مرضی کے مطابق سامنے آتی ہے۔

جواب کا دوسرا حصّہ: نور کے دوڑنے میں یہ اشارہ بھی ہے کہ نور اس حظیرۂ قدس میں کام کرتا ہے، جس میں زمان و مکان کی تمام مسافتیں لپیٹی ہوئی ہیں، لہٰذا اب یہاں تمام مشکل سوالات ختم ہو چکے ہیں، جیسے: یہ پوچھنا کہ قیامت کب برپا ہوگی؟ وہ تو برپا ہو چکی ہے، کتنے آدم ہوئے ہیں؟ وہ تو بے شمار ہوئے ہیں، لیکن آپ کی آسانی کی خاطر حظیرۂ قدس میں ایک ہی آدم ہے، کتنی کائناتیں ہیں؟ بے شمار ہیں، لیکن وہ سب ایک ہی خدا کی تخلیق کردہ ہے، لہٰذا اللہ نے ان سب کو لپیٹ کر ایک کر دیا ہے، اسی طرح وہ تمام سوالات حظیرۃ القدس میں ختم ہو جاتے ہیں جو کب، کہاں، کتنا، کیسا، کیوں، کون وغیرہ کے ساتھ آتے ہیں۔

۳۔ س: کیا آپ کی معلومات کے مطابق حظیرۂ قدس کلی

۵۲

بہشت ہے یا جزوی بہشت؟ یا بہشت کا صرف ایک مشاہدہ، دیدار، اورعرفان ہے؟۔ ج: یہ دور سے نزدیک لائی گئی اور لپیٹی ہوئی بہشت ضرور ہے، لیکن جس قلیل مدت کے لئے عارف اس میں رہتا ہے، اس کے پیشِ نظر حظیرۂ قدس کو جزوی بہشت کہنا درست ہوگا، نیز یہ دائمی بہشت کی بشارت ہے، کیونکہ اصل بشارت عملی روحانیّت کے ساتھ ہوتی ہے۔

۴: س: بحوالۂ حدیثِ نوافل (حدیثِ قدسی) جب کوئی بندۂ مومن کثرتِ نوافل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، تاآنکہ خدا اس کو محبوب بنا لیتا ہے، یہاں تک کہ اللہ اس کا کان بن جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے، اور آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے، اور ہاتھ جس سے وہ پکڑتا ہے، اور پاؤں جس سے وہ چلتا ہے، آپ بتائیں یہ عظیم مرتبہ کب اور کہاں میسر آتا ہے؟ ج: فنافی اللہ کے بعد حظیرۃ القدس میں۔

۵۔ س: اگر انسانِ کامل کی روح آفاقی، کائناتی، ہمہ رس، اور ہر جگہ موجود (OMNI-PRESENT ) ہے تو پھر بہشت سے آدم کا ھبوط کیسے ممکن ہوا؟ خواہ یہ ابدی بہشت ہو یا انتہائی ترقی یافتہ سیّارہ یا حظیرۂ قدس؟۔ ج: قرآن فرماتا ہے کہ روح عالم امر سے آئی ہے (۱۷: ۸۵) کہ اس کا بالائی سرا عالمِ بالا ہی میں موجود ہے، اور زیرین سرا انسان میں، پس آدم بہشت سے کلی طور پر دنیا

۵۳

میں نہیں آیا، بلکہ اس کا ایک زندہ سایہ یہاں نازل ہوا، جیسا کہ قرآن میں ہے (۱۶: ۸۱) جیسے قرآن لوحِ محفوظ میں بھی ہے اور دنیائے ظاہر میں بھی (۸۵: ۲۱۔ ۲۲) اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی رسی کہ اس کا ایک سرا آسمان میں خدا کے پاس ہے، اور دوسرا سرا زمین پر اہلِ ایمان کے ہاتھوں میں ہے، (شرح الاخبار)۔

۶۔ روح کی ایک قدرتی اور عمدہ مثال پانی کے مختلف اجزاء اور ان کے کل (سمندر) کی صورت میں موجود ہے، پانی سمندر میں ٹھہرا ہوا بھی ہے، اور اپنے دائرے میں گردش بھی کر رہا ہے، اگرچہ پانی کی الگ الگ بے حساب شاخیں ہیں، لیکن ان سب میں وہی سمندر کا ایک ہی پانی ہے، اسی طرح روح ہے جو کل اور کلیّت کی بہشت میں بھی ہے اور اس سے باہر اجزاء میں بھی ہے، پس اگر روح معرفت سے بہرہ مند ہوگئی تو جانتی ہے کہ یہ بہشت میں بھی ہے، اور اس سے باہر بھی آئی ہے۔

۷۔ اگر کوئی عاشقِ صادق چشمِ بصیرت حاصل کرکے دیکھنا چاہے تو یقیناً  یہ حقیقت اس پر روشن ہوسکتی ہے کہ قرآنِ حکیم میں ہر چیز کے بیان (۱۶: ۸۹) کے ساتھ ساتھ نارِ عشق اور نورِ عشق کا تذکرہ بھی موجود ہے، اگرچہ یہ بات بھی ہے کہ فرشتۂ عشق= جدّ (۷۲: ۰۳) تک رسائی بیحد مشکل ہے، کیونکہ یہ تو صرف سالک کے نفسانی موت کے موقع پر عزرائیل کے ساتھ ہی آتا ہے، تاہم آسمانی

۵۴

عشق و محبت درجہ بدرجہ ہے، جس کے بغیر روحانیّت کی کوئی ترقی نہیں ہو سکتی ہے۔

۸۔ قرآن عظیم اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا معجزہ ہے جو آنحضرت صلعم کو عطا ہوا ہے، اس میں علومِ الہٰی کے اعلیٰ مضامین کی تجلّیات ہیں، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ قرآن کریم کی ہر تجلّی انتہائی حیران کن ہے، چنانچہ قرآن عزیز کی تجلیٔ عشق سے اہلِ دانش حیرت زدہ اور مبہوت ہو جاتے ہیں، کیونکہ اس مضمون میں بڑے عجیب و غریب اسرار پوشیدہ ہیں، مثال کے طور پر یہ انتہائی عظیم راز ملاحظہ ہو جو درج ذیل ہے:۔

۹۔ قرآنِ حکیم میں ہے کہ: ہر چیز یعنی ہر موجود خدا کی تسبیح و حمد کرتا ہے (۱۷: ۴۴) ہر کوئی اپنی تسبیح اور نماز کا طریقہ جانتا ہے (۲۴: ۴۱) آسمان اور زمین کی ہر چیز اور ہر مخلوق خدا کے لئے سجدہ کرتی ہے (۱۶: ۴۹) اب سوال یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کی مذکورہ عبادت کہاں اور کس طرح ہوتی ہے؟ آیا یہ زبانِ حال سے ہے یا زبانِ قال سے؟ یا دونوں سے ہے؟ جواب: جب فرشتۂ عشق خدا کے حکم سے صورِ قیامت پھونکتا ہے، جب اللہ تعالیٰ کائنات کو عارف میں لپیٹ دیتا ہے، اور ساری مخلوقات بشکلِ ذرّات عالمِ شخصی میں جمع ہو جاتی ہیں تو اس وقت یہ تمام اشیاء ناقورِ عشق کی ہم آہنگی میں عشق کی تسبیح کرتی ہیں، نمازِ عشق

۵۵

پڑھتی ہیں، اور عاشقانہ سجدہ کرتی رہتی ہیں، اس قانون سے کوئی چیز باہر نہیں، اوراشیائے کائنات کی یہی معجزاتی عبادت حضرت داؤد علیہ السّلام کی مبارک ہستی میں بھی ہوتی تھی۔

۱۰۔ س: قیامِ قیامت اور کائنات بھر کی مخلوقات کی مذکورۂ بالا عبادت کا عظیم الشّان معجزہ کن حضرات کو ہوتا ہے؟ اور کس طرح؟ ج: یہ سب سے بڑا معجزہ ہر نبی، ہر ولی، اور ہر عارف کو ہوتا ہے، کیونکہ صراطِ مستقیم کی روحانیّت اور معجزات ایک جیسے ہیں، اس کے برعکس اگر انبیاء واولیاء علیہم السّلام کے معجزات الگ الگ ہوتے تو عارفین کو نفسِ واحدہ کی معرفت حاصل ہی نہ ہوتی، لہٰذا یہ ماننا بیحد ضروری ہے کہ حضرت داؤدؑ اور دوسرے تمام انبیاؑء معجزۂ عشق میں یکسان تھے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگرچہ حضرات انبیاء علیہم السّلام کے ظاہری معجزات الگ الگ نظرآتے تھے، لیکن باطنی حقیقت یہ ہے کہ ہر نبی میں جملہ انبیاء اور ان کے تمام معجزات جمع ہوتے تھے، درحالے کہ ان حضرات کے فضائل و درجات اپنی اپنی جگہ پر ہیں۔

۱۱۔ س: قرآنِ حکیم میں مضامین یا معانی کی تجلّیات کس طرح ہوتی ہیں؟ کوئی واضح مثال پیش کرکے سمجھائیں۔ ج: یہ ایک بہترین مثال بھی ہے اور ایک روشن حقیقت بھی، کہ اللہ تعالیٰ کا ایک اسم مبارک الودود ہے (۱۱: ۹۰، ۸۵: ۱۴) جس کے معنی ہیں:

۵۶

بہت محبت کرنے والا، بڑا مہربان، اب آپ خود ہی بڑی عمدگی اور احساسِ ذمہ داری سے سوچ کر بتائیں کہ ودود کی معنوی تجلّی اسم “خالق” میں بھی ہوتی ہے یا نہیں، جبکہ وہی خدا جو ودود ہے خالق بھی ہے؟ کیوں نہیں، بلکہ اسی عجیب وغریب سری اصول کے مطابق یہ بہت بڑا راز معلوم ہوگیا کہ خداوندِ قدوس کے ہر اسم میں دیگر اسماء کی ایسی تجلّیاں ہوتی رہتی ہیں، فی الحال اسم ودود کی بات کرتے ہیں کہ اس کی برکت سے سر تا سر قرآن میں آسمانی عشق و محبت کی جلوہ نمائی ہے۔

۱۲۔ حظیرۃ القدس جو علمی وعرفانی بہشت ہے، وہ بخدا گنجِ خدا ہے، ظہورِ ازل و ابد ہے، یہی پاک عمل رجوع الی اللہ، فنا فی اللہ و بقا با للہ ہے، مبداء و معاد اور ابداع و انبعاث بھی یہی ہے، یہی وہ مقام اعلیٰ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے تمام حقائق و معارف کو امام مبینؑ میں گھیر کر رکھا ہے، اسی معنیٰ میں امامؑ قرآن ناطق ہے، اور وہ ابرار کا نامۂ اعمال بھی ہے، علّیّین بھی، امامؑ یقیناً  وجہ اللہ (چہرۂ خدا = صورتِ رحمان) ہے، اسی مقام پر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو اپنی صورت پر پیدا کیا: خَلقَ عَزَّوَ جَلَّ اٰدَمَ عَلیٰ صُوْرَتِہٖ (ہزار حکمت، ح۵۱۹)۔ علم لدنی کے درجۂ کمال پر حظیرۂ قدس ہی ہے، لہٰذا اہلِ معرفت ہمیشہ اسی کی طرف دیکھتے ہیں، اور اسی کی روشنی میں مسائل کو حل کرتے

۵۷

ہیں، آخراً میں یہ کہوں گا کہ خدا، رسولؐ، ولی امرؑ کی اطاعت بیحد ضروری ہے، اور یہ اطاعت ایسی خاص اور نازک ہے کہ علم و حکمت اور عشق و محبت کے سوا آگے نہیں بڑھتی ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

بریسپت ۱۹رجب المرجب ۱۴۱۸ھ ۲۰ نومبر۱۹۹۷ء

۵۸

کتابِ شرح الاخبار

 

حضرت سیدنا قاضی نعمان کے انمول خزائنِ علمی میں سے ایک بڑا فیض بخش خزانہ کتابِ شرح الاخبار فی فضائلِ الائمۃ الاطہار ہے، یہ کتاب مستطاب سولہ اجزاء پر مشتمل ہے، اور تین جلدوں میں ایران سے چھپ کر شائع ہوئی ہے، مجموعی صفحات یہ ہیں: ۴۹۶+ ۶۱۱+ ۵۹۹= ۱۷۰۶۔

اس کتابِ عزیز کی جلد اوّل، ص۸۹ پر مشہور حدیث درج ہے: انا مدینۃ العلم و علی بابھا = ترجمۂ اوّل: میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ ترجمۂ دوم: میں علم (قرآن مجید) کاشہر ہوں اور علی اس کا (راستہ اور) دروازہ ہے۔ ترجمۂ سوم: میں (اپنی نورانیّت میں) علم القرآن کا شہر ہوں اور علی (نورِ امامت) اس کا راستہ، راہنما، اور دروازہ ہے۔

اے عزیزِ من! اے نورِ عینِ من! یہ کلیدی حکمت ہمیشہ کے لئے یاد رکھنا کہ جس طرح قرآن پاک کی ایک آیت دوسری آیت

۵۹

کی تفسیر کرتی ہے، اور خود آیت کے آخری حصے میں بھی پہلے حصے کی تفسیر موجود ہوتی ہے، اسی طرح ہر حدیثِ صحیحہ میں بھی چند آیات کریمہ کی حکیمانہ تفسیر ہوتی ہے، چنانچہ مذکورۂ بالا حدیث شریف کئی آیات مبارکہ کی تفسیر ہے، مثال کے طور پر یہاں چند سوالات درج کرتے ہیں:۔

س: (۱) بنی اسرائیل سے فرمایا گیا تھا: تم سجدہ کنان اس دروازے سے داخل ہو جاؤ(۰۲: ۵۸)۔ کیا حضرت ھارونؑ حضرت مولا علیؑ کی طرح شہر علم کا دروازہ تھا، اور حضرت موسیٰؑ اپنے زمانے میں علم کا شہر؟ آپ خوب سوچ کر اس کا جواب دیں۔ س: (۲) اگر دین کے بنیادی امور میں اللہ تعالیٰ کی سنت ایک جیسی ہے تو سب سے پہلے آدمؑ علم کا شہر رہا ہوگا، اس صورت میں بتائیں کہ آدمؑ کا باب (دروازہ) کون تھا؟ س: (۳) حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، اور حضرت عیسیٰؑ کے ابواب کون تھے؟۔ س: (۴) آیا قرآن میں ہے کہ اللہ کے نور کی مثل مشکوٰۃ (طاق) کی طرح ہے (۲۴: ۳۵) جس میں چراغ رکھا جاتا ہے؟ کیا یہ کہنا درست ہے کہ طاق وچراغ کسی گھر میں ہوتا ہے، اور کوئی گھر دروازے کے بغیر نہیں؟ پس ظاہر ہے کہ یہ حق تعالیٰ کا باطنی گھر ہے جس کا باب اقدس رسول اکرمؐ ہیں، آنحضرتؐ کا باب اساس، اساس کا باب امام، امام کا دروازہ حجت اعظم، اور اسی طرح ذیلی حدود ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ اْتُوا

۶۰

الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا۪  (۰۲: ۱۸۹) اور دینی گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو۔

س: (۵) آیا یہ چراغِ نورانی انبیاء و اولیاء علیہم السّلام اور مومنینِ بایقین کے عوالمِ شخصی کے گھروں میں روشن ہوتا رہا ہے؟ فِیْ بُیُوْتٍ اَذَنَ اللہُ  سے آخر تک (۲۴: ۳۶) دیکھیں، ایسی عالی شان خدائی تعریف کن گھروں کے بارے میں ہو سکتی ہے؟۔ س(۶) سورۂ حدید کے ایک ارشاد (۵۷: ۱۳) کے مطابق ظاہر و باطن کے درمیان دیوار ہے، اور اس میں ایک دروازہ بھی ہے، آپ بتائیں اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ س(۷) سورۂ طور(۵۲: ۰۴) میں بیت المعمور کا ذکر آیا ہے، جس کے معنی ہیں آباد گھر، جو آسمانِ روحانیّت پر ہمیشہ نورانی علم سے آباد ہے، کیا ایسا گھر حظیرۂ قدس ہو سکتا ہے؟

الغرض احادیثِ صحیحہ قرآنِ مقدّس کے وہ باکمال اور بیمثال تفسیری اور تاویلی خزائن ہیں، جو صاحبِ جوامع الکلم اور قرآنِ ناطق یعنی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانِ معجز بیان سے ہونے کی وجہ سے جامعیت میں لاجواب اور انتہائی قابلِ ستائش ہیں، پس حضورِ اکرمؐ کا یہ ارشادِ گرامی”انا مدینۃ العلم و علی بابھا” تاویلاتِ جامعہ کا زبردست کلیہ ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ یہ حدیثِ شریف اس آیۂ کریمہ ” وَكُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ” کی

۶۱

روشن ترین تفسیر و تاویل ہے۔

مذکورۂ بالا حدیثِ شریف کی دوررس اور ہمہ گیر حکمتوں کا احاطہ ہم کیسے کر سکتے ہیں، جبکہ یہ صاحبِ جوامع الکلم کا کلامِ حکمت نظام ہے، لیکن صرف نمونہ اور مثال کے طور پر دیکھئے ایک اور حکمت کہ شہر اور گھر کا تذکرہ قرآن میں کس طرح ہے، چنانچہ سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) میں ہے: اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی (ھارون) کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لئے مصر(شہر= عالمِ شخصی) میں گھر بناؤ اور اپنے ان گھروں کو (روحانی ترقی سے) خانۂ خدا بناؤ اور نماز قائم کرو اور مومنین کو بشارت دو۔ اگر ہم حکمت کی روشنی میں دیکھ سکتے ہیں تو اس میں یہ واضح اشارہ موجود ہے کہ پیغمبرؐاور امامؑ خدا کے حکم سے مومنین کو عالمِ شخصی میں ترقی دیکر حظیرۂ قدس تک پہنچا سکتے ہیں، کیونکہ صرف اسی مقام پر مومنین کا گھر اللہ کا گھر بن سکتا ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

 

نصیر الدین نصیر(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

ادت ۲۲ رجب المرجب ۱۴۱۸ھ ۲۳ نومبر۱۹۹۷ء

۶۲

حاملانِ عرش کون ہیں؟

 

سوالِ اوّل: حاملانِ عرش کتنے ہیں؟ قیامت کے دن سات ہوتے ہیں یا آٹھ؟ اگر آپ کا کہنا ہے کہ آٹھ ہوتے ہیں تو تفصیلاً بتائیں کہ حقیقت کس طر ح سے ہے؟

سوالِ دوم: قرآنِ حکیم کے دو مقام پر حاملانِ عرش کا ذکر آیا ہے(۴۰: ۰۷ تا ۰۹، ۶۹: ۱۷) ان تمام الفاظ کے معانی غور سے دیکھ لیں، اور ہمارے نہایت ضروری سوالات کے جوابات مہیا کریں، اب آپ یہ بتائیں کہ حاملانِ عرش فرشتے ہیں یا انسانان کامل؟ وہ آسمان پر ہیں یا زمین پر؟ وہ کس طرح حضرتِ ربّ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں؟

سوالِ سوم، عرش کے گرداگرد جو فرشتے ہیں، کیا وہ طواف کرتے ہیں؟ کیا یہی عرش بیت المعمور بھی ہے؟ حاملانِ عرش کس طرح اپنے پروردگار کی تسبیح کرتے ہیں؟ ایمان کا درجۂ کمال کیا ہے؟ وہ کن لوگوں کے لئے استغفار کرتے ہیں؟

۶۳

سوالِ چہارم: آیا ہر چیز کے ظاہر و باطن میں رحمت اور علم موجود ہے؟ بتائیں وہ کس طرح سے ہے؟ ایسا ہمہ گیر اور کائناتی علم کس مقصد کے پیشِ نظر ہے؟ آیا یہ بات درست ہے کہ اہلِ بصیرت آسمان زمین کی ہر چھوٹی بڑی چیز میں علم کو دیکھتے ہیں؟ قرآن کی ہر چیز میں رحمت اور علم کس طرح ہے؟

سوالِ پنجم: توبہ کا آخری درجہ کیا ہے؟ توبہ اور راہِ خدا کی پیروی میں کیا مناسبت ہے؟ عذابِ دوزخ سے بچنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ عدن کے کیا معنی ہیں؟ بہشت کے باغات کن معنوں میں ہمیشہ ہیں؟ آیا دائمی بہشت میں اہلِ بہشت بھی ہمیشہ ہیں؟ “ہم بہشت سے باہر آئے نہیں ہیں، یہ تو ہمارا سایہ ہے” یہ قول کس عظیم صوفی کا ہے؟

سوالِ ششم: تو بکل بینا نہ ای زانگہ تو بیراہ ماندہ ای+ توبکل بینا شوی جان وجسد یکسان تست۔ مفہوم: تو اپنے کُل کو دیکھ نہیں سکتا، اسی وجہ سے تو راہ یا ب نہیں ہے، جب توکُل کو دیکھے گا اور پہچان لے گا، تو کہنے لگے گا کہ میں روح بھی ہوں اور مادّہ بھی، یعنی میں خود کُل ہوں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ تو بہشت میں بھی ہے اور اس سے باہر بھی۔ بتائیے کہ یہ شعر کس کا ہے؟

 

نصیر الدین نصیر(حبِّ علی) ہونزائی۔

کراچی ۲۹ نومبر۱۹۹۷ء

 

نوٹ: یہ درس بیحد ضروری ہے۔

۶۴

سورۂ تین کے بارے میں حکمتی سوالات

 

سوالِ اوّل: آپ نے سورۂ تین کے معنی میں خوب غور کیا ہوگا، اور اس کے آغاز کی تین آیاتِ کریمہ کی تاویل کتابِ وجہ دین، کلام ۱۱ میں پڑھی ہوگی، تو بتائیں وہ تاویل کیا ہے؟ آیا یہ حقیقت آپ کو معلوم ہے کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ نے پُرحکمت قسمیں کھائی ہیں، وہاں انتہائی عظیم اسرار پوشیدہ ہوا کرتے ہیں؟

سوالِ دوم: اللہ جلّ جلالہ نے عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اور اساس کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ اس نے انسان کو تقویمِ احسن میں پیدا کیا ہے، کیا اس سے ہر انسان مراد ہے؟ تقویم کے معنی و مفہوم کیا ہیں؟ انسان کی یہ تخلیق جسمانی ہے یا روحانی؟ آیا یہ تصوّر درست ہے کہ انسان کی تخلیق عالمِ شخصی کی ارتقائی سیڑھی پر زینہ بزینہ اور درجہ بدرجہ ہوتی جاتی ہے، تاآنکہ بالآخر یہ حظیرۂ قدس میں پہنچ کر اپنے باپ آدم کی طرح رحمان کی صورت پر ہو جاتا ہے؟

سوالِ سوم: قرآن اور اسلام میں ارتقائی سیڑھی (معراج،

۶۵

معارج) کی اہمیت کس طرح بیان ہوئی ہے؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے سب کو روحاً نفسِ واحدہ کی حیثیت میں ارتقائی سیڑھی سے بلند کیا، اور جسماً اسفلِ سافلین میں پلٹا دیا؟ اب آپ یہ بتائیں کہ جن لوگوں نے حقیقی معنوں میں ایمان لایا اور علم کی روشنی میں نیک کاموں کو انجام دیا، وہ دراصل عالمِ علوی میں ہیں یا عالمِ سفلی میں؟

سوالِ چہارم: تقویم کے لفظی معنی ہیں سیدھا کرنا، جس سے درجات یا حدودِ دین کی سیڑھی مراد ہے، اس کو آپ ارتقائی سیڑھی بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن پوچھنا یہ ہے کہ آیا ایسی سیڑھی روح کے لئے ہے یا جسم کے لئے؟ کیا یہ نظریہ درست ہے کہ اگرچہ انسان سب کے سب روحانی اعتبار سے نفسِ واحدہ کی بہشت میں ہیں، لیکن اس کی بے پایان خوشی صرف انہی لوگوں کو حاصل ہے، جو ایمان کی پختگی، علم کی رسائی، اور حسنِ عمل کی بناء پر اہلِ یقین میں سے ہوگئے ہیں؟

 

 

نصیر الدین نصیر(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی ۳۰ نومبر ۱۹۹۷ء

 

نوٹ: یہ درس بیحد ضروری ہے، کیونکہ اس میں یہ انتہائی عجیب و غریب حقیقت ہے کہ انسان بہشت میں بھی ہے اور دنیا میں بھی۔

۶۶

اگرآپ سے پوچھا جائے

 

۱۔ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت کا ذکر جن آیاتِ قرآنی میں آیا ہے، وہ کل کتنی ہیں؟ تو بتا دینا کہ ایسی آیاتِ کریمہ کی تعداد ۶ (چھ) ہے، اوراگر اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی ہو کہ سنتِ الہٰی سے کیا مراد ہے؟ تو جواب دینا کہ سنت اللہ کا مطلب ہے اللہ کا دستورِ حکمت اور قانونِ قدرت۔

۲: اگر آپ سے پوچھا جائے کہ اللہ جلّ جلالہ کی سنت کی معرفت ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اگر ہو سکتی ہے تو کہاں اور کس طرح؟ اس  مسئلہ کے جواب میں کہہ دیجئے کہ ہاں، سنتِ الہٰی کی معرفت ہو سکتی ہے، اور ہر قسم کی معرفت کا مقام عالمِ شخصی ہی ہے، اس کا طریقِ کار اللہ کے نیک بندوں کی خود شناسی ہے، کہ اس سے جب ربّ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو پھر اس کی سنت کی معرفت کیوں حاصل نہیں ہوتی۔

۳: اگر پوچھا جائے کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ عارف کو عالمِ شخصی

۶۷

میں سنتِ الہٰی سے متعلق تمام گزشتہ اور آئندہ واقعات کا مشاہدہ ہوتا ہے، جس کا نتیجہ معرفت ہے؟ آپ یوں جواب دیں کہ بحکمِ سنتَ اللہ التی قد خلت فی عبادہٖ (۴۰: ۸۵) یہ حقیقت ثابت اور روشن ہے کہ خدا کی سنت اس کے خاص بندوں کے عالمِ شخصی میں ظہور پذیر ہوتی ہے، کیونکہ “فی عبادہٖ” (اس کے خاص بندوں کے اندر) کا مطلب یہی ہے۔

۴: اگر یہ سوال ہو کہ پروردگارِ عالم کی سنت وہ عملی قانون ہے جو ساری کائناتوں اور تمام زمانوں پر محیط ہے، پھر اس کا احاطہ عارف کا عالمِ شخصی کس طرح کر سکتا ہے؟ آپ بطورِ جواب یہ بتا دینا کہ خدائے قادرِ مطلق عارف کے باطن میں تمام لطیف اشیاء کو ملفوف و محدود کر دیتا ہے، جبکہ اس کی ذاتی قیامت قائم ہو جاتی ہے۔

۵۔ اگر کوئی آپ سے یہ پوچھے کہ زمانۂ آدم سے لے کر آج تک دنیا بدلتی ہوئی آئی ہے اور بدلتی رہے گی، اور دینِ فطرت کے بارے میں بھی یہ کہاجاتا ہے کہ یہ حرکیاتی / حرکی (DYNAMIC) ہے، جبکہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے کہ اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں، تو بتائیں کہ اس میں کیا راز ہے؟ آپ جواباً یہ کہیں کہ با این ہمہ دین کے اساسی امور اور باطنی معجزات ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق ایک جیسے ہیں، اور ان میں کوئی تغیر و تبدل ممکن ہی

۶۸

نہیں، اہلِ دانش کے لئے اس حقیقت کی ایک بڑی جامع مثال آیۂ مبارکہ شرع لکم من الدین۔ (۴۲: ۱۳) میں موجود ہے۔

۶۔ اگر وہ سائل یہ بھی پوچھے کہ ایسے باطنی معجزات کہاں ہیں، جن میں ذرا بھی تبدیلی نہیں، لہٰذا وہ ہمیشہ خدا کی سنتِ بے بد ل کے مصداق ہیں؟ آپ اس کا جواب اس طرح سے دیں کہ جملہ باطنی معجزات عالمِ شخصی میں ظہور پذیر ہوتے ہیں، علی الخصوص حظیرۃ القدس میں کل معجزے جمع ہیں، جیسے ارشاد ہے: وَكُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ كِتٰبًا = اور ہم نے ہر چیز کو ایک کتاب میں گھیر کر رکھا ہے (۷۸: ۲۹) اس سے حظیرۂ قدس مراد ہے جو حضرتِ امام علیہ السّلام کا نورِ اقدس ہے۔

۷۔ اگرآپ سے یہ پوچھا جائے کہ قرآنِ حکیم میں عالمِ شخصی کا ذکر کہاں ہے؟ تو آپ یہ بتائیں: دیکھئے سورۂ مومن (۴۰: ۸۵)، سورۂ حٓمٓ سجدہ (۴۱: ۵۳)، اور سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱)، یہ قرآنِ پاک کے کم سے کم حوالے ہیں، اور عالمِ شخصی کا تذکرہ اس حدیثِ شریف میں بھی ہے: اعرفکم بنفسہٖ اعرفکم بربہ =  تم میں جو سب سے زیادہ اپنے آپ کو پہچانتا ہے وہی شخص تم میں سب سے زیادہ اپنے پروردگار کو پہچانتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مولا علیؑ کا ارشاد بھی ہے: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ= جس نے اپنے آپ کو پہچانا یقیناً  اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ یہ سب حوالہ

۶۹

جات عالمِ شخصی سے متعلق ہیں، کیونکہ سنتِ الہٰی کا ظہور اور ہر گونہ معرفت اسی میں ہے۔

۸۔ اگر پھر یہ سوال ہو کہ باطنی معجزات اور اللہ کی سنت کے بارے میں وضاحت ہو گئی، لیکن ظاہراً دین کے بنیادی امور میں سنتِ الہٰیہ ہمیشہ کس طرح یکسان اور بے بدل رہی ہے؟ آپ اس کا جواب یوں دیجئے کہ اس سلسلے میں سب سے اہم اور سب سے قابلِ توجہ بات تو یہ ہے کہ خداوندِ قدوس نے دین کی بنیاد خلافت و جانشینی پر قائم و مستحکم کر دی، جبکہ خدا نے آدم علیہ السّلام کو اپنا خلیفہ بنایا، اور اگر اللہ تعالیٰ کے اس امرِ خلافت میں یہ منشاء اور یہ اشارہ نہ ہوتا کہ “اس سنتِ الہٰی کے مطابق دورِ اعظم میں تا زمانِ قیامت القیامات خلافتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا سلسلہ چلتا رہے گا”، تو خود ذاتِ سبحان کے لئے کسی خلیفے کا ہونا عقل کے نزدیک از بس عجیب مسئلہ ہوتا، پس اس بے مثال قرآنی دلیل سے یہ معلوم ہوا کہ امامِ برحق علیہ السّلام جو قرآنِ ناطق بھی ہے، اور اللہ کی نورانی رسی بھی، وہ خلافتِ الہٰیہ کی سنتِ قائمہ بھی ہے کہ اس کے نورٌعلی نور کا سلسلۂ مبارکہ حضرتِ آدمؑ سے چلا آیا ہے، کیونکہ یہ امامِ آل محمدؐ اور اولاد علیؑ ہے۔

۹۔ اگر آپ سے یہ مزید سوال کیا جائے کہ بتائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنتِ طیبہ کی کیا تعریف ہے؟ آپ اس

۷۰

اہم سوال کا جواب اس طرح سے دیں کہ حضورِ انورؐ ظاہراً و باطناً قرآنِ ناطق تھے، اس لئے آپؐ کی سنتِ طیبہ اللہ تعالیٰ کی پاک سنت کی مظہر ہوگئی تھی، جیسے سورۂ قلم (۶۸: ۰۴) میں ارشاد ہے: وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم = اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو۔ خلق کا اصل ترجمہ: عادت (سنت)، چلن، سیرت، پس اسی قرآنی ارشاد میں حضرت سید الانبیاءؐ کے اخلاقِ عالی اور سنتِ طیبہ کی تعریف ہے، جو آپؐ کی ذاتِ پاک میں تھی، چونکہ آپؐ خاتم الانبیاء تھے (۳۳: ۴۰) اس لئے آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوا، لیکن نورٌ علی نور کا سلسلہ ہمیشہ جاری ہے، یعنی امامِ برحقؑ پیغمبرِ اکرمؐ کا جانشین ہے، یہ جانشینی وہی خلافتِ کبریٰ ہے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے حضرت آدمؑ کو عطا ہوئی تھی۔

۱۰۔ یہ عقیدت بالآخر حقیقت بن جاتی ہے کہ خاص مومن بندے کا قلب اللہ تعالیٰ کا عرش (تختِ شاہی) ہے، جیسے حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے: ما وسعنی ارضی ولاسمائی ووسعنی قلب عبدی المومن (المعجم الصوفی، ص۱۲۶۵) میری زمین مجھ کو نہ سما سکی نہ میرا آسمان مجھ کو سما سکا لیکن میرے مومن بندے کے دل نے مجھ کو سما لیا۔ اس سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ عالمِ اکبر سے عالمِ اصغر (عالمِ شخصی) افضل و اعلیٰ ہے، یہاں یہ بھی معلوم ہوا

۷۱

کہ سلسلۂ نبوّت کے ساتھ بھی اور اس کے بعد بھی سلسلۂ امامت کا ہونا ازبس ضروری ہے، کیونکہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہی کے عالمِ شخصی میں خداوندِ قدوس کی عرفانی تجلّی ہوتی ہے، تاکہ عارفین اپنے ربّ کو پہچان سکیں، اور سنتِ الہٰی کو چشمِ بصیرت سے دیکھیں۔

۱۱۔ اللہ تعالیٰ کی سنت میں انبیاء و اولیا علیہم السّلام کے لئے انتہائی عظیم نعمتیں ہیں، مثلاً شروع سے لے کر آخر تک واقعۂ قیامت کے اسرار سے آ گہی، عالمِ شخصی کے باطنی مشاہدات و تجربات، حضرتِ آدمؑ کا روحانی اور تاویلی قصّہ، اور اسی طرح انبیائے قرآن کے روحانی سفر کا تجربہ اور عرفان، ربّ العزّت کا دیدارِ اقدس اور کلامِ پاک، حظیرۂ قدس کے سب سے عظیم اسرار، نامۂ اعمال کے عجائب و غرائب، آسمانوں اور زمین کی تمام پھیلی ہوئی چیزوں کا مرکوز ہو جانا، دستِ قدرت کا مسلسل کائنات کو لپیٹتے اور پھیلاتے رہنا، الغرض خداوندِ قدوس کی سنت میں ایسی بے شمار نعمتیں ہیں، اور ان سب میں دائمی بہشت کی عملی خوشخبری ہے۔

۱۲۔ خدائے قادرِ مطلق نے امامِ اقدسؑ میں تمام پیغمبروں کے باطنی معجزات کو جمع کیا ہے، یہی معجزات سنتِ الٰہی کے ظہورات بھی ہیں، اور اس عظیم ترین کلّیۂ امامت سے کوئی لطیف چیز باہر نہیں، جیسا کہ قلبِ قرآن (۳۶: ۱۲) میں ارشاد ہے: وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ = اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبین

۷۲

میں گھیر کر رکھا ہے۔ اہلِ دانش کے سامنے یہ حقیقت روشن ہے کہ اس بولنے والے ربّانی خزانے میں ہر چیز کے ساتھ ساتھ رسولِ اکرمؐ کی زندہ سنت بھی محفوظ و موجود ہے۔

۱۳۔ اے مومنین ومومنات!آپ اس انتہائی عظیم سعادت کو حاصل کرنے کے لئے سخت کوشش کریں کہ آپ جیتے جی “فنا فی الامام” کے گنجِ گرانمایہ کو پاسکیں، تاکہ حضرتِ امام علیہ السّلام خود بعنوانِ علّیّین (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) آپ کا نامۂ اعمال ہو جائے، تب ہی آپ نورِ معرفت کی روشنی میں بخوبی دیکھ سکیں گے کہ مولا کس طرح کتابِ ناطق ہے(۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) اور کن معنوں میں اللہ تعالیٰ نے اس کی ذات میں تمام لطیف چیزوں کوگھیرکررکھا ہے (۳۶: ۱۲)، ایسے نامۂ اعمال کی برکت سے آپ ناطقان، اساسان، امامان، اور حجتان کے ساتھ ہوں گے(۰۴: ۶۹)۔

۱۴۔ یہ نامۂ اعمال وہ ہے جس کی تعریف و توصیف خود اللہ تعالیٰ ہی نے فرمائی ہے، جبکہ ارشاد ہوا کہ یہ نامۂ اعمال خدا کی بولنے والی کتاب بھی ہے، اور شرف و برتری کی وجہ سے اللہ کے قربِ خاص میں بھی ہے، و ہ سچ سچ بولتی ہے، یعنی اس کا علم و حکمت صداقت اور حقیقت کی انتہائی بلندی پر کیوں نہ ہو، جبکہ وہ حضرتِ ربّ العزّت کی کتابِ ناطق ہے، اور اس کا کلام اللہ کا کلام ہے، اس لئے وہ صفتِ عدل سے بھرپور ہے، نیز اس نامۂ اعمال اور بولنے والی

۷۳

کتاب کو علّیّین کا نام دیا گیا ہے، جس کے معنی میں اگرچہ علماء کو اختلاف ہے، تاہم یہ حقیقت ہے کہ ا س سے عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اور اساس مراد ہیں کہ کتابِ ناطق کی اصل یہی سب سے اعلیٰ مراتب ہیں، اور یہ چاروں درجات مجموعاً علّیّین بھی ہیں اور کتابِ مرقوم بھی، جس میں ابرار کی کتابِ اعمال یا کتابِ ناطق رکھی ہوئی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بالآخر ایک ہی کتاب ہے۔

 

نصیر الدین نصیر(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل ۸ شعبان المعظم ۱۴۱۸ھ ۹ دسمبر۱۹۹۷ء

۷۴

تاویل کے مترادفات اور مقامات

 

۱۔ آپ جیسے اہلِ دانش کو معلوم ہے کہ قرآنِ حکیم میں حقائق و معارف کی مثالیں طرح طرح سے بیان کی گئی ہیں (۱۷: ۸۹، ۱۸: ۵۴) چنانچہ تاویل کی ایک بڑی عمدہ مثال یا ایک خوبصورت نام “نعمت” ہے، جس کا اوّلین تذکرہ ام الکتاب (سورۂ فاتحہ) میں وہاں موجود ہے جہاں آپ پڑھتے ہیں: صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ (ان لوگوں کا راستہ جن کو تو نے اپنی نعمتوں سے نوازا ہے) یعنی آپ خود نہیں بلکہ آسمانی تعلیم کے مطابق خداوندِ قدّوس سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ مہربان آپ کو ناطقوں، اساسوں، اماموں، اور حجّتوں کے راستے پر چلنے کی ہدایت اور ہمت عطا فرمائے(۰۴: ۶۹) تاکہ آپ کو ان حضرات کی اور ان کی نعمتوں کی معرفت حاصل ہو، اور تاویل کی نعمت ان نعمتوں سے مستثناء کیونکر ہو سکتی ہے۔

۲۔ آپ سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں دیدۂ دل سے دیکھ لیں، یعنی آیۂ قانونِ خزائن کو چشمِ بصیرت سے دیکھ کر بتائیں کہ آیا یہاں اس

۷۵

قانون کے تحت ہر نعمت کا نام ” شَیْ” نہیں ہے؟ کیا اللہ کی تمام نعمتیں اس کے خزائن سے نازل ہونے والی اشیاء نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو یہ بالکل درست ہے کہ تاویل بھی انہی آسمانی اشیاء میں سے ایک مبارک شیٔ ہے، پس معلوم ہوا کہ تاویل کے ناموں میں سے ایک نام نعمت اور دوسرا نام شیٔ ہے، لیکن فرق ظاہرکرنا ہوگا کہ کونسی شیٔ ہے؟ جواباً عرض ہے کہ خدا کے خزانوں سے روحانی، نورانی، علمی، عقلی، اورعرفانی چیزیں نازل ہوتی رہتی ہیں لہٰذا تاویل بھی ایک ایسی شیٔ ہے۔

۳۔ جو نیک بخت لوگ دعائے اِھْدِناَ…… کے مطابق صراطِ مستقیم پر گامزن ہو کر امامؑ، رسولؐ، اوراللہ میں فنا ہو جاتے ہیں، ان کو لاریب خزائنِ تاویل حاصل ہو جاتے ہیں، اور یہ سب سے بڑی کامیابی ہے (ذلک الفوزُ العظیم) ان کے نزدیک تاویل کی بہت سی مثالیں اور بہت سے نام ہوتے ہیں، کیونکہ ربِّ کریم کے فضل و کرم سے ان کے لئے روحانیّت اور قرآن کا ہر دروازہ مفتوح رہتا ہے۔

۴۔ سورۂ رحمان میں شروع سے لیکر آخر تک اللہ تبارک و تعالیٰ کی ان عظیم نعمتوں کا تذکرہ ہے، جو جنّ و انس کے لئے پیدا کی گئی ہیں، اور ایسا ہوشمند شخص کون ہوگا جو کہتا ہو کہ ان آلاء (نعمتوں) میں تاویلی نعمت کسی طرح سے بھی موجود نہیں، یہ بات تو ہو ہی نہیں سکتی۔

۷۶

۵۔ سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں جس طرح ارشاد ہوا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے اہلِ ایمان کے لئے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کو مسخر کر دیا ہے اور اپنی تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں ان پر پوری کر رکھی ہیں۔ اس ارشاد سے متعلق بزرگانِ دین کا یہ قول ایک روشن حقیقت ہے کہ تاویل باطنی نعمتوں میں سے ہے، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ یہ ساری نعمتیں بحدِّ قوت عطا ہوچکی ہیں، اور بحدِّ فعل عطا ہونے والی ہیں۔

۶۔ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں ثمر یا ثمرات کا ذکر آیا ہے، وہاں تاویل کا نام بھی ثمر ہے، کیونکہ ثمر (پھل = میوہ) اپنی حد تک شیرین ہے، اور تاویل جو میوۂ بہشت ہے وہ بیحد شیرین ہے، اسی مناسبت سے ہر میوۂ شیرین تاویل کی مثال ہے، اور شہد جو پھلوں اور پھولوں کے رس سے بنتا ہے، وہ بطورِ خاص تاویل کی مثال ہے۔

۷۔ سورۂ نحل (۱۶: ۶۹) میں جو ارشاد ہے: فِیْہِ شِفَاء ٌ لِلنَّاس میں لوگوں (کے کئی امراض) کی شفا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ لوگ اپنے امراضِ باطن کا علاج تاویلی شہد سے کر لیا کریں، کیونکہ بیماری نہ صرف جسم ہی کو ہوتی ہے، بلکہ مرض روح اورعقل کو بھی ہوتا ہے، جس کی بہترین دواعسلِ تاویل ہی ہے۔

۸۔ سورۂ یاسین کے قلبِ قرآن ہونے میں بہت بڑا راز ہے، اسی سورہ میں یہ بہت بڑا کلّیہ ہے: وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ

۷۷

اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے ہر چیز کو ایک پیشوائے ظاہر میں گھیر کر رکھا ہے۔ یہ وہ مقامِ عالی ہے جہاں خدائے تعالیٰ دستِ قدرت سے آسمانوں اور زمین کو ہمیشہ لپیٹتا رہتا ہے، ایسے میں خدا کے بابرکت ہاتھ اور پُرحکمت فعل کی وجہ سے ہر قسم کے شرکا خاتمہ ہو جاتا ہے (۰۳: ۲۶) اور صرف خیر ہی خیر باقی رہتی ہے، جس سے حظیرۂ قدس اور تاویلِ محضِ مجرد کا ظہور ہوتا ہے، اور ذیلی طور پر جتنی بھی تاویلات ہیں، ان سب کا رخ اسی خزانۂ خزائنِ الہٰی کی طرف ہوتا ہے، الغرض امامِ مبینؑ میں ہر لطیف چیز کے ساتھ ساتھ بدرجۂ اعلیٰ قرآنی تاویل بھی ہے۔

۹۔ علم، رحمت، اور برکت قرآنِ عزیز کے ایسے کائناتی معانی ہیں کہ ان میں لازماً تاویل کے معنی بھی ہیں، مثال کے طور پر آپ سورۂ یوسف میں دیکھ سکتے ہیں کہ حضرتِ یوسفؑ جو امام تھا، اس کے علم ُالتاویل نے اہلِ مصر کے لئے کتنا مفید کارنامہ سرانجام دیا، اس کی ہدایت لوگوں کے حق میں رحمت ثابت ہوئی کہ جس سے وہ قحط کی بدترین موت سے بچ گئے، اور حضرتِ یوسفؑ کا وزیرِ خزانہ بن جانا ملکِ مصر کے لئے باعثِ برکت تھا۔

۱۰۔ تاویل دراصل علم الآخرت ہی ہے، اس کے ہونے میں بہت سے فوائد ہیں، اورنہ ہونے میں بہت سے نقصانات، سورۂ نمل میں دیکھئے: بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم تھک

۷۸

کر رہ گیا، بلکہ یہ لوگ اس میں شک میں ہیں، بلکہ یہ اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں (۲۷: ۶۶)۔

۱۱۔ یقین، معرفت، حکمت، اور تاویل اصلاً ایک ہی حقیقت ہے، جس کے تین بڑے طویل مراحل ہیں، ایک ظاہر میں ہے اور دو باطن میں، جیسے آپ کہتے ہیں: علم الیقین، عین الیقین، اورحق الیقین، پس یہی یقین اسی طرح معرفت، حکمت، اور تاویل بھی ہے۔

۱۲۔ عالمِ شخصی سراسر تاویلی عجائب و غرائب سے مملو ہے، جس کا دروازہ ذاتی قیامت سے کھل جاتا ہے، تاہم نورانی خوابوں کا سلسلہ پہلے ہی سے شروع ہو جاتا ہے، جو روحانیّت اور تاویل کا حصّہ ہیں، روحانی ترقی کی اصل و اساس محمد و آلِ محمد (صلی اللہ علیہ و علیہم اجمعین) کی پاک محبت ہے، اسی مقدّس محبت میں دین کے تمام اسرار پوشیدہ ہیں۔

۱۳۔ سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۲) میں ارشاد ہے: اور اہلِ یقین کے لئے زمین میں بہت سی آیاتِ قدرت ہیں، اور خود تمہاری ذات میں بھی، اور کیا تم کو دکھائی نہیں دیتا؟ اور تمہارا رزق اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ سب (یعنی قیامت) آسمان میں ہے۔ یہاں چشمِ بصیرت سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ زمین کونسی ہے؟ زمینِ کائنات؟ زمینِ نفسِ کلّی؟ یا یہ سیّارہ جس پر ہم رہتے ہیں؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ آیا یہ ممکن ہے

۷۹

کہ انسان اپنے عالمِ شخصی کے عجائب و غرائب اور معجزات کو دیکھ سکے؟ اگر نہیں تو یہ سوالیہ ارشاد کیوں ہے؟ تیسرا اور آخری سوال یہ ہے کہ آیا روحانی اور عقلی رزق اور قیامت ظاہری آسمان میں ہے یا دینی آسمان میں؟ اگر دینی آسمان میں ہے تو ہر چیز اور سب کچھ کے لئے امامِ مبینؑ سے رجوع  کیوں نہ کریں، تاکہ اللہ تعالیٰ کے اسی خزانے سے ہر چیز اور ہر تاویل حاصل ہو۔

۱۴۔ حدیثِ نوافل میں مذکورتمام معجزات تین فناؤں کے بعد ظہور پذیر ہوتے ہیں، وہ تین عظیم الشّان فنائیں یہ ہیں: فنا فی الامامؑ، فنا فی الرسولؐ، اور فنا فی اللہ، جس کے بعد ہر قسم کے تاویلی معجزے ہوتے رہتے ہیں، جن کی روشنی میں عارف کو اسرارِ الہٰی کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔

۱۵۔ علم لدنی، بصیرت، صدق، شہادت، ھدایت، توفیق، تائید، الہام، القاء، کشف وغیرہ تاویل کے مترادفات میں سے ہیں، کیونکہ روحانی انقلاب (ذاتی قیامت) کے بعد الفاظ کے معنوں میں بھی تاویلی انقلاب آتا ہے۔

۱۶۔ تاویل کی روشنی حاصل ہونے اور نہ ہونے میں لا انتہا فرق ہے، آپ سورۂ یونس کے اس ارشاد کا بغور مطالعہ کریں: بلکہ جس چیز کے جاننے پر ان کا دسترس نہ ہو اس کو جھٹلانے لگے، حالانکہ ابھی تک ان کے پاس اس (قرآن) کی تاویل نہیں آئی ہے، اسی

۸۰

طرح ان لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا، جو ان سے پہلے تھے (۱۰: ۳۹) یعنی یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے نورِ منزل کو نہیں پہچانا۔

۱۷۔ سورۂ حدید (۵۷: ۲۸) میں دیکھنے سے آپ کو یہ قانون معلوم ہو جائے گا کہ نورِ امامت کی روشنی کے بغیر کوئی مومنِ سالک ایک قدم بھی چل نہیں سکتا، لہٰذا حق سبحانہ و تعالیٰ نے تکمیلِ شرائط کے حکم کے ساتھ ساتھ فرمایا: وَیَجْعَل لَّکُمْنُوراً تَمْشُونَ بِہٖ = اور خدا تم کو ایسا نور مقرر فرمائے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے۔ آپ کی پختہ اور ازبس مفید معلومات کی خاطر سوال ہے کہ ایسے پاک نور کی روشنی میں کس کس جہان میں چلا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ ناسوت، ملکوت، جبروت، اور لاہوت میں، غرض خدا کی ساری خدائی میں روحانی، عقلی، علمی، عرفانی، اور تاویلی سفر ہو سکتا ہے، اور یہ تمام طویل راہیں اور مسافتیں عالمِ شخصی اور قرآن ہی میں محدود ہیں، پس نورِ ھدایت کی روشنی میں سالک کا پہلا سفر خدا کی طرف ہے، جس کو اھلِ تصوف سیر الی اللہ کہتے ہیں، اور دوسرا سفر خدا میں ہے، جس کا نام سیر فی اللہ ہے، اور یہ بے پایان سفر کیوں ہے اس کا ذکر ہوچکا۔

۱۸۔ آپ قرآنِ حکیم میں دیکھ رہے ہیں کہ خدا کی بادشاہی میں ہر جگہ آیات ہی آیات ہیں، یعنی قرآن میں آیات، کتاب ِنفسی (عالمِ

۸۱

شخصی) میں آیات، کتابِ کائنات میں آیات، اور کتابِ ناطق (امام مبین) میں آیات، جبکہ وہ کل کلّیات ہے، اب آپ پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ عالمِ ہست و بود میں آیت کے سوا کوئی چیز ہے ہی نہیں، اور تاویل کے بغیر کوئی آیت ممکن ہی نہیں، پس ظاہر ہوا کہ ہر ہر عالم، ہر مقام، ہر سو، ہر شیٔ، اور ہر ذرّہ میں تاویل یا روحانی سائنس کا راز پنہان ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

ادت ۲۷ شعبان المعظم ۱۴۱۸ھ ۲۸ دسمبر ۱۹۹۷ء

۸۲

نامۂ اعمال کا علمی پہلو

 

۱۔ نامۂ اعمال قرآنِ عزیز کا ایک عظیم الشّان اور آسمانی حکمتوں سے مملو مضمون ہے، لہٰذا اھلِ ایمان کے لئے یہ امر بیحد ضروری ہے کہ وہ مضمونِ عالی سے متعلق تمام آیاتِ شریفہ کو دل و جان سے پڑھیں یا سنیں، اور اپنے لئے قرآنی علم و حکمت کے انمول جواہر کا لا زوال خزانہ بنا لیں، یاد رہے کہ قرآنِ حکیم آفاق میں وہ بے مثال عقلی اور دائمی معجزہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول حضرتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عطا فرمایا ہے، اس کے بے شمار عجائب و غرائب میں سے ایک اعجوبہ یہ بھی ہے کہ یہ ہر عظیم مضمون میں معجزانہ طور پر مرکوز و مجموع ہوکر اپنے عارفین کو حیرت میں ڈالتا ہے۔

۲۔ قرآنِ پاک کاارشاد ہے: وَاِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰفِظِیْنَ  كِرَامًا كَاتِبِیْنَ  یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ (۸۲: ۱۰ تا ۱۲)۔ ترجمۂ اوّل: اور تم پر یاد کرنے والے، معزز لکھنے والے مقرر ہیں، جو تمہارے سب

۸۳

اعمال کو جانتے ہیں۔ ترجمۂ دوم: اور تم پر (زمانۂ آدم سے اس طرف کی روحانی سرگزشت) یاد کرنے والے (اور موجودہ زندگی کے تمام احوال و اعمال) لکھنے والے معزز فرشتے مقرر ہیں، جو تمہارے سب اعمال کو جانتے ہیں۔

۳۔ بحکمِ حدیثِ شریف: الارواح جنود مجندہ = روحیں جمع شدہ لشکر کی صورت میں تھیں اور ہیں (ھزار حکمت، ح۵۱) پھر انسان کے نامۂ اعمال میں روحانی واقعات کا ریکارڈ کیوں نہ ہو، قرآنِ عظیم کی روشنی میں سب سے پہلے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے زمانے میں دیکھیں، وہاں آدم خلیفۃ اللہ کے ساتھ تمام روحیں نظرآتی ہیں (۰۷: ۱۱) پھر حضرت نوح علیہ السّلام کی باطنی کشتی ذرّاتِ ارواح سے بھری ہوئی دکھائی دیتی ہے (۳۶: ۴۱) اسی طرح ہر انسانِ کامل کے ساتھ روحیں کام کرتی چلی آئی ہیں، ہر عارف نہ صرف اپنی ہی رو ح کو پہچانتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ لشکرِ ارواح کے دائمی نظام سے بھی واقف ہو جاتا ہے۔

۴۔ نامۂ اعمال بڑا عجیب و غریب بلکہ نہایت معجزاتی ہے، اس کا نام اگرچہ کتاب ہے لیکن یہ قرطاس کی نہیں، بلکہ ذراتِ ارواح اور روحانیّت پر مبنی ہے، یہ عالمِ ذرّ بھی ہے، نورانی موویز بھی، عالمِ شخصی بھی ہے اور شخصِ کامل بھی، اس کے ظہورات و تجلّیات لوگوں کے اعمال کے مطابق ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ كُلَّ شَیْءٍ

۸۴

اَحْصَیْنٰهُ كِتٰبًا (۷۸: ۲۹) اور ہم نے ہر چیز کو (ان کے نامۂ اعمال میں) لکھ کر ضبط کر رکھا ہے، ہر چیز(كُلَّ شَیْءٍ) کا مطلب ہے سب، اور اس بیان سے باہر کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی، پس معلوم ہوا کہ نامۂ اعمال اپنی اصل صورت میں عالمِ شخصی ہے، جس میں بطریقِ ظہورات و تجلّیات سب کچھ ہے۔

۵۔ ظہورات و تجلّیات سے کیا مراد ہے؟ اورقرآنِ حکیم میں ان کی مثال یا دلیل کیا ہے؟ جواباً عرض ہے کہ جب ارشاد ہوا کہ نامۂ اعمال (عالمِ شخصی) میں ہر چیز ہے یعنی سب کچھ ہے، تو یقین کرنا ہوگا کہ ا س میں قانونِ ظہور و تجلّی بھی ہے، جس میں ہر لحظہ آنکھوں کے سامنے ایک نیا نظارہ ہوتا ہے، جیسے قرآن میں ہے کہ بہشت میں حسبِ خواہش ہر نعمت سامنے آتی ہے: ۱۶: ۳۱، ۲۵: ۱۶، ۳۹: ۳۴، ۴۲: ۲۲، ۵۰: ۳۵ یعنی صرف مطلوبہ نظارہ سامنے آتا ہے، اور باقی چیزیں غائب رہتی ہیں۔

۶۔ سورۂ رحمان (۵۵: ۲۹) میں ارشاد ہے: كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ = وہ ہر روز ایک (نئی) شان میں ہوتا ہے۔ خداوندِ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں قدیم ہے، لیکن عالمِ شخصی میں اس کے مظہر کے گوناگون ظہورات و تجلّیات ہیں، جن کے وسیلے سے عارف اپنے ربّ کو پہچان سکتا ہے۔

۷۔ عارف کی ذاتی قیامت میں سب لوگوں کے نمائندہ ذرّات

۸۵

جمع ہوتے ہیں، ان میں سب سے بڑی تعداد اہلِ دنیا کی ہوتی ہے، جن کو نامۂ اعمال پشت کے پیچھے سے ملتا ہے(۸۴: ۱۰) یعنی دنیا والوں کی کتابِ اعمال دنیا ہی ہے جو پیٹھ کے پیچھے ہی ہے، باقی اہلِ دین ہیں، جو تین قسم کے ہوتے ہیں (۵۶: ۰۷) داہنے والے، بائیں والے، اور سابقون جو مقرب لوگ ہیں۔

۸۔ سورۂ حاقہ (۶۹: ۱۹) میں ارشاد ہے: پس جس شخص کا نامۂ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیاجائے گا وہ (اظہارِ علم و معرفت کے معنی میں) کہے گا کہ لو میرا نامۂ اعمال پڑھو۔ اس سے یہ رازِ حکمت معلوم ہوا کہ بزرگانِ دین اپنی کتابِ اعمال ہی سے دوستوں کو اسرارِ معرفت کی تعلیم دیتے ہیں، اور یہاں یہ آگہی بھی ہوئی کہ بہشت میں ہر نامۂ اعمال پڑھا جا سکتا ہے، جیسے حدیثِ شریف میں بازارِ بہشت کی تصویروں کا ذکر آیا ہے (ھزار حکمت، ح ۲۵۸)۔

۹۔ سورۂ انشقاق (۸۴: ۰۷ تا ۰۹) میں ہے: تو جس شخص کا نامۂ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں ملے گا سواس سے آسان حساب لیا جائے گا، اور وہ (اس سے فارغ ہو کر) اپنے متعلقین کے پاس خوش خوش آئے گا۔ یعنی عارف کی ذاتی قیامت دنیا ہی میں واقع ہوتی ہے، چنانچہ وہ اس سے فارغ ہوکر خزانۂ علم و عرفان کی بے پایان خوشی کے ساتھ اپنی جماعت کی طرف آتا ہے۔

۱۰۔ سورۂ مومنون (۲۳: ۶۲) میں یہ ارشاد ہے: وَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ

۸۶

یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ = اور ہمارے پاس ایک کتاب (نامۂ اعمال) ہے جو سچ سچ بولتی ہے اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ یہ ہر زمانے کا امام ہے، جو لوگوں پر گواہ بھی ہے، ان کا نامۂ اعمال بھی، اور کتابِ ناطق (قرآنِ ناطق) بھی ہے، یہاں یہ انکشاف ہوگیا کہ نامۂ اعمال اور قرآنِ ناطق دراصل ایک ہی چیز ہے، پس نامۂ اعمال علم و حکمت کا سب سے بڑا خزانہ ہے۔

۱۱۔ یہ ارشاد سورۂ جاثیہ (۴۵: ۲۹) میں ہے: ہَذَا کِتَابُنَا یَنطِقُ عَلَیْکُم بِالْحَق = یہ (نامۂ اعمال) ہماری کتاب ہے جو تم پر سچ سچ بول رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتابِ ناطق نہ صرف لوگوں کے اعمال کی شہادت میں سچ بولتی ہے، بلکہ بلند ترین اور بے مثال سچائی اس کے علم وحکمت میں ہے، پس حضرتِ امامِ اقدس علیہ السّلام ابرار اور مقربین کا نامۂ اعمال اور گنجِ اسرارِ معرفت ہے۔

۱۲۔ جب آپ کو یہ علم ہوچکا کہ امامِ عالی مقامؑ ہی پرہیزگاروں کا نامۂ اعمال ہے تو آئیے اب ہم سورۂ یاسین میں بھی دیکھتے ہیں، جس میں یہ ارشادِ مبارک ہے: اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْۣؕ-وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) بے شک ہم ہی مُردوں کو زندہ کرتے ہیں اور جو کچھ وہ آگے بھیج چکے اور(جو) ان کے نشان پیچھے رہ گئے ہم ان کو قلمبند کر لیتے ہیں اور ہم نے تو سب ہی چیزوں کو امام مبین

۸۷

میں گھیر کر رکھا ہے۔ اس آیۂ مبارکہ کے آخر میں ہر ممکن سوال کا جواب موجود ہے درج ذیل مثالی سوال و جواب ملاحظہ ہو:۔

سوال: اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ خدا ہی مُردوں کو زندہ کرتا ہے، لیکن ایسے میں حضرتِ امامؑ کا ذکر کیوں ضروری ہوا؟ یہاں مبین کے کیا معنی ہیں؟ ان لوگوں کے اعمال و آثار کو بھی جب خدا ہی لکھتا ہے تو اس کا تعلق امامؑ سے کیا ہو سکتا ہے؟۔

جواب: یہ ارشاد خود ذاتِ سبحان ہی کا ہے کہ اس نے سب ہی چیزوں کو امامِ مبین میں گھیرکر رکھا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ اپنے خزانہ یعنی امامؑ کے علمِ بیان (تاویل) سے مُردگانِ جہالت کو زندہ کرتا ہے، اسی وجہ سے امامِ مبین کا ذکرِ جمیل ہوا، یہاں مبین سے علمِ تاویل بیان کرنے والا مراد ہے، جس میں حیاتِ روحانی ہے، چونکہ ہر چیز امام میں ہے، اس لئے ان لوگوں کے اعمال و آثار بھی امام ہی میں قلم بند اور محفوظ ہوتے ہیں۔

۱۳۔ سورۂ مطففین میں بھی نامۂ اعمال سے متعلق زبردست اسرار ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: كَلَّاۤ اِنَّ كِتٰبَ الْاَبْرَارِ لَفِیْ عِلِّیِّیْنَ  وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا عِلِّیُّوْنَ  كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ  یَّشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُوْنَ = ہرگز نہیں، بے شک نیک آدمیوں کا نامۂ اعمال علّیّین میں ہے، اور تمہیں کیا خبر کہ علّیّین کیا ہے؟ وہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے (یعنی حدودِ اعلیٰ کی نورانیّت) جس کو مقرب لوگ دیکھ سکتے ہیں (۸۳: ۱۸ تا ۲۱)

۸۸

جب امامِ مبینؑ میں ہر چیز جمع ہے تو اس میں علّیّین بھی ہے۔

۱۴۔ سورۂ جاثیہ (۴۵: ۲۸) میں ارشاد ہے: وَتَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِیَةً- كُلُّ اُمَّةٍ تُدْعٰۤى اِلٰى كِتٰبِهَاؕ = اور تم دیکھو گے کہ ہر ایک امت (منتظرِ فیصلہ مودب اور) دوزانو بیٹھی ہوگی، ہر ایک امت اپنے نامۂ اعمال کے (دیکھنے کے) لئے لائی جائے گی۔ اس فرمانِ خداوندی سے یہ معلوم ہوا کہ جس طرح ہر شخص کا ذاتی نامۂ اعمال ہوا کرتا ہے، اسی طرح ہر امت، ہر جماعت، اور ہر گروہ کا اجتماعی نامۂ اعمال ہوتا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کا جیسا تقاضا ہے، وہ پورا ہو جائے، یاد رہے کہ انفرادی اور اجتماعی نجات اور عزت علم وعمل کے بغیر ممکن ہی نہیں، افسوس ہے کہ اکثر لوگ علم کی اہمیت کو نہیں سمجھتے ہیں۔

۱۵۔ حضرتِ امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام مومنین و مومنات کا ذاتی اور اجتماعی نامۂ اعمال ہے، اسی کی جبینِ مبارک میں نورِ منزل (۰۵: ۱۵) جلوہ گر ہے، قرآن حکیم کے بہت سے مقامات کے علاوہ سورۂ حدید (۵۷: ۱۲۔ ۔ ) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) میں بھی اسی نور کا تذکرہ ہے، کہ یہ پاک نور مومنین و مومنات کی جبین میں برق رفتاری سے کشفِ اسرارِ معرفت کا کام کرنے لگے گا، مگر یہاں میرا ایک بڑا اہم سوال یہ ہے کہ جبین میں عالمِ کثرت ہے یا عالمِ وحدت؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ عالمِ وحدت ہے تو پھر اس کے قوانین کو

۸۹

سمجھنا ہو گا۔

۱۶۔ سورۂ حدید کے اس ارشاد (۵۷: ۱۹) میں بھی روحانیّت اور معرفت کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا، کہ خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کا درجۂ کمال یہ ہے کہ ان کے روحانی معجزات کو دیکھ کر تصدیق کی جائے، تاکہ ایسے مومنین خدا کے نزدیک صدیقین اور شہداء قرار پائیں، اور ان کو اپنا اجر اور نور ملے (تاویلی مفہوم)۔

 

نصیر الدین نصیر(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل ۷، رمضان المبارک ۱۴۱۸ھ  ۶ جنوری ۱۹۹۸ء

۹۰

دعائے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام

 

رسولِ اکرم صلعم سے یہ حدیث منقول ہے، آپ فرماتے ہیں: میں اپنے جدِ اعلیٰ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی دعا کا ثمرہ ہوں لہٰذا جو لوگ اس امتِ مسلمہ (أئمّۂ طاہرین) کی پیروی کریں گے جس کے اوصاف خداوند تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں بیان کر دیئے ہیں تو وہ ولایت و محبت کے اعتبار سے اس امت میں سے شمار ہوں گے (دعائم الاسلام)

سورۂ بقرہ کے رکوع ۱۵ کی آخری تین آیاتِ مبارکہ کا ترجمہ ہے: (اور یاد کرو اس وقت کو) جب ابراہیم اور اسماعیل خانۂ کعبہ کی بنیادیں بلند کر رہے تھے (اور دعا کرتے تھے) اے ہمارے پروردگار! تو ہم سے قبول فرما کہ تو سننے والا اور جاننے والا ہے، پروردگار! ہمیں اپنے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والا قرار دے اور ہماری اولاد میں سے ایسی امت بنا جو تیرے حضور سرِ تسلیم خم کرنے والی ہو (اس سے گروہِ أئمّہ مراد ہیں) ہمیں

۹۱

اپنی عبادات کا راستہ دکھا اور ہماری توبہ قبول فرما کہ تو تواب اور رحیم ہے، پروردگار! ان (أئمّہ) کے درمیان انہی میں سے ایک رسول (یعنی حضرت محمدؐ) معبوث فرما جو انہیں (یعنی أئمّہ کے باطن میں) تیری آیات پڑھے، انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے، اور انہیں پاک کرے کیونکہ تو غالب اور حکمت والا ہے (۰۲: ۱۲۷ تا ۱۲۹)۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ (۰۲: ۱۴۳) اور اسی طرح (اے أئمّہ) ہم نے تم کو عادل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں۔ زمانے کا امام ظاہراً و باطناً لوگوں پر گواہ (حاضر) ہوتا ہے، اور رسولؐ نورانیّت میں اماموں پر گواہ ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ لوگ اگر چاہیں اور کوشش کریں تو روحانی طور پر امام سے مل سکتے ہیں، اگرچہ شرائط سخت ہیں، لیکن یہ امر محال نہیں۔

 

نصیر الدین نصیر(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعہ۱۰ رمضان المبارک ۱۴۱۸ھ ۹ جنوری ۱۹۹۸ء

۹۲

لفظِ امت کی حکمت

 

امۃ: جماعت، امۃ ام سے ماخوذ ہے، جس کے معنی “ماں” کے ہیں، ہر اس جماعت کو امہ کہتے ہیں، جس میں کوئی مذہب یا وطن یا زمانہ مشترک ہو، گویا یہ مشترکہ چیز بمنزلہ ماں کے ہے اور یہ جماعت بمنزل اولاد کے، جمع امم۔

تمام چیزیں دو دو ہیں، اس لئے امت بھی عام و خاص دو ہیں، ہم یہاں صرف اس امت کا تذکرہ کریں گے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّۃٌ یَہْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِہِ یَعْدِلُونَ (۰۷: ۱۸۱) اور جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے ان میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے اور حق کے مطابق انصاف کیا کرتا ہے۔ اس قانونِ الٰہی کا تعلق زمانۂ آدم سے لے کر قیامۃ القیامات تک ہے، یعنی دورِ نبوّت ہو یا دورِ امامت بہ ہر حال دینِ فطرت میں علم و ہدایت کا سر چشمہ جاری و باقی ہے۔

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۱۳) میں ہے: وہ سب برابر نہیں ہیں، اہلِ

۹۳

کتاب میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو(حق و ایمان کے ساتھ) قائم ہے اور وہ اوقاتِ شب میں مسلسل حالتِ سجدہ میں آیاتِ خدا کی تلاوت کرتے ہیں (۰۳: ۱۱۳) اوپر کی آیۂ شریفہ میں ہر زمانے کے حدودِ دین کا ذکر ہے، جبکہ یہاں دورِ موسیٰؑ اور دورِ عیسیٰؑ کے حدودِ دین کا تذکرہ ہے، اسی طرح دورِ رسولِ آخرین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حدودِ دین کے اوصاف وکمالات کا بیان باعتبارِ لفظِ امت ان حوالہ جا ت میں ہے: سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۲۸، ۰۲: ۱۴۳) سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۰۴، ۰۳: ۱۱۰) آپ ان آیاتِ کریمہ کے علم وحکمت سے خوب فائدہ اٹھائیں۔

حدودِ دین کی حقیقی پہچان عالمِ شخصی میں ہے، کیونکہ ربِّ کریم کی بے پایان رحمت سے اس میں سب کچھ ہے، تمام نعمتیں موجود ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: اور زمین میں اہلِ یقین کے لئے آیات (نشانیاں/ معجزات) ہیں، اور خود تمہاری جانوں میں بھی ہیں، کیا تم دیکھتے نہیں؟ (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) زمین پر سب سے بڑے معجزے دو ہیں: قرآن اور امام، اور یہ دونوں عظیم معجزے عالمِ شخصی میں بھی ہیں، اور اس حقیقت کی تردید کوئی نہیں کر سکتا۔

 

نصیر الدین نصیر(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۱۱ جنوری ۱۹۹۸ء

۹۴

سورۂ انشقاق کی حکمتیں

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ جب (قیامت سے عالمِ شخصی کا) آسمان پھٹ جائے گا (۸۴: ۰۱) اور اپنے ربّ کے کلام و فرمان کو سنے گا اور وہ اسی لائق ہے (۸۴: ۰۲) اور جب (ع ش کی (ع ش= عالمِ شخصی) ) زمین (حدودِ کائنات تک) پھیلائی جائے گی (۸۴: ۰۳) اور جو کچھ اس میں ہے اسے نکال باہر ڈال دے گی اور خالی ہو جائے گی (اسرافیل اور عزرائیل کے معجزات کی طرف اشارہ ہے، آپ روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کوپڑھیں) (۸۴: ۰۴) اور اپنے ربّ کے کلام و فرمان کو سنے گی اور وہ اسی لائق ہے (کیونکہ قیامت میں اللہ تعالیٰ نیک لوگوں سے کلام کرتا ہے) (۸۴: ۰۵) اے انسان تو اپنے پروردگار کے حضور میں پہنچنے کی سخت کوشش کرنے والا ہے پس تو اس سے جا ملے گا (یعنی علم و عمل کی سعی ضروری ہے) (۸۴: ۰۶) پس جس شخص کا نامۂ

۹۵

اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا (۸۴: ۰۷) تو اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا (۸۴: ۰۸) اور وہ اپنے لوگوں کی طرف خوش خوش پلٹے گا (یعنی ہر عارف ذاتی قیامت سے فارغ ہوکر علم و معرفت کے خزانے کے ساتھ اپنی قوم کی طرف لوٹتا ہے) (۸۴: ۰۹) اور جس کا نامۂ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا (۸۴: ۱۰) وہ موت کو پکارے گا (۸۴: ۱۱) اور دوزخ میں داخل ہوگا (۸۴: ۱۲) یہ اپنے اہلِ وعیال میں مست رہتا تھا (۸۴: ۱۳) اور خیال کرتا تھا کہ (خدا کی طرف) پھر کر نہ جائے گا (۸۴: ۱۴)۔

ہاں (ہاں) اس کا پروردگار اس کو دیکھ رہا تھا (۸۴: ۱۵) ہمیں شام کی سرخی (شفقِ شریعت) کی قسم (۸۴: ۱۶) اور رات کی (یعنی حجتِ قائم کی قسم جو شبِ قدر ہے) اور جو کچھ وہ سمیٹ لیتی ہے اس کی (یعنی واقعۂ قیامت اور اس کے اسرار جو مذکورہ رات میں ہیں ان کی قسم) (۸۴: ۱۷) اور چاند کی جب کامل ہوجائے (یعنی حضرت قائم کی قسم جبکہ وہ اپنے مرتبے پرپہنچ جاتا ہے) (۸۴: ۱۸) کہ تم درجہ بدرجہ (مرتبۂ عالیہ پر) چڑھوگے (۸۴: ۱۹) تو ان لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ ایمان نہیں لاتے (۸۴: ۲۰) اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے (یعنی اسرارِ قرآن کو نہیں جانتے ہیں) (۸۴: ۲۱) بلکہ کافر جھٹلاتے ہیں (۸۴: ۲۲) اور خدا ان باتوں کو جویہ اپنے دلوں میں چھپاتے ہیں خوب جانتا ہے (۸۴: ۲۳) تو ان کو دکھ دینے والے عذاب کی خبر سنا دو (۸۴: ۲۴) ہاں جو لوگ (حقیقی معنوں میں)

۹۶

ایمان لائے اور (علم کے ساتھ) نیک عمل کرتے رہے ان کے لئے بے انتہا اجر ہے (۸۴: ۲۵)۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

بودو ۱۵ رمضان المبارک ۱۴۱۸ھ  ۱۴ جنوری ۱۹۹۸ء

۹۷

گلہائے خوشرنگ و خوشبو

 

۱۔ ظاہری پھول کتنے حسین، دلفریب، اور مسحور کن ہوتے ہیں، با این ہمہ یہ سب کے سب بہت ہی خوبصورت دنیوی پھول محض علامتی اور مثالی ہی ہیں، جب کہ اصل اور سدا بہار گُل حقیقی کتابوں میں کھلتے اور ہمیشہ ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں، ہاں یہ سچ ہے کہ علم و حکمت کی کتابیں اہلِ دانش کے لئے باغِ بہشت کا کام دیتی ہیں، کیونکہ جنّت کے پھول اور پھل روحانی اور عقلی ہیں، جن کے بعض معنوی نمونے اعلیٰ کتابوں میں ہو سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کچھ ایسا ذخیرۂ علمی ہمارے ساتھیوں اور دوستوں کو عطا ہوا ہے، یہ حضرتِ ربّ العزّت کا بہت بڑا احسان ہے، ہم سب جو الگ الگ مقامات پر قیام پذیر ہیں، اس نعمتِ عظمیٰ کی شکر گزاری میں اشک فشان اور حیران ہیں کہ خداوندِ قدوس نے کتنا عظیم علمی معجزہ کیا، حالانکہ ہم غریبان اس کے قریب آنے کے بھی لائق نہ تھے!

۹۸

۲۔ کل (۹۸/ ۱/ ۱۴) بوقتِ شام ایک بہت ہی پیاری کتاب “تجرباتِ روحانی” کی چند کاپیاں پریس سے لائی گئیں، ہم سب جو یہاں حاضر تھے خدا کی اس نعمت پر دل و جان سے شاکر ہوئے، ان شاء اللہ، اس گلزارِ معنوی کے گلہائے خوشرنگ و خوشبو سے سب کی زبردست شادمانی ہوگی، یہ اسی خداوندِ مہربان کی عنایتِ بے نہایت سے ہے اور اسی کا فضل و کرم ہے۔

۳۔ آپ سب کو میرا پُرخلوص مشورہ ہے کہ حقیقی کتب کو عشقِ مولا کی روشنی میں پڑھنے کی نیک اور پُرحکمت عادت بنا لینا، امید ہے کہ اس عمل سے تائیدِ روحانی حاصل ہوگی، ہر بار نزولِ رحمت کے لئے عاجزانہ دعا کرتے رہنا، تاکہ وہ فرشتہ جو آپ میں مقرر ہے الہام سے آپ کی مدد کرے، اللہ نے اس کو اسی کام کے لئے پیدا کیا ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ انسان کا عمل کیسا ہے، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ علم الیقین سے بھری ہوئی کتابیں دل و جان اور عشق و محبت ہی سے پڑھنے کے نتیجے پر عین الیقین کی روشنی آنے لگتی ہے، پس اعلیٰ علم پر مبنی کتب کی سخت ضرورت ہے۔

۴۔ اگر راز گوئی کی اجازت ہو تو میں سچ سچ بتاؤں گا کہ علیٔ زمان صلوٰت اللہ علیہ وسلامہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کی طرح مردگانِ جہالت کو زندہ کرتا ہے، میں نے اپنی ظاہری اور باطنی آنکھوں

۹۹

سے مظہرِ نورِ خدا کا یہ انتہائی عظیم معجزہ اپنے آپ ہی میں دیکھا، کہ میں مردۂ نادانی مگر زندہ نما تھا، پس اسی مہربان نے مجھے زندہ کیا، میں نے نظم و نثر میں طرح طرح سے اس کا تذکرہ کیا، یہ گواہی سب کے لئے از حد مفید ہوسکتی ہے۔

۵۔ اللہ تعالیٰ اپنے احسانِ عظیم کا ذکر فرماتا ہے: وَاللّہُ جَعَلَ لَکُم مِّمَّا خَلَقَ ظِلاَلاً (۱۶: ۸۱) اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے لئے اپنی مخلوقات کے سائے بنائے، یعنی عالمِ علوی کی نورانی مخلوقات کے نورانی سائے، جیسے سورج، چاند، ستارہ، چراغ، روشن بلب وغیرہ کا عکس/ سایہ آئینے میں پڑتا ہے، اسی طرح عالمِ بالا یا بہشت کی ہر لطیف اور نورانی چیز آئینۂ امامِ مبین میں جھلکتی رہتی ہے، اور امامِ برحقؑ مومنین و مومنات کے عالمِ شخصی میں بھی جلوہ افروز ہے، اسی لئے ربِّ تعالیٰ کا اہلِ ایمان پر احسان رکھنا برحق ہے۔

۶۔ اگر آئینۂ ظاہر ہر اعتبار سے دور نما ہوتا تو اس میں عکسِ خورشید کاملاً و فعلاً خورشید ہی ہوتا، مگر ایسا نہیں ہے، تاہم سائنس نے کمال کیا کہ فلم میں زندہ آدمی کا سایہ؍عکس بعینہ (ہوبہو) زندہ آدمی ہی ہوتا ہے، پھر بھی نورانی موویز کے سامنے یہ ایک مردہ اور بے حقیقت چیز ہے، پس آئینۂ معرفت میں سایۂ عرش خود عرش ہی ہے، اور عالمِ علوی کی ہر چیز کی یہی

۱۰۰

مثال ہے، مذکورہ آیۂ مبارکہ میں سایہ مثال بھی ہے اور حقیقت پر حجاب بھی، مثال یوں کہ سائے میں جانا پڑتا ہے، لہٰذا آپ کو سایۂ عرش میں بیٹھنے کی خاطر عرش میں فنا ہو جانا پڑے گا، کیونکہ وہاں عالمِ وحدت ہے، اس لئے یہ ہرگز ممکن نہیں کہ عرش، سایہ، اور آپ کل تین ہستیاں اس میں الگ الگ ہوں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۱۵ جنوری ۱۹۹۸ء

۱۰۱

روحانی سائنس اور خلیات

 

۱۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ قرآنِ حکیم ہدایت نامۂ سماوی ہونے کے ساتھ ساتھ تمام ضروری اور مفید علوم کا سر چشمہ بھی ہے، اسی لئے میں یقین سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی اس انتہائی جامع اور بے مثال کتاب میں روحانی سائنس کا بہت بڑا خزانہ بھی ہے، ہم نے اس باب میں اپنی بساط کے مطابق پہلے بھی کچھ لکھا ہے اور اب بھی کوشش جاری ہے تاکہ سب نہیں تو بعض سائنسدان قرآنِ عظیم کی آفاقی علم وحکمت کی طرف متوجہ ہو جائیں، ساتھ ہی ساتھ اپنی قوم کی نئی نسل کو قرآنِ پاک سے عشق و محبت ہو۔

۲۔ روح اگر بدن کے بغیر مجرّد ہے تو وہ تقسیم نہیں ہو سکتی، لیکن جہاں اس میں ذرات اور ابدان حائل ہو جاتے ہیں، وہاں روح تقسیم ہو جاتی ہے، چنانچہ انسانی جسم میں بے شمار خلیات ہوتے ہیں، جن میں ایک ہی روح منقسم ہوئی ہے، جس کا مرکز دل میں ہے، خلیوں کی انفرادی زندگی اگرچہ الگ الگ ہے، لیکن اجتماعی

۱۰۲

زندگی ایک ہی ہے جو دل سے آتی رہتی ہے، دل سے ہر سیل (خلیہ) کو نہرِ حیات بھی ہے، تارِ برقی بھی، اور وائرلیس بھی ہے، ان وسائل سے کام لے کر دل اپنے ہر احساس کو سارے بدن کے خلیات میں پھیلا دیتا ہے۔

۳۔ اہلِ ایمان (مومنین ومومنات) کے خلیات کی نیک بختی کا کیا کہنا، کہ وہ اسمِ اعظم اور ذکرِ الہٰی کے زیرِ اثر جنبش میں آتے ہیں (۳۹: ۲۳) کہ جلود سے بدن یا ابدان مراد ہیں، جن میں بے شمار زندہ چیزیں خلیات ہی ہیں، جو کثرت ذکرِ کی وجہ سے خوفِ خدا یا عشقِ سماوی میں دل کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتے ہیں، ایسے عظیم بدنی ذکر کے معجزے میں ہر خلیہ مسقبل کا ایک با سعادت عالمِ شخصی ہو سکتا ہے۔

۴۔ یہ تذکرہ سورۂ زمر(۳۹: ۲۳) کے حوالے سے ہے، جس میں ظاہراً قرآنِ پاک کی تعریف ہے، اور باطناً اسمِ اعظم کی توصیف، اثر انگیزی قرآنِ کریم سے ہو یا اسمِ اعظم سے وہ کیفیت سب سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے، اور دل ہی یہ پیغام بدن کے ہر سیل کو بھیجتا ہے، پس اگر خلیات میں صرف روحِ حیوانی ہوتی تو قرآن اور ذکرِ خدا سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اور جب اثر پڑتا ہے، تو معلوم ہوا کہ ہر خلیہ میں بحدِّ قوّت ایک عالمِ شخصی موجود ہے۔

۵۔ مذکورہ آیۂ شریفہ (۳۹: ۲۳) میں خاص توجہ طلب لفظ تَقْشَعِرُّ

۱۰۳

ہے، جس کے معنی ہیں: وہ لرزنے لگتی ہے، اس کا رُواں کھڑا ہو جاتا ہے، وہ کانپتی ہے، یعنی اللہ کے پاک ذکر سے دوستانِ خدا کے ابدان کو کپکپی ہوتی ہے، اس آیت کے مطابق ایسے حضرات میں خوفِ خدا پہلے ہی سے ہونے کا ذکر ہے، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ عشقِ الہٰی کا معجزہ ہے، جس میں روح اور بدن دونوں میں زلزلہ آتا ہے۔

۶۔ صاحبانِ عقل کے نزدیک زلزلہ زبردست روحانی علاج ہے، کہ اس میں جسم و جان دونوں کی پاکیزگی اور سلامتی ہے، اب ہم روحانی سائنس کو کیوں تسلیم نہ کریں، جو بدن اور روح دونوں کے لئے از بس مفید ہے؟ قرآنِ حکیم کے کئی مقامات پر روحانی زلزلہ یا کپکپی کا ذکر آیا ہے، میں نے بارہا اس پر لکھا ہے، کہ یہ انتہائی مفید چیز ہے، کیونکہ یہ عملِ تطہیر ہے، جس سے روحانی ترقی ہوتی ہے۔

۷۔ معرفتِ روح منزلِ عزرائیلی سے شروع ہوتی ہے، جبکہ روح بے حد و بے حساب ذرات کی صورت میں خارج اور داخل ہوتی رہتی ہے، یہیں سے خلیات کی روحوں کی شناخت بھی ہو سکتی ہے، کہ ان کی بہت بڑی اہمیت ہے، کیونکہ ان کے کئی پہلو ہوتے ہیں: یہ آپ کی روح کے اجزاء بھی ہیں اور کاپیاں بھی، یہ کائنات بھر کی نمائندہ روحیں بھی ہیں اور لشکرِ

۱۰۴

ارواح بھی، یہ کل اشیاء بھی ہیں اور تمام چیزوں کے ثمرات بھی، اور یہ حکمتیں جو درج ہوئیں یقیناً  قرآن و روحانیت کی روشنی میں ہیں۔

۸۔ کہتے ہیں کہ انسانی بدن میں تیس۳۰ کروڑ سیلز (خلیات) ہیں، لیکن میرے خیال میں یہ اندازہ بہت ہی کم ہے، کیونکہ دیگر کائناتوں کو چھوڑ کر اگر ہم صرف اس دنیا کے نفوس کی نمائندگی کا قیاس کریں، تو پھر بھی بہت بڑی تعداد بنتی ہے، کیونکہ دنیا میں اس وقت چار ارب انچاس کروڑ بیس لاکھ افراد آباد ہیں، پس اگر کسی عارف پر انفرادی اور روحانی قیامت گزرتی ہے تو اس میں صرف اہلِ زمین کے نمائندہ ذرات مذکورہ تعداد کے مطابق ہوں گے، یہ زمین کی بات ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۱۸ جنوری ۱۹۹۸ء

۱۰۵

روحانی سائنس کی نعمتیں

 

۱۔ معرفتِ روح جب اللہ تبارک و تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے تو اس کا ذکرِ جمیل بار بار کیوں نہ ہو، عقل و جان کی ابدی نعمتوں کا علمی اور عرفانی تذکرہ وہ بے مثال روحانی علاج ہے، جس سے ہر قسم کی تشکیک و مایوسی یکسر ختم ہوکر امیدِ واثق اور یقینِ کامل پیدا ہو جاتا ہے، یہی وہ روشن اور محکم علم الیقین ہے، جس سے اہلِ ایمان کو عین الیقین حاصل کرنے کے لئے بڑی مدد ملتی ہے۔

۲۔ آپ میں سے بعض عزیزوں کویہ اصول حقیقت معلوم ہے کہ ہر نبی اور ہر ولی (امام) اپنے زمانے کا نفسِ واحدہ ہوتا ہے، جس کے ساتھ ہر وقت لشکرِ ارواح موجود رہتا ہے، اس لشکر کا ہونا بہت سے معنوں میں ازبس ضروری ہے، جب روحانی لشکر ہے تو جہادِ اکبر بھی ہے، اور انتہائی شدید جنگ کے سارے واقعات بھی ہیں، نفسِ واحدہ کی روحانیّت کی پیروی میں بے شمار

۱۰۶

عجائب وغرائب ہیں، آپ کو ہر سعادت اور ہر نعمت حاصل ہے، عجیب بات تو یہ ہے کہ آپ جہادِ روحانی میں شہید ہوکر بہشت میں زندۂ جاوید بھی ہوگئے (۵۷: ۱۹) اور ایک وقت تلک دنیا میں زندہ بھی ہیں، تاکہ آپ کچھ مزید خدمت کر سکیں۔

۳۔ ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: آج تمہارے سامنے جس طرح اللہ کا قانونِ آفرنیش ہے، اسی طرح یہ قدیم اور ہمیشہ ہے، جس کے مطابق وہ لوگوں کو پیدا کرتا رہتا ہے (۳۰: ۳۰) اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی زمانہ ایسا نہ تھا، جس میں خدا کی بادشاہی نہ ہو، اور نہ ہی کبھی ایسا ہوگا، اور اللہ کی بادشاہی اس کی مخلوق ہے، پس تخلیق کا سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری ہے، اور سب کی نمائندہ روحیں نفسِ واحدہ کے ساتھ ہیں۔

۴۔ سورۂ دہر آیۂ دوم (۷۶: ۰۲) کے پُرحکمت بیان کو دیکھئے کہ خداوند تعالیٰ نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا ہے، یعنی ہر انسان کے ماں باپ ہوتے ہیں، اس قانونِ فطرت سے نہ تو کسی سیّارے کا کوئی آدم مستثنیٰ ہے اور نہ ہی کوئی بنی آدم، اور نہ حضرت عیسیٰؑ، اس سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ انسان کی آفرنیش کسی ابتدا و انتہا کے بغیر ہمیشہ کا ایک جاری سلسلہ ہے، جس میں انسانی روح کے جملہ احوال حجاب میں ہیں، تاہم تمام آدموں کا قصّہ ایک جیسا ہے، جس کی نسبت سے قصّۂ ارواح بھی متعین ہو جاتا

۱۰۷

ہے۔

۵۔ جیسا کہ ذکر ہوا کہ ہر نبی اور ہر ولی اپنے زمانے کا نفسِ واحدہ ہوتا ہے، آپ قرآنِ حکیم (۳۱: ۲۸) میں دیکھ سکتے ہیں کہ اہلِ عالم کی روحانی وابستگی اپنے زمانے کے نفسِ واحدہ کے ساتھ ہوتی ہے، کیونکہ اسی کی روحانی تخلیق اور انفرادی قیامت میں یہ سب لوگ غیر شعوری طور پر موجود ہوتے ہیں، یعنی سارے لوگوں کی نمائندہ روحیں نفسِ واحدہ کے عالمِ شخصی میں حاضر ہوتی ہیں، جب کہ ہر روح کی نمائندگی سب میں ہے، لیکن سب سے مفید اور سب سے اعلیٰ نمائندگی حضرتِ امام علیہ السلام میں ہوتی ہے کہ وہی اپنے زمانے میں نفسِ واحدہ ہے۔

۶۔ اے عزیزان!آپ غیر معمولی (EXTRA ORDINARY) حکمتوں کو ہرگز ہرگز بھول نہ جانا، کیونکہ یہ قرآنِ حکیم اور روحانیّت کی خاص نعمتیں ہیں، اور یہی روحانی سائنس بھی ہے، اس سے آپ کی بہت بڑی علمی ترقی ہونے والی ہے، دیکھئے اس نعمتِ عظمیٰ کو کہ آپ اپنی نمائندہ روح میں حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ کے ساتھ تھے، جیسا کہ ارشاد ہے: اور ہم ہی نے تم کو (روحانیّت میں ) پیدا کیا پھر(حظیرۂ قدس میں ) تمہاری (رحمانی) صورت بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو (۰۷: ۱۱) یہ ایک قرآنی حقیقت ہے، اس لئے کوئی شخص اس کی تردید نہیں کر سکتا۔

۱۰۸

۷۔ اللہ تعالیٰ کا وہ عرش جو پانی پر ہے (۱۱: ۰۷) بھری ہوئی کشتی (۳۶: ۴۱) اور اہلِ بیتِ رسولؐ، یہ تینوں آیات (معجزات) جو انتہائی عظیم ہیں، ایک ہی تاویل رکھتی ہیں، یعنی ان کی حقیقت ایک ہی ہے، اور یہ آپ سب کی مونوریالٹی ہے، کیونکہ خداوندِ قدوس نے آپ تمام کے نمائندہ ذراتِ روحانی کو بھری ہوئی کشتی میں قرار دیا ہے (۳۶: ۴۱) اور وہی عرشِ رحمان ہے، جو بحرِ علم پر قائم ہے، اور حضرتِ نوحؑ کا سفینۂ روحانی بھی یہی ہے، پس آپ اپنی روح کی بلندیٔ عزت کو پہچان لیں۔

۸۔ آپ حضرتِ ابراہیم خلیل اللہؑ کے ساتھ بھی تھے، سورۂ حج (۲۲: ۲۷) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل سے فرمایا: اور لوگوں میں حجِ اکبر کے لئے ندا کر دو کہ تمہاری طرف پیدل اور دبلے دبلے اونٹوں پر جو دور (دراز) راستوں سے چلے آتے ہوں (سوار ہو کر) چلے آئیں۔ الغرض خدا کے اس حکم پر حضرتِ ابراہیمؑ کی قوّتِ اسرافیلیہ اپنا کام کرنے لگی، اور ذاتی نوعیت کی روحانی قیامت برپا ہوئی، سب لوگ اپنی نمائندہ روحوں میں حضرت خلیلؑ کے پا س جمع ہوگئے، اس سے معلوم ہوا کہ کاملین کی انفرادی قیامت حجِ اکبر بھی ہے، جو کعبۂ باطن میں ہوتا ہے۔

۹۔ قرآنِ عظیم میں ایسی پر حکمت مثالیں بہت سی ہیں، جن میں یہ تذکرہ پوشیدہ ہے کہ انبیاء و اولیاءعلیہم السّلام اور کاملین وعارفین

۱۰۹

کے ساتھ تمام لوگوں کی روحیں موجود ہوتی ہیں، آپ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲) میں الست بربکم کی عظیم الشّان آیت کو حکمت کے ساتھ پڑھیں، یہ بنی آدم کون سے ہیں، خاص ہیں یا عام؟ ان کی پشتوں سے حضرتِ ربّ نے ان کی ذرّیت کو کس طرح لیا؟ وہ مقام کون سا تھا، جس پر خدا نے روحوں سے پوچھا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟

۱۰۔ خوب یاد رکھو کہ مذکورۂ بالا واقعہ کسی ایک زمانے سے متعلق نہیں، بلکہ یہ انبیاء اولیاء، کاملین، اور عارفین کی ذاتی اور باطنی قیامت ہے، لہٰذا یہ الگ الگ زمانوں میں قائم ہوتی آئی ہے، خداوندِ قدوس جب کسی عارف کی ذاتی قیامت کو برپا کرتا ہے تو اس وقت نہ صرف کائنات کو لپیٹتا ہے، بلکہ اس کی پشت سے ذرّاتِ ارواح کو بھی حشر کے جملہ احوال سے گزار کر حظیرۃ القدس میں لاتا ہے، تاکہ وہ سوال فرمائے: الست بربکم = آیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟

۱۱۔ قرآنِ حکیم میں لفظِ ملک کے باطنی معنی امام کے لئے ہیں، لہٰذا ملوک سے أئمّہ طاہرین مراد ہیں، چنانچہ سورۂ نمل (۲۷: ۳۴) میں ہے: اس (یعنی بلقیس) نے کہا کہ بادشاہ (ملوک) جب کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو خراب کرتے ہیں اور وہاں کے عزت والوں کو ذلیل کر دیا کرتے ہیں اور اسی طرح یہ بھی کریں گے۔

۱۱۰

اس کی حکمت یہ ہے کہ مومن اپنے شہرِ ہستی کو فتح کر لینا چاہتا ہے، لیکن نفس اور شیطان کے لشکر کو شکست نہیں دے سکتا، تاآنکہ امامِ زمانؑ بعنوانِ قیامت یا بعنوانِ روحانی جنگ اس شہر پر حملہ کرکے فتح کر لیتا ہے اور مومن کو اس کا بادشاہ بنا دیتا ہے۔

۱۲۔ سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۰) میں ہے کہ خداوند تعالیٰ نے قومِ موسیٰؑ کے مومنین کو بادشاہ بنایا تھا، اس سے دورِ موسیٰ کے أئمّہ مراد ہیں، جو روحانیّت کے ملوک تھے، جن کی ہدایت و مہربانی سے بعض خاص مومنین عوالمِ شخصی کے بادشاہ ہوگئے، کہ حضرتِ امامؑ حضرتِ داؤدؑ ہی کی طرح روحانیّت میں لباس (زِرۂ نورانی) بناتا ہے جس کا ذکر بارہا ہو چکا ہے (۲۱: ۸۰) اس کا سب سے بڑا معجزہ علمی جنگ میں غالبیت و فتحمندی ہے، تاکہ ہر ایسی روح بادشاہ ہو جائے۔

۱۳۔ قرآنِ حکیم بزبانِ حکمت فرماتا ہے کہ ہر چیز میں سب سے بڑا راز علم سے متعلق ہے، چنانچہ زِرۂ نورانی یا جثّۂ ابداعی کا عظیم ترین مقصد علم ہی ہے، تاکہ اعلیٰ ترین اور مخفی ترین علمی اسلحہ کی قوّت سے حزبِ شیطان مغلوب اور حزب اللہ غالب ہو جائے (۵۸: ۱۹، ۰۵: ۵۶) قرآنِ پاک میں دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ شیطان کی جنگ جاری ہے۔

۱۴۔ آپ شاید باور کریں گے کہ قادرِ مطلق کی بے مثال قدرت سے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے تمام معجزات عالمِ شخصی میں محفوظ ہیں (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) ان معجزوں کے الفاظ اور مثالیں اگرچہ قرآنِ پاک

۱۱۱

میں الگ الگ ہیں، لیکن ان کی باطنی حقیقت ایک ہی ہے، چنانچہ حضرتِ عیسیٰؑ کے معجزاتی پرندے (۰۳: ۴۹، ۰۵: ۱۱۰) دراصل وہ مومنین ہوتے تھے جو فرشتہ بن کر عالمِ علوی کی طرف پرواز کرتے تھے، اور امامؑ کا یہ معجزہ مومنِ سالک کی منزلِ عزرائیلی میں مسلسل ہوتا رہتا ہے، اور حظیرۂ قدس میں بھی ہے۔

۱۵۔ حضرتِ محمد مصطفی رسولِ خدا خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبوبِ خدا بھی تھے اور سید الانبیاء بھی، لہٰذا تمام پیغمبروں کی دعوت آپؐ کی دعوتِ اسلام کی تمہید تھی، ان کی کتابوں کا اصل مقصد قرآنِ عظیم کا تعارف تھا، اور ان کے سارے معجزات کی غرضِ غایت یہ تھی کہ حضورِ اقدسؐ کے معجزات کی معرفت ہو، حضورِ انورؐ کے باکمال، بے مثال، اور لازوال معجزے دو ہیں، جو عقلی اور دائمی ہیں، وہ قرآنِ حکیم اور امامِ مبین ہیں، جو کتابِ صامت اور کتابِ ناطق ہیں، اور یہ دونوں رشد و ھدایت اور علم وحکمت کے ایسے سرچشمے ہیں کہ ان سے باہر کوئی ایسی ضروری چیز نہیں، اور یہ انتہائی یقینی حقیقت ہے کہ ان دونوں خدائی خزانوں میں جملہ پیغمبروں کے معجزات ریکارڈ اور محفوظ ہیں، تاکہ ان کی معرفت سے پیغمبروں کی تصدیق ہو۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

ہفتہ ۲۵ رمضان المبارک ۱۴۱۸ھ ۲۴ جنوری ۱۹۹۸ء

۱۱۲

قرآنی سائنس اور ہر چیز کی روح

 

۱۔ علم وحکمت کی غرض سے قرآنِ پاک کو بار بار پڑھنا اور بار بار اس میں سوچنا ایک افضل عبادت بھی ہے، اور انمول ذخیرۂ معلومات میں اضافہ بھی، اگرچہ قرآنِ حکیم کی ہر آیۂ کریمہ اپنی بہت سی باطنی برکات کی وجہ سے اس بات کی مقتضی ہے کہ آپ اس میں ٹھیک ٹھیک غور و فکر کریں، تاہم بعض آیاتِ مبارکہ از قسمِ قوانین و کلّیات وارد ہوئی ہیں، ان میں زیادہ سے زیادہ غوروفکر کرنے کی سخت ضرورت ہے، ایسے ارشادات میں سے ایک آیۂ شریفہ یہ ہے: وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘-وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (۱۵: ۲۱) اور کوئی شیٔ ایسی نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں اور ہم اس (چیز) کو ایک (معین و) معلوم مقدار میں نازل کرتے ہیں۔ یعنی زمان و مکان کے تقاضا اور لوگوں کی علمی ترقی اور ذہنی تیاری کے مطابق کوئی چیز خزائنِ الٰہی سے نازل کی جاتی ہے۔

۱۱۳


۲۔ معلوم کے معنی ہیں: جانا ہوا (علم سے اسمِ مفعول) بقدر معلوم کا مطلب ہے: بتقاضائے زمان و مکان، نیز انفرادی اور اجتماعی معلومات کے مطابق کوئی چیز نازل ہوتی ہے، اس کا ایک اشارہ یہ ہوا کہ اگر لوگ علمی اور ذہنی طور پر تیار نہیں ہوئے ہیں، تو خداوندِ تعالیٰ اپنی خاص نعمتیں ان کے دل و دماغ پر نازل نہیں فرماتا ہے، یہاں عجب نہیں کہ کوئی شخص ایسا سوال کرے کہ جب قرآنِ پاک کا نزول ہوا، تو اسی کے ساتھ اور اسی میں رحمت اور علم کی ہر ہر چیز اور ہر ہر نعمت نازل ہو چکی تھی، اور دین کی اس کمالیّت و تمامیّت کے بعد اب ایسی کون سی چیزیں ہیں جن کو نازل ہونا ہے؟ اس کا جواب اس طرح سے ہے کہ مذکورۂ بالا آیۂ مبارکہ میں خزائنِ الٰہی کا ذکر آیا ہے، اور معلوم ہے کہ انہی خزانوں کے ساتھ قرآنِ عظیم بھی ہے، اگرچہ یہ ظاہراً زمین پر ہے، لیکن باطناً عزت و شرف کے روحانی آسمان پر ہے، جبکہ یہ قلمِ اعلیٰ اور لوحِ محفوظ میں بھی ہے، اور نورِ منزل میں بھی، پس معلوم ہوا کہ کوئی چیز نازل نہیں ہوتی مگر خزانۂ قرآن اور اس سے مربوط خزانوں سے۔

۳۔ اللہ تعالیٰ کے انتہائی عظیم خزانوں میں سے دوخزانے اس جہان میں حاضر اور موجود ہیں، وہ نورِ منزل اور قرآنِ حکیم ہیں (۰۵: ۱۵) خداوندِ قدوس اپنے ان عظیم الشّان خزانوں سے متقین کے

۱۱۴

دلوں پر علم و حکمت نازل فرماتا رہتا ہے، کیونکہ نزول کے کئی درجات ہیں، اور آخری نزول اس وقت ہوتا ہے، جبکہ کوئی علمی و عرفانی نعمت بندۂ مومن کے دل و جان میں وارد ہوتی ہے، اور اس درجہ کے لئے سعی کرنا بیحد ضروری ہے۔

۴۔ آیۂ زیر بحث میں عِنْدَ َنا (ہمارے پاس) فرمانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کائنات کے کسی خاص مقام پر رہتا ہو، بلکہ اللہ کی یہ قربت و نزدیکی باطنی، روحانی، اور عقلی ہے، جبکہ اللہ کے خزانے آسمانوں میں بھی ہیں اور زمین پر بھی (۶۳: ۰۷) اور جو خزانے زمین پر ہیں، وہ قرآنِ پاک اور امامِ مبین ہیں، پس آسمانوں اورزمین کے یہ سب خدائی خزانے عزت شرف، اور برتری کے معنی میں اللہ کے پاس ہیں۔

۵۔ آیۂ قانونِ خزائن کی حکمتوں کو بھول نہ جانا کہ دنیا کی ہر ہر چیز روحاً انہی خزانوں سے آتی ہے، اور عالمِ مادّیت میں آنے کے ساتھ ایک مادّی شکل اختیار کر لیتی ہے، اور اس قانونِ قدرت کا اطلاق ان تمام اشیاء پر بھی ہوتا ہے، جن کو عام طور پر بیجان چیزیں (جمادات) کہا جاتا ہے، اس کی ایک عجیب وغریب مثال جس میں بے شمار چیزوں کی نمائندگی ہے اس آیۂ مقدّسہ میں ہے: وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ= اور ہم نے لوہے کو نازل کیا جس میں سخت جنگ ہے (۵۷: ۲۵)۔ یعنی خزائنِ الٰہی سے

۱۱۵

لوہے کی روح نازل کرکے اس سے لوہے کی کان وغیرہ پیدا کیا، یہ ہوا خداوند تعالیٰ کا اس زمین پر لوہا نازل کرنا، اس آیۂ کریمہ سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ کائنات و موجودات کی کوئی چیز روح سے خالی نہیں، لیکن یہ بحث اس سے الگ ہے کہ منجمد چیزوں میں کس قسم کی روح ہوتی ہے۔

۶۔ اللہ تعالیٰ نے جب سیّارۂ زمین کو پیدا کیا تو شروع شروع میں اس پر پانی نہیں تھا، پھر اس نے ایک وقت کے بعد اپنے خزائن سے فضا میں اور زمین پر پانی کی روح کو نازل کیا، جس سے بارش کا سلسلہ آغاز ہوا، جیسا کہ سورۂ فرقان (۲۵: ۴۸) میں ہے: وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًا = اور ہم نے آسمان سے بہت پاک پانی نازل کیا۔ یعنی ابتداً جب روح سے پانی پیدا کیا گیا تھا، وہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک تھا۔

۷۔ ربّ العزّت نے لطفاً اپنے خزانوں سے ہر قسم کی صنعت و حرفت کی روح بھی نازل فرمائی، جس کی وجہ سے لوگوں نے بہت کچھ سیکھا، اور اپنے لئے خوب سے خوب تر لباس تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے، سورۂ اعراف (۰۷: ۲۶) میں دیکھئے: اے آدمؑ کی اولاد ہم نے تمہارے لئے پوشاک نازل کی جو تمہارے ستّرکو چھپاتی ہے اور زینت کے کپڑے اور پرہیز گاری کا لباس۔ معلوم ہے کہ کبھی آسمان سے سلے سلوائے ہو ئے کپڑے نہیں پھینکے گئے، مگر یقیناً

۱۱۶

یہی حقیقت ہے کہ خزائنِ الہٰی سے علم و ہنر اور ظاہری و باطنی سائنس کی روح نازل ہوتی رہتی ہے۔

۸۔ خدائے قادرِ مطلق صاحبِ “کُنۡ” ہے، وہ کسی چیز کو جس طرح بنانا چاہے تو صرف کُنۡ (ہو جا) فرما کر بنا سکتا ہے، بلکہ وہ اپنے کسی پیغمبر سے بھی یہ عظیم کام کرا سکتا ہے، جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۵۰) میں ہے: قُل کُونُواْ حِجَارَۃً أَوْ حَدِیْدا = (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔ میرا یقین ہے کہ اسی زبردست حکم سے ان کی بعض نمائندہ روحیں پتھر اور لوہے کی ارواح بن گئیں، یہ حکمت بتاتی ہے کہ پتھر اور لوہا جیسی بیجان نما چیزوں میں بھی ایک قسم کی روح خوابیدہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شیٔ روح کے سوا نہیں ہے۔

۹۔ اے خواہران و برادرانِ عزیز! اس مثال کو خوب غور سے سن لو، کہ مٹی سے پانی لطیف تر ہے، پانی سے ہوا لطیف تر ہے، ہوا سے آگ لطیف تر ہے، آگ میں سخت سے سخت پتھر رکھ کر دیکھو تو سہی، آگ کی حرارت پتھر کے اندر باہر اس طرح پھیل جاتی ہے کہ اس کا کوئی ذرّہ بچ نہیں سکتا، اور اگر لوہے کے ٹکڑے کو آگ میں رکھ کر دیکھا جائے تو یہ گویا آگ ہو جاتا ہے، اب اسی مثال کی روشنی میں ذرا سوچو کہ اس کائنات کا کیا حال ہوگا، جبکہ یہ عالمگیر روح کے سمندر میں ڈوبی ہوئی ہے، اور آگ سے بھی زیادہ

۱۱۷

لطیف ہے، یا کسی جھجھک کے بغیر یوں کہنا چاہئے کہ کائنات بحرِ نور میں مستغرق ہے، جبکہ اللہ کائنات کا نور ہے (۲۴: ۳۵) جب یہ آفاقی حقیقت ہے تو یہ بھی ایک لازمی حقیقت ہے کہ کائنات کا کوئی ذرہ روح اور نور سے خالی نہیں۔

۱۰۔ دنیا کی نظر میں مٹی، پتھر، اور پہاڑ وہ چیزیں ہیں، جن میں روح کا کوئی وجود ہی نہیں، لیکن قرآنِ کریم کی حکمت کی روشنی میں دیکھئے کہ پہاڑوں کی روحیں حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے عالم شخصی میں صورِ قیامت کے ساتھ کس محویّت سے تسبیح پڑھتی رہتی تھیں (۲۱: ۷۹، ۳۴: ۱۰، ۳۸: ۱۸) یہ معرفت کا وہ عظیم راز ہے جو شک و شبہ سے بالاتر ہے، اور ایسے اسرار کو جاننے والے اوران پر یقین رکھنے والے بڑے خوش نصیب ہیں۔

۱۱۔ سورۂ لقمان کے ایک ارشاد (۳۱: ۱۶) میں یہ اشارہ ہے کہ عارف کی ذاتی قیامت میں جب ہر چیز اور ہر جگہ سے روحیں آنے لگتی ہیں، تو اس وقت چٹان، آسمان، اور زمین سے بھی ذراتِ روحانی آکر جمع ہوجاتے ہیں، ترجمۂ آیت یہ ہے: (لقمان نے کہا کہ) بیٹا، کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو (یعنی ذرۂ روح) اور کسی چٹان میں آسمانوں یا زمین میں ہو اللہ اسے نکال لائے گا، وہ باریک بین اور باخبر ہے۔ یہاں ذرۂ روح کی تشبیہ و تمثیل رائی کے دانہ سے دی گئی ہے۔

۱۱۸


۱۲۔ جب خداوندِ بزرگ و برتر عارف کی روحانی قیامت قائم کرتا ہے اور اس کے عالمِ شخصی میں ارض و سماء کو لپیٹ دیتا ہے، تو اس وقت ہر ہر چیز کی روح صورِ اسرافیل کی آواز کے ساتھ حمدِ خدا کی تسبیح کرتی رہتی ہے (۱۷: ۴۴) آیۂ شریفہ کے الفاظ یہ ہیں: وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ۔ اور (سارے جہان میں) کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو۔ یقیناً  آسمان زمین کی ہر چیز خدا کے لئے سجدہ کرتی ہے (۱۶: ۴۹) اور سب کے سب اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ خوب جانتے ہیں (۲۴: ۴۱) اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر چیز کی روح ہے جو عالمِ شخصی میں زبانِ قال سے اور اس سے باہر زبانِ حال سے خدا کی تسبیح کرتی رہتی ہے۔

۱۳۔ ثمرات پھلوں کو کہتے ہیں، اور قرآنی حکمت میں یہ لفظ روحوں کے لئے بھی آیا ہے، گویا ہر چیز ایک گونہ درخت ہے، اور اس کی روح میوۂ بہشت، چونکہ یہ جنّت کے زندہ میوے ہیں، لہٰذا ان سب کا رخ ہمیشہ کعبۂ جان کی طرف رہتا ہے، پس جب شخصی قیامت برپا ہو جاتی ہے تو اس وقت یہ تمام ثمرات کشان کشان وہاں چلے جاتے ہیں، جیسا کہ سورۂ قصص (۲۸: ۵۷) میں ہے: کیا ہم نے انہیں حرمِ مکہ میں جہاں ہر طرح کا امن ہے جگہ نہیں دی جہاں ہر قسم کے پھل روزی کے واسطے ہماری بارگاہ سے کھچے چلے

۱۱۹

جاتے ہیں؟ مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ان تمام قرآنی شہادتوں سے یہ حقیقت کلی طور پر روشن ہوگئی کہ روح کے بغیر کوئی چیز ہے ہی نہیں، اور اس باب میں اہلِ دانش کے لئے یہ بیان کافی وافی ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

بدھ ۲۹ رمضان المبارک ۱۴۱۸ھ ۲۸ جنوری ۱۹۹۸ء

۱۲۰

گنجِ قرآن نورِ عرفان

 

۱۔ اے عزیزانِ سعادتمند! اے دوستانِ دانشمند!ذوقِ عبادت اور شوقِ علم ہر مومن اور مومنہ کی بہت بڑی نیک بختی ہے، جن دینداروں کوحضرتِ ربّ کی بارگاہِ عالی سے یہ نعمتِ عظمیٰ نصیب ہوئی ہو، ا ن کو بہت بہت مبارک ہو! یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت کی شکرگزاری نہ صرف لفظی ہی ہے بلکہ معنوی بھی ہے، آپ اس کی شرطو ں پر غور کریں، آپ بندگی اور مناجات میں پگھل جانا سیکھ لیں، آپ عشقِ مولا میں آنسو بہانے سے کیوں شرماتے ہیں؟ کس سے شرماتے ہیں؟ دنیاداروں سے؟ اے جانِ من! پاک مولا کے مقدّس عشق کی راہ میں جتنے بھی تیر دل میں لگتے ہیں تو لگنے دیں، اور شکر کریں کہ کامیابی ہو رہی ہے، ہاتھ گلاب تک پہنچ رہا ہے اور کانٹے چبھ رہے ہیں۔

۲۔ اگر کوئی سالک اپنے نفس کے اژدھے کو قتل کرنے میں کامیاب ہو کر گنجِ ازل کو حاصل کر لیتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں

۱۲۱

کہ سالک نے اکیلا ہی اتنا زبردست اژدھا مار ڈالا، بلکہ حکمت اورحقیقت یہ ہے کہ لوگ ہی غیر شعوری طور پر اس جہادِ اکبر میں بڑی حد تک اس کی مدد کرتے ہیں، پس دانائی کی بات تو یہ ہے کہ ہمیں مخالفین کے حق میں نیک دعا کرنی چاہئے کہ انہوں نے ہماری ریاضت اور نفس کشی میں بہت مدد کی۔

۳۔ آسمانوں اور زمین کے خزائن: قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: وَلِلَّہِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْض = اور آسمانوں اور زمین کے خزانے خدا ہی کے ہیں (۶۳: ۰۷) آسمان و زمین تین قسم کے ہیں: اوّل عالمِ ظاہر کے آسمان و زمین، دوم عالمِ دین کے آسمان و زمین، اور سوم عالمِ شخصی کے آسمان و زمین، عالمِ ظاہر کا نظام سب کے سامنے عیان ہے، عالمِ دین کی بات کریں، جو حدودِ دین پر مبنی ہے، جس کے انتہائی عظیم خزانے قرآنِ حکیم اور امامِ مبین ہیں، جو ظاہراً زمین پر ہیں اور باطناً آسمان میں، آپ نے سابقہ مقالے میں پڑھا ہے کہ ہر قسم کی برکتیں خزائنِ الہٰی سے نازل ہوتی رہتی ہیں، اب تذکرہ ہے عالمِ شخصی کا، جو بڑا عجیب وغریب ایک لطیف جہان ہے کہ وہ عالمِ دین کا باطنی اور روحانی پہلو ہے، روحانی پہلو؟ ہاں نورانی پہلو، نورانی پہلو؟ جی ہاں، عرفانی پہلو۔ سبحان اللہ!

۴۔ خزائن کا دو طرح سے تذکرہ: دنیا کا مادّی خزانہ ایک ایسا بیحد ضروری اور انتہائی مفید ذخیرۂ مال ہوتا ہے، جس میں

۱۲۲

نہایت ہی قیمتی جواہر جمع کئے جاتے ہیں، جیسے سیم و زر، لعل و گوہر، درو مرجان، اور دوسری کثیر چیزیں جو انمول ہوتی ہیں، اسی طرح باطنی اور روحانی خزانہ ہوتا ہے، لیکن وہ اس سے بے انتہا اعلیٰ و افضل، بے قیاس مفید اور بے مثال و لازوال ہے، جس کی تعریف و توصیف کے لئے شایانِ شان الفاظ نہیں ملتے، کیونکہ وہ از بس لطیف اور عقل و جان کے اوصاف و کمالات سے موصوف، اور آسمانی علم وحکمت کا سر چشمہ ہے، جس کا تذکرہ قرآنِ حکیم میں دو طرح سے آیا ہے: (الف:) کنز یا خزائن جیسے ناموں میں (ب:) دوسرے الفاظ یا مثالوں میں۔

۵۔ ساری خدائی کی یکجا چیزیں: خداوندِ قدوس کے پاک دیدار سے متعلق آپ کا کیا تصوّر ہے؟ اس باب میں آپ کی گرانقدر معلومات کیا ہیں؟ عارف کو چند مرتبہ دیدارِ اقدس کی بے مثال و لازوال سعادت نصیب ہونے کا ذکر ملتا ہے، لیکن یہاں بہت بڑا سوال یہ ہے کہ آیا ہر دیدار میں علم و معرفت کا کوئی عظیم خزانہ ہوگا یا نہیں؟ نیز سوال ہے کہ حظیرۂ قدس میں جو سب سے بڑی رؤیت ہے وہ کس طرح سے ہوگی؟ حالتِ فعالیّت میں ہے یا اس کے بغیر؟ یقیناً  ہر دیدارِ اقدس میں علم و حکمت کا بہت بڑا خزانہ مخفی ہے، اور سب سے بڑی رؤیت اس طرح سے ہے کہ خداوندِ عالم ساری کائنات کو امامِ مبین (۳۶: ۱۲) میں گھیر لیتا ہے، بالفاظِ دیگر لپیٹ لیتا

۱۲۳

ہے، پھر پھیلا دیتا ہے، اور اس پُرحکمت فعل کو دہراتا رہتا ہے، تاکہ علم ومعرفت کے تمام خزائن امامِ زمان علیہ السّلام میں جمع ہوجائیں، یہ ہے اللہ تعالیٰ کا خزانۂ خزائن، جس کا اسمِ “خزانہ” ظاہر نہیں۔

۶۔ ظاہری سائنسدانوں کی یہ دریافت (DISCOVERY) بڑی دلچسپ اور قابلِ تعریف ہے کہ مجموعی کائنات انتہائی سرعت کے ساتھ پھیلتی جا رہی ہے، لیکن قرآنی سائنس نے بہت پہلے ہی اس کی خبر دی تھی (۵۱: ۴۷) اس کے علاوہ قرآنِ کریم یہ بھی فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کائنات کو نہ صرف پھیلاتا ہے بلکہ لپیٹ بھی لیتا ہے، اور اس کی مثال فطرت کے ہر مقام پر ملتی رہتی ہے، پس کائنات از خود ہرگز نہیں پھیل رہی ہے، بلکہ خدائے قادرِ مطلق اسے پھیلا رہا ہے، بعد ازان وہ اسے لپیٹنے والا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷)۔

۷۔ انسانِ لطیف اور انسانِ کثیف: یہ کوئی بحث و مناظرہ ہرگز نہیں، مگر تقابلی جائزہ ضرور ہے کہ ظاہری سائنس والوں نے زبردست کامیابی حاصل کی ہے، اور عالمِ انسانیت کے لئے بے شمار خدمات انجام دی ہیں، تاہم انہوں نے ہنوز لطیف انسان کو نہیں دیکھا، اگر انہوں نے اس نورانی بدن والے کو دیکھ لیا ہوتا، تو ان کے ہر سوچ بچار میں انقلاب آتا، اور وہ زیادہ سے زیادہ مفید کام کر سکتے، انسانِ لطیف جنّ بھی ہے، فرشتہ بھی، روحانی بھی ہے، ایک عالم بھی، اور ایک فرد بھی ہے، اور جہاں وہ ایک عالم ہے، وہاں اس میں

۱۲۴

سب کچھ ہے، بلکہ وہ مونوریالٹی ہے۔

۸۔ قرآنِ حکیم کے علم وحکمت کی روشنی میں کائنات کے چھپے ہوئے بھید ظاہر ہوتے جاتے ہیں، اس کی متعدد مثالیں تحریر میں آچکی ہیں، جیسے سورہ شوریٰ (۴۲: ۲۹) میں ہے: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ آسمانوں اور زمین کی خلقت اور ان کے اندر چلنے والی مخلوق بھی کہ جسے اس نے پھیلایا ہے اور جب بھی وہ چاہے انہیں اکھٹا کرنے پرقادر ہے۔ یقیناً  یہ لطیف مخلوق ہی کا تذکرہ ہے جو ساری کائنات میں پھیلائی ہوئی ہے، چونکہ یہ مخلوقات لطیف اور غیر مرئی ہیں، اس لئے ظاہری سائنسدانوں کو نظر نہیں آتی ہیں، اس آیت کی حکمت بتاتی ہے کہ ہر نفسِ واحدہ کی قیامت میں کائنات بھر کی روحیں بار بار جمع کی جاتی ہیں اور بار بار پھیلائی جاتی ہیں، کیونکہ یہی کائنات کا تجدّد بھی ہے اور یہی خلقِ جدید بھی ہے (۱۴: ۱۹، ۳۵: ۱۶، ۵۰: ۱۵)

۹۔ اجتماعی احسان؟ یا انفرادی احسان؟: سورۂ مومنون (۲۳: ۷۹) میں ہے: وہ وہی ذات ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور پھر تم اس کی جانب لوٹائے جاؤگے۔ اگرچہ یہ خطاب اجتماعی ہے، لیکن اس میں اللہ کے احسانِ عظیم کا تعلق فرداً فرداً ہے، کہ اس نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ہر شخص کی روح کے نمائندہ ذرّات کو تمام انسانوں میں جگہ دی، اور اسی

۱۲۵

طرح اس کو نہ صرف سیّارۂ زمین پر بلکہ زمینِ کائنات اور زمینِ نفسِ کلّی میں بھی پھیلا دیا، تاکہ بہشت کی ہر نوازش اور ہر نعمت ایک عملی حقیقت کی روشنی میں ہو، یعنی وہاں یہ ظاہر ہوگا کہ خدا نے پہلے ہی ہر انسان کو طرح طرح کی نعمتیں دے رکھی تھیں، مگر ایمان اور علم کے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر لوگوں کے سامنے پردۂ جہالت حائل تھا۔

۱۰۔ ابداعی ظہور کا معجزہ: انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کے علاوہ عارفین کو بھی یہ معجزہ ہوتا ہے، اس کا ایک نمایان تذکرہ سورۂ مریم (۱۹: ۱۷) میں ہے، یہ ظہور یک حقیقت (مونوریالٹی) کا ہے، لہٰذا اس کی چند اچھی اچھی تعبیریں ہوسکتی ہیں، جبکہ آپ سے پوچھا جائے کہ اس آیۂ شریفہ میں جو کلمۂ روحنا ہے، اس سے کیا مراد ہے؟ مزید برآن اس معجزے سے بہت سے حقائق و معارف پر روشنی پڑتی ہے، اور اس روشن ترین مثال سے اسرارِ روحانیّت کا ایک بڑا اہم دروازہ کھل جاتا ہے کہ اسی طرح سے ہے نورانی بدن، جامۂ جنّت، جثّۂ ابداعیہ، جسمِ مثالی، انسانِ لطیف، فرشتہ، پری (جنّ)، مخلوقِ بہشت، خلقِ جدید، وغیرہ وغیرہ۔

۱۱۔ یہ انکشاف روحانی سائنس بھی ہے کہ انسان بحکمِ خدا اپنے جثّۂ ابداعیہ میں تمام سیّاروں اور ستاروں پر جا سکے گا، یہ جسمانی

۱۲۶

سفر اور ظاہری پرواز کی بات ہرگز نہیں، بلکہ کائناتوں میں سے جس کائنات میں اور جس مقام پر بھی چاہے وہاں اس کا ابداعی ظہور ہوگا، انسانی روح اپنے مرتبۂ اعلیٰ پر نورِ الہٰی کا عکس یعنی صورتِ رحمان ہے، لہٰذا یہ ہر جگہ موجود (OMNI-PRESENT) ہے، ایسے میں آنے جانے یا پرواز کرنے کا سوال ہی ختم ہو جاتا ہے، اور صرف نورانی بدن یا جثّۂ ابداعیہ میں ظاہر ہونے اور غائب ہو جانے کی بات ہوتی ہے۔

۱۲۔ آپ کو کسی دور بہت ہی دور ملک یا شہر کی خیالی رسائی کے لئے کوئی دیر تو نہیں لگتی، بلکہ آپ خیال ہی خیال میں بیک طرفۃ العین چاند یا مریخ یا اس سے بھی نہایت دور کہیں کائنات میں جا سکتے ہیں، یہ صرف ایک خواہش اور تقاضا کی صورت ہے، جس کی تکمیل مستقبل اور بہشت میں ہوگی، کیونکہ جنت کی ہر نعمت چاہنے سے مل سکتی ہے: ۱۶: ۳۱، ۲۵: ۱۶، ۳۹: ۳۴، ۴۲: ۲۲، ۵۰: ۳۵ اور خواہش سے برتر نعمتیں بھی ہیں، پس اے عزیزان! گنجِ قرآن کو نورِ عرفان کی روشنی میں طلب کرو، مبادا کوئی نا شکری ہو جائے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات ۷ شوال المکرم ۱۴۱۸ھ ۵ فروری ۱۹۹۸ء

۱۲۷

یک حقیقت کا خزانہ

 

۱۔ اگر لوگوں کے پاس محض علم کی خاطر ہزاروں سوالات ہیں تو عجب نہیں کہ نورِ منزل اور کتابِ مبین یعنی قرآن (۰۵: ۱۵) ایک ہی جامع الجوامع جواب سے ان سب سوالوں کی اطمینان بخش تحلیل فرمائیں، ہاں یہ حقیقت ہے، اور جہاں علمی معجزہ ہے، وہ ایسا ہی ہوتا ہے، چنانچہ آپ یقین کریں گے کہ تصورِ “یک حقیقت” علمی قیامت کا سب سے عظیم معجزہ ہے، یقیناً  اس سے ہزاروں مشکل سوالات حل ہوچکے ہیں اورحل ہو رہے ہیں، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ یہ سب سے اعلیٰ اور سب سے عظیم تصوّر ایک بہت ہی بڑا خزانہ ہے جو ازلی و ابدی ہے۔

۲۔ یک حقیقت (مونوریالٹی) میں کنْتُ کَنْزًا مَخْفِیاً (میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا) کی بڑی خوبصورت وضاحت ہے اور فنا فی اللہ کی بڑی عمدہ تفسیر و تشریح، اس کی تصدیق حدیثِ نوافل سے بھی ہوتی ہے، اور حدیثِ یَا بْنَ ادم اطعنی سے بھی،

۱۲۸

اس تصوّر میں اسرارِ قرآن وحدیث کی کلیدیں پوشیدہ ہیں، پس جو شخص اس کے راز کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے وہ دولتِ لازوال سے مالا مال ہو جاتا ہے۔

۳۔ خزانۂ یک حقیقت کے بے پایان جواہر سے فائدہ اٹھانے کا قرآنی طریقہ یہ ہے کہ آپ آئینۂ نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) میں خود کو پہچان لیں، نفسِ واحدہ کا ایک دوسرا نام شخصِ وحدت بھی ہے جو امامِ زمان علیہ السّلام ہی ہے، الغرض نفسِ واحدہ یا شخصِ وحدت وہ ذاتِ عالی صفات ہے، جس کے عالمِ شخصی میں جا کر تمام نفوسِ خلائق یک حقیقت (مونوریالٹی) ہو جاتے ہیں، یہ کام خدا کے لئے بہت ہی آسان ہے، کہ اس نے نفسِ واحدہ ہی سے سب لوگوں کو پھیلایا تھا، پھر اس نے ان سب کو نفسِ واحدہ میں لپیٹ لیا، جیسا کہ سورۂ انعام (۰۶: ۹۴) میں ہـے: لو اب تم ویسے ہی تنِ تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ زمانہ کی روحانی پیدائش اور قیامت و یک حقیقت نفسِ واحدہ میں ہوتی ہے، پس اسی طرح ہر زمانے میں ایک باطنی قیامت برپا ہوتی آئی ہے۔

۴۔ سورۂ حدید (۵۷: ۱۲) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) کے ارشاد کے مطابق جس دن مومنین ومومنات کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا، اس روز یہ سب کے سب

۱۲۹

نفسِ واحدہ کے ساتھ ایک ہوکر یک حقیقت ہوچکے ہوں گے، بہ مثال دیگر یہ تمام کے تمام شخصِ وحدت میں فنا ہوئے ہوں گے، یہ واقعہ حظیرۃ القدس میں ہوتا ہے، جہاں کوئی کثرت نہیں، دوئی بھی نہیں، صرف وحدت ہی وحدت ہے، یعنی وہاں صرف وہ ہستی ہے جس کو صورتِ رحمان کہا جاتا ہے، پس مومنین اور مومنات کی یہ کتنی بڑی کامیابی ہے کہ نفسِ واحدہ میں فنا ہوکر صورتِ رحمان ہو جاتے ہیں۔

۵۔ جب آپ یک حقیقت پر مکمل یقین رکھیں گے تو اس وقت معلوم ہوگا کہ قرآنِ حکیم کی ہر آیۂ کریمہ میں اسی تصوّر کا ذکر ہے، ہم یہاں صرف اس کی چند مثالوں پر اکتفاء کریں گے، چنانچہ اس کی ایک عظیم الشّان مثال پانی پر تختِ خدا اور بھری ہوئی کشتی ہے (۱۱: ۰۷، ۳۶: ۴۱) عرشِ خدا فرشتۂ عظیم کی صورت میں ہے، جو نفسِ واحدہ اور شخصِ وحدت ہے، جس میں مومنین و مومنات بحالتِ یک حقیقت موجود ہیں، یہی عرش اسی معنیٰ میں علم کے پانی پر بھری ہوئی کشتی بھی ہے، یعنی عرش بھی اور بھری ہوئی کشتی بھی نفسِ واحدہ ہی ہے، جو حاملِ یک حقیقت ہے۔

۶۔ سورۂ جنّ کے آخر (۷۲: ۲۸) میں ہے: وَ اَحْصٰى كُلَّ شَیْءٍ عَدَدًا= اور اس نے ہر چیز کو گھیر کر ایک عدد میں محدود کر رکھا ہے۔ یعنی تمام انسانوں کو نفسِ واحدہ میں ایک کر دیا ہے، کیونکہ

۱۳۰

وہ عالمِ انسان کو لپیٹتا بھی ہے اور پھیلاتا بھی ہے، جبکہ وہ القابض اور الباسط ہے۔

۷۔ سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵) میں دیکھئے: کیا تو نے اپنے ربّ کی طرف نہیں دیکھا کہ اس نے کس طرح سائے کو پھیلا دیا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے روکے رکھتا، پھر ہم نے سورج کو اس پر رہنما بنایا، پھر ہم اسے آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں۔ نفوسِ خلائق نفسِ واحدہ کا پھیلایا ہوا سایہ ہیں، نورِ ھدایت اور روحانی قیامت وہ رہنما شمس ہے جو اس سائے کو عالمِ شخصی کی طرف لے جاتا ہے، اسی طرح خداوندِ عالم لوگوں کو لپیٹ کر نفسِ واحدہ میں یک حقیقت بنا دیتا ہے۔

۸۔ اکثر سورتوں کے آخر میں انتہائی اہم آیات وارد ہوئی ہیں، ایک ایسی عظیم آیت سورۂ قصص کے اختتام (۲۸: ۸۸) پر ہے: كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗؕ= وجہ اللہ کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ یعنی شخصِ وحدت جو وجہ اللہ ہے اس میں سب لوگ فنا ہو جانے والے ہیں، کیونکہ اس ارشاد میں كُلُّ شَیْ سے بطورِ خاص لوگ مراد ہیں، اور قانونِ قیامت یہ ہے کہ لوگ سب کے سب نفسِ واحدہ میں فنا ہوکر ایک ہو جاتے ہیں (۳۱: ۲۸) سبحان اللہ! یک حقیقت کی شان!

۹۔ کتابِ مکنون کا پُرحکمت تذکرہ بیحد شیرین نعمت ہے، اور

۱۳۱

قرآنِ پاک کی کونسی نعمت ازحد لذیذ نہیں ہے، بہر کیف ارشاد ہے کہ قرآنِ کریم ایک پوشیدہ کتاب میں محفوظ ہے، جس کو پاکیزہ لوگوں کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) یہ حظیرۂ قدس کے اسرارِ عظیم میں سے ہے، اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ جو لوگ یک حقیقت کے معنی میں نفسِ واحدہ کے ساتھ ایک ہوچکے ہیں، وہی حضرات کتابِ مکنون کو ہاتھ میں لے سکتے ہیں، لیکن وہاں فردِ واحد سب کی نمائندگی کرتا ہے۔

۱۰۔ سورۂ معارج (۷۰: ۰۳) کے مطابق اللہ تعالیٰ عروج کی سیڑھیوں کا مالک ہے، اور حضرتِ سید الانبیاء رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صاحبِ معراج ہیں، لہٰذا ہر پیغمبر کا روحانی سفر درجہ بدرجہ سیڑھی کی طرح تھا، اگرچہ اللہ کا راستہ ایک ہی ہے، لیکن خداوندِعالم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ نبیٔ اکرمؐ تو محبوبِ خدا اور سالارِ انبیاء ہیں، جب حضورِ پاکؐ معراج پر تشریف لے گئے تھے تو آپؐ کی ایک خاص شان تھی، اللہ تعالیٰ نے اسی مقامِ اعلیٰ اور بے مثال وقت کی مناسبت سے فرمایا: وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰى  مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰى (۵۳: ۰۱ تا ۰۲) قسم ہے تارے کی جب کہ وہ گرا، تمہارارفیق نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے۔ پہلی آیت مقامِ معراج کی نشاندہی کرتی ہے، اور دوسری آیت کا یہ اشارہ ہے کہ تم بھی وہاں اپنے رفیق کے ساتھ تھے،

۱۳۲

کیونکہ حضورؐ کا یہ سفر رہنمائی سے متعلق تھا، اس سے معلوم ہوا کہ بے شمار روحیں بحالتِ فنا ویک حقیقت آپؐ کے ساتھ تھیں۔

۱۱۔ ہر جزو کا ایک کُلّ ہوا کرتا ہے، ہر کُلّ کے بہت سے اجزاء ہوتے ہیں، چنانچہ نفسِ واحدہ جو قرآن میں مذکور ہے، وہ ایک کُلّی نفس ہے، جس کے بے شمار اجزا (یعنی جزوی نفوس) ہیں، پس جب نفسِ واحدہ پر روحانی قیامت گزرتی ہے تو اس میں تمام نفوسِ جزوی بھی ساتھ ساتھ ہوتے ہیں، مگر غیر شعوری طور پر، تا آنکہ وہ سب اپنے کُلّ میں فنا ہوکر حظیرۂ قدس میں داخل بھی ہو جاتے ہیں، پھر بھی ان کو کوئی خبر نہیں ہوتی ہے، اس غیر شعوری یا فراموشی کا ایک روشن ثبوت یہ ہے کہ پروردگارِ عالم نے ہر انسانِ کامل کی روحانیّت میں تمام روحوں سے یوں پوچھا تھا: اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْؕ (آیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ ۰۷: ۱۷۲) اور ارواح نے یہ عرض کیا تھا: قَالُوْا بَلٰى (وہ کہنے لگے کیوں نہیں) لیکن یہ واقعہ آج کن لوگوں کو یاد ہے؟

۱۲۔ آیۂ استخلاف (۲۴: ۵۵) میں غور کر لیں جیسا کہ غور کرنے کا حق ہے، اللہ اور اس کے رسولؐ نے امامؑ ہی کو بادشاہ بنایا ہے، دیکھئے آیۂ مبارکہ: آلِ ابراہیم (۰۴: ۵۴) خوب یاد رہے کہ جو تعریف قرآنِ پاک میں آلِ ابراہیم سے متعلق ہے، وہ آلِ محمدؐ کے بارے میں بھی ہے، پس جو لوگ عشق و محبت او رحقیقی تابعداری سے امامِ

۱۳۳

زمانؑ میں فنا ہو جاتے ہیں، وہ یقیناً  عالمِ شخصی کے سلاطین ہو سکتے ہیں، یہی سرِ عظیم ہے کہ حضرتِ موسیٰؑ اور حضرتِ ھارونؑ کے خاص خاص مومنین اپنے اپنے عالمِ شخصی میں بادشاہ بنائے گئے تھے(۰۵: ۲۰)۔

۱۳۔ سورۂ الفاتحہ قرآنِ عزیز کی تمام سورتوں کی سردار اور ام الکتاب ہے، جس کے آغاز ہی میں خدائے بزرگ و برتر کی تعریف اس وجہ سے کی گئی ہے کہ وہ عالموں کا پالنے والا ہے، اس کی تحقیق یہ ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاص روحانی اور عقلی پرورش کے سارے عظیم معجزے عوالمِ شخصی ہی میں ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں، چنانچہ جملہ انبیاء علیہم السّلام کے تمام معجزات عالمِ شخصی میں ریکارڈ اور محفوظ ہیں، تاکہ مومنین ان معجزوں کی روشنی میں اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے پیغمبروں پر بدرجۂ معرفت ایمان لا سکیں (۰۲: ۲۸۵) دوسرے انبیائے کرامؑ ہی کی طرح حضرتِ عیسیٰؑ بھی خدا کے اذن سے اپنے مومنین کو بادشاہ بناتا تھا، جس میں امام کو اولیّت حاصل تھی، امامِ عالیمقامؑ کی روحانی پادشاہی کی بنیادی اور خاص علامتیں دو ہیں (۱) کائناتی علم (۲) کائناتی جسم، یعنی جثّۂ ابداعیہ (۰۲: ۲۴۷) الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

اتوار (ادت) ۱۰  شوال المکرم ۱۴۱۸ھ ۸ فروری ۱۹۹۸ء

۱۳۴

حکیم پیر ناصرِ خسرو(ق س)

روشنائی نامہ میں فرماتے ہیں

 

۱۔ توئی جاِن سخنگوی حقیقی

کہ باروح القدس دایم رفیقی

۲۔ بچشمِ سر جمالت دیدنی نیست

کسی  کو  دید “رؤیت” چشمِ معنیست

۳۔ زجای  و از جہت  باشی منزہ

ببین تا کیستی انصافِ خود دہ

۴۔ صفتہایت صفتہایِ خدائیست

ترا این روشنی زان روشنائیست

۵۔ ہمی بخشد کزو چیزی نکاھد

ترا  دادو دھد آن راکہ خواھد

۶۔ زنورِ او تو ہستی ھمچو پر تو

وجودِ خود  بپر داز و  تو او شو

۷۔ حجابت دور دارد گر نجوئی

حجاب از پیش  بر داری  تو اوئی

۸۔ اگر دعوی کنم واللہ کہ جائیست

حقیقت ناصرِ خسرو خدائیست

ترجمہ: (۱) تو ایک ایسی بولنے والی حقیقی جان (روح) ہے، کہ جس میں توہمیشہ روح القدس کے ساتھ رہتا ہے (۲) تیرا(باطنی) حسن و جمال ایسا نہیں جس کو چشمِ ظاہر دیکھ سکے، جس نے بھی”رؤیت”

۱۳۵

کو دیکھا ہے اس نے چشمِ باطن سے دیکھا ہے (۳) تو مکان وزمان سے مبرا (ایک لامکانی حقیقت) ہے، دیکھ کہ تو کون ہے؟ اپنا انصاف خود کر لے (۴) تیری تمام صفات خداوند تعالیٰ ہی کی صفات ہیں، تیری یہ روشنی اسی کے نور سے حاصل ہے (۵) خدا یہ (سب کچھ) اس طرح عطا فرماتا ہے کہ اس سے کوئی چیز کم نہیں ہوتی، تجھ کو دیا ہے اور بھی جن کو چاہے دے سکتا ہے (۶) تو اس کے نور کی گویا ایک تصویر ہے، لہٰذا تو اپنی ہستی کو درست کر کے “وہ” ہو جا (۷) اگر تو اس کو طلب نہ کرے تو پردہ تجھ کو اس سے دور رکھے گا، جب تو سامنے سے پردہ ہٹائے گا تب تجھ کو یقین ہوگا کہ تو “وہ” ہے (۸) اگرمیں دعوی کروں تو خدا کی قسم کہ یہ درست ہے، کہ حقیقت میں ناصر خسرو خدا ہے۔

۱۔ مرا این را عالمِ صغراش گفتند

مرآن را عالمِ اکبر اش گفتند

۲۔ شدہ بر آفر نیش جملہ سالار

بمعنی ھم جہان وھم جہاندار

۳۔ پس و پیش ونہان و آشکار اوست

شناسایٔ خود و پروردگار اوست

۴۔ ھمہ ہم محد ثند و ھم قدیمند

ھمہ ھم جاھلند و ھم حکیمند

۵۔ ھمہ دارند استعدادِ ہر شی

بمعنی و بصورت میت و حیّ

۶۔ اگرچہ آفریدہ زان و اینند

زخود ھر لحظہ چیزی آفرینند

۷۔ چنینند انبیاء و اولیاء شان

کہ ارزد ملک عالم خاکِ پاشان

ترجمہ: (ا) اس (یعنی انسان) کو عالمِ صغیر کہا گیا ہے، اور اس

۱۳۶

(عالمِ ظاہر) کو عالم کبیر کہتے ہیں (۲) انسان تمام مخلوقات پر سردار ہے، حقیقت میں یہ جہان بھی ہے، اور جہان کا بادشاہ بھی (۳) یہ صفات اس کو خدا نے دی ہیں کہ یہ اوّل و آخر بھی ہے اور ظاہر و باطن بھی، اسی طرح یہ اپنی روح کا عارف بھی ہے اور پالنے والا بھی (۴) عجیب بات تو یہ ہے کہ سب کے سب ایک اعتبار سے محدث ہیں اور دوسرے اعتبار سے قدیم ہیں، اسی طرح یہ جاہل بھی ہے اور حکیم بھی (۵) یہ تمام کے تمام ہر چیز کی صلاحیت رکھتے ہیں، ظاہراً و باطناً یہ مردہ بھی ہیں اور زندہ بھی (۶) اگرچہ یہ مختلف چیزوں سے پیدا کئے گئے ہیں، لیکن یہ ہر دم اپنی ذات سے کچھ نہ کچھ پیدا کرتے رہتے ہیں(۷) ایسے ہی عظیم ہیں ان کے انبیاء و اولیاء علیہم السّلام، کہ اس جہان کی بادشاہی ان کی خاکِ پاکی قیمت سے زیادہ نہیں ہے۔

ان حکمت آگین اشعار سے عیان ہے کہ ہمارے پیران و بزرگانِ دین کا علمی و عرفانی مقام کتنا عالی اور عظیم اسرار سے مملو ہے، آپ ان اشعار کو عشق و محبت سے پڑھیں، یقین ہے کہ آپ مرتبۂ روحِ انسانی سے واقف ہو جائیں گے، آپ کے بہت سے سوالات خواہ شعوری ہوں یا غیر شعوری ختم ہو جائیں گے، کیونکہ یہاں عمدہ سے عمدہ تعلیمات کا نچوڑ اور جوہر ہے، یا اس میں خزائنِ علم وحکمت کی کلیدیں ہیں، جو لوگ حقیقی علم کے

۱۳۷

حسن و جمال پر مرتے ہیں (یعنی جان و دل سے عاشق ہیں) صرف وہی نیک بخت اشخاص رفتہ رفتہ علمی خزائن ہو جاتے ہیں، علم ایک نور ہے جو صرف پاکیزہ دلوں میں ٹھہر سکتا ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات ۱۴ شوال المکرم ۱۴۱۸ھ  ۱۲  فروری ۱۹۹۸ء

۱۳۸

اطاعت کا سب سے بڑا انعام

 

۱۔ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری، رسولِ اکرمؐ کی فرمانبرداری، اور امامِ زمانؑ کی فرمانبرداری ہی سے بحقیقت قرآن اور اسلام کی کامل و مکمل اطاعت ہو جاتی ہے، یہ وہ مقدّس اور اعلیٰ اطاعت ہے، جس کے بارے میں حدیثِ قدسی میں یوں ارشاد ہوا ہے: یا بن ادم اطعنی اجعلک متلی حیا لایموت و عزیزا لایذل و غنیا لا یفتقر= اے فرزندِ آدم! تو میری اطاعت کر (جیسا کہ اطاعت کا حق ہے) تاکہ میں تجھ کو ایسا بناؤں گا جیسا میں خود ہوں، ایک ایسا زندہ جو کبھی نہیں مرتا اور ایسا صاحبِ عزّت جو کبھی ذلیل نہیں ہوتا اور ایسا غنی جو کبھی مفلس نہیں ہوتا ہے (زاد المسافرین، ص۱۸۳، المجالس المویدیہ، المائۃ الاولیٰ، ص۵۵، ہزار حکمت، ح۷۷)۔

۲۔ اے نورِ عینِ من! یہ از بس مفید حکمت ہرگز فراموش نہ ہو کہ خدا و رسولؐ کے کلامِ پاک میں جہاں بھی ابنِ آدم/ بنی آدم

۱۳۹

کا ذکر آیا ہے، اس سے آدمِ زمانؑ کے روحانی فرزند مراد ہیں، پس کسی شک کے بغیر مذکورۂ بالا حدیثِ قدسی کا یہ مبارک خطاب انہیں حضرات سے ہے، جیسے سورۂ اعراف (۰۷: ۳۱) کے ارشاد سے بنی آدم کی شاندار خصوصیت معلوم ہوتی ہے: یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ  = اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی (روحانی) زینت سے آراستہ ہو جاؤ۔ یعنی تم ہر عبادت ایسی محویّت سے کرو کہ جس کی اثر انگیزی سے تمہارا سارا باطن پُرنور ہو جائے، یہ ہوئے بنی آدم جن کو ایسا عظیم الشّان حکم ہوا ہے۔

۳۔ بنی آدم کی سب سے بڑی کرامت و فضیلت کا بیان سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۰) میں ہے، لیکن کی اس معنوی گہرائی کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ کرنے کی غرض سے چند حکمتوں کا سہارا لینا ہوگا، وہ یہ ہیں: اوّل: خدا کے نزدیک سب سے اکرم (معزز) شخص وہ ہے جو سب سے متقی ہو(۴۹: ۱۳) دوم: تقویٰ جو خوفِ خدا ہے وہ حقیقی علم کے بغیر نہیں (۳۵: ۲۸) نیز کلمۂ تقویٰ ایک اسم ہے جو خدا خود کسی کے باطن میں لازم (چسپان) کر دیتا ہے (۴۸: ۲۶)۔ سوم: جب اللہ تعالیٰ کے عرش کا ظہور بحرِعلم پر ہوا، تو اس وقت فرشتۂ عرشِ عظیم نے ایک اسمِ بزرگ الاکرم کا ذکر کیا، اس میں بہت سے اشارے ہیں، یہ اسم سورۂ علق (۹۶: ۰۳)

۱۴۰

میں بھی ہے، اس کا ایک پُرحکمت اشارہ البتہ یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ ہر ابنِ آدم کو علم و تقویٰ سے اکرم بنانا چاہتا ہے، اور ہر اکرم کو الاکرم میں فنا کر لینا ہے۔

۴۔ اب بنی آدم کی کرامت اور فضلیت سے متعلق آیۂ کریمہ کو پڑھ لیں: وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ = اور ہم نے بنی آدم کو کرامت (عزت) دی۔ (۱۷: ۷۰) یعنی علم اور تقویٰ کے اوصاف و کمالات کے ساتھ ہم نے بنی آدم کو سب سے اکرم (معزز) بنا دیا۔

وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ = اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں۔ یعنی عالمِ شخصی کے مراحل بری اور منازلِ بحری میں ہم ان کو اٹھاتے گئے، یہاں تک کہ ہم نے ان کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا (۳۶: ۴۱) اور یہی کشتی علم کے پانی پر اللہ کا عرش بھی ہے (۱۱: ۰۷) وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا (۱۷: ۷۰) اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایان فوقیت بخشی۔ یعنی ان کو علم لدّنی کی دولت سے مالا مال فرمایا اور خلائق پر فضیلت عطا کی۔

۵۔ دورِ اعظم کے بنی آدم انبیاء و اولیاء علیہم السّلام اور ان کے ذیلی حدود ہیں، اس دلیل کی روشنی میں ان آیاتِ کریمہ کی حکمت کو سمجھنے میں بڑی حد تک مدد ملتی ہے، جو بنی آدم کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، کیونکہ ان کے مصداق پیغمبران اور امامان ہیں،

۱۴۱

جو حضرتِ آدم خلیفتہ اللہ کی تمام تر خصوصیات رکھتے ہیں، جیسے دنیا میں کسی بادشاہ کے بیٹے کو شاہ زادہ کہنا اس معنیٰ میں ہوتا ہے کہ وہ ہر صفت میں اپنے باپ ہی کی طرح ہوتا ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم جن حضرات کو بنی آدم کہتا ہے، وہ عوام النّاس نہیں ہیں، اس کا سب سے روشن ثبوت بھی قرآن ہی سے مل سکتا ہے، وہ یہ کہ جب حضرت نوحؑ کا بیٹا کنعان نافرمان ہوگیا تو اسی کے ساتھ اس کا رشتۂ پدری ہمیشہ کے لئے ٹوٹ گیا (۱۱: ۴۶) پھر جو لوگ وارث و جانشینِ آدم سے الگ ہیں، وہ کیونکر بحقیقت بنی آدم ہو سکتے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

ہفتہ ۱۶  شوال المکرم ۱۴۱۸ھ ۱۴ فروری ۱۹۹۸ء

۱۴۲

درودِ شریف کی عظیم حکمت

 

۱۔ درودِ شریف کے باب میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے، یہ تو بہت بڑی سعادت اور قلمی ذکر و عبادت ہے، کیونکہ یہ بڑی کثرت سے پڑھنے اور زیادہ سے زیادہ کرنے کی مقدّس و مبارک چیز ہے، جبکہ قرآنِ پاک (۳۳: ۵۶) میں اس کا حکم ایک خاص نہج پر دیا گیا ہے، لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ درود کی خاصیّت و فضیلت بڑی حیرت انگیز اور بیحد تعجب خیز ہے کہ اہلِ ایمان سے فرمایا گیا: بے شک اللہ اور اس کے فرشتے رسول پر صلوت بھیجتے ہیں تو اے صاحبانِ ایمان تم بھی نبی پر صلوٰت بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو (یعنی بدرجۂ کمال تسلیم کرو۔ ۳۳: ۵۶) پس یہ انتہائی حیران کن حکمت ہے کہ اللہ اور اس کے ملائکہ پیغمبرِ اکرمؐ  پر درود بھیجتے ہیں، اور اسی حال میں ساتھ ہی ساتھ اہلِ ایمان کو بھی اس امرِ عظیم کی دعوت دی جاتی ہے۔

۲۔ مذکورۂ بالا آیۂ سورۂ احزاب میں ہے، اسی سورہ میں

۱۴۳

اہلِ ایمان پر درود کے بیان سے قبل یہ شرط بتائی گئی ہے: اے ایمان والو! بڑی کثرت سے خدا کی یاد کیا کرو، اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو (۳۳: ۴۱ تا ۴۲) اس کے بعد ارشاد ہے: وہ وہی ہے جو خود تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تم کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئے، اور خدا تو مومنین پر بڑا مہربان ہے (۳۳: ۴۳) یہاں بڑی ہوشمندی سے سوچنے کی ضرورت ہے، اوّل تو یہ سوال ہے کہ اس سماوی درود (صلوات) میں کونسی نعمت ہے؟ یا کیا کیا نعمتیں ہیں؟ ان کی کچھ معرفت ہونی چاہئے، دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا یہ درود اہلِ ایمان پر براہِ راست نازل ہوتا ہے یا محمد و آلِ محمدؐ کے وسیلے سے؟ تیسرا سوال یہ سامنے ہے کہ جب ہم بحکمِ خدا آنحضرتؐ پر صلوت پڑھتے ہیں، تو کیا یہ محبوبِ خدا ؐ کے حق میں ہماری کوئی سفارش ہے یا اپنے لئے صلواتِ سماوی کی درخواست ہے؟

۳۔ حق بات تو یہ ہے کہ اہلِ معرفت ہی نے کثرتِ ذکرِ الٰہی سے صلواتِ سماوی کی عظیم الشّان نعمتوں کو حاصل کیا ہوگا، اور ان میں سردارنعمت علم ہی کی ہوسکتی ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم کا یہی ہمہ رس اور کائنات گیر اشارہ ہے کہ ہر چیز کے نام میں علم ہی کا بیان ہے، مگر جو درود اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھیجتے ہیں، اس میں نورانی علم ہے، یعنی علمِ لدنی، جیسا کہ آپ

۱۴۴

دیکھتے ہیں کہ درود کا مقصد یہی ہے کہ اہلِ ایمان کو جہالت و نادانی کی تاریکیوں سے نکال کر نورِ علم و حکمت میں داخل کیا جائے۔

۴۔ صحیح بخاری، جلدِ دوم، باب۸۰۵ میں ہے کہ آنحضرتؐ سے پوچھا گیا کہ آپؐ پر”صلوٰۃ” کا کیا طریقہ ہوگا؟ آنحضورؐنے فرمایا کہ یوں پڑھا کرو: اللھم صلی علیٰ محمد و علیٰ ال محمد کما صلیت علی ابراھیم و علی ال ابراھیم انک حمید مجید، اللھم بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابراھیم و علی ال ابراھیم انک حمید مجید۔ ۔ ۔ ۔ اے اللہ! درود بھیج حضرتِ محمدؐ پر اور حضرتِ محمدؐ کی اولاد پر جس طرح کہ تو نے درود بھیجا حضرتِ ابراہیمؑ پر اور حضرتِ ابراہیمؑ کی اولاد پر، بے شک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! برکت نازل فرما حضرتِ محمدٔ پر اور حضرتِ محمدؐ کی اولاد پر جس طرح کہ تو نے برکت نازل فرمائی حضرتِ ابراہیمؑ پر اور حضرتِ ابراہیمؑ کی اولاد پر، بے شک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔ اس حدیث کے کئی حوالہ جات ہیں۔

۵۔ اس حقیقت میں کوئی شک ہی نہیں کہ حضورِ پاکؐ محبوبِ خدا اور سید الانبیاء ہیں، لہٰذا آپؐ کی ذاتِ عالی صفات پر اور آپؐ کی اولادِ اطہار پر اللہ تعالیٰ کی خاص خاص عنایات و نوازشات ہیں، تاہم یہ بھی آپؐ ہی کی شانِ جمال و جلال ہے

۱۴۵

کہ دوسرے پیغمبروں کے آئینہ ہائے قرآن میں بھی آنحضرتؐ کی اور آپؐ کی اولاد کی تجلیاتِ روح پرور کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے، پس یقیناً  حضرتِ ابراہیم خلیل اللہؑ اورآلِ ابراہیم کے قصّۂ قرآن میں حضرتِ محمدؐ و آلِ محمدؐ کے اسرارِ معرفت پنہان ہیں، اور مذکورہ حدیث (درودِ شریف) کا حکیمانہ اشارہ یہی بتاتا ہے، جس میں اہلِ دانش کے یقین کے لئے روشن دلائل موجود ہیں۔

۶۔ مذکورہ حدیثِ شریف جو درود بھی ہے سماوی حکمتوں سے لبریز ہے، کیونکہ صاحبِ جوامعُ الکلم کا کلام انتہائی پاک و پاکیزہ اور نورِ وحی سے کاملاً منور و تابان ہوتا ہے، ایسے میں ہر دانشمند مومن کو احادیثِ صحیحہ کی معنوی گہرائی اور حکمت کا خیال رکھنا ہوگا، چنانچہ صلوٰۃ (درود) میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں، من جملہ حکمتِ اوّل یہ ہے کہ اس میں حضرتِ ابراہیم خلیل اللہؑ اور حضرتِ محمد حبیبُ اللہؐ کی مماثلت کا بیان ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنے خلیلؑ کو تمام لوگوں کا امام بنایا تھا (۰۲: ۱۲۴) جس سے سارے زمانوں کی امامت مراد ہے، کہ خدا کی اس عنایتِ بے نہایت سے آپؑ اپنے آبا و اجداد میں بھی اور سلسلۂ اولاد میں بھی امام نظر آنے لگے، اسی طرح خداوندِ عالم نے اپنے حبیبؐ کو اوّلین، حاضرین، اور آخرین کا امام بنایا تھا، اور حضورؐ کا سب سے بڑا مرتبہ یہ ہے کہ آپؐ سید الانبیاء و المرسلین

۱۴۶

ہیں۔

۷۔ حکمتِ دوم: اس درودِ شریف کے معجزاتی مدلل و مبرہن الفاظ سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ آلِ محمدؐ اپنے اوصافِ نورانیت میں آلِ ابراہیمؑ کی طرح ہیں، بلکہ آلِ ابراہیمؑ کا سلسلہ تو اب رسولِ پاکؐ پر آکرآلِ محمدؐ کی صورت میں جاری و ساری ہے، جیسے سورۂ نساء (۰۴: ۵۴) میں ارشاد ہے: ہم نے تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور عقل و حکمت کی باتیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی ہے (۰۴: ۵۴)۔

۸۔ حکمتِ سوم: محولہ آیۂ مقدسہ کے مطابق آلِ ابراہیمؑ (آلِ محمدؐ) کے پاس تین انتہائی عظیم چیزیں ہیں: اللہ کی کتاب، حکمت، اور روحانی سلطنت، ان میں سے ایک چیز سب پر ظاہر ہے، وہ اللہ کی پاک کتاب (قرآن) ہے، جو دوسرے بیشمار فوائد کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کی روشن دلیل بھی ہے کہ جب تک دنیا میں خدا کی آخری کتاب باقی ہے، تب تک آلِ محمدؐ یعنی أئمّۂ طاہرینؑ کا سلسلہ بھی جاری ہے، کیونکہ یہی حضرات بحکمِ خدا قرآن کے وارث ہیں، جیسا کہ سورۂ فاطر (۳۵: ۳۲) میں ارشاد ہے: پھر ہم نے اپنی اس کتاب کا وارث ان کو بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں منتخب کر لیا تھا۔

۹۔ حکمتِ چہارم: سورۂ احزاب (۳۳: ۵۶) کے مطابق صَلُّوا
۱۴۷

کے معنی ہیں: تم درود بھیجو، اگر اس صیغۂ امرِ جمع کو واحد بنایا جائے توا س کی صورت یہ ہوگی: صَلِّ= تو درود بھیج، اس مناسبت سے یہ معنی بالکل درست ہیں، اب آئیے سورۂ توبہ (۰۹: ۱۰۳) کے اس حکم کو دیکھتے ہیں، جس میں آنحضرتؐ سے فرمایا گیا ہے: وَصَلِّ عَلَیْهِمْؕ ، اس کے کیا معنی ہو سکتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وہی درودِ سماوی ہے جو خدا اوراس کے فرشتے اہلِ ایمان پر بھیجتے ہیں (۳۳: ۴۳) مگر اللہ تعالیٰ کی اتنی عظیم نعمت رحمتِ عالمؐ کے بغیر کس طرح مومنین کو مل سکتی ہے، لہٰذا آپ یقین کریں کہ خدائے مہربان کا انعامِ درود ایمانداروں کو رسولِ کریمؐ اور آپؐ کے جانشین پہنچا دیتے ہیں۔

۱۰۔ حکمتِ پنجم: صلوٰۃ (درود) کے معنی درجہ بدرجہ بلند ہوتے ہوئے حظیرۂ قدس تک پہنچ جاتے ہیں، کیونکہ مومنین و مومنات کے الگ الگ بہت سے درجات مقرر ہیں، تا آن کہ بعض سالکین حظیرۃ القدّس تک رسا ہو جاتے ہیں، اس صورتِ حال کے باوجود آسمانی درود بواسطۂ رسولؐ یا بوسیلۂ امامِ زمانؑ وہ سر چشمۂ تسکین ہے، جس سے ہر درجے کے قلب و جان کو اطمینان مل سکتا ہے (مفہوم: ۰۹: ۱۰۳)۔

۱۱۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ حضرتِ رسولؐ اور آپؐ کی آل پر کس طرح مسلسل درود کا نور برساتے رہتے ہیں، اس کی کائناتی

۱۴۸

تفسیر یہ ہے کہ خداوندِ جہان خورشیدِ انور پر باہر سے کوئی روشنی نہیں ڈالتا، بلکہ خود اس کے باطن ہی میں لگا تار نور پیدا کرتا رہتا ہے، چونکہ وہ مادّی نور کا انتہائی عظیم کارخانہ ہے، اس لئے اس کا دائمی کام یہ ہے کہ وہ ہر لحظہ اپنی روشنی کی طوفانی لہریں اطرافِ کائنات میں دوڑاتا رہے، قانونِ فطرت کی اس تفسیرسے معلوم ہوا کہ پیغمبرؐ اور امامؑ پر اللہ کا درود یہ ہے کہ ان کی ذات میں سب کے لئے ہمیشہ اور مسلسل نورِ درود پیدا کرتا رہتا ہے، اور نور وہ حقیقت ہے، جس میں تما م معانی جمع ہیں، یعنی اس میں سب کچھ ہے۔

۱۲۔ اے برادران و خواہرانِ روحانی! آپ سے میں چند ضروری مگر آسان سوالات کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہیں: (الف) آیا نورِ منزل اور کتاب مبین (۰۵: ۱۵) اس جہان میں خدا کے دو عظیم خزانے نہیں ہیں؟ (ب) کیا دین کی ہر چیز خزائنِ الٰہی (۱۵: ۲۱) سے نازل نہیں ہوتی ہے؟ (ج) آیا یہ حقیقت نہیں کہ آسمان زمین کی ہر لطیف چیز اور ہر خزانہ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) میں محدود ہے؟ (د) آخری سوال: کیا درودِ سماوی خزانۂ کل ہی سے مل سکتا ہے یا نہیں؟

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

بدھ ۲۷ شوال المکرم ۱۴۱۸ھ ۲۵ فروری ۱۹۹۸ء

۱۴۹

اسلام میں سعی و سبقت کی اہمیت

 

۱۔ سعی کے معنی ہیں: محنت، دوڑ، کوشش، کمائی، جیسا کہ سورۂ نجم (۵۳: ۳۹) میں ارشاد ہے: وَأَن لَّیْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَیٰ = اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ اس ربّانی ارشاد کے مطابق روحانی ترقی کے لئے سخت محنت اور کوشش کرنے کی ضرورت ہے، اور علم و عمل کی صورت میں سعی ہدایتِ حقہ کی روشنی میں ہونی چاہئے، ورنہ محنت و کوشش رائگان جائے گی۔

۲۔ سعی کے معنی دوڑنے کے بھی ہیں، یعنی ذکر وعبادت اور علم و عمل کی تیز رفتاری سے منزلِ مقصود کی طرف جانا، جیسے سورۂ ذاریات (۵۱: ۵۰) میں ارشاد ہے: ففروا الی اللہ = تو تم اللہ ہی کی طرف دوڑو۔ یہاں شاید کوئی شخص یہ سوال کرے کہ صراطِ مستقیم پر دوڑنے میں کیا حکمت ہے، حالانکہ آہستہ و آرام سے بھی چلا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ صراطِ مستقیم پر دوڑنا

۱۵۰

جہادِ اکبر کے معنی میں ہے، کیونکہ راہِ راست پر چلنے والوں کے خلاف شیطان اپنے لشکر کے ساتھ چاروں طرف سے حملہ کرتا ہے، لہٰذا سب سے کامیاب طریقہ یہی ہے کہ مجاہدین دشمن کی اس صف کو چیر کر آگے جائیں، جس میں سامنے سے جنگ ہورہی ہے، جس کی وجہ سے روحانی ترقی میں رکاوٹ ہوتی ہے (۰۷: ۱۷)۔

۳۔ دوڑنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآنِ حکیم نے ایمان والوں کو نیک کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا حکم دیا ہے، جیسے سورۂ حدید (۵۷: ۲۱) میں ارشاد ہے: ایک دوسرے پر سبقت کرو اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس جنت تک پہنچنے کے لئے، جس کی وسعت آسمان و زمین کی وسعت جیسی ہے اور یہ تیار کی گئی ہے ایسے لوگوں کے لئے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے کہ وہ جسے چاہے دیتا ہے اور خدا صاحبِ فضلِ عظیم ہے۔ اسرارِ معرفت میں سے ایک سر عظیم یہ بھی ہے کہ مذکورہ جنت جو کائناتی ہے، ان لوگوں کے عالمِ شخصی سے تیار کی جاتی ہے، جن کی بفضلِ خدا علم و عمل میں سبقت حاصل ہوتی ہے، کیونکہ خداکی ہر چیز زندہ مگر سب سے اعلیٰ مخلوق ہوا کرتی ہے اور ایسی مخلوق انسانِ کامل ہی ہے، جو ایک ہونے کے باوجود ھزار اندرھزار ہے، بلکہ بے شمار ہے، کیونکہ وہ عالمِ وحدت

۱۵۱

ہے، جس میں سب کچھ ہے، مگر جوہر اور وحدت وسالمیت کی شکل میں۔

۴۔ یقیناً  قرآنِ حکیم نیک کاموں میں سبقت کرنے کا حکم دیتا ہے، آپ قرآنِ حکیم میں دیکھ سکتے ہیں، جیسے سورۂ مومنون (۲۳: ۶۱) میں ہے: جی ہاں! یہی لوگ ہیں کہ جو بھلائیوں میں جلدی کرتے اوردوسروں پر سبقت لے جاتے ہیں (۲۳: ۶۱)۔ جلدی اور سبقت کی ایک مناسب مثال یہ ہے: دائمی ذکرِ سریع، نیک کاموں میں جوش و جذبہ اور عشق، عاجزی اور بھرپور توجہ سے عبادات کی بروقت ادائگی، کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ یادِ الہٰی، وسوسہ اور خیالِ باطل کو قطعاً ختم کرنا، اور اپنی ذات میں ذکرِ سریع کی برقی رفتاری کو پیدا کرنا۔

۵۔ اے عزیزانِ من! یہ قرآنی اور روحانی راز آپ کے لئے ایک گنجینہ ہے کہ جب خداوندِ قدوس کسی بشر (انسانِ کامل) کو اپنے دیدارِ پاک سے نوازتا ہے تو اس حال میں اللہ اس سے کلام نہیں فرماتا، صرف وحی (اشارہ) ہوتی ہے کہ خود دیدار چوٹی کی وحی ہے، بفرضِ محال اگر اس مقام پر دیدارکے ساتھ ساتھ کلام بھی ہوتا، تودیدار میں جتنے پُر از حکمت اشارات ہیں، وہ سب ضایع ہو جاتے، اس سے نچلے درجے میں حجاب کے پیچھے سے کلام ہوتا ہے، اس سے بھی نچلے درجے میں بتوسطِ فرشتہ وحی بھیجی جاتی ہے

۱۵۲

(مفہوم۴۲: ۵۱)۔

۶۔ ہر آیۂ قرآن میں قانونِ بالا کے مطابق تین عظیم چیزیں ہیں: (الف) خاموش دیدار کی وحی(اشارہ) کی طرح اشارے ہیں، (ب) محجوب کلام کی طرح باطنی حکمتیں ہیں، (ج) فرشتے کی لائی ہوئی وحی کے مطابق ظاہری تنزیل ہے، اس ضروری بیان کے بعد ایک عظیم الشّان آیت میں جلدی اور سبقت کے راز کو دیکھتے ہیں، وہ آیۂ کریمہ یہ ہے: خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَأُرِیْکُمْ آیَاتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ (۲۱: ۳۷)۔ انسان کی (باطنی) تخلیق سرعت سے ہوتی ہے، میں عنقریب تمہیں اپنی آیات دکھاؤں گا تاکہ تم سرعت نہ کرو گے، یعنی انسان کی باطنی پیدائش نہیں ہوتی ہے، جب تک کہ امامِ زمان علیہ السّلام اس کو اسمِ اعظم عطا نہ کرے، جب مولا کسی شخص کو اسمِ اکبر کا ذکر دیتا ہے، اور وہ خوش نصیب انسان اسمِ بزرگ کے ذکرِ سریع سے کامیاب ہو جاتا ہے توا س کے لئے عالمِ شخصی کا دروازہ کھل جاتا ہے، اور اس کی باطنی تخلیق شروع ہو جاتی ہے اسی طرح وہ اہلِ زمانہ پر سبقت کرتا ہے۔

۷۔ اللہ تعالیٰ ایسے انسان کو عالمِ شخصی میں اپنی آیات (معجزات) دکھاتا جاتا ہے، تاآنکہ حظیرۂ قدس میں جا کر زمان ومکان کی تمام مسافتیں ختم ہو جاتی ہیں، اور جلدی و سبقت کا مقصد بھی پورا

۱۵۳

ہو جاتا ہے، کیونکہ اب یہاں سے آگے نہ کوئی جلدی ہے اور نہ کوئی سبقت ہے، ہاں، یہاں ازل اور لامکان ہے، جہاں نور ایک دائرے میں دوڑ رہا ہوتا ہے، یہ فلا تستعجلون کی تفسیر ہے۔

۸۔ جب مومنِ سالک کی ذاتی اور روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے تو اس وقت اسمِ اعظم کا ذکرِ مبارک از خود ہمیشہ جاری رہتا ہے، مومن کا ذکرِ سریع حقیقی معنوں میں ذکرِ سریع (سعی و سبقت) ہو جاتا ہے، اور قیامت کے بہت سے معجزات میں اذکار، عبادات، اور تسبیحات کا معجزہ بھی ہے، ہم نے اس کی تصریح حضرتِ داؤد علیہ السّلام کی تسبیح خوانی میں کی ہے، کہ ان کا قصّہ اصلاً روحانیّت اور قیامت کا قصّہ ہے۔

۹۔ سورۂ صافات (۳۷: ۱۰۲) کے مطابق “السعی” روحانیّت کی ایک منزل کا نام بھی ہے، یہ ظہورِ اسرافیل و عزرائیل کی منزل ہے، جہاں سعی و سبقت بھی ہے اور فنا بھی، چنانچہ ارشاد کا ترجمہ ہے: جس وقت اسماعیل باپ کے ساتھ السعی میں پہنچ گیا تو باپ نے کہا: بیٹا! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں، دیکھو(اس میں) تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا: ابا جان! آپ کو جو حکم ملا ہے اس کی تعمیل کیجئے، ان شاء اللہ، آپ مجھے صابرین سے پائیں گے۔ جو باسعادت لوگ فنافی الامامؑ، فنا

۱۵۴

فی الرسولؐ، اور فنا فی اللہ ہو جاتے ہیں، ان کو بھی راہِ خدا میں باطناً ذبح کیا جاتا ہے، اور ان کو روحانی شہادت کامرتبہ بھی حاصل ہوتا ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)  ہونزائی

کراچی

بدھ ۴ ذیقعدہ ۱۴۱۸ھ ۴ مارچ ۱۹۹۸ء

۱۵۵

موت قبل از موت

یا

حساب قبل از حساب

 

۱۔ موت دو قسم کی ہوا کرتی ہے: (۱) اختیاری (۲) اضطراری، قسمِ اوّل میں اللہ کی خوشنودی کی وجہ سے بے شمار فوائد ہیں، کیونکہ اسی میں جہادِ اکبر کا انتہائی مشکل میدان سامنے آتا ہے، جس میں اگر آپ نے عالی ہمتی اور ثابت قدمی سے کام لے کر اپنے عالمِ شخصی کو فتح کر لیا تو اسی کے ساتھ ساتھ تسخیرِ کائنات بھی ہو جاتی ہے، تسخیرِکائنات؟ جی ہاں، اس کے عظیم ثمرات اتنے زیادہ ہیں، اور اس کثرت سے ہیں، کہ کوئی بشر ان کو شمار ہی نہیں کر سکتا، مگر یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں سر تا سر انہی نعمتوں کی مجموعی تعریف آئی ہے، پس شہیدانِ باطن پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل و کرم ہے،

۱۵۶

کہ وہ نہ صرف شہید اور غازی ہوگئے، بلکہ راہِ خدا میں قربان (ذبح) بھی ہو چکے تھے، کیونکہ روحانیّت میں حضرتِ اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السّلام کی پاک سنت جاری ہے۔

۲۔ آپ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادِ مبارک کو ہر وقت پیشِ نظر رکھیں، جو جہادِ اکبر سے متعلق ہے، وہ یہ ہے: رجعنا من الجھاد الاصغر الی الجھاد الاکبر= آج ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہیں۔ خوب غور سے سننے کی ضرورت ہے کہ جب جہاد دو قسم کا ہے: جسمانی اور روحانی (یا ظاہری اور باطنی) تو لازمی طور پر شہادت (مقدّس موت) بھی دو قسم کی ثابت ہوئی، ایک جسمانی شہادت ہے اور دوسری روحانی شہادت، اب ہم بتوفیقِ خداوندِ قدّوس عنوانِ بالا کے تحت اختیاری موت اور ذاتی قیامت کے بعض حقائق و معارف بیا ن کریں گے۔

۳۔ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں اجتماعی احکام آئے ہیں، وہاں ہر شخص کے لئے انفرادی حکم بھی ہے، جیسے سورۂ بقرہ (۰۲: ۵۴) میں ارشاد ہے: فاقتلوا انفسکم= اپنے تئیں ہلاک کرو۔ یعنی ہر فرد بذریعۂ ریاضت نفس کشی کرے تاکہ روحانی ترقی اور رجوع الی اللہ کے معنی میں درجۂ انتہا کی توبہ ہو جائے، کیونکہ گوسالہ پرستی جہالت سے کی گئی تھی، جس کا حقیقی علاج خود شناسی اور معرفت ہے،

۱۵۷

نہ کہ شمشیرِ بران اور ظاہری قتل، پس یہ نفسانی موت قبل از جسمانی موت کی ایک روشن دلیل ہے۔

۴۔ اے برادران وخواہرانِ دینی ! آپ اس حکمت کو بھی یاد رکھیں کہ حساب قیامت کے ناموں میں سے ہے، چنانچہ مریم سلام اللہ علیہا کے بارے میں حکایتا (برسبیلِ تذکرہ) ارشاد ہے: إنَّ اللّہَ یَرْزُقُ مَن یَشَاء ُ بِغَیْرِ حِسَاب (۰۳: ۳۷) ترجمۂ اوّل: بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔ ترجمۂ دوم: یقیناً  خداوندِ عالم جس کو چاہتا ہے قیامت کے بغیر بھی علم عنایت فرماتا ہے۔ یعنی انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کو نورانی علم ذاتی قیامت سے پہلے بھی ملتا رہتا ہے اور بعد میں بھی، اس کے برعکس اگر ہم ترجمۂ اوّل ہی پر ٹھہرے رہیں تو یہ صرف دنیا کے اغنیاء ہی کی تعریف ہوگی، حالانکہ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں پیغمبروں اور اماموں کی تعریف ہے کہ ان کے پاس ہمیشہ علمِ سماوی آتا رہتا ہے۔

۵۔ مریم علیہا السّلام کا یہ تذکرہ ذاتی قیامت سے پہلے کا ہے، درحالے کہ اس کو اولیائی علم آنے لگا تھا، قیامت ایک طویل باطنی سفرکا نام ہے، اس کے بہت سے مراحل ہیں، مریمؑ کی روحانی قیامت کا بیان سورۂ مریم (۱۹: ۱۶ تا ۲۶) میں ہے، جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے باطنی تولد کی تمثیل جسمانی تولد سے دی گئی ہے، اس قصّے (۱۹: ۲۳) میں قیامت کی سختی کی ایک چھوٹی سی

۱۵۸

مثال گویا زچگی کی سختی ہے، اس وقت حضرت عیسیٰؑ کا نورانی جنم مرتبۂ عقل پر ہوتا ہے، قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ روحانی قیامت کا ذکر ہے، اسی معنیٰ میں حکیم پیر ناصر خسرو(ق س) کا یہ پُرحکمت شعر ہے۔

ھو الاول  ھو الآخر  ھو الظاہر  ھو الباطن

منزہ  مالک  الملکی  کہ بے  پایان حشر دارد

ترجمہ: وہ اوّل بھی ہے آخر بھی اور ظاہر بھی ہے، باطن بھی، وہ ایسا پاک بادشاہ ہے کہ اس کی قیامتوں کا سلسلہ ہمیشہ جاری ہے۔

۶۔ حدیثِ شریف میں ہے: حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبو = تم اپنا محاسبہ خود کرو، قبل اس کے کہ تمہا را محاسبہ کیا جائے، یعنی زندگی ہی میں اپنے یوم الحساب کا سارا کام مکمل کر لو، اس سے پیشتر کہ تم پر بے اختیار یوم الحساب آ جائے، کیونکہ موت اور قیامت اختیاری بھی ہے، اور اضطراری بھی، جیسا کہ ارشاد ہے: اور خدا (کی راہ) میں جہاد کرو، جیسا جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تم (أئمّہ) کو برگزیدہ کیا ہے اور تم پر دین (کی کسی بات) میں تنگی نہیں کی (۲۲: ۷۸) یعنی تمہارے لئے علم و عمل کی ہر چیز ممکن بنائی گئی ہے، اور کوئی نعمت ایسی نہیں جسے تم حاصل نہ کر سکو۔

۷۔ شاید آپ ہی میں سے کوئی عزیز یوں پوچھے کہ آیا مرتبۂ عقل پر نورانی تولد صرف حضرتِ عیسیٰؑ ہی کے لئے خاص تھا یا یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تمام اہلِ ایمان کے لئے ممکن ہے؟ ہم اس کا جوابِ

۱۵۹

شافی قرآنی حکمت ہی سے دینا چاہتے ہیں، وہ اس طرح سے ہے:۔

ترجمۂ آیۂ شریفہ: اور ابنِ مریمؑ اور اس کی ماں کو ہم نے ایک نشانی (آیت) بنایا اور ان کو ہم نے ایک اونچی ہموار ٹھہرنے کے قابل چشمہ والی زمین پر جگہ دی (۲۳: ۵۰)۔ یعنی ان دونوں مقدّس ہستیوں کو ربِّ کریم نے عالمِ شخصی کی بہشتِ برین پر بلند کرکے آیتِ کبریٰ (صورتِ رحمان) بنا دیا، یہ زندہ نمونۂ جنت ہے، جس میں داخل ہو کر جملہ انبیاء واولیاء علیہم السّلام اور متّقین اپنے باپ آدمؑ کی صورت پر ہو جاتے ہیں، اور آدمؑ رحمان کی صورت پر تھا، پس یہی ان سب کی عقلی پیدائش ہے، اور خدا کی یہ سب سے بڑی نوازش سب کے لئے ممکن ہے۔

۸۔ اے دوستانِ عزیز! آج میں آپ سب کو ایک تفصیلی مبارکبادی پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ اس طرح سے ہے کہ واللہ! ہم میں سے کسی بھی شخص کو نہ ایسی کوئی خبر تھی، اور نہ کوئی تجربہ تھا کہ جس سے ہم دنیا بھر کی اچھی خدمات میں سے ایک بیمثال اور بادشاہ خدمت کا انتخاب کر سکتے، یہ امر ہمارے لئے ممکن ہی نہ تھا، لیکن مولائے پاک نے ہم تمام ساتھیوں پر بہت بڑا احسان کیا، اور ہم سب کو ایک عجیب و غریب ہمہ رس خدمت کی سعادت سے سرفراز فرمایا، یہ علمی خدمت ہے، جو آبِ حیات گھر گھر پہنچانے کی طرح ہے، چونکہ یہ نورانی علم کنز القرآن اورکنز الامام سے ہے، لہٰذا اس میں

۱۶۰

ضیاءُ القلوب (دلوں کی روشنی) ہے، یہ طبِّ سماوی ہے، اس لئے اس میں جانوں کی شفا ہے، یہ غذائے عقل و روح ہے جو ہمہ رس اور کبھی ختم نہ ہونے والی ہے، یہ عطرِ بہشت ہے، جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دنیا میں پھیل رہا ہے، اس میں قرآن، امام، اسلام، اور مذہب کی روح پرور خوشبوئیں ہیں، ان پیاری پیاری کتابوں میں خدا، رسولؐ، امامؑ، اور انسانی روح کی دلنشین معرفت کے اصل ذخائر موجود ہیں، الحمد للہ ربِّ العالمین۔

۹۔ قرآنی علم وحکمت گویا ایک نورانی پانی ہے، جس کے عظیم معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ یہ تمام اعلیٰ مضامین کے ظروف میں سے ہر ظرف میں آکر اس کی ظرفیت کے ساتھ کلی مطابقت کر سکتا ہے، مثال کے طور پر آج میرے پاس ظرفِ مضمون “قیامت” ہے، چنانچہ میں ناچیز جس آیۂ شریفہ سے بھی رجوع کرتا ہوں، اس کی گہری حکمت سے قیامت کے موضوع پر روشنی پڑنے لگتی ہے، جس کی وجہ یقیناً  یہی ہے کہ قرآنِ حکیم ایک ایسے بلند ترین مقام سے نازل ہوا ہے، جہاں نہ صرف تمام اچھے اچھے مضامین کی وحدت ہے، بلکہ وہاں کلمۂ کن (ہوجا) میں توجملہ الفاظ کی اصل حقیقت ایک ہی ہے، پس یہ سچ ہے کہ قرآنِ عزیز میں معنوی تجلیات ہیں۔

۱۰۔ ام الکتاب (سورۂ فاتحہ) کی سات آیات ہیں، ان میں

۱۶۱

سے ہر آیت کے ظاہر یا باطن میں قیامت کا کوئی ذکر موجود ہے، صرف یہی نہیں بلکہ ہر آیۂ مقدّسہ میں جتنے کلمات ہیں یا اس سورہ میں کل جتنے الفاظ ہیں، اتنی دفعہ قیامت کا تذکرہ ہو سکتا ہے، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ قرآنِ حکیم کے سارے مضامین و مطالب ام الکتاب میں سمیٹے ہوئے ہیں، یہ اس حقیقت کی ایک روشن دلیل ہے کہ حضرتِ امیر المومنین علی علیہ السّلام باطن میں ام الکتاب ہے، جس کی ذاتِ عالی صفات میں قرآنِ عزیز کی زندہ روح مجموع ومحفوظ ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَاِنَّهٗ فِیْۤ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَكِیْمٌ (۴۳: ۰۴) اور وہ (قرآن) ہمارے پاس ام الکتاب (اساس) میں ہے جو علیٔ حکیم ہے۔

۱۱۔ آخر میں ایک عجیب وغریب حکمت درج کی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ مولا علی صلوٰت اللہ علیہ وسلامہ نے ارشاد فرمایا: انا ترجمان وحی اللہ (کوکبِ دری، باب سوم، منقبت۱۹) یعنی میں خدا کی وحی (قرآن) کا ترجمان ہوں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ امامِ عالیمقامؑ نورِ منزّل ہے۔ لہٰذا وہ مرتبۂ باطن پرآپ کو اپنی ہی زبان میں قرآن پاک کی روحانی تعلیم دے سکتا ہے، اور حکمت سکھا سکتا ہے، الحمد للہ ربِّ العالمین۔

نصیر الدین نصیرؔ( حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

اتوار ۸ ذیعقدہ ۱۴۱۸ھ ۸ مارچ ۱۹۹۸ء

۱۶۲

روحانیتِ قرآن اور معجزۂ لسان

 

۱۔ اے برادران وخواہرانِ روحانی! کیا آپ سب نے سورۂ لقمان کی اس آیۂ مبارکہ میں خوب غور سے دیکھا ہے (۳۱: ۲۰) جس میں اللہ تعالیٰ کی اس انتہائی عظیم نوازش کا ذکر آیا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے کائنات مسخر کرکے رکھی ہے اور اپنی تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں ان پر پوری کر دی ہیں؟ یہ آیۂ کریمہ اَلَمْ تَرَوْا (کیا تم نے نہیں دیکھا؟) کے جملۂ سوالیہ سے شروع ہو جاتی ہے، لہٰذا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ عارفین و کاملین اس امر واقعی کے گواہ ہیں، کیونکہ انہوں نے یہ انتہائی عظیم واقعہ اپنے عالمِ شخصی ہی میں دیکھا تھا کہ خداوندِ قدّوس کائنات کو مسخر کر کے امامِ مبینؑ میں رکھتا ہے، اور اللہ کی تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں بھی اسی زندہ خزانے میں رکھی ہوئی ہیں، تاکہ لوگ اللہ کے اس مقدّس خزانے سے رجوع کریں جو ہر طرح سے اور ہر معنی میں ان کے پاس ہے، چونکہ آپ کو قرآن اور امامؑ دونوں سے عشق ہے، لہٰذا ان دونوں کے واحد نورِ باطن

۱۶۳

کے دیدار ومعرفت کے لئے کمر بستہ ہو جائیں۔

۲۔ قرآنِ پاک کا باطنی دیدار اور معرفت؟ وہ کیسے؟۔ ۔ ۔ ج: جی ہاں، یہ سچ ہے کہ قرآن کا ایک ظاہر اورایک باطن ہے، اور اس کے باطن کا باطن ہے، سات باطنوں تک، وہ حدیثِ شریف یہ ہے: ان للقران ظھرا وبطنا و لبطنہ بطن الی سبعت ابطن۔ لہٰذا کم سے کم روحانیّت کے سات مقام پر قرآن کا دیدار ہونا چاہئے، اور یہ قرآنِ ناطق کی صورت میں ہے، کیونکہ روحانیّت اور عالمِ وحدت میں تمام حقیقتیں آپس میں مل کر ایک ہو جاتی ہیں، یہ صرف قرآن کے سات لفظی معنوں اور تاویلوں کی بات نہیں، بلکہ روحانیّت میں اس کے مختلف ظہورات بھی ہیں۔

۳۔ قرآنِ حکیم میں لفظِ آیات کا اطلاق تمام حقائق و معارف پر ہو جاتا ہے، اور خدا کی خدائی کی کوئی چیز اس نام (آیت) سے مستثنا نہیں ہے، جیسے آیۂ کریمہ (۲۷: ۹۳) کا تاویلی مفہوم ہے: تم کہو: الحمد للہ (یعنی نورِ عقل خدا ہی کا ہے) لہٰذا وہ تم کو مرتبۂ عقل پر اپنی تمام آیات دکھائے گا، اور تم کو ان کی معرفت حاصل ہوگی۔ بہتر یہ ہے کہ میں آیاتِ کبریٰ کی فہرست لکھنے کی گستاخی نہ کروں، صرف اتنا کہوں کہ یہ عالمِ شخصی کی بہشت کی آیات ہیں جو انتہائی عظیم چیزیں ہیں، ان میں کتابِ مکنون بھی ہے، جس میں باکرامت قرآن ہے کہ اس کو کوئی چھو نہیں سکتا، مگر وہ لوگ جو باطن میں پاک کئے گئے ہیں (۵۶: ۷۷ تا ۷۹)۔

۱۶۴


۴۔ سورۂ ابراہیم (۱۴: ۰۴) میں حکمتِ قرآن کا ایک عجیب و غریب دل کشا دریچہ ہے، آئیے ہم پہلے آیۂ کریمہ اور ترجمہ پڑھتے ہیں، اور اس کے بعد دریچۂ حکمت کی طرف جاتے ہیں: وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِیُبَیِّنَ لَهُمْؕ ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں، تاکہ ان کے لئے بیان (تاویل) کرے۔ معلوم ہے کہ آنحضرتؐ کی قوم تقریباً تمام دنیا میں ہے، جس کی بہت سی زبانیں ہیں، لہٰذا یہ ہمارا ایمان اور یقین ہے کہ اگرچہ تنزیلِ قرآن عربی میں ہے، لیکن اس کی روحانی تاویل دنیا کے ہر مسلمان کی مادری زبان میں ہے، روحانی تاویل سے قرآن کی روح و روحانیّت مراد ہے، اور یہ نکتہ یاد رہے کہ عملی تاویل روحانیّت میں ہوتی ہے۔

۵۔ اب آپ کو سورۂ روم (۳۰: ۲۲) میں چشمِ بصیرت سے دیکھنا ہوگا، اس آیۂ شریفہ کا ترجمہ یہ ہے: اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش، اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے، یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں اہلِ علم کے لئے، یہ ظاہری ترجمہ بہت خوب ہے، لیکن اس کی باطنی حکمت کو بھی دیکھنا ہے، وہ اس قانونِ الہٰی کے مطابق کہ جو آیات (نشانیاں) آفاق میں مادّی طور پر ہیں، وہ انفس میں روحانی طور پر بھی ہیں (۴۱: ۵۳) اور اسی قانون کو سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں بھی دیکھ لیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان جس عظیم ترین مقصد کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہے،

۱۶۵

وہ معرفت ہے، اور معرفت باطن یعنی عالمِ شخصی میں ہے، پس اسی وجہ سے قرآنِ عزیز میں ہر جگہ ظاہر مثال ہے اور باطن ممثول۔

۶۔ اس مدلل بیان کے بعد اب یہ بتانا آسان ہوگیا کہ عالمِ شخصی کی آیات یعنی معجزات مغزِ حکمت و معرفت سے مملو ہیں، ظاہری کائنات کی پیدائش کے بارے میں علمائے دین اور سائنسدانوں کے درمیان بنیادی اختلاف پائے جاتے ہیں، جبکہ اللہ باطنی کائنات کو عارف کے سامنے باربار پیدا کرتا رہتا ہے، تاکہ معرفت کا  ہر ممکن تقاضا پورا ہو، چونکہ عالمِ شخصی خوابیدہ ہوتا ہے، تاآنکہ اس کی ذاتی قیامت قائم ہو جاتی ہے، تب وہ بیدار ہو جاتا ہے، اب ایسے شخص کو بڑا کامیاب نامۂ اعمال دیا جاتا ہے، فرض کریں کہ ایسے لوگ ہزار ہیں، جو اسمِ اعظم کے معجزے سے جیتے جی مرکر زندہ ہوگئے ہیں، ان سب کی زبانیں الگ الگ ہیں، ان میں سے ہر شخص کا عظیم الشّان نامۂ اعمال اس کی اپنی زبان میں ہونا لازمی ہے، ایسی فصیح و بلیغ زبان کی خداوند تعالیٰ اس میں کلام فرمائے، اس میں ترجمۂ قرآن اور اس کی تاویل ہو، اور امامِ عالیمقامؑ جو وصیٔ رسولِ پاکؐ ہے، اسی زبان میں قرآنِ ناطق اور نامۂ اعمال ہو، تو اس وقت یقین کیا جائے گا کہ زبانیں خدا کی آیات (معجزات) میں سے ہیں، اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ہر زبان کا باطنی پہلو خدا کے پاس بڑا منظم اور پُرحکمت ہے۔

۱۶۶

۷۔ انسان کا ایک ظاہری رنگ ہے اور ایک باطنی، ظاہری رنگ وہ چیز ہے، جس کو سب جانتے ہیں، مگر باطنی رنگ ایک پوشیدہ حقیقت ہے، جو صبغتہ اللہ (۰۲: ۱۳۸) خدا کا رنگ یعنی نور ہے، جس کا عدیم المثال حسن و جمال مسحور کن کیوں نہ ہو، یہ نور مختلف رنگوں میں ہوتا ہے، جو علم و عبادت کی بنا پر ہے، الغرض مذکورۂ بالا نشانیاں (آیات) علمائے اہلِ باطن کے لئے ہیں، اور اس مضمون میں ہمارا خاص مقصد “روحانیّتِ قرآن اور معجزۂ لسان” کے بارے میں کچھ حکمتوں کو بیان کرنا ہے۔

۸۔ کتاب “کوکبِ دری” بابِ سوم، منقبت ۳۴ میں مولا مرتضیٰ علی علیہ السّلام کا فرمانِ اقدس ہے: انا المتکلم بکل لغت فی الدنیا، یعنی میں ہوں وہ شخص جو دنیا کی ہر لغت و زبان میں کلام کرتا ہے۔ حضرتِ امامؑ کو یہ ہمہ رس و ہمہ گیر قدرت خدا کی طرف سے حاصل ہوتی ہے، اور اس کے کئی اعلیٰ مقاصد ہیں: (۱) قرآنِ حکیم سید الانبیا والمرسلین صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم کا وہ یکتا اور انتہائی عظیم معجزہ ہے، جس کی کوئی مثال نہیں، لہٰذا اس کا معلمِ روحانی کیوں بے مثال نہ ہو(۲) فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے پاس ایک بولنے والی کتاب بھی ہے (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) جب یہ کتابِ ناطق ہے تو کسی ایک زبان میں کیوں بولے، جب کہ یہ سب لوگوں کے لئے ہے، اس سے ظاہر ہے کہ امام قرآنِ ناطق ہے، جو اپنے مرتبۂ روحانیّت پر ہر زبان میں کلام کرتا ہے

۱۶۷

(۳) کتابِ ناطق (امامؑ) نامۂ اعمال بھی ہے، جس کو ہر شخص کی زبان میں کلام کرنا ہے۔

۹۔ مولا علی علیہ السّلام کا ارشادِ گرامی ہے: انا وجہ اللہ فی السموت و الارض کل شیء ھالک الا وجھہ = یعنی میں ہوں آسمانوں اور زمین میں چہرۂ خدا، جیسے ارشادِ قرآنی ہے: چہرۂ خدا کے سوا ہر چیر ہلاک ہو جاتی ہے (۲۸: ۸۸) ھزار حکمت: ح: ۹۱۷۔ ۹۲۵۔ چہرۂ خدا کے کئی معانی اور اشارے ہیں، لیکن ہم اس مضمون کی مناسبت سے “لسان اللہ” کی تعریف کرتے ہیں کہ مولا علیؑ خدا کی زبانِ ناطق ہے، اسی لئے وہ قرآنِ ناطق بھی ہے، اور دنیا کی ہر زبان میں کلام بھی کرتا ہے، اس سے روحانی تاویل مراد ہے، سبحان اللہ!

۱۰۔ جب تمام لوگوں کی بولیاں اور زبانیں سورۂ روم (۳۰: ۲۲) کے ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ہیں، اور اس میں اہلِ علم کے لئے مخصوص دعوتِ فکر بھی ہے، تو دانشمندوں کو سوچنا چاہئے کہ یہاں ضرور زبانوں سے متعلق کچھ اسرار اور عجائب و غرائب کا اشارہ موجود ہے، جبکہ آیات کے معنی ہیں: نشانیاں، علامتیں، احکامِ خداوندی، معجزات، قدرتِ خدا کے عجائب و غرائب، اور یہ حقیقت ہے کہ زبان کا باطنی اور روحانی پہلو ہر طرح سے منظم اور ذریعۂ روحانی تعلیم کے لئے موافق ہے، دیکھئے اور سوچئے کہ بولنے والی

۱۶۸

کتاب تو امامؑ ہی ہے، لیکن وہ کس زبان میں کلام کرتا ہے؟ دنیا کی ہر بولی او ر ہر زبان میں، جیسا کہ سورۂ جاثیہ (۴۵: ۲۹) میں ارشاد ہے: ہَذَا کِتَابُنَا یَنطِقُ عَلَیْکُم بِالْحَقِّ = یہ ہماری کتاب ہے جو تم سے حق بات کہہ رہی ہے۔ اس میں ظاہراً یہ تذکرہ ہے کہ امامؑ جو خدا کی بولنے والی کتاب ہے، وہ لوگوں کا نامۂ اعمال بھی ہے، اور باطناً یہ اشارہ ہے کہ امامؑ ان لوگوں سے معلمانہ کلام کرتا ہے جو مر کر زندہ ہو گئے ہیں۔

۱۱۔ زبان کی تعریف و توصیف میں یہ قرآنی کلیات بھی ہیں: ہر چیز خزائنِ الہٰی سے آتی ہے (۱۵: ۲۱) ہر چیز امامِ مبینؑ میں مخزون ہے (۳۶: ۱۲) ہر چیز ایک کتاب میں جمع ہے (۷۸: ۲۹)، ہر چیز کا خالق اللہ ہے (۱۳: ۱۶) ہر چیز دو طرح سے ہے، ایک اصل ہے اور ایک سایہ (۱۶: ۸۱) ہر چیز کا وجود کلمۂ کُنۡ (ہو جا) سے ہے (۱۶: ۴۰) ہر چیز نعمت ہے (۱۴: ۳۴) ہر چیز اعلیٰ مقام پر خوبصورت ہے (۳۲: ۰۷)، ہر چیز علم کی غرض سے ہے (۰۶: ۸۰)، ہر چیز میں رحمت ہے (۴۰: ۰۷)، ہر چیز بہشت میں ہے (۵۰: ۳۵) ہر چیز ایک آیت ہے (۴۱: ۵۳) ہر چیز کا جوڑا ہے (۵۱: ۴۹)۔

۱۲۔ یہ آپ کے لئے بڑی عجیب و غریب روحانی سائنس کی دریافت اور زبردست مفید کلّیہ ہے، جس کے ذریعے سے آپ ہر ایسی اہم چیز کی قدرو قیمت اور منفعت کو معلوم کر سکتے ہیں، جس کا ظاہراً قرآن میں ذکر نہ ہو، اور اگرکسی چیز کو ذکر محدود ہے، تو پھر بھی

۱۶۹

قاعدۂ ھذا کی مدد سے اس کے متعلق وسیع تر معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، چنانچہ اس کلیہ کی روشنی میں یہ معلوم ہوا کہ قرآن میں زبان کی بڑی حکیمانہ تعریفیں موجود ہیں، مثال کے طور پر اصل زبان تو روحانیّت اور جنت میں ہے، دنیا میں صرف اس کا سایہ آیا ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی

کراچی

بدھ ۱۱ ذیقعدہ ۱۴۱۸ھ      ۱۱ مارچ ۱۹۹۸ء

۱۷۰

قرآن اور رسولؐ کی قوم

 

۱۔ کوئی ہوشمند شخص ہرگز یہ خیال نہ کرے کہ قرآنِ عزیز کا علم و عمل آسان ہے، مگر ہاں، جب پروردگار کسی کی رہنمائی فرماتا ہے تو ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے، قرآنِ حکیم کے عظیم حقوق کی ادائیگی سے اہلِ ایمان کو باخبر رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانِ اقدس کافی ہے جو سورۂ فرقان (۲۵: ۳۰) میں ہے: وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا= اور پیغمبرکہیں گے کہ اے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔

۲۔ اگرچہ معلوم ہے کہ رسولؐ کی قوم میں ہم سب مسلمان شامل اور داخل ہیں، اور پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ شکایت کافروں کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ من حیث القوم تمام مسلمانوں کے باب میں ہے، لیکن پھر بھی اس آیۂ مبارکہ کی تفسیر میں اختلاف ہے، آپ تحقیق اور معلومات کی غرض سے دیکھ سکتے ہیں۔

۱۷۱


۳۔ قرآنِ پاک کا فارسی ترجمہ جو شاہ ولی اللہ محدث دھلوی نے کیا تھا، وہ کچھ سال پہلے تاج کمپنی نے چھپوا کر شائع کیا ہے، جس کے آغاز ہی میں مذکورہ آیۂ شریفہ اور اس کا ترجمہ درج کر کے مزید وضاحت کی گئی ہے، تاکہ مسلمانانِ عالم کے لئے ایک بڑے صوفی عالم کی نصیحت ہو، اور وہ بھی ایک ایسی قرآنی آیت کے حوالے سے جس کی حقیقت کو بروقت سمجھ لینا بیحد ضروری ہے، اس وضاحت کا اردو ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری نے اپنے ترجمۂ قرآن کے حاشیے کے لئے کیا ہے، جو درجِ ذیل ہے:۔

۴۔ جناب رسالت مآب قیامت کے روز خدا سے شکایت کریں گے کہ میرے پروردگار میری قوم نے قرآن کو چھوڑدیا۔  چھوڑ دینے کی کئی صورتیں ہیں: اس کو نہ ماننا، اور اس پر ایمان نہ لانا بھی چھوڑ دینا، اس میں غور نہ کرنا اور سوچ سمجھ کر نہ پڑھنا بھی چھوڑ دینا ہے، اس کے اوامر کا بجا نہ لانا اور منہیات سے اجتناب نہ کرنا بھی چھوڑدینا ہے، قرآن کی پرواہ نہ کر کے دوسری چیزوں جیسے بیہودہ ناولوں، دیوانوں، لغو باتوں، کھیل تماشوں، راگ و رنگ میں مصروف ہونا بھی چھوڑدینا ہے، افسوس ہے کہ آج کل کے مسلمان قرآن کی طرف سے نہایت غافل ہو رہے ہیں، اس کے پڑھنے سوچنے سمجھنے اور ہدایات سے مستفید ہونے کی طرف توجہ نہیں کرتے، اور یہ کھلم کھلا ترکِ قرآنِ مجید ہے، خدا تعالیٰ ان کو اس طرف راغب

۱۷۲

اور ان کی تلاوت میں شاغل ہونے کی توفیق بخشے، تاکہ وہ اس پر عمل کریں اور ان کو فلاحِ کونین حاصل  ہو۔

۵۔ آپ حکیم پیر ناصرخسرو(قدس اللہ سرہ) کی شہرۂ آفاق کتاب زاد المسافرین ص۴۰۰ پر بھی دیکھیں: ترجمہ:۔ ۔ ۔ یہی سبب ہے کہ رسول اللہؐ اپنی امت کی جو شکایت دل میں رکھتے تھے، اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ عزیز میں ظاہر فرمایا۔ اس کے بعد مذکورہ آیۂ شریفہ درج ہے۔

۶۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نور قرآن و حدیث کے علم کا شہر ہے، اور مولا علی علیہ السلام کا نور اس شہر کا دروازہ ہے، نیز حضورِ پاکؐ کا نور قرآن و حدیث کی حکمت کا گھر ہے اور علیؑ کا نور اس گھر کا دروازہ ہے، پس یہاں گھر نور، اور در نور (نور اندر نور) ہے، یعنی نورٌعلی نور (۲۴: ۳۵) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قرآنی علم وحکمت کی حقیقی اور روحانی تعلیم نورِ امامِ زمانؑ کی روشنی میں ہوتی چلی آئی ہے، یہ درسِ حکمت معمولی ہرگز نہیں، بلکہ بہت بڑی ذمہ داری کا ہے، اس لئے آئیے ہم چند حکمتی سوالات کرتے ہیں:۔

۷۔ س: کیا یہ درست ہے کہ معلمِ قرآن کا ایک نام نور(۰۵: ۱۵) ہے؟ ج: جی ہاں، بالکل درست ہے۔ س: آیا حدیثِ ثقلین کا مقصد بھی یہی ہو سکتا ہے کہ آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد امت ہدایت

۱۷۳

کے لئے قرآن اور نور(معلم قرآن) سے رجوع کریں؟…… ج: یقیناً یہی مقصد ہے، کیونکہ حدیثِ صحیحہ کسی آیت یا چند آیات کی تفسیر ہوا کرتی ہے، چنانچہ حدیثِ ثقلین ان تمام آیاتِ کریمہ کی عملی تفسیر ہے، جن میں ہمیشہ کتابِ سماوی کے ساتھ ساتھ معلمِ ربّانی موجود ہونے کا ذکر ہے۔ س: حدیثِ شریف کے مطابق قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن…. یہ حدیثِ شریف کس آیۂ کریمہ کے مطابق ہے؟ ج: من جملہ سورۂ شوریٰ کے آخر (۴۲: ۵۲) میں دیکھ لیں، کہ قرآن باطن میں ایک زندہ روح/ ایک زندہ نور ہے، یہی قرآن کا باطن ہے، الحمد للہ ربِّ العالمین۔

 

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

مولانا شنبہ بروزِ نوروز ۲۱ ذیعقدہ ۱۴۱۸ھ

۲۱  مارچ ۱۹۹۸ء

۱۷۵

مناقبِ علیؑ ترمذی میں

 

۱۔ جامعِ ترمذی، جلدِ دوم، ابوابُ المناقب میں حدیثِ جاریہ کا تذکرہ ہے، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: ان علیا منی وانا منہ و ھو و لی کل مومن من بعدی = یقیناً علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا ولی (سرپرست) ہے۔ اس حقیقت میں ذرہ بھر شک نہیں کہ ہر حدیثِ صحیحہ جوامع الکلم کے معجزات میں سے ہے، لہٰذا حضورِ پاکؐ  کا یہ ارشاد کئی اعلیٰ معنوں کا حامل ہے۔

۲۔ ارشادِ نبوّی کی وضاحت کے لئے ہم از خود کوئی معمولی بات کیوں کریں، قرآنِ حکیم سے رجوع کیوں نہ کریں، جبکہ حدیث کا براہِ راست تعلق قرآن سے ہے، اور قرآنِ عظیم وہ آئینۂ معارف نما ہے، جس میں اہلِ بصیرت انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی نورانیّت اور معرفت کو دیکھتے ہیں، اسی پاک لاہوتی آئینے میں دیدۂ دانش سے دیکھیں کہ آیا حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اپنی

۱۷۵

حیاتِ طیبہ اور پاک شخصیت میں روشن چراغ (۳۳: ۴۶) نہ تھے؟ آپ یقیناً  یہی کہیں گے کہ کیوں نہیں، پس ظاہر ہے کہ بحکمِ خدا بروقت ہی چراغِ نبوّت سے چراغِ امامت روشن کیا گیا تھا، یہی مثال اور اشارۂ حکمت آیۂ سراجِ منیر (۳۳: ۴۶) میں موجود ہے، اور یہی وجہ ہے کہ نورِہدایت کی تشبیہہ و تمثیل آفتاب، ماہتاب اور ستاروں سے نہیں دی گئی، بلکہ گھر کے روشن چراغ سے دی گئی ہے (۲۴: ۳۵، ۳۳: ۴۶) تاکہ اہلِ یقین پر یہ حقیقت روشن ہو کہ ظرفِ چراغ (جامۂ جسمانی) ہر زمانے میں بدلتا ہے، مگر خدا کا نور کبھی نہیں بجھتا، اور نہ ہی کوئی اس کو بجھا سکتا ہے (۰۹: ۳۲، ۶۱: ۰۸)

۳۔ اگرچہ مذکورۂ بالا حدیثِ شریف کے کئی مطالب ہیں، لیکن ان میں سے یہ مطلب واضح تھا، اور مزید واضح ہوگیا کہ پیغمبرِ اکرمؐ کا جانشین علیؑ ہے، اور مولا علیؑ کی شان میں جتنی احادیث روایت کی گئی ہیں، ان سب کا خلاصہ اور لبِ لباب یہی ہے کہ نورِ نبیؐ سے نورِعلیؑ کا ظہور ہوا، اور نورِعلیؑ سے سلسلۂ أئمّۂ آلِ محمدؐ جاری رہا جیسا کہ آنحضرتؐ کا ارشاد ہے: من کنت مولاہ فعلی مولاہ = جس شخص کا میں مولا ہوں علیؑ بھی اس کا مولا ہے۔ لفظِ مولا کے جتنے معنی ہیں، ان میں سے وہی معنی مراد ہیں جو حبیبِ خدا کے شایان شان ہوں۔

۴۔ رسولِ کریمؐ کا ارشاد ہے: اللھم ادر الحق معہ حیث

۱۷۶

دار= اے اللہ یہ (یعنی علیؑ) جہاں کہیں بھی ہو حق اس کے ساتھ رہے۔ اس دنیا میں تین قسم کے لوگ رہتے ہیں: ایسے لوگ بڑی کثرت سے ہیں جو حق سے بالکل غافل ہیں، دوسری قسم میں وہ لوگ ہیں جو تلاشِ حق میں سرگردان ہونے کے باؤجود حق ان کو نہیں مل رہا ہے، اور تیسری قسم میں وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو علیؑ کی وجہ سے حق کے ساتھ ہیں، کہ حق کو علیؑ کے ساتھ کر دینے کا مقصد ہی یہی تھا کہ محبانِ علیؑ کی حقیقی رہنمائی ہو۔

۵۔ لا یحب علیا منافق ولا یبغضہ = آنحضرتؐ فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق علیؑ سے محبت نہیں کر سکتا، اور کوئی مومن اس سے بغض نہیں رکھ سکتا۔

۶۔ رسولِ خداؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے چار اشخاص سے محبت کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ خود بھی ان سے محبت کرتا ہے، آپؐ سے پوچھا گیا: ہمیں بتائیے کہ وہ کون ہیں؟ آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا کہ علیؑ بھی انہی میں سے ہے۔ اور ابوذر، مقداد، اور سلمان۔

۷۔ کان عند النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم طیر فقال اللھم ائتنی باحب خلقک الیک یاکل معی ھذا الطیر فجا علی فاکل معہ= ایک مرتبہ آنحضرتؐ کے پاس ایک پرندے کا گوشت تھا، آپؐ نے دعا کی کہ یا اللہ اپنی مخلوق

۱۷۷

میں سے محبوب ترین شخص میرے پاس بھیج تاکہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھا سکے، چنانچہ علیؑ آئے اورآپؐ کے ساتھ کھانا کھایا۔

۸۔ انا دار الحکمتہ و علی بابھا = حضرتِ علیؑ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ قرآنِ حکیم آنحضرتؐ کے قلبِ مبارک پر نازل ہوا تھا (۰۲: ۹۷، ۲۶: ۱۹۴) اور احادیثِ صحیحہ آپؐ ہی کے اقوال ہیں، لہٰذا قرآن اور حدیث کی زندہ روح اور تہ بہ تہ حکمتیں آپؐ ہی کے نور میں ہیں، اور ان تک رسائی علیٔ زمان ہی کے نور سے ممکن ہے، جس کی روشنی اور رہنمائی سے راہِ معرفت مل جاتی ہے۔

۹۔ انت منی بمنزلتہ ھارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی = رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے علیؑ سے فرمایا: اے علی تیرا درجہ مجھ سے ایسا ہے جیسے ھارون کا درجہ موسیٰ سے تھا، مگر یہ کہ میرے بعد پیغمبری نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ علیؑ کی معرفت کی غرض سے پہلے تو “آئینۂ قرآن برائے وزیر موسیٰؑ” میں دیکھنا ضروری ہے اور اس کے بعد ہی”آئینۂ قرآن برائے وزیر محمدؐ” کے اسرار معلوم ہو سکیں گے، مزید برآن قرآنِ عزیز میں ایسی روشن دلیلیں بھی ہیں، جن سے اہلِ ایمان کو اس حقیقت کا یقین آتا ہے کہ خداوندِ تعالیٰ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے انوار کو ہر عالمِ شخصی میں نورِ

۱۷۸

واحد بنا کر دکھاتا ہے، جیسے ارشاد ہے: نورٌعلی نور۲۴: ۳۵) یعنی جہاں اللہ تعالیٰ کائناتِ لطیف کو لپیٹتا ہے، وہاں جملہ انوار کو بھی نورِ واحد بناتا ہے، اس میں صاحبانِ عقل کے لئے بہت سے لطیف و بلیغ اشارے موجود ہیں، ان شاء اللہ العزیز۔

۱۰۔ قرآن و حدیث کی روشن تعلیمات یہ بتا رہی ہیں کہ دعوتِ اسلام ایک ساتھ دو طریقوں سے کی گئی: دعوتِ ظاہر اور دعوتِ باطن، یا دعوتِ تنزیل اور دعوتِ تاویل، جس کے لئے صاحبِ تاویل کا تعارف لازمی اور ضروری تھا، بلکہ یہی خود دعوتِ باطن کا سب سے اہم حصہ ہے، لہٰذا مولا علیؑ کی شخصیت میں نورِ امامت کی بجا طور پر بہت بڑی تعریف فرمائی گئی، تاکہ لوگ دعوتِ باطن کی طرف جان ودل سے رجوع کریں۔

۱۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے طائف کی لڑائی کے موقع پر علیؑ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی لوگ کہنے لگے آج آپؐ نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ کافی دیر تک سرگوشی کی، فرمایا: ما نتجیتہ ولکن اللہ انتجاہ۔ میں نے نہیں کی بلکہ اللہ نے خود ان سے سر گوشی کی ہے۔ یہ ہے خدا اور رسولؐ کی بہت بڑی نوازش اور نورِ امامت کی شان۔

۱۲۔ اخذبید حسن و حسین قال من اجتنی واحب ھذین واباھماو امھماکان معی فی درجتی یوم القیامتہ۔

۱۷۹

حضرتِ علیؑ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حسنؑ اور حسینؑ کے ہاتھ پکڑے اور فرمایا، جو مجھ سے محبت کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ ان دونوں اوران کے والدین سے بھی محبت کرے گا وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں ہوگا۔ سبحان اللہ! اہلِ بیتِ اطہار کی پاک وپاکیزہ محبت کا اجر و صلہ کتنا عظیم اور اعلیٰ ہے!

۱۳۔ سورہ طٰہٰ کی آیات از۲۵تا۳۶غور سے پڑھیں، اور سورۂ فرقان (۲۵: ۳۵) میں بھی دیکھیں، تاکہ آپ کو دین کا یہ قانون معلوم ہو جائے کہ ہر ناطق کے لئے ایک وزیر ہوا کرتا ہے، جیسے ان محولہ آیات میں وزیرِ موسیٰؑ (ھارونؑ) کا ذکر آیا ہے، چنانچہ ارشادِ رسولؐ ہے:

انی اقول کماقال اخی موسی اجعل لی وزیرامن اھلی علییا اخی اشدبہ ازری و اشرکہ و امری= میں اسی طرح دعا کرتا ہوں جس طرح میرے بھائی موسیٰؑ نے دعا کی تھی: اے بارِ خدا! میرے اہل سے میرے واسطے علیؑ کو وزیر بنا، جو کہ میرا بھائی ہے، میری پشت کو اس سے قوی کر، اوراس کو میرے کام میں شریک بنا۔ (کوکبِ دری، بابِ دوم، اور کئی حوالہ جات) پس آپ پہلے “آئینۂ قرآن برائے وزیرِ موسیٰؑ” کے مطالب کو سمجھ لیں، کہ اس میں وہ بہت بڑاقرآنی قصّہ آتا ہے جو حضرتِ موسیٰؑ اور بنی اسرائیل سے متعلق ہے، جس کے باطن میں ہر جگہ مولانا ھارونؑ ہے، اس

۱۸۰

کے بعد آپ ” آئینۂ قرآن برائے وزیرِ محمدؐ” کی طرف آئیں، جس کا تعلق پورے قرآن سے ہے، کیونکہ رسولؐ اللہ صاحبِ تنزیل ہیں، اور آپؐ کے وزیر(علیؑ) صاحبِ تاویل، اور اسی مذکور آئینے میں تاویل اور مؤول کے عظیم الشّان اسرار جھلکتے رہتے ہیں۔

۱۴۔ دنیا کے ہر بادشاہ اور ہر حکومت کا وزیر صرف ظاہر میں کام کرتا ہے، اس کے برعکس ہر پیغمبر کا وزیر زیادہ تر کام باطن میں کرتا رہتا ہے، اس میں گنجِ اسرارِ معرفت پنہان ہے۔

۱۵۔ حدیث کی ہر کتاب میں کم و بیش مولا علی علیہ السلام کے عظیم الشّان مناقب موجود ہیں، کاش ہم ان سب کو یکجا کر کے کچھ حکمتی وضاحت کر سکتے: قرآن و حدیث میں سب کچھ ہے، مگر امتحان بڑا سخت رکھا ہوا ہے، لہٰذا معلّمِ ربّانی کی روحانی تعلیم و تائید بیحد ضروری ہے، جس کے بغیر حقیقی علم کا کوئی کام ممکن ہی نہیں۔

۱۶۔ اے عزیزانِ من! آپ سب کے سب حصولِ علم کے لئے کمربستہ ہو جائیں، شب و روز علمی چیزوں کو پڑھیں اور سنیں، اور یقین کریں کہ یہ سب سے اعلیٰ عبادت، سب سے برتر خدمت، سب سے عظیم نعمت، سب سے لازوال دولت، سب سے بڑی عزت، اور سب سے دیرپا لذّت و شادمانی ہے، آپ باور کریں کہ عالمِ شخصی کے کوہِ طور پر خدا کی جو تجلّی ہوا کرتی ہے،

۱۸۱

وہ عقلی، علمی، اور عرفانی تجلّی ہوتی ہے، اسی معنیٰ میں “علمی دیدار” کی اصطلاح بنی ہوئی ہے، الحمد للہ ربِّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعہ ۲۷ ذی قعدہ ۱۴۱۸ھ    ۲۷ مارچ ۱۹۹۸ء

۱۸۲

حظیرۂ قدس کے اشارے

 

۱۔ حظیرۂ قدس کا تذکرہ قرآنِ حکیم میں لفظاً نہیں بلکہ معناً جگہ جگہ موجود ہے، جب اور جہاں اللہ تعالیٰ علم وحکمت کے آسمانوں اور زمین کو لپیٹ کر رکھتا ہے، تب وہاں وہ مجموعہ حظیرۂ قدس ہو جاتا ہے، دیکھئے سورۂ انبیا (۲۱: ۱۰۴) اور سورۂ زمر (۳۹: ۶۷) درحالے کہ خدا مادّی کائنات کو فنا نہیں کرتا، یہ صرف کسی عارف کی ذاتی قیامت کا مشاہدۂ عرفانی ہے۔

۲۔ اللہ تعالیٰ ہر عارف کی ذاتی اور نمائندہ قیامت میں تمام لوگوں یعنی روحوں کو پہلے عالمِ شخصی کے ابتدائی اور درمیانی درجات میں اور ا س کے بعد حظیرۂ قدس میں لپیٹ کر جمع کرتا ہے، دیکھو لفظِ لفیف (۱۷: ۱۰۴) جب یہ حقیقت ہے بلکہ معرفت ہے تو دوستانِ عزیز یقین کریں گے کہ قرآنِ کریم کے کثیر مقامات پر یہی تذکرہ موجود ہے، ہم اس کی چند مثالیں بیان کریں گے۔

۳۔ قرآنِ مقدّس میں نفسِ واحدہ کا ذکر آیا ہے، خصوصاً سورۂ

۱۸۳

لقمان (۳۱: ۲۸) میں پڑھ لیں، نفسِ واحدہ مظہرِ نفسِ کلّی ہے، تمام اہلِ زمانہ اس کے اجزاء ہیں، لہٰذا جب اس کی قیامت برپا ہو جاتی ہے تو لازماً اس کے اجزاء بھی ساتھ ہوتے ہیں، لیکن لوگوں کو اس کی کوئی خبر ہی نہیں ہوتی ہے، چنانچہ قیامت کا طوفان جو طوفانِ نوحؑ ہے، وہ حظیرۂ قدس کے جبلِ جودی تک جا کر تھم جاتا ہے (۱۱: ۴۴)۔

۴۔ قرآنِ حکیم میں جو اسرارِ معرفت پنہان ہیں، وہ صرف تائیدِ خداوندی ہی سے منکشف ہو سکتے ہیں، چنانچہ انبیاء و اولیاء کی اصل معرفت انتہائی مشکل ہے، ایسی سخت مشکلات سب سے پہلے قصّۂ آدمؑ میں سامنے آتی ہیں، جیسے یہ مسٔلہ کہ آدم کی ظاہری اور باطنی تخلیق کس طرح ہوئی تھی؟ حضرتِ آدم علیہ السّلام کو فرشتوں نے کس مقام پر سجدہ کیا؟ ظاہر میں یا باطن میں؟ ناسوت میں یا ملکوت میں؟ عالمِ ذرّ میں یا حظیرۂ القدس میں؟ آیا یہ سجدہ ہر نبی اور ہر ولی کے لئے ہے یا یہ صرف آدمؑ کے لئے خاص تھا؟ یہ اور ان جیسے اور بھی بہت سے سوالات ہیں جن کی تحلیل بفضلِ خدا صرف اہلِ معرفت ہی کرسکتے ہیں۔

۵۔ حظیرۂ قدس (احاطۂ پاک) کائنات کی کسی ظاہری جگہ کا نام ہرگز نہیں، بلکہ یہ امامِ مبین علیہ السّلام کا وہ نورانی مرتبہ ہے جو عالمِ شخصی کی چوٹی یعنی انتہائی بلندی (جبین) پر ظہور پذیر ہوجاتا ہے، جیسا کہ قلبِ قرآن (۳۶: ۱۲) میں ارشاد ہے: و کل شی احصینہ

۱۸۴

فی امام مبین = اور ہم نے ہر ہر چیز کو امامِ مبین میں گھیر کر رکھا ہے۔ ہر چیز یعنی سب چیزوں میں عظیم اشیاء یہ ہیں: ازل، ابد، کلمۂ کن، نور الانوار، عرش، کرسی، قلم، لوح (عقلِ کلّ، نفسِ کلّ) ام الکتاب، اورخدا کی خدائی کی ہر ہر چیز کہ اس احاطۂ پاک سے کوئی شیٔ باہر نہیں۔

۶۔ اہلِ معرفت حظیرۂ قدس کے عظیم اسرار کو جانتے ہیں، ان کے کہنے کے مطابق وہ عالمِ وحدت ہے، جو عالمِ کثرت کے برعکس ہے، جس کی مثال سورج ہے کہ اس میں روشنی کے ذرات اور شعاعیں ایک ہیں، لیکن سورج سے باہر یہ چیزیں منتشر ہیں، آپ خورشیدِ انور کو ایک یا واحد یا واحدہ اور اس کے اکیلا پن کی صفت کو “وحدت” کہہ سکتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کی وحدت اس طرح سے نہیں، یا یہ کہ مخلوق کی صفتِ وحدت اور صفتِ کثرت دونوں سے خدا پاک و برتر ہے، اس بیان سے میں نے “عالمِ وحدت” کی اصطلاح سے متعلق پیدا ہونے والے شکوک کا پہلے ہی سے سد باب کر دیا، پس واضح رہے کہ حظیرۂ قدس عالمِ وحدت ہے، جس کی وحدت کی ایک اہم مثال یہ ہے کہ وہاں ایک ہی میں سب ہیں۔

۷۔ یہ عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس ہی تھا، جہاں خداوندِ پاک و برتر نے حضرتِ آدمؑ علیہ السّلام کو علم الاسماء سکھایا (۰۲: ۳۱ تا ۳۳) اسم ایک ہی تھا، یعنی اسمِ اعظم، جس میں سارے اسماء جمع تھے، اور مسمیٰ بھی

۱۸۵

ایک ہی تھا، یعنی شخصِ اکبر، جس میں سب موجود تھے، اب یہ سوال ہے کہ فرشتے کون تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ آدمؑ کے مومنین تھے، جو ظاہر میں اشخاص اور آدم کے عالمِ شخصی میں ذراتِ لطیف تھے، یہاں دوسرا سوال یہ ہے کہ آدمؑ نے فرشتوں کو کس طر ح اسماء سے آگاہ کیا؟ جواب ہے کہ آدم نے سنتِ الہٰی پر عمل کیا، وہ یہ کہ ظاہر میں اسمِ اعظم دینے کا سلسلہ جاری رکھا، اور باطن میں ذراتِ ارواح کی علمی تربیت کی۔

۸۔ وہ “واحد” جس میں سب ہیں، دنیائے ظاہر کے مقابلے میں انتہائی عجیب و غریب کیوں نہ ہو، جبکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے ہر کام کی قدرت عطا کر دی ہے، پس وہ واحد ہستی قلم بھی ہے اور لوحِ محفوظ بھی، وہ عرش بھی ہے اور کرسی بھی، وہ عقلِ کلّ بھی ہے اور نفسِ کلّ بھی، وہ فرشتہ بھی ہے اور بشر بھی، وہ آسمانِ عقل بھی ہے اور وہ اس کی زمین بھی، وہ ایک بھی ہے اور دو بھی، یعنی تمام جفت جفت چیزیں بھی اس میں ہیں، وہ محمدؐ کا نور بھی ہے اور علیؑ کا نور بھی، جو نورِ واحد ہے، کیونکہ یہ عالمِ وحدت ہے جس کی وحدانیت میں ہر چیز کا جوہر موجود ہے۔

۹۔ کہا گیا ہے کہ حظیرۂ قدس جنت ہے، یقیناً  یہ حقیقت ہے، مگر یہ وہ جنت ہے جو بفرضِ معرفت نزدیک لائی گئی ہے، اس جنت میں جتنے بھی لوگ داخل ہو جاتے ہیں وہ سب کے سب

۱۸۶

ایک ہوکر اپنے باپ آدمؑ کی صورت پر ہو جاتے ہیں، اور آدم رحمان کی صورت پر پیدا کیا گیا تھا، یہ حقیقت وہی ہے جو کہی گئی تھی کہ ایک میں سب ہیں، پھر یہی ایک وہ ہے، جس کا نام عالمِ وحدت ہے۔

۱۰۔ صراطِ مستقیم کی منزلِ مقصود حظیرۂ قدس ہے، یہ ان حضرات کا راستہ ہے، جن پر خدا نے انعام فرمایا ہے، اور وہ اللہ کی طرف سے انعام یافتگان یہ ہیں: پیغمبران، اساسان، امامان، اور حجتان، اور جولوگ خدا اور رسولؐ کی اطاعت کریں وہ آج عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس میں اورکل بہشتِ کلی میں ان حضرات کے ساتھ ہوں گے، اور وہ بہترین رفیق ہیں (مفہوم آیت: ۰۴: ۶۹)۔

۱۱۔ یہ قرآنِ عظیم ہی کی خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے خزانے ہیں (۱۵: ۲۱) ان کے مظہر، نمائندہ، اور رہنما خزانے دو ہیں (۰۵: ۱۵) ان دونوں عظیم، بے مثال، اور دائمی خزانوں میں سے ایک ایسا ہے کہ وہ خود خزانہ بھی ہے اور دونوں کا خزانہ دار بھی (۳۶: ۱۲) سبحان اللہ!دین کا طریقہ کتنا منظم ہے۔

۱۲۔ ہر آیۂ کریمہ کی تاویل اور حکمتِ بالغہ حظیرۂ قدس میں جا کر روشن ہو جاتی ہے، ہر مثال کا ممثول وہاں ہے، ہر اشارے کا مشارالیہ اسی اعلیٰ ترین مقام پر ہے، ہر امرِ ناممکن وہاں ممکن نظرآتا ہے، وہاں ہر عظیم چیز کا تجدّد ہوتا ہے، کوہ؍کوہِ عقل، بیت اللہ، اور بیت

۱۸۷

المعمور وہاں ہیں، کنزِ مخفی وہیں سے حاصل ہوجاتا ہے، اور مرتبۂ حق الیقین بھی وہی ہے۔

۱۳۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے: لا تقوم الساعۃ حتی تطلع الشمس من مغربھا (مسند احمد بن حنبل، جلد سوم) ترجمہ: قیامت برپا نہیں ہوگی جب تک کہ سورج اپنے مغرب سے طلوع نہ ہو جائے۔ حکمتی مفہوم: عارف کی ذاتی؍نمائندہ قیامت برپا ہو جانے کا سلسلہ یا عمل وہاں تک جا کر مکمل ہو جاتا ہے، جہاں آفتابِ نورِ عقل اپنے مغرب سے طلوع ہو جاتا ہے، اور یہ حظیرۂ قدس کا مقام ہے، اس حدیثِ شریف سے ہر عارف کی روحانی قیامت کی تصدیق ہو جاتی ہے، حظیرۂ قدس عالمِ وحدت ہے، لہٰذا وہاں ایک ہی مقدس مقام ہے، جو آفتابِ نور کا مشرق بھی ہے اور مغرب بھی، پس خدا کی خدائی میں روحانی قیامت کوئی نئی چیز نہیں ہے اورنہ ہی آفتابِ نور کا مغرب سے نکلنا کوئی نیا واقعہ ہے، جبکہ بقولِ حکیم پیر ناصرخسرو ق س اللہ کے ہاں “بے پایان حشر (قیامات) ہیں” آپ آیۂ فطرت (۳۰: ۳۰) کو بھی خوب غور سے پڑھیں۔

۱۴۔ قرآنِ کریم (۸۳: ۱۸ تا ۲۱)میں دیکھیں کہ حظیرۂ قدس کا ایک رفیع الشّان نام علّیّین ہے، جس کے معنی ہیں: عالی مرتبت لوگ، یعنی انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی وحدت کا مقام، یہ مرتبہ ان حضرات کا انتہائی عظیم مجموعی نامۂ اعمال بھی ہے (کتب مرقوم) جس میں نیکو کاروں

۱۸۸

(ابرار) کا نامۂ اعمال داخل کیا جاتا ہے، اس میں حکمت اور بہانۂ رحمت یہ ہے کہ آپ کو فنا فی الامامؑ اور فنا فی الرسولؐ کا درجہ دے کر کتابِ مرقوم (علّیّین) عطا کی جائے، کیونکہ بہشت متقین کو جنت الاعمال کے معنی میں دی جاتی ہے۔

۱۵۔ میرا یہ بروشسکی شعر حظیرۂ قدس کی شان میں ہے: ایم دشن ئیڎبا سس ایون ببر بان+ ازلے ببر بم جون ابدے ببربٹ ایم = میں نے ایک بہت بڑا بلند مقام دیکھا ہے، جہاں لوگ سب کے سب ایک جیسا مرتبہ رکھتے ہیں، ہاں جس طرح وہ ازل میں ایک اور یکسان تھے، اسی طرح ان کی ابدی یکسانیت بھی ازبس شیرین ہے، اور آخر میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ وسلامہ نے جو مونوریالٹی (یک حقیقت) کا انقلابی تصور دیا ہے، اس کی روشن دلیلیں اور یقینی شہادتیں حظیرۂ قدس کی آیات سے ملتی ہیں، الحمد للہ ربِّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

ہفتہ ۱۳ ذوالحجہ ۱۴۱۸ھ     ۱۱ اپریل ۱۹۹۸ء

۱۸۹

قائم شناسی پر ایک تعارف

قرآن اور روحانیت

قرآن اور روحانیّت

آدم یا آدموں کا قصّہ؟

(انتساب)

آفرینش کی نہ تو کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، بلکہ یہ ایک ایسا سلسلہ عمل ہے جو اوّل و آخر کے بغیر ہمیشہ جاری ہے، لہٰذا اللہ جلّ جلالہ کی عظیم الشّان بادشاہی میں لاتعداد آدم ہوتے آئے ہیں، اور ہر آدم کے لئے ایک دور ہوا کرتا ہے، چونکہ خدا کی سنت ایک ہی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں، چنانچہ بتقاضائے حکمت سارے آدموں کی اہم خصوصیات ایک جیسی ہیں، بنا برین ان سب کا مشترکہ قصّہ ایک ہی ہے، جس کو پڑھ  کر عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ بس پورے دور میں صرف ایک ہی آدم ہو گزرا ہے۔

 

قرآنِ حکیم میں بے شمار انسانوں کی مشترکہ عادات کے پیشِ نظر جیسے اصلاحی ذکر فرمایا گیا ہے، اس میں صرف لفظِ “انسان” آیا ہے، جو اسم واحد ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے: وَ الْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ۔ قسم ہے زمانہ کی کہ انسان بڑے خسارے میں ہے (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۲) آپ دیکھتے ہیں کہ یہ بظاہر ایک ہی انسان کے خسارے کا قصّہ ہے، لیکن حقیقت میں اس کا تعلق تمام زمانوں کے سارے

 

۳

 

انسانوں سے  ہے، اسی طرح قرآنِ پا ک میں جیسے آدم کا قصّہ ہے وہ بے حساب آدموں کا نمائندہ قصّہ ہے۔

 

حق سبحانہ و تعالیٰ کا مبارک ارشاد ہے: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ ۔ اور (اے رسول) تمہارے ربّ نے جس وقت فرشتوں سے فرمایا کہ میں (ہمیشہ) زمین پر خلیفہ مقرر کروں گا (۰۲: ۳۰)۔ سنّتِ الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، لہٰذا ہم یقین سے کہتے ہیں کہ خلافتِ آدم کا یہ اعلان اگلے بے پایان ادوار ہی کی طرح تھا، اور خدا کا کوئی کام ایسا نہیں ہوتا جو پہلے کبھی نہ کیا گیا ہو۔

 

یہ قرآنی حکمت کا انمول تحفہ ان پیارے بچوں کے لئے ہے:

۱۔ تاریخِ پیدائش ۷ جولائی ۱۹۸۷ء سحرین بنتِ سراج ناتھانی

۲۔ ۸ جون ۱۹۹۰ء سلمان ابنِ سراج ناتھانی

۳۔ ۲۳ نومبر ۱۹۹۲ء دانش ابنِ ملک ناتھانی

۴۔ ۴ اکتوبر ۱۹۹۴ء رابعہ بنتِ گلزار ناتھانی

۵۔ ۲۶ جنوری ۱۹۹۵ء شاہ زیب ابنِ گلزار ناتھانی،

یہ بہت ہی عزیز اطفال آگے چل کر بڑے عالی ہمت افرادِ جماعت ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ، ہر گھر کے پیارے پیارے بچے چمنِ انسانیّت کی پُرامید کلیاں، گلشنِ خاندان کے بامقصد شگوفے، اور باغِ دین کے ترو تازہ اور حسین پودے ہوا کرتے ہیں۔

 

۴

 

جہاں حلال جانوروں کے بچے بہت ہی اچھے اور بہت ہی خوبصورت لگتے ہیں، وہاں اشرف المخلوقات (انسان) کے بچوں کے حسن و جمال اور دلکشی کا کیا کہنا، خصوصاً والدین کی نگاہ میں اولاد بدیع الجمال اور بے مثال لگتی ہے، یہ قانونِ قدرت کا ایک نمایان اعجاز ہے تاکہ ماں باپ اپنے چہیتے اور دلارے بچوں کی خوب سے خوب تر پرورش کر سکیں، فرزندِ عزیز کے لئے ایسے پیار بھرے الفاظ استعمال کرتے ہیں: نورِ نظر، جگر بند، آنکھوں کا تارا، نورِ چشم، قرۃ العین (آنکھوں کی ٹھنڈک) ، دلنبد، لختِ جگر، جگر گوشہ، وغیرہ۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

ہفتہ ۵ جمادی الثانی ۱۴۱۷ھ ، ۱۹ اکتوبر ۱۹۹۶ء

 

۵

 

لبِ لباب

 

تمہید:

قرآن اور روحانیّت کی تمہید میں سب سے پہلے بارگاہِ ربّ العزّت سے علمی خدمت کی توفیق و ہمت طلب کی گئی ہے، پھر کتاب کی وجہِ تسمیہ، اہمیت اور افادیت کا ذکر ہوا ہے، اس کے بعد متعلقہ موضوع پر روشنی ڈالنے کے طریق کار اور بزرگانِ دین کے اصولِ تقریر و تحریر کا مختصر ترین بیان کیا ہے، اور تمہید کے آخری حصے میں قرآنی روح کے ثبوت میں چند روشن دلیلیں پیش کی گئی ہیں۔

 

قرآن اور روحانیّت:

کتاب کا نام “قرآن اور روحانیّت” اس معنی میں ہے کہ اس میں قرآن کی روح، روحانیّت اور نورانیّت سے بحث کی گئی ہے، اور اسی عنوان سے کتاب کا آغاز ہوا ہے، اور اس کے شروع کے تیرہ پیراگراف موضوعِ سخن کے تعارف کے طور پر ہیں، جن کی ابتدا روح سے متعلق ایک آیۂ کریمہ سے ہوئی ہے، اور اس کی تشریح میں کہا گیا ہے کہ روح عالمِ خلق سے نہیں عالمِ امر سے ہے، اس کے بعد روح اور روحانیّت کے

 

۶

 

ساتھ قرآنِ پاک کا جو باطنی تعلق ہے، اس کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے۔

 

چنانچہ لکھا ہے کہ قرآن باطن میں روح، روحانیّت اور نورانیّت ہے، پھر لفظ روحانیّت کا تجزیہ کیا ہے، اور مختلف درجات کی روحوں کا تزکرہ کرتے ہوئے انکشاف کیا گیا ہے کہ روح القدس انسان کی سب سے اونچی روح ہے، اور بتایا ہے کہ روحانیّت اسی کے وسیلے سے ہے اور یہی روح انسانِ کامل کا نور ہے، درج ہے کہ کائنات و موجودات کا کوئی ذرہ روح کے وجود سے خالی نہیں، پھر نورِ خداوندی کی روشنی میں اس عالم کی بلندی و پستی کے بھیدوں سے واقف ہونے کی اشارت کی گئی ہے، وغیرہ۔ اس کے بعد ایسے پیراگراف ہیں جن کے آغاز میں نمبر درج ہیں۔

 

نمبر ۱ تا نمبر ۵ :۔

۱۔ اسلام آنحضرتؐ کا آبائی دین تھا، اس لئے آپ بچپن ہی سے دینِ حق پر قائم تھے۔

۲۔ حضورِ اقدسؐ غارِ حرا کے اعتکاف میں ملتِ ابراہیمی (یعنی اسلام) کے مطابق ذکر و عبادت کر لیا کرتے تھے، جس کی تعلیم حضورِ اکرمؐ کو حضرتِ ابو طالبؑ نے دی تھی۔

۳۔ دینِ حق خدا کا نور ہے، وہ کبھی بجھتا نہیں، وہی نور ہادیٔ برحقؑ میں ہے۔

۴۔ حضور نبیٔ کریمؐ سے فرمایا گیا ہے کہ آپ ملتِ ابراہیمؑ کی پیروی

 

۷

 

کریں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے زمانے میں حضرتِ ابراہیمؑ کی تعلیمات زندہ تھیں۔

۵۔ نزولِ وحی سے بہت پہلے حضرت محمد مصطفیٰؐ کی روحانیّت کا آغاز ہوا تھا، وحی کے تین درجے ہوتے ہیں، حضورؐ کی روحانیّت قرآن کی روحانیّت تھی، روحانیّت روشن تصوّرات کی ایک زندہ کائنات ہوا کرتی ہے، جو کچھ عرصے تک خاموش تصاویر اور رنگا رنگ مناظر کو پیش کرتی رہتی ہے، اور اس کے بعد اس کی ہر چیز بول اٹھتی ہے، وحی کے لئے ایک نہیں اصل میں پانچ فرشتے مقرر ہیں۔

 

نمبر ۶ تا نمبر ۱۰:۔

۶۔ ابتدائی روحانیّت کے بعض مراحل میں انتہائی تابناک تجلّیوں کی وجہ سے دل کی آنکھ خیرہ ہو جاتی ہے، روحانیّت میں آسمان و زمین اور دنیا و آخرت کا سب کچھ موجود ہے۔

۷۔ روحانیّت ان چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے: ملکوتی اور قدسی آوازیں، تصوّراتی شکلیں، طرح طرح کے پُرحکمت اشارات، ہر قسم کی تاویلی مثالیں، روحانی اور نورانی تحریریں، اسمائے عظام اور کلماتِ تامّات، جسم، روح اور عقل کے گوناگون عجائبات و معجزات، وغیرہ۔

۸۔ قرآن کی روحانیّت تین درجوں میں ہے، یعنی جبرائیل فرشتہ کے توسط سے وحی کا آنا، حجاب کے پیچھے سے کلامِ الٰہی کا سننا اور ظہورِ نور کے

 

۸

 

اشارات۔

۹۔ رسولِ خدا روشن چراغ تھے، اس کے معنی ہیں کہ آپ قلوبِ مومنین کو روشن کر دیتے تھے۔

۱۰۔ نور سے باطنی اور روحانی ہدایت کی روشنی مراد ہے، نہ کہ ظاہری اور مادّی روشنی۔

 

نمبر ۱۱ تا نمبر ۱۵:۔

۱۱۔ قرآنِ حکیم میں کچھ حضرات کو “علم میں پختہ کار” ہونے کا درجہ دیا گیا ہے، جب یہ صاحبان خدائے حکیم کے معیار کے مطابق علم کی اس اعلیٰ صفت سے موصوف ہیں تو ان کا قرآنی علم کتنا وسیع اور کس قدر عمیق ہوگا۔

۱۲۔ یہی وہ کامل انسان ہیں، جو قرآنِ مقدّس کی روحانیّت تک رسا ہوچکے ہیں اور یہی پاک ہستیاں ہیں، جن کی پاکیزگی کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔

۱۳۔ آنحضرتؐ کی روحانیّت و نورانیّت یعنی نورِ قرآن سلسلۂ امامت میں جاری و باقی ہے۔

۱۴۔ قرآن کا جو حصّہ آنحضرتؐ کے قلبِ مبارک پر نازل ہوتا تھا، وہ روح اور نور کی کیفیت میں ہوتا تھا، اور نبیٔ کریمؐ اسی نور کے ذریعہ صراطِ مستقیم کی ہدایت فرماتے تھے، اور اب بھی وہی نور دنیا میں حاضر اور موجود

 

۹

 

ہے۔

۱۵۔ خلیفۂ رسول میں سوائے پیغمبری کے آنحضرتؐ کے بہت سے اوصاف ہوا کرتے ہیں۔

 

نمبر ۱۶ تا نمبر ۲۰:۔

۱۶۔ قرآن کی روحانیّت صراطِ مستقیم پر واقع ہے، لہٰذا جو بھی اس راہِ راست پر آگے بڑھے وہ روحانیّت کا مشاہدہ اور تجربہ کرے گا، اور ہادیٔ برحق تو اس کا وارث اور عملی رہنما ہے۔

۱۷۔ جب قرآن میں دل کی آنکھ اندھی ہونے کی مذمت کی گئی ہے تو جاننا چاہئے کہ اسی زندگی سے عالمِ روحانیّت دیکھنے کا تقاضا کیا گیا ہے۔

۱۸۔ معرفت نہیں کہتے ہیں مگر اس پہچان کو جو دل کی آنکھ سے روحانی حقیقتوں کو دیکھ لینے کے بعد حاصل آتی ہے، اور جہاں معرفت سے خدا کی شناخت مراد ہوتی ہے وہاں اس میں تمام ذیلی اور ضمنی معرفتیں شامل ہیں۔

۱۹۔ معرفت کے معنی میں صفاتِ خدا کی تجلّیوں کے دیکھنے کا واضح اشارہ موجود ہے اور یہی تجلّیات قرآن کی روح اور نورانیّت بھی ہیں۔

۲۰۔ اگر خدا تعالیٰ کا دیدار ایک حقیقت ہے تو پھر کوئی چیز ایسی نہیں جس کا مشاہدہ نہ ہو اور وہ احاطۂ معرفت سے باہر رہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا درجہ سب سے بلند ہے۔

 

۱۰

 

نمبر ۲۱ تا نمبر ۲۵:۔

۲۱۔ اگر کسی آدمی کو دنیائے روحانیّت کے وجود کے بارے میں شک ہو تو اسے کم از کم اپنے خواب کی کیفیت پر سوچنا چاہئے کہ خواب بجائے خود ایک الگ تھلگ دنیا ہے یا نہیں، اسی طرح روحانیّت بھی ایک عالم ہے، مگر وہ خواب و بیداری سے بدرجۂ انتہا بہتر اور روشن تر ہے۔

۲۲۔ پیغمبرِ اکرم اور امامِ برحق کے نورِ ہدایت سے اہلِ ایمان کے دل میں نورانیّت کی ایک دنیا آباد ہو سکتی ہے۔

۲۳۔ قرآن کی روحانیّت آج دنیا میں بھی جنت ہے اور کل آخرت میں بھی، لہٰذا دنیا ہی میں اس کی پہچان ضروری ہے۔

۲۴۔ علمِ تاویل اللہ کی جانب سے عطا ہوتا ہے اور عملی تاویل قرآن کی روحانیّت و نورانیّت ہے۔

۲۵۔ اگر ایک عام انسان دنیائے روحانیّت سے ناواقف ہے تو اس کو اپنے تصوّرات کے عالم پر اس کا قیاس کرنا چاہئے۔

 

نمبر ۲۶ تا نمبر ۳۱:۔

۲۶۔ جس طرح یہ ظاہری کائنات سورج، چاند اور ستاروں کی روشنی سے روشن ہے، اسی طرح عالمِ دین پیغمبر، امام اور حدودِ دین کے نور سے منور ہے اور نور کا سرچشمہ ہمیشہ ایک ہی ہوا کرتا ہے۔

۲۷۔ جس طرح پانی مہیا کر دینے کے لحاظ سے آسمان کا نمائندہ پہاڑ ہے،

 

۱۱

 

اسی طرح علم و ہدایت کے لئے پیغمبر کا نمائندہ اساس ہے۔

۲۸۔ اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو ضرور معلوم ہو جائے گا کہ ہادیٔ برحق سے ہمیشہ حضرتِ عیسیٰؑ کے معجزات ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔

۲۹۔ بصیرت ایک قرآنی لفظ ہے، جس کا خاص مطلب ہے دل کی آنکھ اور باطن کی روشنی، چنانچہ آنحضرتؐ نے بھی اور آپؐ کے حقیقی جانشینوں نے بھی بصیرت سے کام لے کر دعوتِ حق کا فریضہ انجام دیا۔

۳۰۔ اگر مومن پیغمبرِ اکرمؐ اور أئمّۂ ہدا کی صحیح معنوں میں پیروی کرتا ہے تو یقیناً وہ بھی بصیرت کی روشنی حاصل کر سکتا ہے۔

۳۱۔ یاد رہے کہ امامِ زمانؑ کے نورِ اقدس میں قرآن کی روحانیّت و نورانیّت سموئی ہوئی ہے۔

 

۱۲

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

تمہید

 

اے خداوندِ برحق! اے قادرِ مطلق! حضرتِ رسولِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حرمت سے، اور أئمّۂ ہدا صلوات اللہ علیہم کی حرمت سے، اس بندۂ عاجز و ناتوان کو ایسی توفیق و ہمت عطا فرما کہ جس سے یہ خاکسار اہلِ ایمان کے لئے کچھ مفید علمی خدمات انجام دے سکے! پروردگارا! تیری بے پایان رحمت سے کچھ بعید نہیں کہ تیری بارگاہِ عالی کے اس مسکین سائل کی یہ دعا قبول ہو۔

 

فاما بعد یہ امرِ واقعی واضح اور روشن ہے کہ زیرِ نظر کتاب “قرآن اور روحانیت” جیسا کہ اس نام سے ظاہر ہے قرآنِ حکیم کی روح اور روحانیّت کے موضوع سے متعلق ہے، اصل میں یہ ایک مقالہ تھا، جو کسی اجتماع میں لیکچر کے طور پر پڑھایا گیا تھا، بعد میں اس کو کتاب کی شکل دی گئی، میں ان شاء اللہ تعالیٰ مطمئن ہوں کہ یہ چھوٹا سا کام اہلِ علم کے لئے کافی حد تک مفید ثابت ہوگا۔

 

جاننے والے ہی جانتے ہیں کہ نہ صرف عصرِ حاضر ہی میں (جس میں

 

۱۳

 

مادّیت کا دور دورہ ہے) بلکہ ہمیشہ سے آسمانی کتاب کی روحانیّت کتنا سخت مشکل موضوع رہا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، کہ ہم ایسے درویش اہلِ بیتِ رسول کے غلاموں میں سے ہیں، جن کے مقدّس گھر میں قرآنِ مجید نازل ہوا تھا، اور ہمارے نزدیک یہ صرف عقیدہ اور نظریہ ہی نہیں بلکہ ایک عرفانی مشاہدہ اور روشن حقیقت بھی ہے کہ زمانے کا امام صلوات اللہ علیہ، جو اہلِ بیت میں سے ہے، قرآن کی روح اور روحانیّت کا وسیلہ اور سہارا ہوا کرتا ہے، ورنہ ہم کہاں اور قرآن کی روح کہاں، اگر اس حقیقت سے پردہ نہ اٹھایا جائے، تو ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑی ناشکری ہو جائے گا کہ ہم نے اپنے آقا و مولا اور مربّی کو فراموش کرکے روحانی علم کو اپنی ذات سے منسوب کرنے کی کوشش کی، پس خدا نہ کرے کہ ہم اپنے مہربان مولا کو کسی وقت بھول جائیں۔

 

قرآن اور روحانیّت کی حقیقتوں کو پیش کرنے کے لئے کئی طریقے تھے، لیکن سب سے زیادہ مناسب یہی تھا کہ روحانی مشاہدات، تجربات، عملی تاویلات وغیرہ کو ذاتی اطمینان و یقین کا وسیلہ اور موضوع کا پس منظر قرار دے کر زیادہ سے زیادہ قرآنی شہادتوں سے کام لیا جائے، اور ہمارے بزرگانِ دین کا اصول بھی یہی رہا ہے، کہ وہ اکثر ذاتی روحانیّت کو اپنے موضوعات کے پس منظر کے طور پر استعمال کرتے تھے، اور ظاہری علوم کی زبان میں موضوعِ بحث کو پیش کرتے تھے، مگر شعر و شاعری کا اصول

 

۱۴

 

اس سے قدرے مختلف ہے۔

 

کچھ لوگوں کو اس بات سے بڑا تعجب ہوگا، جب کہا جائے کہ قرآن کی ایک عظیم روح ہے، حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، یا وہ اس روح سے قرآن کا معنوی مغز اور جوہر مراد لیتے ہوں گے، کیونکہ ان کی نظر میں قرآن کی کوئی ایسی روح ہے ہی نہیں جو حرکت کرے اور بات چیت کرے، جب کہ قرآن ان کے سامنے خاموش ہے۔ لیکن جاننا چاہئے کہ بہت سی حقیقتیں ایسی ہیں، جن کی روح ہے مگر ضروری نہیں کہ وہ خود انہی کے اندر ہو، اس حقیقت کے دلائل ملاحظہ ہوں:۔

الف۔ آدمی جب نیند کی کیفیت میں ہوتا ہے، تو اس کی روح ایک اعتبار سے اس سے الگ ہو جاتی ہے، اس دوران سوائے جسمانیّت کے سب کچھ روح میں ہوتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی بھی ایک الگ روح موجود ہے۔

ب۔ قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی روح حضرتِ آدم میں پھونک دی (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ روح اس معنی میں خدا کی ہو کہ وہ خدا کے ساتھ ایک تھی پھر جدا ہوگئی، بلکہ اس کی مراد یہ ہے کہ وہ ازلی نور جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر تھا، ایک جامۂ تن سے دوسرے لباس میں منتقل ہونے لگا، جس کے متعلق خصوصی نمائندگی کی نسبت سے کہا گیا کہ آدم میں خدا نے اپنی روح پھونک دی،

 

۱۵

 

اسی طرح قرآن کی بھی ایک روح ہے جس طرح خدا کی روح آدم میں تھی۔

ج۔ خدا کی روح جب بی بی مریم کی طرف بھیجی گئی، تو اس وقت وہ ایک کامل انسان کی صورت میں تھی، پس یہ اس حقیقت کا ایک روشن ثبوت ہے کہ قرآن کی روح الگ ہے اور وہ ایک کامل انسان کی صورت میں ہے۔

د۔ حضرتِ عیسیٰؑ اپنے وقت میں روح اللہ (یعنی خدا کی روح) کا درجہ رکھتا تھا، اس معنی میں کہ وہ لوگوں کے درمیان خدا تعالیٰ کا قائم مقام اور نمائندہ تھا، اسی طرح وہ اپنے اندر اس دور کی آسمانی کتاب کی روح و روحانیّت بھی رکھتا تھا، یہی مثال تمام انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی ہے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک اپنے زمانے کا عیسیٰؑ روح اللہ تھا، اور اس میں جو خدا کی روح تھی وہی کتاب خدا کی بھی روح تھی۔

ہ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمانا ہے کہ اس کے پاس ایک بولنے والی کتاب ہے (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) جب حقیقت یہ ہے کہ خدا کے پاس قرآن کے علاوہ ایک بولنے والی کتاب بھی ہے تو ان دونوں کے درمیان کوئی رشتہ ضرور ہونا چاہئے، کیونکہ وہ بھی خدا ہی کی ہے اور یہ بھی، اور دونوں کے درمیان رشتہ یہ ہے کہ کتابِ ناطق کتابِ صامت کی روح کی حیثیت سے ہے، اور کتابِ ناطق امامِ مبین ہے۔

 

۱۶

 

و۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: بلکہ وہ (قرآن) روشن معجزات ہیں ان لوگوں کے دلوں میں جن کو خدا کی طرف سے علم دیا گیا ہے (۲۹: ۴۹) اس آیۂ کریمہ سے ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو ربّ العزّت کی جانب سے علم عطا ہوا ہے وہ أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہیں اور قرآن انہی حضرات کے دلوں میں روح اور روحانیّت کے زندہ معجزات کی صورت میں ہے، اسی وجہ سے زمانے کے امام کو قرآنِ ناطق کہا جاتا ہے، پس یہ حقیقت پوری طرح سے روشن ہوگئی کہ قرآن کی روح معلّمِ قرآن میں پوشیدہ ہوتی ہے اور اس کتاب میں اسی موضوع سے بحث کی گئی ہے اور اس سلسلے میں ٹھوس اور روشن دلیلیں پیش کی گئی ہیں۔ وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِؕ (۱۱: ۸۸)۔

 

فقط بندۂ درگاہِ مولا

نصیر الدین نصیر ہونزائی

سنیچر مورخہ ۱۲ نومبر ۱۹۷۷ء

 

۱۷

 

 

قرآن اور روحانیّت

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ حق سبحانہ و تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے کہ: اور (اے رسول) آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ روح (عالمِ خلق سے نہیں بلکہ یہ) میرے پروردگار کے (عالمِ ) امر سے ہے اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے (اس لئے تم روح کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے ہو) (۱۷: ۸۵)۔

 

حضرات! آج میرا موضوع۔۔۔ جیسا کہ اعلان کیا گیا۔۔۔ “قرآن اور روحانیت” سے متعلق ہے، جس کا مقصد و منشاء یہ دیکھنا اور سمجھ لینا ہے کہ قرآنِ حکیم میں روح اور روحانیّت کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا گیا ہے یا یہ کہ قرآنِ پاک کی آیاتِ کریمہ میں روحانیّت کی کیا کیا حکمتیں مذکور ہیں یا یوں کہنا چاہئے کہ روحانیّت کے ساتھ قرآنِ مقدّس کا کیا تعلق ہے۔

 

چنانچہ اہلِ بصیرت پر یہ حقیقت واضح اور روشن ہے کہ قرآنِ حکیم خود باطن میں روح و روحانیّت اور نور و نورانیّت ہے، یہ صرف اس اعتبار سے نہیں کہ خدا تعالیٰ کی یہ آخری مبارک کتاب حضرت محمد صلی اللہ

 

۱۸

 

علیہ و آلہ و سلم کے واقعات و معجزاتِ روحانیّت کا مجموعہ ہے، بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ اس میں روح اور روحانیّت کی بابت ہدایات و تعلیمات کے بے پایان خزانے موجود ہیں، پس ثابت ہے کہ قرآنِ مجید میں روحانیّت ہی روحانیّت ہے، لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ روحانیّت فی الاصل کیا شے ہے اور اس کا مطلب کیا ہے وغیرہ۔

 

جاننا چاہئے کہ لفظِ روحانیّت کی تحلیل اس طرح سے ہے کہ روح سے روحانی ہے اور روحانی سے روحانیّت ، جیسے جسم سے جسمانی اور جسمانی سے جسمانیّت ، روحانیّت اس مخلوق کی صفت ہے جسے روح کی نسبت سے روحانی کہا جاتا ہے، خواہ وہ فرشتہ ہو یا بشر، بالفاظِ دیگر روحانیّت روح کی صفت ہے، روح کی خاصیت ہے اور اس کا فعل ہے، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ روحانیّت کس روح کی نسبت سے ہے؟ کیا اس سے روحِ نباتی کی روحانیّت مراد ہے؟ آیا یہ روحِ حیوانی کی ہے یا روحِ انسانی کی؟ یا ان تین روحوں سے کوئی برتر روح بھی ہے؟

 

جواباً عرض کی جاتی ہے کہ وہ روح جس میں روحانیّت کا مکمل نور پنہان ہے نہ نباتات کی روح ہے نہ حیوانات کی اور نہ عام انسانوں کی، بلکہ وہ روحِ قدسی ہے، جس میں اسرارِ روحانیّت اور ہر درجہ کی معرفت کے خزانے موجود ہیں، یہ چوتھی روح ہے جو انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے بعد حقیقی مومنین کو بھی بقدرِ علم و عمل حاصل ہو سکتی ہے، اور یہی روحِ قدسی

 

۱۹

 

ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ روح عالمِ امر سے ہے جو ہمیشہ سے ہے یعنی قدیم ہے۔

 

روح کے عالمِ امر سے ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ عالمِ خلق سے نہیں، یعنی وہ ایک غیر مادّی حقیقت ہے، وہ ایک قدیم جوہر ہے، اس کا تصوّر جسمانی چیزوں کی طرح نہیں، وہ جسم سے بالکل مختلف ہے، وہ مکان و زمان سے ماوراء ہے، وہ اپنی ذات میں لامکان کا نمونہ ہے، بلکہ وہ خود ہی لامکان ہے، وہ علم و حکمت کا سرچشمہ اور خدا کی معرفت کا ذریعہ ہے، کیونکہ وہ نور ہے۔

 

روح القدّس جو انسانِ کامل کی روح ہے، معرفتِ الٰہی کا ذریعہ اس معنی میں ہے، کہ اللہ تعالیٰ کی شناخت و معرفت قرآن، پیغمبر اور امامِ زمان کی پاک ہدایت و رہنمائی کے بغیر محال ہے، اور روحِ قدسی ان تینوں رہنما درجات (یعنی قرآن، رسول اور امام) کا نور ہے۔

 

جاننا چاہئے کہ دینِ اسلام کے مطابق کائنات و موجودات کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا ذرہ بھی روح سے خالی نہیں، مگر جیسا کہ بتایا گیا روح کے درجات ہیں، اور جن چیزوں کو جمادات کہا جاتا ہے ان میں بھی خوابیدہ روحیں موجود ہیں، ان تمام حقیقتوں کا مشاہدہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ امامِ زمان علیہ السّلام کے نورِ ہدایت کی روشنی میں کسی مومن کو روحانیّت کا دروازہ کھل جاتا ہے، یہی روحانیّت اگر ایک

 

۲۰

 

طرف سے اسرارِ کائنات کی حیثیت سے ہے تو دوسری طرف سے یہ حقیقت روحِ قرآن کی زندہ مثالیں بھی پیش کرتی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ خدا اور رسول اور امامِ زمانؑ کی معرفت اور انسان کی اپنی ذات کی شناخت بھی اسی روحانیّت میں ہے۔

 

جیسا کہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے کہ:

اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے (۲۴: ۳۵)۔ اس انتہائی جامع اور پُرحکمت آیۂ مقدسہ کے اشارات یہ ہیں کہ جو نور خداوندی صفات کا ہے وہی نورِ ہدایت بھی ہے، جس کی روشنی میں کائنات کے ظاہر و باطن، بلندی و پستی اور دور و نزدیک کی روحانی حقیقتوں کا یکجا مشاہدہ ہوتا ہے، جس میں ازلی و ابدی حقائق و معارف بھی چشمِ بصیرت کے سامنے آتے ہیں، اور کوئی چیز اس نورِ الٰہی کے احاطے سے باہر نہیں رہتی۔

 

نورِ الٰہی کی روشنی میں کائنات اور ذاتی اسرار کا یہ مشاہدہ و مطالعہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب کہ خدا و رسول اور صاحبِ امرؑ کی اطاعت کے نتیجے میں مومن کی روحانی آنکھ کھل جاتی ہے، وہ اس وقت کہیں دور نہیں بلکہ اپنی روح کی روحانیّت ہی میں لامکانی طور پر تمام ممکنات کو نورانیّت میں دیکھتا ہے، اور یاد رہے کہ حقیقت میں یہی عجیب واقعہ قرآن کی روحانیّت بھی ہے اور روح و نور کی معرفت بھی ہے، کیونکہ مادّی اور جسمانی اشیاء الگ الگ اور ایک دوسرے سے دور واقع ہیں،

 

۲۱

 

اور اس کے برعکس روحانی چیزیں یکجا اور متحد ہیں، بلکہ یہ کہنا حقیقت ہے کہ روحانیّت کی چیز اصل میں ایک ہی ہوتی ہے، مگر اس کے ہزاروں نام اور بے شمار کام ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایسی جامع الجوامع حقیقت کی بے شمار مثالیں بیان کی گئی ہیں، کیونکہ اس کے بہت سے پہلو اور بہت سے جلوے ہیں۔

اس بیان سے اہلِ دانش کے لئے یہ حقیقت قابلِ یقین ہوگئی کہ قرآن فی الاصل آنحضرت صلعم پر ایک زندہ روحانیّت کی صورت میں نازل ہوا تھا، اور اب بھی یہ روحانیّت اسی طرح اپنے مقام پر محفوظ اور موجود ہے، کیونکہ قرآن کی روح و روحانیّت لازوال معجزہ ہے، جب یہ بات درست اور صحیح ہے کہ قرآن بموجبِ ارشاد (۴۲: ۵۲) روح اور نور ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ قرآنِ حکیم کی ہر آیت روح اور روحانیّت کے معانی و مطالب سے لبریز ہے۔

 

جن صاحبان کو روحانیّت کا کوئی تجربہ حاصل نہ ہوا ہو، ان کے لئے قرآنِ حکیم کی روحانیّت سمجھ لینا کوئی آسان بات تو نہیں، لیکن اگر وہ علم الیقین کی روشنی میں دیکھنا چاہیں تو دیکھ سکتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ سرورِ انبیاء صلعم پر نزولِ قرآن کا جو عظیم واقعہ گزرا تھا، اس کی کیفیت و حقیقت کا تصوّر کیا جائے، چنانچہ پہلے پہل آنحضرتؐ کے پاک باطن میں ذکر و عبادت کے نتیجے پر رفتہ رفتہ ایک نورانی عالم نظر آنے لگا، قرآنی

 

۲۲

 

روحانیّت کی یہ دنیا شروع شروع میں بالکل خاموش تصاویر اور چپ چاپ مناظر پر مبنی تھی، یہ آنحضرتؐ کا عالمِ دل تھا جو اس ظاہری جہان کی نسبت بے حد روشن اور انتہائی درجے کا آبادان اور پر رونق تھا ، یہ روح القدس کا خاموش فیضان تھا، کچھ عرصے کے بعد آنحضرتؐ پر وحیٔ جلی نازل ہونے لگی، یعنی نمایان طور پر روح القدس کا نزول شروع ہوا، وہ قرآنِ پاک اور جبرائیل امین کی مقدّس روح تھی، یہ عظیم الشّان روح ہرگز اکیلی نہیں تھی، بلکہ اس کے ساتھ دوسرے تین بڑے فرشتے بھی تھے، علاوہ برآن لاتعداد چھوٹے فرشتے اور بے شمار روحیں بھی ہمراہ تھیں، جیسے ہی ان فرشتوں اور روحوں کا آپؐ پر نزول ہوا، حضورؐ کے دل و دماغ کی خاموش دنیا خود بخود علم و حکمت کی باتیں کرنے لگی اور اس کی روشنی اور رونق میں اور اضافہ ہوا، اور آنحضرتؐ وحی اور روحانیّت کے درجاتِ عالیہ سے گزرتے گئے۔

 

چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ امرِ عظیم منظور ہوا تھا کہ نبیٔ اکرمؐ کو ایک ایسی جامع الجوامع کتاب نازل کر دی جائے، کہ اس میں نہ صرف سابقہ آسمانی کتابوں کی اصل حقیقتیں پوشیدہ ہوں، بلکہ دونوں جہان کے اسرار و احوال کی تفصیلات بھی موجود ہوں، لہٰذا پیغمبرِ برحقؐ پر نزولِ قرآن کا جو عالم گزرتا تھا، وہ لاتعداد عجائب و غرائب کا حامل تھا، اس کا کوئی مکمل نقشہ پیش کرنا محال ہے، ماسوائے اس کے کہ الگ الگ چند مثالیں بیان

 

۲۳

 

کر دی جائیں:۔

 

۱۔ حضورِ اکرمؐ کو نبوّت سے بہت پہلے اپنے بزرگوار جدِ اعلیٰ حضرتِ ابراہیمؑ خلیل اللہ کی ملت کی ہدایت دی گئی تھی، غالباً یہ آپؐ کے بچپن کا زمانہ ہوگا۔

 

۲۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آپؐ غارِ حرا کے اعتکاف میں جو ذکر و عبادت کر لیا کرتے تھے، وہ گمان یا نقل کی عبادت تو نہیں تھی، نہ یہ بات یوں ہی آپؐ کے دل میں آئی تھی، اور نہ ہی یہ ذاتی وحی کی چیز ہو سکتی ہے، بلکہ آنحضرتؐ کی ایسی منظم عبادت ملتِ ابراہیمی کی تعلیمات کے مطابق تھی، جس کی ہدایت حضورؐ کو حضرت ابو طالبؑ نے دی تھی۔

 

۳۔ اگر یہ فرض کیا جائے کہ دینِ اسلام کا سلسلہ حضرتِ ابراہیمؑ اور حضرت محمد صلعمؐ کے درمیان منقطع ہو چکا تھا، تو یہ مفروضہ قرآنِ پاک کے ان ارشادات کے منافی ہوگا، جن میں فرمایا گیا ہے کہ خدا کا نور بجھایا نہیں جا سکتا، اور ظاہر ہے کہ خدا کا نور ہادیٔ برحق ہے، جس کے ساتھ ساتھ آسمانی کتاب کی روح بھی ہے اور اسلام بھی، چنانچہ اگر کوئی شخص دینِ اسلام کو خدا کا نور قرار دیتا ہے یا کتابِ سماوی کو خدا کا نور مانتا ہے، تو پھر بھی ہادیٔ دین اور وارثِ کتاب کا حاضر و موجود ہونا لازمی ہو جاتا ہے، اور ویسے بھی حقیقت میں قرآن، اسلام اور ہادی ایک ہی نور کے مختلف نام ہیں۔

 

۲۴

 

۴۔ حضور نبیٔ کریمؐ سے قرآنِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ آپ ملتِ ابراہیمؑ کی پیروی کریں، اس کے علاوہ ایسے بہت سے ارشادات ہیں، جن سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ دینِ حنیف یعنی ملتِ ابراہیمی سرورِ کائنات صلعم کے زمانے میں زندہ تھی، کیونکہ حضرت ابراہیمؑ کے فرزندِ ارجمند حضرت اسماعیلؑ کی پاک نسل میں سلسلۂ امامت جاری و باقی تھا۔

 

۵۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ و منشاء کے مطابق اسمِ اعظم کے ذکرِ قلبی کے نتیجے میں آنحضرتؐ پر روحانیّت کا دروازہ کھل گیا اور وحی نازل ہونے لگی، اور آپؐ کی اس روحانیّت کی کئی صورتیں اور بہت سی منزلیں تھیں، اور وحی کے اعتبار سے جیسا کہ قرآنِ حکیم (۴۲: ۵۱) میں ہے روحانیّت تین بڑی قسموں پر منقسم ہے، جن میں سب سے پہلے تو عام وحی ہے جو جبرائیل وغیرہ کے توسط سے ہوتی ہے، پھر کلامِ الٰہی ہے جو حجاب کے پیچھے سے سنائی دیتا ہے اور آخری درجہ میں خاص وحی (اشارہ) ہے جو سب سے عظیم دیدار کے وسیلے سے ہوتی ہے، اس کے بعد یہ ضروری نہیں کہ یہی ترتیب قائم رہے، جب کہ خداوندِ تعالیٰ کا بے حجاب دیدار صرف دو دفعہ میسر آتا ہے، لیکن ہاں کلمۂ باری اور گوہرِعقل کی ازلی و ابدی حکمتوں کا خزانہ ایسے آخری دیدار میں پوشیدہ ہے۔

 

۶۔ آنحضرتؐ کی روحانیّت بمعنیٔ قرآن کی روحانیّت کی ابتداء میں جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ایک نہایت روشن اور انتہائی تابناک کائنات کا ظہور

 

۲۵

 

ہوتا تھا، جس کی روشنی کی لہریں بعض دفعہ ناقابلِ برداشت ہو جاتی تھیں، روحانیّت کی تجلّیوں کے اس عالم کی خوبصورت اور دلکش مگر خاموش تصاویر و مناظر میں ہر لحظہ ایک نیا حسین انقلاب رونما ہوتا تھا، مختصر یہ کہ یہاں کہ عجائب و غرائب تعریف و توصیف کے بیان سے باہر تھے، لیکن آپ کو تعجب ہوگا کہ یہ سب کچھ حقیقت میں کچھ بھی نہیں تھا، کیونکہ یہ صرف اس مادّی دنیا کا رنگین اور خوبصورت عکس تھا، جو حضورِ انورؐ کے آئینۂ نورانیت میں اتنا روشن اور اس قدر دلکش نظر آ رہا تھا، یا یوں کہنا چاہئے کہ یہ آپ کی روحانیّت میں اس ظاہری اور مادّی دنیا کی مثال تھی۔

اس کے بعد جب وقت آیا تو اس میں جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل چاروں مقرب فرشتے آ گئے اور انہوں نے عملی طور پر اپنا اپنا کام کرکے دکھایا، جس سے تمام دوسرے فرشتے اور روحیں حاضر ہو گئیں، تو آپ کی اس ذاتی دنیا میں یکسر تبدیلی آ گئی، یعنی گویا حضورؐ کی روحانیّت اس سے پہلے دنیا تھی اب آخرت بن گئی، کیونکہ روحانیّت میں دنیا و آخرت دونوں سموئی ہوئی ہوتی ہیں۔

 

۷۔ اس وقت حضورِ اقدس کی ذاتِ بابرکات میں قرآنِ حکیم کی روح اور روحانیّت ملکوتی اور قدسی آوازوں کے علاوہ اشاروں، مثالوں، روحانی و نورانی تحریروں اور کلماتِ تامّات کی صورت میں تھی، یا یوں کہنا چاہئے کہ قرآن اس مقام پر ایک ایسی مکمل روحانی کائنات کی حیثیت سے تھا،

 

۲۶

 

جس کی ہر چیز عقل و جان کی دولت سے مالامال اور علم و حکمت کے نور سے منور تھی، یعنی کائنات و موجودات کی تمام حقیقتیں خود بخود بولتی جاتی تھیں، اور آفاق و انفس کی آیتیں اپنے آپ کو ظاہر کر دیتی تھیں۔

 

اس مقام پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ قرآن کی یہ روح اور روحانیّت جس کا یہاں ذکر ہوا آنحضرتؐ کے مبارک دل میں اس وقت بھی بلا کم و کاست موجود تھی، جب کہ کاتبانِ وحی کے ذریعہ قرآن پاک کی تمام آیات لکھائی گئی تھیں، کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کو ذکر کے لقب سے ملقب فرمایا (۶۵: ۱۰ تا ۱۱) نیز ارشاد ہے کہ پیغمبر بھول نہیں جاتا (۸۷: ۰۶) ، جاننا چاہئے کہ ذکر قرآن کا بھی نام ہے، (۱۵: ۰۹) اور ذکر کی مراد یادِ الٰہی بھی ہے خواہ وہ اسمِ اعظم کی ہو یا کسی اور طرح کی، پس ان تمام معنوں میں رسولِ پاک ذکر ہی ذکر تھے، یعنی آپ قرآنِ ناطق بھی تھے، کہ قرآن کی زندہ روح اور بولتی روحانیّت آپؐ ہی میں آئی تھی اور ہمیشہ کے لئے آپؐ ہی کی ذات بابرکات میں قائم و باقی تھی، حضورؐ ایک ایسا زندہ و پائندہ ذکرِ الٰہی بھی تھے جو خود بخود معجزاتی کیفیت میں مسلسل بولتا رہتا ہے، اور آنحضرتؐ ایک ایسی غیر معمولی اور بے مثال یاد بھی تھے کہ آپؐ کوئی چیز کوئی بات نہیں بھولتے تھے اور نہ ہی قرآن کی کوئی بات فراموش کرتے تھے۔

 

۸۔ ہم اس سے پہلے بھی یہ بیان کر چکے ہیں کہ قرآن کی روحانیّت یعنی

 

۲۷

 

آنحضرتؐ کی روحانیّت کے تین بڑے درجوں میں سے ابتدائی درجے میں روح القدس کے توسط سے وحی آتی تھی، دوسرا درجہ حضورِ اکرمؐ کی معراجِ روحانیّت سے متعلق تھا، جس میں خداوندِ تبارک و تعالیٰ آپؐ کو مخاطب کرکے حجاب کے پیچھے سے کلام فرماتے تھے، تیسرا درجہ وہ ہے جس میں پروردگارِ عالم نے رسولِ پاکؐ کو کسی حجاب کے بغیر خصوصی وحی فرمائی اور یہ روحانیّت کا آخری درجہ ہے، پس قرآنِ حکیم ان تینوں درجات کے ارشادات کا ماحصل اور مجموعہ ہے، یعنی اس کتابِ سماوی میں وہ آیات بھی ہیں جو جبرائیل فرشتہ کے ذریعہ نازل ہوئیں، وہ احکام بھی جو خداوندِ عالم نے حجاب کے پیچھے سے صادر فرمایا اور وہ حکمتیں بھی جو بغیر حجاب کے خاص طور پر وحی کی گئیں۔

 

۹۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ رسولِ خدا نور ہے (۶۱: ۰۸) نیز ارشاد ہے کہ آپ ایک روشن چراغ ہیں (۳۳: ۴۶) یہاں سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کی یہ روشنی مادّی اور دنیاوی قسم کی تو نہ تھی، بلکہ عقل و روح اور دین و ایمان کی روشنی تھی، علم و حکمت اور رشد و ہدایت کی روشنی تھی، اور یہ قرآن کی نورانیّت تھی، چونکہ پیغمبرِ خدا نور اور روشن چراغ تھے، یعنی آپؐ ایسے نور تھے جس کا تعلق براہِ راست اور بالواسطہ عالمِ روحانیّت سے تھا، جس سے دنیائے انسانیت کسی بھی وقت تابان و درخشان ہو سکتی ہے، جس نے مومنین کے دلوں کو منور کر دیا تھا، کیونکہ یہ

 

۲۸

 

نور عقلی، روحانی اور باطنی قسم کا تھا، لہٰذا اسے دلوں ہی میں طلوع ہو جانا تھا، عقل و جان کو روشن کر دینا تھا اور جہالت و نادانی کی تاریکیوں کو دور کر دینا تھا۔ پس یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضورِ انورؐ نے قرآنِ مقدّس کا مکمل نور رفتہ رفتہ اپنی ذاتِ اقدس سے اپنے وصی اور جانشین میں منتقل کر دیا، جس کا اشارہ سورۂ حدید (۵۷) کی آیت نمبر ۲۸ میں ہے (۵۷: ۲۸)۔

 

۱۰۔ اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہو کہ نور کا مطلب صرف یہی ہے کہ اس سے ظاہری طور پر دینی ہدایت کی روشنی پھیلائی جاتی ہے اور اس کا روح اور باطن سے کوئی تعلق نہیں، تو ایسے شخص کا یہ خیال قرآنِ پاک کے خلاف ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں نور، منیر، مصباح اور سراج جیسے الفاظ آئے ہیں، تو ان کا مطلب ایسا ہرگز نہیں، چنانچہ ارشاد ہے کہ: اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵)۔ اس سے ظاہر ہے کہ خداوندِ پاک کی جس صفت کو نور کہا گیا ہے وہ کوئی مادّی روشنی تو نہیں اور نہ وہ صرف ظاہری ہدایت ہے بلکہ وہ نظامِ کائنات و موجودات کی باطنی اور روحانی ہدایت کی روشنی ہے۔

 

اس کے علاوہ جس آیتِ پُرحکمت میں آنحضرتؐ کو سراجِ منیر یعنی روشن چراغ کے نام سے یاد فرمایا گیا ہے، اس میں آپ کی رسالت و نبوّت کے تمام ظاہری کاموں کے ذکر کے بعد حضورؐ کے روشن چراغ

 

۲۹

 

ہونے کا تذکرہ ہوا ہے، جیسے ارشاد ہے کہ:۔

اے رسول تحقیق ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا اور خدا کی طرف اس کے اذن سے بلانے والا اور روشن چراغ کی حیثیت سے بھیجا ہے (۳۳: ۴۶)۔

اس آیۂ کریمہ کے الفاظ کی ترتیب سے صاف ظاہر ہے کہ رسالت، گواہی، بشارت، انذار، اور دعوت میں حضورِ اکرمؐ کا ظاہری کام پورا ہو جاتا ہے، اس کے بعد آپؐ کے روشن چراغ ہونے کا مقصد باقی رہتا ہے، جس کے معنی یہ ہوئے کہ حضرتِ اقدس اپنے نورِ پاک سے، جس میں قرآن کی روحانیّت تھی، قلوبِ مومنین کو منوّر کر دینے والے تھے، اور جس طرح ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن کر دیا جاتا ہے، اسی طرح یہ نور رسولِ خداؐ کے مقدس باطن سے امامِ برحقؑ کی مبارک شخصیت میں منتقل ہونے والا تھا، جیسا کہ “نورٌعلیٰ نور” کی حکمت سے ظاہر ہے کہ نور ہمیشہ ایک پاک شخصیت کے بعد دوسری پاک شخصیت میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔

 

۱۱۔ قرآنِ حکیم (۰۳: ۰۷) میں راسخون فی العلم کا ذکر آیا ہے جس کا مطلب ایسے حضرات ہیں جو علم میں پختہ کار ہیں، اب اس آیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پوچھنا پڑتا ہے کہ آیا آنحضرتؐ قرآن کی اس اصطلاح کے مطابق علم میں پختہ کار تھے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یقیناً اثبات میں

 

۳۰

 

ملے گا، پھر ظاہر ہے کہ راسخون کے لفظ میں حضورؐ تنہا نہیں ہیں، بلکہ آپؐ کے علاوہ کچھ دوسرے حضرات بھی ہیں، اور وہ آنحضرتؐ کے اہلِ بیتِ اطہار ہیں، اور اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ علم کی یہ پختہ کاری دنیاوی ہرگز نہیں بلکہ یہ قرآنی روحانیّت کے علم کی پختہ کاری ہے، جس کا سرچشمہ حضورِ انورؐ ہی تھے، چنانچہ معلوم ہوا کہ دنیا والے سمجھے یا نہ سمجھے ہر حال میں نورِ نبی اپنا کام کرتا رہتا تھا، یعنی آنحضرتؐ کے توسط سے قرآنی روحانیّت کی مکمل روشنی اہلِ بیتِ کرامؑ کے باطن میں پہنچ چکی تھی۔

 

۱۲۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہےکہ: قرآن کو پاک لوگوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا (۵۶: ۷۹) اس کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ ظاہری حالت میں کوئی ناپاک شخص قرآنِ صامت کو ہاتھ نہ لگا سکتا ہو، بلکہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ سوائے پاک باطن حضرات کے کوئی آدمی قرآن کی روحانیّت و نورانیّت اور تاویلی حکمت تک رسا نہیں ہو سکتاہے، اس سے یہ ثابت ہوا کہ اہلِ بیتِ عظام علیہم السّلام کا باطن نورِ قرآن کی روشنی سے منور ہو چکا تھا، کیونکہ خود قرآن ہی اس حقیقت کی شہادت دیتا ہے کہ انہیں آیۂ تطہیر کے بموجب اللہ تعالیٰ نے پاک و پاکیزہ کر دیا تھا، اور تمام أئمّۂ اطہار اہلِ بیت میں سے ہیں (۳۳: ۳۳)۔

 

۱۳۔ قرآنِ پاک سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نور انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نازل فرمایا ہے اس کو منکرین بجھا نہیں سکتے

 

۳۱

 

ہیں (۰۹: ۳۲، ۶۱: ۰۸)۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ وہ نورِ ہدایت جو آنحضرتؐ میں قرآنی روحانیّت کی حیثیت سے موجود تھا آپؐ کے بعد بالکل اسی روحانیّت کی تابانی و درخشانی کے ساتھ سلسلۂ امامت میں جاری و باقی ہے۔

 

۱۴۔ ربّ العزّت کا ارشاد ہے کہ قرآن عالمِ امر سے ایک زندہ روح اور ایک کامل نور کی صورت میں آنحضرتؐ کے دل پر نازل ہوا تھا، اور ساتھ ہی ساتھ فرمایا گیا ہے کہ آنحضورؐ صراطِ مستقیم کی ہدایت کرتے ہیں (۴۲: ۵۲)۔ اب کوئی ایسا عقیدہ درست نہیں جو کہا جائے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کی وہ روح اور نور اٹھا لیا ہے، سو یہی کہنا حقیقت ہے کہ وہ قرآنی روح اور نور رسولِ خدا کے بعد أئمّۂ طاہرین کے پاک سلسلے میں زندہ اور موجود ہے، تاکہ خدا تعالیٰ کے نظامِ ہدایت میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔

 

۱۵۔ قرآنِ مجید میں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے غیب کی باتوں پر یعنی عالمِ غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے کسی برگزیدہ رسول کے (۷۲: ۲۶ تا ۲۷) ۔ اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرتؐ پر قرآن کی جو روحانیّت نازل ہوئی تھی وہی آنحضورؐ کا عالمِ غیب پر مطلع ہونا تھا، اور وہی آپؐ کی ذاتی روحانیّت کے عالم کا مشاہدہ تھا، اس سے معلوم ہوا کہ آپؐ کے حقیقی جانشین کو بھی یہی مرتبہ حاصل ہے کیونکہ خلیفۂ رسول میں

 

۳۲

 

قرآنی نور کی منتقلی کے یہی معنی ہیں۔

 

۱۶۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ خدا تعالیٰ کے قرب و حضور تک پہنچ جانے کے لئے صرف ایک ہی رستہ مقرر ہے، اور وہ صراطِ مستقیم ہے، رسولِ خدا نے اسی راہ پر لوگوں کی ہدایت و رہنمائی فرمائی تھی، اور قرآن کی روحانیّت و نورانیّت کی مختلف منزلیں بھی اسی صراطِ مستقیم پر واقع ہیں، لہٰذا پیغمبرِ برحقؐ کی اس رہبری کے نتیجے میں جن کامل انسانوں اور حقیقی مومنوں کو خدا کا قربِ خاص حاصل ہوا ہے، انہوں نے لازمی طور پر قرآنِ پاک کی روحانیّت و نورانیّت کا مشاہدہ کیا ہے، کیونکہ قرآن کی روح اور نور صراطِ مستقیم سے ہٹ کر نہیں ہے۔

 

۱۷۔ قرآنِ مجید کی تعلیمات میں یہ بھی ہے کہ بعض لوگ دل کی آنکھ سے اندھے ہوتے ہیں (۲۲: ۴۶)۔ آپ ذرا سوچیں کہ آیا اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ بعض لوگ دل کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں، تو کیا وہ دل کی آنکھ سے اس ظاہری دنیا کو دیکھتے ہیں؟ نہیں، نہیں، وہ تو عالمِ باطن کو دیکھتے ہیں جو روحانیّت کی دنیا ہے اور وہی قرآن کی روحانیّت بھی ہے۔

 

۱۸۔ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ پیغمبر کی معرفت خدا کی معرفت سے پہلے ہو، امام کی معرفت پیغمبر کی شناخت سے قبل ہونی چاہئے اور سب سے پہلے انسان کی اپنی پہچان چاہئے، کیونکہ معرفت کے مراتب ہی ایسے ہیں، اور شناخت سے متعلق اقرار کی ترتیب بھی یہی ہے، تاہم یہ بھی جاننا

 

۳۳

 

ضروری ہے کہ یہ تمام معرفتیں آپس میں مل کر ہیں الگ الگ نہیں، بہرحال معرفت نام ہے پہچان کا، اور بغیر دیکھے کوئی پہچان نہیں، اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی، کہ جس شخص کو عارف کہا جاتا ہے اگر وہ واقعاً عارف ہے تو اس کے دل کی آنکھ کھل جاتی ہے وہ اپنی روح اور اپنی روحانیّت کی حیثیت سے قرآنی روحانیّت کی دنیا کا سیرِ حاصل مشاہدہ کرتا ہے اور اس کے حقائق و معارف کی روشنی میں مذکورہ چار درجے کی معرفت کو حاصل کرتا ہے، کیونکہ قرآن کی معرفت کے بغیر کوئی معرفت نہیں۔

 

۱۹۔ مذکورۂ بالا حقائق سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی تجلیوں کے مشاہدہ کے بغیر کوئی معرفت حاصل نہیں ہوتی، اور انہیں تجلّیات میں قرآن کی روح اور نور موجود ہے، بلکہ یہی تجلّیات خود قرآن کی روحانیّت و نورانیّت ہیں، کیونکہ قرآن کی روحانیّت خدا کی تجلّیوں سے ہرگز ہرگز الگ نہیں۔

 

۲۰۔ بہت سے لوگ شناخت و معرفت کے معنی میں دیدارِ الٰہی کے قائل ہیں، مگر بعض لوگ اس تصوّر میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ کے مقدس دیدار کی جستجو کے سلسلے میں اس کی سب سے عظیم نشانیوں کا بھی مشاہدہ ہوتا ہے، جیسے عرش و کرسی، یا قلم و لوح، ازل و ابد کی ضروری اور لازمی حقیقتیں، مکان و لا مکان، زمان و لا زمان،

 

۳۴

 

کائنات کی بقا و فنا، بہشت و دوزخ، حشر و نشر، ارواح و ملائکہ، وغیرہ۔ پس قرآن کی روح کی شناخت میں یہ تمام معرفتیں شامل ہیں، جیسے ارشاد ہے کہ: ۔

وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ كِتٰبًا (۷۸: ۲۹)

اور ہم نے ہر چیز کو ایک کتاب میں گھیر کر رکھا ہے۔ یہی کتاب انسان کا اعمال نامہ بھی ہے، انسانِ کامل کا نور بھی اور قرآن کی روحانیّت بھی، جس میں سب کچھ ہے۔

 

۲۱۔ انسان جب نیند کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ خواب دیکھتا ہے، اور خواب کے مختلف درجات ہوا کرتے ہیں، یعنی وہ ایسے خواب بھی دیکھتا ہے جو غیر منظم اور منتشر ہوتے ہیں، اور ایسے خواب بھی ہیں جو کسی عمدہ اور منظم قصّے کی طرح ہوتے ہیں، بعض خواب تاریک اور تکلیف دہ ہوتے ہیں اور بعض روشن اور پُرمسرّت۔ چنانچہ فرض کرو کہ ایک خدا رسیدہ بزرگ نے انتہائی روشنی میں ایک عظیم الشّان خواب دیکھا، وہ ایسا پُراثر اور دلنشین تھا کہ اس کا تصوّر دل و دماغ سے مٹ نہیں سکتا تھا، پھر اس نے اپنے اس خواب کو نہایت ہی مناسب و موزون الفاظ میں کتاب کی صورت دے دی، تو کیا اب اس بزرگ شخص کے دل و دماغ میں اس واقعۂ خواب کے اثرات و تصوّرات قائم ہیں کہ کتاب کے ذریعہ سے ان کی ترجمانی کرنے سے وہ سب ذہنی نقوش مٹ گئے؟ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ وہ تصوّراتی کیفیت جو اس نورانی خواب سے پیدا ہوئی تھی کسی کمی

 

۳۵

 

کے بغیر اب بھی قائم ہے، تو اس مثال میں غور کرنے کے نتیجے پر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قرآنِ پاک ظاہری تحریر میں آنے کے بعد بھی مکمل نور کی صورت میں آنحضرتؐ کے باطن میں موجود تھا، لیکن یقین رکھنا چاہئے کہ خواب کی اس ادنیٰ مثال سے قرآنِ حکیم کی زندہ روحانیّت نہایت ہی بلند اور انتہائی عظیم ہے۔

 

۲۲۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایان رحمت سے جو مادّی علم و حکمت عطا کر دی تھی، اس کی مدد سے آج کے انسان نے ٹیلی ویژن وغیرہ کی ایک عجیب و غریب دنیا بنائی ہے، جس میں ماضی کے واقعات حال ہی کی طرح سامنے آتے ہیں، جب مادّی علم و حکمت (سائنس) کے نتیجے کا یہ حال ہے، تو اس علمِ لدّنی اور حکمتِ بالغہ کا کیا حال ہو گا، جو خدا تعالیٰ نے اپنے حبیب کو عنایت کیا تھا، پھر سوال ہے کہ آیا یہ ممکن نہیں کہ اس خدائی علم و حکمت کی مدد سے رسولِ خدا مومنوں کے دل میں ایک ایسی روشن دنیا پیدا کریں، جس میں روحانیّت ہی روحانیّت ہو، اگر آپ کہیں کہ کیوں نہیں، تو ایسی روحانیّت قرآن ہی کی روحانیّت ہوگی۔

 

۲۳۔ سورۂ محمد (۴۷: ۰۶) میں بہشت کی معرفت کا ذکر آیا ہے، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اسی دنیا میں جنّت کی پہچان ہونی چاہئے، تا کہ قیامت کے روز مومن اپنی پہچانی ہوئی بہشت میں داخل ہو سکے، لیکن جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ پہچان مشاہدہ کے بغیر ناممکن ہے، اس سے ظاہر ہے

 

۳۶

 

کہ جنّت کا مشاہدہ ضروری ہے، مگر یاد رہے کہ قرآن کی روحانیّت سے یہ جنّت الگ نہیں ہے، کیونکہ قرآن کی روحانیّت میں تمام روحانی نعمتیں موجود ہیں اور جنّت کا مقصد بھی یہی ہے اور یہی روحانیّت جنّت ہے۔

 

۲۴۔ تاویل کے لفظی معنی ہیں کسی چیز کو اوّل کی طرف لوٹا دینا، کسی مثال کو ممثول (حقیقت) کی طرف لے جانا اور رمز و کنایہ سے مقصود و منشا کو ظاہر کرنا، چنانچہ سورۂ یوسف کے مطابق گائے کی تاویل ہے انسان کا کھانے پینے والا نفس، کیونکہ ایسے نفسِ انسانی کی مثال جس پر فراوانی کے سات برس آرام و راحت سے گزر جانے والے تھے سات موٹی گائیوں سے دی گئی ہے، اور اسی نفس پر بعد کے سات سالوں میں سخت قحط سے جو کچھ تکلیف گزرنے والی تھی، اس کی مثال سات دبلی گائیوں سے دی گئی ہے، یہ قصّہ بادشاہِ مصر کے خواب سے متعلق ہے، جس کی تاویل دنیا زمانے کا کوئی دانشور نہیں کر سکتا تھا، سوائے حضرت یوسف علیہ السّلام کے، جو انسانِ کامل اور زمانے کے امامِ مستودع تھے، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حضور سے علمِ تاویل عطا کیا تھا، یہی حال قرآنی تاویل کا بھی ہے، کہ اس کے عملی تاویل کا علم سوائے راسخون کے (۰۳: ۰۷) کوئی نہیں جانتا، اور راسخون فی العلم سب سے پہلے آنحضرتؐ ہیں اور آپؐ کے بعد آپؐ کے جانشین ہیں یعنی علیٔ مرتضیٰؑ، پھر أئمّۂ اولادِ علیؑ ہیں۔

 

عملی تاویل سے قرآن کی روحانیّت مراد ہے، جس کا تذکرہ اس

 

۳۷

 

کتابچہ میں بار بار ہوتا رہا ہے، اور کتابی تاویل وہ ہے جو أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام اور ان کے حدود کے وسیلے سے ظاہر ہو کر ضبطِ تحریر میں آ چکی ہے۔

 

۲۵۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک عام انسان روحانیّت کی روشن دنیا سے غافل و نا آشنا رہتا ہے، لیکن اس کے باؤجود یہ ضرور ہے کہ اس کے دل و دماغ میں تصوّرات کا ایک وسیع عالم موجود ہے، جس میں نہ صرف اس کی گزشتہ زندگی کے تمام مشاہدات، واقعات اور حالات سموئے ہوئے ہیں، بلکہ پوری کائنات کا تصوّر بھی محدود ہے، جس میں ہر چیز موجود ہے، مثلاً آسمان، سورج، چاند، ستارے، فضا، بادل، دن، رات، زمین، پہاڑ، جنگل، بیابان، دریا، باغ، گلشن، کھیت، مکان، شہر، طرح طرح کے آدمی، جانور، سیر و سفر کے واقعات، اور لاتعداد باتوں اور بے شمار کاموں کا ریکارڈ، چنانچہ وہ جس چیز کا تصوّر کرتا ہے، اس کی ایک دھندلی سی تصویر اور ایک معمولی سی تشبیہ سامنے آتی ہے، بعض چیزیں جن سے اس کی زیادہ محبت ہے اسی طرح بار بار خود بخود ذہن کی سطح پر ابھرتی رہتی ہے، بعض چیزیں ایسی ہیں جن کی طرف اس نے کم توجہ دی تھی، لہٰذا یہ ان کو فراموش کر چکا ہے، تاہم غور و فکر سے ان کی بازیابی ممکن ہے۔

 

اب آپ خود سوچ کر اندازہ کریں، کہ اگر ایک ناقص انسان کے باطن میں پوری دنیا کی چیزیں اس طرح سے ہیں کہ روشنی کی کمی کی وجہ

 

۳۸

 

سے بڑی مشکل سے نظر آتی ہیں، تو پھر کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک کامل انسان کی پاک و پاکیزہ روح میں خاطر خواہ روشنی ہو اور اس میں ہر چیز صاف صاف نظر آئے، پس جاننا چاہئے کہ یہ قرآن کی روحانیّت کی طرف ایک واضح اشارہ اور اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔

 

۲۶۔ قرآنِ حکیم کی (۴۱: ۵۳) میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات آفاق میں بھی ہیں اور انفس میں بھی، اس عظیم الشّان فرمانِ خداوندی کا مقصد یہ ہے کہ خدا شناسی اور دین شناسی کے لئے آفاق و انفس کی ان شہادتوں اور حقیقتوں سے کام لیا جائے، مثال کے طور پر ہمیں کتابِ کائنات سے یہ معلوم کر لینا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باطنی طور پر قرآنی روحانیّت کے نور کا عکس (روشنی) اپنے جانشین پر ڈال سکتا ہے یا نہیں؟ اگر یہ ممکن ہے تو اس کی صورتِ حال کیا ہے؟ چنانچہ اس حقیقت کے لئے جب ہم مادّی روشنی کے سرچشمہ پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سورج ہمیشہ دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ چاند پر بھی روشنی ڈالتا ہے، مگر رات کے وقت جب سورج سامنے موجود نہیں ہوتا تو اس وقت چاند کے سوا دوسری کوئی چیز سورج کی نمائندگی نہیں کر سکتی ہے، یعنی سورج کی جگہ پر چاند روشنی دیتا ہے اور ستاروں کی روشنی کمتر ہوتی ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہمیشہ کی طرح آنحضرتؐ کے زمانے میں بھی حدودِ دین تھے جن کی مثال چاند اور ہر درجہ کے ستارے ہیں، اس مثال سے

 

۳۹

 

ظاہر ہے کہ آنحضرتؐ دین کے سورج تھے، اساس چاند، اور باقی حدود ستارے، اور دین کے یہ چاند ستارے اس وقت سے روشن ہوئے، جب سے کہ دین کا سورج طلوع ہوا تھا۔

 

سوال ہے کہ رات کے وقت چاند سورج سے روشنی حاصل کرکے زمین والوں کو پہنچا دیتا ہے مگر آسمان یہ کام نہیں کر سکتا اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آسمان لطیف جسم ہے اس لئے اس پر روشنی کا کوئی زاویہ نہیں بنتا، اس کے برعکس چاند کثیف جسم ہے، لہٰذا وہ اپنے گول گول کثیف جسم کے ذریعہ روشنی کے مختلف زاویئے بنا کر اہلِ زمین کو سورج کا عکس پیش کرتا ہے، یہ اس حقیقت کی مثال ہے کہ روحانی فرشتے جسمانیّت و بشریت نہ ہونے کے سبب سے پیغمبرِ اکرمؐ کی خلافت و نمائندگی نہیں کر سکتے ہیں مگر انسانِ کامل جو جسمانی اور بشر ہے وہ رسولِ خدا کی نیابت و نمائندگی کا عظیم فریضہ انجام دے سکتا ہے اور ایسی مبارک شخصیت امامِ زمانؑ کی ہے۔

 

سوال ہے کہ دن کے وقت چاند کیوں نظر نہیں آتا؟ اور اس کی تاویل کیا ہے؟

 

جواب: جس طرح دنیاوی لحاظ سے وقت کے دو حصّے ہیں، ایک حصّہ دن ہے اور دوسرا حصّہ رات، اسی طرح دینی اعتبار سے بھی موقع دو قسم کا ہوتا ہے، ایک موقع وہ ہے جس میں دین کا سورج سامنے ہوتا ہے اور

 

۴۰

 

روشنی دیتا ہے اور دوسرا موقع ایسا ہے کہ اس میں دین کا سورج سامنے نہیں ہوتا یا اگر ہوتا بھی ہے تو بعض مسائل پر روشنی نہیں ڈالتا، چنانچہ دن کے وقت چاند نظر نہ آنے کی وجہ اور تاویل یہ ہے: کہ چاند اپنے طور پر حدِ نظر سے بہت ہی بلندی پر ہے، لہٰذا دن کے وقت چاند اس لئے نظر نہیں آتا کہ ہماری نگاہیں سورج کی روشنی میں ڈوب جاتی ہیں اس کی تاویل یہ ہے کہ عہدِ نبوّت میں دینی طور پر دن کا وقت تھا، یہی وجہ ہے کہ حجتِ رسولؐ عام لوگوں کو نظر نہیں آتا تھا، تاہم بہت سے تاویلی مسائل ایسے تھے، جن پر آنحضرتؐ براہِ راست روشنی نہیں ڈالتے تھے، اس لحاظ سے یہ کہنا صحیح ہے کہ ایسا موقع رات کے مشابہ تھا جس میں اساس ہی چاند کی طرح کام کرتا تھا۔

 

۲۷۔ اللہ تعالیٰ کی آفاقی نشانیوں میں سے ایک پانی بھی ہے جس کا ذریعہ آسمان یعنی بلندی ہے، اور آسمان کا نمائندہ پہاڑ ہے، آسمان ناطق کی مثال ہے اور پہاڑ اساس کی، پانی آسمان سے کبھی تو بہت زیادہ برستا ہے، کبھی کم اور بعض دفعہ برستا ہی نہیں، مگر آسمان کا نمائندہ پہاڑ ہی ہے جو برف کے ذخیروں اور بڑے بڑے ؛چشموں کی شکل میں بارش کے پانی کو جمع کر لیتا ہے اور پھر منظم طور سے پانی کو سلسلہ وار جاری کر دیتا ہے، تا کہ ہر ضرورت کے لئے پانی ہمیشہ مہیا ہو، یہ قرآنی روحانیّت ہی کی مثال ہے، کہ کس طرح ناطق سے اساس میں منتقل ہوئی ہے، تاکہ لوگوں کی تدریجی ہدایت کا

 

۴۱

 

وسیلہ ہر وقت مہیا رہے، اور یکبارگی آسمانی علم کے طوفان میں ڈوب کر لوگ ہلاک نہ ہو جائیں، جیسے حضرت نوح علیہ السّلام کی قوم روحانی علم کے طوفان کی غرقابی سے ہلاک ہوگئی تھی، پس معلوم ہوا کہ پیغمبرِ خدا نے اپنے جانشین کی ذات میں قرآنی روح ڈالی ہے۔

 

۲۸۔ قرآنِ پاک کی (۰۳: ۴۹) میں جو ارشاد فرمایا گیا ہے اس کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام اپنے زمانے میں گارے سے پرندہ کی شکل بناتے تھے اور اس میں اسمِ اعظم پھونکتے تھے جس سے وہ بحکمِ خدا پرندہ بن جاتا تھا، نیز آپ مادر زاد اندھے کو اور برص کے بیمار کو اچھا کر دیتے تھے اور خدا کے اذن سے مردوں کو زندہ کر دیتے تھے۔

 

مذکورۂ بالا امور کی تاویل یہ ہے کہ مٹی کی تاویل ہے درجۂ مومنی، پرندہ کی تاویل ہے فرشتہ اور روحانی ، مٹی میں پانی ڈال کر گارا بنانے کی تاویل یہ ہے کہ مومن کے عقیدہ اور ایمان کے ساتھ علم الیقین ملا دیا جائے، گارے سے پرندے کی شکل بنانے کا اشارہ ہے اس مومن میں فرشتگی اور روحانیّت کی اہلیت اور جذبہ پیدا کرنا، پرندے کی شکل میں پھونک مارنے کا مطلب ہے اسمِ اعظم کا ذکر اور خصوصی عبادت کا عطیہ مستعد مومن کو دینا اور پرندہ بن جانے کی تاویل ہے اس بندۂ مومن کا روحانی جنم یعنی فرشتگی اور روحانیّت کی زندگی کا آغاز اور دنیائے روحانیّت میں پرواز۔

 

۴۲

 

مادرزاد اندھے کو اچھا کرنے کے تاویلی معنی ہیں ایک نو مسلم کو مذکورہ قسم کی روحانی تربیت دے کر باطن کی روشن آنکھ عطا کر دینا، برص کے بیمار کو اچھا کرنا یہ ہے کہ جو مومن روحانیّت کے شروع شروع میں سخت تیز اور سفید روشنی میں پھنس جاتا ہے اس کی اصلاح کی جائے، اور مردوں کو زندہ کرنا یہ ہے کہ جو مومنین ایک بار روح الایمان کی حیات میں زندہ ہوکر پھر مردہ دل ہو چکے ہیں ان کا روحانی طور پر دوبارہ احیاء کیا جائے اور ان کو اپنے پہلے مقام پر پہنچا دیا جائے، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے مذکورۂ بالا معجزات کی حکمت وتاویل یہ ہے جو بیان کی گئی۔

 

اب سوال یہ ہے کہ آیا سردارِ انبیاء حضرتِ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی ایسے ہی معجزات کئے ہیں یا نہیں؟ آپ یقیناً جواب دیں گے کہ کیوں نہیں، آنحضرتؐ تو تمام پیغمبروں کے اوصافِ کمالیہ کے جامع ہیں اور خدائے قادرِ مطلق کے حبیبِ خاص، یہ تاویلی معجزے ایسے ہیں کہ ان کا تعلق أئمّۂ اطہار علیہم السّلام سے بھی ہے۔

 

۲۹۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ دل کی بینائی کو بصیرت کہتے ہیں، یعنی چشمِ باطن سے روحانی حقیقتوں کو دیکھ لینا بصیرت ہے، چنانچہ آنحضرتؐ کے بارے میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

قُلْ هٰذِهٖ سَبِیْلِیْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ، عَلٰى بَصِیْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْؕ (۱۲: ۱۰۸) ۔

 

۴۳

 

آپ کہہ دیجئے کہ میرا طریقہ تو یہ ہے کہ میں (لوگوں کو) خدا کی طرف بلاتا ہوں میں اور میرا پیرو (دونوں) بصیرت پر ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضورؐ کے ساتھ آپؐ کا پیرو یعنی مولانا علی علیہ السّلام بھی بصیرت پر تھے، کہ ان دونوں مقدّس ہستیوں نے چشمِ باطن سے قرآنی روحانیّت کے عالم کے حقائق و معارف کا بخوبی مشاہدہ کیا تھا اور دعوتِ حق کے بارے میں انہوں نے جو کچھ فرمایا وہ بصیرت پر مبنی تھا۔

 

۳۰۔ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:۔

بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِیْرَةٌ (۷۵: ۱۴)۔

بلکہ انسان اپنی ذات (روح) پر مطلع ہے۔ یعنی انسان فی الاصل یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ دیدۂ دل سے اپنے روحانی احوال کا مشاہدہ و مطالعہ کرے، اور اگر اس نے اپنی یہ قابلیت ضائع کر دی ہے تو یہ اس کی اپنی ہی غلطی ہے، چنانچہ اس آیۂ کریمہ کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کی روحانیّت کا تصوّر پیغمبر اور امام علیہما السّلام کے بعد نچلے درجات تک پہنچتا ہے۔

 

۳۱۔ سورۂ نبا (۷۸) کی آیت نمبر ۲۹ میں فرمایا گیا ہے کہ: اور ہم نے ہر چیز کو ایک کتاب کی صورت میں گھیر کر رکھا ہے (۷۸: ۲۹)۔ اس آیت کی حقیقت سمجھنے کے لئے سب سے پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ یہ کتاب جس میں ہر چیز موجود ہے روحانی نوعیت کی ہے یا مادّی قسم کی، اگر کہا جائے کہ مادّی قسم

 

۴۴

 

کی ہے تو ایسی کتاب اس کائنات کے برابر بڑی ہو گی، کیونکہ ہر چیز کا مطلب ساری کائنات و موجودات ہے، اور اگر مان لیا جائے کہ یہ کتاب جس میں کل کائنات سموئی ہوئی ہے روحانی طرز کی ہے، تو درست ہے اور اس آیت کی یہی مراد ہے اور کائنات کی ساری چیزیں جو اس کتاب میں سمو گئی ہیں روحانی صورت میں ہیں، اور وہ کتاب قرآن کی روحانیّت ہے جسے پیغمبر اور امام کا نور بھی کہا جاتا ہے۔

 

اس مقالہ کے شروع سے لے کر آخر تک جو حقائق و معارف مذکور ہوئے، ان کی روشنی میں دیکھنے سے یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ رسولِ خداؐ اور أئمّۂ ہداؑ کا مقدّس نور قرآنِ حکیم کی روح اور روحانیّت کی حیثیت سے ہے اور یہی نور ہمیشہ سے لوگوں کے لئے ہدایتِ الٰہی کا سرچشمہ رہا ہے اور اسی نور کی روحانی تجلیوں میں معرفت کے خزانے پوشیدہ ہیں، پس مومن کو ہر وقت کوشان رہنا چاہئے تا کہ اس پاک نور کا روحانی مشاہدہ اور شناخت حاصل کر سکے۔

 

الحمد للہ ربِّ العالمین۔

 

۴۵

قرآن اور نورِ امامت

قرآن اور نورِ امامت

ایک خصوصی ارشاد

سرکار مولانا حاضر امام شاہ کریم الحسینی صلوات اللہ علیہ نے مورخہ ۲۲ نومبر ۱۹۶۷ء میں ایک خاص اجتماع کو شرفِ دیدار بخشتے ہوئے اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے انڈیا (بمبئی) کے واعظین، مذہبی اساتذہ اور متعلقہ اراکین سے امتحاناً چند علمی سوالات کئے، آپ اس سلسلے میں قرآنِ شریف کا ایک لفظ “زیتون” کے معنی اور مطلب پر سوال فرما رہے تھے، اور اس کی اہمیت پر زور دے رہے تھے، امامِ زمان نے ارشاد فرمایا کہ واعظین اور مذہبی اساتذہ کا اس قابل ہونا بہت ہی ضروری ہے کہ وہ ان تمام قرآنی آیات کی تاویلی وضاحت کر سکیں، جو مختلف مواقع پر اسماعیلی جماعت میں پڑھی جاتی ہیں۔

 

۴

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

افتتاحیہ

 

الحمد للہ علیٰ احسانہ کہ “قرآن اور نورِ امامت” کا نسخۂ نافع بھی اب کتابت و طباعت کے مرحلے سے گزر کر شائع ہو رہا ہے، اس پیاری اور دل نشین کتاب میں اسماعیلی مذہب کے سب سے بنیادی اور اہم تصوّر سے بحث کی گئی ہے، وہ یہی مذکورہ تصوّر ہے، اور یہ موضوع فی نفسہٖ اتنا وسیع اور عظیم ہے کہ دین کے تمام دوسرے موضوعات اس میں محدود ہو جاتے ہیں۔

 

اس حقیقت کی پہلی مثال یہ ہے کہ قرآنِ پاک بموجبِ ارشادِ ربّانی (۶۵: ۰۵) امر ہے اور امامِ برحق صلوات اللہ علیہ صاحبِ امر (۰۴: ۵۹) چنانچہ امر و صاحبِ امر دین کی ہر چیز پر محیط ہیں، لہٰذا دین کا کوئی موضوع اور کوئی قول و فعل قرآن اور نورِ امامت کے احاطۂ معنوی سے باہر نہیں ہو سکتا۔

 

دوسری مثال یہ ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے جس میں ہر چیز کا بیان ہے (۱۶: ۸۹) اور امامِ زمانؑ وہ پاک ہستی ہے، جس

 

۵

 

کی ذات میں ہر چیز محدود ہے (۳۶: ۱۲) اس سے ہر دانشمند مومن قرآن اور امام کے دائرۂ علم وحکمت کی بے پناہ وسعتوں کا اندازہ کر سکتا ہے۔

 

اسی بیان میں جاننے والوں کے لئے قرآن اور امام کے ظاہری اور باطنی ربط و تعلق اور وابستگی کے معنی بھی ہیں، جبکہ امر اور صاحبِ امر کا باہمی رشتہ ایک روشن حقیقت ہے، اور جبکہ آسمانی کتاب اور ربّانی معلّم کا مقصد و منشا ایک ہی ہے۔

 

ایک حقیقی مومن کو یہ اصول جاننا چاہئے کہ قرآن اور امام کے بہت سے نام مقرر ہیں، چنانچہ کلامِ الٰہی میں جہاں جہاں قرآن کا تذکرہ فرمایا گیا ہے وہاں لازمی طور پر نورِ امامت کا ذکر بھی موجود ہے، اور جہاں کسی بھی نام سے امامؑ کا ذکر کیا گیا ہے وہاں قرآن بھی ساتھ ہے، کیونکہ نہ تو کتاب معلّم کے سوا ہے اور نہ ہی معلّم کتاب کے بغیر۔

 

ذرا سوچا جائے تو دین و دنیا کا یہ اٹل قانون واضح ہو جائے گا کہ ہر کامل اور مکمل چیز کے ساتھ ساتھ اس کے لوازم بھی موجود ہوتے ہیں، ورنہ وہ چیز نامکمل ہوتی ہے، چنانچہ ارشادِ الٰہی (۰۵: ۰۳) کے مطابق اسلام کی تکمیل اور نعمتِ خداوندی کا اتمام یہ ہے کہ قرآن کے ساتھ ساتھ معلّمِ قرآن بھی قائم و دائم رہے، اور حقیقتِ حال یہی ہے۔

 

دینِ اسلام کی تمام اساسی اور اصلی خوبیوں کا سرچشمہ اور منبع عہدِ رسالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ بابرکات تھی، چنانچہ حضورِ اکرمؐ ہی سراجِ منیر (روشن چراغ، ۳۳: ۴۶) ، نورِ قرآن

 

۶

 

(۰۵: ۱۵)، اور معلّمِ کتابِ سماوی (۰۲: ۱۵۱) تھے، آپؐ کی رحلت کے بعد یہ مرتبت و منزلت آپؐ کے برحق جانشین کو حاصل ہوئی، اور وہ جانشین امامِ زمانؑ ہیں۔

 

حدیثِ مماثلتِ ہارونی میں حضورِ اقدس نے مولا علیؑ کی شان میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے، اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ آنحضرتؐ کے جانشین کی ذاتِ عالی صفات اُن تمام اوصافِ کمالیہ کی حامل ہے، جو حضرتِ ہارونؑ میں موجود تھے، بجز نبوّت کے کہ سرورِ انبیاءؐ کے بعد کوئی نبی نہیں، رسولِ خداؐ کے اس پُرحکمت ارشاد سے حقیقی مومنین پر امام شناسی کا ایک خصوصی دروازہ کھل جاتا ہے، اور یہ بات حضرتِ موسیٰؑ اور حضرتِ ہارونؑ کے قرآنی قصّے کا بغور مطالعہ کرنے سے متعلق ہے۔

 

جس طرح ہمیشہ سے دنیا والے آسمانی کتاب کے بغیر اپنے لئے کوئی دینی ہدایت نامہ نہیں بنا سکتے، اسی طرح وہ بذاتِ خود اُس کتاب کے حقیقی معلّم ہونے سے بھی قاصر ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہے، لہٰذا دینِ فطرت کا دائمی قانون یہی رہا ہے کہ نہ صرف کتاب ہی خدا کی جانب سے نازل ہوتی ہے، بلکہ اس کا معلّم بھی پروردگار ہی کے حضور سے مقرر کر دیا جاتا ہے، تا کہ یہ ربّانی معلّم آسمانی توفیق و تائید سے لوگوں کو ان کی حیثیت کے مطابق کتاب اور حکمت سکھا دیا کرے۔

 

قرآنِ پاک کی سورت نمبر ۴۱ اور آیت نمبر ۵۳ کے ارشاد  (۴۱: ۵۳) سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات (نشانیاں اور معجزات) اس کائنات

 

۷

 

میں بھی ہیں اور انسان کی ذات میں بھی، اور عنقریب خداوند اپنی یہ آیتیں لوگوں کو دکھا دے گا یہاں تک کہ اُن پر واضح ہو جائے کہ وہ برحق ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ انسانِ کامل کے ضمیرِ منیر میں قرآن اپنی مکمل روحانیّت اور نورانیّت کے ساتھ موجود ہے، کیونکہ قانون یہ ہے کہ جہاں عوام کافی وقت کے بعد کسی چیز کو حاصل کرتے ہیں وہاں خواص بہت پہلے ہی وہ چیز حاصل کئے ہوئے ہوتے ہیں۔

 

اس اہم اور مفید سوال کا مکمل اور قطعی جواب کہ: “ائمۂ اطہار صلوات اللہ علیہم کے قلبِ مبارک میں قرآنِ حکیم کس صورت میں موجود ہے؟” سورۂ عنکبوت (نمبر ۲۹) آیت نمبر ۴۹ سے ملتا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا گیاہے کہ: ۔

بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَؕ (۲۹: ۴۹)۔

بلکہ یہ (قرآن) روشن آیتیں ہیں ان لوگوں کے دل میں جن کو (خدا کی طرف سے) علم عطا ہوا ہے۔ اس کا مفہوم دانشمندوں کے نزدیک یہ ہے کہ کامل انسانوں کو پہلے علم الیقین دیا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد عین الیقین کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے جس سے ان کے آئینۂ دل میں قرآن کے روحانی اور نورانی معجزات کا ظہور ہوتا ہے، اور یہی معجزات آیاتِ بینٰت ہیں، جن کا قرآن میں بار بار ذکر آیا ہے۔

 

نورِ امامت کا فرمان ہے کہ اصل مذہب اور اصل سائنس دونوں ایک ہیں، سو اگر ہم مذکورۂ بالا حقیقت کی مثال سائنسی طور پر پیش

 

۸

 

کریں تو نامناسب نہ ہوگا، وہ یہ ہے کہ آج کل کے زمانے میں دنیا کا کوئی واقعہ اُس وقت زیادہ سے زیادہ قابلِ فہم ہو جاتا ہے جبکہ اس کو کتابی شکل میں لانے کے علاوہ ٹی وی پر بھی دکھا دیا جاتا ہے ، بالکل اسی طرح تصوّر کرنا چاہئے کہ ہادیٔ برحق کے باطن میں قرآن کی حقیقتیں زندہ واقعات اور روشن معجزات کی صورت میں موجود ہیں، جن کو روحِ قرآن اور نورِ قرآن کہا جاتا ہےکیونکہ انہیں اصل واقعات سے قرآن کے ظاہر و باطن پر روشنی پڑتی ہے۔

 

یہ کتابچہ اگرچہ کتابچہ ہی ہے اور اس کی ضخامت بہت ہی محدود ہے، لیکن ذرا غور سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت روشن ہو جائے گی کہ یہ دراصل مذہبی کتابوں کے ہزاروں صفحات اور بہت سے ذاتی تجربات کا نچوڑ اور جوہر ہے، دانش مند کو اس امرِ واقعی کا ایک واضح ثبوت کتابچۂ ہٰذا کے حواشی یعنی فٹ نوٹوں سے مل سکتا ہے، جن میں اور بعض دفعہ متن میں بھی قرآن و حدیث کے علاوہ بزرگانِ دین کی گرانمایہ کتابوں کے بہت سے حوالے دئے گئے ہیں، اور اس طریقِ کار سے قارئین کی معلومات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

 

آقائے نامور و نامدار حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام صلوات اللہ علیہ سے میری عاجز و ناتواں روح بصد شوق فدا ہو کہ اِس بے نظیر شاہنشاہِ دین کی ظاہری و باطنی دستگیری، مدد، نوازش اور احسان سے یہ ناچیز علمی خدمت آگے بڑھ رہی ہے، ورنہ زمانے

 

۹

 

کی گوناگوں مشکلات اور رکاوٹوں کے نتیجے میں یہ کام کبھی کا ختم ہوا ہوتا۔

 

حقیقی اسماعیلیوں کی سب سے بڑی پونجی امامِ زمانؑ کی رضا اور خوشنودی ہے، وہ کسی بھی قیمت پر اس کا سودا نہیں کر سکتے ہیں، کیونکہ ایمان کا یہ لازوال اور غیرفانی سرمایہ دونوں جہاں سے بڑھ کر ہے، لہٰذا ہر دانا مومن اسے اپنی جان سے بہت زیادہ عزیز رکھتا ہے اور اپنے سارے  اقوال و اعمال کو اسی معیار سے پرکھ لیتا ہے۔

 

علم الیقین کی روشنی پھیلانے سے جماعت کو جو جو فائدے حاصل ہوتے ہیں، وہ دانشمندوں سے پوشیدہ نہیں، اور جاننا چاہئے کہ اگر علم صحیح اور یقینی ہے تو وہ امامِ عالی مقامؑ کی طرف سے ہے، اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ جس طرح مادّی ترقی ظاہری علم کے بغیر ناممکن ہے اسی طرح روحانی ارتقاء مذہبی علم کے سوا محال ہے، علمی کتابوں ہی سے اپنوں اور بیگانوں کے بہت سے سوالات کے لئے مناسب جوابات مہیا رہتے ہیں، مذہب کا عمدہ طریقے سے تعارف ہوتا ہے اور مخالفت کم ہو جاتی ہے، قوم کی نئی نسل کو اس علمی کوشش سے بڑی مدد ملتی ہے، اداروں کے لئے ترقی کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں، حضرات علماء واعظین، اور معلّمین استفادہ فرماتے ہیں اور دوسروں کی نظر میں جماعت کا وقار بلند ہو جاتا ہے۔

 

اس بندۂ خاکسار اور اس کی کتابوں پر “خانۂ حکمت” کے

 

۱۰

 

بہت سے احسانات ہیں، خانۂ حکمت سے صدر مراد ہیں جو سینئر (SENIOR) سرپرست بھی ہیں، نیز دوسرے سرپرست حضرات، عملداران اور اراکین ہیں، جن کی جانفشانی اور ہر قسم کی قربانی سے اس مبارک ادارے کو ترقی اور کامیابی نصیب ہوئی ہے۔

 

اگر میں نعمت شناسی، احسان مندی، ممنونیّت اور شکرگزاری کے اس موقع پر دنیائے اسماعیلیت کے اُن تمام عزیزوں کو ذہن و خاطر میں نہ لاؤں جو علمی خدمت کے سلسلے میں مجھ سے تعاون کرتے ہیں تو یہ میری بہت بڑی کوتاہی ہوگی، لہٰذا میں ان سب کو فرداً فرداً یاد کرتا ہوں۔ اور کسی عزیز کی سب سے عمدہ اور سب سے اعلیٰ یاد دعاؤں کی صورت میں ہے، چنانچہ پروردگارِ عالم کے حضور میں میری عاجزانہ اور درویشانہ دعا ہے کہ وہ غنی بادشاہ میرے عزیزوں کو جو جان و دل سے علم کی خدمت کرتے ہیں سلامت رکھے! ان کو دونوں جہاں کی عزت بخشے! ان کا ہر نیک مقصد پورا ہو! اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خوش و خرم اور شادمان رہیں!

 

ان شکرگزاریوں کے سلسلے میں ادارۂ “عارف” کا ذکرِ جمیل بھی لازمی ہے، جس کے دانشمند، جری، مخلص اور دیندار چئیرمین شیراز صاحب شریف نے ادارے کے سرپرستِ اعلیٰ فقیر محمد صاحب ہونزائی کے تعاون سے اور دوسرے سرگرم اراکین کی مدد سے کینیڈا میں بہت سی علمی خدمات انجام دی ہیں، اور سب سے

 

۱۱

 

بنیادی اور اہم کارنامہ یہ کہ انہوں نے اس سلسلے میں پاک مولا کے حضورِ اقدس سے پُرحکمت اور بابرکت دعا حاصل کر لی ہے، لہٰذا میں ہمیشہ کے لئے ان کا شکرگزار اور دعاگو رہوں گا، پروردگار ان کو اور ان کے باعمل ساتھیوں کو دنیا و آخرت کی صلاح و فلاح اور کامیابی عطا فرمائے!

 

آپ کا علمی خادم

نصیر ہونزائی

جمعرات، ۲۵ رجب ۱۳۹۹ھ، ۲۱ جون ۱۹۷۹ء

سالِ گوسفند

 

۱۲

 

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

قرآن اور نورِ امامت

 

قرآنِ مجید اور حضرت محمد صلعم کی آلِ پاک یعنی سلسلۂ أئمّۂ برحق علیہم السّلام اپنے ہمہ رس و ہمہ گیر علمی کمالات اور عرفانی معجزات میں خدا کی ہدایتِ کلیہ کے دو ایسے آپس میں ملے ہوئے ذریعے ہیں، کہ جن کے متعلق اگر عقل و دانش اور حق و انصاف سے سوچ لیا جائے، تو ہرگز اُن دونوں کی علمی حیثیت کا جدا جدا تصوّر نہیں کیا جا سکے گا، اس لئے کہ قرآن نورِ امامت کے مختلف موضوعات سے بھرا ہوا ہے، اور نورِ امامت میں قرآن کے علم و حکمت کی روحِ ناطقہ ہمیشہ کے لئے موجود ہے، پس ہم یہاں اسی حقیقت کی چند قرآنی اور عقلی دلیلیں پیش کرتے ہوئے اس امرِ واقعی کی وضاحت کرتے ہیں، کہ نورِ امامت کا سہارا لئے بغیر قرآنِ پاک کے تاویلی حقائق و معارف کا دیکھ پانا مشکل ہی نہیں بلکہ قطعی ناممکن ہے۔

 

نور اور کتابِ مبین:۔

چنانچہ مذکورۂ بالا حقیقت کی قرآنی دلیلوں میں سے ایک

 

۱۳

 

یہ ہے:۔

قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌ (۰۵: ۱۵)۔

یقیناً تمہارے پاس خدا کی طرف سے نور اور ظاہر کتاب آئی ہے (تفسیرِ صافی صفحہ ۱۳۲، تفسیر المتقین صفحہ ۱۳۱)۔ اس آیۂ مبارکہ میں حق تعالیٰ رتبۂ امامت کو قرآنِ پاک کی تاویلی روشنی قرار دے کر دونوں مقدّس چیزوں کی باہمی وابستگی اور لزومیت کی طرف توجہ دلاتا ہے، اور رمز کے طور پر یہ فرماتا ہے، کہ نورِ امامت کے سہارے کے بغیر قرآنِ پاک کے تاویلی علوم کے خزانوں کا راستہ دیکھ پانا محال ہے، جس طرح مادّی قسم کی روشنی کے بغیر ظاہری چیزوں کا مشاہدہ کرنا ناممکن ہے۔

 

اس بیان کی مزید وضاحت یہ ہے کہ ایک روز پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:۔

یاایھا الناس ان منکم من یقاتل علیٰ تاویل القرآن کما قاتلت علیٰ تنزیلہ۔ قیل من ھو یا رسول اللہ۔ فقال ذاک خاصف النعل۔ اے لوگو! تم میں سے ایک شخص ہے، کہ وہ تاویلِ قرآن پر جنگ کرے گا، جیسا کہ میں نے تنزیلِ قرآن پر جنگ کی ہے، پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! وہ شخص کون ہے، فرمایا، وہ شخص جو جوتی درست

 

۱۴

 

کر رہا ہے (کوکبِ دری صفحہ ۱۰۸)۔ روایت مشہور ہے، کہ اُس موقع پر آنحضرتؐ کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا تھا، اور جناب مولانا علیؑ اس کو لے کر درست کر رہے تھے، چنانچہ اس حدیث کے بموجب مولانا علی علیہ السّلام ہی تاویلِ قرآن کے مالک ہیں، اور حقیقت میں ان کی اس علمی عظمت و مرتبت میں وہ تمام أئمّۂ اطہار بھی شامل ہیں، جو ان کی پاک ذرّیت میں سے ہیں، کیونکہ تاویل کی ضرورت و اہمیت نہ صرف مولانا علی علیہ السّلام ہی کے زمانے میں تھی، بلکہ جوں جوں زمانہ گزرتا گیا، توں توں  تاویل کی ضرورت و اہمیت بھی بڑھتی آئی ہے، چنانچہ بعد کے أئمّۂ برحق علیہم السّلام نے مجموعی حیثیت میں قرآنِ پاک کی جتنی تاویلات بیان فرمائی ہیں، ان کے مقابلے میں مولانا علی علیہ السّلام کی تاویلات بہت کم ہیں، پس اگر ہم ان تمام أئمّۂ برحق کی ذاتِ اقدس کو علیؑ کا نور نہ مانیں، تو تاویل صرف مولانا علیؑ ہی کے زمانے میں محدود ہو کر رہے گی، مگر یہ بات درست نہیں، بلکہ درست یہی ہے، کہ اس حدیث میں اُن تمام أئمّۂ برحق کا بھی ذکر موجود ہے، جو آلِ محمدؐ و اولادِ علیؑ سے ہیں، جو اولی الامر اور صاحبانِ تاویل کہلاتے ہیں، پس معلوم ہوا کہ وہ مبارک و مقدّس نور، جو قرآن سے جدا نہیں، نورِ نبوّت و امامت ہی ہے، جس نے حضرت محمدؐ کے لباس میں علومِ تنزیل پر روشنی ڈالی اور أئمّۂ طاہرین کی حیثیت میں علومِ تاویل پر

 

۱۵

 

روشنی ڈالی۔

 

برہان اور نورِ مبین

اسی سلسلے میں دوسری دلیل یہ ہے: ۔

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَاَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا (۰۴: ۱۷۴)۔

اے لوگو! اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان (دلیل یعنی معجزۂ قرآن) آ چکا ہے، اور ہم تمہارے پاس ایک ظاہر نور نازل کر چکے ہیں (تفسیر المتقین صفحہ ۱۲۵، تفسیر صافی صفحہ ۱۲۷۔ تفسیر المتقین میں بحوالۂ مجمع البیان لکھا ہے، کہ حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام نے فرمایا کہ نور سے حضرت علی علیہ السّلام کی ولایت مراد ہے۔ مولوی فرمان علی صاحب اپنے ترجمۂ قرآن مطبوعۂ نظامی پریس لکھنؤ صفحہ ۱۶۷ کے حاشیے پر لکھتے ہیں: “ایک صحیح حدیث میں ہے، کہ برہان (دلیل) سے مراد حضرت رسول ہیں اور نورِ مبین (چمکتا ہوا نور) سے حضرت علی مراد ہیں)۔” اس ارشاد میں خدا تعالیٰ قرآنِ مجید کو حضرت محمدؐ کی نبوّت کا دائمی معجزہ قرار دیتا ہے، اور منصبِ امامت کو نورِ مبین (یعنی ظاہر نور) کے نام سے موسوم فرماتا ہے،

 

۱۶

 

جس کا اشارہ یہ ہے کہ قرآن کو دراصل اس وقت معجزۂ محمدیؐ سمجھ لیا جا سکتا ہے، جبکہ مرتبۂ امامت کی عرفانی روشنی میں قرآن کے تاویلی عجائب و غرائب دیکھ لئے جا سکیں۔

 

اس مقام پر یہ نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ مذکورۂ بالا دونوں آیتوں میں سے پہلی آیت میں اوّل نور کا ذکر آیا ہے اور اس کے بعد کتاب کا، اس کے برعکس دوسری آیت میں پہلے کتاب کا اس کے بعد نور کا ذکر آیا ہے، جس کا اشارہ یہ ہے کہ نبوّت کا تعیّن نزولِ قرآن سے پہلے ہوا ہے اور ولایت کا اعلان نزولِ قرآن کے بعد کیا گیا ہے۔ یعنی نورِ نبوّت کا ظہور قرآنِ پاک نازل ہونے سے پہلے ہوا ہے، اور نورِ ولایت کا ظہور بعد میں، ہر چند کہ نبوّت اور ولایت ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔

 

ظاہری ہدایت و باطنی ہدایت

تیسری دلیل یہ ہے: ۔

یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ (۲۴: ۳۵)۔

خدا اپنے نور (کی معرفت) کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔ اس آیۂ کریمہ میں پہلے قرآن کا ذکر آیا ہے، کیونکہ خدا کی ظاہری ہدایت تو قرآن ہی سے شروع ہو جاتی ہے، اس کے بعد نورِ امامت کا ذکر ہوا ہے، اس لئے کہ خدا کی باطنی ہدایت نورِ امامت ہی سے آغاز ہوتی ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خدا جس کو چاہتا ہے ظاہری ہدایت

 

۱۷

 

کے ذریعہ باطنی ہدایت تک پہنچا دیتا ہے۔

 

ام الکتاب

چوتھی دلیل: ۔

وَ اِنَّهٗ فِیْۤ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَكِیْمٌ (۴۳: ۰۴)۔

اور قرآن ام الکتاب (کی حیثیت) میں میرے پاس علی ہے حکمت والا (تفسیرِ صافی صفحہ ۴۵۴ پر بحوالۂ معانی الاخبار امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے، کہ جس شخص کا ذکر ام الکتاب یعنی سورۂ فاتحہ میں ہے، وہ جناب امیر المومنین علی علیہ السّلام ہیں، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول درج ہے: “اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ” اور “الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ” سے خود جناب امیر المومنین اور ان کی معرفت مراد ہے، اور تفسیر قمی میں بھی یہی مطلب درج ہے (تفسیر المتقین صفحہ ۸۶)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس آیۂ شریفہ کی تفسیر اس حدیث سے کی ہے: ۔

“علی مع القرآن و القرآن مع علی لا یتفرقان حتیٰ یردا علی الحوض۔

علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے، اور دونوں جدا نہیں ہوں گے جب تک کہ حوضِ کوثر پر وارد ہوں۔”

 

۱۸

 

پیر ناصر خسرو کتابِ “وجہِ دین” میں ایک روایت نقل کرتے ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک دن رسولِ خدا (صلعم) نے فرمایا، کہ ظاہر میں سورۂ فاتحہ ام الکتاب ہے، اور باطن میں علی ام الکتاب ہیں، نیز مولانا علی فرماتے ہیں:۔

انا اللوح المحفوظ۔

یعنی میں لوحِ محفوظ ہوں (کیونکہ میرے نور میں تمام حقائقِ کونی و الٰہی کی صورتیں ثابت اور محفوظ ہیں) پس معلوم ہوا کہ درحقیقت حضرت علی ام الکتاب ہیں، اور ان کے نورِ اقدس میں تمام حقائقِ قرآنی کی روحانی صورتیں موجود اور محفوظ ہیں، کیونکہ لوحِ محفوظ ام الکتاب کا دوسرا نام ہے۔ ناسخ التواریخ جلدِ سوم از کتاب دوم صفحہ ۶۴۴ نیز صفحہ ۶۴۸ پر مرقوم ہے کہ: “و انہ (فی ام الکتاب) لدینا لعلی حکیم” کے اسماء علی ہی کے لئے ہیں۔

 

چنانچہ خدا، رسول اور خود مولانا علی کے کلام سے ظاہر ہے، کہ نورِ امامت ہی ام الکتاب، لوحِ محفوظ اور قرآن کی روحِ ناطقہ ہے، اگر خدا کی طرف سے قرآن کے حقائق سمجھانے کا یہ ذریعہ اور وسیلہ ہمیشہ کے لئے موجود نہ ہوتا، تو اس سے دینِ اسلام میں ایک بہت بڑی کمی واقع ہوتی، کیونکہ عہدِ نبوّت میں رسولِ اکرمؐ کی اطاعت کرنے والوں کے ہر سوال کا جواب یا تو کسی آیت کے نزول کی صورت میں ملتا تھا، یا رسول اللہ خود جواب دیتے تھے،لیکن حقیقت یہ ہے،

 

۱۹

 

کہ دینِ اسلام میں کوئی کمی نہیں پائی جاتی، بلکہ نورِ امامت کی اطاعت کرنے والوں کے ہر سوال کا جواب یا تو تاویلِ قرآن کی صورت میں ملتا ہے، یا نورِ امامت کے فرامین کی حیثیت میں۔

 

حبل اللہ

پانچویں دلیل: ۔

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۪ (۰۳: ۱۰۳)۔

اور تم سب کے سب (مل کر) خدا کی رسی مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں فرقہ فرقہ نہ بنو (مولوی فرمان علی صاحب اپنے ترجمۂ قرآن ص ۹۹ کے حاشیے پر لکھتے ہیں:۔ “حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے، کہ آپؑ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے، کہ ہم اہلِ بیت خدا کی رسی ہیں، اور سب کو جس کی مضبوطی سے تھامنے کا خدا نے حکم دیا ہے، دیکھو صواعق محرقہ۔” نیز تفسیر المتقین صفحہ ۷۴ کے حاشیہ پر دیکھو۔ “المجالس المستنصریہ” کے صفحہ ۱۷۰ پر بھی خدا کی رسی کی یہی تعریف کی گئی ہے)۔

 

اس فرمانِ الٰہی میں قرآن اور امامت کی مثال ایک ایسی رسی سے دی گئی ہے، جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا مومنین کے ہاتھ میں ہو، جو عرشِ برین سے فرشِ زمین تک پہنچی ہو،

 

۲۰

 

اور جو ازل سے ابد تک رسا ہوسکتی ہو، پس خدا کی ایسی رسی صرف قرآن اور نورِ امامت کی باہم ملی ہوئی علمی حیثیت ہی ہوسکتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پر عمل دورِ نبوّت میں نبی کے ذریعہ کیا جائے اور دورِ امامت میں امام کے ذریعہ، چنانچہ عہدِ رسالت میں مسلمان رسول اللہ کے ذریعے قرآن پر عمل کرتے تھے، اسی لئے وہ اُس وقت آپس میں فرقہ فرقہ نہیں بنے تھے، اسی طرح اگر اب بھی خلیفۂ رسول (یعنی امامِ زمانؑ) کے ذریعے قرآنی حقائق کوسمجھتے، تو وہ ہرگز فرقہ فرقہ نہ بن جاتے، کیونکہ ملی وحدت کا مرکز امامِ حاضرؑ ہی ہیں، جن کی فرمانبرداری میں فرقہ فرقہ ہونے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔

 

چنانچہ “اعتصام” کے معنی ہیں، خطرے سے بچنے کے لئے کسی چیز کو مضبوطی سے پکڑنا، اور “واعتصموا” میں اسی معنی کا امر ہے، اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے، کہ وہ خطرہ کون سا ہے، جس سے بچنے کے لئے خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا ضروری ہوا ہے؟ اس کا جواب دو طرح سے ہے، پہلا جواب یہ ہے، کہ جس شخص کا ہاتھ خدا کی رسی سے چھوٹ گیا، تو اُسے گمراہی کا خطرہ رہتا ہے، اور اس کے برعکس جو شخص خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہا کرے، تو وہ ہدایت پاتا ہے، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔

وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (۰۳: ۱۰۱)۔ اور جو شخص خدا سے وابستہ ہو، تو وہ ضرور

 

۲۱

 

سیدھی راہ پر لگا دیا گیا۔ ظاہر ہے، کہ خدا کی رسی ہی کو مضبوطی سے تھامے رہنا، خدا سے وابستہ ہو جانا ہے، جس کا نتیجہ سیدھی راہ پر لگنا ہے، ورنہ گمراہی کا خطرہ رہتا ہے۔

 

مذکورہ سوال کا دوسرا جواب یہ ہے، کہ خدا کی رسی سے وابستہ نہ ہونے میں انسان کو ہمیشہ کے لئے بہیمیت کی پستی میں جا گرنے کا خطرہ درپیش رہتا ہے، اسی لئے فرمایا گیا ہے، کہ خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو، تاکہ تم کو حیوانیت کی پستی سے ملکوتیت کی بلندی پر اٹھا لیا جائے، کیونکہ خدا کی رسی اور کمند کا ایک خاص مفہوم یہ ہے، کہ یہ عالمِ ملکوت کی بلندی سے عالمِ ناسوت کی پستی تک باندھی گئی ہے، یا یوں کہنا چاہئے، کہ خدا کی رسی (یعنی قرآن اور نورِ امامت) سے وابستگی کی مثال ایک ایسی سیڑھی کی طرح ہے، جو عالمِ سفلی سے عالمِ علوی پر چڑھنے کے لئے قائم کر دی گئی ہے، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔

مِّنَ اللّٰهِ ذِی الْمَعَارِجِ (۷۰: ۰۳) خدا کی طرف سے جو سیڑھیوں والا ہے۔ دانشمند کے لئے ظاہر ہے کہ سیڑھی کا کیا مطلب ہو سکتا ہے، پس معلوم ہوا، کہ جو خدا کی رسی ہے، وہی خدا کی سیڑھی ہے، کیونکہ ہدایتِ الٰہیہ کا مرکز ایک ہی ہے، مگر اس کے نام اور مثالیں بے شمار ہیں۔

 

روشن چراغ

چھٹی دلیل: ۔

 

۲۲

 

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا (۳۳: ۴۵ تا ۴۶)۔

اے نبی ! ہم نے آپ کو گواہ اور (نیکوں کو بہشت کی) خوشخبری دینے والا اور (بدوں کو عذاب سے) ڈرانے والا اور خدا کی طرف اُسی کے حکم سے بلانے والا اور (تعلیم و ہدایت کا) روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے (جب یہ حقیقت مسلّمہ ہے، کہ آنحضرتؐ اپنے عہدِ نبوّت میں قرآن کے ساتھ علم و حکمت کا روشن چراغ تھے، جس کے متعلق حق تعالیٰ کا ارشاد ہے، کہ خدا اپنے اس نور کو درجۂ کمال تک پہنچا دے گا (دیکھو ۰۹: ۳۲ اور ۶۱: ۰۸) تو معلوم ہوا کہ یہ مقدّس نور آنحضرتؐ کے بعد سے لے کر قیامت تک لباسِ امامت میں جلوہ افروز ہے، تاکہ عالمِ دین اور عالمِ انسانیّت ہی میں خدا کے نور کا یہ چراغ ہمیشہ کے لئے روشن رہے)۔

 

اس آیۂ کریمہ میں بطریقِ حکمت یہ اشارہ کیا گیا ہے، کہ رسولِ برحقؐ نے سب سے پہلے حق تعالیٰ کی وحدانیّت پر گواہی دی، جو “لا الٰہ الا للہ” کی صورت میں تھی، اور لوگوں سے فرمایا، کہ وہ بھی یہی گواہی دیں، پس جن لوگوں نے یہ گواہی دی، تو رسولؐ نے ان کو بہشت کی خوشخبری سنائی،

 

۲۳

 

اور جن لوگوں نے اِس گواہی سے انکار کیا، سو آنحضرتؐ نے ان کو دوزخ سے ڈرایا، اور خدا کے حکم سے اسی طرح پیغمبر علیہ السّلام نے لوگوں کو خدا کی طرف دعوت کی، اور اسی اثنا میں نزولِ قرآن بھی انجام کو پہنچا، اب اس آیت کے اخیر میں حق تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو جس نام سے یاد فرمایا ہے، وہ نام “سراجِ منیر” یعنی روشن چراغ ہے، پس دعوتِ اسلام اور نزولِ قرآن کے ذکر کرنے کے بعد رسول سے خدا کا یہ فرمانا کہ ہم نے آپ کو روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے، اس حقیقت کی ایک واضح دلیل ہے، کہ خدا کی جانب سے لوگوں کی مستقل ہدایت کے لئے قرآن کے ساتھ ساتھ ایک روشن چراغ یعنی نور کی بھی ضرورت ہے، ہم اس سے قبل بیان کر چکے ہیں کہ یہ نور کسی شک کے بغیر نبوّت و امامت ہی کا نور ہے، کہ جب یہ نور نبی میں تھا، تو علمِ تنزیل کی صورت میں تھا، اور جب امام میں آیا تو علمِ تاویل کی حیثیت میں ہے (دیوانِ اشعار حکیم ناصر خسرو تحقیق کردۂ حاجی سید نصر اللہ تقویٰ ص ۱۷۴۔ گفتم کہ بقرآن در پیداست کہ احمد ۔ بشیر و نذیر است و سراجست و منور۔۔ گر خواہد کشتن بدہن کافر او را۔ روشن کندش ایزد بر کافۂ کافر ۔ ترجمہ: میں نے کہا کہ قرآن میں ظاہر ہے کہ حضرت محمد بشیر و نذیر اور (ایسے) روشن چراغ ہیں، کہ اگر منکرین و کافرین اپنے مونہوں سے اُسے بجھانا چاہیں، تو خداوند تعالیٰ (ان کی خواہش کے برعکس) اس چراغ کو (تا قیامت روز بروز) زیادہ سے زیادہ روشن کرے گا)۔ اور دونوں صورتوں میں قرآن اور نور کی

 

۲۴

 

باہمی وابستگی اور لزومیت پائی جاتی ہے، کیونکہ یہاں نور کا مطلب رشد و ہدایت اور علم و حکمت ہے۔

 

مذکورہ دلائل کی روشنی میں یہ حقیقت پوری طرح سے واضح ہوگئی، کہ عہدِ نبوّت میں خدا کی طرف سے لوگوں کی مکمل ہدایت کے لئے قرآن کے ساتھ ساتھ ایک زندہ نور بھی تھا، جس کا ذکر حق تعالیٰ نے “سراجِ منیر” کے عنوان سے فرمایا، اور جہاں حق تعالیٰ نے اپنی حقیقت کے بارے میں کوئی مناسب مثال دینا چاہا تو وہاں بھی اُس نے “سراج” کا ایک ہم معنی لفظ استعمال فرمایا اور وہ لفظ “مصباح” ہے، چنانچہ ارشاد ہے:۔

اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌؕ (۲۴: ۳۵)۔

خدا آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایک طاق کے مانند ہے، جس میں چراغ روشن کیا ہو۔ اب یہ خوب سوچنے کا مقام ہے، کہ حق تعالیٰ نے اپنے نور کی مثال کیوں روشنی کے اُن عظیم قدرتی اور آسمانی ذرائع سے نہیں دی، جو سورج، چاند اور ستاروں کے ناموں سے مشہور ہیں، اور کیا سبب ہے، کہ اُس نے اپنے نور کی مثال گھر کے چراغ سے دی اور اپنے رسول کے نور کی مثال بھی چراغ ہی سے دی، پس ان سخت ترین مسائل کا صحیح حل یہی ہے، کہ رسولؐ کا نور خدا ہی کا نور ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب حق تعالیٰ نے نور کو اپنی ذات سے منسوب فرمایا، تو اس میں نور کی مثال “روشن چراغ” سے دی، اور جب نور کو

 

۲۵

 

رسول سے منسوب فرمایا، تو اس میں بھی اسی طرح اس کی مثال “روشن چراغ” ہی سے دی، اور نور کی مثال دونوں صورتوں میں گھر کے چراغ سے دینے کا ایک اور سبب یہ بھی ہے، کہ بموجبِ ارشاد: “نورٌعلیٰ نور” (نورٌ علیٰ نور کا مطلب یہ ہے،کہ ایک امام کے بعد دوسرا امام ہوتا رہے گا (تفسیر المتقین صفحہ ۴۲۴ بحوالۂ تفسیرِ صافی صفحہ ۳۵۱ بحوالۂ التوحید منقول از امام جعفر الصادق علیہ السّلام)) روشنی کو ایک روشن کئے ہوئے چراغ سے دوسرے تیار چراغ میں منتقل کر دی جاتی ہے، مگر ایک سورج سے دوسرا سورج پیدا نہیں ہوتا، پس نور کے ظاہری پہلو (یعنی نبوّت و امامت کے مختلف اجسام) کی تبدیلی کے اعتبار سے چراغ کی مثال زیادہ موزوں اور مناسب ہے، اور نور کے باطنی پہلو یعنی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کے مقام کے لحاظ سے سورج اور چاند کی مثال بہتر اور صحیح ہے، اب اس اصول کے مطابق آپ خود ٹھیک طرح سے غور کر کے بتائیے، کہ مندرجۂ ذیل آیۂ کریمہ میں نور کے کس پہلو کے متعلق ارشاد ہوا ہے:۔

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ (۰۹: ۳۲)

وہ (منکرین) چاہتے ہیں کہ اپنے مونہوں (یعنی غلط دلیلوں) سے

 

۲۶

 

خدا کے نور کو بجھا دیں، اور خدا ایسا کرنا نہیں چاہتا ہے، مگر وہ اپنے نور کو مکمل کر دینا چاہتا ہے، اگرچہ کافر اس سے ناخوش رہیں۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ یہاں نور کے ظاہری پہلو کے بارے میں ذکر ہوا ہے، یعنی خدا کے نور کا بیان کیا گیا ہے، جو انبیاء اور أئمّۂ طاہرین کی شخصیتوں کے چراغ سے روشن ہوتے ہوئے آیا ہے، اور اسی نور کو منکرین اپنی غلط دلیلوں کی پھونکوں سے بجھانے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں، مگر یہ نور ہمیشہ سے آسمانی کتابوں کے ساتھ ساتھ موجود ہے، اسی مطلب کی ترجمانی میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:۔

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

(تفسیرِ صافی صفحہ ۲۰۶، تفسیر المتقین صفحہ ۲۲۹، ملاحظہ ہو۔ اس بارے میں کتابِ “وجہِ دین” حصّۂ اوّل صفحہ ۱۱۱ و صفحہ ۱۱۲ پر بغور دیکھو)۔

 

آسمانی کتاب کی وراثت

ساتویں دلیل: ۔

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاۚ (۳۵: ۳۲)۔

پھر ہم نے کتاب (یعنی قرآن کے علم و حکمت) کے وارث کر دئے، اُن لوگوں کو جنہیں ہم نے اپنے بندوں سے برگزیدہ کیا ہے۔ کتاب یعنی قرآن کے علم و حکمت کے وارثین سے آلِ محمدؐ کے أئمّۂ طاہرین مراد ہیں، کیونکہ یہی

 

۲۷

 

حضرات خدا کے بندوں میں سے برگزیدہ اور علومِ قرآن کے خزانہ دار ہیں، جیسا کہ آیۂ ذیل میں بھی یہی مطلب ارشاد ہوا ہے:۔

فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا (۰۴: ۵۴)۔

اس میں کوئی شک نہیں، کہ ہم نے ابراہیم کی اولاد کو (قیامت تک) کتاب اور حکمت دی اور ان کو ایک عظیم سلطنت دی۔ (دیکھو کتاب “دعائم الاسلام” حصّۂ اوّل عربی صفحہ ۲۳، تفسیر المتقین صفحہ ۵۲۴)۔ اہلِ دانش کے لئے اس حقیقت میں ذرا بھی شبہ نہیں، کہ آلِ ابراہیم میں ترتیب کی رو سے سب سے پہلے حضرت اسماعیلؑ، حضرت اسحاقؑ اور ان کی اولاد کے تمام انبیاء و أئمّہ کا ذکر ہے، پھر آنحضرتؐ اور اُن کی آلِ پاک کے أئمّہؑ کا ذکر ہے (دعائم الاسلام حصّۂ اوّل صفحہ ۲۱ و صفحہ ۲۲ پر امام محمد باقر علیہ السّلام سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آلِ ابراہیمؑ میں سے رسل، انبیاء اور أئمّہ بنائے، نیز فرمایا ملکاً عظیماً سے یہ مراد ہے،کہ اُن میں سے امام بنائے، جس نے ان کی اطاعت کی اُس نے دراصل خدا کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی اُس نے خدا کی نافرمانی کی، پس یہی ملکِ عظیم ہے، پھر کس طرح (یہ درست ہو سکتا ہے کہ) وہ آلِ ابراہیم میں تو اس کا اقرار کرتے ہیں، لیکن آلِ محمدؐ میں انکار کرتے ہیں۔ تفسیر المتقین صفحہ ۱۰۳ پر بھی یہی روایت درج ہے)۔ مگر ان حضرات کو کتاب دی جانے کے یہ معنی ہرگز نہیں، کہ ابراہیمؑ کی اولاد میں سے ہر پیغمبر اور ہر امام پر ایک کتاب نازل کی گئی ہو بلکہ اس کا مطلب

 

۲۸

 

یہ ہے، کہ جو مشہور کتابیں نازل ہوئی تھیں، ان کی مجموعی حقیقت دراصل ایک کتاب کی سی ہے، جس کو حق تعالیٰ یہاں “الکتاب” کے نام سے موسوم کرتا ہے، جو لوگوں کو خدا کی طرف بلانے اور مومنین کو علم و حکمت سکھانے کے پیشِ نظر ایک پیغمبر کے بعد دوسرے پیغمبر یا امام کو دی جاتی ہے، اس لئے کہ روحانی سلطنت یعنی نبوّت و امامت انہی کے سلسلے میں چلتی رہی ہے اس سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید کے علم و حکمت کا ورثہ رسول اللہ کے بعد مولانا علیؑ ہی کو ملا ہے، اور ان کے بعد ان کی پاک اولاد میں قرآن کا یہ عظیم ورثہ موجود و باقی ہے۔

 

نورِ ہدایت

آٹھویں دلیل: ۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۵۷: ۲۸)۔

اے ایمان والو! خدا سے ڈرو اور اس کے رسول (محمد) پر (جیسا کہ چاہئے) ایمان لاؤ، تو خدا تم کو اپنی رحمت کے دو حصے (یعنی ظاہر اور باطن میں) اجر عطا فرمائے گا، اور تم کو ایسا نور مقرر فرمائے گا، جس (کی روشنی) میں تم (سیدھی راہ پر) چلو گے اور تم کو بخش دے گا

 

۲۹

 

اور خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے (حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام نے فرمایا، کہ میں حضرت علیؑ اور رسولِ پاکؐ (حضرت محمدؐ) دونوں کا نور ہوں۔ نیز حضرت مولانا سرکار نامدار شاہ کریم الحسینی امام حیّ و حاضر فرماتے ہیں، کہ امام کے نور نے روحانی اور دنیاوی تسکین کے حصول کے لئے تمہیں بتایا ہے کہ کدھر اور کس رخ میں تمہیں مڑنا ضروری ہے (کتاب فرامینِ مبارک حصّۂ اوّل) نیز ملاحظہ ہو: کتاب “اساس التاویل” عربی از صفحہ ۳۴۹ تا صفحہ ۳۵۴)۔

 

مذکورہ آیۂ مقدّسہ میں ” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا” کا خطابِ الٰہی اُن لوگوں سے ہے، جو خدا اور اُس کے رسول پر ایمان لا کر قرآن کے ظاہری احکام پر عمل کرنے لگے تھے “اتقوا اللہ” کے امر میں ان کو ہر طرح کی پرہیزگاری اور خوفِ خدا کی تعلیم دی گئی ہے “و اٰمنوا برسولہ” کے ارشاد میں اُن کو یہ فرمایا کہ تم خدا کے رسول پر صحیح معنوں میں ایمان لاؤ، یعنی رسول تمہارے مستقبل کی ہدایات کے لئے بموجبِ فرمانِ الٰہی جس کو اپنا جانشین مقرر کریں اور اس سلسلے میں تم سے جو کچھ فرمائیں تم اس کی پوری طرح سے اطاعت کرو “یوتکم کفلین من رحمۃ” کا مطلب ہے، کہ خدا اس وسیلے سے تم کو اپنی رحمت یعنی ظاہری اور باطنی ہدایت

 

۳۰

 

کے دو حصّے اجر عطا فرمائے گا:۔

و یجعل لکم نوراً۔

اور تم کو ایک ایسا نور (یعنی امامِ زمانؑ کی معرفت) عطا فرمائے گا “تمشون بہ” کہ جس کی روشنی میں تم انقلاباتِ زمانہ کے مسائل حل کرتے ہوئے چل سکو گے۔ “یغفرلکم و اللہ غفور رحیم” اور خدا تم کو بخش دے گا، یعنی تمہارے کام آسان سے آسان تر ہوتے جائیں گے اور خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

پس اس فرمانِ الٰہی سے معلوم ہوا، کہ جس نور کی روشنی میں انقلاباتِ زمانہ کے مسائل حل کرتے ہوئے چلا جا سکتا ہو، وہ امامت ہی کا نور ہے، جو مومنین کے لئے بظاہر اس وقت مقرر کیا گیا، جبکہ انہوں نے خدا و رسول پر ایمان لا کر قرآن کے ظاہری احکام پر عمل کیا، خدا سے ڈرتے ہوئے تقویٰ کا راستہ اختیار کیا اور رسول کے آخری فرمان کی پوری طرح سے اطاعت کی، جو غدیرِ خم میں سنایا گیا تھا، اور وہ ان الفاظ میں تھا:۔

من کنت مولاہ فھٰذا علی مولا۔ میں جس کا مولا و آقا ہوں، پس یہ علی بھی اُسی کا آقا و مولا ہے۔

چنانچہ اس تابعداری کے بدلے میں اُن مومنین کو حق تعالیٰ کی رحمت سے ظاہری و باطنی ہدایت کے دو حصّے ملے، اور ان کو ہمیشہ کے لئے امامِ زمانؑ کی معرفت حاصل ہوئی، جس کی بدولت وہ امام شناسی کے ہر امتحان و ابتلا میں کامیاب ہوتے ہوئے چلے آئے ہیں، اسی طرح ان کے سب

 

۳۱

 

کام آسان کر دئے گئے۔

 

راسخون فی العلم

نویں دلیل: ۔

وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ  وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖۙ-كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاۚ-وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ (۰۳: ۰۷)۔

اور قرآن کی تاویل بجز حق تعالیٰ اور اُن لوگوں کے جو علمِ دین میں پختہ کار ہیں، کوئی اور نہیں جانتا، وہ کہتے ہیں، کہ ہم اس پر یقین رکھتے ہیں (یہ محکمات و متشابہات) سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں، اور نصیحت وہی قبول کرتے ہیں، جو اہلِ عقل ہیں (تاویل اور امام کے موضوع کے لئے ملاحظہ ہو: وجہِ دین حصّۂ اوّل اردو از صفحہ ۹ تا ۳۲ نیز از صفحہ ۶۸ تا ۸۶۔ نیز “اساس التاویل” عربی از صفحہ: ۲۸ تا ۳۲ ملاحظہ ہو)۔

 

حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام نے آیۂ بالا کی تفسیر کے بارے میں فرمایا: نحن الراسخون فی العلم و نحن نعلم تاویلہ و فی روایۃ: فرسول اللہ افضل الراسخین فی العلم قد علمہ اللہ عز و جل جمیع ما انزل علیہ من التنزیل و التاویل

 

۳۲

 

و ما کان اللہ لینزل علیہ شیئا لم یعلمہ تاویلہ و اوصیائہٖ من بعدہٖ یعلمونہ کلہ۔

ہم (أئمّہ) ہی علمِ دین میں پختہ کار ہیں اور ہم قرآن کی تاویل جانتے ہیں۔ ایک اور روایت میں ہے: پس رسول اللہ علمِ دین کے پختہ کاروں میں سب سے زیادہ فضیلت رکھتے ہیں، کہ حق تعالیٰ نے آنحضرتؐ پر تنزیل و تاویل میں سے جو کچھ نازل فرمایا، وہ سب آنحضرتؐ کو سکھایا ہے، کیونکہ شانِ الٰہی کے لئے یہ ہرگز مناسب نہیں تھا کہ خدا آنحضرتؐ پر کوئی ایسی چیز نازل فرماتا، جس کی تاویل حضورؐ کو نہ سکھائے۔ اور (اسی طرح) آنحضرتؐ کے اوصیا بھی قرآن کی تاویل پوری طرح سے جانتے ہیں (تفسیرِ صافی صفحہ ۷۹، تفسیر المتقین صفحہ ۵۹، وجہِ دین حصّہ دوم (اردو) صفحہ ۱۴۰، تاویل الدعائم حصّہ اوّل صفحہ ۶۵)۔

مذکورۂ بالا آیت کے معنی میں ذرا غور و فکر کرنے سے بھی یہی حقیقت ثابتہ ظاہر ہو جاتی ہے کہ قرآن کی تاویل (جس کا دوسرا نام حکمت ہے) لوگوں کو زمانے کی رفتار اور تقاضے کے مطابق بتدریج سکھانے کے لئے رسول کے بعد ہر زمانے میں امامِ برحق حاضر اور موجود ہے، اگر ایسا نہ ہوتا، تو یہ خدا کی طرف سے دینی ہدایت کے سلسلے میں ایک بہت بڑی بخالت ہوتی کہ اُس نے خاتم الانبیاء پر نبوّت ختم کر لی، اپنی خاص خاص حکمتیں متشابہات کی حیثیت میں چھپائے رکھیں اور ہدایت کا کوئی فیصلہ کُنۡ ذریعہ مقرر

 

۳۳

 

نہیں فرمایا، مگر یہ بات خدا کے عدل و رحمت کی منافی ہے، بلکہ حقیقت یہی ہے کہ رسولِ اکرمؐ کے حقیقی جانشین ہمیشہ کے لئے تاویل کا ذریعہ اور ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔

 

دعائے ابراہیم و اسماعیل

دسویں دلیل: ۔

رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ (۰۲: ۱۲۹)۔ (حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السّلام نے کہا): اے پروردگار ! ہم کو اپنا حقیقی مطیع بنا لیجئے، اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک ایسی جماعت پیدا کیجئے، جو آپ کی حقیقی مطیع ہو۔ اے پروردگار! اور اس جماعت کے اندر ان ہی میں سے ایک ایسا پیغمبر بھی مقرر کیجئے، جو اُن لوگوں کو آپ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کریں، اور ان کو آسمانی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیا کریں اور ان کو پاک کر دیں (تفسیر المتقین صفحہ ۲۳، ترجمۂ قرآن از مولوی مقبول احمد صفحہ ۲۳، وجہِ دین حصّۂ دوم (اردو) صفحہ ۱۴۱، دعائم الاسلام حصّۂ اوّل(عربی صفحہ ۳۳))۔

 

۳۴

 

مذکورہ جماعت، جو خدا کی حقیقی مطیع ہے، آلِ ابراہیم کے أئمّۂ طاہرین ہیں، جن کا سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا، اور رسول سے مراد بالعموم آلِ ابراہیمؑ کے سب پیغمبر ہیں اور بالخصوص آنحضرتؐ ہیں، کیونکہ انبیاء أئمّہ کی جنس میں سے ہیں، اور آنحضرتؐ نے خدا کی آیتیں دراصل ان ہی کو ظاہر و باطن میں پڑھ کر سنا دی ہیں، ان ہی کو آسمانی کتاب اور حکمت کی تعلیم دی ہے اور ان ہی کو پاک و پاکیزہ رکھا ہے، تا کہ یہ حضرات أئمّۂ قرآن اور حکمت کی اس خصوصی و معجزانہ تعلیم اور پاکیزگی کے اوصاف سے نورِ امامت کے قابل ہو جائیں، اور قرآنِ پاک کی تاویلی روح سے بندگانِ خدا کو ان کی سعی و کوشش اور حقداری کے مطابق فیضِ ہدایت پہنچاتے رہیں۔

 

اسی حقیقت کی مزید تصدیق و توثیق یہ ہے:۔

وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ (۰۲: ۱۴۳)۔

اور اسی طرح (اے أئمّۂ برحق!) ہم نے تم کو عادل امت بنا دیا، تاکہ لوگوں پر گواہ بنو، اور رسول (محمد) تم پر گواہ بنیں (کتاب “وجہِ دین” حصّۂ دوم صفحہ ۲۰۵ از حضرت پیر ناصر خسرو ۔ تفسیر المتقین ص ۲۵ ، دعائم الاسلام حصّۂ اوّل ص ۳۵۔ نیز سلیم بن قیس سے مروی ہے، کہ حضرت علیؑ نے فرمایا، کہ امتِ عادل اور لوگوں پر گواہ ہم ہیں، اور خاص ہم ہی اس سے مقصودِ خدا ہیں، اور حضرتِ رسولؐ ہم پر گواہ ہیں، اور ہم گواہانِ خدا ہیں، اس کی مخلوق پر، اور اس کی حجت ہیں زمین پر، اور ہم ہی وہ ہیں، جن کے بارے میں خدا نے “کذالک جعلنٰکم امۃ وسطاً” فرمایا ہے، دیکھو شواہد التنزیل ، حاکم ابو القاسم (حاشیۂ ترجمۂ قرآن صفحہ ۳۳ از فرمان علی))۔

 

۳۵

 

وسط کے معنی عاد ل کے علاوہ واسطہ، وسیلہ، ذریعہ اور مرکز بھی ہیں، اور ان تمام معنوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے، کہ بلاشبہ یہ آیت أئمّۂ طاہرین کی شان میں ہے، کیونکہ ہر امام اپنے زمانے میں امت اور رسول کے درمیان واسطہ، وسیلہ اور ذریعہ ہے، نیز لوگوں کا مرکز ہے، اور وہ اسی سبب سے خدا و رسول کی جانب سے لوگوں پر گواہ ہے، اور گواہ کا عربی لفظ “شہید” ہے، جس کے معنی ہیں “حاضر” جس کا مطلب یہ ہے کہ امام لوگوں کے سامنے حاضر رہ کر ان کی ہدایت کرتا ہے، اور ان کے اعمال کا گواہ ہوتا ہے، اور رسول کے ہر امام پر گواہ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرتؐ اپنی نورانیّت میں ہر زمانے کے امام کے سامنے موجود ہیں، جو آسمانی کتاب کے علم و حکمت سکھا دیا کرتے ہیں، نیز رسول امام پر اس بات کے بھی گواہ ہیں کہ امام نے لوگوں کی حقداری کے مطابق ہدایت کر دی۔

 

لفظ “شہید” گواہ کے معنی میں خدا کے ناموں میں بھی ہے اور رسول و امام کے ناموں میں بھی، اور ایسے ہونے سے ہرگز کوئی

 

۳۶

 

تضاد نہیں ہو سکتا، کیونکہ خدا لوگوں پر گواہ رسول کی نسبت سے رسول لوگوں پر گواہ امامِ زمانؑ کی نسبت سے ہیں اور امامِ زمانؑ لوگوں پر گواہ ذاتی طور پر ہیں، اس لئے کہ امامِ زمانؑ لوگوں کے سامنے حاضر ہیں، اور صرف حاضر ہی کا گواہ بننا درست اور عقل کے لئے قابلِ قبول ہے، اور کوئی غائب ذاتی طور پر گواہ نہیں بن سکتا، پس قیامت کے دن شناختِ امام اور ضروری ہدایت کی پرسش کے لئے نیز عدل و انصاف کی غرض سے ہر زمانے کے لوگوں کو اُن کے امامِ وقت کے ساتھ بلایا جائے گا، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔

یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ (۱۷: ۷۱)۔

ظاہر ہے کہ خدا و رسول کی طرف سے لوگوں پر گواہ صحیح معنوں میں أئمّۂ برحق علیہم السّلام ہی ہیں، چونکہ امام لوگوں کے درمیان ہر زمانے میں حاضر و موجود ہے، تاکہ ان کو آسمانی کتاب کی تاویل و حقیقت سے آگاہ کر لیا کرے۔

 

چنانچہ اس آیت پر ذرا غور کرنے سے یہ حقیقت پوری طرح سے واضح ہو جاتی ہے کہ نہ صرف انبیاء علیہم السّلام کے ساتھ بلکہ ان کے بعد بھی ہر زمانے میں سلسلۂ امامت بطورِ گواہ تا قیامت جاری و ساری ہے، وہ آیۂ مبارکہ یہ ہے:۔

وَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ وَ جِایْٓءَ بِالنَّبِیّٖنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ قُضِیَ بَیْنَهُمْ

۳۷

 

بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ (۳۹: ۶۹)۔

اور (قیامت کے روز) زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی اور کتاب رکھ دی جائے گی اور پیغمبر اور گواہ (یعنی أئمّۂ برحق) آئیں گے، اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر (ذرہ برابر) ظلم نہیں کیا جائے گا۔

 

جب یہ ثابت ہوا کہ دنیا میں ہمیشہ قرآن کے ساتھ ساتھ امامِ زمانؑ بھی حاضر و موجود ہیں، تو معلوم ہوا کہ قرآن اور امام لازم و ملزوم ہیں، اس لئے کہ قرآن ہر شخص پر نازل نہیں کیا گیا، بلکہ قانونِ الٰہی کی رو سے یہ ایک کامل انسان پر نازل ہوا، تو یہ امر لازمی ہے، کہ قرآن کی تاویل یعنی حکمت بھی ایک کامل انسان کو دے دی جائے، تا کہ وہی واحد شخص فرمانبرداروں کو قرآنِ پاک کے علم و حکمت کی تعلیم دیا کرے۔

 

کتابِ ناطق

گیارہویں دلیل: ۔

وَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ (۲۳: ۶۲)۔

 

۳۸

 

اور ہمارے پاس ایک ایسی کتاب ہے جو حق و انصاف سے بولتی ہے، اور لوگوں پر (ہماری طرف سے) ظلم نہیں کیا جاتا ہے۔ (ایک روز مولانا مرتضیٰ علی علیہ السّلام قرآن کی تلاوت کر رہے تھے، کہ اس سلسلے میں  یہ آیۂ کریمہ آ گئی: هٰذَا كِتٰبُنَا یَنْطِقُ عَلَیْكُمْ بِالْحَقِّؕ (۴۵: ۲۹) یہ ہماری کتاب تم پر سچ سچ بولتی ہے۔ تو قرآن اپنے سرِ مبارک پر رکھے ہوئے فرمانے لگے: “اے کتابِ الٰہی بولئے، اے کتابِ الٰہی بولئے، اے کتابِ الٰہی بولئے۔” آنجنابؑ کے اس قول کا اشارہ یہ تھا کہ مولا خود ہی کتابِ ناطق تھے اور قرآن کتابِ صامت (المجالس المستنصریہ صفحہ ۱۷۶))۔

 

اس موقع پر سوال پیدا ہوتا ہے، کہ یہ بولنے والی کتاب کونسی ہے؟ اب اگر یہ مانا گیا کہ خدا کی بولنے والی کتاب قرآن کے علاوہ اور اُس سے جدا ہے، اور وہ اس دنیا میں ظاہر نہیں، تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ حق تعالیٰ نے بولنے والی کتاب تو اپنے پاس رکھی اور نہ بولنے والی کتاب دنیا کے گم گشتہ انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجی تاکہ وہ خود اپنی عقلِ نا رسا و ناتمام کے ذریعے ہدایت کی حقیقتوں کو سمجھیں، اور رضائے الٰہی کے مطابق عمل کریں، حالانکہ عقل و دانش اور حق و انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ خدا اپنی رحمت سے انسانوں کی ہدایتِ کلیہ کے لئے کتابِ ناطق اور کتابِ صامت دونوں کو ایک ساتھ بھیجتے، یا کم از کم یہ ہے کہ بولنے والی کتاب بھیجتے تاکہ قیامت کے دن لوگ ہرگز یہ نہ کہہ سکیں کہ اے ہمارے پروردگار! دنیا میں ہماری ہدایت کے لئے وہ سب کچھ موجود اور حاضر نہیں تھا، جو آپ کی رحمت میں ممکن ہے۔

 

یہ سوال اس لئے پیدا ہوا ہے کہ حق تعالیٰ کے اس فرمان کی تعلیم سے ظاہر ہے کہ لوگوں کے دینی اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لئے خدا کاحقیقی ذریعۂ عدل وہ ہے، جو خدا ہی کی طاقت سے خود بولے، جس میں کسی عقلِ ناتمام کا دخل و شرکت ہی نہ ہو، تو لازم آتا ہے کہ ذریعۂ ہدایت بھی اُسی معیار کے مطابق ہونا چاہئے، جس

 

۳۹

 

معیار پر عدل ہوتا ہے یا ہونے والا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے، کہ خدا کی طرف سے جو ذریعہ عدلِ الٰہی کا ہے، وہی ذریعہ ہدایتِ ربّانی کا بھی ہے، پس ایسا ذریعہ قرآن اور امامت کا نور ہے، جو امامِ زمانؑ کی عقل و روح میں ہے، کیونکہ نطق (یعنی بولنا) انسانی عقل و روح کا خاصہ ہے، اور خدا کی نزدیکی پیغمبر اور اُس کے جانشین (یعنی امامِ زمانؑ) کے لئے مخصوص ہے، اور انسانِ کامل کو کتاب کے اسم سے موسوم کرنے کا سبب یہ ہے، کہ اس میں کتابِ سماوی کے علم و حکمت کی روحِ ناطقہ موجود ہوتی ہے، چنانچہ یہ حقیقت اہلِ دانش کے نزدیک مسلّمہ ہے کہ قرآن کی بعض آیتوں میں امام کو کتاب (“وجہِ دین” حصّۂ اوّل کے صفحات: ۲، ۶۴، ۶۵، ۷۶، ۷۷، ۱۰۵، ۱۸۷۔ “وجہِ دین” حصّۂ دوم کے صفحات: ۲۲، ۲۹، ۸۹، ۱۰۱، ۱۲۶، ۱۴۸، ۲۱۱، ۲۱۲۔ “کتاب الکشف” کے صفحات: ۲۰، ۳۰، ۵۱، ۹۵، ۱۲۴، ۱۳۱، ۱۳۲، ۱۴۰، ۱۶۷، ۱۶۸، ۱۷۱، ۱۷۲، ۱۷۳، ۱۷۶۔ “تاریخ دعوۃ الاسماعیلیہ” کے صفحہ ۳۳۳ تا ۳۳۴ پر یہ کلامِ مولا (یعنی خطبۃ البیان) درج ہے کہ: انا ام الکتاب، انا مؤول التاویل، انا حفیظ الالواح، یعنی میں ام الکتاب ہوں، میں آسمانی کتابوں کی تاویل کرنے والا ہوں، میں تختیوں کی حفاظت کرنے والا ہوں (مراد حضرت موسیٰؑ کی تختیاں ہیں، جن پر خدا کی جانب سے توراۃ لکھی ہوئی تھی)۔ نیز “تاویلِ دعائم” حصّۂ اوّل صفحہ ۳۶۳ ، “المجالس المستنصریہ” صفحہ ۱۹۵ اور “المجالس المؤیدیہ” کی مجلس نمبر ۲۳۸ ملاحظہ ہو) اور کتاب کو امام (“راحۃ العقل” صفحہ ۶۸، سورۂ ہود آیت ۱۷ (۱۱: ۱۷)۔ سورۂ احقاف آیت ۱۲ (۴۶: ۱۲)، “تاویل دعائم” حصّۂ اوّل ص ۶۱) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، اس

 

۴۰

 

لئے کہ امام بحدِّ فعل کتاب ہے اور کتاب بحدِّ قوّت امام، جس کی مثال درخت اور اس کا دانہ ہے کہ درخت میں بالفعل دانہ وغیرہ ظاہر ہے، اور دانہ میں درخت بالقوہ پوشیدہ، چنانچہ قرآن میں آیا ہے:۔

اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَ یَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَ مِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰۤى اِمَامًا وَّ رَحْمَةًؕ (۱۱ سورہ۔ ۱۷ آیہ، ۱۱: ۱۷)۔

تو کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے دلیلِ روشن پر ہو، اور اس کے پیچھے ہی پیچھے اُن ہی کا ایک گواہ ہو، اور اس کے قبل موسیٰ کی کتاب (توراۃ) جو (لوگوں کے لئے) امام اور رحمت تھی (اس کی تصدیق کرتی ہو، وہ بہتر ہے یا کوئی دوسرا) اس آیت میں ’’علیٰ بینۃ‘‘ سے مراد حضرت رسول ہیں، اور ’’یتلوہ شاہد منہ‘‘ سے مولانا مرتضیٰ علی مقصود ہیں (’’دعائم الاسلام‘‘ (عربی) جز اول صفحہ ۱۹۔۲۰ ، تفسیر المتقین صفحہ ۲۶۶، تفسیرِ صافی صفحہ ۲۳۲، ارجح المطالب میں صفحہ ۳۶ پر ابن المغازلی، ابن ابی حاتم، ابن عساکر اور سیوطی کی درِ منثور کے حوالے سے مذکورہے: عاد بن عبداللہ الاسیدی کہتے ہیں: میں نے جناب امیر (مولانا علی) کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قریش میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں جس کے حق میں ایک یا دو آیتیں نازل نہ ہوئی ہوں، ایک شخص نے پوچھا آپؑ کے شان میں کون سی آیت نازل ہوئی ہے، جناب امیر غصہ ہو کر فرمانے لگے، اگر تو سب کے سامنے نہ پوچھتا، تو میں ہرگز تجھے نہ بتاتا، افسوس ہے تو نے سورۂ ہود میں (آیہ ۱۷، ۱۱: ۱۷) نہیں پڑھا: افمن کان۔۔۔۔ الخ۔ جناب رسول صلعم تو “علیٰ بینۃ من ربہ” ہیں، “و یتلوہ شاہد منہ” میں ہوں)۔

 

۴۱

 

اس آیۂ مقدّسہ میں ایک خاص مسئلہ یہ ہے کہ جب حضرت رسولؐ کی نبوّت کی تصدیق قرآن سے اگلی تمام آسمانی کتابوں میں کی گئی ہے، تو کیا سبب ہے، جو یہاں خاص طور پر توراۃ ہی کا نام لیا گیا ہے، اس کا صحیح حل یہی ہے کہ حق تعالیٰ نے ہر پیغمبر کے لئے ایک وصی، وزیر اور وارث مقرر فرمایا ہے، چنانچہ بمقتضایٔ حکمت حضرت موسیٰؑ کے قرآنی قصّے میں اس قانونِ الٰہی کا نمایان طور پر تذکرہ ہوا ہے کہ حضرت موسیٰؑ کو جب وادیٔ ایمن میں پہلی بار خدا سے کلام کرنے کا شرف حاصل ہوا اور خدا نے اُسے نبوّت عطا فرمائی، تو موسیٰ علیہ السّلام نے اسی وقت ہی حق تعالیٰ سے عرض و التجا کرکے اپنے بھائی ہارون علیہ السّلام کو اپنا وزیر مقرر کر لیا، اور وزیر کے لغوی معنی ہیں بوجھ بٹانے والا، اور اصطلاحاً وزیر سے وہ شخص مراد ہے، جو کسی دینی یا دنیاوی بادشاہ کے نظامِ سلطنت اور امورِ مملکت میں مددگار و معاون کی حیثیت سے کام کرتا ہو۔

 

پس توراۃ اور موسیٰ کی سنت میں رسول اللہ کی نبوّت کی گواہی اور تصدیق یہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے خدا کی اجازت سے اپنی نبوّت کے آغاز ہی سے ہارون علیہ السّلام کو اپنا وزیر اور وصی مقرر کر لیا، اسی طرح آنحضرتؐ نے بھی اپنی نبوّت کے آغاز ہی میں مولانا علی علیہ السّلام کو اپنا وزیر اور وصی

 

۴۲

 

مقرر فرمایا، جس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ جب وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ (۲۶: ۲۱۴) (اور ڈر سنا لیجئے اپنے قریبی خاندان والوں کو) کی یہ آیت نازل ہوئی، تو آنحضرتؐ نے بنی عبد المطلب کے تمام افراد کو جمع کیا اور ایک ایک کرکے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص میرا وزیر اور وصی ہونا چاہتا ہے، تو کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، اور اخیر میں مولانا علیؑ سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ یا رسول اللہ! اگرچہ میں ان سب سے عمر میں چھوٹا ہوں لیکن میں آپ کا وزیر اور وصی بنوں گا، اور ہر طرح سے آپ کی مدد کروں گا، رسول اللہ نے فرمایا، کہ بے شک اے علی! آپ ہی میرا سب کام کریں گے (بہت سے اثنا عشری اور اسماعیلی علماء نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں اسی قسم کی روایت درج کی ہے، منجملہ سید امداد حسین نے اپنے ترجمۂ قرآن (تفسیر المتقین) کے صفحہ ۴۵۰ پر تفسیرِ صافی صفحہ ۳۶۸ سے بحوالۂ تفسیرِ قمی اس کا ذکر کیا ہے)۔

 

نیز جب رسول اللہ پر حضرت موسیٰؑ کے قصّے کے سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی:۔

وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْ هٰرُوْنَ اَخِی اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْ وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْ (۲۰:  ۲۹ تا ۳۲)۔

تو رسول اللہ نے حق تعالیٰ سے درخواست کی:۔

 

۴۳

 

و انا اقول یا رب کما قال موسیٰ: رَبِّ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْ عَلِیَّا اَخِی اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْ وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْ

اے پروردگار! میں بھی عرض کرتا ہوں، جیسے موسیٰ نے عرض کیا: اے پروردگار ! میرے واسطے میرے خاندان میں سے ایک وزیر مقرر کر دیجئے یعنی علی کو، کہ میرے بھائی ہیں، ان کے ذریعے سے میری قوّت مستحکم کر دیجئے اور ان کو میرے (اس تبلیغ کے) کام میں شریک کر دیجئے (مولوی فرمان علی نے اپنے ترجمۂ قرآن صفحہ ۴۹۹ پر یہ روایت درج کی ہے، اور قاضی نعمان نے دعائم الاسلام جلد اوّل (عربی) کے صفحہ ۱۵ و صفحہ ۱۶ پر)۔

 

اس بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ مولانا ہارونؑ کی وزارت و امامت ہی توراۃ کی امامت ہے، جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ امام کو کتاب اور کتاب کو امام اس لئے کہتے ہیں کہ دونوں کی حقیقت ایک ہی ہے، پس مولانا ہارون کی وزارت و خلافت کے بارے میں قرآن کا جو کچھ ارشاد ہے، وہ مولانا علی کے متعلق بھی ہے، چنانچہ رسولِ برحق کا ارشاد ہے: ۔

یٰا عَلِیُّ اَنۡتَ مَنّیِ بِمَنۡزِلَۃِ ھَارُوۡنَ مِنۡ مُوۡسیٰ اِلّاَ اَنَّہٗ لَا نَبِّیَ بَعۡدَیۡ:۔

اے علی ! تیرا درجہ مجھ سے ایسا ہے، جیسے ہارون کا درجہ موسیٰ سے تھا، مگر یہ کہ میرے بعد پیغمبری نہیں ہے۔

 

۴۴

 

اہلِ ذکر: ۔

بارہویں دلیل: ۔

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْــٴَـلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (۱۶: ۴۳)۔

اور ( اے رسول!) آپ سے پہلے صرف آدمیوں ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا کئے، جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے، تو (تم اہلِ مکہ سے کہو کہ) اگر تم خود نہیں جانتے ہو، تو اہلِ ذکر (یعنی أئمّۂ برحق) سے پوچھو۔

 

اہل الذکر سے آنحضرتؐ کے اہلِ بیت مراد ہیں (تفسیر المتقین صفحہ ۳۲۴ پر مرقوم ہے:۔ “تفسیرِ صافی صفحہ ۲۷۷ پر بحوالۂ کافی و تفسیرِ عیاشی اور تفسیرِ قمی أئمّۂ معصومین علیہم السّلام سے بہت سی حدیثیں وارد ہیں، کہ الذکر سے مراد رسول اللہ صلعم ہیں اور اہل الذکر سے آلِ رسولؐ مراد ہیں، اور امت اس بات پر مامور کی گئی ہے کہ جو کچھ وہ نہ جانتے ہوں، آلِ رسولِ خدا صلعم سے دریافت کر لیں۔” نیز کتاب “دعائم الاسلام” حصّۂ اوّل (عربی) کے ص ۲۲ پر دیکھو)، جن سے لوگوں کو علم و حکمت کی باتیں پوچھنے کے لئے فرمایا گیا ہے، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔

قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكُمْ ذِكْرًا  رَّسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ (۶۵: ۱۰ تا ۱۱)۔

 

۴۵

 

دوسرے اعتبار سے “الذکر” قرآن ہے، اور اہل الذکر (یعنی اہلِ قرآن) آلِ محمد ہیں، مذکورہ بالا ارشاد (اہلِ ذکر سے پوچھو) کا یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ لوگ مذکورہ فرمان کے بموجب آلِ محمد سے پوچھنے اور علم و حکمت حاصل کرنے کے لئے مامور ہیں، مگر آلِ محمد لوگوں سے پوچھنے کے لئے مامور نہیں۔

 

اب متذکرۂ بالا حقیقتوں کی روشنی میں یہ ماننا کوئی مشکل نہیں کہ نورِ امامت یقینی طور پر نبوّت و رسالت اور تنزیل کے حقائق سے بخوبی واقف اور آشنا ہے، آسمانی کتابوں کے ظاہر و باطن کو اصل و بنیاد ہی سے جانتا ہے اور علمِ دین کے ہر سوال کا جواب دے سکتا ہے، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا، تو حق تعالیٰ مذکورۂ بالا آیت کے مفہوم میں لوگوں سے یہ نہ فرماتا کہ اگر تم ہمارے پیغمبر کی نبوّت و رسالت اور نزولِ وحی کے بارے میں شک کرتے ہو، تو تم اہلِ ذکر یعنی اپنے زمانے کے امام سے پوچھو کہ خدا نے کیوں کسی فرشتے کو اپنا رسول بنا کرنہیں بھیجا؟ اور اگر بشر ہی کو رسول بنا کر بشر کی طرف بھیجا ہے، تو اس میں مقابلۃً کیا کیا خوبیاں ہو سکتی ہیں؟

 

یہ اور ان جیسے بنیادی قسم کے تمام مشکل سوالات، جن کے حل کرنے میں تنزیل و تاویل کے دوسرے سب ذیلی سوالات خود بخود حل ہو سکتے ہیں، صرف اہلِ ذکر یعنی أئمّۂ طاہرین ہی سے حل کئے جا سکتے ہیں، چنانچہ بزرگانِ دین نے اپنے اپنے زمانے کے امام سے ظاہراً و باطناً جس طرح پوچھنا تھا پوچھ لیا، یہی سبب ہے کہ بزرگانِ دین قرآنی

 

۴۶

 

مشکلات پر قادر ہوا کرتے ہیں اور جاننا چاہئے کہ پوچھنے کی واحد شرط أئمّۂ برحق کی حقیقی تابعداری ہے، ورنہ بغیر تابعداری کے پوچھنے سے کوئی علم حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

 

اس بارے میں قانونِ الٰہی اور سنتِ نبوّی کی ایک مثال یہ ہے کہ جب غیر مسلم آنحضرتؐ سے کوئی سوال کرتے تھے، تو اس کا جواب یا تو کسی آیت کے نزول سے دیا جاتا تھا یا آنحضرتؐ کے قول سے، مگر یہ جواب حکمت کے اصول پر مبنی ہوتا تھا، تاکہ اس کا علمی فائدہ صرف اہلِ حکمت ہی کو حاصل ہو، چنانچہ کچھ عیسائیوں نے جب آنحضرتؐ سے روح کی ماہیّت و حقیقت کے بارے میں پوچھا، تو خدا نے ارشاد فرمایا:۔

وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ-قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا (۱۷: ۸۵)۔

(اے رسول!) آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجئے کہ روح میرے پروردگار کے امر سے ہے، اور تم کو تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔

 

اب اس جواب میں بظاہر حقیقتِ روح کی کوئی تفصیل نظر نہیں آتی، پس جن لوگوں نے رسول کی حقیقی فرمانبرداری کے بغیر یہ سوال کیا تھا، ان کو ایسے سوال کے جواب سے کوئی علم حاصل نہیں ہوا، اس کے برعکس جو رسول اور امامِ برحقؑ کے حقیقی تابعدار ہیں، ان کو اس آیۂ

 

۴۷

 

مقدسہ کے مطالعہ سے روح کے علم و عرفان کا ایک دروازہ کھلتا ہے، وہ اس طرح کہ بقا و فنا یا کہ ثبات و بے ثبات کے لحاظ سے دو قسم کے عالم ہیں، ایک کو عالمِ امر کہا جاتا ہے اور دوسرے کو عالمِ خلق (اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُؕ-تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ (۰۷: ۵۴)، آگاہ رہو کہ عالمِ خلق اور عالمِ امر اُسی کے لئے ہیں، اللہ تعالیٰ کل جہانوں کا پرورش کرنے والا صاحبِ برکت ہے۔ عالمِ امر= عالمِ ارواح، عالمِ ملائکہ، جو بلا مادّہ اور بغیر مدت حق تعالیٰ کے فرمان سے وجود میں آیا۔ عالمِ خلق= یہ جہان، جو مادّہ سے پیدا کیا گیا)، اور یہ دونوں عالم ایک دوسرے کے برعکس و متضاد ہیں، چنانچہ یہ عالم حادث ہے اور وہ عالم قدیم، یہ محدود ہے اور وہ غیر محدود، یہ خاموش ہے اور وہ گویا، یہ بے شعور ہے اور وہ باشعور، یہ ناقص ہے اور وہ کامل، یہ بے جان ہے اور وہ زندہ، اور یہ زمان و مکان کے تحت ہے، مگر وہ زمان و مکان سے برتر۔

 

پس حق تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ “( اے رسول! ) کہہ دیجئے کہ روح میرے پروردگار کے امر سے ہے۔” اس اصول کی تعلیم ہے کہ روح عالمِ خلق سے نہیں، بلکہ عالمِ امر سے ہے، اس لئے قیاسِ ضد کے تصوّر سے کام لیتے ہوئے عالمِ خلق کی چیزوں سے روح کی حقیقتیں معلوم کر لی جا سکتی ہیں، نیز اس ارشاد میں یہ تعلیم بھی ہے کہ قرآنِ پاک میں جہاں جہاں لفظِ امر

 

۴۸

 

آیا ہے (قرآنِ شریف میں قیاسِ ضد کے اصول کے علاوہ امر، نور، روح اور نفس کے عنوانات میں تقریباً ۵۱۹ دفعہ روح کا بیان آیا ہے، جو اکثر تاویلی صورت میں ہے)، وہاں سے بنظرِ غائر روح کی حقیقتیں معلوم کر لی جا سکتی ہیں، اس بیان سے یہ ثابت ہوا کہ دراصل پیغمبرؐ اور امامِ زمانؑ سے علم کی باتیں پوچھنا یہ ہے کہ ان کی فرمانبرداری کی جائے، کیونکہ پیغمبرؐ اور امامِ زمانؑ کی خاصیت فرمانبرداروں کو علم دینا ہے۔

 

جب یہ ثابت کیا گیا کہ قرآن اور نورِ امامت اس لئے ایک دوسرے سے جدا نہیں، تاکہ خدا کی اس مکمل ترین ذریعۂ ہدایت سے (جو کتابِ الٰہی اور اس کے قدرتی معلم کی حیثیت میں موجود ہے) عوام و خواص میں سے ہر شخص کو اس کی کوشش اور حقداری کے مطابق خدا کی ظاہری و باطنی ہدایت ملتی رہے،اور شناختِ ذات و منزلِ نجات کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہونے پائے، جیسا کہ اس ارشادِ الٰہی سے یہ قانون ظاہر ہے: ” وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍؕ (۲۲: ۷۸) اور خدا نے امورِ دین میں تمہارے لئے کسی طرح کی رکاوٹ نہیں کر رکھی ہے” (یعنی دینی ہدایت کا ذریعہ ظاہراً و باطناً مکمل ہے، چنانچہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے: اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ (۰۵: ۰۳) میں نے آج کے دن تمہارے دین کو تمہارے لئے کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور میں نے تمہارے لئے دینِ اسلام کو پسند کر لیا۔ دیکھو تفسیر المتقین صفحہ ۱۲۷، اساس التاویل صفحہ ۳۵۶ اور وجہِ دین حصۂ اول ص ۱۷۰)۔

 

۴۹

 

اب مناسب یہ ہے کہ مذکورہ حقائق کی روشنی میں عملی تاویل کی کوئی ایسی مثال بیان کی جائے کہ جس سے ہر دانشمند کو بخوبی اندازہ ہو سکے کہ تنزیل اور تاویل کے درمیان کتنا بڑا فرق پایا جاتا ہے، اور کس طرح نورِ امامت ہر زمانے کے حقیقی مومنوں کو تاویل کی روشنی پہنچاتا رہتا ہے، چنانچہ حکیم سید پیر ناصر خسرو اپنی پُرحکمت کتاب “وجہِ دین” میں مندرجۂ ذیل آیت کی تاویل لکھتے ہیں:۔

وَ التِّیْنِ وَ الزَّیْتُوْنِ وَ طُوْرِ سِیْنِیْنَ وَ هٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ (۹۵: ۰۱ تا ۰۳)۔

قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور طورِ سینین کی اور اس امن والے شہر کی (وجہِ دین حصۂ اول (اردو) صفحہ ۱۰۳ تا صفحہ ۱۰۵ ملاحظہ ہو۔ “کتاب الکشف” ص ۲۴ پر مذکور ہے کہ و التین و الزیتون سے حسنین علیہما السّلام مراد ہیں، اور تاویلی اسرار سے بعید نہیں، کہ حسن اور حسین سے عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کے انوار ظہور پذیر ہوں، کیونکہ آپ دونوں حضرات محمدؐ و علیؑ کی اصل سے ہیں، جس طرح انجیر اور زیتون پہاڑ اور شہر میں پیدا ہوتے ہیں)۔

 

اس آیۂ کریمہ کی تنزیل یعنی ظاہری معنی سے اہلِ دانش کو تعجب ہو سکتا ہے، اس لئے کہ بوقتِ ضرورت اصولاً کسی ایسی چیز کی قسم کھائی جاتی

 

۵۰

 

ہے، جو دینی طور پر واجب الاحترام ہو، مگر حق تعالیٰ خود اس آیۂ مقدسہ میں جمادات اور نباتات جیسی معمولی اور بے جان چیزوں کی قسم کھاتا ہے، جبکہ ہمیں یہ فرماتا ہے کہ تم سورج، چاند وغیرہ جیسے مظاہرِ قدرت کی تعظیم و تکریم مت کیا کرو، کیونکہ یہ چیزیں خالق نہیں، بلکہ مخلوقات میں سے ہیں، پس یہ مسئلہ کہ مذکورہ چیزیں خدا کے نزدیک کن معنوں میں قابلِ حرمت ہیں، صرف تاویل ہی سے حل کیا جا سکتا ہے، چنانچہ آیۂ مذکورہ کی اس تاویل پر ذرا غور و فکر کیجئے:۔

 

انجیر:۔

انجیر سے اللہ تعالیٰ کی مراد عقلِ کلّ ہے، جو کسی واسطہ کے بغیر کلمۂ باری یعنی امرِ”کُنۡ” سے ملا ہوا ہے، اور عقلِ کل کو انجیر اس لئے کہا کہ انجیر کا بیرونی و اندرونی حصہ سب کے سب کھانے کے قابل ہے، چنانچہ اس کو کھاتے وقت انسانی طبیعت اس کی کوئی چیز واپس نہیں کرتی بلکہ اسے قبول کرتی اور پورے انجیر کو اپنی مرغوب غذا بنا لیتی ہے، جس طرح کوئی پاکیزہ نفس عقل کے بارے میں کوئی شک نہیں رکھتا۔

 

زیتون:۔

زیتون (جو ایک میوہ ہے) نفسِ کلّ کی مثال ہے، اور اس کی مثال زیتون سے اس لئے دی گئی ہے کہ زیتون کا کچھ حصہ تو کھانے

 

۵۱

 

کے قابل ہے، جیسے گودا اور تیل، اور کچھ حصہ پھینک دینے کے قابل ہے، جیسے گٹھلی کا چھلکا اور پھوک، جس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر وہ نفس، جو پاکیزہ ہو، عقل کے فرمان کی اطاعت کرتا ہے، اور وہی نفس زیتون کے تیل اور پھل کی طرح، جو کھانے کے قابل ہیں، عقل کے نزدیک پسندیدہ اور مقبول ہو جاتا ہے، اس کے برعکس ہر وہ نفس، جو ناپاک اور فرومایہ ہو، عقل کے فرمان کی اطاعت نہیں کرتا، نہ وہ رک جاتا ہے جس چیز سے عقل اُسے روک لینا چاہتی ہے، وہ عقل کے فوائد قبول نہیں کرتا اور اپنی خواہشات کے پیچھے چلتا ہے، پس ایسا نفس زیتون کی گٹھلی کے چھلکوں اور پھوک کی طرح دھتکارا ہوا، پھینکا ہوا اور ذلیل کیا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ جس سے بعض نفوس کو ثواب اور بعض کو عذاب لازمی ہوا۔

 

طورِ سینین:۔

طورِ سینین ناطق (یعنی حضرت محمدؐ) کی مثال ہے، کیونکہ آنحضرتؐ نے نفسِ کلّ کے فوائد کو پوشیدہ طور پر قبول کیا ہے، جس طرح پہاڑ اپنے اندر معدنیات پیدا کرنے کے سلسلے میں سورج اور ستاروں کے اثرات کو پوشیدہ طور پر قبول کرتا ہے، اور آنحضرتؐ نے نفسِ کلّ کے یہ فوائد دنیا والوں کو شریعت کے ذریعے پہنچا دیا، اور اساس یعنی اپنا جانشین (علیؑ) مقرر کر دیا، تا کہ آنجناب شریعت کی تاویل لوگوں کو پہنچاتے رہیں، چنانچہ طورِ سینین ایک پہاڑ ہے، جس کا ظاہر بدنما، کھردرا اور سیاہ ہے کہ ہمیشہ

 

۵۲

 

کے لئے سامنے کھڑا نظر آنے کی وجہ سے دیکھنے والے کو اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے، مگر اس پہاڑ کے اندر ایسے گرانمایہ اور بیش بہا جواہر اور معدنیات ہیں کہ دیکھنے والوں کو ان کے دیکھنے سے مسرت حاصل ہوتی ہے، جیسے یاقوت، زمرد، بیجادہ، سونا، چاندی، پیتل، تانبا اور دوسرے جواہر۔

 

پس اسی طرح ناطق کی شریعت میں ظاہراً شک اور اختلاف پایا جاتا ہے، اس لئے دانشمند کواس کے قبول کرنے میں مشکل ہوتی ہے، مگر جب تاویل کے ذریعے وہ اس کے حقائق تک رسا ہو جائے، اور اس کے معنوں کو سمجھے، تو دانشمند کا نفس اسے قبول کرتا اور مطمئن ہو جاتا ہے۔

 

امن کا شہر:۔

امن کا شہر اساس (یعنی مولانا علی) کی مثال ہے، کیونکہ آنجناب کے ذریعے دانشمند کو ظاہر کے شکوک و شبہات سے امن ملا ہے، اور جو کوئی اُن کی تاویل تک نہیں پہنچ سکا، تو وہ اختلافات اور شبہات کے راستے پر چلنے لگا، اور جو شخص ان کی تاویل تک رسا ہوا، تو وہ ظاہری اختلافات سے چھٹکارا پایا۔

 

اللہ تعالیٰ نے جن مذکورہ چار چیزوں کی قسم کھائی ہے، ان میں سے دو چیزیں اُگنے والی ہیں، اور دو چیزیں جگہیں ہیں، اور کسی جگہ کے بغیر اُگنے والی چیز کا اگنا ناممکن ہے، پھر اس کے یہ معنی ہوئے کہ عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ روحانی ہیں،

 

۵۳

 

جیسے نباتات کی روح ہوتی ہے، اور ناطق و اساس (علیہما السّلام) جسمانی ہیں، مگر یہ دونوں نبات (یعنی انجیر و زیتون) پہاڑ اور شہر میں پیدا ہوتی ہیں، اسی طرح عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کے فوائد و انوار ناطق اور اساس ہی کے ذریعہ ظہور پذیر ہو جاتے ہیں۔

 

مذکورہ روحانی اور جسمانی دونوں قسم کے میوؤں کی لذت صرف وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں، جو ان میوؤں کو کھاتے ہوں ۔

 

والتین و الزیتون (قرآنِ مجید کی چند آیتوں میں زیتون کا ذکر آیا ہے، وہ یہ ہیں: ۰۶: ۹۹، ۰۶: ۱۴۱، ۱۶: ۱۱، ۹۵: ۰۱، ۸۰: ۲۹، ۲۴: ۳۵۔ ان میں سے مذکورۂ بالا  ۹۵: ۰۱ کے بعد ۲۴: ۳۵ زیادہ ضروری ہے، جس کی مختصر تاویل مندرجۂ ذیل کتبِ مقدّسہ میں موجود ہے:۔ تفسیر المتقین ص ۴۲۴ بحوالۂ تفسیرِ صافی ص ۳۵۱، ترجمۂ قرآن مولوی فرمان علی ص ۵۶۵، وجہِ دین حصّۂ اوّل ص ۱۱۱ و ص ۱۱۲) دونوں اسم ایک ایک لفظ ہیں، و طورِ سینین و ہٰذا البلد الامین دونوں دو دو لفظ ہیں، اور یہ اس لئے ایسا ہے، تاکہ دانشمند یہ اشارہ سمجھ سکے، کہ عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ، جو روحانی ہیں، ایک ہی حالت پر قائم ہیں، اور ناطق و اساس، جو جسم اور روح دونوں رکھتے ہیں، دو حالتوں کے مالک ہیں۔

 

خاتمہ:۔

اب اس موضوع کے شروع سے لے کر اخیر تک جو مدلل تفصیلات

 

۵۴

 

مندرج ہوئیں، اُن سے یہ حقیقت پایۂ ثبوت تک پہنچ گئی کہ قرآن اور امامت دو ایسی مقدّس چیزیں ہیں، جن کے علمی وجود کو ایک دوسرے سے جدا ثابت نہیں کیا جا سکتا، اور ان دونوں کی یہ دائمی باہمی وابستگی حق تعالیٰ کی طرف سے ہے، تاکہ جن مومنین کو توفیق ہو، وہ امامِ حیّ و حاضر کے مبارک و مقدّس فرامین کی روشنی میں قرآن کے علم و حکمت حاصل کر لیا کریں، اور اسماعیلی پیروں اور بزرگوں نے بالکل ایسا ہی کرکے دکھایا، چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں، کہ اُن حضرات کے علمی آثار قرآنی حکمتوں سے بھرپور ہیں، پس کسی قوم اور مذہب کی اس سے بڑھ کر اور کیا خوش نصیبی ہو سکتی ہے، جس کا سردار محمدؐ و علیؑ کا نور، کلامِ الٰہی کا ترجمان اور امامِ برحق ہیں، الحمد للہ ربِّ العالمین۔

ختم شد۔

 

۵۵

قرآنِ پاک اسمِ اعظم میں

قرآنِ پاک اسمِ اعظم میں

امامِ اوّلین و آخرین

(انتساب)

۱۔ اے نورِ عینِ من! (یعنی عزیز) مجھے یقین ہے کہ آپ علیٔ زمان صلواۃ اللہ علیہ وسلامہٗ کے علمِ باطن سے بیحد شادمان اور خرسند ہیں، کیوں نہ ہو جبکہ اسی علم میں دینِ اسلام کے اسرارِ عظیم پنہان ہیں اور اسی علم کے حصول سے اہلِ ایمان کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی خوشنودی حاصل ہوسکتی ہے، پس اے نورِ چشمِ من! آپ ان گرانمایہ حقیقتوں اور معرفتوں کو بھرپور توجہ اور شوق سے سن لیں۔

 

۲۔ حدیثِ شریف ہے: نَزَلَ الْقُرْاٰنُ عَلیٰ سَبْعَۃِ اَحْرُفٍ یعنی قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے۔ الاتقان میں ہے کہ اس حدیث کے معنی میں چالیس ۴۰ کے قریب مختلف اقوال آئے ہیں، میں عرض کرتا ہوں کہ جن سات حرفوں پر قرآن نازل ہوا ہے وہ درجِ ذیل ہیں:

حرفِ اوّل حضرتِ آدمؑ، حرفِ دوم حضرتِ نوحؑ، حرفِ سوم حضرتِ ابراہیمؑ، حرفِ چہارم حضرتِ موسیٰؑ، حرفِ پنجم حضرتِ عیسٰیؑ، حرفِ ششم حضرتِ محمدؐ، اور حرفِ ہفتم حضرتِ قائمؑ، یہ قرآنِ حکیم کے وہ سات زندہ حروف ہیں،

 

۳

 

جن پر قرآن نازل ہوا، جس کی وضاحت اس طرح ہے:

 

مذکورہ حدیث میں حرف سے باطنی اور تاویلی معنی مراد ہیں، پس قرآن کے سات تاویلات ہیں: تاویلِ آدمؑ تاویلِ نوحؑ، تاویلِ ابراہیمؑ، تاویلِ موسیٰؑ، تاویلِ عیسیٰؑ، تاویلِ محمدؐ، اور تاویلِ قائمؑ، ہر تاویل سر تا سر قرآن عزیز میں پھیلی ہوئی ہے، جیسے سورۂ اسراء (۱۷: ۸۹) اور سورۂ کھف (۱۸: ۵۴) میں یہ مفہوم ہے کہ اللہ ایک ہی حقیقت کی طرح طرح سے مثالیں بیان فرماتا ہے۔

 

۳۔ قرآن کی روحانیّت و عقلانیّت شروع سے لے کر آخر تک ایک جیسی ہے، مگر اس کی بنیادی اور بڑی مثالیں صاحبانِ ادوار کے اعتبار سے ساتھ قسم کی ہیں، اور لازمی طور پر ان کی تاویلیں بھی سات ہیں، پس اسی وجہ سے فرمایا گیا کہ قرآن سات حرفوں (یعنی سات تاویلی معنوں) پر نازل ہوا ہے۔ چنانچہ ہم یہاں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی مثال کو دیکھتے ہیں کہ خداوند عالم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:

 

قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (۰۲: ۱۲۴) خدا نے (ابراہیمؑ سے) فرمایا کہ میں تم کو لوگوں کا امام (پیشوا) بنانے والا ہوں۔ یعنی نہ صرف حاضرین ہی کا امام بلکہ اوّلین و آخرین کا بھی، اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں امام کا ہونا لوگوں پر اللہ کا احسان تھا تو پھر اوّلین و آخرین پر یہ احسانِ عظیم کیوں نہ ہو، دوسری دلیل لفظِ “الناس” ہے، یعنی خدا کا حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو لوگوں کے لئے امام بنانا،

 

۴

 

یہ لفظ درحقیقت محدود نہیں مطلق ہے، یعنی اس سے ہر زمانے کے لوگ مراد ہیں، چنانچہ اللہ جلّ جلالہٗ یہ چاہتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو نہ صرف محدود وقت کے لئے امام بنائے بلکہ حقیقت سے حجاب ہٹا کر یہ ظاہر کردے کہ اس کو اپنے آباؤ اجداد کی حیثیت میں بھی امامت عطا ہوئی تھی، اور آئندہ نسل میں بھی یہ مرتبہ ملنے والا ہے، پس یہ قرآنِ حکیم کی تیسری تاویل کی ایک روشن مثال ہے۔

۴۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے والدین کی نگاہوں میں کتنے حسین لگتے ہیں، یہ تو روضۂ آدمیّت کے دل آویز غنچے ہیں، اس لئے ان کو سب چاہتے ہیں، انارکلی ہو یا غنچۂ گل سرخ یا شگوفۂ گلِ سوری یا کچھ اور نو عروسانِ چمن (تازہ کلیاں) وہ خوش منظر اور دلکش ضرور ہیں، لیکن پیارے پیارے بچوں کی طرح ہرگز نہیں، ادارۂ عارف کے نائب صدر محیّ الدین (ابنِ شاہ صوفی ابنِ خلیفہ قدیر شاہ ابنِ حیدر محمد) کی سات سالہ بیٹی سارہ، پانچ سالہ بیٹا قدیر شاہ، اور دوسالہ بیٹی سدرہ کا ذکرِ جمیل ہے، الحمد للہ ان عزیز بچوں کی نعمت پر ان کے والدِ محترم اور دونوں فرشتہ خصلت مائیں بیحد شادمان اور شکر گزار ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ھ۔

کراچی

چہار شنبہ ۱۱۔ ذی القعد ۱۴۱۵ھ

۱۲۔ اپریل ۱۹۹۵ء

 

۵

 

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

 

سوالیہ تشویق و ترغیب

 

۱۔ کیا اسمِ اعظم اپنی باطنیّت و حقیقت میں ایک زندہ نور اور ایک علم و حکمت کی بولتی کائنات ہے؟ آیا یہ درست ہے کہ دراصل اسمِ اعظم کی روح و روحانیّت قرآنِ پاک ہی کی روح و روحانیّت ہے؟

 

۲۔ نزولِ قرآن کے کیا کیا مقاصد تھے یا ہیں؟ اور اس کا سب سے عظیم مقصد یا سب سے اعلیٰ مقصد کیا ہوسکتا ہے؟ یہاں تحصیل و تکمیلِ مقاصد کے لئے کیا کیا شرائط اور وسائل مقرر ہیں؟

 

۳۔ کلامِ الہٰی (قرآن) محدود ہے یا غیر محدود؟ قرآن مجید امرِ کلّ یعنی کلمۂ کُنۡ میں بھی ہے، عقلِ کلّ (قلمِ اعلیٰ) میں بھی، نفسِ کلّ (لوحِ محفوظ) میں بھی ہے، کیونکہ یہ کتابِ سماوی اور نورِ امامت بفرمودۂ رسولِ اکرمؐ اللہ وہ رسی ہیں جو بندوں کے عروج و ارتقاء اور وصال کی خاطر آسمان اور زمین کے درمیان لگائی ہوئی ہے (سَبَباً مَوْصُوْلاً مِنَ السَّمَائِ اِلَی الْاَرْضِ ۔ شرح الاخبار، جزء العاشر، ص ۴۸۱) جس کا آسمانی سرا خدا کے ہاتھ میں ہے اور زمینی سرا لوگوں کے سامنے، اس روشن بیان سے یہ یقین آیا کہ اللہ کی رسی جو قرآن اور امام کی

 

۷

 

حیثیت میں ہے اس سے کوئی بھی اعلیٰ مرتبہ جدا نہیں، نہ امرِ کُنۡ، نہ عقلِ کُلّ، نہ نفسِ کُلّ، نہ وحی کے دوسرے فرشتے، وغیرہ۔

 

۴۔ مذکورۂ بالا وضاحت کی روشنی میں کیا یہ حقیقت نکھر کر سامنے نہیں آتی کہ یہی رسی آسمانی سیڑھی بھی ہے اور صراطِ مستقیم بھی؟ یہی ھادیٔ برحق بھی ہے اور ہدایتِ حقہ بھی؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ جس طرح قرآنِ حکیم میں یقیناً اسمِ اعظم پوشیدہ ہے اسی طرح اسمِ اعظم میں قرآنِ عظیم لپٹیا ہوا ہو؟ کیونکہ عالمِ وحدت کی ہر چیز میں سب چیزیں جمع ہوتی ہیں۔

 

۵۔ اسمِ اعظم تمام اسماء سے بڑھ کر ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ زندہ اور گویندہ ہے، جس سے پیغمبرؐ اور امامؑ مراد ہیں، جو جسماً، روحاً و عقلاً بے مثال ہیں، خدا کے ایسے اسمِ اکبر میں کئی بزرگ اسماء جمع ہو جاتے ہیں، لہٰذا اسمِ واحد کو قرآنِ کریم میں اسماءُ الحسنیٰ کہا گیا ہے، اسمِ اعظم کی تجلّیات، (ظہورات) میں ہر نوع کا باطنی، روحانی، عقلی، علمی، اور عرفانی حسن و جمال بدرجۂ کمال پایا جاتا ہے، اور یہ اسماءُ الحسنیٰ کی ایک مختصر تفسیر ہے۔

 

۶۔ اسمِ اعظم میں نہ صرف قرآن ہی پوشیدہ ہے بلکہ اس میں قیامت اور بہشت بھی پنہان ہے، جبکہ خدا کے اس نورانی نام کے ذکر میں قیامت خیز انقلاب اور روحانی و عقلانی ترقی پوشیدہ ہے، یہ عقلمندی سے سوچنے کی بات ہے کہ اگر قرآنِ حکیم اور دینِ اسلام میں اسمِ اعظم ایک مسلّمہ حقیقت ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب سے افضل و اعلیٰ

 

۸

 

ذکر اسمِ اعظم ہی ہے، اسی وجہ سے ارشاد ہوا:

وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۔ اور حسن و خوبی سے بھرے ہوئے (بزرگ) نام اللہ ہی کے خاص ہیں پس اُسے انہی ناموں سے پکارو (۰۷: ۱۸۰) پھر ذکر و عبادت اور گریہ و مناجات کی ہر چیز اسی وسیلے سے کیوں نہ ہو۔

۷۔ دنیا میں ہمیشہ ہر ہوشمند شخص یہی چاہتا ہے کہ اس کا کام بہ (اچھا) سے بہتر اور بہتر سے بہترین ہو، جس کے لئے وہ بہترین طریقِ کار کو ڈھونڈ لیتا ہے، چنانچہ خداوندِ قدوس نے اپنے دوستوں کے لئے دین میں عمدہ سے عمدہ اور خاص سے خاص نعمتیں رکھ دی ہیں، اے نورِ عینِ من! آپ سب عزیزان ان تمام آیاتِ مبارکہ کو خوب غور سے پڑھ لیں جو احسن اور حسنیٰ کے موضوع سے متعلق ہیں، یہ دونوں اسمِ تفضیل ۵۳=۱۷+۳۶مقامات پر ملیں گے، کیونکہ اس لفظ (احسن/حسنیٰ) میں اسمِ بزرگ یعنی اسماءُ الحسنیٰ کی تعریف و توصیف بھی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اس حقیقت کا ثبوت بھی ہے کہ دینِ فطرت (اسلام) میں قول و فعل اور علم کے درجات ہیں، تاکہ ہر آدمی درجہ بدرجہ روحانی ترقی کرسکے۔

 

۸۔ اے نورِ عینِ من! کیا دینِ اسلام کا ایک پیارا نام “صراطِ مستقیم” نہیں ہے؟ کیا اِس راہِ راست پر آگے سے آگے جانے اور ترقی کرنے کا حکم نہیں ہے؟ اے عزیزانِ من! آیا قرآنِ حکیم میں یہ ارشاد نہیں

 

۹

 

ہے کہ لوگ مختلف درجوں میں ہوا کرتے ہیں           (۰۶: ۱۶۵)؟ یہ بات دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے درست ہے، اے نورِ چشمِ من! قرآن و حدیث میں سیڑھی (معراج) کی مثال بڑی پُرحکمت ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ فہم بھی ہے، چنانچہ ایک فردِ مسلّم کی مدتِ حیات اس کے روحانی عروج کے لئے سیڑھی ہے، لیکن یہ نہیں معلوم کے اس نردبانِ آسمان پر ہر شخص کی کیا ترقی ہے، اسی طرح امتِ مسلمہ کی عمر جو قیامت تک ہے وہ اس کی ارتقائی سیڑھی ہے۔

 

۹۔ اگر یہ حقیقت تسلیم کرلی جائے کہ کائنات کے بے شمار ستاروں پر لطیف زندگی اور بہشت موجود ہے تو اس صورت میں روحانی سیڑھی کی مثال زیادہ قابلِ فہم ہوجائے گی، آپ قرآن پاک میں سورۂ اعراف کی آیۂ چہلم (۴۰) کو خوب غور سے پڑھ لیں، جس میں ستاروں پر بہشت کی موجودگی اور جسمِ لطیف کی سلطنت کا پر حکمت اشارہ نمایان ہے،

ترجمۂ آیت:

بیشک جن لوگوں نے ہماری آیات (ھادیٔ برحق) کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا نہ ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ بہشت میں داخل ہونے پائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں ہوکر نکل جائے (۰۷: ۴۰) اس آیۂ شریفہ کی عظیم حکمتوں میں سے چند یہ ہیں:

(الف) یہاں خدا کی آیات سے ھادیٔ زمان مراد ہے جس کو بہت

 

۱۰

 

سے لوگ جھٹلاتے ہیں، کیونکہ وہ تکبر کرتے ہیں، یعنی وہ اس کو بے علم اور خود کو بڑا عالم سمجھتے ہیں۔

 

(ب) ایسے لوگوں پر آسمانِ روحانیّت کے ابواب مفتوح نہیں ہوتے اور نہ وہ بہشت میں داخل ہوسکتے ہیں۔

 

(ج) اونٹ یہاں بڑائی کی علامت ہے، سوئی امام کی مثالوں میں سے ہے کہ وہ اہلِ ایمان کے لئے جامۂ جنت (جسمِ لطیف) تیار کرتا ہے، پس اونٹ کا سوئی کے ناکہ میں ہوکر نکل جانا یہ ہے کہ ہر نیک بخت شخص دعوتِ حق کے لئے اپنی خودی اور بڑائی کو قربان کردیتا ہے تاکہ اس کی روح کو ذرات بناکر امام صلوات اللہ علیہ کے باطن اور عالمِ ذرّ میں داخل کردیا جائے۔

 

(د) دعوتِ حق قبول کرنے کے بعد عاجزی بھری ہوئی اطاعت، اور علم و عبادت کے نتیجے میں آسمانی سیڑھی (معراج) اور فتحِ ابوابِ سماء نصیب ہوجاتی ہے۔

 

۱۰۔ اے نورِ چشمِ من! بہشت مکانی بھی ہے اور لامکانی بھی، تو کیا سورۂ اعراف کی آیۂ چہلم ۴۰ (۰۷: ۴۰) سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ستاروں پر مکانی بہشت آباد ہے، جہاں جثہ ابداعیہ کے لئے ہر گونہ نعمتیں مہیا ہیں؟ یقیناً یہی حقیقت ہے، کیونکہ اس پر قرآن و حدیث اور عقل کی بہت سی دلیلیں ہیں، جیسے سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۲) میں ارشاد ہے: وَفِي السَّمَاۗءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ۔ اور تمہاری روزی

 

۱۱

 

اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ آسمان میں ہے۔ اس کا اطلاق روحانی آسمان پر بھی ہوجاتا ہے۔

 

۱۱۔ اے دوستانِ عزیز! قرآنِ پاک کی زندہ روح و روحانیّت کی معرفت اسماءُ الحسنیٰ کے سوا ممکن ہی نہیں، یعنی اسمِ اعظم ہی ہے جس کے وسیلے سے اہلِ ایمان عالمِ باطن کا مشاہدہ کرسکتے ہیں، جب حضرتِ ربّ کی معرفت ممکن ہے تو پھر قرآن کی معرفت بھی ممکن ہی ہے، لیکن اللہ کو اس کے بزرگ ترین اسم سے اصولی طور پر یاد کرنے کے ساتھ ساتھ علم الیقین کی بھی سخت ضرورت ہے۔

 

۱۲۔ جب یہ روشن ترین اور فیصلہ کن حقیقت دل نشین ہوگئی کہ رسولِ اکرمؐ کے بعد زمانے کا امامؑ ہی خدا کا اسمِ اعظم ہوا کرتا ہے توپھر مولائے برحق علیہ السّلام کا عطا کردہ اسمِ اکبر آپ کے حق میں امامِ اقدس و اطہرؑ کا نور ہوگا، اور ایک نہ ایک دن یہ نور حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں آئے گا، پھر اس میں سے گونا گون ظہورات و معجزات کا سلسلہ شروع ہوجائے گا، اے عزیزان! آپ میں سے بعض شاید اس حکمت کو جانتے ہوں گے کہ حضرت عیسیٰؑ خدا کا کلمہ (اسم) تھا جو مریمؑ کو برائے ذکر دیا گیا اور آن جنابؑ اللہ کی طرف سے ایک خاص روح کی حیثیت سے تھا (۰۴: ۱۷۱) اس کا اشارہ یہ ہوا کہ امامِ عالی مقامؑ کی جانب سے عطا شدہ اسمِ اعظم شروع شروع میں ایک لفظ /کلمہ ہوتا ہے مگر بعد میں اس سے روحِ قدسی کا ظہور ہوتا ہے، اور وہ حضرت امامؑ کا

 

۱۲

 

نور اور قرآنِ ناطق ہے، الحمدللّٰہ ربّ العالمین۔

 

ن۔ن۔(ح۔ع۔) ھ۔

کراچی

روزِ شنبہ ۲۸۔ذی القعد۱۴۱۵ھ

۲۹۔ اپریل ۱۹۹۵ء

 

۱۳

 

قرآنِ پاک اسمِ اعظم میں

 

یہ نکتہ روشن حقیقتوں میں سے ہے کہ قرآنِ مقدّس کا مقصد و منشاء علم و حکمت اور رشد و ہدایت ہے، یعنی قرآنِ مجید دنیا میں اِس لئے بھیجا گیا ہے کہ لوگ اِس کے ذریعے خدا و رسولؐ اور اولوالامرؑ کی اطاعت کریں، تاکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو جس میں جسم و جان کی سلامتی اور دونوں جہان کی صلاح و فلاح پوشیدہ ہے۔

 

آپ فراخدلی سے سوچیں کہ آیا قرآن کلامِ الہٰی ہونے کی حیثیت سے محدود ہونا چاہئے یا غیر محدود؟ اس سوال کا تسلی بخش جواب آپ کو سورۂ لقمان (۳۱) کی آیت نمبر ۲۷ (۳۱: ۲۷) اور سورۂ کہف (۱۸) کی آیت نمبر ۱۰۹  (۱۸: ۱۰۹) سے ملے گا، نیز آپ خوب سوچ کر یہ بتائیں کہ جو کچھ خداتعالیٰ کے پاس ہے آیا وہ کبھی ختم ہوجاتا ہے، مثلاً قرآن، جو اِس ظاہری دنیا میں نازل ہوا ہے؟ کیا یہ اب اللہ کے حضور میں بالکل اُسی طرح موجود نہیں، جیسے یہ ازل میں تھا؟ اس بارے میں قرآنِ کریم کا ارشاد تو یہ ہے کہ جو کچھ انسان کے پاس ہے وہ تو ختم

 

۱۴

 

ہوجاتا ہے، اور جو کچھ خدا کے پاس ہے وہ باقی رہتا ہے (۱۶: ۹۶) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگرچہ قرآنِ مقدس کا نورانی ظہور سب سے پہلے قلمِ الہٰی کی صورت میں امرِ “کُنۡ” سے ہوا، لیکن اس کے باؤجود کلمۂ کُنۡ یعنی امرِ کُلّ میں قرآن کی امری کیفیت و اصلیت ویسی کی ویسی باقی و برقرار تھی، کیونکہ امرِ باری تعالیٰ ازلی و ابدی طور پر ممکنات کا سرچشمہ ہے، جو اشیائے ممکنہ سے کبھی خالی نہیں ہوتا۔

 

پھر قلمِ الہٰی کے ذریعے قرآنِ مجید لوحِ محفوظ میں درج ہوا جیسا کہ اس مقام پر درج ہونا چاہئے، لیکن کوئی دانشمند ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب قلمِ قدرت میں قرآن نہیں رہا، اِس وجہ سے کہ وہ لوحِ محفوظ میں نازل ہوا ہے، اہلِ دانش کے تصوّر کے مطابق قلمِ الہٰی کی ذات میں قرآن بلا کم و کاست اِس معنیٰ میں موجود ہے کہ وہ قلم عقلی وجود رکھتا ہے، یعنی وہ عقلِ کلّی ہے، اور جب عقل کے سرچشمے سے کوئی چیز خارج ہوجاتی ہے تو اس کی کیفیت مادّیت کے برعکس ہوتی ہے، یعنی اس کی جگہ خالی نہیں ہوتی، بلکہ وہی چیز اصلاً وہاں پر بھی موجود ہوتی ہے، عقلِ کُل کی مثال قلم سے اس لئے دی گئی ہے کہ قلم میں لکھنے کی صفات کا جو خزانہ ہے وہ خرچ ہوتے ہوئے بھی کم نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ قلم سے جو کچھ لکھا جائے وہی اگر چاہیں تو ہزار

 

۱۵

 

بار بھی لکھا جاسکتا ہے، اِس مثال سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ قرآنِ پاک نہ صرف اِس ظاہری دنیا میں موجود ہے، بلکہ یہ کلمۂ کُنۡ، قلمِ الہٰی اور لوحِ محفوظ میں بھی ہے۔

 

قرآنِ حکیم کی امری کیفیت و حقیقت اور عقلی وجود کے بیان کے بعد اس کی روحانی تحریر کا ذکر آتا ہے، جو لوحِ محفوظ میں ہے، اور اس کے لئے سورۂ بروج (۸۵) کی اِن دو پُرحکمت آیتوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ:

بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ (۸۵: ۲۱) فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ (۸۵: ۲۲)

بلکہ وہ ایک باعظمت قرآن ہے جو لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔

 

ظاہر ہے کہ قرآن لوحِ محفوظ میں روح اور روحانیّت کے طور پر درج ہے نہ کہ ظاہری اور مادّی تحریر میں، کیونکہ لوحِ محفوظ نفسِ کُلّی ہے، چنانچہ اِس مقام پر ہم قرآن کے اِس روحانی وجود کو روحانی تحریر بھی کہہ سکتے ہیں، بہر حال یہ حقیقت تو واضح ہوگئی کہ قرآن روحانی طور پر لوحِ محفوظ میں ہمیشہ کے لئے موجود ہے، جبکہ لوحِ محفوظ کا مطلب کائناتی روح کا تختہ ہے، جس کے اندر نہ صرف قرآنِ مجید ہمیشہ کے لئے محفوظ ہے، بلکہ اس میں ہر چیز کی دائمی نگہداشت

 

۱۶

 

کی گئی ہے۔

 

اگر آپ کو اِس امرِ واقعی کے بارے میں سوال ہو کہ کس طرح قرآنی آیات کائناتی روح میں مکتوب و محفوظ ہیں، تو سورہ نمبر ۴۱ کی آیت نمبر ۵۳  (۴۱: ۵۳) میں ذرا غور و فکر کیجئے، جس کا مفہوم و مطلب یہ ہے کہ اس وسیع کائنات میں بھی اور نفوسِ انسانی میں بھی اللہ تعالیٰ کی آیات پوشیدہ ہیں جن کو عوام الناس دیکھ نہیں سکتے، لیکن اس کے باوجود ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے، کہ اس میں خدا ان کو اپنی یہ نشانیاں دکھادے گا، اس سے ثابت ہوا کہ کائنات کے ظاہر و باطن میں اور خود انسان کی ذات میں ربِّ کریم کی آیات (نشانیاں) درج ہیں، مگر خدائی تحریر انسانوں کی تحریر سے بالکل مختلف اور انتہائی اعلیٰ ہے، اور یہ بھی جاننا چاہئے کہ خداوند تعالیٰ کی تمام آیات، خواہ وہ آفاق میں ہوں یا انفس میں، قرآن ہیں، اگرچہ وہ آیات نشانیوں کے معنی میں ہوں یا زندہ معجزات کے معنی میں، جبکہ قرآن نشانۂ الہٰی بھی ہے اور معجزۂ قدرت بھی، یہ ایک واضح ثبوت ہے جو لوحِ محفوظ میں قرآنِ مجید کی روحانی تحریر کے بارے میں پیش کیا گیا۔

مزید برآن یہاں پر ایک عام فہم مثال بھی درج کی جاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب ایک دانشور کوئی کتاب تصنیف کرتا ہے، تو وہ کتاب زمانۂ قدیم کی صورتِ حال کے مطابق بیک وقت کم سے کم چار

 

۱۷

 

مقامات پر موجود ہوتی ہے، یعنی دانشور کے دل و دماغ میں بھی، قلم میں بھی، دوات میں بھی اور کتاب کے صفحات پر بھی، ہر چند کہ کتاب کی شکل و صورت ان چاروں مراحل میں مختلف ہوتی ہے، چنانچہ کتاب مصنف کے دل و دماغ میں الگ الگ درجات کے افکار و خیالات کی حیثیت سے ہے، قلم میں حروف سے متعلق طرح طرح کی حرکات کی صورت میں ہے، دوات میں نقاطِ علم و حکمت کی وحدت کے طور پر ہے اور صفحات پر معیّن حروف کی شکل میں پھیلی ہوئی ہے، سو اگر کوئی جلالی فرشتہ کتاب کی تکمیل سے پہلے یا اس کے بعد نورِ خداوندی کی روشنی میں دانشور کے ذہن و ضمیر پر نظر ڈالے تو اس کو فکری صورت میں وہی کتاب ملے گی جو خارجی طور پر معرضِ وجود میں آنے والی ہے یا وجود میں آچکی ہے، اسی طرح وہ قلم کی تمام حرکتوں کا بھی روحانی اور علمی مشاہدہ کرکے پوری کتاب کی باتیں بتا سکتا ہے، اور وہ خدا کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے سیاہی کے باطن سے بھی کتاب کی ساری تفصیلات پڑھ سکتا ہے، کہ کس طرح نقطۂ واحد نے____جو ہر بار دوات سے قلم کی نوک پر منتقل ہوتا رہا ____ اپنے مختلف ظہورات کی بدولت سارے حروف کی تشکیل کی۔

مذکورۂ بالا چار صورتوں کے علاوہ دورِ جدید کی ایسی بہت سی

 

۱۸

 

حقیقتیں ہیں، جن کی مدد سے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی کتاب نہ صرف ظاہری اور نمایان تحریر میں موجود ہوسکتی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اُس کی اور بھی بہت سی صورتیں ہیں، جن میں سے بعض میں وہ بولتی ہے اور بعض میں خاموش ہے، مثلاً گراموفون کو لیجئے جس میں ریکاڑڈ ہونے کے بعد آپ چاہیں تو کتاب بولتی ہے ورنہ خاموش رہتی ہے، اور اس میں ایک طرح سے محفوظ بھی ہے، ٹیلیفون، وائرلیس اور ریڈیو پر غور کیجئے کہ آیا یہ چیزیں ایک قسم کی کتاب کا کام دے سکتی ہیں یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ ٹیپ ریکارڈر بھی کتاب کا کام دیتا ہے، سینما اور ٹیلی وژن تو روحانیّت کی زندہ کتاب کی ایک بہترین مثال ہیں، مائیکرو فلم اور فش فلم خود ایک قسم کی خاموش کتاب ہیں، لیکن یہ سب چیزیں بڑی عجیب و غریب ہونے کے باؤجود ظاہری، مادّی اور دنیاوی ہیں، اور یہ سب کچھ ایسے خام و ناتمام انسانوں کی کوششوں کی پیداوار ہے، جو اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کے سامنے ہیچ ہیں، تو کیا پھر بھی ہم قلمِ قدرت اور لوحِ محفوظ کو مادّی اور انسان کی بنائی ہوئی چیزوں کی طرح عقل و جان کی صفاتِ عالیہ سے عاری سمجھیں؟ یا یہ کہ ہم قلم اور لوح کو دو عظیم فرشتے مانیں، جو عقلِ کُلّی اور نفسِ کُلّی اور محمدؐ و علیؑ کے نور ہیں؟ سو یہ حقیقت ہے کہ قلم نورِ محمدیؐ کا نام ہے اور

 

۱۹

 

لوحِ محفوظ نورِ علیؑ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قلم و لوح اور قرآن کی روح و روحانیّت کے متعلق علم الیقین حاصل کرنے کے لئے مذکورۂ بالا مادّی مثالوں سے بہت کچھ مدد مل سکتی ہے، لیکن یہاں یہ نکتہ بھی خوب یاد رہے کہ عقل و روح کی حقیقت اور مادّہ کی کیفیت کے درمیان آسمان زمین کا فرق پایا جاتا ہے، تاہم ظاہر سے باطن میں جانے کے لئے اور ادنیٰ کی مثال سے اعلیٰ کی حقیقت سمجھنے کے لئے یہی ایک راستہ ہے، تاکہ ہم قرآن کی روحانیّت و نورانیّت کی شناخت کے سلسلے میں علم الیقین سے عین الیقین کی طرف قدم بڑھا سکیں، جہاں پر کل حقیقتوں کا براہِ راست مشاہدہ ہوتا ہے، اور اسی طرح تمام عقلی اور روحانی چیزوں کو یقین کی آنکھ سے دیکھنے اور پہچاننے کا نام معرفت ہے، جس میں قرآن کے تمام درجات کی معرفت بھی شامل ہے، لیکن بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف خدا ہی کی پہچان معرفت ہے، اگر یہ بات مان لی جائے تو اس کے معنی یوں ہوں گے کہ ازل، ابد، لامکان، مکان، لازمان، زمان، قلم، لوح، روح، جنت، دوزخ اور کائنات وموجودات کی بقا و فنا کا مشاہدہ اور پہچان خدا کے دیدار اور معرفت سے زیادہ مشکل ہے، حالانکہ یہ تصوّر درست نہیں، اور

 

۲۰

 

درست یہی ہےجیسا کہ بتایا گیا کہ تمام معقولات کو عینِ یقین سے دیکھنے اور پہچاننے کا نام معرفت ہے۔

 

سورۂ زخرف کی آیت نمبر۳ و نمبر ۴ کا ارشاد ہے کہ:

اِنَّا جَعَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ  (۴۳: ۰۳)

وَاِنَّهٗ فِيْٓ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيْمٌ  (۴۳: ۰۴)

ہم نے اس کو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ (اے عرب) تم (آسانی سے) سمجھ لو اور وہ ہمارے پاس ام الکتاب میں بڑا عالیقدر اور حکمت والا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ قرآن جہاں ام الکتاب میں خدا کے حضور میں ہے وہاں اس سے بھی زیادہ عالی شان اور پُرحکمت ہے، یعنی کہ وہ روحانی تحریر اور خدائی زبان میں ہے جو حکمتی زبان ہے، بالفاظِ دیگر وہ زندہ اور گویندہ ہے، اور قرآن جس سر زمین میں نازل ہوا وہاں عربی زبان میں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا پہلے سے یہی قانون رہا ہے کہ اُس نے ہر پیغمبر کو اس کی قوم کی زبان میں بھیجا ہے (۰۴: ۱۴) چنانچہ ظاہری اعتبار سے زمانۂ رسولؐ کے عرب مسلمانوں کو مسلم قوم کی مرکز کی حیثیت حاصل ہے اور تمام مسلمان ایک ہی قوم ہیں اور ان کی قومی اور ملی لسان عربی ہے۔

 

حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ ام الکتاب ظاہر میں سورۂ فاتحہ کا نام ہے اور باطن میں ام الکتاب علیؑ ہیں، اور

 

۲۱

 

یہ دونوں حقیقتیں اپنی اپنی جگہ پر بجا اور صحیح و درست ہیں، لیکن یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ سورۂ الحمد کے احاطے میں جس قدر الفاظ سموئے ہیں وہ سب کے سب صرف اسی سورہ کے لئے ہیں اور باقی قرآن کا حصّہ اس کے بعد سینکڑوں صفحات پر پھیلا ہوا ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم سورۂ فاتحہ میں تمام قرآن سموجانے کا تصوّر کریں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح کسی درخت کے پھل کی گٹھلی میں مغز ہوتا ہے اور مغز میں ایک عظیم درخت پیدا کردینے کی صلاحیت پنہان ہوتی ہے، اسی طرح ام الکتاب (سورۂ فاتحہ) میں معنوی طور پر پورا قرآن پوشیدہ ہے۔

 

نیز جس طرح سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۶۱  (۰۲: ۲۶۱) کی مثال ہےکہ ایک ہی دانۂ گندم سے سات خوشے اور ہر خوشہ میں سودانے پیدا ہوتے ہیں، اور اس حساب سے ایک ہی فصل میں ایک کے سات سو دانے بنتے ہیں، اور نتیجے کے طور پر اس میں اتنے اضافے کی گنجائش ہے کہ دنیا بھر کی کاشت کے لئے بیج کافی ہوجائیں، مگر اس کے لئے وقت چاہئے، اسی طرح لیکن کسی تاخیر کے بغیر ام الکتاب کے معنی میں ایک ساتھ تمام قرآن کے معانی سموئے ہوئے ہیں۔

 

یاد رہے کہ سورۂ فاتحہ کے الفاظ اور مطالب اتنے جامع اور

 

۲۲

 

ایسے ہمہ گیر ہیں کہ اس میں قرآن کی ساری حقیقتیں اور حکمتیں سموئی ہوئی ہیں، اور یہ اللہ تعالیٰ کی سنت و عادت ہے کہ وہ اپنے کمالِ قدرت سے ایک پوری کائنات کو ایک انتہائی چھوٹی سی چیز میں سمودیتا ہے، اور پھر چھوٹی سی چیز کو عالم کی بے پناہ وسعتوں کے برابر پھیلا دیتا ہے، جیسا کہ وہ ہمیشہ سے “کُنۡ” کے ایک ہی کلمے سے پوری کائنات کو پیدا کرتا ہے اور پھر تمام کائنات و موجودات کو ایک لطیف گوہر بناکر اسی کلمۂ کُنۡ میں سمو دیتا ہے (۰۶: ۷۳)۔

 

یہاں تک اِس موضوع کے سلسلے میں جو حقائق و معارف بیان ہوئے، اُن سے صاف صاف ظاہر ہے کہ کلامِ الہٰی لا محدود ہے، اور اس کے کئی سرچشمے ہیں، چنانچہ قرآن کی امری کیفیت کلمۂ “کُنۡ” میں ہے، اس کی نورانی صورت اور عقلی وجود قلم الہٰی میں ہے، وہ روحانی طور پر لوحِ محفوظ میں ہے، جو نفسِ کُلّی ہے، اس کا معنوی مغز ام الکتاب میں ہے اور قرآن اپنی تنزیلی شکل میں جیسا کہ ہونا چاہئے دنیا میں ظاہر ہے، اور یہ راز سوائے اہلِ حقیقت کے اور کوئی نہیں جانتا کہ امامِ مقیم حضرت مولانا ابوطالب علیہ السّلام نے آنحضورؐ کو اسمِ اعظم کی تعلیم دی تھی، اور اسی ذریعے سے آنحضرتؐ اللہ تعالیٰ کا خصوصی ذکر کرلیا کرتے تھے، جس کے نتیجے میں آپؐ

 

۲۳

 

پر قرآن نازل ہوا جو شروع شروع میں قلم، لوح، اسرافیل، میکائیل اور جبرائیل کے توسط سے تھا۔

 

ہم اوپر بتاچکے ہیں کہ ظاہر میں سورۂ فاتحہ ام الکتاب ہے اور باطن میں مولانا مرتضےٰ علی علیہ السّلام ام الکتاب ہیں، کیونکہ امامِ مبین بھی اور لوحِ محفوظ بھی وہی ہیں، جبکہ نورِ نبوّت عقلِ کُلّی ہے اور نورِ امامت نفسِ کُلّی، اور جبکہ نورِ محمد عرشِ عظیم ہے اور نورِ علی کرسیٔ قدیم، پس معلوم ہوا کہ پروردگارِ عالم نے نورِ محمدیؐ کے قلم سے نورِعلیؑ کی لوحِ محفوظ پر قرآنِ مجید ثبت کردیا ہے، پھر قرآن بتدریج تنزیل و تاویل کی صورت میں آنحضرتؐ کی شخصیّت پر نازل ہوا اور آنحضرتؐ نے اسمِ اعظم کی تعلیم کے ذریعے سے قرآن کی روح اور روحانیّت یعنی عملی تاویل کی حکمتوں کو اپنے برحق جانشین مولا علیؑ کے سپرد کردی، اور یہ امرِ عظیم سلسلۂ امامت میں نسلاً بعد نسل جاری و باقی رہا، یعنی ہر امامؑ نے اپنے جانشین امام کو اسمِ اعظم کے توسط سے قرآن کی روح (نور) روحانیّت، نورانیّت اور عملی تاویل سونپ دی، یہ سنت نہ صرف حضورِ انورؐ اور آپؐ کے جانشین أئمۂ اطہارؑ کی ہے، بلکہ اِس سے پہلے حضرت ابراہیمؑ نے بھی اسی سنت کے مطابق عمل کیا تھا چنانچہ

 

۲۴

 

ارشاد ہے:

وَجَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً فِيْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ (۴۳: ۲۸)

اور ابراہیمؑ نے اُس (روحانیّت و امامت) کو اپنی اولاد میں باقی رہنے والا کلمہ (یعنی اسمِ اعظم) قرار دیا تاکہ لوگ (اسمِ اعظم کی وجہ سے) رجوع کرتے رہیں، یہی قانون خدا تعالیٰ کی سنت ہے جو تمام پیغمبروں کے لئے مقرر ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ:

اور جبکہ اللہ تعالیٰ نے عہد لیا انبیاء سے کہ جو کچھ میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آوے جو تصدیق کرنے والا ہوگا اس کا جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اُس رسول پر باور کرنا اور اس کی مدد کرنا فرمایا کہ آیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا عہد قبول کیا وہ بولے ہم نے اقرار کیا ارشاد فرمایا پھر تم گواہ رہنا اور میں اس پر تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں (۰۳: ۸۱)۔

اِس ارشادِ مبارک سے ایک طرف تو اِس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ دورِ نبوّت میں انبیاء علیہم السّلام کا سلسلہ کُلّی طور پر پیوستہ اور کسی انقطاع کے بغیر چلے آیا تھا اور دوسری طرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر پیغمبر نے اپنے بعد کے پیغمبر پر نہ صرف باور کیا بلکہ اسمِ اعظم کی تعلیم دے کر ہر طرح سے اس کی مدد بھی کی، اور اسی مقصد کے لئے خداوند تعالیٰ

 

۲۵

 

نے انبیاء علیہم السّلام سے عہد لیا تھا۔

 

پیغمبروں کو اسی اسمِ اعظم کے وسیلے سے نور و نورانیّت اور کتاب و حکمت حاصل ہوئی تھی، کیونکہ خدائے بزرگ و برتر اپنے اچھے اچھے ناموں کے وسیلےسے سنتا ہے اور عقل و روح کی تمام برکتیں اللہ تعالیٰ کے اسمِ اعظم میں پوشیدہ ہیں، جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ:

تَبٰرَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ  (۵۵: ۷۸)

بڑا بابرکت نام ہے آپ کے پروردگار کا جو جلالت والا اور کرامت والا ہے۔ جاننا چاہئےکہ یہاں ربّ کے نام سے اسمِ اعظم مراد ہے، اور اس کے بابرکت ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ تمام ظاہری و باطنی برکتیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہیں اسمِ اعظم کے خزانوں سے ملا کرتی ہیں، اور انہی برکتوں میں حقیقی مومنین کے لئے آسمانی کتاب کا علم و حکمت بھی ہے، جس کے معنی ہیں قرآن کی پاک روح اور روحانیّت، یعنی عملی تاویل، چنانچہ سورۂ قمر (۵۴) کی آیت نمبر ۱۷، نمبر۲۲، نمبر ۳۲ اور نمبر ۴۰ میں اللہ تعالیٰ کا تاکیدی فرمان ہے کہ:وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ ۔ (۵۴: ۱۷، ۵۴: ۲۲، ۵۴: ۳۲، ۵۴: ۴۰)  اور ہم نے قرآن کو ذکر و نصیحت کے لئے آسان کردیا ہے سو کوئی یاد کرنے والا ہے۔ قرآن کو ذکر و نصیحت

 

۲۶

 

کے لئے آسان بنا دینا یہ ہے کہ وہ مختصر سے مختصر ہوکر اسمِ اعظم میں سمویا ہوا ہے تاکہ حقیقی مومنین بآسانی اس کا ذکر کرلیا کریں، اور نتیجے کے طور پر اس کی روحانیّت سے قرآن کی زندہ اور منہ بولتی حقیقتیں سامنے آئیں اور یہی قرآن کی حکمت اور عملی تاویل ہے۔

 

حق تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو جو علمِ اسماء عطا کیا تھا، وہ دراصل اسمِ اعظم کے نتائج و ثمرات کی شکل میں تھا، اور آدم علیہ السّلام نے ناموں کے متعلق فرشتوں کو جو آگہی دی تھی وہ بھی کوئی ظاہری تعلیم نہیں تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے بزرگ ہی کی تعلیم تھی، جو حضرت آدمؑ کی آسمانی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔

دورِ نبوّت میں زمانے کا پیغمبر ہی خدا تعالیٰ کے نورانی اسمِ اعظم کی حیثیت سے ہوتا ہے، اور دورِ امامت میں امامِ وقت یہی مرتبہ رکھتا ہے، اور حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام میں سے ہر ایک اپنے وقت کے بعض حقیقی مومنوں کو کوئی لفظی اسمِ اعظم عطا کردیتا ہے، اور اس سلسلے میں جب ایسے مومنین کی ترقی اور کامیابی ہوتی ہے تو انہیں روحانیّت کے مختلف ذرائع سے قرآنی علم و حکمت کا فیضان حاصل ہونے لگتا ہے، بزرگانِ دین نےحقائق و معارف کے جو موتی بکھیر دیئے ہیں، وہ اسی اسمِ اعظم کی بدولت ہیں۔

 

۲۷

 

اسمِ اعظم خدا و رسولؐ اور امامِ زمانؑ کا نور ہے، یہی نور قرآن کی روح اور روشنی ہے، یہی روح نورِ ہدایت اور نورِ ایمان ہے، یہی مومنین کا نور ہے، اور یہی نور سراجِ منیر (یعنی روشن چراغ) ہے، اسی سے اہلِ ایمان کی دنیائے دل روشن ہوجاتی ہے اور یہی نور کائنات کی بلندی و پستی کی روشنی ہے۔

 

جب اللہ تعالیٰ کے اسمِ بزرگ کی خصوصی عبادت و ریاضت میں کوئی بندۂ مومن اعلیٰ درجے پر کامیابی حاصل کرتا ہے، تو اس کے لئے رحمتِ خداوندی کے ابواب کشادہ ہوجاتے ہیں، مومن سے روح اور روحانیین کی مخاطبت ہوتی ہے ایک ایسی بے مثال کائنات جو روحانیّت اور نورانیّت سے معمور ہے، جس کا ہر ذرّہ اپنی ہزار گونہ جلوہ نمائی اور بے پناہ ضوفشانی سے دیدۂ دل کو خیرہ کردیتی ہے، وہ شب و روز مومن کے سامنے رہتی ہے، وہ اِس ظاہری اور مادّی دنیا کے برعکس ہے، کیونکہ اس کے چار عناصر عقل و جان اور تنزیل و تاویل کے ہیں، وہ ایک ایسی دنیا ہے جس کی ہر چیز ایک بولتی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے، کیوں نہ ہو جبکہ وہ عالمِ روحانیّت اور اسمِ اعظم کی نورانیّت ہے، اور جبکہ وہ قرآنی علم و حکمت کی جنت ہے۔

 

انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے نقشِ قدم پر مومن کی روحانی ترقی،

 

۲۸

 

جو اسمِ اعظم کے وسیلے سے ہوسکتی ہے، اِس موضوع کی تفصیلات کے مطابق ہے جو بیان کی گئیں، لیکن میں نہیں کہہ سکتا ہوں کہ مجھ سے قرآنِ مقدّس اور اسمِ اعظم جیسی دو عظیم الشّان حقیقتوں کا حق تعریف و توصیف ادا ہوسکا۔

 

۲۹

 

ریکارڈ

 

کینیڈین اسمٰعیلی                  جنوری ۱۹۷۸

نیوز لیٹر                           جلد۲، نمبر ۷

نیوز (اسٹاف رپورٹر)

تین سو افراد نے قرآنِ حکیم کے موضوع پر منعقد سیمینار میں حاضری دی

 

امامت کا آغاز حضرت علیؑ کے زمانے سے قبل ہوا اور پہلے امام حضرت ہنیدؑ تھے۔ علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی نے یہ بات تاویلاتِ قرآن پر منعقد ایک سیمینار میں کہی۔ جس کا اہتمام ۲۴ دسمبر تا ۳۱ دسمبر ۱۹۷۷ء کے اختتامِ ہفتہ کے دوران چیف جماعت خانے میں کیا گیا تھا۔

 

اس سیمینار میں اسمٰعیلی نقطۂ نظر سے قرآن حکیم کا ایک جائزہ پیش کیا گیا۔ پروگرام کو اسمٰعیلیہ ایسوسی ایشن کی ایسٹرن کینیڈا کی ریجنل کمیٹی نے ترتیب دیا تھا۔ اِس سیمینار نے بہت سے حاضرین کو اپنا گرویدہ کرلیا ہے۔ حاضرین نے علامہ صاحب سے قرآنِ حکیم اور دین و ایمان سے متعلق سوالات بھی پوچھے۔

 

وہ مترنم اردو میں گفتگو کرتے ہیں، اپنی گفتگو کے دوران انہوں نے چارٹ اور ڈائیگرام بھی استعمال کئے اور وضاحت فرمائی کہ کس طرح قرآنِ حکیم کی ہر آیت اشارہ کرتی ہے کہ نبوّت اور امامت آپس میں ملے ہوئے

 

۳۰

 

ہیں اور امامت کا آغاز حضرت آدمؑ سے بھی پہلے ہوا تھا۔ جنہوں نے اس سیمینار میں حاضری دی وہ ان عالی شان باتوں سے مجذوب ہوگئے۔ وہ پچپن سالہ ایک اسمٰعیلی عالم کو انتہائی محویّت کے ساتھ سنتے رہے۔ وہ ایک واحد اسمٰعیلی عالم ہیں جنہیں “علامہ” کا خطاب حاصل ہے۔ کیونکہ وہ قرآنِ شریف کے باطنی مطالب کی وضاحت کرتے ہیں۔

 

علامہ صاحب کے ان تمام لیکچروں کا اردو ترجمہ مونٹریال کے ایک الواعظ فقیر محمد ہونزائی صاحب نے کیا۔

بعد ازان امامت اور عبادت کے موضوعات پر چیف (Chief) اور دنداس ویسٹ (Dundas West) کے جماعت خانوں میں مذاکرات بھی ہوئے۔ افرادِ جماعت نے علامہ صاحب کے لیکچروں کو بہت ہی دلچسپ پایا اور اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیں (NOT TO BE MISSED) خیال کیا۔ کیونکہ علامہ صاحب امامت سے متعلق بہت سے نئے تصوّرات پر گفتگو کرتے ہیں۔

 

کینیڈین اسمٰعیلی کا رسالہ اس نامور شخصیّت کا ایک خصوصی انٹرویو جو آپ سے موجودہ دورے کے دوران لیا گیا ہے، اپنے آنے والے جریدے نورز ۱۹۷۸ء میں شائع کرے گا۔ اس وقت علامہ صاحب اسمٰعیلیہ ایسوسی ایشن کے مہمان ہیں۔ آپ ایسٹرن کینڈا کے بہت سے جماعتی مراکز کا دورہ کریں گے۔ اور جماعت کے افراد کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے انتہائی خوشی محسوس کرتے ہیں۔

 

مترجم: شاہدہ محی الدین

 

۳۱

 

علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی صاحب سے شرقی کینیڈا کی جماعت کے لیکچر ٹور (دسمبر ۱۹۷۷ ۔ مارچ ۱۹۷۸) کے دوران لئے جانے والے انٹرویو کا عکس

اردو ترجمہ: شہناز سلیم

انٹرویور: کینڈین اسمٰعیلی کمیونل پیر یاڈیکل کے جناب

علاؤالدین دامجی

 

شرقی کینیڈا کی جماعت کے لیکچر ٹور کے حالیہ پروگرام کے لئے کینیڈا تشریف لانے پر کینڈین اسمٰعیلی کمیونل پیریاڈیکل کو علّامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی صاحب سے انٹرویو لینے کا شرف حاصل ہوا۔ علامہ صاحب جیسا کہ ان کے اس خطاب (کے مفہوم) سے ظاہر ہے، ایک بڑے عالمِ دین ہیں۔ آپ ایک پُرنویس مصنف اور شاعر بھی ہیں۔ جہاں تک ان کی کتب کا تعلق ہے ممکن ہے کہ مستقبل میں یہ تخلیقات

 

۳۲

 

ہمارے ماضی کے چند عظیم داعیوں کی تصانیف کی طرح قابلِ احترام قرار پائیں۔ اسلام اور اصولِ اسلام کی وسیع و عمیق سمجھ پر جامعۂ میکگل کینیڈا کے کلیۂ تعلیماتِ اسلامی کے اساتذہ پہلے ہی ان کو خراجِ تحسین پیش کرچکے ہیں۔

 

علامہ صاحب نو ۹ زبانوں یعنی عربی، فارسی، ترکی، اردو، شنا، بروشسکی، چترالی، پنجابی اور انگریزی میں گفتگو کرسکتے ہیں۔ آپ نے اردو اور فارسی کی بنیاد پر ہونزہ کی زبان بروشسکی کے حروفِ تہجی بھی تخلیق کئے ہیں۔ یہ حروفِ تہجی اردو کے اصل حروفِ تہجی کے علاوہ آٹھ زائد حروف پر مشتمل ہیں۔

 

علامہ صاحب ہمیشہ اپنے روایتی لباس (شلوار کرتا اور ٹوپی) میں ملبوس نظر آتے ہیں۔ یہ لباس ان کو ایک عالمِ دین کی حیثیت سے ممتاز کرتا ہے۔ ان کے لباس کے بارے میں استفسار کرنے پر انہوں نے فرمایا “میں اس مسئلے پر کافی غور و فکر کررہا تھا کہ اپنے شمالی امریکہ کے دورے پر مجھے اپنا یہ روایتی لباس پہننا چاہئے یا نہیں۔ لیکن میرے فرزند اور بیگم نے اصرار کیا کہ میں یہی لباس پہنوں لہٰذا میں اسی پر قائم ہوں۔” بیشک علامہ صاحب کا لباس ان کے علم کی طرح ان کی شخصیت کو بھی نمایان کرتا ہے۔

علامہ صاحب کی شخصیت کے بارے میں جو بات ہمیں سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ ان کی فطرت کی سادگی ہے۔ وہ مجھے اپنے

 

۳۳

 

کمرے تک لے گئے جہاں ایک چھوٹی سی میز، جس پر ان کے کاغذات اور کتابیں رکھی ہوئی تھیں اور ایک کرسی پر مشتمل ان کا دفتر بھی موجود تھا۔ انہوں نے اپنی میز کو صاف کیا اور اس کے پیچھے کی طرف (کرسی پر) براجمان ہوگئے۔ اب سوالات کے جوابات کے لئے پوری تیاری گویا مکمل ہوچکی تھی۔ ان کے وجود کی گرمجوشی میں کوئی بھی انسان انتہائی اطمینان محسوس کرسکتا ہے۔ ان کی شخصیت جو کسی بھی قسم کے منفی انسانی جذبات سے اس قدر پاک ہے کہ آپ کے جاننے سے پہلے ہی وہ آپ کا اعتماد حاصل کرچکے ہوتے ہیں اور نتیجتاً آپ ان کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل کرنے کے خواہشمند ہوجاتے ہیں۔

 

علامہ صاحب کے لئے کوئی بھی سوال مشکل یا ناممکن نہیں ہے۔ کچھ ہی دیر میں ان کا کمرہ علمِ حق کے متلاشی نوجوانوں سےبھر گیا۔ ان میں سے کچھ یونیورسٹی کے زیرِ تعلیم طلبا ہیں جو اپنے مسائل اور سوالات کے جوابات پانے کے لئے ہر وقت حتیٰ کہ دورانِ سفر بھی علامہ صاحب کے ساتھ ساتھ لگے رہتے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات دے کر علامہ صاحب کو بہت ہی خصوصی خوشی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ انہوں نے خوشی سے کہا: “مانٹریال میں، میں کئی یونیورسٹی کے طلباء سے ملا جن کو دین کے بنیادی عقائد و تصوّرات کے لئے میں نے سائنسی خطوط پر جوابات مہیا کرکے دین کی حقانیّت کا قائل کیا اور وہ طلباء ان جوابات سے بے حد مسرور اور مطمئن ہوئے۔”

 

۳۴

 

سوال نمبر۱:علامہ صاحب! یہ کہا جاتا ہے کہ آپ ایک ایسے خاندان کے چشم و چراغ ہیں جس کے لئے خدمتِ امام ایک قدیم روایت رہی ہے۔ کیا آپ ہمارے قارئین کو اپنے پس منظر کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے؟

 

علامہ صاحب:جی ہاں یہ درست ہے، میرے دادا جان جماعتی معاملات کی خبر گیری کے لئے پیر کے نمائندے یعنی خلیفہ مقرر کئے گئے تھے۔ یہ عہدہ جو ایک موروثی عہدہ ہے پچھلی تین نسلوں سے ہمارے خاندان میں رہا ہے۔ میں مئی ۱۹۱۷ء میں حیدر آباد ہونزہ میں پیدا ہوا ۔ مذہب سے میری دلچسپی بہت چھوٹی عمر ہی سے رہی ہے۔ میں نے تیسری اور چوتھی جماعت ایک ہی سال میں مکمل کی اور جو کچھ علم میں نے حاصل کیا ہے وہ کسی رسمی تربیت کی بجائے ذاتی مطالعے کا ثمرہ ہے۔

بائیس سال کی عمر میں میں فوج میں بھرتی ہوا اور فوجی ملازمت کا یہ عرصہ سات سال بعد ۱۹۴۶ء میں دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر انجام پذیر ہوا اور ۱۹۴۶ء میں ڈائمنڈ جوبلی کی تقریبات کے موقع پر میں بمبئی پہنچا۔

 

سوال نمبر ۲: کیا یہ درست ہے کہ آپ کسی دینی مشن پر چین تشریف لے گئے تھے؟ کیا آپ کو حضرت امام سلطان محمد شاہ نے

 

۳۵

 

وہاں بھیجا تھا؟

 

علامہ صاحب:جی ہاں میں اپنی جماعت کے ایک لیڈر کے ساتھ بحیثیتِ نائب چین گیا تھا جنہیں امام سلطان محمد شاہ کی جانب سے چین جا کر مقامی جماعات کے لئے جماعت خانے اور مذہبی اسکول قائم کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ بہر حال (حالات کچھ ایسے ہوئے کہ) انجامِ کار وہ تمام کام میرے کندھوں پر آن پڑا۔

 

سوال نمبر ۳: علامہ صاحب یہ بتائیں کہ ہماری جماعت چین کے کس حصے میں قیام پذیر ہے۔ ان کی تعداد کیا ہے اور ان کا تعلق کس قوم سے ہے؟

 

علامہ صاحب: ہماری جماعت چینی صوبے سنکیانگ کے دو شہروں، یار قند اور سریقول میں تقریباً پچاس ہزار (۵۰۰۰۰) کی تعداد میں آباد ہے۔ جماعت کا کچھ حصہ بدخشان سے ہجرت کرکے چین آنے والوں پر مشتمل ہے جبکہ اکثر افراد چینی ترکستان سے تعلق رکھنے والے ترک ہیں۔

 

سوال نمبر۴: آپ چین میں کتنا عرصہ قیام پذیر رہے کیا آپ اپنا مقصد پانے میں کامیاب ہوئے؟

 

علامہ صاحب: میں ۱۹۴۹ سے ۱۹۵۴ تک تقریباً چھ سال چین میں رہا۔ قبلاً ۱۹۴۹ سے کئی سال پیشتر ۱۹۲۲ میں پیر سبز علی کو ایک

 

۳۶

 

ایسے ہی دینی مشن پر چین بھیجا گیا تھا مگر اس وقت کے مشکل حالات کے پیشِ نظر متوقع کامیابی حاصل نہ ہوسکی تھی۔ ۱۹۴۹ء میں جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت چین کے اسمٰعیلی دینی معاملات میں تقیہ کرتے تھے۔

میرے چین پہنچنے کے ایک سال ہی کے دوران ہم نے کافی جماعت خانے قائم کرلئے اور اسی کے ساتھ اسمٰعیلی اسلام کے دوسرے فرقوں اور عوام میں اسمٰعیلی مسلم کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے۔

 

سوال نمبر ۵: کیا یہ درست ہے کہ اس شاندار کامیابی کے ساتھ ساتھ بہر حال آپ کو سخت مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا؟

 

علامہ صاحب: جی ہاں! یہ درست ہے۔ جب میری سرگرمیوں کا علم غیر اسمٰعیلیوں کو ہوا تو انہوں نے اسے نا پسند کیا اور نتیجتاً میری نگرانی کی جانے لگی۔ مگر آخر کار مجھے تمام جھوٹے الزامات سے بریُ الذّمہ قرار دیا گیا اور اپنا مشن پورا کرنےکے بعد مجھے چین چھوڑنے کی اجازت مل گئی۔

 

سوال نمبر۶: کیا اس مشکل تجربے سے آپ کی زندگی میں تلخی پیدا ہوئی؟

 

علامہ صاحب: جی نہیں، بالکل نہیں۔ اس کے برعکس اس دوران میں نے ارفع ترین روحانی تجربے کو حاصل کیا۔ لہٰذا آپ باور کرسکتے ہیں کہ بعض اوقات دنیوی مصائب و آلام بہت ہی مفید

 

۳۷

 

ثابت ہوتے ہیں خصوصاً اس شخص کے لئے جو حق کا متلاشی ہو۔

 

سوال نمبر۷: علامہ صاحب یہ بتائیں کہ چین کی جماعات کے لئے آپ نے اور کونسی خدمت انجام دی؟

 

علامہ صاحب: میں نے چین کی جماعت کے لئے مناقب یا مذہبی نظمیں بھی تحریر کی ہیں جن میں امام کی تعریف و توصیف اور عظمت و بزرگی کا بیان ہے۔ یہ مناقب آج تک چین کی جماعات میں پڑھی جاتی ہیں۔

 

سوال نمبر۸: کیا یہ درست ہے کہ آپ کی کہی ہوئی کچھ نظمیں مولانا حاضر امامؑ نے بطورِ گنان قبول کی ہیں؟

 

اس سوال کے جواب پر علامہ صاحب نے مولانا حاضر امامؑ کے مورخہ ۱۹۔ اکتوبر ۱۹۶۱ کے خط کی اصل کاپی ہمیں دکھائی جس میں حاضر امام نے ان کے کام کو گنان بک کی حیثیت سے قبول کیا ہے) یہ گنان بروشسکی زبان میں ہیں جو گلگت، ہونزہ اور اردگرد کے دیگر علاقوں میں پڑھے جاتے ہیں۔

 

سوال نمبر ۹:علامہ صاحب یہ بتائیے کہ ان گنانوں میں کن باتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے؟

 

علامہ صاحب: بنیادی طور پر یہ میرے روحانی تجربات کا بیان ہے یہ میرے دورۂ چین سے قبل اور دورۂ چین کے بعد کے حالات پر مشتمل ہیں۔ یہ گنان ۱۹۶۱ میں مکمل ہو کر نغمۂ اسرافیل کے نام سے

 

۳۸

 

شائع ہوئے۔

 

سوال نمبر ۱۰: یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ اسمٰعیلی کمیونٹی کے پہلے سب سے زیادہ پُرنویس ادیب ہیں۔ کیا آپ اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنا پسند فرمائیں گے؟

 

علامہ صاحب: جی ہاں یہ درست ہے۔ آج تک میں نے کوئی ۶۵ کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں سے چند البتہ پیر ناصر خسرو کی تصانیف کے ترجمے ہیں۔ مثال کے طور پر ان میں سے ایک معروف کتاب وجہ دین یعنی “دین کا چہرہ” تھے۔ میری دیگر تصانیف سے چند جو مجھ کو اس وقت یاد ہیں وہ ذکرِ الہٰی، سلسلۂ نورِ امامت اور میزان الحقائق ہیں۔

 

سوال نمبر۱۱: کیا یہ درست ہے کہ میزان الحقائق کا انگریزی ترجمہ Scale of Realities  یعنی “حقائق کا میزان” ہے۔

 

علامہ صاحب: جی ہاں، یہ درست ہے۔

 

سوال نمبر۱۲: مغرب میں اس وقت سیّارۂ زمین کے باہر ذی فہم مخلوق کی موجودگی کے بارے میں کافی قیاس آرائیاں ہیں۔ کیا یہ حقیقت ہے یا یہ محض کسی کی خیال آرائیاں ہیں۔ کیا یہ حقیقت ہے یا یہ محض کسی کی خیال آرائی ہے؟

 

علامہ صاحب: اس میں یقیناً سچائی کا کوئی عنصر ضرور ہے۔

 

سوال نمبر ۱۳: اس طرح گویا آپ اس نظریے کی تائید کرتے ہیں کہ

 

۳۹

 

سیّارۂ زمین کے علاوہ دوسرے سیّاروں پر ذی فہم مخلوق کی زندگی کے آثار موجود ہیں۔

 

علامہ صاحب: جی ہاں! یقینی طور پر ایسا ہی ہے۔

 

سوال نمبر ۱۴: کیا آپ ہمیں اس زندگی کی نوعیت کے بارے میں کچھ بتائیں گے۔

 

علامہ صاحب: وہ مخلوق ہم سے کئی لحاظ سے مختلف ہے ان میں خون نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کو ہماری طرح سانس لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کے کھانے پینے کی عادات بھی ہم سے بہت مختلف ہوتی ہیں۔

 

سوال نمبر ۱۵: یہ انکشاف میرے لئے اور یقیناً کئی قارئین کے لئے بھی انتہائی حیرت ناک ہے کیونکہ ہم نے اپنے روحانی امور کو کماحقہ اہمیت نہیں دی ہے۔

 

علامہ صاحب: اس کے لئے آپ کو اپنی روحانی زندگی کو منظم کرنے کا کام شروع کرنا چاہئے کیونکہ میری معلومات کے مطابق عنقریب اس دنیا میں ایک روحانی انقلاب آنے والا ہے تاہم آپ کو یہ باور کرنا چاہئے کہ جس روحانی انقلاب کی میں بات کررہا ہوں وہ ایک طویل عرصے کا عمل ہے جس کا دورانیہ ایک سال سے ایک سوسال تک پھیلا ہوا ہوسکتا ہے۔ میرا یقین ہےکہ اس انقلاب کا آغاز ہوچکا ہے۔ اگر آپ نے

 

۴۰

 

کتاب Psychic Discovery Iron Curtain پڑھی ہے تو آپ یقیناً میری باتوں کا مطلب سمجھ رہے ہوں گے۔ روحانی انقلاب کے ظہور کی بات کوئی عجیب چیز نہیں بلکہ یہ سب کچھ خدا کی منشا کے مطابق ہے جیسا کہ قرآن کی سورہ نمبر ۵۳ کی آیت ۴۱ (۵۳: ۴۱) میں خدا فرماتا ہے کہ “عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھادیں گے، آفاق میں اور انفس میں بھی یہاں تک کہ ان کو یقین ہوجائے کہ وہ خدا حق ہے۔” اس (انقلاب کے ظہور کے) وقت روحانی طور پر حقیقی معنیٰ میں زندہ لوگ روحانی زندگی نظر انداز کرنے والے لوگوں کی بنسبت زیادہ مستفیض ہوسکیں گے۔

 

سوال نمبر ۱۶: آپ کے خیال میں روحانی ترقی کے کیا فوائد ہیں؟

 

علامہ صاحب: اس کے فوائد دو گونہ ہیں۔ ذاتی سطح پر روحانی ترقی کا مطلب حصولِ علم ہے اور علم ہی میں نجات مضمر ہے جبکہ قومی سطح پر روحانی ترقی ایک مومن کو افرادِ جماعت کی خدمت کرنے کے قابل بناتی ہے۔ مثال کے طور اسی روحانی ترقی کی بدولت میں کئی لوگوں کو روحانی ترقی کی امکانیات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ان کو اپنی روحانی ترقی کی کوشش کرنے کے لئے آمادہ کرچکا ہوں۔

 

سوال نمبر ۱۷: آپ کی جملہ تصانیف سے آپ اپنی کس کتاب کو بہترین قرار

 

۴۱

 

دیتے ہیں؟

 

علامہ صاحب: رموزِ روحانی کو، کیونکہ یہ زیادہ تر روحانی رازوں کے بارے میں ہے۔

 

سوال نمبر ۱۸: کیا یہ درست ہے کہ کتاب “ایثار نامہ” آپ کے ذاتی المیہ تجربے کی پیداوار ہے؟

 

علامہ صاحب: جی ہاں یہ درست ہے۔ یہ کتاب میرے فرزند ایثار کے لئے وقف کی گئی ہے جس کی افسوسناک وفات دسمبر ۱۹۷۲ میں ہونے والے ہوائی حادثے میں ہوئی۔ یہ کتاب دراصل میرے ان تعزیتی خطوط کا مجموعہ ہے جو میرے دوستوں نے مجھے اس موقعہ پر لکھے تھے۔ یہ خطوط مسائل زیست و موت اور دوسری متعلقہ باتوں پر مشتمل ہیں۔

 

سوال نمبر ۱۹: آپ کے اس جواب سے میرا ذہن پھر انسانی زندگی میں مصائب و آلام کی طرف جاتا ہے کیا آپ اس پر مزید روشنی ڈالیں گے؟

 

علامہ صاحب: یہ مصائب و آلام مومن کی ذاتی تکمیل کرنے اور روحانی بصیرت کی چوٹی کو پانے کے لئے اسے ضروری حوصلہ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دیکھئے کہ آج اگر میں وہ کچھ ہوں جو کچھ کہ میں ہوں تو یہ دراصل میری زندگی کے

 

۴۲

 

ان کلّی تجربات، جو بعض اوقات مجھے انسانی مصائب کی اتھاہ گہرائیوں تک لے گئے کا نتیجہ ہے۔ میری زندگی مصائب و آلام اور مشقتوں سے بھر پور رہی ہے۔ میں نے طویل عرصے تک انتہائی شدید انسانی اور روحانی جذبات کے طوفان بھی جھیلے ہیں۔ لیکن پھر بھی میرے پاس مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ اموات اور دنیوی اشیاء کی حصولی سے میں متاثر نہیں ہوتا ہوں۔ اور نہ ہی میں نے کبھی ان چیزوں کے لئے اشک بہائے ہیں۔ بہر حال مومن کو چاہئے کہ مشکلات کو ہمیشہ رحمت سمجھے کیونکہ اکثر ان ہی میں اس کی روحانی ترقی (کا راز) مضمر ہوتا ہے۔

 

سوال نمبر ۲۰: وہ کیا خاص بات ہے علامہ صاحب جو آپ کی تحریروں کو انفرادیت بخشتی ہے؟

 

علامہ صاحب: یہ تحریریں یکتا ہیں کیونکہ ان میں خداوندی تائید شاملِ حال رہی ہے۔

 

سوال نمبر ۲۱: یہ کافی دلچسپ بات ہے۔ کیا آپ ہمیں اس بارے میں کچھ اور بتائیں گے کہ یہ خداوندی تائید کس طرح کام کرتی ہے؟

 

علامہ صاحب: (میرے خیال میں) زندگی بذاتِ خود ایک تائید ہے۔

 

۴۳

 

مجھے لکھنے سے محبت ہے۔ لکھتے وقت میں بالکل محو اور خوشی سے بھر پور ہوجاتا ہوں۔ آہ! لکھنا …. جب خامشی اور آرام ہو تو لکھنے کے لئے کامل موڈ بن جاتا ہے میں اپنی آنکھوں کو اس طرح بند کرکے اور اپنے ہاتھوں کو اس طرح رکھ لیتا ہوں۔ (علامہ صاحب میز کے کونے میں رکھی ہوئی کرسی پر آرام سے بیٹھتے ہیں۔ آنکھیں نرمی سے بند ہیں۔ ہاتھ گود میں باندھے ہوئے رکھے ہیں۔ ان کے چہرے پر ہلکی مسکراہت کے ساتھ مکمل سکون جھلک رہا ہے) بالکل اسی طرح۔ یہ فکری عبادت ہے۔ اس طرح۔ (علامہ صاحب ابھی تک آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں) اور پھر میں اپنے قلب و روح کی آواز کو سنتا ہوں وہ مجھ سے گفتگو کرتے ہیں۔ میرے تصوّر میں ایک دھندلا سا خاکہ ابھرتا ہے پھر وہ وسیع تر اور واضح تر یعنی الفاظ کے قالب میں ڈھلتا چلا جاتا ہے (علامہ صاحب آہستگی سے آنکھیں کھول کر مسکراتے ہیں) میں اس کام سے انتہائی درجے کی خوشی محسوس کرتا ہوں۔ میں جماعت کے لئے بہت زیادہ محبت کے جذبات رکھتا ہوں اور جماعت کے لئے لکھتے ہوئے از بس شادمان ہوتا ہوں اور بعض اوقات لکھنے کی خواہش اتنی شدید تر ہوتی ہے کہ میں

 

۴۴

 

عبادت کے لئے بھی نہیں بیٹھتا ہوں۔ عام طور پر میں صبح دو بجے اپنے بستر سے نکل کر اپنے پنجوں پر آہستگی سے اپنی میز کی طرف آتا ہوں تاکہ میری حرکات سے گھر میں موجود افراد کا آرام خراب نہ ہو۔ اس طرح مجھے اپنی تحریری سرگرمی سے بے انتہا خوشی ہوتی ہے۔

 

سوال نمبر ۲۲: آپ کی شاعری کے مجموعوں کے مطالعے اور مشاہدے کے بعد قارئین نے اسے “عارفانہ شاعری” قرار دیا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟

 

علامہ صاحب: عارفانہ شاعری وہ شاعری ہے جو اپنے اندر حقیقت و معرفت کے اسرار و رموز سموئے ہوئے ہو۔

 

سوال نمبر ۲۳: آپ کی تمام تحریریں زیادہ تر اردو میں ہیں جو حالانکہ بذاتِ خود ایک خوبصورت زبان ہے مگر بدقسمتی سے مغرب کی جماعات اسے لکھنے یا پڑھنے سے قاصر ہیں۔ کیا ان کتابوں کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کی کوئی کوشش آپ کے علم میں ہے؟

 

علامہ صاحب: میری خواہش ہے کہ کچھ جماعتی علماء (SCHOLARS) میری کتابوں کا انگریزی اور گجراتی میں ترجمہ کریں۔ میرے شاگردِ رشید جناب (ڈاکٹر) فقیر محمد ہونزائی صاحب نے محترمہ زین قاسم کی مدد سے میری چند کتب جیسے آٹھ سوال

 

۴۵

 

کے جواب اور قرآن اور روحانیّت کے علاوہ باطنی معنی پر مشتمل چند مقالوں کا ترجمہ کرنا شروع کیا ہے۔ علاوہ ازین کراچی کے ہمارے ایک دوست جناب خان محمد صاحب پہلے ہی امام شناسی حصّۂ اوّل کا ترجمہ کرچکے ہیں۔ میری امید ہے کہ بالآخر میری تمام کتب کا انگریزی ترجمہ کیا جائے گا۔

 

سوال نمبر ۲۴: علامہ صاحب آپ کا تعلق علاقۂ ہونزہ سے ہے جو اس امر کے لئے مشہور ہے کہ اس کے باشندے ضعیفی میں بھی بہت اچھی صحت کے مالک ہوتے ہیں۔ کیا آپ اس کے متعلق ہمارے قارئین کو کچھ بتانا پسند فرمائیں گے؟

 

علامہ صاحب: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہونزہ پہاڑی علاقہ میں واقع ہے لہٰذا جس ہوا میں ہم سانس لیتے ہیں وہ نسبتاً زیادہ پاک و صاف ہے۔ ویسے بھی وہاں کی زندگی کافی سادہ ہے اور مغرب اور دنیا کے دوسرے ممالک میں صنعتوں کی فراوانی کے باعث فضا کی آلودگی کا جو مسئلہ ہے وہ بھی ہمیں درپیش نہیں ہے۔ ہونزہ میں لوگوں کی اکثریت زراعت پیشہ ہے اور ان کی غذا بہت سے پھل اور سبزیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ بہرحال زیادہ تفصیلات حاصل کرنے

 

۴۶

 

کے لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ رینے ٹیلر (Renee Taylor) کی کتاب  “Hunza Health Secret”  پڑھیں۔ اس کتاب کے مصنف نے یقیناً ہونزہ کے بارے میں مکمل ریسرچ کی ہوگی لہٰذا اس کتاب سے آپ کو بہت اچھی اور مفید معلومات حاصل ہونی چاہئیں۔

 

سوال نمبر ۲۵: علامہ صاحب یہ بتائیں کہ مادّی محبت اور روحانی محبت کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟

 

علامہ صاحب : میرے خیال میں محبت کی دونوں ہی قسمیں اہم ہیں کیونکہ مادّی محبت ایک ایسا پل ہے جو روحانی محبت یا حقیقت تک لے جاتا ہے۔ روحانی بصیرت رکھنے والے مومن کے قلب میں بنی نوع انسان کے لئے عمومی اور مومنین کے لئے خصوصی محبت جاری و ساری رہتی ہے وہ جان لیتا ہے کہ امام اور اس کے روحانی بچوں کی یہ پُرسوز محبت نے اسے غلام بنالیا ہے اور یہی دراصل دنیا میں بہترین غلامی ہے۔

 

سوال نمبر ۲۶: علامہ صاحب آپ کو کس قسم کی چیزوں سے محبت ہے؟

 

علامہ صاحب : مجھے محبت ہے جماعت اور تمام بنی نوع انسانوں سے …. محبت ہے تبلیغِ علم سے …. علما اور علمِ دین سے، دلچسپی

 

۴۷

 

رکھنے والے مومنین سے علمی مذاکرات کرنے سے …. اس خواہش سے جو علمی محفل منعقد کرنے کے بارے میں ہو …. اور مجھے محبت ہے عبادت میں مستغرق مومنین کے مقدّس چہروں کے منظر سے …. ان تمام چیزوں سے مجھے بے حد محبت ہے اور اس سے مجھے بے انتہا خوشی ملتی ہے۔

 

سوال نمبر ۲۷: علامہ صاحب ماضی میں آپ اسمٰعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان (اسمٰعیلی طریقہ اینڈ ریلیجس ایجوکیشن بورڈ) سے ایک ریسرچ ایسوسیٹ کی حیثیت سے منسلک رہے ہیں۔ کیا آپ اپنے لئے حال ہی میں افتتاح کئے جانے والے انسٹی ٹیوٹ آف اسمٰعیلی اسٹڈیز (معہدالدراسات الاسمٰعیلیہ) لندن، یو۔کے۔ میں ایسی ہی خدمات سرانجام دینے کی کوئی امکانیت پاتے ہیں۔

 

علامہ صاحب: جی ہاں یہ درست ہے کہ میں اسمٰعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان میں ۱۵سال تک کام کرتا رہا اور حال ہی میں مَیں نے ریسرچ ایسوسیٹ کے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔

 

جہاں تک آپ کے سوال کے دوسرے حصّے کا تعلق ہے آپ کو یہ سمجھنا چاہئے کہ میرے کام کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ میرے لئے آزادی سے اس کام کو اسی طرح جاری

 

۴۸

 

رکھنا بہتر ہے۔ البتہ مجھے یہ امید ہے کہ مستقبل میں انسٹی ٹیوٹ آف اسمٰعیلی اسٹڈیز لندن اور دوسرے علمی مراکز میں نوجوان علماء میرے کاموں کو اسمٰعیلی مذہب کے لئے ماخذ کے طور پر استعمال کریں گے۔

 

سوال نمبر ۲۸: اس علمی کام کے لئے مالی وسائل کی فراہمی یقیناً آپ کے لئے ایک مسئلہ رہی ہوگی۔ کیا ہم اس سلسلے میں آپ کی کوئی مدد کرسکتے ہیں تاکہ یہ خزانۂ علمی دنیا بھر کے زیادہ سے زیادہ اسمٰعیلیوں تک پہنچ سکے؟

 

علامہ صاحب: آپ کا اندازہ درست ہے۔ مالی وسائل کی فراہمی مسئلہ رہا ہے۔ وہ علم دوست حضرات جو اس علم کے پھیلاؤ کے خواہشمند ہیں کسی بھی وقت ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ شاید باہمی مشاورت و مذاکرات کے ذریعے ہم کوئی ایسا طریقۂ کار وضع کرسکتے ہیں جس کے تحت میں آپ کو اپنی کتب شائع کروانے کے حقوق دے سکوں۔ اس وقت میرے لئے کتب کے تراجم اور مالی وسائل کی فراہمی دو مسئلے ہیں۔ تاہم جہاں تک کتب کے ترجمے کئے جانے کا تعلق ہے میرے نزدیک یہ امر انتہائی اہم ہے کہ ان ترجموں میں میری تحریر کا مفہوم بعینہ بیان ہو اور اصل معنی مجروح نہ ہوں۔ اس وقت بھی میری

 

۴۹

 

کوئی پانچ کتابیں پاکستان کے ایک پریس میں ہیں جس کی نگرانی میرے فرزند اور طلباء کر رہے ہیں۔

 

سوال نمبر۲۹: مشرقی کینیڈا میں اپنے اس مختصر قیام کے عرصے میں آپ ان بے شمار جماعتی افراد سے ملے جو دور دراز سے آپ کے مختلف لیکچرز، سیمینارز اور نجی محفلیں اٹینڈ کرنے کے لئے آئے۔ ان کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟

 

علامہ صاحب: مجھے یہ کہنے دیجیے کہ میں جماعتیں لیڈرز اور بذاتِ خود جماعات سے مل کر بہت ہی متاثر اورمسرور ہوا ہوں۔ میرا اندازہ ہے کہ آنے والے سالوں میں کینیڈا کی جماعت میں دنیا بھر کے اسمٰعیلیوں کی خدمت کرنے کی بے شمار صلاحیتیں پنہان ہیں۔ مجھے بہت خوشی اور کامل اعتماد ہے کہ آپ کی جماعت سے یہ دینی دوستی مجھے نسبتاً زیادہ لوگوں تک اپنا علم پہنچانے کے قابل بناسکے گی۔

 

سوال نمبر ۳۰: ہمارے یہاں کے نوجوانوں کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟

 

علامہ صاحب: مجھے آپ کے نوجوانوں سے مل کر اور گفتگو کرکے بے انتہا خوشی ہوئی ہے۔ دینی علم کے لئے میں ان میں آمادگی اور

 

۵۰

 

ذوق و شوق پاتا ہوں اور یہ دیکھ کر مجھے انتہائی خوشی حاصل ہوتی ہے۔نوجوانوں کے سوالات کے جوابات مہیا کرنے کے لئے ایک مرکز ہونا چاہئے جہاں وہ مذہب کے بارے میں کوئی بھی سوال کرسکیں اور میرے خیال میں کینیڈا میں ایک ایسا ادارہ ضرور کامیابی سے کام کرے گا۔

 

سوال نمبر ۳۱: موجودہ دور میں انسانی باہمی تعلقات میں ایک عجیب سی لاتعلقی کا جو عنصر شامل ہوگیا ہے اس کے بارے میں آپ کا نکتۂ نظر کیا ہے؟

 

علامہ صاحب: ہمارا اخلاقی لائحۂ عمل  (Code of Conduct)  ہمارے تمام اعمال کو متاثر کرتا ہے۔ اگر ہمارے اخلاقی لائحۂ عمل میں کسی قسم کی کمی ہے تو نتیجتاً یہ ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہوگی۔ اس لئے مذہب کو ہماری زندگیوں میں بالادستی حاصل ہونی چاہئے کیونکہ مذہب ہمیں زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ بتاتا ہے۔ ویسے دنیوی طور پر مادّی ترقی کے اس دور کے تسلسل کے کچھ وقت کے بعد تمام لوگ کسی ایک لائحۂ عمل کو متفقہ طور پر قبول کرلیں گے۔ ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ اخلاقی اقدار کی پیروی ضرور کی جانی چاہئے اولاً اس لئے کہ رسول اکرمؐ نے

 

۵۱

 

ہمیں اخلاقی بنیادوں پر استوار ایک مذہب کی تعلیم دی اور ثانیاً اس لئے کہ ہم ایک ایسے وقت کی طرف بڑھ رہے ہیں جبکہ روحانی انقلاب وقوع پذیر ہونے والا ہے۔

 

انٹرویو کے اختتامی کلمات

شکریہ علامہ صاحب! ہم پُرخلوص امید کرتے ہیں کہ اس شمارے کے ذریعے کینڈا اور دیگر جماعتوں کی توجہ آپ جیسی ولولہ انگیز شخصیّت کی طرف مبذول ہوگی۔ ہمیں امید ہے کہ جماعات آپ کو وہ اخلاقی اور مالی سہارا دیں گی جو پوری دنیا کو آپ کے علم و ہنر کا فائدہ پہنچانے کے لئے ضروری ہے۔

دلچسپی رکھنے والے اسمٰعیلی حضرات علامہ بزرگوار سے اس پتے پر رابطہ قائم کریں:

 

علامہ نصیر الدین ہونزائی

۳۔ اے، نور ولا، ۲۶۹۔ گارڈن ویسٹ

کراچی پاکستان

 

۵۲

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیت – حصّۂ اوّل

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

حصّۂ اوّل

تعارف

کتابِ ہٰذا کے مصنف جناب علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی صاحب نے اس نہایت مختصر اور جامع کتاب کو اپنی پُربہار و پُربارعمر کے پچاسیویں سال میں لکھی ہے، کتاب کا متن ۷مئی ۲۰۰۲ء اور ۲جولائی۲۰۰۲ء کے درمیانی عرصے میں، اور اس کا دیباچہ ۲۳ نومبر۲۰۰۲ء کو لکھ کر اس کو مکمل کر دیا، یہ کتاب علامہ موصوف نے اپنی عزیز نواسی محترمہ عرفت روحی امین الدین، چیف ریکارڈ آفیسر دانشگاہِ خانۂ حکمت، کو قسط وار املا کرا کے مکمل کی ہے۔

کتاب کی اہمیّت:

سال ۲۰۰۱ء کو انسانی تاریخ میں”۱۱/۹” کے طور پر یاد کیا جائے گا، اس تباہ کُن واقعے کے بعد دنیا نے اسلام کی اصلیت و حقیقت کے بارے میں ایک مسلسل بحث ومباحثہ کا مشاہدہ کیا ہے، جس میں حصّہ لینے والے بالعموم دو متضاد نظریات کے حامل دکھائی دیتے ہیں، ایک نظریہ کے حامل وہ لوگ ہیں، جو اسلام میں گوناگونی (DIVERSITY) اور رنگارنگی کو سمجھے بغیر عمومی بیانات دیتے ہیں، جیسے “تمدنوں کا تصادم (CLASH OF CIVILIZATIONS)”اور”وحشیانہ میلانات (BARBARIC TENDENCIES)” وغیرہ، دوسرے نظریے کے حامل وہ لوگ ہیں، جو اسلام کی حقیقت کو قوّی اور قائل کنندہ برہانی دلائل سے ثابت کرنے کی بجائے

 

ک

 

سطحی اور عذرخواہانہ طریقِ استدلال سے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، چنانچہ مسلم اور غیر مسلم دونوں موجودہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن صحیح معنوں میں اسلام کی حقیقی شناخت اور خدا کی آخری وحی یعنی قرآنِ حکیم کے صحیح مفہوم سے آگہی بہت کم کو نصیب ہے۔

مصنفِ موصوف خدا کے آخری اور عظیم پیغمبر حضرتِ محمد مصطفیٰؐ کی ایک حدیث شریف پر کتابِ ہٰذا اور اپنی دوسری کتابوں میں بار بار زور دیتےہیں، اور وہ ہے”الخلق عیال اللہ واحب الخلق الی اللہ من نفع عیالہ وادخل السرورعلیٰ اھل بیتہ” مخلوق تمام کی تمام خدا کی عیال ہے، لہٰذا خدا کے نزدیک محبوب ترین مخلوق وہ ہے، جو خدا کی عیال کو نفع پہنچائے، اور اس کے اہلِ بیت کو خوش رکھے، مصنفِ موصوف کی امتیازی خوبی یہ ہے کہ آپ اس حدیث کے لفظی معنی پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ اپنے روحانی تجربات اور ان کے نتیجے میں قرآنِ حکیم کی تفہیم اور عقلی گہرائیوں تک رسا ہونے کی جو قابلیت آپ میں پیدا ہوئی ہے، اس کی روشنی میں یہ واضح کرتےہیں کہ کتابِ سماوی کا اساسی پیغام انسانوں کی صلاح وفلاح اور ترقی ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ کون اور کیا ہیں (ان کا نسلی، لسانی، جغرافیائی اور مذہبی پس منظر کیا ہے)، کتاب کی قسط ۲۹ میں لکھتے ہیں”ہرروحانی قیامت میں عہدِ الست کا تجدّد ہوتا ہے، یہ قرآنِ حکیم کی ایک شہادت ہے، جس سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہےکہ اللہ تعالیٰ عالمِ انسانیّت کو اوجِ کمال تک لے جانا چاہتا ہے، اس کو یہ بات پسند نہیں کہ انسان پستی کی طرف جائے۔”

قصّۂ آدمؑ، جس کو سنتِ ابراہیمی کی پیروی کرنیوالے سب لوگ مانتے ہیں،

 

ل

 

کے حقائق کے بارے میں بھی آپ کا بیان منفرد اور حیران کن ہے، اس کے ساتھ ساتھ بنی آدم کی معروف ومسلّمہ اصطلاح کی بھی آپ نے جس انداز میں وضاحت فرمائی ہے، اس میں قارئین کیلئے بالکل نئے معانی پیش آتے ہیں، کتابِ ہٰذا جو ایک سو اقساط پر مشتمل ہے، ان میں سے ہر ایک قسط نہایت ہی مختصر اور جامع انداز سے لکھی گئی ہے، بااین ہمہ ایک ہوشمند قاری اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اگرچہ ادیانِ عالم اور بہت سے مکاتیبِ فکراس حقیقت کو ماننے کے لئے بخوشی تیاری ہیں کہ لوگوں کی گوناگونی اور رنگارنگی، کمزوری کی بجائے ان کی یقینی طاقت کی مظہر ہے، لیکن مصنفِ موصوف کے اس کتاب کو لکھنے سے پیشترکسی اور نے انسانی وحدت کی ایسی مستحکم اور ناقابلِ تردید بنیاد کو ثابت نہیں کیا ہے، آپ نے واضح طور پر دکھایا ہے کہ خدا نے انسانی روح اور عقل کو عبث پیدا نہیں کیا ہے، ارادۂ الٰہی یہ ہے کہ وہ سب لوگوں کو طوعاً و کرہاً بہشت میں داخل کرے اور یہ ان کے لئے صرف روحانی قیامت کے معجزے کی صورت میں ممکن ہے، یہ معجزہ نمائندگی کی صورت میں ہے، اور انفرادی تجربے کی صورت میں بھی، یعنی اس واقعے یا معجزے سے لوگوں کو شعوری یا لاشعوری صورت میں گزرنا ہے۔

مصنفِ موصوف اس کتاب میں حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہؑ جن کی ذاتِ گرامی کو دنیا آغاخان سوم کے لقب سے زیادہ پہچانتی ہے، کے ارشادات کا اکثر حوالہ دیتے ہیں، امام عالی مقام نے اپنی طویل زندگی میں شیعہ امامی اسماعیلی مسلمانوں کے امام یا روحانی پیشوا ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سی ستودہ صفات کو اپنی ذاتِ گرامی میں جمع کیا تھا، مثلاً ایک سماجی وسیاسی مصلح، حامیٔ بین الاقوامیت، صدر مجلس اقوام، پیشرواقوام متحدہ، کئی زبانوں کے

 

م

 

ادیب، کھلاڑی، مصنف، مفکر وغیرہ، امام عالی مقام نے دنیا کو یک حقیقت (MONOREALISM) کا تصوّر دیا۔ جس کی توضیح و تشریح موصوف مصنف اپنی کتابوں میں کرتے رہے ہیں، حضرت امام عالی مقام اپنی خود نوشت سوانح حیات میں لکھتے ہیں:

“نوع انسانی کی موجودہ حالت اپنے تمام تر خطرات اور مبارزہ طلبیوں کے باؤجود نہ صرف قوموں کے درمیان مادّی امن، بلکہ روئے زمین پر اس سے کہیں بہتر خداوندی امن کو قائم کرنے کا یقینی موقع بھی فراہم کرتی ہے، اس کوشش میں اسلام اپنا گران قدر اور تعمیری کردار ادا کر سکتا ہے، اور اسلامی دنیا ایک مضبوط اور استحکام بخش عامل ہوسکتی ہے، بشرطیکہ اس کو حقیقی معنوں میں سمجھا جائے، اس کی روحانی اور اخلاقی طاقت کو پہچانا جائےاور اس کا احترام کیاجائے۔” یہ الفاظ جو آج سے نصف صدی پہلے لکھے گئے تھے، ان میں آنیوالے زمانے کی پیشگوئی بھی ہے اور موجودہ حالات کی نہایت صحت کے ساتھ ترجمانی بھی۔

دینِ اسلام جیسا کہ مصنف نشاندہی کرتے ہیں، خدائے واحد کے دینِ واحد کی تکمیل ہے، جس کا آغازموجودہ دور میں حضرتِ آدمؑ سے ہوا، اور حضرتِ نوحؑ، حضرتِ ابراہیمؑ، حضرتِ موسیٰؑ، حضرتِ عیسیٰؑ کے ذریعے جاری رہا اور حضرتِ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پر آ کر مکمل ہوا، اور بعداً امامانِ آلِ محمد علیھم السّلام میں جس طرح یہ دین جاری رہا ہے، اور جن حالات سے گزرا ہے اس کی تمثیل ایک ایسی تصویر سے دی جا سکتی ہے، جو فی نفسہٖ نہایت ہی نایاب اور تابان ودرخشان ہے، لیکن اس پر غلط فہمی کے گردوغبار اور غلط نمائندگی کے تارہائے عنکبوت کی تہیں جم گئی ہیں۔ یہ کتاب گردوغبار

 

ن

 

کے ان تہوں کو ہٹانے اور دینِ اسلام کی اصل صورت کو نمایان کرنے اور اس کی بنیادی تعلیمات کو پیش کرنے کی ایک کوشش ہے، ان تعلیمات کے مطابق بنی آدم خدائے تعالیٰ کی اشرف ترین و افضل ترین مخلوق ہے، ان کو صورتِ رحمانی پر پیدا کیا گیا ہے، وہ حضرت آدمؑ کی اولاد ہیں، اس لحاظ سے ان کا درجہ فرشتوں سے بھی برتر ہے، وہ عالمین یا عوالمِ شخصی ہیں، جن کا ذکر قرآنِ حکیم کے سورۂ اوّل کے شروع ہی میں آیا ہے، وہ عوالمِ صغیر ہیں، جن میں عوالمِ کبیر بحدِّ قوّت پوشیدہ ہیں، خدائے تعالیٰ کی نظر میں عالمِ شخصی کی اہمیّت اتنی بڑی ہے کہ اس نے کسی بھی انسان کے قتل کی قرآنِ کریم میں قطعی طور پر مذمت کی ہے، اور ایک فرد کے قتل کو پوری نوع انسانی کے قتل کے برابر قرار دیا ہے (قرآنِ کریم، سورہ ۵، آیت۳۲، (۰۵: ۳۲) ۔

یہ کتاب انسانوں کو امید اور بلند ہمتی کا درس دیتی ہے، ان کو دنیوی زندگی سے بلند تر ہونے کی دعوت، اور اخلاقی و روحانی استحقاقیت (MERITOCRACY) کی ترغیب دیتی ہے، یہ کتاب اس بات کی مستحق ہے کہ وہ تمام لوگ جو کرۂ زمین پر بسنے والے انسانوں کے لئے پُرامن اور آسودہ حال مستقبل کے معتقد ہیں، اس کی سرپرستی کریں۔

مصنف کے بارے میں:

جناب علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی دامت فیوضاتہ، قریۂ حیدرآباد  ہونزہ، پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں۱۹۱۷ء کو پیدا ہوئے، آپ دوسروں کے لئے تقلید وپیروی کا نمونہ ہیں، اس لئے کہ آپ نے صرف ایک سال سکول جانے کے باوجود پچاس سال کے عرصے میں قرآنِ حکیم کے باطنی پہلو پر ایک سو۱۰۰ سے زیادہ کتابیں اور بے شمار مقالے لکھے ہیں، ان کو نظم و نثر دونوں پر ملکہ

 

س

 

حاصل ہے، ان کی حسین و دلکش اور روحانی تجربات وتعلیمات سے مملو شاعری آپ کی اپنی مادری زبان بروشسکی میں ہے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی قومی زبان اردو، فارسی اور چینی ترکی میں بھی شاعری کی ہے، ۲۰۰۱ء میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے آپ کو اسلامی اور قرآنی تحقیقات کی بنیاد پر ستارۂ امتیاز کا اعزاز ملا ہے، آپ کی ساٹھ سے زیادہ کتابوں کا انگریزی اور دوسری زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔

جیساکہ بہت سے مصنفین کا دستوررہا ہے، آپ کی موجودہ کتاب بھی آپ کی سابقہ بہت سی کتابوں کے سیاق وسباق میں لکھی گئی ہے، اسلئے قارئین کو مشورہ دیا جاتا ہےکہ موجودہ کتاب کوجو بہت ہی مختصر اور موجزانداز میں لکھی گئی ہے، کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے سابقہ کتابوں خصوصاً ان کا جن کا اس کتاب میں حوالہ دیا گیا ہے، مطالعہ کیاجائے، جیسے”عملی تصوف اور روحانی سائنس” “ہزار حکمت” وغیرہ، علامہ موصوف نے اپنی ہشتاد و پنج سالہ عمر میں بھی حکمتِ قرآن پر لکھنے اور لیکچر دینے کا کام جاری رکھا ہوا ہے، الحمد اللہ۔

“منجانب مترجمین”

 

ع

 

آغازِ کتاب

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔اللھم انی اسئلک باسمائک الحسنیٰ۔

الٰہی چارۂ بیچارہ گان کُن!                                       الٰہی رحمتی بربندگان کُن!

الٰہی رحمتت دریائے عام است!                              وزانجا قطرۂ مارا تمام است!

اے رفیقانِ ارجمند!ایک ضعیف العمر اور بیمار آدمی کیا کرسکتا ہے؟ واللہ یہ کتاب آپ کی پُرسوزدعا اور روحانی مدد کا نتیجہ اور مولا کا علمی معجزہ ہے،روحانی مدد سے میری مراد یہ ہے کہ ہر شخص میں ایک فرشتہ ہوتا ہے، اور وہ مجھ میں بھی ہے،اللہ کہ یہ حکمت بڑی عجیب وغریب ہے کہ اس فرشتے میں ہر لحظہ تجدّد ہوتا رہتا ہے،مثال کے طور پر میرے سب عزیزوں کے لئے یہ ممکن ہی ہے کہ باری باری سے میرے تصوّر یا خیال میں آکراس فرشتے کا کام کریں اور یہ حقیقت ہونے کے ساتھ مونوریالٹی کی ایک منزل ہے۔

“قرآنِ حکیم اورعالمِ انسانیّت” کی اس کتاب کے آغاز سے قبل میں نے دوستوں سے اجازت اور دعا حاصل کرلی تھی،اور دعا میرے عقیدے میں ایک ایسی ضروری چیز ہے جس کے لئے میں بار بار دوستوں سے درخواست کرتا ہوں، اس سے ایک روحانی طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔

 

ف

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت پر مزید لکھنے کی بڑی گنجائش ہے،لیکن ہم نے کنوز الاسرار اور حظیرۂ قدس کی دو کتابوں کی طرح مختصر سوقسطیں لکھنے کا منصوبہ بنایاتھا، بہر حال یہ کتاب آگے چل کر زیادہ سے زیادہ ضروری اور بیحد مفید ہو سکتی ہے۔

املا ازچیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)

بدھ۳،جولائی،۲۰۰۲ء

 

ص

 

مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات

 

اےآنکہ تیرا پاک وزندہ اسمِ اعظم تمام فیوض وبرکات اور جملہ معجزات کا سرچشمہ ہے! اے آنکہ تیرے نورسے آسمان وزمین قائم وبرجا ہیں! اے آنکہ تیری رحمت اور علم نے ساری کائنات کو گھیر لیا ہے! اے آنکہ تیرے بے پایان خزانے کبھی ختم ہونے والے نہیں ہیں! اے آنکہ تو ہر چیز پر قادر ہے!

اے آنکہ تیری ہر قیامت عالمِ انسانیّت کے مفاد میں ہے! اے آنکہ تو ہر دل کی حالت سے باخبر ہےاور کوئی بات تجھ سے پوشیدہ نہیں!

اے کریمِ کارساز! اے رحیمِ بندہ نواز! تُواپنی رحمتِ بے نہایت سے ہم سب کو ایک نور شناس اور کامیاب روح بنا دے! جو عالمِ شخصی کے تمام اسرار سے واقف ہو! جس کے حظیرۂ قدس میں عرفانی بہشت ہو!

یا الٰہی! تو اپنی قدرتِ کاملہ سے ان تمام کتابوں کو زبانِ حال اور زبانِ قال عنایت فرما! تاکہ یہ سب ہمیشہ دعا وثنا کرتی رہیں ان جملہ عزیزان کے لئے جن کے بے شمارحقوق ہیں!

ان شاءاللہ علمی خدمت جو تمام خدمات پر بادشاہ ہےاس کے بڑ ے شیرین ثمرات دونوں جہان میں ملتے رہیں گے،آمین یا ربِّ العالمین!

 

نصیر الدین نصیر(حبِّ علی )ہونزائی(ایس۔آئی)

بدھ۳،جولائی۲۰۰۲ء

 

ق

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت=ایک انتہائی عجیب و غریب اور زبردست حیران کن کتاب میری نہیں آپ کی ہے۔

 

دلیل(۱) قانونِ یک حقیقت کے تحت ہم سب ایک ہیں۔ دلیل (۲) ایک میں سب ہیں اور سب میں ایک ہے۔ دلیل (۳) میں نے معرفت کی روشنی میں یہ یقین حاصل کرلیا کہ میرے ہرعزیز میں بہشت کا ایک عالم اور اس میں مولا کا ایک گونہ دیدار ہے تو پھر میں ان گوناگون تجلیات کو دیکھنے کی خاطر سب عزیزوں میں فنا ہوگیا۔ دلیل (۴) میرا ایسا ہونا بہشت کی نعمتوں میں سے ہے، اور بہشت میں کوئی نعمت ناممکن نہیں۔ دلیل (۵) آپ کو علم ہے کہ ہر شخص میں ایک فرشتہ ہے، یقیناً مجھ میں بھی ہے، ہاں یہ سچ ہے کہ میرے جملہ عزیزان باری باری سے آکر میرے فرشتۂ عقل کا کام کرتے رہتے ہیں۔

حجتِ قائم ارواحنا فداھما نے فرمایا: تم نورانی بدن کے ساتھ بہشت میں جاؤ گے، یعنی امامِ زمان علیہ السّلام کے نورانی بدن میں فنا ہو کر بہشت میں جاؤ گے۔

آج میں ایک بہت ہی جدید ترین انتساب ان عزیزان کے نام کے ساتھ لکھنے والا تھا جن سے وعدہ ہے، ان شاء اللہ یہ کام ہوجائے گا۔

عظیم ملکِ امریکہ کے عزیزان امامِ زمان علیہ السّلام کے ارضی فرشتوں

 

ر

 

کا لشکر ہیں۔ ان کی علمی خدمات کا عظیم کارنامہ سارے جہان میں لاجواب ہےاور ان کی دعاؤں کا ہر بار صاحبِ عرش تک بلند ہوجانا یقینی ہے۔ یہ میری بڑی خوش نصیبی ہے کہ میں امامِ زمانؑ کے ان ارضی فرشتوں کے علمی لشکر کا خادم ہوں،الحمد للہ۔

 

نصیرالدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)

کراچی

بدھ۲۳،اکتوبر۲۰۰۲ء

 

ش

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت کی لاجواب کتاب دانش گاہِ خانۂ حکمت کی ہے

 

انتساب:اس گنجِ گوہر کی سرپرستی کے بہت سے ذرائع تھے لیکن آخر کار وہی ہوا جو مولا کو منظور تھا، جب میں تمام عزیزان کو امامِ زمان علیہ السّلام کے ارضی فرشتوں کا لشکر مانتا ہوں تو پھر میں اس پیاری کتاب کے دو سرپرست خاندان کے جملہ افراد کو فرشتے کیوں نہ کہوں، یعنی خاندانِ اوّل: موکھی نزار علی ابنِ علی بھائی صدراٹلانٹا، موکھی صاحب کی والدہ رتن بائی، موکھیانی الماس نزار علی وائیس پریسیڈنٹ اٹلانٹا، ان کی صاحبزادیاں، نایاب، حِنا، اور صبا اس بابرکت گھر میں پانچوں افرادILG کا اعزاز رکھتے ہیں۔

خاندانِ دوم: نوشاد ابنِ امیرعلی پنجوانی، نوشاد پنجوانی کی بیگم روزینہ بنتِ نور الدین بیجارخان مرحوم، والدہ کا نام رحمت بیجارخان، نوشاد اور روزینہ کے دو بہت پیارے بچے نصیرپنجوانی اور ایثار علی پنجوانی، والدین اور دونوں بچے ILGکا اعزاز رکھتے ہیں، اور خدمات کی تفصیلات کسی انٹرویو میں ہوں گی۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی

بدھ۲۳،اکتوبر۲۰۰۲ء

 

ت

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط:۱

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کا پُرازحکمت قصّہ عقل و دانش سے بار بار پڑھنے کے لئے ہے، کیونکہ عوام النّاس اب تک اس کو نہیں سمجھ رہے ہیں،جیسا کہ اس کو سمجھنے کا حق ہے۔

مثال کے طور پر، روئے زمین سے عالمِ انسانیّت مراد ہے، اور عالمِ انسانیّت میں ہمیشہ خلیفۂ خدا کا موجود ہونا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، جس میں کوئی تبدیلی نہیں، اور وہ ہمیشہ ایک ہی شان سے جاری ہے(۴۰: ۸۵)۔

آپ سنتِ الٰہی کے مضمون کو قرآنِ حکیم میں خوب دانائی سے پڑھیں تاکہ یہ حکمت سمجھ میں آئے کہ خلافتِ آدم اللہ کی سنت کے مطابق تھی، لہٰذا وہ ہمیشہ عالمِ انسانیّت میں جاری ہے، الحمد للہ۔

 

نصیرالدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اسلام آباد

منگل۷مئی۲۰۰۲ء

 

۱

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط:۲

 

سورۂ بقرہ (۰۲: ۳۰) کے ارشادِ مبارک کو عقل و دانش اورعلم و معرفت کے ساتھ پڑھنے کے لئے سعیٔ بلیغ کریں، اس آیۂ کریمہ کی بہت سی حکمتوں میں سے ایک عظیم حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سنتِ قدیم کے مطابق عالمِ انسانیّت میں ایک خلیفہ مقرر فرمایا،اور یہ حکمت ہے:”فی الارض”=عالمِ انسانیّت میں=عالمِ شخصی میں= کائناتی زمین میں= نفسِ کلّی میں، کیونکہ خلافتِ الٰہیہ کی ضرورت ہمیشہ انسانوں ہی کے لئے ہوتی ہے، پس یقیناً یہاں “الارض” سے عالمِ انسانیّت مراد ہے، جو سیّارۂ زمین پر ہے،جس طرح الارض(زمین) ہمیشہ ہے، اسی طرح عالمِ انسانیّت بھی ہمیشہ ہے اور خلافتِ الٰہیہ بھی ہمیشہ ہے، اور لازماً آدمِ زمانؑ بھی۔

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) ترجمۂ ارشاد:اللہ نے آدمؑ اور نوحؑ اور آلِ ابراہیمؑ اور آلِ عمرانؑ کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر منتخب کیا تھا، یہ ایک ہی سلسلے کے لوگ تھے جو ایک دوسرے کی ذریّت سے پیدا ہوئے تھے، اللہ سب کچھ سنتا اورجانتا ہے۔

اس قرآنی تعلیم سے یہ راز معلوم ہوا کہ زمانۂ آدمؑ میں لوگ تھے اور اللہ نے ان سب سے آدمؑ کو منتخب فرمایا تھا۔

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جوٹیال، گلگت، جمعرات۹/۵/۲۰۰۲ء

 

۲

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط:۳

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وَ ما اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (۲۱: ۱۰۷) اے نبیؐ، ہم نے تو تم کو دنیا والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

یہ آیۂ کریمہ جو رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی شان میں ہےاس حقیقت کی ایک روشن دلیل ہے کہ بالآخرسب لوگ بہشت میں جانے والے ہیں، اس آیۂ شریفہ کی یہی ضمانت ہےاور کوئی بھی دانشمند اللہ تعالیٰ کے قانونِ رحمتِ کل سے منکر نہیں ہوسکتا ہے، پس دوزخِ جہالت دنیا میں اپنی جگہ پر ہے، پھر بھی جب امامِ زمانؑ بحکمِ خدا روحانی قیامت برپا کرتا ہے (۱۷: ۷۱) تو اس وقت تمام مخلوقات کو سمیٹ کر بہشت میں داخل کردیتا ہے۔

اس معنیٰ میں حدیثِ شریف ہے: الخلق عیال اللہ، یعنی تمام مخلوقات گویا خدا کا کنبہ ہیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی(ایس۔آئی)

جوٹیال،گلگت

جمعرات۹،مئی۲۰۰۲ء

 

۳

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط:۴

 

سورۂ مریم (۱۹: ۹۳ تا ۹۵) اِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّاۤ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا، لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَ عَدَّهُمْ عَدًّا، وَ كُلُّهُمْ اٰتِیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا۔

ترجمہ: زمین اور آسمانوں کےاندرجو بھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے آنے والے ہیں، وہ (بذریعۂ روحانی قیامت) سب کو گھیر لیتا ہے، اور ایک خاص عدد میں (یعنی عددِ واحد میں) شمار کرتا ہے، پس روزِقیامت سب کے سب فردِ واحد بن کر اس کے سامنے حاضر ہوتے ہیں۔

چونکہ اس آیۂ شریفہ کی تاویل چوٹی کی تاویل ہے، یعنی یہ حظیرۂ قدس کے معجزات کا جامع معجزہ ہے، لہٰذا اس پر مذاکرہ کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے، ان شاء اللہ ان عظیم اسرارکی معرفت کے بعد آپ سجدۂ شکرانہ بجالائیں گے۔

آج کا مقالہ دراصل ایک رسالہ= کتاب کے برابر ہے، پس آپ اس کو خوب غور سے بار بار پڑھیں،اس حکم میں یہ واضح اشارہ ہے کہ سب لوگوں کو خوشی سے یا زبردستی سے امامِ زمانؑ میں فنا ہوجانا ہے، کیونکہ انسانِ کامل،صاحبِ قیامت (۱۷: ۷۱) اور امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲) وہی

 

۴

 

ہے۔

الحمد للہ علیٰ منہٖ واحسانہٖ

 

نصیرا لدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)

جوٹیال،گلگت

جمعہ۱۰،مئی۲۰۰۲ء

 

۵

 

قرآنِ حکیم اورعالمِ انسانیّت

قسط:۵

 

سورۂ بقرہ(۰۲: ۱۲۴) کے پُرحکمت اوربابرکت ارشاد سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہےکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو تمام لوگوں کے لئے امام بنایاتھا، وہ مبارک ارشاد یہ ہے: قال انی جاعلک للناسِ اماما۔

اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیمؑ سے فرمایا: میں تجھے سب لوگوں کا امام (پیشوا) بنانے والا ہوں۔

امام علیہ السّلام وارثِ آدم بھی ہے، امامُ النّاس بھی ہے، امامُ المتقین بھی ہے، وہ ھادی بھی ہے، اور وہ صاحبِ روحانی قیامت بھی ہے۔

بیانِ مذکورِ بالا سب کا سب قرآنی حکمت پر مبنی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں اس میں اطمینانِ کلّی حاصل ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جوٹیال،گلگت

ہفتہ۱۱،مئی۲۰۰۲ء

 

۶

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط:۶

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۵۸) میں ارشاد ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم: قُلْ یاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا۔

ترجمہ:اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم  کہو کہ اے انسانو،میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔

جو باسعادت لوگ آئینۂ سنتِ الٰہی کی معرفت رکھتے ہیں وہ حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کے قصّے میں اسرارِ الٰہی کے عظیم خزانےکو دیکھتے ہیں، اور اس میں سب سے بڑا راز تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام نمائندے یعنی خلیفہ ہو یا نبی یا امام، سب کے سب،عالمِ انسانیّت ہی کی صلاح و فلاح کے لئے مقرر ہوتے ہیں، جیسے آپ نے دیکھا کہ خلافتِ آدم، امامتِ ابراہیم، اور رسالتِ محمدی عالمِ انسانیّت ہی کے لئے تھی، پس یہ حقیقت ہے کہ لوگ اگر خوشی سے رجوع نہ کریں تو انہیں زبردستی سے رجوع کرایا جاتا ہے، اور وہ زبردستی رجوع روحانی قیامت ہی کی صورت میں ہے، جس کا بار بار ذکر ہوچکا ہے، وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی یا مجبوری سے رجوع کرتے ہیں۔ (۰۳: ۸۳) اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خوشی سے اطاعت و رجوع نہیں کرتے ہیں، ان کو روحانی قیامت

 

۷

 

اطاعت و رجوع کراتی ہے، اور اسی طرح وہ سب بہشت میں داخل کئے جاتے ہیں۔

سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں ہے: وللہ یسجد من فی السموت والارض طوعاوکرھا۔

وہ تو اللہ ہی ہے ،جس کو آسمان و زمین والے سب سجدہ کرتے ہیں، طوعاً و کرھاً= خوشی سے یا مجبوری سے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)

جوٹیال،گلگت

اتوار۱۲،مئی ۲۰۰۲ء

 

۸

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط:۷

 

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عالمِ انسانیّت ہی میں جملۂ انبیاء علیھم السّلام کو مبعوث کیا،اور ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے،اور ساتھ ہی ساتھ سلسلۂ أئمّہ علیھم السّلام بھی جاری ہے اور بہت سے ذیلی حدودِ دین بھی۔

پس خداوندِ قدّوس کا ایسا بڑا زبردست اور غالب نظامِ ہدایت کس طرح بے نتیجہ اور ضائع ہو سکتا ہے؟ اور کوئی بھی عاقل وداناایسا سوچ ہی نہیں سکتا۔

سورۂ مومنون(۲۳: ۱۱۵)میں ارشاد ہے: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۔ترجمہ:کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟

اس آیۂ کریمہ میں ان تمام سوالات کے لئے جوابِ باصواب موجود ہے،جو عالمِ انسانیّت سے متعلق پیدا ہوجاتے ہیں۔

یقیناً ہر زمانے کا امام ہی بحکمِ خدا ایک روحانی قیامت برپا کرتا ہے(۱۷: ۷۱)جس سے سب لوگ اللہ کی طرف رجوع ہوجاتے ہیں اسی عظیم

 

۹

 

مقصد کے لئے خدا نے ہادیٔ برحق کو امام الناس بنایا ہے اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ وہ امامُ المتقین بھی ہے،الحمد للہ ربِّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)

جوٹیال،گلگت

اتوار۱۲مئی۲۰۰۲ء

 

۱۰

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط:۸

 

آپ اسی مضمون کی قسط۔۷۔ کو ایک بار پھر خوب غور سے پڑھیں،کیونکہ وہ عالمِ انسانیّت کے حق میں ایک بہترین بیان ہے، جبکہ وہ قرآنِ حکیم ہی کی دلیل پر مبنی ہے۔

آپ عقل ودانش سے اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفات میں بھی غور کریں،یقیناً ہر اسم عالمِ انسانیّت کے لئے رحمت اور علم و حکمت کا ایک دائمی خزانہ ہے،خدائے علیم وحکیم کے علمِ غیب اور ہمہ دانی میں کس کو شک ہو سکتا ہے؟ وہ انسانوں کو پیدا کرنے سے پہلے ہی جانتا تھا کہ لوگ کیسے کیسے اعمال کریں گے، اس کی نظر میں  اصلاحِ  احوال کا کام بہت ہی آسان تھا۔

پس اللہ تعالیٰ نے عالمِ انسانیّت کو رجوع الی اللہ کے بہت سے ذرائع کے ساتھ پیدا کیا اور روحانی قیامت کا ذریعہ سب سے آخر میں رکھا، تاکہ لوگ سب کے سب طوعاً وکرھاً(خوشی سے یا مجبوری سے) لوٹ کر فنا فی الامام ہوجائیں،اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب لوگ بہشت میں جانے والے ہیں، اور کوئی شخص جنت سے باہر نہیں رہے گا، مگر جنت میں بہت سے درجات ہیں، یہ درجات علم و معرفت کی بنیاد پر ہیں۔ آپ قرآن وحدیث سے معلوم کریں۔ والسّلام۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)

جوٹیال،گلگت،پیر۱۳مئی ۲۰۰۲ء

 

۱۱

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط:۹

سورۂ تین(۹۵: ۰۱ تا ۰۸) کو عقل و دانش سے پڑھیں اور اس میں خوب غور کریں،اللہ تعالیٰ نے یہاں عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اور اساس کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ اس نے انسان کو بہترین تقویم (ساخت=ترتیب=معراج=سیڑھی) پر پیدا کیا ہے یعنی انسان خود روحانی تخلیق و تکمیل کے لحاظ سے عالمِ شخصی کی ارتقائی سیڑھی ہے،عالمِ شخصی کی چھت ہے، چھت کو عربی میں عرش کہتے ہیں، جس کی جمع عروش ہے (۰۲: ۲۵۹)اور چھت کا نام سَقف بھی ہے(۲۱: ۳۲)یہ عالمِ شخصی کی محفوظ چھت آسمان ہے، یعنی حظیرۂ قدس ہمیشہ کے لئے محفوظ ہے۔

حظیرۂ قدس عالمِ شخصی کا آسمان اورعرش ہے، نیز یہ سقفِ محفوظ ہے(۲۱: ۳۲)۔

سورۂ تین کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی روحانی تخلیق وتکمیل درجہ بدرجہ حظیرۂ قدس میں جا کر مکمل ہوجاتی ہےاور انسان اپنے باپ آدم کی طرح اس بہشت میں صورتِ رحمان پر پیدا ہوجاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے قسم کھانے کاجواب یہی ہے۔

الحمد للہ علیٰ منہٖ واحسانہٖ

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)

جوٹیال،گلگت

منگل ۱۴مئی ۲۰۰۲ء

 

 

۱۲

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط:۱۰

 

آپ قرآنِ عزیز کے پانچ مقام پر نفسِ واحدہ کے پُرحکمت مضمون کو پڑھیں، اوّلین نفسِ واحدہ حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام ہے اور آدم کی روحانی قیامت کی وجہ سے تمام موجودہ روحیں جمع ہوئی تھیں، یہاں ایک ایسی عظیم الشّان حقیقت ہے کہ جس کے کئی پہلو ہیں، لہٰذا اس کی کئی تاویلیں ہو سکتی ہیں: سب انسان روحاً حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ کے ساتھ تھے ساجدین میں بھی تھے، اور مسجود میں بھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ سب آدم بھی تھے اور ذرّیتِ آدم بھی، اور جو اس کو نہیں سمجھتا ہو، وہ روح کو نہیں پہچانتا ہے۔

حجتِ قائم علیہ السّلام نے فرمایا: تم ہماری روحانی اولاد ہو اور یاد رکھنا کہ “روح ایک ہی ہے” ۔یعنی روح دراصل وہی نفسِ واحدہ ہے جس کا ذکر قرآنِ حکیم میں  ہے، نفسِ واحدہ ایک بھی ہے اور بے شمار کی وحدت بھی، اسی لئےوہ آدم بھی ہے اور بنی آدم بھی، نفسِ واحدہ اللہ کا سب سے بڑا معجزہ ہےجو بڑا حیران کن ہے کہ معجزہ در معجزہ اور تجلّی در تجلی ہے، اور ہر زمانے میں اس کا تجدّد ہوتا ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جوٹیال،گلگت

جمعرات۱۶مئی ۲۰۰۲ء

 

۱۳

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۱۱

سورۂ  لقمان (۳۱: ۲۸) مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ بَصِيْرٌ

تاویلی مفہوم: ہر انسان بحدِّ قوّت نفسِ واحدہ کی طرح ہے، پس جو انسان حقیقی معنوں میں اللہ کی اطاعت کرتا ہے وہ بحدِّ فعل نفسِ واحدہ کی طرح ہوجاتا ہے۔

حجتِ قائم علیہ السّلام نے فرمایا کہ: “مومن کی روح (بحدِّ قوّت) ہماری روح ہے۔” کلامِ امامِ مبین حصّۂ اوّل ۔ راجکوٹ۔ ۲۰۔۲۔۱۹۱۰) پس حقیقی اطاعت ضروری اور لازمی ہے، تاکہ مومن کی روح امام کی مثل ہوسکے، جیسے حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے کہ اے ابنِ آدم میری حقیقی اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی مثل بنا دوں گا ۔۔

سورۂ انعام (۰۶: ۱۶۵) میں مضمونِ خلافت کو تاویلی حکمت کی روشنی میں پڑھیں۔

سوۂ نور (۲۴: ۵۵) میں بھی مضمونِ خلافت ہے، ان دونوں پُرحکمت آیتوں میں یہ راز ہے کہ نیک لوگ اللہ کے زندہ اسمِ اعظم کی حقیقی اطاعت کرکے حضرتِ آدمؑ کی طرح ہوسکتے ہیں، اس دنیا میں اللہ کا زندہ اسمِ اعظم موجود ہے، الحمد للہ۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جوٹیال، گلگت، جمعہ ۱۷ مئی ۲۰۰۲

 

۱۴

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط : ۱۲

اللہ تعالیٰ کی سنت ہمیشہ ایک ہی ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرتِ آدمؑ کو تاجِ خلافت سے سرفرازفرمایا تھا تو اس وقت خدا کی رحمت سے ستر ہزار روحیں آدم خلیفۃُ اللہ کی حقیقی کاپیاں ہوگئی تھیں، اس شان سے کہ ہر روح (کاپی) میں ایک عظیم فرشتہ تھا، ایک کائناتی بہشت اور ایک بہشتی خلافت = سلطنت تھی پس ہر انسانِ کامل کی روحانی قیامت میں اسی طرح لوگوں کے لئے بے شمار فائدے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہادیٔ برحق کو ایسے فوائد کے لئے لوگوں کا امام بنایا ہے، اور وہ بفضلِ خدا پرہیزگاروں کا امام بھی ہے، تاکہ وہ ان کو زیادہ سے زیادہ عزّت اور بے شمار فائدے دلائیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ جلَّ جلالہ ہر انسانِ کامل کی روحانی قیامت کے ذریعے سے دنیا بھر کے لوگوں کو بہشت میں داخل کر دیتا ہے۔

انہی معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: اَلْخَلقُ عِیَالُ اللہِ =  تمام لوگ گویا خدا کا کنبہ ہیں۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جوٹیال، گلگت

جمعہ ۱۷ مئی ۲۰۰۲

 

۱۵

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۱۳

 

سورۂ یونس (۱۰: ۶۰) آپ اس آیۂ کریمہ کی اصل حکمت کو سمجھنے کی سعیٔ بلیغ کریں، آیۂ شریفہ یہ ہے:  وَ مَا ظَنُّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَشْكُرُوْنَ۔ تاویلی مفہوم: جو لوگ کلامِ الٰہی کی تاویلی حکمت نہیں جانتے ہیں وہ گویا اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں، تو ایسے لوگوں کا قیامت کے بارے میں کیا گمان ہے؟ یقیناً اللہ لوگوں پر فضل و کرم کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ غفلت و نادانی سے ناشکری کرتے ہیں۔

اس تعلیمِ سماوی سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں پر فضل و کرم کرنا چاہتا ہے لیکن اکثر لوگ شکر گزار اور قدردان نہیں ہیں۔

جب اللہ قادرِ مطلق کے انتہائی عظیم پروگرام میں تمام لوگوں پر فضل و کرم کرنا ہے اور اس میں روحانی قیامت کا اشارہ بھی ہے لہٰذا یقیناً خدا کے حکم سے صاحبِ روحانی قیامت سب لوگوں کو بہشت میں داخل کرلیتا ہے، کیونکہ خدا کی طرف رجوع طَوْعاً وَّکَرْھاً = خوشی سے یا زبردستی سے ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جوٹیال، گلگت

ہفتہ، ۱۸ مئی ۲۰۰۲

 

۱۶

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۱۴

 

سورۂ سبا (۳۴: ۲۸) میں ارشاد ہے:وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ہ

ترجمہ: اور (اے نبیؐ) ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کے لئے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ عالمِ انسانیّت کا پروردگار ہے، حضرتِ محمدؐ تمام ہی انسانوں کے لئے رسول ہیں، اور امامِ آلِ محمدؐ سب لوگوں کا امام ہے، پس ہر زمانے میں ایک روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ (۱۷: ۷۱) جس کی وجہ سے اہلِ زمانہ سب کے سب بہشت میں جاتے ہیں، بہشت میں علم و عمل کے مطابق درجات ہیں، اعلیٰ درجات والے بہشت کے سلاطین ہوں گے۔

جو لوگ اللہ ، رسول اور صاحبِ امر کی حقیقی اور کلی اطاعت کریں گے وہ بہشت کے سلاطین ہوں گے، بہشت میں علم و حکمت اور معرفت کے شیرین میوے ہیں، یعنی جنّت کے تمامتر پھل روحانی اور عقلی ہیں، اور لطیف جسمانی نعمتیں بھی بہت ہیں۔

بہشت میں اقوامِ عالم پر حقیقی علم کی بادشاہی ہے، اور اس میں

 

۱۷

 

ان کے لئے بے پایان رحمت ہے، اَلْحَمْدُللّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ و اِحْسانہٖ۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جوٹیال، گلگت

ہفتہ ۱۸ مئی ۲۰۰۲

 

۱۸

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۱۵

 

سورۂ اَنعام (۰۶: ۹۴) وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۔

سورۂ واقعہ (۵۶: ۴۹ تا ۵۰)قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِيْنَ وَالْاٰخِرِيْن ہ لَمَجْمُوْعُوْنَ ڏ اِلٰى مِيْقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ  ۔

آیتِ اوّل کا تاویلی مفہوم: جب نفسِ واحدہ کے عالمِ شخصی میں روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے، تو تمام لوگوں کی روحیں جمع ہوکر نفسِ واحدہ میں فنا ہوجاتی ہیں اور نفسِ واحدہ ہی ح ۔ ق میں اکیلا فنا فی الامام ہوجاتا ہے، اور اسی میں فنا فی اللہ و بقا با للہ ہے، یہ سب سے بڑا معجزہ زمان و مکان سے بالاتر ہے، لہٰذا یہاں رجوعِ آخر اور ظہورِ اوّل کا سنگم ہے۔

آیتِ دوم کا تاویلی مفہوم: یہاں سے معلوم ہوا کہ روحانی قیامت میں اوّلین، آخرین اور حاضرین سب کے سب جمع ہوجاتے ہیں۔

یہ ایک سرِّ عظیمِ معرفت ہے کہ ہر روحانی قیامت میں اللہ تعالیٰ امامِ زمانؑ کے پاک نور کے زیرِ اثر ستّر ہزار کامل ایمانی روحوں کو فرشتے بناتا ہے، اس شان سے کہ ہر فرشتہ ایک عالمِ شخصی = ایک کائناتی بہشت =   ایک خلافت جس کا ذکر قرآن میں ہے (۰۶: ۱۶۵)۔ اور (۲۴: ۵۵) یہ خلافتِ الٰہیّہ

 

۱۹

 

بہشت کی بادشاہی بھی ہے، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحْسَانہٖ۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جوٹیال، گلگت

اتوار ۱۹ مئی ۲۰۰۲

 

۲۰

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۱۶

 

مقالہ= کتابچہ ، روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کو آپ عزیزان بار بار پڑھیں، یہ چھوٹی سی عجیب و غریب کتاب عملی تصوّف نامی کتاب میں ہے،یہ صرف ایک چھوٹا سا مقالہ ہے مگر قصّۂ قیامت کا اساسی حصّہ ہے، لہٰذا یہ بیحد ضروری ہے کہ آپ روحانی سائنس کی بنیادی چیزوں کو معلوم کریں۔

اے عزیزان! آپ آیۂ آفاق و انفس (۴۱: ۵۳) میں چشمِ بصیرت سے دیکھیں اور عقل و دانش سے سوچیں، اس مبارک ارشاد کا مفہوم یہ ہے: ہم عنقریب ان کو آفاق میں اور خود ان کی جانوں =  روحوں میں اپنے معجزات دکھائیں گے تا آنکہ ان پر یہ حقیقت روشن ہوجائے کہ وہ حق ہے۔ سوال: دکھائیں گے میں کیا راز ہے؟ جواب: نوافلِ اسمِ اعظم کے ذریعے سے اللہ ان کی آنکھ ہوسکتا ہے اور حدیثِ قدسی کا یہی ارشاد ہے، اور حدیث ِ قدسیٔ تقرب میں نوافل سے اسمِ اعظم کا خصوصی ذکر مراد ہے۔ ملاحظہ ہو کتاب عملی تصوّف اور روحانی سائنس ص ۷۶۔۷۷ پر۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے، اور میرا بندہ میری طرف سے فرض کی ہوئی ان چیزوں سے جو مجھے

 

۲۱

 

پسندیدہ ہیں میرا قرب نہیں حاصل کر سکتا، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔۔۔۔۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

منگل ۲۱ مئی ۲۰۰۲

 

 

۲۲

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۱۷

 

سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۳) کا ارشاد ہے:اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ  ۔

ترجمہ: بیشک اللہ لوگوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے، مگر اکثر لوگ اس کا شکر نہیں کرتے۔ اس فرمانِ خداوندی سے یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ خدا تمام لوگوں پر بڑا مہربان ہے، لیکن لوگ خود ہی نا شکرے ہیں، پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بحکمِ خدا ارشاد فرمایا: اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ فَاَحَبُّ الخَلْقِ اِلَی اللّٰہِ مَنْ نَفَعَ عِیَالَ اللّٰہِ وَاَدْخَلَ عَلٰی اَھْلِ بَیْتِہٖ سُرُوراً۔

ترجمہ: مخلوق تمام کی تمام خدا کی عیال ہے، لہٰذا خدا کے نزدیک محبوب ترین مخلوق وہ ہے جو خدا کی عیال کو نفع پہنچائے اور (خدا کے) اہلِ بیت کو خوشی دے۔ ہزار حکمت (ح :۶۳۱) ص ۳۵۹، بحوالۂ میزان الحکمت۔ ۲۔ ص ۳۴۷۔ حدیثِ نبوّی ، کتاب دعائم الاسلام ۔ عربی، جلدِ ثانی۔ ص ۳۲۰ پر بھی دیکھیں۔

حدیث قدسی: قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَ جَلَّ : اَلْخَلْقُ عِیَالِیْ فَاَحَبُّھُمْ اِلَیَّ اَلْطَفُھُمْ بِھِمْ وَاَسْمَاھُمْ فِی حَوَائِجِھِمْ ۔ ترجمہ: اللہ تعالیٰ

 

۲۳

 

کا ارشاد ہے: تمام مخلوق میرا کنبہ ہے، لہٰذا میرے نزدیک محبوب ترین بندہ وہ ہے جو ان پر زیادہ مہربان ہے اور ان کی حاجات کو پوری کرنے میں کوشش کرتا رہتا ہے۔ (میزان الحکمت۔ ۲۔ ص ۸۲۷)۔

ہم یہ بتا چکے ہیں کہ نورِ مجسم = ہادیٔ برحق، امام النّاس بھی ہے اور امامُ المتقین بھی ہے، اور امام علیہ السّلام کے ان دونوں مرتبوں میں کوئی تضاد ہر گز نہیں، اَلْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

بدھ ۲۲ مئی ۲۰۰۲

 

۲۴

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۱۸

 

اللہ تعالیٰ کی سنتِ قدیم میں کسی تبدیلی کے بغیر تجدّد بار بار ہوتا رہتا ہے، اگر آپ کو تجدّد کی حقیقی معرفت حاصل ہوگئی تو اس کے ذریعے سے بڑے بڑے اسرارِ معرفت بآسانی سمجھ سکتے ہیں، مثال کے طور پر دوزخ اور جنّت دونوں کی عمر کائنات کے قیام و بقاء تک ہے: بحوالۂ قرآن (۱۱: ۱۰۷ تا ۱۰۸) اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ جب عارف کی روحانی قیامت برپا ہوتی ہے تو اس وقت اللہ کائناتِ باطن کو لپیٹ لیتا ہے (۲۱: ۱۰۴) نیز (۳۹: ۶۷) جس سے وجہُ اللہ = امام کے سوا ہر چیز فنا ہوجاتی ہے (۲۸: ۸۸)، اس سے قبل نفسِ واحدہ کے ذریعے سے تمام انسانوں کی روحیں فنا فی الامام و بقا بالامام ہوچکی ہوتی ہیں، ایسے میں بہشت اور دوزخ کا تجدّد ہوتا ہے، اس حال میں ان میں کوئی نہیں ہوتا ہے، کیونکہ یہ دونوں اب بارِ اوّل پیدا کرنے کی طرح ہیں۔

جب بعنوانِ روحانی قیامت امامِ زمانؑ کا نور عالمِ شخصی میں طلوع ہوتا ہے تو قیامت کا ہر واقعہ جس کا ذکر قرآنِ حکیم میں ہے بصورتِ ایک زندہ معجزہ عارف کے سامنے آتا ہے، اور سب سے آخری اور سب سے اعلیٰ معجزاتِ معرفت حظیرۂ قدس میں ہوتے ہیں،

اُیُم دشن ئیڎبا ایلے سِس اُیون بَبَربان

 

۲۵

 

ترجمہ: میں نے ایک اعلیٰ مقام دیکھا ہے، جہاں سب لوگ برابر ہیں، یعنی یہ اعلیٰ مقام حظیرۂ قدس ہے، جہاں سب لوگ امامِ زمانؑ کے نور میں غرق و فنا ہوجاتے ہیں، کیونکہ امامِ زمانؑ لوگوں کے لئے بھی امام ہے۔اَلْحَمْدُ للّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحسَانِہٖ ۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

بدھ ۲۲ مئی ۲۰۰۲

 

۲۶

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۱۹

 

سورۂ مائدہ (۰۵: ۳۲) کے ارشاد میں یہ حکمت محجوب ہے کہ ہر انسان بحدِّ قوّت ایک عالمِ شخصی ہے، اگر وہ بحدِّ فعل عالمِ شخصی ہوجاتا ہے تو اس میں روحاً دنیا بھر کے لوگ موجود ہوتے ہیں، کیونکہ ایسے شخص کی روحانی قیامت برپا ہو چکی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے تمام روحیں اس میں جمع ہوچکی ہوتی ہیں، اسی طرح  بحدِّ قوّت بھی اور بحدِّ فعل بھی ہر انسان میں سب انسان موجود ہوتے ہیں، پس ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں روحاً عالمِ انسانیّت موجود ہوتا ہے، اور اس  میں تمام انسانوں کے لئے بے شمار نعمتیں ہیں، اور اسی طرح اللہ تمام لوگوں کو دارالسّلام کی طرف دعوت دیتا ہے (۱۰: ۲۵)۔

سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ   يَّهْدِيْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ ۔۔۔۔۔

ترجمہ: تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آیا ہے اور کتابِ مبین، یعنی قرآن ، جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی خوشنودی کے طالب ہیں سلامتی کے راستوں پر چلاتا ہے۔۔۔۔

سَیْراِلَی اللّٰہ = خدا کی طرف سفر فنا فی اللہ کے بعد ختم ہوجاتا ہے، مگر سَیْر فِی اللّٰہ کا سفر کبھی ختم ہونے والا نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ

 

۲۷

 

کی صفات کے ظہورات و معجزات لا محدود اور بے پایان ہیں، پس اللہ کے نور و صفات میں لا انتہا سفر کا نام سَیْر فِی اللّٰہ یعنی سلامتی کی راہوں پر چلنا ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعرات ۲۳ مئی ۲۰۰۲

 

۲۸

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۲۰

 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ۔وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ  ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا (۱۷: ۸۵)  وہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہو روح میرے ربّ کے (عالمِ) امر یعنی کلمۂ کُنۡ سے ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے بہت ہی کم بہرہ لیا ہے۔ یہاں اسمِ روح اگرچہ واحد ہے، لیکن حکمتِ بالغہ کی رو سے جمع بھی ہے، کیونکہ یہی روح جب جب انسانِ کامل میں ہوتی ہے، تو تمام عالمِ انسانیّت پر محیط ہوکر نفسِ واحدہ کہلاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ حجّتِ قائمِ سلامُ اللہ علیھما نے ارشاد فرمایا کہ “روح ایک ہی ہے۔” معرفت کی لازوال دولت سے مالامال ہوجانے کے بعد کوئی عارف یہ بتا سکتا ہے کہ لوگ سب کے سب روحاً حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کے ساتھ تھے اور اس حقیقت کا واضح اشارہ قرآنِ حکیم (۰۷: ۱۱) میں بھی ہے، اور اس آیۂ کریمہ میں چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تم آدم میں بھی تھے اور فرشتوں میں بھی، اور سب سے اعلیٰ راز تو یہ ہے کہ تم کو آدم کے ساتھ حظیرۂ قدس میں صورتِ رحمان پر پیدا کیا گیا تھا، مگر یہ عظیم معجزہ تم سے فراموش ہوچکا ہے، ہاں یہ لوحِ محفوظ میں ریکارڈ ہے، تم آج دنیا میں چشمِ معرفت سے یہ معجزہ دیکھ

 

۲۹

 

سکتے ہو، اور کل بہشت میں بھی۔

ہم ہر پیغمبر کے ساتھ تھے، اور ہر امام کے ساتھ بھی، اور ہر عارف کے ساتھ بھی، کیونکہ ہر روحانی قیامت میں بحکمِ اَلْارْوَاحُ جُنُوْدٌ مُّجَنَّدَۃٌ تمام روحیں جمع ہوجاتی ہیں۔ وَمَاتَوْفِیْقی اِلَّا بِا اللّٰہِ۔

گلشنِ راز میں ہے:

وَقَدْ سَئَلُوا وَ قَالُوْا مَا النِّھَایَۃُ

فَقِیْلَ ھِیَ الرُّجُوعُ اِلَی الْبِدَایَۃِ

انہوں نے پوچھا اور کہا کہ نہایت کیا ہے؟ جواب دیا گیا کہ نہایت ابتداء تک رجوع (واپسی) کا نام ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعرات ۲۳ مئی ۲۰۰۲ ء

 

۳۰

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۲۱

 

قرآنِ حکیم میں عالمِ انسانیّت کا اوّلین بار ذکر سورۂ فاتحہ کے آغاز ہی میں ہے: بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ  = عقلِ کلّی کی تعریف اللہ ہی کے لئے خاص ہے، جو عوالمِ شخصی کا پروردگار ہے۔ الْعٰلَمِيْنَ  سے عوالمِ شخصی مراد ہیں، یعنی ہر فردِ بشر ایک مستقل عالم ہے، پس انسانان عالمین ہیں = عوالمِ شخصی اور لفظ الْعٰلَمِيْنَ  قرآنِ پاک میں کُلّ ۷۳ مقامات پر آیا ہے، اور اس لفظ میں ہر مقام پر عوالمِ شخصی = عوالمِ انسانیّت ہی کا ذکر ہے، حضرتِ امام جعفرالصادق علیہ السّلام سے روایت ہے کہ عالمین سے افرادِ بشر مراد ہیں۔

حمد سے عقلِ کلّ مراد ہے، جو نورِ اعظم =  نورِ محمدی = فرشتۂ اکبر = قلمِ الٰہی = عرشِ عظیم =  آدمِ اوّل = آسمانِ نورُالانوار =  اصلِ اوّل وغیرہ کے ناموں سے ہے، جب خدا نے ایک ایسی بے مثال مخلوق پیدا کی ہے تو یہ خود اس کی بہت بڑی تعریف ہے، اور اللہ تعالیٰ کا یہ سب سے بڑا خزانہ جو انوارِ عقل و دانش اور اسرارِ علم و حکمت سے مملو، اور جواہرِ گرانمایۂ معرفت سے لبریز ہے، اس مقصد کے پیشِ نظر ہے کہ اس کے ذریعے سے عالمین = ہر ہر عالمِ انسانیّت یعنی ہر انسان کی اعلیٰ سے اعلیٰ پرورش ہو، کیونکہ خدا کی تمام

 

۳۱

 

مخلوقات میں عالمِ جمادات اسفلِ سافلین (سب سے نیچے) ہیں، اس لئے کہ وہ بیجان ہیں، خواہ وہ جواہرات کیوں نہ ہوں، جمادات پر نباتات کو برتری ہے، کہ ان میں روحِ نباتی ہے، نباتات پر حیوان بادشاہ ہے کہ اس میں روحِ حسّی ہے، حیوان پر انسان بادشاہ ہے، اس کی وجہ نفسِ ناطقہ اور عقلِ جزوی ہے، پس حضرتِ ربُّ العزت کی روحانی اور عقلی پرورش صرف اور صرف انسانوں ہی کے لئے مخصوص ہے۔

 

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعہ۲۴مئی ۲۰۰۲ ء

 

۳۲

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۲۲

 

قرآنِ عزیز میں سر تا سر عالمِ انسانیّت ہی کے لئے ہدایت و نصیحت اور علم وحکمت موجود ہے، قرآنِ حکیم علم و حکمت کا ایک بحرِ عمیقِ بے پایان ہے چونکہ اس کے ساتھ نورِ منزل بھی ہے (۰۵: ۱۵) اس لئے اس کی عُلُوِ شان کا کیا کہنا، اگر قرآنِ حکیم میں ستر ہزار علوم محجوب ہیں، تو وہ یقیناً سب کے سب عالمِ انسانیّت ہی کے لئے ہیں، پروردگار نور اور قرآن (۰۵: ۱۵) کے ذریعے سے انسانی طبقات و درجات کو ترقی دینا چاہتا ہے، لہٰذا قرآن میں جگہ جگہ پُر از حکمت نصائح ہیں، آپ قرآنی انڈیکس کے ذریعے سے معلوم کر سکتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں کتنی بار لفظِ انسان آیا ہے، اور لفظِ ناس کتنی دفعہ؟

الغرض قرآنِ حکیم عالمِ انسانیّت کی بہتری کے لئے نازل ہوا ہے، لہٰذا قرآنِ عزیز کے ہر مضمون اور ہر عنوان کے تحت انسان ہی کا ذکر آتا ہے۔

حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: (اے انسان!) کیا تیرا یہ گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے (اور بس) حالانکہ عالمِ اکبر تجھ میں سمایا ہوا ہے! یقیناً یہ حقیقت ہے کہ روحانی قیامت جب قائم ہوتی ہے، تو اس میں بار بار کائنات کو عالمِ شخصی میں لپیٹ کر رکھا جاتا ہے، اور بار بار یہی عمل ہوتا رہتا ہے، ملاحظہ ہو کتابچہ روحانی سائنس کے عجائب و غرائب جو

 

۳۳

 

عملی تصوّف میں ہے۔

ای نسخۂ نامۂ الٰہی کہ تُوی                    وی آئینۂ جمالِ شاہی کہ تُوی

بیرون ز تو نیست ہر چہ در عالم ہست  درخود بطلب ہر آنچہ خواہی کہ تُوی

ترجمہ: اے کتابِ الٰہی کا نسخہ! (یعنی خدائی کتاب کی اصل) کہ یہ تو خود ہی ہے، اور اے حقیقی بادشاہ کے جلال و جمال کا آئینہ ! کہ یہ تو خود ہی ہے، کائنات میں جو کچھ ہے وہ (اپنی باطنی اور روحانی صورت میں) تجھ سے باہر نہیں (پس) تو جو کچھ چاہتا ہے وہ اپنے باطن (یعنی اپنی ذات) ہی میں طلب کرلے(کیونکہ سب کچھ) تو خود ہی ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعہ۲۴مئی ۲۰۰۲ ء

 

۳۴

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۲۳

 

سورۂ حُجرات (۴۹: ۱۳)يٰٓاَيُّهَا  النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا  ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ۔

ترجمہ: لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

اس آیۂ کریمہ کے ظاہری معنی سب کو معلوم ہیں، مگر باطنی تاویل حجاب میں محجوب ہے، آپ امامِ مبین علیہ السّلام کو آدمِ زمانؑ مان سکتے ہیں، پرہیزگاری کا خاص معیار کلمۂ تقویٰ ہے (۴۸: ۲۶) جوحضرتِ عزرائیل علیہ السّلام کے کام کے لئے ایک بڑا طاقتور اسمِ اعظم ہے جس کی معرفت منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی میں ہوتی ہے۔

انسانی روح قادرِ مطلق کا سب سے بڑا معجزہ ہے کہ یہ بیک وقت ایک میں بھی ہے اور سب میں بھی ہے، بہشت میں بھی ہے اور دنیا میں بھی ہے، درجات میں بھی ہے، اور مساوات میں بھی ہے۔

 

۳۵

 

اے عزیزان! روح کو حظیرۂ قدس میں دیکھو، یہاں روح کیلئے کیا نہیں ہے؟

جواب: سب کچھ ہے۔

 

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

سنیچر ۲۵، مئی ۲۰۰۲ ء

 

۳۶

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۲۴

 

سورۂ مریم (۱۹: ۹۳ تا ۹۵) کا ارشاد ہے:اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا ہ  لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا ہ وَكُلُّهُمْ اٰتِيْهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَرْدًا۔

ترجمہ: آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں، سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے آنے والے ہیں، یعنی حشرِ روحانی سے محشور ہونے والے ہیں، اس نے ان سب کو گھیر لیا ہے، اور ان کو عددِ واحد = نفسِ واحدہ میں ایک کرکے شمار کر رکھا ہے، (یعنی روحانی قیامت میں سب روحیں آکر نفسِ واحدہ میں فنا ہوجاتی ہیں) اور پھر تمام روحیں اسی کے ساتھ فردِ واحد بن کر خدائے واحد میں فنا ہوجاتی ہیں۔

اس آیۂ کریمہ کی تاویلی حکمت میں عالمِ انسانیّت کے حق میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی زبردست عنایات کا ذکرِ جمیل ہے، یقیناً روح ایک ہی ہے، مگر لوگوں کے پاس علم و معرفت کے آئینے الگ الگ اور بہت ہی مختلف ہیں، لہٰذا روح کے بیان میں تضادات پیدا ہوگئے ہیں۔

اگر آپ کا آئینۂ معرفت پاک و صاف اور روشن ہے تو آپ اپنی روح کو اصل سے واصل پائیں گے، اور آپ یقین کریں گے کہ خدا نے جو

 

۳۷

 

کام کرنے کا ارادہ کیا تھا، وہ کام ہوچکا ہے، ارشاد ہے:وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا ۔ (۳۳: ۳۷) اور اللہ کا فرمان اور کام خواستۂ خدا کے مطابق بجا لایا ہوا ہوتاہے۔

سوال: کیا خدا کسی چیز کو وجود میں لانے کے لئے کلمۂ کُنۡ (ہوجا) کہتا ہے یا اس کا ایسا ارادہ کرنا ہی گویا کُنۡ فرمانا ہے؟ جواب: صرف اللہ کا ارادہ ہی کافی ہے، اور کلمۂ کُنۡ ہمیں سمجھانے کے لئے ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

سنیچر۲۵مئی ۲۰۰۲ ء

 

۳۸

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۲۵

 

سورۂ عصر (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۳) ترجمہ: اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے، (عصر) زمانے کی قسم، انسان در حقیقت خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو حقیقی معنوں میں ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق و حقیقت کی نصیحت کرتے رہے اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

انسان اپنی ذات سے برتر چیزوں کی قسم کھاتا ہے، مگر اللہ کی ذات ایسی پاک و برتر ہے کہ اس سے نہ تو کوئی شیٔ برتر ہے اور نہ ہی کوئی چیز اس کے برابر ہے، لہٰذا خدا ایسی مقدّس چیز کی قسم کھاتا ہے، جو اس کے بہت قریب کی ہو، اور ایسی مقدّس ہستیاں حدودِ دین ہیں۔

پس سورۂ عصر میں اللہ نے اساس کی قسم کھائی ہے، کہ عصر سے اساس مراد ہے، ملاحظہ ہو کتاب وجہِ دین، کلام۔ ۲۰، ص ۲۰۷۔۲۰۸  یہاں قَسم کے بعد جوابِ قَسم میں انسان کو خسارے سے خبردار کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے عالمِ انسانیّت کے لئے سب کچھ کررکھا ہے، مگر انسان خود اتنا غافل اور ایسا جاہل ہے کہ اسے اپنے خسارے پر خسارے یعنی مسلسل خسارے کی کوئی خبر ہی نہیں۔

 

۳۹

 

اللہ نے اساس (رسولؐ کے وصی یعنی علیؑ) کی قسم کھائی، اس میں علم و حکمت کے دروازے کی طرف اور سلسلۂ نور کی طرف اشارہ ہے، خدا کرے کہ ہر انسان اپنی آخرت کی تجارت میں کوئی خسارہ نہ کرے، وہ چشمِ بصیرت سے اپنا نامۂ اعمال اور بہشتِ حظیرۂ قدس کو دیکھے اور پہچان لے، آمین! یَا رَبَّ العٰلَمِین!

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

اتوار۲۶مئی ۲۰۰۲ ء

 

۴۰

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۲۶

 

علم ومعرفت کی روشنی میں یہ حقیقت معلوم ہوئی ہے کہ آدمِ اوّل سے قبل جو دورِ روحانی تھا، اس میں سب لوگ روحاً و باطناً ایک ہی امّت تھے (۰۲: ۲۱۳) اور ہر نفسِ واحدہ میں تمام لوگ روحاً و باطناً ایک ہی امّت ہوجاتے ہیں، چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام اپنے وقت کا امام = نفسِ واحدہ = مجموعۂ خلائق اور ایک ہی فرمانبردار امّت تھا (۱۶: ۱۲۰) اگر آپ امامِ زمانؑ کا عطا کردہ اسمِ اعظم کے پاک ذکر میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر روحانی قیامت کے ذریعے سے دنیا بھر کے لوگ روحاً و باطناً آپ میں جمع ہوکر ایک ہی امّت ہوجائیں گے، کیونکہ معرفت کے ہر اہم اور عظیم کام کا تجدُّد ہوتا ہے، یا یوں کہا جائے کہ ہر چیز ایک دائرے پر گردش کر رہی ہے، (۲۱: ۳۳)، (۳۶: ۴۰) ۔ اَلْارْوَاحُ جُنُوْدٌ مُّجَنّدَۃٌ = روحیں جمع شدہ لشکر کی صورت میں تھیں اور ہمیشہ اسی طرح ہوتی ہیں۔

ہر روحانی قیامت میں سب لوگ کسی عالمِ شخصی میں جمع ہوتے ہیں پس قرآنِ عزیز میں جہاں جہاں قیامت کا ذکر آیا ہے، وہاں عالمِ انسانیّت کا ذکر ہے، جہاں جہاں لفظِ انسان ہے اور جہاں جہاں لفظِ ناس ہے، وہاں عالمِ انسانیّت ہی کا تذکرہ ہے، اور جہاں جہاں اللہ کا کوئی اسمِ صفت

 

۴۱

 

آیا ہے اس میں بھی عالمِ انسانیّت کی طرف ایک اشارہ ہے، مثلاً ربّ لوگوں کا پروردگار، وغیرہ۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

اتوار،۲۶مئی ۲۰۰۲ ء

 

۴۲

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۲۷

 

سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) کا ارشاد ہے: وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْهًا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ : اور آسمانوں اور زمین میں (مخلوقات سے) جو بھی ہیں خوشی سے یا مجبوری سے سب اللہ ہی کے لئے سجدہ کرتے ہیں۔

لوگ از خود اللہ کے حضور نہیں جا سکتے ہیں، مگر نفسِ واحدہ میں فنا ہوکر، اور یہی قانونِ لفیف ہے (۱۷: ۱۰۴) یعنی خدا بذریعۂ روحانی قیامت لوگوں کو نفسِ واحدہ میں لپیٹ لیتا ہے، لفیف = لپٹا ہوا = سمٹا ہوا۔

قیامت میں بار بار روحوں کا حشر و نشر ہوتا ہے، یعنی کائنات بھر سے روحیں عالمِ شخصی میں جمع کی جاتی ہیں، پھر ساری کائنات میں بکھیر دی جاتی ہیں، اس حیران کن معجزے میں بہت سی حکمتیں ہیں۔

فنا فی اللہ سے پہلے قانونِ فرد ہے، یعنی جو لوگ نفسِ واحدہ کے ساتھ ہیں ان کو فردِ واحد ہوجانا ہے، تاکہ خدائے واحد میں فنا ہوسکیں (۰۶: ۹۴) (۱۹: ۸۰) (۱۹: ۹۵)۔

قانونِ مَدَالظِّلَّ (۲۵: ۴۵) تاویلی مفہوم: کیا تم نے حظیرۂ قدس میں اپنے ربّ کی طرف نہیں دیکھا کہ کس طرح اپنے نور کے عکس کو پھیلاتا ہے اور

 

۴۳

 

لپیٹتا ہے۔ یہاں سایہ مثال ہے اور عکسِ نور ممثول ہے، عقل و دانش سے غور کرو۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

پیر۲۷مئی ۲۰۰۲ ء

 

۴۴

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۲۸

 

سورۂ  روم  (۳۰: ۳۰) کا پُرحکمت ارشاد ہے: فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًاۭفِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَاۭلَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِۭذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔

ترجمہ: اللہ کی (ایک ہی) فطرت ہے (بس) یہی ہے جس پر اس نے (تمام ) انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کے پیدا کرنے میں کوئی تبدیلی نہیں، اور وہی دینِ قائم ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔

آیۂ فطرت کا یہ جامعُ الجوامع فرمان علم و حکمت کا ایک ایسا خزانہ ہے، جس میں عالمِ انسانیّت سے متعلق پیدا ہونے والے تمام پیچیدہ سوالات کیلئے تسلی بخش جوابات موجود ہیں۔

اُیُم دشن ئیڎبا ایلے سس اٰیون بَبربان

ازلے ببربم جون ابدے ببر بُٹ اُیم

میں نے ایک اعلیٰ مقام دیکھا ہے، جہاں سب لوگ برابر ہیں، جس طرح لوگ ازل میں ایک اور برابر تھے، اسی طرح ان کا ابد میں بھی برابر اور ایک ہوجانا بڑی خوشی کی بات ہے۔

آپ قرآن میں قانونِ فرد اور قانونِ فنا فی اللہ کو پڑھیں، آپ

 

۴۵

 

مساواتِ رحمانی کو پڑھیں، آپ قانونِ یک حقیقت کو سمجھ لیں۔

 

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

پیر۲۷مئی ۲۰۰۲ ء

 

۴۶

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۲۹

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲) وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ  ۭ قَالُوْا بَلٰي ڔ شَهِدْنَا ڔ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ  ہ

سوال: کتنے آدم ہوئے ہیں؟ جواب: خدا کی قدیم بادشاہی میں بیشمار آدموں کے لاتعداد ادوار گزرچکے ہیں، چونکہ آدم آئینۂ اسماء و صفاتِ خداوندی ہے، لہٰذا اس آئینے کو ہمیشہ ہمیشہ موجود ہونا چاہئے۔

مذکورۂ بالا آیۂ شریفہ کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ اس دورِ اعظم کے آغاز میں جو آدم تھا وہ بھی اگلے آدم کے اعتبار سے بنی آدم میں سے ایک تھا، لہٰذا جب اس پر روحانی قیامت آگئی، تو اس کے لئے قیامت کے تمام معجزے ہوگئے، جن کا ہم نے بار بار ذکر کیا ہے، اس کی پشت سے تمام ذریّت = انسانی ارواح کو خدا نے حظیرۂ قدس پر بلند کر لیا، جہاں حضرتِ ربُّ العزّت نے روحوں کو حظیرۂ قدس کے جملہ معجزات دکھائے۔

ہر روحانی قیامت میں عہدِ الست کا تجدُّد ہوتا ہے، یہ قرآنِ حکیم کی ایک شہادت ہے جس سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ عالمِ انسانیّت کو اوجِ کمال تک لے جانا چاہتا ہے، اس کو یہ بات پسند نہیں کہ

 

۴۷

 

انسان پستی کی طرف جائے۔

اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں عالمِ انسانیّت کے لئے حقیقی خیر خواہ بنائے! آمین! تاکہ ہم قرآنِ حکیم ہی کی روشنی میں عالمِ انسانیّت کی کوئی علمی خدمت کر سکیں، آمین ! یا ربَّ العٰلمین!

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل۲۸  مئی ۲۰۰۲ ء

 

۴۸

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۳۰

 

سورۂ سجدہ (۳۲: ۰۴ تا ۰۵)اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِـتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰي عَلَي الْعَرْشِ ۭ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا شَفِيْعٍ ۭ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ ہ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاۗءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗٓ اَلْفَ سَـنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ۔

ترجمہ: وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا، اس کے سوا نہ تمہارا کوئی حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کے آگے سفارش کرنے والا، پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤگے؟ وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اوپر اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے۔

تاویلی مفہوم: اللہ تعالیٰ کے سات زندہ دن یہ ہیں: حضرتِ آدمؑ = اتوار، حضرتِ نوحؑ  = سوموار، حضرتِ ابراہیمؑ = منگل وار، حضرتِ موسیٰؑ = بدھوار، حضرتِ عیسیؑ = جمعرات، حضرتِ محمدؐ = جمعہ، حضرتِ قائمؑ =

 

۴۹

 

سنیچر، ان میں سے ہر دن ہزار سال کا ایک دور ہے، پس اللہ نے چھ دن (چھ ہزار سال) میں عالمِ دین کو پیدا کیا اور ساتوین دن نورِحضرتِ قائمؑ کے عرش پر جلوہ فرما ہوکر مساواتِ رحمانی کا کام کرنے لگا۔

مذکورہ آیۂ کریمہ میں یہ مفہوم بھی ہے کہ اللہ عالمِ امر سے ہزار سالہ پروگرام کے ساتھ ایک عظیم روح کو عالمِ انسانیّت میں بھیجتا ہے، جو ہزار سال میں اپنا کام پورا کرکے خدا کی طرف رجوع ہوجاتی ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل۲۸مئی ۲۰۰۲ ء

 

۵۰

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۳۱

 

سورۂ ھود (۱۱: ۰۷) وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّكَانَ عَرْشُهٗ عَلَي الْمَاۗءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۔ آپ ترجمہ قرآن میں بھی  دیکھیں۔

تاویلی مفہوم: اللہ وہی ہے، جس نے عالمِ دین کے نمونے پر عالم شخصی کے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس کا عرش = تخت پانی پر ظاہر ہوا البتہ یہ تاویلی معجزہ تھا، پھر یہ معجزہ در معجزہ ہوکر عرش پانی پر ایک کشتی کی صورت میں نظر آیا اور اس سفینہ میں حضرتِ امام علیہ السّلام جلوہ گر تھا، زبانِ مبارک پر ایک مخفی اسمِ اعظم جاری تھا۔

اسی معجزۂ اعظم کا ذکرِ جمیل سورۂ یٰسٓ (۳۶: ۴۱) میں بھی ہے:وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ  ۔

تاویلی مفہوم: اور ان کے لئے ایک بہت بڑا معجزہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی ذرّیت (ذرّاتِ روحانی) کو بھری ہوئی کشتی مین سوار کردیا، روحوں سے بھری ہوئی کشتی خود صاحبِ سفینہ ہے، کیونکہ اللہ کا زندہ عرش، زندہ اسمِ اعظم ، اور تمام روحوں سے بھری ہوئی زندہ کشتی وہی ہے، یعنی امامِ آلِ محمدؐ ، اگر یہ بھری ہوئی کشتی جسمانی ہوتی تو پھر مزید لوگوں کے لئے گنجائش

 

۵۱

 

ہی نہ ہوتی، عارفِ رومی کہتا ہے:

بانوح در کشتی بُدم                  بایوسف اندر قعرِ چاہ

میں نوحؑ کے ساتھ کشتی میں تھا اور یوسفؑ کے ساتھ قعرِ چاہ میں بھی۔ کیا یہ جسم کی بات ہے یا روح کی؟

اس میں علم و عمل کا بہت بڑا امتحان بھی ہے اور اللہ کا انتہائی عظیم احسان بھی، کہ اس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز نے اپنے معجزات کا ایک سبب بناکر عالمِ انسانیّت کو عرش تک بلند کر لیا، امامِ عالیمقامؑ نے فرمایا: تم عرشِ عظیم پر پہنچو۔

رَفِيْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِ (۴۰: ۱۵) درجات کا بلند کرنے والاصاحبِ عرش (القرآن) ۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ  ۲۹ مئی ۲۰۰۲ ء

 

۵۲

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۳۲

 

سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۳)اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ ۠ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا ۣ ثُمَّ اَحْيَاھُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ  اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ ۔

ترجمہ: کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں (بلکہ بے شمار) تھے اللہ نے ان سے فرمایا: مرجاؤ، پھر اس نے ان کو زندہ کیا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔

تاویل: اس پُرحکمت آیت میں روحانی قیامت کا یہ بیان ہے کہ دنیا بھر کے بے شمار لوگ صورِ اسرافیل کی قیامت خیز آواز سے ڈر کر اس عالمِ شخصی میں داخل ہوجاتے ہیں جس میں قیامت کی دعوت ہے، چونکہ وہاں اسرافیل کے ساتھ ساتھ عزرائیل بھی اپنا کام کر رہا ہوتا ہے، لہٰذا سب لوگ خوش بختی سے مرکر نفسِ واحدہ میں زندہ ہوجاتے ہیں۔

عالمِ انسانیّت پر اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا فضل و کرم ہے کہ اب یہ سب کے سب دریائے رحمت میں بہتے بہتے جنّت میں جا پہنچتے ہیں۔

اس آیۂ کریمہ کے آخر میں ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ سب لوگوں

 

۵۳

 

کے حق میں یکسان فضل کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ شاکر اور قدردان نہیں ہیں۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ۲۹ مئی ۲۰۰۲ ء

 

۵۴

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۳۳

 

سورۂ انشقاق (۸۴: ۰۶ تا ۰۹) کا مبارک ارشاد ہے:يٰٓاَيُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِيْهِ  ۚفَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ ۙفَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا ۙوَّيَنْقَلِبُ اِلٰٓى اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا

ترجمہ: اے انسان تجھ کو تکلیف اٹھانی ہے اپنے ربّ تک پہنچنے میں سہہ سہہ کر پھر اس سے ملنا ہے (دیدار کرنا ہے)۔ سوجس کو ملا اعمالنامہ اس کا داہنے ہاتھ میں تو اس سے حساب لیں گے آسان حساب اور پھر کر آئے گا اپنے لوگوں کے پاس خوش ہوکر۔

تاویل: جب کوئی بھی انسان اللہ تعالیٰ کے زندہ اسمِ اعظم کے ذکر و عبادت میں کامیاب ہوجاتا ہے تو دنیا کی زندگی ہی میں اس کی روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے، اور روحانی قیامت وہ ہے جس میں گوناگون قربانیاں دینی پڑتی ہیں، یہ ساری قربانیاں عالمِ انسانیّت ہی کے لئے ہوتی ہیں، کیونکہ عالمِ انسانیّت ہی میں سب ہیں۔

آپ اس آیۂ کریمہ میں عقل و دانش سے غور کریں، یہ عارفانہ قیامت دنیا ہی میں ہے، کیونکہ روحانی قیامت کے خزانوں سے مالا مال ہوکر شادان و فرحان اپنے لوگوں کی طرف لوٹ آنا دنیا ہی میں ممکن اور

 

۵۵

 

منطقی ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعرات۳۰ ،مئی ۲۰۰۲ ء

 

۵۶

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۳۴

 

تمہارے پاس جو اسمِ اعظم (بول) ہے وہ دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے۔

ان شاء اللہ ہم غلامانِ امام علیہ السّلام امام کی خوشنودی کیلئے عالمِ انسانیّت سے بار بار قربان ہوتے ہوئے اسمِ اعظم کے نتائج و ثمرات کو عیالُ اللہ کے نام پر کردیں گے، کیونکہ عیالُ اللہ کے لئے کام کرنا، اللہ کی رضا کا باعث ہے، اور بہت بڑی حکمت اسی میں ہے کہ ہم تمام انسانوں کو نفسِ واحدہ میں ایک ہی روح قرار دیں، جیسا کہ حضرتِ امام سلطان محمد شاہؑ  کا فرمانِ مبارک ہے: تم ہماری روحانی اولاد ہو، اور یاد رکھنا کہ “روح ایک ہی ہے۔”

یقیناً تمام انسانوں کی ایک ہی روح ہے، یہی عالمِ انسانیّت کی روح ہے، یعنی نفسِ واحدہ ہے۔

موصوف امامؑ نے ہمیں مونوریالٹی = یک حقیقت کا انقلابی تصوّر دیا ہے جس میں تمام انسانوں کی ایک ہی ازلی حقیقت ہونے کا اشارہ ہے جیسے فنا فی اللّٰہ و بقاء با للّٰہ کا صوفیانہ تصوّر ہے، اور جیسا کہ حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے کہ اے ابنِ آدم! میری حقیقی اور کلّی اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی

 

۵۷

 

مثل بنا دوں گا۔۔۔۔

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ حظیرۂ قدس کی عرفانی بہشت میں یہ تمام اسرارِ معرفت موجود ہیں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحْسَانَہٖ۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعرات ۳۰، مئی ۲۰۰۲ ء

 

۵۸

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۳۵

 

قرآنِ عزیز میں لفظِ روح ظاہراً واحد اور باطناً جمع کے لئے بھی ہے، نیز روح نور کے معنی میں بھی ہے، خصوصاً وہ الٰہی روح جو آدم میں پھونک دی گئی تھی۔

یاد رہے کہ حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام میں الٰہی روح نفخِ صور اور روحانی قیامت کے ذریعے سے پھونک دی گئی تھی، اور ہر روحانی قیامت میں تمام انسانوں کی روحیں جمع ہوتی ہیں، اور یہاں یہ حکمت بھی یاد رہے کہ آدم پہلا نفسِ واحدہ تھا جس میں تمام انسانی روحیں حظیرۂ قدس تک جاتے جاتے فنا ہوچکی تھیں، اب آدم جس میں عالمِ انسانیّت فنا ہوچکا تھا فردِ واحد بن کر خدائے واحد میں عارفانہ فنا ہوگیا، اور اسی حالت میں اللہ نے آدم کو صورتِ رحمان پر پیدا کیا۔

میں یہ معرفت کا عظیم راز قبلاً بتا چکا ہوں کہ تم آدم میں مسجود بھی اور فرشتوں میں ساجدین بھی تھے، اس یقینی حقیقت کو سمجھنے کے لئے سورۂ اعراف (۰۷: ۱۱) میں چشمِ بصیرت سے دیکھیں اور خوب غور کریں، نیز سورۂ سجدہ (۳۲: ۰۹) کو بھی سیکھیں، اَلْاَرْوَاحُ جُنُوْدٌ مُّجَنَّدَہ کے مطابق تمام انسانی روحیں آدم کے ساتھ موجود تھیں، یہ تمام انسانی روحیں آدم کی کاپیاں بھی تھیں ، اور اولاد بھی

 

۵۹

 

تھیں۔

آپ اس قانونِ نعمت میں بھی سوچیں : اݹ منݳسن اپݵ = کوئی نعمت غیر ممکن نہیں۔

وَاٰتٰکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ (۱۴: ۳۴) = اس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا۔

 

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ۳۱، مئی ۲۰۰۲ ء

 

۶۰

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۳۶

 

قرآنِ حکیم ہی کی روشنی میں عالمِ انسانیّت عالمِ شخصی ہے، جس میں حظیرۂ قدس کے نام سے عرفانی بہشت ہے، یہاں اسی عالمِ انسانیّت میں امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہوجاتا ہے، جو اصلاً اللہ کا نورِ منزل ہے (۰۵: ۱۵) جس کی برکت سے عالمِ شخصی = عالمِ انسانیّت کائناتی بہشت بن جاتا ہے۔

اللہ جلِّ جلالہ نے امامِ مبین علیہ السّلام کو نہ صرف پرہیزگاروں کا امام بنایا ہے، بلکہ تمام لوگوں کے لئے بھی امام مقرر فرمایا ہے، اور روحانی قیامت کا کام بھی امام ہی کے سپرد ہے تاکہ امامِ زمانؑ قیامت کے زور و زبردستی سے تمام لوگوں کو بہشت میں داخل کردے (۱۷: ۷۱)۔

حظیرۂ قدس کی عرفانی بہشت میں انسانوں کی سلامتی اور عزت و برتری کے بڑے عجیب و غریب اسرار کے خزانے محجوب ہیں، سبحان اللہ! وہ القابض اور الباسط کا اشارہ، وہ کتابِ مکنون، وہ کلمۂ باری، وہ کتابِ ناطق، وہ آفتابِ نور، وہ ماہِ کامل، وہ جنّات کا سمندر سے موتی نکالنا، وہ ستاروں کا گرنا، وہ پُرحکمت مشارق و مغارب، وہ قرآنی معجزات، وہ نور کی سعی، وہ صبحِ ازل اور شامِ ابد، وہ لقاء، وہ دیدار! وہ فناء، وہ بقاء، وہ تمام انسانوں کی وحدت۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ۳۱ ،مئی ۲۰۰۲ ء

 

۶۱

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۳۷

 

سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۷) کا پاک و پُرحکمت ارشاد ہے:وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ۔  ترجمہ: اے نبیؐ! ہم نے تو تم کو دنیا والوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے، یعنی ہر عالمِ شخصی= عالمِ انسانیّت کے لئے، پھر یقیناً اللہ کی رحمتِ کلّ کا یہ پروگرام جو تمام انسانوں کے حق میں بنا ہوا ہے، آخر کار پورا ہوکر رہے گا، کیونکہ یہ بات قطعی ناممکن ہے کہ اللہ کسی کام کا ارادہ کرے اور وہ نہ ہوجائے۔

سورۂ مجادلہ (۵۸: ۲۱) کا ارشاد ہے:كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ ۔ ترجمہ: اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول یعنی تمام پیغمبران ہی غالب ہوکر رہیں گے، فی الواقع اللہ زبردست اور زور آور ہے۔

غالب آنا حربی لفظ = اصطلاح ہے، لہٰذا اس فرمانِ الٰہی میں روحانی قیامت اور روحانی جنگ کا تذکرہ ہے، چنانچہ ہر امام کے زمانے میں ایک روحانی قیامت اور اس میں ایک روحانی جنگ ہوتی آئی ہے، اس کی معرفت صرف اورصرف عرفاء ہی کو حاصل ہوتی ہے، اور بس۔

اگر آپ روحانی قیامت اور روحانی جنگ کے معجزات کو دیکھنا چاہتے

 

۶۲

 

ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ  کے اس فرمان پر عمل کریں، وہ فرمانِ مبارک یہ ہے: مُوْتُوْا قَبْلِ اَنْ تَمُوْتُوْا = تم اپنی جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مرجاؤ، تاکہ تمہاری روحانی قیامت برپا ہوسکے اور روحانی جنگ میں تم اللہ کی مدد سے کائنات کو مسخر کرسکو۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر، یکم جون ۲۰۰۲ ء

 

۶۳

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۳۸

 

کتابِ احادیثِ مثنوی ص ۶۴ پر یہ حدیثِ شریف ہے: یَأتِی اَقْوَامٌ اَبْوَابَ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلَوْنَ اَلَمْ یَعِدْ نَا رَبُّنَا اَنْ نَرِدَ النَّارَ فَیُقَالُ مَرَرْتُمْ عَلَیْھا وھِیَ خَامِدَۃٌ۔

ترجمہ: بہت سے لوگ جنّت کے دروازوں پر آکر کہیں گے کہ آیا ہمارے ربّ نے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ تم سب کو دوزخ کی آگ سے گزرنا ہے (۱۹: ۷۱) ان سے کہا جائے گا کہ ہاں اللہ کا یہ فرمان حق = سچ ہے کہ تم سب آتشِ دوزخ سے گزر چکے ہو در حالیکہ وہ بجھائی ہوئی تھی۔

پس عالمِ انسانیّت کی نجات کی خاطر نہایت مہربان اللہ کے پاس بڑی عجیب و غریب رحمتیں اور حکمتیں ہیں۔

قَالَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ : اَلخَلْق عِیَالیْ (حدیثِ قدسی ہے) تمام مخلوق میرا کنبہ ہے۔۔۔۔

قرآنِ حکیم میں اللہ کے غضب کا ذکر تو آیا ہے، لیکن اللہ کے اسمائے صفات میں کوئی ایسا اسم نہیں جس میں غصّے کے معنی ہوں۔

میں علم و حکمت اور معرفت کی روشنی میں یہ بتا سکتا ہوں کہ اللہ کے ہر اسمِ صفت میں عالمِ انسانیّت کو حظیرۂ قدس تک پہنچا دینے کے معنی ہیں۔

 

۶۴

 

ان شاء اللہ ہم اس کی کچھ مثالیں پیش کریں گے، وَمَا توفیقی الّا بِاللّٰہ۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر، یکم جون ۲۰۰۲ ء

 

۶۵

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۳۹

 

سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۴) کا بابرکت اور پُرحکمت ارشاد ہے:يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَـطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ  ۭ كَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ  ۭ وَعْدًا عَلَيْنَا  ۭ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ ۔

ترجمہ: وہ دن جب کہ آسمان = کائنات کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیئے جاتے ہیں، جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتداء کی تھی اسی طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گے، یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے اور یہ کام ہمیں بہر حال کرنا ہے۔

اللہ تعالیٰ کائناتِ باطن کو ایسے عالمِ شخصی میں لپیٹتا ہے جس میں امامِ زمانؑ کے نور طلوع ہونے سے روحانی قیامت برپا ہوتی ہے، یہاں ایک بڑا مشکل سوال پیدا ہوجاتا ہے، وہ یہ ہے کہ سورۂ ھود (۱۱: ۱۰۷ تا ۱۰۸) کے مطابق دوزخ اور جنّت کی عمر اتنی ہی ہے، جتنی کائنات کی عمر ہے، لہٰذا کائنات کو لپیٹنے سے بہشت اور دوزخ دونوں کی عمر ختم ہوجاتی ہے، ہاں یہ حقیقت ہے، لیکن یہ سرِّ عظیم بھی تو ہے کہ خداوندِ تعالیٰ کائناتِ باطن کا تجدّد کرتا ہے، اور ایک تاویل کے مطابق ستر ہزار روحانی کائناتیں بناتا ہے۔

جس طرح میوہ دار درخت کے پھل میں تخم اور اس میں مغز ہوتا ہے

 

۶۶

 

جس سے پھر وہی درخت پیدا ہوتا ہے، اسی طرح اللہ کائناتِ باطن کو لپیٹ کر گوہرِ عقل بناتا ہے، پھر گوہرِ عقل سے باطنی کائنات پیدا کرتا ہے، اگرچہ یہ کام دائرۂ درخت اور پھل کی طرح ہے، لیکن یہ عالمِ خلق نہیں بلکہ عالمِ امر ہے، لہٰذا اس میں تخم اور درخت کے درمیان وقت نہیں لگتا ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار ۲، جون  ۲۰۰۲ ء

 

۶۷

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۴۰

 

سورۂ یٰسٓ (۳۶: ۱۲) جو قلبِ قرآن ہے، اس کا ارشاد ہے: اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْۣؕ-وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ = ہم یقیناً مردوں کو زندہ کرتے ہیں، جو کچھ افعال انہوں نے کئے وہ سب ہم لکھتے ہیں، اور جو کچھ آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ثبت کرتے ہیں، اور ہر چیز (یعنی تمام چیزوں) کو امامِ مبین میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے۔

اس آیۂ کریمہ کا نام کلیّۂ امامِ مبین بھی ہے، اس کی روحانی تفسیر و تاویل اور معرفت عالمِ شخصی، روحانی قیامت اور حظیرۂ قدس میں مکمل ہوجاتی ہے، حضرتِ امام محمد  باقر علیہ السّلام کا یہ ارشاد قوانینِ معرفت میں سے ہے: “جو کچھ اللہ کے بارے میں کہا گیا ہے وہ ہم اماموں سے متعلق ہے ۔”

پس خدا کے حکم سے امامِ مبین ہی روحانی قیامت کو برپا کرتا ہے اور کائناتِ باطن کے ساتھ عالمِ انسانیّت کو حظیرۂ قدس میں لپیٹتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام انسانوں کو عالمِ سفلی سے عالمِ علوی میں لے جاتا ہے، ہم نے یہ رازِ روحانی آپ کو بتا دیا ہے کہ امامِ مبین اللہ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم ہے، لہٰذا وہ روحانی قیامت کو برپا کر سکتا ہے جس میں عموماً سب لوگوں کا

 

۶۸

 

فائدہ ہے اور خصوصاً پرہیزگاروں کا فائدہ ہے۔

قرآنِ حکیم میں جس طرح لفظِ خلیفہ کے معنی میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں، بالکل اسی طرح لفظِ امام کے معنی بھی اپنی جگہ پر مضبوط ہیں، پس منصبِ خلافت کو قصّۂ آدمؑ میں دیکھیں اور منصبِ امامت کو قصۂ ابراہیمؑ میں دیکھیں۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار، ۲ جون ۲۰۰۲ ء

 

۶۹

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۴۱

 

اللہ جلَّ جلالہ کا مقدّس و مبارک زندہ اسمِ اعظم آپ سب کو بہت کچھ دینے کے لئے تیار ہے، لیکن اس غفلت و کاہلی کے لئے کیا کیا جائے کہ آپ انعامات لینے کے لئے تیار نہیں ہیں، پھر بھی اللہ نہایت مہربان اور مسببُ الاسباب ہے، وہ طرح طرح کے وسائل سے تمام انسانوں کو نفسِ واحدہ کے ساتھ حظیرۂ قدس کے عرفانی بہشت میں داخل کردیتا ہے، کیونکہ جب زمانے کی روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے تو اس میں تمام لوگ روحاً حاضر اور شامل ہوجاتے ہیں، یقیناً روحانی قیامت ہی وہ واحد وسیلہ ہے جس میں ہمیشہ عالمِ انسانیّت کے لئے نجات ہے۔

آج ہم اور ہمارے تمام ساتھی شرق و غرب میں عالمِ انسانیّت کی علمی خدمت کے لئے کمر بستہ ہوچکے ہیں، ان شاء اللہ ہم عیال اللہ کی اس پُرخلوص خدمت میں کامیاب ہوجائیں گے، کیونکہ عصرِ حاضر میں اس مقدّس خدمت کی سخت ضرورت ہے اور دوسری طرف جبکہ یہ زمانہ دورِ قیامت = دورِ تاویل = دورِ کشف ہے۔

اگر کسی شخص نے اللہ کے فضل و کرم سے زندہ اسمِ اعظم اور روحانی قیامت کے عظیم معجزات کو دیکھا ہے تو کیا ایسے معجزات قرآنِ حکیم کے تاویلی معجزات

 

۷۰

 

سے الگ ہوسکتے ہیں؟ اگر ایک ہیں، تو پھر ان معجزات کا کوئی مقصد بھی ہے یا نہیں؟ اگر کوئی مقصد ہے، تو وہ کیا ہے؟

اگر کوئی شخص اللہ کے پُرحکمت معجزات کو دیکھنے کے باوجود بہرا، اندھا، اور گونگا ہوجاتا ہے تو یہ اس کی بہت بڑی بدبختی ہے، لہٰذا ہم بہت ڈرتے ہیں اور عالمِ انسانیّت کے مفاد میں جو قرآنی اور روحانی اسرار معلوم ہوئے ہیں، ان کا اشارہ کرتے ہیں۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر ۳، جون ۲۰۰۲ ء

 

۷۱

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۴۲

 

حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ عَلیٰ غَضَبِیْ = میری مہربانی میرے غصّے سے آگے بڑھ گئی۔ ( یعنی میری رحمت میرے غضب سے بہت زیادہ ہے)۔

قرآن و حدیث اور خود مولا کے کلام میں علی مرتضیٰ کے بہت سے اسماء والقاب ہیں، چنانچہ کتابِ ناسخ التواریخ میں مولا علیؑ کے تین سو اسماء ہیں، ہم یہاں ان سب کا بیان نہیں کرسکتے ہیں، مگر کتابِ سرائر سے صرف چند ضروری اسماء پیش کرتے ہیں:۔

دِیْنُ  اللّٰہ ، نفسُ اللّٰہ، مواقع النجوم، علیُ الکبیر، اُذُنُ اللّٰہ، جَنْبُ اللّٰہ، وجہ اللّٰہ، حکیم: قرآن میں ، کُلّاً: توراۃ میں، حَتماً: انجیل میں ، بشراً: زبور میں، اَوَّلاً وَآخراً: صُحفِ ابراہیم میں، خبیر، علیم، قدیم، بصیر، عارف۔

نفسُ اللّٰہ : (۰۳: ۲۸؛ ۰۳: ۳۰)(۰۶: ۱۲)(۰۶: ۵۴) کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلیٰ نَفْسِہٖ الرَّحْمَۃ = تمہارے ربّ نے اپنے نفس (امام مبین میں) رحمت لکھ دی ہے۔

حدیث شریف ہے: اِنَّ  اللّٰہ تعالیٰ لَمَاخَلَقَ الْخَلْقَ کَتَبَ

 

۷۲

 

بِیَدِہٖ عَلیٰ نَفْسِہٖ اَنَّ رَحْمَتِیْ تَغْلُبُ غَضَبِیْ = یقیناً جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس وقت اپنے ہاتھ سے اپنے نفس (امام مبین) میں لکھا کہ میری رحمت میرے غصّے پر غالب ہوتی رہے گی۔

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحْسَانَہٖ۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۴، جون ۲۰۰۲ ء

 

۷۳

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۴۳

 

سورۂ نصر (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۳) بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ =اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ  ۙ وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا   ۙ   فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۔

سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۲۴) کے پُرحکمت فرمانِ الٰہی کو دیکھیں، کیا یہ بابرکت ارشاد تمام زمانوں پر محیط نہیں ہے؟ کیونکہ جب زمانۂ ابراہیم کے لوگوں کے لئے امامت اللہ کی رحمت تھی تو پھر یہ رحمتِ الٰہی ہر زمانے میں کیوں نہ ہو؟ اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو یہ اللہ کی رحمت بصورتِ امامِ زمانؑ ہر زمانے میں موجود اور حاضر ہے، آپ قرآن (۰۴: ۵۴) میں دیکھیں، چنانچہ حضرتِ ابراہیمؑ اورحضرتِ محمدؐ کے درمیان امامانِ مستقر کا جو سلسلہ ہے اس میں آخری نام حضرتِ ابوطالب علیہ السّلام کا ہے، آپؑ نے آنحضرتؐ کو اسمِ اعظم کی مقدّس تعلیم دی تھی، جس کا نورانی معجزہ بعنوانِ روحانی قیامت = عرفانی قیامت غارِ حرا میں ہوا تھا، روحانی قیامت/عرفانی قیامت کے پاک و اعلیٰ راستے میں ناطق، اساس، اور امام رہنما ہیں، پھر باب، حجّت، داعی وغیرہ بھی ان کے نقشِ قدم پر چل سکتے ہیں، یعنی صفِ اوّل کے مومنین و مومنات بھی۔

 

۷۴

 

سورۃ نصر کی تاویل: جب اللہ کی مدد (بصورتِ فرشتگانِ روحانی قیامت) اور کائناتی فتح آئی، تو اے نبیؐ تم نے دیکھا کہ تمام لوگ روحاً جوق در جوق خدا کے دین (یعنی تجھ) میں داخل ہورہے تھے، پس اب تم حظیرۂ قدس میں عقلِ کلّ (حمد) کے ذریعے سے اپنے ربّ کی پاکی بیان کرو اور ان تمام لوگوں کے لئے طلبِ مغفرت کرو جن کے لئے اس نے تم کو رحمت بناکر بھیجا ہے، بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۙ

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۴، جون  ۲۰۰۲ ء

 

۷۵

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۴۴

 

قسط۔ ۴۳ میں سورۂ نصر کے حوالے سے روحانی = عرفانی قیامت کا بیان میری قلبی اور ادبی عاجزی کے باؤجود بیحد ضروری تھا، کیونکہ اللہ جلّ جلالہ نے اپنی رحمتِ بے نہایت سے تمام انسانوں کی روحوں کو روحانی قیامت کے عنوان سے اپنے محبوب پیغمبر کے پاک و پاکیزہ عالمِ شخصی میں جمع کرلیا، آیا ایسے میں عالمِ انسانیّت زندہ بہشت میں داخل نہیں ہوا؟ آیا حضور اکرم صلعم نورِ مجسم اور زندہ اسمِ اعظم نہ تھے؟ کیا آپؐ کے وصی (علیؑ) میں ایسی قیامت کا تجدّد نہیں ہوا؟ اور ہر زمانے کے امام میں؟ اس سے یہ سرِ اعظم معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی عیال (تمام مخلوقات) پر نہایت مہربان ہے۔

سورۂ نصر (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۳) میں نصر (مدد) سے روحانی قیامت کے عظیم فرشتے مراد ہیں، جن کا ذکر ہوچکا ہے، فتح سے تسخیرِ کائنات مراد ہے، جس میں ستر ہزار کائناتیں ہیں۔

آپ قرآنِ حکیم میں تسخیرِ کائنات کے مضمون کو عقل و دانش سے پڑھیں اور خاص طور پر سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) کے ارشاد کو، جس کا تاویلی مفہوم یہ ہے: کیا تم لوگ (عالمی شخصی میں) نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر

 

۷۶

 

دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ مبارک خطاب بلا واسطہ یا بالواسطہ تمام لوگوں سے ہے، کیونکہ وہ ہر عالمِ شخصی کا پروردگار ہے، جب یہ ارشاد ہوا ہے کہ روح ایک ہی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ایک شخص کی روحانی قیامت سے بالآخر سب کو فائدہ ملتا ہے، آمین!

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ  ۵، جون ۲۰۰۲ ء

 

۷۷

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۴۵

 

اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہر اسمِ صفت ایک لاہوتی آسمان ہے اس کے تحت عالمِ انسانیّت ہی زمین ہے کیونکہ جس طرح ہمیشہ ہمیشہ آسمان سے زمین کو فیوض و برکات حاصل ہوتی رہتی ہیں، بالکل اسی طرح اسمائے صفاتِ الٰہی سے عالمِ انسانیّت کو بے شمار نعمتیں حاصل ہوتی رہتی ہیں، اس اعتبار سے بھی قرآنِ حکیم عالمِ انسانیّت کے تذکروں سے بھرا ہوا ہے، جبکہ سارے قرآن پر اسمائے صفات محیط ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے اپنے کسی بھی پاک اسم میں عالمِ انسانیّت کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔

سوال: قرآنِ حکیم میں سب سے آخری فیصلہ کُن چیز کیا ہے؟

جواب: روحانی قیامت۔

ہاں موت دو قسم کی ہے، اختیاری موت اور اضطراری موت، پس جو شخص بحکمِ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوتوا، اختیاری موت سے مرجاتا ہے، تو اس کی روحانی قیامت قائم ہوجاتی ہے، اور ایسا سالک یا عارف اپنے عالمِ شخصی ہی میں قیامت کے ان تمام معجزات کو دیکھتا ہے، جو قرآن میں مذکور ہیں۔

ان تمام مشاہدات و تجربات کو آپ حکمت کہیں یا معرفت یا تاویل یا روحانی سائنس، بہرحال یہ بے مثال اور نایاب چیزیں ہیں، پس ہم اور ہمارے

 

۷۸

 

باعزت ساتھی عالمِ انسانیّت کی خاطر بھی کچھ علمی خدمت کر سکتے ہیں، الحمد للہ ربِّ العٰلمین۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۵ جون ۲۰۰۲ ء

 

۷۹

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۴۶

 

سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں حق تعالیٰ کا ارشادِ پُرحکمت ہے: وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘-وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ ۔ ترجمہ: کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں (یعنی ایک ہی چیز کی تخلیق و تکمیل کے لئے اللہ کے پاس بہت سے مختلف خزانے موجود ہیں) اور اللہ ہر چیز کو ایک معلوم مقدار میں نازل کرتا ہے۔

الغرض اللہ کے خاص خزانے عالمِ انسانیّت ہی کے لئے ہیں۔ اللہ کے ظاہری خزانے کائناتِ ظاہر میں ہیں، اور باطنی خزانے عالمِ شخصی = امامِ مبین میں ہیں، یعنی جس عالمِ شخصی میں امامِ مبین کا نور طلوع ہوجاتا ہے،اس میں روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے جس کے اسرارِ عظیم بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس شایانِ شان الفاظ نہیں ہیں، پھر بھی کچھ نہ کچھ بیان کرنے کے لئے کوشش میں لگے ہوئے ہیں، اور اللہ کے فضل و کرم سے اس وقت ایک ضروری مضمون سامنے ہے اور وہ ہے:”قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت” یعنی یہ ظاہر کرنا ہے کہ قرانِ حکیم میں عالمِ انسانیّت سے متعلق کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں اور اللہ کی کیا کیا نوازشات ہیں وغیرہ وغیرہ ؟

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۵ جون ۲۰۰۲ ء

 

۸۰

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۴۷

 

الاتقان، اردو حصّۂ دوم، ص ۳۱۳ پر ہے: خدا تعالیٰ نے ایک سو چار کتابیں نازل فرمائیں اور ان میں سے چار کتابوں میں سب کا علم ودیعت فرمایا وہ چار کتابیں توراۃ ، انجیل، زبور، اور فرقان ہیں، اور پھر توراۃ، انجیل اور زبور تینوں کتابوں کا علم قرآن میں ودیعت رکھا۔

چنانچہ ارشاد ہے:وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ (۱۶: ۸۹) = اور ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کردی ہے، جس میں ہر چیز کا بیان ہے۔

قرآنِ حکیم نورِ منزّل (۰۵: ۱۵) کے ساتھ مربوط ہے، لَوْحِ مَحفوظ (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) کے ساتھ مربوط ہے، کتابِ مکنون (۵۶: ۷۷ تا ۷۸) کے ساتھ مربوط ہے، امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲) کے ساتھ مربوط ہے، قلم (۹۶: ۰۴) کے ساتھ مربوط ہے، قرآنِ حکیم باطن میں کتابِ ناطق (۲۳: ۶۲؛ ۴۵: ۲۹) کے ساتھ مربوط ہے۔

سورۂ حجر (۱۵: ۹۱) میں ہے:الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ = جنہوں نے اپنے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے، یعنی قرآنِ حکیم باطن میں اپنے جن سرچشموں کے ساتھ وابستہ اور مربوط ہے، ان کو اس سے الگ قرار دیا ہے، کیونکہ یہ سرِّ اعظم معلوم ہوچکا ہے کہ دنیا ہی میں جو شخص عارفانہ

 

۸۱

 

قیامت کے ذریعے سے اپنی روح کو پہچانتا ہے وہ اپنے ربّ کو پہچانتا ہے، اور امامِ مبین کے نور میں قرآن کے باطنی معجزات کا مشاہدہ کرتا ہے۔

سبحان اللہ تمام ضروری معرفتیں یکجا اور ایک ہیں۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات ۶ ، جون ۲۰۰۲ ء

 

۸۲

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۴۸

 

بحوالۂ کتابِ الاِتقان حصّۂ دوم ، ص ۴۴۰: رَسُولُ اللہ صلّی اللہ علیہ وَآلہٖ نے ابنِ عباس کے لئے دعا کی تھی کہ”اَللّٰھُمَّ فَقِّھْہُ فِیالدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّاوِیْلَ” یعنی باراِلٰھا تو اس کو دین کی سمجھ عطا فرما اور تاویل کا علم مرحمت کر۔ اور حدیثِ شریف میں آیا ہے کہ “َلْقُرآنُ ذَلُولٌ ذُوْ وُجُوْہٍ فَاحْمَلُوہُ عَلیٰ اَحْسَنِ وُجُوْھِہٖ” یعنی قرآن بہت ہی رام ہوجانے والی چیز ہے اور وہ متعدّد پہلو (وجوہ) رکھتا ہے، لہٰذا تم اسے اس کی بہترین وجہ پر محمول کرو، یعنی اچھے سے اچھے پہلو کی حکمت کو بیان کرو۔ الاتقان حصّۂ دوم، ص ۴۴۲۔

سورۂ زُمر (۳۹: ۵۵) کا ارشاد ہے: وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ۔

ترجمہ: اور پیروی اختیار کرلو اپنے ربّ کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی۔ اس آیۂ شریفہ سے مذکورہ حدیث کی تصدیق ہوجاتی ہے۔

سورۂ زُمَر (۳۹: ۱۷ تا ۱۸) وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا وَ اَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰىۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ  الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ

 

۸۳

 

وَ اُولٰٓىٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ ۔

ترجمہ: جن لوگوں نے طاغوت کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کرلیا ان کے لئے خوشخبری ہے، پس (اے نبیؐ) بُشارت دے دو میرے ان بندوں کو جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانشمند ہیں۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات ۶ ، جون ۲۰۰۲ ء

 

۸۴

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۴۹

 

سورۂ رَحْمٰن = عروسُ القرآن کی چند حکمتیں: نہایت مہربان خدا نے قرآن کی تعلیم دی، اس کی تاویل یہ ہے کہ امام مبین نے بحکمِ خدا عرفاء کو اسمِ اعظم اور روحانی قیامت کے وسیلے سے قرآن کی باطنی اور نورانی = معجزاتی تعلیم دی، اسی طرح عارفوں کی روحانی تخلیق و تکمیل ہوئی، اور وہ علمِ تاویل بیان کرنے لگے، حظیرۂ قدس میں نہ صرف سورج اور چاند کا حساب ہی ایک ہے، بلکہ وہ دونوں خود بھی ایک ہی نور ہیں، وہاں ستارہ اور درخت یکسان سجدہ کرتے ہیں اور عالمِ شخصی کے آسمان کو زمین ہی سے بلند کیا اور علم و حکمت کی میزان = ترازو کو آسمان ہی میں مقرر کیا، تاکہ تم علم و معرفت کی بلندی پر اس میزان کو بحقیقت استعمال کرسکو، اور خدا نے عالمِ شخصی کی زمین کو سب مخلوقات کے لئے بنایا، جس میں گوناگوں نعمتیں ہیں، پس اے جنّ و انس (اے مخلوقِ لطیف و کثیف!) تم اپنے ربّ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟

کہتے ہیں کہ انس و جنّ اور فرشتے ایک ہی مخلوق (انسان) کے مختلف درجات ہیں، سورۂ رحمٰن میں اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں کا یکجا ذکر ہے، جس کا خطاب جنّ و انس سے ہے، اور خدا نے جس عبادت و معرفت کی غرض سے ان کو پیدا کیا ہے، اس مقصد میں بھی یہ دونوں ساتھ ساتھ ہیں (۵۱: ۵۶) وَ مَا خَلَقْتُ

 

۸۵

 

الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(اَیْ لِیَعْرِفُوْنِ) = میں نے جنّ اور انسانوں کو پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں (یعنی مجھ کو پہچانیں)۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ۷ ، جون ۲۰۰۲ ء

 

۸۶

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۵۰

 

جیسا کہ سورۂ نصر (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۳) کے حوالے سے روحانی قیامت کا اُصولی بیان ہوچکا ہے، اورامامِ زمانؑ کے ذریعے (۱۷: ۷۱) سے روحانی قیامت کا قیام اللہ کا قانون ہے، اور ایسی ہر قیامت عالمِ انسانیّت کے مفاد میں ہوتی ہے، کیونکہ جو لوگ از خود خدا کے قریب نہیں ہوسکتے، ان کو قیامت زبردستی سے نہایت مہربان خدا تک پہنچا دیتی ہے، بلکہ سب لوگ نفسِ واحدہ کے ذریعے سے فنا فی اللہ ہوجاتے ہیں۔

حکیم پیر ناصر خسرو کے نزدیک خدا کی بے پایان بادشاہی میں، بے پایان قیامات ہیں۔

عالمِ انسانیّت میں روحانی قیامت کے بغیر روحانی ترقی ممکن نہیں، قرآن حکیم میں روحانی قیامت کے اسماء و امثال کثرت سے ہیں، اور ان سب میں عالمِ انسانیّت ہی کا ذکر ہے، چنانچہ انبیائے قرآن میں سے ہر نبی کے قصّے میں روحانی قیامت کی مثال ضرور موجود ہے، کس کو گمان ہے کہ قصّۂ آدم تاویلاً سر تا سر قصۂ قیامت ہے؟ اگر زمانۂ آدمؑ میں روحانی قیامت اللہ کی سنّت سے خارج رہی ہوتی تو پھر آئندہ کبھی قیامت نہ آسکتی، کیونکہ سنّتِ الٰہی میں صرف وہی چیز آتی رہتی ہے، جو زمانۂ اوّل کے لوگوں میں آچکی ہو۔

 

۸۷

 

قرآن میں سنّتِ الٰہی کے مضمون کو غور سے پڑھیں۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ۷ ، جون ۲۰۰۲ ء

 

۸۸

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۵۱

 

قرآن حکیم کی آیات کل چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ (۶۶۶۶) ہیں، ہر آیت کا ظاہری بیان جیسا بھی ہو، لیکن اس کے باطن میں یقیناً عالمِ انسانیّت سے متعلق کوئی حکمت براہِ راست یا بالواسطہ ضرور موجود ہے، کیونکہ قرآن ذُو وُجُوہ ہے، یعنی قرآن کے متعدّد پہلو ہیں، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ قرآن عالمِ انسانیّت کے لئے رحمت ہے، جبکہ اس کا صاحب عالمین کیلئے اللہ کی طرف سے رحمت ہے۔ (۲۱: ۱۰۷) اللہ الباسط بھی ہے، اور القابض بھی، لہٰذا وہ قرآن کے ہر مضمون کو سر تا سر قرآن میں پھیلاتا بھی ہے، اور اسے واپس اپنی جگہ پر محدود بھی کرتا ہے، جس کی وجہ سے باطناً ہر مضمون میں تمام مضامین کی روح ہوتی ہے، جس طرح ہر انسانی روح میں بحدِّ قوّت تمام روحیں موجود ہوتی ہیں، یعنی اگر ایک شخص نفسِ واحدہ کی طرح روحانی قیامت کا متحمل ہوجاتا ہے تو جملہ خلائق روحاً اس کے پاس جمع ہو کر اس کے لشکر یا اس کی ذرّیّت ہوجاتے ہیں، اور ہر روح میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے۔

سورۂ ملک (۶۷: ۰۳): مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍؕ =تجھ کو رحمان کی تخلیق میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔

اُیُم دِشَنْ ئیڎبا ایلݺ سس اُیون بَبَربان

ازلݺ بَبَربَم جُوَن اَبدݺ بَبَربُٹ اُیم

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر ۸  ، جون ۲۰۰۲ ء

 

۸۹

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۵۲

 

کتاب مستطابِ سرائر ص ۲۱ پر مُجْمَلاً یہ ذکر ہے کہ اس دور کے آغاز میں جو آدمؑ تھا اس سے پہلے روحانی اکوار = ادوار تھے۔

ایسا ذکر کتابِ اثباتِ النبوأت میں بھی ہے، حضرتِ ربِّ تعالیٰ کا ایک دن دنیا کے ہزار سال کے برابر ہوا کرتا ہے (۲۲: ۴۷) قرآنِ حکیم میں ایک ایسے دن کا بھی ذکر ہے، جس کی مدت پچاس ہزار سال کے برابر ہے، یہ ایک بڑا دور ہے جس کو اللہ اپنی قدرتِ کاملہ سے چھوٹا بھی کر سکتا ہے جس میں فرشتے اور نفسِ واحدہ حظیرۂ قدس میں چڑھ کر جاتے ہیں۔

تھلاک تھلاک تھلاک نݵ تھلاک تھلاک تھلاک ژُݸ

یہ چھ کروڑ سال کا ایک بہت بڑا دور ہے۔

یہ بڑے بڑے ادوار عالمِ انسانیّت پرحق سبحانہٗ و تعالیٰ کے بے پایان احسانات و انعامات اور نوازشات کی غرض سے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نےاپنے فضل و کرم سے انسانی روحوں سے فرشتے بنائے، اشرافِ جِنّ بنا دیئے، اہلِ جنّت بنا دیئے، سلاطینِ بہشت بنا دیئے، کائناتی زمین کی خلافت سے سرفراز فرمایا۔ (۲۴: ۵۵)(۰۶: ۱۶۵) اس میں صاحبانِ عقل کے لئے کوئی شک ہی نہیں کہ اللہ کا ہر وعدہ حق ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر ۸  ، جون ۲۰۰۲ ء

 

۹۰

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۵۳

 

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۳۳) وَسَارِعُوْۤا اِلٰى  مَغْفِرَةٍ  مِّنْ  رَّبِّكُمْ  وَجَنَّةٍ  عَرْضُهَا  السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُۙ- اُعِدَّتْ  لِلْمُتَّقِیْنَۙ = دوڑ کر چلو ( یعنی سبقت کرو) اس راہ پر جو تمہارے ربّ کی (خصوصی) بخشش اور اس جنّت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔۔۔۔۔۔

سورۂ حدید (۵۷: ۲۱) سَابِقُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِۙ-اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ-ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ۔

ترجمہ: دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے ربّ کی مغفرت اور اس جنّت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، جو مہیا کی گئی ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

سورۂ ذاریات (۵۱: ۵۰) فَفِرُّوا اِلَى اللّٰهِ-اِنِّیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ ۔

ترجمہ: پس ڈرو اللہ کی طرف یعنی سبقت کرو =اچھے اچھے اعمال اور علم و حکمت میں تمام خلائق سے آگے بڑھو تاکہ تم کو خدا کائناتی بہشت

 

۹۱

 

اور اس کی ہزاروں کاپیاں عطا کرے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار ۹ ، جون۲۰۰۲ ء

 

۹۲

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۵۴

 

سورۂ مومنون (۲۳: ۱۱۵) کا ارشاد ہے:اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۔

ترجمہ: کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟

اس آیۂ کریمہ کی حکمتِ بالغہ سے زیرِ بحث مضمون کو زبردست تقویت مل رہی ہے، اور عالمِ انسانیّت سے متعلق پیدا ہونے والے تمام مختلف سوالات خود از خود ختم ہورہے ہیں، کیونکہ اللہ، ھُوَ اللہ تعالیٰ شانہٗ کا یہ پُرحکمت سوال یقیناً حظیرۂ قدس کی جنّت میں ہے، چونکہ رجوع الی اللہ کا آخری مقام وہی ہے۔

اَلْمُؤمَنْ (۴۰: ۱۶) کا ارشادِ مبارک ہے:لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ۔

ترجمہ: آج بادشاہی کس کی ہے؟ اللہ واحِدِ قھّار کی ہے۔ خدائے واحد و قھّار کی بادشاہی یا شاہنشاہی جو عالمِ آخرت = بہشت میں ہوگی، اس میں سب لوگ ہوں گے یا نہیں؟ ج: ضرور سب لوگ حاضر ہوں گے، آیا خدا کی شاہنشاہی میں کہیں ظلم یا کسی قسم کی تکلیف کا تاریک سایہ

 

۹۳

 

موجود ہوسکتا ہے؟ ج: نہیں نہیں ہر گز نہیں۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اللہ ایک ہے، وہ تمام لوگوں (عالمِ انسانیّت) کو ان کے اختیار کی مہلت ختم ہوجانے کے بعد ایک کر لیتا ہے، وہ قھّار =زبردست اور غالب ہے، اور اللہ کی یہ صفتِ قھّاریت روحانی قیامت کی شکل میں ہے، جس کی برکت سے عالمِ انسانیّت آخراً فنا فی اللہ ہوجاتا ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر ۱۰ ، جون۲۰۰۲ ء

 

۹۴

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۵۵

 

سورۂ زُمر (۳۹: ۶۷ تا ۶۹) ترجمہ: اِن لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ (اس کی قدرتِ کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ) قیامت کے روز پوری زمین (باطناً) اُس کی مُٹھی میں ہوگی، اور (سب) آسمان اس کے دستِ راست میں لِپٹے ہوئے ہوں گے، یہ تاویلاً عُرفاء کے مشاہدۂ باطن کا تذکرہ ہے، عارفین اللہ تعالیٰ کے ایسے عظیم معجزات کو اپنے عالمِ شخصی ہی میں دیکھتے ہیں، یہ قیامت کوئی اور قیامت نہیں صرف روحانی قیامت =عارفانہ قیامت ہے اور یقیناً عالمِ شخصی ہی عالمِ انسانیّت ہے۔

اللہ جو قادرِ مطلق اور فَعّالٌ لِّمَا یُرِیْد (۱۱: ۱۰۷) ہے اس کے معجزات روحانی قیامت میں انتہائی حیران کن ہیں، مثال کے طور پر ہم اسرافیلی اور عزرائیلی منزل کے کچھ اسرار کو بیان کریں، قیامت گاہ اور دعوت گاہ ایک ایسے عالمِ شخصی میں ہوتی ہے جس میں امامِ زمانؑ کا نورِ اقدس طلوع ہوکر کام کر رہا ہوتا ہے، پس جیسے ہی نفخۂ صور کا آغاز ہوا تو کائنات بھر کی روحیں روحِ سالک میں جمع ہوگئیں، پھر سالک کی روح قبض کرکے کائنات میں نشر کی گئی، پھر تمام کائنات کی ارواح سالک =عارف کے عالمِ شخصی میں ڈالی گئیں، اس سے یہ بہت بڑا راز معلوم ہوا کہ روحانی قیامت میں اللہ کی بے پایان رحمت کے

 

۹۵

 

چار سانچے ہیں، پہلا سانچہ عارف کی روح، دوسرا سانچہ عارف کا عالمِ شخصی، تیسرا سانچہ کائنات، چوتھا سانچہ کائناتی روح، پس روحانی قیامت میں جہاں اسرافیل اور عزرائیل کے عظیم معجزات ہیں وہاں ان سانچوں کے عجیب و غریب یعنی انتہائی عجیب و غریب معجزات ہوتے ہیں، آپ نے سانچہ کا مطلب ضرور سمجھ لیا ہوگا۔

پس امامِ زمانؑ جو امامُ الناس بھی ہے، اس کی ایک تعریف یہ ہے کہ روحانی قیامت میں عیال اللہ (یعنی لوگوں) کو کسی عارف کے سانچے میں ڈھال ڈھال کر عارف بنا دیتا ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر ۱۰ ، جون۲۰۰۲ ء

 

۹۶

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۵۶

 

سورۂ سبا (۳۴: ۴۶) کا حکمتِ بالغہ سے لبریز ارشاد ہے: قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ ۚ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰهِ مَثْنٰى وَفُرَادٰى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوْا  ۣ مَا بِصَاحِبِكُمْ مِّنْ جِنَّةٍ ۭ اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ لَّكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ ۔

تاویلی مفہوم: اے نبیؐ ان سے کہو کہ میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں جس میں تمام نصیحتوں کا جوہر جمع ہے کہ تم خدا کے لئے (روحانی قیامت سے مرکر) دودو اور ایک ایک کھڑے ہوجاؤ (یعنی زندہ ہوجاؤ) اور پھر اسرارِ معرفت کے لئے غورو فکر کرو تاکہ تم کو اپنے صاحب (رسولؐ) کی معرفت حاصل ہوگی کہ وہ اللہ کا برحق پیغمبر ہے۔

یہ قانونِ قیامت یاد رہے کہ روحانی قیامت پہلے کثرت و دوئی میں ہوتی ہے، اور آخراً حظیرۂ قدس میں جاکر فرد اور فردانیت میں ہوتی ہے تاکہ انسان فردِ واحد ہوجانے کے بعد ہی خدائے واحد میں فنا ہوسکے، ہر روحانی قیامت میں ایک مرکزی روح ہوا کرتی ہے، جس کا نام قرآن میں نفسِ واحدہ ہے، آغازِ قیامت میں اگرچہ بے شمار روحیں جمع ہوتی ہیں لیکن ان میں ایک ہوجانے کی خاصیت بھی ہے۔

سورۂ تکویر (۸۱: ۰۷) وَاِذاالنُّفُوْسُ زُوِّجَتْ = اور جب

 

۹۷

 

رُوحیں دو دو ہوجائیں۔ بہشت میں دو باغ ہونے کا کیا اشارہ ہے؟ (۵۵: ۴۶) اور ان کے تحت دو اور باغ کا کیا اشارہ ہے؟ (۵۵: ۶۲) اس میں کیا رازِ حکمت ہے کہ بہشت کے پھلوں کے جوڑے ہیں؟ (۵۵: ۵۲) اس میں کیا تاویل ہے کہ ذاتِ سُبحان کے سوا ہر چیز کا جوڑا ہوتا ہے؟ (۳۶: ۳۶)

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل۱۱ ، جون۲۰۰۲ ء

 

۹۸

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۵۷

 

اللہ تعالیٰ کا ایک مقدّس گھر ظاہر اور مثال ہے جو خانۂ کعبہ ہے، اور دوسرا پاک گھر باطن اور ممثول ہے، جو امامِ زمانؑ کا نور ہے۔

اگر خداوندِ قدوس نے امامِ مبین کو جملہ اعلیٰ ممثولات کا جامعُ الجوامع بنایا ہے تو اس میں صاحبانِ عقل و دانش کے لئے کیا شک ہوسکتا ہے؟

یقیناً خداوندِ تعالیٰ ہر روحانی قیامت میں کائنات کو امامِ مبین میں لپیٹ لیتا ہے، کائنات کا دوسرا نام کُلُّ شَیءٍ ہے، اور ہر عارف کے لئے اس معجزۂ اعظم کا تجدُّد ہوتا ہے، پس یقیناً امامِ مبینؑ میں تمام حقائق و معارف جمع ہیں اور امام علیہ السّلام کی تعریف کرنے والے جتنی بھی زیادہ تعریف کریں وہ کم ہے، کیونکہ امامِ مبین اللہ کا زندہ اسمِ اعظم ہے، وہ قرآنِ ناطق ہے، اللہ کا دین ہے، وجہُ اللہ ہے، مظہرِ نور ہے، آلِ رسولؐ ہے، وارثِ علیؑ ہے، آدمِ زمان ہے، وارثِ کتابِ سماوی ہے، ہادیٔ برحق ہے،مؤوِّلِ قرآن ہے، نورِ منزّل ہے، سفینۂ نوحؑ ہے، صراطِ مستقیم ہے، طبیبِ روحانی ہے، چراغِ دلِ اہلِ ایمان ہے، نورِ چشم ِ عاشقان ہے، جنّت کے بادشاہوں کا شاہنشاہ ہے، اس کا نور روحانی قیامت ہے اور ناقور ہے، وہ حَبْلُ اللہ ہے، اس کے معجزات عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس میں ہیں، اس کی معرفت کنزِ مخفی ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل۱۱ ، جون۲۰۰۲ ء

 

۹۹

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۵۸

 

حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ کا یہ معروف ارشاد ہے، ترجمہ: اے انسان! آیا تیرا یہ گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے؟ حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپیٹا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا کہ انسان ایک مستقل عالَم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر انسان ایک عالمِ شخصی اور عالمِ انسانیّت ہے، اور بحدِ قوّت اس میں عالمِ اکبر =کُلّ کائنات موجود ہے، اور یہ سب کچھ بحدِّ فعل دیکھنے کے لئے روحانی قیامت ضروری ہے۔

سورۂ تکویر (۸۱: ۱۱) میں ارشاد ہے:وَاِذَاالسَّمَآءُ کُشِطَتْ = اور جب آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا۔ یعنی اس کائناتِ اکبر کا ظاہر چھلکا ہے اور اس کا باطن مغز اور اصل ہے، علیُ المرتضیٰؑ جو نبیٔ اکرم صلعم کے علم و حکمت کا دروازہ ہے، وہ انسان کو اس اصلی صورت میں دیکھاتا ہے جس میں اَحسَنُ الخَالقین نے اس کو پیدا کیا ہے (۲۳: ۱۴) اور وہ انسان جو حظیرۂ قدس کی بہشت میں داخل ہوجاتا ہے، اپنے باپ آدم کی صورت پر ہوتا ہے، اور آدم اس بہشت میں جاتے ہی صورتِ رحمان پر پیدا ہوا تھا، پس ہر ابنِ آدم کا حظیرۂ قدس میں جاکر اپنے باپ آدمؑ (خلیفۃ اللہ) کی صورت پر ہونا عالمِ انسانیّت کے لئے اللہ جلّ شانہٗ کا سب سے بڑا انعام ہے، چونکہ

 

۱۰۰

 

قرآن میں سبقت کا قانون ہے، لہٰذا ہر روحانی قیامت میں صرف ایک ہی شخص سابق ہوسکتا ہے، پھر بھی ایک ہی روح میں سب روحیں پوشیدہ ہوتی ہیں، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِین۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۱۲، جون۲۰۰۲ ء

 

۱۰۱

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۵۹

 

عالمِ انسانیّت پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز نے اپنے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیھم السّلام کو خود عالمِ انسانیّت ہی میں مبعوث فرمایا عَلَی الخصوص رحمتِ عالم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ کو جو عالمِ انسانیّت کے لئے رحمت اور محسنِ اعظم ہیں۔

ہزار حکمت (ح:۲۵۸) حضرتِ علیؑ کہتے ہیں: کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ نے فرمایا جنّت میں ایک بازار ہوگا جس میں خرید و فروخت نہیں ہوگی، ہاں اس میں عورتوں اور مردوں کی تصویریں ہوں گی، جو جسے پسند کرے گا اسی کی طرح ہوجائے گا، جامع تِرمذی، جلد دوم، جنّت کا بیان، حدیث ۲۳۶۳۔

تاویلی حکمت: بہشت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کی ہر چیز عقل و جان اور علم و حکمت کے ساتھ ہوا کرتی ہے، لہٰذا جنّت کی مذکورہ تصویریں بے جان و بے عقل تصویریں نہیں ہیں، بلکہ یہ بہشت میں اللہ کا وہ عظیم معجزہ ہے جس میں تمام عالمِ انسانیّت کثیف سے لطیف ہوجاتا ہے، کیونکہ بہشت خود عالمِ لطیف ہے، جس میں عالمِ انسانیّت سراسر صبغۃُ اللہ =رنگِ خدا=رنگِ انوارِ خدا (۰۲: ۱۳۸) میں رنگا ہوا ہوتا ہے، پس

 

۱۰۲

 

بہشت میں تمام زمانوں کے لوگ ہوں گے، اور اس کے لئے ایک بہت بڑی بھاری لاہوتی ضمانت ہے کہ اللہ جلَّ جلالہٗ نے ارشاد فرمایا: اَلخلقُ عیالی یعنی تمام مخلوقات میرا کنبہ ہیں۔ عالمِ لطیف کے لئے ملاحظہ ہو کتابِ وجہ دین کلام ۴۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۱۲، جون۲۰۰۲ ء

 

۱۰۳

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۶۰

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے عالمِ انسانیّت کو ایک بہت ہی بڑا عجیب و غریب سرچشمہ برائے خلقِ آخر بنایا ہے(۲۳: ۱۴ تا ۱۶) چنانچہ جملۂ انبیاء و اولیاء علیھم السّلام ظاہراً اسی سرچشمۂ عالمِ انسانیّت ہی سے تھے، تمام حدودِ دین ظاہری و باطنی کا تعلق عالمِ انسانیّت ہی سے ہے، فرشتے نیک انسانوں کی روحوں سے ہوتے ہیں، مخلوقِ لطیف =اشرافِ جنّ و پری وغیرہ بھی،عالمِ انسانیّت ہی سے ہیں، بے شمار حوران و غلمان اور اہلِ جنّت سب کے سب عالمِ انسانیّت ہی سے ہیں ۔

یہاں مجھے عارفِ رومی کا ایک شعر یاد آیا:

اے پسر! در آسمانِ ہفتمین

با ملائک بارہا پَرّیدہ ام

ترجمہ: اے لڑکے! میں آسمانِ ہفتم میں فرشتوں کے ساتھ بار ہا پروازیں کر چکا ہوں۔

قرآنِ حکیم کے ناموں میں سے ایک نام وَحِیْ ہے، کیونکہ قرآنِ پاک بذریعۂ وحی نازل ہوا ہے، اس بابرکت نام کی دوسری وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ وحی اشارہ کو کہتے ہیں، بحوالۂ قرآن (۱۹: ۱۱) چونکہ قرآنی الفاظ میں بڑے دوررس

 

۱۰۴

 

اور ہمہ گیر حکیمانہ اشارے ہیں، لہٰذا قرآنِ حکیم کا نام وحی=اشارہ ہوا۔

مثال: قرآن فرماتا ہے کہ اگر خدا تمہارے لئے ایک نور مقرّر کرتا ہے تو یہ نہ صرف تمہارے چلنے کے لئے ہے بلکہ اس میں پرواز کا اشارہ بھی ہے، اور پرواز میں فرشتہ ہوجانے کا اشارہ ہے اور خدا کی خدائی=بادشاہی کے بے شمار عجائب و غرائب دیکھنے کا اشارہ ہے، اِنْ شاء اللہ۔

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات۱۳، جون۲۰۰۲ ء

 

۱۰۵

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۶۱

 

عارفِ رومی کا شعر ہے:

تَن چُو سایہ بَر زمین و جانِ پاکِ عاشقان

در بہشتِ عدن تجری تحتِھَا الْانہار مست

ترجمہ: جسم سایے کی طرح زمین پر ہے، اور عاشقوں کی پاک روح جنّتِ عدن میں مست ہے، اس جنّت کے تحت نہریں جاری ہیں۔

حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ نے ارشاد فرمایا: کہ تم نورانی بدن کے ساتھ (یعنی جسمِ لطیف میں) بہشت میں جاؤگے۔ چنانچہ قرآن پاک (۰۲: ۲۵) میں ہے:وَ لَهُمْ فِیْهَا اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌۗ =اور ان کے لئے اُس (بہشت) میں پاکیزہ بیویاں ہوں گی۔

بہشت کی بیویاں جسماً و روحاً و عقلاً ہوں گی، اور اسی طرح ان کے شوہر بھی۔

سورۂ واقعہ (۵۶: ۳۵ تا ۳۷)اِنَّاۤ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءًۙ فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًاۙ عُرُبًا اَتْرَابًاۙ

ترجمہ: ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے(یعنی انہیں جسمِ لطیف عطا کریں گے) اور انہیں باکرہ بنادیں گے، اپنے

 

۱۰۶

 

شوہروں کی عاشق اور عمر میں ہم سن۔

جس طرح ذکر ہوا تھا کہ حوران و غلمان بھی عالمِ انسانیّت ہی سے ہیں، پس اس ارشاد میں وہی اسرار پوشیدہ ہیں، تمام روحوں کا ظہور ایک ساتھ صبحِ ازل میں ہوا، لہٰذا سب روحیں ہم سِن ہیں، پس کوئی روح چھوٹی یا بڑی نہیں ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات۱۳، جون۲۰۰۲ ء

 

۱۰۷

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۶۲

 

حکیم پیر ناصر خسرو کے دیوان میں ہے:

برجانِ من چُو نورِ امامِ زمان بتافت

لیلُ السَّرار بودم وشمسُ الضُّحیٰ شدم

ترجمہ: جب میری روح میں امامِ زمانؑ کا پاک نور طلوع ہوگیا تو میں قبلاً شبِ تاریک تھا، مگر اب روزِ روشن ہوگیا۔

یہ اتفاق کی بات ہر گز نہیں بلکہ اس سنتِ الٰہی کا ذکرِ جمیل ہے، جوحضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام میں اس کے معجزات ہوئے تھے، اور ہمیشہ اللہ کی یہی سنت اس کے بندوں میں جاری رہی ہے، اللہ کی سنّت سے متعلق جو قرآنی آیات ہیں ان کی حکمت از بس ضروری ہے، مثال کے طور پر آدم میں اللہ کی یہ سنّت قائم ہوئی کہ امامِ زمانؑ کے ذریعے سے آدم کو اسمِ اعظم کی تعلیم دی گئی، تب سے اللہ کی یہ سنّت اس کے بندوں میں جاری رہی۔

ذاتِ سبحان کے سوا ہر چیز کا جوڑا ہوا کرتا ہے (۳۶: ۳۶) لہٰذا حضرتِ آدم علیہ السّلام کے پاس دو اسمِ اعظم تھے، ایک اسمِ اعظم تحریری اور صامت تھا، دوسرا نورانی اور ناطق تھا (یعنی امامِ زمان) یہاں یہ قصّہ

 

۱۰۸

 

آدمِ دور کا ہے، آدمِ اوّل کا نہیں۔

مولا علی صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: میں ہی آدمِ اوّل ہوں، اور دوسرے ایک خطبے میں فرمایا کہ میں عالم میں قدیم ہوں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ علی ہی وہ آدمِ اوّل ہے جو عالم میں قدیم (ہمیشہ) ہے، یہ سلسلۂ نورٌعلیٰ نور ہے، جس میں علی نور ہے اور اس سلسلے کے بے شمار اشخاص بے شمار آدم ہیں، اب آپ قرآنِ حکیم میں غور سے دیکھیں کہ آیا اللہ بنی آدم (عالمِ انسانیّت) میں سے خلفاء (خلیفے) بناتا ہے یا نہیں؟ (۰۶: ۱۶۵، ۲۴: ۵۵) تمام لوگوں پر فرض ہے کہ وہ بڑی کثرت سے اللہ کا شکر کریں۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعۃ المبارک ۱۴، جون۲۰۰۲ ء

 

۱۰۹

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۶۳

 

سورۂ مریم (۱۹: ۹۳ تا ۹۵) کا پُرحکمت ارشاد ہے:اِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّاۤ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا  لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَ عَدَّهُمْ عَدًّا   وَ كُلُّهُمْ اٰتِیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فرداً۔

ترجمہ: زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں وہ سب خدا کے پاس غلاموں (بندوں) کی حیثیت سے آنے والے ہیں، وہ اپنی سنّتِ قدیم کے مطابق بذریعۂ روحانی قیامت سب کو گھیر لیتا ہے، اور ایک خاص عدد میں (یعنی عددِ واحد) میں شمار کرتا ہے، پس روزِ قیامت سب کے سب نفسِ واحدہ میں فنا ہو کر فردِ واحد بن جاتے ہیں، تاکہ اسی طرح خدائے واحد میں فنا ہوسکیں۔

پس یہ ایک فیصلہ کُن ارشاد ہے کہ اللہ پاک عالمِ انسانیّت پر نہایت مہربان ہے۔

روحانی قیامت تمام لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے، اس کے بغیر معرفت ممکن ہی نہیں۔

دنیا میں اللہ کی رسّی ہے، اللہ کا زندہ اسمِ اعظم ہے، اللہ کے نور کا مظہر ہے، سفینۂ نوح ہے، آلِ رسولؐ ہے، نورِعلیؑ ہے، سُلَّمُ النَّجَات ہے، اللہ کا زندہ گھر ہے، آدمِ زمان ہے، صراطِ مستقیمِ نورانی

 

۱۱۰

 

ہے، مُؤوِّلِ قران ہے، آئینۂ خدا نما ہے، کتابِ ناطق ہے، طبیبِ روحانی ہے، ہادیٔ برحق ہے، چراغِ ہدایت ہے، گنجِ علمِ بے پایان ہے، امامِ مبین ہے، نورِ مُنزل ہے، صاحبِ روحانی قیامت ہے، صاحبِ کشف و کرامات ہے، صاحبِ جثۂ ابداعیہ ہے، ولیٔ امر ہے، صاحبِ کاف نون ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعۃ المبارک ۱۴، جون۲۰۰۲ ء

 

۱۱۱

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۶۴

 

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا ارشاد : انسان آدم علیہ السّلام کی اولاد ہے، آدم کا درجہ فرشتے سے بھی زیادہ اونچا تھا، اس اعتبار سے آپ کا بھی اصل درجہ فرشتے سے اوپر ہے لیکن آپ دنیا میں گناہ کرتے ہیں، ایمان میں غفلت برتتے ہیں، دنیا اور شیطان کے دھوکے میں آجاتے ہیں، اس لئے آپ کی روحِ آدمیّت بوجھل (سنگین) ہوجاتی ہے۔

ہر ایک انسان کی روح کے ساتھ امام کا نور منسلک (مربوط) ہے، مومن کا دل امامؑ کے رہنے کا بنگلہ ہے، اور وہ عشق پر مبنی ہے، یعنی اس کا دارومدار عشق پر ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا قول ہے: لَنْ یَلِجَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ مَنْ لَمْ یُولَدْ مَرَّتَیْن=جو شخص دو دفعہ پیدا نہ ہوجائے وہ آسمانوں کی بادشاہی میں ہر گز داخل نہیں ہوسکتا ہے۔اس بارے میں حکیم پیر ناصر خسرو کا شعر ہے:

گرچت یکبار زادہ اند بیابی

عالمِ دیگر اگر دوبارہ بزائی

 

۱۱۲

 

ترجمہ: اگرچہ تو جسماً ایک بار پیدا ہوا ہے، اگر تو روحاً دوبارہ پیدا ہوجائے تو تجھ کو دنیا ہی میں عالمِ روحانی مل جائے گا۔

مولوی رومی کہتا ہے:

چُون دُوُم بار آدمی زادہ بزاد

پای خود بر فرقِ عِلّتھا نِہاد

پس روحانی قیامت حق ہے اور جیتے جی مرکرزندہ ہوجانا حق ہے۔

الحَمدُ للّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحْسَانِہٖ۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر ۱۵ ،  جون۲۰۰۲ ء

 

 

۱۱۳

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۶۵

 

میں جان و دل، ایمان و یقین اور بصیرت و معرفت سے کہتا ہوں کہ قرآنِ حکیم نہ صرف ایک انتہائی عظیم معجزہ ہے، بلکہ یہ اللہ جلَّ جلالہٗ کے معجزات کی سب سے عظیم کائنات ہے، نرم اور قابلِ برداشت معجزات کو عجائب و غرائب کہتے ہیں۔

لغاتُ الحدیث (کتاب “ب” ص ۲۹) میں ہے: رَوِحُوْااَنْفُسَکُمْ بِبَدِیْعِ الْحِکْمَۃِ فَاِنَّھَا تَکْمُلُ کَمَا تَکْمُلُ الْاَبْدَانُ۔

ترجمہ: حکمت کی عجیب اور غریب باتوں سے اپنی جانوں (روحوں) کو راحت دو، جان = روح اس طرح سے مکمل ہوتی ہے، جیسے بدن مکمل ہوتا ہے۔

اَھْلُ الْجَنَّۃِ جُرْدٌ مُّرْدٌ = بہشتی لوگ بن بال کے، بن داڑھی مونچھ کے ہوں گے۔ بحوالۂ لغات الحدیث (کتاب “ج” ص ۳۶) کیونکہ بہشت کے لوگ سب کے سب نورانی بدن = جسمِ لطیف میں ہوتے ہیں۔

مجھے احساس ہے کہ میں مخلوقِ لطیف کا بار بار ذکر کرتا ہوں، اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟  ج: اس کی چند وجوہ ہیں، پہلی وجہ: لوگ جنّ و پری کو نہیں پہچانتے ہیں۔ دوسری وجہ: سورۂ رحمٰن عروس القرآن اللہ تعالیٰ کی

 

۱۱۴

 

خاص خاص نعمتوں کی ایک عالیشان جنّت ہے، جس میں جنّ و پری اور تمام انسان ساتھ ساتھ ہیں، اگر اس اختلاط میں کوئی زبردست حکمت نہ ہوتی تو ایسا نہ ہوتا، پس ممکن ہے کہ بہشت کی بعض حوریں پری عورتوں میں سے ہوں، اور بعض غلمان پری قوم کے مردوں میں سے ہوں۔

ایک عظیم عالمِ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اشرافِ جنّ= شُرفائے جنّ اہلِ باطن ہیں، ان کے پاس زبردست علم و معرفت ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر ۱۵ ،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۱۵

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۶۶

 

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اپنے زمانے میں اللہ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم (کلمۃ) تھا۔ بحوالۂ قرآن (۰۳:۴۵) نیز (۰۴: ۱۷۱)، خدا کی طرف سے کلمہ سے اسمِ اعظم مراد ہے۔

یوحنّا کی انجیل کے آغاز میں دیکھیں: ابتداء میں کلام (یعنی کلمہ=اسمِ اعظم) عالمِ دین کی ابتداء میں بھی اور عالمِ شخصی کی ابتداء میں بھی۔ مرقوم ہے:

ابتداء میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا (یعنی اسمِ اعظم خدا کے ساتھ مربوط تھا) اور کلام خدا تھا، یہی ابتداء میں خدا کے ساتھ تھا، سب چیزیں اس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اس میں سے کوئی چیز بھی اس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی، اس میں زندگی (حیات) تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھی، اور نور تاریکی میں چمکتا ہے۔۔۔۔

اسمِ اعظم کی ایک تعریف سورۂ زمر (۳۹: ۲۳) میں ہے: اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ-ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ-ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ۔

 

۱۱۶

 

تاویلی مفہوم: بہترین کلام اسمِ اعظم بھی ہے اور قرآن بھی ہے، کیونکہ اصلاً اسمِ اعظم اور قرآن ایک ہی چیز ہے، جبکہ اسمِ اعظم میں قرآن ہے، اور قرآن میں اسمِ اعظم۔

آپ سورۂ قمر۵۴ میں دیکھ سکتے ہیں کہ قرآن ذکر کی غرض سے آسان بنایا گیا ہے۔  (۵۴: ۱۷)، یعنی قرآن اسمِ اعظم کی صورت میں بھی ہے، اَلرَّحْمٰنُ  عَلَّمَ الْقُرْاٰن= خدائے رحمان نے اسمِ اعظم ہی کے ذریعے سے انسانِ کامل کو قرآن کی نورانی اور عرفانی تعلیم دی۔ (۵۵: ۰۱ تا ۰۲)

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار۱۶ ،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۱۷

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۶۷

 

سورۂ فرقان (۲۵: ۳۰) میں ارشاد ہے:وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا =اور اس دن رسولؐ بارگاہِ خداوندی میں عرض کریں گے کہ اے میرے پروردگار! میری قوم نے تو اس قرآن کو بیکار بنا دیا یعنی نورِ ہدایت (۰۵: ۱۵) کی روشنی میں، اس کے باطنی علم و حکمت پر عمل نہیں کیا گیا۔

مولا علی صلواتُ اللہ علیہ نے قرآن کے بارے میں ارشاد فرمایا: ظَاہِرُہُ عَمَلٌ مَوْجُوبٌ وَ بَاطِنُہُ عِلْمٌ مَکْنُوْنٌ مَحْجُوْبٌ وَ ھُوَ عِنْدَنَا مَعْلُومٌ مَکْتُوْبٌ۔

ترجمہ: قرآن کا ظاہر وہ عمل ہے، جو لازم اور واجب ہے، اور اس کا باطن در پردہ پوشیدہ علم ہے اور وہ ہمارے پاس معلوم و مرقوم ہے۔

حَمَلَۃُ القُرْاٰنِ عُرَفَاءُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ =حاملانِ قرآن اہلِ جنّت کے عارفین ہیں۔ یعنی جو لوگ قرآن کی روح و روحانیّت اور اسرارِ معرفت کے حامل ہیں، وہی لوگ اہلِ بہشت کے عارفین بھی ہیں کہ جنّتی لوگ ان سے معرفت کے اسرار کی تعلیم حاصل کرتے رہیں گے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار۱۶ ،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۱۸

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۶۸

 

حدیثِ شریف: اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ،وَاَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَی اللّٰہِ مَنْ نَفَعَ عِیَالَہٗ وَاَدْخلَ السُّرُور عَلیٰ اَھلِ بَیْتِہٖ۔

ترجمہ: مخلوق تمام کی تمام خدا کی عیال ہیں، لہٰذا خدا کے نزدیک محبوب ترین مخلوق وہ ہے، جو خدا کی عیال کو نفع پہنچائے اور اہلِ بیت کو خوش رکھے، ہزار حکمت (ح۔۶۳۲) بحوالۂ کتاب دعائمُ الاسلام، عربی، جلدِ دوم ، ص  ۳۲۰۔

قَالَ اللّٰہ عَزّ وَجَلَّ: اَلْخَلْقُ عِیَالِی فَاَحَبُّھُمْ اِلَیَّ اَلْطَفُھُمْ بِھِمْ وَاَسْعَاھُمْ فِیْ حَوَائِجِھِمْ= اللہ کا ارشاد ہے: تمام مخلوق میرا کنبہ ہیں، لہٰذا میرے نزدیک محبوب ترین بندہ وہ ہے جو ان پر سب سے زیادہ مہربان ہے، اور ان کی حاجات کو پورا کرنے میں زیادہ کوشش کرتا رہتا ہے۔

اللہ تعالیٰ اور رسولِ پاک صلعم کی پُرحکمت تعلیمات درجہ بدرجہ ہیں، اور یقیناً یہ تعلیم سب سے آخری درجے کی ہے جس کی مثال بڑی عالی شان ہے۔

بحوالۂ کتاب احادیثِ مثنوی، ص ۲۹: قَالَ دَاوُدُ

 

۱۱۹

 

عَلَیْہِ السّلام یَا ربِّ لِمَا ذَا خَلَقْتَ الْخَلْقَ؟ قَالَ کُنْتُ کَنْزاًمَخْفِیّاً فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلقْتُ الْخَلْقَ لِکَیْ اُعْرَفَ۔

ترجمہ: حضرتِ داؤد علیہ السّلام نے سوال کیا: یا ربّ! آپ نے مخلوق کو کس مقصد کے لئے پیدا کیا؟ فرمایا: میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، پس میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، تو میں نے خلق (عارف) کو پیدا کیا تاکہ میں شناختہ ہوجاؤں۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر، ۱۷،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۲۰

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۶۹

 

سورۂ فاطر (۳۵: ۱۰) یہ پُرحکمت ارشاد ہے:اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗ

ترجمہ: اس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے، وہ صرف پاکیزہ قول ہے (علم و عبادت کا) اور عملِ صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے۔

سورۂ انفال (۰۸: ۲۹)یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تم خدا سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تمہارے لئے ایک فرقان =معجزہ=معیار=کسوٹی مقرّر کرے گا، اور تمہاری برائیوں کو تم سے دور کرے گا، اور تمہارے قصور معاف کرے گا، اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔

ہمیشہ تمام لوگوں پر مہربانی کا ارادہ دل میں رکھے رہو، یہ نُزُولِ رحمت کا بہترین ذریعہ ہے، ارشادِ حضرتِ علی علیہ السّلام ۔

قرآنی حکمتِ بالغہ کا یہ اشارہ ہے کہ ہر دانا شخص ہمیشہ عِیالُ اللہ کی خیر خواہی کرے۔

 

۱۲۱

 

كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ(۲۱: ۳۳)= ہر چیز ایک دائرے پر گردش کر رہی ہے۔

(۳۶: ۴۰) وَ كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ =اور ہر چیز ایک دائرے پر گردش کررہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمِ انسانیّت کی روحوں کی یک حقیقت خدا سے آئی ہے، اور یہ حقیقت ہر روحانی قیامت میں اس دائرے کی گردش مکمّل کر جاتی ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر، ۱۷،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۲۲

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۷۰

 

قرآنِ عزیز میں ۲۴۰ مرتبہ لفظِ ناس آیا ہے، انس ۱۸ بار ہے، انسان ۶۵ بار ہے، بشر ۲۶ دفعہ ہے، آدم و بنی آدم کا لفظ ۲۵ دفعہ آیا ہے،عالمین کا لفظ ۷۳ مرتبہ، لفظِ دنیا ۱۱۵ مقامات پر ہے، ارض کالفظ ۸۶ مقام پر ہے، ان تمام مقامات پر عالمِ انسانیّت ہی کاذکر ہے اور صر ف انسان ہی کا ذکر ہے۔

یہ قرآن حکیم کے معنوی اور باطنی معجزات میں سے ہے کہ ہر عالی اور پُرحکمت مضمون بوقتِ توجّہ و تحقیق سر تا سر قرآن میں محیط ہوجاتا ہے، اور اس وقت عالمِ انسانیّت کا مضمون بھی تمام قرآن میں پھیلا ہوا نظر آرہا ہے، اسی طرح واللہ روحانی قیامت از ابتداء تا انتہا عالمِ انسانیّت کے مفاد میں ہے اور عالمِ شخصی یقیناً عالمِ انسانیّت ہی کے لئے کام کرتا ہے، الحمْدُللہ یہ ساری قربانیاں عیالُ اللہ ہی کے لئے ہیں، لیکن یہاں ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ آیا عیالُ اللہ ذاتِ سبحان کی نسبت سے ہے؟ ج: نہیں، خلیفۃ اللہ کی نسبت سے ہے، جیسا کہ حضرتِ امام باقر علیہ السّلام کا ارشاد ہے: ماقیل فی اللہ فھو فینا۔۔۔۔۔

عالمِ شخصی کی تمام خدمات عالمِ انسانیّت ہی کے لئے ہیں، اور

 

۱۲۳

 

حظیرۂ قدس کے اسرارِ عظیم بھی عالمِ انسانیّت ہی سے متعلق ہیں، پس اللہ تعالیٰ عالمِ انسایت پر نہایت مہربان اور بیحد فضل فرمانے والا ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل، ۱۸،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۲۴

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۷۱

 

لغاتُ الحدیث (کتاب “ر”) میں یہ حدیثِ شریف ہے: کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ۔

ترجمہ: تم میں سے ہر شخص سردار= نگہبان ہے اور قیامت کے دن اس کی رعیّت کی اس سے باز پرس ہوگی۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا نے ہر انسان کے عالمِ شخصی میں بحدِّ قوّت ایک بادشاہی رکھی ہے، پس جو شخص اس بادشاہی کو حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں نہیں لاتا ہے، قیامت کے دن اس کی رعیّت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا، کیونکہ اللہ جَلَّ جَلالہٗ ایسا قادرِ مطلق ہے کہ اگر دنیا کے سب انسان اپنے اپنے عالمِ شخصی کے بادشاہ ہوجائیں، تو ہر بادشاہ کی رعیّت میں دنیا بھر کے لوگ موجود ہوں گے۔

مثال کے طور پر رسولِ اکرمؐ نے فرمایا کہ تم میری اطاعت کرو تاکہ تم زمین کے بادشاہ ہوجاؤگے۔ یہ فرمانِ رسولؐ منشائے الٰہی کے بغیر ممکن نہ تھا، پس اگر دنیا کے سب لوگ رسولِ خدا کی کما کان حقَّہٗ اطاعت کرتے تو خدا ان سب کو حسبِ وعدۂ رسول صلّی اللہ علیْہ وَآلہٖ وَسَلّم عالمِ شخصی کا بادشاہ بنادیتا، خدا کی قدرت کے لئے نہ عجز ہے، نہ دشواری

 

۱۲۵

 

اور نہ کوئی تنگی، مُوْتُوا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا اور روحانی قیامت کی جتنی بھی تعریف کریں کم ہے، کیونکہ اس کے علم وحکمت اور معرفت کے خزانوں کی برکت سے تمام سوالات ختم ہوجاتے ہیں۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل، ۱۸،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۲۶

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۷۲

 

کچھ لوگ زنجیروں میں جکڑے ہوئے جنّت میں لے جائے جائیں گے:۔

“مجھے ایسے لوگوں پر ہنسی آتی ہے جو تمہارے پاس مشرق کی طرف سے آئیں گے، انہیں جنّت کی طرف کھینچ کر لے جایا جائے گا اور وہ اسے ناپسند کریں گے۔”

رسولِ اکرمؐ

“مجھے ایسے لوگوں پر ہنسی آتی ہے جنہیں زنجیروں میں جکڑکر بہشت کی طرف لے جایا جائے گا۔” رسول اکرمؐ

“خدا ایسے لوگوں پر تعجب کرے گا جو بہشت میں زنجیروں کے ساتھ داخل ہوں گے۔” رسولِ اکرمؐ

“تم مجھ سے پوچھتے نہیں کہ مجھے کس بات پر ہنسی آئے گی؟ میں اپنی امت میں ایسے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جنہیں زنجیروں میں جکڑ کر بہشت میں لے جایا جائے گا اور وہ اسے ناپسند کریں گے۔”  پوچھا گیا: “یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہوں گے؟” فرمایا: “عجم کے کچھ لوگ۔” رسولِ اکرمؐ

(بحوالۂ میزانُ الحکمت ، جلد دوم ص ۲۲۰)

آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ کے ان ارشادات کی تاویل میں روحانی قیامت کی زبردستی سے لوگوں کے بہشت میں داخل ہونے کی

 

۱۲۷

 

مثال دی گئی ہے، ہر زمانے میں طوعاً (خوشی سے) خدا کی طرف لوٹ جانے والے لوگ بہت ہی کم ہوتے ہیں مگر قیامت کی سختی سے (کرھاً) مجبور ہوکر لوٹ جانے والے لوگ بے شمار ہوتے ہیں، بہر حال جب مخلوقات تمام کی تمام عیالُ اللہ ہیں اور اب سب بہشت میں ہیں، تو پھر بہشت کے امن و سلامتی کا قانون چلے گا۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ، ۱۹،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۲۸

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۷۳

 

سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں ارشاد ہے:وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا=اور آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں خوشی سے یا مجبوری سے سب اللہ ہی کے لئے سجدہ کرتے ہیں۔

سورۂ نور (۲۴: ۴۱) کا ارشاد ہے:اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍ-كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِیْحَهٗ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ۔

ترجمہ: کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کررہےہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اُڑ رہے ہیں؟ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح جانتا ہے، اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے۔

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۴۴) کا ارشاد ہے:وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ-اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا۔

ترجمہ: کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کررہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی حلیم

 

۱۲۹

 

اور درگزر کرنے والا ہے۔

ہم اس کتاب کے مقصد اور طریقِ استدلال کو دیباچہ میں بھی زیرِ بحث لائیں گے، ان شاء اللہ یہ کتاب حدیثِ شریفِ اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ کی ایک تفسیر ہوگی، اس موضوع میں ہماری حقیرانہ کوشش یہ ہے کہ روحانی قیامت اور قرآن حکیم میں عالمِ انسانیّت کے لئے اللہ تعالیٰ کی جو بے پایان نعمتیں ہیں، ان میں سے چند مثالیں پیش کرکے یہ بتا دیا جائے کہ عالمِ انسانیّت کے باطن کا باطن خدا کی نظر میں بہت ہی عزیز ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ، ۱۹،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۳۰

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۷۴

 

بحوالۂ کتاب عملی تصوّف اور روحانی سائنس، بعنوانِ معجزۂ نوافل، قسط اوّل۔۔۔۔۔۔

رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے، اور میرا بندہ میری طرف سے فرض کی ہوئی ان چیزوں سے جو مجھے پسندیدہ ہیں، میرا قرب نہیں حاصل کرسکتا، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبّت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اسماءُ الحُسنیٰ =اسمِ اعظم کا زبردست اور قیامت خیز خزانہ ٔ نوافل ہر دور میں بےمثال اور لاجواب رہا ہے، لہٰذا آئیے ہم عرفاء سے سوال کرتے ہیں کہ مذکورہ حدیثِ قدسی کے مطابق جب اللہ جلَّ جلالہٗ اپنے کسی محبوب بندے کا کان ہوجاتا ہے تو وہ باسعادت بندہ اس خدائی کان سے ابتداءً کیا سنتا ہے، اور آگے چل

 

۱۳۱

 

کر کیا سنتا ہے؟

جواب: اسرافیلی معجزات اور بعض فرشتوں کی تسبیحات اور آگے چل کر ہر گونہ عارفانہ اسرار سنتا ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات، ۲۰ ،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۳۲

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۷۵

 

بحوالۂ صحیح البخاری، جلد سوم، کتابُ الرّقاق، جس طرح کتاب عملی تصوّف میں معجزۂ نوافل قسطِ اوّل اور قسطِ دوم کے عنوان کے تحت لکھا گیا ہے، وہ ہر عاشقِ صادق کے لئے از بس ضروری ہے، از بس ضروری، کیونکہ وہ حدیثِ قدسی  ہے یعنی کلامِ الٰہی، جس میں روحانی قیامت کے اصولات = اساسی قوانین کا بیان ہے اور اس بیانِ پُرحکمت سے اسمِ اعظم کے ذاکرکو بہت بڑا حوصلہ مل سکتا ہے۔

اگر اللہ پاک اپنے کسی محبوب بندے کا کان بن جاتا ہے، آنکھ بن جاتا ہے، ہاتھ بن جاتا ہے اور پاؤں بن جاتا ہے تو کیا یہ بہت بڑا روحانی اور باطنی انقلاب نہیں ہے؟ کیا اس انقلاب سے معرفت کے عظیم معجزات کا مشاہدہ نہیں ہوگا؟ آیا ایسے میں اللہ کا دیدار نہیں ہوگا؟ جبکہ اللہ کا پاک نور اپنے عاشقِ صادق کے لئے کان، آنکھ، ہاتھ اور پاؤں کا کام کررہا ہوتا ہے، اللہ جلَّ جلالہ کی ایسی عظیم الشّان نعمتوں کا ذکرِ جمیل بیحد ضروری ہے، تاکہ لوگوں کو اللہ کی قدرت، حکمت اور رحمت پر زیادہ سے زیادہ یقین ہو، الحمدللہ۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات، ۲۰ ،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۳۳

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۷۶

 

صنادیقِ جواہر: سوال ۴۷۸: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا؟ اس سوال کے جواب میں آنحضرت صلّی اللہ علیْہ و آلہٖ وسلّم کے پانچ ارشادات ہیں: (۱) اوّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ  نُوری، (۲) اوّلُ مَا خَلَق  اللّٰہُ القَلَمَ، (۳) اوّلُ مَا خَلَق  اللّٰہُ الْعَقْلَ، (۴) اوّلُ مَا خَلَقَ  اللّٰہُ اللَّوحَ، (۵) اوّلُ مَا خَلَقَ  اللّٰہُ الرُّوْحَ۔ آپ یہ بتائیں کہ پانچ مختلف چیزیں بیک وقت اوّل کس طرح ہوسکتی ہیں؟

جواب: یہ ایک ہی ازلی حقیقت ہے جس کے یہاں پانچ نام ہیں، اس کا تذکرہ کسی بھی نام سے ہوسکتا ہے، چنانچہ آنحضرتؐ نے موقع و محل کے مطابق اس کا ایک نام ظاہر فرمایا، قلم اور لوح عقل و جان کے سوا نہیں ہیں، یہ نبیؐ اور علیؑ کے نورِ واحد و یکتا کے اسمائے ازل ہیں، ازل کا دوسرا نام دھر ہے، جو زمانِ ساکن ہے=زمانِ ناگزرندہ۔

کتابِ کوکبِ درّی بابِ سوم منقبت ۳۴ میں مولا علیؑ کا ارشاد ہے: اَنَا الْمُتَکلِّمُ بِکُلِّ لُغَتٍ فِی الدُّنْیَا۔ یعنی میں ہوں وہ شخص جو دنیا کی ہر لغت و زبان میں کلام کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر دنیا کے سب لوگ امامِ زمان علیہ السّلام کا باطنی کلام سننے کے قابل ہوجائیں تو امام بحکمِ خدا

 

۱۳۴

 

تمام لوگوں سے ایک ساتھ ان کی اپنی زبان میں کلام کر سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر انسان میں امامِ زمانؑ کے نور کی ایک چنگاری ہے۔

امامِ زمان علیہ السّلام باطن میں لوگوں پر گواہ ہوتا ہے۔ (۲۲: ۷۸)، (۰۲: ۱۴۳)۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات، ۲۰ ،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۳۵

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۷۷

 

سورۂ ابراہیم (۱۴: ۰۴) کا پُر ازحکمت ارشاد ہے:وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ  ۔

ایک ترجمہ: اور ہم نے تمام رسولوں کو ان ہی کی قومی زبان میں رسول بنا کر بھیجا ہے، یہاں یہ جائز اور عاقلانہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا حضورِ اکرم صلعم اللہ کی طرف سے تمام اہلِ جہان کے لئے رحمت نہ تھے؟ (۲۱: ۱۰۷)

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۵۸) کا ارشاد ہے:قُلْ یٰاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا۔

(اے محمدؐ!) کہو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں جو آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے۔۔۔۔۔ سوال جو پیدا ہوا تھا، وہ یہ ہے کہ یقیناً خداوندِ عالم نے جب اپنے کسی رسول کو بھیجا تو اس کی اپنی قوم کی زبان میں بھیجا، اسی طرح آنحضرتؐ کو بھی اپنی قوم کی زبان (عربی) میں بھیجا اور آپؐ پر جو کتاب نازل ہوئی یعنی قرآن وہ بھی عربی میں ہے، اور کتاب کی تفسیر و تاویل کی غرض سے الٰہی نور بھی نازل ہوا، یہ نورِ مجسّم زمانۂ نبوّت میں آنحضرتؐ خود تھے، اور آپؐ کے بعد امامِ برحقؑ جو جانشینِ رسولؐ ہے، وہ نور ہے (۰۵: ۱۵)، خدائی رحمت دنیا میں پھیل جانے کے لئے آئی تھی سو اسلام پھیلنے لگا،

 

۱۳۶

 

آنحضرتؐ کی قوم بھی اور قومی زبان بھی پھیلنے لگی، لہٰذا کون یہ کہتا ہے کہ ظاہر میں قرآن و حدیث کے ترجمہ و تفسیر کا کوئی جواز نہیں؟ اور کون کہتا ہے کہ باطن میں تاویل کا کوئی جواز نہیں جبکہ تاویل وہی کرتا ہے جس کے پاس الٰہی نورہے (۰۵: ۱۵)؟

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ، ۲۱ ،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۳۷

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۷۸

 

سورۂ قیامت (۷۵: ۱۹)ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗ= پھر اس کا بیان=تاویل کرنا بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے۔ لفظِ تاویل اور اس کی حکمت کے لئے ملاحظہ ہو، کتاب ہزار حکمت (ح:۱۸۴) تا (ح:۲۰۴) کل ۲۱ حکمتیں ہیں، آپ ان کے جوہر سے اپنے سرمایۂ عقلی میں اضافہ کریں، ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔

اہلِ معرفت کے نزدیک یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ علیٔ زمان جو آلِ محمدؐ ہے، وہ اللہ کا زندہ اسمِ اعظم، صاحبِ روحانی قیامت، نورِ الٰہی اور مؤوِّلِ قرآن ہے، لہٰذا وہ تو علمِ تاویل کا خزانہ دار ہے، لیکن یہاں یہ سوال ہے کہ آیا تاویلی حکمت تک لوگ رسا ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ ج: کیوں نہیں، سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۶۹) کا ارشاد ہے:یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا-وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ ۔

ترجمہ: خدا جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو خدا کی طرف سے حکمت عطا کی گئی تو اس میں شک ہی نہیں کہ اسے خوبیوں کی بہت بڑی دولت ہاتھ لگی اور عقل مندوں کے سوا کوئی نصیحت مانتا ہی نہیں۔

پس تاویلی حکمت یا نورانی تاویل کے لئے فنا فی الامام کا قانونِ قدیم مقرّر ہے، جس کے نتیجے میں اللہ عرفاء کو حظیرۂ قدس کی بہشت میں خزائنِ

 

۱۳۸

 

تاویل سے نوازتا ہے، اس کے لئے تین اصول ہیں: اللہ کی حقیقی اطاعت، رسولؐ کی حقیقی اطاعت، صاحبِ امر = امامِ زمانؑ کی حقیقی اطاعت، اور قرآنِ حکیم میں یہی حکم ہے (۰۴: ۵۹) اس حکم میں سب سے پہلے اللہ کی اطاعت ہے، پھر رسولؐ کی اطاعت ہے، بعد ازان اولواالامر کی اطاعت ہے، جس میں مولا علیؑ سب سے اوّل ہے، اور مولا علیؑ کی ظاہری معرفت کے لئے تین عظیم سرچشمے ہیں، اوّل قرآنِ حکیم، دوم حدیثِ شریف، اور سوم خود مولا علیؑ کا تعارفی کلام۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر، ۲۲ ،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۳۹

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۷۹

 

مولا علی علیہ السّلام کا اپنا تعارفی کلام: اَنَا الْاسماءُ الْحُسْنیَ الَّتِیْ اَمَرَ اللہُ اَنْ یُّدْعیٰ بِھا۔ یعنی میں خدا کے وہ اسماءِ حسنیٰ ہوں جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ انہی ناموں سے اس کو پکارا جائے (۰۷: ۱۸۰)۔

اَنَااللَّوْحُ الْمَحْفُوْظُ۔ یعنی میں لوحِ محفوظ ہوں (۸۵: ۲۱ تا ۲۲)۔

اَنَا خَازِنُ عِلْمِ اللہ۔ یعنی میں علمِ الٰہی کا خزانہ دار =خزانچی ہوں۔

اَنَا النَّاقُوْرُ (۷۴: ۰۸)۔ یعنی میں صورِ اسرافیل ہوں۔

اَنَا النُّورالَّذِیْ اِقْتَبَسَ مِنْہُ مُوسیٰ فَھَدٰی۔ یعنی میں وہ نور ہوں جس سے موسیٰؑ نے روشنی طلب کی، تو ہدایت پائی۔

سورہ نمل (۲۷: ۰۸) کا ارشاد ہے:فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِیَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَاؕ-وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

ترجمہ: (موسیٰ) جو وہاں پہنچا تو ندا آئی کہ مبارک ہے وہ جو اس آگ میں ہے، اور جو اس کے ماحول میں ہے، پاک ہے اللہ سب جہان والوں کا پروردگار۔

اس آیۂ شریفہ میں جو لفظِ بُوْرِك (وہ برکت دیا گیا=مبارک) ہے، وہ

 

۱۴۰

 

ذاتِ سبحان کے لئے نہیں ہے، پس یہ مولا علیؑ ہی کا نور تھا، جیسا کہ مولا نے خود ہی فرمایا۔

آپ مولا علی علیہ السّلام کے اپنے تعارفی کلام کو عشق و محبت کے ساتھ پڑھیں تاکہ آپ کی امام شناسی مضبوط بنیادوں پر قائم ہوسکے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر، ۲۲ ،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۴۱

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۸۰

 

اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ کے بابرکت و پُرحکمت ارشاد میں کَما کَانَ حَقَّہٗ سوچنا از بس ضروری ہے، از حد ضروری ، کیونکہ اس ارشادِ عالی میں یہ زبردست ضمانت ہے کہ خدا کے کنبہ یعنی تمام انسانوں کو بالآخر جنّت میں لے جانا ہے، اور اس حقیقت کی آسمانی تصدیق اس آیۂ شریفہ سے ہوتی ہے جس میں عالمِ انسانیّت کے لئے یہ انتہائی عظیم بُشارت ہے کہ اللہ جَلَّ جلالہٗ نے اپنے محبوب رسولؐ کو تمام انسانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے (۲۱: ۱۰۷) اور ساتھ ہی ساتھ امامُ المُتَّقین کو امامُ النَّاس بھی بنایا، تاکہ وہ بحکمِ خدا روحانی قیامت کی بے پایان نعمتوں سے عیالُ اللہ یعنی تمام مخلوقات کو فیض یاب کردے (۱۷: ۷۱) کیونکہ امامِ آلِ محمدؐ خود روحانی قیامت ہے، اور قرآن میں قیامت کے جتنے اسماء آئے ہیں، وہ سب امامِ عالی مقامؑ کے قیامتی اور تاویلی اسماء ہیں۔

حضرتِ امامِ مبین علیہ السّلام جو روحانی قیامت کا مالک ہے، مراحلِ قیامت کی ہر سختی کو عارِف = نفسِ واحدہ پر ڈالتا ہے، اور عیالُ اللہ کو غیر شعوری قیامت کے حجاب میں رکھتا ہے، جب لوگ سب کے سب بہشت میں جائیں گے، تو اس وقت صرف عارفوں کے نامۂ اعمال = نورانی موویز میں قیامت کے معجزات ریکارڈ ہوں گے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار، ۲۳،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۴۲

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۸۱

 

بحوالۂ کتاب صنادیقِ جواہر: سوال۔۴۷۹: آپ نے تو بتایا تھا کہ نورِ محمدؐ قلم ہے اور نورِ علیؑ لوح، کیا یہ ضروری نہیں کہ یہ دونوں پاک چیزیں الگ الگ ہوں؟ اگر نورِ نبیؐ عرش ہے اور نورِ امامِ مبین کرسی، تو کیا یہ دونوں عظیم درجے جدا جدا نہیں ہیں؟

جواب: (۱) عالمِ شخصی کے بہت سے مراحل کے بعد حظیرۂ قدس =عالمِ وحدت آتا ہے، جس کے بارے میں عرفاء یہ کہتے ہیں کہ وہاں قانونِ وحدت کی وجہ سے ایک ہی عظیم فرشتۂ نور قلم بھی ہے اور لوح بھی، یہی مَلَک = فرشتہ محمدؐ و علیؑ کا نورِ واحد بھی ہے، اور عقلِ کلّ و نفسِ کلّ بھی یہی ہے۔

(۲) یقیناً نورِ نبیؐ عرش ہے اور نورِ علیؑ کرسی، لیکن یہ نورِ واحد ہے اور فرشتۂ واحد، جو عرش بھی ہے اور کرسی بھی، بلکہ وہی عظیم فرشتہ بحقیقت روحانی و نورانی آسمان بھی ہے اور زمین بھی۔

سوال۔ ۴۸۰: اکثر لوگوں کے نزدیک تصوّرِ ازل انتہائی بعید ماضی کی طرح ہے، لیکن اس کے برعکس آپ تو یہ کہتے ہیں کہ عالمِ شخصی کے روحانی سفر کے آخر میں براہِ راست ازل اور لامکان کا مشاہدہ ہوتا ہے، آپ اس عجیب و غریب حکمت کی وضاحت کریں؟

 

۱۴۳

 

جواب: (۱) عالمِ شخصی کا روحانی سفر جسم سے روح کی طرف، مکان سے لامکان کی طرف، زمین سے آسمان کی طرف، اور آخر سے اوّل کی طرف ہے۔

(۲) چونکہ یہ سفر مدَوّر (گول) ہے، لہٰذا ہم کو گھوم کر واپس وہاں جانا پڑتا ہے، جہاں سے ہم آئے تھے۔ (۳)۔ امامِ مبینؑ میں سب کچھ ہے، اس کا تجربہ عالمِ شخصی میں ہوتا ہے، خصوصاً جبین میں، جو عالمِ علوی ہے، جس میں ازل و ابد کے اسرار ہیں۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار، ۲۳،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۴۴

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۸۲

 

چونکہ یہ سفر مُدَوّر (گول) ہے، لہٰذا ہم کو گھوم کر واپس وہاں جانا پڑتا ہے، جہاں سے ہم آئے تھے۔ سوال: آیا یہ تمام انسانوں کی بات ہے؟

ج: جی ہاں۔

سوال: ہم سب انسان کہاں سے آئے تھے؟ ج:ح۔ق کی جنّت سے۔

سورۂ دھر (۷۶: ۰۱) کا پُر ازحکمت ارشاد ہے:هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْــٴًـا مَّذْكُوْرًا ۔

ترجمہ: آیا انسان پر دھر (زمانِ ناگزرندہ) میں سے ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا۔

اس آیۂ شریفہ کا حکمتی اشارہ معجزۂ ظہورِ حظیرۂ قدس کی طرف ہے، اس میں اسرارِ معرفت کا بہت بڑا خزانہ ہے، یہ معجزہ تجدّد کا قدیم سلسلہ ہے، ہر روحانی قیامت میں تمام روحیں نفسِ واحدہ کے ساتھ آکر یہاں فنا ہوجاتی ہیں، حظیرۂ قدس مکان و زمان سے بالاتر ہے، یہاں ازل و ابد کا سنگم ہے، مشرق و مغرب کا سنگم ہے، فنا و بقا کا، آسمان و زمین کا، یہاں صاف وپاک اور میٹھے پانی کا ایک کنواں اور ایک محل ہے، کتابِ مکنون اور گوہرِ عقل بھی یہاں ہیں۔

 

۱۴۵

 

جب انسان سب کے سب عیال اللہ ہیں تو پھر وہ نفسِ واحدہ میں فنا ہوجانے کے بعد فنا فی اللہ ہوجاتے ہیں، اوریہ غیر شعوری فنا ہے، آپ تمام انسانوں کے حق میں ہمیشہ نیک خیالات رکھنا اور ان کے لئے کوئی مفید خدمت کرنا۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر، ۲۴،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۴۶

 

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۸۳

 

اللہ تبارک و تعالیٰ کے بابرکت اسمائے صفات سب کے سب ہمیشہ عالمِ انسانیّت ہی کے لئے بے پایان اور لازوال آسمانی خزانے ہیں، چنانچہ اللہ جلَّ جلالہٗ کے ہر اسمِ صفت کا خزانہ اپنی نعمتوں کی مسلسل بارش عالمِ انسانیّت ہی پر برسا رہا ہے، جس طرح آفتابِ عالمتاب کا سر چشمہ لگاتار اپنی روشن اور گرم شعاعوں کی بارش برساتا رہتا ہے، بالکل سورج ہی کی طرح دائم الوقت اسمائے الٰہی خدا کی خدائی میں کام کر رہے ہیں۔

سب سے پہلے آغازِ قرآنِ عزیز میں دیکھیں جہاں حضرت ربّ نے اپنی ذاتِ پاک کی پُرحکمت تعریف فرمائی کہ وہ ہرہر عالمِ شخصی یعنی ہر انسان کا بطورِ خاص پرورش کرنے والا ہے، ربُّ العٰلَمِین کا نظامِ پرورش بڑا عجیب و غریب ہے، یہ نظامِ ربوبیّت عام سے عام تر بھی ہے اور خاص سے خاص تربھی۔

پس عالمِ جمادات، عالمِ نباتات، عالمِ حیوانات اور عالمِ انسان کی پرورش درجہ بدرجہ ہے، یقیناً ہر انسان عالمِ صغیر بلکہ عالمِ کبیر ہے، کیونکہ اس میں عالمِ اکبر لپیٹا ہوا موجود ہے۔

اے صاحبانِ عقل و دانش، دیکھو اور خوب سوچو! کہ قرآنِ حکیم

 

۱۴۷

 

میں تمام آسمانی کتابوں کا علم جمع ہے، اور قرآن کا تمام علم اُمُّ الکتاب میں جمع ہے اور اُمُّ الکتاب کی چوٹی پر عالمِ انسانیّت کی خاصُ الخاص پرورش کا ذکرِ جمیل ہے، کیا اس میں انتہائی عظیم حکمت نہیں ہے؟ ان شاء اللہ العزیز!

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل،۲۵،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۴۸

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۸۴

 

بحوالۂ کتابِ ہزار حکمت (ح: ۷۰۱) مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ۔ جو (جیتے جی) مرگیا تو اس کی روحانی قیامت قائم ہوئی۔ یقیناً یہ حدیثِ شریف روحانی قیامت کے بارے میں ہے، جو عارفانہ قیامت ہے، کیونکہ جو شخص جسمانی موت سے مرجاتا ہے اس کے لئے اسرافیلی اور عزرائیلی معجزات نہیں ہوسکتے، اور نہ ہی مرنے والا اسمِ اعظم کا ذکر کر سکتا ہے، جو روحانی قیامت کا سرچشمہ ہے، حکیم پیر ناصر خسرو کے نزدیک خدا کی بادشاہی میں بے پایان قیامات کا سلسلہ خدا کی ایک بہت ہی عظیم تعریف ہے، کیونکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیھم السّلام کے تمام اسرارِ حکمت و معرفت روحانی قیامت میں پوشیدہ ہیں۔

عالمِ انسانیّت اور عیالُ اللہ کی عزّت و برتری روحانی قیامت میں ہے، اور آدمؑ و بنی آدم کی یکجا کرامت و فضیلت بھی اسی میں ہے، (۰۷: ۱۱) کا تاویلی مفہوم: ہم نے نفسِ واحدہ = تمہارے باپ آدم کے ساتھ تمہاری روحانی تخلیق کی، پھر تمہاری روحانی صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو، اس آیہ شریفہ میں جس طرح خدائے علیم و حکیم نے آدم اور بنی آدم کو ساتھ رکھا ہے، ان کو کوئی شخص معنی اور بیان کے ذریعے الگ الگ نہیں کرسکتا ہے۔

 

۱۴۹

 

آج میں آپ کو معرفتِ آدمؑ کا ایک عظیم راز بتاتا ہوں، کہ جب آدم میں الٰہی روح پھونک دینے کا وقت ہوا تو خدا کے حکم سے اسرافیلؑ نے صور پھونکا جس سے ایک ساتھ کئی عظیم معجزات ظہور پزیر ہوئے۔

(۱) روحانی قیامت برپا ہوئی۔

(۲) تمام روحیں آدم میں جمع ہوکر اس کی ذرّیت =اولاد ہوگئیں۔

(۳) فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا، وغیرہ۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل،۲۵،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۵۰

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۸۵

 

سورۂ زمر (۳۹: ۰۶) کا ارشاد ہے: خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا

ترجمہ: اسی نے تم (سب) کو ایک جان (آدم) سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا (یعنی حوّا)۔

قسط: ۸۴ کا آخری پیراگراف ملاحظہ ہو: آج میں آپ کو معرفتِ آدمؑ کا ایک عظیم راز بتاتا ہوں کہ جب آدم میں الٰہی روح پھونک دینے کا وقت ہوا تو خدا کے حکم سے اسرافیلؑ نے صور پھونکا جس سے ایک ساتھ کئی عظیم معجزات ظہور پذیر ہوئے۔ (۱) روحانی قیامت برپا ہوئی۔ (۲) تمام روحیں آدم میں جمع ہوکر اب اس آدم کی ذریّت و اولادِ روحانی ہوگئیں۔ (۳) ان سب کا اگلا نسب و رشتہ ٹوٹ گیا (۲۳: ۱۰۱)۔ (۴) سوائے ابلیس کے کل فرشتوں نے آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کو سجدہ کیا۔ (۵) یہ سجدہ انتہائی عجیب و غریب تھا، عرفاء نے مشاہدہ تو کیا ہے لیکن بیان کی عکاسی بہت مشکل ہے، بہر حال آدم کے عالمِ شخصی میں روحاً و باطناً کائنات، اس کے اجزاء اور ذرّات باربار گرتے تھے، یہ ایک طرف سے چھوٹے بڑے کلّ فرشتوں کا سجدہ تھا اور دوسری طرف سے تسخیرِ کائنات تھی، اور اس میں بہت سے اسرار

 

۱۵۱

 

پوشیدہ ہیں، اب آدم اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے بے شمار فرزندانِ روحانی بصورتِ روح اس کے ساتھ تھے، لہٰذا میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں کہ تم فرشتوں کی کثرت میں ساجدین بھی تھے، اور آدم کی وحدت میں مسجود بھی۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ،۲۶،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۵۲

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۸۶

 

حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: مومن کی روح ہماری روح ہے۔ (کلام امامِ مبین، حصّۂ اوّل، راجکوٹ، ۲۰۔۲۔ ۱۹۱۰ء)

یہ مولا علی علیہ السّلام کے اس ارشاد کی تاویلی حکمت ہے: وہ ارشاد یہ ہے: مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ =جس نے اپنی روح حظیرۂ قدس میں پہچان لی اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔

حظیرۂ قدس جنّت ہے، حدیثِ شریف میں ہے کہ جو شخص جنّت میں داخل ہوتا ہے، وہ اپنے باپ آدم کی صورت پر ہوتا ہے، اور آدم جنّت میں رحمان کی صورت پر پیدا کیا گیا تھا۔

حجتِ قائم سلامُ اللہ علیھما کا یہ بابرکت ارشاد ایسی کامیاب روح سے متعلق ہے جو ح۔ق میں داخل ہوچکی ہے، آدم خلیفۃ اللہ علیہ السلام کی وحدت میں بنی آدم سب کے سب ح۔ق میں داخل ہوگئے تھے، مگر وہ سب آدمؑ میں فنا ہوچکے تھے۔

بحوالۂ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲) سوال: یہ کونسا روحانی مقام ہے، جہاں خداوندِ عالم کل روحوں سے پوچھتا ہے: اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ=آیا میں

 

۱۵۳

 

تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟

جواب: یہ مقامِ حظیرۂ قدس ہے۔

سوال: کیا ہر روحانی قیامت میں عہدِ اَلَسْت کا تجدّد ہوتا ہے؟

جواب: جی ہاں، تمام خاص اور عظیم معجزات کا تجدُّد ہوتا ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات،۲۷،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۵۴

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۸۷

 

حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: آپ اپنی روح کو بیدار اور ہوشیار رکھنا، آپ فرشتے بن جائیں بلکہ فرشتوں سے بھی بلند درجے پر پہنچ جائیں، جن کے کام اچھے اور پاک ہیں، جن کا ایمان کامل، دل، زبان، کان، ہاتھ، پاؤں اور منہ گناہ سے پاک ہیں، وہی جبرائیل سے بھی زیادہ اونچے درجے پر فائز ہوجائیں گے، اس لئے آپ علم و معرفت میں ہوشیار ہوجائیں تاکہ آپ جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل سے بھی زیادہ بلند درجے پر پہنچ سکیں۔

سورۂ حدید (۵۷: ۲۸) کا ارشاد ہے: ترجمہ: اے ایماندارو! خدا سے ڈرو، اور اس کے رسول (محمدؐ) پر ایمان لاؤ، جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے، تو خدا تم کو اپنی رحمت کے دو حصّے عطا فرمائے گا، اور تم کو ایسا نور عطا فرمائے گا، جس کی روشنی میں تم چلو گے اور تم کو بخش دے گا، اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ اس ربّانی تعلیم میں جس پاک نور کا ذکر ہے وہ سب سے پہلے حضرت علی علیہ السّلام ہے۔

اسلام میں کامیابی کی سب سے بڑی شرط خوفِ خدا ہے، اور دوسری عظیم شرط رسولؐ پر حقیقی معنوں میں ایمان لانا ہے، آپ غور سے دیکھیں

 

۱۵۵

 

یہی دو عظیم شرطیں علیؑ کے نور کی معرفت کے لئے بھی ہیں، پس یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ چراغِ نورِ امامت تو ہر زمانے میں موجود ہو، اور اس نور کے کچھ بھی پروانے نہ ہوں؟

مولائے پاک نے فرمایا: دنیا میں ہمیشہ تین سو تیرہ (۳۱۳) مومن ہوتے ہیں، اگر وہ نہ ہوں تو دنیا کا نظام نہ چلے۔ یہ کون ہیں؟ حدودِ دین ہیں؟ جسمِ کثیف میں ہیں یا جسمِ لطیف میں؟ فرشتے بن چکے ہیں یا بشر ہیں؟

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات،۲۷،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۵۶

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۸۸

 

حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: اگر تمہیں قرآن مجید سیکھنے کی خواہش ہے تو اس کے حقیقی معنی جاننے والوں کے شاگرد بنو۔

امامِ عالی مقام علیہ السّلام جن سالکین کو بطریقِ باطن قرآنی حکمت کی تعلیم دینا چاہتا ہے، تو آنجناب اسمِ اعظم اور روحانی قیامت کے ذریعے سے ان کو نورانی تعلیم دیتا ہے، نورانی تعلیم عین الیقین سے شروع ہوکر حق الیقین تک جاتی ہے، حق الیقین کا درجہ حظیرۂ قدس میں ہے، چونکہ زندہ اسمِ اعظم امامِ زمانؑ خود ہی ہے، لہٰذا بڑا خوش نصیب سالک وہ ہے جو امامِ زمانؑ کا عاشقِ صادق ہے۔

یہ بات بتا دینا بیحد ضروری ہے کہ ایسا کوئی شخص حضرتِ امامؑ سے اسمِ اعظم حاصل کرنے کے لئے کوشش نہ کرے جس کو امام پر کامل یقین اور عشق نہ ہو، کیونکہ امامِ زمان علیہ السّلام کے پاک و پُرحکمت عشق کے بغیر اس میں کوئی کامیابی ممکن ہی نہیں، اسی طرح سالک کو نورِ اسمِ اعظم کی روشنی میں قرآنِ مجید کے تاویلی معجزات کو دیکھنے اور سمجھ لینے کے لئے قرآن سے حقیقی اور کامل عشق ہونا از حد ضروری ہے، وہ یہ کہ سالک قرآن کے ظاہری

 

۱۵۷

 

علم سے خوب آگاہ اور واقف ہو، پھر ایسا کوئی با سعادت سالک ان شاء اللہ رفتہ رفتہ فنا فی القرآن اور فنا فی الامام ہوجائے گا۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ،۲۸،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۵۸

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۸۹

 

بحوالۂ ہزار حکمت (ح:۴۳۱) سرابیل=کُرتے (۱۶: ۸۱) نورانی ابدان، بہشتی لباس=اجسامِ لطیف=لبوس (۲۱: ۸۰) طَیْر =پرندہ (۰۵: ۱۱۰) جثۂ ہائےابداعیہ، خلقِ جدید (ہزار حکمت ح:۳۲۴) اجسامِ مثالی=اجسامِ فلکی=اہلِ ایمان از قومِ جنّ=پری۔

قرآنِ حکیم میں تسخیرِ کائنات کے مضمون کو پڑھیں، یہ سب بہشت کی نعمتیں ہیں، آپ دنیا ہی میں بہشت کی معرفت حاصل کریں، آپ ہر چیز کی ابتدائی معرفت علم الیقین ہی سے حاصل کر سکتے ہیں، پس علم الیقین تمام انسانوں کیلئے بیحد ضروری ہے، آپ نورانی بدن کے ساتھ بہشت میں جانے کے بعد کائنات کی سیاحت کر سکتے ہیں، اسرارِ کائنات معلوم کر سکتے ہیں، آدم خلیفۃُ اللہ کی نورانی مووی میں خود کو اور تمام انسانوں کو دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ بہشت میں کوئی بھی نعمت غیر ممکن نہیں، خصوصاً کوئی بھی علمی اور تاریخی سوال ایسا نہیں، جس کا بہترین جواب نہ ملے۔

الغرض بہشت میں ہر عظیم نعمت ہے، ہر خزانہ ہے، اور ہر معجزہ ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ،۲۸،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۵۹

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۹۰

 

سوال: انسان کے کان بجنے میں کیا راز ہے؟

جواب: رازِ اوّل وہ مَثَلِ بَعُوضَہْ ہے: بحوالۂ سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۶)۔

رازِ دوم: وہ ناقورِ قیامت کا نقطۂ آغاز ہے: (۷۴: ۰۸)۔

رازِ سوم:یہ قیامت کا داعی ہے، جو آپ کی اپنی زبان میں روحوں کو بلاتا ہے:(۲۰: ۱۰۸)۔

رازِ چہارم: قیامت کا منادی ہے، جو ایک قریب جگہ سے قیامت کی ندا کرنے والا ہے:(۵۰: ۴۱)۔

رازِ پنجم: ہر شخص میں دو ساتھی ہوتے ہیں: ایک جنّ ایک فرشتہ، یہ فرشتہ ہے، جب داعی ہے: (۲۰: ۱۰۸)۔

رازِ ششم: یہ نورِ امامِ زمانؑ کی چنگاری ہے، کیونکہ مولا علی علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ بَعُوضَہْ میں ہوں (۰۲: ۲۶)۔

سوال: اسکی کیا شہادت=گواہی ہے کہ داعیٔ قیامت ہر کسی کی زبان میں ہوتا ہے؟

جواب: لَاعِوَجَ لَہٗ (۲۰: ۱۰۸)۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ،۲۸،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۶۰

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۹۱

 

حجّتِ قائم سلامُ اللہ علیْھُما نے فرمایا: اگر تم دینی علم کی کتابیں پڑھ کر ان پر عمل کروگے تو فرشتے (ملائک) بن جاؤگے۔ (کلام امامِ مبین، حصّۂ اول ، کچھ مندرا، ۲۸۔۱۱۔۱۹۰۳ء)

جنہیں علم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا، انہیں روحانی معاملات میں اپنی طرح کرنے کی کوشش کرو۔

تم پر لازم ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیم دو، اگر تمہیں قرآنِ شریف سیکھنے کی خواہش ہو تو اس کے حقیقی معنی جاننے والوں کے شاگرد بنو، اس طرح تمہیں اس کے حقیقی معنی معلوم ہوں گے۔

تم خوجوں کو دین کی بہت سی کتابوں کی خبر نہیں ہے، اسی لئے زیادہ تر لوگوں نے ایسی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا، ایسی کتب پڑھوگے تو تمہیں سمجھ آئے گی اور تم میں خرابی نہیں رہے گی، ان کتابوں کے پڑھنے سے تمہاری عقل گواہی دے گی کہ تمہارا دین سچا ہے، اس کا تمہیں پتہ چلے گا۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر،۲۹،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۶۱

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۹۲

 

سورۂ روم (۳۰: ۳۰) کا ارشاد ہے: فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا-لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُۗ-وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَۗترجمہ و تفہیم: اللہ کا قانونِ فطرت وہ ہے، جس کے مطابق اس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا، خدا کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں، یہی بالکل راست اور درست دین ہے = یہی قائمؑ کا دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدانے تمام لوگوں کو ازل میں روحاً یکسان پیدا کیا ہے، اسی وجہ سے حجتِ قائم علیہ السّلام نے فرمایا کہ روح ایک ہی ہے، اور اسی مہربان نے مونوریالٹی کا انقلابی تصوّر دیا، اللہ اور اس کے محبوب رسولؐ نے تمام لوگوں کو عیال اللہ کا سب سے عظیم ٹائٹل عنایت کیا، حظیرۂ قدس کے تصوّر نے تمام روحوں کو عرشِ اعلیٰ پر دکھایا۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر،۲۹،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۶۲

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۹۳

 

سورۂ ھود (۱۱: ۰۷) کا پر حکمت ارشاد ہے:وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ وَّ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۔

بحوالۂ ہزار حکمت (ح:۵۶۸) ۔ عَرْشُۃٗ : اس کا تخت: سورۂ ھود (۱۱: ۰۷) کی اس ربّانی تعلیم کو خوب غور سے دیکھ لیں: اور وہ تو وہی (قادرِ مطلق) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور اس کے عرش کا (تمثیلی) ظہور پانی پر ہوگیا تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں زیادہ اچھی کار گزاری والا کون ہے۔

وَّ كَانَ عَرْشُهٗ :اور اس کا عرش تھا/ہوگیا/ہے، چونکہ اصل اور بامقصد قصّہ عالمِ دین کا ہے جس کا عارفانہ مشاہدہ عالمِ شخصی ہی میں ہوتا رہتا ہے، پس نورانی خواب میں عارفین یہ دیکھتے ہیں کہ سمندر پر ایک کشتی نما تخت اور اس پر نور کی تجلّی ہے، یہ صاحبِ عرش کا تمثیلی ظہور اور اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ اب عالمِ شخصی مکمل ہوکر مرحلۂ علم و معرفت میں داخل ہوچکا ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر،۲۹،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۶۳

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۹۴

 

بحوالۂ ہزار حکمت (ح: ۵۶۹۔۵۷۰) ۔عَرْشُہٗ۔ اس کا تخت: خدائے احد و صمد کے تخت کا پانی (سمندر) پر ہونا عالمِ شخصی کی چوٹی کی مثالوں میں سے ہے، جس کا ذکر ہوچکا اور یقیناً یہی تخت فُلْکِ مَشْحُوْن (بھری ہوئی کشتی  ۳۶: ۴۱) بھی ہے اور اس کا نام جَارِیَۃِ (کشتی  ۶۹: ۱۱) بھی ہے یعنی سفینۂ نجات ۔

سورۂ حاقۃ میں فرمایا گیا ہے: اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ حَمَلْنٰكُمْ فِی الْجَارِیَةِۙ:جب پانی چڑھنے لگا تو ہم نے تم کو کشتی پر سوار کیا (۶۹: ۱۱) یعنی جب تمہارے زمانے میں قیامتِ صغریٰ کا طوفان ہونے لگا تو ہم نے تم کو کشتیٔ اہلبیتؑ میں سوار کرلیا، یہ سفینۂ نجات بحرِ علم کا عرش بھی ہے اور صاحبِ عرش وہ ذاتِ عالی صفات ہے، جس میں کشتی والوں کو فنا ہوکر ابدی طور پر زندہ ہوجانا ہے، یہی سبب ہے کہ بھری ہوئی کشتی میں سوائے وجہٗ اللہ کے اور کوئی نظر ہی نہیں آتا کیونکہ سب کے سب اسی میں فنا اور واصل ہوچکے ہیں۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر،۲۹،  جون۲۰۰۲ ء

 

۱۶۴

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۹۵

 

سب سے آخری اور سب سے اعلیٰ فیصلہ کن حقائق و معارف روحانی قیامت ہی میں ہیں اور یہی عظیم نعمتیں قرآنِ حکیم میں بھی ہیں، اس حقیقت کی ایک بہت ہی ضروری اور عظیم مثال یہ ہے کہ: اللہ جل شانہٗ نے آدم کو اہلِ زمانہ سے منتخب (صفی =برگزیدہ) فرمایا (۰۳: ۳۳) اور اسی نفسِ واحدہ =ایک جان سے تمام انسانوں کو روحاً پیدا کیا (۳۹: ۰۶)۔ پھر جملہ بنی آدم منزل بمنزل آگے بڑھ کر حظیرۂ قدس کی بہشت میں داخل ہوگئے، اور حضرتِ ربّ کی نوازشات جو آدم علیہ السّلام کو حاصل تھیں وہ بنی آدم کو بھی نصیب ہوئیں، اور خدا نے اپنی بے شمار نعمتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: اَلْسْتُ بِرَبِّکُمْ =آیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ (۰۷: ۱۷۲) پس ہر روحانی قیامت میں اللہ تعالیٰ تمام انسانی ارواح کو اپنے قرب اور کلام: اَلْسْتُ بِرَبِّکُمْ ؟ کی نعمت سے نوازتا ہے، اس پاک و پُرحکمت کلامِ خداوندی میں بے شمار نعمتوں کا اشارہ ہے، اور یہ سب لوگوں کی حظیرۂ قدس یا عرش تک برتری ہے، اور اسی معنیٰ میں مولا نے فرمایا کہ تم دنیا ہی میں بہشت اور عرش کو دیکھ سکتے ہو۔

اگر آپ کو ایسے عظیم معجزات یاد نہیں ہیں، تو علمُ الیقین کے ذریعے سے ان پر یقین کر سکتے ہیں، اور بہشت میں ہر بھولی ہوئی نعمت آپ کی خواہش

 

۱۶۵

 

پر سامنے آئے گی، اور بہشت کی خصوصیت ہی ایسی ہے کہ وہاں ہر نعمت بدرجۂ انتہا خوشی دیتی ہے۔

 

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار، ۳۰ ، جون ۲۰۰۲ ء

 

۱۶۶

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط :۹۶

 

حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: آپ اپنے دل میں اپنی روح یعنی ہمارے نور کو دیکھیں ۔ کیونکہ قرآنِ مجید میں نور کی چار نسبتیں ہیں: کہ نور کی نسبتِ اوّل اللہ سے ہے، نسبتِ دوم رسولؐ سے ہے، نسبتِ سوم امامؑ سے اور نسبتِ چہارم مومنین و مومنات سے ہے۔

حضرت مولا نے ارشاد فرمایا: کہ ہر ایک انسان کی روح کے ساتھ امامؑ کا نور منسلک ہے، مومن کا دل امام کے رہنے کا بنگلہ ہے اور وہ عشق پر مبنی ہے۔ (بمبئی ۴۔۴۔ ۱۹۰۸ء)۔

مولائے پاک نے فرمایا: انسان آدم علیہ السّلام کی اولاد ہے، آدم کا درجہ فرشتے سے بھی زیادہ بلند تھا، اس اعتبار سے آپ کا بھی اصل درجہ فرشتے سے اوپر ہے۔ لیکن آپ دنیا میں گناہ کرتے ہیں، ایمان میں غفلت برتتے ہیں، دنیا اور شیطان کے دھوکے میں آجاتے ہیں، اس لئے آپ کی آدمیّت کی روح بوجھل ہوجاتی ہے۔

آدمی را آدمیّت لازم است

بوئے صندل گر نباشد خشک چوب

ترجمہ: آدمی جب آدم علیہ السّلام سے منسوب ہے تو اس

 

۱۶۷

 

میں صفتِ آدمیّت کا ہونا ضروری ہے، صندل کو ایک خاص خوشبو کی وجہ سے یہ نام ملا ہے، اگر وہ خوشبو اس میں نہ ہو تو وہ بجائے صندل ہونے کے خشک لکڑی کہلائے گی۔

نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

 

پیر،یکم جولائی۲۰۰۲ ء

 

۱۶۸

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط:۹۷

 

سورۂ احزاب(۳۳: ۲۱)کا بابرکت ارشاد ہے:لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًا۔

ترجمۂ اوّل:درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا = ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو،اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔

ترجمۂ دوم:درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسولؐ میں روحانی ترقی کا ایک بہترین نمونہ تھا اور ہے ہر اس شخص کے لئے جو (دنیا ہی میں) اللہ اور یومِ آخر(امامؑ) کے دیدار کا امیدوار ہو، اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے یعنی اسمِ اعظم سے بکثرت خدا کو یاد کرے تو ایسا شخص ان شاء اللہ رسولؐ کے پیچھے پیچھے مقامِ معراج تک جائےگا۔

سورۂ نجم(۵۳: ۰۱ تا ۰۲)کا مبارک ارشاد:وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ، مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰىۚ۔

ترجمہ: قسم ہے تارے کی جب کہ وہ غروب ہوا،تمہارا رفیق(رسولؐ) نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے۔

 

۱۶۹

 

تاویلی مفہوم:رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بظاہر تنہا مقامِ معراج پر تشریف لے گئے، لیکن باطناً ان تمام روحوں کو اپنے ساتھ لیکرحظیرۂ قدس میں داخل ہوگئے جن کے لئے آپ خداکی طرف سے رحمت تھے، لہٰذا وہاں جو نور طلوع و غروب ہوتا ہے، اللہ نے اسکی قسم کھا کر اپنے محبوب رسولؐ کی کامیاب رہنمائی کی تعریف فرمائی اور لفظِ صاحب = رفیق کی حکمت میں فرمایا کہ تم سب لوگ رسولؐ کے سفرِ معراج میں منزلِ مقصود تک روحاً ساتھ تھے،آپ ہر لفظ کی حکمتی تحلیل کر کے دیکھیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی(ایس۔آئی)

پیر،یکم جولائی ۲۰۰۲ء

 

۱۷۰

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط:۹۸

 

جہاں دیدار ہے وہاں ہی بہشت ہے۔(کلامِ امامِ مبین حصّۂ اول۔منجیوڑی۔۲۵۔۱۲۔۱۸۹۳)۔

تم نورانی بدن کے ساتھ بہشت میں جاؤ گے۔(کلامِ امامِ مبین حصّۂ اول۔منجیوڑی۔۲۸۔۱۲۔۱۸۹۳)۔

“خداوندِ کریم کو انسانی روح بہت پیاری ہے۔” (یہ پاک فرمان میری اس کتاب کی جان = روح ہے) کیونکہ ہم ایسے حقائق ومعارف کی تلاش کر رہےتھے، جن سے سب پر یہ حقیقت روشن ہوجائے کہ اللہ جو نہایت مہربان ہے، وہ بالآخر تمام انسانوں کو ابدی بہشت عطا کرتا ہے، پس یہاں ہم کو حجتِ قائمؑ کے ارشاد کی صورت میں ایک نورانی خزانہ مل گیا، جس سے اس کتاب کی ہر دلیل بحقیقت زبردست وزنی ہوگئی، اور یہ کتاب ان شاء اللہ کامیاب اور نیک نام ہو گئی، یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے، اور ہمارے نیک بخت ساتھیوں کی پُرخلوص اور مسلسل دعا ہے۔

“خداوندِ کریم کو انسانی روح بہت پیاری ہے۔” پس ہر انسان کو امید و یقین کے ساتھ علم وعمل کے میدان میں سبقت لینا چاہئے۔

“خداوندِ کریم کو انسانی روح بہت پیاری ہے۔” اس کے معنی کو

 

۱۷۱

 

کما کان حقہٗ سمجھنا ہوگا،آمین! ثم آمین!!

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)

پیر،یکم جولائی۲۰۰۲ء

 

۱۷۲

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط:۹۹

 

سورۂ بنی اسرائیل(۱۷: ۸۵) کا ارشاد ہے:وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ-قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا۔

ترجمہ: یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہو یہ روح میرے ربّ کے امر(عالمِ امر) یعنی کلمۂ کن سے ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایاہے، لہٰذا تمہیں اسرارِ روح بہت دشوار ہیں۔

ان لوگوں نے یہ سوال آنحضرتؐ کو آزمانے کی غرض سے کیا تھا، لہٰذا ان کی کم علمی ظاہر کرکے رازِ روح حجابِ حکمت میں محجوب کیا گیا، وہ یہ ہے کہ روح عالمِ  خلق سے نہیں بلکہ عالمِ امر سے ہے، یعنی روح ہمیشہ معجزۂ کُنۡ کے تحت ہے،اور قرآنِ حکیم میں لفظِ روح آیا ہے، مگر لفظِ ارواح ظاہر نہیں، جبکہ حدیثِ شریف میں  لفظِ ارواح موجود ہے، جیسے: الارواح جنود مجندہ = روحیں جمع شدہ لشکر کی صورت میں ہوا کرتی ہیں (ہزار حکمت،ح:۵۱)۔ قانونی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حدیثِ صحیحہ میں لفظِ الارواح آیا ہے، تو اس کوقبلاً قرآن میں آنا ہے۔

جواب: جی ہاں قرآن میں آچکا ہے، کہ لفظِ روح برائے ارواح بھی ہے، جیسے مولا نے فرمایا کہ مومن کی روح ہماری روح ہے،(کلامِ امامِ مبین،

 

۱۷۳

 

حصّۂ اوّل، راجکوٹ،۲۰-۲-۱۹۱۰)،نیز فرمایا:

“تم ہماری روحانی اولاد ہو اور یاد رکھنا کہ روح ایک ہی ہے۔” (کلامِ امامِ مبین،حصّۂ اوّل،ممباسہ،۱۲-۱۱-۱۹۰۵)

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِ علی) ہونزائی(ایس۔آئی)

منگل،۲/جولائی،۲۰۰۲ء

 

۱۷۴

 

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت

قسط:۱۰۰

حجتِ قائم سلامُ اللہ علیھما کا پُرحکمت ارشاد ہے: اگر تمہارا دل پاک ہوگا تو اس دنیا میں ہی عرشِ عظیم دیکھ سکو گے یہ بہت دور نہیں ہے۔ (کلامِ امامِ مبین،حصّۂ اوّل، منجیوڑی،۳-۱۱-۱۹۰۳)

پاک بنو تو اس دنیا ہی میں بہشت ملے گی،اس دنیا میں بہشت حاصل کرنے میں بڑا فائدہ ہے۔

عرشِ عظیم اور بہشت سے عالمِ شخصی کا حظیرۂ قدس مراد ہے، اسی حظیرۂ قدس کی معرفت کی وجہ سے آنے والا کل کی بہشت مل سکتی ہے، بحوالۂ سورۂ محمد(۴۷: ۰۶)۔ اور دنیا میں حظیرۂ قدس کی بہشت کا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے حاصل ہونے سے جہالت ونادانی کادوزخ بالکل ختم ہوجاتا ہے۔

جیسا کہ سورۂ انبیاء (۲۱: ۶۹) کا ارشاد ہے: قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلى اِبْرٰهِیْم۔

ترجمہ: ہم نے کہا “اے آگ ٹھنڈی ہوجااورسلامتی بن جاابراہیم پر۔” یہ غیر معمولی حکمت ہے کہ خدائے قادرِ مطلق نے آگ کو نہیں بجھایا، بلکہ اس کو ٹھنڈی آگ بنایا اور یہ ٹھنڈی آگ سب سے انوکھا اور سب سے عظیم معجزہ ہے اور اس کو سلامتی بنانا۔

 

۱۷۵

 

الغرض خدا کے بارے میں ہماراحسنِ ظن یہ ہے کہ وہ آتشِ دوزخ کو اپنی عیال کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی بناتا ہوگا۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)

منگل،۲/جولائی۲۰۰۲ء

 

۱۷۶

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیت – حصّۂ دوم

قرآنِ حکیم اورعالمِ انسانیّت

حصّۂ دوم

دیباچۂ کتابِ قرآنِ حکیم اورعالمِ انسانیّت

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۷) کا پاک و پُرحکمت ارشاد ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ ۔ ترجمۂ اوّل: اور نہیں بھیجا ہم نے تمہیں مگر جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔ ترجمۂ دوم: اور (اے رسولؐ) ہم نے تم کو سارے دنیا جہان کے لوگوں کے حق میں از سر تا پا رحمت بنا کر بھیجا۔

بحوالۂ کتابِ سرائر، ص۱۳۴ آنحضرتؐ دورِ حضرتِ اسماعیلؑ ابنِ ابراہیمؑ کے اختتام کا قائم۱ تھا، یعنی آپؐ نے بحکمِ خدا روحانی قیامت برپا کی تھی، جس میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو تمام ارواحِ بشر=عالمین کے حق میں فعلاً رحمت بنا یا تھا، حضورِ اکرمؐ کی اس روحانی قیامت کا ذکر سورۂ فتح (۴۸: ۰۱) میں ہے، دوسرا ذکر سورۂ نصر(۱۱۰: ۰۱ تا ۰۲) میں ہے، تیسرا ذکر سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۵۵) میں ہے، پس یقیناً خدائے بزرگ و برتر نے اپنے محبوب رسولؐ کو عملاً عالمِ انسانیّت کے حق میں رحمت بنا کر بھیجا، اور یہ بیان کئی بار ہو چکا ہے کہ عالمین کے لفظ میں ہر انسان ایک عالم ہے، اور انسانان عالمین ہیں۔

اس بیان سے روحانی قیامت کا نظریہ اظہر من الشمس ہو گیا، اور ہم اس حقیقت پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ امامِ آلِ محمدؐ جو خلیفۃُ اللہ اور

 

ک

 

خلیفۂ رسولؐ ہے، وہ بمرتبۂ امامُ النّاس روحانی قیامت کے ذریعے سے عیال اللہ = عالمِ انسانیّت پر نورانی فیض برساتا ہے۔

انتسابِ جدیدی:

ظاہر علی رحیم آئی۔ جی، پیدائش: ۷ ستمبر ۱۹۶۴

بیگم یاسمین ظاہر علی آئی۔ ایل۔ جی، پرسنل سیکریٹری ٹو علامہ، پیدائش: ۶ دسمبر ۱۹۶۴ء، تعلیم: بی۔ اے۔

بچے: ذُھیب ظاہر علی ایل۔ اے، والنٹیئر اٹلانٹا نارتھ ایسٹ جماعت خانہ

فرح ظاہر علی ایل۔ اے، والنٹیئر اٹلانٹا ایسٹ جماعت خانہ دونوں کی پیدائش: ۲۴ جون۱۹۹۰ء

سلمان ظاہرعلی ایل۔ اے، جونئیر والنٹیئر وہی جماعت خانہ، پیدائش: ۱۱مئی ۱۹۹۳ء

اللھم احفظھم وبارکھم فی الدنیا والاخرۃ

اے اللہ ! ان کو اپنی حفاظت میں رکھنا اور دنیا و آخرت میں برکات عطا فرمانا!

 

نصیر الدّین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر۱۱، اکتوبر۲۰۰۳ء

 

ل

 

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ حق سبحانہ وتعالیٰ شانہ کا لاکھ لاکھ شکر، کہ اب ہمارے روحانی اور علمی اعزہ(عزیزان)کی بیحد پیاری کتاب قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت کا حصّۂ دوم بھی مکمل ہو گیا، ان شاء اللہ العزیز یہ کتاب بڑی مفید اور کار آمد ثابت ہوگی، یا اللہ! اپنی رحمتِ بے پایان سے اس کتاب کو عالمِ انسانیّت کے حق میں نافع بنا دینا! یا ربّ العزّت! ہم سب کو توفیق و ہمت عطا فرما کہ تیری بے شمار نعمتوں اور بے حساب احسانات کا بار بار سجدۂ شکرانہ بجا لائیں! یا خداوندِ قدوس! یا وھّاب یا وھّاب یا وھّاب! یا ودود یا ودود یا ودود! (اے محبوبِ اعظم!) ہمارے قلوب میں تیری مبارک یاد کی معجزانہ شیرینی ہمیشہ جاری و ساری رہے! آمین!!

عزیزانِ دانش گاہِ خانۂ حکمت، عزیزانِ بی۔ آر۔ اے، اور عزیزانِ انسٹیٹیوٹ فار سپریچول وزڈم(INSTITUTE FOR SPRITUAL WISDOM, INC.FEBRURY 9th 2001) میں اب بھی کہتا ہوں کہ اپنے تمام عزیزوں سے فدا= قربان ہو جاؤں! لیکن میرے لئے بہت بڑی عزت کی بات تو یہ ہے کہ میرے مولا نے مجھے عیال اللہ = عالمِ انسانیّت سے قربان کر دیا ہے، اور اسی عمل میں اپنے تمام عزیزوں سے قربان ہو چکا ہوں،

 

م

 

جملہ عزیزان میری تصنیفات میں اس قربانی کی تفصیلات کو بار بار پڑھیں، یقیناً ہرعزیزکی روحانی حکایت ان کتابوں میں موجود ہے، آپ کسی وجہ سے ڈرتے ہیں یا کوشش نہیں کرتے ہیں؟ آئندہ ان کتابوں کو زیادہ ذمہ داری اور زیادہ غور سے پڑھیں اور علمُ الیقین کی ترقی کی مہمانی سے پاک حاضر امام علیہِ السّلام کی خوشنودی اور باطنی دعا حاصل کریں۔

کیا میری کہانی  آپ کی کہانی نہیں ہے؟ کیا میں آپ کی روح کے بہت سے ذرّات میں سے ایک نمائندہ ذرّہ نہیں ہوں؟ کیا ہم یک حقیقت کے عظیم تصوّر کو بھول چکے؟

 

نصیر الدّین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر ۱۱، اکتوبر ۲۰۰۳ء

 

ن

 

شکر گزاری اور ممنونیّت

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ تعالیٰ جل جلالہ کے فضل و کرم سے قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت کا حصّۂ اوّل چھپ کر سامنے آگیا ہے، اور اب اسی کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز کی عنایتِ بے نہایت سے حصّۂ دوم بھی مکمل ہوا ہے۔

ہمیں ایک طرف خدائے مہربان کی نعمتوں اور نوازشات پر شاکر نہ ہوسکنے کی سخت شرمندگی ہے، اور دوسری طرف سے ہم کو اس بات کی خجالت ہے کہ ہم اپنے محسنین کو یہاں نام بنام یاد نہ کر سکے، “طاقتِ مہمان نداشت خانہ بمہمان گزاشت۔”

یہ باکل سچ ہے کہ کتابِ ہٰذا میرے عزیزوں کی ہے، اگر وہ تصوّرِ یک حقیقت پر یقین رکھتے ہیں، تو اس بات کو قبول کریں گے، ان شاء اللہ!

یہ سچ ہے کہ ہم سب ایک ہی روح ہیں، جبکہ پاک فرمان ہے کہ “روح ایک ہی ہے،”  ہمیں اس مثال اور عظیم الشّان حقیقت کو سمجھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ علم و معرفت کی ضرورت ہے، اس فرمانِ عالی میں مولا نے ہم میں سے ہر ایک کو ظہورات وتجلّیات کی بہشت بنا دیا ہے،

 

س

 

الحمدللہ علیٰ منہ واحسانہ۔

مرکزِ علم و حکمت لندن کے ارضی فرشتے میرے دل کے مکین اور ان تمام کتابوں کی جان ہیں، اعنی ڈاکٹر (پی۔ ایچ۔ ڈی) فقیر محمد ہونزائی صاحب بحرُ العلوم، محترمہ رشیدہ نور محمد ہونزائی، ظہیر لالانی۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر ۱۳، اکتوبر ۲۰۰۳ء

 

ع

 

اجرٌغیرُممنون کے معنی

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ۸۴: ۲۵ نیز ۹۵: ۰۶ میں دیکھیں بے انتہا اجر(ثواب)، اور قاموسُ القرآن، ص ۵۴۷ پر بھی دیکھیں، جب علمی خدمت ایک سردار خدمت ہے، تو ان شاء اللہ کل آپ اپنی خدمات سے بہت شادمان اور خرسند ہوں گے، جبکہ آپ کو بہت بڑا انعام دیا جائے گا، ممکن ہے کہ آپ کو کوئی بہت بڑی عزت ملے، آمین!

میں مریضِ قلب ہوں، مجھے صبح و شام بلاناغہ دوائیاں دی جاتی ہیں، فشارِ خون چیک کرنا پڑتا ہے، ان بیماریوں کے باوجود نہ معلوم میں نے کیوں اتنے مشکل کام کا منصوبہ بنایا اور وہ کس طرح ممکن ہو گیا؟ اس کے چند اسباب ہیں:۔

پہلا سبب یہ ہے کہ حضرتِ امام النّاس(روحی فداہ‘) کی نورانی تائید حاصل ہوتی تھی، دوسرا سبب یہ ہے کہ میرے تمام عزیزان بشمولِ حبِّ علی امین الدین اور درِ علوی امین الدین میری صحت اور کتاب کی تکمیل کیلئے اعتکاف، گریہ وزاری، اور خصوصی دعائیں کر رہے تھے، تیسرا سبب یہ ہے کہ یاسمین(چیئرپرسن) نور علی مامجی، رحیم فتح علی، اور نسرین رحیم نے ہر طرح سے تعاون کیا، اور اس کے بعد میرے بہت عزیز بچے امین الدین ہونزائی،

 

ف

 

عرفت روحی امین الدین، حبِّ علی، درِ علوی، اور درِ فاطمہ نے میری صحت کا خاص خیال رکھا۔

میری عزیز نواسی عرفت روحی امین الدین، چیف ریکارڈ آفیسر دانش گاہِ خانۂ حکمت نے بڑی مہارت اور عمدگی سے کمپیوٹر ٹائپنگ کی خدمات انجام دیں، اور بعض دفعہ ہم نے زہرا جعفر علی سندرانی سے بھی تعاون حاصل کیا۔

دو جسمانی فرشتے ظاہرعلی اور سائرہ ظاہرعلی نے بے مثال خدمات انجام دیں، ان کے ساتھ ساتھ نزار مومن اور انیس نزار، نیز سلمان مومن اور انیلا سلمان نے بھی علمی خدمت میں ساتھ دیا، ڈاکٹر کریمہ جمعہ اور شمس الدین جمعہ نے بھی اپنے مفید مشوروں سے نوازا۔

 

نصیر الدین نصیر(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۱۴، اکتوبر ۲۰۰۳ء

 

ص

 

ظلِ الٰہی

قسط: ۱

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّۚ-وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًاۚ-ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًا ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا (۲۵: ۴۵ تا ۴۶)۔

سورۂ فرقان(۲۵: ۴۵ تا ۴۶) میں صاحبانِ علم و حکمت کے واسطے ظلِ الٰھی =  نورِمنزل(۰۵: ۱۵) = امامِ زمانؑ (ارواحنا فداہ) کا ذکر فرمایا گیا ہے، یقیناً امامِ عصر صلوات اللہ علیہ جو آلِ محمدؐ اور اولادِ علیؑ ہے، وہی اپنی نورانیّت میں ظلِ الٰہی، یعنی خدا کا سایہ ہے۔ اللہ نور ہے، اور اس کا سایہ = عکس امامِ زمانؑ کے آئینۂ باطن=جبینِ مبارک میں نورہی ہوتا ہے، جس طرح دنیا کی ہر چیز کا سایہ تاریک ہوتا ہے، مگر سورج کا سایہ ہوتا ہی نہیں، اگر آئینہ جیسی صاف وشفاف چیزوں میں سورج کا سایہ مانا جائے تو وہ عکسِ خورشید کہلاتا ہے، تاریک سایہ ہرگز نہیں۔ اب آپ سے یہ میرا سوال ہے کہ اس آیۂ شریفہ میں عکسِ نور کا ذکرہے یا سایۂ تاریک کا؟ سایۂ تاریک تو عالمِ سفلی میں ہوتا ہے، جبکہ یہ ارشاد حظیرۂ قدس سے متعلق ہے، جو عالمِ علوی میں ہے۔

یہ حکمت خوب یاد رہے کہ امامِ زمانؑ حظیرۃُ القدس میں خلیفۃ اللہ

 

۱

 

ہے، یعنی وہاں جو کچھ کرنا ہے، وہ اللہ کے حکم سے امامؑ ہی کرتا ہے۔ پس خدا امامِ زمانؑ کی نورانیت میں =حظیرۂ قدس میں امامؑ کا ہاتھ ہوتا ہے، جس سے امامؑ القابض الباسط کا کام کرتا ہے، اور روحانی قیامت سمیت ہر چیز انہی دو ناموں میں آتی ہے، چنانچہ یہ دستِ خدا=امامِ زمانؑ تمام انسانی روحوں کومقامِ ازل سے اس دنیا میں پھیلاتا ہے، اور پھر روحانی قیامت کے ذریعے سے ان کو عرفانی بہشت میں لپیٹ لیتا ہے، یہ ہوا حضرتِ ربّ کا سائے کو پھیلانا اور لپیٹنا، جیسا کہ اس آیہ شریفہ (۲۵: ۴۵ تا ۴۶) کا ارشاد ہے۔ کیونکہ امامؑ نہ صرف پرہیزگاروں کا امام ہے، بلکہ وہ تمام لوگوں کا بھی امام ہے۔

الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیرالدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۱۹، اگست۲۰۰۳ء

 

۲

 

موت قبل از موت اور روحانی قیامت

قسط: ۲

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ حدیثِ شریف ہے: موتواقبل ان تموتو۔۲

تاویلی مفہوم: تم جسماً مرجانے سے قبل نفساً مرو، تاکہ روحانی قیامت کے وسیلے سے تمہیں کنزِ معرفت=کنزِ کُل حاصل ہو، حوالۂ قرآن (۰۲: ۲۴۳) دوسرا حوالہ (۰۲: ۵۴) تیسرا حوالہ (۰۴: ۶۶) چوتھا حوالہ (۰۲: ۹۴) پا نچواں حوالہ (۸۴: ۰۹)

میں اپنے علمی عزیزوں کے سکالرز کو خوشدلی سے درجہ وار دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے ساتھیوں کو ان آیاتِ کریمہ کی حکمت سکھائیں۔

تاہم آخری حوالے کی حکمت، ان شاءَ اللہ میں خود بیان کرنے کی سعی کروں گا کہ ماضی میں آپ کے عرفا = بزرگ جیتے جی مر کر ہر طرح کی کامیابی اور علم و معرفت کی دولتِ لازوال کی خوشی کے ساتھ اپنے لوگوں کی طرف واپس آئے تھے، یہی وجہ ہے کہ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ وسلامہ‘ نے اپنے کارِ بزرگ والے مریدوں کو عارفانہ موت سے مرنے کے لئے بار بار فرمان کیا ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۲۰ اگست۲۰۰۳ء

 

۳

 

حضرتِ رب کی ربوبیّت اور انسانی روح

قسط: ۳

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ بحوالۂ کتاب قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت قسط۔ ۹۸، ص۱۷۱۔ مولانا حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا یہ پاک و پُراز حکمت فرمان: “خداوندِ کریم کو انسانی روح بہت پیاری ہے۔”۳ سبحان اللہ! امامِ آلِ محمدؐ و اولادِ علیؑ کے فرمانِ اقدس میں روح شناسی کے کیسے عجیب وغریبب اور عظیم ترین اسرار ہوں گے! حاملِ نورِ امامت، وارثِ تاجِ ولادت، صاحبِ دورِ قیامت اور حجتِ حضرتِ قائم علیہ السّلام کے اس فرمانِ عالی میں ایک خاموش عالمگیر انقلاب پنہان ہے، جس میں اہلِ بصیرت کے لئے علمِ روحانی کا ایسا خزانہ ہے کہ اگر کوئی بامعرفت شخص اس کے ہمہ رس اور ہمہ گیر اشارات میں داخل ہوجائے تو اس کو ضرور یہ یقین آئے گا کہ انسانی روح ہر پیغمبرؑ کی معراج میں ساتھ تھی، کیونکہ ہر انسانِ کامل کا کمال روحانی قیامت کی سیڑھی سے چڑھ کر عرفانی بہشت میں داخل ہونے میں ہے، جس میں تمام انسانی روحیں ساتھ ہوتی ہیں۔

اللھم صلی علیٰ محمد وعلیٰ آلِ محمد۔

 

نصیرالدین نصیر(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات ۲۱، اگست۲۰۰۳ء

 

۴

 

انسانی ذات اور کائنات

قسط: ۴

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

عالمین = تمام افرادِ بشر، کیونکہ ہر انسان اپنی ذات میں ایک عالم، ایک مستقل کائنات ہے، اسی طرح سب انسان عالمین کہلاتے ہیں، اور حضرتِ ربّ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیّت انہی عوالمِ شخصی کے لئے خاص ہے، سورۂ فاتحہ ام الکتاب ہے اس لئے وہ جوہرِ قرآن ہے، اس کے آغاز ہی میں انسان کو ایک مستقل کائنات قرار دے کر اس کی روحانی، علمی اور عقلی پرورش کے خصوصی انتظام کا ذکر فرمانا اس عظیم حکمت کا بڑا حیران کُن اعلان ہے کہ خداوندِ کریم کو انسانی روح بہت پیاری ہے!۴ قرآنِ حکیم میں  ۷۳  بار لفظِ  “عالمین”  آیا ہے، ۸۲ مرتبہ اسم “رب” ہے، تقریباً ایک ہزار مقامات پر لفظِ “اللہ” ہے، قرآنِ حکیم میں خدا کا کوئی اسم ایسا نہیں جس میں انسان کا کوئی تذکرہ نہ ہو نہ کوئی آیت ایسی ہے، انسان کی بھلائی کے لئے ہر قسم کی نصیحت ہو سکتی ہے، لیکن خداوندِ کریم کو جس معنیٰ میں انسانی روح بہت پیاری ہے وہ معنی رب اور ربوبیّت میں ہیں، ماں اپنے شِیر خوار= شِیر خور بچے کو بیحد چاہتی ہے، یہ محبت قدرتی = آسمانی اور ربّانی ہے، یعنی یہ مادرانہ محبت وشفقت ربِّ کریم کے خزانۂ صفت (ربوبیّت) سے آئی ہے۔

 

۵

 

اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ (۱۱: ۹۰) یقیناً میرا ربّ بہت رحم کرنیوالا محبت کرنے والا ہے۔

اللہ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ہے، (۰۷: ۱۵۱) (۱۲: ۶۴) (۱۲: ۹۲) (۲۱: ۸۳) اللہ رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

 

نصیر الدین نصیر(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات۲۱، اگست۲۰۰۳ء

 

۶

 

خزائنِ خدااور انسان

قسط: ۵

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ و ان من شی الا عندنا خزائنہ و ما ننزلہ الا بقدر معلوم (۱۵: ۲۱)۔

ترجمہ: اور کوئی چیز ایسی نہیں مگر یہ کہ اس کے خزانے ہمارے پاس موجود ہیں۔ اور ہم اسے ایک معلوم اندازے کے مطابق نازل کرتےہیں۔

یہ خزانے اللہ تعالیٰ کے اسماءِ قدیم ہیں، یہ اسماء عام طور پر ننانوے معلوم ہیں، قاضی سلیمان منصور پوری نے ۱۵۸ ناموں کی فہرست دی ہے، جبکہ بعض علماء کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے ناموں کی تعداد ہزار ہیں۔

اکثر علماء اور صحابہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے ناموں کی تعداد انبیاؑء کی تعداد کے برابر ہے، کیونکہ ہر نبیؑ کو ایک خاص اسم عطا کیا گیا ہے جس کے ذریعے وہ خداوند تعالیٰ کی بارگاہ میں امداد کا طالب ہوتا ہے۔۵ شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا(سید قاسم محمود) ص۲۰۷۔

اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اسماء ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں، اس قانون کے مطابق کہ ہر نبیؑ اپنے وقت میں مومنین کیلئے اسمِ اعظم تھا، اور اسی طرح امامؑ اپنے زمانے میں اسمِ اعظم ہوتا ہے،

 

۷

 

اب امامِ زمانؑ ہمارے لئے یقیناً اسمِ اعظم کا کام کر رہا ہے، الحمد للہ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ناموں کی اس کثرت میں خدائے واحد کا راستہ کسی کو کس طرح ملتا؟ پس امامِ زمانؑ جو خلیفۃ اللہ اور نورانی اسمِ اعظم ہے وہ مظہرِ صفاتِ الٰہی ہونے کی وجہ سے تمام لوگوں پر بیحد مہربان ہے۔

اَلرَّبّ: درجۂ کمال کو پہنچا ہوا، قرآنِ مجید میں یہ اسم بکثرت آیا ہے۔ اس کے معنی: مسلسل پالنے والا، سب سے بہتر پالنے والا، درجہ بدرجہ ترقی دینے والا اور درجۂ کمال کو پہنچا ہوا کے لئے جاتے ہیں۔

وہ ذات جو تمام مخلوقات کو پالتی ہے اوران کی پرورش کی نگہداشت کرتی ہے۔۶

(مذکورِ بالا شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا ص۲۱۰)

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ ۲۲، اگست ۲۰۰۳ء

 

۸

 

آدمؑ و بنی آدمؑ کو فرشتوں کا سجدہ

قسط: ۶

 

وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآئِكَةِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ(۰۷: ۱۱)

تاویلی مفہوم: اور یقیناً ہم نے تمہیں جسمانی طور پر پیدا کیا، پھر ہم نے تمہیں نفسِ واحدہ = آدمؑ یا وارثِ آدمؑ کی روحانی قیامت سے وابستہ کر کے اس کے ذریعے سے حظیرۂ قدس کی بہشت میں پہنچا دیا، جہاں تم کو صورتِ رحمان پر پیدا کیا گیا، اور آدمؑ کے ساتھ فرشتوں نے تمہارے لئے سجدہ کیا۔

آیۂ شریفہ میں خَلَقْنَاکُمْ پر جسمانی تخلیق مکمل ہے، ثُمَّ سے روحانی تخلیق کا بیان شروع ہوتا ہے، صَوَّرْنَاکُمْ میں حظیرۂ قدس کی بہشت میں پہنچا کر صورتِ رحمان پر پیدا کرنے کا ذکر ہے، اس کے بعد آدمؑ اور بنی آدمؑ کےلئے فرشتوں کے سجود کا بیان ہے۔

قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت قسط ۸۴ کو ضرور پڑھیں، اورروحانی سائنس کے عجائب و غرائب کو بھی۔ یہ واقعہ آدمؑ کےلئے شعوری تھا، مگر بنی آدمؑ کے لئے غیر شعوری، لیکن جو حقیقت قرآنی شہادت سے ثابت ہو تو وہ قابلِ یقین ہے۔

 

۹

 

اللھم اجعل لی نورا فی قلبی، و نورا فی سمعی، ونورافی بصری، ونورافی لسانی۔۷

ترجمہ: یا اللہ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کردے، اور میرے کان، آنکھ، اور زبان میں بھی نور بنادے۔ (بحوالۂ کتابُ العلاج، قرآنی علاج ص۲۱۳-۲۱۴)

 

نصیرالدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر، ۲۳، اگست۲۰۰۳ء

 

۱۰

 

میثاقِ الست = الست

قسط: ۷

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ بحوالۂ کتاب ہزار حکمت ح ۸۹: اَلَسۡتُ، میثاقِ الست:۔ بنی آدمؑ یعنی انسانانِ کامل کسی ایک وقت میں نہ تھے بلکہ ان کا سلسلہ ہمیشہ دنیا میں جاری ہے، لہٰذا اَلَسۡت کا انتہائی عظیم معجزہ ہر زمانے میں ہوتا رہتا ہے، جیسے ہم تجدّدِ امثال کو مانتے ہیں، اور یہ حقیقت ہے کیونکہ خالقِ اکبر عوالمِ شخصی کو ہمیشہ اور مسلسل پیدا کرتا ہے، پس معلوم ہوا کہ ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں میثاقِ الست کا تجدد ہوجاتا ہے۔

ح۔ ۹: الست، آیۂ اَلَسۡت (۰۷: ۱۷۲): ۔ سوال: آیۂ اَلَسۡت میں بنی آدم کا ذکر ہے لیکن خود آدم علیہ السّلام کا تذکرہ نہیں، اس میں کیا راز ہے؟ آیا ابو البشر عہدِ اَلَسۡت کے قانون سے مستثناء ہے یا اس میں کوئی اور حکمت پوشیدہ ہے؟

جواب: زیرِ بحث آیۂ کریمہ میں آدمِ دورؑ کا ذکر بھی موجود ہے، جبکہ وہ گزشتہ دور کے اعتبار سے ابنِ آدمؑ ہے اور موجودہ دور کے لحاظ سے آدمؑ اور ابوالبشر ہے۔

 

نصیرالدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر، ۲۳، اگست۲۰۰۳ء

 

۱۱

 

عالمِ خلق اور عالمِ امر

قسط: ۸

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالاَمْرُ تَبٰرَكَ اللّهُ رَبُّ الْعٰلَمِينَ(۰۷: ۵۴)۔

ترجمۂ اوّل: آگاہ رہو کہ پیدا کرنا اور حکم دینا اسی کے لئے ہے، اللہ تعالیٰ ہر ہر عالمِ شخصی کا پروردگار صاحبِ برکتِ بے پایان ہے۔ ترجمۂ دوم: اَلَا=خبردار(حرفِ تنبیہہ ہے) عالمِ خلق اور عالمِ امر اسی کے لئے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ عوالمِ شخصی کا رب، لاابتداء اور لاانتہا برکات کا مالک ہے۔

عالمِ خلق=عالمِ جسمانی، جو مکان و زمان کے تحت ہے، عالمِ امر=عالمِ روحانی، جو لامکان اور عالمِ بالا ہے، جس کی ہر چیز اسباب و علل سے نہیں صرف ارادۂ الٰہی سے پیدا ہو جاتی ہے، ارادۂ الٰہی کی مثال، کلمۂ کُن(ہوجا) ہے آپ کو یہ کلمہ قرآنِ حکیم اور بزرگانِ کی کتابوں میں ملے گا، قرآنِ پاک کی زبان عربی ہے لہٰذا کلمۂ امر عربی میں کُنۡ (ہوجا) ہے، مگر اس سے اللہ کا ارادہ مراد ہے، حضرتِ مولا نے اس حقیقت کو تصوّرِ آفرنیش میں سمجھا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے جس عالمِ شخصی کو کامیاب اور کائناتی بہشت بناتا ہے، اس میں ستر ہزار فرشتوں کو پیدا کرتا ہے، ہر فرشتہ ایک نورانی کائنات ہے۔

 

۱۲

 

کلمۂ کُنۡ کے بارے میں ملاحظہ ہو، ہزار حکمت ح: ۷۴۷-۷۵۱

؎    معجزے ہی معجزے قرآنِ ناطق سے سنو!

آج مولا ئے زمانہ روزِ محشر ہے کتاب

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار، ۲۴، اگست۲۰۰۳ء

 

۱۳

 

ہر شخص میں (بحدِّ قوّت) سب ہیں

قسط: ۹

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِي اِسْرَائِيلَ اَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الأَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَا اَحْيَا النَّاسَ جَمِیْعاً(۰۵: ۳۲)۔

ترجمہ: اسی سبب سےہم نے بنی اسرائیل پر لازم قرار دے دیا کہ جو شخص کسی (ایسے) آدمی کو قتل کر دے جس نے نہ کسی جان کو قتل کیا تھا نہ زمین میں فساد کیا تھا، پس وہ قاتل ایسا ہے جیسا کہ اس نے سب آدمیوں کو قتل کر ڈالا۔ اور جس نے ایک جان کو زندہ کر دیا، پس وہ ایسا ہے جیسا کہ اس نے سب لوگوں کو زندہ کر دیا۔ یہ قانونِ قرآن اس وجہ سے ایسا ہے کہ ہر ایک شخص میں بحدِّ قوّت سب لوگ موجود ہیں۔ آگے چل کر فعلاً یہ بات ہو سکتی ہے۔

جب مومنِ سالک کے عالمِ شخصی میں امامِ زمانؑ (ارواحنا فداہ‘) کا پاک نور طلوع ہو جاتا ہے، تو اس وقت وہاں روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے تمام لوگ روحاً حاضر ہوجاتے ہیں۔

روحانی قیامت میں عیال اللہ پر حضرتِ امامؑ کے بے پایان احسانات ہیں، یقیناً وہ امامُ المتقینؑ بھی ہے اور امام النّاس بھی ہے۔

 

۱۴

 

اس بیان کا بار بار ذکر آنا ضروری ہے کہ روحانی قیامت کے وسیلے سے سب لوگ بہشت میں جاتے ہیں، بہشت میں جانا بیشک نجات ہے، لیکن نجات میں درجات ہیں۔ اللھم صلی علیٰ محمد وعلیٰ آلِ محمد۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر۲۵، اگست۲۰۰۳ء

 

۱۵

 

قانونِ لفیف

قسط: ۱۰

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وَقُلْنَا مِن بَعدہٖ  لِبَنِي اِسْرَآئِيلَ اسْكُنُواْ الاَرْضَ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا(۱۷: ۱۰۴)

ترجمہ: اور ہم نے اس کے بعد بنی اسرائیل سے یہ کہہ دیا کہ تم اس زمین میں سکونت اختیارکرو، پس جب آخرت (روحانی قیامت) کا وعدہ آئے گا تو ہم تمہیں (ایک میں سب کو) لپیٹ کر لے آئیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب کی روحانی قیامت نفسِ واحدہ میں ہوتی ہے، اور دنیا کے تمام لوگ غیر شعوری طورپر نفسِ واحدہ میں فنا ہو کر اللہ کے پاس جاتے ہیں، اور یہ ان پر اللہ کا بہت بڑا احسان ہے۔ الغرض قانونِ لفیف قانونِ روحانی قیامت ہے، اور قرآنِ حکیم میں جتنی بھی الگ الگ مثالیں ہیں، وہ سب کی سب روحانی قیامت سے متعلق ہیں یعنی قرآن کے تمام قصص و امثال میں روحانی قیامت ہی کی تاویل ہے، پس بار بار روحانی قیامت کا تذکرہ ضروری ہے، کیونکہ لوگ اسے فراموش کر بیٹھے ہیں حالانکہ اس میں سب لوگوں کیلئے بے پایان فائدے ہیں۔

ایک بروشسکی شعر کا مفہوم ہے: آؤ رے آؤ! محفلِ ذکر میں جمع ہو جاؤ، عارف کے کان میں صورِ اسرافیلؑ کا نغمہ بیحد شیرین ہے۔۹

 

۱۶

 

ان شاءاللہ جب آپ سب اور تمام لوگ بہشت میں جائیں گے تو وہاں معجزات ہی معجزات کا عالم ہو گا۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر ۲۵، اگست۲۰۰۳ء

 

۱۷

 

سورۂ رحمان اور انسان

قسط: ۱۱

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ تعالیٰ کی جملہ ظاہری اور باطنی نعمتوں کا ذکرِ جمیل سر تا سر قرآنِ حکیم میں پھیلا ہوا بھی ہے، اور اس کی تمام نعمتوں کا یہی خوبصورت ترین بیان سورۂ رحمان میں یکجا بھی ہے، اس میں بہت سی حکمتیں ہو سکتی ہیں۔

سورۂ رحمان کا دوسرا نام عروس القرآن ہے، یعنی یہ سورہ معنوی حسن و جمال کے درجۂ کمال پر ہے۔ اگر چشمِ بصیرت سے اس میں دیکھا جائے تو کاملاً یقین آتا ہے کہ خداوندِ کریم نے عالمِ انسانیّت کو ازلی اور ابدی بہشت میں رکھا ہے۔ اور اگر اس میں جنّ کا ذکر ہے تو وہ قومِ پری ہے، جو انسان کا جسمِ لطیف ہے۔ یہاں عقل و حکمت سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر جنّ = پری قوم حور وغلمان کی طرح نہایت خوبصورت نہ ہوتی تو عروس القرآن = قرآن کی دلہن کے ذکرِ جمیل میں اس کی کوئی شمولیت ہی نہیں ہوتی، اس منطق سے یقیناً معلوم ہوا کہ اس حکمت سے لبریز سورہ میں ان غیر معمولی اور حسین نعمتوں کا ذکرِ جمیل ہے جو حق تعالیٰ کی طرف سے انسان کو عطا ہوئی ہیں، جنّ = مخلوقِ لطیف، اگرچہ فی الوقت الگ ہے، تاہم وقت آنے پر وہ انسان کا لباسِ حسین ولطیف ہوتا ہے، اسی میں فرشتے کا ذکر بھی ہو گیا، کیونکہ نیک جنّ

 

۱۸

 

فرشتے ہوتے ہیں۔

پس سورۂ رحمان سے یہ حقیقت ظاہرہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام خاص اور عظیم الشّان نعمتیں عالمِ انسانیّت ہی کے لئے ہیں، کیونکہ انسان عیال اللہ ہے۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل۲۶، اگست ۲۰۰۳ء

 

۱۹

 

سورۂ رحمان اور انسان

قسط: ۱۲

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الرَّحْمٰنُ، عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ(۵۵: ۰۱ تا ۰۲)

تاویلی مفہوم: حضرتِ رحمان نے اپنے محبوب رسولؐ رحمتِ عالم=ناطق کو اسمِ اعظم کی نورانیّت میں قرآن سکھایا۔ (اور اسی طرح اساسؑ اور امامؑ کو بھی سکھایا)۔

خَلَقَ الْاِنْسَانَ (۵۵: ۰۳) اس نے انسانِ کامل کو حشرِ روحانی کے ارتقائی درجات میں پیدا کیا۔

عَلَّمَهُ الْبَيَانَ(۵۵: ۰۴) اور اس کو علم البیان = علم التاویل سکھایا۔ اس کے بعد (۵۵: ۰۵) شمس و قمر کے نظامِ گردش کا ذکر ہے، اور وہ تین عالم میں ہے، عالمِ ظاہر، عالمِ دین اور عالمِ وحدت، جو عالمِ شخصی میں ہے، اعنی حظیرۃُ القدس، جس میں قیامِ قیامت کی وجہ سے بھی اور نورٌ علیٰ نور کی وجہ سے بھی اور عالمِ وحدت کے سبب سے بھی سورج، چاند، اور تمام ستاروں کا ایک ہی نور ہے۔ اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں پانچ انوار ہیں، یا ایک ہی نور کے پانچ ظہورات ہیں، مگر حظیرۂ قدس میں ایک ہی نور ہے، اسی لئے میں نے آپ کو بتایا تھا کہ فنا فی القرآن بھی ایک خاص اصطلاح ہے، کیونکہ فنا فی الامامؑ ہی فنا فی القرآن ہے، جبکہ باطن میں قرآن امامؑ

 

۲۰

 

کے ساتھ ہے اور امامؑ قرآن کے ساتھ ہے۔ الحمد للہ علیٰ منہ واحسانہ۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۲۷، اگست۲۰۰۳ء

 

۲۱

 

سورۂ رحمان اور انسان

قسط: ۱۳

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ رحمان ۷۸آیات، ۳۔ رکوعات، اور ۳۱ ربّانی خزانے ہیں، یعنی اس پُرحکمت اور عظیم الشّان سورہ میں اللہ تعالیٰ کی جتنی عظیم نعمتوں کا ذکر آیا ہے، اس کے ۳۱ حصّے ہیں، چنانچہ ہر خزانے = حصّے کی نعمتوں کے ذکر کے بعد جنّ وانس سے یہ سوال ہے کہ تم دونوں گروہ اپنے ربّ کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ یہ کلام پروردگار کی باطنی نعمتوں کی معرفت کے لئے ایک تاکیدی امر ہے، کیونکہ کسی نعمت کو نہ پہچاننا ہی اس کو جھٹلانے کے برابر ہے۔

انسان کی تخلیق کا آغاز بجتی ہوئی مٹی = صَلْصَال سے ہوا، اس کی تاویل یہ ہے کہ انسان کی روحانی تخلیق کا آغاز اور باطنی قیامت کا آغاز ایک ساتھ ہوتا ہےاور اس کی علامت ہے، کان کا بجنا، اور یہی کان کی آواز بجتی ہوئی مٹی = صَلْصَال بھی ہے، اور بعوضہ بھی، اور جنّ کی تخلیق شعلۂ آتش سے ہونے کی تاویل ہے کہ مخلوقِ لطیف کو خدا نے آتشِ سرد سے پیدا کیا، آتشِ سرد کا ثبوت قرآن (۲۱: ۶۹) میں موجود ہے، اور حضرتِ مولا کے معجزات میں بھی ہے۔

سوال: اگر جنّ کی تخلیق آتشِ سرد سے ہوتی ہے، تو اس میں انسان

 

۲۲

 

کے لئے کونسی نعمت ہے؟ جواب: یہ جنّ = فرشتہ  انسان کا نورانی لباس ہے، جس کو پہن کر انسان نہ صرف باغِ بہشت کے احاطے ہی میں، بلکہ اس کے باہر بھی پرواز کرے گا، جنّ کی اپنی انا بھی ہے اور وہ کسی اچھے انسان کا لباس بھی ہے، اور یہ نعمت اس کے لئے بڑی عجیب وغریب ہے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات۲۸، اگست۲۰۰۳ء

 

۲۳

 

سورۂ رحمان اور انسان

قسط: ۱۴

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سوال: آپ نے قسط (۱۲) میں کہا ہے کہ قرآنِ حکیم میں پانچ انوار ہیں، وہ کون کونسے انوار ہیں؟ جواب: اوّل، اللہ تعالیٰ کا نور (۲۴: ۳۵) دوم، رسولِ پاکؐ کا نور (۳۳: ۴۶) سوم قرآن کا نور (۴۲: ۵۲) چہارم، امامؑ کا نور (۵۷: ۲۸)اور پنجم مومنین ومومنات کا نور(۵۷: ۱۲) یہ سرِّ اعظم خوب یاد رہے کہ امامِ زمانؑ خلیفۃ اللہ، خلیفۂ رسولؐ اور خلیفہُ کتابِ خدا ہے یعنی کتابِ ناطق جو اللہ کے پاس ہے(۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) نیز وہ خلیفۂ قرآن ہے، پس امامِ زمانؑ اللہ کا نمائندہ نور ہے، رسولؐ کا جانشین نور ہے، قرآن کا نورِ تاویل = نورِ معرفت ہے، اور مومنین ومومنات کا نورِ ہدایت ہے۔

سوال: دو مشرق اور دو مغرب کیا ہیں؟ جواب: عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطقؐ، اساسؑ، یہ نورِ توحید کے دو مشرق اور دومغرب ہیں۔

سوال: مرج البحرین کی تاویلی مثال کیا ہے؟ جواب: جب سالک کے عالمِ شخصی میں امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہو جاتا ہے تو اس وقت روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے، جس میں دو دریا جاری ہوتے ہیں، عملِ اسرافیلیؑ کا دریا، اور عملِ عزرائیلیؑ کا دریا، ان دونوں دریاؤں سے انسان

 

۲۴

 

کے لئے بے شمار موتی اور مونگے پیدا ہوتے ہیں، جن کا ذکر بار بار ہو چکا ہے، روحانی سائنس کے عجائب وغرائب کو خوب غور سے پڑھ لیجئے!

 

نصیر الدّین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ ۲۹، اگست۲۰۰۳ء

 

۲۵

 

سورۂ رحمان اور انسان

قسط: ۱۵

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ عالمِ شخصی کے مسافرین، سالکین کہلاتے ہیں، اگر عنایتِ الٰہی شاملِ حال رہی تو یہی سالکین آگے چل کر عارفین ہوجاتے ہیں، اور وقت آنے پر ہر عارف پانی پر ظہورِ عرش کا معجزہ دیکھتا ہے، پھر وہ عرشِ سفینۂ نجات ہو جاتا ہے، جس میں امامِ آلِ محمدؐ صاحبِ سفینہ اور تاویلاً خود ہی روحوں سے بھرا ہوا سفینہ (۳۶: ۴۱) ہوتا ہے، تاکہ سب لوگ امامِ زمان علیہ السّلام میں فنا ہو جائیں، کیونکہ وہ ایک طرف سے خلیفۃ اللہ ہے اور دوسری طرف سے امامُ النّاس۔ اللہ تعالیٰ یقیناً ارحم الرحمین ہے کہ اس نے تمام لوگوں کو فنا فی اللہ کا درجہ دینے کے لئے ایسا وسیلہ بنایا، ورنہ لوگ آسمان پر چڑھ کر صاحبِ عرش میں فنا نہیں ہو سکتے۔

ارشاد ہے: كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ، وَيَبْقیٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِكْرَامِ(۵۵: ۲۶ تا ۲۷)، سب جو ان سفینوں میں ہوں، فنا ہو جاتے ہیں اور وجہ اللہ (خلیفۂ خدا = امامِ زمانؑ) جو صاحبِ جلالت و کرامت ہے، وہ باقی رہتا ہے۔ سوال: امامِ زمانؑ (روحی فداہ‘) کس معنیٰ میں وجہ اللہ ہے؟ جواب: کیونکہ حضرتِ ربّ کی معرفت صرف

 

۲۶

 

امامِ زمانؑ ہی کی معرفت سے حاصل ہوتی ہے۔

ہزار حکمت ح: ۵۶۸-۵۷۱ بھی ملاحظہ ہو!

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمہ، ۲۹، اگست۲۰۰۳ء

 

۲۷

 

سورۂ رحمان اور انسان

قسط: ۱۶

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ يَسْٔلُہ‘ مَن فِي السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَانٍ(۵۵: ۲۹)۔

تاویلی مفہوم: اسی سے سوال کرتے ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، وہ ہر روز یعنی ہر چھوٹے، بڑے دور میں مثلاً دورِ آدمؑ، دورِ نوحؑ، دورِ ابراہیمؑ، دورِ عیسیٰؑ، دورِ محمدؐ اور دورِ قائمؑ میں اپنے مظہر کے اعتبار سے ایک نئی شان رکھتا ہے، جبکہ اپنی ذات و صفاتِ قدیم میں اس کی ایک ہی شان ہے اور اس میں انسانوں کے لئے عظیم نعمتیں ہیں۔ جیسا کہ حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے کہ اے ابنِ آدمؑ! میری حقیقی اطاعت کر، تاکہ میں تجھ کو اپنی مثل بنا دوں گا۔۱۰ صنادیقِ جواہر(س: ۸۷۹ص: ۵۸۸)

ایک اور حدیثِ قدسی کا ترجمہ: اے ابنِ آدمؑ! میں نے تجھ کو ہمیشہ کیلئے پیدا کیا ہے اور میں خود زندۂ لافانی ہوں، میری اطاعت کر، جس چیز کے لئے میں تجھے امر کرتا ہوں، اور رک جا جس چیز میں تجھے روکتا ہوں، تاکہ میں تجھ کو ایسی حیات عطا کروں گا کہ تو کبھی نہیں مرے گا، اے ابنِ آدمؑ! میں یہ قدرت رکھتا ہوں کہ کسی چیز کے لئے فرماؤں “ہوجا” تو وہ ہو جاتی ہے، میری اطاعت کر جس چیز کے لئے میں تجھے امر کرتا ہوں، اور رک جا جس چیز سے میں

 

۲۸

 

تجھے روکتا ہوں تاکہ میں تجھ کو یہ قدرت دوں کہ تو کسی چیز کےلئے کہے کُنۡ (ہوجا) اور وہ ہو جائے گی۔۱۱ بحوالۂ ہزار حکمت(ح: ۳۰۵، ص۱۷۵-۱۷۶)۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر۳۰، اگست۲۰۰۳ء

 

۲۹

 

سورۂ رحمان اور انسان

قسط: ۱۷

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَن تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰن(۵۵: ۳۳)

تاویلی مفہوم: اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! کیا تمہارے خیال میں مکان سے لامکان کا روحانی سفر آسان ہے؟تم تجربہ کرو، یہ تم سے ہونے والا کام نہیں، سوائے سلطان کے۔ سلطان =حجتِ قائم=روحانی قیامت، اسمِ اعظم=غلبہ=آسمانی دلیل۔

الغرض سورۂ رحمان میں ۹ کم چالیس۴۰ خزانے ہیں، جن میں تمام انسانوں کے لئے عظیم اور لازوال نعمتیں ہیں، اور ان میں نعمتوں کے سوا اور کوئی چیز ہے ہی نہیں، اور اگر اس میں جہنم کا ذکر آیا ہے(۵۵: ۴۳ تا ۴۴) تو یہ وہ جہنم ہے، جس کو بعض لوگوں نے غلط فہمی اور نادانی سے ایسا سمجھا تھا، حالانکہ یہ حقیقی نعمتوں کا سرچشمہ تھا۔

جیسا کہ مولانا رومی اپنے مرشدِ کامل شمس تبریزؒ کے بارے میں کہتا ہے:

مسجد من کنشتِ من دوزخِ من بہشتِ من

راست بگویم این سخن شمس من و خدای من۱۲

 

۳۰

 

ترجمہ: میری مسجد میرا بت خانہ، میرا دوزخ میری بہشت، میں یہ بات سچ کہتا ہوں میرا شمس میرا خدا۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر ۳۰، اگست ۲۰۰۳ء

 

۳۱

 

سورۂ رحمان اور انسان

قسط: ۱۸

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ لقمان(۳۱: ۲۰) کا بابرکت اور پُرحکمت ارشاد ہے: اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَه‘ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً۔

ترجمہ: کیا تم نے (باطنی آنکھ =چشمِ بصیرت سے) نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے، اور جو کچھ زمین میں ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مسخر= تابع کر دیا ہے۔ اور اس نے تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دی ہیں۔ یہ ارشادِ مبارک براہِ راست سورۂ رحمان کی تمام نعمتوں کی تصدیق کر رہا ہے۔

قرآنِ حکیم کی تمام حکیمانہ نصائح تاویلی حکمت کے حجاب میں ہیں، ہمارے اس دورِ آخر کے لئے اللہ اور اس کے رسولؐ کا ایک روشن اور رہنما فرمان ’’الخلق عیال اللہ‘‘۱۳ ہے، لہٰذا ہم عیال اللہ کی خیر خواہی کی غرض سے اسرارِ قرآن میں غوروفکر کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ہماری یہ خیر خواہی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے مطابق ہو، آمین!

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار۳۱، اگست ۲۰۰۳ء

 

۳۲

 

سورۂ رحمان اور انسان

قسط: ۱۹

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اس سورۂ مبارکہ کے آخر میں ربِّ ذوالجلالِ والاکرام کے نہایت بابرکت اسمِ اعظم (امامِ زمانؑ) کا اشارہ ہے، کیونکہ سورۂ رحمان کے اسرارِ عظیم کی معرفت فنا فی الامامؑ اور روحانی قیامت ہی کے ذریعے سے حاصل ہو سکتی ہے، جبکہ امامِ مبین (ارواحنا فداہ) اللہ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم ہے، اور اس کے احاطۂ نورانیت کا نام حظیرۃُ القدس ہے، جس میں بصورتِ تجلّیاتِ گونا گون اسرارِ معرفت جلوہ گر ہیں۔

ذاتِ سبحان کی قسم! امامِ آلِ محمدؐ = امامِ زمانؑ اللہ تعالیٰ کا وہ زندہ اسمِ اعظم ہے، جس کا ذکرِ جمیل قرآنِ حکیم کے کئی مقامات پر موجود ہے، اور امامؑ ہی خدا کی طرف  سے اس کام پر مامور ہےکہ روحانی قیامت کے ذریعے سے تمام انسانوں یعنی عیال اللہ کو سفینۂ نجات میں سوار کر دے (۳۶: ۴۱) سورۂ یاسین کی اس آیت میں انسانانِ عالم کے ذرّاتِ ارواح کا ذکر ہے۔

قاموس القرآن (از قاضی زینُ العابدین) ص۳۴۴ پر ہے: حضرتِ ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ عالمین سے صرف ملائکہ، جنّ اور انسان ہی مراد ہیں۔ اور امام جعفر بن محمدؐ سے روایت ہے کہ صرف انسان ہی مراد ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک فرد اپنی جگہ ایک مستقل عالم ہے۔۱۴ یہ حوالہ ضروری

 

۳۳

 

ہے۔

 

نصیر الدین نصیر(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار ۳۱، اگست ۲۰۰۳ء

 

۳۴

 

سورۂ رحمان اور انسان

قسط: ۲۰

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ رحمان میں عالمِ انسانیّت کیلئے اللہ تعالیٰ کی بے پایان نعمتوں کی ضمانت ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: اِنَّ اللّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَشْكُرُونَ (۰۲: ۲۴۳) ترجمہ: یقیناً اللہ تعالیٰ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے ولیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے ہیں۔

سورۂ یونس (۱۰: ۶ا) اِنَّ اللّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لاَ يَشْكُرُونَ۔ ترجمہ: یقیناً اللہ تعالیٰ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے، لیکن ان میں سے اکثر لشکر نہیں کرتےہیں۔

قرآنِ حکیم (۰۳: ۸۳) کی زبردست حکمت میں غور کریں: وَلَهُ اَسْلَمَ مَن فِي السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْهًا وَاِلَيْهِ يُرْجَعُونَ۔ ترجمہ: آسمانوں میں اور زمین میں(سب کے سب) خوشی سے اور بے ختیاری سے اسی کے فرمانبردار ہیں، اور اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔

(۱۳: ۱۵) میں ارشاد ہے: وَلِلّهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا۔

ترجمہ: اور جو آسمانوں اور زمین میں ہیں(وہ سب) طوعاً و

 

۳۵

 

کرھاً اللہ تعالیٰ ہی کو سجدہ کرتے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر یکم ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۳۶

 

بنی آدمؑ(۱۵)

قسط: ۲۱

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ حدیثِ شریف ہے: خلق اللہ اٰدم علیٰ صورتہٖ۔۱۶ اللہ نے آدم ؑ کو اپنی (رحمانی) صورت پر پیدا کیا  (بخاری، جلدِ سوم، باب ۶۸۵) اور یہ ارشادِ نبوّی بھی ہے: فکل من ید خل الجنۃ علیٰ صورۃ ادم۔۱۷ پس جو شخص بھی جنّت میں جائے آدمؑ کی صورت کے مطابق ہوکر جائے گا۔

سوال: اللہ تعالیٰ نے کب اور کہاں آدمؑ کو اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا تھا؟

جواب: جب آدمؑ حظیرۂ قدس=جنّت میں داخل ہوا، اب یہاں آدمؑ فنا فی اللہ سے پہلے تھی اور ایک یہ صورت، یعنی صورتِ رحمان، جو بعد میں عطا ہوئی۔

دوسرا اہم سوال یہ ہے، کہ جو شخص بھی جنّت میں جائے وہ آدمؑ کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا، لیکن پوچھنا یہ ہے کہ آدمؑ کی بشری صورت ؟ یا رحمانی صورت؟ اگر بات رحمانی صورت کی ہے تو قرآنی شہادت ضروری ہے۔

جواب: قرآنی شہادت(۰۷: ۱۱) اسطرح ہے: وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ

 

۳۷

 

صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُواْ لآِدَمَ۔

ترجمہ: ہم نے تم کو (نفسِ واحدہ = آدمؑ کی وحدت میں)جسماً و روحاً وعقلاً پیدا کیا پھر تم کو حظیرۂ قدس میں صورتِ رحمان پر پیدا کیا، پھر فرشتوں کو حکم کیا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو۔ فرشتوں نے خدا کے حکم سے آدمؑ کو دو مقام پر سجدہ کیا ہے، پہلا سجدہ منزلِ اسرافیلی کے آغاز میں، اور دوسرا سجدہ حظیرۂ قدس میں، دونوں مقام پر تم فرشتوں میں بھی تھے اور آدمؑ میں بھی۔

ایک بہت بڑی قرآنی شہادت یہ بھی ہے: مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍؕ ۔ مفہوم: تم سب کو پیداکرنا اور پھر بعد از موتِ نفسانی دوبارہ جلا اٹھانا نفسِ واحدہ (آدمؑ) کی طرح ہے(۳۱: ۲۸)۔

بحوالۂ کتابِ حظیرۃُ القدس عالمِ شخصی کی بہشت قسط ۴۶، ص۷۵۔ ۷۶۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۲، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۳۸

 

بنی آدمؑ

قسط: ۲۲

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُم مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰی كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفضیلا (۱۷: ۷۰)۔

ترجمہ: اور بے شک ہم نے اولادَ آدمؑ کو (بہت سے معنوں میں ) بزرگی بخشی ہے، اور ہم نے انہیں بحروبر میں(سواریوں پر)اٹھایا، اور پاکیزہ چیزوں سے انہیں رزق دیا، اور جن جن مخلوقات کو ہم نے پیدا کیا ہے، ان میں سے بہتوں پر ہم نے انہیں بڑی فضیلت بخشی۔

اس آیۂ کریمۂ جامعۃ میں بنی آدمؑ کی بزرگی اور فضیلت کے تمام اشارات موجود ہیں، جیسا کہ ذکر ہوا: فرشتوں کے ساتھ فرشتہ ہو کر خلیفۃ اللہ کو سجدہ کرنا، اور چہرہ بن کر آئینے کواور آئینہ بن کر چہرے کو دیکھنا۔ یعنی بنی آدمؑ فرشتے بھی ہوئے تھے اورآدمؑ بھی، اور جب سفینۂ نجات میں تمام روحیں داخل ہوگئیں، تو یہ امامِ زمانؑ کا نور اور پانی پر ظہورِ عرش کا عظیم ترین معجزہ تھا، جب بنی آدمؑ بھری ہوئی کشتی میں سوار تھے، تو اس وقت ایک عظیم فرشتہ الاکرم، الاکرم پڑھ رہا تھا، اس میں کئی حکمتیں ہیں اور اس میں بنی آدمؑ کی تکریم کی حکمت بھی ہے، جس کی وجہ سے آج بنی آدمؑ کی تکریم کا پوشیدہ

 

۳۹

 

راز ظاہر ہو رہا ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۲، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۴۰

 

بنی آدمؑ

قسط: ۲۳

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ ارشادِ حکمت آگین، سورۂ اعراف (۰۷: ۳۱) میں ہے: یا بنِیٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ۔

اس کے ظاہری تراجم اپنی جگہ پر ہیں، اس کی تاویلی حکمت بعد میں بتائیں گے۔ پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ الخلق عیال اللہ کا فرمانِ عالی، بنی آدمؑ کے بارے میں ہے، یعنی آدمؑ خلیفۃ اللہ کی ذرّیت=بنی آدمؑ عیال اللہ ہیں۔

آپ کو بنی آدمؑ کی آفرینش میں ضرور تعجب ہوگا، کیونکہ قرآنِ حکیم(۳۹: ۰۶) میں ہے کہ اللہ نے تمہیں ایک جان = آدمؑ سے پیدا کیا، پھر اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ آدمؑ میں جو الٰہی روح پھونک دی گئی اسی سے بلا تاخیر بنی آدمؑ کی روحیں فوراً پیدا کی گئیں۔ اس دنیا میں بنی آدمؑ یا عیال اللہ کے مختلف درجات ہیں، دنیا ہو یا دین لوگ مل کر بھی کام کرتے ہیں اور آپس میں تعاون بھی کرتے ہیں۔ آدمؑ میں الٰہی روح سے نور ہی مراد ہے، پس تمام لوگ جو بنی آدمؑ اور عیال اللہ ہیں ان میں آدمِ زمانؑ کے نور کی چنگاری پنہان ہو سکتی ہے، یاد رہے کہ ہر زمانےمیں آدمؑ خلیفۃ اللہ کا ایک وارث = جانشین ہوا کرتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے، اور وہ امامِ زمانؑ کہلاتا ہے۔

۰۷: ۳۱ میں اسمِ اعظم کی نورانی عبادت کرنے والوں کو حکم ہے کہ

 

۴۱

 

وہ ہر ایسی عبادت میں اپنے باطن کو منور کر لیں اور علم و حکمت کی نعمتوں سے کھاتے پیتے رہیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس-آئی)

بدھ ۳، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۴۲

 

بنی آدمؑ

قسط: ۲۴

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ حجرات (۴۹: ۱۳) میں ارشاد ہے: يٰآ يُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُم مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوا ِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ اَتْقٰكُمْ اِنَّ اللَّهَ عَلِيْمٌ خَبِيرٌ۔

ترجمہ: لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت (یعنی آدمؑ و حوا ) سے پیدا کیا، اور ہم نے تمہیں خاندان اور قبیلے بنایا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، یقیناً اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں زیادہ مکرم وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہر چیز سے باخبر ہے۔

اس آیۂ مبارکہ جامعہ و کلیہ سے یہ حقیقتِ قرآنی مثلِ آفتابِ عالمتاب ضوفشان ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام لوگ بنی آدمؑ = اولادِ آدمؑ اور عیال اللہ ہیں، جو اولاً و آخراً یکسان اور برابر ہیں، جیسا کہ سورۂ ملک (۶۷: ۰۳) کا ارشاد ہے: مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍؕ = تو رحمان کی تخلیق میں کوئی فرق نہ دیکھے گا۔

ایک بروشسکی شعر کا ترجمہ: میں نے ایک اعلیٰ مقام دیکھا ہے جہاں

 

۴۳

 

سب لوگ برابر ہیں، جس طرح ازل میں برابر تھے اسی طرح ابد کی برابری بڑی شیرین نعمت  ہے۔۱۸ (دیوانِ نصیری) الحمد للہ ربِّ العلمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۳، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۴۴

 

ملک الموت

قسط: ۲۵

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ سجدہ (۳۲: ۱۱) میں فرمایا گیا ہے: کہہ دو کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کر لیتا ہے پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤگے۔

موت ہر روز جزوی بھی ہے، عمر میں ایک بار کلّی بھی، اختیاری بھی ہے، اور اضطراری بھی، لہٰذا ہر شخص پر ایک فرشتۂ موت موکل بنایا گیا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر عالمِ شخصی میں بے شمار قوّتیں ہیں، ان میں سب سے بڑی قوّتیں جو انقلابی ہیں وہ چار ہیں: قوّتِ جبرائیلہ، قوّتِ میکائیلیہ، قوّتِ اسرافیلیہ، اور قوّت ِ عزرائیلیہ۔

ملکوت: عالمِ ارواح وملائکہ، روحانی بادشاہی۔

حضرتِ امام جعفر الصادق علیہ السّلام نے فرمایا: لولا ان الشیاطین یحومون حول قلوب بنی آدم لراؤاملکوت السموات والارض۔

اگر بنی آدمؑ کے دلوں کے گرد شیاطین نہ پھرتے ہوتے تو آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کو دیکھتے۔۱۹ اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ خدا کے مخلص بندے کائنات کی روحانی سلطنت کودیکھتے ہیں، اوریہ عظیم معجزہ عالمِ شخصی میں ہوتا ہے۔ (المیزان، الجزء الخامس، ص۲۷۰)۔

 

۴۵

 

(بحوالۂ کتابِ ہزار حکمت، ح: ۸۵ص۴۸۴۔ ۴۸۵)

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات ۴، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۴۶

 

نفسِ واحدۃ

قسط: ۲۶

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قرآنِ حکیم میں نفسِ واحدۃ کا اسم مرتبۂ آدمؑ اور اس کے تجدّد کے لئے آیا ہے، اور اس میں روحانی قیامت اور تخلیقِ ارواح کے تجدّد کا راز پنہان ہے، آپ یہ کلیدی حکمت یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ تخلیق کرتا ہے۔

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ حجتِ قائم صلوات اللہ علیھما اور نورمولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام علیہ السّلام (روحی فداہ) سے علمی صدقہ ملتا رہا ہے اور ان کے نورانی معجزات ہوتے رہے ہیں، ہم نے شہادت اور امانت سمجھ کر ان معجزات کا کسی حد تک تذکرہ کر دیا ہے، اور اس روحانی تجربے کو نیک نیتی سے روحانی سائنس بھی کہا ہے۔ اور عالمِ انسانیّت کے موضوع پر جو کچھ لکھا ہے، وہ قرآن وحدیث کی روشن دلیلوں پر مبنی  ہے۔

لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ۔۲۰ (وجہ دین کلام ۵۱)۔

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ ۵، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۴۷

 

الارواحُ

قسط: ۲۷

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وَيَسْلُوْنَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّي وَمَآ اُوتِيْتُم مِّنَ الْعِلْمِ اِلاَّ قَلِيْلاً(۱۷: ۸۵)۔

ترجمہ: اور لو گ تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دو روح میرے پروردگار کے امر سے ہے (یعنی عالمِ امر اور کلمۂ کُنۡ سے اس کا تعلق ہے) اور تمہیں تو علم میں سے بہت ہی تھوڑا حصّہ دیا گیا ہے۔

جن لوگوں نے یہ سوال کیا تھا وہ آنحضرتؐ کو آزمانا چاہتے تھے، حدیثِ شریف میں ہے: اَلۡأرۡوَاحُ جُنُوۡدٌ مُّجَنَّدةٌ =۲۱ روحیں جمع شدہ لشکر کی صورت میں تھیں (ہیں، اور ہوں گی) یہ ارشادِ نبوّی حدیث کی کتابوں میں ہے، اور لغات الحدیث کتاب “ج” میں بھی ہے، جو آیۂ قرآنِ پاک: وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (۴۸: ۰۴) کی ایک روشن تفسیر ہے۔

باطن اور روحانیّت میں جہاں حربِ قیامت اور دعوتِ حق ہے وہاں لشکرِ ارواح اور ان کا سردار ہیں۔۲۲ (بحوالۂ ہزار حکمتح۵۱ص۴۷)

دورِ قیامت = دورِ تاویل کے امامِ آلِ محمدؐ (ارواحنا فداہ) نے فرمایا کہ روح ایک ہی ہے۲۳ یعنی تمام انسانوں کی ایک ہی روح ہے۔ حضرتِ مولا کی یہ تاویل کیسی پُرحکمت اور عظیم الشّان ہے! سبحان اللہ!

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ۵ ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۴۸

 

روحانی قیامت

قسط: ۲۸

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ حضرتِ حکیم پیر ناصرخسرو(ق۔ س) اپنے شہرۂ آفاق دیوانِ اشعار میں فرماتے ہیں:

ھوالاوّل، ھوالآخر، ھوالظّاھر، ھوالباطن

منزہ مالک الملکی کہ بے پایان حشردارد۲۴

ترجمہ: وہ اوّلین سے لاَحَدُّ اوّل ہے، وہ آخرین سے لاَحَدّ آخر ہے، وہ اپنے مظہر کے ظہورات میں سب سے ظاہر ہے، اور وہ حظیرۃ القدس میں سب سے باطن ہے، وہ ایک ایسی بے مثال بادشاہی کا پاک مالک ہے کہ اس کی بادشاہ میں بے پایان (روحانی) قیامات ہیں۔ روحانی قیامت سنتِ الٰہی ہے، جو ہمیشہ کسی تبدیلی کے بغیر جاری و ساری ہے۔

ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیھم السّلام میں سے ہر ایک کوامامِ مبینؑ سے اسمِ اعظم عطا ہوا تھا، ہر ایک کو روحانی قیامت کی سیڑھی سے چڑھ کر معراج ہوئی تھی، ہر نبیؑ کے ساتھ تمام انسانی روحوں کو عروج ملا تھا، لہٰذا ہر پیغمبرؑ عالمِ انسانیّت کے لئے آسمانی سیڑھی تھا، اسی معنیٰ میں اللہ کا ایک اسم ذی المعارج ہے(۷۰: ۰۳ تا ۰۴) یعنی زندہ سیڑھیوں کا مالک تاکہ تمام انسانوں کو اپنے حضور تک مرفوع فرمائے۔

 

۴۹

 

جیسا کہ ارشادِ ربّانی ہے: رَفِیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِۚ (۴۰: ۱۵)=بلند کرنے والا درجوں کو صاحبِ عرش۔ اس میں زبردست حیران کُنۡ حکمت ہے کہ اللہ جلّ جلالہ، مراتبِ انسانی کو عرش تک بلند کرتا ہے۔ سبحان اللہ! سبحان اللہ!

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ ۵، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۵۰

 

تسخیری معجزات

قسط: ۲۹

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قرآنِ عزیز کی متعدد آیاتِ کریمہ میں کائنات یا اجزائے کائنات کی تسخیر کا ذکر آیا ہے، اگر ان آیاتِ مقدّسہ کا باطنی اور تاویلی پہلو بھی ہے، تو بتائیں کہ سفرِ عالمِ شخصی کی کس کس منزل میں سالکین وعارفین کے لئے تسخیری معجزات ہوتے ہیں؟ جواب: سوال انتہائی عظیم اور سخت مشکل ہے، اور میری معلومات بہت ہی محدود، چلو مولائے پاک سے تائید کی درخواست کرتے ہیں، روحانی سفر کا مکمل قصّہ نہ صرف بڑا طویل ہے، بلکہ ازبس نازک اور انتہائی دشوار بھی ہے، لہٰذا ہم مخفی روحانی قیامت کے آغاز میں جو جو عظیم معجزاتِ اسرافیلی اور عزرائیلی ہیں، ان کا اشارہ کرتے ہیں، ان دونوں عظیم فرشتوں کے تمام معجزات تسخیری ہیں، یعنی تسخیر سے متعلق جتنی بھی آیاتِ شریفہ ہیں، ان سب کی ایک بار تاویل اسی منزل میں مکمل ہو جاتی ہے، اگر تم حجتِ قائمؑ میں اور حضرتِ قائمؑ میں فنا ہو جاتے ہو تو کائنات اور اجزائے کائنات کی تسخیر کا سب سے بڑا مقصد حاصل ہو سکتا ہے، اور آخری بار ہر چیز کی تسخیر تو حظیرۂ قدس ہی میں ہے، جبکہ تم اس میں داخل ہو سکتے ہو۔

آپ میری کتابوں کو غور سے پڑھیں اور اس سوال کے جواب کے لئے عملی تصوف کو بھی، خاص کر روحانی سائنس کے عجائب وغرائب ص۱۴۱۔ ۱۴۲۔۲۵

 

۵۱

 

علاوہ برآن قرآنِ حکیم میں آیاتِ تسخیر کو پڑھیں، خصوصاً(۳۱: ۲۰) کو۔

معجزاتِ اسرافیلی وعزرائیلی سے پہلے عالمِ خواب اور عالمِ خیال کے معجزات اور عجائب وغرائب ہیں، حق الیقین کے سب سے عظیم معجزاتِ تسخیری تو حظیرۂ قدس ہی میں ہیں، کیونکہ ح۔ ق تو بہشتِ برین ہے، سبحان اللہ! والحمد للہ! ولا الہ الا اللہ! واللہ اکبر۲۶ ولاحولہ ولا قوۃ الا باللہ العلی العظظیم۲۷۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر، ۶ ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۵۲

 

مساواتِ رحمانی

قسط: ۳۰

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اِنَّ رَبَّكُمُ اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضَ فِي سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلیَ الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الاَمْر(۱۰: ۰۳)

ترجمہ: یقیناً تمہارا پروردگار وہ اللہ تعالیٰ ہے، جس نے عالمِ دین کے آسمانوں اور زمین کو چھ ادوار میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر، یعنی حظیرۂ قدس=نورِ قائمؑ میں اپنی “مساواتِ رحمانی” کا کام کیا، وہ اپنے امرِ کُنۡ(ہوجا) کا حکم جب بھی چاہے فرماتا ہے۔

مساواتِ رحمانی کی حقیقت پر ایک لاکھ چوبیس ہزار روشن دلیلیں کافی سے بہت زیادہ ہیں، یعنی ہر نبیؑ کی روحانی قیامت اور باطنی معراج میں تمام انسانی روحیں ساتھ تھیں کیونکہ ہر انسانِ کامل کی روحانی قیامت میں اوّلین و آخرین و حاضرین تمام لوگ روحاً حاضر ہوتے ہیں۔ اس قانون کے بغیر کوئی قیامت نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی معراج ہے۔

الغرض خدا کی خدائی میں لوگوں کے لئے درجات بھی ہیں اور مساوات بھی۔ اور یہ جاننا علم و معرفت والوں کا کام ہے کہ درجات کہاں کہاں ہیں؟ اور مساوات = برابری کب ہے؟

اَلۡأرۡوَاحُ جُنُوۡدٌ مُّجَنَّدةٌ ۲۸ حدیثِ شریف ہے اور اس قانون

 

۵۳

 

سے کوئی روح باہر نہیں ہے، پس اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو عیال اللہ کا نام عنایت فرمایا تاکہ ان کی خیر خواہی اور کوئی خدمت ہو سکے۔ ان شاء اللہ العزیز۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار، ۷ ستمبر۲۰۰۳ء

 

۵۴

 

عالمِ انسانیّت کی فضیلت

قسط: ۳۱

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ عالمِ انسانیّت کی اوّلین اور عظیم ترین فضیلت یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے جملہ انبیائے کرام علیھم السّلام کو انسانوں میں سے منتخب فرمایا، تاکہ ہر بنی آدمؑ آسمانی ہدایت سے فیضیاب ہو کر دین و دنیا کی سعادت کو حاصل کریں، خداوندِ کریم کےاس امرِ عظیم میں ارواحِ انسانی کے لئے بے پایان رحمت تھی، جس کا کچھ ذکر ہو چکا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر فردِ بشر کو ایک مستقل عالم بنایا اور تمام افرادِ بشر کو عالمین = کائناتیں قرار دے کر قرآنِ پاک کے آغاز ہی میں ان زندہ کائناتوں کا ذکر اس طرح فرمایا کہ ہر شخص جو سورۂ فاتحہ کو پڑھتا ہے وہ اس معنیٰ میں اللہ کی تعریف کو سمجھ لے کہ اللہ ہر ہر عالمِ انسانی کا پروردگار ہے، یہاں ایک عظیم حکمت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے عالمِ انسانی کے پروردگار ہونے پر اپنی ذاتِ عالی صفات کی خود ہی تعریف فرمائی ہے تو اس ضمانت کی یقین دہانی ہے کہ عالمِ انسانی کو ایک نہ ایک دن فردوسِ برین بنانا ہی ہے، آمین!

حوران و غلمانِ بہشت جن کے بے مثال حسن و جمال کی تعریف خود قرآنِ حکیم ہی میں آئی ہے وہ سب عالمِ انسانیّت سے ہیں، عالمِ ملکوت جو عالمِ ملائکہ و ارواح ہے، وہ بھی عالمِ انسانیّت سے ہے، پری قوم جو روحانی

 

۵۵

 

کوہِ قاف میں ہے، اس کے از بس لطیف وخوبصورت مرد و زن بھی انسانوں سے ہیں۔

اس بارے میں سب سے اساسی اور سب سے غالب و زبردست حکمت مولانا علی علیہ السّلام کے ارشاد میں ہے کہ آپؑ نے فرمایا: اے انسان! کیا تیرا گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے اور بس؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عالمِ اکبرتجھ میں سمٹا ہوا ہے۲۹ ہے۔ ملاحظہ ہو: دیوانِ حضرتِ علیؑ

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار، ۷ ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۵۶

 

امام النّاسؑ

قسط: ۳۲

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قرآنِ حکیم، البقرہ (۰۲: ۱۲۴) میں یہ ارشادِ مبارک ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو لوگوں یعنی تمام انسانوں کے لئے امامؑ مقرر فرمایا تھا، آیۂ مبارکہ کے مرکزی الفاظ یہ ہیں: اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ۔ میں تمہیں سب انسانوں کا امامؑ بنانے والا ہوں۔

حکمائے دین اور کاملین وعارفین کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہمیشہ = قدیم سے یہی چلی آئی ہے کہ خدا کی طرف سے ہر زمانے کے لوگوں کے لئے امامؑ ہوتا ہے، امامؑ ہر پیغمبرؑ کے ساتھ تھا، اور امامؑ حضرتِ خاتمُ الانبیاءؐ کے بعد بھی ہے کیونکہ ہر زمانے کا امامؑ خلیۃُاللہ اور زندہ اسمِ اعظم ہوتا ہے، لہٰذا روحانی قیامت صرف اسی کے ذریعے سے برپا ہوتی ہے، جس میں تمام انسانی روحوں کے لئے بے پایان فائدے ہیں۔ جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے: یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ۔ ترجمہ: جس زمانے میں ہم سب لوگوں کو ان کے امامؑ کے ذریعے سے بلائیں گے(۱۷: ۷۱) خلیفۃ اللہؑ یقیناً امام الناسؑ بھی ہے، اور امامُ المتقینؑ بھی۔

حضرتِ ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم سے اپنے فرزندِ جگر بند کی قربانی کے لئے عزمِ مصمم کر لیا تھا، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتِ بیکران سے نہ

 

۵۷

 

صرف اس قربانی کو قبول فرمایا بلکہ ذبحٍ عظیم (۳۷: ۱۰۷) سے فدیہ بھی دلایا، یہاں بڑا اہم سوال یہ ہے کہ اس بے مثال قربانی کا خاص اور عظیم مقصد کیا تھا؟ جواب: اس کا سب سے عظیم مقصد روحانی قیامت کے ذریعے سے تمام کی تمام انسانی روحوں کو نجات دلانا تھا۔

 

دوسرا سوال: ذبحٍ عظیم (۳۷: ۱۰۷) = بہت عظمت والی قربانی سے کیا مراد ہے؟ جواب: موتوا قبل ان تموتوا۳۰ کے فرمانِ عالی کے مطابق مرنا ہی بہت عظمت والی قربانی ہے، کیونکہ اس سے روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، جس میں تمام انسانی روحوں کی نجات ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر، ۸ ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۵۸

 

امام النّاسؑ

قسط: ۳۳

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سوال: سورۂ مائدہ (۰۵: ۳۲) کے حوالے سے اس کتاب کی قسط ۹  میں ہے کہ”اور جس  نےایک جان کو زندہ کر دیا پس وہ ایسا ہے جیسا کہ اس نے سب لوگوں کو زندہ کر دیا۔”  پوچھنا یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو کس طرح زندہ کر سکتا ہے؟ جواب: اس کا اصل جواب اور رازموتو قبل ان تموتوا میں ہے، پس تم اس فرمانِ عالی پر عمل کرو تو نہ صرف تمہاری اپنی مردہ جان زندہ ہو جائیگی بلکہ اس روحانی قیامت کی برکت سے، جس کو تم نے تمام مراحل میں برداشت کیا، تمام عیالُ اللہ یعنی سب لوگوں کو نجات ملے گی۔ یہ ہوا اللہ کا وہ قانون جس میں ایک جان کو زندہ کرنے سے دنیا بھر کی ساری جانیں زندہ ہو جاتی ہیں۔ دوسری مثال میں آپ نے اپنی جان اللہ کو فروخت کر دی اور اس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز نے اپنی رحمتِ بے پایان سے آپ کو کائنات بھر کی روحیں عطا فرمائیں۔ اللہ کے ساتھ عشق سے سودا کرنے کا لا انتہا فائدہ ہوتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اللہ بے نیاز ہے، لیکن وہ لوگوں پر بڑا مہربان اور بیحد کرم کرنے والا ہے۔

اگر میں سچ مچ امامؑ کا عاشق ہوں تو مجھے موتو قبل ان تموتوا

 

۵۹

 

پر عمل کر کے عالمِ انسانیّت سے فدا ہو جانا چاہئے، کیونکہ میرا مولا و آقا امامُ الناسؑ ہے، اور ان یعنی تمام لوگوں کی نجات کے لئے ذبحٍ عظیم کا فدیہ چاہتا ہے، ان شاءَ اللہ ! اگر ہماری نیّت نیک ہے، اور نورانی ہدایت حاصل ہے تو یہ بہت بڑی سعادت ناممکن نہیں، آمین!

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر، ۸ ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۶۰

 

امامُ النّاسؑ

قسط: ۳۴

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ انعام (۰۶: ۱۲۲) کا پُرحکمت ارشاد ہے: اَوَ مَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوراً يَّمْشِيْ بِهٖ فِي النَّاسِ.ترجمہ: کیا وہ شخص جو مردہ تھا، پس ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور قرار دیا جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا ہے۔

تاویلی حکمت: یقیناً ہر سالک شروع شروع میں مردۂ زندہ نما ہوتا ہے یعنی فی الوقت اس میں وہ روح نہیں ہوتی ہے جو آگے چلنے کے بعد ملنے والی ہے، جب کوئی باسعادت سالک امام النّاسؑ=خلیفۃ اللہ کی نورانی ہدایت کی روشنی میں موتوا کے مبارک فرمان پر عمل کرتا ہے، تو اس پر امامؑ کا نورطلوع ہوتا ہے اور اس کی روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، اسی طرح اللہ اپنے خلیفہؑ کے ذریعے سے اس کو زندہ کرتا ہے اور اس کو ذبحٍ عظیم (بہت عظمت والی قربانی) کا درجہ دے کر عالمِ انسانیّت کی نجات کےلئے فدیہ بناتا ہے۔ اگر حضرتِ اسماعیلؑ کا فدیہ ایک دنبہ ہو سکتا ہے، تو عیال اللہ کا فدیہ ایک سالک کیوں نہیں ہو سکتا۔ پس امامُ النّاسؑ ایسے سالک کی روحانی قیامت برپا کرتا ہے جس میں آسمانوں اور زمین کی تمام روحیں سالک کے عالمِ شخصی میں جمع ہو جاتی ہیں، درحالے کہ سوائے سالک کے کسی کو ذرا

 

۶۱

 

بھی خبر نہیں ہوتی ہے، اور نہ ہی صورِ اسرافیل کی کائنات گیر آواز کوئی سن سکتا ہے۔ روحانی قیامت کے زبردست طوفان اور غوغائے عظیم سے لوگوں کی بے حسی اور غیر شعوری کو قرآنِ حکیم نے بیہوشی سے عبارت کیا ہے(۳۹: ۶۸) اس میں اللہ تعالیٰ کی زبردست حکمت ہے۔

 

نصیرالدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل، ۹ ستمبر۲۰۰۳ء

 

۶۲

 

امامُ النّاسؑ

قسط: ۳۵

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ اعراف(۰۷: ۱۱) کا حکمت سے لبریز ارشاد ہے: وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰئِكَةِ اسْجُدُواْ لِآدَمَ۔ ترجمہ: اور یقیناً ہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو۔

اللہ عَزَّاسمہ کا یہ بابرکت اور پُرحکمت خطاب ہر زمانے کے انسانوں سے ہے، کیونکہ خلیفۃ اللہ =امامُ النّاسؑ ہر زمانے میں ہوتا ہے، جس کے ذریعے سے روحانی قیامت کا تجدّد ہوتا ہے، اور اس میں سب لوگ نفسِ واحدہ کے ساتھ حظیرۂ قدس کی بہشت میں روحاً داخل ہوجاتے ہیں اور وہ وہاں اپنے باپ آدمؑ کی صورت (صورتِ رحمان) پر ہوجاتے ہیں”صورنٰکم” میں اسی عنایتِ بے نہایتِ الٰہی کا ذکرِ جمیل ہے، اور پھر وہاں تمام انسانی روحیں آدمؑ بھی ہیں (مسجودِ ملائک) اور فرشتے بھی، فنا فی الامامؑ بھی اور فنا فی اللہ بھی۔ یقیناً آپ کو حظیرۂ قدس کی عرفانی بہشت کے اس علم الیقین سے تعجب ہوگا، جی ہاں حظیرۂ قدس، جو بہشت برائے معرفت ہے، وہ عالمِ وحدت بھی ہے، لہٰذا وہاں بہت سی نعمتیں ایک ساتھ ہیں۔

امام ُالنّاس آلِ محمدُ خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کی نورانی تائید

 

۶۳

 

سے قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت کی خدمت کا یہ موقع ہم سب ساتھیوں کیلئے ایک پُرنعمت بہشتِ برین سے کم نہیں، مگر ہاں ہم کماکان حقہٗ شکر نہیں کر سکتے ہیں، ہم میں اس غلامی کی بڑی کمی ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل، ۹ ستمبر۲۰۰۳ء

 

۶۴

 

الخلقُ عیال اللہ

قسط: ۳۶

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نورِ منزل کے عاشقوں کیلئے سورۂ ابراھیم(۱۴: ۳۴) میں رحمتوں، برکتوں اور حکمتوں سے بھرا ہوا ایک بڑاعجیب خزانہ موجود ہے: وَاٰتٰكُم مِّن كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوهُ وَاِنْ تَعُدُّواْ نِعْمَتَ اللّهِ لاَ تُحْصُوهَا۔ ترجمہ: اور پھر ہر چیز سے جو کچھ تم نےاس سے مانگا اس نے تمہیں وہی کچھ دے دیااوراگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو گنوتو تم اس کا احاطہ نہ کر سکو گے۔

سوال: یہ تو ظاہر ہے کہ حضرتِ ربّ تعالیٰ کا یہ مبارک خطاب تمام لوگوں سے ہے، لیکن یہ آیۂ شریفہ واضح الفاظ میں بتاتی ہے کہ لوگوں نے اپنے ربّ کی ہر ہر نعمت کے لئے درخواست کی تھی، چنانچہ ہر عاقل کے حق میں یہ پوچھنا از بس مفید ہے کہ کب؟ اور کہاں؟ یا کس موقع پر یہ سوال ہوا تھا؟ جبکہ ظاہراً ایسا لگتا ہے کہ لوگ تقریباً سب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے غافل ہیں۔ جواب: یقیناً لو گ غافل ہو سکتے ہیں، لیکن امامُ النّاسؑ عیال اللہ کے فائدۂ روحانی سے کبھی غافل نہیں ہے۔ کتاب وجہ دین کلام۱۵، فصل۳، ص۱۶۵پر مرقوم ہے: خواہ انسان سویا ہو یا بیدار ہو، ناک برابر سانس لیتی ہے اور اس کو زندہ رکھتی ہے۔۳۱ اس کا اشارہ یہ ہے کہ خواہ سارے لوگ حق سے آگاہ ہوں یا بے خبر ہوں، مگر

 

۶۵

 

امام علیہ السّلام، متواتر و مسلسل اپنا کام کرتے رہتے ہیں، ہمیشہ لوگوں پر فیض برساتے ہیں اور ان کے نفوس کو زندہ رکھتے ہیں۔ امام علیہ السّلام روحانی قیامت کے ذریعے سے عیال اللہ کو روحاً حظیرۂ قدس کی بہشت تک پہنچاتے ہیں، اور لوگ بزبانِ حال سے ان تمام نعمتوں کا سوال کرتے ہیں، نیز امامؑ لوگوں کا وکیل = کارساز ہے، اس کو اللہ ہی نے اپنا خلیفہ بنایا ہے تاکہ مخفی روحانی قیامت کے ذریعے سے عیال اللہ کو حظیرۃ القدس کی بہشت میں پہنچائے، یعنی عالمِ انسانیّت سے آخرت کا جو سب سے اہم کام نہ ہو سکا ہے، اس کا چارۂ کار روحانی قیامت سے کرے۔

 

نصیرالدین نصیر(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ، ۱۰ ستمبر۲۰۰۳ء

 

۶۶

 

سنتِ الٰہی اور نظامِ اسمِ اعظم

قسط: ۳۷

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) کا عظیمُ الشّان ارشاد ہے: وَلِلّهِ الاَسْمَاءُ الْحُسْنیٰ فَادْعُوهُ بِهَا۔ ترجمۂ عرفانی: اور اللہ تعالیٰ ہی کے لئے اسمائے عظام ہیں، تم اسے انہی بزرگ ناموں سے پکارو۔ بحوالۂ ارشادِ مولاعلیؑ، کتابِ کوکبِ دری، باب سوم منقبت۲۹، ارشادِ امام جعفر صادقؑ بحوالۂ تاویلی انسائیکلوپیڈیا = ہزار حکمت (ح۶۴) حوالۂ کتابِ وجہ دین کلام ۱۴، اور حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلواتُ اللہ علیہ کے بہت سے ارشادات میں اسمِ اعظم کا ذکر ہے۔ پس ہمیں نہ صرف اس پر یقین ہے بلکہ اس کے روحانی اور عرفانی معجزات بھی بطورِ گواہی لکھتے آئے ہیں،۳۲ اور ان شاء اللہ اب مزید لکھنا پڑے گا، کیونکہ یہ موضوع اس ناچار غلامِ کمترین کے لئے آسان نہیں ہے، میں اپنے تمام ساتھیوں سے بار بارمناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات کرنے کے لئے درخواست کرتا ہوں، وہ یقیناً میری مدد کے لئے عاجزانہ اور مخلصانہ دعا کر رہے ہیں۔ آمین!

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ، ۱۰ ستمبر۲۰۰۳ء

 

۶۷

 

سنتِ الٰہی اور نظامِ اسمِ اعظم

قسط: ۳۸

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ بحوالۂ کتاب عملی تصوّف اور روحانی سائنس، معجزۂ نوافل ص۵۴، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے، اور میرا بندہ میری طرف سے فرض کی ہوئی ان چیزوں سے جو مجھے پسندیدہ ہیں، میرا قرب نہیں حاصل کر سکتا، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (صحیح البخاری، جلدِ سوم، کتابُ الرقاق، باب ۸۴۴۔ تواضع)

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات، ۱۱ ستمبر۲۰۰۳ء

 

۶۸

 

انسانِ کامل۳۴

قسط: ۳۹

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ بحوالۂ کتاب العلاج(روحانی علاج)ص۱۳۰۔ ۱۳۱: ۔ نسفی نے جس طرح انسانِ کامل کی تعریف کی ہے، اس کا ایک نمونہ یہ ہے(ترجمہ از فارسی): جب تو نے انسانِ کامل کے بارے میں سن لیا، تو اب جان لے کہ انسانِ کامل کے بہت سے اسماء مقرر ہیں۔ کیونکہ مختلف اضافات و اعتبارات کی بنا پر اسے مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے، اور یہ سارے نام درست ہیں، اے درویش! انسانِ کامل کو شیخ، پیشوا، ہادی، مہدی، دانا، بالغ، کامل، مکمل، امام، خلیفہ، قطب اور صاحبِ زمان کہتے ہیں، نیزجامِ جہان نما، آئینۂ گیتی نما، تریاقِ بزرگ، اور اکسیرِ اعظم کہلاتا ہے، اور عیسیٰؑ کہاجاتا ہے، کیونکہ مردۂ جہالت کو زندہ کرتا ہے، اس کو خضرؑ کہتے ہیں، اس لئے کہ اس نے آبِ حیات پی لیا ہے، اور سلیمانؑ کہتے ہیں کہ پرندوں کی بولی جانتا ہے، اور یہ انسانِ کامل دنیا میں ہمیشہ موجود ہوتا ہے، وہ ایک سے زیادہ نہیں، جسکی وجہ یہ ہے کہ تمام موجودات ایک ہی شخص کی طرح ہیں، اور انسانِ کامل ایسے شخص کا دل ہے، پس انسانِ کامل اس عالم میں ہمیشہ کے لئے موجود ہے، اور دل ایک ہی ہوا کرتاہے، لہٰذاانسانِ کامل دنیا میں صرف ایک ہی ہوتا ہے، اور جب وہ یگانۂ عالم اس جہان سے گزرجاتا ہے، تو دوسرا ایک اس کے مرتبے

 

۶۹

 

پر فائز ہو جاتا ہے، اور اس کا جانشین ہوجاتا ہے، تاکہ عالم دل کے بغیر نہ رہے۳۵(شرحِ اصطلاحاتِ تصوف، تالیف دُکتر سید صادق گوھرین، استادِ دانشگاہ)۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات، ۱۱ستمبر۲۰۰۳ء

 

۷۰

 

قیامتِ صغریٰ۳۶

قسط: ۴۰

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ بحوالۂ کتابُ العلاج روحانی علاج، ص ۱۲۳۔ ۱۲۴:۔ ارشادِ نبوّی: من مات فقد قامت قیامۃ۳۷،(جو کوئی مرتا ہے اس کی قیامت برپا ہو جاتی ہے۔ احیاءُ العلوم، جلدِ چہارم، فضیلتِ صبر)چونکہ موت نفسانی اور جسمانی دو قسم کی ہوا کرتی ہے، لہٰذاقیامتِ صغریٰ یا ذاتی قیامت اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں پر بدنی موت سے پہلے ہی واقع ہوتی ہے، اور عوام پر موت کے بعد، کیونکہ عین الیقین سے خزائنِ اسرارِ معرفت کا مشاہدہ ممکن ہی نہیں، مگر جیتے جی فنا ہوجانے سے، اور وہ یہی قیامتِ صغریٰ ہے، جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے۔

سورۂ بقرہ کی جن آیاتِ مقدّسہ میں ذبحِ بقرہ کا ذکر فرمایاگیا ہے، ان میں ظاہری معجزے کے ساتھ ساتھ یہ پُرحکمت مثال بھی ہے کہ نفسِ حیوانی، جو ایک بیل جیسا ہے، راہِ خدا میں بذریعۂ علم و عبادت اور ریاضت اس کی قربانی سے بندہ مومن کس طرح حیاتِ طیبہ حاصل کر سکتا ہے، یعنی کیسے جیتے جی مر کر زندۂ جاوید ہوجاتا ہے، چنانچہ مولوی معنوی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب مثنوی، دفترِ سوم میں اس حکمت کو ذیل کی طرح بیان کیا ہے:۔

مجھے حضرتِ موسیٰؑ کا ایک ایسا بیل سمجھ جس کو ایک خاص جان عطا

 

۷۱

 

ہوئی ہے، میرا جزو جزو یعنی ذرّہ ذرّہ ہر ہر آزاد کا حشر(قیامت)ہے۔ حضرتِ موسیٰؑ کے بیل سے ایک قربان شدہ زندہ شہید مراد تھا، جس کا ایک چھوٹے سے چھوٹا جزو(ذرّۂ لطیف) کسی مقتول کے لئے باعثِ حیات تھا۔ اس کی چوٹ سے مردہ جگہ سے اٹھ گیا، “اس کو اس کے بعض سے مارو” کے حکم کے مطابق، اے میرے بزرگو! اس بیل کو ذبح کر دو، اگر تم بصیرتی روحوں کی قیامت چاہتے ہو۔ میں پہلے جمادیت سے مرااور نباتی بن گیا، اور نباتیت سے مرکر حیوان بن گیا، میں حیوانیت سے بھی مرا اور آدمی بن گیا، پھر میں کیوں ڈروں، میں مرنے سے کب گھٹا؟ دوسری مرتبہ میں بشریت سے بھی فنا ہو جاؤں گا، تاکہ فرشتوں میں ہو کر بال و پر حاصل کروں، فرشتے سے بھی مجھے آگے جانا چاہئے، کیونکہ بجز اس کی ذات کے ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ پس میں ملکیت سے بھی قربان ہو جاؤں گا، وہ جو عقل میں نہیں آسکتا وہ ہو جاؤں گا، پھر میں عدم(نیستی)بن جاؤں گا، اور عدم ارغنون یعنی باجے کی طرح مجھ سے کہے گا کہ ہم سب کی  طرف لوٹنے والے ہیں۔ ۳۸

 

نصیرالدّین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات، ۱۱ ستمبر۲۰۰۳ء

 

۷۲

 

عالمِ ذرّ

قسط: ۴۱

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ عالمِ ذر۳۹ کی باطنی حکمت زمانۂ آدمؑ سے شروع ہوئی ہے، کیونکہ جن فرشتوں نے شروع شروع میں بحکمِ خداحضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کو سجدہ کیا، وہ سب مجموعاًعالمِ ذرہی تھے، چونکہ ان تمام لطیف ذرات کا سجدہ کرنا اطاعت اور تسخیرِ کائنات کے معنی میں تھا، اور وہ ذرّاتی فرشتے عالمِ کبیر اور عالمِ صغیر کی کلیدی قوّتیں تھے، لہٰذا اس میں نہ صرف اشارہ تھا بلکہ یہ پیش گوئی بھی تھی کہ آدمؑ اور اولادِ آدمؑ کے لئے کائنات مسخر ہونے والی ہے، اور یہ بہت بڑاکام ظاہری اور باطنی سائنس ہی سے ہو سکتا تھا۔

۱۔ عالمِ ذرّ کی تعریف میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں ہر مخلوق کی نمائندہ روح موجود ہے، یہاں تک کہ اس میں پتھر اور لوہے کی روح بھی حاضر رہتی ہے، اور کوئی ایسی چیز نہیں جس کی روح عالمِ ذرّ میں نہ پائی جائے، عالمِ ذرّ کے کثیر ناموں میں آپ کو اس کے کثیر کاموں کا اندازہ بھی ہو گااور تعجب بھی کہ ذرّاتِ لطیفِ روحانی کی اس کثرت سے حکمتیں ہیں؟ سبحان اللہ!

۲۔ لطیف مادّہ اورروح پر مبنی ذرّات روحانی لشکر ہیں، اس لئے ان کا ایک نام جنود ہے، یہ وہ روحانی لشکر ہے جس نے کئی نافرمان لوگوں کو

 

۷۳

 

تباہ وبرباد کر دیا، یاجوج و ماجوج کے نام سے عالمِ شخصی میں فساد کرتے ہیں، تاکہ اس میں تعمیرِ نو کا کام کیا جائے، ان کا ایک نام حجارہ(حجر کی جمع = پتھر) بھی ہے(۱۱: ۸۲،  ۱۰۵: ۰۴) یہ آسمان سے گرے ہوئے ستارے ہیں (۵۶: ۷۵)یہ کوہِ روح ہے، جو ریزہ ریزہ ہو چکا ہے، یہ کل اشیاء کے ثمرات ہیں، یہ چیونٹیاں ہیں(۲۷: ۱۷)الغرض ان کے اور بھی بہت سے نام ہیں۔

۳۔ اَلذَّرُ کے معنی ہیں: چھوٹی چیونٹیاں، کرمک، ہوا میں منتشر غبار، اسی سے عالمِ ذرّ کی اصطلاح بنی ہے، جس سے ذرّاتِ روح مراد ہیں، جن کی تشبیہہ و تمثیل چھوٹی چیونٹیاں یا غبارِ منتشر سے دی گئی ہے، مومنِ سالک کو جب سے باطنی قیامت کا تجربہ ہونے لگتا ہے تب سے عالمِ ذرّاس کے لئے کام کرتا رہتا ہے، اور یہ روحانی سائنس کا بہت بڑا انقلاب ہے۔

۴۔ چونکہ یہ ذرّات جوہرِ کائنات اور خلاصۂ موجودات ہیں، اس لئے یہ کوئی ایک چیز نہیں ہیں، بلکہ ان میں ہر چیز کی نمائندگی ہے، لہٰذا انکا ایک ضروری نام “کُلُّ شیء” (ہرچیز) ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں کل شی کا ذکر آیا ہے، وہاں اس مجموعۂ کائنات کا ذکر ہے جو عالمِ ذرّ کی صورت میں ہے، اور ا س کا اطلاق حظیرۃُ القدس پر بھی ہوتا ہے، کہ وہ وحدتِ اشیاء کا مرتبہ ہے، جیسے ارشاد ہے: وکل شیءٍ عندہ بمقدار (۱۳: ۰۸) اور ہر چیز کیلئے اس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے۔ اگر کائناتیں ایک سے زیادہ ہیں تو پھر بھی عالمِ شخصی میں ایک ہی عالمِ ذرّ اور ایک ہی حظیرۃ ُ القدس ہے۔

 

۷۴

 

۵۔ یاجوج و ماجوج عالمِ شخصی کی جس دیوار کو چاٹ چاٹ کر ختم یا خراب کردیتے ہیں، وہ نفسِ حیوانی کا حجاب ہے جو ظاہر و باطن کے درمیان قائم ہے، چنانچہ جس عرصہ کے لئے یہ دیوار نہیں ہوتی، اس میں حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن مل کر کام کرنے لگتے ہیں جس کے سبب سے آنکھیں ذرّاتِ لطیف کو دیکھتی ہیں، کان روحانی آوازوں کو سنتے ہیں، ناک باطنی خوشبوؤں کو سونگھتی ہے اور اسی طرح عجائب وغرائب اور بڑے بڑے معجزات کا عالم ہوتا ہے۔

۶۔ قرآنِ عزیز(۰۳: ۳۷) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ حضرتِ مریم سلامُ اللہ علیھا کے پاس خدا کے حکم سے کچھ غذائیں آتی تھیں، میرا عقیدہ ہے کہ روحانی غذائیں آتی تھیں، جو خوشبوؤں کی صورت میں ہوا کرتی ہیں، جن کا تجربہ خدا کے دوستوں کو ہوتا ہے، اسی امکانیت کے پیشِ نظرکہا جا سکتا ہے کہ شاید مستقبل میں یہ غذا عام ہوجائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے معجزات دکھانے کا وعدہ فرمایا ہے(۴۱: ۵۳)۔

۷۔ مولا علی علیہ السّلام کا یہ ارشاد “من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ”۴۰ کتنا مختصر اور جامعُ الجوامع کلام ہے؟ کیا انسان سچ مچ اپنے چھوٹے سے جسم میں کوئی ایسی عجیب وغریب کائنات ہے، جس میں کائناتِ اکبر سماگئ ہو، کیا اس میں ہر روحانی چیز کا مشاہدہ اور خدا کا دیدار ممکن ہے؟ اگر نہیں تومعرفت کیوں کر ممکن ہو سکتی ہے؟ آیا ہم ذات و کائنات کی معرفت کو روحانی سائنس کا نام دے سکتے ہیں؟ اگر عالمِ ذرّ اور حظیرۃ ُ القدس کا نام کل شیءٍ ہے تو کیا اس مجموعۂ کل میں اسرارِ قرآن بھی ہو سکتے ہیں؟

۸۔ ایک مثال کے مطابق کائنات و موجودات کا خلاصہ انسان ہے،

 

۷۵

 

انسان کا خلاصہ عالمِ ذرّ ہے، اور عالمِ ذرّ کا خلاصہ وجوہر حظیرۃُ القدس، جہاں معرفت کے انتہائی عظیم اسرار انتہائی جامعیّت کے ساتھ ہیں، اور فنا فی اللہ کا بے مثال ولازوال مرتبہ اسی مبارک مقام پر ہے۔ (بحوالۂ کتاب عملی تصوف اور روحانی سائنس۔ ص۴۸۔ ۵۰)

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ، ۱۲ستمبر۲۰۰۳ء

 

۷۶

 

کنزِ کُلّ

قسط: ۴۲

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ امامِ مبین=امامِ زمانؑ اللہ تعالیٰ کازندہ اسمِ اعظم ہونے کی وجہ سے کنزِ کُل ہے، یہ آج ہم سب کے لئے تاویلی حکمت سے بھرا ہوا ایک خزانۂ معجزہ ہے، ماہِ فروری۱۹۴۹ء میں ہم تاشغورغان پہنچ چکے تھے، اس بندۂ درویش کو شب خیزی اور خصوصی عبادت کا موقع حاصل تھا، خواب وخیال میں مشاہدۂ عجائب وغرائب کا مبارک سلسلہ جاری تھا، تاہم ایک رات جو انتہائی عجیب وغریب خواب دیکھا وہ صرف بہت بڑا حیران کن تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ تاویل کے عظیم اسرار سے بھی لبریز تھا، میں نے یکایک یہ انوکھا اور سب سے نرالا منظر دیکھا کہ میری قربانی ہو چکی تھی، جسم تو جنازے کی طرح زمین پر پڑا تھا، سر قریب میں ایک دیوار کے ساتھ آویزان تھا، میں(اعنی روح یاشعور) جانبِ غرب کچھ بلندی پر چمکنے والے بہت سے ذرّات کے درمیان تھا، میں یہ منظر اس بلندی اور ان ذرّات میں سے دیکھ رہا تھا۔ یہ کس نے مجھے خواب میں ذبح کیا؟ جواب: میرے محبوب روحانی باپ (امامِ زمانؑ) نے، دیکھوقرآنِ حکیم (۳۷: ۱۰۲ تا ۱۱۰) اس قربانی کا فدیہ ذبحٍ عظیم ہے(۳۷: ۱۰۷)اور وہ موتوا کے فرمانِ عالی پر عمل کر کے روحانی قیامت کی اسرافیلی اور عزرائیلی منزل میں اللہ تعالیٰ

 

۷۷

 

کے حکم سے سات رات اورآٹھ دن قربانِ مسلسل ہوجانا ہے، کیونکہ میرا مولا امامُ النّاسؑ بھی ہے، اورامامُ المتقین بھی۔ الحمدُ للہ ربِّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ، ۱۲ستمبر۲۰۰۳ء

 

۷۸

 

کنوزِ احادیث۴۱

قسط: ۴۳

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ عنوانِ بالا کا مطلب یہ ہے کہ ہر حدیثِ شریف بجائے خود علم وحکمت کا ایک لاثانی وغیر فانی خزانہ ہے، اہلِ سعادت ہمیشہ ایسے بے مثال خزانوں کے پوشیدہ اسرار کو جاننا چاہتے ہیں، اور ایسی اعلیٰ چاہت دراصل حق تعالیٰ کی جانب سے عطا شدہ توفیق و تائید ہی ہوا کرتی ہے، لہٰذا ایسے میں ہر ہوشمند مومن خداوند تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے تاکہ کفرانِ نعمت نہ ہو۔

۱۔ صورتِ رحمان کے سرِّ اسرار: فان اللہ خلق اٰدم علیٰ صورتہ فاعرف نفسک یا انسان تعرف ربک۴۲ = پس بیشک اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا آدمؑ کو اپنی صورت پر، پس پہچان اپنے نفس کو اے انسان تاکہ پہچانے اپنے ربّ کو(کیمیائے سعادت، عنوانِ مسلمانی، فصل۲)۔

اس حدیثِ شریف کی تابناک اور بے مثال تعلیم بدرجۂ انتہا دلنشین ہے، وہ روشن ہدایت یہ کہ جب مومنِ سالک عالمِ شخصی اور خودشناسی کے سفر میں آگے سے آگے جانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ

 

۷۹

 

وہ حظیرۂ قدس میں داخل ہو جاتا ہے تو اس وقت وہ اپنے باپ آدمؑ کی صورت پر ہو جاتا ہے، اور آدمؑ رحمٰن کی صورت پر پیدا کیا گیا تھا، اور یہ معرفت کے درجۂ کمال کا اشارہ ہے۔

۲۔ چارۂ کار، حفاظت کی جگہ: اللہ تعالیٰ نے حضرتِ داؤدؑ پر وحی نازل کی اور فرمایا: انا بدک الازم فالزم بدک۴۳=میں تیرا لازمی چارۂ کار(یا حفاظت گاہ) ہوں، پس تو نے میرے ساتھ رہنا ہے، لہٰذامیری دوستی کا سامان فراہم کر(مذکورہ کتاب، دوسرا عنوان، فصل۸)۔

۳۔ عجائب وغرائبِ حکمت: حکمت کی عجیب وغریب باتیں قرآن و حدیث میں  پوشیدہ ہیں، اسی لئے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: روحواانفسکم ببدیع الحکمۃ فانھا تکمل کماتکمل الابدان۴۴=حکمت کی عجیب اور غریب باتوں سے اپنی جانوں کو راحت دو، جان اس طرح پوری ہوتی ہے جیسے بدن پوراہوتا ہے(لغات الحدیث، لفظ: بدیع) یعنی جس علم و حکمت سے شادمانی ہوتی ہے، وہی عقل و جان کی تکمیل کا باعث ہو سکتا ہے۔

۴۔ نورانی قالب = جسمِ لطیف: ارشادِ نبوّی ہے: روح المومن بعد الموتِ فی قالب کقالبہ فی الدنیا ۴۵ = مومن کی روح مرنے کے بعد ایک قالب میں رکھی جاتی ہے، جو اسی صورت کا ہوتا ہے جیسے دنیا میں اس کا قالب تھا (لغاتُ الحدیث، لفظ: قالب)۔ اس

 

۸۰

 

سے جسمِ لطیف مراد ہے کہ وہ ایک نورانی انسان ہے جو بہشت میں رہتا ہے، وہ مومن کے لئے زندہ اور عاقل جامۂ جنت ہے، اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں۔

۵۔ کنزِ مخفی = گنجِ معرفت: حضرتِ داؤدؑ نے پروردگارِ عالم سے پوچھا: یا رب تو نے خلق کو کس غرض سے پیدا کیا ہے؟ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق لکی اعرف۴۶ = میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، پس میں چاہا کہ پہچانا جاؤں تو میں نے خلق کو پیدا کیا تاکہ میر ی شناخت ہو(احادیثِ مثنوی)۔

اس حدیثِ قدسی میں اس بے مثال ولازوال گنجِ ازل کا ذکرِ جمیل ہے جو عارفِ کامل کے لئے عالمِ شخصی کے حظیرۂ قدس میں پنہان رکھا ہوا ہے، یہاں جس تخلیق کا ذکرفرمایا گیا ہے، وہ روحانی اور عقلانی تخلیق ہے، کیونکہ اس کے سوا کوئی شخص حضرتِ ربّ کی معرفت تک رسا نہیں ہوسکتا، اور نہ وہ انمول خزانہ کسی کو حاصل ہو سکتا ہے۔

۶۔ تصوّف کے چار ارکان: تصوّف کی بعض کتابوں میں یہ حدیثِ شریف درج ہے: الشریعت اقوالی، والطریقت افعالی، والحقیقت احوالی، والمعرفت سری۴۷=شریعت میرے اقوال کا نام ہے، طریقت میرے اعمال کا، حقیقت میری باطنی کیفیات کا، اور معرفت میرا راز ہے (روحانیتِ اسلام، ازمولانا الحاج(کپتان)واحد بخش سیال چشتی صابری)۔

 

۸۱

 

۷۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم  سے لوگوں نے پوچھا کہ یا حضرتؐ خدائے تعالیٰ کہاں ہے؟ زمین میں یا آسمان میں؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ایمان والے بندوں کے دل میں ہے۔

حدیثِ قدسی میں ارشاد ہے: نہ میری گنجائش زمین میں ہے نہ آسمان میں، اور میری گنجائش میرے بندۂ مومن کے دل میں ہے۴۸ جو نرم اور ساکن ہو۴۹ (احیاءالعلوم، جلدِ سوم، بابِ اوّل، بیان۶)۔

۸۔ مفرد لوگ آگے بڑھ گئے: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا: مفرد لوگ آگے بڑھ گئے، یا (فرمایا: ) خوشی اور مبارک بادی ہے مفرد لوگوں کے لئے، عرض کیا، مفرد لوگ کون ہیں؟ فرمایا: وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی یاد میں جھومتے رہتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کی یاد پر حریص ہیں۵۰(۔ ۔ ۔ ۔ حضراتِ صوفیہ نے فرمایا:۔ مفرد وہ لوگ ہیں جن کو خداوند کریم کا عشق ہے، ماسوای اللہ سے ان کو کچھ غرض نہیں لغات الحدیث، لفظ فرد)۔

۹۔ عیال اللہ = خدا کی عیال: الخلق عیال اللہ، فاحب الخلقِ الی اللہ من نفع عیال اللہ، وادخل علیٰ اھلِ بیت سرورا۵۱ = مخلوق تمام کی تمام خدا کی عیال ہے، لہٰذا خدا کے نزدیک محبوب ترین شخص وہ ہے جو خدا کی عیال کو نفع پہچائے اور اہلِ بیت کو خوشی دے۔ (میزان الحکمت۔ ۲، ص۳۴۷)

۱۰۔ سب سے زیادہ محبوب شخص: سُئل النبی صلی

 

۸۲

 

اللہ علیہ والہ وسلم عن احب الناس الیہ، فقال: انفعھم للناس۵۲= حضرتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے پوچھا گیا: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب شخص کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جو لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے(مذکورہ کتاب، ص۳۴۷)۔ بحوالۂ کتاب عملی تصوّف، ص۷۲۔ ۷۵۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ ۱۲، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۸۳

 

روح بعد ازموت۵۳

قسط: ۴۴

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: روح المومن بعد الموت فی قالب کقالبہ فی الدنیا۵۴ = مومن کی روح مرنے کے بعد ایک قالب میں رکھی جاتی ہے، جو اسی صورت کا ہوتا ہے جیسے دنیا میں اس کا قالب تھا(صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ دنیا کا قالب کثیف تھا، وہ لطیف اور نورانی ہوتا ہے۔ لغات الحدیث، جلدِ سوم، لفظِ قالب)۔

۱۔ روحِ مومن بحکمِ خدا عالمِ امر سے نورانی رسی کی طرح عالمِ خلق میں اتر آئی ہے، اس کا بالائی سرا اپنی اصل سے واصل ہی ہے، اور زیرین سرا قالبِ عنصری سے وابستہ ہے، روح کی دوسری مثال سیڑھی کی سی ہے جوعالمِ علوی سے عالمِ سفلی تک لگی ہوئی ہے، تیسری مثال پل جیسی ہے جوآخرت اور دنیا کے درمیان ہے، چوتھی مثال میں روح گویا ایک نہر ہے جو چشمۂ بہشت سے لے کر تمہارے بدن تک جاری ہے، پانچویں مثال میں نفسِ کلّی سورج جیسا ہے اور نفوسِ جزوی کرنوں کی طرح ہیں، چھٹی مثال میں سرچشمۂ روح گویا بجلی گھر ہے اور انسان کی روح ایک بلب، جو کسی مکان میں لگا ہوا ہو، اور ساتویں مثال میں عالمِ بالا دارالسطنت ہے، جہاں سے مومن کی روح بڑی اہم

 

۸۴

 

خدمات پر مامور ہو کر دنیا میں آئی ہے، اور اس کے ساتھ ایک وائرلیس (لاسلکی)سیٹ (SET)بھی ہے، مگر افسوس کہ یہ کچھ خراب ہو گیا ہے۔

۲۔ جب سے روحِ لطیف جسمِ کثیف میں آئی ہے تب سے یہ عالمِ علوی کے ساتھ رابطہ نہیں کر پارہی ہے، جس کی وجہ نفسانی کدورتیں ہیں، تاکہ کوئی عالی ہمت مومن مایوس نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ فرائض ونوافل کے راستے پر سعی کرتا رہتا ہے، تاآنکہ ایک نہ ایک دن اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کی دستگیری کرتی ہے، اور وہ خود شناسی اور خدا شناسی میں کامیاب ہو کر اپنے نورانی بدن(جثۂ ابداعی) کو دیکھتا ہے، اور یہ بہت بڑا معجزہ ہے۔

۳۔ خداوندِ مہربان کی قدرتِ کاملہ اور رحمتِ بے پایان میں یہ عجب نہیں کہ مومن زندگی ہی میں اپنی کامیاب اورعارفانہ موت اور جسمِ لطیف کو دیکھے، اور اس کو یہ راز بھی معلوم ہو کہ روحِ مومن کس طرح نورانی قالب میں رکھی جاتی ہے، کیونکہ مومن کی روح اپنی اصل اور کل کی ایک مکمل کاپی(copy)ہے، لہٰذا اس کی اپنی معرفت میں ہر چیز کی معرفت ہے۔

۴۔ روحِ مومن بعد از موت جس قالب میں منتقل ہو جاتی ہے اس کا نام جسمِ مثالی ہے، کیونکہ وہ اگرچہ نورانی اور لطیف ہے، لیکن آج دنیا میں جس شکل کا جسم ہے اسی کی مثال پر ہے، لہٰذا اس کا نام جسمِ مثالی ہوا، آپ اس باب میں قرآنِ حکیم کے کم سے کم حوالہ جات کے لئے دیکھیں: بنی اسرائیل(۱۷: ۹۹)یاسین(۳۶: ۸۱)صٓ(۳۸: ۴۳)ان آیاتِ کریمہ میں اجسامِ مثالی کے لئے لفظ مِثْلَھُمْ آیا ہے۔

۵۔ جسمِ مثالی کا دوسرا نام “خلقِ جدید” ہے، آپ کو یہ نام قرآنِ پاک کے آٹھ مقامات پر ملے گا، خلقِ جدید (نئی پیدائش) جو جسمِ مثالی

 

۸۵

 

ہے، وہ اگرچہ زمانۂ آدمؑ سے بھی قدیم ہے، لیکن پھر بھی جدید ترین ہے، کیونکہ وہ جثّۂ ابداعیہ ہے، اور اس میں شعلۂ چراغ کی طرح تجدّد کا سلسلۂ دائم جاری ہے، اور یہ جاننے کے لئے بڑا عجیب وغریب راز ہے کہ جب چاہے تو دکھائی دیتا ہے اور جب چاہے غائب ہو جاتا ہے، اس کے لئے در و دیوار یا اور کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے۔

۶۔ کتبِ احادیث میں ہے: الارواح جنود مجندہ۵۵ = روحیں جمع شدہ لشکر تھیں۔ اور وہ ہمیشہ اسی طرح سے ہوتی ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے بدل اور اٹل سنت کے مطابق انسانِ کامل ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے، جو نفسِ واحدہ کی مثال اور معرفت کا نمونہ ہوا کرتا ہے، جس کے عالمِ شخصی میں ماضی کی تمام مثالوں کا مظاہرہ ہوتا ہے، تاکہ خزانۂ معرفت ہروقت موجود ہو، اور اس میں ارواح کے دو مخالف لشکروں کی جنگ کے مظاہرہ بھی شامل ہے، جس کا مقصد عالمِ شخصی میں دینی سلطنت کو قائم کرنا ہے۔

۷۔ اسرارِ روح کو سمجھنا کسی مبتدی کے لئے اگرچہ بڑا مشکل کام ہے، لیکن کوئی بھی مشکل ہمیشہ کے لئے مشکل نہیں رہتی ہے، آپ خلوصِ نیت اور صدقِ دل سے اللہ کو یاد کریں اور کمر ہمت باندھ کر خودشناسی کے راستے پر آگے بڑھیں، ان شاء اللہ کامیابی ہوگی۔ آپ کی روح بڑی عجیب و غریب شیٔ ہے، اس کا بالائی سرا اصل سے واصل ہے، پھر سمجھ لیں کہ یہ نفسِ کلّی میں ہے، جس کے توسط سے یہ ہر اعلیٰ مقام تک پہنچی ہوتی ہے، جیسے آپ کا ٹیلیفون جب سیٹلائٹ سے مل جاتا ہےتو اس وقت آپ کی آواز دنیا بھر میں جا سکتی ہے، اسی طرح اگرآپ کی کوئی پاکیزہ دعا صاحبِ عرش کے امرکُن (ہوجا) میں فنا ہوجاتی ہے (۳۵: ۱۰) تو پھر ایسی دعا ساری خدائی میں پھیل سکتی ہے،

 

۸۶

 

کیونکہ فنا فی اللہ، بقا باللہ اور سیر فی اللہ معمولی باتیں نہیں ہو سکتی ہیں۔ بحوالۂ کتاب عملی تصوف، ص۸۵۔ ۸۷۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یومِ شنبہ ۱۳، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۸۷

 

شعوری فنا اور غیر شعوری فنا۵۶

قسط: ۴۵

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ جاننا چاہئے کہ ہر انسان بحدِّ قوت کا ئنات ومشمولات کی ہُو بہ ہو کاپی (COPY) ہے، اسی لئے ہم مانتے ہیں کہ: ’’ایک میں سب ہوتے ہیں‘‘۔ پس اگر کوئی سالک نیک بختی سے فنا فی المرشد، فنا فی الرسولؐ، اور فنا فی اللہ ہو جاتا ہےتو ایسی فنا اس کے حق میں شعوری اور عرفانی ہوتی ہے، مگر ان سب لوگوں کے لئے جو اس سالک میں بشکلِ ذرات موجود ہیں، یہ حالت غیر شعوری فنا ثابت ہو جاتی ہے، اس سے معلوم ہو اکہ شعور کے اعتبار سے فنا دو قسم کی ہوا کرتی ہے، یعنی ایک شعوری فنا ہے اور دوسری غیر شعوری فنا۔

۱۔ غیر شعوری فنا کی پہلی مثال مٹی(جماد) ہے جو نبات میں فنا ہو جاتی ہے، دوسری مثال نبات ہے جو حیوان میں فنا ہو جاتی ہے، اور تیسری مثال حیوان ہے جو انسان میں فنا ہو جاتا ہے، لیکن ان چیزوں میں قطعاً شعور نہیں ہے، اس لئے ان کو نہ اپنی ترقی کی کوئی خبر ہے اور نہ اس سے انہیں خوشی ہو سکتی ہے، جس کی وجہ بس یہی ہے کہ یہ چیزیں غیر شعوری طور پر فنا ہو رہی ہیں کیونکہ ان میں عقل اور علم کی ذرہ بھر بھی روشنی نہیں۔

۲۔ آپ قرآنِ عزیز میں دیکھ لیں کہ بہت سے لوگ ظاہراً انسان ہونے

 

۸۸

 

کے باوصف چوپایوں میں کیوں شمار ہوتے ہیں (۰۷: ۱۷۹، ۲۵: ۴۴)؟ اس لئے کہ وہ حقائق ومعارف کی طرف توجہ نہیں دیتے اور عقل کی نعمتِ عظمیٰ سے کام نہیں لیتے، ان کو انبیاء و اولیاء علھیم السّلام کی کوئی پہچان نہیں، وہ قانونِ فنا کو نہیں جانتے، لہٰذا ان کو کوئی حقیقی خوشی نہیں۔

۳۔ قرآنِ حکیم میں سر تا سر عقل و دانش اور علم وحکمت کی تعریف و توصیف آئی ہے، منجملہ صرف ایک ہی مثال پر اکتفا کرتے ہیں، وہ ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک بہت بڑالقب: “اُلوالالباب” جو قرآنِ حکیم کے ۱۶مقامات میں ہے، جس کے معنی ہیں صاحبانِ عقل، اور عقل والوں کے کیا کیا اوصاف ہیں، ان سب خوبیوں کو آپ قرآن بھر میں دیکھ سکتے ہیں، یہاں نفسِ مضمون سے متعلق اولوالالباب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ حضرات اسرارِ فنا کو جانتے ہیں۔

۴۔ شعوری فنا کی تعریف سے زبان قاصر اور قلم عاجز ہے، اس سلطنتِ بے مثال ولازوال کے فوائد کبھی ختم ہونے والے نہیں، آپ علمُ الیقین کے ذریعے غیر شعوری فنا سے فائدہ حاصل کرنے کی بات کیجئے، کہ تمام انسانوں کے نمائندہ ذرّات ہر نبیؑ اور ہر ولیؑ کے عالمِ شخصی میں موجود ہوتے ہوئے آئے ہیں، یہ تصوّر بڑا ایمان افروز اور روح پرورہے، اور بار بار سمجھنے سے یہ آپ کے علمُ الیقین کا حصّہ بن جاتا ہے، اب آیئے ہم قرآنِ حکیم میں اس کی چند مثالیں دیکھیں:۔

۵۔ سورۂ اعراف(۰۷: ۱۱) میں ہے: اور ہم نے تم کو پیدا کیا پھر ہم نے ہی تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے۔ یعنی خداتعالیٰ نے آپ کو اور ہمیں دیگر تمام

 

۸۹

 

لوگوں کے ساتھ حضرتِ آدمؑ کے عالمِ ذرّ میں بشکلِ ذرّات پیدا کیا، ہم سب اس حال میں ذرّاتی فرشتے تھے، پس ہم سب نے خدا کے حکم سے عالمِ ذرّ میں آدمؑ کے لئے سجدہ کیا جس سے ہماری ترقی ہوئی، اور ہم آگے چل کر خلیفۃ اللہ میں فنا ہو گئے تب خدا نے ہم سب کو عقلی صورت دے کر فرمایا کہ آدمؑ کے لئے اب بارِ دوم سجدہ کرو پس سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔

۶۔ اے عزیزانِ من! قرآنِ پاک میں جو سنتِ الٰہی کی حکمتوں کا مضمون ہے اس کو خوب غور سے پڑھنے اور سمجھ لینے کی ضرورت ہے، اور اس میں یہ جاننا ازبس ضروری ہے کہ باطنی امور کے اعتبار سے اللہ کی سنت(عادت)میں کوئی تبدیلی نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر نبیؑ اور ہر ولیؑ کی روحانیّت میں قصّۂ آدمؑ کے باطنی پہلو کا تجدّد ہوتا رہا ہے تاکہ علم و معرفت کا سرچشمہ کسی کمی کے بغیر ہمیشہ جاری رہے۔

۷۔ حدیثِ شریف ہے: ان للقران ظھراوبطناولبطنہ بطنٌ الیٰ سبعتہ ابطن۔۵۷ بے شک قرآنِ کا ظاہر اور باطن ہے اور اس کے باطن کا ابھی باطن ہے، سات باطنوں تک (مثنوی مولانا روم، دفترِ سوم)۔

حضرتِ نوح علیہ السّلام کی ظاہری کشتی مثال تھی اور باطنی کشتی ممثول، چنانچہ ہم سب لوگ بحالتِ ذرّات ہر پیغمبرؑ کے ساتھ تھے، اور اسی طرح حضرتِ نوحؑ کی روحانی کشتی میں بھی سوار تھے، جیسا کہ سورۂ یاسین (۳۶: ۴۱)میں ارشاد ہے: اور ان کے لئے یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ ہم نے ان کے (روحانی)ذرات کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا۔ یہاں ایک قفلِ حکمت یہ ہے کہ جب کشتی پہلے ہی سے بھری ہوئی تھی تو اس میں مزید سواریوں کے لئے کیسے جگہ پیدا ہو گئی؟حقیقت تو یہ ہے کہ وہ تمام نمائندۂ ذرّات

 

۹۰

 

صاحبِ کشتی میں فنا ہو گئے تھے، اور یہاں یہی اشارہ مقصود ہے۔

۸۔ عالمِ شخصی کے روحانی سفر کے اختتام پر سالک کو فنا فی اللہ ہو جانا ہے، ایسے میں مقامِ فنا کون سا ہو گا؟ عرشِ سماوی؟عرشِ ارضی؟کعبۂ حقیقی؟بیتُ المعمور؟ حظیرۃُ القدس؟ یا وہ عرش جو علم کے پانی پر ہے؟ پس عجب نہیں کہ فنائیں ایک سے زیادہ ہوں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ پانی پر جو عرشِ الٰہی ہے اس کا دوسرانام بھری ہوئی کشتی ہو، کیونکہ اللہ کی ذات صمد ہے، یعنی وہ اس بات سے بے نیاز اور پاک و برتر ہے کہ کوئی شخص اس میں داخل ہوجائے، اور صمد کے معنوں میں سے ایک معنی ٹھوس کے ہیں، اس کا اشارہ یہ ہے کہ ذاتِ خدا میں کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی ہے، پس فنا فی الولی اور فنا فی الرسولؐ کے بعد دیدارِ خداہی بمرتبۂ فنا فی اللہ ہے۔ (بحوالۂ کتاب عملی تصوف اور روحانی سائنس۔ ص۶۳۔ ۶۵)

 

نصیر الدّین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر، ۱۳ستمبر۲۰۰۳ء

 

۹۱

 

غفورٌ رحیمٌ

قسط: ۴۶

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ پاک ارشاد جو حکمتِ بالغہ سے لبریز ہے، سورۂ ابراہیم (۱۴: ۳۶) میں ہے، آپ اسے چشمِ دل سے پڑھ لینا۔ یہ حضرتِ ابراہیمؑ کا قول ہے: فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ-وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔

ترجمہ: پس جس نے میری پیروی کر لی تو وہ یقیناً مجھ سے ہے (یعنی میرا روحانی فرزند ہے)اور جس نے میری نافرمانی کی تو بلاشک تو بہت بخشنے والا بڑا رحم کرنےوالا ہے۔ آپ نے دیکھاحضرتِ ابراہیمؑ امام الناس کا عظیم الشّان قول کہ انہوں نے اپنے تمام نافرمان لوگوں کی کس طرح سفارش کی اور کہا کہ تو بہت بخشنے والا (اور) بڑا رحم کرنے والا ہے۔ اس سے صاحبانِ عقل پر یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ امام الناسؑ اللہ کی طرف سے اس لئے مقرر ہے کہ وہ روحانی قیامت کے ذریعے سے عیال اللہ کو نجات دلائے۔

آپ اس آیۂ کریمہ میں بار بار سوچیں تاآنکہ آپ کو اس حقیقت کا یقین ہوجائے کہ یہ آیت اس سوال کا شافی جواب ہے کہ خلیفۃ اللہ  بیک وقت کس طرح امامُ المتقینؑ بھی ہو سکتا ہے اور امامُ الناسؑ بھی؟

 

نصیرالدّین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)،

یک شنبہ۱۴، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۹۲

 

اسمائے صفات۵۸

قسط: ۴۷

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بابرکت اسمائے صفات سب کے سب ہمیشہ عالمِ انسانیّت ہی کے لئے بے پایان اور لازوال آسمانی خزانےہیں، چنانچہ اللہ جلّ جلالہ کے ہر اسمِ صفت کا خزانہ اپنی نعمتوں کی مسلسل بارش عالمِ انسانیّت ہی پر برسا رہا ہے، جس طرح آفتابِ عالمتاب کا سرچشمہ لگا تار اپنی روشن اور گرم شعاعوں کی بارش برساتا رہتا ہے، بالکل سورج ہی کی طرح دائم الوقت اسمائے الٰہی خدا کی خدائی میں کام کر رہے ہیں۔

سب سے پہلے آغازِ قرآنِ عزیز میں دیکھیں جہاں حضرتِ ربّ نے اپنی ذاتِ پاک کی پُرحکمت تعریف فرمائی کہ وہ ہر ہر عالمِ شخصی یعنی ہر انسان کی بطورِ خاص پرورش کرنےوالا ہے، ربّ العٰلمین کا نظامِ پرورش بڑا عجیب و غریب ہے، یہ نظامِ ربوبیّت عام سے عام تر بھی ہے اور خاص سے خاص تر بھی، پس عالمِ جمادات، عالمِ نباتات، عالمِ حیوانات اورعالمِ انسان کی پرورش درجہ بدرجہ ہے، یقیناً ہر انسان عالمِ صغیر بلکہ عالمِ کبیر ہے، کیونکہ اس میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا موجود ہے۔

اے صاحبانِ عقل و دانش! دیکھو اور خوب سوچو کہ قرآنِ حکیم میں تمام آسمانی کتابوں کا علم جمع ہے، اور قرآن کا تمام علم امُ الکتاب میں جمع ہے،

 

۹۳

 

اور امُ الکتاب کی چوٹی پر عالمِ انسانیّت کی خاص پرورش کا ذکرِ جمیل ہے، کیا اس میں انتہائی عظیم حکمت نہیں ہے؟ ان شاء اللہ العزیز!! بحوالۂ کتاب قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت قسط ۸۳، ص۱۴۷۔ ۱۴۸۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

یک شنبہ ۱۴، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۹۴

 

روحانی قیامت کے فیوض و برکات

قسط: ۴۸

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ روحانی قیامت کے جملہ اسرار ومعجزات اور بے شمار فیوض و برکات اللہ تعالیٰ کے پاک زندہ اسمِ اعظم = امامِ مبین (ارواحنافداہ) کے احاطۂ نور میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روحانی قیامت میں تمام عیال اللہ کو نجات مل جاتی ہے، اور بہت سے نفوسِ انسانی فرشتے ہوجاتے ہیں، اور جن لوگوں سے اللہ کا جیسا وعدہ تھا وہ پورا ہوتا ہے۔

جب آپ نے بموجبِ حدیثِ شریف اس حقیقت کو قبول کر لیا کہ قرآنِ حکیم کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، یقیناً اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن پاک کا ظاہر حجاب ہے، اور باطن محجوب، جس طرح اللہ حجاب سے کلام کرتا ہے (۴۲: ۵۱) جیسے قرآن خود ہی فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ظاہر میں بھی ہیں اور باطن میں بھی(۳۱: ۲۰)الخلق عیال اللہ۵۹ سب سےزبردست پُرحکمت فیصلہ کن فرمان ہے، اس کے بعد صاحبانِ عقل کے لئے اس سلسلے میں کسی اور دلیل کی چندان ضرورت بھی نہیں، تاہم اس زرین موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حقائق ومعارف کو سامنے لانا بڑا مفید کام ہو سکتا ہے، الحمد للہ ربِّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر ۱۵، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۹۵

 

ٹیلی پیتھی۶۰

قسط: ۴۹

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ بحوالۂ کتاب “روح کیا ہے؟” سوال: ۷۱ ٹیلی پیتھی (TELEPATHY) خیال رسانی یعنی اشراق کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟آیا مستقبل میں کبھی اس کی ترقی ہو سکتی ہے؟ کیا اس کا تعلق مذہب سے ہے یا سائنس سے؟

جواب: خیال رسانی(ٹیلی پیتھی)یا اشراق پر میراکامل یقین ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ذات میں بہت سی اعلیٰ صلاحیتیں پوشیدہ رکھی ہیں، اگر ان کو ترقی دے کر بروئے کار لایا جائے، تو آدمی بہت سے حیرت انگیز کارنامے انجام دے سکتا ہے۔ مستقبل میں ٹیلی پیتھی کی ترقی یقینی ہے، میرا نظریہ اصل مذہب اور اصل سائنس کے ایک ہوجانے کا ہے، اس لئے ٹیلی پیتھی دونوں میں مشترک ہے۔

آج مذہب اور سائنس کے درمیان جو دیوار کھڑی ہے وہ صرف الفاظ، اصطلاحات اور زبان کی وجہ سے ہے، کاش سائنس دان قرآنی حکمت کی زبان کو جانتے اور روحانیّت کو سمجھتے! کاش جو باتیں دل میں ہیں وہ ہم زبان پر لاسکتے! کاش کامل انسانوں کے بھیدوں کو سب لوگ جانتے!

آپ اس پُرحکمت آیت میں غورکریں: فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا

 

۹۶

 

(۹۱: ۰۸) مفہوم یہ ہے کہ خدا نے روح کو بدکاری کا بھی اور پرہیزگاری کا بھی الہام کیا۔ مگر اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ اللہ پاک نے یہ کام بذاتِ خود نہیں کیا، کیونکہ وہ اس بات سے بہت ہی منزہ اور برتر ہے کہ کسی کو فسق و فجور کی تعلیم دے، لہٰذا یہ کام مُضِل (شیطان) نے کیا، جو شر کا ذریعہ ہے، اورخدا اس سے بھی پاک و برتر ہے کہ مُضِل کا مدِّ مقابل بن کر کوئی کام کرے، پس اس پادشاہِ مطلق نے ہادیٔ برحقؑ کویہ قدرت دی کہ وہ خیر کاذریعہ بنے اور پرہیزگاری کا الہام کرے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر ۱۵، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۹۷

 

ایک نہایت بابرکت اعتکاف=چلہ۶۱

قسط: ۵۰

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ تقریباً چالیس دن تک اعتکاف یا چلہ اور ترکِ خواب وخور کے بعد جسم میں بڑا انقلاب آیا، اس اثناء میں غذایٔ روحانی عطا ہو رہی تھی، جس کا میں نے دوستوں کو زبانی اور تحریری ذکر کیا ہے، جوطرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں سونگھا دی جاتی تھی، اور یہ کام عالمِ ذرّ کے جنّات انجام دیتے ہیں، یہ جنّات انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات کی شکل میں ہیں، اور ان کی پرواز کی رفتار برق سے بھی زیادہ تیز ہے، وہ آپ کو دنیا کے کسی بھی حصے سے پھولوں، پھلوں، جڑی بوٹیوں اور درختوں کے خوشبودار پتوں کی خوشبو فوراً ہی لے آسکتے ہیں، جس سے آپ کے اندر ایک قسم کا جسمِ لطیف پیدا ہوتا ہے۔

خوشبو روح نہیں بلکہ جسم ہے، اس سے جسم کی غذا ہو جاتی ہے، خصوصاً ایسے جسم کی غذا ہوتی ہے جو کثیف سے لطیف ہو رہا ہو، یعنی وجہ ہے کہ جنّ و پری پہاڑوں اور دشت و بیابان میں رہتے ہیں، کیونکہ ان کو صاف ہوا سے اوکسیجن وغیرہ ملتی ہے، انبیاء واولیاء علیھم السّلام نے بہت پہلے ایسے بے شمار معجزات کا تجربہ کر لیا تھا۔

خدا کی خدائی میں ایک ساتھ دوعالم ہیں: عالمِ خلق اور عالمِ امر، ان دونوں

 

۹۸

 

میں بڑا فرق ہے، وہ یہ کہ عالمِ خلق میں چیزیں دیر سے تیار ہوتی ہیں، مگر عالمِ امر میں اللہ کے “ہوجا” فرمانے سے، یا صرف ایسا ارادہ فرمانے سے مطلوبہ چیز فوراً ہی سامنے آتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمِ امر میں تمام چیزیں ابداعی طور پر ہوتی ہیں، پس ممکن ہے کہ قید خانے کی وہ تمام غذائیں جو طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں جنات لایا کرتے تھے، دراصل ابداعی نعمتیں ہوں، اور یہ میری کمزوری تھی کہ ابداعی معجزات کو اچھی طرح سے نہیں سمجھ رہا تھا۔

چالیس دن تلک میں نے گندم کی روٹی کی شکل تک نہیں دیکھی تھی، ایک دن ایک اجنبی آدمی گندم کی ایک خوبصورت روٹی تھالی میں لے کر آیا اور غائب ہوگیا، کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا، یاد نہیں روٹی تھالی میں توڑی ہوئی تھی یا میں نے خود ٹکڑے ٹکڑے کئے تھے، کھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو روحانی نے منع فرمایا، لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ میں اس معجزے سے شک اور یقین کی کش مکش میں رہا کہ یہ ابداعی معجزہ تھا، یا یہ دنیا کی روٹی تھی؟ لیکن یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ بعض معجزے ناقابلِ یقین باتوں میں ہوتے ہیں، اور اگر کسی معجزے میں شک ہوتا ہے تو اس میں بھی حکمت ہے کہ اس میں لوگوں کی آزمائش ہے۔ بحوالۂ کتاب جماعت خانہ، ص۹۲۔ ۹۳۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

دوشنبہ۱۵، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۹۹

 

ستر ہزار بہشتی کائناتیں

قسط: ۵۱

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ (۵۱: ۴۷) ترجمہ: اور آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور یقیناً ہم ہی البتہ اسے وسعت دینے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کائنات کو پھیلاتا ہے، یا اس جیسی اور کائناتیں بناتا ہے، بہر حال اللہ ہمیشہ تخلیق کرتا ہے۔ اب آئیے عالمِ شخصی کی ستر ہزار کاپیوں یعنی ستر ہزار کائناتوں پر غور کرتے ہیں، کہ امامِ آلِ محمدؐ جو آلِ ابراہیمؑ ہے، وہ خلیفۃ اللہ اور امام النّاس ہے، لہٰذا وقت آنے پر وہ اپنے ایک روحانی فرزند پر باطنی قیامت برپا کر کے اس کو سات رات اور آٹھ دن تک لگاتار اسرافیلی اور عزرائیلی منزل میں رکھتا ہے، اور تاویلاً یہی ذبحٍ عظیم ہے= بہت عظمت والی قربانی (۳۷: ۱۰۷) جس کا ذکر ہو چکا ہے۔

اسی منزل میں سالک کے عالمِ شخصی سے عیال اللہ یعنی تمام لوگوں کیلئے ستر ہزار بہشتی کائناتیں بنائی جاتی ہیں۔ یہ خدا کی خدائی میں نیا کام ہرگز نہیں، بلکہ یہ وہی سنتِ الٰہی ہےجو ہمیشہ سے اللہ کے بندوں میں چلی آئی ہے۔

موتوا قبل ان تموتوا کا فرمانِ عالی عیال اللہ کو نجات دلانے کی غرض سے ہے اور اس میں بے شمار حکمتیں ہیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل۱۶، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۰۰

 

معجزۂ زلزلہ

قسط: ۵۲

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سوالِ معظم عرفانی برائے اضافۂ علم مکنون عزیزانِ روحانی سلمھم اللہ تعالیٰ!

روحانی قیامت کے سلسلے میں جتنے معجزات سامنے آتے ہیں، ان سب کا ذکرقرآنِ عزیز میں موجود ہے، چنانچہ ان معجزات میں معجزۂ زلزلہ بھی کئی بار ہوتا ہے، جس کے قرآنی حوالہ جات یہ ہیں: (۹۹: ۰۱، ۰۲: ۲۱۴، ۲۲: ۰۱)، ایسے سخت گیر معجزات میں عظیم اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں، یہ ظاہری اور مادّی بھونچال ہرگز نہیں، یہ تو باطنی اور روحانی معجزۂ زلزلہ ہے، یہ معجزہ یقیناً سخت گیر ہے، مگر انجام میں زبردست حکمت آگین اور رحمتوں اور برکتوں سے مملو ہے، اور یہ مومنِ سالک کے لئے معجزانہ ریاضت ہے، اور انہی چند آزمائشوں کے بعد حظیرۂ قدس کی بہشت آتی ہے جس کا بارہا ذکر ہو چکا ہے، آپ محولۂ بالا آیاتِ کریمہ کو ترجمہ کے ساتھ پڑھ لیں، تاکہ ان شاء اللہ تاویل کے لئے تیاری ہو سکے۔

آپ واقعاتِ قیامت سے ضرورڈرتے رہیں، ساتھ ہی ساتھ اللہ پر حسنِ ظن بھی رکھیں، یہ حسنِ ظن اللہ کا لطفِ عمیم ہے، تاہم آپ علم وحکمت کے لئے سعیٔ بلیغ کرتے رہیں، آمین! ثم آمین!!

جار جلوۂ اوّل غنمولو زلزلہ ئیڎم ۶۳ = یعنی مجھے دیدارِ اوّل

 

۱۰۱

 

کے موقع پر معجزۂ زلزلہ ہواتھا۔ بحوالۂ کتاب کنوز الاسرار، ص۱۷۷۔ ۱۷۸۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

سہ شنبہ ۱۶، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۱۰۲

 

خزائنِ الٰہی اور عالمِ انسانیّت

قسط: ۵۳

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘-وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (۱۵: ۲۱)۔

ترجمہ: اور کوئی چیز ایسی نہیں مگر یہ کہ ہمارے پاس اس کے خزانے موجود ہیں۔

اس ارشادِ ربّانی میں خاص ذکر انسانوں سے متعلق ہے کہ خزائنِ الٰہی عالمِ انسانیّت ہی کے لئے ہیں، اور بقدرِ علم و عمل بتدریج برکات نازل ہو سکتی ہیں، اور خداوندِ کریم کے ہر ہر خزانے کا دروازہ عالمِ انسانیّت ہی کی طرف ہے۔ بالفاظِ دیگر اللہ تبارک تعالیٰ کے بے پایان خزانے انسانوں ہی کے لئے خاص ہیں۔ خداوندِ کریم کو انسانی روح بہت ہی پیاری ہے، لہٰذا وہ نہایت ہی مہربان روحانی قیامت کی زبردستی سے سب لوگوں کو بہشت میں داخل کر دیتا ہے۔ کیونکہ تسلیم اور رجوع کے طریقے صرف دو ہیں: طوعا یا کرھاً یعنی خوشی سے یا بے اختیاری سے(۰۳: ۸۳)۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۱۷، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۱۰۳

 

روحانی قیامت کا تجدّد

قسط: ۵۴

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ قرآنِ عزیز میں ارشاد ہے کہ ہر چیز ایک فلک(دائرے) میں گردش کرتی ہے(۲۱: ۳۳)(۳۶: ۴۰)۔

حضرتِ حکیم پیر ناصرخسروق س کے دیوانِ اشعار۶۴میں جو بے پایان حشر کا ذکر ہے وہ روحانی قیامت کے بے پایان تجدّد کا ذکر ہے، اللہ تعالیٰ کا ایسا زبردست اور بے مثال نظام اس مقصد کے پیشِ نظر ہے کہ خلیفۃ اللہ = امام النّاسؑ روحانی قیامت کے ذریعے سے تمام اہلِ زمانہ کو بہشت میں داخل کردے، اگر ایسا نہ ہو تو پھر عیال اللہ کے حق میں کیا حسنِ سلوک ہو سکتا ہے؟بہشت کی خلافتیں اور سلطنتیں کس طرح قائم ہو سکتی ہیں؟علم وحکمت سے کماکان حقہ لوگ کس طرح آگاہ ہو سکتے ہیں؟اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفات میں جو خوبیاں ہیں ان کی معرفت لوگوں کو کس طرح ہو سکتی ہے؟

“القرآن ذلول ذووجوہ فاحملوہ علیٰ احسن وجوھم”۶۵ یعنی قرآن بہت ہی رام ہوجانے والی چیز ہے اور وہ متعدد پہلو (وجوہ) رکھتا ہے لہٰذا تم اسے اس کی بہترین وجہ پر محمول کرو، یعنی اچھے سے اچھے پہلو کی حکمت کو یبان کرو۔ الاتقان حصّۂ دوم، ص۴۴۲۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ۱۷، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۰۴

 

طوعاوَّکرھاً=خوشی یا ناخوشی سے

قسط: ۵۵

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ ظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ (۱۳: ۱۵)  ترجمہ: اور جو آسمانوں اور زمین میں ہیں(وہ سب)خوشی یا ناخوشی سے اللہ تعالیٰ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سائے بھی(سجدہ کرتے ہیں)۔

ارشادِ قرآنی کا ترجمہ: کوئی چیز ایسی نہیں جو حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو، لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں(۱۷: ۴۴)۔ ترجمۂ آیت: یقیناً ہر ایک (مخلوق) نے اپنی نماز اور تسبیح جان رکھی ہے(۲۴: ۴۱)۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کلام حکمت نظام کی شہادت ہے، ہر چیز کے ذکر میں سب سے پہلے انسان ہے، عالمِ ذرّ میں ہر چیز موجود ہے، صورِ اسرافیلؑ میں امامِ مبینؑ کے نور کی کارفرمائی کا معجزہ ہے، جس میں عالمِ ذرّ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حمد کے ساتھ ناقوری مناجات کرتا ہے، جیسا کہ مولا علیؑ کا ارشاد ہے: اناالناقور۶۶(۷۴: ۰۸) کتابِ کوکبِ درّی بابِ سوم، پس سب لوگ عالمِ ذرّ میں ذاتِ سبحان کی خاموش تسبیح کرتے تھے، اور ہر روحانی قیامت میں ناقوری مناجات کرتے تھے۔

قرآنِ حکیم میں نام کے بغیر بھی انسان کا ذکر کثرت سے ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات۱۸، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۱۰۵

 

امواجِ نور کا تصوّر۶۷

قسط: ۵۶

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ جیسا کہ اس حقیقت کا ذکر ہوچکا ہے کہ ایک راسخ العقیدت مسلمان کا عقیدہ یعنی ایمان درجۂ کمال پر جا کر نور بن جاتا ہے، اس لئے شروعات کے کسی بھی درجے میں نور کا خیال کرنا، یا امواجِ نور کا تصوّرکرنا ایمان میں سے ہے، یاد رہے کہ وجودِ انسانی میں بے شمار صلاحیتیں پنہان ہیں، ان میں سے قوّتِ خیال و تصوّر کی بہت بڑی اہمیت اس لئے ہے کہ اس کا  تعلق کچھ ترقی کے بعد مشاہدۂ نور سے ہے، چنانچہ امواجِ نور کا تصوّر ایک بیحد مفید شغل(خدا کا دھیان) ہے، اور یہ بڑا اہم شغل علم و حکمت کی روشنی میں طلبِ نور سے متعلق کسی دعائے ماثورہ کے ذریعہ ہونا چاہئے، مثال کے طور پر درج ذیل دعا کو لیجئے، جسے حضرتِ امام جعفر الصادق علیہ السّلام ہر نمازِ فجر کے بعد پڑھا کرتے تھے:۔

اَللّٰھُمَّ اجۡعَل لّیِ نُوۡرَاً فِیۡ قَلۡبِیۡ، وَنُوۡرَاً فِیۡ سَمۡعِیۡ، وَنُوۡرَاً فِیۡ بَصَرِیۡ، وَنُوۡرَاً فِیۡ لِسَانِیۡ، وَنُوۡرَاً فِیۡ شَعۡرِیۡ، وَنُوۡرَاً فِیۡ بَشَرِیۡ، وَنُوۡرَاً فِیۡ لَحۡمِیۡ ،وَنُوۡرَاً فِیۡ دَمِّیۡ، وَنُوۡرَاً فِیۡ عِظَامِیۡ، وَنُوۡرَاً فِیۡ عَصَبِیۡ، وَنُوۡرَاً بَیۡنَ یَدَیِّ، وَنُوۡرَاً مِنۡ خَلۡفِیۡ، وَنُوۡرَاً عَنۡ یَّمِیۡنِیۡ، وَنُوۡرَاً عَنۡ یَّسَارِیۡ، وَنُوۡرَاً مِنۡ فَوۡقِیۡ، وَنُوۡرَاً مِنۡ تَحۡتِیۡ۔۶۸(دعائم الاسلام، جلد اوّل، ذکرالدعابعد الصلوٰۃ)۔

 

۱۰۶

 

ترجمہ: یا اللہ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کر دے، اور میرے کان، آنکھ، اور زبان میں بھی نور بنا دے، میرے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں، اور رگوں میں بھی نور بنا دے، اور میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر، اور نیچے بھی نور مقرر فرما!

مذکورۂ بالا دعائے مبارکہ سے ایک طرف تو یہ پتا چلتا ہے کہ انسانی عقل، روح، اور جسم کی صحت وسلامتی کے لئے نور کی لہروں (امواج) کی کتنی بڑی ضرورت ہے، اور دوسری طرف یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ پُرحکمت دعا اگرچہ شروع شروع میں ایک عقیدہ، امید، اور تصوّر کی حیثیت سے ہے، لیکن آگے چل کر مومن کے حق میں ایک عملی حقیقت بن سکتی ہے، جیسا کہ سورۂ حدید کے ایک ارشاد (۵۷: ۱۲) سے ظاہر ہے کہ نورِ ایمان جب مرتبۂ کمال پرپہنچ جاتا ہے، تو اس وقوت وہ مومنین و مومنات کے آگےاور دستِ راست کی جانب دوڑتا ہے، اور اس حال میں ہر ایسا مومن متذکرۂ بالا دعا کا مصداق بن جاتا ہے، یعنی وہ شش جہت(چھ اطراف) سے امواجِ نور کے گھیرے میں گھرا ہوا ہوتا ہے، کیونکہ سامنے سے ظہورِ نوردرجۂ کمال کی بات ہوتی ہے، اور قرآنِ حکیم کا حکیمانہ اصول یہ ہے کہ اکثر چوٹی کی بات کرتے ہوئے ذیلی اور ضمنی باتوں کا احاطہ کر لیتا ہے۔

جب قرآنِ مجید کہتا ہے کہ: اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے(۲۴: ۳۵) تو اس عظیم الشان حکم سے مجموعۂ کائنات کا تصوّر(جس میں لازماً انسان بھی شامل ہے)اہلِ دانش کے نزدیک ایسا ہوتا ہے، جیسے لوہے کا کوئی گولا دھکتی ہوئی آگ میں سرخ انگارا ہو گیا ہو، اگریہ تصوّر صرف حق الیقین ہی کے مقام پر قابلِ فہم ہو سکتا ہے، تو پھر یوں سمجھ لیجئے کہ نورِ الٰہی ایک بے پایان سمندر ہے، جس میں آسمان زمین کی ہر ہر چیز ڈوبی ہوئی ہے، اور انسان اس میں مچھلی کی طرح تیر رہا ہے،

 

۱۰۷

 

یہ تصوّر عین الیقین سے متعلق ہے، اور ان دونوں مثالوں میں بہت بڑا فرق ہے، کیونکہ جو لوہا آگ میں گرم ہوکر سرخ انگارا ہو گیا ہو، وہ تو ایک طرح سے آگ میں فنا ہو گیا ہے، مگر مچھلی جو پانی میں تیر رہی ہو، وہ پانی کی ذات میں فنا نہیں۔

اب آئیے ہم یہی بات علم الیقین کی روشنی میں کریں، تاکہ مطلب زیادہ سے زیادہ آسان ہو، اس سلسلے میں سب سے پہلے نور کی کیفیت وماہیت کے بارے میں جاننا از بس ضروری ہے، کیونکہ نور صرف وہی روشنی نہیں جو چشمِ باطن کے لئے ہوا کرتی ہے، بلکہ نور کی صورت و فعل حواسِ ظاہر وباطن میں سے ہر حس کی ضرورت کے مطابق ہے، جس کی ایک چھوٹی سی مثال پاور ہاؤس (POWER HOUSE) یعنی بجلی گھر سے دی جا سکتی ہے، کہ پاورہاؤس شہر کے لئے صرف روشنی ہی مہیا نہیں کرتا، بلکہ وہ اور بھی ضروری اور مفید کاموں کو انجام دیتا ہے، چنانچہ قلب یعنی دل و دماغ کے لئے جس نورِ ہدایت کی ضرورت ہے، وہ عقل ودانش اور علم وحکمت جیسی کیفیات میں ہے، ظاہری اور باطنی کان کے لئے جو نور مقرر ہے، وہ بابرکت آواز کی مختلف حیثیتوں میں ہے، بصارت اور بصیرت کا نوربیشک روشنی ہے، جس کا تعلق مشاہدے سے ہے، اور زبان کے واسطے جو نور ہونا چاہئے، وہ ایک غیر معمولی قوّتِ گویائی کی کیفیت میں ہے، یہ امواجِ نور کا قصّہ ہو رہا ہے۔

مذکورۂ بالا دعائے نور کے مستند و پُرحکمت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں، اور یقیناًیہ زبردست مربوط ومنظم اور جامعیت و کاملیت کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے، جس میں بحیثیتِ مجموعی عقل، جان، اور جسم کی صحت و سلامتی مطلوب و مقصود ہے، اب یہاں ایک بڑا اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا آدمی کے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں اور رگوں کے لئے بھی الگ الگ انوار کی ضرورت پڑتی

 

۱۰۸

 

ہے؟ جی ہاں، کیوں نہیں، جبکہ بدن کے ان اجزاء میں سے ہر ایک کی بناوٹ، فعل، اور ضرورت جدا اور مخصوص ہے، چنانچہ بال انسانی جسم میں روحِ نباتی موجود ہونے کی نمایان علامت ہیں، پس روحِ نباتی ذاتی طور پر نورِ ہدایت کی محتاج ہے، کیونکہ اسے پورے بدن میں صحت و صفائی سے کام کرنا ہے، نیز کچھ مواد کو بالوں کی شکل میں اگا دینا ہے، علاوہ ازین اس میں علمِ نباتات (BOTANY) کی طرف بھی اشارہ ہے۔

کھال یا جلد کے واسطے جو نور مقرر ہے، اس کا تذکرہ بے حد دلچسپ ہے، چنانچہ اس نور کی امواج میں سے ایک موج انسانی جلد کے بیرونی حصّے میں منجمد ہو گئی ہے، یہ نورِ منجمد خصوصاً چہرے پر پایاجاتا ہے، اور اگر چہرے کا یہ نور نہ ہوتا، تو پھر آدمؑ و آدمی کو صورتِ رحمان سے کوئی نسبت ہی نہ ہوتی، جب بندۂ مومن قرآن اور اسلام کی کسی خوشخبری سے شادمان ہو کر مسکراتا ہے، تو آپ سمجھ لیجئے کہ اس کے چہرے پریہ ایک نورانی لہر ہے، اگر وہ دین کی فکر وغمخواری میں سنجیدہ ہو جاتا ہے، تو یہ نور کی دوسری موج ہے، اور اگر کوئی نیک بخت عشقِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اور روحانی ترقی کی خاطر اشک ریز ہو جاتا ہے، تو یہ نور کی تیسری موج ہے، جو بڑی زبردست ہے، اور اس سے ایک انفرادی انقلاب آنے کی توقع ہوسکتی ہے، اس کے علاوہ آپ سورۂ زمر (۳۹: ۲۳) میں دیکھ لیں، تاکہ جلدی نور کے معجزات پر یقین ہو، اور ظاہری وباطنی شفاء کی دولت حاصل ہو سکے(۔ ۔ ۔ سلسلہ جاری ہے)۔ بحوالۂ کتاب العلام، قرآنی علاج، ص۱۸۵۔ ۱۸۹

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

پنج شنبہ ۱۸، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۰۹

 

امواجِ نور کا تصور۶۹

(سلسلۂ جاری از مقالۂ گزشتہ)

قسط: ۵۷

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ گوشت جسمانی طاقت کااصل سرچشمہ ہے، لہٰذااس کو نورِ ہدایت چاہئے، تاکہ وہ ہر شر و بدی اور بیماری سے محفوظ و سلامت رہے، اور اس میں صبر و عبادت اور نیکی کا رجحان ومیلان پیدا ہو، بندۂ حق پرست کے گوشت میں نور کی لہریں دوڑنے کی کئی علامات ہیں، جیسے یکایک کسی روحانی کرنٹ (CURRENT)  کا احساس، ذکرِ الٰہی اور یقینی علم کی باتوں کے اثر سے وجد و مستی یا رقّتِ قلبی کا غلبہ، عشقِ خداوندی سے مست وسرشار ہوجانا، اور کامیاب ذکرِ کثیر کے نتیجے میں زلزلۂ طہور کا آنا، جو ایک بدنی معجزہ ہے، جس کا ذکر قرآنِ پاک کے پانچ مقامات پر ملتا ہے، یہ نورِ متلاطم منزلِ عزرائیلی اور بھر پور روحانیّت سے بہت پہلے آتا رہتا ہے، جبکہ کوئی درویش یا صوفی کثرتِ ذکر کے بعد نیم خوابی کی حالت میں لیٹا ہوا ہوتا ہے، یہاں یہ بھی یاد رہے کہ گوشت عالمِ شخصی (عالمِ صغیر) کی مٹی اور زمین ہے، جلد اس کی سطح ہے، بال اس کی نباتات، خون اس کا پانی، رگیں پانی کی راہیں (یعنی ندیاں، نہریں، وغیرہ) ہیں، اور ہڈیاں پہاڑوں کا حکم رکھتی ہیں۔

ایک انتہائی ضروری اور پُرحکمت مثال: پن چکی میں گندم کس طرح پِس کر آٹا بن جاتا ہے؟ چکی کا پاٹ اپنے وزن کے ساتھ گھوم گھوم کر اس کو پیستا ہے،

 

۱۱۰

 

پاٹ کوکیا چیز گھماتی رہتی ہے؟ وہ مشینری جو اس کے نیچے لگی ہوئی ہے، اس مشینری کی محرک طاقت کیا ہے؟ آبشار جو چرخے (پہیا = گراری)پر گرتا رہتا ہے، آبشار کو کون دھکیل رہا ہے؟ نہر کا پانی، نہر کے پانی کا سبب کیا ہے؟ ندی کا پانی، ندی کا ذریعہ کیا ہے؟ پہاڑی ذخائرِ آبی، ان کے اسباب کیا ہیں؟ برف و باران، بادل، سمندر اور سورج، سورج کے اس عجیب و غریب فعل کا سبب کیا ہے؟ عالمگیر روح (نفسِ کلی = روحِ اعظم) کا وہ مسلسل دباؤ، جو کائنات پر پڑتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے مرکزِ عالم کا ایتھر (ETHER) تحلیل ہو کر ایک روشن گیس بن جاتا ہے، جس کو سورج کہتے ہیں، روح الارواح یا نفسِ کلّی یہ کام کس کے حکم سے کررہا ہے؟ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے، پس اس مثال سے یہ قانون ظاہر ہو گیا کہ خدا مسبب الاسباب (سبب پیدا کرنے والا) ہے، یعنی اللہ نے ہر کام کی تکمیل کے لئے کئی کئی اسباب پیدا کر دیئے ہیں، کہ اس سلسلے میں ایک سبب کے پیچھے دوسرا بڑا سبب نظر آنے لگتا ہے، تا آنکہ اہلِ بصیرت کو اسبابِ اعلیٰ اور حضرتِ مسبب کا یقین آتا ہے۔

مذکورۂ بالا مثال کا مقصد یہ ہے کہ علاج وشفاء کے تمام جسمانی اور روحانی اسباب و وسائل خدا نے بنائے ہیں، لیکن اس میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ہم کس طرح خدا کو زیادہ سے زیادہ یاد کرسکتے ہیں، اور کس ذریعے سے اس کو پہچان سکتے ہیں، تاہم اس حقیقت کے باؤجود خداوندِ تعالیٰ کی رحمتِ عمیم اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہر شخص اپنی علمیّت  و رسائی کے مطابق جملہ اسباب میں سے کسی بھی سبب سے کام لے سکتا ہے۔

خون کی حرکت وگردش کے واسطے نور کی مسلسل لہروں کی ضرورت اس لئے ہے کہ ان نورانی موجوں کے بغیر نظامِ دورانِ خون باطنی صحت کے

 

۱۱۱

 

موافق نہیں چل سکتا ہے، جس کی ظاہری مثال یہ ہے کہ پانی جس طرح ایک دائرے پر گردش کر رہا ہے، وہ نورِ آفتاب کی طاقت و توانائی کی وجہ سے ہے، جیسے دریاؤں کا سمندر سے جا ملنا، سمندر سے بخارات، بخارات سے بادلوں کا وجود میں آنا، اور پھر بارش کا سلسلہ، یہ سب کچھ مادّی نور کی بدولت جاری ہے، اسی طرح نورِ باطن کی امواج کی مدد سے خون انسانی جسم میں کسی خرابی اور بیماری کے بغیر چل سکتا ہے، عالمِ شخصی کا سورج دل ہے، لیکن دعائے نور کی حکمت یہ کہتی ہے کہ یہ بات اس وقت درست ہو سکتی ہے، جبکہ دل میں نور ہو۔

ہڈی میں بھی کوئی مرض ہو سکتا ہے، لہٰذا اس کے سدِ باب کے طور پر یا علاج کے طور پر نورِ صحت وشفا مطلوب ہے، کامل انسانوں پر جیسے نور کی بیشمار معجزات  گزرتے ہیں، ان میں ہڈیوں سے متعلق عظیم الشّان معجزہ یہ ہے کہ وہ عالمِ شخصی کے پہاڑوں کی حیثیت سے انسانِ کامل کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں، جس کی مثال حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں موجود ہے (۲۱: ۷۹، ۳۴: ۱۰، ۳۸: ۱۸) اس کے علاوہ پیشانی کی ہڈی عالمِ صغیر کا کوہِ طور ہے، جو حق الیقین کا مقام ہے، جہاں معجزات ہی معجزات ہیں۔

رگوں کی اہمیت یہ ہے کہ وہ آبی راہوں کی مثال ہونے کے علاوہ مواصلات کی طرح بھی ہیں، جن کے ذریعے سے دل و دماغ کا ہر پیغام اور حکم تمام بدن کے خلیّات (CELLS) اور اجزاء کو موصول ہوتا رہتا ہے، پس ضرورت اس بات کی ہے کہ قلب میں نور کا ایک سرچشمہ پیدا ہو، تاکہ رگوں کے ذریعہ سارے جسم میں نور کی صحت بخش لہریں دوڑتی رہیں، اس مقصد کے حصول کے لئے قرآنی ہدایت کے مطابق کثرت سے خدا کو یاد کیا جاتا ہے، کیونکہ دینی احکام

 

۱۱۲

 

پر عمل کرتے ہوئے شب و روز علم الیقین کی روشنی میں قلبی عبادت کرنے سے خودبخود امواجِ نور کا تصوّر ہوجاتا ہے، جس میں عقل وجان اور جسم کی صحت کا راز مضمر ہے۔ بحوالۂ کتاب العلاج، قرآنی علاج، ص۱۸۹۔ ۱۹۲

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ ۱۹، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۱۱۳

 

عملی تصوف

علم و عمل کی افضلیت ۷۰

قسط: ۵۸

 

خورشیدِ عیان عالمِ جان علم وعمل ہے

معمارِ جہان گنجِ نہان علم و عمل ہے

تحقیق یہی ہو گئی ہے فکر و نظر سے

سرمایۂ اقوامِ جہان علم و عمل ہے

یہ خاصۂ انسان ہے یہ فضلِ خدا ہے

عزت کے لئے روحِ روان علم و عمل ہے

پتھر کی نہ قیمت ہے نہ سودا کبھی ہوگا

بس بیش بہا گوہرِ کان علم و عمل ہے

فردوسِ برین جانِ چمن چہرۂ جانان

درعالمِ دل جلوہ کنان علم و عمل ہے

ہے اشرف و اعلائے خلائق وہی انسان

ہوجائے اگر اس سے عیان “علم و عمل” ہے

 

۱۱۴

 

جو چیز سدا باعثِ صد فخر و خوشی ہے

وہ میوۂ دل راحتِ جان علم وعمل ہے

اک بھید ہے اس عالمِ شخصی میں بڑا سا

وہ سرِ ازل رازِ جنان علم و عمل ہے

اک نغمۂ قدسی ہے نہان ذاتِ بشر میں

وہ زمزمۂ پیروجوان علم و عمل ہے

علیین میں اک زندہ کتاب بول رہی ہے

وہ معجزۂ شرح و بیان علم وعمل ہے

کچھ اورخزانہ نہیں مطلب نصیراؔ!

دنیا میں فقط گنجِ گران علم و عمل ہے

 

(ازکتاب عملی تصوف اور روحانی سائنس، ص۱۵۱)

گزشتہ تاریخ: ۳۰جون ؁۱۹۹۵ءکراچی

موجودہ تاریخ: جمعہ۱۹ ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۱۵

 

عملی تصوف

انسان کے گونا گون اوصاف

قسط: ۵۹

 

سرِّ یزدان ہے تو انسان ہے

گنجِ پنہان ہے تو انسان ہے

حاصلِ معرفت حقیقتِ روح

رازِ قرآن ہے تو انسان ہے

زبدۂ کائنات و اشرفِ خلق

جان و جانان ہے تو انسان ہے

صورتِ علم و پیکرِ حکمت

جان و عرفان ہے تو انسان ہے

بانیٔ دین و کافر ِ مطلق

کفرو ایمان ہے تو انسان ہے

عالمِ برزخ و جہیم وجنان

حوروغلمان ہے تو انسان ہے

جس کو سجدہ کیا فرشتوں نے

نورِ رحمٰن ہے تو انسان ہے

 

۱۱۶

 

نازنین و حسین وسروبدن

ماہِ کنعان ہے تو انسان ہے

شاہِ وحش و طیور و جن و پری

گرسلیمانؑ ہے تو انسان ہے

عامۃ الناس تا ولیؑ و نبیؐ

نوعِ انسان ہے تو انسان ہے

رندِ بے باک وصوفیٔ صافی

ریب و ایقان ہے تو انسان ہے

دہری و بت پرست و صاحبِ دین

یا مسلمان ہے تو انسان ہے

حسنِ روئے جہان و جلوۂ جان

کونِ امکان ہے تو انسان ہے

اوّل و آخر و عیان و نہان

ملک و سلطان ہے تو انسان ہے

گرچہ یہ راز ہے کہ جن و ملک

یا کہ شیطان ہے تو انسان ہے

الغرض اس بقائے کلّی کا

بحرِ عمان ہے تو انسان ہے

منقسم ہے بقا مدارج میں

ان کا پایان ہے تو انسان ہے

 

۱۱۷

 

یا بقا فی المثل ہوئی شب و روز

اس میں گردان ہے تو انسان ہے

فانی و باقی و عتیق و جدید

ذکرونسیان ہے تو انسان ہے

وہ کہیں نور ہے کہیں ظلمت

راہ و رہدان ہے تو انسان ہے

وہ کہیں رنج ہے کہیں راحت

درد  و  درمان ہے تو انسان ہے

ہے حقیقت یہی بقولِ نصیرؔ

سرِّ یزدان ہے تو انسان ہے

 

(از کتاب جواہرِ حقائق، ص۳۶۔ ۳۸)

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

موجودہ تاریخ: جمعہ۱۹، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۱۸

 

قرآن اور روحِ انسان

قسط: ۶۰

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ دہر (۷۶: ۰۱) کا بابرکت اور پُرحکمت ارشاد ہے: هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْــٴًـا مَّذْكُوْرًا۔ ترجمہ: کیا انسان پر دھر میں سے (بطورِ تجدّد) وہ وقت آیا ہےجس میں وہ بے نام ونشان تھا؟(یعنی فنا فی اللہ تھا)=یہ کس کی بات ہو رہی ہے ؟ ج: آپ دیکھتے ہیں کلامِ الٰہی میں انسان کا سب سے اعلیٰ مقام فنا فی اللہ ہے، اور وہ بھی تجدّد میں (یعنی بار بار) آپ اس دریافت کو تاویل کہیں یا معرفت، یا روحانی سائنس، یہ اسرار دنیا کی کسی کتاب میں آ ج سے پہلے درج نہیں ہیں، یہ انتہائی مشکل تاویل صرف اور صرف امامِ آلِ محمدؐ کے پاس ہے، مجھے یعنی درویش کو امامِ زمانؑ (ارواحنا فداہ) کے حضورِ باطن سے علم و حکمت کا صدقہ ملتا ہے۔ اگر دنیا میں کوئی شخص ہو تو اسے مایوس انسانیّت کی کوئی خدمت کرنی ہوگی، میرا خیال ہے کہ بہت سے لوگ روحانی مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں، اس کے علاج کے لئے کوئی گولی نہیں ہے، مگر حقیقی عبادت، علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین۔

یہ ارشاد مشہور ہے: جس نے اپنی روح کو پہچان لیا، اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ میں اس کی یہ تاویل کرتا ہوں کہ ایسا شخص تمام انسانی

 

۱۱۹

 

روحوں کو بھی پہچانتا ہے، کیونکہ روح ایک ہی ہوتی ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔ آئی)

سنیچر۲۰، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۲۰

 

قرآن اور روحِ انسان

قسط: ۶۱

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ انعام (۰۶: ۹۴) کی مبارک ارشاد ہے: وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ تَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْۚ (الخ)۔

تمہید: ہر روحانی قیامت میں قانونِ لفیف (۱۷: ۱۰۴) کے مطابق ایک نفسِ واحدہ ہوتا ہے، جس میں تمام انسانی روحیں جمع یا فنا ہوتی ہیں، ایسے میں یہ نفسِ واحدہ آخراً فرد (اکیلا) کہلاتا ہے، جس کی جمع فُردٰی ہے۔

چونکہ مذکورہ آیۂ شریفہ ایک کلیہ ہ، لہٰذا اس کا خطاب ایک ساتھ تمام روحانی قیامات سے ہے۔

ترجمہ: اور یقیناً تم ہمارے پاس فرداً فرداً آئے ہو، یعنی تم سب اپنے اپنے نفسِ واحدہ میں فنا اور فرد فرد ہو کر آئے ہو، جیسا کہ ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا، یعنی آدمؑ = نفسِ واحدہ میں اور جو کچھ ہم نے تمہیں دیا تھاوہ تم اپنی پیٹھ کے پیچھے چھوڑ آئے ہو۔

اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہر روحانی قیامت میں سب لوگ نفسِ واحدہ میں فنا ہو کر حظیرۂ قدس میں فنا فی اللہ ہوجاتے ہیں۔

پس یہ سورۂ دہر ہی کی طرح انسان کا سب سے اعلیٰ مقام ہے،

 

۱۲۱

 

اور یہاں بھی فنا فی اللہ کا تجدّد ہوتا ہے۔ الحمد للہ علیٰ منہ واحسانہ۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار۲۱، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۲۲

 

قرآن اور رورحِ انسان

قسط: ۶۲

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قرآنِ حکیم کے بہت سے مقامات پر عظیم الشان حکمتوں کے مراکز ہیں، ان میں سے ایک مرکز سورۂ حشر کے آخری رکوع میں ہے:۔

هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰىؕ-یُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ (۵۹: ۲۴)

ترجمہ: وہ اللہ تعالیٰ ہے پیدا کرنے والا، ایجاد کرنیوالا، صورتیں بنانے والا(یعنی حظیرۂ قدس میں انسانی روحوں کو صورتِ رحمان عطا کرنےوالا ہے) اسی کے اسمائے عظام ہیں، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اسی کی تسبیح کرتا ہے، اور وہ زبردست بڑا حکمت والا ہے۔

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۰۶) میں ارشاد ہے: هُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُكُمْ فِی الْاَرْحَامِ كَیْفَ یَشَآءُؕ (الخ)= وہی اللہ تعالیٰ ہے جو جس طرح چاہتا ہے رحموں کے اندر تمہاری صورتیں بناتا ہے۔ اس آیۂ کریمہ سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوئی کہ انسان کو جسمانی صورت رحمِ مادر میں عطا ہوتی ہے، پس مذکورۂ بالا آیۂ شریفہ میں الخالق پہلے، اس کے بعد الباری اور پھر المصور ہے، لہٰذا المصور کے معنی ہیں: حظیرۂ قدس میں انسانی

 

۱۲۳

 

روحوں کو رحمانی صورت عطا کرنے والا۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار۲۱، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۲۴

 

قرآن اور روحِ انسان

قسط: ۶۳

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ صحیح بخاری، جلدِ دوم، کتاب الانبیاء میں ہے: پس جو کوئی بھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدمؑ کی شکل و صورت میں داخل ہو گا۔ صحیح مسلم، جلدِ ششم، کتاب الجنۃ میں ہے: خلق اللہُ عزوجل اٰدم علیٰ صورتہ=اللہ جل جلالہ نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ یہ تخلیق نہ جسمانی ہے اور نہ روحانی بلکہ حظیرۃ القدس(جنت) میں عقلانی ہے، جو بھی اس میں داخل ہو جاتا ہے وہ اپنے باپ آدمؑ کی شکل و صورت میں ہوتا ہے، اور آدم علیہ السّلام کو اللہ نے اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا تھا۔

صور=صورتیں=تماثیل=زندہ تصویریں=ھیکلِ نورانی:۔

حدیثِ سے پہلے یا اس کے ساتھ قرآنی شہادت بھی ہو تو زیادہ حکمت ہو سکتی ہے، چنانچہ سورۂ سبا (۳۴: ۱۳) میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے لئے جنّات تماثیل (تصویریں) بناتے تھے، زبردست دلچسپ اور بیحد خوشی کی بات ہے کہ یہ تماثیل خود سلیمانؑ کی روحانی = نورانی کاپیاں ہیں، جو نبوّت، امامت، خلافت اور سلطنت کا مالک تھا، پس اے

 

۱۲۵

 

نورِ عینِ من! آج دنیا میں تم “فنا فی الامامؑ” کا مرتبہ حاصل کرو، تاکہ کل بہشت میں سلیمانِ زمانؑ کی ایک حقیقی کاپی، تاویلاً صورتِ رحمان ہونے کی سعادت نصیب ہو! ان شاء اللہ !!(بحوالۂ تاویلی انسائیکلوپیڈیا=ہزار حکمت ح۵۱۶، ص۲۹۶) جنات سے فرشتے مراد ہیں، صورتِ رحمان کی تاویل فنا فی الامامؑ ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر۲۲، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۲۶

 

عیال اللہ۷۷

قسط: ۶۴

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ازکتاب صنادیقِ جواہر، سوال۵۲۸، ص۳۸۳: ۔

سوال: دعائم الاسلام، جلدِ ثانی، کتاب العطایا، ص۳۲۰ پر یہ حدیثِ شریف ہے: (ترجمہ) مخلوق(گویا) خدا کا کنبہ ہے، اور لوگوں میں خدا کو سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اس کے کنبے کو فائدہ پہنچاتا ہے، اور اس کے اہلِ بیت کو خوش کر دیتا ہے، اور ایک مسلمان بھائی کے کسی ضروری کام میں ساتھ چلنا خدا کے نزدیک دو ماہ تک خانۂ کعبہ میں اعتکاف کرنے سے زیادہ پسند ہے۔ اس میں کیا کیا حکمتیں ہو سکتی ہیں؟

جواب:(۱) آنحضرتؐ کے اس مبارک ارشاد میں عجیب وغریب انقلابی حکمتیں ہیں،  چنانچہ یہاں سے معلوم ہوا کہ خداوند تعالیٰ اپنی مخلوق سے بہت محبت رکھتا ہے۔

۲۔ اہلِ بصیرت کے لئے یہ حقیقت روشن ہے کہ خلائقِ جہان اپنی اس مخلوق کو جو انسان کے نام سے ہے، کبھی ضائع نہیں کرے گا۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

دوشنبہ۲۲، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۲۷

 

عملی تصوّف

ایک تازہ جہان

قسط: ۶۵

 

عارف نے سنو دل میں ایک تازہ جہان دیکھا

ہے جس کی طلب سب کو وہ گنجِ نہان دیکھا

یہ رازِ نہانی ہے اور رب کی نشانی ہے

آئی ہے جہاں سے جان وہ عالمِ جان دیکھا

ہاں نورِ ازل ہے وہ اور سرِ ابد ہے وہ

واں سب سے نہان دیکھا یاں سب سے عیان دیکھا

اسرارِ کتاب اللہ انواردلِ عارف

قرآنِ مقدس میں اک گنجِ نہان دیکھا

جب آنکھ کھلی دل کی اسرار نظر آئے

حیرت زدہ ہوں بیحد جب گوہرِ کان دیکھا

میں اس میں؟کہ وہ مجھ میں؟یہ سرِّ قیامت ہے!

ہاں برقی بدن میں تھاجب شاہِ شہان دیکھا

جب برق سوارآیا تب باب کھلا از خود

میں مرکے ہوا زندہ جب شاہِ زمان دیکھا

 

۱۲۸

 

عشاق سے میں اس کے قربان مسلسل ہوں

روحانی قیامت میں جب جانِ جہان دیکھا

اشعارِ نصیریؔ میں اسرارِ نہانی ہیں

شاید کہ کبھی اس نے وہ نورِ قرآن دیکھا

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

گزشتہ تاریخ: ہفتہ۲۶، مئی۲۰۰۱ء

موجودہ تاریخ: پیر۲۲، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۲۹

 

روحانی قیامت اور فرشتوں کا نزول

قسط: ۶۶

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم.سورۂ حٰمٓ السجدۃ، (۴۱: ۳۰ تا ۳۲)۔ اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰئِكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ، نَحْنُ اَوْلِیٰوْكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي اَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُونَ، نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ۔

ترجمہ اور تفسیر و تاویل: یقیناً جن لوگوں نے حقیقی معنوں میں خدا شناسی سے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے، پھر انہوں نے خلیفۃ اللہ (امامِ زمانؑ) سے اسمِ اعظم حاصل کر کے روحانی قیامت کی خصوصی ریاضت کی، اور اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیابی عطا فرمائی، تو ان پر روحانی قیامت کے فرشتے نازل ہوتے ہیں، یعنی اپنے لشکر کے ساتھ اسرافیلی علیہ السلام اور اپنے لشکر کےساتھ عزرائیل علیہ السّلام، وغیرہ، اور ایسے لوگوں پر روحانی اور باطنی قیامت قائم ہوتی ہے، جس کےبارے میں آپ نے کئی مضامین میں پڑھا ہو گا۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۲۳، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۳۰

 

روحانی سائنس کے عجائب وغرائب۷۹(۱)

قسط: ۶۷

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ آج سے تقریباً چودہ سو (۱۴۰۰) سال قبل قرآنِ پاک نے بڑے واضح الفاظ میں یہ پیش گوئی فرمائی تھی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ لوگوں کو آفاق و انفس میں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھانے کا سلسلہ شرو ع کرے گا (۴۱: ۵۳) چنانچہ ہم کسی شک کے بغیر یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی وہ نشانیاں یا عجائب و غرائب آج مادّی سائنس اور اس کے ایجادات کی شکل میں لوگوں کے سامنے ظاہر ہیں، اور قدرتِ خدا کی یہی نشانیاں کل بحیثیتِ روحانی سائنس عالمِ شخصی میں ا پنا انتہائی حیرت انگیز کام کرنے والی ہیں۔

اگر قادرِ مطلق کی ظاہری ومادّی نشانیوں کو سائنس کا نام دیا جا سکتا ہے تو یقیناً اس کی باطنی و روحانی نشانیوں کو روحانی سائنس کہا جاسکتا ہے، کیونکہ آفاق و انفس اور ان میں ظہور پذیر ہونے والی آیات سب کی سب خدا ہی کی ہیں، تاہم ان آیات اور اس سائنس کی بہت بڑی اہمیّت وفضیلت ہوگی، جس کے حیران کن معجزات عالمِ شخصی میں رونما ہونے والے ہیں، کیونکہ انسان کا مرتبہ تمام کائنات وموجودات سے ارفع و اعلیٰ ہے۔

روحانی سائنس کے عظیم الشّان ظہور سے متعلق قرآنِ حکیم کی یہ پُرحکمت پیش گوئی عوام النّاس اور اکثریت کی نسبت سے فرمائی گئی ہے، ورنہ حضراتِ انبیاء و اولیاء علیھم السّلام اور عارفین وکاملین کے نزدیک روحانی سائنس انسانی تاریخ

 

۱۳۱

 

کی ابتدا ہی سے اپنا کام کرتی چلی آئی ہے، جس کی مثالیں کتبِ سماوی میں بکثرت ملتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ روحانی ترقی کی بدولت روحِ اعظم کے عظیم اسرار سے ہمیشہ استفادہ کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ خواجہ حافظ کا یہ مشہور شعرہے:۔

فیض روح القدس اربازمدد فرماید

دیگر ان ہم بکنند آنچہ مسیحا میکرد

روح القدس کا فیض اگر پھر سے مدد فرمائے، تو دوسرے لوگ بھی ایسے معجزے کریں گے جیسے حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کرتے تھے۔

اگر آج مجھ ایسا ایک ناچیزعام آدمی روحانی سائنس کے بھیدوں سے بحث کر رہا ہو تو ضروری طور پر آپ یوں سمجھ لیجئے کہ اب وہ بابرکت زمانہ آرہا ہے جس میں مذکورۂ بالا قرآنی پیش گوئی کے مطابق خاص روحانی سائنس عوام کی خاطر عام ہونے والی ہے تاکہ حقیقی معنوں میں عالمِ انسانیّت کی مادّی، اخلاقی، اور روحانی ترقی ہو سکے، سائنس کا عظیم الشّان انقلاب نہ آجائے تب تک دنیا والوں کے یہ تمام سخت پیچیدہ مسائل ختم نہیں ہو سکتے، اور نہ ہی سیّارۂ زمین کی غربت وجہالت کا خاتمہ ہوسکتا ہے، کیونکہ صرف روحانی سائنس ہی ہے جس میں پروردگارِ عالمین نے تمام لوگوں کے لئے بیحد و بے حساب علمی برکتیں رکھی ہیں، جس کی ایک روشن مثال مادّی سائنس ہے جس کی وجہ سے دنیا کی ظاہری ترقی ہوئی ہے۔

خدا ئے بزرگ و برتر نے ارض و سماء کی جملہ اشیاء کو انسان کے لئے بحدِّ فعل یا بحدِّ قوّت مسخر بنا دیا ہے، اس عظیم ترین احسان کا ذکر قرآنِ پاک کی متعدد آیاتِ کریمہ میں آیا ہے، اس ربّانی تعلیم میں ظاہری وباطنی دونوں قسم کی سائنس کی طرف بھر پور توجہ دلائی گئی ہے، اب ہم سطورِ ذیل میں روحانی سائنس کی بعض ایسی

 

۱۳۲

 

اہم اور عجیب وغریب چیزوں کا ذکر کر دیتے ہیں جن کا کسی ادارے کو مشاہدہ اور کسی حد تک تجربہ ہو چکا ہے:۔

سب سے پہلے اس بے مثال حقیقت کی تصدیق کی جاتی ہے کہ انسان نہ صرف عالمِ شخصی (عالمِ صغیر) ہی ہے، بلکہ یہ خدا کی خدائی میں واحد روحانی عجائب گھر بھی ہے، اس عجائب خانۂ قدرت میں بیحد و بے حساب زندہ اور بولنے والے عجائب وغرائب موجود ہیں، منجملہ یہاں طرح طرح کی پُرحکمت مثالوں میں محیط ذی حیات ذرات پائے جاتے ہیں، یہ آپ کو نہ صرف یاجوج وماجوج اور روحانی لشکر کی حیران کن مثال پیش کر سکتے ہیں، بلکہ عالمِ ذرّ سے متعلق تمام عرفانی اسرار کا عملی مظاہرہ کرنا بھی انہی کا کام ہے، چنانچہ جسمِ لطیف اور روح پر مبنی ان چھوٹے چھوٹے لاتعداد ذرّات کا انوکھا قصّہ بڑا طویل ہے۔

اس سلسلے میں یہ بھی بتا دینا ضروری ہے کہ روحانی سائنس میں حواسِ ظاہر و باطن مل کر کام کرتے ہیں، لہٰذا ان کی روحانی تربیت بیحد ضروری ہے، جس طرح کسی قابل شخص کو خلا میں بھیجنے سے قبل شدید بدنی مشقیں کراتے ہیں، پھر اس کو سیّارۂ زمین کی کشش سے باہر جانا پڑتا ہے، اسی طرح روحانی سائنس کے تجربے کی خاطر انتہائی شدید ریاضت کے ساتھ ساتھ کرۂ نفسانیّت کی کشش سے بھی بالاتر ہو جانے کی سخت ضرورت ہے، ورنہ ممکن ہے کہ کوئی آدمی یہ کہنے کی جرأت کرے کہ “روحانی سائنس” نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ (۔ ۔ ۔ سلسلہ جاری ہے)۔ بحوالۂ کتاب عملی تصوف، ص۱۴۱۔ ۱۴۳۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

سہ شنبہ ۲۳، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۳۳

 

روحانی سائنس کے عجائب وغرائب۸۱(۱)

سلسلۂ جاری از مقالۂ گزشتہ

قسط: ۶۸

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ بابرکت روحانی سائنس کا ایک عظیم اور بڑا مفید تجربہ یہ بھی ہوا ہے کہ آدمی کی قوّتِ شامّہ کو ایسی گونا گون خوشبوئیں حاصل ہو سکتی ہیں، جن میں لطیف جوہری غذائیں بھی ہیں اور مختلف بیماریوں کیلئے روحانی دوائیں بھی، اس مقام پر خوب غور وفکر کرنے سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ہر چیز کی اصل جوہر کا خزانہ روح ہی ہے، یعنی ہر پھول، پھل، اور جڑی بوٹی میں جیسا رنگ اور جس قسم کی خوشبو ہے، وہ روح کی وجہ سے ہے، کیونکہ یہ روح ہی کا کمال ہے جو رنگ و بو اور ذائقہ لے کر پھول، پھل، فصل، اور دیگر نباتات میں آتی ہے۔

چلہ جیسے شدید حالات کسی درویشِ دلریش کے حق میں کتنے بابرکت ہوا کرتے ہیں، اس کا اندازہ صرف اہلِ دانش ہی کر سکتے ہیں، ایک ایسے گرانقدر وقت میں جبکہ بھوک اور پیاس بیحد عزیز لگ رہی تھی مؤکل نے پوچھا: بتاؤ، کن کن خوشبوؤں کی کیفیت میں لطیف غذا کا تجربہ چاہتے ہو؟ عرض کی گئی کہ میں روحانی دولت کے لئے بیحد محتاج اور غریب ہوں، لہٰذا چند ایسے پھولوں، پھلوں، اور نباتات کی الگ الگ خوشبوؤں کا تجربہ چاہتا ہوں، تو ان خوشبوؤں کا تجربہ کرایا گیا، جس کو اگر روحانی سائنس کی خوشخبری قرار دی جائےتو بیجا نہ ہوگا۔

روحانی سائنس کا ذاتی تجربہ بطورِ خاص اس منزل میں شروع ہو جاتا ہے،

 

۱۳۴

 

جہاں سالک پر جیتے جی نفسانی موت واقع ہوجاتی ہے، اس موت کے تجدّد کا سلسلہ سات رات اور آٹھ دن تک جاری رہتا ہے تاکہ اس کے عظیم الشّان معجزات اور عجائب و غرائب پر خوب غور وفکر کیاجا سکے، اس حال میں کائنات و موجودات کا روحانی نچوڑ یا جوہر بشکلِ ذرّات سالک میں بھر دیا جاتا ہے، اورسالک کی روح کائنات میں پھیلا دی جاتی ہے، اور یہ عمل مذکورہ عرصے تک دہرایا جاتا ہے، اس معنیٰ میں دو سانچے مقرر ہو جاتے ہیں، ایک سانچا (قالب)عالمِ کبیر کا، دوسرا سانچا عالمِ صغیر(عالمِ شخصی) کا، تاکہ کائنات انسانی سانچے میں ڈھل کر انسان کبیر ہوجائے، اور انسان کائناتی قالب میں ڈھل کر عالمِ اکبر ہو جائے، جیسا کہ مولاعلیؑ نے فرمایا:

اے انسان! کیا تو گمان کرتا ہے کہ تُو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر سمایا ہوا ہے،۸۲ پس روحانی سائنس اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا عطیہ ہے جس سے نہ صرف عالمِ شخصی اور کائنات کی تسخیر ہو جاتی ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان دونوں کی بے شمار کاپیاں حاصل ہو سکتی ہیں۔

اب ایک بہت بڑا عالمی مسئلہ سامنے ہے، اور وہ ہے: یو۔ ایف۔ اوز سے متعلق سوال کہ وہ درحقیقت کیا چیزیں ہیں؟ یہ سوال جتنا مشکل اور جیسا ضروری ہے، اس کا جواب اتنا دلچسپ اور ایسا مفید بھی ہے، وہ یہ ہے کہ یو۔ ایف۔ او اُس ترقی یافتہ انسان کا عارضی نام ہے جو کسی سیّارے سے آتا ہے یا اس دنیا میں رہتا ہے، کیونکہ انسان ہی ہے جو کثیف سے لطیف ہو کر پرواز کرسکتا ہے، اور انسان ہی سے جنّ و پری ہو جاتا ہے، اس لطیف مخلوق پر خدا ہم کو آزما رہا ہے، نیز اس کے ظہور سے یہ اشارہ بھی مل رہا ہے کہ روحانی سائنس کا زمانہ آچکا ہے، اور “یو۔ ایف۔ او” وہ انسان ہے جو وقت آنے پر فرشتہ ہو چکا ہے،

 

۱۳۵

 

اور بحکمِ خدا اپنے ظہور سے یہ سگنل دے رہا ہے کہ دیکھو زمانہ بدل گیا، اور روحانیّت کا دور آگیا۔

کیا جمادات کی ترقی یافتہ صورت نباتات نہیں ہیں؟ کیا نباتات سے حیوانات کا وجود نہیں بنتا ہے؟ آیا حیوان کا خلاصہ انسان نہیں ہے؟ آیا انسان روحانی ترقی سے فرشتہ نہیں بنتا ہے؟ کیا فرشتہ پوشیدہ ہونے کے معنی میں جنّ نہیں کہلاتا ہے؟ کیا مخلوقات کے آپس میں ظاہراً رشتہ اور باطناً وحدت نہیں ہے؟ اس کا مجموعی جواب اور خلاصہ یہ ہے کہ یو۔ ایف۔ اوزحقیقت میں دوسرے سیّاروں کے ترقی یافتہ انسان ہیں، جن کی روحانی سائنس درجۂ کمال پر پہنچ چکی ہے۔

عالمی یا بین الاقوامی سطح پر ہمیشہ قانونِ اخلاق یہی حکم دیتا ہے کہ ہر وہ ملک و قوم جس نے ترقی کی ہے، وہ پس ماندہ لوگوں کی مدد کرے، چنانچہ دوسرے سیّاروں پر رہنے والے انسانوں یا فرشتوں کا مقدّس فریضہ یہی ہے کہ وہ اپنے ان بھائیوں کو جو روحانی سائنس میں غریب ہیں، زمین سے اٹھا کر دوسرے ستاروں پر پہنچا دیا کریں، اللہ کے حکم سے یقیناً ایسا ہی ہوگا، یہ اڑن طشتریاں جہاز کی شکل میں کیوں نظر آتی ہیں؟ یہ اشارۂ حکمت ہے، جس میں ان کا یہ کہنا ہے کہ ہم تمہارے کائناتی جہاز ہیں تاکہ تم کو مستقبل میں کائنات کی سیاحت کرادی جائے۔

عظمت و بزرگی اور سلطنت وسلطانی کا ایک عجیب منشا یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ بادشاہ کبھی کبھار بھیس بدل کر اپنے ملک میں گھومے پھرے، تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ لوگ کسی بھی علامت ونشان سے اس کو پہچانتے ہیں یا نہیں، خصوصاً ایسا امتحان رات کے وقت ہوا کرتا تھا، رات لاعلمی کی مثال بھی ہے اور یہ باطن بھی ہے چنانچہ ترقی یافتہ انسان یا فرشتے اڑن طشتریوں کے بھیس میں آکر دنیا کے بڑے

 

۱۳۶

 

دانشمندوں، سائنس دانوں اور بڑی بڑی قوموں سے امتحان لیا کرتے ہیں۔

“یو۔ ایف۔ او” دراصل وہ مافوق الفطرت بشر ہے جس کو جثّۂ ابداعیہ یا آسٹرل باڈی کہا جاتا ہے، نیز یہ وہ معجزاتی کُرتا ہے جس کو پہن کر یعنی اس میں منتقل ہو کر آپ نہ سردی محسوس کریں گے نہ گرمی، اور نہ ہی کوئی جنگ اس کو کچھ بگاڑ سکتی ہے۔ بحوالۂ کتاب عملی تصوف، ص۱۴۳۔ ۱۴۵۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

سہ شنبہ، ۲۳۔ ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۳۷

 

روحانی سائنس کے عجائب وغرائب۸۳(۲)

قسط: ۶۹

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اگر قصّۂ آدمؑ پر روحانی سائنس کی روشنی ڈالی جائے تو یقیناً اس میں سے فائدۂ بنی آدمؑ کے بہت سے اسرار منکشف ہو سکتے ہیں، مثال کے طور پر یہ سوال کیا جائےکہ خدا کے حکم سے جن فرشتوں نے پہلے پہل حضرتِ آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا وہ کونسے فرشتے تھے؟ ان کی ہستی کا تصوّر کیا ہے؟ سجود میں کیا حکمت پنہان تھی؟ آیا اس میں اولادِ آدم کے لئے بھی کوئی نویدِ جانفزا ہے یا نہیں؟

اس کے لئے روحانی سائنس میں یہ جواب ہے: سب سے پہلے عالمِ ذرّ کے ملائکہ نے حضرتِ آدمؑ کو سجدہ کیا، وہ ہستی کے اعتبار سے صرف ذرّات ہی تھے، وہ آدم کی ہستی میں گر رہے تھے اور یہی سجدے کی ظاہری شکل تھی، یہ فرشتے بظاہر ذرّات لیکن بباطن تسخیرِ ذات و کائنات کی کلیدیں تھے، لہٰذا سجود اظہارِ اطاعت کے معنی میں تھا کہ یہ فرشتے آدمؑ کے لئے عالمِ شخصی اور کائنات کو حقیقی معنوں میں مسخر کردیں گے، جی ہاں، قانونِ رحمتِ الٰہی ہر گز ایسا نہیں کہ باپ کو تاجِ خلافت سے سرفراز فرما کرمسجودِ ملائک بنا دیا جائے، اور اولاد کو ہمیشہ کے لئے آتشِ دوزخ میں دھکیل دیا جائے، لہٰذا یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ حضرتِ ابوالبشرکے لئے جس طرح فرشتوں نے عالمِ ذرّ میں بھی اور آگے چل کر عالمِ عقل میں بھی سجدۂ فرمانبرداری بجا لایا، اس میں اس کی اولاد کے لئے دومرحلوں میں خوشخبری

 

۱۳۸

 

ہے:۔

مرحلۂ اوّل یہ کہ دورِ خواص میں فضائل وکمالاتِ آدمؑ صرف انبیاء واولیاء (علیھم السّلام) ہی کو حاصل ہو جائیں گے، اور مرحلۂ دوم میں بشارت یہ ہے کہ دورِ عوام میں روحانی انقلاب کے آنے سے آدم کی روحانیّت عوام کے لئے بھی کام کرنے لگے گی، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں بنی آدم کی کرامت وفضیلت بیان ہوئی ہے، اور ان کے لئے نصیحت بھی ہے۔

روحانی سائنس کی روشنی میں یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ فرشتوں نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے لئے دوسرا اور آخری سجدہ عالمِ عقل میں کیا، جس میں وہ سب کے سب ایک ہی عظیم فرشتہ تھے، جب روحانی اور عقلانی قوّتوں نے فرشتوں کی مثال میں سجدہ کیا تو حضرتِ آدمؑ کی خلافت کائناتی زمین میں فعلاً قائم ہوگئی، یہاں یہ ضروری نکتہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ خلافت صرف سیّارۂ زمین تک محدود نہیں، بلکہ یہ کائنات بھر کی خلافت ہے، کیونکہ قرآنِ پاک کا فرمانا ہے کہ خلافتِ الٰہیہ کی زمین بیحد وسیع ہے (۲۴: ۵۵، ۲۹: ۵۶، ۳۹: ۱۰) اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ زمین (۱) نفسِ کلّی ہے (۲) کائنات اور اس کے سارے ستارے ہیں (۳) اور عوالمِ شخصی ہیں۔

قصّۂ آدم کے روحانی اسرار بہت سے ہیں، ان میں سے صرف چند مثالیں پیش کرنے کے بعد ہم اس نویدِ جانفزا کی طرف آتے ہیں جو بنی آدم کے عوام کے لئے ہے، وہ یہ کہ خلافتِ آدم کا اعلان فرمایا گیا تو اس میں یہ ہمہ رس وہمہ گیر خوشخبری تھی کہ یہ خلافت آدم کی حیاتِ جسمانیہ تک محدود نہیں بلکہ اس کے سلسلۂ وارثین (انبیاء واولیاء علیھم السّلام) میں ہمیشہ جاری و باقی رہے گی، اور جب دورِ عوام آئے گا تو اس وقت خلافتِ آدم کے عظیم معجزات ظاہر ہو جائیں گے

 

۱۳۹

 

تاکہ عوام الناس کو روحانی سائنس کے بے شمار فائدے حاصل ہو سکیں۔

اللہ جلّ جلالہ کے اسرارِ حکمت بڑے عجیب وغریب ہوا کرتے ہیں، وہ تعالیٰ شانہ لوگوں کو ظاہر میں اختیار دیتا ہے کہ کوئی اس کی عبادت کرے یا نہ کرے مرضی ہے، لیکن باطن میں سب لوگوں کو زبردستی سے ہدایت وعبادت کےراستے پر چلاتا رہتا ہے، اور یہ بڑا حیرت انگیز کام انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں ہوتا ہے، آپ سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں دیکھ لیں: اور اللہ ہی کے لئے سجدہ کرتے ہیں جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں خوشی سے اور مجبوری سے۔ نیز سورۂ نور (۲۴: ۴۱) میں پڑھیں: سب کو اپنی اپنی دعا/نماز اور اپنی تسبیح معلوم ہے۔ اس نوعیت کی آیاتِ کریمہ اور بھی ہیں۔

جی ہاں، یہ بات سچ اور حقیقت ہے کہ عالمِ ذرّ میں تمام چیزوں کے نمائندہ ذرّات موجود ہیں، اور اس میں ہر خاص وعام انسان کا بصورتِ ذرّۂ نمائندہ حاضر رہنا ازبس ضروری ہے، چنانچہ مذکورۂ بالا قرآنی حوالہ جات کے مطابق عالمِ ذرّ میں (جو شخصِ کامل میں ہے) اللہ ہی کے لئے سب کے سب عبادت اور سجدہ کرتے ہیں، جیسا کہ سورۂ مریم میں ہے۔

اِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّاۤ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا=جتنے بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں سب کے سب خداتعالیٰ کے روبروغلام ہوکر حاضر ہوتےہیں (۱۹: ۹۳) اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہت سے مشکل اور پیچیدہ مسائل ایسے ہیں جن کی تحلیل صرف روحانی سائنس ہی سے ہو سکتی ہے، جس کا ظہور بتوسطِ عالمِ شخصی دورِ عوام میں ہونے والا ہے، جیسا کہ سورۂ زمر میں ربّ العزّت کا ارشاد ہے:۔

وَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا = اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے

 

۱۴۰

 

روشن ہوجائے گی (۳۹: ۶۹) یہ قیامت القیامات کا ذکر ہے، جس میں روحانی سائنس یعنی ربّانی علم وحکمت سے زمین منور ہوجانے والی ہے، اور یہاں زمین سے باشندگانِ زمین مراد ہیں، پس حسبِ وعدۂ الٰہی(۴۱: ۵۳) آفاق کے بعد انفس(عوالمِ شخصی) میں بھی آیاتِ قدرت کا ظہور ہوگا، اور اسی مجموعۂ معجزات کانام روحانی سائنس ہے، جس کی مدد سے لوگ ایسی عجیب وغریب روحانی قوّتوں کو استعمال کر سکیں گے جو مادّی سائنس سے تیار کردہ آلہ جات کی مثال پر ہیں، لیکن ان سے درجہ ہا برتر اور بہتر ہیں، ایسی زبردست روحانی ترقی کے دور میں یہ امر ممکن ہے کہ ظاہری آلہ جات رفتہ رفتہ ختم ہوتے چلے جائیں، مثال کے طور پر اگر ٹیلی پیتھی(اشراق)کا رواج  عام ہوجائے تو ظاہری ٹیلی فون کا دورِ سرکون مول لے گا، اگر اڑن طشتریاں رام ہوجاتی ہیں تو پھر ہوائی جہاز کی ضرورت ہی نہ رہےگی۔ (سلسلہ جاری ہے)۔ بحوالۂ کتاب عملی تصوّف ص۱۴۶۔ ۱۴۸)۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

یوم الاربعہ، ۲۴ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۴۱

 

روحانی سائنس کے عجائب وغرائب۷۴(۲)

(سلسلۂ جاری از مقالۂ گزشتہ)

قسط: ۷۰

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ انسانوں کی روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ سیّارۂ زمین پر بڑی بڑی تبدیلیاں آنے کا ذکر ہے، سورۂ کہف (۱۸: ۰۷ تا ۰۸): ہم نے زمین پر کی چیزوں کو اس کیلئے باعثِ رونق بنایا تاکہ ہم لوگوں کو آزمائش کریں کہ ان میں زیادہ اچھا عمل کون کرتا ہے، اور ہم زمین پر کی تمام چیزوں کو ایک صاف میدان کر دیں گے۔ یعنی جب سارے انسانوں کو خوشبوؤں کی روحانی غذا ملتی رہے گی، اس کے نتیجے میں وہ جسمِ لطیف ہوجائیں گے، اور کھیتی باڑی کی ضرورت ہی نہ رہے گی، کیونکہ لوگ لطیف ہستی کی بہشت میں ہوں گے۔

قرآنِ حکیم فرماتا ہے: كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً (۰۲: ۲۱۳) لوگ سب ایک ہی امت تھے (اور ہیں) یعنی تصوّرِ ازل و ابد اورعالمِ ذرّ میں تمام انسان ایک ہی جماعت ہیں، اور سب سے بڑی قیامت میں بھی سب ایک ہو جانے والے ہیں، لیکن وہ اس دور میں مختلف نظریات رکھتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ظاہر میں لوگوں کو اختیار دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ متفرق ومنتشر ہو گئےہیں، اور باطن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا اختیار ہے، جس کے سبب سے وہ انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں سلکِ وحدت سے پروئے ہوئے ہیں۔

بعض قرآنی سورتوں کے آخر میں بطورِ خلاصہ زبردست علم وحکمت والی

 

۱۴۲

 

آیاتِ کریمہ وارد ہوئی ہیں، جن کوعلمائے علوم القرآن’’خواتم‘‘ کے نام سے جانتے ہیں، ایک ایسی پراز علم وحکمت آیۂ شریفہ سورہ نمل کے آخر میں ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: ۔

اور آپ کہہ دیجئے کہ تمام خوبیاں اللہ ہی کے لئے ہیں وہ تم کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھلادے گا سو تم ان کو پہچانو گے اور آپ کا رب ان کاموں سے بے خبر نہیں ہے جو تم سب لوگ کر رہے ہو(۲۷: ۹۳)۔ قرآنِ عظیم کا یہ حکمت آگین خطاب بتوسط حضرتِ خاتم الانبیاءﷺ تمام انسانوں سے فرمایا گیا ہے، جس میں ظاہری اور باطنی سائنس کی شکل میں معجزاتِ قدرت کے ظہور، مشاہدہ اور معرفت کی پیش گوئی ہے، یہ ان عظیم آیات و معجزات کا ذکرِ جمیل ہے جن کے مشاہدۂ عین الیقین اور حق الیقین سے مومنِ سالک کو اپنی ذات اور حق تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔

میں یہاں اپنے مضمون کی دونوں قسطوں کے اصل مطلب کو واضح کر دینے کے لئے ایک بڑا اہم سوال کرتا ہوں، وہ یہ کہ خالقِ اکبر نے تمام لوگوں کو کس ارادے سے پیدا کیا؟ آیا خدا یہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگ خوشی سے یا زبردستی سے اس کے پاس لوٹ جائیں؟ کیا حقیقت کچھ ایسی نہیں ہے کہ اگر ایک آدمی اپنے اختیار سے بڑا غلط کام کرتا ہے تو اس کو ایک وقت کے لئے سزا دی جاتی ہے، لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ کے ارادۂ ازل کے مطابق فیصلہ ہو جاتا ہے جس میں خیر ہی خیر ہے؟

اس کا پُرحکمت جواب یہ ہے: الخلق عیال اللہ، واحب الخلق الی اللہ من نفع عیالہ وادخل السرور علیٰ اھلِ بیتہ۔ ساری مخلوق(گویا) اللہ کا کنبہ ہے، لہٰذا خدائے بزرگ و برتر کے نزدیک سب سے محبوب و پسندیدہ شخص وہ ہے جو اس کے کنبے کو زیادہ فائدہ پہنچائے اور اس کے

 

۱۴۳

 

اہلِ خانہ کو مسروروشادمان کر دے۔ بحوالۂ کتاب عملی تصوف، ص۱۴۹۔ ۱۵۰۔

والسلام مع الاحترام

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

۱۸جولائی۱۹۹۵ء

یوم الاربعہ، ۲۴ ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۴۴

 

عملی تصوّف

رازِ عشق

قسط: ۷۱

 

یا الٰہی! تو عطا کر دے مجھے فیضانِ عشق

تاکہ ہوجاؤں، ہمیشہ بندۂ سلطانِ عشق

میں گدا ہوں اس کے درکا اور مریضِ عشق بھی

یا طبیبِ آسمانی! دے مجھے درمانِ عشق

اے حسینِ بے مثال! اے نورِ عشقِ باکمال!

جان فدا ہو تجھ سے ہر دم چونکہ تو ہے جانِ عشق

شاہِ خوبانِ دوعالم! نورِ چشمِ عاشقان!

غیرتِ حوروپری ہے جانِ عشق جانانِ عشق

ماہِ من! اے شاہِ من! تو حکم فرما دیجئے

ہے قبولِ جان و دل تیرا ہر فرمانِ عشق

یہ نہیں معلوم مجھ کو راز کیا ہے؟ رمز کیا؟

اس لئے ہوں میں ہمیشہ والہ وحیرانِ عشق

میں نہیں تنہا غریق تیرے بحرِ عشق میں!

ہیں سبھی غرقا ب تجھ میں دیکھ اے طوفانِ عشق!

 

۱۴۵

 

عشق سے مر کر اسی میں زندہ ہے، ہاں زندہ ہے

یہ نصیرؔ تیرا گدا اے جانِ عشق جانانِ عشق!

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

اسلام آباد

گزشتہ تاریخ: منگل ۲۹؍مئی ۲۰۰۱؁ء

ایڈیٹنگ کی تاریخ: منگل ۲۳؍ ستمبر۲۰۰۳؁ء

 

۱۴۶

 

عملی تصوّف

قانونِ بہشت

(ایک بہشتی کی زبانِ حال سے)

قسط: ۷۲

 

یہ ربّ کا کرم ہے کہ میں جنت میں گیا ہوں

اک نور یہاں ہے کہ مجھے اس نے دیا ہے

س)ہوگی کہ نہیں کل کو ہمیں تیری ملاقات؟

اے جان! بتا ہم کو بتا جلدی یہی بات؟

(ج)وہ کیسی بہشت ہے کہ نہ ہو جس میں ملاقات

یہ کیسا سوال ہے! صد حیف ہے، ھیھات!

دانا ہیں وہی لوگ جو جنت کو سمجھتے

آیات کے باطن سے وہ حکمت کو سمجھتے

قانونِ بہشت دیکھ کہ وہ رحمتِ کُل ہے

واں کوئی نہیں خار فقط غنچہ و گل ہے

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

گزشتہ تاریخ: جمعرات۲۴؍اگست ۲۰۰۰ء

موجودہ تاریخ: بدھ۲۴؍ستمبر۲۰۰۳ء

 

نوٹ: ۔

قانونِ بہشت سے وہ آیاتِ کریمہ مراد ہیں جو بہشت کی توصیف میں وارد ہوئی ہیں۔

 

۱۴۷

 

عملی تصوّف

جمیلِ کُلّ

قسط: ۷۳

 

جہان میں میرے صنم کی کوئی مثال نہیں

“جمیلِ کل”  ہے وہی اور کہیں جمال نہیں

یہ دیکھ شمس و قمر کو زوال ہوتا ہے

جہانِ حسن کے خورشید کو زوال نہیں

کمالِ دلبری اس کو بہشت سے آیا

تو پھر جہاں میں کہیں اور یہ کمال نہیں

وصالِ شاہِ بتان اس جہان میں مشکل ہے

جو کل بہشت میں ہے آج وہ وصال نہیں

مجھے ملالِ مسلسل نے خوب روند لیا

خدا کے فضل سے اب تو کوئی ملال نہیں

جوابہائے “حِکم”  سے بھرا خزانہ ہے

جوابہا تو بہت ہیں مگر سوال نہیں

وہ شاہِ “کَونِ”  حسینان حجابِ دل میں ہے

حجاب کیسے ہٹاؤں مری مجال نہیں

 

۱۴۸

 

جہان میں اہلِ قلم کوئی بھی غریب نہیں

امیر علم و ادب ہے اگرچہ مال نہیں

خیال “طائرِ برقی”  ہے اے نصیر الدینؔ!

عظیم عطیۂ رحمان ہے خیال نہیں

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

گزشتہ تاریخ: بدھ ۲۳ ؍مئی ؁۲۰۰۱ء

ذوالفقار آباد گلگت

موجودہ تاریخ: بدھ ۲۴؍ستمبر ؁۲۰۰۳ء

 

۱۴۹

 

عملی تصوّف

یہ تیرا عشق

قسط: ۷۴

 

یہ تیرا عشق مجھے ہے شراب سے بہتر

شمیمِ کوچۂ جانان گلاب سے بہتر

تم آکے دل میں رہو میں حجاب ہو جاؤں

تو پھر بھی کیسے بنوں اس حجاب سے بہتر؟

وہی ہے گنجِ کرم اور وہی ہے کانِ عطا

نہیں ہے کوئی سخی آن جناب سے بہتر

ترا خیالِ حسین مجھ کو خوابِ راحت ہے

ہے کوئی خواب کہیں میرے خواب سے بہتر؟

جمال و حسن ترا ایک کتابِ قدرت ہے

نہیں ہے بشری کتاب اس کتا ب سے بہتر

اگرچہ چاند ستاروں میں مثلِ سلطان ہے

ہے میرے دل کا حسین ماہتاب سے بہتر

سوال ایسا کیا جس میں گنجِ حکمت ہے

کہ عقل جس کو کہے: ہر جواب سے بہتر

 

۱۵۰

 

زوالِ عہدِ جوانی سے مجھ کو غم نہ ہوا

کہ فکر وعقلِ کُہن سال شباب سے بہتر

خطابِ عشق وفنا گر کرے زراہِ کرم

یہی خطاب مجھے ہر خطاب سے بہتر

یہ دردِ عشق کی تلخی عجیب شیرین ہے

شرابِ عشق ہے یہ ہر شراب سے بہتر

عتاب میں بھی تجلی تری عجیب وغریب

نہیں ہے کوئی عطا اس عتاب سے بہتر

وہی ہے نورِ ازل آفتابِ عالمِ دل

ہزار درجہ وہ اس آفتاب سے بہتر

حبابِ دل چہ عجب بحر اس پر عرشِ خدا!

نہیں ہے بحر کوئی اس حباب سے بہتر

سنو کہ میرا صنم ہے بتوں کو شاہنشاہ

نہیں ہے کوئی مرے انتخاب سے بہتر

بگڑ گیا ہے اگر باغ پھر خراج نہیں

خرابِ عشق ہوں میں ہر خراب سے بہتر

عذابِ عشق نصیرؔاچہ خوب جنت ہے!

یہی عذاب مجھے ہر ثواب سے بہتر

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔ کراچی

گزشتہ تاریخ: جمعرات، ۲۰؍جمعرات اگست ۱۹۹۸،

موجودہ تاریخ: بدھ ۲۴، مئی ؁۲۰۰۳ء

 

۱۵۱

 

روحانی قیامت کا ثبوت

قسط: ۷۵

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ طہ (۲۰: ۱۵) کا بابرکت ارشاد ہے: اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ اَكَادُ اُخْفِیْهَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا تَسْعٰى۔ تمہید: اٰتِیَةٌ = آنے والی، اِتْیَان سے، اسمِ فاعل، واحد، مونث (قاموس القرآن ص۱۷ قاضی زین العابدین)

اللہ تعالیٰ کا یہ پُرحکمت خطاب کوہِ طور پرحضرتِ موسیٰ علیہ السّلام سے ہوا تھا۔

ترجمہ: یقیناً قیامت آنے والی ہے، میں چاہتا ہوں کہ اسے چھپائے رکھوں، تاکہ ہر نفس کو اس کی کوشش کے مطابق جزا دی جائے۔ پس یہاں سے معلوم ہوا کہ قیامت ایک زبردست روحانی=باطنی فاعلہ ہے، میرے خیال میں اگر کوئی فاعل یا فاعلہ ماضی، حال اور مستقبل کے ذکر کے بغیر ہے تو اس کے معنی تینوں زمانوں پر محیط ہیں، جیسے روحانی قیامت، کہ جب بھی کوئی سالک موتو قبل ان تموتوا کے فرمانِ عالی کے مطابق مرتا ہے تو اس کی قیامت کے ساتھ ساتھ اجتماعی روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے، اگریہ امر محال ہوتا تو آنحضرتؐ  “موتوا” کا حکم نہ دیتے اور یہ بھی نہ فرماتے: من مات فقد قامت قیامتہ=جو شخص مرگیا اس کی قیامت برپا ہو گئی۔ س: آیا خدا

 

۱۵۲

 

اور اس کے رسولؐ کے حکم کے مطابق مرنے والے کی قیامت برپا نہیں ہوئی؟ ج: چونکہ اللہ قیامت کو چھپائے رکھنا چاہتا ہے، اس لئے ہر ایسی قیامت روحانی اور باطنی طور پر اپنا کام کریگی۔

ان شاء اللہ ہم اس بارے میں قرآنِ حکیم کے مزید حوالہ جات درج کرنا چاہتے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۲۴، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۱۵۳

 

روحانی قیامت کا ثبوت

قسط: ۷۶

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قرآنِ عزیز روحانی قیامت کی حکمتوں اور اشارتوں سے پُراور لبریز ہے، آپ کو ہم ایک بہت آسان طریقہ بتاتے ہیں، اس کے لئے آپ کو ایک قرآنی لفظ اچھی طرح سے معنی کے ساتھ جاننا ہے، وہ ہے: بغتۃ۔ معنی: اچانک، ناگاہی، ناگہان۔ قاموس القرآن: ص۱۱۵، ازقاضی زین العابدین۔ اور اس سےبڑی لغات کا حوالہ: بغتۃ=اچانک، یکایک، لاعلمی میں، بلاتوقع، بے خبری میں۔ القاموس الوحید، جامع ترین مکمل عربی اردو لغت ص۱۷۳، مولانا وحیدُ الزمان قاسمی کیر انویؒ، ادارۂ اسلامیات لاہور، کراچی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں بغتۃ(اچانک=لاعلمی میں)قیامت آنے کا ذکر ہے تو وہی بس روحانی قیامت ہے، آپ کو تقریباً۱۲ سے زیادہ ایسے مقامات ملیں گے، مگر قرآن میں اس حقیقت پر بہت سی دلیلیں ہیں۔

پس روحانی قیامت سالک کے سوا تمام لوگوں پر اچانک، یکایک، لاعلمی میں، بلا توقع اور بے خبری میں آتی ہے، کیونکہ صورِ اسرافیل کی دعوت صرف روحوں کے لئے ہوتی ہے۔

 

۱۵۴

 

صاحبانِ عقل کے لئے اتنی شہادتیں کافی ہیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات۲۵، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۱۵۵

 

اللہُ نور الانوار

قسط: ۷۷

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ حوالۂ قرآنِ حکیم(۲۴: ۳۵) حوالۂ تفسیرِ آیۂ مبارکہ، اسلام میرے مورثوں کا مذہب، از جملۂ ارشاداتِ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ۔ حجۃ قائم القیامۃ علیھما السلام۔

اللہ تعالیٰ عزاسمہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، وہ ہر ہر عالمِ انسانی کا بھی نور ہے، کیونکہ انسان ہی وہ اعجوبۂ قدرت ہے، جس میں وقت آنے پر عالمِ اکبر لپیٹ لیا جاتا ہے، خدا کرے کہ آپ زندگی ہی میں حظیرۂ قدس کی بہشت میں داخل ہو کریدُ اللہ کا یہ معجزہ دیکھ سکیں کہ کس طرح کائنات لپیٹ لی جاتی ہے، لپیٹی ہوئی کائنات کے لئے قرآنی لفظ مطویۃ، اور اس کی جمع: مطویّٰت ہے(۳۹: ۶۷)۔

اگر چشمِ بصیرت سے آیۂ محولۂ بالا کے اسرارِ عظیم کو دیکھا جائے تو اللہ جلّ جلالہ نور کا وہ بحرِ محیط ِ بے پایان ہے، جس میں ہمیشہ سے عالمِ انسانیّت اور اس کا ہر ہر ذیلی عالم یعنی ہر فردِ بشر مستغرق ہے۔ آپ سوچیں، بار بارسوچیں، اور اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بھی سوچیں، کیا یہ ایک آخری حقیقت نہیں ہے؟ فیصلہ کن حقیقت؟  ید اللہ = دستِ خدا، جو کائنات کےباطن کو لپیٹ لیتا ہے، وہ امامِ زمانؑ ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات۲۵، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۵۶

 

اللہُ نور الانوار

قسط: ۷۸

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس معنیٰ میں وہ ذاتِ سبحان عالمِ انسانیّت اور ہرہر عالمِ شخصی کا بھی نور ہے، اس کے پاک نور کا تصوّر گویا بحرِ محیطِ بے پایان ہے، جس میں یہ عوالم مستغرق ہیں جن کا ذکر ہوا۔

خداوندِ کریم اپنے اس ہمہ رس اور ہمہ گیر نور سے ہر انسان کو کیا کیا نعمتیں عطا کرنا چاہتا ہے؟ اس کا بیحد خوبصورت جواب حضورِ اکرمؐ کی دعائے نور میں موجود ہے یقیناً آیۂ مصباح جملہ آیاتِ نور کا مرکز ہے اور اس پاک و پُرحکمت مرکز کا یہ اشارہ ہے کہ نور سے متعلق ہر آیت میں یقیناً عالمِ انسانیّت کے لئے بشارت ہی بشارت ہے، کیونکہ نور امام النّاسؑ ہے، جو سب لوگوں کے لئے وسیلۂ نجات ہے۔ تاویلی انسائیکلوپیڈیا=ہزار حکمت، ص ۵۰۹۔ ۵۱۱کو بھی دیکھ لیں۔

اللہ تعالیٰ نے کرسی = فلکِ اعظم کے نیچے جو کچھ بھی ہے اس کو احاطۂ نور میں محفوظ رکھا ہے اور ایک اعتبار سے کرسی امامِ مبینؑ کا نورِ پاک اور نورِ محیطِ اعظم ہے اور یہی اللہ کا نور ہے، اور آیۂ امامِ مبینؑ(۳۶: ۱۲)میں اسی نورِ مقدّس کا ذکر ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعۃ المبارک ۲۶، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۵۷

 

خدمتِ خلق۹۱

قسط: ۷۹

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قرآنِ حکیم اور حدیثِ شریف کی حکیمانہ تعلیمات میں کوئی حکم ایسا نہیں ملے گا، جس میں براہِ راست یا بالواسطہ خدمتِ خلق اور حقوق العباد کے کسی پہلو پر روشنی نہ ڈالی گئی ہو، اس حقیقت کی ایک واضح مثال یہ ہےکہ دین کے احکام سب کے سب حقوق اللہ اور حقوق العباد کے انتہائی عظیم امرین میں جمع ہوجاتے ہیں، اور فرائضِ دینی کی کوئی چیز ان دونوں کلیوں سے باہر نہیں رہ سکتی، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ نہ صرف بندوں ہی کے حقوق بلکہ خدا کے حقوق بھی اس مقصد کے پیشِ نظرمقرر ہوئے ہیں کہ ان کی ادائیگی سے انسان ہی کو دنیا و آخرت میں بے حد و بے شمار فائدے حاصل ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک تو ہر قسم کے نفع و ثمرہ سے بے نیاز وبرتر ہے۔

حدیثِ شریف میں ہے: الخلق عیال اللہ، واحب الخلق الی اللہ من نفع عیالہ، وادخل السرور علیٰ اھل بیتہ، ومشیٌ مع اخ مسلم فی حاجتہ، احب الی اللہ من اعتکافِ شھرین فی المسجدالحرام = ساری مخلوق(گویا) اللہ کا کنبہ ہے، لہٰذا خدائے بزرگ و برترکے نزدیک سب سے محبوب و پسندیدہ شخص وہ ہے جو اس کے کنبے کو زیادہ فائدہ

 

۱۵۸

 

پہنچائے، اور اس کے اہلِ خانہ کو مسرور و شادان کر دے، اور کسی مسلمان بھائی کے ساتھ اس کی حاجت برآری کی خاطر چلنا خداوندِ تعالیٰ کے نزدیک دو ماہ تک اندرونِ خانۂ کعبہ اعتکاف کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۹۲(دعائم الاسلام، ثانی، کتاب العطایا، مزید حوالہ جات کے لئے دیکھئے: کتاب مجمع البحرین، ص۷۰، از مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی)۔

صاحبِ جوامع الکلم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مذکورۂ بالا ارشادِ مبارک کی شانِ جامعیّت کا حقِ تعریف و توصیف تو ادا ہی نہیں ہو سکتا، تاہم مشک آنست کہ خودببوید نہ کہ عطار بگوید، پیغمبرانہ علم وحکمت کی جس کمالیّت و تمامیّت اور رعنائی و زیبائی سے خالقِ اکبر اور مخلوقِ احقر کے رشتے کی تشبیہ و تمثیل دی گئی ہے، اس کی جان پرور ودلنواز علمی اور عرفانی نورانیّت وتابش سے عقلِ جزوی کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں، سبحان اللہ! یہاں تو مرتبۂ انسانیّت اور احترامِ آدمیّت انتہائی عروج و ارتقاء پر نظر آتا ہے، بخدا! ہمیں رحمتِ عالمؐ کی اس بے مثال اور درخشندہ تعلیم میں عشق و محبت سے بار بار سوچنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم اس رازِ مخفی کو بحسن و خوبی سمجھ سکیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ درپردہ اپنی مخلوق کو محبوب رکھتا ہے، کیونکہ اس مثال میں جو بھی عیال اور اہلِ خانہ ہیں، وہ ربّ العزّت کی محبوبیّت کے درجے میں ہیں، لیکن اس محبوبیّت ودوستی میں وہ نیک بخت لوگ بہت ہی آگے جا سکتے ہیں، جو دوسروں کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔

اس نورانی تعلیم میں خدمت کی یہ شرط بتائی گئی ہے کہ اس سے لوگوں کو فائدہ ملے، اور مسرّت وشادمانی حاصل ہو، اس میں دین و دنیا سے متعلق عظیم اور دور رس خدمات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، اور ایک چھوٹی خدمت کی

 

۱۵۹

 

مثال دی گئی ہے کہ اگر ایک شخص اپنے کسی مسلم بھائی کے ساتھ اس کی حاجت برآری کے لئے چلتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے عبادت و اعتکاف کے ایک اعلیٰ مقام پر بلند کر کے محبوب رکھتا ہے، اس سے آپ پُر خلوص خدمتِ خلق کی اہمیت و افادیّت کا اچھی طرح اندازہ کر سکتے ہیں۔

قرآنِ مجید میں احسان (نیکی) کے میوۂ شیرین کا بار بار تذکرہ ہوا ہے اور بار بار فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں (محسنین) کو محبوب رکھتا ہے(۰۵: ۹۳) اور یقیناً خدمتِ خلق سب سے بڑی نیکو کاری ہے، جس کا ذکر ہو چکا، پس خدمت احسان ہے جس کا سب سے عظیم اور لاثانی وغیرفانی انعام اللہ جلّ جلالہ کی دوستی اور محبوبیّت ہے۔ (سلسلہ جاری ہے) بحوالۂ کتاب العلاج، علمی علاج، ص۳۴۴۔ ۳۴۶

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

روزِ شنبہ ۲۷، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۶۰

 

خدمتِ خلق۹۳

(سلسلۂ جاری از مقالۂ گزشتہ)

قسط: ۸۰

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ خدمتِ خلق کے اس وسیع و بے پایان میدان میں جن حضرات کو تمام خدمت گزاروں پر فوقیت و برتری حاصل ہے، وہ انبیاء و اولیاء ہیں، جو ایک اعتباار سے قوم کے سردار ہیں، اوردوسرے اعتبار سے قوم کے خادم، جیسا کہ حدیثِ نبوّی کا ارشاد ہے: سیدُ القومِ خادمھم = قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے۹۴(مجمع البحرین، ص۴۱) اس سے ظاہر ہے کہ صرف پیغمبر اور ولیٔ کامل ہی صحیح معنوں میں انسانیّت کی آفاقی خدمت کر سکتے ہیں، اور پھر ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے درجہ بدرجہ دوسرے خدام (خدم)۔

حدیثِ نبوّی میں یہ پُرحکمت کلّیہ بھی موجود ہے: کل معروف صدقۃ =ہر نیک کام ایک صدقہ وخیرات کا درجہ رکھتا ہے۹۵(صحیح بخاری، سوم، باب ۵۸۹۔ دعائم الاسلام، ثانی، کتاب العطایا) چنانچہ ملک و ملت اور انسانیّت کی خدمت نیک عمل ہے، اس لئے وہ عظیم صدقہ ہے، اور اگر کسی خدمت کا فائدہ ہمیشہ کے لئے جاری و ساری رہ سکتا ہے، تو پھر ان شا ء اللہ وہ صدقۂ جاریہ ہو جائے گا، اور ایسے ہی اعمال الباقیاتُ الصالحات (باقی رہنے والے اعمالِ صالحہ۱۸: ۴۶) کہلا سکتے ہیں، پس معلوم ہوا کہ اگر خدمت بے ریا ہے تو وہ سب کچھ ہے، اسی لئے خدائے پاک و برتر ہر سچے خادم کو دوست

 

۱۶۱

 

رکھتا ہے، درحالے کہ اس کی دوستی و محبّت دین اور روحانیّت کی سب سے بڑی نعمت ہے، بلکہ تمام نعمتوں کی جان ہے۔

خدائے تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب اور پسندیدہ شخص کون ہے؟ وہی جو اس کے کنبے یعنی مخلوق کی خدمت کرے، آیا ہر ایسا آدمی جو خدا کو محبوب ہو، باطنی، روحانی، اور عقلی امراض سے شفا یاب نہیں ہوگا؟ کیوں نہیں، ضرور وہ قلبِ سلیم (۲۶: ۸۹) کو حاصل کرے گا، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ پاک ہے، اس لئے وہ جب کسی سے دوستی و محبّت کرناچاہتا ہے تو پہلے اسے روحانی بیماریوں اور گناہوں سے پاک کر دیتا ہے، پھر اسے محبوب رکھتا ہے۔

پروردگارِ عالمین جن بندوں کی مخلصانہ خدمت کو قبول فرماتا ہے، انہیں تمام تر اخلاقِ حسنہ اورصفاتِ ستودہ سے نوازتا بھی ہے، تاکہ وہ پاک و برتر ان سے دوستی و محبّت کرے، جیسے: نیکوکاری(۰۷: ۱۹۶)احسان(۰۳: ۱۲۴) تقویٰ (۰۳: ۷۶) صبر (۰۳: ۱۴۶) توکل (۰۳: ۱۵۹) عدل و انصاف (۰۵: ۴۲) طہاارت و پاکیزگی (۰۹: ۱۰۸)اطاعت و محبت (۰۳: ۳۱) ایمانِ کامل اور عشقِ الٰہی (شدید ترین محبت۰۲: ۱۶۵) جذبۂ جہادِ ظاہری وباطنی (۶۱: ۰۴) حبِ رسولؐ (۰۳: ۳۱، ۰۹: ۲۴) توبہ و پاک دلی (۰۲: ۲۲۲) اور دوسرے بہت سے اوصاف، جن سے خدا کے دوست موصوف و آراستہ ہوتے ہیں، جیسا کہ حدیثِ شریف میں ارشاد ہوا ہے(ترجمہ): جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے محبت فرماتا ہے، تو جبریل کو اس کا حکم ہوتا ہے، پس جبریل اس سے محبت کرنے لگتا ہے، اور پھر تمام آسمان اور زمین والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۹۶ (صحیح مسلم، جلدِ سوم، باب ۳۲۰)۔

حدیثِ شریف میں یہ بھی ہے کہ: جب اللہ تعالیٰ مومن کو اس کی

 

۱۶۲

 

قبر سے اٹھائے گا، تو وہ قبر سے باہر آئے گا، درحالیکہ اس کے ساتھ ایک پکیرِ نورانی (ہستی لطیف) ہو گی، پس جب وہ مومن وہاں کی سختیوں سے گزرے گا، تو نورانی پیکر اس سے کہے گی: ڈرنا نہیں، تم پر کوئی آنچ نہیں آئے گی، پس یہ اس کو برابر امن و تسکین اور بشارت دیتی جائے گی، یہاں تک کہ تِمثالِ نورانی(مثالٌ حسن) اس کو بارگارہِ خداوندی میں پہنچا دے گی، پس اللہ تعالیٰ اس مومن سے ایک آسان سا حساب لے گا، پھر خدا کا حکم ہو گا اس کو بہشت میں داخل کر دیا جائے، اس وقت مومن پیکرِ نورانی سے پوچھے گا، آپ کون ہیں؟ آپ پر خدا کی رحمت ہو! آپ نے مجھ سے نہ صرف وعدہ ہی کیا، بلکہ ایفا بھی ہوا، اور میرے خوف کو امن و سکون میں بدل دیا، تب پیکرِ نورانی کہنے لگے گی کہ: میں ایک مخلوق ہوں، میرے ربّ نے مجھے اس (اجتماعی) خوشی سے پیدا کیا جو تم (اپنی خدمات اور نیکیوں سے) مومنین کو دیا کرتے تھے، چنانچہ آج میں تم کو مسرّت و شادمانی پہنچا رہی ہوں۹۷(دعائم الاسلام، جلدِثانی، کتاب العطایا)۔

کتاب الشافی، جلدِ دوم، باب ۸۹ “خدمتِ مومن” کے بارے میں ایک ارشادِ نبوّی اور اس کا ترجمہ درج ہے، ترجمہ یہ ہے: ـحضرتِ امیر المومنین (علی)علیہ السّلام نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا ہے: جو مسلمان مسلمانوں میں کسی قوم کی خدمت کرے گا تو اللہ تعالیٰ بقدرِ ان کو تعداد کے جنّت میں خدمت گار عطا فرمائے گا۔

جس طرح جسمانی علاج کے سلسلے میں تنہا موثر ادویہ ہی ضروری اور کافی نہیں ہوتیں، بلکہ حیاتین (وٹامن) سے بھر پور اغذیہ کی بھی ضرورت

 

۱۶۳

 

ہوتی ہے، لہٰذا “علمی علاج” کی اس کتاب میں یہ پُرخلوص سعی کرنا ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اور عقل و نقل کے حوالے سے، نیز حقیر تجربات و معلومات کی مدد سے کچھ صحت افزا علمی وعرفانی غذائیں بھی مہیا ہوں، وماتوفیقی الا باللہ (۱۱: ۸۸)۔ بحوالۂ کتاب العلاج، علمی علاج، ص۳۴۶۔ ۳۴۹

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

روزِ شنبہ ۲۷، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۱۶۴

 

امامِ مبینؑ کا سرِ اعظم

قسط: ۸۱

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ یٰسٓ=قلبِ قرآن (۳۶: ۱۲) میں کلّیۂ امامِ مبینؑ کا حکمتوں سے مملو ارشاد ہے: اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْۣؕ-وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ ۔ تمہید: اللہ تعالیٰ کس طرح ہر قسم کے مردوں کو زندہ کرتا ہے؟وہ عزاسمہ کس طرح ہر انسان کے اعمال و آثار کولکھتا ہے؟ اور کس طرح کل الٰہی اور آسمانی چیزوں کو امامِ مبینؑ میں گھیر کر اور گن کر رکھتا ہے؟ ان تینوں نہایت مشکل سوالوں کے جوابات امامِ مبین(روحی فداہٗ) کی معرفت میں ہیں۔

ترجمۂ اوّل: یقیناً ہم(روحانی قیامت کے ذریعے سے) مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور لوگوں کے اعمال و آثار کو لکھتے ہیں۔ اور ہم نے کُل (الٰہی اور سماوی) چیزوں کو گھیر کر اور گن کر امامِ مبین (خلیفۃ اللہؑ)  میں رکھا ہے۔

ترجمۂ دوم: اللہ تعالیٰ نے امامِ مبین صلوات اللہ علیہ میں اپنا نورِ انوار قرار دیکر آپؑ کو زندہ اسمِ اعظم اور خلیفۃ اللہ اور خلیفۂ رسولؐ بنایا ہے۔

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ الٰہی اور سماوی چیزیں انتہائی عظیم اور زبردست حیران کُن ہوا کرتی ہیں، مثال کے طورپر قلمِ قدرت کا خیال کرو، نام

 

۱۶۵

 

ہے اس کا قلم مگر حقیقت میں ہے وہ نورِ اعظم اور فرشتۂ اکرم، سب علم والوں کے نزدیک یہ امرِ واقعی مشہور و معروف ہے کہ حق سبحانہٗ وتعالیٰ نے قلم کو پیدا کر کے فرمایا: لکھ، قلم نے عرض کیا مالک! کیا لکھوں؟ حکم ہوا، لکھ جو کچھ ہو چکا ہےاور جو کچھ ہونے والا ہے۔

پس فرشتۂ قلم کے پاس اسمِ اعظم اور کلمۂ کُن تھا، لہٰذا حسبِ منشاء سب کچھ خود ازخود ضبطِ تحریر میں آگیا۔ اب آپ کو عاقلانہ طریق پر آزادی سے سوچنا ہے کہ اللہ نے امامِ مبینؑ میں تمام الٰہی اور سماوی چیزوں کو گھیر کر اور گن کر رکھا ہے، تاکہ امامِ مبینؑ، جو امامُ النّاس، عیال اللہ کو نجات دلا کر بہشت میں داخل کر دے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر۲۷، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۶۶

 

امامِ مبینؑ کا سرِ اعظم

قسط: ۸۲

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ اہلِ معرفت کے لئے بڑا اہم تصوّر ہے کہ سب لوگ کبھی عالمِ ذرّ میں ایک ہی امت (جماعت) تھے (۰۲: ۲۱۳) کبھی حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کی روحانی قیامت میں آخری منزل (انبعاث اور ابداع) تک ساتھ تھے، یہ تصوّر بڑا عجیب وغریب اور عام فہم سے بالاترلگتا ہےکہ لوگ سب کے سب روحاً اور غیر شعوری طورپر ہر پیغمبرؑ کی معراج میں ساتھ تھے اور یہ تو قرآنِ حکیم کا ایک واضح ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیّت کے اقرار میں سب بنی آدم روحاً حاضر تھے(۰۷: ۱۷۲)۔

حضرتِ نوح علیہ السّلام کی روحانی کشتی میں روحاً سب لوگ سوار ہوئے تھے (۳۶: ۴۱)۔ امامِ مبینؑ میں تمام الٰہی اور سماوی چیزیں جمع ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلیفۃ اللہ = امامُ النّاس ربّ العزّت کے معجزات کے سرچشمہ ہے، جب آپ آیۂ اللہ نور السمٰوٰت کو پڑھتے ہیں تو اس کا تصوّر یا تو خیمۂ نور کی مثال ہے جو آسمانوں سے بھی بہت بلند ہو یا بحرِ محیط ہے، پس اگر اللہ کا نور آسمانوں پر محیط خیمہ کی مثال میں ہے توسب لوگ خیمۂ نورِ الٰہی میں رہتے ہیں، اگر اللہ کے نور کا تصوّر سمندر کی طرح ہے تو سب لوگ بحرِ نور میں ڈوبے ہوئے ہیں، کیا ایسے میں عالمِ انسانیّت کے باطن پر اللہ کے نور کی شعاعیں

 

۱۶۷

 

نہیں برستی ہیں؟

کلیۂ امامِ مبینؑ میں احاطۂ نور کا تصوّر ہے، جس میں الٰہی اور سماوی چیزیں محدود ہیں، کیا اس میں تمام انسانی روحیں بھی ہیں؟

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار۲۸، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۶۸

 

دوعظیم فرشتے

قسط: ۸۳

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت کے اس منفرد اور بیحد ضروری موضوع میں حضرتِ اسرافیلؑ اورحضرتِ عزرائیلؑ دو عظیم فرشتوں کا ذکر ضروری بلکہ ازبس ضروری ہے، کیونکہ بفضلِ خدا ہم جس روحانی قیامت کا باربار ذکر کرتے ہیں، اس کا براہِ راست تعلق اسمِ اعظمِ نورانی = امامِ زمانؑ اور اسمِ اعظمِ لفظی کے بعد ان دونوں فرشتوں سے ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام کا ذکر اس طرح آیا ہے: قُلْ یَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ (۳۲: ۱۱)

ترجمہ: (اے رسول!) کہدو کہ تمہیں ملک الموت وفات دیتا ہے جو تم پر مقرر کیا گیا ہے پھرتم اپنے ربّ کی طرف لوٹائے جاؤگے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ فرشتے اور بھی ہیں، مگر تنہا موت کا فرشتہ (عزرائیلؑ) ہی انسان کی موت سے پہلے کیوں انسان پر مقرر ہے؟ جواب: اس میں یقیناً موتواقبل ان تموتوا۹۹ کا اشارہ ہے، جس پر عمل کرنے میں بے شمار فائدے ہیں، نیز اس بزرگ فرشتے کا اشارہ سورۂ فتح (۴۸: ۲۶) میں ہے، وہ اشارہ کلمۃ التقویٰ (کلمۂ تقویٰ)ہے یہ ایک تاویلی حجاب ہے جس میں عزرائیلی اسمِ اعظم پوشیدہ ہے، جس کے لگا تار ذکر سے عزرائیلؑ اور اس کے لشکر کا کام جاری

 

۱۶۹

 

ہوتا ہے۔

حضرتِ اسرافیلؑ کا نام حدودِ دین میں جدّ ہے۔ سورۂ جن(۷۲: ۰۳)، بحوالۂ کتابِ وجہ دین۱۰۰، ص۲۵۴۔

میرے مولا نے مجھے لوگوں سے قربان کر دیا

اس خلیلی کام سے دنیا کو حیران کر دیا

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار۲۸، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۱۷۰

 

دو عظیم فرشتے

قسط: ۸۴

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ تعالیٰ کی باطنی بادشاہی=عالمِ شخصی میں دودریاؤں کا سنگم(مجمع البحرین (۱۸: ۶۰ تا ۶۱) شاید ایک سے زیادہ مقامات پر ہو سکتا ہے، اسی طرح مرج البحرین (۵۵: ۱۹ تا ۲۲) بھی، پس حضرتِ اسرافیلؑ اور حضرتِ عزرائیلؑ اللہ کے وہ دوسمندر ہیں جن سے ہر روحانی قیامت میں انمول موتی اور مونگے نکلتے ہیں (اللُّؤْلُؤُ وَ الْمَرْجَانُ ۵۵: ۲۲) یعنی سالک کو سات رات اورآٹھ دن لگا تار اسرافیلی اور عزرائیلی منزل میں رضا کارانہ یا عاشقانہ عذاب میں رہنا ہے، تاکہ یہ اس کی طرف سے عالمِ انسانیّت کے لئے ذبحٍ عظیم (بہت عظمت والی قربانی) کا فدیہ ہو (۳۷: ۱۰۷)۔

الحمد اللہ، اس بندۂ درویش پر صوفیانہ موت واقع ہوئی اور امامِ آلِ محمدؐ خلیفۃ اللہ کی نورانی ہدایت اور تائید ساتھ تھی، میں تعلیم میں بہت ہی پیچھے، علم و حکمت میں بہت ہی غریب اور مفلس تھا، اس کے ساتھ ساتھ میں طرح طرح کی تکالیف میں مبتلا ہو گیا، میں اکثر مناجات بدرگاہِ قاضیُ الحاجات کا سہارا لیتا تھا، ایک دن یادِ الٰہی سے دل بہت پگھل گیا تھا اور میں آہستہ آہستہ خدا سے شکایت کر رہا تھا کہ کان بجنے لگا، اور یہ سلسلہ بڑھتا گیا، یہاں تک کہ

 

۱۷۱

 

اسی کان کے بجنے سے صورِ اسرافیل کی آواز رفتہ رفتہ بلند ہونے لگی، اور یہ آواز اتنی بلند ہو گئی کہ مجھے یہ گمان ہو گیا کہ جملۂ کائنات سن رہی ہے، حالانکہ یہ صرف روحانی آواز تھی، یقیناً ذراتی شکل میں روحوں کا بڑا طوفان جمع ہو گیا۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر۲۹، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۱۷۲

 

دوعظیم فرشتے

قسط: ۸۵

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۱۲) کا حکمتِ بالغہ سے لبریز ارشاد ہے: وَ اللّٰهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ۔ ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ جن کو چاہتا ہے(ان کو) بغیر حساب کے جنّت کا رزق دیتا ہے، یعنی خداوندِ علیم وحکیم اگرچاہے تو کسی سالک کو صوفیانہ وفات دے کر دنیا کے تمام لوگوں کو، جو عیال اللہ ہیں، بغیر حساب کتاب کے بہشت کا بے اندازہ رزق دے سکتا ہے، کیونکہ یہ قانون خود قرآن میں ہے کہ جو شخص ایک جان کو زندہ کرتا ہے، وہ گویا سب لوگوں کو زندہ کرتا ہے(۰۵: ۳۲) پس جو سالک یا صوفی موتوا قبل ان تموتوا کے پُرحکمت ارشاد پر عمل کر کے اپنی جان کو حقیقی معنوں میں زندہ کرتا ہے تو یہ کام صرف امامِ آلِ محمدؐ خلیفۃ اللہ کے ذریعے سے ممکن ہے، کیونکہ معجزۂ اسمِ اعظم کی مدد کے بغیر جیتے جی مر کر بہت بڑا فائدہ بلکہ بے شمار فائدے حاصل کرنا کوئی آسان کام ہر گز نہیں۔ اسمِ اعظم دو دریاؤں کے سنگم کے قانون کی طرح یا مرج البحرین کی طرح دو ہیں، ایک نورانی اسمِ اعظم ہے یعنی امامِ زمان (روحی فداہ) اور دوسرا لفظی اسمِ اعظم ہے جو امامؑ سے وابستہ ہے کہ وہ امامؑ کی محبت، اطاعت اور اجازت کے بغیر کسی کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا ہے، جیسا کہ قرآن میں

 

۱۷۳

 

ارشاد ہے: وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) یعنی تمام الٰہی اور سماوی چیزیں امامِ مبینؑ میں جمع ہیں، القرآن۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)،

پیر ۲۹، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۷۴

 

دو عظیم فرشتے

قسط: ۸۶

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ نمل (۲۷: ۶۶) کے اس پُر از حکمت ارشاد میں  صاحبانِ عقل کے لئے بڑی ضروری حکمتیں ہیں؛ وہ ارشادِ مبارک یہ ہے: بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ ﱄ بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْهَا-بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ ۔ ترجمہ: بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم فنا ہو گیا، بلکہ وہ اس کی طرف سے شک میں ہیں، بلکہ وہ اس سے دل کے اندھے بنے ہوئے ہیں۔ پس میرے خیال میں علم الآخرت ممکنُ الحصول اور ضروری ہے، لہٰذا دریائے اسرافیلؑ اور دریائے عزرائیلؑ کے سنگم پر علم الآخرت کا جو عظیم خزانہ ہےاس کے حصول کے طریقہ پر عمل ہونا چاہئے۔

ان شاءَ اللہ اہلِ دانش اس فرمانِ الٰہی کی حکمتوں کو سمجھ لیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرتِ اسرافیلؑ اور حضرتِ عزرائیلؑ نے ابوابِ معرفت کھول دیئے، تاکہ عالمِ انسانیّت کے لئے کوئی خدمت ہو سکے، یہ سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خلیفہ امامِ آلِ محمدؐ کی رہنمائی میں تمام لوگوں کو بلاتا ہے(۱۷: ۷۱) روحانی قیامت کی سیڑھی حظیرۃ ُ القدس تک ہے، جہاں معرفت کے تمام اسرارِ عظیم جمع ہیں، اور یہی عرفانی بہشت ہے، اور ہر کام کی نسبت سے اس کا ایک نام ہے، یعنی اس کے جتنے زیادہ کام

 

۱۷۵

 

ہیں، اتنے زیادہ نام ہیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل۳۰، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۱۷۶

 

نور کی گونا گونی۱۰۱

قسط: ۸۷

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ ہماراعقیدۂ راسخ، ایمان اور یقین ہےکہ حضرتِ خاتم الانبیاءﷺ نورِ مجسم تھے، کیونکہ حضورِ اکرمؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بمرتبۂ نور مبعوث ہوئے تھے(۰۵: ۱۵)آپؐ کوخدانے چراغِ روشن بنا دیا تھا (۳۳: ۴۶) اگر دنیا کا کوئی چراغ فی المثل زندہ، ناطق، اور دانا ہوتا تو اس کی سماعت، بصارت، بصیرت، اور گویائی (قوتِ ناطقہ) بھی نور ہی کی ہوتی، وہ بڑی آسانی سے نور کو سن سکتا، نور کو ظاہر وباطن میں دیکھ سکتا، اور وہ جب بھی بولتا تو صرف اور صرف نور افشانی کرتا، یعنی پُرنور باتیں کرتا، کیونکہ اس کی روشنی و پاکیزہ ذات میں ماسوائے نور کے اور کوئی چیز نہ پائی جاتی، یہ آنحضرتؐ ہی کی مثال درمثال ہے، پس معلوم ہوا کہ حضورِ پاکؐ کو سراجِ منیر کہنے کا مطلب یہی ہے کہ یقیناً آنحضرتؐ سر تا پا نور تھے، لہٰذا آپؐ کے حواسِ ظاہر و باطن نور ہی تھے، اور آپؐ کا کلامِ حکمت نظام بصورتِ قرآن وحدیث نور ہی تھا، یہی حقیقت دعائے نور سے بھی روشن ہوجاتی ہے، جو درجِ ذیل ہے، آپ اسے غور سے پڑھیں:۔

کتبِ احادیث میں رسول اللہؐ کی یہ انتہائی جامع دعا موجود ہے، جس سے ایک طرف تو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ حضورِ پاکؐ سراپا نورِ مجسّم تھے، اور دوسری

 

۱۷۷

 

طرف یہ پتا چلتا ہے کہ تجلّیاتِ نور میں گونا گون ہے، اس پُرحکمت دعا کا ترجمہ اس طرح سے ہے: یا اللہ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کردے، اور میرے کان، آنکھ، اور زبان میں بھی نور بنادے، میرے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں اور رگوں میں بھی نور بنا دے، اور میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپراور نیچے بھی نور مقرر فرما!۱۰۲

اس تمہیدی بیان اور دعائے نور سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ خداوندِ عالم نے نور کو انسانِ کامل ہی میں پیدا کیا ہے، اس لئے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ نور کی اصل صورت نبیؑ اور ولیؑ ہیں، اور یہ ضروری نکتہ بھی یاد رہے کہ مذکورۂ بالادعا کے مطابق انسانِ کامل ظاہراً وباطناً دریائے نور میں مستغرق ہو جاتا ہے، تب اس کی شخصیّت کو سانچے کے طور پر استعمال کر کے بہت سے فرشتے بنائے جاتے ہیں، جو اس کے ہمشکل ہوا کرتے ہیں، اور یہ معجزانہ عمل اسرافیلی اور عزرائیلی منزل میں انجام پاتا ہے، حدیثِ شریف میں ایسے فرشتوں کا نام “بازارِ جنت کی تصویریں” ہے۱۰۳ (جامعِ ترمذی، جلدِ دوم، جنت کے بازار)۔

نور کی تجلّیات کی گونا گونی انسان کے حواسِ ظاہر و باطن کے مطابق ہوا کرتی ہے، چنانچہ کان کے لئے جو نور ہے وہ کئی طرح کی آواز میں ہے، آنکھ کے لئے جو نور ہے وہ مشاہدۂ آیات و معجزات میں ہے، اسی طرح ہر احساس و ادراک کیلئے نور کی ایک تجلّی مقرر ہے، تعجب خیز ذکر و علمی گفتگو، حیرت انگیز روحانی خوشبوئیں وغیرہ سب ظہورِ نور ہی کی وجہ سے ہیں، مومنِ سالک کے عرفانی مشاہدات، تجربات، اور معلومات کے لئے چار عوالم ہیں: عالمِ بیداری، عالمِ خیال، عالمِ خواب، اور عالمِ روحانیّت، جن میں سے ہر ایک میں تجلّیاتِ نور کے بیشمار عجائب وغرائب ہیں، کیونکہ ایسے میں ہر حالت پر نور غالب

 

۱۷۸

 

آتا ہے۔

دعائے نور کے سلسلے میں شاید کوئی عزیز یہ سوال کرے کہ بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں، اور رگوں کے لئے جو نور مطلوب ہے اس کے کام کی نوعیت کیا ہو گی؟ اس کا کلّی جواب تین حصّوں میں ہے: (الف) نور کے بیشمار کاموں میں سے ایک زبردست مفید کام روحانی علاج ہے، لہٰذا جسم کے ان اجزاء میں نور کے آنے ہر قسم کی بیماری دور ہو جائے گی (ب) ان اجزاء میں روحِ نباتی اور روحِ حیوانی کام کررہی ہے، اس لئے نور کی روشنی میں ان روحوں کی معرفت ہوگی (ج) جب عارف کے اجزائے جسمانی سب کے سب نور میں مستغرق ہوجاتے ہیں تو اس وقت اس کا نورانی بدن مکمل ہو کر الگ ہوجاتا ہے، جس کا اسی مضمون میں ذکر ہوچکا۔

دوسرا امکانی سوال یہ بھی ہے کہ کوئی پوچھے کہ آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر، اور نیچے نور کس طرح ہو سکتا ہے؟ اور ایسے میں کیا کیا فائدے حاصل ہوں گے؟ اس کا جواب دو طرح سے ہے: اوّل یہ کہ فی الواقع نور چھ اطراف سے آتا ہے، اور ہر جانب سے کام کرتا رہتا ہے، یعنی آگے (پیشانی اور چہرہ) پیچھے(پشت) دائیں (گوشِ راست) بائیں (گوشِ چپ) اوپر (سرکابالائی حصّہ) اور نیچے (پاؤں)، دوسرا یہ کہ آگے= مستقبل ہے، پیچھے = ماضی، دائیں = ظاہر، بائیں = باطن، اوپر= عالمِ علوی، اور نیچے = عالمِ سفلی، ان میں سے ہر مقام کے لئے ایک نور کی ضرورت ہے، تاکہ علم و معرفت کے بے شمار فائدے حاصل ہو سکیں۔

صوفیائے کرام کا یہ نظریہ بالکل صحیح ہے کہ جسمانی موت سے قبل نفسانی طورپر مرجانا ضروری ہے، اس کے سوا معرفت کے لئے کوئی راستہ نہیں، نفسانی

 

۱۷۹

 

موت کے بعد ہی سالک حقیقی معنوں میں زندہ ہوجاتا ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: کیا جو شخص پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور مقررکیا جس کے ذریعے سے وہ لوگوں میں چلتا ہے اس شخص کا سا ہو سکتا ہے جس کی حالت یہ ہے کہ اندھیروں میں پھنسا ہوا ہے کہ وہاں سے نکل ہی نہیں سکتا؟ (۰۶: ۱۲۲) یہاں ایک بڑا اہم سوال یہ ہے کہ خدا نے جس شخص کو نورِ معرفت میں زندہ کیا ہے وہ کس طرح لوگوں میں چلتا ہے؟ کیا یہ چلنا وہی ہے جس طرح دوسرے سب لوگ چلتے ہیں؟ آیا یہ شخص لوگوں کے باطن میں چل سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا عارف اپنے عالمِ شخصی میں لوگوں کی روحوں کے درمیان چلتا ہے جہاں ہر چیز کی معرفت ہے، اور یہ بڑی قابلِ تعریف بات ہے۔ بحوالۂ کتاب عملی تصوف، ص۸۲۔ ۸۴۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

سہ شنبہ۳۰، ستمبر۲۰۰۳ء

 

۱۸۰

 

حظیرۂ قدس اور انسان۱۰۴

قسط: ۸۸

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ تمہید: حظیرۃُ القدّس کے باطنی ناموں میں سے ایک نام آسمان ہے، اور ایک نام عرش ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمانی مساوات کا کام کرتا ہے۔

بحوالۂ کتاب، کنوز الاسرار قسط۱۲:۔ سوال منجانبِ جملہ عزیزانِ علمی جو بفضلِ مولا علم پرور اور علم گستر ہیں: قرآنِ حکیم اور نورِ امامت کے سنگم کا کوئی عظیم راز بتائیں جس کو ہم کبھی فراموش نہ کرسکیں؟ جواب: اگرچہ میں نے یہ سب سے عظیم راز قرآنِ پاک کی طرف سے بیان کیا ہوا ہے، لیکن اب میں اسے مولا کے فرمانِ اقدس کے ساتھ بیان کرتا ہوں:۔

سورۂ دہر(۱۱: ۰۷)میں جیسا کہ ارشاد ہے کہ اس کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ عالمِ دین اورعالمِ شخصی کی تخلیق وتکمیل کے بعد عرشِ اعلیٰ کا ظہور علم کے سمندر پر ہوا پھر معجزانہ طور پر عرش (تختِ الٰہی) اورسفینۂ نوح کا سنگم ہوا یعنی یہ بحکمِ قرآن پانی پر عرش تھا (۱۱: ۰۷) نیز یہ پانی پر کشتیٔ نجات تھی (۳۶: ۴۱)اس کشتی میں امامِ آلِ محمدؐ شاہ کریم الحسینی حاضر امامؑ جلوہ فرما تھا، اور ا س کی مبارک ہستی میں تمام ذرّاتِ ارواح جمع تھے، یہ ہوا فنا فی اللہ و بقا باللہ کے معنی میں عرش پر جا بیٹھنا، نیز بھری ہوئی کشتی میں سوار ہو جانا۔

پاک مولا کا فرمان ہے: تم عرشِ عظیم پر پہنچو، عرشِ عظیم پر پہنچنے کے

 

۱۸۱

 

لئے پاک ہونا ضروری ہے اس لئے تم اپنا دل ہمیشہ پاک رکھو، اگر تمہارا دل پاک ہوگا تو اس دنیا میں ہی عرشِ عظیم دیکھ سکو گے، یہ بہت دور نہیں ہے۔۱۰۵ (کلامِ امامِ مبینؑ، حصّۂ اوّل منجیوڑی۳۔ ۱۱۔ ۱۹۰۳ء)۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۳۰، ستمبر ۲۰۰۳ء

 

۱۸۲

 

حظیرۂ قدس اور انسان

قسط: ۸۹

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ انبیاء کے اس پاک و پُرحکمت ارشاد میں حظیرۂ قدس کا ذکر ہے (۲۱: ۷۱) وَ نَجَّیْنٰهُ وَ لُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا لِلْعٰلَمِیْنَ ۔ ترجمہ: اور ہم ہی نے ابراہیمؑ اور لوطؑ کو نجات دلاکر اس سرزمین میں پہنچایا جس میں ہم نے عالمین کے لئے طرح طرح کی برکتیں رکھی ہیں۔ تاویل: دنیا میں کوئی ایسی سرزمین نہیں جس میں ہر ہر عالمِ انسانی یعنی ہر عالمِ شخصی کے لئے ربّانی برکتیں رکھی ہوں، ہاں یقیناً اللہ جلّ جلالہ کی ایسی زمین صرف حظیرۂ قدس ہی ہے، جس میں عالمین میں سے ہر عالم، یعنی ہر فردِ بشر(جو ایک عالم ہے) کے لئے حق سبحانہ وتعالیٰ کی جانب سے گونا گون برکتیں ہیں۔

حظیرۂ قدس کے پُرحکمت ناموں میں سے ایک نام ارض یعنی بابرکت زمین بھی ہے اور قرآن میں اس کا ایک نام مشارق و مغارب والی زمین بھی ہے(۰۷: ۱۳۷)، الغرض میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حظیرۂ قدس کے بڑے زبردست معجزات عالمِ انسانیّت ہی کے لئے کام کر رہے ہیں۔

اسرافیلؑ اور عزرائیلؑ کے سنگم پر کم از کم ستر ہزار زندہ بہشتی کائناتیں عالمِ انسانیّت ہی کے لئے بنتی ہیں، اور قرآنِ حکیم میں جتنی آیاتِ تسخیر ہیں، اور جتنی

 

۱۸۳

 

آیاتِ انعامات ہیں وہ سب عیال اللہ ہی کے لئے ہیں، جب اللہ قادرِ مطلق اور اس کے محبوب رسولؐ رحمتِ عالم کے فرمانِ پاک میں “الخلقُ عیال اللہ” کا مبارک ارشاد ہے تو یہ عالمِ جبروت کا قانونِ اعظم اور عالمِ لاہوت کی ضمانت ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ، یکم اکتوبر ۲۰۰۳ء

 

۱۸۴

 

حظیرۂ قدس اور انسان

قسط: ۹۰

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ انبیاء (۲۱: ۳۲) کا مبارک ارشاد ہے: وَ جَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا (الخ)۔ ترجمہ: اور ہم ہی نے آسمان کو چھت بنایا جو ہر طرح محفوظ ہے۔ تاویل: اللہ تعالیٰ نے حظیرۂ قدس کو آسمان اور چھت = عرش بنایا، کہ عرش کے لفظ میں چھت کے معنی بھی ہیں (قاموس القرآن ص۳۵۰) اور محفوظ کا یہ اشارہ ہے کہ حظیرۂ قدس میں قلم اور لوحِ محفوظ کا سنگم ہے اورعرش وکرسی کابھی، اگر وہاں تمام علوی چیزوں کے دودونمونے نہ ہوتے تو حظیرہ کے لفظی معنی سے آپ کو تعجب ہوتا، پس حظیرۂ قدس میں ازل و ابد کا معجزہ یکجا ہے، ابداع و انبعاث کا سنگم ہے، مکان میں لامکان ہے، یہاں مظہرِ نورِ خداؑ باربار کائناتِ باطن کو لپیٹتا ہے جس میں لوگوں کے لئے بے پایان فائدے ہیں۔

مجمع البحرین (۱۸: ۶۰)اور مرج البحرین(۵۵: ۱۹) کا آسان مفہوم سنگم ہے اور یقیناً دو دریاؤں کے سنگم کے بغیر کہیں کوئی حکمت نہیں ملتی ہے۔

پس حظیرۂ قدس میں نفسِ کلّی=امامِ مبینؑ اور نفوسِ جزوی کا سنگم ہے اور یہی راز عالمِ انسانیّت کے لئے سب سے مفید ہے،

 

۱۸۵

 

یہ فنا فی الامامؑ ہے جو فنا فی اللہ کی تاویل ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ، یکم اکتوبر۲۰۰۳ء

 

۱۸۶

 

حظیرۂ قدس اور انسان

قسط: ۹۱

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ لقمان(۳۱: ۲۰): اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اَسْبَغَ عَلَیْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّ بَاطِنَةًؕ ۔

تمہید: اس بیحد بابرکت اور پُرحکمت فرمانِ خداوندی کا خاص خطاب”َلَمْ تَرَوْا” کی مناسبت سے بہت ہی لطیف وبلیغ ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ حکمت سے لبریز ارشاد یقیناً حظیرۂ قدس کے تناظر میں سوچنے کے لئے ہے، کیونکہ خلیفۃ اللہ=امامِ مبینؑ، خدا کے حکم سے لوگوں کے لئے جو جو تسخیری معجزات کرتا ہے، ان سب کا مشاہدہ اور عرفان بالیقین اسی مقام پر ہوتا ہے۔

ترجمہ: آیا تم نے(یعنی تمہارے عرفاء نے حظیرۂ قدس میں چشمِ بصیرت سے) نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اورجو کچھ زمین میں ہے(غرض سب کچھ) اللہ نے تمہارے لئے مسخر کر رکھا ہے، اور تم پر اپنی ظاہری اورباطنی نعمتیں پوری کر دی ہیں؟

سورۂ یاسین=قلبِ قرآن (۳۶: ۱۲) میں امامِ مبین علیہ السّلام سے متعلق جیسا ارشاد ہوا ہے، اس کی فعالیت = موثر کارکردگی کا معجزہ

 

۱۸۷

 

اور مشاہدہ حظیرۂ قدس ہی میں ہوتا ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعرات ۲، اکتوبر۲۰۰۳ء

 

۱۸۸

 

حظیرۂ قدس اور انسان

قسط: ۹۲

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ حٰمٓ السجدۃ (۴۱: ۵۳) سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّؕ۔

تمہید: ایک اعتبار سے دنیا کے سب لوگ جمعاً نفسِ واحدہ کی طرح ایک ہیں(۳۱: ۲۸) جبکہ روح حقیقت میں ایک ہی ہے(ملاحظہ ہوکتابِ ہٰذا کا حصّۂ اوّل ص۱۳، ۲۹، ۵۷) پس اسی نفسِ واحدہ یعنی ایک ہی روح کا نام عالمِ انسانیّت اور عیال اللہ ہے۔

ترجمہ: ہم عنقریب ہی اپنی قدرت کی نشانیاں یعنی معجزات اطرافِ عالم میں اور خود ان میں بھی دکھائیں گے، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی یقیناً حق ہے۔

چنانچہ اللہ عزّ اسمہ نے اپنے وعدۂ عالی کے مطابق عیال اللہ (عالمِ انسانیّت) کو نہ صرف مادّی سائنس کے معجزات سے نوازا، بلکہ ہر زمانے میں (۱۷: ۷۱) امامِ عصرؑ خلیفۃ اللہ کے ذریعے سے روحانی اور باطنی قیامت کے معجزات سے بھی بڑی حد تک ان کو فیض پہنچا دیا، جبکہ سب لوگ نفسِ واحدہ کی طرح ایک ہیں(۳۱: ۲۸)اور جبکہ سب کی روح ایک ہی ہے۔

 

۱۸۹

 

پس ہر روحانی قیامت کی سیڑھی چڑھ کر تمام روحیں حظیرۂ قدس میں فنا فی الامامِ المبینؑ ہوجاتی ہیں، اور ان کا سایۂ ظاہر واپس دنیا میں آتا ہے، اور یہی قانون ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ ۳، اکتوبر۲۰۰۳ء

 

۱۹۰

 

حظیرۂ قدس اور انسان

قسط: ۹۳

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ خداوندِ قدوس کا یہ پرحکمت ارشاد سورۂ ذاریت(۵۱: ۲۰ تا ۲۲) میں ہے: وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ  وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ  وَ فِی السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ۔

کلامِ الٰہی کا یہ خطاب عالمِ انسانیّت سے ہے، ترجمہ: اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں قدرتِ خدا کی بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تم میں بھی ہیں(جبکہ انسان وہ عالم ہے، جس میں سب کچھ ہے) تو کیا تم دیکھتے نہیں؟ (یہ سوال معرفت کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہے) اور تمہارا(علمی)رزق اورجس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے(وہ یعنی بہشت)آسمان میں ہے(یعنی حظیرۂ قدس میں)

جب زمین کی نشانیاں یقین سے مشروط ہیں، تو یقین تین درجوں میں ہے: علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین، حق الیقین والے عرفاء ہوتے ہیں، یہاں یہ اشارہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ عارف بھی ہوتے ہیں، اور معروف بھی ہوتا ہے جس کو پہچانا جاتا ہے، یعنی مظہرِ نورِ خدا = امامِ زمان علیہ السّلام۔

یہاں آسمان سے حظیرۂ قدس مراد ہے جو علم ومعرفت کی بہشت

 

۱۹۱

 

ہے جس میں سب کے سب تاویلی معجزات کتابِ مکنون اور گوہرِعقل کا سنگم اور محیرالعقول اسرارِ عظیم ہیں۔

 

نصیرالدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

سنیچر۴، اکتوبر۲۰۰۳ء

 

۱۹۲

 

حظیرۂ قدس اور انسان

قسط: ۹۴

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قرآنِ حکیم میں سورۂ تین(۹۵: ۰۱ تا ۰۳) کو ترجمے کے ساتھ پڑھیں، اس سورہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے چار چیزوں کی قسم کھائی ہے، وہ تاویلاً عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطقؑ اور اساسؑ ہیں، اور جوابِ قسم یہ ہے کہ اللہ جلّ جلالہ نے انسان(عالمِ انسانیّت) کو بہت ہی اچھی تقویم میں پیدا کیا ہے، اللہ کی تقویم کے معنی ہیں چھوٹے بڑے ادوار، اورکور و اکوار، مثال کے طور پر قرآنِ پاک(سورۂ معارج۷۰: ۰۱ تا ۰۷) میں پچاس ہزار سال کے دور کا ذکر ہے، جس میں انسان بہشت کی ناز و نعمت اور علمی ترقی میں ہوگااور پھر وہ اللہ کے حکم سے فرشتہ بن جائے گا۔ اگر اللہ چاہے تو یہ ترقی بہت کم وقت میں بھی ہو سکتی ہے۔ بہشت کی ہر نعمت خواہش کے مطابق ہے۔

تقویم: اصلاح، سدھار، کلینڈر(قیامت)پہلے چار معنی القاموس الوحید میں ہیں، مولانا وحید الزمان قاسمی کیرانویؒ۔

چار چیزوں کی تاویل کا حوالہ وجہِ دین ص۱۲۱۔ ۱۰۶

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

اتوار۵ اکتوبر۲۰۰۳ء

 

۱۹۳

 

حظیرۂ قدس اور انسان

قسط: ۹۵

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ عظیم الشان ارشاد سورۂ یٰسٓ (۳۶: ۶۸)میں ہے: ومن نعمرہ ننکسہ فی الخلق افلایعقلون۔

ترجمہ: اور جس کو ہم زیادہ عمر دیتے ہیں، اسے پیدائش میں الٹا کر دیتے ہیں، پھر کیا وہ عقل سے کام نہیں لیتے؟ تاویلی مفہوم: اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو بہشتِ برین کی بہت لمبی عمر دینا چاہتا ہے تو ان کو سرِ تجدّد سے آگاہ کرتا ہے، اور عالمِ امر سے عالمِ خلق کی طرف گویا سرنگون ہوکر آنے اور شکمِ مادر سے سرنگون ہو کر پیدا ہونے کی حکمت سے باخبر کر دیتا ہے۔ شکمِ مادر سے بچہ کیوں معکوس=اوندھا پیدا ہوتا ہے؟جواب: یہی قانونِ فطرت ہے، اور اسی میں حکمت ہے، حکمت یہ ہے کہ اس میں دائرے کی طرف اشارہ ہے، اور دائرہ ہی لاابتدائی اور لاانتہائی کی علامت ہے، اور کائنات کی کوئی چیز علامتِ دائرہ یعنی اشارۂ دائرہ کے بغیر نہیں۔

پس ہر شیٔ گواہی دے رہی ہے کہ خدا کی بادشاہی قدیم یعنی ہمیشہ ہمیشہ ہے، اس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، اور حظیرۂ قدس میں بھی ہر چیز دائرۂ دائم پر جاری وساری ہے، اور اس میں کلمۂ امر اور کلمۂ امکان کا سنگم دو سب سے بڑے معجزے ہیں۔ یہ سب مجھ خلیفۃ اللہ=امام الناسؑ کے

 

۱۹۴

 

وسیلے سے عالمِ انسانیّت ہی کے لئے ہے، اور ہر عاقل جانتا ہے کہ انجامِ کار اللہ تعالیٰ کے ارادۂ ازل کے مطابق ٹھیک ٹھاک ہونے والا ہے، اور سب لوگ جو عیال اللہ ہیں بہشت میں جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنےوالے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر۶، اکتوبر۲۰۰۳ء

 

۱۹۵

 

عالمِ شخصی میں پیشانی کا مرتبہ۱۰۷

قسط: ۹۶

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ آج (یکم مئی ۱۹۹۷ء) ہم نے بفضلِ خدا ایک جدید مقام پر مناجات کی ہے، اس لئے (ان شاء اللہ ) ہم کوشش کرتے ہیں کہ تحفۂ دوستان میں کچھ جدید چیزیں ہوں، چنانچہ آپ کو علم ہے کہ بہشت آٹھ ہیں، آٹھ کے چار جوڑے، چار کے دو جوڑے، دو کا ایک جوڑا، قرآن کی زبان میں زَوجان، یعنی دو فرد، جیسے شوہر اور بیوی، اگر دو شخصی عالمِ وحدت میں داخل ہوتے ہیں تو وہ قانونِ وحدت کی وجہ سے ایک ہوجاتے ہیں، پس بہشت ایک بھی ہے، دو بھی ہیں، چار بھی ہیں، اور آٹھ بھی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنت پھیلی ہوئی بھی ہے اور مرکوز ومجموع بھی۔

بہشت کائنات کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی ہے(۰۳: ۱۳۳)، (۵۷: ۲۱)اور عارف کے عالمِ شخصی میں خدا کے حکم سے محدود ہوجاتی ہے، اور کچھ عرصے کے بعد بطورِ خاص پیشانی میں مرکوز ہوجاتی ہے، اس معنیٰ میں پیشانی گویا عرش ہے جہاں عقلی بہشت اور اس کی ہرنعمت موجود ہے، پیشانی کے لئے قرآنِ حکیم میں لفظ “جبین” آیا ہے، اس کا ایک خاص ذکر سورہ صافات (۳۷: ۱۰۳) میں ہے، پس جبین (پیشانی) کا مرتبہ عالمِ شخصی میں سب سے اعلیٰ ہے، ہاں یہ سچ اور حقیقت ہے کہ حضرتِ امامِ زمان علیہ السّلام

 

۱۹۶

 

کا مرکزِ نورجبین میں ہوتا ہے، یقیناً یہ بہت بڑا راز ہے کہ انسانِ کامل کی بابرکت جبین میں نورخود از خود بولتا رہتا ہے، الحمد للہ ربِّ العٰلمین۔

۱۔ جبین میں لپیٹی ہوئی بہشت ہے

۲۔ یہ عالمِ شخصی کا عرشِ اعلیٰ ہے

۳۔ یہ حظیرۃ القدس ہے

۴۔ یہ نمونۂ معراج ہے

۵۔ کوہِ طور کا ساراقصّہ جبین ہی کا قصّہ ہے

۶۔ جبین میں پہنچ کر ہی ازل اور لامکان کا مشاہدہ ہو سکتا ہے

۷۔ کنزِ مخفی جبین ہی میں پوشیدہ ہے

۸۔ جبین ہی عالمِ شخصی کا آسمان اور عالمِ علوی ہے

۹۔ پس جملہ مومنین و مومنات کے لئے یہ امر بیحد ضروری اور لازمی ہے کہ وہ بارگاہِ ایزدی میں بار بار گریہ و زاری کریں، اورآسمانی عشق میں بڑی کثرت سے جبین کے سجدے کریں۔ بحوالۂ کتاب تجرباتِ روحانی، ص۴۵۔ ۴۶۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر، ۶، اکتوبر۲۰۰۳ء

 

۱۹۷

 

“روح ایک ہی ہے”

قسط: ۹۷

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ کتا ب قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت حصّۂ اول قسط ۱۰ ص۱۳پر ہے: حجتِ قائم علیہ السلام نے فرمایا: تم ہماری روحانی اولاد ہو اوریادرکھنا “روح ایک ہی ہے۔”۱۰۸ یعنی روح دراصل وہی نفسِ واحدہ ہے جس کا ذکر قرآنِ حکیم میں ہے، نفسِ واحدہ ایک بھی ہے اور بے شمار کی وحدت بھی، اسی لئے وہ آدم بھی ہے اور بنی آدم بھی، نفسِ واحدہ اللہ کا سب سے بڑا معجزہ ہے جو بڑا حیران کُن ہے، کہ وہ معجزہ درمعجزہ اور تجلی در تجلی ہے۔۱۰۹

مذکورۂ بالا کتاب ص۲۹ اور ۵۷کو بھی دیکھیں۔

بحوالۂ ہزار حکمت (ح۵۱): الارواح جنود مجندہ =۱۱۰ روحیں جمع شدہ لشکر کی صورت میں ہوتی ہیں، یعنی ان کی خاصیت ہے کسی بہت منظم لشکر کی طرح جمع ہوجانا، اگر آپ کی روحانی قیامت قائم ہوتی ہے تو تمام روحیں تسخیرِ عالم اور تسخیرِ کائنات کے لئے آپ کے عالمِ شخصی میں حاضر ہو جاتی ہیں اور ہر روحانی قیامت میں ان کا یہی کام ہوتا ہے۔ چونکہ روح عالمِ امر سے ہے لہٰذا ان میں ابداعی وحدت ہے، پس روح ایک ہی ہے جس میں سب کے ظہور کا امکان ہے، یا سب کی ابداعی وحدت ہے، اور تمام روحوں کی خاص وحدت امامِ مبینؑ کی وجہ سے ہے کیونکہ ہر انسان کی روح

 

۱۹۸

 

کے ساتھ حضرتِ امام علیہ السّلام کا نور منسلک ہے۔۱۱۱ بحوالۂ کتاب قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت حصّۂ اول ص۱۱۲، ۱۶۷۔

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

پیر۶، اکتوبر۲۰۰۳ء

 

۱۹۹

 

علمِ مخزون

قسط: ۹۸

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ علم مخزون اس علم کوکہتے ہیں جو بطورِ خزانہ کسی مثال کے حجاب میں چھپاکر رکھا ہو۔ سورۂ فجر(۸۹: ۲۲)میں ارشاد ہے: وجاءَ ربک والملک صفاً صفا۔ ترجمہ: تمہارا رب اورفرشتے صف بصف آجائیں گے۔ تاویل: یہ روحانی قیامت کا ذکر ہے، یعنی حضرتِ رب کا خلیفہ=امامِ زمانؑ فرشتوں کے ساتھ جلوہ فرما ہوتا ہے، جبکہ ربِ تعالیٰ آنے جانے سے پاک و برتر ہے، اسی وجہ سے اس نے ہمیشہ لوگوں کے درمیان ظاہراً و باطناً امامؑ کو اپنا خلیفہ مقررکیا ہے تاکہ لوگ خلیفۃ اللہ = امامِ مبینؑ کے وسیلے سے آسمانی فیوض و برکات کوحاصل کرتے رہیں۔ پس روحانی قیامت حق ہے اور جو خلافت  و امامت آدمؑ سے چلی آئی ہے، وہ حق ہے۔

قرآنِ حکیم کے بہت سے مقامات پر ایسے علمِ مخزون کا انکشاف ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ سورۂ بقرۃ (۰۲: ۲۱) کے حکمتِ بالغہ سے لبریز ارشاد میں ہے کہ اللہ اور فرشتے بادل کے سائبانوں میں آئیں  گے:

تاویل: اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے حکم سے حضرتِ قائم القیامتؑ مخفی یعنی لوگوں کی لاعلمی میں عالمِ دین میں آئے گا، یہ بڑا زبردست امتحان ہے، اس لئے کسی کو خبر نہیں ہو گی۔ ملاحظہ ہوکتابِ وجہِ دین: کلام ۳۳ کے آخر میں

 

۲۰۰

 

ص۳۲۱ ارشادِ رسولؐ کا مفہوم: قائم کو کوئی شخص پہچان نہ سکے گا، مگر پانچ حدود کے ذریعے سے، جیسے: اساسؑ، امامؑ، باب، حجت، اور داعی۔۱۱۲

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل۷، اکتوبر۲۰۰۳ء

 

۲۰۱

 

علمِ مخزون

قسط: ۹۹

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ اعراف(۰۷: ۵۲ تا ۵۳)کے عظیم الشّان ارشاد میں چشمِ بصیرت سے دیکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہاں بڑی باریک اور بہت لطیف حکمتیں ہیں۔

۵۲کی کلیدی حکمت یہ ہے کہ قرآنِ پاک کی تفصیل علمِ تاویل سے ہو سکتی ہے، ۵۳کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ قرآنِ پاک کی تاویل روحانی قیامت کی صورت میں آتی رہی ہے یا آنے والی ہے۔ جو لوگ صوفیانہ موت سے مر کر زندہ ہو جاتے ہیں ان کی روحانی قیامت کی شکل میں تاویلِ قرآن آچکی ہوتی ہے، زہے نصیب! زہےنصیب!

لفظِ تاویل کے لئے ملاحظہ ہو۱۱۳: تاویلی انسائیکلوپیڈیا، س۱۱۳۔ ۱۲۰، دانش گاہِ خانۂ حکمت۔

جب برق سوار آیا تب باب کھلا ازخود

میں مر کے ہوا زندہ جب شاہِ شہان آیا

 

نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)،

منگل۷، اکتوبر ۲۰۰۳ء

 

۲۰۲

 

عملی تصوّف

فکرِ قرآن

قسط: ۱۰۰

 

اس جہان میں جبکہ قرآن کنزِ رحمان آگیا

رحمتوں اور برکتوں کا ایک طوفان آگیا

بحرِ قرآن بحرِ گوہر زا ہے عقلا کے لئے

تاکہ ہر عاقل یہاں سے اپنے دامن کو بھرے

دین و دانش علم و حکمت فکرِ قرآنی میں ہے

راہِ جنت رازِ لذت فکرِ قرآنی میں ہے

برکتیں ہی برکتیں ہیں فکرِ قرآن میں سدا

عاشقانِ فکرراگومرحبا صدمرحبا

یہ دوائے ہر مرض ہے آزما کر دیکھ لے

دورمت ہو جاعزیزا! اندر آکر دیکھ لے

چشمۂ لذاتِ عقلی فکرِ قرآنی میں ہے

منبعِ نعماتِ روحی فکرِ قرآنی میں ہے

تانہ بردی رنج ہارا کَی بیابی گنج را

عاقلان از فکرِ قرآن گنج ہارا یافتند

 

۲۰۳

 

فکرِ قرآنی سے لذت گیر ہونا ہے تجھے

جب نہ ہو ایسا تو پھر دلگیر ہونا ہے تجھے

فکرِ قرآن ہے طریقِ کنزِ اسرارِ خدا

کنزِ اسرارِ خدا ہے گنجِ انوارِ خدا

فکرِ قرآن علم وحکمت اور یہی ہے معرفت

مایۂ ایمان وایقان فکرِ قرآنی میں ہے

فکرِ قرآن ہے یقیناً کلِ کلیاتِ علوم

ذرۂ از علم وحکمت ہے نہیں باہر کہیں

راحتِ روح میوۂ جان فکرِ قرآنی میں ہے

چشمہ سارِ علم وعرفان فکرِ قرآنی میں ہے

فکرِ قرآن ہے تصوف، اور اسی میں سائنس ہے

اور یہی ہے فیض بخشِ مکتبِ روحانی سائنس

تو تہی دامن ہے اب تک اے نصیرِؔ بے نوا

جبکہ قرآن درومرجان کا سمندر ہے سدا

 

نصیرالدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۸، اکتوبر۲۰۰۳ء

 

۲۰۴

 

حواشی

 

۱۔ جعفر بن منصور الیمن، سرائر النطقا (بیروت، ۱۹۸۴، ص ۱۳۴)

۲۔ بدیع الزمان فروزانفر، احادیثِ مثنوی، (تہران، ۱۹۶۸) ص ۱۱۶؛ بعد کے حوالوں میں احادیث کہا گیا ہے۔

۳۔ امام سلطان محمد شاہ، کلامِ امامِ مبین، (بمبئی، ۱۹۵۰) جلدِ اول، ص ۶۵؛ بعد کے حوالوں میں کلام کہا گیا ہے۔

۴۔ ایضا، جلد اول، ص ۶۵۔

۵۔ قاسم محمود، شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا (لاہور، ۲۰۰۰)، ص ۲۰۷۔

۶۔ ایضا، ص ۲۱۰۔

۷۔ قاضی نعمان، دعائم الاسلام، تصحیح اے۔ اے۔ اے۔ فیضی، (قاہرہ، ۱۹۶۳)، جلدِ اول، ۱۶۷، بعد کے حوالوں میں دعائم کہا گیا ہے؛ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی، کتاب العلاج (کراچی، ۲۰۰۰)، ص ۱۸۵ ۔ ۱۸۶؛ بعد کے حوالوں میں کتاب العلاج کہا گیا ہے۔

۸۔ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی، ہزار حکمت (کراچی، ۱۹۹۶) حکمت ۸۹ ۔ ۹۰۔

۹۔ ایضا، بہشتے اسقرک (کراچی، ۱۹۸۸) ص ۵۳۔

 

۲۰۵

 

۱۰۔ ایضا، صنادیقِ جواہر (کراچی، ۲۰۰۱)، ص ۵۸۸؛ بعد کے حوالوں میں صنادیق کہا گیا ہے۔

۱۱۔ اخوان الصفا، رسائل (بیروت، ۱۹۵۷)، جلدِ اول، ص ۲۹۸۔

۱۲۔ جلال الدین رومی، کلیات (لکھنو، ۱۹۳۰)، جلدِ سوم، ص ۶۳۲۔

۱۳۔ دعائم، جلدِ اول، ص ۳۲۰۔

۱۴۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظِ القرآن، تصحیح ن۔ مرعشلی، (بیروت، ۱۹۷۲) ص ۳۵۷، زین العابدین، قاموس القرآن (کراچی، ۱۹۷۸)، ص ۳۴۴، بعد کے حوالوں میں قاموس القرآن لکھا گیا ہے۔

۱۵۔ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی، حظیرۃ القدس۔ عالمِ شخصی کی بہشت (کراچی، ۲۰۰۲)، ص ۷۵۔ ۷۶۔

۱۶۔ ابو عبداللہ محمد بخاری، صحیح البخاری (ریاض، ۱۹۹۹)، ص ۱۰۸۴، حدیث ۶۲۲۷، بعد کے حوالوں میں بخاری کہا گیا ہے۔

۱۷۔ ایضا، ص ۱۰۸۴، حدیث ۶۲۲۷۔

۱۸۔ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی، دیوانِ نصیری، (کراچی، ۲۰۰۱)، ص ۲۹۹، بعد کے حوالوں میں دیوان نصیری کہا گیا ہے۔

۱۹۔ ہزار حکمت، ص ۴۸۴ ۔ ۴۸۵، حکمت ۸۵۰۔

۲۰۔ ناصر خسرو (پیر)، وجہِ دین، تصحیح غلام رضا اعوانی (تہران، ۱۹۷۷) ص ۳۴۰؛ بعد کے حوالوں میں وجہِ دین کہا گیا ہے۔

۲۱۔ بخاری، ص ۵۵۴، حدیث ۳۳۳۶۔

۲۲۔ ہزار حکمت، ص ۴۷، حکمت ۵۱۔

 

۲۰۶

 

۲۳۔ کلام، جلدِ اول، ص ۲۹۹۔

۲۴۔ ناصر خسرو (پیر)، دیوانِ اشعار، تحقیق نصر اللہ تقوی (تہران، ۱۹۸۸)، ص ۱۳۴؛ بعد کے حوالوں میں دیوانِ اشعار کہا گیا ہے۔

۲۵۔ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی، روحانی سائنس کے عجائب و غرائب (کراچی، ۱۹۹۵)، ص ۳ ۔ ۱۰؛ بعد کے حوالوں میں روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کہا گیا ہے۔

۲۶۔ دعائم، جلدِ اول، ص ۱۶۸۔

۲۷۔ وجہِ دین، ص ۳۴۰۔

۲۸۔ ملاحظہ کریں نوٹ نمبر ۲۱۔

۲۹۔ امام علی، دیوان (کراچی، ت۔ن)، ص ۶۴۔

۳۰۔ ملاحظہ کریں نوٹ نمبر ۲۱۔

۳۱۔ وجہِ دین، ص ۱۳۴۔

۳۲۔ ہزار حکمت، ص ۴۸، حکمت ۶۴؛ محمد صالح کشفی، مناقبِ مرتضوی، اردو ترجمہ شریف حسین بنامِ کوکبِ دری (لاہور، ت۔ن)، ص ۲۰۰؛ بعد کے حوالوں میں کوکب کہا گیا ہے؛ وجہِ دین، گفتار ۱۴۔

۳۳۔ بخاری، ص ۱۱۲۷، حدیث ۶۵۰۲۔

۳۴۔ کتاب العلاج، ص ۵۵۵۔ ۵۶۰۔

۳۵۔ عزیز الدین نسفی، الانسان الکامل (تہران، ۱۹۸۰)، ص ۴ ۔ ۵۔

۳۶۔ کتاب العلاج، ص ۵۴۹ ۔ ۵۵۴۔

۳۷۔ ہزار حکمت، ص ۴۳، حکمت ۷۰۱۔

۳۸۔ جلال الدین رومی، مثنوی، ترجمہ آر۔ اے۔ نکلسن (کیمبرج، ۱۹۹۰)،

 

۲۰۷

 

جلدِ سوم، ۳۸۹۷ ۔ ۳۹۰۶۔

۳۹۔ عملی تصوف اور روحانی سائنس (کراچی، ت۔ن)، ص ۶۷ ۔ ۷۱؛ بعد کے حوالوں میں عملی تصوف کہا گیا ہے۔

۴۰۔ احادیث، ص ۱۶۷۔

۴۱۔ عملی تصوف، ص ۱۰۴ ۔ ۱۰۸۔

۴۲۔ محمد غزالی، کیمیائے سعادت (تہران، ۱۹۷۶)، جلدِ اول، ص ۴۸۔

۴۳۔ ایضا، ص ۵۵۔

۴۴۔ وحید الزمان، لغات الحدیث (کراچی، ت۔ ن)، با، ص ۲۹؛ بعد کے حوالوں میں لغات کہا گیا ہے۔

۴۵۔ ایضا، قاف، ص ۱۴۲۔

۴۶۔ احادیث، ص ۲۹۔

۴۷۔ واحد بخش سیال، روحانیتِ اسلام (لاہور، ۱۹۹۵)، ص ۷۳، ۱۵۸؛ حیدر آمولی، جامع الاسرار، تصحیح کوربن اوراو۔ یحییٰ (تہران، پیرس، ۱۹۶۹) ص ۳۴۶۔

۴۸۔ محمد غزالی، احیا العلومِ الدین، (بیروت، ت۔ن)، جلدِ سوم، ص ۱۵۔

۴۹۔ ایضا، ص ۱۵۔

۵۰۔ لغات فا، ص ۴۱۔

۵۱۔ رے۔ سحری، میزان الحکمت، اردو ترجمہ ایم۔ اے۔ فاضل (لاہور، ۱۹۹۶)، جلدِ دوم، ص ۳۴۷؛ بعد کے حوالوں میں میزان کہا گیا ہے۔

۵۲۔ ایضا، جلدِ دوم، ص ۳۴۷۔

 

۲۰۸

 

۵۳۔ عملی تصوف، ص ۸۵ ۔ ۸۷۔

۵۴۔ ملاحظہ کریں نوٹ نمبر ۴۵۔

۵۵۔ ملاحظہ کریں نوٹ نمبر ۲۱۔

۵۶۔ عملی تصوف، ص ۹۰ ۔ ۹۴۔

۵۷۔ احادیث، ص ۸۳۔

۵۸۔ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی، قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت (کراچی، ۲۰۰۳)، ص ۱۴۷ ۔ ۱۴۸۔

۵۹۔ ملاحظہ کریں نوٹ نمبر ۱۳۔

۶۰۔ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی، روح کیا ہے؟ (کراچی، ۲۰۰۱)، ص ۸۹۔

۶۱۔ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی، جماعت خانہ (کراچی، ۲۰۰۰)، ص ۹۲ ۔ ۹۳۔

۶۲۔ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی، کنوز الاسرار (کراچی، ۲۰۰۲)، ص ۱۷۷ ۔ ۱۷۸؛ بعد کے حوالوں می کنوز الاسرار کہا گیا ہے۔

۶۳۔ دیوانِ نصیری، ص ۳۱۶۔

۶۴۔ ملاحظہ کریں نوٹ نمبر ۲۴۔

۶۵۔ جلال الدین سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، تصحیح ایم۔ اے۔ ابراہیم (قاہرہ، ۱۹۶۷)؛ جلدِ چہارم، ص ۱۸۴؛ بعد کے حوالوں میں اتقان کہا گیا ہے۔

۶۶۔ کوکب، ص ۲۰۴۔

۶۷۔ کتاب العلاج، ص ۱۸۵ ۔ ۱۸۹۔

 

۲۰۹

 

۶۸۔ دعائم، جلدِ اول، ۱۶۷۔

۶۹۔ کتاب العلاج، ص ۱۸۹ ۔ ۱۹۲۔

۷۰۔ روحانی سائنس کے عجائب و غرائب، ص ۱۶ ۔ ۱۸۔

۷۱۔ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی، جواہرِ حقائق (کراچی، ۱۹۸۵)، ص ۳۶ ۔ ۳۸۔

۷۲۔ ملاحظہ کریں نوٹ نمبر ۴۰۔

۷۳۔ ہزار حکمت، ص ۲۹۶، حکمت ۵۱۶۔

۷۴۔ ملاحظہ کریں نوٹ نمبر ۱۶۔

۷۵۔ ملاحظہ کریں نوٹ نمبر ۱۷۔

۷۶۔ ملاحظہ کریں نوٹ نمبر ۷۳۔

۷۷۔ صنادیقِ جواہر، ص ۳۸۳۔

۷۸۔ ملاحظہ کریں نوٹ نمبر ۷۔

۷۹۔ روحانی سائنس کے عجائب و غرائب، ص ۳ ۔ ۶۔

۸۰۔ شمس الدین محمد حافظ شیرازی، دیوان، تحقیق جہانگیر منصور (تہران، ۱۳۷۷)، ص ۹۴۔

۸۱۔ روحانی سائنس کے عجائب و غرائب، ص ۶ ۔ ۱۰۔

۸۲۔ ملاحظہ ہو نوٹ نمبر ۲۹۔

۸۳۔ روحانی سائنس کے عجائب و غرائب، ص ۱۱ ۔ ۱۵۔

۸۴۔ ایضا، ۱۵ ۔ ۱۷۔

۸۵۔ دیکھئے نوٹ نمبر ۷۔

۸۶۔ قانونِ جنت سے مراد وہ آیاتِ شریفہ ہیں جو اس کے بیان اور

 

۲۱۰

 

تعریف میں نازل ہوئی ہوں۔

۸۷۔ قاموس القرآن، ص ۱۱۵۔

۸۸۔ ایضا، وحید الدین زمان، القاموس الوحید (لاہور، کراچی، ۲۰۰۱)، ص ۱۷۳۔

۸۹۔ ہزار حکمت، ص ۱۰۴ ۔ ۱۰۵، حکمت ۱۷۲۔

۹۰۔ ایضا، ص ۵۴، حکمت ۶۷۔

۹۱۔ کتاب العلاج، ص ۳۴۴ ۔ ۳۴۶۔

۹۲۔ ملاحظہ ہو نوٹ نمبر ۷؛ محمد جعفر شاہ پھلواروی، مجمع البحرین (لاہور، ۲۰۰۱)، ص ۷۰؛ بعد کے حوالوں میں مجمع البحرین کہا جائے گا۔

۹۳۔ کتاب العلاج، ص ۳۴۶ ۔ ۳۴۹۔

۹۴۔ مجمع البحرین، ص ۶۷۔

۹۵۔ بخاری، ص ۱۰۵۲، حدیث ۶۰۲۱؛ دعائم، جلدِ دوم، ص ۳۲۰۔

۹۶۔ ابو الحسین مسلم، صحیح مسلم (ریاض، ۱۹۹۸) ص ۱۱۴۸، حدیث ۶۷۰۵۔

۹۷۔ دعائم، جلدِ دوم، ۳۲۰ ۔ ۳۲۱۔

۹۸۔ محمد یعقوب کلینی، الکافی، تصحیح و ترجمہ جواد مصطفوی (تہران، ۱۹۶۷)، جلدِ سوم، ۲۹۶۔

۹۹۔ ملاحظہ ہو نوٹ نمبر ۱۔

۱۰۰۔ وجہِ دین، ص ۲۰۱۔

۱۰۱۔ عملی تصوف، ص ۱۱۹ ۔ ۱۲۳۔

۱۰۲۔ ملاحظہ ہو نوٹ نمبر ۷۔

۱۰۳۔ ابو عیسیٰ محمد ترمذی، جامعِ الترمذی، تصحیح صالح آل الشیخ (ریاض،

 

۲۱۱

 

۱۹۹۹)، ص ۵۷۹، حدیث ۲۵۵۰۔

۱۰۴۔ کنوز الاسرار، ص ۲۲ ۔ ۲۳۔

۱۰۵۔ کلام، جلدِ اول، ص ۱۸۳۔

۱۰۶۔ وجہِ دین، ص ۹۸ ۔ ۱۰۰۔

۱۰۷۔ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی، تجربات روحانی (کراچی، ۱۹۹۷)، ص ۴۵ ۔ ۴۶۔

۱۰۸۔ کلام، جلدِ اول، ص ۲۹۹۔

۱۰۹۔ قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت، ص ۱۳۔

۱۱۰۔ بخاری، ص ۵۵۴، حدیث ۳۳۳۶۔

۱۱۱۔ کلام، جلدِ اول، ۳۰۸۔

۱۱۲۔ وجہِ دین، ص ۲۶۱۔

۱۱۳۔ لفظِ تاویل کی تفصیل کے لئے ہزار حکمت ملاحظہ ہو، ص ۱۱۳ ۔ ۱۸۴، حکمت ۱۸۴ ۔ ۲۰۴۔

 

۲۱۲

قرآنی سائنس – حصّۂ اوّل

قرآنی سائنس

حصّۂ اوّل

آغازِ کتاب

میں اکثر سوچتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے عظیم علمی معجزات، بےپایان انعامات اور لا انتہا احسانات و نوازشات کا کما کانَ حقہ شکر اور سجدۂ شکرانہ کس طرح ادا کروں؟

یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن! تو اپنی رحمتِ بے نہایت سے ہمارے ہر حلقۂ چہل درویش کو مناجاتِ شکرگزاری کے لئے اعلیٰ توفیق و ہدایت عنایت فرما! یَا ربَّ العزّت تیری بے شمار نعمتوں کا طوفان عالم گیر اور دائمی ہے۔

قرآنِ حکیم کا ارشادِ مبارک ہے:

وَتَوَ کَّلْ عَلیَ الْحَیِّ الَّذِیْ لاَ یَمُوْتُ (۲۵: ۵۸)۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِ علی ) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی ، جمعرات  ۳۰  ستمبر ؁۲۰۰۴ ء

 

۱

 

اَللّٰھُمَّ اِنِیّ اَسْئَلُکَ بِاَسْمَائِکَ الْحُسْنٰی

 

بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ لَا تَأْخُذُہُ سِنَۃٌ وَلَا نَوْمٌ لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِنْدَہُ إِلَّا بِإِذْنِہِ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا یُحِیطُونَ بِشَیْء ٍ مِنْ عِلْمِہِ إِلَّا بِمَا شَاء َ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا یَئُودُہُ حِفْظُہُمَا وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیم۔

اس کے لا محدود معنی میرے فہم و ادراک سے بالاتر ہیں!

انتسابِ جَدیْدی: یہ دَور جس طرح ظاہراً مادّی سائنس کا ہے، اسی طرح باطناً روحانی اور قرآنی سائنس کا ہے، میرے تجربے میں خواب ہو یا بیداری، اشخاص کے قرآنی ناموں میں اشارتیں اور بُشارتیں موجود ہیں، میرے بیحد عزیز فتح علی کے پیارے نام میں دونوں لفظ اتّفاقاً قرآنی اور بڑے نیک شگون والے ہیں۔ چنانچہ فتح علی اور گُل شکر جسماً انسان اور روحاً فرشتے ہیں، ان کی بے شمار خدمات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے خاندان کو نورِ علم وحکمت کی لازوال نعمت سے نوازا ہے، اس باسعادت خاندان کے ارضی فرشتے یہ ہیں: فتح علی، گُل شکر، ان کی دخترِ نیک اختر ڈاکٹر فاطمہ، ان کا فرزندِ اکبر نزار علی، اہلیہ شازیہ نزار، بیٹی دُرّثمین نزار، بیٹا فقیر محمّد نزار نیکنام، رحیم ابنِ فتح علی اور ان کی بیگم گوہر فاطمہ۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی ) ہونزائی (ایس۔ آئی)

کراچی

جمعرات  ۳۰  ستمبر ؁۲۰۰۴ ء

 

۲

 

قرآنی سائنس

 

قرآن حکیم جس کی سچائی، حقیقت اور علم و حکمت ہر چیز سے بے مثال اور ارفع و اعلیٰ ہے، اس میں سورج کی تمثیل چراغِ روشن سے دی گئی ہے:  سورۃ الفرقان (۲۵: ۶۱)، سورۃ النّوح (۷۱: ۱۶)، سورۃ النّبا (۷۸: ۱۳)۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ سورج گویا ظرفِ چراغ ہے جس میں ہمیشہ کائناتی جسم سے ایندھن خود بخود اس لئے گرتا رہتا ہے کہ کُلّ کائنات نفسِ کُلّی کی انتہائی قوّی گرفت کے زبردست دباؤ میں ہے، جس کی وجہ سے سورج کے چراغ میں داخل شدہ فلکی ایندھن نورِ آفتاب بن جاتا ہے، آپ ظاہری سائنس سے معلوم کر سکتے ہیں، کہ سورج کے اندرایٹمی دھماکے ہوتے رہتے ہیں یا نہیں؟ بہرحال اہلِ دانش کے لئے چراغ کی مثال روشن اور واضح ہے۔

سورۂ بُرُوج (۸۵: ۱۲) میں ارشاد ہے: اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ = درحقیقت تمہارے ربّ کی پکڑ بڑی سخت ہے، اس کی کائناتی تفسیر یہ ہے کہ عالمگیر روح (نفسِ کُلّی) نے ساری کائنات کو اپنی بڑی سخت گرفت اور زبردست دباؤ میں لے رکھا ہے، جس کی وجہ سے کائنات کے عین وسط میں سورج کا وجود بنتا ہے، پھر کششِ ثقل کا سوال پیدا نہیں ہوتا ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی ) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اَدِت  ۱۰ ستمبر ؁۲۰۰۰ ء

 

۳

 

قُرآن اور امامؑ باطن میں ایک ہیں

 

قرآن اور امامؑ ظاہر میں الگ الگ ، مگر باطن میں ایک ہیں، جس کی دلیل (۱) یہ حدیثِ شریف ہے کہ علیؑ (باطن میں) قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علیؑ کے ساتھ۔ بحوالۂ المستدرک، جلدِ سوم۔

دلیل (۲) علیٔ زمانؑ نور ہے اور قرآن کتاب (۰۵: ۱۵)، لیکن امامؑ کے باطن میں قرآن بھی نور ہے، لہٰذا قرآن اور امامؑ ایک ہیں۔

دلیل (۳) قرآن خدا کی کتابِ صامت ہے، اور امامؑ کتابِ ناطق (۲۳: ۶۲؛ ۴۵: ۲۹)، لیکن اللہ کی یہ دونوں کتابیں باطن میں مل کر ایک ہیں۔

دلیل (۴) قرآن آنحضرتؐ پر روح اور نور کی صورت میں نازل ہوا تھا (سورۂ شوریٰ ۴۲: ۵۲)، جب کاتبانِ وحی کے قلم سے رفتہ رفتہ قرآن کی کتابت مکمل ہوگئی تو اس وقت بھی قرآن کی زندہ روح اور زندہ نور رسول کریمؐ کی مبارک ہستی میں موجود تھا، لہٰذا خدا کے حکم سے روحِ قرآن بہ اسمِ دیگر نورِ قرآن آپؐ کے وصی علیؑ میں منتقل ہوگئی، جس کی وجہ سے ہر زمانے کا امامؑ نورِ قرآن ہوتا ہے۔

دلیل (۵) جب قرآن کہتا ہے کہ امامِ مبینؑ میں ہر چیز موجود ہے (۳۶: ۱۲) تو یقیناً معلوم ہوا کہ امامِ مبینؑ میں سب سے پہلے قرآن موجود ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی ) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ ۶ شوال المکرّم ۱۴۲۰ ھ، ۱۴ جنوری ؁۲۰۰۰

 

۴

 

حکمتِ کُلّیّۂ امامِ مُبینؑ

قسط: ۱

 

کُلّیّۂ امامِ مُبینؑ  قوانینِ قرآن میں سے ایک ایسا زبردست اور غالب قانون ہے کہ جس کا اطلاق ہر چیز پر ہوتا ہے، جیسا کہ قلبِ قرآن میں یہ ارشاد ہے: اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْۣؕ-وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) یقیناً ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں، اس میں اصل اور پُرحکمت تذکرہ یہ ہے کہ خدا ان لوگوں کو زندہ کرتا ہے، جو معرفت کی غرض سے جیتے جی مر جاتے ہیں، ایسے ہی باسعادت لوگوں کے اعمال بھی اور آثار بھی نیک ہوتے ہیں، لہٰذا یہ سب کچھ اور کائنات کی جملہ اشیاء کو اللہ نے امامِ مبینؑ میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے۔

خداوندِ قدوس کے فضل و کرم سے یہ عظیم قرآنی راز بھی معلوم ہوا ہے کہ ہر امام کے زمانے میں ایک قیامت برپا ہوا کرتی ہے، اور دنیا بھر کے لوگ امام کے عالمِ شخصی میں جا کر خدا کے حکم سے مر کر زندہ ہو جاتے ہیں، لیکن یہ لوگوں کی غیر شعوری قیامت ہے، دیکھیں سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۳) میں۔

۔۔۔۔۔۔فَقالَ لَهُمُ اللَّهُ موتوا ثُمَّ أَحياهُم ۔۔

اہلِ زمانہ کی نمائندہ روحیں صورِ اسرافیل کی آواز کے ڈر سے اجسام سے نکل کر قیامت گاہ یعنی عالمِ شخصی میں جاتی ہیں، خدا ان سے فرماتا ہے: مرجاؤ تو وہ

 

۵

 

تمام ذرّات مرجاتے ہیں، پھر خدا ان کو زندہ کرتا ہے۔

سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) میں ہے: تم سب کو پیدا کرنا اور نفسانی موت کے بعد جِلانا نفسِ واحدہ (انسانِ کامل) کی طرح ہے، یعنی نفسِ واحدہ کی شعوری اور عرفانی قیامت میں تمام لوگوں کی غیر شعوری قیامت پوشیدہ ہے۔

 

ن۔ن (حُبِّ علی) ہونزائی

اتوار ۸ شوال المکرّم ۱۴۲۰ھ  ،  ۱۶ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۶

 

حکمتِ کُلّیّۂ امامِ مُبینؑ

قسط: ۲

 

قرآنی حکمت کے عجائب و غرائب اور تاویلی اسرار بے پایان ہیں، آیا یہ حکمت انتہائی حیرت انگیز نہیں ہے کہ غیر شعوری قیامت کی تشبیہہ و تمثیل ایسی نیند سے دی گئی ہے، جس میں آدمی کوئی خواب ہی نہیں دیکھ سکتا یا دیکھ کر بالکل بھول ہی جاتا ہے؟ ایک ایسی سِرّی حکمت کے لئے سورۂ زُمر( ۳۹: ۴۲) میں بار بار غور سے دیکھیں۔

اس آیۂ مبارکہ کا تاویلی مفہوم یہ ہے: وہ اللہ ہی ہے جو اختیاری موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے، اور جو اختیاری موت سے نہیں مرتا ہے اس کی روح نیند یعنی غیر شعوری قیامت میں قبض کر لیتا ہے، جیسا کہ شعوری قیامت اور غیر شعوری قیامت کا ہم نے بارہا ذکر کیا ہے۔

اگر قانونِ الہٰی کے مطابق انسان کی نیند حقیقی موت ہوتی تو پھر لازماً شروع شروع کی کوئی نیند موت قرار پاتی اور موت کا قصّہ ہی ختم ہو جاتا، کیونکہ ظاہری موت ایک دفعہ آتی ہے، اس بیان سے معلوم ہوا کہ مذکورۂ بالا آیت میں تاویل ہے۔

سورۂ نبا (۷۸: ۰۹) میں ارشاد ہے: وَجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا = اور ہم نے تمہاری نیند کو باعثِ سکون بنایا، نیند روحانیّت کی مثالوں میں سے ہے، کیونکہ جس طرح نیند سے جسم کو آرام ملتا ہے، اسی طرح روحانیّت سے عقل و جان کو راحت ملتی ہے، نیند میں خواب دیکھتے ہیں، اور روحانیّت میں نورانی مشاہدات ہوتے ہیں۔

 

ن۔ن (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۷۔ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۷

 

حکمتِ کُلّیّۂ امامِ مُبینؑ

قسط: ۳

 

حضرتِ امیرالمومنین علی علیہ السّلام کا پُرحکمت ارشاد ہے کہ آیا تیرا یہ خیال ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ تجھ میں عالمِ اکبر سمایا ہوا ہے۔

جس امامِ مبینؑ نے سب سے پہلے عالمِ اسلام، صوفیائے کرام ،اور دنیائےانسانیت کو انسان کی عظمت و بزرگی اور ہمہ رسی و ہمہ گیری کا راز بتا دیا ، آپ اندازہ کریں کہ وہ خود اس مرتبۂ اعلیٰ کا عملی نمونہ تھا یا نہیں؟ کیوں نہیں۔

اس موقع پر عالمِ اکبر کی وضاحت ضروری ہے، اور وہ ہے ارض وسما اور عرش و کرسی کا مجموعہ، جبکہ ظاہراً انسان عالمِ صغیر ہے، اسی سے ہم نے عالمِ شخصی کی اصطلاح بنائی ہے، اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس تصوّر سے قیامتی انقلاب آگیا، اور تمام علمی مشکلات آسان ہوگئی ہیں۔

یہ حقیقت خوب یاد رہے کہ قیامت جو اللہ کی سُنّتِ قدیم ہے وہ اس کے خاص بندوں کے عالمِ شخصی میں (۴۰: ۸۵) برپا ہوتی چلی آئی ہے، جس میں خدا ساری کائنات کو امامِ مبینؑ میں لپیٹ دیتا ہے، کیوں ایسا کرتا ہے؟ اس کے بیشمار مقاصد میں سے ایک عظیم مقصد یہ ہے کہ جو نیک بخت لوگ امامِ مبینؑ کے عاشق ہیں ان کو بے قیاس انعامات سے نوازا جائے ۔ الحَمد لِلّٰہ ربّ العٰلمین۔

 

۸

 

ارض و سما اور ہر چیز کو امامِ مبینؑ میں سمیٹنے کا ذکرِ جمیل واللہ جملہ قرآن میں موجود ہے، جب القابض اور الباسط (یعنی خدا) آسمانوں اور زمین کو امامِ مبینؑ کے عالمِ شخصی میں لپیٹ کر پھر پھیلا دیتا ہے، جس کی وجہ سے ہر ذرّۂ کائنات زبانِ حال سے امامِ مبینؑ کی امامت کی شہادت دیتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۸۔ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۹

 

حکمتِ کُلّیّۂ امامِ مُبینؑ

قسط: ۴

 

بعض علماء امامِ مبینؑ سے لوحِ محفوظ مراد لیتے ہیں، آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ ج: (۱) قلم نورِ محمدیؐ کا نام ہے، اور لوحِ محفوظ نورِعلیؑ ہے، اور اللہ نے جہاں تمام چیزوں کو امامِ مبینؑ میں گھیر کر رکھا ہے وہاں وہ سب کی سب عالمِ عُلوی کی چیزیں ہیں، ان سے لوح و قلم کس طرح باہر ہو سکتے ہیں۔

ج: (۲) اگرچہ لوحِ محفوظ امامؑ ہی میں ہے، لیکن قرآنِ حکیم جیسی بے مثال کتاب میں تختی کا نام کیونکر امامِ مبین ہو سکتا ہے، وہ بھی قلبِ قرآن میں؟

ج: (۳) اللہ تعالیٰ حکیمِ مطلق ہے، اس نے رسولِ اکرمؐ کے جدِّ اعلیٰ حضرتِ ابراہیمؑ کی عظیم شخصیت میں نہ صرف لفظِ امام کے معنی کو بلکہ خود امامؑ کے منصب کو بھی مشہور و معروف کر دیا۔

ج:  (۴) قرآنِ حکیم کی متعدد آیاتِ کریمہ میں امامؑ اور امامت کی شاندار تعریف آئی ہے، آپ میری کتاب امام شناسی کو پڑھیں۔

ج:  (۵) قرآن، حدیث، فقہ، کعبہ اور مساجد میں امامؑ کی زندہ مثالیں ہمیشہ موجود ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ دینِ اسلام میں ہمیشہ امامِ برحقؑ از آلِ محمّدؐ حیّ و حاضر اور موجود ہوتا ہے۔

ج:  (۶) قلم فرشتۂ عقلِ کل کا نام ہے، جو نورِ محمّدی ہے، اور لوح فرشتۂ

 

۱۰

 

نفسِ کُلّ ہے، جو علیؑ کا نور ہے، نیز آنحضرتؐ کا نور عرش ہے، اور علیؑ کا نور کرسی، اور دیکھو اللہ کی کرسی وہ ہے، جس نے سارے آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر سما لیا ہے (۰۲: ۲۵۵) پس امامِ مبینؑ ہی لوحِ محفوظ بھی ہے، کرسی بھی اور نفسِ کُلّی بھی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۸۔ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۱۱

 

حکمتِ کُلّیّۂ امامِ مُبینؑ

قسط: ۵

 

خداوندِ تعالیٰ نے جس طرح ہر چیز یعنی سب آسمانوں اور زمین کو امامِ مبینؑ میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے، یہ ایک دفعہ کا واقعہ نہیں، بلکہ ہرقیامت کا مظاہرہ ہے، اور وقوعِ قیامت جو باطنی اور روحانی ہے، اس کے بہت سے مقاصد ہیں، اور مضمونِ قیامت بہت سے مضامین کا مجموعہ ہے، اور یہ کہنا بھی درست ہے کہ قیامت کے بہت سے نام ہیں، کیونکہ اس کی نوع بنوع مثالیں اور طرح طرح کے امور ہیں۔

ہر بار یداللہ قیامت کا تجدّد کرتا ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے: کُلّ چیزوں کو عالمِ ذرّ میں منتقل کرنا (گھیرنا)، عالمِ ذرّ کو عالمِ شخصی میں محدود کرنا، پھر اس کو حظیرۂ قدس میں لپیٹ لینا، اور ح ق کو گوہرِعقل (کتابِ مکنون) میں گھیرنا، اور شمار کرکے فرمانا کہ صرف ایک ہے، یہ ایک یا عددِ واحد کیا ہے؟ اس کی مختلف تاویلات ہو سکتی ہیں، تاہم یہ تاویل بڑی عجیب ہے کہ سارے انسان اس مقام پر ایک ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ امامِ مبینؑ کے معجزات عالمِ ذرّ، عالمِ شخصی، حظیرۂ قدس اور کتابِ مکنون میں ہیں، جسکی وجہ سے اسکے تاویلی معجزے سرتا سر قرآن میں ہیں۔

ان اسرارِ امامت کی رفعت و عظمت کے رعب کی وجہ سے ہمارا غریب دل کانپ رہا ہے، ذاتِ سبحان کی قسم امامِ اقدس و اطہرؑ کے ہر ہر عظیم معجزے سے ایسا ہوتا رہا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۹۔ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۱۲

 

حکمتِ کُلّیّۂ امامِ مُبینؑ

قسط:۶

 

مُنَزّہ مالکُ المُلکی کہ بے پایان حشردارد = یعنی پاک و برتر اللہ جو حقیقی بادشاہی کا مالک ہے، اور جس کی بے پایان قیامات ہیں، یعنی قیامت تو ایک ہی ہے، لیکن اس کے تجدّد کا سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری ہے، ہاں وہ بڑے بڑے وقفوں کے ساتھ ہے۔

دنیا میں شاید کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں ہوا ہے جس نے بادشاہی کے تمام چھوٹے بڑے امور کو خود ہی انجام دیا ہو اور بادشاہ کہلایا ہو، پس آپ کو یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی بادشاہ ہونے کے کیا معنی ہیں؟ یہ کہ اس نے ہر عظیم کام کے لئے ایک عظیم کارکُن کو مقرر فرمایا ہے، جیسے قلم (عقلِ کلّی) لوح (نفسِ کُلّی) عزرائیل، اسرافیل، میکائیل، جبرائیل، دیگر فرشتے، اور انبیاء و اولیاء وغیرہ، اسی طرح خدا نے امامؑ کو کارِ قیامت انجام دینے کے لئے مقرر فرمایا ہے (۱۷: ۷۱)۔

امام محمد باقر علیہ السّلام کا ارشاد ہے: ما قیل فی اللہ فھو فینا، و ما قیل فینا فھو فی البلغاء من شیعتنا = جو بات اللہ کے متعلق کہی گئی ہے وہ ہم پر صادق آتی ہے اور جو بات ہمارے متعلق کہی گئی ہے وہ ہمارے بلیغ مومنین پر صادق آتی ہے۔ (ہزارحکمت۔ ح: ۶۶۸ ) اس فرمانِ عالی کو آپ ہمیشہ یاد رکھیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۱۲ شوال المکرّم ۱۴۲۰ ھ، ۲۰۔ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۱۳

 

حکمتِ کُلّیّۂ امامِ مُبینؑ

قسط:۷

 

یہ قرآنی راز بھی ازبس عجیب اور پُراز حکمت ہے کہ قیامت جہاں اپنے دامن میں بے شمار رحمتیں اور برکتیں لیکر آتی ہے، وہاں اس کا ایک ہیبت ناک نام عذاب بھی ہے (کئی قرآنی حوالہ جات)۔

آپ سورۂ حج (۲۲: ۴۷) میں دیکھیں: اور (اے رسولؐ) تم سے یہ لوگ عذاب (قیامت) کے جلد آنے کی تمنّا رکھتے ہیں اور خدا تو ہرگز اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرے گا، اور بیشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک دن تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار برس کے برابر ہے۔ اس میں یہ واضح اشارہ موجود ہے کہ نزولِ قرآن کے تقریباً ایک ہزار سال بعد کوئی بڑی روحانی قیامت آنے والی تھی، جو آکر اپنے دور رس معجزات کر گئی، اور جیسا کہ بار بار یہ ذکر ہوا ہے کہ قیامت لوگوں کی غیر شعوری حالت میں آتی ہے۔

سورۂ معارج کے آغاز (۷۰: ۰۱ تا ۰۴) میں بھی قیامت ہی کا تذکرہ ہے، جس میں عذاب قیامت ہی کے ناموں میں سے ہے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھنے کے لئے جو سیڑھیاں ہیں، وہ ہر زمانے کے حدودِ دین ہیں، مثال کے طور پر مستجیب، ماذونِ محدود، داعیٔ مکفوف، داعیٔ مطلق، حجّتِ جزیرہ، حجّتِ مقرّب، باب، امام، اساس، ناطق، نفسِ کُلّ اور عقلِ کل۔

 

۱۴

 

روحانی ارتقاء کی اس سیڑھی پر مرتبۂ حجّتی سے قیامت برپا ہوتی ہوگی، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ خدا کی ہر سیڑھی خدا سے واصل ہو جانے کے لئے ہوا کرتی ہے، اور یہ مثال بڑی عالیشان ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعہ۲۱۔ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۱۵

 

حکمتِ کُلّیّۂ امامِ مُبینؑ

قسط:۸

 

کتاب کوکبِ دُرّی، بابِ سوم سے مولا علی علیہ السّلام کے چند ارشادات: مولاعلیؑ نے فرمایا: غیب کی کُنجیاں میرے پاس ہیں، فرمایا: میں ہر چیز کا علم رکھتا ہوں۔ فرمایا: میں ہوں ذوالقرنین۔ فرمایا: وہ مبارک پتھر میں ہوں، جس سے بارہ چشمے جاری ہوئے (۰۲: ۶۰) ۔ فرمایا: میں لوحِ محفوظ ہوں (جس میں قرآنِ مجید ہے، (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) میں ہوں وحیٔ خدا (قرآن) کا ترجمان۔ ارشاد ہوا: میں ہوں علمِ خدا کا خزانچی (۱۵: ۲۱)۔

فرمایا: میں ہوں دابۃُ الارض (۲۷: ۸۲)۔ میں ہوں ساعت (قیامت، ۲۵: ۱۱)۔ میں ہوں کتاب لا ریب فیہ (۰۲: ۰۱ تا ۰۲)۔ میں ہوں اسماءُ الحسنیٰ ( ۰۷: ۱۸۰)۔ میں ہوں نورِ کوہِ طور (۱۹: ۵۲)۔ میں ہوں قیامت کو قائم کرنے والا( بحوالۂ اسمائے قیامت و مضامینِ قیامت)۔ میں ہوں ناقور (۷۴: ۰۸)۔

غیب کی کُنجیوں سے علمُ الاسرار مراد ہے۔ امام ہر چیز کا علم رکھتا ہے، کیونکہ خدا نے ہر چیز کو گھیر کر امامِ مبینؑ میں رکھا ہے، یہی ارشاد حدیثِ شریف میں بھی ہے کہ علیؑ اس امّت کا ذوالقرنین ہے، اس سے ظاہر ہے کہ علیؑ یعنی امامؑ امّت کے ساتھ دنیا میں ہمیشہ موجود ہے۔ علیؑ حظیرۂ قدس کا حجرِ مکرّم ہے، جس سے بارہ حجتوں کے لئے علم کے چشمے جاری ہوئے، امامِ مبینؑ لوحِ محفوظ بھی ہے، جس میں

 

۱۶

 

قرآنِ مجید ہے۔

امام علیہ السّلام قرآن کا ترجمان ، یعنی معلّمِ ربّانی اور مُؤوّل ہے، باالفاظِ دیگر وہ نورِ مُنَزّل ہے، وہ خدا کے خزانۂ علم کا خزانچی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

اتوار  ۲۳۔ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۱۷

 

قریۂ ہستی / عالمِ شخصی

 

بحوالۂ سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۵۹) یقیناً یہ کوئی سالک ہی تھا، جس نے منزلِ عزرائیلی میں اپنے قریۂ ہستی / عالمِ شخصی کو زیرو زبر اور فنا ہوتے ہوئے دیکھا اور حیرت سے کہا کہ اللہ اب اس کو کس طرح زندہ کریگا؟ وہ شخص خود بھی نفسانی موت کے عالم میں تھا، اور دنیا بھر کے زندہ اور مردہ لوگوں کی تمام روحیں آ آ کر سالک کی روح کے ساتھ مل رہی تھیں، کیونکہ خدا اس کو نفسِ واحدہ بنا رہا تھا، اور تمام روحیں اس کی اپنی روحیں قرار پا رہی تھیں، اللہ تعالیٰ نے برائے امتحان سالک کو ایسے شخص کی روح قرار دیا جو سو سال پہلے مرچکا تھا، پھر خدا نے سالک کو روحانی طور پر زندہ کر کے پوچھا کہ بتا تو کتنے عرصے تک مردہ رہا؟ چونکہ وہ ابھی عارف نہیں ہوا تھا، صرف سالک تھا، اس لئے یہ راز اس سے مخفی رہا، اور خدا کے بھیدوں کو عارف بھی نہیں جانتا، مگر اس کے اذن سے۔

ایسا شخص صرف روحانی طور پر سو سال مر کر زندہ ہوگیا تھا، مگر جسم اور اسکی غذائیں تروتازہ تھیں، اور سواری کا گدھا (حِمار) جسم ہے، اور خدا نے اس شخص کو لوگوں کے لئے اپنا معجزہ قرار دیا، یعنی ہمیشہ ایسا معجزہ ہوتا رہتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جسمانی تخلیق کے عجائب و غرائب پر غور کرنے کا حکم دیا کہ اس نے کسی طرح انسانی بدن کے اندر ہڈیوں کا ڈھانچا بنایا ، اس پر گوشت اور پوست چڑھا کر مضبوط کر دیا اور اس میں زندگی کی لہردوڑائی۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۲۴۔ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۱۸

 

حکمتِ بارِ امانت

 

بحوالۂ سورۂ احزاب (۳۳: ۷۲) ہم نے قبلاً معرفت کے موتی حصّۂ دوم: ص ۵۰ اور ۵۸ تا ۵۹ پر بارِ امانت کے بارے میں لکھا ہے۔

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ہر آیت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، پس بارِامانت والی آیۂ شریفہ کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو کرامت اور فضیلت بخشی ہے، جس کی بدولت وہ بارِ امانت کا حامل ہوسکتا ہے، اس فضلِ الٰہی کو آشکار کرنے کے لئے بارِامانت کائنات کے سامنے پیش کیا گیا، لیکن وہ یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی تھی، لہٰذا اس نے ڈر کر انکار کیا، آیت میں کائنات سے متعلق جو کچھ ارشاد ہوا ہے وہ زبانِ حال کی ترجمانی ہے۔

قرآن فرماتا ہے: بارِ امانت کو انسان نے اٹھایا، اور وہ یقیناً ظلوم اور جہول ہے، یعنی وہ بڑا تاریک اور بہت نادان ہے (پس چارۂ کار یہ تھا کہ وہ بارِ امانت کو اٹھائے)۔

آیت کا باطن: قرآن کی باطنی تاویل عالمِ شخصی میں ہے، پس وہاں کے آسمان، زمین اور پہاڑ کاملین ہیں، یہ حضرات جب تک انسان تھے، تب تک بارِ امانت یعنی اختیار کا بوجھ اٹھاتے رہے، لیکن جب یہ فرشتے ہوگئے تو اختیار کی جگہ پر ہدایتِ الٰہی کام کرنے لگی، اور اسی کے ساتھ بارِ امانت کا قصّہ ختم ہوگیا۔

 

۱۹

 

کیونکہ ہرزمانے میں جو قیامت ہوتی ہے، اس کے لئے ایک بار اللہ کا پروگرام ہوتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

منگل ۱۳ شوال المکرّم ۱۴۲۰ ھ، ۲۵۔ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۲۰

 

اسرارِ نفسِ واحدہ

قسط: ۱

 

اسرارِ نفسِ واحدہ انتہائی عجیب و غریب ہیں، واحدہ بروزنِ فاعلہ کے معنی ہیں ایک، نیز اس کا مطلب ہے ایک کرنے والا، یا ایک کرلینے والی۔

قرآنِ حکیم میں نفسِ واحدہ کے حوالہ جات یہ ہیں، سورۂ نِساء (۰۱: ۰۴)، سورۂ انعام (۰۶: ۹۸)، سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۹)، سورۂ لقمان(۳۱: ۲۸)، سورۂ زُمر(۳۹: ۰۶)۔

انبیائے قرآن کے سلسلے میں اوّلین نفسِ واحدہ حضرتِ آدم علیہ السّلام ہے، سورۂ زُمر (۳۹: ۰۶) میں دیکھیں: ترجمۂ اصلی: اسی خدا نے تم سب کو ایک ہی جان (روح) سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کیا۔ یہاں بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امرِ ناممکن کس طرح ممکن ہوا کہ اللہ نے تنہا آدمؑ سے سب لوگوں کو پیدا کیا اور حوّا کو بعد میں پیدا کیا؟ ج: نہیں ، نہیں، یہ آفرنیشِ روحانی کا ذکر ہے، تخلیقِ جسمانی کا قصّہ نہیں۔ اس سِرِّ عظیم کی وضاحت یوں ہے کہ جب آدمؑ کی روحانی قیامت قائم ہوئی تو اس وقت خدا کے حکم سے اگلے دور کی تمام روحیں آدمؑ میں آکر اسی کی ذرّیت ہوگئیں۔

اب رہا سوال آدمؑ کی بیوی کا جو بعد میں خود آدمؑ ہی سے پیدا کی گئی تھی، اس سے اساس مراد ہے جو ناطق (آدمؑ) کے علم سے پیدا ہوا۔

آپ نے تجدُّد کے بارے میں سنا ہے اور پڑھا ہے، چنانچہ ہر روحانی

 

۲۱

 

قیامت میں جملہ ارواح کا تجدّد ہوتا ہے، یعنی ہر نفسِ واحدہ کا باطنی قصّہ گویا قصۂ آدم ہے، جو اوپر بیان ہوا ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۶۔ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۲۲

 

اسرارِ نفسِ واحدہ

قسط : ۲

 

آدمِ زمانؑ کی اصطلاح میں نفسِ واحدہ کا راز ہے، روحانی والدین کا مطلب بھی یہی ہے اور سب سے بڑی عالیشان بات یہ ہے کہ امامِ زمان علیہ السّلام اپنے تمام خوش نصیب مریدوں کو فرزندانِ روحانی کا درجہ عطا فرماتا ہے، کون؟ ج: امیرالمومنین، اعنی علیٔ زمانؑ۔

ہر نبی اور ہر ولی (امامؑ) نفسِ واحدہ ہوتا ہے، اور عُرَفاء ان میں فنا ہو کر عملی اور کُلّی معرفت حاصل کر لیتے ہیں، یاد ر ہے کہ عملی معرفت ہی کنزِ مخفی ہے، جو سب سے بڑا اور سب سے آخری خزانہ ہے۔

اللہ تعالی القابض اور الباسط ہے، لہٰذا وہ تمام ارواحِ خلائق کو زمانے کے نفسِ واحدہ میں جمع کر کے اس کی نسل ٹھہراتا ہے، اور اسی کی ذرّیت کے طور پر لوگوں میں پھیلا دیتا ہے، پھر آنے والے نفسِ واحدہ میں اسی طرح تمام روحوں کو بذریعۂ قیامت جمع کرتا ہے، اور ہمیشہ یہی سلسلہ جاری ہے۔

بہت بڑی حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جملہ خلائق کی ارواح نفسِ واحدہ کی امانت ہیں، اس لئے روحیں سب کی سب وقت آنے پر نفسِ واحدہ میں جمع ہوجاتی ہیں، اور یہی مطلب دوسری کئی آیات میں بھی ہے، اسی معنیٰ میں قیامت کا ایک نام حشر و نشر ہوا، یعنی سب کا ایک میں جمع ہونا، پھر سب میں پھیل جانا، پس علم الارواح کا جاننا بےحد ضروری ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۶۔ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۲۳

 

اسرارِ نفسِ واحدہ

قسط: ۳

 

نفسِ واحدہ میں تمام انسانوں کی ازلی وحدت کا عظیم راز۔

سورۂ اعراف کی آیۂ مبارکۂ یازدہم (۰۷: ۱۱) میں ایک بڑا عجیب سِرّی معجزاتی مِرآت (آئینہ) ہے، جس میں اگر بنظرِ معرفت دیکھا جائے تو اسرارِ باطن کا ایک بے مثال اور لازوال خزانہ دکھائی دیتا ہے، سبحان اللہ!

آیۂ شریفہ کا تاویلی مفہوم: حضرتِ آدم علیہ السّلام کی باطنی قیامت میں تمام لوگوں کی تخلیقِ روحانی کا تجدّد ہوا، پھر خدا نے سب کو نفسِ واحدہ (آدمؑ) کے ساتھ ایک کر کے صورتِ رحمان پر پیدا کیا، اللہ کا یہ انتہائی عظیم معجزہ حظیرۂ قدس میں ہوا، یہ وہ روحانی اور باطنی بہشت ہے، جس میں ہر ہر نعمت ممکن ہوجاتی ہے۔

کیا تم علم الیقین کی روشنی میں اپنے ان احوال کو جاننا چاہتے ہو جو آدمؑ کے ساتھ تم پر گزرگئے تھے ، تو پھر قرآنی حکمت کا شیدائی بنو، اور اسرارِ نفسِ واحدہ کو غور سے پڑھو، تاکہ تمہارے پاس ایک عظیم الشان علمی اور معلوماتی خزانہ جمع ہوجائے۔

قصّۂ آدمؑ سب سے عظیم حکمتوں کا قصّہ بھی ہے اور ماضی و مستقبل کے بیشمار آدموں کا حجاب بھی ہے، پس میرا یہ کہنا درست ہے کہ قصّۂ آدمؑ کے بھیدوں کو سوائے عارفوں کے کوئی نہیں جانتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۷۔ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۲۴

 

اسرارِ نفسِ واحدہ

قسط: ۴

 

ہزار حکمت ( ح: ۵۱۹) میں بحوالۂ بخاری اور مُسلم جیسا کہ لکھا گیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو جنّت میں داخل ہو جاتا ہے، وہ اپنے باپ حضرتِ آدم علیہ السّلام کی صورت میں ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السّلام کو (حظیرۂ قدس میں) اپنی صورت پر پیدا کیا تھا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہی قصّہ آدمِ زمانؑ کا بھی ہے۔

امامِ حیّ و حاضر آدمِ زمانؑ اور نفسِ واحدہ ہے، یہی مقدّس ہستی جو نورِ الٰہی ہے، حظیرۂ قدس کی بہشت میں بصورتِ رحمان جلوہ گر ہے، اور یہ مرتبہ اس کو خدا ہی نے عطا کردیا ہے، پس جو بھی حقیقی فرمانبرداری سے فنا فی الامامؑ ہو جاتا ہے، وہ آج کی جنّت میں بھی اور آنے والا کل کی جنّت میں بھی اپنے روحانی باپ کی طرح رحمانی صورت میں ہوگا۔ اور یہ حقیقت چونکہ امامِ آلِ محمدؐ کے خزانے سے ہے، لہٰذا اس میں امامؑ کے عاشقوں کے لئے بہت کچھ ہے۔

جو لوگ معرفت کی بہشت (حظیرۂ قدس) میں داخل ہوجاتے ہیں، وہی نیک بخت لوگ اپنے روحانی باپ آدمِ زمان علیہ السّلام کی صورت میں ہوتے ہیں، اور اللہ نے ہر آدمؑ کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے، پس حضرتِ علی علیہ السّلام یقیناً وجہ اللہ تھا، اور ہر امامؑ اپنے زمانے میں صورتِ رحمان یعنی وجہ اللہ ہوتا ہے، اور اس میں بے شمار حکمتیں ہیں۔ الحمد لِلّٰہ ربّ العٰلمین۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۸۔ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۲۵

 

اسرارِ نفسِ واحدہ

قسط: ۵

 

یہ پُرازحکمت ارشاد سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) میں ہے:مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ۔۔۔۔ پہلا ترجمہ: تم سب کا پیدا کرنا اور پھر (مرنے کے بعد) جِلا اُٹھانا نفسِ واحدہ کی طرح ہے۔ دوسرا ترجمہ : تم سب کا پیدا کرنا اور پھر (نفسانی طور پر مرنے کے بعد) جِلا اٹھانا نفسِ واحدہ کی طرح ہے۔

تشریح: نفسِ واحدہ کی قیامت سب لوگوں کی قیامت ہے، کیونکہ وہ کُل اور یہ سب اس کے اجزاء ہیں، ان میں سے عارفین پر شعوری اور باقی سب پر غیر شعوری قیامت گزرتی ہے۔

جب نفسِ واحدہ کی روحانی قیامت کےلئے صور پھونکا جاتا ہے تو تمام لوگ منزلِ عزرائیلی میں داخل ہوجاتے ہیں، پس خدا ان سے فرماتا ہے: مر جاؤ، تو وہ سب کے سب مرجاتے ہیں، پھر خدا ان کو زندہ کرتا ہے (۰۲: ۲۴۳) ، آپ محوّلہ آیتِ کریمہ کو خوب غور سے پڑھیں، تا کہ معلوم ہوجائے کہ یہ تمام لوگوں کی غیر شعوری قیامت ہے۔

آپ مذکورہ آیت کے آخری حصّے میں بھی خوب غور کرنا، وہ یہ ہے:  إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ  = بیشک خدا لوگوں پر بڑا مہربان ہے، مگر اکثر لوگ اس کا شکر نہیں کرتے ، یعنی اللہ

 

۲۶

 

تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ صورِ قیامت کے ذریعے سے سب لوگوں کو نفسِ واحدہ (امامِ زمانؑ) میں جمع کرکے ان سےفرماتا ہے: مُوتوا، یعنی مرجاؤ، پھر ان کو زندہ کرتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۹۔ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۲۷

 

اسرارِ نفسِ واحدہ

قسط: ۶

 

قرآنی حکمت کا فرمانا ہے کہ امام علیہ السّلام ہی خدا کے حکم سے قیامت برپا کرتا ہے، جس کی وجہ سے اہلِ زمانہ سب کے سب امامِ زمانؑ کے عالمِ شخصی میں جمع ہوجاتے ہیں، اسی معنیٰ میں امامِ عالی مقامؑ نفسِ واحدہ ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ تمام لوگوں کو اپنی ذات کے ساتھ ایک کرلیتا ہے، جُملہ ارواحِ خلائق کو شخصیِ وحدت میں جمع کرنے کا عمل زمانۂ آدمؑ میں شروع ہوا تھا، اور یہی سنّتِ الٰہی ہے، جس میں کوئی تبدیلی نہیں۔

قرآنِ حکیم نے فرمایا کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی شخصیت ایک پوری اُمّت تھی (۱۶: ۱۲۰) یعنی ابراہیمؑ نے نفسِ واحدہ کی حیثیت سے تمام نفوسِ خلائق کو اپنے ساتھ ایک کرلیا تھا۔

یاد رہے کہ حجّ کی تاویل قیامت ہے (۲۲: ۲۷) جیسا کہ اللہ کی طرف سے حضرتِ ابراہیمؑ کو دعوتِ حجّ کا حکم ہوا:  وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ = اور لوگوں کو حجّ کی خبر کر دو۔ ناس دنیا بھر کے لوگوں کا نام ہے، حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں دنیا کے تمام لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے، اور نہ اس زمانے میں آج کی طرح مواصلات کو کوئی نظام تھا، لہٰذا معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو قیامت برپا کرنے کا حکم دیا تھا، اس سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ امامِ عالی مقامؑ یقیناً صاحبِ قیامت ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۳۰۔ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۲۸

 

اسرارِ نفسِ واحدہ

قسط: ۷

 

حدیثِ شریف ہے: اِنّ لِلقُرآنِ ظَھرًا وَّ بَطناً وَلِبطنہ بَطنٌ اِلیٰ سبَعَۃِ اَبطُنٍ = یقیناً قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، اور باطن کا بھی باطن ہے، یہاں تک کہ ساتواں باطن آتا ہے۔ (مثنوی مولوی معنوی، دفتر سوم)۔

سورۂ توبہ کی آیتِ سوم (۰۳:۰۹) میں حجِّ اکبر کا ذکر آیا ہے، جس سے قیامت مراد ہے، کیونکہ وہ حجِّ اکبر کا دن ہے، جبکہ حجِّ ظاہر حجِّ اصغر ہے۔

وہ آیتِ شریفہ یہ ہے:  وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ  = اور خدا اور اس کے رسول کی طرف سے حجِّ اکبر کے دن ( صُورِ اسرافیل کی) منادی کی جاتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بیزار ہیں۔

صورِ اسرافیل کی تاویلات: اسی سے حضرت آدم علیہ السّلام کی روحانی قیامت برپا ہوئی، اور اسی کے ذریعے سے آدمؑ میں خدائی روح پھونک دی گئی، انبیاء و اولیاء علیھم السّلام اور عارفین کی قیامت اسی سے برپا ہوئی، اور ناقورِ عشق بھی یہی ہے، یہ دعوتِ دینِ حق بھی ہے، اور دعوتِ قیامت بھی، حضرتِ داؤدؑ کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح خوانی کا معجزہ صورِ اسرافیل کی آواز کی لپیٹ میں تھا۔

 

۲۹

 

جی ہاں، روحانی حجّ کی منادی بھی صورِ اسرافیل کے ذریعے سے ہوتی ہے، اور ناقورِ عشق بھی یہی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۳۱۔ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۳۰

 

اسرارِ نفسِ واحدہ

قسط: ۸

 

حضرت ابراہیم علیہ السّلام جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جدِّ اعلیٰ تھا، وہ قرآن میں نفسِ واحدہ کا سب سے نمایان نمونہ ہے، جبکہ وہ رسول بھی ہے، امام بھی، اور اُمّت بھی (۱۶: ۱۲۰)۔

نورٌ علیٰ نور (۲۴: ۳۵) قرآنِ حکیم کا ایک ایسا درسِ حکمت ہے کہ جس میں صاحبانِ عقل کے لئے بہت سے اسرار موجود ہیں، پھر اس میں کیا شک ہوسکتا ہے، کہ محمّدؐ و علیؑ نورٌ علیٰ نور ہیں، اس لئے ان میں انبیاؑء و اولیاؑء کے انوار جمع اور ایک ہیں، کیا یہ نفسِ واحدہ کی سب سے بہترین مثال نہیں ہے؟

آیا نورٌعلیٰ نور کی عظیم حکمتوں میں سے ایک بہت بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں نور کا ذکر آیا ہے وہ حقیقت میں ایک ہی نور ہے؟  ج: جی ہاں ، نورٌعلیٰ نور کا واضح مطلب یہی ہے، اور اس کی تائید میں یہ دلیل بھی ہے کہ حظیرۂ قدس میں خدا، رسولؐ، امامؑ، اور مومنین و مومنات کا نور ایک ہی ہے۔

مومنین و مومنات کا نورِ ازل اور نفسِ واحدہ امامِ مبینؑ ہی ہے، اس کا سب سے نمایان تذکرہ قرآن کے تین مقامات پر ہے، سورۂ حدید (۵۷: ۱۲، ۵۷: ۱۹) سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) ارشادِ حق تعالیٰ ہے: دنیا ہی کی روحانی قیامت میں تم مومنین اور مومنات کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور داہنی طرف دوڑ رہا ہوگا۔۔۔ یہ حظیرۂ قدس

 

۳۱

 

کا قصّہ ہے، جس کا قانون یہ ہے کہ مومنین و مومنات سب کے سب نفسِ واحدہ میں ہوں گے، اور ان کو کنزِ مخفی مل چکا ہوگا، اور اللہ نے ان کو صورتِ رحمان پر خلق کیا ہوگا، یہی مونوریالٹی کا سب سے اعلیٰ مرتبہ ہے۔ الحمد للہ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

یکم فروری ۲۰۰۰ء

 

۳۲

 

اسرارِ یک حقیقت

قسط:۱

 

قیامت کے بہت سے ناموں میں سے ایک نام یَومَ الفَصل (۷۸: ۱۷) ہے ، یعنی فیصلے کا دن، جس سے عصرِ حاضر مراد ہے، یقیناً یہی زمانہ باطنی فیصلے کا دن ہے، پس اسی زمانے میں یہ سِرّی فیصلہ ہوا کہ تمام نظریات میں سے نظریۂ یک حقیقت درست اور صحیح ہے، لہٰذا اس نظرئیے کی ٹھیک ٹھیک وضاحت بے حد ضروری ہے۔

جب امرِ واقعی یہی ہے، تو اس کی مثالیں قرآنِ حکیم میں ضرور موجود ہوں گی، جی ہاں، بیشک، یک حقیقت (مونوریالٹی ) کی بہت مثالیں قرآنِ مقدس میں آئی ہیں، جیسے اسرارِ نفسِ واحدہ کے عنوانات کے تحت ذکر ہوا کہ تمام نفوسِ خلائق ہر نفسِ واحدہ کی قیامت میں جمع ہو جاتے ہیں، اور یہ جملہ ارواح عالمِ ذرّ اور عالمِ شخصی کے بعد مقامِ معراج ( حظیرۂ قدس) میں نفسِ واحدہ میں فنا ہو کر اس کے ساتھ ایک ہو جاتی ہیں، اور پھر صورتِ رحمان کا سب سے بڑا معجزہ ہوتا ہے، اور یہی یک حقیقت ہے۔

حدیثِ شریف ہے: اِنّ اللہَ خَلَقَ آدمَ علیٰ صُورتہ = بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم (و آدمی) کو (حظیرۂ قدس کی بہشت میں) اپنی صورت پر پیدا کیا، اور قرآن میں ارشاد ہے:  کُلُ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہُ (۲۸: ۸۸)

 

۳۳

 

عالمِ شخصی کی ہر چیز فنا ہوجاتی ہے، مگر عارف صورتِ رحمان میں باقی رہتا ہے، یہی فنا فی اللہ و بقا باللہ کی توضیح ہے، اور یہی یک حقیقت ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۲۶ شوال المکرّم ۱۴۲۰ ھ

۳ ۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۳۴

 

اسرارِ یک حقیقت

قسط:۲

 

سورۂ رحمان (۵۵: ۲۴) میں جن قابلِ تعریف کشتیوں کا ذکر آیا ہے وہ انبیاء و اولیاء علیھم السّلام ہیں، جو اپنے اپنے زمانے میں بحرِ روحانیّت کی خدائی کشتیاں ہیں، تاکہ لوگوں کو نجات دلا کر وجہ اللہ (صورتِ رحمان) سے واصل کر دیں، پس آیت ۲۶ میں اس مقصدِ عالی کے لئے سب کے فنا ہوجانے کا بیان ہے، اور آیت ۲۷ میں یہ واضح اشارہ ہے کہ وہ سب کے سب وجہ اللہ (صورتِ رحمان) میں ہمیشہ باقی ہوں گے اور یہ تاویل بھی اپنی جگہ پر بالکل درست ہے کہ وجہ اللہ اور صورتِ رحمان حضرتِ علی علیہ السّلام ہے۔

سورۂ انعام کی وہ آیۂ شریفہ جو  وَلَقَدْ جِئْتُمُوْ نَافُرَادٰ ی سے شروع ہو جاتی ہے (۰۶: ۹۴) اپنے باطن میں چوٹی کے اسرار رکھتی ہے، جس کا خطاب تمام لوگوں سے ہے، مگر انسانانِ کامل کے توسط سے، کیونکہ ہر زمانے کے لوگ اپنے وقت کے نفسِ واحدہ کے ذریعے سے خدا سے واصل ہوجاتے ہیں، درحالے کہ وہ ہر طرح سے فنا ہوجاتے ہیں، اور ان کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی ہے، مگر وہی مجرّد حقیقت جو پہلی بار پیدا کی گئی تھی، یعنی صورتِ رحمان، جو یک حقیقت ہے۔

سورۂ قصص کے آخر (۲۸: ۸۸) میں جو آیۂ کریمہ ہے، وہ مغزِ حکمت سے مملو ہے :  کُلُّ شَیْ ئٍ ھٰالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ لَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ =

 

۳۵

 

تاویلی مفہوم ۔ جب روحانی قیامت برپا ہونے لگتی ہے تو دنیا کے تمام لوگ ذرّاتِ لطیف کی صورت میں آکر عالمِ شخصی میں داخل ہوجاتے ہیں، جہاں وہ خدا کے حکم سے دو دفعہ مر جاتے ہیں اور دو دفعہ زندہ ہوجاتے ہیں، پہلی موت منزلِ عزرائیلی میں واقع ہوتی ہے اور دوسری موت پیشانی میں، پھر حالتِ فنا میں عارف کو وجہ اللہ (صورتِ رحمان) کا دیدار ہوتا ہے، یہی دیدار عارف کا صورتِ رحمان پر پیدا کیا جانا ہے، مگر یہ کوئی نیا کام ہرگز نہیں، بلکہ عارف آئینۂ حظیرۂ قدس میں اسرارِ ازل کا مشاہدہ کرتا ہے، یہاں حکم سے کلمۂ کُن مراد ہے، اور یہ رجوع سب کا رجوع ہے، اور مقامِ رجوع بڑا عجیب و غریب ہے، کہ وہ ازل بھی ہے اور ابد بھی، ابداع بھی ہے اور انبعاث بھی، مَبداء بھی ہے اور معاد بھی، الغرض صورتِ رحمان یک حقیقت ہے۔

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۴  فروری  ۲۰۰۰ء

 

۳۶

 

اسرارِ یک حقیقت

قسط:۳

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۵۸) میں ارشاد ہے: قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا = تو کہہ دے اے لوگو! یقیناً میں رسُول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف۔ کیا آپ نے اس آیۂ شریفہ میں کما حقہٗ غور کیا ہے؟ کیا اس آیۂ کریمہ کا یہی مطلب نہیں ہے کہ آنحضرتؐ دنیا کے تمام لوگوں کے لئے رسول تھے؟ جی ہاں! اس میں کوئی شک ہی نہیں ۔

یاد رہے کہ ہر رسولِ ناطقؑ کے کارِ دعوت میں مدد کرنے کے لئے حدودِ دین ہوا کرتے ہیں، جیسے اساسؑ، امامؑ، باب، حجتانِ جزائر، اور تقریباً ۳۶۰ داعی، تاکہ دعوتِ حق کی روشنی ہر زمانے کے لوگوں کو پہنچ سکے، تاکہ خدا پر لوگوں کی یہ حجّت نہ ہو کہ ان کے زمانے میں ہدایتِ حقہ کا کوئی خاص و سیلہ نہ تھا (۰۴: ۱۶۵)۔

سورۂ انبیا (۲۱: ۱۰۷) میں فرمانِ الٰہی ہے : وَمَا أَرْ‌سَلْنَاكَ إِلَّا رَ‌حْمَةً لِّلْعَالَمِينَ = اور (اے رسولؐ) ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر رحمت بنا کرسب جہانوں (یعنی عوالمِ شخصی) کے لئے، اور رسولِ پاکؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے: الخلق عیال اللہ = مخلوق (گویا) خدا کا کُنبہ ہے۔

بیانِ بالا سے ظاہر ہے کہ خدا اپنی مخلوق کو ہرگز ضائع نہیں کرتا ، جبکہ اس نے اپنے محبوب پیغمبرؐ کو ہر عالمِ شخصی کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے، اس

 

۳۷

 

کے معنی یہ ہیں کہ ہر زمانے میں رسولؐ کا نمائندہ (امامِ زمانؑ) لوگوں کے درمیان موجود ہے جو اہلِ زمانہ کو زبردستی سے اسلامِ مجسّم میں داخل کر کے ابدی نجات دلانے کی غرض سے بحکمِ خدا قیامت برپا کرتا ہے۔ (۱۷: ۷۱)۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۷۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۳۸

 

اسرارِ یک حقیقت

قسط: ۴

 

روشنائی نامہ میں ہے، ز نورِ اُو تو ہستی ہمچو پرتَو + حجاب از پیش بردار و تو او شَو = اے انسان تو خدا کے نور کا عکس ہے، جیسے سورج کا عکس آئینے میں ہوتا ہے، پردے کو سامنے سے ہٹا دے اور تو اپنی حقیقت کو خدا کی وحدت میں دیکھ لے۔

سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵) میں خود ظِلِّ الٰہی کی مثال ہے، جس سے نفسِ واحدہ مراد ہے، جس کا ذکر ہوچکا ہے، نفسِ واحدہ ہی سے نفوسِ خلائق دنیا میں پھیل جاتے ہیں، اور پھر بذریعۂ قیامت نفسِ واحدہ میں جمع ہوجاتے ہیں اور نفسِ واحدہ میں فنا ہو کر واصل باللہ ہوجاتے ہیں۔

سورۂ دھر کے آغاز (۷۶: ۰۱) میں ارشاد ہے:  هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الـدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَّذْكُوْرًا = کیا آیا ہے انسان پر ایک ایسا وقت دھر میں سے کہ وہ کوئی چیز نہ تھا جو ذکر کے قابل ہو۔ یہ مرتبۂ حقّ الیقین کا سب سے عظیم راز ہے کہ جس میں انسانی حقیقت ہمیشہ خدا میں ہونے کا مشاہدۂ عرفانی ہوتا ہے، اوریک حقیقت کا انکشاف ہے۔

اس حکیمانہ سوال کا یہ مقصد ہے کہ ہر عارف پر ایسا وقت گزرتا ہے جس میں وہ دل کی آنکھ سے اسرارِ ازل کا مشاہدہ کرتا ہے، وہ اسرار جو زمان و مکان سے ماورا ہیں

 

۳۹

 

یعنی وہ حقائق و معارف جو عالمِ عُلوی میں ہیں۔

یہ قانونِ حقیقت خوب یاد رہے کہ اِحاطۂ امامِ مبین ہی (۳۶: ۱۲) حظیرۂ قدس ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی لا محدود چیزوں کو محدود کر کے رکھا ہے، اور بےشمار اشیاء کو عددِ واحد میں سما کر گن لیا ہے، پس چشمِ بصیرت کے لئے اسرارِ ازل کا مشاہدہ اور یک حقیقت کی معرفت غیر ممکن نہیں ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

منگل ۱، ذیقعدہ  ۱۴۲۰ء

۸۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۴۰

 

اسرارِ یک حقیقت

قسط: ۵

 

مولاعلی علینا منہُ السّلام کا بابرکت ارشاد ہے: مَن عَرَفَ نفسہٗ فَقدْ عَرَفَ رَبَّہ = جس نےاپنی روح (یعنی روحِ چہارم) کو پہچان لیا تو بیشک اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا، ہر انسان میں تین روحیں ہوتی ہیں: روحِ نباتی ، روحِ حیوانی، روحِ انسانی، پس روحِ انسانی سے معرفت کے لئے مکمل تیاری ہوسکتی ہے، مگر عین الیقین اور حق الیقین کے لئے روحِ قدسی کی سخت ضرورت ہوتی ہے جو پیغمبرؐ اور امامؑ میں ہوتی ہے۔

اب ارشادِ بالا کی تاویلی حکمت آسان ہوگئی، وہ یہ ہے کہ جس نے اپنی چوتھی روح (یعنی امامِ زمانؑ) کو پہچان لیا، اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا، حضرتِ امیر المومنین علیؑ کے ارشادِ گرامی کی حکمت یہی ہے۔

س: اس کی دلیل کیا ہے کہ مومنین و مومنات کے لئے ایک چوتھی روح بھی ہے، جو عوام النّاس کے لئے ممکن نہیں؟ ۔ ج: ہر عظیم روح کا دوسرا نام نور ہے، جس طرح آدمؑ میں خدائی روح سے مراد خدا کا نور ہے، اور قرآن کی روح قرآن کا نور ہے (۴۲: ۵۲) اسی طرح مومنین و مومنا ت کا نور ان کی روحِ چہارم ہے ( ۵۷: ۱۲، ۱۹)، (۶۶: ۸)۔ پس مومنین و مومنات کی روحِ چہارم یا ان کا نور امامِ زمانؑ ہے، جس کی معرفت مومن یا مومنہ کی اپنی معرفت اور اپنے ربّ کی معرفت ہے۔

 

۴۱

 

اللہ تعالیٰ کی اس رحمتِ بے کران پر کون اعتراض کرسکتا ہے، جبکہ اللہ کے نور سے رسولؐ کا نور ہے، رسولؐ کے نور سے امامؑ کا نور، اور اس سے مومنین و مومنا ت کا نور ہے، اور نورٌعلیٰ نور کے بموجب یہ دراصل ایک ہی نور اور ایک ہی حقیقت ہے، پس سب سے عظیم راز یک حقیقت ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

بدھ ۲ ۔ ذیقعدہ ۱۴۲۰ ھ

۹۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۴۲

 

اسرارِ یک حقیقت

قسط: ۶

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲) کی سب سے عظیم حکمت انتہائی عجیب و غریب ہے، آیت کا ترجمہ: اور اے نبیؐ، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے ربّ نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذریّت کو لیا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا، “کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟” انہوں نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے ربّ ہیں۔

قرآنِ کریم کی اس پُرحکمت تعلیم میں تمام شعوری اور غیر شعوری قیامات کا یکجا ذکر ہے، کیونکہ خاصانِ الٰہی کی عرفانی قیامت میں سب لوگ غیر شعوری طور پر شامل ہوجاتے ہیں، تاآنکہ ح ق میں جملہ ارواح سے عہدِ الست لیا جاتا ہے۔

ہر قیامت سرتاسر نفسِ واحدہ کی نمائندگی میں ہوتی ہے، اور کوئی شخص حظیرۂ قدس میں داخل نہیں ہو سکتا، مگر نفسِ واحدہ میں فنا ہوکر، اور عہدِ الست کے تجدّد میں اسی انسانِ کامل کی نمائندگی ہوتی ہے، اور باقی سب اسی میں فنا ہوچکے ہوتے ہیں، یہاں پر ایک انتہائی عظیم “سِرِ مگو” بھی ہے، چونکہ یہ یک حقیقت کا مضمون ہے، اس لئے ہم اس سرِّ اعظم کو بیان کریں گے، وہ یہ ہے کہ جب نفسِ واحدہ حظیرۂ قدس  میں داخل ہوتا ہے تو وہ صورتِ رحمان میں ہوتا ہے، لہٰذا وہ ایک طرف سے نمائندۂ خلائق ہے، اور دوسری جانب سے مظہرِ خدا، پھر ح ق کے امور میں سوچنا ہوگا کہ انہیں کون انجام دیتا ہے؟

 

۴۳

 

ح ق عالمِ وحدت ہے، یہ عالمِ عُلوی ہے، یہ بہشت برائے معرفت ہے، یہ احاطۂ امامِ مبینؑ ہے، یہ مقامِ عقل ہے، یہ مرتبۂ حق الیقین ہے، مشرقِ نورِ ازل ہے، ارضِ مقدّس ہے، یہ وہ آسمان ہے جس میں علم و حکمت کے بہت سے راستے ہیں، یہ وہ عرش ہے جس پر حضرتِ رحمان سب کے لئے مساوات کا کام کرتا ہے، یہ مسجدِ اقصیٰ ہے، یہاں خزائنِ الٰہی ہیں، اور یہی عالمِ یک حقیقت ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۳ ۔ذیقعدہ  ۱۴۲۰ ھ

۱۰۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۴۴

 

اسرارِ یک حقیقت

قسط: ۷

 

عالمِ دین کے سات آسمان اور سات زمین ہیں (۶۵: ۱۲) اللہ پہلے ان کو عالمِ شخصی میں اور پھر حظیرۂ قدس میں لپیٹ لیتا ہے (۳۹: ۶۷) چھ ناطق اور حضرتِ قائم یہ سات آسمان ہیں، اور ان کے سات حجّت سات زمین ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ یمین (برکت والے) ہیں، قیامت کے دن ساری زمین اس کے قبضہ میں ہوگی، اور سارے آسمان لپٹے ہوئے ہوں گے اس کے داہنے ہاتھ میں  (۳۹: ۶۷)۔ چونکہ ح ق بہشت برائے معرفت ہے لہٰذا اس میں جو بھی داخل ہوتے ہیں وہ سب کے سب صورتِ رحمان پر ایک ہو جاتے ہیں، جس طرح ازل میں سب لوگ اسی پاک صورت میں ایک حقیقت ہے۔

حظیرۂ قدس عالمِ عُلوی ہے، اس لئے وہاں اسرارِ ازل کا مشاہدہ ہوتا ہے، ایسے اسرار جو زمان و مکان سے بالاتر ہیں، جیسے سرِّ یک حقیقت کہ یہ رازِ قدیم بڑا حیران کن ہے، جس کی کیفیت ہر شخص نہیں سمجھ سکتا ہے۔

ح ق عالمِ وحدانیّت ہے، جہاں کنزِ مخفی ہے، جس میں عارف داخل ہوکر اپنے آپ کو گنجِ ازل پاتا ہے، جیسا کہ حدیثِ قدسی “اجعلک مِثلی” میں ہے، اور جیسا کہ حضرتِ پیر نے فرمایا ہے: پس و پیش و نہان و آشکار اوست + شناسائے خود و پروردگار اوست = آخر اور اوّل اور باطن اور ظاہر وہی ہے، اپنے آپ کا عارف

 

۴۵

 

اور ربّ خود ہے۔

حکیم پیر ناصر خسرو کا ایک اور انقلابی شعر یہ ہے: اگر دعویٰ کنم حقا کہ جایست  +  بمنی ناصر خسرو خدایست = اگر میں دعویٰ کروں تو یقیناً یہ بر محل ہے، کہ حقیقت میں ناصر خسرو خدا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۵- ذیقعدہ  ۱۴۲۰ ھ

۱۲- فروری  ۲۰۰۰ء

 

۴۶

 

اسرارِ یک حقیقت

قسط: ۸

 

جب کسی عظیم روح کی باطنی قیامت برپا ہو جاتی ہے تو خداوندِ تعالیٰ جملہ ارواحِ خلائق کو اس کے عالمِ شخصی میں جمع کر دیتا ہے، درحالے کہ لوگ اس انتہائی عظیم واقعہ سے بےخبر ہوتے ہیں۔

جب حضورِ پاک صلعم کی روحانی معراج ہو رہی تھی، تو اس حال میں تمام لوگ آپؐ میں فنا ہوچکے تھے، آپ سورۂ نجم کے آغاز (۵۳: ۰۱ تا ۰۲) میں خوب غور سے دیکھیں، ترجمہ: ستارۂ عالمِ عُلوی کی قسم جب کہ وہ غروب ہوا، تمہارا رفیق نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے۔ یہ خطاب تمام لوگوں سے ہے جو حالتِ فنا میں تھے، اور انہیں رحمتِ عالمؐ نے منزلِ مقصود تک پہنچا دیا، مقامِ معراج کی مناسبت سے صاحبکُم (تمہارا رفیق) فرمانے میں بہت بڑا راز ہے۔

خداوندِ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسولؐ کو تمام عوالمِ شخصی کے لئے رحمت بنا کر بھیجا تھا، لہٰذا جب اکثر لوگوں نے خوشی سے رجوع نہیں کیا، تو انہیں قیامت کی زبردستی سے رجوع کرایا گیا۔

سورۂ مُجادلہ (۵۸: ۲۱) میں ارشاد ہے:  كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ =  اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہوکر رہیں گے۔ فی الواقع اللہ زبردست اور زورآور ہے۔ اللہ اور اس کے

 

۴۷

 

رسولوں کے غالب ہو جانے سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ ہر رسول کے دور میں اماموں کا سلسلہ ہوتا ہے، اور ہر امامؑ خدا کے حکم سے قیامت برپا کرتا ہے (۱۷: ۷۱)۔ یہی روحانی جنگ ہے، جس میں اللہ، رسولؐ اور امامؑ غالب ہوجاتے ہیں، اور لوگ سب کے سب خدا کے دین میں داخل ہوجاتے ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

اتوار ۶ ۔ ذیقعدہ  ۱۴۲۰ ھ

۱۳۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۴۸

 

أئمّۂ آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۱

 

سورۂ مائدہ (۰۵: ۵۴) میں ایک عظیم الشّان پیش گوئی ہے، جو حضرتِ علیؑ کی امامت و خلافت سے شروع کر کے ائمّۂ آلِ محمّدؐ سے متعلّق ہے، اس آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) تو قریب ہے کہ لے آئے اللہ ایسی قوم جنہیں وہ دوست رکھتا ہے اور وہ اسے دوست رکھتے ہیں نرم ہیں مومنوں پر، سخت ہیں کافروں پر، جہاد کرتے ہیں اللہ کی راہ میں اور نہیں ڈرتے ملامت سے کسی ملامت کرنے والے کی، یہ فضل ہے اللہ کا اسے عطا کرتا ہے جسے چاہتا ہے، اور اللہ صاحبِ وسعت جاننے والا ہے۔

یہ عظیم الشّان پیش گوئی أئمّۂ آلِ محمّدؐ اور ان کے روحانی لشکر کے بارے میں ہے، اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ ان کو محبوب رکھتا ہے، اور یہ خدا کو محبوب رکھتے ہیں، اور یہ خصوصیت بے مثال ہے، دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ حضرات اپنی باطنی قوّتوں اور روحانی لشکر کے ذریعے سے مومنوں پر نرم اور کافروں پر سخت ہیں، اور یہ ان کی باطنی صفت ہے، تیسری دلیل یہ ہے کہ وہ قیامت اور روحانی جہاد کے مالک ہیں، اور چوتھی دلیل یہ ہے کہ وہ علمِ تاویل پر عمل کرتے ہیں جس میں بعض لوگ ملامت کرتے ہیں، لیکن ان کو اسکی پرواہ نہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

پیر ۱۴۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۴۹

 

أئمّۂ آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۲

 

اگرچہ امامؑ اور امامت کا راز ازلی و ابدی ہے، تاہم اس کی ظاہری تاریخ زمانۂ آدم سے شروع ہوئی، اور حضرت ابراہیمؑ کی شخصیت میں خدا نے مرتبۂ امامت کو نمایان کر دیا، پس اللہ کے حکم سے نورِ امامت کا سلسلہ پہلے آلِ ابراہیمؑ پھر آلِ محمّدؐ میں جاری ہے جس کے بارے میں بہت سی قرآنی شہادتیں پیش کی گئی ہیں، مِن جملہ آیۂ درجِ ذیل بنیادی اہمیت کی حامل ہے:-  إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ (۵: ۵۵) =  سوائے اس کے نہیں کہ تمہارا ولی و سرپرست اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو (حقیقی معنوں میں) ایمان لائے ہیں ایسے کہ قائم کرتے ہیں نماز اور دیتے ہیں زکات جس حال میں کہ وہ رکوع میں مشغول ہوں ۔ یہ پُرحکمت آیت حضرتِ علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ واقعہ مشہور ہے کہ حالتِ رکوع میں زکوٰۃ صرف مولا علیؑ ہی نے دی تھی، آپ شیعی تفاسیر وغیرہ دیکھ سکتے ہیں۔

جن معنوں میں اللہ اور اس کا رسولؐ اہلِ ایمان کے ولی اور سرپرست ہیں، ان معنوں میں سوائے أئمّۂ آلِ محمّدؐ کے اور کوئی داخل و شامل نہیں ہو سکتا ہے یعنی جس آیت میں خدا و رسولؐ کی کوئی تعریف ہو اس میں صرف اور صرف

 

۵۰

 

حضراتِ أئمّہؑ ہی شامل ہوسکتے ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

منگل ۱۵ ۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۵۱

 

أئمّۂ آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۳

 

سورۂ مائدہ (۰۵: ۵۶) میں ارشاد ہے: وَمَن يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ = اور جس شخص نے خدا اور رسولؐ اور (انہیں) مومنین (یعنی أئمّہ) کو اپنا سرپرست بنایا تو (خدا کے لشکر میں آ گیا اور) اس میں شک نہیں کہ خدا ہی کا لشکر غالب رہتا ہے۔

اس میں باطنی قیامت اور روحانی جنگ کا اشارہ ہے، جس کا تذکرہ آپ نے بارہا سنا ہے، یقیناً بحکمِ خدا ہر زمانے کا امامؑ صاحبِ قیامت ہے (۱۷: ۷۱) اور قیامت دعوتِ حق کی غرض سے روحانی جنگ ہے، جس میں حِزبُ اللہ ہی غالب رہتا ہے۔

یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ أئمّۂ طاہرین علیھم السّلام کے اسماء میں سے ایک اسم مومنون بھی ہے سورۂ توبہ (۰۹: ۱۰۵) میں دیکھیں، ترجمۂ آیت: اور (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ تم لوگ اپنے اپنے کام کئے جاؤ ابھی تو خدا اور اس کا رسولؐ اور مومنین (یعنی أئمّہ) تمہارے کاموں کو دیکھیں گے۔

ارشادِ رسولؐ کا ترجمہ ہے: مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ خدا کے نور کے ذریعے سے دیکھتا ہے۔ کیا یہ صفت ہر مومن کی ہوسکتی ہےیا بحقیقت مومن امامؑ ہی ہے۔ نیز یہ حدیث بھی ہے: بندۂ مومن کا قلب اللہ تعالیٰ کا عرش ہے، آیا اس کے مصداق رسولؐ اور امامؑ نہیں ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

بدھ ۹ ذیقعد ۱۴۲۰ ء

۱۶۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۵۲

 

وہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں

قسط:۱

 

اَنا ذَالِکَ الکِتابُ لاَ رَیبَ فَیہ = میں وہ (زندہ اور بولنے والی) کتاب ہوں جس میں کوئی شک نہیں، کیونکہ اس میں یقین ہی یقین ہے، جس طرح سورۂ مومنون (۲۳: ۶۲) اور سورۂ جاثیہ (۴۵: ۲۹) میں کتابِ ناطق کا ذکرآیا ہے۔

المّ = الف لام میم = الف سے مراد اوّل ہے، جو قلم بھی ہے اور نورِ محمدیؐ بھی، لام کی تاویل لوحِ محفوظ ہے جو نورِعلیؑ ہے، میم مرقوم ہے، یعنی لکھا ہوا = کتابِ مکنون = کتاب لا ریب فیہ (علیؑ)۔

الف = اوّل = قلم = عقلِ کلّ = نورِ محمدیؐ =  فرشتہ ، لام = ثانی = لوح = نفسِ کُلّ = نورِعلیؑ = فرشتہ، میم = مرقوم = کتابِ مکنون۔

اللہ تعالیٰ کی ایک پُرحکمت کتاب نازل ہوئی ہے، یعنی قرآنِ صامت جو لوگوں کے پاس موجود ہے، دوسری کتاب نازل نہیں ہوئی، وہ اللہ کے پاس ہے، وہ کتابِ مکنون ہے (۵۶: ۷۸) یعنی پوشیدہ کتاب یا کتابِ ناطق، جس کے بارے میں ارشاد ہوا کہ وہ خدا کے پاس ہے (۲۳: ۶۲) ۔

اگر یہ حقیقت تسلیم کر لی جائے کہ امامِ زمانؑ ہی اللہ کی وہ کتاب ہے جو روحانیّت اور نورانیّت میں اللہ کے پاس ہے، تو پھر تمام مشکل سوالات ختم ہوجائیں گے، کیونکہ معلوم ہوا کہ امامؑ نورانیت میں خدا کے پاس ہے اور شخصیت میں لوگوں کے

 

۵۳

 

درمیان، پس یقیناً یہی شخص نمائندۂ رسولؐ بھی ہے اور وارثِ علیؑ بھی، اور بہت سے اوصاف و کمالات اسی میں جمع ہوجاتے ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۱۰۔ ذیقعدہ  ۱۴۲۰ ھ

۱۷۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۵۴

 

وہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں

قسط:۲

 

المّ حُروفِ مُقَطَّعَات میں سے ہیں، اس نوعیت کے حروف کی نہ صرف تاویل ہے، بلکہ ان میں خدا نے بعض عظیم چیزوں کی قسم بھی کھائی ہے، جیسے ارشاد ہے: المّ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ = قسم ہے قلمِ اعلیٰ کی اور لوح کی اور مرقوم کی وہ کتابِ ناطق ایسی ہے کہ اس میں شک نہیں، بلکہ وہ سرتا سر نورِ یقین سے منوّر ہے، جس کا ذکر ہوچکا۔

امامِ عالی مقام ہی اللہ کی بولنے والی کتاب ہے جو عالمِ عُلوی میں خدا کے پاس بھی ہے، اور زمین پر لوگوں کے درمیان بھی، یہ ایک ایسی بے مثال صفت ہے کہ اس میں تمام تر صفات جمع ہو جاتی ہیں، اور اس میں قرآنِ حکیم کی ہر مثال آتی ہے، کہ یہی اللہ کی رسی ہے جو آسمان و زمین کے درمیان تانی ہوئی ہے، نجات کی سیڑھی بھی، صراطِ مستقیم بھی اور اس پاک درخت کی شاخ بھی جو عالمِ بالا میں پھل دیتا ہے۔

احاطۂ امامِ مُبینؑ سے کوئی قرآنی علم وحکمت باہر نہیں ہے، جبکہ خداوندِ تعالیٰ سارے آسمانوں اور زمین کو امامِ مبینؑ میں لپیٹتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر دانا عاشق حضرتِ امامؑ میں فنا ہو جانا چاہتا ہے۔

قرآنِ حکیم کی چھ سورتوں کے شروع میں الۗمّ کے حروف آئے ہیں:

 

۵۵

 

سورۂ بقرہ (۰۲: ۰۱)، سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۰۱)، سورۂ عنکبوت (۲۹: ۰۱)، سورۂ روم (۳۰: ۰۱) سورۂ لقمان(۳۱: ۰۱) سورۂ سجدہ (۳۲: ۰۱)۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعہ ۱۱ ۔ ذیقعدہ   ۱۴۲۰ھ

۱۸۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۵۶

 

وہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں

قسط: ۳

 

اللہ تعالیٰ کی وہ مقدّس و مبارک کتاب جو زندہ اور ناطق ہے، وہ امامِ مبینؑ ہی ہے، جو حظیرۂ قدس میں اللہ سے واصل ہے، اور ظاہراً لوگوں کے درمیان ہے، تاکہ وہ لوگوں کو طَوعاً وَکَرھاً خدا سے ملا  دے۔

رسولِ پاکؐ کی بابرکت ہستی اپنے وقت میں خدا کی بولنے والی کتاب تھی، جس میں علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین کا نور تھا تو پھر شک کیونکر ہو سکتا تھا؟

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۰۱)  المّ۔ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۔ قسم ہےقلمِ اعلیٰ کی اور لوح کی اور مرقوم (کتابِ مکنون) کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور اللہ کی معرفت کے لئے دو اسمِ اعظم ہیں، وہ اَلحّی اور اَلقیّوم ہیں، اللہ کے اور بھی اچھے اچھے نام ہیں، لیکن الحیّ، (ہمیشہ زندہ) کی بہت بڑی اہمیت ہے، کیونکہ یہ انسانی شکل میں انسانوں کے درمیان رہتا ہے۔

الحیّ، ہمیشہ زندہ، حجتِ قائم ہے، جو اللہ کا اسمِ اعظم ہے، اور القیّوم حضرتِ قائمؑ ہے، جو دوسرا اسمِ اعظم ہے، پس یہاں قسم بھی ہے، اور جوابِ قسم بھی، اور خدا شناسی کا حوالہ بھی ہے، یعنی  الْحَيُّ الْقَيُّومُ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۱۲ ۔ ذیقعدہ  ۱۴۲۰ ء    ۱۹۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۵۷

 

وہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں

قسط: ۴

 

سورۂ عنکبوت کے شروع (۲۹: ۰۱) میں ہے: الف ۔ لام۔ میم ۔ قسم ہے قلم کی (جو نورِ محمدیؐ بھی ہے) اور قسم ہے لوح کی (جو نورِعلیؑ بھی ہے) اور قسم ہے مرقوم کی (جو کتابِ مکنون بھی ہے) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ “ہم ایمان لائے” اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔

یہاں جوابِ قسم میں یہ پُرزور تعلیم ہے کہ اللہ لوگوں کو آزماتا رہتا ہے تاکہ وہ انبیاؑء و اولیاؑء کے نقشِ قدم پر چل کر روحانی روشنی اور علم وحکمت کو حاصل کر سکیں۔ اس آیت کے آخر میں سچ بولنے والوں کا ذکر ہے، یہ دنیا کی سچائی نہیں، وہ تو بہت معمولی چیز ہے کہ ایک ہندو بھی دنیا کے معاملے میں سچ بول سکتا ہے، پس قرآن اور اسلام کی سچائی اس سے ارفع و اعلیٰ ہے، وہ حقیقت اور معرفت کی زبان میں بولنے کو کہا جاتا ہے۔

الف ۔ لام ۔ میم ۔ کا انتہائی عظیم معجزہ زبردست تاویلات کا بہت بڑا مرکز ہے، کیونکہ اسکی بہت سی پُرنور تجلّیات ہیں، اور ہر تجلّی کی ایک مخصوص تاویل ہے، مثلاً طلوعِ نورِ ازل کی تجلّی، کائنات کو لپیٹنے اور پھیلانےکی تجلّی، قلم و لوح کی تجلّی،

 

۵۸

 

نورِ محمّدؐ و علیؑ کی تجلّی، اسی طرح ہر علم و حکمت کے لئے ایک تجلّی ہے، مگر تمام تر تجلّیات ایک جیسی ہیں، لہٰذا ان کو صرف عارفِ کامل ہی پہچان سکتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۱۲ ۔ ذیقعدہ   ۱۴۲۰ ھ    ۱۹۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۵۹

 

وہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں

قسط: ۵

 

سورۂ روم کے آغاز (۳۰: ۰۱) میں بھی یہ تین تجلّیاتی حروف ہیں: الف ۔ لام۔ میم ۔ جو کچھ قبلاً ان سے متعلق بیان ہوا وہ درست مگر بہت ہی کم ہے، کیونکہ وہ تجلّی در تجلّی معجزات ہیں، جیسے الف کبھی قلم ہے، کبھی نورِ محمدیؐ، کبھی عقلِ اوّل، کبھی نورِ عرش، کبھی نورِ ازل، کبھی شمس، کبھی قمر، کبھی نجم، کبھی نجوم، کبھی دُرّ، کبھی یاقوت، کبھی کتابِ مکنون، دراصل یہ بہشت برائے معرفت ہے، اور یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ بہشت قانونِ تجلّیات کے مطابق ہے، یعنی ہر لحظہ آپ کی نگاہ کے سامنے ایک جدید منظر ہوتا ہے، پس احاطۂ امامِ مُبینؑ میں علمی تجلّیات ہیں۔

اس حدیثِ شریف کے لئے ہر مومن جان و دل سے قائل ہے کہ قرآنِ حکیم کی ہر آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، پس سورۂ روم کی ابتدائی پانچ آیات کو بحیثیتِ مجموعی دیکھنے سے یقین آتا ہےکہ یہاں عالمِ شخصی کا تذکرہ ہے، کیونکہ اس پر شروع شروع میں مخالف لشکر کا قبضہ رہتا ہے، مگر چند سال کی سخت محنت اور اللہ کی مدد سے عالمِ شخصی میں مومنین و مومنات کی سلطنت قائم ہو جاتی ہے، اور ان آیات (۳۰: ۰۱ تا ۰۵) کی یہی تاویل ہے۔

یہاں روم اور روم والے عالمِ شخصی کی مثال ہیں، جس طرح مصر عالمِ شخصی کی مثال ہے، اور آپ نے قریہ کے بارے میں پڑھا ہے، اور اس نوعیت کی مثالیں بہت

 

۶۰

 

ہیں۔

چونکہ قرآنِ حکیم علمی بہشت ہے، لہٰذا اس میں بھی علمی تجلّیات کی بڑی زبردست فراوانی ہے، مگر اس کے لئے چشمِ بصیرت کی سخت ضرورت ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

اتوار  ۱۳ ۔ ذیقعدہ   ۱۴۲۰ ھ    ۲۰۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۶۱

 

وہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں

قسط: ۶

 

سورۂ لقمان(۳۱: ۰۱)  المّ۔ تِلکَ اٰیٰتُ الکِتٰبِ الحَکِیمِ ۔ یہ تین حروف یعنی نورِ محمدیؐ، نورعلیؑ، اور مرقوم (مکنون = مکتوب) اپنی بے شمار علمی تجلّیوں کے ساتھ تین انتہائی عظیم آیات (معجزات) بھی ہیں، ان پر الکتاب الحکیم مبنی ہے، یہ وہ قرآنِ ناطق ہے، جو لوحِ محفوظ میں رکھا ہوا ہے، یہ حکمت یاد رہے کہ نزولِ قرآن کے چند مقامات ہیں، اوّل اوّل قرآن کلمۂ کُن سے قلمِ اعلیٰ میں نازل ہوا، پھر اس کا نزول لوحِ محفوظ میں ہوا، وہاں سے اسرافیل میں، اور اس سے میکائیل میں، اور میکائیل سے جبرائیل میں، اور جبرائیل نے رفتہ رفتہ قرآن کو آنحضرتؐ کے قلبِ مبارک پر نازل کیا، اور حضورِ پاکؐ نے قرآن کی اس عظیم امانت کو دو طرح سے ادا کیا، ایک یہ کہ آپؐ نے قرآن کی روح و روحانیّت، اور نور و نورانیّت کو اپنے وصی (علیؑ) میں منتقل کردیا، اور دوسرا یہ کہ آپؐ نے کاتبانِ وحی سے قرآن کی ظاہری کتابت کرائی۔

آپ نے درختِ خوبانی کے پھل کو دیکھا ہوگا کہ وہ کئی مراحل کے بعد تیار ہوتا ہے، اس پھل (زردآلو) میں گٹھلی ہوتی ہے، اور اس میں مغز ہوتا ہے، اور مغز میں درخت کی تمام چیزیں بصورتِ جوہر موجود ہیں، اگر کسی عارف کے سامنے اِس مغز پر نورِ معرفت کی روشنی پڑتی تو درختِ خوبانی کی ہر ہر چیز اس مغز میں نظر آتی۔ اسی طرح انسان درختِ کائنات کے پھل کا مغز ہے، لہٰذا اس میں کائنات پیدا ہونے کی

 

۶۲

 

صلاحیت موجود ہے، اور یقیناً عالمِ شخصی کے عنوان سے کائنات پیدا ہوتی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

اتوار ۱۳ ۔ ذیقعدہ   ۱۴۲۰ ھ

۲۰۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۶۳

 

وہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں

قسط: ۷

 

سورۂ سجدہ (۳۲: ۰۱ تا ۰۲) میں ارشاد ہیں: المّ تَنزِيلُ الكِتٰبِ لَا رَيبَ فِيهِ مِن رَّبِّ العٰلَمِينَ۔ الف لام میم = قسم ہے قلم کی جو نورِ محمدیؐ ہے اور قسم ہے لوح کی جو نورِعلیؑ ہے اور قسم ہے مرقوم کی جو کتابِ مکنون ہے کہ وہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں وہ کتابِ ناطق عوالمِ شخصی کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے نورِ محمدی کے قلم سے نورِعلیؑ کی لوح میں علم و حکمت کی ہر ہر چیز لکھ دی، یا یہ کہ خدا کے حکم سے نور کے قلم نے نور کی لوحِ محفوظ میں علمی اسرار کی تمام چیزوں کو گھیر کر رکھا ۔

لوحِ محفوظ کی تجلّیات: یہ تجلّیاتی حروف میں سے حرفِ لام ہے، یہ علیؑ کا نور ہے، یہ نفسِ کُلّ ہے، اُمّ الکتاب ہے، قرآنِ ناطق ہے، کتابِ لاریب فیہ ہے، کتابِ مکنون ہے، کتابِ مرقوم ہے، امامِ مبینؑ ہے، عالمگیر روح ہے، اللہ کی کرسی ہے، جس میں ساری کائنات سمائی ہوئی ہے، ارض اللہ ہے، بہشت برائے معرفت ہے، حظیرۂ قدس ہے، نفسِ واحدہ ہے، وغیرہ۔

بحوالۂ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۴۳) جس طرح پروردگار کی تجلّی سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا تھا، وہ معجزہ صرف حضرتِ موسیٰ  ؑکی ذات تک محدود نہ تھا بلکہ یہ تمام انبیاؑء واولیاؑء اور جملہ عارفین کے عالمِ شخصی میں ہے، اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ جب حضرتِ

 

۶۴

 

ربّ گوہرِعقل پر تجلّی ڈالتا ہے تو اس میں ہزاروں معنوی تجلّیات آجاتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ حقیقی علم کی ہر بات میں دیدارِ خداوندی کی ایک جھلک ہے، اسی معنی میں “علمی دیدار” کی اصطلاح بنائی گئی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ بعض عاشقوں کو کسی نہ کسی طرح سے علمی دیدار کا احساس و ادراک ہوئے بغیر نہیں رہتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

منگل ۱۴۔ ذیقعدہ  ۱۴۲۰ ھ    ۲۱ ۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۶۵

 

عالمِ شخصی میں حضرتِ مُوسٰیؑ کا علمی سفر

 

س(ا) حضرتِ موسٰیؑ کے علمی سفر کے بارے میں آپ کا کیاخیال ہے؟ آیا وہ سفر ظاہری تھا یا باطنی؟

ج: انبیاءؑ ، اولیاءؑ اور عُرفاء کا علمی سفر عالمِ شخصی ہی میں ہوا کرتا ہے، لہٰذا یہ سفر لازماً باطنی اور روحانی تھا۔

س (۲) کیا مجمع البحرین، یعنی دودریاؤں کا سنگم (۱۸: ۶۰) بھی روحانیت اور باطن میں ہے؟

ج: جی ہاں مجمع البحرین عالمِ شخصی کے کئی مقامات پر ہے۔

س (۳) وہ بندۂ مقرب کون تھا جو دو دریاؤں کے سنگم پر رہتا تھا، جس کو اللہ نے علمِ لدنّی یعنی علمِ تاویل عطا کیا تھا؟

ج: وہ اساسؑ ہی تھا۔

س (۴) مچھلی جو عجیب طرح سے دریا میں چلی گئی ، اس سے کیا مراد ہے؟

ج: وہ سالک کی روح ہے، جو وقت آنے پر زندہ ہوکر دریائے حیات میں چلی جاتی ہے۔

س(۵) قصّۂ موسٰیؑ کے حوالے سے کشتی کی کیا تاویل ہوسکتی ہے؟

ج: کشتی عالمِ شخصی ہے۔

س(۶) کیا خضرؑ نے ظاہر میں ایک لڑکے کو قتل کیا تھا؟

ج: نہیں نہیں اس میں تاویلی امتحان ہے۔

س(۷) دو یتیم لڑکوں کی کیا تاویل ہے؟

ج: عالمِ شخصی میں امامِ مُستقر اور امامِ مُستَودع کی دو مثالیں ہیں۔

 

۶۶

 

س(۸) عالمِ شخصی میں وہ خزانہ کس گرانمایہ چیز کا ہے؟ ۔

ج: وہ خزانہ صرف اور صرف آسمانی علم و حکمت ہی کا ہے اور بس۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۳۔ فروری ۲۰۰۰ء

 

۶۷

 

تجلّیّاتِ مجمعُ البحریْن

 

۱۔ دریائے خیرو شرّ کا سنگم یعنی جہاں ایک فرشتہ اور ایک جنّ ہے۔   ۲۔ تنزیل و تاویل اور ظاہر و باطن کا سنگم۔ ۳۔ حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن کا سنگم۔ ۴۔ قیامت گاہ میں اسرافیل اور عزرائیل کا سنگم۔  ۵۔ فنا و بقا کا سنگم۔  ۶۔ قبض و بسط اور حشرونشر کا سنگم۔  ۷۔ ابداع و انبعاث کا سنگم۔  ۸۔ عالمِ خلق اور عالمِ امر کا سنگم۔  ۹۔ عروج و نزول / عالمِ عُلوی اور عالمِ سِفلی کا سنگم۔  ۱۰۔ نبوّت اور ولایت کا سنگم۔  ۱۱۔ جسمانیّت و روحانیّت کا سنگم۔  ۱۲۔ دنیا و آخرت کا سنگم۔  ۱۳۔ عقلِ کلّ اور نفسِ کُلّ کا مجمع البحرین۔  ۱۴۔ کلمۂ کُنۡ اور قلمِ اعلیٰ کا مجمع البحرین۔  ۱۵۔ قلم اور لوح کا مجمع البحرین۔  ۱۶۔ فرشتۂ لوح اور اسرافیل کا مجمع البحرین۔  ۱۷۔ قابِ قوسَین یا رُبوبیت و عُبودیت کا مجمع البحرین۔  ۱۸۔ آسمان و زمین کا سنگم۔  ۱۹۔ ناطقؐ اور اساسؑ کا سنگم۔  ۲۰۔ ازل و ابد کا سنگم۔  ۲۱۔ شمس و قمر کا سنگم، وغیرہ۔

ان تمام مقامات پر سنگم ہے، اور اس میں اساسؑ ہی معلّمِ ربّانی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۴۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۶۸

 

ہر قیامت میں دینِ حق غالب آتا ہے

 

یہ تذکرہ بار بار ہوچکا ہے کہ ہر امامؑ کے ذریعے سے ایک روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، جس میں بڑی زبردست جنگ بھی ہے، تاکہ دینِ حق کو دیگر تمام ادیان پر غلبہ اور فتح حاصل ہو۔ اور اللہ کے فضل و کرم سے ہر زمانے کے امامؑ کو یہی فتح حاصل ہوتی ہے (۱۷: ۷۱)۔

قیامت، روحانی جنگ، اور دینِ حق کی عالمی فتح کی پیش گوئی اگرچہ قرآن کی بہت سی آیات میں موجود ہے، تاہم آپ اس زبردست پیش گوئی کو بغور پڑھیں جو قرآنِ پاک کے تین مقامات پر آئی ہے، وہ ہیں: سورۂ توبہ (۰۹: ۳۳) سورۂ فتح (۴۸: ۲۸) اور سورۂ صف (۶۱: ۰۹)۔

مذکورہ پیش گوئی والی آیت کا ترجمہ یہ ہے: وہ وہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ تاکہ غالب کرے اس کو سب دینوں پر۔

دینِ حق کی روحانی قیامت، روحانی جنگ اور عالمی فتح زمانۂ نبوّت میں ہو چکی تھی، اور اس کا تجدّد ہر زمانے میں ہوتے آیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قانون یہی ہے، کہ ظاہر میں لوگوں کو دُنیوی زندگی کی ملہت دی جاتی ہے، اور باطن میں ان پر قیامت آتی ہے، اور یہ بہت بڑا راز ہے۔ آپ سورۂ فتح (۴۸) اور سورۂ نصر (۱۱۰) میں رسول اللہؐ کی روحانی جنگ اور عالمی فتح کا تذکرہ خوب غور سے پڑھیں۔(۴۸: ۱۱۰)

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۴۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۶۹

 

عظیم سلطنت

 

سورۂ نساء میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ :  فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا  (۰۴: ۵۴) ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی ہے اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی ہے۔

اس عظیم الشّان آیۂ شریفہ میں اہلِ بصیرت کے لئے اساسی اور کلیدی نوعیت کی پُرنور حکمتیں موجود ہیں، چنانچہ اہلِ ایمان جانتے ہیں کہ آلِ ابراہیمؑ آلِ محمدؐ بھی ہیں، پس یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ آئمّۂ آلِ محمدؐ ہی وہ حضرات ہیں جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کی وراثت اور علم و حکمت کے خزانے سے ممتاز اور عظیم روحانی سلطنت سے سرفراز کر دیا ہے۔

پس جو لوگ اطاعت اور عشق و محبت سے امامِ زمانؑ میں فنا ہوجائیں، وہ ان شاء اللہ آج دنیا میں روحانی علم و حکمت کی دولت سے مالامال ہوں گے اور کل آخرت میں ملوک و سلاطین کے درجات پر فائز ہوجائیں گے۔

بہشت کی سب سے بڑی نعمت کیا ہے؟  ج:  وہاں کی بہت بڑی بادشاہی ہے (۷۶: ۲۰) لیکن یہ ان لوگوں کو نصیب ہوگی جو دنیا میں اپنے روحانی بادشاہ کے حقیقی عاشق تھے۔

خدا ہی نے أئمّۂ آلِ محمدؐ کو عظیم سلطنت عطا فرمائی ہے، اور اس

 

۷۰

 

عطیّۂ خداوندی کے بارے میں کس کو شک ہوسکتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۱۹ ۔ ذیقعدہ   ۱۴۲۰ھ    ۲۶۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۷۱

 

جنّت میں ہر نعمت ممکنُ الحُصُول ہے

 

خداوندِ عالم کا فرمان ہے: لَهُم مَّا يَشَاءُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ (۵۰: ۳۵) ان کے واسطے ہے وہاں (ہرنعمت) جو وہ چاہیں اور ہمارے پاس ہے کچھ زیادہ بھی۔

اہلِ بہشت کے لئے لطیف جسمانی، روحانی، عقلی، علمی، عرفانی، عینی، سمعی ہر قسم کی بے مثال نعمتیں موجود ہیں۔

حیاتِ روحانی کے عجائب و غرائب، آفرینشِ کائنات کے عظیم اسرار، کس طرح انسان ایک سیّارے سے دوسرے سّیارے پر منتقل ہوتے آیا ہے؟

کیا یہ نظریہ درست ہے کہ آدموں کا سلسلہ لا ابتدأ اور لاانتہاء ہے؟

دنیا کی بہت سی قومیں، زبانیں، ثقافتیں، سلطنتیں مٹ چکی ہیں، آیا ان چیزوں کا کہیں کوئی مکمل ریکارڈ مل سکتا ہے؟

آیا بہشت میں ہر چیز کا ریکارڈ مل سکتا ہے؟ آیا جنت میں ہر آسمانی کتاب کا مشاہدہ ہوسکتا ہے؟

ان جیسے بے شمار سوالات کا جواب آیۂ مذکورۂ بالا میں موجود ہے، آپ آج بھی علمی بہشت میں داخل ہو کر تجربہ کر سکتے ہیں کہ اس میں سوالات کم سے کم ہوتے جاتے ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۸۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۷۲

 

حَدیثِ مدیْنۃُ العِلم  (شرح الاخبار، ص ۸۹)

 

اِنّ رسُولَ اللہ صلی اللہُ علیہ وآلہٖ قال لعلی عَلیہ السّلام: یَا عَلی آنا مدینۃُ العِلم وَ انت بَابُھَا، فَمَن دَخلَ المَدیْنۃَ مِن غیرِ بَابَھا فقد آخطَاءَ الطّریقَ = یقیناً رسولِ خُدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ نے علی علیہ السّلام سے فرمایا کہ اے علی میں علم کا شہر ہوں اور تم اس کا دروازہ ہو، پس جو شخص اس شہر میں دروازے سے ہٹ کر داخل ہوجاتا ہے، تو اس کا راستہ غلط ہوجاتا ہے۔

یہ حدیثِ شریف اگرچہ مشہور ہے، لیکن اس میں ہر بار دانشمندوں کی ایک نئی سوچ کی گنجائش ہے، کیونکہ خزانۂ الٰہی کی روشن تعلیمات زمان و مکان کے تقاضوں کے مطابق ہوا کرتی ہے۔

اس پُرحکمت حدیث کی اساسی ہدایت تو یہ ہے کہ مومنین و مومنات کو ہر وقت علیٔ زمانؑ کی طرف دیکھنا چاہئے تاکہ ہمیشہ صراطِ مستقیم کی نورانی ہدایت حاصل ہوتی رہے۔

آپ نے مذکورۂ بالا حدیثِ شریف کئی کتب میں پڑھی ہوگی، تاہم آپ اس کو شرح الاخبار۔۔۔ میں بھی پڑھیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۹۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۷۳

 

فہرستِ حکمتہا

قسط: ۱

 

۱۔  عالمِ شخصی سے متعلق چند حکمتیں بیان کریں۔

۲۔  عالمِ ذرّ کی تعریف کرو۔

۳۔  سات آسمان اور سات زمین کی تاویل بیان کرو۔

۴۔  آدمِ زمانؑ ، داؤدِ زمانؑ اور سلیمانِ زمانؑ کون کون ہیں؟

۵۔  قرآنِ ناطق اور قرآنِ مجسّم میں کیا فرق ہے؟

۶۔  آیا اسرارِ ازل کا مشاہدہ ہوسکتا ہے؟ رازِ ازل کہاں ہے؟

۷۔  آدمؑ صورتِ رحمٰن پر پیدا کیا گیا، کس مقام پر؟

۸۔  حظیرۂ قدس کے لفظی معنی اور کچھ حکمتیں بیان کرو۔

۹۔  کتابِ مکنون کہاں ہے، اس کی کوئی حکمت بتائیں۔

۱۰۔  نفسِ واحدہ کی کیا تعریف ہے؟

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۹۔ فروری  ۲۰۰۰ء

 

۷۴

 

فہرستِ حکمتہا

قسط:۲

 

۱۔  آیا قصّۂ آدمؑ میں صورِ اسرافیل کا کوئی اشارہ موجود ہے؟

۲۔  ہر زمانے کا امامؑ صاحبِ قیامت ہوتا ہے، اس کا قرآنی حوالہ؟

۳۔  عالمِ شخصی کا سب سے اعلیٰ مقام کونسا ہے؟

۴۔  آیا عہدِ الست قیامت ہی کا حصہ ہے یا یہ ایک جُداگانہ واقعہ ہے؟

۵۔  قیامت کس منزل میں پہنچ کر مکمل ہو جاتی ہے؟

۶۔  امامِ مُستَودَع اور امامِ مُستقر میں کیا فرق ہے؟

۷۔  اللہ نے سب سے پہلے نورِ محمّدیؐ کو پیدا کیا، کس عالم میں؟

۸۔  نورِ محمّدیؐ ایک فرشتہ تھا، اس کا کیا نام ہے؟

۹۔  عالمِ بالا میں نورِ علیؑ کس نام سے ہے؟

۱۰۔  قلمِ اعلیٰ دراصل ایک فرشتہ ہے، اس کا نام بتاؤ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

یکم  مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۷۵

 

فہرستِ حکمتہا

قسط:۳

 

۱۔  حُدودِ دین میں مریم سلامُ اللہ علیھا کا کیا درجہ تھا؟

۲۔  کیا عورت نبی یا امام ہوسکتی ہے؟ کیا فرشتہ ہوسکتی ہے؟

۳۔  آیا عورت کی روح فنا فی الامامؑ، فنا فی الرّسولؐ اور فنا فی اللہ ہوسکتی ہے؟

۴۔  پنجتنِ پاک میں حضرتِ فاطمہ علیھا السّلام کا نور کس درجے پر تھا؟

۵۔  جیتے جی روحانی قیامت میں مومنین ومومنات کا نور انفرادی ہوتا ہے یا اجتماعی؟

۶۔  مُبدِع وہ ہے اور مُبدَع آپ، یہ معجزہ کب ہوتا ہے؟ ظاہر میں یا باطن میں؟

۷۔  فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّ مِنْکُمْ مُؤْمِنٌ (۶۴: ۰۲) اس میں کیا حکمت ہے؟

۸۔  مومِنَین (دو مومن) کون ہیں؟ اور کافِرَیں (دو کافر) کون؟

۹۔  کیا ایک میں سب ہیں؟ یا ایک ہی سب ہے؟

۱۰۔  عالمِ بالا، بہشت اور حظیرۂ قدس میں کیا فرق ہے؟

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

یکم  مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۷۶

 

فہرستِ حکمتہا

قسط:۴

 

۱۔  نامۂ اعمال کے بہت سے عجائب و غرائب ہیں۔

۲۔  اہلِ ایمان کا نامۂ اعمال امامِ مبینؑ خود ہے۔

۳۔  کتابِ اعمال کا ظہورکس طرح ہوگا؟ کیا وہ ایک تحریری کتاب ہے؟ آیا وہ نورانی مُوویز ہے؟ کیا وہ ایک فرشتہ ہے؟ یا وہ ایک شخصِ کامل کی طرح ہے؟ وہ کس زبان میں کلام کرے گا؟

۴۔  کیا کتابُ الاعمال کی ایک تجلّی کتابُ العلم ہوگی؟

۵۔  کیا آپ کے نامۂ اعمال (نورانی مُوویز) میں وہ تمام لوگ موجود ہوں گے جو آپ کو پسند تھے؟

۶۔  آیا بہشت میں ہر ہر خواستہ نعمت مُہیّا ہوتی ہے؟

۷۔  بہشت کی سب سے بڑی نعمت دیدارِ خداوندی کی گونا گون تجلّیّات ہیں۔

۸۔  بہشت کی ہر نعمت میں علم و معرفت کے اسرار ہیں۔

۹۔  دنیا میں بہشت کی معرفت بے حد ضروری ہے۔

۱۰۔  امامِ عالی مقامؑ کے روحانی فرزندوں کے لئے ہر کامیابی ممکن ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

یکم  مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۷۷

 

فہرستِ حکمتہا

قسط:۵

 

۱۔  الکوثر کے لفظی معنی کیا ہیں؟ اور یہ کس کا لقب ہے؟

۲۔  حدیثِ مماثلتِ ہارونی اور اس کے معنی بتائیں۔

۳۔  آپ حدیثِ ثقلَین کو پڑھیں اور ترجمہ کریں۔

۴۔  ہم آئے نہیں ہیں، یہ ہمارا سایہ ہے، اس کی فارسی کیا ہے؟ یہ کس کا قول ہے؟

۵۔  کیا آپ کو وہ شعر یاد ہے جس کا شروع کچھ اس طرح سے ہے، تن چُو سایہ برزمین؟

۶۔  کیا آپ کو حدیثِ مَن مّات، یاد ہے؟

۷۔  رسولؐ = دینِ مُجَسّم، قرآن، اسلام، اللہ کی رسّی، امامؑ۔

۸۔  دینِ مُجَسّم کے معنی ہیں: قرآنِ مُجَسّم، اسلامِ مُجَسّم، نورِ مُجَسّم۔

۹۔  اللہ کا ہر معجزہ حیران کن ہوا کرتا ہے۔

۱۰۔  ہر عاشق کا کام ہے علمی معجزات اور عجائب و غرائب میں محوِ حیرت ہو جانا۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۳۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۷۸

 

فہرستِ حکمتہا

قسط: ۶

 

۱۔  عالمِ شخصی میں ایک جِنّ اور ایک فرشتہ کہاں مقرر ہیں؟

۲۔  کیا ہر شخص کا ایک ذاتی شیطان ہوتا ہے؟

۳۔  شیطان کے لئے مہلت کب تک ہے؟

۴۔  عالمِ شخصی میں کُوہِ طور کہاں ہے؟

۵۔  عارف کی شخصیّت میں مقامِ معراج کہاں ہے؟

۶۔  عالمِ بالا کہاں ہے؟

۷۔  عرش و کُرسی دو عظیم فرشتے ہیں، ان کے نام بتاؤ وہ الگ الگ ہیں یا ایک ہیں؟

۸۔  کیا اللہ کا عرش پانی پر تھا؟ یا ہے؟ یا ہوگا؟

۹۔  آیا لکھنے کا کام خدا کرتا ہے؟ یا اس کا قلم؟ یا اس کے فرشتے؟

۱۰۔  کوئی شخص اللہ کی آیات کو کس طرح جُھٹلاتا ہے؟

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۳۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۷۹

 

فہرستِ حکمتہا

قسط:۷

 

۱۔  اسمِ اعظم اور اسماءُ الحُسنٰی کے درمیان کیا فرق ہے؟

۲۔  کوئی فرق نہیں، صرف واحد اور جمع کا فرق ہے۔

۳۔  کیا أئمّۂ طاہرین علیھم السّلام بحقیقت اسماءُ الحُسنٰی ہیں؟

۴۔  آیا امامِ زمانؑ اسمِ اعظم ہے؟ آیا وہ اسماءُ الحُسنٰی بھی ہے؟

۵۔  کیا آپ نے قرآن میں اسمِ اعظم اور اسماءُ الحُسنٰی کی تعریف دیکھی ہے؟

۶۔  خدا اگر چاہے تو آئینۂ قرآن میں اپنے مظہر کی تجلّیات دکھا سکتا ہے۔

۷۔  کیا یہ درست ہے کہ طور سے کُوہِ عقل مراد ہے؟ اور اللہ کی تجلّی سے کوہِ طور اس معنیٰ میں ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے کہ عالمِ شخصی میں علم و حکمت کے جواہرات اور نگینے بکھر جاتے ہیں؟

۸۔  یہ بہت بڑا عقلی اور علمی امتحان ہے کہ اللہ کی تجلّی نے ظاہری پہاڑ کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا، حالانکہ اس میں صفتِ خالقیّت و صناعیّت ہے۔

۹۔  کیا دانا شخص کو امتحان سےغافل رہنا زیب دیتا ہے؟

۱۰۔  کیا قرآنِ حکیم میں سرتاسر لوگوں سے علم و عمل کا امتحان ہی امتحان نہیں ہے؟

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۴۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۸۰

 

فہرستِ حکمتہا

قسط:۸

 

۱۔  قلم، لوح ، جدّ، فتح، خیال، ان فرشتوں کے دوسرے نام بتاؤ۔

۲۔  آیا حاملانِ عرش سات ہیں؟ مگر ہر قیامت میں آٹھ ہوتے ہیں؟

۳۔  کیا اصحابِ کھف سات اور کُتّےکے ساتھ آٹھ ہیں؟

۴۔  بارہ نقیبان (۰۵: ۱۲) کون ہیں؟ حجرِ مُکرّم اور اس کے بارہ چشموں کی تاویل کیا ہے؟

۵۔  اگر ہم آپ سے طرح طرح کے سوالات نہ کریں تو آپ کی گرانقدر معلومات کے بعض حصّے فراموش ہو سکتے ہیں۔

۶۔  حدیثِ قدسی کے مطابق خدا کنزِ مخفی تھا، کس عالم میں؟ پھر کیا ہوا؟

۷۔  جب آدم کو صورتِ رحمان پر پیدا کیا گیا، تو اس نے اپنے آپ کو اور اپنے ربّ کو پہچان لیا، تو کیا اس کے نزدیک یہ ایک ازلی حقیقت تھی، یا کوئی نیا کام جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا؟

۸۔  قدیم اس چیز کو کہتے ہیں، جو ہمیشہ موجود ہوتی ہے، اور حادِث وہ چیز ہے جو نہ ہونے کے بعد وجود میں آئے، جیسے انسان کا جسم۔

۹۔  اگر میں کہوں کہ روحِ مُجرّد قدیم ہے تو یہ بہت بڑی انقلابی حقیقت ہوگی۔

۱۰۔  الحمد للہ یہ یک حقیقت کی ایک اور پہچان ہوگی ( روحِ مُجرّد)۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۴۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۸۱

 

فہرستِ حکمتہا

قسط:۹

 

۱۔  قرآن میں روحِ مُجَرّد کا ذکر لفظِ فرداً میں ہے (۱۹: ۸۰)، (۱۹: ۹۵) اور فُرادٰی میں ہے (۰۶: ۹۴)۔ (۳۴: ۴۶) میں ہے۔

۲۔  نیزروحِ مُجَرّد کا تذکرہ لَمْ یَکُنْ شَیاءً مَّذْکُوْرًا (۷۶: ۰۱) میں ہے، اور اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ (۵۲: ۳۵) میں ہے۔

۳۔  روح خدا کے پاس واپس نہیں جاسکتی ہے، اِلاحقیقتِ مُجَرّدہ ہو کر۔ اور یہ اس کی ازلی حالت ہے۔

۴۔  روح کی ازلی حقیقت کا اشارہ انائے عُلوی کے تصوّر میں بھی ہے اور روح کا بالائی سِرا ایک قابلِ فہم مثال ہے۔

۵۔  قرآن فرماتا ہے کہ ہر چیز کا ایک سایہ ہے (۱۶: ۸۱) اسی لئے مولائے رومی نے کہا: ما آمدہ نیستیم این سایۂ ماست۔

۶۔  روح عالمِ امر یعنی کلمۂ کُن (۱۷: ۸۵) سے مربوط ہے، جہاں وہ ایک بے مثال حقیقت ہے۔

۷۔  عالمِ امر سے کوئی چیز منقطع ہو کر نہیں آتی ہے، بلکہ وہ سائے کی طرح آتی ہے، یا رسّی کی طرح، یا نہر کی طرح، یا عکسِ خورشید کی طرح۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۵۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۸۲

 

فہرستِ حکمتہا

قسط:۱۰

 

۱۔  سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۰۷) میں اَلرّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ (پختہ کارانِ علم) کی تعریف آئی ہے، اور یہ حضرات محمدؐ و أئمّۂ آلِ محمّدؐ ہی ہیں۔

۲۔  مذکورہ حوالے کا واضح مفہوم یہ ہے کہ آیاتِ متشابہات کی تاویل کو صرف اللہ اور پختہ کارانِ علم ہی جانتے ہیں، اور لوگوں کے لئے اس علم کا سرچشمہ یہی ہے۔

۳۔  جن حضرات کو خود خدائے بزرگ و برتر ہی نے آسمانی اور قرآنی علم میں پختہ کاری عنایت کی ہے، ان کے معلّمِ قرآن ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے۔

۴۔  سورۂ نساء (۰۴: ۱۶۲) میں بھی اَلرّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ  کا شاندار تذکرہ ہے۔ اس آیت میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ پختہ کارانِ علم مومنین سے ممتاز ہیں۔

۵۔  أئمّۂ آلِ محمّدؐ کے مرتبۂ علمی کی رفعت کا ثبوت اس کے سوا اور کیا ہو کہ خدا و رسولؐ نے ان کو آسمانی اور قرآنی علم میں پختہ کار بنا دیا ہے، اسی لئے وہ حضرات اَلرّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ کہلاتے ہیں۔

۶۔  یہ کلیدی تعلیمات ہیں، آپ ان کے فوائد کے بارے میں بحرالعلوم سے پوچھ لیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۷۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۸۳

 

فہرستِ حکمتہا

قسط:۱۱

 

۱۔  بحوالۂ سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۹) صادقین کن حضرات کا لقب ہے؟

۲۔  آیۂ شریفہ کا ترجمہ ہے: اے ایمان والو، خدا سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہو جاؤ، آیا یہ فنا فی الامامؑ کا اشارہ ہوسکتا ہے؟

۳۔  کیا آپ صِدق کے معیار سے متعلق کچھ بتا سکتے ہیں؟

۴۔  حضرتِ یوسفؑ کو نمایان طور پر صِدیق (۱۲: ۴۶) کہنے میں کیا راز ہے؟

۵۔  حدیثِ شریف کے مطابق حضرت علیؑ کا ایک نام صدّیق اکبر بھی ہے، اس کے کیا معنی ہوتے ہیں؟

۶۔  ہر اساس اپنے ناطق کی تنزیل کی تصدیق کرتا ہے، کس طرح؟

۷۔  مُؤوِّل کس کو کہتے ہیں؟

۸۔  کیا آپ کو حدیثِ خاصِفُ النّعل یاد ہے؟ آپ پڑھ کر سنائیں۔

۹۔  تاویل، حکمت، باطن، اور علمِ لَدُنّی میں کیا فرق ہے؟

۱۰۔  قرآنِ عظیم میں لفظِ تاویل کُلّ کتنی دفعہ آیا ہے؟

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۹۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۸۴

 

فہرستِ حکمتہا

قسط:۱۲

 

۱۔  سورۂ رعد (۱۳: ۰۷) میں ارشاد ہے : اِنَّمأ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ ( اے رسولؐ) تم تو صرف خدا سے ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہے۔

۲۔  یہاں قوم کا تعیّن کس اعتبار سے ہے؟ آیا ہر رسولؐ کی قوم؟

۳۔  کیا اس حکم سے یہ ظاہر نہیں ہے کہ ہر زمانے کا امامؑ ہی ہادی ہے؟

۴۔  سورۂ شوریٰ (۴۲: ۲۳) میں ہے:قُل لَّاۤ اَسۡـٔـَلُكُمۡ عَلَيۡهِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّةَ فِىۡ الۡقُرۡبٰى‌ = (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ میں اس (تبلیغِ رسالت ) کا اپنے قرابتداروں (اہلِ بیت) کی محبت کے سوا تم سے کوئی صِلہ نہیں مانگتا ہوں۔

۵۔  اہلِ بیتِ اطہار علیھم السّلام کی محبت میں ازلی سعادتوں کا راز مُضمر ہے، اسی محبت کی وجہ سے خدا، رسولؐ اور صاحبانِ امرؐ کی کامل اطاعت ہوسکتی ہے، جس کی بے حد ضرورت ہے۔

۶۔  سَلٰمٌ عَلٔیٰ اِلْیَا سِیْنَ (آلِ یاسین = آلِ محمّدؐ) (۳۷: ۱۳۰)

۷۔  سورۂ رعد (۱۳: ۴۳) میں کیا تذکرہ ہے؟

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۰۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۸۵

 

دُعا و عبادت برائے دیدار

 

سورۂ انعام (۰۶: ۵۲ تا ۵۳) ترجمہ: اور نہ ہانک ان کو جو پکارتے ہیں اپنے ربّ کو صبح اور شام، چاہتے ہیں اس کا منہ (یعنی دیدار)، تجھ پر نہیں ان کے حساب میں سے کچھ، اور نہ تیرے حساب میں سے ان پر ہے کچھ، کہ تو ان کو ہانک دے، پھر ہووے بے انصافوں میں ۔ اور اسی طرح ہم نے آزمایا ہے، ایک کو ایک سے،کہ کہیں، کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے فضل کیا، ہم سب میں سے؟ کیا اللہ کو معلوم نہیں حق ماننے والے؟ (از ترجمۂ شاہ عبدالقادر)۔

آپ اس ترجمے کی مدد سے ان دونوں آیتوں میں خوب غور کریں، اس ربّانی تعلیم میں اہلِ بصیرت کے لئے کئی حکمتیں ہیں۔

کہتے ہیں کہ یہ اشارہ اصحابِ صُفّہ کی شان میں ہے، یقیناً، لیکن آج وہ حضرات موجود نہیں، پھر اس کے مصداق کون ہیں؟

حق بات تو یہ ہے کہ دینِ اسلام میں شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت کے مدارج ہمیشہ موجود ہوتے ہیں، کیونکہ علم میں بھی اور عمل میں بھی درجات ہیں، اور یہ قرآن ہی کی تعلیم ہے، جس سے کوئی مومن انکار نہیں کرسکتا ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۲۳۔ ذیقعدہ  ۱۴۲۰ھ    ۲۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۸۶

 

سورۂ ماعون (۱۰۷: ۰۱ تا ۰۷) کے بعض تاویلی اسرار

 

دین کو جُھٹلانے کی تاویل ہے =   دینِ مُجَسـم یعنی امامؑ کو جُھٹلانا، جبکہ دین دراصل پیغمبرؐ اور امامؑ ہیں۔

جو شخص دینِ مُجسّم کو جُھٹلاتا ہے، وہی شخص گویا یتیم یعنی یگانۂ روزگار (امامؑ) کو دھکا دیتا ہے اور اسے عالمِ شخصی میں آنے نہیں دیتا۔

مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا، یعنی حُجّت کے علم کا شوق نہیں رکھتا، اور شوق نہیں دلاتا۔

پس ان نمازیوں کے لئے بربادی ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں، یعنی جو نماز کے تاویلی اسرار سے غافل ہیں، جبکہ نماز کی باطنی حکمتوں کا جاننا بے حد ضروری ہے، اسی طرح نماز کی روح سے لوگ بے خبر ہوتے ہیں، تو بس ان کی نماز صرف دکھاوے کی چیز ہو جاتی ہے، اور ان سے دوسروں کو ذرا بھی فائدہ نہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۶۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۸۷

 

سورۂ نصر (۱۱۰) کا ترجمہ اور تاویلی حکمت

 

جس وقت آئی نصرت اللہ کی اور فتح، اور دیکھا تُو نے (دنیا بھر کے) لوگوں کو کہ داخل ہو رہے ہیں دین میں اللہ کے ( یعنی تیرے عالمِ شخصی میں ) فوج فوج، پس تسبیح پڑھ اپنے ربّ کی حمد کی اور اس سے مغفرت مانگ، یقیناً وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۳)

حقیقت کو کوئی بھی دانا شخص اکثریت کی کسوٹی پر نہیں پرکھتا ہے، کیونکہ حقیقت کا تعلق صرف بصیرت ہی سے ہے اور بس، پس یقیناً یہ امر واقعی ہے کہ خداوندِ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسولؐ کو روحانی قیامت کے تمام معجزات دکھائے، یہ قیامت ذاتی بھی تھی، اور یہ سب لوگوں کی نمائندہ قیامت بھی تھی۔

اہلِ معرفت کے لئے ہر سوال کا جواب روحانیّت سے بھی ملتا ہے اور قرآن سے بھی، کیا آنحضرتؐ کے آباؤ اجداد امامانِ مُستقر نہ تھے؟ آیا حضرت ابوطالبؑ کو خدا نے اس لئے امامِ مُقیم نہیں بنایا تھا کہ وہ آنحضرتؐ کی روحانی تربیت کرے؟ اے کاش لوگ آلِ ابراہیمؑ کی عظمت کو سمجھ سکتے!

زمانۂ شریعت میں اسرارِ قیامت کس طرح ظاہر کئے جا سکتے تھے، لہٰذا صرف باطنی حلقوں میں جُزوی تاویل ہوتی رہی، اور ایک بڑی قیامت کے لئے انتظار رہا۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۱۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۸۸

 

سورۂ نصر کی مزید تشریح

 

نصر سے تمام بڑے فرشتوں اور ان کے جنود کی قیامت خیزمدد مراد ہے، اور فتح کے معنی یہاں تسخیرِ کائنات کے ہیں، کیونکہ قیامتی فتح اور تسخیرِ عالم الگ الگ نہیں، پس رحمتِ عالمؐ کی یہ فتح دراصل فتحِ مبین تھی، یعنی کُلّ کائناتی فتح اور تسخیر، اور اس سے کوئی عظیم تر فتح کہاں ہے، اسی روحانی جنگ کے ذریعے سے دینِ حق دوسرے تمام ادیان پر غالب آگیا، اور اللہ کا منشا یہی تھا، دیکھو قرآن میں تین مقام پر: (۰۹: ۳۳)۔ (۴۸: ۲۸)۔ (۶۱: ۰۹)۔

اللہ تعالیٰ کا قانونِ تجدُّد بڑا عجیب وغریب ہے کہ اسی طرح کی ایک باطنی اور روحانی قیامت ہر امامؑ کے ذریعے سے قائم ہوتی آئی ہے، کیونکہ دنیا میں ہر بار نئے نئے لوگوں کے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔

س۔ یہاں ربّ کی حمد کی تسبیح پڑھنے کی کیا تاویل ہوسکتی ہے؟ ج: یہ معجزۂ صورِ اسرافیل کی طرف اشارہ ہے، جس میں ہر چیز خدا کی حمد کی تسبیح پڑھتی ہے (۱۷: ۴۴) اور آوازِ صور کے ساتھ عارف کی بھی ہم آہنگی ہوتی رہتی ہے۔

س۔ اس اعلیٰ مقام پر استغفار میں کیا حکمت ہے؟ ۔ج: یہ عارفانہ عبادت ہے۔

س۔ یہاں توبہ سے کیا مراد ہے؟ ۔ ج: یہ رجوع اِلی اللہ کا آخری درجہ ہے، جس میں حظیرۂ قدس کی جنت میں داخل ہوجانا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۱۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۸۹

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۱

 

۱۔  صاحبانِ عقل اور اہلِ بصیرت کے سامنے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ نورٌ علیٰ نور کے مصداق ہیں، کیونکہ ہر وہ آیۂ کریمہ جو خاندانِ ابراہیمؑ کی شان میں ہے وہ لازماً خاندانِ محمدؐ کی شان میں بھی ہے۔

۲۔  اللہ کا نورِ اقدس ہی اللہ کی رسّی ہے، جو حضراتِ انبیاء و أئمہ علیھم السّلام کی پاک ہستیوں کا سلسلہ ہے اور وہ زمانۂ آدمؑ سے چلا آیا ہے، اور یہ بات ناممکن اور غیر منطقی ہے کہ اللہ کی رسّی (حبل المتین) اپنی طویل تاریخ میں کبھی ٹوٹ گئی ہو، اور نہ ہی اللہ کے نور کو کبھی دشمنانِ دین بجھا سکتے ہیں۔

۳۔ میرا خیال ہے کہ آپ نے صراطِ مُستقیم کے بارے میں بھی ٹھیک طرح سے نہیں سوچا ہوگا، درحالے کہ جو اللہ کی رسّی ہے، وہی صراطِ مستقیم بھی ہے۔

۴۔ اب آپ کو آیۂ اِصطفاء (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) میں بڑی ذمہّ داری سے غور و فکر کرنا ہے۔  س: کیا اللہ تعالیٰ نے صرف حضرتِ آدمؑ ہی کو شخصاً برگزیدہ فرمایا تھا یا اسکی اولاد کے ایک سلسلے کو بھی؟ ۔ ج: اس کی اولاد کے ایک سلسلے کو بھی، بحوالۂ :  (۱۳: ۳۸، ۱۹: ۵۸)۔

۵۔  آیۂ اِصطفاء ایک اصولی اور کلیدی آیت ہونے کی وجہ سے بیحد ضروری ہے، جس میں ایک ساتھ چار عظیم ہستیوں کی برگزیدگی کا ذکرِ جمیل ہے، تاہم چوتھی

 

۹۰

 

بزرگ ہستی جو عمران کے نام سے ہے، اس کے تعین میں اختلاف ہے، کیونکہ عمران تین ہیں: حضرتِ موسٰی کے والد، حضرتِ مریمؑ کے والد، اور آنحضرتؐ کے چچا جس کا اصل نام عمران تھا، اور ابوطالبؑ کنیت تھی۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۳۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۹۱

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط:۲

 

۱۔  آیۂ اصطفاء میں جس برگزیدگی کا ذکر آیا ہے، اس کا مقصد پورا نہیں ہوتا، جب تک کہ حضرت سید الانبیاء کا کوئی ذکرِ جمیل نہ آئے، چنانچہ آلِ عمران (آلِ ابوطالبؑ) خود آلِ محمدؐ ہیں، پس اس آیۂ شریفہ کا آخری مطلب یہی ہے، اور اسی ترتیب سے یہ حکمت سمجھ میں آتی ہے کہ انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام سلسلۂ نورٌعلیٰ نور ہی کی بہت سی کڑیاں ہیں، اور ہر کڑی اپنے زمانے میں دنیا کے تمام عوالمِ شخصی پر فضیلت رکھتی ہے، کیونکہ زمانے میں خدا کی منتخب وہی ہے۔

۲۔  آیۂ اصطفاء کے آخر میں ہر امکانی سوال کا جواب موجود ہے، وہ ہے:  ذُرِّیَّۃً بَعْضُھُا مِنْ بَعْضٍ = یہ ایک دوسرے کی نسل میں سے ہیں۔

۳۔  پس معلوم ہوا کہ یہ سلسلۂ نور کا تذکرہ ہے، جس کا آغاز زمانۂ آدمؑ سے ہوا تھا، ہر زمانے میں اسی سلسلے کا ایک نورانی شخص خدا کا برگزیدہ ہوا اور آلِ ابراہیم کے بعد آلِ عمرانؑ = آلِ محمدؐ اپنے اپنے زمانے میں اللہ کے منتخب نمائندے ہیں، اور قرآنِ حکیم کی تمام آیات اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہیں۔

۴۔  اس حقیقت کے برعکس اگر یہ مانا جائے کہ یہ عمران حضرت موسٰی یا حضرتِ مریمؑ کا والد ہے، تو پھر اللہ کے انتخاب کا یہ سلسلہ دورِ موسٰی یا دورِ عیسیؑ تک محدود ہو گیا اور دورِ محمدی اللہ کے اس پروگرام سے مستثنا ہوگا، لیکن یہ امر محال ہے کہ محمدؐ و آلِ محمدؐ

 

۹۲

 

خدا کے برگزیدہ بندوں میں نہ ہوں، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ حضرات آدمؑ و نوحؑ کی فضیلت میں بھی ممدوح ہیں، آلِ ابراہیمؑ کی عظمت میں بھی ہیں، اور ان کی اپنی بےمثال شان بھی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۳ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۹۳

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۳

 

۱۔  سورۂ نساء (۰۴: ۵۴) میں ارشاد ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے، یقیناً ہم نے آلِ ابراہیمؑ کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی، اور انہیں ایک بہت بڑی سلطنت دی۔

۲۔  یہ وہ عظیم نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آلِ ابراہیمؑ کو اجتماعی طور پر عطا ہوئیں، کہ کتاب نبوّت ہے، حکمت باطنی اور نورانی تاویل، اور عظیم سلطنت مرتبۂ امامت ہے، اور اس نظام میں مومنین کے لئے رحمت ہی رحمت ہے۔

۳۔  س: اس میں سب سے بڑا اشارہ کیا ہے؟ ۔  ج: یہاں سب سے بڑا اشارہ یہ ہے کہ اس آیۂ کریمہ کے مِصداق محمدؐ و آلِ محمدؐ ہیں، کہ وہی حضرات آلِ ابراہیمؑ ہیں، اور ان ہی کے گھر میں قرآن نازل ہوا، یقیناً اللہ نے ان ہی کو حکمت (نورانی تاویل) اور عظیم روحانی سلطنت عطا فرمائی ہے۔

۴۔  یہ قول صاحبانِ عقل کے نزدیک بڑا پسندیدہ اور ثمرۂ قرآن ثابت ہو سکتا ہے کہ آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ نورٌ علی نور کے مِصداق ہیں ۔

۵۔  اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ نبوّت آنحضرتؐ پر آکر ختم ہوچکی ہے، مگر آسمانی کتاب کی وراثت، نورانی حکمت، اور عظیم روحانی سلطنت خاندانِ محمدؐ میں جاری و باقی ہے۔

۶۔  جیسا کہ آیۂ قد جاء کم کا مفہوم ہے کہ دنیا میں اللہ کی کتاب کے

 

۹۴

 

ساتھ ساتھ اللہ کا نمائندہ نور بھی ہمیشہ موجود ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

منگل  ۷  ۔ ذی الحجّہ  ۱۴۲۰ ھ   ۱۴۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۹۵

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۴

 

۱۔  لوگوں کا یہ خیال ہے کہ خداوندِ تعالیٰ نے حضرت آدمؐ کو صرف سیّارۂ زمین ہی کی خلافت عطا فرمائی تھی، حالانکہ وہ بفضلِ خدا عالمِ شخصی میں بھی خلیفہ تھا، کائناتی زمین میں بھی، زمینِ نفسِ کُلّی میں بھی، جس میں عقلِ کلّی کا آسمان بھی ساتھ ہے۔

۶۔  زمین میں خلیفۂ خدا کی دوسری حکمتیں یہ ہیں کہ آدمؐ کی خلافت رہتی دنیا تک ہے، یہی وجہ ہے کہ پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں (۰۲: ۳۰) ۔ زمین سے وہ بے شمار لوگ مراد ہیں جو زمین کی مُدّت العمر میں پیدا ہوتے جائیں گے، کیونکہ ہمیشہ ہمیشہ دنیا کے لوگوں کے درمیان خلیفۃُ اللہ کا ہونا ازبس ضروری ہے۔

۳۔  اگر آپ خلیفہ اور خلافت کے عظیم اسرار کو جاننا چاہتے ہیں، تو قرآنِ حکیم کی حکمت میں سب کچھ ہے، اگر دنیا میں خلافِ الٰہیّہ ہمیشہ کے لئے نہ ہوتی، تو قرآنِ حکیم آدمؑ کے بعد اور کسی کو خلیفہ نہ کہتا، مگر ایسا نہیں ہے، بلکہ فرمایا گیا ہے کہ حضرتِ داؤدؑ اپنے وقت میں خلیفۃُ اللہ تھا (۳۸: ۲۶) اور معلوم ہے کہ داؤدؑ کے پاس نبوّت بھی تھی اور امامت بھی، اس سے یہ معلوم ہوا کہ خلافتِ الٰہیّہ نبوّت کے ساتھ بھی ہے اور امامت کے ساتھ بھی۔

۴۔  س: آیا حضرتِ داؤدؑ کے پاس خلافت، نبوّت، امامت ، اور روحانی

 

۹۶

 

سلطنت یہ چاروں عظیم مرتبےجمع تھے؟ ۔ ج: جی ہاں، آلِ ابراہیمؑ کے لئے یہ مراتب ہیں، مگر آلِ محمدؐ کے لئے صرف نبوّت نہیں ہے، جبکہ خلافت، امامت اور روحانی سلطنت ان کو حاصل ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

بدھ   ۱۵۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۹۷

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۵

 

۱۔  انبیا و أئمّہ علیھم السّلام کی معرفت کا بابِ اقدس (پاک دروازہ) حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کی پہچان سے کھلتا ہے، اسی لئے ہم آپ کو اسرارِ آدمؑ کی طرف توجّہ دلاتے ہیں۔

۲۔  اللہ تبارک و تعالیٰ نے شخصیاتِ انبیاؑء و اولیاؑء کی زندہ اور بے مثال کتاب بڑی عجیب و غریب بنائی ہے، جس میں مقدّس شخصیت اس کتاب کے ایک مُستقل باب کی حیثیت سے ہے، اور لازمی طور پر حضرتِ آدمؑ اس کتاب کا دیباچہ بھی ہے اور بابِ اوّل بھی، جس میں قصّۂ آدمؑ کا ظاہر و باطن ہے۔

۳۔  کتابِ شخصیاتِ انبیاؑء و اولیاؑء کے بابِ اوّل میں جو جو مضامین بیان ہوچکے ہیں، ان کو آئندہ ابواب میں دہرانے کی خاص ضرورت نہیں ہوتی ہے، کیونکہ بابِ اوّل خود اس کتاب کا حصّہ ہے۔

۴۔  اللہ تعالیٰ کی سُنّت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں، لہٰذا اس حقیقت پر یقین کرنے میں دانائی ہے کہ اللہ کی سُنّت اور نوازش سے ہر نبی اور ہر ولی کا روحانی قصّہ بالکل قصّۂ آدمؑ ہی کی طرح ہے وہی خدائی روح (نور)، وہی سُجودِ ملائکہ، وہی علمُ الاسماء، اور وہی بہشت وغیرہ۔

۵۔  بڑا تعجّب ہے کہ آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کی قرآنی معرفت کی طرف توجہ نہیں

 

۹۸

 

دی جاتی ہے۔

۶۔  اے دوستانِ عزیز! قرآنِ حکیم میں سُنّتِ الٰہی کے مضمون کو خوب غور سے پڑھنا، مل کر بار بار پڑھنا، ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات   ۱۶۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۹۹

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۶

 

۱۔  اے نورِ عینِ من! اپنے استاذ کی باتوں کو گُوشِ ہوش سے سنو اور قرآنی حکمت میں کماحقہ غورو فکر کرو، کیا آپ نے آیۂ تکمیلِ دین (۰۵: ۰۳) میں ٹھیک طرح سے سوچا ہے؟ اس آیۂ شریفہ کا ترجمہ اس طرح ہے: میں نے آج کے دن تمہارے دین کو تمہارے لئے کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور میں نے تمہارے لئے دینِ اسلام کو پسند کر لیا۔

۲۔  س: اس آیۂ شریفہ کی شانِ نزول کیا ہے؟ ۔  ج: شیعی تفاسیر کے مطابق اس پُرحکمت آیت کی شانِ نزول یہ ہے کہ جب آنحضرت صلعم نے حجۃُ الوداع سے واپسی پر غدیرِخم کے دن حضرتِ علی علیہ السّلام کو امام مقرر فرمایا تب یہ آیت نازل ہوئی۔

۳۔  س: کیا امام مقرّر ہونے سے پہلے دین کامل نہیں ہوا تھا؟ اور نعمت پوری نہیں ہوئی تھی؟۔  ج: تنزیل ظاہر میں سب کچھ ہوا تھا، مگر تاویلِ باطن کا ذریعہ ابھی ابھی مُہیّا ہوا، اور وہ امامؑ ہی تھا، جس کو رسولؐ نے نامزد فرمایا۔

۴۔  محمد رسول اللہؐ اور علی امامِ مُبینؑ کی مثال مجمع البحرین کی طرح ہے کہ یہ دونوں عظیم ارضی فرشتے دو نورانی دریاؤں کا سنگم ہیں، یعنی دریائے آلِ ابراہیمؑ اور دریائے آلِ محمدؑ کا سنگم۔

 

۱۰۰

 

۵۔  پس بڑے مبارک ہیں وہ لوگ جو محمدؐ و علیؑ کے عاشق ہیں، اور ان کے اسرارِ خفی کو جانتے ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۱۶۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۱۰۱

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۷

 

۱۔  سورۂ آلِ عمران ( ۰۳: ۱۱۰) میں ائمّۂ آلِ محمدؐ کی شان میں ارشاد ہے: کُنْتُم خَیْرَ اُمَّۃٍ۔۔ ترجمہ: تم کیا اچھے گروہ ہو کہ لوگوں کی ہدایت کے واسطے پیدا کئے گئے ہو تم (لوگوں کو) اچھےکام کا تو حکم دیتے ہو اور بُرے کاموں سے روکتے ہو اور خدا پر (کما کانَ حقہ) ایمان رکھتے ہو۔

۲۔  سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۴۳) میں ائمّۂ آلِ محمدؐ کا نام اُمَّۃً وَّ سَطاً ہے۔ یعنی عادل گروہ، جو لوگوں پر گواہ ہیں، اور رسولؐ ان پر گواہ ہے، یعنی لوگوں کی ظاہری رسائی امامؑ تک ہوسکتی ہے، جبکہ امامؑ کی نورانی رسائی رسولؐ تک ہے۔

۳۔  رسوۂ عنکبوت( ۲۹: ۴۹) میں ارشاد ہے: بَلْ ھُوَ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْ رِالَّذِیْنَ اُوْتُو العِلْمَ = بلکہ وہ (قرآن) ان لوگوں کے سینوں میں بصورتِ معجزات ہے جن کو علم عطا کیا گیا ہے۔ یہ حضرات جن کو علمِ لَدُنّی عطا ہوا ہے، اور جن کے عالمِ شخصی میں بشکل معجزات قرآن موجود ہے، وہ أئمّۂ طاہرین علیھم السّلام کے سوا دوسرا کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔

۴۔  ہر عاشق کو اس آیۂ کریمہ کے عجائب و غرائب میں سوچتےسوچتے محوِ حیرت ہوجانا چاہئے، خداوندِ عالم کے کتنے عظیم احسانات ہیں!

۵۔  اہلِ معرفت کی کتنی بڑی سعادت ہے کہ وہ قرآن اور امامؑ کی باطنی اور نورانی

 

۱۰۲

 

وحدت کو پہچانتے ہیں۔

۶۔  سینہ سے دل مراد ہے، دل کی تشریح عالمِ شخصی ہے، پس قرآن آنحضرتؐ کے قلب یعنی عالمِ شخصی میں نازل ہوا تھا۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۱۰ ذی الحجّہ  ۱۴۲۰ ھ   ۱۷۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۱۰۳

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۸

 

۱۔  حدیثِ بخاری، جلدِ دُوُم، باب : ۸۰۵ میں ہے کہ آنحضرتؐ نے درود کا طریقہ سکھاتے ہوئے فرمایا: قُولُوا:  اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

۲۔  حضرتِ محمد مصطفیٰ رسول اللہؐ حبیبِ خدا تو تمام پیغمبروں کے سردار ہیں، لہٰذا نہ ان کی کوئی ہمسری ہے اور نہ ان پر درود بھیجنے میں کوئی شک ہے، لیکن آلِ محمدؐ کی عظمتِ شان کے بارے میں اکثر لوگ البتہ ناواقف تھے، پس رسولؐ نے یہ ارشاد فرمایا جو آیۂ قرآن ہی کی طرح ہے۔

۳۔  یہاں جس صلوٰۃ ( درود) کا ذکر ہوا ہے، اس کے معانی کسی بھی لُغات میں نہیں ہیں، بلکہ اس کے عجیب و غریب اور زبردست حوالہ جات اس قصّۂ قرآن میں ہیں، جو ابراہیمؑ و آلِ ابراہیمؑ سے متعلق ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابراہیمؑ اور آلِ ابراہیمؑ کے آئینۂ قرآن میں محمدؐ و آلِ محمدؑ کے حسن و جمالِ معنوی کو دیکھنا ضروری ہے۔

۴۔  جس طرح حدیثِ مماثلتِ ھارونی کی وجہ سے قرآن میں آئینۂ ھارونؑ اور آئینۂ علیؑ ایک ہوجاتا ہے۔

 

۱۰۴

 

۵۔  اس درود شریف سے معلوم ہوا کہ قرآنِ حکیم میں آلِ ابراہیمؑ سے متعلق جو جو اوصاف و کمالات بیان ہوئے ہیں، وہ سب کے سب آلِ محمدؑ کے لئے بھی ہیں، الحَمدُ لِلّٰہ ربّ العٰلمِین۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۱۸۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۱۰۵

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط:۹

 

۱۔ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۱) میں ارشاد ہے: وَمِمَّنۡ خَلَقۡنَاۤ اُمَّةٌ يَّهۡدُوۡنَ بِالۡحَـقِّ وَبِهٖ يَعۡدِلُوۡنَ = اور ہماری مخلوقات سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دینِ حق کی ہدایت کرتے ہیں اور حق ہی سے انصاف بھی کرتے ہیں۔ یہ آیۂ کریمہ ہر دَور کے أئمّۂ ھُدا علیھم السّلام کی شان میں ہے۔

۲۔ مذکورہ سورہ (۰۷: ۱۵۹) میں ہے: اور موسیٰ کی قوم کے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حق بات کی ہدایت بھی کرتے ہیں اور حق ہی سے انصاف بھی کرتے ہیں۔ یہ دورِ موسیٰؑ کے امامان اور حدودِ دین ہیں۔

۳۔  سورۂ بقرہ از آیت ۱۲۴ تا ۱۳۰ (۰۲: ۱۲۴ تا ۱۳۰) کو آپ نے خوب غور سے پڑھا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیمؑ کو لوگوں کی ظاہری اور باطنی ہدایت کے لئے امام بنایا، عقل و منطِق کہتی ہے کہ یہ امرِ عظیم خدا نے اپنی سُنّتِ قدیم کے مطابق کیا ہوگا، اور یقیناً یہ حق بات ہے، یہاں سے عُقلا کو معلوم ہوگیا کہ اللہ کی سُنّت ازل سے یہی چلی آئی ہے کہ وہ تبارک و تعالیٰ ہر زمانے کے لوگوں کے لئے امام مقرر فرماتا ہے، کیونکہ سُنّتِ الٰہی کسی تبدیلی کے بغیر ہمیشہ اسی طرح جاری رہی ہے۔

۴۔  خدا کے فضل و کرم سے حضرت ابراہیمؑ اپنے آباواجداد میں بھی امام تھا، اور آئندہ نسل میں بھی، اللہ کا باطنی گھر اور مقامِ ابراہیمؑ حظیرۂ قدس میں ہے جو امامؑ کا مرتبہ ہے۔

۱۰۶

 

۵۔  اُمّتِ مُسلمہ از ذریّتِ ابراہیم و اسماعیل علیھما السّلام جماعتِ أئمّہ ہے، انہی حضرات سے آنحضورؐ کا ظہور ہوا، اور اسی مقصد کے لئے حضرتِ ابراہیمؑ نے دعا کی تھی (۰۲: ۱۲۸ تا ۱۲۹)۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۱۸  ۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۱۰۷

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۱۰

 

۱۔ سورۂ شُعرأ (۲۶: ۸۴) میں ارشاد ہے: وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ (ابراہیمؑ نے حضرتِ ربّ سے درخواست کی) اور مستقبل میں آنے والی نسلوں ( یعنی سلسلۂ امامت) میں میرے لئے ایک حق گُو زبان مقرر فرما۔ نُورٌعَلیٰ نُور کے مطابق ہر امامؑ اپنے سلسلۂ ذرّیت میں حیّ و باقی رہتا ہے۔

۲۔  سورۂ زُخرُف (۴۳: ۲۸) میں ہے :  وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ = اورابراہیمؑ نے اس (اسمِ اعظم اور معرفت) کو اپنی اولاد میں ہمیشہ باقی رہنے والا کلمہ چھوڑا تاکہ وہ خود خدا کی طرف رجوع کریں اور لوگوں کو رجوع کرائیں۔ معلوم ہے کہ آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؑ کے پاس سب سے خاص چیز اسمِ اعظم اور معرفت ہے۔

۳۔  سورۂ صافات (۳۷: ۱۰۲ تا ۱۱۰) میں آپ نے حضرتِ اسماعیل ذبیحُ اللہؑ کے قصّۂ قربانی کو پڑھا ہوگا، جس کے باطن میں عظیم تاویلی اسرار بھرے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جس طرح آدمؑ کے لئے ھابیلؑ اور پھر شیثؑ کو اساس بنایا تھا، اور بحُکمِ خدا نوحؑ کے لئے سامؑ اساس مقرر ہوا، اسی طرح اللہ یہ چاہتا تھا کہ ابراہیمؑ کے لئے اسماعیلؑ اساس ہو، تو پھر سخت ترین آزمائشیں ضروری تھیں، خواب میں عظیم باپ کے ہاتھ سے ذبح ہو جانا، ظاہر میں بحکمِ خدا پیارے باپ کی چھری سے ذبح ہوجانے کے لئے

 

۱۰۸

 

انتہائی عالی ہمتی کے ساتھ لیٹ جانا، اور پھر روحانی طور پر اس سے بھی بڑی بڑی ہزارہا قربانیاں ، مثلاً منزلِ عزرائیلی میں قبضِ روح کا ایک بہت بڑا طویل سلسلہ، وغیرہ۔

۴۔  حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ اور حضرتِ اسماعیل ذبیُح اللہ علیھما السّلام کی یہ بے شمار قربانیاں کس طرح بے ثمر ثابت ہو سکتی تھیں، حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کو آسمانی کتاب کی وراثت اور نورانی حکمت عطا فرمائی ہے، اور عظیم روحانی سلطنت سے نوازا ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۹ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۱۰۹

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۱۱

 

۱۔  سورۂ قَصَص (۲۸: ۰۵) میں ارشاد ہے: وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَہُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِیْنَ = اور ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ زمین میں کمزور کر دیئے گئے ہیں ان پر احسان کریں اوران ہی کو (لوگوں کا) أئمّہ (پیشوا) بنائیں اور ان ہی کو وارث بنائیں۔

۲۔  س: یہ حضرتِ موسٰیؑ کے مومنین کا واقعہ ہے، آپ بتائیں کہ خدا نے ان کو کسی طرح أئمّہ اور وارثین بنا دیا؟ ۔  ج: رُوح اور نور کے عجائب و غرائب ایسے ہیں کہ وہ اہلِ ایمان جن پر دشمنانِ دین نے ظلم کیا تھا، وہ جیتے جی اپنے امامؑ میں فنا ہو گئے، اور عالمِ شخصی میں ان کو ہر قسم کی وراثت مل گئی۔

۳۔  سورۂ مریم (۱۹: ۶۳) میں ہے، یہی وہ بہشت ہے کہ ہمارے بندوں میں سے جو پرہیزگار ہو گا ہم اسے اس کا وارث بنائیں گے ۔  س: تنہا ایک شخص کے لئے بہشت کی وراثت کس طرح ممکن ہے؟ ۔  ج: عالمِ شخصی کی بہشت وراثت کی مثال پر ہے، کیونکہ وہاں ایک ہی فرد سب کی نمائندگی کرتا ہے۔

۴۔  س:  سورۂ اعراف (۰۷: ۱۳۷) میں جس بابرکت سرزمین کے بہت سے مشارِق اور بہت سے مغارِب موجود ہونے کا ذکر آیا ہے، کیا وہ سرزمین ملکِ شام ہے؟ ۔  ج: نہیں، البتہ اس کے مشرق و مغرب زیادہ نہیں ہیں، بلکہ وہ مبارک و

 

۱۱۰

 

مقدّس سرزمین جو تمام عوالمِ شخصی کے لئے باعثِ برکت ہے، وہ حظیرۂ قدس ہے، جس کا ایک ہی مشرق ہے جو وہی مغرب بھی ہے، مگر خدا نے اس کو یہ بہت بڑا معجزہ عطا کیا ہے کہ وہ بہت سے مشارق و مغارب کا کام کر رہا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۰ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۱۱۱

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۱۲

 

۱۔  سورۂ حجر (۱۵: ۷۵) میں ارشاد ہے : إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِينَ =  یقیناً اس میں اہلِ بصیرت کے لئے قدرتِ خدا کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ بقولِ حضرت امام جعفرالصّادق علیہ السّلام یہ آیۂ شریفہ أئمّۂ اہلِ بیت علیھم السّلام کی شان میں ہے۔

۲۔  سورۂ اعراف (۰۷: ۴۶) میں ارشاد ہے:  وَ عَلَی الۡاَعْرَافِ رِجَالٌ یَّعْرِفُوْنَ کُلًّۢا بِسِیْمٰہُمْ = اورکچھ لوگ اعراف پر ہوں گے جو ہر شخص کو (بہشتی ہو یا جہنمی) ان کی پیشانی سے پہچانیں گے۔ اعراف کی تاویل أئمّۂ آلِ محمدؐ ہیں۔ (کتاب دعائم الاسلام حصۂ اوّل)

۳۔  أئمّۂ طاہرین علیھم السّلام کے مشہور قرآنی القاب میں اس ایک اولوا الامر بھی ہے (۰۴: ۵۹) ۔ (۰۴: ۸۳) بحوالۂ دعائم الاسلام حصۂ اوّل۔

۴۔  وہ عظیم الشّان آیات بھی کتابِ دعائم کی تفسیر و تاویل کے ساتھ پڑھ لی جائیں جو سورۂ حجّ کے آخر (۲۲: ۷۷ تا ۷۸) میں ہیں۔

۵۔  سورۂ فاطِر (۳۵: ۳۲) میں ارشاد ہے: ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاۚ =  پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے خاص ان کو قرآن کا وارث بنایا جنہیں منتخب کیا تھا، یعنی ائمّۂ آلِ محمّدؐ قرآن کے وارث ہیں، کیونکہ

 

۱۱۲

 

وہی حضرات خدا کے بندوں میں سے برگزیدہ ہیں۔

۶۔  سورۂ عنکبوت (۲۹: ۴۳) میں ارشاد ہے: وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِۚ-وَمَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ = اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے سمجھانے کے واسطے بیان کرتے ہیں اور ان کو بس علماء ہی سمجھتے ہیں۔ علماء سے ائمّۂ آلِ محمّدؐ مراد ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۱ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۱۱۳

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۱۳

 

۱۔  سورۂ انبیاء (۲۱: ۰۷) میں ارشاد ہے: فَسْئَلُوْآ اَھْلَ الذِّ کْرِاِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ  = اگر تم لوگ خود نہیں جانتے ہو تو اہلِ ذکر سے پوچھ لو۔ اہلِ ذکر سے علی و ائمّۂ اولادِ علیؑ مراد ہیں۔

۲۔  سورۂ حاقہ (۶۹: ۱۱ تا ۱۲) جب (طوفان کا) پانی چڑھنے لگا تو ہم نے تم کو کشتی پر سوار کیا تاکہ ہم اسے تمہارے لئے یادگار بنائیں اور اسے یاد رکھنے والے کان سن کر یاد رکھیں۔ یہاں روحانی طوفان کا ذکر ہے، جس سے قیامت مراد ہے، اور سُن کر یاد رکھنے والے کان حضرت علی علیہ السّلام ہے۔

۳۔  سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۰۷) میں ارشاد ہے: وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ = اور لوگوں میں سے (خدا کے بندے) کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور خدا ایسے بندوں پر بڑا ہی شفقت والا ہے، یہ آیت مولا علیؑ کی مدح میں نازل ہوئی ہے، واقعہ مشہور ہے۔

۴۔  سورۂ رعد ( ۱۳: ۴۳) میں ہے: وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا ۚ قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ = اور (اے رسولؐ) کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم پیغمبر نہیں ہو تو تم (ان سے) کہدو

 

۱۱۴

 

کہ میرے اور تمہارے درمیان (میری رسالت کی) گواہی کے واسطے خدا اور وہ شخص جس کے پاس آسمانی کتاب کا علم ہے کافی ہیں۔ آپ متعلقہ کتب میں دیکھ سکتے ہیں کہ جس شخص کے پاس قرآن کا علم ہے وہ حضرت علی علیہ السّلام ہے۔

۵۔ محمّدؐ کا نور بشکلِ فرشتۂ عقلِ کل قلم ہے، اور علی ؑ کا نور بصورتِ فرشتۂ نفسِ کُلّ لوحِ محفوظ ہے، اسی وجہ سے علیؑ کے پاس قرآن کا علم ہے، اور اسی سبب سے علیؑ ارض و سماء میں رسولِ پاکؐ کی رسالت کا گواہِ ثانی ہے۔ الحمدلِلّٰہ ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۲ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۱۱۵

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۱۴

 

۱۔  آپ یقیناً اس حقیقت کو سمجھتے ہیں، کہ بنی آدم خاص اور عام دو قسم کے ہیں، قرآن میں البتہ اکثرخاص بنی آدم کا ذکر آیا ہے، جیسا کہ سورۂ اعراف (۰۷: ۳۱) میں ہے: اے بنی آدم ہر نماز کے وقت بن سنور کے نکھر جایا کرو۔ یہ صرف ظاہری ترجمہ ہے۔ اور اسکی تاویل اس طرح ہوسکتی ہے: اے آدمِ زمانؑ کے روحانی بچو! تم ہر عبادت کے دَوران اپنے باطن کو پُرنور بنالو۔ اس میں خُصوصاً کارِ بزرگ کا تذکرہ ہے، اور اس آیۂ کریمہ میں لفظِ مسجد آیا ہے، جس کی تاویل اسمِ اعظم کی عبادت ہے۔

۲۔ HOMEWORK: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۹ تا ۱۸۰) کو ایک ہی مضمون کے طور پر مربوط پڑھو، دیکھو خدا نے بہت سے جِنّات اور آدمیوں کو دوزخِ جہالت کے لئے پیدا کیا ہے، سوچو، کیوں، ان کا کیا قُصور ہے؟ آیا ایسے لوگ حیوانِ انسان نُما ہیں؟ اور دوسری آیت کے پیشِ نظر ان کی بنیادی گمراہی کیا ہے؟

۳۔  جو لوگ “أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ” (وہ لوگ گویا جانور ہیں ۰۷: ۱۷۹) کے قانون میں داخل ہیں، وہ یقیناً حیوانِ انسان نُما ہیں، سورۂ فرقان (۲۵: ۴۴) میں بھی دیکھ لیں۔

۴۔  سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰) میں ہے : ہم نے تو تم لوگوں کے پاس وہ کتاب (قرآن) نازل کی ہے جس میں تمہارا (بھی) ذکرِ (خیر) ہے، کیا تم لوگ نہیں سمجھتے۔ اس

 

۱۱۶

 

میں یہ اشارۂ بلیغ ہے کہ عقل والوں کے لئے قرآنی حکمت میں ہر چیز کا بیان موجود ہے اور اس میں انسانی حقیقت کے بے شمار بھیدوں کا خزانہ بھی پوشیدہ ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۲ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۱۱۷

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۱۵

 

۱۔  آیۂ اصطفاء (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمّدؐ کے پاک نور کا سلسلہ خود ذریتِ آدمؑ اور ذرّیتِ نوحؑ کا سلسلہ ہے، کیونکہ اللہ کے نور کی رسّی نہ صرف طویل ہے، بلکہ وہ بڑی مضبوط بھی ہے، اس لئے وہ کبھی ٹوٹتی نہیں ہے۔

۶۔  اللہ تعالیٰ کا نورِ مقدّس ایسا نہیں کہ کبھی مخالفین اسے بجھا سکتے ہوں (۰۹: ۳۲؛ ۶۱: ۰۸) اس کا مطلب یہ ہوا کہ سلسلۂ نُور خاندانِ آدمؑ، خاندانِ نوحؑ، خاندانِ ابراہیمؑ، اور خاندانِ عمران (ابو طالبؑ) پر مبنی ہے، اور خاندانِ ابی طالبؑ ہی خاندانِ محمّدؐ ہے۔

۳۔  ہوم ورک: آیۂ تطہیر (۳۳: ۳۳) کی شانِ نزول کیا ہے، اہلِ بیتِ اطہار علیھِمُ السّلام کون حضرات ہیں؟ آپ معلومات حاصل کرنے کی ذمّہ داری قبول کریں۔

۴۔  آیۂ مُباہَلہ (۰۳: ۶۱) کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ اس آیت میں غور کریں۔

۵۔  سلمان فارسی اہلِ بیتِ اطہار میں سے ہوگیا تھا، اس حقیقت کی قرآنی دلیل کیا ہے؟ ۔  ج:  پہلی دلیل : سورۂ ابراہیم (۱۴: ۳۶) میں ہے، : کہ ابراہیمؑ نے کہا: فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ  =  پس جس نے میری پیروی کی تو وہ مجھ

 

۱۱۸

 

سے ہے۔

۶۔  طریقۂ سلمان فارسی طریقِ حقیقت اور معرفت ہے، جس کی دلیلیں سرتا سر قرآنِ حکیم میں پھیلی ہوئی ہیں، تاہم اس کا مذہب اہلِ بیتِ اطہار علیھم السّلام کا مذہب ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۳ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۱۱۹

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۱۶

 

۱۔  آپ نے حکیم پیر ناصرِ خسرو (ق س) کی شُہرۂ آفاق کتاب وجہِ دین کا مطالعہ کیا ہوگا ، اسی مبارک کتاب میں باربار یہ فرمایا گیا ہے کہ ہر آسمانی کتاب سے امام مراد ہے، یعنی کتاب کی تاویل امام کا نور ہے، آپ کتابِ وجہِ دین میں ایک بار پھر ذمہ داری سے دیکھ لیں۔

۲۔  سورۂ حدید (۵۷: ۲۶) میں یہ دیکھ کر آپ بےحد شادمان ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ نوحؑ اور حضرتِ ابراہیمؑ کے سلسلۂ ذرّیت میں نبوّت اور کتاب مقرّر کی، یہاں کتاب سے امام اور امامت مراد ہے، وہ آیۂ شریفہ یہ ہے: وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوحْاً وَّ اِبْرَاھِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِھِمَا النُّبُوَّۃَ وَ الْکِتٰبَ۔

۳۔  ہر نبی کے ساتھ ایک زندہ اور ناطق کتاب کا ہونا اللہ کا بہت بڑا احسان ہے، اور امام کا دوسرا نام ھادی ہے، اور اسی لئے ارشاد ہوا کہ ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہوتا ہے (۱۳: ۰۷)۔

۴۔  سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۱۳) میں دیکھیں، جہاں یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم السّلام کو مبعوث فرمایا اور ان کے ساتھ الکتاب نازل کی، یعنی ہر نبی کے ساتھ امام کو مقرر کیا، تاکہ لوگوں کے درمیان جو جو اختلافات پیدا ہوئے ہیں، ان کا فیصلہ کردیا جائے، کیونکہ کتاب اور امام اگرچہ باطن میں ایک ہی نور ہے، پھر

 

۱۲۰

 

بھی لوگ کتاب کے لئے جو نور (۰۵: ۱۵) مقرر ہے، اس سے ہٹ کر بہت سے اختلافات پیدا کرتے ہیں، جبکہ امامؑ ہر طرح سے اختلافات کو ختم کر دیتا ہے، اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ امامؑ خدا کے حکم سے قیامت کو برپا کرتا ہے، جس سے دنیا والے سب کے سب دینِ حق میں داخل ہوجاتے ہیں، اور ان کے بیشمار اختلافات خود ازخود ختم ہوجاتے ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۳ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۱۲۱

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۱۷

 

۱۔  قرآنِ حکیم (۰۲: ۲۱۳) میں جہاں یہ مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کے ساتھ امام کو بطورِ کتابِ ناطق مقرّر فرمایا تھا، وہاں علم و حکمت کا بہت بڑا خزانہ لگتا ہے، اور ہاں خدا کے پاس کتابِ ناطق تو ہمیشہ موجود ہوتی ہے، اور یہی ہے ہر پیغمبر کی باطنی کتاب اور نورِ امامت۔

۲۔  اگر کسی پیغمبر پر ظاہری کتاب بھی نازل ہوئی تھی، تو اس میں کیا شک ہوسکتا ہے، جبکہ دینِ حق میں نورِ مُنَزّل بھی ہے اور کتابِ سماوی بھی۔

۳۔  کیا ہر نبی کے لئے عالمِ شخصی کا نظام کامل و مکمل اور حظیرۂ قدس فعّال نہیں ہوتا؟ آیا ہر مُنذِر (ڈرانے والا) کے ساتھ ہادی نہیں ہوتا؟ کیا ہر نبیؐ کے ساتھ امامِ زمانؑ وزیر نہ تھا؟ کیا کبھی صرف سورج تھا اور چاند نہ تھا؟

۴۔ یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ کسی زمانے میں روحانی باپ تو ہو مگر ماں نہ ہو؟ کیا قرآن و حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ ہر نبیؑ کے لئے ایک وزیر ہوا کرتا ہے؟

۵۔  دینِ حق ہمیشہ ایک زندہ شخص کی طرح ہے، اس کی عقل رسولؐ ہے اور روح امامؑ، اسی لئے یہ کہنا درست ہے کہ رسولؐ اور امامؑ دینِ مجسّم ہیں۔

۶۔  وجہِ دین کی باتیں بڑی عقلی اور منطقی ہیں کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ہر امامؑ خدا کی بولنے والی کتاب ہے اور اساس اُمّ الکتاب ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۴ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۱۲۲

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۱۸

 

۱۔  اے عزیزِ من! آپ کو کسی اور تعویذ کی کیا ضرورت ہے ، مگر وہ تعویذات بے حد ضروری ہیں جو روح الایمان کی حفاظت و سلامتی کے لئے ہوا کرتی ہیں اس سے میری مراد ارشاداتِ أئمّۂ طاہرین علیھم السّلام ہیں، جیسا کہ حضرتِ امام مُحمّد باقر علیہ السّلام کا یہ ارشاد ہے: مَاقِیْلَ فی اللّٰہِ فَھَوَ فِینا، وَ مَا قِیْلَ فِینا فھُوَ فِی البُلَغَاءِ مِن شِیْعَتِنَا = جو بات اللہ تعالیٰ کے متعلق کہی گئی ہے، وہ تاویلاً ہم پر صادق آتی ہے، اور جو بات ہمارے متعلق کہی گئی ہے وہ ہمارے بلیغ شیعوں پر صادق آتی ہے۔

۲۔  حضرتِ امام عالی مقام کا کلامِ بالا بے مثال اور بڑا زبردست جامعُ الجوامع ہے، ایسے عظیم الشّان اور انتہائی مضبوط علمی قلعے اس لئے بنائے گئے ہیں تاکہ اہلِ ایمان ان میں شرِّ شیطان سے محفوظ ہو جائیں۔

۳۔  تاویلی مفہوم (۲۱: ۹۵ تا ۹۶) جس قریہ یا شہر یا زمانے کے لوگ اللہ کی نافرمانی سے روحانی طور پر ہلاک ہوچکے ہیں، وہ پھر اپنی مرضی سے رجوع نہیں کر سکتے ہیں، تاآنکہ خداوندِ تعالیٰ امامِ زمانؑ کے توسّط سے اہلِ زمانہ کو روحانی قیامت کے لئے جمع کرتا ہے، اور یاجوج ماجوج کھول دیئے جاتے ہیں، پھر سب لوگ قیامت کی سختی اور زبردستی کے تحت رجوع کرتے ہیں۔

 

۱۲۳

 

۴۔  حدیثِ شریف میں وارد ہے: من مَّات فَقَد قَامَت قِیَامَتُہ = جو کوئی مرتا ہے اس کی قیامت برپا ہوجاتی ہے، اور موت دو قسم کی ہوتی ہے، ایک نفسانی موت ہے، اور دوسری جسمانی موت، اہلِ تصوّر اور اہلِ حقیقت اس بات پر مُتّفق ہیں کہ کاملین کی نفسانی موت اور قیامت زندگی ہی میں واقع ہوتی ہےتاکہ خزائنِ حقائق و معارف حاصل کئے جائیں، کیونکہ قیامت اسرارِ خداوندی کی سب سے عظیم کائنات ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۵ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۱۲۴

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۱۹

 

۱۔  سورۂ نحل (۱۶: ۱۲۰) میں یہ ارشاد ہے:إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ  = پہلا باحکمت ترجمہ: بے شک ابراہیمؑ ایک عظیم امام تھا، اللہ کا مثالی فرمانبردار، خدا کی محبت میں یکتا اور ہر قسم کے شرک کرنے سے پاک و پاکیزہ تھا۔ دوسرا باحکمت ترجمہ:  یقیناً ابراہیمؑ (اپنے عالمِ شخصی میں) پاک اماموں کی جماعت تھا، اللہ کے لئے نہایت فرمانبردار، ہر وقت اس کی یاد میں مصروف رہنے والا، اور مُوَحّدِ اعظم تھا۔ تیسرا باحکمت ترجمہ: اس میں شک نہیں کہ ابراہیمؑ (اپنے عالمِ شخصی میں أئمّہ اوّلین و آخرین کی) ایک جماعت تھا، اللہ کا انتہائی فرمانبردار اور اس کی دوستی میں یگانہ اور خدا شناسی میں منفرد تھا۔

۲۔  اب ہمارے عزیزوں کے لئے عالمِ شخصی کے علم الیقین کی مدد سے قرآنی حکمت آسان ہوسکتی ہے، جس طرح مذکورۂ بالا آیۂ شریفہ کی حکمت عالمِ شخصی کی معرفت کی روشنی میں بیان ہوئی، جی ہاں حضرتِ ابراہیمؑ اپنے زمانے کا نفسِ واحدہ تھا، لہٰذا اس میں بوجہِ روحانی قیامت تمام روحیں جمع ہوگئی تھیں، پس ابراہیمؑ کو اُمّت کا درجہ دینے کے کئی معنی ہوسکتے ہیں۔

۳۔  ہمارے بہت سے ہم درس دوستوں کو اس بات پر کامل یقین ہے کہ امامِ

 

۱۲۵

 

زمانؑ نورِ مُنَزّل اور سرچشمۂ علمِ لَدُنّی ہوتا ہے لہٰذا وہ مُستحق مسکین کو علمی صدقہ دیتا رہتا ہے، اور جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ صدقہ کہاں سے آیا ہے۔

۴۔  بہت بڑی سعادت ہے ان مریدوں کی جو اپنے امام علیہ السّلام کو علم و معرفت کی روشنی میں پہچانتے ہیں، اور باطنی طورپر اس سے علم وحکمت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۶ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۱۲۶

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۲۰

 

۱۔ سورۂ احزاب (۳۳: ۴۶) میں جہاں حضرتِ سید الانبیاء صلّی اللہ علیہ وآلہٖ کے اسمائے مبارک میں سے سات پاک نام آئے ہیں، اور اس بابرکت آیت کے ترجموں میں سے ایک دلچسپ ترجمہ یہ بھی تھا، جو درجِ ذیل ہے:۔

اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظراور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اسی کے حکم سے بلاتا اور چمکا دینے والا آفتاب۔

۲۔ وہ سات اسمائے مبارک یہ ہیں: نبی، رسول، شاہِد، مُبَشّر، نذیر، داعی، سراجِ مُنیر۔ ان میں سے ہر اسم میں نورانی بھیدوں کا ایک خزانہ مخفی ہے۔

۳۔ قرآنی ارشاد کے مطابق حضراتِ أئمّہ لوگوں پر گواہ ہیں اور رسولؐ اماموں پر گواہ ہے (۲۲: ۲۸)۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ امام دنیا میں ظاہر ہے، اس کا باطنی دیدار بھی عاشقوں کے لئے ممکن ہے، اور امام کا نور رسولؐ کے نور سے واصل ہے۔

۴۔   عالمِ شخصی کے تصوّر میں انقلاب ہے یاد رہے کہ زبردست روحانی ترقّی انقلاب کے بغیر ممکن ہی نہیں، لیکن سوال ہے کہ انقلاب کہاں اور کس چیز میں؟ ج: آپ کے اپنے اعمال میں اور اپنی عادات میں، آپ قرآن میں دیکھیں نفسِ امّارہ، نفسِ لوّامہ، اور نفسِ مطمئنہ میں کیا فرق ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۶۔ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۱۲۷

 

آلِ ابراہیمؑ = آلِ مُحمّدؐ

قسط: ۲۱

 

سورۂ حَجّ کے آخر (۲۲: ۷۸) میں ایک عظیم الشّان اور حکمت و معرفت سے لبریز آیت وارد ہوئی ہے، جس میں اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے، کہ اس مبارک ارشاد میں تمام حدودِ دین کے لئے ایک مکمل ہدایت موجود ہے۔ چنانچہ اوّلاً یہ حکم ہے : اے مومنین رکوع کرو یعنی حُجّت کی اطاعت کرو، اور سجدہ کیا کرو، یعنی امام کی اطاعت کرو۔

۲۔  اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہو کہ یہی راستہ عبادت کا ہے۔

۳۔  اور اسی طریق پر نیکی کرو تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔

۴۔  اور خدا کی راہ میں کما کانَ حقہٗ جہادِ اکبر کرو۔

۵۔  اس کے بعد أئمّۂ آلِ محمّدؐ سے خطاب ہے: اسی نے تم کو برگزیدہ کیا۔

۶۔  اور دین میں تم پر کوئی سختی اور تنگی نہیں کی، یہ تمہارے باپ یعنی جدِّ اعلیٰ ابراہیمؑ کا مذہب ہے، اسی نے پہلے ہی سے تمہارا نام حقیقی فرمانبردار بندے رکھا ہے اور اس قرآن میں بھی تا کہ رسولؐ تم پر گواہ ہو، اور تم تمام لوگوں پر گواہ بنو پس نماز پڑھا کرو، یعنی دعوت کا کام کرتے رہو، اور زکات دیتے رہو، یعنی حقیقی علم دیتے رہو۔

۷۔  اور خدا سے واصل رہو وہی تمہارا کارساز اور سرپرست ہے تو کیا اچھا کارساز ہے اور کیا خوب مددگار ہے۔

 

۱۲۸

 

یہ ترجمہ ہے، آپ آیت کو بھی غور سے پڑھیں۔ ان شاء اللہ بتدریج دل میں معرفت کی روشنی آئے گئی۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۷ مارچ  ۲۰۰۰ء

 

۱۲۹

 

دعا کرنے کا حکم

 

مشکلات اور حاجات کے وقت قاضی الحاجات کو پکارنے کا حکم سورۂ مومن (۴۰: ۵۶) میں ہے: یقیناً جو لوگ جھگڑتے ہیں خدا کی آیتوں (یعنی امامؑ کے بارے) میں بغیر اس کے کہ ان پر آسمانی دلیل نازل ہوئی ہو کچھ نہیں ہے ان کے سینوں میں سوائے تکبّر کے (یہاں آسمانی دلیل سے معرفت مراد ہے) حالانکہ وہ اس تک کبھی پہنچنے والے نہیں ہیں، پس آپ اللہ کی پناہ میں رہنا، یقناً وہ بڑا سننے والا دیکھنے والا ہے۔

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُم (۴۰: ۶۰) (اور تمہارے پروردگار نے فرمایا کہ تم مجھے میرے اسماء الحسنٰی سے پکارا کرو۔ ۰۷: ۱۸۰)۔

أَسْتَجِبْ لَكُمْ میں صرف تمہارے لئے قبول کروں گا۔ ظاہر ہے کہ یہ حکم صرف مومنینِ بایقین ہی کے لئے ہے، جبکہ اس حکم کی تمہید میں امام شناسی کا اشارہ ہے، اور پھر اسماء الحسنےٰ سے پکارنے کا حکم بھی ہے، پس مومنین کے لئے یہ بات بے حد ضروری ہے کہ وہ اپنی نیت میں مقصد کا تعین کریں، اور امید و یقین سے دعا کرتے رہیں، اور دعا کرنے والا مومن ایسا ہونا چاہئے کہ وہ کثرت سے سجود کرنے کا عادی ہو، اور گریہ و زاری سے اس کا عشق ہو، اور اس کا قلب و لسان پاک ہو، ان شاء اللہ

 

۱۳۰

 

اس کی دعا قبول ہوگی۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۱۷ ۔ اپریل  ۲۰۰۰ء

 

۱۳۱

 

تسبیح کرنےکا حکم

 

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ عزیز میں ہر زمانے کے تسبیح پڑھنے والوں کو ایک بڑا باعزت اور بہت ہی پیارا نام دیا ہے، وہ ہے مُسَبِّحِین (۳۷: ۱۴۳) اس ٹائٹل میں بہت بڑی عزت یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ جب یونسؑ تسبیح پڑھنے والوں میں شامل ہوگیا تب اس کو نجات ملی، اور دوسری بات یہ ہے کہ تسبیح پڑھنے والے ہر دور اور ہر زمانے میں ہوتے ہیں، واضح رہے کہ سارے قرآن میں تسبیح کی بہت بڑی تعریف آئی ہے، اور خدا کے نزدیک تسبیح خوانی اتنی ضروری ہے کہ اس نے اپنی خدائی کی ہر چیز کے لئے ایک گونہ تسبیح خوانی لازم کر دی ہے، اور کوئی چیز تسبیح خوانی کے بغیر نہیں ہے (۱۷: ۴۴) ۔

تسبیح خوانی کا سب سے بڑا راز تو یہ ہے کہ تمام چیزوں کی یکجا تسبیح خوانی صورِاسرافیل میں ہوتی ہے، اس کی معرفت انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں ہوتی ہے، اور تاویل طلب تذکرہ حضرتِ داؤدؑ کے قصّہ میں ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ صورِ اسرافیل تمام چیزوں کی مجموعی تسبیح خوانی پر مبنی ہے، پس معلوم ہوا کہ تسبیح خوانی کا جوہر کیا ہے، اور اس کی رفعت و عظمت کیا ہے، کوئی بھی دعا اور کوئی بھی عبادت تسبیح کے بغیر ممکمل نہیں ہوتی ہے، کوئی نماز

 

۱۳۲

 

کوئی عبادت، کوئی بندگی کس طرح مکمل ہوسکتی ہے جس میں ذاتِ سبحان کی تعریف نہ ہو۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۱۷ ۔ اپریل  ۲۰۰۰ء

 

۱۳۳

 

قُرآنی طِبّ کے عظیم معجزات

 

ایک بے مثال نسخۂ لاہوتی : تضرُّع، یعنی گریہ وزاری، مناجات اور گڑگڑانا، صاحبانِ عقل کے لئے یہ بات بے حد ضروری ہے کہ وہ قرآنِ حکیم میں طبِّ الٰہی کو بھی بڑے غور سے پڑھا کریں، مثال کے طور پر قرآنِ عظیم میں جہاں جہاں تضرُّع کا ذکر آیا ہے وہاں خوب غور سے دیکھیں؎ ، اس میں اللہ تعالیٰ کا وہ عظیم معجزۂ رحمت پنہان ہے کہ اگر کسی بستی پر یا کسی قوم پر عذابِ الٰہی نازل ہونے لگا ہے تو وہ بھی تضرُّع سے بحکمِ خدا ٹل سکتا ہے، کیونکہ لوگوں پر جو بھی عذاب نازل ہوتا ہے وہ ان کی غفلت، نافرمانی اور ناشکری کی وجہ سے ہے، مگر جب وہ تضرُّع کرتے ہیں تو اس میں تقریباً بیس (۲۰) اچھے معانی ہیں، لہٰذا خدائے رحمان و رحیم ان پر رحم فرماتا ہے، پس اہلِ ایمان کی دانائی اس بات میں ہے کہ وہ تضرُّع سے فائدہ اٹھائیں، سب سے بڑی دانائی یہ ہوگی کہ وہ امن و سلامتی ہی کے ایّام میں عشقِ سماوی کی غرض سے گریہ و زاری کریں تاکہ ہر قسم کی غفلت، نافرمانی اور ناشکری سے محفوظ رہیں۔

 

؎       (۰۶: ۴۲؛ ۰۶: ۴۳؛  ۰۶: ۶۳؛  ۰۷: ۵۵؛  ۰۷: ۹۴؛  ۰۷: ۲۰۵)

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

منگل  ۱۸ ۔ اپریل  ۲۰۰۰ء

 

۱۳۴

 

بابُ المعجزات (معجزات کا دروازہ) = امامؑ

 

اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظمِ ناطق باب المعجزات ہے یعنی تمام روحانی اور عقلی معجزات کا باتِ اقدس امامِ زمانؑ ہی ہے، کیونکہ خداوندِ تعالیٰ کا زندہ اور بولنے والا اسمِ اعظم اور صحیفۂ اسماءُ الحسنےٰ وہی ہے، پس معجزۂ حدیثِ نوافِل اسی ذاتِ عالی صفات کے نورِ ہدایت کی روشنی میں ہے، جس کی وضاحت مَیں نے “عملی تصوّف اور روحانی سائنس” کی کتاب میں کی ہے، کیونکہ معجزۂ نوافِل سے کارِبزرگ کا معجزہ مراد ہے، اور یہ کارِ بزرگ حضرتِ امام علیہ السّلام ہی عطا فرماتا ہے۔

اے عزیزان! تم عالی ہمت بنو اور اپنے زمانے کے دروازۂ معجزات (باب المعجزات) سے داخل ہو جاؤ، کیونکہ اس بابِ اقدس سے باہر بہت سے خطرات ہیں، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے:

وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ = اور جب ہم نے کہا کہ داخل ہو جاؤ اِس قریے (عالمِ شخصی) میں۔ وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا = بابُ المعجزات (امامؑ) سے بذریعہ حقیقی اطاعت داخل ہو جاؤ (۰۲: ۵۸)۔

باب المعجزات کے مزید حوالہ جات: ۰۴: ۱۵۴؛ ۰۷: ۱۶۱؛ ۰۲: ۱۸۹۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۱۹ ۔ اپریل  ۲۰۰۰ء

 

۱۳۵

 

طبِّ الٰہی اور قلبِ سلیم

 

اللہ تعالیٰ کے نورِاقدس کے عاشقوں کے لئے قلبِ سلیم کی معرفت ازحد ضروری ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم کی ظاہری معرفت فرماتی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے لئے اپنے دل کو قلبِ سلیم بنا لیا تھا، جیسا کہ ارشاد ہے:  وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (۳۷: ۸۳ تا ۸۴) اور یقیناً نوحؑ کے پیروؤں میں سے ابراہیمؑ تھا جبکہ وہ بے عیب دل لیکر اپنے ربّ کے پاس آیا۔ پس یہاں سے قلبِ سلیم کی مثال اور معرفت معلوم ہوئی۔

قلبِ سلیم کی دوسری مثال : يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ  إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (۲۶: ۸۸ تا ۸۹) جس دن نہ کسی کو مال نفع دے گا اور نہ بیٹے، بجز اس کے جو حاضر ہو اللہ کے پاس بے عیب دل کے ساتھ۔

دل کے لئے تین مقامات ہیں: مقامِ جسمانی ، مقامِ روحانی اور مقامِ عقلانی، اور قلبِ سلیم مقامِ عقل پر ہے، اسی مقام پر کوئی عارف قلبِ سلیم لے کر خدا کے پاس جا سکتا ہے، قلب سلیم کے معنی ہیں وہ دل جو ہر قسم کی اخلاقی، روحانی اور عقلی بیماری سے پاک ہو، نیز قلبِ سلیم کے معنی ہیں وہ دل جو خدا کے سپرد کیا گیا ہو، اور وہ دل جو خدا کا حقیقی فرمانبردار ہو اور اس میں کوئی عیب نہ ہو، اور وہ دل جو ہر طرح سے منشائے الٰہی کے مطابق جملہ خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ

 

۱۳۶

 

ہو۔ آپ اپنے استاد کے ڈائیگرامز کو بھی دیکھیں جو قرآنی علاج اور دیگر کتابوں میں ہیں۔

ہم طبِّ الٰہی سے آپ کی دلچسپی کو دیکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ قرآنِ حکیم کے بہت سے پُرحکمت پہلو ہیں اور ان میں سے ایک خاص پہلو طبِّ الٰہی سے متعلق ہے، جیسا کہ حضرتِ ابراہیمؑ علیہ السّلام نے کہا: وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (۲۶: ۸۰) اور میں جس قسم کا بھی مریض ہو جاتا ہوں تو وہ مجھے شفا بخشتا ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ حقیقی طبیب اللہ ہی ہے، اور وہ ہر قسم کی بیماری سے اپنے بندوں کو شفا بخشنے پر قادر ہے، اور اسی حکم سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قلبِ سلیم وہ ہے جو ہر قسم کی بیماری سے پاک و سلامت ہو۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۱۹ ۔ اپریل  ۲۰۰۰ء

 

۱۳۷

 

طبِّ الٰہی اور آیاتِ شِفا ء

 

طبِّ الٰہی اور آیاتِ شفاء، آپ عزیزان اس مضمون کو کتابُ العلاج ص۵۴ پر دیکھیں۔ حق بات تو یہ ہے کہ قرآنِ حکیم سرتا سر شفاخانۂ سماوی برائے قلبِ انسانی ہے، کیونکہ قرآنِ پاک کا سب سے عظیم مقصد یہ ہے کہ ہر مومن اور مومنہ کا دل قلبِ سلیم اور قلبِ مُنیب ہوجائے (۵۰: ۳۳)۔

قلبِ مُنیب کے معنی ہیں: اللہ کی طرف رجوع ہونے والا، گِڑگِڑانے والا، توبہ کرنے والا، اسی معنیٰ میں عبدِ مُنیب بھی ہے (۳۴: ۰۹  ؛ ۵۰: ۰۸)۔

جب قرآن کے ناموں میں سے ایک مشہور نام شفاء ہے تو معلوم ہوا کہ قرآن انسان کے امراضِ قلب کے لئے شفاخانۂ الٰہی ہے، جس کا طبیب اللہ تعالیٰ خود ہے اور اس کا رسولؐ ہے اور امامِ زمانؑ ہے، تاکہ لوگ اس شفاخانے سے رجوع کر کے اپنے دل کو قلبِ سلیم بنالیں، کیونکہ خدا کے پاس قلبِ سلیم کے بغیر کوئی جا ہی نہیں سکتا، یہ ہیں طبِّ الٰہی کی عظیم حکمتیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۲۶ ۔ اپریل  ۲۰۰۰ء

 

۱۳۸

 

کلمۂ تآمّۂ سلمان کی معرفت کے لئے امدادی حکمتیں

 

۱۔  دعائے نور میں خوب غور سے دیکھو جب اللہ تعالیٰ بندۂ مومن کے قلب میں ایک نور قرار دیتا ہے، تو کیا وہ امامؑ ہی کا نور نہیں ہوگا؟ اگر یہ نور امامؑ کا ہے تو کیا وہ خدا کے حکم سے کہہ سکتا ہے کہ میں تمہارا دل ہوں؟ ج: یقیناً کہہ سکتا ہے کہ میں علیّٔ زمانؑ ہوں، اور میری یہ صفت ہے ، اور میں تمہارا دل ہوں۔

۲۔ حدیثِ نوافل کو ایک بار پھر اچھی طرح سے پڑھ لیں، اگر خدا اپنے بندۂ عاشق کے حواسِ ظاہر ہوسکتا ہے تو حواسِ باطن اور دل بھی ہوسکتا ہے، اور خدا حدودِ دین سے یہ کام لیتا ہے، خصوصاً امامؑ سے، پس ایک وہ وقت آنے والا ہے، جس میں امامؑ ہی مومنین و مومنات کا قلب ہو جاتا ہے، جیسا کہ ترجمۂ آیۂ شریفہ ہے:

اور بنا دیئے اس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل تاکہ تم شکر کیا کرو (۱۶: ۷۸؛  ۲۳: ۷۸؛  ۳۲: ۰۹  ؛ ۶۷: ۲۳) ۔ حواسِ ظاہر پر اگر شکر واجب ہوتا تو حواسِ ظاہر کافر کے بھی ہیں، منافق کے بھی ہیں، اور جانوروں کے بھی ہیں، اس لئے یہاں اس سے حواسِ باطن اور وہ دل مراد ہے، جس میں نور ہوتا ہے، اور جس میں امامؑ خود ہی ہوتا ہے، لہٰذا مذکورہ آیتِ شریفہ میں حواسِ

 

۱۳۹

 

باطن اور دل کے نور کا ذکر ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات   ۲۷ ۔ اپریل  ۲۰۰۰ء

 

۱۴۰

 

امراضِ باطن کے لئے طِبِّ الٰہی کا بے مثال نُسخہ

 

امراضِ باطن کے لئے طبِّ الٰہی کا بے مثال نسخہ بھی قرآنِ حکیم (۱۷: ۱۰۷: ۱۷: ۱۰۹) میں موجود ہے، وہ ہے سنّتِ انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کے مطابق خوب گریہ و زاری کے ساتھ سجدۂ نیازمندی میں گِر پڑنا۔

حدیثِ شریف میں شفائے کُلّی کا عظیم الشّان نُسخہ کثرۃُ البُکاء لِلّٰہ ہے (اللہ کے لئے کثرت سے رونا) ۔ کتاب دعائم الاسلام جلدِ ثانی کتابُ الوصایا فصل (۱) میں ہے کہ آنحضرتؐ نے حضرتِ علیؑ کو چند خصائل کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا: اور چوتھی خصلت کثرت سے اللہ کے لئے گریہ و بُکاء ہے، کہ وہ تمہارے آنسو کے ہر قطرے کے عوض جنّت میں ہزار گھر بنا دے گا۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۲۹۔ اپریل  ۲۰۰۰ء

 

۱۴۱

 

جَان نِثارانِ علیؑ

 

۱۔  دوستدارانِ علیؑ سے جان فدا کراے نصیرؔ!

جان نِثارانِ علیؑ سے جان فدا کراے نصیرؔ!

۲۔ جان ہی کو روح سمجھ لے اے عزیزِ ہوشمند!

جان ہی ہے کنزِ عرفان اے حبیبِ ارجمند!

۳۔  جان ہی ہے اک جہان اور جان ہی ہے آسمان

جان میں ہے عرشِ اعلیٰ اور خدائے ذوالجلال

۴۔  خود شناسی معرفت ہے اے برادر آگے آ

جان میں جنت ہے دیکھو، جان میں مُلکِ خدا (خدا کی بادشاہی)

۵۔  عالمِ شخصی میں آجا اے عزیزِ محترم!

تاکہ حاصل ہو یہاں سے گنجِ اَسرارِ خدا

 

۱۴۲

 

۶۔  کسی غرض سے آگئے ہو اِس جہان میں یاد ہے؟

معرفت مقصودِ کُلّی ہے نہ بھولو ساتھیو!

۷۔  گنجِ اَسرارِ خدا ہے عارفوں کے واسطے

کامیابی منتظر ہے عاشقوں کے واسطے

۸۔ ذِکرِ دائم ہے طریقِ سالکانِ راہِ حق

دامنِ مولا ہے یہ اس کو نہ چھوڑ اے نورِ عین

۹۔  نورِ عینی ہے اگر تو عالمِ شخصی میں آ

تاکہ دیکھے گا کہ اصلاً کس کا ہے تُو نورِ عین

۱۰۔ روح کو پہچان لو اور اسی سے عشق ہو!

دین و دانش کا تقاضا بس یہی ہے دوستو!

۱۱۔ حق تعالیٰ کی تجلّی اے خوشا حکمت میں ہے

اس لئے حکمت یقیناً ہوگئی خیرِ کثیر    (۰۲: ۲۶۹)

۱۲۔  نورِ حق ظاہر نہ ہو جب عالمِ انسان میں

کوئی اندھا کس طرح کہلائے گا قرآن میں  (۱۷: ۷۲)

 

۱۴۳

 

۱۳۔  ایک تن میں ایک جان کہنا غلط ثابت ہُوا

جبکہ جانیں ہیں یقیناً بے حساب و بے شمار

۱۴۔ شعرِ پُرحکمت کہا کر اے نصیرِؔ دل فِگار

تجھ پہ مولا کا کرم ہے اور تُو ہے جان نِثار

 

پیر  یکم مئی  ۲۰۰۰ء

 

۱۴۴

 

نفسِ واحدہ کے عجائب و غرائب

 

ہم نے نفسِ واحدہ کی اسی کتاب میں “اسرارِ نفسِ واحدہ” کے عنوان کے تحت لفظی تحلیل بھی کی ہے، اور تاویل بھی لکھی ہے، آپ اس کو اور میری دوسری کتابوں کو بھی پڑھیں۔

آپ سورۂ زمر (۳۹: ۰۶) کے حوالے سے یہ جواب دیں کہ اللہ تعالی نے کس طرح نفسِ واحدہ سے تمام لوگوں کو پیدا کیا، جبکہ اسکی بیوی کو بعد میں پیدا کیا۔

ج: نفسِ واحدہ سے تمام لوگوں کی تخلیق کا معجزہ عالمِ ذرّ میں ہوا اور نفسِ واحدہ سے اس کی بیوی کی پیدائش روحانی ہے، یعنی روحانی تربیت کے نتیجے میں ایک حجّت کو اساس کے مرتبے پر بلند کیا گیا، پس مومنین کی پیدائش کے چار مقام ہوئے: اوّل عالمِ ذرّ، دوم عالمِ جسمانی ، سوم مقامِ روحانیت ، چہارم مرتبۂ عقل۔

نفسِ واحدہ =  آدمِ اوّلؑ، آدمِ دَورؑ، آدمِ زمانؑ۔

نفسِ واحدہ = وہ انسانِ کامل ہے جس کی روحانی قیامت کی وجہ سے تمام روحیں بصورتِ ذرّات جمع ہو جاتی ہیں، روحوں کے اس اجتماع کا نام عالمِ ذرّ ہے جس میں ہر شخص کی ابتدائی پیدائش کا تجدّد ہوتا ہے، ایسے میں تمام لوگ اسی انسانِ کامل کی ذریّت قرار پاتے ہیں، جس کے عالمِ شخصی میں قیامت کی

 

۱۴۵

 

وجہ سے جمع ہوئے ہیں، اور یہی واقعہ ہر آدمؑ میں ہوتا ہے، اور یہی ہے نفسِ واحدہ سے ایک ساتھ سب لوگوں کا پیدا ہونا۔

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۴۔ مئی  ۲۰۰۰ء

 

۱۴۶

 

خواتینِ قرآن

 

وہ عظیم خواتین جن کا ذکر قُرآنِ حکیم میں آیا ہے

بی بی حوّا علیھا السّلام ۔ آپ عالمِ انسانیّت کی اوّلین خاتون اور حضرتِ آدم خلیفۃُ اللہؑ کی زوجۂ محترمہ تھیں، آپ ہی عالمِ بشریت کی اوّلین ماں، سب سے پہلے پیغمبر کی بیوی تھیں۔

اوّل اوّل جس پاکیزہ خاتون سے پاک امام کا تولّد ہوا وہ آپ ہی تھیں، سب جانتے ہیں کہ حضرتِ آدم اور حضرت حوّا علیھما السّلام ہی سے نبوّت و امامت کے پاک نور کے سلسلے کا آغاز ہوا۔

قرآنِ عظیم میں جہاں جہاں آدمؑ یا بنی آدمؑ کا ذکر آیا ہے وہاں لازمی طور پر بی بی حوّا کی طرف بھی اشارہ ہے۔

حُکماء کا قول ہے کہ حقیقی آدم و حوّا عقلِ کلّ اور نفسِ کُلّ ہیں، اور عُرَفاء کا کہنا ہے کہ عالمِ شخصی کے آدم و حوّا عقل اور روح ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۶۔ مئی  ۲۰۰۰ء

 

۱۴۷

 

حضرتِ آدمؑ کی دو بیویاں تھیں

 

بڑی عجیب بات ہے کہ عوام النّاس حوّائے جسمانی کے بارے میں کئی غیر قرآنی اور غیر عقلی باتیں کرتےہیں، مگر جو اصل باتیں آدمؑ کی علمی بیوی سے متعلق ہیں وہ سب بھول چکے ہیں۔

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۹) میں پڑھیں، اگرچہ آدم خلیفۃ اللہؑ کو جسمانی بیوی کے ذریعے سے نفسانی تسکین کی بھی ضرورت تھی، لیکن اس سے کہیں زیادہ یہ امر ضروری تھا کہ اسکی کوئی علمی بیوی بھی ہو، تاکہ جس کی باطنی جاذبیت کی وجہ سے اس میں علمی معجزہ پیدا ہو جائے اور پھر اس علم کے دینے سے اُسکو زیادہ سے زیادہ پرلذت تسکین حاصل ہو۔

آدم و حوّاؑ کی مثال: آدمؑ و حوا کی مثال ملکِ خُدا (اللہ کی بادشاہی) میں عقلِ کلّی اور نفسِ کُلّی ہیں، ان کی مثال عالمِ دین میں ناطقؐ و اساسؑ = اساسؑ و امامؑ = امامؑ و باب = باب و حُجّت =  حُجّت و داعی =  داعی اور ماذون ہیں، آدمؑ و حوّا کی ایک پُرحکمت مثال عالمِ شخصی میں عقل اور روح ہیں، دنیائےعلم و ادب میں آدمؑ وحوّا کی ایک خوبصورت مثال استاذ اور شاگرد ہیں، قانونِ وحدت کے مطابق ہزاروں شاگردوں کو ایک ہی حوّا قرار دے سکتے ہیں۔

 

۱۴۸

 

پس خواتینِ قرآن میں ظاہراً وباطناً سر فہرست حضرت حوّا سلامُ اللہ علیھا ہیں، جن کا ہر عالم میں ایک جداگانہ روپ ہے، جس کا ذکر ہوا، اس بیان سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ قرآنی حکمت کے بیان میں سب کچھ ہے، اور اس میں بیک وقت مومنین و مومنات کی بے مثال عزت و برتری کا تذکرہ ہے۔

اس بیان میں آپ دیکھ رہے ہیں، کہ یہاں صرف حضرتِ حوّا کا تذکرہ شروع ہوا ہے، اور اگر قصّۂ آدمؑ و حوّا کو آئینۂ حکمتِ قرآن میں دیکھا جائے تو پھر بےشمار آدموں کے ثبوت سے ہم سب کو بڑی حیرت ہوگی۔

قرآنِ حکیم کی یہ روشن حقیقت سب کے سامنے چمک رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت و حکمت سے ایک ہی انسان میں سب انسانوں کو قرار دے کر سب کو ایک ساتھ نصیحت کرتا ہے، جیسے سورۂ عصر (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۲) میں ارشاد ہے: قسم ہے عصر کی یقیناً انسان خسارے میں ہے، پس یہاں لفظِ انسان کسی ایک شخص کے لئے مقرر نہیں ہے، بلکہ ان تمام انسانوں کے لئے ہے، جو روحانی طور پر خسارے میں ہیں، اس سے ایک میں سب ہونے کا قانون معلوم ہوا، پس اسی طرح قرآن کے ایک ہی آدمؑ میں بےشمار آدموں کا تذکرہ ہے، اور حضرت حوّا سلامُ اللہ علیھا لاتعداد حوّاؤں کی نمائندۂ وحدانی یا وحدت ہیں۔ دنیا کی ہر خاتون بی بی حوّا کی بیٹی ہے، اور حوّا کی ہر بیٹی میں حوّا کی سب یا بعض خصوصیات ہوا کرتی ہیں۔

خود شناسی سے ربّ شناسی یعنی خدا کی معرفت حاصل آتی ہے، جس سے قرآن کی معرفت کیونکر الگ ہوسکتی ہے؟ بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ تمام چیزوں کی معرفتیں ایک ہی خزانے میں جمع ہیں، جہاں قرآن کی معرفت بے حد ضروری ہے، کیونکہ قرآن کی معرفت کے سوا قرآنی حکمت کے دروازے بند ہی رہتے

 

۱۴۹

 

ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی عملی معرفت کے بعد ہی اسرارِ حکمت سے آگہی حاصل ہو جاتی ہے، پس یہ قول عارفوں ہی کا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدیم بادشاہی میں ماضی میں بھی اور مستقبل میں بھی بے شمار آدموں کے ہونے کے اشارات ہیں، اور اسی طرح ان کی ازواج بھی۔

آپ آیتِ استخلاف (۲۴: ۵۵) کو حکمت کی روشنی میں پڑھیں ، اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو مومنین حقیقی معنوں میں ایمان لاتے ہیں اور منشائے خداوندی کے مطابق نیک کام کرتے ہیں، انہی مومنین سے اللہ عالمِ شخصی میں فعلاً وعدہ فرماتا ہے کہ وہ ان کو زمینِ کائنات = زمینِ نفسِ کُلّی میں خلیفہ بنائے گا، جس طرح اس نے اگلے بہت سے مومنین کو خلیفہ بنایا ہے (پوری آیت کو پڑھیں)۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

منگل  ۹۔ مئی  ۲۰۰۰ء

 

۱۵۰

 

سبقت کا حکم

 

سورۂ حدید (۵۷: ۲۱) میں علم و عمل میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے کا حکم ہے، اور اس میں جو مومنین سب سے آگے ہوں گے، وہ سابقون = مقربین (۵۷: ۱۰ تا ۱۱) کہلاتے ہیں، اور مقرب لوگ وہ ہیں، جو زندگی ہی میں اپنے نامۂ اعمال کو عِلّیّین میں دیکھتے ہیں (۸۳: ۲۱) ۔

یہ ایک بہت بڑا سوال ہے کہ علّییّن کیا ہے، تاہم حکمتِ قائمی کی روشنی میں معلوم ہوا ہے کہ اس سے زندہ بہشت مراد ہے، یعنی عقلِ کل، نفسِ کُلّ، ناطقؐ اور اساسؑ کی وحدانیت، یا حظیرۂ قدس، یا بہشت برائے معرفت۔ درین صورت مُقرّب لوگ زندہ بہشت ہوچکے ہوتے ہیں، کیونکہ یہ مرتبہ فنا فی الامامؑ کے سوا ممکن ہی نہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

مورخہ  جمعہ  ۲۶  ۔ مئی  ۲۰۰۰ء

 

۱۵۱

 

قرآن اور فکرِ قرآن کی تعریف و توصیف

 

۱۔  اس جہان میں جبکہ قرآن کنزِ رحمان آگیا

رحمتوں اور برکتوں کا ایک طوفان آگیا

۲۔ بحرِ قرآن بحرِ گوہر زا ہے عُقَلاء کے لئے

تاکہ ہر عاقل یہاں سے اپنے دامن کو بھرے

۳۔  دین و دانش علم و حکمت فکرِ قرآنی میں ہے

راہِ جنت رازِ لَذّت فکرِ قرآنی میں ہے

۴۔  برکتیں ہی برکتیں ہیں فکرِ قرآن میں سدا

عاشقانِ فکر را گُو مرحبا صد مرحبا

۵۔  یہ دوائے ہر مرض ہے آزما کر دیکھ لے

دُور مت ہو جا عزیزا! اندر آکر دیکھ لے

 

۱۵۲

 

۶۔  چشمۂ لَذاتِ عقلی فکرِ قرآنی میں ہے

منبعِ نعماتِ روحی فکرِ قرآنی میں ہے

۷۔  تا نہ بُردی رنج ہا را کَی بیابی گنج را

عاقلان از فکرِ قرآن گنج ہا  را یافتند

۸۔  فکرِ قرآنی سے لذّت گیر ہونا ہے تجھے

جب نہ ہو ایسا تو پھر دلگیر ہونا ہے تجھے

۹۔  فکرِ قرآن ہے طریقِ کنزِ اسرارِ خدا

کنزِ اسرارِ خدا ہے گنجِ انوارِ خدا

۱۰۔  فکرِ قرآن علم و حکمت اور یہی ہے معرفت

مایۂ ایمان و ایقان فکرِ قرآنی میں ہے

۱۱۔  فکرِ قرآن ہے یقیناً کُلِّ کُلیاتِ عُلوم

ذرّۂ از علم و حکمت ہے نہیں باہر کہیں

۱۲۔  راحتِ روح میوۂ جان فکرِ قرآنی میں ہے

چشمہ سارِ علم و عِرفان فکرِ قرآنی میں ہے

 

۱۵۳

 

۱۳۔  فکرِ قرآن ہے تصّوف، اور اسی میں سائنس ہے

اور یہی ہے فیض بخشِ مکتبِ روحانی سائنس

۱۴۔  تو تہی دامن ہے اب تک اے نصیرِؔ بے نوا

جبکہ قرآن دُرّو مرجان کا سمندر ہے سدا

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۳۔ مئی  ۲۰۰۰ء

 

۱۵۴

 

آفاق و انفس (۴۱: ۵۳)

 

آیۂ شریفہ کا ترجمہ یہ ہے: عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں دکھلائیں گے، اور ان کی اپنی جانوں میں بھی تا اینکہ ان کے لئے ظاہر ہو جائے گا کہ یقیناً خداوندِ قدوس برحق ہے۔

اس آیۂ کریمہ سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو آفاق میں بھی اور انفس میں بھی اپنے معجزات دکھانا چاہتا ہے، یاد رہے کہ آیات کے معنی ہیں قدرت کی نشانیاں، نیز اس کے معنی ہیں معجزات، اب یہاں ایک سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ اللہ کسی عارف کو ظاہر و باطن کے معجزات کس طرح دکھاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حق تعالیٰ جس کو چاہے چشمِ بصیرت عطا فرماتا ہے، اور اس سے بڑھ کر حدیثِ نوافل کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے خاص بندوں کی آنکھ ہوجاتا ہے، ایسےمیں وہ ان تمام اسرار کو دیکھ سکتے ہیں جن کے بارے میں عوام کا وہم و گمان بھی نہیں ہو سکتا، آپ معجزۂ حدیثِ نوافل کو پڑھیں (عملی تصوّف اور روحانی سائنس، وغیرہ میں) ایسے میں عارفین کو درجۂ انتہا کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے، پس یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اللہ کسی عارف کو کس طرح آیات و معجزات دکھاتا ہے۔

ایک ایسی آیۂ کریمہ کو آپ سورۂ نمل کے آخر (۲۷: ۹۳) میں بھی پڑھیں،

 

۱۵۵

 

جس کا ترجمہ یہ ہے: اور کہہ دو ہر قسم کی حمد اللہ تعالیٰ کے لئے ہے، وہ عنقریب تمہیں اپنی آیات و معجزات دکھائے گا، پس تم ان کی معرفت حاصل کر سکو گے۔

اس سے معلوم ہوا کہ قرآنِ حکیم میں جہاں آیات کا ذکر آیا ہےان کا مقصد مشاہدہ ہے اور مشاہدے کا نتیجہ معرفت ہے، چنا نچہ دین کا مقصدِ اعلیٰ معرفت ہی ہے، پس اگر آپ چاہیں تو صرف لفظِ معرفت ہی سے بحث کرتے ہوئے بہت سی حقیقتوں کو ثابت کر سکتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اپنے کسی دوست سے پوچھیں کہ دین کی سب سے اعلیٰ چیز معرفت ہے یا نہیں؟ وہ ضرور بولے گا ہاں معرفت ہے۔

آپ پوچھیں کیا معرفت ہر چیز کی ہے یا بعض چیزوں کی؟ دانا نہیں کہہ سکے گا کہ معرفت بعض چیزوں کی ہے اور بعض کی نہیں، کیونکہ جب ربّ کی معرفت ہے اور روح کی معرفت ہے تو پھر ایسی کونسی چیز ہوسکتی ہے جس کی معرفت ممکن نہ ہو۔ اس بحث کا نتیجہ یہ ہوا کہ معرفت ہی سب سے بڑی حکمت ہے، جس کے ترجمہ کے لئے روحانی سائنس کی اصطلاح بنائی گئی ہے اور اس سے عمدہ ترجمہ اور کیا ہوسکتا ہے۔

پس ہم آپ کی معلومات میں اضافہ کے لئے چند سوالات و جوابات کو یہاں درج کرتے ہیں، اوّل یہ کہ جب روح کی معرفت ممکن ہے اور ربّ کی معرفت بھی ممکن ہے تو بتائیں کائنات کی معرفت ممکن ہے یا نہیں؟ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کائنات اور اس کے اجزاء کی معرفت ممکن نہیں ہے، جب کائنات کی معرفت ممکن ہے تو اس کی کیفیت اور افعال کی معرفت بھی ممکن ہے، جب وجودِ کائنات اور اس کے افعال کی معرفت ممکن ہے، تو اسی کے ساتھ روحانی سائنس کی معرفت بھی ثابت ہو جاتی ہے۔

 

۱۵۶

 

نیز یہ سوال بھی ہے کہ آیا دنیا ہی میں بحدِّ قوت بہشت موجود ہوسکتی ہے یعنی علمی و عرفانی بہشت؟ آپ کو اس کا مثبت جواب دینا پڑے گا، کیونکہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ دنیا میں جن کے پاس علم الیقین ہے وہ علم بہشت ہے، اب یہ سوال کرنا ہوگا کہ اس علمی بہشت میں ہر علمی خواہش کی تکمیل ہوسکتی ہے یا نہیں، جبکہ بہشت کا قانون یہ ہے کہ جس چیز کی بھی خواہش ہوتی ہے وہ چیز مل جاتی ہے۔

آپ نے دیکھا کہ ہم اس کُلیّہ کی طرف آ رہے ہیں اس سوال و جواب میں کہ NOTHING IS IMPOSSIBLE IN PARADISE  اور یہ ایک ایسا کُلیّہ ہے جس کا اطلاق کل کی بہشت پر بھی ہوسکتا ہے اور آج جو علمی بہشت ہے اس پر بھی، اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آگئی کہ اہلِ معرفت کے نزدیک روحانی سائنس ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

منگل  ۱۳  ۔ جون  ۲۰۰۰ء

 

۱۵۷

 

عوالمِ شخصی میں قدرتِ خدا کی نشانیاں / معجزات

 

بحوالۂ سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) : اور یقین کرنے والوں کیلئے زمین میں نشانیاں ہیں، اور خود تمہاری جانوں میں بھی، تو کیا تم نہیں دیکھتے ہو؟

اس ارشادِ قرآنی میں صاف طور پر ظاہر ہے کہ جو کچھ عالمِ ظاہر میں ہے وہی کچھ عالمِ شخصی میں بھی ہے، اور اس بیان میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ ہادئ برحق دنیائے ظاہر میں بھی موجود ہے، اور عالمِ شخصی میں بھی، پس کوئی بھی بڑی سے بڑی چیز ایسی نہیں جو ظاہر میں موجود ہو اور عالمِ شخصی میں نہ ہو، لیکن جس طرح ظاہری آیات و معجزات صرف یقین کرنے والے ہی دیکھ سکتے ہیں، بالکل اسی طرح باطنی معجزات کو بھی صرف یقین کرنے والے ہی دیکھ سکتے ہیں، اور معلوم ہے کہ یقین کے تین درجے ہیں: علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین ، پس قرآنِ پاک کی یہ حکمت انتہائی عظیم اور ہمہ گیر حکمتوں میں سے ہے، پھر مبارک ہیں وہ لوگ جو خود شناسی اور خدا شناسی کے لئے ہمیشہ سعی کرتے رہتے ہیں۔

ایک آیۂ شریفہ سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ نفسِ انسانی (روح) ایک آئینے کی مثال پر ہے، جس کو ہمیشہ پاک و صاف رکھنے کی ضرورت ہے، تاکہ انسان کو رُستگاری ملے، اور جو شخص اپنے آئینۂ روح کے زنگ آلود ہوجانے کی پرواہ نہیں کرتا، اور اسے اپنے گناہوں کے ڈھیر میں دفنا دیتا ہے تو وہ دین و

 

۱۵۸

 

دنیا میں نامُراد ہوجاتا ہے، دیکھو سورۂ شمس (۹۱: ۰۹ تا ۱۰) : یقیناً وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اپنی روح کو پاک کیا، اور وہ شخص نامُراد ہوگیا جس نے اسے گاڑ دیا۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۱۵ ۔ جون ۲۰۰۰ء

 

۱۵۹

 

روحانی سائنس پر سوالات

قسط:۱

 

س  ۱ : آپ عالمِ ذرّ کے بارے میں کچھ حکمتیں بیان کریں۔ عالمِ ذرّ کے لغوی معنی سمجھائیں۔

س ۲۔ عالمِ ذرّ پہلے ہے یا عالمِ شخصی؟

س  ۳۔ قرآنِ حکیم میں کہاں کہاں عالمِ شخصی کا ذکر آیا ہے؟

س  ۴۔ مولا علی علیہ السّلام کے کس ارشاد میں عالمِ شخصی کا ذکر فرمایا گیا ہے؟

س  ۵۔ صوفیوں کی اصطلاح میں عالمِ صغیر ہے، ہماری اصطلاح میں عالمِ شخصی ہے، آیا ان دونوں اصطلاحوں میں کوئی فرق و تفاوت ہے؟

س  ۶: عالمِ کبیر کس عالم کا نام ہے؟ اور یہ کس علم کی اصطلاح ہے؟

س  ۷: انسانی بدن کے اعتبار سے آسمان کہاں ہے؟ اور عالمِ بالا کہاں ہے؟ کیا عالمِ عُلوی اور عالمِ بالا میں کوئی فرق ہے؟

س   ۸: حظیرۂ قدس کے لفظی معنی کیا ہے؟ اور یہ کہاں ہے؟

س   ۹: حضرتِ آدم علیہ السّلام کو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کونسا علم سکھایا تھا ؟ علم الاسماء کا دوسرا نام کیا ہے؟

س  ۱۰: حضرتِ آدم علیہ السلام کس معنیٰ میں خلیفۃ اللہ تھا؟

س  ۱۱: اللہ کی صفت جب حَیٌّ لَایَمُوت ہے یعنی وہ ہمیشہ زندہ ہے اور کبھی

 

۱۶۰

 

مرتا نہیں، پھر اس نے اپنا ایک جانشین کیوں بنایا؟

س  ۱۲: حضرتِ آدم علیہ السّلام کے پاس اللہ کی طرف سے کیا کیا عہدے تھے؟

س   ۱۳: علمِ تصوّف کے اعتبار سے یقین کے کتنے درجے ہیں؟

س  ۱۴: یقین اور معرفت کے درمیان کیا فرق ہے؟

س  ۱۵: عین الیقین پہلے آتا ہے یا علم الیقین؟

س  ۱۶: تصوّف میں فنا فی اللہ کی منزل کب آتی ہے؟

س   ۱۷: عاشق کا درجہ بڑا ہے یا عارف کا؟

س   ۱۸: خود شناسی سے کس طرح ربّ شناسی ہوسکتی ہے؟

س  ۱۹: انسان کے لئے خود شناسی ممکن ہے اور خدا شناسی بھی ممکن، کیا اسی طرح سے قرآن شناسی بھی ممکن ہے؟ اگر ہے تو وہ کسی طرح؟

س  ۲۰: معرفت کے معنی پہچان کے ہیں اور کسی چیز کی پہچان اس چیز کو دیکھے بغیر نہیں ہوسکتی ہے، تو کیا روح اور ربّ کا مشاہدہ یا دیدار ہوسکتا ہے؟ اگر ہوسکتا ہے تو کس آنکھ سے؟

س  ۲۱: تصوّف کی کتابوں میں موتوا قبل ان تموتوا کی حدیث پائی جاتی ہے، اگر یہ حدیث صحیح ہے تو جسمانی موت سے پیشتر کس طرح نفسانی موت واقع ہوتی ہے؟

س  ۲۲: کیا مولای روم  موتوا قبل ان تموتوا کے قائل تھے؟ کیا مثنوی میں یہ حدیث درج ہے؟

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعہ ۱۶ ۔ جون   ۲۰۰۰ء

 

۱۶۱

 

روحانی سائنس پر سوالات

قسط: ۲

 

س  ۲۳ : عالمِ شخصی میں کوہِ طور کی مثال کہاں ہے؟ اور آسمان کی مثال کہاں ہے؟

س  ۲۴: قرآنِ حکیم میں عالمِ ذرّ کا ذکر کہاں کہاں مل سکتا ہے؟

س  ۲۵: اگر مادّی سائنس کی بنیاد تجربہ پر قائم ہے، تو کیا روحانی سائنس کا بھی تجربہ ہوسکتا ہے؟

س  ۲۶: کیا روحانی سائنس میں بھی مشاہدہ اور تجربہ ضروری ہے؟

س  ۲۷: کیا آیۂ آفاق و انفس میں مادّی سائنس اور روحانی سائنس کا ذکر موجود ہے؟

س  ۲۸: کیا مادّی سائنس کے آخری درجہ میں روحانی سائنس کا انکشاف ہونے والا ہے؟

س  ۲۹: کیا جسمانی دور کے بعد روحانی دور کا آغاز ہونے والا ہے؟

س  ۳۰:  کیا یہ درست ہے کہ انسان کیلئے ایک لطیف جسم بھی مقرّرہے؟

س  ۳۱: کیا یہ سچ ہے کہ پاکستان کے ایک دانشور نے آپ کی کتاب کتابُ العلاج کی بہت تعریف کی ہے؟

جواب: کتاب العلاج کی تعریف پاکستان کے بہت سے دانشوروں

 

۱۶۲

 

نے کی ہے، بلکہ وفاقی وزیروں نے بھی زبردست تعریف فرمائی ہے، یہ تذکرہ بہت طویل ہے کہ کن کن اشخاص نے کتابُ العلاج کو سراہا ہے۔

س   ۳۲: آیا روحانی سائنس کی روشنی میں بہت سی چیزوں کا مشاہدہ ہوچکا ہے؟

س  ۳۳: آپ نے پی ٹی وی کے انڑویو میں ایک روحانی غذاکا ذکر کیا تھا وہ کونسی غذا ہے؟

س  ۳۴: آپ نے لکھا ہے کہ روحانی سائنس میں غذائے لطیف کا انکشاف ہوسکتا ہے، آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ غذائے لطیف کا انکشاف سب سے پہلے انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کو ہوچکا تھا، کیا یہ درست ہے؟

س  ۳۵:  کیا یہ درست ہے کہ روحانی سائنس کی طرف جانے کا راستہ صراطِ مستقیم اور عاجزی و گریہ وزاری ہے؟

س  ۳۶: روحانی سائنس اور ریاضت کا کیا تعلق ہے؟

س  ۳۷: ایسا لگتا ہے کہ آپ حدیثِ نوافل کے عاشق ہیں، اس میں کیا راز ہے؟

جواب : سب سے عظیم راز تو اسی میں ہے۔

سوال  ۳۸: کیا روحانی سائنس کے مشاہدہ اور تجربہ کے لئے کثرت سے اللہ کا ذکر ضروری ہوتا ہے؟

جواب: جی ہاں۔

س  ۳۹: قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کی وہ بے مثال کتاب ہے جس میں ہر چیز کا بیان ہے، کیا اس کتابِ حکیم میں مادّی سائنس اور روحانی سائنس کا بھی ذکر ہے؟

 

۱۶۳

 

س  ۴۰: کیا آپ کے خیال میں روحانی دور میں روحانی سائنس کی ضرورت ہوگی، جس طرح مادّی دور میں مادّی سائنس کی ضرورت ہوتی ہے؟

جواب: جی ہاں، ضرور۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعہ ۱۶۔ جون  ۲۰۰۰ء

 

۱۶۴

 

روحانی سائنس پر سوالات

قسط:۳

 

س ۴۱: قرآنِ حکیم (سورۂ فاتحہ) کے آغاز میں لفظِ عالمین آیا ہے، اس سے کیا مراد ہے؟

س ۴۲: خدا کی طرف سے مخلوقات کے لئے جو پرورش ہے وہ کتنی قسم کی ہوتی ہے؟ اور ان میں سب سے اعلیٰ پرورش کونسی ہے؟ اور سب سے نچلے درجے کی پرورش کونسی ہے؟ اور درمیانی درجہ کی پرورش کونسی ہے؟

س ۴۳: انسان کتنی قسم کی پرورش کا محتاج ہے؟

س ۴۴: اللہ تعالیٰ کا وہ اسمِ صفاتی کونسا ہے جس میں پرورش کے معنی ہیں؟

س ۴۵: اللہ تعالیٰ کا ایک نام خالق یا خلّاق ہے، ایسے میں انسان کا کیا نام ہے؟ اور اللہ کا ایک اسمِ صفت ربّ ہے ایسے میں انسان کا نام کیا ہے؟

س ۴۶: اللہ کا ایک نام ھادی ہے، اور رسولؐ کا نام بھی ھادی ہے، اور امامؑ کو بھی قرآن ھادی کہتا ہے، آپ یہ بتائیں کہ اس میں کیا فرق ہے؟

س ۴۷: شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت، اس میں تصوّف کا مقام کہاں ہے؟

س ۴۸: مومن اور مؤقن میں کون آگے ہے؟ اور کون پیچھے؟

سوال ۴۹: سالک، عاشق، اور عارف کیا یہ ترتیب صحیح ہے یا اس میں کچھ فرق ہے؟

 

۱۶۵

 

س ۵۰: مَسلک، مذہب ، اور دین میں کیا فرق ہے؟

س ۵۱: قرآن میں دیکھ کر بتائیں کہ مِنھاج کا کیا مطلب ہے؟

س ۵۲: فنا کے کتنے درجے ہیں؟

س ۵۳: دلوں کو اطمینان کس دوا سے ملتا ہے؟

س ۵۴:  طِبِّ الٰہی میں غُصّہ کا علاج کیا ہے؟ اور خوفِ بے جا کا کیا علاج ہے؟

س ۵۵: سورۂ مُزّمل کی روشنی میں جواب دو کہ شب بیداری سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے؟

س ۵۶: آپ یہ بتائیں کہ کائنات کسی بڑی طاقت کی کشش میں ہے یا کسی بڑی روح کی گرفت میں؟

س ۵۷: نفسِ کُلّی کے کچھ نام بتائیں۔

س ۵۸: سورج کا وجود ایک بنی بنائی چیز ہے یا ایک دائمی سلسلہ؟

س ۵۹: تجدّدِ امثال کے چند نمونے بتائیں۔

س ۶۰ :چیزوں کو پرکھنے اور جاننے کے کیا کیا معیار ہیں؟

س: ۶۱: اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کی کوئی مادّی مثال ہوسکتی ہے؟

س ۶۲: اس کے کیا معنی کہ خدا کی کرسی نے آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے (۰۲: ۲۵۵)؟ کرسی سے کیا مراد ہے؟ آیا اللہ کی کرسی مادّی ہے یا روحانی؟ اگر مادّی ہے تو کونسی چیز ہے؟

جواب: اللہ کی کرسی نفسِ کُلّی ہے، اس کا دوسرا نام عالمگیر روح ہے، اس سے یہ معلوم ہوا کہ کائنات عالمگیر روح کی گرفت میں ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۱۷ ۔ جون  ۲۰۰۰ء

 

۱۶۶

 

روحانی سائنس پر سوالات

قسط:۴

 

س۶۳: آیا یہ حقیقت ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر چیز کی روح ہوتی ہے، یہاں تک کہ جن چیزوں کو جمادات کہتے ہیں ان میں بھی اپنی نوعیت کی ایک روح ہے؟

جواب: جی ہاں۔

س ۶۴:  آپ نے کہا تھا کہ معدنیات کی روح ہوتی ہے، اور ایک دفعہ آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ایک خاص پتھر توڑا گیا تھا، اس میں سرخ سرخ نقطے نظر آتے تھے، جو یاقوت کی روح  کے ابتدائی کام کے نشانات تھے، اس کے علاوہ آپ نے ایک دفعہ سنگِ بلور کو توڑ کر دیکھا تھا اس میں آپ نے ایک گاڑھا مادّہ دیکھا تھا، جس سے پتا چلتا تھا کہ سنگِ بِلور اُسی مادّے سے بنتا ہے، اور یہاں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے ایک ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی کوئی چیز یا کوئی ذرّہ روح سے خالی نہیں، آیا یہ حقیقت ہے؟

س ۶۵: آپ نے روح پر ایک کتاب لکھی ہے، کیا یہ کتاب روحانی تجربات کی روشنی میں ہے یا مختلف کتابوں سے اقتباس ہے؟

 

۱۶۷

 

جواب: یقیناً یہ روحانی تجربات کی روشنی میں ہے، اور اس میں قرآن اور روحانیّت کے سوا کسی کتاب کا کوئی حوالہ نہیں۔

س ۶۶: کتاب روح کیا ہے؟ کے بارے میں آپ کی کیسی اُمیدیں ہیں؟

جواب: اس کے بارے میں میری اُمید یہ ہے کہ کوئی بڑا اسکالر اس پر اپنی THESIS لکھے گا، اور آگے چل کر اس کتاب کی اہمیت عقل والوں پر ظاہر ہو جائے گی، اور اہلِ دانش پر ظاہر ہو جائے گا کہ اس کتاب میں روح شناسی کے بڑے بڑے اسرار ہیں۔

س ۶۷: کیا مستقبل میں ظاہری سائنسدان بھی روح شناسی کی طرف آ جائیں گے؟

جواب: جی ہاں، یقیناً مادّی سائنس کا رُخ بھی روحانی سائنس کی طرف ہے، اور آیۂ آفاق و انفس میں غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ ایک دن سائنسدان اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ مادّی سائنس بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اور وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی ہستی کے لئے قائل ہو جائیں گے، اور اس آیت کا خطاب خصوصاً سائنسدانوں سے ہے، کیونکہ اس میں سَنُرِیْھِم ہے، جبکہ دوسری آیت میں سَنُرِیْکُم میں مسلمانوں سے خطاب ہے، قرآنِ حکیم کے بیان کا یہی معجزہ ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت کا خطاب کن لوگوں سے ہے۔

س ۶۸: قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے کہ روح پروردگار کے امر سے ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب : اس کا یہ مطلب ہے کہ روح عالمِ امر سے عالمِ خلق میں سورج کی کرنوں کی طرح آئی ہے۔

 

۱۶۸

 

س ۶۹: عالمِ خلق اور عالمِ امر میں کیا فرق ہے؟

جواب: عالمِ خلق یہ جہان ہے جس میں کسی چیز کے وجود میں آنے کے لئے وقت لگتا ہے، اس کے برعکس عالمِ امر میں جب بھی اللہ کسی چیز کو ہوجا فرماتا ہے، یا صرف ایسا ارادہ فرماتا ہے، اسی کے ساتھ وہ چیز موجود ہوجاتی ہے۔

س ۷۰: عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایک شخص میں ایک جان ہے، آیا یہ بات درست ہے یا اس کی حقیقت کچھ اور ہے؟

جواب: ایک شخص میں بے شمار روحوں کے لئے جگہ ہے، اگر ان سب کی وحدت کو لی جائے تو ایک جان کہلا سکتے ہیں، ورنہ ایک روح کی بیشمار کاپیاں ہوسکتی ہیں، جبکہ ایک شخص بحدِ قوّت عالمِ شخصی کہلاتا ہے، جس میں پوری کائنات کیلئے جگہ ہے۔

س۷۱: آپ صوفیائے کرام میں سے کس صوفی کے قول کو روحانی سائنس میں سند کا درجہ دیتےہیں؟

جواب : میں مولای روم کو صوفیٔ اعظم تسلیم کرتا ہوں، جس کے اقوال میں روحانی سائنس بھری ہوئی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

اتوار  ۱۸۔ جون  ۲۰۰۰ء

 

۱۶۹

 

روحانی سائنس پر سوالات

قسط:۵

 

س ۷۱: مولای روم کا شعر ہے:۔

گنجِ نہانی طلب از دل و از جانِ خویش

تا نہ شوی بے نوا بر درِ دُکانِ خویش

ترجمہ: گنجِ مخفی کو اپنے دل اور اپنی جان سے حاصل کر لے، تاکہ تو اپنی دُکان کے دروازہ کے سامنے بھیک مانگنے والا بن کر نہ بیٹھے، یعنی تیرے دل اور تیری جان میں گنجِ مخفی موجود ہے اُس کو حاصل کر لے، تاکہ مفلسی کی یہ نوبت نہ آئے کہ تواپنی مُقفّل دُکان کے سامنے سوالی بن کر بیٹھ جائے ۔ آپ یہ بتائیں کہ مولای روم کے اس شعر کا روحانی سائنس سے کیا تعلق ہے؟

جواب: اس شعر کا روحانی سائنس سے یہ تعلق ہے کہ ہر انسان کے دل و جان میں گنجِ مخفی موجود ہے، جس میں روحانی سائنس کے سارے سامان موجود ہیں، اگر آدمی علم و حکمت کے اس پوشیدہ خزانہ کو اپنے دل و جان سے حاصل نہیں کرسکتا ہے ، تو اسکی مثال یہ ہوتی ہے جیسے کسی شخص کی بہت بڑی قیمتی دُکان کی چابی گُم ہوگئی ہے، جس کو کھولا نہیں جاسکتا ،

 

۱۷۰

 

اور وہ شخص مفلس ہوگیا ہے، اُسی گلی اور اُسی دُکان کے سامنے بیٹھ کر لوگوں سے بھیک مانگ رہا ہے، حالانکہ اس کی دُکان میں سب کچھ تھا، مگر اس نے چابی گم کر دی، اب اس شخص کو دُکان سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا، جس کی وجہ سے وہ اُسی گلی اور اسی دُکان کے سامنے بیٹھ کر آنے جانے والوں سے بھیک مانگتا ہے۔

س۷۳: مولای روم نے کہا ہے:۔

ما آمدہ نیستیم این سایۂ ماست

ترجمہ: ہم دراصل بہشت سے آئے ہوئے نہیں ہیں، بلکہ یہ ہماری ظاہری ہستی بہشت کی ہستی کا سایہ ہے، اس کے بارے میں آپ کیا خیال ہے؟

جواب: مولای روم کا یہ قول حقیقت ہے، اور ہمارا نظریہ بھی یہی ہے۔

س۷۴: کیا مولای روم نے اس حقیقت کا مشاہدہ کیا تھا؟

جواب: یقیناً انہوں نے اس حقیقت کا مشاہدہ کیا ہوگا۔

س ۷۵: کیا علم الیقین سے شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے؟

جواب: جی ہاں، یقیناً اس سے شکوک و شبہات کا ازالہ ہوجاتا ہے۔

س ۷۶: کیا یہ ایک تجربہ اور حقیقت ہے؟

جواب: جی ہاں، اس کا تجربہ ہر شخص کو ہوسکتا ہے۔

س ۷۷: عین الیقین کا دوسرا نام کیا ہے؟

جواب: چشمِ باطن۔

س ۷۸: کیا حواس صرف ظاہر میں ہیں یا باطن میں بھی ہیں؟

جواب: حواس ظاہر میں بھی ہیں اور ان جیسے حواس باطن میں بھی ہیں۔

 

۱۷۱

 

س ۷۹: حدیثِ شریف میں ہے کہ آنحضرتؐ نے اپنے پروردگار کا دیدار کیا تھا؟ یہ پاک دیدار آپ کو کس آنکھ سے ہوا تھا؟

جواب: دل کی آنکھ سے آنحضرتؐ کو پروردگار کا دیدار ہوا تھا۔

س ۸۰: ایک شخص نے مولا علی علیہ السّلام سے سوال کیا تھا: کیا تم نے اپنے ربّ کو دیکھا ہے کہ جس سے تم نے اس کو پہچان لیا؟ اس کے لئے مولا علیؑ نے کیا جواب دیا تھا؟

جواب: مولا نے فرمایا: میں نے ایسے ربّ کی عبادت نہیں کی جس کو میں نے نہیں دیکھا ہو ( بحوالۂ کوکبِ درّی ، بابِ پنجم ، منقبت ۵، ص ۳۲۴)

س ۸۱: کیا دنیا میں بہشت کی پہچان ممکن ہے؟

جواب: جی ہاں، اگر آج دنیا ہی میں بہشت کی پہچان نہ ہو، تو کل بہشت کا ملنا ناممکن ہے، بحوالۂ (۱۷: ۷۲)۔

س ۸۲: عالمِ شخصی میں بہشت برائے معرفت کونسی ہے؟

جواب: حظیرۂ قدس ہے۔

س ۸۳: اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام “الحکیم” ہے، اور قرآن کے ناموں میں سے بھی ایک نام “الحکیم” ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب: اسکی وجہ یہ ہے کہ الحکیم اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفاتی میں سے ہے، اور قرآن اللہ کا کلام ہے، جیسے المُھَیْمِن اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہے، جس کے معنی ہیں نگہبان اور محافظ، اور اللہ نے اپنی کتاب کو بھی یہ نام دیا، کیونکہ یہ کتاب اگلی تمام کتابوں کی نگہبان اور تمام علوم کی محافظ ہے۔ خدا جس چیز کو چاہے مٹاتا ہے اور جس چیز کو چاہے باقی رکھتا ہے، بحوالۂ سورۃ الرّعد (۱۳: ۳۹) اس قرآنی سائنس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ

 

۱۷۲

 

اللہ کائنات کی جس چیز کو چاہے مٹاتا ہے اور جس چیز کو چاہے باقی رکھتا ہے، اور اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ نے کتنے ستاروں کو مٹایا ہے اور کتنے ستاروں کو باقی رکھا ہے، اور اس کے پاس ایسے ستاروں کو پیدا کرنے کی قدرت و قوّت موجود ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہےکہ خدا جب چاہے گا سورج کومٹائے گا اور پھر ایسا ایک اور سورج پیدا کرے گا، کیونکہ “اس کے پاس اصل کتاب موجود ہے” سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اُمّ الکتاب میں سب کچھ موجود و محفوظ ہے، ایک ایسی عظیم الشّان آیت کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ ہے، یعنی ہر چیز ہلاک ہوجانیوالی ہے سوائے وجہ اللہ کے۔

وجہُ اللہ سے وہ نمائندۂ خدا مراد ہے، جو مظہرِ عجائب و غرائب ہے ، اس آیت سے کائنات کی کوئی چیزمستثنٰی نہیں ہوسکتی ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ کائنات کی ہر چیز کو خدا مٹا کر ازسرِ نو بنائے گا، تاکہ اس کی قدرت و صناعیت کا ثبوت ملے ، اور اس آیت کے مطابق ہر چیزایک بار فنا ہوکر ازسرِ نو پیدا ہوجائے گی، جس طرح انسان اشرف المخلوقات ہے اور اس پر خدا کے قوانین مرتب ہوجاتے ہیں کہ خدا انسان کو ایک بارموت دے کر پھر اس کو زندہ کرتا ہے، اسی طرح کائنات کی بڑی بڑی چیزوں کو یہاں تک کہ خدا کائنات کو بھی مٹا کر ازسرِ نو پیدا کرسکتا ہے، اور یہ قرآنی سائنس ہے جو سب سے بڑی سائنس ہے اور مادّی سائنس اس قانون کے تحت آ جاتی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

اتوار ۱۸۔ جون  ۲۰۰۰ء

 

۱۷۳

 

روحانی سائنس پر سوالات

قسط:۶

 

س ۸۴: آسمان زمین سورج، چاند، ستارے، اور سیّارے کس معنیٰ میں خدا کے معجزات اور اسکی قدرت کی نشانیاں قرار پاتے ہیں؟

جواب: اس معنیٰ میں کہ خدا نے ان میں سے ہر ایک چیز کو پیدا کیا ہے، اور اسکی قدرت میں یہ ممکن ہے کہ وہ اسکو مٹائے اور پھر سے اس کو زندہ کرے، اس معنٰی میں تمام چیزیں قدرتِ خدا کی نشانیاں قرار پاتی ہیں۔

س ۸۵: قرآنِ حکیم میں سورج کو روشن چراغ کہا گیا ہے، اس میں کیا حکمت ہے؟

جواب: اس میں یہ حکمت ہے کہ سورج یقیناً ایک چراغ کی طرح ہے کہ اس میں کائنات کی ہر طرف سے ایندھن پڑتا رہتا ہے، جس سے روشنی پیدا ہوتی رہتی ہے، اور خدا کی قدرت سے بعید نہیں کہ ایک دن اس چراغ کی عمر تمام ہو جائے، اور اسکی جگہ پر ایک نئے چراغ کو روشن کیا جائے، کیونکہ خدا کی ساری خدائی میں سلسلۂ تجدّد ہمیشہ سے جاری ہے، جیسا کہ ارشاد ہے کہ کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ کہ سورج تمام ہلاک ہونے والی چیزوں میں سے ہے، اور خدا وہ قادرِ مطلق ہے جو ہمیشہ چیزوں کو بناتا بھی ہے اور مٹاتا بھی۔

س ۸۶: کیا قرآنِ حکیم میں آسمانوں اور زمین کی عمر کا اشارہ بھی موجود ہے؟

 

۱۷۴

 

جواب: جی ہاں، بحوالۂ سورۂ ہود (۱۱: ۱۰۸)۔

س ۸۷: کیا یہ امرممکن ہے کہ کبھی خدا آسمان اور زمین کو مٹائے؟ پھر کیا ہوگا؟

جواب: جی ہاں، ممکن ہے، مگر پھر خداوندِ تعالیٰ ایک نئے آسمان اور ایک نئی زمین کو پیدا کرے گا، بحوالۂ عَطَأءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ (۱۱: ۱۰۸) کیونکہ اس میں یہ حکمت ہے کہ خدا آسمان و زمین کو ختم تو کرے گا، لیکن مومن کے اجروصلہ کو ختم نہیں کرے گا، اس لئے ایک نئے آسمان اور زمین کو پیدا کرے گا۔

عَطَأءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ ایک کُلّیّہ یعنی کلیدی حکمت ہے کہ خدا کی بخشش منقطع نہیں ہوتی، لیکن آسمان کی عمر ہے ، اور وہ ختم ہوسکتی ہے، اور جب آسمان کی عمر ختم ہوجائے گی تو خدا اس کو ختم تو کرے گا، مگر جن پر بخشش کی ہے اس بخشش کو منقطع کرنا نہیں چاہے گا، اس لئے ایک نئے آسمان اور زمین کو پیدا کرے گا، اگر سورج کو ختم کرے گا تو ایک نئے سورج کو پیدا کرے گا، یہ قرآنی سائنس ہے، جو مادّی سائنس سے بہت بالاتر ہے کہ مادّی سائنس کے مطابق سورج ختم تو ہوجائےگا، اور اسی کے ساتھ STOP  ہے، حالانکہ ایسا نہیں، یہ آسمان و زمین کی عمر کی بات ہوئی۔

س۸۸: آیا یہ بھی ممکن ہے کہ زمین پر جو سمندر ہے اس کو خدا ختم کرلے؟

جواب: جی ہاں، ممکن ہے بحوالۂ سورۂ مومنون (۲۳: ۱۸)۔

س ۸۹: اگر اللہ اپنی قدرت دکھانے کیلئے زمین پر سے سمندر کو بھی ختم کر لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں کیا ہوگا؟

جواب: ظاہر ہے کہ ہر قسم کی نباتات ختم ہوجائے گی اور حیوانات ختم ہو جائیں

 

۱۷۵

 

گے، اور پھر انسان بھی مرنے لگیں گے، اور دنیا میں بہت بڑا زبردست قحط پڑے گا، جس سے سارے انسانوں کے ختم ہوجانے کا امکان ہوگا۔

س ۹۰: کیا ایسے میں انسانوں کے بچنے کا کوئی امکان ہے؟

جواب:جی ہاں، اگر خدا چاہے تو کیوں نہیں، بچنے کا امکان ہے، اس لئے کہ ہوا میں ایک روحانی غذا ہے، جس کا تجربہ انبیاء و اولیاء کو ہوچکا ہے، اور عارفوں نے بھی اس کا تجربہ کر لیا ہے، لیکن وہ ہمیشہ استعمال ہونے والی چیز نہیں ہے، صرف ایک مختصر وقت کے لئے معجزاتی طور پر ہے، تاہم خدا اگر چاہے اور لوگ بھی اس کے قابل ہوجائیں تو خدا کے حکم سے یہ غذا عام ہوسکتی ہے، اور اگر خدا کی مرضی نہیں تو پھر یہ ممکن نہیں ہے، ہم نے اس کی وضاحت کتاب “میزان الحقائق” میں بھی کی ہے۔

س ۹۱: کیا روحانی غذا کا کوئی اشارہ قرآنِ حکیم کی کسی آیت میں موجود ہے؟

جواب: جی ہاں، بحوالۂ سورۂ مومنون (۲۳: ۵۱) اور سورۂ اعراف (۰۷: ۱۶۰)۔

س ۹۲: کیا آپ اس کی کچھ وضاحت کر کے ہم کو بتا سکتے ہیں کہ روحانی غذا کی کیا خصوصیات ہوتی ہیں؟

جواب: وہ ہرچیز کا ایک روحانی جوہر ہوتا ہے، جو خوشبو کی صورت میں آتا ہے، اور عارف کی ناک سے داخل ہو کر سارے جسم میں  Energy  کا کام کرتا ہے، اس تجربہ کےلئے مراحلِ روحانیّت میں سے ایک خاص مرحلہ ہوتا ہے، اس سلسلہ کی ایک عظیم الشّان آیت اور ہے: سورۂ واقعہ ( ۵۶) آیت ۸۹ (۵۶: ۸۹)۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

اتوار  ۱۸ ۔ جون  ۲۰۰۰ء

 

۱۷۶

 

ایک انتہائی عجیب و غریب قرآنی سائنس

 

سورۂ رعد (۱۳: ۰۲): اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا = وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو غیر محسوس اور غیر مرئی ستونوں پر قائم کیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی کرسی نے تمام آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے (۰۲: ۲۵۵)۔ یہ حقیقت ایسی ہے، جیسے اَللّٰہُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کا تصوّر ہے، کہ جملہ کائنات نفسِ کُلّی کے بحرِ نور میں مستغرق ہے، جسکی وجہ سے تمام اَجرامِ فلکی اور ذرّاتِ عالم میں انفرادی روحیں موجود ہیں، جیسا کہ حکیم پیر ناصر خسرو کا ارشاد ہے:۔

گرِفتہ ہر یکے عقلے و جانے

بکارِ خویشتن ہر یک جہانے

ترجمہ: سیّاروں اور ستاروں میں سے ہر ایک کو ایک عقل اور ایک جان حاصل ہے، تاکہ وہ اپنا کام کرسکے ( بحوالۂ روشنائی نامہ)۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

منگل ۲۰۔ جون  ۲۰۰۰ء

 

۱۷۷

 

قرآنی قِصّوں میں عظیم حکمتیں

 

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ قرآنِ حکیم کا ہر قصّہ عظیم حکمتوں سے لبریز ہے، پس اللہ تعالیٰ کی اس پاک و بے مثال کتاب میں کوئی بھی قصّہ صرف برائے قصّہ نہیں، بلکہ زیادہ سے زیادہ بغرضِ حکمت ہے، چنانچہ سورۂ یوسف (۱۲: ۹۳) میں جہاں پیراہنِ یوُسفؑ کا ذکر آیا ہے، وہاں سفرِ روحانیّت کی منزل خوشبو کی نشاندہی ہے کہ یہ منزل ابتدائی نہیں، درمیانی بھی نہیں، بلکہ آخری ہے، جہاں جُثّۂ ابداعیہ سے ملا قات ہوتی ہے، جس کے ناموں میں سے ایک نام پیراہنِ یُوسفی ہے، منزلِ خوشبو صرف ہماری اصطلاح ہے، لہٰذا بفضلِ خدا اس کی مدد سے بہت سی حکمتیں بیان میں آسکتی ہیں، ان شاء اللہ ۔

سورہ ۱۵ آیت ۲۱ کو بار بار غور سے پڑھو اور بڑی عاجزی سے دعا کرو، تاکہ راز کھل جائے، یہ آیۂ شریفہ قانونِ خزائن ہے، پس اللہ تعالیٰ کے خزائنِ غیب میں ہر چیز موجود ہے، اللہ کے ان خزانوں میں بصورتِ خوشبو خوب انرجی (ENERGY) والی غذائیں بھی ہیں، بزرگانِ دین کا قول ہے:

اَلْجُوعُ طَعَامُ اللّٰہِ یعنی سالک کی بھوک اللہ کی طرف سے کھانا

 

۱۷۸

 

ہے، کیونکہ اس کے بعد ہی روحانی غذا کا معجزہ ہوتا ہے، جو مختلف خوشبوؤں کی شکل میں آتی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

بدھ ۲۱ ۔ جون  ۲۰۰۰ء

 

۱۷۹

 

اِمامؑ کی مقدّس مُحبّت

 

سوال:  برادرانِ یوسف حضرتِ یوسف علیہ السّلام سے کیوں دشمنی کرتے تھے؟

جواب: معلوم ہے کہ حضرتِ یعقوب علیہ السّلام اپنے چھوٹے فرزند حضرتِ یوسفؑ کو بے حد عزیز رکھتے تھے، جس کی وجہ سے برادرانِ یوسف نے حضرت یوسفؑ سے دشمنی کا سلوک کیا۔

ہم کو یہاں یہ باطنی راز ملتا ہے کہ پیغمبرؐ یا امامؑ اپنے فرزندوں میں سے جس فرزند کو بہت چاہتے ہیں، اس کی طرف نور آنے لگتا ہے، چنانچہ حضرتِ یعقوبؑ اپنے فرزند حضرتِ یوسفؑ کو اس لئے بہت زیادہ چاہتے تھے کہ نورِ امامت کو حضرتِ یوسفؑ میں منتقل ہوجانا تھا، اور منشائے الٰہی یہی تھا ، جس کے مطابق نور کی منتقلی ہوئی، اور یہی سُنّتِ الٰہی زمانۂ قدیم سے چلی آئی ہے، پس امامؑ کی محبت اور امامؑ سے محبت ایک معجزانہ پُل ہے، اس پُل سے امامؑ سے مریدوں کی طرف بہت سی رحمتیں اور برکتیں آسکتی ہیں، اور روحانی علم کا راستہ بھی یہی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۲۲۔ جون  ۲۰۰۰ء

 

۱۸۰

 

قرانِ حکیم میں سب سے اعلیٰ مثال

 

سوال: قرآنِ حکیم میں سب سے عظیم اور سب سے اعلیٰ مثال کونسی ہے؟

جواب: المِصبَاح (چراغ)۔ پہلی دلیل: کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نورِ اقدس کی تمثیل روشن چراغ سے دی گئی ہے (۲۴: ۳۵)۔

دوسری دلیل: نورِ محمدی کی مثال بھی روشن چراغ سے دی گئی ہے (۴۶:۳۳)۔

تیسری دلیل: سورج جو کائنات کا مادّی نور اور سب سے بڑا راز ہے اسکی تمثیل بھی ایک روشن چراغ سے دی گئی ہے (۷۸: ۱۳)، قرآنِ حکیم کے تین مقام پر سورج کو چراغ کا نام (سِراج) دیا گیا ہے، اس میں یہ اشارہ ہے کہ سورج کائنات کے وسط میں ایک انتہائی عظیم چراغ کی طرح کام کر رہا ہے، جس میں خود کار نظام کے مطابق ایندھن پڑتا رہتا ہے، اس مضمون پر میری تقریر بھی ہے، اور تحریر بھی۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۲۲۔ جون  ۲۰۰۰ء

 

۱۸۱

 

قرآنِ حکیم میں لفظِ نفس کس طرح آیا ہے؟

 

نفسِ امّارہ (۱۲: ۵۳) نفسِ لَوّامَہ (۷۵: ۲) نفسِ مُطمئنّہ (۸۹: ۲۷) نفسِ واحدہ (پانچ مقام پر)۔

نفس (جان = روح)۔ اے عزیزانِ من! اب آپ روحانی سائنس اور قرآنی سائنس کو علم الیقین کے طور پر حاصل کرو، ورنہ بہت بڑی ناشکری ہو گی، آپ پہلے کم از کم اس حکمت کا ایک مکمل کورس کرلو، پھر مظاہرہ کر کے دیکھو کتنی شہرت، عزّت اور نیکی حاصل ہوتی ہے؟ اس سلسلے میں لوگ آپ سے سوالات کریں گے، اگر آپ ٹھیک ٹھیک جوابات نہیں دے سکتے ہیں تو پھر اس کا منفی اثرپڑے گا، آپ خود سوچیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے؟

سورۂ قَصَص کے آخر (۲۸: ۸۸) میں دیکھو وجہُ اللہ کے سوا ہر چیز ہلاک (فنا) ہونے والی ہے، پس کائنات اور اس کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے اور خود اسی آیت میں سوال کا جواب بھی موجود ہے کہ وجہُ اللّٰہ ایک جدید کائنات کو پیدا کرے گا، اور یہ سب سے زبردست قرآنی سائنس ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۲۶ ۔ جون  ۲۰۰۰ء

 

۱۸۲

 

روحانی سائنس اور قرآنی سائنس

 

سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۴) :يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَا ۔۔ ترجمہ: وہ دن (بھی) یاد کرنے کے قابل ہے جس روز ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جس طرح لکھے ہوئے مضمون کا کاغذ لپیٹ لیا جاتا ہے (اور) ہم نے جس طرح اوّل بار پیدا کیا تھا اسی طرح اس کو دوبارہ پیدا کریں گے۔۔۔

منگل ۳۰ ۔ مئی ۲۰۰۰ء دانش گاہِ خانۂ حکمت کا زرّین دن تھا، جس میں روحانی سائنس کی انقلاب آفرین اصطلاح کا پہلی بار تعارف ہوا، اسی کے ساتھ ساتھ علّامہ ہونزائی کے دل میں جو قرآنی سائنس کی اصطلاح پوشیدہ طور پر موجود تھی، آخرکار بہت کچھ سوچنے کے بعد اس نے اس کو بھی ظاہر کیا، کیونکہ دونوں کی حقیقت اصلاً ایک ہی تھی، جبکہ روحانی سائنس کی ترجمانی قرآنی آیت سے کرنے میں لوگوں کے لئے آسانی ہوسکتی تھی۔ اَلْحمدُ لِلّٰہ۔

اس آیۂ پُرحکمت میں عارف کے لئے یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ موجودہ کائنات کو لپیٹ کر اس کی جگہ پر ایک جدید کائنات کو پیدا کرنے والا ہے اور اسکی مُفصل تاویل حظیرۂ قدس میں موجود ہے۔

یاد رہے کہ قانونِ تجدّد کا سلسلہ لاابتدا اور لاانتہا یعنی قدیم

 

۱۸۳

 

ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

منگل  ۲۷۔ جون  ۲۰۰۰ء

 

۱۸۴

 

اَحَسَنَ الحَدِیث

 

سورۂ زُمر (۳۹: ۲۳) میں اللہ تعالی کا پاک ارشاد ہے:۔  اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ۔

ترجمہ: اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے ، ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزا ہم رنگ ہیں، اور جس میں بار بار مضامین دُہرائے گئے ہیں، اسے سن کر ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے ربّ سے ڈرنے والے ہیں، اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوجاتے ہیں، یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ راہِ راست پر لے آتا ہے جسے چاہتا ہے۔

احسن الحدیث یعنی قرآنِ حکیم نیز اسمِ اعظم، کیونکہ وہ کئی باہم ملتے جلتے اسماء الحسنٰی کی صورت میں ہے، جس کے معجزانہ کثرتِ ذکر سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں، یہ خلیاتی ارواح کے بیدار ہوجانے کی علامت ہے، اور سارا بدن نرم ہوجانے کی وجہ بھی یہی ہے، ایسے میں ذکرِ الٰہی سے مختلف امراض کا علاج کیوں نہ ہو۔

آیۂ مذکورۂ بالا کے معجزات کا تعلق ان باسعادت لوگوں سے ہے، جو

 

۱۸۵

 

اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، تو پھر روحانی ترقی کے لئے خوفِ خدا کی کتنی سخت ضرورت ہے، اور خوفِ خدا کی شرط علم و حکمت ہے، جس کے بغیر خوفِ خدا کی حقیقی صورت نہیں بنتی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۲۹۔ جون  ۲۰۰۰ء

 

۱۸۶

 

خود گُو یا خود کاراسمِ اعظم

 

کیا آپ نے سورۂ فاطر کی آیتِ اوّل (۳۵: ۰۱) میں کبھی غور و فکر کیا ہے، اگر آپ اُس آیۂ شریفہ کی تاویلی حکمت کو جانتے ہیں تو بتا دیں کہ پیغام رسان فرشتوں اور دوسرے فرشتوں میں کیا فرق ہوتا ہے؟ آیا فرشتے پرندوں ہی کی طرح پردار بازو رکھتے ہیں؟ یا عظیم فرشتے اسماءُ الحسنٰی کی طاقت سے پرواز کرتے ہیں؟ آیا یہ اسماء دو دو، تین تین ، اور چار چار ہوتے ہیں؟ کیا ایسے اسمائے عِظام خود گُو اور خود کار ہوا کرتے ہیں؟ یا فرشتے زورلگاتے ہوئے ہمیشہ پڑھتے رہتے ہیں؟ آیا اسرارِ بالا کا مشاہدۂ روحانی، تجربہ اور معرفت ممکن ہے؟ یا مُحال؟

آپ تمام عزیزان انتہائی عاجزی سے دعا کریں! علم و حکمت اور اسرارِ معرفت کے لئے گریہ و زاری کریں!

اللہ تعالیٰ جب اپنے دوستوں کے لئے کنزِ مخفی کا دروازہ کھول دیتا ہے تو وہ معرفت کی لازوال دولت سے مالا مال ہوجاتے ہیں، اے عزیزان! آپ کے پاس ہر کتاب کے ظرف میں آبِ حیاتِ علم الیقین موجود ہے، اگر آپ اسے نوش نہیں کریں گے تو کیا یہ بہت بڑی ناشکری نہیں ہوگی؟

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۳۰۔ جون  ۲۰۰۰ء

 

۱۸۷

 

قرآنِ حکیم میں عقل و دانش اور علم و حکمت کی فضیلت و برتری کا بیان

 

قرآنِ عظیم اللہ تعالیٰ کی وہ معجزاتی اور بے مثال کتاب ہے جس میں ہر چیز کا بیان اس طرح سے ہے جس طرح کہ خداوندِ علیم و حکیم کے نزدیک ہونا چاہئے۔

پس سرتاسر قرآن میں عقل و دانش اور علم و حکمت کی تعریف دو طرح سے ہے، اعنی: یا براہِ راست ہے یا بالواسطہ۔

اگر مانا جائے کہ ہر اہم مضمون اسی طرح قرآن میں مبسوط ہے تو یہ قرآنِ پاک کے معجزات میں سے ہے، اور اسی طرح قرآن کے عقلی اور علمی معجزات بےشمار ہیں، کیونکہ قرآن علمی بہشت ہے، لہٰذا اسکی نعمتیں لامحدود ہیں، اور قرآنِ حکیم کی ایک خصوصیت یہ بھی ہےکہ یہ ایک ہی حقیقت کو طرح طرح کی مثالوں میں بیان فرماتا ہے، جس کی وجہ سے علمی نعمت میں بڑی فراوانی ہوتی ہے، اَلحمدُ لِلّٰہ۔

قرآنی مضامین کی معنوی وسعت کا ایک خاص سبب یہ بھی ہے کہ اس میں حکمتی مترادفات کی بھی بڑی کثرت پائی جاتی ہے، یہ مترادفات لغوی مترادفات سے الگ ہیں، جیسے صراط، ہادی، ہدایت، امام، نور، کتاب، عالم، علم، حکمت، عقل، عاقل، حکیم، رُشد، ربّانی، عارف، زکی ان تمام الفاظ کے معانی لغات میں الگ الگ ہیں، لیکن جوہرِ حکمت میں ان جملہ الفاظ

 

۱۸۸

 

کا مطلب ایک ہی ہے، پس قرآنی الفاظ کی حکمت میں بہت سے معانی جمع ہوتے ہیں، مثال کے طور پر : نور کے معانی پر غور کرو، اور بتاؤ کہ اس کے کیا کیا معنی ہوتے ہیں؟

 

والسّلام

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ یکم جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۱۸۹

 

تمام مومنین و مومنات کا سب سے بڑا مقدّس فریضہ

 

سورۂ تحریم (۶۶: ۰۶) کا ترجمہ : اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہونگے، جس پر نہایت تُندخو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہیں۔۔۔۔

اس آگ سے آتشِ جہالت و نادانی مراد ہے، جس نے دنیا کے لوگوں کی بہت بڑی اکثریت کو گھیر لیا ہے، کیا تم جانتے ہو کہ یہ کونسی جہالت ہے؟ ۔ جواب: حقیقی علم کا نہ ہونا، معرفت سے دوری، وسیلۂ حکمت سے محرومی، ہادیٔ برحق سے بیگانگی۔

حدیثِ شریف ہے: کُلُّکُم راعٍ و کُلُّکُم مسئولٌ عن رَّعِیَّتہِ۔ تم میں سے ہر ایک چرواہے کی مثال ہے، اور تم میں سے ہر ایک اپنی رعیّت کے بارے میں مسئول (جوابدہ) ہوگا۔

اے عزیزانِ من! آیا ہمیں زندگی ہی میں اپنے آپ سے یہ نہیں پوچھنا چاہئے کہ خدا اور رسولؐ کے احکامِ بالا پر ہم عمل کر چکے ہیں یا بھول گئے ہیں؟ اگر ہم نے اپنے اہل و عیال کو حقیقی علم سے آراستہ نہیں کیا ہے ، اور ہم جس رعیت کا چرواہا ہیں، اُس کو ضائع کر چکے ہیں تو پھر ہم کیا جواب دے سکیں گے؟

 

۱۹۰

 

یا اللہ ہمیں اپنے فرائض کی انجام دہی کی اعلیٰ توفیق عنایت فرما! رحم فرما! یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن، اللّٰھُمَّ اِنّی اَسٔلُکَ بِاَسْمَاءِ کَ الْحُسْنٰی، یَا حَیُّ یَاقَیُّومُ یَا ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ادِت ۲ ۔ جولائی ۲۰۰۰ء

 

۱۹۱

 

قرآنی سائنس پر سوالات

قسط:۱

 

س ۱: آیا یہ حقیقت ہے کہ کائنات بحرِ روح یا بحرِ نور میں مُستغرق ہے؟

س ۲: القابضُ الباسطُ کی تفسیر کائنات سے کرو۔

س ۳: قیامت برائے معرفت سے کونسی قیامت مراد ہے؟

س ۴: سورج کائنات کے کس مقام پر ہے؟ قرآن میں سورج کی مثال کسی چیز سے دی گئی ہے؟

س۵: آیا کائنات کا جسم ٹھوس ہے؟ یا مائع ہے؟ یا گیس؟

س ۶: چراغِ آفتاب کے لئے تیل کہاں سے آتا ہے؟

س ۷: کیا اللہ تعالیٰ نے سورج کو ایک خود کار چراغ بنایا ہے، جو اپنا ایندھن ہمیشہ خود بخود کائنات سے لیتا رہتا ہے؟

س ۸: کیا کبھی چراغِ آفتاب گُل ہو جائے گا؟

س ۹: کیا ہر چیز فنا ہونے والی ہے، سوائے وجہ اللہ کے؟

س ۱۰: آیۂ فطرت (۳۰: ۳۰) کا مطلب بتاؤ۔

س ۱۱: آیا اللہ کی سُنّت میں کبھی تبدیلی آتی ہے؟

س ۱۲: آیا کائنات اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے؟ یا اس کے نور کے سمندر میں ہے؟ یا غیر محسوس اور غیر مرئی ستونوں پر قائم ہے؟

 

۱۹۲

 

س ۱۳: جب عالمِ اکبر عالمِ شخصی میں لپیٹ لیا جاتا ہے تو وہ کثیف ہی رہتا ہے یا لطیف ہو جاتا ہے؟

س ۱۴: عالمِ شخصی کو کہاں لپیٹا جاتا ہے؟

س ۱۵: آیا کائنات کی کوئی بہت بڑی طاقتور رُوح ہے؟

س ۱۶: اللہ کی کرسی اور نفسِ کُلّ میں کیا فرق ہے؟

س ۱۷: قلم، لوح، جَدّ، فتح، خیال کے دوسرے نام بتاؤ؟

س ۱۸: نفسِ واحدہ اور آدمؑ میں کیا فرق ہے؟

س ۱۹: قریۂ ھستی سے کیا مراد ہے؟

س ۲۰: حقیقی مومن کے نامۂ اعمال اور امامِ زمانؑ میں کیا رشتہ ہوتا ہے؟

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۶۔ جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۱۹۳

 

قرآنی سائنس پر سوالات

قسط:۲

 

س ۱: آیا شمس و قمر عالمِ ظاہر، عالمِ دین، اور عالمِ شخصی تینوں میں ہیں؟

س ۲: وہ عالم کونسا ہے جس میں سورج، چاند اور ستارے سب ایک ہیں؟

س ۳: عالمِ شخصی کا وہ سب سے اعلیٰ مقام کونسا ہے، جس میں علم و حکمت کے خزائن موجود ہیں؟

س ۴: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا، قلم کو؟ یا عقل کو؟ یا نورِ محمّدیؐ کو ؟

س ۵: آپ قانونِ خزائن کے بارے میں کچھ بیان کریں۔

س ۶: کیا آپ نے اس قرآنی حکمت پر خوب غور کیا ہے کہ اللہ وہ قادرِ مطلق ہے جو خلق (کائنات = انسان) کو بارِ اوّل پیدا کرتا ہے پھر اس کا اعادہ کرتا ہے (۳۰: ۲۷)؟

جواب: خدا خلق کا اعادہ کرتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کائنات کو بار بار پیدا کرتا ہے، یہ مظاہرۂ قدرت اور کمالِ معرفت کی غرض سے ہے، آپ ع۔و۔د کے مادّہ کے تحت آیاتِ کریمہ میں غور سے دیکھیں، نیز مَثلِ اعلیٰ میں مشاہدہ ہوا ہے کہ کائنات بار بار غائب ہو جاتی ہے، اور بار بار ظاہر ہو جاتی ہے، حُکمائے قدیم کے نزدیک فنائے عالم کا راز انتہائی

 

۱۹۴

 

عظیم راز رہا ہے۔

س ۷: آیا آپ یقین کرتے ہیں کہ حضرتِ امامؑ کا علمی دیدار بھی ہے، کہ جس عارف کو امام علیہ السّلام کا پاک دیدار حظیرۂ قدس میں ہوتا ہے، تو اس کو یقیناً کنزِ معرفت حاصل ہو جاتا ہے؟

س ۸: عاشقانِ الٰہی کے لئے سب سے حسین، سب سے محبوب، اور سب سے پر کشش نام کونسا ہے؟

جواب: یہ ہے کنزِ مخفی جس میں سب کچھ ہے۔

س ۹: پس بتاؤ گنجِ مخفی میں کیا نہیں ہے؟ خوشی سے دیوانہ وار بولو، کیا نہیں ہے؟ کنزِ مخفی ! کنزِ مخفی! کنزِ مخفی! کبھی مدہوش ہوجاؤ، اور کبھی ہوش میں آؤ، بولو بولو، جو کنز خود خدا ہے اس میں کیا نہیں ہے؟

جواب: خدا کی قسم ! خدا میں سب کچھ ہے، یہ عارفون کا مشاہدہ اور تجربہ ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعہ ۷۔ جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۱۹۵

 

قرآنی سائنس پر سوالات

قسط:۳

 

س ۱: قرآنِ حکیم (۳۳: ۲۱) میں رسولِ پاکؐ کے اُسوۂ حسنہ (بہترین نمونۂ عمل) کا ذکر ہے جو ہر مسلم کے لئے ہے، مگر اس میں دو شرطیں ہیں، وہ کیا ہیں؟

س ۲: کیا آنحضرتؐ کے اُسوۂ حسنہ میں روحانی معراج بھی ہے، یا یہ اللہ کا ایک معجزہ ہے؟

س۳: آپ یہ بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں یا نہیں (۳۱: ۲۰)؟

جواب: اللہ کے اس ارشاد سے کون انکار کرسکتا ہے ، روحانی سائنس اور قرآنی سائنس کے ثبوت میں اگرچہ بہت سی آیاتِ کریمہ پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن اہلِ دانش کے لئے ان سب میں سے صرف ایک نمائندہ آیت کافی ہوسکتی ہے، اس آیۂ شریفہ کا ترجمہ یہ ہے: کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لئے مُسخّر کر رکھی ہیں، اور اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں (سورۂ لقمان، آیت ۲۰)۔

اس آیۂ شریفہ کے مطابق اہلِ ایمان کے لئے اللہ کی نعمتوں کی کوئی کمی

 

۱۹۶

 

نہیں، مگر بے شک انسان کے سوچنے اور سمجھنے کی کمی ہے، آپ یہ بات کبھی بھول نہ جائیں کہ روحانی اور قرآنی سائنس کا اصل فائدہ عقل و جان کے لئے خاص ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۷ ۔ جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۱۹۷

 

قرآنی سائنس پر سوالات

قسط:۴

 

 

س۱ : کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ (۲۱: ۳۳)، نیز (۳۶: ۴۰)، آیا ہر چیز ایک دائرہ میں تیرتی ہے؟ اس اہم سوال کے جواب کو وضاحت سے سمجھائیں۔

س ۲: سیّارۂ زمین کی آبادی (۱۸: ۰۸)؟

س۳ : سیّارۂ زمین کا پانی (۲۳: ۱۸)؟

س ۴: آیا ارض و سمٰوٰت بدلتے رہتے ہیں (۱۴: ۴۸)؟

س ۵: آیا کائنات کے لئے ہمیشہ ہفت آسمان اور ہفت زمین کا قانون ہے (۶۵: ۱۲)؟

س ۶: مکانی بہشت کہاں ہے؟ اور لامکانی بہشت کہاں؟

جواب: وہ پوری کائنات میں ہے، اور یہ روح میں، تم خدا کی کامل اطاعت کر کے دونوں بہشت ہوسکتے ہو۔

س ۷: آیا قرآن میں کائنات کی عمر کا بھی ذکر ہے؟

جواب: جی ہاں ، (۱۱: ۱۰۷)۔

س ۸: کیا بہشت کی بھی کوئی مقرر عمر ہے؟

جواب: جی ہاں، (۱۱: ۱۰۷)۔

 

۱۹۸

 

س ۹: پھر عَطَأءً غَیْرِ مَجْذُوْذٍ = کبھی مُنقطع نہ ہونے والی بخشش کیا ہوگی ( ۱۱: ۱۰۸)؟

جواب: غیر منقطع اور دائمی عطا کا اشارہ یہ ہے کہ اللہ ہر بار ایک جدید کائنات اور ایک جدید بہشت بناتا رہے گا، کیونکہ اسکی صفتِ خلاّقی قدیم ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۸۔ جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۱۹۹

 

قرآنی سائنس پر سوالات

قسط:۵

 

س ۱: سورۂ تکویر کے آغاز (۸۱: ۰۱) میں نظامِ شمسی کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟

س ۲: سورج کو لپیٹ دینے سے کیا مراد ہے؟

س ۳: یہاں دوستانِ عزیز کے واسطے ایک بہت بڑا سوال اور اس کا انتہائی عظیم پُرحکمت جواب ہے: سورۂ رعد (۱۳: ۱۲) کو عشق کے آنسوؤں کو بہاتے ہوئے پڑھو، اور پھر اس میں غور کرو، قبول کرو، ضرور قبول کرو، یہ ہے صاحبِ جُثّۂ ابداعیہ کا دیدارِ مبارک و مقدّس، جس میں ایک ساتھ بہت سے معجزات جمع ہیں!!!۔ ۔ ۔ اسرار ہی اسرار ہیں، چونکہ تمام اہم چیزیں دو دو ہیں، لہٰذا کچھ آگے چل کر بھی سب سے بڑا معجزہ ہے۔

حیرت بالائے حیرت ہے کہ عاشق منزلِ عزرائیلی میں بڑی کثرت سے مرکرزندہ ہوگیا تھا، پھر بھی ہر عظیم معجزے میں قربان ہو کر زندہ ہو جاتا ہے۔

س ۴: کیا کوئی بادشاہ اپنے خزانے کو سرِ راہ بکھیر کر رکھتا ہے یا اس کو چھپانے کے لئے کسی ایسی جگہ کا انتخاب کرتا ہے جس کے بارے لوگ ایسا کوئی گمان بھی نہیں کر سکتے ہیں؟

 

۲۰۰

 

جواب: ساتھیو! بھائیو! بہنو! آؤ، ہم خداوندِ قدّوس کی یاری سے روحانی اور قرآنی سائنس کی روشنی میں کچھ خزانوں کی کامیاب تلاش کرتے ہیں۔ زمانۂ قدیم کی روایات میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ جہاں کوئی گنجِ گرانمایہ رکھا جاتا تھا، وہاں کوئی طلسمات بناتے تھے، جس سے لوگ بہت ڈرتے تھے، تاکہ کوئی شخص خزانے میں داخل نہ ہوسکے۔

س ۵: صاحبِ جُثّۂ ابداعیہ کے بارے میں مزید اسرار؟

جواب: اِنْ شَاءَ اللہ بوقتِ ملاقات۔ لِسانی، نیز ص۔ ع۔ ق والی تمام آیات میں غورسے دیکھیں۔

س۶: سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۰) میں لَبُوس کا ذکر آیا ہے، یہ کیا چیز ہے؟

جواب: یہ جُثۂ ابداعیہ ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا ایک زبردست معجزہ ہے کہ ہر انسانِ کامل کی تقریباً ستّرہزار کاپیاں بنائی جاتی ہیں، اُن میں سے ہر ایک جُثّۂ ابداعیہ ہے، کہ یہ نورانی اجسام دنیا کے لئے نہیں، صرف دین اور آخرت کے واسطے ہیں۔

س ۷: سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) کے حوالے سے سرابِیل کیسے کُرتے ہیں؟

جواب: وہی اجسامِ لطیف ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۱۰۔ جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۲۰۱

 

قرآنی سائنس پر سوالات

قسط:۶

 

س ۱: کیا فرشتہ، مومن جِنّ، جسمِ لطیف، اور جُثّۂ ابداعیہ ایک ہی مخلوق ہے؟

جواب: جی ہاں، بالکل ایک ہی مخلوق ہے۔

س ۲: آیا پری قوم بھی لطیف مخلوق ہے؟

جواب: جی ہاں، اور اسی طرح اہلِ جنت بھی لطیف ہیں، اور یہ بات قبلاً بتائی گئی ہے کہ لفظِ جِنّ کا فارسی ترجمہ پری ہے، اور پری قوم کے لوگ لطیف اور انتہائی خوبصورت ہوتے ہیں۔

س۳: پری قوم = جِنّ اور انسان میں کیا رشتہ ہوتا ہے؟

جواب: انسان جب جسمِ کثیف سے جسمِ لطیف میں مُنتقل ہوتا ہے، تو تب وہ فرشتہ = پری = جِنّ ہوتا ہے، یہ ایمان اور علم کے ساتھ ہونا چاہئے۔

س ۴: حُسن و جمالِ یوسفیؑ  کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب: حضرتِ یوسف علیہ السّلام امام تھا (کتابِ وجہِ دین)، لہٰذا یہ حسن و جمال اور دیدارِ بے مثال باطنی تھا، قصّۂ یوسفؑ کی تاویل پر ایک الگ مقالہ یا کتابچہ ہونا چاہئے۔

س ۵: قصّۂ یوسفؑ میں چُھری یا چاقو سے کیا مراد ہے؟

 

۲۰۲

 

جواب: چھُری کے لئے قرآن لفظ : سِکّیناً (۱۲: ۳۱) آیا ہے، اس سے اسمِ اعظم مراد ہے، کیونکہ اسمِ اعظم کے فروعی معجزات تو بیشمار ہیں ہی، اور اس کے اُصولی معجزات بھی کچھ کم نہیں، پس اسمِ اعظم خنجرِ عشق ہے، جیسا کہ مولائے روم کا قول ہے:۔

قتل کُن فرعونِ نفسِ خویش را

در زمان موسای عمرانت کنم

ترجمہ:  تم اپنے نفس کے فرعون کو قتل کرو تاکہ میں تم کو فوراً ہی مُوسیٰ ابنِ عمران بنا دوں گا۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۱۰۔ جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۲۰۳

 

قرآنی سائنس پر سوالات

قسط:۷

 

س۱: قرآنِ حکیم میں کہاں کہاں صاحبِ جُثّۂ ابداعیہ کا ذکر آیا ہے؟

جواب: یہ ذکرِ شریف سرتا سر قرآنِ حکیم میں موجود ہے، تم انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کے تذکروں میں بھی ہے، اور حضرتِ طالوت علیہ السّلام کے قصّے میں بھی، جو سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۵) سے یہ تذکرہ شروع ہوجاتا ہے، اس پُرحکمت قصّہ میں سب سے پہلے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مَلِک (بادشاہ = امامؑ) اللہ تعالیٰ اور پیغمبر کی جانب سے مقرر ہوتا ہے، وہ صاحبِ قیامت ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ امامؑ کو اہلِ زمانہ پر برگزیدہ فرماتا ہے، اور اسے دو عظیم معجزے عطا فرماتا ہے، اوّل: ایسا علم جو انتہائی اعلیٰ اور زبردست وسیع ہونے کی وجہ سے کائنات پر محیط ہے، دوم: جُثّۂ ابداعیہ جس کے عجائب و غرائب کی تعریف و توصیف کو احاطۂ تحریر میں لانا بے حد مشکل بلکہ غیر ممکن ہے۔

س ۲: جو شخص صاحبِ جُثّۂ ابداعیہ کا دیدار کرتا ہے، اس کا کیا حال ہوتا ہے؟

جواب: ایسے شخص کے ہوش و حواس اپنا کام نہیں کر سکتے ہیں، وہ شخص اس حال

 

۲۰۴

 

میں مر بھی جاتا ہے، اور فوراً زندہ بھی ہو جاتا ہے، مگر منزلِ عزرائیلی سے یہ حالت بالکل مختلف ہے، یہ معجزہ خدا کی قسم ہمارے بیان سے بالاتر ہے، مگر ہم صاحبِ جُثّۂ ابداعیہ کو یاد کریں گے، یا یہ کہ وہ خود اپنے عجائب و غرائب کی وجہ سے یاد آتا رہے گا، کیونکہ عاشقانِ نور حیرت کو چاہتے ہیں، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ صاحبِ جثّۂ ابداعیہ کے معجزات میں حیرت ہی حیرت ہے، اور یہاں انتہائی حیرت کیوں نہ ہو، جبکہ یہ سب سے بڑا معجزہ ہے، جس میں تمام معجزات جمع ہیں، اسکی تفصیل بعد میں بتائیں گے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

بروز یومِ امامت  ۱۱۔ جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۲۰۵

 

قرآنی سائنس پر سوالات

قسط:۸

 

س۱ : قرآن فرماتا ہے کہ آسمان اور زمین سات سات ہیں (۶۵: ۱۲) تو کیا اہلِ بہشت سات زمین اور سات آسمان کا نظّارہ کرسکیں گے؟

جواب:  اِن شَاءَ اللہ ۔

س۲: بہشت ِ برین میں ہر ہر نعمت ممکنُ الحُصُول ہے، اور جنت کی سب سے بڑی تعریف یہی ہے، اور قرآن میں جگہ جگہ یہ سب سے بڑا خوبصورت اشارہ ملتا ہے کہ بہشت وہ مقام ہے جس میں ہر گو نہ نعمت موجود ہے، آپ کامل توجّہ کے ساتھ سورۂ رحمان کو بھی پڑھ لیں۔

س ۳: حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام جب نومولود تھا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی محبت کا پرتو ڈالا تھا (۲۰: ۳۹) یقیناً یہ خدا کی خاص عنایت تھی، لیکن اسکی کیا وجہ ہے کہ ہر بچہ پیارا ہوتا ہے؟

جواب: کیونکہ ہر مولود فطرت پر پیدا ہوتا ہے، اور اللہ کی فطرت بیحد پیاری ہوا کرتی ہے، تا ہم انبیاء و اولیاء کی بابرکت ہستی مثالی ہوسکتی ہے، انسان تو انسان ہی ہے اگر خدا جانوروں میں بچوں کی محبت کو پیدا نہ کرتا تو ظاہر ہے کہ روئے زمین سے تمام جانور ختم ہو جاتے ، انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کے نقشِ قدم پر چلنے والے مومنین و مومنات

 

۲۰۶

 

کے دل میں اولاد کی شدید محبت ہونے میں بہت بڑی حکمت ہے، جس کی وجہ سے اچھی اچھی خصوصیات منتقل ہو سکتی ہیں، ان شاء اللہ العزیز۔

لَاحَولَ وَلا قُوّۃَ اِلاّ باللّٰہِ العلیِّ العظیم۔ تمام لِٹل اینجلز کو مبارک ہو ان کی اوّلین کتاب شائع ہو رہی ہے یہ کتاب گویا بہشت کا ایک انمول تحفہ ہے، یہ تمام لِٹل اینجلز کے لئے ایک قابلِ تقلید مثال ہے، الحمد لِلّٰہ۔

پاد شا ھے پسر بمکتب داد        لوحِ سیمین درکنار نہاد

بر سرِ لوحِ او نوشتہ بزر          جورِ استاد بہ زمہرِ پدر

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۱۴۔ جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۲۰۷

 

قرآنی سائنس پر سوالات

قسط:۹

 

س ۱: بہشت کا سب سے اعلیٰ مرتبہ کونسا ہے؟

جواب: وہاں کی بادشاہی = مُلْکًا کَبِیْراً (۷۶: ۲۰)۔

س ۲: بہشت کی بہت بڑی بادشاہی کے لئے کیا شرط ہے؟

جواب: آلِ ابرہیمؑ اور آلِ مُحمّدؐ کی عظیم سلطنت (۰۴: ۵۴) کی معرفت (۱۷: ۰۶) کیونکہ جو شخص دنیا میں اندھا ہو وہ آخرت میں بھی اند ھا ہی رہتا ہے۔

س ۳: آیا بہشت برائے معرفت میں فنا فی اللہ کا مرتبہ ہوتا ہے؟ اور بہشت کی سب سے بڑی بادشاہی میں بھی؟

جواب: جی ہاں۔

س ۴: حضرتِ سلیمانؑ کی بادشاہی ظاہری تھی یا باطنی؟

جواب: یہ بادشاہی دراصل باطنی اور روحانی تھی۔

س۵: اگر بہشت میں بہت بڑی سلطنت ہے تو کیا اس میں لوگ حضرتِ سلیمانؑ کی طرح عظیم بادشاہ ہوں گے؟

جواب: یقیناً۔

س ۶: آیا بہشت میں درجات ہیں؟

 

۲۰۸

 

جواب: جی ہاں۔

س ۷: آپ نے کہا ہے کہ بہشت میں دنیا کے سب لوگ داخل کئے جائیں گے، اس کی کوئی دلیل بتائیں؟

جواب: اس کی دلیلیں بہت زیادہ ہیں، قیامت فیصلہ کا دن ہے، اور بہشت فیصلے کا نتیجہ، لہٰذا سب کو وہاں حاضر ہونا ضروری ہے، تاکہ ظاہر ہو جائےکہ بادشاہ کونسے لوگ ہیں اور رعایا کون؟ کیونکہ رعایا کے بغیر کوئی سلطنت نہیں ہوتی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۱۵۔ جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۲۰۹

 

قرآنی سائنس پر سوالات

قسط:۱۰

 

س۱: آیا قرآنِ حکیم میں ہر چیز کا بیان نہیں ہے (۱۶: ۸۹)؟

جواب: کیوں نہیں، یقیناً اس میں ہر ہر چیز کا بیان ہے، اس میں مَاکَانَ وَمَایَکُوْنُ کا بیان ہے، یعنی جو کچھ پہلے تھا، اور جو کچھ آئندہ ہونے والا ہے، وہ سب کچھ درج ہے، کیونکہ قرآن کے کئی پہلو ہیں، جبکہ قرآن ذُو وُجُوہٍ ہے (بحوالۂ الاِتقان، حصّۂ دوم)۔ نیز آپ یہ حدیثِ شریف بار بار سن چکے ہیں کہ ہر قرآنی آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، اور ہر ایسے باطن کے ساتھ بواطن اور اس سے بھی زیادہ بواطن ہیں، پھر علومِ قرآن میں قرآنی سائنس کے نام سے ایک بہت بڑی زبردست حکمت کے موجود ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے۔

قرآنی سائنس دراصل عین الیقین اور حقّ الیقین ہی کے اسرار ہیں۔

س ۲: اللہ تعالیٰ نے جو ترازو آسمان میں رکھی ہے (۵۵: ۰۷) وہ کونسی میزان ہے؟

جواب: وہ علم و حکمت کی ترازو ہے، یہ بہت بڑا راز ہے۔

س ۳: آپ خود ذرا سوچ لیں کہ ایسی ترازو آسمان میں کیوں ہے؟ اور آپ کو

 

۲۱۰

 

ضرور یہ بھی سوچنا ہے کہ صرف شیاطین ہی کو روحانیّت کے آسمانِ اوّل سے کیوں واپس کیا جاتا ہے؟

جواب: کیونکہ وہ شیاطین گمراہ ہیں، اور ہدایتِ حقہ کے پَیرو ہوں، وہ آسمانوں میں جاسکتے ہیں، دیکھو ساری کائنات تمہارے اندر ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۱۷۔ جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۲۱۱

 

قرآنی سائنس پر سوالات

قسط:۱۱

 

س۱: کیا عالمِ ذرّ کے جِنّات دوسرے جِنّات سے قطعاً مختلف ہوتے ہیں؟

جواب: جی ہاں، عالمِ ذرّ کی ہر چیز اور ہر مخلوق ایک انتہائی چھوٹا ذرّہ ہے، جس کا مُشاہدہ ممکن نہیں، اِلّا عارفانہ قیامت کے آغاز پر۔

س ۲: عالمِ ذرّ کا مُشاہدہ چشمِ ظاہر سے ہوتا ہے یا دیدۂ باطن سے؟

جواب: اس حال میں قیامت کے زیرِ اثر حواسِ ظاہر و باطن مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔

س ۳: جن نیک بندوں کی قیامت ہَنوز شروع نہیں ہوئی ہے ، وہ لوگ کس طرح عالمِ ذرّ کے ذرّہ برابر جِنّات سے اور ذرّاتی روحوں سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں؟

جواب: یہی تو اصل اور بہت مفید سوال ہے، تم خوب سوچ لو، کیا کوئی عارف صرف ایک ہی دن میں عارف ہوا تھا، نہیں ہرگز نہیں، پس عالمِ ذرّ کا پُرحکمت اشارہ یہ ہے کہ تم نوافل میں ذرّہ ذرّہ ترقی کرو۔ خوب غور سے دیکھو، معدنیات، نباتات، اور حیوانات کی نشونمائی اور ترقّی ذرّہ ذرّہ ہوتی ہے، دیکھو اگر تم ذرّاتی جِنّات پر بادشاہی نہیں کرسکتے ہو، تو پھر کبھی سلیمانی جِنّات پر حکمرانی نہیں کر سکو گے، میں

 

۲۱۲

 

کوئی ناممکن مثال کیسے پیش کر سکتا ہوں، جو لوگ روحانی اور قرآنی سائنس کو جانتے ہیں، وہ سلیمانِ زمانؑ میں فنا ہو کر جِنّات پر بادشاہی کر سکتے ہیں۔

س ۴: لفظِ جِنّ اور جِنّات حقائق و معارف کے سخت حجابات میں سے ہیں، عُشّاق کو بہت زیادہ شکر کرنا ہے، کیونکہ مومن جِنّات فرشتے ہوتے ہیں، اور جُثّۂ ابداعیہ بھی، الحمدُ لِلّٰہ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۱۷۔ جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۲۱۳

 

قرآنی سائنس پر سوالات

قسط:۱۲

 

س۱: آپ بار بار توجّہ دلاتے ہیں کہ جِنّ کا اصل فارسی ترجمہ پری ہے، پری پریدن (اُڑنا) سے ہے، پس جِنّ اور پری ایک ہی نام ہے، اور ایک ہی مخلوق اور ایک ہی قوم ہے، اس کے مرد و زن لطیف اور انتہائی خوبصورت ہیں۔

س۲: قرآنی سائنس کا کہنا یہ ہے کہ خداوندِ مہربان دنیا کی سب عورتوں کو کثیف سے لطیف بنا کر بہشت کی پری عورتیں (حُوریں) بناتا ہے، اور تمام مردوں کو پری مرد(غِلمان) بناتا ہے، کیا اس میں کوئی شک ہے؟

جواب: واللہ! کوئی شک نہیں، یہ سب سے روشن حقیقت ہے۔

س۳: آیا یہ کائناتی بہشت کی بات ہے؟

جواب: جی ہاں۔

س ۴: اگرایسا ہے تو پھر کائنات اہلِ بہشت سے بھری ہوئی ہوگی؟

جواب: جی ہاں یقیناً۔

س ۵: وہ آیۂ شریفہ کونسی ہے؟ جس کے مطابق ہم ساری کائنات کو مکانی بہشت تسلیم کریں؟

جواب: (۵۷: ۲۱) نیز (۰۳: ۱۳۳)۔

 

۲۱۴

 

س ۶: اگر ساری کائنات بہشت ہے تو لازماً یہ زمین بھی بہشت ہے، کیونکہ یہ کائنات ہی کا ایک حصّہ ہے اور اس سے کئی ایک سوالات پیدا ہو سکتے ہیں۔

جواب: فیصلۂ قرآن کے بعد کوئی سوال نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، دنیا میں جتنے انبیاء و اولیاء علیھم السّلام اور ان کے پیچھے پیچھے چلنے والے نیک بندے ہوتے آئے ہیں، وہ سب اسی بہشت میں رہتے آئے ہیں، الَحمدُ لِلّٰہ ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۱۷۔ جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۲۱۵

 

قرآنی سائنس پر سوالات

قسط:۱۳

 

س۱:آیا قرآنی حکمت میں یو۔ ایف۔اوز۔ (U.F.O’s) کا کوئی اشارہ ملتا ہے؟

جواب: جی ہاں، قرآنِ حکیم میں U.F.O’s کے بہت اشارے موجود ہیں۔

س۲: آپ ہمیں یہ بتائیں کہ دراصل یو۔ایف۔اوز۔ کیا ہیں؟

جواب: اوّل: انسانانِ کامل کی زندہ کاپیان۔

دوم:  انسانِ لطیف (پری قوم = فرشتہ = جثۂ ابداعیہ)۔

سِوُم  : وہ معجزاتی کُرتے جن پر کوئی جنگ اثرانداز نہیں ہوسکتی ہے (۱۶: ۸۱)۔

چہارم:  اللہ کا آسمانی لشکر ۔

پنجم:  دینی سلاطین = مُلوک۔

ششم :  روحانی لشکر کے قلعے۔

ہفتم:  رُعبِ الٰہی، کیونکہ ان کے ذریعے سے اللہ بڑی بڑی حکومتوں کو ڈرا کر دنیا میں امن قائم کرنے والا ہے، پس یو۔ ایف ۔ اوز میں امنِ عالم کی خوشخبری ہے۔

ہشتم:  یہ اجسامِ لطیف ہیں۔

 

۲۱۶

 

نہم:  کائناتی بہشت کے لوگ ہیں۔

دھم  : حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام جو پرندے بناتے تھے، وہ بھی یہی چیزیں ہیں، ان معجزات کا تعلق اسرافیلی اور عزرائیلی منزل سے ہے۔ ان شاء اللہ آپ کو رفتہ رفتہ عالمِ شخصی کے اسرار کا علم ہوگا، دائرۂ معرفت سے کوئی چیز باہر نہیں۔

ہم نے یہ مقالہ عزیزم ظہیر جانِ نصیر کے گھر لندن میں لکھا ہے، ظہیر (M.S.I) کے انچارج (آفیسر) ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۲۰۔ جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۲۱۷

 

قرآنی سائنس پر سوالات

قسط:۱۴

 

س ۱: آیا آیتِ آفاق و انفس (۴۱: ۵۳) میں یو ۔ ایف۔ اوز۔ کا اشارہ بھی ہے؟

جواب: یقیناً۔

س ۲: کیا یو۔ایف۔ اوز۔ کاملین کے عالمِ شخصی سے پیدا ہوتے ہیں؟

جواب: جی ہاں۔

س ۳: کیا آپ نے یو ۔ ایف ۔ او۔ کو قریب سے دیکھا ہے؟

جواب: جی ہاں، وہ صاحبِ جثۂ ابداعیہ تھا، دو دفعہ دیکھا تھا۔

س۴: وہ کس زبان میں کلام کرتا ہے؟

جواب: وہ دنیا کی ہر زبان کو جانتا ہے، لہٰذا جو شخص اس کے سامنے آیا ہے، اسی کی زبان میں کلام فرماتا ہے، مگر وہ بہت ہی کم کلام فرماتا ہے۔

س۵: کیا آپ اس کی چند خصوصیات بیان کر سکتے ہیں؟

جواب: اِن شَاء اللہ، چونکہ وہ کائنات کا نچوڑ اور جوہر ہے، لہٰذا اسکی خصوصیات بے شمار ہیں، اس کو آنے میں درو دیوار کی کوئی بھی چیز روک نہیں سکتی ، اسکی آمد و رفت کی رفتار دنیوی برق سے کہیں زیادہ تیز ہے، وہ سامنے آکر کبھی غائب اور کبھی حاضر ہوجاتا ہے، وہ حجاب سے

 

۲۱۸

 

کلام کرتا ہے، اور اس کے بغیر نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ وہ زندہ لباسِ جنت ہے، اس لئے روح اس میں رہنے لگتی ہے۔

س ۶: کیا کوئی عارف یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ جثۂ ابداعیہ ہے؟

جواب: عارف بہت کچھ کہہ سکتا ہے، آپ بھی کہہ سکتے ہیں، مگر فنائے مطلق کے سوا ایسا ہر دعویٰ باطل ہے، فنا کو سیکھو اور فنا ہو جاؤ، منصور کی طرح بے دلیل نعرہ مت لگاؤ، مگر آہستہ سے کہو: انا المحجوب، اور ہزار دلیل پیش کرو، خبردار دلیل کے بغیر کوئی بات نہ کرنا، اگر تم بہشت برائے معرفت میں ہو، یا قیامت برائے معرفت دیکھ لی ہےتو مبارک ہو، کہ تم کامیاب ہوگئے ہو، اگر تم کامیاب نہیں ہو، تو دانائی سے سوچو کہ اسکی وجہ کیا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعہ ۲۱۔ جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۲۱۹

 

قرآنی سائنس کے لئے درج ذیل قرآنی حوالہ جات کو دیکھیں

قسط۱:

 

ق س نمبر قرآنی حوالہ ق س نمبر قرآنی حوالہ
ق س ۱ ۲۴: ۳۵ ق س ۱۱ ۱۳: ۰۸
ق س ۲ ۲۸: ۸۸ ق س ۱۲ ۳۰: ۳۰
ق س ۳ ۰۲: ۲۵۵ ق س ۱۳ ۴۰: ۸۵
ق س ۴ ۰۲: ۲۴۵ ق س ۱۴ ۳۳: ۶۲
ق س ۵ ۱۳: ۰۲ ق س ۱۵ ۵۵: ۳۳
ق س ۶ ۳۵: ۴۱ ق س ۱۶ ۴۱: ۵۳
ق س ۷ ۱۶: ۷۹ ق س ۱۷ ۲۷: ۹۳
ق س ۸ ۸۱: ۰۱ ق س ۱۸ ۱۵: ۲۱
ق س ۹ ۵۵: ۰۷ ق س ۱۹ ۱۱: ۱۰۷
ق س ۱۰ ۲۳: ۱۸ ق س ۲۰ ۱۱: ۱۰۸

 

نوٹ: قرآنی سائنس (ق س)

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

یوسٹن امریکہ

۲۵۔ جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۲۲۰

 

تعدادِ انبیاء علیھم السّلام

 

۱۔  اَلاَ نبِیَأءُ مِأہُ اَلفٍ وَعشرُونَ اَلفاً وَ المُرسَلُونَ مِنھُم ثَلٰثُمِأ ۃٍ وَثَلٰثَۃُ عَشَرَ۔

ترجمہ: دنیا میں ایک لاکھ بیس ہزار پیغمبر آئے ہیں، ان میں رسول (جو صاحبِ شریعت ہوں) تین سو تیرہ گزرے ہیں۔

امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا: پیغمبروں کے چار طبقے ہیں: ایک تو وہ جو اپنے نفس کو خبر دیتے ہیں دوسرے کسی کو نہیں، دوسرے وہ جو خواب میں دیکھتے ہیں اور آواز بھی سنتے ہیں، لیکن بیداری میں کچھ نہیں دیکھتے، نہ وہ کسی قوم کی طرف بھیجے گئے، تیسرے وہ جو خواب میں دیکھتے ہیں اور آواز سنتے ہیں، اور بیداری میں بھی دیکھتے ہیں اور سنتے ہیں، یہ اولواالعزم پیغمبر ہیں، چوتھے وہ پیغمبر جو خواب میں دیکھتے ہیں اور آواز سنتے ہیں اور فرشتہ کو دیکھتے ہیں۔ (لغات الحدیث، جلدِ چہارم، باب النون مع الباء، ص ۴)۔

۲۔  حضراتِ انبیاء عَلیھم السّلام کی تعداد بہ روایتِ دیگر:۔

کتابِ سرائر واسرار النطقاء کے صفحہ ۲۰۰ کے مطابق پیغمبروں کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے، اُسی مقام پر یہ بات بھی تحریر ہے کہ دس صاحبانِ کتاب میں سے پانچ پیغمبر سُریانی تھے، جو حضرتِ

 

۲۲۱

 

آدمؑ، حضرتِ شیثؑ، حضرتِ ادریسؑ، حضرتِ نوحؑ، اور حضرتِ ابراہیمؑ ہیں، جبکہ پانچ کی زبان عربی تھی، جو حضرتِ ھودؑ، حضرتِ صالحؑ، حضرتِ اسماعیلؑ، حضرتِ شعیبؑ اور حضرتِ مُحمّد مُصطفٰے صَلّی اللہ علیہ وَاٰلہٖ وصلّم ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

بدھ ۱۲۔ جولائی  ۲۰۰۰ء

نوٹ:  سُریانی ملک شام کی ایک قدیم زبان ہے۔

 

۲۲۲

 

جَنّتُ الاعمال

 

علمائے اسلام کا اس بات پر کُلّی اتفاق ہے کہ خلّاقِ کون و مکان وہ قادرِ مطلق ہے، جو اپنے خاص بندوں کے نیک کاموں سے ایک کامل بہشت کوبنا کر اس کا نام جنّت الاعمال رکھتا ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ قرآن حکیم میں جس بہشت کا ذکر آیا ہے، وہی جنت الاعمال ہے، تاکہ عقل والوں کے لئے نیک اقوال و اعمال کی اہمیّت اور قدر و قیمت کا اندازہ ہو جائے۔

قرآنی سائنس کی روشنی میں جنت الاعمال کی بہت بڑی اہمیت ہے، اسلام میں علم و عمل کی جتنی بڑی اہمیت ہے، اس سے کون انکار کرسکتا ہے، پس قرآن میں تمام اہلِ ایمان کو یہ حکم ہے کہ وہ علم و عمل میں سبقت کریں، تاکہ سبقت کے اس مقابلے میں جو شخص سب سے آگے ہو اس کو خدا ایک بیمثال اور انتہائی عظیم انعام عطا فرمائے، وہ یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ زندہ کائناتی بہشت بنائے گا، جو آسمانوں اور زمین پر محیط ہے (دیکھو ۳: ۱۳۳، نیز۵۷: ۲۱)۔

یہ راز کہیں بھی نہیں، صرف امام علیہ السّلام ہی کے خزانے میں ہے کہ خدا جن کو چاہتا ہے زندہ کائناتی بہشت بناتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۱۹۔ جولائی  ۲۰۰۰ء

 

۲۲۳

 

آتشِ سرد = ٹھنڈی آگ

 

دنیا میں کہیں بھی آتشِ سرد یعنی ٹھنڈی آگ دیکھی نہیں گئی ہے، لیکن روحانی آگ کی قسموں میں سے ایک قسم ٹھنڈی آگ بھی ہے، غور و فکر کے لئے حوالہ : (۲۱: ۶۹)، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آتشِ نمرود سے فرمایا کہ اے آگ تُو ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیمؑ کے لئے باعثِ سلامتی ہوجا، چنانچہ اہلِ معرفت کی گواہی ہے کہ انہوں نے روحانیّت کے کسی مقام پر آتشِ سرد کا بھی مشاہدہ کیا، اور یہاں پر بتانے کے لئے بہت سے اسرار ہیں، مگر بطریقِ اختصار یہ بتانا ضروری ہے کہ خداوندِ تعالیٰ نے اس آتشِ سرد سے کئی مخلوقات خصوصاً جنّات کو پیدا کیا، اسی لئے قرآن کی چند آیات میں ارشاد ہے کہ جنّات کو خدا نے آگ سے پیدا کیا ہے، مگر یہ بہت بڑا راز ہے کہ خداوندِ تعالیٰ نے جنّات کو ٹھنڈی آگ سے پیدا کیا، اور اسی آگ سے حضرتِ ابراہیمؑ کے لئے روحانیّت کا ایک گلستان بھی بنایا گیا تھا، جیسا کہ ارشاد ہے:۔

قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ(۲۱: ۶۹) ترجمہ: تو ہم نے فرمایا اے آگ! تو ابراہیمؑ پر بالکل ٹھنڈی اور سلامتی کا باعث ہو جا۔

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ جس چیز کو “ہوجا” فرماتا ہے تو وہ ہوجاتی ہے،

 

۲۲۴

 

جیسے اس ارشاد میں ہے کہ خدا نے آگ سے ٹھنڈی ہوجانے کے لئے فرمایا، تو وہ ٹھنڈی آگ ہوگئی، آپ اس کو روحانی سائنس کے مطابق DUMMY FIRE  بھی کہہ سکتے ہیں، تاکہ اس سے خدا کی قدرت پر زیادہ سے زیادہ یقین ہو کہ وہ سب کچھ کرسکتا ہے، اور اُسی نے ایسی آگ سے بہت سی نادیدنی (INVISIBLE) مخلوقات کو پیداکیا، اور اس میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے، ہم نے بعض قریبی دوستوں کو سرد آگ کا ایک عظیم معجزہ دیکھنے کا ذکر کیا ہے۔

روحانی سائنس کے اعلیٰ مقاصد میں سے ایک عظیم مقصد یہ ہے کہ اس میں روحانی معجزات کو بیان کیا جائے، آپ یہ خیال ہرگز نہ کریں کہ آتشِ دوزخ نہیں ہے، یقیناً آتشِ دوزخ دنیا میں ابھی موجود ہے، اور وہ دراصل جہالت و نادانی کی آگ ہے، جس سے بچنے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، مگر اس کے لئے علم و حکمت کی بے حد ضرورت ہے، کیونکہ مومن کے پاس جتنا علم و حکمت زیادہ ہو، اتنی جہالت و نادانی ختم ہو جاتی ہے۔

ان شاء اللہ آپ علم الیقین میں بہت زیادہ ترقّی کریں گے، تاکہ اس عمل سے آتشِ دوزخ جو جہالت و نادانی ہے کم سے کمتر ہوتے ہوتے ختم ہو جائے، یہی وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ علم کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں، اور اب ہم SPECIAL STUDENTS کی ایک لِسٹ تیار کررہے ہیں، اس میں ہم دیکھیں گے کہ کون کونسے عزیزان اپنی علمی کوششوں میں اس قابل ہوچکے ہیں کہ ہماری اس لِسٹ میں آجائیں، اس لِسٹ کا مقصد یہ ہے کہ اپنے عزیزوں کو زیادہ سے زیادہ علم کی طرف توجہ دلا سکیں، اور وہ ہمیشہ یہ محسوس کریں کہ اُن کا نام SPECIAL STUDENTS  کی لِسٹ میں آیا ہے، اور وہ زیادہ سے زیادہ کتابوں کے مطالعہ کا شوق اپنی ذات میں پیدا کریں، اور مستقبل کی ذمہ داریوں کے لئے تیار ہو

 

۲۲۵

 

جائیں، ہم یہ کام اپنے خاص دوستوں کے مشورے سے کر رہے ہیں، اس لِسٹ میں آنے کی کوئی فیس ہرگز نہیں ہے، یہ محض علمی منصوبہ ہے تاکہ ہر عزیز زیادہ سے زیادہ ہماری کتابوں کا مطالعہ کرتا رہے، اور اپنے ذخیرۂ علمی میں زبردست اضافہ کرے، آمین!

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۴۔ اگست  ۲۰۰۰ء

اٹلانٹا امریکہ

 

۲۲۶

 

عَالمِ شخصی کی لوحِ محفوظ

 

جس طرح عالمِ کبیر کے واسطے ایک لوحِ محفوظ مقرر ہے، اسی طرح عالمِ صغیر= عالمِ شخصی کے لئے بھی ایک لوحِ محفوظ ہے، یہ لوحِ محفوظ حظیرۂ قدس ہے، تاکہ عالمِ شخصی کی پہچان سے عالمِ کبیر اور حضرتِ ربّ کی معرفت حاصل ہوسکے، یہ حکمت خوب یاد رہے کہ سب آسمانوں اور زمین پر جوکچھ ہے وہ کائناتی لوحِ محفوظ میں یکجا ہے، اور جو کچھ عالمِ کبیر کی لوحِ محفوظ میں ہے، وہ عالمِ شخصی کی لوحِ محفوظ میں جمع ہے، اور اس میں ہر انسان کا نامۂ اعمال بھی موجود ہے، نامۂ اعمال کا جدید ترجمہ نورانی موویز ہے، کیونکہ اعمال نامہ کی بہترین صورت نورانی موویز میں ہے، اور عالمِ شخصی میں لوح محفوظ کے موجود ہونے پر کئی آیات دلالت کرتی ہیں، اور اعمال لکھنے والے فرشتوں سے وہ روحانی قوتیں مراد ہیں، جن کے ذریعے سے اعمال خودبخود ریکارڈ ہوجاتے ہیں، جیسے غوروفکر کے لئے آیۂ شریفہ ہے: سورہ ۸۲ آیت ۱۰ تا ۱۱۔

مجھے یقینِ کامل ہے کہ دانش گاہِ خانۂ حکمت کے  SPECIAL STUDENTS بڑی ذمہ داری سے اس تمام علم الیقین کا مطالعہ کریں گے، تاکہ وہ حقیقی معنوں میں SPECIAL STUDENTS  کہلائیں، کیونکہ مستقبل میں یقینی علم کی ضرورت ہوگی، اُس وقت جو لوگ حقیقی STUDENTS  ہیں، وہ جماعت کے لئے کار آمد ثابت

 

۲۲۷

 

ہوسکتے ہیں، عجب نہیں کہ آنے والے زمانے میں روحانی انقلاب برپا ہوجائے، ایسے میں بہت سے نئے مسائل سامنے آسکتے ہیں، ان کا حل صرف اور صرف امام ِ زمانؑ ہی کے روحانی علم سے ہوسکتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۵۔ اگست  ۲۰۰۰ء

اٹلانتا امریکہ

 

۲۲۸

 

عالمِ شخصی میں قلمِ اعلیٰ کا نمونہ

 

جب عالمِ شخصی میں ایک لوحِ محفوظ موجود ہے، پھر اس میں قلمِ اعلیٰ کا ایک نمونہ کیوں نہ ہو، مجھے ایسا یقین آتا ہے کہ جب عاشقانِ امامِ زمانؑ اس مقالے کو پڑھنے لگیں گے تو عجب نہیں کہ ان پر کپکپی کی کیفیت طاری ہوجائے، کیونکہ عالمِ شخصی میں قلم اعلیٰ کا نمونہ انتہائی عظیم راز ہے، اس لئے دعا کرتا ہوں کہ خدا ہمارے تمام دوستوں کو اس عظیم رازداری کے لئے عالی ہمتی عطا فرمائے، کہ وہ اس کی قدردانی اور رازدانی کا جیسا کہ چاہئے، حق ادا کرسکیں، جی ہاں دوستانِ عزیزِ من! ہمیں اس عظیم نعمت کی شکرگزاری طوفانی آنسوؤں کیساتھ کرنی چاہیئےکہ عالمِ شخصی میں قلمِ اعلیٰ کا عظیم الشّان نمونہ گوہر عقل ہے، خدا کرے کہ ہم خود بھی ان اسرار ِالٰہی کے لئے ہمیشہ شکرگزار ہو سکیں، ہم کو اس بات سے ڈر لگتا ہے کہ عظیم اسرار کی بات آنسو بہائے بغیر معمولی باتوں کی طرح بیان کرتے ہیں، پس خداوندِ کریم اپنے لطفِ عمیم اور رحمتِ بے پایان سے ہمیں ناشکری کی سزا سے بچائے، اور ہم سب کو ان احسانات کی شکر گزاری کے لئے ہمت اور توفیق عطا فرمائے، آمین!

اے دوستانِ عزیز! آپ کو یہ سرِّ اعظم بھی مبارک ہو! کہ آپ کو علم ہوا کہ عالمِ شخصی میں قلمِ الٰہی کا نمونہ بھی ہے، پس یہ پاک نمونہ نورِ ازل کا نمونہ بھی ہے،

 

۲۲۹

 

جو محمّدؐ و علیؑ کا نور ہے، اور اس کے بہت سے نام ہیں، اسلئے کہ اس کے بہت سے کام ہیں، اب دوستانِ عزیز! آپ سب کو میرا خیرخواہانہ اور مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ آپ اس دانش گاہ کی کتابوں کے علم الیقین میں درجۂ کمال کو حاصل کریں، تاکہ آپ خدا کے فضل و کرم سے مرتبۂ عین الیقین کو حاصل کر سکیں، اور اس کے بعد حق الیقین کی آخری منزل آئے، آمین! یاربّ العالمین!!

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۵۔ اگست  ۲۰۰۰ء

اٹلانٹا امریکہ

 

۲۳۰

 

حظیرۂ قدس میں انبیاء و اولیاء علیہمُ السّلام

 

اللہ تعالیٰ نے حضرتِ آدمؑ کو حظیرۂ قدس میں اپنی صورتِ رحمان پر پیدا کیا تھا، حضرتِ نوحؑ کا روحانی طوفان حظیرۂ قدس میں جا کر کُوہِ جُودی کے پاس تھم گیا تھا، کُوہِ جودی گوہرِعقل کے ناموں میں سے ہے، اللہ کا وہ حقیقی گھر جو حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیھما السّلام نے بنایا تھا، وہ حظیرۂ قدس میں ہے، حضرتِ موسیٰؑ کا کوہِ طور درحقیقت حظیرۂ قدس میں ہے، حضرت عیسیٰؑ کا عقلی تولُّد حظیرۂ قدس میں ہوا تھا، الغرض تمام انبیاء و اولیاء کے معجزات حظیرۂ قدس میں مجموع ومحفوظ ہیں، الحمدُ للہ ربّ العَا لمین۔

آپ قلبِ قرآن (۳۶: ۱۲) میں کُلّیۂ امامِ مُبین کو غور سے پڑھیں، خداوندِ تعالیٰ نے جملہ انبیاؑء و اولیاؑء کے معجزات کو بمقا مِ حظیرۂ قدس امامِ مبینؑ میں گھیر کر اور گِن کر رکھا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۱۲۔ اگست  ۲۰۰۰ء

 

۲۳۱

 

انسانانِ کامل حظیرۂ قدس میں

 

اللہ تعالیٰ جَلَّ جلالہٗ نے حضرتِ ادریس علیہ السّلام کو ایک بلند مقام پر اٹھا کر رفعت عطا فرمائی تھی (۱۹: ۵۷) یہ مقامِ عالی حظیرۂ قدس تھا، خداوندِ تعالیٰ نے حضرتِ عیسیٰؑ اور ان کی والدہ مریمؑ کو حظیرۂ قدس میں قرارگاہ عنایت فرمائی تھی (۲۳: ۵۰)۔

حافِظین = کِرامًا کاتبین (۸۲: ۱۰ تا ۱۱) حظیرۂ قدس میں ہیں، جو تمہارے اعمال ریکارڈ کرتے ہیں، اسی حظیرۂ قدس ہی میں نیک لوگوں کا نامۂ اعمال عِلّیّین = کامِلین میں ہے، یعنی یہاں ہر امامؑ اپنے نیک لوگوں کا نامۂ اعمال ہے (۸۳: ۱۸ تا ۱۹) اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ اللہ کی ایک بولنے والی کتاب بھی ہے، اور وہی نیک لوگوں کی کتابِ اعمال بھی ہے، دیکھو: ۲۳: ۶۲، نیز۴۵: ۲۹۔

اس میں شاید آپ کو یہ سوال پیدا ہوا ہوگا کہ آیا حظیرۂ قدس میں سب کچھ ہے؟ جی ہاں، یقیناً، کیونکہ یہاں امامِ مبینؑ کا نور اپنا کام کرتا رہتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

اتوار  ۱۳۔ اگست  ۲۰۰۰ء

 

۲۳۲

 

بہشت برائے معرفت

 

دینِ اسلام کی یہ اساسی حکمتِ خوب یاد رہے کہ بحکمِ قرآنِ عظیم (۳۶: ۱۲) بہشت برائے معرفت امامِ مبینؑ کی جبینِ مبارک میں موجود و مشہود ہوتی ہے، پھر اس کے ظہورات و تجلّیات کے عظیم معجزات درجہ بدرجہ اہلِ معرفت میں ہوتے رہتے ہیں، اسی طرح بہشت کی پہچان ہوتی ہے، دنیا ہی میں جنت کی شناخت کی شہادت کے لئے سورۂ محمّد (۴۷: ۰۶) میں دیکھ لیں۔

مولا علی صلوات اللہ علیہ کے مبارک اسماء میں سے ایک اسم آیات اللہ ہے، یعنی علیؑ خدا کا وہ سب سے بڑا خزانہ ہے ، جس میں اللہ کے تمام معجزات بھی ہیں، اور اس کی قدرت کی نشانیاں بھی، اب سورۂ نمل کے آخر (۲۷: ۹۳) میں اچھی طرح سے غور کریں، یہاں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اپنے معجزات جو خزانۂ امامِ مبینؑ میں ہیں دکھائے گا، انہی کے ساتھ ساتھ امامؑ کی معرفت بھی حاصل ہوگی، یہ حکمت دانشمندوں کے لئے ہے، الحمدلِلّٰہ۔

اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں صرف معرفت ہی پر ایک مضمون ہو، تو ان شاء اللہ وہ بھی ہوسکتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۱۴۔ اگست  ۲۰۰۰ء

 

۲۳۳

 

کتابِ نفسی میں معرفت کا سب سے بڑا خزانہ

 

خداوندِ قدّوس نے اپنی رحمتِ بے نہایت سے کنزِ معرفت کو ابنِ آدم کی ذات ہی میں مخفی رکھا، تاکہ وہ اپنے باطن ہی سے یہ انمول خزانہ حاصل کرے، پس ان عاشقانِ الٰہی کے لئے بہت ہی بڑی خوشخبری ہے، جو عارف ہوسکتے ہیں، کیونکہ عارف ہی وہ شخص ہے، جس کی روحانی اور عقلی تخلیق معرفت کیلئے مکمل ہوجاتی ہے، کیونکہ فخلقتُ الخلق کا اطلاق عارف ہی پر ہوتا ہے، جبکہ بہت سے لوگ ظاہراً پیدا تو ہوئے ہیں، مگر حضرتِ ربّ کو نہیں پہچانتے ہیں۔

ابتدائی معرفت علم الیقین سے شروع ہوجاتی ہے، اگر علم الیقین کوئی عام اور معمولی بات ہوتی، تو قرآن اس کی تعریف نہ فرماتا (۱۰۲: ۰۵ تا ۰۶) اور نہ اس کا میوہ عین الیقین ہوتا، پس مومن کی دانائی یہ ہوگی کہ وہ علم الیقین کو بے حد ضروری قرار دے، اور بڑی کثرت سے اس کا مطالعہ کرتا رہے۔

آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ علم اور علم الیقین میں بڑا فرق ہے، کیونکہ علم الیقین کی تصدیق قرآن سے ہوئی، جس میں یقین ہی یقین ہے اور اس میں ذرّہ بھر بھی شک نہیں، بلکہ یہ شکوک و شبہات کا ازالہ کرتا ہے، جبکہ شک یقین کے خلاف ہے یا یہ عقلی بیماری ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

منگل  ۱۵۔ اگست  ۲۰۰۰ء

 

۲۳۴

 

آیۂ استخلاف کی تفسیر و تاویل

 

سورۂ نور (۲۴: ۵۵) میں اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو حقیقی معنوں میں ایمان لائے اور نیک عمل کریں، جیسا کہ حق ہے، کہ وہ ان کو اسی طرح زمینِ (بہشت) میں خلیفہ بنائے گا، جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا ہے، ان کے لئے، ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے، اور ان کی موجودہ حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا، پس وہ میری بندگی کریںگے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے، اور اس کے بعد بھی جو ناشکری کرے، تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو، اور رسولؐ کی اطاعت کرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ جس میں کوئی شک نہیں، بلکہ یقین ہی یقین ہے، کب عمل میں آئے گا؟

جواب: روحانی قیامت کے بعد، خداوندِ تعالیٰ نے اہلِ دنیا کو ایک ظاہری مہلت دی ہے جس کی مدّت جتنی بھی ہے اتنی رہےگی، مگر جو لوگ روحانی اور باطنی بہشت تک رسا ہو چکے ہیں، ان کے لئے اللہ کا ہر وعدہ پورا ہوچکا ہے۔

مذکورۂ بالا خلافت اور بہشت کی بہت بڑی سلطنت (۷۶: ۲۰) ایک ہی

 

۲۳۵

 

چیز ہے۔

قرآنی حکمت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ دانا لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔

جو خلافتِ عالیہ اور جو عظیم بادشاہی قرآنِ حکیم میں قابلِ تعریف ہے، وہ علم و حکمت کے بغیر کیونکر حاصل ہوسکتی ہے، جبکہ علم ہر چیز سے برتر ہے، اور حکمت میں خیرِکثیر ہے۔

آؤ ساتھیو! ہم سب علم و حکمت کے حصول کے لئے باربار گریہ و زاری کریں، اور بارگاہِ قاضی الحاجات میں مناجات کرتے رہیں، آمین!

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۱۶۔ اگست  ۲۰۰۰ء

 

۲۳۶

 

الخَلقُ عِیَالُ اللہ

 

بحوالۂ ہزار حکمت (حکمت: ۶۳۱) اس ارشادِ نبوّی کا ترجمہ یہ ہے : مخلوق تمام کی تمام خدا کی عیال ہے، لہٰذا خدا کے نزدیک محبوب ترین مخلوق وہ ہے جو خدا کی عیال کو نفع پہنچائے اور اس کے اہلِ بیت کو خوش رکھے۔

یہی وجہ ہے کہ امامِ زمانؑ بحکمِ خدا(۱۷: ۷۱) اہلِ زمانہ کو بذریعۂ قیامت پہلے عالمِ ذرّ میں اور پھر عالمِ شخصی میں داخل کرتا ہے، اور اس کے بعد بہشت میں تعلیم دینے کا اہتمام ہوتا ہے، اور یہ کام امامؑ کے علمی لشکر کے سپرد ہوجاتا ہے۔

متذکرہ کتاب کی حکمت ۶۳۲ میں ایک حدیثِ قدسی درج ہے: قال اللّٰہُ عزَّ و جَلّ: الخلق عِیال فا حبُّھم اِلَّ الطفھم بھمٗ واسعاھم فی حوائجھم۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: تمام مخلوق میرا کنبہ ہے لہٰذا میرے نزدیک محبوب ترین بندہ وہ ہے جو ان پر زیادہ مہربان ہے اور ان کی حاجات کو پورا کرنے میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا رہتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۱۷۔ اگست  ۲۰۰۰ء

 

۲۳۷

 

روحانی قیامت اور نزولِ ملائکہ

 

سورہ ۴۱ آیت ۳۰ (۴۱: ۳۰) کا ترجمہ : جن لوگوں نے (خداشناسی اور اسمِ اعظم کے معنی میں) کہا ہمارا ربّ اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر قائم رہے تو یقیناً ان پر روحانی قیامت واقع ہوتی ہے اور فرشتے نازل ہوتے ہیں، اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرواور خوش ہوجاؤ اُس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ہم اس دنیا کی زندگی میں تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ چاہو گے تمہیں ملے گا۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۱۸۔ اگست  ۲۰۰۰ء

 

۲۳۸

 

ایک انتہائی عجیب و غریب قلب

 

میں سلمان تیرا ایک بیحدعجیب و غریب دل ہوں۔۔۔ کہ تیرے جوفِ سینہ کی قید سے آزاد اور تیرے اختیار سے بالاتر ہوں، مجھے تمہارا یہ شعر بہت پسند ہے:

زندانݺ اُیِم یاد جݺ مُو بیلٹݺ تِل آلجم

جنّت نُکہ آردین نِمی زندانُ لوئیڎم

ترجمہ: میں قید خانے کی یادِ شیرین کو کس طرح فراموش کرسکتا ہوں، جبکہ وہ میرے لئے جنت لے کر آکے گیا، میں نے اس کو قیدخانے میں دیکھا۔ مجھے وہ تمام نظمیں بھی بہت ہی پسند ہیں جن کے آخر میں مولانا علیؑ کا مبارک نام آتا ہے۔

یقیناً یہ روحانی طبیب ہی کی روحانی سائنس ہے کہ تمہارا محبوبِ روحانی خود تمہارا قلبِ سلیم ہوگیا، دیکھو قرآن ۲۶: ۸۹ نیز ۳۷: ۸۴۔

اے دوستانِ عزیز! دینی اسرار کی ناقدری اور ناشکری سے ڈرنا ضروری اور لازمی ہے، کسی دن آپ کو یہ تاویل بتاؤں گا کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگ کونسے بڑے جرم کی سزا میں بندر اور خنزیر کی صورت میں مسخ ہوگئے تھے، مختصر یہ کہ انہوں نے حضرتِ قائم علینا سلامہ کے اسرار سے ناجائز فائدہ اٹھایا تھا، نعوذ باللّٰہ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

سنیچر  ۱۹۔ اگست  ۲۰۰۰ء

 

۲۳۹

 

ایک انتہائی عجیب و غریب قلب سے فنا فی القائم مراد ہے

 

کیونکہ وہی حضرت صاحبِ جثۂ ابداعیۂ دوم اور مظہر العجائبِ اعظم ہے اور قیامت کی طوفانی دعوت کا مقصدِ اعلیٰ بھی وہی بزرگ ترینِ دوجہان ہے۔

ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السّلام کی دعوت حضرتِ قائم القیامتؑ ہی کی طرف تھی۔

حضرتِ حکیم پیر ناصرِ خسرو (ق۔س) نے کتابِ وجہِ دین  میں حُجتِ قائم اور حضرتِ قائم کے بارے میں خوب وضاحت فرمائی ہے۔ الحمدُ لِلّٰہ۔

اللہ تعالیٰ روزِ قیامت نہ صرف کائنات کو لپیٹتا ہے، بلکہ تمام حُدودِ جسمانی اور روحانی کو بھی حضرتِ قائم میں جمع کردیتا ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ادِت  ۲۰۔ اگست  ۲۰۰۰ء

 

۲۴۰

 

اسلام میں عالمِ انسانیت کے لئے خیر خواہی

 

اگر آپ قرآن و حدیث میں چشمِ بصیرت سے دیکھیں تو جگہ جگہ آپ کو عالمِ انسانیت کے لئے خیر خواہی کی عظیم الشّان مثالیں ملیں گی، جیسے حضورِ اکرم صلعم کا یہ فرمانا کہ دین سرتا سر خیر خواہی ہی خیر خواہی ہے اور آنحضرتؐ کی یہ حدیثِ شریف کہ مخلوقات سب کی سب خدا کی عیال ہیں، پس یہ روشن حقیقت ہے کہ جو مجموعی تعلیمات قرآنِ حکیم میں ہیں، انہی کی ترجمانی حدیثِ شریف میں فرمائی گئی ہے۔

سورۂ حُجرات (۴۹: ۱۳) میں دانائی سے غور کرنے کی ضرورت ہے:۔

ترجمہ: لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۲۱۔ اگست  ۲۰۰۰ء

 

۲۴۱

 

خُدائے واحدِ قہّار

 

اللہ تعالیٰ اپنی قیامت کی انتہائی غالب اور بڑی زبردست طاقت سے سب لوگوں کو یکجا اور ایک کرکے پوچھنے والا ہے: آج بادشاہی یعنی شاہنشاہی کس کی ہے؟ جواب دیا جائے گا: اللہ واحدِ قھّار کی ہے ، بحوالۂ قرآن (۴۰: ۱۶) ، مگر خداوندِ تعالیٰ نے اپنے جس مظہر (امامؑ) کو صاحبِ قیامت بنایا ہے، وہی واحدِ قھّار ہے ، کیونکہ وہی نفسِ واحدہ ہے، جو بحکمِ خدا تمام لوگوں کو بذریعۂ قیامت جمع کرلیتا ہے۔

بہشت میں اگرچہ ہر نعمت موجود ہے، لیکن سب سے بڑی نعمت وہاں کی علمی بادشاہی ہے، بادشاہی رعیّت کے بغیر ممکن ہی نہیں، پس آج دنیا میں جتنی قومیں خود شناسی اور ربّ شناسی کے بغیر ہیں وہ سب کی سب سلاطینِ بہشت کی شاگردی کریں گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو معرفت کی غرض سے پیدا کیا تھا۔

خوب غور سے سنو: معرفت رجوع الی اللہ ہے، اگر لوگ یہ رجوع خوشی سے دنیا میں نہیں کرتے ہیں تو قیامت کی زبردستی اور پھر بہشت کے پُرحکمت مدرسے کے وسیلے سے رجوع کرایا جاتا ہے، اگر بہشت پُرحکمت مدرسہ ہے جس میں ہر قوم ہوگی تو وہاں کے مُعلّمین سلاطین ہیں، پس جنّت

 

۲۴۲

 

کی بہت بڑی تعریف یہ ہے کہ وہ نہ صرف بہشت ہے بلکہ وہ ربّانی مدرسہ بھی ہے، تاکہ علم جو سب سے بڑی نعمت ہے وہ بہشت کی ہر ہر نعمت کیساتھ موجود ہو، جس طرح اگر دنیا میں کہیں بہشت برائے معرفت موجود ہے تو وہ بہشت بھی ہے اور مقامِ معرفت بھی۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

منگل  ۲۲۔ اگست  ۲۰۰۰ء

 

۲۴۳

 

عالمِ شخصی کے معجزات اور عجائب و غرائب کی گُونا گُونی اور ظہورات و تجلّیات کی رنگ برنگی

 

جب کسی باسعادت مومنِ سالک کو باطنی آنکھ عطا ہوجاتی ہے تو یہ اس کا روحانی جنم کا دن ہوتا ہے، اور کبھی ختم نہ ہونے والی حیرت بھی اسی وقت سے شروع ہوتی ہے، یہ آخرت اور بہشت نہیں، بلکہ دنیا کا وہ پہلو ہے جو باطن اور آخرت کے اُفق پر ہے، اس کی رعنائی اور زیبائی بے حد وبے قیاس ہے، تاکہ یہاں ایک بہت بڑا امتحان ہو، اس مقام سے متعلق قرآنِ حکیم میں کئی آیات ہیں، نیز روحانیّت کا آسمانِ نزدیک بہت بڑا امتحان ہے، لہٰذا روحانی ترقّی دراصل اسرافیل اور عزرائیل کی منزل سے شروع ہوجاتی ہے، کیونکہ ان دونوں عظیم فرشتوں کے مشترکہ عمل سے مومنِ سالک پر روحانی قیامت گزرنے لگتی ہے جو ترقی ہی ترقی ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ طوفانی ترقی ہے، کیونکہ قصّۂ نوحؑ میں قیامت ہی کو طوفانِ آبی کہا گیا ہے، جس کے معنی ہیں: قیامت طوفانِ علمی ہے۔

اگر کچھ عالی ہمّت لوگوں نے سب سے بڑی قیامت کو جھیل کر کائناتی جنّت بن جانے میں سبقت حاصل کر لی ہے، تو اب رفتہ رفتہ صرف اس کے نتائج سامنے آئیں گے، وہ سابقُوْا اور سارعُوا کی دو آیتیں ہیں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۲۳۔ اگست  ۲۰۰۰ء

 

۲۴۴

 

سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۴ تا ۲۵) میں مذکور پاک کلمہ کیا ہے اور پاک درخت کیا ہے؟

 

درخت کی جڑ زمین میں مضبوط ہونے سے کیا مراد ہے؟ اور اس کی شاخ کس طرح آسمان میں پہنچی ہوئی ہے، وہ اپنے ربّ کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا ہے کس طرح؟ کیا آپ ان تمام تاویلی سوالات کے جوابات مہیـا کر سکتے ہیں؟ اِن شاءَ اللّٰہُ العزیز۔

۱۔  پاک کلمہ اسمِ اعظم ہے، جو ظاہراً امامِ زمانؑ کی مقدّس شخصیت ہے، اور باطناً سب سے بڑا اسم اور نور و نورانیّت ہے۔

۲۔  پاک درخت آنحضرتؑ ہیں، جن کی جڑ زمینِ دین میں مضبوط ہے، یعنی آپ کا شجرۂ پاک ابراہیمؑ سے ہو کر آدمؑ تک پہنچتا ہے، اور شاخ یعنی آلِ مُحمّدؐ کے امامِ زمانؑ کا نور جو اسمِ اعظم کا نور ہے، وہ نفسِ کُلّی کے آسمان میں کام کر رہا ہے، الحمدُ لِلّٰہ!

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۲۵۔ اگست  ۲۰۰۰ء

 

۲۴۵

 

حضرتِ سُلیمانؑ کی روحانی سلطنت

قسط: ۱

 

یہ قرآنی حقیقت عُرَفأ کے لئے اَظہر مِنَ الشمَس ہے کہ آلِ ابراہیمؑ اور پھر آلِ محمّدؐ کو اللہ تعالیٰ نے تین عظیم الشّان چیزیں عطا فرما کر سر فراز فرمایا ہے، وہ ہیں: کتاب یا اس کی وراثت، حکمت اور عظیم سلطنت (۰۴: ۵۴) پس بڑے مُبارک ہیں وہ خوش نصیب لوگ جو امامِ زمانؑ کی معرفت کے سلسلے میں ایسی تمام عظیم چیزوں کا مشاہدہ کرکے کامل معرفت حاصل کرتے ہیں، اب یہاں قصّۂ سلیمانؑ کی چند خاص چیزوں کی تاویلی حکمت بیان کی جاتی ہے: ۔

۲۷: ۱۶ میں ارشاد ہے کہ داؤدؑ کا وارث سلیمانؑ ہوا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آلِ ابراہیمؑ میں روحانی سلطنت کی وراثت بہت پہلے سے چلی آرہی تھی، ۲۷: ۱۶ میں دیکھو: پرندوں کی بولی سے فرشتوں کی گفتگو مراد ہے، اسی آیت میں کُلّ شیءٍ سے علمِ کُلّ مراد ہے۔

۲۷: ۱۷ کی تاویل سے آپ کو انتہائی حیرت ہوگی کہ اس میں حضرتِ سلیمانؑ کی قیامت کا ذکر ہے، چیونٹیوں کی وادی (۲۷: ۱۸) کان ہیں، جن سے عالمِ ذرّ کی اور دیگر روحیں داخل اور خارج ہوتی رہتی ہیں، چیونٹی کی بات سے مسکرانا اور ہنس پڑنا حیرت اور تعجب کا اشارہ ہے (۲۷: ۱۹)  ھُد ھُد سے روحِ

 

۲۴۶

 

تجسُّس مراد ہے (۲۷: ۲۰)۔

(۲۷: ۲۱): عذاب سے حدودِ دین کی سخت ریاضت مراد ہے، ذبح کی تاویل ہے عہد لینا، جیسے امامِ عالی مقامؑ جب کسی مرید کو اسمِ اعظم عطا فرماتا ہے تو اس سے چند باتوں کا عہد لیتا ہے، یہ مرید گویا ایک گوسفند تھا اس کو ذبح کیا گیا، یہ معجزانہ طور پر زندہ ہونے تک کچھ نہیں بولے گا، ذبح کی دوسری غرض یہ ہے کہ حدودِ دین میں سے کوئی اس کو کھا کر اپنی ہستی کا حصّہ بنالے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

یک شنبہ  ۲۷۔ اگست  ۲۰۰۰ء

 

۲۴۷

 

حضرتِ سُلیمانؑ کی روحانی سلطنت

قسط: ۲

 

بحوالۂ ۲۷: ۱۷ حضرتِ سلیمانؑ کے لئے اس کے روحانی لشکر کی جمع آوری جو بذریعۂ  نفخِ صور ممکن ہوسکتی ہے جس طرح دنیا کی کسی بڑی آرمی کو بگل کی ایک خاص آواز سے جنگ کے لئے بلایا جاتا ہے، اور تم حکمت کے اس کثیرالوُجوہ ڈائمنڈ کو بھول نہ جانا کہ اس آیۂ شریفہ میں نہ صرف اہلِ زمانہ پر غیر شعوری قیامت گزرنے کا اشارہ ہے، بلکہ یہ انسانِ کامل کی عرفانی قیامت بھی ہے، اور عالمِ شخصی کی عالمگیر جنگ بھی، نیز دینِ حق کی زبردست طوفانی اور فیصلہ کُن دعوت بھی ہے، ایسے حال میں اگر بلقیس ملکۂ سبا = سبا کی بادشاہ تھی تو وہ کس طرح روحانی سلطنت کے مرکز سے الگ رہ سکتی تھی۔

اب سوال ھُدھُد کی اس رپورٹ سے متعلق ہے کہ اس نے ملکۂ سبا کی بادشاہی کی تعریف میں کہا کہ اس کو ہر چیز دی گئی ہے، اور اس کا ایک عظیم تخت ہے۔

کتاب سرائر  ص ۱۹۵  پر درج ہے کہ : حضرت داؤدؑ نے بنی اسرائیل سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے یقیناً مجھے وحی بھیجی ہے ، جس کے مطابق میں تم پر سُلیمانؑ کو اپنا خلیفہ مقرر کرتا ہوں، پس اس بات پر بنی اسرائیل کے سردار ہنسنے لگے، کیونکہ ان کی نظر میں سلیمانؑ نوعمر لگتا تھا، اور اعتراضاً یہ بھی کہنے لگے آیا آپ ہم پر ایک

 

۲۴۸

 

لڑکے کو خلیفہ بناتے ہیں حالانکہ ہم میں ایسے ایسے بزرگ اور حقدار لوگ بیٹھے ہیں، اور یہ لوگ نقیبان تھے کیونکہ وہ خود کو اس کے نظیر خیال کرتے تھے، پس داؤدؑ کو ان کے احوال معلوم ہو گئے اور ان سب کو حاضر کر لیا۔

اور ان سے فرمایا کہ تم سب کے سب صرف رعایا ہی ہو اور تم جیسی رعایا پر کسی فضل و کمال والے کا حق ہے کہ وہ خلیفہ بنے۔

پس تم اپنی اُن لاٹھیوں کو لاؤ جن سے تم اپنی اپنی بکریوں کو چرایا کرتے ہو، پس وہ اپنی لاٹھیاں لے آئے، حضرت داؤدؑ نے اَسباط کی ایک جماعت کو بھی حاضر کیا اور فرمایا کہ تم سب معجزۂ الٰہی کو دیکھ لینا، ہر شخص کا نام اسکی لاٹھی پر لکھا گیا۔

پس حضرتِ داؤدؑ نے فرمایا: جس شخص کی سوکھی لاٹھی سرسبز ہو کر پھل لائے، وہی شخص میرے بعد تم پر میرا خلیفہ اور تمہارا ولیٔ امر ہوگا، پس تمام لاٹھیوں کو ایک گھر میں رکھ کر دروازے کو مقفل کیا گیا اور حضرتؑ نے مہر بھی لگا دی، رات بھر دروازے کے سامنے شب بیداری کی عبادت کی گئی، جب صبح ہوئی تو نماز پڑھائی گئی، پھر دروازہ کھولا گیا، اور دیکھا کہ صرف حضرت سلیمان علیہ السّلام ہی کی لاٹھی سرسبز اور ثمردار ہوگئی تھی، اور یہ ایک عظیم تاویلی راز ہے۔ الحمد لِلّٰہ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۲۸۔ اگست  ۲۰۰۰ء

 

۲۴۹

 

حضرتِ سُلیمانؑ کی روحانی سلطنت

قسط: ۳

 

اللہ تعالیٰ جو قادرِ مطلق ہے، وہ انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کے عالمِ شخصی کو ایسا باکمال اور بے مثال بنا دیتا ہےکہ اس میں ہر قسم کی اعلیٰ روحانی قوتیں موجود ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے کسی بیرونی جنّ یا عِفریت کی مدد کے لئے کبھی ضرورت نہیں پڑتی ہے، چنانچہ قصۂ سلیمان (۲۷: ۳۹) میں مرتبۂ حجتِ قائم  عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِن  ہے اور الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ سے نورِ قائم مراد ہے، اشارۂ علم سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جب سلیمانؑ کی روحانی قیامت میں ساری کائنات سلیمانؑ کےعالمِ شخصی میں لپیٹ دی گئی تھی تو ملکۂ سبا اور اس کا تخت کس طرح باہر رہ گیا تھا، اسی طرح تختِ بلقیس کو سلیمانؑ کے پاس جلد ازجلد حاضر کردینے میں علم والا اوّل رہا کہ وہ یہ کام پہلے ہی کر چکا تھا، سبحان اللہ!

سوال: ۲۷: ۴۰  میں جس کتاب کے علم کی تعریف ہے وہ کونسی کتاب ہے؟

جواب: وہ کتابِ کُلّی ہے، یعنی کتابِ صامت + کتابِ ناطق+ کتابِ کائنات + کتابِ نفس = ۱+۱+۱+۱ = ۴ = کتابِ کُلّ، اس کا نام الکتاب بھی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۳۰۔ اگست  ۲۰۰۰ء

 

۲۵۰

 

حضرتِ سُلیمانؑ کی روحانی سلطنت

قسط: ۴

 

حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی سلطنتِ روحانی کی حکمت اور معرفت کن مقاصد کے پیشِ نظر ضروری ہے؟

۱۔ کیونکہ یہ آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمّدؐ کی روحانی سلطنت کا نمونہ ہے۔

۲۔ نیز یہ بہشت میں صفِ اوّل کے مومنین کی بادشاہی کی مثال ہے۔

۳۔ سب سے بڑا مقصد حقیقی بادشاہ کو پہچاننا ہے۔ حق بات تو یہ ہےکہ عالمِ شخصی کے طویل سفر میں عارف کو حقائق و معارف کے لازوال خزانے مل جاتے ہیں۔

حضرتِ سلیمانؑ کے لئے عجیب و غریب کام کرنے والے جنّات سے مراد روحانی قوّتیں ہیں، آپ ان کو فرشتے بھی کہہ سکتے ہیں۔

اسرافیل اور عزرائیل کے عمل سے انسانِ کامل کی بےشمار روحانی تصاویر یا کاپیاں بن جاتی ہیں، یہ تماثیل ہیں، (۳۴: ۱۳) اسی حوالے میں محاریب بھی ہیں، جس سے اجسامِ لطیف مراد ہیں، کیونکہ ہر جسمِ لطیف بجائے خود ایک روحانی قلعہ ہے، جس میں بے شمار روحانی لشکر پوشیدہ ہیں۔

بڑے بڑے تالاب جیسے لگن سے علم و حکمت کے کُلّیات مراد ہیں، اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں الکلمات التّامات (۳۴: ۱۳) ہیں،

 

۲۵۱

 

پگھلے ہوئے تانبے کے چشمے کی تاویل تسخیرِ کائنات اور عِلمُ المُمکنات ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۳۱۔ اگست  ۲۰۰۰ء

 

۲۵۲

 

علم و حکمت اور معرفت کا دائرہ یا احاطہ

 

یہ عنوان ایک اساسی سوال ہے جو اس طرح سے ہے: علم و حکمت اور معرفت کا دائرہ کس قدر وسیع ہے؟ آیا سب چیزیں اس دائرے میں محدود ہیں یا اس سے باہر بھی بہت سی چیزیں ہیں؟

جواب: نہیں، نہیں، اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو امامِ مبینؑ میں گھیر کر اور شمار کر کے رکھا ہے (۳۶: ۱۲) یہی حقیقت لوحِ محفوظ کے نام سے بھی ہے، اور حظیرۂ قدس کے نام سے بھی۔

سورۂ بقرہ کے شروع میں ہے: الم = ا ل م:۔

الف  =   اوّل  =   عقل  =   نورِ محمّدی  =  قلم ۔

ل  =   لوحِ محفوظ  =   نورِ علیؑ ۔

م  =   مرقوم  (جو کچھ قلم نے خدا کے حکم سے لوحِ محفوظ میں لکھا ہے)۔

پاس الف عقل اوّل ہے جو عرش بھی ہے اور قلم بھی، اور لام نفسِ کُلّ ہے، جو کرسی بھی ہے اور لوحِ محفوظ بھی، اور یقیناً ساری کائنات و موجودات لوحِ محفوظ کے اندر تحریر بن کر ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نفسِ کُلّی کے زندہ سمندر میں ساری کائنات مستغرق و محفوظ ہے، اب آپ بتائیں کہ ایسے میں کششِ ثقل کا وجود کہاں ہے؟ یہ اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْارْضِ

 

۲۵۳

 

کی ایک محکم تفسیر ہے۔ قرآنی حکمت داناؤں کے لئے ہے۔ الحمدُ لِلّٰہ ۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  یکم  ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۲۵۴

 

نامۂ اعمال کے بعض حقائق و معارف

 

ظاہری سائنس کی مثالیں کتنی اچھی ہیں، کہ ان کے ذریعے سے روحانی اور قرآنی سائنس کی چیزیں سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے، اس کی ایک روشن دلیل یہ ہے کہ ہم نے نامۂ اعمال کو نورانی موویز کہا، ان شاء اللہ یہ اصطلاح مقبولِ خاص و عام ہوگی۔

سورۂ حاقّہ (۶۹: ۱۹) میں ہے: اس وقت جس کا نامۂ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا لو دیکھو پڑھو میرا نامۂ اعمال ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصحابُ الیمین میں سے ہر شخص کا نامۂ اعمال بالکل پاک و صاف ہوگا یعنی اس میں سر تا سر نیکیاں ہوں گی، یہ نورانی فلم جنّت کی عظیم نعمتوں میں سے ہوگی، تب ہی دوسروں کے نامۂ اعمال کو بھی دیکھا جا سکے گا۔

اوَلیاءُ اللہ (دوستانِ خدا) کے بارے میں ہے:۔

پس و پیش و نہان و آشکار اُوست

شناسایِ خود و پروردگار اُوست

خوش گُفت دربیابان مردِ دُھُل دریدہ

عارف خدا نہ دارد اُو را نیا فریدہ  (نہ آفریدہ)

از کتاب آغاخانِ محلاّتی–

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۲۔ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۲۵۵

 

قرآنِ حکیم علم وحکمت کی بہشتِ برین ہے

 

بہشت مجموعاً ایک بھی ہے اور اس میں الگ الگ بے شمار باغات بھی ہیں، اسی طرح قرآنی بہشت کا ہر مضمون اس کا ایک جداگانہ باغ ہے، پس مضمونِ اُولُوا الاَلباب (صاحبانِ عقل) قرآنی بہشت کا بڑا عجیب و غریب اور عظیم الشّان باغ ہے، جس کا ذکرِ جمیل قرآنِ پاک کے کُلّ ۱۶ مقامات پر ہے، آپ ان سولہ آیات کو خوب غور سے پڑھیں اور دیکھیں کہ صاحبانِ عقل کون سے لوگ ہوتے ہیں اور ان کے کیا کیا اوصاف و کمالات ہوتے ہیں، اور کس طرح یہ مضمون تمام قرآن میں پھیل جاتا ہے۔

عقل خدا کی خدائی میں سب سے بڑی چیز ہے، لہٰذا جملۂ قرآن میں عقل کی تعریف ہے، عقل ہی نورِ اوّل ہے، عقل ہی قلمِ اعلیٰ ہے، عقل ہی نورِ مُحمّدی ہے، یہی سب سے عظیم فرشتہ یعنی عقلِ کلی ہے، اور یہی کنز ہے۔

عاشقانِ الٰہی کے لئے قرآنِ حکیم علم و حکمت کی بہشتِ برین ہے، یقیناً علم و حکمت جنّت کی سب سے شیرین اور سب سے اعلیٰ نعمت ہے۔

اے عزیزان! قرآنی بہشت میں داخل ہو جاؤ، اس میں ہر وہ نعمت موجود ہے جس کو تم چاہتے ہو، اب تک تمہارے پاس جو علمی دولت جمع ہوئی ہے، کیا وہ قرآنی بہشت سے نہیں ہے؟ یقیناً قرآن اور روحانیت سے ہے، الحمد لِلّٰہ۔

 

۲۵۶

 

حکیم پیر ناصرِ خسرو (ق۔س) فرماتا ہے:

قفل از دل بردار و قرآن رہبرِ خود کُن

تا راہ شناسی و کُشادہ شَوَدَت در

ترجمہ: دل سے تالا اٹھا کر قرآن کو اپنا رہبر بنالے، تاکہ تجھ کو راستہ کی شناخت ہوجائے اور تیرے لئے بابِ معرفت کھل جائے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۴۔ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۲۵۷

 

قرآن عظیم میں صاحبانِ عقل کی ایک بنیادی تعریف

 

یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور شب و روز کے باری باری سے آنے میں ان صاحبانِ عقل کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں، اور زمین و آسمان کی پیدائش میں غوروفکر کرتے ہیں (۰۳: ۱۹۱)۔

اس سے معلوم ہوا کہ دانا لوگوں کی اصل دانائی یہ ہے کہ وہ ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں، خوہ وہ کھڑے ہیں، یا بیٹھے ہیں، یا لیٹے ہیں، وہ خداوندِ قدّوس کے خاص اور بزرگ ناموں میں سے کسی پیارے نام کو جذبۂ عشق سے یاد کرتے ہیں، خوش بختی سے ان کو خدائے مہربان سے قلبی دوستی ہوتی ہے، لہٰذا خدا کو یاد کرتے کرتے کبھی ان کی مبارک آنکھ روتی ہے، اور کبھی ان کا خوش نصیب دل روتا ہے، وہ عاجزانہ سجدوں کا سہارا لیتے ہیں، وہ چیخ چیخ کر ذکر نہیں کرتے، ایسا ذکر خداوندِ تعالیٰ کو ناپسند ہے، میرا کوئی شاگرد شوروغوغا کے ساتھ ذکر ہرگز نہ کرے، یہ کام قرآن حکیم کے خلاف ہے، یہ نصیحت خصوصاً شمالی علاقہ جات کے عزیزوں کے لئےہے، آج کل ترقی کا زمانہ ہے اس لئے علم و حکمت کے بغیر کوئی کام غلط ہوسکتا ہے، اب جبکہ دانش گاہِ خانۂ حکمت کے علم و حکمت کا ایک خاص تعارف ہوچکا ہے، ایسے میں ہمارا ہر عزیز اپنی ذمہ داریوں پر خوب غور کرے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

بد ھ  ۶۔  ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۲۵۸

 

لشکرِ ارواح

 

حدیثِ شریف ہے: اَلْاَرْوَاحُ جُنودٌ مُّجَنَّد ۃٌ = تمام روحیں جمع شدہ لشکر کی طرح ہیں۔ اس قانونِ ارواح کی عرفانی تشریح یہ ہے کہ جُنودِ ارواح کا سب سے پہلا ظہور حضرتِ آدمؑ کے سامنے ہوا، یہ بے حدّ و بےشمار روحیں عالمِ ذرّ کی صورت میں تھیں، جن کی تعداد و شمار خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے، ان انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات کو نہ انسانی آنکھ دیکھ سکتی ہے اور نہ کوئی خوردبین، مگر شائد یہاں عین الیقین کا پہلا معجزہ ہوتا ہے، کیونکہ عظیم اسرافیل اور عظیم عزرائیل اپنے اپنے کام کررہے ہوتے ہیں، یا اس کی وجہ یہ ہے کہ حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن کے درمیان ایک موٹی دیوار نفسِ حیوانی کی جو سَدِّ ذوالقرنین کے نام سے ہے، اس کو یاجوج ماجوج نے چاٹ چاٹ کر کھالیا، اس لئے فی الحال ظاہری اور باطنی حواس مل کر کام کرتے ہیں۔

عالمِ ذرّایک مکمل عالم ہے، اس لئے اس پر قرآنِ حکیم میں کُلُّ شیءٍ کا اطلاق ہوتا ہے، اگرچہ کُلُّ شیءٍ کے اور بھی معنی ہیں، تاہم اس میں عارف کے لئے عالمِ ذرّ کا واضح اشارہ بھی ہے، کیونکہ اس میں ہر چیز موجود ہے، یعنی کائنات کی تمام چیزیں موجود ہیں، اس میں فرشتے ہیں، یاجوج ماجوج ہیں، جنّ وانس اور وحش وطیر ہیں، الغرض ہر چیز کی روح بحکمِ خدا یہاں موجود ہے،

 

۲۵۹

 

پس آدم خلیفۃُ اللہ کے لئے سجدۂ اطاعت عالمِ ذرّ کی ہر چیز نے کیا، یہاں تک کہ پتھر نے بھی اپنی اس روح سے جو عالمِ ذرّ میں ہے خلیفۂ خدا کے لئے سجدہ کیا۔

اس سلسلے میں رازِ سربستہ یہ ہے کہ عالمِ ذرّ کے تمام فرشتوں نے حکمِ خداوندی کے مطابق آدمؑ کی ہستی میں گرتے ہوئے سجدہ کیا تھا، اور ساری کائنات گر گر کر سجدہ کرتی اور مُسخّر ہوتی جا رہی تھی، جبکہ آدمؑ کی روح کائنات میں پھیلائی جاتی تھی اور کائنات بار بار آدمؑ میں ڈالی جاتی تھی، یہی عمل تسخیرِ کائنات بھی تھا اور آدمؑ کے لئے کائناتی سجدہ بھی، کیونکہ کائنات اور اس کے تمام اجزا ایک معنی کے مطابق فرشتے ہیں، ان کے لئے خدا کا حکم تھا کہ وہ گرتے ہوئے آدمؑ کو سجدہ کریں۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۷۔ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۲۶۰

 

خلافتِ الٰہیّہ

 

ترجمۂ آیت (سورۂ بقرہ ۰۲: ۳۰) : پھر ذرا اس وقت کا تصوّر کرو جب تمہارے ربّ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں (یعنی لوگوں میں ) ایک خلیفہ بنانے والا ہوں، ظاہر ہے کہ یہاں زمین سے باشندگانِ زمین یعنی تمام لوگ مراد ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب تک دنیا میں لوگ ہوں گے تب تک ان کے درمیان خدا کا خلیفہ موجود ہوگا، اور اس کا سارا روحانی قِصّہ وہی ہو گا جو آدمِ اوّلؑ کا تھا، کیونکہ سُنّتِ الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے، لشکرِ ارواح کا محرک و محورنفسِ واحدہ ہے اور یہی خود اپنے وقت کا آدم ہے۔

آپ اللہ کی سنّت کے بھیدوں پر قرآنِ حکیم میں خوب غوروفکر کریں تاکہ آپ کو یقین آئے کہ اللہ کی سُنّت کا ظہور سب سے پہلے حضرتِ آدمؑ کے عالمِ شخصی میں ہوا تھا اور خدا کی یہی عادت انبیاء و اولیاء میں چلی آئی ، اور عارفین نے بفضلِ خدا اپنے عالمِ شخصی میں ان تمام معجزات کو دیکھا تاکہ گواہی اور معرفت کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۸۔ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۲۶۱

 

حضرتِ آدم خلیفۃُ اللہ علیہ السّلام

 

حکمتِ الٰہیّہ کا سب سے اوّلین خزانہ قصّۂ آدم میں پوشیدہ ہے، اس میں داخل ہوجانے کا طریقہ ہادیٔ برحق کی پیروی میں ہے، اس خزانے میں خلیفۂ خدا کے تمام تر اسرارموجود ہیں، جب کوئی عارف اس گنجِ گرانمایہ کو حاصل کرلیتا ہے تو وہ یقیناً علم و حکمت کی دولتِ لازوال سے مالامال ہوجاتا ہے، عالمِ ذرّ اور روحانی لشکر کو دیکھتا ہے، اور عالمِ شخصی کا ہر پہلو سے نظّارہ کرتا ہے، خودشناسی اور خداشناسی کے اسرار بھی اسی خزانے میں ہیں۔

حضرتِ آدمؑ جب مستجیب تھا تو اس کو امامِ زمان علیہ السّلام سے وہ اسمِ اعظم عطا ہوا تھا جس میں تمام اسما ءُ الحسنٰی جمع ہوتے ہیں، آدمؑ کو مٹی سے بنانے کی تاویل یہ ہے کہ اس کو مومنِ مستجیب سے رفتہ رفتہ ترقی دی گئی تھی، مٹی = تُراب سے مومن مراد ہے کہ جس طرح زمین (مٹی) پانی کو قبول کرکے سرسبز و آباد ہو جاتی ہے، اسی طرح مومن علم کو قبول کر کے بحقیقت زندہ ہوجاتا ہے، مٹی کی تاویل کے لئے وجہِ دین میں دیکھو۔ خلافت، نبوّت، رسالت، امامت، ولایت اور معرفت کا ایک ہی سرچشمہ ہے اور وہ حضرتِ آدمؑ ہے۔

اب رہا سوال : آیا اس آدمؑ سے پہلے بھی بے شمار آدم ہوئے تھے؟

جواب: جی ہاں، کیونکہ خدا کی خدائی کی نہ تو کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی

 

۲۶۲

 

کوئی انتہا، جس شخص نے دینِ حق کی دعوت کو قبول کیا وہ مستجیب کہلاتا ہے، جو حدودِ دین میں سب سے بنیادی درجہ رکھتا ہے، اس لئے اس کی تمثیل مٹی سے دی گئی ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

اتوار  ۱۰۔ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۲۶۳

قرآنی سائنس – حصّۂ دوم

قرآنی سائنس حصّۂ دوم

آغازِ کتاب

میں اکثر سوچتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے عظیم علمی معجزات، بےپایان انعامات اور لا انتہا احسانات و نوازشات کا کما کان حقہٗ شکر اور سجدۂ شکرانہ کس طرح ادا کرو؟

 

یا ارحم الراحمین! تو اپنی رحمتِ بے نہایت سے ہمارے ہر حلقۂ چہل درویش کو مناجاتِ شکرگزاری کے لئے اعلیٰ توفیق و ہدایت عنایت فرما! یاربّ العزّت تیری بے شمار نعمتوں کا طوفان عالم گیر اور دائمی ہے۔

 

قرآنِ حکیم کا ارشادِ مبارک ہے:

وَتَوَکّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لاَ یَمُوْتُ (۲۵: ۵۸)۔

 

نصیر الدین نصیرؔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی

جمعرات ۳۰ ؍ ستمبر ۲۰۰۴ء

 

۱

 

اَللّٰھُمَّ اِنِیّ اَسْئَلُکَ بِاَسْمَائِکَ الْحُسْنٰی

 

بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ﳛ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌؕ-لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖؕ-یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْۚ-وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَۚ-وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ-وَ لَا یَـٴُـوْدُهٗ حِفْظُهُمَاۚ-وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ۔ (۰۲: ۲۵۵)

اس کے لا محدود معنی میرے فہم و ادراک سے بالاتر ہیں!

 

انتسابِ جدیدی: یہ دور جس طرح ظاہراً مادّی سائنس کا ہے، اسی طرح باطناً روحانی اور قرآنی سائنس کا ہے، میرے تجربے میں خواب ہو یا بیداری، اشخاص کے قرآنی ناموں میں اشارتیں اور بشارتیں موجود ہیں، میرے بیحد عزیز فتح علی کے پیارے نام میں دونوں لفظ اتفاقاً قرآنی اور بڑے نیک شگون والے ہیں۔ چنانچہ فتح علی اور گل شکر جسماً انسان اور روحاً فرشتے ہیں، ان کی بے شمار خدمات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے خاندان کو نورِ علم وحکمت کی لازوال نعمت سے نوازا ہے، اس باسعادت خاندان کے ارضی فرشتے یہ ہیں: فتح علی، گل شکر، ان کی دخترِ نیک اختر ڈاکٹر فاطمہ، ان کا فرزندِ اکبر نزار علی، اہلیہ شازیہ نزار، بیٹی درثمین نزار، بیٹا فقیر محمد نزار نیکنام، رحیم ابنِ فتح علی اور ان کی بیگم گوہرِ فاطمہ۔

 

نصیر الدین نصیرؔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی

جمعرات ۳۰ ؍ ستمبر ۲۰۰۴ء

 

۲

 

قرآنی سائنس

 

کائناتِ اصغر = عالمِ شخصی میں اللہ جل شانہٗ نے ایک بڑی عجیب و غریب اور ایک نہایت مقدّس و مبارک زمین بنائی ہے، جو اس دنیا کے تمام عوالمِ شخصی کے لئے باعثِ برکت ہے، یقیناً اس کے عجائب و غرائب بےشمار ہیں، اس کے بہت سے مشارق ومغارب ہیں، جن سے ہمیشہ علم و حکمت اور اسرارِ معرفت کے انوار طلوع و غروب ہوتے رہتے ہیں، اس کے ہر نور کے طلوع میں بھی اشارہ ہے اور غروب میں بھی، یہ چند تعریفی اشارات حظیرۂ قدس سے متعلق ہیں، آپ قرآنِ حکیم میں ان آیاتِ کریمہ کو معلوم کریں جو حظیرۂ قدس کی شان میں ہیں، ان آیاتِ مبارکہ کی چند مثالیں: ۔

 

مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا (۰۷: ۱۳۷)۔

الأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ (۰۵: ۲۱)

بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ (۲۱: ۷۱)

إِنَّكَ بِالْوَادِي الْمُقَدَّسِ طُوًى (۲۰: ۱۲)

ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (۲۳: ۵۰)

مَكَانًا عَلِيًّا (۱۹: ۵۷)

الطُّورِ الأَيْمَنِ (۱۹: ۵۲)

جَنَّةٍ عَالِيَةٍ (۶۹: ۲۲)

 

۳

 

عِلِّيِّينَ (۸۳: ۱۸)

وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ (۳۶: ۱۲)

وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ كِتَابًا (۷۸: ۲۹)

وَأَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا (۷۲: ۲۸)

 

ن۔ن۔(حبِّ علی) ہونزائی

روز جمعہ ۲۹ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۴

 

جثّۂ ابداعیہ = نورِ مجسّم

 

سوال: جثّۂ ابداعیہ کو آپ نے شاہِ جنات کہا ہے؟ کیوں؟

جواب: کیونکہ عظیم بھید حجاب چاہتے ہیں۔

 

سوال: دروازہ سے کیوں آیا؟

جواب: کیونکہ اس کی یہ شان نہیں کہ دیوار سے آئے۔

 

سوال: کیا اس کا اوّلین معجزہ یہ ہے کہ ہر قسم کا بند دروازہ برقی سرعت سے خودبخود کھل کر خود ہی بند بھی ہو جاتا ہے؟ اس میں کیا راز ہے۔

جواب: اس میں کئی عظیم راز ہیں، اور ایک عظیم راز یہ بھی ہے کہ اس میں نورانی برق کا بڑا زبردست کرنٹ موجود ہے، یہ چاہے تو کسی بڑے فولادی دروازے کو پارہ پارہ کرے، یہ چاہے تو یو۔ایف۔او بن کر فضا میں پرواز کرے۔

سوال و جواب سے معرفت کا مقصد پورا نہیں ہوگا، اس لئے تم بدرجۂ انتہا عالی ہمت بنو، اور جسمانی موت سے قبل نفسانی موت کا کامل و مکمل تجربہ حاصل کرو، تاکہ تم خود آفاق و انفس میں معجزاتِ معرفت کا مشاہدہ کر سکو گے۔

 

حضرتِ آدمؑ سب سے اوّلین صاحبِ جثّۂ ابداعیہ تھا، پھر ہر زمانے میں آدمؑ کے جانشین کے پاس یہ سب سے بڑا معجزہ تھا، اور معرفتِ

 

۵

 

کلّی وہ عجیب اور عظیم مرتبہ ہے جس میں تمام معجزات کا مشاہدہ ہوتا ہے۔

 

اگرچہ مومنِ سالک بارہا موت سے گزرتا جاتا ہے، لیکن سب سے اعلیٰ موت وہاں ہے جہاں اس کو نورِ مجسّم کا دیدار ہوتا ہے، اس کے بعد اس کو ایک نورانی بیٹے کی خوشخبری ملتی ہے، اور یہ سب سے عظیم اور سب سے عجیب راز ہے کہ وہ بیٹا کون ہے؟ میں یہاں وہ نہیں بتا سکتا، اگر خدا نے چاہا تو ممکن ہے۔

 

کیا وہ نورانی بیٹا حظیرۂ قدس کی وحدت میں بیٹا بھی ہے اور خود باپ کے علاوہ اور بہت کچھ ہے، یعنی مونوریالٹی؟ اور جنّت میں کونسی نعمت غیر ممکن ہے؟

 

ن۔ن۔(حبِّ علی) ہونزائی

پیر ۱۱ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۶

 

ایک انتہائی عظیم سوال

 

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۲۵) میں ایک مبارک و مقدّس اور پُراز حکمت لفظ کا ترجمہ ہے: صاحبِ نشان فرشتے، اس میں ہمارے بےحد عزیز شاگردوں کو حکمتِ قرآن سے جو عشق ہے اس کی خاطر سے سوال ہے کہ صاحبِ نشان فرشتے کیسے ہوتے ہیں؟ اور ان کا وہ نشان کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ جنگِ بدر کا قصّہ ہے؟ آیا اس جنگ میں لشکرِ اسلام کے ہر فرد نے یا بعض نے ان صاحبِ نشان فرشتوں کو دیکھا تھا؟

 

جوابات: صاحبِ نشان فرشتے علامتی طور پر کچھ ہتھیار کے ساتھ نظر آتے ہیں، اس میں اللہ کی مدد اور فتح و کامیابی کی بشارت ہے، ظاہری جہاد میں مدد کے لئے آئے ہوئے نشان والے فرشتوں کو صرف خاص مومنین دیکھ سکتے ہیں، اور عالمِ شخصی کی جنگ میں عارف ہر قسم کے فرشتوں کو دیکھ سکتا ہے، نازل ہونے والے فرشتے آسمانی ہوتے ہیں، وہ علامتی اسلحہ کے بغیر ہوتے ہیں، جنگی نشان والے فرشتے حدودِ دین ہیں جو زمین پر ہوتے ہیں، ان کے پاس زمانے کے مطابق علامتی اسلحہ ہوتے ہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح مندی اور کامیابی کی بشارت اور اطمینان ہو۔

 

اگر ایک آدمی ایک عالمِ شخصی ہوسکتا ہے تو ایک فرشتہ بھی ایک

 

۷

 

ملکی قلعہ یا ایک عالمِ ملکوت بھی ہوسکتا ہے، جس میں بےشمار فرشتے ہوتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل ۱۲؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۸

 

قرآنی حکمتوں کے اشارات

 

درحقیقت دانا لوگ (صاحبانِ عقل) وہی حضرات ہیں، جو حقیقی معنوں میں قرآنِ حکیم کی آیاتِ مبارکہ میں غور و فکر کرتے ہیں، اور قرآنِ عزیز کی عظیم حکمتوں کے اشارات کو بجا طور پر سمجھ لیتے ہیں، جیسا کہ اس پسندیدہ شعر کا مطلب ہے:۔

بحرِ قرآن بحرِ گوہر زا ہے عقلٔا کے لئے

تاکہ ہر عاقل یہاں سے اپنے دامن کو بھرے

تشریح: قرآن کا سمندر موتیوں کو جنم دینے والا سمندر ہے، تاکہ ہر عاقل و دانا شخص یہاں کے علم و حکمت کے موتیوں سے اپنے دامن کو بھر لے۔

 

یقیناً قرآنی غوروفکر اور حکمتی اشارات میں انمول جواہرات ہیں، نورِ قرآن سے اگر عشق ہو تو ان شاء اللہ کنزِ قرآن مل سکتا ہے، جو کام منشائے الٰہی کے مطابق ہے وہ قوّتِ الٰہی سے ہو کر رہے گا، آپ حقیقی ایمان، کثرتِ ذکر اور علم و معرفت سے خداوندِ قدوس کو اپنا وکیل قرار دیں۔

 

قرآن کی سب سے اعلیٰ خدمت اس کے علم و حکمت کی روشنی کو پھیلانا ہے، کیونکہ عصرِ حاضر کا انسان مادّی ترقی کے طوفان میں خدائے واحدِ قھار کو فراموش کر بیٹھا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ انسان کے اعمال سے باخبر ہے۔

 

۹

 

تا نہ بردی رنجہا را کی بیابی گنج را

عاقلان از فکرِ قرآن گنج ہا را یافتند

ترجمہ: جب تک تو بہت سی مشقتیں نہ اٹھائے، تجھے خزانہ کس طرح مل سکتا ہے؟ حالانکہ دانا لوگوں نے قرآنی فکر سے خزانے حاصل کر لئے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ ۱۳ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۰

 

خواتینِ قرآن

 

ہم نے خواتینِ قرآن کے بعض فضائل بیان کرنے کا ایک مختصر سلسلہ شروع کیا تھا، جو دورۂ مغرب کی وجہ سے جاری نہ رہ سکا، مگر آج سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۵) کی وجہ سے پھر وہ مضمون یاد آیا، وہ آیۂ شریفہ یہ ہے: ۔

وَلَھُمْ فِیْھَأ اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ وَّ ھُمْ فِیْھَاخَالِدُوْنَ۔

ترجمہ: ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ اس کے بڑے اہم اور بنیادی سوالات یہ ہیں: ۔

 

۱۔حورانِ بہشتی خواتینِ قرآن میں شامل ہیں یا نہیں؟

۲۔ ان کی پاکیزگی کی کیا تعریف ہوسکتی ہے؟

۳۔ کیا بہشت میں صرف بیوی ہر طرح سے پاک و پاکیزہ ہوسکتی ہے یا اس کا شوہر بھی؟

۴۔ آیا مومنین و مومنات کی ساری پاکیزگی صرف بہشت میں جاکر ہوتی ہے یا دنیا میں بھی؟

جوابات: میرے خیال میں حورانِ بہشتی بھی خواتینِ قرآن میں شامل ہو سکتی ہیں، ان کی پاکیزگی میں اوّل جسمِ لطیف ہے، دوم روحِ پاک ہے، اور سوم پاکیزہ عقل ہے، کیونکہ ہر انسان جسم و جان اور عقل کا مجموعہ ہے، اس لئے پاکیزگی

 

۱۱

 

تین قسم کی ہوتی ہے، جو جسمانی، روحانی اور عقلی ہے، اور اسی میں اخلاقی پاکیزگی بھی ہے۔

 

حورانِ بہشتی کو بعض علماء نے جنت کی پری عورتیں کہا ہے جو درست ترجمہ ہے، بہشت کا قانون یہ ہے کہ ہر قسم کی پاکیزگی اور حسن و جمال میں وہاں میاں بیوی بالکل برابر اور ہم پلہ ہوتے ہیں، مومنین و مومنات دنیا ہی میں ہر طرح سے بہشت کے لئے تیار ہوتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِ علی) ہونزائی

جمعرات ۱۴ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۲

 

عالمِ شخصی میں امامِ مبینؑ کا نورانی ظہور

 

اللہ تعالیٰ کی پاک حکمت بڑی عجیب و غریب اور چشمۂ آبِ حیات کی طرح ہے، اس ذاتِ پاک نے ہر عظیم شیٔ کو ایک مناسب اور اعلیٰ مقام عطا کیا ہے، چنانچہ اس کریم کارساز اور رحیمِ بندہ نواز نے اہلِ ایمان کو سمجھانے کے لئے امامِ مبینؑ کے ذکرِ جمیل کو قلبِ قرآن میں رکھا ہے، تاکہ ہر عاقل و دانا اس خداوندی حکمت میں خوب سے خوب تر غوروفکر کرے۔

 

آپ تمام عزیزان عالمِ شخصی کے بارے میں بہت سی باتیں جان چکے ہیں، اور من جملہ ایک روشن حقیقت یہ بھی ہے ، بلکہ یہی سب سے اہم ہے کہ امامِ مبینؑ کا نورانی ظہور عالمِ شخصی میں ہوتا ہے، جیسا کہ اسکے ظہور کا حق ہے، جسکی برکت سے اہلِ معرفت کو خزائنِ اسرار حاصل ہوتے ہیں، اور کلیۂ امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲) کی جو جو صفات اور جیسی جیسی تعریفات ہیں ان سب کا بخوبی علم ہوجاتا ہے۔

اس آیۂ شریفہ کے آغاز میں یہ ذکر ہے کہ خداوندِ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرتا ہے ، سوال ہے کہ مضمونِ آیت کی مناسبت سے یہ مردے کون سے ہیں؟ حق بات تو یہ ہے کہ یہ زندہ نما مردے ہیں، یعنی عام انسانی روح سے زندہ تو ہیں مگر حقیقی روح نہ ہونے کی وجہ سے مردے ہیں، پس خدا ایسے لوگوں کو روحِ مقدس میں زندہ کر دیتا ہے، تاکہ وہ امامِ مبینؑ میں اپنے آپ کو اور اپنے ربّ کو پہچان

 

۱۳

 

لیں، ورنہ دوسرے مردوں کی قیامت ہوچکی ہے، لہٰذا ان کو خدا شناسی کی ملہت نہیں ہے، حدیثِ شریف کا ترجمہ یہ ہے: جو شخص مرگیا تو اس کی قیامت برپا ہوگئی، اگر یہ موتِ نفسانی کے بعد زندہ کرنے کا ذکر ہے تو فَھُوَ المُراد، کہ اب ہر ایسے شخص پر دروازۂ معرفت کھول دیا جائے گا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

یوم الجمعہ ۱۵ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۴

 

شاہنشاہِ جنّات = صاحبِ جثّۂ ابداعیہ

 

قید خانے میں اتفاق سے آخری چلہ ہوگیا، جس میں بے شمار عجائب و غرائب کا مشاہدہ ہوا، جن کا بالتّرتیب بیان میرے لئے غیر ممکن ہے، ایک دفعہ رات کے پہلے حصّے میں دروازہ غیر معمولی طور پر دھماکے کے ساتھ کھل گیا اور اسی آن وہ بند بھی ہوگیا، اور شاہنشاہِ جنّات میرے سامنے تشریف فرما ہو گیا، ایک ہاتھ میں رائفل سنگین کے ساتھ اور دوسرے میں ٹارچ، شاید یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ وہ حاملِ نور بھی ہے اور صاحبِ جنگ بھی، میری حالت خوف و حیرت کی وجہ سے دگر گون ہوئی تھی اور میں عجیب قسم کی موت کا شکار ہو رہا تھا، مگر کتنی اعلیٰ موت تھی۔ الحمد للّٰہ۔

گر عشق نبودی سخنِ عشق نہ بودی

چندین سخنِ خوب کہ گفتی کہ شنودی

ترجمہ: اگر عشق نہ ہوتا اور عشق کا بیان نہ ہوتا، تو اتنی عمدہ باتیں کون کہتا اور کون سنتا۔

زندانݺ اُیِم یاد جݺ مُو بیلٹݺ تِل آلجم

جنّت نُکہ آردین نِمی زندانُ لوئیڎم

قرآنِ حکیم میں بارہا جثّۂ ابداعیہ کا ذکر آیا ہے، اور وہ تذکرہ

 

۱۵

 

مختلف مثالوں میں ہے، ان میں سے ایک مثال یَسْعیٰ نُوْرُھُمْ (۵۷: ۱۲؛  ۶۶: ۰۸) = مومنین و مومنات کا نور دوڑ رہا ہوگا، یہ معجزہ ظاہر میں جثۂ ابداعیہ ہے۔

 

فرعون کے محل میں موسیٰؑ کو قتل کرنے کے لئے جو مٹینگ ہو رہی تھی، اس سے موسٰی کو کس نے آگاہ کیا تھا؟ جثۂ ابداعیہ نے، جو شہر سے باہر بیابان میں رہتا تھا، مگر خفیہ طور پر فرعون کےمحل میں بھی آیا تھا (۲۸: ۲۰)۔

 

جو لوگ کہتے ہیں کہ جنّات نہیں ہیں، وہ قرآن اور روحانیّت سے بالکل نابلد ہیں، ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ زمین کے دو حصّے ہیں، کہ اس کا ایک حصہ آباد ہے جس میں بنی آدم رہتے ہیں اور دوسرا غیر آباد حصّہ ہے جس میں جنّات بستے ہیں، اگر آپ سوال کرتے ہیں کہ انس و جنّ میں کیا رشتہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان اب جسمِ کثیف رکھتا ہے مگر جنّ جسمِ لطیف ہے، جنّات بعض اچھے ہیں اور بعض برے ہیں، جو نیک جنّات ہیں وہ فرشتے بھی ہیں اور جو برے جنّات ہیں وہ شیاطین بھی ہیں اور جو انسان ہر طرح سے نیک ہو وہ لطیف ہو کر نیک جنّ اور فرشتہ ہوجائے گا۔

 

اگر آپ کو لفظِ جنّ سے ڈر ہے یا نفرت ہے، تو اسکی وجہ لاعلمی کے سوا کچھ بھی نہیں، خدا کے واسطے جنّ کو پری قوم سمجھو، اور یہ بات خوب یاد رکھو کہ نہ صرف پری قوم کی عورتیں ہی لطیف اور انتہائی خوبصورت ہوا کرتی ہیں، بلکہ اس قوم کے مرد بھی لطیف اور بدرجۂ انتہا حسین و جمیل ہوتے ہیں، پس اکثر لوگ جس طرح جنّ کا تصوّر کرتے ہیں وہ بالکل غلط اور گمراہ کن ہے، اس کی وجہ وہ بے حقیقت کہانیاں ہیں جو زمانۂ قدیم سے عوام النّاس میں چلی آئی ہیں۔

 

قرآنِ حکیم کی اعلیٰ سطحی حکمت یہ بتاتی ہے کہ خدا ضد سے ضد کو پیدا کرتا ہے،

 

۱۶

 

پس انسان جو کثیف ہے اس سے لطیف کو پیدا کرتا ہے، یعنی فرشتہ، حور، پری مرد یا عورت، نیک جنّ وغیرہ ۔ حضرتِ آدمؑ سے قبل اس زمین پر جنّات رہتے تھے (بحوالۂ کتاب دعائم الاسلام، حصّہ اوّل ، عربی ، ص ۲۹۱)۔

 

آپ کو اس بھید کے جاننے سے از حد خوشی ہوسکتی ہے کہ حدودِ جسمانی نہ صرف انسانوں میں سے ہوتے ہیں بلکہ جنّات سے بھی ہوتے ہیں، اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو کہ حضرتِ رحمتِ عالمؐ کے حدود جنّات میں سے بھی تھے، سورۂ احقاف (۴۶: ۲۹ تا ۳۱) نیز سورۂ جنّ (۷۲: ۰۱ تا ۱۵) میں غور کریں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

یوم الاحد  ۱۷؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۷

 

سورۂ شوریٰ کی دو آخری آیتیں

 

سورۂ شوریٰ کی دو آخری آیتوں (۴۲: ۵۱ تا ۵۲) کو قانونِ حکمت کے مطابق بار بار غور سے پڑھیں، ان میں سے پہلی آیت کے رازوں کو جاننے کیلئے یہ سوالات بنائیں:۔

کسی بشر کے لئے یہ ممکن نہیں کہ خدا اس سے بات کرے مگر وحی (اشارہ) کے ذریعے سے، اس میں دیدار یا ملاقات ہے یا نہیں؟ جبکہ یہ وحی صرف اشارہ کے معنی میں ہے، اور فرشتہ والی وحی (اصطلاحی وحی) کا ذکر بعد میں آیا ہے، اگر خدا کسی بشر کو صرف دیدار عطا فرماتا ہے اور اس سے کلام نہیں کرتا تو کیا اس پاک دیدار میں صدہا اشارے نہیں ہیں؟ بشارتیں نہیں ہیں؟ تمام فیصلے نہیں ہیں؟ سینکڑوں سوالات کے لئے جوابات نہیں ہیں؟ کیا اللہ کا براہِ راست اشارہ کلام نہیں ہے؟ الغرض دیدار کے خزانے میں کس چیز کی کمی ہے۔

 

وحی کے لفظی معنی کے لئے دیکھو سورۂ مریم (۱۹: ۱۱)۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر ۱۸ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۸

 

عالمِ شخصی وسیلۂ معرفت

 

مَن عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبّہٗ کے اس بابرکت ارشاد میں نفسہٗ سے عالمِ شخصی مراد ہے، کیونکہ ہر عارف اپنے ربّ کو اپنے عالمِ شخصی کے وسیلے سے پہچان سکتا ہے، کیونکہ تمام مراتبِ معرفت عالمِ شخصی میں آتے ہیں اور جملہ صفاتِ الہٰیہ کے افعال کا ظہور بھی اسی میں ہوجاتا ہے۔

 

آپ لفظِ معرفت کو دیگر الفاظ کی طرح ایک عام لفظ نہ سمجھیں، کیونکہ معرفت کے معنی تمام معنوں پر محیط ہیں، اسی وجہ سے کہا گیا تھا کہ عالمِ شخصی میں عالمِ اکبر سمایا ہوا ہے اور کوئی چیز اس سے باہر نہیں ہے۔

 

عالمِ شخصی کا تعلق چار عالم سے ہے: عالمِ بیداری، عالمِ خیال، عالمِ خواب اور عالمِ روحانیّت، نیز اس کے لئے چار عظیم عالم اور ہیں، وہ ہیں: عالمِ ناسوت، عالمِ ملکوت، عالمِ جبروت اور عالمِ لاہوت اور عالمِ شخصی کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ممکن بنا دیا ہے کہ وہ کائناتی بہشت بن جائے، اگر خدا کے فضل و کرم سے عالمِ شخصی کائناتی زندہ بہشت ہو جاتا ہے، تو یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔

 

عالمِ شخصی کے عجائب و غرائب کو احاطۂ تحریر میں لانا غیر ممکن ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل ۱۹ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۹

 

خزائنِ الٰہی کا قانون

 

سورۂ حجر ۱۵: ۲۱ کو میں قانونِ خزائنِ الٰہی کے نام سے یاد کرتا ہوں، اور میرا ایمان و یقین ہے کہ یہ آیۂ مبارکہ قرآنِ حکیم کی عظیم نمائندہ آیاتِ کریمہ میں سے ہے۔

 

قرآنِ عزیز علم و حکمت کی سب سے عظیم کائنات ہے، جی ہاں اللہ جل شانہٗ ہر کائنات کا القابض بھی ہے اور الباسط بھی، پس خداوندِ عالم جو قادرِ مطلق ہے، اس نے اگرچہ قرآن سب کے لئے پھیلا کر رکھا ہے، تاہم اس نے بمقتضائےحکمت بعض آیاتِ مبارکہ میں قرآن کو لپیٹ کر بھی رکھا ہے، تاکہ ہر عارف کو القابض اور الباسط کے معجزات کی حقیقی معرفت قرآن ہی سے حاصل ہو۔

 

خزائنِ الٰہی میں سب سے پہلے کلمۂ باری ہے، یعنی حق تعالیٰ کا وہ فرمان جس میں وہ سبحانہٗ وتعالیٰ کسی چیز سے فرماتا ہے: کُنۡ: ہوجا، یا صرف اس چیز کے ہوجانے کے لئے ارادہ ہی فرماتا ہے، تو وہ چیز ہو جاتی ہے، آپ اندازہ کریں کہ کیا اللہ کا یہ خزانہ کبھی ختم ہو سکتا ہے؟ یا کبھی کم ہوسکتا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں، آیا قلمِ اعلیٰ کا خزانہ کبھی کم ہوتا ہے؟ نہیں، اللہ تعالیٰ کا کوئی خزانہ کبھی کم ہونے والا نہیں، پس خزائنِ الٰہی کی کوئی چیز لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی قابلیت کے مطابق نازل ہوتی ہے، جب جب لوگ قرآن

 

۲۰

 

کی بتائی ہوئی ہدایات اور شرطوں کے مطابق عمل کرتے ہیں تو فوراً ہی اللہ تعالیٰ کے خزانوں سے رحمتیں اور برکتیں نازل ہونی لگتی ہیں، پس دنیا میں ظاہراً و باطناً ہر نعمت خزائنِ الٰہی سے نازل ہوتی ہے، اور خوب یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام خزانوں کو اور کل چیزوں کو امامِ مبینؑ میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے، الحمد لِلّٰہ ربّ العٰلمین۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۲۱ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۲۱

 

لفظِ ملوک = سلاطین کی تحقیق

 

سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۰) میں بنی اسرائیل کو ملوک = شاہان کہا گیا ہے یعنی خدا نے ان کو سلاطین بنایا تھا، دراصل یہ ایک رازِ باطن ہے، جس کو جاننے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ بات ظاہر میں ایسی نہیں ہے۔

 

بحکمِ قرآن آلِ ابراہیمؑ کا ہر امام اور آلِ محمدؐ کا ہر امام خدا کی طرف سے اپنے زمانے کا روحانی بادشاہ = مَلِک ہوا ہے، اور مومنین و مومنات میں سے جو جو اپنے امامؑ میں فنا ہوجاتے ہیں، وہ سب کے سب اپنے اپنےعالمِ شخصی اور بہشت کے بادشاہ ہوتے ہیں، کیونکہ امامِ زمانؑ کے معجزات میں سے ایک بڑا عجیب معجزہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے نور اور نورانیّت میں ایک معجزاتی سانچا ہے، پس جو بھی اس میں فنا ہو جائے وہ بہشت کا بادشاہ ہو جاتا ہے، اور یہ لفظِ ملوک کی تحقیق ہے، اور یہ ایک ایسی روشن حقیقت ہے کہ اس میں ذرہ بھر بھی شک نہیں۔

سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں غورو فکر سے دیکھو: اہلِ یقین کے لئے نہ صرف زمین میں قدرتِ خدا کی بہت سی نشانیاں ہیں بلکہ ان کی جانوں میں بھی ہیں، اور زمین کی نشانیوں میں سے ایک نشان قانونِ فنا ہے کہ ایک چیز دوسری چیز میں فنا ہو کر ترقی کرتی ہے، مٹی کو دیکھو جو جماد ہے اور نبات میں فنا ہوکر روحِ

 

۲۲

 

نباتی کو حاصل کرلیتی ہے، اور نبات حیوان میں فنا ہو کر روحِ حیوانی میں زندہ ہونے لگتی ہے، اسی طرح حیوان کی ترقی بھی قانونِ فنا ہی میں ہے، اور یہ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی ہے، بلکہ ہر عام انسان کو بھی انسانِ کامل میں فنا ہوجانا ہے، جس طرح فنا ہوجانے کا حق ہے، یہی قانونِ فنا ہے جس کی وجہ سے اہلِ ایمان فنا فی الامامؑ ہو کر ملوک و سلاطین ہوجاتے ہیں۔

الحمدُ لَلّٰہِ علیٰ مَنِّہٖ واحسانِہٖ۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۲۱ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۲۳

 

رسولِ خداؐ کا ایک اساسی ارشادِ مبارک

 

آنحضرتؐ نے بنی عبدالمطلب سے فرمایا: یابنی عبد المُطلب اطیعُونی تکونوا مُلُوکَ الارض وَ حُکّامَھا (دیکھو: کتاب دعائم الاسلام، عربی، جلدِ ثانی، ص ۱۵)۔

ترجمہ: اے بنی عبدالمطلب تم سب میری اطاعت کرو تاکہ تم زمین کے ملوک (سلاطین) اور حکمران ہوجاؤ گے۔

 

پیغمبرِ اکرمؐ کی اس کلّی اور حقیقی اطاعت کے نتیجے میں اہلِ ایمان کو جو عظیم بادشاہی ممکن تھی وہ ظاہر میں بھی ہوسکتی تھی اور باطن میں بھی، آپ قرآنِ حکیم کو چشمِ بصیرت سے پڑھیں، قرآن میں ہر مضمون اور ہر بیان موجود ہے، آپ احادیثِ قدسی کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں۔

 

جو شخص دنیا میں چشمِ معرفت سے اندھا ہو وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا (۱۷: ۷۲) کیا اس حکمِ خداوندی سے ہادئ برحقؑ کی معرفت ضروری بلکہ از بس ضروری نہیں لگتی ہے؟ کیا بہشت اور اسکی نعمتوں کی پہچان ضروری نہیں ہے؟ اور اس کی عظیم بادشاہی کی معرفت؟ اگر تم اپنے عالمِ شخصی کی معرفت حاصل کرلیتے ہو تو کیا پھر بھی کوئی ضروری معرفت اس دائرے سے باہر رہے گی؟ نہیں نہیں، ہرگز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں

 

۲۴

 

کی آسانی کی خاطر کل اشیاء کو امامِ مبینؑ میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲)۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۲۳ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۲۵

 

بہشت کی شاہنشاہی

 

جن باسعادت لوگوں نے آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کی عظیم روحانی سلطنت (۰۴: ۵۴) کو پہچان لیا، انہوں نے یقیناً بہشت کی بہت بڑی شاہنشاہی (۷۶: ۶۰) کو پہچان لیا، پس ایسے سب لوگ بہشت کے مختلف ممالک کے بادشاہ ہونگے، پس وہ بڑے مبارک لوگ ہیں۔

 

اگر آپ نے آیتِ استخلاف کو خوب غور سے نہیں پڑھا ہے تو اب خوب غور سے پڑھیں (۲۴: ۵۵) اللہ نے اس آیت میں جن لوگوں کو خلیفہ بنانے کا وعدہ فرمایا ہے وہ ان کو بہشت کی وسیع زمین پر خلیفہ = بادشاہ بنائے گا، مگر خلافت اور بادشاہت کے لئے لوگوں کا ہونا لازمی ہے، جی ہاں دنیا کی تمام قومیں وہاں ہوں گی اور ہر خلیفہ (بادشاہ) اپنے لوگوں کو دینِ حق کی دعوت کرے گا۔

 

میرا یقین ہے کہ میں نے جو کچھ یہاں لکھا وہ آیتِ استخلاف کی تھوڑی سی وضاحت ہے، حالانکہ اس میں اور بھی بڑی بڑی حکمتیں ہیں۔

 

جو لوگ حقیقی معنوں میں رسولِ خداؐ کی اطاعت کریں وہ یقیناً بادشاہ (خلیفہ) ہوں گے اس کی بڑی گنجائش بہشت میں ہے، کیونکہ بہشت میں بڑے

 

۲۶

 

بڑے درجات ہیں، قرآنی حکمت کا فرمانا ہے کہ اللہ سب لوگوں کو جنت میں جمع کرنا چاہتا ہے اور سب کو دینِ حق سکھانے کا ارادہ رکھتا ہے، کیونکہ ساری مخلوق گویا اس کی عیال ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۲۳ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۲۷

 

جثّۂ ابداعیہ کے ظہورات و معجزات اور امثال و اسماء

 

جثۂ ابداعیہ سب سے پہلے حضرتِ آدم خلیفۃ اللہؑ کو عطا ہوا تھا، یہ دراصل نورِ مجسّم ہے اس لئے یہ مرئی بھی ہے اور غیر مرئی بھی، یہ حاضر بھی ہو جاتا ہے، اور اسی حال میں محجوب بھی ہوجاتا ہے۔

 

یہ مَلَک بھی ہے اور مَلِک بھی، یہ شاہِ جن بھی ہے شاہنشاہ بھی، یہ روحانی لشکر کا قلعہ (محراب) بھی ہے، یہ ایک ہزار اور بےشمار ہے، کیونکہ یہ سب کی وحدتِ مجسم ہے جبکہ یہ مجموعۂ کائنات ہے۔

 

یہ انسانِ کامل کی زندہ نورانی تصویر ہے اور ایسی معجزاتی تصویریں ہزاروں کی تعداد میں بھی ممکن ہیں، ہم نے اس کو جسمِ لطیف بھی کہا ہے، یہ قالبِ نورانی ہے، یہ لباسِ بہشت ہے، حضرتِ داؤد خلیفۃ اللہؑ امام تھا، لہٰذا اس کے نور اور نورانیّت کے سانچے میں مومنین ڈھل ڈھل کر جثّۂ ابداعیہ ہوجاتے تھے، اور یہی معجزہ حضرتِ عیسیٰؑ بھی کرتے تھے، قرآن میں دیکھو۔

 

قبضِ روحِ عارف کی مدت سات رات آٹھ دن ہے (۶۹: ۰۷) اس وقت تقریباً ستر ہزار اجسامِ لطیف بنائے جاتے ہیں، تفصیلات اور معلومات کے لئے آپ میری کتابوں کو پڑھیں۔

 

جثّۂ ابداعیہ جب نورِ مجسّم ہے تو آپ کو قرآن میں دیکھنا اور

 

۲۸

 

سوچنا ہوگا کہ نور کے باب میں کیا کیا ارشادات ہیں؟ اور اس کی کیا کیا نسبتیں ہیں؟ نور کی چارنسبتیں ہیں، نور خدا کا ہے ، رسولؐ کا ہے، امامِ زمانؑ کا ہے، اور پھر حقیقی اطاعت کے نتیجے میں مومنین و مومنات کا بھی ہے، ان سب کے لئے ہزاروں مبارکبادیاں ہوں! آمین ثم آمین!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

اتوار ۲۴ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۲۹

 

عالمِ شخصی کا قانونِ قیامت

 

جو مومنینِ بایقین عالمِ شخصی کے قانونِ قیامت کو جانتے ہیں وہ بڑے نیک بخت ہیں، کیونکہ قیامت ہمیشہ سے عالمِ شخصی کی روحانیّت میں برپا ہوتی چلی آئی ہے۔ اور ربّ العزّت کے احسانِ عظیم کو دیکھیں کہ قانونِ تاویل خود قانونِ قیامت ہے، جو قانونِ عالمِ شخصی بھی ہے، ایسے میں بفضلِ خدا قرآنی تاویل کے ابواب حضرتِ مؤول علیہ السّلام کی یاری سے مفتوح ہو جاتے ہیں۔

 

اس کی ایک عمدہ مثال: سورۂ مریم (۱۹: ۹۳) میں دیکھو، ترجمہ: آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں سب رحمان کے حضور بندوں (غلاموں) کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں، ان سب کو اس نے (امامِ مبینؑ میں) گھیر لیا ہےاور ان کو ایک خاص عدد میں (یعنی عددِ واحد میں) شمار کر رکھا ہے، یعنی نفسِ واحدہ کے ساتھ ایک کر دیا ہے۔

حضرتِ آدم کا تمام قصّہ عالمِ شخصی کے قانونِ قیامت کے مطابق ہے، سجدہ کرتے ہوئے جتنے بھی فرشتے آدمؑ کے عالمِ شخصی میں گرچکے تھے وہ واپس نہیں گئے تھے، بلکہ وہ حظیرۂ قدس میں جاکر آدمؑ کے ساتھ ایک ہوگئے تھے، کیونکہ وہ عالمِ وحدت ہے، چنانچہ قصّۂ آدمؑ ہی میں آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں سب کی ایک ساتھ قیامت قائم ہوجانے کی تاویل بنتی ہے۔

 

۳۰

 

اگر کسی مومنِ سالک پر بفضلِ خدا روحانی قیامت واقع ہوتی ہے تو اس کی ہر ہر چیز اس کے نامۂ اعمال میں ہمیشہ کے لئے زندہ رہتی ہے، تو پھر کس طرح آدمؑ کی قیامت میں آئے ہوئے فرشتے واپس جا سکتے تھے، جبکہ قیامت میں تسخیرِ کائنات بھی ہے۔

 

اللہ تعالیٰ مومنین کے کسی نیک عمل کو کبھی ضائع نہیں کرتا ہے، تسخیرِ کائنات کا مطلب ہے آسمان و زمین اور اس کی ہر چیز کا عالمِ شخصی میں شامل ہونا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۲۵ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۳۱

 

عالمِ شخصی کی معرفت سے متعلق ضروری سوالات

 

کیا یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرتِ ابوالبشر (آدمؑ) کو خودشناسی اور خدا شناسی کا علم و عرفان عطا کیا تھا؟ کیا خدائے پاک و برتر نے آدمؑ کو اسمِ اعظم کا انتہائی عظیم راز بتا دیا تھا؟ آیا تب سے انبیاءؑ و اولیاءؑ میں یہی بات سنتِ الٰہی کی حیثیت سے چلی آئی ہے؟ آیا یہ بات درست ہےکہ خدا جو القابض اورا لباسط ہے وہ تمام اسماء، اذکار اور عبادات کو اپنے پاک اسمِ اعظم میں جمع کر دیتا ہے؟ کیا خلافتِ آدمؑ کا سب سے بڑا راز بھی اسمِ اعظم ہی میں تھا؟

 

خدائے واحد کا واحد راستہ صراطِ مستقیم ہے جو انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کا راستہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے تمام بندوں کے لئے بھی یہی راستہ مقرر فرمایا، پس ہر مومنِ سالک جو سیر الی اللہ اور آخری فنا میں کامیاب ہوجاتا ہے اس کو سب سے اوّل حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کی معرفت حاصل ہوتی ہے، اور وہاں کی تمام اٹل باتیں اللہ تعالیٰ کی سنت ہیں، جن میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے، یہی ایک کامل معرفت سب کی نمائندہ معرفت ہے، اور عارف کی اپنی معرفت اور حضرت ربّ کی معرفت بھی اسی میں ہوتی ہے۔

 

۳۲

 

پس تمام عزیزوں کو میرا ضروری مشورہ یہ ہے کہ عالمِ شخصی سے متعلق جتنا علم کتابوں میں بکھرا ہوا ہے ، اس سب کو ایک بار اپنے ذہن میں یکجا کرلیں، تاکہ اس سے عین الیقین کا مرتبہ آسان ہوسکے، ہمارے یہاں وہ مضمون جس پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہے، وہ عالمِ شخصی ہے ، یہ مضمون سب سے مرکزی اور سب سے اعلیٰ ہے۔

 

اے دورِ قائم کے مومنین و مومنات ! تمہارے علمی فرائض پہلے سے بہت زیادہ ہیں، کیونکہ تم حضرتِ قائم القیامت کے علمی لشکر ہو، اور ہر دانا کے نزدیک یہ مرتبہ نہایت اعلیٰ و ارفع ہے، کیونکہ باطن میں ایک بڑی عجیب علمی جنگ ہے، جس میں تمام کائنات کو فتح کر لینا ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ ۲۷ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۳۳

 

ایک نہایت بابرکت اعتکاف = چلہ

 

تقریباً چالیس دن تک اعتکاف یا چلہ اور ترکِ خواب و خور کے بعد جسم میں بڑا انقلاب آیا، اس اثنا میں غذائے روحانی عطا ہو رہی تھی، جس کا میں نے دوستوں کو زبانی اور تحریری ذکر کیا ہے، جو طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں سونگھا دی جاتی تھی، اور یہ کام عالمِ ذرّ کے جنّات انجام دیتے ہیں، یہ جنّات اتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات کی شکل میں ہیں، اور ان کی پرواز کی رفتار برق سے بھی زیادہ تیز ہے، وہ آپ کو دنیا کے کسی بھی حصّے سے پھولوں، پھلوں، جڑی بوٹیوں اور درختوں کے خوشبودار پتوں کی خوشبو فوراً لے آ سکتے ہیں، جس سے آپ کے اندر ایک قسم کا جسمِ لطیف پیدا ہوتا ہے۔

 

خوشبو روح نہیں بلکہ جسم ہے، اس سے جسم کی غذا ہو جاتی ہے، خصوصاً ایسے جسم کی غذا ہوتی ہے جو کثیف سے لطیف ہو رہا ہو، یہی وجہ ہے کہ جنّ و پری پہاڑوں اور دشت و بیابان میں رہتے ہیں، کیونکہ ان کو صاف ہوا سے اوکسیجن وغیرہ ملتی ہے، انبیاء علیھم السّلام نے بہت پہلے ایسے بے شمار معجزات کا تجربہ کرلیا تھا۔

 

خدا کی خدائی میں ایک ساتھ دو عالم ہیں: عالمِ خلق اور عالمِ امر، ان دونوں میں بڑا فرق ہے، وہ یہ کہ عالمِ خلق میں چیزیں دیر سے تیار ہوتی ہیں، مگر

 

۳۴

 

عالمِ امر میں اللہ کے “ہوجا” فرمانے سے، یا صرف ایسا ارادہ فرمانے سے مطلوبہ چیزفوراً ہی سامنے آتی ہے۔

 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمِ امر میں تمام چیزیں ابداعی طور پر ہوتی ہیں، پس ممکن ہے کہ قید خانے کی وہ تمام غذائیں جو طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں جنّات لایا کرتے تھے، دراصل ابداعی نعمتیں ہوں، اور یہ میری کمزوری تھی کہ ابداعی معجزات کو اچھی طرح سے نہیں سمجھ رہا تھا۔

 

چالیس دن تلک میں نے گندم کی روٹی کی شکل تک نہیں دیکھی تھی، ایک دن ایک اجنبی آدمی گندم کی ایک خوبصورت روٹی تھالی میں لے کر آیا اور غائب ہوگیا، کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا، یاد نہیں روٹی تھالی میں توڑی ہوئی تھی یا میں نے خود ٹکرے ٹکڑے کئے تھے، کھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو روحانی نے منع فرمایا، لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ میں اس معجزے سے شک اور یقین کی کش مکش میں رہا کہ یہ ابداعی معجزہ تھا، یا یہ دنیا کی روٹی تھی؟

 

لیکن یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ بعض معجزے ناقابلِ یقین باتوں میں ہوتے ہیں، اور اگر کسی معجزے میں شک ہوتا ہے تو اس میں بھی حکمت ہے کہ اس میں لوگوں کی آزمائش ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۲۸  ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۳۵

 

حضرتِ مولانا علی علیہ السّلام کا ایک فرمانِ اقدس

 

کتابِ سرائر ص ۱۱۷ پر بروایتِ ابو ذرجندب مولا علیؑ کا یہ بابرکت ارشاد درج ہے کہ مولا نے فرمایا: انا دینُ اللّٰہِ حقّاً انا نفسُ اللّٰہِ حقّاً لایقولُھا غیری ولایُد عِیھا مُدَّ عٍ اِلّاکذّاباً وَاَناالّذی عَظَّمَنِی اللّٰہُ فقال فی قَسَمِہٖ (فَلَأ اُقْسِمُ بِمَوَاقِع النُّجُوْمِ ۔ ۵۶: ۷۵) وانا الْعلّیُ الکبیرُ (قرآن میں پانچ دفعہ آیا ہے) اناجنبُ اللّٰہِ (۳۹: ۵۶) وَاَنا اُذُنُ اللّٰہِ (۶۹: ۱۲) انا وجہُ اللّٰہِ (فَاَ یْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ۔ ۰۲: ۱۱۵) مولا نے فرمایا: اسمی فی القرآنِ حکیماً و فی التّوراۃِ کُلاً وفی الانجیل حتماً و فی الزّبور بشراً و فی صحفِ ابراھیمَ اوّلاًو آخراً وانا بالغیبِ خبیرو بما یکونُ علیم و فی العالمِ قدیم و فی السّمٰوٰتِ بصیر و بما فی الاارضین عارف فتد بَّرواایُّھا المُؤمنون۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۳۰ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۳۶

 

قرآنِ حکیم میں مضمونِ بشارت

 

اے میرے بہت عزیز روحانی ساتھیو! قرآنی علم و حکمت میں تمام ضروری چیزوں کا بیان موجود ہے، اور جملہ ضروری مضامین میں لازمی طور پر مضمونِ بشارت بھی ہے، لیکن ہر دانا شخص کو بشارت کی تمام شرطوں اور قوانین کو جاننے کی ضرورت ہے، پس بشارت اجتماعی بھی ہے اور انفرادی بھی، قولی بھی ہے اور عملی بھی، کسی فرد کے لئے ذاتی بشارت نورانی خواب میں بھی ہے، اور سب سے بڑی خوش خبری کسی کی روحانی ترقی ہے، جو سب سے بڑی بشارت ہے، یہ اس مومن کےلئے عملی بشارت ہے۔

 

مذکورۂ بالا بشارتوں میں مشروط بشارت بھی ہے، آپ کو یہ بھی جاننا ہے کہ رسولِ اکرمؐ کا ایک اسمِ صفت بشیر ہے، یعنی بشارت دینے والا، اب یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ کے اس بابرکت نام کے عملی معنی کو ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ رسولؐ ہی بشیر ہیں، لہٰذا بشارت دینے کا ظاہری اور باطنی نظام آپؐ کے نور کے تحت ہے، آپ قرآنِ حکیم میں مضمونِ بشارت کوپڑھیں جس طرح پڑھنے کا حق ہے، تاکہ آپ کے علم و حکمت اور معرفت میں اضافہ ہو۔

 

یہ حکمت ہمیشہ یاد رہے کہ عارف کی روحانی قیامت ہی جنت کی کامل

 

۳۷

 

خوشخبری ہے، کیونکہ یقینِ کامل کے لئے عملی بشارت چاہئے، پس قرآن میں جہاں جہاں بشارت کا مضمون ہے، وہاں ضرور عملی روحانیّت کا تذکرہ ہے، آپ وہاں سے فائدہ اٹھائیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

اتوار یکم اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۳۸

 

کلیۂ امکانیہ

Universal Law of Possibility

 

اݹ منݳسن اپݵ = ناشدنی نیست = کوئی چیز ان ہونی نہیں۔

قانونِ امکانیّت = بہشت میں کوئی نعمت غیر ممکن نہیں، کوئی ایسی چیز نہیں جو اللہ تعالیٰ کے خزائن میں موجود نہ ہو (۱۵: ۲۱)۔

 

اݹ مُش او= لا ابتدائی اور لاانتہائی کا نظریہ رکھ لے۔ یعنی خدا کی خدائی ہمیشہ ہمیشہ ہے، بالفاظِ دیگر اللہ کی بادشاہی قدیم ہے، نہ صرف خدا کی ذات قدیم ہے، بلکہ اس کی ہر صفت بھی قدیم ہے: ۔

صفات و ذاتِ او ھر دو قدیم است

شدن واقف از و سیرِ عظیم است

(حکیم پیر ناصر خسرو “ق س” روشنائی نامہ)

عطائے الٰہی کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوتا (۱۱: ۱۰۸)۔ اور کبھی ختم نہ ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھلوں اور اونچی نشست گاہوں میں ہوں گے (۵۶: ۳۴)۔

 

یہ حکمتیں صفِ اوّل کے عاشقوں کے لئے ہیں، اگر کسی کو شک ہو تو وہ ان باتوں کو نہ پڑھے، ایسا شخص نور کا حقیقی عاشق نہیں، اگرچہ یہ چند الفاظ ہیں مگر یہ انمول جواہر ہیں۔

 

۳۹

 

اے عزیزان! اپنے آپ کا جائزہ لو کہ آپ علم و حکمت کے کیسے عاشق ہیں؟ اگر آپ اپنے بعض ساتھیوں سے پیچھے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر ۲ ؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۴۰

 

زندگی نما موت اور حقیقی زندگی

 

سورۂ ملک کی آیۂ دوم (۶۷: ۰۲) کا ارشاد ہے:۔ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ۔ (۶۷: ۰۲)

ترجمہ: خدا وہ ہے جس نے موت اور زندگی کو مخلوق کیا تاکہ تم سب کو علم میں بھی اور عمل میں بھی آزما کر یہ ظاہر کرے کہ تم میں بہترین شخص کون ہے؟ اس آیۂ کریمہ میں دو پُرحکمت سوال ہیں، ان کے الگ الگ جواب از حد ضروری ہیں۔

 

سوال: دنیا میں یہ واقعہ سب کے سامنے ہے کہ پہلے زندگی ہوتی ہے اور اس کے بعد موت واقع ہوتی ہے، لیکن یہاں موت کی تخلیق پہلے ہے اور زندگی کی تخلیق بعد میں، چونکہ یہ قرآنِ حکیم کی آیت ہے اس لئے یہاں کوئی حکمت ضرور ہے، آپ بتائیں کہ وہ حکمت کیا ہے؟ جواب: یہ زندگی نما موت کا ذکر ہے جو حقیقی زندگی سے پہلے ہوتی ہے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر موت نیستی اور معدومی کا نام ہے تو یہ مخلوق کس طرح ہوسکتی ہے؟ جواب: نہیں یہ عدم اور نیستی نہیں بلکہ بہت ہی کم درجے کی زندگی ہے اس لئے یہ حقیقی زندگی کے مقابلے میں موت شمار ہوتی ہے، جس کو ہم نے زندگی نما موت کے عنوان میں بیان کیا ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۲؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۴۱

 

روحانی قیامت

 

روحانی قیامت اپنے ساتھ علم ومعرفت کے بے شمار معجزات کو لے کر آتی ہے، لیکن کوئی بیچارہ درویش جو قیامت کی چکی میں پس رہا تھا وہ کس طرح قصّۂ قیامت کو کما کان حقہٗ بیان کرسکتا ہے؟ اگر تم عاشق ہو تو اس میں سے ہر بات کو سن لو۔

 

شاید وہی رات تھی جس میں آتشِ سرد کے بہت سے اسرار ظاہر ہوئے، یہ درویش جس کو ابھی ابھی بہت سے معجزات نے خوف زدہ کیا تھا کہ اس کو چھت کے درمیان بہت بڑا شگاف نظر آیا اور اس کا بالائی آسمان، اور اس میں یو۔ایف۔ اوز کے کئی جہاز مجھ پر بمباری کرنے کے لئے منڈلانے لگے، اب چھت میرے اوپر سے تقریباً غائب ہوچکی تھی، میں نے اپنے بیٹے سیف سلمان خان کو جو اس وقت بہت چھوٹا تھا اور اس کی والدہ کو دوسرے روم میں رکھا تھا، تاکہ وہ ان جہازوں کی بمبارمنٹ سے محفوظ رہیں۔

کیا یہ خواب تھا؟ نہیں، کیا یہ بیہوشی کا عالم تھا؟ نہیں نہیں، میں سب کچھ دیکھ رہا تھا، لیکن اس معجزے کو ناقابلِ فراموش کر دینے کا قدرتی ایک نظام تھا، اور کوئی روحانی آواز دے کر یو۔ایف۔اوز کو بتا رہا تھا کہ دیکھو ٹارگیٹ یہاں ہے، کسی بہت بڑے ملک کا نام لیا جارہا تھا کہ یہ جہاز وہاں سے آئے ہیں۔

 

۴۲

 

آج یو۔ایف۔اوز نہ صرف سائنس دانوں ہی کے لئے بلکہ بڑے بڑے ممالک کے لئے بھی انتہائی حیران کُنۡ سوال ہیں، مگر ان شاء اللہ ہم درویش لوگ خدائے علیم و حکیم کی ہدایت کی طرف دیکھتے ہیں، آپ قرآنِ حکیم سے رجوع کریں اور آفاق و انفس میں اللہ کی نشانیوں کی پیش گوئی کو بھول نہ جائیں (۴۱: ۵۳)۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۵؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۴۳

 

ایامِ طفلی کی ایک شیرین یاد

 

جب جب میرے والد صاحب صبح نورانی وقت میں مناجات کرتے تھے تو اس مناجات و عبادت کی آواز میں سے مزہ اور لذّت کی کوئی لہر میرے کان میں آتی رہتی تھی، حالانکہ میں اس وقت اتنا چھوٹا بچہ تھا جتنا اب میرا حبِّ علی ثانی ہے، یہ یقیناً روح الایمان کی لہر تھی جو والد کی آوازِ مناجات سے آتی رہتی تھی، اور یہ حقیقت ہے کہ مجھے عقائد کی دولت میرے والدین سے حاصل ہوئی تھی، اور یہ عقائد ہی ہیں جن پر دین کی عمارت قائم ہوتی ہے۔

 

ہر ایسے چھوٹے بچے کی کتنی بڑی نیک بختی ہے جس کے والدین نیک، دیندار اور پرہیزگار ہیں، وہ اپنے بچوں کے لئے گھر ہی میں اچھی عادتوں کا نمونہ ہیں، وہ اپنے اہل و عیال کے لئے ایک زندہ سکول ہیں، جب جب وہ مولا کا پاک نام لیتے ہیں تو گھر میں روحانی روشنی پھیلتی ہے، چھوٹے بچوں کو اپنے ماں باپ سے بہت پیار ہوتا ہے، جس کی وجہ سے والدین کی دینی باتیں بہت ہی اچھی لگتی ہیں، پس میرے والدین میرے حق میں ایک کامیاب ابتدائی دینی مدرسہ تھے، ہاں یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا، وہ میرے عالمِ شخصی میں زندہ ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے۔ الحمد لِلّٰہ ربّ ِ العٰلمین۔

 

۴۴

 

اے عزیزان! علم و عبادت کی مسلسل کوشش سے اپنے گھروں کو نورانی فرشتوں کا مسکن بناو، اگر تم یہ بڑا نیک کام کرسکتے ہو تو خدائے قادرِ مطلق کی طرف سے فیوضات و برکات کا یقین رکھو، کیونکہ یہ کبھی ممکن ہی نہیں کہ تم ہمیشہ اس کو یاد کرتے رہتے ہو اور وہ تم کو بھول جائے، جبکہ اس کا ارشادِ مبارک یہ ہے:۔

فَاذْ کُرُوْنیْٔ اَذکُرْ کُمْ (۰۲: ۱۵۲)۔

لہٰذا تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ دیکھو اس آیۂ مبارکہ میں کامیابی کا سب سے بڑا راز پنہان ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ ۶؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۴۵

 

سورۂ قدر

 

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے، اور تم کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے، فرشتے اور روح اس میں اپنے ربّ کے اذن سے ہر حکم لیکر اترتے ہیں، وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوعِ فجرتک۔

 

سورۂ قدر کی تاویلِ باطن

قرآنِ حکیم بتدریج نازل ہوا ہے، جس کی مدت ۲۲ سال پانچ ماہ اور چودہ دن ہے، بحوالۂ اردو جامع انسائیکلوپیڈیا، جلدِ دوم، ص ۱۱۳۵۔

سورۂ قدر کا تاویلی مضمون بڑا عجیب و غریب ہے کہ ہر امامؑ کا حجت اپنے وقت پر اس کا بیٹا ہوتا ہے، مگر اس عام اصول کے برعکس حضرتِ قائم القیامت کا حجت اس کا باپ ہوتا ہے، لہٰذا حجت عالمِ دین میں پہلے آتا ہے اور حضرتِ قائم (ع س) بعد میں آتا ہے، مگر جب حجتِ قائم میں نور آتا ہے تو قائم ہی کا نور نازل ہوتا ہے، کیونکہ بیٹے کی طرف سے باپ نے قیامت کو برپا کرنا ہے، اور بیٹے کو چھپانا ہے۔

 

حجتِ قائم ایک امام ہے مگر اپنی ظاہری اور باطنی خوبیوں کی وجہ سے ہر امام سے بہتر ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل ۷؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۴۶

 

ایک انتہائی اہم سائنسی مضمون

 

بشکریۂ اخبارِ جنگ کراچی ہفتہ ۱۴؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

جانوروں کی گیارہ ہزاراقسام کو معدومی کا خطرہ ہے زندگی سے معمور دنیا ایک دن بیابان ہوجائے گی ملکہ نور کا ورلڈ کنزرویشن کانگریس سے خطاب۔

 

کراچی( رپورٹ۔۔ قمررضوی) آئی یو سی این بقائے ماحول کی عالمی انجمن کے زیر اہتمام دوسری ورلڈ کنزرویشن کانگریس اردن میں ۴ تا ۱۱ ؍ اکتوبر ہوئی اس موقع پر اردن کی ملکہ نور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی زمین کو اس طرح سے خوبصورت بنا رہے ہیں کہ اس پر موجود جانداروں کی انواع رفتہ رفتہ ختم ہوتی جا رہی ہیں اور ایک دن زندگی سے معمور یہ دنیا بیابان بن جائے گی۔ چیف سائنٹسٹ جیف میلینکی نے کہا کہ جب بھی جانداروں کی کوئی قسم صفحۂ ہستی سے مٹتی ہے تو فطرت کی ساڑھے تین ارب سالوں کی محنت بھی خاک میں مل جاتی ہے، دیگر ماہرین نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پودوں اور جانوروں کی تقریباً گیارہ ہزار اقسام کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے اس بارے میں آئی یو سی این کی اسپیشیزسروائیول کمیشن نے ایک ریڈ لسٹ جاری کی ہے اس موقع پر آئی یو سی این کے ڈائریکٹر جنرل نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہمارے پاس معدومی کے اس بحران سے نمٹنے کے لئے علمِ ٹیکنالوجی اور انسانی وسائل موجود ہیں ضرورت صرف سیاسی عزم کی ہے تاکہ انہیں آنے والی نسلوں کے مفاد میں استعمال کیا جائے کیونکہ جانوروں کی انواع کا خاتمہ ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ شرکا نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اگر خطرات

 

۴۷

 

سے نہ نمٹا گیا تو آئندہ ۲۵ سالوں میں ۸ ارب تک پہنچنے والی انسانی آبادی کو مختلف امراض، بدامنی اور افلاس جیسے مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کانگریس میں متفقہ طور پر منظور کردہ قرارداد میں کہا گیا کہ غزہ کی پٹی ، مغربی کنارے اور یروشلم میں فریقین سے ماحول کو تحفظ دیا جائے۔ آئی یو سی این ۲۰۰۲ء میں ہونے والی ارتھ سمٹ کوریو ۱۰+ کا نام دیا گیا۔

 

۴۸

 

امامِ آلِ محمدؐ

 

خدایے نورِ ہدایت

امامِ آلِ محمدؐ

امامِ دورِ قیامت

امامِ آلِ محمدؐ

ژو جانِ اہلِ سعادت

امامِ آلِ محمدؐ

لہ نجمِ اوج سیادت

امامِ آلِ محمدؐ

میونے تاجِ کرامت

امامِ آلِ محمدؐ

ژو شاہِ ملکِ ولایت

امامِ آلِ محمدؐ

ایو نے کانِ سخاوت

امامِ آلِ محمدؐ

چراغِ نورِ امامت

امامِ آلِ محمدؐ

 

۴۹

 

نجاتے سرکے اشارت

امامِ آلِ محمدؐ

بھشتے زندہ بشارت

امامِ آلِ محمدؐ

نصیرؔے جیےحمایت

امامِ آلِ محمدؐ

 

(گلگت میں امامِ زمانؑ کے تشریف فرما ہونے کے موقعہ پر)

 

ن۔ن۔ (حبِ علی) ہونزائی

منگل ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۵۰

 

امامِ آلِ محمدؐ

 

جب قرآن و حدیث کی روشنی میں امامِ برحقؑ کی عظمت و برتری کا اندازہ ہونے لگا تو پھر ہر مذہب میں بلکہ علم کے ہر شعبے میں لفظِ امام استعمال ہونے لگا، اس عمومیت کی وجہ سے حقیقی امام کی شناخت مشکل ہوگئی، تاہم اصل اور حقیقی امام کے نشانوں میں سے ایک نشان خاص اور قابلِ ذکر ہے اور وہ ہے امامِ برحقؑ کا آلِ محمدؐ ہونا، لہٰذا ہم نے اس مختصر نظم میں امامِ آلِ محمدؐ کے اسمِ مبارک کو اس طرح لکھا ہے کہ پڑھنے والے اس کا ذکر بھی کریں۔

 

۱۔ خدا کا نورِ ہدایت۔

۲۔ دورِ قیامت کا امام۔

۳۔ آؤ اہلِ سعادت کی جان۔

۴۔ اے سیادت کی بلندی کا ستارہ!

۵۔ ہم سب کی بزرگی کا تاج۔

۶۔ آ جاؤ اے ملکِ ولایت کے بادشاہ۔

۷۔ تم سب کے لئے کانِ سخاوت ہو۔

۸۔ امامت کے نور کا چراغ۔

۹۔ تم نجات کا نمایان اشارہ ہو۔

 

۵۱

 

۱۰۔ بہشت کی زندہ خوشخبری ہو۔

۱۱۔ تو نصیرؔ کی روح کے لئے بے شک باطنی حمایت ہے۔

 

غلام مصطفیٰ مومن پریذیڈنٹ آف بِگ کی فرمائش پر مذکورہ نظم کا یہ مختصر ترجمہ کیا گیا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۱۸؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۵۲

 

قرآنِ پاک کی وحدت و سالمیّت

 

جس طرح ظاہر میں قرآنِ حکیم کے بہت سے اجزاء ہیں، لیکن اس کے باوصف اس کی کتابی شکل کی ایک ہی وحدت و سالمیت موجود ہے، جس کو ہر مسلمان دیکھتا اور یقین رکھتا ہے، اسی طرح باطن میں بھی قرآنِ عظیم کے مقدّس اجزاء ہیں، مگر چونکہ وہ معجزۂ کلامِ الٰہی کی وحدت و سالمیت کی وجہ سے ایک ہیں، لہٰذا ان کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا ہے، جیسے کلمۂ کن، قلمِ اعلیٰ، لوحِ محفوظ، کتابِ مکنون، نور (روح، ۴۲: ۵۲)، کتابِ ناطق، معلمِ ربّانی، تاویل (حکمت)، رمزِ باطن، اشارہ، حظیرۂ قدس، امامِ مبین، اور دیگر عظیم معجزاتِ باطنی کو نہ جاننا، نہ ماننا یا ان معجزات کو الگ الگ قراردینا، ایسا ہے جیسے قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا، متعلقہ آیت کو دیکھو(۱۵: ۹۱)۔

 

یاد رکھو قرآن کلامِ الٰہی ہے جس کے ظاہری اور باطنی دو پہلو ہیں، پس قرآن کا باطنی پہلو زمان و مکان سے ماوراء ہے، یعنی وہ زمانے کے تحت آکر قصّۂ ماضی نہیں ہوتا، لہٰذا وہ عارفین کے نزدیک گویا ایک نورانی مووی ہے، جو اپنے اصل حال میں موجود ہے، یعنی خدا کُنۡ فرما رہا ہے، قلم لکھ رہا ہے، لوح اپنا کام کر رہی ہے، الغرض قرآن کا ہر باطنی معجزہ جاری ہے، کیونکہ یہ لامکانی اور ازلی معجزات ہیں، ان کو سمجھنے کے لئے کوشش کریں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعۃ المبارک ۲۰ ؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۵۳

 

قرآنی بہشت

 

اگرچہ قرآنِ عظیم کی اصل اور حقیقی تعریف خود قرآنِ حکیم ہی میں موجود ہے، تاہم کلامِ الٰہی کی اسی تعریف کے حوالے سے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآنِ پاک علم و حکمت کی وہ بہشت ہے جو اہلِ ایمان کے لئے نزدیک لائی گئی ہے، الحمد لِلّٰہ۔ پس جو لوگ علم و حکمت کے مختلف درجات میں قرآن سے وابستہ ہیں وہ اس بہشت میں داخل ہیں، لہٰذا ان شاء اللہ یہ راہنما بہشت جو روح اور نور کے ساتھ ہے اپنے تمام پیروؤں کو کلّی اور ابدی بہشت تک پہنچا دے گی، آمین!

 

اے عزیزان! جہاں اللہ کی طرف سے ایک نور ہے(۰۵: ۱۵) وہاں اس کی کتاب رہنما بہشت کیوں نہ ہو، پس اہلِ ایمان کی دانائی یہ ہے کہ وہ قرآنی بہشت کی نعمتوں سے ہر وقت لذّت گیر ہوتے رہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب رسولؐ کی خوشنودی حاصل ہو، آمین!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

اتوار  ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۵۴

 

روشن خیالی = روشن ضمیری

 

آیۂ نجویٰ (۵۸: ۱۲) میں رسولِ پاکؐ سے جس راز کی بات سننے کا اشارہ ہے وہ یقیناً کارِ بزرگ وغیرہ عطا کرنے سے متعلق ہے، جس کے کئی نام ہیں، اس سے شروع شروع میں روشن خیالی پیدا ہوتی ہے، مگر یہ صرف ابتدائی کیفیت ہے، جبکہ یہ مومنِ سالک کی اپنی ذات کا سفر بہت دور و دراز ہے، اس روحانی سفر کی تمام شرطوں میں ہادیٔ برحقؑ کی ہدایت بنیادی اہمیت رکھتی ہے، یعنی امامِ زمانؑ کی ظاہری اور باطنی رہنمائی روحانی ترقی کی جان ہے، جس کے لئے کامل اطاعت اور حقیقی عشق ضروری اور لازمی ہے، علم الیقین کا وہ حصّہ جس میں امامِ زمانؑ کے اسرار بیان ہوئے ہیں بےحد ضروری ہے۔

گنجِ نہانی طلب از دل و از جانِ خویش

اپنے دل اور اپنی جان ہی سے چھپا ہوا خزانہ طلب کر۔ جیسا کہ شعرہے: ۔

اس مرتبۂ دل کو عارف ہی سمجھتا ہے

گر پاک کرے کوئی تب عرشِ خدا ہے دل

روشن ضمیری = اشراق = تصفیۂ باطنی۔ اشراقین حکماء کا وہ مرتاض گروہ جو تصفیۂ قلب اور کشف کے ذریعے شاگردوں کو دور بیٹھے ہوئے تعلیم دیا کرتا ہے، (دیکھو فیروزاللغات، ص ۹۷)۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۲۳؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۵۵

 

لفظِ غریب کی حکمت

 

جامعِ ترمذی جلدِ دوم باب: ۱۳۷۵ میں یہ حدیثِ شریف ہے:

اِنَّ الْاِسْلامَ بَدَءَ غَرِیْباً وَ سَیَعُودُ غَرِیْباً۔

اسلام کی ابتداء غربت سے ہوئی اور وہ عنقریب دوبارہ غریب ہوجائے گا۔

 

نہ تو کوئی آیۂ کریمہ حکمت کے بغیر ہے اور نہ ہی کوئی حدیثِ شریف، لفظِ غریب کا ایک اشارہ عجیب و غریب ہے، اور غریب اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو لوگوں کے لئے انجان اور اجنبی ہو، شروع میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ اسلامِ مجسّم تھے، کیونکہ اسلام کی ہر چیز آپؐ ہی کی ذاتِ عالی صفات سے ظاہر ہونے والی تھی، آپؐ کو اکثرلوگوں نے نہیں پہچانا اور آخر میں بھی اسلام قائمِ آلِ محمدؐ کی صورت میں مجسّم ہو کر غریب (انجان) ہوجائے گا، پس جولوگ نورِ مجسّم (دینِ مجسّم ) کو ہمیشہ پہچانتے ہیں، وہ مبارک ہیں۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ کا ارشاد ہے کہ میں جوامع الکلم کے ساتھ بھیجا گیا ہوں، یعنی مختصر الفاظ میں بہت سی باتوں کو سمو دینا میری صفت بنائی گئی ہے، پس قرآن و حدیث دونوں  جوامع الکلم ہیں، لہٰذا مذکورۂ بالا حدیث میں ایک عظیم حکمت پوشیدہ ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِ علی) ہونزائی

پیر ۲۳؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۵۶

 

الحی القیوم

 

سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۵۵)

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۲)

سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۱۱)

حٰم (۸ + ۴۰ =  ۴۸)

سورۂ غافر (۴۰: ۰۱)

سورۂ فصلت (۴۱: ۰۱)

سورۂ شوریٰ (۴۲: ۰۱)

سورۂ زخرف (۴۳: ۰۱)

سورۂ دخان (۴۴: ۰۱)

سورۂ جاثیہ (۴۵: ۰۱)

سورۂ احقاف (۴۶: ۰۱)

 

صبحِ سعادت رسید دامنِ ما را کشید

برسرِ گردون زدیم خیمۂ ایوانِ خویش

 

۵۷

 

ہر دو عالم قیمتِ خود گفتۂ

نرخ بالا کن کہ ارزانی ھنوز

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل ۲۴؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۵۸

 

چلۂ اسیری کے بےشمار فوائد

 

میری معلومات اور کتابوں کی دنیا چلۂ اسیری کے عرفانی مشاہدات سے معمور اور آباد ہے، خداوندِ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز نے مجھ ایسے غافل اور جاہل انسان کو خوابِ غفلت سے بیدار کرکے اسرارِ معرفت سے آگاہ کر دیا، الحمد لِلّٰہ۔

 

سختی اور مشکل حالات میں جس طرح خدا سے رجوع ہوسکتا ہے، وہ آرام و راحت میں نہیں ہوسکتا ہے، خدائے ارحم الراحمین نے اپنی بے پناہ رحمت سے میرے اس پُرمشقت سفر کو باعثِ رحمت اور ذریعۂ برکت بنا دیا، ورنہ من آنم کہ من دانم۔

منت منہ کہ خدمتِ سلطان ہمی کنم

منت شناس ازو کہ بخدمت بداشتت است

ترجمہ: تو یہ کہہ کر احسان نہ جتلا کہ میں بادشاہ کی خدمت کر رہا ہوں، بلکہ تو اس کے احسان کو جان اور مان کہ اسی نے تجھ کو اپنی خدمت دے کر سرفراز فرمایا ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۲۵؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۵۹

 

الۗمّۗ

 

سورۂ بقرہ ( ۰۲: ۰۱ تا ۰۲ ) کے آغاز میں یہ حروف مقطعات ہیں: ۔

الۗمّۗ  ذَالِکَ الْکِتابُ لَارَیْبَ فِیْہِ۔۔۔

الف = عقلِ اوّل = قلمِ اعلیٰ = نورِ محمدیؐ

لام = نفسِ کلّی = لوحِ محفوظ = نورِ علیؑ

میم = کتابِ مرقوم = کتابِ مکنون

یہ وہ کتاب (قرآنِ ناطق) ہے جس میں کوئی شک نہیں ، بلکہ یقین ہی یقین ہے، اس میں متقین کے لئے ہدایت ہے، یعنی حجتان کے لئے، کیونکہ یہی حضرات باطنی طور پر قرآنِ ناطق سے وابستہ ہیں، اور حقیقی معنوں میں پرہیزگار بھی یہی لوگ ہیں، جبکہ اصل پرہیزگاری اسرافیلی اور عزرائیلی عمل کے بعد ہوتی ہے، اس لئے کہ عزرائیل کے پاس ایک اسمِ اعظم ہوتا ہے، اس کا نام کلمۂ تقویٰ ہے، اس کو عزرائیل پڑھتا رہتا ہے، اور یہ اس بندۂ مومن سے چسپان ہو جاتا ہے، جو بفضلِ خدا تجربۂ قیامت سے گزر رہا ہو۔

 

اسم کے چسپان ہونے کو اسم کا خودگو ہونا بھی کہہ سکتے ہیں، خود کار اسم بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ روحانی قیامت برپا ہو جانے سے کوئی ایک اسم یا چند اسماء خود بخود ذکر کرتے رہتے ہیں، اس طریقِ کار کو فرشتوں کی

 

۶۰

 

پرواز بھی کہا گیا ہے، آج یہ اسرار کافی ہیں، آپ دعا کرتے رہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ ۲۵ ؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۶۱

 

عقلِ کلّی اور نفسِ کلّی کے چند اسماء

 

عقلِ کلّی نفسِ کلّ
عرشِ اعلیٰ کرسی، درختِ زیتون
قلم لوحِ محفوظ
فرشتۂ عظیم فرشتۂ عظیم، درختِ سدرہ
نورِ محمدیؐ نورِ علیؑ
آسمانِ برترین ارض اللّٰہِ الواسعۃ
آدمِ معنی حوایِ حقیقی
عرش علی الماء بحرِ محیط، عالمگیر روح

روح الا رواح = روحِ اعظم

 

 

بگردِ عالم ار بحرِ محیط اس

در و ہم گوہر و مرجان علیؑ بود

 

محمدؐ بود قبلہ گاہِ عالم

ولی برتختِ دل سلطان علیؑ بود

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۲۶؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۶۲

 

بہشتِ برین کی سلطنت

 

حدیثِ راعی:۔

رسولِ اکرمؐ کا ارشاد ہے:۔

کُلُّکُم راعٍ وَ کُلُّکُم مَسْئُوْ لٌ عَنْ رَّعِیَّتہٖ۔

ترجمہ: تم میں سے ہر شخص سردار ہے اور نگہبان اور (قیامت کے دن) اس کی رعیّت کی اس سے بازپرس ہوگی۔ رعیّت سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی حفاظت اور نگہداشت اور پرورش اس کے متعلق ہے (لغات الحدیث، جلدِ دوم، باب الراء مع العین، ص ۹۵)۔

 

آنحضرتؐ کا بنی عبدالمطلب سے خطاب:۔

یا بنی عبد المطلب اطیعونی تکونوا ملوک الارض و حکَّامَھا۔

ترجمہ: اے عبدالمطلب کی اولاد! میری اطاعت کرو تاکہ تم زمین کے سلاطین اور حکام ہوجاؤگے (کتابِ ہزار حکمت، حکمت ۸۵۵)۔

 

۶۳

 

سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۰) میں ہے:

وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ﳓ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۔

ترجمہ: یاد کرو جب موسٰی نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی، اس نے تم میں نبی پیدا کئے، تم کو سلاطین بنایا اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۲۷؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۶۴

 

آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کی عظیم سلطنت

 

سورۂ نساء (۰۴: ۵۴) کے ارشاد کا ترجمہ ہے: تو پھر ہم نے آلِ ابراہیمؑ کو کتاب و حکمت اور عظیم سلطنت سب کچھ عطا کیا ہے۔ چونکہ آلِ ابراہیمؑ کا نورانی سلسلہ حضرتِ اسماعیلؑ کے توسط سے آکر حضورِ انورؐ سے مل جاتا ہے، اور پھر اسی طرح آلِ ابراہیمؐ کا سلسلہ بعد میں آلِ محمدؐ کی صورت میں جاری رہتا ہے، اس کی روشن دلیل حدیثِ ثقلین ہے، جس کے مطابق دنیا میں ہمیشہ نہ صرف اللہ کی کتاب (قرآن) موجود ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ کتاب اللہ کا وراث (امامِ آلِ محمدؐ) بھی حاضر ہے، پس امامؑ لازمی طور پر نورانی حکمت اور دین کی عظیم روحانی سلطنت کا مالک ہے۔

 

جو لوگ حقیقی معنوں میں اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاءؑ اور صد یقین اور شہداء اور صالحین، کیسے، اچھے ہیں یہ رفیق (۰۴: ۶۹)، جب تم بہشت میں ہر طرف دیکھو گے تو نعمتیں ہی نعمتیں اور عظیم سلطنت نظر آئے گی (۷۶: ۲۰)۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۲۸؍اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۶۵

 

پاکیزہ قول اور نیک کام کی حکمت

 

قرآنِ حکیم کے اسرارِ عظیم کے سلسلے میں سورۂ فاطر (۳۵: ۱۰) میں بھی خوب غور و فکر کریں: ۔

ترجمہ: جو کوئی عزت چاہتا ہو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے، اس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے، اور نیک عمل اس کو اوپر چڑھاتا ہے۔

 

اس آیۂ کریمہ سے یہ معلوم ہوا کہ حقیقی مومن کا پاکیزہ قول صاحبِ عرش کے پاس اوپر چڑھتا ہے، اور نیک عمل اس کو اوپر چڑھاتا ہے، تاکہ مومن کا یہ قول و فعل خدا کے قول و فعل میں فنا ہوکر ایک کائناتی طاقت ہوجائے، کیونکہ جب یہ بات حق ہے کہ مومنِ سالک فنا فی اللہ ہوسکتا ہے، تو پھر یہ بات بھی درست ہے کہ اس کا پاکیزہ قول اور نیک عمل خدا کے قول و فعل میں فنا ہو کر کوئی بہت بڑا کائناتی کام کر لیتا ہے۔

پاکیزہ قول ذکر و عبادت اور علم وحکمت ہے، اور نیک عمل وہ ہے جو خدا، رسولؐ اور ولیٔ امر کے فرمانِ اقدس کے مطابق ہو، لیکن اس میں بہت بڑی شرط پاکیزگی ہے، آپ اس کو سمجھنے کے لئے کتابِ مکنون والی آیت کے راز کو معلوم کر لیں (۵۶: ۷۷ تا ۷۹)۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

اتوار  ۲۹؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۶۶

 

عالمِ شخصی کی تخلیق اور پانی پر عرش کا ظہور

 

سورۂ ھود کی آیتِ ہفتم (۱۱: ۰۷) کو پہلے ترجمہ و تفسیر کی مدد سے خوب پڑھ لیں، بعد ازان اس کی تاویلی حکمت کو سمجھنے کے لئے سعئی بلیغ کریں۔ آپ سب یہ تو جان چکے ہیں کہ کوئی ایسی چیز ہرگز نہیں جو عالمِ اکبر میں موجود ہو، مگر عالمِ اصغر = عالمِ شخصی میں اس کا کوئی نمونہ موجود نہ ہو، پس یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ عالمِ شخصی کی تخلیق و تکمیل کے بعد بحرِ علم پر عرش کا ظہور ہوتا ہے، تاکہ خدا اپنے بندوں کو علم میں بھی اور عمل میں بھی آزما کر سب سے بہترین ۔۔۔ کو ظاہر کرے۔

 

اگرچہ خدا کی خدائی میں امتحانات بہت سے ہیں، لیکن سب سے عظیم اور سب سے اعلیٰ امتحان علمی رنگ میں ہے چونکہ علم ہر چیز سے برتر ہے، جی ہاں عالمِ شخصی کی تخلیق و تکمیل کے بعد بحرِ علم پر ظہورِ عرش کا معجزہ ہوتا ہے، یہ معجزہ سب سے عظیم ہے، لہٰذا عارف اس کا مشاہدہ صرف نورانی خواب میں کرسکتا ہے، مگر احساس و ادراک بیداری کی طرح ہوتا ہے۔

عجیب بات یا ایک عجیب امتحان یہ ہے کہ سب سے بڑے بادشاہ کا تخت لعل و گوہر سے آراستہ و پیراستہ اور حیران کن نہیں ہوتا، بلکہ صرف ایک معمولی کشتی کی طرح ہوتا ہے، مگر اس میں ایک نورانی اور باکرامت شخص ہوتا ہے، وہ اسماء الحُسنیٰ میں سے ایک اسم کو پڑھ رہا ہوتا ہے، دراصل یہ وہی

 

۶۷

 

فرشتۂ اعظم ہے جس کا نام عرشِ اعلیٰ بھی ہے، اور زندہ نور بھی، اور روحوں سے بھری ہوئی کشتی بھی، اور حدیثِ سفینہ کے مطابق یہ امامِ زمانؑ بھی ہے، الحمدلِلّٰہ ۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۳۰؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۶۸

 

پانی پر عرش بھری ہوئی کشتی بھی ہے

 

بحرِ علم پر عرش کا ظہور (۱۱: ۰۷) بھری ہوئی کشتی کا عظیم معجزہ بھی ہے ( ۳۶: ۴۱) اور کشتی میں جو نورانی ہستی تھی درحقیقت وہی نورِ ہدایت کی زندہ کشتی تھی، اسی میں خدا نے سب کی روحوں کو سوار کر دیا تھا، تاکہ ہم اس انتہائی عظیم نعمت کی شکر گزاری کریں، اہلِ معرفت کے لئے یہ بہت بڑا حیران کن معجزہ ہے۔

 

اس آیۂ شریفہ کی تاویل کے بغیر چارہ نہیں، کیونکہ ظاہر میں بالکل بھری ہوئی کشتی میں مزید لوگوں کو سوار کر دینا ممکن نہیں، لہٰذا یہ کہنا حقیقت ہے کہ خدا نے اس حال میں روحوں کو فنا فی الامامؑ کر دیا تھا، یہ ہوا بھری ہوئی کشتی میں سوارکرنا، کیونکہ امامؑ ہی بحرِ علم پر خدا کا تخت ، کشتیٔ نوح، سفینۂ نجات، نور اور فرشتۂ عرش ہے، جبکہ امامِ مبینؑ میں تمام معجزات اور جملہ درجات جمع ہیں، خدا کے اسماء الحسنٰی کی قسم کہ امامؑ سے کوئی مرتبہ باہر نہیں ہے، پس اے عاشقانِ نورِ امامؑ! تم کو یہ عشق مبارک ہو۔

این سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل  ۳۱؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۶۹

 

معرفتِ آیات

 

آیات سب سے پہلے قرآنِ حکیم میں ہیں، پھر آفاق وانفس میں (۴۱: ۵۳) اور حظیرۂ قدس میں بھی آیات ہیں جہاں امامِ مبینؑ کی ظہورگاہ ہے (۳۶: ۱۲) اور حظیرۂ قدس کا ایک حوالہ (۲۷: ۹۳) ہے، جہاں آیاتِ کبریٰ کی معرفت عارفین کو حاصل ہوتی ہے، اور یہ عالمِ شخصی کا سب سے اعلیٰ مقام ہے، اور یہی مقام امامِ مبینؑ کی ظہورگاہ بھی ہے اور نزدیک لائی ہوئی بہشت بھی، اور مرتبۂ کوہِ طور بھی ہے اور عالمِ شخصی کے لئے لوحِ محفوظ بھی، اور بہت کچھ ہے، اور جن عظیم معجزات = آیات کی معرفت ضروری ہے وہ سب یہاں موجود ہیں، میں نے الگ الگ مقالوں میں حظیرۂ قدس کے بارے میں بہت کچھ لکھ دیا ہے، آپ میرے تمام مقالوں کو پڑھیں۔

 

سورۂ نمل کے آخر میں جو عظیم الشّان آیۂ معرفت ہے اس کا ایک لفظی ترجمہ یہ ہے: ان سے کہو تعریف اللہ ہی کے لئے ہے، عنقریب وہ تمہیں اپنی آیات = معجزات دکھا دے گا اور تم انہیں پہچان لوگے، اور تیرا ربّ بے خبر نہیں ہے ان اعمال سے جو تم لوگ کرتے ہو۔ (۲۷: ۹۳)۔

سورۂ ذاریات (۵۱: ۵۶) میں ارشاد ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ(وَلَیَعْرِفُوْنِ)۔

ترجمہ: اور میں نے جنّوں اور آدمیوں کو اس غرض سے پیدا کیا ہے کہ

 

۷۰

 

وہ میری عبادت کریں (اور مجھ کو پہچان لیں)۔ مزید وضاحت کے لئے کتاب علمی بہار ص ۴۱ کو دیکھیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ یکم نومبر ۲۰۰۰ء

 

۷۱

 

ایک زندہ نما مردہ شخص

 

سورۂ انعام (۰۶: ۱۲۲) میں چشمِ بصیرت سے دیکھو، ایک زندہ نما مردہ شخص تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے روحِ چہارم کی حیاتِ طیبہ میں زندہ کرکے ایک نور عطا کردیا، جس کے ذریعے سے وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے (یعنی عالمِ شخصی میں) کیا وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح ان سے نہ نکلتا ہو؟

 

آپ سورۂ نحل (۱۶: ۲۱) میں اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ (مردہ ہیں نہ کہ زندہ) کے ارشاد کو بھی غور سے دیکھیں: یہ لوگ وہ مردے نہیں جو دفنائے گئے ہوں بلکہ یہ سچ ہے کہ یہ لوگ زندہ نما مردے ہیں، آپ آیت کو تماماً پڑھ کر دیکھیں کہ اس کا اصل سبب کیا ہوسکتا ہے۔

حضرتِ پیر فرماتے ہیں: ۔

بصورت زندہ اما جان ندارند

اگر دارند جان جانان ندارند

ترجمہ: ظاہراً وہ زندہ نظر آتے ہیں، مگر ان میں جان نہیں ہے، اگر جان ہے تو ان کا جانان نہیں ہے۔ اے عزیزان! میں کسی سے بحث نہیں

 

۷۲

 

کر رہا ہوں، بلکہ یہ درسِ حکمت آپ ہی کے لئے ہے، کیونکہ مجھے آپ کی روحانی ترقی بے حد عزیز ہے، اور بفضلِ خداواندِ ارحم الراحمین نور میں فنا ہوجانا ممکن ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۲؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۷۳

 

جانورانِ انسان نما

قسط: ۱

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۹) ترجمہ آیۂ شریفہ: ۔

اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جنّ اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لئے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔ آپ سورۂ فرقان (۲۵: ۴۴) میں بھی دیکھیں، پس یہاں یہ کہنا بالکل درست ہے کہ یہ لوگ جانورانِ انسان نما ہیں۔

 

ہم ہر چیز کو قرآنِ حکیم کی روشنی میں پہچاننا چاہتے ہیں، اگرچہ ہم عالمِ انسانی کے حق میں سب سے زیادہ خیرخواہ ہیں، اس کا ایک روشن ثبوت یہ ہے کہ ہم ہمیشہ الخلق عیال اللہ پر کامل یقین رکھتے ہیں، اور ہمارا نظریہ یہ ہے کہ خدا نے امامؑ کو اس لئے مقرر کیا ہے کہ وہ قیامت کی طوفانی دعوت سے تمام لوگوں کو عالمِ شخصی میں جمع کرلیتا ہے، جہاں سب کو بہشت کے لئے تیار کیا جاتا ہے، اور بہشت کی بہت بڑی بادشاہی اس بات کی مقتضی ہے کہ سب لوگ اس کو دیکھیں اور تعریف کریں، اور حیرت زدہ ہوں، اور شاہانِ بہشت کی

 

۷۴

 

تعظیم کریں، بلکہ سجدہ بھی کریں، کیونکہ جنت کا ہر بادشاہ اپنے باپ آدمؑ کی صورت پر ہوگا، اور آدمؑ رحمان کی صورت پر تھا، پس جنّت کا ہر بادشاہ جو آدمؑ کی طرح معلمِ ربّانی بھی ہوگا، اس کے لئے سجدہ کیا جائے گا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ ۳؍  نومبر ۲۰۰۰ء

 

۷۵

 

نورِ مجسّم اور کتابِ مبین (۰۵: ۱۵)

 

آیۂ کریمہ کی ترتیبِ پُرحکمت میں پہلے نور کا ذکر آیا ہے، اور اس کے بعد کتابِ مبین کا نام ہے، اس کی حکمت یہ ہے کہ پہلے خدا نے آنحضرتؐ کو نورِ مجسّم (زندہ نور) بنایا، اور پھر مرتبۂ نبوّت و رسالت سے نوازتے ہوئے آپ پر قرآنِ حکیم کو نازل فرمایا، نورِ مجسّم کا مطلب ہے ایسا ربّانی معلّم جو قرآنِ حکیم کے باطن اور تاویلی اسرار سے باخبر ہو، یہ عظیم مرتبہ رسولِ اکرمؐ کے بعد آپؐ کے برحق جانشین کو عطا ہوا۔

 

اللہ تعالیٰ کی بے مثال کتاب کی عظمت و برتری کی شان اس کے علم و حکمت کو ظاہر کرنے سے معلوم ہوجاتی ہے، اس لئے قرآن کے ساتھ ہمیشہ دنیا میں معلمِ ربّانی کا موجود و حاضر رہنا لازمی اور ضروری ہے ، جو خود اس آیت کے ارشاد کے مطابق یہ نور خدا کی طرف سے آیا ہے۔

آپ خوب غور کر کے دانائی سے جواب دیں: سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) کے مطابق نور اور کتابِ مبین ایک ساتھ ہیں یا نہیں؟ جواب: یقیناً نور یعنی کتابِ ناطق (۴۵: ۲۹، ۲۳: ۶۲) جو زندہ نور ہے وہ ہمیشہ قرآن کےساتھ حاضر و موجود ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۴؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۷۶

 

اہل الذکر أئمّۂ آلِ محمد صلعم

 

الذکر رسولِ پاکؐ کے اسمائے مبارک میں سے ہے، نیز یہ قرآن کا نام ہے ، اور ذکر سے اسمِ اعظم بھی مراد ہے، جس سے خاصانِ الٰہی خدا کا ذکر کرتے رہتے ہیں، ان تمام معنوں کے ساتھ اہلِ ذکر أئمّہ طاھرین علیھم السّلام ہیں ، سورۂ نحل (۱۶: ۴۳) کا ترجمہ ہے: پس اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہلِ ذکر (امامِ آلِ محمدؐ) سے پوچھ لو۔

 

پوچھنے کے لئے چند خاص شرطیں ہیں، منجملہ تم امامِ آلِ محمدؐ میں فنا ہو جاؤ پھر دیکھو کہ تم اس سے پوچھتے رہتے ہو یا وہ خود تم کو بتاتا رہتا ہے:۔

برجانِ من چو نورِ امام زمان بتافت

لیل السرار بودم و شمس الضحیٰ شدم

ترجمہ: جب میری روح پر امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہوا، تو میں جو قبلاً شبِ تاریک تھا، اب روزِ روشن ہوگیا (ازدیوانِ حکیم پیر ناصر خسرو ’ق س‘)۔

اے عزیزان! جب تم حقیقی اطاعت و فرمانبرداری اورکمالِ عشق سے امامِ زمانؑ میں فنا ہوجاؤ گے تو یقیناً اس کا نور تمہاری روح میں طلوع ہو کر تمہارے باطن کو منور بنا دے گا، اللہ و رسولؐ کی طرف سے دنیا میں نورِ ہدایت موجود ہونے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے، تم ہمیشہ دعا کرتے رہو۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

اتوار  ۵؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۷۷

 

آیاتِ نور کی وحدت و سالمیّت

 

اگرچہ نظامِ شمسی میں سورج، چاند اور بہت سے ستارے الگ الگ ہیں، لیکن ان سب کی روشنی کی ایک کلّی وحدت وسالمیّت ہے، اسی طرح قرآنِ حکیم میں جتنی آیاتِ نور ہیں وہ سب کی سب مربوط اور ایک ہیں، ان تمام میں خدائے واحد و یکتا کے نور کا بیان ہے، اور یہ بات سب جانتے ہیں، کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، لہٰذا اس کی تجلّی آسمان میں بھی ہے اور زمین میں بھی۔

 

اللہ کے نور کی سماوی تجلّی عظیم فرشتوں میں اور ارضی تجلّی انبیاء و اولیاء علیھم السّلام میں ہوتی ہے، حضرت محمد مصطفیٰ رسول اللہ صلعم میں اللہ کے نور کی سب سے عظیم تجلّی تھی، اسی لئے قرآنِ پاک میں آپؐ کا ایک نام سراجِ منیر = روشن چراغ ہے (۳۳: ۴۶)۔

 

نبوّت یقیناً آنحضرتؐ پر ختم ہوئی، مگر یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نورِ ہدایت کو أئمّۂ آلِ محمدؐ کے سلسلے میں باقی و جاری رکھا ہے۔

 

سورۂ توبہ (۰۹: ۳۲) میں ارشادِ ربانی ہے:

وہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے مونہوں (کی پھونکوں) سے بجھائیں اور اللہ تعالیٰ کو سوائے اس کے کچھ منظور نہیں ہے کہ اپنے نور کو پورا کرے اگرچہ کافر اسے ناپسند کریں۔ آپ سورۂ صف کی آیت ۸ (۶۱: ۰۸) کو بھی دیکھیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۶؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۷۸

 

اللہ تعالیٰ کے خاص اور عظیم معجزات

 

قدرت کی عام نشانیاں سب لوگ دیکھ رہے ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے آفاق و انفس میں جن آیات کو دکھانے کا وعدہ فرمایا ہے (۴۱: ۵۳) وہ خاص اور عظیم معجزات ہیں، اور ان کا تعلق چشمِ بصیرت سے ہے، جو لوگ عظیم معجزات کے بارے میں شک کرتے ہیں وہ خدا کی قدرت میں شک کرتے ہیں، انہوں نے حدیثِ نوافل کو نہیں سمجھا ہے، اللہ ان کو چشمِ بصیرت عطا کرے!

 

اے عزیزان تم پر خدا کا بڑا فضل و احسان ہے کہ تم نے حدیثِ نوافل کو اتنی تفصیلات کے ساتھ پڑھا ہے اور ان شاء اللہ اس پر یقین بھی کیا ہوگا، الحمد لِلّٰہ۔

 

اللہ اپنے جس بندے کو اپنے نور میں فنا کرلیتا ہے وہ کیا کیا عظیم معجزات دیکھتا ہے؟ اور کیا کیا اسرار سنتا ہے؟ اور کیسے کیسے عجیب و غریب احوال اس پر گزرتے ہیں؟ اس کا اندازہ کون کرسکتا ہے، سوائے اس شخص کے جو علم الیقین کی حد میں ہمیشہ پڑھتے اور سنتے رہے، اس سلسلے میں دانش گاہِ خانۂ حکمت کی کتابیں بہت ہی مفید ثابت ہوسکتی ہیں، ان کتابوں کو پڑھتے رہو اور اگر سننے کا موقعہ ہو تو سنتے بھی رہو۔

 

دعا ہے کہ خداوندِ تعالیٰ عنقریب دنیا میں روحانی انقلاب لائے! اور

 

۷۹

 

روحانیّت کے عجائب وغرائب کو سب دیکھ سکیں۔ تو ان شاء اللہ تمام دنیا والے ایک ہو جائیں گے، اور ان کو بہت زیادہ خوشی ہوگی جو پہلے ہی سے اس عالمِ وحدت کو جانتے تھے، خدا کرے کہ ظاہری سائنس کی ترقی روحانی سائنس سے جا ملے، جس کے زیرِ اثر دنیا کے سب لوگ ایک ہو جائیں، آمین!  یاربّ العالمین!!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

اتوار  ۱۲؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۸۰

 

اللہ تعالیٰ کا پاک دیدار = ملاقات

 

بحوالۂ سورۂ انعام ۰۶: ۳۱ تا ۳۲:

ترجمہ: نقصان میں پڑ گئے وہ لوگ جنھوں نے اللہ سے اپنی ملاقات کی اطلاع کو جھوٹ قرار دیا، جب اچانک وہ گھڑی آجائے گی تو یہی لوگ کہیں گے افسوس! ہم سے اس معاملہ میں کیسی تقصیرہوئی اور ان کا حال یہ ہوگا کہ اپنی پیٹھوں پر اپنے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں گے۔ دیکھو! کیسا برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں، دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور ایک تماشا ہے، حقیقت میں آخرت ہی کا مقام ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو زبان کاری سے بچنا چاہتے ہیں، پھرکیا تم لوگ عقل سے کام نہ لو گے؟

 

نیز ارشاد ہے: قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا (۱۸: ۱۱۰)۔

ترجمہ: اے نبیؐ کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے ربّ کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہئے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے ربّ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔

 

۸۱

 

ترجمۂ ارشاد ہے: اور جنہوں نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ہے وہ عذاب میں حاضر رکھے جائیں گے (۳۰: ۱۶)۔

 

یہاں یہ ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کی آیات کو کونسے لوگ جھٹلاتے ہیں، آیا یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کو نہیں مانتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں، وہ تو خدا کو نہ ماننے کی وجہ سے پھر خدا کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں، یعنی خدا کی آیات کے بارے میں بحث نہیں کر سکتے ہیں، اور اس کی کوئی منطق نہیں بنتی ہے، اس لئے اس میں کوئی اہم تاویل ہے اور وہ تاویل یہ ہے جو خود صاحبِ تاویل (علیؑ) نے فرمایا کہ أئمّۂ آلِ محمدؐ آیات اللہ ہیں، دیکھئے کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت ۸۰۔

قرآنِ حکیم میں لقاء اللہ = خدا کی ملاقات کے مضمون پر بہت سی آیات ہیں، آپ ان سب کا مطالعہ کریں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر ۱۳؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

نوٹ: قرآن میں سرتا سر جہاں کہیں بھی نیک عمل کا ذکر آیا ہے، اس میں علم کا راز بھی مخفی ہے، کیونکہ علم کے بغیر عمل کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔

 

۸۲

 

عالمِ خیال

 

انسان بڑا ناشکرا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمتوں کو نہ تو پہچانتا ہے جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے، اور نہ ہی شکر کرتا ہے، انسان پر خداوندِ کریم کے جو جو احسانات ہیں ان کو کوئی فردِ بشر شمار ہی نہیں کرسکتا، اللہ کا ایک عظیم احسان یہ بھی ہے کہ اس نے ہر آدمی کو ایک عالمِ خیال عطا کیا ہے، جو ایک بڑا عجیب و غریب عالم ہے، اگر ذکر و عبادت اور علم وحکمت کے ذریعے سے اس میں کافی صفائی اور روشنی پیدا ہوجائے، تو یہ کلّی طور پر بہشت کا عالم ہوسکتا ہے، اگر خدا کے فضل و کرم سے ایسا ہوسکا، تو یہ عالمِ شخصی ہوجانے کے بعد ممکن ہوگا، جس پر قیامت کے جملہ احوال گزر جائیں گے۔

 

عالمِ خیال جب عام حالت میں اتنا عجیب و غریب ہے، تو پھر اس میں روحانی انقلاب آنے کے بعد یہ کتنا معجزاتی ہوگا! یہی وجہ ہے کہ امامِ زمان علیہ السّلام اپنے بعض مریدوں کو ان کی اپنی درخواست پر بیت الخیال کا خصوصی اور باطنی طریقہ تمام ضروری اور لازمی ہدایات کے ساتھ بتاتے ہیں، آپ کو البتہ عام خیال کا خوب تجربہ ہے کہ یہ بے مثال قوّت آپ کے لئے کس سرعت سے کام کر رہی ہے کہ اس کے مقابلے میں برق بھی ہیچ ہے۔

 

میں ایک عام انسان کی حیثیت سے بذریعۂ خیال شرق و غرب کے تمام

 

۸۳

 

ساتھیوں سے ملاقات کرتا ہوں، اور یہ میرے لئے کوئی خاص بات نہیں، بلکہ یہ اللہ کی طرف سے ہر آدمی کے لئے ایک عطیہ ہے، جو حیوان کو نصیب نہیں ہوا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۱۶؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۸۴

 

ایمانی روح کا فرشتہ ہوجانا

 

بحکمِ پروردگار ایماندار اور نیکوکار روح کا فرشتہ ہونا یقینی امر ہے، ان شاء اللہ یہ بلند مرتبہ ڈاکٹر زرینہ (مرحومہ) کو بفضلِ خدا حاصل ہوگا، آمین! یا ربّ العٰلمین! ہم سب ساتھی یہ عاجزانہ دعا کرتے ہیں کہ ڈاکٹر زرینہ کی نیک خواہش کے مطابق ان کے اہلِ خانہ حقیقی علم اور عملِ صالح میں نیک نام ہوجائیں، آمین! الٰہی ان کو دین اور دنیا کی برکتوں سے نوازنا! اور ان پر ہمیشہ مہربان ہو جانا!

 

یا ربّ العزّت! تو اپنی رحمتِ بے نہایت سے ہمارے ادارے میں بہت عالی ہمت افراد کو پیدا کر، تاکہ ڈاکٹر زرینہ اپنے اس ادارے کی ترقی کو دیکھ کر شادمان ہو جائے!

 

میں اس موقع پر اپنے تمام عزیزوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ حقیقی علم اور نیک عمل میں بہت زیادہ ترقی کریں، اس کی بہت بڑی ضرورت ہے، ان شاء اللہ کائنات مسخر ہوگی، یہ اس وقت ممکن ہے جبکہ آپ سب کے سب مل کر چار بہترین خدمات کو سرانجام دیں، وہ چار خدمات یہ ہیں: خدمتِ قرآن، خدمتِ اسلام، خدمتِ جماعت، خدمتِ انسانیّت، اگر آپ کی یہ چاروں خدمات سب سے اعلیٰ، سب سے بہترین اور سب سے بے مثال ہیں تو تسخیرِ کائنات آپ کو مبارک ہو! آمین!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۱۶ ؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۸۵

 

حقیقی مومن کا نورانی خواب

 

کسی ملک میں ایک حقیقی مومن شدید تکالیف سے گزر رہا تھا، جن کی وجہ سے وہ بار بار قاضی الحاجات کی بارگاہِ اقدس میں گریہ و زاری کرتا رہتا تھا، اس نےایک باسعادت رات میں بڑا عجیب نورانی خواب دیکھا کہ حضرتِ امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ اس کے پاس تشریف فرما ہیں، حضرتِ امامؑ کے جسمِ مبارک پر سفید اونی چوغہ ہے، جس پر بہت سارے میڈل (MEDAL) اس طرح سجائے ہوئے ہیں کہ کوئی جگہ خالی نہیں ہے، امامِ عالی مقامؑ نےمومن سے پوچھا: جانتے ہو کہ میرے چوغے پر یہ کیا چیزیں ہیں؟ اس مرید نے بصد عاجزی عرض کی کہ مولا بہتر جانتے ہیں، تب امامِ زمانؑ نے جواباً فرمایا کہ یہ سب میرے ظاہری عملدار ہیں، پھر امامؑ نے اپنے چوغے کے اندر کی طرف کے بہت سے تمغوں کو دکھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ میرے باطنی عملدار ہیں، اور فرمایا کہ تم باطنی عملداروں میں سے ہو۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۱۷ ؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۸۶

 

دوستانِ خدا

 

سورۂ یونس (۱۰: ۶۲ تا ۶۴) میں ارشاد ہے:

اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ  الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ  لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِ

ترجمہ: سنو! جو اللہ کے دوست ہیں جو حقیقی معنوں میں ایماندار اور پرہیزگار ہیں، ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے، دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لئے بشارت ہی بشارت ہے۔

 

حدیثِ قدسیٔ نوافل کے شروع میں ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰہَ قَالَ مَنْ عَادٰی لِی وَلِیَّاً اٰذَنْتُہٗ بِالْحَربِ…۔

ترجمہ: اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی (دوست) سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے اور میرا بندہ میری طرف سے فرض کی ہوئی ان چیزوں سے جو مجھے پسندیدہ ہیں، میرا قرب نہیں حاصل کر سکتا، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ مجھ سے قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس

 

۸۷

 

سے وہ دیکھتا ہے اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ کا طالب ہوتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں جو میں کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے پس وپیش نہیں ہوتا، جیسا کہ مجھےاس مومن کی جان کے بارے میں پس و پیش ہوتا ہے، جو موت کو پسند نہیں کرتا اور میں اس ناگواری کو پسند نہیں کرتا (بحوالۂ صحیح البخاری، جلدِ سوم، حدیث ۱۴۲۲، ص ۵۵۸)۔

 

مزید وضاحت کے لئے دیکھئے کتابِ علمی تصوّف اور روحانی سائنس، عنوانِ معجزۂ نوافل ، قسطِ اوّل و دوم۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۱۷؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۸۸

 

صاحبانِ امر

 

سورۂ نساء (۰۴: ۵۹) میں ارشاد ہے:

ترجمہ: اے وہ لوگو! جو ایمان لاچکے، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو، اور (ان کی) جو تم میں (اللہ کے) امر والے ہیں، پس اگر تم کسی بات میں جھگڑا کرو تو اسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، یہی سب سے بہتر اور اچھی تاویل ہے۔

 

نیز ارشاد ہے: ترجمہ: اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی بات آئی انہوں نے اس کو مشہور کردیا، اور اگر وہ اسے رسولؐ تک اور ان میں سے جو (اللہ کے) امر والے ہیں ان تک پہنچاتے، تو جو بات کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں وہ اس (کی حقیقت) کو جان جاتے، اور اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا اور اس کی رحمت (بھی نہ ہوتی) تو بہت تھوڑوں کے سوا تم سب شیطان کی پیروی کرلیتے (۰۴: ۸۳)۔

 

اس مضمون کی دوسری آیت میں ایک لفظ کی وضاحت ضروری ہے وہ ہے:

يَسْتَنْبِطُونَهُ =  استنباط  = اخذِ مطلب  = اخذِ نتیجہ =

 

۸۹

 

انتخاب = استخراج۔

استنتاج =  اخذِ نتیجہ = استخراج = استنباط۔

استنباط کے اصل معنی ہیں کنواں کھود کر پہلے پہل پانی نکالنا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل ۲۱؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۹۰

 

اسمِ اعظم اور امام کا نور

 

سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۴ تا ۲۵) میں اسمِ اعظم اور امامِ زمانؑ کے نور کا ایک ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:۔

 

اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِ  تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَاؕ-وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ۔

ترجمہ: (اے رسولؐ) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے پاک کلمہ (اسمِ اعظم) کی مثال کیسی دی ہے کہ وہ ایک پاک درخت کی مانند ہے، اس کی جڑ زمین میں محکم ہے اور اس کی شاخ آسمان میں جا پہنچی ہے وہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

اس مبارک ارشاد میں ایک پاک کلمہ سے اسمِ اعظم مراد ہے اور پاک درخت رسولِ پاکؐ کی مبارک شخصیّت ہے جس کی جڑ زمینِ دین میں مضبوط اور اس کی شاخ یعنی امامِ آلِ محمدؐ کا نور حظیرۂ قدس کے آسمان میں پہنچا ہے، جہاں اسمِ اعظم کا نور اور امامؑ کا نور ایک ہے، اور یہ نورِ واحد گوہرِعقل کی صورت میں

 

۹۱

 

ہمیشہ پھل دیتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ اس سے بصیرت اور معرفت والوں کو نصیحت حاصل ہو۔

 

خوب یاد رہے کہ پاک کلمہ اسمِ اعظم ہے اور پاک درخت رسولِ اکرمؑ کی پاکیزہ شخصیّت ہے اور امامِ زمانؑ کا نور جو اسی پاک درخت کی وہ شاخ ہے جو عالمِ علوی میں پہنچی ہے جہاں اسمِ اعظم کے ساتھ ایک ہوگئی ہے اس لئے کہ وہاں عالمِ وحدت ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ تذکرۂ پاک ایک طرف سے اسمِ اعظم سے متعلق ہے اور دوسری طرف سے امامِ آلِ محمدؐ کے نور سے متعلق ہے، ورنہ دنیا میں کوئی ایسا درخت کہاں ہے جس کی شاخ آسمانِ ظاہر میں پہنچی ہو اور اس کا پھل ہمیشہ آسمان ہی میں مل رہا ہو، یہ ایک ایسی حیران کن حکمت ہے کہ اس سے عقلاء کے لئے ہمیشہ حیرت ہونی چاہئے، الحمد لِلّٰہ ربّ العالمین! آپ تمام عزیزان اس پر (DISCUSS) کریں، اور اس تاویلی حکمت کو کتابِ وجہِ دین، کلام نمبر ۱، ص ۱۶ میں بھی پڑھیں۔

 

اے عاشقین! یہ اصولی حکمت بھول نہ جاؤ کہ حضرتِ امامِ اقدس علیہ السّلام عالمِ سفلی میں نورِ مجسم ہے اور عالمِ علوی میں نورِ مجرّد۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۲۲؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۹۲

 

ہر زمانے میں روحانی قیامت کا برپا ہوجانا اور دینِ حق کا تمام ادیان پر غالب آنا

 

ارشادِ حق تعالیٰ ہے: یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ (۰۹: ۳۲؛  ۶۱: ۰۸)۔

ترجمہ: وہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے مونہوں (کی پھونکوں) سے بجھائیں اور اللہ تعالیٰ کو سوائے اس کے کچھ منظور نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا کرے، اگرچہ کافر اسے ناپسند کریں۔

 

نیز ارشاد ہے:

هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ (۰۹: ۳۳؛  ۴۸: ۲۸؛  ۶۱: ۰۹)۔

ترجمہ: (اللہ) وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے اگرچہ مشرک اسے ناپسند ہی کریں۔

 

سب سے پہلے روحانی اور مخفی قیامت زمانۂ نبوّت میں برپا ہوئی تھی، جس میں پہلی بار دینِ حق باقی ادیان پر غالب ہوا اور دنیا بھر کے لوگ بشکلِ ذرّات خدا

 

۹۳

 

کے دینِ مجسم (آنحضرتؐ) میں داخل ہوگئے تھے، آپ سورۂ نصر کو چشمِ بصیرت سے دیکھیں (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۳) اس کے بعد ہر امامؑ کے زمانے میں ایک روحانی قیامت برپا ہوتی آئی ہے، جس میں دینِ حق ادیانِ عالم پر غالب ہوتا آیا ہے (۱۷: ۷۱)۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۲۳؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۹۴

 

آیۂ استخلاف  کے بعض اسرار

 

ارشادِ حق تعالیٰ ہے:۔

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۪-وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًاؕ-یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْــٴًـاؕ-وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ (۲۴: ۵۵)

ترجمہ: تم میں سے جو لوگ حقیقی معنوں میں ایمان لاچکے ہیں اور نیک عمل کرتے رہے ہیں جیسا کہ نیک عمل کرنے کا حق ہے اللہ تعالی نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ انہیں زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور وہ ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے ضرور تمکین دے گا اور ضرور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور جو ان حقائق کے جاننے کے بعد ناشکری کرے پس وہی لوگ فاسق ہیں۔

تاویلی وضاحت: دراصل یہ خلیفے سلاطینِ بہشت

 

۹۵

 

ہیں جو دنیا میں دینِ حق کی برکت سے خود شناسی کی دولت سے مالامال ہوئے تھے، اسی کا نام حقیقی ایمان اور نیک عمل ہے، اب بہشت میں یہ سلاطین جو بامعرفت مومن ہونے کی وجہ سے زمینِ نفسِ کلّی میں تاجِ خلافت سے سرفراز ہو چکے ہیں، وہ دینِ حق کو علم و معرفت کے ذریعہ سے اہلِ بہشت میں معروف کردیں گے، کیونکہ سلاطینِ بہشت کا جو دینِ حق ہے اسی کو تمام اہلِ بہشت نے قبول کرنا ہے، اور وہاں کوئی خوف نہیں کہ دعوتِ حق میں کوئی رکاوٹ ہو، اس کے سوا ہم قرآن میں کہیں بھی نہیں دیکھتے ہیں کہ کسی دور میں حقیقی مومنین سب کے سب روئے زمین پر خدا کے خلیفہ ہوئے ہوں اور انہوں نےکسی خوف کے بغیر دینِ حق کی دعوت کو سیّارۂ زمین پر پھیلائی ہو۔

 

اور اس میں یہ بات بھی ہے کہ زمین سے مراد وہ تمام کائنات ہے جو نفسِ کلّی کی لپیٹ میں ہے، بالفاظِ دیگر خود نفسِ کلّی اللہ کی سب سے بڑی وسیع زمین ہے، اور اللہ کی خلافت بحقیقت زمینِ نفسِ کلّی میں ہے جبکہ نفسِ کلّی کی دو تعبیریں ہوتی ہیں کہ جب وہ عقلِ کلّی کے ساتھ ہے تو آسمان ہے اور جب اُس سے الگ ہے تو زمین ہے، اور ویسے بھی اہلِ حکمت جانتے ہیں کہ عقلِ کلّی سب سے اعلیٰ آسمان ہے ، اور نفسِ کلّی سب سے وسیع زمین، اور کسی شک کے بغیر حضرتِ آدمؑ کی خلافت نفسِ کلّی کی زمین میں تھی۔

 

اور آیت کا یہ فرمانا کہ خدا نے بہت سے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا یہ سلطنتِ بہشت کی حقیقت ہے کہ بہشت میں جو سلاطین ہوتے ہیں وہ اپنے اپنے دائرے میں خدا کے خلیفہ بھی ہوتے ہیں اور جو خدا کا خلیفہ ہوتا ہے اس کی درست تریں عبادت کا کیا کہنا!

 

قارئین کو یہ بھی سوچنا ہے کہ آیت کا خطاب قرآن کے عام قانون کے

 

۹۶

 

مطابق تمام مسلمانوں سے ہے، پھر اس میں تخصیص ہے کہ جو لوگ حقیقی معنوں میں ایمان لائے اور جو حسبِ منشائے الٰہی نیک اعمال کو انجام دیں انہی سے اللہ نے یہ وعدہ کیا ہے، اور یہ روحانی ترقی کا اشارہ ہے کہ جو لوگ سفرِ روحانیّت میں آگے سے آگے جاتے ہیں ان کے ساتھ اللہ ایسا وعدہ فرماتا ہے، ورنہ تمام ایمان والوں میں سے یہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا سب کو چھوڑ کر ایک گروہ سے کوئی خاص وعدہ کرے، قرآن جو کچھ فرماتا ہے وہ سب کے سامنے ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ چشمِ بصیرت سے دیکھنے اور عقلِ کامل سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

 

مولا تمام عزیزوں کو چشمِ بصیرت اور عقلِ کامل عطا فرمائے، آمین! یا ربّ العالمین!!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۲۵؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۹۷

 

ایک میں سب ہیں

 

۔۔۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

اتوار  ۲۶؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۹۹

 

ایک بروشسکی نظم بعنوانِ ایک میں سب ہیں کا ترجمہ:

 

۱۔ میں کئی مثالوں اور کئی معنوں میں مرا ہوا تھا، اے مظہرِ نورِ خدا ! تو نے مجھے ازراہِ کرم زندہ کر دیا، زہے نصیب! میری جان تیرے لئے فدا ہو! میں خوابِ غفلت میں سوئے پڑا تھا تو نے ہی اپنی رحمت سے مجھے بیدار کر دیا، زہے نصیب ! میری جان قربان ہو!

۲۔ میں بہت پہلے ہی سے علمی غذاؤں کے لئے سخت بھوکا تھا، تو نے اپنی مہربانی سے مجھے خوب شکم سیر کر کے کھلا دیا ہے، میں جامۂ جان کے نہ ہونے سے سرمازدہ ہوگیا تھا، تونے ہی کرم کرکے مجھے روحانی لباس میں ملبوس کردیا۔

میں علم وادب میں بہت ہی پس ماندہ تھا تو نے مجھ پر بہت احسان کیا اور مجھےبہت ترقی عنایت کی، زہے نصیب! میری جان تجھ سے فدا ہو!۔

۳۔ میں تو کچھ بھی نہیں جانتا تھا اب تو نے اپنی عنایتِ بے نہایت سے بہت کچھ سکھا دیا ہے، میں چشمِ بصیرت سے بے بہرہ تھا تو نے مجھے سب کچھ دکھا دیا۔

 

۱۰۰

 

میں فی المثل گونگا تھا تو نے مجھے ایک عمدہ قوتِ گویائی عطا کردی، زہے نصیب! میری جان بار بار قربان ہو!

۴۔ میں علمِ دین میں بڑا مفلس تھا اب میں تیری رحمت سے تونگر ہو گیا ہوں، میں ایک پرندہ سے گرا ہوا پر تھا تو نے مجھے پرندہ بنا دیا۔

میں ایک ناکارہ چیز کی طرح تھا اب مجھے تو نے آراستہ پیراستہ بنا دیا، زہے نصیب! میری جان فدا ہو!

۵۔ میں کرپن (ایک چھوٹی سی گھاس کا ننھا سا پھول جو سطحِ زمین کے برابر ہوتا ہے) تھا تو نے مجھے گلِ سرخ بنا دیا، میں ایک ذرّہ یا نقطہ کے برابر بھی نہ تھا اور یہ تیرا بہت بڑا احسان ہے کہ مجھے اب ایک زندہ کتاب بنا دیا۔

میں ایک چھوٹی سی چڑیا کی طرح تھا، لیکن تیری نوازش نے مجھے ایک عقاب بنا دیا، زہے نصیب! میری جان فدا ہو!

۶۔ تیری محبت کی شیرینی بہت ہی عجیب ہے، تیرے راز کی حکمت بڑی نرالی ہے۔

تیری باتوں کی دولت بڑی عجیب و غریب ہے، زہے نصیب! جانِ من فدائے تو باد!

۷۔ میرے کان کی روحانی آواز بھی تو ہے، میری آنکھ کی روحانی نظر بھی تو ہے۔

دل و زبان سےادا ہونے والا اسمِ مبارک بھی تو ہے، زہے نصیب! میری جان فدا ہو!

۸۔ ذکرِ خفی بھی تو ہی ہے، نورِ جلی بھی تو ہی ہے۔

 

۱۰۱

 

علم و حکمت کا غنی بھی تو ہی ہے، زہے نصیب! میری جان فدا ہو!

۹۔ تو عشق کی بانسری کی رسیلی آواز ہے (مراد صورِ اسرافیل کی آواز) میری آنکھ کی باطنی نظر بھی تو ہے۔

میری زبان پر آنے والا کلمۂ نور بھی تو ہے، زہے نصیب! میری جان تجھ سے فدا!

۱۰۔ اب ماہتابِ نور بدرِ کامل ہوگیا اور معشوقِ جان میری طرف متوجہ ہونے لگا۔ اب عقدۂ مشکل کھل جانے لگا، زہے نصیب! میری جان بار بار فدا ہو!

۱۱۔ اے عزیز! تیرے دل میں اک جہان ہے اس کو دیکھنے کے لئے سعئی بلیغ کر، جانوں کی بھی ایک جان ہوتی ہے اس کو دیکھنے کے لئے کوشش کر۔

ایک گنجِ مخفی تجھ میں ہے اس کو پانے کے لئے جدوجہد کر، زہے نصیب! جانِ من قربان ہو!

۱۲۔ اے عزیزِ من! شاہِ حسینان کے دیدارِ باجمال و باجلال کو حاصل کر، ایک نورانی فرشتہ کو دیکھ لے۔

سلطانِ روحانی کے پر نور دیدار کو دیکھ لے، زہے نصیب! میری جان فدا ہو!

۱۳۔ وہ میرے عالمِ شخصی کا نور ہے، وہ خدا کا نور اور صبغۃ اللہ (رنگِ خدا) ہے۔

وہ ہمارے لئے حجاب کو ہٹا کر آرہا ہے، زہے نصیب! میری جان نثار ہو!

۱۴۔ میں نے جانوں کی جان کو دیکھا ہے، اور کنزِ قرآن کو پایا ہے۔

 

۱۰۲

 

اور گنجِ مخفی کا عرفان حاصل ہوا ہے، زہے نصیب! میری جان نچھاور ہو!

۱۵۔ بحرِ علم بڑا عمیق ہے، شمشیرِ عشق بہت ہی تیز ہے۔

اس کا راز سب سے عظیم ہے، زہے نصیب! جانِ من فدا ہو!

۱۶۔ اے جانِ جان! برق کی طرح چشمِ زدن میں میرے پاس آجا، یہ لے میری روح ہمیشہ اپنے پاس رکھ۔

اپنا نورانی قدم میرے سر پر رکھ کر مجھ کو شرف بخش دے، زہے نصیب! میری جان فدا ہو!

۱۷۔ روتے روتے آنسو بھی ختم ہو رہے ہیں اب میرا جسم بھی مڑ مڑ کر پیچیدہ اور عجیب سا ہوگیا ہے۔

میری جان تیرے عشق میں بک گئی ہے زہے نصیب! میری جان تیرے لئے فرشِ راہ ہو!

۱۸۔ میں تو گر چکا تھا تو نے مجھ اٹھا لیا، میں ایک بہت معمولی پتھر تھا لیکن تو نے مجھے لعل بنا دیا۔

میرے اعظاء تیرے عشق کی مشقتوں سے بکھر گئے تھے تو نےازسرِنو ان کو جوڑ کر درست کردیا ہے، زہے نصیب! میری جان فدا ہو!

۱۹۔ میں روحانی بیمار تھا تو نے مجھے شفا ٔ بخشی ہے اوراپنا عاشق بنا لیا ہے، اور اگر عالمِ شخصی کو دیکھا جائے تو تو نے مجھے آفتاب و ماہتاب بنا دیا ہے۔ زہے نصیب! جانِ من فدا ہو!

۲۰۔ میں محفل میں سب سے پست مقام پر تھا تو نے مجھے اوپر سے اوپر بٹھایا یہاں تک کہ مجھے بالا نشین کر دیا۔

تو نے ازراہِ حکمت مجھے سماوی انائے علوی کا سایہ یہاں لایا ہے، زہے

 

۱۰۳

 

نصیب! میری جان بار بارتجھ سے فدا ہو!

۲۱۔ میں تو عقل میں سب سے غریب تھا لیکن تو نے مجھے امیر بنا دیا اور میں تو تجھ سے بہت ہی دور تھا، لیکن تو نے بتدریج مجھ کو اپنی طرف قریب سے قریب تر بنا دیا۔

اور تو نے مجھے مدد دے دے کر نصیرؔ بنا دیا، زہے نصیب ! میری جان ہر وقت تجھ سے فدا ہوتی رہے!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۲۷؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۱۰۴

 

ایک بڑا عجیب و غریب نورانی خواب

 

سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۴۰) میں فرمایا گیا ہے: ۔

ترجمہ: اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا، جس کے ذمے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے۔

 

اس دفعہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی مبارک تشریف آوری کی شان انتہائی عظیم تھی، ہم اس کی تعریف نہیں کرسکتے، اس نورانی بہار سے تمام جماعتیں بے حد خوش تھیں، اب مولا کی بابرکت تشریف واپس ہونے کے لئے تقریباً ایک ہفتہ باقی تھا کہ ایک مہربان عملدار نے اس خاکسار کا نام سی آف کمیٹی میں درج کرایا، اور آخر میں ایک نامہربان عملدار نے میرے نام کو اس لسٹ سے کاٹ دیا، جس کی وجہ سے میں دل ہی دل میں بڑا مغموم ہوا، درین اثنا یہ شعر زبان پر وارد ہوئے: ۔

 

علم سے دشمنی نہ کر نادان!

تانہ ہو ظالما! تیرا نقصان

یہ دشمنِ علم سب کا دشمن ہے

وہ شقی ہے کہ ربّ کا دشمن ہے

میرے دل و دماغ میں اسی حق تلفی کی شکایت تھی کہ میں نے ۱۴؍ نومبر ۲۰۰۰ء کو ایک عظیم نورانی خواب دیکھا، ایک پرانا باغ جیسا مقام ہے، یکایک مولانا حاضر

 

۱۰۵

 

امام علیہ السّلام اپنے اس غلام کے پاس جلوہ فرما ہوگیا، دست مبارک سے دو لطیف لقمے کھلا دیئے جو غالباً اپنے پاک کھانے سے تھے، پھر بڑی عنایت یہ ہوئی کہ میں نے مولا کے دست راست کی دو پاک انگلیاں چاٹ لیں جن میں کوئی پاک طعام لگا ہوا تھا، مگر مجھے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس عمل کا حکم ظاہر میں تھا یا باطن میں!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل ۲۸؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۱۰۶

 

علیؑ آنحضرتؐ کا بھائی، وزیر، وصی، وارث اور ولی تھا

 

امیر المومنین علی ابنِ ابی طالب علیہ السّلام سے یہ روایت منقول ہے، آپؑ فرماتے ہیں کہ جب آیتِ کریمہ:

وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ (۲۶: ۲۱۴)

ترجمہ: اور آپ اپنے سب سے زیادہ قریب کے کنبہ والوں کو ڈرائیے (دعوت کریں) ۔ نازل ہوئی تو آنحضرت صلعم نے ایک پیالہ دودھ اور بکری کی ایک ران دسترخوان پر رکھ کر خاندانِ بنی عبدالمطلب کو جمع کیا جو چالیس مردوں پر مشتمل تھا، مگر دس نوجوان تو ایسے تھے کہ ان میں سے ہر فرد ایک میمنا (LAMB) (بھیڑ یا بکری کا بچہ) اکیلا ہی کھا سکتا تھا اور ایک مشک دودھ پی سکتا تھا، پھر بھی ان لوگوں نے خوب پیٹ بھر کر کھایا پیا، اس روز ابولہب بھی ان کے ساتھ تھا، جب خوردونوش سے فارغ ہوچکے تو رسولِ اکرم صلعم نے ان سب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے بنی عبدالمطلب! میری اطاعت کرو تو تم سب زمین کے بادشاہ اور حکمران بن جاؤ گے، اور میں تم سے پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اب تک پروردگارِ عالم نے دنیا میں جتنے پیغمبر بھیجے ہیں ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک وصی، اور وزیر، بھائی اور وارث، اور ولی مقرر فرمایا تھا، توآج تم میں کون جوان مرد ہے جو میرا وصی، میرا وارث، میرا ولی، میرا بھائی اور میرا وزیر بنے گا؟ اتنا سننا تھا کہ سب پر خاموشی

 

۱۰۷

 

چھا گئی، مگر آنحضرت صلعم نے اتمامِ حجت کے طور پر ان میں سے ایک ایک کے سامنے فرداً فرداً یہ دعوت پیش کی، لیکن کسی نے آپ کی اس دعوت کو قبول نہ کیا، الا آنکہ میں باقی رہ گیا تھا، اس وقت میں سب سے کم سن تھا مگر جب رسول اللہ صلعم نے میرے سامنے اپنی یہ دعوت پیش کی تو میں نے مؤدبانہ عرض کیا کہ اے پیغمبرِ خدا صلعم میں آپ کا وصی، وزیر، بھائی، وارث اور ولی بنوں گا آپؐ نے فرمایا کہ ہاں! اے علیؑ تمہیں میرے وصی، میرے وزیر، میرے بھائی، میرے وارث اور میرے ولی ہو، جب بنی عبدالمطلب مجلس سے باہر نکلے تو ابو لہب نے ان سے کہا کہ تم نے آج جو کچھ دیکھا ہے کیا اس سے تم کو اپنے صاحب محمدؐ کی جادوگری کا ثبوت نہیں ملتا کہ اس نے تمہارے سامنے دسترخوان پر بکری کی ران رکھی اور دودھ کا ایک پیالہ جس سے تم لوگ خوب شکم سیر ہوگئے، پھر کیا تھا کہ وہ سب کے سب ابولہب کی اس بات کو سن کر ٹھٹھا کرنے لگے، اور حضرت ابوطالب سے کہنے لگے کہ تمہارا بیٹا تم پر مقدّم ہوگیا (بحوالۂ دعائم الاسلام، حصّہ اوّل، اردو، ص ۳۱)۔

آسمانی کتاب کی وراثت کے لئے دیکھیں سورۂ فاطر (۳۵: ۳۲) ۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۲۹؍ نومبر ۲۰۰۰ء

 

۱۰۸

 

خانۂ خدا میں اسمِ اعظم کا معجزہ

 

اگرچہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک مکان و لامکان سے پاک و برتر اور بے نیاز ہے، لیکن اس حکیمِ مطلق کی مصلحت و حکمت یہ تھی کہ جس طرح عالمِ بالا میں عرش ہے اسی طرح زمین پر اللہ کا ایک گھر ہو ، تاکہ یہ لوگوں کے لئے روحانی ترقی کا باعث ہوسکے، پس مقامِ شریعت پر اللہ کا گھر خانۂ کعبہ ہے، اور مقامِ حقیقت پر امامؑ خدا کا زندہ گھر ہے، اور امامؑ سے روحانی ملاقات کے لئے بھی ایک خاص گھر بنایا جاتا ہے وہ جماعت خانہ کہلاتا ہے، جس میں روحانی اور نورانی معجزہ ہوتا ہے، اس معجزے کو دیکھنے کے لئےجو شرائط ہیں وہ ہر عاشقِ صادق کے لئے مشکل نہیں، اور جو عاشقِ صادق نہ ہو اس کے لئے مشکل ہوسکتی ہیں۔

 

قرآنِ حکیم نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کی رسی کو منتشر حالت میں فرداً فرداً پکڑو، بلکہ اس نے تو یہ حکم دیا کہ تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور فرقہ فرقہ نہ ہو جاؤ (۰۳: ۱۰۳) اس حکمِ عالی میں بہت سی حکمتیں ہیں، اس میں انفرادی حکمت یہ ہے کہ تم اپنے منتشر خیالات کو ایک کر کے اللہ کے ذکر کی رسی کو مضبوطی سے جاری رکھو، اور اجتماعی حکمت یہ ہے کہ ساری امتِ مسلمہ ایک ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور فرقہ فرقہ نہ ہوجاؤ، ورنہ اس سے تمہاری قوّت و طاقت بہت سے حصّوں میں تقسیم ہوجائے گی، اور تم اسلام کی سب سے بڑی قوّت نہیں بن سکو گے، جیسا کہ بن جانے کا حق ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر ۴ ؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۰۹

 

قرآنِ حکیم کے خطاب کی گہری حکمتیں

 

اگر قرآنِ پاک کا خطاب جمع سے ہے تو اس میں واحد بھی ہے، عام بھی ہے اور خاص بھی، ظاہر و باطن بھی ہے، ماضی اور مستقبل بھی، اور مکان و لامکان بھی ہے، ہر پہلو اور ہر طرح سے سوچے بغیر فکرِ قرآن کا حق ادا نہیں ہوگا، اور نہ ہی قرآنِ حکیم کی گہری حکمتیں معلوم ہوسکیں گی، جیسے ارشادِ مبارک (۰۵: ۱۵) کا ترجمہ ہے:۔

تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آیا ہے اور کتابِ مبین، اجتماعی طور پر بھی اور انفرادی طور پر بھی، ظاہرمیں بھی اور عالمِ شخصی میں بھی، مکان میں بھی اور لامکان میں بھی، ہرزمانے میں، ہر وقت کے لئے، جشمِ بصیرت پیدا کر کے دیکھو، کتاب میں نور اور نور میں کتاب کو دیکھو، عوام کی نظر سے بھی دیکھو اور خواص کی نگاہ سے بھی، اور یہ بھی سوچو کہ اگر خدا تمہاری آنکھ ہوجاتا تو تم نور کو کہاں کہاں دیکھتے؟ اگر تم فنا فی الامامؑ ہوجاتے تو تم قرآن میں کیا کیا دیکھتے؟ تم قرآنی آیات میں خوب غور کیا کرو۔

 

اس شعر کی حکمت کو ضائع نہ کرنا:

زنورِ او تو ہستی ہمچو پرتو—- حجاب از پیش بردار و تو اوشو

ترجمہ: تو اس کے نور کی زندہ تصویر ہے، سامنے سے پردہ کو ہٹا لے اور تو اس کے ساتھ ایک ہوجا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل ۵ ؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۱۰

 

علامہ نصیرؔ کی بروشسکی شاعری میں حقائق و معارف

 

اِنَ لے عجب دُربنن کون ومکان غیئچلہ

ایپچی نُکون ڈوݣ برین یارے ہنر بُٹ اُیَم

ترجمہ: اس کے پاس ایک بڑا عجیب وغریب دوربین ہے جس کے ذریعے دیکھنے سے دونوں جہان کا نظارہ اور مشاہدہ ہوتا ہے، اس کے پاس جا کر کچھ دیر کے لئے دیکھو تو معلوم ہوجائے گا کہ میرے دوست کا ہنر بے حد شیرین ہے۔

 

درجِ بالا شعر علامہ ہونزائی کے بروشسکی عارفانہ کلام کا ایک نمونہ ہے، اور جاننے والےجانتے ہیں کہ اس کے کلام میں ایسے حقائق و معارف سے لبریزاشعار بہت ہیں۔

 

یکے از شاگردان

بدھ ۶ ؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۱۱

 

میوہ ھائے بہشت جیسے سوالات و جوابات

 

سوال: ۱۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی روحِ عالیہ آدمؑ میں کس طریقے سے پھونک دی؟

سوال: ۲۔ اس انتہائی عظیم الشّان روح کا دوسرا نام کیا ہے؟

سوال: ۳۔ نورٌعلیٰ نورٍ کا سلسلہ کب سے شروع ہوا؟

سوال: ۴۔ کیا حضرتِ آدمؑ سے پہلے بھی نور کا سلسلہ تھا؟

سوال: ۵ ۔ مولانا ھنیدؑ کون تھا؟

سوال: ۶: آیا سنتِ الٰہی میں کبھی تبدیلی آتی ہے؟

سوال: ۷۔ کیا نورٌعلیٰ نورٍ اللہ کی سنّت ہے؟

سوال: ۸۔ کیا خدا کی خدائی میں بے شمار آدم ہوئے ہیں؟

سوال: ۹۔ کیا آدمِ سراندیبی آدمِ اوّل ہے؟

سوال: ۱۰۔ کیا آپ آدمِ زمانؑ کو پہچانتے ہیں؟

سوال: ۱۱۔ کیا آلِ ابراہیمؑ کے بعد آلِ محمدؐ نور کا ایک ہی سلسلہ ہے؟

نوٹ: ہر پُرحکمت سوال کے حجاب میں ایسا ہی جواب پوشیدہ ہے، لہٰذا سوال و جواب دونوں کی ایک ساتھ تعریف کی گئی۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۷؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۱۲

 

ترجمۂ سورۂ انشقاق (۸۴)

 

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

جب آسمان پھٹ جائے گا، اور وہ اپنے ربّ کا (حکم) سن لے گا اور وہ اسی لائق ہے، اور جب زمین پھیلا دی جائے گی، اور جو کچھ اس میں ہے وہ اسےنکال ڈالے گی اور خالی ہوجائے گی، اور اپنے ربّ کا(حکم) سن لے گی اور اسی لائق ہے، اے انسان بے شک تو اپنے رب کی طرف (پہنچنے میں) خوب تکلیف اٹھانے والا ہے پھر اس کو ملنا ہے، پس جس کو اس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا، پس اس سے عنقریب آسان حساب لیا جائے گا، اور وہ اپنے اہل کی طرف خوش خوش لوٹے گا، اور جس کو اس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ پیچھے سے دیا گیا، وہ عنقریب موت مانگے گا اور جہنم میں داخل ہوگا، بیشک وہ اپنے اہل میں خوش وخرم تھا، اس نے گمان کیا تھا کہ وہ ہرگز نہ لوٹے گا، کیوں نہیں؟ اس کا ربّ بیشک اسے دیکھتا تھا، سو میں قسم کھاتا ہوں شام کی سرخی کی، اور رات کی اور جو (اس میں) سمٹ آتی ہے، اور چاند کی جب وہ مکمل ہوجائے، تم کو درجہ بدرجہ ضرور چڑھنا ہے، سو انہیں کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے؟ اور جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ نہیں کرتے، بلکہ جن لوگوں نے کفر کیا (منکر) وہ جھٹلاتے ہیں، اور اللہ خوب جانتا ہے جو وہ (دلوں میں) بھر رکھتے ہیں، سو انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا، سوائے

 

۱۱۳

 

ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے ان کے لئے ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔

 

سورۂ انشقاق کی چند تاویلی حکمتیں

اس تاویل میں روحانی قیامت اور عالمِ شخصی کے آسمان و زمین کے احوال کا تذکرہ ہے، جیسے آسمان کا پھٹ جانا یعنی ظاہری آسمان کا غائب ہوجانا اور اس کی جگہ روحانی آسمان اور لامکان کا ظہور، روحانی خطاب کی سماعت، شخصی زمین کو حدودِ کائنات تک پھیلا دینا، اور اس زمین کا کثیف سے لطیف ہو کر اپنے ربّ کا خطاب سننا، انسان کو اپنے ربّ تک پہنچنے کے لئے تکلیف لازمی ہے، تاکہ زندگی ہی میں انتہائی قرب اور وصل نصیب ہو، اگر ایسا ہوا اور نامۂ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا تو اس سے آسان حساب لیا جائے گا، اور وہ اپنے لوگوں کی طرف خوش خوش لوٹے گا، یہاں جیتے جی مرکر لوٹنے کا اشارہ ہے، کیونکہ جسمانی موت سے قبل نفسانی موت کے ذریعے قیامت کا تجربہ کرنے سے علم و معرفت کے خزانے حاصل ہوتے ہیں، اور خوش خوش اپنے لوگوں کی طرف لو ٹنے کے یہی معنی ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۷؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۱۴

 

گنجِ مخفی کا نورانی راستہ

 

اے صاحبانِ عقل! اے اہلِ بصیرت! تمہاری سب سے بڑی حکمت اور سب سے اعلیٰ دانائی یہ ہے کہ تم اطاعت اور عشق ومحبت سے امامِ زمانِ آلِ محمدؐ میں فنا ہوجاؤ، کیونکہ اللہ کی زندہ صراطِ مستقیم اور گنجِ مخفی کا نورانی راستہ وہی ہے، آسمانی عشق کی قسم! آؤ، ہم اللہ تعالیٰ کی بے مثال کتاب قرآن کی ایک بے مثال آیت (۴۱: ۳۰ تا ۳۱) کو غور سے پڑھتےہیں:

ترجمہ: جن لوگوں نے جان و دل اور اخلاص و یقین سے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے (اور ان کو اسمِ اعظم عطا ہوا) اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ “نہ ڈرو نہ غم کرو اور خوش ہو جاؤ اس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی یہ ہے سامانِ ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔”

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۷؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۱۵

 

میوہ ھائے بہشت جیسے شیرین و پُرمغز سوالات و جوابات

 

سوال: ۱۔ کہتے ہیں کہ عالمِ شخصی کی بلندیوں میں ایک مخفی اور کلّی کتاب ہے ، کیا آپ نے سنا ہے کہ اس کا کیا نام ہے؟

سوال: ۲۔ کسی عارف نے کہا ہے کہ خدا کی بادشاہی میں ایک کائنات کے بعد دوسری کائنات بنتی ہے، اور یہ لاابتدا و لاانتہا سلسلہ ہے، کیونکہ خدا کی ذات قدیم ہے، اور اس کی صفات بھی ہمیشہ ہیں، جس کے ساتھ ساتھ اس کی بادشاہی بھی ہمیشہ ہے، اور بادشاہی میں ہر چیز ہوتی ہے۔

سوال: ہر چیز ہلاک ہوجاتی ہے مگر وجہ اللہ (امامؑ) باقی رہتا ہے، ہرچیز اس لئے ہلاک ہوجاتی ہے کہ قانونِ تجدّد کے مطابق اس جیسی چیز پھر سے وجود میں آتی ہے۔

سوال: ۴۔ اللہ کا امرِکُنۡ (ہوجا) قدیم ہے جس کے تحت کائنات کی بقا و فنا کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری ہے۔

سوال: ۵۔ اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کر کے حکم دیا کہ لکھ، قلم نے عرض کیا: کیا لکھوں؟ تو خدا نے کیا فرمایا؟ اور قلم نے کیا لکھا؟ اس میں یہی حکمت ہے جس کے بارے میں مَیں نے سوال کیا، یعنی فرمایا کہ لکھ: مَاکَانَ وَمَا یَکون = جو کچھ تھا وہ لکھ اور جو کچھ ہوگا وہ لکھ، آپ اس میں سوچ کر

 

۱۱۶

 

بتائیں آیا یہ قلم کے لئے اللہ کا ہمیشہ کا حکم تھا یا ایک دفعہ کیلئے؟

سوال: ۶۔ درجِ بالا سوالات میں کتابِ مکنون کا اشارہ کہاں ہے؟ آیا کتابِ مکنون میں محدود اسرار ہیں؟ یا لامحدود؟

سوال: ۷۔ عقل سے علم کا کیا رشتہ ہے؟

سوال: ۸۔ حظیرۂ قدس اور امامِ مبینؑ میں کیا ربط ہے؟

سوال ۹۔ تمام چیزوں کے لپیٹنے اور گننے کے کیا معنی ہیں؟ اور خدا کا یہ کام کہاں ہوتا ہے کہ وہ تمام چیزوں کو لپیٹتا بھی ہے اور گنتا بھی ہے؟ اس میں لپیٹنے کی کیا صورت بنتی ہے اور گنتی کا کیا عدد بنتا ہے؟

سوال ۱۰۔ عاد، عدد اور معدود میں کیا فرق ہے؟

نوٹ: ہر پُرحکمت سوال کے حجاب میں ایسا ہی جواب پوشیدہ ہے، لہٰذا سوال و جواب دونوں کی ایک ساتھ تعریف کی گئی۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۸؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۱۷

 

اشیائے کائنات کی سہ گونہ عبادات

 

۱۔ ہرچیز اپنی نماز اور تسبیح جانتی ہے۔

۲۔ ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔

۳۔ کائنات کی ہر چیز اللہ کے لئے سجدہ کرتی رہتی ہے۔

۴۔ مگر سوال ہے کہ ہر چیز کی یہ عبادت شعوری ہے یا غیر شعوری؟ عرفانی ہے یا تسخیری؟ زبانِ حال سے ہے یا زبانِ قال سے؟ ہر چیز یہ عبادت کہاں کرتی ہے؟ عالمِ ظاہر میں یا عالمِ شخصی میں؟

۵۔ کیا عالمِ ذرّ کی تمام چیزیں فرشتوں کی حیثیت سے آدمِ زمانؑ کا سجدہ کرتی ہوئی گرتی ہیں؟ آیا یہ حقیقت ہے کہ جب عارف پر روحانی قیامت گزرتی ہے تو اس حال میں تمام چیزیں صورِ اسرافیل کی ہم آہنگی میں اللہ کی حمد کے ساتھ تسبیح خوانی کرتی رہتی ہے؟  سبحان اللہ!

۶۔ کیا یہ درست ہے کہ حضرتِ داؤد علیہ السلام صورِ اسرافیل کا ایک زندہ معجزہ تھا؟

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۹؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۱۸

 

دورِ اعظم کی تحقیق

 

روحانی سائنس کی روشنی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ دورِ اعظم چھ کروڑ سال کا ہے، جس میں ارض و سماء کا تجدّد ہوتا ہے (۱۴: ۴۸) جس میں ایک عظیم روح عالمِ امر سے عالمِ خلق میں آتی ہے (۳۶: ۶۸) دائرۂ دورِ اعظم عالمِ علوی اور عالمِ سفلی پر محیط ہے، لہٰذا اس پر گردش کرنے والا اوپر سے نیچے آنے کے لئے اصولاً سرنگون ہوجائے گا، اور آیت میں یہی اشارہ ہے۔

 

صاحبانِ عقل کو اس قانونِ فطرت پر غور کرنا چاہئے کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے کہ انسان شکمِ مادر سے سرنگون ہو کر پیدا ہوتا ہے، شاید یہ کسی دائرے سے گزر جانے کی علامت ہے، یہ بحدِ قوت یا بحدِ فعل ہوسکتا ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر ۱۱ ؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۱۹

 

روحانی قیامت میں قرآنِ حکیم کی متحرک اور زندہ تاویل پوشیدہ ہے

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۵۲ تا ۵۳) کو دقتِ نظر سے پڑھنے اور خوب غور کرنے کی ضرورت ہے، اس ارشاد کا پہلا مفہوم یہ ہے کہ قرآن کی تفصیل ایک خاص علم سے کی گئی ہے، وہ علمِ قیامت اور علمِ تاویل ہے۔

 

دوسرا مفہوم یہ ہے کہ لوگ کسی چیز کے آنے کا انتظار کرتے ہیں؟ جبکہ کوئی چیز آنے والی نہیں ، مگر صرف قرآن کی تاویل بصورتِ روحانی قیامت آنے والی ہے۔ مربوط آیت کو پڑھیں۔

 

مذکورۂ بالا روحانی اور باطنی قیامت حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے زمانے میں برپا ہوئی، الحمد لِلّٰہ ربّ العالمین!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر ۱۱؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۲۰

 

کتابِ مکنون کے عظیم و اعلیٰ اسرار

 

سورۂ واقعہ ۵۶: ۷۵ تا ۸۰:

فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ  وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ  إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ  فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ  لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ  تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔

ترجمہ: پس میں ستاروں کے گرنے کی قسم کھاتا ہوں، اور اگر تم جانتے ہو تو یقیناً وہ قسم بہت عظمت والی ہے، یقیناً وہ عزت وکرامت والا قرآن ہے، جو کتابِ مکنون (پوشیدہ کتاب) میں ہے، نہیں اسے کوئی چھوتا سوائے (ان کے) جو پاک کر دیئے گئے ہیں، جو براہِ راست پروردگارِ عالمین کی طرف سے ہے۔

 

تاویلی مفہوم: حظیرۂ قدس میں نہ صرف شمس و قمر ایک ہوجاتے ہیں بلکہ تمام ستارے بھی مل کر ایک بڑا تابندہ نجم ہوجاتے ہیں، اور مشارق ومغارب بھی یک جا ہوئے ہوتے ہیں، واللہ! وہاں آسمان و زمین بھی متحد ہیں کیونکہ وہ عالمِ وحدت کا انتہائی عظیم راز ہے، ایسے اسرارِ عظیم کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے اللہ ایک بہت بڑی قسم کھاتا ہے، بڑی قسم اس لئے کہ یہ اوّل اللہ کی قسم ہے اور پھر مقامِ وحدت پر ہے، نیز اس سے سب سے عظیم اسرار کا باب بھی مفتوح ہوجاتا ہے، اور قرآنِ حکیم کے سب سے

 

۱۲۱

 

اعلیٰ مقام کا ذکر ہے، پھر کتابِ مکنون کا ذکر بھی ہے جو تاویلات کا سب سے بڑا خزانہ ہے، پس یہاں اللہ کی یہ قسم اور جوابِ قسم بے مثال ہے۔

 

کتابِ مکنون کو کوئی چھو نہیں سکتا ہے مگر وہ لوگ جو پاک کئے گئے ہیں، اس پاکیزگی کا معیار قرآن کے باطن اور روحانیّت میں ہے، یقیناً اس میں بہت بڑی سخت ریاضت ہے، جس کو بحیثیتِ مجموعی قیامت کہا جاتا ہے، تب کوئی مومنِ سالک عارفِ پاک ہوجاتا ہے، اور کتابِ مکنون کو ہاتھ میں لے سکتا ہے، اور اس میں قرآنی اور روحانی اسرار کو پڑھ سکتا ہے۔

 

چونکہ کتابِ مکنون خزانۂ خزائنِ تاویلات ہے اس لئے کوئی امکانی تاویل اس سے باہر نہیں ہے، اسی معنیٰ میں قرآنِ کریم اس میں سمایا ہوا ہے، پس بہت بڑی سعادت اور عظیم نیک بختی ہے ان شہیدانِ روحانی کی جو فنا فی الامامؑ ہو کر کتابِ مکنون کو نہ صرف چھو سکتے ہیں، بلکہ اس کو پڑھ بھی لیتے ہیں اور اس کا (DEMONSTRATION) بھی کرتے ہیں ، جیسا کہ اس کا حق ہے، الحمد لِلّٰہ ربّ العٰلمین!

 

اللہ کرے ہمارے عزیزان ان اسرار کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دے سکیں!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بموقعۂ یومِ سعیدِ ولادتِ امامِ زمانؑ

بدھ ۱۳؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۲۲

 

رحمتِ عالمین کے اسرارِ عظیم

 

اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نورِ محمدیؐ کو فرشتۂ عظیم کی صورت میں پیدا کیا، یہی نور فرشتۂ قلم و لوح اور فرشتۂ عقلِ کلّی بھی تھا، اور نفسِ کلّی بھی، اور یہی نورِ اقدس نور الانوار بھی تھا جس سے تمام انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام پیدا ہوئے، اور جملہ انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کے توسط سے آنحضرتؐ تمام عوالمِ شخصی کے لئے رحمتِ کل مقرر ہوئے، بحوالۂ سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۷)۔

 

یہاں یہ حکمت بھی خوب یاد رہے کہ نورِ محمدؐ و علیؑ ایک ہی ہے کیونکہ عالمِ وحدت کا شمس و قمر ایک ہیں، قلم اور لوح ایک ہیں، عقلِ کلّی اور نفسِ کلّی ایک ہیں، آسمان و زمین بھی ایک ہیں۔

 

حدیثِ وحدتِ نورِ محمدؐ و نورِعلیؑ کا ترجمہ: رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا کہ میں اور علیؑ ایک نور تھے اور وہ نور آدم کو پیدا کرنےسے چودہ ہزار سال پیشتر خدائے عزّو جل کی درگاہ میں طاعت اور تقدیس کرتا تھا جب آدمؑ کو پیدا کیا اس نور کو آدمؑ کے صلب میں رکھا اور برابر ایک صلب سے دوسرے صلب میں منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ اس کو عبدالمطلب کے صلب میں قرار دیا پھر اس نور کو دو حصّوں میں منقسم کیا میرے حصّے کو عبد اللہ کی پشت میں قائم کیا اور علی کے حصّے کو ابو طالبؑ کے صلب میں، پس علیؑ مجھ سے ہے اور میں علیؑ سے (بحوالۂ کوکبِ دری ۔ باب دوم، منقبت نمبر۱)

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۱۴؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۲۳

 

روحانی قیامت

 

سورۃ الانبیاء ۲۱: ۱۰۴ تا ۱۰۷

يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَا ۚ إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ  وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ  إِنَّ فِي هَٰذَا لَبَلَاغًا لِقَوْمٍ عَابِدِينَ  وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ۔

ترجمہ: جس دن ہم لپیٹ لیں گے آسمان کو جیسے لپیٹا جاتا ہے طومار خطوں کا (اور) جیسے ہم نے پہلی بار (مخلوق کو) خلق کیا تھا دوبارہ بھی اسے پیدا کردیں گے یہ وعدہ ہم پر (لازمی) ہے یقیناً ہم اسے (پورا) کر کے رہیں گے اور بتحقیق ہم نے لکھ دیا ہے زبور میں بعد نصیحت کے کہ زمین کے وارث ہوں گے میرے نیک بندے یقیناً اس میں (ایک خوشخبری) پہنچا دینا ہے ان لوگوں کے لئے جو عبادت کرنے والے ہیں اور (اے رسولؐ) ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر رحمت بنا کر سب جہانوں کے لئے۔

عارفِ واصل باللہ کی روحانی قیامت میں انتہائی عظیم معجزات اور بیحد حیران کُنۡ عجائب و غرائب ہیں، اللہ تعالیٰ القابض اور الباسط ہے، لہٰذا عارف کی روحانی قیامت میں معرفت کی ایک مکمل مثال قائم کرنے کے لئے عارف کی روح

 

۱۲۴

 

کو قبض کرکے کائنات میں پھیلا دیتا ہے اور کائنات کو لپیٹ کر عارف کے عالمِ شخصی میں ڈال دیتا ہے، یہ روحانی کام شاید ستر ہزار بار ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ان میں سے ہر کائنات ایک زمین بھی ہے، ایک آسمان بھی، اور ایک خلافتِ الہٰیہ بھی جس کے دینے کا خدا نے حقیقی مومنین سے وعدہ فرمایا ہے (۲۴: ۵۵) اور اللہ کے خاص بندوں کے لئے وراثت بھی ہے، یہی بہشت بھی ہے اور جنت کی بادشاہی بھی، مگر یہاں یہ نکتہ یاد رہے کہ جب روحانی قیامت میں خدا کائنات کو لپیٹتا ہےتو کائنات اور عالمِ شخصی کو جسمانی طور پر کچھ نہیں ہوتا ہے۔

 

لفظِ زبور کتاب کے معنی میں ہے اور یہ حضرتِ داؤدؑ کی آسمانی کتاب کا نام بھی ہے اور مذکورہ آیت (۲۱: ۱۰۵) میں زبور (کتاب) عالمِ شخصی کی عملی کتاب کیلئے آیا ہے جس میں یہ عملی حقیقت موجود ہے کہ اللہ کے نیک اور نکو کار بندے کائناتی زمین کے وارث ہوتے ہیں۔

نوٹ: حقیقت میں عابدین وہ لوگ ہیں جو معرفت کے ساتھ عبادت کرتے ہیں کیونکہ قرآن میں چوٹی کی حکمتیں ہوتی ہیں ایسی حکمت کو حکمتِ بالغہ کہا گیا ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

اتوار  ۱۷؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۲۵

 

نفسانی موت قبل از جسمانی موت

 

ایک ایسے باسعادت مومن کی شخصیّت واقعۂ قیامت کی زندہ کتا ب ہوجاتی ہے، اب سورۂ حدید (۵۷: ۱۲ تا ۱۴) کو عارفِ کامل کے عالمِ شخصی کے پیشِ نظر خوب غور سے پڑھیں جس میں تمام مومنین و مومنات کا نور ہوتا ہے، اور وہ سب غیر شعوری روحانیّت میں ہوتے ہیں، صرف عارف شعوری طور پر ان کی نمائندگی کرتا ہے، وہ آج علم الیقین سے سمجھ سکیں گے اور کل بہشت میں اس حقیقت کو نورانی موویز میں بڑے آرام سے دیکھ سکیں گے۔

 

ترجمۂ آیات (۵۷: ۱۲ تا ۱۴)

جس دن تو دیکھے گا مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو کہ دوڑتا ہے انکا نور ان کے آگے اور ان کی داہنی طرف (ان سے خطاب ہوگا) کہ تمہیں بشارت ہو آج کے دن ایسی جنتوں کی جن کے نیچے جاری ہیں نہریں، تم ان میں ہمیشہ رہوگے یہی وہ بڑی کامیابی ہے، اس دن کہیں گے منافق مرد اور منافق عورتیں ان کامیاب مومنین سے کہ ہمارا انتظار کرو کہ ہم بھی روشنی حاصل کرلیں تمہارے نور سے، کہا جائیگا کہ تم لوٹ جاؤ اپنے پیچھے (تاریخ میں) پھر جستجو کرو نور کی، پس قائم کردی جائے گی ان کے درمیان ایک دیوار جس میں ایک درہوگا، اندر کی طرف اس میں رحمت ہوگی اور باہر کی طرف اس کے سامنے عذاب ہوگا، وہ انہیں پکاریں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ

 

۱۲۶

 

نہیں تھے؟ وہ کہیں گے ہاں تھے لیکن تم نے اپنی جانوں کو فتنہ میں ڈالا اور (کسی اور قیامت کے) منتظر رہے اور شک کرتے رہے اور فریب دیا تم کو آرزوؤں نے یہاں تک کہ آگیا حکم اللہ کا اور فریب دیا تم کو اللہ کے بارے میں فریب دینے والے نے۔ نیز دیکھو سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸)۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۱۸؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۲۷

 

أئمّۂ آلِ محمدؐ اور ان کے روحانی اور جسمانی لشکر کا ذکرِ جمیل

 

ترجمہ آیۂ شریفہ (سورۂ مائدہ ۰۵: ۵۴):

اے لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا جو مومنوں پر نرم اور کفارپر سخت ہوں گے جو اللہ کی راہ میں جہادِ ظاہر و باطن کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔

 

اور یہ آیت آیۂ ولایت سے مربوط ہے جس کا ذکر دعائم الاسلام کے حوالہ سے ہوچکا ہے۔

 

اس آیۂ مبارکہ کے خاص اشارے: اللہ کو محبوب رکھنا اور اللہ کا محبوب ہونا حضرتِ سید الانبیاءؐ کی سب سے خاص صفت ہے، اور آنحضرتؐ کے بعد یہ صفت صرف أئمّۂ آلِ محمدؐ ہی کی ہوسکتی ہے، ہر امامؑ کے ذریعہ ایک روحانی قیامت برپا ہوتی ہے اور یہی روحانی جنگ بھی ہے، جس میں امامؑ اور اس کا روحانی لشکر مومنین پر نرم اور کافروں پر سخت ہوتے ہیں، امامؑ کے جسمانی لشکر امامِ وقت کے ارشادات پر عمل کرتے رہتے ہیں اور کسی ملامت کرنیوالے کی ملامت سے نہیں ڈرتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل  ۱۹؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۲۸

 

حدیثِ معراج = علیؑ آسمانِ چہارم میں

 

کتابِ سرائر ص ۱۱۵ پر یہ حدیثِ شریف درج کی گئی ہے:

ترجمہ: رسول اللہ صلی علیہ و آلہٖ وسلم سے روایت ہے: آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا کہ جب مجھے شبِ معراج میں آسمانِ چہارم تک اٹھایا گیا، تو میں نے وہاں علیؑ کو کرسیٔ کرامت پر بیٹھا ہوا دیکھا کہ فرشتے اس کےگردا گرد گھیرے ہوئے اس کی تعظیم و عبادت کر رہے تھے، اور اس کی تسبیح و تقدیس کرتے تھے، پس میں نے پوچھا اے میرے دوست جبرائیل! کیا میرا بھائی علیؑ مجھ سے پہلے ہی اس مقام تک پہنچ چکا ہے؟ تو جبرائیل مجھ سے کہنے لگا یا محمدؐ! حقیقت یہ ہے کہ جب فرشتوں کو علیؑ کی برتری اور منزلت کا علم ہوا تو ان میں علیؑ کو دیکھنے کا شدید شوق پیدا ہوا جس کی وجہ سے انہوں نے اللہ سے شکایت کی کہ ان کو علیؑ کا دیدار کیوں نہیں ہورہا ہے؟ پس اللہ نے علیؑ کا ایک ہم شکل فرشتہ یعنی یہ فرشتہ پیدا کیا، اور ان پر اس کی بندگی کو لازم کردیا، پس جب ان کو علیؑ کے دیدار کا شوق ہوتا ہے تو اس فرشتہ کو دیکھتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں اور اس کی تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے: ۔

اور اللہ وہ ہے جو آسمان میں بھی معبود ہے اور زمین میں بھی معبود ہے اور وہی حکیم و علیم ہے (۴۳: ۸۴)۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۲۰؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۲۹

 

تسخیرِ کائنات اور اللہ کی تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں

 

سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) کو آپ چشمِ معرفت سے پڑھ لیں:

ترجمہ: کیا تم لوگ عین الیقین سے نہیں دیکھتے؟ کہ اللہ نے ساری کائنات کی چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں، اور اپنی جملہ ظاہری و باطنی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں۔

 

اس ارشادِ مبارک میں اللہ تعالیٰ کے بے حد و بے حساب احسانات کا مجموعی ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز کس طرح ہر روحانی قیامت میں عالمِ اکبر کو لپیٹ کر عالمِ شخصی میں رکھ دیتا ہے!

 

آپ دانش گاہِ خانۂ حکمت کی تمام کتابوں میں اسی انتہائی عظیم معجزۂ الٰہی کے مبسوط مضمون کو تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں، روحانی قیامت کے اسی سب سے عظیم مضمون میں جو حضرتِ امام علیہ السّلام کے کرم سے ہے، تمام ضروری مضامین جمع ہیں، آپ ایک بار ہماری تمام کتابوں کو تجرباتی طور پر پڑھ کر دیکھ لیں، ان شاء اللہ ! آپ علم و معرفت کی دولت سے مالامال ہو جائیں گے، والسّلام!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۲۲؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۳۰

 

علیؑ کے پُرنور عالمِ شخصی میں قرآنی معجزات

 

سورۂ رعد کے آخر (۱۳: ۴۳) میں ارشاد ہے:

وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا ۚ قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ۔

ترجمہ: اور (اے رسولؐ) کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم پیغمبر نہیں ہو، تو تم (ان سے) کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان (میری رسالت کی) گواہی کے واسطے خدا اور وہ شخص جس کے پاس کتاب (قرآن) کا علم ہے کافی ہیں۔

 

ترجمۂ قرآن از فرمان علی کے حاشیہ کو بھی دیکھیں، نیز کتابِ کوکبِ دری، بابِ اوّل، منقبت ۳۳، ص ۱۶۰ کو بھی پڑھیں۔

 

اس آیۂ شریفہ کے باطن میں عاشقوں کے لئے ایسے عظیم الشّان ایمان افروز و روح پرور اسرار ہیں کہ جن کی خوشبوؤں سے ہر عاشق تا ابد مست ہوسکتا ہے، یہاں سمجھنے کے لئے بڑی آسان حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندۂ مقرب کی آنکھ ہو جاتا ہے، تو کیا یہ کوئی ناممکن بات تھی کہ خدا شاہِ ولایتؑ کی آنکھ ہوچکا تھا؟ اورحضرتِ شاہِ ولایتؑ یعنی مولا علیؑ خدا کی آنکھ سے دیکھ رہا تھا؟ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ خدا جس کی آنکھ ہو جاتا ہے تو وہ خدا کی آنکھ سے دیکھتا ہے، اور یہ ہرگز شرک نہیں بلکہ خدا کی بہت بڑی عنایت ہے۔

 

۱۳۱

 

پس خدا کے ساتھ ساتھ مولا علیؑ کے آنحضرتؐ کی رسالت کے گواہ ہونے کی حکمت یہ ہے کہ حضرتِ شاہِ ولایتؑ نے اپنے پُرنور عالمِ شخصی میں نزولِ قرآن کے تمام معجزات کو دیکھا، عالمِ علوی میں بھی اور عالمِ سفلی میں بھی، یعنی امامِ مبینؑ نے خزانۂ کلمۂ کُنۡ سے قلمِ الٰہی میں ظہورِ قرآن کا معجزہ دیکھا، مگر یہاں یہ بات یاد رہے کہ کلمۂ باری اور قلمِ الٰہی میں وحدت ہے، قلمِ الٰہی اور لوحِ محفوظ میں بھی وحدت ہے، اس لئے کہ وہاں عالمِ وحدت ہے، پس مولاعلیؑ نے بمرتبۂ عین اللہ لوحِ محفوظ میں قرآن کو دیکھا تھا، اور کتابِ مکنون میں بھی قرآن کے جملہ اسرار کو دیکھا تھا، لہٰذا علیؑ حضورؐ پر قرآن نازل ہونے یا حضورؐ کو قرآن عطا ہوجانے کے ہر معجزہ کو دیکھ  رہا تھا جس طرح خدا کا دیکھنا تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرتِ امیرالمومنینؑ کو اپنے ساتھ آنحضرتؐ کی رسالت کا آسمان پر بھی اور زمین پر بھی گواہ بنا دیا۔

 

چونکہ کسی معاملہ کا گواہ وہ شخص ہوتا ہے جو اس معاملہ میں حاضر ہوتا ہے، اور قرآن کی زبان میں حاضر کو بھی اور گواہ کو بھی شہید کہا جاتا ہے، پس جس طرح حضورِ انورؐ کی پیغمبری کا گواہِ مطلق خدا تھا اسی طرح علی بھی گواہِ مطلق تھا، اور اس میں آخری اشارہ یہ ہے کہ علیؑ اللہ کا نور ہے اس لئے اللہ سے الگ نہیں ہے۔ الحمد لِلّٰہ ربِّ العٰلمین!!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر ۲۵؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۳۲

 

دعائے ابراہیمؑ و اسماعیلؑ

 

سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۲۸ تا ۱۲۹) کو خاص طور پر غور سے پڑھیں:۔

رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ۪-وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَاۚ-اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ  رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۔

ترجمہ: اے ہمارے ربّ! اور ہمیں اپنے لئے بدرجۂ انتہا فرمانبردار بنا دے اور ہماری ذرّیت میں سے بھی اپنے لئے ایک ایسی فرمانبردار جماعت بنا دے اور ہمیں ہماری عبادت کے قاعدے بتا اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما بیشک تو ہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان، اے ربّ ہمارے! اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور حکمت سکھائے انہیں خوب پاک کر دے بے شک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔

یہاں یہ قرآنی ارشاد ہے کہ حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیھما السلام اللہ کے دو انتہائی فرمانبردار بندے ہونے کی دعا کرتے ہیں، اور اپنے سلسلۂ ذرّیت سے بھی ایک ایسی فرمانبردار جماعت پیدا ہونے کے لئے دعا کرتے ہیں جس سے آلِ ابراہیمؑ کے أئمّہ مراد ہیں، اور انہی اماموں کی جماعت میں سے حضرتِ محمد رسول اللہؑ

 

۱۳۳

 

کے روحانی ظہور اور جسمانی ظہور کےلئے درخواست کرتے ہیں، اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہر امام کے عالمِ شخصی میں نورِ محمدیؐ کام کرتا ہے اور ہمیشہ یہی قانون ہے کہ أئمّہؑ پر رسولؐ گواہ ہے اور رسولؐ پر اللہ گواہ ہے (۲۲: ۷۸) اور گواہ کا قرآنی لفظ شہید ہے جس میں حاضر ہو کر گواہ ہونے کے معنی بھی ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل ۲۶؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۳۴

 

سب سے عظیم حیران کن راز

 

سورۂ محمد (۴۷: ۰۷) میں ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ۔

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔

 

نیز سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۵۲) میں ارشاد ہے: ۔

فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِۚ۔

ترجمہ: جب عیسیٰؑ نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں، تو اس نے کہا: “کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہوتا ہے؟” حواریوں نے جواب دیا: “ہم اللہ کے مددگار ہیں۔”

 

اللہ تعالیٰ کا سورۂ محمد (۴۷: ۰۷) میں یہ فرمانا کہ اے مومنینِ بایقین اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا، کیا یہ سب سے بڑا حیرت انگیز راز نہیں ہے؟ کیونکہ اللہ قادرِ مطلق ہے وہ کسی مخلوق کی مدد کے لئے ہرگز محتاج نہیں، ہاں یہ حقیقت ہے، مگر وہ اس بات پر بھی

 

۱۳۵

 

قادر ہے کہ حقیقی مومنین کے ہاتھوں سے عظیم کارنامے انجام دلائے، کیا زمین پر اہلِ ایمان اللہ کے لشکر نہیں ہیں؟

 

اللہ کے لئے حقیقی مومن کی بہترین مدد یہ ہے کہ جہادِ اکبر کے ذریعے سے عالمِ شخصی کو فتح کر لے تاکہ وہ اللہ کی مدد کا معجزہ دیکھ سکے گا، کیونکہ اللہ کی مدد کے عظیم معجزات عالمِ شخصی ہی میں ہوتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بموقعۂ عید الفطر  جمعرات  ۲۸؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۳۶

 

مائدۂ عیسٰیؑ = مجموعۂ معجزاتِ عالمِ شخصی

 

سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۱۲ تا ۱۱۴) میں ارشاد ہے:

اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ  قَالُوْا نُرِیْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْهَا وَ تَطْمَىٕنَّ قُلُوْبُنَا وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَ نَكُوْنَ عَلَیْهَا مِنَ الشّٰهِدِیْنَ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَۚ-وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ۔

ترجمہ: (حواریوں کے سلسلہ میں) یہ واقعہ بھی یاد رہے کہ جب حواریوں نے کہا “اے عیسٰیؑ ابنِ مریم! کیا آپ کا ربّ ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے؟” تو عیسٰیؑ نے کہا اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ انہوں نے کہا “ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ اس خوان سے کھانا کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوں اور ہمیں معلوم ہوجائے کہ آپ نے جو کچھ ہم سے کہا ہے وہ سچ ہے اور ہم اس پر گواہ ہوں۔” اس پر عیسٰیؑ ابنِ مریم نے دعا کی “خدایا! ہمارے ربّ! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لئے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لئے عید قرار پائے اور تیری طرف سے ایک (عظیم) معجزہ ہو، ہم کو

 

۱۳۷

 

رزق دے اور تو بہترین رازق ہے۔”

 

تاویلی وضاحت: مائدۂ عیسٰیؑ سے عالمِ شخصی کے تمام معجزات مراد ہیں، جن میں سر تا سر باطنی نعمتیں ہیں، حضرتِ عیسٰیؑ کے حواری حدودِ دین تھے، مائدۂ عیسیٰؑ اسمِ اعظم کے ذکر کے ذریعے سے نازل ہوتا ہے، وہ بالکل روحانی نعمتوں سے پُر ہوتا ہے، وہ دراصل مجموعۂ معجزاتِ عالمِ شخصی ہے اس میں علم و حکمت اور معرفت کی بے شمار نعتیں ہیں اور اس میں انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کے معجزات ہیں اور یقیناً اس میں قرآن کی تاویلات ہیں، مائدۂ عیسٰیؑ کی جتنی تعریف کریں کم ہے مگر ان تمام نعمتوں کی شکرگزاری اور قدردانی مشکل ہے۔

 

لوگ صرف اتنا سمجھتے ہیں کہ یہ معجزہ صرف حضرتِ عیسٰیؑ ہی کا معجزہ تھا، اگر سچ مچ ایسا ہے تو ہر پیغمبر کا معجزہ اس کے ساتھ چلا گیا اور اب اللہ کے سچے دین میں کیا باقی رہا ، مگر صاحبانِ عقل کے نزدیک ایسا نہیں ہے، خدا کی قسم! عالمِ شخصی میں داخل ہو کر دیکھوامامِ مبینؑ میں تمام انبیاءؑ کے معجزات محفوظ ہیں، خدا کی قسم! ہر معجزہ تازہ بتازہ محفوظ و موجود ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

روزِ جمعہ  ۲۹؍ دسمبر ۲۰۰۰ء

 

۱۳۸

 

امثال القرآن

 

قرآنِ حکیم میں بکثرت مثالیں وارد ہوئی ہیں، قرآنِ عظیم کے اس طریقِ کار میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں، لوگ باطنی اور روحانی ممثولات (حقائق و معارف) کو مثالوں کے بغیر نہیں سمجھ سکتے ہیں، لہٰذا یہ امر ضروری تھا کہ طرح طرح کی مثالیں بیان کی جائیں،  پس ان مثالوں سے اہلِ بصیرت نے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا، کیونکہ ایک ہی حقیقت کی کئی کئی مثالیں آئی ہیں، جیسے قرآنِ حکیم (۱۷: ۸۹) نیز (۱۸: ۵۴) میں یہ اشارہ موجود ہے: ۔

وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ۔

ترجمہ: اور ہم نے تو( لوگوں کے سمجھانے) کے واسطے اس قرآن میں ہر قسم کی مثالیں ادل بد ل کے بیان کر دیں۔

وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ۔

ترجمہ: اور ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں (کے سمجھانے) کے واسطے ہر طرح کی مثالیں پھیر بدل کر بیان کر دی ہیں۔

مثال تنزیلِ ظاہر ہے اور ممثول تاویلِ باطن ہے، جیسے حبل اللّٰہ = اللہ کی رسی جو آسمان اور زمین کے درمیان تانی ہوئی ہے، تنزیل اور مثالِ ظاہر ہے، اور اس کا ممثول نورِ امامت ہے جو خدا سے امامِ زمانؑ تک قائم ہے، جو لوگوں کے درمیان

 

۱۳۹

 

ہے، دوسری مثال میں یہی آسمانی سیڑھی بھی ہے، تیسری مثال میں یہی صراطِ مستقیم اور سبیل اللہ بھی ہے، مگر ان تمام مثالوں میں ایک ہی تاویل ہے، اور وہ نورِ امامت ہے، پس معلوم ہوا کہ قرآنِ حکیم میں طرح طرح سے مثالیں بیان کی گئی ہیں تاکہ لوگ حقیقت کو سمجھ سکیں۔

 

ن۔ن۔(حبِّ علی) ہونزائی

سالِ نو، پیر  یکم جنوری ۲۰۰۱ء؁

 

۱۴۰

 

بہشت عطائے الٰہی ہے جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا

 

بہشت عطائے الٰہی ہے جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا = عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ (۱۱: ۱۰۸)، اگر بہشت کا ظاہری جسم کائنات ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا تجدّد کرسکتا ہے، اور یہی اشارہ ہے کئی آیات میں۔

وَاَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَؕ-عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ۔

ترجمہ: رہے وہ لوگ جو نیک بخت نکلیں گے، تو وہ جنّت میں جائیں گے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں، الا یہ کہ تیرا ربّ کچھ اور چاہے، ایسی بخشش ان کو ملے گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا۔

بہشت کے پھل لا مقطوعہ اور لاممنوعہ ہیں (۵۶: ۳۳)، آخرت ہمیشہ کے قرار کی جگہ ہے (۴۰: ۳۹)، اللہ دارالسّلام کی طرف دعوت دے رہا ہے (۱۰: ۲۵) ، ان کے ربّ کے پاس ان کے لئے سلامتی کا گھر ہے (۰۶: ۱۲۷)، بہشت میں جو اللہ کی طرف سے رزق ہے وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں (۳۸: ۵۴)۔

جنّت اور اس میں اہلِ جنّت کے ہمیشہ ہونے سے متعلق دلائل بہت زیادہ ہیں، مگر ہم نے چند قرآنی دلیلوں پر اکتفاء کیا۔ الحمد لِلّٰہ!

 

نوٹ: مذکورہ تمام قرآنی حوالہ جات کو آپ قرآن کی مدد سے پڑھیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل  ۲؍ جنوری۲۰۰۱ ء

 

۱۴۱

 

مختلف سوالات

قسط: ۱

 

سوال: ۱۔ نفسِ واحدہ کی کیا تعریف ہے؟

سوال: ۲۔ آدمِ ثانی کس پیغمبر کا نام ہے؟

سوال: ۳۔   ابعادِ ثلاثہ کیا اصطلاح ہے؟

سوال: ۴۔   نفس کے تین نام ترتیب سے بتاؤ۔

سوال: ۵۔   ہرعام انسان میں تین روحیں ہوتی ہیں ان کے نام بتاؤ۔

سوال: ۶۔   انسانِ کامل میں جو چوتھی روح ہے اس کا کیا نام ہے؟

سوال: ۷۔    خیال = قوّتِ خیال، نیز عالمِ خیال؛ خیال = بیت الخیال، نیز خیال = جبرائیل، آیا ان معنوں میں ربط و رشتہ ہے یا یہ اتفاق کی بات ہے؟

سوال: ۸۔    کیا لوہے کی بھی روح ہوتی ہے؟

سوال: ۹۔    جملۂ کائنات کس چیز سے بنائی گئی ہے؟

سوال: ۱۰۔ آیا اس کائنات کا کوئی پھل ہے؟

سوال: ۱۱۔ کیا روح الارواح کا مطلب جانوں کی جان ہے؟

سوال: ۱۲۔    حکمتِ قرآن کہتی ہے کہ ہر امامِ حقؑ امام النّاس بھی ہے اور امام المتقین بھی، بتائیے کہ یہ حقیقت کس طرح سے ہے؟

سوال: ۱۳۔    کیا آپ کچھ بتا سکتے ہیں کہ سورۂ یٰسین کا نام قلب القرآن کیوں ہے؟

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۳؍ جنوری۲۰۰۱ ء

 

۱۴۲

 

مختلف سوالات

قسط: ۲

 

سوال: ۱۔   چہارارکانِ تصوّف کیا ہیں؟

سوال: ۲۔    چار آسمانی کتابوں کے نام بتاؤ۔

سوال: ۳۔  حضرت ابراہیمؑ کی آسمانی کتاب کا کیا نام تھا؟

سوال: ۴۔    کنزِ مخفی کا ذکر کس حدیث میں ہے؟

سوال: ۵۔  عالمِ شخصی کا کوہِ طور کہاں ہے؟

سوال: ۶۔   حظیرۂ قدس کے لفظی معنی کیا ہیں؟

سوال: ۷۔    اللہ تعالیٰ روحانی قیامت میں عالمِ اکبر کو کہاں لپیٹتا ہے؟

سوال: ۸۔   مقامِ معراج کہاں ہے؟

سوال: ۹۔ شعوری قیامت اور غیر شعوری قیامت میں کیا فرق ہے؟

سوال: ۱۰۔    عارف کی قیامت شعوری ہوتی ہے یا غیر شعوری؟

سوال: ۱۱۔ کیا خدا اپنے عارف کی آنکھ ہو جاتا ہے؟ کان بھی؟ ہاتھ اور پاؤں بھی؟

سوال: ۱۲۔  کیا عارف کتابِ مکنون کو ہاتھ میں لے سکتا ہے؟

سوال: ۱۳۔    آیا عارف پر کتابِ مکنون کے اسرارِ عظیم بتدریج مکشوف ہوسکتے ہیں؟

سوال: ۱۴۔ کیا آپ نے حدیثِ قدسیٔ نوافل کو بار بار غور سے پڑھ لیا ہے؟

 

۱۴۳

 

نوٹ: آپ ہمیشہ دعا کریں کہ اللہ اپنی رحمتِ بے پایان سے آپ کو کنزِ معرفت عطا فرمائے، آمین! یا ربّ العزّت! اپنے تمام عاشقوں کو معرفت کی دولتِ لازوال سے مالامال فرما! آمین! یا ربّ العٰلمین!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۳؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۴۴

 

مختلف سوالات

قسط: ۳

 

سوال: ۱۔    کیا یہ بات درست ہے کہ آدمؑ و عیسٰیؑ اللہ کے قانونِ فطرت کے مطابق ماں باپ سے پیدا ہوئے تھے (۳۰: ۳۰) نیز (۷۶: ۰۲)؟

جواب: جی ہاں، یقیناً۔

سوال: ۲۔   قرآنِ حکیم میں حضرتِ آدمؑ کا نام کل کتنی دفعہ آیا ہے؟

جواب: ۲۵ دفعہ ۔

سوال: ۳۔    کیا اس آدمؑ کے زمانے میں سیّارۂ زمین پر لوگ بستے تھے؟

جواب: جی ہاں، آیۂ  اِنَّ اللّٰہَ اصطَفٰی (۰۳: ۳۳) کو دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو اہلِ زمانہ سے منتخب فرمایا تھا، اگر لوگ نہ ہوتے تو آدمؑ کےلئے انتخاب کا لفظ نہ آتا، اور نہ ہی آدمؑ میں الٰہی روح پھونکنے کے لئے روحانی قیامت برپا ہوتی، اور نہ آدمؑ نفسِ واحدہ کہلاتا، جبکہ نفسِ واحدہ ایسے انسانِ کامل کا نام ہے جس پر روحانی قیامت برپا ہوتی ہے، لہٰذا اس کے عالمِ شخصی میں تمام نفوسِ خلائق جمع ہوجاتے ہیں، اور ایک آیۂ شریفہ کی حکمت (۰۷: ۱۷۲) سے یہ راز بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ آدمؑ اگلے آدمؑ کے اعتبار سے ابنِ آدم تھا پھر بفضلِ خدا اپنے دور کا آدمؑ ہو گیا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات   ۴؍ جنوری۲۰۰۱ ء

 

۱۴۵

 

مختلف سوالات

قسط: ۴

 

سوال: ۱۔    آپ عالمِ ذرّ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

سوال: ۲۔  اللہ کے نزدیک عیسیٰؑ کی مثال آدمؑ کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور فرمایا کہ ہوجا اور وہ ہوگیا (۰۳: ۶۹) اس کی تاویل سمجھاؤ۔

جواب: اوّل: اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو درجۂ مستجیبی سے درجہ بدرجہ روحانی ترقی دی، تاآنکہ وہ حظیرۂ قدس میں پہنچ گیا، تب خدا نے اسے کُنۡ (ہوجا) فرمایا تو وہ حقیقی معنوں میں موجود ہوگیا، اس کو حکمائے دین موجود بحق کہتے ہیں، یہی مثال عیسیٰؑ کی بھی ہے کہ شروع میں وہ صرف مستجیب تھا، پھر درجہ بدرجہ حظیرۂ قدس میں پہنچ گیا، جو عالمِ امر ہے، تب خدا نے اسے کُنۡ (ہوجا) فرمایا، اور وہ بحقیقت موجود ہوگیا۔

دوم: حضرتِ عیسٰیؑ اور حضرتِ آدمؑ کی اس مماثلت میں ایک اور بڑی حکمت بھی ہے ، وہ یہ ہے کہ جس طرح عیسٰیؑ کے ماں باپ تھے (بحوالۂ بائبل) اسی طرح آدمؑ کے بھی والدین تھے، آدمؑ کا خاص نام تخوم بن بجلاح بن قوامہ بن ورقۃ الرویادی تھا، (بحوالۂ سرائر، س ۳۱، قصۂ آدمؑ)۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۴؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۴۶

 

مختلف سوالات

قسط: ۵

 

سوال: ۱۔    اسمِ اعظم ذکرِ لسانی ہے یا ذکرِ قلبی؟

سوال: ۲۔  کیا حق تعالیٰ کا اسمِ اکبر زندہ اور نورِ مجسم ہوتا ہے؟

سوال: ۳۔   کیا آپ نے قرآنِ حکیم میں (۰۷: ۱۸۰) کو خوب غور سے پڑھا ہے؟

سوال: ۴۔   ہر شخص کے دل کے کان کے پاس دو ساتھی ہیں، ان کے نام؟ اور کام؟

سوال: ۵۔  اگر اکثر برے خواب آتے ہیں تو اس کا کیا علاج ہوسکتا ہے؟

سوال: ۶۔   خوفِ خدا اور گریہ و زاری سے کیا کیا فائدے ہو سکتے ہیں؟

سوال: ۷۔   کیا نفسِ امّارہ کی غلامی شیطان کی عبادت ہے؟

سوال: ۸۔  کیا شیطان ہر وقت یہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ مومن ذکرِ خدا کو ذرا بھول جائے تا کہ وہ اس پر حملہ کرکے کوئی نافرمانی کا کام کرا سکے؟

جواب: مومنین و مومنات کی دانائی یہ ہے کہ وہ ہر دم خدا کے ذکر سے وابستہ رہیں تاکہ شیطان مایوس ہوجائے۔

سوال: ۹۔  وہ بنی آدم کونسے ہیں جو شیطان کی عبادت (۳۶: ۶۰) کرتے ہیں؟

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ ۵ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۴۷

 

مختلف سوالات

قسط: ۶

 

سوال: ۱۔    قیامت کے روز خدا کی میزانِ عدل میں کونسی چیز وزنی ہوگی؟

جواب: علم و حکمت اور معرفت، کیونکہ خیرِ کثیر حکمت میں ہے۔

سوال: ۲۔  خدا اَسْرَعُ الْحَاسِبِیْن ہے (۰۶: ۶۲) یعنی وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا نظامِ عدل خود کار طریق پر کام کرتا ہے، اور خدا کی میزانِ عدل کی یہ تعریف ہے ، کیا یہ بات درست ہے؟

جواب: جی ہاں۔

سوال: ۳۔    اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْكَ قَوْلًا ثَقِیْلًا = ہم تم پر ایک بھاری قول ڈالنے والے ہیں (۷۳: ۰۵) یہ بھاری قول کیا ہے؟

جواب: کلمۂ تامّۂ امرِ کل جس میں علم و حکمت اور معرفت کی ہر چیز موجود ہے۔

سوال: ۴۔    حدیثِ ثقلین کے مطابق قرآن اور امامؑ آنحضرتؐ کی طرف سے امت کے لئے دو بھاری چیزیں ہیں، سوال ہے کہ ان کے بھاری ہونے کی کیا تعریف ہوسکتی ہے؟

جواب: اس کا جواب پہلے ہی سے قرآنِ حکیم (۰۵: ۱۵) میں موجود ہے، یہ نور اور کتاب ہیں، ان میں علم و حکمت، رشد و ہدایت اور معرفت کا جو وزن ہے

 

۱۴۸

 

وہ بے مثال اور لاجواب ہے اور انہی اوصاف میں خود بخود عقل و دانش کا ذکر بھی ہے، اور صاحبانِ عقل کے لئے یہ بیان کافی ہے۔ اَلحَمدُ لِلّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحسانِہٖ۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۶ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۴۹

 

جوہرِ سورۂ حدید

 

مندرجہ ذیل آیۂ شریفہ (۵۷: ۲۸) کو زمانۂ نبوّت کے تناظر میں پڑھیں:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو (حقیقی معنوں میں) اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول محمدؐ پر ایمان لاؤ (جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے، تاکہ) خدا تمہیں اپنی رحمت کا ظاہری اور باطنی حصّہ عطا فرمائے اور تمہارے لئے ایک نور مقرر کرے (یعنی نورِ امامت کی معرفت عطا کرے) جس کی روشنی میں تم چل سکو گے (قرآن، اسلام اور عالمِ شخصی میں) اور تمہارے قصور معاف کرے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔

 

نوٹ: اس آیۂ مبارکہ میں اہلِ حقیقت کے لئے بہت سی برکتیں ہیں، اور یہ وہ آیۂ پاک ہے جس کا تمام آیاتِ نور کے ساتھ ایک پُرحکمت ربط ہے، عزیزوں سے ہماری گزارش ہے کہ آپ اس آیۂ پُرحکمت کو جذبۂ جان و دل سے پڑھیں، ربّ العزّت آپ کو اس سے بہت سی علمی برکتیں عطا فرمائے، آمین! یاربّ العالمین!!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۶؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۵۰

 

ایام اللہ = خدا کے سات دن (۱۴: ۰۵)

 

ہفتۂ ظاہر کی طرح عالمِ دین میں بھی سات دن ہیں: آدمؑ، نوحؑ، ابراہیمؑ، موسٰیؑ، عیسیٰؑ، محمدؐ، قائمؑ، یہ ایام اللہ ہیں اور اللہ کے یہی سات دن اپنے تمام زندہ معجزات کے ساتھ عالمِ شخصی میں بھی ہیں، سورۂ ابراہیم (۱۴: ۰۵) کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ خدا نے حضرتِ موسیٰؑ کو یہ حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آؤ، اور ان کو عالمِ شخصی میں ایام اللہ کے معجزات سے آگاہ کرو، اس آیۂ کریمہ میں صَبَّارٍ ہر اس مومن کی صفت ہے جو روحانی قیامت کی سختی برداشت کرتا ہے، اور شکور کے معنی ہیں عالمِ شخصی کی نعمتوں پر اللہ کا شکر کرنے والا، روحانی حج کے اعتبار سے اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ (۲۲: ۲۸) بھی ایام اللہ ہیں۔

 

سورۂ ھود (۱۱: ۰۷) میں ارشاد ہے:

وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ وَّ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ۔

اس آیت کی تاویل کا تعلق عالمِ دین اور عالمِ شخصی سے ہے۔

 

تاویلی مفہوم: اور خدا وہی ہے جس نے عالمِ دین اور عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں یعنی چھ بڑے اور چھوٹے ادوار میں پیدا کیا اور اس کے عرش کا ظہور بحرِعلم پر ہوگیا تاکہ تم کو آزما کر دیکھے کہ تم میں علم و عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

اتوار  ۷؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۵۱

 

بحرِعلم پرعرش

 

عالمِ شخصی کے بحرِعلم پر خدا کا تخت بھری ہوئی کشتی بھی ہے، وہ ایک نور = فرشتہ = امامِ آلِ محمدؐ = روح الارواح = نفسِ واحدہ = جانوں کی جان ہے، لہٰذا وہ نفوسِ خلائق کا جوہر = گوہر = یک حقیقت ہے، آپ قرآن و حدیث کو چشمِ معرفت سے پڑھیں ان شاء اللہ اسرار ہی اسرار کا مشاہدہ ہوگا، جبکہ خدا حدیثِ قدسی میں فرماتا ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی آنکھ ہوسکتا ہے، لیکن افسوس ہے کہ بعض لوگ اس عنایتِ ازلی کے لئے سعی کرنا تو درکنار اس پر یقین بھی نہیں رکھتے ۔

 

دوستانِ عزیز! باور نہ کرنا کفرانِ نعمت ہے، آپ حقیقی عاشقوں کی طرح عاجزی سے بار بار سجودِ شکر گزاری بجا لانا، اور ان عظیم قرآنی حکمتوں کو خوب غور سے پڑھنا اور ان کو ہرگز نہ بھولنا، عالمِ شخصی کے بحرِ علم پر عرشِ الٰہی کا ظہور بھری ہوئی کشتی کا ظہور ہے، جس میں حضرتِ امامؑ خود ہی ہے اور اسی میں تمام ارواح کے ذرّات ہیں۔

بحرِعلم پر عرش (۱۱: ۰۷) بھری ہوئی کشتی (۳۶: ۴۱)۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۸ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۵۲

 

حجتِ قائمؑ اور حضرتِ قائم علینا سلامہٗ

 

خداوندِ تعالیٰ کے یہ دونوں بزرگ نام اسرارِ قیامت کے دو سب سے بڑے خزانے ہیں، ان میں عرفاء کے لئے علم و حکمت اور معرفت کا ہر زندہ معجزہ موجود ہے، ان تمام مومنین و مومنات کی بہت بڑی سعادت ہے جو ان کی معرفت سے بہرہ ور ہیں اور ان کے دوستدار ہیں۔

 

خدا کے اسمِ اکبر الحیُ القیّوم سے کس کو انکار ہوسکتا ہے، قرآن کے سات مقامات پر ح م سے یہی دو بزرگ اسم مراد ہیں، آپ حکیم پیر ناصر خسرو (ق۔س) کی شہرۂ آفاق کتاب وجہِ دین میں ان کی معرفت حاصل کریں، اور ہمارے ادارے کی کتابوں میں بھی دیکھیں۔

 

تمام عزیزوں کے دل میں دینی علم کے لئے جو زبردست خواہش ہے وہ مجھے روحانی طور پر مجبور کر رہی ہے کہ میں ہر بار کچھ نہ کچھ خاص باتوں کو آپ کے لئے لکھا کروں ، اس سلسلے میں بعض اہم اسرار دہرائے بھی جاتے ہیں، ان شاء اللہ اس کوشش میں صاحبِ دورِ قیامت کے برکات ہوں گی، آمین!

 

آپ سب دعا کریں تاکہ ہمارے ساتھیوں میں علم و حکمت کی فراوانی ہو!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۸ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۵۳

 

لسانی اور قلبی مناجات

 

مناجات کے معنی ہیں: حمد، التجاء، عرض، استدعاء، التماس، درخواست، اور ہمارے دستور کے مطابق خدا کے حضور میں گریہ و زاری بھی، یہ زبانی بھی ہوسکتی ہے اور قلبی بھی، انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی، مگر ہر عبادت کے آداب ہوتے ہیں، لہٰذا مناجات کے بھی آداب ہیں۔

 

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) میں چشمِ بصیرت سے دیکھ لیں اور فائدہ حاصل کریں، آیت (۰۳: ۱۹۱) جس میں یادِ الٰہی کی ازبس مفید قسموں کی حکمت بیان ہوئی ہے، حق بات تو یہ ہے کہ یہ آیۂ شریفہ صاحبانِ عقل کی شان میں ہے، پس جو لوگ اس عظیم الشّان حکم پر عمل کریں وہ صاحبانِ عقل میں سے ہیں۔

 

مذکورہ آیاتِ کریمہ (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) اس طرح سے ہیں:

اِنَّ  فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ  وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ  الَّیْلِ  وَ  النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا  وَّ  عَلٰى  جُنُوْبِهِمْ  وَ یَتَفَكَّرُوْنَ  فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ  وَ الْاَرْضِۚ-رَبَّنَا  مَا  خَلَقْتَ  هٰذَا  بَاطِلًاۚ-سُبْحٰنَكَ  فَقِنَا  عَذَابَ النَّارِ۔

ترجمہ: زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ان صاحبانِ عقل کے لئے بہت نشانیاں ہیں جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال

 

۱۵۴

 

میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمانوں کی ساخت میں غوروفکر کرتے ہیں، (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں) پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے، پس اے ربّ! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل  ۹؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۵۵

 

قرآنِ حکیم میں ہر چیز کا بیان ہے

 

قرآنِ عزیز کے دائمی اور عقلی معجزات میں سے ایک عظیم معجزہ یہ بھی ہے کہ اس کے ظاہر و باطن میں ہر چیز کا بیان ہے (۱۶: ۸۹) پس اللہ تعالیٰ کی اس بے مثال کتاب (قرآن) میں تمام چیزوں کے بیان کے سلسلے میں صاحبانِ عقل کی خصوصیات کا بیان بھی آیا ہے، اور یہ اہلِ ایمان پر خدا کا ایک خاص انعام ہے، تاکہ ان کو یہ معلوم ہوجائے کہ عقل و دانش کن اقوال و اعمال اور کس قسم کے افکار میں ہے۔

 

پس اے دوستانِ محترم! قرآنِ حکیم کے ہر مضمون کو اس کی جملہ متعلقہ آیات کے ساتھ پڑھنا، اور علم وحکمت کے مضمون کے ساتھ صاحبانِ عقل کے مضمون کو بھی کماحقہٗ پڑھنا، دیکھو عقلمندوں کے نزدیک ہر حال میں ذکرِ الٰہی کیوں اتنا ضروری ہے؟ البتہ عقل اللہ کے خزانوں سے آتی ہے، مگر یادِ خدا کے وسیلے سے، یہی وسیلہ علم و حکمت کے لئے بھی مقرر ہے۔

ذکرِ الٰہی کی کثیر قسمیں ہیں، ان میں لسانی اور قلبی مناجات بھی شامل ہیں، اور یہ خاص اذکار میں سے ہیں، آپ دل ہی دل میں خدا سے رجوع کریں، آپ طرح طرح سے نیک دعائیں کرتے رہیں، یقین کرنا کہ وہ سن رہا ہے اور قبول کر رہا ہے۔

 

ہر شخص میں ایک جنّ = نفسِ امّارہ = شیطان ہے اور ایک فرشتہ = عقلِ انسانی = عقلِ جزوی ہے، پس خدا کی یاد سے جو کثرت سے ہو، فرشتے کو قوّت ملتی

 

۱۵۶

 

رہتی ہے، تا آنکہ اس سے اچھے اچھے نتائج نکلنے لگتے ہیں اور شیطان کو بار بار شکست ملتی ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ ۱۰ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۵۷

 

وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ

Wisdom of Holy Bridge Building

قسط: ۱

 

آج بروزِ جمعرات  ۱۱؍ جنوری ۲۰۰۱ء کو جو خدا کا زبردست احسان ہوا وہ ایک انقلابی احسان ہے، الحمد للّٰہ، ہمیں بار بار سجودِ شکرگزاری بجا لانا چاہئے، اللہ تعالی کی اس عجیب و غریب قدرت اور حکمت کی تعریف کے لئے انس و جنّ اور ملائکہ کے پاس کہاں الفاظ ہیں کہ اس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز نے مومنین کو حکمت سکھانے کی غرض سے موسٰیؑ اور ہارونؑ کو الگ الگ پیدا کیا، پھر ان کو روحانیّت و نورانیّت کے کئی مقامات پر ایک بھی کر دیا، تاکہ جو مومنین معرفت سے آگاہ ہیں، وہ محمدؐ و علیؑ کو جسمانیّت میں الگ الگ بھی مانیں اور نورانیّت میں ایک بھی مانیں، کیونکہ موسٰیؑ اور ہارونؑ کی شان میں جتنی آیات نازل ہوئی ہیں ان میں یہی حقیقت ہے، اور آپ کو علم ہوچکا ہے کہ بہت سی باتوں میں موسٰیؑ اور ہارونؑ محمدؐ و علیؑ کی مثال تھے، مگر یہ بات ضرور ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

قرآنی انڈیکس ص ۷۳۶ کے مطابق جس طرح قرآن کے ۲۰ مقامات پر حضرتِ ہارونؑ کا ذکر آیا ہے، آپ ان کے ہر مقام پر آئینۂ ہارونی میں علیؑ کا علمی یا عرفانی دیدار کرنے کے لئے سعیٔ بلیغ کریں، ان شاء اللہ کامیابی ہوگی، اس کا اصول یہ ہے کہ موسٰی کو محمد سمجھیں اور ہارونؑ کو علیؑ، تاکہ وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ کا مطلب سمجھ میں آسکے۔

 

۱۵۸

 

انڈیکس کے ص ۶۸۰ کے مطابق قرآن کے ۱۳۶ مقامات پر حضرتِ موسٰیؑ کا ذکر ہے، مگر یہ حقیقت خوب یاد رہے کہ موسٰیؑ کے نور میں ہمیشہ ہارونؑ کا نور بھی تھا، اور واللہ ہارونؑ کے نور میں علیؑ کا نور بھی تھا۔

 

عاشقوں کے لئے وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ کے قانون کو سمجھنے کے عظیم فائدے یہی ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۱۱  ؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۵۹

 

وزڈم آف ہولی بر ج بلڈنگ

Wisdom of Holy Bridge Building

قسط: ۲

 

سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۲۹ تا ۳۶) میں ارشاد ہے:

وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْ  هٰرُوْنَ اَخِی  اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْ  وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْ  كَیْ نُسَبِّحَكَ كَثِیْرًا  وَّ نَذْكُرَكَ كَثِیْرًا اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِیْرًا قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰى۔

ترجمہ: اور میرے کنبہ والوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر (بوجھ بٹانے والا) بنا دے، اس کے ذریعہ سے میری پشت مضبوط کر دے، اور میرے کام میں اس کو میرا شریک بنا تاکہ ہم دونوں (مل کر) کثرت سے تیری تسبیح کریں، اور کثرت سے تیری یاد کریں، تو تو ہماری حالت دیکھ ہی رہا ہے، فرمایا اے موسیٰ! تمہاری سب درخواستیں منظور کی گئیں۔

ربّ العزّت نے جن حقیقی مومنین و مومنات کو علم الیقین کی دولت سے نواز کر سرفرازی بخشی ہے، وہی اہلِ سعادت ایسی عجیب و غریب حکمتوں کو سمجھتے ہیں، کہ حدیثِ مماثلتِ ہارونی ہی خود یہی مقدّس حکمتی پل ہے، جس کے ذریعے سے تصوراتی طور پر ہر دانا شخص حضرتِ ہارونؑ کے قصّۂ قرآن میں اسرارِ علیؑ کو سمجھ سکتا ہے، جیسے (۲۰: ۲۹ تا ۳۶) جس سے معلوم ہوا کہ وزیرِ موسٰی ہارونؑ اور وزیرِ محمدؐ علیؑ تھا، لیکن یہاں پر ضروری سوال یہ ہے کہ دونوں مقام پر یہ وزارت ظاہری تھی یا باطنی؟ نورِ معرفت

 

۱۶۰

 

کی قسم یہ باطن کا سب سے عظیم راز ہے۔

 

آپ آئینۂ ہارونی میں اسرارِ علیؑ کو دیکھنے کی ریاضت کریں، کہ ریاضت کے بغیر ترقی نہیں، یعنی آپ سوچنے کی ریاضت کریں، مجھے کہنے دیجئے کہ آپ نے نور کی خصوصیات کے بارے میں نہیں سوچا ہے، جبکہ نور اور انوار کے باب میں سوچنا ازحد ضروری ہے، الغرض انبیاء و اولیاء اگرچہ اجسام کے اعتبار سے الگ الگ ہیں، مگر سب کے لئے ایک ہی نور مقرر ہے اور نورٌعلیٰ نور کی واضح تفسیر یہی ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ ۱۲ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۶۱

 

وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ

Wisdom of Holy Bridge Building

قسط: ۳

 

سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) میں ارشاد ہے:

یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ كَثِیْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ ﱟ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌ  یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔

ترجمہ: اے کتاب والو! یقیناً تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے وہ اس میں سے بہت کچھ کھول کر بیان کرتا ہے جسے تم کتاب میں چھپاتے تھے اور اکثر سے درگزر کرتا ہے یقیناً تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور کتابِ مبین آگئی ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے ان لوگوں کو جو اس کی رضامندی کی پیروی کرتے ہیں سلامتی کی راہوں پر چلاتا رہتا ہے اور ان کو اپنے حکم سے تاریکیوں سے نور کی طرف لے آتا ہے اور ان کو راہِ راست پر چلا تا ہے۔

 

پوشیدہ نہ ہو کہ قرآنِ حکیم (۰۵: ۱۶) میں ہولی برجز کے لئے لفظِ سبل السّلام آیا ہے یعنی سلامتی کے راستے، جو قرآن کے ظاہر و باطن اور عالمِ شخصی میں ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے لئے جو نورِ ہدایت مقرر فرمایا ہے وہ سلامتی

 

۱۶۲

 

کے راستوں پر مومنین کے چلنے کی غرض سے ہے، اب آپ سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) کو خوب غور و فکر سے پڑھ لیں، یہاں پہلے رسولِ پاکؐ کا ذکر ہے، پھر نور کا تذکرہ ہے جس میں محمدؐ وعلیؑ دونوں کا نور ہے، جیسا کہ قبلاً بتایا گیا ، پھر کتابِ مبین ہے جو قرآن ہے مگر یہ نورِ مذکور کے ساتھ ہے۔

 

یہاں پر ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب خدا تک جانے کے لئے صرف صراطِ مستقیم ہی کافی ہے، تو پھر سلامتی کے راستوں کا کیا مقصد ہوسکتا ہے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ صوفیائے کرام نے کہا ہے کہ: پہلے روحانی سفر کا نام سیرالی اللہ ہے، دوسرے سفر کا نام سیرفی اللہ ہے، چونکہ خدا کی خدائی لامحدود ہے، لہٰذا اس کی راہیں سبل السّلام کہلاتی ہیں، ان راہوں میں بےشمار عظیم اسرار آتے ہیں، پس صراطِ مستقیم پر خدا تک چلنا آسان ہے، مگر خدا میں چلنا بیحد مشکل بلکہ بعض کے لئے غیر ممکن ہے، مگر خدا ان مومنین کی مدد کرتا ہے، جو اس کی مدد کرتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۱۳ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۶۳

 

وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ

Wisdom of Holy Bridge Building

قسط: ۴

 

سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۴ تا ۲۵) میں ارشاد ہے:

اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِ  تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَاؕ-وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ۔

ترجمہ: کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاک کلمے کی مثال کیسی دی ہے کہ وہ ایک پاک درخت کی مانند ہے اس کی جڑ محکم ہے اور اس کی شاخ آسمان میں (پہنچی) ہے، وہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا ہے، اور اللہ تعالی لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

مذکورۂ بالا آیۂ شریفہ (۱۴: ۲۴) کے آغاز کا یہ خطاب: “کیا تو نے نہیں دیکھا؟” آنحضرتؐ کے بعد اولیاءؑ اور عرفاء سے بھی ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسمِ اعظمِ شخصی اور اسمِ اعظمِ لفظی کی مثال دی ہے۔

 

پاک درخت جس کی جڑ زمینِ دین میں مضبوط ہے رسولِ کریمؐ ہے، اور اس کی شاخ جو آسمان میں پہنچی ہے وہ امامِ آلِ محمدؐ ہے، جو اسمِ اعظمِ شخصی ہےاور پاک کلمہ اسمِ اعظمِ لفظی ہے جو امامِ زمانؑ کی مدد سے حظیرۂ قدس تک پہنچ جاتا ہے،

 

۱۶۴

 

اور یہاں یہ دونوں اسمِ اعظم ایک ہوجاتے ہیں، اور اس سے پہلے بھی ان کے بہت سے معجزات کا ظہور ہوتا ہے، پس یقیناً اس پاک درخت کا پھل ہر وقت حظیرۂ قدس میں ملتا رہتا ہے۔

نوٹ: مردگانِ زندہ نما (۱۶: ۲۱) اَمْواتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ

جانورانِ انسان نما (۰۷: ۱۷۹؛  ۲۵: ۴۴) کالأنعام۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ ۲۴ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۶۵

 

وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ

Wisdom of Holy Bridge Building

قسط: ۵

 

سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۳) میں ارشاد ہے:

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ۪- فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا۫- ثُمَّ اَحْیَاهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ۔

ترجمہ: (اے رسول) کیا تو نے ان کو نہیں دیکھا جو بہ سبب روحانی قیامت موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے تھے اور وہ بےشمار تھے پس ان کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مرجاؤ (اور وہ مر گئے) پھر انہیں زندہ کیا بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر مہربانی کرنے والا ہے و لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔

سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۳) میں جو ارشادِ مبارک ہے اس میں روحانی قیامت کا ایک بہت ہی عظیم راز پوشیدہ ہے، وہ اس طرح سے ہے کہ قیامِ قیامت کا تعلق صرف ارواح سے ہے مگر اجسام سے نہیں، لہٰذا جب بھی روحانی قیامت آتی ہے لوگ اس سے بےخبر ہوتے ہیں، مگر وہ مومنِ سالک جس پر یہ قیامت گزرتی ہے، ہاں تمام لوگوں کی نمائندہ روحیں قیامت گاہ = عارف کے عالمِ شخصی میں جمع ہو جاتی ہیں اور وہاں وہ سب بحکمِ خدا مرکر دوبارہ زندہ ہوجاتی ہیں، مذکورہ آیت کی تاویلی حکمت یہی ہے۔

 

۱۶۶

 

چونکہ قیامت کا ذریعہ اور وسیلہ امامِ زمان علیہ السّلام ہی ہے (۱۷: ۷۱) وہ اپنے ذیلی حدودِ دین میں سے جس کو چاہے اس آفاقی اور عالمگیر خدمت کو دے کر نوازتا ہے، کیونکہ وہ نہ صرف امام المتّقین ہی ہے بلکہ امامُ النّاس بھی ہے، تاکہ امامِ آلِ محمدؐ تمام مخلوقات جو عیال اللہ ہیں، ان کو قیامت کی ہر ہر سختی سے بآسانی نکال کر بہشت میں داخل کر دے، اس وجہ سے آیت میں یہ ارشاد بھی ہے:۔

اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ ۔

بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر مہربانی کرنے والا ہے ولیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۲۵ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۶۷

 

وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ

Wisdom of Holy Bridge Building

قسط: ۶

 

ایک خاص ترین قرآنی دعا جو قرآنِ حکیم کے چار مقام پر ہے:

مقامِ اوّل (۰۷: ۱۵۱) یَااَرْحَمَ الرّٰحِمِینَ۔

مقامِ دوم (۱۲: ۶۴)  یَااَرْحَمَ الرّٰحِمِینَ۔

مقامِ سوم (۱۲: ۹۲) یَااَرْحَمَ الرّٰحِمِینَ۔

مقامِ چہارم (۲۱: ۸۳) یَااَرْحَمَ الرّٰحِمِینَ۔

 

آپ کو معلوم ہے کہ ہر مستند و مقبول دعا کے آخر میں بھی لازمی طور پر اللہ تعالیٰ سے بصد عاجزی یہ درخواست کی جاتی ہے: ۔

بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرّٰحِمِینَ۔

آپ مذکورۂ بالا حوالہ جات کی مدد سے قرآنِ عزیز میں بھی دیکھیں تاکہ معلوم ہو کہ یہ دعا کن حضرات کی دعاؤں میں سے ہے، الحمد لِلّٰہ!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ ۲۶ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۶۸

 

وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ

Wisdom of Holy Bridge Building

قسط: ۷

 

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۰۸) میں یہ پُرحکمت اور بابرکت دعا پڑھیں اور اسے حفظ کر کے ہمیشہ پڑھتے رہیں:۔

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ ۔

ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! بعد اس کے کہ ہم تجھ سے ہدایت یافتہ ہوچکے ہیں، تو ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے اور ہمیں اپنے حضور سے رحمت عطا فرما، بیشک تو ہی بہت عطا کرنے والا ہے۔

یہ پاک دعا ان دانشمند مومنین و مومنات کے لئے خاص ہے جن کو صراطِ مستقیم کی ہدایت نصیب ہوئی ہے، اور وہ اسی راہِ راست پر ہمیشہ گامزن ہوتے ہوئے فنا فی اللہ ہو جانے کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۲۷؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۶۹

 

وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ

Wisdom of Holy Bridge Building

قسط: ۸

 

سورۂ توبہ (۰۹: ۳۲ تا ۳۳) میں ارشاد ہے:

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ ۔

ترجمہ: وہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے مونہوں (کی پھونکوں) سے بجھائیں اور اللہ تعالیٰ کو سوائے اس کے کچھ منظور نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا کرے اگرچہ کافر اسے ناپسند کریں (اللہ) وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے اگرچہ مشرک اسے ناپسند ہی کریں۔

سورۂ صف (۶۱: ۰۸ تا ۰۹) میں ارشاد ہے:

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ ۔

ترجمہ: وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے مونہوں (کی پھونک)

 

۱۷۰

 

سے بجھائیں اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے اگرچہ وہ کافروں کو ناخوش لگے وہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے اگر وہ مشرکوں کو ناخوش لگے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۲۷؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۷۱

 

وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ

Wisdom of Holy Bridge Building

قسط: ۹

 

الحمدلِلّٰہ کی حکمت

الحمد = عقلِ کلّ = قلمِ اعلیٰ = نورِ محمدیؐ = فرشتۂ اعظم = عرشِ اعلیٰ۔

الحمد لِلّٰہ کے مختصر معنی ہیں: قلمِ قدرت اللہ کا ہے۔

لوح = نور = فرشتہ = نورِ علیؑ = کرسی۔

عقلِ کلّی آسمانِ اعظم ہے اور نفسِ کلی سب سے وسیع زمین = زمینِ کائنات = زمینِ بہشت، اور کلیۂ امامِ مبینؑ ہے۔

سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ایک بھی ہیں اور الگ الگ بھی۔

تجلیاتِ مذکورۂ بالا کا مشاہدۂ باطن اور معرفت حظیرۂ قدس میں ریکارڈ ہے

عالمِ وحدت = حظیرۂ قدس کی بہشت = مجمع البحرین (۱۸: ۶۰)۔

اس میں نورِ محمدیؐ اور نورِعلیؑ ایک بھی ہیں اور الگ الگ بھی۔

عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ایک بھی ہیں اور الگ الگ بھی۔

قلم اور لوح ایک بھی ہیں اور الگ الگ بھی۔

آسمان اور زمین ایک بھی ہیں اور الگ الگ بھی ۔

عرش اور کرسی ایک بھی ہیں اور الگ الگ بھی۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل ۳۰؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۷۲

 

دارالسّلام = سلامتی کا گھر

 

سورۂ یونس (۱۰: ۲۵ تا ۲۶) کا ارشاد ہے:

وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِؕ-وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ  لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌؕ-

ترجمہ: اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے، اور جسے چاہے سیدھی راہ چلاتا ہے، بھلائی والوں کے لئے بھلائی ہے اور اس سے بھی زائد۔

 

دارالسّلام = سلامتی کا گھر بہشت ہے، نیز دارالسّلام خود خدا ہے کیونکہ السلام اللہ کا ایک صفاتی اسم ہے، کہ بحقیقت وہی بہشت بھی ہے اور سلامتی کا گھر بھی، کیونکہ جو عرفاء فنا فی اللہ ہوجاتے ہیں وہ بہشت کے سب سے اعلیٰ گھر میں رہتے ہیں کہ جس میں وہ ہمیشہ سلامت، لازوال اور لافانی ہوجاتے ہیں، کیونکہ یہ سب سے بڑی دعوت (خدا کی دعوت) کا نتیجہ ہے، اور آیۂ ماقبل کو بھی دیکھیں جس میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر ہے، اس کے بعد سلامتی کے معنی روشن ہوجاتے ہیں، اب سلامتی کے راستوں کا مطلب سمجھنا آسان ہوگیا، وہ ہے خدا کی لامحدود خدائی کے اسرار کے راستے جن کی معرفت میں دائمی سلامتی اور ہمیشہ کی زندگی ہے، جیسا کہ حدیثِ قدسی اجعلک مثلی میں ارشاد ہے کہ آدمِ زمانؑ کے فرمانبردار فرزند فنا فی اللہ و بقاء باللہ کا مرتبہ حاصل کرسکتے ہیں۔

 

۱۷۳

 

گر عشق نبودی سخنِ عشق نبودی

چندین سخنِ نغز کہ گفتی کہ شنودی

ترجمہ: اگر عشق نہ ہوتا اور عشق کی بات نہ ہوتی تو اتنی عمدہ باتیں کون کہتا؟ اور کون سنتا؟

نوٹ: زنِ فرعون آسیہ نے نورِ خدا کے گھر میں رہنے کی درخواست کی تھی،  بحوالۂ سورۂ تحریم (۶۶: ۱۱)۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر ۱۵؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۷۴

 

ما آمدہ نیستیم این سایۂ ماست

 

ہم بہشت سے بحقیقت آئے ہی نہیں ہیں، یہ ہمارا ظاہری وجود اصل حقیقت کا سایہ ہے، سورۂ زمر (۳۹: ۷۳ تا ۷۵) کو خوب غور سے پڑھ لیں:

 

ترجمہ: اور ان لوگوں کو جو اپنے ربّ سے ڈرتے رہے بہشت کی طرف گروہ بنا کر بھیجا جائے گا، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے اور اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور ان سے اس کے نگہبان کہیں گے سلامٌ علیکم (یعنی تم اس بہشت میں پہلے ہی سے زندہ اور سلامت موجود ہو) تم پاکیزہ ہوئے پس تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو کر داخل ہوجاؤ(یعنی ایسا کوئی وقت کبھی نہ تھا، نہ ہے اور نہ کبھی ہوگا، جس میں تم بہشت میں موجود نہ ہوں ، اسی کو کہتے ہیں خَالِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا کیونکہ خدا نے روح کو ہر جا حاضر ہونے کی صلاحیت عطا کردی ہے) اور وہ کہیں گے ہر قسم کی حمد اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہمیں جنت کی زمین کا وارث کردیا ہم جہاں چاہیں رہیں پس (نیک) عمل کرنے والوں کا اجر کتنا اچھا ہے اور تو فرشتوں کو دیکھے گا وہ عرش کے گردا گرد گھیرنے والے ہوںگے وہ اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں گے ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور کہا جائیگا ہر قسم کی حمد سب جہانوں کے پالنے والے اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل ۱۶؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۷۵

 

عوالمِ شخصی میں انبیاء و اولیاء کا نورِ واحد

 

سورۂ صٰفٰت (۳۷: ۷۹) میں ارشاد ہے:

سَلٰمٌ عَلٰی  نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ۔

تمام عوالمِ شخصی میں نوح پر سلامتی ہے، یعنی ہر عالمِ شخصی نزدیک لائی ہوئی بہشت ہے، جس میں حضرتِ نوحؑ اور اس کے تمام واقعات زندہ اور سلامت ہیں اور خدا نیکوں کو ایسا اجر و صلہ دیتا ہے۔

سَلٰمٌ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ (۳۷: ۱۰۹)۔

حضرتِ ابراہیمؑ بھی ہر کامیاب عالمِ شخصی میں زندہ اور سلامت ہے، اور اس کے تمام کارنامے بھی محفوظ ہیں۔

سَلٰمٌ عَلٰی مُوْسٰی و ھَارُوْنَ (۳۷: ۱۲۰)۔

موسٰی اور ہارونؑ بھی اپنے تمام معجزات کے ساتھ عالمِ شخصی کی بہشت میں زندہ اور سلامت ہیں۔

سَلٰمٌ عَلٰی اِلْیَاسِیْنَ (۳۷: ۱۳۰)۔

اس کی ایک قرأت سَلاَمٌ عَلٰی آلِ یَاسِینَ بھی ہے، یعنی آلِ محمدؐ، یقیناً أئمّۂ آلِ محمدؐ عالمِ شخصی میں زندہ اور سلامت ہیں۔

سَلٰمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ (۳۷: ۱۸۱)۔

 

۱۷۶

 

خدا نے اپنے تمام پیغمبروں کو بمع جملہ معجزات عالمِ شخصی میں رکھا ہے، تاکہ معرفت کے خزانوں میں کوئی کمی نہ ہو، یاد رہے کہ عالمِ شخصی میں تمام انوار کا ایک ہی نورِ واحد اور جملہ معجزات کا مجموعاً ایک ہی عظیم معجزہ ہے، اسی سے طرح طرح کے معجزات کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۱۷؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۷۷

 

ایک فرشتۂ ارضی کا حیرت انگیز نورانی خواب

 

پُرنور خواب میں امامِ زمانؑ کا غیر معمولی دیدارِ مبارک اور وہ بھی پاک جماعت خانہ میں، پھر علمِ لدّنی کا اشارہ ، پھر شمشیرِ عشقِ سماوی کا مشاہدہ، جسے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا، پھر اسی شمشیرِ مبارک سے اس کی قربانی بھی اور شہادت بھی، اس فرشتۂ ارضی کے مبارک بدن سے خون کی جگہ نورِ اخضر کی شعاعیں نکلنا۔

 

اس لاثانی نورانی خواب کی تاویل یہ ہےکہ ان کو قربانی اور شہادت کا درجہ عطا ہوا، تلوار کو لہرانا وغیرہ فتح مندی کی علامت ہے، نام صیغۂ راز میں ہے۔

 

نوٹ: میں معمولی خوابوں کی تاویل نہیں کرتا ہوں، اس میں وقت ضائع ہوجاتا ہے، جبکہ وقت عمر کا حصہ ہے، اگر کسی عزیز کا نورانی خواب ہے تو وہ معجزہ ہے تو اسے کون نظرانداز کرسکتا ہے، یہ خواب جو یہاں درج ہوا بڑا عجیب و غریب ہے حالانکہ ہم نے اس کا صرف ایک حصہ درج کیا ہے، ہم نے اس عزیز کو فرشتۂ ارضی کہہ کر اسکے سارے ایمانی کمالات کو ایک ہی لفظ میں بجا طور پر جمع کیا ہے۔

 

جو لوگ پاک مولا کے عاشق ہیں ان کے لئے معجزے ہوتے رہتے ہیں، ہمارے عزیزوں نے طرح طرح سے کسبِ کمالات کئے ہیں، میں نے نظم و نثر میں بجا طور پر اپنےتمام عزیزوں کی تعریف کی ہے، الحمد لِلّٰہ، کہ یہ میرا ایک مقدس فریضہ ہے، اگر خدا کا حکم ہوا تو بہشت میں ان تمام کی بہت تعریف کرونگا اور وہاں کونسی نعمت غیر ممکن ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۱۷؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۷۸

 

قرآن میں امام المتقین کے لئے ایک خاص دعا

 

دعائم الاسلام حصّۂ اوّل اردو ص ۵۰ پر درج ہے:

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے: آپ نے ایک شخص کو جو بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا یہ کہتے ہوئے سنا کہ:

وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا (۲۵: ۷۳)

ترجمہ: اے پروردگار! تو مجھے ان لوگوں میں سے بنا کہ جس وقت ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کا تذکرہ ہوتا ہے تو اندھے بہرے بن کر نہیں گرتے۔

وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (۲۵: ۷۴)۔

ترجمہ: اے میرے پروردگار! تو مجھے ان لوگوں میں سے بنا جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! تو ہماری بیبیوں اور ہماری ذریت سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا دے۔

 

آپ نے اس شخص سے فرمایا کہ اے شخص! تو نے اپنے پروردگار سے اپنی حیثیت سے بڑھ کر سوال کیا ہے، تو نے خداوندِ تعالیٰ سے یہ سوال کیا ہے کہ وہ تجھے پرہیزگاروں کا مفترض الطاعۃ امام (وہ امام جس کی طاعت خدا کی طرف

 

۱۷۹

 

سے فرض ہے) بنا دے۔

 

اس وقت آپ کے اصحاب میں سے کسی نے کہا کہ اے صادقِ آلِ محمدؐ! میں آپ پر قربان جاؤں، پہلی آیت (۲۵: ۷۳) میں کن لوگوں کی طرف اشارہ ہے؟ آپؑ نے فرمایا کہ وہ تمہارے متعلق ہے، پھر انہوں نے پوچھا کہ دوسری آیت (۲۵: ۷۴) میں کن لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؟ امام جعفرالصادق علیہ السّلام نے فرمایا کہ دوسری آیت ہمارے لئے اتری ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۱۸؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۸۰

 

اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہونے کا اصل راز

 

یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ ہر شخص کی اولاد اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے، لیکن اس کا اصل راز کسی کو بھی معلوم نہیں، ویسے تو حیوان بھی اپنے بچوں کو بہت چاہتے ہیں، یہ تو حیوانی انسیت ہوئی، مگر دانا لوگ جانتے ہیں کہ بنی آدم پر حیوان کا قیاس لگانا ظلم ہے، کیونکہ خدا نے بنی آدم کو اپنی بہت سی مخلوقات پر کرامت وفضیلت بخشی ہے (۱۷: ۷۰)۔

 

اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہونے کی پہلی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی پسندیدہ فطرت (۳۰: ۳۰) پر پیدا ہوتی ہے، یہاں فطرت کے دو معنی ہیں۔

 

اوّل: اصل اسلام جو دینِ فطرت ہے، اور نو مولود بچے کی طرح پاک و معصوم ہے۔

دوم: پیدا کرنے کا سب سے بہترین طریقہ جس کے مطابق خدا نے انبیاء و اولیاء کو پیدا کیا۔

 

اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف حضرتِ موسٰی پر اپنی خاص محبت کا پرتو ڈالا تھا (۲۰: ۳۹) بلکہ تمام انبیاء و اولیاء کو بھی یہ نعمت حاصل ہوئی تھی، اور قرآنِ حکیم کے شروع میں یہ اشارہ موجود ہے کہ جو لوگ انبیاءؑ و اولیاءؑ کے راستے پر چلیں گے، ان پر بھی وہی انعامات ہوںگے جو صراطِ مستقیم پر چلنے والوں پر ہوتے رہے ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے پیارے بچوں پر اپنی خاص محبت

 

۱۸۱

 

کا عکس ڈالتا ہے، تاکہ اس قدرتی کشش کے وسیلے سے والدین اپنے بچوں کو ہرگونہ تعلیم و تربیت کے لئے سعیٔ بلیغ کرتے رہیں، اور یہاں یہ بہت بڑا راز بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ بہشت میں نیکوکار والدین کو ان کے نیک بچوں کی صورت میں بھی دیدار عطا کرے گا (۳۲: ۱۷)، کیونکہ بہشت میں ہر نعمت خواہش کے مطابق ملتی رہتی ہے، اور کوئی نعمت ایسی نہیں جو حاصل نہ ہوسکے، الحمدلِلّٰہ۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۱۹؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۸۲

 

حاملانِ عرش کی دعائے مغفرت

 

سورۂ مومن (۴۰: ۰۷ تا ۰۹) میں ارشاد ہے:

الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ  رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ ۚ وَمَنْ تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ۔

ترجمہ: عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے، اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں، وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: “اے ہمارے ربّ! تو نے رحمت اور علم میں ہر چیز کو گھیرا ہوا ہے، پس معاف کر دے اور عذابِ دوزخ سے بچالے ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے، اے ہمارے ربّ! اور داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والی ان جنتوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے، اور ان کے آبا ؤ اجداد اور بیویوں اور ذرّیت

 

۱۸۳

 

میں سے جو صالح ہوں (ان کو بھی وہاں ان کے ساتھ ہی پہنچا دے) تو بلاشبہ قادرِ مطلق اور حکیم ہے، اور بچا دے ان کو برائیوں سے، جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اس پر تو نے بڑا رحم کیا، یہی بڑی کامیابی ہے۔”

 

حاملانِ عرش سے حضراتِ أئمّہ علیھم السّلام مراد ہیں اور یہ لوگوں سے بہت ہی بڑا امتحان ہے کہ عرش بھی اور حاملانِ عرش بھی امامِ مبین ہی ہے، جو امامِ زمان علیہ السّلام ہے، پس اس آیۂ شریفہ میں امامِ زمانؑ کی عظیم الشّان معرفت ہے اور اسی کی دعائے مغفرت کی تعریف ہے، جو بے مثال اور لاجواب ہے۔

 

جو فرشتے عرش کے گرداگرد رہتے ہیں، ان سے عظیم ارواح مراد ہیں۔

حمد کے ساتھ ربّ کی تسبیح = عقل کے ذریعے حضرتِ ربّ کو ہر چیز سے پاک و برتر قرار دینا۔

ایمان بدرجۂ حق الیقین ہے، اور یہاں حقیقی مومنین کے لئے دعائے مغفرت ہے۔

 

توبہ لفظی اور زبانی نہیں بلکہ یہ عملاً رجو ع الی اللّٰہ ہے۔

کائنات = کل شیءٍ بیک وقت بحرِ رحمت اور بحرِ علم دونوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔

اس ارشاد میں سے صرف چند حکمتیں بیان ہوئیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

یک شنبہ  ۲۱؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۸۴

 

خدا نے ہر رسول کو اسکی قوم کی زبان میں بھیجا

 

سورۂ ابراہیم (۱۴: ۰۴) میں ارشاد ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ۔

ترجمہ: اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی اپنی قوم کی زبان میں ہی (باتیں کرنے والا) تاکہ ان کے لئے احکام کھول کھول کر بیان کرے، پھر اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے اور وہ زبردست بڑا حکمت والا ہے۔

 

یقیناً یہ قانونِ تنزیل ہے، مگر ترجمہ، تفسیر اور تاویل کا جواز اس کے علاوہ ہے، تاکہ قرآنی دعوت اور علم وحکمت کا دائرہ عالمگیر ہو، حضرت مولا علی علیہ السّلام کا ارشادِ گرامی ہے:

مَن عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ۔

ترجمہ: جس نے اپنے آپ = اپنی روح کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا، اس مبارک ارشاد کو پڑھ کر اقرار کر لینا بڑا آسان ہے ، اور اس کے لئے کوئی دیر بھی نہیں لگتی ہے مگر اس پر عمل کرنا دین میں سب سے سخت اور مشکل ترین کام ہے، لیکن اس کے فائدے اس کثرت سے ہیں کہ آپ ان کو شمار ہی نہیں کرسکیں گے۔

 

۱۸۵

 

آپ یہ بے حد ضروری بات نوٹ کر لیں کہ جہاں ربّ کی معرفت ہے وہاں قرآن کی معرفت بھی ہے، اور یہی معرفت قرآن کی عملی تاویل ہے، اور قرآن کی یہ تاویل خود شناس مومن کی زبان میں ہوتی ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۲۲؍ جنوری ۲۰۰۱ء

 

۱۸۶

 

حضرتِ ایوب علیہ السّلام کی خاص قرآنی دعا

 

سورۂ انبیا(۲۱: ۸۳ تا ۸۴) میں ارشاد ہے:

وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِنْ ضُرٍّ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ۔

ترجمہ: اور ایوب جس وقت اس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، پس ہم نے اس کی فریاد سن لی سو جو تکلیف اس پر تھی ہم نے دور کردی اور ہم نے اپنی طرف سے بطورِ رحمت اور عبادت کرنے والوں کے لئے بطورِ نصیحت اسے اسکے اہل و عیال اور اتنے ہی ان کے ساتھ عطا کردیئے۔

 

ہر پیغمبرانہ دعا آسمانی ہدایت کے نور پر مبنی ہوتی ہے اور مزید بران یہ دعا کلامِ الٰہی کا حصّہ بھی ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے معجزانہ شان سے قبول فرمایا ہے اور خدا نے یہ اشارہ بھی فرمایا کہ وہ اپنے عبادت گزار بندوں کے لئے بھی اس دعا کو اسی شان سے قبول فرمائے گا۔

 

اب رہا سوال کہ اللہ نے کس طرح حضرتِ ایوبؑ کے اہل اور ان کی مثل کو واپس دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدائے قادرِ مطلق بہشت میں اپنے دوستوں کو نہ صرف

 

۱۸۷

 

ان کے تمام اہل و عیال کو واپس عطا کرتا ہے بلکہ ان سب کو نورانی ابدان (اجسامِ لطیف) میں بھی زندہ کردیتا ہے تاکہ بہشت میں جو نعمتیں آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے ہیں وہ بھی پوری ہو جائیں، کیونکہ جنت الاعمال جسمانی اولاد اور علمی اولاد سے معمور ہے۔

 

خوب یاد رہے کہ بہشت میں ہر شخص کی اولاد ہوتی ہے اگرچہ دنیا میں کسی شخص کی ظاہراً کوئی اولاد نہ بھی ہو، کیونکہ روح کی منتقلی سے متعلق بڑے بڑے اسرار ہیں، جن کو انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کے بعد عارفین بھی جانتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ ۲؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۱۸۸

 

ایک بہت ہی عجیب و غریب پُرحکمت مثال

 

سورۂ جمعہ (۶۲: ۰۵ تا ۰۷ ) میں ارشاد ہے:

مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ   قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ  وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ۔

ترجمہ: جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لادی ہوئی ہوں اس سے بھی زیادہ بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا، ان سے کہو “اے لوگو جو یہودی بن گئے ہو اگر تمہیں یہ گھمنڈ ہے کہ باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے دوست ہو تو موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو” لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے ان کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کرچکے ہیں اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

جن لوگوں کو توراۃ کا ظاہری حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کی باطنی

 

۱۸۹

 

حکمت کا بوجھ نہ اٹھایا، پھر ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لادی ہوئی ہوں اس سے بھی زیادہ بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات (أئمّہ علیھم السّلام ) کو جھٹلایا ہے ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا ہے۔

 

یہاں موت کی تمنا سے مراد نفسانی موت کی خواہش اور اس کے لئے ریاضت ہے اور موتوا قبل ان تموتوا پر عمل کرنا ہے تب ہی کسی کو اللہ کی دوستی حاصل ہوسکتی ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۳؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۱۹۰

 

موت قبل از موت اور اس کے نتائج

 

اہلِ طریقت اور اہلِ حقیقت کے نزدیک یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ جسمانی موت سے پہلے نفسانی موت معرفت کا واحد دروازہ ہے، جس کے سوا خودشناسی اور خدا شناسی جیسا کہ اس کا حق ہے وہ ناممکن ہے، پھر اہلِ ایمان کے لئے یہ امر بےحد ضروری ہے کہ وہ علم الیقین کی دولت کمانے میں ذرا بھی سستی نہ کریں، کیونکہ علم الیقین تمام مومنین و مومنات کے لئے عطیۂ الٰہی ہے۔

 

موت قبل از موت کے علمی اور عرفانی ثمرات بے شمار ہیں، اور معلوم ہے کہ یہ سارے فائدے اہلِ ایمان کے لئے ہیں، جو خوش نصیب لوگ معرفت کے دروازے سے داخل ہوجاتے ہیں، وہ کیسے کیسے عجائب و غرائب اور کتنے عظیم معجزات کا مشاہدہ کرتے ہوں گے!

 

آپ ان کتابوں کو پڑھیں جو علم الیقین سے لبریز ہیں، آپ امامِ آلِ محمدؐ کے عشق میں پگھل جانا سیکھیں، کیونکہ کامیابی کا سب سے بڑا راز امامؑ کا عشق ہی ہے، امامؑ کا پاک عشق رسولؐ کا عشق ہے اور رسولؐ کا عشق اللہ کا عشق ہے، خدا کا زندہ اسمِ اعظم محمدؐ ہےاور علیؑ، یہ بات بھول نہ جانا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر ۵؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۱۹۱

 

نورِ عشق اور نورِ علم

 

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے ۱۹۴۰ء میں اپنے ایک خاص فرمان میں جس نور کے طلوع ہو جانے کی پیش گوئی فرمائی تھی، وہ نورِ عشق اور نورِ علم ہے، جس سے حضرتِ امامِ عالی مقامؑ کے باصلاحیت مریدوں نے خوب فائدہ اٹھایا، ان میں لشکرِ اسرافیلی کا کردار نمایان ہے، انہوں نے جماعت کے دلوں کو عشقِ مولا کی حرارت سے گرمایا، خوابیدہ روحوں کو جگایا، ہر بار کچھ نہ کچھ آنسوؤں کی روح افزا بارش برستی تھی، اسی طرح جا بجا لشکرِ اسرافیلی پیدا ہوگئے، وہ سب تمام جماعت کو بہت ہی عزیز ہیں، امامِ زمانؑ ان پر بہت مہربان ہے، وہ دونوں جہان میں آبرومند اور سرفراز ہیں، ان کی خدمات بڑی گرانقدر ہیں، نورِ عشق کے ساتھ ساتھ نورِ علم بھی آسکتا ہے، بروشسکی زبان کا یہ خاموش انقلاب بڑا تاریخ ساز واقعہ ہے، بروشسکی زبان پر مولائے پاک کی نظرِ کرم ہے، لہٰذا امید ہے کہ اس سے بہت سی برکتیں پیدا ہوں گی، آمین!

 

کتابِ حکمتِ تسمیہ ص ۱ پر  ۱۰؍ مارچ ۱۹۴۰ء کا فرمانِ مبارک درج ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل ۶؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۱۹۲

 

جانورانِ انسان نما

قسط: ۲

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۹) میں ارشاد ہے:

وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ۔

ترجمہ: اور یقیناً ہم نے جنوں اور انسانوں میں سے بہتوں کو جہنم کے لئے پھیلا دیا ہے، ان کے دل( موجود) ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں، وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بے راہ، یہی لوگ بے خبر ہیں۔

 

نیز سورۂ فرقان (۲۵: ۴۴) کو بھی دیکھیں۔

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ انسان کا درجہ فرشتہ اور حیوان کے درمیان بنا ہوا ہے، یعنی فرشتہ اس سے اوپر ہے اور حیوان اس سے نیچے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہ صرف عقلِ جزوی اور اختیار عطا فرمایا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تمام انسانوں کے لئے نورانی ہدایت کا دائمی وسیلہ بھی مہیا کر دیا ہے، تاکہ کوئی فردِ بشر درجۂ انسانیّت کی بلندی سے حیوانیّت کی پستی میں گر نہ جائے، اور فرشتہ بن جانے کے لئے سعئ پیہم کرتا رہے، پھر بھی بہت سے لوگ نفس اور شیطان کے

 

۱۹۳

 

فریب میں آکر بجائے فرشتہ ہوجانے کے حیوان بن جاتے ہیں، مذکورۂ بالا آیۂ شریفہ میں جملہ وجوہ بیان ہوئی ہیں، آپ خوب غور سے پڑھیں، یہاں یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ انسان اپنے آپ پر اکثر ظلم کرتا رہتا ہے، جبکہ خدا کسی پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل ۶؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۱۹۴

 

موت قبل از موت اور روحانی قیامت

 

سورۂ حٰمٓ السجدۃ (۴۱: ۳۰ تا ۳۲) میں ارشاد ہے:

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ  نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ  نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ۔

ترجمہ: عطائے اسمِ اعظم کے بعد جن لوگوں نے حقیقی معنوں میں کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر وہ ذکرِ اعظم پر ثابت قدم رہے تو یقیناً ان کی روحانی قیامت قائم ہوجاتی ہے اور ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو نہ غم کرو خوش ہوجاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیزجس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی، یہ ہے سامانِ ضیافت اسی ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔

“موت قبل از موت” کہنے کو تو بڑا آسان ہے، لیکن اس پر عمل کرنا اتنہائی مشکل کام ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہادیٔ زمانؑ جس کی رہنمائی اور دست گیری

 

۱۹۵

 

فرمائے، اس موت کو عارفانہ موت بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ اس موت کا مقصدِ اعلیٰ معرفت ہی ہے، جبکہ بفرمودۂ قرآن دنیا ہی میں چشمِ بصیرت حاصل ہوسکتی ہے (۱۷: ۷۲) اور آخرت میں نہیں، پس ان لوگوں کی بہت بڑی سعادت ہے جو جیتے جی مر کر کنزِ مخفی کو حاصل کر لیتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۷؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۱۹۶

 

عالمِ شخصی کی بہشت میں کتابِ مکنون

 

سورۂ واقعہ (۵۶: ۷۵  تا۸۰) میں اللہ مواقعِ نجوم کی قسم کھا کر فرماتا ہے کہ یہ قسم بہت بڑی ہے اگر تم اسرارِ باطن کو جانتے ہو، عالمِ وحدت میں سورج، چاند اور نجوم کے لئے ایک ہی مشرق و مغرب ہے جو انتہائی مقدّس ہے اور اگر خدا اسی کی قسم کھاتا ہے تو یہ بہت بڑی قسم ہے، اور اس کے بعد جوابِ قسم ہے وہ بھی بہت ہی بڑا اور بے حد ضروری ہے، پھر فرماتا کہ جہاں کتابِ مکنون میں قرآن ہے وہاں وہ بہت بڑی عزت والا ہے، اشارہ ہے کہ وہاں تمام تاویلی اسرار جمع ہیں، گویا یہ بہت بڑا خزانہ ہے، لیکن اس کوکوئی چھو ہی نہیں سکتا سوائے ان لوگوں کے جو پاک کئے گئے ہیں، حدیثِ نوافل کو ازسرِ نو پڑھیں اور دیکھیں کہ خدا اپنے دوستوں کا ہاتھ ہو جاتا ہے تب اسی پاک ہاتھ سے کتابِ مکنون کو چھو سکتے ہیں۔

 

مذکورۂ بالا آیات (۵۶: ۷۵ تا ۸۰) میں خداواندِ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ  إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ  فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ  لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ  تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔

ترجمہ: پس میں ستاروں کے گرنے کی جگہ کی قسم کھاتا ہوں اور اگر تم جانتے ہو تو یقیناً وہ قسم بہت عظمت والی ہے یقیناً وہ عزت والا قرآن ہے جو پوشیدہ

 

۱۹۷

 

کتاب میں ہے اسے کوئی نہیں چھوسکتا سوائے (ان کے) جو پاک کردئے گئے ہیں (اس کا ) اتارا جانا (بلاواسطہ) تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۸؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۱۹۸

 

دائرۂ درودِ شریف

قسط: ۱

 

اے برادارن و خواہرانِ روحانی! چشمِ بصیرت کے سامنے یہ حقیقت روشن ہے کہ قرآنِ حکیم میں درود کا مضمون اور اس کی حکمت ایک مکمل دائرے کی طرح واقع ہے، اس کی معرفت کے لئے سب سے پہلے سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) میں دیکھیں:

هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا۔

ترجمہ: اللہ وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی یعنی فرشتۂ قلم، فرشتۂ لوح، اسرافیل، میکائیل، جبرائیل (بتوسطِ محمدؐ و آلِ محمدؐ) تاکہ تم کو جہالت و نادانی کی تاریکیوں سے نکال کر نورِ علم و حکمت کی طرف لے آئیں، اور خدا مومنین پر بڑا مہربان ہے، یہاں سے معلوم ہوا کہ درود کا مقصد علم و حکمت کا نور ہے۔

اسی سورۂ احزاب (۳۳: ۵۶) میں ارشاد ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا۔

ترجمہ: یقیناً خدا اور اس کے فرشتے نبیؐ (اور ان کی آلؑ) پر درود بھیجتے ہیں (تاکہ وہ تم کو پہنچائیں) تو اے ایماندارو تم بھی نبیؐ کے توسط سے اسی درود کے لئے درخواست کرو، اور فرمانبرداری کرو جیسا کہ اس کا حق ہے تاکہ تم کو درود کے ذریعے نورِ علم و حکمت حاصل ہو۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۹؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۱۹۹

 

دائرۂ درودِ شریف

قسط: ۲

 

بحوالۂ مضمونِ سابق اللہ وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اسکے فرشتے بھی یعنی فرشتۂ قلم = نورِ محمدی، فرشتۂ لوح = نورِ علیؑ، جد، فتح، خیال (بتوسطِ محمدؐ و آلِ محمدؐ)۔

اور سورۂ توبہ (۰۹: ۱۰۳) میں ارشاد ہے:

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔

ترجمہ: (اے رسولؐ) تم ان کے مال کی زکوٰۃ لو اور اسکی بدولت ان کو (گناہوں سے) پاک صاف کرو اور ان کے واسطے صلوٰت = دعائے خیر دو یقیناً تمہاری صلاۃ انکے واسطے باعثِ اطمینان ہے اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

 

اس آیۂ کریمہ سے درود کا مطلب اور زیادہ روشن ہوگیا، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ درود شریف ایک خاص نورانی عبادت ہے، آپ کثرت سےدرود شریف کو پڑھتے رہیں اور عالمِ غیب سے فیوض و برکات پر یقین رکھیں۔ درود کی عجیب و غریب خصوصیّت یہ ہے کہ اللہ تعالی خود مومنین پر درود بھیجتا ہے، اس کے فرشتے بھی، رسولِ پاکؐ بھی، اور امامِ زمانؑ بھی، اور مومنین ہر وقت اس کے لئے درخواست کرتے رہتے ہیں۔

 

امامِ زمان علیہ السّلام کی خوشنودی اس امر میں ہے کہ آپ عبادت میں جو کچھ پڑھتے ہیں اس کے ظاہری معنی اور باطنی حکمت کو بھی سمجھ لیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۹؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۰۰

 

قصّۂ حضرتِ طالوت علیہ السّلام

 

سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۶ تا ۲۴۷) میں ارشاد ہے:

أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ۔

ترجمہ: (اے رسول) کیا تم نے موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے سرداروں (کی

 

۲۰۱

 

حالت) پر نظر نہیں کی جب انہوں نےاپنے نبی (شموئیل) سے کہا کہ ہمارے واسطے ایک بادشاہ مقرر کیجئے تاکہ ہم خدا کی راہ میں جہاد کریں (پیغمبر نے) فرمایا کہیں ایسا تو نہ ہو کہ جب تم پر جہاد واجب کیا جائے تو تم نہ لڑو، کہنے لگے جب ہم اپنے گھروں اور اپنے بال بچوں سے نکالے جا چکے تو پھر ہمیں کون سا عذر باقی ہے کہ ہم خدا کی راہ میں جہاد نہ کریں۔ پھر جب ان پر جہاد واجب کیا گیا تو ان میں سے چند آدمیوں کے سوا سب نے لڑنے سے منہ پھیرا اور خدا تو ظالموں کو خوب جانتا ہے، اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ بیشک خدا نے (تمہاری درخواست کے مطابق) طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر کیا۔ تب کہنے لگے اس کی حکومت ہم پر کیوں کر ہوسکتی ہے حالانکہ سلطنت کے حقدار اس سے زیادہ تو ہم ہیں کیوں کہ اسے تو مال کے اعتبار سے بھی فارغ البالی (تک) نصیب نہیں۔ (نبی نے) کہا خدا نے اسے تم پر فضیلت دی ہے اور (مال میں نہ سہی مگر) علم اور جسم کا پھیلاؤ تو اسی کا خدا نے زیادہ فرمایا ہے اور خدا اپنا ملک جسے چاہے دے اور خدا بڑی گنجائش والا (اور) واقف کار ہے، اور انکے نبی نے ان سے یہ (بھی) کہا اس کے (منجانبِ اللہ) بادشاہ ہونے کی پہچان ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسکین دہ چیزیں اور ان تبرکات سے بچا کھچا ہوگا جو موسٰیؑ و ہارونؑ کی اولاد یادگار چھوڑ گئی ہے اور اس صندوق کو فرشتے اٹھائے ہوں گے اگر تم ایمان رکھتے ہو تو بیشک اس میں تمہارے واسطے (پوری) نشانی ہے۔

 

امام ِ اقدس و اطہرؑ کا جسمِ بسیط اور علمِ محیط

 

اللہ تعالی نے حضرت امام علیہ السلام کو جثۂ ابداعیہ عطا فرمایا ہے جس کی تجلّی گاہ ساری کائنات ہے، لہٰذا یہ لطیف جسم حدودِ کائنات میں بسیط ہے، اور ساتھ ہی ساتھ ایسا ہمہ گیر علم دیا ہے جو ہر چیز پر محیط ہے، کیونکہ امام علیہ السّلام اللہ جل شانہٗ

 

۲۰۲

 

کا زندہ اسمِ اعظم اور مظہرِ کل ہے، آپ قرآنِ حکیم میں قصّۂ طالوتؑ کو چشمِ بصیرت سے پڑھیں، حضرتِ شموئیلؑ نبی اور امامِ مستودع تھا، انہوں نے خدا کے حکم سے طالوتؑ کو مَلِک (امام) بنایا، امام کے من عند اللہ مقرر ہونے کی تین نشانیاں بتائی گئیں ہیں: اوّل جسمِ بسیط، دوم علمِ محیط، سوم صندوقِ سکینہ کا لانا، یہ مجموعۂ روحانیّت کی مثال ہے، امامِ عالیمقام کے یہ معجزات اور دیگر معجزات صرف عارفین ہی باطنی طور پر دیکھ سکتے ہیں، اور باقی مومنین و مومنات سب کے سب علم الیقین کی روشنی میں اپنے امام کو پہچان لیتے ہیں، بفرمودۂ قرآن علم الیقین میں چشمِ بینا کی طرح کام کرتا ہے (۱۰۲: ۰۵ تا ۰۷)۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۱۲؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۰۳

 

اللہ تعالیٰ کا خزینۃ الخزائن

 

اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے بے شمار خزانے ہیں اور ان سب پر ایک عظیم خزانہ محیط ہے، جس کا نام عنوانِ ہذا میں خزینۃ الخزائن درج کیا گیا ہے، کیونکہ خدا کی چیزیں انتہائی منظم ہوا کرتی ہیں، آپ سب کو جیسا کہ اس حققیت کا علم ہوچکا ہے کہ خزانۂ کل کا ذکر قلبِ قرآن (۳۶: ۱۲) میں موجود ہے، اور اسکی بابرکت معرفت عالمِ شخصی میں ہے، آپ تمام عزیزان عالمِ شخصی کے حقائق و معارف کو مرتبۂ علم الیقین میں حاصل کر رہے ہیں، علم الیقین معرفت کا پہلا زینہ ہے، علم الیقین کے ساتھ ساتھ باقاعدہ عبادت، ذکر اور گریہ و زاری کرنے سے ان شاء اللہ ایک دن عین الیقین کی منزل آئے گی، عاجزی، دل کی نرمی اور گریہ وزاری ہمیشہ کے لئے ضروری چیزیں ہیں، حقیقی مومن کا قلب بہت ہی نرم ہوا کرتا ہے، دل کی نرمی میں خدا کی رحمت نازل ہوتی رہتی ہے، کیونکہ قساوتِ قلبی (دل کی سختی) سے کئی اخلاقی اور روحانی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں، حقیقی مومن ہمیشہ اپنے ربّ کو یاد کرتا رہتا ہے، جس سے اس کا دل صاف پاک، نرم اورمطمئن رہتا ہے، الحمد لِلّٰہ۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل ۱۳؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۰۴

 

حضرتِ داؤد علیہ السّلام

قسط: ۱

 

داؤد نبی اسرائیل کے مشہور اور جلیل القدر نبی اور بادشاہ تھے، حضرت شموئیلؑ کے زمانہ میں جب جالوت نے بنی اسرائیل کو قتل و غارت کیا تو انہوں نے طالوتؑ کو بنی اسرائیل کا بادشاہ بنا کر جالوت کا مقابلہ کرنے کے لئے بھیجا، طالوتؑ کی فوج میں حضرتِ داؤدؑ اور ان کے چھ بھائی بھی تھے، پرانے زمانے کے قاعدہ کے مطابق جالوت نے طالوتؑ کے لشکر میں ممتاز بہادروں کو مبارزت (مقابلہ ) کے لئے بلایا، حضرتِ داؤد علیہ السّلام میدان میں نکلے، آپ نے تین پتھر فلاخن میں رکھ کر مارے، جالوت سر سے پاؤں تک لوے میں غرق تھا، صرف ماتھا کھلا تھا، پتھر وہیں جا کر لگے اور اس کا کام تمام ہوگیا، حضرتِ داؤد کی یہ بہادری دیکھ کر طالوتؑ نے ان کو اپنا داماد بنا لیا اور اس کے بعد یہی بنی اسرائیل کے بادشاہ ہوئے۔

 

حضرتِ داؤدؑ کی حکومت شام، عراق، فلسطین اور شرقِ اردن کے تمام علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی اور خداوندِ تعالیٰ نے نبوّت کے خلعت سے سرفراز کیا تھا، حضرت داؤدؑ پر اللہ تعالیٰ نے زبور اتاری تھی، آپ اس کو ایسی خوش آوازی کے ساتھ تلاوت کرتے تھے کہ پرندے اور اردگرد کے پہاڑ آپ کے ہمنوا ہوجاتے تھے، اور آپ کے ساتھ مل کر خدا کی تسبیح و تحمید کے ترانے گاتے تھے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۱۴؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۰۵

 

حضرتِ داؤد علیہ السّلام

قسط: ۲

 

حضرتِ داؤد علیہ السّلام کا ذکر قرآنِ حکیم کے سولہ مقامات پر آیا ہے، سورۂ انبیأ (۲۱: ۸۰) میں ارشاد ہے:

وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِنْ بَأْسِكُمْ ۖ فَهَلْ أَنْتُمْ شَاكِرُونَ۔

ترجمہ: اور ہم ہی نے داؤد کو تمہاری جنگی پوشش (زرہ) کا بنانا سکھا دیا تاکہ تمہیں ایک دوسرے کے وار سے بچائے، تو کیا تم اب بھی شکر گزار نہ بنو گے؟

 

یہ اجسامِ لطیف کا ذکر ہے جو داؤدِ زمان (امامِ آلِ محمدؐ) بنا دیتا ہے، خدا مومنین پر اسی جسمِ لطیف کا احسان رکھتا ہے، کیونکہ کوئی بھی جنگ جسمِ لطیف پر اثرانداز نہیں ہوسکتی ہے، جبکہ وہ جنّ اور فرشتہ کی طرح لطیف اور غیر مرئی ہے، وہ اگرچاہے تو مرئی بھی ہوسکتا ہے، یہی جسمِ لطیف لباسِ جنّت بھی ہے اور جثّۂ ابداعیہ بھی، یہی جسم کائنات میں ہرجگہ پہنچ سکتا ہے، اور جسمِ لطیف ہی بہشت کی بادشاہی کا پرواز کرنے والا تخت ہے، اور یقین جانو کہ جثّۂ ابداعیہ روحانیّت کا سب سے بڑا معجزہ ہے، ہم نے جسمِ لطیف کے بارے میں باربار لکھا ہے ، آپ روحانی سائنس کے عجائب و غرائب وغیرہ کو پڑھیں ان شاء اللہ جسمِ لطیف سے متعلق کافی معلومات حاصل ہوں گی۔

 

۲۰۶

 

یہ انسانِ لطیف ہے یا جنّ و پری ہے، یا خود فرشتہ ہے، ہاں یہ سب سے بڑا حیران کن معجزہ ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۱۵؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۰۷

 

حضرتِ داؤد علیہ السّلام

قسط: ۳

 

جو لوگ قرآنِ حکیم کے عاشقِ صادق ہیں وہ کلامِ الٰہی کو اس کی اپنی حکمت سے ساتھ پڑھنے کے لئے سعئ بلیغ کرتے رہتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ اپنے زندہ اسمِ اکبر کے ذریعے سے ان کی مدد کرتا ہے، پس وہ قرآنی حکمت سےفیضیاب ہوتے رہتے ہیں، وہ قرآن کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اللہ کا نور عالمِ دین (عالمِ شخصی) میں خلافت کے نام سے طلوع ہوا تھا، وہ رہتی دنیا تک جاری اور باقی ہے، یہی اشارۂ حکمت ہے کہ قرآنِ عظیم نے حضرت داؤدؑ کو بھی خلیفۃ اللہ کہا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلافتِ الہیہ جو حضرتِ آدمؑ کو عطا ہوئی تھی وہ رہتی دنیا تک موجود ہے، مگر نبوّت آنحضرتؑ پر ختم ہوئی، جبکہ آسمانی کتاب کی وراثت أئمّۂ آلِ محمدؐ میں باقی ہے، پس یہی وارثِ کتابِ سماوی جو خدا اور رسولؐ کی طرف سے ہے اللہ کا وہ نور ہے جو قرآنِ حکیم کے عاشقانِ صادق کے عالمِ شخصی میں طلوع ہوجاتا ہے اور اسی کی روشنی میں قرآن کے تاویلی معجزات کا مشاہدہ ہوتا ہے۔

قرآنِ پاک میں فیصلہ کن آیات کو پڑھنا ہے تو آیاتِ نور کو غور سے پڑھو، مثلاً سوال ہے: یہ حقیقت ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ایسے میں وہ پاک ذات عالمِ دین، عالمِ شخصی اور عالمِ انسانیّت کے لئے نور ہے یا نہیں؟ اور اپنی کتابِ عزیز قرآن کا نور ہے یا نہیں؟ کون کہہ سکتا ہے کہ خدا کائنات کی ہر چیز کے لئے نور ہے اور قرآن کے لئے نہیں، جبکہ آیۂ قد جاء کم میں یہ ارشاد ہے کہ خدا کی طرف سے نور

 

۲۰۸

 

آیا ہے اور کتابِ مبین، یقیناً یہ خدا کا نور قرآن کی باطنی حکمت دکھانے کی غرض سے آنحضرتؐ میں تھا اور آپؐ کے بعد یہ نور حضرتِ مؤول (اساسؑ) میں منتقل ہوگیا، اور اب یہ نورِ پاک امامِ زمان علیہ السّلام میں جلوہ گر ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۱۵؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۰۹

 

حضرتِ داؤد علیہ السّلام

قسط: ۴

 

سورۂ سبا (۳۴: ۱۳) میں ارشاد ہے:

اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا ۚ وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ۔

اس آیۂ شریفہ کے کم سے کم معنی دو ہیں، ایک مثالی معنی ہیں اور دوسرے ممثولی:

۱۔ اے داؤد کی اولاد! ( اے سلیمان اور اس کی کاپیاں) تم اللہ کی ان نعمتوں کی جو بے مثال ہیں عملی طور پر شکرگزاری اور قدردانی کرو، کیونکہ ایسی اعلیٰ نعمتیں بہت کم بندوں کو نصیب ہوتی ہیں۔

۲۔ اے داؤدِ زمانؑ کی خاص روحانی اولاد! تم کو جو اللہ کی روحانی نعمتیں حاصل ہوئی ہیں وہ بہت ہی خاص اور بے مثال ہیں، لہٰذا تم ان کی بہت خاص طور پر شکرگزاری کرو، اور وہ عملی شکرگزاری ہے، یعنی تم ان عظیم نعمتوں سے دین کی خدمت کرو، کیونکہ ایسے لوگ بہت کم ہیں جن کو یہ نعمتیں ملی ہیں۔

 

داؤدِ زمانؑ کی روحانی اولاد کو عملی شکرگزاری کا حکم دینے میں یہ حکمت بھی ہے کہ وہ بحدِّ قوّت سلیمانؑ کی طرح ہیں، پھر وہ علم و عمل سے سلیمانؑ جیسے ہوسکتے ہیں، کیونکہ جہاں خدا شکر کرنےکا حکم دیتا ہے وہاں نعمتیں موجود ہوتی ہیں یا موجود ہوسکتی ہیں، وہ غیر معمولی نعمتوں کے سوا شکرگزاری کا حکم نہیں دیتا ہے، بہت ممکن ہے کہ ہر امام اپنے وقت کا داؤدؑ ہو اور وہ ستر ہزار اجسامِ لطیف بنائے، ہر جسمِ لطیف ایک عالمِ شخصی ہو اور

 

۲۱۰

 

اس میں کائنات بھر کی بہشت ہو، اور مذکورہ آیت کا یہ مطلب ہو کہ اے اہلِ ایمان تم جو بحدِ قوت سلیمانؑ ہو، علم وعمل کی شکر گزاری سے بحدِ فعل سلیمانؑ ہوجاؤ اور جن و انس پر بادشاہی کرو، کیونکہ قرآنِ حکیم میں جو تسخیرِ کائنا ت کا ذکر ہے وہ تسخیرِ کلِ کلیات ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعۃ المبارک  ۱۶؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۱۱

 

حضرتِ داؤد علیہ السّلام

قسط: ۵

 

انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں جب نفخِ صور اور روحانی قیامت کا عالم گیر معجزہ جاری ہوتا ہے تو اس وقت نہ صرف پہاڑوں اور پرندوں کی روحیں بلکہ کل کائنات کی ہر ہر چیز کی روح فرشتۂ جدّ (اسرافیل) کے قیامت انگیز معجزے سے قیامت گاہ میں حاضر ہوکر انسانِ کامل کی ہم نوائی میں اللہ کی حمدیہ تسبیح پڑھتی ہے، دیکھو قرآن (۲۱: ۷۹)، (۳۴: ۱۰)، (۱۷: ۴۴)، (۲۴: ۴۱)۔

 

صورِ اسرافیل کی ہم آہنگی میں آسمان و زمین کی ہر چیز خدا کی تسبیح پڑھتی ہے (۵۷: ۰۱)، (۵۹: ۰۱)، (۶۱: ۰۱) یقیناً صورِ اسرافیل کی تسبیح خوانی میں سرتاسر عالمِ ذر بھی ہمنوائی کرتا رہتا ہے، اور عالمِ ذرّ سے کوئی چیز خارج نہیں، اور یہی قصّہ حضرت داؤدؑ کا بھی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر انسانِ کامل کی روحانی قیامت میں کل کائنات کی ہر ہر چیز کو بحکمِ خدا روحاً (بشکلِ ذرۂ لطیف ) تسبیح کنان حاضر ہوجانا ہے، اس بیان میں ایک طرف سے انسانِ کامل کی روحانی قیامت کی معرفت ہو رہی ہے، دوسری طرف سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ روح کے بغیر کوئی چیز نہیں، اور ہر چیز کی نمائندہ روح ذرّہ لطیف میں آتی ہے، اگرچہ کائنات کی ہر چیز ہمہ وقت زبانِ حال سے تسبیح کرتی ہے، لیکن جب روحانی قیامت برپا ہوتی ہے تو اس وقت معجزۂ اسرافیلی سے ہر شیٔ زبانِ قال سے تسبیح پڑھتی ہے۔

 

اے عزیزان! آپ میں سے کوئی شخص ان عظیم بھیدوں کو معمولی باتیں قرار دیکر

 

۲۱۲

 

ناشکری اور ناقدری نہ کرے، ایسا نہ ہو کہ پھر یہ نعمت ہم سے اٹھا لی جائے، کیونکہ یہ معمولی چیز نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ شکرگزاری میں گریہ و زاری کرتے رہیں تاکہ یہ نعمت کچھ وقت تک جاری رہے!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۱۷؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۱۳

 

عارفانہ موت اور قیامت

قسط: ۱

 

اللہ تعالیٰ کی سنتِ قدیم (۴۰: ۸۵) کے مطابق اس دور میں سب سے پہلے حضرت آدم خلیفۃ اللہؑ عارفانہ موت سے مرکر زندۂ جاوید ہوگیا تھا، اور حضرت جعفر بن منصور الیمن کے بقول اس دور کے آدم کا نام تخوم بن بجلاح بن قوامہ بن ورقۃ الرویادی تھا، اگرہم ان کو خدا کا خلیفۂ اوّل قرار دیں تو یہ ہمارا تصوّر سنتِ الٰہی کے خلاف ہوگا، اس لئے کہ گویا ہم نے یہ سمجھا کہ پہلے خدا کی سنت میں خلافت نہیں تھی پھر بعد میں اس کی سنت میں تبدیلی آ گئی، توبہ توبہ ، نعوذ باللّٰہ، اللہ کی سنت قدیم ہے اور اس میں کوئی تبدیلی ہرگز نہیں۔

 

سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۷) میں جہاں آدمؑ کے دو بیٹوں ہابیلؑ اور قابیل کا قصّہ ہے اس میں ایک بڑا ضروری سوال باقی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے شروع شروع میں جس طرح ظاہری قصّہ سنا تھا وہی یاد رہا تھا، اب اس وقت سوچنے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِذ قربا قرباناً کے اصل معنی کیا ہیں؟ کیونکہ قرآنِ حکیم کے یہ مبارک کلمات تاویلی حکمت کے بغیر نہیں ہوسکتے ہیں، قرب = اس نے نزدیک کیا، قربا = ان دونوں نے نزدیک کیا، پھر بھی سوال اپنی جگہ پر ہے۔

 

آدمؑ نے اپنے دونوں بیٹوں کو الگ الگ یا ایک ساتھ اسمِ اعظم کی سپیشل عبادت سکھلا دی تھی، دونوں کوشش کرتے رہتے تھے، لیکن قابیل پرہیزگاری میں

 

۲۱۴

 

پیچھے تھا، لہٰذا ھابیلؑ عارفانہ موت اور قیامت کی قربانی کے لئے قبول ہوگیا، مگر قابیل اس مقصد میں ناکام ہوگیا، اب دو باتیں ممکن ہیں، کہ قابیل نے اپنے بھائی ھابیلؑ کو یا تو نفسانی طور پر قتل کیا یا جسمانی طور پر۔

 

قابیل کے دل میں پہلے اپنے بھائی سے حسد پیدا ہوا پھر دشمنی، پھر قتل کیا اس لئے اپنے دینی بھائیوں سے حسد رکھنا بہت بڑا گناہ ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

یک شنبہ  ۱۸؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۱۵

 

عارفانہ موت اور قیامت

قسط: ۲

 

سورۂ مومن کے آخر (۴۰: ۸۵) میں ارشاد ہے:

سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ ۖ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ۔

ترجمہ: یہی اللہ کی مقرر سنت ہے جو ہمیشہ اس کے خاص بندوں (کے عالمِ شخصی) میں جاری رہی ہے، اور اس موقع پر کافر لوگ خسارے میں پڑ گئے۔ یہاں کافروں کے خسارے کا ذکر اس لئے ہے کہ عالمِ شخصی میں مومنین کو خدا کی سنت کی جو معرفت حاصل ہوتی ہے اس کے عظیم فائدے بےشمار ہیں، پس حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کے عالمِ شخصی میں اللہ کی سنتِ قدیم کے مطابق ہرگونہ معجزات کا ظہور ہوا تھا، اور حضرت ھابیل علیہ السّلام کے عالمِ شخصی میں بھی یہی سنتِ الٰہی گزری تھی، ہابیلؑ کی قربانی قبول ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ عارفانہ موت اور قیامت کی تمام قربانیوں سے گزر کر زندۂ جاوید ہوگیا ، جبکہ قابیل حسد اور دشمنی کی وجہ سے ہر سعادت اور ہر درجہ سے محروم رہا۔

بحوالۂ کتابِ سرائر۔ص ۵۲: اور حضرتِ ہابیل علیہ السّلام نے اپنی جگہ ایک مقدّس اور بلیغ حد قائم کیا، جس کو حدودِ دین کی اصطلاح میں ستر یا حجاب کہا جاتا ہے، اور خود ہابیلؑ کہفِ تقیہ میں داخل ہوگیا، اور اپنے کام کو دشمنوں سے مخفی رکھا، اور پوشیدہ طور پر اپنے داعیوں کو پھیلا دیا، تاکہ اللہ کی توحید کی دعوت قائم ہو، اس کے بعد حضرتِ

 

۲۱۶

 

شیثؑ اس کا جانشین ہوا اور شیثؑ کا نام ھبۃ اللہ بھی ہے، جس کو خدا نے دشمنوں پر غلبہ دینے کا وعدہ فرمایا ۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۱۹؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۱۷

 

عارفانہ موت اور قیامت

قسط: ۳

 

اس سلسلے میں فرشتۂ عزرائیل کی معرفت بھی ضروری ہے جس کا نام قرآنِ پاک میں ملک الموت (فرشتۂ موت) ہے، (۳۲: ۱۱)، وہ بفرمانِ خداوندی ہر فردِ بشر پر مؤکل ہے یعنی ہمیشہ مقرر ہے، جو کچھ عالمِ اکبر میں ہے اور جو کچھ عالمِ دین میں ہے وہ سب کچھ عالمِ شخصی میں موجود ہے، چنانچہ انسان میں بحدِّ قوّت عظیم فرشتے موجود ہیں، ان کو روحانی اور علمی ترقی سے حدِّ فعل میں لانے کی ضرورت ہے، مگر یہ اصول یاد رہے کہ ہر سردار فرشتے کے تحت لشکر کے طور پر بےشمار روحیں کام کرتی ہیں، پس یہ خدا کی بہت بڑی عجیب و غریب حکمت ہے کہ آپ میں جو قوّتِ عزرائیلی ہے اس کے لشکر میں اکثر ایسے لوگوں کی روحیں ہیں جو آپ کے مخالف ہیں یا آپ سے حسد اور عداوت رکھتے ہیں، پس جب حضرتِ ہابیلؑ جیتے جی عارفانہ موت سے مرنے لگا تو اس وقت لشکرِ عزرائیلی میں قابیل کی روح کا کردار نمایان تھا، لہٰذا ہابیلؑ کی موت تاویلاً قابیل کی وجہ سے ہوئی۔

غراب کی ایک تاویل میں نے بتائی ہے، یہاں دوسری تاویل بتوفیقِ خداوندِ قدوس بتائی جاتی ہے کہ غراب فرشتۂ عزرائیل ہے جو خدا کی طرف سے آکر ہابیل کی قوّتِ عزرائیلیہ سے مل کر کام کرنے لگا، غراب = کوا زمین میں کریدتا تھا اور ایک دوسرے کوے کو دفناتا تھا، عملِ عزرائیلی بالکل ایسا ہی ہے ، عالمِ شخصی سے کرید کرید کر گہرائی سے روح کو نکالنا، پھر کائناتی روح سمیت واپس جسم میں ڈالنا اور بارہا ایسا کرنا، یہ

 

۲۱۸

 

ہے غراب کی دوسری تاویل، الحمد لِلّٰہ!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۱۹؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۱۹

 

خانۂ کعبہ = بیت المعمور= اساس (امام)

 

سورۂ ابراہیم (۱۴: ۳۵ تا ۳۷) میں ارشاد ہے۔

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ  رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ ۖ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ  رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ۔

ترجمہ: اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم نے (خدا سے) عرض کی تھی کہ پرودردگار! اس شہر(مکہ) کو امن و امان کی جگہ بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے بچا لے کہ بتوں کی پرستش کرنے لگیں۔ اے میرے پروردگار! اس میں شک نہیں کہ ان بتوں نے بہتیرے لوگوں کو گمراہ بنا چھوڑا، تو جو شخص میری پیروی کرے تو وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو یقیناً تو درگزر کرنے والا مہربان ہے، اے ہمارے پروردگار! میں نے ایک بیابان وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصّے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے تاکہ اے ہمارے پروردگار! یہ لوگ برابر یہاں نماز پڑھا کریں تو تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر اور

 

۲۲۰

 

انہیں طرح طرح کے پھلوں سے روزی عطا کر تا کہ یہ لوگ (تیرا) شکر کریں۔

 

تاویلی حکمت: شہر مکہ = امن و امان کی جگہ = حظیرۂ قدس جو امامِ زمانؑ کی معرفت اور امن و امان کا مقام ہے، اصنام پرستی = پیشوایانِ باطل کی پیروی۔ ابراہیمؑ کا قول: جو شخص میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے، یعنی وہ حقیقت میں میری روحانی اولاد ہے، وہ ان تمام روحانی معجزات کو دیکھے گا جن کو میں نے دیکھا ہے، یہی حقیقی پیروی ہے۔

 

معزز گھر = کعبہ = بیت المعمور = اساسؑ = امامِ زمانؑ کا نور جو حظیرۂ قدس میں ہے، حضرتِ ابراہیمؑ نے خدا کے حکم سے اپنے فرزندِ جگربند حضرتِ اسماعیلؑ (امام = اساس) کو خانۂ کعبہ کے پاس بیابان میں ٹھہرایا تھا، اس کی حکمت یہ ہے کہ عارف کو امامِ زمانؑ کی معرفت عالمِ شخصی کی زمین پر مکمل نہیں ہوتی ہے ( اگرچہ یہ زمین اپنے دل آویز مناظر کی وجہ سے بہشتِ برین کا ایک زندہ نمونہ ہے) جب تک کہ وہ حظیرۂ قدس میں نہیں پہنچتا، حالانکہ وہ ایک بیابان مقام جیسا لگتا ہے، اور اسی تصوّر میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں، ان شاء اللہ موقع کی مناسبت سے بعض حکمتیں بیان کریں گے۔

 

حضرتِ ابراہیمؑ نے اپنی دعا کے سلسلے میں عرض کی: تاکہ یا ربّ! یہ میری اولاد = أئمّہؑ نماز یعنی دعوت کو قائم کریں، پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان اماموں کی طرف مائل کر دے ، اور ان کو روحانی، علمی، عقلی اور عرفانی ثمرات سے رزق عطا کر، تاکہ یہ لوگ تیرا شکر کریں یعنی تیری قدرت اور علم و حکمت کو سمجھیں اور شکر گزاری اور قدردانی کریں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۲۱؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۲۱

 

حظیرۂ قدس کے عظیم حکمتی اشارے

قسط: ۱

 

حظیرۂ قدس کا سب سے عظیم علمی و عرفانی سرچشمہ کتابِ مکنون ہے، جس میں قرآنِ کریم کے تمام تاویلی اسرار جمع ہیں، ان عظیم الشّان بھیدوں میں سے ایک خاص بھید یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ موجودہ کائنات کو لپیٹ کر فنا کردے گا اور اس کی جگہ ایک نئی کائنات کو پیدا کرے گا، آپ کو خدا کے اس امر کی بہت سی شہادتیں مل سکتی ہیں، اسمائےصفات سے بھی، آیاتِ قرآن سے بھی، کیونکہ جو راز کتابِ مکنون میں ہے وہ قرآن میں بھی ہے، اور جو کچھ قرآن میں ہے وہ اللہ کے اسمائے صفات میں بھی ہے، کائنات میں بھی ہے اور انسان میں بھی ہے، مثال کے طور پر قرآن (۱۳: ۳۹) میں دیکھو:        يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ۔

اللہ جو کچھ چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے، ام الکتاب اسی کے پاس ہے، اگر کسی شخص کو اس آیۂ شریفہ میں کوئی سوال پیدا ہوتا ہے تو اس کا جواب خود اسی آیت کے آخر میں موجود ہے، وہ ہے ام الکتٰب۔ ام الکتٰب علیؑ کا نام ہے، نیز سورۂ قصص کے آخر (۲۸: ۸۸) میں دیکھیں۔

کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلّا وَجْھَہٗ۔

ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے وجہ اللہ (علیؑ) کے ۔ آیۂ کریمہ کے آخر (وجہ اللہ) میں جواب موجود ہے ہر اس سوال کے لئے جو اس آیت سے متعلق

 

۲۲۲

 

ہو۔

 

قرآنِ مقدّس (۱۴: ۴۸) میں دیکھ لیں: ایک دن اس کائنات کی جگہ دوسری کائنات ہوگی، سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۴) میں زیادہ غور سے دیکھیں: اللہ تعالیٰ نے جس طرح کائنات کو اس سے پہلے بنائی تھی اسی طرح دوبارہ بنانے والا ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۲۱؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۲۳

 

حظیرۂ قدس کے عظیم حکمتی اشارے

قسط: ۲

 

حظیرۂ قدس عالمِ شخصی کا وہ بلند ترین مقام ہے جس کے کئی مقدس نام ہیں، جیسے ظہورگاہِ امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲)، معرفت کی غرض سے نزدیک لائی ہوئی بہشت، آدمؑ کی جائے پیدائش، نوحؑ کا وہ مقام جہاں کشتیٔ نجات ٹھہر گئی تھی یعنی جہاں کوہِ جودی ہے، جہاں آدمؑ و حوّاؑ کی بہشت ہے، جہاں تک ادریسؑ کو بلند کیا گیا تھا، جہاں مقامِ ابراہیمؑ ہے، جہاں حجرِ ابیض ہے، جہاں کوہِ طور ہے، جہاں مریمؑ نے حضرت عیسیٰؑ کو جنم دیا تھا، جہاں عیسیٰؑ اور مریمؑ کو بلند مقام اور چشموں کی جگہ دی گئی تھی، جہاں مقامِ محمود اور مقامِ معراج ہے، جہاں عالمِ وحدت ہے، جہاں مرتبۂ فنا فی اللہ ہے، جہاں خدا اپنے بندۂ مقرب کی آنکھ، کان، ہاتھ اور پاؤں ہوجاتا ہے، جہاں عارف کنزِ مخفی کو حاصل کرلیتا ہے، جہاں مونوریالٹی کا راز سمجھ میں آتا ہے، جہاں عارف اپنے آپ کو آدمؑ کے ساتھ دیکھتا ہے کبھی فرشتہ اور ساجد، کبھی آدمؑ اور مسجود۔

اگر میں حظیرۂ قدس کے اسرار کو اس سے آگےبیان کروں تو میرے بعض شاگرد ناوقت انا الحق کا نعرہ لگائیں گے، اور وہ مولا کو منظور نہیں، اس لئے یہی طریقہ بہتر ہے کہ شرابِ معرفت کم کم پیا کریں، تاکہ کوئی شخص حد سے نہ گزرے۔

شرابِ معرفت صد بار خوردم

زجامِ مصطفیٰ الحمدلِلّٰہ

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۲۲؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۲۴

 

حظیرۂ قدس کے عظیم حکمتی اشارے

قسط: ۳

 

سورۂ دہر (۷۶: ۰۱) ترجمہ: کیا انسان پر زمانِ ساکن (دہر) میں سے ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے  جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا؟ کیا یہ لامکان کا ظہور ہے؟ یا یہ معجزۂ ازل ہے؟ یا حالتِ فنا ہے؟ یا ایک ساتھ ابداع و انبعاث ہے؟ کیا اسی مقام پر انسان کی جائے ابتدأ اور جائے بازگشت ہے؟

 

سورۂ انعام (۰۶: ۹۴) میں ٹھیک طرح سے سوچنے کی ضرورت ہے، جس طرح نفسِ واحدہ سے سب لوگ پھیل گئے تھے اسی طرح سب کے سب اس میں جمع ہوجاتے ہیں اور ان سب کا مجموعہ، نمائندہ اور جانوں کی جان نفسِ واحدہ ہوتا ہے، یہی روحِ کاملہ عارفانہ موت اور روحانی قیامت کے تمام مراحل سے گزر کر حظیرۂ قدس میں پہنچ جاتی ہے، اور اسرارِ معرفت کا مشاہدہ کرتی ہے، یہ عظیم راز فراموش نہ ہو کہ قربِ خاص ہی مقامِ وصل اور مقامِ فنا ہے، جب انسان فنا فی اللہ ہو جاتا ہے، تو اس کے لئے سب سے بڑے معجزے ہوتے ہیں۔

 

جب خدا اپنے عارف کی آنکھ ہوجاتا ہے تو وہ خدا کو دیکھتا اور پہچانتا ہے، خداوندِ تعالیٰ اپنے نورِ منزل (مظہر) کی صورت میں دیدار دیتا ہے، کبھی خواب میں، کبھی بیداری میں، خصوصاً حظیرۂ قدس میں ہردیدار عظیم حکمتی اشاروں سے پُر ہے، اور جب خدا عارف کا ہاتھ ہوجاتا ہے، تو وہ کتابِ مکنون کو ہاتھ میں لے سکتا ہے،

 

۲۲۵

 

جس کا راز انتہائی عظیم الشّان ہے، اے عزیزان! ان اسرار کو بیان کرتے کرتے خوف سے میری جان نکلتی ہے کہ کہیں ان کی ناشکری اور ناقدری نہ ہوجائے، ایسا نہ ہو کہ ہم جس کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں، آپ میرے لئے بھی دعا کریں کہ مجھ میں فخر پیدا نہ ہوجائے۔

 

جب مومنین و مومنات دیدار کی ان باتوں پر یقین کر کے عاشقانہ آنسو بہائیں گے تو ان شاء اللہ ان کو بھی پاک دیدار نصیب ہوگا۔ آمین!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعۃ المبارک  ۲۳؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۲۶

 

حظیرۂ قدس کے عظیم حکمتی اشارے

قسط: ۴

 

مشرقین (دو مشرق) عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ۔

مغربین (دو مغرب) ناطقؐ اور اساسؑ۔

مشارقِ انوارِ علم و حکمت، مغاربِ انوار علم و حکمت۔

وہ مقدس و مبارک زمین جس کے سورج، چاند اور انجم علم و حکمت کے ساتھ بار بار طلوع و غروب ہوتے رہتے ہیں، جس کے شمس و قمر اور ستارگان کے لئے واحد مشرق و مغرب ہے، سبحان اللہ!

اس کے ناموں میں سے ایک نام وادیٔ مقدسِ طویٰ ہے (۲۰: ۱۲)، طویٰ کا اشارہ ہے جہاں ساری کائنات لپیٹ لی جاتی ہے، قرآن میں دیکھیں: نطویٰ (۲۱: ۱۰۴) مطویات (۳۹: ۶۷)۔

یہ وہ بہشت ہے جس میں داخل ہو جانے سے بنی آدم اپنے باپ آدمؑ کی صورت پر ہوجاتے ہیں، اور آدمؑ رحمان کی صورت پر تھا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۲۴؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۲۷

 

حظیرۂ قدس کے عظیم حکمتی اشارے

قسط: ۵

 

ارضِ مقدس کے خورشید و ماہ اور انجم کے مسلسل طلوع و غروب میں ہمیشہ کتابِ مکنون کے اسرار چمکتے نظر آتے ہیں، پھر بھی یہ بھید ختم نہیں ہوتے۔

 

فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ۔

اور میں تمام ستاروں کے یکجا مغرب کی قسم کھاتا ہوں اور اگر تم جانو تو یہ بہت بڑی قسم ہے، اس قسم کی عظمت سمجھنا علم سے مشروط ہے( ۵۶: ۷۵ تا ۷۶) یہ وہ سرزمین ہے جس میں خدا نے ہر عالمِ شخصی کے لئے برکتیں رکھی ہیں (۲۱: ۷۱؛  ۰۷: ۱۳۷) یقیناً یہ وہ مکانی اور لامکانی بہشت ہے جو کائنات کے طول و عرض پر محیط ہے، اور اس میں برکتیں ہی برکتیں ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو اس بہشت کا وارث بنائے گا، اس میں علم و حکمت اور معرفت کے ثمرات ہوںگے۔

کتابِ مکنون ایک بے مثال نور ہے جو اس بہشتِ برین میں شمس و قمر اور انجم کی صورت میں علم وحکمت کی ضیا پاشی کرتی رہتی ہے، مزید بران یہ یداللہ کے ہر فعل کا نمونہ پیش کرتی رہتی ہے، جیسے کائنات کو لپیٹنا اور پھر اس کو پھیلانا، اور کوئی خداوندی انعام کسی کو دینا وغیرہ۔

 

کتابِ مکنون کے اسرارِ عظیم بہت زیادہ ہیں، یہ مومنین و مومنات کا وہ نمائندہ نور ہے جو ان کے آگے اور دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا (۵۷: ۱۲) نیز (۶۶: ۰۸) اس

 

۲۲۸

 

نور کا ایک زبردست معجزہ یہ بھی ہے کہ کبھی آسمان اور زمین کو ایک کرکے دکھاتا ہے اور کبھی الگ الگ کردیتا ہے، یہ نور صراطِ مستقیم اور سلامتی کے راستوں پر چلنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے، تمام تاویلاتی اشارے اسی نور کی طرف سے ہوتے ہیں، کیونکہ یہ قلمِ اعلیٰ کا نمائندہ ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

اتوار ۲۵؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۲۹

 

حظیرۂ قدس کے عظیم حکمتی اشارے

قسط: ۶

 

سورۂ نحل (۱۶: ۱۲) میں ارشاد ہے: ترجمہ: اس نے تمہاری بھلائی کے لئے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخرکر رکھا ہے اور سب تارے بھی اسی کے حکم سے مسخر ہیں اس میں بہت نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔

 

حظیرۂ قدس عالمِ وحدت ہے، لہٰذا وہاں سورج، چاند سب ستارے مجموعاً نورِ واحد ہیں، جو شمس و قمر اور تمام انجم کے کاموں کو یہی نور انجام دیتا ہے، اور یہی کتابِ مکنون بھی ہے، جس میں آسمان و زمین کی ہر چیز مسخر کی گئی ہے، کائنات اور اس کی تمام اشیاء  کی تسخیر کی جملہ مثالیں اور نمونے اور تمام حکمتی اشارے کتابِ مکنون (نورِ واحد) میں موجود ہیں، مثالوں اور اشاروں کو سمجھنے کے لئے زبردست علم و حکمت کے ساتھ ساتھ تائیدِ غیبی کی بھی سخت ضرورت ہے، لیکن کتابِ مکنون کو صرف وہی لوگ چھو سکتے ہیں جو اس عظیم مقصد کے لئے پاک کئے گئے ہیں ( مطھرین = ۵۶: ۷۹)۔

امامِ زمان علیہ السّلام نے اس دفعہ کراچی میں کئی بار ارشاد فرمایا: “دانا ہوجاؤ” یہ پاک فرمان اگرچہ جملہ جماعت کےلئے ہے، تاہم جو لوگ دینی علم و حکمت کے عاشق ہیں، ان کے لئے مبارک بادی ہے کہ ان کو پہلے ہی سے اس عظیم الشّان عمل کی توفیق عطا ہوئی ہے، الحمد لِلّٰہ! جب بھی حضرتِ امامؑ اپنے کسی مرید کو اسمِ اعظم عطا فرماتا ہے ، اس کا عظیم مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ مرید روحانی ترقی کر کے اپنے مولا و

 

۲۳۰

 

آقا سے روحانی علم و حکمت حاصل کرے، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بڑا کام دنیوی کاموں کی غرض سے نہیں دیا جاتا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر ۲۶؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۳۱

 

اللہ تعالیٰ نے امامِ زمانؑ کو عالمِ شخصی کا نور مقرر کیا ہے

قسط: ۱

 

سورۂ حدید (۵۷: ۲۸) میں ارشاد ہے:-  ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو( جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے) اور اس کے رسول (محمدؐ) پر (حقیقی معنوں میں) ایمان لاؤ اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دہرا حصّہ عطا فرمائے گا اور تمہیں ایک نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے اور تمہارے قصور معاف کردے گا، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔

 

سوال: معلوم ہوا کہ یہ پاک و مبارک نور چلنے کی غرض سے ہے لیکن سوال ہے کہ کہاں کہاں چلنا ہے؟ ارشاداتِ قرآنی کے مطابق جواب ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نورِ ہدایت ہے جس کی روشنی میں صراطِ مستقیم پر چلنا ہے، سلامتی کے راستوں پر چلنا ہے، اور عالمِ شخصی میں چلنا ہے، جیسا کہ حکیم پیر ناصرخسرو(ق۔س) اپنے دیوان میں فرماتے ہیں:

برجانِ من چو نورِ امامِ زمان بتافت

لیل السرار بودم و شمس الضحےٰ شدم

جب میری روح = جان (میرے عالمِ شخصی ) پر امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہوا میں (قبلاً) شبِ تاریک تھا (اب میں) روزِ روشن کی طرح ہوگیا ۔

 

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ خدا کے حکم سے امامِ زمانؑ کا نور ہر کامیاب

 

۲۳۲

 

عالمِ شخصی میں طلوع ہوتا ہے، کیونکہ ہر عارف کے لئے خود شناسی اور خدا شناسی عالمِ شخصی ہی میں ہے، عارفِ رومی کہتا ہے:

گنجِ نہانی طلب، ازدل و از جانِ خویش

تا نہ شوی بے نوا، بر درِ دکانِ خویش

گنجِ مخفی کو اپنے دل اور اپنی جان سے طلب کر، تاکہ تو اپنی مقفل اور بند دکان کے دروازے کے سامنے مفلس بن کر بیٹھ نہ جائے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل  ۲۷؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۳۳

 

اللہ تعالیٰ نے امامِ زمانؑ کو عالمِ شخصی کا نور مقرر کیا ہے

قسط: ۲

 

سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) میں ارشاد ہے:

قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ۔

ترجمہ: تمہارے پاس (یعنی تمہارے ظاہر و باطن میں) اللہ کی طرف سے نور آیا ہے اور کتابِ مبین آئی ہے۔ جب اللہ کا نور اہلِ ایمان کے پاس آیا تو یقیناً ظاہر کے مقابلے میں باطن = عالمِ شخصی زیادہ منور ہوا، اور ظاہر میں جتنی بھلائی ہوئی وہ بھی روحوں کی اصلاح کی وجہ سے تھی، پس اللہ کا یہ پاک نور آنحضرتؐ کے مبارک و مقدس عالمِ شخصی میں تھا، اور آپؐ کے بعد آپ کے جانشین اعنی حضرتِ علیؑ میں یہ نور جلوہ گر ہوا، اور کتابِ مبین ظاہر میں محدود نہیں بلکہ وہ تنزیلاً ظاہر میں اور تاویلاً باطن میں ہے، کیونکہ عالمِ شخصی بے حد ضروری ہے، جبکہ یہ عالمِ ظاہر اور عالمِ دین دونوں کا مجموعہ ہے۔

عالمِ شخصی کی زبردست اہمیت کا راز مولا علیؑ کے مشہور شعر سے کھلتا ہے، جس کا ترجمہ ہے: کیا تیرا یہ گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے؟ درحالیکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے، اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام نے بھی انسان کو ایک مستقل عالم قرار دیا ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ انسان ایک دائمی عالم ہے۔

 

۲۳۴

 

اللہ تعالیٰ نے اس مادّی کائنات کے لئے ایک مادّی نور یعنی سورج کو مقرر کیا ہے، پھر اس کی قدرت اور حکمت کا یہ تقاضا ہوا کہ عالمِ شخصی جو ایک زندہ عالم ہے اس کے لئے ایک زندہ نور ہو، پس اللہ تعالیٰ نے امامِ زمانؑ کو عالمِ شخصی کے لئے نورِ کامل و مکمل مقرر فرمایا، اَلحَمدُ لِلّٰہ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحسانِہٖ۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل  ۲۷؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۳۵

 

اللہ تعالیٰ نے امامِ زمانؑ کو عالمِ شخصی کا نور مقرر کیا ہے

قسط: ۳

 

قرآنِ عظیم سرتا سر معجزاتِ الٰہی سے مملو (بھرا ہوا) ہے، ان تمام معجزوں میں آیاتِ نور کے معجزات سب سے زیادہ حیرت انگیز اور سب سے زود فیصلہ کن ہیں، اور بہت بڑی عجیب و غریب حکمت یہ ہے کہ ان سب آیات و معجزات کا ایک مرکزِ وحدت بھی ہے، وہ ہے آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) جس کا مضمون ہے: اللہ ساری کائنات کا نورِ ہدایت ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا یہ ذاتِ سبحان کی تعریف ہے یعنی آیا اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ بذاتِ پاکِ خود سورج، چاند، انجم اور بجلی کی طرح اس مادّی کائنات کا نور ہے؟ یا یہ اس کے نمائندہ نور (مظہر) کی تعریف ہے؟ آپ ہرگز یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا کا کوئی نمائندہ نور نہیں، جبکہ قرآن میں اللہ کی طرف سے نور آنے کا ذکر ہے، آپ خود آیۂ مصباح میں غور سے دیکھیں تو کم سے کم تین بار اللہ کے نمائندہ نور کا ذکر ہے: اول: مَثَلُ نُوْرِہ میں ، دوم: نُوْرٌ عَلیٰ نُوْرٍ میں، سوم: یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یِّشَآءُ میں۔

پس یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ عالمِ شخصی میں خدا کا نمائندہ نور امامِ زمان علیہ السلام ہے، چونکہ امامِ زمانؑ اللہ کا زندہ اسمِ اعظم بھی ہے، لہٰذا عارف کے عالمِ شخصی میں تمامتر معجزات امامِ زمانؑ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۲۸؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۳۶

 

اللہ تعالیٰ نے امامِ زمانؑ کو عالمِ شخصی کا نور مقرر کیا ہے

قسط: ۴

 

سورۂ حدید (۵۷: ۱۲ تا ۱۴) میں مومنین و مومنات کے جس نور کا ذکر آیا ہے، وہ امامِ زمان علیہ السّلام کا نورِ اقدس ہی ہے، اور یہ دنیا ہی میں کسی عارف کے عالمِ شخصی کا معجزۂ عرفانی کا قصّہ ہے اور مقامِ جبین (حظیرۂ قدس) ہے، آپ سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) میں بھی دیکھیں، قرآنِ حکیم کے اندر دونوں مقدس حوالوں میں اسرارِ معرفت کا بہت بڑا خزانہ موجود ہے۔

 

نور کے دوڑنے میں کیا راز ہے؟ البتہ اس میں یہ اشارہ ہے کہ نور ہمہ رس ہے اور ہر چیز پر محیط ہے، ہر دور اور ہر زمانے میں موجود ہے، اور اگر یہ مانا جائے کہ نہ صرف پچاس ہزار سال کا ایک دور ہے بلکہ چھ کروڑ برس کا بھی ایک بڑا دور ہے، نور اپنی سعی (دوڑ) سے یہ بتاتا ہے کہ اس کے علمی و عرفانی احاطے سے کوئی دور اور کوئی شیٔ باہر نہیں وہ ہر چیز سے باخبر ہے، سورۂ حدید (۵۷: ۱۳) کے مطابق ہر ایسی روحانی قیامت کے بعد مومنین اور منافقین کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے، جس میں ایک دروازہ ہوتا ہے، جس کے اندر کی طرف رحمت ہی رحمت ہے اور باہر کی طرف عذاب۔

 

آپ ان مقالوں میں درج شدہ تمام آیاتِ کریمہ کو خوب غور کے ساتھ قرآن میں پڑھیں بے حد ضروری ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِ علی) ہونزائی

بدھ  ۲۸؍ فروری ۲۰۰۱ء

 

۲۳۷

 

اللہ تعالیٰ نے امامِ زمانؑ کو عالمِ شخصی کا نور مقرر کیا ہے

قسط: ۵

 

سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) کا ترجمہ ہے: اور ہم نے موسٰیؑ اور ان کے بھائی ہارونؑ کے پاس وحی بھیجی کہ مصر (عالمِ شخصی) میں اپنی قوم کے (رہنے سہنےکے) لئے گھر بناؤ۔ اس حکم میں یہ حکمت ہے کہ پیغمبر اور امام اپنے مومنین کے لئے کبھی ظاہری اور مادّی گھر بنا کر نہیں دیتے، بلکہ ان کو روحانی گھروں میں بساتے ہیں، یعنی ان کو عالمِ شخصی میں تیار شدہ اجسامِ لطیف عطا کرتے ہیں، اور اللہ کا یہ حکم کہ تم اپنے ان گھروں کو قبلہ بناؤ یعنی تم اپنے جسمِ لطیف کو ترقی دے کر خانۂ خدا بنا سکتے ہو (تمہارا جسمِ لطیف جثّۂ ابداعیہ ہو سکتا ہے) یہ ہوا اپنے گھروں کو قبلہ بنانا۔

 

یہ سب سے عظیم کارنامہ اس لئے ممکن ہوگا کہ خدا اور اس کے محبوب رسولؐ نے امامؑ کو عالمِ شخصی کی روحانی ترقی کیلئے مقرر کیا ہے اور یہی امامِ عالی مقامؑ عالمِ شخصی میں نمائندہ نور ہے، اور آخر میں مومنین کو خوشخبری دینے کا حکم ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر زمانے کے مومنین کو اپنےامامؑ سے ایسے انعامات حاصل ہوں گے۔

 

مصر= ہر وہ شہر جس کی حدبندی ہو، ایک معروف شہر کا نام (قاموس القرآن) مصر یہاں تاویلاً عالمِ شخصی ہے۔

 

نوٹ: اپنے اپنے جسمِ لطیف کو قبلہ (خانۂ خدا) بنانے میں ناطقؑ ، اساسؑ، اور امامؑ سب سے آگے اور رہنما ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات یکم مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۳۸

 

اللہ تعالیٰ نے امامِ زمانؑ کو عالمِ شخصی کا نور مقرر کیا ہے

قسط: ۶

 

عالمِ شخصی میں امامِ زمان علیہ السّلام کی مکمل اور اعلیٰ معرفت حاصل کرنے کے لئے رضاکارانہ طور پر عارفانہ موت اور روحانی قیامت سے گزرنا پڑتا ہے، جس میں حیاتِ سرمدی ہے، اور اس سب سے عظیم کارنامے کا خداوندی حکم قرآنِ حکیم (۰۸: ۲۴) میں موجود ہے:

 

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسول تمہیں اس چیز (یعنی اسمِ اعظم کی عبادت) کی طرف دعوت کرے جو تمہیں ابدی زندگی بخشنے والی ہے اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے قلب کے درمیان حائل ہے (یہاں ایک عظیم تاویلی راز پوشیدہ ہے)۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  یکم مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۳۹

 

اللہ تعالیٰ نے امامِ زمانؑ کو عالمِ شخصی کا نور مقرر کیا ہے

قسط: ۷

 

سورۂ نسا ٔ(۰۴: ۱۷۴ تا ۱۷۵) ترجمہ: لوگو! تمہارے ربّ کی طرف سے تمہارے پاس دلیلِ روشن آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایک (مجسّم) نور نازل کیا ہے (چونکہ نور ہمیشہ زندہ شخصیت میں ہوتا ہے اس لئے نورِ مجسّم کہنا درست اور حقیقت ہے) پس جن لوگوں نے درحقیقت خدا پر ایمان لایا اور اسی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لی ان کو اللہ اپنی رحمت اور اپنےفضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کے سیدھے راستے پر ان کو چلا لے گا۔

 

دلیلِ روشن یقیناً حضرتِ رسولؐ ہیں، اور نورِ مبین علیؑ (امام) ہے، نور یا تو زندہ فرشتۂ سماوی ہوتا ہے یا زندہ فرشتۂ ارضی ہوتا ہے، جبکہ عالمِ بالا میں نورِ محمدی فرشتۂ عقل اور قلم ہے، نورِ علیؑ فرشتۂ نفسِ کلّ اور لوحِ محفوظ ہے، یعنی خدا کی ہر خاص چیز نور اور زندہ فرشتہ ہے، پس امامِ زمانؑ نورِ عالمِ شخصی بھی ہے، فرشتۂ سماوی بھی ہے، فرشتۂ ارضی بھی ہے، اور اللہ کی وہ بولنے والی کتاب بھی ہے جو اللہ کے پاس ہے (۲۳: ۶۲؛  ۴۵: ۲۹) جو اہلِ ایمان کا نامۂ اعمال بھی ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  یکم مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۴۰

 

دنیا پر آخرت کو ترجیح نہ دینا سب سے بڑی جہالت ہے

 

ترجمۂ آیۂ شریفہ (۱۰: ۰۷ تا ۰۸): حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور جو لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں ان کا آخری ٹھکانا دوزخِ جہالت ہوگا ان برائیوں کی پاداش میں جن کا اکتساب وہ کرتے رہے۔

 

سوال: یہ آیات کونسی ہیں جس سے لوگ غافل ہیں؟ آیاتِ قرانی؟ آیاتِ کائنات؟ آیاتِ ذات (عالمِ شخصی)؟ نہیں یہ بات نہیں، قرآنی آیات سے مسلمانانِ عالم کیسے غافل ہوسکتے ہیں، ذات و کائنات پر سائنسدان تحقیق کر رہے ہیں، اور یہ کوشش جاری ہے، اب رہیں صرف وہ آیات جن کا ذکر حضرت مولانا علی علیہ السّلام کے ارشاد میں ملتا ہے، مولا نے فرمایا:

 

اَنا اٰیاتُ اللّٰہِ الکُبرٰی الّتی اراھا اللّٰہُ فرعَونَ۔

یعنی میں اللہ تعالیٰ کی آیاتِ کبریٰ ہوں جو اللہ نے فرعون کو دکھائیں اور فرعون نے عصیان اور نافرمانی کی۔

 

پس مولا علیؑ امامِ زمانؑ اور مجموعہؑ حضراتِ أئمّہؑ کے معنی میں اللہ کی عظیم آیات ہیں، اور اب معلوم ہوا کہ لوگ اللہ کی ان آیاتِ کبریٰ سے غافل ہیں، امامؑ اور أئمّہؑ خدا کے سب سے بڑے معجزات (آیات) ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۲؍مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۴۱

 

تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت

قسط: ۱

 

قرآنِ حکیم، احادیثِ نبوّی اور ارشاداتِ أئمّہ علیھم السّلام میں معرفت کے خزانے بھرے ہوئے ہیں، انہی خزانوں سے بزرگانِ دین کی کتابیں بھی معمور اور ذیلی خزانوں کی صورت میں ہیں، اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرتِ امامؑ کے بعض عالی ہمت عشاق چشمِ باطن سے معرفت کے معجزات کا مشاہدہ کریں تاکہ علم الیقین کے درجے میں جو کچھ سنا تھا اس کی تصدیق عین الیقین سے کرسکیں، کیونکہ یقین کے تینوں درجے مومنین ہی کے لئے ہیں۔

 

کتابِ سرائر وغیرہ کے مطابق قرآنِ حکیم میں جس طرح آدمؑ کا قصّہ ہے، وہ بطریقِ حکمت بے شمار آدموں کا قصّہ ہے، کیونکہ آدمؑ نفسِ واحدہ ہے اور ہر قیامت کے لئے ایک نفسِ واحدہ ہوتا ہے، جس میں صورِ قیامت کی طاقت سے تمام نفوسِ خلائق جمع ہو کر اس کی روحانی اولاد قرار پاتے ہیں، بقولِ حکیم پیر ناصر (ق۔س) خدا کے وہاں بے پایان قیامات ہیں، تو پھر آدموں کا بھی کوئی شمار نہیں، جبکہ ہر آدمؑ میں خدائی روح بذریعۂ قیامت داخل ہوجاتی ہے۔

 

سوال: اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ یہ آدمِؑ سراندیب میں ہوا تھا، تو پھر بہشت سے آدمؑ کے ھبوط کے کیا معنی؟

جواب: بہشت سے بہت سی روحیں آدمؑ پر نازل ہوتی تھیں، انہی

 

۲۴۲

 

روحوں کو وہ آدمؑ سمجھو جس کا عالمِ جسمانی میں ھبوط ہوا، ارشادِ قرآنی ہے: ۔

قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعاً (۰۲: ۳۸)۔

ہم نے کہا کہ تم سب اس سے اتر جاؤ۔ اس حکم میں کئی حکمتیں ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ ۲؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۴۳

 

تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت

قسط: ۲

 

ھبوطِ آدمؑ دراصل سب سے بڑا اور سب سے پوشیدہ اور انتہائی پیچیدہ راز رہا ہے، کیونکہ اس عظیم واقعہ سے متعلق بہت سے مشکل سوالات موجود ہیں، جیسے: کیا آدمؑ کسی مکانی بہشت سے زمین پر اتر آیا تھا یا لامکانی بہشت سے؟ کیا وہ کسی بہت ترقی یافتہ سیّارے پر تھا؟ کیا وہ قبلاً عالمِ شخصی کی جنّت میں تھا؟ کیا وہ اس سے پہلے جسمِ لطیف کی جنّت میں تھا؟ جب جنّت کے بڑے درجات آٹھ ہیں اور بڑے درجے کے ذیلی درجات بہت ہیں، تو بتاؤ کہ آدمؑ کس نام کی جنّت سے دنیا میں آیا؟

 

یہ میرا ذاتی نظریہ ہے کہ آدمؑ تنہا ایک فرد نہ تھا، بلکہ وہ نفسِ واحدہ (کلِ کلیات) تھا، یعنی وہ ایسا عالمِ شخصی تھا کہ ساری کائنات مسخر ہو کر اس میں گر چکی تھی، پس آدمؑ خلیفۂ خدا کلِ کلیات تھا، لہٰذا وہ ہر قسم کی جنّت اور اس کے جملہ درجات پر محیط تھا۔

 

جب آدمؑ کے جانشین کو تیار کرنے کا وقت آیا تو اس کے لئے سنتِ الٰہی کے مطابق روحانی قیامت برپا ہونے لگی، چنانچہ آدم خلیفۃ اللہ میں الٰہی روح کے نام سے جو نور تھا وہ بحکمِ خدا آدمؑ کے جانشین میں منتقل ہوگیا، تو تمام حدودِ دین اور کل فرشتوں نے حاملِ نورِ ہٰذا کو سجدہ کیا، اور آخر میں آدمِ اوّل نے بھی اس آدمِ ثانی کو سجدہ کیا، یہی ہے دینِ خدا کا قانون۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

سنیچر  ۳؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۴۴

 

تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت

قسط: ۳

 

سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) میں اللہ تعالیٰ کا پاک ارشاد ہے:

مَا خَلْقُكُمْ وَلاَبَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ۔

اس آیۂ شریفہ کی سری حکمت و معرفت کی کلید سمیع اور بصیر میں پوشیدہ ہے، یعنی فرمانِ خداوندی ہے کہ اگر تم نے خدائے سمیع و علیم کے دین کی مدد اپنے ہر قول وفعل سے کر دی تو خدا تمہاری بہت بڑی مدد کردے گا، وہ یہ کہ تمہاری روح الایمان اور روح العشق کو نفسِ واحدہ سے وابستہ کر دیگا، تاکہ تم عارفانہ موت اور روحانی قیامت میں اس کیساتھ ہوجاؤ اور اسی کے سانچے میں ڈھل کر اپنے باپ آدمؑ کی طرح ہو سکو، اور تمہارا عالمِ شخصی وہ ذاتی بہشت ہوجائے جس کا طول و عرض کائنات کے برابر ہے، پس تم اپنی اس بہشت میں خلیفہ بھی ہو اور بادشاہ بھی، تم آیتِ استخلاف (۲۴: ۵۵) کی اصل حکمت تک رسائی کرلو اور بہشت کی بادشاہی کی معرفت بھی حاصل کرو۔

اس جہانِ آب و گل میں قانونِ فطرت کی یہ دائمی حقیقت سب کے سامنے اظہر من الشمس ہے کہ جمادات بذریعۂ فنا نباتات کے سانچے میں ڈھل کر روحِ نباتی کو حاصل کرتی ہیں، نباتات کے لئے ترقی کا سانچا حیوانات میں موجود ہے، حیوانات کی ترقی کا رخ انسان کی طرف ہے اور تمام انسانوں کی ترقی کا سانچا انسانِ کامل ہے جس میں جو بھی بذریعۂ فنا ڈھل جاتا ہے وہ انسانِ لطیف یا فرشتہ ہو جاتا ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ادت ۴؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۴۵

 

تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت

قسط: ۴

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلِلَّهِ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ…۔

کتابِ کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت ۲۹ میں حضرتِ علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے:

 

اَنَا الْاَ سمَآءُ الْحُسنَی الَّتِیْ اَمَرَ اللّٰہُ اَنْ یُّدْعیٰ بِھَا۔

یعنی میں خدا کے وہ اسماء حسنٰی ہوں جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کو انہی اسماء سے پکارا جائے۔

جس عظیم الشّان چیز کی تعریف خدا خود فرماتا ہے اس کی تعریف ہم ہزار سالہ زندگی میں بھی نہیں کرسکتے ہیں، پھر بھی یہ ہمارا عذرِلنگ ہے کہ ہم ایسی چیز کو اپنی جانِ عزیز سے بھی زیادہ اوراپنی پیاری اولاد سے بھی زیادہ محبوب کیوں نہیں رکھتے ہیں، پس عزیز ساتھیو! اگر ہمارے قلوب میں اسماء الحسنٰی کا کچھ عشق ہے تو چلو ان کی معرفت کے لئے سعیٔ بلیغ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنٰی اسمائے عظام ہیں، جن کو آپ اپنی مخصوص دعا کے آخر میں پڑھتے ہیں، جن کی برکت سے ہماری روحوں کی تجدید ہوتی رہتی ہے، یہ سب اسماء جس طرح علیؑ میں جمع تھے اسی طرح امامِ زمانؑ میں بھی تمام

 

۲۴۶

 

اسماء الحسنٰی (اسمائے عظام) جمع ہیں، اور ایسا ہونا خدا کا بہت بڑا احسان بھی ہے اور عظیم انعام بھی۔

 

ہم بار بار کہتے ہیں کہ اللہ کی خاص چیزیں زندہ، گویندہ (ناطق) عقلی اور نورانی ہوا کرتی ہیں، جیسا کہ اللہ کا قلم نورِ محمدیؐ بھی ہے، فرشتۂ عقلِ کلّ بھی ہے، نورِ عرش بھی ہے، اور لوحِ محفوظ علیؑ کا نور جو فرشتۂ نفسِ کلّ بھی ہے، اللہ کی کرسی بھی ہے، اور روح الارواح (کائنات گیر روح) بھی ہے، پس اسماء الحسنٰی انوار بھی ہیں، اور نورٌعلی نور کا سلسلہ بھی اور دورِ محمدیؐ کے اسمائے عظام بھی ہیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۵؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۴۷

 

تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت

قسط: ۵

 

حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ کا بابرکت ارشاد ہے:

اَعرَفُکُم بنفسِہٖ اَعرَفُکُم بِرَبِّہٖ۔

ترجمہ: تم میں جو شخص سب سے زیادہ اپنی روح کو پہچانتا ہے وہی تم میں سب سے زیادہ اپنے ربّ کو پہچانتا ہے۔ اس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ اہلِ ایمان کے لئے معرفت کے بہت سے درجات ہیں، تاکہ وہ رفتہ رفتہ معرفت میں بہت آگے جا سکیں، معرفت کا ہم لفظ یقین بھی ہے جو تین بڑے درجوں میں ہے، یعنی علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین، حق الیقین حظیرۂ قدس کے عظیم الشّان معجزات میں ہے۔

 

میں ایک طرف سے اسرار بیان کرنے سے بہت ڈرتا بھی ہوں کہ کہیں ان کی ناشکری اور ناقدری نہ ہو، اور دوسری طرف سے کوئی طاقت مجھے مجبور کرتی رہتی ہے کہ تم اپنے عزیزوں کے لئے ہر راز کو بیان کرو، اور علم و حکمت اور معرفت خاص طور پر ان کو بتاؤ، جن کو بتانا چاہئے۔

عزیزانِ من! آپ کو خوب علم ہے کہ یہ نعمتیں معمولی نہیں ہیں، اس لئے ہمیں شکر گزاری میں اشکبار ہونا ہے، اللہ ہمیں توفیق و ہمت عطا فرمائے، آمین!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۵؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۴۸

 

تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت

قسط: ۶

 

حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ کا ارشادِ گرامی ہے:

من عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ۔

ترجمہ: جس شخص نے اپنی روح کو پہچان لیا اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔ انسان میں وہ اعلیٰ روح کب آئی جس کی معرفت حضرتِ ربّ العزت کی معرفت ہو سکے؟ انسان میں روحِ نباتی، روحِ حیوانی اور روحِ انسانی یہ تین روحیں اپنا اپنا کام کرتی رہتی ہیں، مگر یہ ربِّ تعالیٰ کی معرفت کی آئینہ داری نہیں کرسکتی ہیں، لہٰذا اس پُرحکمت ارشاد میں کوئی بہت بڑا راز پوشیدہ ہے، وہ عظیم راز مرتبۂ عشق و فنا ہے، یعنی جب تک کوئی انسان ہادیٔ برحق (امامِ زمانؑ) میں فنا ہو کر اپنی انائے علوی کو امامؑ میں نہیں پہچانتا، وہ اپنے ربّ کو نہیں پہچان سکتا ہے، صاحبانِ عقل کے لئے یہی بیان کافی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

حضرتِ مولانا امام محمد باقر علیہ السّلام کے فرمانِ مبارک کو کبھی بھول نہ جانا! (ما قیل فی اللہ) کوئی شک نہیں کہ اشیائے کل کا خزانہ امامِ مبینؑ ہی ہے تو یقیناً رب العزت کی معرفت کا کنزِ مخفی بھی آپ ہی ہیں، دعائم الاسلام، جلدِ اوّل، ص ۲۵ پر یہ حدیث شریف درج ہے۔

 

من مَاتَ لَایَعرِفُ امامَ دھرِہٖ حَیّاً ماتَ میتۃً جاھلیّۃً

 

۲۴۹

ترجمہ: جو شخص مر جائے درحالیکہ وہ اپنے زمانے کے امامِ حیّ و حاضرؑ کو نہیں پہچانتا تھا تو وہ شخص جاہلیت کی موت مرگیا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بموقعِ عیدالاضحی  منگل ۶ ؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۵۰

 

تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت

قسط: ۷

 

سورۂ نساء (۰۴: ۵۴) میں اللہ تعالیٰ کا مبارک ارشاد ہے:

فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا۔

ترجمہ: ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت (عقل کی باتیں) عطا فرمائی اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی۔

 

آلِ ابراہیمؑ کی توضیح: حضرتِ اسماعیلؑ اساسِ مستقر اور ان کی نسل سے امامانِ مستقر، اور حضرتِ عمران (ابوطالبؑ امامِ مقیم)، حضرتِ محمدرسول اللہ (صلعم)، أئمۂ آلِ محمد علیھم السّلام، دوسری طرف حضرتِ اسحاقؑ اساسِ مستودع اور ان کی نسل سے امامانِ مستودع اور کئی انبیاء علیھم السلام تھے، یہ تمام حضرات آلِ ابراہیمؑ ہیں۔

مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں آلِ ابراہیمؑ پر اللہ تعالیٰ کے تین عظیم احسانات کا ذکر ہے: اوّل: آسمانی کتاب اور اس کی وراثت، دوم: حکمت، یہ تاویل بھی ہوسکتی ہے، سوم: عظیم سلطنت، یہ زمانے میں امامِ برحقؑ کی روحانی سلطنت ہے، اللہ تعالیٰ نے آلِ ابراہیمؑ پر عظیم احسانات اس لئے فرمائے کہ لوگ ان سے رجوع کریں، اطاعت و فرمانبرداری اور عشق و محبّت سے ان میں فنا ہوجائیں، کیونکہ لوگ ان وسائل کے بغیر از خود روحانی سفر نہیں کرسکتے ہیں۔ آلِ ابراہیمؑ کا سلسلہ محمدؐ و آلِ محمدؐ کے توسط سے جاری و باقی ہے اور انہی حضرات کو آسمانی کتاب کی وراثت حاصل ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بموقعِ عیدالاضحی  منگل ۶؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۵۱

 

تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت

قسط: ۸

 

سورۂ بقرہ(۰۲: ۲۵): ۔

وَبَشِّرْ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔

ترجمہ با تاویلی مفہوم: اور جو لوگ حقیقی معنوں میں ایمان لائے اور انہوں نے منشائے الٰہی کے مطابق نیک کام کئے ان کو اے پیغمبر خوشخبری دیدو کہ ان کے لئے بہشت کے وہ علمی باغات ہیں یعنی کلمۂ باری اور کلماتِ تامات جن کے نیچے تائیدِ الٰہی کی نہریں جاری ہیں جب انہیں ان علمِ الٰہی کے باغات کا کوئی میوہ کھانے کو ملے گا تو اس سے ان پر یہ راز کھل جائے گا کہ وہ اس سے پہلے بھی بہشت میں رہ چکے تھے وہ یقین سے کہیں گے کہ ہم پہلے بھی یہ علمی میوہ کھا چکے تھے الغرض بہشت میں ہمیشہ ہمیشہ  رہنے کے اسرار ان پر منکشف ہو جائیں گے۔

اور بہشت میں ان کے لئے جسماً، روحاً اور عقلاً پاک کی گئیں بیویاں ہیں وہاں نہ صرف بیویاں بلکہ ان کے شوہر بھی جسمِ لطیف میں تین قسم کی پاکیزگی کے ساتھ ہوں گے یعنی جسمِ لطیف، روحِ شریف اور عقلِ کامل اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، الحمد لِلّٰہ ربّ العٰلمین!

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ ۷ ؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۵۲

 

تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت

قسط: ۹

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۵۴):

إِنَّ رَبَّكُمْ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ۔

ترجمہ: درحقیقت تمہارا ربّ اللہ ہی ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کئے سب اس کے فرمان کے تابع ہیں۔ خبردار ہو! عالمِ خلق اور عالمِ امر دونوں اسی کے ہیں۔ بڑا بابرکت ہے اللہ تمام عوالمِ شخصی کا مالک و پروردگار۔

تاویل: یقیناً تمہارا ربّ اللہ ہے، جس نے عالمِ دین کے آسمانوں اور زمین کو چھ ناطقوں کے ادوار میں پیدا کیا، جن کی مدت تقریباً چھ ہزار برس کے برابر ہوتی ہے، پھر اس نے عرش پر استویٰ کیا، یعنی چھ ناطقوں کے ادوار کے بعد دورِ حضرتِ قائم میں مساواتِ رحمانی اور یک حقیقت کے اسرار سمجھانے کا کام شروع کیا، اور ابھی معلوم نہیں کہ اس دور میں کیسے کیسے معجزات رونما ہوں گے، ہونا یہ چاہئے کہ جسمِ لطیف

 

۲۵۳

 

کا ایک زبردست لشکر آسمان سے اتر آئے اور قیامۃ القیامات برپا ہوجائے، اور وہ سب کچھ ہوجائے جو اللہ تعالیٰ کے کلام (قرآن) میں ارشاد فرمایا گیا ہے، ان شاء اللّٰہ تعالیٰ۔

 

آدمؑ ، نوحؑ، ابراہیمؑ، موسٰیؑ، عیسٰیؑ اور محمد رسول اللہؐ، یہ چھ ناطق حضرات علیھم السّلام اللہ کے وہ چھ زندہ دن تھے، جن میں خدا نے عالمِ دین کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور حضرتِ قائم اللہ کا وہ ساتواں دن ہے، جس میں اس نے عرش پر استویٰ کیا یعنی دورِ قیامت کے تمام معجزات کا کام کیا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۸؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۵۴

 

تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت

قسط: ۱۰

 

سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵ تا ۴۶):

أَلَمْ تَرَى إِلَى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلا ثُمَّ قَبَضْنَاهُ إِلَيْنَا قَبْضًا يَسِيرًا۔

ترجمہ: (اے رسولؐ) کیا تم نے (عالمِ علوی میں) اپنے ربّ کی طرف نہیں دیکھا؟ کہ اس نے کیونکر عالمِ امر کا سایہ عالمِ خلق میں پھیلا دیا اگر وہ چاہتا تو اسے ایک ہی جگہ ٹھہرا ہوا کر دیتا پھر ہم نے آفتاب کو اس کا رہنما بنا دیا پھر ہم نے اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے اپنی طرف کھینچ لیا۔

 

اس ارشادِ مبارک کی مجموعی تاویل یہ ہوتی ہے کہ عالمِ خلق جو عالمِ کثیف ہے وہ عالمِ امر (عالمِ لطیف) کا سایہ ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:

وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِمَّا خَلَقَ ظِلاَلاً۔ (۱۶: ۸۱)

ترجمہ: اور خدا ہی نے تمہارے لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے۔ یہ آیت دراصل ہر دانا شخص کو اللہ تعالیٰ کے عظیم اور خاص احسانات کی طرف توجہ دلاتی ہے، لہٰذا مادّی چیزوں کے سائے صرف مثال کی حد تک محدود ہوسکتے ہیں اور بس۔

 

۲۵۵

 

نیزیہ بات بھی معلوم ہی ہے کہ ہر مادّی چیز کا سایہ تاریک اور بیجان ہوتا ہے، اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اپنی جس اعلیٰ مخلوق کا پُرحکمت سایہ بنا کر اپنے بندوں پر خاص احسان فرمایا ہے، وہ عالمِ شخصی میں عالمِ امر کی ہر چیز کا نورانی نمونہ ہوسکتا ہے اور قادرِ مطلق ایک ہی آئینۂ نور میں ہر چیز کی مثال اور نورانی نمونہ دکھا سکتا ہے۔

 

بہشت کی اعلیٰ نعمتوں میں ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ (۵۶: ۳۰) دور تک پھیلی ہوئی چھاؤں کی بھی تعریف ہے، اس کی تاویل ہے نورِ علم کے ذریعے سے دور دور تک پھیلی ہوئی اللہ کی نعمتوں تک رسائی اور حصول۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۸؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۵۶

 

تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے

قسط: ۱

 

ہمارے عظیم المرتبت پیروں اور دینی بزرگوں کو امام شناسی کا سب سے بڑا انعام تاویلی حکمت کی صورت میں ملا تھا، آپ ان حضرات کی مقدّس تعلیمات کو خوب غور سے پڑھیں اور یہ بتائیں کہ ان کے مبارک الفاظ و کلمات حکمت سے لبریز ہیں یا نہیں؟ آپ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے مقدّس ارشادات کے حوالے سے یہ بتائیں کہ ہمارے پیروں کے گنانوں کا قرآن سے کیا رشتہ ہے؟ نیز آپ یہ بتائیں کہ امامِ عالی مقامؑ کے پاک اور فیصلہ کن فرمان کے مطابق امامؑ کے مریدوں کے لئے روحانی ترقی کس حد تک یا کہاں تک ممکن ہوسکتی ہے؟

 

میرے خیال میں حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے نہ صرف اپنے قولِ مبارک ہی سے اپنے تمام مریدوں کو روحانی اور علمی ترقی کی ترغیب و تشویق دی ہے، بلکہ پاک امامؑ نے اس سلسلے میں جماعتی ادارہ جات وغیرہ کی شکل میں بھی بہت کچھ کیا ہے، میرا یہ بھی خیال ہے کہ اسماعیلی تاریخ میں کبھی کسی امام نے اتنے زیادہ مومنین و مومنات کو اسمِ اعظم کے سب سے عظیم انعام سے نہیں نوازا تھا، حضرتِ مولانا امام آقا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: پیر صدرالدین نے تمہیں جو گنان بنا کر دئے ہیں وہ ہندوستانی زبان میں قرآن کا نچوڑ ہیں (۵؍ جولائی ۱۸۹۹ء، کلامِ امامِ مبین، حصۂ اوّل، ص ۸۵)۔

 

نوٹ: قرآن کے نچوڑ کا دوسرا نام حکمت اور تاویل ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۹؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۵۷

 

تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے

قسط: ۲

 

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ فرماتے ہیں:

“انسان میں سے فرشتہ بن جانے کا یقینی امکان ہے، لیکن اس عظیم کامیابی کے لئے بڑی سخت محنت درکار ہے”۱

“پیر صدرالدین بھی تم جیسا ایک آدمی تھا، اس میں اور تم میں ظاہراً اور جسماً کوئی فرق نہ تھا، وہ ظاہر میں ہر لحاظ سے تم جیسا تھا، مگر پیر صدرالدین عقلمند، دانا، سچا اور پاک باطن تھا، پیر صدرالدین کہیں اکیلے بھی جا رہے ہوتے تو تب بھی سمجھتے تھے کہ خدا میرے ساتھ ہے، تم بھی سخت محنت کرو اور پیر صدرالدین جیسے بنو”۲

“تمہارا اصل مقام کتنا بڑا بلند ہے اس سے تم لا علم ہو۔”۳

“تم جب جب سجدہ کرو تو دعا مانگو کہ خدایا ! ہمیں اصل مقام پر پہنچاؤ۔”۴

“محنت کر کے (حقیقی) علم سیکھو اور عالی ہمتی سے کام لو، جس میں ہمت ہو وہ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔”۵

“جو بے علم ہیں وہ حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن جو حقیقی ہیں وہ اس راستے (یعنی حقیقت) پر چلتے ہیں، جیسے ماضی میں حضرتِ عیسیٰؑ، پیر صدرالدین، ناصر خسرو، پیر شمس، مولانا رومی، اس طرح کے لوگ حقیقت کے راستے پر چلے، یہ راستہ نادان کے لئے بہت مشکل ہے۔” ۶

 

۲۵۸

 

“عیسیٰؑ حقیقتی تھا وہ خدا میں فنا ہوا، تم بھی فنا فی اللہ ہوجاؤ۔”۷

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۹؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

؎۱     امام سلطان محمد شاہؑ، کلامِ امامِ مبین (بمبئی، ۱۹۵۰ء)، جلدِ اوّل، ص ۲۲۹۔ (زنجبار، ۱۷-۸-۱۹۰۵ء)۔

؎۲     ایضاً، ص ۱۱۴۔ (زنجبار، ۱۳-۹-۱۸۹۹ء)۔

؎۳     ایضاً، ص ۱۳۹۔ (جام نگر، ۶-۴-۱۹۰۰ء)۔

؎۴     ایضاً، ص ۳۵۵۔ (دارالسلام، ۲۹-۹-۱۸۹۹ء)۔

؎۵     ایضاً، ص ۱۵۲۔ (احمدآباد، ۱۳-۱۰-۱۹۰۳ء)۔

؎۶     ایضاً، ص ۳۵۴۔ (دارالسلام، ۲۹-۹-۱۸۹۹ء)۔

؎۷     ایضاً، ص ۳۵۰۔ (دارالسلام، ۲۹-۹-۱۸۹۹ء)۔

 

۲۵۹

 

تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے

قسط: ۳

 

مولا فرماتے ہیں:

“جیسے کوئی انسانی بچہ اپنی ماں سے بچھڑ جاتا ہے یا گم جاتا ہے تب وہ روتا رہتا ہے کہ کب ماں کے پاس جا پہنچوں! تم بھی ایسے بنو۔”۱

“تم ابھی تک روحانیّت سے دور دنیا ہی میں بیٹھے ہو، اس لئے تمہیں دل سے رونا چاہئے۔”۲

“اس دنیا میں دو قسم کے مومن ہیں، جس میں ایک جسم کے ہیں اور دوسرے روح کے ہیں، جو جسم کے مومن ہیں وہ یہاں ہی خوش ہوتے ہیں، یعنی وہ اس دنیا ہی میں رہنے میں خوش ہیں، ان کی جگہ زمین میں ہوتی ہے، یہ بڑائی کے مومن ہیں، وہ بالآخر زمین (خاک) ہی میں جاتے ہیں، دوسرے جو روح کے مومن ہیں، وہ ایسے ہوتےہیں کہ دین کے کام میں آگے ہی آگے قدم بڑھاتے جاتے ہیں، وہ رکتے نہیں، وہ مسلسل آگے بڑھتے ہی رہتے ہیں، ایسے لوگ بہشت سے بھی اوپر جائیں گے۔”۳

“بہشت سے بھی زیادہ پاک ایک جگہ ہے وہاں تک روح کو پہنچنا چاہئے۔”۴

“ہمارے فرامین کی تاویل کر کے جماعت کو سمجھا دینا یہ واعظین کا خاص کام ہے۔”۵

مولا کا ایک بڑا اہم فرمان یہ بھی ہے: “تم سب پر واجب اور لازم ہے کہ دین کی باتیں ایک دوسرے کو سناؤ (اگر) نہیں سناؤ گے تو گناہ ہوگا۔”۶

’’ماسٹر (ٹیچر) کو

 

۲۶۰

 

قابل اور ہوشیار ہونا چاہئے نیز روحانی علم سے بھی واقف کار ہونا ضروری ہے۔”۷

یہا ں سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ امامؑ اپنی جماعت کو روحانی علم اور تاویل سکھانا چاہتے ہیں، آیا اس فرمان میں ایسا نہیں ہے؟ کیا کسی اسماعیلی کو امامؑ کے اس ارشاد میں کوئی شک ہے؟ اگر اسماعیلی مذہب میں تاویل کرنا صرف امامؑ ہی کا کام ہے تو پھر مولا کیوں فرماتے ہیں کہ ہمارے فرامین کی تاویل جماعت کو سکھا دینا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۱۰؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

؎ ۱    امام سلطان محمد شاہؑ، کلامِ امامِ مبین (بمبئی، ۱۹۵۰ء)، جلدِ اوّل، ص ۳۵۵۔ (دارالسلام،۲۹-۹-۱۹۹۹ء)۔

؎۲     ایضاً، ص ۱۷۰۔ (راجکوٹ، ۲۱-۱۰-۱۹۰۳ء)۔

؎۳     ایضاً، ص ۲۰۰۔ (کچھ بدریسر،۲۳-۱۱-۱۹۰۳ء)۔

؎۴     ایضاً، ص ۱۶۵۔ (وڈھوان کیمپ،۱۹-۱۰-۱۹۰۳ء)۔

؎۵     ایضاً،جلدِ دوم، ص ۳۲۱۔ (کمپالا، ۱۷-۵-۱۹۴۵ء)۔

؎۶     ایضاً، جلدِ اول ،ص۱۳۲۔ (جام نگر،۴-۴-۱۹۰۰ء)۔

؎۷     ایضاً، ص ۲۲۱۔ (کچھ ناگپور، ۲۹-۱۱-۱۹۰۳ء)۔

 

۲۶۱

 

تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے

قسط: ۴

 

مولا فرماتے ہیں:

“ہمارا گھر آلِ رسول (صلعم) کا گھر ہے اور ہم ان کی آل ہیں، اس کا ثبوت کتاب اور قرآنِ پاک میں ہے۔”۱

“حاضر امام کے لئے نیت اور حب کے بغیر کوئی بھی چیز قبول نہیں ہوتی، یہ قرآن حکیم اور احادیثِ صحیحہ سے بھی ثابت ہے۔”۲

“جماعت کے پاس ہم مرتضیٰ علیؑ کے نور حاضر و ناظر بیٹھے ہیں، اس لئے آپ کو سچا یقین رکھنا چاہئے، ہم اس دنیا میں جامۂ جسم پہنتے ہیں اورتبدیل کرتے ہیں، لیکن ہمارا نور ازل سے ایک ہی نور چلا آیا ہے، اس لئے آپ کو نورِ واحد دیکھنا چاہئے۔”۳

“آپ اپنے دل میں اپنی اصل روح یعنی ہمارے نور کو دیکھیں … جوکوئی روحانی عشق رکھتا ہے وہی خدا پرست ہے، جسم کو دیکھنے والا بت پرست ہے، ہر ایک انسان کی روح تک امام کا نور رسا ہے، مومن کا دل امام کے رہنے کا محل ہے اور اس سعادت کا انحصار عشق پر ہے اگر وہ خود دکھائی دے تو ہی امام کی خوبی اور نوازش ہے کیونکہ امام زندہ اور بااختیار نور ہے۔”۴

“آپ کا مرتبہ کتنا بڑا بلند ہے؟ اس کا آپ کو علم نہیں، سلمان فارسی(جو) اہلِ بیت (سے ہوا تھا) آپ جیسا تھا، پیغمبرؐ فرماتے تھے کہ سلمان فارسی اہلِ

 

۲۶۲

 

بیتِ اطہار جیسا نورانی تھا، وہ اپنے اصل مقام پرپہنچا، سلمان فارسی بھی آپ جیسا انسان تھا، آپ بھی علم و عبادت سے سلمان فارسی جیسے بن سکتے ہیں، آپ علم و عبادت کے ذریعے سے پیر صدرالدین جیسے ہو سکتے ہیں، جانور جیسے ہوں تو آپ کو کیا فائدہ ہو؟”۵

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۱۰ ؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

؎ ۱    امام سلطان محمد شاہؑ، کلامِ امامِ مبین (بمبئی، ۱۹۵۰ء)، جلدِ اوّل، ص ۴۔ (بمبئی،۱-۹-۱۸۸۵ء)۔

؎۲     ایضاً، ص ۶۔ (بمبئی، ۸-۹-۱۸۸۵ء)

؎۳     ایضاً، ص ۸۔  (بمبئی، ۸-۹-۱۸۸۵ء)۔

؎۴     ایضاً، ص ۳۰۸۔ (بمبئی،۴-۴-۱۹۰۸ء)۔

؎۵     ایضاً، ص۱۳۹۔ (جام نگر،۶-۴-۱۹۰۰ء)۔

 

۲۶۳

 

تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے

قسط: ۵

 

مولا فرماتے ہیں:

“تم میں سے اکثر نے مذہب کی ایسی کتابیں نہیں پڑھی ہیں، تم ان کتابوں کو پڑھو گے تو تمہیں سمجھ آئے گی ، اور تم میں خرابی نہیں ہوگی، وہ کتابیں پڑھنے سے تمہاری عقل گواہی دے گی کہ تمہارا دین سچا ہے اور اس سے تمہیں تسلی ہوگی، دیوانِ شمس تبریز اور مثنویٔ مولانا رومی پڑھو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ دوسرے ملکوں میں تمہارا دین کیسا چلتا ہے، تمہارا مذہب ہر ایک ملک میں ہے۔”۱

“پیر صدرالدین نے تمہیں تمہاری زبان میں علم سکھایا، اسی طرح ہماری طرف سے راہ دکھانے والوں نے جن کی زبان جیسی تھی انہیں اسی زبان میں نصیحت کی، فضول باتوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ایسی کتابیں پڑھو…دین کا مطلب برابر سمجھو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ دین کے بزرگ کیسے تھے اور وہ خدا کے نزدیک کس طرح پہنچے، فلسفۂ الٰہیہ (حکمت) پڑھو تو خداوندِ تعالیٰ کےنزدیک ہوسکتے ہو، شمس تبریز، پیر صدرالدین اور مولانا رومی نے فلسفۂ الٰہیہ بہت پڑھا تھا اور قرآنِ شریف کو معنی و تاویل کے ساتھ پڑھا تھا، فقط پیر شمس، پیر صدالدین اور مولانا رومی ایسے بن سکے ایسا مت سمجھو، تم بھی محنت کر کے پڑھو تو ایسے بن سکتے ہو، ان جیسا مرتبہ حاصل کرنے کے لئے عالی ہمتی چاہئے۔”۲

 

۲۶۴

 

“قرآنِ شریف بھی حکمت اور دانائی سے پڑھو تو واجب ہے … حکمت کے ساتھ پڑھو گے تو فائدہ ہوگا”۳

“تم فرصت کے وقت دنیوی عشق کی باتیں یا کتابیں مت پڑھو، فرصت کے وقت دین کی نصیحتوں کی کتابیں پڑھو یا گنان و علم (کی کتابیں) پڑھو، جس سے تمہیں فائدہ ہو۔”۴

“ہماری تاریخ پڑھو، شجرہ پڑھو اور پوری تاریخ پڑھو، ہمارے آباؤاجداد فاطمی اسماعیلی أئمّہ جنہوں نے مصر میں دو سو سے تین سو سال تک حکومت کی ہے، ان کی تاریخ پڑھو۔”۵

“حقیقی علم کی کتابیں پڑھ کر اس پر عمل کرو گے تو فرشتے بن جاؤ گے۔”۶

“مذہبی کتابیں پڑھو، فرامین پڑھو تو روشنی ہوگی، دن کے وقت کام کرو، اور رات کو کتابیں پڑھو۔”۷

“دین کی باتیں ایک دوسرے سے خط و کتابت کے ذریعے منگاؤ، جس طرح بیوپار دھندے کے لئے ایک دوسرے سے خط و کتابت کرتے ہو، اسی طرح دینی معلومات کے لئے خط و کتابت کرو، اور ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح کا میل جول رکھو۔”۸

“ہمارے فرامین پر دھیان دو، اس کے معنی نکالو اور سمجھو، ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دوگے تو اس کا کیا فائدہ ہوگا۔”۹

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۱۰  ؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

؎ ۱    امام سلطان محمد شاہؑ، کلامِ امامِ مبین (بمبئی، ۱۹۵۰ء)، جلدِ اوّل، ص۳۱۶۔ (زنجبار، ۱۴-۹-۱۸۹۹ء)۔

؎۲     ایضاً، ص۳۱۶۔ (زنجبار،۱۴-۹-۱۸۹۹ء)۔

؎۳     ایضاً، ص۳۱۸۔ (زنجبار،۱۴-۹-۱۸۹۹ء)۔

؎۴     ایضاً، ص ۳۳۹۔ (دارالسلام،۲۷-۹-۱۸۹۹ء

؎۵   ایضاً، ص۳۲۴۔ (زنجبار، ۱۶-۹-۱۸۹۹ء)۔

؎۶     ایضاً، ص۲۱۷۔ (کچھ ناگلپور،۲۸-۹-۱۹۰۳ء)۔

؎۷     ایضاً،جلدِ دوم، ص۸۳۔ (زنجبار،۱۸-۲-۱۹۲۵ء)۔

؎۸      جلدِ اوّل، ص۳۳۸۔ (دارالسلام،۲۷-۹-۱۸۹۹ء)۔

؎۹      جلدِ اوّل، ص۳۴۱۔ (دارالسلام، ۲۸-۹-۱۸۹۹ء)۔

 

۲۶۵

 

تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے

قسط: ۶

 

دینی تعلیم کے سلسلے میں مولا فرماتے ہیں:

“واعظین اور مذہبی اسکولوں کے اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ گنان اور فرمان کا روحانی مطلب سکھائیں، کیونکہ صرف گنان اور فرمان سکھا دینا کافی نہیں ہے۔”۱

 

امام علیہ السلام سے ہماری روحیں فدا! اگر گنان اور فرمان میں کوئی روحانی مطلب (معنی = تاویل = حکمت یا کوئی اشارہ) نہ ہوتا تو مولا ایسا نہ فرماتا، پس معلوم ہوا کہ گنان اور فرمان کے روحانی معنی بھی ہیں، اور یہی حکمت اور تاویل ہے، پھر میرا کوئی اسماعیلی بھائی کس طرح کہہ سکتا ہے کہ تاویل کرنا صرف امامؑ ہی کا کام ہے، ارے پیارے بھائی جان! اس فرمانِ مبارک میں غور کرو کہ اگر گنان اور فرمان میں کوئی روحانی مطلب نہ رکھا ہوتا، تو کوئی واعظ روحانی مطلب کو کہاں سے لا کر بیان کرتا؟

نیز یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ اگر تاویل امامؑ سے نچلے درجات تک نہ آتی تو بزرگانِ دین کی کتابوں میں اتنی ساری کتابی تاویلات نہ ہوتیں، اور أئمّۂ آلِ محمدؐ اپنے ارشادات میں تاویل کے بھیدوں کو ظاہر نہ کرتے ، لیکن ایسا نہیں ہے ، اس کے برعکس حقیقتِ حال یہ ہے کہ ہر امامؑ نے اپنے وقت میں تاویل کا ایک حصہ ظاہر کیا، تاویل کا اصل دروازہ اساس(علیؑ) ہے، تاہم ہر زمانے کا امامؑ علیؑ کا جانشین ہوتا ہے، اور تاویل کی ظہورگاہ عالمِ شخصی ہے، اور حضرتِ امامؑ مؤول (تاویل کرنیوالا)

 

۲۶۶

 

ہے، اور امامِ زمانؑ تاویلی معجزات کرتا ہے، اور ہر معجزہ ظاہر میں یا باطن میں دکھانا مقصود ہوتا ہے، اور یہ سچ ہے کہ امامؑ کے تاویلی معجزات کو صرف عارف ہی دیکھتا اور پہچانتا ہے، جو شخص علم الیقین کی آنکھ سے اندھا ہے وہ عین الیقین سے بھی اندھا ہے، یعنی جو کتابی تاویل سے انکار کرتا ہے وہ باطنی تاویل کو نہیں دیکھ سکتا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

اتوار  ۱۱؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

؎۱     امام سلطان محمد شاہؑ، کلامِ امامِ مبین (بمبئی، ۱۹۵۰ء)، جلدِ دوم، ص۸۵۔ (زنجبار، ۱۹-۲-۱۹۲۵ء)۔

 

۲۶۷

 

تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے

قسط: ۷

 

اے نورِ عینِ من!حضرتِ علیؑ = امام علیہ السّلام کے مبارک اسماء و القاب میں سے ایک لقب “آیات اللہ” ہے، بمعنیٔ خدا کے معجزات، آپ کوکبِ درّی وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں، یقیناً امامِ اقدس و اطہرؑ اللہ کا نور اور سرچشمۂ معجزات ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (۴۱: ۵۳)۔

ترجمہ با تاویلی مفہوم: ہم آئندہ ان کو اپنے معجزات امام شناسی سے متعلق آفاق میں بھی اور خود ان کے عالمِ نفسی میں بھی دکھاتے رہیں گے تا آنکہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ وہ یعنی امامؑ برحق ہے۔

جب کسی عاشق پر عارفانہ موت اور روحانی قیامت واقع ہونے لگتی ہے تو ظاہری اور باطنی معجزات ایک ساتھ شروع ہوجاتے ہیں، یہ مقام منزلِ اسرافیلی بھی ہے اور منزلِ عزرائیلی بھی، یہ وہ اعلیٰ مقام ہے جہاں تمام فرشتوں نے حضرتِ آدمؑ کے لئے سجدہ کیا تھا، اگرچہ آگے چل کر حظیرۂ قدس میں بھی بڑے بڑے فرشتوں نے آدمؑ کے لئے سجدہ کیا تھا۔

 

ظاہری معجزات کی کچھ تفصیل یہ ہے: صورِ اسرافیل کا قیامت انگیز معجزہ جس کو صرف عارف ہی سنتا ہے، جس کا بے مثال تذکرہ قرآن میں بڑا عجیب و غریب ہے، اور

 

۲۶۸

 

یہ قصّۂ حضرتِ داؤدؑ میں بھی انتہائی حیران کن ہے اور عالمِ ذرّ کے تمام ذراتی معجزات، جیسے یاجوج ماجوج کا خروج، ستاروں کا گرنا، جنّ و انس اور وحوش و طیورکا جمع ہونا، عالمِ ذرّ کے تمام معجزات، تقریباً ایک ہفتہ تک قبضِ روح اور واپس بدن میں روح ڈالنے کا عمل، القابض اور الباسط کا معجزہ، بہت سے عوالمِ شخصی اور بہت سی کائناتیں بنانے کی قدرتِ خداوندی کا معجزہ ، مسلسل حشر اور نشر کا معجزہ۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

اتوار  ۱۱؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۶۹

 

تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے

قسط: ۸

 

قرآنِ حکیم میں قیامت کے بہت سے اسماء آئے ہیں، اور ہر اسم کے عنوان کے تحت قیامت کا ایک بیان موجود ہے، اور مولاعلیؑ جو خدا و رسولؐ کی طرف سے سب لوگوں کا امامؑ، نور اور صاحبِ تاویل ہے، اس نے فرمایا کہ قیامت تاویلاً وہ خود ہی ہے (بحوالۂ کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت ۲۷) پھر یقیناً قیامت سرتا سر امام شناسی کے اسرار سے لبریز ہے اور یہ حقیقت ہے، واللہ مضامینِ قرآن میں سے کوئی مضمون ایسا نہیں جس کے باطن میں امام شناسی کے جواہر بھرے ہوئے نہ ہوں۔

 

اے نورِ عینِ من! امامؑ علیٔ زمان ہے، اور علیؑ وجہ اللہ ہے، جس کے بارے میں قرآنِ حکیم فرماتا ہے: فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ = جس طرف بھی تم رخ کرو گے اسی طرف اللہ کا رخ ہے، یعنی عالمِ قرآن میں ہر طرف وجہ اللّٰہ کی جلوہ نمائی ہے، لہٰذا بالواسطہ یا بلاواسطہ امامِ عالی مقامؑ کے ذکرِ جمیل کے بغیر کوئی آیت نہیں ہے۔

اے عزیزان ! مولا علی صلوات اللہ علیہ نے اپنے بابرکت اور پُرحکمت ارشادات میں جس عظیم الشّان طریقے سے قرآنی تاویلات کو بیان فرمایا ہے وہ اساسی اور کلیدی تاویلات ہیں، لہٰذا ہر عاشق کا یہ فریضۂ عشق ہے کہ وہ اپنے معشوق کے ارشادات کو بار بار پڑھے، تاآنکہ اس کو ہر ارشاد کا مطلب یاد ہو، اور ان کی برکتیں شروع ہو جائیں۔

 

۲۷۰

 

یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امامؑ اپنے مریدوں کو دو مرحلوں میں علمِ تاویل سکھاتا ہے: اوّل مرتبۂ علم الیقین میں ، دوم مرتبۂ عین الیقین میں، پس مولانا علیؑ اپنی ذاتِ عالی صفات کی شان میں جو کچھ ارشاد فرماتا ہے وہ آپ کے لئے بنیادی امام شناسی بھی ہے اور کلیدی تاویل بھی، جیسے ارشاد ہے کہ علیؑ آیات اللہ ہے ، وہ قیامت ہے، وہ ناقور ہے، ذوالقرنین ہے، لوحِ محفوظ ہے، ذَالِکَ الْکِتَابْ ہے، وغیرہ۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۱۲؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۷۱

 

تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے

قسط: ۹

 

آپ کے لئے قرآنِ حکیم میں سوال تھا کہ ذوالقرنین کون ہے؟ سن لو حضرتِ مؤولِ قرآن یعنی قرآنِ ناطق (علیؑ) نے کیا فرمایا؟ اَنَا ذُوالقَرنَینِ ھٰذِہِ الاُمَّۃِ = یعنی میں اس امت کا ذوالقرنین ہوں۔

 

سورۂ کہف (۱۸: ۸۳ تا ۹۹): ذوالقرنین کے لفظی معنی = دو سینگوں والا، مراد صاحبِ صورِ قیامت، کیونکہ ایک دن کسی اعرابی نے رسولؐ اللہ سے پوچھا یا رسولؐ اللہ! صورکیا ہے؟ حضورؐ نے فرمایا: وہ ایک سینگ ہے جس میں پھونک مار کر زور دار آواز نکالی جاتی ہے، یہ ایک عام شخص کی عقل کے مطابق آنحضرتؐ کا جواب فرمانا تھا۔

صورِ اسرافیل دو حصوں میں بھی ہے اور وہ ایک ہی سلسلہ بھی ہے، جہاں صورِ قیامت کو پہلی بار اور دوسری بار پھونکنے کا ذکر ہے (۳۹: ۶۸) اس کی مثال دو سینگ پھونکنے کی ہوئی، اور یہ حقیقی صورِ اسرافیل پر ایک حجاب ہوگیا، جس طرح تمام تر چیزیں مثالوں کے حجابات میں پوشیدہ ہوتی ہیں۔

 

مولا علیؑ نے واضح الفاظ میں بھی فرمایا: میں قیامت ہوں، میں ناقور ہوں، میں قیامت کا برپا کرنے والا ہوں، مگر یہ جو فرمایا کہ “اس امت کا ذوالقرنین ہوں” یہ ساری امت سے امتحان ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب تک امت ہے تب تک اس کا ذوالقرنین (یعنی امامؑ) ساتھ ہے، جب تک دنیا میں اللہ کی کتاب (قرآن) ہے

 

۲۷۲

 

تب تک اللہ کا نور بھی ہے (۰۵: ۱۵) ذوالقرنین کا قصہ قرآن میں اور اس کی معرفت عالمِ شخصی میں ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۱۲؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۷۳

 

تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے

قسط: ۱۰

 

آپ کے لئے ایک بڑا مشکل سوال یہ بھی تھا کہ آیا ہر چیز امامِ مبینؑ میں ہے یا لوحِ محفوظ میں ہے؟ تو مولائے پاک نے تاویلاً جواب عطا فرمایا کہ اَنَا اللّوحُ المحفوظُ۔ یعنی میں ہی لوحِ محفوظ ہوں۔

 

نورِ محمدیؐ قلمِ اعلیٰ ہے اور نورِعلیؑ لوحِ محفوظ ہے، نورِ محمدیؐ کو خدا نے جو قلمِ قدرت بنایا وہ فرشتۂ عقلِ کلّی بھی ہے اور نورِ عرش بھی، اور نورِعلیؑ سے جو لوحِ محفوظ ہے وہ نفسِ کلّی کا فرشتہ بھی ہے اور کرسی کے نام سے عالمگیر نور بھی ہے اور یہاں یہ حکمت بھی خوب یاد رہے کہ کبھی محمدؐ و علیؑ کا نور ایک ہوتا ہے اور کبھی دو نور ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آسمانِ عقلِ کلّ اور زمینِ نفسِ کلّ ایک بھی ہیں اور دو بھی، اسی طرح قلم و لوح دو بھی ہیں اور ایک بھی، یہی حقیقت عرش و کرسی کی بھی ہے، اور خود محمدؐ و علیؑ کا معجزہ بھی ایسا ہی ہے، شاید یہ لوگوں سے بہت بڑا امتحان ہے، یا عاشقوں کو حیران کردینے کے لئے یہ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔

 

علم و معرفت کے دعویدار سب کے سب اس رازِ معرفت کے جاننے سے عاجز ہیں، لوگ شاید یہ خیال کرتے ہوں گے کہ اتفاق سے حدیثِ بخاری کے سب سے بڑے ذخیرے میں علیؑ سے متعلق احادیث کم آئی ہیں، یہ لوگ کتنے سادہ لوح ہیں، درحالیکہ بخاری میں ایک مختصر حدیثِ شریف ایسی حکمت سے مملو بھی ہے کہ اس کا وزن سو

 

۲۷۴

 

کائناتوں سے بھی زیادہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ آنحضرتؐ نے حضرتِ علیؑ سے فرمایا:

اَنتَ مِنّی وَاَنَا مِنْکَ = تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔

تاویل: تیرا نور میرے نور سے ہے اور میرا نور تیرے نور سے ہے، سبحان اللہ!(صحیح بخاری، جلدِ اوّل، کتاب الانبیا ٔ، باب ۳۹۱)۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل  ۱۳؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۷۵

 

تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے

قسط: ۱۱

 

حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ نے فرمایا:

اَنَاالّذِیْ عِنْدِی الفُ کِتَابٍ مِن کُتُبِ الاَنبِیَاءِ = یعنی میں وہ شخص ہوں جس کے پاس انبیاء علیھم السلام کی کتابوں میں سے ہزار کتابیں موجود ہیں۔

 

اَنَا المُتَکَلِّمُ بِکُلِّ لُغَتٍ فِی الدُّنیا = یعنی میں وہ شخص ہوں جو دنیا کی ہر لغت و زبان میں کلام کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

اَنَا صَلوٰۃُ المُومِنینَ وَزَکوٰتُھُم وَحَجُّھُم وَجِھَادُھُو: یعنی میں مومنین کی نماز اور ان کی زکات اور ان کا حج اور ان کا جہاد ہوں۔

 

اس حقیقت کی پہلی دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی دینی فریضہ علیؑ کے عشق و محبت کے بغیر قبول نہیں، دوسری دلیل یہ ہے کہ ہر فریضہ کی تاویل کو کتابِ وجہِ دین میں دیکھو امامؑ اور حدودِ دین کی معرفت کا ذکر اور دعوتِ حق کا ذکر ہے، گویا تمام فرائض کا جوہر امامؑ کی معرفت ہے۔

 

سوال: امامؑ کس طرح دنیا کی ہر زبان میں کلام کرتا ہے؟

جواب: یہ معجزہ مولا کے لئے بہت آسان ہے، حضرتِ امام علیہ السلام روح کا ایک ذرہ نہیں بلکہ وہ کلِ کلیات اور اپنے کائناتی نور میں نفسِ کلّ ہے، جس

 

۲۷۶

 

کے سمندر میں دنیا کے سب لوگ اپنی اپنی زبانوں کے ساتھ مستغرق ہیں، جب ان میں سے کوئی شخص وقت آنے پر اپنی زبان میں امامؑ سے کلام کرتا ہے، اس اجنبی زبان میں امامؑ کے معجزانہ کلام کو سن کر یہ شخص حیرت زدہ ہو جاتا ہے، اور خود اپنی ہی زبان میں بہت سی غلطیاں کر کے امامؑ کے سامنے شرمندہ ہوجاتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہر زبان کے اندر ایک اصل زبان محفوظ ہے، تاکہ امامِ عالی مقامؑ روحانی قیامت یا بہشت میں اسی اصلی زبان میں اہلِ زبان کے ساتھ کلام کرے ، تاکہ لوگوں کو بڑی حیرت ہو کہ حضرت امامؑ کیونکر ہماری زبان میں ایسی فصاحت و بلاغت کے ساتھ بولتے ہیں! اس محفوظ زبان کا ایک اور مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص امامؑ سے تاویل سننے کے قابل ہوجاتا ہے تو وہ تاویل اسی محفوظ زبان میں ہو۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

منگل  ۱۳؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۷۷

 

تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے

قسط: ۱۲

 

حضرتِ مولانا امیرالمؤمنین علی علیہ السّلام نے فرمایا: اَنَا البَعُوضَۃُ الّتیْ ضَرَبَ اللّٰہُ بِھَا مَثَلاً (۰۲: ۲۶) = یعنی میں وہ بعوضہ ہوں جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان فرمائی ہے، مولا کے حقیقی عاشقوں کے لئے یہاں ایک بڑا لطیف اور بڑا عجیب وغریب راز ہے، کیونکہ یہ کوئی ظاہری بعوضہ (مچھر) نہیں ہے، بلکہ صورِ اسرافیل یا آوازِ ناقور کی طرف ایک بہت ہی باریک صوتی اشارہ ہے جس کے بارے میں لوگ کچھ بھی نہیں جانتے ہیں، وہ ہے آدمی کے کان کا بجنا جو مچھر کی آواز کی مانند ہے۔

 

جب اللہ کے حکم سے کسی مومنِ سالک پر جیتے جی عارفانہ موت اور روحانی قیامت واقع ہونے کا وقت آتا ہے تو اسی کان کے بجنے میں بتدریج اضافہ ہونے لگتا ہے، پھر اسی آواز سے داعیٔ قیامت (۵۴: ۰۶؛  ۲۰: ۱۰۸) يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِي لاَ عِوَجَ لَهُ۔ یعنی جس پر قیامت گزرتی ہو اسی کی زبان میں داعی ہوگا، پس مولا نے فرمایا کہ میں ناقور بھی ہوں اور اسکی آواز کی اساس بھی ہوں، یعنی کان کا بجنا، کہ اسی سے دعوتِ قیامت اور ناقور شروع ہوجاتا ہے۔

 

دعوتِ قیامت میں سب سے پہلے یاجوج ماجوج کو بلایا جاتا ہے، اسی کے ساتھ عالمِ ذر کا ظہور طوفانی شکل میں ہوتا ہے، اب صورِ اسرافیل کی آواز کائنات

 

۲۷۸

 

گیر ہوجاتی ہے، جس کا پہلا حصّہ بڑا سخت اور تباہ کن اور دوسرا حصّہ بدرجۂ انتہا شیرین مانندِ مستانہ پریلو (بانسری، یا کوئی بہشت کی شہنائی) مگر بے مثال، جان بخش، حیات آفرین، روح پرور، جس کی لذّت ناقابلِ فراموش، اے کاش! ایسی قیامت باربار آتی! اے کاش! اے کاش! پھر وہ پریلو (بانسری) ہم کب سنیں گے؟ اے لشکرِ اسرافیلی! تم بڑے خوش نصیب ہو، تمہاری آواز سے فدا ہو جاؤں، مجھے اپنی اپنی مجلس میں رکھو، مجھے خوب رلاؤ، خوب رلاؤ۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

بدھ  ۱۴؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۷۹

قرآنی سائنس – حصّۂ سوم

قرآنی سائنس حصّۂ سوم

آغازِ کتاب

میں اکثر سوچتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے عظیم علمی معجزات، بے پایان انعامات اور لا انتہا احسانات و نوازشات کا کما کان حقہٗ شکر اور سجدۂ شکرانہ کس طرح ادا کرو؟

یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن! تو اپنی رحمتِ بے نہایت سے ہمارے ہر حلقۂ چہل درویش کو مناجاتِ شکرگزاری کے لئے اعلیٰ توفیق و ہدایت عنایت فرما! یاربّ العزّت تیری بے شمارنعمتوں کا طوفان عالم گیر اور دائمی ہے۔

قرآنِ حکیم کا ارشادِ مبارک ہے:

وَتَوَکّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لاَ یَمُوْتُ (۲۵: ۵۸)۔

 

نصیر الدین نصیرؔ ( حبِّ علی) ہونزائی(ایس۔آئی)

کراچی

جمعرات۳۰ ؍ ستمبر ۲۰۰۴ء

 

۱

 

اَللّٰھُمَّ اِنِیّ اَسْئَلُکَ بِاَسْمَائِکَ الْحُسْنٰی

 

بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ لَا تَأْخُذُہُ سِنَۃٌ وَلَا نَوْمٌ لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِنْدَہُ إِلَّا بِإِذْنِہِ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا یُحِیطُونَ بِشَیْء ٍ مِنْ عِلْمِہِ إِلَّا بِمَا شَاء َ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا یَئُودُہُ حِفْظُہُمَا وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیم (۰۲: ۲۵۵)۔

اس کے لا محدود معنی میرے فہم و ادراک سے بالاتر ہیں!

انتسابِ جدیدی: آج خداوندِ قیامت کی عنایاتِ بے نہایت سے تاویلی حقائق کے ابواب جس شان سے کھلتے جا رہے ہیں اور جس سے مومنین و مومنات کی علمی و روحانی سیرابی و شادابی ہوتی جارہی ہے اس کی نظیر  دعوتِ حق کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے “نورٌعلیٰ نور” اس بابرکت علم کو جماعت اور انسانیّت تک پہنچانے کیلئے خداوندِ قیامت نے اپنے قیامتی لشکر کو حرکت میں لایا ہے، جو مثالی قربانی اور ایثار سے کام لے رہا ہے، عزیزانم عبد العزیز اور شمشاد چنڈوانی اس لشکر میں مناصبِ عالیہ پر فائز ہیں اور کتابِ ہٰذا “قرآنی سائنس، حصۂ سوم” کی طباعت کے اخراجات کی قربانی پیش کی ہے، ان کی عظیم نیک بختی یہ ہے کہ علم الیقین کے ساتھ ان کی چشمِ باطن بھی کھل گئی ہے اور معجزاتِ معرفت، خصوصاً قربِ قیامت سے متعلق معجزات کا مشاہدہ کر رہے ہیں ، ان کی عبادت و ریاضت کا میوۂ شیرین ان کو مبارک ہو! آمین! ان کو اور ان کے عزیز دو لٹل اینجلز پندرہ سالہ علی شان اور آٹھ سالہ ارسلانِ قائم کو خداوندِ ربّ العزّت ہر لحاظ سے نوازے! خصوصاً حصولِ علمِ روحانی اور اس کی مقدس خدمت کی دولتِ لازوال سے مالا مال فرمائے! آمین یاربّ العالمین!!

 

نصیر الدین نصیرؔ ( حبِّ علی) ہونزائی(ایس۔آئی)

جمعہ ۸ جولائی  ؁۲۰۰۵ء

 

۲

 

تاویلِ آیۂ شریفۂ امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲)

قسط:۱

 

امامِ مبین علیہ السّلام اللہ تعالی کی کتابِ ناطق ہے (۲۳: ۶۲؛  ۴۵: ۲۹) اس کے معنی ہیں قرآنِ ناطق، جو اللہ کی کتاب کا نور(۰۵: ۱۵) اور معلّم و مؤول ہے، نیز امامِ  مبینؑ ذالک الکتاب لاریب فیہ ہے، جس میں کوئی شک نہیں بلکہ یقین ہی یقین ہے، اور امامِ مبینؑ اللہ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم بھی ہے اور رسولِ کریمؐ کے علم و حکمت کا دروازہ بھی، نیز علمِ الٰہی کا خزانچی بھی ہے اور اسماء الحسنیٰ بھی ہے، (۰۷: ۱۸۰) اسکی اطاعت رسولؐ کی اطاعت ہے، اور رسولؐ کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔

مذکورہ حوالے کے مطابق اللہ پاک کا یہ ارشاد کہ اس ارحم الراحمین کے پاس ایک بولنے والی کتاب ہے، اس میں اہلِ حقیقت کو قربِ الٰہی کی دعوت ہے ، اگر وہ امامِ  زمانؑ ہی کے وسیلے سے نورِ الٰہی کے بالکل قریب ہوسکتے ہیں تو بیشمار فائدوں کے ساتھ براہِ راست قرآنِ ناطق سے فیوض و برکات حاصل کریں گے۔

اگر خداوندِ کریم اپنے حضورِ پاک کی کسی بہت بڑی نعمت کا ذکر کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ خود ذاتِ سبحان کو یہ نعمت ضروری ہے، بلکہ ایسے ارشادات کا یہ مطلب ہے کہ مومنین خدا کے قربِ خاص کی طرف آگے بڑھیں، کیونکہ آپ قرآن میں دیکھتے ہیں کہ دین کی عظیم الشّان چیزیں خدا کے پاس ہیں، تاکہ ہر دانا مومن خدا کے قریب ہوجائے، اگر فنا فی اللہ ہو جاتا ہے تو بہت ہی اچھا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی

بدھ ۱۴؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۳

 

تاویلِ آیۂ شریفۂ امامِ  مبینؑ

قسط:۲

 

إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ(۳۶: ۱۲)۔

تاویل: ہم حدودِ دین سے کسی کی عارفانہ موت اور روحانی قیامت کے ذریعے سے ہر قسم کے مردوں کو ابدی بہشت کے لئے زندہ کر دیتے ہیں اور ان سب کے اعمال و آثار ہمارے پاس ریکارڈ ہیں اور ہم نے اپنی قدرت کے تمام ذرائع و اسباب اور جملہ نتائج کو امامِ مبینؑ میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے۔

اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ بادشاہِ مطلق ہے، اس لئے درحقیقت وہ حکم کا مالک ہے اورکام کرنا اسے زیب نہیں دیتا، انبیاء علیھم السّلام پر آسمانی وحی لانے کے لئے جبرائیل مقرر ہے، رزق تقسیم کرنے کے لئے میکائیل ہے، انسانوں کی روح قبض کرنے کا کام ملک الموت کے سپرد ہے، قیامت کا کام اسرافیل کرتا ہے، اور قلمِ الٰہی کا کام بڑا عالی ہے، اور لوحِ محفوظ ہے، اور کراماً کاتبین فرشتے ہیں، پھر بھی خدا فرماتا ہے کہ ہم لکھتے ہیں، تو کیا اس ارشاد سے قلم اعلیٰ کی نفی ہوتی ہے؟ یا لکھنے والے فرشتوں کی تردید ہوتی ہے؟ نہیں نہیں، بلکہ خدا کے لکھنے کے یہ معنی ہیں کہ جو کام خدا کے حکم سے کیا جاتا ہے، وہ خدا ہی سے منسوب ہوجاتا ہے، اسی طرح اللہ نے امامِ مبینؑ کو اپنا زندہ اسمِ اعظم اور مظہرِ اسمائے صفات بنا کر بہت کچھ دیا ہے، اسی معنی میں فرمایا کہ اور ہم نے ہر چیز کو امامِ  مبینؑ میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے، دانا مومن کیلئے یہی اسرار ازبس ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی

بدھ ۱۴؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۴

 

تاویلِ کلیّۂ امامِ  مبینؑ

قسط:۱

 

قرآنِ حکیم کے عظیم معجزات میں سے ایک خاص معجزہ یہ بھی ہے کہ ہر بڑے اہم کلیہ کی تفسیر و تاویل قرآن کے کئی مقامات پر ملتی ہے، جیسے یہی قانون آیتِ خزائن میں بھی ہے (۱۵: ۲۱) ارشاد ہے:

وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلاَّ عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ ۔

ترجمہ: کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس یعنی امامِ  مبینؑ میں نہ ہوں اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں۔

اس تفسیر اور تاویل سے معلوم ہوا کہ خدا کی ہر چیز امامِ  مبینؑ میں ہونے کے یہ معنی ہیں کہ خزائنِ الٰہی بھی امامِ  مبینؑ میں ہیں، اور حضرتِ امام علیہ السّلام کے اسمائے مبارک میں سے ایک اسم کتاب ہے، پس ارشاد ہوا:

وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا كِذَّابًا  وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ كِتَابًا(۷۸: ۲۸ تا ۲۹)۔

ترجمہ: اور ہماری آیات (یعنی امامؑ) کو بالکل جھٹلا دیا تھا اور حال یہ تھا کہ ہم نے ہر چیز کو گھیر کر اور گن کر کتاب (امامؑ) میں رکھی تھی۔

مولا کا یہ فرمانا کہ اس کے پاس انبیاء علیھم السّلام کی آسمانی کتابوں میں سے

 

۵

 

ایک ہزار کتابیں تھیں، میں کہتا ہوں کہ مولا نے ہماری کمزور عقل کے پیشِ نظر کتابوں کی تعداد کم بتائی، ورنہ ہر نبی کے لئے امام کے نور نے آسمانی کتاب کا کام انجام دیا ہے، اس اعتبار سے یہ یقینی حقیقت ہے کہ امامِ  عالی مقام کے نورِ واحد نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے لئے روحانی، نورانی اور آسمانی کتابوں کا کام کیا ہوا محفوظ اور ریکارڈ ہے، یہ کوئی شرط نہیں کہ ہر پیغمبر کی کتاب ظاہری تحریر میں درج بھی کی گئی تھی یا نہیں؟ لیکن خدا کی قسم لوحِ محفوظ جو نورِعلیؑ ہے اس میں قانون اتنا سخت اور منظم ہے کہ آپ بہشت میں جس نبی کی روحانی کتاب کو چاہیں گے وہ آپ کے سامنے آئے گی، تو اس وقت مولا علیؑ کا کلام آپ کو یاد آئے گا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۱۵؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۶

 

تاویلِ کلیۂ امامِ مبینؑ

قسط:۲

 

امامِ  مبینؑ سب سے اوّل حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ ہے، پھر ہر امامِ  آلِ محمدؐ امامِ مبینؑ ہے، لہٰذا بمقتضائے حکمت قرآنِ حکیم، حدیثِ شریف اور اشاداتِ مولاعلیؑ میں امام شناسی سے متعلق زبردست روشن ہدایات موجود ہیں، یہ طریقِ کار اس لئے ایسا ہے تاکہ ہر زمانے کے دانشمند مومنین ان پر نور ہدایات کی روشنی میں اپنے زمانے کے امام کو پہچان سکیں، پس امامِ  مبینؑ کا ایک دوسرا نام ام الکتاب بھی ہے، جیسا کہ سورۂ رعد (۱۳: ۳۹) میں ارشاد ہے:۔

يَمْحُوا اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ۔

ترجمہ: خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب (لوحِ محفوظ = علیؑ کا نور = نفسِ کلّی) موجود ہے۔

سورۂ زخرف ( ۴۳: ۰۱ تا ۰۴) میں ارشاد ہے:

حم  وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ ۔

ترجمہ با تاویلی مفہوم: قسم ہے حجتِ قائم کی اور قائم کی اور کتابِ مبین کی، کہ ہم نے اس کو روحانی لسان سے عربی قرآن بنایا ہے تاکہ تم سمجھو، اور یہ قرآن لوحِ محفوظ = نفسِ کلّی = علی کے نور میں میرے پاس زندہ علی اور حکیم ہے۔

 

۷

 

قرآن میں ہر جگہ کتاب تاویلاً امام ہے اور ام الکتاب اساس = علیؑ ہے، پس جہاں علیؑ کا نور ہے وہ وہاں علیؑ کی صورت پر ہے، وہ  عالی مرتبہ، زندہ اور حکمت والا ہے، خدا کے پاس کوئی بے جان، بے عقل، بے علم و حکمت اور بے نور چیز جا ہی نہیں سکتی ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات  ۱۵؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۸

 

تاویلِ کلیۂ امامِ  مبینؑ

قسط:۳

 

حدودِ دین (جسمانی) میں سے کسی پر عارفانہ موت اور روحانی قیامت واقع ہونے کا خاص مقصد امامِ  مبینؑ کی عملی معرفت کا تجدّد ہے، کیونکہ اللہ اور اس کے محبوب رسولؐ کے حکم کے مطابق حضرتِ امامِ  مبینؑ کی معرفت بیحد ضروری ہے۔

جی ہاں عارفانہ موت اور روحانی قیامت کی منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی کی برکات بے شمار اور لامحدود ہیں، لہٰذا میں آج صرف ایک ہی عظیم راز بیان کرتا ہوں کہ اسی بابرکت منزل میں یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ امامِ  مبینؑ جسماً و روحاً و عقلاً کائنات پر محیط ہے، اس لئے اس کو عالمِ اکبر اور انسانِ اکبر کہا جاتا ہے، اسی امرِ واقعی کی معرفت کی غرض سے عارف کی روح قبض کر کے باربار ساری کائنات میں پھیلائی جاتی ہے، تاکہ عارف کبھی یہ کہہ سکے کہ میں جانان میں فنا ہو کر کائنات ہوگیا ہوں۔

ہر منزل میں عارف کو جس طرح بڑے بڑے معجزے دکھائے جاتے ہیں ان کا اصل مقصد امام شناسی ہی ہے، یاد رہے کہ اصل معرفت عملی ہی ہوتی ہے، میں نے روحانی سائنس کے عجائب و غرائب میں اس نوعیت کے بہت سے بھیدوں کو درج کیا ہے، آپ ان کو پڑھیں۔

عقلِ کل و نفسِ کل مردِ خدا ست

عرش و کرسی را مدان کزوی جداست

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۱۶؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۹

 

تاویلِ کلیۂ امامِ  مبینؑ

قسط:۴

 

اس مضمون کی قسطِ پنجم میں یہ بتایا گیا کہ امامِ  مبینؑ جسماً و روحاً و عقلاً (علماً) کائنات پر محیط ہوتا ہے، اس لئے اس کو عالمِ اکبر اور انسانِ اکبر کہا جاتا ہے، اس کی معرفت عاشقِ صادق کو عارفانہ موت اور روحانی قیامت کی منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی میں حاصل ہوتی ہے، اس عرفانی معجزے کی قرآنی شہادت اور تصدیق کے لئے آپ قصۂ حضرتِ طالوتؑ (۰۲: ۲۴۵ تا ۲۴۷) میں خوب سے خوب تر غور کریں۔

اس قصّے کے مطابق بنی اسرائیل کے سردار پہلے تو اپنے نبی حضرت شموئیلؑ سے ایک بادشاہ (امامؑ) مقرر کر دینے کی درخواست بھی کرتے ہیں اور بعد میں اعتراض بھی کرتے ہیں، لیکن جو امامؑ خدا اور پیغمبرؐ کے حکم سے مقرر ہوتا ہے وہ تمام معجزات کے ساتھ امامِ  مبینؑ ہوتا ہے، وہ اپنے بلیغ دوستوں کو عارفانہ موت اور روحانی قیامت کے تمام معجزات دکھاتا ہے، جن میں علم و معرفت کے جواہر بھرے ہوئے ہیں۔

وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَبْصُطُ ۔ اس کے تراجم اپنی اپنی جگہ پر ہیں، اس کی ایک اہم تاویل یہ ہے:- خدا اس شخص کی روح کو جو عارفانہ موت سے مر رہا ہو قبض کر کے کائنات بھر میں پھیلا دیتا ہے، جس سے یہ کائناتی روح کے ساتھ مل جاتی ہے، پھر کائناتی روح کو اس شخص میں ڈالتا ہے، اسی طرح کرتے کرتے ہزاروں کائناتیں اور ہزاروں عوالمِ شخصی کو وجود میں لاتا ہے، وہ اپنے اسرار کو خود ہی بہتر جانتا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ ۱۶؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۱۰

 

تاویلِ کلیۂ امامِ  مبینؑ

قسط:۵

 

عارفانہ موت اور روحانی قیامت کی منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی کے فیوض و برکات بے شمار ہیں، کیونکہ یہ دراصل فنا فی الامامؑ کا مقدّس و مبارک عمل ہے، اگرچہ فنا فی الامامؑ کے فوری ثمرات دنیا میں بھی ملتے ہیں، لیکن ابدی انعامات قالبِ عنصری کو چھوڑ دینے کے بعد ملتے ہیں، ان شاء اللہ۔

جب روحانی قیامت برحق ہے، تو لاریب آپ اپنی موت کو دیکھ رہے ہیں، اور روحوں کے مسلسل حشر و نشر کو بھی دیکھ رہے ہیں، اور آپ کو عطا شدہ اسمِ اعظم خود بخود ذکر اس لئے کررہا ہے کہ اس میں امامِ مبینؑ کا ظہور ہوا ہے، اور یہ کائنات جو بار بار آپ میں لپیٹ لی جاتی ہے اور باربار پھیلا دی جاتی ہے آپ کی وجہ سے نہیں، بلکہ امامِ مبینؑ کی وجہ سے ہے، جو آپ کی جبین کے اسمِ اعظم میں اس کا نور کام کررہا ہے، آپ کو صرف معرفت کی خاطر ہر معجزہ دکھلایا جاتا ہے۔

آپ کو کاملاً یقین آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بادشاہی کی کل چیزوں کو امامِ مبینؑ میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے، اور ہر روحانی قیامت میں اس فعلِ قدرت کا تجدّد کرتا ہے، تاکہ ہر عارف کو یکسان معرفت حاصل ہو۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۱۶؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۱۱

 

تاویلِ کلیۂ امامِ  مبینؑ

قسط:۶

 

طریقت ( تصوّف) میں پہلے فنا فی المرشد ہے، پھر فنا فی الرّسولؐ اور آخر میں فنا فی اللہ، یہ صرف اصطلاحات میں شامل ہیں، مگر حقیقت میں صرف ایک ہی فنا ہے، اور وہ بابرکت فنا ہے جس کا نام فنا فی الامامؑ ہے، یہی عارفانہ موت جو فنافی الامامؑ ہے وہی فنا فی الرّسولؐ بھی ہے، اور فنا فی اللہ بھی، کیونکہ دین کی ہر اہم چیز کو اللہ نے امامِ مبینؑ میں جمع کیا ہے، اور اس قانون سے کوئی شی مستثنا نہیں ہے۔

قرآنِ حکیم کا واضح حکم ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، اس کے بعد رسولؐ کی اطاعت ہے، اور آخر میں امامؑ کی اطاعت ہے، پس اللہ کی حکمت اسی میں ہے کہ اطاعت کے ان تین مراحل میں سے آخری مرحلے میں عارفانہ موت اور روحانی قیامت ہو، اسی وجہ سے قرآن (۱۷: ۷۱) میں ارشاد ہے:

يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ۔

اس دن (کو یاد کرو) جب ہم اہلِ زمانہ کو ان کے امام کے توسط سے بلائیں گے۔ پس یہ حقیقت روشن ہوئی کہ جس طرح امامِ مبینؑ میں خدا کی خدائی کی ہر چیز ہے، اسی طرح اس میں قیامت سے متعلق چیزیں بھی ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی

جمعہ  ۱۶؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۱۲

 

تاویلِ کلیۂ امامِ  مبینؑ

قسط:۷

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نعمتوں کو انس و جنّ کبھی مل کر بھی شمار نہیں کر سکیں گے، وہ بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے، ہر عزیز قدرتِ خدا کے عجائب و غرائب کو عشق و محبّت سے سنے اور کلیۂ امامِ  مبینؑ کے اسرارِ عظیم کو سمجھنے کے لئے ہمیشہ سعئ بلیغ کرے، عارفانہ موت اور روحانی قیامت کا بتوفیقِ الٰہی ذکر ہوا، اللہ تعالیٰ ہماری ہر ناشکری کے لئے معاف فرمائے!

مذکورہ روحانی قیامت کی حکمت آگین اسرافیلی اور عزرائیلی منزل میں جو بے شمارفیوضات و برکات ہیں ان میں سے اللہ کا ایک عظیم انعام تسخیرِ کائنات بھی ہے، اگرچہ آپ کی وجہ سے نہیں بلکہ امامِ مبین علیہ السلام کی وجہ سے کائنات آپ میں بار بار لپیٹی جاتی تھی، تاہم اللہ تبارک و تعالیٰ حضرتِ امامِ مبین علیہ السّلام کی برکت سے کائنات آپ ہی کے لئے مسخر کر دیتا ہے، آپ ہمیشہ اللہ کی لاتعداد اور بے حساب نعمتوں کی شکر گزاری میں بار بار آنسوؤں کے ساتھ سجدہ کرتے رہیں، ایسا نہ ہو کہ کہیں ناشکری ہوجائے۔

تسخیرِ کائنات سے متعلق قرآنی آیات میں غور و فکر کریں، خصوصاً سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں درست غور کریں، جس کا ترجمہ یہ ہے: کیا تم لوگوں نے چشمِ  بصیرت سے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض) سب کچھ خدا

 

۱۳

 

ہی نے تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے، اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں، اللہ جل شانہٗ کی رحمتِ بےپایان سے بعید نہیں کہ آپ کو ہزار ہا عوالمِ  شخصی ایسے عطا ہوں جو کائناتی بہشت ہو چکے ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ  ۱۷؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۱۴

 

تاویلِ کلیۂ امامِ  مبینؑ

قسط:۸

 

سورۂ بروج (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) میں ارشاد ہے:

بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ فيِ لَوْحٍ مَحْفُوظٍ۔

بلکہ یہ عالی رتبہ قرآن ہے لوحِ محفوظ (نورِ نفسِ کلّی) میں ۔ حضرت مولا علی امامِ  مبین علیہ السّلام نے فرمایا:

انا اللوحُ المحفُوظ۔

یعنی میں ہی لوحِ محفوظ ہوں، یقیناً نورِ محمدیؐ قلم ہے اور نورِعلی لوحِ محفوظ ہے، نورِ محمدیؐ عقلِ کلّی اور نورِ علیؑ نفسِ کلّی ہے، نورِ محمدیؐ عرش اور نورِعلی کرسی ہے۔

بگردِ عالم ار بحرِ محیط است

درو ہم گوہر و مرجان علی بود

ترجمہ: اگر کائنات کے گردا گرد بحرِ محیط ہے، بحرِ محیط جسمِ لطیف کا یا نفسِ کلّی کا تو اس بحرِ محیط میں گوہر یک دانہ اور انمول مونگا علیؑ تھا اور علیؑ ہے۔

آیۂ کرسی (۰۲: ۲۵۵) میں ارشاد ہے:

وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ۔

اس کی کرسی (نفسِ کلّی) نے تمام آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ساری کائنات امامِ مبینؑ کے عالم گیر نور کے قابو (کنٹرول) میں ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی

اتوار  ۱۸؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۱۵

 

تاویلِ کلیۂ امامِ  مبینؑ

قسط:۹

 

سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) میں ارشاد ہے:

وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّأَا لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَبَشِّرْ الْمُؤْمِنِينَ۔

ترجمہ: اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی (ہارون) کے پاس وحی بھیجی کہ مصر (عالمِ شخصی) میں اپنی قوم کے لئے گھر بنالو اور ان کو (روحانی ترقی دے کر) قبلہ (یعنی خدا کا گھر) بناؤ اور نماز کو قائم کرو اور مومنین کو خوش خبری دے دو۔

اس میں اشارہ ہے کہ ہر زمانے کے مومنین کے لئے یہ سعادت نصیب ہوسکتی ہے، اور عالمِ شخصی میں مومن کے گھر کو جو ترقی مل کر قبلہ ہوسکتا ہے، وہ قبلہ (خدا کا گھر) حظیرۂ قدس میں ہے، اور یہ وہی تاویل ہے کہ طوفانِ نوح میں زمین سے خدا کے گھر کو آسمان پر اٹھا لیا تھا جس کی وجہ سے خدا کا گھر وہاں بیت المعمور ہوگیا، یہ خدا کے اس گھر کی بات ہے جو حظیرۂ قدس میں ہے، اور یہ سب کچھ امامِ مبینؑ کی معرفت سے ہوسکتا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی

اتوار ۱۸؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۱۶

 

کلیدی حکمتیں

قسط:۱

 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔ آنحضرت (صلعم) کا نورِ پاک علم کا شہر بھی ہے اورحکمت کا گھر بھی ہے، اب آپ ہمیں یہ بتائیں کہ قرآنی علم و حکمت اس مقدس شہر اور اس پاک گھر کے اندر ہے یا باہر ہے؟ آپ یقیناً یہی جواب دیں گے کہ رسولِ پاکؐ کا نور قرآنی علم کا شہر بھی ہے اور قرآنی حکمت کا گھر بھی، پس آپ کو اس حقیقت پر یقین رکھنا ہوگا کہ علیؑ ہی اس مقدس علمی شہر اور اس پاک حکمتی گھر کا دروازہ ہے، لہٰذا علیؑ ہی کے دروازے سے نبیٔ کریمؐ کے مدینۂ علم اور دارِ حکمت میں داخل ہوجانے کی سعادت نصیب ہوسکتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کا واضح حکم بھی یہی ہے، سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۸۹):

وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔

تم اپنے روحانی اور نورانی گھروں میں دروازے سے ہی آیا کرو البتہ اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے۔

حدیثِ مدینۂ علم اور حدیثِ دارالحکمۃ میں بہت سی کلیدی حکمتیں پنہان ہیں جن کی بدولت علم و حکمت کے بہت سے ابواب مفتوح ہوسکتے ہیں، ان دونوں بابرکت حدیثوں میں عاشقوں کے لئے لاتعداد برکتیں ہیں، الحمدللّٰہ۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۱۹؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۱۷

 

کلیدی حکمتیں

قسط:۲

 

دعائم الاسلام، جلدِ اوّل، عربی ، ص ۱۵ پر ہے کہ:

وریناأیضاً عن عَلی بن أبی طالب (ص) أنہ قَال: لمَّاأنزل اللہ عزّ و جل: وَأنْذِرْ عَشِیْرَ تَکَ الْأقْرَبِیْنَ (۲۶: ۲۱۴) جمع رسول اللہ (ص) بَنی عبدُ المُطلب علٰی فخذ شاۃ وقدح من لبن ، واِنَّ فیھم یومٔذٍ عشرۃً ، لیس منھم رجلٌ اِلَّایٔاکل الجَذَعَۃَ وَیشرب الفَرق و ھم بِضعٌ و أربعون رجلاً ، فأکلواحتی صَدَروا ، وشربوا حتی ار تو وا وفیھم یو مٔذ أبولھَب ، فقَال لھم رسُول اللہ (صلع) : یَابَنی عبدُ المطلب! أطیعونی تکونوا ملوک الأرض و حکّاَمھَا ، اِنَّ اللہ لم یبعث نبیّاً اِلاَّ جعل لہ وصیّاً و ویزاً وارثاً و أخاً و ولیّاً ، فَأ یُّکم یکون وصیِّی وارثی و ولیِّی و أخی و وزیری؟ فسکتوا ، فجعل یعرض ذٰلک علیھم رجلاً رجلاً لیس منھم أحد یقبلہ حتی لم بَبقَ منھم أحدٌ غیری و أنا یومٔذٍ من أحد ثھم سنّاً ، فعرض عَلیَّ فقلتُ : أنا یا رسول اللہ ، فقال : نَعم أنت یَاعَلی۔

ترجمہ: امیر المومنین علی ابنِ ابی طالب علیہ السّلام سے یہ روایت منقول ہے،

 

۱۸

 

آپ فرماتے ہیں کہ جب آیتِ کریمہ:

وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ۔ (۲۶: ۲۱۴)

ترجمہ: اور آپ اپنے نزدیک کے کنبہ والوں کو ڈرائیے۔ نازل ہوئی تو آنحضرت صلعم نے ایک پیالہ دودھ اور بکری کی ایک ران دسترخوان پر رکھ کر خاندانِ بنی عبدالمطلب کو جمع کیا جو چالیس مردوں پر مشتمل تھا، مگر دس نوجوان تو ایسے تھے کہ ان میں سے ہر فرد ایک میمنا اکیلا ہی کھا سکتا تھا اور ایک مشک دودھ پی سکتا تھا، پھر بھی ان لوگوں نے خوب پیٹ بھر کر کھایا پیا، اس روز ابو لہب بھی ان کے ساتھ تھا، جب خورد و نوش سے فارغ ہوچکے تو رسولِ اکرم صلعم نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے بنی عبدالمطلب! میری اطاعت کرو تو تم سب زمین کے بادشاہ اور حکمران بن جاؤ گے، اور میں تم سے پورے یقین کےساتھ کہتا ہوں کہ اب تک پروردگارِ عالم نے دنیا میں جتنے پیغمبر بھیجے ہیں ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک وصی، اور وزیر، بھائی، اور وارث، اور ولی مقرر فرمایا تھا، تو آج تم کون ایسا جوان مرد ہے جو میرا وصی، میرا وارث، میرا ولی، میرا بھائی اور میرا وزیر بنےگا؟ اتنا سننا تھا کہ سب پر خاموشی چھا گئی، مگر آنحضرت صلعم نے اتمامِ  حجت کے طور پر ان میں سے ایک ایک کے سامنے فرداً فرداً یہ دعوت پیش کی، لیکن کسی نے آپ کی اس دعوت کو قبول نہ کیا، الا آنکہ میں باقی رہ گیا تھا، اس وقت میں سب سے کم سن تھا، مگر جب رسول اللہ صلعم نے میرے سامنے اپنی یہ دعوت پیش کی تو میں نے مودبانہ عرض کیا کہ اے پیغمبرِ خدا صلعم میں آپ کا وصی، وزیر، بھائی، وارث اور ولی بنوں گا، آپ نے فرمایا کہ ہاں! اے علی تمہیں میرے وصی، میرے وزیر، میرے بھائی، میرے وارث، اور میرے ولی ہو۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۱۹؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۱۹

 

کلیدی حکمتیں

قسط:۳

 

سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۰) میں ارشاد ہے:

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا وَآتَاكُمْ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِنْ الْعَالَمِينَ۔

تاویلی خلاصہ: حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیھما السلام نے خدا کے حکم سے اپنی قوم کو عالمِ شخصی میں سلاطین بنایا تھا، اور آپ کو میرا بیان یاد ہوگا کہ عالمِ شخصی کی سلطنت کائناتی بہشت کی سلطنت ہوجاتی ہے، جس میں پیغمبرؐ اور امامؑ کی قوم کے تمام لوگ بادشاہ ہوجاتے ہیں، پس اس آیۂ شریفہ میں اسی حقیقت کا ذکر فرمایا گیا ہے، آپ قرآنِ حکیم کے کسی مستند ترجمے کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔

آپ کو یقین کرنا ہوگا کہ جب عالمِ شخصی نور ہدایت کی روشنی میں کامیاب ہو جاتا ہے تو کائناتی بہشت ہوجاتا ہے، جس میں دراصل امامؑ کی قوم کے لوگ سلاطین ہوتے ہیں، اور راز یہی ہے، اس کی وجہ امام شناسی ہی ہے، تاہم سب لوگ بہشت میں ہوں گے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی

نوروز مبارک  بدھ  ۲۱؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۲۰

 

کلیدی حکمتیں

قسط:۴

 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔ سورۂ محمد (۴۷: ۰۴ تا ۰۷)۔

بِبَعْضٍ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ۔

ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کی راہ میں (باطنی) شہید ہوجائیں اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا وہ ان کی رہنمائی فرمائے گا ان کا حال درست کردے گا اور ان کو اس جنّت میں داخل کرے گا جس سے وہ ان کو شناسا کرچکا ہے اوراے لوگو جو بحقیقت ایمان لائے ہو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔

رسولِ پاکؐ کی حدیثِ شریف کے مطابق جہاد دو قسم کا ہے: اوّل جہادِ اصغر، دوم جہادِ اکبر، پس مذکورہ آیۂ شریفہ میں جہادِ اکبر کے شہیدوں کا ذکر ہے، یہی حضرات جیتے جی عارفانہ موت سے مر کر روحانی قیامت کا تجربہ کرتے ہیں جس میں ان کو ہر بڑی معرفت حاصل ہو جاتی ہے، اور اس میں بہشت کی معرفت بھی ہے، پس یہ آیۂ شریفہ عارفین کی شان میں ہے، اس آیۂ مبارکہ میں عارفانہ موت (روحانی شہادت) اور معرفتِ کلّی کی کلیدی حکمتیں موجود ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی

اسلام آباد  ۲۲؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۲۱

 

کلیدی حکمتیں

قسط:۵

یادگار تحفہ برائے عزیزان

 

خوفِ خدا جو علم و معرفت کے ساتھ ہو وہ خاص کلیدی حکمت ہے، اسی طرح کی گریہ و زاری اساسی حکمت ہے۔

ذکرِ الٰہی جو کثرت سے ہو وہ کلیدی حکمت ہے۔

کثرتِ سجود جو خدا کے عشق سے ہو وہ کلیدی حکمت ہے۔

ہر قرآنی حکمت کلیدی حکمت ہے۔

شب خیزی کلیدی حکمت ہے۔

فکرِ قرآن کلیدی حکمت ہے۔

فکرِ آیاتِ آفاق و انفس کلیدی حکمت ہے۔

اپنی ذات (عالمِ شخصی) میں روحانی سفر کلیدی حکمت ہے۔

امامِ زمانؑ کا عشق سب سے عظیم کلیدی حکمت ہے۔

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی شکرگزاری کلیدی حکمت ہے۔

قرآنِ حکیم کی علمی خدمت کلیدی حکمت ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی

اسلام آباد

جمۃ المبارک   ۲۳؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۲۲

 

کلیدی حکمتیں

قسط:۶

 

قرآنِ حکیم اور حدیثِ شریف کی کلیدی حکمتوں کے بعد أئمّۂ طاہرین علیھم السّلام کی حکمتیں لازمی اور ضروری ہیں، اور اس سلسلے میں سب سے بیشتر حضرتِ مولانا علی علیہ السلام کے مبارک ارشادات کو جان و دل اور عشق و محبت سے پڑھنا اور پڑھانا ہے، اللہ، رسولؐ اور امامِ زمانؑ کی حقیقی اطاعت، محبت اور عشق وہ کلیدی حکمت ہے جس سے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

حدیثِ شریف ہے:- الحکِمَۃُ ضَالَۃُ المؤمِن = حکمت مومن کی کھوئی ہوئی چیز ہے۔ سوال ہے کہ یہ واقعہ کس طرح پیش آیا ہے؟

جواب: جب مومن بہشت میں تھا تب حکمت مومن کی ملکیت تھی، پس اگر وہ دنیا میں حکمت کو حاصل کرتا ہے تو وہ یہ ادراک کرے گا کہ وہ بہشت سے قطعی طور پر الگ نہیں ہے، لہٰذا روحانیّت اور حکمت کے ذریعے سے بہشتِ برین کا احساس و ادراک ہوسکتا ہے، یعنی بہشت کے مشاہدے معرفت حاصل ہوسکتی ہے، اگر دنیا میں بہشت کی معرفت ممکن نہ ہوتی تو سورۂ محمد میں بہشت کی معرفت کا ذکر نہ ہوتا (۴۷: ۰۶) اگر اس دنیا میں چشمِ معرفت ضروری نہ ہوتی تو قرآن اندھا پن کی مذمت نہ کرتا (۱۷: ۷۲)۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی

اسلام آباد  ،  ہفتہ  ۲۴؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۲۳

 

کلیدی حکمتیں

قسط:۷

 

عشقِ سماوی کلیدی حکمت ہے، وہ اللہ، رسولؐ اور امامِ زمانؑ کا مقدّس و مبارک عشق ہے، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ امامِ  برحقؑ کا عشق آنحضرتؐ کا عشق ہے، اور آنحضرتؐ کا عشق خدا کا عشق ہے، بالکل اسی طرح جس طرح امامِ  زمانؑ کی اطاعت رسولؐ کی اطاعت ہے اور رسولؐ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔

حضرتِ امام محمد باقرعلیہ السّلام کا فرمانِ مبارک: ما قیل فی اللّٰہ کلیدی حکمت ہے۔

ہر حدیثِ قدسی کلیدی حکمت ہے، اسی طرح حدیثِ قدسیٔ نوافل خزانہ بھی ہے، دروازہ بھی اور خود کلیدی حکمت بھی ہے۔

شب خیزی کلیدی حکمت ہے۔

دینِ حق کی خدمت میں تکالیف برداشت کرنا کلیدی حکمت ہے۔

اللہ تعالیٰ کو قادرِ مطلق مان کر اس پر توکل کرنا کلیدی حکمت ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ستارۂ امتیاز)

اسلام آباد ، پاکستان ،   پیر ۲۶؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۲۴

 

کلیدی حکمتیں

قسط:۸

 

“BE WISE” The recent holy Farman of Imam-i Zaman.

ترجمۂ اوّل: دانا ہوجاؤ۔

ترجمۂ دوم: عقل و دانش اور علم و حکمت سے کام لو۔

ترجمۂ سوم: تمہارے دین میں علم و حکمت کی فراوانی ہے، تم اس کو حاصل کر کے دانا اور دانشمند بنو۔

ترجمۂ چہارم: میں تمہارے ہر سوال کا جواب حکمت کی زبان میں ظاہراً و باطناً دیتا رہتا ہوں، لیکن تم دانائی سے کام نہیں لیتے ہو۔

ترجمۂ پنجم: اگر تم علم و حکمت اور دانائی سے کام لو گے تو رفتہ رفتہ تمہاری تکالیف کم سے کم ہوتی جائیں گی۔

حضرت امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کا یہ فرمانِ اقدس بہت مختصر مگر زبردست جامعیّت کا حامل ہے، لہٰذا امامِ عالی مقامؑ کا ہر عاشقِ صادق اسے کلیدی حکمت کے طور پر یاد رکھے تو اس سے امامِ زمانؑ کے پاک عشق کی خوشبو آتی رہے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ!

امامِ آلِ محمدؐ کے راسخ العقیدت مریدوں کے نزدیک عصرِ حاضر زمانۂ قیامت اور دورِ تاویل ہے، یہی وجہ ہے کہ مولائے پاک نے عقل و دانش اور علم و حکمت کو حاصل کرنے کیلئے حکم دیا ہے، اس فرمانِ مبارک میں ظاہری اور باطنی بہت سی برکتیں ہیں، آمین!

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ستارۂ امتیاز)

اسلام آباد ،  پیر  ۲۶؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۲۵

 

صراطِ مستقیم

قسط:۱

 

صراطِ مستقیم = سیدھی راہ = راہِ راست، مگر یہ دنیا کی کوئی سڑک ہرگز نہیں، بلکہ یہ طریقِ دین اور اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے جو دنیوی سڑک سے قطعاً مختلف اور پاک وبرتر ہے، جبکہ دنیا کی سڑک بیجان و بے عقل ہونے کی وجہ سے خوار و ذلیل پڑی ہے، اس کے برعکس صراطِ مستقیم زندہ و عاقل اور اشرف و اکمل اور حاملِ نورِ ہدایت ہے، یعنی وہ خود ہادیٔ برحق (امامِ زمانؑ) ہے جو آئینہ جمال و جلالِ خداوندی بھی ہے، اور اللہ کا اسمِ اعظم بھی ہے۔

اے نورِ عینِ من! صراطِ مستقیم کا ذکرِ جمیل سب سے پہلے سورۂ فاتحہ میں ہے، جس میں اہلِ ایمان کو امامِ زمانؑ کی معرفت کیلئے درخواست کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، جو دین کی سب سے اہم تعلیم ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفات میں سے ایک اسم الہادی ہے، نبیٔ کریمؐ کا ایک اسم بھی الہادی ہے، اور حضرتِ امامؑ کا اسم بھی ہادی ہے، اس کی حکمت یقیناً یہی ہے کہ اللہ نے ہر قوم کیلئے ایک ہادی مقرر فرمایا ہے (۱۳: ۰۷) اور رسولِ پاکؐ نے زمانۂ نبوّت میں فریضۂ ہدایت کو انجام دینے کے بعد آئندہ ہدایت کے لئے امامؑ ہی کو ہادی مقرر فرمایا، جسکو خدا نے ہادی مقرر فرمایا تھا (۱۳: ۰۷) پس یہ ایک ایسی روشن حقیقت ہے کہ کوئی بھی دانا اسکے خلاف سوچ ہی نہیں سکتا، پس حضرتِ علیؑ جو خدا اور رسولؐ کی طرف سے امام و ہادی مقرر ہوا، وہی حضرتِ معلم و مؤولِ قرآن بھی مقرر ہوا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی(ایس۔آئی)

اسلام آباد،  منگل  ۲۷؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۲۶

 

صراطِ مستقیم

قسط:۲

 

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۰۱) میں ارشاد ہے:

وَمَنْ يَعْتَصِمْ بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ۔

ترجمہ: اور جس نے اللہ (کے اسمِ اعظم = امامؑ) کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا تو وہ صراطِ مستقیم کی منزلِ مقصود میں پہنچ جائےگا۔

اس آیۂ کریمہ کا ایک مشہور اردو ترجمہ اس طرح ہے: جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہِ راست پائے گا ۔ مگر ذاتِ سبحان جسم، لباس اور دامن سے پاک و برترہے، ہاں اس سے وابستگی کے لئے اور چیزیں ہیں، جیسے اس کا پاک زندہ اسمِ اعظم (امامِ زمانؑ) جو اللہ کی رسی بھی وہی ہے۔

سوال: إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيم (راہِ راست کی طرف) کیا صراطِ مستقیم ہنوز مومنین سے الگ اور دور ہے؟

جواب: نہیں نہیں، صراطِ مستقیم جو امامِ  زمانؑ ہے وہ اپنے عاشقوں سے ہرگز دور نہیں، مگر صراطِ مستقیم کے تین مراحل ہیں، مرحلۂ اوّل جسمانی زندگی، دوم عالمِ شخصی، سوم حظیرۂ قدس میں ہے، جہاں صراطِ مستقیم کی منزلِ مقصود ہے اور  إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيم کا اشارہ اسی منزلِ مقصود کی طرف ہے، یعنی صراطِ مستقیم کا سفر حظیرۂ قدس میں جا کر سمٹ جاتا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اسلام آباد ،  بدھ  ۲۸؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۲۷

 

صراطِ مستقیم

قسط:۳

 

کلامِ الٰہی (قرآن) شروع ہی میں تمہیں یہ دعا سکھا دیتا ہے کہ کہو:

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ۔

ترجمہ: ہمیں راہِ راست پر چلا ان لوگوں کی راہ (پر) جن پر تو نے انعام فرمایا۔

سوال : وہ لوگ کون تھے جن پر اللہ نے انعام فرمایا؟

اس کا جواب خود قرآن (۰۴: ۶۹) میں موجود ہے: جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاءؑ اور صدیقین اور شہداء اور صالحین، کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔

یہ کوئی معمولی دعا ہرگز نہیں بلکہ یہ غیر معمولی دعا ہے، کیونکہ اس میں انتہائی عالی ہمتی کی یہ دعا ہے کہ خدا تم کو ناطقان، اساسان، امامان، بابان، حجتان اور داعیان کی راہِ روحانیّت پر چلائے، اور تم باطن میں ان تمام معجزات اور سارے عجائب و غرائب کو دیکھ سکو، کیونکہ صراطِ مستقیم سب کیلئے یکسان ہے یعنی امامِ  مبینؑ میں جتنے معجزے جمع ہیں وہ عالمِ شخصی میں پھیلے ہوئے ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اسلام آباد،  جمعرات  ۲۹؍ مارچ  ۲۰۰۱ ء

 

۲۸

 

روحانی سائنس

خشک سالی میں بارانِ رحمت کیلئے دعا

قسط:۱

 

سورۂ حجر (۱۵: ۲۱ تا ۲۲) میں ارشاد ہے:

وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلاَّ عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنْزَلْنَا مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنْتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ۔

ترجمہ: کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں، بارآور ہواؤں کو ہم ہی بھیجتے ہیں پھر آسمان سے پانی برساتے ہیں اور اس پانی سے تمہیں سیراب کرتے ہیں اس دولت کے خزانہ دار تم نہیں ہو۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ہفتہ  ۳۱؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۲۹

 

روحانی سائنس

خشک سالی میں بارانِ رحمت کیلئے دعا

قسط: ۲

 

سورۂ شوریٰ (۴۲: ۲۸) میں ارشاد ہے:

وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَيَنشُرُ رَحْمَتَهُ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ۔

ترجمہ: اور اللہ وہی ہے جو لوگوں کے مایوس ہوجانے کے بعد بارانِ رحمت برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے اور وہی قابلِ تعریف ولی ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ہفتہ  ۳۱؍ مارچ  ۲۰۰۱ء

 

۳۰

 

روحانی سائنس

خشک سالی میں بارانِ رحمت کیلئے دعا

قسط: ۳

 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔ هُوَ الَّذِي يُرِيكُمْ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلاَئِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَنْ يَشَاءُ وَهُمْ يُجَادِلُونَ فِي اللَّهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لاَ يَسْتَجِيبُونَ لَهُمْ بِشَيْءٍ إِلاَّ كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلاَّ فِي ضَلاَلٍ  وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلاَلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ(۱۳: ۱۲ تا ۱۵)۔

ترجمہ: خدا وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے جنہیں دیکھ کر تمہیں خوف بھی ہوتا ہے اور امید بھی وابستہ ہوتی ہے خدا وہی ہے جو پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھاتا ہے بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور فرشتے اس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اس کی تسبیح کرتے ہیں وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور (بسا اوقات) انہیں جس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں گرا دیتا ہے جبکہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں فی الواقع اسکی چال بڑی زبردست ہے دعوتِ حق اسی کے لئے ہے، رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں اس کو

 

۳۱

 

چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں وہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں انہیں پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اس سے درخواست کرے کہ تو میرے منہ تک پہنچ جا حالانکہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیرِ بے ہدف! وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعاً و کرھاً سجدہ کر رہی ہے اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اسی کے آگے جھکتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۲؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۳۲

 

روحانی سائنس

خشک سالی میں بارانِ رحمت کیلئے دعا

قسط: ۴

 

سب سے پہلے بڑی عاجزی سے گریہ وزاری اور مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات کریں، پھر سجدۂ عبودیت میں جا کر نیت کریں، اور عجزو انکساری سے سر اٹھا کر سورۂ حجر (۱۵: ۲۱ تا ۲۲) کی یہ دعا اخلاص و یقین سے پڑھیں:

وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلاَّ عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنْزَلْنَا مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنْتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ۔

ترجمہ: کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں، بارآور ہواؤں کو ہم ہی بھیجتے ہیں پھر آسمان سے پانی برساتے ہیں اور اس پانی سے تمہیں سیراب کرتے ہیں اس دولت کے خزانہ دار تم نہیں ہو۔

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۴؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۳۳

 

روحانی سائنس

خشک سالی میں بارانِ رحمت کیلئےمناجات

(۱)

 

خشک سالی میں بارانِ رحمت کے لئے دعا کرنے سے پہلے یہ مناجات کریں:

الٰہی چارۂ بیچارگان کن

الٰہی رحمتی بربندگان کن

الٰہی رحمتت دریائے عام است

وزانجا قطرۂ ما را تمام است

گناہ داریم بیش از کوہِ الوند

گناہ از بندہ و عفو از خداوند

خداوندا سعادت یارِ ما کن

ز رحمت یک نظر درکارِ ما کن

زشوخی و طمع کاری و بدکار

دل و دست و زبانِ ما نگاہ دار

زدستِ نفس و غوغائے شیاطین

اغثنی یاغیاث المستغیثین!

اغثنی یاغیاث المستغیثین!

اغثنی یاغیاث المستغیثین!

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار یکم  اپریل ۲۰۰۱ء

 

۳۴

 

روحانی سائنس

خشک سالی میں بارانِ رحمت کیلئےمناجات

(۲)

 

خشک سالی میں بارانِ رحمت کے لئے دعا کرنے سے پہلے یہ مناجات کریں:

اے تو آمرزگار و بخشندہ

ما سیہ روزگار و لخشندہ

اے زتو غیرِ جود و احسان نہ

وے زما غیرِ ذنب و عصیان نہ

ما زشرمِ  گنہ دراندیشہ

مر تو را رحمت و کرم پیشہ

پادشاھا بعفو و غفرانت

بکمالِ سخا و احسانت

درِ توفیقِ مان برخ بِکشای

راہِ فوز النجاتِ مان بنمای

آنچہ راندیم ازدعا بزبان

از کرم مان بمنتھا برسان

ہر چہ جستیم از درت بنیاز

بحصولِ نیاز مان بنواز

اللّٰھُمَّ  یا غیاثی عِندَ کُلِّ شِدَّۃٍ وَ یا مُجیبی عِندَ کُلِّ دَعوَۃٍ اَقضِ حوایجی کُلّھَا بحق کَرَمِکَ و جودِ کَ یا اکرمَ الاکرمین! وَیا ارحمَ الرّاحمین! آمین! یا ربّ العالمین!

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار یکم  اپریل ۲۰۰۱ء

 

۳۵

 

روحانی سائنس – برقی بدن

 

برقی بدن (جثّۂ ابداعیہ) = جسمِ لطیف = سلطان الجنّ = ہیکلِ نورانی = فرشتۂ متمثل = قالبِ نورانی = سرابیل = لبوس = جامۂ بہشت = انسانِ اکبر =مظہرِنورِ خدا = اوّل = آخر= ظاہر = باطن = وحدتِ چار اصل وجہ اللہ = تاویل اللہ = تاویل القیامت = تاویل الملٰئکۃ = تاویلِ روح اللہ (۱۹: ۱۷) = تاویلِ صفاً صفا (۸۹: ۲۲) =تاویل الحیّ = القیوم =حٰمٓ = لقاء اللہ (خدا کی ملاقات) = دیدارِ الٰہی = تاویل (۴۲: ۵۲) = تاویلِ نورِ مومنین و مومنات ( ۵۷: ۱۲ تا ۱۳)۔

تم مونوریالٹی کے حکمت آگین قانون کے مطابق ایک عالمِ شخصی میں جمع تھے کہ تمہارا محبوبِ جان برقی بدن میں تشریف فرما ہوا، وہ ہاتھ سے دروازہ نہیں کھولتا، بلکہ دروازہ معجزانہ طور پر کھل جاتا اور بند بھی ہوجاتا ہے جس سے بڑی حیرت ہوتی ہے، وہ آکر ظاہر و باطن کا مجمع البحرین ہوجاتا ہے، یعنی برق رفتاری سے دیدار بھی عطا کرتا ہے اور حجاب بھی کرتا ہے، دیدار میں اشارہ (وحی) اور حجاب میں کلام ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۲؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۳۶

 

روحانی سائنس – جثّۂ ابداعیہ

 

سب سے اوّلین صاحبِ جثّۂ ابداعیہ حضرتِ آدمؑ تھا، عارفانہ موت اور روحانی قیامت کی منزلِ اسرفیلی و عزرائیلی میں امامِ مبینؑ کے نور سے اللہ تعالیٰ ستر ہزار اجسامِ لطیف کو پیدا کرتا ہے، ہر جسمِ لطیف ایک لطیف عالمِ شخصی ہے جو وسعت میں کائنات کے برابر ہے، جو کائناتی جنت ہے (۰۳: ۱۳۳؛  ۵۷: ۲۱) ہر ایسی جنّت میں ایک عظیم سلطنت ہوگی، اللہ تعالیٰ یہ عظیم سلطنت اہلِ معرفت کو عطا فرمائے گا۔

حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیھما السّلام کی قوم سے بھی ایسے باطنی سلاطین ہوئے تھے (۰۵: ۲۰) وہ سب کے سب اجسامِ  لطیف کے مالک تھے، کیونکہ بہشت کی برتری جسمِ لطیف سے ہے، وہ آیۂ کریمہ یہ ہے:

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا وَآتَاكُمْ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِنْ الْعَالَمِينَ(۰۵: ۲۰)۔

ترجمہ: (اے رسولؐ ان کو وہ وقت یاد دلاؤ) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم جو نعمتیں خدا نے تم کو دی ہیں ان کو یاد کرو اس لئے کہ اس نے تم ہی لوگوں سے بہتیرے پیغمبر بنائے اور تم ہی لوگوں کو سلاطین (بھی) بنایا اور تمہیں وہ دیا جو ساری خدائی میں کسی ایک کو بھی تو نہ دیا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۳؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۳۷

 

روحانی سائنس – تسخیرِ کائنات

 

تسخیرِ کائنات کا ذکر آپ کو قرآنِ حکیم کی متعدد آیات میں ملے گا، اور عالمِ شخصی کے دو مقام پر تو تسخیرِ کائنات کا مظاہرہ بار بار ہوتا ہے، پہلا مقام منزل اسرافیلی و عزرائیلی اور دوسرا مقام حظیرۂ قدس ہے، تسخیرِ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں حاصل آتی ہیں، آپ سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) کو پڑھیں، یہ آیۂ شریفہ اہلِ معرفت کے لئے بڑی زبردست اہمیت کی حامل ہے، اس میں ہر ضروری سوال کا پُرحکمت اور شافی جواب موجود ہے، اللہ تعالیٰ اپنی تمام نعمتیں جن کا ذکر محولہ آیت میں ہے، کنزِ مخفی کی صورت میں عطا فرماتا ہے۔

اے عزیزان! عالمِ شخصی ہی کی تسخیر میں یہ سب کچھ ہے جس کا ذکر ہوا، اسی میں عارف اور معروف کا بیان ہے، اور یہی معرفت بھی ہے، الحمد للّٰہ!

یقیناً یہ بات حقیقت ہے کہ بہشت کی ایک خاص نعمت علمی شغل ہے، پس دنیا میں جو لوگ علم میں مشغول رہتے ہیں وہ بہشت کی زندگی کا تجربہ کرتے ہیں، ان کو یہ تجربہ مبارک ہو!

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۴؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۳۸

 

روحانی سائنس

غذائے لطیفِ سماوی بصورتِ خوشبوئیں

 

اللہ تعالیٰ جلّ شانہٗ جب چاہتا ہے تو اپنے کسی بندے کو آفاق و انفس میں اپنی قدرت کے معجزات دکھاتا ہے (۴۱: ۵۳) اللہ کے معجزے حواسِ ظاہر کے لئے بھی ہیں اور حواسِ باطن کے لئے بھی، چنانچہ اس قانونِ الٰہی کے مطابق قوّتِ شامہ (سونگھنے کی قوّت) کے لئے بھی ایک معجزہ مقرر ہے، وہ ہے ہر قسم کی غیر معمولی خوشبو، جس میں زندگی کے لئے غذائیت کا ایک خاص جوہر موجود ہے، یہ ہے غذائے لطیفِ سماوی، اس کا تجربہ ایک خاص وقت کے لئے سب سے پہلے انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کو ہوتا ہے (۲۳: ۵۱) : يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ ۔

ترجمہ: اے میرے پیغمبرو! پاک و پاکیزہ چیزیں (غذائے لطیفِ سماوی) کھاؤ۔ اور اللہ تعالیٰ کی یہی پاک نعمت قصۂ بنی اسرائیل میں المن والسلوٰی (۰۲: ۵۷) کے نام سے قرآن کے تین مقام پر مذکور ہے، یہ معجزہ مائدۂ عیسیٰؑ میں بھی شامل تھا۔

ہم قرآنی اور روحانی سائنس کی روشنی میں یقیناً یہ کہہ سکتے ہیں کہ جنت میں نہ تو ہمارا قالبِ عنصری ہوگا اور نہ ہی اس دنیا کی غذائیں ہوں گی، مگر ہاں جسمِ لطیف ہوگا اور غذاہائے لطیف بصورتِ خوشبوئیں، تاکہ جنت میں تین قسم کی لذّتوں کی فراوانی ہو: عقلی اور علمی لذّتیں، روحانی لذّتیں اور لطیف جسمانی لذّتیں، الحمد للّٰہ ربِّ العالمین! میزان الحقائق میں بھی دیکھیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۵؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۳۹

 

وہ بڑا عجیب و غریب تاویلی خواب جو تاشغورغان میں دیکھا!

 

ایک رات شاید مقررہ عبادت کے بعد یہ بہت بڑا حیران کن خواب دیکھا کہ البتہ میری قربانی ہوچکی تھی، میرا ظاہری سر قریب کی ایک دیوار سے آویزان اور بدن شمالاً جنوباً زمین پر پڑا تھا، اور سب سے بڑی حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میں فضا کی ایک مخصوص بلندی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا، میں یعنی میرا شعور بے شمار ذرات کے درمیان تھا جو چمکتے تھے، مگر یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ میں کس ذرے میں ہوں یا ہوسکتا ہے کہ یہ میری روح ہی کے بیشمار ذرات تھے اور ان سب کی وحدت میری انا تھی، پس میں نے ایک طرف زمین پر اپنے قربان شدہ بدن اور سر کو دیکھا اور دوسری طرف فضا میں اپنی روح کے بے شمار ذرات کو دیکھا۔

کیا حدیثِ شریف کے مطابق ہر روح بذاتِ خود ایک جمع شدہ لشکر ہے؟ یا تمام روحیں مل کر ایک جمع شدہ لشکر ہیں؟ جب ایک فردِ بشر کا ایک عالمِ شخصی ہوسکتا ہے اور اس میں ایک عظیم سلطنت بھی ہے تو پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس بہت بڑی بادشاہی کا بے شمار روحانی لشکر (یعنی بے حساب ذراتِ روح) ہوں، اور ان کا مجموعی نام روح ہو، جس طرح کروڑوں خلیات کے مجموعے کا نام انسان ہے۔

اس نورانی خواب کی آئندہ تاویل عارفانہ موت اور روحانی قیامت تھی، جو دنیا بھر میں سب سے بےمثال اور سب عظیم واقعہ تھا، الحمد لِلّٰہِ ربِّ العالمین!

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۶؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۴۰

 

روحانی سائنس – جنّ

قسط:۱

 

سوال : لفظِ جنّ کا اصل فارسی ترجمہ کیا ہے؟

جواب: پری (یعنی پری مرد اور عورت) یہ پریدن (اڑنا) سے ہے۔

سوال:  کیا وجہ ہے کہ عوام النّاس پری کو خوبصورت اور جنّ کو بدشکل مانتے ہیں؟

جواب :  اس کی وجہ حقیقی علم و معرفت سے دوری ہے۔

سوال : اللہ تعالیٰ نے جنّ و انس کو کس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے؟

جواب:  عبادت اور معرفت کے لئے۔

سوال:  جنّ و انس کی ہستی میں فوری یا ہنگامی فرق کیا ہے؟

جواب:  وہ لطیف و نادیدنی ہے اور یہ کثیف و دیدنی ہے۔

سوال :  سورۂ رحمان جو عروس القرآن ہے اس کا خطاب بیک وقت جنّ و انس سے کیوں ہے؟

جواب:  کیونکہ یہ دونوں مخلوق ایک دوسرے کے پیچھے ایک ہی دائرے پر گردش کرتی ہیں، یقیناً یہی سبب ہے، اسی لئے قرآنِ حکیم میں کبھی انسان کا ذکر پہلے ہے اور کبھی جنّ کا۔

سوال: یہ بات مشہور ہے کہ کبھی کبھار کوئی جنّ یا پری آدمی میں داخل ہوسکتی ہے، تو کیا اسی طرح انسان بھی کبھی جنّ یا پری میں داخل ہوسکتا ہے؟

 

۴۱

 

جواب : جی ہاں، آج عالمِ شخصی میں بھی اور کل بہشت میں بھی ایسا ہوسکتا ہے، خداوندِ تعالیٰ نے یہ جو زندہ معجزاتی کرتے تمہارے لئے بنائے ہیں (۱۶: ۸۱) ان کے پہننے سے تم پری مرد اورپری عورت ہو سکتے ہو۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ہفتہ  ۷؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۴۲

 

روحانی سائنس – جنّ

قسط:۲

 

سوال: وہ آیۂ شریفہ کونسی ہے جس میں یہ ارشاد ہے کہ جنّ و انس کی تخلیق کا مقصد پروردگار کی عبادت اور معرفت ہے؟

جواب:  وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلاَّ لِيَعْبُدُونِ (وَلِیَعْرِفُوْنِ)۔

ترجمہ: اور میں نے جنّوں اور آدمیوں کو اس غرض سے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں (اور مجھ کو پہچانیں) (۵۱: ۵۶)۔ یہاں قوسین میں معرفت کا ذکر ابنِ عباس کی تفسیر ہے، کیونکہ عبادت کا آخری مقصد معرفت ہے۔

سوال:  جب حضرتِ ربّ کی عبادت اور معرفت جن و انس دونوں کے لئے یکسان ضروری ہے تو کیا جنات کے لئے حدودِ دین کا نظام رہا ہے؟

جواب:  جی ہاں، جنّوں کے واسطے حدودِ دین جسمِ لطیف میں ہوتے ہیں، دیکھو: سورۂ انعام (۰۶: ۱۳۰)، سورۂ جن (۷۲) کو پڑھو، سورۂ احقاف ( ۴۶: ۲۹ تا ۳۲)۔

سوال:  اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر پیغمبر کے لئے شیاطینِ انسی اور شیاطینِ جنی میں سے کیوں دشمن بنا دئے تھے (۰۶: ۱۱۲)؟

جواب:  کیونکہ بمقتضائے حکمت ایسا ہی کرنا ضروری تھا۔

سوال: کیا یہ بھی ایک امرِ واقعی ہے کہ ہر انسان کے دل کے پاس دو قرین (ساتھی)

 

۴۳

 

مقرر ہیں ایک جن اور ایک فرشتہ؟

جواب:  جی ہاں، یہ حقیقت ہے۔

سوال:  کیا ابلیس فرشتوں میں سے تھا (۰۲: ۳۴) یا جنّات میں سے (۱۸: ۵۰) یا وہ ایک انسان تھا؟

جواب:  وہ ایک شخص تھا جس کا بشری نام الحارث بن مرہ تھا، اس کو اپنے بارے میں یہ گمان تھا، کہ وہ عالم و دانا ہے، حالانکہ جاہل و نادان تھا، اس نے سجدۂ آدم سے انکار کیا، اس میں ہرشخص کی طرح ایک فرشتہ بھی تھا اور ایک جنّ بھی، پس اس میں جو فرشتہ تھا اس کے اعتبار سے وہ فرشتوں میں سے تھا، اور ذاتی جنّ کی وجہ سے وہ جنّوں میں سے تھا، جس طرح قرآنِ حکیم میں یہ دونوں حکمتیں مذکور ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار  ۸؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۴۴

 

روحانی سائنس – جنّ

قسط:۳

 

سورۂ نمل (۲۷: ۱۷) میں ارشاد ہے:

وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنْ الْجِنِّ وَالإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ۔

ترجمہ: اور سلیمان کے لئے جنّ اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے اور وہ پورا ضبط میں رکھے جاتے تھے۔

یہ انسانِ کامل کی روحانی قیامت اور تسخیرِ کائنات کا ذکر ہے، اور یہی روحانی سلطنت بھی ہے، اور یہ بےشمار روحانی لشکر ظہورِ عالمِ ذرّ کا معجزہ بھی ہیں، اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے عطائے کلّی بھی ہے، اور اسی کی مدد سے یہ فتحِ مبین (کائناتی فتح) بھی ہے، جنّ کے اس مضمون میں کیسے کیسے عجیب و غریب اسرار پنہان ہیں!

آپ کو ہمیشہ یہ خیال رہا ہوگا کہ جنّ جہاں بھی ہو بہت بڑے جسم کے ساتھ ہو سکتا ہے، اسی وجہ سے ہر اسی چیز کو جو جسماً بہت بڑی ہو دیو ہیکل کہا جاتا ہے، لیکن آپ نے سنا کہ عالمِ ذر کے جنّات ذرات ہی ہوتے ہیں، ہاں مادّی ایٹم (ذرّہ) بھی بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے، مگر آپ نے یہ ضرور سنا ہے کہ وہ کیا طوفان برپا کر سکتا ہے، لہٰذا آپ عالمِ ذرّ کے جنّات کو ہرگز حقیر نہ سمجھنا، کیونکہ یہاں پر ہر ذرّۂ خدا ہمارے لئے ایک کائنات ہے۔

 

۴۵

 

سوال:  قصّۂ سلیمان (۲۷: ۱۸) میں چیونٹیوں کی وادی کیا ہے؟

جواب:  عارف کے دونوں کان ہیں جن میں بے شمار روحوں کی آمد و رفت ہوتی رہتی ہے، قرآنِ حکیم نے دونوں کانوں کو وَاد النَّمۡلِ (۲۷: ۱۸) کا نام دیا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار  ۸؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۴۶

 

روحانی سائنس – جنّ

قسط:۴

 

جب اور جہاں عارفانہ موت اور روحانی قیامت کا تاویلی بیان ضروری ہو تو اس میں عالمِ ذرّ اور یاجوج و ماجوج کی معرفت بھی لازمی ہے، اور یہ سب سے مشکل تاویل امامِ  آلِ محمدؐ کی حقیقی غلامی اور فنا فی الامامؑ کے بغیر ممکن ہی نہیں، اور قرآنِ حکیم کے ظاہر و باطن سے آگہی اس امرِعظیم کی دوسری اساسی شرط ہے، پس یاجوج و ماجوج کا ذکر اس نام سے قرآنِ پاک کے دو مقام پر ہے (اوّل : ۱۸: ۹۴، دوم: ۲۱: ۹۶) اور یہ دراصل صاحبِ زمانؑ کے روحانی لشکر ہیں، لہٰذا جو فساد فیِ الْارَضِ ان سے منسوب ہے وہ عالمِ شخصی کی زمین میں ہے۔

جب تک مومنِ سالک عارفانہ موت اور روحانی قیامت کے لئے ہر طرح سے تیار نہیں ہوتا تب تک اس کے پرانے عالمِ شخصی کو اپنے حال پر محفوظ رکھا جاتا ہے، اور جب حقیقی مومن علم و عبادت اور ہر قسم کی آزمائش سے روحانی انقلاب کے لئے بالکل تیار ہوجاتا ہے تو تب صاحبِ لشکر حکم دیتا ہے کہ اب خدا کے اذن سے اس پرانے عالمِ شخصی کو گرا کر اس کی جگہ بہشت کے نمونے پر ایک جدید عالمِ شخصی تعمیر کرو، یہی عظیم حکمت ہے اس عمل میں کہ پہلے تو یاجوج ماجوج کو روک دیا جاتا ہے اور پھر وقت آنے پر ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے، الحمد لِلّٰہِ ربِّ العالمین!

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۹؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۴۷

 

روحانی سائنس – جنّ

قسط:۵

 

جس طرح تمام انسان ایمان اور علم میں برابر اور یکسان نہیں ہیں، بالکل اسی طرح جنّات بھی درجہ بدرجہ ہیں، ان میں جو سب سے اعلیٰ ہیں وہ تو فرشتے ہیں، اور جو سب سے ادنیٰ ہیں وہ شیاطین ہیں، اور صاحبانِ عقل کے لئے اتنا کہنا کافی ہے۔

پھر بھی مزید وضاحت یہ ہے کہ جنّات میں سے جو شیاطین ہیں وہ روحانیّت کے آسمانِ اوّل کے چراغوں کے شعلوں سے مار کھا کر واپس آتے ہیں، یہ ان کی قرآنی پہچان ہے(۶۷: ۰۵) یعنی ان کی پرواز وہاں جا کر ناکام ہو جاتی ہے، وہاں بہت سارے چراغ اس لئے روشن کئے گئے ہیں کہ یہ اس آسمان کو بہت زینت دیں، ساتھ ہی ساتھ شیاطین پر شعلہ باری کر کے ان کو وہاں سے واپس کر دیں ، ایسے ہر شیطان کو رجیم کہا جاتا ہے، رجیم بروزنِ فعیل بمعنیٔ مفعول یعنی راندہ = سنگسار کیا گیا۔

آپ سورۂ حٰمٓ السجدہ (۴۱: ۱۲) کو بھی پڑھیں کہ روحانیّت کا سب سے نچلا آسمان اپنے اوپر کے تمام آسمانوں کی حفاظت کے لئے ہے، پس عالمِ شخصی کے مراحل میں سے جس مرحلے میں انتہائی تیز روشنی کی لہریں آتی ہیں ان کے آگے شیاطین نہیں جاسکتے ہیں، اور یہیں سے انہیں لوٹا دیا جاتا ہے۔

اب رہا مقامِ حظیرۂ قدس وہاں صرف عظیم فرشتے اور اعلیٰ حدودِ دین کام کرتے ہیں، سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۲) میں ارشاد ہے:

 

۴۸

 

وَمِنْ الشَّيَاطِينِ مَنْ يَغُوصُونَ لَهُ وَيَعْمَلُونَ عَمَلاً دُونَ ذَلِكَ وَكُنَّا لَهُمْ حَافِظِينَ۔

ترجمہ: اور سلیمان کے لئے ہم نے شیاطین میں سے ایسے بہت سوں کو اس کا تابع بنا دیا تھا جو اس کے لئے غوطے لگاتے اور اس کے سوا دوسرے کام کرتے تھے ان سب کے نگران ہم ہی تھے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۹؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۴۹

 

روحانی سائنس – جنّ

قسط:۶

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۱ تا ۱۸) میں خوب غور سے دیکھو کہ ابلیس کو یوم البعث تک مہلت دی گئی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہاں عارفانہ موت اور روحانی قیامت واقع ہوتی ہے وہاں اس کی مہلت ختم ہو کر یہ مسخر ہو جاتا ہے، جیسا کہ آپ نے قصّۂ حضرت سلیمانؑ میں پڑھا کہ شیاطین تابع ہو کر مختلف خدمات سرانجام دے رہے تھے، پس اگر دل سے یہ مانا جائے کہ عارفانہ (اختیاری) موت اور روحانی قیامت حق ہے تو اس فکرِ جدید سے قرآنی حکمت کی بہت سی برکتیں حاصل ہوسکتی ہیں:۔

این سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ لوگ آگے چل کر خود بخود میرے معجزات کو آفاق و انفس میں دیکھیں گے بلکہ فرمایا کہ ہم ان کو یہ چیزیں دکھائیں گے، عقل والوں کے لئے اس میں اشارہ ہے کہ تم جلد از جلد نورِ ہدایت اور چشمِ بصیرت طلب کرو اور بدرجۂ انتہا عاجزی کے ساتھ علم و عبادت میں آگے بڑھو، آپ حدیثِ قدسیٔ نوافل کے جملہ معجزات سے معرفت کے عظیم ترین خزانے اس وقت حاصل کرسکیں گے جبکہ اللہ، رسولؐ اور امامِ زمانؑ کی حقیقی اطاعت کریں گے۔

آپ یہاں یہ اصولی نکتہ یاد رکھیں کہ حدیثِ نوافل کی باطنی حکمت میں عارفانہ موت اور روحانی قیامت کا ذکر پوشیدہ ہے اس کے سوا اتنا بڑا روحانی انقلاب

 

۵۰

 

ممکن ہی نہیں، مگر یہ ہے کہ کوئی شخص محض ظاہری معنی کا سہارا لے کر کوئی بڑی ترقی کا دعویٰ کرے۔ نعوذ باللہ منھا۔

اے عزیزان! عملی تصوّف اور روحانی سائنس کی کتاب میں معجزۂ نوافل قسطِ اوّل اور دوم خوب عشق اور ذمہ داری سے پڑھیں، کیونکہ یہ حدیثِ قدسی بڑی زبردست حکمتوں سے لبریز اور بےمثال ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۱۰؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۵۱

 

روحانی سائنس – جنّ

قسط:۷

 

حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے لئے ہوا کو مسخر کر دیا تھا (۳۴: ۱۲) کہتے ہیں کہ یہ ایک روحانی معجزہ تھا یا جسمِ لطیف کا معجزہ تھا جس کے بہت سے نام ہیں، اور ہم نے جسمِ لطیف کے بارے میں بار بار لکھا ہے۔

وَ مِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْهِ بِاِذْنِ رَبِّهٖؕ (۳۴: ۱۲) یہاں یقیناً حظیرۂ قدس کا اشارہ ہے جہاں انسانانِ کامل کے لئے انتہائی عظیم معجزات ہوا کرتے ہیں۔

یَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا یَشَآءُ (۳۴: ۱۳) یہ مبارک کلمات قانونِ بہشت ہی کی طرح ہیں کیونکہ انسانِ کامل کا حظیرۂ قدس نمونۂ بہشتِ برین ہے، یہ کارخانۂ قدرتِ الٰہی ہے۔

محاریب۔ محراب کی جمع = زندہ قلعے ، جن میں بے شمار روحانی لشکر ہوتے ہیں۔

تماثیل = زندہ نورانی تصویریں، جس طرح سوقِ (بازار) جنت میں ہیں، بڑے بڑے حوض جیسے لگن = اسمائے عظام جن کو جنّ و انس اور ملائکہ اور قدسیان سب پڑھتے ہیں۔

 

۵۲

 

اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں = کلماتِ تامّات، ان میں جیسا بے پایان علم ہے وہ اہلِ جہان کی ضرورت سے بھی زیادہ ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۱۰؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۵۳

 

روحانی سائنس – جنّ

قسط:۸

 

حق سبحانہ و تعالیٰ شانہ نے حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کو بہت سے عظیم اور جامع الجوامع قسم کے روحانی اور باطنی معجزات عطا فرما کر نوازا تھا، حضرتِ سلیمانؑ بسلسلۂ پاکِ آلِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام اپنے وقت میں ایک عظیم الشّان نبی ہونے کے ساتھ ساتھ امامِ مستودع بھی تھا، نیز خداوندِ قدوس نے آپ کو روحانی سلطنت کا ایک غالب اور زبردست نمونہ بھی بنا دیا تھا، اس لئےآپ کو سلیمانِ مملکت اللہ بھی کہتے ہیں، آپ میں جو نبوّت اور امامت کا کائنات گیر نور تھا، اسی کی بے شمار کرنوں،  قوّتوں،  طاقتوں اور اس کے گونا گون افعال و اعمال اور کائنات اور عالمِ شخصی پر اس کے مختلف اثرات کی مثالیں بیرونی اور ظاہری جہان کی چیزوں سے دی گئی ہیں۔

جب خدا ساری کائنات کو امامِ مبینؑ میں لپیٹ دیتا ہے اور خدائے حکیم بار بار ایسا ہی کرتا رہتا ہے تو کیا اس کے یہ معنی نہیں کہ نور میں سب کچھ ہے، اس راز کو عام کرتے ہوئے مولا علیؑ نے فرمایا کہ آیا تو گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے اور بس؟ حالانکہ عالمِ اکبر تجھ میں سمایا ہوا ہے:

ہر چیز تجھی میں ہے بیرون نہیں کچھ بھی

ہے ارض و سما تجھ میں اور کون و مکان تو ہے

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۱۱؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۵۴

 

اسرارِ انبیاء و اولیاء علیھم السّلام عالمِ بالا میں

قسط:۱

 

حدیثِ قدسیٔ نوافل کے عرفانی اسرار گویا فرشتے ہیں، جو عاشقانِ معرفت کو جنّت کی بشارت دیتے ہیں، تاہم اگر قرآنِ حکیم میں بھی کوئی ایسا عظیم راز معلوم ہوجائے تو عاشقوں کو کیسی بے پایان شادمانی ہوگی! کیونکہ قرآن ہی سے ہر صداقت و حقیقت کی تصدیق ہوتی رہتی ہے، جی ہاں، قرآنِ پاک سے بھی یہ سب سے عظیم راز منکشف ہوچکا ہے کہ خدا سب سے پہلے اپنے انبیاء واولیاء علیھم السّلام کا ہاتھ اور آنکھ ہوجاتاہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم (۳۸: ۴۵) میں ارشاد ہے:

وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ أُوْلِي الأَيْدِي وَالأَبْصَارِ۔

ترجمہ: اور ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب کو یاد کرو خدا جن کے لئے ہاتھ اور آنکھ ہوچکا تھا۔

ہم نے آسانی کی خاطر براہِ راست تاویل کی کہ حکمت کا تقاضا یہی تھا، کیونکہ خدا نے اس آیت میں اپنے سب سے بڑے احسان کا ذکر فرمایا ہے، اور اس سے بڑھ کر اور کوئی احسان ہے نہیں کہ خدا کسی کا ہاتھ اور آنکھ ہوجائے، اور آنحضرتؐ کو بھی اپنے وقت میں یہ سب سے بڑا شرف حاصل ہوا تھا، اسی وجہ سے فرما یا گیا کہ آپ اپنی معرفت کی روشنی میں تمام انبیاء و اولیاء کو یاد کرو۔

 

۵۵

 

یہ انتہائی عظیم معجزہ حظیرۂ قدس میں ہوتا ہے تاکہ وہاں خدا اپنے کسی نبی یا کسی ولی / امام کا ہاتھ ہو، اور وہ لاہوتی ہاتھ اس کائنات کو لپیٹ کر اس کی جگہ ایک جدید کائنات کو پیدا کرے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب عالمِ شخصی کو ایک کائناتی بہشت بنایا جاتا ہے، اور ایسے عوالمِ شخصی ستر ہزار ہوں گے جو کائنات کے برابر بہشت ہوں، اور خداوندِ مہربان جس کی آنکھ ہوچکا ہو اس کی سب سے بڑی خوشی دیدارِ پاکِ خداوندی کی تجلّیات میں ہوگی، اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۱۱ ؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۵۶

 

اسرارِ انبیاء و اولیاء علیھم السّلام عالمِ بالا میں

قسط:۲

 

سورۂ یونس (۱۰: ۶۲ تا ۶۴) میں ارشادِ مبارک ہے:

أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ  الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ  لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ لاَ تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ۔

ترجمہ:  سنو! جو اللہ کے دوست ہیں جو کما کان حقہٗ ایمان لائے اور جنہوں نے بحقیقت تقویٰ پر عمل کیا ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں، دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لئے بشارت ہی بشارت ہے، اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے۔

حکمتِ اوّل : ہر نبی ولی بھی ہے، ہر ولی نبی نہیں۔

حکمتِ دوم: اللہ کے حقیقی دوستوں کو بہترین علمی شکل میں خوفِ خدا ہے مگر خوفِ بیجا ان سے دور ہے، ان کو غمِ عشقِ سماوی ہے دوسرا کوئی غم نہیں۔

حکمتِ سوم: دوستانِ خدا کا ایمان حقیقی معنوں میں کامل ہے اور ان کی پرہیزگاری قرآنی معیار کے مطابق ہے۔

حکمتِ چہارم : دنیا میں اولیاء اللہ کے لئے بشارت صرف اسی صورت میں

 

۵۷

 

ہے کہ وہ عارفانہ موت اور روحانی قیامت کے ذریعے سے عالمِ بالا (حظیرۂ قدس) تک رسا ہوجائیں جہاں ان کے لئے ہر قسم کی بشارت ہے۔

حکمتِ پنجم: بشارت اگرچہ علم الیقین میں ہو وہ محض لفظی بشارت ہے عملی نہیں، اگر آپ کو عین الیقین مل رہی ہے تو یہ ابتدائی بشارت ہے ہنوز مکمل نہیں، آپ حظیرۂ قدس تک رسا ہوگئے اور وہاں کے انتہائی عظیم معجزات شروع ہوگئے تو ان شاء اللہ آپ کو مکمل بشارت مل جائے گی، کیونکہ آپ کو اس مقامِ اعلیٰ پر زیادہ عرصہ ٹھہرنے میں زیادہ فائدہ ہے۔

حکمتِ ششم : سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) میں ارشاد ہے:۔

يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔

ترجمہ: اے ہمارے ربّ! ہمارا نور ہمارے لئے مکمل کردے اورہم سے درگزر فرما تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

یہ حظیرۂ قدس کا مقام ہے جہاں مومنین اور مومنات کا نور زیادہ سے زیادہ اسرارِ معرفت کے جاننے سے مکمل ہوجاتا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۱۲؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۵۸

 

رحمت کےفرشتوں کا نزول

نور= ولی = اولیاء = مَلَک = ملائکۃ

 

سورۂ حٰم السجدۃ ( ۴۱: ۳۰ تا ۳۲) میں ارشاد ہے:

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلاَئِكَةُ أَلاَّ تَخَافُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ  نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ  نُزُلاً مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ ۔

ترجمہ: جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ “نہ ڈرو نہ غم کرو اور خوش ہوجاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی وہاں جو کچھ تم چاہوگے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی یہ ہے سامانِ ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔”

تاویلی مفہوم

نور= امام = ولی / اولیاء = ملک / ملائکۃ

 

عنوانِ بالا آپ کو پہلی دفعہ بڑا عجیب لگے گا لیکن ان شاء اللہ جب آپ

 

۵۹

 

اس قانونِ حکمت کو سمجھ لیں گے تو یقیناً آپ بے حد شادمان ہوجائیں گے، اس حکمت کو سمجھنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ نے آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) میں نورٌعلیٰ نورٍ کے کلّیہ کو پڑھا ہے، پس یہ اسم اگرچہ ظاہراً واحد ہے لیکن باطناً برائے جمع (انوار) بھی ہے، کیونکہ نورٌعلیٰ نور ایک ایسے سلسلۂ نور کا تصوّر پیش کرتا ہے کہ جس کی صفت اوّل الاوّلین و آخر الآخرین ہونے کے باوجود لاحد ہے یعنی اس کی ابتدا و انتہا نہیں، کیونکہ یہ خدائے قدیم کا نور ہے اور یہ امامِ مبینؑ ہے جس میں دینِ خدا کی ہر ہر چیز موجود ہے۔

قرآنِ حکیم (۴۱: ۳۰ تا ۳۲) کا تاویلی مفہوم ہے:

جس شخص یا جن لوگوں نے ہادئ زمانؑ کی نورانی ہدایت کے مطابق ذکرِ اسمِ اعظم کے معنی میں کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو یقیناً ان پر عارفانہ موت اور روحانی قیامت واقع ہوتی ہے اور رحمت کے فرشتے نازل ہوتے ہیں یعنی ان کے عالمِ شخصی میں امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہوتا ہے اور یہی نورِ پاک فرشتہ اور فرشتوں کا کام کرتا رہتا ہے کیونکہ امامِ مبینؑ میں جب سب کچھ ہے تو روحیں اور فرشتے کیوں نہ ہوں، آپ اپنی ذات میں امامِ  آلِ محمدؐ ہی سے قرآنی حکمت پڑھنے کی اہلیت پیدا کریں، آمین! ثم آمین!!

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۱۳؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۶۰

 

کائناتی بہشت

قسط:۱

 

سورۂ حدید (۵۷: ۲۱) میں حق تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے:

سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

ترجمہ: دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے جو مہیا کی گئی ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

سورۂ حدید (۵۷: ۱۲) کا ترجمہ: اس دن جبکہ تم مومنین ومومنات کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔ پس قرآنِ حکیم کے اس تمثیلی بیان سے یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ قرآن اور اسلام کے ہر حکم کی تعمیل میں سبقت ان ہی لوگوں کو حاصل ہے جن کے آگے نور دوڑ رہا ہے کیونکہ یہ ان لوگوں کی ہر نیکی میں سبقت کی مثال ہے، والسلام!

موتوا قبل ان تموتوا = تم جسماً مرجانے سے پہلے نفساً مرجاؤ۔

 

۶۱

 

اگر تم نے یہ عمل علم و معرفت کے ساتھ کیا تو یہ ان شاء اللہ عارفانہ موت اور روحانی قیامت ہوگی اور اسی دوران یقیناً تم دیکھو گے کہ تمہارا نور کس طرح تمہارے آگے دوڑ رہا ہے! واللہ یہ تمہاری سبقت اسلام کے مجموعی اعمال میں ہوگی، اب تم بار بار شکر کرو اور اللہ کے اس احسانِ عظیم کو ہمیشہ یاد کرتے رہو کہ نورِ ہدایت نے تم سے یہ کام کرایا، الحمد للّٰہ! یاد رہے کہ عالمِ شخصی ہی سے کائناتی بہشت بنتی ہے آپ کو منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی کا قصّہ یاد ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ہفتہ  ۱۴؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۶۲

 

کائناتی بہشت

قسط:۲

 

سورۂ ذاریات (۵۱: ۴۷ تا ۵۰) میں ارشادِ پاک ہے:

وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْيدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ  وَالأَرْضَ فَرَشْنَاهَا فَنِعْمَ الْمَاهِدُونَ  وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ۔

ترجمہ: آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور ہم وسعت دینے والے ہیں زمین کو بچھایا ہے اور ہم بڑے اچھے ہموار کرنے والے ہیں اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں شاید کہ تم اس سے سبق لو پس دوڑو اللہ کی طرف میں تمہارے لئے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔

حکمتِ اوّل: خدا نے آسمان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے، یہاں یہ بھی سوچنا بڑا ضروری ہے کہ ہر روحانی قیامت میں کائنات کے باطن کا تجدّد ہوتا ہے اور اللہ اپنے دوستوں کا ہاتھ ہوجاتا ہے۔

حکمتِ دوم : اور ہم وسعت والے ہیں کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خدا اس کثیف کائنات کی ستر ہزار لطیف کاپیاں بنا سکتا ہے تاکہ بہشت کی سلطنت انتہائی عظیم ہو۔

حکمتِ سوم: خدا نے ہر چیز کے جوڑے بنائے شاید کہ تم اس سے سبق لو،

 

۶۳

 

جیسے عرش و کرسی، قلم و لوح، عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ، آسمان و زمین، دنیا اور آخرت، نبی اور ولی (پیغمبر اور امام) وغیرہ۔

حکمتِ چہارم: خدا کی طرف دوڑنا : سبقت کے لئے، قربت کی غرض سے، پناہ گیر ہونے کے لئے، عارفانہ موت اور روحانی قیامت کی غرض سے ، فنا فی اللہ کی خاطر، عشق و محبت کے معنی میں ، رجوع کے معنی میں، وغیرہ۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ہفتہ  ۱۴؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۶۴

 

کائناتی بہشت

قسط:۳

 

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۳۳ تا ۱۳۴) میں ارشادِ مبارک ہے:

وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ  الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنْ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ۔

ترجمہ: دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے ربّ کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لئے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوش حال جو غصّے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔

حکمتِ اوّل : کائناتی بہشت جنتِ عالمِ شخصی کی توسیع سے بنائی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کی یہ عنایتِ بے نہایت منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی میں ہوتی ہے۔

حکمتِ دوم: دوڑ کر چلنا علم و عمل میں سبقت کرنا ہے۔

حکمتِ سوم: یہاں مغفرت سے خصوصی بخشش مراد ہے، و ہ جسماً مرجانے سے قبل نفساً مرجانا ہے جس میں اگلے اور پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں، سورۂ فتح (۴۸: ۰۱ تا ۰۲) میں خوب غور کریں، یہ عارفین کے لئے صدقۂ رسولؐ ہے، اللہ تعالیٰ

 

۶۵

 

نے عرفاء کو اپنے پاک اور محبوب رسولؑ کا حجاب بنایا ہے۔

حکمتِ چہارم: امامِ زمانؑ اللہ تعالیٰ کا وہ زندہ اسمِ اعظم ہے جس میں اللہ کے کئی خاص نام مخفی ہیں، جن میں سے ایک اسرافیل کے لئے ایک عزرائیل کے لئے ہے، اسی وجہ سے حضرتِ مولانا علیؑ نے فرمایا کہ میں ناقور (صورِ اسرافیل) ہوں، نیز فرمایا کہ میں قیامت ہوں۔

قرآنِ حکیم (۱۷: ۷۱ تا ۷۲) میں ارشادِ مبارک ہے کہ خدا بتوسطِ امامِ زمانؑ اہلِ زمانہ کو مرکزِ قیامت کی طرف دعوت دیتا ہے، جو شخص آج دنیا میں مرتبۂ امامت سے اندھا ہو وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا، اور یہ بہت ہی دور کی گمراہی کا نتیجہ ہوگا۔

حکمتِ پنجم: آؤ دوستانِ عزیز آؤ ہم عارفانہ موت کی آرزو کریں! آؤ قرآن میں تلاش کریں کہ اس باسعادت موت کا ذکر کہاں کہاں ملتا ہے؟ آؤ ہر بار کچھ نہ کچھ روحانی قیامت کے بھیدوں کو سنیں! آؤ مولائے پاک کے عشق کی باتیں کریں شاید اس کو رحم آئے اور ہمارے دل میں عشق پیدا ہو!

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ادت  ۱۵؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۶۶

 

کائناتی بہشت

قسط:۴

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۴۰) میں ارشادِ مبارک ہے:

إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ۔

ترجمہ: یقین جانو جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور ان کے مقابلہ میں بڑائی کی ہے ان کے لئے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے، ان کا جنت میں داخل ہوجانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا، مجرموں کو ہمارے ہاں ایسا ہی بدلہ ملا کرتا ہے۔

حکمتِ اوّل: یہاں سب سے پہلے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ آیات کونسی ہیں جن کو لوگوں نے جھٹلایا اور ان کے مقابلہ میں بڑائی کی؟ اس کا جواب مولا علی علیہ السلام کے ارشاد میں موجود ہے کہ آپؑ ہی آیات اللہ اور باب اللہ ہیں۔ بحوالۂ کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت ۷۰۔

حکمتِ دوم: ہرزمانے کا امامؑ ہی آیات اللہ اور باب اللہ ہے، اس کے بے شمار فوائد سے محرومی کا سبب تکبر ہے، تکبر (بڑائی) کی مثال اونٹ سے دی گئی ہے۔

حکمت سوم: امامؑ کا ٹائٹل آیات اللہ اسی معنیٰ میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے

 

۶۷

 

معجزات کا ہمہ گیر خزانہ ہے، پس جب اس کا کوئی عاشق عارفانہ موت سے مر جاتا ہے تو اس کے لئے امامؑ کا اوّلین معجزہ یہ ہوتا ہے کہ یہ عالمِ ذر ہوجاتا ہے اور اگر یہ چاہے تو سوئی کے ناکے سے بھی گزر سکتا ہے، اب اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں، مگر جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں امامؑ سے زیادہ علم رکھتا ہوں اس کے لئے امامؑ کے تمام معجزات ممنوع ہوتے ہیں، اس کے پاس صرف ایک بڑے تکبر کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔

حکمتِ چہارم: صاف ظاہر ہے کہ آیۂ محولۂ بالا میں کائناتی بہشت کا ذکر ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۱۶؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۶۸

 

کائناتی بہشت

قسط:۵

 

سورۂ مریم (۱۹: ۹۳ تا ۹۶) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ إِلاَّ آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا  لَقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمْ الرَّحْمَنُ وُدًّا۔

ترجمہ: زمین اور آسمان کے اندر جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں سب پر وہ محیط ہے اور اس نے ان کو شمار کر رکھا ہے سب قیامت کے روز فرداً فرداً اس کے سامنےحاضر ہوں گے یقیناً جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عملِ صالح کر رہے ہیں عنقریب رحمان ان کے لئے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا۔

حکمت اوّل: زمین اور آسمان کے اندر جو بھی ہیں سب کے سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں (قیامت گا ہ/عالمِ شخصی میں) اللہ نے ان سب کو (امامِ مبینؑ میں) گھیر کر اور گن کر رکھا ہے۔

حکمتِ دوم: یہ سب جن کا ذکر ہوا قیامت کے دن نفسِ واحدہ میں فردِ واحد بن کر خدا کے پاس آنے والے ہیں کہ جس طرح فردِ واحد سے پیدا کئے گئے تھے، بالآخر ایسا ہونا ہے، کیونکہ رجوع الی اللہ میں پہلے تو کثرت ختم ہوجاتی ہے اور آخر میں

 

۶۹

 

دوئی بھی مٹ جاتی ہے صرف وحدت باقی رہتی ہے۔

حکمتِ سوم: جو لوگ ایمان لائے جیسا کہ اس کا حق ہے اور منشائے الٰہی کے مطابق نیک اعمال کو انجام دیں خدا ان کو بہشت کی سلطنتوں میں سے ایک سلطنت عطا فرمائے گا، جس کی وجہ سے سب لوگ ان کو چاہیں گے، جس طرح دنیا میں سب لوگ بادشاہ کو چاہتے ہیں، ہر فرد دل ہی دل میں بادشاہ سے محبت کرتا ہے، اس سے کہیں بڑھ کر شاہانِ جنّت کا عشق ہوگا، اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

حکمتِ چہارم: یاد رہے کہ بہشت کی سب سے بڑی نعمت وہاں کی بادشاہی ہے (۷۶: ۲۰)۔

حکمتِ پنجم: دینِ میں آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کی روحانی سلطنت ملْکاً عظیماً (۰۴: ۵۴) کے نام سے ہے، ان کے مومنین کے لئے یہی بادشاہی بہشت میں ملکاً کبیراً کے نام سے ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہشت میں بھی علم و معرفت کی بادشاہی ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۱۷؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۷۰

 

کائناتی بہشت

قسط:۶

 

سورۂ محمد (۴۷: ۰۴ تا ۰۶) میں ارشادِ ربّانی ہے:

وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ  سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ  وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ۔

ترجمہ: اور جو لوگ (باطناً یعنی نفساً) راہِ خدا میں شہید کئے گئے ان کے اعمال کو اللہ ہرگز ضائع نہ کرے گا وہ ان کی رہنمائی فرمائے گا ان کا حال درست کردے گا اور ان کو اس جنّت میں داخل کرے گا جس کا انہیں پہلے سے شناسا کر رکھا ہے۔

حکمتِ اوّل: اس ربّانی تعلیم میں جہادِ اکبر کے شہیدوں کا ذکر ہے۔

حکمت دوم: جہادِ اکبر کے شہید جسماً نہیں مرتے ہیں، نفساً مرتے ہیں۔

حکمتِ سوم: اس ارشاد میں اللہ کی نورانی ہدایت کا وعدہ ہے اور یہ زندہ شہیدوں کے لئے ہے۔

حکمتِ چہارم : خدا زندہ شہیدوں کے حال کو درست کردیتا ہے۔

حکمتِ پنجم: اللہ زندہ شہیدوں کو بہشتِ کلّی کا مشاہدہ کرا کر ان کو بہشت کا عارف بنا دیتا ہے، اور یہ خدا کا سب سے بڑا انعام ہے۔

حکمتِ ششم: بہشت کی معرفت میں تمام معرفتیں جمع ہیں اور بہشت سے کوئی معرفت باہر نہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۱۸؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۷۱

 

کائناتی بہشت

قسط:۷

 

بموجبِ حدیثِ شریف ہر آیۂ قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، پس سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۶۹ تا ۱۷۱) میں بظاہر شہیدانِ جسمانی کا ذکر ہے ، بباطن شہیدانِ روحانی کا ذکر ہے، میں صرف شہیدانِ روحانی کی کچھ حکمت بیان کروں گا، جیسا کہ قسطِ ششم میں ذکرہوا تھا:

ترجمہ: جو لوگ باطناً = نفساً اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں اپنے ربّ کے پاس رزق پا رہے ہیں یعنی یہ شہیدانِ جہادِ اکبر ہیں اس لئے ح۔ ق تک ان کی رسائی ہوئی ہے جہاں وہ اپنے ربّ کے پاس علمِ لدنّی پا رہے ہیں جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اس پر خوش و خرم ہیں اور مطمئن ہیں کہ جو اہلِ ایمان ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لئے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل سے شادان و فرحان ہیں اور ان کو معلوم ہوچکا ہے کہ اللہ مومنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۱۸؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۷۲

 

کائناتی بہشت

قسط:۸

 

سورۂ زلزال (۹۹: ۰۱ تا ۰۸) کو بمع ترجمہ خوب توجّہ سے پڑھ لیں اور اللہ تعالیٰ سے ہمت و یاری اور توفیق طلب کر کے اختیاری موت یعنی عارفانہ موت اور روحانی قیامت کا تصوّر کریں اور پھر استاد کی بات کو گوشِ ہوش (دل کے کان) سے سن لیں، یہاں الارض سے وہ انسان مراد ہے جس پر روحانی قیامت گزرتی ہے، اور یہ زلزلہ مادّی نہیں بلکہ روحانی ہے، اثقال = سارے بوجھ خطائیں ہیں، حاملِ قیامت کو اس واقعۂ عجیب و عظیم سے بڑی حیرت ہوگی، اس روز عالمِ شخصی خدا کے حکم سے باتیں کرے گا، اس روز صورِ اسرافیل کی دعوت پر وہاں سب لوگ جمع ہوں گے۔

زلزلۂ روحانی میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے تطہیر و تزکیۂ باطن ہے، لہٰذا عارف کے سفرِ روحانی میں کئی بار روحانی زلزلہ آتا ہے، آپ قرآنِ حکیم میں زلزلہ کے لئے دیکھیں:  (۰۲: ۲۱۴؛  ۲۲: ۰۱؛  ۳۳: ۱۱؛  ۹۹: ۰۱)، آپ اپنے خزانۂ حکمت میں ہر بار اضافہ کرتے رہیں، کیونکہ حکمت ہی میں خیرِ کثیر ہے، اور حکمت ہی مومن کا سرمایہ ہے، ہر مومن کا عالمِ شخصی بحدِّ قوّت کائناتی بہشت ہے، اور یہی نکتہ سمجھانا مقصود ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۱۹؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۷۳

 

کائناتی بہشت

قسط:۹

 

تمام علماء کے نزدیک یہ حقیقت مسلّمہ ہے کہ قرآنِ حکیم کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ قرآنِ کریم اپنی بے مثال و لاجواب تفسیر خود ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اہلِ بصیرت کے لئے ایک آیت پر دوسری آیت کی روشنی پڑتی ہے، پس اگر آپ آیتِ استخلاف ( ۲۴: ۵۵) کو آیتِ سبقت (۵۷: ۲۱) کی روشنی میں پڑھتے ہیں تو فوراً ہی مطلب واضح ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے سبقت کرنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کو کائناتی بہشت کا خلیفہ اور بادشاہ اور وارث بنائے گا، اور کائناتی بہشت خود سبقت کرنے والوں کے عالمِ شخصی ہی سے بنائی جاتی ہے اور اس بہشت میں تمام کائنات والوں کے لئے خوش منظر جگہ ہوتی ہے۔

آیتِ استخلاف سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حقیقی خدا شناسی اور کامل عبادت برائے روحانی خوشی بہشت میں ہے، دعوتِ دینِ حق اور علم و معرفت بھی وہاں ہے، جو وہاں سلاطین اور تاجدار ہوں گےان کا شغل علم و حکمت اور خاص عبادت ہے، ان بشارتوں سے ناشکری کرنا کفر اور فسق ہے۔

آیتِ استخلاف اسرار کا ایک بھرپور خزانہ ہے آپ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۱۹؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۷۴

 

کائناتی بہشت

قسط:۱۰

 

عارفانہ موت اور روحانی قیامت کا تعلق عالمِ شخصی سے ہے، سب سے پہلے امامِ آلِ محمدؐ (امامِ زمانؑ) سے رجوع اور حصولِ اسمِ اعظم، متعلقہ ہدایات اور دعائے پاک ضروری ہے، اور امامِ زمانؑ کی کلی اطاعت اور علم الیقین کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے، اپنی ذات میں عالی ہمتی پیدا کرنے کے لئے حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے تمام ارشادات کو پڑھتے رہیں، آپ انہی ارشادات کی روشنی میں یہ بتائیں کہ حقیقی مومنین کی روحانی ترقی کہاں تک ممکن ہے، پھر کیا وجہ ہے آپ کی کوئی خاص ترقی نہیں، لیکن حسد میں آپ نے خوب ترقی کی ہے، اس سے نقصان ہورہا ہے۔

اے میرے حاسد بھائی! آپ کو حسد کا یہ بُرا نشہ کس نے سکھایا؟ یہ حسد اخلاقی اور روحانی بیماری ہے، اس سے حاسد کو بہت تکلیف ہوتی رہتی ہے، بڑے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو نیک اور ترقی پسند ہیں، جن کا دل ہر قسم کی برائی سے پاک و پاکیزہ ہے، جو ہمیشہ علم و عبادت میں مصروف رہتے ہیں، ضروری ہے کہ کبھی کھبار اپنی برادری کیلئے کوئی نصیحت بھی لکھا کروں گا، یہ بھی میرا ایک مقدس فریضہ ہے۔

حدیث کا مفہوم ہے: عالم ہوجاؤ یا متعلم ہوجاؤ یا علم کی باتیں سننے والا ہو جاؤ اور چوتھا نہ ہوجانا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے، یعنی علم سے دشمنی کرنیوالا چوتھا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۲۰؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۷۵

 

کائناتی بہشت

قسط:۱۱

 

سورۂ مطففین (۸۳: ۱۸ تا ۲۶) ترجمہ: ہرگز نہیں بےشک نیک آدمیوں کا نامۂ اعمال علّیّین (حظیرۂ قدس) میں ہے اور تمہیں کیا خبر کہ وہ ح-ق کیا ہے وہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے جس کو مقرّب لوگ دیکھ سکتے ہیں۔

علّیّین درحقیقت عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطقؐ، اساسؑ اور امامِ زمانؑ کے انور کا مقام ہے، وہ حظیرۂ قدس اور کتابِ مرقوم ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ جن عارفوں کی آنکھ ہوجاتا ہے وہ اپنے نامۂ اعمال کو ح-ق میں دیکھتے ہیں، آپ حدیثِ قدسیٔ نوافل کو دل نشین کرلیں، پھر ٹھیک طرح سے سوچ لیں کہ ممکن کیا ہے؟ اور ناممکن کیا ہے؟

سابقون کے بارے میں ارشاد ہے:

وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُوْلَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ(۵۶: ۱۰ تا ۱۱)۔

ترجمہ: اور سبقت کرنیوالے تو آگے ہی ہیں، وہی تو مقرّب لوگ ہیں، مقرّبین عارفین ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۲۰؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۷۶

 

کائناتی بہشت

قسط:۱۲

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے امامِ  مبینؑ میں سب کچھ گھیر کر اور گن کر رکھا ہے  اور اس کو اپنی قدرت کا کارخانہ اور مظہرِ عجائب و غرائب بنایا ہے، پس جب امامِ زمان علیہ السّلام کے عشق میں مومنِ سالک پر عارفانہ موت اور روحانی قیامت واقع ہونے لگتی ہے تو حضرتِ امامؑ کے عظیم معجزات شروع ہوجاتے ہیں، مومنِ عاشق کو حیرت بالائے حیرت ہوتی رہتی ہے۔

صورِ اسرافیل کا لاہوتی معجزہ ایسا ہرگز نہیں کہ دنیا ئے ظاہر میں اسکی کوئی تمثیل ہو، عزرائیلی معجزہ بھی بڑا حیران کن ہے، ساتھ ہی ساتھ عالمِ ذرّ کا ظہور اور خروجِ یاجوج و ماجوج، اسی کے ساتھ ساتھ کل ارواح کا حشر اور پھر نشر، یعنی القابص اور الباسط کا عملِ مسلسل، اس میں مجھے قرآنِ حکیم اور امامِ  وقتؑ کی تائید حاصل تھی ورنہ میں ان عظیم معجزات کی جلالت و ہیبت سے نیست و نابود ہو جاتا ، مگر خدا کے فضل و کرم سے اور رحمتِ عالم (صلعم) کی رحمت سے میں ناچیز مر مر کر زندہ ہوگیا۔

اب میں اس عظیم ملکِ صین کو سلام کرتا ہوں، شہرِ یارقند کو سلام کرتا ہوں، قرانگغو توغراق جماعت خانہ کو بار بار ترکی سلام کرتا ہوں، عزیز محمد خان اور اس کے افرادِ خاندان کو سلام کرتا ہوں، اس گاؤں کی جماعت کو سلام و دعا کرتا ہوں ، اس اپنے گھر کو سلام کرتا ہوں جو جماعت خانہ سے متّصل تھا، اور یارقند کی جماعت کو سلام کرتا ہوں، آمین!

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ہفتہ  ۲۱ ؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۷۷

 

چین میں اوّلین جماعت خانہ اور اس کے معجزات

قسط:۱

 

ارشادِ نبوّی ہے: اُطْلُبُوا الْعِلْمَ وَلَوْ بِالصِّیْن۔

ترجمہ: علم کو ڈھونڈو اگرچہ اس کے لئے تمہیں چین جانا پڑے۔ سعادتِ ازلی اور حسنِ اتفاق سے یہ بندۂ کمترین چین گیا:

این سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو بہت سی سعادتیں ایک ساتھ بھی حاصل ہوسکتی ہیں، ہاں ہاں، اس کا فضل وکرم اور فیاضی بے مثال ہے۔

شہر یارقند کے ایک گاؤں کا نام قرانگغو توغراق تھا، اس بابرکت گاؤں میں ۴۵ اسماعیلی خاندان آباد تھے، ان میں ایک نامور اسماعیلی عزیز محمد خان کا خاندان بھی شامل تھا، عزیز محمد خان نہ صرف ایک بڑا دولت مند اسماعیلی تھا، بلکہ اس سے کہیں زیادہ عشقِ مولا میں امیر تھا، علم و حکمت کا شیدائی، ذکر و عبادت کا فدائی، شب خیز مومن، نیک کاموں کا مشتاق تھا، یہ وہ بڑا خوش نصیب مردِ مومن تھا جس نے ذاتی اخراجات سے ملکِ چین (یارقند) میں سب سے اوّلین جماعت خانہ تعمیر کیا جو باکرامت و معجزاتی جماعت خانہ قرار پایا، اس پاک جماعت خانہ میں جو کچھ دیکھا گیا تھا اگر میں کسی وجہ سے پوشیدہ رکھوں تو اپنے آپ پر بڑا ظلم ہوگا (۰۲: ۱۴۰) چونکہ تمام جماعت کیلئے بہت بڑا امتحان تھا، لہٰذا جماعت خانہ میں عاجزانہ عبادت اور گریہ وزاری ہوتی رہتی تھی، جس کی وجہ سے جماعت خانے کے بعض معجزے ظہور پذیر ہونے لگے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار  ۲۲؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۷۸

 

چین میں اوّلین جماعت خانہ اور اسکے معجزات

قسط:۲

 

قرانگغوتوغراق (یارقند) چین کا یہ جماعت خانہ ۱۹۴۹ء میں تعمیر ہوا، اور یہ بندۂ درویش بھی اسی سال وہاں پہنچا تھا، حکیم پیر ناصرِ خسرو (قدس اللہ سرہ) کے حلقۂ دعوت میں ذکرِ جلی کی روایت بھی چلی آئی ہے اور گریہ وزاری بھی، قرآنِ حکیم (۰۷: ۱۸۰) میں اللہ تعالیٰ کا پاک ارشاد ہے کہ اسماءُ الحسنٰی اسی کے لئے ہیں پس جب بھی تم اللہ کو پکارو تو اس کو انہی ناموں سے پکارنا، ہم اس کی تفسیر و تاویل کے لئے ارشاداتِ أئمّۂ آلِ محمدؐ سے رجوع کرتے ہیں۔

چنانچہ اس پاک جماعت خانے میں ہم سب دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے زندہ اسمِ اعظم پر عشق و محبت کے ساتھ ذکرِ جلی بھی کرتے تھے، کچھ عرصے کے بعد جبکہ میں رات کے وقت جماعت خانہ میں تنہا تھا تو قادرِ مطلق کی قدرت سے جماعت خانہ کی چاردیواری، فرش اور سلنگ نے یا جماعت خانہ کے تمام ذرات نے یا نورِ جماعت خانہ نے یا اس کی روح نے اسی زور و شور سے ذکرِ جلی کیا، جس طرح ہم جماعت قبلاً ذکر کرتے رہتے تھے، معجزہ انسانی عقل سے ماورأ ہے، اس لئے ہم اس کی تحلیل نہیں کرسکتے ہیں۔

اسی طرح ایک اور رات صرف جماعت خانہ میں زلزلۂ روحانی آیا اور کہیں بھی نہیں، یہ ظاہری بھونچال ہرگز نہ تھا، ایک رات مجھے یہ احساس و ادراک بھی ہوا کہ کوئی

 

۷۹

 

روحانی لشکر جماعت خانے کے گردا گرد طواف کررہا تھا، اس میں بڑی حیرت کی بات تو یہ تھی کہ وہ اللہ کے سپاہی زمین پر زور سے پاؤں مارتے ہوئے چلتے تھے، چال اور آواز سے معلوم ہوا کہ ان میں میرے والد بھی شامل تھے، قرآنِ حکیم کا حکمتی اشارہ ہے کہ اللہ کے گھر سے تین قسم کے جسمانی اور تین قسم کے روحانی وابستہ ہیں (۰۲: ۱۲۵) وہ یہ ہیں : طواف کرنے والے، اعتکاف کرنے والے اور رکوع وسجود کرنے والے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار  ۲۲؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۸۰

 

چین میں اوّلین جماعت خانہ اور اس کے معجزات

قسط:۳

 

سوال: مبارک جماعت خانہ نے وہی ذکرِ جلی کرکے دکھایا جو اس سے پہلے افرادِ جماعت کرتے رہتے تھے۔ اس کی حکمت یا تاویل کیا ہے؟

حکمتِ اوّل : یہ امامِ زمانؑ کا نور تھا۔

حکمتِ دوم : یہ جماعت خانہ کی پاک روح تھی۔

حکمتِ سوم: جماعت کی متحدہ روح تھی۔

حکمتِ  چہارم: یہ ایک زندہ معجزہ تھا۔

حکمتِ پنجم: یہ نامۂ اعمال کی ایک جھلک تھی، وغیرہ۔

سوال: زلزلۂ روحانی میں کیا حکمت تھی؟

جواب: یہ معجزاتِ جماعت خانہ میں سے ایک معجزہ تھا، حرکت زندگی کی علامت ہے، لہٰذا یہ اشارہ تھا کہ اس پاک گھر کی ایک پاک روح موجود ہے، وہ پاک روح امامِ زمانؑ کا نور ہے۔

ایک دفعہ بوقتِ روز میں جماعت خانہ میں تھا، اس حال میں فاختہ جیسے بہت سے پرندے صحن میں تھے، کسی آواز نے ان کو جماعت خانے کی طرف بلایا اور وہ میری طرف آنے لگے اور مجھ پر ایک زبردست رعب طاری ہوگیا، حالانکہ ظاہر میں اس کی کوئی وجہ نہ تھی، کیونکہ وہ چھوٹے چھوٹے پرندے تھے، مگر ایسا

 

۸۱

 

لگتا تھا کہ ان پر کسی روح کا کنٹرول تھا، تاہم یقیناً وہ اچھی روح تھی، کیونکہ وہ صاف اور ستھرے پرندے تھے جو اکثر جماعت خانہ کے صحن میں آیا کرتے تھے۔

خروسانِ سحر گویند کہ قم یٰایُّھا الغافل

تو از مستی نمی دانی کسی داند کہ ہشیاراست

ترجمہ: صبح سویرے بولنے والے مرغے بولا کرتے ہیں کہ اے غافل شخص اٹھ جا (عبادت کے لئے) تو اپنی مستی کی وجہ سے اس پکار کو نہیں سمجھتا کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس کو صرف کوئی دانا سمجھ سکتا ہے، سبحان اللہ! مرغ کی اذان میں ایک بڑا راز ہے، خدا اس حقیقت کا گواہ ہے کہ قریب کا کوئی مرغا گاؤں والوں سے کچھ کہا کرتا تھا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار  ۲۲؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۸۲

 

چین میں اوّلین جماعت خانہ اور اس کے معجزات

قسط:۴

 

بحوالۂ کتابِ دعائم، عربی، جلدِ اوّل، کتاب الحج، ص ۲۹۲:

زمین پر سب سے پہلے بحکمِ خدا فرشتوں نے اللہ کا گھر بنایا تھا، وہ زمانۂ طوفان میں آسمانِ چہارم پر اٹھایا گیا، جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے زیارت کے لئے داخل ہوجاتے ہیں کہ پھر کبھی لوٹ کر نہیں آسکتے ، اس کی حکمت یہ ہے کہ اللہ کے پاک گھر کی روح  و روحانیّت ہے، اسی حیثیت میں وہ مقدّس گھر آسمانِ چہارم پر مرفوع ہوا تھا، پس جماعت خانہ بیت اللہ شریف کی تاویل ہے، لہٰذا قرآن و حدیث میں جو کچھ بیت اللہ کی شان میں ہے وہ تاویلاًجماعت خانہ کی شان میں ہے۔

خودستائی کفر اور شرک ہے، اللہ ہر مومن کو اس سے بچائے! لیکن دینِ اسلام میں شہادت (گواہی) کی جو اہمیّت ہے وہ سب پر عیان ہے، پس اگر میں نے اللہ کے زندہ اسمِ بزرگ کا کوئی معجزہ دیکھا ہے تو اس پر کونسا پردہ ڈال سکتا ہوں اور کیوں؟ شروع شروع میں میرے اپنے لوگوں میں سے بعض مجھے نصیحت کرتے تھے کہ روحانیّت کے بھیدوں کو ظاہر کرنے کی اجازت نہیں، لیکن وہ یہ نہیں سوچتے تھےکہ یہ حکم دورِ قیامت کے لئے نہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۲۳؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۸۳

 

چین میں اوّلین جماعت خانہ اور اس کے معجزات

قسط:۵

 

اللہ تعالیٰ جلّ جلالہٗ وعم نوالہٗ کے عظیم اور سلسلہ وار احسانات اور انعامات کی شکرگزاری سے زبان قاصر ہے، اور یہ بات بالکل سچ اور حقیقت ہے کہ ہم اللہ کی نعمتوں کو کبھی شمار بھی نہیں کر سکتے ہیں، بہر کیف یہاں معجزات کا تذکرہ ہورہا ہے۔

میری مذہبی زندگی کا سب سے بڑا یوم وہ تھا جس میں حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ ارواحنا فداہٗ نے برقی بدن (جثّۂ ابداعیہ) میں اپنا پاک ظاہری، نورانی، معجزاتی دیدار عطا فرمایا تھا، اس کا بیان میرے لئے سب سے مشکل اس لئے ہے کہ یہ سب سے بڑا معجزہ ہے، اس کو بیان کرنے کیلئے شایانِ شان الفاظ ہمارے پاس کہاں ہیں، مگر ہاں ایک چارۂ کار ہے، وہ یہ ہے کہ ہم آئینۂ قرآن میں دیکھیں، کیونکہ حضرتِ امام  محمد باقر علیہ السّلام نے ہماری اس مشکل کو بہت پہلے ہی آسان کردیا ہے، وہ ہے ماقیل فی اللہ کا ارشادِ مبارک ، اب میں کئی آیاتِ قرآنی کی تاویلی زبان میں برقی بدن میں دیدار کی معرفت بتا سکتا ہوں۔

آپ اس شعر کو سن لیں:

آئینۂ خدائے نما مرتضیٰ بود

درچشمِ جان تجلیٔ جانان کند علی

ترجمہ: مرتضیٰ علیؑ آئینۂ خدا نما ہے، اگر دل کی آنکھ سے دیکھا جائے تو علیؑ ہی خدا کی تجلّی کرتا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۲۳؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۸۴

 

اللہ تعالیٰ نے اپنے معجزات دکھانے کا وعدہ فرمایا ہے

 

حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (۴۱: ۵۳)۔

ترجمہ: ہم دکھائیں گے انہیں اپنے معجزات آفاق (عالم) میں اور ان کے اپنے نفسوں میں یہاں تک کہ واضح ہوجائے کہ قرآن (اور نور ۰۵: ۱۵) حق ہے۔

آفاق میں اللہ کے معجزات کا مرکز کونسا ہے؟ آیا یہ مرکز خدا کا گھر ہوسکتا ہے؟ کیا مظہرِ نورِ خدا مرکزِ معجزات ہوسکتا ہے؟ کیا قرآن اس ہدایت پر زور دیتا ہے کہ لوگ اس دنیا میں اندھے نہ رہیں، بلکہ چشمِ بصیرت پیدا کرلیں، ورنہ آخرت میں بھی اندھے ہی رہیں گے (۱۷: ۷۲)؟ اللہ پاک نے اپنے معجزات دکھانے کا جو وعدہ فرمایا ہے اس میں اگر تاخیر ہے تو اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ کیا خدا اپنا کیا ہوا وعدہ بھول گیا؟ نہیں، ہرگز نہیں، توبہ توبہ، اللہ اس سے پاک و برتر ہے کہ کوئی چیز بھول جائے، وہ بار بار اپنے بابِ معجزات کو کھولتا رہتا ہے، یہ اس کی بہت بڑی رحمت ہے، لیکن لوگ خوابِ غفلت میں سوئے پڑے ہیں۔

خدا اپنے ہر نمائندہ ( امامؑ) کے ذریعے سے قیامت کو روحانی شکل میں قائم کرکے لوگوں کو عذابِ قیامت سے نجات دلاتا ہے، اگر اس کے برعکس قیامِ

 

۸۵

 

قیامت کا واقعہ ظاہری اور مادّی طور پر ہوتا تو عالم اور بنی آدم برباد ہو جاتے، پس اللہ ارحم الراحمین ہے اس نے قیامت کی ہر ہر سختی کو روحانی صورت دے کر اپنے عاشقوں پر ڈال دیا، تاکہ وہ عیال اللہ (خدا کی مخلوقات) سے قربان ہوجائیں، تاکہ قیامت کے بارے میں اللہ کا جیسا ارشاد ہوا ہے وہ حق ثابت ہوجائے، الحمد للّٰہ۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۲۴؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۸۶

 

وعدۂ معجزاتِ الٰہی

 

سورۂ نمل کے آخر (۲۷: ۹۳) میں بمرتبۂ نگینہ ارشادہے:

وَقُلْ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ۔

ترجمہ: ان سے کہو تعریف اللہ ہی کیلئے ہے عنقریب وہ تمہیں اپنے معجزات دکھا دے گا اور تم کو ان کی معرفت حاصل ہوگی اور تیرا ربّ بے خبر نہیں ہے ان اعمال سے جو تم لوگ کرتے ہو۔

آیات کے خاص معنی معجزات ہیں اور مرکزِ معجزات امامِ آلِ محمدؐ، کیونکہ اللہ نے امامؑ کو مظہر العجائب و الغرائب بنایا ہے، اسی مبارک نام کے تحت جملہ حیران کن معجزات آتے ہیں، اور معرفتِ کلّ انہی معجزات پر مبنی ہے، اور یہ فرمانا کہ تیرا ربّ غافل نہیں، یہ اشارہ ہے کہ علم و عمل کی ترقی کے بعد معجزات کا ظہور ہوتا ہے۔

اور میں نے اس آیۂ شریفہ کو نگینہ کہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی اکثر یا بعض سورتوں کے آخرمیں زبردست حکمت آگین آیات وارد ہوتی ہیں، ان کو خواتم (نگینے) کہتےہیں، خواتم کی واحد خاتم (نگینہ) ہے ، یعنی گوہرِ گرانمایہ۔

پس وعدۂ معجزاتِ الٰہی برحق ہے، مگر اسکی واحد شرط یہ ہے کہ حقیقی مومن علم و عمل کی خوب اور مکمل تیاری کرلے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۲۴؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۸۷

 

ناقابلِ فراموش معجزات

قسط:۱

 

جی ہاں، تقریباً سب معجزے ناقابلِ فراموش ہوتے ہیں، مگر پھر بھی انسانی یادداشت کی کمزوری اپنی جگہ پر ہے، میری بروشسکی شاعری کا اوّلین شعر کسی سوچے ہوئے منصوبے کے بغیر حاضر امامؑ کے مبارک اسم سے شروع ہوا، اور اس اوّلین نظم کا موضوع امامؑ کا عشق ہے۔

اس بندۂ مسکین کو حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا پاک ظاہری دیدار سب سے پہلے ۱۹۴۶ء میں شہر پونا میں حاصل ہوا:

جار جلوۂ اوّل غنم لو زلزلہ دیمی = جب میں نے اس کا پہلا جلوہ دیکھا تو مجھ کو ایک ذاتی زلزلہ ہوا۔

میں حسن آباد زیارت (بمبئی) کے اس حکمت آگین دیدار کو کیسے بھول سکتا ہوں ، جس میں میرے مولا نے مجھے تحفۂ لازوال عطا فرمایا تھا، اس بابرکت تحفے میں ایک عالمِ شخصی پنہان تھا اور ایک کائناتی بہشت بھی تھی، میں مردۂ جہالت تھا میرے مولا نے مجھے حیاتِ سرمدی کا ایک بے مثال نسخہ لکھ کر سمجھا دیا۔

میں پرانا جماعت خانہ کھارادر کراچی کو ہمیشہ یاد کرتا ہوں، کیونکہ میں نے اس میں شب خیزی کی ریاضت کی اور تقریباً ایک چلّہ کے بعد اسمِ اعظم کی پہلی روشنی کا مشاہدہ کیا، یہ ۱۹۴۸ء کا زمانہ تھا۔

میں نے تاشغورغان کے انتہائی عجیب و غریب نورانی خواب کو قبلاً لکھ دیا ہے، کیونکہ اس خواب میں ایک تاویلی خزانہ پوشیدہ ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل ۲۴؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۸۸

 

ناقابلِ فراموش معجزات

قسط:۲

 

ایک غیر معمولی اور بے مثال فرمانِ مبارک جو معجزہ بھی ہے اور پیش گوئی بھی اور نورانی ہدایت بھی، وہ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا وہ فارسی ارشاد تھا، جو ۱۰؍ مارچ ۱۹۴۰ء میں بمبئی سے بذریعۂ ریڈیو بنامِ جماعت ہونزہ گلگت وغیرہ صادر ہوا تھا، جسکی حکمتوں میں تمام پاک فطرت مریدوں کو خوب سوچنے کی ضرورت ہے، اور یہ بات حق ہے کہ امام عالی مقامؑ کے مقدّس ارشادات میں امام شناسی ہی کی روشنی میں غورو فکر کیا جاسکتا ہے۔

حضرتِ امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کا ہرفرمان تمام جماعتوں کیلئے از بس ضروری ہوتا ہے، پھر بھی اگر کوئی فرمان کسی خاص ملک، شہر یا کسی علاقے سے متعلق ہے تو ظاہر ہے کہ اس کیلئے یہ فرمان اور بھی زیادہ ضروری ہوتا ہے، پس ۱۹۴۰ء کا یہ پاک فرمان ان علاقوں کیلئے بے حد ضروری ہے جن کے نام اس ارشادِ مبارک میں آئے ہیں۔

امامِ وقتؑ کے فرمان کی حکمتوں کو فوراً ہی سمجھنے میں بڑا فائدہ ہے، اس فرمانِ مبارک میں جہاں حضرتِ امامؑ کے نورِ لطف و محبت طلوع ہوجانے کی پیشگوئی ہے وہ کوئی معمولی بات ہرگز نہیں، بلکہ وہ ایک عظیم باطنی معجزہ ہوسکتا ہے جو کسی کو بھی معلوم نہیں، لہٰذا میں نے اس مبارک فرمان کو حضرتِ امامؑ کے معجزات میں شمار کیا تاکہ ہر دانا عاشق اس بیمثال فرمان سے بیش از بیش فائدہ اٹھائے، مذکورِ بالا فرمان کیلئے کتابچۂ حکمتِ تسمیہ کے آغاز میں دیکھیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۲۵؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۸۹

 

ناقابلِ فراموش معجزات

قسط:۳

 

علم و معرفت کے عاشقوں کی کسی محفل میں کبھی یہ سوال بھی ہونا چاہئے کہ قرآنِ حکیم میں مَجْمَع الْبَحْرَیْنِ کی اہمیت کیوں ہے (۱۸: ۶۰) ؟

جواب: مَجْمَع الْبَحْرَیْن = دونوں دریاؤں کا سنگم، اگرچہ یہ ظاہراً ایک ہی مثال ہے، لیکن باطناً اس کے ممثولات بہت ہوسکتے ہیں، جیسے:

اوّل:  دریائے کُنۡ اور دریائے عقل کا سنگم۔

دوم:  دریائے نورِ عرش اور دریائے نورِ کرسی کا سنگم۔

سوم: قلم و لوح کا سنگم۔

چہارم:  نورِ محمدیؐ و نورِ علیؑ کا سنگم۔

پنجم :  ازل و ابد کا سنگم۔

ششم :  مکان و لامکان کا ۔

ہفتم :  تنزیل و تاویل کا۔

ہشتم:  لطیف و کثیف کا۔

نہم:  جنّ و انس کا۔

دھم:  غیرمرئی اور مرئی کا۔

یازدھم :  خیرو شر کا سنگم۔

 

۹۰

 

دوازدھم: خواب و بیداری کا سنگم۔

یہی قانون مَرَج الْبَحرَیْنِ بھی کہلاتا ہے (۵۵: ۱۹؛  ۲۵: ۵۳) اور یہی قانونِ ازواجِ کُل بھی ہے (۳۶: ۳۶) تمام چیزوں کے جوڑے ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۲۵ ؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۹۱

 

ناقابلِ فراموش معجزات

 

قسط:۴

 

ایک شب میں نے بڑا عجیب صالح نورانی خواب دیکھا، حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام روحی فداہٗ کا پاک دیدار بہت ہی قریب سے حاصل ہوا، آپؑ نے ایک صاف و سفید ہونزائی اونی چوغہ زیبِ تن کیا ہوا تھا جس پر بہت سے تمغے (میڈلز) لگے ہوئے تھے جن کی طرف دستِ مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے بندۂ کمترین سے سوال فرمایا کہ جانتے ہو یہ کیا ہیں؟ میں نے عاجزی سے گزارش کی کہ مولا بہتر جانتے ہیں، پھر مولا فرمانے لگے کہ یہ سب میڈلز جو میرے چوغے پر بیرونی جانب سے ہیں وہ میرے ظاہری عملدار ہیں، پھر امامِ عالی مقامؑ نے اس چوغہ کے اندر کی طرف لگے ہوئے بہت سے میڈلز کو دکھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ میرے باطنی عملدار ہیں، اور فرمایا کہ تم باطنی عملداروں میں ہو۔

شمالی علاقہ جات میں امامِ آلِ محمدؐ کے بہت سے ظاہری اور روحانی معجزات ہوئے ہیں جن کو صرف چشمِ بصیرت سے دیکھا اور پہچانا جاسکتا ہے، منجملہ ایک معجزہ یہ بھی تھا کہ مولا نے جب میر غزن خان ثانی کو کارِ بزرگِ اوّل و دوم عطا فرمایا تو اس کے دل میں جو عشقِ مولا تھا اس میں زبردست اضافہ ہوا، اس نے اپنی تمام رعیت کو کارِ بیگار وغیرہ سے آزاد کردیا، وہ ہر شبِ جمعہ از شام تا سحر دف و رباب کے ساتھ حضرتِ امامؑ کی منقبت خوانی کو سنتا رہتا تھا، وہ میر محمد نظیم خان کا بیٹا اور میر محمد جمال خان کا باپ تھا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۲۵؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۹۲

 

ناقابلِ فراموش معجزات

قسط:۵

 

خدا نہ کرے کہ میں اس کے نورِ پاک یعنی امامِ  آلِ محمدؐ کے کسی معجزے کو بھول جاؤں! ہمارے عقیدے میں امامؑ ہی اللہ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم ہے، اور خدا کا یہی اسمِ بزرگ اس کا زندہ نور ہے، پس اسی وجہ سے امام علیہ السّلام کا ہر معجزہ خدا کا معجزہ ہے، الحمدلِلّٰہ۔

یقیناً امامؑ زمین پر خدا کا نورِ ہدایت ہے، اور معلوم ہونا چاہئے کہ یہی نورِ مجسّم ہمیشہ سے سرچشمۂ معجزات رہا ہے، پس اگر ہر قسم کی مشکلات کی چکی نے کسی مومن کو پیس پیس کر رکھ دیا ہے تو پھر وعدۂ الٰہی کے مطابق معجزات کے دیکھنے میں کیا شک ہو سکتا ہے؟ مولوئ معنوی نے کیا خوب ترجمانی کی ہے:

قتل کن فرعونِ نفسِ خویش را

در زمان موسائے عمرانت کنم

ترجمہ: اپنے نفس کے فرعون کو قتل کرو تاکہ میں تم کو فوراً ہی موسیٰ ابنِ عمران بنا دوں گا۔ اس شعر کا مطلب عارفانہ موت اور روحانی قیامت کی ترقی ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۲۶؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۹۳

 

ناقابلِ فراموش معجزات

قسط:۶

 

سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں سرابیل کا ذکر ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایسے کرتے بنائے جو گرمی سے تمہاری حفاظت کریں اور ایسے کرتے بنائے جو تمہاری لڑائی سے تمہاری حفاظت کریں۔

ہمارے اپنے نوجوان جنہوں نے ظاہری سائنس میں درجۂ کمال حاصل کیا ہے وہ پوچھتے ہیں جناب! آپ ہمیں ایسے کرتوں کی نشاندہی کریں یا ان کی تاویل بتائیں، تو میں ان شاء اللہ ان کی صرف تاویل کرسکتا ہوں، یہ امام کا جثّۂ ابداعیہ ہے جس کے بہت سے نام ہیں، جس روز حضرتِ امامِ آلِ محمدؐ اپنے برقی بدن میں تشریف فرما ہوا تھا اسی روز تم سب کو ایسے کرتے عطا ہوئے تھے، اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ تم نمائندگی پر یقین رکھتے ہو یا ذاتی طور پر بھی کوئی بہت بڑا کام کرنا چاہتے ہو۔

جب امامِ مبینؑ میں خدا نے تمام اعلیٰ اور ضروری چیزوں کو گھیر کر اور گن کر رکھا ہے، تو پھر یہ معجزاتی کرتے دوسری جگہ کیونکر ہوسکتے ہیں، اگر ظاہری سائنس کی مدد سے ایک ہی چیز کی ہزارہا کاپیاں ہوسکتی ہیں تو کارخانۂ قدرت (امامِ مبینؑ) میں ہر وہ چیز کیوں نہیں ہوسکتی جس کا وعدہ قرآن میں موجود ہے، جیسے سرابیل مذکورِ بالا کرتے وغیرہ۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات ۲۶؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۹۴

 

ناقابلِ فراموش معجزات

قسط:۷

 

سرابیل = معجزاتی کرتے= اجسامِ لطیفِ ابداعی = انسانانِ لطیف = انسانی شکل کے لطیف فرشتے = بہشتی لباس جو خوبصورت آدمیوں کی طرح زندہ ہیں = جنّات یعنی قومِ پری جس کے مرد و زن سب حسین ہی حسین ہیں = ارواحِ لطیف بشکلِ انسانی = ہر ایسا معجزاتی کرتہ (کرتا) = جسمِ فلکی = کوکبی بدن (ایسٹرل باڈی) انسانِ لطیف ہے، جو نہ صرف ایک عالمِ شخصی ہے بلکہ ایک کائنات بھی ہے، اور جب خدا چاہے تو وہ کائناتی بہشت بھی ہوسکتا ہے۔

اگر ہم انسان کی بے پایان روحانی زندگی کے تصوّر سے ہٹ کر اس دنیوی زندگی کی فکر میں سرابیل کو ایک عام چیز قرار دیتے ہیں، تو پھر ایسی کوئی معمولی چیز کس طرح خدا کا احسان ثابت ہوسکتی ہے، پس سرابیل کی تاویل جو اوپر بیان ہوئی درست ہے، وہ آپ کی بے پایان روحانی زندگی کے لئے خاص ہے، ورنہ دنیا میں ایسے کرتے کہیں بھی نہیں ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات ۲۶ ؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۹۵

 

ناقابلِ فراموش معجزات

قسط:۸

 

منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی کا طوفان یا جامع الجوامع معجزہ، یہاں پر لفظِ منزل خود ایک سوال ہے کہ یہ کس راستے کی منزل ہے؟ اس کا مسافر کون ہے؟ اور یہ سفر کس نام سے ہے؟

الجواب: یہ صرف اور صرف صراطِ مستقیم کی منزلِ فنائے اوّل ہے، اس کا مسافر مومنِ سالک ہے، اور سفر علم و عمل کی اسلامی روحانیّت ہے، اس مقدّس مقام کا نام منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی اس لئے ہے کہ یہاں سے عارفانہ موت اور روحانی قیامت شروع ہوجاتی ہے۔

بحوالۂ قرآن (۱۷: ۷۱ تا ۷۲) روحانی قیامت دینِ حق کی طرف اللہ کی آخری اور زبردستی دعوت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اہلِ زمانہ کو امامِ زمانؑ کے توسط سے بلاتا ہے، اور آپ کو قرآنِ حکیم کی روشنی میں یہ بھی ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ خدا کی طرف لوگ یا تو خوشی سے رجوع کرتے ہیں یا زبردستی سے۔

ہم نے عشقِ مولا کی سرمستی میں ناقور (صورِ قیامت) کو پریلو (پریل) کہا اور لفظِ ناقور بھی استعمال کیا، اور اسی سرِ عظیم کے زیرِ اثر خالی گبی (بانسری) کی مثال کو بیان کیا، اور عرصۂ دراز تک ذوالقرنین کی حکمت سے بے خبر رہا، آخر کار اس کو رحم آیا اور فرمایا کہ ذوالقرنین سے صاحبِ صورِ قیامت مراد ہے، کیونکہ ناقور کی آواز

 

۹۶

 

میں بھی ایک سنگم ہے، یعنی اس کی آواز کے دو حصّے ہیں: پہلے حصّے کو نفخۂ اولیٰ اور دوسرے حصّے کو نفخۂ ثانیہ کہتے ہیں، پس گویا یہ پھونکنے کے دو سینگ ہیں مگر ایک آخری آواز سے ملا کر فوراً ہی دوسرا پھونکا جاتا ہے، اس لئے یہ ایک بھی ہے اور دو بھی (سورۂ نازعات ۷۹: ۰۱ تا ۰۷)۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۲۷؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۹۷

 

ناقابلِ فراموش معجزات

قسط:۹

 

اگر ہم یہاں حضرتِ مولانا علی علیہ السّلام کے کسی ارشاد کا حوالہ نہ دیں تو یہ ہماری بہت بڑی ناشکری ہوسکتی ہے، بحوالۂ کوکبِ دری، بابِ سوم:

مولا اپنی نورانیّت میں قیامت ہے آپؑ کا نور ناقور کا کام بھی کرتا ہے، مولا صاحبِ قیامت ہے اگر ایسا ہے تو ہمیں اپنی مقدّس روایت اور باکرامت لشکرِ اسرافیلی کی مدد سے ناقورِ نور کے قریب سے قریب تر ہوجانا چاہئے۔

۱۹۴۰ء کے خصوصی فرمانِ مبارک برائے جماعتِ ہونزا میں جس نور کے طلوع ہوجانے کی پیش گوئی ہے، کیا اس میں لشکرِ اسرافیلی اور نورِ عشقِ مولا اور علم کا کوئی اشارہ نہیں؟ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ صرف دنیا کی بات بن گئی ، لیکن مولا نےکہاں فرمایا ہے کہ تم صرف دنیوی ترقی کرو؟ ہر دانا جانتا ہے کہ مولا کے نور کی تعریف حقیقی علم اور حقیقی عشق کے بیان کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی ہے، پس یہ سچ ہے کہ جن لطیف و شیرین مدحیہ آوازوں نے جماعت کے دلوں کو پگھلا دیا ہے، ان مبارک آوازوں میں مولا کا نور طلوع ہوا ہے، اس فرمانِ مقدّس میں خوب سوچنے کی ضرورت ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۲۷؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۹۸

 

امامِ آلِ محمدؐ کے تاویلی معجزات

قسط:۱

 

سولِ اکرمؐ کا سب سے دوررس ارشاد یہ ہے:

اُطلُبُو االعِلْمَ وَلَوْ بِاالصِّین = تم علم کو طلب کرو اگرچہ تمہیں اس کی خاطر چین جانا پڑے۔

اس حدیثِ شریف کا وہ تاویلی معجزہ جو انتہائی حیران کن اور بے مثال ہے، حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ (روحی فداہٗ) نے کمالِ رحمت و مہربانی سے دکھایا، اور امامِ آلِ محمدؐ کے اس قیامت خیز اور طوفانی معجزے میں عجائب و غرائب کی لاتعداد کائناتیں موجود ہیں، علیٔ زمانؑ کے ان تاویلی معجزات میں واللہ ہر قسم کے مشکل سوالات کے لئے جوابات ہیں۔

قرآنِ حکیم اور دینِ فطرت (اسلام) کی بہترین خدمت سرمایۂ حکمت ہی سے ہو سکتی ہے، مادّی سائنس کی انقلابی ترقی سے تمام لوگ حیرت زدہ ہیں، اے دانا لوگو! ایسے میں ذرا روحانی سائنس اور قرآنی حکمت کے عجائب و غرائب کو بھی دیکھا کرو! اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قرآن ظاہری سائنس کے خلاف ہے، جب قرآن کا ایک اسمِ صفت حکیم ہے اور یہ اپنی کئی آیاتِ کریمہ میں حکمت کی شاندار تعریف فرماتا ہے تو اسی میں مادّی سائنس کی تصدیق و تعریف بھی ہے، کیونکہ حکمت کا کوئی ایک رخ نہیں بلکہ وہ آفتابِ عالمتاب کی طرح ہمہ جہت روشنی پھیلانے والا گوہر ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۲۷؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۹۹

 

امامِ آلِ محمدؐ کے تاویلی معجزات

قسط:۲

 

یارقند، قرانگغوتوغراق جماعت خانہ کے صحن میں جس شام آتشِ سرد = ٹھنڈی آگ کا تاویلی معجزہ ہوا تھا وہ کئی عظیم معجزات کا جامع تھا، میں صحن میں کھڑا تھا کہ پانی کے بہاؤ کی طرح کوئی چیز میری طرف آنے لگی، قریب آنے پر معلوم ہوا کہ یہ ایک عجیب قسم کی آگ تھی، بعد میں پتا چلا کہ یہ وہ آگ تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے زمانے میں ٹھنڈی اور باعثِ سلامتی بنایا تھا۔

پس یہ آگ میرے جسم سے لپٹتی ہوئی سر سے بہت بلند ہوگئی، ایسا لگا کہ یہ آسمان کو چھو رہی ہے، میرے ساتھ کچھ روحانی ساتھی تھے ان میں سے ایک نے کہا کہ تم اپنے سر کو جھٹکا دے کر اس کو پرے گرا دو، تو میں نے ایسا ہی کیا اور وہ آتشِ سرد کا ٹاور گر کر چور چور ہوگیا، مگر فوراً ہی تمام ٹکڑے آپس میں مل گئے اور پھر وہی ٹاور سر سے بلند ہوگیا، مجھے روحانی ساتھی نے سر کو ہلا کر اس ٹاور کو گرانے کو حکم دیا اور میں نے اس کو گرا دیا۔

اب تیسری دفعہ یہ ٹاور پھر میرے سر سے بلند ہو کر آسمان کو چھونے لگا، اب کی میری کوشش سے اس ٹاور کو کچھ نہیں ہو رہا تھا وہ اپنی جگہ قائم تھا، اب مجھے بہت پریشانی ہونے لگی، میں نے طرح طرح کی دعائیں شروع کیں، پھر یہ ٹاور فوارہ جیسا ہوا اور اس سے جو قطرات گرتےتھے وہ چھوٹے چھوٹے جاندار بن

 

۱۰۰

 

جاتے تھے، لہٰذا بعد میں مجھے یہ یقین آیا کہ جنّات آتشِ سرد سے پیدا کئے گئے ہیں، اور وہ کُرتے بھی جو گرمی سے بچانے کے لئے ہیں (حوالہ : ۱۶: ۸۱) میرے کانوں میں چھوٹے چھوٹے جانور داخل ہوئے تھے، لہٰذا بیقراری کا عالم تھا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ہفتہ  ۲۸؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۱

 

امامِ آلِ محمدؐ کے تاویلی معجزات

قسط:۳

 

آج کی زبردست ترقی یافتہ دنیا میں سب سے بڑا مسٔلہ یو-ایف-اوز کے بارے میں ہے، جو کوئی بھی اسے حل نہیں کرسکتا ہے، سائنسدانوں نے ان کو جیسا نام دیا ہے اس سےظاہر ہے کہ وہ ان کو پہچاننے سے عاجز ہیں۔

معجزۂ آتشِ سرد کا بارِ گران میرے لئے آسان نہ تھا، میں اپنے گھر داخل ہو آیا ہی تھا اتنے میں یو-ایف-اوز کا معجزہ شروع ہوا، کسی آواز نے کہا کہ تم اوپر دیکھو کہ روس کے جہاز تم پر بمباری کرنے کے لئے آگئے ہیں، میں اوپر دیکھنے لگا تو مکان کی چھت میں ایک بڑا شگاف پڑگیا تھا، پھر رفتہ رفتہ چھت تقریباً غائب ہوگئی، اور سچ مچ میرے مکان کے اوپر کچھ جہاز منڈلاتے ہوئے نظر آئے، آواز کا پتا نہیں چلا میں نے بالکل یقین کیا کہ اب بس میری جسمانی موت آن پہنچی۔

میں نے اپنے فرزند سیف سلمان اور اس کی والدہ کو ساتھ والے دوسرے کمرے میں رکھا، اس خیال سے کہ تنہا مجھے ہلاک ہوجانا ٹھیک ہے مگر خاندان تو بچ جائیں، میں مرعوب و مغموم ہوچکا تھا سکڑ کر بیٹھ گیا، تب النُّعاس = غنودگی (۰۸: ۱۱) کی صورت میں معجزہ ہوگیا، فوراً تمام خوفناک چیزیں یکسر ختم ہوگئیں، اور سامنے والی دیوار میں ایک روحانی ریڈیو بج رہا تھا، اور اس پر کوئی مذہبی جشن ہو رہا تھا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ہفتہ  ۲۸؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۲

 

امامِ آلِ محمدؐ کے تاویلی معجزات

قسط:۴

 

سوال:  بحوالۂ سورۂ صٓ (۳۸: ۳۴) سلیمانؑ کی کرسی سے کیا مراد ہے؟

جواب: روحِ سلیمان۔

سوال: اس پر کونسا جسد ڈالا گیا تھا؟

جواب: یہی چھوٹے چھوٹے جانور جو آتشِ سرد کے فوارے سے پیدا ہوتے ہیں، جن کا ذکر ہوا۔

سوال:  یو-ایف-اوز دراصل کیا ہیں؟

جواب: خدا کا آسمانی لشکر، فرشتے، جنّات، انسانانِ لطیف، یہ ان ممالک میں آتے ہیں جہاں لوگ خدا کو بھول چکے ہیں، یہ رعبِ الٰہی ہیں، جو کچھ میں نے چین میں دیکھا تھا ممکن ہے کہ اور لوگ بھی کل اس کو دیکھیں گے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی ایک شخص سب کی طرف سے قربانی دے۔

ہر حالت میں تاویلی معجزات کا تعلق قرآنی حکمت سے ہے، اور یقیناً قرآن کی تاویل اسی طرح کے معجزات میں پوشیدہ ہے، اور یہ معجزات صرف امامِ زمانؑ ہی کرسکتا ہے، اور عارف اپنے عالمِ شخصی میں امامِ زمانؑ کے تمام معجزات کا مشاہدہ کرتا ہے۔

سوال: اللہ کی کرسی کی کیا تاویل ہے؟

جواب: وہ نفسِ کلّی ہے یعنی کائناتی روح۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ہفتہ  ۲۸؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۳

 

امامِ آلِ محمدؐ کے تاویلی معجزات

قسط:۵

 

یہ سوال معجزہ شناسی کی خاطر ہے: آپ قرآنِ حکیم کے حوالے سے یہ بتائیں کہ حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کے نو معجزات کیا تھے؟

جواب: اوّل: عصا = لاٹھی، دوم: یدِ بیضا، سوم: قحط سالی، چہارم: پھلوں کی کمی = کم پیداواری، پنجم: طوفان = بارش کی کثرت، ششم: ٹڈیاں، ہفتم: گھن کا کیڑا، ہشتم:مینڈک، نہم: خون = پانی کا خون ہوجانا، ان معجزات کا مقصد یہ تھا کہ منکرین کفر و انکار کو چھوڑ کر رجوع کریں، ہر معجزہ کسی ضروری تاویل کی بنیاد پر ہوتا ہے، پس کوئی معجزہ تاویل کے بغیر نہیں ہوتا ہے۔

چونکہ آتشِ سرد کا ذکر ہوا ہے لہٰذا متعلقہ آیۂ کریمہ میں اچھی طرح سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، اور وہ آیت یہ ہے:

قلنا ینار کونی بردا و سلٰما علی ابراہیم۔

ہم نے حکم دیا کہ اے آگ تو ٹھنڈی اور سلامتی ہو جا ابراہیم پر (۲۱: ۶۹)۔

سوچنے کی بات ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو آگ کو بجھ جانے کا حکم دیتا، مگر آگ کو ابراہیمؑ کے لئے سرد و سلامتی بن جانے کا حکم دیا، اور آگ خدا کے حکم سے ابراہیمؑ کے حق میں سرد و سلامتی ہوگئی۔

قبل اس سے کہ ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالا گیا، حضرتِ ابراہیمؑ خدا کی پناہ گاہ میں

 

۱۰۴

 

داخل ہوچکا تھا، اب باطن میں صرف ایک تاویلی مظاہرہ رہ گیا تھا کہ کافروں نے کیا کیا اور خدا نے کس طرح اپنے دوست کی مدد فرمائی، اور یہ عظیم واقعہ ہر عالمِ شخصی میں سامنے آتا رہا ہے، یاد رہے کہ انبیاء علیھم السّلام اپنے اپنے معجزات کے ساتھ عالمِ شخصی میں زندہ اور سلامت ہیں، پس امامِ زمانؑ کے تاویلی معجزات برحق ہیں کہ وہ خدا کے حکم سے اہلِ بصیرت کو عالمِ شخصی میں جو جو معجزات محفوظ ہیں وہی دکھاتے رہتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار  ۲۹؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۵

 

امامِ آلِ محمدؐ کے تاویلی معجزات

قسط:۶

 

سورۂ ہود (۱۱: ۴۸) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قِیْلَ یٰنُوْحُ اهْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَكٰتٍ عَلَیْكَ وَ عَلٰۤى اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَكَؕ۔

ترجمہ: کہا گیا (حکم ہوا) اے نوح اتر جا، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں حاصل ہیں تم کو اور ان روحوں کو جو تیرے ساتھ ہیں۔

تاویلی حکمت: حضرتِ نوح علیہ السّلام کے لئے دو طوفان تھے: طوفانِ ظاہر مثال تھا اور طوفانِ باطن ممثول، جبکہ ظاہری طوفان کا قصّہ آپ کو معلوم ہے، ہر انسانِ کامل کی طرح حضرتِ نوحؑ کو بھی طوفانی قیامت کا تجربہ کرایا گیا جو معرفتِ کلّی کا واحد ذریعہ ہے، کیونکہ بموجبِ سنتِ الٰہی روحانی قیامت اللہ کے خاص بندوں اور کاملین پر گزرتی آئی ہے اور گزرتی رہے گی، اور اللہ کی سنت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں (۴۰: ۸۵)۔

سفرِ روحانیّت کی منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی کی آزمائش میں حضرتِ نوحؑ مدتِ مقررہ ٹھہرنے کے بعد عالمِ شخصی کے دیگر مراحل سے گزرتے ہوئے بالآخر مقامِ حظیرۂ قدس تک پہنچ گئے جہاں ان کا روحانی طوفان تھم گیا، اور کشتیٔ نجات = کشتیٔ

 

۱۰۶

 

علم و معرفت =کشتیٔ اسمِ اعظم کوہِ جودی پر ٹھہر گئی (۱۱: ۴۴) کوہِ جودی سے گوہرعقل مراد ہے جس کا دوسرا نام کتابِ مکنون بھی ہے۔

اب حضرتِ نوحؑ کو عالمِ روحانیّت سے عالمِ جسمانیّت کی طرف بہت سی برکتوں اور سلامتی کے ساتھ اترنے کا حکم ہوا، یہی حکم ان روحوں کو بھی ہوا جو حضرتِ نوحؑ کے ساتھ ساتھ تھیں، کیونکہ ان میں سے ہر ایک روح آگے چل کر ایک جماعت یا قوم کی صورت میں ترقی پانے والی تھیں، اسی لئے ان کو جماعتیں = امم کہا گیا۔

برکتوں سے مراد روح و روحانیّت اور علم و حکمت کی وہ بے شمار چیزیں ہیں جو آغازِ قیامت سے لے کر آخر تک پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔

سلامتی یہ ہے کہ آپؑ ہر عالمِ شخصی میں ہمیشہ ہمیشہ کےلئے زندۂ جاوید ہو گئے، کیونکہ سلامتی کے معنی ابدی زندگی کے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے:۔

سَلاَمٌ عَلَى نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ (۳۷: ۷۹)۔

تاویلی مفہوم: نوحؑ تمام عوالمِ شخصی میں زندۂ جاوید اور سلامت ہے، یہی قانونِ رحمت تمام کاملین کے لئے بھی ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۳۰؍ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۷

 

یہ پیارے پیارے سوالات

قسط:۱

 

سوال۔ ۱:  حضرتِ عزرائیلؑ کا قرآنی نام کیا ہے؟ اور کہاں ہے؟

سوال۔ ۲  :  طالوتؑ کا کیا مرتبہ تھا؟

سوال۔۳ :  جسمِ بسیط کا احاطہ کیا ہے؟

سوال ۔ ۴:  حضرتِ سلیمانؑ کی انگوٹھی سے کیا مراد ہے؟

سوال۔ ۵:  سلیمانؑ کی کرسی کیا ہے؟ اور اللہ کی کرسی کیا ہے؟

سوال۔۶:  کوئی ایک مَجْمَعُ البَحْرَیْن کا نام بتاؤ؟

سوال۔ ۷:  آدمؑ کو جس امام نے اسمِ اعظم کی تعلیم دی تھی اس کا کیا نام تھا؟

سوال۔ ۸:  حضرتِ آدمؑ کے خاندان میں اوّلین امام اور اوّلین اساس کون ہوا؟

سوال۔ ۹:  کہتے ہیں کہ ایک عظیم والدہ اور اس کا عظیم بیٹا ایک ساتھ پیدا ہوگئے آپ بتائیں کہ یہ کون تھے؟ یہ کیا راز ہے اور کس طرح سے ہے؟

سوال۔ ۱۰:  حارث بن مرہ کون تھا؟

سوال۔ ۱۱:  اللہ کے محبوب رسولؐ کا فرمان ہے کہ ہر مومن شہید ہے اور ہر مومنہ حورا، اس کی کیا حکمت ہے؟

سوال۔ ۱۲: اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا، اس سے بنی آدمؑ کو کیا فائدہ ہے؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۲؍ مئی ۲۰۰۱ء

 

۱۰۸

 

یہ پیارے پیارے سوالات

قسط:۲

 

سوال۔ ۱ :  مثیلِ ہارونؑ کس کا ٹائٹل ہے اور کیوں؟

سوال۔ ۲:  ایک عارف کے لئے یاجوج و ماجوج کا خروج کب ہوتا ہے؟

سوال ۔ ۳ :  عالمِ ذر کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

سوال۔ ۴:  کائنات کے ساتھ عارف کا کیا رشتہ ہے؟ ازل پہلے ہے یا ابد؟

سوال ۔  ۵:  وہ سرزمین کونسی ہے جس کے بہت سے مشارق اور بہت سے مغارب ہیں؟

سوال۔  ۶: کہتے ہیں کہ سورۂ رحمان کے مطابق انس و جنّ کے لئے جو نعمتیں ہیں وہ ایک ساتھ ہیں، آپ کا اس باب میں کیا خیال ہے؟

سوال ۔ ۷: امامِ مستقر اور امامِ مستودع میں کیا فرق ہے؟

سوال۔ ۸:  بنی اسرائیل کے اس حجرِ مکرم کی کیا تاویل ہے جس سے بارہ چشمے نکلے تھے؟

سوال ۔ ۹:  بارہ چشموں سے کیا مراد ہے؟

سوال۔ ۱۰:  پانی کی کیا تاویل ہے اور مٹی کی کیا تاویل ؟

سوال۔ ۱۱: عالمِ شخصی میں کوہِ طور کہاں ہے اور کوہِ جودی کہاں ہے؟

سوال۔ ۱۲: حضرتِ صالحؑ کی اونٹنی (ناقہ) کی کیا تاویل ہے؟

سوال ۔  ۱۳: آیتِ استخلاف کا حوالہ بتاؤ۔

 

۱۰۹

 

سوال ۔ ۱۴:  امامِ زمان علیہ السّلام سے روحانی علم حاصل کرنے کے لئے کونسا طریقہ مقرر ہے؟

سوال۔ ۱۵:  قرآنِ حکیم میں سورج کی تمثیل چراغِ روشن سے دی گئی ہے، اس میں کیا راز ہے؟

سوال۔ ۱۶:  اللہ کے نور کی مثل بھی اور رسولؐ کے نور کی مثل بھی چراغِ روشن ہی ہے، تو کیا چراغِ روشن عقل والوں کیلئے خاص سوچنے کی چیز ہے؟

جواب: – ہاں ہاں ، یہی وجہ ہے کہ اس کو ایک مقدس روایت کی شکل میں محفوظ رکھنا مقصود تھا ورنہ یہ دنیا سے اب تک کلی طور پر مٹ چکا ہوتا ، جس طرح فی الوقت اکثر ممالک میں یہ ختم ہوچکا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۲؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۱۰

 

یہ پیارے پیارے سوالات

قسط:۳

 

سوال۔ ۱:  گرچہ قرآن از لبِ پیغمبراست

ہر کہ گوید حق نہ گفت آن کافراست

یہ کس کا شعر ہے؟ اور اس کا مطلب کیا ہے؟

سوال۔ ۲:  قرآنِ حکیم میں نفسِ لوّامہ کا ذکر کہاں اور کس طرح ہے؟

سوال۔۳:  کس سورت کا نام قلبِ قرآن ہے؟ عروس القرآن کونسی سورت ہے؟

سوال۔ ۴:   آیۂ فطرت پڑھ کر سناؤ، اس کے حوالہ کیا ہے؟

سوال۔ ۵:  کیا آپ سورۂ کوثر کی تاویل بتا سکتے ہیں؟

سوال ۔ ۶:  ذکر کس کا نام ہے؟ اہلِ ذکر کونسے حضرات ہیں؟

سوال ۔ ۷:  حدیثِ قدسی کے مطابق خدا کا نام کنزِ مخفی ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟

سوال۔ ۸:  نفسِ رسولؐ (رسولؐ کی جان) کس کا لقب ہے؟

سوال۔ ۹:  روح القدس کس کا نام ہے؟

سوال۔ ۱۰:  جثّۂ ابداعیہ کی تعریف کس طرح ہے؟

سوال۔ ۱۱:  حظیرۂ قدس اور امامِ مبینؑ میں کیا مناسبت یا مطابقت ہے؟

سوال۔ ۱۲:  کتابِ مکنون کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

سوال ۔ ۱۳ :  اے نصیر الدین تجھ کو سرِاعظم یاد ہے؟

 

۱۱۱

 

مکمل شعر اور اس کا مطلب کیا ہے؟

سوال۔ ۱۴:  عالمِ علوی = عالمِ بالا = عالمِ وحدت = حظیرۂ قدس، یہ عالمِ شخصی کے کس مقام کے نام ہیں؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۳ ؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۱۲

 

یہ پیارے پیارے سوالات

قسط:۴

 

سوال۔ ۱ :  عالمِ شخصی میں مقامِ ابراہیمؑ کہاں ہے؟

سوال۔ ۲:  آنحضرتؐ کو معراج کہاں ہوئی تھی؟ معراج کے لفظی معنی کیا ہیں؟

سوال۔ ۳:  لفظِ معراج اور معارج میں کیا فرق ہے؟

سوال۔ ۴ :  قرآن کے دو مقام پر کتابِ ناطق (بولنے والی کتاب) کا ذکر ہے، اس سے کیا مراد ہے؟

سوال ۔ ۵:  اس آیۂ شریفہ کا حوالہ کیا ہے جس میں نور اور کتاب (قرآن) کا ذکر ایک ساتھ ہے؟

سوال۔ ۶:  قرآن میں آیاتِ نور کا مرکز کہاں ہے؟

سوال۔ ۷:  کیا حضرتِ آدم کی خلافت اور حضرتِ ابراہیمؑ کی امامت رہتی دنیا تک ہے؟

سوال۔ ۸:  کیا خلافت اور امامت دراصل ایک ہی منصب ہے؟

سوال۔ ۹:  قرآن میں اللہ کی کتاب کے وارث کا ذکر ہے، یہ وارث کون ہے؟

سوال۔ ۱۰:  اگر آپ کہتے ہیں کہ امامِ آلِ محمدؐ قرآن کا وارث ہے تو اس کا تاریخی ثبوت کیا ہے؟

سوال۔ ۱۱:  کیا امامِ آلِ محمدؐ کے پاس قرآن کی تاویل ہے؟

سوال۔ ۱۲:  کیا امام ہی بحقیقت قرآن کا معلم اور مؤول ہے؟

 

۱۱۳

 

سوال۔ ۱۳:  کیا قرآن میں یہ ذکر ہے کہ اللہ کی کتاب کی حکمت = تاویل آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کو عطا ہوئی ہے؟

سوال۔ ۱۴:  کیا یہ بات بالکل درست اور حقیقت ہے کہ حضرتِ ابوطالبؑ کا نام عمران ہے اور یہ مبارک نام آیۂ اصطفیٰ میں موجود ہے؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۳؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۱۴

 

یہ پیارے پیارے سوالات

قسط:۵

 

سوال۔ ۱:  کیا آپ نے نورٌعلیٰ نورٍ کے قانون پر غورکیا ہے جیسا کہ اس کا حق ہے؟

سوال۔ ۲:  حبل اللہ (اللہ کی رسی) سے کیا مراد ہے؟

سوال۔ ۳:  کیا یہ بات درست ہے کہ خدا و رسولؐ کی طرف سے امام لوگوں پر گواہ ہے؟

سوال۔ ۴:  آیا آپ نے قرآنِ حکیم میں یہ دیکھا ہے کہ أ ئمّۂ طاہرین لوگوں پر گواہ ہیں اور رسولِ پاکؐ اماموں پر گواہ ہے؟

سوال۔ ۵:  آپ راسخون فی العلم کا مطلب جانتے ہوں گے؟

سوال۔ ۶:  قرآنِ ناطق کون ہے؟

سوال۔ ۷:  آیاتِ کبرٰی سے کیا مراد ہے؟

سوال۔ ۸:  مولا علیؑ نے فرمایا: انا جبل قاف یعنی میں کوہِ قاف ہوں، یہ ارشاد کس کتاب میں ہے؟

سوال۔ ۹:  کیا کوہِ قاف ظاہر میں ہے یا باطن میں؟

سوال ۔۱۰:  ام الکتاب کونسی کتاب ہے؟

سوال۔۱۱:  اسماء الحسنٰی کے بارے میں اللہ کا کیا ارشاد ہے؟

سوال۔ ۱۲:  کیا آپ کو معلوم ہے کہ قیامت روحانی طور پر برپا ہوجاتی ہے اور

 

۱۱۵

 

سوائے اہلِ معرفت کے دوسرے کسی کو اس کی خبر نہیں ہوتی ہے، تاکہ علم و عمل میں لوگوں کی بہت بڑی آزمائش ہوجائے، کیونکہ قرآن اور اسلام معرفت ہی کی غرض سے ہے؟

سوال۔ ۱۳:  کیا لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں؟

سوال۔ ۱۴:  کیا خدا نے سامانِ ہدایت میں کوئی کمی کی تھی؟

سوال۔ ۱۵: کیا خدا نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ جو اس دنیا میں اندھا رہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۳؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۱۶

 

یہ پیارے پیارے سوالات

قسط:۶

 

سوال۔ ۱:  ہاروت اور ماروت یہ دو آزمائشی فرشتے کس شہر میں اترے تھے؟ اور کیوں؟

سوال۔ ۲:  آیا وہ دونوں فرشتے عالمِ شخصی میں آگئے تھے؟

سوال۔ ۳:  کیا عالمِ شخصی میں منکر اور نکیر کی مثال بھی ہوتی ہے؟

سوال۔ ۴:  کیا آپ کو اس حقیقت کا علم ہے کہ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السلام کی والدۂ محترمہ حجت کا درجہ رکھتی تھیں؟

سوال۔ ۵:  کیا آپ کو یاد ہے کہ ان کا اسمِ گرامی شمس الملوک تھا؟

سوال۔ ۶:  کیا مولائے روم کا مرشد شمس تبریز حجت تھا؟

سوال۔ ۷: آیا مریم سلام اللہ علیہا بھی حجت تھیں؟

سوال۔ ۸:  کیا آپ یہ بات جانتے ہیں کہ مولائے رومی نے اسلام، تصوّف اور اسماعیلی مذہب کے لئے بے مثال کارنامہ انجام دیا ہے؟

سوال۔ ۹:  حجتِ قائمؑ اور حضرتِ قائم علینا سلامہ نے روحانی طور پر اس دور کی سب سے بڑی قیامت کو برپا کر دیا، کیا آپ یقین کرتے ہیں؟

سوال۔۱۰:  سورۂ قدر کس کی شان میں ہے؟

سوال۔ ۱۱:  کیا شبِ قدر کی تاویل حجتِ قائم ہے؟

سوال۔ ۱۲:  حجتِ قائم کی تمثیل قدر والی رات سے کیوں دی گئی ہے؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۴؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۱۷

 

یہ پیارے پیارے سوالات

قسط:۷

 

سوال۔ ۱:  حاضر امام (روحی فداہٗ) نے مذہبی تعلیم کی غرض سے جتنے بڑے اہم ادارے بنائے ہیں ، کیا مولائے پاک کے اس عظیم کارنامے سے آپ کو ہمیشہ یہ پیارا سگنل نہیں مل رہا ہے کہ دینی تعلیم بے حد ضروری ہے؟

سوال۔ ۲:  کیا اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کے لئے حضرتِ امامِ عالی مقامؑ کے ارشاداتِ عالی موجود نہیں ہیں؟

سوال۔ ۳:  تم میں سے ہر ایک کو اپنے مذہب کی حقیقی سمجھ اور گہرا علم ہونا چاہئے، کیا یہ حاضرامام کا فرمانِ پاک ہے؟

سوال۔ ۴:  کیا آپ حقیقی سمجھ اور گہرے علم کے لئے دوسرے الفاظ بھی استعمال کر سکتے ہیں؟

سوال۔ ۵:  کیا آپ لفظِ پیر سے متعلق ضروری معلومات فراہم کرسکتے ہیں؟

سوال۔۶:  کیا آپ حدودِ روحانی اور حدودِ جسمانی کے اسما بتا سکتے ہیں؟

سوال۔ ۷:  وہ آیۂ کریمہ کونسی ہے جس میں آنحضرتؐ کے یہ سات اسما آئے ہیں: نبی، رسول، شاہد، مبشر، نذیر، داعی، سراجِ منیر؟

سوال۔ ۸:  وہ آیۂ شریفہ کونسی ہے جس میں برمزِ حکمت حضرتِ فاطمہؑ اور بنی فاطمہ

 

۱۱۸

 

کی فضیلت بیان ہوئی ہے؟ کیا آپ اس رمز کو سمجھ سکتے ہیں (۳۳: ۴۰)؟

سوال۔ ۹:  آیۂ تطہیر کس سورہ میں ہے؟ اور اس کا کیا مطلب ہے؟

سوال ۔۱۰:  اہلِ بیتِ اطہار میں کون کونسے حضرات شامل ہیں؟

سوال۔ ۱۱:  کیا یہ حقیقت ہے کہ أئمۂ آلِ محمدؐ سب اہلِ بیتِ رسولؐ ہیں؟

سوال۔ ۱۲:  کیا قانونِ نورٌ علیٰ نورٍ کے مطابق تمام أئمّہ ایک ہیں؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۴؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۱۹

 

یہ پیارے پیارے سوالات

قسط:۸

 

سوال۔ ۱:  کون ہوا پیشوا بعدِ رسولِ امینؐ؟

سوال۔ ۲:  بابِ علم و حکمتِ نبیٔ کریمؐ کون ہے؟

سوال۔ ۳:  انا ذَالکَ الکتاب الارَیبَ فیہ۔ یہ ارشاد کس کا ہے؟

سوال۔ ۴:  آیا مذکورہ آیۂ پاک امام کے قرآنِ ناطق ہونے کی دلیلوں میں سے ہے؟

سوال۔ ۵:  جس آیۂ شریفہ (۰۵: ۱۵) میں نور اور کتاب (قرآن) کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے، آیا اس میں نور سے معلمِ قرآن مراد نہیں ہے؟

سوال۔ ۶:  آیا زمانۂ نبوّت میں خود رسولؐ نورِ مجسم اور معلم و مؤولِ قرآن نہ تھے؟

سوال۔ ۷:  آیا آنحضرتؐ کے بعد بھی نور قرآن کے ساتھ اسی شان سے ہے یا نہیں؟

سوال۔ ۸:  علیؑ قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علیؑ کے ساتھ، یہ حدیث کس کتاب میں ہے؟

سوال۔ ۹:  علیؑ اور قرآن ساتھ ساتھ ہیں، ظاہر میں یا باطن میں؟

سوال۔ ۱۰:  اَلنّظرُ اِلیٰ وَجہِ عَلِیٍّ عِبادۃ۔ اس کا ماخذ کیا ہے؟

جواب: المستدرک، جلدِ سوم، ص ۱۳۴۔

سوال۔ ۱۱:  کیا آپ کو حدیثِ ادرالحق یاد ہے؟

سوال۔ ۱۲ :  سلمانُ مِنّا اَھْلِ البَیت۔ اس حدیثِ شریف کے کیا معنی ہیں؟

سوال۔ ۱۳:  کیا رسولِؐ خدا نے جعفرِ طیارؑ کو جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہوئے دیکھا تھا؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ ۴؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۲۰

 

یہ پیارے پیارے سوالات

قسط:۹

 

سوال۔ ۱:  بہشت میں اللہ تعالیٰ کے پاک عشق کی نعمت ہے یا نہیں؟

سوال۔ ۲:  اگر بہشت میں اللہ کا عشق ہے تو اس کی معرفت پہلے دنیا میں نہیں ہونی چاہئے؟

سوال۔ ۳:  کیا حضرتِ داؤد علیہ السّلام کی زبورعشقِ الٰہی کی کتاب نہ تھی؟

سوال۔ ۴:  کیا اسرافیل (جدّ) عشقِ الٰہی کا فرشتہ نہیں ہے؟

سوال۔ ۵:  کیا امامؑ کا عشق رسولؐ کا عشق اور رسولؐ کا عشق اللہ کا عشق نہیں ہے؟

سوال۔ ۶:  سورۂ حدید (۵۷: ۱۲) میں مومنین و مومنات کے جس نور کا ذکر آیا ہے، آیا وہ نورِ ایمان، نورِ عشق اور نورِ علم و معرفت نہیں ہے؟

سوال۔ ۷:  کیا اَشَدُّ حُبّاً لِلّٰہ (۰۲: ۱۶۵) اللہ کا عشق نہیں ہے؟ کیا لفظِ اللہ میں عشق کا کوئی اشارہ نہیں (بحوالۂ سراج القلوب، ص ۵۴) ؟

سوال۔۸:  کیا قرآن سورۂ شوریٰ (۴۲: ۰۲) میں عٓسٓقٓ کی ایک قرأت عشق نہیں ہے؟

سوال۔ ۹:  کیا عظیم صوفیوں نے عشقِ الٰہی کا تذکرہ نہیں کیا ہے؟

سوال۔ ۱۰:  آیا حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ کے ارشادات میں عشقِ الٰہی کا ذکر نہیں ہے؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ہفتہ  ۵؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۲۱

 

یہ پیارے پیارے سوالات

قسط:۱۰

 

سوال۔ ۱:  رحیقِ مختوم سے کیا مراد ہے؟

سوال۔ ۲:  بہشت کی چار نہروں کا ذکر قرآن میں کہاں ہے؟

سوال۔ ۳:  اسرارِ عقلِ کلّی، اسرارِ نفسِ کلّی، اسرارِ ناطق اور اسرارِ اساس، کیا یہ بہشت کی چار نہریں ہیں؟

سوال۔ ۴:  جو دنیا میں اندھا رہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہی ہوگا، یہ حکم قرآن میں کہاں ہے؟ کیا یہ قانونِ الٰہی سب سے سخت مگر سب سے مفید نہیں ہے؟

سوال۔ ۵:  کیا دین کے ہر مشکل کام میں اللہ کی مدد ممکن نہیں ہے؟

سوال۔ ۶:  کیا اللہ کے نور اور اس کی کتاب (قرآن) کی رہنمائی سے چشمِ بصیرت پیدا نہیں ہوتی ہے؟

سوال۔ ۷:  کیا قرآن اور نور کی ایک ہی ہدایت نہیں ہے؟

سوال۔۸:  کیا زمانۂ نبوّت میں مسلمان نور اور کتاب (قرآن) دونوں کی ایک ساتھ پیروی نہیں کرتے تھے؟

سوال۔۹:  کیا تمام مسائل نور کو نہ پہچاننے سے پیدا نہیں ہوئے ہیں؟

سوال۔۱۰:  علیؑ قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علیؑ کے ساتھ، کیا آپ نے

 

۱۲۲

 

اسکی حکمت کو سمجھ لیا؟

سوال۔ ۱۱:  کیا یہ صرف ایک ہی زمانے کی بات ہے؟

سوال۔ ۱۲:  کیا نور کی معرفت علم الیقین سے شروع نہیں ہوتی ہے؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار  ۶؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۲۳

 

یہ پیارے پیارے سوالات

قسط:۱۱

 

سوال۔ ۱:  کیا اللہ تعالیٰ عالمِ روحانی سے ہر معدنی چیز کی روح کو نازل کرتا ہے؟

سوال۔۲:  کیا قرآن (۵۷: ۲۵) میں یہ ارشاد ہے کہ خدا نے لوہے (کی روح) کو نازل فرمایا ہے؟

سوال۔ ۳:  کیا ہم اسی قانون کے مطابق یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام معدنیات کی روحیں خزائنِ الٰہی سے آتی ہیں؟

سوال۔۴:  کیا ہر چیز کی روح نہیں ہے؟

سوال۔ ۵:  کیا حضرتِ امام (روحی فداہٗ) نے نہیں فرمایا کہ ہر چیز کی روح ہے؟

سوال۔ ۶:  آیا لوہے کی تاویل بھی ہے؟

سوال۔ ۷:  آیا لوہے کی تاویل علم ہے؟

سوال۔ ۸:  اللہ نے حضرتِ داؤدؑ کو لوہا نرم بنا دیا تھا، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو نورانی علم عطا ہوا تھا جو تیار علم تھا، ورنہ علم عام طور پر لوہے کی طرح سخت ہوتا ہے، آپ اس کو استعمال نہیں کرسکتے ہیں؟

سوال۔۹:  حضرتِ داودؑ کتنی قسم کی زرہیں بناتے تھے؟

 

۱۲۴

 

سوال۔ ۱۰:  کیا علمی زرہ بھی ہوتی ہے؟

سوال۔ ۱۱:  آیا روحانی زرہیں بھی ہیں؟

سوال۔ ۱۲:  کیا یہ قرآنی ارشاد ہے کہ ہر چیز ایک دائرے پر گردش کرتی ہے؟

سوال۔۱۳: کیا انسان بھی کسی دائرے پر گردش کرتا ہے؟

سوال۔۱۴:  وہ دائرہ کونسا ہے؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار  ۶؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۲۵

 

یہ پیارے پیارے سوالات

قسط:۱۲

 

سوال۔ ۱:  کیا آپ کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ زکات دو قسم کی ہوتی ہے: مالی زکات اور علمی زکات؟ اسی طرح صدقہ بھی ہے؟

سوال۔۲:  کیا حدیثِ شریف کے مطابق ہر نیکی صدقہ ہے؟

سوال۔۳:  کیا حقوق دو قسم کے ہیں: حقوق اللہ اور حقوق العباد؟

سوال۔ ۴:  آیا اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفاتی میں سے ایک اسمِ صفت الودود (۱۱: ۹۰) ہے، جس کے معنی ہیں: بہت محبت کرنے والا، بڑا مہربان؟

سوال۔۵:  اللہ کی یہ انتہائی عظیم محبت اور بہت بڑی مہربانی کس طرح اہلِ ایمان کو حاصل ہوسکتی ہے؟

سوال۔۶:  کیا اس کی واحد شرط یہ ہے کہ اس کے محبوب رسولؐ اور محبوب امامؑ کی اطاعت کی جائے؟

سوال۔ ۷:  کیا اللہ کی اس صفت کا رخ اس کی مخلوقات خصوصاً عاشقوں کی طرف نہیں ہے؟

سوال۔ ۸:  کیا عاشقانِ الٰہی بڑے مبارک نہیں ہیں؟

سوال۔ ۹:  کیا قرآنی حکمت میں عشقِ الٰہی کا ذکر نہیں ہے؟

سوال۔ ۱۰:  خدا نے انسان میں عشق و محبت کی صلاحیت کس خاص مقصد کے لئے

 

۱۲۶

 

پیدا کی ہے؟

سوال۔ ۱۱:  عشق و محبت کی ایسی زبردست کارآمد صلاحیت و قوّت رضائے الٰہی کیلئے کیوں نہیں ہونی چاہئے؟

سوال۔۱۲:  عقل و منطق یہی ہے کہ ہر عارف پہلے عاشق ہوتا ہے اور آخر میں عارف، آیا یہ بات حقیقت نہیں؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۷؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۲۷

 

یہ پیارے پیارے سوالات

قسط:۱۳

 

سوال۔ ۱:  جملہ عبادات کا مغزدعا ہے ، کیا آپ کو وہ حدیثِ شریف اَلدُّعَاءُ مُخُ العِبَادَۃ یاد ہے؟

سوال۔ ۲:  ہر دعا کے آخر میں اللہ تعالیٰ کا کونسا مبارک نام آتا ہے؟

جواب: اَرحَمُ الرَاحِمِین۔

سوال۔۳:  کیا ذاتِ سبحان کا یہ امر نہیں ہے کہ ہم اس کے نبیؐ اور ولیؑ سے محبت کریں؟

سوال۔۴:  کیا آپ یقین کرتے ہیں کہ پہلے عقیدت ہے پھر محبت اور اس کے بعد عشق ہے؟

سوال۔۵:  کیا قرآنِ عزیز میں حکمت کی شاندار تعریف نہیں ہے؟ اور حکمت بہت بڑی دانائی کا نام ہے، اور ہر مومن کی دانائی یہ ہے کہ وہ خدا، رسولؐ اور امامِ زمانؑ کے مرتبۂ عشق کو حاصل کرے ، کیا یہ امر (کام) ناممکن ہے؟

سوال۔ ۶:  کیا خدا اس نیک کام میں اپنے بندوں کی مدد نہیں کرے گا؟

سوال۔۷:  کیا عشقِ سماوی سے دین کا ہر مشکل کام آسان نہیں ہوگا؟

سوال۔۸:  کیا اس سے حصولِ علم میں آسانیاں نہیں ہوں گی؟

 

۱۲۸

 

سوال۔۹:  کیا حقیقی عشق سے ذکر و عبادت میں حلاوت و شیرینی پیدا نہیں ہوگی؟

سوال۔ ۱۰:  کیا عشقِ الٰہی ایک نور نہیں ہے؟

سوال۔۱۱:  پروانہ عشق سے شعلۂ شمع میں جل کر جان دیتا ہے، کیا بیچاری شمع اس کو ایک نئی جان دے سکتی ہے؟

سوال۔۱۲:  کیا ہر پروانۂ نورِ الٰہی کے لئے لاتعداد روحوں کا معاوضہ تیار نہیں ہے؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۷؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۲۹

 

یہ پیارے پیارے سوالات

قسط:۱۴

 

سوال۔ ۱:  گنجینۂ جواہرِ احادیث، یہ کونسی کتا ب ہے؟ اور کس کی تالیفِ لطیف ہے؟

سوال۔ ۲:  کیا آپ نے اس کتابِ مستطاب کا مطالعہ کیا ہے؟

سوال۔۳:  جس عظیم عالمِ دین نے یہ احسان کیا ہے اس کے احسانات ہر سُو پھیلے ہوئے ہیں، اورآپ کا احسان یہ ہوگا کہ آپ اس پیاری کتاب کو پڑھیں، کیا یہ درخواست بجا ہے؟

سوال۔۴:  اگر آپ امامِ آلِ محمدؐ کے عشق و محبت سے دونوں جہان میں سرخرو اور سرفراز ہو جانا چاہتے ہیں تو قرآن و حدیث کی روشنی میں مولا علی علیہ السّلام کی ولایت کو دیکھیں، کیا یہ بہترین مشورہ نہیں ہے؟

سوال۔۵:  کیا اللہ کائنات کا نور نہیں ہے؟ اگر ہے تو زمین پر اسکی کوئی نشانی یا علامت کیا ہے؟

سوال۔۶:  کیا امامؑ خدا کا زندہ اسمِ اعظم نہیں؟

سوال۔۷:  کیا امامؑ اللہ کے نور کی رسی نہیں؟

سوال۔ ۸:  آیا امامِ مبینؑ قرآنِ ناطق نہیں ہے؟

سوال۔۹:  آیا امامؑ ہادیٔ برحق نہیں ہے؟

 

۱۳۰

 

سوال۔ ۱۰:  آیا امامِ آلِ محمدؐ خدا کا زندہ گھر نہیں ہے؟

سوال۔۱۱:  آیا امامؑ کشتیٔ نجات نہیں ہے؟

سوال۔۱۲:  کیا امامِ برحقؑ اللہ کا سب سے بڑا خزانہ نہیں ہے؟ اگر یہ سب کچھ امامؑ ہے تو پھر اہلِ ایمان کو امامؑ سے عشق و محبت کیوں نہ ہو؟ پس بڑے مبارک ہیں وہ نیک بخت لوگ جو مولائے پاک کے مقدّس عشق کی دولتِ لازوال سے مالامال ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۷؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۳۱

 

یہ پیارے پیارے سوالات

قسط:۱۵

 

سوال۔ ۱:  اللہ تعالیٰ کا وہ حکم کیا ہے جو اسماء الحسنیٰ (۰۷: ۱۸۰) کے باب میں ہے؟

سوال۔۲:  آیا ہر روحانی قیامت اللہ کی سنت کا تجدّد ہے؟

سوال۔۳:  عرفاء اسرارِ قیامت کا مشاہدہ کس طرح کرتے ہیں؟

سوال۔۴:  کیا روحانی قیامت میں امامؑ کا نور عارف پر طلوع ہوتا ہے؟ کیا عارف کو فنا فی الامامؑ کا تجربہ ہوتا ہے؟ یا خدا اپنے عاشق کی آنکھ ہوجاتا ہے؟

سوال۔۵:  اللہ تعالیٰ تمام روحانی، علمی، اور عقلی چیزوں کو امامِ مبینؑ میں گھیر کر اور گن کر رکھتا ہے، وہ گھیرتا ہے اور گنتا ہے کس طرح؟

سوال۔۶:  خدا اپنے بندۂ مقرب کا ہاتھ کب ہوتا ہے؟

سوال۔۷:  خدا اپنے جس عاشق کا ہاتھ ہو جاتا ہے وہ کیا کام کرسکتا ہے؟

سوال۔ ۸:  کیا یہ بیان حدیثِ قدسیٔ نوافل کے عین مطابق نہیں ہے؟

سوال۔۹:  کیا قرآنِ حکیم یہ نہیں فرماتا ہے کہ خدا کا ہر کام کیا ہوا ہے (دیکھو مفعولاً)؟

سوال۔۱۰:  کیا یہ حقیقت ہے کہ خدا کے لئے کوئی نیا کام نہیں؟

جواب: –  ہاں وہ اپنی سنتِ قدیم کا تجدّد کرتا ہے اور اس میں اسرارِ عظیم پوشیدہ ہیں۔

 

۱۳۲

 

سوال۔ ۱۱:  آپ اسرارِ عظیم تلاش کریں، کیا وہ آپ سے راضی نہیں ہوگا؟

سوال۔۱۲:  کیا یہ بہت بڑا انقلابی تصوّر نہیں ہے کہ کہا گیا کہ اللہ کا ہر کام ہوچکا ہے؟ چاہے قیامت ہے یا قیامت القیامت، وہ تو خدا کے نزدیک ہوچکی ہے، مگر لوگوں کے لئے بہت سی چیزیں دور ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۸؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۳۳

 

ڈائمنڈ جوبلی

(۱۹۴۶) کی رنگین و پُر بہار یادیں!

 

جشنِ ڈائمنڈ جوبلی کا ماہِ انور کون ہے؟

جس کو ہم ہیروں میں تولیں گے وہ دلبر کون ہے؟

سر پہ ہے تاجِ امامت علم گویا ذوالفقار

رونقِ تختِ خلافت زیبِ منبر کون ہے؟

نورِ حق آیا زمین پر تاکہ ہو فضل و کرم

ورنہ اس عالم میں ایسا بندہ پرورکون ہے؟

چودہ طبقوں کے نفوس اور عالمِ ارواح بھی

دیکھئے سجدے میں ہیں اللہ اکبر کون ہے؟

باغِ عالم میں تو وہ گل ہے جو مرجھاتا نہیں

جلوۂ نورِ خدائی ! تجھ سے بڑھکر کون ہے؟

آفتابِ نور ہے یا طور کی بجلی ہے تو

کون ہے پوچھو ذرا یہ پاک گوہر کون ہے؟

ہاں علی اب بھی علی ہے نورِ باطن دیکھ لو

میں بتاؤں دوستو اس وقت حیدر کون ہے؟

پہلے چاندی بعد میں سونے میں مولا تل گیا

اب تو ہیروں میں تلے گا ان کا ہمسر کون ہے؟

 

۱۳۴

 

خلد میں ہر گز نہ جاؤں حشر کے دن میں کبھی

گرترا در چھوڑ جاؤں مجھ سا کافر کون ہے؟

پردۂ دل سے سکھاتا ہے مجھے طرزِ غزل

کیا بتاؤں میں تمہیں اس دل کے اندر کون ہے؟

اس جہان سے اس جہان تک سب مراحل طے ہوئے

ہم کو شہ کی رہبری میں ایسا رہبر کون ہے؟

بزمِ شاہی میں نصیرؔا تو کیوں خاموش ہے؟

شعرِ رندانہ سنا تجھ سا سخن ور کون ہے؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ایڈیٹنگ کی تاریخ :  ہفتہ ۵؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۳۵

 

ڈائمنڈ جوبلی

(۱۹۴۶) کی رنگین و پر بہار یادیں!

 

جس گھڑی شاہ علی جانبِ میدان آیا

میرا دل کہنے لگا دیکھ کہ جانان آیا

رسنِ نورِ خدا سلسلۂ آلِ رسولؐ

شاہ علی نام رکھا پھر شہِ مردان آیا

کثرتِ نورِ خدا کوئی تصور نہ کرے

نورِ یکتا ہے علی بہرِ مریدان آیا

غمِ دل دور ہوا ان کے تبسم سے مجھے

چمنِ آلِ نبی کا گلِ خندان آیا

محوِ دیدار ہوئے اہلِ حقیقت یکسر

وارثِ مسندِ دین عالمِ قرآن آیا

ان کے قدموں سے فدا کاش مری جان ہوتی!

جانبِ غرب سے اب یوسفِ کنعان آیا

مٹ گئی دل کی عنا اب غمِ وحشت نہ رہا

خانۂ دل میں مرا خضر ہے مہمان آیا

مست و بیخود ہیں مرید جامِ عقیدت پی کر

نورِ چشمِ شہِ دین حضرتِ سلطان آیا

 

۱۳۶

 

عالمِ حسن و جوانی کو مسخر کرکے

شاہِ خوبانِ جہاں پرنس علی ایس خان آیا

لذتِ عشق میں ہے حکمتِ عالم پنہان

دردِ الفت ہے مجھے مایۂ درمان آیا

سرِ تسلیمِ نصیرؔ خاک پہ تھا بہرِ نیاز

مجلسِ خاص میں جب اشرفِ انسان آیا

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ایڈیٹنگ کی تاریخ :  ہفتہ ۵؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۳۷

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط:۱

 

انسان = عالمِ شخصی = انسانِ لطیف = فرشتہ = کائنات، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان روحانی اور علمی ترقی سے عالمِ شخصی ہوجاتا ہے، اور عجب نہیں کہ وہ انسانِ لطیف، فرشتہ اور کائناتِ لطیف بھی ہوجائے، چنانچہ ہر وہ مومنِ سالک جو امامِ زمانؑ کے عشق و محبت اور خصوصی ذکر و عبادت سے عارفانہ موت اور روحانی قیامت کے زبردست امتحان سے گزرتا ہے، اس سے خداوندِ تعالیٰ منزلِ عزرائیلی میں ستر ہزار فرشتے بناتا ہے، ہر فرشتہ ایک لطیف کائنات ہوتا ہے، اسی طرح ستر ہزار کائناتوں کا شمار ہوتا ہے، یہی ستر ہزار فرشتے ہیں جو حظیرۂ قدس کے مقام پر بیت المعمور کی صرف ایک بار زیارت کر سکتے ہیں اور پھر لوٹ کر نہیں آتے ہیں، اسی میں کائناتی بہشت کا ذکر بھی ہے، جس کا ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۸؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۳۸

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط:۲

 

اسرارِ عالمِ شخصی کی بہت بڑی اہمیت انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کی نسبت سے ہے، جبکہ ان کے اسرار و معجزات خدا ہی کے اسرار و معجزات ہیں، اور یہ سارے جواہر اور خزائن ایک بلیغ عالمِ شخصی کے ذریعے سے حاصل ہوسکتے ہیں، پس عالمِ شخصی کو حدِّ قوّت سے حدِ فعل میں لانے کے لئے بڑی سخت محنت درکار ہے، لیکن خداوندِ مسبب الاسباب کی مدد ہر چیز سے برتر ہے، پس اگر اللہ کی رحمت سے عالمِ شخصی حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں آ گیا تو تمہیں لاکھ لاکھ مبارک ہو! لیکن تم اپنے عظیم محسن کو فراموش نہ کرنا، ہرگز ہرگز اس کو نہ بھولنا، ورنہ بہت بڑی ناشکری ہوگی، دیکھو اب تم خدمت کرو، خدمتِ قرآن، خدمتِ اسلام، خدمتِ جماعت، خدمتِ عالمِ انسانیّت اور خدمت عزیزان۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۸؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۳۹

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط:۳

 

عالمِ شخصی کے طوفانی معجزات منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی میں لگا تار سات رات اور آٹھ دن تک بڑی تکلیف برداشت کرنے میں ہیں، جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ امامِ مبین کے نور سے ستر ہزار فرشتے = کائناتیں پیدا کردیتا ہے، ہر فرشتہ ایک کائناتی بہشت ہے، قصّۂ موسیٰؑ میں یہ ملوک (سلاطین) ہیں، قصّۂ عیسیٰؑ میں یہ طیر(پرندے) ہیں، قصّۂ داؤدؑ میں لبوس (پوشاک) ہیں، قصّۂ سلیمانؑ میں محاریب (قلعے) بھی ہیں اور تماثیل (تصویریں) بھی، اور تذکرۂ احسانِ خداوندی میں سرابیل (معجزاتی کرتے) ہیں، اور ہم جیسے انسان اسرارِ خداوندی کا احاطہ نہیں کرسکتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۹؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۴۰

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط:۴

 

سورۂ حدید (۵۷: ۲۱) ترجمہ: تم اپنے پروردگار کی مغفرت کی طرف دوڑو اور (نیز) ایسی جنّت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کے برابر ہے جو ان لوگوں کے واسطے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر حقیقی معنوں میں ایمان رکھتے ہیں یہ اللہ کا فضل ہے وہ اپنا فضل جس کو چاہیں عنایت کریں اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

یاد رہے کہ دوڑنے کا حکم تمام دینی کاموں میں سبقت کرنے کا حکم ہے، پس جو لوگ اس میں سبقت حاصل کریں گے ان کو اللہ بیت المعمور کے مخصوص عدد کے مطابق یعنی ستر ہزار فرشتے بنائے گا، اور وہ ستر ہزار کائناتی بہشتیں ہوجائیں گے۔

بحوالۂ صحیح بخاری، جلدِ سوم، کتاب الرقاق، ص ۵۷۱، ستر ہزار لوگ بلا حساب جنت میں داخل ہوجائیں گے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۹؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۴۱

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط:۵

 

سورۂ نور (۲۴) آیت ۵۵(۲۴: ۵۵) کو بعض علماء نے آیتِ استخلاف کے نام سے یاد کیا ہے اور یہ بہت درست بات ہے، خیال رہے کہ اس آیۂ شریفہ میں حجابات کے پیچھے اسرارِ عظیم پوشیدہ ہیں، ان بھیدوں کو جاننے کےلئے ایک کلیدی سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدۂ خاص کن خاص لوگوں سے فرمایا؟ کب؟ اور کہاں؟

جواب: یہ عالمِ شخصی والے مومنین و مومنات ہیں جن پر رحمت کے فرشتے نازل ہوتے ہیں (۴۱: ۳۰) اور ان کی کامیابی کی بشارت دیتے ہیں، پس ہر امامؑ کے دور میں ایسے کامیاب لوگ بہت زیادہ ہوسکتے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتِ بے پایان سے اس کائنات میں ستر ہزار لطیف زندہ کائناتیں بنائیں، جن میں سے ہر ایک ایک زندہ فرشتہ = بہشت = خلافت = سلطنت = ایک لطیف انسان ہے جس میں امن ہی امن ہوگا، معرفت کے ساتھ خدا کی عبادت ہوگی، چونکہ وہ خلافت اور سلطنت ہے اس لئے اس میں بے شمار لوگ ہیں جن کو دینی علم سکھانے کا بڑا دلچسپ شغل بھی ہے، یہ ساری حکمتیں آیۂ مذکورۂ بالا میں موجود ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۹؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۴۲

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط:۶

 

۱۔ اسرارِ عالمِ شخصی یا معجزاتِ الٰہی جو انسان میں پوشیدہ ہیں۔

۲۔ سورۂ حٰمٓ السجدہ کے آخر (۴۱: ۵۳) میں جس طرح وعدۂ قرآن ہے کہ اللہ ان کو اپنے معجزات دکھائے گا آفاق میں بھی اور ان کی جانوں میں بھی، یہاں تک کہ ان کیلئے ظاہر ہوجائے کہ وہ (خدا = قرآن = امامؑ) حق ہے۔

۳۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آیا معجزات کو دیکھنے کے لئے چشمِ بصیرت پیدا کرنے کی ذمہ داری لوگوں پر ہے یا اللہ زبردستی سے اپنے معجزات دکھائے گا؟

۴۔ اگر زبردستی کی بصیرت ممکن ہوتی تو یہ فرمانِ الٰہی کیوں ہے کہ جو دنیا میں اندھا رہے وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا؟ اس مناسب بحث سے یہ معلوم ہوا کہ معجزات کا وعدہ اہلِ بصیرت سے ہے اور انہی لوگوں میں دوسرے سب لوگ آجاتے ہیں، یعنی یہ روحانی قیامت کا ذکر ہے جو ہر امامؑ کے زمانے میں برپا ہوتی ہے، جس میں اللہ اپنے تمام معجزات صرف نفسِ واحدہ کو دکھاتا ہے، کیونکہ تمام لوگوں کا مجموعہ بھی اور نمائندہ بھی یہی نفسِ واحدہ ہے اس کا دیکھنا گویا سب کا دیکھنا ہے، چونکہ ابتدأ میں سب لوگ نفسِ واحدہ تھے پھر قیامت میں بھی نفسِ واحدہ (ایک شخص = ایک جان = ایک روح) ہوگئے، قرآن میں چشمِ بصیرت سے دیکھ لیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۱۰؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۴۳

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط:۷

 

سورۂ انفال (۰۸: ۲۴) ترجمہ: اے لوگو جو بحقیقت ایمان لائے ہو اللہ اور اس کے رسولؐ کی دعوت کو قبول کرو جبکہ رسولؐ تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندہ کردینے والی ہے (یعنی اسمِ اعظم) اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اسکے قلب کے درمیان حائل ہے (یعنی امام کا راز اور معرفت روحانی قیامت تک محفوظ ہے) اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔ یہاں یقیناً قلب سے امام مراد ہے۔

اس قرآنی تعلیم سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ زمانۂ نبوّت میں بعض خاص مومنین کو اسمِ اعظم عطا ہوتا تھا جس میں حقیقی زندگی ہے، جس کے مقابلے میں اگلی زندگی موت کی طرح ہے، پس اسمِ اعظم کے وسیلے سے جس عالمِ شخصی پر روحانی قیامت گزرتی ہے اس کے اسرارِ معرفت بے شمار ہیں، کیونکہ ان اسرار میں قرآن اور امام کے اسرار بھی شامل ہیں جن کو الگ الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

قرآنِ حکیم کی محولۂ بالا آیت کے مطابق جانشینِ رسولؐ (امامِ برحقؑ) جس کو چاہے اسمِ اعظم عطا کر سکتا ہے، کیونکہ دنیا میں صرف امامِ زمانؑ ہی ہے جس کو خدا نے اپنا زندہ اسمِ اعظم قرار دے کر لفظی اسمِ اعظم بھی اسی کے اختیار میں دے دیا ہے، تاکہ زمانۂ نبوّت ہی کی طرح ہمیشہ دین کا ایک ہی مرکز قائم رہے، الحمد لِلّٰہ۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۱۰ ؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۴۴

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط: ۸

 

ہم یہاں بتوفیقِ خداوندِ تعالیٰ آیۂ الست (۰۷: ۱۷۲) کی کچھ حکمتیں بیان کرنا چاہتے ہیں، جس میں ہم اوّل اوّل آپ کو یہ بتائیں گے کہ بنی آدم قرآنِ حکیم میں انبیاء و اولیاء علیھم السّلام اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے ہیں جن کو آپ کاملین و عارفین وغیرہ کہہ سکتے ہیں۔ یہ کسی کا ایک اچھا شعر ہے:۔

آدمی را آدمیت لازم است

بوئے صندل گر نباشد خشک چوب

مطلب: آدمی کہلانے کے لئے آدمؑ کی خصوصیات چاہئیں، صندل کی لکڑی کو صندل کہلانے کے لئے خوشبو لازمی ہے، ورنہ وہ ایک سوکھی لکڑی ہے اور وہ صندل ہرگز نہیں۔ اب آپ کو بنی آدم کا صحیح تصور ہوا ہوگا۔

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲) میں ہے:

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا۔

ترجمہ: اور اے نبیؐ لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے ربّ نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذرّیت کو لیا تھا اور انہیں خود کو اپنی روحیں دکھاتے ہوئے (حظیرۂ قدس) میں پوچھا تھا: کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا ضرور آپ

 

۱۴۵

 

ہی ہمارے ربّ ہیں ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔

ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عالمِ شخصی کے بارے میں بہت کچھ تحریر کیا ہے، لہٰذا یہاں صرف اسی راز پر اکتفا کریں گے کہ حظیرۂ قدس ہی ہر کامیاب عالمِ شخصی کا وہ آخری اور سب سے اعلیٰ مقام ہے جہاں عہدِ الست کا تجدّد ہو جاتا ہے، جہاں عارف کو اپنے ربّ کا دیدارِ پاک حاصل ہوتا ہے، جہاں روحوں کی کوئی کثرت نہیں، تمام ارواح مٹ مٹ کر یک حقیقت بن چکی ہوتی ہیں، اور آیت کا ارشاد اس باب میں اللہ تعالیٰ کی ترجمانی ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۱۱؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۴۶

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط:۹

 

آدمؑ اور بنی آدم کا ذکر قرآنِ پاک کے ۲۵ مقامات پر آیا ہے، اور یقیناً ان تمام آیات و معجزات کا تعلق عالمِ شخصی سے ہے، ان میں سے یہاں صرف ایک ہی آیۂ کریمہ کی حکمت کو بیان کرتے ہیں، اور وہ بابرکت آیت بنی آدم کی کرامت و فضیلت سے متعلق ہے، سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) کی آیت۷۰ کو خوب غور سے پڑھ لیں اور ترجمہ کو بھی دیکھ لیں۔

یقیناً آپ کو ایک بہت بڑے معجزے کا تذکرہ یاد ہوگا: ایک سمندر پر ایک کشتی نما تخت جس پر ایک پُرنور شخص یا فرشتہ جس کی زبانِ مبارک پر ایک اسمِ اعظم جاری تھا، یہ صرف عرش برآب کا معجزہ تھا، بلکہ اس میں ایک ساتھ کئی تاویلی معجزات تھے۔

آپ حضرتِ باقر العلومؑ کے ارشادِ مبارک کو بھول نہ جانا کہ جو کچھ اللہ کے بارے میں ارشاد ہوا ہے، اس کی تاویل حضراتِ أئمّہ علیھم السّلام ہیں، پس وہ یقیناً حاضر امامؑ کا نور تھا جو بحرِ علم پر اللہ کے زندہ عرش (۱۱: ۰۷) کی عملی تاویل فرما رہا تھا، اور سفینۂ نجات جو بھری ہوئی کشتی ہے اس کی تاویل اس سے الگ نہیں ہے اور نہ ہی بنی آدم کی کرامت و فضلیت بھری ہوئی کشتی میں سوار ہوئے بغیر ممکن ہے۔

سوال: بھری ہوئی کشتی میں مزید سواری کس طرح ممکن ہوسکتی ہے؟

جواب: یہ کشتی اگرظاہری ہوتی تو مزید سواری ناممکن ہوتی، لیکن ایسا

 

۱۴۷

 

نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اصل کشتیٔ نجات وہ پاک ہستی ہے جو کشتی کو چلا رہی ہے یعنی امامِ زمان علیہ السلام، پس تم اسی میں فنا ہوکر دیکھو اور بتاؤ کہ تم کیا ہوگئے؟ کون ہو؟ اور کہاں ہو؟؟؟؟؟ تم جب فنا فی الامامؑ ہوجاؤ گے تو اسی سے فنا فی اللہ بھی ہو جاؤ گے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۱۱؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۴۸

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط:۱۰

 

سورۂ حدید (۵۷) کی آیاتِ کریمہ ۱۲ تا ۱۴ (۵۷: ۱۲ تا ۱۴) ترجمہ کے ساتھ خوب غور سے پڑھیں، یاد رکھو کہ یہ روحانی قیامت اور عالمِ شخصی کا ایک باطنی معجزہ ہے کہ مومنین و مومنات کا نورِ ہدایت (امامِ زمانؑ کا نور) اپنی سعی (دوڑ) سے یہ بتا رہا ہے کہ اسی نورِ ہدایت کی پیروی کی وجہ سے انہی مومنین و مومنات کو زمانے میں سبقت حاصل ہوئی، کیونکہ دین کے تمام ظاہری اور باطنی امور میں سبقت کرنے کا حکم ہے اور اللہ کی طرف دوڑنا ہے، اور سبقت کرنے والے ہی مقربین ہوتے ہیں۔

سبقت کے چند قرآنی حوالہ جات: سابقوا (۵۷: ۲۱) سارعون (۲۳: ۶۱) سابقون (۵۶: ۱۰ تا ۱۱) ففِرُّ وا (۵۱: ۰۱) سارِعوا( ۰۳: ۱۳۳)۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۱۱؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۴۹

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط:۱۱

 

عالمِ شخصی کی بہت بڑی اہمیت یہ ہے کہ اس کو حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں لانے کیلئے ہادیٔ زمان علیہ السّلام اسمِ اعظم عطا فرماتا ہے، جس کی برکت سے مومنِ سالک و عاشق پر عارفانہ موت اور روحانی قیامت واقع ہوتی ہے، جس سے عالمِ شخصی زندہ اور معمور و پُر نور ہوجاتا ہے، اسرافیل اور عزرائیل کے عظیم معجزات ظہور پذیر ہوجاتے ہیں، اور بتدریج قرآنی حکمت سمجھ میں آنے لگتی ہے، اس اعتبار سے عالمِ شخصی میں اسرار ہی اسرار ہیں، اور قرآنِ حکیم کی بہت سی آیاتِ کریمہ میں انہی اسرار کا بیان ہے، پس میں ایک چھوٹی سی پہلو دار خدمت کرنا چاہتا ہوں، خدا مجھے نیک نیتی اور توفیق و ہمت عطا فرمائے! آمین!!

اے عزیزان ! آپ سب مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجسّم احسانات و انعامات ہیں اور یہ الفاظ کئی معنوں کے حامل ہیں، الحمد لِلّٰہ۔

اے میرے بیحد پیارے تلامیذ! آپ اگر چاہیں تو اپنے غریب استاد کو لازوال اور غیر فانی خوشی دے سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ آپ حقیقی علم میں بہت ترقی کریں، تاکہ کل بہشت میں بفضلِ خدا آپ کے سر پر علمی سلطنت کا تاج ہو، ہم آج بھی علم و معرفت کی بہشت میں ہیں لہٰذا قرآن کی روشنی میں ہر نیک آرزو کر سکتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ہفتہ  ۱۲؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۵۰

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط:۱۲

 

اسرارِ عالمِ شخصی کے ساتھ ساتھ یہ اسرار بھی ہیں: اسرارِ قیامت، اسرارِ امامت، اسرارِ خلافت، اسرارِ نور، اسرارِ قرآن، اسرارِ علم و حکمت، اسرارِ علم الاسما، اسرارِ روح، اسرارِ روحانی سائنس، اسرارِ معرفت، اسرارِ کائنات، اسرارِ بہشت۔

مضامینِ بالا جو درج ہوئے وہ سب آپس میں اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ ان کو الگ الگ نہیں کیا جاسکتا ہے، تاہم یہ حقیقت ہے کہ یہ اسرار سب کے سب عالمِ شخصی ہی میں ہیں، پس آپ عالمِ شخصی کی معرفت کو حاصل کریں اور ان تمام اسرار کی دولتِ لازوال سے مالامال ہوجائیں، عجب نہیں کہ خودشناسی میں آپ کامیاب ہو جائیں اور اسی میں آپ کو یہ تمام اسرار حاصل ہوں گے، ان شاء اللہ العزیز!

اس مختصر مضمون سے آپ کو معرفتِ ذات کی اہمیت کا اندازہ ہوگا، اور عالمِ شخصی سے متعلق مضامین کا مطالعہ کریں، تاکہ آپ کو یہ بھی معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جسماً، روحاً، اور عقلاً کیسے کیسے عظیم اسرار کے ساتھ پیدا کیا ہے، پھر یقیناً اسی مطالعے سے حضرتِ ربّ کی معرفت حاصل ہوگی۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ہفتہ  ۱۲؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۵۱

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط:۱۳

 

جیسا کہ ذکر ہوا کہ منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی میں طوفانی معجزات ہوتے ہیں، اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ خدواندِ تعالیٰ کے حکم سے اسرافیل اور عزرائیل روحانی قیامت کے قیام کےلئے ایک ساتھ کام کرتے ہیں، اس لئے بہت سے معجزاتِ روحانی کا ظہور ایک ساتھ ہوتا ہے، لیکن بیک وقت ان سب کا بیان ناممکن ہے، کیونکہ وہ معجزات حضرتِ نوح علیہ السّلام کے طوفانِ آبی کی طرح ہیں، تاہم یادداشت کے لئے ایک بہت بڑی رحمت بھی ہے، وہ یہ کہ تمام یا اکثر معجزات مسلسل ہیں، اور عظیم رحمتیں اور برکتیں قرآنِ حکیم میں ہیں، جبکہ اس میں روحانی قیامت کے تمام معجزات کا تذکرہ موجود ہے، الحمد لِلّٰہ کہ قرآنِ مجید آئینۂ معجزاتِ انبیاء و اولیاء بھی ہے اور آئینۂ معجزاتِ روحانی قیامت بھی، جس میں عاشقین و عارفین اسرارِ قیامت کو دیکھتے ہیں۔

ان طوفانی معجزات میں سے ایک بڑا زبردست معجزہ تسخیرِ کائنات سے متعلق ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ جلّ جلالہٗ القابض بھی ہے اور الباسط بھی، لہٰذا حضرتِ باری تعالیٰ کے حکم سے مومنِ سالک کی روح کو قبض کرکے ساری کائنات میں پھیلا دی جاتی ہے، جس سے وہ ایک لطیف کائنات ہوجاتی ہے، پھر کائنات کی روح اس سالک و عاشق میں ڈال دی جاتی ہے، تو کائنات سے عالمِ شخصی = انسانِ لطیف =

 

۱۵۲

 

فرشتہ وغیرہ ہوجاتا ہے، اور یہ سلسلہ سات رات اور آٹھ دن تک جاری رہتا ہے، کہتے ہیں کہ اسی طرح اللہ اپنی قدرت سے ستر ہزار فرشتے = کائناتیں = اجسامِ لطیف بنا دیتا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار  ۱۳؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۵۳

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط:۱۴

 

اللہ تعالیٰ اپنے مومنِ عاشق = سالک = عارف کو منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی میں سات رات اور آٹھ دن لگاتار شدید آزمائش میں رکھ  کر اسے امامِ مبین علیہ السّلام کے نورِ اقدس سے ستر ہزار فرشتے = اجسامِ لطیف = عوالمِ شخصی بنا دیتا ہے، ہر فرشتہ وہ زندہ بہشت ہے جو وسعت میں کائنات کے برابر ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا قانونِ اضعافِ کثیرہ (۰۲: ۲۴۵) ہے جس کے مطابق وہ اپنے بندوں کو کوئی اجر و صلہ کثرت سے اضافہ کر کے عطا فرماتا ہے۔

عارفانہ موت اور روحانی قیامت سے مرنے والے سب شہیدانِ جہادِ اکبر بھی ہیں اور غازی بھی ہیں اور فاتحِ عالم بھی، لہٰذا حضرتِ ربِّ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے بہت سے انعامات ہیں، یقیناً انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کے نقشِ قدم پر چلنے والوں کے لئے بے شمار انعامات ہیں۔

قرآنِ حکیم میں مضمونِ سبقت سے متعلق تمام آیاتِ کریمہ کا بغور مطالعہ ضروری ہے، سبقت انہی مومنین و مومنات کو حاصل ہوتی  ہے جن کے آگے ان کا نور دوڑتا ہے۔ (۵۷: ۱۲ تا ۱۴ نیز ۶۶: ۰۸) شہیدانِ جہادِ اکبر کا ذکر سورۂ حدید (۵۷) کی آیت ۱۹ (۵۷: ۱۹) میں بھی ہے، آپ اس آیۂ شریفہ کو خوب غور سے پڑھیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار  ۱۳؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۵۴

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط:۱۵

 

قرآنِ مجید کے چھ مقامات میں لفظِ فرقان موجود ہے، آپ غور سے دیکھ لیں کہ یہ مبارک لفظ کن معنوں میں استعمال ہوا ہے، اور قرآنی لغات میں بھی دیکھیں، اور اس کے بعد سورۂ انفال (۸) کی آیت ۲۹ (۰۸: ۲۹) کو غور سے پڑھ کر یہ بتائیں کہ یہاں فرقان کے کونسے معنی مناسب ہیں؟

ترجمۂ آیۂ شریفہ: اے ایمان والو اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک فیصلہ کُن معجزہ (فرقان) مقرر کر دے گا اور تم سے تمہارے گناہ دور کرے گا اور تم کو بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔

سوال: کیا ایمان کے درجات ہیں؟ کیا خوفِ خدا کے بھی درجات ہیں؟

جواب: یقیناً درجات ہیں، لہٰذا مومن کے درجۂ ایمان اور درجۂ خوفِ خدا کے مطابق اس کے لئے فیصلہ کُن علمی معجزہ (فرقان) ہوگا، اہلِ معرفت عالمِ شخصی میں کئی فیصلہ کن معجزات دیکھتے ہوں گے، مثلاً کتابِ مکنون یا کلماتِ تامّات وغیرہ۔

قرآنِ حکیم ظاہراً و باطناً اللہ تعالیٰ کا فیصلہ کُن معجزہ ہے، لہٰذا آپ کو حضرتِ امام علیہ السّلام کے نورِ پاک سے جو علمی معجزہ عطا ہوگا وہ قرآنی حکمت سے بالکل

 

۱۵۵

 

قریب ہوگا، بلکہ خود قرآن کا کوئی باطنی معجزہ ہوگا، جیسے عالمِ شخصی کا کوئی عظیم معجزہ، آمین!

اے عزیزان! آپ نے حدیثِ شریف کو سنا اور پڑھا کہ علیؑ قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علیؑ کے ساتھ، یہ حقیقت باطن میں ہے، پس اے عزیزان! حکمتِ قرآن کی تحصیل کو نور کی کمائی سمجھنا، الحمد لِلّٰہ۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۱۴؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۵۶

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط:۱۶

 

ز دنیا تا بعقبیٰ نیست بسیار

ولی در رہ وجودِ تست دیوار

ترجمہ: دنیا سے آخرت تک کچھ زیادہ مسافت نہیں لیکن راستے میں تیری اپنی ہستی دیوار بنی ہوئی ہے۔ اگر کسی مومنِ سالک کی اس دیوار کو یاجوج و ماجوج چاٹ کھاتے ہیں، یا صوفیانہ = عارفانہ موت اسے گرا دیتی ہے، تو پھر تمہاری دنیا و آخرت ایک ہوگئی، یہ صرف حکیم پیر ناصر خسرو (ق۔س) کا قول نہیں، لیکن یہ سب سے اوّل قرآنی حقیقت ہے سورۂ قٓ (۵۰) کی آیت ۲۲ کو کسی عارف کے تناظر میں پڑھنا:

ترجمہ: اس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا ہم نے وہ پردہ ہٹا دیا جو تیرے آگے پڑا ہوا تھا اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے۔ (۵۰: ۲۲)

اہلِ معرفت کی رسائی اور کامیابی کے باوصف ظاہر و باطن کے درمیان ایک دیوار حائل ہوتی ہے، جس میں ایک دروازہ ہے (۵۷: ۱۳) اس دیوار و در میں کیا کیا حکمتیں ہوسکتی ہیں؟ آپ سوچیں!

سوال: حدیثِ شریف کے ارشاد کے مطابق ہر مومن شہید ہے اور ہر مومنہ حوراء (حور) اس کی کیا تاویل ہے؟

جواب: چونکہ روحانی قیامت امامِ زمانؑ ہی قائم کرتا ہے، جس میں نفسِ واحدہ

 

۱۵۷

 

کے ساتھ تمام مومنین و مومنات مر کر زندہ ہوچکے ہوتے ہیں، لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ مردِ مومن زندہ شہید بھی ہے اور بہشت میں بھی ہے، اسی طرح مومنہ جنّت میں پری عورت (حور) بھی ہے اور دنیا میں پاک حور کا مرتبہ بھی رکھتی ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر ۱۴ ؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۵۸

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط: ۱۷

 

سوال: آیا نفسِ واحدہ کی روحانی قیامت اہلِ زمانہ کی بھی روحانی قیامت ہے؟ اگر یہ حقیقت ہے تو اس کی کیا دلیل ہے؟

جواب: امامِ مبینؑ جس عالمِ شخصی میں روحانی قیامت کو برپا کرتا ہے اسی میں جملہ خلائق کی روحیں جمع ہوجاتی ہیں، اور یہ تمام نفوس = جانیں = ارواح = نفسِ واحدہ = ایک جان = ایک شخص کہلاتی ہیں، اور ان پر وہی حالت گزرتی ہے جو عارف پر گزر رہی ہے، مگر عارف کی قیامت شعوری ہے اور باقی سب کی غیر شعوری، کیونکہ عارف ہر لحاظ سے سالم ہے ، اور دوسرے سالم نہیں، جبکہ وہ نمائندہ ذرات ہیں، چنانچہ ارشادِ ربّانی ہے:

مَا خَلْقُكُمْ وَلاَ بَعْثُكُمْ إِلاَّ كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ(۳۱: ۲۸)۔

ترجمہ: تمہاری روحانی پیدائش اور روحانی موت کے بعد دوبارہ جِلا اٹھانا نفسِ واحدہ کی طرح ہے یعنی تم سب نفسِ واحدہ کے ساتھ ہو۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر ۱۴؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۵۹

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط:۱۸

 

حضرتِ امام علیہ السّلام بحکمِ قرآن امام النّاس بھی ہے اور امام المتقین بھی (۰۲: ۱۲۴؛  ۲۵: ۷۴) اللہ تعالیٰ نے امامِ عالی مقامؑ کو لوگوں کا پیشوا تو بنا دیا لیکن کسی کو اس بات پر مجبور نہیں کیا کہ وہ امامؑ سے رجوع کرے، بلکہ دین کی روشن ہدایت و تعلیمات کے ساتھ لوگوں کو اختیار دیا، تاکہ وہ خود غوروفکر کر کے نور کو پہچان لیں اور روحانی فیض حاصل کریں۔

اگر لوگ اپنے اختیار اور زندگی کی مہلت سے آخرت کا کوئی بڑا فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں، اور روحانی قیامت کا وقت آن پہنچتا ہے، تو اب خدا کے حکم سے امام کی باری ہے کہ وہ اپنے زمانے کے تمام لوگوں پر انتہائی عظیم احسان کرے، پس امامِ زمان علیہ السّلام اپنے عاشقوں میں سے ایک عاشق پر قربانی کی قیامت = روحانی قیامت برپا کر کے تمام لوگوں کو اس کے عالمِ شخصی میں جمع کرلیتا ہے، اور قیامت کی ساری سختی اپنے عاشق پر ڈالتا ہے ، تاکہ اس عاشقانہ عمل سے قرآنِ حکیم کے اس پُرحکمت بیان کی تصدیق ہو جو قیامت کے سلسلے میں فرمایا گیا ہے۔

ہم نے باربار یہی کہا ہے کہ ایسی قیامت کے نتیجہ میں سب لوگ بہشت میں جائیں گے، تاہم لوگ شروع شروع میں سلاطینِ بہشت کی رعیت ہوجائیں گے یعنی شاگرد، پھر رفتہ رفتہ ان کی علمی ترقی ہوگی، اور کون کہہ سکتا ہے کہ سلاطینِ بہشت کی رعیت پر کوئی ظلم ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۱۵؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۶۰

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط: ۱۹

 

اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیمؑ کو یہ حکم دیا:

وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالاً وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (۲۲: ۲۷)۔

ترجمہ: اور لوگوں میں حج کے لئے پکار دو کہ لوگ تمہارے پاس (جوق درجوق) پیادہ اور ہر طرح کی (دبلی) سواریوں پر جو راہِ دور دراز طےکر کے آئی ہوں گی (چڑھ چڑھ کے) آ پہنچیں گے۔

آپ نے کہا تھا کہ یہاں روحانی قیامت برپا کرنے کا ذکر ہے، کیونکہ قرآنی الفاظ صدق و عدل سے بھرپور اور عقل و منطق کی چوٹی پر ہوتے ہیں، لہٰذا ہمیں ان مبارک الفاظ میں اچھی طرح سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ ناس دنیا بھر کے لوگوں کا نام ہے، پس ہم جاننا چاہتے ہیں کہ حضرتِ ابراہیمؑ نے اپنی مبارک آواز تمام دنیا والوں کو کس طرح پہنچائی؟ آیا اس زمانے میں آج کی طرح ایسا مواصلات کا کوئی نطام تھا؟ نہیں، پھر ہم کو یقین کرنا پڑے گا کہ یہ روحانی قیامت کی مثال ہے جو حج سے دی گئی ہے، چونکہ امامؑ صاحبِ قیامت ہوتا ہے اور اسرافیل امامؑ کے حکم کے مطابق کام کرتا ہے، لہٰذا ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ روحانی قیامت ہی تھی جس کی مثال حج سے دی گئی ہے۔

 

۱۶۱

 

کوکبِ دری میں مولا علیؑ کا ارشاد ہے: اَنَا النَّاقُور ، نیز فرمایا: اَنَا السّاعۃ، مزید فرمایا: میں ہی قیامت کو قائم کرنے والا ہوں، قرآنِ حکیم میں خداوندِ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ (۱۷: ۷۱)۔

انہی ارشادات سے معلوم ہوا کہ اللہ نے قیامت کا کام امامؑ کو سونپا ہے، پس حضرتِ ابراہیمؑ اپنے زمانے میں رسولِ ناطق بھی تھا اور لوگوں کا امامؑ بھی، اس لئے اپنی روحانی قیامت کو حدودِ دین میں سے کسی میں برپا کیا، اور لوگوں کو حساب کتاب اور عذاب سے نجات دلا کر بہشت میں داخل کردیا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۱۵؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۶۲

 

 

اسرارِ عالمِ شخصی

قسط:۲۰

 

حضرتِ آدم علیہ السّلام کے جملہ اسرار روحانی قیامت کے تحت عالمِ شخصی میں ہیں، عالمِ شخصی ہی میں فرشتوں نے آدمؑ کے لئے سجدہ کیا تھا، قصّۂ آدمؑ کے اسرار بڑے عجیب و غیرب ہیں، نفخۂ صور اور روحانی قیامت کے ذریعے سے آدمؑ میں الٰہی روح پھونک دی گئی، اور اسی دوران بے شمار روحانی فرشتے سجدہ کرتے ہوئے حضرت آدمؑ کے عالمِ شخصی میں گر پڑے۔

آدمؑ کے لئے دوسرا سجدہ مرتبۂ عقل پر کیا گیا، یہ حظیرۂ قدس کا مقام تھا، حضرتِ نوحؑ کے طوفانِ آبی کے پس منظر میں روحانی قیامت کا طوفان تھا، حضرتِ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے لئے دو گھر بنا دیئے تھے، ایک ظاہر میں اور ایک عالمِ شخصی میں، یعنی آپؑ کی جبینِ مبارک میں بیت المعمور تھا، چونکہ آپ امام اور اللہ کا آباد گھر (بیتِ معمور) تھے۔

آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؑ کا ہر امام یہی شان رکھتا ہے، جبکہ امامؑ حاملِ نور اور مظہرِ عجائب و غرائب ہے، جس شخص نے امامؑ کے بے شمار معجزات کا مشاہدہ کیا ہے، اگر وہ کسی وجہ سے ان معجزات کو چھپاتا ہے تو اس سے بڑا ظالم اور کون ہوسکتا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۱۵ ؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۶۳

 

محفلِ نار و نورِ عشق اور لشکرِ اسرافیلی

قسط:۱

 

ترجمۂ شعر از دیوانِ نصیری:

(اے محبوبِ سماوی!) تیری یادِ شیرین فکرِ لذیذ اور تیرے پُرکیف نشۂ عشق میں بارہا میں نے مکمل شب بیداری کی۔

دیوانہ نصیرؔ جب بھی محفلِ عشاق میں آتا ہے تو یہ اس کی عادت ہے کہ آتشِ عشق کو اچھالتا رہتا ہے تاآنکہ اہلِ محبت کی مجلس میں آگ لگ جاتی ہے۔

پھول کھل کر ایک دن کے لئے تفاخر کرتا رہتا ہے اس کو میرے گلِ سدا بہار کے رنگ و بو اور رعنائی سے آگاہ کر دو۔

محفلِ نار و نورِ عشق اور اسرافیلی لشکر کا یہ عنوان میں نے خوب سوچ سوچ کر لکھا ہے، یہ میرا آئینۂ یادداشت ہے، مجھے اس میں فرداً فرداً تمام عزیزوں کا تصوّر ہوتا ہے، اور یہ نامۂ اعمال (نورانی مووی) کا بڑا اہم حصّہ بھی ہے، الحمد لِلّٰہ۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۶  ؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۶۴

 

محفلِ نار و نورِ عشق اور لشکرِ اسرافیلی

قسط:۲

 

کیا خدا کی اس قدرت میں عشقِ سماوی کا کوئی بڑا اشارہ نہیں ہے؟ کہ حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کو دور سے تو ایک نار نظر آئی، مگر قریب جا کر مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ نورِ الٰہی ہے، کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ موسیٰؑ نارِ عشق سے نورِ معرفت میں پہنچ گیا؟ آیا عشقِ سماوی آگ کی طرح ہے جس سے عاشقانِ صادق کے غلط خیالات جل جاتے ہیں؟

ذکرِ خفی نورِ جلی مولا علی مولا علی

خواندہ خدا نامش ولی مولا علی مولا علی

خدا کے نور کا چراغ ہر مومن اور مومنہ کے دل میں موجود ہے، اس کو فعلاً روشن کرنے کے لئے آتشِ عشقِ سماوی ضروری ہے، لشکرِ اسرافیلی کی پُرحکمت اور پُرسوز آواز میں نارِ عشق کی غیر مرئی چنگاریاں ہیں۔

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام کے ارشادات میں غور سے دیکھ کر بتائیں کہ ان میں لفظِ عشق اور اس کے مترادفات کل کتنی دفعہ آئے ہیں؟

ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق

ثبت است برجریدۂ عالم دوامِ ما

(حافظ)

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ ۱۶ ؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۶۵

 

محفلِ نار و نورِ عشق اور لشکرِ اسرافیلی

قسط:۳

 

“ذکرِ جلی” کی محفل میں کبھی کبھار نارِ عشق، نورِ عشق کے الفاظ جوش و جذبہ سے پڑھ لیا کرتے تھے، ایسے میں بعض دفعہ فائدہ ہوتا ہے، تاہم یہ صرف ایک تذکرہ ہے کوئی حکم نہیں، لیکن لشکرِ اسرافیلی ہماری خاص اصطلاحات میں سے ہے، کیونکہ یہ ارضی فرشتے حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ (روحی فداہٗ) کے پُرنور فرمان کے مطابق کام کرتے ہیں جو مولا نے ۱۹۴۰ء میں ارشاد فرمایا تھا، لہٰذا میرے نزدیک ان کے الفاظ اور ساز و آواز میں وہی نورِ لطف و محبتِ مولا ہے، جس کی پیش گوئی مولائے پاک کے فرمانِ مذکور میں موجود ہے۔

پس میں لشکرِ اسرافیلی کو بار بار سر خمیدہ سلام کرتا ہوں، کل بہشت میں دیکھ لینا کہ ربّ العزّت ان کو کس شان سے نوازتا ہے، اور کیسے کیسے عظیم انعامات انہیں عطا فرماتا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات ۱۷ ؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۶۶

 

محفلِ نار و نورِ عشق اور لشکرِ اسرافیلی

قسط:۴

 

دراصل اس مضمون کی جان لشکرِ اسرافیلی ہے، کیونکہ یہ نیک بخت لوگ مجموعاً حضرتِ قائم القیامت کا ایک زندہ معجزہ ہیں، عدل و انصاف اور عقل و دانش سے ان کو دیکھا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ ان کا ہر فرد تنہا ایک مکمل آنریری ادارہ ہے، اور اپنے محبوب مولا اور پیاری جماعت کی فداکارانہ اور عاشقانہ خدمت کر رہا ہے، ان کی خدمت ہر لحاظ سے بے مثال اور سب سے مفید اور سب سے انقلابی ہے، کیا ان کے موزون الفاظ اور داؤدی ساز و آواز میں کم کم معجزۂ نارو نور نہیں ہے؟ آپ شروع شروع میں کم کم معجزات کو طلب کریں، کیونکہ یہی طریقہ ہمیشہ کامیاب رہا ہے۔

اگر لشکرِ اسرافیلی کی کسی پاک مجلس میں مولا کے عشق کے آنسو آتے ہیں تو خبردار! چیخنا چلانا نہیں، ورنہ یہ پاک عمل ریاکاری کی نذر ہوجائے گا، آپ جانتے ہیں کہ کوئی بھی ہوشمند دوا کھا کر فوراً قے نہیں کرتا، عشق آتا ہے تو آنے دو، آنسو آتے ہیں، تو مبارک ہو! آنے دو، بہت ہی با ادب رہنا، کیونکہ شاہنشاہِ عشق آ رہا ہے، اس کو دل میں یا پیشانی میں جانے دو، اگر تم اپنی آواز اور حرکت سے ذرا بھی گستاخی کرو گے تو وہ فوراً ہی واپس چلا جائے گا، خبردار! خبردار! تم مولا کے پاک عشق کے سامنے مردہ جیسا رہو تو فائدہ ہوگا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۱۷؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۶۷

 

محفلِ نار و نورِ عشق اور لشکرِ اسرافیلی

قسط:۵

 

میرا ایمان اور یقین ہے کہ آج لشکرِ اسرافیلی کی جو ترقی اور کامیابی ہو رہی ہے، اس کا راز حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے فرمانِ پاک میں موجود ہے، الحمد لِلّٰہ! خدائے بزرگ و برتر کے بے شمار و بے حساب احسانات جو اس بندۂ کمترین کے حق میں ہوئے، ان میں بنیادی اور اوّلین احسانِ خداوندی لشکرِ اسرافیلی کا ماحول تھا کہ میرے گھر اور گاؤں میں موجودہ نام کے بغیر ایک زبردست لشکرِ اسرافیلی کام کر رہا تھا، اور میری مذہبی پرورش ابتداء ہی سے اسی مقدّس ماحول میں ہوئی۔

میرے والدِ محترم خلیفہ حبِّ علی ابنِ خلیفہ محمد رفیع میری نوعمری کے زمانے ہی سے مقدّس ساز اور داؤدی آواز کی زبان میں مجھے مذہب اور عشقِ سماوی کا درس دیا کرتے تھے، اور میری والدۂ محترمہ ان کی خوش آوازی میں ہم نوائی کرتی تھیں، پس میں اپنے والدین کا نہ صرف جسمانی فرزند ہوں، بلکہ میں ان کے مدرسۂ خانہ کا شاگرد بھی ہوں، الحمد لِلّٰہ!

اے عزیزان! آپ رحمتِ عالمؐ کی بے پایان رحمت سے بہت زیادہ فائدہ اٹھائیں، اور یہ سعادت امامِ آلِ محمدؐ ہی کے وسیلے سے ممکن ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اسلام آباد ،  جمعرات  ۱۷؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۶۸

 

محفلِ نار و نورِ عشق اور لشکرِ اسرافیلی

قسط:۶

 

یہ میری سعادت ہے کہ مجھے شب بیداری کی ہر محفل اپنی روحانی لذّتوں کے ساتھ یاد آتی ہے، آپ قرآنِ حکیم میں دیکھ لیں کہ شب بیداری کی کتنی بڑی فضیلت ہے؟ دعوتِ بقا کی محفلِ شب بیداری کی رحمتیں اور برکتیں، سبحان اللہ!

اگر اللہ چاہے تو آپ کو لشکرِ اسرافیلی سے روحانی ترقی میں بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے، اگر آپ پاک مولا کا عشق چاہتے ہیں تو لشکرِ اسرافیلی کی مدد حاصل کریں، ان شاء اللہ آپ مولا کے عاشقوں میں سے ہوجائیں گے۔

مولانا حاضر امام علیہ السلام کا ارشادِ گرامی ہے: تم دانا ہو جاؤ = دانائی سے کام لو = حکمت سیکھو= علم و دانش حاصل کرو۔ پس مومن کی دانائی یہ ہے کہ وہ اپنے دل میں عشقِ مولا کو پیدا کرے، تاکہ اس کا ہر مشکل کام آسان ہو جائے، یقیناً ایسے مومنین عشقِ مولا میں کامیاب ہوجاتے ہیں، جو صدقِ دل سے لشکرِ اسرافیلی کی مدد حاصل کرتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ذوالفقار آباد، گلگت ، جمعہ  ۱۸؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۶۹

 

نور اور قرآن کے فیوض و برکات

قسط:۱

 

آیۂ قد جاء کم کو پڑھ لیا کر جانِ من!

نور اور قرآن کے فیوض و برکات سے ستر ہزار کائناتیں بھری ہوئی ہیں، اسی لئے قرآنِ حکیم نے فرمایا: اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار ہی نہیں کر سکو گے، ہاں، یقیناً اللہ کی بے شمار نعمتیں اور بے پایان احسانات ہیں، پس اے عزیزان! اللہ تعالیٰ وہ قادرِ مطلق ہے جو ایک ہی عالمِ شخصی سے ایسے ستر ہزار فرشتوں کو پیدا کرتا ہے، جن میں سے ہر ایک فرشتہ ایک زندہ کائناتی بہشت ہے، تاکہ وعدۂ قرآن (۲۴: ۵۵) کے مطابق بہت سی کامیاب روحوں کو کائناتی ارض = کائناتی بہشت کی خلافت = سلطنت عطا ہو۔

یہ نور اور قرآن ہی کےفیوض و برکات ہیں ورنہ ہم ایسے عظیم اسرار کو کہاں جانتے تھے؟ یہ سچ بات ہے کہ میں ماضی میں اسرار تو کجا علم سے بھی بہت دور تھا، لیکن جب سے میں نے نور اور قرآن سے رجوع کیا تب سے میرے باطن میں بار بار انقلاب آیا، الحمدلِلّٰہ۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ذوالفقار آباد، گلگت ، ہفتہ  ۱۹؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۷۰

 

نور اور قرآن کے فیوض و برکات

قسط:۲

 

نور = رسولؐ  = اساسؑ = علیؑ = امامؑ = کتابِ ناطق = معلمِ ربّانی = مؤولِ قرآن = قرآنِ ناطق = امامِ مبینؑ  = اسمِ اعظم = اسماء الحسنٰی = کلماتِ تامّات = فرقان = میزان۔

نورکے بہت سے اسماء ہیں، اگر تم ہر اسم میں نور کو پہچان سکتے ہو تو تمہیں اسرارِ معرفت کے بے شمار فائدے حاصل ہوں گے، اور یاد رکھو کہ جس کے بہت زیادہ امور (کام) ہوتے ہیں اس کے بہت سے نام ہوتے ہیں، یقیناً سب سے زیادہ اسماء اللہ تعالیٰ کے ہیں، پھر رسولِ پاک (صلعم) کے اسماء زیادہ ہیں، تاہم امامؑ مظہرِ نورِ خدا بھی ہے اور خلیفۂ رسولؐ بھی، لہٰذا امامؑ بھی کثیر ناموں کا مالک ہے۔

پس اگر تم امامِ عالی مقامؑ کے عاشقوں میں سے ہو تو قرآن و حدیث میں اپنے معشوق کے ناموں کی خوب تلاش کرو، جس علم کے ذریعے سے امامؑ کے ناموں کی پہچان ہوتی ہے، اس کو علم الاسماء کہا گیا ہے، سب سے پہلے یہ علم حضرتِ آدمؑ کو عطا ہوا تھا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ذوالفقار آباد، گلگت ، اتوار  ۲۰؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۷۱

 

نور اور قرآن کے فیوض و برکات

قسط:۳

 

عنوانِ بالا کا اشارہ آیۂ قد جاء کم (۰۵: ۱۵) کی طرف ہے، جس میں نوراوّل اوّل حضرت محمد رسول اللہؐ ہے، پھر آپؐ کے وصی حضرتِ علیؑ یہ نور ہے، پھر آلِ محمدؐ کا ہر امامؑ اپنے وقت میں قرآن کے لئے نور ہے، یعنی خدا کا مقرر کردہ معلّم اور مؤول، کیونکہ اللہ کو یہ بات ہرگز منظور نہیں کہ دنیا میں قرآن موجود ہو مگر اس کا نورانی معلّم و مؤول نہ ہو، پس یہی نورانی معلّم و مؤول قرآنِ پاک کے لئے نورِ ناطق (بولنے والا نور) ہے = کتابِ ناطق = امامِ مبین = ہادیٔ زمانؑ = وارثِ کتابؑ = امامِ آلِ محمدؐ = علیٔ زمانؑ ہے۔

آن امامِ مبین ولیٔ خدا

آفتابِ وجود اہلِ صفا

اگر صرف ایک ہی آیت میں نور کا ذکر ہوتا تو اس کی معرفت غیر ممکن ہوتی، مگر خدا کے فضل و کرم سے ایسا نہیں ہے، تمام اہلِ ایمان کو نور کی ظاہری معرفت حاصل اور ان شاء اللہ باطنی معرفت بھی حاصل ہوگی۔

میں لشکرِ اسرافیلی کی عبادت کو اللہ کی ایک خاص نعمت سمجھتا ہوں، میرے بعض ساتھی اس میں جب عشقِ سماوی کے آنسو بہاتے ہیں تو میری حالت دگر گون ہو جاتی ہے، میں ایسے میں راجہ محمد علی جیسے نورانی درویش اور عاشقِ مولا سے قربان ہوجانا چاہتا ہوں، لیکن وہ سختی سے منع کرتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ذوالفقار آباد، گلگت ، پیر  ۲۱؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۷۲

 

نور اور قرآن کے فیوض و برکات

قسط:۴

 

جݺ اتݽقلتݺ کہ گوڈِگاری طوافر مولا!

اُنݺ محبتݺ مݵلݺ اورشم سسݺ پروانہ میام

ترجمہ: میرے مولا! اگر میں نارسائی کی وجہ سے تیرے گرداگرد طواف نہیں کرسکتا ہوں تو تیرے ان عاشقوں کا طواف کروں گا جو تیری شرابِ محبت سے مست ہیں۔

میں لشکرِ اسرافیلی کی محفلِ نورانی میں ایسے کئی عاشقوں کو دیکھتا ہوں جو شرابِ عشقِ مولا سے مست ہو کر اشکبار ہوجاتے ہیں، بتائے بغیر دل ہی دل میں ان کا طواف کرتا ہوں، قدم بوسی بھی، اور ان سے قربان بھی ہوجاتا ہوں، یہ میرے لئے وہ بہشت ہے جو نزدیک لائی گئی ہے۔

یہ میرے لئے طوفانی خوشی ہے کہ تمام روحیں جمع شدہ لشکر کی طرح ایک ساتھ ہیں، بہشت میں بہت سے اشخاص اپنے باپ آدمؑ = آدمِ زمانؑ کی صورت پر ہوں گے، آدمؑ رحمان کی صورت پر تھا۔

شرابِ لم یزل صد بار خوردم

زجامِ مصطفیٰ الحمدلِلّٰہ!

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ذوالفقار آباد، گلگت، منگل   ۲۲؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۷۳

 

گلدستۂ شوق بخدمتِ حلقۂ اربابِ ذوق

 

جہان میں میرے صنم کی کوئی مثال نہیں

جمیلِ کل ہے وہی اور کہیں جمال نہیں

یہ دیکھ شمس و قمر کو زوال ہوتا ہے

جہانِ حسن کے خورشید کو زوال نہیں

کمالِ دلبری اس کو بہشت سے آیا

تو پھر جہان میں کہیں اور یہ کمال نہیں

وصالِ شاہِ بتان اس جہان میں مشکل ہے

جو کل بہشت میں ہے آج وہ وصال نہیں

مجھے ملالِ مسلسل نے خوب روند لیا

خدا کے فضل سے اب تو کوئی ملال نہیں

جواب ہائے “حِکم” سے بھرا خزانہ ہے

جواب ہا تو بہت ہیں مگر سوال نہیں

وہ شاہِ کونِ حسینان حجابِ دل میں ہے

حجاب کیسے ہٹاؤں مری مجال نہیں

جہان میں اہلِ قلم کوئی بھی غریب نہیں

امیرِ علم و ادب ہے اگرچہ مال نہیں

خیال طائرِ برقی ہے اے نصیر الدین!

عظیم عطیۂ رحمان ہے خیال نہیں

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ذوالفقار آباد، گلگت ،بدھ   ۲۳؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۷۴

 

ترجمانیٔ زبانِ حالِ مجیب الدین (مرحوم = بہشتی) ابنِ علی یار خان، مرتضیٰ آباد

 

رشتہ دارو! فضلِ مولا پر رکھو محکم یقین

میں تو ہوں الحمد لِلّٰہ ساکنِ خلدِ برین

موت میری تھی شہادت میں مریدِ شاہ تھا

پس بہشت میں شادمان ہوں تم نہ ہو جانا حزین

میری طوفانی خوشی کا تم کو اندازہ نہیں

تم نے دیکھی ہی نہیں ہے باغِ جنت کی زمین

تم دعائیں کر کے مجھ کو کچھ تحائف بھیج دو

تا کہ راضی ہو ہمیشہ تم سے ربّ العلمین

ہر بہشتی شادمان ہے اور دائم ہے جوان

سب کو حاصل ہے لقائے حضرتِ سلطانِ دین

مجلسوں میں حور و غلمان لعل و گوہر کی طرح

ہے مناظر سب حسین اور اہلِ جنت نازنین

علم و حکمت کی مجالس نور کا دیدار بھی

نغمہ ہائے مدحِ مولا دل نواز و دل نشین

خواب میں اے کاش تم جنت کا منظر دیکھتے

تا کہ تم ہرگز نہ ہوتے میرے بارے میں غمین

معرفت ہی معرفت ہے تیری باتوں میں نصیرؔ!

اس لئے اشعارِ شیرین ہیں مثالِ انگبین

 

انگبین = شہد

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ذوالفقار آباد، گلگت ،جمعرات  ۲۴ ؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۷۵

 

ایک تازہ جہان

 

عارف نے سنو دل میں اک تازہ جہان دیکھا

ہے جس کی طلب سب کو وہ گنجِ نہان دیکھا

یہ رازِ نہانی ہے اور رب کی نشانی ہے

آئی ہے جہان سے جان وہ عالمِ جان دیکھا

ہاں نورِ ازل ہے وہ اور سر ابد ہے وہ

واں سب سے نہان دیکھا یاں سب سے عیان دیکھا

اسرارِ کتاب اللہ انوارِ دلِ عارف

قرآنِ مقدس میں اک گنجِ نہان دیکھا

جب آنکھ کھلی دل کی اسرار نظر آئے

حیرت زدہ ہوں بیحد جب گوہرِ کان دیکھا

میں اس میں؟ کہ وہ مجھ میں؟ یہ سرِ قیامت ہے!

ہاں برقی بدن میں تھا جب شاہِ شہان دیکھا

جب برق سوار آیا تب باب کھلا ازخود

میں مر کے ہوا زندہ جب شاہِ زمان دیکھا

عشاق سے میں اس کے قربانِ مسلسل ہوں

روحانی قیامت میں جب جانِ جہان دیکھا

اشعارِ نصیرؔی میں اسرارِ نہانی ہیں

شاید کہ کبھی اس نے وہ نورِ قران دیکھا ؎۱

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ذوالفقار آباد، گلگت ،ہفتہ  ۲۶؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

فٹ نوٹ؎۱: وزن کو برابر کرنے کی غرض سے مدِ الف کو حذف کیا گیا ہے۔

 

۱۷۶

 

رازِ عشق

 

یا الٰہی! تو عطا کردے مجھے فیضانِ عشق

تاکہ ہوجاؤں ہمیشہ بندۂ سلطانِ عشق

میں گدا ہوں اس کے در کا اور مریضِ عشق بھی

یا طبیبِ آسمانی! دے مجھے درمانِ عشق

اے حسینِ بے مثال! اے نورِ عشقِ باکمال!

جان فدا ہو تجھ سے ہر دم چونکہ تو ہے جانِ عشق

شاہِ خوبانِ دو عالم! نورِ چشمِ عاشقان!

غیرتِ حوروپری ہے جانِ عشق جانانِ عشق

ماہِ من! اے شاہِ من! تو حکم فرما دیجئے

ہے قبولِ جان و دل تیرا ہر فرمانِ عشق

یہ نہیں معلوم مجھ کو راز کیا ہے؟ رمز کیا؟

اس لئے ہوں میں ہمیشہ والہ و حیرانِ عشق

میں نہیں تنہا غریق تیرے بحرِ عشق میں!

ہیں سبھی غرقاب تجھ میں دیکھ اے طوفانِ عشق

عشق سے مر کر اسی میں زندہ ہے، ہاں زندہ ہے

یہ نصیرؔ تیرا گدا اے جانِ عشق جانانِ عشق!

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اسلام آباد، منگل  ۲۹؍ مئی  ۲۰۰۱ء

 

۱۷۷

 

عوالمِ شخصی کے لئے رحمتِ کل

 

عاشقانِ نورِ الٰہی کے لئے رحمت ایک بہت اہم اور حکمت سے مملو (بھرا ہوا) مضمون ہے، اس کو سمجھنے کے لئے آپ ہزار حکمت (ح: ۳۸۰-۳۸۵) کو غور سے پڑھیں:

حکمت: ۳۸۰   رحمان : نہایت مہربان

اَلرَّحْمٰنُ- عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (۵۵: ۰۱ تا ۰۲)۔

ترجمہ: نہایت مہربان (خدا) نے قرآن کی تعلیم دی۔

تفسیر و تاویل : نہایت مہربان خدا نے اپنی سنتِ عالیہ کے مطابق اسماء الحسنیٰ کے وسیلے سے انسانِ کامل کو قرآن کے روحانی اور عقلانی اسرار کی تعلیم دی۔

خَلَقَ الإِنسَانَ- عَلَّمَهُ الْبَيَانَ(۵۵: ۰۳ تا ۰۴)

ترجمہ: اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔

تفسیر و تاویل: خداوندِ عالم نے اپنی پاک کتاب کی باطنی اور نورانی تعلیم سے شخصِ کامل کو روحاً و عقلاً پیدا کیا اور اب اس کو بیان (تاویل) سکھایا۔

حکمت : ۳۸۱ رحمان : نہایت مہربان

الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ (۵۵: ۰۵)۔

 

۱۷۸

 

ترجمہ: سورج اور چاند ایک حسابِ مقرر سے چل رہے ہیں۔

تفسیر و تاویل: ناطق اور اساس عالمِ دین کے آفتاب و ماہتاب ہیں، لہٰذا یہاں رات بھی روزِ روشن ہی کی طرح تابناک ہے، کیونکہ ظاہری چاند سورج سے بہت دور ہے اور یہ اس کے ساتھ ایک نہیں ہو سکتا کہ آفتابِ جہان تاب بن کر کائنات کو جگمگائے، لیکن دین کے شمس و قمر نورٌعلیٰ نورٍ کے مصداق ہیں (۲۴: ۳۵) نیز سورۂ قیامہ (۷۵: ۰۹) میں دیکھ لیں۔

وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ۔

ترجمہ: اور سورج اور چاند جمع کر دئے جائیں گے۔

حکمت : ۳۸۲ رحمان : نہایت مہربان

وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ (۵۵: ۰۶)۔

ترجمہ: اور ستارہ اور درخت دونوں سجدہ کرتے ہیں۔

تفسیر و تاویل: عالمِ شخصی کے حظیرۃ القدس میں ستارہ عقلِ کلّ ہے اور درخت نفسِ کلّ، دونوں اطاعت کے معنی میں خدا کے لئے سجدہ کرتے ہیں تاکہ جہانِ علم و معرفت کا نظام قائم رہے۔

حکمت : ۳۸۳   رحمان : نہایت مہربان

وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ (۵۵: ۰۷)۔

ترجمہ: اور آسمان کو خدا نے بلند کیا اور (اس میں) ترازو رکھی۔

تفسیر و تاویل: عالمِ شخصی کے آغاز میں آسمان اور زمین ملے ہوئے ہوتے ہیں (۲۱: ۳۰) پھر حق تعالیٰ روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ آسمان کو زمین سے الگ کر کے بلند

 

۱۷۹

 

کردیتا ہے، اور علم و حکمت کی ترازو زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر رکھتا ہے تاکہ وہی شخص اس کو استعمال کرے جو وہاں تک جا سکتا ہے۔

حکمت : ۳۸۴   رحمان : نہایت مہربان

آسمان کو زمین سے الگ کر کے بلند کردینے کی دوسری تاویل یہ ہے کہ خدائے عزو جل ہر نبی اور ہر امام کو زمینِ دعوت سے ترقی دے کر آسمانِ علم و حکمت بنا دیتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے : کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے ان کو جدا کردیا (سورۂ انبیا، ۲۱: ۳۰)۔

حکمت : ۳۸۵   رحمۃ : رحمت، بخشش، مہربانی

ہر وہ نعمت جو روح کے لئے ضروری ہے:

سورۂ انبیا (۲۱: ۱۰۷) میں ارشاد ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ۔

ترجمہ: اے رسول! ہم نے تو تم کو کل جہانوں (عوالمِ شخصی) کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

حضرتِ امام جعفر الصادق علیہ السّلام کے ارشاد کے حوالے سے اس حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ عالمین سے صرف انسان مراد ہیں، اور انسان تمام زمانوں میں پیدا ہوتے آئے ہیں، پس دورِ انبیاء کے لئے بھی اور دورِ أئمّہ کے لئے بھی خدا نے آنحضرتؐ کو رحمت کا خزانہ اور مرکز یا رحمتِ کل بنا دیا ہے، لہٰذا حضورِ اکرم صلعم اپنے ارشاد مبارک کے مطابق سید الانبیاء (تمام پیغمبروں کےسردار) ہیں اگر کوئی شخص کسی قوم کا سچ مچ سردار ہے تو وہ قولاً و فعلاً سردار ہوا کرتا ہے، یعنی

 

۱۸۰

 

حقیقی سردار وہ ہے جس سے قوم کو ہر گونہ فائدہ ہو۔

(از ہزار حکمت، ص ۲۲۱-۲۲۴)

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  یکم جون ۲۰۰۱ء

 

۱۸۱

 

ازدیوانِ نصیری

 

اُنݺ ذکرلݸ اُنݺ فکرُلݸ اُنݺ عشقݺ نَشَو لݸ

بُٹ ھیشی جݺ تھپ ڞا ھُرݸٹم گݸن دُوَرِݽ خا

ترجمہ: تیرے ذکر (یاد) تیری فکر اور تیرے عشق کے نشے میں بارہا میں نے شب بیداری کی، تا آنکہ صبح ہوگئی۔ اس لازوال حقیقت میں کیسی دائمی خوشی جاری و ساری ہے!

انݺ جا قلمر قواݵتی کݺ اݵس یٹسݺ گݼرچی

اݵر بݵشکی متھن گن بلہ کلی اݵس بݵسݺ ورچی

ترجمہ: اگر وہ (میرا محبوب) میرے قلم کو سفرِ تحریر کی دعوت دے تو میرا قلم اپنے سر کے بل چلنے لگے گا اگرچہ اس کے لئے سفر دورودراز ہے، لیکن وہ عشق کی مستی میں کیوں کر تھکے گا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  یکم جون ۲۰۰۱ء

 

۱۸۲

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط: ۱

 

سوال۔ ۱: آیا بہشت کی سب سے بڑی نعمت وہاں کی بادشاہی ہے؟

سوال۔ ۲: جنّت کی بہت بڑی سلطنت کا نام قرآنِ پاک میں ملکِ کبیر ہے؟

سوال۔ ۳: اللہ تعالیٰ نے آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کو ملکِ عظیم = بہت بڑی سلطنت عطا فرمائی ہے، کیا یہی روحانی سلطنت بہشت کی سلطنت بھی ہے؟

سوال۔ ۴: قرآنِ حکیم میں حضرتِ ابراہیمؑ کا قول ہے: پس جو میری پیروی کرے تو یقیناً وہ مجھ سے ہے، تو کیا آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کے پیچھے پیچھے چلنے والے کل بہشت میں بادشاہ ہوں گے؟

سوال۔۵: کیا قرآن (۲۴: ۵۵) میں یہ واضح اشارہ ہے کہ بہشت میں خدا کی رحمتِ بے منتہا سے بہت سے بادشاہ ہوں گے؟

سوال۔۶: آیا اللہ کی جانب سے جو خلافت ہے وہی سلطنت بھی ہے؟

سوال۔۷: آیا مظہرِ نورِ خدا روحانیّت اور بہشت کا شاہنشاہ ہے؟

سوال۔۸: کیا بہشت میں علم و حکمت کی نعمت بھی ہے؟ اگر ہے تو کس طرح؟

سوال۔۹: بہشت کا بہترین شغل کیا ہے؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

روزِ شنبہ  ۲؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۱۸۳

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۲

 

سوال۔۱: کیا یہ بات درست ہے کہ عارفانہ موت اور روحانی قیامت سے دنیا ہی میں بہشت کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے؟

سوال۔۲: آیا جنّت کی معرفت کا واضح اشارہ سورۂ محمدؐ میں موجود ہے؟

سوال۔ ۳: کیا خودشناسی، ربّ شناسی اور جنّت شناسی ایک ہی اعلیٰ مضمون ہے؟

سوال۔۴: کیا قرآن کا باطنی مشاہدہ اور معرفت ممکن ہے؟

سوال۔ ۵: بصارت اور بصیرت میں کیا فرق ہے؟

سوال۔ ۶: کیا یہ کہنا درست ہے کہ بہشت میں تین قسم کی نعمتیں ہیں: لطیف جسمانی نعمتیں، روحانی نعمتیں اور عقلی نعمتیں؟

سوال۔۷: کیا بہشت کی بادشاہی میں یہ دنیا بھی شامل ہے؟

سوال۔۸: کیا بہشت میں ہر نعمت ممکن ہے؟

سوال۔۹: کیا اہلِ بہشت دنیا کا نظارہ کرسکتے ہیں؟

سوال۔۱۰: روح، روحانی اور فرشتے میں کیا فرق ہے؟

جواب:- روح غیر مرئی ہے، روحانی اور فرشتہ بھی غیر مرئی ہے، تاہم خدا کے حکم سے مرئی بھی ہوسکتے ہیں، جیسے مریم سلام اللہ علیھا کے پاس فرشتہ بشری صورت میں آیا تھا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

روزِشنبہ  ۲؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۱۸۴

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۳

 

سوال۔۱: کیا بہشت کی معرفت عالمِ شخصی میں ہوتی ہے؟

سوال۔۲: بحوالۂ ہزار حکمت (ح:۲۵۸) جنت میں ایک بازار ہوگا جس میں خرید و فروخت نہیں ہوگی، ہاں اس میں عورتوں اور مردوں کی تصویریں ہوں گی، جنّت کے اس قانون میں کیا کیا حکمتیں ہوسکتی ہیں؟

سوال۔۳: کیا بہشت میں بیجان کاغذی تصویریں ہوسکتی ہیں؟

جواب:- نہیں ہر گز نہیں، کیونکہ وہاں ہر چیز عقل و جان کےساتھ ہے، یہ کوئی عظیم راز ہے۔

سوال۔۴: کیا اہلِ بہشت کے لئے ہر وہ نعمت حاضر ہو جاتی ہے، جس کو وہ چاہتے ہیں؟

سوال۔ ۵: کیا جنّت میں ہر زبان کا مکمل ریکارڈ محفوظ ہے؟

سوال۔۶: آیا بہشت میں ہر قسم کی معلوماتی سوال کا جواب مل سکتا ہے؟

سوال۔۷: کیا ہر متّقی کا نامۂ اعمال نورانی مووی میں ہے؟

سوال۔۸: آیا ہر کامیاب شخص اپنا نامۂ اعمال دوسروں کو دکھا سکتا ہے؟

جواب:- جی ہاں، قرآن (۶۹: ۱۹) میں دیکھیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

یک شنبہ  ۳؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۱۸۵

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۴

 

سوال۔۱: بحوالۂ سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۵) ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی، وہ کس طرح؟

جواب:- وہ جسماً لطیف پریوں کی طرح، روحاً پاک مومنات کی طرح اور عقلاً پاک دینی داناؤں کی طرح ہوں گی، اور ان کے شوہر بھی اسی طرح تین قسم کی پاکیزگی والے ہوں گے۔

سوال۔۲: حدیثِ شریف ہے: ہر مومن روحانی شہید ہے اور روحانی شہید کی بے شمار خوبیاں ہیں، اور ہر مومنہ حوراء ہے ہر حور جسم میں پری کی طرح ہے، مگر روح اور عقل میں صفِ اوّل کی مومنہ کی طرح پاکیزہ ہے، کیا یہ وضاحت درست ہے؟

سوال۔۳: کیا اس حدیث میں یہ اشارہ نہیں ہے کہ ہر مومنہ درجۂ اوّل کی حور ہوجاتی ہے اور مومن کو روحانی شہید کا درجہ مل جاتا ہے؟

سوال۔۴: کیا بہشت میں جسمِ لطیف اور سدا نوجوانی ہے؟

سوال۔۵: کیا آپ نے قرآنِ حکیم میں بہشت کے مضمون کو خوب غور سے پڑھا ہے جو سرتا سر قرآنِ پاک میں پھیلا ہوا ہے؟ اگر نہیں تو آئیے اس باب میں کم سے کم ایک سورہ کو پڑھتے ہیں، وہ سورۂ واقعہ (۵۶) ہے، ترجمۂ

 

۱۸۶

 

آیات از ۵۶: ۳۵ تا ۳۸: ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر (جسمِ لطیف میں) نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انہیں باکرہ بنا دیں گے، اپنے شوہروں کی عاشق اور عمر میں ہم سن، یہ کچھ دائیں بازو والوں کے لئے ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

یک شنبہ  ۳؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۱۸۷

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۵

 

سوال۔۱: عُرُبًا اَتْرَابًا (۵۶: ۳۷) = اپنے شوہروں کی عاشق اور عمر میں ہم سن۔ یہ ایک بڑے عالم کا ترجمہ ہے، اس حوالے سے یہ پوچھنا ہے کہ قرآنِ حکیم میں جبکہ ہر چیز کا بیان ہے (۱۶: ۸۹) تو اس میں عشق کا بیان بھی ہے یا نہیں؟

سوال۔۲: یہ ہے کہ بہشت میں کوئی شوہر اور اس کی بیوی کس طرح عمر میں ہم سن ہوتے ہیں؟

جواب: اوّل: بہ اعتبارِ ازل تمام ارواح زمان سے ماورا اور یکسان ہیں اور ان میں کوئی تقدیم و تاخیر نہیں۔

دوم: آدمؑ یا نفسِ واحدہ سے تمام روحیں ایک ساتھ پیدا ہوئیں ہیں۔

سوم: بہشت کی خلقِ جدید میں میاں بیوی کی عمر ایک جیسی ہوتی ہے۔

سوال۔۳: اوپر دو سوال ہوگئے، اب تیسرا سوال ہے کہ آیا بہشت میں حدودِ دین ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو وہ کن مثالوں میں ہیں؟

جواب: شوہراور بیوی کی مثالوں میں ہیں، آپ بزرگانِ دین کی کتابوں میں حدودِ دین کی تاویل کو غور سے پڑھیں، آپ بہشت کی صرف ظاہری

 

۱۸۸

 

شادی کو مانتے ہوئے علمی شادی کو نظرانداز نہیں کرسکتے ہیں، علمی شادی سے کسی بہشتی قوم کو تعلیم دینا مراد ہے جس کی عقلی لذّت بڑی زبردست ہوسکتی ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

یک شنبہ ۳؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۱۸۹

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۶

 

سوال۔۱: حور کے لفظی معنی کیا ہیں؟ اور اس کی تاویل کیا ہے؟

جواب:۔ حور = جنّت کی لطیف عورتیں = جنّت کی پری عورتیں، جو حسن و جمال میں بے مثال ہیں۔

تاویل: جنّت میں کسی قوم پر علمی بادشاہی، اس قوم کا اپنے علمی بادشاہ سے عشق و محبّت، اور دونوں طرف کی لذت اور خوشی و شادمانی، یہ جنت کی پری عورتوں سے شادی کرنے کی تاویل ہے۔

سوال۔۲: اس حقیقت پر دلیل کیا ہے کہ بہشت میں دنیا کے تمام لوگ موجود ہوں گے، جن میں سے اکثر لوگ رعیت کے طور پر ہوں گے، جن پر وہ خوش نصیب لوگ بادشاہ مقرر ہونگے جو علم الیقین رکھتے ہیں؟

جواب:- اس کی بہت سی دلیلیں ہیں، منجملہ ایک بہت بڑی روشن دلیل یہ ہے کہ بہشت کا سارا نظام ملکِ کبیر = بہت بڑی بادشاہی (۷۶: ۲۰) کے تحت ہے، یعنی اس میں ایک شاہنشاہ ہے جو مظہرِ نورِ خدا ہے اور اس کے تحت مختلف درجات میں بہت سے سلاطین ہیں، اور ان کے تحت بہت سے حکام بھی ہیں، یہ بیان اس ارشادِ نبوّی کے مطابق ہے، جس میں حضورِ پاکؐ نے بنی عبدالمطلب کو اطاعتِ رسولؐ کی دعوت دی تھی،

 

۱۹۰

 

بحوالۂ دعائم الاسلام، جلدِ اوّل، پس اگر بہشت میں سلاطین ہیں تو ان کے لئے رعایا کا ہونا لازمی بات ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۴؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۱۹۱

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۷

 

سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ نے فرمایا: ترجمہ: تم میں سے ہر ایک راعی = چرواہا = سردار یعنی بحدِّ قوّت بادشاہ ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ اس کی وضاحت کیا ہے؟

جواب:- ہر مسلمان = مومن بحدِّ قوّت بہشت کا ایک بادشاہ = سلطان ہے، پس اگر اس نے خدا کے عطا کردہ وسائل سے کام لیکر اپنی روحانی سلطنت کو حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں نہیں لایا، اور اپنی رعیت کو ضائع کردیا، تو قیامت میں اس سے پوچھ گچھ ہوگی، پھر یہاں سے یہ حقیقت یقینی ہوگئی کہ بہشت میں مومن کی بادشاہی ممکن ہے۔

آنحضرتؐ نے فرمایا ہے: اے بنی عبدالمطلب ! میری اطاعت کرو تاکہ تم زمین (یعنی بہشت) کے بادشاہ اور حاکم ہو سکو (کتابِ دعائم، عربی ص۔۱۵، سطر آخری) ایسے سلاطین حضرت موسٰی کے مومنین میں سے بھی ہوئے تھے (۰۵: ۲۰) اگر تم نے اپنے عالمِ شخصی کو فتح کر لیا تو اسی کے ساتھ ساتھ کائنات بھی تمہارے لئے مسخر ہوگئی، اب بفضلِ خدا تمہارا دینی کام ہر طرح سے مکمل ہوگیا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۴؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۱۹۲

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۸

 

سوال۔ ۱: حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ = خیموں میں ٹھہرائی ہوئی حوریں (۵۵: ۷۲) اس آیت کی تاویل کیا ہے؟

جواب:۔ ان حوروں سے حظیرۂ قدس کے خزانۂ غیب کے اسرار مراد ہیں، جو جدا جدا اوقات میں گوہرِ عقل کی صورت میں ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔

لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلاَ جَانٌّ = وہ ایسی اچھوتی حوریں ہیں کہ ان کے شوہروں سے پہلے نہ کسی انسان نے ان کو چھوا ہے اور نہ کسی جن نے (۵۵: ۷۴) یعنی یہ اسرارِ غیب ایسے اچھوتے، ناشنیدہ اور نادیدہ ہیں کہ ان کو نہ تو کوئی اہلِ ظاہر جانتا ہے اور نہ ہی کوئی اہلِ باطن، اس آیت کے ظاہر میں بھی ایک بڑا راز پوشیدہ ہے۔

سوال۔ ۲: قرآنِ حکیم میں لفظِ حور (جمع) ہے اور واحد (حورا) نہیں، روح ہے ارواح نہیں، نور ہے انوار نہیں، غلمان ہے غلام نہیں، اس میں کیا حکمت ہے؟

جواب:- اس میں بہت سی حکمتیں ہیں، مثلاً لفظِ حور جمع ہے، اور بہشت میں جس

 

۱۹۳

 

طرح اللہ تعالیٰ کی رحمتِ بے پایان ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی نعمتوں کی فراوانی کا ذکر ہو، جبکہ اس کی نعمتوں کا کوئی شمار ہی نہیں، ایک ہی روح میں سب روحیں رہتی ہیں، نور اگرچہ ایک ہے مگر اس میں بہت سے انوار ہیں، غلمان ایک بھی ہے اور سب بھی ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۴؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۱۹۴

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۹

 

سوال۔۱: جہاد کی کتنی قسمیں ہیں اور وہ کیا کیا ہیں؟

جواب: – جہاد کی دو قسمیں ہیں: ایک جہادِ اصغر اور دوسرا جہادِ اکبر، جو اپنے نفس کے خلاف ہے جہاد ہے، جہاد کی یہ دونوں قسمیں حدیثِ شریف سے ثابت ہیں، جہادِ اصغر ظاہری اور اس میں شہادت فوری ہے، جس میں ثواب ضرور ہے مگر مشاہدات باطنی کے لئے کوئی موقع نہیں ، جبکہ جہادِ اکبر ایک بہت بڑا طویل تجرباتی عمل ہے، جس کے سلسلے میں ہر ضروری معرفت حاصل ہوجاتی، پس سورۂ محمدؐ (۴۷: ۰۴ تا ۰۶) کا ارشادِ مبارک شہیدانِ جہادِ اکبر کی شان میں، جن کو اللہ تعالیٰ علمی بہشت کی معرفت عطا فرماتا ہے۔

سوال۔ ۲: علمی بہشت سے کیا مراد ہے؟

جواب:- قرآن و حدیث میں جس جنت کا ذکر فرمایا گیا، اس کی ہر ہر نعمت کے پس منظر میں ایک علمی نعمت پوشیدہ ہے، لہٰذا یہ کہنا بجا ہے کہ بہشت سرتاسر علمی ہے، اور یہ بہشت کی سب سے اعلیٰ تعریف ہے، کیونکہ صرف خدا ہی علم سے برتر ہے اور باقی تمام چیزیں علم کے تحت ہیں، پس بہشت کی تمامتر نعمتیں علمی ہیں، اور اگر انسانی خواہشات کے مطابق کمتر

 

۱۹۵

 

نعمتیں بھی ہیں تو وہ بھی علم کی بادشاہی کے تحت ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۵؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۱۹۶

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۱۰

 

سوال۔۱: سورۂ قمر کے آخر (۵۴ :۵۴ تا ۵۵) میں ارشاد ہے:

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ  فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ۔

ترجمہ: پرہیزگاران یقیناً باغوں اور نہروں میں ہونگے سچی (صدق کی) نشست میں بڑے ذی اقتدار بادشاہ کے پاس۔ اس ارشاد کی تاویل کیا ہے؟

جواب:۔ جو مومنین حضرتِ ربّ العزۃ کے پاک و پاکیزہ معیار کے مطابق حقیقی معنوں میں متقی ہیں، وہ بہشت کے باغوں = اسمائے عظام، کلماتِ تامّات اور انوارِ تائیداتِ حدودِ علوی میں ہوں گے، صد ق کی جگہ = حظیرۂ قدس میں، بڑی قدرت والے بادشاہ کے پاس یعنی کبھی غریقِ نور اور کبھی قریبِ نور۔

سوال۔۲: کیا اسمائے بزرگِ خدا اور کلماتِ تامّات بہشت کے باغات ہیں؟

سوال۔ ۳: آیا عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اور اساس کے انوار نہروں کی طرح جاری و ساری ہیں؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل ۵؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۱۹۷

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۱۱

 

بہشت کی انتہائی عجیب و غریب نعمتیں:

پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لئے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی شخص کو خبر نہیں (۳۲: ۱۷) یعنی اگرچہ بہشت پر کامل یقین رکھنے کی حد تک معرفت تو ہوسکتی ہے، لیکن اس کے تمام عجائب و غرائب کا احاطہ ممکن ہی نہیں، پس بہشت کی نعمتیں بے پایان و بے قیاس ہیں۔

اور یہاں بطورِ خاص ان نعمتوں کا ذکر ہے جن سے آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے، ممکن ہے کہ یہ نورانی تجلّیات کی گوناگون نعمتیں ہوں کہ خدا جنّت میں بہت سی پسندیدہ صورتوں میں دیدار دے سکتا ہے، اور اس کی ایک بہت بڑی دلیل ہے، وہ یہ کہ جو بھی بہشت میں داخل ہو جاتا ہے وہ اپنے باپ آدمؑ کی صورت پر ہوجاتا ہے، اور آدمؑ رحمان کی صورت پر پیدا کیا گیا تھا، پس ممکن ہے کہ خدا تم کو اس شخص کی صورت میں دیدار دے جس کو تم پسند کرتے ہو، کیونکہ وہ بہشت میں ہے اور اپنے باپ آدمؑ کی صورت پر، اور آدمؑ رحمان کی صورت پر تھا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۵؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۱۹۸

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۱۲

 

سوال۔۱: بہشت میں کتنی قسم کی نعمتیں ہیں؟

جواب:- انسان کی ہستی تین چیزوں کا مجموعہ ہے، وہ تین چیزیں آج جسمِ کثیف، روح اور عقل ہیں، کل بہشت میں بھی یہی بات ہے، مگر وہاں جسمِ کثیف کی جگہ جسمِ لطیف ہوگا، پس بہشت میں تین قسم کی نعمتیں ہوں گی: لطیف جسمانی، روحانی اور عقلی۔

یاد رہے کہ بہت سے لوگ صرف جسمِ کثیف ہی کو جانتے ہیں مگر جسمِ لطیف کو نہیں پہچانتے ہیں، جس کی وجہ سے قرآن میں بہشت کی اکثر نعمتوں کی مثال اس دنیا کی چیزوں سے دی گئی ہے، حالانکہ ہر ایسی چیز تاویلاً کوئی لطیف شیٔ ہے، جیسے ارشاد ہے کہ بہشت میں شراب ہے، دانا جانتا ہے کہ یہ عشقِ سماوی کی مثال ہے جو دنیا کی شراب کے مقابلے میں انتہائی اعلیٰ و ارفع، بیحد لذیذ اور بہت ہی پاک و پاکیزہ ہے، اگر بہشت میں یہی مادّی چیزیں ہوتیں تو پھر بہشت اور دنیا کے کسی امیر ملک کے درمیان کیا فرق ہوتا؟ مگر حقیقت ایسی نہیں ہے۔

سوال۔ ۲: سورۂ واقعہ (۵۶: ۸۸ تا ۸۹): فَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ  فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّةُ نَعِيمٍ۔

 

۱۹۹

 

ترجمہ و تاویل؟

جواب:- ترجمہ و تاویل: پس اگر وہ مقربین میں سے ہے تو اس کیلئے پیشگی انعام مشاہدۂ روح، تجربۂ خوشبو اور نعمتوں سے بھری ہوئی جنّت کی معرفت ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۶؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۰۰

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۱۳

 

سوال۔ آیا بہشت کی تمام نعمتوں کے باب (بارے) میں کوئی معلوماتی کلّیہ بھی ہے؟

جواب:۔ جی ہاں، بہت سے کلّیے ہیں: پہلا کلّیہ امامِ مبینؑ ہے، یعنی اگر تم کو امامِ مبینؑ مل جاتا ہے تو بہشت کی تمام نعمتیں اور سب کچھ مل سکتا ہے، کیونکہ امامِ مبینؑ میں کائناتی بہشت کی ہر چیز موجود ہے، دوسرا کلّیہ قانونِ خزائن (۱۵: ۲۱) ہے، اس کا تعلق بھی امامِ مبینؑ سے ہے، تیسرا کلّیہ قانونِ تسخیر (۳۱: ۲۰) ہے، جس کے مطابق اللہ نے تم کو سب کچھ دے رکھا ہے، اور اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں، قانونِ تسخیر پر کئی آیات ہیں، چوتھا کلّیہ  اݹ منݳسن اپݵ ہے ، یعنی کوئی نعمت غیر ممکن نہیں، وغیرہ وغیرہ ۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۶؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۰۱

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۱۴

 

سوال۔۱: کیا بہشت کائنات کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے (۵۷: ۲۱؛  ۰۳: ۱۳۳) مگر روحانی قیامت کے وقت اسے نزدیک لائی جاتی ہے؟

سوال۔ ۲: بہشت کس طرح اور کہاں نزدیک لائی جاتی ہے؟

جواب:۔ قیامت کے دن کائنات (جس میں بہشت ہے) لپیٹ کر متقین کے عالمِ شخصی میں رکھ دی جاتی ہے (۲۶: ۹۰؛  ۵۰: ۳۱)۔

سوال۔ ۳: کائنات امامِ مبین میں لپیٹی جاتی ہے؟ یا متقین کے عالمِ شخصی میں؟

جواب: روحانی قیامت میں امامِ مبین کا نور متقین کے عالمِ شخصی میں طلوع ہو جاتا ہے۔

سوال۔ ۴: آیا کائنات منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی میں لپیٹ لی جاتی ہے؟

جواب: ۔ جی ہاں، اور حظیرۂ قدس میں بھی، اور یہی معجزہ تسخیرِ کائنات بھی ہے۔

سوال۔ ۵: کیا ایسی قیامت میں ساکنانِ ارض و سما کو زبردستی سے خدا کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے؟

جواب:۔ جی ہاں، جی ہاں۔

سوال۔ ۶: سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں ارشاد ہے:وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا = اللہ تعالیٰ ہی کو

 

۲۰۲

 

ارض و سما کے ساکنان خوشی سے یا زبردستی سے سجدہ کرتے ہیں۔ اس میں کیا حکمت ہے؟

سوال۔ ۷: آیا روحانی قیامت ہی اللہ کی وہ بہت بڑی زبردست دعوت ہے جس سے آسمان و زمین کی کوئی بھی مخلوق انکار نہیں کرسکتی ہے؟

جواب:۔ جی ہاں، یہ بات بالکل درست اور یقینی حقیقت ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پنج شنبہ  ۷؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۰۳

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۱۵

 

سوال۔ ۱: بہشت کی معرفت کتنے درجوں میں ہے؟ اور ان درجوں کے کیا نام ہیں؟

جواب:۔ ہر معرفت کے تین درجات ہیں: علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین۔

سوال۔ ۲: خداوندِ قادرِ مطلق نے تمام چیزیں امامِ مبینؑ میں گھیر کر اور گن کر رکھی ہیں، کیا بہشت بھی امام مبینؑ میں ہے؟

جواب:۔ جی ہاں، یقیناً بہشت بھی امامِ مبینؑ میں ہے، لہٰذا امام شناسی ظاہراً و باطناً بہشت کی معرفت ہے۔

سوال۔۳: اللہ تعالیٰ کس طرح تمام حقائق و معارف کو امامِ مبینؑ میں گھیرتا ہے اور کس عدد میں گنتا ہے؟

جواب:۔ کائنات کی بے شمار اشیا کو کلماتِ تامّات میں محدود کرتا ہے پھر ان کو کلمۂ کُنۡ میں بھی اور جوہر یعنی گوہر میں بھی ایک کر کے عددِ واحد میں شمار کرتا ہے۔

سوال۔ ۴: امامِ مبینؑ کا جنّت سے کیا رشتہ ہے؟

جواب:۔ وہ بہشت کی جان = روح ہے، زندہ دارالسّلام ہے، یا بہشتِ مجسم ہے، وہ نورِ خلدِ برین ہے۔

 

۲۰۴

 

سوال۔ ۵: روح الایمان اور بہشت کا کیا رشتہ ہے؟

جواب:۔ روح الایمان خود بہشت میں مست ہے اور اس کا سایہ زمین پر چلتا پھرتا ہے، جیسا کہ یہ شعر ہے:۔

تن چو سایہ بر زمین و جانِ پاکِ عاشقان

در بہشتِ عدن تجری تحتھا الانھار مست   (مولانا رومی)

ترجمہ: جسم سائے کی طرح زمین پر ہے اور عاشقوں کی پاک روح اس جنتِ عدن میں مست ہے جس کے تحت نہریں بہتی رہتی ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پنج شنبہ  ۷؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۰۵

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۱۶

 

سوال۔ ۱: ہر عاشقِ صادق دیدارِ اقدس کے باب میں پوچھنا اور جاننا چاہتا ہے، کیا آپ قرآن و حدیث اور علمِ روحانی کی روشنی میں دیدارِ نورِ پاک کا کوئی بیان کرسکتے ہیں؟

جواب:۔ ان شاء اللہ، حدیثِ شریف میں ہے کہ ہر چیز کی ایک سردار ہوتی ہے، پس جنّت کی تمام نعمتوں کی سردار رؤیت = ملاقات = دیدار= لقا ہے، جب آپ اس حقیقت پر جان و دل سے یقین رکھتے ہیں کہ امامِ مبینؑ میں تمام اسرارِ الٰہی موجود ہیں تو اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ خداوندِ تعالیٰ کا دیدار و معرفت بھی امامؑ ہی میں موجود ہے۔

سوال۔ ۲: ہم کس طرح آئینۂ امامِ مبینؑ میں بہشت اور دیدارِ الٰہی کی سب سے بڑی نعمت کو دیکھ سکتے ہیں؟

جواب:۔ دینِ حق میں ہدایت کی کوئی کمی ہرگز نہیں، لہٰذا تم حقیقی معنوں میں خدا، رسولؐ، اور امامِ زمانؑ کی اطاعت کرو، اور امامِ زمانؑ کے عشق کا سہارا لو، اور بتدریج آگے بڑھو کامیابی ہوگی، یاد رکھو! قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ دیدار کا ذکر ہے، کیونکہ قرآن علمی بہشت کا معجزہ ہے، اس میں تم جو نعمت چاہو وہی سامنے آئے گی۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۸؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۰۶

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۱۷

 

سوال۔ ۱: آیا صراطِ مستقیم کے آغاز سے لیکر منزلِ مقصود تک خدا جہاں جہاں چاہے اپنے سالکِ عاشق کو دیدار دے سکتا ہے؟ جبکہ قرآنی ارشاد ہے کہ حضرتِ ربّ صراطِ مستقیم پر ہے (۱۱: ۵۶)؟

سوال۔۲: آیا اللہ کے ناموں میں سے ایک نام النور ہے؟

جواب:۔ جی ہاں۔

سوال۔۳: کیا اس میں دکھانے اور دیکھنے (دیدار) کے معنی نہیں ہیں؟

جواب:۔ کیوں نہیں۔

سوال۔ ۴: کیا خدا کا ایک اسم الظاھر نہیں ہے؟

جواب:۔ کیوں نہیں، اس میں بھی دیدار کے معنی ہیں۔

سوال۔ ۵: کیا اللہ کا ایک اسمِ صفت الشھید نہیں ہے؟

جواب:۔ جی ہاں، الشھید بھی خدا کے ناموں میں ہے، جس کے معنی ہیں:

حاضر= گواہ، پس اس میں بھی رؤیت = دیدار کے معنی ہیں۔

سوال۔ ۶: آیا قرآن میں جہاں جہاں نور کی تعریف آئی ہے وہاں دیدار کا اشارہ ہے؟

جواب: جی ہاں، جی ہاں۔

 

۲۰۷

 

سوال۔ ۷: کیا سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا عظیم فرمان موجود نہیں ہے، جس میں غور کرنے سے ساری مایوسیاں ختم ہوجاتی ہیں، اور اس میں بے شمار نعمتوں کی ایک طوفانی بشارت ملتی ہے؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۸؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۰۸

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۱۸

 

سوال۔ ۱: سورۂ قیامہ (۷۵: ۲۲ تا ۲۳) میں ارشاد ہے:  وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ۔

ترجمہ: اس روز کچھ چہرے تروتازہ ہونگے، اپنے ربّ کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ اس کی کیا تاویل ہے؟ اور یہ پاک دیدار کس مقام کا ہے؟

جواب:۔ یہ آیۂ مبارکہ انتہائی بلندی کے دیدارِ اقدس سے متعلق ہے، کیونکہ کلام اللہ نے جن چہروں کو تروتازہ قرار دیا، وہ ازل ہی کی طرح صورتِ رحمان ہوچکے ہیں، بالفاظِ دیگر فنا فی اللہ ہوگئے ہیں، یہ مقامِ حظیرۂ قدس = عالمِ وحدت ہے، جہاں یک حقیقت ہے، فی الحال یہ تاویل کافی ہے۔

سوال۔ ۲: کیا فنا فی الامامؑ فنا فی الرسولؐ بھی ہے اور فنا فی اللہ بھی؟

جواب:۔ جی ہاں، کیونکہ امامِ مبینؑ میں تمام اعلیٰ حقائق و معارف موجود ہیں۔

سوال۔ ۳: آیا ہم بیانِ بالا کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ صورتِ رحمان وہ خزانۂ بہشت یا خزانۂ غیب ہے، جہاں سے انسانی صورتیں عالمِ انسانی میں آتی رہتی ہیں؟ اور تمام لوگوں میں سے جو جو فنا فی الامامؑ ہو جاتے ہیں وہ بہشت میں داخل ہو کرصورتِ رحمان پر ہو کر اپنی اصل سے واصل ہو جاتے ہیں؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۸؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۰۹

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۱۹

 

سوال۔۱: سورۂ قرقان (۲۵) کی آیت ۷۴ بحوالۂ کتابِ دعائم، جلدِ اوّل، عربی، ص ۲۴-۲۵، أئمّۂ آلِ محمدؐ کی شان میں ہے، کیا آپ اس کا ترجمہ اور تاویلی حکمت بیان کریں گے؟

جواب:۔ ان شاء اللہ، ترجمہ: اور جو لوگ (أئمّۂ طاہرین) دعا مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی ذرّیت (ذرّاتِ روح) سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا یہ آیۂ کریمہ أئمّۂ آلِ محمدؐ کی شان میں نازل ہوئی ہے، جس میں حضراتِ أئمّہ علیھم السّلام کے فرزندانِ جسمانی اور فرزندانِ روحانی کے حق میں دعا ہے کہ وہ اللہ کی توفیق سے اپنے باپ امامؑ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوسکیں!

سوال۔ ۲: امام علیہ السلام کی انکھوں کی ٹھنڈک فرزندِ جسمانی ہے یا فرزندِ روحانی؟

جواب:۔ دونوں کے لئے یکسان دعا ہے، اگر مانا جائے کہ ستر ہزار کائناتی بہشتیں ہیں تو پھر غور کرنا ہوگا، اور آیتِ استخلاف (۲۴: ۵۵) میں بھی چشمِ بصیرت سے دیکھنا ہوگا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ہفتہ  ۹؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۱۰

 

بہشت سے متعلق سوالات

قسط:۲۰

 

سوال۔۱: قرآنِ حکیم سورۂ نحل (۱۶: ۹۷) کا مفہومِ حکمت ہے کہ حقیقی مومن یا مومنہ کی موت اختیاری ہو یا اضطراری، بہر حال وہ حیاتِ طیبہ (لطیف ہستی = جسمِ لطیف) میں زندہ ہو جائیں گے۔ آیا حیاتِ طیبہ (پاکیزہ زندگی) مومنین و مومنات کی بہشت کی زندگی ہے؟ جواب: جی ہاں۔

سوال۔ ۲: اگر بہشت میں جسمِ لطیف ہے تو اس کی غذا کیا ہے؟

جواب:۔ بہشت میں جسمِ لطیف کی غذا خوشبوئیں ہیں۔

سوال۔۳: جب سورۂ محمد (۴۷: ۰۶) کے مطابق دنیا ہی میں بہشت کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے تو پھر کیا جسمِ لطیف اور جنّت کی خوشبو کی معرفت ممکن نہیں ہے؟

جواب: ۔ کیوں نہیں، اہلِ معرفت نے جسمِ لطیف کو دیکھا اور پہچانا ہے، اور بہشت کی خوشبوؤں کا تجربہ کیا ہے۔

سوال۔ ۴: معرفت سب سے پہلے انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کو حاصل ہوتی ہے، کیا قرآنِ پاک میں غذائے لطیف کا کوئی اشارہ موجود ہے۔

جواب: جی ہاں، سورۂ مومنون (۲۳: ۵۱) میں یہ ذکر موجود ہے کہ غذائے لطیف کا تجربہ سب سے پہلے انبیا علیھم السلام کو ہوتا ہے، شاید میں نے دو یا ایک جگہ اس معجزے کا ذکر کیا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

یک شنبہ  ۱۰ ؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۱۱

 

نعتِ حضرتِ خاتم الانبیاءؐ

مخمس

 

وہ پیغمبرِ خاصِ خدا           وہ بادشاہِ انبیاء

وہ نورِ پاکِ اولیا ٔ            یعنی محمد مصطفا ٔ

صلوا علیہ وآلہٖ

وہ رحمۃٌ لِلعالمِین            وہ ھادیٔ دنیا و دین

وہ سب حسینوں سے حسین            وہ مہ جبین وہ نازنین

صلوا علیہ وآلہٖ

خیر البشر ان کا لقب             اور ھاشِمی ان کا نسب

شاہِ عجم فخرِ عرب            یعنی محمد مصطفا ٔ

صلوا علیہ وآلہٖ

قرآن کونِ معجزات             ہے چشمۂ آبِ حیات

تیری ہے ساری کائنات            اے سیدِ عالی صفات!

صلوا علیہ وآلہٖ

اے تاجدارِ دوجہان!            تو نور کا ہے آسمان

ہر لحظہ تو ہے ضوفشان            یعنی محمد مصطفا ٔ

صلوا علیہ وآلہٖ

 

۲۱۲

 

جانِ نصیرِؔ بے نوا                  تیرے غلاموں سے فدا

محبوبِ ذاتِ کبریا             یعنی محمد مصطفا ٔ

صلوا علیہ وآلہٖ

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

یک شنبہ  ۱۰؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۱۳

 

آخری چلّہ کے ان مٹ نقوش اور فیوض و برکات

قسط:۱

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْمِ۔ اللهم إني أسألك بأسمائك الحسنى۔

اے اللہ! میں تیرے اسمائے عظام = الاسماء الحسنٰی یعنی اسمِ حی و ناطق کی حرمت سے تجھ سے سوال کرتا ہوں = بھیک مانگتا ہوں کہ تو مجھے توفیق و ہمت عطا فرما تا کہ میں = ہم تیرے بے شمار احسانات کا شکر کرتے رہیں!

اے عالم الغیب! تجھ سے احوالِ قلوب کب پوشیدہ ہیں؟ اے کاش! ہمارا قلبِ ضعیف و زار شکرگزاری میں بار بار روتا رہتا! ہماری جان روتی رہتی! اس کے لئے کیا ہوسکتا ہے؟

میرا سلام ہو اس ملک پر جس میں یہ بندہ کھویا ہوا مسافر تھا! خود گم ہوتے ہوتے ص کا وہ علم ملا جس کا اشارہ فرمایا گیا تھا، یہ واقعہ بالکل ایسا ہے جیسے ایک غریب مسافرکسی بہت بڑے بیابان میں گم ہوگیا، وہ وہاں سے نکلنے کے لئے تگ و دو کررہا تھا کہ یکایک ایک بہت بڑا خزانہ مل گیا، اس میں سب سے عجیب بات یہ ہے کہ وہ عالمِ شخصی میں تھا، پھر میں اخری چلّہ کو کیوں یاد نہ کروں!

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۱۶؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۱۴

 

آخری چلّہ کے ان مٹ نقوش اور فیوض و برکات

قسط:۲

 

یہ چلّہ میرے اپنے پروگرام کے تحت نہ تھا، بلکہ یہ ایک قدرتی آزمائش تھی جو تقریباً چالیس دن پر محیط تھی، جس کے جواہرِ گرانمایہ میرے دائرۂ نظم و نثر میں بکھرے ہوئے ہیں، اگر مجھے اس چلّہ کے انتہائی عجیب و غریب تجربات حاصل نہ ہوتے تو میں روحانی سائنس کا نام ہی نہ لیتا، مگر ایسی کوئی بات نہیں، ان شاء اللہ اب عنقریب کسی نہ کسی صورت میں روحانی سائنس کا ظہور ہوگا۔

قرآنِ حکیم کی پیش گوئی کے مطابق روحانی سائنس کا زمانہ آچکا ہے، یہ حقیقت ہے کہ یو۔ایف۔اوز زمانۂ قیامت کے معجزات میں سے ہیں، اگر یہ سچ مچ معجزہ ہیں تو یہ تاویل کے لئے سب کچھ ہیں۔

قانونِ فطرت وہ ہے جو ایک خاص مدت میں ریشم کے کیڑے کو پروانہ بنا دیتا ہے، مگر وہ مدت مجھے معلوم نہیں، لیکن روحانی سائنس کی روشنی میں آج آپکو قرآن اور اسلام کا ایک عظیم راز بتا دیتا ہوں، وہ یہ ہے کہ حضرتِ موسٰی نے کوہِ طور پر ۴۰ دن تک دنیا کی کوئی غذا نہیں کھائی، مگر ان کو ہر قسم کی خوشبو کی صورت میں غذائے لطیف سونگھنے کو ملتی رہتی تھی، جس کے نتیجے میں آپ کا جسمِ لطیف مکمل ہو کر آپ کے اندر سے ظاہر ہوا، اسکا آسان نام تو جسمِ لطیف ہی ہے، مگر اور بھی بہت سے نام ہیں، کیونکہ اس کے بہت سے ظہورات ہیں، انبیاء علیھم السّلام کا نمونۂ عمل سب کے لئے ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۱۶؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۱۵

 

آخری چلّہ کے ان مٹ نقوش اور فیوض و برکات

قسط:۳

 

اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین کے فضل و کرم سے اس بندۂ ناچیز کو اس چلّۂ مبارک سے روحانی سائنس کی بہت سی معلومات حاصل ہوئیں، خزائنِ الٰہی (۱۵: ۲۱) میں کیا نہیں سب کچھ ہے، مگر ہر چیز کے آنے کا ایک خاص وقت بھی ہے شرائط بھی ہیں، اور مقدار بھی، پس خدا کے خزانے میں غذائے لطیف کی کوئی کمی نہیں، مگر جہادِ اکبر میں کامیاب ہوجانا بہت مشکل ہے۔

اگر خدا خود تقریباً چالیس دن تک میری خوراک نہ رکواتا، یا بہت محدود نہ کرواتا، تو خدا کی قسم میں اس چلّہ کے فیوض و برکات سے بالکل محروم رہ جاتا، کیونکہ میں اپنی مقررہ غذا سے ایک لقمہ بھی کم کرنے والا آدمی نہ تھا، لیکن یہ میرے مالک کی زبردست مہربانی تھی کہ اس نے تقریباً ۴۰ دن تک لطیف غذائیں بھیجیں، یعنی طرح طرح کی خوشبوئیں، اس میں بھی اسرار اندر اسرار ہیں۔

یوں ہوتا تھا کہ روحانی مجھ سے پوچھ لیتا کہ بولو کس چیز کی خوشبو چاہتے ہو، ایسا لگتا تھا کہ برقی ذرّات سے بھی چھوٹے چھوٹے جنّات تھے، وہ بہت دور سے خوشبوئیں لانے کی خدمت انجام دیتے تھے، لیکن اس کا اصل راز کچھ اور ہوسکتا ہے، میرا خیال ہے یہ بہشت کی ابداعی قوّت ہوسکتی ہے۔

یہاں سے اس سوال کا جواب بھی خود از خود مل جاتا ہے کہ جنّ وپری جو

 

۲۱۶

 

اجسامِ لطیف ہیں ان کی غذا کیا ہے؟ ان کی غذا خوشبو ہے، خوشبو دراصل خزانۂ غیب میں ہے جو کلمۂ کُنۡ کے تحت ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۱۶؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۱۷

 

آخری چلّہ کے ان مٹ نقوش اور فیوض و برکات

قسط:۴

 

سب سے پہلے اس قانون کو قبول کرنا پڑے گا کہ ہر چیز کی روح ہوتی ہے، پس ہر پھول، پھل، جڑی بوٹی، اور خوشبودار درختوں میں ایک خاص غذائی روح ہے، یا ایک جوہر= ست ہے، الغرض یہ روحیں حیوانی نہیں بلکہ نباتاتی ہیں، لہٰذا یہ پاکیزہ ہیں۔

اس غذائے لطیف کا معجزہ اور تجربہ سب سے پہلے انبیاء علیھم السّلام کو ہوتا ہے، سورۂ مومنون (۲۳: ۵۱) میں غور سے دیکھیں: الطیبٰت = پاکیزہ چیزیں، یہ غذاہائے لطیف ہیں، اللہ نے اپنے پیغمبروں پر اس معجزے کا احسان فرمایا تھا، اس حوالے میں وہی ذکر ہے، میں نے میزان الحقائق میں اس کا ذکر کیا ہے۔

انہی قیدِ تنہائی کے ایام میں ایک دفعہ رات کے پہلے حصّے میں حضرتِ قائم (روحی فداہٗ) کا معجزاتی ظہور ہوا، کائناتی نور کے لئے در و دیوار جیسی چیزوں کی کیا رکاوٹ ہوسکتی ہے، حضرت کے ایک دستِ مبارک میں سنگین کے ساتھ رائفل تھی اور دوسرے میں ٹارچ، یہ میرے لئے اشارہ تھا کہ یہی وہ امامِ آخرین ہے جو صاحبِ حربِ قیامت بھی ہے اور حاملِ نور بھی، اور اس بندۂ ہیچ (nothing) کی کیا حالت تھی؟ مردۂ زندہ نما، یہ بات سچ ہے، کیونکہ ایسے میں عاشق معشوق میں فنا اور منتقل ہو جاتا ہے، میں آئندہ اس کی تفصیل بتاؤں گا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۱۳؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۱۸

 

آخری چلّہ کے ان مٹ نقوش اور فیوض و برکات

قسط:۵

 

قرآنِ حکیم کے زبردست حکمت والے کلّیات میں سے ایک کلّیہ یہ بھی ہے کہ ہر چیز ایک دائرے پر گردش کر رہی ہے، چنانچہ ہم نے بڑے بڑے کائناتی دائرے تو ابھی نہیں دیکھے، مگر بہت سے چھوٹے چھوٹے دائروں کو خوب غور سے دیکھا، مثلاً دائرۂ دانۂ گندم کو، دائرۂ مرغی اور انڈے کو، دائرۂ انسان اور نطفے کو، اور دائرۂ پروانۂ ریشم کو، ان تمام دائروں میں جہاں روح ہے (نباتی، حیوانی، انسانی) اس میں قانونِ غذا ایک جیسا نظرآتا ہے، وہ ہے غذا کی تبدیلی اور کمی و بیشی ۔

انسان کا مجرّد ذرّۂ روح سب سے پہلے خزینۃ الارواح سے پشتِ پدر میں آتا ہے، جہاں اس کو نطفے میں ڈال کر جرثومۂ حیات بنایا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ ایسے بے شمار جرثومے ہوتے ہیں، ان میں سے کوئی خوش نصیب جرثومۂ حیات رحمِ مادر میں پہنچ سکتا ہے، اور اس کے بہت سے ساتھی ناکام ہو کر ضائع ہو جاتے ہیں، اہلِ زمانہ کے لئے روحانی پیدائش بھی بالکل اسی طرح مشکل بلکہ ناممکن ہے، مگر اللہ وہ بادشاہ ہے جو ناممکن کو ممکن بناسکتا ہے۔

بات غذا کی تبدیلی سے متعلق ہے، پس سوال ہے کہ جرثومۂ حیات کی پرورش رحمِ مادر میں کس غذا سے ہوتی رہتی ہے؟ اور یہ بھی پوچھنا ہے کہ جب عورت

 

۲۱۹

 

کے شکم میں کوئی حمل ٹھہرتا ہے تو اس کا حیض وقتی طور پر بند ہوجاتا ہے، اسکی کیا وجہ ہے؟ آیا یہ بات درست ہے کہ یہ خون گندہ ہو جانے سےپہلے ہی جنین = پیٹ کے بچے کے جسم کا حصہ بن جاتا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۱۳؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۲۰

 

آخری چلّہ کے ان مٹ نقوش اور فیوض و برکات

قسط:۶

 

جن چھوٹے چھوٹے دائروں کا ذکر ہوا ان سب میں قدرتِ خدا کے عجائب و غرائب ضرور ہیں، پھر بھی بظاہر دائرۂ پروانۂ ریشم زیادہ حیرت انگیز لگتا ہے، کیونکہ وہ نصف دائرے میں کیڑا ہے اور نصفِ دیگر میں پروانہ = پرندہ ہے، تاہم آئیے ہم ایک بار پھر دائرۂ انسان کو خوب غور سے دیکھتے ہیں کہ یقیناً انسانی روح کا ذرۂ مجرّد خزینۃ الارواح سے پشتِ پدر میں آتا ہے، لیکن جاننا ہے کہ خزینۃ الارواح کیا ہے؟

جواب: نفسِ واحدہ = انسانِ کامل = آدمِ زمانؑ = امامِ مبینؑ۔

کیا امامؑ کے پاس جثۂ ابداعیہ نہیں ہے؟ کیا امامؑ فرشتۂ ارضی نہیں ہے؟ کیا امامؑ کا جسمِ لطیف نہیں ہے؟ کیا قصّۂ طالوتؑ کے مطابق امامؑ جسماً و علماً کائنات پر بسیط و محیط نہیں ہے؟ اگر ان جیسے تمام سوالات کا جواب نفی میں نہیں بلکہ اثبات میں ہے، تو پھر پروانۂ ریشم کے دائرے سے بھی زیادہ حیرت انگیز دائرہ انسانی دائرہ ہے، کیونکہ انسان ایسے امامؑ کا روحانی فرزند ہے جس کے پاس کل کائنات میں پرواز کرنیوالا نوری بدن (جثّۂ ابداعیہ) ہے، بالآخر فرزند کو باپ ہی کی طرح ہوجانا ہے، اور دائرے کی تاویلی حکمت یہی ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۱۳؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۲۱

 

آخری چلّہ کے ان مٹ نقوش اور فیوض و برکات

قسط:۷

 

اُطْلُبُوالْعِلْمَ وَلَوْ بِالصِّین = علم کو طلب کرو اگرچہ تمہیں اس کے لئے چین جانا پڑے۔ اس حدیثِ شریف میں بڑی دور رس حکمت ہوسکتی ہے، مَن کان لِلّٰہِ کان اللّٰہ لہ = جو بحقیقت خدا کا ہوجاتا ہے تو خدا بھی اسی کا ہوجاتا ہے، اگرچہ اس وقت حکمت کو نہیں سمجھا تھا، لیکن بعد میں سمجھ لیا کہ میرے صین جانے کا پروگرام زمانۂ ماضی ہی میں بن چکا تھا، الحمد لِلّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحْسانہِ۔

پس یہ حقیقت ہے کہ آخری چلّہ میں میرے لئے ان مٹ نقوش اور بےشمار نعمتیں تھیں، ہر چند کہ صرف خدا ہی نامۂ اعمال میں تمام چیزوں کو گھیر لیتا ہے، میں ایک انسان ہوں اور انسان بہت سے چیزیں بھول جاتا ہے، مگر خدا و رسولؐ بھول نہیں جاتے ہیں۔

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے ان ارشادات کو بار بار پڑھیں جو روحانی ترقی سے متعلق ہیں، تاکہ آپ کو یقین آئے کہ مومن جو مولا کا عاشق ہو وہ بہت ترقی کر سکتا ہے، وہ انبیاءؑ و اولیاءؑ کے پیچھے پیچھے چل کر بہت ترقی کرسکتا ہے، آپ قرآن کو حکمت کے ساتھ پڑھیں، اور انسان کی امکانی ترقی کو دیکھیں، ساتھ ہی ساتھ امامِ زمانؑ کی خصوصی ہدایات پر عمل کر کے دیکھیں۔

 

۲۲۲

 

آپ از خود کوئی چلّہ وغیرہ نہ کریں، آپ کی نجات جماعت خانہ ہی میں ہے، میرا چلّہ کوئی ظاہری چلّہ نہ تھا بلکہ یہ ایک آزمائش کا زمانہ تھا جس پر پردہ ڈالنے کی خاطر میں نے چلّہ کہا، اور اس کے عظیم معجزات کو حجاب میں رکھا، میرے لئے یہی طریقہ بہتر تھا، پھر بھی جو باتیں ممکن ہوں میں آپ کو بتاؤں گا، ان شاء اللّٰہ تعالیٰ۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۱۴؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۲۳

 

آخری چلّہ کے ان مٹ نقوش اور فیوض و برکات

قسط:۸

 

سوال۔ ۱: آپ روحانی سائنس کی روشنی میں ہم کو یہ بتائیں کہ جنّ، انسانِ لطیف، روحانی، مؤکل اور جسمِ لطیف میں کیا فرق ہے؟

جواب: ۔ یہ ایک ہی مخلوق کے چند نام ہیں، اس لئے کوئی فرق نہیں۔

سوال۔ ۲: آپ جنّ کے تذکرے سے بہت خوش ہوتے ہیں، آخر کیوں؟

جواب:۔ وہ مومن جنّ حدودِ دین میں سے ہوتا ہے، جو ہمارے اور آپ کے کاموں کو انجام دیتے رہتے ہیں۔

سوال۔ ۳: کیا آپ نے سورۂ رحمان کو غور سے نہیں پڑھا ہے؟ کیا اس سورہ کی حکمت سے یہ ظاہر نہیں ہے کہ اللہ کی تمام نعمتوں میں جنّ و انس ایک ساتھ ہیں؟

جواب: ۔ جی ہاں، اصلاً یہ ایک ہی مخلوق ہے، مگر لطیف و کثیف کا فرق ہے، پس یہ انسان ہی ہے جو کبھی کثیف و مرئی ہوجاتا ہے اور کبھی لطیف و غیر مرئی، پھر عجب نہیں کہ ان کے درمیان شادی بیاہ کا رشتہ بھی ہو۔

آپ بھول نہ جائیں کہ جنّ کا اصل ترجمہ پری ہے، یعنی جنّ = پری انسان کی ایک ترقی یافتہ قوم ہے جس کے مرد و زن دونوں بے حد حسین ہیں، کیونکہ لطیف اور خلقِ جدید ہیں، پس میں بفضلِ خدا جنّات کو پری قوم مانتا

 

۲۲۴

 

ہوں، اور میں ان کی معرفت رکھتا ہوں، الحمدلِلّٰہ۔

قرآنِ حکیم میں اسرارِ حکمت کی بڑی فراوانی ہے، اور اسرار کیلئے حجابات کا ہونا لازمی ہے، پس لفظِ جنّ اکثر حجاب کا کام دیتا ہے، ویسے بھی جنّ کے لفظی معنی پوشیدہ کے ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۱۴؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۲۵

 

آخری چلّہ کے ان مٹ نقوش اور فیوض و برکات

قسط:۹

 

سوال : آیا معجزات حیران کن ہوا کرتے ہیں؟

جواب: جی ہاں۔

سوال: معجزۂ خوشبو میں کس قسم کی حیرت تھی؟

جواب: اس میں یہ حیرانی تھی کہ یہ خوشبو دراصل کہاں سے آتی ہے! کیا اس کو جنّات کسی دور و دراز مقام سے لے کر آتے ہیں! یہ جنّات ذرّات کی طرح چھوٹے چھوٹے ! ہمارا تصوّر جنّات کے بارے میں کچھ اور تھا! ممکن ہے کہ صرف معجزۂ کُنۡ فیکون تھا، جس میں ارادۂ الٰہی سے چیزیں وجود میں آتی ہیں، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ معجزات عالمِ ذرّ کے تھے، کیونکہ عالمِ ذرّ میں سب کچھ ہے مگر ذرّات کی شکل میں، بہرحال معجزہ میں حیرت ہی حیرت ہوتی ہے۔ اور بعض معجزات زبردست جلال اور رعب والے ہوتے ہیں، جیسے صاحبِ جثّۂ ابداعیہ کا نورانی ظہور، حضرتِ مریم سلام اللہ علیھا کے پاس صاحبِ جثّۂ ابداعیہ تشریف فرما ہوا تھا، ان کو بڑی حیرت ہوئی تھی۔

حکمائے دین نے فرمایا ہے کہ معجزے کی تحلیل ممکن نہیں، کیونکہ یہ عقل سے ماورأ ہے، جبکہ یہ ابداعی چیز ہے یعنی معجزہ کلمۂ کن سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۱۵؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۲۶

 

آخری چلّہ کے ان مٹ نقوش اور فیوض و برکات

قسط:۱۰

 

اے نورِ عینِ من! قرآنِ حکیم کونِ معجزات =عالمِ معجزات ہے، اس پر یقین کرنا، اور سورۂ یاسین کو قلبِ قرآن مانتے ہوئے امامِ مبینؑ کی معرفت کیلئے سعیٔ بلیغ کرنا۔

اے عزیزان! ہر معجزہ پہلے ہوتا ہے مگر اس کی تاویلی حکمت بعد میں آتی ہے، یہی سبب ہے کہ حجتِ قائم اور حضرتِ قائم کے معجزات کی تاویلات بعد میں رفتہ رفتہ لکھی گئیں۔

اسی چلّہ کے دوران ایک دفعہ دیوار سے پشت لگا کر بیٹھا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ میرے اندر سے جسمِ لطیف عجیب طرح سے دیوار کو کراس کر رہا تھا، اسی چلّہ میں امامِ مبینؑ کے لاتعداد معجزات ہوئے، جن کو نامۂ اعمال والے فرشتوں نے نورانی مووی میں تفصیلاً ریکارڈ کیا ہوگا، ان شاء اللہ، آپ میری نورانی مووی کو بہشت میں آرام سے دیکھ سکیں گے۔

مجھ پر میرے تمام عزیزوں کا حق ہے، کیونکہ میں ان کی قربانی کا جانور ہوں، یہ قانون قرآن اور دینِ اسلام کا ہے، آپ قربانی کی تاویل کا اچھی طرح سے مطالعہ کریں، میں اپنے قول میں مطمئن ہوں، الحمد لِلّہ۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

مرکزِ علم و حکمت، لندن،  سنیچر  ۱۶؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۲۷

 

آخری چلّہ کے ان مٹ نقوش اور فیوض و برکات

قسط:۱۱

 

اے عزیزانِ من! نورانی مووی کی اصطلاح حق ہے جبکہ قرآن میں فکرِ جدید کے لئے حکم موجود ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی بھی عالم اپنے وقت میں آزادیٔ فکر کے ساتھ نہ کوئی ترجمۂ قرآن لکھ سکتا اور نہ کوئی تفسیر، آپ سوچیں یہ منطق کتنی درست اور مفید ہے، پس نامۂ اعمال = نورانی مووی = موویز= کتابِ ناطق وغیرہ کے الفاظ درست میں ، آخری چلّہ میں اور بھی بہت سے عجائب و غرائب کا مشاہدہ ہوا۔

قرآن (۴۱: ۳۰ تا ۳۲) میں رحمت کے فرشتوں کے نزول کا ذکر ہے، بھول نہ جانا یہ ایسے لوگوں پر نازل ہو جاتے ہیں جو عارفانہ موت اور روحانی قیامت کے مراحل میں ہیں، پھر ایسے عظیم اسرار کا قلمی احاطہ کس طرح کیا جا سکتا ہے، اگر میں نے امامِ مبینؑ کے بے شمار معجزات دیکھے ہیں تو میرے لئے ممکن ہی نہیں کہ میں تمام معجزات کو قلم بند کرسکوں، لہٰذا میں نے وقتاً فوقتاً چند معجزات کا ذکر کیا ہے، اور یہ حوالہ دیا ہے کہ امامِ مبینؑ مظہرالعجائب و الغرائب ہے، یعنی وہ معجزاتِ الٰہی کا مرکز اور سرچشمہ ہے۔

ساتھ ہی ساتھ اس حقیقت کی طرف باربار توجہ دلائی گئی ہے کہ عارفانہ موت اور روحانی قیامت کا تجربہ حقیقی مومنین کے لئے بیحد ضروری ہے، اس کے سوا ممکن نہیں کہ کسی اور طریقے سے معرفت حاصل ہوسکے، اور جن لوگوں کو معرفت حاصل نہیں

 

۲۲۸

 

ان کے دنیا میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں، پس یقین کرنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے امامِ مبینؑ کو خزانۂ خزائن بنا کر اہلِ ایمان پر احسان کیا ہے، تاکہ وہ اسی سے رجوع کر کے روحانی اور علمی ترقی کریں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

مرکزِ علم و حکمت، لندن،  سنیچر  ۱۶؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۲۹

 

آخری چلّہ کے ان مٹ نقوش اور فیوض و برکات

قسط:۱۲

 

اے نورِ عینِ من! مجھ پر امامِ مبینؑ کے بے حد و بے حساب احسانات ہیں، اور یہی احسانات آپ سب پر بھی ہیں، اور رفتہ رفتہ دوسروں پر بھی یہی احسانات ہونے والے ہیں، جو احسانات امامؑ کے ہیں وہ رسولِ پاکؐ کے ہیں، اور جو احسان رسولِ خداؐ کا ہے وہ خدا کا ہے، الحمد لِلّٰہ۔

اے دوستانِ عزیز! اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسولؐ کوعوالمِ شخصی کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے (۲۱: ۱۰۷) اس قانونِ رحمت پر خوب غور کریں جیسا کہ اس کا حق ہے، کیا اس ربّانی تعلیم کا یہ اشارۂ حکمت نہیں ہے کہ تم اس رحمتِ کل کیلئے نمائندۂ رسولؐ (امامِ زمانؑ) سے رجوع کرو، تاکہ تمہارا عالمِ شخصی معمور و پُرنور ہوسکے۔

اے نورِ عینِ من! یہ ایک روایت ہے: گفت جار اللہ ہمہ آیاتِ قرآنِ مجید شش ہزار و شش صد و شصت و شش آمد در شمار = ۶۶۶۶ آیات، الغرض قرآنِ حکیم کی جتنی بھی آیات ہیں ان میں سے ہر آیت میں امامِ مبین علیہ السّلام کے ذکرِ جمیل کا ہونا یقینی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کل چیزوں کو امامِ مبینؑ میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے، تو اس خداوندی نظام میں سب سے پہلے قرآنی چیزوں کی بات آتی ہے، اور قرآنی چیزیں آیات، ان کے معانی اور حکمتیں ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

مرکزِ علم و حکمت، لندن،  سنیچر  ۱۶؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۳۰

 

آخری چلّہ کے ان مٹ نقوش اور فیوض و برکات

قسط:۱۳

 

الحمدُ لِلّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاحسَانہٖ کہ اسی چلّۂ مبارک کے دوران حظیرۂ قدس کے سب سے عظیم اسرار مکشوف ہوئے: تصوّرِ طیٔ کائنات، کشفِ سرِ کتابِ مکنون اور اس کے چھونے کا راز، زمین و آسمان کے رتق و فتق کا راز، القابض۔ الباسط کی عظیم حکمت، حظیرۂ قدس = جبین = پیشانی = جنّت = مقامِ عقل = کوہِ طور= کوہِ جودی = حجرِ ابیض = مقامِ ابراہیمؑ = گوہرِعقل = سرِ علّیّین = تصوّرِ ازل و ابد = کلمۂ باری کا جنّت ہونا، نورِ محمدیؐ، نورِ قلم اور نورِ عقل کی وحدت کی معرفت = عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اور اساس (چار اصل) کی وحدت کی معرفت = دودریاؤں کا سنگم: کلمۂ باری اور عقل، قلم اور لوح، عقل و نفس، نفسِ کلّ اور ناطق، ناطق اور اساس، اساس اور امام، امام اور باب، اسی طرح مجمع البحرین کئی ہیں، ہم نے اس سے قبل بھی کچھ تحریر کیا ہے، الغرض حظیرۂ قدس آسمان ہے لہٰذا یہ مقامِ معراج ہے۔

اللہ ہادی ہے، رسولؐ بھی ہادی ہے، اور امامؑ بھی ہادی ہے، کیا پھر بھی منزلِ مقصود تک رسائی غیر ممکن ہوسکتی ہے؟ جواب: نہیں نہیں، مقامِ معراج، اسرارِ معراج اور مرتبۂ رسولؐ کی معرفت بیحد ضروری ہے، جب عارف کو ربّ کی معرفت ہوسکتی ہے تو معراج پر آنحضرتؐ کی معرفت بھی ضرور ہوسکتی ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

مرکزِ علم و حکمت، لندن،  یک شنبہ  ۱۷؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۳۱

 

آخری چلّہ کے ان مٹ نقوش اور فیوض و برکات

قسط:۱۴

 

اے عزیزان! عصرِ حاضر زمانۂ تاویل ہے اس لئے یہ زمانۂ قیامت ہے، پس ایسے میں حقیقی مومنین کس طرح روحانی علم سے غافل رہ سکتے ہیں، ان کو تو جلد از جلد علم و حکمت سے رجوع کرنا ہے، کیونکہ اب ممکن ہے کہ یکایک زمانہ بدل جائے اور پھر حصولِ حکمت کے لئے وقت نہ ملے، پھر بڑا افسوس ہوگا۔

قرآنِ حکیم اور حدیثِ شریف کے بعد مولانا علی علیہ السّلام کے ارشاداتِ مبارک ہیں، پس جو مومن دانا اور حکمت سے باخبر ہے وہ تو یہی کہے گا کہ قرآن و حدیث کی تاویلی حکمت مولا علیؑ کے ارشادات میں ہے، ہاں اے عزیزان! یہ حقیقت ہے، لہٰذا تم مولائے پاک کے ایک ایک ارشاد کو خوب غور سے پڑھو اور یاد کرو۔

اے عالی ہمت مومن! اے عاشقِ صادق! تم علیٔ زمانؑ میں فنا ہو کر دیکھو! ان شاء اللہ معجزات ہی معجزات اور اسرار ہی اسرار ہوں گے، ایسے میں تم کو اذن ہوا تو کچھ بتاؤ گے یا نہیں؟ قرآن (۶۹: ۱۹) میں ہے کہ جو کامیاب ہوجاتا ہے وہ دوسروں کو دعوت دیتا ہے کہ آؤ میرے نامۂ اعمال کو پڑھو، جو دنیا ہی میں جہادِ اکبر سے مرکر زندہ ہو جاتے ہیں ان کا نامۂ اعمال ان کے ذخیرۂ حقائق و معارف کی شکل میں ہوتا ہے۔

جس طرح مادّی سائنس کے انکشافات سے دنیا والوں کو بہت سے فائدے

 

۲۳۲

 

ہو رہے ہیں، بالکل اسی طرح روحانی انکشافات سے مذہبی لوگوں کو بہت سے فائدے حاصل ہوسکتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

مرکزِ علم و حکمت، لندن،  پیر  ۱۸؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۳۳

 

آخری چلّہ کے ان مٹ نقوش اور فیوض و برکات

قسط:۱۵

بعض اسما ٔ و افعالِ گوھرِ عقل

 

نور = مداد = قلم = لوح = عقل = شمس = قمر = نجم = نجوم = کتابِ مکنون = کتابِ منیر= ضیا = یاقوت = مرجان = لولو =  حجرِ ابیض (سفید پتھر) = حور = غلمان = کاس = پیالہ = اَبارِیق = حِلْیَۃٍ = رَحیقٍ مَّخْتُومٍ = سِقَایَۃً = صُوَاعَ = پیمانہ = رُطَباً جَنِیّاً (۱۹: ۲۵) = وَرَق = وَرَقۃٍ = ثمر= ثمرات = فاکِھَۃ = فَوَاکِۃ = قُطُوف (میوہ) = اُکُل (۱۴: ۲۵) = مقامِ ابراہیمؑ = کُوہِ جُودی = کُوہِ طُور= طُورِ سینین جَبَل = جبال = حَجَرِ مُکرّم (جس سے بارہ چشمے نکلے ۰۲: ۶۰) حَجَر = حِجارَۃ (۰۲: ۷۴) وِلْدٰنٌ مُّخلّدُوْن (۷۶: ۱۹) = علم = حکمت = فضل = احسان = زکات = کنز = صدقہ = نور = کتاب = رزق = نورٌعلیٰ نورٍ = صفّاً صفّاً = جامِ شراب = چشمہ = خیرِکثیر = لپیٹی ہوئی زمین = لپیٹی ہوئی کائنات = یداللہ= بیعت = فَاکِھَۃٍ کَثِیْرَۃٍ = لَامَقْطُوْعَۃٍ وَلَا مَمْنُوُعَۃٍ (۵۶: ۳۳) = کلمۂ باری = عصائے موسیٰ = یدِ بیضا = ناقۂ صالحؑ = اِذْ یَغْشَی السِّدُ رَۃَ مَا یَغْشٰی (۵۳: ۱۶) = وَالنَّحْمِ اِذا ھَوٰی (۵۳: ۰۱)۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

مرکزِ علم و حکمت، لندن،  منگل  ۱۹؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۳۴

 

آخری چلّہ کے ان مٹ نقوش اور فیوض و برکات

قسط:۱۶

 

میں ذکر کرچکا ہوں کہ اس چلّہ کا پروگرام میری طرف سے نہ تھا بلکہ یہ ایک آسمانی وسیلۂ رحمت تھا، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میرا ایک حلقۂ شاگردی ہے جو مجھے بیحد عزیز ہے، میں اسی سے مخاطب ہوں، تاکہ میری باتوں میں کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش نہ ہو، چنانچہ ہماری اپنی مخصوص اصطلاحات ہیں، جیسے:۔

عالمِ شخصی = ع ش = عش = عالمِ کبیر = کائنات = کائناتی جنّت = انسانِ کبیر = فرشتہ = ستر ہزار، اس کی وضاحت یہ ہے کہ جس طرح قرآنِ پاک میں سبقت کرکے کائناتی بہشت کو حاصل کرنے کا حکم ہے، اسی طرح قرآن میں قانونِ اضافۂ کثیرہ (۰۲: ۲۴۵) کا بھی ذکر ہے، پس جو لوگ کائناتی بہشت حاصل کرنے میں سبقت کرتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ سترہزار کائناتی بہشتیں عطا فرماتا ہے، ان میں سے ہر کائناتی بہشت ایک عظیم فرشتہ ہے = انسانِ کامل ہے۔

حظیرۂ قدس = ح ق، گوہرِ عقل = گ ع، کتابِ مکنون = ک م، کوہِ طور =ک ط، کلمۂ باری = ک ب، دھنِ مبارک = د م، صورتِ رحمان = ص ر، کن =ک ن، رؤیت = ر = دیدار۔

منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی = م اِس و عِز، عارفانہ موت = ع م، روحانی قیامت = رق، نورانی خواب =ن خ، چین = صین = ص، سلمان =

 

۲۳۵

 

س، غریبم = غ، قلبِ تو = ق ت= س غ ق ت = ایک کلمۂ تامّہ ۔

قرآن تمام وصفِ کمالِ محمدؐ است۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

مرکزِ علم و حکمت، لندن،  بدھ  ۲۰؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۳۶

 

یہ خواب ہے یا بیداری؟

جواب: خواب نہ تھا، مدہوشی تھی

 

میں نے کل خواب میں علی دیکھا

اس خفی نور کو جلی دیکھا

وہ امامِ مبینِ آلِ رسولؐ

قبلۂ عاشقانِ اہلِ قبول

سر جھکا کر غریب نے سلام کیا

آنسوؤں کی زبان سے کلام کیا

اے سر تو سجدہ کر کہ ترا فرض سجدہ ہے

انکارِ سجدہ جس نے کیا وہ تو راندہ ہے

اے آنکھ کہاں ہیں ترے اشکوں کے وہ گوہر

اب شاہ کے قدموں سے کرو ان کو نچھاور

اے نارِ عشق تجھ کو سلام ہو ہزار بار

تیرے کرم سے عاشقِ بیدل کو مل گیا قرار

ہم مردہ تھے اس نے ہمیں زندہ کر دیا

چہرے اداس تھے کہ تابندہ کردیا

نورِ رحمت کی سخت بارش تھی

ہر طرح کی بڑی نوازش تھی

 

۲۳۷

 

ہم کو یہ اک نئی حیات ملی

علم و حکمت کی کائنات ملی

دستِ پر نور میں کمالِ معجزہ ہے

خاک کو چھو کے زر بناتا ہے سنگ کو وہ گہر بناتا ہے

نورِ عشقِ مرتضا! ہر لحظہ ہو تجھ پر سلام

بندگانِ ناتمام تجھ ہی سے ہوتے ہیں تمام

میں ہوں نصیرِؔ خالی وہ ہے نصیرِ معنی (حقیقی مددگار)

میں ہوں غلام و ناکس وہ ہے امامِ اقدس

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

مرکزِ علم و حکمت، لندن،  جمعرات  ۲۱؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۳۸

 

قرآنِ حکیم اور تسخیرِ کائنات

قسط: ۱

 

انسان پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے بے شمار احسانات ہیں، ان میں سب سے بڑا احسان = احسانِ کلّی تسخیرِ کائنات ہے (بصورتِ باطنی و روحانی) آپ کو قرآن میں یہ مبارک مضمون کئی طرح سے ملے گا۔

سب سے پہلے آپ سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں غور سے دیکھیں، پھر سورۂ جاثیہ (۴۵: ۱۳) کو بھی کائنات کے باطنی اور روحانی تناظر میں پڑھ لیں، تاکہ آپ کو یقین آئے کہ کائنات کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، بلکہ اس ظاہری کائنات کے اندر ستر ہزار باطنی کائناتیں ہیں اور ہر کائنات ایک لطیف بہشت ہے، اور یہ تمام کائناتی جنّات اللہ تعالیٰ نے سابقون ہی کے لئے مسخر کر دی ہیں، اور سبقت کے حکم کو قرآن میں دیکھیں: سابقوا (۵۷: ۲۱) و سارعوا (۰۳: ۱۳۳) ففرّ وا (۵۱: ۵۰)۔

عنایتِ الٰہی سے سبقت کا سب سے عظیم معجزہ منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی میں ہوتا ہے، جس میں سات رات اور آٹھ دن تک مسلسل مومن کی روح قبض کرکے ساری کائنات میں بکھیر دی جاتی ہے، پھر کائناتی روح سمیت واپس بدن میں ڈالی جاتی ہے، اسی طرح خالقِ کائنات ہزاروں عوالمِ شخصی اور ہزاروں کائناتیں بنا دیتا ہے، یہ سب زندہ بہشتیں بھی ہیں اور فرشتے بھی، اور یہ ہے تسخیرِ کائنات بحوالۂ قرآن و روحانیّت، الحمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالمین۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

مرکزِ علم و حکمت، لندن،  جمعرات  ۲۱؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۳۹

 

قرآنِ حکیم اور تسخیرِ کائنات

قسط: ۲

 

سورۂ رعد (۱۳) کے آغاز میں دیکھیں:

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ۔ الٓمٓرٰ = ال م ر = الف = اوّل = عقلِ کلّ = قلم، ل =لوح = نفسِ کلّ، م = مرقوم = کتابٌ مرقوم (۸۳: ۲۰)، ر = رؤیت = دیدار۔

قسم ہے قلم کی، لوح کی اور رؤیت کی کہ یہ اس کتابِ ناطق کی آیات (معجزات) ہیں جو اللہ کے پاس ہے اور جو کچھ (یعنی قرآن) تیرے پروردگار کی طرف سے تجھ پر نازل ہوا ہے وہ حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

اللہ وہی تو ہے جس نے آسمانوں کو قابلِ مشاہدہ ستونوں کے بغیر بلند کیا پھر عرش پر رحمانی مساوات کا کام کیا اور شمس و قمر = آفتاب و ماہتاب کو مسخر فرمایا یعنی حظیرۂ قدس کے سورج اور چاند کو کہ ان میں تمام اعلیٰ معانی جمع ہیں، اس طرح : قلم و لوح = عرش و کرسی = عقلِ کلّ و نفسِ کلّ = نور محمدیؐ و نور علیؑ= نورِ ناطق و نورِ اساسؑ = نورِ اساسؑ و نورِ امامؑ = گوہرِ عقل و کتابِ مکنون۔ چونکہ حظیرۂ قدس کا شمس و قمر بھی ہے، نجم بھی ہے انجم بھی، نور بھی ہے انوار بھی، جبکہ وہ جوہرِ کلّ ہے = گوہرِ عقل = کتابِ مکنون۔

یُدَبِّرُ الْاَمْر = اس کا امرِ کن مسلسل ہے یہ ایک بہشت کا چشمۂ

 

۲۴۰

 

دائم ہے۔

یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ = وہ تمام علمی اور عرفانی معجزات گوہر عقل = کتابِ مکنون میں لپیٹتا بھی ہے اور ایک ایک کر کے جدا بھی کر سکتا ہے تاکہ تم اپنے ربّ کی ملاقات کا یقین حاصل کرلو۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

مرکزِ علم و حکمت، لندن،  سنیچر ۲۲؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۴۱

 

قرآنِ حکیم اور تسخیرِ کائنات

قسط:۳

 

سورۂ ابراہیم ( ۱۴: ۳۲ تا ۳۴):

ترجمہ: اللہ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی نازل فرمایا اس کے ذریعے تمہارے رزق کے طور پر پھل اگائے ہیں اور کشتی کو تمہارے لئے مسخر کیا تاکہ وہ اس کے حکم سے صفحۂ دریا پر چلے اور نہریں بھی تمہارے لئے مسخر فرمائیں اور (خدا نے) منظم لائحۂ عمل کے ماتحت کام کرنیوالے سورج اور چاند کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے اور رات اور دن کو (بھی) تمہارے لئے مسخر کیا ہے اور تم نے جس چیز کا اس سے تقاضا کیا تھا وہ اس نے تمہیں دیدی ہے اور اگر تم نعماتِ الٰہی کا شمار کرنے لگو تو ہرگز شمار نہیں کرسکو گے۔

یہ عظیم الشّان مضمون تسخیرِ کائنات کے مضامین میں سے ہے، خدا نے عالمِ شخصی کو عالمِ ظاہر کی مثال پر پیدا کیا ہے:۔

حکمتِ اوّل: جس طرح ظاہر میں پانی کا ہونا لازمی ہے، اسی طرح عالمِ شخصی کے لئے علم ضروری ہے۔

حکمتِ دوم: یہ عام کشتی نہیں بلکہ سب سے خاص اور سب سے عظیم کشتی ہے، جو پانی پر اللہ کا عرش بھی ہے اور بھری ہوئی کشتی بھی۔

حکمتِ سوم: نہروں سے جنّت = حظیرۂ قدس کی نورانی قوّتیں مراد ہیں۔

 

۲۴۲

 

حکمتِ چہارم: سورج اور چاند نورِ ہدایت = کتابِ مکنون = لؤلوئے کائنات ہے، جس سے کائنات بنتی ہے اور کائنات سے یہ گوہر بنتا ہے، لہٰذا شمس و قمر کی تسخیر خود تسخیرِ کائنات ہے۔

حکمتِ پنجم: دن اور رات = ظاہر و باطن = دنیا و آخرت۔

حکمتِ ششم: اور تم نے جس چیز کا اس سے تقاضا کیا تھا وہ اس نے تمہیں دیدی ہے، یہ خدا کا قانونِ عطا ہے، اس کو ہمیشہ یاد رکھنا ہے۔

حکمتِ ہفتم: اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنے لگو تو ہرگز شمار نہیں کر سکو گے، اس سے معلوم ہوا کہ ستر ہزار کائنات اور ستر ہزار عالمِ شخصی حق ہیں۔ یہ سب زندہ ہیں، یہ سب جنّتیں اور سلطنتیں اور خلافتیں ہیں (۲۴: ۵۵)۔

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

مرکزِ علم و حکمت، لندن،  اتوار  ۲۴؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۴۳

 

قرآنِ حکیم اور تسخیرِ کائنات

قسط: ۴

 

تسخیرِ کائنات تسخیرِ عالمِ شخصی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، کیونکہ قرآنِ پاک میں جہاں جہاں تسخیرِ کائنات کا ذکر آیا ہے وہاں اہلِ معرفت کو عالمِ شخصی کے مقامات اور اسرار کا علم ہوجاتا ہے، پس عالمِ شخصی کا وہ اوّلین مبارک مقام جہاں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اہلِ ایمان کے لئے کائنات کو مسخر فرماتا ہے منزلِ اسرافیلی اور عزرائیلی ہے، اس بابرکت منزل میں وہ کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز سابقون کے لئے ستر ہزار عوالمِ شخصی اور ستر ہزار کائناتیں بنا دیتا ہے، جبکہ اپنی بے مثال حکمت سے اپنے کسی بندے کو سات رات اور آٹھ دن تک مذکورہ منزل میں رکھتا ہے، تاکہ سبقت کرنے والوں کے لئے اس نے جیسا وعدہ فرمایا ہے وہ پورا ہو جائے۔

عارفانہ موت اور روحانی قیامت کے عظیم معجزات امامِ  زمانؑ کے عاشقانِ صادق کو نصیب ہوتے ہیں، جو حقیقی مومن جہادِ اکبر میں اللہ کی مدد سے اپنے عالمِ شخصی کو فتح کر لیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے ستر ہزار عوالمِ شخصی اور ستر ہزار کائناتیں بنا دیتا ہے ان میں سے ہر عالم بہشت کی صورت میں ہوتا ہے، یقیناً اللہ جس کو چاہے آخرت میں بے حساب رزق دیتا ہے ( ۰۲: ۲۱۲؛  ۰۳: ۲۷)۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

مرکزِ علم و حکمت، لندن، دو شنبہ ۲۵ ؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۴۴

 

قرآنِ حکیم اور تسخیرِ کائنات

قسط:۵

 

اے نورِ عینِ من! تسخیرِ کائنات کے اس مضمون میں کائنات اور حدودِ کائنات کو جاننا بیحد ضروری ہے، اس کے لئے عالم گیر روح = نفسِ کلّی = کرسی (۰۲: ۲۵۵) کے تصوّر سے مدد ملے گی کہ جو کچھ نفسِ کلّی = عالم گیر روح کے احاطے (دائرے = گھیرے اور گرفت) میں ہے وہی کائنات = آفاق = ارض اللہ ہے۔

میں بھی آپ ہی کی طرح شروع شروع میں صرف سیّارۂ زمین ہی کو ارض (زمین) یعنی کل زمین سمجھتا تھا، پھر عرصۂ دراز کے بعد کائناتی زمین وغیرہ کے اسرار کا علم ہوا، لیکن اسرار لاانتہا ہیں۔

الغرض قرآنِ حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ اس نے اہلِ ایمان کے لئے کائنات کو مسخر کر دیا ہے، اس کا یہ عظیم احسان عالمِ شخصی کے توسط سے ہے، یہی سنتِ الٰہی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں، عالمِ شخصی کے کئی مقام پر تسخیرِ کائنات کا تجدّد ہوتا ہے۔

آپ کی علمی کوشش کی خاطر یہ سوال ہے کہ حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کی خلافت اور تسخیرِ کائنات میں کیا فرق ہے؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

مرکزِ علم و حکمت، لندن،  بدھ  ۲۷؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۴۵

 

قرآنِ حکیم اور تسخیرِ کائنات

قسط: ۶

 

عاشقانِ نورِ الٰہی کے لئے تسخیرِ کائنات کا موضوع بڑا دلنشین و دلنواز ہے، یہ دوستانِ خدا کے لئے قرآنِ پاک کا بڑا شیرین وعدہ ہے۔

کائنات ظاہراً و باطناً (کل شیٔ) سب کچھ ہے، اسی معنیٰ میں ارشاد ہے:وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ = اور تم نے جس چیز کا اس سے تقاضا کیا تھا وہ اس نے تمہیں دیدی ہے (۱۴: ۳۴) جس کلّی بہشت کو حاصل کرنے کی شرط علم و عمل کے کمالات کے ساتھ سبقت کرنا ہے، وہ بہشت ظاہراً و باطناً کائنات ہی ہے، اسی معنی میں قرآن تسخیرِ کائنات کا ذکر فرماتا ہے۔

امامِ مبینؑ میں سب کچھ ہے، تم امامؑ میں فنا ہو جاؤ کائنات از خود مسخر ہوجائے گی، جس دن حضرتِ حجتِ قائمؐ جثّۂ ابداعیہ = نورانی بدن = برقی بدن میں تمہارے پاس تشریف فرما ہوگیا تھا تو بڑا معجزہ ہوا تھا، تو تم اس میں فنا بھی ہوگیا تھا اور تم اپنے جسمِ خاکی میں زندہ بھی تھا، اور جب قید کے دوران آخری چلّہ میں حضرتِ قائم آیا تو اس نے بھی یہی عجیب معجزہ کیا کہ تم کو بعض روحوں میں لے لیا اور بعض روحوں میں چھوڑ دیا، کیا مومن کسی باغ و گلشن سے کچھ کم ہوتا ہے؟ جب باغبان اپنے باغ و گلشن میں آتا ہے تو صرف کچھ پھول اور کچھ پھل لیکر جاتا ہے، مگر باغ و گلشن کو بحال رکھتا ہے۔

اگر تم روحانی موت کو جسمانی موت کی طرح سمجھتے ہو تو یہ تمہاری بہت

 

۲۴۶

 

بڑی غلطی ہے، تم باغ و گلشن کی طرح اپنے باغبان کو جزوی قربانی دیتے رہو، یہی دانائی کا طریقہ ہے، الحمد لِلّٰہ۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

مرکزِ علم و حکمت، لندن، جمعرات  ۲۸  ؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۴۷

 

قرآنِ حکیم اور تسخیرِ کائنات

قسط:۷

 

قرآنِ حکیم میں تسخیرِ کائنات کا تذکرہ براہِ راست بھی ہے اور بالواسطہ بھی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر عظیم الشّان مضمون کی طرح تسخیرِ کائنات کا مضمون سر تا سر قرآن میں پھیلا ہوا ہے، اس کے علاوہ عالمِ شخصی کا مشاہدہ اور مطالعہ تو خود کائنات کی عملی معرفت ہی ہے، اور ہمیں اس حقیقت کا یقینِ کامل حاصل کرنا ہوگا کہ تسخیرِ کائنات کی عنایتِ الٰہی سب سے پہلے حضرتِ آدمؑ کو نصیب ہوئی تھی، اس کے یہ معنی ہوئے کہ خلافتِ الٰہیہ تسخیرِ کائنات کی صورت میں ہے، پس خلافت = تسخیر = سجدہ = اطاعت ایک ہی چیز ہے، پھر سورۂ نور ( ۲۴: ۵۵) میں جس خلافت کا ذکر آیا ہے اس میں ازسرِ نو غور کریں، یہ بہشت کی کائناتی بادشاہی اور خلافت ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

سنیچر  ۳۰ ؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۴۸

 

قرآنِ حکیم اور تسخیرِ کائنات

قسط:۸

تسخیرِ کلّی اور ظاہری و باطنی نعمتیں

(انتساب)

 

اے عزیزانِ محترم! آپ ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ علمی گفتگو کے دوران آپ کا عزیز استاد کسی نہ کسی عجیب و غریب حکمت کی طرف بھی اشارہ کرے، تو لیجئے آج کی بڑی عجیب و غریب حکمت یہ ہے جو آپ پر منکشف کی جاتی ہے: خداوندِ تعالیٰ جو علیم و حکیم ہے، اس نے اپنے کمالِ قدرت سے قرآنِ عظیم کو جگہ جگہ لپیٹ کر بھی رکھا ہے اور وہاں سے پھیلا بھی دیا ہے، پس ایک ایسی آیۂ شریفہ جس میں قرآن کی تمام حکمتیں مرکوز و مجموع ہیں، جو سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں ہے، اس آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: “کیا تم لوگوں نے (چشمِ بصیرت سے یہ) نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) خدا ہی نے یقیناً تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے اور تم پر اپنی تمام ظاہری و باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں۔”

اے عزیزانِ سعادت مند! اس آیۂ مبارکہ میں تسخیرِ کلّی اور تمام ظاہری و باطنی نعمتوں کا عظیم الشّان ذکر ہے، جس کی تفصیلات تعلیماتِ دانش گاہِ خانۂ حکمت میں بیان ہوتی آئی ہیں، اور وہ یہ ہے کہ کبھی آپ کو بہشت برائے معرفت کے عنوان سے بہت سے اسرار بیان ہوئے، کبھی براہِ راست روحانیّت کا تذکرہ ہوتا رہا، کبھی روحانی سائنس کے عنوان کے تحت بہت سی حکمتیں بیان کی گئیں، اور کبھی قرآنی سائنس کی اصطلاح کے

 

۲۴۹

 

تحت علم و حکمت کے جواہرات کا مظاہرہ ہوتا رہا، الغرض آپ تمام عزیزان عنوانِ بالا کے مطالب کو جانتے ہیں، لہٰذا آپ پر واجب ہے کہ عملی شکر گزاری کریں، وہ یہ ہے کہ آپ دانش گاہِ خانہ حکمت کی کتابوں کو زیادہ سے زیادہ پڑھتے رہیں، اور خداوندِ تعالیٰ کے ان بے شمار احسانات کا جیسا کہ حق ہے شکر ادا کرتے رہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں کی شکر گزاری ہوتی رہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے ساتھیوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو ان نعمتوں کی شکرگزاری میں آنسو بہاتے ہوئے سجدوں میں گر پڑتے ہیں، وہ اکثر اوقات ذکر و عبادت میں مصروف رہتے ہیں، اور ان نیک بخت مومنین و مومنات نے علمی خدمت کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے، ایسے ارضی فرشتوں پر خداوندِ قدوس کی طرف سے نورانی بارش برستی رہتی ہے، ان کے قلوب میں نورِ ایمان کی روشنی داخل ہوچکی ہے، اس لئے وہ اپنے باطن میں خرسند و شادمان ہیں، ان کو نیک اعمال سے شادمانی حاصل ہوتی رہتی ہے، ان شاء اللہ وہ روز بروز علم الیقین کی راہ میں آگے سے آگے جاسکیں گے۔

حقیقی علم کی روشنی پھیلانا دین کی سب سے بڑی خدمت ہے، اور اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ آج جو لوگ حقیقی علم کی خدمت کرتے رہتے ہیں، کل بہشت میں وہی لوگ نورانی علم کی خدمت کریں گے، اور انہی نیک بخت لوگوں کو بہشت کی انتہائی عظیم بادشاہی سے خداوندِ تعالیٰ بانصیب کرے گا۔

خداوندِ تعالیٰ جب کسی خاص چیز کو وجود میں لانا چاہتا ہے تو اس کے جملہ اسباب و ذرائع کو مہیا کر دیتا ہے، ہمارے ادارے کے سینیئراور جونیئر اسکالرز اور اہل قلم ہم پر اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات ہیں، اور ہم امید رکھتے ہیں کہ خداوندِ تعالیٰ اس ادارے کو مزید اسکالرز سے نوازے گا، تاکہ ہم قرآن، اسلام، جماعت اور انسانیّت

 

۲۵۰

 

کی خدمت کرسکیں۔

یہ پسندیدہ انتساب جناب سابق موکھی نزار علی علی بھائی انٹرنیشنل لائف گورنر اینڈ لوکل پریذیڈنٹ اور ان کے باسعادت اہلِ خانہ کے لئے لکھا گیا ہے، اس مبارک گھر کے جملہ افراد انٹرنیشنل لائف گورنری کے رتبۂ عظمیٰ پر فائز ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ہفتہ  ۲۹؍ جون ۲۰۰۱ء

یوسٹن، امریکہ

 

نوٹ: انتساب از کتابِ عملی تصوّف اور روحانی سائنس و روحانی سائنس کے عجائب و غرائب، سیکنڈ ایڈیشن۔

 

سنیچر ۳۰؍ جون ۲۰۰۱ء

 

۲۵۱

 

قرآنِ حکیم اور تسخیرِ کائنات

قسط:۹

 

عالمِ شخصی کے تناظر میں تسخیرِ کائنات اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل و کرم ہے کیونکہ یہ کائناتی بہشت ہے۔

جو خوش نصیب لوگ نور اور کتاب (قرآن ۰۵: ۱۵) کے عظیم اسرار سے محوِ حیرت ہیں ان کی حیرت مَجْمَعُ الْبَحَرَیْن کے راز میں شاید چوٹی پر ہو، کیونکہ یہ راز انتہائی حیران کن ہے! مثال کے طور پر عالمِ شخصی کے شمس و قمر الگ الگ بھی ہیں مل کر ایک بھی ہیں = ہے، پھیلی ہوئی کائنات بھی ہے اور سمیٹی  ہوئی کائنات بھی، اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ = جب سورج لپیٹ دیا جائے گا (۸۱: ۰۱) پس قرآنِ پاک میں جہاں سورج اور چاند کی تسخیر کا ذکر آیا ہے وہ بھی تسخیرِ کائنات ہی ہے، جہاں کتابِ مکنون کو ہاتھ میں لینے کا اشارہ ہے وہ بھی تسخیرِ کائنات ہے، اسی طرح قرآنِ حکیم کی بہت سی آیاتِ کریمہ میں تسخیرِ کائنات کا ذکر موجود ہے۔

اے عزیزان! خدا و رسولؐ اور ولیٔ امر (امامِ زمانؑ) کی حقیقی اطاعت سے عالمِ شخصی کو فتح کرلو، اسی کے ساتھ ساتھ ان شاء اللہ کائنات بھی مسخر ہوجائے گی، آمین!

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار ، یکم جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۵۲

 

قرآنی بہشت کی نعمتیں = حکمتیں

قسط:۱

 

قرآنِ حکیم اپنے تمام اوصاف و کمالات اور معجزات کے ساتھ ساتھ علم و حکمت کی بہشت بھی ہے، جسکی اوّلین نعمت = حکمت صراطِ مستقیم (راہِ راست ) ہے، یہ انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کا راستہ ہے، انہی حضرات کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایتِ بے نہایت سے یہ راہِ راست اور اس کی ہدایت عطا فرمائی اور اپنے خاص انعامات سے نوازا، اب اگر وہ رحمان و رحیم تمام اہلِ ایمان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ تم صراطِ مستقیم کی ہدایت کے لئے اپنے ربّ سے درخواست کرو تاکہ تم کو ہادیٔ برحقؑ کی معرفت اور صراطِ مستقیم کی باطنی ہدایت نصیب ہو، تو اس ربّانی تعلیم میں کیا شک ہوسکتا ہے۔

دنیا کی مثال میں راہ و رہنما الگ الگ ہیں = ایک راستہ اور ایک شخص جو اس راستے کو جانتا ہو، مگر قانونِ الٰہی کے مطابق جو نورِ مجسّم ہے وہی صراطِ مستقیم بھی ہے اور ہادیٔ برحق بھی، کیونکہ دنیا کی کوئی بھی سڑک صراطِ مستقیم نہیں ہوسکتی ہے، کیونکہ صراطِ مستقیم اللہ تعالیٰ کے نورِ ہدایت کا نام ہے جس کا ذکر تمام آیاتِ نور میں موجود ہے۔

اے عزیزان! صراطِ مستقیم کا مضمون قرآنی بھیدوں کا ایک عظیم خزانہ ہے، آپ سرتا سر اس مضمون میں کماحقہٗ غور کریں اور بہت سے فائدے حاصل کریں، آمین!

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر ۲  ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۵۳

 

قرآنی بہشت کی نعمتیں = حکمتیں

قسط:۲

 

سورۂ زخرف (۴۳: ۰۴) میں ارشاد ہے:وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ۔ ترجمۂ اول : اور درحقیقت یہ = وہ (قرآن) ام الکتاب میں ہے ہمارے ہاں بڑی بلند مرتبہ اور حکمت سے لبریز کتاب۔

ترجمۂ دوم: اور یقیناً یہ = وہ (قرآن) ام الکتاب =علیؑ میں ہے ہمارے پاس عالی مرتبہ اور حکمت سے مملو۔

انسانی عقل کو حیرت بالائے حیرت ہے کہ یہاں بھی ایک سنگم ہے یعنی دریائے نور اور دریائے قرآن کا سنگم۔

بظاہر ام الکتاب سورۂ فاتحہ کا نام ہے، اس اعتبار سے یہ سورہ تمام قرآن کا خلاصہ اور جوہر ہے، لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ صراطِ مستقیم کا مضمون بھیدوں کا ایک عظیم خزانہ ہے، ان بھیدوں میں سب سے بڑا راز ہادیٔ برحقؑ کی معرفت ہی ہے، دریائے نور اور دریائے قرآن کے سنگم کے لئے (۰۵: ۱۵) میں بھی دیکھیں۔

حضرتِ مؤول علیہ السّلام کسی عارف کے عالمِ شخصی میں اکثر ایسے مقام پر تاویل کرتا ہے جہاں علم کے دو دریا ملتے ہیں، اور اس وقت ایسے بہت سے مقامات کا علم ہوا ہے،الحمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلمِین۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر ۲  ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۵۴

 

قرآنی بہشت کی نعمتیں = حکمتیں

قسط:۳

 

الحمد = حمد = عقلِ کلّی = نور محمدیؐ = قلمِ اعلیٰ = نورِ عقل = نورِ عرش = نورِ ازل = نورالانوار = کنزِ مخفی، یہ حمد کے تاویلی اسرار ہیں اور ان کی وضاحت یہاں نہیں ہے۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ = حمد (تعریف) اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام عوالمِ شخصی کا ربّ = پروردگار ہے، پس عاشقان و عارفانِ نورِ الٰہی کے عالمِ شخصی کی باطنی پرورش میں اسرارِ مذکورۂ بالا کی معرفت کا ہونا اللہ تعالیٰ کی خاص تعریف ہے۔

اے عزیزان! قرآنِ پاک میں جہاں جہاں اللہ کی حمد کا ذکر آیا ہے وہاں نورِ عقلِ کلّی کا راز پوشیدہ ہے، یہ عین حقیقت ہے، مگر قانونِ مجمع البحرین کو بھول نہ جانا کہ جہاں نورِ محمدیؐ قلم ہے وہاں نورِ علیؑ لوح ہے، اسی قانون کا نام مَرَج البَحْرَین (۵۵: ۱۹ تا ۲۰) بھی ہے۔

حدیثِ شریف کا ترجمہ ہے: تم میں سے ہر ایک چرواہا = سردار = بادشاہ ہے، اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہونے والی ہے، کیا آپ اس کا مطلب بتا سکتے ہیں؟ آپس میں مذاکرہ کرکے جواب تیار رکھیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل ۳  ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۵۵

 

قرآنی بہشت کی نعمتیں = حکمتیں

قسط:۴

 

سوال:-  المصباح (۲۴: ۳۵) = چراغ کی تاویل کیا ہے؟

جواب:-  اس کی تاویل عالمِ روحانی میں نورِ اوّل و ثانی ہے، اور عالمِ جسمانی میں نورِ ناطق و اساس ہے۔

سوال:- زیتون کا وہ بابرکت درخت جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی، اس سے کیا مراد ہے؟

جواب:-  یہ نفسِ کلّی = کائناتی روح = عالمگیر روح ہے، جو زمان و مکان سے ماورأ ہے۔

سوال:-  سورۂ نجم (۵۴: ۱۴ تا ۱۶) میں بسلسلۂ قصّۂ معراج سِدْرَۃُ الْمُنْتَھیٰ کا ذکر آیا ہے، آپ بتائیں کہ  سِدْرَۃُ الْمُنْتَھیٰ کی کیا تاویل ہے؟

جواب:-  اس کی تاویل نفسِ کلّی ہے۔

سوال:-  درختِ سدرہ تاویلاً نفسِ کلّی کیا چھپا رہا تھا؟

جواب:-  گوہرِ عقل کا مظاہرہ کر رہا تھا۔

سوال:-  بحوالۂ (۲۸: ۳۰) حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کو دور کے کسی درخت سے ایک نار نظر آئی، مگر قریب جانے سے معلوم ہوا یہ نار نہیں بلکہ نورِ الٰہی ہے، آپ بتائیں کہ اس درخت سے کیا مراد ہے؟

 

۲۵۶

 

جواب:-  یہ درخت نفسِ کلّی ہے، کیونکہ نفسِ کلّی ہی تمام مقدس قرآنی درختوں کا ممثول ہے۔

سوال: سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۴ تا ۲۵) میں جس پاک درخت کی تعریف آئی ہے اس کی کیا تاویل ہے؟

جواب:-  عالمِ روحانی میں اس کی تاویل اوّل و ثانی ہیں، اور عالمِ جسمانی میں ناطق و اساس ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل ۳  ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۵۷

 

قرآنی بہشت کی نعمتیں = حکمتیں

قسط:۵

 

سوال:-  اعظم السور (قرآن کی تمام سورتوں میں سب سے بڑی سورت) کونسی ہے؟

جواب:- سورۂ فاتحہ۔

سوال: – اعظم الآیات (قرآنِ حکیم کی جملہ آیات میں سب سے زیادہ باعظمت آیت) کونسی ہے؟

جواب:-  آیۂ کرسی۔

سوال:-  اعظم الاسماء (اسمائے الٰہی میں سب سے بڑا اسم) کونسا ہے؟

جواب:-  اسمِ اعظم ہے۔

سوال: –  اسم اعظم کی کیا تعریف ہے؟

جواب: –  اسمِ اعظم حرفی بھی ہے شخصی بھی، صامت بھی ہے اور ناطق بھی، اور وہ نورِ مجسّم برائے ہدایتِ اہلِ زمانہ ہے یعنی امامِ زمان علیہ السّلام ہے۔

سوال: –  فرعون اور اس کی قوم دراصل کس دریا میں غرق و ہلاک ہوگئے تھے؟

جواب:-  حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیہما السّلام کے دریائے روحانیّت میں ڈوب کر روحانی طور پر ہلاک ہوئے تھے۔

سوال:-  بحوالۂ (۱۰: ۹۲) اس میں کیا رازِ حکمت ہے کہ خدا نے فرعون کے بدن

 

۲۵۸

 

کو غرقابی اور ہلاکت سے نجات دی تھی؟

جواب:-  اس کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ درحقیقت فرعون اور اس کی قوم دریائے روحانیّت میں روحاً پہلے ہی غرق و ہلاک ہوچکے تھے، جسماً نہیں، اور پھر بعد میں ظاہری دریا میں بھی ڈوب کر مر گئے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ ۴  ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۵۹

 

قرآنی بہشت کی نعمتیں = حکمتیں

قسط:۶

 

سوال:- آیا نافرمان لوگ دو دفعہ مرجاتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کوئی قرآنی دلیل پیش کریں؟

جواب:-  جی ہاں، یہ بات بالکل درست ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے : أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ = مردہ ہیں نہ کہ زندہ اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب (دوبارہ زندہ کرکے) اٹھایا جائےگا (۱۶: ۲۱) ۔ آخراً اس موت کی وجہ بھی بزبانِ حکمت بتائی گئی ہے۔

سوال:-  لفظِ اللہ اسمِ ذات ہے یا اسمِ صفت؟

جواب:-  یہ اسمِ صفت ہے اور قائم مقامِ اسمِ ذات۔

سوال:-  خداوندِ تعالیٰ کا اسمِ ذات کونسا ہے؟

جواب:-  وہ ایک ایسا اسمِ اعظم ہے جس کو خدا کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ہے، وہ اسماء الحسنٰی کے حجابات میں مخفی ہے۔

سوال:-  آپ نے حدیثِ شریف کے حوالے سے یہ بتایا ہے کہ ہر انسان کے دل کے دو کان ہیں، ان کے پاس دو ساتھی ہیں: ایک جنّ اور ایک فرشتہ، پس اگر انسان کے دل میں بدی غالب ہے تو جنّ = شیطان وسوسہ ڈالتا ہے، اور اگر نیکی غالب ہے تو فرشتہ اپنی کوئی فرشتگانہ

 

۲۶۰

 

بات دل میں ڈالتا ہے، آپ یہ بتائیں کہ ایسے میں ہر دانا مومن کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ جس سے شیطان کا منہ بند ہوجائے اور فرشتہ کو کچھ کہنے کا موقعہ مل جائے؟

جواب:-  اس کا طریقہ قرآن میں یہ فرمایا گیا ہے کہ مومن ہمیشہ ذکرِ کثیر کا سہارا لیتا رہے، یعنی خدا کو ہمیشہ یاد کرے تاکہ شیطان مایوس ہوجائے اور فرشتہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کہتا رہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ ۴  ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۶۱

 

قرآنی بہشت کی نعمتیں = حکمتیں

قسط:۷

 

سوال:-  کیا قرآنِ عزیز میں ان دو ساتھیوں ( فرشتہ اور جنّ) کا اشارۂ حکمت موجود ہے؟

جواب:-  جی ہاں، آپ سورۂ بلد (۹۰: ۱۰) میں وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ کو ترجمہ کے ساتھ غور سے پڑھیں، اور سورۂ شمس (۹۱: ۰۸) میں فَاَ لْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰ ھَا کو بھی۔

سوال :- آیا سورۂ زخرف (۴۳: ۳۶) میں بھی یہ اشارہ ہے؟

جواب: –  جی ہاں، اس آیت کا ایک ترجمہ یہ ہے: جو شخص رحمان کے ذکر سے تغافل برتتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے، پس ان تین آیاتِ قرآنی سے حدیثِ شریف کی یہ حقیقت واضح اور روشن ہوئی کہ ہر انسان کے قلب کے دو کان ہیں اور ان کے پاس دو ساتھی (ایک جنّ = شیطان اور ایک فرشتہ) مقرر ہیں۔

سوال:-  کیا آپ کے نزدیک حَبْل الْوَرِیْد (۵۰: ۱۶) سے یہی فرشتہ مراد ہے؟

جواب:-  جی ہاں، کیونکہ گویا یہ ایک نورانی رسی ہے جو عالمِ علوی سے عالمِ شخصی میں وارد ہوئی ہے، لہٰذا اس فرشتے کا ہمیشہ عالمِ بالا سے رابطہ

 

۲۶۲

 

قائم ہے۔

سوال:-  کیا یہ جنّ = شیطان نفسِ امّارہ اور فرشتہ عقل ہے؟

جواب: جی ہاں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات ۵  ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۶۳

 

قرآنی بہشت کی نعمتیں = حکمتیں

قسط:۸

 

عالمِ شخصی کے نظام میں ابتداءً ایک جنّ اور ایک فرشتہ کے مقرر کرنے میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار حکمتیں ہیں، چنانچہ جو فرشتہ ہے اس کا قانون یہ ہے کہ وہ فوق العادہ ایمانی روحوں کی صورت میں اپنا کام کرے، تاکہ کل بہشت میں نورانی مووی میں یہ دیکھ کر آپ کو بےحد شادمانی حاصل ہو کہ آپ نے کس کس عالمِ شخصی میں فرشتے کا کام کیا اور اس کے نتائج و ثمرات کیا کیا تھے۔

یہاں یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ ایک کامیاب عالمِ شخصی میں اس فرشتے کی ترقی کہاں تک ہوسکتی ہے، اس سوال کا جواب کسی اور موقع پر دیا جائے گا۔

اے عزیزان! آپ سب کے سب عالمِ شخصی کے اس بنیادی نظام کو کماحقہٗ سمجھ کر اس سے بیش از بیش فائدہ حاصل کرنے کے لئے سعئی بلیغ کریں، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال رہی تو ہر دانا مومن کو یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ فی الوقت اس کے دل میں کیسے خیالات ہیں، اور ان میں کس کی کارفرمائی ہوسکتی ہے؟ فرشتہ کی یا جنّ کی؟ پھر ذکرِ الٰہی کا خزانہ بھی تو ہے اس پاک قوّت کو استعمال کر کے جنّ کو ان شاء اللہ مغلوب کیا جاسکتا ہے، پھر بحکمِ خدا دل پاک و روشن ہو جائے گا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات ۵  ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۶۴

 

قرآنی بہشت کی نعمتیں = حکمتیں

قسط:۹

 

فرشتہ اور جنّ یقیناً دریائے خیر و شر کا سنگم ہیں، لہٰذا یہاں علمِ تاویل کے مراکز میں سے کوئی مرکز ہوسکتا ہے، ہاں یہی بات بالکل درست ہے، کیونکہ جہادِ اکبر (عقل و نفس کی جنگ) کا محاذ یہیں ہے، اور بڑی کثرت سے ذکرِ الٰہی کی سخت ضرورت بھی اس لئے ہے کہ اس سے اس جنگ میں فرشتۂ عقل کو قوّت ملے اور جنّ (نفس) کو شکست، اسی طرح عالمِ شخصی فتح ہوسکتا ہے، اور اسی کے ساتھ ساتھ کائنات بھی مسخر ہوسکتی ہے، جبکہ عالمِ شخصی کی تسخیر اور کائنات کی تسخیر الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی تسخیرہے، جس کا ذکر تفصیلاً ہوچکا ہے۔

آپ نے دیکھا کہ قصّہ لٹل اینجل سے شروع ہوا اور رفتہ رفتہ تسخیرِ کائنات کا قصّہ بن گیا، پس اے عزیزانِ من! اگر آپ کو اس بات کا افسوس ہے کہ آپ نے بچپن ہی سے روحانی ترقی کی کوشش کیوں نہیں کی تو اس افسوس کا ایک روحانی حل ہے، وہ یہ کہ آپ اپنے لٹل اینجلز کی طرف توجہ دیں، اور ان کو اخلاق، علم، عبادت اور ذکر سے حقیقی فرشتے بنائیں، واللہ! آپ کی محنت رائیگان نہیں جائے گی۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعۃ المبارک  ۶؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۶۵

 

قرآنی بہشت کی نعمتیں = حکمتیں

قسط:۱۰

 

دو ننھے روحانی ساتھی = ایک ذرہ برابر فرشتہ ایک ذرہ برابر جنّ، آپ کے اور ہمارے لٹل اینجلز میں دو روحانی ساتھی ذراتی شکل میں ہوتے ہیں، تاکہ شفیق و مہربان والدین کے لئے فرشتے کی تقویت اور جنّ کی مخالفت بہت آسان ہو۔

اسلام دینِ فطرت ہے اور قانونِ فطرت سب کے سامنے ہے کہ شروع شروع میں ہر چیز بہت ہی چھوٹی اور بہت ہی کم مقدار ہوا کرتی ہے، پھر بتدریج اس کی ترقی ہو تی جاتی ہے۔

آپ کو اس دینی حقیقت پر کامل یقین ہے کہ آپ کے پیارے پیارے جسمانی بچے حضرتِ امام علیہ السّلام کے پیارے روحانی بچے ہیں، پس مولا نے اپنے پیارے روحانی بچوں کو آپ کے پاس بھیج دیا ہے، یہ اس کی بہت بڑی عنایت ہے، کہ آپ کو ایک دور رس خدمت کا موقع دیا اور ساتھ ہی ساتھ آپ سے امتحان بھی ہے۔

آپ ہمیشہ یہ خیال نہ کیا کریں کہ یہ خوبصورت بچے آپ ہی کے ہیں، بلکہ یہ عقیدہ بھی رکھیں کہ یہ پیارے بچے روحانی طور پر کتنے نورانی اور حسین و جمیل ہونگے کہ یہ حضرتِ امام علیہ السّلام کے روحانی شہزادے اور شہزادیاں ہیں، آمین!

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعۃ المبارک ۶؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۶۶

 

قرآنی بہشت کی نعمتیں = حکمتیں

قسط:۱۱

 

یہ حدیثِ شریف بنیادی اہمیت کی حامل ہے: اِنّما الاعمَالُ بِالنّیّات۔

ترجمہ: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب سمجھانے کے لئے ایک سوال پیشِ خدمت ہے:

ہر نیک عمل کو انجام دینے سے پہلے نیت واجب و لازم ہے، لہٰذا آپ اپنی اولاد کو کس نیت سے دینی اور دنیوی تعلیم دلاتے ہیں؟ یہ سمجھ کر کہ یہ مولا کے روحانی بچے ہیں یا اس خیال سے کہ یہ میرے بچے ہی؟ اگر آپ اپنے مولائے پاک کی خوشنودی کو ترجیح دیتے ہیں تو دین اور دنیا دونوں کا کام درست ہوگا اور بیش از بیش ثواب ملے گا۔

مثال: زمانۂ ماضی میں ایک پیر نے اپنے ایک مرید سے امتحاناً سوال کیا اور کہا کہ بتاؤ یہ گھر کا روزن (سغم = روشندان) کس لئے ہوتا ہے؟ مرید نے کہا کہ یا حضرت یہ روشنی کے لئے ہوتا ہے، تو پیر نے کہا تم ہنوز علم میں نامکمل اور خام و ناتمام ہو، بڑے مقصد کو چھوڑ کر ذیلی مقصد کو بیان کیوں کرتے ہو، سب سے بڑے مقصد کا ذکر کرو اور کہو کہ گھر کا روزن اذان کی سماعت کے لئے بنایا جاتا ہے، اور اس سے روشنی کا آنا ایک ذیلی مقصد ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعۃ المبارک ،۶؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۶۷

 

قرآنی بہشت کی نعمتیں = حکمتیں

قسط:۱۲

 

قرآنِ حکیم کے اسماء میں سے ایک اسم شفا ہے، جیسا کہ قرآن (۱۰: ۵۷) میں ہے: ترجمہ: لوگو! تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت آگئی ہے یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا (دوا) ہے اور جو اسے قبول کرلیں ان کے لئے رہنمائی اور رحمت ہے۔

دلوں کے تمام امراضِ باطن نفسِ امّارہ = شیطان = جنّ سے پیدا ہوتے ہیں، ان تمام باطنی بیماریوں کا شفاخانہ قرآن ہے اور اس کا ڈاکٹر حضرتِ مؤولِ آلِ محمدؐ ہے، جیسا کہ زمانۂ نبوّت میں قرآن شفاخانۂ روحانی تھا اور آنحضرت صلعم روحانی طبیب اور باطنی ڈاکٹر تھے، اور آپؐ کے بعد آپؐ کے برحق جانشین کو یہی مرتبہ حاصل ہے، اور یہ دلیل قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے۔

اگر قرآنِ پاک (۲۳: ۶۲؛  ۴۵: ۲۹) میں کتابِ ناطق کا ذکر ہے جو خدا کے پاس ہے، تو آپ اللہ کی ان دونوں کتابوں کو ایک ساتھ کس طرح مانیں گے؟

جواب: نور اور کتاب (۰۵: ۱۵) = کتابِ ناطق/قرآنِ ناطق اور قرآنِ صامت = حضرتِ مؤول اور قرآنِ پاک = معلمِ ربّانی اور قرآن، یہ ایک ہی سوال کے چار جواب ہیں، اور یہ (۰۵: ۱۵) سے مستنبط ہیں۔

نورِ امامت سے حقیقی علم حاصل کرنے کا طریقہ (راستہ) باطنی ہے ظاہری

 

۲۶۸

 

نہیں، اگر امامِ زمانؑ تک باطنی رسائی غیر ممکن ہوتی تو بعض خوش نصیب مریدوں کو کارِ بزرگ عطا نہ ہوتا، بیت الخیال نہ ہوتا، رات کی خصوصی عبادت نہ ہوتی، روحانی ترقی سے متعلق کوئی بھی ارشاد نہ ہوتا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

سنیچر ۷  ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۶۹

 

قرآنی بہشت کی نعمتیں = حکمتیں

قسط:۱۳

 

اگرآپ درویش ہیں اور اپنے باطن کی اصلاح چاہتے ہیں تو قرآنِ حکیم کی ان حکمتوں کو پڑھیں جو قلب سے متعلق ہیں، ان میں سب سے پہلے البتہ یہ حکمت ہے: سورۂ رعد (۱۳: ۲۸) أَلاَ بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ = خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے قلوب کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔

یہاں یہ سلسلۂ مضمون جنّ اور فرشتہ (دو روحانی ساتھی) سے متعلق ہے، چنانچہ اہلِ حکمت جانتے ہیں کہ ذکرِ الٰہی کے زیرِ اثر شیطانی وسوسے کم سے کم ہوتے جاتے ہیں، اور فرشتے کی ملکی قوّت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، تا آنکہ ذاتی شیطان مسلمان ہو جاتا ہے، اور فرشتہ وہ داعیٔ قیامت ہو جاتا ہے جس کا ذکر سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۰۸) میں ہے، لا عوج لہٗ کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ وہ فرشتہ (جو قیامت کے لئے بلانے والا ہے) سالک کی زبان میں بات کرتا ہے، اور سورۂ قٓ (۵۰: ۴۱) میں اس فرشتے کا قیامتی نام المناد ہے یعنی منادی کرنے والا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

سنیچر ۷  ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۷۰

 

قرآنی بہشت کی نعمتیں = حکمتیں

قسط:۱۴

 

آپ نے ذکرِ الٰہی کے بےشمار فوائد کے باب میں آیۂ شریفہ اور اس کا ترجمہ: “خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے قلوب کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے” کو پڑھا، لیکن ہم نے اس بات کا کوئی اندازہ یا کوئی اشارہ تک نہیں کیا کہ شروع سے لے کر اب تک کتنے ہی کروڑ مسلمانوں نے اطمینانِ قلبی کے لئے کلامِ الٰہی کی اس آیتِ مبارکہ سے رجوع کرکے دل کی ہر گونہ بے اطمینانی حالت کو اطمینان میں بدل دیا ہوگا۔

اے عزیزان! بفضلِ خداوندِ تعالیٰ ذکرِ الٰہی مضمون کے اعتبار سے ہمارے مضامین میں سے ہے، ہر چند کہ یہ عظمتِ معنوی کے لحاظ سے فلک الافلاک سے بھی برتر ہے، اے عزیز ساتھیو! ذکرِ الٰہی سے قلوبِ مومنین کو جو اطمینان نصیب ہوتا ہے، اس کا دائرہ دائرۂ نتیجۂ قیامت کے دائرے کے برابر ہے، میں نے یہاں جو کچھ کہا اس کا رخ اہلِ معرت کی طرف ہے۔

قرآنِ حکیم علاجِ دل کے لئے جو کچھ فرماتا ہے اس پر صرف ابتدائی نوعیت کا ایمان رکھنا کافی نہیں، جس طرح دنیا کا کوئی قابل ترین ڈاکٹر جب کسی مریض کو ایک نسخہ لکھ کر دیتا ہے تو اس کا اصل مقصد عمل ہی ہوتا ہے نہ کہ زبانی کوئی تعریف!

ذکرِ الٰہی سے ہمارا سب کچھ فدا ہو! لیکن اسمِ الٰہی کونسا؟ یا اسمِ اکبر = اسمِ اعظم کونسا؟ اور بنیادی شرطوں میں سے چند شرائط؟

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ادت  ۸ ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۷۱

 

قرآنی بہشت کی نعمتیں = حکمتیں

قسط:۱۵

 

قرآنِ پاک کی ہر آیت کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن بلکہ سات باطن ہوتے ہیں (حدیثِ شریف) آپ نے طبِ الٰہی (قرآنِ حکیم) میں سے نسخۂ اطمینانِ قلبی کو پڑھا، لیکن آپ کے پاس نہ تو اس کا کوئی اعلیٰ معیار موجود ہے اور نہ ہی عدمِ اطمینان کی کوئی لسٹ سامنے ہے، لسٹ کا ایک نمونہ یہ ہے:۔

۱۔  خوفِ بےجا

۲۔  وسوسہ

۳۔  فکری پریشانی

۴۔  گھبراہٹ

۵۔ بے خوابی

۶۔  برے خواب

۷۔  کابوس

۸۔  علمی ذوق کا نہ ہونا

۹۔  عبادت میں سستی اور غفلت

۱۰۔  عشقِ مولا کا نہ ہونا

۱۱۔  برے خیالات

۱۲۔  یادِ خدا سے دل و زبان کی محرومی

۱۳۔  نیک کاموں میں دل نہ لگنا

۱۴۔  دل کی سختی

۱۵۔  توبہ اور گریہ و زاری کا نہ ہونا

۱۶۔  خوفِ خدا کا نہ ہونا

۱۷۔ حرص، کینہ، حسد، تمام بری عادتیں وغیرہ۔

یہ جان بوجھ کر ایک چھوٹی سی مثال تیار کی گئی ہے، تاکہ آپ اس سے کوئی مکمل لسٹ خود بنائیں، آپ دوسرے لوگوں کا بھی اندازہ کر کے لسٹ کو زیادہ

 

۲۷۲

 

مکمل کرسکتے ہیں، نیز یہ کام گروپ میں بھی ہوسکتا ہے، آپ کے سامنے دل کی شکایات سے متعلق چند مکمل لسٹیں ہونے کی صورت میں آپ کو اطمینانِ قلبی کا اندازہ ہوگا، میرے نزدیک یہ ریسرچ ضروری ہے اس میں بڑے ثواب کی امید ہے، کیونکہ یہ کام لوگوں کو ذکرِ الٰہی کی طرف توجہ دلانے کی غرض سے ہے، اور قرآنی طب اور جہادِ اکبر کا حصہ بھی ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ادت ۸ ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۷۳

 

قرآنی بہشت کی نعمتیں = حکمتیں

قسط:۱۶

 

اے عزیزان! اطمینان مختلف درجات میں ہے، یعنی وہ ظاہری بھی ہے اور باطنی بھی، جزوی بھی ہے اور کلی بھی، پس اطمینانِ کلی و حقیقی اس وقت حاصل ہوجاتا ہے جبکہ لوگ انبیا و اولیا علیہم السلام کے نقشِ قدم پر چلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، عارفانہ موت سے مر کر زندہ ہوجاتے ہیں، چہار مرغِ ابراہیم علیہ السلام (جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل) کے معجزات کو دیکھتے ہیں، وہ عارف باللہ ہوجاتے ہیں، تب وہ حقیقی معنوں میں اطمینانِ کلّی و حقیقی کو حاصل کرسکتے ہیں، جیسا کہ سورۂ فجر (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) میں نفسِ مطمئنہ کا ذکر ہے، مگر یہ بات بھول نہ جانا کہ عارفانہ موت، روحانی قیامت اور اطمینان والی روح کا رجوع الی اللہ اسی زندگی ہی میں ہے، کیونکہ چشمِ بصیرت اور معرفت کا حصول صرف دنیا ہی میں ممکن ہے اور آخرت میں یہ موقع نہیں، جیسا کہ ارشادِ قرآنی ہے: وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلاً (۱۷: ۷۲)۔

پوچھا ہے عارفوں سے جو ہم نے مکانِ یار

آنکھوں کو بند کرکے ہے دل کا پتا دیا   (آتش)

اے کہ می پرسی زمن آن ماہ را منزل کجاست

منزلِ او در دل است اما ندانم دل کجاست

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر ۹  ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۷۴

 

قرآنی بہشت کی نعمتیں = حکمتیں

قسط:۱۷

 

حدیثِ شریف ہے: رَجَعْنَا مِنَ الجِھَادِ الاَصْغَرِ اِلیٰ الْجِھَادِ الاَکْبَر = ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہیں، صحابۂ کرام نے پوچھا: حضورؐ! جہادِ اکبر کیا چیز ہے؟ فرمایا: اَلاَ وَھِیَ مُجاھَدَۃُ النّفس = اچھی طرح سن لو ! جہادِ اکبر مجاہدۂ نفس ہے (کشف المحجوب، ص ۳۹۷)۔

اسی جہادِ اکبر کی منزلِ ناقور اور قبضِ روح اور احیا میں چہار مرغِ خلیل قوّتِ جبرائیلیہ، قوّت میکائیلیہ، قوّتِ اسرافیلیہ اور قوّتِ عزرائیلیہ زندہ ہوکر عالمِ شخصی کے چار فرشتے ہو جاتے ہیں، چار مرغِ خلیل کا راز سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۶۰) میں پوشیدہ ہے، جو کچھ کائنات اور عالمِ دین میں ہے وہ سب بطورِ خلاصہ و جوہر عالمِ شخصی میں موجود ہے:۔

ای نسخۂ نامۂ الٰہی کہ توی

وی آئینۂ جمالِ شاہی کہ توی

بیرون زتو نیست ہر چہ در عالم ہست

درخود بطلب ہر آنچہ خواہی کہ توی

ترجمہ: اے کتابِ الٰہی کا نسخہ ! (یعنی خدائی کتاب کی اصل) کہ یہ تو خود ہی ہے اور اے حقیقی بادشاہ کے جلال و جمال کا آئینہ! کہ یہ تو خود ہی ہے،

 

۲۷۵

 

کائنات میں جو کچھ ہے وہ (اپنی باطنی اور روحانی صورت میں) تجھ سے باہر نہیں (پس) تو جو کچھ چاہتا ہے وہ اپنے باطن (یعنی اپنی ذات) ہی میں طلب کر لے (کیونکہ سب کچھ) تو خو د ہی ہے۔ (گلشِ خودی، ص۶۵)۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر ۹ ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۷۶

 

قرآنی طب کے اسرار اور فیوض و برکات

سرِ اوّل

 

ام القرآن = فاتحۃ الکتاب = الحمد = قرآنِ عظیم = سبع المثانی، سورۂ فاتحہ کے کئی نام ہیں، اس لئے کہ یہ سماوی خزانوں سے لبریز ہے، جبکہ یہ سورۂ کنز ہے، چونکہ اس میں اسرار ہی اسرار ہیں۔

اس کے آغاز میں جو لفظِ حمد آیا ہے، اگر ہم اس کے معنوی سمندر میں ڈوب جائیں تو اس کے عرفانی تصوّر کا عالم ہوگا، اور اس عالم میں جو نور ہے کیا وہ نورِ عقل نہیں ہے؟ کیا وہ نورِ محمدیؐ نہیں ہے؟ کیا وہ قلمِ اعلیٰ نہیں ہے؟ کیا یہ نورِ ازل و ابد نہیں ہے؟ اگر نور محمدیؐ ہے تو پھر اس میں نورِ علیؑ بھی ہے، اگر یہ نورِ قلم ہے تو دیکھو اس کے اوپر کلمۂ کُنۡ اور اس کے نیچے لوحِ محفوظ ہے۔

اگر نورِ محمدیؐ ہے تو یہ نور الانوار بھی ہے، اس کا مطلب ہے تمام انوار کی یکجائی اور وحدت، کیا نورِ عرش یہی نہیں ہے؟ نورِ کرسی اور کہاں ہے؟ حمد میں جو میم ہے وہ مصدرِ کل ہے، سورۂ فاتحہ کی بے مثال فضیلت کی وجہ اس کے عظیم باطنی اسرار ہیں۔

اے کاش! میں ناچار، غریب، امامِ زمانؑ کا کمترین غلام سورۂ فاتحہ کے اسرار کو کماحقہٗ بیان کرسکتا! یہ کام میرے لئے سخت مشکل ہے، اس لئے میں بڑی عاجزی سے رونا چاہتا ہوں، آؤ آؤ دوستو! ہم گریہ و زاری کی زبان سیکھیں، کیونکہ اسی زبان

 

۲۷۷

 

میں دعا کرنے سے ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے، نہ صرف مشکل آسان ہوتی ہے بلکہ دل و دماغ پر نورِ ہدایت کی روشنی بھی پڑتی ہے۔

کتاب جامع ترمذی، جلدِ دوم، باب: سورۂ فاتحہ کی فضیلت، ص ۱۸۴:- حضرتِ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ ابی بن کعب (رض) کے پاس گئے۔۔۔ پھر فرمایا: کیا تم پسند کرتے ہو کہ میں تمہیں ایسی سورت بتاؤں جو نہ توریت میں اتری ہے نہ انجیل میں، نہ زبور میں، اور نہ ہی قرآن میں اس جیسی کوئی سورت ہے؟ عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہؐ! آپؐ نے فرمایا: نماز کس طرح پڑھتے ہو؟ انہوں نے ام القرآن (سورۂ فاتحہ) پڑھی تو آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میر ی جان ہے! توریت، زبور، انجیل حتیٰ کہ قرآن میں بھی اس جیسی کوئی سورت نازل نہیں ہوئی، یہی سبعِ مثانی ہے اور یہی قرآنِ عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۱۰ ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۷۸

 

قرآنی طب کے اسرار اور فیوض و برکات

سرِ دوم

 

جہاں خداوندِ تعالیٰ اپنی ذاتِ اقدس کی تعریف فرماتا ہے اور اس کی وجہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہر ہر عالمِ شخصی کا پروردگار ہے، تو اس میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ حضرتِ ربِّ تعالیٰ شانہٗ کی ربوبیت کے اسرار و انوار ہی خزانۂ معرفت ہیں، ربوبیت = پروردگاری کے اعلیٰ اسرار کا مشاہدۂ باطن ضروری ہے، اس کے لئے آپ سعیٔ بلیغ کریں کہ امامِ  مبینؑ کے نورِ پاک کو اپنی جبین = پیشانی = حظیرۂ قدس میں دیکھیں، مگر یہ معجزہ روحانی قیامت کی آخری منزل میں ہے۔

مصرع: سہارا عشق کا لے لو کہ وہ منزل ملے تم کو ۔ کیونکہ اللہ کی رسی امامؑ ہے، اور امامؑ کی رسی اس کی محبت =عشق ہے ، حقیقی علم کی روشنی میں حضرتِ امام کی بے شمار خوبیوں کے گھیرے میں آ جاؤ تو عشق ہوگا، کیوں نہ ہوگا، میں نے ایسے بہت سے افراد اور گھرانوں (خاندانوں) کو دیکھا جو امامِ  آلِ محمدؐ کے عشق میں مست ہیں، میں باربار ان کی زیارت کرنا چاہتا ہوں، مگر وہ ظاہراً دور ہیں۔

کتابِ کوکبِ دری، بابِ پنجم، منقبت ا، ص ۳۲۲-۳۲۳:

تفیسرِ بحرالدرر اور ریاض القدس میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ ایک دن امیرالمومنینؑ نے مجھ سے فرمایا: اے عبد اللہ! نمازِ عشا سے فارغ ہو کر میرے پاس آنا، جب میں گیا تو فرمایا: اے عبد اللہ! تو الحمد کے الف لام

 

۲۷۹

 

کے معنی بھی جانتا ہے؟ میں نے عرض کی کہ امیر المومنینؑ بہتر جانتے ہیں، پھر ایک پہر رات تک الف اور لام کے معنی میں اس قدر حقائق بیان فرمائے جن کا ایک شمہ بھی میرے دل میں نہ گزرا تھا، پھر حائے الحمد کی تفسیر کے متعلق معارف بیان کرنے میں رات کا دوسرا حصہ پورا کر دیا، بعد ازان اپنی زبانِ معجز بیان سے ارشاد فرمایا: اے عبد اللہ! جو کچھ میں نے بیان کیا تو نے سنا؟ میں نے عرض کیا: یا امیرالمومنینؑ! ہاں میں نےسنا اور حیران ہوا، اس وقت فرمایا: یَا عَبْدَ اللّٰہِ لَوْ کَتَبْتُ فِیْ مَعَانِی الْفَاتِحَۃِ لَاَوْ قْرَتُ سَبْعِیْنَ بَعَیْراً = اے عبد اللہ! اگر میں سورۂ فاتحہ کے معنی لکھوں تو ستر اونٹ لاد دوں۔

نیز ارشاد فرمایا: جو کوئی سورۂ فاتحہ کو درست طور پر پڑھے وہ آتشِ دوزخ سے بے خوف ہو جاتا ہے، اور جو کوئی اس کے معنی واجبی طور پر جانتا ہو: وَجَبَتْ لَہٗ الْجَنَّۃُ وَاَکْرَمَہُ اللّٰہُ بِرُ ؤ یَتِہٖ وَقُرْبَتِہٖ = یعنی بہشت اس کے لئے واجب ہو جاتا ہے اور حق تعالیٰ اس کو اپنے قرب اور دیدار سے معزز فرماتا ہے۔

ابنِ عباس کہتے ہیں کہ میں نے اپنا علم آنجنابؑ کے علم کے مقابلہ میں ایسا پایا جیسے سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ۔

اور ابنِ فخری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز امیرالمومنین علیہ السّلام نے فرمایا: لَوشِٔتُ لَاَ وْ قَرْتُ بِبَآ ءِ بِسْمِ اللّٰہ سَبْعِیْنَ بَعِیراً = اگر میں چاہتا تو بائے بسم اللہ کی تفسیر سے ستر اونٹ لاد دیتا۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ ۱۱ ؍ جولائی ۲۰۰۱ء   یومِ امامت مبارک

 

۲۸۰

 

قرآنی طب کے اسرار اور فیوض و برکات

سرِسوم

 

الاتقان، حصّۂ دوم، نوع ۶۵ میں روایت ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک سو چار (۱۰۴) کتابیں نازل فرمائیں، اور ان میں سے چار کتابوں میں سب کا علم ودیعت فرمایا، وہ چار کتابیں تورات، انجیل، زبور اور فرقان ہیں، اور پھر تورات، انجیل اور زبور تینوں کتابوں کا علم قرآن میں ودیعت رکھا۔

اب حضرتِ مولانا علی علیہ السّلام کے ارشاد کا خیال کریں کہ اگر مولا سورۂ فاتحہ یا باءِ بسم کی تفسیر تحریر فرماتا تو ایسی تفسیر کا وزن ستر اونٹوں کا بوجھ ہوتا، اور اس ارشاد کا ایک باطن بھی ہوسکتا ہے، وہ ہے سورۂ فاتحہ کے ستر مؤکل فرشتوں کا ہونا، جن کو اللہ نے نورِ اساس (علیؑ) سے پیدا کیا ہے، اور وہ سورۂ فاتحہ کے ستر زندہ علمی و عرفانی خزانے ہیں، کیونکہ تمام اگلی آسمانی کتابوں کا تمام علم قرآنِ حکیم میں ہے، اور قرآنِ حکیم کا کل علم سورۂ فاتحہ میں ہے، اور یاد رکھو کہ ہر عظیم الشان چیز پر عظیم فرشتے مقرر ہوتے ہیں، جس طرح اسمِ اعظم پر عظیم فرشتے مؤکل ہیں، آیتِ کرسی پر بھی ہیں، یہ اصولِ علمِ تسخیرات ہے۔

سوال: جب بہشت میں ہر نعمت ممکن الحصول ہے تو وہاں ایک عاشقِ رسولؐ یہ چاہتا ہے کہ آنحضرتؐ کی بابرکت آواز میں الحمدِ شریف کو سنے، کیا یہ نعمت ممکن ہے؟

 

۲۸۱

 

جواب: کیوں نہیں، اسی لئے شروع ہی سے الحمد پر فرشتے مقرر ہیں، خداوندِ علیم و حکیم نے بہشت کی نعمتوں میں کوئی کمی نہیں رکھی ہے، بہشت میں مولا علیؑ کی عبادت کا نمونہ بھی ہے، تصوف کی ایک کتاب میں ہے کہ جب مولا علیؑ عبادت کرتے تھے تو ان کے سینۂ مبارک سے جوشش دیگ جیسی آواز آتی تھی۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات ۱۲ ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۸۲

 

قرآنی طب کے اسرار اور فیوض و برکات

سرِچہارم

 

تضرع = عاجزی = گریہ و زاری = گڑگڑانا = خوفِ خدا سے رونا، یہ عمل طبِ الٰہی اور شفاخانۂ قرآنِ پاک کی وہ بے مثال اور لاجواب دوا ہے جس کی خاص اور اعلیٰ تعریف خود قرآنِ عظیم میں موجود ہے، لہٰذا آپ ان آیاتِ کریمہ کو چشمِ بصیرت سے دیکھیں جو مضمونِ تضرع سے متعلق ہیں، تمام اخلاقی اور باطنی امراض کی جڑ قساوتِ قلبی = دل کی سختی ہے، جس کا علاج تضرع سے ہوسکتا ہے، ان شاء اللہ!

تضرع بہت سی ظاہری اور باطنی بیماریوں کے لئے دوا ہے، آپ قرآن ہی سے ہر چیز کو معلوم کر لیں، واضح رہے کہ ہر عبادت کے آداب ہوا کرتے ہیں، پس تضرع کے بھی آداب ہیں، اور تضرع کا سب سے اعلیٰ نمونہ وہ ہے جس کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسولؐ کو سکھا دیا (۰۷: ۲۰۵) آیۂ شریفہ اور ترجمہ: ۔

وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنْ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ وَلاَ تَكُنْ مِنْ الْغَافِلِينَ۔

ترجمہ: اے نبیؐ اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ تم ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۱۳؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۸۳

 

قرآنی طب کے اسرار اور فیوض و برکات

سرِپنجم

 

کتابِ قرآنی علاج جو ۱۹۸۷ء میں تصنیف کی گئی تھی، آج کل پھر قرآنی طب پر چند مقالے لکھ رہا ہوں، دراصل وہی موضوع ہے، تا ہم ممکن ہے اس دفعہ کی کوشش میں کچھ نئی معلومات کا اضافہ ہو، لہٰذا آپ قرآنی علاج ہی کو بنیاد قرار دیں۔

الاتقان زمانۂ ماضی کے ایک بڑے نامور عالم علامہ جلال الدین سیوطی کی مشہور کتاب ہے، جس میں بہت سی گرانقدر معلومات جمع کی گئی ہیں، آپ اس کتاب کی نوع ۶۵ کو پڑھ کر دیکھ لیں، یہ نوع قرآن سے مستنبط کئے گئے علوم پر ہے، یعی ایسے علوم جو قرآن کے باطن سے بذریعۂ استنباط و استخراج دریافت کئے گئے ہیں، ہماری روحانی سائنس، قرآنی سائنس وغیرہ بھی اسی اصول کے مطابق ہیں، تاہم مقامِ شکر ہے کہ ہمارے ہاں درویشی اور تجرباتِ روحانی کا بھی دخل ہے، اسی قانون کی رو (وجہ) سے نامۂ اعمال کو نورانی مووی کہنا درست اور حقیقت ہے، اور یہ تاویل بھی ہے۔

کتابِ قرآنی علاج میں یہ ضروری مضامین ہیں: کتاب کی اہمیت، قرآنی علاج کا ثبوت، سورۂ شفا میں طبی اشارات، قرآن اور قلبِ انسان، آیاتِ شفا، قرآنی طب اور تقویٰ، قرآنی طب اور آواز، خواب کے اشارات، ذکرِ خدا۔ اکسیرِ اعظم، خوفِ بےجا کا علاج، ایک آسمانی دوا – دعا، روحانی سائنس (اوّل)، روحانی سائنس (دوم)، عشقِ الٰہی، معیارِ صحت، حقیقی صحت، انسان دنیا میں ۔ دنیا انسان میں،

 

۲۸۴

 

خدا کن سے محبت کرتا ہے۔۔۔، انبیاء و اولیاء کی شناخت، قرآن میں جسمانی شفا، بعض اہم مشورے، روحانی علاج اور عقیدۂ راسخ، امواجِ نور کا تصوّر، پاؤں کی حرکت سے علاج، جراثیم اور قوّتِ عزرائیلی، سانس سے علاج، کپکپی سے علاج۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۱۳ ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۸۵

 

قرآنی طب کے اسرار اور فیوض و برکات

سرِششم

 

سورۂ حجر (۱۵: ۹۰ تا ۹۱) میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جنہوں نے اپنے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے، ظاہر میں کوئی مسلم یا غیر مسلم ایسا ہرگز نہیں کرسکتا ہے، لہٰذا یہاں ضرور کوئی عظیم راز پوشیدہ ہے۔

قرآنِ حکیم خدائے واحد ویکتا کا کلامِ حکمت نظام ہے، لہٰذا اس کے باطنی اور روحانی پہلو کی ایک معجزانہ وحدت و سالمیت ہے، جس کی معرفت خدا کی معرفت سے الگ نہیں، اس لئے یہ ضروری ہے۔

پہلا دریائے نور کلمۂ کُنۡ = امر کے نام سے ہے، اس کا سنگم دوسرے دریائے نور کے ساتھ ہے، جس کے تین نام ہیں: نورِ محمدیؐ = قلم = عقل، اس کا سنگم تیسرے دریائے نور کے ساتھ ہے، جس کے تین نام ہیں: لوح = نورِ علیؑ = نفسِ کلّی، اسی میں کتابِ مکنون = گوہرِ عقل بھی پوشیدہ ہے، یہ ہے قرآنِ حکیم کے باطنی پہلو کی وحدت و سالمیّت، اَلحَمدُ لِلّٰہِ عَلٰی مَنِّہٖ وَاِحْسَانِہِ۔

نوٹ: نورِ عقل نورِ عرش بھی ہے، اور نورِ لوح نورِ کرسی بھی، قرآن کے یہ تمام مراتب امامِ مبینؑ = قرآنِ ناطق = کتابِ ناطق ہیں، اگر آپ قرآنِ پاک کے باطنی اور روحانی پہلو کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں تو یقیناً آپ کو قرآنی طب معجزات سے بے شمار فائدے حاصل ہوں گے، ان شاء اللہ!

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

سنیچر  ۱۴ ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۸۶

 

قرآنی طب کے اسرار اور فیوض و برکات

سرِہفتم

 

عالمِ دین کا پُرحکمت بیان کلمۂ باری = کُنۡ = امر سے شروع ہوتا ہے، کُنۡ بظاہر کلمۂ امرِ باری تعالیٰ ہے، یعنی ہوجا، بباطن اس سے ارادۂ الٰہی مراد ہے، پس کلمۂ کُنۡ یا ارادۂ الٰہی ایک دریائے نور ہے جو ہمیشہ جاری ہے، دوسرا دریائے نور قلم ہے، اور تیسرا دریائے نور لوح ہے، اور چوتھا دریائے نور سلسلۂ تجلیاتِ علمی ہے، یہ بہشت کی نہریں ہمیشہ جاری ہیں، یہ اہلِ معرفت کے عالمِ شخصی میں علمِ لدنی کا نظام ہے، جبکہ امامِ مبینؑ کا نور حظیرۂ قدس = جبین میں طلوع ہو جاتا ہے۔

اے عزیزان ! پھر سے سنو! اور خوب یاد رکھو: کلمۂ کُنۡ = ارادۂ الٰہی، قلم = فرشتۂ اعظم = نورِ محمدیؐ = عقلِ اوّل = نورِ عرش، لوحِ محفوظ = نورِ علیؑ = نفسِ کلّی = نورِ کرسی = فرشتۂ اعظم، یہ چیزیں انوار بھی ہیں = اسرار بھی، بِحار (بحر کی جمع) بھی اور فرشتے بھی، مثلاً: نورِ محمدیؐ = عقلِ کلّی = فرشتۂ اعظم = قلم = نورِعرش متصلِ نورِ کرسی، نورِ علیؑ= نورِ کرسی= لوحِ محفوظ = متصلِ قلم = متصلِ نورِ محمدیؐ = عقلِ اوّل۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

ادت ۱۵ ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۸۷

 

قرآنی طب کے اسرار اور فیوض و برکات

سرِہشتم

 

سوال: یہاں عنوان قرآنی طب کا ہے مگر بیان قرآن کی وحدت و سالمیت کا ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟

جواب: اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی باطنی معرفت ضروری ہے، کیونکہ قرآنی طب کا بیش از بیش فائدہ اس وقت ہے جبکہ تم قرآن کا عارف ہوجاتے ہو۔

قرآن کی باطنی وحدت و سالمیت کے تصور کے بغیر آپ عظمتِ قرآن کا عقیدۂ راسخ کیسے پیدا کرسکتے ہیں؟ پس قرآنی طب کا فائدہ قرآن کی معرفت میں ہے اور یہ بات بھی خوب یاد رکھیں کہ تمام اعلیٰ معرفتیں امامِ  مبینؑ میں جمع ہیں یعنی معرفتِ روح، معرفتِ ربّ، معرفتِ رسولؐ، معرفتِ امامؑ، معرفتِ قرآن وغیرہ۔

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

راولپنڈی ۱۶؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۸۸

 

قرآنی طب کے اسرار اور فیوض و برکات

سرِنہم

 

حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے قصۂ قرآن میں سے ایک پر حکمت اور اعلیٰ طبی مثال (۲۶: ۸۰) وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ = اور جب بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ یعنی شفائے جسمانی، شفائے روحانی، اور شفائے عقلانی، کیونکہ انسان جسم، روح اور عقل کا مجموعہ ہے۔

اور جب کوئی بندہ قلبِ سلیم کے ساتھ خدا کے پاس جاتا ہے تو تب وہ کامیاب ہوجاتا ہے (۲۶: ۸۹)۔

قلبِ سلیم کا ایک مطلب ہے ایسا صحت مند دل کہ اس میں ذرہ بھر بھی کوئی بیماری نہ ہو، بلکہ اس سے روح کی کامل صحت مراد ہے، بلکہ اس سے وہ عقل مراد ہے جو ہر قسم کی عقلی بیماری سے پاک ہو۔ اور قلبِ سلیم کے ساتھ خدا کے پاس جانے کی تاویل ہے امامِ زمانؑ کواپنا دل قرار دے کر خدا کو پہچاننا یا حضرتِ قائم کو اپنا دل قرار دینا، یہ ہوا قرآنی طب کا آخری درجہ اور آخری فائدہ۔

حضرتِ ابراہیمؑ اپنے عالمِ شخصی میں قلبِ سلیم کے ساتھ خدا کے پاس گیا تھا (۳۷: ۸۴)۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

راولپنڈی ۱۶ ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۸۹

 

قرآنی طب کے اسرار اور فیوض و برکات

سرِدہم

 

تقویٰ (پرہیزگاری) : جملۂ قرآن میں تقویٰ کی شاندار تعریف ہے، تقویٰ کو خداوندِ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے لئے معیارِ عزت قرار دیا ہے۔

پر ہیزگار کے لئے قرآنی لفظ متقی ہے جس کی جمع متقین ہے۔

قرآنِ حکیم میں اوّلین متقی حضرتِ امام ہابیل علیہ السّلام ہے، جو حضرتِ آدمؑ کا اساسِ اوّل تھا، جبکہ اساس دوم مولانا شیثؑ تھا۔

قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں متقین کا ذکر آیا ہے، وہاں امام المتقینؑ کا اشارہ بھی ہے۔

آپ کو یہ سن کر یقیناً حیرت ہوگی کہ حقیقی تقویٰ ایک اسمِ اعظم کے خزانے میں ہے، اور یہ کسی کو نہیں مل سکتا مگر روحانی قیامت اور منزلِ عزرائیلی میں، کیونکہ یہ اسمِ اعظم حضرتِ عزرائیلؑ کے لئے خاص ہے۔

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

راولپنڈی  ۱۷ ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۹۰

 

قرآنی طب کے اسرار اور فیوض و برکات

سرِیازدہم

 

اسماء الحسنٰی کی تفسیر و تاویل ہماری پاک جماعتی دعا کے آخر میں ہے، اور ہر امامِ  آلِ محمدؐ اپنے وقت میں اسمِ اعظم اور مجموعۂ اسماء الحسنٰی ہے، یعنی ہماری مقدس دعا کا حصۂ ششم بڑا اہم اور معجزانہ ہے، کیونکہ اس میں اہلِ بیتِ اطہار علیھم السلام کے اسمائے مبارک ہیں اور خدا کے اسماء الحسنٰی یہی حضرات ہیں، آپ ان بابرکت اسما کی عظیم فضیلت کو قرآنِ حکیم (۰۷: ۱۸۰) میں دیکھیں۔ آپ اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ تمام انوارِ أئمہؑ نورِ امامِ زمان ؑ میں جمع ہیں، لہٰذا امامِ زمان علیہ السلام اللہ کا اسمِ اعظم بھی ہے اور اسماء الحسنٰی بھی ہے۔

قرآنی طب پر جو کچھ لکھا جا رہا ہے اس کے جاننے میں بھی شفا ہے اور پڑھنے میں بھی شفا ہے۔

عبادات ، اذکار، علم، حکمت اور معرفت میں شفا ہی شفا ہے۔

میرا یقین ہے کہ قرآنِ حکیم میں طبِ الٰہی کے اسرار بہت ہیں، ہم اپنے کام میں خدواندِ قدوس کی مدد چاہتے ہیں۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اسلام آباد، ۱۷ ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۹۱

 

قرآنی طب کے اسرار اور فیوض و برکات

سرِدوازدہم

 

سورۂ محمد (۴۷: ۰۷) میں ارشاد ہے: ترجمہ: اے لوگو جو (بحقیقت) ایمان لائے ہو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا، اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔

تم آسمان میں اللہ کی کوئی مدد نہیں کرسکتے ہو، مگر ہاں زمین پر جو خدا کا خلیفہ اور نمائندہ (امامِ زمانؑ) ہے اس کی مدد گویا خدا کی مدد ہے۔

پاس اے عزیزان ! تم حضرتِ امام (مؤول) علیہ السّلام کے علم کو پھیلانے کی خدمت کرو تم اسی طرح اللہ کی مدد کرسکتے ہو، تاکہ اللہ تم کو صراطِ مستقیم پر چلنے میں ثابت قدمی عطا فرمائے، جس طرح حضرتِ عیسٰیؑ کی مدد کرنے کے معنی میں حواریوں نے کہا تھا، ہم اللہ کے مددگار ہیں (۰۳: ۵۲)۔

 

ن۔ن۔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اسلام آباد ،  بدھ  ۱۸  ؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۲۹۲

قرآنی سائنس – حصّۂ چہارم

قرآنی سائنس حصّۂ چہارم

آغازِ کتاب

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ یَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ (۳۱: ۲۷)

ترجمہ: زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں (لکھنے سے) ختم نہ ہوں گی، بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے۔

سوال: آیا کلام ِالٰہی میں دینی احکام و ہدایات کے ساتھ ساتھ ایک خاص آسمانی سائنس بھی ہے؟

جواب: جی ہاں، کہتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں ستر ہزار علوم ہیں، میرا خیال ہے کہ میں قرآنِ حکیم کے عاشقوں میں سے ہوں، لہٰذا یہ قول مجھے بہت پسند آیا اور حوالے کے ساتھ اپنے ایک مقالے میں درج کرلیا، پھر میری فکر و نظر آیۂ کریمۂ بالا میں جا کر ڈوب گئی اور نتیجے کے طور پر معلوم ہوا کہ قرآنی علوم ستر ہزار سے بہت زیادہ ہیں، بلکہ بے شمار ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ

 

۱

 

مُلکِ قدیم یعنی دائمی بادشاہی کا مالک ہے، اس کی لازوال بادشاہی میں بیحد و بے حساب عوالمِ شخصی ہیں اور ہر عالمِ شخصی میں چند کلماتِ تامّات ہوتے ہیں، ہر کلمۂ تامّہ ایسا ہے کہ خدا اس میں ہر گونہ علوم کی کائنات کو سمیٹ کر رکھتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ الباسط بھی ہے اور القابض بھی، یعنی وہ جس طرح چیزوں کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی قدرت رکھتا ہے اسی طرح ان کو سمیٹ کر محدود کرنے پر بھی قادر ہے۔

پس آیۂ مذکورۂ بالا میں خدائے علیم و حکیم کے جن کلمات کی تعریف آئی ہے وہ حق سبحانہ و تعالیٰ کے کلماتِ تامّات ہیں، جو انبیاء و اولیاء علیہم السّلام اور عرفاء کے عالمِ شخصی میں ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک میں بے پایان علم سمیٹا ہوا ہے آیۂ شریفہ میں آٹھ سمندر کے اشارہ سے ایسا لگتا ہے کہ عالمِ شخصی میں آٹھ کلماتِ تامّات ہیں۔

 

املا از چیف ریکارڈ آفسیر

عرفت روحی امین الدین

 

ن۔ ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۴؍دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

۲

 

 

 

انتساب

 

خدمت جو عبادت ہے تو پھر قبلہ بھی ہوگا

مولائے زمانہ ہے میرا قبلۂ خدمت

کتابِ ہذا کا یہ دسترخوانِ علمی ILG حیدر علی ابن نور علی، ILG روبینہ زوجۂ حیدر علی اور ان کے خانوادے کی جانب سے جماعتِ اسماعیلیہ، عالمِ اسلام اور عالمِ انسانیّت کیلئے بچھایا گیا ہے ۔

حیدر علی کے والد ماجد کا نام نور علی اور والدہ ماجدہ کا نام ملیک بائی ہے، دینی خدمت کی یہ روایت آپ کو اپنے خاندان سے ورثہ میں ملی ہے، آپ کے والدِ محترم نے حیدر آباد جماعت خانے میں پچیس سال تک میّت کمیٹی کے ممبر کی حیثیّت سے خدمات انجام دیں اور اسی جماعت خانے میں پانچ بارہ سال کے موکھی بھی رہے جبکہ آپ کی والدہ محترمہ نے اسی مجلس میں موکھیانی کے فرائض انجام دیئے۔ حیدرعلی نور علی نے اپنے والدین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مختلف اداروں میں خدمات پیش کیں۔ آپ نے حیدرآباد جماعت خانے میں دو سال بوائے سکاؤٹس کے طور پر اور بعداً آسٹن امریکہ جماعت خانے میں پانچ سال تک بطور والنٹیر اور کارسازی کمیٹی میں نو سال تک ممبر کی حیثیت سے خدمت انجام دی۔ محترمہ روبینہ حیدر علی کے والد کا نام ولی محمد ابن علی جی اور والدہ ماجدہ کا نام رحمت بائی ہے، آپ نے حیدرآباد میں دو سال تک گرلز گائیڈز کی حیثیت سے خدمت انجام دی ہے، ایک سال تک پانچ بارہ سال کی کامڑیانی کے فرائض ادا کیے ہیں۔

آپ دونوں کے خاندان کے گلستان کے گلہائے خندان آپکے تین انتہائی پیارے بچے ILG سحر حیدر علی (تاریخِ پیدائش: ۶؍ اپریل ۱۹۹۱ء)  ILG گلِ حسین حیدر علی (تاریخِ پیدائش: ۱۴؍جون ۱۹۹۳ء)، اور ILG  سیف علی حیدر علی (تاریخ پیدائش: ۲۸؍ اپریل ۱۹۹۷ء) ہیں، جو اس علمی خدمت میں آپ کے ساتھ ساتھ اور ان شاء اللہ مستقبل کی جماعت کی علمی خدمت کیلئے مضبوط ستون ثابت ہونگے۔

 

از قلم: شاہ ناز سلیم ہونزائی۔ کراچی  جولائی ۲۰۰۶ ء

 

۳

 

 

آئندہ امکانات

قسط:۱

مضمونِ بالا کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ میں از خود اس پر کچھ لکھ سکوں گا، بلکہ میری عاجزانہ نیّت یہ ہے کہ میں اللہ کے نور اور اس کی کتاب (قرآن ۰۵: ۱۵) سے کچھ اسرار کے لئے بصد عاجزی رجوع کروں گا، تاکہ اسی ذاتِ پاک کی کوئی خصوصی ہدایت اور عنایت ہو، آمین!

میرا عقیدہ ہے کہ اگر نورِ ہدایت کی روشنی میں دیکھا جائے تو قرآنِ حکیم میں بہت سی پیش گوئیاں ہیں، خداوند کی توفیق و یاری سے ہم کوئی قرآنی پیش گوئی آپ کو بیان کریں گے۔

سائنسدان جن چیزوں کو یو۔ ایف۔ اوز کہتے ہیں وہ اگرچہ عوام کے لئے ایک معما ہیں، لیکن خواص کے لئے ایسا نہیں ہے۔

“یو۔ ایف ۔ اوز” دراصل کیا ہیں؟ میں نے کئی دفعہ اس کا جواب لکھا ہے۔

 

ن۔ ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اسلام آباد

۱۸؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۴

 

آئندہ امکانات

قسط:۲

 

سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۱۳) کی حکمت یہ بتاتی ہے کہ حضرتِ آدمؑ سے پہلے سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے، كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً (۰۲: ۲۱۳)۔

چنانچہ آگے چل کر پھر سب لوگ ایک ہوجانے والے ہیں، کیونکہ دورِ اعظم کا اوّل اور آخر ایک جیسا ہوتا ہے، بحکمِ خدا ایسا ہونے کے لئے دنیا میں بہت سی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔

آلِ عمران (۰۳: ۱۴۰) وَتِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ= مفہوم: یہ چھوٹے اور بڑے ادوار ہیں، جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے ہیں۔

ان ادوار میں پچاس ہزار برس کا بھی ایک دور ہے (۷۰: ۰۴) جس میں البتہ سب لوگ جسمِ لطیف میں منتقل ہوجاتے ہیں۔

جسمِ لطیف کے بہت سے درجات ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

اسلام آباد

۱۹؍ جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۵

 

آئندہ امکانات

قسط:۳

 

ظلم وستم اور جنگ و جدل تا بکی، ہر عمل کا ایک ردِ عمل ہوتا ہے خداوندِ تعالیٰ ظالموں اور شریر لوگوں کو ایک محدود مہلت دیتا ہے۔

الغرض دنیا بتدریج بہتری کی طرف جاری رہی ہے۔

جو لوگ اپنے آپ کو دینی اور دنیوی علم سے آراستہ و پیراستہ کرتے ہیں ان کے حق میں بڑا اچھا زمانہ آرہا ہے، ایسے لوگ بڑے کامیاب اور کامران ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔

یہ دورِ قیامت اور زمانۂ تاویل ہے، اس سے عاشقانِ مولا کو بہت فائدہ ملنے والا ہے، آمین!

اے عزیزان! آپ اپنے محبوب مولا کو کامل عشق و محبّت سے یاد کرنا، یہ عشق خودساختہ نہ ہو، بلکہ آٹومیٹک یعنی قلبی اور جاندار (زندہ) ہو، تاکہ یہ کیمائے عشق آپ کی خاکی ہستی کو سونا بنا دے۔

حقیقی عاشق کے لئے مولائے پاک کے مقدّس عشق کے لمحات بڑے گرانمایہ ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اسلام آباد ، ۱۹؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۶

 

آئندہ امکانات

قسط:۴

 

تصوّرِ استقبالِ روحِ پرفتوحِ خلیفہ عبدالخالق خانبِ خلدِ برین

اولاً جمعی ملائک مژدہ گویان آمدند

مومنانی ہم بدیدن شاد و خندان آمدند

دستہ ای از جمعِ حوران گل بدامان آمدند

یک گروہ از جملہ غلمان نیز رقصان آمدند

ترجمہ: سب سے پہلے فرشتوں کا ایک گروہ بہشت کی خوشخبری سناتے ہوئے آیا، اور بہشت کے کچھ مومنین بھی ان کے استقبال اور ملاقات کے لئے شادان و خندان آگئے، حورانِ بہشتی کی جمعیّت میں سے ایک دستہ (گروپ) دامن میں پھول لیکر آگیا، تمام غلمان میں سے ایک گروہ رقص کنان استقبال کے لئے آگیا۔

بزرگوار خلیفہ عبدالخالق (مرحوم و مغفور) ہمارے عظیم دوست جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی صاحب بحرالعلوم کے والدِ محترم تھے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اسلام آباد، ۱۹؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۷

 

آئندہ امکانات

قسط:۵

 

طریقت (تصوف) میں بھی اور حقیقت میں بھی، عالمِ خلق اور عالمِ امر کی معرفت ضروری ہے، عالمِ خلق = عالمِ سفلی = یہ جہان = عالمِ جسمانی۔ عالمِ امر = عالمِ علوی =عالمِ بالا= عالمِ روحانی۔

أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ(۰۷: ۵۴) =  خبردار رہو! اسی کا ہے عالمِ خلق اور عالمِ امر۔ سوال: عالمِ خلق اور عالمِ امر کے درمیان کیا فرق ہے؟ جواب: عالمِ خلق میں اللہ کا قانونِ فطرت ہے اور عالمِ امر میں اس کا قانونِ کُنۡ (یعنی ہوجا) ہے اب آپ خود سوچیں اور فرق بیان کریں۔

عالمِ خلق اور عالمِ امر کی اس معرفت میں عظیم فائدے ہیں، مثال کے طور پر بحوالۂ (۱۷: ۸۵) یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ “کہو یہ روح میرے ربّ کے حکم سے ہے۔” (تاویل: روح عالمِ امر سے آتی ہے، اور اس کا سلسلہ اور رابطہ عالمِ امر کے ساتھ قائم ہوسکتا ہے)۔

بحوالۂ یاسین (۳۶: ۶۸) اور جس شخص کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کو عالمِ امر سے عالمِ خلق میں سرنگون کر دیتے ہیں۔ یہاں سرنگون سخت مشکل سوالات میں سے ہے جس کا جواب صرف امامِ آلِ محمدؐ ہی کے پاس ہے، ہم ان شاء اللہ آپ کو بتائیں گے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اسلام آباد ، جمعہ ۲۰ ؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۸

 

آئندہ امکانات

قسط:۶

 

خدا جس شخص کو لمبی عمر دیتا ہے وہ بہت ہی لمبی ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ عالمِ امر اور عالمِ خلق دونوں پر محیط ہوتی ہے اور ایسا شخص البتہ انسانِ کامل ہوتا ہے، اس کی کلی پرواز دائرۂ اعظم میں ہوتی ہے، یہ دائرہ عالمِ روحانی اور عالمِ جسمانی پر محیط ہے، جس کی ظاہری مثال آسمان اور زمین کی طرح ہے، اگر تم کو آسمان و زمین کے درمیان اڑنے کی قدرت عطا ہوجائے تو سچ بتاؤ کہ کس طرح اڑو گے؟ یہی نا کہ اوپر جانے کے لئے سر اوپر کی طرف ہوگا اور نیچے آتے وقت سر کو نیچے کرنا پڑے گا۔ اور یہی راز ہے کہ جب بچہ شکمِ مادر سے پیدا ہوتا ہے تو اس وقت وہ سرنگون ہوتا ہے، اشارہ ہے کہ وہ عالمِ بالا سے آیا ہے۔

یہی ہے اس آیۂ شریفہ کی تاویلی حکمت جس میں سرنگون سے متعلق سوال پیدا ہوا تھا، حوالہ (۳۶: ۶۸)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اسلام آباد، جمعہ ۲۰؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۹

 

آئندہ امکانات

قسط:۷

 

سورۂ ھود (۱۱: ۰۷) میں ارشاد ہے: = اور اس کا تخت پانی پر تھا = ہوگیا = ہے۔ تینوں معانی درست ہیں۔

اس ارشادِ مبارک کا انتہائی حیران کن تاویلی معجزہ یہ ہے کہ یہ پانی پر اللہ کا تخت بھی ہے اور بھری ہوئی کشتی بھی ہے (۳۶: ۴۱)۔

اللہ نے تمہارے ذراتِ روح کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کردیا تھا۔ اور دوسرے معنی میں اس نےتمہاری روحوں کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھا لیا تھا، جبکہ اس کا عرش (تخت) پانی پر تھا۔

جب کسی عارف کے عالمِ شخصی میں خدا کا عرش پانی پر ہوتا ہے تو خدا کا یہ عرش (تخت) بھری ہوئی کشتی (زندہ کشتی) بھی ہے (یعنی امامِ زمان کا نور ) اور اس میں تمہاری روح بھی ہے۔ الحِمد لِلّٰہ ربِّ العٰلَمِین۔

اہلِ بیتِ رسولؐ سفینۂ نجات اور بھری ہوئی کشتی اور پانی پر اللہ کا عرش ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اسلام آباد، جمعہ ۲۱؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۱۰

 

آئندہ امکانات

قسط:۸

 

ھُوَالاول، ھُوَ الآخِر، ھُوَ الظاھِر، ھُوَ البَاطِن

مُنزہ مَالِکُ المُلکی کہ بے پایان حَشر دَارد

(از دیوانِ پیر ناصر خسرو ق س)

اس خوبصورت اور پُرحکمت شعر میں سرتا سر قرآن کے حوالے سے خدائے تعالیٰ کی تعریف کی گئی ہے، من جملہ خدا کی ایک بڑی تعریف یہ بھی ہے کہ اس کی قیامات کا سلسلہ بے پایان ہے، پس قیامت اور اس کے اسرار و معجزات کا تذکرہ قرآن میں دو طرح سے آیا ہے: اوّل : گزشتہ واقعات، دوم: آئندہ امکانات۔ لیکن اس میں بڑی عجیب حکمت یہ ہے کہ جب گزشتہ واقعات کا تجدّد پیشِ نظر ہوتا ہے تو ایسے میں گزشتہ واقعات بھی آئندہ امکانات کی طرح نظر آنے لگتے ہیں، مثلاً قصّۂ آدمؑ ظاہراً قیامت سے بہت پہلے کا قصّہ ہے، مگر باطناً وہ قیامت کے تحت ہے، کیونکہ علم و حکمت اور معرفت کے خزانے سب کے سب قیامت ہی میں پوشیدہ ہیں، پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ آدم خلیفۃ اللہ کہلائے اور وہ اسرارِ قیامت سے نابلد ہو، اس کے پاس علم و حکمت اور معرفت کے خزانوں سے کچھ بھی نہ ہو، اور وہ بدرجۂ کمال علم الاسماء کے بغیر فرشتوں کا معلّم ہو، اس بیان سے یہ معلوم ہوا کہ آدم خلیفۃ اللہ کی قرآنی معرفت بیحد ضروری ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی،  ۲۲؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۱۱

 

آئندہ امکانات

قسط:۹

 

بحوالۂ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲) اس آیۂ شریفۂ الست میں سب سے پہلے یہ ذکر ہے کہ ربِّ تعالیٰ نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذریت کو لیا، سوال ہے کہ یہ بنی آدم خاص (انبیاء واولیاء) ہیں یا سب لوگ ہیں؟ ؍ جواب:۔ یہ خاص بنی آدم ہیں۔ کیونکہ یہ واقعہ روحانی قیامت کے حوالے سے ہے، جس سے عوام بے خبر ہوتے ہیں۔

اگر یہ قصّہ انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کا ہے تو پھر سوال ہے کہ وہ حضرات سب کے سب جسمانی طور پر یکجا تو نہ تھے جبکہ قصّۂ الست مجموعی ہے؟۔ جواب: انبیاء واولیاء بظاہر یکجا نہ تھے مگر باطناً وہ حضرات ایک میں سب ہوتے ہیں، لہٰذا ایک کی روحانی قیامت سب کی نمائندہ قیامت ہوتی ہے، اسی قیامت کا ہر نبی اور ہر ولی میں تجدّد ہوتا ہے۔

جب آپ یہ مانتے ہیں کہ اس دور کے آدم سے پہلے بہت سے آدم ہوئے ہیں، پس اس حقیقت کے مطابق اس دور کا آدم ایک طرف سے آدم تھا اور دوسری طرف سے ابنِ آدم، ایسے میں عین ممکن ہے کہ آیۂ الست کا اوّلین تعلق اس دور کے اعتبار سے حضرتِ آدم سے ہو۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی،  ۲۳؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۱۲

 

 

آئندہ امکانات

قسط:۱۰

 

سوال: بحوالۂ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲ تا ۱۷۴) بنی آدم کی پشتوں سے اخذِ ذریّت سے کیا مراد ہے؟ ۔ج: روحانی قیامت کی منزلِ اسرافیلی و منزلِ عزرائیلی میں قبضِ روح کا معجزہ ۔

سوال: وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ۔ اس کا اصل ترجمہ کیا ہے؟ ۔ ج: اور ان کو اپنی روح پر حاضر کیا = انہیں اپنی روحوں کا مشاہدہ کرایا۔ اگرچہ عارف اپنی روح کو پہلے پہل عالمِ ذرّ میں دیکھتا ہے پھر منزلِ عزرائیلی وغیرہ میں، لیکن یہاں روح کو درجۂ کمال کے بعد دکھانے کا ذکر ہے، کیونکہ حضرتِ ربّ اور ربوبیّت کی مکمل معرفت حاصل نہیں ہوتی ہے، جب تک کہ کوئی روح حظیرۂ قدس میں فنا فی اللہ ہو کر صورتِ رحمان پر پیدا نہ ہوجائے۔

سوال: عارف جو نمائندہ قیامت سے گزرتا ہے، وہ کن لوگوں کا نمائندہ ہوتا ہے؟ عوام کا یا خواص کا یا سب کا؟ ۔ج: سب کا۔

سوال: أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ = کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں، پروردگار کا یہ سوال سب لوگوں سے ہےقَالُوا بَلَى شَهِدْنَا۔ انہوں نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے ربّ ہیں۔ اور یہ جواب بھی تمام لوگوں کی طرف سے ہے، کیا سب لوگ اس حال میں ربّ کے سامنے حاضر و موجود نہ تھے؟ ۔ج: نہیں، حظیرۂ قدس

 

۱۳

 

میں صرف ایک ہی نمائندہ روح ہوتی ہے اور وہ بھی فنا ہوکر۔ اور یہ زبانِ حال کے اسرار ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی،  ۲۳؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۱۴

 

آئندہ امکانات

قسط:۱۱

 

ہر انسان کے دل کے دو کان ہوتے ہیں، ان کے پاس دو ساتھی مقرر ہیں: ایک جنّ اور ایک فرشتہ، جنّ = شیطان = نفسِ امّارہ۔

سوال: آیا یہ جنّ = ذاتی شیطان کبھی مسلمان ہوسکتا ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم کا ذاتی شیطان مسلمان ہوگیا تھا؟۔ ج: ان شاء اللہ، ذاتی شیطان مسلمان (تابعدار) ہوجاتا ہے۔ اس کے لئے شرط یہ ہے کہ بندۂ مومن پر روحانی قیامت آ جائے اور حظیرۂ قدس کی منزل آنے لگے۔ کیونکہ شیطان کو یوم البعث تک مہلت دی گئی ہے (۰۷: ۱۴ تا ۱۵)۔

پس بعث اور انبعاث کا آخری اور اصل مقام حظیرۂ قدس ہی ہے اور قیامت کا طوفان وہیں پر جا کر تھم جاتا ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی،  ۲۴؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۱۵

 

آئندہ امکانات

قسط:۱۲

 

حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کا قصّہ زبردست انقلابی اسرار سے لبریز ہے اور یہ ہرگز کوئی معمولی قصّہ نہیں ہے جیسا کہ عوام کے نزدیک ہے۔

برائے حکمت پہلا سوال: سورۂ دھر (۷۶: ۰۲) میں اس قانونِ فطرت کا ذکر آیا ہے کہ خدا نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا ہے، کیا آدم اس قانونِ فطرت سے مستثنیٰ ہے؟ اگر نہیں تو ماننا پڑے گا کہ آدم کے والدین تھے، نیز سورۂ روم (۳۰: ۳۰) میں اللہ کے قانونِ فطرت کا تفصیلی ذکر ہے، پس کوئی شخص آدم کو اللہ کے قانونِ فطرت سے الگ نہیں کر سکتا ہے۔

دوسرا سوال: آیا اللہ کی سنت میں تبدیلی ہوتی ہے؟ جواب: نہیں ہرگز نہیں۔ پھر ظاہری قصّہ کیوں ایسا ہے کہ خدا نےآدم کو تو مٹی کے گارے سے بنایا مگر بنی آدم کو والدین کے مخلوط نطفے سے پیدا کیا؟۔ جواب: اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی ہرگز نہیں اور یہ اللہ تعالیٰ ہی کا ارشاد ہے۔ لیکن جہاں ظاہری قصّے ہیں وہ قرآنی حکمت کے خلاف ہیں۔ پس آپ پر واجب ہے کہ آدم کی قرآنی معرفت اور روحانی معرفت حاصل کریں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ۲۴ ؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۱۶

 

آئندہ امکانات

قسط:۱۳

 

سورۂ نور(۲۴: ۵۵) کا ترجمہ ہے: اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں سے جو بحقیقت ایمان لاچکے ہیں اور حقیقی معنوں میں نیک کام کرتے ہیں (یہ مثالی مومنین ہیں) اور اللہ نے باطنی اشارتوں اور بشارتوں میں ان سے جو وعدہ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا ان کو کائناتی زمین میں خلیفہ بنائے گا، جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، مخفی نہ ہو کہ یہ کائناتی زمین کی خلافت کائناتی بہشت کی سلطنت بھی ہے۔

اگر آپ ہر ایسے کائناتی زمین کے خلیفہ کو ایک آدم کہتے ہیں تو پھر بے شمار آدم ہوںگے، کیونکہ اس آیۂ شریفہ کا یہی اشارہ ہے، اور جو لوگ اللہ کی بے پایان رحمت سے کفر کرتے ہیں وہی لوگ فاسق ہیں، اور اس تاویلی حکمت کے بعد آیۂ کریمہ کے باقی اسرار واضح ہوجاتے ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، منگل  ۲۴ ؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۱۷

 

آئندہ امکانات

قسط:۱۴

 

سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں تسخیرِ کائنات اور خدا کی تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں کا جس طرح بیان آیا ہے وہ زبردست جامع اور بے مثال ہے، آپ چشمِ بصیرت سے دیکھیں اور خوب غور کریں: تسخیرِ کائنات، تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں کی عطا، کائناتی زمین کی خلافت، اور کائناتی بہشت کی سلطنت، یہ ایک ہی حقیقت کے چار نام یا چار مثالیں ہیں، الحمد لِلّٰہ، اب آیتِ استخلاف ( ۲۴: ۵۵) کے عظیم اسرار منکشف ہو گئے۔

اے نورِ عینِ من! عالمِ شخصی کے اسرار کو کبھی بھول نہ جانا، کیونکہ خدا عالمِ شخصی ہی میں اہل حقیقت سے کائناتی زمین کی خلافت کا وعدہ فرماتا ہے، اور اپنی قدرتِ کاملہ سے عالمِ شخصی ہی کو کائناتی زمین اور کائناتی بہشت بناتا ہے، اور اہلِ ایمان کے لئے سب کچھ عالمِ شخصی ہی میں موجود ہو۔

اے عزیزان! آپ اپنی روحِ علوی کو قرآنی معرفت اور روحانی معرفت کی روشنی میں پہچان لینا، تاکہ اسی کے ساتھ ساتھ کنزِ مخفی حاصل ہو، آمین!

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ  ۲۵ ؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۱۸

 

آئندہ امکانات

قسط:۱۵

 

بہشت کی تمام نعمتوں میں سب سےاعلیٰ نعمتیں علمی اور عقلی ہیں، اور قرآنِ حکیم علم و حکمت کی نعمتوں سے لبریز ہے، پس یہ ایک پُرحکمت سوال ہے کہ بہشتِ برین میں قرآنی نعمتیں ہوں گی یا نہیں؟ جواب: کیوں نہیں، جب قرآنِ عظیم روحانی اور عقلی نعمتوں کا سرچشمہ ہے، بہشت ہی میں یہ راز سب پر عیان ہوجائے گا کہ اللہ کی کتاب (قرآن) کے ساتھ ساتھ اللہ کا نور (۰۵: ۱۵) کیوں ہے؟ اہلِ بہشت قرآن اور نور کے ذریعے سے اسرارِ علم و معرفت سے آگاہ ہوجائیں گے، ان کو قرآن کے وہ بھید معلوم ہوجائیں گے جو قرآن کی وحدت و سالمیّت سے متعلق ہیں، وہ کتابِ ناطق (۲۳: ۶۲؛  ۴۵: ۲۹) امامِ زمانؑ (قرآنِ ناطق) کو پہچان لیں گے۔

قرآنِ ناطق بہشت میں قرآنی تاویلات کا سرچشمہ ہوگا، اہلِ بہشت کو یہ عظیم راز بھی معلوم ہوجائے گا کہ قرآن دنیا میں جہاں لوگوں کے پاس ہے تو وہ کتابی شکل میں قرآنِ صامت ہے، جہاں خدا کے پاس ہے وہ کتابِ ناطق (یعنی قرآنِ ناطق) ہے، وہ جہاں لوحِ محفوظ میں ہے وہاں اس کا نام قرآنِ مجید (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) ہے، اور جہاں کتابِ مکنون میں ہے وہاں قرآنِ کریم ہے (۵۶: ۷۶ تا ۷۹)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ ۲۵  ؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۱۹

 

آئندہ امکانات

قسط:۱۶

 

آیتِ استخلاف (۲۴: ۵۵) کی تاویلی حکمت میں کائناتی زمین کی خلافت اور کائناتی بہشت کی سلطنت کا ذکر ہوا، یہی ذکر (۲۷: ۶۲) اور (۳۵: ۳۹) میں بھی ہے، اللہ تعالیٰ جو القابض اور الباسط ہےعالمِ شخصی ہی کو پھیلا کر کائناتی زمین اور کائناتی بہشت بناتا ہے۔

بہشت کی علمی اور عقلی نعمتوں کی جان نور اور قرآن (۰۵: ۱۵) ہیں، اور بہشت کا دین بھی وہی ہے جو نور اور قرآن کے مطابق ہے، آپ جنّت میں دین کی ترقی کا ذکر آیۂ استخلاف (۲۴: ۵۵) میں دیکھیں۔ سوال : بہشت کا بہترین شغل کیا ہے؟ جواب: لوگوں کو علم و معرفت سے آگاہ کرنا۔

کتابِ احادیثِ مثنوی میں ہے: قَالَ دَاؤدَؑ یَارَبِّ لِمَا ذا خَلَقْتَ الْخَلْقَ؟ قَالَ کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِکَیْ اُعْرَفَ۔

ترجمہ: حضرتِ داؤد علیہ السّلام نے پروردگارِ عالم سے پوچھا کہ یا ربّ! تو نے خلق کو کس غرض سے پیدا کیا؟ خدا نے فرمایا: میں ایک مخفی خزانہ تھا پس میں نے چاہا کہ میری معرفت ہو تو میں نے خلق کو پیدا کیا تاکہ میں پہچانا جاؤں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعرات  ۲۶؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۲۰

 

آئندہ امکانات

قسط:۱۷

 

اہلِ جنّت کی عظیم سلطنت اور اس کے عظیم مرکز= شاہنشاہ = امامِ آلِ محمدؐ اہلِ دانش کے نزدیک ایک روشن حقیقت ہے، لہٰذا اس پر دلائل کا ایک طویل سلسلہ ضروری نہیں، تاہم ایک عام فہم اور دلچسپ دلیل بحوالۂ حدیثِ شریف یہاں درج کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے ہر ایک راعی= چرواہا = سردار= بادشاہ ہے، اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیّت کے بارے میں بازپرس ہوگی۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا نے اپنی بے پایان رحمت سے ہر شخص کو ایسا بنایا ہے کہ وہ علم و عمل اور خدا کی مدد سے اس دنیا میں اپنی ایک ذاتی دنیا اور اس میں ایک رعیّت پیدا کرسکتا ہے، اگر کوئی شخص غفلت و نافرمانی کی وجہ سے یہ امکانی بادشاہی ضائع کرتا ہے تو اس سے قیامت میں سخت پوچھ گچھ ہوگی۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعرات  ۲۶؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۲۱

 

آئندہ امکانات

قسط:۱۸

 

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۹۵) میں ایک بہت ہی عظیم کلیدی راز مخفی ہے:قُلْ لَوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلاَئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولاً ۔

ترجمہ: ان سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو ان کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجتے۔

اس قرآنی تعلیم سے ظاہر ہے کہ انبیاء و اولیاء علیھم السّلام ظاہراً بشر اور باطناً ارضی فرشتے ہوتے ہیں۔

اطمینان کا مطلب ہے، ان میں ذکر و عبادت اور علم و معرفت کا زبردست اطمینان ہوتا ہے اور ان میں خوفِ بیجا نہیں ہوتا اور ان کو اطمینان اس لئے بھی حاصل ہے کہ ان کی روح کو عالمِ بالا کے ساتھ رابطہ حاصل ہے۔

اے برادران و خواہران روحانی! آپ ہادیٔ زمان علیہ السّلام کی نورانی ہدایت کی روشنی میں سوچیں اور انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کے نقشِ قدم پر چلیں جس طرح قرآنِ حکیم سورۂ فاتحہ میں اصولی اور بنیادی تعلیم دیتا ہے: ہم کو راہِ راست پر چلا لے ان لوگوں کی راہ پرجن کو تو نے اپنے عظیم انعامات سے نوازا ہے، یعنی انبیاء و اولیاء علیھم السّلام۔

 

۲۲

 

اے عزیزان! حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے ان مقدس ارشادات کو جان و دل اور عشق سے بار بار پڑھیں جو روحانی ترقی سے متعلق ہیں، حجتِ قائمؑ کے ارشادات کے بغیر روحانی ترقی مشکل ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعہ  ۲۷؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۲۳

 

آئندہ امکانات

قسط:۱۹

 

اَلْاَرْوَاحُ جُنُودٌ مُّجَنَّدَۃٌ = روحیں جمع شدہ لشکر کی صورت میں تھیں اور ہیں۔ ملاحظہ ہو: ہزار حکمت (ح:۵۱)، یعنی ہر انسانِ کامل کی روحانی قیامت میں روحانی جنگ کے دو طرفہ لشکر کا مظاہرہ کرنے کے لئے بحکمِ خدا تمام روحیں جمع ہو جاتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہر انسانِ کامل کی روحانی قیامت میں دینِ حق کی عالمی اور کائناتی فتح حاصل ہوتی ہے، پس ہر روحانی قیامت = روحانی جنگ کے نتیجے میں اہلِ حق کی ایک کائناتی سلطنت قائم ہوجاتی ہے، جب مالک الملک = اللہ کی قیامتیں بے پایان ہیں تو اہلِ حق کی سلطنتیں بھی لا انتہا ہیں کیونکہ اللہ کی رحمت لامحدود ہے۔

یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے ہر ایک چرواہا = سردار= بادشاہ ہے، اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیّت کے بارے میں بازپرس ہونے والی ہے، یعنی یہ پوچھا جائے گا کہ آیا تم کو خدا نے بحدِّ قوّت بادشاہ نہیں بنایا تھا؟ اور تمہارے لئے ہر قسم کے امکانات پیدا نہیں کردیئے تھے؟ پس ہر وہ انسان خداوندِ تعالیٰ کے حضور میں بڑا شرمندہ ہوجائے گا، جس نےاپنی امکانی بادشاہی اور رعیّت کو ضایع کیا ہو، لہٰذا دانا انسان وہ ہے جو آج دنیا ہی میں آخرت کے امکانی سوالات پر غور کرتا رہتا ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعہ  ۲۷؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۲۴

 

آئندہ امکانات

قسط:۲۰

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۱) وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلاَئِكَةِ اسْجُدُوا ِلأَدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِيسَ لَمْ يَكُنْ مِنْ السَّاجِدِينَ۔ میں لشکرِ ارواح کی تاویلی حکمت قابلِ فہم ہے، لہٰذا اس کو خوب غور سے پڑھنا ہے۔

اس سنتِ الٰہی کو ہرگز فراموش نہ کرنا کہ ہر آدم (نفسِ واحدہ) کی روحانی تخلیق کے ساتھ ساتھ لشکرِ ارواح کی روحانی تخلیق کا تجدّد ہوتا ہے، اس اعتبار سے آدم اور بنی آدم کی تمام ارواح ایک ساتھ پیدا ہو جاتی ہیں، اور محولہ بالا آیت میں یہی تاویل پوشیدہ ہے، پس اگرچشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ارواح فرشتوں کے نام سے ساجدین میں بھی ہیں اور آدم کی وحدت و سالمیّت مسجود میں بھی، اور صورتِ رحمان میں بھی وہ آدم کے ساتھ یک حقیقت ہیں ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحسانِہٖ۔

 

س۔غ۔ق۔ت۔ا۔م۔ع

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، سنیچر ۲۸  ؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۲۵

 

آئندہ امکانات

قسط:۲۱

 

جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب کو ایک بڑا عجیب نورانی خواب دیکھا، شاید میں اپنے گاؤں حیدرآباد (ہونزا) میں ہوتا ہوں، نظر شمالی پہاڑ کی طرف جاتی ہے پہاڑ کا ایک صاف و شفاف رخ نظر آتا ہے، اس پر یا تو چاند سورج سے مل کر ایک ہوجاتا ہے یا سورج چاند کے ساتھ مل جاتا ہے، شام کو میں نے تقریباً چالیس مرتبہ سورۂ فاتحہ پڑھ لی تھی، میں سورۂ فاتحہ پر اس طرح ایمان رکھتا ہوں کہ یہ ام القرآن ہے، تمام قرآنی سورتوں سے افضل ہے، اس کے تقریباً بیس نام اور ستر عظیم مؤکل ہیں، محبوبِ خداؐ نے اپنی نبوّت کی تمام زندگی میں الحمد شریف کو پڑھا جس سے ہوا کا تمام سمندر معطر ہو گیا، تمام اصحابِ کبار نے مجموعی طور پر لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں پڑھا تو اس کی بے شمار بار زکات ادا ہوتی آئی اور اب بحکمِ خدا اثر آفرینی کا یہ عالم ہے کہ اس کے مؤکل فرشتے ہر وقت پکارتے رہتے ہیں کہ ہے کوئی حاجتمند یا کوئی بیمار جو ام الکتاب کو عقیدۂ راسخ سے پڑھے اور خدا کے حضور سے گریہ و زاری کے ساتھ حاجت طلبی کرے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، سنیچر ۲۸ ؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۲۶

 

آئندہ امکانات

قسط:۲۲

 

اللہ تعالیٰ القابض بھی ہے اور الباسط بھی، لہٰذا وہ قادرِ مطلق روحانی قیامت کی منزلِ اسرافیلی = منزلِ عزرائیلی میں روحِ عاشق = روحِ سالک = روحِ عارف کو بار بار قبض کر کے ساری کائنات میں پھیلا دیتا ہے، ایسے میں عاشق = عارف صرف جبین (پیشانی) میں زندہ رہتا ہے، کیونکہ وہاں اسمِ اعظم میں امامِ زمانؑ کا نور کام کررہا ہوتا ہے، باقی تمام جسم کچھ سیکنڈوں کے لئے مر جاتا ہے، عارف اپنے امام کے نور سے جو جبین میں ہے اپنی عارفانہ موت کا معجزہ دیکھتا رہتا ہے، اور خدا نے قرآن میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ عارفین اپنی عارفانہ موت کو دیکھتے ہیں تاکہ معرفت ہر طرف سے کامل اور مکمل ہو۔

پھر ساری کائنات کی روح جس میں عارف کی اپنی روح بھی ہے، عارف کے مردہ جسم میں ڈال کر زندہ کیا جاتا ہے، اس میں زبردست حکمت والے خدا کی بیشمار حکمتیں ہیں، لہٰذا اس حکمت آگین عمل کو مسلسل سات رات اور آٹھ دن دہرایا جاتا ہے، اسی لئے کہا گیا ہے کہ اہلِ حق کے لئے ستر ہزار کائناتیں اور اتنے عوالمِ شخصی ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، اتوار ۲۹ ؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۲۷

 

آئندہ امکانات

قسط:۲۳

 

اللہ تبارک و تعالیٰ کے انعامات و احسانات اس کثرت سے ہیں کہ اگر ہم سب مل کر دمِ آخرین تک عاشقانہ گریہ وزاری کے ساتھ شکرگزاری کرتے رہیں تو پھر بھی ہم سے ذرہ بھر حقِ شکرادا نہ ہوگا کیونکہ ہم سب بخدا ! اللہ کی نعمتوں کے طوفان میں مستغرق ہیں۔

روحانی قیامت، اسرافیل و عزرائیل کی منزل اور عارفانہ موت کے معجزات کا مضمون بڑا جامع الجوامع ہے، اس میں اسرارِ عظیم کا ایک بڑا خزانہ موجود ہے، آپ آئندہ دنیا میں یا بہشت میں جب بھی اس خزانے سے واقف ہوں گے تو آپ کو بڑی حیرت ہوگی، کیونکہ آپ نے جوجو قیامت کی مثالیں سنی تھیں وہ کچھ اور تھیں، مگر ان کی اصل حقیقتیں ہوں گی کچھ اور!

کوئی بھی مرنے والا انسان اپنی موت کو سرتاسر دیکھ نہیں سکتا، مگر ہاں اہلِ معرفت ہی اپنی عارفانہ موت کے تمام احوال کا مشاہدہ کر سکتے ہیں، اس کی روشن مثالیں قرآنِ حکیم میں مل سکتی ہیں، جیسے ارشاد ہے:۔

أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ = کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کے پاس (عارفانہ) موت حاضر ہوئی (۰۲: ۱۳۳) ۔

حاضر اس چیز کو کہتے ہیں جو سامنے ہو اور نظر آئے، مگر عام موت کبھی

 

۲۸

 

نظر نہیں آتی ہے، لہٰذا یہ عارفانہ موت کا ذکر ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر۳۰  ؍جولائی ۲۰۰۱ ء

 

۲۹

 

آئندہ امکانات

قسط:۲۴

 

آئندہ امکانی نعمتوں کی ایک سردار نعمت جثّۂ ابداعیہ ہے، یہ نورانی بدن = جسمِ لطیف = مومن جنّ = پری = روحانی = فرشتہ = انسانِ لطیف = برقی بدن = یو۔ایف۔او = جامۂ جنّت = سرابیل (واحد سربال) = طیر = ملک = فرشتہ وغیرہ۔

یہ نعمتِ عظمیٰ ہر اس شخص کے لئے ممکن ہے، جو خود شناسی اور ربّ شناسی میں کامیاب ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ خدا کے پاس محمدؐ و آلِ محمدؐ کا وسیلہ بھی ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحْسَانِہٖ۔

یہ جسمِ عنصری اور یہ دنیا مومن کا قید خانہ ہے، لیکن پھر بھی ایک باراس میں آنا ضروری ہے، ہم نے بفضلِ خدا امامِ مبین کو جثّۂ ابداعیہ میں دیکھا اور کئی عزیزوں سے اس انتہائی عظیم معجزے کا ذکرِ جمیل بھی کر دیا، اور شاید کہیں تحریر میں بھی ہو۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  یکم اگست۲۰۰۱ ء

 

۳۰

 

آئندہ امکانات

قسط:۲۵

 

سورۂ حج (۲۲: ۴۷) ترجمہ: تیرے ربّ کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزاربرس کے برابر ہوا کرتا ہے۔

وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا(۳۲: ۰۴) یعنی خدا نےچھ ناطقوں کے چھ ادوار میں عالمِ دین کو پیدا کیا اور دورِ ہفتم میں حضرتِ قائم اور قیامت کے جملہ امور کو انجام دیا۔

یہ تمام معجزات عالمِ شخصی میں ظہور پذیر ہوتے ہیں، کیونکہ عرش اور صاحبِّ عرش کی معرفت اسی میں ہے، اس سلسلے کے بہت سے اسرار آپ کے علم میں لائے گئے ہیں، آپ ہماری کتابوں کا خوب مطالعہ کریں، ہر مقالے کو بروقت پڑھیں اور اچھی طرح سے یاد کریں، ورنہ کثیر کتابوں کو نہیں پڑھ سکیں گے، اور یہ آپ کے لئے مشکل کام ہوگا۔

آج کل میں چھوٹے چھوٹے مقالے لکھ رہا ہوں اور اسی میں بہت بڑی حکمت ہے، آپ ان کلیدی حکمتوں سے فائدہ اٹھائیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ ، یکم اگست ۲۰۰۱ ء

 

۳۱

 

آئندہ امکانات

قسط:۲۶

 

شاید کسی عزیز کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ “آئندہ امکانات” کا یہ عنوان استاد کے نزدیک کیوں ضروری ہوا؟

جواب: ہر چیز ایک دائرے پر گردش کررہی ہے، اگر آپ ماضیٔ بعید کے عظیم واقعات کو دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ ماضی کا الٹا سفر کیسے کر سکتے ہیں، لہٰذا آؤ عالمِ شخصی میں آؤ! جس میں چھوٹے بڑے دائرے یعنی ادوار ہیں، جن میں تمام گزشتہ واقعات آئندہ امکانات ہوجاتے ہیں، یہی وجہ ہے۔

ہر دور میں عالمِ شخصی ہی علم و حکمت اور معرفت کا مرکز رہا ہے، چنانچہ عالمِ دین کے سات دن ہیں: چھ ناطق اور حضرتِ قائم، اور یہی  سات دن عالمِ شخصی میں بھی ہیں، جیسا کہ ارشادِ قرآنی ہے (۱۴: ۰۵): وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآياتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ۔

ہم اس سے پہلے موسیٰ علیہ السّلام کو بھی اپنے معجزات کے ساتھ بھیج چکے ہیں اسے بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا اور انہیں عالمِ شخصی میں ایامِ خدا کے اسرار سے آگاہ کردے اس میں معجزات

 

۳۲

 

ہی معجزات ہیں ہر اس شخص کے لئے جو صبرو شکر کرنے والا ہو۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۲؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۳۳

 

آئندہ امکانات

قسط:۲۷

 

بہشتِ کلّی کے ناموں میں سے ایک خاص نام دار السّلام ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ اسی نام سے بہشت کی طرف دعوت دے رہا ہے (۱۰: ۲۵)۔ اس نام کے دو معنی ہیں جو باہم مل کر ایک ہوگئے ہیں: معنیٔ اوّل ہیں: خدا کا گھر، جبکہ السّلام اللہ کے ناموں میں سے ہے، معنیٔ دوم ہیں: سلامتی کا گھر۔

پس اگر تم خدا کی اس دعوت کو قبول کرتے ہو جیسا کہ قبول کرنے کا حق ہے تو تم خدا کے گھر میں فنا فی اللہ ہوجاؤ گے، تب تمہیں کوئی موت ستا نہیں سکتی ہے، تم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ و سلامت ہوجاؤ گے، تو کیا ہم آج اس وقت کے امکانات کے لئے آئندہ امکانات نہیں کہیں گے؟ خوب سوچ کر کوئی جواب دو۔

کائناتی بہشت کی بے شمار نعمتیں آئندہ امکانات ہیں، طریقت (تصوف) اور حقیقت میں فنا فی اللہ کی اور بھی دلیلیں ہیں لیکن مذکورۂ بالا قرآنی دلیل بڑی عجیب و غریب اور عظیم الشّان ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات   ۲؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۳۴

 

آئندہ امکانات

قسط:۲۸

 

سورۂ یونس (۱۰: ۲۵) میں ارشاد ہے:وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلاَمِ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ = اور اللہ تمہیں دارالسّلام کی طرف دعوت دے رہا ہے (ہدایت اس کے اختیار میں ہے) جس کو وہ چاہتا ہے راہِ راست پر چلاتا ہے۔

حکمت: دارالسّلام = خدا کا گھر= سلامتی کا گھر= امامِ زمانؑ = صراطِ مستقیم، اللہ کا پاک و بے مثال قانون یہ ہےکہ اس کی ہر چیز سب سے اعلیٰ روح اور سب سے کامل عقل کے ساتھ زندہ اور دانا ہے، پس دارالسّلام = بہشت = خدا کا گھر = امامِ مبین ہے جو حیّ و دانا ہے، اور صراطِ مستقیم ہادیٔ برحق = امامِ مبین  ہے جو زندہ اور دانا ہے، اور خدا کی سب قابلِ تعریف چیزیں امامِ مبین میں یکجا ہیں۔

اللہ کا دین اس کی مخلوق کی مثال پر ہے اور مخلوق درجہ بدرجہ ہے، جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، جمادات کا درجہ سب سے نیچے کیوں ہے؟ روحِ نباتی اور روحِ حیوانی میں کیا فرق ہے؟ کیا عقلی اعتبار سے سب انسان ایک جیسے ہیں یا ان کےمختلف درجات ہیں؟

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۳؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۳۵

 

آئندہ امکانات

قسط:۲۹

 

سورۂ معارج (۷۰: ۰۴) میں یہ ذکر آیا ہے کہ اللہ عروج کی سیڑھیوں کا مالک ہے۔ حکمت: ہر ناطق اپنے دور میں، ہر اساس اپنے عصر میں اور ہر امام اپنے زمانے میں خدا کی سیڑھی ہے۔

ملائکہ اور روح اس کے حضور چڑھ کر جاتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، حکمت: یقیناً یہ روحانی قیامت اور عالمِ شخصی میں عارف کے روحانی عروج کا ذکرِ جمیل ہے، یہاں روح سے عارف مراد ہے اور ملائکہ ارواح بھی ہیں اور فرشتے بھی، کیونکہ نفسِ واحدہ کے ساتھ سب ہوتے ہیں۔

پچاس ہزار سال کا یہ دن = دور البتہ ظاہری اعتبار سے ہے، مگر باطن میں مومنین و مومنات کا نور زمان ومکان کو سمیٹتا ہے، جس کو نور کا دوڑنا کہا گیا ہے (۵۷: ۱۲) قرآنِ حکیم کا ہم سے کتنا بڑا امتحان ہے کہ نورِ ہدایت کے دوڑنے کا تصوّر دے کر ہم کو حیران کریتا ہے! حالانکہ دنیا میں کوئی بادشاہ تو درکنار کوئی بڑا آدمی بھی کسی کام کے لئے بھاگتا نہیں، سنجیدہ چال اور شان سے چلتاہے، پس یقیناً یہ عظیم راز معلوم ہو گیا کہ نور زمان و مکان کو لپیٹتا ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ   ۳؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۳۶

 

آئندہ امکانات

قسط:۳۰

 

سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۱۳) میں ارشاد ہے:

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمْ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمْ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ۔

اس آیۂ شریفہ سے متعلق مشکل سوالات:

سوالِ اوّل: آیا کبھی لوگوں کی کوئی جماعت (امت) کسی نبی کے بغیر گزری ہے؟ جواب: نہیں، کیونکہ قرآنی ارشاد ہے (۳۵: ۲۴) : اور کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی ڈرانے والا نہ آیا ہو۔

سوالِ دوم: انبیاء علیھم السّلام سے پہلے سب لوگ کہاں اور کب ایک ہی جماعت تھے؟ جواب: جہاں اور جب وہ سب عالمِ ذرّ میں تھے۔

سوالِ سوم: بعث کے اصل معنی کیا ہیں؟ جواب: روحانی قیامت

 

۳۷

 

میں موت دے کر پھر زندہ کرنا اور عالمِ شخصی کے تمام مراحل سے گزارنا تا کہ قیامت اور آخرت کی معرفت ہو۔

سوالِ چہارم: تمام انبیاء کے ساتھ الکتاب نازل کرنے سے کیا مراد ہے؟ جواب: الکتاب امام ہے، کیونکہ ہر نبی کی نورانیّت میں امام ساتھ ہوتا ہے مگر ظاہری کتاب کسی نبی پر آسمان سے بعد میں نازل ہوتی ہے۔

سوالِ پنجم: حق سے کیا مراد ہے؟ جواب:حق نور ہے، حق فیصلہ کن نور ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

سنیچر ۴؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۳۸

 

آئندہ امکانات

قسط:۳۱

 

آیۂ مباکہ: کان النَّاس (۰۲: ۲۱۳) کو مطالعۂ قرآن کے ساتھ ساتھ عرصۂ دراز سے دیکھ رہا تھا اور اس میں سوچ بھی رہا تھا، مگر اللہ کے فضل و کرم سے کل جس طرح ہادئ زمانؑ نے میرے دل و دماغ کی رہنمائی فرمائی، میں اس کا حقِ شکر گزاری ادا نہیں کرسکتا ہوں، یہ نورانی ہدایت امامِ زمان علیہ السّلام کی خصوصیّت ہے۔

ہم میں سے ہر ایک کو امامِ آلِ محمدؐ کے چشمۂ نور سے سیراب ہونا چاہئے، یعنی ہمیشہ نور کا پانی پینا چاہئے۔

کان کے معنی ہیں: وہ تھا، وہ ہوگیا، وہ ہے، کون سے۔ آپ ہمیشہ اس لفظ کے ایک ہی معنی میں کیوں محدود ہوتے ہیں؟ جبکہ اس کے تین معنی ہیں! پس ممکن ہے کہ مذکورہ آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہو کہ اگر سب لوگوں کو انبیاء سے الگ دیکھا جائے تو وہ صرف ایک گروہ ہیں، نہ مسلمان نہ کافر، یہ تو انبیاء علیھم السّلام ہی کی تعریف ہے کہ لوگ ان کی اطاعت کر کے اچھے سے اچھے مومن ہوسکتے ہیں، اگر لوگ نافرمانی کرتے ہیں تو بدترین کافر ہوجاتے ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار  ۵؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۳۹

 

آئندہ امکانات

قسط:۳۲

 

قرآنِ حکیم نے اس قانونِ الٰہی کا بار بار ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء کے جوڑے بنائے ہیں (۳۶: ۳۶)، یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے پاس اللہ کے حضور سے صرف کتاب نہیں آئی بلکہ نور بھی آیا، یہ نور سب سے پہلے آنحضرتؐ کا وجودِ مبارک تھا اور آپؐ کے بعد آپؐ کی آلِ پاک کا ہر امام یہ نور = قرآنِ ناطق = صاحبِّ تاویل ہے۔

یہاں سے صاف صاف یہ معلوم ہوا کہ حضرتِ ربِّ تعالیٰ شانہٗ نے جو بابرکت اور پُرحکمت کتاب تمام پیغمبروں کے ساتھ ساتھ نازل فرمائی وہ حضرتِ امام کا نورِ اقدس تھا یعنی امام تھا، اور جتنی آسمانی کتابیں ہیں وہ بعد میں نازل ہوئیں، اسی وجہ سے تاویل کی اصطلاح بنی، جس کے لفظی معنی ہیں: کسی چیز کو اوّل کی طرف لے جانا، یعنی کتابِ صامت کی کسی مثال کی حقیقت کو جاننے کے لئے کتابِ نور = کتابِ ناطق کی طرف لے جانا، کہ وہی اوّل ہے، یہ ہوئے تاویل کے لفظی اور اصطلاحی معنی۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار۵  ؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۴۰

 

آئندہ امکانات

قسط:۳۳

 

سورۂ ھود (۱۱: ۰۷) تاویلی مفہوم:۔

اور (خدا) وہی ہے جس نے عالمِ دین کے نمونے پر عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، اب اس کا عرش بحرِعلم پر ظاہر ہوا ( اس سے پہلے بھی یہی سنتِ الٰہی چلتی آئی تھی جس میں کوئی تبدیلی نہیں) تاکہ تم کو آزما کر دیکھے کہ تم میں علماً و عملاً  کون بہتر ہے۔

عالمِ شخصی کی تخلیق و تکمیل اور بحرِ علم پر عرشِ الٰہی کے ظہور کا یہ پُرحکمت معجزہ یقیناً عظیم معجزات میں سے ہے، اہلِ معرفت یہاں نہ معلوم کیوں اس رازِ قرآنِ عزیز سےمست و حیران ہیں کہ یہی آسمانی عرش (تخت) جہاں پانی پر ہے وہاں یہ بھری ہوئی کشتی (۳۶: ۴۱) بھی ہے، اور عارفین اس معجزہ در معجزہ کے باب میں یہ گواہی دیتے ہیں کہ وہ کشتی در کشتی ہے جو امامِ آلِ محمد ہے، اور یہاں بیان کرنے کے لئے بہت سی عظیم حکمتیں موجود ہیں، ان شاء اللہ!

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر ۶ ؍اگست ۲۰۰۱ ء

 

۴۱

 

آئندہ امکانات

قسط:۳۴

 

سورۂ یاسین (۳۶: ۴۱) ترجمۂ آیت: اور ان کے لئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کردیا۔

یہاں کئی علمی سوالات ہیں وہ سب آپ پر چھوڑتے ہیں، چونکہ ہم نے تاویلی مفہوم کا بیان شروع کیا ہے، لہٰذا اسی کو جاری رکھتے ہیں: بھری ہوئی کشتی ظاہری اور جسمانی نہیں بلکہ یہ روحانی اور نورانی ہے، ذریّت کا لفظ یہاں روحوں کے لئے آیا ہے، پس امامِ آلِ محمدؐ ارواح کے لئے روحانی اور نورانی کشتی ہے۔

یہ پاک و پاکیزہ کشتی اگرچہ روحوں سے بھری ہے پھر بھی اس میں بیشمار روحوں کی گنجائش ہے، کیونکہ روح لامکانی ہے اس لئے یہ جگہ نہیں گھیرتی ہے، جبکہ اس کی صفت لامکانی ہے، جب آپ روحاً بھری ہوئی کشتی میں سوال تھے تو کیا آپ خدا کے اس تخت پر نہیں تھے، جو بحرِ علم پر تھا؟ اس میں کیا کیا حکمتیں ہو سکتی ہیں؟ آپ کچھ حکمتیں بیان کریں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۶؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

 

۴۲

 

آئندہ امکانات

قسط:۳۵

 

اللہ تعالیٰ جل جلا لہٗ و عم نوالہٗ کے فضل و کرم سے ہمیں تاویلی مفہوم ایک خصوصی رحمت ہے، لہٰذا تاویلی مفہموم ہی کی زبان میں بات کرتے ہیں، کہ اللہ جو ارحم الراحمین ہے، جن روحوں کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کردیتا ہے، وہ ایک اعتبار سےفنا فی الامام ہوجاتی ہیں، بحوالۂ سورۂ رحمٰن: وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنشَآتُ فِي الْبَحْرِ كَالأَعْلاَمِ  فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ  كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ  وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ (۵۵: ۲۴ تا ۲۷) اس حوالے میں نجات کی تمام خدائی کشتیوں (الْجَوَارِ الْمُنْشَٰٔتُ فِی الْبَحْرِ کَالْاَ عْلَامِ) کا ذکر ہے، اور ۲۶-۲۷ میں یہ ارشاد ہے کہ وہ سب فنا فی الامام ہوجاتے ہیں اور صرف امام جو وجہ اللہ ہے باقی رہتا ہے، یعنی تمام لوگ امام ہی میں باقی رہتے ہیں، کیونکہ یہاں کا بیان صرف اورصرف اللہ کی نعمتوں سے متعلق ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر   ۶؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۴۳

 

آئندہ امکانات

قسط:۳۶

 

قرآنِ حکیم تمام لوگوں کے لئے ہدایت نامۂ الٰہی ہے، اس کے جملہ مضامین میں خاص مضمون ہدایت اور معرفت ہے، لہٰذا آئیے ہم قرآن میں دیکھتے ہیں کہ انسان کو ہلاکت سے بچ کر ابدی زندگی حاصل کرنے کا کونسا طریقہ بتایا گیا ہے؟ اس سوال کا جوابِ شافی سورۂ قصص (۶۸: ۸۸) میں اس طرح موجود ہے: كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلاَّ وَجْهَهُ = ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کے چہرہ کے (یہ انسان کی طرف اشارہ ہے) پھر چارۂ کار فرمایا گیا ہے: سوائے اس کے چہرہ کے = وجہ اللہ = علی = امام۔ یعنی تم سب اپنے اپنے امامِ زمان میں فنا ہو کر امام ہی میں زندۂ جاوید ہوجاؤ اور اللہ نے حضرتِ امام علیہ السّلام کو اسی عظیم مقصد کےلئے مقرر فرمایا ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

۷ ؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۴۴

 

آئندہ امکانات

قسط:۳۷

 

وجہ اللہ کے بارے میں ہزار حکمت (حکمت:۹۱۷) کو بھی پڑھ لیں۔

رسولِ اکرم صلعم کے بعد حضرتِ علی علیہ السّلام  ہی مؤو لِ قرآن ہے، اور آپ کے سلسلۂ اولاد کا ہر امامؑ اپنے وقت میں یہی مرتبہ رکھتا ہے، کیونکہ اسلام اللہ کا مکمل دین ہے اور اس میں اللہ کی نعمتیں تمام کی تمام موجود ہیں۔

سورۂ نور ( ۲۴: ۳۵) کو آپ نے خوب غور سے پڑھا ہوگا اس میں خزائنِ قرآن کی کلیدیں ہیں مگر یہ کلیدیں اہلِ معرفت ہی کے لئے خاص ہیں، مثلاً نورٌعلیٰ نور، یہ سلسلۂ نورِ دائم ہے جو آدم سے بھی بہت آگے جاتا ہے، یہی نور اللہ کی مضبوط رسی بھی ہے اور یہی صراطِ مستقیم بھی ہے اور یہی نورِ الٰہی کا مظہر بھی ہے، جس کا ذکر سارے قرآن میں موجود ہے، یہی نور عالمِ دین اور عالمِ شخصی میں بھی موجود ہے اور یقیناً یہی سلسلۂ نورِ امامت ہے اور اسی وجہ سے خدا کی خدائی میں بہت سےروحانی قیامات ہیں جن میں نجات کی کشتیاں بھی بہت ہیں، جن کا ذکر ہوچکا ۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۷ ؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۴۵

 

آئندہ امکانات

قسط:۳۸

 

سورۂ دھر (۷۶: ۰۱) هَلْ أَتَى عَلَى الإِنسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا = کیا انسان پر دھر =زمانِ ناگزرندہ = زمانِ ساکن کا ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا؟

یہ معرفت کی بہت بڑی بلندی کا سوال ہے، کئی فنائیں ہیں، مگر آخری فنا حق الیقین کی منزل میں ہے، یہ آخری فنا بھی دراصل امامِ مبین ہی میں ہے کیونکہ امامِ مبین کا کلیہ ایسا نہیں کہ اس سے کوئی چیز باہر ہو، بہر کیف آخری فنا کے بعد عارف فنائے مطلق ہو جاتا ہے۔

انسان کا کوئی قابلِ ذکر چیز نہ ہونے کا بیان منفی نہیں، مثبت ہے، لہٰذا یہ عارف کے فنائے مطلق ہونے کا ذکر ہے، یقیناً جب عارف فنائے مطلق ہوتا ہے تو اس حال میں عارف کا نہ تو کوئی نام باقی رہتا ہے اور نہ کوئی نشان ،یہاں کئی عرفانی اسرار ہیں، اور کئی تفسیری و تاویلی آیات بھی ہیں۔ مثلاً وہ آیات جن میں پیدائشِ اوّل کا ذکر ہے، یا رجوع کا ذکر ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۸ ؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۴۶

 

آئندہ امکانات

قسط:۳۹

 

جن خوش نصیب مومنین و مومنات کو اسرارِ معرفت کی تلاش ہے، ان کو نفسِ واحدہ کے باب (بارہ) میں جاننا چاہئے، نفسِ واحدہ سب سے پہلے حضرتِ آدم خلیفۃ اللّٰہ علیہ السّلام ہے وہ اپنے امامِ زمانؑ کا ایک مرید = مستجیب تھا، وہ بڑا راسخ العقیدہ اور امامِ وقت کا عاشق تھا، اس کو کسی طرح سے اسمِ اعظم کا ذکر عطا ہوا، وہ بڑا محنتی تھا اور وہ دارالضد میں رہتا تھا، لہٰذا رفتہ رفتہ وہ ذکرِ اکبر میں کامیاب ہوگیا، اور اس کے لئے روحانی قیامت برپا کی گئی جس میں نہ صرف قصّۂ آدم کی تاویل ہے بلکہ قیامت کے تمام واقعات کی تاویلات بھی ہیں۔

سوال: کیا قصّۂ آدم ھبوطِ آدم سے شروع نہیں ہوتا ہے؟ جواب: آدم اور آدموں کا قصّہ ایک بڑے وسیع دائرے پر ہے جس کا کوئی سرا نہیں، پس تم جہاں سے چاہو اس دائرے پر چلنے کا آغاز کر سکتے ہو، اور ھبوطِ آدم = آدم کے زمین پر اترنے کی کئی مثالیں ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ   ۸؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۴۷

 

آئندہ امکانات

قسط:۴۰

 

یہ حدیثِ قدسی کا ترجمہ ہے: اے ابنِ آدم = اے آدمِ زمان کا بیٹا = اے آدمِ زمان کا فرزندِ روحانی میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی مثال پر زندۂ جاوید بنا دوں گا کہ تو کبھی نہیں مرے گا…۔

یہ ارشاد انقلابی تصوّرات کا بہت بڑا خزانہ ہے، اس حدیثِ قدسی کے مفہوم کو کبھی بھول نہ جانا، ہرگز ہرگز فراموش نہ کرنا، یہ حدیثِ قدسی کتابِ زاد المسافرین ص ۱۸۳ پر موجود ہے۔

سورۂ انعام (۰۶: ۱۶۵) میں ارشاد ہے: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلاَئِفَ الأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ۔

ترجمہ: وہی ہے جس نے تم کو زمین کے خلیفے بنائے، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیئے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے، بیشک تمہارا ربّ سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔

یہ آیۂ شریفہ اس آیت کی تفسیر و تاویل ہے جس کو آیتِ استخلاف کہتے ہیں (۲۴: ۵۵) اور خلائف البتہ حدودِ دین ہیں جو جسمِ لطیف میں بھی ہوتے ہیں، اور کائناتی زمینیں ستر ہزار ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ   ۸؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۴۸

 

آئندہ امکانات

قسط:۴۱

 

بحوالۂ سورۂ حٰمٓ السجدۃ: وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأى بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِيضٍ (۴۱: ۵۱)

ترجمۂ آیت: انسان کو جب ہم نعمت دیتے ہیں تو وہ منہ پھیرتا ہے اور اکڑجاتا ہے، اور جب اسے کوئی آفت چھو جاتی ہے تو وہ لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔

یہاں قرآن کا ایک حکیمانہ سوال آپ کے سامنے ہے کہ بوقتِ مشکلات لمبی چوڑی دعائیں جائز ہیں یا نہیں؟ جواب: کیوں نہیں! زیادہ سے زیادہ یادِ الٰہی باعثِ برکت اور وسیلۂ نجات ہے، اس لئے یہاں درپردہ لمبی چوڑی دعاؤں کی تعریف ہے، ایسی دعا وہ مومنین کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر یقینِ کامل رکھتے ہیں، اور مختصر سی دعا کرکے خاموش ہوجانا مایوسی کی علامت ہوسکتی ہےاور مایوسی کفر ہے۔

آپ خدا کی ہر نعمت پر شکر کریں اور ہر مشکل میں دعا کریں اور یہ کوشش کریں کہ خدا کے دوستوں میں سے ہوجائیں۔

آپ ہمیشہ خدا کو یاد کریں اور اس میں اتنی ترقی کریں کہ دل کبھی یادِ الٰہی کے

 

۴۹

 

بغیر نہ ہو، اور رفتہ رفتہ ایسی نیک عادت بنا لیں کہ یہ بیحد شیرین یاد دل سے چھن نہ جائے، اور یہ ہمیشہ خیال رکھنا کہ شیطان کی پہلی کوشش یادِ الٰہی کو بھلانے کے لئے ہوتی ہے۔

اللہ کا زندہ اسمِ اعظم محمدؐ وعلیؑ اور امامِ زمانؑ ہیں، آپ حکمت سے کام لیں اور خدا کے زندہ اسمِ اعظم سے عشق کریں، اسی طرح اگر آپ کو خدا کے زندہ اسمِ اعظم کا عشق ہوگیا ہو تو ان شاء اللہ شیطان دور ہوجائے گا اور آپ کا ذکر خود بخود جاری رہے گا۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات ۹  ؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۵۰

 

آئندہ امکانات

قسط:۴۲

 

یہ بیان قرآنِ حکیم ہی کے مطابق ہے کہ خدا کے حکم سے حضرتِ امام علیہ السلام امام الناس (سب لوگوں کاامام) بھی ہے اور امام المتقین بھی، امامؑ کا عام روحانی تعلق تمام لوگوں سے ہے: اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیمؑ کو دنیا کے تمام لوگوں کے لئے امام بنایا تھا (۰۲: ۱۲۴) اور آلِ ابراہیمؑ کے بعض أئمّہ کو دیکھیں: (۲۱: ۷۳) اور حضرتِ امام علیہ السّلام کا خاص روحانی تعلق جو پرہیزگاروں سے ہے اس کے لئے دیکھیں: الٓمٓ۔ ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ۔

ا = اوّل = قلم = عقل = نورِ محمدیؐ۔  ل = لوح = ثانی = نورِعلیؑ۔   م = مرقوم وہ کتابِ ناطق = امام ہے جس میں شک نہیں بلکہ یقین ہی یقین ہے، تاکہ یہ ذریعۂ ہدایت ہو پرہیزگاروں کے لئے، یہ حضرتِ امام علیہ السّلام کا خاص روحانی تعلق ہے پرہیزگاروں کے ساتھ، اسی لئے مولا علیؑ نے ارشاد فرمایا: اَنَا ذَالِکَ الْکِتَاب = میں وہ کتاب ہوں جس کا نام الف لام میم ہے (کوکبِ دری بابِ سوم)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۱۰؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۵۱

 

آئندہ امکانات

قسط:۴۳

 

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۱ تا ۷۲) کو خوب غور و فکر اور دانشمندی سے پڑھو، اہلِ معرفت نے چشمِ باطن سے یہی مشاہدہ کیا ہے کہ امام ہی بحکمِ خدا تمام لوگوں کو روحانی قیامت میں بلاتا ہے، کیونکہ بفرمودۂ مولاعلی آپ علیہ السلام ہی ناقور، قیامت، اور قائمِ قیامت ہیں، یہ ہوا حضرتِ امامؑ کا تمام لوگوں کے ساتھ عام روحانی تعلق، جبکہ پرہیزگاروں کے ساتھ امامِ عالی مقام کا خاص تعلق ہے۔

یہاں دوسری آیت ۱۷: ۷۲ میں یہ فرمانِ الٰہی آیا ہے کہ جو شخص اس دنیا میں اندھا رہے تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا، اور اس کی وجہ یقیناً یہی ہے کہ وہ دور کا گمراہ ہوگیا چونکہ اس نے ہادیٔ برحق کی پیروی نہیں کی۔

آپ کو شاید یہ حکمت یاد ہوگی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ اگر آیت کے شروع میں کوئی سوال اٹھتا ہے تو اکثر اس کے آخر میں اس سوال کا جواب موجود ہوتا ہے، چنانچہ اس آیت میں کسی شخص کے دنیا و آخرت میں اندھا رہنے کی وجہ دور کی گمراہی بتائی گئی ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی ، جمعۃ المبارک  ۱۰؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۵۲

 

آئندہ امکانات

قسط:۴۴

 

آپ سورۂ زمر (۳۹: ۶۳) کی یہ آیۂ شریفہ پڑھیں:لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ۔

ترجمہ: زمین اور آسمانوں (کے خزانوں) کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں اور جو لوگ اللہ کی آیات سے کفر کرتے ہیں وہی گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔

مولا علیؑ نے فرمایا: میں ہوں: آیات اللّٰہ اور امین اللّٰہ۔ بحوالۂ کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت ۸۰۔

یعنی زمین اور آسمانوں کے خزانوں کی کنجیاں اللہ کے پاس ہیں اور قرآنِ حکیم زمین پر ہے جس میں بے شمار خزانے ہیں، اور ان میں ایک بہت ہی عظیم خزانہ اسمِ اعظم = اسماء الحسنیٰ کا ہے، یہ جملہ بابرکت اور پُرحکمت اسماء حروفی اور تحریری ہیں جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے دوسرے اسماء الحسنیٰ زندہ اور نورانی ہیں (۰۷: ۱۸۰)۔

ہر خزانے پر ایک خزانہ دار مقرر ہوا کرتا ہے، پس بحکمِ خدا امامِ مبین علیہ السّلام قرآنِ پاک کے تمام خزانوں کا خزانہ دار ہے، اَلحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعۃ المبارک  ۱۰؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۵۳

 

آئندہ امکانات

قسط:۴۵

 

ظاہری کائنات سب کی سب عالمِ شخصی میں سموئی ہوئی ہے، لہٰذا اسی کے آسمانوں اور زمین کے خزانے خاص ہو سکتے ہیں، پس ان تمام خزانوں کی کنجیاں اللہ نے امامِ مبین میں رکھی ہیں، آپ عشق و محبت اور علم و عمل سے امامِ مبین میں فنا ہو کر تمام خزانوں کو حاصل کر سکتے ہیں، اِنْ شَاءَ اللّٰہ تَعالیٰ!

حضرتِ مولا کا ارشاد ہے: اَنا خازِنُ السّمٰوٰتِ وَالْاَرْض = یعنی میں ہوں آسمانوں اور زمین کا خزانچی (منقبت ۸۹) یعنی کائناتِ ظاہر اور عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کے تمام خزانوں کا خزینہ دار= خزانچی، یعنی وہ شخص جس کے پاس اللہ کے کل خزانوں کی کنجیاں ہیں، اور کلیہ امامِ مبین میں یہ تمام معانی آجاتے ہیں، اور ہم عاشقوں کے لئے صرف امامِ مبین لکھتے ہیں جس سے وہ سمجھتے ہیں کہ قلبِ قرآن میں امامِ مبین کی تعریف کیا ہے؟

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، سنیچر  ۱۱؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۵۴

 

آئندہ امکانات

قسط:۴۶

 

سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلاَّ عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ۔

ترجمہ: کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں۔

ہم اس آیۂ مبارکہ کو قانونِ خزائن یا آیتِ خزائن بھی کہتے ہیں، اس کی گہری حکمتوں کا تعلق کائناتِ ظاہر سے بھی ہے اور عالمِ شخصی سے بھی، اور اس پُرحکمت آیت کا اوّلین اشارہ یہ ہے کہ ہر چیز کئی کئی خزانوں کے فیض سے مکمل ہو جاتی ہے۔

تمام چیزوں کے خزانے مکانی طور پر ذاتِ سبحان کے پاس نہیں بلکہ اس کے قبضۂ قدرت اور اختیار میں ہیں اور اللہ نے اپنے جملہ خزانوں اور تمام چیزوں کو امامِ مبین میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے۔

پاس قانونِ خزائن کلیۂ امامِ مبین سے ہر گز الگ نہیں ہے، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے اپنی رحمتِ بےپایان سے علم و حکمت اور معرفت کی جملہ مشکلات آسان کردی ہیں، اور اللہ کا سب سے بڑا فضل و احسان یہ ہے کہ اس نے امامِ مبینِ آلِ محمدؐ کی ملاقات اور معرفت اور اپنے تمام خزانوں کی کنجیاں اہلِ معرفت کے عالمِ شخصی میں رکھی ہیں، اَلحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، سنیچر  ۱۱؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۵۵

 

آئندہ امکانات

قسط:۴۷

 

بحوالۂ کتابِ احادیثِ مثنوی ص ۹۶، حضرتِ عیسٰی علیہ السّلام کا قول ہے: لَنْ یَّلِجَ مَلَکوتَ السَّمٰوٰتِ مَنْ لَّمْ یُولَدْ مَرَّ تَینِ۔

ترجمہ: آسمانوں کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہیں ہوسکتا ہے وہ شخص جو دو دفعہ پیدا نہیں ہوتا۔

سوال: اس قول کے مطابق دو دفعہ پیدا ہونا کس طرح ہے؟ جواب: مقامِ روح = منزلِ عزرائیلی میں مرکر زندہ ہوجانا، پھر آگے چل کر مقامِ عقل پر مرکر زندہ ہوجانا، یہ ہوا دودفعہ مرجانا اور دو دفعہ پیدا ہوجانا۔

سوال: جو مومن ایسا نہ ہوسکے تو اس کے لئے کیا ہے؟ جواب: اس کے لئے حدودِ دین کا وسیلہ ہے، یعنی وہ حدودِ دین میں سے کسی میں دو دفعہ مرکر دو دفعہ پیدا ہو جائے گا۔

سوال: آسمانوں کی بادشاہی سے کیا مراد ہے؟ جواب: کائناتی بہشت کی بادشاہی۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، اتوار  ۱۲؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۵۶

 

نشانہائے امامِ  زمان علیہ السّلام

 

شہ کریم نورِ حق امامِ زمان

قدوۂ کاملانِ کون و مکان

سبطِ ختمِ رسلؐ وہ آلِ علیؑ

نائبِ مرتضیٰ ؑ ولی ٔزمان

حی و حاضر ہے اس جہان میں مدام

چونکہ ہے عقلِ عقل و مایۂ جان

فائض النور دونوں عالم کا

مثلِ خورشید ہے عیان و نہان

مجھ سے گر پوچھے کوئی اس کا نشان

بے مثل ہے، کہ ہے خدا کا نشان

بے نشان بھی ہے بانشان بھی ہے

مظہرِ حق کی ذاتِ عالی شان

اک نشان یہ کہ حی و قائم ہے

از ازل تا ابد شہِ دوران

اک نشان یہ کہ ہے وہ آلِ نبیؐ

ھادیٔ دین قسیمِ نار و جنان

اک نشان یہ کہ جہد کرتا ہے

تاکہ ہو اس جہان میں صلح و امان

علم و حکمت ہے ایک نشان اس کا

چونکہ ہے پیشوایِ اہلِ جہان

 

۵۷

 

حسنِ سیرت ہے اک نشان اس کا

جس کا ثانی نہیں چہ انس و چہ جان

بے نیازی ہے اک نشان اس کا

وہ نہیں مدعی چنین و چنان

کشفِ باطن ہے اک نشان اسکا

تاکہ ظاہر ہو ہم پہ گنجِ نہان

اک نشان یہ کہ ہے وہ دنیا میں

مثلِ کشتیٔ نوح و کشتیبان

اس کے صد ہا نشان ہیں ایسے

جن کا مجھ سے نہ ہوسکا ہے بیان

حقِ توصیفِ شہ ادا نہ ہوا

معترف ہے نصیرِؔ بے سامان

 

ایڈیٹنگ کی تاریخ: ۲۳؍ جولائی ۲۰۰۱ء

 

۵۸

 

زمزمۂ خدمت

 

یارو! نہ فراموش کرو آیۂ خدمت

کونین میں ملتا ہے سدا میوۂ خدمت

خدمت کا شجر میوۂ شیرین سے لدا ہے

اور راحتِ جان سے ہے بھرا سایۂ خدمت

احباب ہزاروں کو میں تحفہ کیا دوں؟

اک تحفۂ کلی ہے خوشا! تحفۂ خدمت

سردار جو دانا ہے وہ قوم کا خادم ہے

ہرشخص نہیں جانتا یہ مرتبۂ خدمت

جنت کا خزانہ ہے جنت کا ترانہ ہے

یہ ولولۂ خدمت یہ زمزمۂ خدمت

خدمت جو عبادت ہے تو تب قبلہ بھی ہوگا

مولائے زمانہ ہے مرا قبلۂ خدمت

ہرچند کے دنیا میں نعمات بہت سی ہیں

لیکن مزۂ خدمت ! یکتا مزۂ خدمت

کہتا ہے نصیر الدین اے لشکرِ ایمان!

جاری ہی رکھو دائم یہ سلسلۂ خدمت

 

بدھ یکم اگست ۲۰۰۱ ء

 

نوٹ: آیۂ خدمت = سورۂ محمد ۴۷: ۰۷

 

۵۹

 

کل کائناتی سوال

قسط:۱

 

سورۂ مومنون (۲۳: ۱۰۱) فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلاَ أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلاَ يَتَسَاءَلونَ۔

ترجمہ: پھر جونہی کہ صور پھونک دیا گیا، ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا۔

سوال: صورِ قیامت سے رشتے ٹوٹ جانے کا سبب کیا ہے؟

جواب: ہر امامِ آلِ محمدؐ کے زمانے کے آغاز میں ایک روحانی قیامت برپا ہوتی ہے، جس کے لئے جب صور پھونک دیا جاتا ہے تو تب تمام روحیں اس جانشینِ آدم = آدم ِزمانؑ کی ذریّت اور نسل قرار پاتی ہیں، اسی طرح تمام لوگوں کا اگلا رشتہ نہ صرف باطن میں بلکہ ظاہر میں بھی ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ جب تمام روحیں آدمِ اوّل میں جمع تھیں تو اس وقت کوئی جسمانی رشتہ نہ تھا، بالکل اسی طرح آدمِ زمانؑ میں کل روحیں جمع ہوگئیں، اور ان کا جسمانی رشتہ کالعدم ہوگیا سوائے رشتۂ نورِ محمدیؐ کے، جو امامِ زمان علیہ السّلام کے ساتھ ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، اتوار  ۱۲؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۶۰

 

کل کائناتی سوال

قسط:۲

 

یہ بات ہم آپ کو قرآنِ حکیم ہی کی روشنی میں بڑی ذمہ داری سے بتاتے ہیں کہ ہر قیامت اللہ کی سنتِ قدیم کا تجدّد ہے، اور یہ ایسا کام ہرگز نہیں جو پہلے کبھی نہیں ہوا ہو، پس اللہ اپنے مظہرِ نور = امامِ زمانؑ کے توسط سے جملہ ارواح کو روحانی قیامت گاہ میں بلاتا ہے (۱۷: ۷۱) تو یہ اللہ کی سنّتِ بے بدل ہے، جو خدا کی بادشاہی میں ہمیشہ جاری ہے، جس میں تمام روحیں وارثِ آدم یعنی آدمِ زمانؑ میں جمع ہو جاتی ہیں جیسا کہ قبلاً ذکر ہوا، پس ایمان و یقین والوں کا یہ ایک مقدّس فریضہ ہے کہ وہ سنتِ الٰہی کی معرفت حاصل کریں اس سے ان کو بہت فائدہ ہوگا کیونکہ مضامینِ قرآن میں سنتِ الٰہی کا مضمون بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔

سوال: کیا نورٌعلیٰ نور کا قانون اللہ کی سنت ہے؟

جواب: جی ہاں یقیناً۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ۱۳؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۶۱

 

کل کائناتی سوال

قسط:۳

 

سوال: روحانی قیامت کی انتہائی زبردست کائنات گیر طاقت کا سرچشمہ کیا ہے؟

جواب: اللہ تعالی کے اسمائے بزرگ = اسماء الحسنیٰ = اسمِ اعظم۔

سوال: قرآنِ عزیز میں حٰمٓ سات دفعہ آئے ہیں، اسکی کیا تاویل ہے؟

جواب: اس کی تاویل یہ ہے کہ حضرتِ خاتم الانبیاءؐ کے دورِ مبارک میں سات بڑی روحانی قیامتیں قائم ہوئیں جن میں سات دفعہ دینِ حق ادیانِ عالم پر غالب آیا، جس کے لئے قرآن میں وعدۂ الٰہی تھا: هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (۰۹: ۳۳؛  ۴۸: ۲۸؛  ۶۱: ۰۹)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی ۱۳؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۶۲

 

کل کائناتی سوال

قسط:۴

 

آپ کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ حضرتِ اسرافیل اور حضرتِ عزرائیل علیھما السّلام بھی ایسے دو دریاؤں کی طرح کام کرتے ہیں جہاں ایک سنگم بنتا ہے، بیشک یہ سچ ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں روحانی بھیدوں کا ایک بہت ہی بڑا خزانہ موجود ہے، جی ہاں ایسا ہی ہے بفضلِ اللہ۔

سوال:حضرتِ عزرائیلؑ اکیلا ہوتا ہے یا اس کا لشکر بھی ہوتا ہے؟

جواب: ہر عظیم فرشتہ اپنے لشکر کے ساتھ کام کرتا ہے۔

سوال : حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام کا معجزانہ عمل کس طرح ہے؟

جواب: وہ حضرتِ قائم علینا سلامہ کے ایک عظیم اسم کو پڑھ رہا ہوتا ہے اور اس کا لشکر قبضِ روح کی غرض سے انسانی بدن میں ڈوب جاتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا (۷۹: ۰۱) = قسم ہے ان (فرشتوں) کی جو ڈوب کر روح کو کھینچتے ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ۱۳؍ اگست ۲۰۰۱ ء

۶۳

 

کل کائناتی سوال

قسط: ۵

 

سوال: عالمِ شخصی کی روح کو فرشتے قبض کر کے کہاں لے جاتے ہیں؟

جواب: کل کائنات میں پھیلا دیتے ہیں۔

سوال: اس میں کیا حکمت ہے؟

جواب: اس میں بے شمار حکمتیں ہیں جو سب کی سب اہلِ ایمان کے مفاد میں ہیں، مثلاً تسخیرِ کائنات، عالمِ شخصی کی ہزاروں کاپیاں، کائنات کی ہزاروں کاپیاں۔

سوال: آیا حضرتِ اسرافیل کا نام قرآن میں موجود ہے؟

جواب: جس طرح عزرائیل کا نام قرآن میں ملک الموت ہے (۳۲: ۱۱) اسی طرح اسرافیل کا نام جد ہے (۷۲: ۰۳)۔

سوال: کیا یہ درست ہے کہ ہر چیز صورِ اسرافیل کی ہمنوائی میں خدا کی حمد کے ساتھ تسبیح پڑھتی ہے؟

جواب: جی ہاں یہ حقیقت ہے، یہاں تک کہ پہاڑ اور پرندے بھی روحانی طور پر صورِ اسرافیل کی ہم آہنگی میں تسبیح خوانی کرتے ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ۱۴؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۶۴

 

کل کائناتی سوال

قسط:۶

 

سوال: آیا قرآنِ حکیم میں مُوتُو اقَبْلَ اَنْ تَمُوتُوا کا کوئی اشارہ موجود ہے؟

جواب: جی ہاں، یہ اشارہ یا حکم قرآنِ پاک کے کئی مقامات پر ہے، ان میں سے مقامِ اوّل وہ ہے جس میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام نے بحکمِ خدا خواب میں اپنے فرزندِ دلبند کو ذبح کیا تھا اور اسی میں تمام مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ سب کے سب اپنے اپنے نفسِ امارہ کو ایک بار راہِ خدا میں قربان کردیں، مقامِ دوم وہ ہے جس میں یہ قصہ ہے کہ بنی اسرائیل کو یہ حکم ہوا تھا: تم سب اپنے اپنے نفس کو قتل کرو (۰۲: ۵۴)، مقامِ سوم: ترجمہ: ان سے کہو کہ اگر واقعی اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر (بہشت) تمام لوگوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لئے مخصوص ہے تب تو تمہیں چاہئے کہ موت کی تمنا کرو (یعنی نفسانی طور پر مرجاؤ) (۰۲: ۹۴)، ان مقامات کے علاوہ بھی قرآنِ حکیم میں صوفیانہ اور عارفانہ موت کا ذکر موجود ہے اور وہ اس طرح سے ہے کہ ایک حدیثِ شریف میں حضورِ انورؐ نے جہادِ اکبر کو لازمی قرار دیا ہے، ہر دانا مومن جانتا ہے کہ اگر حدیثِ شریف میں جہادِ اکبر کا ذکر ہے تو قرآنِ حکیم میں ضرور اس کا ذکر یا اشارہ موجود ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ۱۴؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۶۵

 

کل کائناتی سوال

قسط:۷

 

سوال: حضرتِ داؤد علیہ السّلام کا باطنی معجزۂ زبور اور معجزۂ صورِ اسرافیل کے درمیان کیا فرق ہے؟

جواب: ان میں دراصل کوئی فرق نہیں جبکہ باطن میں یہ ایک ہی معجزہ ہے۔

یاد رہے کہ قیامت جسمانی اور ظاہری نہیں بلکہ روحانی اور باطنی ہے، وہ  انفرادی قیامت کے حجاب میں معجزانہ طور پر اجتماعی قیامت بھی ہے، ایسی قیامت اہلِ معرفت کے لئے شعوری اور باقی کے لئے غیر شعوری ہوتی ہے۔

قیامت امامِ زمانؑ کی طرف سے عطا شدہ اسمِ اعظم سے شروع ہو جاتی ہے۔

قیامت تسخیرِ کائنات کا باعث ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اور برکتیں ہیں، اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمّدٍ وَّ عَلیٰ آلِ مُحَمّدٍ۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ۱۴؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۶۶

 

کل کائناتی سوال

قسط:۸

 

سوال: آیا وجہ اللہ کے سوا ہر چیز فنا ہوجانے والی ہے؟

جواب: جی ہاں، قرآنِ حکیم (۲۸: ۸۸) میں دیکھیں۔

سوال: وجہ اللہ سے کیا مراد ہے؟

جواب: اس کا جواب حضرتِ مولانا علی علیہ السّلام نے یہ دیا ہے: اَنَا وَجْہُ اللّٰہِ فِی السّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔ (کوکبِ دری ، ص ۲۳۲)۔

سوال: کیا دوزخ، بہشت اور کائنات جیسی بڑی بڑی چیزیں بھی فنا ہونے والی ہیں؟

جواب: جی ہاں۔

سوال: اگر بہشت فنا ہوجاتی ہے تو کیا اس کی دائمی نعمتیں ختم نہیں ہوں گی؟

جواب: نہیں ہرگز نہیں، خدا بہشت کا صرف تجدّد کرتا ہے، دوزخ، بہشت اور کائنات کی فنا اور تجدّد کی معرفت کے لئے دیکھیں: سورۂ ھود (۱۱: ۱۰۵ تا ۱۰۸)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ۱۵؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۶۷

 

کل کائناتی سوال

قسط:۹

 

سوال: اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفات میں بدیع ایک عالی شان اسم ہے، اس کا قرآنی حوالہ اور معنی کیا ہیں؟

جواب: قرآنی حوالہ سورۂ بقرہ ( ۰۲: ۱۱۷) اور سورۂ انعام (۰۶: ۱۰۱) ہے: بَدِيع السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ۔

ترجمہ: وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے، اس کے لئے بس یہ حکم دیتا ہے کہ “ہوجا” اور وہ ہوجاتی ہے۔

بدیع: ایجاد کرنے والا، کسی چیز کو بغیر نمونہ کے بنانے والا، ابداع کے معنی ہیں کسی صنعت کو بغیر کسی سابقہ نمونے کے ایجاد کرنا، ابداع: جب اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت ہو کر آئے تو اس کے معنی ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا کسی شے کو بلا واسطۂ آلہ اور مادہ کے اور بلا اعتبارِ زمان و مکان کے ایجاد کرنا، ایجاد کی یہ صورت اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ممکن ہے اور کسی کے لئے نہیں، بدیع جب اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو فعیل بمعنیٔ فاعل ہوتا ہے، دوسروں کی صفت میں بمعنیٔ فاعل بھی آتا ہے اور بمعنیٔ مفعول بھی (مفردات) ۔ (بحوالۂ قاموس القرآن، ص ۱۱۱-۱۱۲)

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی،۱۵؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۶۸

 

کل کائناتی سوال

قسط: ۱۰

 

سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵ تا ۴۶) أَلَمْ تَرَى إِلَى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلاً ثُمَّ قَبَضْنَاهُ إِلَيْنَا قَبْضًا يَسِيرًا۔

تاویلی مفہوم: کیا تم نے اپنے ربّ کی طرف نہیں دیکھا کہ وہ کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے (یعنی اپنے نور کے عکس کو پھیلا کر کائناتی بہشت بناتا ہے ) یہ مقامِ حظیرۂ قدس کے سب سے بڑے اسرار کا ذکر ہے، یہاں بہت زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ رازِ معرفت بڑی بلندی کا ہے، یہاں پر حکیم پیر ناصر خسرو (ق۔س) کا ایک انمول شعر یاد آیا وہ یہ ہے:۔

زنورِ او تو ہستی ہمچو پرتو

حجاب از پیش بردار و تو اوشو

ترجمہ: تو اس کے نور کا گویا پرتو = عکس = تصویر ہے، پردے کو سامنے سے ہٹا اور تو وہ ہو جا، تو ھو میں فنا ہو جا تب گنجِ نہان تو ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ۱۶؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۶۹

 

کل کائناتی سوال

قسط:۱۱

 

سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۴ تا ۱۰۶)  يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ  إِنَّ فِي هَذَا لَبَلاَغًا لِقَوْمٍ عَابِدِينَ۔

ترجمہ: وہ دن جب کہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیئے جاتے ہیں، جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اسی طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گے، یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے، اور یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے، اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے، اس میں ایک بڑی خبر ہے عبادت گزار لوگوں کے لئے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ۱۶ ؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۷۰

 

کل کائناتی سوال

قسط: ۱۲

 

سوال: قسط:۱۱۔ میں جو آیۂ کریمہ سورۂ انبیاء کے حوالے سے درج کی گئی ہے، اس میں قرآنِ عظیم کے کیا کیا عظیم الشّان اور پُرحکمت مضامین آئے ہیں؟

جواب: اول: تجدّد کائنات کا سلسلہ، دوم: عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس، سوم: زبور= کتاب = عالمِ شخصی کی کتاب = حضرتِ داؤد کی کتاب = قرآن، چہارم: وراثت = خلافت = سلطنتِ کائناتی بہشت، پنجم: ذکر و عبادت اور علم و عمل، عابدین و صالحین۔

سوال: آیا کائنات کے تجدّد کا ایک سلسلہ ہے؟

جواب: جی ہاں، آیت میں ایسے الفاظ آئے ہیں، جیسے اعادہ کرنا، فاعلین اور اس کام کا سنتِ الٰہی ہوجانا، نیز قرآن (۱۱: ۱۰۸) میں ہے کہ بہشت کی عطا کا سلسلہ غیر منقطع ہے: عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ۔

نیز بہشت کے پھلوں کے باب میں ہے: لاَ مَقْطُوعَةٍ وَلاَ مَمْنُوعَةٍ (۵۶: ۳۳) = اور کبھی ختم نہ ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھل = میوے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر چیز کا فنا ہوجانا اپنی جگہ، تجدّد اپنی جگہ، اور بہشت کا ہمیشہ ہمیشہ ہونا

 

۷۱

 

اپنی جگہ حق ہےاور ان میں ہرگز ہرگز کوئی تضاد نہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ۱۷؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۷۲

 

کل کائناتی سوال

قسط: ۱۳

 

سوال: عالمِ شخصی میں کہاں کہاں کل کائناتی معجزات ہوتے ہیں؟

جواب: سب سے پہلے اسمِ اعظم میں حضرتِ ربِّ کائنات کی ربوبیّت کا ایک بہت بڑا راز ہے، پھر منزلِ روشن خیالی میں کائناتی معجزات ہیں اور روحانی قیامت کے آغاز میں جبکہ اسرافیل اور عزرائیل کی منزل آتی ہےاس میں تسخیرِ کائنات کے بڑے بڑے معجزے ہوتے ہیں، خروجِ یاجوج و ماجو ج اور کلامِ دابۃ الارض (۲۷: ۸۲) کے معجزات بھی آغازِ قیامت میں ہیں۔

مولا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: اَنَا دَابَّۃُ الاَرضِ یعنی میں دابۃ الارض ہوں (کو کبِ دری، منقبت ۲۲)۔

دابۃ الارض سے متعلق آیت کا ترجمہ: اور جب ہماری بات پوری ہونے کا وقت ان پر آ پہنچے گا تو ہم ان کے لئے ایک جانور زمین سے نکال لیں گے جو ان سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیات (امام = أئمّہ) پر یقین نہیں رکھتے تھے (۲۷: ۸۲)۔

اور سب سے بڑے بڑے کائناتی معجزات حظیرۂ قدس (جبین) میں ہوتے ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ۱۷؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۷۳

 

کل کائناتی سوال

قسط:۱۴

 

انسانی بدن میں نفسِ نباتی کا مرکز جگر ہے، نفسِ حیوانی کا مرکز دل، اور نفسِ انسانی کا مرکز پیشانی = جبین ہے اور حظیرۂ قدس جبین ہی میں ہے، دراصل انسانی دل وہاں ہے جہاں انسانی روح = نفس ہے، یعنی جبین میں۔

پس جب بھی مومنِ سالک کی جان میں امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہونے لگتا ہے تو یہ عظیم معجزہ جبین ہی میں ہوتا ہے، میرے آقا نے اپنے دستِ مبارک سے جبینِ پاک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہاں بہشت ہے اسی ارشادِ مبارک میں بڑی زبردست حکمتیں ہیں۔

یقیناً یہ عالمِ شخصی کی بہشت اور حظیرۂ قدس ہے، جس کے کئی اسرار کا ذکر ہوا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ  مزید اسرار بیان کرنے کے لئے سعی کریں گے۔

حظیرۂ قدس میں علیین ہے (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) یعنی عقلِ کل، نفسِ کل، ناطق اور اساس کے چار انوار، جن میں دین کے تمام اسرار جمع ہیں، مگر عالمِ وحدت کی وجہ سے چاروں کا ایک ہی نور ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی ، ۱۷؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۷۴

 

 

 

 

 

 

کل کائناتی سوال

قسط: ۱۵

 

اے نصیرالدین تجھ کو سرِ اعظم یاد ہے؟

عالمِ علوی میں تنہا ایک گوہر ہے کتاب

یعنی عالمِ بالا (حظیرۂ قدس) میں جو گوہرِعقل ہے، وہی کتابِ مکنون بھی ہے، جس میں قرآنِ حکیم کے جملہ اسرار جمع ہیں، یعنی نور بھی ہے اور شمس و قمر بھی، اور نجم و نجوم بھی، اور لپیٹی ہوئی کائنات بھی، یہی کنز بھی ہے، لؤلؤ اور مرجان بھی، حور اور غلمان بھی ہے۔

یہی وہ جنّ ہے جو حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے لئے غواصی کر کے سمندر سے موتی نکالتا تھا (۲۱: ۸۲) یہ آسمان سے گرنے والا ستارہ ہے، جنّ کی غواصی بھی اسرارِ حکمت کی مثالوں میں سے ایک مثال ہے، یہ موتی ظاہری نہیں باطنی ہوتے ہیں، تروتازہ گوشت کے لئے سمندر سے مچھلی نکالنا اور موتی نکالنا ایک جیسی مثال ہے (۳۵: ۱۲)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ۱۸؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۷۵

 

کل کائناتی سوال

قسط:۱۶

 

جب منزلِ عزرائیلی میں قبضِ روح کی وجہ سے سارا بدن بار بار بے جان ہوجاتا ہے، تو اس وقت صرف جبین میں روح کا زیرین سرا باقی اور باشعور رہتا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ یہ امامِ زمانؑ کے نور کی ابتدائی شعاع ہو، یہاں سے سالک اپنی روحانی موت کا منظر دیکھتا ہے۔

پہلے حضرتِ اسرافیل کا انتہائی حیران کن معجزہ شروع ہوتا ہے، پھر قبضِ روح کا حیرت انگیز معجزہ ہے، روحانی قیامت طوفانِ نوح ہے، اس کی کشتی کوہِ جودی پر جا کر ٹھہر جاتی ہے، یعنی روحانی قیامت کا سفر گوہرِ عقل تک ہے، اور یہ حظیرۂ قدس میں ہے، یہاں گوہرِ عقل کے ایک جیسے بہت سےمظاہرے ہوتے رہتے ہیں، مگر ہرمظاہرے کا راز الگ ہے، تاہم دہرائے ہوئے بھید ایک ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی  ۱۸؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۷۶

 

کل کائناتی سوال

قسط:۱۷

 

حظیرۂ قدس حضرتِ آدم خلیفۃ اللہؑ کی بہشت ہے، اسی مقام پر اللہ نے اپنی صورتِ رحمان پر آدم کو پیدا کیا تھا۔

پس آدمِ زمانؑ کے روحانی بچوں میں سے جو بھی اس جنّت میں داخل ہوجاتا ہے تو اپنے باپ آدم کی صورت پر ہوجاتا ہے، اور آدمِ زمانؑ رحمان کی صورت پر ہے۔

پھر حظیرۂ قدس = جنت میں داخل ہوجانا اور اس کی معرفت حاصل کرنا کتنی بڑی سعادت ہے، سورۂ محمدؐ (۴۷: ۰۶) میں اسی جنت کی معرفت کا ذکر ہے۔

حضرتِ نوحؑ کا روحانی طوفان یہاں تک آکر تھم گیا تھا اور کشتی کوہِ جودی پر ٹھہری تھی، یہ کوہِ عقل = گوہرِ عقل ہے، یہی مقام حضرتِ موسیٰؑ کا کوہِ طور بھی ہے، حضرتِ ربّ ِتعالیٰ نے کوہِ طور = کوہِ عقل پر اپنی تجلّی ڈالی اور وہ ریزہ ریزہ ہوگیا، یہی حظیرۂ قدس یقیناً مقامِ معراجِ حضرتِ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی  ۱۸؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۷۷

 

کل کائناتی سوال

قسط:۱۸

 

تخلیقِ آدم کا اصل قصّہ قرآن، حدیثِ صحیحہ اور عالمِ شخصی میں محفوظ ہے، چنانچہ حضرتِ آدمؑ آیتِ فطرت ۳۰: ۳۰ کے مطابق ماں باپ سے پیدا ہوا تھا، اس نے دینِ حق کے تقاضا کے مطابق ترقی کی اور خصوصی ذکر جو اس کو ملا تھا اس کی مدد سے وہ جسمانی موت سے قبل مرکر زندہ ہوگیا اور عالمِ شخصی کے مراحل کو طے کرتا گیا، تا آنکہ حظیرۂ قدس میں داخل ہو کر صورتِ رحمان پر پیدا ہوگیا۔

اسی طرح حضرتِ ادریسؑ حظیرۂ قدس = جنت میں صورتِ رحمان پر پیدا ہوا تھا (۱۹: ۵۶ تا ۵۷)۔

حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام حظیرۂ قدس کے جملہ اسرار کو جانتے تھے (۰۶: ۷۴ تا ۷۵) آپؑ کو صورتِ رحمان پر پیدا ہوجانے کی عملی معرفت حاصل تھی۔

حدیثِ شریف میں ہے کہ بنی آدم میں سے جو بھی جنت = حظیرۂ قدس میں داخل ہوجاتا ہے وہ اپنے باپ آدم کی صورت پر ہوتا ہے، اور آدم رحمان کی صورت پر تھا۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی  ۱۹؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۷۸

 

کل کائناتی سوال

قسط:۱۹

 

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۳) آیۂ انتخاب = نورٌ علیٰ نورٍ = ذُرِّیَّۃً بَعْضُھَا مِنْ بَعْضٍ= سلسلۂ وارثانِ آدم = سلسلہ ٔ انبیاء و أئمّہ = اللہ کی رسی۔

سلسلۂ نورٌعلیٰ نورٍ (۲۴: ۳۵)۔ سلسلۂ آلِ ابراہیمؑ (۰۴: ۵۴)۔ سلسلۂ نورٌعلیٰ نورٍ۔ سلسلۂ وارثانِ آدم = آلِ ابراہیمؑ = آلِ محمدؐ ۔ آدمؑ کی خلافت رہتی دنیا تک ہے= ابراہیمؑ کی امامت رہتی دنیا تک ہے۔

نورٌعلیٰ نورٍ = جب تک دنیا میں قرآن ہے = تب تک نور بھی ہے (۰۵: ۱۵) سلسلۂ نور = اللہ کی رسی= پاک درخت ہمیشہ پھل دیتا ہے (۱۴: ۲۵)۔ دینا میں صراطِ مستقیم اور ہادیٔ برحق ہمیشہ موجود ہے۔

سلسلۂ آلِ ابراہیمؑ = سلسلۂ آلِ محمدؐ = آسمانی کتاب (۰۴: ۵۴)۔

سلسلۂ نورِ دائم = سلسلۂ خلافت = سلسلۂ امامت۔

دنیا میں مضل (گمراہ کُن = شیطان) ہمیشہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ہادیٔ برحق بھی ہمیشہ ہے۔ جب جہالت کی تاریکی ہے، تو تب نورِ علم بھی ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی،۲۰  ؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۷۹

 

کل کائناتی سوال

قسط:۲۰

 

الاتقان حصّۂ دوم، نوع: ۶۵۔ قرآن سے مستنبط کئے گئے علوم:۔

اللہ پاک فرماتا ہے: (۰۶: ۳۸) فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ = ہم نے کتاب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔

اور ارشاد کیا ہے:وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ (۱۶: ۸۹) اس سلسلے میں روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سو چار (۱۰۴) کتابیں نازل فرمائیں اور ان میں سے چار کتابوں میں سب کا علم ودیعت فرمایا، وہ چار کتابیں توراۃ، انجیل، زبور اور فرقان ہیں، اور پھر توراۃ، انجیل اور زبور تینوں کتابوں کا علم قرآن میں ودیعت رکھا۔

بے شک اللہ پاک نے سابقہ کتابوں کے علوم قرآن میں ودیعت رکھے ہیں اور پھر قرآن کے علوم کو سورۃ الفاتحۃ میں بھر دیا ہے، لہٰذا جو شخص اس سورہ کی تفسیر معلوم کر لے گا وہ گویا تمام کتبِ منزلہ (تمام آسمانی کتابوں) کی تفسیرکا عالم ہوگا (الاتقان حصّۂ دوم، نوع:۷۳۔ قرآن کا افضل اور فاضل حصہ)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی  ۲۰؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۸۰

 

کل کائناتی سوال

قسط:۲۱

 

کوکبِ دری بابِ پنجم

منقبت ۱ : تفسیرِ بحرالدرر اور ریاض القدس میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ ایک دن امیرا لمومنینؑ نے مجھ سے فرمایا: اے عبداللہ! نمازِ عشا سے فارغ ہو کر میرے پاس آنا، جب میں گیا تو فرمایا: اے عبداللہ تو الحمد کے الف لام کے معنی بھی جانتا ہے؟ میں عرض کی کہ امیرالمومنینؑ بہتر جانتے ہیں، پھر ایک پہر رات تک الفؔ اور لاؔم کے معنی میں اس قدر حقائق بیان فرمائے جن کا ایک شمہ بھی میرے دل میں نہ گزرا تھا، پھر حائے الحمد کی تفسیر کے متعلق معارف بیان کرنے میں رات کا دوسرا حصہ پورا کردیا بعد ازان اپنی زبانِ معجز بیان سے ارشاد فرمایا: اے عبداللہ جو کچھ میں نے بیان کیا، تو نے سنا؟ میں نے عرض کیا: یاامیرالمومنینؑ! ہاں میں نے سنا اورحیران ہوا، اس وقت فرمایا: یَاعَبْدَ اللّٰہِ لَوْکَتَبْتُ فِیْ مَعَانِی الْفَاتِحَۃِ لَاَوْ قَرْتُ سَبْعِیْنَ بَعِیْرًا۔ یعنی اے عبداللہ! اگر میں سورۂ فاتحہ کے معنی لکھوں تو ستر ۷۰ اونٹ لاد دوں۔

نیز ارشاد فرمایا: جو کوئی سورۂ فاتحہ کو درست طور پر پڑھے وہ آتشِ دوزخ سے بے خوف ہوجاتا ہے اور جو کوئی اس کے معنی واجبی طور پر جانتا ہو۔ وَجَبَتْ لَہٗ الْجَنَّۃُ وَاَکْرَمَہُ اللّٰہُ بِرُؤْ یَتِہٖ وَقُرْبَتِہٖ۔ یعنی بہشت

 

۸۱

 

اس کے لئے واجب ہوجاتا ہے، اور حق تعالیٰ اس کو اپنے قرب اور دیدار سے معزز فرماتا ہے۔

ابنِ عباس کہتے ہیں کہ میں نے اپنا علم آنجناب کے علم کے مقابلہ میں ایسا پایا جیسے سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ، اور ابنِ فخری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز امیرالمومنین علیہ السّلام نے فرمایا، لَوْشِٔتُ لَاَوْقْرْتُ بِبَآءِ بِسْمِ اللّٰہ سَبْعِیْنَ بَعِیْرًا۔ یعنی اگر میں چاہتا تو بائے بسم اللہ کی تفسیر سے ستر ۷۰ اونٹ لاد دیتا۔

نیز اسی بزرگوار سے روایت ہے کہ ایک روز امیر المومنینؑ نے فرمایا: اگر میں چاہتا تو تمام لوگوں کے حالات سے خبر دیتا، لیکن مجھے اس امر کا خیال ہے کہ کہیں میری محبت میں اس شریعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منکر نہ ہوجائیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی،۲۱  ؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۸۲

 

کل کائناتی سوال

قسط:۲۲

 

حدیثِ شریف ہے: من رآنی فقد رأی الحق  = جس نے مجھے دیکھا اس نے خدا کو دیکھا۔ بحوالۂ بخاری و مسلم۔

اور مولا علیؑ = امام کے دیدار کی شان میں مشہور حدیثِ نبوّی ہے: اَلنَّظَرُ اِلیٰ وَجْہ علیٍ عِبَادَۃٌ، بحوالۂ اھلِ البیت الاطھار فی الاحادیث النبویۃ (گنجینۂ جواھرِاحادیث) تالیف ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی (بحرالعلوم)۔

یہ قانونِ معرفت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خوش دلی سے یاد رہے کہ اہلِ ایمان میں سے جو خوش نصیب لوگ جیتے جی خصوصی ریاضت سے مرکر زندہ ہوجاتے ہیں، وہ اہلِ معرفت کہلاتے ہیں یعنی عارفین، پس ان کے پاس قیامت، آخرت اور بہشت کے ضروری اسرار ہوتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ حضرتِ امام علیہ السّلام کے پاک ناموں میں سے ایک نام وجہ اللہ اس لئے ہے کہ خدا کا معجزانہ دید ار امام کی صورت میں ہوتا ہے، جو لوگ بیانِ بالا کے مطابق مرکر زندہ ہوجاتے ہیں، ان کی وہ دیوار جو دنیا اور آخرت کے درمیان ہوتی ہے شروع ہی میں یاجوج و ماجوج چاٹ چاٹ کر کھا چکے ہوتے ہیں، لہٰذا اہلِ معرفت وجہ اللہ = امامِ مبین = نورِ منزل میں خدا کے عظیم معجزات اور

 

۸۳

 

عجائب و غرائب کو دیکھتے ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی  ۲۱؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۸۴

 

کل کائناتی سوال

قسط:۲۳

 

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۲) وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلاً۔ ترجمہ: اور جو شخص دنیامیں اندھا رہے گا سو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا اور زیادہ راہ گم کردہ ہوگا۔ دنیا میں کوئی شخص چشمِ باطن سے کیوں اندھا رہتا ہے؟ اس کا جواب آیت کے آخر میں موجود ہے، اور اگلی آیت (۱۷: ۷۱) میں بھی ہے۔

آیا قرآن اور اسلام میں چشمِ بصیرت حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے؟ کیوں نہیں بہت کچھ اور سب کچھ ہے، الحمد للّٰہ۔

حدیثِ نوافل کو پڑھو اور اس پر عمل کرو جسمانی موت سے قبل نفسانی موت سے مرکر زندہ ہو جاؤ ان شاء اللہ تعالیٰ عارفین میں سے ہوجاؤ گے، اگر تم سچ مچ مر کر زندہ ہوجاتے ہو تو یہ تمہاری بہت بڑی نیک بختی ہے پھر تم شکرگزاری میں دین کی خدمت کرنا اور ناشکری سے ڈرنا۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی  ۲۲؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۸۵

 

کل کائناتی سوال

قسط:۲۴

 

سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۔

ترجمہ: (اے اہلِ معرفت!) کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر دی ہیں، اور اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں۔

یہاں قرآنِ حکیم کا خطاب دراصل اہلِ بصیرت  = اہلِ معرفت سے ہے، لہٰذا یقیناً ہر زمانے میں حدودِ دین میں سے کچھ موجود ہو سکتے ہیں تاکہ وہ الم تروا = کیا تم نہیں دیکھتے کے مصداق ہوں۔

یہاں صاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ دینِ حق میں کسی بھی نعمت کی کمی نہیں ہے، موت قبل از موت ممکن اور آسان ہے، من مات فقد قامت قیامتہٗ = جو نفسانی موت سے مرتا ہے اس کی قیامت برپا ہوجاتی ہے، اور ایسی عارفانہ موت کی قیامت میں بے شمار نعمتیں ہیں اور کوئی نعمت اس بیان سے باہر نہیں ہے۔

یہ کلیۂ امامِ مبین کی واضح اور روشن تفسیر ہے، یہ قرآنِ حکیم کے معجزات میں سے ایک ایسا معجزہ ہے جس کا حیران کن کام ہے بہت

 

۸۶

 

کم وقت میں بہت زیادہ حکمتوں کو سمجھانا۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی،۲۲  ؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۸۷

 

کل کائناتی سوال

قسط:۲۵

 

سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) کا پُرحکمت خطاب یقیناً اہلِ معرفت سے ہے، کیونکہ اس آیۂ کریمہ میں معجزۂ تسخیرِ کائنات کو دیکھنے کا تذکرہ ہے، جو منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی میں ظہور پذیر ہوتا ہے، جس کا مشاہدہ صرف اہلِ معرفت ہی کر سکتے ہیں، اسی طرح اس آیۂ شریفہ میں یہ ذکرِ جمیل بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عارفین پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تمام کردی ہیں، اس میں عالمِ شخصی کے تمام معجزات کی طرف اشارہ ہے یہاں تک کہ جبین = حظیرۂ قدس میں جو جو عظیم معجزے ہوتے ہیں ان کا بھی اشارہ ہے، جیسے کتابِ مکنون = گوہرِ عقل، تصوّرِ ازل و ابد، دیدارِ وجہ اللہ = امامِ زمان، بصورتِ رحمان، عارف کا تولدِ عقلی، وغیرہ، اور میں ایک ساتھ زیادہ اسرار بیان کرنے سے ڈرتا ہوں، کہیں ان کی بیقدری ہوجائے تو میں مسئول ہو جاؤں گا۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی،  ۲۲؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۸۸

 

کل کائناتی سوال

قسط:۲۶

 

کتاب الاتقان حصّۂ دوم۔ نوع۶۵۔ قرآن سے مستنبط کئےگئے علوم کے مضمون ص ۳۱۹ پر بحوالۂ قاضی ابو بکر بن العربی یہ تحریر ہے: “بن العربی نے کتابِ قانون التاویل میں بیان کیا ہے کہ قرآن کے علوم پچاس۵۰ علم۔ چارسو۴۰۰ علم۔ سات ہزار علم۔ اور ستر ہزار ۷۰۰۰۰علم ہیں…۔”

ہم قرآنی تاویل، روحانی سائنس اور قرآنی سائنس کو مانتے ہیں اور اس پر کام کرنے کے لئے سعی کررہے ہیں، اور اس میں ہم اللہ کے زندہ اسمِ اعظم (الحیّ القیوم) سے مدد چاہتے ہیں۔

ہم سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) کے حوالے سے قرآن کے باطنی علوم کو اللہ کی باطنی نعمتوں میں شمار کرتے ہیں جن کے بغیر باطنی نعمتیں تمام نہیں ہوسکتی ہیں۔

اسلام صراطِ مستقیم کا نام ہے، پس کوئی بھی شخص صراطِ مستقیم کو ایک ہی جست میں طے نہیں کرسکتا ہے، لہٰذا اس مقدّس راستے کی چار بڑی بڑی منزلیں ہیں:شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت، اسلام دینِ فطرت ہے اور فطرت میں بتدریج ترقی ہوتی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ رفتہ رفتہ یعنی بتدریج فکرِ قرآن میں ترقی ہوئی، اگر فکرِ قرآن میں ترقی کی ذرا بھی گنجائش نہ ہوتی تو قرآن کے تراجم و تفاسیر کا اتنا طویل سلسلہ شروع سے نہ چلا آتا اور نہ قرآن میں اتنے

 

۸۹

 

امکانی علوم ہوتے جن کا ذکر ہوا۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی،  ۲۳؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۹۰

 

کل کائناتی سوال

قسط:۲۷

 

سوال:آیا قرآنِ حکیم میں ہر مشکل سوال کا جواب موجود ہے؟

جواب: جی ہاں، یقیناً، لیکن اس کی ضروری شرط قرآنِ حکیم کی حکمت اور معرفت ہے۔

سوال: حدیثِ شریف میں ہےکہ جو شخص بہشت = حظیرۂ قدس میں داخل ہوجائے تو وہ اپنے باپ آدمِ زمان کی صورت پر ہوجاتا ہے اور آدم رحمان کی صورت پر تھا = ہے، ایسے میں اس شخص کی بشری صورت کہاں جاتی ہے؟

جواب: پیچھے ہٹتی ہے، بحوالۂ قرآن (۰۶: ۹۴) کیونکہ جب کوئی بشر اللہ کے پاس جاتا ہے تو اپنی ہستی کی ہر چیز اپنے پیچھے چھوڑ کر فردِ مجرّد بن کر جاتا ہے، تاکہ فنا فی اللہ کے عالم سے باہر آنے پر وہ پہلے ہی کی طرح ایک بشر ہوجائے، جس طرح لوہے کا ایک ٹکڑا جب تک آگ میں ہے تو وہ آگ ہی کی طرح ہے مگر جب اسے آگ سے باہر نکالا جاتا ہے تو وہ ٹھنڈا تاریک اور کالا لوہا ہو جاتا ہے، اگر اس میں عقل و جان ہوتی تو آگ کی معرفت اپنے ساتھ لیکر آتا۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی،  ۲۴؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۹۱

 

کل کائناتی سوال

قسط:۲۸

 

سوال: سورہ قمر (۵۴) میں چار مرتبہ یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو ذکر کے لئے آسان ذریعہ بنا دیا ہے، اس ارشاد میں کیا حکمت ہے؟

جواب: ذکر کے چند معنی ہیں اور خدا نے قرآن کو ہر معنی میں ایک آسان وسیلہ بنا دیا ہے، مثلاً ذکر نصیحت ہے، تو قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ ایسے کلمات ہیں جن میں تمام قرآن کی نصیحت جمع کی گئی ہے، مثال کے طور پر: خدا کی طرف دوڑو، یہ کتنی آسان مگر جامع نصیحت ہے۔

ذکر یادِ الٰہی ہے، تو اللہ کا زندہ اسمِ اعظم کتنا آسان کتنا مبارک یعنی بےشمار برکتوں والا ہے اللہ تعالیٰ کا نورِ مجسّم = اسمِ اعظم = امامِ مبین = کتابِ ناطق = قرآنِ ناطق = معلّم و مؤولِ قرآن = خلیفۂ رسولؐ = ولیٔ امر = ہادیٔ زمان میں کل خدائی چیزیں جمع کرکے کتنی آسانی پیدا کی گئی ہے، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْن۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی  ۲۴؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۹۲

 

کل کائناتی سوال

قسط:۲۹

 

سوال: سورۂ فرقان (۲۵) میں الظل یہ کونسا سایہ ہے؟ یعنی کسی چیز کا سایہ ہے؟

جواب: یہ ظل الٰھی ہے۔

سوال:  ظل الٰھی کس طرح ممکن ہے؟

جواب: جب حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السلام حظیرۂ قدس میں داخل ہوگیا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے اپنی صورتِ رحمان پر پیدا کیا، پس ایسے میں آدم اللہ کے پاک نور کا عکس ہو گیا، جیسے آئینے میں سورج کا عکس ہوتا ہے، اللہ نے اپنے نور کے اس عکس کو  ظل الٰہی کی مثال میں پھیلایا اور اس سے انبیاء و اولیاء اور نیک لوگوں کو پیدا کیا، یہ ہوئے ظلِ الٰہی کے پھیلاؤ کے معنی۔ جب دنیا میں نورِ منزل نورِ مجسّم ہے تو گویا ظلِ الٰہی ہے، پس تمام بنی آدم خاص و عام حضرتِ آدم = صورتِ رحمان = سایۂ ربّ کا پھیلاؤ ہیں، لہٰذا خدا سب لوگوں کو فلٹر کرتے کرتے دوسرے آدم میں پھر صورتِ رحمان پر پیدا کرتا ہے، یہ اس کی قدرتِ کاملہ اور رحمتِ بے منتہا ہے جس کو اکثر لوگ نہیں سمجھ سکتے ہیں پھر شکر کیسے کرسکتے ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، سنیچر  ۲۵؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۹۳

 

کل کائناتی سوال

قسط:۳۰

 

اللہ تعالیٰ قرآنِ حکیم میں فرماتا ہے: هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهٖ۔ (۰۹: ۳۳؛  ۴۸: ۲۸؛  ۶۱: ۰۹)۔

ترجمہ: اللہ وہی تو ہے جس نے اپنے محبوب رسول کو دینِ حق اور ہدایت اور جانشین (صاحبِّ قیامت) دے کر بھیجا تا کہ آپؐ کا جانشینؑ روحانی قیامت کی دعوت اور جنگ سے دینِ حق کو باقی ادیان پر غالب کردے۔

یاد رہے کہ اللہ کا کوئی وعدہ ایسا نہیں جو عملاً پورا نہ ہو، اللہ نے جو جو کام رسولؐ کے سپرد کئے تھے ان میں سے بعض زمانۂ نبوّت میں انجام پذیر ہوگئےاور بعض آپ کے جانشین اماموں کے زمانوں میں عمل میں آگئے، اللہ تعالیٰ نے دینِ حق کے غالب ہونے کا جو وعدہ فرمایا تھا اس کے مطابق پہلی ہی قیامت میں دینِ حق تمام ادیان پر غالب آیا اور پھر ہر امام کے زمانے میں جو قیامت ہوئی اس میں اس غلبۂ دینِ حق کا تجدّد ہوا۔

قیامت دینِ حق کی آخری دعوت بھی ہے اور روحانی جنگ بھی ہے جس میں دنیا کے سب ادیان والے صورِ اسرافیل کی دعوت پر قیامت گاہ میں جمع ہوجاتے ہیں، اور یہی دینِ حق کا غلبہ اور فتح ہے۔ اَلْحَمْدلِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْن۔

 

۹۴

 

(نوٹ: آیۂ مذکورۂ بالا قرآنِ پاک کے تین مقام پر آئی ہے جس کے حوالہ جات اوپر درج ہوئے ہیں)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی  ۲۶؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۹۵

 

کل کائناتی سوال

قسط:۳۱

 

اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلاَّ أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ(۰۹: ۳۲؛ ۶۱: ۰۸)۔

ترجمہ: یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے (پھونک مارکر) خدا کے نور کو بجھا دیں اور خدا اس کے سوا کچھ مانتا ہی نہیں کہ اپنے نور کو پورا کر ہی کے رہے اگرچہ کفار برا مانیں۔

سب جانتے ہیں کہ اللہ کا نور آسمان و زمین دونوں میں ہے، پس سوال ہے کہ آیا مذکورہ آیت میں جیسا بیان ہے، اس کا تعلق اللہ کے اس نور سے ہے جو آسمان میں ہے یا کہ اس نور کا قصّہ ہے جو زمین پر ہے؟ جواب: حق بات تو یہ ہے کہ یہ نورِ مجسّم = ہادیٔ برحق کا قصّہ ہے جو زمین پر ہے۔

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، اتوار  ۲۶؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۹۶

 

کل کائناتی سوال

قسط:۳۲

 

سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) میں ارشاد ہے: مَا خَلْقكُمْ وَلاَ بَعْثُكُمْ إِلاَّ كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ۔

ترجمہ: تم سب کو پیدا کرنا اور پھر بعد از نفسانی موت دوبارہ جِلا اٹھانا نفسِ واحدہ = آدم = انسانِ کامل = عارف کی طرح ہے، اللہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

سوال: کیا یہ ممکن ہے کہ ہر شخص پر نفسِ واحدہ = آدم کے معجزات گزرے؟

جواب: جی ہاں، اس میں کوئی شک نہیں، اگرایسا ممکن نہ ہوتا تو معرفتِ کلّی ممکن ہی نہ ہوتی نہ مساواتِ رحمانی کی کوئی امید ہوتی اور نہ ہی بہشت میں علم ومعرفت کی ہر نعمت موجود ہوسکتی۔

نفسِ واحدہ کے دو معنی ہے، معنیٔ اوّل: ایک شخص = ایک جان = ایک روح، معنیٔ دوم: واحدہ بروزنِ فاعلہ = فاعل، پس نفسِ واحدہ وہ عظیم روح ہے جو بحکمِ خدا تمام روحوں کو بذریعۂ قیامت اپنے ساتھ ایک کر لیتی ہے، پس قرآن نے فرمایا کہ تم بشرطِ اطاعت آدم جیسا ہو سکتے ہو، آیتِ استخلاف (۲۴: ۵۵) کو پڑھو۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، پیر ۲۷ ؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۹۷

 

کل کائناتی سوال

قسط:۳۳

 

سورۂ انعام(۰۶: ۱۶۵) وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلاَئِفَ الأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ ۔

ترجمہ: اللہ وہی تو ہے جس نے تم کو کائناتی زمین = کائناتی بہشت کے خلیفے = بادشاہ بنائے اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیئے تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے، بیشک تمہارا ربّ سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔

اس آیۂ شریفہ سے بہت سے اسرار ظاہر ہورہے ہیں، اعنی ممکن ہے کہ اس کائنات کے باطن میں ستر ہزار روحانی کائناتیں ہیں، یہ جنّات ہیں، ان میں اتنی بڑی بڑی خلافتیں = عظیم سلطنتیں ہیں، نیک لوگ سب کے سب بہشت میں بھی ہیں اور دنیا میں بھی ہیں، کیونکہ آیۂ شریفہ آئندہ عطا ہونے والی خلافت کا وعدہ نہیں ہے بلکہ یہ ذکر ہے کہ خلافت عطا ہوچکی ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، پیر  ۲۷؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۹۸

 

کل کائناتی سوال

قسط:۳۴

 

بحوالۂ سورۂ انعام (۰۶: ۹۸) ہر مومن روحِ مستقر سے بہشت میں ہے اور روحِ مستودع سے دنیا میں رہتا ہے، اور اس میں خدائے علیم و حکیم کی بڑی زبردست حکمت اور آزمائش ہے، جیسے مولائے روم صوفیٔ اعظم نے فرمایا:۔

ما آمدہ نیستیم این سایۂ ماست

ہم عالمِ بالا سے آئے ہی نہیں ہیں یہ ہمارا مادی وجود ہماری اصل ہستی کا سایہ ہے۔

جیسا کہ شعر ہے:۔

تن چو سایہ بر زمین و جانِ پاکِ عاشقان

دربہشتِ عدن تجری تحتھا الانھار مست

جسم سائے کی طرح زمین پر ہے ، مگر عاشقوں کی پاک جان = روح، اس جنّتِ عدن میں مست ہے، جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔

بہشت کی عالیشان نعمتوں میں سے ایک نعمت ظل ممدود ہے (۵۶: ۳۰) یعنی دور تک پھیلی ہوئی چھاؤں ہے، جس سے روح مراد ہے جو چھاؤں کی طرح بہشت سے پھیل کر دنیا تک آئی ہوئی ہے، عجب نہیں کہ بہت سے ہم خیال لوگ ایک ہی روح کے سائے ہوں۔

 

۹۹

 

سورۂ مرسلات (۷۷: ۴۱) میں ارشاد ہے: اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ ظِلٰلٍ وَّعُیُوْنٍ = متقی لوگ آج سایوں اور چشموں میں ہیں، سائے اور چشمے عظیم روحیں ہیں پس بہشت کے سائے اور چشموں کی نہریں دنیا تک جاری ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، منگل  ۲۸؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۱۰۰

 

کل کائناتی سوال

قسط:۳۵

 

بحوالۂ سورۂ ابراہیم (۱۴: ۳۴) ایک عظیم الشّان اور بےمثال کلیہ ہے، اس میں اگر عقل و دانش سے دیکھا جائے تو چوٹی کی جامع حکمتوں کا ایک انتہائی عظیم خزانہ مل جائے گا، کیونکہ اس میں جتنی حکمتیں ہیں وہ سب کی سب فیصلہ شدہ ہیں، اس کلیہ کے مطابق روحِ مستقر کا نظریہ درست ثابت ہوتا ہے، اس روح کے علم اور قانونِ بہشت کے مطابق جتنی نعمتیں ممکن تھیں وہ سب طلب کی گئیں، اور وہ تمام کی تمام عطا ہوئیں، اور وہ اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کو کوئی شمار ہی نہیں کرسکتا ہے، ہم نے اس کلیہ کو ہزار حکمت (ح- ا) میں بھی لکھا ہے۔

وہ آیۂ شریفہ یہ ہے: وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لاَ تُحْصُوهَا إِنَّ الإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ۔

ترجمہ: جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نےمانگا، اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے، حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، منگل ۲۸ ؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۱۰۱

 

کل کائناتی سوال

قسط:۳۶

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۱) وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلاَئِكَةِ اسْجُدُوا ِلأَدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِيسَ لَمْ يَكُنْ مِنْ السَّاجِدِينَ۔

ترجمہ: ہم نے تم کو جسماً اور روحاً پیدا کیا پھر تمہیں اپنے باپ آدم کی طرح صورتِ رحمان پر پیدا کیا پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے لئے سجدہ کرو، اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔

سوال: یہاں حضرتِ آدمؑ اور بنی آدم خلق و بعث کے ایک ہی قانون کے تحت ہیں (۳۱: ۲۸)، نیز بحکمِ اَلْاَرْوَاحُ جُنُودٌ مُّجَنَّدَۃٌ تمام روحیں نفسِ واحدہ کے ساتھ حاضر ہوا کرتی ہیں، پس اس قانون کے مطابق جملہ ارواح آدم کے ساتھ تھیں کبھی ساجدین کے ساتھ اور کبھی مسجود (آدم) کے ساتھ، اور یہ بھید اسرارِ معرفت میں سے ہیں، آپ کی روح پر بیشمار واقعات گزرے ہیں، لیکن آپ کو ان میں سے ایک بھی یاد نہیں اگر آپ عارف ہوجائیں گے تو پھر سے ہر واقعہ یاد آئے گا آپ کو فعلاً آدم ہو کر آدم کو پہچاننا پڑے گا۔

آدم کی قرآنی اور باطنی معرفت بیحد ضروری ہے اس معرفت کے عظیم خزانے میں روح کی معرفت بھی ہے اور حضرتِ ربّ کی معرفت بھی ہے۔ اَلحَمْد لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ  ۲۹؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۱۰۲

 

کل کائناتی سوال

قسط:۳۷

 

سورۂ تین (۹۵: ۰۱ تا ۰۸) وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ وَطُورِ سِينِينَ وَهَذَا الْبَلَدِ الأَمِينِ لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ إِلاَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ۔

ترجمہ: قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طورِ سینا اور اس پُرامن شہر (مکہ) کی = یہ عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اور اساس ہیں، اور جواب قسم ہے: ہم نے انسان کو بہترین تقویم = ارتقائی سیڑھی پر پیدا کیا = یعنی عالمِ شخصی میں درجہ بدرجہ پیدا کرتے ہوئے حظیرۂ قدس تک بلند کیا پھر ہم نے اسے پست سے پست حالت کی طرف پھیر دیا مگر جو لوگ حقیقی مومن ہیں اور علم و عمل میں سبقت کر چکے ہیں، ان کے لئے بے انتہا اجر و ثواب ہے، تو (اے رسولؐ) ان دلیلوں کے بعد تم کو روزِ جزا کے بارے میں کون جھٹلا سکتا ہے، کیا خدا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے (ہاں ضرور ہے)۔

یہاں بھی روحِ مستقر اور روحِ مستودع کا قانون کار فرما ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ  ۲۹؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۱۰۳

 

کل کائناتی سوال

قسط:۳۸

 

سورۂ نساء (۰۴: ۶۹) ترجمہ: جو لوگ اللہ اور رسول کی حقیقی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاءؑ اور صدیقین اور شہداء اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔

سوال: یہ آیت کس آیۂ کریمہ کی تفسیر کر رہی ہے؟ جواب: یہ تفسیر ہے،اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمسْتَقِيمَ  صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ کی ۔

سوال: موصوفِ بالا حضرات کی رفاقت حقیقی مومنین کے لئے کہاں کہاں حاصل ہوسکتی ہے؟ جواب: سر تا سر صراطِ مستقیم پر، تمام عالمِ شخصی میں، حظیرۂ قدس میں = بہشت میں، اس رفاقت میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے یعنی اس میں عظیم اسرار ہیں۔

جب آپ اللہ تعالیٰ کی سکھلائی ہوئی دعا کے معنی میں یہ درخواست کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں راہِ راست پر چلا لے، ان لوگوں کی راہ پر، جن پر تو نے انعام فرمایا ہے، تو حق بات یہ ہے کہ یہ دعا بہت بڑی جامع الجوامع اور کائنات گیر ہوگئی، اور اس دعا میں بنیادی بات یہ ہے کہ تم جیتے جی مر کر زندہ ہوسکو کیونکہ اس کے بغیر انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کے نقشِ قدم پر چلنا ناممکن ہے، اللہ تمہاری مدد کرے اور کوئی وسیلہ بنا دے آمین!

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ  ۲۹؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۱۰۴

 

کل کائناتی سوال

قسط:۳۹

 

سورۂ نور (۲۴: ۳۵) اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ ۔

ترجمہ: اللہ عالمِ ظاہر = عالمِ دین = عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کا زندہ نورِ ہدایت ہے، اس کے نور کی مثل ایسی ہے جیسے ایک طاق (مراد دہنِ مبارک) جس میں ایک روشن چراغ ہو (نورِ عقل = گوہر عقل = کتابِ مکنون = کتابِ منیر) اور چراغ شیشے کی قندیل میں ہو، قندیل = فانوس گویا موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا ہے، اور وہ چراغ زیتون کے ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی (ایسا درختِ زیتون نفسِ کلّی ہے، جو کل کائنات پر محیط ہے) جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو، چاہے آگ اس کو نہ لگے، نور پر نور ہے= نورٌعلیٰ نور۔

ان مبارک و مقدّس کلمات میں سلسلۂ حاملانِ نور کا ایسا ایمان پرور اور روح افزا ذکرِ جمیل ہے کہ جس کی حکمت انتہائی عجیب و غریب اور بڑی زبردست حیران کُن ہے، لہٰذا بعض عاشقانِ نورِ امامت اس آیۂ شریفہ کا ورد کرتے ہیں۔

اللہ جس کو چاہے اپنے نور کی ہدایت اور معرفت عطا فرماتا ہے، اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعرات  ۳۰؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۱۰۵

 

کل کائناتی سوال

قسط:۴۰

 

اللہ جل شانہٗ نے اپنے اگلے انبیاء علیھم السّلام کو عظیم معجزات سے سرفراز فرمایا تھا لہٰذا بمقتضائے حکمتِ الٰہی حضرت سید الانبیاء و المرسلین محبوبِ خدا کا معجزۂ علمی = عقلی = دائمی = قرآنِ حکیم، تمام معجزات کا سردار = بادشاہ کیوں نہ ہو! یقیناً حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ کا معجزۂ قرآنِ عزیز جملہ پیغمبروں کے معجزات کا بادشاہ ہے، قرآن نہ صرف مجموعاً ایک انتہائی عظیم معجزہ ہے، بلکہ اس کی ہر آیت بجائے خود ایک عقلی معجزہ ہے، معجزہ عجز سے ہے، لہٰذا معجزہ کسی پیغمبر کے ایسے کام کو کہتے ہیں جو اللہ کی مدد سے کرتا ہے جس کے کرنے سے دنیا کے تمام لوگ عاجز ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآنی آیات کی تاویل امامِ آلِ محمدؐ کے سوا اور کوئی کر ہی نہیں سکتا کیونکہ صرف امامؑ ہی مظہرِ نورِ خدا اور جانشینِ رسولِ پاکؐ ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعہ  ۳۱ ؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۱۰۶

 

کل کائناتی سوال

قسط:۴۱

 

سورۂ مائدہ (۰۵: ۵۴) آیۂ کریمہ قرآن میں پڑھیں:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ۔

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائیگا تو پرواہ نہیں پھر جائے عنقریب ہی خدا ایسے لوگوں کو لائیگا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے جو اللہ کی راہ میں جہاد کریںگے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے، اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔

کتابِ صنادیقِ جواھر ص ۳۴-۳۵، اور کتابِ میوۂ بہشت ص۱۵۸ پر بھی دیکھیں، بعض بہت بڑی اہمیت والی حکمتیں کتابوں میں دہرائی گئی ہیں۔

آپ امامِ آلِ محمدؐ کے روحانی لشکر کی قرآنی معرفت کے لئے

 

۱۰۷

 

سعئی بلیغ کریں، خدا کرے کہ آپ کو اس عظیم لشکر کی باطنی معرفت بھی حاصل ہو!

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعہ  ۳۱؍ اگست ۲۰۰۱ ء

 

۱۰۸

 

کل کائناتی سوال

قسط:۴۲

 

بحوالۂ جامع ترمذی، جلدِ دوم، ابواب صفۃ القیامت، عنوانِ صور میں ہے: ایک اعرابی (دیہاتی) آنحضرتؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ صور کیا ہے؟ حضورِ اکرم صلعم نے فرمایا: قرنٌ = یہ ایک سینگ (نرسنگھا) ہے، یُنفخُ فِیہِ = جس میں قیامت کے دن پھونک ماری جائے گی۔ کتابِ صنادیقِ جواہر : صندوق: ۳۱، سوال: ۹۷۱ کو بھی دیکھیں۔

حضرتِ مولاعلیؑ کا ارشاد ہے: انا الناقور، یعنی میں ہی ناقور ہوں۔

مولا علی علیہ السّلام کا یہ بھی ارشاد ہے: انا ذوالقرنینِ المذکور فی الصُّحُفِ الاولیٰ= میں ذوالقرنین ہوں جس کا ذکر اگلے صحف (سماوی) میں ہے۔ کتابِ کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت-۴۔

المستدرک، جلدِ سوم، ص ۱۳۳ پر حدیثِ شریف ہے: یَاعَلی اِنَّ لَکَ کَنْزًا فِی الْجَنَّۃِ وَاِنَّکَ ذُوقَرَنَیْھَا = اے علی تم کو بہشت میں = بہشتِ روحانیّت میں =  بہشتِ علمِ شخصی میں ایک خاص خزانہ ہے، اور تم اس میں صاحبِّ صورِ قیامت ہو، یعنی تم ہر عالمِ شخصی میں قیامت برپا کرنے والا ہو۔

یہاں یہ اشارہ ہے کہ علی ناقورِ جنّت بھی ہے، اگرچہ جنّت میں ناقور کی وہ سخت آواز نہیں ہے جو قیامت کے دوران ہوتی ہے، تاہم ناقور کی روح پرور

 

۱۰۹

 

آواز بہشت میں ضرور ہوسکتی ہے، تاکہ بہشت سمعی نعمتوں سے خالی نہ ہو، پس علیؑ جنّت میں ناقورِ عشق ہے، جس کی آوازِ دل نواز لحنِ داؤدی کی طرح ہوسکتی ہے، کیونکہ بہشت میں ہر قسم کی نعمتیں ہیں، پس یہ بات ناممکن لگتی ہے کہ خوش آوازی کی نعمتیں بہشت میں نہ ہوں۔

پس یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ علیؑ جس طرح مقامِ قیامت میں سخت اور قیامت خیز ناقور ہے، اسی طرح جنّت کے مطابق بہت ہی نرم اور دل نواز ناقورِ عشق بھی ہے۔ اَلحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، سنیچر  یکم ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۱۰

 

کل کائناتی سوال

قسط:۴۳

 

کتابِ زبورِ عاشقین ص ۲۵، بحوالۂ رسائلِ اخوان الصفاء وخلان الوفاء رسالۂ موسیقی۔

مناجات الباری:

ترجمہ: حدیث میں روایت کی گئی ہے کہ وہ سب سے بیحد شیرین نغمۂ لاہوتی جو اہلِ جنّت کو حاصل ہوتا ہے اور وہ انتہائی پاکیزہ (ربانی) نظم جسے وہ سنتے ہیں حضرتِ باری تعالیٰ جلّ ثناءہٗ کی پاک مناجات ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: جس دن وہ اس سے ملتے ہیں (اس دن) ان کی دعا (زندہ و سلامت ہوجاتی ہے) یعنی اسمِ اعظم جو ان کے حق میں حیاتِ ابدی کی دعا ہے، وہ روحانی دیدار کی برکت سے خود گو اور خود کار ہوجاتا ہے (۳۳: ۴۴)۔

کہتے ہیں کہ جب حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام نے اپنے ربّ کی مناجات سن لی تو اس سے ان کو ایسی فرحت، مسرت، اور لذّت حاصل ہوگئی کہ آپ اپنے آپ پر قابو نہ پا سکے، یہاں تک کہ خوشی کے مارے مست و بیخود ہوگئے، اور گنگنانے لگے، اور اس کے بعد ان کے نزدیک ہر نغمہ، ہر لحن، اور ہر آواز حقیر ہوگئی۔

اے بھائی! اللہ تعالیٰ تمہیں ان اشاراتِ لطیف اور اسرارِ باطن کے

 

۱۱۱

 

معنوں کو سمجھنے کی توقیق عنایت فرمائے! اور ان کے پیغام کو آپ تک پہنچائے، اور ہمیں بھی اور ہمارے تمام (روحانی) بھائیوں کو بھی، جس طرح بھی وہ بستے ہوں اور جن شہروں اور علاقوں میں بھی رہتے ہوں، یہ سعادت نصیب ہو! اور خدا اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، اتور ۲؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۱۲

 

کل کائناتی سوال

قسط:۴۴

 

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۰۱)  وَمَنْ يَعْتَصِمْ بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ۔

ترجمہ:جو اللہ کو مضبوط پکڑتا ہے تو وہ سیدھا رستہ پر ہی چلتا ہے۔

اس کے بعد آیت ۱۰۳ میں اللہ کی رسی کے باب میں حکم ہے کہ تم سب مل جل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا، اور فرقہ بندی نہ کرنا اور تم پر اللہ کا جو انعام ہے اسے یاد کرنا جب تم دشمن تھے تو تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی تو تم اللہ کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر ہی تھے تو اللہ نے اس سے تمہاری جان بچائی اس طرح اللہ اپنے احکام بیان کرتا ہے تاکہ تم راہِ راست پر چلو۔

یہاں آیت ۱۰۱ کی تفسیر و تاویل آیت ۱۰۳ میں ہے، یعنی اللہ کو مضبوط پکڑنے کے معنی ہیں اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑنا، اللہ کی رسی سلسلۂ حاملانِ نورِ خدا ہے، اور یہی سلسلہ خود صراطِ مستقیم بھی ہے، قرآنِ حکیم کے چند مقام پر اللہ کو مضبوط پکڑنے کا ذکر آیا ہے، اس کی حکمت کا بیان کیا گیا۔

آپ حدیثِ ثقلین کو کبھی نہ بھولیں آپ اس پاک بنیاد کو کیسے فراموش کر

 

۱۱۳

 

سکتے ہیں، خدا کا کوئی عاشقِ صادق ہی خدا کو مضبوط پکڑ سکتا ہے، یہ اس وقت ممکن ہے جبکہ بندۂ مومن کا باطن ذکرِ الٰہی کی مضبوط گرفت میں ہوتا ہے، نہ کہ خدا کسی آدمی کی گرفت میں آتا ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ۳؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۱۴

 

کل کائناتی سوال

قسط:۴۵

 

بحوالۂ سورۂ رحمان سوال ہے کہ رحمان نے قرآن سب سے پہلے کس کو سکھایا؟۔ جواب: اپنے محبوب رسولؐ کو اور آپؐ کے وصی = علیؑ کو۔

اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بیان سکھایا، اس کی حکمت کیا ہے؟

جواب: خدا نے انسانِ کامل کو جسماً، روحاً، اور عقلاً پیدا کر کے علمِ بیان = علمِ تاویل سکھایا۔

آیتِ پنجم میں سورج اور چاند کا ذکر آیا ہے، اس لئے یہ قانون یاد رہے کہ دنیا میں سورج اور چاند الگ الگ ہوتے ہیں، مگر حظیرۂ قدس جو عالمِ وحدت ہے، اس میں سورج اور چاند ایک ہی نور ہوتا ہے۔

اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں۔

آسمان کو اس نے بلند کیا، یعنی عالمِ شخصی کی زمین کو اس نے اٹھا کر آسمان بنایا، اور حقائق و معارف کی ترازو آسمان ہی میں قائم کی تاکہ صرف وہی شخص اس ترازو سے کام لے جو علم ومعرفت کے اس اعلیٰ مقام تک رسا ہوجاتا ہے۔

زمین کو اس نے سب مخلوقات کے لئے بنایا یعنی علم الیقین کی زمین سب لوگوں کے لئے بنایا۔

پس اے جنّ و انس، تم اپنے ربّ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ یہاں

 

۱۱۵

 

سے اہلِ دانش کو یہ یقین آتا ہے کہ جنّ و انس بھی مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لاَ يَبْغِيَانِ(۵۵: ۱۹ تا ۲۰) کے قانون کے تحت ہیں یعنی عالمِ جنّ ایک دریا ہے، اور عالمِ انس ایک دریا، دونوں کے درمیان ایک برزخ = پردہ ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ۳؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۱۶

 

کل کائناتی سوال

قسط:۴۶

 

سورۂ رحمان (۵۵: ۱۹ تا ۲۰) ترجمہ: دو سمندروں کو اس نےچھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں، پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔

اسی طرح ہیں: امرِ باری تعالیٰ اور عقلِ کلّ۔ عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ، نورِ محمدیؐ اور نورِعلیؑ، قلم و لوح۔ عرش و کرسی۔ آسمانِ کلّی اور زمینِ کلّی۔ وغیرہ بہت سی چیزیں۔

جس طرح قرآنِ پاک (۱۸: ۶۰) میں مجمع البحرین کا قانون ہے، ہر ایسے مقام پر ہی علم و حکمت کے موتی اور مونگے ملتے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ (۵۵: ۲۲)۔

جیسا کہ سورۂ ھود (۱۱: ۰۷) میں ہے ہر روحانی قیامت اور کامیاب عالمِ شخصی کے نتیجے میں بحرِ علم پر اللہ تعالیٰ کے عرش = تخت کا ظہور ہوتا ہے اور یہی عرشِ اعلیٰ بھری ہوئی کشتی بھی ہے، اور اس میں اصل زندہ کشتی امامِ اہلِ بیتِ رسولؐ ہے، جس کا لقب وجہ اللہ ہے۔

چنانچہ آیاتِ کریمہ (۵۵: ۲۴ تا ۲۷) کا ترجمہ ہے: اور یہ جہاز (کشتیاں) اسی کے ہیں جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح اونچے اٹھے ہوئے ہیں، پس اے جنّ و انس تم اپنے ربّ کے کن کن احسانات کو جھٹلاؤ گے؟

 

۱۱۷

 

جو ان کشتیوں میں ہیں (سب) فنا ہونے والے ہیں، اور صرف وجہ اللہ = امامؑ، باقی رہنے والا ہے، جو صاحبِّ جلالت و کرامت ہے، یعنی بھری ہوئی کشتی دراصل امام ہے، اس میں جتنے لوگ ہیں وہ سب اس مرتبۂ عالیہ میں فنا فی الامام ہوجاتے ہیں، اور یہ ان سب کی بہت بڑی سعادت ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ۳؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۱۸

 

کل کائناتی سوال

قسط:۴۷

 

سورۂ فاطر (۳۵: ۱۰) میں اس قانونِ الٰہی کا بیان آیا ہے کہ کوئی پاک کلمہ = بات = قول = دعا = ذکر= گریہ وزاری = مناجات = فریاد = ذکرِ خفی، ذکرِ جلی کس طرح مرفوع (بلند) ہوجاتا ہے۔

ارشاد ہے: إِلَيْهِ يَصْعَد الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ  = اللہ کے پاک حضور میں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے اور عملِ صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے۔

یہ تو ہر دانا مومن جانتا ہے کہ پاکیزہ قول کیا ہے اور عملِ صالح = نیک کام کیا ہے۔

آپ ہم سے یہ سوال ضرور کریں کہ نورِ منزل کیا چیز ہے؟ ہم آپ کو قرآن ہی سے بتائیں گے کہ یہ ہادیٔ برحق =  امامِ  آلِ محمدؐ  = امامِ زمان علیہ السّلام ہے۔

إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔ (۳: ۳۳ تا ۳۴)۔

ترجمہ: بے شک خدا نے عوالمِ شخصی سے آدم کو برگزیدہ کیا اور نوح اور خاندانِ ابراہیم اور خاندانِ عمران کو عوالمِ شخصی سے برگزیدہ کیا یہ ایک ہی خاندان کے لوگ ہیں لہٰذا یہ سلسلۂ نورٌعلیٰ نور ہے کیونکہ نورٌعلیٰ نور انتہائی قوّی

 

۱۱۹

 

اور بڑی زبردست اور سب سے غالب دلیل ہے کہ اس کی تردید کے لئے کوئی منکر سوچ بھی نہیں سکتا ہے پس قرآنِ حکیم میں جتنی آیاتِ نور ہیں وہ سب کی سب نورٌ علیٰ نور کی سب سے روشن دلیل کے ساتھ محکم مربوط ہیں ۔ اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ۴؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۲۰

 

کل کائناتی سوال

قسط:۴۸

 

روحانی عجائب و غرائب اور معجزات بےشمار ہیں، ان میں سے ایک بڑا عجیب معجزہ کوہِ قاف کا مشاہدہ ہے، کوہِ قاف دنیا کے کسی پہاڑ کی طرح ہرگز نہیں، یہ بالکل ہموار پتلی نورانی جھلی کی طرح نظر آتا ہے جس پر جگہ جگہ ایسے بہت سے الفاظ درج ہیں کہ ہر لفظ کا حرفِ آخر قاف = ق ہے ، جیسے عتیق، عمیق، عشق، رتق فتق، حق، حقیق، رحیق، سحیق، شاید یہ قاف قلم کے معنی میں ہو، یا قدرت کے معنی میں، یا قرآن کے لئے، یا قائم اور قیامت کے معنی میں۔

ممکن ہے کہ دیکھنے والے نے صرف اس کی ایک جھلک دیکھی اور یہ ایک بہت بڑی کائنات ہو، کیونکہ مولا علیؑ کا ارشاد ہے: انا جبل قاف = میں ہی کوہِ قاف ہوں۔

سورۂ قٓ (۵۰: ۰۱) ق و القرآن المجید = قسم ہے کوہِ قاف کی اور قرآنِ مجید کی۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ  ۵؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۲۱

 

کل کائناتی سوال

قسط:۴۹

 

حدیثِ قدسیٔ نوافل، بحوالۂ بخاری جلدِ سوم کتاب الرقاق، عملی تصوّف، ص ۵۴ میں دیکھیں، اس میں اہلِ یقین کو کوئی شک ہی نہیں کہ خدا اپنے بندۂ مقرب و محبوب کا کان ہوجاتا ہے، جس سے وہ سنتا ہے، خدا اپنے بندے کی آنکھ ہوجاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے، ہاتھ ہوجاتا ہے، جس سے وہ پکڑتا ہے، اور پاؤں ہوجاتا ہے، جس سے وہ چلتا ہے۔

اللہ کا وہ نور جو زمین پر ہے یعنی نورِ منزّل (امام) بندۂ مقرب و محبوب کا باطنی کان، باطنی آنکھ، باطنی ہاتھ، اور باطنی پاؤں ہوجاتا ہے۔

عرفاء کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں سب سے پہلے سمعی معجزے کا آغاز ہوتا ہے: وہ داعیٔ روحانی قیامت اور صورِ اسرافیل کی سب سے عجیب و غریب آواز کا سننا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ بصری معجزات بھی شروع ہوجاتے ہیں، وہ ہیں: ذراتِ روح کا مشاہدہ اور عالمِ ذرّ نیز یاجوج و ماجوج کا خروج بشکلِ ذرّات وغیرہ یہ روحانی قیامت ہے۔

اگر آپ عاشق ہیں تو آپ کو مبارک ہو، کہ آپ کو حضرتِ ربِّ تعالیٰ کا دیدارِ پاک اور کنزِ مخفی حاصل ہونے والا ہے اور ایسے میں کیا نہیں ہے، سب کچھ ہے سب کچھ ہے، مگر یہ خوف ہے کہ تم شکر کر سکو گے یا نہیں کیونکہ

 

۱۲۲

 

انسان فطری طور پر ناشکرا واقع ہوا ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعرات  ۶؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۲۳

 

کل کائناتی سوال

قسط:۵۰

 

حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ کا بابرکت ارشاد ہے: اَنا وَمُحمّد نورٌ واحِدٌ مِنْ نُورِ اللّٰہ۔ ترجمہ = میں اور محمد اللہ کے نور سے ایک ہی نور ہیں۔

حضرتِ مولا کا ارشادِ پاک ہے: اَنا مَلِک اِبنِ مَلِک = میں پادشاہ ابنِ پادشاہ ہوں، یعنی امام ابنِ امام ہوں، یعنی حضرتِ عمران = ابی طالب علیہ السّلام امام تھا۔

یقیناً آیۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۳) میں عمران حضرتِ ابو طالب علیہ السّلام ہی کا نامِ مبارک ہے، اور سرائر جیسی مستند کتاب میں بھی حضرتِ ابوطالبؑ کا نام عمران ہے اور کتاب الامامۃ فی الاسلام میں بھی حضرتِ ابوطالبؑ کا اسم عمران ہے ۔

ان شاء اللہ ہم آپ عزیزوں کو نورٌعلیٰ نور = سلسلۂ حاملانِ نور کی تفسیر و تاویل قرآنِ حکیم اور حدیثِ شریف دونوں سے بتائیں گے کیونکہ آپ کو اس روشن حقیقت پر یقین تو ہے ہی کہ امامِ زمانؑ کا پاک نور ازل سے چلا آیا ہے تاہم حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ آپ کے یقین میں ہر بار اضافہ ہو اور ہر بار اس میں ایک تازہ بہار آئے اور پھر آپ کا دینی شغل کیا ہونا چاہئے ماسوائے تلاشِ اسرار کے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعۃ المبارک  ۷ ؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۲۴

 

کل کائناتی سوال

قسط:۵۱

 

بحوالۂ کوکبِ دری، بابِ دوم منقبت۔ ۱: قَال النّبی صلّی اللہ عَلیہ وآلہٖ وسلّم۔ کُنْتُ اَنَا وَ عَلِیٌّ نُوْرً ا بَیْنَ یَدَیِ اللہِ مُطِیْعًا یُسَبِّحُ اللہَ ذٰلِکَ النُّوْرُ وَیُقَدِّ سُہٗ قَبْلَ اَنْ یَّخْلُقَ اٰدَمَ اَرْبَعَۃَ عَشَرَ اَلْفِ عَمٍ فَلَمَّا خَلَقَ اللہُ اٰدَمَ رَکَّبَ ذٰلِکَ النُّوْرَ فِی صُلْبِہٖ فَلَمْ یَزَلْ یَنْقَلِبُ مِنْ صُلْبٍ اِلٰی صُلْبٍ حَتّٰی اَقَرَّہٗ فِی صُلْبِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَسَّمَہٗ قِسْمَیْنِ فَصَیَّرَ قِسْمِیْ فِیْ صُلْبِ عَبْدِ اللہ وَقِسْمَ عَلِیٍّ فِیْ صُلْبِ اَبِیْ طَالِبٍ فَعَلِیٌّ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہُ۔

ترجمہ: جنابِ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں اور علی ایک نور تھے، اور وہ نور آدم کو پیدا کرنے سے چودہ ہزار سال پیشتر خدائے عزو جل کی درگاہ میں طاعت اور تقدیس کرتا تھا، جب آدم کو پیدا کیا اس نور کو آدم کے صلب میں رکھا اور برابر ایک صلب سے دوسرے صلب میں منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ اس کو عبدالمطلب کے صلب میں قرار دیا، پھر اس نور کو دوحصّوں میں منقسم کیا، میرے حصّہ کو عبداللہ کی پشت میں قائم کیا اور علی کے حصّے کو ابوطالبؑ کے صلب میں، پس علی مجھ سے ہے اور میں علی سے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمۃ المبارک  ۷؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۲۵

 

کل کائناتی سوال

قسط:۵۲

 

بحوالۂ کوکبِ دری، بابِ دوم منقبت۔ ۲: قَال النّبی صلّی اللہ عَلیہ وآلہٖ وسلّم۔ اِن اللہ تعالیٰ خَلَقَنِیْ وَعَلِیّاً مِنْ نُوْرٍ وَّاحِدٍ بَیْنَ یَدَیِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُ اللہ تَعَالٰی وَیُقَدِّ سُہٗ قَبْلَ اَنْ یَّخْلُقَ اٰدَمَ بِاَلْفَیْ عَامٍ فَلَمَّا خَلَقَ اٰدَمَ سَکَنَّا صُلْبَہٗ ثُمَّ نَقَلْنَا مِنْ صُلْبٍ وَبَطَنٍ طَاھِرٍ لَا تُھْتَکُ فِیْنَا حَائِلَۃٌ اِلٰی صُلْبِ اِبْرَاھِیْمَ حَتّٰی وَصَلْنَا اِلٰی صُلْبِ عبْدالْمُطَّلِبِ فَصَارَ قِسْمَیْنِ قِسْمٌ فِیْ عَبْدِ اللہِ وَقِسْمٌ فِیْ اَبِیْطَالِبٍ فَخَرَ جْتُ وَخَرَجَ مِنْہُ عَلِیٌّ ثُمَّ اجْتَمَعَ نُوْرًا مِنِّی وَمِنْ عَلِیٍّ فِیْ فَطِمَۃَ وَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ نُوْرَانِ مِنْ نُّورِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

ترجمہ: رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: خداوندِ تعالیٰ نے مجھ کو اور علی کو عرش کے سامنے ایک نور سے پیدا کیا، وہ نور آدمؑ کی پیدائش سے دو ہزار سال پیشتر خدا کی تسبیح و تقدیس کرتا تھا، جب خدا نے آدمؑ کو پیدا کیا تو ہم آدمؑ کی پشت میں ساکن ہوئے ، پس ہم صلبِ طاہر اور شکمِ پاک سے انتقال کرتے رہے اور ہمارے درمیان کوئی حجاب نہ تھا، یہاں تک کہ ہم ابراہیمؑ کے صلب میں آئے (اور پھر منتقل ہوتے رہے) یہاں تک

 

۱۲۶

 

کہ ہم عبدالمطلب کی پشت میں منتقل ہوئے، پس وہ نور دو حصوں میں منقسم ہوگیا، ایک حصّہ عبداللہ کی صلب میں قرار پایا اور دوسرا حصّہ ابوطالب کی پشت میں، پس میں پشتِ عبداللہ سے نکلا، اور علی پشتِ ابوطالب سے، بعد ازان میرا اور علی کا نور فاطمہ میں جمع ہوا اور حسن اور حسین پروردگارِ عالم کے نور سے دو نور ہیں۔

اور حدیثِ مذکور خزانۃ الجلالیۃ میں باین عبارت وارد ہوئی ہے۔ فصار نِصْفَیْنِ نِصْفٌ اِلٰی عَبْدِ اللہِ و نِصْفَہٗ اِلٰی اَبِیْطالِبٍ فَخُلِقْتُ اَنَا مِنْ جُزْءٍ وَّ عَلِیٌّ مِنْ جُزْ ءٍ فَالْاَ نْوَارُ کُلُّھَا مِنْ نُورِیْ وَ نُوْرِ عَلِیٍّ۔ پس وہ نور دو برابر حصے ہو گیا، ایک نصف تو عبداللہ کی پشت میں قائم ہوا اور ایک نصف ابی طالب کی پشت میں، پس میں ایک جز سے پیدا ہوا اور علی ایک جز سے، پس تمام انوار میرے اور علی کے نور سے ہیں۔

اور تمہید میں روایت کی گئی ہے کہ ایک دفعہ علیٔ مرتضٰیؑ حضرتِ مصظفٰےؐ کے پاس آئے، رسولؐ نے فرمایا: مَرْحَبَایَااَخِیْ وَابْنِ عَمِّیْ وَ الَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہٖ خُلِقْتُ اَنَاوَھُوَ مِنْ نُّوْرٍ وَّاحِدٍ۔ یعنی خوشی اور خرمی ہو میرے بھائی اور میرے پسرِ عم کو، اور اس ذاتِ برحق کی قسم، جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ میں اور وہ ایک نور سے پیدا کئے گئے ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمۃ المبارک  ۷؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۲۷

 

انسانی حقیقت کی جامعیت

 

دَوَاءُکَ فِیْکَ وَمَا تَشْعُرُ

وَدَآءُکَ مِنْکَ وَمَاتُبْصِرُ

وَتحْسَبُ اَنَّکَ جِرْمٌ صَغِیْرٌ

وَفِیْکَ انْطَوَی الْعَالَمُ الْاَکْبَرُ

وَاَنْتَ الْکِتَابُ الْمُبِیْنُ الَّذِیْ

بِاَحْرُفِہٖ یَظْھَرُ الْمُضْمَرُ

فَلَا حَاجَۃَ لَکَ فِیْ خَارِجٍ

یُخَبِّرُ عَنْکَ بِمَا سُطِّرُ

 

ترجمہ: ۱۔ تیری دوا تیرے ہی پاس ہے اور تجھ کو خبر نہیں، اور تیری بیماری تجھ ہی سے پیدا ہوتی ہے اور تو دیکھتا نہیں۔

۲۔ اور توخیال کرتا ہے کہ تو عالمِ اصغر ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے۔

۳۔ اور تو ہی وہ کتابِ مبین ہے کہ جس کے حرفوں سے پوشیدہ راز ظاہر ہوتےہیں۔

۴۔ تو تجھ کو خارج کی ضرورت نہیں ہے جو تیرے متعلق لکھی ہوئی باتوں کی خبر دے۔

 

از دیوانِ حضرتِ علی علیہ السّلام

 

۱۲۸

 

عالمِ عجائب و غرائب

قسط:۱

 

عالمِ عجائب و غرائب = عالمِ شخصی۔ دینا کے ہر بڑے ملک میں ایک عجائب گھر ہوا کرتا ہے، جی ہاں خدا کا سب سے بڑا عجائب گھر عالمِ شخصی میں ہے، پس اے دانا لوگو! آجاؤ دانائی اور حکمت سے کام لو اور اپنے اپنے عالمِ شخصی میں داخل ہوجاؤ، اس میں تم قدرتِ خدا کے بے شمار عجائبات کو دیکھو گے یہاں علم و حکمت اور معرفت کے بہت سے ذرائع اور وسائل بھی ہیں، لیکن تم اس میں داخل ہونے میں کبھی سستی نہ کرنا، دیکھو تم آیۂ استخلاف (۲۴: ۵۵) کی شرطوں کو پوری کرو تاکہ خدا حسبِ وعدہ کائناتی زمین کی خلافت سے تم کو سرفراز فرمائے، دیکھو آیت کو غور سے پڑھو، یہ خلافت بہشت کی بادشاہی ہے، جس میں خدا کی مخلوقات کو دینِ حق کی تعلیم دینا ہے، جس کے لئے ابھی سے تم میں علم ہونا چاہئے، پس تم ضروری طور پر علم کو حاصل کرو، علم نہ غیر ممکن ہے اور نہ سخت مشکل ہے، بلکہ حصولِ علم میں بہت ہی مزہ ہے، لذّت اور خوشی ہے، اور بیحد حلاوت ہے کیوں نہ ہو جبکہ علم جنّت کی شیرین نعمت ہے بلکہ سب سے شیرین ترین نعمت ہے، آپ اندازہ کریں کہ اللہ کی قدرت کیسی زبردست ہے! وہ اپنی قدرتِ کاملہ سے حواسِ ظاہر و باطن کے لئے کیسی کیسی عجیب و غریب نعمتیں پیدا کرتا ہے! سبحان اللہ!

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ہفتہ  ۸؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۲۹

 

عالمِ عجائب و غرائب

قسط:۲

 

ہاں بیشک یہ عالمِ شخصی ہی کا ذکر ہے، لیکن اس کے عجائب و غرائب کا بیان کماحقہٗ کوئی بھی نہیں کرسکتا ہے کیونکہ یہ وہ کارخانۂ قدرت ہے جس میں بے پایان اور لا محدود چیزیں ہوتی ہیں، یہ صرف عالمِ شخصی کی طرف توجہ دلانے کی ایک کوشش ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ عالمِ شخصی کا دوسرا نام بجا طور پر عالمِ عجائب و غرائب ہے، کیونکہ یقیناً اس کی ہر ہر چیز انتہائی عجیب و غریب، بے حد انوکھی اور ازبس نرالی ہے، مثلاً آپ جب عالمِ ذرّ کو دیکھیں گے تو آپ کو بے حد حیرت ہوگی۔

چنانچہ میں یہ قصّہ اپنے دوست عزیز محمد خان مرحوم (یارقند چین) کے حوالے سے بیان کرتا ہوں کہ ایک دفعہ کسی صوفی پر کشف ہوا، اس کو عالمِ ذرّ کے کچھ جنّات دکھائے گئے جو ذرات کی شکل میں تھے، اس نے اپنے اس کشف کا تذکرہ اپنے دوستوں سے بڑی حیرت کےساتھ کیا اور کہا کہ میں نے تو یہ سنا تھا کہ جنّات عظیم الجثّہ ہوا کرتے ہیں، آج میں ذراتی جنّات کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوگیا ہوں۔

الغرض عالمِ ذرّ ایک مکمل عالم ہے مگر اس کی تمام مخلوقات خدا کی قدرتِ عجیبہ سے ذرات کے برابر ہیں اور انہی میں لشکرِ سلیمان اور یاجوج و ماجوج

 

۱۳۰

 

بھی ہیں، اور ذرّاتِ ارواح بھی ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، ہفتہ  ۸؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۳۱

 

عالمِ عجائب و غرائب

قسط:۳

 

ہر انسان کے دائرۂ وجود = ہستی میں چار عالم ہیں، عالمِ بیداری، عالمِ خیال، عالمِ خواب، عالمِ روحانی۔ دینِ اسلام میں فرائض اور نوافل دونوں کی بہت بڑی اہمیت ہے، آپ اس حقیقت کو ٹھوس بنیادوں کے ساتھ سمجھنے کے لئے حدیثِ قدسیٔ نوافل کو ضرور پڑھیں۔

ہمارا مرشدِ کامل اور ھادیٔ زمان امامِ آلِ محمدؐ ہے، وہ اپنے مریدوں میں سے جن کی دلی خواہش اور درخواست ہو ان کو اپنی پاک اور بابرکت دعا کے ساتھ کوئی اسمِ اعظم عطا کرتے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ ایسا کوئی خوش نصیب مرید کتنا محنتی، عالی ہمت، دانا، اور عاشقِ مولا ہے؟ بصورتِ کامیابی اس کا فائدہ اتنا زیادہ ہے کہ وہ احاطۂ بیان میں آہی نہیں سکتا، اور نہ ہی اس کی نعمتوں کو کوئی شمار کرسکتا ہے۔

اس خصوصی عبادت کے کئی نام ہیں: کارِ بزرگ = بڑا کام= بیت الخیال = نورانی عبادت اور بول وغیرہ، یہ کام ایسا ہے جیسے خدا نے اپنی روح آدم میں بحدِّ قوت پھونک دی تھی تاہم آدم میں خدائی روح بحدِّ فعل بذریعۂ صورِ اسرافیل پھونک دی گئی تھی کیونکہ ہر انسانِ کامل اور ہر عارف کے لئے تجربۂ روحانی قیامت بیحد ضروری ہے جس کے بغیر علم و حکمت اور معرفت کے عظیم خزائن اور

 

۱۳۲

 

کہیں سے مل نہیں سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بہت سے عاشقوں کی روحیں زبانِ حال سے فریاد کرتی ہیں روحانی قیامت! روحانی قیامت! روحانی قیامت! روحانی قیامت! لیکن روحانی قیامت بیحد مشکل ہے، الا ما شاء اللہ۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، اتوار  ۹؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۳۳

 

عالمِ عجائب و غرائب

قسط:۴

 

بحوالۂ کتابِ سرائر ص۳۱ آدم کا مخصوص نام تخوم بن بجلاح بن قوامہ بن ورقۃ الرویادی تھا اور اس کے قبیلے کا نام ریاقہ، اور امامِ  مقیم حضرتِ مولانا ھنید علیہ السّلام تھا، انہوں نےخدا کی جانب سے آدم کو ایک اسمِ اعظم عطا فرمایا، جس میں تمام اسماء کے حقائق و معارف کی کلیدیں تھیں، اسی اصول کے مطابق حضرتِ ربّ ِتعالیٰ نے حضرتِ آدم کو علم الاسماء کی تعلیم دی۔

اللہ تعالیٰ کے تمام اسمائے صفاتی اسمِ اعظم کے معنوی مرکز کے ساتھ مربوط ہیں، آپ علم الاسماء کا یہ اساسی قانون بھول نہ جائیں کہ اسمِ اعظم میں امامِ زمانؑ کا نورِ اقدس شروع شروع میں بحدِّ قوّت اور بعد ازان بحدِّ فعل موجود ہوتا ہے، اس نورِ پاک کے حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں آنے کا انحصار مومن عاشق کی کوشش پر ہے اگر کوشش ایسی ہے جیسی آدم کی تھی تو پھر ایک روحانی قیامت برپا ہوگی اور پھر سنتِ الٰہی کے مطابق سب کچھ ہوگا جو ہونا چاہئے، خدا کرے کہ ہر عاشقِ صادق پر روحانی قیامت آئے! روحانی قیامت! روحانی قیامت! اے کاش ناقورِ عشق! اے کاش ناقورِ عشق! ناقورِ عشق! ناقورِ عشق!

اے حضرتِ اسرافیل علیک السّلام، کیا تو تھک گیا ہے؟ نہیں نہیں ہم نافرمان بندے حضرتِ داؤد علیہ السّلام کی طرح گریہ و زاری کر کے دیکھیں

 

۱۳۴

 

لیکن ہم نفس کی غلامی میں اسمِ اعظم کو بھول چکے ہیں اس لئے روحانی قیامت میں تاخیر ہورہی ہے، دوستو! کیا ہم سب ایک نہیں ہیں کیا ہم ایک میں سب نہیں ہیں؟ گریہ وزاری کرو، تضرع کرو، سجدہ کرو، آنسوؤں کی قربانی پیش کرو، آمین!۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، پیر  ۱۰؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۳۵

 

عالمِ عجائب و غرائب

قسط:۵

 

قرآنِ حکیم میں کل ۲۵ مقامات پر آدم اور بنی آدم کا ذکر آیا ہے

بزرگانِ دین کا قول ہے کہ لفظِ آدم نام نہیں بلکہ یہ لقب = ٹائٹل ہے ہر بڑے اور چھوٹے دور کے مالک کا، یہی وجہ ہے کہ اہلِ معرفت امامِ  وقتؑ کو تاویلاً آدمِ زمان کہتے ہیں اس میں حکمتِ بالغہ یہ ہے کہ قرآنِ عزیز میں جہاں جہاں بنی آدم کی فضیلت آئی ہے وہ امامِ  زمانؑ کے فرزندانِ روحانی کے لئے ہے اور بنی آدم سب سے پہلے انبیاء و اولیاء علیھم السّلام ہیں اور میں یہاں اس سے زیادہ کچھ کہنا نہیں چاہتا ہوں صرف یہ شعر:

؎  پسرِ نوح کہ بابدان بنشست خاندانِ نبوتش گم شد

نوحؑ کا بیٹا کنعان جو برے لوگوں کے ساتھ بیٹھا تو وہ نبوّت کے خاندان سے خارج ہوگیا، پس آج جو لوگ لا دین ہیں وہ کیونکر زمرۂ بنی آدم کی تعریف میں شامل ہوسکتے ہیں؟

آدمی را آدمیت لازم است

بوئے صندل گر نباشد، خشک چوب

کتابِ سرائر ص ۲۲ پر ہے کہ آدم جس کا اصل نام تخوم بن بجلاح ہے وہ امامِ زمان کے مستجیبان میں سے ایک مستجیب تھا جس کو اسمِ اعظم کا ذکر عطا

 

۱۳۶

 

ہوا تھا اور وہ اس خصوصی عبادت میں بڑا محنتی تھا اس لئے وہ کارِ بزرگ میں درجہ بدرجہ آگے گیا یہاں تک کہ اس کی روحانی قیامت قائم ہوئی اور وہ سنتِ الٰہی کے مطابق خلافتِ الٰہیہ کے تمام اسرار سے واقف ہوگیا۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، پیر  ۱۰؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۳۷

 

عالمِ عجائب و غرائب

قسط:۶

 

اللہ جلّ جلالہٗ و عمّ نوالہٗ جن لوگوں کو چشمِ بصیرت عطا فرماتا ہے، ان کےلئے قرآنِ حکیم آئینۂ اسرارِ ماضی، آئینۂ اسرارِ حال، اور آئینۂ اسرارِ مستقبل ہے، خدا جس کو حکمت عطا فرماتا ہے یقیناً اس کو خیرِ کثیر مل جاتی ہے، اور دائرۂ خیرِ کثیر سے کونسی نعمت باہر ہوسکتی ہے؟ پس حق بات تو یہ ہے کہ تم روحِ مستقر سے بہشت میں رہتے ہو، اور روحِ مستودع سے دنیا میں ہو، تم جہاں بہشت میں ہو، وہاں تم کو خلافت = سلطنت اور مرتبۂ فنا فی الامام حاصل ہے اور اگر تم کو اس روشن حقیقت پر یقین نہیں آتا ہے تو یہ تمہارے علم و عمل کی کمزوری ہے جلد از جلد اس کا علاج کرو، ورنہ علاج مشکل ہوجائےگا۔

سورۂ انعام (۰۶: ۱۶۵) میں غور سے دیکھو قرآنِ پاک کا یہ خطاب کس سے ہے؟ تم ہی سے ہے نا؟ خدا نے خلیفہ کس کو بنایا ہے؟ کیا تم کو کلامِ الٰہی پر یقین نہیں ہے کہ تم کو کائناتی بہشت کی زمین میں خلیفۃ اللہ بنایا گیا ہے، تحقیق کرو، سوچو اور علم والوں سے دریافت کرو، ان شاء اللہ ایک دن حقیقت سمجھ میں آئے گی۔

سورۂ عصر (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۲) اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر انسان کے کس بہت بڑے خسارے کا اشارہ فرمایا ہے اگر انسان علم و حکمت اور معرفت سے

 

۱۳۸

 

روگردان ہوجاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ہلاک کرتا ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، منگل  ۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۳۹

 

عالمِ عجائب و غرائب

قسط:۷

 

اگر نورِ منزل کی روشن ہدایت سے چشمِ بصیرت پیدا کرنا انسان کے دائرۂ اختیار سے باہر ہوتا تو پھر ایسے میں یہ نہ فرمایا جاتا کہ جو شخص اس دنیا میں اندھا رہے تو آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا اور اس کی اصل وجہ دور کی گمراہی ہوگی (۱۷: ۷۲)۔

اگر دنیا ہی میں چشمِ باطن کا حصول، بہشت کا مشاہدہ اور اس کی معرفت ممکن نہ ہوتی تو سورۂ محمد (۴۷: ۰۶) میں ترجمہ: اور ان کو اس بہشت میں داخل کرے گا، جس کا انہیں پہلے سے شناسا = عارف کر رکھا ہے، جیسا ارشاد نہ ہوتا، اس میں یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ معرفتِ کلّی صرف اور صرف دنیا ہی میں حاصل ہوسکتی ہے اور اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عالمِ شخصی میں ہجرت کریں، اگر خدا کے حکم سے ہادیٔ برحق علیہ السّلام کی پُرنور ہدایت حاصل ہوئی تو آپ پر ہر ہر وہ امتحان آئے گا جو ماضی میں بھی خدا کے دوستوں پر آتا تھا آپ ہر ایسے امتحان میں صابر رہ کر خدا سے رجوع کرنا، گریہ و زاری کرتے رہنا، ذکر کو کبھی نہ چھوڑنا، علم و حکمت میں مضبوط ہوجانا، قرآنی حکمت کا سہارا لینا، کثرت سے سجود کرنا، اللہ کے زندہ اسمِ اعظم کو بھول نہ جانا، اگر تم امامِ آلِ محمدؐ کے عاشقِ صادق ہو تو

 

۱۴۰

 

سعیٔ بلیغ کرو کہ تم فنا فی الامام ہو سکو، یہ کام ایک دن میں ہونے والا نہیں تم اگر حقیقی معنوں میں عاشقِ صادق ہو اور عالی ہمت ہو تو ہمیشہ کوشش کرو۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ ۱۲ ؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۴۱

 

عالمِ عجائب و غرائب

قسط:۸

 

سوال: عالمِ شخصی کا نام عالمِ عجائب و غرائب کیوں ہے؟

جواب۔۱: کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا زندہ عجائب گھر ہے، جس میں تمام انبیاء علیھم السّلام کے معجزات زندہ محفوظ ہیں۔

جواب۔۲: کیونکہ یہ خدا کا زندہ کارخانہ ہے۔

جواب۔۳: اس میں خدا، رسولؐ، اور امامؑ کی معرفت ہے۔

جواب۔ ۴: اس میں اسرارِ قرآن کے عرفانی معجزات ہیں۔
جواب۔ ۵: اس میں روحانی قیامت کا سرتا سر منظر اور معرفت ہے۔

جواب۔۶: اس میں ارتقائی سیڑھی پر انسان کی روحانی تخلیق اور اعلیٰ معرفت ہے۔

جواب۔۷: اس میں بحکمِ خدا روحانی کائناتیں بنتی ہیں، اور ہر کائنات بہشت ہو جاتی ہے۔

جواب۔۸: اس میں بہشت ہے، اس لئے ہر وہ چیز اپنی اصلی صورت میں محفوظ و موجود ہے ہر چند کہ دنیا میں موجود نہیں ہے مثلاً کوئی زبان یا اس کا کوئی حصّہ یا کوئی لفظ۔

جواب۔۹: ہر علمی اور تاریخی سوال کا جواب موجود ہے۔

 

۱۴۲

 

جواب۔۱۰: بہشت کی ہر وہ نعمت مہیا ہے، جس کا ذکر قرآنِ پاک میں آیا ہے۔

جواب۔۱۱: سب سے بڑی نعمت خداوندِ تعالیٰ کے پاک دیدار اور ظہورات و تجلّیات کی ہے اور کلام ِالٰہی کی نعمت سب سے عظیم ہے۔

جواب۔۱۲: حظیرۂ قدس کے اسرارِ عظیم بڑے عجیب و غریب اور بڑے حیران کن ہیں، کتابِ مکنون کو تُو ہاتھ میں لے رہا ہے یا وہ؟ تو تو وہاں فنا ہو چکا ہے، پتا ہے کس میں؟

 

اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسَٔلُکَ بِاَسْمَائِکَ الْحُسْنٰی۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ ۱۲ ؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

۱۴۳

 

عالمِ عجائب و غرائب

قسط:۹

 

حدیثِ شریف ہے: حفَّتِ الْجَنَّۃُ بِالْمَکارِہٖ = جنت تکلیفوں اور مشقتوں کے ساتھ گھیری گئی ہے۔

پس عالمِ شخصی بہشت تو ہے ہی، لیکن اس کے گرداگرد ایسی سخت تکالیف اور مشقتیں ہیں کہ بہت سے لوگ اپنے نفس کے دشمن کو شکست نہیں دے سکتے ہیں، آپ کو قرآنِ حکیم میں اس حقیقت کی بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں، آپ قرآن کو حکمت کے ساتھ پڑھیں، اور عالمِ شخصی میں داخل ہونے کی خاطر ہر قسم کی تکلیف، مشقت، ریاضت، شب خیزی، طاعت، عبادت، ذکر، مناجات اور گریہ وزاری جیسی عبادات کریں، ان شاء اللہ رفتہ رفتہ معجزۂ نورِ عشق سے آپ کو مدد ملے گی، اور تائید و نصرتِ الٰہی کی کئی صورتیں ہوا کرتی ہیں، اوّل اوّل آپ کو ذکر و عبادت سے بہت مزہ اور بہت سکون ملے گا، یا روشن خیالی کا معجزہ شروع ہوجائے گا، یا خواب کے معجزات شروع ہوں گے، یا رقتِ قلبی = دل کی نرمی اور گریہ وزاری ہوگی، یا علم کا شوق پیدا ہوگا، یہ سب روحانی قیامت کے آغاز سے پہلے کے احوال ہیں، آپ کی ساری روحانی ترقی جماعت خانہ جانے میں ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ  ۱۲ ؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۴۴

 

عالمِ عجائب و غرائب

قسط:۱۰

 

سورۂ نساء (۰۴: ۰۱) ترجمہ: اے لوگو اپنے اس ربّ سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک شخص = ایک جان = ایک روح سے پیدا کیا اور اسی جان = روح سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے۔

قرآنی حکمت کی طرف توجہ نہ دینا بہت بڑی ناشکری ہے، اسی لئے سوال ہے کہ اگر یہ نفسِ واحدہ = ایک شخص = ایک جان = ایک روح حضرتِ آدم ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ماں کے بغیر صرف باپ ہی سے سب لوگ پیدا ہوگئے؟ جواب: لاریب نفسِ واحدہ حضرتِ آدم تھا لیکن یہ لوگوں کی جسمانی پیدائش کا ذکر نہیں بلکہ یہ ابتدائی روحانی تخلیق کا بیان ہے، آپ کو نورٌعلٰی نور کا قانون خوب معلوم ہے، جب آدم میں خدائی روح پھونک دینے کے لئے بحکمِ خدا اسرافیل نے صور پھونک دیا تو تمام روحوں کا آدم میں حشر ہوا، یہ آدم کی روحانی قیامت تھی، پھر تمام روحوں کا نشر ہوا، یہ ہوا نفسِ واحدہ سے سب کو بارِ اوّل پیدا کرنا، پھر آدم کے لئے بارہ حجتانِ روز اور بارہ حجتانِ شب = روز ظاہر ۔ شب باطن جو دائیں اور بائیں پہلو کی ۲۴ پسلیوں کے برابر تھے مقرر ہوئے، اور آدم کے بائیں پہلو کی ایک پسلی سے حوا بنانے کی تاویل یہ ہے کہ بارہ حجتانِ شب میں سے ایک کو حجتِ اعظم = باب = اساس

 

۱۴۵

 

بنایا تاکہ مومنین و مومنات کے جسمانی ماں باپ کی طرح روحانی ماں باپ بھی ہوں۔

سورۂ مومنون (۲۳: ۱۰۱) میں ہے جب صور پھونکا جاتا ہے تو اسی کے ساتھ (اگلی) رشتہ داریاں ختم ہوجاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر قیامت میں آدمِ زمانؑ دوسرا ہوتا ہے لہٰذا رشتہ داری کا نظام تبدیل ہوجا تا ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعرات ۱۳ ؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۴۶

 

عالمِ عجائب و غرائب

قسط:۱۱

 

اے ابنِ آدم میری اطاعت کر تا کہ میں تجھے خود اپنی طرح حیّ لایموت بناؤں گا، یعنی تو ہمیشہ میری طرح زندہ رہےگا، اورکبھی نہیں مرے گا (حدیثِ قدسی) یہ خطاب آدمِ زمانؑ کے روحانی فرزندوں سے ہے، ایسے میں یہ اطاعت غیرمعمولی اور سب سے خاص ہوسکتی ہے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ انعام انتہائی عظیم ہے اور اس عظیم الشان نعمت کی مناسبت سے دائمی بہشت کا رازمعلوم ہو سکتا ہے اور سلامتی کی راہیں (۰۵: ۱۶) کیا ہیں؟ ان سے خبر ہو سکتی ہے، حقیقی سلامتی بہشت ہی میں ہے، سلامتی کی راہوں سے سلامتی کی ایسی طویل عمریں مراد ہیں جو بہشت کے ساتھ ساتھ ہیں، جن میں نوجوانی ہی نوجوانی ہے، اور خدا کے خزانوں میں جو سلامتی کی نعمتیں ہیں وہ کبھی ختم نہیں ہوتی ہیں، بہشت کی سب بڑی نعمت خلافتِ الٰہیہ = بہشت کی سلطنت ہے، ان معنوں میں دوسروں کو دینِ حق سکھانا ہے جو بڑا معزز کام ہے۔

حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کی عزّت فرشتے کس طرح کرتے تھے؟ یہی خلافت بہشت کی سلطنت بھی ہے، بہشت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت پرواز بھی ہے، مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عوام نے بہت بڑی غلطی کی کہ جنّات کو بدشکل قرار دیا، حالانکہ جنّ پری قوم کا نام ہے جس کے

 

۱۴۷

 

رجال اور نساء دونوں بیحد خوبصورت ہیں، اے عزیزان! خدارا (خدا کے واسطے) جنّات کے مردوں کو بدشکل نہ قرار دو، کیونکہ یہ ظلم ہے جبکہ جن مخلوقِ لطیف ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعہ ۱۴ ؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۴۸

 

عالمِ عجائب و غرائب

قسط:۱۲

 

انبیائے قرآن صرف وہ حضراتِ انبیاعلیھم السّلام ہیں جن کا ذکر قرآنِ حکیم میں آیا ہے اگرچہ کل پیغمبروں کی تعداد جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے مبعوث ہوئے تھے، ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے اور اس حقیقت میں کوئی شک ہی نہیں کہ حضرتِ مصطفیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ سید الانبیاء و المرسلین ہیں یعنی حضورِ اکرمؐ ہی تمام انبیاء و مرسلین کے سردار اور بادشاہ ہیں۔

پس عالمِ شخصی جو کائنات کا خلاصہ اور عالمِ دین کا نمونہ ہے، اس میں نورِ محمدیؐ نے تمام انبیاء کے لئے قلمِ اعلیٰ کا کام کیا ہے اور نورِعلیؑ نے لوحِ محفوظ کا کام کیا ہے، چنانچہ عالمِ شخصی کی روحانیّت اور اس کی تاویل پانی کی طرح نرم اور انتہائی لچکدار بلکہ معجزانہ شکل پذیر ہے، اس سلسلے میں سب سے پہلے ظرفِ قصۂ آدمؑ ہے، پھر ظرفِ قصہ نوحؑ، ظرفِ قصۂ ابراہیمؑ، ظرفِ قصۂ موسیٰؑ، الغرض ہر ظرف کی شکل الگ ہوسکتی ہے مگر روحانیّت اور تاویل کے پانی میں یہ خاصیت ہے کہ جس برتن میں بھی ڈال دیا جائے اسی کی اندرونی شکل اختیار کرلیتا ہے یہ ایک عمومی حکمت ہے ، تاہم ہر نبی کے لئے کچھ مخصوص حکمتیں بھی ہیں۔

اب آپ اس حقیقت پر بھی خوب غور وفکر کریں کہ قصصِ انبیاء

 

۱۴۹

 

کے تین مقام ہیں: اوّل ظاہری کتابیں، دوم قرآنِ حکیم، سوم تاویلِ باطن، چونکہ تاویلِ باطن سنتِ الٰہی کے مطابق ہے اس لئے اس میں اختلاف نہیں بلکہ اس میں یک رنگی اور وحدت ہے، کیونکہ اللہ کی سنّت ہمیشہ ہمیشہ ایک جیسی ہے، اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، سنیچر  ۱۵؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۵۰

 

عالمِ عجائب و غرائب

قسط:۱۳

 

ہم نے عالمِ شخصی ہی کو عالمِ عجائب و غرائب کیوں کہا ہے، اس کی ایک حد تک وضاحت ہوچکی ہے پھر بھی آپ کو ایک نرالی اور اچھوتی حکمت بتاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیھم السّلام کے ذیلی حدودِ دین کتنے ہوں گے؟ ہر نبی کے حلقۂ دعوت میں کتنے مومنین پیدا ہوئے ہوں گے؟ اور پھر ان سب اہلِ ایمان کے کل عوالمِ شخصی کتنے ہوں گے، ان کا شمارصرف خدا ہی کے علم میں ہے، کیا یہ تمام عوالمِ شخصی قانونِ نامۂ اعمال کے مطابق خدا کے ہاں محفوظ نہیں ہیں؟ کیا ان میں سے ہر عالمِ شخصی ایسی عجیب و غریب کتاب یا نورانی مووی نہیں ہے جو خدا کی رحمت سے اصلاح یافتہ اور کامیاب ہے ، جس کو دیکھنے اور پڑھنے کی اجازت ہے (۶۹: ۱۹) اس سے معلوم ہوا کہ عالمِ شخصی واقعی عالمِ عجائب و غرائب ہے، جس کے عجائبات بے پایان ہیں۔

سب سے بڑی عجیب بات تو یہ ہے کہ جب کسی مومن کی روحانی اور عرفانی قیامت قائم ہوتی ہے تو بحکمِ خدا اس مومن میں امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کا نور طلوع ہو جاتا ہے اور کوئی عارف اللہ کی رحمت سے اس معنیٰ میں عارف ہے کہ وہ عرفانی قیامت کے جملہ معجزات کو دیکھتا ہے اور پہچانتا ہے، پس اللہ امامِ مبین کے نور میں، جو عارف میں طلوع ہوچکا ہے، کائنات کو لپیٹتا

 

۱۵۱

 

ہے، پھر پھیلا دیتا ہے، اور یہاں امرِ کُنۡ بھی ساتھ ساتھ ہے، اور حضرتِ باری تعالیٰ اسی طرح بے شمار کائناتیں بناتا ہے۔

اللہ آپ کو اور ہم سب کو اسرارِ معرفت سمجھنے کی توفیق و ہمت عطا فرمائے آمین!

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، سنیچر  ۱۵؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۵۲

 

عالمِ عجائب و غرائب

قسط:۱۴

 

سورۂ صٰفٰت (۳۷: ۱۰۲ تا ۱۰۸) بہت زیادہ غور سے پڑھیں۔

حضرتِ اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السّلام۔ ذبیح بروزنِ فعیل بمعنیٔ مفعول یعنی راہِ خدا میں ذبح شدہ = قربان شدہ حضرتِ اسماعیل ابن حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کا لقبِ شریف ہے، ذبیح اللہ اس لئے ہے کہ ان کی قربانی راہِ خدا میں چار مقام پر ہوئی تھی، اوّل: ان کے عظیم باپ حضرتِ ابراہیمؑ نے اپنے خواب میں ان کو ذبح کیا۔ دوم: حضرتِ اسماعیلؑ نے بھی خواب میں خود کو مذبوح (ذبح کیا گیا) دیکھا تھا، سوم: آپ کے والدِ محترم حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اللہ کے حکم سے آپ کو ذبح کرنے کے لئے لٹایا تھا لیکن خدائے علیم و حکیم نے باپ بیٹے کی اس انتہائی تسلیم و رضا کو قبول فرما کر قربانی کا عظیم مرتبہ بھی عطا فرمایا اور فدیہ بھی دیا، چہارم: وقت آنے پر حضرتِ اسماعیلؑ نے روحانی قیامت اور منزلِ عزارئیلی کی عظیم قربانیاں بھی دیں اور یہی قربانیاں ذبحٍ عظیم اور ان کی حیاتی قربانی کا فدیہ ہیں۔

اس عظیم درس آموز واقعہ سے یہ حقیقت واضح اور روشن ہو جاتی ہے کہ جانور کی قربانی مثال ہے اور نفس کی قربانی ممثول ہے۔

 

۱۵۳

 

اے عزیزان قرآنی حکمتوں سے عقل و جان کو تقویّت دیتے رہنا، اور جیتے جی مر کر زندہ ہوجانا اسمِ اعظم کا سب سے بڑا معجزہ قرار دینا۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، اتوار  ۱۶؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۵۴

 

عالمِ عجائب و غرائب

قسط:۱۵

 

عالمِ شخصی کو عالمِ عجائب و غرائب کہنے کے بہت سے اسباب و وجوہات ہیں اس کے بارے میں کافی وضاحت ہو چکی ہے پھر بھی ربّ العزّت سے توفیق و ہمت کے لئے درخواست ہے۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ روحانی قیامت صرف عالمِ شخصی ہی کا انقلاب نہیں بلکہ ایک عارف کے نزدیک یہ کائناتی انقلاب بھی ہے، اور اس کی بہت سی مثالیں بیان ہوچکی ہیں۔

آفاق و انفس میں جن آیات کو دکھانے کا حق تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ معجزات ہی معجزات اور عجائب و غرائب ہیں جو معدود اور محدود نہیں، اور آپ کو قرآنِ پاک کا یہ قانون یاد ہوگا کہ اللہ کے پاس تمام چیزوں کے خزانے ہیں، پس معجزات اور عجائب و غرائب کا زندہ خزانہ امامِ مبین ہی ہے، اس مناسبت سے امامِ مبین کو مظہر العجائب و الغرائب کہا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ وہ قادرِ مطلق اور حکیمِ یگانہ ہے جو ہنگامِ قیامت ساری کائنات کو دستِ قدرت میں لپیٹ کر ایک گوہرِ عقل بنا لیتا ہے اسی ذاتِ پاک نے اپنے تمام خزانوں اور کل چیزوں کو امامِ مبین میں گھیر کر اور عددِ واحد میں گن کر رکھا ہے اور اسی امامِ مبین کے نور کو کل کائناتی لوحِ محفوظ بنا دیا ہے

 

۱۵۵

 

اور اگر ہم قلبِ قرآن کی اس مرکزی آیت (۳۶: ۱۲) کو نہیں سمجھتے ہیں تو یہ ہماری ہی غفلت و ناشکری ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، پیر  ۱۷؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۵۶

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۱

 

آیۂ امامِ مبین سورۂ یٰسٓ (۳۶: ۱۲) میں ہے، اور اس کا ارشاد یہ ہے:إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ ۔

ترجمہ: یقیناً ہم ہی (سب سے اعلیٰ موت = روحانی قیامت کے) مردوں کو حیاتِ طیبہ میں زندہ کر دیتے ہیں اور ان کے اعمال و آثار کو بہت بڑا درجہ دیکر کتابِ کائنات میں درج کرتے ہیں خدا گواہ ہے کہ یہ اس آیۂ شریفہ کی عارفانہ تفسیر ہے، کیونکہ جب موت طرح طرح کی ہے تو پھر مردے بہت قسم کے ہیں، اور اہلِ دانش کے نزدیک روحانی قیامت کی موت سب سے اعلیٰ ہے کیونکہ وہ عارفانہ اور اولیائی موت ہے، اور قرآنِ حکیم کی شانِ برتری یہ ہے کہ وہ اپنی حکمتِ باطن میں ہمیشہ اعلیٰ اشیاء کا ذکر فرماتا ہے نہ کہ ادنیٰ چیزوں کا۔

عارفانہ موت اور اولیائی موت کی اصطلاح کو کبھی بھول نہ جانا، اس سے آپ کو حقائق و معارف کے سمجھنے میں مدد ملے گی، جیسے کبھی شاید آپ ان الفاظ کے سننے سے خوش ہوگئے تھے: عاشقانہ عبادت، عارفانہ عبادت، اولیائی عبادت، پیغمبرانہ عبادت جو سب سے اعلیٰ ہے، اسی طرح

 

۱۵۷

 

عارفانہ اور اولیائی موت روحانی قیامت کے لئے خاص اور معجزاتی موت ہے، کوئی بھی موت معجزاتی نہیں مگر اولیائی موت اور عارفانہ موت جو روحانی قیامت میں واقع ہوتی ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، پیر ۱۷؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۵۸

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۲

 

سورۂ یٰسٓ کا تعریفی نام بحکمِ حدیثِ شریف قلبِ قرآن ہے اگرچہ قلبِ قرآن کی ہر آیۂ کریمہ عظیم حکمتوں سے لبریز ہوسکتی ہے، تاہم عجب نہیں کہ قلبِ قرآن کی وجہِ تسمیہ سے متعلق پیدا ہونے والے تمام سوالات کے جوابات کلیۂ امامِ مبین میں موجود ہوں، ہم عنوانِ بالا کی کچھ قسطوں کو ان شاء اللہ آگے بڑھاتے ہیں تا کہ آپ کو اس آیۂ کریمہ کے عظیم اسرار کی معرفت ہو۔

امامِ مبین امامِ آلِ محمدؐ ہے، اور اسی کا ایک نام الکوثر بھی ہے، سورۂ کوثر اور اس کی شانِ نزول کو پڑھ لیں۔

ہم تمہید کو مختصر کر کے معرفت کی طرف جاتے ہیں، آپ نے فرمانِ الٰہی کو سن لیا کہ اس نے ہر چیز کو امامِ مبین میں گھیر کر رکھا ہے، آپ سے میرا دوستانہ سوال ہے، کہ آیا نورِ منزّل یا قرآن یا اس کی تاویل یا اسمِ اعظم یا خدا کا دیدار یا بہشت یا معرفت یا کوئی اور ضروری چیز امامِ مبین سے باہر رہ گئی ہے؟ آپ یقیناً کہتے ہیں نا نہیں ہر گز نہیں، الحمد اللہ، یہ اللہ کا احسان ہے۔

اللہ تعالیٰ ہر روحانی قیامت میں تمام چیزوں کو = کل کائنات کو امامِ مبین میں گھیر کر رکھتا ہے، ہر روحانی قیامت میں اس معجزے کا تجدّد کرتا ہے، تاکہ عارف مشاہدہ کر کے معرفت حاصل کرے۔

 

۱۵۹

 

اگر خدا کسی مومن کو عارف بنانا چاہتا ہے تو لازمی طور پر اس کے لئے ایک روحانی قیامت کا قیام بہت ضروری ہے، کیونکہ قیامت کے بغیر اسرارِ معرفت پوشیدہ ہی رہتے ہیں، لہٰذا قیامت عرفانی قسم کی ہے یعنی مشاہداتی نوعیّت کی ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، منگل  ۱۸؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۶۰

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۳

 

کتابِ سرائر میں جس آدم کا کچھ قصّہ بیان ہوا ہے وہ آدم ِسراندیبی ہے وہ امام الزمانؑ کے مریدوں میں سے تھا اس کو مولانا امام ھنید علیہ السّلام نے اللہ کے امر سے اسمِ اعظم کے ذکر کی تعلیم دی تھی اور اسی میں تمام اسماء کی تعلیم جمع ہوتی ہے۔

آدم جس کا اصل نام میں نے لکھ دیا ہے وہ ذکر و عبادت میں بڑا سخت محنتی اور جفاکش تھا اور وہ دارالضّد (دشمن کے ملک) میں پیدا ہوا تھا، اس کے ماں باپ ڈر کے مارے اسے ایک مقام سے دوسرے مقام میں منتقل کرتے رہتے تھے یہ تمام خوفناک اور پُرخطر احوال آدم کی روحانی بیداری = روحانی قیامت کے لئے بہت ضروری تھے، پس آدم کے عالمِ شخصی میں امامِ زمانؑ کا پاک نور طلوع ہو گیا یہ روشن خیالی کا عالم تھا جس کو بہت سے لوگوں نے لاعلمی سے منزلِ مقصود سمجھا ہے حالانکہ یہ بہت بڑا امتحان ہے کہ یہ منزلِ مقصود نہیں، منزلِ مقصود بہت آگے ہے، بہشت کی اصل بشارت منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی سے شروع ہوجاتی ہے اور عالمگیر = کائنات گیر معجزات کا آغاز بھی وہیں سے ہوتا ہے = آپ کو دو ساتھیوں کا قصّہ یاد ہوگا: ایک جنّ اور ایک فرشتہ، جیسے ہی صورِ اسرافیل کی آواز سنتا ہے تو جنّ مسلمان ہو کر فرشتے کے ساتھ بڑی خوش آوازی

 

۱۶۱

 

سے مولا کی کوئی تعریفی نظم پڑھنے لگتا ہے، یہ بھی ایک معجزہ ہے، الغرض آدمِ سراندیبی پر جو عظیم معجزات گزرے تھے وہ سب کے سب امامِ زمانؑ کے نور کی وجہ سے تھے، حق بات تو یہ ہے کہ امامِ زمان اللہ تعالی کے تمام خزانوں پر مبنی خزانہ ہے یعنی امامِ مبین خدا کے جملہ خزانوں کا مجموعی اور یکجا خزانہ ہے اور آیۂ امامِ مبین ہی کا یہی مطلب ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، منگل  ۱۸؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۶۲

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۴

 

اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام الٰہی چیزوں کو گھیر کر اور عددِ واحد میں گن کر امامِ مبین میں رکھا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب امامِ مبین کا نور حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام میں طلوع ہوا تو آدم کے لئے انتہائی عظیم معجزات ہوگئے اُدھر روحِ مستقر سے آدمؑ پچاس ہزار سال یا چھ کروڑبرس کے بعد روحانی بہشت سے زمین پر وارد ہوگئے، اور اِدھر روحِ مستودع میں ماں باپ سے پیدا ہو کر عالمِ شخصی اور کائناتی زمین کا خلیفہ بھی ہوگیا، یہ سب کچھ امامِ مبین کے نور کے سبب سے ہوا، آدم کے اسرار میں خدا لوگوں کو آزماتا رہتا ہے، تاکہ ان کے علم و عمل کا معیار ظاہر ہوجائے۔

سوال: امامِ مبین میں اللہ کب اور کہاں کل خدائی چیزوں کو گھیر کر اور گن کر رکھتا ہے؟ جواب: روحانی قیامت کے دوران اور عالمِ شخصی میں، اس سے یہ معلوم ہوا کہ روحانی قیامت امام شناسی کی غرض سے ہے، جی ہاں خود شناسی اور خدا شناسی بھی اسی میں ہے، بلکہ ساری معرفتیں ایک ساتھ ہوتی ہیں، مثلاً قرآن کی معرفت اور بہشت کی معرفت وغیرہ۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ  ۱۹؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۶۳

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۵

 

سوال: حضرتِ آدم کے بہشت سے اس زمین پر ھبوط (اترنا) کس طرح تھا؟

جواب: اس کا خاطر خواہ جواب پچاس ہزار سال اور چھ کروڑ سال کے روحانی ادوار میں ہے، اعنی آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام بہشت سے بھی ایک برتر مقام پر فائز ہوچکا تھا، اس مقام کا نام رضوان ہے (۰۹: ۷۲) رضوان = اللہ کی خوشنودی = باغاتِ بہشت کا باغبان = فرشتۂ عظیم = امامِ مبین۔

بہشت میں داخل ہونے والا ہر عارف کا ذاتی جنّ = شیطان = نفسِ امّارہ منزلِ اسرافیلی ہی میں مسلمان ہو جاتا ہے، اگر ایسا کوئی عارف نفسِ واحدہ ہے تو اس کے ساتھ بیشمار روحیں بھی ہیں پس ان سب کا جنّ = شیطان منزلِ اسرافیلی میں مسلمان ہو جاتا ہے، اور آپ قرآنی حکمت کو خوب غور سے پڑھیں، کیا بہشت امن و امان اور سلامتی کی جگہ نہیں ہے؟ کیا جنّت میں نفسِ امّارہ داخل ہوسکتا ہے یا صرف نفسِ مطمئنہ (۸۹: ۲۷) یعنی اہلِ جنّت میں اطمیان یافتہ روح ہوتی ہے تو پھر شیطان کس طرح کسی جنّتی شخص کو فریب دے سکتا ہے؟ ایسے کئی سوالات میں اللہ تعالیٰ

 

۱۶۴

 

کا امتحان ہے تاکہ لوگ نورانی علم کے لئے امامِ مبین سے رجوع کریں، جس کے پاس خدا کی طرف سے ہر چیز موجود ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ ۱۹ ؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۶۵

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۶

 

آیۂ امامِ مبین ہی کلیۂ امامِ مبین بھی ہے۔

اب آپ حدیثِ مدینۂ علم میں دانشمندی سےغور کریں، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ آنحضرت صلعم نے فرمایا: میں علم کا (واحد) شہر ہوں، اور علی اس کا (واحد) دروازہ ہے، یعنی حضرتِ سید الانبیاءؐ قرآن و حدیث کے علم کا بے مثال اور یکتا و یگانہ شہر تھے، اور اس کا (واحد) دروازہ علی = امامِ مبینؑ ہے۔

حضورِپاکؐ کی دوسری حدیثِ شریف کا ترجمہ: میں حکمت کا (واحد) گھر ہوں، اور علی اس کا (واحد) دروازہ ہے، علیؑ = امامِ مبین = امامِ زمان علیہ السّلام ۔

صاحبِّ جوامع الکلم (آنحضرتؐ) نے جس شان سے احاطۂ علم و حکمت کا بیمثال تصوّر پیش فرمایا اس کی تعریف انسانی سوچ سے بالاتر و برتر ہے، یہ ہمارا ایمان اور یقین ہے کہ جو حقائق و معارف قرآنِ حکیم میں بیان ہوئے ہیں، وہی احادیثِ صحیحہ میں بھی ہیں، اور جو کچھ آیاتِ قرآنی میں فرمایا گیا ہے وہی معانی اسمائے صفاتی میں بھی ہیں، جیسے اللہ پاک کا ایک اسمِ صفت المحصی ہے = گھیرنے والا = ہرشیٔ پر محیط = ہر شیٔ کو جاننے والا = صاحبِّ

 

۱۶۶

 

ادراک، نیز القابض الباسط ہے، کائنات کو قبضۂ قدرت میں لپیٹ کر گوہرِ عقل بنانے والا، پھر اس کو پھیلا کر کائنات بنانے والا (یہ براہِ راست تاویل ہے)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعرات  ۲۰؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۶۷

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۷

 

یہ حدیثِ شریف جامع ترمذی، جلدِ دوم میں ہے:

اِنَّ لِکُلِّ شَیْ ءٍ قَلْباً وَقَلْبُ الْقُرْاٰنِ یٰسٓ وَمَنْ قَرَأَ یٰسٓ کَتَبَ اللّٰہُ لَہٗ بِقِرْأَتِھَا قِرَأَۃَ الْقُرْاٰنِ عَشَرَ مَرَّاتٍ۔

ترجمہ: ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۂ یٰسٓ ہے جو اسے ایک مرتبہ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس مرتبہ قرآن پڑھنے کا اجر لکھ دیتے ہیں۔

الا تقان حصّۂ دوم نوع ۷۲۔ قرآن کے فضائل کے سلسلے میں سورۂ یٰسٓ کے فضائل کو دیکھیں۔

سوال: آیا سورۂ یٰسٓ کو قلبِ قرآن کا درجہ دینے کی کوئی حکمت معلوم ہوسکتی ہے؟

جواب: ان شاء اللہ یہ پاک سورہ شروع سے آخر تک اسرارِ معرفت سے مملو اور لبریز ہے، لہٰذا اس کی تمثیل کسی عام دل سے نہیں بلکہ قرآنِ ناطق (پیغمبرؐ اور امامؑ) کے دل سے دی گئی ہے، کیونکہ ان کے دل میں ہمیشہ اسرارِ علم و معرفت بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔

سب جانتے ہیں کہ یا سین آنحضرتؐ کے مبارک اسماء میں سے ہے

 

۱۶۸

 

اس سورہ کے آغاز ہی میں جس طرح حضورِ انورؐ کا یہ بابرکت نام آیا ہے اس میں بہت بڑا راز ہے، اوّل یہ کہ خدائے بزرگ و برتر نے آنحضرتؐ کے اس مبارک نام (یاسین) اور قرآنِ حکیم کی قسم کھائی ہے، دوم یہ حضورِ اقدسؐ کا وہ پُرحکمت اسم ہے، جس کے ساتھ آپؐ کی آل پر خدا کی طرف سے سلام آیا: سلامٌ عَلیٰ آلِ یَاسین = آلِ محمدؐ پر سلام ہی سلام ہے، آیۂ شریفہ کی یہ قرأت، حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام کی ہے، بحوالۂ کتابِ دعائم حصّۂ اوّل عربی ص ۳۱۔ (۳۷: ۱۳۰) نیز بحوالۂ تفسیر المیزان جلد ۱۷ ص ۱۵۹۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعہ  ۲۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۶۹

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۸

 

سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) میں ارشاد ہے: قَدْ جَاءَكُمْ مِنْ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ۔

ترجمہ: تمہارے پاس تو خدا کی طرف سے نور اور کتابِ عیان (قرآن) آچکی ہے۔

سوال: اس آیۂ کریمہ میں نور سے کیا مراد ہے؟ اور اس کا ذکر پہلے کیوں ہے؟

جواب: نور سے آنحضرتؐ مراد ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو غارِ حرا ہی میں اسمِ اعظم کے ذکر سے نورِ مجسّم بنا دیا تھا، بعد ازان آنحضرتؐ پر نزولِ قرآن کا آغاز ہوا، یہ اللہ کا وہ نور تھا جس کو نہ تو کوئی منکر بجھا سکتا ہے نہ وہ از خود بجھنے والا ہے اور نہ ہی کبھی خدا اسے بند کرتا ہے بلکہ اس کے لئے اللہ نے جو اٹل قانون بنایا ہے وہ نورٌعلیٰ نور ہے، پس حضرتِ خاتم الانبیاءؐ کے بعد نور امامِ مبین میں منتقل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے امامِ مبین میں جو کل چیزوں کو گھیر کر اور گن کررکھا ہے ان میں سب سے اعلیٰ اور سب سے زیادہ دور رس اور ہمہ گیر طاقت نور ہی ہے، لہٰذا امامِ مبین میں اس نمائندہ نور کو ضروری طور پر موجود اور حاضر رہنا ہے، اور یقیناً وہ موجود رہتا ہے اورتمام عجیب و غریب معجزات اسی

 

۱۷۰

 

نور میں ہیں، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحْسَانِہٖ۔

قلبِ قرآن کے اسرار بہت زیادہ ہیں آپ بڑی عاجزی سے دعا کریں کہ ہم اس کی چند حکمتیں بیان کرسکیں، اس میں بھری ہوئی کشتی کا راز بڑا عجیب و غریب ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی،جمعہ ۲۱ ؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۷۱

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۹

 

بحوالۂ المیزان فی تفسیر القرآن، جلد ۱۸، ص ۳۹۰ حضرت امام حسین بن علی علیھما السّلام کا یہ ارشاد ایک کنزِ بہشت ہے: فقال پس فرمایا:

اِنَّ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ مَا خَلَقَ الْعِبَاد اِلاَّ لَیَعْرِ فُوہٗ فَاِذَا عَرَفُوْہٗ عَبَدُ وْہٗ فَاِذَا عَبَدُوْہٗ اِسْتَغْنُوا بِعِبَادَتِہٖ عَنْ عِبَادَۃ مَنْ سِوَاہٗ۔

ترجمہ: یقیناً خدائے عزّ و جلّ نے بندوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس کو پہچاننے کے لئے، پس جب وہ اس کو پہچان لیں گے تو تب وہ اسی کی عبادت کرسکیں گے، پھر جب وہ صرف اسی کی عبادت کریں گے تو وہ ایسی عارفانہ عبادت کی برکت سے غیر اللہ کی عبادت سے بے نیاز ہو جائیں گے۔

یہ حدیثِ شریف بحوالۂ زاد المسافرین، ھزار حکمت (ح۔۸۳۶) میں درج ہے: اَعْرَفُکُمْ بِنَفْسِہٖ اَعْرَفُکُمْ بِرَبِّہٖ = تم میں جو شخص اپنی روح کا سب سے زیادہ عارف ہو، وہی تم میں اپنے ربّ کا سب سے زیادہ عارف ہے۔

اور مولا علی کا ارشاد ہے: مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ = جس نے اپنی روح کی معرفت حاصل کر لی، اس نے اپنے ربّ کی معرفت حاصل کر لی۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعہ  ۲۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۷۲

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۱۰

 

اے عزیزانِ سعادت مند! اگرچہ ابتدائی معرفت علم الیقین سے شروع ہوجاتی ہے، لیکن نورانی اور باطنی معرفت عالمِ شخصی کے گنج خانے میں ہے، لہٰذا عالمِ شخصی آپ سب کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام ہے، اور یہ اس عالمِ شخصی کی بات ہے جس میں امامِ مبین کا نور طلوع ہوجاتا ہے، ورنہ عالمِ شخصی ازخود مردہ شمار ہوتا ہے، مگر جب خدا کے حکم سے اس عالمِ شخصی =اس شخص میں امامِ مبین کا نور طلوع ہوجاتا ہے تو وہ زندہ بھی ہوجاتا ہے اور اس کے لئے خدا کی طرف سے ایک نور بھی مقرر ہوتا ہے، چونکہ وہ ایک شخص بھی ہے اور ایک عالم بھی اور اس میں سب لوگ موجود ہیں، پھر وہ شخص جس کو خدا نے موت سے زندہ کر کے ایک نور = نورِ معرفت عطا کیا ہے اپنے ذاتی عالَم ہی میں لوگوں کے درمیان نورِ معرفت کے ساتھ چلتا ہے، یہ ایک آیت (۰۶: ۱۲۲) کا مفہوم ہے۔

اگر آپ امامِ  مبین کے ان معجزات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں جو عالمِ شخصی میں ہیں تو میری نظم و نثر کی تمام کتابوں کا مطالعہ کریں کیونکہ میں نے اپنی تمام قلمی زندگی میں زیادہ سے زیادہ یہی کام کیا ہے،اَلحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِین۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، سنیچر  ۲۲؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۷۳

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۱۱

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) میں ایک خزانۂ اسرارِ الٰہی ہے، جس کے حصول کی شرط عشقِ سماوی اور علم الیقین ہے، جن خوش نصیب لوگوں کو یہ خزانہ حاصل ہوجاتا ہے، بس وہ کامیاب ہوجاتے ہیں، اس کا اصل راز اسماء الحسنیٰ کی معرفت ہے، اسماء الحسنیٰ جمع بھی ہیں = أئمّہ آلِ محمدؐ، اور واحد بھی ہے = امامِ زمانؑ = اسمِ اعظمِ مجسّم اور زندہ۔

خداوندِ تعالیٰ کی قسم! امامِ زمانؑ خدا اور رسولؐ کا نمائندۂ روحانی = خلیفہ ہے، وہ بعض حقیقی مریدوں کو کوئی اسمِ اعظم لفظی عطا کرتا ہے، اگر کسی نیک بخت مرید نے ذکرِ اسمِ اعظمِ لفظی میں کامیابی حاصل کر لی تو سب سے پہلے اس پر روشن خیالی کا بہت بڑا امتحان آتا ہے جس میں بعض صوفیوں نے یہ خیال کیا کہ یہ حق تعالیٰ کی تجلّیات ہیں، حالانکہ یہ اللہ کی تجلّیات نہیں ہیں، منصورِ حلاج روشن خیالی کی منزل میں پھنس گیا اور انا الحق کا نعرہ لگایا جس کو بعض صوفیوں نے سراہا اور بعض نے اس کے خلاف کفر کا فتویٰ لگایا۔

ہم حکیم پیر ناصر خسرو (ق س) کو ان کی کتابوں سے پہچانتے ہیں، وہ امام کے بارہ حجج میں سے ایک تھے، انہوں نے اپنے دیوان میں سچ سچ کہا ہے کہ امامِ زمان کا نورِ پاک ان کی روح =جان= عالمِ شخصی میں طلوع ہوچکا تھا، انہوں نے مقامِ معراج

 

۱۷۴

 

کو آسمانِ نفسِ کلّی کہا ہے، انہوں نے گوہرعقل کا عرفانی مشاہدہ کیا تھا، اسی کو علم کا سرچشمہ قرار دیا، مجھے ان کے مرتبۂ علمی کے بارے میں اپنے عزیزوں کو بہت کچھ بتانا ہے، لیکن آج صرف اتنا بتاؤں گا کہ ان کا زمانہ آج سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے تھا پھر بھی انہوں نے قرآنی تاویل کی روشنی میں حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ اور ان کے فرزندِ اکبر علی سلمان خان کے روحانی دور کا ذکر کیا ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، سنیچر  ۲۲؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۷۵

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۱۲

 

بحوالۂ قرآن (۴۱: ۵۳) آفاق و انفس میں جن آیاتِ قدرت = معجزات کے ظہور کا ذکر آیا ہے ان میں یقیناً مادّی سائنس کے عجائب و غرائب بھی ہیں جن کی بدولت آج روحانی سائنس کے باب میں سوچنا اور کچھ مثال دینا وغیرہ آسان ہوگیا ہے، مثلاً ظاہری ریسرچ ہی سے معلوم ہوا کہ سیّارۂ زمین کے کسی مقام پر یاجوج ماجوج نہیں تو پھر روحانی سائنس ہی نے ثبوت فراہم کیا کہ یہ روحانی لشکر ہیں اور ان کا طوفانی خروج ہر روحانی قیامت کے آغاز میں ہوتا ہے، اور ممکن ہے کہ یہی روان دوان عالمِ ذر بھی ہو۔

دنیائے علم و ادب میں کوہِ قاف کا موجود ہونا یا نہ ہونا ایک مشکل مسئلہ تھا اس کا حل بھی روحانی سائنس ہی سے ہوا کہ کوہِ قاف باطن میں موجود ہے، یہ بڑا عجیب سوال بھی تھا کہ ذوالقرنین = دو سینگوں والا بہت بڑا بادشاہ کون تھا؟ روحانی سائنس سے جواب ملا کہ یہ صورِاسرافیل کے دو نفخے کی بات ہے، اور یہ مولا علیؑ کی شان میں ایک تاویلی تعریف ہے۔

ایک پرانا قصّہ یہ بھی تھا کہ ظلمات = ایک تاریک مقام پر چشمۂ آبِ حیات ہے، اگر کوئی آدمی آبِ حیات کی طلب میں کامیاب ہوجائے اور اس میں پی سکے تو وہ ہمیشہ کے لئے امر ہو جاتا ہے، یہ امامِ مبین کی معرفت

 

۱۷۶

 

دنیا والوں کے لئے نایاب ہونے کی مثال ہے کیونکہ جو لوگ امام کو نہیں پہچانتے ہیں ان کے حق میں امامِ مبین ظلمات کے حجاب میں آبِ حیات ہے، حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کا سفر جانبِ مجمع البحرین عالمِ شخصی میں تھا۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، اتوار  ۱۳؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۷۷

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۱۳

 

حضرتِ حکیم پیر ناصر خسرو (ق س) کے دیوان میں ہے:

بر جانِ من چو نورِ امامِ زمان بتافت

لیل السرار بودم و شمس الضحیٰ شدم

ترجمہ: حضرتِ پیر اپنے بارے میں فرماتے ہیں: میری جان = روح پر جب امامِ زمان کا نور طلوع ہوا تو میں (قبلاً) شبِ تاریک تھا (اب) میں روزِ روشن ہوگیا۔

حضرتِ پیر کے اس حکیمانہ شعر میں ہمہ گیر حکمت اور معرفت کے کیسے کیسے انمول جواہر ہیں! ان پر صرف دانا لوگ غور کرسکتے ہیں، اور اس سے زیادہ سے زیادہ نتائج اخذ کرسکتے ہیں، اور ان میں سے ایک آسان اور عام اصول جو ہم سب سمجھ سکتے ہیں یہ ہے کہ عاشقوں اور عارفوں کی روح میں طلوع ہو کر ایک نورانی پل بنانا اور اسے قائم رکھنا امامِ زمان علیہ السّلام کے مقدس نور کا خاصہ ہے۔

آپ نورانی پل کی معرفت کے لئے قرآن میں دیکھیں جس میں نور کی گونا گون مثالیں ہیں اور نور کی ہر مثال کا تعلق قلبِ مومن = روحِ مومن سے ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں آنحضرتؐ کے اسمائے مبارک میں ایک پاک

 

۱۷۸

 

اسم سراج منیر= روشن چراغ بھی ہے (۳۳: ۴۶) آپ یہ بتائیں کہ سردارِ انبیاء صلعم گھروں کے روشن چراغ تھے یا دلوں کے؟ اب نورانی پل کا تصوّر بن گیا یا نہیں؟

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، اتوار  ۲۳؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۷۹

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۱۴

 

ترجمۂ آیت از سورۂ حدید (۵۷: ۱۹) = اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر بحقیقت ایمان لائے ہیں وہی اپنے ربّ کے نزدیک صدیق اور شہیدِ باطن ہیں اور ان کے لئے ان کا اجراور ان کا نور ہے۔

نور تو دراصل اللہ تعالیٰ ہی کا ہے (۲۴: ۳۵) اور رسولِ پاکؐ کا ہے (۰۵: ۱۵) اور امامِ مبین کا ہے (۵۷: ۲۸)، پھر بھی جو مومنین و مومنات اطاعت اور علم و عمل سے امامِ زمان میں فنا ہوجاتے ہیں تو یہ نور ان کے عالمِ شخصی میں بھی (۰۶: ۱۲۲) طلوع ہو کر ان کے لئے کائناتی اور اخروی امور کو انجام دیتا ہے، دیکھوقرآن (۵۷: ۱۲) اور (۵۷: ۱۹) نیز (۶۶: ۰۸)، مومنین اور مومنات کے آگے اور داہنی طرف ان کا نور دوڑ رہا ہوتا ہے، اس میں بےشمار حکمتیں ہیں اس لئے کچھ ترتیب سے کبھی بیان نہیں کرسکتے ہیں، مگر یہ ہے کہ ان کے لئے بےشمار بہشتی کائناتیں اور سلطنتیں بنائی جاتی ہیں، اور اس میں بڑے بڑے ادوار کا احاطہ کرنے اور نیک کاموں میں سبقت حاصل کرنے کا اشارہ بھی ہے اور سلامتی کی راہوں پر چلنے کی علامت بھی وغیرہ۔

یہ تمام رحمتیں اور برکتیں امامِ مبین کے نور میں ہیں جبکہ وہ آپ کے عالمِ شخصی میں طلوع ہوجاتا ہے۔

 

۱۸۰

 

نُورُلݸ تِل معجزݣ نُورُلُݸ رحمانݺ راز

نورݺ دمن ڎم ہینم حکمتݺ قرآنݺ راز

ترجمہ: نور میں معجزے ہی معجزے ہیں اور نور میں رازِ رحمان ہے، میں نے تو نور کے مالک ہی سے قرآنِ حکیم کی حکمتوں کو سیکھ لیا۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، پیر۲۴؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۸۱

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۱۵

 

اس حقیقت میں کوئی شک ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نورِ محمدیؐ کو پیدا کیا جو کئی معنوں میں ہے جیسے: عقل = عرش = قلم۔

اور آپ یقیناً یہ بھی جانتے ہیں کہ صرف خدا ہی ایک اور اکیلا ہے اور باقی کوئی چیز اکیلی نہیں، بلکہ تمام چیزیں لازماً دو دو ہیں، لہٰذا درپردہ نورِ محمدیؐ کے ساتھ ساتھ نورعلیؑ بھی تھا، جیسے قرآن میں یہ اشارہ ہے کہ نور کے دو دریا متصل بہتے ہیں، پھر بھی ان کے درمیان ایک برزخ = پردہ حائل ہے (۵۵: ۲۰) اور یہ مجمع البحرین کے باب میں جو بہت سے اسرار کشف ہوگئے ہیں کہ وہ ایک ظاہری سنگم نہیں بلکہ یہ علمِ لدنی کا ایک مخفی قانون ہے، جس کی اوّلین مثال کلمۂ کُنۡ (ہوجا) کلمہ/ یا ارادۂ باری کے عقل کے ساتھ اتصال کا مقام، قلم اور لوح کے اتصال کا مقام وغیرہ۔

یہ تمام اسرار عالمِ شخصی میں اس وقت مکشوف ہوتے ہیں، جبکہ اس میں امامِ مبینؑ کا نور طلوع ہوچکا ہوتا ہے اب توفیق و تائید کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے، آپ نے حضرتِ امام حسین علیہ السّلام کے اس ارشاد کو سنا جو معرفت سے متعلق ہے اس سے ضرور آپ کو اندازہ ہوا ہوگا کہ معرفت بیحد ضروری ہے، اللہ کرے کہ آپ سب کو کنزِ معرفت حاصل ہو! آمین!

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ ۲۶ ؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۸۲

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۱۶

 

قرآن میں نہ صرف حکمتِ کلیہ ہے بلکہ تمام ضروری کلیات بھی موجود ہیں اور کلِ کلیات = کلیۂ امامِ مبین ہی ہے، آیۂ کرسی (۰۲: ۲۵۵) میں ہے: وَسِعَ كرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ= اس کی کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے، یہ نورِ امامِ مبینؑ کی تعریف ہے کہ وہی اللہ کی کرسی = نفسِ کلّی ہے جس نے عالمِ اکبر کے فلک الافلاک کو اپنے اندر گھیر کر رکھا ہے، اس کی مثال عالمِ شخصی میں بھی ہے کہ جب حظیرۂ قدس میں امامِ مبین کا نور طلوع ہو جاتا ہے تو اس مقدّس نور کی روشنی میں تمام عالمِ شخصی مستغرق ہو جاتا ہے، اس حقیقتِ حال کی تشریح دعائے نور میں بھی ہے، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سکھلائی ہوئی دعائے نور میں گویا بحرِ نور میں مستغرق ہوجانے کا تصوّر ہے آپ دعائے نور اور اس کا ترجمہ پڑھ کر تصوّر کریں کیا یہ تصوّر دریائے نور کی امواج میں ڈوب جانے کی طرح نہیں ہے؟ اگر آپ مانتے ہیں کہ ہاں بالکل ایسا ہی ہے، تو پھر یہ سچ اور حقیقت ہے کہ آپ کی روح الایمان یا روح العشق یا انائے علوی یا روحِ مستقر امامِ مبینؑ میں غرقِ نور ہے، غرقِ دریائے علم ہے، پس نافرمانی کو ترک کرو، کیونکہ نافرمانی کی وجہ سے کوئی نہ کوئی سزا ملتی ہے۔

 

۱۸۳

 

دانائی یہ ہے کہ ہمیشہ علم و عبادت میں مشغول رہو، علمی خدمت تمام خدمات کی سردار اور بادشاہ ہے، کل اسی سے تم کو بہت بڑی بادشاہی ملے گی، ان شاء اللہ۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعرات  ۲۷؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۸۴

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۱۷

 

جب یٰسٓ قلبِ قرآن ہے تو پھر یقیناً آیۂ امامِ مبین قلبِ یٰسٓ ہے کیونکہ لاریب یہی لامحدود حکمت والی آیتِ مبارکہ اس سورہ کا اصل مرکز ہے، اور جتنی عظیم حکمتیں اس سورہ میں ہیں وہ بھی کلیۂ امامِ مبین کے احاطے میں ہیں، مثلاً بھری ہوئی کشتی کی بڑی زبردست انقلابی حکمت، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا عرشِ اعلیٰ عالمِ شخصی کے بحرِ علم پر آکر بھری ہوئی کشتی کہلاتا ہے، پھر بھی اس میں سرِ اعظم یہ ہے کہ اس کشتی میں جو صاحبِّ کشتی ہے وہی وہ زندہ نورانی کشتی ہے جو تمام روحوں سے بھری ہوئی ہے، اور یہ سرِّ الٰہی کتنا پیچیدہ اور مشکل ہے، یہ عقل والوں کے لئے اللہ کا بہت بڑا فضل بعد ازامتحان ہے، اور یہ سفینۂ نجات امامِ مبینؑ ہی ہے جو اہلِ بیتِ رسولؐ ہیں، یہ اسرارِ قرآن = یہ اسرارِ عرش = یہ اسرارِ امامِ مبینؑ = یہ اسرارِ عالمِ شخصی = یہ اسرارِ معرفت = یہ اسرارِ اسمِ اعظم = یہ اسرارِ عشق مولا۔ اس مضمون کو اسرار در اسرار کہتے ہیں، میں نے اس مضمون میں کیا کیا بتایا اور کیا کیا چھپایا اسکی تحقیق کریں۔

انسان جتنی علمی نعمتوں کو نہیں جانتا ہے اتنی نعمتیں اس کے حق میں کالعدم ہوجاتی ہیں۔

معرفت کی ابتدائی آنکھ علم الیقین ہے، قرآنِ حکیم کی تمام

 

۱۸۵

 

باتیں حکیمانہ ہیں، مثلاً سورۂ تکاثر (۱۰۲) میں علم الیقین (۱۰۲: ۰۵) کی تعریف کو خوب دلنشین کرو، کہ علم الیقین کے جاننے سے دنیا ہی میں دوزخ کو دیکھا جاسکتا ہے یعنی جہالت و نادانی کو، اور اس میں بہت بڑی حکمت ہے وہ یہ کہ دوزخ سے اجتناب کیا جاسکتا ہے، اس کا دو طرفہ فائدہ ہےیعنی علم الیقین سے بہشت کو بھی دیکھا جا سکتا ہےجو حقیقی علم ہے، پھر اس کو حاصل کیا جاسکتا ہے، پس علم الیقین کی نظر سے دیکھتے ہوئے یہ معلوم کرتے رہنا کہ جہالت و نادانی کس چیز میں ہے اور علم و حکمت کس بات میں ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعہ  ۲۸؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۸۶

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۱۸

 

کتابِ دعائم، عربی، جلدِ اوّل، ص ۱۳، سطر۔۱۳، بحوالۂ سورۂ انبیاء (۲۱: ۰۷) اہلِ ذکر = اہلِ رسولؐ = أئمّۂ آلِ محمدؐ = اہلِ قرآن ہیں، اہلِ ذکر سے متعلق اس آیۂ شریفہ کے منشائے حکمت کے مطابق ٹھیک ٹھیک سوچنے سے ہمیں یہ کامل یقین حاصل ہوتا ہے کہ یہ حضرات اپنے نور و نورانیّت میں گواہانِ انبیاء و رسل علیھم السّلام ہیں، لہٰذا خدا نے لوگوں سے یہ فرمایا کہ اگر کسی کو حضرتِ نبیٔ اکرمؐ کی ظاہری یا باطنی پہچان میں شک ہے، تو وہ اہلِ ذکر سے پوچھے کہ اگلے انبیأ علیھم السّلام کیسے تھے؟ کیونکہ یہ حضرات کوئی معمولی اور عام بات ہرگز نہیں کرتے بلکہ سنتِ الٰہی کے مطابق بذریعۂ اسمِ اعظم سائل کو مکتب خانۂ ربّانی = عالمِ شخصی میں لے جا کر سب سے پہلے حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ کی روحانیّت کا زندہ ریکارڈ دکھاتے ہیں، مگر ربّانی مکتب =عالمِ شخصی میں صرف اور صرف وہی عاشقِ نور داخل ہوسکتا ہے جو جیتے جی مرکر زندہ ہوجاتا ہے، اگرچہ اس جہادِ اکبر کی شرطیں سخت اور کافی ہیں، تاہم نورِ ہدایت کے وسائل بھی ہیں۔

اگر آپ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہیں، اور ان حضرات سے رجوع کرتے ہیں جو حاملانِ نورِ ہدایت ہیں تو یقیناً ان کے پاس کوئی خاص طریقہ ہوگا،

 

۱۸۷

 

ہاں ان پاک و پاکیزہ ہستیوں کے پاس سنتِ الٰہی کا وہ اوّلین طریقہ ہے جس میں اسمِ اعظم کے عظیم معجزات کے ذریعے سے باطنی علم دیا جاتا ہے، میں نے اپنی زندگی کے اکثر حصّے میں اسی سرِ عظیم کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے سعی کی ہے، الحمد للہ۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، سنیچر  ۲۹؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۸۸

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۱۹

 

حظیرۂ قدس عالمِ شخصی کا آسمان اور بہشتِ برین ہے، قرآنِ حکیم میں اس کی بہت سی مثالیں، بہت سے نام، اور بہت سے اسرارِ عظیم ہیں، حضرتِ آدمؑ کے قالب میں امامِ زمان علیہ السّلام کا نورِ اقدس اوّل اوّل منزلِ اسرافیلی میں روحِ خداوندی پھونک دینے کے معنی میں طلوع ہوا تھا، یہ اللہ کا وہ نور تھا جو امامِ زمانؑ میں ہوتا ہے، اسی نور اور اسی خدائی روح کی وجہ سے کل کائنات کے فرشتوں اور تمام روحوں نے جن میں سورج، چاند اور ستاروں کی نمائندہ روحیں بھی تھیں، الغرض سب فرشتوں اور تمام روحوں نے خلیفۂ خدا کے لئے سجدۂ نزولی (گرتے ہوئے سجدہ) کیا بالفاظِ دیگر ساری کائنات نے سجدہ کیا، جس کے لئے خدائے پاک نے پہلے ہی سے حکم دے رکھا تھا، مگر ابلیس جو حارث بن مرہ تھا اس نے سجدۂ آدم سے انکار کیا، اس مسئلے سے بحث کرنے کی اجازت نہیں، پھر بھی اگر آپ اس بارے میں کچھ حکمت جاننا چاہتے ہیں تو دیکھو سورۂ انعام (۰۶: ۱۱۲) میں کہ شیاطینِ انسی اور شیاطینِ جنّی سے ہر نبی کے لئے دشمن کیوں مقرر کئے گئے؟ آپ خود بھی قرآنی آیات میں غوروفکر کر کے کچھ حکمت کی کمائی کریں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی اتوار  ۳۰، ؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۸۹

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۲۰

 

مسٔلۂ ھبوطِ آدم علیہ السّلام: یعنی آدمؑ کسی طرح بہشت سے زمین پر اتر آیا؟ اس کی چند صورتیں مکشوف ہوئی ہیں، پہلی صورت: اگرچہ قرآنِ پاک دراصل ایک ہی ہے، لیکن آج دنیا میں اس کی بے شمار کاپیاں موجود ہونے میں خیر ہی خیر ہے، ہر چند کہ بہشتِ لطیف ایک ہی ہے، لیکن اس کائنات کے باطن میں اس کی کم سے کم کاپیاں ستر ہزار ہیں، ہر بہشت کائنات کے برابر مگر لطیف ہے۔

آدمِ سراندیبی کا ظاہری قصّہ دہرانے کی ضرورت نہیں، مگر یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس پر ھبوط کا اطلاق کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ماں باپ سے پیدا ہوا تھا اس لئے اس میں روحِ نباتی، روحِ حیوانی، اور روحِ انسانی صرف تین روحیں کام کرتی تھیں، لیکن جب وہ روحانیّت کے درجۂ کمال پر پہنچ گیا، اور اس میں روحِ چہارم = روحِ قدسی آگئی، تو یہ روح اس میں کسی بہشت سے آئی، پس اس روحِ علوی کے اعتبار سے آدمؑ کا ھبوط ہوگیا۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، اتوار  ۳۰؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۹۰

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۲۱

 

مسٔلۂ ھبوطِ آدم کی چند امکانی صورتوں (مثالوں) میں سے جو مثال آدمِ سراندیبی سے متعلق بیان ہوئی ہے وہ اپنی جگہ عقلی، منطقی اور عرفانی ہے۔

قرآن (۰۲: ۳۸) میں ارشاد ہے: قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعاً: ہم نے حکم دیا نیچے جاؤ یہاں سے تم سب…۔ ایک بہت بڑے طویل لطیف روحانی دور کے بعد کثیف جسمانی دور آتا ہے، جب دن رات کی طرح دو متضاد دور ہوتے ہیں تو وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے بعد آتے جاتے رہتے ہیں، پس اللہ کے مذکورِ بالا حکم سے تمام لوگ دورِ لطیفِ روحانی سے دورِ کثیفِ جسمانی میں منتقل ہوگئے ۔

اللہ تعالیٰ نے آدمِ زمانؑ کے ہر روحانی فرزند سے فرمایا کہ اے ابنِ آدم میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی مثال بناؤں گا کہ تو کبھی نہیں مرے گا…۔ کیونکہ میں ہمیشہ ہمیشہ زندہ ہوں پھر تو دیکھے گا بہشت کے دورِ روحانی کو شاید چھ کروڑ سال کے بعد اس سورج کو لپیٹ لیا جاتا ہے سورۂ تکویر (۸۱: ۰۱) شاید یہی دور الکور کہلاتا ہے اور ایسے عظیم ادوار بے پایان ہیں۔

اصطلاحِ الکور کو کتابِ سرائر ص ۲۱ سے لیا جو قصّۂ آدم کا حصّہ ہے، اور چھ کروڑ سال کا اشارہ کسی روحانی سے سنا تھا۔

 

۱۹۱

 

امامِ آلِ محمدؐ کے عشق میں مر کر زندہ ہوجانے میں اسرارِ عظیم کی فراوانی ہے، آپ سب ہمارے لئے دعا کریں کہ اپنے محبوب امامِ زمانؑ (روحی فداہٗ) کی حقیقی غلامی ہمیں نصیب ہو!

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، یکم  اکتوبر ۲۰۰۱ ء

 

۱۹۲

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۲۲

 

آپ قرآنِ حکیم کی اس عظیم حکمت کو بھول نہ جانا کہ ظاہراً کائنات کی عمر دوزخ اور بہشت کی عمر ہے (۱۱: ۱۰۷ تا ۱۰۸) تا ہم اس میں تجدّد کا اشارہ بھی ہے عَطَاءً غَيْرَ مَجْذوذٍ : یہ وہ عطا ہے جو کبھی منقطع نہ ہوگی (۱۱: ۱۰۸)، یعنی بار بار بہشت کا تجدّد ہوتا رہتا ہے، اسی معنیٰ میں وہ ہمیشہ ہے۔

سورۂ رعد (۱۳: ۳۹) میں ارشاد ہے:يَمْحوا اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ۔

ترجمہ: خدا جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس اُمُّ الکِتٰب = اصل کتاب = لوحِ محفوظ =  نورِ امامِ مبین موجود ہے جس میں اللہ نے ہر چیز کو جمع کر کے رکھا ہے آپ نے پڑھا ہے کہ امامِ مبین ہی اُمُّ الکِتٰب اور لوحِ محفوظ ہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کے کلامِ حکمت نظام کا وہ حصّہ ہے جس میں قوانینِ الٰہی کا ذکر ہوتا ہے آپ واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ قرآنِ حکیم کا ہر کلیہ امامِ مبینؑ سے وابستہ ہے یہی وجہ ہے کہ ہم کلیۂ امامِ مبینؑ کے عظیم اسرار سے دوستوں کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں اگرچہ اس سلسلے کا آخری بیان حظیرۂ قدس کی اعلیٰ مثالوں میں ہے، مثال کے طور پر، شعر ہے:

 

۱۹۳

 

اے نصیر الدین تجھ کو سرِ اعظم یاد ہے؟

عالمِ علوی میں تنہا ایک گوہر ہے کتاب =  کتابِ مکنون =  اسرارِ قرآن کا مخفی خزانہ، جس کو دستِ غیب ذرا دکھا کر فوراً چھپا لیتا ہے یہ دستِ غیب امامِ مبینؑ کا مبارک ہاتھ ہے، یہ چہرۂ پاک =  صورتِ رحمان =  امامِ  مبینؑ کا مقدّس چہرہ =  وجہ اللہ ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، یکم اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۱۹۴

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۲۳

 

سورۂ جمعہ (۶۲: ۰۵) مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا۔

ترجمہ: جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس (کے علم و حکمت اور تاویل) کا بار نہ اٹھایا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔

آپ نے کہا تھا کہ اگر کسی آیت سے کوئی ضروری سوال پیدا ہوتا ہےتو آیت کے آخرمیں جواب کو ڈھونڈو، پس یہاں یہ سوال ہے کہ کیا وجہ تھی کہ وہ لوگ توراۃ کے علم و حکت اور تاویل کی دولت سے محروم ہوگئے؟۔ ج: کیونکہ انہوں نے خدا کی آیات یعنی امام اور أئمہ کو جھٹلایا (۶۲: ۰۵) میں دیکھو حالانکہ آسمانی کتاب کے علم و حکمت کے خزانہ دار یہی حضرات ہیں۔

آپ امام شناسی کے سب سے عظیم مقصد حاصل کرنے کیلئے سب سے پہلے آیاتِ قرآنی کو پڑھیں پھر احادیثِ صحیحہ کو اور اس کے بعد مولاعلیؑ کے ارشادات کو، مولاعلی علیہ السّلام صاحبِّ تاویل ہے اس لئے آپ علیہ السّلام کے جملہ ارشادات میں انقلابی اور آسان تاویل ہے اگر آپ سب سے اعلیٰ علمی عبادت کرنا چا ہتے ہیں تو آپ حضرتِ مولا علیؑ

 

۱۹۵

 

کے ان مبارک ارشادات کو بار بار پڑھیں جو دراصل امام شناسی کی غرض سے ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، منگل  ۲؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۱۹۶

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۲۴

 

وہ ملک، وہ شہر، وہ علاقہ، وہ مقام، وہ گھر، یا قیدِ تنہائی، ہم کیسے بھول سکتے ہیں؟ جہاں حجتِ قائم یا خود حضرتِ قائم کا ظاہراً یا باطناً دیدارِ فیض آثار نصیب ہوا تھا؟ ہم سلام کریں، بصد شوق سرِ تسلیم و ادب جھکا کر، سلام کریں ان تمام مقامات کے لئے جہاں جہاں ہمارے محبوب امام کا دیدارِ اقدس حاصل ہوا، ہر دیدار ناقابلِ فراموش معجزات کےساتھ تھا، اے کاش میرے سب عزیزان یکجا ہوتے! اور میں دیوانہ وار طوفانی آنسوؤں کے ساتھ ہر دیدار کا ذکرِ جمیل کرتا رہتا! اے خدا! جنّت میں ہر پاک دیدار کی نورانی مووی ہوگی کہ نہیں؟ ہمارے تمام احباب ان شاء اللہ، پھر تو بہشت ایسی عظیم نعمتوں کی تجدید کی جگہ ہے نا؟ اے حجتِ قائمؑ! اے حضرتِ قائمؑ! اے امامِ زمانؑ! میں علمی اور عرفانی زندہ بہشت میں تمہارے ساتھ ہوں، واللہ تم ہمارے ساتھ ہو، اے تم جمع! اے تم ہمہ! اے تم واحد! اے دو! اے تین! اے ھو! اے راز! اے ساز! اے آواز! اے ناقور! اے مشہور! اے ح! اے م! اے س! اے غ! اللّٰھمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمّدٍ وَّ عَلیٰ آلِ مُحَمّدٍ،ان الفاظ و کلمات میں غور کرنے کی اجازت ہے اور کسی رمز شناس سے پوچھ بھی سکتے ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ  ۳؍اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۱۹۷

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۲۵

 

عالمِ شخصی کا آسمان اور بہشتِ برین = حظیرۂ قدس = ظہور گاہِ امامِ مبینؑ = جبین = پیشانی میں تمام کنوزِ معرفت جمع ہیں۔

جہاں ذاتِ سبحان کی قسم! امامِ زمانؑ جو وجہ اللہ بھی ہے اور ید اللہ بھی وہی ان سب سے عظیم اسرار کا مسلسل مظاہرہ کرتا رہتا ہے، بڑی سرعت کے ساتھ سورج اور کائنات کو لپیٹ کر پھر اس جیسی کائنات کو پھیلا دینا، عارفوں کو کتابِ مکنون کے اشارات سے آگاہ کرنا، ان کو قرآنی تاویلات کے رموز و اسرار سے باخبر کرنا صورتِ رحمان کا سب سے بڑا راز اور سرِّ ازل و ابد، کلمۂ کُنۡ، قلمِ اعلیٰ، اور لوحِ محفوظ کی معرفت، ان اسرارِ عظیم میں دیگر تمام اسرار جمع ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمِ اکبر کے جملہ اسرار عالمِ شخصی میں سمائے ہوئے ہیں، اور عالمِ شخصی کے تمام اسرار حظیرۂ قدس میں جمع کئے گئے ہیں، پس امامِ  مبین کا نور پہلے عالمِ شخصی میں طلوع ہوتا ہے، اور آخر میں تمام حقائق و معارف کو حظیرۂ قدس میں مرکوز و مجموع کر لیتا ہے۔

یہاں انتہائی عظیم اسرار ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے ظہورگاہِ امامِ مبینؑ میں گھیر کر رکھا ہے، یاد رہے، کہ امامِ مبینؑ کی معرفت کا بابِ اوّل (پہلا دروازہ) حضرتِ مولانا علی علیہ السّلام ہی ہے، لہٰذا جان و دل اور عشق و محبت

 

۱۹۸

 

سے علی علیہ السّلام کو اپنا جانان بنا لو، یہ رحمت خدا و رسولؐ کی طرف سے تمہارے لئے بہت ہی نزدیک تیار بلکہ منتظر ہے، جب عشقِ علیؑ کا دروازہ تم پر مفتوح ہو تو پھر امامِ زمان علیہ السّلام ہی تمہارے لئے علیٔ زمانؑ اور امام مبینؑ کا کام کرے گا۔ آمین! ثم آمین!

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ  ۳؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۱۹۹

 

آیۂ امامِ مبین کی حکمت

قسط:۲۶

 

اس عنوان کی قسط:۲۵ میں زبردست اور غالب اسرار کا ذکر ہوا ہے ان میں سرِّالاسرار گوہرِ عقل اور رازِ اعظم کتابِ مکنون کا ذکر بھی ہے، یہ بھی نورِ امامِ مبین کے دو دریائے روان ہیں اور یہ سنگم یا برزخ (حجاب) کی وجہ سے کبھی دو ہوتے ہیں اور کبھی ایک اور اسی طرح ان کے اسرار میں بیحد اضافہ ہو جاتا ہے، اور یہ ید اللہ (امامِ مبینؑ) کے قبضۂ مظاہرہ میں ہیں۔

میں ایک ناچیز انسان کس طرح امامِ مبین کے بے پایان معجزات و اسرار کو احاطۂ تحریر و بیان میں لاسکتا ہوں، لیکن اس علم و ادب کی غریبی کے باؤجود میں بہت پہلے طرح طرح کی تکالیف کی چکی میں پس کر فنا ہوگیا تھا تب سے امامِ زمانؑ کے معجزات ہی معجزات سامنے آگئے، امامِ  زمانؑ کے معجزات و اسرار اس کثرت و تواتر سے دیکھنے میں آئے کہ شکر گزاری کی کمرِ ہمت ٹوٹ گئی، اور میں حیران و عاجز ہوگیا، پھر سوچ کر جو بھی ہوسکا امامِ مبینؑ کے معجزات و اسرار کو لکھنے کے لئے سعی کی اس یقین کے ساتھ کہ ان شاء اللہ اس بندۂ ناشکر گزار اور خاکسار سے بدرجہا بہتر اہلِ ایمان ضرور ہوں گے جو شاید مولا کے ان معجزات کو پڑھ کر یا سن کر اشکبار ہوں گے اور عجب نہیں کہ مجھ غریب کو ان عاشقوں کے آنسوؤں سے کچھ صدقہ یا زکات ملے، کیونکہ یہ معجزات اور اسرار

 

۲۰۰

 

باعثِ عشقِ مولا ہیں، اور ان میں یقین و معرفت کا سرمایہ ہے۔

خدا حاضر و ناظر ہے کہ میں مرجانے سے نہیں ڈرتا ہوں، لیکن میں اس بات سے بہت ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے عجیب وغریب مشاہدات اور تجربات ضائع نہ ہوجائیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعرات  ۴؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۰۱

 

کچھ پُرمغز باتیں

 

اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو میں دینا میں سب سےعجیب آدمی ہوں، کیونکہ جو حالات اور واقعات میری روح اور جسم پر گزرتے رہے ہیں، وہ بڑے حیرت انگیز اور بہت تعجب خیز ہیں، اور نتیجے کے طور پر میرا نظریہ سارے لوگوں سے الگ اور میرے خیالات مختلف ہیں، دراصل بات یہ ہے کہ میں جسمانی اور روحانی محنت کی چکیوں میں خوب پس گیا، پھر دیکھا اور سنا جو کچھ کہ زمانہ والوں سے بالکل مخفی تھا۔

حیرت ہی حیرت ہے کہ اگرچہ خداوندِ عالم نے مجھے بابا آدم کی طرح لا تعداد بچے (شاگرد) دیئے ہیں، لیکن پھر بھی علمی اولاد کی محبت کی پیاس نہیں بجھتی ہے، یہ کیوں ایسا ہے؟ یقیناً اس میں کوئی عظیم خدائی حکمت پوشیدہ ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ سب ایک سے ایک بڑھ کر عزیز ہیں، ایک سے ایک زیادہ شیرین، ایک سے ایک زیادہ خدمت گزار، ہر ایک میں مخصوص خوبیاں، ہر ایک کی بیمثال خصوصیات، ہر ایک کی پاکیزہ عادتیں، ہر ایک نیکوکار، ہر ایک متّقی، ہر ایک مجھ کو چاہنے والا، ہر ایک میرا مددگار، ہر فرد ایک فرشتہ، ہر ایک روحانیّت کا دلدادہ، ہر عزیز مولا کا عاشق، ہر ممبر ایک مجاہد، ہر شاگرد ایک فدائی، وہ ایک بچہ سلمان کا نمونہ، یہ ایک بچی مریم کی مثال، وہ ایک عبادت میں آگے، یہ ایک

 

۲۰۲

 

جماعتی خدمت میں آگے، وہ ایک میوہ دار درخت کی طرح، یہ ایک سایہ دار درخت کے مانند، وہ ایک میری عزت، یہ ایک میری دولت، کوئی میرے لئے باپ کا سایہ، کوئی میرے واسطے ماں کی شفقت، وہ سب اپنے بھائیوں اور بیٹوں کی طرح، وہ تمام سگی بہنوں اور بیٹیوں کی طرح۔

میری مادرِ مشفقہ گویا روحانی بھیس بدل کر صدہا مہربان اور غمخوار خواتین کی صورت میں آگئی ہیں، میرے شفیق والد بھی اب عزیز شاگردوں کی حیثیت میں مجھے مل رہے ہیں، میری اکلوتی بیٹی فدا بی بی کیسی معجزاتی ہے کہ وہ یہاں بھی اور وہاں بھی ایک سے ہزار بن کر اپنے باپ کی پُرخلوص خدمت کر رہی ہے، میری نورانی، حورانی اور جمیلہ بھیس بدل بدل کر گھر گھر سے میری مدد کرتی رہتی ہیں، میری کرن واحد سے جمع کی شکل اختیار کر کے کرنیں بن جاتی ہے، اسی طرح میرے خدا وند نے اپنی بے پناہ رحمت سے ایک ایثار علی کے عوض سینکڑوں ایثار دیئے ہیں، میرے سیف سلمان خان کثرت سے ہیں، میرے بہت سے عزیز بچے اظہار علی اور امین الدین کی مختلف شکلیں ہیں، ان پُرحکمت الفاظ میں اپنے عزیز شاگردوں کی بیمثال مذہبی قربانیوں اور گونا گون خدمات کی تعریف و توصیف ہے، پروردگار ان کو دونوں جہان کی سرفرازی عنایت کرے ! آمین!!

 

فقط دعا گو نصیرہونزائی

(اوریجنل تاریخ) ۱۹۷۹/۸/۲

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعرات  ۱۱؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۰۳

 

جواب اس سوال کا کہ “قرآن کیا ہے؟”

(کلامِ مولا کی روشنی میں)

 

شاہِ ولایت نور ہدایت حضرتِ امیر المومنین علیٔ مرتضیٰ صلوات اللہ علیہ، جو امامِ مبین، کتابِ ناطق اور ترجمانِ وحی تھے، جن کو خدا و رسولؐ نے علم و حکمت کے درجۂ کمال پر معلّمِ قرآن قرار دیا تھا، آپؑ نے قرآنِ حکیم کے بارے میں ارشاد فرمایا:

ظاھِرہُ عَمَلٌ مَوْ جُوْبٌ وَباطِنُہُ عِلْمٌ مَحْجُوْبٌ، یعنی اس (قرآن) کا ظاہر ایک ایسا عمل ہے جو واجب کیا گیا ہے اور اس کا باطن ایک ایسا علم ہے جو پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ چنانچہ یہ مبارک فرمان اس سوال کا مکمل جواب ہے کہ: “قرآن کیا ہے؟” جس کی تفصیل مندرجہ ذیل حکمتوں میں موجود ہے:

حکمت نمبر ۱: مولا علیؑ کے اس مقدّس ارشاد کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ قرآنِ پاک کی تمامتر ظاہری ہدایات و تعلیمات کا تعلق عمل سے ہے، مگر علم جن اعلیٰ معنوں اور خوبیوں میں علم کہلاتا ہے، وہ قرآنِ حکیم کے باطن میں محجوب (پوشیدہ ) ہے۔

حکمت نمبر ۲: دینِ اسلام کے اس ظاہری عمل اور باطنی علم کے درمیان

 

۲۰۴

 

جو ربط و رشتہ ہے، اس کی مثال جسم و جان ہیں، کہ عملِ ظاہر گویا جسم ہے اور علمِ باطن جان (روح) ہے، چنانچہ علمِ باطن کے بغیر عملِ ظاہر ضایع ہوجاتا ہے، جس طرح روح نہ ہو تو جسم بیکار ہوجاتا ہے۔

حکمت نمبر ۳: علمِ محجوب، یعنی وہ علم جو بصورتِ بواطن قرآنی حجاب میں پوشیدہ ہے، تاویل ہی ہے، جو طرح طرح کی مثالوں کے حجاب میں محفوظ ہے۔

حکمت نمبر ۴: حقیقی یا روحانی علم کے حجاب میں ہونے میں کیوں تعجب ہو، جبکہ خداوندِ تعالیٰ کے حجاب سے کلام کرنے میں (۴۲: ۵۲) کوئی تعجب نہیں۔

حکمت نمبر۵: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ایک مبارک حدیث میں ہے کہ: قرآن کی آیات میں سے کوئی آیت ایسی نہیں مگر اس کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، اور ہر باطن کے سات بواطن ہیں، اور دوسری روایت کے مطابق ہر باطن کے ستر بواطن ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ حجاب کے اندر حجاب ہے، اور یہ سلسلہ ستر تک جاتا ہے، اور ہر حجاب میں حسبِ درجہ ایک علمِ الٰہی پوشیدہ ہے، یعنی اس سلسلے میں علمِ محجوب کے جتنے حجابات زیادہ ہوتے ہیں اتنا وہ علم بلند ہوتا جاتا ہے۔

حکمت نمبر ۶: نظریۂ علمِ محجوب کی اس روشن حقیقت سے نہ صرف قرآنی تاویل و حکمت کی اہمیت ظاہری ہو جاتی ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ اس امرِ واقعی کی ایک مستحکم دلیل بھی ہے کہ اس دنیا میں لوگوں کے درمیان امامِ حیّ و حاضر کی دائمی موجودگی لازمی اور ضروری ہے، تاکہ آنجنابؑ عالمِ دین کے خواص کے لئے علمِ محجوب کا خزانہ کھول دے۔

حکمت نمبر ۷: اہلِ قرآن میں سے جو لوگ اس بات کے حقدار ہیں کہ ان

 

۲۰۵

 

پر علمِ محجوب منکشف کیا جائے، تو امامِ زمان علیہ السّلام، جو نورِ ہدایت اور معلّمِ کتابِ سماوی ہیں، ان کو تاویلی حکمت کی دولت سے مالا مال کردیتے ہیں۔

حکمت نمبر ۸: بموجبِ ارشادِ قرآنی (۳۱: ۲۰) اللہ تعالی کی نعمتیں ظاہر میں بھی ہیں اور باطن میں بھی، لیکن جو ظاہری نعمتیں ہیں وہ عام ہیں، کیونکہ وہ جسمانی اور ناپائیدار ہیں، اور جو باطنی نعمتیں ہیں وہ خاص ہیں، اس لئے کہ وہ روحانی اور پائیدار ہیں، یعنی ایسی نعمتیں علومِ مخفی کی شکل میں ہیں، جن کی لذّت ومسرّت عقل و جان کو حاصل ہوتی ہے۔

حکمت نمبر ۹: قرآن جہاں ظاہر ہے، وہاں وہ عملِ موجوب ہے، اور جہاں کتابِ مکنون (۵۶: ۷۸) کے اندر ہے ، تو وہاں یہ علمِ محجوب کی حیثیت سے ہے، یعنی روحانی علم کی صورت میں ہے، اور کتابِ مکنون نورِ امامت ہے۔

حکمت نمبر۱۰: علمِ محجوب کا مطلب، جیسا کہ شروع میں بتایا گیا ہے، علمِ مخفی ہے، جس میں تاویل و حکمت مراد ہے، اور کائنات و موجودات کی ہر گرانقدر چیز حجاب میں ہے، جیسے غنچہ (کلی) پھول کا حجاب ہے، پھول کچے پھل کا حجاب ہے، کچا پھل پختہ پھل کے لئے حجاب ہے، وہ گٹھلی کا پردہ ہے، گٹھلی کے اندر ایک اور چھلکا ہے جو مغز کا حجاب ہے اور مغز تیل کا حجاب ہے، پاس اس بیان سے معلوم ہوا کہ علمِ محجوب کا تصوّر حقیقت ہے، اور “قرآن کیا ہے؟” کے سوال کا جواب یہی ہے۔

 

نصیر ہونزائی

۱۹۸۱-۱۱-۱۰

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، منگل  ۱۵؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۰۶

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۱

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن جس کی قسطیں کئی سال تک جاری رہیں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ آپریشن = سرجری = عملِ جراحی کا نام ہے، عملِ جراحی کی تاریخ کے بارے میں جاننے کے لئے ملاحظہ ہو اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلدِ اوّل، ص ۴۶۰۔

عملِ جراحی:  (Surgery) جسمانی زخموں یا عضوبریدہ کے علاج کا فن، آنحضرت نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے عہد میں لاتعداد جنگیں ہوئیں، ان جنگوں میں مسلمان شہید اور زخمی بھی ہوئے، بسا اوقات یہ زخمی اپنے اعضاء بھی میدانِ جنگ ہی میں چھوڑ آتے، ان حالات نے زخمیوں کی مرہم پٹی اور عضوبریدہ کی جراحت کی ضرورت پیدا کر دی، آنکھ کا آپریشن تو صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں ہونے لگا، اسماء الرجال کی کتابوں میں ہے کہ حضرت ابنِ عبا سؓ سے ان کی آنکھ کے آپریشن کے لئے عرض کیا گیا مگر انہوں نے انکار کردیا، بعض احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضور نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مریضوں کو عملِ جراحی کے ذریعے علاج کرانے کا حکم دیا، حضرت ابوہریرہؓ سے “زاد المعاد” میں مروی ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک استسقاء زدہ مریض کے

 

۲۰۷

 

بارے میں اس کے معالج کو حکم دیا کہ وہ مریض کے پیٹ میں شگاف کردے، اس پر حضورؐ سے پوچھا گیا: یا رسول اللہ کیا طب بھی کوئی مفید چیز ہے، فرمایا جس ذات نے بیماریاں نازل کی ہیں اس ذات نے جس جس چیز میں چاہا شفا بھی لکھی ہے ایک اور موقع پر حضورؐ نے حضرت علیؑ سے ایک ایسے مریض کی جراحی کرائی جس کی کمر کے کسی حصے پر پرانا ورم تھا اور اس میں پیپ پڑ چکی تھی۔

پروفیسر نیرواسطی اپنے مقالہ تاریخِ طب (مطبوعہ نوائے وقت ۳۰؍مئی ۱۹۷۹ء) میں علم الجراحت کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں: علم الجراحت میں مسلمانوں نے بڑے قابلِ قدر انکشافات کئے ہیں، ابو القاسم الزاہروی نے بہت سے آلاتِ جراحت ایجاد کئے ہیں، جن کی تصاویر اس کی کتاب التصریف میں موجود ہیں، ابنِ زھر نے اپنی کتاب الیتیسر میں گیارہویں صدی عیسوی میں قصبۃ الرئۃ کے آپریشن کو بیان کیا جب کہ یونانی حکماء نے اس سے پہلے اپنی تصنیف میں اس آپریشن کا کوئی ذکر نہیں کیا، بو علی سینا نے پہلی مرتبہ لیکری مل فسچولا کا علاج بیان کیا ہے، مسلمانوں نے پہلی مرتبہ جریانِ خون کو روکنے کے لئے مقامِ ماؤف کو سردی پہنچانے کا طریقہ رائج کیا، زخموں کو ریشم کے دھاگے سے سینا بھی مسلمانوں ہی کا کارنامہ ہے، بو علی سینا نےسرطان کے آپریشن کے سلسلہ میں پہلی بار وضاحت سے یہ بیان کیا کہ آپریشن کے وقت سرطان کے قریب کے تمام متعلقہ حصوں کو جڑ سے خارج کر دیا جائے، مسلمان سرجنوں نے پیٹ کے متعدد آپریشن کئے۔

ابتدأ میں اس غرض کے لئے چاقوؤں کا استعمال کیا جاتا تھا لیکن جوں جوں زمانہ ترقی کرتا چلا گیا تو نئے نئے اوزار استعمال ہونے لگے، جراحی کی تاریخ میں ایک ایسا دور بھی آیا کہ زخمی آدمی کے جسم کے کسی دوسرے حصہ سے

 

۲۰۸

 

تھوڑی سی ہڈی کاٹ کر اس جگہ لگا دی جاتی تھی جہاں ہڈی کا پیوند لگانا ضروری خیال کیا جاتا تھا، جنگِ عظیم دوم میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے تھے ان میں سے تقریباً نصف ایسے تھے جن کے بازوؤں اور ٹانگوں کی ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں چنانچہ ماہر سرجنوں نے ہڈیوں کے پیوند لگا کر انہیں کام کاج کے قابل بنا دیا۔

دورِ حاضرہ میں فنِ جراحی اس قدر ترقی یافتہ ہوچکا ہے کہ ڈاکٹر مریضوں کے ناقص دلوں کو تبدیل کر دیتے ہیں، اندھی آنکھوں کی بنیائی کو بحال کرنے کے لئے مردہ انسان کی آنکھیں لگا دیتے ہیں، دماغ کے انتہائی نازک اندرونی حصوں سے رسولی کو کاٹ کر مریضوں کو شدید تکلیف سے نجات دلا دیتے ہیں، اور تپ دق کے مریضوں کے پھیپھڑے تک تبدیل کر دیتے ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، منگل  ۱۶؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۰۹

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۲

 

دل کے شدید ترین آپریشن کا سامنا تھا اس پر سوچنا بھی تھا، مرعوب بھی ہونا تھا، اور خدا سے رجوع بھی کرنا تھا، دل کے آپریشن کی تیاری کے طور پر ہسپتال کی (FORMALITIES) کو برداشت کرنا میرے لئے کوئی آسان کام نہیں تھا، اس کیلئے صحت کی ضرورت ہوتی ہے اور سارے ڈاکٹرز صحت کو بحال کرنے کے لئے لگے ہوئے تھے، وہ دن رات کام کرتے تھے پھر بھی صحت کے مسائل حل نہیں ہو رہے تھے، بہت سارے نوجوان ڈاکٹرز اور ان کے بار بار کے سوالات کو برداشت کرنا میرے لئے مشکل ہو رہا تھا، دل کے اتنے بڑے آپریشن کے لئے آلاتِ جراحی کو دل تک پہنچانا مشکل مسٔلہ تھا، لیکن خدا کے نام میں کتنی بڑی رحمت تھی کہ کسی چیرپھاڑ کے بغیر براہِ راست دل میں جا کر وہ کام انجام دیا جس کی مثال جہان میں نہیں ملتی۔ اس دوران مجھے سکونِ قلب کے متعلق بار بار آیت یاد آرہی تھی:

أَلاَ بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (۱۳: ۲۸)۔

ہسپتال میں ایک رات میں نے ہوا سے گفتگو کرتے ہوئے سوال کیا کہ خبردار رہو! خدا کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے، یہ سکون کیا ہے، میں نے یہ سوال خود سے کیا تھا یا پھر اپنے سامنے جس کو فرض کیا تھا، اس سے کیا تھا، جواب ملا کہ سکون سے اطمینان مراد ہے، پھر میں نے کہا کونسا اطمینان؟ اس موقع

 

۲۱۰

 

پر بہت سے معجزات کو یاد آنا تھا لہٰذا اطمینانِ قلب سے متعلق وہ معجزات یاد آرہے تھے۔

یہیں سے ہمارے ذہن میں ایک منصوبے کا خاکہ پیدا ہوا:

قلم کی نوک سے دل کا عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن…۔

سوچ نے مجھے مجبور کر دیا کہ یہاں رک کر اپنے عزیزوں کے ساتھ مل کر سوچوں، ان سے مشورہ کروں، مدد بھی لوں، جو میرے احوال کو یکسر جانتے ہیں، قرآنی آیات کو بھی جانتے ہیں اور ان دونوں کی روشنی میں مفید نتائج سامنے لاسکتے ہیں۔ یہیں سے استاد کے کام میں انقلاب آتا ہے، ہم نے جو کچھ کام کیا اس کو ایک خاص انداز سے اجا گر کرنا پڑےگا، یہیں سے شاگردوں کے کام میں بھی انقلاب آئے گا، یہیں سے ادارے کے کام میں بھی انقلاب آتا ہے اور یہیں سے اس ادارے کے بارے میں جو تصوّرات ہیں اس میں بھی انقلاب آتا ہے، اسی دوران ایک مرتبہ یہ خیال بھی آیا کہ ہم  (COLLECTIVE HEART PROBLEMS)  کے بارے میں کچھ لکھیں، جو میرے ساتھ ہسپتال میں تھے میں نے ان کو اسی وقت یہ بتا دیا تھا، اب ہم سب کو مل کر کام کرنا ہے، ہم آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں اس پر ایک سیمینار کرسکتے ہیں، اس کے لئے ہم نے وہاں ڈاکٹرز سے بھی بات کی ہے۔

قلم کی نوک سے دل کا عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن کا قسط وار اجتماعی منصوبہ

یہ کام ظاہری آپریشن کی طرح باطنی آپریشن کو سمجھنے کے بارے میں ہے،

 

۲۱۱

 

قرآن میں شرحِ صدر کا ذکر ہے، اس منصوبہ کے لئے اب تک ہم نے جو کچھ لکھا ہے اسی کو ایک خاص انداز سے اجاگر کرنا پڑے گا، چاہیں سب مل کر لکھیں چاہے کوئی ایک لکھے، قسطوں میں بھی لکھ سکتے ہیں، اجتماعی طور پر لکھنا مفید رہے گا، سوچنا ہوگا کہ سب سے پہلے اس کی بنیادیں کیا ہیں اور ضروری عوامل کیا ہیں، اس کا ایک خاکہ بنا کر ہم اس پر کوئی لیکچر بھی دے سکتے ہیں، ہر کسی کو اپنی حیثیت کے مطابق کام کرنا ہوگا، مناسب طریقۂ کار وضع کیا جا سکتا ہے، میرے خیال میں یہ مشکل نہیں ہے، مواد کے اس حصّے کو سامنے لانا ہوگا جو خصوصاً روح، دل کی بیماری، شفاء اور روحانی زندگی کے بارے میں ہے اور اس کی تحلیل کرنا ہوگی۔

ہمارا کام ایک ٹھوس حقیقت ہے، باتیں تو اور بھی ہیں، منصوبے بھی ہیں، اچھے اچھے منصوبے بھی ہوسکتے ہیں مگر جو کام یہاں ہوا ہے ، اس کی مثال نہیں ہے، اس کام کے لئے ذکرِ الٰہی، کتاب العلاج، روح کیا ہے؟ اور (COVERAGE) کے لحاظ سے ہزار حکمت (تاویلی انسائیکلوپیڈیا) اہم کتابیں ہیں، یہ تیار شدہ مواد ہے جس میں سے کچھ چیزیں لینی ہیں، کس طرح لکھنا ہے اس کی ذمہ داری بھی ہماری ہے ہم آپ کو سمجھائیں گے، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ظاہری سائنس میں عملِ جراحی کا مقصد کیا ہے اور اس عمل سے پہلے اور بعد میں کیا کیا جاتا ہے اور یہ کہ ان چیزوں کا اطلاق روحانی آپریشن پر کس طرح ہوگا۔

اس کام کا تعلق سب سے پہلے مجھ سے ہے، میرے بعد دانش گاہِ خانۂ حکمت سے ہے، اس کے بعد میرے شاگردوں سے ہے، اسلئے ان کو یہ اسکیم سمجھانے کا فائدہ ملے گا، جو کتابیں ہم نے لکھی ہیں وہ بنیادی ہیں اور ان کی مدد سے ہم دل کے عظیم آپریشن کے بارے میں قسط وار لکھ سکتے ہیں، ہم نے قلم کی نوک سے اب تک دل کے کئی عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن کئے ہیں۔

 

۲۱۲

 

اس روحانی ترقی کے سلسلے میں جتنے معجزات ہوئے ہیں، وہ مادّی سائنس کی مشینری کی طرح ہیں، جیسا کہ ہم بہت پہلے کہہ چکے ہیں کہ خواب  (X-RAYS)کی مانند ہے، اس منصوبے کے لئے سائنسی اصطلاحات کو جمع کرنا ہوگا، اس سلسلے میں آپ کو ان پر بھروسہ کرنا ہوگا جو میڈیکل کے میدان میں کام کرتے ہیں مثلاً روبینہ وغیرہ۔ ہم اس کام کے آخر میں کوئی لسٹ یا انڈیکس بھی دے سکتے ہیں۔ جس میں موجودہ سائنسی اصطلاحات کے روحانی مترادفات درج ہوں، یہاں تک کہ ہم علمِ حدودِ دین سے بھی فائدہ اٹھائیں گے کہ اسمیں ذبح کرنے کی اصطلاح ہے جو سائنس میں جراحی کی اصطلاح کے قریب ہوسکتی ہے، ہمیں اس کام کے لئے جگہ جگہ سے مواد مل سکتا ہے، ہم خوشی خوشی اس سفر پر روانہ ہوں گے کیونکہ منزلِ عزرائیلی کے معجزات خدا کے فضل سے معمولی نہیں ہیں۔

اللہ کی ساری نعمتیں ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی ہیں اس لئے اس پر ایک سیمینار بھی ہوسکتا ہے، اس طرح سیمینار کی تیاری بھی ہوگی، اس مقصد کے لئے تمام کتابوں کو سامنے لانا ہوگا اور بھری محفل میں ان کی ایک خاص وضاحت کرنا ہوگی، ہماری کتابوں میں تاویل زیادہ ہے، یہ تیارکام ہے، کچھ خاص کتابوں کو لینا ہوگا اور اس کی تحلیل کی عادت پیدا کرنا ہے۔

ذکر کس طرح آپریشن کے عمل سے نزدیک ہے، اس پر سوچیں، ممکن ہے ہم سیمینار میں کوئی گوشہ اجاگر کریں جو روحانی سائنس کے بارے میں ہو، اس سے دل کی اہمیت واضح ہوگی، تقویٰ، خوفِ خدا اور ہدایت میں روحانی طب ہے تو اس کو اجاگر کیا جائیگا، اس طرح پہلے سے کیا ہوا ایک خاص کام ایک انوکھے طریقے سے اجاگر ہوجائے گا، ہوسکتا ہے کہ ہم اسلام میں دل کی اہمیت پر کوئی منظم آرٹیکل لکھیں، جو پہلے سے کئے ہوئے کام سے مربوط ہوگا، جتنے بھی نئے

 

۲۱۳

 

منصوبے بنائیں گے اس پر پہلے ہی ہم نے کام کیا ہے، اس کے علاوہ بھی منصوبے ہوسکتے ہیں، اسی طرح ہماری ایک تعلیم جاری ہوگی اور ہماری باطنی زندگی اسی میں ہے۔

اس میں کام کا ایک حصہ ان لوگوں کو دیا جائے گا جو تابعداری سے کام کرتے ہیں، اور یہ کام اس شرط پر دیا جائے کہ وہ لوگ پہلے سے دیئے گئے ریسرچ ورک کو اور دوسری علمی ذمہ داریوں کو پورا کریں، مگر یہ کام ان کو دیں جن کی دلچسپی ہے، کچھ قسطوں کی ذمہ داری مغرب کے دوستوں کی بھی ہونی چاہئے تاکہ ان کی بھی عادت ہو۔

نوٹ: استادِ محترم کے بیان کو قلمبند کرنے کی یہ حقیر کوشش شاہناز سلیم ہونزائی کی ہے۔

 

منگل  ۱۶؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ء

 

۲۱۴

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۳

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن جس کا آغاز ۱۹۴۰ء میں ہوا تھا، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ مثال اس بندۂ درویش کی زندگی میں بڑی بابرکت اور علم و حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہے، اس مثال کی ایک بہت بڑی بنیادی خوبی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک اسمِ صفت الوکیل ہے جس کے معنی ہیں: بندوں کے کاموں میں کارسازی کرنے والا، آپ جب قرآنِ حکیم میں اسم الوکیل کے اسرار کو جاننے کے لئے کوشش کریں گے تو آپ پر یہ حقیقت ظاہر ہوجائے گی کہ توکل یعنی اللہ کو اپنے روحانی کاموں میں کارساز قرار دینا ایمان کے درجۂ کمال پر ممکن ہے، اس تصوّر میں اہلِ ایمان کے لئے عظیم بشارتیں ہیں کہ اللہ اپنی بے پایان رحمت و مہربانی سے اپنے بندوں کے بڑے بڑے روحانی کاموں میں وکیل ہوجاتا ہے، پھر کون سی عمدہ بات اور عمدہ مثال غیر ممکن ہوسکتی ہے۔

پس اس عنوان میں کسی حقیر انسان کی کوئی تعریف نہیں ہے بلکہ خداوندِ تبارک و تعالیٰ کی بہت بڑی تعریف ہے جو اپنے بندوں کا حقیقی وکیل ہے، پس یہ حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں جو کچھ بھی علمی خدمت ہوسکی ہے وہ صرف اور صرف اللہ کے فضل و کرم ہی سے ہے پھر بھی ہم اس کی ایک قابلِ فہم مثال پیش کر سکتے ہیں

 

۲۱۵

 

تاکہ اس سے علم و عمل کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے، ہم اس سلسلے میں ہادیٔ زمان علیہ السّلام کی نورانی ہدایت سے کچھ اسرارِ باطن بیان کرنے کی کوشش کریں گے، آپ نے آج یہاں خدا کے اسم الوکیل کے ایک عظیم راز کو سنا، اس دفعہ ہمارا پرگرام یہ ہے کہ ہمارے تمام عزیزان ہمارے ساتھ مل کر کام کریں، ان شاء اللہ وہ طریقِ کار ہم خود بتائیں گے کہ کس طرح اس پروگرام میں تمام عزیزوں کی شرکت ہونی چاہئے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ  ۱۷؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۱۶

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۴

 

اللہ تعالیٰ کے اسرارِ علم و حکمت انتہائی عجیب و غریب ہیں کہ اس قادرِ مطلق نے انسان کو نہ صرف ایک عالمِ شخصی ہی بنایا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس نے اس کو ایک عالمِ اکبر بھی بنایا، ایسے میں انسان اپنی ہستی کی وسعتوں پر کس طرح کنٹرول کرسکتا تھا، پس خدا نے اپنی قدرتِ کاملہ سے انسان کو ایک مختصر اور جامع جوہر اور خلاصہ بنا دیا اور انسان سے فرمایا کہ بس تم اپنے اس دل کی حفاظت کرو اور اسی کا خیال رکھا کرو، پس انسان کے لئے جو اللہ کا حکم ہوا ہے اس کا اوّلین تعلق دل سے ہے تاکہ انسان کے لئے اسی طرح اپنی حفاظت اور ہر چیز آسان ہو، پس عقل و دانش والے قرآنِ حکیم میں ضروری طور پر قلبِ انسانی کی حکمتوں کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں کیونکہ قرآن کا ہر ہر مضمون دل کی طرف جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ذکرِ الٰہی میں انسان کے لئے بہت سے فیوض و برکات ہیں مگر وہ دل کے توسط سے ہیں، لہٰذا ہر مقام پر اہلِ ایمان کو توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ اپنے دل کی حالت پر نظر رکھیں۔

خوب یاد رہے کہ جسمِ انسانی میں دل کے تین مقام ہیں اس کا پہلا مقام جسم ہے یعنی سینہ، دوسرا مقام روح ہے اور قلبِ انسانی کا تیسرا اور آخری مقام مرتبۂ عقل ہے جو حظیرۂ قدس میں ہے، اور قرآنی علم و حکمت کے تمام

 

۲۱۷

 

اسرار دل کے انہی تین مقامات سے متعلق ہیں، پس خوش نصیب مومنین اور مومنات وہ ہیں جو دل کے قرآنی اسرار کو جانتے ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ  ۱۷؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۱۸

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۵

 

سوال: یہ جس آپریشن کی بات ہورہی ہے ، کیا وہ باطنی = روحانی = علمی = عرفانی آپریشن ہے؟۔ جواب: جی ہاں، وہ باطنی = روحانی = علمی = عرفانی آپریشن ہے۔ سوال: اس آپریشن کا نظام کیا ہے؟ جواب: اس کا نظام توکل ہے، جیسا کہ ذکر ہوا کہ اللہ کے اسمائے صفات میں سے ایک اسم الوکیل ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف سے باطنی کاموں کو انجام دیتا ہے، جب بندۂ مومن اپنے ربِّ کریم کے اسمِ اعظم کو پڑھتا ہے تو اس کے تحت اللہ تعالیٰ کے جمیعِ اسماء اپنا اپنا کام کرتے ہیں، دنیائے ظاہر میں آج تک ایسی کامیاب ترین سائنس نظر نہیں آئی جس میں بہت سی مشینیں مل کر کسی آپریشن کا کام کرتی ہوں مگر باطن میں جو خدا کا زندہ اسمِ اعظم ہے اس کے ساتھ اللہ کے تمام اسمائے صفاتی وابستہ ہیں اور ہر اسمِ صفت اسمِ اعظم کے منشاء کے مطابق کام کرتا ہے، پس اللہ تعالیٰ کا زندہ اور پُرنور اسمِ اعظم ہی ہے جس کے ذریعے سے باطن میں سب کچھ ہوتا ہے۔

جب مومن عالمِ شخصی ہے تو وہ اپنے اسمِ اعظم سے یہ درخواست نہیں کرتا کہ میرے عالمِ شخصی میں یہاں وہاں یہ کام کرنا ہے بلکہ صرف رجوع ہی کرتا ہے اور مومن کا یہ اسم الوکیل ہے جو خود بخود جہاں جو کچھ کرنا چاہئے وہاں وہ کرتا ہے۔

 

۲۱۹

 

آج کل ظاہر میں دل کی صحت اس لئے زیادہ مشکل ہورہی ہے کہ دراصل باطن میں دل کا مسٔلہ مشکل ہے، جب بھی باطن میں دل کا مسٔلہ حل ہوجاتا ہے تو ظاہر میں دل کا مسٔلہ حل ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں دل کے علاج کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اس کا طریقۂ کار بھی بتا دیا گیا ہے، مثال کے طور پر حدیثِ شریف میں ہے: اللّٰھمَّ ا جْعَلْ لِی نُوراً فِی قَلبِی = اے اللہ میرے دل میں ایک نور قرار دے۔ پس اللہ تعالیٰ جب بھی بندۂ مومن کے دل میں ایک نور قرار دیتا ہے تو اسمِ اعظم سے یہ نور مقرر کرتا ہے، اب اس حکمت میں یہ سوچنا ہے کہ جب بندۂ مومن کے دل میں ایک نور قرار پائے گا تو کیا اس سے دل کی بیماری ختم نہیں ہوگی اور کیا کوئی اس حکمت کو ایک عام بات خیال کرسکتا ہے، یہی توکل کی بات ہے اور یہی قرآن و حدیث میں طبِ روحانی  موجود ہونے کی بات ہے، مومن کے لئے عقل و دانش کی بات یہ ہے کہ وہ اسمِ اعظم کی روشنی میں قرآن میں دیکھے اور دل کے علاج سے متعلق عمدہ سے عمدہ نسخے دریافت کرتا رہے تا کہ یہ کام نہ صرف اس کے ذاتی مفاد تک محدود ہو بلکہ بنی نوع انسان کے لئے بھی اس سے فائدے حاصل ہوتے رہیں اور اس کی زندگی خوشگوار ہو جائے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعرات  ۱۸؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۲۰

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۶

 

یہی سب سے مشکل ریاضت جس کی مثال دل کے آپریشن سے دی گئی ہے، خود جہادِ اکبر بھی ہے، یقیناً یہ جہادِ اکبر ہے، لہٰذا سب سے پہلے نفسِ امّارہ کے خلاف شدید جنگ کرنی پڑتی ہے اور قرآنِ حکیم میں نفسانی ترقی کے تین بڑے مرحلے ہیں: پہلا مرحلہ ہے نفسِ امّارہ کو مسخر کرنا (۱۲: ۵۳)، دوسرا مرحلہ نفسِ لوامہ کا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے نفسِ لوامہ کی قسم کھائی ہے (۷۵: ۰۲)، اس میں بہت بڑی حکمت ہے کہ اللہ یہ چاہتا ہے کہ مومن اندر اندر سے اپنے آپ کی ملامت کرتا رہے اور یہ کئی معنوں میں ہوسکتی ہے توبہ، مناجات، گریہ و زاری، استغفار، ذکر کی کمی کا احساس وغیرہ، اس میں بڑا فائدہ ہے کہ مومنِ سالک اپنے آپ کی ملامت کرتا ہے ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی، خصوصاً بندۂ مومن اپنے ربّ کے حضور میں اپنے آپ کی ملامت کرتا ہے تو یہ جہادِ اکبر کا سلسلہ ہے، نفسانی ترقی کا تیسرا اور آخری مرحلہ نفسِ مطمٔنہ ہے (۸۹: ۲۷ تا ۲۸)، اس مرحلے میں مومن اطمینان والی روح کو حاصل کرتا ہے جو بہت بڑی کامیابی ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعہ  ۱۹؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۲۱

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۷

 

اے عزیزان! دانائی اور حکمت یہ ہے کہ آپ قرآنِ حکیم میں قلبِ انسانی سے متعلق اسرار کی تلا ش کریں، اس سلسلے میں قلبِ سلیم کی ظاہری اور باطنی معرفت ازبس ضروری ہے، قلبِ سلیم کے لئے دیکھیں: ہزار حکمت (ح: ۶۹۶-۶۹۷):

قلبِ سلیم (۱): بے عیب دل، صحت مند دل:- ایسا دل جو باطنی بیماریوں سے پاک ہو، اور ہر وقت اس پر حق تعالیٰ کی نظرِ عنایت و ہدایت رہے، جیسے حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام کا قلبِ مبارک تھا (۳۷: ۸۴)۔

قلبِ سلیم (۲): وہ دل جو صحیح و سلامت ہو:- سورۂ شعرأ (۲۶: ۸۹) میں قلبِ سلیم کا ذکر آیا ہے جس سے ایسا دل مراد ہے جو نورِ امامت سے منوّر ہوچکا ہو، ایسے میں امامِ عالی مقامؑ ہی بندۂ مومن کا دل قرار پائے گا۔

جب اللہ تعالیٰ قرآنِ حکیم میں قلبِ سلیم کی تعریف فرماتا ہے تو کیا یہ کوئی معمولی بات ہوسکتی ہے؟ نہیں ہر گز نہیں، بلکہ قلبِ سلیم معرفت کا ایک عظیم راز ہے، جس کے جاننے میں حکمت کی کلیدیں ہیں، پس آپ قرآن کے دو مقام پر قلبِ سلیم کی تحقیق کریں، جیسا کہ اس کا حق ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، سنیچر  ۲۰؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۲۲

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۸

 

بحوالۂ کتابِ عشقِ سماوی بعنوانِ اسماء الحسنیٰ کے اسرار، ص ۹۶-۹۷ کو خوب غور سے پڑھیں:

۱۔ قرآنِ حکیم اللہ تبارک و تعالیٰ کا سب سے بڑا خزانۂ علم و حکمت ہے، اہل دانش کے نزدیک یہ حقیقت کسی شک کے بغیر مسلّمہ ہے کہ قرآنِ پاک کی تعلیمات لوگوں کے مختلف درجاتِ عقل کے مطابق درجہ بدرجہ ہیں، تاکہ اولوا الالباب (صاحبانِ عقل) علم کی سیڑھی سے زینہ بزینہ بامِ عروج پر چڑھیں، بالفاظِ دیگر ان کو معراجِ یقین حاصل ہو، اور وہ حظیرۂ قدس میں داخل ہو جائیں، جہاں بہشت اور اس کی ہر نعمت موجود ہے۔

۲۔ ذکرِ جمیل اسماء الحسنیٰ ہی کا ہے، اور یہ حکمت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ خدا کی ہر چیز زندہ، گوئندہ، اور دانندہ ہوا کرتی ہے، چنانچہ دورِ ششم کے اسماء الحسنیٰ محمد و آلِ محمد صلی اللہ علیہ و علیہم اجمعین ہیں، جو حسن و جمالِ ظاہری و باطنی کے درجۂ کمال پر ہیں، یہی حضرات خداوندِ عالم کے اسمائے بزرگ ہیں، اور انہی مبارک ناموں سے خدا کو پکارنے کا حکم ہوا ہے (۰۷: ۱۸۰) اور قرآن و حدیث میں “محمد وآلِ محمد پر صلوات” کی بہت بڑی فضیلت اس معنیٰ میں ہے کہ یہ اسماء الحسنیٰ کا خلاصہ اور جوہر ہے، اَلحَمْدلِلّٰہ۔

 

۲۲۳

 

۳۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء دو قسموں میں ہیں: (۱) وہ اسماء جو حروفِ تہجی کی ترکیب سے ہیں، جن کو کاتب لکھتا ہے، وہ اپنی تحریر کو کسی وجہ سے مٹاتا بھی ہے (۲) دوسرے وہ اسماء ہیں جو زندہ، بولنے والے، عاقل و دانا، اور اشرف و اعلیٰ ہیں، جیسے انبیاء، اوصیاء، اور أئمۂ معصومین علیھم السّلام (المجالس المؤیدیہ)۔

۴۔ آپ قرآنِ حکیم کے ان حوالہ جات میں اسماء الحسنیٰ کے مضمونِ مبارک کو پڑھ کر فیضِ علم و حکمت کو حاصل کریں: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰)، سورۂ اسراء (۱۷: ۱۱۰)، سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۰۸) ، سورۂ حشر (۵۹: ۲۴)۔

ان لوگوں کی کتنی بڑی سعادت ہے جو اسماء الحسنیٰ سے خدا کو پکارتے ہیں، پس یہی لوگ (ان شاء اللہ) بہشت کے بادشاہ ہوں گے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد۔ گلگت

۱۱۔ جولائی ۱۹۹۸ ء

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۲۲؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۲۴

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۹

 

کتابِ قرآنی مینار میں بعنوانِ “سابقون کی سبقت کا راز” ص ۱۹۰-۱۹۲ پر نکات نمبر ۶ تا ۸ کو پڑھیں:

دوڑ پڑو۔ آگے بڑھو: آپ یہ حکم سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۳۳) اور سورۂ حدید (۵۷: ۲۱) میں دیکھ سکتے ہیں، لیکن اس دوڑنے اور آگے بڑھ جانے کے کیا معنی؟ جبکہ دین میں ہر قول و فعل سنجیدگی اور سکون سے کیا جاتا ہے؟

ج: یہ امر علم و عمل میں سبقت کرنے سے متعلق ہے، اور اس کا زیادہ سے زیادہ تعلق منازلِ عقل سے ہے، کیونکہ وہاں تو مومنین کا نور دوڑتا رہتا ہے، (۵۷: ۱۲؛  ۶۶: ۰۸) تاہم مجموعی اعمال میں سبقت کا یہ اشارہ ہے کہ بہشت میں داخل ہوجانا آسان بات ہے، مگر اللہ کی خوشنودی حاصل کر کے خود کو دوسروں کے حق میں بہشت بنانا انتہائی مشکل کام ہے۔

طریقِ احسن: قرآنی و اسلامی ہدایات و تعلیمات سے صراطِ مستقیم مرتب ہوجاتی ہے، جس پر قدم بقدم اور منزل بمنزل آگے بڑھ جانا مقصود ہے، اور یقیناً اسی عمل میں بہتر سے بہتر چیز کی پیروی ہوجاتی ہے یہاں تک کہ منزلِ آخرین میں عقل کا معجزہ آتا ہے، جو سب سے بہتریں چیز ہے، جیسا کہ حضرتِ موسٰی سے فرمایا گیا: تم توریت کو مضبوطی سے لو اور اپنی قوم کو حکم دے دو کہ اس کی اچھی سے اچھی

 

۲۲۵

 

باتوں پر عمل کریں (۰۷: ۱۴۵) اور اگر قرآنِ حکیم کی ان آیاتِ مبارکہ میں، جن میں لفظِ “احسن” موجود ہے، خوب غور سے دیکھا جائے، تو یہ حقیقت روشن ہو جائے گی کہ قرآنی ہدایات درجہ بدرجہ ہیں، اور اس کی تعلیمات رفتہ رفتہ نورِعقل تک پہنچا دیتی ہیں، پس یہی عقلی راستہ اس کا طریقِ احسن ہے۔

درجات کی سیڑھیاں: قرآنِ حکیم کے کل اٹھارہ مقامات پر درجہ اور درجات کا ذکر موجود ہے، سورۂ معارج (۷۰) میں سیڑھیوں کا (۷۰: ۰۳)، اور سورۂ انشقاق (۸۴: ۱۹) میں طبقات کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، الغرض سب سے اعلیٰ سیڑھی کے مختلف مدارج پر انبیاء جارہے تھے، پھر اسی طرح اولیاء کی سیڑھی اس کے نیچے لگی ہوئی ہے، جس پر دوستانِ خدا زینہ بزینہ چڑھ رہے ہیں، اس کے تحت شہداء کی سیڑھی جڑی ہوئی ہے جو صالحین کی سیڑھی پر قائم ہے، اور یہ عوام النّاس کی سیڑھی پر کھڑی کی گئی ہے، یہی تصوّر صراطِ مستقیم کا ہے (۰۴: ۶۹) لیکن یہاں بڑا اہم سوال یہ ہے کہ ان بے شمار درجوں کا تعیّن کس فرق و تفاوت کی بنیاد پر کیا گیا ہے؟

ض: فرق و امتیاز میں اصل چیز علم ہی ہے، جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے: نَرْفَع دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ۔ ہم جسے چاہتے ہیں اس کے درجے بلند کردیتے ہیں اور ہر صاحبِّ علم سے اوپر ایک عالم ہے (۱۲: ۷۶) اس سے یہ حقیقت کسی شک کے بغیر ظاہر ہوئی کہ قرآنی علم و عرفان درجہ بدرجہ اوپر سے اوپر جا کر خورشیدِ عقل سے مل جا تا ہے، پھر وہاں سے اس کا ایک پہلو نورِ منزل کے ساتھ نیچے آکر پھیل جاتا ہے۔

(نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی، کراچی، بدھ، ۲۷ جمادی الاول ۱۴۱۰ ھ   ۲۷؍ دسمبر ۱۹۸۹ء)

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل ۲۳ ؍اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۲۶

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۱۰

 

بحوالۂ کتابِ صنادیقِ جواہر، صندوقِ جواہر۔ ۲۹، ۴۳۶-۴۳۷۔

سوال۔ ۶۱۲: آیا قرآنِ پاک میں درجات کا ذکر ہے؟ اگر اسلام میں درجات ہیں تو وہ کس اعتبار سے ہیں؟

جواب: (۱) آپ دیکھ سکتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں کئی طرح سے درجات کا ذکر آیا ہے، اس کی پہلی مثال: سابقوا (۵۷: ۲۱) اور سارعوا (۰۳: ۱۳۳) ہے کہ خدا نے حکم دیا: علم و عمل میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو اور جلدی کرو۔

ظاہر ہے کہ اس سے درجات بنیں گے (۲) دوسری مثال صراطِ مستقیم (راہِ راست) ہے، اس پر خدا کی طرف سے چلنے والے مسافر آگے پیچھے ہوں گے، سب لوگ دوش بدوش چل نہیں سکتے ، یعنی علم و عمل میں کمی بیشی کی وجہ سے درجات کا ہونا لازمی ہے (۳) اسلام میں جو مختلف درجات ہیں، وہ ایمان، اور علم و عمل کے اعتبار سے ہیں (۴) قرآنِ حکیم میں خود درجات کا پُرحکمت مضمون بھی ہے (۵) قرآن اور اسلام میں درجات کی سب سے روشن مثال سیڑھی ہے، یعنی آنحضرتؐ کی معراج، کیونکہ حضورِ انورؐ اپنی روحانیّت و نورانیّت میں درجہ بدرجہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی تک پہنچ گئے تھے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۲۳  ؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۲۷

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۱۱

 

شرحِ صدر۔۱: سورۂ زمر کی بائیسویں آیت کا ارشاد ہے کہ : پس جس شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کیلئے کھول دیا اور وہ اپنے پروردگار کے نور پر ہے (کیا وہ شخص اور اہلِ قساوت برابر ہیں) پس جن لوگوں کے دل خدا کے ذکر سے متاثر نہیں ہوتے تو ان کے لئے بڑی خرابی ہے یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔

یہ پاک آیت سب سے پہلے انسانِ کامل یعنی پیغمبرِ آخر زمانؐ اور امامِ برحق علیھما السّلام کی شان میں ہے، ان کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے حدودِ دین کے بارے میں بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا شدہ وسعتِ قلبی، اسلام یعنی اطاعت اور خدا کا نور انسانِ کامل کے وسیلہ اور توسط سے حدودِ دین کو بھی علیٰ قدرِ مراتب حاصل ہوتا ہے، اور انسانِ کامل کی ذاتِ اقدس میں یہ صفات اور دوسری تمام خوبیاں ہمیشہ کے لئے بدرجۂ اتم موجود ہیں۔

اس آیۂ مقدّسہ کی حکیمانہ تعلیم شرحِ صدر یعنی وسعتِ قلبی کے ذکر سے شروع ہوجاتی ہے، اور فرمایا جاتا ہے کہ اسلام کو کماحقہٗ قبول نہیں کیا جاسکتا، جب تک کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو وسعتِ قلبی عطا نہ فرمائے، نیز لفظِ اسلام کے دوسرے معنوی پہلو کے اعتبار سے ارشاد ہے کہ اگر خدا کی طرف سے کسی کو کشادہ دلی عنایت نہ ہوئی تو اس شخص سے فرمانبرداری نہیں ہوسکتی، کیونکہ اسلام

 

۲۲۸

 

کے معنی اطاعت و فرمانبرداری کے ہیں، پھر اس کے بعد فرمان ہے کہ جب خدا نے کسی آدمی کے دل کو کھول دیا تو وہی حقیقی اسلام یا کہ فرمانبرداری بجا لاسکتا ہے، جب اس نے ہادیٔ برحقؑ کی فرمانبرداری کر لی، تو اس کے دل و دماغ میں بتدریج خدا کا نور جلوہ گر ہونے لگتا ہے، اور ذکرِ الٰہی خود بخود جاری رہتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے قلب میں رقت و نرمی پیدا ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی معجزانہ صوتی ہدایات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

اس صورتِ حال کے برعکس، جس میں حقائق و معارف کے زندہ معجزات موجود ہیں، جن لوگوں کے دل تنگ و تاریک ہوں، وہ حقیقی اسلام قبول نہیں کر سکتے، جس کے سبب سے ان کے دل خدا کے نور کے قابل نہیں ہوسکتے، نہ ہی وہ خدا کے ذکر کو جاری رکھ سکتے ہیں، پھر وہ قساوتِ قلبی کے روحانی مرض میں مبتلا ہو کر گمراہی اور ضلالت کے بیابان میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔

(از کتابِ امام شناسی، حصّۂ دوم ص ۹۴-۹۶)

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۲۵؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۲۹

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۱۲

 

شرحِ صدر۔۲: شرحِ صدر کے لفظی معنی ہیں سینے کو کشادہ کر دینا، یعنی وسعتِ قلبی اور فراخدلی پیدا کردینا، جس سے انسانی نفس کی وسعت مراد ہے کیونکہ نفس کا مرکز دل و دماغ ہے، ہر چند کہ کشادگی اور تنگی روح اور نفس کی صفت نہیں جسم کی صفت ہے، تاہم عالمِ مثال جو لطیف اور روحانی ہے، پھیلاؤ اور کشادگی کے لحاظ سے اس کائنات کی طرح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔

وَسَارِعوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (۰۳: ۱۳۳) = اور اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس جنّت کی طرف جلدی کرو جس کا پھیلاؤ سب آسمان اور زمین ہیں وہ پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

اس ارشاد سے یہ حکمت ظاہر ہے کہ مذکورہ بہشت اس کائنات کی روحانی صورت ہے، بالفاظِ دیگر یہ بہشت اس عظیم کائنات کی روح یعنی نفسِ کلّ کی صورت میں ہے یا اس مطلب کو اس طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ ہر جسمانی چیز کی ایک روحانی لطیف صورت ہوا کرتی ہے، اسی طرح اس عظیم کائنات کی بھی ایک لطیف روحانی صورت ہے اور وہی عالمِ مثال اور مذکورہ بہشت ہے اور روحانی قسم کی انتہائی وسعت و کشادگی بھی وہی ہے۔

 

۲۳۰

 

جب روحانی پھیلاؤ کا تصوّر معلوم ہوا، تو اب شرحِ صدر کی مزید وضاحت کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے:أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلإِسْلاَمِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِنْ رَبِّهِ فَوَيْلٌ لِلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ فِي ضَلاَلٍ مُبِينٍ۔

(۳۹: ۲۲)=  پس جس شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کیلئے کھول دیا اور وہ اپنے پروردگار کے نور پر ہے (کیا وہ شخص اور اہلِ قساوت برابر ہیں؟) پس جن لوگوں کے دل خدا کے ذکر سے متاثر نہیں ہوتے تو ان کے لئے بڑی خرابی ہے یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔

اس آیۂ کریمہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ مومن جب حقیقی محبت کی آگ میں پگھلتے ہوئے ذکرِ الٰہی میں ایسا مگن رہتا ہے، کہ وہ سوائے خدا کی یاد کے ہر چیز بھول جاتا ہے، یہاں تک کہ اسے اپنے آپ کی بھی خبر نہیں رہتی، کہ وہ بیدار ہے یا عالمِ خواب میں ہے، تو اس وقت اس کی روح میں وسعت پیدا ہونے لگتی ہے اور اس وسعت کے بعد نور نظر آنے لگتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں قرآنِ پاک کا ارشاد ہے:۔

أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ (۹۴: ۰۱) = کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھول دیا؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آنحضورؐ کا قلبِ مبارک یعنی پاک روح انتہائی حد تک وسیع کردی گئی تھی اور نتیجتاً آپؐ کی پاک روح میں ساری کائنات کی روحانی صورت نظر آتی تھی۔

(از کتابِ حکیم پیر ناصر خسرو اور روحانیّت ص ۴۲-۴۴)

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۲۵  ؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۳۱

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۱۳

 

ذکرِ قلبی: ذکرِ قلبی کا مطلب ہے دل کا ذکر، یہ ذکر تمام اذکار میں مخصوص ترین اور عجائباتِ روحانیّت کا حامل ہے لیکن یہ جتنا خاص، معجزانہ اور پُرحکمت ہے، اتنا نازک اور مشکل بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ دوسرے تمام اذکار و عبادات اور نیک کاموں کے ذریعے سے اس کی مدد کی جاتی ہے، تاکہ اس کی ترقی ہو، اس کے لاتعداد فائدے ہیں اور بنیادی طور پر اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی باقاعدہ اور مسلسل مشق سے دل کی زبان کھل جاتی ہے، جس کے نتیجے میں روحانیّت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کشادہ رہتا ہے۔ (از کتابِ ذکرِ الٰہی، ص۵۰)

دل کے کان: ذکر کی ابتدائی منزل میں دل کے کان کی شناخت بھی ضروری ہے، وہ اس طرح سے ہے کہ نو آموز ذاکر ایک ایسی جگہ کچھ دیر تک انتہائی خاموشی اور سکوت سے بیٹھے رہے، جہاں کوئی بھی آوازنہ ہو، پھر وہ اپنے دل و دماغ کی طرف خوب متوّجہ ہو کر یہ کوشش کرے کہ زبان سے خاموش رہنے کے علاوہ دل میں بھی کچھ نہ کہے، چنانچہ جب وہ ظاہر و باطن میں خاموشی اختیار کر چکا ہوگا، تو اس وقت اچانک غیر ارادی طور پر اس کے ذہن میں کچھ تتر بتر سے خیالات پیدا ہونے لگیں گے، یہ نفسِ امّارہ کے وسوسے ہیں، جن کو حدیثِ نفسی بھی کہا جاتا ہے، ان چیزوں کا سننا نہ صرف دل کے کان موجود ہونے کا ثبوت

 

۲۳۲

 

ہے، بلکہ یہ اس حقیقت کی دلیل بھی ہے کہ جس طرح دل میں شرکی آواز آسکتی ہے، اسی طرح خیر کی آواز بھی آسکتی ہے۔

اگرچہ نفس کی آواز نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن وہ خاموشی کے اس تجربے میں خلل انداز ہوئی، جس کو دل کے کان نے نہایت ہی آہستگی کی ایک کیفیت میں سن لیا، اور یہی نفس کی باتیں ذکرو عبادت میں رخنہ ڈالتی رہتی ہیں، جن کو محسوس کر کے مومن کو سخت پریشانی اور بے چینی ہوتی ہے، لیکن اسے ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ کچھ آگے چل کر اسی طرح عقل اور عشق کی باتیں بھی سنائی دے سکتی ہیں۔ (از کتابِ ذکرِ الٰہی، ص ۹۵-۹۶)

دل کی زبان: قلبی ذکر کی کوئی مشق شروع کرنے سے پیشتر دل کی زبان اور اس کی آواز سے واقفیّت و آگہی لازمی ہوتی ہے، جب تک یہ نہ ہو تو دل سے ذکرِ الٰہی کا کام لینا بہت ہی مشکل ہے، چنانچہ دل یا کہ ضمیر کی آوازکی کیفیت و حقیقت سمجھ لینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ مبتدی زبان کو بالکل بند کرکے دل ہی دل میں قرآنِ پاک کی کوئی چھوٹی سورت یا کوئی آیت یا خدا تعالیٰ کا کوئی اسم وغیرہ کچھ دیر کے لئے پڑھا کرے، ساتھ ہی ساتھ متوجہ ہو کر دل کے کان سے دل کی آواز کو سنتا رہے، اس وقت اسے یقین ہوگا کہ وہ اس تجربے میں جو کچھ پڑھ رہا تھا، وہ ظاہری زبان سے نہیں بلکہ باطنی زبان سے پڑھا جا رہا تھا، یعنی یہ آواز دل کی زبان کی تھی، جسے دل کے کان سے سن رہا تھا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دل میں بھی ایک زبان ہے جو ظاہری زبان سے بالکل الگ ہے، اور اسی سے ذکرِ الٰہی کیا جاتا ہے۔ (ازکتابِ ذکر الٰہی، ص ۹۶)

دل کی آنکھ: اسی سلسلے میں دل کی آنکھ کے وجود کی تحقیق اور روحانی مشاہدات کا تجربہ کرنا بھی نہایت ہی ضروری ہے، کیونکہ حواسِ باطنی کے اقرار اور

 

۲۳۳

 

شناخت نہ ہونے کی صورت میں روحانی ترقی تو درکنار اس کے انکار کی کیفیت دل میں جڑ پکڑتی ہے چنانچہ دل کی آنکھ کی تحقیق و تجربہ اس طرح ہونا چاہئے کہ مبتدی ذکر کی مخصوص نشست میں نچنت اور بے فکر ہو کر بیٹھ جائے اور کچھ دیر کیلئے آنکھیں بند کر کے عالمِ خیال (یعنی اپنے باطن) کی طرف متوجہ ہوجائے، پھر وہ خدا کے ناموں میں سے پانچ کو منتخب کر کے ہر ایک کی تحریر کا علیٰحدہ علیٰحدہ تصّور کرے، یعنی وہ اپنے خیال میں ان ناموں کی تحریری شکل کو دیکھے اور پڑھے، اگر وہ ناخواندہ ہے تو یوں تصوّر کرے کہ ایک شخص اس کے سامنے قرآنِ شریف پڑھ رہا ہے، اب وہ غور سے دیکھے کہ وہ کون ہے، کیسے لباس ہیں وغیرہ، اس کے علاوہ کچھ دوسرے آدمیوں کا تصوّر کرے، کیا وہ جس چہرے کو چاہتا ہے وہ سامنے آتا ہے؟ پھر کسی پھل یا پھول کا تصوّر کرے، علیٰ ہذا القیاس، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس طریق پر بہت سی چیزوں کا تصوّر کر سکے گا، یعنی وہ جس چیز کو چاہے خیال میں لا کر اس کا روحانی مشاہدہ کر سکے گا، مگر شروع شروع میں باطنی روشنی اور دل کی بینائی بہت ہی کمزور بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوگی، بہر حال یہ اندازہ تو ہو ہی گیا کہ یہ دل کی آنکھ کے دیکھنے کی ابتدائی صورت ہے، جو اگر ایک طرف سے دل کی آنکھ کے وجود کا ثبوت ہے تو دوسری طرف سے عالمِ روحانیّت کی ہستی کی دلیل ہے۔ (از کتابِ ذکرِ الٰہی، ص ۹۷-۹۸)

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۲۶؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۳۴

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۱۴

 

قلب کی تاویل: قلب کی اہمیّت کی خاص وجہ اس کی تاویل ہے کہ قلب سے امام علیہ السّلام مراد ہے، کیونکہ مومن کے جس پاک و پاکیزہ دل کو عرشِ رحمان ہونے کا انتہائی عظیم مرتبہ حاصل ہے، وہ امامِ زمان علیہ السّلام کا نورِ اقدس ہی ہے، جو بحدِّ فعل نہیں تو بحدِّ قوّت مومن کی پیشانی میں ہے، جس کا ثبوت جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، یہ ہے کہ تاویلی موت کے دوران عالمِ شخصی کی زمین (جس میں قلبِ صنوبری بھی ہے) کئی کئی مرتبہ فنا ہو جاتی ہے، مگر سر جو آسمان ہے، اور جبین جو مقامِ عرش ہے، جس پر وجہ اللہ یعنی امامِ زمانؑ جلوہ گر ہے اس کو کچھ نہیں ہوتا، اور یہ بہت بڑا راز اسرارِ مخزون یعنی خزینۂ خاص کے بھیدوں میں سے ہے (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) ، اَلحَمد لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔  (ازکتابِ لعل و گوہر، ص ۱۱۳)

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۲۹؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۳۵

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۱۵

 

عرشِ دل:

مومنݺ قلبݺ عرشُلݸ رحمان مناس عجیب

روݺ نقطہ ذکرݺ وسعتݺ اسمان مناس عجیب

ترجمۂ شعر ۱: کسی حقیقی مومن کے عرشِ دل پر خدائے رحمان کا نورانی ظہور ایک حیران کن امر ہے، ذکر کی وسعت پذیری کی بدولت نقطۂ دل کا آسمان بن جانا ایک تعجب خیز بات ہے۔

تشریح: یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان بحدِّ فعل یا بحدِّ قوّت اپنے آپ میں ایک روحانی کائنات ہے، چنانچہ اس باب میں قرآنِ مقدّس کا ارشادِ گرامی ہے کہ: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (۴۱: ۵۳) ترجمہ: ہم عنقریب ان کو اپنی (قدرت کی) نشانیاں اس کائنات میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کے نفوس میں بھی۔ اس آیۂ کریمہ سے یہ حقیقت آفتابِ عالمتاب کی طرح روشن اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جتنی نشانیاں اس ظاہری کائنات میں سموئی ہوئی ہیں، وہ سب کی سب اپنی روحانی شکل و صورت میں انسان کے باطن میں موجود ہیں، انہی معنوں میں فرمایا گیا ہے کہ انسان عالمِ صغیر ہے اور یہ بیرونی کائنات عالمِ کبیر، عالمِ صغیر یعنی

 

۲۳۶

 

نفسِ انسانی میں جس قدر اللہ تبارک و تعالیٰ کے روشن اور زندہ معجزات ہیں یا جتنی قدرت کی نشانیاں ہیں، ان میں سب سے بڑا معجزہ اور سب سے عظیم قدرت کی نشانی خود اللہ کا نورانی ظہور اور اس کا پاک دیدار ہے۔

دیدارِ الٰہی کا نہ صرف اشارہ بلکہ اس کا واضح ذکر قرآن و حدیث کے بہت سے ارشادات میں موجود ہے، من جملہ سورۂ نور (۲۴) کی آیت نمبر ۳۵ میں غور سے دیکھئے کہ:- مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ (۲۴: ۳۵) میں ھادئ برحق کی مبارک پیشانی سے خدا کے نورِ اقدس طلوع ہوجانے کی مثال کسی پُرحکمت انداز سے بیان کی گئی ہے اس آیۂ مبارکہ کی تفسیر و تشریح سے کتابوں کے صفحات بھرے ہوئے ہیں، کہ ربّ العزّت کے نور کی نیابت و نمائندگی کا یہ شرف صرف انسانِ کامل ہی کو حاصل ہے، لیکن یہ بھی تو حقیقت ہی ہے کہ حقیقی مومن انسانِ کامل کے انتہائی قریب ہوتا ہے، لہٰذا اس مقدّس نور کا ایک مکمل نمونہ، ایک روشن مثال اور ایک زندہ عکس ایسے مومن کے دل کے تخت پر ہونا چاہئے، جو ایمان کے درجۂ کمال پر ہے، تو یہ ہوا کسی حقیقی مومن کے عرشِ دل پر رحمان کے پاک نور کا جلوہ گر ہونا۔

قدرتِ خداوندی اور معجزۂ الٰہی ہمیشہ سے تعجب خیز ہی ہوا کرتا ہے، اور اس تعجب و حیرت کے معنیٰ میں یہ کیفیت و حقیقت پنہان ہے، کہ انسانی عقل قدرت و معجزہ کی توجیہہ کرنے سے عاجز و قاصر ہوجاتی ہے اور وہ اس سلسلے کے غورو فکر میں ہر بار ناکام ہو کر رہ جاتی ہے، کیونکہ قادرِ مطلق کی قدرت اور معجزہ عقلِ جزوی کی سمجھ سے ماوراء ہے، ہاں اگراس میں اللہ تعالیٰ کی نورانی تائید نے دستگیری کی تو وہ اور بات ہے۔

اگرچہ روح بذاتِ خود ایک ناقابلِ تقسیم جوہر ہے، لیکن یہ جہاں

 

۲۳۷

 

جسمِ لطیف یا اثیر (ETHER) سے وابستہ ہے، وہاں ایسے فلکی جسم کے لاتعداد ذرات روح کے ذرات متصوّر ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک پر روح سوار ہے یا وہ روح کی گرفت میں ہے، لہٰذا وہ اڑتے ہوئے آتے جاتے ہیں اور ان میں سے بےشمار ذرے قالبِ عنصری میں بھی سموئے ہوئے ہیں، چنانچہ نقطۂ دل یا نقطۂ روح سے وہ زندہ ذرہ مراد ہے جو دل و دماغ کے ربط و اشتراک کے مقام یعنی شعورکے مرکز پر کام کرتا ہے، پھر جب ذکرِ الٰہی کا سلسلہ اپنی تمام شرطوں کی تکمیل کے ساتھ جاری رہتا ہے تو اس وقت نتیجے کے طور پر یہ لطیف ذرہ، جو انسانی حیات و بقا کا مرکز ہے، روشنی میں تحلیل و تبدیل ہو کر دوسرے بہت سے ذرات کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ روحانی روشنی کا دائرہ پھیلتا جاتا ہے، یہاں تک کہ یہ دائرہ کائنات کی وسعتوں کو پالیتا ہے، قرآنِ حکیم کی (۰۶: ۱۲۵؛  ۲۰: ۲۵؛  ۳۹: ۲۲؛  ۹۴: ۰۱) میں شرحِ صدر یعنی وسعتِ قلبی کے عنوان سے اس روحانی حقیقت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ (ازکتابِ رموزِ روحانی، ص ۱۴-۱۷)۔

 

دل کی کائنات:

ظاہرݺ شوقُم جہانُلو انسان یَیَس یقین

اِنسانݺ ایسُ لݸ سݣکݽݺ دنیان مناس عجیب

ترجمۂ شعر ۵: اس ظاہری وسیع جہان میں انسان کا سمو رہنا تو یقینی بات ہے، لیکن انسان کے اس مٹھی بھر دل میں ایک عظیم روشن دنیا کا وجود حیرت خیز ہے۔

تشریح: کسی شاعر نے کہا ہے کہ:

رفتم بسوی دریا دیدم عجب تماشا

دریا درونِ کشتی، کشتی درونِ دریا

 

۲۳۸

 

یعنی جب میں دریا کی طرف گیا تو عجیب تماشا دیکھا کہ دریا کشتی کے اندر تھا اور کشتی دریا کے اندر تھی، چنانچہ انسان ہر چند کہ خود جسمانی اعتبار سے اس وسیع و عریض کائنات کی ایک انتہائی چھوٹی سی جگہ پر محدود ہے، لیکن اس کے دل کے نقطے میں ہمیشہ ایک عظیم عالم سمویا ہوا رہتا ہے، جس کا نام موقع اور وقت کے مطابق بدلتا رہتا ہے، اور وہ اس طرح کہ اگر انسان بیدار ہے یعنی جاگتا ہے تو اس کی یہ باطنی دنیا عالمِ خیال، یا عالمِ تصوّر یا عالمِ تفکر کہلاتی ہے، اگر وہ سویا ہوا ہے تو یہ عالم اس وقت عالمِ خواب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اور اگر آدمی خواب و خیال سے گزر کر روحانی کیفیت میں مستغرق ہے تو اس کے دل کی دنیا کو عالمِ روحانیّت کہا جاتا ہے۔ (از کتابِ رموزِ روحانی، ص ۲۱-۲۲)

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۳۰؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۳۹

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۱۶

 

طمانیّتِ قلبی: ۱۔ ہر قسم کا خوفِ بیجا، ہرگونہ پریشانی، احساسِ کمتری، دنیوی حرص، گھبراہٹ، برے خیالات یا وسوسوں کی اذیت، غمگینی، بے چینی، مایوسی، ناخواستہ غصہ، سبک مزاجی، زبان کی لغزش، کم ہمتی، بد باطنی، فخر، غرور، جہالت و نادانی، غفلت، سستی، تنگدلی، اضطراب، نسیان (بھول جانا) کند ذہنی، دماغی الجھن، اور ان جیسی تمام اخلاقی اور روحانی بیماریوں کا واحد علاج طمانیّتِ قلبی ہی ہے، جو ذکرِ الٰہی کی برکتوں سے حاصل ہوجاتی ہے جیسا کہ سورۂ رعد (۱۳: ۲۸) میں ارشاد ہوا ہے:۔ أَلاَ بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (۱۳: ۲۸) یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو (درجہ بدرجہ) اطمینان ہوجاتا ہے۔ چونکہ قلوب مختلف درجات کے ہوا کرتے ہیں، اس لئے یہ طمانیّت شروع سے لے کر آخر تک سارے مراتب پر محیط ہے، یعنی اطمینان ہر شخص کے علم و عمل کے مطابق ملتا ہے۔

۲۔ سوال: خدا وندِ قدوس کی یاد سے طمانیّتِ قلبی کسی طرح پیدا ہوجاتی ہے؟ اگر ایک مومن کسی بڑی تکلیف میں مبتلا ہے، اور وہ کثرت سے خدا کو یاد کرے، تو یہ ذکر کن معنوں میں اس کے اطمینان و سکون کا باعث ہو سکتا ہے؟

۳۔ جواب: شاید آپ نے قرآنی علاج یا علمی علاج میں اس حدیثِ شریف کا حوالہ دیکھا ہوگا کہ ہر شخص کے دو قرین (ساتھی) ہوا کرتے ہیں، ایک تو فرشتہ

 

۲۴۰

 

ہوتا ہے اور دوسرا جنّ (شیطان) سو فرشتہ ہر وقت انسان کو بھلائی کی ترغیب دیتا ہے، اور شیطان اس کے برعکس برائی کے لئے اکساتا رہتا ہے، چنانچہ جب جب بندۂ مومن ذکرِ خداوندی میں مسلسل مصروف رہتا ہے، تو اس حال میں بھی اگرچہ شیطان ڈر کے مارے کچھ ہاتھ پاؤں ضرور مارتا ہے، لیکن آخرکار شکست خوردہ ہو کر خاموش اور مایوس ہو جاتا ہے اور دوسری طرف ذکر کی بدولت فرشتے کو بولنے کا موقع مل جاتا ہے، پس وہ دل میں علم و حکمت کی باتیں ڈالنے لگتا ہے، اگر کوئی تکلیف یا بیماری ہے تو اس کے دور ہوجانے کی خوشخبری سناتا ہے، ہر دکھ ایک عبادت قرار پانے کی بات کرتا ہے، اور روحانیّت و آخرت کی کامیابی کی بشارت دیتا ہے، چونکہ یہ آسمانی الہام ہے، جو صداقت کی روح سے پُر اور حقیقت کے نور سے منوّر ہے، لہٰذا اس میں زبردست طمانیّتِ قلبی اور ہر بیماری کے لئے شفائے کلّی موجود ہے، ہر چند کہ شروع شروع میں اس فرشتے کی آواز صاف طور پر سنائی نہیں دیتی، لیکن بہ اشارۂ ضمیر یہ حالت محسوس ہوجاتی ہے کہ دل کو غیر معمولی تسکین و تسلی اور خوشی حاصل ہورہی ہے۔

۴۔ یادِ الٰہی لاھوت اور ناسوت کے درمیان لٹکائی ہوئی ایک نورانی رسی ہے، یہ ایک روحانی پل بھی ہے، جو شہرستانِ فنا کو ملکِ بقا سے ملا دیتا ہے، یہی راہِ راست بھی ہے، جس پر قدم بقدم اور منزل بمنزل نور ہدایت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، یہ بھی صحیح ہے کہ ذکر میں بہشت جیسا ایک نورانی عالم پوشیدہ ہے، جس کے عجائب و غرائب احاطۂ بیان سے باہر ہیں، پروردگار کے اسمِ مبارک میں ایک ایسی بے مثال دوا پنہان ہے، جو دنیا کے کسی بھی طبیب، حکیم، اور ڈاکٹر سے دستیاب نہیں ہوسکتی، ذکر سے خالق اور مخلوق کے رشتۂ ازل کا تجدّد امثال

 

۲۴۱

 

ہوجاتا ہے، اس میں عقل و جان کی لازوال مسرّتوں اور شادمانیوں کے انمول خزانے رکھے ہوئے ہیں، اگر ذکر حقیقی معنوں میں ہو، تو یہ ایک نور ہے، پھر عجب نہیں کہ روحِ ذاکر رفتہ رفتہ اس نور میں حل ہو جائے، یا فی الوقت روشنی کو قبول کرے۔

۵۔ ربِّ جلیل کے بابرکت ذکر سے جو اطمینان حاصل ہوجاتا ہے، اس کا زیادہ سے زیادہ تعلق روحانی اور عقلی نعمتوں سے ہے، کیونکہ اگر آرام وراحت میں ہمیشہ جسم ہی کا پلہ بھاری رہا، تو پھر آخرت میں نامرادی ہوگی، اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہم جسمانی تکالیف کو دور کرنے کے لئے کوشش ہی نہ کریں، لیکن اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں کسی بھی دنیوی تکلیف و آزمائش میں خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہئے، پس ظاہری بیماری میں بھی کثرت سے خدا کا نام لینا ضروری ہے، تاکہ عرصۂ قلیل میں شفا ملے، اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت سے ہم مزید وقت کیلئے بیمار رہتے ہیں، تو پھر ان شاء اللہ تعالیٰ فرشتہ (جس کا تذکرہ ہوچکا ہے) مریض مومن کے ضمیر میں کہنے لگے گا کہ: “صبرو ہمت سے کام لو، اس بیماری سے تمہاری تطہیر ہورہی ہے، اور یہ جسمانی مرض بحکمِ خدا کئی اخلاقی اور روحانی امراض کو مار رہا ہے۔”

۶۔ سورۂ فجر میں اطمینان کی تعریف و توصیف اس شان سے فرمائی گئی ہے: اے اطمینان یافتہ روح! تو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جا (رجوع کر) درحالے کہ تو اس سے خوش وہ تجھ سے راضی ہے، تو میرے (خاص) بندوں میں داخل ہوجا، اور میری جنّت میں داخل ہوجا (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) اس قرآنی تعلیم میں یہ حکمت ہے کہ مومن کی زندگی کے تمام نیک اقوال و اعمال کا نتیجہ حقیقی اطمینان ہے، اور اس کے بعد رجوع الی اللہ (خدا کی طرف لوٹ جانا) ہے، تاہم قرآنِ پاک میں دیکھ لیجئے کہ اطمینان و رجوع سے پہلے کیسی کیسی آزمائشیں سر سے گزرسکتی

 

۲۴۲

 

ہیں (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷)۔

۷۔ یہاں اس حکمت کی وضاحت بھی ضروری ہے جو “فَادْ خلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ” (تو میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا) میں پوشیدہ ہے، سو جاننا چاہئے کہ خدا کے خاص بندے انبیاء و اولیاء ہیں، جو حضرتِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے نورِ اقدس میں فنا ہو کر یکجا ہوچکے ہیں، چنانچہ نفسِ مطمئنہ سے فرمایا جاتا ہے کہ وہ بھی فنا فی المرشد اور فنا فی الرسولؐ ہو کر نفسِ واحدہ کے ساتھ ایک ہوجائے (۳۱: ۲۸) کیونکہ “فِی” کے معنی ہی ایسے ہیں، کہ اس میں روح اور نور میں جاکر فنا ہوجانے کا اشارہ موجود ہے۔

۸۔ اطمینان کا ایک اور اعلیٰ مقام یہ ہے کہ جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: (اے رسولؐ) آپ فرما دیجئے کہ اگر زمین پر فرشتے ہوتے کہ اطمینان سے چلتے پھرتے تو ہم ان پر آسمان سے فرشتے کو رسول بنا کر نازل کرتے (۱۷: ۹۵) یہ ارضی فرشتے سب سے پہلے انبیاء علیھم السّلام ہیں، جن کی ایک بہت بڑی صفت طمانیّتِ قلبی ہے، جس کا مفہوم بہت ہی وسیع ہے۔

۹۔ دراصل اطمینان بہت سے معنوں پر محیط ہوا کرتا ہے، اور ان میں مختلف درجات کی بشارتیں بھی ہیں، ان میں ایک بڑی بشارت فرشتوں کے توسط سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی غیبی مدد کے بارے میں ہے، جیسے جنگِ بدر میں خدا نے نزولِ ملائکہ سے لشکرِ اسلام کی مدد فرمائی تھی، جیسا کہ ارشاد ہے: اور اللہ تعالیٰ نے یہ امداد محض اس لئے کی کہ بشارت ہو، اور تا کہ تمہارے دلوں کو اطمینان ہوجائے (۰۸: ۱۰) کہتے ہیں کہ فرشتے دکھائی دیئے تھے، یقیناً ایک ہی فرشتے کا ظہور ہوتا ہے، جس میں بے شمار فرشتے ہوتے ہیں، گوہا سب سے بڑا فرشتہ ایک زندہ قلعہ ہے، اور اس کے اندر کے تمام فرشتے لشکر ہیں۔

 

۲۴۳

 

۱۰۔ سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۱۲ تا ۱۱۵) میں دیکھ لیں، آیۂ کریمہ کا ترجمہ ہے: وہ بولے کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس (سماوی دسترخوان) میں سے کھائیں اور ہمارے دلوں کو پورا اطمینان ہوجائے اور یقین کرلیں کہ آپ نے ہم سے (اپنی رسالت کے سلسلے میں جو کچھ کہا تھا) سچ فرمایا تھا اور ہم گواہی دینے والوں میں سے ہو جائیں (۰۵: ۱۱۳) اس مثال کی حکمت یہ ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے حواریین پر روحانی علم کا دسترخوان نازل ہوا تھا، اسی سے ان کے دلوں کو کامل اطمینان ہونا تھا، کیونکہ قرآنِ حکیم کا فرمانا ہے کہ پروردگار نے ہر چیز علم میں رکھی ہے (۰۶: ۸۰) چنانچہ اس باب میں ہمیں دوسری اشیاء کی طرف توجہ دینے سے پیشتر قرآنی چیزوں میں غور کرنا ازحد ضروری ہے، ان میں سے ایک چیز اور ایک مثال دسترخوان (مائدہ) ہے، جو آسمان سے نازل ہوا تھا، جس سے روحانی (لدنّی) علم مراد ہے، جو عقل و جان کی ربّانی نعمتوں کا بابرکت دسترخوان ہے جس کی ہر نعمت عقل و جان کے لئے غذا بھی ہے، اور دوا بھی، پھر اس سے طمانیّتِ قلب کیوں نہ ہو۔

۱۱۔ جیسا کہ یہ بیان ہوچکا کہ اطمینان کے مختلف درجات ہیں، اب یہاں یہ بتانا ہے کہ اس کا آخری اور بلند ترین درجہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی مثال میں موجود ہے (۰۲: ۲۶۰) انبیائے کرام اور اولیائے عظام اپنی مقدّس زندگیوں سے حقائق و معارف کے نمونوں کو پیش کرتے ہیں، اور ایسا کرنا بے حد ضروری ہے، تاکہ وہ حضرات خدا کے حکم سے بیمار اور دکھی انسانیت کو سلامتی کی راہوں پر گامزن کر سکیں، چنانچہ قرآنِ حکیم نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ مُنْعَمَ عَلَیْھِمْ (۰۴: ۶۹) کا راستہ سب کے لئے کھلا ہے، ان کے پیچھے پیچھے چلو (یعنی روحانی ترقی کرو، اور ان کی رفاقتِ روحانی سے مستفیض ہوجاؤ۔

 

۲۴۴

 

تاکہ معرفت کی لازوال دولت اور اسرارِ ازل کے بے مثال خزانوں سے مالا مال ہو جاؤ گے)۔

۱۲۔ جس طرح جسمانی ڈاکٹر پرہیز، پھر علاج پر زور دیتے ہوئے اکثر کہا کرتے ہیں کہ :”دیکھو کسی بھی چھوٹی سی بیماری کو نظر انداز کرکے نہ بیٹھنا، بلکہ فوراً ہی اس کے علاج کے لئے رجوع کرنا، کیونکہ بسا اوقات تھوڑی سی طبیعت کی خرابی ایک بڑی بیماری میں تبدیل ہوجاتی ہے۔” اسی طرح قرآنِ مجید نے بزبانِ رمزو اشارہ کہہ دیا کہ : ظاہری مرض کے برعکس باطنی بیماری جلد آسکتی ہے، اس لئے دائم الذّکر ہوجاؤ، اور طمانیّتِ قلبی پر ہر وقت نظر رکھو، کیونکہ یہی کسوٹی تمہاری باطنی صحت کے لئے مقرر ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم ذرا غافل ہوجاؤ، اور شیطان موقع پاکر اپنی پسند کے جراثیم تمہارے دل میں پھیلائے، پھر اس وقت مشکل ہوجائے گی کیونکہ یہ جراثیم بڑی جلدی سے کسی شدید روگ کو جنم دے سکتے ہیں، اس لئے بار بار دیکھتے رہا کرو کہ ذکرِ خدا سے دل کو ٹھیک ٹھیک سکون ملتا ہے یا نہیں؟ اگر یادِ الٰہی جیسی سب سے بڑی نعمت سے لذّت و شادمانی اور تسکین نہیں ملتی ہے، تو پھر سمجھ لو کہ یہ تمہاری علالت کی نشانی ہے۔ (ازکتابِ کتاب العلاج، روحانی علاج، ص ۴۶۰-۴۶۶)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۳۱ ؍ اکتوبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۴۵

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۱۷

 

قلبِ سلیم کے معنی؟: قلبِ سلیم سے ایسی عقل مراد ہے جو ہر طرح کی عقلی بیماریوں سے صاف پاک ہو، (۲۶: ۸۹؛  ۳۷: ۸۴) چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام بفضلِ خدا ایسی صحیح، سلامت، اور صحتمندعقل کے وسیلے سے اپنے ربّ کے قربِ خاص میں آئے تھے، اور یہ سارے لوگوں کے لئے عملی ہدایت کا بہترین نمونہ ہے، پس عقلی بیماری کو محسوس کر کے اس سے شفایاب ہونا ہر مومن کے لئے ازحد ضروری ہے۔ (ازکتاب، کتاب العلاج، ص ط،ی)۔

قساوتِ قلبی: یعنی ایسی سنگدلی یا قلب کی سختی کہ جس کی وجہ سے انسان پر ذکرو عبادت کا کوئی خوشگوار اثر نہیں پڑتا ہو اور علم و حکمت کی باتوں سے کوئی حلاوت و خوشی نہ ملے، تو یہ قساوتِ قلبی کی روحانی بیماری ہے، جو بہت بڑی خطرناک بیماری ہے، قرآنِ حکیم چھ مختلف مقامات پر ایسی سخت دلی کی پرزور مذمت کرتا ہے، وہ آیاتِ شریفہ یہ ہیں (۰۲: ۷۴؛  ۰۵: ۱۳؛  ۰۶: ۴۳؛  ۲۲: ۵۳؛  ۳۹: ۲۲؛  ۵۷: ۱۶) جو حضرات طبیبِ آسمانی اور طبِ قرآنی سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، وہ سب سے پہلے اپنے اندر نرم دلی کی صفت پیدا کریں۔

حضرتِ ابراہیمؑ کی نرم دلی: انبیاء و اولیاء علیھم السّلام سب کے سب اخلاقِ عالیہ کے مالک ہوتے ہیں، تاہم حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی

 

۲۴۶

 

مثالی نرم دلی کا ذکر قرآنِ مجید میں اس طرح سے ہے: إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ منِيبٌ (۱۱: ۷۵) بیشک ابراہیم بردبار نرم دل (ہر بات میں خدا کی طرف) رجوع کرنے والے تھے، اواہٌ = نرم دل، بہت آہ کرنے والا، لغات القرآن میں اس لفظ کے سولہ معنی درج ہیں، آنجنابؑ کیسی آہیں بھرتے ہونگے؟ فطری یا مصنوعی برائے مشقِ ریاضت؟ لیکن خدائے دانا و بینا صرف اصل چیز کی تعریف فرماتا ہے، کوئی شریف معصوم شیرخوار بچہ کب آہیں بھرتا ہے؟ رونے کے ساتھ ساتھ؟ یااس کے بعد؟ یا گریہ کے بغیر؟ (از کتاب، کتاب العلاج، ص ک،ل)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  یکم نومبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۴۷

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۱۸

 

قلب۔دل: قرآنِ عظیم میں قلب کا مضمون بہت زیادہ توجہ طلب ہے، کیوں نہ ہو، جبکہ بموجبِ حدیثِ شریف ہر چیز کا قلب/دل ہوتا ہے اور قرآن کا قلب سورۂ یٰسٓ ہے (لِکُلِّ شی ءٍ قلباً و قلب القرآن یٰسٓ ) چنانچہ انسانی قلب سے عقل مراد ہے، کیونکہ جاننے (۲۲: ۴۶) یا نہ جاننے (۰۷: ۱۷۹) کا تعلق قلب سے ہے، اور یہاں ایک بڑا رازِ سربستہ یہ ہے کہ تاویلاً امامِ زمانؑ مومن کا قلبِ سلیم ہے (۲۶: ۸۹)۔ (ازکتابِ لب ِلباب، ص ۴۶)

امام ہی مومن کا قلب ہے: ربّ العزّت کا ارشاد ہے:وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ (۸: ۲۴) اور جان رکھو کہ خدا آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے، یعنی امام جو آدمی اور آدمیّت کا دل اور مرکز ہے، اس کو خداوندِ تعالیٰ اسرارِ معرفت کے حجاب میں رکھتا ہے، تاکہ امام شناسی سب سے بڑا امتحان، اور اس کا صلہ سب سے عظیم انعام ہو۔ (از کتابِ علمی بہار، ص ۲۵)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  یکم نومبر  ۲۰۰۱ء

 

۲۴۸

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۱۹

 

ذکرِ قلبی: اگر یہ صحیح معنوں میں ہے، تو حواسِ باطن کے جاگ اٹھنے کے لئے زیادہ وقت نہیں لگتا، چونکہ قلب عالمِ شخصی کا مرکز ہے، اس لئے قلبی ذکر کی بہت بڑی اہمیت ہے، چنانچہ اگر دل کی معجزاتی زبان کھل گئی ہے، اور خدا کا بزرگ نام قلب میں اتر گیا ہے، تو پھر مبارک ہو کہ یہیں پر ذکرِ خفی اور ذکرِ قلبی کے عظیم معجزات ظہور پذیر ہونے والے ہیں۔ (ازکتاب العلاج، علمی علاج، ص ۳۰۵)۔

قلبِ مومن عرشِ رحمان: حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے: لاَ یَسَعُنِیْ ارضی ولا سمائی وَیَسَعُنِیْ قلبُ عبدِیِّ المؤمِنِ التّقی (میری زمین مجھ کو نہیں سما سکتی نہ میرا آسمان مجھ کو سما سکتا ہے لیکن میرے پرہیزگار مومن بندے کا قلب مجھے سما لیتا ہے) ایسے مومنین فعلاً کون ہوسکتے ہیں؟ انبیاء ، اولیاء (صدیقین، ۰۴: ۶۹) اور پھر ہر عالی ہمت مومن کے لئے بھی یہ بلند ترین درجہ ممکن ہے، چنانچہ جاننا چاہئے کہ عالمِ شخصی میں دل عرشِ الٰہی ہے، جس میں تجلّیات یعنی دیدارِ حق اور معرفت یقینی ہے، اور راہِ روحانیّت میں معجزاتِ وحی و الہام کا مشاہدہ لازمی ہے، کیونکہ کسی مومنِ سالک کو آگے بڑھ جانے اور منزلِ مقصود میں جا پہنچنے کے لئے صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ طریقِ انبیاء علیھم السّلام ہے، جو صراطِ مستقیم کے نام سے معروف ہے (۰۴: ۶۹) جس کے ہر مرحلۂ روحانیّت پر

 

۲۴۹

 

اسرارِ نبوّت پائے جاتے ہیں، اور ان بھیدوں یعنی تجدّداتِ وحی کا مقصد یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو معرفت حاصل ہو، تاکہ ایسے مومنین روحانیّت میں بھی اور جنت میں بھی انبیاء، اولیاء، شہداء، اور صالحین کے ساتھ ہوسکیں (۰۴: ۶۹)۔ (از کتاب العلاج، علمی علاج، ص ۴۱۸)۔

اولیائی وحی، یا وحیِ دل: حضرتِ موسٰیؑ پر پیغمبرانہ وحی نازل ہوتی تھی، اور بالکل یہی وحی حضرتِ ہارونؑ پر بھی نازل ہوجاتی، لیکن ذاتی اعتبار سے نہیں، بلکہ حضرتِ موسٰیؑ کی نبوّت و رسالت کی گواہی دینے اور تصد یق کرنے کی خاطر (۲۸: ۳۴) کیونکہ صاحبِّ کتاب و شریعت صرف حضرتِ موسیٰ  علیہ السّلام ہی تھے، اور حضرتِ ہارون علیہ السّلام کے سامنے ہر درجہ کی وحی کا تجدّد امثال ہوا کرتا تھا، تاکہ آپؑ بھرپور مشاہدہ اور کامل معرفت کی روشنی میں حضرتِ موسٰیؑ کی تصدیق کریں (یصَدِّ قُنِیْٓ، ۲۸: ۳۴) چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرتِ ہارونؑ کی وحی اولیائی درجے کی تھی، اور حضرتِ مریم علیھا السّلام پر بھی وحیِ ولایت کا نزول ہوا تھا، صوفیائے کرام اسی وحیِ حق کو پوشیدہ رکھنے کی غرض سے وحیِ دل کہتے ہیں۔

(ملاحظہ ہو: مثنوی، دفترِ چہارم، زادنِ شیخ ابوالحسن)۔

(از کتاب العلاج، علمی علاج، ص ۴۲۲)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ ۲؍ نومبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۵۰

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۲۰

 

قرآن اور قلبِ انسان: ۱۔ مطالعۂ قرآنِ حکیم سے ہر دانشمند مسلم پر یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ انسانی وجود میں قلب (دل) کو سب سے بڑی اہمیّت حاصل ہے، کیونکہ قلب ہی ہے جو عالمِ شخصی میں خیرو شر دونوں کی نمائندگی کرتا ہے، اور حقیقی صحت و بیماری اسی سے متعلق ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبرِ آخر صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اہلِ اسلام کے دلوں کو بیماریوں سے محفوظ و سلامت رکھنے کیلئے، اور شیطانی وسوسوں سے سینہ ہائے مومنین کو بچانے کے واسطے ہر نیک قول و فعل کی بنیاد خلوصِ نیّت پر قائم کی ہے، ایسی پاکیزہ نیّت سے وہ دلی ارادہ مراد ہے، جس میں صرف اور صرف خداوندِ عالم کی خوشنودی مطلوب و مقصود ہوتی ہو، کیونکہ ہر ایسا قلب جو نیک نیتی کی آب و تاب سے چمکتا ہے، وہ منزل گاہِ توفیقِ الٰہی قرار پاتا ہے۔

۲۔ جب اسلام میں ہر عبادت اور ہر نیکی سے پہلے اصلاحِ نیّت کا حکم ہے، تو ہمیں جاننا چاہئے کہ یہ حکم دراصل اصلاحِ قلب کے لئے ہے، کیونکہ اگر ہم دل کی زبان سے اچھی سے اچھی نیّت بھی کریں، لیکن دل خود بیمار ہو، تو ایسی نیّت سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوگا، جو ایک صحتمند دل سے حاصل ہوسکتا ہے، اس مثال سے قلب کی اہمیّت اور اس کی صحت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔

 

۲۵۱

 

۳۔ “قلب” کے معنی الٹنا پلٹنا ہیں، علمِ تشریح الاعضاء (ANATOMY)میں قلب صنوبری شکل کے اس گوشت کے لوتھڑے کو کہتے ہیں جو انسان کے سینہ کے بائیں پہلو میں ہے، چونکہ یہ دورانِ خون کا آلہ ہے اور ہر وقت حرکت میں رہتا ہے اس لئے “قلب” کے نام سے موسوم ہوا، علم النفس  (PSYCHOLOGY)  کی زبان میں اور ادب کے استعمال میں قلب اس صفتِ نفسانی اور لطیفۂ روحانی کو کہتے ہیں جو حواس کے جمع کئے ہوئے معلومات و مدرکات کو ترتیب دے کر نتائج و احکام کا استخراج کرتی ہے، اور مناسب و نامناسب اور خوشگوارو ناخوشگوار امور کے مخفی احساسات کو قبول کرتی ہے، دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ قلب کا اطلاق “عقل” کے معنی میں بھی ہوتا ہے اور “وجدانِ روحانی” کے معنی میں بھی، جسے آج کل کی زبان میں “ضمیر” کے نام سے صحیح طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ (قاموس القرآن)۔

۴۔ قلب کی مذکورہ تشریح بالکل درست ہے، تاہم مزید معلومات کی خاطر میں یہ عرض کروں گا کہ نفسِ حیوانی جب تک حیوان میں رہتا ہے تو وہ حیوان ہی ہے، اور اس کی کوئی ترقی ممکن نہیں، لیکن یہی نفس جہاں کسی انسان میں ہوتا ہے، تو وہ ترقی پذیر ہوتا ہے، جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ انسانی وجود میں علی الترتیب تین روحیں ہیں: روحِ نباتی، روحِ حیوانی، اور روحِ انسانی، اور ان پر عقلِ جزوی کی حکومت قائم ہے، ان تینوں ارواح کے مراکز یہ ہیں: جگر، دل، اور دماغ، اور انسانی روح کی کرسی پر عقل جلوہ گر ہے، چونکہ عقل اور نفسِ ناطقہ (روحِ انسانی) نفسِ حیوانی کو سکھانے اور ترقی دینے کے لئے مقرر ہیں، لہٰذا ان کی کارگاہ وہاں ہے، جہاں نفسِ حیوانی کا مرکز ہے، یعنی قلب، پس قرآنِ حکیم نے کارخانۂ عقل و جان یا روحانی اور عقلی انقلاب کے مرکز کو “قلب” کے نام سے یاد کیا، اور تمام تر

 

۲۵۲

 

ہدایتیں اور نصیحتیں اسی سے متعلق کی گئیں۔

۵۔ نباتات کے اندر نظامِ قدرت کا کونسا کارخانہ ہے؟ اور اس میں کیا چیز بنتی ہے؟ ان میں ایک ایسا عجیب کارخانہ ہے کہ اس میں مٹی جیسی بیجان چیزیں داخل ہو کر روحِ نباتی میں زندہ ہو جاتی ہیں، حیوانات کے باطن میں قدرتِ خدا کا جو کارخانہ قائم ہے، اس کی مصنوعات کیا ہیں؟ وہاں اللہ تعالیٰ کی یہ آیت (نشانی یا معجزہ) ہے کہ نباتات کو درجۂ حیوان میں بلند کیا جاتا ہے، تخلیق کے اس عروج و ارتقاء کے سلسلے میں انسان جو خدائے بزرگ و برتر کا سب سے آخری اور باکمال کارخانہ ہے، اس کی صنعتوں کا دائرہ کس حد تک وسیع ہے؟ اور اس میں کیا کیا چیزیں بنتی ہیں؟ قادرِ مطلق کا یہ زندہ اور بولنے والا کارخانہ، یعنی انسان باعتبارِ صنعت انتہائی وسیع و عظیم ہے، جس کو اگر کماحقہ ترقی دی جائے، اور پھر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے، تو معلوم ہوگا کہ اس میں نہ صرف ارواحِ حیوانی ارواحِ انسانی میں فنا ہو جاتی ہیں، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہاں خدا کی خداوندی کی ہر ہر چیز بنتی ہے، کیونکہ انسان میں تمام دوسرے کارخانے اور خزانے بھی جمع ہیں، جبکہ یہ ایک مستقل عالم ہے، اور یہ ساری تعریف کارخانۂ قلب کی ہے۔

۶۔ مذکورۂ بالا بیان میں آپ نے غور سے دیکھا ہوگا، کہ قلبِ انسانی قانونِ قدرت کا سب سے بڑا، زندہ، بااختیار کارخانہ ہے، جو برائے امتحان بڑا پیچیدہ بنایا گیا ہے، جس میں بہت سی باریکیاں اور نزاکتیں ہیں، لہٰذا اس میں بار بار کوئی خرابی یعنی بیماری پیدا ہونے کا امکان موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے “قلبِ انسانی” کے موضوع کو اتنی بڑی اہمیت دی، اور اس کو اپنی بھرپور توجہ کا مرکز قرار دیا، کیوں نہ ہو، جبکہ خیرو شر کی تمام طاقتیں اسی کارخانۂ قلب کے ساتھ لگی ہوئی ہیں، جس میں عقل، روحِ ناطقہ، اور روحِ حیوانی کام کر رہی ہیں، پس

 

۲۵۳

 

قلب سے یہ تینوں چیزیں مراد ہیں۔

۷۔ اگر آسمانی دواؤں کی بدولت روحِ انسانی میں روحِ حیوانی تحلیل  (DISSOLVE) ہوجاتی ہے، اور روحِ انسانی عقل میں فنا ہوسکتی ہے، تو یہ عقل کی صحت مندی اور کامیابی کی دلیل ہے، اس حال میں ایسی عقل کو قلبِ سلیم (صحت مند دل) کہا جائے گا(۲۶: ۸۹) اور وہ نہ صرف آخرت ہی میں بلکہ دنیا میں بھی حضرتِ ابراہیمؑ (۳۷: ۸۴؛  ۶۰: ۰۴) اور رحمتِ عالمؐ (۲۱: ۱۰۷؛  ۳۳: ۲۱) کے پیچھے پیچھےچل کر خداوندِ مہربان کے قربِ خاص حاصل کرسکے گی۔

۸۔ اللہ تعالیٰ کے بابرکت اسم اور اس کے ذکرِ کثیر میں عقل و جان کی گوناگون برکتیں ہیں، جن کے حصول سے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے (۵۵: ۷۸؛  ۳۳: ۴۱؛  ۱۳: ۲۸) اطمینانِ قلبی کا مفہوم کتنا عالی اور وسیع ہے، اس کے لئے قرآنِ پاک میں دیکھنا ہوگا، خاص کر حضرتِ ابراہیمؑ کے قصے (۰۲: ۲۶۰) میں، اور نفسِ مطمئنہ کے بیان (۸۹: ۲۷) میں، چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے قلبی اطمینان کی یہ شان ہے کہ آپؑ نے درحقیقت معجزاتِ انبعاث کا مشاہدہ کیا تھا، اب اگر ہم نفسِ مطمئنہ سے حضراتِ انبیاء و اولیاء کی مثال لیں، تو پھر اس کا تصوّر بھی اسی بلندی پر جائے گا، جس بلندی پر حضرتِ ابراہیمؑ کے اطمینان کا درجہ ہے، ویسے بھی آپ متعلقہ آیۂ کریمہ (۸۹: ۲۷) میں غور و فکر کرسکتے ہیں کہ یقیناً یہاں اطمینان کے معنی بہشت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں، اس سے یہ حقیقت آفتابِ منیر کی طرح روشن ہوجاتی ہے، کہ اسمِ خدا کے ذکرِ کثیر سے دلوں کو جو ربّانی اطمینان حاصل ہوجاتا ہے، (۱۳: ۲۸) وہ غیرمحدود ہے، اور اس میں عقل و روح کے لئے بہت سی غذائیں بھی ہیں، اور دوائیں بھی۔

۹۔ زمانۂ قدیم میں نظریۂ حکیم بطلیموس کے مطابق زمین کو کائنات کا

 

۲۵۴

 

مرکز قرار دیا گیا تھا، لیکن بعد کی تحقیق سے پتا چلا کہ سورج ہی وسط میں ہے، اور وہی مرکز ہے، چنانچہ یہ کہنا درست اور حقیقت ہے کہ نظامِ شمسی  (SOLAR SYSTEM)یعنی عالمِ کبیر کا سنٹر اور دل خورشیدِ انور ہے، اور عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) کا مرکز (CENTER) قلب ہے، بیشک سورج ساکن ہے، لیکن مادّی نور کی کائناتی بھٹی ہونے کی حیثیت سے سورج مسلسل بھڑکتا رہتا ہے، تاکہ دنیا زندہ اور قائم رہے، اسی طرح عالمِ شخصی کے سورج کی مرتبت میں دل ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے، اور ان نازک نازک دھڑکنوں سے عالمِ صغیر میں حیات و بقاء کی لہریں دوڑتی رہتی ہیں، اس سے یہ ناقابلِ تردید حقیقت نکھر نکھر کر سامنے آگئی کہ جیسی اہمیت دنیائے ظاہر میں سورج کی ہے، ایسی اہمیت وجودِ انسانی میں دل کی ہے۔

۱۰۔ قرآنِ حکیم کا کوئی مضمون ایسا نہیں جو براہِ راست یا بواسطہ قلب کا موضوع نہ ہو، کیونکہ قرآنِ کریم تمام انسانوں کے لئے ایک ایسا کامل و مکمل ہدایت نامۂ سماوی ہے، جس کی تعلیمات و ہدایات کا رخ انسان کے حواسِ ظاہر و باطن کے مرکز کی طرف ہے، اور وہ دل ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ اصل انسان (خواہ نیک ہو یا بد) دل ہے، جس سے قرآنِ عزیز مخاطب ہے، اور اس کے خطاب کو سمجھنے کی ذمہ داری دل ہی پر عائد ہوجاتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے (ترجمہ): تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں (۴۷: ۲۴) یعنی قرآن فہمی دل و دماغ کا کام ہے، کوئی شخص اس میں غوروفکر نہیں کرتا ہے، یا کسی کا دل مقفل ہے، تو یہ اور بات ہے، بہر کیف یہاں ہماری بحث دل کی اہمیّت، نزاکت، اور بیماریوں سے ہے، لہٰذا اس مضمون کے آخر میں قلبی بیماریوں کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں، جو قرآنی حوالہ جات کے ساتھ درجِ ذیل ہیں:

 

۲۵۵

 

سورت آیت قلبی بیماری نمبر شمار
۲ (۰۲: ۰۷) ۷ دل پر مہر لگ جانا ۱
۲(۰۲: ۲۰۴) ۲۰۴ خصومت، جھگڑا ۲
۲ (۰۲: ۲۸۳) ۲۸۳ گواہی کو چھپانا ۳
۶ (۰۶: ۱۲۵) ۱۲۵ تنگیٔ دل، دل کی تنگی ۴
۱۸ (۱۸: ۲۸) ۲۸ یادِ خدا سے غفلت ۵
۳ (۰۳: ۱۵۱) ۱۵۱ مرعوب ہو جانا، بزدلی ۶
۷ (۰۷: ۱۷۹) ۱۷۹ ناسمجھی، بھولاپن ۷
۹ (۰۹: ۱۱۷) ۱۱۷ کج دلی، دل کی کجی، زیغ ۸
۲۲ (۲۲: ۲۴) ۴۶ بے عقلی، بے وقوفی ۹
۲۲ (۲۲: ۲۴) ۴۶ کوردلی، دل کا اندھاپن ۱۰
۳۹ (۳۹: ۴۵) ۴۵ منقبض، دل گرفتگی ۱۱
۴۷ (۴۷: ۲۴) ۲۴ دل پر قفل لگ جانا ۱۲
۲ (۰۲: ۷۴) ۷۴ سنگدلی، سخت دلی ۱۳
۴۸(۴۸: ۱۲) ۱۲ بدظنی، بدگمانی ۱۴
۴ (۰۴: ۱۵۵) ۱۵۵ دل ڈھکا رہنا، ڈھکا ہوا دل ۱۵
۴۳ (۴۳: ۳۶) ۳۶ بے آرامی، بے قراری ۱۶
۴۱ (۴۱: ۰۵) ۵ دل پر غلاف ہونا ۱۷
۱۸ (۱۸: ۲۸) ۲۸ خواہشِ نفسانی کی پیروی ۱۸
۱۰ (۱۰: ۷۴) ۷۴ حد سے نکل جانا ۱۹

 

۲۵۶

 

۲ (۰۲: ۹۳) ۹۳ باطل کی محبت ۲۰
۵۹ (۵۹: ۱۰) ۱۰ دشمنی، کینہ ۲۱
۵ (۰۵: ۱۳) ۱۳ لعنت، دوری از رحمت ۲۲
۷ (۰۷: ۱۰۰) ۱۰۰ دل کا بہراپن ۲۳
۹ (۰۹: ۴۵) ۴۵ شک، تردد، شش و پنج ۲۴
۹ (۰۹: ۷۷) ۷۷ نفاق، منافقت ۲۵
۹ (۰۹: ۱۲۵) ۱۲۵ نجاستِ قلبی ۲۶
۹ (۰۹: ۱۲۷) ۱۲۷ حق سے دل کا پھر جانا ۲۷
۱۰ (۱۰: ۸۸) ۸۸ دل کی شدت ۲۸
۱۶ (۱۶: ۲۲) ۲۲ انکار ۲۹
۱۶ (۱۶: ۲۲) ۲۲ تکبر ۳۰
۲۱ (۲۱: ۰۳) ۳ دل کا لہو و لعب ۳۱
۲۳ (۲۳: ۶۳) ۶۳ غمرت  (سختی) غفلت

 

۳۲
۴۷ (۴۷: ۲۹) ۲۹ دلی عداوت ۳۳
۴۸ (۴۸: ۲۶) ۲۶ حمیتِ جاہلیہ، کافرانہ عار ۳۴
۵۹ (۵۹: ۱۴) ۱۴ قلبی پراگندگی، انتشار ۳۵
۸۳ (۸۳: ۱۴) ۱۴ دل پر  زنگ لگنا، دل کا چرکین ہو جانا ۳۶
۱۱۴(۱۱۴: ۰۵) ۵ وسوسہ، برے خیالات ۳۷
۲۲ (۲۲: ۵۳) ۵۳ فتنۂ شیطان، یا آزمائش ۳۸

 

۲۵۷

 

۶ (۰۶: ۱۱۰) ۱۱۰ سرکشی، نافرمانی ۳۹
۶ (۰۶: ۱۱۰) ۱۱۰ آیات سے لطف نہ اٹھا سکنا ۴۰

 

حاشیہ: مذکورۂ بالا اور دوسری تمام باطنی بیماریاں جو شدید اور لاعلاج ہیں، وہ دراصل دائرۂ اسلام سے باہر موجود ہیں، اور قطعی ثبوت کے طور پر اکثر حوالے بھی انہی سے متعلق دیئے گئے ہیں، لیکن اگر ہم مسلمانوں میں خفیف اور قابلِ علاج بیماریاں بھی نہ ہوتیں، تو نہ فرمایا جاتا کہ قرآن ذریعۂ علاج ہے، اس مفہوم کے لئے دیکھئے: ۰۹: ۱۴؛  ۱۰: ۵۷؛  ۱۷: ۸۲؛  ۴۱: ۴۴۔ (از کتاب، کتاب العلاج، قرآنی علاج، ص ۴۶-۵۳)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

سنیچر۳؍ نومبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۵۸

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۲۱

 

مومن کا دل اور امامؑ: ارشادِ نبوّی کے مطابق بندۂ مومن کا دل خدا تعالیٰ کا عرش (یعنی تخت) ہے، لیکن یہاں سوچنے کی خاص بات یہ ہے کہ مومنین نورِ ایمان کی کمی بیشی کے لحاظ سے مختلف مراتب پر ہیں، اور اس سلسلے میں یہ کہنا بالکل حقیقت ہے کہ پیغمبراور امام (صلوات اللہ علیھما) نورِ ایمان کے درجۂ کمال پر ٹھہرے ہوئے ہیں، لہٰذا ان دونوں انتہائی بزرگ ہستیوں کا قلبِ مبارک صحیح معنوں میں اور جیسا کہ چاہئے خدا وندِ عالم کا عرش ہے، اور واقعاً اللہ پاک کا روحانی، نورانی، اور عرفانی عرش یہی ہے، پس اس سے ظاہر ہوا کہ امامِ زمانؑ کے دیدارِ مقدّس میں بہت سی برکتیں پوشیدہ ہیں۔ (ازکتاب، حقیقی دیدار، ص ۲۱-۲۲)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر ۵؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

۲۵۹

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۲۲

 

روحِ حیوانی: سوال ۲: جانورجو حیوانِ صامت ہے، اس میں کتنی روحیں ہوتی ہیں؟ ان کے مرکز کہاں کہاں ہیں، ہر ایک کا نام اور کام بتائیے۔

جواب: جانوروں میں دو روحیں ہوتی ہیں، ایک کا مرکز جگر ہے، یہ روحِ نباتی ہے، جس کی بدولت جسم نشوونما پاتا ہے، اور دوسری کا سنٹر دل ہے، جس میں روحِ حیوانی حس و حرکت سے متعلق سارا کام کرتی ہے، روحِ حیوانی کا دوسرا نام روحِ حسی ہے۔

روحِ انسانی: سوال ۳: انسان کی حیات و بقاء کتنی روحوں پر قائم ہے؟ یہ روحیں کون کون سی ہیں، اور جسم کے کس کس عضو میں رہ کر کام کرتی ہیں؟

جواب: انسانی زندگی کا قیام تین روحوں پر ہے، وہ علی الترتیب روحِ نباتی، روحِ حیوانی اور روحِ انسانی ہیں، روحِ نباتی کا مسکن جگر، روحِ حیوانی کا مقام دل ، اور روحِ ناطقہ کا مرکز دماغ کا اگلا حصّہ ہے، پہلی روح سے جسم پروان چڑھتا ہے، دوسری روح حس و حرکت کا سرچشمہ ہے اور تیسری روح نطق و تمیز کا خزانہ۔ (ازکتاب، روح کیا ہے؟ ص ۲۱-۲۲)۔

جنگِ روحانی: سوال ۸۷: یہ ایک قرآنی آیت (۰۶: ۱۱۲) کا مفہوم ہے کہ شیاطین نہ صرف جنات میں سے ہوتے ہیں، بلکہ یہ انسانوں میں سے بھی ہوا

 

۲۶۰

 

کرتے ہیں، اور یہ ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالتے ہیں، تاکہ ایسی باتوں سے لوگوں کو فریب دے کر راہِ راست سے گمراہ کر سکیں، اور اسی مطلب کا یہ ایک خلاصہ ہے کہ خناس جو جنات میں بھی ہے اور انسانوں میں بھی، وہ لوگوں کے دلوں میں براہِ راست وسوسہ ڈال سکتا ہے (۱۱۴: ۰۴ تا ۰۶) لیکن سوال ہے کہ آیا ارواحِ مومنین جو سمتِ مقابل میں ہیں وہ اس جنگِ روحانی میں کچھ بھی نہیں کر سکتی ہیں؟ تو پھر کیا ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ بدی کے ہاتھ تو روحانی میدان میں کشادہ اور آزاد ہیں، مگر نیکی کے ہاتھ سختی سے باندھے ہوئے ہیں؟

جواب: جی ہاں، جسمانی اور روحانی شیاطین یہ سب کچھ کرسکتے ہیں، لیکن اس کے باؤجود اہلِ ایمان کی روحانی صلاحیتوں کے بارے میں ذرا بھی مایوسی نہیں، کیونکہ مومنین حزب اللہ ہیں یعنی لشکرِ خدا، اور خدا ہی کا لشکر غالب رہتا ہے (۰۵: ۵۶)۔

قرآنِ مقدّس کی یہ مثال روحانیّت کی حکمتوں سے بھرپور ہے کہ مومنین لشکرِ خدا ہیں، اور اس میں سب سے اوّلین اشارہ تو یہ ہے کہ اس لشکر کی روحانی قوّتیں بفضلِ خدا طاغوتی قوّتوں سے بڑھ کر ہیں، یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ باطن اور روحانیّت میں ہمیشہ غالب رہتا ہے، آپ حزبِ شیطان کےبارے میں بھی غور کرسکتے ہیں (۵۸: ۱۹)۔ (ازکتاب، روح کیا ہے؟ ص ۱۰۸-۱۰۹)۔

قرآن کی روحانیّت: سوال۔ ۹۴: اگر قرآنِ پاک کی ایک عظیم روح ہے، جو علم و آگہی کی ایک تابناک دنیا لیے ہوئے ہے، تو اس کے فیوض و برکات حاصل کرنے کے لئے ہمیں کیا کیا کرنا چاہئے؟ آپ نے اس سلسلۂ سوال و جواب کے ۷ اور ۱۱ میں روحِ قرآن کے بارے میں جو ذکر کیا ہے، اسی سے یہ سوال

 

۲۶۱

 

متعلق ہے۔

جواب: آپ اس کتاب کے سوال ۱۵ میں دیکھیں کہ طفلِ شیر خوار میں روحِ ناطقہ کہاں سے آتی ہے، اور کس طرح؟ یہ حقیقت روشن ہے کہ بچےمیں بولنے والی روح والدین اور افرادِ خانہ سے آتی ہے، بالکل اسی طرح قرآنِ پاک کی روحِ ناطقہ آپ کے روحانی باپ کے گھر سے مل سکتی ہے، جس کےمعنی یہ ہیں کہ آپ زید و بکر سے روحانی علم حاصل کرنے کا مدعی نہ بنیں، بلکہ خاندانِ رسولؐ یعنی امامِ زمانؑ کے پاک روحانی گھر کا دودھ پیتا بچہ بنیں، تاکہ آپ کے روحانی والدین کی پُرشفقت گفتگو سے آپ میں بتدریج قرآنی روح آجائے، کیونکہ قرآن کی روح پیغمبرؐ کے بعد صرف امامِ زمانؑ ہی سے مل سکتی ہے۔

دوسری مثال یہ ہے کہ آپ اپنے آئینۂ دل سے زنگِ غفلت اور غبارِ جہالت کو دور کرکے اسے ایسا پاک و پاکیزہ بنا لیں، کہ اس میں نورِ قرآن کی روشنی چمکنے لگے، اور دل کی یہ پاکیزگی بھی صرف امامِ عالی مقامؑ ہی کے مبارک ہاتھ سے ہوسکتی ہے، جس طرح یہ ایک حقیقت  ہے کہ زمانۂ نبوّت میں صرف رسولِ خداؐ ہی مومنین کو پاک و پاکیزہ کرتے تھے، جس کا ذکر قرآن کی کئی آیتوں میں موجود ہے۔ (از کتابِ روح کیا ہے؟ ص ۱۱۵-۱۱۶)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۵؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

۲۶۲

 

نوکِ قلم سے کیا ہوا دل کا ایک عظیم ترین اور مشکل ترین آپریشن

قسط:۲۳

 

دیباچۂ طبعِ سوم: اے خلاقِ کون و مکان! دارندۂ زمین و آسمان! دانندۂ اسرارِ نہان! تیری ذاتِ پاک سے ہماری کوئی حالت پوشیدہ نہیں، تیرے عظیم احسانات و انعامات کی عاجزانہ شکرگزاری ہم سے کب اور کہاں ادا ہوگی، ہم آئینۂ دل کو تیرے ذکرِ جمیل کی تجلّیوں کے سامنے سے ہٹا کر اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں، اے آسمانی طبیب! اے عرشی ڈاکٹر! آجا ، آجا ہم ظاہراً و باطناً مریض ہیں، ازراہِ عنایت ہمارا علاج کر، اگر ہم سچ مچ مریض نہ ہوتے تو ذکر و عبادت کے دوران وسوسوں کے اژدھے کا لقمہ نہ بن جاتے ، یا اللہ ! اپنے نورِ منزل کے پاک عشق سے ہماری کل بیماریوں کا علاج کر، اے خداوندِ کریم! جب تو نے اپنے اس نورِ اقدس کو زمین پر نازل کر دینے سے دریغ نہیں فرمایا تو اب بیحد ضرورت اس بات کی ہے کہ ازراہِ بندہ پروری اس نورِ ہدایت سے ہمارے تنگ و تاریک دلوں کو وسیع و منور کر دے! (ازکتابِ دعا مغزِعبادت، ص الف،ب)۔

تسمیہ کے حقائق کا انکشاف: پس اللہ تعالیٰ نے جو قادرِ مطلق اور حکیم برحق ہے، اپنے اسماء ہی کو جن میں عقل کے لئے نورانی مدد اور نفس کیلئے روحانی مسرّت موجود ہے، انسان کے سامنے رکھ دیا، تاکہ انسان کو ان کے ذکر

 

۲۶۳

 

سے سکونِ قلب حاصل ہوسکے، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:”اللَّهِ أَلاَ بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (۱۳: ۲۸) آگاہ ہو! اللہ تعالیٰ کی یاد ہی سے (جو اس کے حقیقی ناموں کے ذریعہ کی جاسکتی ہے) دلوں کو تسلی ملتی ہے۔”دل نفس کا دوسرا نام ہے، پس یادِ الٰہی سے انسانی نفس کو روحانی مسرّت ملتی رہتی ہے، اور وہ مزید خوشیوں اور مسرتوں کی امید پر عقل کی تابعداری کرنے لگتا ہے۔ (حاشیہ: ذکرِ الٰہی سے عقل کی مدد اور نفس کی خاموشی) (ازکتابِ دعا مغزِ عبادت، ص ۳۱-۳۲)۔

بسم اللہ میں حرف “ب” کے بعد اسم آتا ہے، جس کی مراد اسمِ اعظم ہے، اللہ کے معنی معبودِ برحق کے ہیں، الرحمٰن خدائے تعالیٰ کا وہ اسمِ صفت ہے، جس میں وہ سارے انسانوں کے لئے جسمانی رحمتیں مہیا کر دیتا ہے، اور “الرحیم” خدائے تعالیٰ کا ایک ایسا نام ہے جس میں وہ صرف مومنوں کیلئے روحانی رحمتیں عطا کر دیتا ہے، اور یہ دونوں قسم کی رحمتیں دل کی نرمی سے شروع ہوا کرتی ہیں، کیونکہ رحمت (مہر) کے معنی رقتِ قلب یعنی دل کی نرمی کے ہیں، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بسم اللہ اس معنی میں پڑھا کرتے تھے:”بِسْمِ اللّٰہ الرَّحمٰن الرّحِیْم۔ معبودِ برحق کے اسمِ اعظم کے ذریعہ قرآن پڑھتا، اور سمجھتا ہوں جو رحمت والا ہے، جسمانی احتیاجات کے لئے، اور رحمت والا ہے روحانی ضروریات کے لئے۔” ( حاشیہ: بسم اللّٰہ کی مراد اسمِ اعظم ہے، دل کی نرمی تمام انسانی صفات کا سرچشمہ ہے)۔ (از کتابِ دعا مغزِ عبادت، ص ۳۸-۳۹)۔

اخلاص: سورۂ فاتحہ کی چوتھی آیت میں سب سے پہلے اخلاص کا

 

۲۶۴

 

بیان آتا ہے، یعنی وحدانیّت کے متعلق اپنے عقیدے کو ما سواء اللہ سے خالص اور پاک کردینے کا ذکر ہے، اور اخلاص کے معنی کسی چیز کو آمیزش اور ملاوٹ سے صاف اور خالص کردینے کے ہیں، چنانچہ ہر وہ چیز خالص کہلاتی ہے جس میں ملاوٹ اور کھوٹ تو ممکن ہو، مگر وہ واقعاً صاف اور پاک ثابت ہو جائے، جیسے خالص سونا، چاندی وغیرہ، مگر دینی اصطلاح میں اخلاص دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس میں انسان کی قلبی توجہ صرف خدا ہی کی طرف لگی رہے، اور اس کیفیت میں ذرہ بھر بھی دوسرے خیالات و افکار کی آمیزش نہ ہو، اس بارے میں خود قرآنِ حکیم کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے:فَإِذَا رَكِبوا فِي الْفُلْكِ دَعَوْا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ (۲۹: ۶۵) = پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خالص اعتقاد کر کے اللہ ہی کو پکارنے لگتے ہیں، پھر جب ان کو نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو وہ فوراً ہی شرک کرنے لگتے ہیں۔” اس آیۂ کریمہ کا مطلب صرف حکمت ہی سے واضح ہوسکتا ہے، کیونکہ خدا کے ماننے والوں میں سے اکثر لوگ جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں، تو ظاہراً خالص اعتقاد کرکے اللہ ہی کو پکارنے نہیں لگتے ہیں نہ وہ خشکی پر اترنے کے بعد فوراً خلافِ معمول بت پرستی کرنے لگتے ہیں، مگر یہ ضرور ہے کہ جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں، تو خوف و ہراس کے نتیجے میں فطری طور پر وہ دل ہی دل میں خدا کی طرف کچھ ایسے متوجہ ہوتے ہیں کہ ان کی اس قلبی توجہ کو دنیا کی کوئی چیز خدا سے اس طرف موڑ نہیں سکتی ، پھر جب یہ لوگ خشکی پر اترجاتے ہیں تو ان کے قلب کی وہ کیفیت، جس کا نام خدا کے نزدیک “خالص اعتقاد” تھا، فوراً ہی غائب ہوجاتی ہے، اور ان کے دل میں طرح طرح کے دنیاوی خیالات و افکار جاگزین ہونے لگتے ہیں، اور دل کی ایسی کیفیت

 

۲۶۵

 

بقولِ خدا شرک کہلاتی ہے، پس اخلاص دل کی کیفیت کا نام ہے، جس میں انسان کی قلبی توجہ صرف خدا ہی کی طرف لگی رہے، بالکل اسی طرح کسی خطرناک سمندر پر چلنے والے کشتی کے سوار خدا کی طرف متوجہ ہوتے رہتے ہیں۔

(حاشیہ: اخلاص کے معنی اور اس کا مقام، وہ شرک اور بت پرستی جس کا تعلق صرف فکر و خیال سے ہے)۔  (ازکتاب، دعا مغزِ عبادت، ص ۵۵-۵۷)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۷؍ نومبر  ۲۰۰۱ ء

 

۲۶۶

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۱

 

بحوالۂ ہزار حکمت (ح: ۶۹۴) حدیثِ قدسی ہے: مَاوَ سِعَنِیْ اَرْضی وَلَا سَمَا ئِی وَ وَسِعَنِیْ قَلْب عَبْدِیَ الْمُؤْ مِنِ۔ خداوندِ قدوس کا ارشاد ہے: نہ میری زمین مجھ کو سما سکی نہ میرا آسمان، ہاں، میرے مومن بندے کے دل نے مجھ کو سما لیا۔

عنوانِ بالا کے سارے مطالب اس حد یثِ قدسی میں مجموع ہیں، لیکن بڑا اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بندۂ مومن کے قلب میں ربِّ تعالیٰ کے سما جانے سے کیا مراد ہے؟ اس کا واحد جواب ہے: آئینۂ قلب میں دیدارِ پاک اور معرفت، اور یہ خصوصیّت ارض و سما کی کسی چیز میں نہیں ہے، سوائے بندۂ مومن کے قلب کے۔

یاد رہے کہ دیدارِ اقدس اور معرفت کے بہت سے درجات ہیں اور یہ تمام درجات عالمِ شخصی میں ہیں، اور یہی درجات خودشناسی کے بھی ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۸؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۶۷

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۲

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسولؐ کی پکار پر لبیک کہو جب کہ رسولؐ تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے(۰۸: ۲۴)۔

سورۂ انفال (۸: ۲۴) میں اہلِ ایمان کے لئے حکم ہے کہ وہ دعوتِ باطن اور اسمِ اعظم کو قبول کریں، جس میں انہیں حقیقی اور ابدی زندگی ہے، نیز انہیں یہ حکم بھی ہے کہ وہ علم الیقین اور معرفت کے ذریعے سے یہ جان لیں کہ خدا کس طرح آدمی اور اس کے دل (یعنی امامؑ) کے درمیان حائل ہوجاتا ہے، یہاں آدمی کے دل سے امامِ زمانؑ مراد ہے، اور اس حکم کا اطلاق حقیقی مومن پر ہوتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ اپنے حضور سے اسے ایک پُرنور دل عطا فرماتا ہے، اور وہ نورانی قلب جو کسی عاشق کو نصیب ہوتا ہے، امامِ زمانؑ ہے، جو آئینۂ اسرارِ معرفت ہے، جس میں دیدارِ الٰہی ہوتا ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۹؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۶۸

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۳

 

أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ (۰۸: ۲۴) = آدمی اور اس کے دل کے درمیان خدا حائل ہے۔ یہ سب سے بڑا راز ہے، اور یہ اس حدیثِ قدسی کے عین مطابق ہے، جس کا ارشاد ہے کہ خدا بندۂ مومن کے قلب میں ہے، لیکن یہ سوال باقی ہے کہ ایسے مومن کا قلب کونسا ہے؟ یقیناً یہ قلب نور اور امام ہی ہے نہ کہ قلبِ صنوبری جو گوشت کا ایک لوتھڑا ہے کہ وہ غیر مومن اور حیوان میں بھی ہوتا ہے، پس ایسا دل جس میں اللہ کی تجلی ہو امامِ زمان علیہ السّلام کا پاک نور ہی ہے اسی مقدّس نور کا ذکرِ جمیل تمام قرآن میں پھیلا ہوا ہے۔

اے عزیزان! دانائی اور حکمت یہ ہے کہ تم امامِ  آلِ محمدؐ کے حقیقی عاشقوں میں سے ہو جاؤ تاکہ رفتہ رفتہ تمہارے دل میں امامِ زمانؑ کا نور پیدا ہو جائے، آمین!

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

سنیچر  ۱۰؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۶۹

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۴

 

قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے: وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ لَكُمْ السَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَالأَفْئِدَةَ قَلِيلاً مَا تَشْكُرُونَ۔

ترجمہ: وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں سننے اور دیکھنے کی قوّتیں دیں اور سوچنے کو دل دئے، مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو (۲۳: ۷۸)۔

اس آیۂ شریفہ میں اللہ تعالیٰ کے اس احسانِ عظیم کا تذکرہ ہے جس میں وہ کریمِ کارساز اپنے فرمانبردار بندوں کو حواسِ باطن سے نوازتا ہے، یعنی ان کو باطنی کان، باطنی آنکھ، اور حقیقی دل عطا فرماتا ہے، یہ حواسِ باطن دراصل ناطق، اساس، اور امام کے انوار ہیں، جن میں سے امامِ زمانؑ کا نور حقیقی مومن کے باطن میں دل کا کام کرتا ہے، اور یہ ایسا نورانی دل ہے جو عرش کا مرتبہ رکھتا ہے، جبکہ یہ خدا کی تجلّی گاہ ہے، ہاں یقیناً امام خدا کا نور ہے، اس لئے اللہ اپنے نور کے تخت پر جلوہ فرما ہوتا ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار  ۱۱؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۷۰

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۵

 

قلبِ حیوانی = انسانی سینے میں ہے، قلبِ روحانی روح میں ہے، قلبِ نورانی (امامؑ) حدودِ دین میں ہے، اور قلبِ سلیم کا ظہور حظیرۂ قدس میں ہوتا ہے، تاہم آئینۂ اسرارِ معرفت نورانی قلب = امامِ زمانؑ ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر ہر چیز کو امامِ مبین میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے، اس کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ خدا کا آئینۂ معجزنما = آئینۂ غیب نما = آئینۂ اسرارِ معرفت ہے اور اس میں کوئی مبالغہ ہرگز نہیں، بلکہ میں ایمانداری سے مانتا ہوں کہ خدا کے بڑے عجیب و غریب معجزاتی آئینے کی تعریف و توصیف میں ہم سے سخت کمی اور کوتاہی ہوئی ہے، اللہ ہماری اس کوتاہی کے لئے معاف فرمائے!

قلبِ قرآن میں جو کلیۂ امامِ مبین ہے، اس کی حکمتیں بے شمار ہیں، منجملہ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے امامِ مبینؑ کو تمام باطنی  معجزات عطا کردیئے ہیں۔

الغرض کلّیۂ امامِ مبین آپ کے لئے کبھی ختم نہ ہونے والا خزانہ ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۱۲؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۷۱

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۶

 

سورۂ یونس (۱۰: ۸۷): وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّأَا لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَبَشِّرْ الْمُؤْمِنِينَ۔

ترجمہ: اور ہم نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی کو اشارہ کیا کہ “مصر میں چند مکان اپنی قوم کے لئے مہیا کرو اور اپنے ان مکانوں کو قبلہ ٹھہرا لو اور نماز قائم کرو اور اہلِ ایمان کو بشارت دے دو۔”

اس ارشاد کا تاویلی خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیھما السّلام کو یہ حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کے لئے مصر (عالمِ شخصی) میں بذریعۂ اسمِ اعظم چند گھر بنائیں اور ان اپنے گھروں کو روحانی ترقی سے قبلہ یعنی خدا کا گھر بنالو، اور یہ قبلہ = خدا کا گھر ایسے قلب میں ہوسکتا ہے، جو امامِ زمانؑ کے نور سے معمور ہوا ہو، اور اس میں ہر زمانے کے مومنین کے لئے خوشخبری ہے، جب آپ عالمِ شخصی کا سفر کریں گے تو ایسے بہت سے معجزات سامنے آئیں گے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۱۳؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۷۲

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۷

 

آپ نے اس سلسلۂ مضمون کی قسط: ۶ میں پڑھا کہ حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیھما السّلام نے خدا کے حکم سے اپنے مومنین کے عالمِ شخصی میں چند باطنی = روحانی = قلبی گھر بنا دیئے تھے، یہاں حدیثِ مماثلتِ ہارونی سے ایک عظیم سوال پیدا ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ موسٰیؑ اور ہارونؑ نے اپنے مومنین کے لئے جیسے روحانی گھر بنا دیئے تھے ایسے ہی عالمِ شخصی کے گھر آنحضرتؐ اور آپؐ کے اساس (علیؑ) نے بھی اپنے مومنین کے لئے بنا دیئے ہوں گے، اگر یہ بات حقیقت ہے تو ایسی آیۂ کریمہ قرآنِ حکیم میں کہاں ہے؟ ج: ایسی آیۂ شریفہ قرآنِ پاک کے ایک بڑے خاص مقام پر موجود ہے وہ اعلیٰ مقام آیۂ اَللّٰہُ نُورُ السَّمٰوٰت کا ہے جس کے آخر میں یہ پاک آیت ہے: فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ (۲۴: ۳۶) = اللہ کے نور کا یہ چراغ عالمِ شخصی کے ان روحانی گھروں میں روشن ہے، جن کو خدا کے اذن سے ناطق اور اساس (امامؑ) نے اسمِ اعظم سے قائم کیا ہے اور یہ گھر رفتہ رفتہ حظیرۂ قدس تک بلند ہونے والے ہیں، جہاں پہنچ کر یہ قبلہ یعنی بیت اللہ ہوجائیں گے، اور پھر انتہائی عظیم معجزات کا آغاز ہوتا ہے۔

الغرض جب تک امامِ زمانؑ کا نور مومن کا قلب نہ ہوجائے تو مومن کی کوئی بڑی روحانی ترقی غیر ممکن ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۱۴؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

۲۷۳

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۸

 

حقیقی مومن کا لامحدود فائدہ اس عظیم الشّان عمل میں ہے کہ وہ فنا فی الامام کی سب سے عظیم سعادت حاصل کرے، اگرچہ یہ کام بہت ہی مشکل ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں، سوال ہے کہ اس کا حکم یا اشارہ کہاں ہے؟ ج: دیکھئے سورۂ قصص (۲۸: ۸۸) كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلاَّ وَجْهَهُ۔ ترجمہ: ہرچیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے وجہ اللّٰہ (امامؑ) کے، پس ہر دانا مومن کے لئے کلامِ الٰہی کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ وہ روحانی ہلاکت سے بچنے کے لئے امامِ زمانؑ میں فنا ہوجائے، وہ ابدی سعادت اطاعت، عشق اور علم و معرفت سے حاصل کرسکے گا۔

جب عاشق اپنے امام میں فنا ہو جائے گا تو امام کا نور خود اس کا دل یعنی قلبِ سلیم ہوگا۔

اے عزیزان دینِ حق میں مایوسی ممنوع اور نافرمانی ہے، اس لئے آپ پُرامید ہو کر سعی کرتے رہیں، ان شاء اللہ خداوندِ قدوس کوئی وسیلہ بنائے گا۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۱۵؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۷۴

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۹

 

فنا فی الامام کی خصوصی ہدایت اور مدد بحکمِ خدا امامِ زمان علیہ السّلام ہی سے حاصل ہوتی ہے، جبکہ امامِ زمان اللہ تعالیٰ کا زندہ اور بولنے والا اسمِ اعظم ہے، وہ خدا کے اذن سے بعض مومنین کو ایک نمائندہ اسمِ اعظم عطا کرتا ہے، نمائندہ اسی معنی میں کہ اللہ کا اصل اسمِ اعظم تو امامِ زمانؑ ہی ہے، اور دوسرا اسم جو حرفی اور لفظی ہے، وہ خدا کے زندہ اسمِ اعظم = امام زمان کا نمائندہ ہے تاکہ حقیقی مومن لفظی اسمِ اعظم کے ذکرِ کثیر میں امامِ زمانؑ کے معجزات کو دیکھ سکے، ساتھ ہی ساتھ اس کے عالمِ شخصی میں ایک باطنی = روحانی = قلبی گھر تیار ہو، تاکہ اس میں اللہ کے نور کا چراغ روشن ہو، مومن کے قلب میں جو گھر بنا تھا وہ رفتہ رفتہ قبلہ = خدا کا گھر ہوگیا، اس لئے کہ مومن امام میں فنا ہوگیا، اگر مومن کے عالمِ شخصی میں روحانی قیامت کا طوفان آتا ہے، تو خدا کے گھر = بیت اللہ کو زمین سے آسمان پر اٹھا کر بیت المعمور بنایا جائے گا۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعۃ المبارک  ۱۶؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۷۵

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۱۰

 

سورۂ واقعہ کے ارشاد:فَلاَ أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ لاَ يَمَسُّهُ إِلاَّ الْمُطَهَّرُونَ تَنزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ(۵۶: ۷۵ تا ۸۰) میں انتہائی عظیم اسرارِ معرفت پوشیدہ ہیں، کیونکہ اس میں عالمِ شخصی کی بہشت = حظیرۂ قدس کے معجزات کا ذکرِ جمیل آیا ہے، آپ کسی مستند ترجمے کو سامنے رکھیں، اور خوب غور سے دیکھیں۔

حق سبحانہٗ و تعالیٰ جن تاروں کے گرنے کی قسم کھا کر اپنی اس قسم کو علم و معرفت والوں کے لئے عظیم قرار دیتا ہے، وہ نجوم = ستارے ظاہری اور مادّی نہیں ہیں، بلکہ یہ عالمِ علوی کے جملہ انوار ہیں، جو مجموعاً شمس بھی ہیں، قمر بھی اور نجوم بھی ہیں، جوابِ قسم میں قرآنِ کریم کی تعریف ہے جو ایک پوشیدہ کتاب (کتاب مکنون) میں ہے، جسے مطھّرین کے سوال کوئی چھو نہیں سکتا ہے۔

کتابِ مکنون لؤلوئے عقل بھی ہے اس کی چھونے کے تاویلی اسرار بہت ہیں، مطَھَّرین = وہ لوگ جو پاک کئے گئے ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

سنیچر  یکم رمضان المبارک  ۱۴۲۲ھ  ۱۷؍ نومبر ۲۰۰۱ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۷۶

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۱۱

 

بحوالۂ ہزار حکمت (ح:۶۶۸) حضرتِ امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشادِ گرامی ہے: مَاقِیلَ فِی اللّٰہِ فَھوَفِیْنَا وَمَاقِیلَ فِینَا فَھُوَ فِی الْبُلَغَاءِ مِنْ شِیعَتِنَا۔

ترجمہ: جو بات اللہ تعالیٰ کے متعلق کہی گئی ہے وہ ہم پر صادق آتی ہے، اور جو بات ہمارے متعلق کہی گئی ہے، وہ ہمارے بلیغ دوست داروں پر صادق آتی ہے۔

بلیغ وہ عارفین ہوسکتے ہیں، جو روحانی طور پر فنا فی الامام ہوگئے ہیں، اور اس ارشاد میں یہی راز پوشیدہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا کمالِ فضل و کرم ہے۔

حدیثِ قدسی ہے: عبدی! اطعنی، اجعلک مثلی حیاً لاتموت، وعزیزاً لا تذل، وغنیاً لا تفتقر۔ ترجمہ: اے میرا بندہ! میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی مثال بناؤں گا ایسا زندہ کہ تو کبھی نہیں مرے گا، اور ایسا معزز کہ تو کبھی ذلیل نہ ہوگا، اور ایسا غنی کہ تو کبھی فقیر نہ ہوگا۔ از رسائلِ اسماعیلیہ، ص ۱۵؍ نیز دیکھو زاد المسافرین، ص ۱۸۳۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

سنیچر  یکم رمضان المبارک  ۱۴۲۲ھ  ۱۷؍ نومبر ۲۰۰۱ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۷۷

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۱۲

 

حضرتِ آدم خلیفۃ اللہؑ کی روحانی تخلیق بحکمِ خدا روحانی قیامت سے ہوئی اور اللہ کی سنت تمام کاملین کے لئے ایک ہی ہے، اور یہاں یہ حکمت بھی یاد رہے کہ آدم کا روحانی باپ بھی اپنے وقت کا آدم تھا، لہٰذا ہر آدم پہلے ابنِ آدم پھر آدم ہے۔

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۱) میں ارشاد ہے:وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلاَئِكَةِ اسْجُدُوا ِلأَدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِيسَ لَمْ يَكُنْ مِنْ السَّاجِدِينَ ۔ ترجمہ: ہم نے تم کو (آدم کے عالمِ شخصی میں روحانی طور پر) پیدا کیا، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو، اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔

وضاحت: ہر نفسِ واحدہ کی روحانی قیامت میں تمام لوگ روحاً جمع ہو جاتے ہیں، چنانچہ آدم کی روحانی قیامت میں تمام لوگ = ذراتِ ارواح آدم کے عالمِ شخصی میں آگئے، ان کی روحانی تخلیق کا تجدّد ہوگیا، یہ بنی آدم بھی ہوگئے، اور اس کی ہستی کا حصہ بھی، اور یہ فرشتے بھی تھے، اور ان میں سے ہر ایک بحدِّ قوّت آدم بھی تھا اور آدم کی کاپی بھی۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی ، پیر  ۱۹؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

۲۷۸

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۱۳

 

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲) وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا۔

ترجمہ: اور اے نبی لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے ربّ نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذریّت کو نکالا تھا، اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا کہ میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا: ضرور آپ ہی ہمارے ربّ ہیں ہم اس پر گواہ ہیں۔

وضاحت : یہاں سب سے پہلے یہ سوال ہے کہ وہ بنی آدم کون سے ہیں جو اس آیت کے مصداق ہوسکتے ہیں؟ ج: وہ بنی آدم دراصل انبیاء و اولیاء اور عرفاء ہیں، اور آیۂ الست میں نفسِ واحدہ کی روحانی قیامت کے معجزات کا تذکرہ ہے جو عالمِ شخصی میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور آخری معجزات کا تعلق حظیرۂ قدس سے ہے، یہ عالمِ شخصی کا آسمان اور بہشت ہے، جہاں سرِ الست کا مشاہدہ ہوتا ہے، اور عارف کے لئے خود شناسی اور خدا شناسی کے اسرار موجود ہیں، یہ وہ مبارک مقام ہے جہاں آدم صورتِ رحمان پر پیدا ہوا تھا، کیا میں آپ کو یہ بہت بڑا راز بتاؤں؟ کہ آپ سب آدم میں بھی تھے اور سجدہ کرنے والے

 

 

۲۷۹

 

فرشتوں میں بھی تھے، کیا آپ یقین نہیں کرتے؟

قسط :۱۲ میں غور سے دیکھو کہ جب تم آدم کے ساتھ حظیرۂ قدس میں تھے اور آدم رحمان کی صورت پر ہو گیا تو اس حال میں تمہاری صورت کیا تھی؟

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، منگل  ۲۰؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۸۰

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۱۴

 

حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کا روحانی باپ حضرتِ امام ھنیدؑ بھی اپنے وقت میں خلیفۃ اللہ تھا، یہ نورٌ علیٰ نور کی سنتِ الٰہی ہے ورنہ خود ذاتِ سبحان کے خلیفہ = جانشین بننے کی منطق نہیں بنتی ہے۔

آدم کسی دوسری بہشت میں نہیں تھا، بلکہ اپنے عالمِ شخصی کی جنّت حظیرۂ قدس میں تھا، اور تم سب بھی تھے، پس بمقتضائے حکمت ایک اعتبار سے سب جنّت سے نیچے آئے اور دوسرے اعتبار سے سب جنّت ہی میں موجود ہیں۔

قصّۂ آدم میں لوگوں سے بہت بڑا امتحان ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں تحقیق کی بڑی گنجائش ہے، اور ہر بار کوئی عظیم راز معلوم ہوسکتا ہے۔

اگر میں آپ کو یہ راز بتاؤں کہ قصّۂ آدم اور قصّہ نوح کی تاویل ایک جیسی ہے تو شاید آپ کو بڑی حیرت ہوگی کیونکہ آپ کے نزدیک یہ دونوں قصے ظاہراً الگ الگ ہیں حالانکہ تاویلاً دونوں ایک ہی ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ  ۲۱؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۸۱

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۱۵

 

سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) کا ارشاد ہے:مَا خَلْقُكُمْ وَلاَ بَعْثُكُمْ إِلاَّ كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ۔

ترجمہ: تم سب کو پیدا کرنا اور بعد از روحانی موت جِلا اٹھانا نفسِ واحدہ = آدم کی طرح ہے۔ یعنی حضرتِ آدمؑ کی روحانی قیامت میں تمام روحوں کی تخلیق کا تجدّد ہوا تھا، پس حضرتِ آدمؑ کو خدا نے مجموعۂ خلائق بنایا تھا، جیسا کہ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۱) کے حوالے سے ذکر ہوا (قسط:۱۲)، اسی وجہ سے میں نے کہا تھا کہ تم سب آدم کی ہستی میں بھی تھے اور سجدہ کرنے والے فرشتوں میں بھی تھے، کیونکہ ہر انسانِ کامل کی روحانی قیامت میں تمام ارواح حاضر ہوجاتی ہیں، اسی معنیٰ میں یہ حدیثِ شریف ہے:  اَلْاَرْوَاح جُنُو دٌ مُّجَنَّدَۃٌ = جملہ ارواح جمع شدہ لشکر ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ  ۲۱؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۸۲

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۱۶

 

اِنَ لے عجب دُربنن کون ومکان غیئچلہ

ایپچی نُکون ڈوݣ برین یارے ہنر بُٹ اُیَم

ترجمہ: اس کے پاس ایک بڑا عجیب دوربین ہے جس سے دونوں جہان نظر آتے ہیں، اس کے پاس جاکر کچھ دیر بیٹھ جاؤ، میرے دوست کا ہنر بہت شیرین ہے۔

اے عزیزان یاد رہے کہ دروازۂ باطنِ عالمِ شخصی وہ اسمِ اعظم ہے جو صرف امامِ زمانؑ ہی کے پاس ہے، اس کی عظیم الشان تعریف و توصیف کو آپ قرآنِ حکیم میں دیکھ سکتے ہیں، سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) کو حکمت سے پڑھ لیں۔

اسماء الحسنیٰ = اسمِ اعظم = امامِ زمان علیہ السّلام ہے، جو جمع بھی ہے اور واحد بھی ہے، یعنی وہ انوار أئمّہ علیھم السّلام کا نورِ واحد ہے، آیتِ ماقبل کو غور سے دیکھیں، اسماء الحسنیٰ کی معرفت نہ ہونے کے نتیجے کو سمجھنا ضروری ہے، آپ بڑی ذمہ داری سے سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۶ تا ۱۸۰) کو خوب ذہن نشین کر لیں۔

حضرت مولا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: اَنَا الْاَ سْمَأ ءُ الْحُسْنَی الَّتِیْ اَمَرَ اللّٰہُ اَنْ یُّدْعیٰ بِھَا۔

یعنی میں وہ خدا کے اسماءِ حسنیٰ ہوں جن کے بارے میں خدا نے ارشاد

 

۲۸۳

 

فرمایا ہے کہ اس کو ان اسماء سے پکارا جائے (از کتابِ کوکبِ دری فی فضائلِ علی علیہ السلام، بابِ سوم، منقبت۔ ۲۹)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعرات  ۲۲؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۸۴

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۱۷

 

سورۂ ملک (۶۷: ۲۳ تا ۲۴) قُلْ هُوَ الَّذِي أَنشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمْ السَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَالأَفْئِدَةَ قَلِيلاً مَا تَشْكُرُونَ  قُلْ هُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الأَرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ۔

ترجمہ: ان سے کہو اللہ ہی ہے جس نے تمہیں جسمانی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی پیدا کیا، تم کو ظاہراً و باطناً سننے اور دیکھنے کی طاقتیں دیں اور سوچنے سمجھنے والے دل دیئے، مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو، ان سے کہو اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلا یا ہے اور اس کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔

اس آیۂ شریفہ میں اللہ تعالیٰ کے احسانِ عظیم کا ذکر ہے لہٰذا اس کی تاویلی حکمت سمجھنے کی ضرورت ہے، روحانی ترقی کی صورت میں حدودِ دین ہی مومن کے حواسِ باطن کا کام کرتے ہیں، جس میں امامِ زمانؑ دل کا کام کرتا ہے۔

سوال : آیت کا خطاب جب اہلِ ایمان سے ہے تو خدا نے ان کو زمین میں کس طرح پھیلایا ہے؟ جبکہ زمین پر سب لوگ پھیلے ہوئے ہیں؟ ج: مومن کے ذراتِ روحانی تمام انسانوں میں ہیں ورنہ اہلِ زمین کے پھیلاؤ سے مومن پر کیا احسان؟

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعۃ المبارک  ۲۳؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۸۵

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۱۸

 

روحانی قیامت کے نتیجے میں عرفاء شعوری طور پر اور باقی سب لوگ غیر شعوری حالت میں آدمِ زمان = امامِ وقت کے نور میں فنا ہو کر عالمِ شخصی کے مراحل سے گزرتے ہیں، تاآنکہ حظیرۂ قدس کی آخری منزل آتی ہے، جہاں اسرار ہی اسرار اور معجزات ہی معجزات ہیں، اسی مقام پر واقعۂ الست کا تجدّد ہوتا ہے، وہاں ازل اور ابد کا سنگم ہے لہٰذا ہر معجزہ ازلی اور ابدی ہے، وہاں قانونِ تجدّد ہے اس لئے ہر واقعہ جدید ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آدم خلیفۃ اللہ کو حظیرۂ قدس ہی میں صورتِ رحمان پر پیدا کیا تھا اور یہ حضرتِ آدم کی عرفانی معراج تھی، نیز یہ وحدانی دیدار تھا، کیونکہ عالمِ وحدت میں وحدانی دیدار ہوتا ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، جمعۃ المبارک   ۲۳؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۸۶

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۱۹

 

آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ کا ارشاد ہے: لِیْ مَعَ اللّہِ وَقْتٌ لاَیَسَعُنِیْ فِیہِ مَلَکٌ مُقَرّبٌ وَلاَ نَبِیٌّ مُرْسَلٌ۔

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے ساتھ میرا ایک وقت ایسا ہوتا ہے جس میں میرے ساتھ کسی مقرب فرشتے یا نبیٔ مرسل کی گنجائش نہیں ہوتی (از کتابِ کشف المحجوب، کشفِ حجابِ دہم، ص ۶۸۴)۔

یہ حضورِ پاکؐ کی معراجِ شریف کا ذکر ہے، اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ آنحضرتؐ کو ایک نہیں بلکہ کئی معراجیں ہوئیں تھیں، کیونکہ آپ صلعم سید الانبیاء اور محبوبِ کبریاء تھے۔

قرآن تمام وصفِ کمالِ محمدؐ است

ترجمہ: قرآنِ پاک سرتا سر حضرتِ محمدؐ کے کمال کا وصف ہے۔

عالمِ ناسوت سے عالمِ ملکوت برتر ہے، اس سے عالمِ جبروت بالاتر ہے اور عالمِ لاہوت سب سے برتر ہے، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ کو معراج عالمِ لاہوت میں ہوئی تھی، جو حظیرۂ قدس کی جنت کے آسمان میں ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسولؐ سے وعدہ فرمایا تھا: وَلَسَوْفَ

 

۲۸۷

 

یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی۔

ترجمہ: اور عنقریب آپ کا ربّ آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ (بالکل) راضی ہو جائیں گے (الضحیٰ ۹۳: ۰۵)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، سنیچر  ۲۴؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۸۸

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۲۰

 

ایک بہت ضروری سوال: بحوالۂ سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۰) ترجمہ: اور ہم نے داؤد کو تمہارے فائدے کے لئے زرہ بنانے کی صنعت سکھا دی تھی، تاکہ تم کو ایک دوسرے کی مار سے بچائے، پھر کیا تم شکر گزار ہو؟ کیا اس میں کوئی تاویلی حکمت ہے؟

ج: جی ہاں، اس میں بہت بڑی حکمت ہے، اس لئے کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں اللہ کے احسان کا ذکر آیا ہے تو وہ احسان حقیقی معنوں کے ساتھ ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ اگرچہ حضرتِ داؤدؑ کے زمانے میں زرہ بڑے کام کی چیز تھی لیکن آج وہ کام کی چیز نہ رہی، لہٰذا اس میں تاویل ہے، اور وہ تاویل یہ ہے کہ داؤدؑ اپنے وقت میں خلیفۃ اللہ تھا، آج خلیفۃ اللہ امامِ زمانؑ ہے اور امامِ زمانؑ ہی حقیقی مومنین کے لئے علمی اور عرفانی زرہیں بناتے ہیں جو علمی بحث و مناظرہ میں کام آتی ہیں، اس کے علاوہ امامِ  زمانؑ ہی باطن اور روحانیّت میں اجسامِ لطیف بنا کر دیتے ہیں، جن میں ہر قسم کی تکلیف سے بچاؤ اور حفاظت ہے، ہم نے اجسامِ لطیف کا تذکرہ بار بار کیا ہے، خصوصاً حدودِ دین منزلِ عزرائیلی میں اجسامِ لطیف بناتے ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، سنیچر  ۲۴؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

۲۸۹

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۲۱

 

سورۂ مائدہ میں ارشاد ہے: وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا وَآتَاكُمْ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِنْ الْعَالَمِينَ يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ (۰۵: ۲۰ تا ۲۱)۔

ترجمہ: یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی، اس نے تم میں نبی پیدا کئے، تم کو فرمان روا بنایا، اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا، اے برادرانِ قوم، اس مقدّس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، سنیچر  ۲۴؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۹۰

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۲۲

 

سورۂ شعراء (۲۶: ۲۲) میں قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا تھا، ایسی حالت میں حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیھما السّلام کی قوم کے لوگ کس طرح ملوک و سلاطین ہوسکتے ہیں؟ (۰۵: ۲۰) قسط: ۲۱ کو پڑھیں۔

ج: فرعون نے ظلم و زبردستی سے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا تھا، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین نے بوسیلۂ موسیٰ و ھارون اور دیگر حدودِ دین، ان کو عالمِ شخصی کے معجزات سے شاہانِ بہشت بنا دیا، کیونکہ امامِ زمان علیہ السّلام اور حدودِ دین اس لئے ہوتے ہیں کہ اہلِ ایمان کو کل بہشت کے لئے بادشاہ بنائیں، اور اللہ کی یہ زبردست رحمت عالمِ شخصی میں ہوتی ہے، اسی معنیٰ میں حدیث ہے: تم میں سے ہر ایک چرواہا = سردار = بادشاہ ہے اور تم میں سے ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں مسئول = ذمہ دار = جوابدہ ہے۔

پس بہشت میں سب سے بڑی نعمت صرف ایک ہی ہے، جس کے تحت تمام نعمتیں آجاتی ہیں، وہ ملکِ کبیر = عظیم بادشاہی ہے، سورۂ دہر (۷۶: ۲۰)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، اتوار  ۲۵؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۹۱

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۲۳

 

حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے اس قول کو جو قرآن (۱۴: ۳۶) میں ہے بھولنا نہیں: فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ = جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے۔

یعنی وہ میرا روحانی فرزند ہے، پس یقیناً ہر وہ نیک بخت مومن آلِ ابراہیمؑ کے ساتھ ہے، جوحضرتِ ابراہیمؑ کا پیرو ہے اور آلِ ابراہیمؑ کی شان میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا۔ ترجمہ: ہم نے تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملکِ عظیم بخش دیا (۰۴: ۵۴)۔

پس اے عزیزان آپ کیلئے یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ آلِ ابراہیمؑ کا سلسلۂ پاک آلِ محمدؐ کے سلسلۂ طیبہ سے آن ملا ہے تاکہ اللہ کے منشا کے مطابق آسمانی کتاب کی وراثت ، سرچشمۂ حکمت، اور نورانی سلطنت ایک ساتھ دنیا میں جاری اور باقی رہے، لہٰذا آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا: یا بنی عبد المطلب! اطیعونی تکُونوا مُلوک الارض و حُکَّامھَا = اے عبد المطلب کی اولاد میری اطاعت کرو تاکہ تم کو زمین کے بادشاہ اور حکام ہوجاؤ گے (دعائم الاسلام، جلدِ اول، ص ۱۵-۱۶ عربی)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، پیر  ۲۶؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

۲۹۲

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۲۴

 

سورۂ دھر (۷۶: ۲۰) میں حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَإِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيمًا وَمُلْكًا كَبِيرًا۔

ترجمہ: وہاں (یعنی بہشت میں) تم جدھر بھی نگاہ ڈالو گے نعمتیں ہی نعمتیں اور ایک بڑی سلطنت (شاہنشاہی) کا سروسامان تمہیں نظر آئے گا۔

سورۂ مومن (۴۰: ۱۶) میں فرمانِ الٰہی ہے:لِمَنْ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ۔

ترجمہ: (اس روز پکار کر پوچھا جائے گا) آج بادشاہی = شاہنشاہی کس کی ہے؟ (سارا عالم پکار اٹھے گا) اللہ واحدِ قھار کی۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نےجس طرح آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کو آسمانی کتاب کی وراثت اور حکمت عطا کی اور ملکِ عظیم = عظیم نورانی سلطنت بخش دیا (۵۴: ۰۴) اسی طرح اس نے انہی حضرات کو بہشت کی عظیم الشّان شاہنشاہی سے بھی سرفراز فرمایا، پس امامِ زمان علیہ السّلام بہشت کے بادشاہوں کا شاہنشاہ ہے، اَلحَمْد لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔

اللہ تعالیٰ نے امامِ زمانؑ کو روحانی قیامت کا مالک بنایا ہے،

 

۲۹۳

 

لہٰذا امامِ زمانؑ ہی روحانی قیامت کے زبردست معجزے سے تمام لوگوں کو بہشت میں جمع کرتا ہے تاکہ خدا کے حکم سے بہشت میں سلاطین اور رعایا کا اہتمام ہو، اور یہ حقیقت ہے کہ دوستانِ خدا شاہانِ جنت ہوں گے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی ، منگل  ۲۷؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۹۴

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۲۵

 

سورۂ انعام (۰۶: ۱۶۵) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلاَئِفَ الأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ۔

ترجمہ: (اللہ ) وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیئے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے، بیشک تمہارا ربّ سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔

لفظِ الخلیفۃ = جانشین = قائمِ مقام = سب سے بڑا بادشاہ  ج۔ خلفاء = خلائف (المنجد)

اللہ تعالیٰ نے جس طرح موسیٰؑ اور ھارونؑ کی قوم میں روحانی ملوک = سلاطین بنایا (۰۵: ۲۰) اسی طرح اس نے محمدؐ اور علیؑ کےمومنین کو کائناتی بہشت کی زمین کے خلفاء = بادشاہ = سلاطین بنا دیا، اس آیۂ شریفہ کو آیتِ استخلاف (۲۴: ۵۵) کے تناظر میں پڑھیں کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے عالمِ شخصی میں حقیقی مومنین سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کو کائناتی بہشت کی زمین میں خلیفہ = بادشاہ بنانے والا ہے۔

 

۲۹۵

 

اے عزیزان! آپ حدیثِ اطِیعُونی تکُونوا مُلوک الارض کو ہرگز نہ بھولیں، اس میں شاہانِ بہشت کا ذکر ہے، یعنی رسولِ پاک صلعم کی حقیقی اطاعت وہ ہے جو اہلِ ایمان کو سلاطینِ بشہت بنا دیتی ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ  ۲۸؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۹۶

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۲۶

 

سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) کے ارشادِ حکمت آگین کو خوب غور سے بار بار پڑھیں: أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۔

ترجمہ: کیا تم لوگ نہیں دیکھتے (اس سوال کا خاص تعلق اہلِ معرفت سے ہے) کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں؟

کیا اس کلیہ یعنی کلی بیان سے کوئی نعمت باہر ہوسکتی ہے؟ ج: نہیں ہرگز نہیں۔

پس آپ یقین کریں کہ امامِ زمانؑ بحکمِ خدا روحانی قیامت برپا کر کے تمام لوگوں کو عالمِ شخصی میں جمع کر لیتے ہیں، پھر عاشقانِ نورِ الٰہی کے لئے کائناتی جنت میں سلطنتیں عطا کی جاتی ہیں، آپ تمام عزیزان عالمِ شخصی کی معرفت حاصل کریں کیونکہ عالمِ شخصی میں سب کچھ ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

کراچی، بدھ   ۲۸؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۲۹۷

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۲۷

(SHORT COURSE-1)

 

سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلاَّ عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ۔ ترجمہ: کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں۔

بحوالۂ ہزار حکمت، ح۔۳۱۱ تا ۳۲۰ خزائن (۱) = خزانے :۔ مادّی سائنس کے ایجادات ہوں یا روحانی سائنس کے انکشافات، ان میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جو خزائنِ الٰہی سے نہ آتی ہو، جب اللہ کے انتہائی عظیم اور کبھی ختم نہ ہونیوالے خزانے موجود ہیں تو ان کی بےشمار برکتوں کا صاف شفاف دریا ہمیشہ دنیا والوں کی طرف بہتا رہے گا (۱۵: ۲۱)۔

خزائن (۲) = خزانے، خدا کے خزانے:۔ س: خزائنِ الٰہی کا ذکر قرآنِ حکیم کے کس مقام پر ہے؟ ۔ ج: سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں، س: ان خزانوں میں کیا کیا چیزیں ہیں؟۔ ج: ہر چیز یعنی ہر نعمت، س: خزانۂ خدا کی خاص نعمتیں کس طرح حاصل کی جاسکتی ہیں؟۔ ج: فرمانبرداری اور علم و معرفت کے وسیلے سے، س: ان خزانوں کی نعمتوں میں سردار نعمت کون سی ہے؟۔ ج: وہ خدا کا دیدارِ پاک ہے جس میں آپ کو فنا ہوجانا ضروری ہے تاکہ آپ خود کو ازلی و ابدی طور پر اسی میں

 

۲۹۸

 

زندہ پائیں، س: خزائنِ الٰہی کہاں ہیں؟۔ ج: عالمِ شخصی میں، س: کنوزِ خداوندی کی طرف رہنمائی کون کرتا ہے؟۔ ج: امامِ مبین علیہ السّلام۔

خزائن (۳) خزانے، خدا کے خزانے :۔ سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں بار بار غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں حق تعالیٰ کے خزانوں کی معرفت کے اسرار منکشف ہوسکتے ہیں، یقیناً یہ خزائنِ الٰہی عقلِ کل، نفسِ کل، ناطق، اساس، اور امام ہیں، اور یہ کنوزِ خداوندی لاہوت، جبروت، اور ملکوت کے انمول جواہر سے بھرے ہوئے ہیں۔

خزائنِ (۴) = خزائنِ الٰہی:۔ اے نورِ عین من! یہ نکتۂ دلپذیر کبھی نہ بھول جانا کہ اللہ کی خاص چیزیں اشرف و اعلیٰ ہوا کرتی ہیں، مثال کے طور پر قلمِ الٰہی ایسا نہیں جیسے دنیا کا بے جان و بے عقل قلم ہوتا ہےبلکہ خدا کے قلم و لوح دو عظیم فرشتے ہیں، اسی طرح ربّ العزّت کے خزائن بھی فرشتوں کی شکل میں ہوتے ہیں، اور یہ قانون بھی یاد رہے کہ فرشتے روحانی اور جسمانی دو قسم کے ہوا کرتے ہیں، پس خداوندِ عالم نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے آسمان اور زمین کے باشندوں کے لئے ایسے پانچ عظیم خزانے بنا دیئے کہ ان تک رسائی کے لئے مکان و زمان سے کوئی رکاوٹ نہیں۔

خزائِن (۵) = خدا کے خزانے جو عظیم فرشتوں کی صورت میں ہیں:۔ خزائنِ الٰہی جو عظیم فرشتے ہیں وہ کس طرح کام کرتے ہیں، اس کی ایک مثال یہ ہے: ترجمۂ آیۂ پرحکمت: (خدا) وہی تو ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تم کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے آئے (۳۳: ۴۳)۔ اللہ کا درود بھیجنا یہ ہے کہ وہ عزّاسمہٗ صرف امر کرتا ہے، درود اور کوئی بھی چیز اس کے حکم سے نازل کردینے کا فریضہ وہ بڑے فرشتے ہی انجام دیتے ہیں، جن

 

۲۹۹

 

کو خزائنِ الٰہی ہونے کا مرتبہ حاصل ہوا ہے، یاد رہے کہ امر ہر کام سے برتر ہے، اور کام امر کے تحت ہے، لہٰذا خداوندِ تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ وہ ہر کام کے لئے امر فرماتا ہے کام نہیں کرتا۔

خزائن (۶) = خزائنِ الٰہی:۔ درسری مثال یہ ہے کہ اگر خداوندِ کریم چاہتا تو بذاتِ خود اہلِ ایمان پر درود بھیجتا لیکن ایسا نہیں کیا بلکہ زمین کے فرشتۂ اعظم اور سب سے عظیم ارضی خزانہ (ناطق) یعنی آنحضرتؐ سے فرمایا: وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَهمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۰۹: ۱۰۳) اے نبی تم ان پر درود بھیج دو کیونکہ تمہارا درود ان کے لئے (روحانی اور عقلانی) تسکین کا باعث ہے۔

خزائن (۷) = خزانے:۔ قرآنِ حکیم (۱۵: ۲۱) میں ہے : اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور ہم کسی چیز کو نازل نہیں کرتے ہیں مگر (لوگوں کے) علم و دانش کے مطابق۔ یہ بہت بڑی روشن حقیقت ہے بلکہ قانونِ الٰہی ہے کہ کوئی چیز خزائنِ خدا سے باہر نہیں، پس یقیناً انسان کی سعی اور معلومات کے مطابق سائنس اور اس کی تمام پیداوار اللہ کے خزانوں سے آئی ہیں، اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ عالمِ بالا میں روحانی سائنس اور مادّی سائنس ایک ہی چیز ہے۔

خزائن الارض = زمین کے خزانے:۔ (یوسفؑ نے) کہا مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کیجئے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں(۱۲: ۵۵) یعنی یوسفؑ امامِ مستودع نے امامِ مستقر سے کہا کہ مجھے عالمِ شخصی کے خزانے سپرد کر دیں، تاکہ حفاظت اور علم کے ساتھ خزانے استعمال ہو سکیں۔

خَزَآئِن رَبِّکَ = تیرے ربّ کے خزانے :۔ کیا تیرے ربّ کے خزانے ان کے پاس ہیں؟ (۵۲: ۳۷) یعنی ان کے پاس کوئی ایسا خزانہ نہیں،

 

۳۰۰

 

بلکہ پروردگار کے تمام خزائن امامِ مبین علیہ الصلوٰۃ و السّلام کے بابرکت عالمِ شخصی میں ہیں، جس میں اللہ تعالیٰ نے ساری چیزوں کو گھیر کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲)۔

خَزَآئنُہٗ = اللہ کے خزانے :۔ ترجمۂ آیۂ پاک: اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں (۱۵: ۲۱) حضرتِ امامِ اقدس و اطہر علیہ السلام اللہ کا خزانۂ خزائن ہے، اور اسی کو خدا کا قربِ خاص حاصل ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۲۹؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۰۱

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۲۸

(SHORT COURSE-2)

 

کتابِ میوۂ بہشت میں سلمانِ فارسی کے مضمون (ص۔۱۴۸-۱۶۴) کو خوب غور سے پڑھیں: ۱۔ لفظِ سلمان کا مادّہ س، ل، م ہے، چنانچہ اس کے خاص مفہومات یہ ہیں: سلامتی والا، ناجی، تسلیم و تفویض کرنے والا، یعنی اپنی انا کو خدا کے سپرد کردینے والا، صلح جو، امن پسند، اطاعت گزار، فرمانبردار، وغیرہ، چونکہ حرفی لحاظ سے “سلمان” کا اسمِ مصغریا تصغیر (DIMINUTIVE) سلیمان ہے، لہٰذا یہ کہنا ایک حقیقت ہے کہ اس خوبصورت اور پیارے نام کی قرآنی بہشت، یعنی حکمتوں کی جنّت وہ قصّۂ قرآن ہے ، جو حضرتِ سلیمان علیہ السّلام سے متعلق ہے، کیونکہ یہ عزیز نام (یعنی سلمان الخیر) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے رکھا تھا، جبکہ سلمانِ فارسی کا سابق نام روزبہ یا مابہ تھا، اور اس بات میں کسی مسلمان کو کوئی شک نہیں کہ حضورِ انورؐ کا فرمایا ہوا ہر لفظ ایک طرح کی آسمانی وحی کا درجہ رکھتا ہے، (۵۳: ۰۳ تا ۰۴) اس وجہ سے یہ نام بابرکت اور پُرحکمت ہوگیا، اگرچہ یہ نام پہلے ہی سے لوگوں میں رائج تھا، لیکن جس وقت اس کا تسمیہ (نام رکھنا) نورِ نبوّت کی روشنی میں کیا گیا، تو اس کے مرادی معنی لغوی مناسبت کے ساتھ ساتھ کچھ اور ہوگئے، وہ یہ کہ سلمان کے نام میں حضرتِ سلیمان کی روحانی سلطنت کا تصوّر آگیا۔

 

۳۰۲

 

۲۔ آپ نے شاید “حکمتِ تسمیہ” کے مضمون کو غور سے پڑھا ہوگا، کہ تسمیہ میں کوئی تصوّر، کوئی حکمت اور کوئی فلسفہ ہوا کرتا ہے، بالفاظِ دیگر نام رکھنے کے پس منظر میں کسی امید کا ذکر ہوتا ہے، یا کوئی سعادت و بہتری مطلوب ہوتی ہے، اور اگر یہ کام ھادیٔ برحق کا ہے تو یقیناً اس میں اعلیٰ درجے کی حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں، چنانچہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو پسندیدہ نام اپنے عاشقِ صادق کو دیا ہے، اس میں دینی کامیابی، طلوعِ نور، دیدارِ اقدس اور روحانی سلطنت کی بشارت کیوں نہ ہو۔

۳۔ سلمانِ فارسی ارادۂ الٰہی کے مطابق نورِنبوّت اور نورِ امامت کی ایک خصوصی پیداوار تھے، لہٰذا ان کی تاریخ میں جذبۂ دینداری اور اہلِ بیتِ اطہارؐ سے والہانہ محبت کی درخشان مثال موجود ہے، ہمیں نظامِ ہدایت کے باطنی پہلو کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے کہ کس طرح سلمانِ فارسی کے دل میں تلاشِ حقیقت کا طوفانی شوق ابھرا؟ وہ کون سی ہستی تھی جس نے شہرِ اصفہان کے ایک مجوسی (آتش پرست) فرزند کے دل و جان میں ایسی آتشِ عشق جلائی؟ یقیناً کوئی ایسا ہمہ گیر وسیلہ تھا، جس کو نورِ ہدایت کہنا چاہئے۔

۴۔ کتابِ “بخاری” حصّۂ اوّل کے شروع میں حدیثِ نبوّی ہے: وَاَحْیَاناً یَّتَمَثَّلُ لِیَ الْمَلَکُ رَجُلاً۔ اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں میرے پاس آتا ہے (اور مجھ سے کلام کرتا ہے) اس ارشاد میں آپ دیکھتے ہیں آنحضرتؐ کے پاس بعض دفعہ جبرائیلؑ ایک مرد کی شکل میں وحی لے کر آتا تھا، لیکن عقل پوچھتی ہے کہ فرشتہ کس مرد کی صورت میں آتا تھا؟ اس کے جواب میں قانونِ روحانیّت کہتا ہے کہ ویسے تو عظیم فرشتہ جملہ مومنین کا آئینۂ روح ہوا کرتا ہے، اس لئے اس کا ظہور ایک مشترکہ صورت میں ہوتا ہے، تاکہ وحدتِ ارواح کی حقیقت ظاہر

 

۳۰۳

 

ہوجائے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جبرائیلؑ رسولِ کریمؐ کے پاس سلمانِ فارسی کی روحانی شکل میں آیا کرتا تھا، اور بعض کہتے ہیں کہ یہ ظہور دحیۂ کلبی کی صورت میں ہوتا تھا، میں عرض کرتا ہوں کہ اس میں کوئی تضاد نہیں، جبکہ روح القدس میں سب ہیں۔

۵۔ سنن ابنِ ماجہ، جلدِ اوّل، باب ۱۱، حدیث ۱۴۹ میں ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰہَ اَمَرَتِیْ بِحبِّ اَرْبَعَۃٍ وَاَخْبَر نِیْ اَنَّہٗ یُحِبُّھُمْ قِیْلَ: یَارَسُولَ اللّٰہِ مَنْ ھُمْ؟ قَالَ عَلِیٌّ مِّنْھُم یقولُ ذٰلک ثلاثاً وَّ ابوذرٍّ وَسَلمانُ وَالمِقدَاد۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ نے مجھے چار شخصوں سے محبت کرنے کا حکم دیا، اور یہ خبر دی ہے کہ وہ بھی ان سے محبت رکھتا ہے، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ وہ کون ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: علی بھی ان میں سے ہے، اور یہ بات آپؐ نے تین بار فرمائی، اور ابوذر، سلمان، اور مقداد ہیں۔

۶۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک تو ہوتا ہے خدا کا عام طور پر سب مومنوں سے محبت کرنا، اور دوسرا ہوتا ہے اس کا خاص طورپر چند سے محبت کرنا، چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ مذکورہ حدیث میں صرف چارہستیوں سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذکر ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ یہ خصوصی محبت کی بات ہے، جس میں مولا علی صلوات اللہ علیہ کی شانِ ولایت تابان و درخشان ہے، اب آپ کو اس ارشادِ نبوّی کی روشنی میں متعلقہ آیاتِ قرآنی کا بغور مطالعہ کر کے یہ دیکھنا ہے کہ خدا تعالیٰ کن لوگوں سے محبت و دوستی کرتا ہے، آپ قرآن میں دیکھیں گے کہ پروردگارِ عالم ان حضرات سے محبت کرتا ہے جو بحقیقت متقی ہیں (۰۳: ۷۶) ان مومنین سے دوستی کرتا ہے جو اس کے رسولؐ کے فرمان بردار ہیں (۰۳: ۳۱)

 

۳۰۴

 

ان بندوں کو چاہتا ہے جو نیکوکار ہیں (۰۳: ۱۳۴) خدا ان لوگوں کا دوست ہے جو عالی ہمت اور صابر ہوا کرتے ہیں (۳۰: ۱۴۶) خدا اور رسولؐ ان اشخاص سے محبت کرتے ہیں، جو مقامِ توکل پر ہیں، (۰۳: ۱۵۹) جو عادل ہیں (۰۵: ۴۲) اور جو پاک و صاف ہوا کرتے ہیں (۰۹: ۱۰۸)۔

۷۔ غزوۂ احزاب (غزوۂ خندق) میں سلمان فارسی کے بارے میں رسولِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: سلمان مِنّا اھل البیت۔ سلمان ہم اہلِ بیت میں سے ہے۔ یہاں ہمیں کس طرح سوچنا چاہئے؟ کیا ایسے خاص موقع پر آقا اور غلام ایک دوسرے کے انتہائی قریب نظر نہیں آتے ہیں؟ آیا اس پر حکمت حدیث کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سلمانِ فارسی جیتے جی نور میں فنا ہو گئے تھے؟ وہ اپنی پاک و پاکیزہ روح کو (اس کیفیت میں جس میں کہ نہ مکان ہے نہ زمان) ازلی و ابدی طور پر اصل سے واصل دیکھتے تھے، اور یہ سب کچھ اس وجہ سے حاصل ہوا تھا کہ آپ کے دل میں ہمیشہ پیغمبرؐ اور امامؑ کا دریائے عشق موجزن رہتا تھا، آپ اپنے باطن میں ایک روشن دنیا تھے، آپ کے سینے میں علم و عرفان کے بیش بہار خزائن پوشیدہ تھے۔

۸۔ اس حدیثِ شریف میں، جو سلمانِ فارسی سے متعلق ارشاد ہے، یہ واضح اور قابلِ فہم مثال موجود ہے کہ اگر مومنین چاہیں تو عالی ہمتی، سخت محنت، جان فشانی، جذبۂ قربانی، اور حقیقی محبت سے کام لے کر نور سے اپنا رشتہ جوڑ سکتے ہیں، یعنی وہ چشمِ باطن سے یہ دیکھ سکتے ہیں، کہ کس طرح ان کی انائے علوی ازلی طور پر اصل سے واصل و وابستہ رہی ہے، یہ کام اگرچہ مشکل ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں، جیسے قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے، جس میں اسی قانونِ دین سے متعلق حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی ترجمانی کی گئی ہے : فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ

 

۳۰۵

 

(۱۴: ۳۶) پس جو کوئی میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے۔ یعنی جو شخص اس راہ پر گامزن ہوتا جائے، جس پر میں چلا ہوں، تو ایک دن اس کو یہ بھید بحقیقت معلوم ہوجائے گا کہ کس طرح وہ میرا روحانی اور نورانی فرزند ہے، پس یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص چاہے تو سلمان کی طرح اپنا ازلی رشتہ نور کے ساتھ جوڑ سکتا ہے، اور جو اس کے برعکس چاہے وہ کنعان (پسرِ نوح) کی طرح اس رشتے کو توڑ سکتا ہے۔

جاری ہے ….

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ   ۳۰؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۰۶

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۲۹

(SHORT COURSE-3)

 

از کتابِ میوۂ بہشت بعنوانِ سلمانِ فارسی: ۹۔ سوال: آنحضرتؐ نے سلمانِ فارسی کو کس معنیٰ میں اہلِ بیتِ اطہارؑ کے ایک فرد کا درجہ دیا؟ اس میں “بیت” سے کون سا گھر مراد ہے؟ آیا آیۂ تطہیر میں پنجتنِ پاک کے ساتھ سلمانِ فارسی کا بھی ذکر موجود ہے؟ کیا اس آیۂ مبارکہ میں جملہ آنے والے أئمّۂ ھدا صلوات اللہ علیھم کا ذکر موجود ہے؟

جواب: پیغمبرِ خداؐ نے سلمان کو جس طرح اہلِ بیّتِ پاک میں شامل کر لیا، اس کے معنی یہ ہیں کہ سلمانِ فارسی بوسیلۂ اطاعت و فرمانبرداری خانۂ نورانیت میں داخل ہو کر پنجتن کے ہمنشین ہوگئے تھے، یہاں بیّت سے خانۂ نورو نورانیّت مراد ہے، جی ہاں آیۂ تطہیر میں سلمان کا بھی ذکر ہے، ہر چند کہ ظاہراً عملِ کساء سے ایسا نہیں لگتا ہے، کیونکہ یہ کام محض ایک علامت کے طور پر تھا، اور ان حضرات کی تطہیر دراصل جدا جدا وقتوں میں فرداً فرداً ہوئی تھی، جی ہاں آیۂ تطہیر میں تمام پاک اماموں کا ذکر موجود ہے، کیونکہ بعد کا ہر امام بھی اسی خانۂ نور میں رہتا ہے جس میں پنجتنِ پاک رہتے تھے لہٰذا ہر امام پر اہلِ بیت کا اطلاق ہو جاتا ہے۔

۱۰۔ اگر دنیا کا کوئی بادشاہ کسی غریب سے دوستی کرنے لگتا ہے تو پھر

 

۳۰۷

 

وہ شخص غریب نہیں رہتا، رفتہ رفتہ امیر بن جاتا ہے، چنانچہ جب یہ حقیقت ہے کہ خدا اور رسولؐ سلمان سے محبت کرتے تھے، اور ان کا نام حضرت سلیمانؑ کے نامِ مبارک پر رکھا گیا تھا، تو پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ اور اس کے پیغمبرؐ سلمان کو عالمِ شخصی میں سلیمان بنانا چاہتے تھے، اور خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے (۲۲: ۱۴)۔

۱۱۔ خدائے حکیم نے روحِ نباتی کی وجہ سے نباتات کو جمادات پر فوقیت دی ہے، روحِ حیوانی کے سبب سے جانوروں کو نباتات پر رفعت دی ہے، روحِ ناطقہ کی بدولت انسانوں کو حیوانات کا بادشاہ بنا دیا، روح الایمان کے وسیلے سے مومنین کو لوگوں پر برتری دی، اور روحِ قدسی یا نور کے ذریعے سے حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کو مومنین پر فضیلت بخشی ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے: اور ہم نے داؤدؑ اور سلیمانؑ کو (روحانی) علم عطا فرمایا اور ان دونوں نے کہا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ہم کو اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت دی (۲۷: ۱۵) اس ربّانی تعلیم میں، جو حکمت سےمملو ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مومنین پیغمبروں اور اماموں کے انتہائی قریب ہیں، اس معنیٰ میں کہ انبیاء و أئمّہ ان سے افضل ہیں، جبکہ اہلِ ایمان دنیا والوں سے افضل ہیں، جس طرح بنی اسرائیل سے اس کی مثال ملتی ہے (۰۲: ۴۷؛  ۰۲: ۱۲۲) کہ وہ اپنے وقت کے مومنین ہونے کی وجہ سے اہلِ جہان پر فضیلت رکھتے تھے۔

۱۲۔ سوال: جب حضرتِ سلیمانؑ حضرتِ داؤدؑ کے قائم مقام (جانشین) ہو گئے، تو انہوں نے دعوتِ حق کا اعلان اس طرح کیا : اے لوگو ہم کو پرندوں کی بولی کی تعلیم دی گئی ہے اور ہم کو ہر چیز سے دی گئی ہے (۲۷: ۱۶)

 

۳۰۸

 

اس میں پوچھنا یہ ہے کہ آپؑ نے دینی دعوت میں اپنی سلطنت کو کیوں موضوع بنایا؟ لوگوں کو اس سے کیا تعلق تھا؟ آیا پرندوں کی بولی کی کوئی تاویل ہے؟ انہوں نے “مجھ کو” کی جگہ “ہم کو”  کیوں کہا؟ ہر چیز کا مطلب کل کائنات ہے، سو کل کائنات سے ان کو کیا دیا گیا تھا؟

جواب: حضرت سلیمان علیہ السّلام نے دعوت کا جو طریقہ اختیار کیا وہ منشائے الٰہی کے عین مطابق تھا، آپؑ تمام انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام اور مومنین کی روحانی بادشاہی کی جیتی جاگتی تصویر تھے، لہٰذا یہ امر بہت ہی ضروری تھا کہ لوگوں کو مملکتِ بہشت کا ذکر کر دیا جائے، جس سے لوگوں کا تعلق ہے، پرندوں سے ارواحِ خلائق مراد ہیں، جن سے بہشتِ روحانیّت میں گفتگو ہوتی ہے، اس کے علاوہ اس میں ظاہری پرندے بھی ہیں، اور “مجھ کو” کی جگہ “ہم کو” کہنے کی وجہ یہ ہے کہ آپؑ اس روحانی سلطنت کے بیان میں تمام کامل انسانوں کی طرف سے نمائندگی کر رہے تھے، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ آپ کے ساتھ حدودِ دین تھے، اور ہر چیز سے یا کل کائنات سے جو کچھ ان کو دیا گیا تھا، وہ عالمِ شخصی تھا، جو کل عالم کی ایک زندہ تصویر کی حیثیت سے ہوتا ہے۔

۱۳۔ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے قصۂ قرآن میں جہاں تمام حکمتوں کا مرکز ہے، اور جس سے یہ حکمتیں پھیل کر متعلقہ قصّے کو مکمل کر دیتی ہیں، وہ مرکز یہ ہے: وَاوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ (اور ہم کو ہر چیز سے دی گئی ہے) اور باقی جو کچھ ہے وہ اسی کی وضاحت ہے، چنانچہ کل شیٔ کے معنی ہیں تمام عقلی، روحی، اور جسمی چیزوں کا مجموعہ، یعنی پوری کائنات جس کی عقل، جان، اور جسم ہے، اور مِنْ کُلِّ شَیْءٍ کا مطلب ہے اس کائنات کی ایک لطیف زندہ تصویر، یعنی عالمِ شخصی، جس میں سب کچھ ہے، اور یہ حقیقت وہی ہے جو سورۂ یاسین (۳۶: ۱۲) میں

 

۳۰۹

 

امامِ مبین کے بارے میں مذکور ہے، مطلب یہ ہے کہ حضرتِ سلیمانؑ امام تھے، لہٰذا ان کی ذات میں کائنات و موجودات کی لطیف صورت سے عالمِ شخصی بنایا گیا تھا۔

۱۴۔ سوال: وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنْ الْجِنِّ وَالإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ(۲۷: ۱۷) اور سلیمان کے لئے ان کے لشکر جمع کئے گئے تھے، جو جنات اور انسانوں اور پرندوں میں سے تھے اور وہ مکمل ضبط میں لائے جاتے تھے۔ آپ اکثر کہتے ہیں کہ قرآنی الفاظ کے آپس میں معنوی ربط و رشتہ ہوا کرتا ہے، تو بتائیے کہ اس آیۂ مقدسہ میں جس طرح لفظ “حشر” آیا ہے، اور جیسے قرآنِ پاک کے بہت سے مقامات پر قیامت کا ایک نام “حشر” ہے ان دونوں کے درمیان کیا مناسبت ہے؟ سلیمان علیہ السّلام کے یہ لشکر کہاں سے جمع کئے گئے؟ یوزعون کے کیا معنی ہوتے ہیں؟

جواب: ان دونوں لفظوں کے درمیان انتہائی ربط و رشتہ یہ ہے کہ یہ لفظاً و معناً ایک ہی ہے کیونکہ یہ حضرت سلیمانؑ کی ذاتی قیامت کا واقعہ ہے، جس میں روحانی طور پر آپؑ کے لشکر بصورتِ ذرات جمع ہوگئے، یہ ذرات خلائق میں پوشیدہ تھے، قرآنِ حکیم میں یہ لفظ (حشر) اپنی مختلف شکلوں میں کل ۴۳ بار آیا ہے، اور ہر مقام پر قیامت ہی کے معنی میں ہے، یہاں تک کہ قصۂ فرعون میں جہاں جہاں لفظ “حشر” استعمال ہوا ہے، وہ بھی حضرت موسیٰؑ کی انفرادی اور شعوری قیامت کی بات ہے، جس میں ساحروں کو شکست ہوئی تھی، یوزعون میں کئی معنی جمع ہیں، جیسے منظم کرنا، ترتیب دینا، کنٹرول کرنا، وغیرہ، کیونکہ جب انسانِ کامل کی روحانیّت میں صور بجنے لگتا ہے تو اس کی انفرادی قیامت برپا ہوجاتی ہے، اور اس کے لشکر جنّوں اور پرندوں (یعنی

 

۳۱۰

 

فرشتوں) میں سے جمع ہوکر روحانی جہاد کی پوزیشن لیتے ہیں، تاکہ خدا کا دین ادیانِ عالم پر غالب ہو (۰۹: ۳۳؛  ۴۸: ۲۸؛ ۶۱: ۰۹)۔

۱۵۔ سوال: یہ ہمارے نزدیک بہت ہی عجیب بات ہے کہ آپ نے روحانی جہاد کا تصور پیش کیا، کیا آپ اس سلسلے میں ہمیں کچھ مثالوں اور دلیلوں سے مزید سمجھا سکتے ہیں کہ یہ جہاد کس طرح ہے؟

جواب: قرآنِ حکیم میں جا بجا باطنی اور روحانی جہاد کا ذکر موجود ہے، یہ مقدّس جنگ ظہورِ اسلام سے پہلے بھی تھی، زمانۂ نبوّت میں بھی اور اب بھی ہے، مگر یہاں یہ بات یاد رہے کہ جہاد ظاہراً و باطناً پیغمبرِ خداؐ اور امامِ برحقؑ کے ذریعے سے ہوسکتا ہے، چنانچہ قرآنِ پاک میں جہاں جہاں لشکر یا آسمانی جنگ کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں اسی روحانی جہاد کی نشاندہی کی گئی ہے، جیسے سورۂ فتح (۴۸: ۰۴، ۴۸: ۰۷) میں ارشاد ہے: وَلِلّٰہِ جنُودُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔ اور آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ ہی کے ہیں۔ سماوی لشکر فرشتے ہیں، اور ارضی لشکر جن و انس ہیں، اور کسی بادشاہ یا حکومت کی فوج جنگی مقصد کے سوا نہیں ہوتی ، اسی طرح سورۂ صافات (۳۷: ۱۷۱ تا ۱۷۳) میں فرمایا گیا ہے: اور ہمارے خاص بندوں یعنی پیغمبروں کے لئے ہمارا یہ قول پہلے ہی سے مقرر ہوچکا ہے کہ بیشک وہی غالب کئے جائیں گے اور (ہر بار) ہمارا ہی لشکر غالب رہتا ہے، اس کے علاوہ سورۂ مائدہ (۰۵: ۵۶) میں حزب اللہ (خدا کا گروہ) کے معنی میں لشکرِ خدا کے غالب و فاتح ہونے کا بیان ہے، اسی سورہ (۰۵: ۵۴) میں ایک ایسی قوم کے آنے کی بشارت ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کو محبت ہوگی اور ان کو اللہ تعالیٰ سے محبت ہوگی، وہ مومنین پر مہربان ہوں گے اور کافروں پر سخت گیر ہوں گے وہ خدا کی راہ میں جہاد کریں گے (۰۵:  ۵۴) اس حکم میں آپ واضح

 

۳۱۱

 

طور پر دیکھ رہے ہیں کہ جن کے ظہورِ روحانی کی خوشخبری دی گئی ہے وہ لوگ دنیائے ظاہر کے مسلمین و مومنین سے افضل ہیں، جبکہ وہ اہلِ ایمان پر بڑے نرم دل اور مہربان ہیں، اور جہاد کرنے والے ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ یہ روحانی لشکر ہی ہیں، جو ہر زمانے میں نورِ ہدایت کے تحت اپنا حربی عمل انجام دیتےرہتے ہیں، اس سلسلے کے قرآنی حوالے بہت زیادہ ہیں، لہٰذا روحانی جہاد پر کوئی الگ مضمون ہونا چاہئے۔

جاری ہے….

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۳۰؍ نومبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۱۲

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط۳۰:

(SHORT COURSE-4)

 

کتابِ میوۂ بہشت بعنوانِ سلمانِ فارسی: ۱۶۔ سوال: سورۂ نساء کے ایک ارشاد (۰۴: ۶۹) میں یقیناً درجہ وار پیغمبروں، صدیقوں، شہیدوں، اور صالحوں کے بعد فرمانبردار مومنین کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس سے صاف طور پر ظاہر ہوجاتا ہےکہ صالحین عام مومنین سے آگے ہیں، ان سے شہداء آگے ہیں، شہیدوں سے صدیقین آگے ہیں، ان سے انبیاء آگے ہیں، لیکن مراتب کے اس تعیّن کے باؤجود اس کی کیا وجہ ہے کہ انبیاء علیھم السّلام جسمانی زندگی کے اختتام پر صالحین یعنی نیکوکاروں میں داخل ہوجانا چاہتے تھے؟ جیسے حضرتِ سلیمانؑ نے اس مقصد کے لئے دعا کی (۲۷: ۱۹) آپ قرآنِ حکیم میں دیکھیں: (۰۲: ۱۳۰؛  ۱۲: ۱۰۱؛  ۱۶: ۱۲۲؛  ۲۶: ۸۳؛  ۲۹: ۰۹؛  ۲۹: ۲۷)۔

جواب: بے شک آیۂ کریمہ (۰۴: ۶۹) میں جس ترتیب سے درجاتِ جسمانی کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ حقیقت ہے، کیونکہ اس میں سب سے پہلے ناطقوں (نبیین) کا ذکر ہے، پھر اساسوں (صدیقین) کا، پھر اماموں (شہداء) کا، اور اس کے بعد ابواب (صالحین) کا ذکر ہے، اور یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ہر ناطق کا باب اساس ہوتا ہے، ہر اساس کا باب امام ہوتا ہے، اور ہر امام کے لئے باب اس کا وہ فرزند ہوتا ہے جو تختِ امامت کا وارث ہو، سو اس کے معنی

 

۳۱۳

 

یہ ہیں کہ حضرتِ سلیمانؑ اور دوسرے تمام حضراتِ انبیاء و أئمّہ اپنے اپنے باب (صالح) میں زندہ رہنا چاہتے تھے، تاکہ صالحین یعنی نیکوکاروں کا جو سب سے آخری مقصد ہے، اس کے حصول کے لئے عمل کیا جائے۔

سورۂ شعراء (۲۶: ۸۳ تا ۸۴) میں ہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے اس طرح دعا کی: اے میرے پروردگار مجھ کو ایک حکم (یعنی”امرِ کن” کی شناخت) عطا فرما اور مجھ کو صالحین (یعنی میرے اساس = باب) سے ملا دے اور میرے لئے آئندہ آنے والوں (یعنی نورِ نبوّت و نورِ امامت) میں زبانِ صدق مقرر فرما۔ اس سے یہ حقیقت عیان ہوجاتی ہے کہ حضرتِ ابراہیمؑ بحکمِ خدا اپنے نور کو باب یعنی حضرتِ اسماعیلؑ (جو اساس تھے) میں منتقل کر دینا چاہتے تھے، تاکہ نور اسی طرح سلسلۂ صالحین یعنی آئندہ ابواب سے وابستہ رہے۔

۱۷۔ سوال: باب کی اتنی بڑی اہمیت کیوں ہے کہ اس کو صالح کا ٹائٹل دیا گیا ہے؟ اور کیوں ایسا ہے کہ ہر ناطق ہر اساس اور ہر امام اپنے باب میں داخل ہو جاتا ہے؟

جواب: باب کی بہت بڑی اہمیّت اس وجہ سے ہے کہ ناطق کا سارا نورانی عمل اساس کی ذات میں واقع ہوتا ہے، جو ناطق کے لئے باب (دروازہ) ہے، اساس کا نور امام میں کام کرتا ہے جو اساس کا باب ہے، اور اسی طرح امام کا نور بھی اپنے اس فرزند میں کام کرتا ہے جو امام کے بابِ اقدس کا درجہ رکھتا ہے، اور بعد میں امام مقرر ہونے والا ہے، ان تینوں صورتوں میں “نورِ فعال” باب کی مبارک ذات میں ہوا کرتا ہے، جس میں دنیا اور اہلِ دنیا کی صلاح و فلاح پوشیدہ ہے، لہٰذا سلسلۂ ابواب کو صالحین کہا گیا ہے، کہ سب سے زیادہ روحانی حرکت باب میں پائی جاتی ہے۔

 

۳۱۴

 

اللہ تعالیٰ جن معنوں میں اس وسیع و عریض کائنات کو دستِ قدرت میں لپیٹ لیتا ہے، اس میں بہت سے حکیمانہ اشارے ہیں، چنانچہ وہ اس میں ہر قسم کی بعید چیزوں کو قریب لاتا ہے، وہ ازل و ابد کو یکجا کرکے دکھاتا ہے، ماضی (جس کا اگلا سرا زمانۂ آدمؑ ہے) کو لوٹا کر زمانۂ حال میں مرکوز کر دیتا ہے، اور مستقبلِ بعید کو اجتماعی قیامت سمیت کھینچ کر انفرادی روحانیّت میں سما دیتا ہے، اور اگر ہم مانتے ہیں کہ یہ ایک قرآنی حقیقت ہے، تو چلئے اسی قانوں کے مطابق یہ بھی مانیں کہ یہ سب کچھ “نو رٌ علیٰ نور” (۲۴: ۳۵) کے مقام پر واقع ہوتا ہے، یعنی روح و روحانیّت کی اس منزل میں، جہاں (ناطقؐ یا اساسؑ یا) امامؑ اور باب دو دریاؤں کی طرح باہم مل جاتے ہیں، (۱۸: ۲۰ تا ۲۱)۔

۱۸۔ سوال: قصۂ سلیمانؑ (۲۷: ۳۴) میں ایک امکانی فساد کا بھی ذکر ہے تو پیغمبر اور امام جیسی مبارک ہستی کے عمل میں کیوں فساد ہونا چاہئے؟ کیا آپ اس بارے میں ہمیں کچھ سمجھا سکتے ہیں یا کوئی حکمت بیان کر سکتے ہیں؟

جواب: فساد (خرابی، بگاڑ) دو قسم کا ہوتا ہے، ایک فساد برائے تخریب ہے، اور دوسرا فساد برائے تعمیر، اگر حضرت سلیمان علیہ السّلام ظاہری جہاد کی غرض سے شہرِ سبا پر حملہ آور ہوجاتے تو یقیناً وہاں فساد اور بگاڑ ہوجاتا، لیکن ہمیں عقل کی روشنی میں اس بات کا فیصلہ دینا ہوگا کہ ایسا کرنا جائز تھا یا نہیں؟ ملکۂ سبا کا یہ کہنا کہ “جب ملوک (أئمّہ) کسی شہر میں داخل ہوجاتے ہیں تو اس کو خراب کرتے ہیں۔” یہ بات ظاہراً بالکل درست ہے کہ یاجوج و ماجوج (۱۸: ۹۴؛  ۲۱: ۹۶) جو امامِ عالی مقامؑ کے لشکر میں سے ہیں، ہر مناسب قریۂ ہستی کو تعمیرِ نو کے پیشِ نظر زیرو زبر کر دیتے ہیں، لیکن اگر خودی کے بت کو توڑنے سے خدا مل جاتا ہے، تو پھر اس سے بڑی سعادت اور کیا ہوسکتی ہے۔

 

۳۱۵

 

۱۹۔ اس میں بہت بڑی حکمت ہے کہ قرآنِ حکیم نے کسی بھی کافر حکمران کو بادشاہ (مَلِک) نہیں کہا، کیونکہ مَلِک خدا تعالیٰ ہے، اور اس کی جانب سے امام مَلِک ہے، اگر دوسروں کے بقول کسی باطل شخص کو مَلِک کہنا مناسب ہوتا تو سب سے پہلے اس کا اطلاق فرعون پر ہوتا، کیونکہ قرآنِ پاک میں اس کا ایک طویل قصہ آتا ہے، مگر ایسا نہیں ہے، کیونکہ خداوندِ تعالیٰ کا کلام قانون ہے، لہٰذا وہ واحد و قہار اپنے قانون سے کسی کافر کی ناجائز حکومت کی توثیق کرنا نہیں چاہتا ۔

۲۰۔ سلمانِ فارسی سے متعلق موضوع میں انبیائے قرآن کی عظیم حکمتوں کو بیان کرنا یہ خود سلمان کی روحانی اور علمی عظمت و بزرگی کا ایک بین ثبوت ہے، لہٰذا آئیے ہم ایک بہت بڑی نعمت کی شناخت کرلیتے ہیں، وہ سرِ عظیم (بڑا بھید) سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۰) کے اس مبارک ارشاد میں پوشیدہ ہے: اور ہم نے اس (یعنی داؤدؑ) کو ایک قسم کا لباس بنانے کی کاریگری سکھائی تمہارے لئے تاکہ وہ (لباس) تم کو تمہاری لڑائی سے بچائے پس کیا تم شکر کرنے والے ہو؟ یہ کونسی صنعت (کاریگری) تھی، جو خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا؟ آیا یہ زرہ بنانے کی کاریگری تھی؟ آپ اچھی طرح سے سوچ لیں۔

اس ربّانی تعلیم میں جیسا کہ حکیمانہ خطاب فرمایا گیا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ یہ احسان ہر زمانے کے لئے ہے، اور جس نعمت کا یہاں ذکر ہوا ہے، وہ ایسی نہیں کہ دنیائے ظاہر کی مادّی ترقی اس کی اہمیت ، اور قدر و قیمت کو کم کر سکے، پس ایسا لباس جو خدا کے بندوں کو جسمانی، روحانی، اور عقلی ہر گونہ جنگوں سے بچا سکتا ہے جسمِ لطیف ہے، اور یہی اللہ کا سب سے بڑا احسان ہے، اسی لئے شکر کرنے کا حکم دیا گیا۔

تاریخِ امامت کا مطالعہ حضرتِ آدمؑ سے شروع کر کے دیکھیں تو معلوم

 

۳۱۶

 

ہوجائے گا کہ حضرتِ داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ یکے بعد دیگرے مرتبۂ امامت پر فائز ہوگئے تھے، چنانچہ یہ لباس آپ جب بھی دیکھ سکیں امامِ عالی مقام کا سب سے بڑا معجزہ ہوگا، اور جیسا کہ مذکورہ آیت سے ظاہر ہے کہ امامِ برحق کی یہ صنعت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے۔

۲۱۔ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ جسمِ لطیف کا ذکر موجود ہے، اگر صرف روحانی جہاد کی مناسبت سے اس کا بیان مقصود ہے تو ہر ایسی آیت میں ذرا غور کریں، جس میں جنگی الفاظ میں سے کوئی لفظ مذکور ہو، جیسے فرمایا گیا ہے: اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر رکھا ہے جن کو تم لو گے (۴۸: ۲۰) اس میں فلکی جسم اور روحانی جہاد کے نتیجے میں دنیا کو فتح کرلینے کی بات ہے، اسی طرح سورۂ حدید (۵۷: ۲۵) میں (لوہا) سے یہی کوکبی جسم مراد ہے، سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ سرابیل (کرتے) اجسامِ لطیف ہیں، خود قصۂ سلیمانؑ میں سارے لشکر اسی جسمِ لطیف کے ذرات ہیں (۲۷: ۱۷) عفریتِ جنّی (۲۷: ۳۹) اور وہ شخص جو کتاب، کائنات کی روحانی سائنس جانتا تھا (۲۷: ۴۰) یہی زندہ جسمِ لطیف تھا، یاجوج و ماجوج کا ذکر ہوچکا ہے، یاد رہے کہ جسمِ لطیف کا ذکر ان لفظوں میں بھی ہے جو فرشتوں سے متعلق ہیں۔

 

غلامِ غلامانِ امامِ زمان

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

یکم مارچ ۱۹۸۵ ء

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار  ۲؍ دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۱۷

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۳۱

(SHORT COURSE-5)

 

کتابِ عملی تصوّف اور روحانی سائنس و روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کا ایک انتہائی اہم مضمون معجزۂ نوافل قسطِ اوّل، ص ۵۴-۵۶:۔

اہلِ ایمان کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ دینِ فطرت (اسلام) کی عظیم تر نعمتوں کو سمجھیں اور علم و عمل سے انہیں حاصل کریں، جو لوگ رحمتِ عالمؐ کی روشن تعلیمات سے حقیقی معنوں میں فیضیاب ہوتے ہیں، وہ فی الواقع بڑے خوش نصیب ہیں، آپؐ کے نورِ ظاہر و باطن کی ہدایات میں احادیثِ قدسی بھی ہیں، جیسا کہ حدیثِ نوافل کا ارشاد ہے جس کا ترجمہ درج ذیل ہے:۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے، اور میرا بندہ میری طرف سے فرض کی ہوئی ان چیزوں سے جو مجھے پسندیدہ ہیں، میرا قرب نہیں حاصل کرسکتا، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے مجھ سے قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ (صحیح البخاری

 

۳۱۸

 

جلدِ سوم، کتاب الرقاق، باب۔ ۸۴۴۔ تواضع)۔

۱۔ اہلِ دانش کے لئے اس حدیثِ قدسی میں علم و معرفت کا وہ بیمثال اور لازوال خزانہ ہے جسے خداوندِ عالم نے کائناتِ علم و حکمت کو سمیٹ کر بنایا ہے، یہ گنجِ اسرار ایسا نہیں جو وضاحت کرنے سے ختم ہو جائے، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ خدا کے ولی سے دشمنی بدبختی اور باعثِ ہلاکت ہے، اگر کسی کو اس سے دوستی ہے تو یقیناً اس میں اللہ کی خوشنودی ہے۔

۲۔ بے شک دینِ اسلام میں فرائض کے ساتھ اور فرائض کے بعد نوافل ہیں، جن کے ذریعے رفتہ رفتہ قربِ الٰہی کی منزلیں طے ہوجاتی ہیں، آسمانی محبت یکطرفہ ہرگز نہیں، جب تک ہم اس مقدّس محبت کو عشقِ سماوی نہ کہیں تو مزہ نہیں آئے گا، عشقِ الٰہی، عشقِ رسولؐ اور عشقِ ولی کی تعریف کوئی عاشق بھی نہیں کر سکتا ہے۔

۳۔ اس حدیثِ قدسی کا حکیمانہ مضمون ہے: فنا فی الولی، فنا فی الرسولؐ، فنا فی اللہ، اس بے مثال اور انتہائی عظیم عمل کے بغیر قربِ خداوندی کی اصل صورت نہیں بنتی ہے، اگر عام طور پر سوچا جائے تو کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں خدا نہ ہو، وہ تو ہر آدمی کے لئے رگِ جان سے بھی قریب تر ہے، پھر اس قربِ خاص کے کیا معنی ہوسکتے ہیں؟ فنا، فنا، فنا۔

۴۔ خدا اپنے عاشقوں کا کان بن جاتا ہے : عاشقانِ الٰہی جن کے کان میں خدا تعالیٰ کا ظہور یا نور ہو، وہ کیسے کیسے عظیم بھیدوں کو سنتے ہوں گے؟ کیا ایسے میں بھی تسخیرِ کائنات کے اسرار سنائے نہیں جائیں گے؟ آپ خود غور کر کے بتائیں کہ وہ کون کون سی آوازوں کو نہیں سنتے ہوں گے؟ وہ “فنا فی اللہ اور بقا باللہ” کے اعلیٰ معنی میں جیتے جی مرکر زندہ ہوگئے ہیں، اس لئے انہوں

 

۳۱۹

 

نے ذاتی قیامت کے بیشمار اسرار کو سنا اور دیکھا ہوگا؟ یقیناً انہوں نے ذات و کائنات کے بہت سے روشن معجزات کو دیکھا ہوگا؟

۵۔ خدا اپنے عاشقوں کی آنکھ بن جاتا ہے: یعنی ربِّ کریم اپنے خاص بندوں کی عین الیقین اور چشمِ بصیرت بن جاتا ہے تاکہ وہ ان تمام اسرارِ باطن کا مشاہدہ کرسکیں جو ہر گونہ معرفت سے متعلق ہیں، یہ بڑا عجیب و غریب انقلابی تصوّر ہے، اس مقصدِ عالی اور نعمتِ عظمیٰ کے حصول کے لئے جانوں کی روحانی قربانی درکار ہے، اور اگر ہم اس گنجِ گرانمایہ کی طلب سے غافل رہتے ہیں تو یہ ہماری بہت بڑی نادانی ہوگی، الغرض حدیثِ نوافل کے مژدۂ جانفزا سے سالکینِ دینِ مبین کو زبردست حوصلہ ملتا ہے۔

۶۔ خدا اپنے عاشقوں کا ہاتھ بن جاتا ہے: اس حدیثِ قدسی کے انتہائی عظیم اسرار کی شکر گزاری اور قدردانی نہ ہونے کا ڈر رہتا ہے، کیونکہ یہ جملہ احوال وہ ہیں جو فنا فی اللہ و بقاباللہ کے بعد عارفِ کامل کے سامنے آتے ہیں، جیسے گوہرِ مقصود کو ہاتھ میں لینا اور افعالِ قدرت کا مظاہرہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔

۷۔ خدا اپنے عاشقوں کا پاؤں بن جاتا ہے: یعنی وہ پاؤں جو کعبۂ روحانی اور قبلۂ عقلانی تک چل سکتا ہے، وہ کامیاب ذکرِ خفی اور ذکرِ قلبی ہے، وہ اسمِ اعظم کا سب سے بڑا معجزہ ہے، وہ تمام ستاروں پر جسمِ لطیف کی سیاحت ہے، وہ عالمِ شخصی میں چلنا پھرنا ہے، اور وہ جنت کی سیر ہے۔

۸۔ معجزۂ نوافل سنتِ الٰہی کے مطابق ہے، لہٰذا یہ ہمیشہ اس جہان میں جاری و ساری ہے، کیونکہ یہ امر محال ہے کہ خورشیدِ انور کی شعاعیں کبھی کائنات میں برستی رہیں اور کبھی بند ہوجائیں، اب اس بیان کے بعد روحانی سائنس کے

 

۳۲۰

 

موضوع پر بیحد روشنی پڑتی ہے، اور بڑی جرأت مندی سے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے تمام مسلم ممالک میں روحانی سائنس پر ریسرچ سے متعلق ادارے قائم کئے جائیں، تاکہ اس کوشش سے مستقبل میں بڑے بڑے مسلم سائنسدان پیدا ہو جائیں، اور وہی دانشمند ظاہری و باطنی حکمت (سائنس) کی روشنی میں یہ ثابت کر سکیں کہ مادی سائنس کی بنیاد میں خدا کی ہستی سے انکار کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی، ۲۸؍ جنوری ۱۹۹۷ ء

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر  ۳ ؍ دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۲۱

 

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۳۲

(SHORT COURSE-6)

 

بحوالۂ کتابِ عملی تصوّف اور روحانی سائنس و روحانی سائنس کے عجائب و غرائب، معجزۂ نوافل قسطِ دوم، ص۵۷-۵۹:۔

نفل: وہ عبادت جو فرض نہ ہو، وہ نماز جو فرض، واجب اور سنت کے علاوہ پڑھی جائے، زائد عبادت جو شکرانہ کے طور پر ادا کی جائے، جمع: نوافل۔

حدیثِ نوافل میں ایک خاص اشارہ ذکرِ الٰہی کی طرف بھی ہے، کیونکہ قرآن و حدیث میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی بابرکت یاد کا بیان کثرت سے آیا ہے، یقیناً خدائے بزرگ و برتر کے اسمِ بزرگ میں نور اور سرور کا سرچشمہ پنہان ہے، جس سے ہر مومن اپنے علم و عمل کے مطابق فائدہ حاصل کرسکتا ہے، اور حکمت اسی میں ہے کہ آپ ہر لحظہ حضرتِ ربّ کو یاد کرتے رہیں، اور ہرگز ہرگز غافلوں میں سے نہ ہوجائیں۔

۱۔ اللہ تعالیٰ کی سنت (عادت) ہمیشہ ایک ہی ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں، صراطِ مستقیم ایک ہی ہے، اور جن حضرات نے اس پر چل کر نمونہ دکھایا (۰۴: ۶۹) وہ بھی اس راہ کی روحانیّت اور معرفت میں ایک ہی ہیں، اور معجزۂ نوافل کا خاص تعلق بھی انبیاء و اولیاء علیھم السّلام ہی سے ہے، کیونکہ وہی حضرات پیشرو اور رہنما ہیں، لیکن پھر بھی راہِ مستقیم پر چلنے والوں کے لئے ربّ العالمین کے کیسے کیسے عظیم انعامات ہیں کہ پیشرو آگے آگے اور پیرو ان کے پیچھے پیچھے

 

۳۲۲

 

روحانی معجزات کا مشاہدہ کرتے ہوئے منزلِ مقصود کی طرف روان دوان ہیں۔

۲۔ سورۂ فاتحہ کی پُرحکمت تعلیمات میں غور سے دیکھیں: ہم کو سیدھے رستے چلا، ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل و کرم کرتا رہا (۰۱: ۰۵ تا ۰۶) یہ خاص الخاص دعا اللہ نے اپنے بندوں کو سکھا دی ہے، جس میں نہ صرف انبیاء و اولیاء کی پیروی اور روحانی ترقی مطلوب ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام روحانی نعمتیں (از قسمِ مشاہداتِ اسرار) بھی مقصود ہیں جو ان حضرات کو حاصل تھیں۔

۳۔ اے عزیزان! یہ نکتہ ہمیشہ یاد رہے کہ فنا فی اللہ کا اصل راز جذبِ دیدار ہے، اس لئے جب کسی سالک کو انتہائی قرب کا درجہ حاصل ہوتا ہے، تو وہ فوراً ہی فنا فی اللہ ہوجاتا ہے، چنانچہ حدیثِ نوافل میں بالآخر انتہائی قرب یعنی فنا فی اللہ و بقا باللہ کا تذکرہ ہے، اسی وجہ سے ہم معجزۂ نوافل کے عنوان سے کچھ حقائق و معارف بیان کرنے کی جسارت کر رہے ہیں تاکہ روحانی سائنس کے تصوّرکو زیادہ سے زیادہ تقویّت حاصل ہوسکے۔

۴۔ شاید لوگوں کو یہ گمان ہو کہ “فنا فی اللہ” اس دنیا میں کسی بشر کے لئےممکن ہی نہیں، ایسا خیال اس وجہ سے آتا ہوگا کہ عوام کی نظر ہمیشہ ظاہر اور جسم ہی پر رہتی ہے، وہ روح کے باطنی احوال کو دیکھ نہیں سکتے ہیں، اور ان کو کوئی گلہ بھی نہیں ہے، کیونکہ خود شناسی اور خدا شناسی انتہائی مشکل کام ہے، لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس بہت بڑی کمی کے لئے کوئی چارۂ کار نہ ہو، جاننا چاہئے کہ یقین (معرفت) مرحلہ وار ہے، جیسے علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین، پس ہر شخص کو اوّل اوّل علم الیقین سے وابستہ ہوجانا چاہئے۔

۵۔ قرآنِ حکیم کی ایسی آیاتِ کریمہ میں “فنا فی اللہ” کا ذکرِ جمیل زیادہ نمایان ہے جن میں وجہ اللہ اور لقاء اللہ یا لقاءِ ربّ جیسے پاک و مبارک الفاظ آئے

 

۳۲۳

 

ہیں، کیونکہ فنا کا اصل راز جذبِ دیدارِ پاک ہی ہے، اس کے بعد بھی کوئی آیۂ مقدسہ ایسی نہیں جس کی حکیمانہ ہدایت منزلِ مقصود کی طرف نہ جاتی ہو، اور وہ پاک منزل خداوندِ عالم ہی ہے اور اس کا دیدارِ اقدس، جس میں جذبِ دیدار ہے، آپ نے دیکھا کہ قرآنِ عظیم میں کس طرح ہر چیز کا بیان ہوسکتا ہے۔

۶۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ روحانی سائنس ہی کا ذریعہ اور سلسلہ ہے کہ اگر حضرتِ خالق کی ملاقات کے اسرار معلوم ہوسکتے ہیں تو مخلوق (کائنات) کے ضروری بھید کیوں معلوم نہیں ہوسکتے؟ یقیناً دوستانِ خدا نورِ معرفت کی روشنی میں روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کو بیان کر سکتے ہیں۔

۷۔ انسان (بوسیلۂ مرشدِ کامل) کارخانۂ قدرت بھی ہے اور آئینۂ حسن و جمالِ الٰہی بھی، قادرِ مطلق عالمِ شخصی کے کارخانے میں ہمیشہ کے لئے کائناتیں بناتا ہے، ہر کائنات ایک عظیم فرشتے کی صورت میں زندہ اور عاقل ہوا کرتی ہے، اور وہ انسانِ لطیف بھی ہے، نیز وہ اس موجودہ کائنات کی جان بھی ہے، کیونکہ کائنات ہی خام مال کے طور پر اس کارخانے میں استعمال ہوتی رہتی ہے، اور یہ عملِ تجدّد کا سلسلۂ لاابتداء و لا انتہاء ہے۔

اب آپ یہ بتائیں کہ کائنات زندہ اور باشعور ہے یا نہیں؟ اگر یہ سچ مچ زندہ و عاقل آدمی کی طرح ہے تو یہ خدا ہی کی تعریف ہے کہ اسی نے ایسا عجیب و غریب عالم بنایا ہے، پھر مادّی سائنس کے ان نطریات کو رد کرنا ہوگا، جن سے وجودِ باری تعالیٰ کی نفی کی بو آرہی ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی

فرسٹ ہیڈ کوارٹر کراچی

جمعرات ۲۰؍ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ    ۳۰؍ جنوری ۱۹۹۷ء

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۷؍ دسمبر ۲۰۰۱ ء

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۲۴

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۳۳

(SHORT COURSE-7)

 

بحوالۂ کتابِ عملی تصوّف اور روحانی سائنس بعنوانِ روحانی سائنس کے عجائب و غرائب، قسطِ اوّل، ص۱۴۱-۱۴۵:

آج سے تقریباً چودہ سو (۱۴۰۰) سال قبل قرآنِ پاک نے بڑے واضح الفاظ میں یہ پیش گوئی فرمائی تھی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ لوگوں کو آفاق اور انفس میں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھانے کا سلسلہ شروع کر ے گا (۴۱: ۵۳) چنانچہ ہم کسی شک کے بغیر یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی وہ نشانیاں یا عجائب و غرائب آج مادّی سائنس اور اس کے ایجادات کی شکل میں لوگوں کے سامنے ظاہر ہیں، اور قدرتِ خدا کی یہی نشانیاں کل بحقیقتِ روحانی سائنس عالمِ شخصی میں اپنا انتہائی حیرت انگیز کام کرنے والی ہیں۔

اگر قادرِ مطلق کی ظاہری و مادّی نشانیوں کو سائنس کا نام دیا جاسکتا ہے تو یقیناً اس کی باطنی و روحانی نشانیوں کی روحانی سائنس کہا جا سکتاہے، کیونکہ آفاق و انفس اور ان میں ظہور پذیر ہونے والی آیات سب کی سب خدا ہی کی ہیں، تاہم ان آیات اور اس سائنس کی بہت بڑی اہمیت و فضلیت ہوگی، جس کے حیران کن معجزات عالمِ شخصی میں رونما ہونے والے ہیں، کیونکہ انسان کا مرتبہ تمام کائنات و موجودات سے ارفع و اعلیٰ ہے۔

 

۳۲۵

 

روحانی سائنس کے عظیم الشّان ظہور سے متعلق قرآنِ حکیم کی یہ پُرحکمت پیشگوئی عوام الناس اور اکثریت کی نسبت سے فرمائی گئی ہے، ورنہ حضراتِ انبیاء واولیاء علیھم السّلام اور عارفین و کاملین کے نزدیک روحانی سائنس انسانی تاریخ کی ابتدا ہی سے اپنا کام کرتی چلی آئی ہے، جس کی مثالیں کتبِ سماوی میں بکثرت ملتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ روحانی ترقی کی بدولت روحِ اعظم کے عظیم اسرار سے ہمیشہ استفادہ کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ خواجہ حافظ کا یہ مشہور شعر ہے:

فیضِ روح القدس ارباز مدد فرماید

دیگران ہم بکنندآنچہ مسیحا میکرد

ترجمہ: روح القدس کا فیض اگر پھر سے مدد فرمائے، تو دوسرے لوگ بھی ایسے معجزے کریں گے جیسے حضرتِ عیسٰی علیہ السّلام کرتے تھے۔

اگر آج مجھ ایسا ناچیز عام آدمی روحانی سائنس کے بھیدوں سے بحث کررہا ہو تو ضروری طور پر آپ یوں سمجھ لیجئے کہ اب وہ بابرکت زمانہ آرہا ہے جس میں مذکورۂ بالا قرآنی پیش گوئی کے مطابق خاص روحانی سائنس عوام کی خاطر عام ہونے والی ہے تاکہ حقیقی معنوں میں عالمِ انسانیت کی مادّی، اخلاقی، اور روحانی ترقی ہوسکے، جی ہاں، یقیناً یہ بات زرِ خالص کی طرح صاف اور سچ ہے کہ جب تک روحانی سائنس کا عظیم الشّان انقلاب نہ آجائے تب تک دنیا والوں کے یہ تمام سخت پیچیدہ مسائل ختم نہیں ہوسکتے ہیں، اور نہ ہی سیّارۂ زمین کی غربت و جہالت کا خاتمہ ہوسکتا ہے، کیونکہ صرف روحانی سائنس ہی ہے جس میں پروردگارِ عالمین نے تمام لوگوں کے لئے بیحد و بے حساب علمی برکتیں رکھی ہیں، جس کی ایک روشن مثال مادّی سائنس ہے جس کی وجہ سے دنیا کی ظاہری ترقی ہوئی ہے۔

خدائے بزرگ و برتر نے ارض و سماء کی جملہ اشیاء کو انسان کے لئے بحدِّ فعل

 

۳۲۶

 

یا بحدِّ قوت مسخر بنا دیا ہے، اس عظیم ترین احسان کا ذکر قرآنِ پاک کی متعدد آیات کریمہ میں آیا ہے، اس ربّانی تعلیم میں ظاہری و باطنی دونوں قسم کی سائنس کی طرف بھرپور توجہ دلائی گئی ہے، اب ہم سطورِ ذیل میں روحانی سائنس کی بعض ایسی اہم اور عجیب و غریب چیزوں کا ذکر کر دیتے ہیں جن کا کسی ادارے کو مشاہدہ اور کسی حد تک تجربہ ہو چکا ہے۔

سب سے پہلے اس بے مثال حقیقت کی تصدیق کی جاتی ہے کہ انسان نہ صرف عالمِ شخصی (عالمِ صغیر) ہی ہے، بلکہ یہ خدا کی خدائی میں واحد روحانی عجائب گھر بھی ہے، اس عجائب خانۂ قدرت میں بیحد و بے حساب زندہ اور بولنے والے عجائب و غرائب موجود ہیں، منجملہ یہاں طرح طرح کی پُرحکمت مثالوں پر محیط ذی حیات ذرات پائے جاتے ہیں، یہ آپ کو نہ صرف یا جوج و ماجوج اور روحانی لشکر کی حیران کن مثال پیش کرسکتے ہیں، بلکہ عالمِ ذر سے متعلق تمام عرفانی اسرار کا عملی مظاہرہ کرنا بھی انہی کا کام ہے ، چنانچہ جسمِ لطیف اور روح پر مبنی ان چھوٹے لاتعداد ذرات کا انوکھا قصہ بڑا طویل ہے۔

اس سلسلے میں یہ بھی بتا دینا ضروری ہے کہ روحانی سائنس میں حواسِ ظاہر و باطن مل کر کام کرسکتے ہیں، لہٰذا ان کی روحانی تربیت بیحد ضروری ہے، جس طرح کسی قابل شخص کو خلا میں بھیجنے سے قبل شدید بدنی مشقتیں کراتے ہیں، پھر اس کو سیّارۂ زمین کی کشش سے باہر جانا پڑتا ہے، اسی طرح روحانی سائنس کے تجربے کی خاطر انتہائی شدید ریاضت کے ساتھ ساتھ کرۂ نفسانیت کی کشش سے بھی بالاتر ہوجانے کی سخت ضرورت ہے، ورنہ ممکن ہے کہ کوئی آدمی یہ کہنے کی جرأت کرے کہ “روحانی سائنس” نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔

بابرکت روحانی سائنس کا ایک عظیم اور بڑا مفید تجربہ یہ بھی ہوا ہے کہ آدمی کی

 

۳۲۷

 

قوّتِ شامّہ کو ایسی گونا گون خوشبوئیں حاصل ہوسکتی ہیں، جن میں لطیف جوہری غذائیں بھی ہیں اور مختلف بیماریوں کے لئے روحانی دوائیں بھی، اس مقام پر خوب غور و فکر کرنے سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ہر چیز کی اصل جوہر کا خزانہ روح ہی ہے یعنی ہر پھول، پھل اور جڑی بوٹی میں جیسا رنگ اور جس قسم کی خوشبو ہے، وہ روح کی وجہ سے ہے، کیونکہ یہ روح ہی کا کمال ہے جو رنگ و بو اور ذائقہ لے کر پھول، پھل، فصل، اور دیگر نباتات میں آتی ہے۔

چلّہ جیسے شدید حالات کسی درویشِ دلریش کے حق میں کتنے بابرکت ہوا کرتے ہیں، اس کا اندازہ صرف اہلِ دانش ہی کرسکتے ہیں، ایک ایسے گرانقدر وقت میں جبکہ بھوک اور پیاس بیحد عزیز لگ رہی تھی مؤکل نے پوچھا: بتاؤ، کن کن خوشبوؤں کی کیفیت میں لطیف غذا کا تجربہ چاہتے ہو؟ عرض کی گئی کہ میں روحانی دولت کے لئے بیحد محتاج اور غریب ہوں، لہٰذا چند ایسے پھولوں، پھلوں، اور نباتات کی الگ الگ خوشبوؤں کا تجربہ چاہتا ہوں، تو ان خوشبوؤں کا تجربہ کرایا گیا، جس کو اگر روحانی سائنس کی خوشخبری قرار دی جائے تو بیجانہ ہوگا۔

روحانی سائنس کا ذاتی تجربہ بطورِ خاص اس منزل میں شروع ہوجاتا ہے، جہاں سالک پر جیتے جی نفسانی موت واقع ہو جاتی ہے، اس موت کے تجدّد کا سلسلہ سات رات اور آٹھ دن تک جاری رہتا ہے تاکہ اس کے عظیم الشّان معجزات اور عجائب و غرائب پر خوب غور و فکر کیا جاسکے، اس حال میں کائنات اور موجودات کا روحانی نچوڑ یا جوہر بشکلِ ذرات سالک میں بھر دیا جاتا ہے اور سالک کی روح کائنات میں پھیلا دی جاتی ہے، اور یہ عمل مذکورہ عرصے تک دہرایا جاتا ہے، اسی معنیٰ میں دو سانچے مقرر ہوجاتے ہیں، ایک سانچا (قالب) عالمِ کبیر کا، دوسرا سانچا عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) کا، تاکہ کائنات انسانی سانچے میں ڈھل کر انسانِ کبیر ہوجائے،

 

۳۲۸

 

اور انسان کائناتی قالب میں ڈھل کر عالمِ اکبر ہوجائے، جیسا کہ مولا علیؑ نے فرمایا:۔

اے انسان! کیا تو گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر سمایا ہوا ہے۔ پس روحانی سائنس اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا عطیہ ہے جس سے نہ صرف عالمِ شخصی اور کائنات کی تسخیر ہو جاتی ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان دونوں کی بے شمار کاپیاں حاصل ہوسکتی ہیں۔

اب ایک بہت بڑا عالمی مسٔلہ سامنے ہے، اور وہ ہے: یو۔ایف۔ اوز سے متعلق سوال کہ وہ درحقیقت کیا چیزیں ہیں؟ یہ سوال جتنا مشکل اور جیسا ضروری ہے، اس کا جواب اتنا دلچسپ اور ایسا مفید بھی ہے، وہ یہ ہے کہ یو۔ایف۔او اس ترقی یافتہ انسان کا عارضی نام ہے جو کسی سیّارے سے آتا ہے یا اس دنیا میں رہتا ہے، کیونکہ انسان ہی ہے جو کثیف سے لطیف ہوکر پرواز کرسکتا ہے اور انسان ہی سے جنّ وپری ہوجاتا ہے، اس لطیف مخلوق پر خدا ہم کو آزما رہا ہے، نیز اس کے ظہور سے یہ اشارہ بھی مل رہا ہے کہ روحانی سائنس کا زمانہ آچکا ہے، اور “یو۔ ایف۔ او” وہ انسان ہے جو وقت آنے پر فرشتہ ہوچکا ہے، اور بحکمِ خدا اپنے ظہور سے یہ سگنل دے رہا ہے کہ دیکھو زمانہ بدل گیا، اور روحانیّت کا دور آگیا۔

کیا جمادات کی ترقی یافتہ صورت نباتات نہیں ہے؟ کیا نباتات سے حیوانات کا وجود نہیں بنتا ہے؟ آیا حیوان کا خلاصہ انسان نہیں ہے؟ آیا انسان روحانی ترقی سے فرشتہ نہیں بنتا ہے؟ کیا فرشتہ پوشیدہ ہونے کے معنی میں جنّ نہیں کہلاتا ہے؟ کیا مخلوقات کے آپس میں ظاہراً رشتہ اور باطناً وحدت نہیں ہے؟ اس کا مجموعی جواب اور خلاصہ یہ ہے کہ یو۔ایف۔اوز حقیقت میں

 

۳۲۹

 

دوسرے سیّاروں کے ترقی یافتہ انسان ہیں، جن کی روحانی سانئس درجۂ کمال پر پہنچ چکی ہے۔

عالمی یا بین الاقوامی سطح پر ہمیشہ قانونِ اخلاق یہی حکم دیتا ہے کہ وہ ملک و قوم جس نے ترقی کی ہے، وہ پس ماندہ لوگوں کی مدد کرے، چنانچہ دوسرے سیّاروں پر رہنے والے انسانوں یا فرشتوں کا مقدس فریضہ یہی ہے کہ وہ اپنے ان بھائیوں کو جو روحانی سائنس میں غریب ہیں، زمین سے اٹھا کر دوسرے ستاروں پر پہنچا دیا کریں، اللہ کے حکم سے یقیناً ایسا ہی ہوگا، یہ اڑن طشتریاں جہاز کی شکل میں کیوں نظر آتی ہیں؟ یہ اشارۂ حکمت ہے، جس میں ان کا یہ کہنا ہے کہ ہم تمہارے کائناتی جہاز ہیں تاکہ تم کو مستقبل میں کائنات کی سیاحت کرا دی جائے۔

عظمت و بزرگی اور سلطنت و سلطانی کا ایک عجیب منشا یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ بادشاہ کبھی کبھار بھیس بدل کر اپنے ملک میں گھومے پھرے، تاکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ لوگ کسی بھی علامت و نشان سے اس کو پہچانتے ہیں یا نہیں، خصوصاً ایسا امتحان رات کے وقت ہوا کرتا تھا، رات لاعلمی کی مثال بھی ہے اور یہ باطن بھی ہے، چنانچہ ترقی یافتہ انسان یا فرشتے اڑن طشتریوں کے بھیس میں آکر دنیا کے بڑے دانشمندوں، سائنسدانوں اور بڑی بڑی قوموں سے امتحان لیا کرتے ہیں۔

“یو۔ایف۔او” دراصل وہ مافوق الفطرت بشر ہے جس کو جثّۂ ابداعیہ یا آسٹرل باڈی کہا جاتا ہے، نیز یہ وہ معجزاتی کرتا ہے جس کو پہن کر یعنی اس میں منتقل ہو کر آپ نہ سردی محسوس کریں گے نہ گرمی، اور نہ ہی کوئی جنگ اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی

لندن  ۱۴؍ جولائی ۱۹۹۵ء

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۱۸؍ دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

۳۳۰

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۳۴

(SHORT COURSE-8)

 

از کتابِ عملی تصوّف اور روحانی سائنس و روحانی سائنس کے عجائب و غرائب ، قسطِ دوم، ص ۱۴۶-۱۵۰:

اگر قصۂ آدم پر روحانی سائنس کی روشنی ڈالی جائے تو یقیناً اس میں سے فائدۂ بنی آدم کے بہت سے اسرار منکشف ہوسکتے ہیں، مثال کے طور پر یہ سوال کیا جائےکہ خدا کے حکم سے جن فرشتوں نے پہلے پہل حضرتِ آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا وہ کونسے فرشتے تھے؟ ان کی ہستی کا تصوّر کیا ہے؟ سجود میں کیا حکمت پنہان تھی؟ آیا اس میں اولادِ آدم کے لئے بھی کوئی نویدِ جانفزا ہے یا نہیں؟

اس کے لئے روحانی سائنس میں یہ جواب ہے: سب سے پہلے عالمِ ذرّ کے ملائکہ نے حضرتِ آدمؑ کو سجدہ کیا، وہ ہستی کے اعتبار سے صرف ذرات ہی تھے، وہ آدم کی ہستی میں گر رہے تھے اور یہی سجدے کی ظاہری شکل تھی، یہ فرشتے بظاہر ذرات لیکن بباطن تسخیرِ ذات و کائنات کی کلیدیں تھے، لہٰذا سجود اظہارِ اطاعت کے معنی میں تھا کہ یہ فرشتے آدمؑ کے لئے عالمِ شخصی اور کائنات کو حقیقی معنوں میں مسخر کر دیں گے، جی ہاں، قانونِ رحمتِ الٰہی ہرگز ایسا نہیں کہ باپ کو تاجِ خلافت سے سرفراز فرما کر مسجودِ ملائک بنا دیا جائے، اور اولاد کو ہمیشہ کے لئے آتشِ دوزخ میں دھکیل دیا جائے، لہٰذا یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ حضرتِ ابوالبشر

 

۳۳۱

 

کے لئے جس طرح فرشتوں نے عالمِ ذرّ میں بھی اور آگے چل کر عالمِ عقل میں بھی سجدۂ فرمانبرداری بجا لایا، اس میں اس کی اولاد کے لئے دو مرحلوں میں خوشخبری ہے:۔

مرحلۂ اوّل یہ کہ دورِ خواص میں فضائل و کمالاتِ آدمؑ صرف انبیاء و اولیاء (علیھم السّلام) ہی کو حاصل ہوجائیں گے، اور مرحلۂ دوم میں بشارت یہ ہے کہ دورِ عوام میں روحانی انقلاب کے آنے سے آدم کی روحانیّت عوام کے لئے بھی کام کرنے لگےگی، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں بنی آدم کی کرامت و فضلیت بیان ہوئی ہے، اور ان کے لئے نصیحت بھی ہے۔

روحانی سائنس کی روشنی میں یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ فرشتوں نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے لئے دوسرا اور آخری سجدہ عالمِ عقل میں کیا، جس میں وہ سب کے سب ایک ہی عظیم فرشتہ تھے، جب روحانی اور عقلانی قوّتوں نے فرشتوں کی مثال میں سجدہ کیا تو حضرتِ آدمؑ کی خلافت کائناتی زمین میں فعلاً قائم ہوگئی یہاں یہ ضروری نکتہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ خلافت صرف سیّارۂ زمین تک محدود نہیں، بلکہ یہ کائنات بھر کی خلافت ہے، کیونکہ قرآنِ پاک کا فرمانا ہے کہ خلافتِ الٰہیہ کی زمین بیحد وسیع ہے (۲۴: ۵۵؛  ۲۹: ۵۶؛  ۳۹: ۱۰) اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ زمین (۱) نفسِ کلّ ہے (۲) کائنات اور اس کے سارے ستارے ہیں (۳) اور عوالمِ شخصی ہیں۔

قصۂ آدم کے روحانی اسرار بہت سے ہیں، ان میں سے صرف چند مثالیں پیش کرنے کے بعد اب ہم اس نویدِ جانفزا کی طرف آتے ہیں جو بنی آدم کے عوام کے لئے ہے، وہ یہ ہے کہ جب خلافتِ آدم کا اعلان فرمایا گیا تو اس میں یہ ہمہ رس و ہمہ گیر خوشخبری تھی کہ یہ خلافت آدم کی حیاتِ جسمانیہ تک محدود نہیں بلکہ اس کے سلسلۂ وارثین (انبیاء و اولیاء علیھم السّلام) میں ہمیشہ جاری و باقی

 

۳۳۲

 

رہے گی، اور جب دورِ عوام آئے گا تو اس وقت خلافتِ آدم کے عظیم معجزات ظاہر ہوجائیں گے تاکہ عوام الناس کو روحانی سائنس کے بے شمار فائدے حاصل ہوسکیں۔

اللہ جل جلالہ کے اسرارِ حکمت بڑے عجیب و غریب ہوا کرتے ہیں، وہ تعالیٰ شانہٗ لوگوں کو ظاہر میں اختیار دیتا ہے کہ کوئی اس کی عبادت کرے یا نہ کرے مرضی ہے، لیکن باطن میں سب لوگوں کو زبردستی سے ہدایت و عبادت کے راستے پر چلاتا رہتا ہے، اور یہ بڑا حیرت انگیز کام انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں ہوتا ہے، آپ سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں دیکھ لیں: اور اللہ ہی کیلئے سجدہ کرتے ہیں جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں، خوشی سے اور مجبوری سے۔ نیزسورۂ نور (۲۴: ۴۱) میں پڑھیں: سب کو اپنی اپنی دعا/نماز اور اپنی تسبیح معلوم ہے۔ اس نوعیت کی آیاتِ کریمہ اور بھی ہیں۔

جی ہاں، یہ بات سچ اور حقیقت ہے کہ عالمِ ذر میں تمام چیزوں کے نمائندہ ذرات موجود ہیں، اور اس میں ہر خاص و عام انسان کا بصورتِ ذرہ نمائندہ حاضر رہنا ازبس ضروری ہے، چنانچہ مذکورۂ بالا قرآنی حوالہ جات کے مطابق عالمِ ذر میں (جو شخصِ کامل میں ہے) اللہ ہی کے لئے سب کے سب عبادت اور سجدہ کرتے ہیں، جیسا کہ سورۂ مریم میں ہے:

إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ إِلاَّ آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا = جتنے بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں سب کے سب خداتعالیٰ کے روبرو غلام ہو کر حاضر ہوتے ہیں (۱۹: ۹۳) اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہت سے مشکل اور پیچیدہ مسائل ایسے ہیں، جن کی تحلیل صرف روحانی سائنس ہی سے ہوسکتی ہے، جس کا ظہور بتوسطِ

 

۳۳۳

 

عالمِ شخصی دورِ عوام میں ہونے والا ہے، جیسا کہ سورۂ زمر میں ربّ العزّت کا ارشاد ہے:

وَأَشْرَقَتِ الأَرْض بِنُورِ رَبِّهَا = اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہوجائے گی (۳۹: ۶۹) یہ قیامت القیامات کا ذکر ہے، جس میں روحانی سائنس یعنی ربّانی علم و حکمت سے زمین منور ہوجانے والی ہے، اور یہاں زمین سے باشندگانِ زمین مراد ہیں، پس حسبِ وعدۂ الٰہی (۴۱: ۵۳) آفاق کے بعد انفس (عوالمِ شخصی) میں بھی آیاتِ قدرت کا ظہور ہوگا، اور اسی مجموعۂ معجزات کا نام روحانی سائنس ہے، جس کی مدد سے لوگ ایسی عجیب و غریب روحانی قوّتوں کو استعمال کر سکیں گے جو مادّی سائنس سے تیار کردہ آلہ جات کی مثال پر ہیں، لیکن ان سے بدرجہ ہا برتر اور بہتر ہیں، ایسی زبردست روحانی ترقی کے دور میں یہ امر ممکن ہے کہ ظاہری آلہ جات رفتہ رفتہ ختم ہوتے چلے جائیں، مثال کے طور پر اگر ٹیلی پیتھی(اشراق) کا رواج عام ہوجائے تو ظاہری ٹیلیفون کا دردِ سر کون مول لےگا، اگر اڑن طشتریاں رام ہو جاتی ہیں تو پھر ہوائی جہاز کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔

انسانوں کی روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ سیّارہ زمین پر بڑی بڑی تبدیلیاں آنے کا ذکر ہے، سورۂ کہف (۱۸: ۰۷ تا ۰۸) ہم نے زمین پر کی چیزوں کو اس کے لئے باعثِ رونق بنایا تاکہ ہم لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں زیادہ اچھا عمل کون کرتا ہے، اور ہم زمین پر کی تمام چیزوں کو ایک صاف میدان کر دیں گے۔ یعنی جب سارے انسانوں کو خوشبوؤں کی روحانی غذا ملتی رہے گی تو اس کے نتیجے میں وہ جسمِ لطیف ہوجائیں گے، اور کھیتی باڑی کی ضرورت ہی نہ رہے گی، کیونکہ لوگ لطیف ہستی کی بہشت میں ہوں گے۔

قرآنِ حکیم فرماتا ہے:كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً (۰۲: ۲۱۳)۔ لوگ سب ایک ہی امت تھے (اور ہیں) یعنی تصوّر ازل و ابد اور عالمِ ذر میں تمام

 

۳۳۴

 

انسان ایک ہی جماعت ہیں اور سب سے بڑی قیامت میں بھی سب ایک ہو جانے والے ہیں، لیکن وہ اس دور میں مختلف نظریات رکھتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ظاہر میں لوگوں کو اختیار دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ متفرق و منتشر ہو گئے ہیں، اور باطن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا اختیار ہے، جس کے سبب سے وہ انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں سلکِ وحدت سے پروئے ہوئے ہیں۔

بعض قرآنی سورتوں کے آخر میں بطورِ خلاصہ زبردست علم و حکمت والی آیاتِ کریمہ وارد ہوئی ہیں، جن کو علمائے علوم القرآن “خواتم” کے نام سے جانتے ہیں، ایک ایسی پراز علم و حکمت آیۂ شریفہ سورۂ نمل کے آخر میں ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے:۔

اور آپ کہہ دیجئے کہ تمام خوبیاں اللہ ہی کے لئے ہیں وہ تم کو عنقریف اپنی نشانیاں دکھلا دے گا سو تم ان کو پہچانو گے اور آپ کا ربّ ان کاموں سے بے خبر نہیں جو تم سب لوگ کر رہے ہو (۲۷: ۹۳)۔ قرآنِ عظیم کا یہ حکمت آگین خطاب بتوسطِ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمام انسانوں سے فرمایا گیا ہے، جس میں ظاہری اور باطنی سائنس کی شکل میں معجزاتِ قدرت کے ظہور، مشاہدہ اور معرفت کی پیش گوئی ہے، یہ ان عظیم آیات و معجزات کا ذکرِ جمیل ہے جن کے مشاہدۂ عین الیقین اور حق الیقین سے مومنِ سالک کو اپنی ذات اور حق تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔

میں یہاں اپنے مضمون کی دونوں قسطوں کے اصل مطلب کو واضح کر دینے کے لئے ایک بڑا اہم سوال کرتا ہوں، وہ یہ کہ خالقِ اکبر نے تمام لوگوں کو کس ارادے سے پیدا کیا؟ آیا خدا یہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگ خوشی سے یا زبردستی سے اس کے پاس لوٹ جائیں؟ کیا حقیقت کچھ ایسی نہیں ہے کہ اگر ایک آدمی اپنے

 

۳۳۵

 

اختیار سے بڑا غلط کام کرتا ہے تو اس کو ایک وقت کے لئے سزا دی جاتی ہے، لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ کے ارادۂ ازل کے مطابق فیصلہ ہوجاتا ہے جس میں خیر ہی خیر ہے؟

اس کا پُرحکمت جواب یہ ہے: اَلْخلقُ عِیالُ اللہ، وَاَحَبُّ الخلقِ اِلَی اللہِ مَن نَفَعَ عِیَالَہٗ وَاَدْخَلَ السّرورَ علٰی اَھلِ بَیتہٖ۔ ساری مخلوق (گویا) اللہ کا کنبہ ہے، لہٰذا خدائے بزرگ و برتر کے نزدیک سب سے محبوب و پسندیدہ شخص وہ ہے جو اس کے کنبے کو زیادہ فائدہ پہنچائے اور اس کے اہلِ خانہ کو مسرور و شادمان کردے۔

 

والسلام مع الاحترام

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی

لندن،  ۱۸؍ جولائی  ۱۹۹۵ ء

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۱۹؍ دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۳۶

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۳۵

 

از کتابِ عملی تصوّف اور روحانی سائنس و روحانی سائنس کے عجائب و غرائب بعنوانِ کلمۂ “کن” کے اسرارِ عظیم، ص ۲۷-۲۹:۔

اے دوستانِ عزیز! عنوانِ بالا کی بہت بڑی اہمیت و افادیت کی وجہ سے یہاں چند سوالات ضروری ہیں، سوالِ اوّل: لفظِ کن واقعی ہے یا عبارت؟ دوم: یہ خطابِ الٰہی عدمِ محض سے ہے یا عالمِ غیب کی کسی شیٔ سے؟ سول: آیا یہ اللہ تعالیٰ کا قولی حکم ہے یا صرف ارادہ؟ چہارم: عالمِ شخصی میں اس کی معرفت ہوسکتی ہے یا نہیں؟ پنجم: کیا یہ کلمۂ تامّہ بھی ہے؟ ششم: کیا یہ ہمیشہ کا تجدّد ہے یا صرف ایک بار کا فرمانِ خداوندی ہے؟ ہفتم: اس امرِ عظیم کا اطلاق روح پر ہوتا ہے یا جسم پر یا دونوں پر؟ ہشتم: جسمانی، روحانی اور عقلانی تخلیق کے کس مرحلے میں حضرتِ آدمؑ اور حضرتِ عیٰسیؑ کو کُنۡ فرمایا گیا تھا؟ نہم: کُنۡ (ہوجا) کا امرِ پاک تو عربی ہی ہے، کیا یہ کسی اور زبان میں بھی ہوسکتا ہے؟

۱۔ لفظِ کُنۡ ایک پُراز حکمت عبارت ہے۔ ۲۔ اللہ کی بادشاہی ہر طرح سے کامل اور معمور ہے اس میں عدمِ محض کا کوئی تصوّر ہی نہیں، لہٰذا کُنۡ کا خطاب عالمِ غیب (عالمِ امر) کی کسی چیز کو ظہور دینے کے لئے ہے، بالفاظِ دیگر خزائنِ غیب سے کسی شیٔ کو نازل کرنے کے معنی میں ہے، آپ قرآنِ حکیم (۱۵: ۲۱)

 

۳۳۷

 

میں بغور دیکھیں، کیا تمام ممکن چیزیں پرودگارِ عالمین کے خزانوں میں موجود نہیں ہیں؟  ۳۔  امرخدا کا ارادہ بھی ہے اور قول بھی۔ ۴۔ جب حضرتِ ربّ کی معرفت ہوسکتی ہے تو ظاہر ہے کہ کلمۂ کُنۡ کی معرفت بھی ہوسکتی ہے۔ ۵۔ جی ہاں، یہ آخری کلمۂ تامّہ ہے۔ ۶۔  یہ تجدّد قدیم ہے، جیسا کہ سورۂ رحمان (۵۵: ۲۹) میں ہے: ہر روز اس کی ایک نئی شان ہے ۔ ۷۔  کلمۂ باری کا اطلاق پہلے روح پر اور آخر میں عقل پر ہوتا ہے۔ ۸۔  چیزیں دو دو ہیں، اس لئے یہ کہنا حقیقت ہے کہ نہ صرف حضرتِ آدمؑ اور حضرتِ عیسیٰؑ (۰۳: ۵۹) ہی کی بات ہے بلکہ ہر انسانِ کامل سے اس کا تعلق ہے کہ پہلے روحانی تخلیق کے لئے اور آخر میں جاکر عقلی پیدائش کے لئے فرمایا جاتا ہے: کُنۡ (ہوجا) تو وہ ہوجاتا ہے ۔ ۹۔ چونکہ ہر زبان آیاتِ قدرت میں سے ہے (۳۰: ۲۲) اس لئے جو بھی عارف ہوگا اور جیسی بھی اس کی مادری زبان ہوگی، اس میں کلمۂ کُنۡ کی ترجمانی (عبارت) ضرور ہوگی۔

قرآنِ حکیم میں حقائق و معارف سے متعلق بہت سے کلیات (قوانین) ہیں، اور ہر کلیہ لفظِ “کل” سے شروع ہوجاتا ہے، مثلاً سورۂ انبیاء (۲۱: ۳۳) میں ہے: كلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ = یعنی رات، دن، سورج اور چاند ہر ایک، ایک ایک دائرے میں گردش کرتے رہتے ہیں، یہ کلیہ ہرچیز کے لئے مقرر ہے، پس آفرینش اور کلمۂ کُنۡ بھی ایک دائرے پر ہے، اسی معنیٰ میں یہ کہنا بالکل درست اور بجا ہے کہ حق تعالیٰ کے کُنۡ (ہوجا) فرمانے کی نہ تو کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، بلکہ یہ اس ذاتِ قدیم کے ہمیشہ ہمیشہ کا فرمان ہے۔

تسخیرِ کائنات نہ صرف مادّی سائنس کا سب سے بڑا دلچسپ موضوع ہے، بلکہ اس کا خاص تعلق روحانی سائنس سے ہے، چنانچہ تسخیر سے متعلق جتنی قرآنی آیات ہیں، ان سب میں علم و حکمت والوں کے واسطے زبردست بشارتیں ہیں، اور

 

۳۳۸

 

ان خوشخبریوں میں یہ اشارہ ہے کہ ستاروں پر بہشت کی لطیف سلطنتیں ہیں، جن کی لازمی شرط خود شناسی اور خدا شناسی ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کلمۂ کُنۡ کے عظیم اسرار کی لازوال دولت عطا فرمائے، کیونکہ امرِ کُنۡ ہی ہے جس کے لئے شمس و قمر اور ستارے فرمانبرداری کرتے ہیں، جیسے سورۂ نمل (۱۶: ۱۲) میں ارشاد ہے: اسی نے تمہارے واسطے شب و روز اور شمس و قمر کو تابع بنا دیا ہے اور ستارے بھی اسی کے امر سے (تمہارے) تابعدار ہیں، کچھ شک ہی نہیں کہ اس میں عقل والوں کے واسطے بہت سی نشانیاں ہیں، یعنی جب تک کنزِ معرفت حاصل نہ ہوجائے تب تک نہ تو کلمۂ کُنۡ کے اسرارِ عظیم منکشف ہوجاتے ہیں اور نہ ہی تسخیرِ کائنات کا مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔

اگر آفتاب، ماہتاب، اور ستارگان کے باطنی پہلو میں کوئی عقل و جان نہ ہوتی تو وہ امرِکن کے لئے ہمیشہ کے تابعدار نہ ہوتے (۰۷: ۵۴؛  ۱۶: ۱۲) جیسا کہ اسی مضمون میں قبلاً تخلیقِ آدمؑ اور تخلیقِ عیسٰیؑ کے حوالے سے یہ ذکر ہوچکا کہ کلمۂ کُنۡ کا تعلق جسم سے نہیں بلکہ روح اور عقل ہی سے ہے (۰۳: ۵۹) پس کہنا یہ ہے کہ آیۂ فطرت (۳۰: ۳۰) کے مطابق کائنات باطناً انسانِ کبیر ہے، جس کی سب سے بڑی روشن دلیل: “اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ”  ہے، یعنی خدا کائنات کا نور ہے، ذاتِ سبحان کی یہ تجلّی نفسِ کلّی کے نام سے ہے، جس کے بہت سے اسماء میں سے چند یہ ہیں: روحِ اعظم، روح الارواح، عالمگیر روح، جانِ جہان، نفسِ واحدہ، کرسی وغیرہ۔

بیانِ بالا سے معلوم ہوا کہ کائنات میں دراصل کششِ ثقل کا کوئی وجود ہی نہیں، بلکہ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور اس کی عطا کردہ فطری ہدایت ہے، آپ قرآنِ حکیم کے پُرحکمت مضامین میں سے مضمونِ ہدایت کو خوب غور سے پڑھ کر بتائیں کہ آیا آسمان اور زمین میں کوئی ایسی چیز بھی موجود ہے

 

۳۳۹

 

جس کی حیثیت اور ضرورت کے مطابق ہدایت مہیا نہ کی گئی ہو؟ جب خدا خود یا اس کا کوئی عظیم نمائندہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے تو کیا اس پاک نور میں کائناتی اور عالمگیر ہدایت نہیں ہے؟ ضرور ہے، پس نظامِ کائنات نورِ ہدایت سے قائم و دائم ہے، اَلحَمد لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی

۱۲؍ جنوری ۱۹۹۷ء

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۲۱؍ دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۴۰

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۳۶

 

از کتابِ قرآنی مینار بعنوانِ امامِ عالی مقامؑ کے چند قرآنی نام قسط:۱ ص ۱۲۱-۱۲۹:۔

۱۔ امام المتقین (۲۵: ۷۴): اور وہ لوگ جو ہم سے عرض کیا کرتے ہیں کہ پروردگارا ہمیں ہماری بیویوں سے اور ذریت کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیزگاروں کا پیشوا (امام ۲۵: ۷۴) بنا۔ یہ دعا حضراتِ أئمہ علیھم السّلام ہی کے لئے مخصوص ہے، اور اس میں بزبانِ حکمت یہ فرمایا گیا ہے کہ سلسلۂ امامت زمانۂ آدمؑ سے شروع ہوا، اور قیامتِ قیامات تک جاری و باقی رہے گا، کیونکہ جب سے دین ہے، تب سے پرہیزگاروں کی بات چلتی ہے، قصۂ ہابیلؑ کو پڑھ لیں (۰۵: ۲۷) اور یہاں یہ اشارہ بھی سمجھ لینا ہے کہ لفظِ ذریّت کا تعلق نہ صرف مستقبل ہی سے ہے، بلکہ اس کا یہ ذکر بھی ہے کہ حال کا امام کس طرح ماضی میں بھی امام ہوا کرتا ہے، پس یہی وجہ ہے ، جو آیۂ اصطفاء (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) میں ارشاد ہوا کہ انبیأ علیھم السّلام ایک دوسرے کی ذریّت ہوا کرتے ہیں، مثال ملا حظہ ہو:۔

ذریت        ماضی       آدمی مستقبل          ذریت

۲۔ اھلِ ذکر (۱۶: ۴۳): ذکر سے حضرتِ رسولؐ مراد ہیں

 

۳۴۱

 

(۶۵: ۱۰ تا ۱۱) ذکر قرآنِ پاک بھی ہے (۱۵: ۰۹) ذکر اسمِ اعظم بھی ہے (۰۷: ۱۸۰) ذکر نصیحت بھی ہے، اور یاد کرنا بھی، چنانچہ اہلِ ذکر سے أئمہ طاہرین علیھم السّلام ہی مراد ہیں، جو اہلِ بیتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں جن کے پاس قرآن کی روحانیّت اور اسمِ اکبر پوشیدہ ہے، اور یہی حضرات لوگوں کے لئے سرچشمۂ ہدایت و نصیحت اور یاد و تذکرہ کا وسیلہ ہیں، پس انہی تمام معنوں کی طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: (اے رسولؐ) تم سے پہلے مردوں ہی کو پیغمبر بنا بنا کر بھیجا کئے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے تو (تم لوگوں سے کہو) اگر تم خود نہیں جانتے ہو تو اہلِ ذکر (اہلِ بیتِ رسولؐ/امامؑ) سے پوچھو (کیونکہ یہ حضرات شروع ہی سے اپنی نورانیت میں نورِ نبوّت سے وابستہ رہتے آئے ہیں) اور عالمِ شخصی میں ہر عارف کے لئے معرفت کا ذریعہ تجدّد امثال ہے۔

۳۔ نفسِ رسولؐ (۰۳: ۶۱) آپ واقعۂ مباہلہ کے بارے میں درست معلومات رکھتے ہوں گے، چنانچہ نفسِ رسولؐ سے مولا علیؑ مراد ہیں، آپ اس آیۂ مکرمہ میں دیکھ رہے ہیں کہ علیؑ پیغمبرؐ کی جان ہیں، کیونکہ “نفس” عربی میں جان کو کہتے ہیں، لیکن یہاں یہ پُرمغز نکتہ بھی سامنے آیا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سراپا نور تھے، تو پھر کس طرح کوئی عام و معمولی شخصیّت حضورؐ کی جان ہوسکتی ہے، جبکہ اس کا اشارہ محبوبیّت و وحدت کی طرف ہے، چنانچہ یہاں “نفس” نور کے معنی میں ہے، جیسے کہا جاتا ہے: نفسِ مطمئنہ، نفسِ واحدہ، نفسِ کلّی، وغیرہ، یہ نور ہی ہوتا ہے پس یہاں نورِ نبوّت اور نورِ امامت کی وحدت کا اشارہ ہے۔

۴۔ اصحابِ اعراف (۰۷: ۴۶): اعراف اس مقامِ عالی کا نام ہے ، جہاں معرفتیں جمع ہو جاتی ہیں، یہ عالمِ شخصی میں امامِ برحق علیہ السّلام

 

۳۴۲

 

کا مرتبۂ عقلی ہے، جہاں وہ سب کو چہروں سے پہچانتے ہیں، اشارہ ہے کہ ہر قسم کی معرفت کا تعلق چہرے سے ہے، اور انتہائی اعلیٰ معرفت کا تعلق بھی۔

۵۔ یوم الآخر (۰۲: ۰۴): چھ ناطقؑ جو صاحبانِ شریعت ہیں، خدا کے چھ دن ہیں، اور حضرتِ قائم (ع س) ساتواں دن یعنی سنیچر ہے، جو یوم الآخر ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: الٓمّٓ (نورِامامت، جو کتابِ ناطق ہے ۲۳: ۶۲) وہ ایسی کتاب ہے کہ اس میں شک نہیں (یقین ہی یقین ہے) وہ پرہیزگاروں کی رہنما ہے، جو مشاہدۂ روحانیّت سے عالمِ روحانی پر ایمان لاتے ہیں، اور نماز کو قائم کرتے ہیں (یعنی دعوتِ حق کا کام انجام دیتے ہیں) اور جو کچھ ہم نے ان کو رزق دیا ہے، اسی سے خرچ کرتے ہیں (یعنی وہ روحانی علم کی تعلیم دیتے ہیں) یہ وہ لوگ ہیں جو (دیدہ و دانستہ) اس چیز پر ایمان لاتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی ہے، اور اس چیز پر بھی جو تم سے پہلے نازل کی گئی ہے، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں، یعنی ان کو حضرتِ قائم (ع س) کی روحانی اور عقلی معرفت حاصل ہوئی ہے، اور اسی کی بدولت یہ سب کچھ ہے، جس کا اوپر ذکر ہوا، یاد رہے کہ یقین کا سرچشمہ حضرتِ قائم القیامت (ع س) ہیں، اسی لئے ارشاد ہوا: وَبِالآخِرَةِ همْ يُوقِنُونَ (۰۲: ۰۴) پس یہاں یہ قاعدہ خوب دلنشین کرلینا ہے کہ قرآنِ حکیم میں جتنےقیامت کے نام آئے ہیں، وہ حضرتِ قائم (ع س) کے اسماء و القاب ہیں۔

۶۔ کوثر (۱۰۸: ۰۱): کوثر کے معنی ہیں خیرِ کثیر اور مردِ کثیرالذرّیۃ، جس سے حضرتِ امیراالمؤمنین علیؑ مراد ہیں، حوضِ آبِ کوثر بھی بصورتِ قائم القیامت (ع۔س) مولاعلیؑ ہیں، اور آبِ کوثر کے ساقی بھی، کوثر کتابِ مکنون کا علم ہے، یہ سب حکمت اور خیرِ کثیر ہے۔

۷۔ مؤمنون (۰۹: ۱۰۵) : ایمان کے شروع سے لے کر آخر تک

 

۳۴۳

 

مختلف درجات ہوا کرتے ہیں، چنانچہ ہر امیر المٔومنین (امامؑ) ایمان کے درجۂ کمال پر ہوتا ہے، اور اسی معنیٰ میں أئمّۂ طاھرینؑ کا ایک لقب مؤمنون ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے: اور (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ تم لوگ اپنے اپنے کام کئے جاؤ ابھی تو خدا اور اس کا رسولؐ اور مومنین (یعنی أئمہ) تمہارے کاموں کو دیکھیں گے (۰۹: ۱۰۵) اس حکم سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ اللہ اور پیغمبرؐ کےبعد حضراتِ أئمّہ اعمالِ خلائق کو دیکھ رہے ہیں، اس لئے کہ خدا نے ان کو لوگوں پر گواہ بنا لیا ہے (۱۱: ۱۷؛  ۵۰: ۲۱) اور یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن اہلِ زمانہ کو ان کے امام کے ساتھ بلایا جائے گا (۱۷: ۷۱)۔

۸۔ شاھد (۱۱: ۱۷) شھید(۵۰: ۲۱) شھدأ (۰۲: ۱۴۳): جہاں خدائے پاک خود اور فرشتے توحید اور معبودیت کی گواہی دیتے ہیں، وہاں علم والے (اولو العلم ۰۳: ۱۸) بھی یہ شہادت دیتے ہیں، یہ علم والے کون ہیں؟ جو اللہ تعالیٰ کے بعد فرشتۂ قلم، فرشتۂ لوح، حاملانِ عرش، عزرائیل، اسرافیل، میکائیل، اور جرائیل جیسے عظیم فرشتوں کے ساتھ ایسی عقلی و عرفانی بلندی کی گواہی دیتے ہیں؟ کیا دیکھے اور پہچانے بغیر کوئی گواہی درست ہوسکتی ہے؟ نہیں نہیں، یہ حضرات جو علمِ توحید اور خدا شناسی کی چوٹی پر پہنچ چکے ہیں، انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام ہیں، جو عدل و انصاف پر قائم ہیں (۰۳: ۱۸)۔

۹۔ وارثِ قرآن (۳۵: ۳۲): سورۂ فاطر میں فرمایا گیا ہے: پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے خاص ان کو کتاب (قرآن) کا وارث بنایا جنہیں(اہلیت دے کر) منتخب کیا تھا (۳۵: ۳۲) یہ حضرات أئمّۂ ھداؑ ہی ہیں، جو قرآنِ حکیم کے خازن ہیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ قرآنِ مجید کی روح و روحانیّت

 

۳۴۴

 

(۰۵: ۱۵) اور نور و نورانیت (۴۲: ۵۲) امامِ زمان صلوات اللہ علیہ میں ہے، اور اسی معنیٰ میں آپؑ قرآنِ ناطق ہیں (۴۵: ۲۹) الحمدلِلّٰہ۔

۱۰۔ ام الکتاب، کتاب (۴۳: ۰۴؛  ۷۸: ۲۹): ام الکتاب سے اساس مراد ہیں اور کتاب امام ہیں، کیونکہ نورِ محمد مصطفےٰؐ قلم ہیں، اور نورِعلیٔ مرتضیٰؑ لوحِ محفوظ، اور یہی امُ الکتاب بھی ہے، پس قرآن جہاں اس زندہ اور نورانی ام الکتاب میں ہے، وہاں وہ بڑا عالی اور پُراز حکمت ہے (۴۳: ۰۴) اور اسی لوحِ محفوظ میں قرآنِ مجید محفوظ ہے (۷۵: ۲۱ تا ۲۲) چونکہ حضرتِ علیؑ کے بعد کا ہر امام بھی یہی نور ہے، اس لئے فرمایا گیا: وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ كِتَابًا (۷۸: ۲۹) اور ہم نے ہر چیز کو ایک کتاب میں محدود کر رکھا ہے۔ یہ اشارہ ہے خدا کے اس فعل کی طرف، جس سے وہ قادرِ مطلق پوری کائنات کو اپنے ہاتھ میں لپیٹ لیتا ہے، اور یہ کام اللہ تعالیٰ امامِ زمان علیہ السّلام کی مبارک ہستی میں کرتا ہے، اسی لئے ارشاد ہوا: وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ (۳۶: ۱۲)۔

۱۱۔ مثیلِ ھارونؑ: (۲۰: ۲۹ تا ۳۴): قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لِعلی: انت منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ (اخرجہ المسلم وغیرہ) جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے جنابِ امیر سے ارشاد فرمایا کہ تم مجھ سے بمنزلۂ ہارون کے ہو موسیٰ سے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرتِ امیرا لمؤمنین علیؑ مثیلِ ہارون ہیں، اور حضرتِ ہارون علیہ السّلام کے جوجو فضائل قرآن میں بیان ہوئے ہیں، وہ سب کے سب بجز نبوّت کے مولا علی علیہ السّلام میں بھی ہیں، یہ حدیثِ شریف بطریقِ حکمت قصۂ ہارونؑ کی تمام حکمتوں کو موضوعِ امامت میں شامل کردیتی ہے،

 

۳۴۵

 

یقیناً اس لئے کہ مولانا ہارون علیہ السّلام امامِ اساس تھے، جیسے مولا علی صلوات اللہ علیہ امامِ اساس ہیں۔

۱۲۔ بابِ حطہ (۰۲: ۵۸): کوکبِ دری، ارجح المطالب، وغیرہ میں مذکور ہے کہ حضرتِ رسولِ خداؐ نے فرمایا: عَلِیٌ بَابُ حِطَّۃٍ…۔ علی توبہ اور استغفار کا دروازہ ہے …۔ یہاں میں بصد عاجزی یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن و حدیث کا قانونِ حکمت ایسا ہے کہ ہر ممثول کی کئی مثالیں ہوا کرتی ہیں، جیسے مولا علیؑ کی بے شمار مثالوں میں سے ایک مثال دروازہ ہے، یعنی بابِ علمِ نبیؑ، بابِ حکمتِ پیغمبرؐ، دروازۂ توبہ، بابِ سماء (۰۷: ۴۰) درِ بہشت، وغیرہ۔

۱۳۔ مَلِک (بادشاہ ۰۲: ۲۴۷): آپ قرآنِ حکیم میں قصۂ طالوتؑ (۰۲: ۲۴۶ تا ۲۵۱) کو گہرائی سے پڑھ لیں، پھران مسائل کو حل کریں:

مسٔلہ الف: بنی اسرائیل کے یہ سردار دینی تھے؟ یا دنیوی؟

مسٔلہ ب: ان سرداروں نے خود ہی جہاد کا اہتمام کیوں نہیں کیا؟

مسٔلہ ج: ان کی درخواست پر خدا اور پیغمبر نے جب طالوتؑ کو بادشاہ بنایا، تو اسے کوئی بڑی سے بڑی طاقتِ روحانی بھی عطا کی گئی؟ یا نہیں؟

مسٔلہ د: جو شخص اللہ تعالیٰ اور نبی کی طرف سے بادشاہ مقرر ہوا ہو، وہ دینی بادشاہ کہلائے گا؟ یا دنیوی؟

مسٔلہ ھ: اگر دین میں ایسے بادشاہ کی ضرورت ہے کہ اس کو صرف خدا اور پیغمبر ہی منتخب کر سکتے ہیں، تو پھر زمانۂ نبوّت میں ایسا پسندید شخص کون تھا؟ جسے اللہ اور اس کے رسولؐ نے بادشاہت دی ہو؟ جوابِ جامع: علی علیہ السّلام ۔

 

۳۴۶

 

مسٔلہ و: اس حقیقت پر قرآن کی کیا دلیل ہے؟ جواب ملا حظہ ہو:۔

دلیلِ اوّل: اللہ تعالیٰ نے آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کو دوسری بڑی بڑی نعمتوں کے ساتھ عظیم سلطنت بھی عطا کر دی ہے، جب تک دنیا میں قرآن باقی ہے، تب تک یہ بادشاہی (۰۴: ۵۴) جاری ہے۔

دلیلِ دوم: دنیا ہو یا دین، حکم اور امر سے کوئی بڑی چیز نہیں، کیونکہ ہر بادشاہی اور حکومت کا قیام اسی پر ہے، چنانچہ پروردگارِ عالم اور رسولِ اکرمؐ نے پاک اماموں کو اولوالامر کا درجہ عطا کر کے لوگوں پر بادشاہ بنا دیا (۰۴: ۵۹) تاکہ لوگ حقیقی اطاعت و محبت کے ذریعہ ان میں فنا ہو کر بادشاہ ہوسکیں، جس کا وعدہ قرآن و حدیث میں موجود ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

کراچی، منگل  ۷؍ ربیع الثانی ۱۴۱۰ھ    ۷؍ نومبر ۱۹۸۹ء

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل  ۲۵؍ دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۴۷

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۳۷

 

کتابِ لعل و گوہر بعنوانِ بعض کلیدی الفاظ و اصطلاحات، ص: ۱۰۸-۱۱۳):۔

۱۔ کلمۂ باری: اس سے اللہ تعالیٰ کا وہ امر مراد ہے، جو کلمۂ کن (ہوجا) سے عبارت ہے، امر باری کی تین صورتیں ہیں: ارادہ، قول (کلمہ) اور فعل (مظہر)، دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہیں گے: امرِارادی، امرِ قولی، اور امرِفعلی، پس امرِارادی عالمِ ابداع میں ہے، امرِ قولی قرآن میں ہے، اور امرِ فعلی امامِ زمان علیہ السلام میں ہے، اسی معنیٰ میں امامِ اقدس و اطہرؑ کو ولیٔ امر یا صاحبِّ امر کہا جاتا ہے (۰۴: ۵۹) جیسا کہ ارشاد ہے: وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً (۳۳: ۳۷) اور خدا کا امر (پہلے ہی) عمل میں لایا گیا ہے، یعنی امامِ مبین کے عالمِ شخصی میں امرِ کل کا مظاہرۂ تجدّد اپنے تمامتر نتائج کے ساتھ موجود ہے، اسی لئے وہ مظہرِ امر، یا امرِ فعلی، یا ولیٔ امر کہلاتا ہے، آپ اس کو امرِ مجسم بھی کہہ سکتے ہیں، یاد رہے کہ جہاں امر ایک کلمہ ہے، وہاں وہ اس زبان میں ہوتا ہے، جوعالمِ شخصی میں بولی جاتی ہو، کیونکہ روحانیّت اور نامۂ اعمال کی گفتگو ہر شخص کی اپنی زبان میں ہوتی ہے۔

۲۔ ابداع و انبعاث: اگر آپ ابداع و انبعاث کے بارے میں عالمِ شخصی سے باہر سوچیں گے، تو غلط تصورات کا سلسلۂ لاانتہا شروع ہو جائے گا، اس لئے آئیے ہم سب مل کر جذبۂ شکر گزاری سے گریہ کنان خدا

 

۳۴۸

 

کے حضور باربار سجدہ کریں کہ اس نے اپنے نورِ ارضی (نورِ منزل ۰۵: ۱۵) کے توسط سے ہم پر عالمِ شخصی کے اسرار منکشف کر دیئے، چنانچہ آپ باور کریں گے کہ ابداع و انبعاث ایک ہی مقام پر ایک ساتھ ہے، یعنی جب انائے علوی کا ظہور ہوتا ہے تو یہی ظہور ازل کے اعتبار سے ابداع ہے، اور ابد کے اعتبار سے انبعاث، اور یہ بات بھی خوب یاد رہے کہ ازل و ابد عالمِ شخصی میں ایک ہی مقام پر ہے، جس کے یہ دو نام مقرر ہیں، جس کی تمثیل گھڑی سے دی جاسکتی ہے کہ اس پر جہاں بارہ بجتے ہیں، وہیں نقطۂ آغاز بھی ہے، اب سوال ہے کہ ایسے میں مُبدِع اور مُبدَع کا کیا تصوّر ہوگا؟ اس کا جواب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے: (الف) ایک لحاظ سے یہ ظہورِ مبدَع ہے، بغیر اس کے کہ مبدِع دکھائی دے (ب) دوسرے لحاظ سے یہی مبدِع بھی ہے اور مبدَع بھی، کیونکہ یہ یک حقیقت اور عالمِ وحدت کا مقام ہے۔

۳۔ عقلِ کلّ: عقلِ کلّ جو ایک عظیم فرشتہ ہے، اس کے چند نام یہ ہیں: اوّل، سابق، قلم، عرش، آدمِ معنیٰ، مُبدَع، وغیرہ ، آپ میری ایک چھوٹی سی کتاب “لب ِلباب” کو بھی دیکھیں، اس کے جیسے کثیر نام ہیں، ایسے زیادہ کام بھی ہیں۔

۴۔ نفسِ کلّ: یہ دوسرا عظیم فرشتہ ہے، اس کے مشہور اسماء یہ ہیں: ثانی، تالی، لوح، کرسی، حوائے معنیٰ وغیرہ۔

۵۔ پانچ حدودِ روحانی: عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، جد، فتح، خیال، یہ پانچ حدودِ روحانی ہیں، جو شریعت کی زبان میں قلم، لوح، اسرافیل، میکائیل اور جبرائیل کہلاتے ہیں، یہ وہ پانچ وسائط فرشتے ہیں، جن کے توسط سے آنحضرتؐ پر وحی نازل ہوتی تھی، جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے: حدثنی جبرائیل عن میکائیل عن اسرافیل عن اللوح عن القلم۔

۶۔ پانچ حدودِ جسمانی: ناطق، اساس، امام، حجت، اور داعی، یہ پانچ

 

۳۴۹

 

حدودِ جسمانی ہیں جو پانچ حدودِ روحانی کے مقابل ہیں۔

۷۔ پانچ اولوا العزم: حضرتِ نوح، حضرتِ ابراہیم، حضرتِ موسیٰ، حضرتِ عیسیٰ، اور حضرتِ محمد صلوات اللہ علیھم پانچ اولوا العزم پیغمبر ہیں، مگر حضرتِ آدم علیہ السّلام اولوا العزم میں شامل نہیں، قرآنِ پاک (۴۶: ۳۵؛  ۲۰: ۱۱۵) میں دیکھ لیں۔

۸۔ راہِ دین کی چار منزلیں: تصوّف کی بعض کتابوں میں یہ حدیث درج ہے: الشّریعۃُ اقوالی، وَالطّریقۃُ افعالی، وَالحقیقۃُ احوالی، والمعرفۃُ سِرّی۔ شریعت میرے اقوال کا نام ہے، طریقت میرے اعمال کا، حقیقت میری باطنی کیفیت کا، اور معرفت میرا راز ہے۔

۹۔ یقین کے تین درجات: علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین، سب سے پہلے علم الیقین کا مرحلہ ہے، جس میں حقیقی اور یقینی علم کی سخت ضرورت ہے، اگر ایسا علم حاصل ہوا اور اس پر عمل بھی کیا گیا تو پھر عین الیقین کی منزل تک رسائی ہوسکتی ہے، جس میں چشمِ باطن کھل جاتی ہے، اور عالمِ شخصی ہی میں حقیقتوں کا مشاہدہ ہونے لگتا ہے، اگر ان منازل میں بھی کامیابی ہوئی تو بالآخر حق الیقین کا مقام آتا ہے، جہاں سب سے اعلیٰ درجے کے اسرار ہیں۔

۱۰۔ چالیس سال کی حکمت: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم کو چالیس برس کی عمر میں نبوت عطا ہوئی، اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ آپؐ سے پہلے عالمِ دین میں چالیس حدود نے کام کیا تھا، وہ پانچ ادوار میں سے ہر دور کا ناطق، اساس اور چھ أئمّہ ہیں، اور اسی طرح (۵    ۸      ۴۰) کل چالیس حدود کا زمانہ گزر گیا تھا، جیسے قرآنِ حکیم میں ہے: حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً… (۴۶: ۱۵)۔

۱۱۔ تأویلِ محضِ مجرّد: وہ خالص اور آزاد تاویل یا وہ باطنی علم جو کسی کو

 

۳۵۰

 

عالمِ شخصی میں عطا ہو جاتا ہے، جسمیں روحانیّت و عقلانیّت کے اصل ظہورات و معجزات کا تذکرہ جامۂ تمثیل اور حجابِ تشبیہہ کے بغیر ہوتا ہے، یہ علم سب سے پہلے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو دیا گیا تھا۔

۱۲۔ حارث بنِ مرّہ: جس شیطانِ جنّی نے حضرتِ آدم سراندیبی کے لئے سجدۂ اطاعت کرنے سے انکار کیا، اس کا نام حارث بن مرہ مشہور ہے، وہ حدودِ دین اور اہلِ باطن میں سے تھا، اس لئے جنّ کہلایا، اہلِ باطن کی باطنی مرتبت عام لوگوں سے پوشیدہ ہے، اس لئے قرآن نے ان کو جن کہا۔

۱۳۔ لفظِ شیطان اور ابلیس: شیطان کا لفظ شَطَنَ سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونے کے ہیں، کیونکہ شیطان خود بھی حقیقت سے دور ہوچکا ہے اور دوسروں کو بھی دور کردیتا ہے، لہٰذا اس کا نام شیطان ہوا، بعض اہل لغت نے کہا لفظِ شَیطَانٌ میں نونِ زائدہ ہے، اور دراصل یہ شَاطَ یَشِیْطُ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں: غصہ سے سوختہ ہوجانا، لیکن یہاں یہ کہنا ہےکہ شیطان میں ایسے بہت سے برے معنی جمع ہیں، اس لئے دونوں معنی درست ہوسکتے ہیں، اب ہم لفظِ ابلیس کا تجزیہ کرتے ہیں کہ یہ اَبْلَسَ مِن رحمۃ ِاللہ (خدا کی رحمت سےمایوس ہونا) کے معنی میں ہے۔

۱۴۔ لفظِ عزازیل: کلمۂ عبری (عبرانی) ہے، جس کے معنی ہیں: خدا کا عزیز (معزز، گرامی) یہ ابلیس کے راندہ ہونے سے قبل کا لقب ہے، کہ وہ مقربین میں سے تھا، یہ نام فارسی ادبیات میں شیطان کے لئے باقی رہا ہے (فرہنگِ فارسی، عمید)۔

۱۵۔ حظیرۃ القدس: اس کے لفظی معنی ہیں: احاطۂ مقدس، اور مرادی معنی ہیں: دائرۂ عقلِ اوّل، دارالابداع، مقامِ اسرارِ ازل و ابد، گنجِ حقائق و

 

۳۵۱

 

معارف، سرچشمۂ نور الانوار، بہشتِ عالمِ شخصی، اور مرتبۂ حق الیقین۔

۱۶۔ مکان و لامکان کا باہمی تعلق: مکان عالمِ جسمانی کو کہتے ہیں اور لامکان (جس میں مکانیت کی تخصیص نہیں) عالمِ روحانی کا نام ہے، ان دونوں کی جائے تعلق یا سنگم بندۂ مومن کا دل و دماغ ہے، جس میں عالمِ لامکان کا تصوّر اور مشاہدہ ہوسکتا ہے، جب مولا علی علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا کہ: “آیا تیرا یہ گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر سمایا ہوا موجود ہے۔”  تو پھر حصولِ علم کی غرض سے پوچھنا چاہئے کہ عالمِ شخصی کا کوہِ طور کون سا ہے، اور عرش کہاں ہے؟ تاکہ بتا دیا جائے کہ پیشانی میں ہے، جو نہ صرف کوہِ طور اور غارِ حرا ہی ہے، بلکہ وہ عرش بھی ہے، اگرچہ قلب کی بہت بڑی اہمیت ہے، تاہم کئی طرح سے قلب کے اعلیٰ معنی جبین (پیشانی) میں مرکوز ہوجاتے ہیں، مثال کے طور پر روحانی سفر کے دوران جب معجزۂ عزرائیلی کا مرحلہ آتا ہے تو اس وقت قبضِ روح کے عمل سے وہ دل جو (بشکلِ صنوبری) گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، وہ بیچارہ بار بار بے جان اور مردہ ہوجاتا ہے، مگر پیشانی جو روحِ انسانی اور عقل کا مرکز ہے، وہ اس قیامتِ صغریٰ میں زندہ رہ کر تمام واقعات و حالات کا مشاہدہ کرتی رہتی ہے۔

۱۷۔ قلب کی تأویل: قلب کی اہمیت کی خاص وجہ اس کی تاویل ہےکہ قلب سے امام علیہ السّلام مراد ہے، کیونکہ مومن کے جس پاک و پاکیزہ دل کو عرشِ رحمان ہونے کا انتہائی عظیم مرتبہ حاصل ہے، وہ امامِ زمان علیہ السّلام کا نورِ اقدس ہی ہے، جو بحدِّ فعل نہیں تو بحدِّ قوت مومن کی پیشانی میں ہے، جس کا ثبوت جیسا کہ اوپر ذکر ہوا یہ ہے کہ تاویلی موت کے دوران عالمِ شخصی کی زمین (جس میں قلبِ صنوبری بھی ہے) کئی کئی مرتبہ فنا ہو جاتی ہے، مگر سر جو آسمان ہے، اور جبین جو مقامِ عرش ہے، جس پر وجہ اللہ یعنی امامِ زمان علیہ السّلام جلوہ گر

 

۳۵۲

 

ہے اس کو کچھ نہیں ہوتا، اور یہ بہت بڑا راز اسرارِ مخزون یعنی خزینۂ خاص کے بھیدوں میں سے ہے (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) اَلحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔

 

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

کراچی، منگل، ۱۰ شوال المکرم ۱۴۱۲ھ

۱۴؍ اپریل ۱۹۹۲ ء

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۲۸؍ دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۵۳

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۳۸

 

از کتابِ عشقِ سماوی، بعنوانِ انسانی حقیقت اور اس کا سایہ، ص ۱۳۰-۱۳۳:۔

یہ سچ ہے اور اس میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں کہ انسان کی اصل حقیقت عالمِ علوی میں ہے، اور اس کا سایہ (جسمِ خاکی) عالمِ سفلی میں، اور اس امرِ واقعی کی روشن دلیلیں درج ذیل ہیں:۔

دلیلِ اوّل: قرآنِ حکیم کے کئی ارشادات میں یہ ذکر آیا ہے کہ جملہ اشیائے موجودات پیدائش ہی سے دو دو ہیں، اور کوئی چیز اس قانونِ دوئی سے مستثنیٰ ہو کر ایک اکیلی نہیں ہوسکتی ہے، جبکہ صرف ذاتِ سبحان ہی واحد اور طاق ہے، اور دوسری کوئی شی ہرگز ایسی نہیں۔

دلیلِ دوم: سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانِ اقدس ہے کہ اس نے اپنی ہر مخلوق کا ایک سایہ بھی پیدا کیا، تاکہ اس سے انسان کو فائدہ ہو، یعنی اس قادرِ مطلق نے عالمِ امر میں انسانی روح کو پیدا کیا، اور عالمِ خلق میں جسم کو اس کا سایہ بنایا، جس طرح قلمِ اعلیٰ کا مظہر (سایہ) رسولِ پاکؐ ہیں، اور لوحِ محفوظ کا مظہر (سایہ) امامِ مبینؑ، ہاں اس آیۂ شریفہ میں مظہریت کی حقیقت بھی ہے کہ روحِ لطیف جو بہشت (عالمِ علوی ) میں ہے اس کا بدنِ کثیف بطورِ مظہر (سایہ) اس جہان میں ہے۔

دلیلِ سوم: مذکورۂ بالا آیت ہی میں یہ اشارۂ حکمت بھی ہے کہ ہر کامیاب

 

 

۳۵۴

 

مومن اور مومنہ کو معجزاتی پیراہن مل سکتا ہے، یہ انسان کی اصل حقیقت اور روح کا علوی سرا ہے، جو بہشت میں ہے، چنانچہ جب کوئی نیک بخت شخص اس نورانی پیراہن (جامۂ بہشت) کو پہن لے گا، تو وہ اپنے آپ کو بہشت میں دیکھے گا، یہ ہے آدمی کا اپنی اصل حقیقت سے واصل ہوجانا۔

دلیلِ چہارم: آپ یقیناً دو دو ہیں، یعنی آپ میں سے ہر ایک بیک وقت بہشت میں بھی ہے اور یہاں اس دنیا میں بھی، اور اس کی روشن دلائل میں سے ایک دلیل “ہزار حکمت” کی ابتداء ہی میں ہے، جیسا کہ ارشادِ قرآنی کا ترجمہ ہے: اور دیا تم کو ہر چیز میں سے جو تم نے مانگی (۱۴: ۳۴) یہ فرمانِ الٰہی آپ کی اس پاکیزہ اور لطیف ہستی کے پیشِ نظر ہے، جو بہشتِ برین میں مطمئن ہے، نہ کہ دنیوی وجود کے اعتبار سے، اور ہر دانا اس دلیل کی بہت قدر کرے گا۔

دلیلِ پنجم: آپ قرآنِ حکیم میں دیکھتے ہیں کہ لوگ نفسِ واحدہ/آدمِ زمانؑ سے پیدا کئےجاتے ہیں، اور پھر اسی میں وہ لپیٹ لئے جاتے ہیں، اس کا یہ مطلب ہوا کہ یہی مرتبۂ عُلیا ہی ہر شخص کی انائے علوی اور روح کا بالائی سرا ہے، جو بہشت میں ہے۔

دلیلِ ششم: اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں قدیم ہے، اس لئے وہ جلّ جلالہٗ ہمیشہ ہمیشہ کُل اشیاء کو مرکز میں لپیٹتا بھی ہے اور پھیلاتا بھی ہے، اس سے تمام چیزوں کا وہ جوہرِ وحدت مرکز سے کبھی ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ نقشِ ازل کی حیثیت سے باقی و برقرار رہتا ہے، جیسے قرآنِ حکیم جب لوحِ محفوظ سے اس دنیا میں نازل ہوا، تو اس کے لئے یہی قانون تھا کہ عالمِ امر کے مطابق وہاں بھی رہے، اور عالمِ خلق کے مطابق یہاں بھی آئے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲)

دلیلِ ہفتم: قرآنِ عزیز میں جہاں اللہ کی رسی کی مثال آئی ہے (۰۳: ۱۰۳)

 

۳۵۵

 

وہاں وہ کوئی معمولی بات ہرگز نہیں ہے، بلکہ اس کی حکمت میں انتہائی جامعیّت ہے، اور اس کا ایک واضح اشارہ یہ ہے کہ انسانی روح حبل اللہ سے وابستہ ایک چھوٹی سی رسی ہے، رسی میں سالمیت بھی ہے، اور اس کے دو سرّے بھی ہیں، اس کا بالائی سرّا بہشت میں ہے، اور زیرین سرّا دنیا میں، اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی اصل حقیقت بہشت میں ہے۔

دلیلِ ہشتم : ارشاد ہے: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ = جس نے اپنے آپ (یا اپنی روح) کو پہچان لیا، یقیناً اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ مگر یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی آدمی اپنی روحِ نباتی، روحِ حیوانی، اور عام روحِ انسانی کے قیاس پر اپنے ربّ کو پہچانے؟ ہاں یہ حقیقت ہے کہ نفسہ (اپنے آپ = اپنی روح) سے انسانِ کامل مراد ہے کہ عارف کی اصل جان (نفس = روح) وہی ہے، اور اسی کی معرفت حضرتِ ربّ کی معرفت ہے، دران حالیکہ حقیقی مرشد کی روح (نور) مرید میں آکر رہنمائی کرتی رہتی ہے، کیونکہ انسانِ کامل وہ ہے جو خدا کے عطا کردہ نور کے ذریعے سے لوگوں کے باطن میں چل سکتا ہے (۰۶: ۱۲۲) اس سے پتا چلا کہ امامِ عالی مقامؑ عموماً تمام لوگوں اور خصوصاً مریدوں کی چوتھی روح ہے، جس میں بہشت ہے، اس معنیٰ میں آپ بہشت میں بھی ہیں، اور دنیا میں بھی۔

دلیلِ نہم: سورۂ فرقان کی اس آیۂ کریمہ کی طرف بہت سے صوفیوں اور عارفوں کی نگاہیں جاتی رہی ہیں کہ یہ سایہ کون سا ہے؟ عام ہے یا خاص؟ یا خاص الخاص؟ سبحان اللہ ! یہ ظلِ الٰہی ہے (۲۵: ۴۵) کیونکہ یہ سوال مقامِ دیدار (حظیرۂ قدس) سے متعلق ہے، اور یہ سب سے بڑا راز ہے کہ جب سورج کا کوئی سایہ نہیں ظلِ الٰہی کیونکر ممکن ہوسکتا ہے؟ لیکن یہ نکتۂ دلپذیر یاد رہے کہ عکسِ خورشید ہی اس کا سایہ ہے، اور اسی طرح مظہرِ نورِ خدا ہی ظلِ الٰہی ہے اور وہ

 

۳۵۶

 

آپ کی انائے علوی ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی

پیر، یکم جمادی الاول ۱۴۱۹ ھ       ۲۴؍ اگست ۱۹۹۸ء

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات   ۳؍ جنوری ۲۰۰۲ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۵۷

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۳۹

 

بحوالۂ کتابِ ہزار حکمت، ح: ۴۰۱-۴۰۵ بعنوانِ زبور۔

زبور(۱) : لکھنا، لکھا ہوا:۔ وہ کتابِ سماوی جو حضرتِ داؤد علیہ السّلام پر نازل ہوئی، بعض علماء کی رائے ہے کہ زبوراس آسمانی کتاب کو کہتے ہیں جس میں صرف حکمتیں اور دانائی کی باتیں بیان کی گئیں ہوں۔ (قاموس القرآن)۔ میں کہتا ہوں کہ البتہ یہ سچ ہے جبکہ زبور خزانۂ عشقِ الٰہی کی ایک روشن مثال ہے، خدا وندِ عالم کے سچے عاشقوں کے پاس کیا کیا ساز و سامان ہونا چاہئے؟ اس کا مفصل جواب زبور سے ملے گا۔

زبور (۲): کتاب، مزبور:۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ قرآنِ حکیم میں کہیں بھی عشق کا لفظ نہیں آیا ہے اور نہ یہ خدا کے لئے استعمال ہو سکتا ہے، میری گزارش ہے کہ قرآنِ پاک میں نہ صرف عشق کے مترادفات ہی ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کتابِ سماوی کی تصدیق بھی موجود ہے، جس کے شروع سے لیکر آخر تک صرف عشقِ الٰہی اور اس کے وسائل کے سوا اور کچھ بھی نہیں، اور وہ حضرتِ داؤد علیہ السّلام کی زبور ہی ہے (سورۂ نسآء ۰۴: ۱۶۳، سورۂ بنی اسرائیل ۱۷: ۵۵)۔

زبور (۳): نامۂ عشقِ الٰہی:۔ قرآنِ عظیم میں عشق کے مترادفات کی

 

۳۵۸

 

موجودگی اور کتابِ عشقِ سماوی (زبور) کی تصدیق کے علاوہ عشق کے احوال بھی مذکور ہیں، مثال: اور وہ ٹھوڑیوں کے بل گر پڑتے ہیں اور روتے جاتے ہیں اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پیدا ہوجاتی ہے (۱۷: ۱۰۹) کیا یہ خدا وندِ عالم کا عشق نہیں ہے؟ آیا یہ اس عشق کا نمونہ نہیں جو صاحبِّ زبورؑ میں تھا؟

زبور (۴) : نامۂ عشقِ خداوندی:۔ ارشادِ قرآنی ہے:وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ : اور جو اہلِ ایمان ہیں ان کو (صرف) خدا ہی کے ساتھ نہایت قوّی محبت ہے (۰۲: ۱۶۵) ایسی نہایت سخت محبت کسی میں خدا کے لئے ہو تو وہ عشق ہی ہے، اور خداوندِ قدوس کا پاک عشق وہ پر حکمت اور بابرکت نور ہے جو نہ صرف دل و دماغ اور عقل و جان کو منور کر دیتا ہے بلکہ اس سے بدن کے تمام خلیات و ذرات بھی مستنیر ہوجاتے ہیں، یہی سبب ہے کہ ربِّ کریم نے حضرتِ داؤد علیہ السّلام کو کتابِ عشق یعنی زبور عطا کر دی اور ان کو معلمِ عشق بنا دیا۔

زبور (۵): کتاب، مراد نامۂ اعمال: ۔ سورۂ انبیأ کے آخری رکوع (۲۱: ۱۰۵) میں ارشاد ہے: اور ہم نے تو یقیناً (اپنے دوستوں کے) نامۂ اعمال میں (ان کی تکمیلِ) ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ میرے نیک بندے کائناتی زمین کے وارث ہوں گے۔ آپ اس کو بہشت کی زمین بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ جنت کائنات کے طول و عرض میں ہے (۰۳: ۱۳۳؛  ۵۷: ۲۱)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۲۳؍ جنوری ۲۰۰۲ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۵۹

 

قلب = فؤاد = دل آئینۂ اسرارِ معرفت ہے

قسط:۴۰

 

از کتابِ صنادیقِ جواہر (ص۔ج: ۲۰) ص ۱۶۳-۱۶۸:۔

سوال۔ ۱۹۱: کسی بابرکت زمین کی تعریف کے ساتھ ساتھ اسکے مشارق و مغارب کی طرف زیادہ توجہ دلانے میں کیا حکمت ہے؟ وہ زمین کونسی ہے (۰۷: ۱۳۷)؟ جواب: کیونکہ وہ مبارک و مقدس سرزمین عرفانی بہشت ہے، اس پر نور الانوار یعنی خورشیدِ عقل کثیر معنوں اور کثیر اشارات کے ساتھ طلوع و غروب ہوتا رہتا ہے، حالانکہ ایک ہی پاک و بابرکت جگہ ہے جو وہی مشرق بھی ہے اور مغرب بھی، لیکن کثرتِ معانی کی وجہ سے اس کو مشارق ومغارب کہا گیا، اور وہ زمین حظیرۂ قدس ہے، جس کو خدا نے امامِ مبین علیہ السلام کی جبینِ مبارک میں رکھا ہے۔

سوال۔ ۱۹۲: خورشیدِ عقل کس طرح کثیر معنوں اور کثیر اشارات کے ساتھ طلوع و غروب ہوتا رہتا ہے؟ ۔ جواب: مثال کے طور پر خورشیدِ عقل کے طلوع و غروب سے یہ معلوم ہوا کہ بیشمار چیزیں پردۂ غیب سے ظہور پذیر ہوکر پھر غائب ہو جاتی ہیں، یہ تو طلوع و غروب کی مثال ہوئی، اب غروب و طلوع کا اشارہ دیکھتے ہیں کہ معدنیات، نباتات، حیوانات، اور انسان کی پیدائش سورج کے غروب کے بعد طلوع ہونے کی طرح ہے، اور بعض واقعات و امور بھی ایسے ہیں، جیسے حضرتِ یوسفؑ کو کنویں سے نکالنا، مچھلی کے پیٹ سے حضرتِ یونسؑ کی خلاصی، حضرتِ

 

۳۶۰

 

سلیمانؑ کے لئے جنّات کا سمندر سے موتی نکالنا، وغیرہ۔

سوال۔ ۱۹۳: کیا آپ حطیرۂ قدس کے چند دوسرے نام بتا سکتے ہیں؟ جواب: ان شاء اللہ (۱) قریبی بہشت (۲) کوہِ جودی (۳) مکانِ عالی (۴) مقامِ ابراہیمؑ (۵) بیت العتیق (۶) بیت المعمور (۷) قبلۂ فرشتگان (۸) مسجدِ اقصیٰ (۹) مقامِ عقل (۱۰) مقامِ معراج (۱۱) کوہِ طور (۱۲) وادیٔ مقدسِ طویٰ (۱۳) علیین (۱۴)مقامِ خزائن (۱۵) کلیۂ امامِ مبین (۱۶) مطویات، وغیرہ۔

سوال: ۱۹۴: سقفِ مرفوع (اونچی چھت ۵۲: ۰۵) سے کیا مراد ہے؟ سقفِ محفوظ (محفوظ چھت ۲۱: ۳۲) کی کیا تاویل ہوسکتی ہے۔ جواب: سقفِ مرفوع سے عالمِ شخصی کا عرش مراد ہے، جو حظیرۂ قدس ہے، کیونکہ عرش کے معنوں میں چھت بھی ہے، اور سقفِ محفوظ لوحِ محفوظ کی طرح ہے کہ اس چھت (عرش) کے تحت جو کچھ بھی ہے وہ ہمیشہ محفوظ ہے، پس عالمِ شخصی کی جس چھت پر دیدار ہے وہ عرش ہے، اور جس سمندر پر بھری ہوئی کشتی ہے، وہ بھی عرش (تخت) ہے۔

سوال۔ ۱۹۵: سورۂ ذاریات میں ارشاد ہے:وَفِي الأَرْضِ آيَاتٌ لِلْموقِنِينَ وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلاَ تُبْصِرُونَ (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) اس کا اصل مطلب بتائیں۔ جواب: اور (کائناتی) زمین (یعنی عالمِ اکبر) میں اہلِ یقین کے لئے نشانیاں ہیں، اور خود تمہارے اپنے وجود (عالمِ شخصی) میں بھی سب کچھ ہے۔ ارض سے کائناتی زمین مراد ہے، جس میں نفسِ کلی کی زمین سب سے عظیم شی ہے، کہ وہ آسمانوں کا آسمان بھی ہے، عقلِ کلّی کی زمین بھی، اور اس کے ساتھ مل کر عقلی آسمان بھی ہے، سبحان اللہ!

 

۳۶۱

 

سوال۔ ۱۹۶:وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ (۵۱: ۲۲) اس آیۂ کریمہ میں کیا تاویلی راز ہے؟ ؍ جواب: ترجمۂ اول: آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے۔ ترجمۂ دوم: عالمِ بالا ہی میں ہے تمہارا (روحانی) رزق بھی اور وہ چیز (یعنی قیامت) بھی جس کا وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے۔ ترجمۂ سوم: شخصِ وحدت ہی میں ہے تمہارا (باطنی) رزق بھی اور وہ چیز (روحانی قیامت) بھی جس کا وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے۔

سوال۔ ۱۹۷: سورۂ مائدہ (۰۵: ۴۸) میں ارشاد ہے: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا۔ اس کا حکمتی اشارہ کیا ہے؟؍ جواب: ترجمہ: ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک شریعت اور ایک طریقت مقرر کر دی ہے۔ یعنی اسی طرح حقیقت اور معرفت بھی ضروری ہیں کہ وہ بھی خدا ہی کی طرف سے ہیں، کیونکہ اسی آیۂ کریمہ میں یہ حکم بھی ہے: فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ = پس تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جاؤ۔ قرآنی حکمت یہ بتاتی ہے کہ کوئی بھی نیکی صراطِ مستقیم سے ہٹ کر نہیں ہے، اور اس راہِ دین کی ابتداء سے لیکر اتنہا تک نیکیاں ہی نیکیاں ہیں، جن پر عمل کرنے کے لئے آگے سے آگے جانا پڑتا ہے، تانکہ مومنِ سالک فنا فی اللہ ہو جاتا ہے۔

سوال: ۱۹۸: آپ روشن دلائل سے یہ ثابت کریں کہ اسلام روحانی ترقی کا دین ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم نے نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے کا حکم دیا۔ جواب: (۱) اسلام دینِ فطرت ہے، اور فطرت کا بہتریں نمونہ انسان ہے، انسان جسماً، روحاً اور عقلاً بہت ترقی کرسکتا ہے۔ (۲) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمسْتَقِيمَ۔ کے مطابق تمام مسلمانانِ عالم ہمیشہ یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ خدا ان کو راہِ دین پر چلائے، تاآنکہ منزلِ مقصود آئے۔ (۳) دیکھئے

 

۳۶۲

 

حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے اس حقیقت کو واضح کر دیا کہ بندے کو حضرتِ ربّ کی طرف سفر کرنا ہے (۳۷: ۹۹)۔ (۴) اسلام میں سیڑھی کی مثال بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ سیڑھی (معراج) آنحضرتؐ کے روحانی سفر کو ظاہر کرتی ہے۔ (۵) انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام حدودِ دین سمیت اپنے اپنے وقت کی روحانی سیڑھیاں ہوا کرتے ہیں (۷۰: ۰۴)۔ (۶) قرآنِ عزیز میں جگہ جگہ درجات کا ذکر ہے، اور درجے بھی سیڑھی کی طرح ہوتے ہیں، جن میں ترقی کا اشارہ نمایان ہے۔ (۷) اگر مادّیت کی پستی سے نکل کر روحانیّت کی بلندی پر جانے کی ضرورت نہ ہوتی تو اللہ کی رسی اس جہان میں نہ آتی (۰۳: ۱۰۳)۔ (۸) اگر انسان کو روحانی سفر درپیش نہ ہوتا تو نہ فرمایا جاتا کہ سب سے بہتر زادِ راہ پرہیزگاری ہے (۰۲: ۱۹۷)۔ (۹) ان جیسے الفاظ میں روحانی سفر کے معانی ہیں: نور، ھدایت، ھادی، سبیل، توبہ، رجوع، اتباع (پیروی) سابقوا (سبقت کرو) سارعوا (جلدی کرو) فر وا (بھاگو) وغیرہ۔

سوال ۱۹۹: المستدرک، الجزء الثالث، کتابِ معرفۃ الصحابۃ میں یہ حدیثِ شریف ہے: الا اِن مثل اھل بیتی فیکم مثل سفینۃ نوح من قومہٖ مَن رکبِھا نجاو مَن تخلف عنھا غرق۔ اس کی گہرائی کی کوئی خاص حکمت بتائیں۔ جواب: ترجمہ: خبردار ہوجاؤ یقیناً میرے اہلِ بیت کی مثال تمہارے درمیان کشتیٔ نوح کی سی ہے کہ اس کی قوم میں سے جو شخص اس میں سوار ہوا اس کو نجات مل گئی اور جس نے اس سے مخالفت کی وہ غرق ہوگیا۔

حضرتِ نوح علیہ السّلام کا سفینۂ ظاہر مثال ہے اور سفینۂ باطن (نورِ امامت) ممثول، کیونکہ طوفان نہ صرف ظاہر میں تھا، بلکہ باطن میں بھی تھا،

 

۳۶۳

 

جس سے نجات دلانے کے لئے نورِ امامت کشتی کا کام کرتا ہے، اور یہی نور پانی پر حضرتِ ربّ کا عرش بھی ہے (۱۱: ۰۷) پس انہی تمام معنوں کے ساتھ آنحضرتؐ کے اہلِ بیت کی مثال سفینۂ نوح کی طرح ہے۔

سوال۔ ۲۰۰: یہ بہت بڑا سوال سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۱۲ تا ۱۱۵) کے حوالے سے ہے کہ وہ مائدہ (خوانِ نعمت) جس کے لئے حواریوں نے درخواست کی تھی اور حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کی دعا سے نازل ہوا تھا، وہ کسی نوعیت کی نعمتوں کا خوانِ کرم تھا؟ کیا وہ جسمانی غذاؤں کا مائدہ تھا؟ یا روحانی نعمتوں کا مجموعہ؟ ۔ جواب: حضرتِ عیسیٰؑ کے حواری اتنے انجان اور لاعلم نہ تھے کہ دنیا کی غذائیں آسمان سے طلب کریں، بلکہ یہ عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس کے جملہ معجزات تھے، جن میں روح اور عقل کی ہر گونہ غذا موجود ہوتی ہے، یہ ایسی روحانی چیزیں ہیں جو حدودِ دین کے درجۂ اوّل سے درجۂ آخر تک سب کے لئے ضروری ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

منگل ۱۲؍ فروری  ۲۰۰۲ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۶۴

 

روح شناسی اور رب شناسی

قسط : ۱

 

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۸۵) میں ارشاد ہے:وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً ۔ ترجمہ: اور یہ لوگ آپ سے روح کو (امتحاناً) پوچھتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔

یہ سوال آنحضرتؐ کے آزمانے کو یہود نے کیا تھا، پس اللہ نے کھول کر نہ بتایا کیونکہ ان کو سمجھنے کا حوصلہ نہ تھا، اگلے پیغمبروں نے بھی مخلوق سے ایسی باتیں نہیں کیں، حق تعالیٰ کا کلام اپنے اندر عجیب و غریب اعجاز (معجزہ = کرامت) رکھتا ہے، روح کے متعلق یہاں جو کچھ فرمایا اس کا سطحی مضمون عوام اور قاصر الفہم یا کجرو معاندین کے لئے کافی ہے، لیکن اسی سطح کے نیچے انہی مختصر الفاظ کی تہہ میں روح کے متعلق وہ بصیرت افروز حقائق مستور ہیں جو بڑے سے بڑے عالی دماغ نکتہ رس فلسفی اور ایک عارفِ کامل کی راہِ طلب و تحقیق میں چراغِ ہدایت کا کام دیتی ہیں (ایک ترجمۂ قرآن کا حاشیہ)۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

اتوار  ۲؍ دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۶۵

 

روح شناسی اور ربّ شناسی

قسط :۲

 

روح  = نفس = جان = جی = فرشتہ = رَوح اللّٰہ (امام ؑ= رھنما) (۱۲: ۸۷۔ بحوالۂ وجہِ دین، کلام۔ ۴۵، ص ۳۸۹)۔

حضرتِ مولا علیؑ نے فرمایا: انا امر اللّٰہِ و الرُّوح یعنی میں ہوں امرِ خدا اور اس کی روح (کوکبِ دری بابِ سوم، منقبت ۴۸)۔

سوال: آخر ایسا کیوں ہے کہ روح = نفس یعنی جان فرشتہ بھی ہے، امام بھی اور امر بھی؟ ؍ ج: اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن کی ہستی گویا ایک گاؤں = بستی ہے جس کو ایک نہر = جان = روح آباد کررہی ہے، آپ اپنے عالمِ شخصی میں نہرِ روح کا سرچشمہ دیکھنے کیلئے پانی کے بہاؤ کے خلاف نہر کے کنارے کنارے چلتے جاتے ہیں کافی دور آگے جانے کے بعد ایک صاف شفاف ندی کا پانی آپ کی نہر جان میں ملتا نظر آتا ہے، یہ فرشتہ ہے، پھر آپ اللہ کی توفیق سے اور زیادہ آگے جاتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ایک دریائے نور بہہ رہا ہے جس سے نہرِ جان کو فیض مل رہا ہے اور یہی دریائے نور امامِ مبین ہے جو اصل سرچشمۂ روح ہے اور یہی دریائے نور (امامِ مبین) عالمِ امر بھی ہے، پس یہی سبب ہے کہ قرآن نے فرمایا: روح میرے ربّ کے عالمِ امر سے ہے یا کلمۂ کُنۡ سے ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمِ امر جو امامِ مبینؑ کا نور ہے جس میں انسانی روح

 

۳۶۶

 

کا بالائی سرا مربوط ہے اور روح شناسی کا آخری درجہ بھی وہاں ہے، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ روح کے ان درجات کی معرفت سے حضرتِ ربّ العزت کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے، اور آپ کو یہ حقیقت روشن ہوئی ہوگی کہ ہدایت کا سرچشمہ بھی امامِ مبین علیہ السّلام ہی ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر ۳؍  دسمبر۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۶۷

 

روح شناسی اور رب شناسی

قسط :۳

 

یہ نایاب حدیثِ شریف حکیم پیر ناصر خسرو (ق س) کی گرانمایہ کتاب زاد المسافرین قول بیست و یکم ص ۲۸۷ پر ہے: اَعْرَفُکُمْ بِنَفْسِہٖ اَعْرَفُکُمْ بِرَبِّہٖ۔

ترجمہ: تم میں جو شخص اپنی روح کا سب سے زیادہ عارف ہے، وہی تم میں اپنے رب کا سب سے زیادہ عارف ہے۔

پس روح اور ربّ العزّت کی معرفت کے بہت سے درجات ہیں اور ان کا آخری درجہ فنائے مطلق ہے، حضرتِ مولا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے:

مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ = جس نے اپنی روحِ علوی کو حظیرۂ قدس میں پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔

سوال: کیا فنا فی الامام کے معجزۂ اعظم میں سب کچھ ہے؟

جواب: جی ہاں یہ معجزہ بھی دراصل حظیرۂ قدس ہی میں ہے۔

پس بڑے مبارک ہیں وہ جملہ اہلِ ایمان جو امامِ آلِ محمد صلعم کے عاشقانِ صادق ہیں، کیونکہ امامِ زمان علیہ السلام کا پاک عشق بڑا عجیب و غریب، خاموش اور مسلسل معجزہ ہے جس کی تعریف نہیں

 

۳۶۸

 

ہوسکتی ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

پیر ۳؍ دسمبر۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۶۹

 

عزیزانِ علمی کا ذکرِ جمیل

 

اللہ تعالٰی جلّ جلالہٗ وعمّ نوالہٗ کے فضل و کرم سے حقیقی علم اہلِ حقیقت کے لئے آج دنیا میں بھی میوۂ جنّت ہے، اور ان شاء اللّٰہ کل آخرت میں بھی، پس ہمارے عزیزانِ علمی کا ذکرِ جمیل میرے لئے باعثِ ہزارگونہ شادمانی اور خوشی ہے، کیوں نہ ہو کہ وہ سب کے سب حضرتِ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے پاک امر و فرمان کے مطابق علم الیقین میں روز افزون ترقی کررہے ہیں، یہ عزیزان دنیا کے مختلف ممالک میں ہیں، میں امریکہ اور برطانیہ کے فرشتہ خصلت عزیزان کی علمی اور روحانی مجلس سے بار بار محظوظ اور لطف اندوز ہوچکا ہوں پھر بھی طائرِ خیال ہمیشہ ان کی طرف پرواز کرتا رہتا ہے، میرے تمام عزیز شاگردوں میں علم دوستی کی زبردست مقناطیسی قوّت پیدا ہوگئی ہے جس کے پسِ پردہ مولائے پاک کے مقدّس عشق کی کارفرمائی ہے۔

یقیناً اہلِ دانش کو اس روشن حقیقت سے انکار نہیں کہ اللہ و رسولؐ کی تعلیمات لوگوں کے عقلی درجات کے مطابق ہیں، لہٰذا میں آنحضرتؐ کے ارشادِ مبارک “اَلْخَلق عِیَال اللہ” (تمام مخلوقات گویا خدا کا کنبہ ہیں) کا شیدائی ہوں اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہوا کہ مسلمان تو مسلمان ہی ہیں بہشت میں سب لوگ جائیں گے، ان شاء اللّٰہ  میں بھی سب کے ساتھ یا ان کے پیچھے

 

۳۷۰

 

پیچھے بہشت میں جاؤں گا۔

سورۂ یاسین (۳۶: ۵۵) میں اہلِ جنّت کے شغل کا ذکر ہے، میری تحقیق کے مطابق یہ علمی شغل ہے، کیونکہ جنت کی اعلیٰ نعمتیں علمی، عقلی اور عرفانی ہیں، جبکہ عالمِ شخصی کی بہشت = حظیرۂ قدس میں بھی ایسی نعمتیں ہیں۔

سوال : الخَلق عِیَال اللہ کا ارشادِ نبوّی بھی حق ہے، اور دوسری طرف قرآن و حدیث میں دوزخ کا ذکر بھی حق ہے، اس صورت میں سب لوگ بہشت میں کیسے جا سکتے ہیں؟

جواب: دوزخ کی تاویل ہے ایسی جہالت و نادانی، جس کی وجہ سے مظہرِ نورِ خدا کی معرفت حاصل نہیں ہوسکتی ہے، اسی طرح اکثر لوگ دوزخِ نادانی میں گرفتار ہوجاتے ہیں، مگر جب امامِ زمانؑ بحکمِ خدا کسی عالمِ شخصی میں روحانی قیامت برپا کرتا ہے تو اس میں تمام لو گ جمع ہوجاتے ہیں، اور ان کو دوزخِ نادانی سے نکال کر بہشت کی طرف لایا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے امام کو بہت سے مراتب دیئے ہیں ان میں سے یہاں دو مرتبوں کا ذکر کیا جاتا ہے، اوّل یہ کہ وہ امام المتقین ہے، اور دوم یہ کہ وہ امام النّاس ہے، یعنی سب لوگوں کا امام، اس مرتبے میں وہ تمام لوگوں کو روحانی قیامت کے ذریعے بہشت میں جمع کر لیتا ہے، پس بہرحال ہم سب بہشت میں ہوں گے بہشت میں جنت الاعمال بھی ہے یعنی وہ جنت جو خدا نے آپ کے نیک اعمال سے آپ کے لئے بطورِ خاص بنائی ہے۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

بدھ  ۵؍ دسمبر۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۷۱

 

قرآنی حکمت = قرآنی سائنس

روحانی حکمت = روحانی سائنس

قسط :۱

 

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک پُرحکمت اسم حکیم ہے، قرآنِ عزیز کا نام بھی حکیم ہے، رسولِ پاکؐ کا ایک مبارک اسم بھی حکیم ہے، اور مولا علیؑ کا ایک اسم بھی حکیم ہے، (بحوالۂ کتابِ سرائر، ص -۱۱۷)ارشادِ مولا: اِسمِی فِی القرآن حکیماً۔ یعنی میرا نام قرآنِ شریف میں حکیم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکمت کے بغیر نہ تو خدا مل سکتا ہے نہ رسولؐ، نہ قرآن کا راز اور نہ امام کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے، پس میں حکمت کی خاطر قلندر ہوگیا ھر چہ بادا بادا! (جو ہو سو ہو)۔

قرآنِ مجید میں کوئی اسمِ صفت اس طرح سے ہوتا ہے کہ یا تو خود وہ اسم ہوتا ہے یا اس کے فعل کا کوئی صیغہ، مثلاً ایک آیت میں خلق کا لفظ آیا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ الخالق یا الخلاق سے ہے، چنانچہ قرآن میں جہاں جہاں لفظِ حکمت آیا ہے، وہاں دیکھنا ہوگا کہ اصل حکیم کون ہے؟ جیسے سورۂ لقمان (۳۱: ۱۲) میں ہے:وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنْ اشْكُرْ لِلَّهِ  (۳۱: ۱۲) ترجمہ: ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کا شکر گزار ہو۔

اس سے صاف صاف یہ معلوم ہوا کہ لقمان از خود حکیم نہ تھا، لیکن جب خدا نے اسے حکمت عطا کی تو تب وہ حکیم ہوگیا، پس آئیے ہم اللہ کی توفیق سے قرآنِ حکیم میں دیکھتے ہیں کہ خدا و رسولؐ اور قرآنِ حکیم کی حکمت کا سرچشمہ =

 

۳۷۲

 

زندہ خزانہ کہاں ہے؟ …۔ ج: وہ پاک زندہ خزانہ امامِ زمانؑ ہے۔

اس حقیقت کی پہلی دلیل: امامِ زمانؑ خدا کی بولنے والی کتاب یعنی قرآنِ ناطق ہے۔ حوالۂ قرآن : ۲۳: ۶۲ اور ۴۵: ۲۹، لہٰذا امامِ زمانؑ اپنی نورانیّت میں حکیم ہے۔

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعرات  ۶؍ دسمبر۲۰۰۱ ء

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۷۳

 

قرآنی حکمت = قرآنی سائنس

روحانی حکمت = روحانی سائنس

قسط :۲

 

دوسری دلیل: قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے:إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۰۳: ۳۳ تا ۳۴)۔

ترجمۂ آیۂ شریفۂ اصطفاء : یقیناً اللہ نے آدمؑ اور نوحؑ اور آلِ ابراہیمؑ اور آلِ عمرانؑ کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اپنی ہدایت کیلئے) منتخب کیا تھا، یہ ایک سلسلے کے لوگ تھے، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے (۰۳: ۳۳ تا ۳۴)۔

یہ سلسلۂ نورٌ علیٰ نور کی ایک روشن تفسیری آیت ہے، پس امامِ زمان علیہ السّلام اپنے نور میں قدیم بھی ہے اور حکیم بھی ہے ( بحوالۂ سرائر، ص ۱۱۷)۔

سوال: آیۂ اصطفاء میں آنحضرتؐ کا ذکرِ شریف کس طرح ہے؟

جواب: حضورِ انور صلعم کے انتخاب کا ذکر آلِ ابراہیمؑ کے ساتھ بھی ہے اور آلِ عمرانؑ کے ساتھ بھی، یہاں عمران حضرتِ امام ابوطالب علیہ السّلام کا مبارک نام ہے۔

تیسری دلیل: بحوالۂ ہزار حکمت (ح:۵) آیۂ شریفہ کا ترجمہ ہے: ہم نے

 

۳۷۴

 

تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی ہے اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی (۰۴: ۵۴)۔ آسمانی کتاب کی حقیقی وراثت، تاویلی حکمت اور عظیم روحانی سلطنت اس دور میں أئمّۂ آلِ محمدؐ کے سلسلۂ پاک میں ہے، لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ علیٔ زمان علیہ السّلام حکیم اور سرچشمۂ حکمت ہے۔

چوتھی دلیل: اللہ تعالیٰ نے جب امامِ مبینؑ میں اپنے جملہ خزانوں کو گھیر کر اور گن کر رکھا ہے تو پھر امامِ زمانؑ اپنی نورانیّت میں حکیم اور سرچشمۂ حکمت کیوں نہ ہو۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعہ  ۷؍ دسمبر۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۷۵

 

حبیبِ خداؐ کس طرح رحمتِ عالم ہیں؟

 

یہ بڑا خوبصورت عنوان، ایک نہایت حسین اچھوتا سوال ہے، رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ کی شان میں حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (۲۱: ۱۰۷)۔

پہلا ترجمہ: اے نبیؐ، ہم نےتو تم کو دنیا والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

دوسرا ترجمہ: اے رسولؐ، ہم نے آپ کو تمام عوالمِ شخصی کے لئے رحمتِ کل بنا کر بھیجا ہے۔

سوال: جب خدائے بزرگ و برتر نے اپنے محبوب رسولؐ کو دنیا کے تمام لوگوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے تو پھر قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ دوزخ کا ذکر کیوں ہے؟

جواب: دوزخ کی تاویل ایسی جہالت و نادانی ہے جس کی وجہ سے اکثر لوگ نورِ ہدایت کی معرفت سے محروم رہتے ہیں، پھر بھی نمائندۂ رحمتِ عالم = امامِ زمانؑ =  امامِ آلِ محمدؐ بحکمِ خدا روحانی قیامت برپا کرکے تمام لوگوں کو عالمِ شخصی کی بہشت میں جمع کر لیتا ہے، اسی طرح ہر زمانے کا امام اپنے وقت کے سب لوگوں کو دوزخِ جہالت و نادانی سے نکال کر بہشتِ علم و معرفت میں داخل

 

۳۷۶

 

کر دیتا ہے، انہی معنوں میں آنحضرتؐ سب لوگوں کے لئے رحمت ہیں۔

اَلخَلق عِیَال اللہ کے ارشادِ نبوّی سے اس حقیقت کی شہادت ملتی ہے، یہ قرآنی سائنس ہے جس کے جاننے میں سب لوگوں کا روحانی فائدہ اور سکون ہے، ہم نے روحانی قیامت کے متعلق بار بار لکھا ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

جمعۃ المبارک، ۲۱؍ رمضان المبارک ۱۴۲۲ھ

۷؍ دسمبر۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۷۷

 

ظہورِ محمدیؐ کیلئے چالیس ۴۰ حدودِ دین

 

بحوالۂ کتابِ سرائر و اسرار النطقاء ، ص ۸۳:۔

 

وذٰلِکَ أنک اذاعددت آدم و وصیہ و ستۃ أ ئِمۃ دورہ، ونوح و وصیہ وستۃ أئِمۃ دورہ، و ابراہیم و وصیہ وستۃ أئِمۃ دورہ، و موسیٰ وصیہ وستۃ أئِمۃ دورہ، وعیسیٰ و وصیہ وستۃ أئِمۃ دورہ، کان عددھم اربعین حدًا، وکانت خدیجۃ خاتم الأ ربعین، کما قال اللہ عزو جل:۔

إِذَا بَلَغَ أَشدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً (۴۶: ۱۵)۔

ناطق آدمؑ،      وصی مولانا شیثؑ، امامانِ دور چھ کل آٹھ

ناطق نوحؑ،     وصی مولانا سامؑ، امامانِ دور چھ کل آٹھ

ناطق ابراہیمؑ،  وصی مولانا اسماعیلؑ، أئمّۂ دور چھ کل آٹھ

ناطق موسیٰؑ،  وصی مولانا ہارونؑ، أئمّۂ دور چھ کل آٹھ

ناطق عیسٰیؑ،  وصی مولانا شمعونؑ، أئمّۂ دور چھ کل آٹھ

اس طرح۸x ۵ = ۴۰، یعنی آدمؑ سے شروع کرکے جب حدودِ دین چالیس ہوگئے تو تب ظہورِ محمدیؐ کا وقت ہوگیا، حضرتِ خدیجہ سلام اللہ علیہا حجۃ الوقت تھیں، بحوالۂ قرآن (۴۶: ۱۵) از کتابِ سرائر ص ۸۳۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)

سنیچر  ۸؍ دسمبر۲۰۰۱ ء

 

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

 

۳۷۸

 

نعتِ حضرتِ سید الانبیاء و المرسلینؐ

 

وہ بادشاہِ انبیاء وہ تاجدارِ اولیاء

محبوبِ ذاتِ کبریاء یعنی محمد مصطفیٰؐ

وہ رحمۃً للعالمین سلطانِ پاکِ ملکِ دین

وہ ھادیٔ حق الیقین یعنی محمد مصطفیٰؐ

اقدس ہے اسکا سلسلہ عالی ہے اسکا مرتبہ

قرآن ہے اس کا معجزہ یعنی محمد مصطفیٰؐ

وہ مفخرِ سب مسلمین وہ سرورِ سب کاملین

وہ رحمتِ دنیا و دین یعنی محمد مصطفیٰؐ

 

۳۷۹

 

وہ پیشوائے مرسلین وہ ہے شفیع المذنبین

مقصودِ ربّ العالمین یعنی محمد مصطفیٰؐ

وہ تھا نبی وہ تھا صفی علمِ الٰہی میں غنی

محتاج اس کے ہیں سبھی یعنی محمد مصطفیٰؐ

جس شب گئے پیشِ خدا افلاک سب تھے زیرِ پا

لولاک ہے اس کی ثناء یعنی محمد مصطفیٰؐ

نورِ مجسم وہ نبی خود اسمِ اعظم وہ نبی

سب سے مقدم وہ نبی یعنی محمد مصطفیٰؐ

میں ہوں نصیرِؔ خاکسار اے سیدِ عالی وقار

راضی ہے تجھ سے کردگار جنت تجھی سے پربہار

یعنی محمد مصطفیٰؐ یعنی محمد مصطفیٰؐ

 

اتوار  ۱۳؍ جنوری ۲۰۰۲ ء

 

۳۸۰

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط:۱

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ رعد (۱۳: ۱۵ تا ۱۶) وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَنْ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعاً وَّکَرْھاً۔۔۔الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ۔

اور آسمانوں اور زمین میں (مخلوقات سے) جوکوئی بھی ہے خوشی سے یا زبردستی سب اللہ ہی کے آگے سربسجود ہیں۔ اور اللہ کیلئے کائنات کا یہ سجود کئی معنوں میں ہوسکتا ہے، مثلاً کائنات انسانِ کبیرہے، یا ایک عظیم فرشتہ ہے، اور یہ حقیقت بھی ہے کہ روحانی قیامت میں اَلْوَاحِدُ الْقَھَّار ساری کائنات کو دستِ مبارک میں لپیٹ کر ایک گوہر بناتا ہے، اور وہ گوہر خدا کے آگے سجدہ کرتا ہے، وہ قادرِ مطلق اس موتی ( لؤ لو) کو پھیلا کر کائنات بناتا ہے اور یہ موتی خدا کی اطاعت کرتا ہے اور سجدہ کے معنی اطاعت بھی ہیں۔

جیسا کہ میں نے کہا یہ عالم اپنی سالمیت میں انسانِ کبیر بھی ہے، ایک عظیم فرشتہ بھی ہے، ارواح کا ایک سمندر بھی ہے اور کائناتی بہشت بھی ہے، اور اپنے ذرّات  میں عالمِ ذرّ بھی ہے۔ اور اللہ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْد ہے (۸۵: ۱۶) یعنی جو چاہے کرتا ہے۔

 

پیر۱۷؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

 

۱

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۲

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷) اسی پُرحکمت ارشاد میں عاشقانِ نورِ الٰہی کو خوب غور کرناہے، آمین! ترجمۂ  قرآنِ حکیم سے فائدہ اُٹھائیں۔ آپ کی گریہ و زاری، مناجات، سجودِ خاکساری اور پُرسوز وعاجزانہ دعا میں نورِ الٰہی کا عظیم معجزہ پوشیدہ ہے۔

قرآنِ حکیم گریہ وزاری کی بڑی تعریف کرتا ہے (۱۹: ۵۸) اور اچھی طرح سے دیکھ لیں کہ یہ حضرات کون تھے؟ جن کے پاک آنسوؤں کی عمدہ مثال پاک قرآن میں ہمیشہ کیلئے محفوظ وموجود ہے۔ اور میرا یقین تو یہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ السّلام عشقِ الٰہی میں روتے روتے جیتے جی فنافی اللہ ہوکر اس کا مناجاتی کلام خدا کی وحی کے سانچے میں ڈھل گیا۔

یہ پاک ارشاد (۱۷: ۵۵) کا ہے: وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰی بَعْضٍ وَّ اٰتَیْنَا دَاو‘دَ زَبُوْرًا۔

 

پیر۱۷؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۲

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط:۳

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں حکمتِ بالغہ سے لبریز ارشاد ہے:  اَلَمْ تَرَوْ اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَلَکُمْ مَّا فِیْ السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہ‘ ظَاہِرَۃً وَّبِاطِنَہً۔

تاویلی مفہوم: کیاتم نے چشمِ بصیرت سے آفاق اور اپنے نفس (حظیرۂ قدس) میں نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) خدا ہی نے یقیناً تمہارا تابع کردیا ہے۔ اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس پاک ارشاد پر کامل یقین کرکے باربار گریہ وزاری کے ساتھ اس کی بارگاہِ عالی میں بڑی کثرت سے سجود کرنا چاہئے اور ہمیشہ خدا سے ڈرتے رہنا چاہئے۔ آمین !

دعا ہے:  رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ (۰۳: ۰۸)۔

نوٹ: آیاتِ تسخیر تقریباً سولہ ہیں اور ان سب کی حکمتیں ارشادِ مذکورِبالا میں جمع ہیں، لہٰذا آپ اس میں غور وفکر کرکے خوب فائدہ حاصل کریں۔

 

منگل ۱۸؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۳

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۴

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

دیوانِ حضرت علیؑ باترجمۂ مولوی سعید احمد اعظم گڑھی ص۷۱ پرجو لاثانی اور غیرفانی کلام ہے وہ گویا باغاتِ بہشت میں سے ایک دلکشا باغ ہے، آپ باربار اس کے پھلوں اور پھولوں سے فوائد حاصل کرتے رہیں۔

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۴۴) میں یہ پُرحکمت ارشاد ہے کہ معبودِ برحق وہ ہے کہ کائنات وموجودات کی ہرچیز مقامِ عقل پر اس کی تسبیح کرتی ہے۔ اور مقامِ عقل و معرفت یہ ہے کہ عالمِ اکبر، انسانِ کبیر ہے = فرشتۂ نفسِ کلّی ہے، نفوسِ انسانی کا بحرِ محیط ہے، عالمِ لطیف ہے، لوحِ محفوظ ہے، اسی طرح اس کا ایک نام کُلُّ شَیْئٍ  بھی ہے، کیونکہ اس میں ہرچیزمحدود وموجود ہے اور یہ انسانِ کبیر جس صورت میں بھی ہو خدا کی اطاعت، سجود اور تسبیح کرتا رہتا ہے۔ معرفت کے ان تمام اسرار کو سمجھنا بہت مشکل ہے، لہٰذا ارشاد ہوا کہ تم ان چیزوں کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو۔

 

منگل ۱۸؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۴

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۵

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

الانعام (۰۶: ۱۶۰) کا بابرکت ارشاد یقیناً برکتوں کا ذریعہ ہے:  مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہ‘ عَشْرُاَمْثَالِھَا۔ ترجمہ: (اس کی رحمت تو دیکھو) جو شخص کوئی نیکی کرتا ہے تو اس کو اس کا دس گنا ثواب عطا ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ قانونِ ثواب قابلِ تعریف ہے، تاہم  قرآن میں ایک اور مثال ہے ، اس کو بھی پڑھ کر غور کریں۔ سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۶۱) ترجمہ:جو لوگ اپنے مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے خرچ) کی مثل اس دانہ کی سی مثل ہے جس کی سات بالیاں نکلیں (اور) ہربالی میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس کیلئے چاہتا ہے (بہت کچھ) اضافہ کردیتا ہے۔ مومنِ سالک کی روح دانۂ گندم سے کمتر ہرگز نہیں اگر روحانی قیامت کے کھیت (معجزانہ کھیت) میں روح کی کاشت ہوگئی تو سات رات اور آٹھ دن میں نفسِ واحدہ کی کئی کئی فصلیں تیار ہوجاتی ہیں، جس میں مومنِ سالک کی تعداد بہت زیادہ ہوجاتی ہے، یعنی صورِ اسرافیل کی دعوت پر سیّارۂ زمین کے تمام لوگ روحاً اس کے عالمِ شخصی میں جمع ہوجاتے ہیں۔ یہ ہوا ایک دانہ سے سات بالیاں (سات سو دانے) اور پھر بے شمار دانے، یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا معجزہ ہے۔

 

بدھ ۱۹؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۵

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۶

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

نور کے دو دریاؤں کے سنگم ہی کی طرح  قرآنِ حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے دو دو پاک و مبارک اسماء ساتھ آئے ہیں، جیسے چھ مقامات پر اَلْوْاحِدُ الْقَھّارآیا ہے، (انڈیکس ص ۵۵۴)۔ آپ عَزیزٌحَکیم کو دیکھیں۔ انڈیکس ص ۴۸۲ کی مدد سے اَلْعَلیُّ الْکَبیر کو قرآن میں دیکھیں ۔

الغرض آپ خود قرآنِ حکیم کی ورق گردانی کرتے کرتے دیکھیں کہ اس لاھوتی کتاب میں جگہ جگہ اسمائے صفاتِ الٰہی کا نورانی سنگم ہے، اس میں کیا حکمت ہے؟ اور کیا اشارہ ہے؟ اور کیا سرِّ اعظم ہے؟

 

جمعرات ۲۰؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۶

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۷

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ حٰمٓ السَّجَدۃ (۴۱: ۳۵) اللہ تعالیٰ کے علم وحکمت کے عظیم الشّان معجزات سے قرآنِ حکیم کی ہرہر آیت لبریز ہے، تاہم قرآنِ پاک شفاخانۂ لاہوتی بھی ہے، لہٰذا اس مبارک ارشاد میں روحانی علاج کا جو بڑا عجیب نسخہ موجود ہے، وہ بے مثال ہے۔ اس بندۂ ناچیز کو اس پاک ارشاد سے آج ایک قلبی معجزہ ہوا۔ آپ اس آیت کے ترجمۂ ظاہر کو سمجھ لیں اور اس پر عمل کریں۔

قبلاً (۴۱: ۳۳) میں یہ ارشاد ہے: وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ یہ دونوں پُرحکمت آیتیں مربوط ہیں، اور ان کا مضمون ایک ہی ہے اور اشارۂ حکمت بھی ایک ہی ہے، پس خداوندِ برحق کے فضل و کرم سے ان چند مومنین کے حق میں اس بندۂ خاکسار نے عاجزانہ دعا کی، اور بارگاہِ مولا سے معافی کا خواستگار ہوا، جس کے بعد ایک قلبی معجزہ ہوا۔ ان شاء اللہ آپ سمجھتے ہوں گے۔ آپ بھی ہرمومن کیلئے باربار نیک دعائیں کرتے رہیں۔ آمین! آمین!

 

جمعرات ۲۰؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۷

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۸

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات میں سے ہے، کہ اَیامِ آسٹن میں اس بندۂ خاکسار وناچار نے ایک نورانی خواب میں بمقامِ قریۂ حیدرآباد (اپنا گاؤں) نمبردار رحمت ابنِ محمد ضمیر کو دیکھا جس کے ساتھ دو نوجوان اور بہت خوبصورت بیٹے تھے، یہ رحمتِ مولا کی ایک تجلّی تھی، جس میں اس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز کے حضورِ عالی سے نفوسِ خانۂ حکمت کو یہ اشارہ تھا کہ ان کی روح مولا کی رحمتِ بیکران سے دنیا میں بھی نوجوان اور خوبصورت ہے، اور بہشت میں بھی۔

بحوالۂ کتابِ کوکبِ درّی بابِ سوم مولاعلی علیہ السّلام نے اپنی ذاتِ عالی صفات کے بارے میں فرمایا: میں ہی قیامت ہوں۔ قرآنِ حکیم میں قیامت کے بہت سے ناموں میں سے ایک سنگم نام خَافِضَۃٌ رَافِعَۃٌ (۵۶: ۰۳) ہے، ترجمہ: پست کر دینے والی، بلند کردینے والی۔ اور یہ دونوں اسماء اللہ کیلئے بھی ہیں۔ اَلْخَافِضُ = پست کرنے والا۔ اَلرَّافِعُ = بلند کرنے والا۔

 

جمعہ ۲۱؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۸

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۹

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ قیامت (۷۵: ۰۱ تا ۰۲) میں خدائے علیم وحکیم نے اوّل قیامت کی قسم کھائی ہے، پھر نفسِ لوّامہ کی قسم کھائی ہے، اس ارشادِ مبارک کی حکمت میں صاحبانِ عقل کیلئے یہ اشارہ موجود ہے کہ عاشقانِ الٰہی طرح طرح سے اپنے آپ کو ملامت کرتے رہتے ہیں، کیونکہ نفسِ امّارہ جو زبردست جنّی شیطان اور بڑا دشمن ہے، اس کو نفسِ لوّامہ بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے، کوئی دانا عاشق ہی اس رازِ قرآن کو سمجھ سکتا ہے کہ نفسِ لوّامہ کو مرتبۂ قیامت کے بالکل قریب رکھنے میں یہ واضح اشارہ ہے کہ نورِ الٰہی کا ہرعاشق باربار اپنے آپ کو ملامت کرتا رہے، تاکہ اس کا نفس حقیقی معنوں میں نفسِ لوّامہ بن سکے اور خداوندِ تعالیٰ کے نزدیک عملاً نفسِ لوّامہ ہو۔

بڑے خوش نصیب ہیں وہ عزیزان جو پاک مولا کے عشق میں گریہ وزاری اور مناجات کرتے ہیں، دعا ہے کہ ہرایمانی دل میں دریائے عشقِ مولا موجزن ہو! آمین!!

 

سنیچر ۲۲؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۹

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۱۰

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

ھُوَ الاوّل  ھُوَ الآخر  ھُوَ  الظَّاہر  ھُوَ  الْباطن

مُنزّہ مالک المُلکی کہ بے پایان حشردارد

میں ہرعلم میں بہت غریب اور ناچار ہوں، لہٰذا حکیم پیر ناصر خسرو کے اس پُرحکمت شعر کی تعریف نہیں کرسکتا ہوں، جبکہ اس میں حکمتِ قرآن اور معرفتِ جنان (بہشت) کے اسرارِ عظیم پنہان ہیں ،اس دنیا میں سب سے نایاب اور سب سے مخفی علم “عِلمُ الْقِیَامَۃ” ہے، لیکن پیرصاحب نے یقینِ محکم کے ساتھ اس شعر میں جیسا ارشاد فرمایا ہے، اس سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ قیامت اَلْحَیُّ الْقَیُّوْم کی صفتِ قدیم ہے جو ہمیشہ اس کا تجدّد ہوتا رہتا ہے، کیونکہ یہ عجائب وغرائب اور معجزاتِ عظیم کا بے پایان سلسلہ ہے۔

اِلٰہی بحرمتِ جملہ دعاہائے قرآن جو تجھ کو پسندیدہ ہیں ہماری حالتِ زار پر رحم وکرم فرما! آمین!

وَمَا قَدَرُواللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ (۳۹: ۶۷)۔

 

سنیچر ۲۲؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۱۰

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۱۱

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہ‘۔ جومرگیا یقیناً اس کی قیامت برپا ہو گئی۔ ہزار حکمت (حکمت۷۰۱)۔

لہٰذا رسولِ پاکؐ نے ارشاد فرمایا: مُوتُوا قَبْلَ اَنْ تَمُوتُوا = تم جسمانی طور پرمر جانے سے قبل نفسانی طور پرمرجاؤ۔ (تاکہ تم کو قیامت کی معرفت حاصل ہو)۔

اگر اسمِ اعظم کے ذریعے سے عارفانہ موت اور قیامت کی شناخت نصیب ہوئی تو یہ خداوندِ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل وکرم ہے، ورنہ قیامت کی معرفت ناممکن ہے۔

قرآنِ حکیم کے ۱۳ مقامات پر بَغْتَۃً کا لفظ آیا ہے جو قیامت کے اچانک آنے کے بارے میں ہے، اور صورِ اسرافیل کی آوازجسمانی نہیں، بلکہ روحانی ہے، قیامت کا علم الیقین بھی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔

 

سنیچر ۲۲؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۱۱

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۱۲

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ رعد (۱۳: ۰۱) کے آغاز ہی میں یہ حروفِ مقدس ہیں :الف، لام، میم، را۔

الف = اوّل = عقلِ کل = قلم، لام = ثانی = نفسِ کُلّ = لوح، میم = رقیم = مرقوم، را = رُؤیت = نورانی دیدار (حظیرۂ قدس میں)۔

قانونِ لفیف (۱۷: ۱۰۴) قانونِ نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) (قانونِ اَلواحد القہار حوالۂ قرآنی انڈیکس ص ۵۵۴۔

قانونِ خزائنِ الٰہی (۱۵: ۲۱)۔

قانونِ حی = اللہ کی ہرچیز زندہ، دانا = عاقل = نور ہے۔ مثلاً: خدا کی رسّی، خدا کا دین، اس کا نام، وغیرہ۔

ان قوانین کو آپ سب یاد کریں، تاکہ درسِ حکمت بہت آسان ہوسکے۔ آمین! آمین!

 

اتوار ۲۳؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۱۲

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط:۱۳

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۃ الاعراف (۰۷: ۰۱) کے شروع ہی میں یہ پُراز اسرار حروفِ مقطعات آئے ہیں : الٓمّٓصٓ۔ الف، لام، میم، صاد: الف = عقلِ کل = عرش، لام = نفسِ کُلّ = کرسی، میم = مرقوم فی لوح محفوظ ، صاد = صورتِ رحمان = وجہ اللہ۔

یہ عظیم الشّان اور بلند ترین ظہورات وتجلیات حظیرۂ قدس کی بہشت میں ہیں۔ یہ بہشت نور کے دو دریاؤں کے سنگم پر ہے۔ جس میں خداوندِ اَلواحد القہار نے اپنی تجلّیات کی تمام چیزوں کو گھیرکر اور شمار کرکے رکھا ہے اور یہاں قانونِ حیّ بھی ہے = خدا کی ہر تجلّیاتی چیز ایک زندہ نور اور ایک عظیم فرشتہ ہے، پس یہاں کی ہرچیز خدائے واحد ہی کی تجلّی ہے ۔

جس طرح ایک بُروشسکی شعر کا ترجمہ ہے: سو لاکھ سنگہائے بلور کو سورج کے سامنے پھیلا کردیکھو! آیا ان سب بلوروں میں سورج ہے یا نہیں؟

 

اتوار ۲۳؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۱۳

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۱۴

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

اسمِ اعظم اور نورِ اقدم خود ہی قیامت ہے۔ قیامت کے بارِ گران سے آسمانوں اور زمین کی کمر ٹوٹ رہی ہے، وہ اچانک آنے والی چیز ہے (۰۶: ۳۱؛ ۰۷: ۱۸۷)۔

قیامت کا پروگرام تھا اچانک آنے کا (۱۲: ۱۰۷) امرِقیامت = کُنۡ= “ہوجا” کا حکم یا واقعہ: ایسا ہے جیسے پلک کا جھپکنا بلکہ اس سے بھی جلد تر بے شک خدا ہرچیز پر قدرتِ کاملہ رکھتا ہے (۱۶: ۷۷) دورِموسیٰؑ میں خدا نے فرمایا تھا: میں قیامت کو چھپائے رکھوں گا (۲۰: ۱۵)۔ قیامت اچانک آتی رہی یعنی روحانی طور پر آئی (۲۲: ۵۵)۔ قیامت لوگوں کی غیر شعوری میں آکر گزرتی ہے (۴۳: ۶۶)۔

قیامت کی شرطیں (معجزۂ شق القمر وغیرہ) (۵۴: ۰۱) بہت پہلے ہی آچکی تھیں ، لہٰذا روحانی قیامت ۱۹۵۱میلادی میں برپا ہوچکی ہے۔ اب اس کے تاویلی معجزات کا سلسلہ جاری ہے ۔

نوٹ: میرے تجرباتی مقالے صرف خانۂ حکمت کیلئے ہیں ۔

 

پیر ۲۴؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۱۴

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۱۵

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۰۱ تا ۰۲) الٓمَّٓ اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ۔

الف = اوّل = عقلِ کلّ = عرش = قلم = گوہرِ عقل، لام = ثانی = نفسِ کُلّ = کرسی = لوح = کتابِ مکنون، میم = رقیم = مرقوم = تجلّیاتِ اسرارِ علمِ لدنّی از قلم و لوح = از گوہرِ عقل و کتابِ مکنون۔

یہ تمام عظیم معجزات حظیرۂ قدس کی بہشت میں ہیں، خداوندِ تعالیٰ جن لوگوں کو چاہے اس بہشت کی معرفت عطا کردیتا ہے (۴۷: ۰۶)۔

 

پیر ۲۴؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۱۵

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۱۶

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۃ ھود (۱۱: ۰۱) الٓرٰ   الف، لام، را، الف = ازل = ابد = اوّل = آخر = نورِ محمدؐ وعلیؑ = قلم =عرش =عقلِ کل۔

لام = ثانی = نفسِ کُلّ = لوح = روحِ اعظم = انسانِ کبیر۔

را = رقیم = مرقوم = رؤیت = دیدارِ نورانی = وجہ اللہ۔

حظیرۂ قدس حقیقتوں اور معرفتوں کی بہشت ہے، جس میں خدا کی ہرچیز یعنی سب کچھ ہے، قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں کُلُّ شَیْئٍ آیا ہے، وہ حظیرۂ قدس کی طرف اشارہ ہے ۔

خداوندِ تبارک وتعالیٰ القابض الباسط نے اپنی خدائی کی تمام چیزوں کو لپیٹ کر حظیرۂ قدس میں رکھا ہے اور حظیرۂ قدس کو لپیٹ کر گوہرِعقل اور کتابِ مکنون کے سنگم میں جمع کیا ہے، اور کتابِ مکنون کو صرف پاکان ہاتھ میں لے کر پڑھ سکتے ہیں (۵۶: ۷۴ تا ۸۰)  تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

 

منگل ۲۵؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۱۶

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۱۷

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۃ البقرۃ (۰۲: ۰۱ تا ۰۳)

الٓمّٓ = الف، لام، میم۔

الف = ازل = ابد = اوّل = آخر = نورِ محمدؐ وعلیؑ = قلم = عرش =عقلِ کلّ۔

لام = ثانی = نفسِ کُلّ = لوح = روح الارواح = روحِ اعظم = انسانِ اکبر =  کرسی۔

میم = مکتوب = مرقوم = رؤیت = دیدارِ نورانی = صورتِ رحمان = وجہ اللہ۔

 

منگل ۲۵؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۱۷

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۱۸

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۃُ السَّجدۃ (۳۲: ۰۱ تا ۰۲) الٓمّٓ = الف، لام، میم۔

الف = ازل = ابد = اوّل = آخر = نورِ محمدؐ وعلیؑ = قلم = عرش =عقلِ کل۔

لام = ثانی = نفسِ کُلّ = لوح = کرسی = روحِ اعظم = انسانِ اکبر = امامِ مبین (۳۶: ۱۲)۔

میم = مکتوب = مرقوم = رؤیت = دیدارِ نورانی = صورتِ رحمان = وجہ اللہ۔

تاویلی مفہوم: کتابِ نورِ امامِ مبین = کتابِ لَارَیْبَ فِیْہ ہے جو حظیرۂ قدس میں ہے، اس کا نزول وہاں پروردگارِ عالمین کی طرف سے ہوا ہے ۔

اے برادران وخواہرانِ دینی امامِ زمان علیہ السّلام کی تجلیات جو حظیرۂ قدس میں ہوتی ہیں ان کا نام قرآنِ حکیم میں کتابِ لَارَیْبَ فِیْہ ہے۔ امامِ مبین کے پاک نور کی تجلیاتی کتاب جو حظیرۂ قدس میں ہے اس میں کوئی شک ہی نہیں، قرآن کے تین مقامات پر اس کا ذکر ہے: بقرہ (۰۲: ۰۱ تا ۰۲)، یونس (۱۰: ۳۷)، اَلسَّجدۃ (۳۲: ۰۲)۔

 

بدھ ۲۶؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۱۸

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۱۹

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۳۳) اور سورۂ حدید (۵۷: ۲۱) کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ قادرِ مطلق عالمِ شخصی کو کائناتی بہشت میں تبدیل کرتا ہے جس کو حاصل کرنے کا طریقہ تمام نیک کاموں میں سبقت کرنا ہے، آپ ان دونوں آیتو ں کو حکمت کے ساتھ پڑھ لیں ۔

آپ سورۂ حٰم السَّجدۃ (۴۱: ۳۰ تا ۳۵) ذُوْحَظٍّ عَظِیْم تک تاویل کے ساتھ پڑھ  لیں۔ اس مختصر مقالے میں جن آیاتِ کریمہ کے حوالے درج ہیں ان کو آپ ضرور پڑھ لیں۔ ذکر وعبادت اور گریہ وزاری کو جاری رکھیں! حروفِ مقطعات کو بہت غور سے بار بار پڑھیں تاکہ آپ کی علمی عبادت میں خوب ترقی ہو، آمین !

 

بدھ ۲۶؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۱۹

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۲۰

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ لقمان (۳۱: ۰۱ تا ۰۵) الٓمّٓ = الف، لام، میم۔

الف = ازل = ابد = ابداع = انبعاث = اوّل = آخر = نورِ محمدؐ وعلیؑ = قلم = عرش =عقلِ کل، لام = ثانی = نفسِ کُلّ = لوح = روح الارواح = روحِ اعظم = انسانِ اکبر = کرسی۔

میم = مکتوبِ نورانی = مرقومِ نورانی = رؤیت = دیدارِ نورانی = صورتِ رحمان = وجہ اللہ = گوہرِ عقل اور کتابِ مکنون کی تجلّیات ید اللہ کے عالمی معجزات = کائنات کو لپیٹنا، یہ سب روحانی قیامت کے باطنی معجزات ہیں۔

امامِ مبینؑ کے احاطۂ نور کا نام حظیرۂ قدس ہے جس کی تجلّی عارفین کی پیشانی میں فرشتۂ اسرافیل اور عزرائیل کی تائید سے ہوتی ہے ۔

 

جمعرات ۲۷؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۲۰

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۲۱

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

ہرنورانی خواب اور ہرمعجزے کی ایک سے زیادہ تاویلیں ہوا کرتی ہیں ، مرحوم نمبردار رحمت ابنِ محمد ضمیر کو دو نورانی بچوں کے ساتھ بمقامِ حیدر آباد خواب میں دیکھنے کی کئی نشاط آور ( مسرت بخش) تاویلیں ہیں ۔اوّل اوّل یہ خواب ایک نورانی انعام ہے۔ میں نے یہ قول کسی دانا سے سنا تھا: خدا شرے برانگیزد کہ خیرِ ما دران باشد۔ وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ(۰۳: ۵۴)۔

ایک عرفانی سوال: اَلْحَیُّ اسم ہے یا مُسمّا؟ ذات ہے؟ یا صفات؟؍ الجواب: اسم بھی ہے مسما بھی، ذات بھی ہے، اور صفات بھی۔ کیونکہ یہ نورِ ازل لَمْ یَزل وَلایزال ہے ۔

صفات وذاتِ او ہردو قدیم است                 شدن واقف درو سَیرِ عظیم است

(روشنائی نامہ۔ حکیم پیر ناصر خسرو)

 

جمعرات ۲۷؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۲۱

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۲۲

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

قرآنِ حکیم کے آٹھ مقامات پر خلقِ جدید کا ذکر آیا ہے: انڈیکس ص ۱۶۵۔

سوال: خلقِ جدید کیاہے؟ ؍جواب: خلقِ جدید: جسمِ لطیف ہے = یعنی نورانی بدن ہی خلقِ جدید ہے۔ جو شخص مرجاتا ہے، خدا اگر چاہے تو اس کو نورانی بدن عطا کرتا ہے، وہ بہشت میں جاتا ہے، اور وہاں سے دنیا میں بھی آسکتا ہے، کیونکہ سیّارۂ زمین کائناتی بہشت کا حصہ ہے، ہم جس طرح جنّ، پری اور فرشتہ کو دیکھ نہیں سکتے ہیں اسی طرح اس روحانی کو بھی نہیں دیکھ سکتے ہیں، لیکن وہ ہم کو یقیناً دیکھتا ہوگا جبکہ بہشت والوں کیلئے ہرنعمت ممکن ہے۔ لیکن دنیا میں یہ قانون نہیں ۔

سورۂ ابراہیم (۱۴: ۱۹) اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ اِنْ یَّشَاْ یُذْھِبْکُمْ وَیَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ۔ تاویلی مفہوم: کیا تو چشمِ بصیرت سے نہیں دیکھتا ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو ہمیشہ کیلئے پیدا کیا ہے، اگر وہ چاہے تو تم کو لے جا کر خلقِ جدید = جسمِ لطیف میں لاسکتا ہے۔ اور خدا وندِ تعالیٰ کی طرف سے بہشت اسی طرح عطا ہوتی ہے ۔

 

جمعرات ۲۷؍ جنوری ؁۲۰۰۵ ء

 

۲۲

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۲۳

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ فاطر(۳۵: ۰۱) اَلْحَمْدُلِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓئِکَۃِ  رُسُلاً اُولِیْٓ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَایَشَآئُ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ۔

آپ پہلے کسی عالم کے ترجمۂ قرآن میں غور سے دیکھ لیں۔ تاویل کرنا میرا مقدّس فریضہ ہے ۔

قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن : عقلِ کلّی کی بلندیوں پر معبودِ برحق کی تعریف وتوصیف ہوتی رہتی ہے، وہ باطنی اور نورانی آسمانوں اور زمین کا فاطر اور موجد ہے ،وہ اپنے ان باطنی فرشتوں کو (جوعلم وعبادت کے دو دو، تین تین اور چارچار اڑن بازو رکھتے ہیں) علم وحکمت کا بہشتی داعی بناتا ہے ،اہلِ حق کے پاکیزہ نفوس میں سے جن کے پاس اسمِ اعظم ہے، اس کا معجزہ ایسا ہے کہ اس میں دو اڑن بازو بھی ہیں، تین اڑن بازو بھی ہیں اور چار اڑن بازو بھی ہیں۔ لہٰذا آگے چل کر، اس میں سے دو دو، تین تین اور چار چار اسماء کا ظہور ہوتا ہے ۔

 

جمعۃ المبارک ۲۸؍ جنوری ؁۲۰۰۵ ء

 

۲۳

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط:۲۴

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ فاطر (۳۵: ۱۵ تا ۱۷)  یٰٓایُّھَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ اِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ اِنْ یَّشَاْ یُذْھِبْکُمْ وَیَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ۔

ترجمہ: اے تمام لوگو! تم ہی ہرطرح سے محتاج ہو (بے حد محتاج ہو) اور اللہ دونوں جہان کے بے پایان خزانوں کا مالک بحقیقت غنی اور حمید ہے، یعنی فرشتۂ عقلِ کلّ کی بلندی پر اس کی عظیم الشّان تعریف ہوتی رہتی ہے اگر وہ چاہے تو جسمِ کثیف سے جسمِ لطیف میں منتقل کرکے خلقِ جدید میں تمہیں بہشت میں اور یہاں بھی لاسکتا ہے، الغرض تم ہروقت اپنی حاجتوں کو اس کی بارگاہِ عالی سے طلب کرتے رہو، اور بڑی کثرت سے گریہ وزاری اور مناجات کرتے رہو، تاکہ تم پر اس کو رحم آئے، آمین !

آپ اس دعائے رسولؐ کو سو باردرود کے بعد پڑھا کریں :

وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ (۲۳: ۱۱۸)۔

 

جمعۃ المبارک ۲۸؍ جنوری ؁۲۰۰۵ ء

 

۲۴

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط:۲۵

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ روم (۳۰: ۰۱ تا ۰۶) الٓمّٓ = الف، لام، میم، ان مبارک ومقدّس حروف کی تاویل قبلا ً بیان ہوچکی ہے، آج بوقتِ شام یہ بندۂ ناچار اپنی کچھ مشکلات کی وجہ سے گریہ وزاری کر رہا تھا، تنہائی کا عالم تھا کچھ دیر کے بعد اس غریب کیلئے کوئی تاویلی معجزہ ہوا جو خداوندِ قیامت کے اس ارشاد کے مطابق تھا عالمِ شخصی میں کُلّ کائنات، سیّارۂ زمین، ہرملک اور ہرعلاقہ موجود ہے، لہٰذا روم کے اس بیان میں ضرور کوئی عظیم راز پوشیدہ ہے، پس یہاں کے حروفِ مقطعات اور ان چھ آیاتِ کریمہ کو بار بار غور سے پڑھنا از حد ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پُرحکمت کلام کے اسرار سے آپ سب کو فیوض و برکات عطا فرمائے! آمین!

گزشتہ سال روم (اِٹلی) کے بارے میں ایک بڑا عجیب وغریب نورانی خواب دیکھا تھا۔ حکیم کا شعر ہے:

زدنیا تا بہ عقبٰی نیست بسیار

ولی در  راہ  وجودِ  تست  دیوار

ترجمہ: دنیا سے آخرت تک کوئی مسافت ہی نہیں، لیکن راستے میں تیری اپنی ہستی دیوار بنی ہے۔

 

سنیچر ۲۹؍ جنوری ؁۲۰۰۵ ء

 

۲۵

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۲۶

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

اسرارِحظیرۂ قدس (۱) دہنِ مبارک (۲) وجہ اللہ (۳) دیدارِ ربّانی (۷۵: ۲۲ تا ۲۳) صورتِ رحمان (۴) کلام (۴۲: ۵۱)۔

کلامِ الٰہی: وحی = اشارت ہوتی ہے، یاحجاب کے پیچھے سے کلام ہوتا ہے، تمام تر اشارات گوہرِ عقل اور کتابِ مکنون کے سنگم سے ہوتے ہیں، یہ دونوں چیزیں نور ہیں اور نور کی حرکت کو تجلّی کہتے ہیں، جس کی جمع تجلّیات ہے۔ اگر آپ تیار ہوچکے ہیں تو ہم آپ کو حظیرۂ قدس کے عظیم الشّان اسرار بتائیں گے، کوئی چیز حوالۂ قرآن و روحانیّت کے بغیر نہیں ہے، آج کا مقالہ بعض عزیزوں کو مشکل ہوسکتا ہے، لہٰذا بہت مختصر لکھا ہے ۔

یہ بہت پاک بیان ہے، لہٰذا میں نے گریہ وزاری کے بعد لکھا ہے۔ خداوندِ برحق اپنی بے پایان رحمت سے ہم سب کی مدد فرمائے! آمین!

آج میں نے گریہ وزاری اس حوالے پر کی (۷۵: ۲۲ تا ۲۳؛ ۸۹: ۲۲)۔

 

اتوار ۳۰؍ جنوری ؁۲۰۰۵ ء

 

۲۶

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۲۷

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

اسرارِ حظیرۂ قدس: الاعراف (۰۷: ۱۳۷) اس کلامِ الٰہی میں جو خدا کی لاانتہا برکتوں والی سرزمین کا ذکر ہے، اس سے حظیرۂ قدس مراد ہے، مشارق ومغارب دہنِ مبارک کے ظہورات وتجلّیات ہیں ۔

ح۔ ق۔ عالمِ شخصی کی بہشت ہے (۴۷: ۰۶) خدا اپنے دوستوں کا ہاتھ بن کر کائنات کو لپیٹ لیتا ہے، اور جتنے نفوسِ دوستان ہیں مثلا ً ستر ہزار یا اس سے بھی بہت زیادہ اتنی کائناتی شکل کی جنتیں بنا دیتا ہے ۔

یاد رہے کہ سرتاسر قرآنِ حکیم میں حظیرۂ قدس کی تاویلی حکمت محیط ہے، چنانچہ ابدی بہشت کی شرط حظیرۂ قدس کی پہچان ہے (۴۷: ۰۶)۔

جب برق سوار آیا تب باب کھلا از خود

میں مرکے ہوا زندہ جب شاہِ شہان آیا

 

اتوار ۳۰؍ جنوری ؁۲۰۰۵ ء

 

۲۷

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط:۲۸

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ دخان (۴۴: ۰۱ تا ۱۱) حٰمٓ وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ۔ (تا آخرِ آیتِ یازدہم) ۔

تاویلی مفہوم: اَلْحَیُّ الْقَیُّوْم اور کتابِ مبین = کتابِ لَارَیْبَ فِیْہ (ح۔ ق) کی قسم ہم نے نورِقائم = نورِ تاویلِ قرآن کو شبِ مبارک = شبِ قدر(حجتِ اعظم) میں نازل کیا ہے۔

کتابِ مبین = کتابِ لَارَیْبَ فِیْہ، حظیرۂ قدس = احاطۂ نورِ امامِ زمان (روحی فداہ‘) کا نام ہے جس میں تاویلِ قرآن کے روحانی اور نورانی معجزات عارفوں کی بصیرت کے سامنے کام کرتے ہیں۔ سورۂ دخان کو زیادہ غور سے پڑھنا ضروری ہے، کیونکہ اس میں روحانی قیامت کے اسرارِ عظیم بھرے ہوئے ہیں ۔

؎    زنورِ او تو ہستی ہمچو پرتو۔۔۔۔

 

پیر ۳۱؍ جنوری ؁۲۰۰۵ء

 

۲۸

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۲۹

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

امامِ مبینؑ کی جبینِ پاک میں نورِ الٰہی = نورِ عرش وکرسی اور بہشتِ معرفت یعنی حظیرۂ قدس موجود ومنوّر ہے۔ ڈائمنڈ جوبلی (۱۹۴۶ء) کا سال تھا، حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ بمقامِ حسن آباد ( بمبئی) ایک ٹولی کو اسمِ اعظم عطا کر رہے تھے، متعلقہ ضروری ہدایات کے دوران آپ نے دستِ مبارک سے اپنی جبینِ پاک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہاں بہشت ہے۔

ارواحنا فداہ‘ یقیناً امامِ مبین کی جبینِ پاک میں نورِ الٰہی کی بہشت، یعنی حظیرۂ قدس معمور وپُرنور ہے۔

 

پیر ۳۱؍ جنوری ؁۲۰۰۵ ء

 

۲۹

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط:۳۰

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ نساء (۰۴: ۸۵) مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہ‘ نَصِیْبٌ مِّنْھَا  وَمَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْلٌ مِّنْھَا وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ مُّقِیْتًا۔

ترجمہ: جو شخص کسی کے حق میں نیک دعا کرے گا وہ خود بھی اس میں سے  حصہ پائے گا، اور جو کسی کے لئے بدخواہی کرے گا وہ اس سے حصہ پائے گا۔ اور اللہ  ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے۔

اس پاک ارشادِ الٰہی میں صاحبانِ عقل کیلئے عجیب و غریب لطیف حکمتیں ہیں، عالمِ دل کے لئے حضرتِ مولا مظہر العجائب کے پاس بہت سے نورانی معجزات ہیں  آپ اپنے آئینۂ دل کو ہر قسم کی برائی اور بدخواہی سے پاک رکھیں اور ذکرِ خفی و جلی کے  ساتھ عاشقانہ انتظار کرتے رہیں کہ آپ کو حاضر امامؑ کا پاک و پاکیزہ عشق بے قرار کرنے لگے، آمین! آمین!

 

منگل یکم فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۳۰

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط:۳۱

بِسْمِ اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۵۵) کے ارشاد میں حضرت داؤدؑ کی فضیلت اور  آپؑ کی آسمانی کتاب، زبور کا ذکر ہے، آپ نورِ معرفت کی روشنی میں اس کو پڑھیں۔

قرآنی ارشاد (۰۳: ۲۶ تا ۲۷) کے جواہر: یہ رسولِ پاکؐ کی خاص دعاؤں میں  سے ہے۔ یہ گُویا تمام آیاتِ قرآنی کا ایک نورانی مجموعہ ہے جو  اَلْواحِدُ القَھَّار آپ کو  دے رہا ہے، اس میں “اَللّٰھُمَّ”  بقولِ علماء ساٹھ اسماء کے برابر ہے۔ لہٰذا اس میں غور و  فکر کرنا بہت ضروری ہے۔

فَلَمَّآاَسْلَمَا وَتَلَّہ‘ لِلْجَبِیْنِ (۳۷: ۱۰۳ تا ۱۰۵) کی تاویل کیا ہے؟ کَذَالِکَ (۳۷: ۱۰۵) ۔ (کَذَالِکَ،۳۷: ۱۱۰) کی مثال ؟

سوال: خانۂ حکمت کی کتابوں میں ایسی نظمیں کتنی ہیں، جو حاضر امام (روحی  فداہٗ) کی شانِ اقدس میں لکھی گئی ہیں؟ فارسی، اردو، بروشسکی نیز ترکی، ہر زبان  میں کتنے اشعار اور کُلّ اشعار؟ اس کی بڑی خوبصورت رپورٹ جو تیار کرے گا اس کا  نام یا ان کا نام رپورٹ کے ساتھ حاضر امام کے حضور میں جائے گا۔ آمین!

 

بدھ ۲؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۳۱

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط:۳۲

بِسْمِ اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحِیْم۔

اے عزیزان! اے عزیزان! اللہ تعالیٰ اس حقیقتِ حال کا گواہ ہے کہ  قرآن و حدیث کے پُرحکمت ارشادات کے مطابق گریہ وزاری میں معجزات ہی معجزات ہیں، خصوصاً اس دور میں، کیونکہ یہ نورانی خوابوں کا زمانہ ہے، حدیثِ ترمذی میں دیکھو، یہ مبشرات کا دور ہے۔

آپ دانائی سے سوچیں کہ خدا نے ہر مومن اور مومنہ کو جتنی صلاحیتیں عطا  کر رکھی ہیں، ان میں دعا ، گریہ و زاری اور مناجات سب سے اہم اور سب سے بڑی  مفید چیز ہے۔

اگر ہم اس بڑی صلاحیت کے ذریعے سے خدا کے نزدیک ہوجانے کے  لئے کوشش نہیں کرتے ہیں تو بہت بڑی ناشکری ہوسکتی ہے۔ یعنی امامِ زمانؑ کا ہر مرید حقیقی اطاعت کے ذریعے سے بہت کچھ روحانی ترقی کرسکتا ہے۔ آمین!

قرآنِ حکیم کے سات مقامات پر تضرع کی حکمتوں کا ذکر آیا ہے۔ قرآنی  انڈیکس ص ۴۲۰۔ مادّہ: ض ر ع چالیس دن کی خصوصی عبادت کا عظیم فائدہ۔ بحوالۂ  ہزار حکمت ص ۴۱- ۴۲۔

 

جمعرات ۳؍ فروری ؁۲۰۰۵ء

 

۳۲

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۳۳

بِسْمِ اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحِیْم۔

ہم عالمِ شخصی کو علی آباد کہتے ہیں۔ سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسیٰ وَ اَخِیْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتاً وَّاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً۔

ترجمہ: اور ہم نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی (ہارونؑ) کو اشارہ کیا کہ مصر = عالمِ شخصی (علی آباد) میں چند مکان اپنی قوم کے لئے مہیا کرو اور اپنے ان مکانوں کو قبلہ ٹھہرا لو یعنی ان کو روحانی ترقی کے ذریعے سے خدا کا گھر بنالو۔ یہیں سے معلوم ہوتا  ہے کہ اسماعیلی مذہب میں صرف امامِ زمان علیہ السّلام ہی کی پاک اجازت سے  کہیں جماعتخانہ بنایا جاسکتا ہے جس پر بحقیقت عمل ہونے کا انعام حضرتِ امام (روحی فداہ‘) کی طرف سے یہ ہوتا ہے کہ عالمِ شخصی (علی آباد) میں باطنی جماعتخانہ پیشانی میں تیار ہوتا ہے۔ اس کا نام حظیرۂ  قدس بھی ہے۔

 

جمعرات ۳؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۳۳

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۳۴

بِسْمِ اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحِیْم۔

سورۂ احزاب (۳۳: ۲۱)  لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوااللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَاللّٰہَ کَثِیْراً۔

ترجمہ: درحقیقت تم لوگوں کے لئے ﷲ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا (اور ہے) ہر اس شخص کے لئے جو ﷲ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے ﷲ کو  یاد کرے۔

اَلْوَاحِدُ القَھَّار نے یہاں تمام قرآن کو مرکوز و مجموع کر رکھا ہے، لیکن آپ یہ  قانون ہرگز نہ بھولیں، کہ ہر آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے۔

قرآن تمام وصفِ  کمالِ محمدؐ است۔ (خاندانِ امامت کی ایک تاریخی مہر)

یہ قرآنی ارشاد بیحد ضروری ہے آپ اس میں غور و فکر کریں۔

 

جمعۃ المبارک ۴؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۳۴

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۳۵

بِسْمِ اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحِیْم۔

قرآنِ حکیم میں جتنی آیاتِ نورہیں وہ نہ صرف فیصلہ کن آیات ہی ہیں بلکہ  ان میں بہت سی حکمتیں اور پیش گوئیاں بھی ہیں۔ چنانچہ اگر آپ دیکھنا چاہیں توآئینۂ نورِ قرآن میں حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے بارے میں بہت  سے اشارات دیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ سورۂ حدید (۵۷: ۱۲ تا ۱۴) میں مومنین و مومنات  کے جس نور کا ذکر آیا ہے، وہ دراصل حضرتِ مولاناامام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام ہی  کا نور ہے اور “یَسْعٰی نُوْرُھُمْ” میں امامِ موصوف کے ظاہری اور باطنی کارناموں کا  ذکرِ جمیل ہے۔ کیونکہ دین و دنیا کے لئے آنجناب کے بے شمار عظیم کارنامے ہیں۔

اے تمام برادران و خواہرانِ روحانی! میں آپ سب کو بہت بڑی بشارت  دے رہا ہوں، وہ یہ کہ آپ سب کااعلیٰ نامۂ اعمال امامِ زمانؑ کے نورمیں ہے۔ بحوالۂ قرآن (۸۳: ۱۸۔ حوالۂ وجہِ دین ص ۳۳۳-۳۳۴)

 

سنیچر ۵ ؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۳۵

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۳۶

بِسْمِ اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحِیْم۔

قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں نور کا ذکر آیا ہے، وہاں وہ پاک نورامامِ مبین علیہ السّلام ہی کا نور ہے، اس حقیقت کے باوصف حضرتِ امامؑ ہی کا یہ مقدّس نور  مومنین و مومنات سے بھی منسوب ہے، مثال کے طور پر دیکھ لیں (۵۷: ۱۲ تا ۱۴) نیز (۵۷: ۰۹) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) میں دیکھنا اور غور و فکر کرنا بہت ضروری ہے، کیونکہ  یہاں دورِ قیامت کے خاص خاص اسرار ہیں۔

 

سنیچر ۵ ؍ فروری ؁۲۰۰۵ء

 

۳۶

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۳۷

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ حشر(۵۹: ۲۱) کا ترجمہ ہے: اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار  دیا ہوتا توتم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں  ہم لوگوں کے سامنے اس لئے بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنی حالت پر غور کریں۔

تاویلی اشارہ: یہ مثال حظیرۂ قدس کے کوہِ عقل = گوہرِ عقل کے اسرارِ  حکمت سے متعلق ہے ۔ چونکہ گوہرِ عقل کی گوناگون مثالیں ہیں۔

قرآنِ عزیز کے ۱۰ (دس) مقامات پر طور، کوہِ طور کا ذکر ہے، لیکن یہ تاویلِ باطن میں کوہِ عقل ہے، اعنی گوہرِ عقل، جو حظیرۂ قدس کے معجزات و تجلیات میں ہے،  اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی مَنِّہٖ وَ اِحْسَانِہٖ۔ انڈیکس ص ۴۲۹ کے ذریعے سے قرآن میں دیکھ لیں۔

اگر خداوندِ  نورِ تاویل نے چاہا تو آپ کو رفتہ رفتہ کشفِ  تاویل  ہوگا۔ عشق کی  گریہ و زاری کریں۔ آمین!

 

اتوار ۶ ؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۳۷

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۳۸

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

بحوالۂ کتابِ کوکبِ درّی بابِ سوم منقبت ۲۸کے مطابق: حضرت شاہِ  ولایت علیُّ المرتضیٰ علیہ السّلام کا نورِ پاک (جو عالم میں ہمیشہ حی و حاضر ہے) یقیناً حق تعالیٰ کی وہ کتاب ہے، جس میں کوئی شک ہی نہیں (۰۲: ۰۲)۔

قرآنِ حکیم کے ۲۳۰ مقامات پر “اَلکِتاب”  کا  ذکر آیا ہے، چنانچہ ان تمام  مقامات میں تاویلاً “کتابِ لَارَیْبَ فِیْہِ”  یعنی نورِ پاکِ امامِ عالی مقام ہی مراد ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ہر چیز نورِ “اَلحَیّ” ہی کی تجلّیات میں سے ایک تجلّی ہوتی  ہے۔ یعنی خدا کی ہر چیز ایک زندہ نور کی صورت میں ایک تجلّی ہوتی ہے۔ ایک بروشسکی شعر کا ترجمہ: سو لاکھ جواہر پاروں کو سورج کے سامنے رکھ کر دیکھو ان سب میں عکسِ خورشید نظر آرہا ہوگا مگر یہ سورج اور اس کا عکس جوہرِ عقل و جان سے خالی ہیں۔

 

اتوار ۶ ؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۳۸

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۳۹

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

بحوالۂ کوکبِ درّی بابِ سوم، منقبت ۲۸ کے مطابق مولا علیؑ کا پاک  نور، خود ہی نورانی قیامت ہے، منقبت ۵۶ کے مطابق ناقورِ نور ہے۔ قرآن: (۴۷: ۰۶) کے مطابق علیؑ کا نور بہشت ہے۔ نورانی تجلیات کی یہ بہشت دورِ قیامت میں نور کے پروانوں کے نزدیک آئے گی۔ القرآن(۲۶: ۹۰؛ ۵۰: ۳۱) ۔ یعنی دورِ قیامت میں قائم شناس نفوس کے خواب و خیال میں نورانی عجائب و غرائب کا ظہور ہوگا۔

حضرتِ امام محمد باقر علیہ السّلام کا ارشادِ مبارک “مَاقِیلَ  فِی اللّٰہِ ۔ ۔ ۔۔ ”  قرآنی علم و حکمت کے جواہر کا ایک عظیم خزانہ ہے، اسی پاک ارشاد کے ذریعے سے  آپ پر قرآنِ عزیز کے کثیر اسرار مکشوف ہوسکتے ہیں۔

 

پیر ۷؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۳۹

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۴۰

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

بحوالۂ کتابِ کوکبِ درّی بابِ دوم، منقبت (۵۱)   قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَمَّ: اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی جَعَلَ ذُرِّیَّۃَ کُلِّ نَبِیٍّ  فِیْ صُلْبِہٖ  وَجَعَلَ ذُرِّیَّتِی فِیْ صُلْبِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْطَالِبْ۔  (ترجمہ: حوالہ جات۔۔۔۔)

ترجمۂ حدیثِ  شریف : رسولؐ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ہر پیغمبر کی نسل کو  اس کے صلب میں قرار دیا ہے، اور میری ذرّیت کو علی ابنِ ابی طالب کے صلب سے  کیا ہے۔ دیکھو حاشیۂ ترجمۂ قرآن ص: ۷۲۴۔ از فرمان علی۔ حوالۂ  وجہِ دین ص  ۳۲-۳۳۔ تاویلِ  سورۂ کوثر (۱۰۸) لفظِ کوثر اپنے تمام معنوں کے ساتھ مولا علی علیہ السّلام کا لقبِ  مبارک ہے۔

 

منگل ۸؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۴۰

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۴۱

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

بحوالۂ جامع ترمذی جلدِ دوم ابوابُ الرویا (خواب کے متعلق) باب ۸۲:  اس بارے میں کہ مومن کا خواب نبوّت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ جب زمانہ قریب  ہوجائے گا (یعنی قیامت کے قریب) تو مومن کا خواب جھوٹا نہیں ہوگا،اور سچا خواب  اس کا ہوتا ہے جو خود سچا ہو۔

آپ علم و عبادت، گریہ وزاری اور عشقِ مولا میں ترقی کریں، تاکہ آپ کا  خواب منظّم اور غیر معمولی ہوجائے، خواب ذاتی تجربہ ہے پھر بھی ہمارے دل میں ان عزیزان کے لئے بہت محبت اور عزت ہے، جو نورانی خواب دیکھتے ہیں۔

آپ علم و حکمت کے لئے بہت زیادہ محنت کریں۔ آمین! اچھے خواب دیکھنا  اگرچہ بشارت ہے، لیکن آخری منزل نہیں۔ ہر شخص کے دل کے کان کے پاس ایک جنّ =  نفسِ امّارہ ہے، اور ایک فرشتہ ہے، یعنی عقل۔

 

بدھ ۹؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۴۱

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۴۲

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

ہزار حکمت ص ۳۹۷ (ح:۶۹۰) حدیثِ شریف اور اس کا ترجمہ پڑھ لیں،  ہر شخص کے ساتھ باطن میں دو ساتھی ہیں: ایک جنوں میں سے اور ایک فرشتوں میں سے۔

جنّ = شیطان = نفسِ امّارہ۔ فرشتہ = عقل = نور کی چنگاری۔

آپ ہر وقت امامِ زمان علیہ السّلام کے پاک و روشن فرمان کے مطابق عمل  کریں، ذکر و عبادت اور علم و حکمت کے ذریعے سے اپنے دل کو عشقِ  مولا سے آشنا  کر دیں اور سخت محنت کرکے دائم الذکر ہوجائیں، اگر وسوسے ختم نہیں ہو رہے ہیں، اور  فرشتہ خاموش ہے، تو پھر افسوس کہ کوئی گناہ باقی ہے، ایسے میں ہمیں تَضَرُّع اور پر سوز مناجات کی سخت ضرورت ہے۔

اگر انسان کے دل میں ایک طرف سے وسوسہ مُمکن ہے، تو پھر دوسری  طرف سے وحی = رحمانی اشارہ = الہام، بھی ممکن ہے۔ مگر پیغمبرانہ وحی اس سے بالاتر  ہے۔ ایک ہی صلاحیت ہے جس کے تین نام ہیں: فرشتہ = عقل = نور کی چنگاری۔

وسوسے کیا ہیں؟ بھڑوں کے حملے ہیں، ان سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہ ہے  کہ آپ ہمیشہ علم و حکمت اور ذکر و عبادت کے پانی میں ڈوبے رہیں، تاکہ شیطانی  بھڑوں کا ہر حملہ ناکام ہوجائے۔ آمین! آمین!

 

بدھ ۹؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۴۲

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۴۳

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۃُ الشُّورٰی (۴۲: ۰۱ تا ۰۴)  حٰمٓ ۔عٓسٓقٓ۔ ح، م، ع، س، ق۔

ح =  اَلْحَیُّ، م  = اَلْقَیُّومُ، ع = اَلْعَلِیُّ، س=  السَّلَامُ، ق =  اَلْقُدُّوْسُ،  آیتِ چہارم کے آخر تک پڑھیں۔

دوسری تاویل: حم = اَلْحَیُّ الْقَیُّوْم، عسق = عشق، اَلْحَیُّ الْقَیُّوْم کا پاک عشق ہی کُلِّ کُلّیّات (سب کچھ) ہے۔ جبکہ خداوندِ تعالیٰ کا اسمِ اعظم اَلْحَیُّ الْقَیُّوْم  ہے۔

عشقِ الٰہی:  سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۶۵) اَشَدُّ حُبّاً لِّلّٰہِ۔ مومنین اللہ کے لئے بہت سخت محبت یعنی عشق رکھتے ہیں۔

عشقِ الٰہی عشقِ  رسولؐ  کے بغیر ممکن ہی نہیں (۰۳: ۳۱)۔

 

جمعرات ۱۰؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۴۳

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۴۴

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ مریم (۱۹: ۰۱)  کٓھٰیٰعٓصٓ = ک، ہ، ی، ع، ص۔

پہلی تاویل: ک =  اَلاَ کرم = اَلکافی، ہ =  اَلھَادِی، ی =  یَدُاللّٰہ =  یقین = حق الیقین، ع = اَلْعَلِیُّ الْعَظِیم = اَلْعَزِیزُ الْحَکیم، ص = اَلصّادِق = اَلصُّبُور= الصّٰدِقِین (۰۹: ۱۱۹)۔

حظیرۂ قدس کی تجلّیات میں، یَدُاللّٰہ = دستِ خدا کی تجلّی غالب ہے۔ اَلصّادق  اوراَلصُّبُور خدا کے اسماء میں سے ہیں۔ بحوالۂ  شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا حصۂ اوّل  ص: ۱۲۱۳-۱۲۱۷۔ ان شاء اللہ دوسری تاویل بعد میں لکھیں گے۔

آپ تمام عزیزان مناجات اور گریہ وزاری کریں کیونکہ یہ نورِ الٰہی کے  معجزات کا وقت ہے۔

میری تازہ نظموں کو غور سے پڑھنا، حاضر امام (روحی فداہ‘) کے عشق میں  کمال حاصل کرنا آمین!

 

سنیچر ۱۲؍ فروری ؁۲۰۰۵ء

 

۴۴

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۴۵

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ مریم (۱۹: ۰۱) کٓھٰیٰعٓصٓ = ک، ہ، ی، ع، ص۔

دوسری تاویل: ک =  اَلکِتَاب لَا رَیْبَ فِیہ = کتابِ ناطق = امامِ زمانؑ =  حظیرۂ قدس = قرآنِ ناطق۔

ہ = اَلھَادی = امامِ زمانؑ، ی =  یَداللّٰہِ = یاقوت = گوہرِ عقل = کتابِ مکنون۔ ع = اَلعَلِیُّ الْعَظِیْم = اَلعَزِیزُ الْحَکِیْم۔ ص =  صَادِقین = اَصْدَقُ (۴: ۸۷؛ ۴: ۱۲۲) ۔

حظیرۂ قدس تجلّیاتی کتاب اور عرفانی بہشت ہے ، لہٰذا اس کے بہت سے نام ہیں، اور اس میں تجلّیات ہی تجلّیات ہیں۔

 

سنیچر ۱۲؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۴۵

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۴۶

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ مریم (۱۹: ۰۱) کٓھٰیٰعٓصٓ = ک، ہ، ی، ع، ص۔

تیسری تاویل: ک = کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (۹۸: ۰۳) =  گوہرِ عقل = اَلنُّجُوْم (۵۶: ۷۵)، ہ =  ھَادٍ (۱۳: ۰۷)، ی =  یَدُاللّٰہُ = نورِ نبیؐ  (۴۸: ۱۰) = نورِ علیؑ = نورِ امامِ زمانؑ (حظیرۂ قدس)، ع  =  اَلْعَلِیُّ الْعَظِیم = اَلْعَلِیُّ الْکَبِیر، ص = صَفّاً صَفّا (۸۹: ۲۲) = الصَّاعِقَۃ = صالِحُ  المُومنین (۶۶: ۰۴) =  یُصَلّی عَلَیکُم (۳۳: ۴۳) = اَلصّیحَۃُ = ۱۳ مقامات پر= صُحُفاً مُّطَھَرَۃً (۹۸: ۰۲)  الصّیحَۃ (آوازِ ناقور) ۔

 

اتوار ۱۳؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۴۶

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۴۷

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ مریم (۱۹: ۰۱) کٓھٰیٰعٓصٓ = ک، ہ، ی، ع، ص۔

چوتھی تاویل: ک = کِبْرِیاء = بزرگی، عظمت، قہر و غلبہ (خداوندِ تعالیٰ کی  مخصوص صفت) قاموس القرآن ص ۴۳۹۔ حوالہ (۴۵: ۳۷)۔

ک =  کَلِمَۂ  کُنْ (ہوجا)، کَلِمَۃً طَیِّبَۃً (۱۴: ۲۴)۔

ک =  کِراماً  کَاتِبیْنَ (۸۲: ۱۰ تا ۱۲) ۔ ک = کُلُّ (قانونِ کُلّ)۔

ک =  کلامُ اللّٰہ ۔اس میں کئی حکمتیں ہیں۔

ہ =  ھَلْ اَتٰی (۷۶: ۰۱)، ہ =  ھُوَاللّٰہُ الَّذِیْ (۵۹: ۲۲ تا ۲۴)۔

ہ =  ھُوَالکُلُّ =  فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ (۰۲: ۱۱۵)۔

ہ   =   ہبوطِ آدم، ہ =   ہدایتِ الٰہی (۲۴: ۳۵) ۔

ی =یٰسٓ = یاسین (اے سیّد = یعنی  محمدؐ)  (۳۶: ۰۱)۔

 

۴۷

 

ی = یاقوت = گوہرِ عقل اور کتابِ مکنون کا سنگم۔

ی = یُسْر= اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً (۹۴: ۰۵ تا ۰۶)۔

ع = اَلْعَلِیُّ الْعَظِیْم =علیٌّ حَکِیْم (۴۳: ۰۴) = اُمُّ الْکِتاب۔

ص = صورتِ رحمان = وجہُ اللّٰہ = مولا علیؑ۔

 

اتوار ۱۳؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۴۸

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۴۸

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ مریم (۱۹: ۰۱) کٓھٰیٰعٓصٓ = ک، ہ، ی، ع، ص۔

پانچویں تاویل: ک = کَرَّۃ (۱۷: ۰۶)،  ک = کُرسی (۰۲: ۲۵۵)۔

ک  = کُرسی = نفسِ کلّی =   لوحِ محفوظ۔

ہ =  ھَابیلؑ = امام = اساس (۰۵: ۲۷)۔

ہ =  مھجُوراً  (۲۵: ۳۰)۔

ہ = ھُدْ ھُدْ (۲۷: ۲۰) ۔

ی = یتیم، اکیلا، لاثانی، بے نظیر (اَلمُنجد)۔

دُرِیتیم = گوہرِ یکدانہ۔ قرآن میں یتیم کے باطنی معنی امام علیہ السّلام کے لئے ہیں۔

ع = اَلْعَلِیُّ الْعَظِیْم = اَلْعَلِیُّ الْکَبِیر ، سرائر ص ۱۱۷۔

ص = صَیحہ = آوازِ ناقور= علیؑ = صالِحُ المؤمنین۔

ص =  صورت، جمع: صور:  مُنقلبُ فِی الصُّوَر=   مختلف صورتوں میں پلٹنے والا: مولا علیؑ: منقبت ۸۴، اَنَاالْمُنقلِبُ فِی الصُّوَرِ۔ یعنی میں

 

۴۹

 

مختلف صورتوں میں پلٹنے والا ہوں۔ ملاحظہ ہوخطبۂ رجعیہ : کوکبِ دُرّی۔

 

پیر ۱۴؍ فروری ؁۲۰۰۵ء

 

۵۰

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۴۹

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔ اَلحمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِین۔

اے برادران و خواہرانِ عزیزِ روحانی! آپ سب کو یہ علمی اور روحانی ترقی  جو امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی پاک و روشن ہدایات کے وسیلے سے نصیب ہوئی ہے، اس کے لئے شایانِ شان یعنی کما کان حقہ‘ شکر ادا کرنے کے لئے مناجات کے بہت عاجزانہ الفاظ کے ساتھ گریہ و زاری کا سجود کرنا ہے، ایسا نہ ہو! ایسا نہ ہو! ایسا ہرگز نہ ہو!  اور خدا نہ کرے کہ ہم میں ذرّہ کے برابر فخر پیدا ہو، اس کا علاج یہ ہے کہ بس نورانی خواب اور معجزات کو اب پوشیدہ رکھیں۔ ورنہ ہم منزلِ مقصود میں پہنچ جانے سے پہلے ہی فخر سے ہلاک ہوجائیں گے۔

پس عاجزی، علم اور عبادت کا سہارا لیں، علم سے اپنے لوگوں کی خدمت  کریں۔ قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیت کا نظریہّ خوب ہے۔

 

منگل ۱۵؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۵۱

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۵۰

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

حضرتِ شاہِ ولایت مولا علی علیہ السّلام کا یہ ارشادِ مبارک نورِ امامت کے عاشق پروانوں کے لئے بڑا عجیب و غریب ہے : اَنَاالمُنقَلبُ فِی الصُّوَر۔ ترجمہ:  میں مختلف صورتوں میں پلٹنے والا ہوں۔ کوکبِ درّی۔ منقبت ۸۴۔ اس کو ہم تجلّیاتِ  گونا گون کہتے ہیں، ان کے کئی مقامات ہیں، مثلاً تاریخِ عالم ، عالمِ شخصی، اور بہشت،  مولا علیؑ  کے پاک و پُرحکمت ارشادات میں یہ عظیم ارشاد بھی ہے: منقبت ۹: اَنَا مُقَلِّبُ الْقُلُوب ۔ یعنی میں دلوں کو پھیرنے والا ہوں۔

سورۂ اعراف (۰۷: ۲۷) کا یہ مفہوم ہے کہ شیطان اور اس کے ساتھی تمھیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انھیں نہیں دیکھ سکتے۔ شیطان = مضل = گمراہ کُن ہے یعنی شر = بدی کا ذریعہ۔ پس اگرمضل لوگوں کو دیکھ سکتا ہے تاکہ موقع پر کسی کے دل میں وسوسہ ڈال کر گمراہ کردے، پھر امامِ زمانؑ جو ہادیٔ برحق وسیلۂ خیر ہے وہ نورِ الٰہی کی روشنی میں ہر دل سے خوب باخبر ہے، اَلْمُؤمِنُ  ینظُرُ بِنُوراللّٰہِ = مومن خدا کے نور کی روشنی میں دیکھتا ہے۔ یہ دراصل امامِ زمانؑ کی شان میں ہے۔ ورنہ کونسا واحد مومن ہے؟ جبکہ بہت سے لوگ مومن ہیں یا ایسا خیال کرتے ہیں۔ پس امامِ زمانؑ ہر اس دل کو روشن خیالی یا نیک توفیقات سے نوازتے ہیں جو اسمِ پاک میں ڈوبا ہوا ہویا عشقِ سماوی میں کھویا ہوا ہو۔

 

منگل ۱۵؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۵۲

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۵۱

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

حضرتِ مولانا علی علیہ السّلام کے پاک و پُرنور ارشادات میں قرآن و حدیث،  اسلام اور اسماعیلی مذہب کی اساسی اور اصولی حکمتیں ہیں۔ لہٰذا ہمیں مولا علیؑ کے  پاک کلام کو عشق و محبت سے پڑھنا، سننا، اور شادمانی سے یاد کرنا باعثِ سعادت ہے۔ کتابِ کوکبِ درّی بابِ سوم منقبت ۸ کے ارشاد کے مطابق مولا علیؑ اپنے نور و  نورانیّت میں لوحِ محفوظ ہے، پس حضرت مولا کے احاطۂ نور میں کُلّ شیٔ موجود ہے کیونکہ لوح کرسی بھی ہے اور نفسِ کلّی بھی۔ اور کائناتی بہشت بھی اسی نور میں ہے، اور  حظیرۂ قدس بھی۔

منقبت ۷ کے مطابق علیُّ المرتضیٰؑ کا نور روحانی قیامت ہے۔ منقبت ۵۶ کے مطابق آپؑ ہی کا نور ناقور (۷۴:۰۸) ہے۔ پس روحانی قیامت کے تمام اسماء و افعال جو قرآن میں مذکور ہیں وہ سب کے سب حضرتِ علیؑ کے نورِ پاک سے متعلق ہیں اور یہ حکمت بڑی عجیب و غریب ہے۔

 

منگل ۱۵؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۵۳

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۵۲

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ رعد (۱۳: ۴۳)  وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلاً قُلْ کَفٰی  بِاللّٰہِ شَھِیْدًا بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَہ‘ عِلْمُ الْکِتٰبِ۔

ترجمہ:اور (اے رسولؐ) کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم پیغمبر نہیں ہو تو تم ان سے  کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان (میری رسالت کی) گواہی کے واسطے خدا اور  وہ شخص (یعنی علیؑ) جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا علم ہے کافی ہیں۔ اس آیۂ  کریمہ سے یہ حقیقت بالکل روشن ہوجاتی ہے کہ علیؑ کے پاس قرآن کا تمام علم ایسا ہی  تھا، جیسے خدا کے پاس تھا۔ کیونکہ علیؑ مثلِ خدا تھا (۴۲: ۱۱)۔

ہم اس حدیثِ  قدسی پر یقین رکھتے ہیں جس کا ابتدائی مفہوم یہ ہے: اے ابنِ آدم میری حقیقی اطاعت کر، تاکہ میں تجھ کو اپنی مثل بنا دوں گا۔ پس یقیناً خدا نے علیؑ کو اپنی مثل بنا دیا تھا، اور خدا کی اس مثل جیسی کوئی چیز نہیں ہے (۴۲: ۱۱)۔

اس آیۂ شریفہ میں غور سے دیکھ لیں کہ اس میں کَ بھی ہے اور مِثل بھی ہے۔

بدھ ۱۶؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۵۴

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۵۳

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

قانونِ تجدّد کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔ چھوٹی بڑی سب  چیزیں دو دوہیں، چناچہ بہشت بھی دو ہیں، عرفانی بہشت اور ابدی بہشت ، عرفانی  بہشت آپ کیلئے آپ کی پیشانی میں بنائی ہوئی ہے، تاکہ ہر شخص اپنے عالمِ شخصی کی  اس بہشت ہی میں اپنی روح اور اپنے ربّ کی معرفت کو حاصل کرے۔ جس کے وسیلے سے اس کو ابدی جنت عطا ہو (۴۷: ۰۶) جو لوگ اللہ کی اس عنایتِ بے نہایت سے غافل ہیں ان کے بارے میں خداوندِ تعالیٰ فرماتا ہے: (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۲)  وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ  لَفِیْ خُسْرٍ۔ ترجمہ: زمانے کی قسم، انسان درحقیقت خسارے میں ہے۔

جو انسان اپنی پیشانی کی نورانی بہشت کی ناشکری کرتا ہے وہ بہت بڑے  خسارے میں ہے۔ عصر کا اشارہ امامِ عصر = امامِ زمانؑ کی طرف ہے، کیونکہ حقیقی وقت اور گرانمایہ زندگی وہی ہے، جو امامِ زمان کے عشق و محبت اور اطاعت میں گزرتی ہے۔

میں نے اپنی عمر کے وقت کو دیکھا یہ کسی نہر کے پانی کی طرح گزرتا جا رہا  ہے، اے جانان تیرے سوا اس عمر کی کیا وفاہوسکتی ہے؟ دیوانِ نصیری (بروشسکی)۔

 

بدھ ۱۶؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۵۵

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط:۵۴

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۱۷)  بَدِ یْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَ اِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا  یَقُوْلُ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنُ۔ ترجمہ: وہ آسمانوں اور زمین کا موجد (مبدِع = ابداع کرنے والا) ہے، اور جو چیز مراد ہو، بس اس کے لئے فرماتا ہے: کُنۡ (ہوجا) تو وہ ہوجاتی ہے۔

اس آیتِ  کریمہ کے مبارک اور پُرحکمت اشارات میں سے ایک اشارہ یہ  بھی ہے کہ آسمانوں اور زمین اور ان کے تمام باشندوں کو ابداعی = خلقِ جدید کی  صورت دے کر تمہارے عالمِ شخصی میں منتقل کر دیتا ہے، تاکہ یہ تمہاری کائناتی بہشت  ہو اور تم اس کے خلیفہ، بادشاہ اور فرشتہ ہوجاؤ، چونکہ یہ حقیقی بہشت ہے لہٰذا اس میں،  تمہاری تمام زندگی کی نورانی موویز بھی ہوں گی، لیکن یہ نورانی موویز تمہارے روحانی باپ کے حکم سے اعلیٰ درجے کی اصلاح شدہ ہیں، تمہارا عظیم اور پاک روحانی باپ جسمانی والدین سے ہزار درجہ زیادہ مہربان و شفیق ہے۔ اور وہاں تمہاری دنیا و آخرت کی ہر خواہش کے مطابق ہر ہر نعمت حاصل ہوگی (۳۱: ۲۰)۔

زمین و آسمان تبدیل ہوجانے اور اَلْواحِدُ القَھّار  کے ظہورِ پاک کی ایک  تاویل  یہ ہے جس کا ذکر ہوا (۱۴: ۴۸)۔

نوٹ: یہ بیان سَارِعُوْا (۰۳: ۱۳۳) اور سَابِقُوْا (۵۷: ۲۱) کے عین مطابق ہے۔

 

جمعرات ۱۷؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۵۶

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۵۵

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ مریم (۱۹: ۹۶)  اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ  وُدًّا۔ ترجمہ: یقیناً جو لوگ (کماحقہ‘) ایمان لے آئے ہیں، اور نیک کام کر رہے ہیں، عنقریب حضرتِ رحمان ان کے لئے دلوں میں بہت محبت پیدا کردے گا۔ یہ آیۂ کریمہ سب سے پہلے مولا علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے، بحوالۂ کوکبِ درّی بابِ اوّل ،  منقبت ۲۶ اور اسی طرح یہ آیت ہر زمانے کے امامِ برحقؑ کی شان میں ہے،  اس کے ساتھ ساتھ جب کائناتی بہشت میں اَلْوَاحِدُ الْقَھّارخدا شناس مومنین و مومنات کو خلافت، سلطنت اور فرشتہ گانہ مرتبہ عطا فرمائے گا ، تو تب یہ آیت ان کی شان میں بھی ہوگی لہٰذا جنت کے عوام کے دلوں میں وہاں کے خلیفہ = بادشاہ کے لئے بیحد محبت ہوگی، جبکہ بہشت میں نفرت و دشمنی کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ وہاں دوستی اور محبت ہی کا دور دورہ ہے۔

کائناتی بہشت میں سیّارۂ زمین کا ہر ملک ، اور اس کے چھوٹے اور بڑے تمام حصے تمام لوگوں کے ساتھ موجود ہیں لہٰذا آپ کا یہ مقدس فریضہ ہے کہ بہشت کی خلافت = بادشاہی اور حدودِ دین کے قرآنی حوالہ جات کو جذبۂ ایمانی کے ساتھ پڑھیں،  اَلاَنعام  (۰۶: ۱۶۵)،  سورۂ نور (۲۴: ۵۵)، سورۂ زخرف (۴۳: ۶۰)۔

 

جمعرات ۱۷ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۵۷

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۵۶

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ یونس (۱۰: ۲۵) میں ارشاد ہے :  وَاللّٰہُ یَدْ عُوْٓااِلٰی دارِالسَّلٰمِ وَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۔  اِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ۔ (حدیث)

خدا نورِ باطن کا حسین و جمیل بھی ہے، عاشقوں کے لئے تجلیات کی دعوت اور  کشش کی نورانی صراطِ مُستقیم بھی ہے اس کا مبارک نام اَلسَّلاَمُ بھی ہے پس وہ خود اپنی ذات کا وہ ازلی اور ابدی گھر ہے جس میں سلامتی ہی سلامتی ہے چنانچہ جو شخص خدا کا عارف ہے یا عاشق ہے اس کے لئے اس آیۂ مبارکہ میں بہت سے اشارے موجود  ہیں۔ آپ اس میں سوچیں۔

؎  آنچہ خوبان ہمہ دارند تُو تنہا داری۔

یعنی حسینانِ دو عالم کے تمام جلوے تیرے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔

 

جمعرات ۱۷؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۵۸

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۵۷

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ مومنون (۲۳: ۱۴) میں علم الیقین کی ذمہ داری اور غور سے دیکھیں:  یہاں انسان کی ظاہری اور جسمانی تخلیق کے سات مراحل کا ذکر ہے: (۱)   سُلَالَہْ = جوہرِ خاک (۲)  نُطفہ  (۳) عَلَقَہ = لوتھڑا (۴)  مُضْغَہ = بوٹی (۵) عِظام = ہڈیاں  (۶) لَحْم = ہڈیوں پر گوشت چڑھایا (۷) خلقِ آخر = جسماً ایک مکمل انسان ۔ اس کے بعد انسانوں کے اوپر سَبْعَ طرائِق سات آسمان = سات صاحبانِ ادوار = سات  اماموں کا اشارہ ہے، ان حضرات علیہم السّلام کے بارے میں آپ نے بارہا پڑھا اور سنا  ہے۔ اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ خدا کے سات دن ہیں، اس تبارک و تعالیٰ نے چھ  دنوں میں عالمِ دین  کو پیدا کیا، اور ساتویں دن عرش پر جلوہ فرما ہوکر اس نے مساواتِ  رحمانی = مونوریالٹی (Monoreality)  کا کام کیا۔

 

جمعۃ المبارک ۱۸؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۵۹

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۵۸

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ فاطر (۳۵: ۲۸) : اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ ۔

ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ  ہی اس سے ڈرتے ہیں۔ بے شک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے والا ہے۔

اس آیۂ کریمہ کا سرِّاعظم یہ ہے کہ صرف خدا شناس لوگ ہی خدا سے ڈرتے ہیں۔

؎ پَیٔ علم چون شمع  باید  گُداخت

کہ  بے علم  نہ  توان خدا را  شناخت

ترجمہ: علم کے لئے شمع کی طرح پگھل جانا چاہئے، کیونکہ علم کے بغیر خدا کی پہچان ممکن ہی نہیں۔

نوٹ:  صاحبِ  کتابِ “سُلَّمُ النّجاۃ” داعی سیّدنا ابو یعقوب اسحاق بن احمد سجستانی  کا اسمِ گرامی میں نے مرکزِعلم و حکمت لنڈن سے معلوم کرلیا ہے، کیونکہ اگر مولا کی  باطنی تائید حاصل ہوئی تو میں صرف لفظِ سُلَّم کی تاویل بیان کرناچاہتا ہوں۔

 

سنیچر ۱۹؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۶۰

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۵۹

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ معارج (۷۰: ۰۱ تا ۰۷) میں روحانی قیامت کا ذکر ہے، اور اس میں لفظِ  معارج: سیڑھیاں = درجے (واحد معراج) بحوالۂ قاموس القرآن ص: ۵۲۶، اور اسی  مقام پر بقولِ حکیم پیر ناصر خسرو بے پایان قیامات کا اشارہ باطناً موجود ہوسکتا ہے جن  کا مالک خداوندِ تعالیٰ ہے۔

یقیناً ہر روحانی قیامت بوسیلۂ نورِ امامت، حظیرۂ قدس کے آسمان کی سیڑھی ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہر زمانے میں حضرتِ امام علیہ السّلام کا پاک نور آسمانِ معرفت  کی سیڑھی کا کام کرتا ہے اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ امامِ عالی مقامؑ سُلَّمُ النّجاۃ (نجات کی سیڑھی) ہے یعنی امامِ برحقِ حیّ حاضرکے پاک نور کے ذریعے سے روحانی قیامت کی سیڑھی اور نجاتِ آخرت نصیب ہوتی ہے۔

سورۂ طور (۵۲: ۳۸) میں سُلَّمٌ (سیڑھی) کی پُرحکمت مثال موجود ہے۔

 

سنیچر ۱۹؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۶۱

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط:۶۰

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ فتح کی آخری آیت (۴۸: ۲۹) ایک لاھوتی نگینہ ہے جس میں سلسلۂ  نورٌ علیٰ نورکی مثال اور تعریف ہے اور یہ تعریف ہر آسمانی کتاب میں آئی ہے، اور یہاں لفظِ سیما (سے نورِ جبین مراد ہے) کہ امامِ برحقؑ کی مبارک پیشانی میں اسمِ اعظم کا  خود بولنے والا نور ہوتا ہے، جس کا گواہ ہر وہ مومن ہے، جس نے چشمِ باطن سے اپنے امامِ زمان علیہ السّلام کا نورانی دیدار کرلیا ہو۔ سورۂ حدید (۵۷: ۰۳) میں ایک خاموش فکری قیامت موجود ہے، اگر کوئی دانشمند چاہے تو اس سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔

میرا دل مجھ سے یہ سوال کرتا ہے کہ آیا خدا کبھی اوّل، کبھی آخر، کبھی ظاہر اور کبھی باطن ہوتا ہے، یا ہمیشہ اس کی چار تجلّیات کی بات ہے؟ اے دلِ نادان! خدائے قادرِ مطلق کائنات کا نور ہے وہ اس کائنات کے بے شمار ذرّات میں سے ہر ذرّے کو تجلّیات کا ایک عالم بنا کر قائم رکھ سکتا ہے۔ ایسے تمام سوالات کا کلی جواب پہلے ہی سے موجود ہے:  وَھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ (۵۷: ۰۳)۔

 

سنیچر ۱۹؍ فروری ؁۲۰۰۵ء

 

۶۲

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۶۱

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

مقدمۂ کوکبِ درّی ص ۶۱ کلامِ حکمت نظامِ مولا علی علیہ السّلام:

ترجمہ: میں وجہ اللہ ہوں، میری طرف متوجّہ ہونا خدا کی طرف رُخ کرنا ہے۔ میں ہی جنبُ اللّٰہ ہوں۔ مجھ تک پہنچنا، خدا کے پہلو میں بٹھاتا ہے۔ اور منتہائے  قرب پر پہنچاتاہے۔ میں ید اللہ ہوں (دستِ خدا) جو کچھ وہ کرتا ہے مجھ سے کرتا ہے، جو کچھ اس سے صادر ہوتا ہے، میرے ہاتھ سے ہوتا ہے اور میں کرتا ہوں اس کا کہلاتا ہے۔ میں عین اللہ ہوں، اس کی آنکھ سے عالم کو دیکھتا ہوں، اور دنیا میرے سامنے ایسی ہے جیسے کہ آنکھ کا تل۔ میں قرآنِ ناطق اور بُرھانِ صادق ہوں۔ میرا وجود حق اور دلیلِ وجودِ حق ہے۔ میں حاملِ  اسرارِ الٰہی لوحِ محفوظ ہوں، میں ہی قلمِ اعلیٰ ہوں۔ جو کچھ صفحاتِ عالمِ امکان پر قدرت نے رقم کیا ہے وہ مجھ سے رقم کیا ہے۔

آپ کتابِ کوکبِ  درّی میں آیات، احادیث اور کلامِ مولا علیؑ کو بار بار پڑھیں تاکہ آپ کی اس علمی کوشش کو عاشقانہ اور عارفانہ عبادت کا درجہ عطا ہو، آمین! آمین!

اتوار ۲۰؍ فروری ؁۲۰۰۵ء

 

۶۳

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۶۲

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے پاک ارشادات میں علم و حکمت کے عجائب وغرائب پوشیدہ ہیں، آپؑ نے جس طرح “اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ  وَالْاَرْضِ” کی طرف ایک لطیف وبلیغ اشارہ فرمایا ہے، وہ حکمتِ باطن سے لبریز ہے، تاکہ اہلِ بصیرت اس آیۂ شریفہ میں عارفانہ غور وفکر کریں ۔اس کے ساتھ ساتھ آپؑ نے جو یک حقیقت کا تصوّر دیا ہے وہ تمام دورِ کبیر میں بے مثال اور لاجواب ہے، آپؑ کے اس پاک فرمان میں صدہا سوالات کیلئے شافی جوابات مہیا ہیں۔

فرمانِ مبارک: “خداوندِ کریم کو انسانی روح بہت پیاری ہے ۔” یہ فرمانِ مبارک جو سات الفاظ پر مبنی ہے، ایک حکیمانہ خاموش حکمتوں کا انقلاب اور مساواتِ رحمانی کی تصدیق ہے۔ لہٰذا یہ مقالہ الفاظ میں مختصر لیکن معنی میں طویل ہے، آپ اس سے خوب فائدہ حاصل کریں، آمین! آمین!

 

پیر۲۱؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۶۴

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط:۶۳

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ ماعون (۱۰۷: ۰۱ تا ۰۳) اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدّیْنِ فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ۔

تاویلی مفہوم: کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو دین (یعنی امامِ برحقؑ) کو جھٹلاتا ہے اور امامِ زمانؑ کے نور کو عالمِ شخصی میں آنے سے روکتا ہے ،اور حجت کے علم کی ترغیب نہیں کرتا ہے ۔

یتیم = اکیلا = بے مثال = لاثانی امامؑ۔ مسکین = حجت۔ کیونکہ اس کے علم سے مرید کو تسکین ملتی ہے ۔

سورۂ رحمان عروس القرآن میں پروردگارِ دوجہان کی ان تمام نعمتوں کا ذکر ہے ،جو انس وجن کو عطا ہوئی ہیں ،ساتھ ہی ساتھ بار بار یہ سوال بھی آیا ہے کہ “اے گروہِ جنّ وانس تم اپنے ربّ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔” اس مکرّر سوال کی اصل حکمت کیا ہے؟ ؍جواب : اللہ تعالیٰ یقیناً یہ چاہتا ہے کہ اس کی ہرہرنعمت کی شکرگزاری معرفت کی روشنی میں ہو۔ اگر ایسی شکرگزاری نہیں ہوئی تو یہ تکذیبِ نعمت ہے ۔

 

پیر۲۱؍ فروری ؁۲۰۰۵ء

 

۶۵

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۶۴

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

آیاتِ نور: نور اور کتابِ مبین (۰۵: ۱۵) نور اور توراۃ (۵: ۴۴) نور اور انجیل (۰۵: ۴۶) رسولؐ کے ساتھ علیؑ کا نور (۰۷: ۱۵۷) کافر لوگ خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں (۰۹: ۳۲) نیز(۶۱: ۰۸) اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵) برھان اور نورِ مبین (۰۴: ۱۷۴)۔

مومنین اور مومنات کا نور (۵۷: ۱۲ تا ۱۳) نیز (۶۶: ۰۸) کتابِ منیر = حظیرۂ قدس (۰۳: ۱۸۴؛ ۲۲: ۰۸؛ ۳۱: ۲۰؛ ۳۵: ۲۵) رسولؐ = سراجِ منیر (۳۳: ۴۶) روشن چراغ۔

أئمّۂ آلِ محمدؐ، حاملانِ نور علہیم السّلام (۰۲: ۱۴۳) سلسلۂ نورِ آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ (۰۴: ۵۴) نیز (۲۲: ۷۷ تا ۷۸) مسلم کے اعلیٰ معنی ہیں فنا فی اللہ ہوجانے والا۔ ان شاء اللہ،اس کی کوئی مناسب مثال بعد میں پیش کریں گے ۔آمین !آمین !

 

منگل۲۲؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۶۶

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۶۵

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

آپ نے کہا: مسلم کے اعلیٰ معنی ہیں :فنا فی اللہ ہوجانے والا۔ قرآنِ حکیم میں اس کی کیا مثال ہے؟؍ جواب: سورۂ نساء(۰۴: ۱۲۵)  وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْناً مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہ‘ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفاً وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرٰھِیْمَ خَلِیْلاً۔

ترجمہ: اور اس شخص سے دین میں بہتر کون ہوگا جس نے اپنے چہرے ( یعنی چہرۂ جان) کو خدا کے سپرد کردیا اور وہ نیکوکار بھی ہے ،اور ابراہیم کے طریقہ پرچلتا ہے ، جو باطل سے کترا کے چلتے تھے اور خدا نے ابراہیم کو تو خالص دوست بنا لیا۔

جب خداوندِ روحانی قیامت نے آدم کو حظیرۂ قدس کی بہشت میں داخل کردیا تو وہ صورتِ رحمان پرپیدا ہوگیا، یہ ہوا چہرۂ جان کو خدا کے سپرد کردینا اور حدیث میں ہے کہ بنی آدم میں سے جو بھی بہشت میں داخل ہوگا وہ اپنے باپ آدم کی صورت پرہوگا۔

 

منگل۲۲؍ فروری ؁۲۰۰۵ء

 

۶۷

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۶۶

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ محمد (۴۷: ۰۷) آیتِ ہفتم کا ترجمہ ہے : اے ایماندارو! اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو وہ بھی اپنی قدرت سے تمہاری مدد کرے گا، اور تم کو ہرنیک کام میں ثابت قدمی عطا کرے گا۔ اگر آپ نورِ الٰہی کے سچے عاشق ہیں تو خود اس کا نور آپ میں آکر اپنا کام کرے گا۔ آپ سب سے پہلے یہ یقین کریں کہ قرآنِ حکیم میں یہ حکم موجود ہے اور جان ودل سے اس پر عمل کرنے کیلئے خداوندِ قدوس کا معجزہ چاہئے ۔

سورۂ صف (۶۱: ۱۴): انصار اللہ = خدا کے مددگار۔ آپ یقین کریں یہاں معجزانہ حکم ہے : اعنی کن (ہوجا) کی جمع: کُوْنُوْآاَنْصَارَاللّٰہِ = خدا کے مددگار ہوجاؤ ۔ سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۵۲) کو بھی حکمت سے پڑھنا۔ خدا کا ہرحکم ، ہرکام ، اور ہر وعدہ مفعول ہے، یعنی عمل میں آچکا ہے۔ تلاش کرو قرآن میں لفظِ مفعول۔

نوٹ: خدا کا کوئی کام کل پر ڈالا ہوا نہیں ہے ۔

 

بدھ ۲۳؍ فروری ؁۲۰۰۵ء

 

۶۸

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۶۷

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

امامِ زمانؑ کی حقیقی اطاعت اور روحانی قیامت ہی سُلَّمُ النَّجاۃ = معراجِ نجات ہے۔ قرآن اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ صرف اَلْوَاحِدُ الْقَہّار ایک ہی ہے، جس نے کُلّ چیزوں کو جفت جفت پیدا کیا ہے (۳۶: ۳۶) اور اسی قانون کے مطابق اسرارِ عظیم کا سنگم ہے ۔

پس انبیاء علہیم السّلام کی معراجیں بھی دو دو ہیں، ایک کا نام معراجِ سماوی ہے اور دوسری کا نام معراجِ ارضی ہے، یعنی پہلی معراج حظیرۂ قدس کے آسمان میں ہوتی ہے، اور دوسری زمین پر۔ چنانچہ سورۂ نجم (۵۳: ۰۱ تا ۱۸) میں آنحضرتؐ کی دونوں معراجوں کا ایک ساتھ تاویلی بیان موجود ہے ۔

 

بدھ۲۳؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۶۹

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۶۸

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ بنی اسرائیل  (۱۷: ۷۱ تا ۷۲) یَوْمَ  نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِہِمْ فَمَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہ‘ بِیَمِیْنِہٖ  فَاُولٰٓئِکَ یَقْرَئُ وْنَ کِتٰبَہُمْ وَلَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً وَ مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَاَضَلُّ سَبِیْلاً۔

ترجمہ: (اس دن کو یاد کرو) جب ہم تمام لوگوں کو ان کے امام (حضرتِ قائم) کے ذریعے سے بلائیں گے تو جن کا نامۂ عمل ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ لوگ (خوش خوش) اپنا نامۂ عمل پڑھنے لگیں گے اور ان پر ریشہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَاَضَلُّ سَبِیْلاً۔

ترجمہ: اور جو شخص اس دنیا میں (جان بوجھ کر) اندھا بنا رہا تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا اور (نجات کے رستے سے) بہت دوربھٹکا ہوا۔

 

جمعرات ۲۴؍ فروری ؁۲۰۰۵ء

 

۷۰

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۶۹

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ طور (۵۲: ۰۱ تا ۰۸)۔

تاویلی مفہوم: قسم ہے کوہِ طور = کوہِ عقل = گوہرِ عقل کی، اور کتابِ مسطور کی ، جوصفحۂ کائنات پرلکھی ہوئی ہے، یعنی کتابِ مکنون کی، اور بیت المعمور کی، اور سقفِ مرفوع = عرش = حظیرۂ قدس کی، اور موجزن سمندر = علمِ الٰہی کی، کہ تیرے ربّ کا عذاب ( واقعۂ قیامت) ضرور ہونے والا ہے۔

رقٍ منشورٍسے ذرّاتِ روح مراد ہیں ،جن کا بار بار حشر ونشر کائنات بھر میں  ہوتا ہے، جبکہ خداوندِ قیامت حلقۂ دعوتِ حق سے ستر ہزار کائناتی فرشتوں کو پیدا کرتا ہے ۔

 

جمعۃ المبارک ۲۵؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۷۱

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۷۰

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ شعرآء(۲۶: ۰۱ تا ۰۲) طٰسٓمٓ =ط، س، م۔

ط = طَاہِر = طَھُوْراً = طَوْعاً = اَلطَّارِقُ = طریقِ مستقیم۔

س = سُبْحَان = سُبُلُ السَّلام = اَلسَّلام  سُبُّوحٌ، سَخَّرَلَکُمْ ، سَنُرِیْھِمْ، اَلسُّجُوْد، سِدْرَۃ۔

م = مَالِکُ المُلک، مَجِید، مَقاماً مَحمُوداً، مُحِیْطاً، مَحبوبِ اَعظم، معشوقِ کُلّ، مَجْمَع الْبَحرَین = مَرَج الْبَحرَین، نور کے دو دریاؤں کا سنگم، قلم و لوح = عرش وکرسی۔

ط = طِبْتُم = طُوبٰی = طَرِیّاً = طَیّبین (۱۶: ۳۲)  طُوًی (۲۰: ۱۲) مُطَھّرُوْن (۵۶: ۷۹) تَطْھِیر (۳۳: ۳۳)۔

س = سِراجاً مُنیراً (روشن چراغ) = رسولِ پاکؐ (۳۳: ۴۶) سرائر (۸۶: ۰۹)  یَوْمَ تُبْلَی السَّرَآئِرُ۔

سلطان = آسمانی اور عرفانی دلیل۔

 

جمعۃ المبارک ۲۵؍ فروری ؁۲۰۰۵ء

 

۷۲

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۷۱

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

قرآنِ حکیم کے حکمتِ بالغہ سے لبریز مضامین میں سے ایک مضمون نامۂ اعمال کا ہے، جس کو آپ نورانی موویز (Movies) بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ دنیا کی ہر مفید چیز اللہ کے خزانوں سے آتی ہے (۱۵: ۲۱) اگر آپ نے رُجُوع  اِلَی اللّٰہ اور توبہ سے حقیقی فائدہ اٹھا لیا ہے، تو خدا وندِ تعالیٰ کے پاس ہر قسم کا چارۂ کار موجود ہے، اعنی  خداوندِ  غفور و رحیم اپنے بندوں کے نامۂ اعمال میں سے جس چیز کو مٹانا چاہے تو مٹا سکتا ہے (۱۳: ۳۹) اور اصلاح بھی فرماتا ہے (۴۷: ۰۵) وہ خداوندِ برحق اپنے ان بندوں پر جو توبہ کرکے اچھے کام کرتے ہیں ایسا مہربان ہے کہ ان کی بُرائی کو بھلائی میں تبدیل کردیتا ہے (۲۵: ۷۰) حوالہ جات کو اچّھی طرح سے پڑھنا۔

 

سنیچر ۲۶؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۷۳

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۷۲

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

نورانی موویز (Movies)آپ کثرتِ ذکر سے، کثرتِ سجود سے اور عاشقانہ گریہ و زاری ، نیز مناجات سے خوب روحانی فائدہ حاصل کریں، ایسے انتہائی عاجزانہ  اور درویشانہ موڈ میں کل کا مقالہ بار بار پڑھ کر سنجیدگی اور محویت سے غور و فکر کریں،  آپ اپنے دل کی ترازو کا اندازہ کریں نفس کا پلہ بھاری ہے یا فرشتے کا پلہ؟ اعنی،  وسوسہ زیادہ ہے یا الہام؟ کیونکہ دونوں چیزیں ممکن اور آمنے سامنے ہیں، (۹۱: ۰۸) دل  نظرگاہِ جلیلِ اکبر است (رومی) دل خداوندِ تعالیٰ کی نظرِ رحمت کا مقام ہے۔

 

اتوار ۲۷؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۷۴

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۷۳

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

مولا علی علیہ السّلام کے ارشادِ مبارک کو کتابِ کوکبِ درّی بابِ سوم منقبت  ۲۹ میں پڑھ لیں، آپؑ کے مبارک فرمان کی باطنی حکمت یہ ہے کہ آپؑ ہی اپنے سلسلۂ  نور و نورانیّت میں اللہ تعالیٰ کے وہ اسمائے حسنیٰ ہیں جن کے بارے میں خدا نے حکم دیا ہے کہ اس کو انہی ناموں سے پکارا جائے۔ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰)۔ شاہِ ولایت  مرتضیٰ علیؑ نے فرمایا ہے کہ آپؑ اپنے پاک نور میں اسمِ اعظم اورنورِ اقدم تھے۔ بحوالۂ  منقبت ۸۳۔

اے عزیزان آپ حضرتِ مولا علیؑ کے مبارک کلام کو عشق و محبت اور علم و حکمت سے پڑھیں تاکہ آپ کو قرآنی علم و حکمت کے جواہر سے آگہی ہوسکے، کیونکہ علیؑ  کا نور قرآنِ ناطق ہے۔

 

پیر ۲۸؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۷۵

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۷۴

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

روحانی قیامت میں اسمِ اعظم اور نورِ اقدم کے تاویلی معجزات ہی معجزات ہوتے ہیں اور ان کا خاص تعلق قرآنِ حکیم سے ہوتا ہے، خداوندِ روحانی قیامت ہی اسمِ  اعظم اور نورِ اقدم = نورِ ازل ہے۔ قرآنِ حکیم میں جتنے مضامین ہیں، ان میں مضمونِ قیامت کے سب سے زیادہ نام ہیں، اور بڑی عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ تمام اسماء قیامت اور صاحبِ  قیامت میں مشترک ہیں۔ جبکہ ارشاد ہے کہ مولا خود علاماتِ قیامت بھی ہیں اور معجزاتِ قیامت بھی ہیں، اور صاحبِ  قیامت بھی۔

 

پیر ۲۸؍ فروری ؁۲۰۰۵ ء

 

۷۶

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۷۵

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

میرے بُروشسکی دیوان میں ہے :”جار جلوۂ اوّل غَنمُ لو زلزلا یئذم”

(۱۹۴۶ء)، پونا شہر میں حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے پاک وپُرنور دیدار کی عظیم قرآنی سعادت نصیب ہوئی تھی ،جس میں اشارۂ زلزلہ سے یقیناً یہ تاویلی ارشاد ہوا تھا کہ اب دورِ قیامت ہے، لہٰذا ہم تم پر ایک روحانی قیامت برپا کرنے والے ہیں ۔اس تاویل کا انکشاف بعد میں ہوا تھا، اور یہ راز بھی قائم شناسی کے زمانے میں معلوم ہوا کہ نورِ قائم اپنے وقت پر شبِ قدر= شبِ مبارک میں نازل ہوا تھا ،لہٰذا ڈائمنڈ جوبلی کا بابرکت زمانہ اسماعیلی تاریخ میں بے مثال اور لاجواب تھا۔ یہ اسماعیلی دعوت کا ایک قیامت خیز منظر تھا جس کو آسمان و زمین کے باشندوں نے دیکھا اور سنا۔

ترجمۂ مصرع: مجھے جب پہلی بار پاک ظاہری دیدار ہوا تھا ،تو اسی وقت میں نے معجزۂ زلزلہ دیکھا تھا ۔

 

منگل یکم مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۷۷

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۷۶

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

قرآنِ حکیم تمام آسمانی کتابوں میں بے مثال اور لاجواب ہے ،اس کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے ،اور باطن کے سات بواطن ہیں، دوسری روایت کے مطابق ستر بواطن ہیں۔ کیونکہ قرآن باطناً لوحِ محفوظ میں علیؑ کا نور ہے ۔

دیکھو کلامِ الٰہی کہتا ہے کہ قرآنِ مجید لوحِ محفوظ میں ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) اور مولا علیؑ فرماتا ہے کہ میں ہی لوحِ محفوظ ہوں۔ کوکبِ درّی بابِ سوم منقبت ۸۔ پس علیؑ قرآنِ ناطق ہے، امُّ الکتاب ہے، مؤوِّلِ قرآن ہے ،حظیرۂ قدس ہے، رسولِ پاکؐ کے علم وحکمت کا دروازہ ہے ۔حدیثِ شریف ہی کا ترجمہ ہے: قرآن علی کے ساتھ ہے اور علی قرآن کے ساتھ ۔

 

بدھ ۲؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۷۸

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۷۷

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

بحوالۂ ہزار حکمت ص ۱۶۹ حکمت:۲۹۳۔ حَمَلَۃُ الْقرآن= حاملانِ قرآن: حَمَلَۃُ الْقُرْاٰن عُرَفَائُ اَھْلَ الْجَنَّۃ۔ حاملانِ قرآن اہلِ جنت کے عارفین ہیں۔ یعنی جو لوگ دینِ حق کی تاریخ میں قرآن کی روح و روحانیّت اور معرفت وحکمت کے حامل ہیں، وہی اہلِ جنت کے عارفین بھی ہیں کہ بہشت والے ان سے اسرارِ معرفت کی تعلیم حاصل کرتے رہیں گے۔ (حدیثِ دعائم الاسلام جلدِ ثانی ص ۳۵۱)

 

جمعرات ۳؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۷۹

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۷۸

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ‘ نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ بِاَیْمَانِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَا اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ ترجمۂ ظاہر آپ خود دیکھ لیں۔

اگرچہ اللہ تعالیٰ کے نورِ اعظم کا ذکر تمام قرآن میں موجود ہے ،تاہم اس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز نے اپنی عنایتِ بے نہایت سے اپنے پاک وبرتر نور کو مومنین و مومنات سے بھی منسوب فرمایا ہے: سورۂ حدید (۵۷: ۱۲ تا ۱۴) نیز آیت (۵۷: ۱۹) میں غور و فکر کریں ۔

آپ سب باربار عاجزانہ دعا کرتے رہیں اور نظم “مستِ مولا” کو بطورِ مناجات خوب گریہ وزاری کے ساتھ پڑھتے رہیں۔ آمین یاربَّ الْعَالَمِیْن!

 

جمعۃ المبارک۴؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۸۰

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۷۹

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ نور (۲۴: ۲۵) یَوْمَئِذٍ یُّوَفِّیْھِمُ اللّٰہُ دِیْنَھُمُ الْحَقَّ وَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ۔

ترجمہ: اس دن اللہ ان کے دینِ حق کو ضرور پورا کردے گا، اور انھیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ ہی حق المبین ہے ۔

مبین = کھلا ہوا، ظاہر، ظاہر کرنے والا، قاموس القرآن ص ۴۷۰۔ سورۂ حدید (۵۷: ۰۳) اللہ تعالیٰ کا ایک اسمِ صفت اَلظَّاہِرْ آیا ہے، جس کے معنی اَلْبَاطِنْ کے بالمقابل ہیں۔ لہٰذا یہاں اَلظَّاہِر کے دوسرے معنی مقصود نہیں، اور نہ ہی کسی مفسر نے کوئی اور ترجمہ کیا ہے ۔

اہلِ معرفت جانتے ہیں کہ سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) کی مشہور آیۂ تسخیر کے مطابق حضرتِ ربُّ العزّۃ کے پاک دیدار کی نعمتِ عظمیٰ ظاہری نعمتوں میں بھی ہے اور باطنی نعمتوں میں بھی ہے۔ آپ اس آیۂ شریفہ کو غور سے پڑھ لیں ۔

 

اتوار ۶؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۸۱

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۸۰

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ انعام (۰۶: ۳۰ تا ۳۱)  وَلَوْ تَرٰٓی اِذْوُقِفُوْا عَلٰی رَبِّھِمْ قَالَ اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ قَالُوْا بَلٰی وَرَبِّنَا قَالَ فَذُوْقُوْاالْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ۔ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآئِ اللّٰہِ حَتّیٰٓ اِذَاجَآئَ تْھُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰی مَافَرَّطْنَا فِیْھَا وَھُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَھُمْ عَلٰی ظُھُوْرِھِمْ اَلَا سَآئَ مَایَزِرُوْنَ۔ آپ ترجمۂ قرآن میں دیکھیں ۔

اور یہ بھی ایک ترجمہ ہے : کاش وہ منظر تم دیکھ سکو جب یہ اپنے ربّ کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے ۔اس وقت ان کا ربّ ان سے پوچھے گا “کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟” وہ کہیں گے “ہاں اے ہمارے ربّ ،یہ حقیقت ہی ہے ۔” وہ فرمائے گا: “اچھا، تو اب اپنے انکارِ حقیقت کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھو۔”

نقصان میں پڑ گئے وہ لوگ جنھوں نے اللہ سے اپنی ملاقات کی اطلاع کو جھوٹ قرار دیا جب اچانک قیامت آجائے گی تو یہی لوگ کہیں گے “افسوس! ہم سے اس معاملہ میں کیسی تقصیر ہوئی؟” اور ان کا حال یہ ہوگا کہ اپنی پیٹھوں پراپنے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں گے۔ دیکھو! کیسا بُرا بوجھ ہے جو یہ اُٹھا رہے ہیں ۔

 

پیر۷؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۸۲

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۸۱

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

اس بندۂ درویش نے اس دفعہ اپنے چند عزیزوں سے ایک تعلیمی سوال یہ کیا: آپ کا کیا نظریہ ہے؟ انسان نورِ الٰہی کے بحرِ محیط سے دنیا میں آیا ہے؟ یا بہشتِ برین سے؟ جبکہ خدا اور بہشت سے باہر آنے کی کوئی عقلی اور منطقی وجہ معلوم نہیں ہے ۔ لہٰذا مولانا رومی کا قول بالکل درست ہے :-     ؎   ما آمدہ نیستیم این سایۂ ماست   ا ور یہ معمولی بات نہیں، بلکہ قرآنی حقیقت ہے: (۱۶: ۸۱) (۲۵: ۴۵)۔

خداوندِ روحانی قیامت کے فضل وکرم سے “مستِ مولا” کے عنوان سے جو نظم ہم سب کوعطا ہوئی ہے اگر ہم نے اجتماعی طور پر اس سے فائدہ اٹھا کر توبۂ نصوح نہیں کی اور اپنی قساوتِ قلبی کو ایک بار ختم نہیں کیا تو بہت بڑی ناشکری ہوگی ۔

قرآنِ حکیم نے عوام کی بہت بڑی اکثریت کو کَالْاَنْعَام کہا ہے (۰۷: ۱۷۹) جانوروں کی طرح ۔

 

پیر ۷؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۸۳

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۸۲

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

دینِ قائم کے قرآنی حوالہ جات: (۰۹: ۳۶؛ ۱۲: ۴۰؛ ۳۰: ۳۰؛ ۳۰: ۴۳؛ ۹۸: ۰۵)۔

؎ ھُوَ الاوّل  ھُوَ الآخر  ھُوَ  الظَّاہر  ھُوَ  الْباطن

مُنزّہ مالک المُلکی کہ بے پایان حشردارد

آج بوقتِ چاشت جبکہ مقالہ ۸۱ زیرِ قلم تھا ایک عظیم الشّان سمعی معجزۂ نورِ اعظم کا ظہور ہوا۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ یہ الفاظ سے مجرّد نغمۂ بے مثال نغماتِ بہشت کا ایک نمونہ تھا جو ایک منٹ سے بھی کم وقت میں غائب از سماعت ہوگیا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعدعزیزم شمس الدّین کا فون آ گیا تو میں نے گمان کیا کہ شاید ان کو بھی یہ معجزہ ہوا ہوگا، لیکن انھوں نے ایسا ذکر نہیں کیا۔ میں سجودِ شکرانہ میں گیا اور گریہ و زاری ہونے لگی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی مَنِّہٖ وَاِحْسَانِہٖ۔

 

پیر۷؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۸۴

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۸۳

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ زمر (۳۹: ۲۳) اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰباً مُّتَشَابِھاً مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُھُمْ وَقُلُوْبُھُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ  ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ۔

تاویلی مفہوم:اس پاک و پُرحکمت ربّانی ارشاد میں اسمِ اعظم کی تعریف و توصیف ہے۔ اللہ جلّ جلالہ‘ نے اسمِ اعظمِ لفظی کو تمام احسن معنوں کے ساتھ نازل کیا تاکہ وہ آئینۂ ذات وصفاتِ حضرتِ ربُّ العزّۃ ہو، پس جب اسمِ اعظمِ لفظی میں اسمِ اعظمِ نورانی کا ظہورِ پُرنور ہوجاتا ہے، تو اس سے ایک روحانی قیامت برپا ہوکر کائنات پرمحیط ہوجاتی ہے ۔

لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم۔

 

منگل ۸؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۸۵

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۸۴

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ حٰمٓ السَّجْدَۃ (۴۱: ۵۳ تا ۵۴)  سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِیْ الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ اَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ اَنَّہ‘ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْدٌ۔ اَلَآ اِنَّھُمْ  فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْ لِّقَآئِ رَبِّھِمْ اَلَآ اِنَّہ‘ بِکُلِّ شَیْئٍ مُّحِیْطٌ۔

ترجمہ: عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں (معجزات) آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفوس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات (راز) کھل جائے کہ وہ برحق ہے اگرچہ قرآنِ حکیم کے ارشادات ہر زمانے کیلئے ہیں، تاہم اس مبارک پیشگوئی کا زیادہ سے زیادہ تعلق عصرِ حاضر سے ہے ۔

اس پُرحکمت ارشاد میں ایک واضح اشارہ موجود ہے : “اَلَآ اِنَّھُمْ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْ لِّقَآئِ رَبِّھِمْ” = آگاہ رہو یہ لوگ اپنے ربّ کی ملاقات میں شک رکھتے ہیں۔

 

منگل ۸؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۸۶

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۸۵

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ نمل (۲۷: ۹۳) وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ سَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ فَتَعْرِفُوْنَھَا وَمَا رَبُّکَ  بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۔

ترجمہ: ان سے کہو، تعریف اللہ ہی کیلئے ہے، عنقریب وہ تمھیں اپنی آیات (معجزات) دکھا دے گا اور تم انھیں پہچان لوگے اور تیرا ربّ بے خبر نہیں ہے ان اعمال سے جو تم لوگ کرتے ہو۔

تاویلِ باطن: مولا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے : اَنَا اٰیاتُ اللّٰہِ وَ اَمِیْنُ اللّٰہ = یعنی میں ہی خدا کی آیات ومعجزات اور امین (راز دار) ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیۂ آفاق وانفس (۴۱: ۵۳ تا ۵۴) میں بھی یہی راز پوشیدہ ہے۔ مولا علیؑ کے پاک ارشاد کو کتابِ کوکبِ درّی بابِ سوم، منقبت ۸۰ میں دیکھ لیں ۔

 

بدھ ۹؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۸۷

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۸۶

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ بقرہ (۰۲: ۹۴)  قُلْ اِنْ کَانَتْ لَکُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ عِنْدَاللّٰہِ خَالِصَۃً مِّنْ دُوْنِ النّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔

ترجمہ: ان سے کہو کہ اگر واقعی اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لئے مخصوص ہے، تب تو تمھیں چاہئے کہ موت کی تمنّا کرو، اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو۔

اس ارشادِ ربّانی میں بڑی زبردست حکمت ہے ،جبکہ بہشت صرف سبقت کرنے والوں کو ملتی ہے، دیکھو آیت: وَسَارِعُوْا (۰۳: ۱۳۳) اور سَابِقُوْا (۵۷: ۲۱)۔

آپ قرآن کی ہرحکمت کو جان ودل سے یاد کریں ورنہ ناشکری ہوگی ، مولائے پاک سے بڑی عاجزی کے ساتھ یادداشت کیلئے درخواست کریں۔

 

بدھ ۹؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۸۸

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۸۷

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ اعراف (۰۷: ۴۶) میں ارشاد ہے:  وَعَلَی الْاَعْرَافِ رِجَالٌ یَّعْرِفُوْنَ کُلًّا بِسیْمٰھُمْ۔

اس کی اصل اور حقیقی تاویل مولا علیؑ کے بابرکت کلام میں ہے: مولا کا ارشاد ہے : اور میں ہی وہ صاحبِ اعراف ہوں جو سب کو ان کی پیشانیوں سے پہچان لوں گا۔  بحوالۂ کوکبِ درّی خطبۂ رجعیّہ۔

علِیُّ الْعَظِیْم کے نور و نورانیّت میں سِیْما = جبین = پیشانی حظیرۂ قدس کی بہشت ہے۔ نور (امامِ برحقؑ) کے ہرنورانی (روحانی) فرزند کی پیشانی پر اسمِ اعظم اَلْعَلِیُّ الْعَظِیْم مرقوم ہوتا ہے ۔

کتابِ دعائم الاسلام جلدِ اوّل ،”وَلایتِ أئمّۂ اہلِ بیت” کے مضمون میں بھی آپ کو اعراف کا تاویلی بیان ملے گا۔

 

بدھ ۹؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۸۹

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۸۸

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ توبہ (۰۹: ۷۲) کے حکمتِ بالغہ سے لبریز ارشاد کا یہ ایک تاویلی مفہوم ہے۔ قرآنِ حکیم میں جابجا بہشتِ برین کا ذکر آیا ہے، بہشت: مکانی بھی ہے، لامکانی بھی ہے، روحانی بھی ہے، نورانی اور تجلیاتی بھی ہے اور صاحبِ کاف ونون = کلمۂ کن (ہوجا) کا مالک خود تجلیاتی بہشت کا باغبان یعنی رضوان ہے، محولۂ بالا ارشاد میں ہے : وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ ذٰلِکَ ھُوَالْفَوْزُالْعَظِیْمُ۔ یعنی ہردرجہ کی جَنّات سے گزر کر تجلیاتی اور ابداعی جَنّات کے مالک = حضرتِ مبدِعِ حق میں فنا ہوجانا ہی اللہ کی خوشنودی  بھی ہے اور عاشقوں کی بہت بڑی کامیابی بھی اسی میں ہے ۔

 

جمعرات ۱۰؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۹۰

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۸۹

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۱۷) بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنُ = وہی ہے آسمانوں اور زمین کا مبدِع اور موجد، اور جب کسی کام  کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے فرماتا ہے کہ ہوجا اور وہ فوراً ہی ہوجاتا ہے ،جب وہ قادرِ مطلق چاہتا ہے کہ عالمِ ظاہر عالمِ شخصی میں آکر کائناتی بہشت بن جائے تو فوراً ہی ایک انسان کے اندر کائناتی بہشتِ برین تیار ہوجاتی ہے جس میں آسمان وزمین کی ہر چیز موجود ہوتی ہے، یعنی دنیا کے تمام ممالک اور ان کے سارے باشندے جسمِ لطیف میں طوْعاً وَکَرْھاً (۰۳: ۸۳)  اَلْوَاحِدُ الْقَھَّار کے سامنے حاضر ہوجاتے ہیں جیسے سورۂ ابراہیم (۱۴: ۴۸) میں زمین وآسمان کی تبدیلی کا ذکر ہے ۔

 

جمعرات ۱۰؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۹۱

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۹۰

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ ابراہیم (۱۴: ۴۸)  یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَ َبَرَزُوْا لِلّٰہِ الْوَاحِدُ الْقَھَّارِ۔

ترجمہ: اس دن جب یہ زمین غیر (مادّی) زمین (یعنی عالمِ شخصی) میں تبدیل ہوجائے گی اور آسمان بھی بدل دئے جائیں گے اور سب خدائے واحد وقہّارکے سامنے پیش ہوں گے ۔

چونکہ روحانی اور عرفانی قیامت عالمِ شخصی ہی میں برپا ہوجاتی ہے، لہٰذا اس کے نتائج اور آخری معجزات بھی عالمِ شخصی ہی میں ہوتے ہیں ۔

اَلْواحِدُ الْقَہَّارکا اسمِ پاک قرآنِ حکیم کے چھ مقامات پر آیا ہے : یہ خداوندِ روحانی قیامت کا اسمِ صفت ہے۔ جس کے معنی ہیں خود ایک اور سب کو ایک کردینے والا، غالب، زبردست۔ قاموس۔

 

جمعۃ المبارک ۱۱؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۹۲

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۹۱

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ اسمِ اعظم اور نورِ اقدم کا ذکرِ جمیل اور اشارہ موجود ہے : سورۂ فرقان (۲۵: ۵۸) وَ تَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدہٖ وَ َکَفٰی بِہٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِہٖ خَبِیْراً۔ یہاں صاحبانِ عقل کیلئے خزانے ہی خزانے ہیں ۔ آپ غور وفکر کی خوب محنت کریں۔

اسی طرح سورۂ مومن (۴۰: ۶۵) کو غور سے پڑھ لیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نہ صرف یہی بات ہے کہ آیۃُ الکرسی تمام آیاتِ قرآنی کی سردار ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ قرآنِ حکیم میں جا بجا آیۃُ الکرسی کی عظمت و فضیلت کے حکیمانہ اشارے موجود ہیں اور وہ کئی طرح سے ہیں ۔

 

جمعۃ المبارک ۱۱؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۹۳

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۹۲

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

خدا شناسی قرآنی علم وحکمت کے بغیر ممکن نہیں، قرآن فہمی حظیرۂ قدس کے معجزات کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ معجزات روحانی قیامت کے بعد ہیں، روحانی قیامت اسمِ اعظم کے بغیر ممکن نہیں ،اسمِ اعظم صرف اور صرف امامِ زمان (روحی فداہ‘) سے کسی مرید کو عطا ہوسکتا ہے ۔اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔

پاک اسمِ اعظم کی خصوصی عبادت کے ذریعے سے مُوتُوا قَبْلَ اَنْ تَمُوتُوا کے حکم پر عمل کرنے کیلئے سعی کی جاتی ہے۔ اگر رحمتِ خداوندی شاملِ حال ہوئی تو سب سے پہلے عالمِ خیال میں امامِ زمانؑ کا نورِ اقدس طلوع ہوجاتا ہے جس سے عالمِ خیال میں تجلیاتِ نور کی شادمانی کے ایک دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اگرچہ قیامت اس سے بھی بہت آگے چل کر ممکن ہے ۔

 

جمعۃ المبارک ۱۱؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۹۴

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۹۳

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۴۳) کے ارشادِ مبارک میں یہ پُرحکمت ذکر آیا ہے کہ حضرتِ ربِّ تعالیٰ نے اپنے نورِ اعظم کی تجلّی پہاڑ پرکی تھی، یہ پہاڑ اہلِ ظاہر کے نزدیک کوہِ طور ہے، اور اہلِ باطن کے نزدیک کوہِ عقل = گوہرِ عقل ہے، پس امامِ زمان علیہ السّلام کے ان عاشقوں کی بہت بڑی سعادت ہے جنھوں نے اپنے پیارے مولا کے پاک وبرتر نور کی روشنی میں حظیرۂ قدس کا مشاہدہ کیا ہے ۔ کیونکہ حظیرۃ القدس اسرارِ معرفت کی بہشتِ برین ہے ۔

حضرت موسیٰؑ کے لئے گوہرِ عقل کا عظیم معجزہ سلسلۂ روحانی قیامت میں ہوا تھا، فَلَمَّآ تَجَلّیٰ رَبُّہ‘ لِلْجَبَلِ جَعَلَہ‘ دَکّاً وَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقاً (۰۷: ۱۴۳) چنانچہ اس کے ربّ = خداوندِ قیامت نے جب پہاڑ پرتجلّی کی تو اسے ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰؑ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔

 

سنیچر ۱۲؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۹۵

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۹۴

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۹) یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔

ترجمہ:اے ایماندارو خدا سے ڈرو اور سچوں (صادقین) کے ساتھ ہوجاؤ۔ تاویل: امامانِ برحق علیہم السّلام بحقیقت صادقین ہیں اور ہرمومن اور مومنہ کا فنا فی الامام ہوجانا یقیناً سچوں کے ساتھ ہوجانا ہے، اگر فنا فی الامام کی سعادت کسی مرید کو نصیب ہوئی تو اس کو دنیا ہی میں حظیرۂ قدس کی بہشت عطا ہوگی (۴۷: ۰۶) جس میں علم و حکمت کے میوے (پھل) بھرے ہوئے ہیں ۔

انبیائے قرآن علیہم السّلام کے تمام معجزات روحانی قیامت کے مراحل میں گھیرے ہوئے ہیں۔ خداوندِ قیامت نے جب موسیٰؑ کیلئے گوہرِ عقل کا حیران کُن معجزہ کیا تو اس سے ان کو بڑی حیرت ہوئی اور یہی تاویل ہے ان کے بے ہوش ہو کر گر جانے کی، کہ وہ اس سے قبل گوہرِ عقل کی تجلیات سے ناواقف تھے ۔

 

سنیچر ۱۲؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۹۶

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۹۵

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

خداوندِ قیامت = اَلْعَلِیُّ الْعَظِیْم کی تجلّی سے کوہِ عقل کا ریزہ ریزہ ہو جانا = اس  مثال کی تاویل یہ ہے کہ حظیرۂ قدس میں گوہرِ عقل سورج اور چاند کی طرح ہمیشہ طلوع و غروب کی گردش میں ہے، اور یہی ایک جامع الامثال وہ ہے جس میں تمام مثالیں جمع ہوجاتی ہیں ۔

صبحِ ازل سے لیکر شامِ ابد تک جتنے واقعات ہیں، وہ سب کے سب اسی مثالِ واحدہ میں جمع ہیں ۔

حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: “جب میں منہ کھولتا ہوں تو جواہرات کے ڈھیر لگ جاتے ہیں” = یعنی جب میں حظیرۂ قدس میں دہنِ مبارک کھولتا ہوں تو اس میں سے گوہرِ عقل کا نورطلوع ہوجاتا ہے ۔ سبحان اللہ!  سبحان اللہ!

 

سنیچر ۱۲؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۹۷

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۹۶

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

قرآنِ حکیم میں جتنی آیاتِ نور ہیں اور ان سب میں جس طرح نُورٌ علٰی نُورٍ کی حکمت روشن ہے، بالکل اسی حقیقت وحکمت کی تصدیق وتائید گوہرِ عقل کی تجلیات سے ہمیشہ ہوتی رہتی ہے ۔

قرآنِ حکیم کا ایک اساسی قانون یہ ہے کہ خدا مثالیں بیا ن کرتا ہے (۲۴: ۳۵) پس گوہرِ عقل کے ظہورات وتجلّیات میں کُلّ مثالیں ہی موجود ہیں۔ سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں یہ ذکر آیا ہے کہ تمام چیزوں کے خزانے خدا کے پاس ہیں۔ چنانچہ گوہرِ عقل کے ظہورات سے یہ سرِّ الٰہی معلوم ہوجاتا ہے کہ خزائنِ الٰہی کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں، کبھی بند نہیں ہوتے ہیں ۔

 

سنیچر ۱۲؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۹۸

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۹۷

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورہ نمبر۵۶  کا نام اَلْوَاقِعَۃ  ہے، یہ اسم اس سورہ کیلئے بھی ہے، قیامت کے لئے بھی اور علیُّ المرتضیٰؑ کیلئے بھی ہے، کیونکہ آپؑ قیامت اور خداوندِ قیامت ہیں، لہٰذا قیامت کا ہرنام آپ کے اسمائے وصفی میں سے ہے۔ پس آپ چشمِ بصیرت سے اس سورہ کو تماماً پڑھ لیں۔ جبکہ آپ اسمِ اعظم اور نورِ اقدم کے پروانوں میں سے ہیں ۔ آگے چل کردیکھیں : (۵۶: ۷۴ تا ۷۹) آیا رسولِ پاکؐ دورِ قیامت کے زندہ اسمِ اعظم کی تسبیح کرتے تھے؟ تاروں کے منازل = مغارب انوارِ حظیرۂ قدس = یعنی دہنِ مبارک کی قسم، یہ بہت بڑی قسم ہے، جوابِ قسم: یقیناً وہ بڑے رتبہ کا قرآن ہے، جو کتابِ مکنون = کتابِ مخفی میں ہے۔ کتابِ مکنون گوہرِ عقل کے سنگم پر ہے ، اور یہ لوح و قلم کا سنگم ہے۔ کتابِ مکنون کو صرف وہی لوگ ہاتھ میں لے سکتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں۔ جبکہ یہ تنزیل کی چوٹی ہے ۔

 

اتوار ۱۳؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۹۹

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۹۸

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ نساء (۰۴: ۵۴) فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰھِیْمَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاٰتَیْنٰھُمْ مُّلْکاً عَظِیْماً۔

ترجمہ: تو پھر ہم نے آلِ ابراہیم کو کتاب وحکمت اور بہت بڑی سلطنت سب کچھ عطا کیا ہے ۔

تاویلی مفہوم: اہلِ دانش پریہ حقیقت اظہر من الشّمس ہے کہ محمد وآلِ محمد علیہم السّلام آلِ ابراہیم ہیں، کتاب، قرآن ہے، حکمت تاویلِ باطن ہے، اور بہت بڑی سلطنت امامت ہے۔ اس کا پہلا ثبوت امامِ زمانؑ کا زندہ اسمِ اعظم ہونا ہے، دوسرا ثبوت امام شناسی کے عظیم معجزات ہیں، جن میں گوہرِ عقل کے نورانی معجزات بھی ہیں ۔

 

اتوار ۱۳؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۱۰۰

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۹۹

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۴ تا ۲۵) میں اسمِ اعظمِ لفظی اور اسمِ اعظمِ نورانی کے سنگم کی مثال ہے۔ رسولِ پاکؐ کے مشاہداتِ باطن میں سے کسی چیز کی طرف توجہ دلانے کی غرض سے ’’ اَلَمْ تَرَ‘‘ کا جملۂ سوالیہ قرآن میں بارہا آیا ہے۔ اس پُرحکمت ارشاد کی تاویل کا حوالہ: کتابِ وجہِ دین ص ۳۱ ہے ۔

گوہرِ عقل کے نورانی ظہورات شجرۂ نور ( درختِ نور) کے پھل ہیں۔ الغرض گوہرِ عقل اور کتابِ مکنون کے سنگم کی تجلیات کی مثالوں سے قرآنِ حکیم کی کوئی مثال باہر نہیں ۔

کہتے ہیں کہ اس کائنات کا بھی ایک دہنِ مبارک ہے، جس سے ہمیشہ موتی یعنی ستارے نکلتے رہتے ہیں۔

 

پیر ۱۴؍ مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۱۰۱

 

قرآنی علم و حکمت کے جواہر

قسط: ۱۰۰

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم۔

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۸۹) وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ فَاَبٰٓی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوْرًا۔

ترجمہ: اور ہم نے اس قرآن میں ساری مثالیں اُلٹ پلٹ کربیان کردی ہیں پس اکثر لوگوں نے انکار کیا۔۔۔۔

گوہرِ عقل گویا قلمِ الٰہی اور کتابِ مکنون گویا لوحِ محفوظ ہے، پھر ایسے میں وہ کونسی مثال ہے، جو احاطۂ قلم ولوح سے باہر ہوسکتی ہے؟

اے عزیزان آپ اور ہم سب حضرتِ مولا کے دریائے احسانات میں غرق ہوچکے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ ہمارا نام شکور نہیں بلکہ کفور ہے ۔

بندہ ہمان بہ کہ زتقصیرِ خویش عذر بدرگاہِ خدا آورد

ورنہ سزاوارِ خداوندی اش کس نتواند کہ بجا آورد

 

پیر۱۴؍مارچ ؁۲۰۰۵ ء

 

۱۰۲

قرآنی مینار

قرآنی مینار

اِنتسابِ کتابِ ہٰذا

ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکُوْنُوْآ اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ (ترجمہ): اے ایمان والو! ﷲ کے مددگار بنو، جس طرح عیسیٰ ابنِ مریم نے حواریوں کو خطاب کر کے کہا تھا ’’ﷲ کے لیے میرے مددگار کون ہیں؟‘‘ اور حواریوں نے جواب دیا تھا ’’ہم ہیں ﷲ کے مددگار‘‘ (۶۱: ۱۴)۔

ہر زمانے کے انسانِ کامل کے مددگارہی انصارُ ﷲ ہیں اوراس دورِ قیامت کے انصارانِ قائم کی خصوصی تعریف ہے جو ذکر و فکراور علم و حکمت کے فروغ کے لیے بے مثال قربانیوں کے ذریعے ایک اسماعیلی قیامت برپا کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشان ہیں۔

پاکستان اور امریکہ میں خدمات کی یادگار تاریخ رقم کرنے والے ہمارے دو قابلِ قدر احباب ڈاکٹر رفیق جنت علی، آئی۔ایل۔جی، سکالر، پریذیڈنٹ اٹلانٹا ہیڈ کوارٹر اورمیڈیکل پیٹرن؛ اور ڈاکٹر شاہ سلطانہ رفیق، حضرتِ عالیہ، نورِ فاطمہ، میڈیکل پیٹرن اور کوآرڈینیٹر پرنس علی محمد لٹل اینجلز اٹلانٹا نے علمی خدمات کے تسلسل کے طور پر اپنے اہلِ خانہ کی جانب سے ’’قرآنی مینار‘‘ جیسی عظیم اور بنیادی کتاب کو چھپوا کر ازراہِ شفقت اپنے مرحوم والد جنت علی ابنِ علی محمد، اپنے مرحوم بھائی جعفر ابنِ جنت علی اور اپنی والدۂ محترمہ زہرا خانم زوجۂ جنت علی کے نام کر دیا ہے۔

دعا ہے کہ خداوند بہشتِ برین میں مرحومین کے درجات کو بلند فرمائے اور محترمہ زہرا خانم کو دین و دنیا کی ہزار ہا نعمتوں سے سرفراز فرمائے! آمین!

 

ڈاکٹر شہناز سلیم ہونزائی

کراچی، دسمبر ؁۲۰۰۵ ء

 

۱

 

آغازِ کتاب

 

۱۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اے خدائے علیم و حکیم! اے بادشاہِ مُلکِ قدیم! اے خلّاقِ کون و مکان! اے رزّاقِ انس و جان! اے قادرِ مطلق! اے دانائے برحق! اے سلطانِ ازل! اے خدا وندِلم یزل! اے دارندۂ خزائنِ علم و حکمت ! اے کشایندۂ ابوابِ رحمت! اے کریمِ کارساز! اے رحیمِ بندہ نواز! الٰہی چارۂ بیچار گان کن ۔۔،’ الٰہی رحمتی بربندگان کن۔ الٰہی رحمتت دریائے عام است ۔۔،’ و زانجا قطرۂ ما را تمام است۔۔۔۔ اَللّٰھُمَّ صلِّ علٰی محمّدٍ وَّ آلِ محمّد۔

۲۔ بندۂ احقراللہ تبارک و تعالیٰ کے اس ابرِ کرم اور ایسی طوفانی بارانِ دُرّوگوہر سے انتہائی حیرت زدہ ہے، یہ خاکسار دریائے غور وفکر میں مستغرق ہو کر اپنے آپ سے یوں پوچھتا ہے کہ: کس کی یا کن کی عاجزانہ دعا سے خداوندِ مہربان نے روحانی اور علمی نعمتوں کی ایسی عظیم الشّان اور جانفزا بارش برسادی؟ کیا شعوری یا غیر شعوری طور پر میرے آباؤاجداد اور بزرگوں نے کوئی ایسی دعا و مناجات کی تھی؟ آیا یہ ان پُرخلوص دعاؤں کا ثمرہ نہیں، جو علاقے کے مومنین بار بار پروردگار کے حضور سے طلب کرتے رہتے ہیں؟ کیا وہ جماعتی دعا سب سے افضل و اعلیٰ اور سب سے مقبول نہیں ہے، جو دنیا بھر کے جماعتخانوں میں منظم طور پر اور ایک ہی شان سے مانگی جاتی ہے؟ اور اس خاکسار کے عزیز ساتھیوں اور دوستوں کی قابلِ رحم گریہ و زاری اور دلسوز مناجات بھی تو ہے، الغرض یہاں تمام دعاؤں نے مل کر کام کیا ہے، تاہم یہ نکتہ ہمیشہ یاد رہے کہ دعاؤں پر جو دعا بادشاہ ہے، وہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی مبارک دعا

 

۲

 

ہے۔

۳۔ یہ بات واضح رہے کہ قرآنی علاج، علمی علاج، اور روحانی علاج کے بعد گزشتہ سال لنڈن کے دَورہ کے دوران دوستانِ عزیز کی میٹنگ میں یہ مشورہ ہوا تھا کہ اب (اگر خدا نے چاہا تو) “قرآنی مینار” کے نام سے ایک کتاب لکھی جائے گی، جس کا حصّۂ اوّل یہی زیرِ نظر کتاب ہے، اگر ربّ العزّت کی توفیق و تائید حاصل رہی، اور جسمانی صحت کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوا، تو ان شاء اللہ تعالیٰ دوسرے حصّے کے لئے بھی سعی کی جائے گی۔

۴۔ اپنی بیشتر کتابوں کی طرح “قرآنی مینار” بھی ابواب پر منقسم نہیں، بلکہ چند پُرمغز و مفید مقالوں پر مبنی ہے، تاہم یہاں یہ عرض کرنا بیجا نہ ہوگا کہ نہ صرف انہی مقالات میں کلّی طور پر موضوعاتی ربط و ہم آہنگی موجود ہے، بلکہ خدا وندِ قدوس کے فضل و کرم سے تمام کتابوں کا اصل اور بنیادی موضوع بھی ایک ہی رہا ہے، اور وہ مقدّس موضوع ہے: “قرآنی حکمت و روحانیّت۔” چنانچہ بروشسکی ریسرچ ورک کو چھوڑ کر باقی نظم و نثر کے جیسے اور جتنے بھی مضامین ضبطِ تحریر میں آچکے ہیں، وہ یقیناً سب کے سب اسی انتہائی عظیم و اعلیٰ موضوع سے متعلق اور اسی کے تحت ہیں، اور آپ یہ بات جانتے ہیں کہ کوئی علمی شیٔ حکمتِ قرآن اور روح و روحانیّت سے باہر نہیں۔

۵۔ میرے خیال میں یہ سوال بڑا دلچسپ اور نافع ہوسکتا ہے: اگر کوئی مجھ سے یہ پوچھے کہ اس مشکل ترین موضوع کا انتخاب کن وجوہ کی بناء پر ہوا؟ میں جواباً عرض کروں گا:

الف: قرآن اور اسلام کے دو پہلو ہیں: ظاہر اور باطن، سو ظاہر سب کے سامنے عیان ہے، مگر باطن ایسا نہیں، لہٰذا قرآنی حکمت اور روحانیّت کے عنوان سے

 

۳

 

تلاشِ باطن ضروری تھی۔

ب: ہر دانشمند مسلمان شرّ سے دور ہو کر خیر کو حاصل کرنا چاہتا ہے، اور قرآنِ کریم کا واضح اشارہ ہے کہ جس کو خیرِ کثیر چاہئے، وہ حکمت کے توسّط سے حاصل کرے (۰۲: ۲۶۹)۔

ج: جب خدائے بزرگ و برتر نے دینِ اسلام کو مکمل کردیا، تویہ اس کی نعمتِ تامّہ کی صورت ہوگئی (۰۵: ۰۳) اب آپ قرآن ہی سے پوچھ لیں کہ دین جو اللہ کی سب سے بڑی اور سب سے کامل نعمت ہے، وہ صرف ظاہر ہی میں ہے، یا باطن میں بھی ہے؟ قرآن یہ کبھی نہیں فرماتا کہ دین کی نعمتیں صرف ظاہر ہی میں محدود ہیں، بلکہ اس کا حکم یہ ہے: اور اس نے تم پر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی طورپر پوری کر رکھی ہیں (سورۂ لقمان ۳۱: ۲۰)۔

د: اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں پیدائشی اسماعیلی ہوں، اور یہ مذہب بمقتصائے حکمتِ قرآن و حدیث باطنی، روحانی، اور تاویلی ہے، یعنی یہاں ظاہر اور باطن دونوں کی اہمیت ہے، جیسا کہ کتابِ “وجہِ دین” میں ہے، پس میں نے قرآنی حکمت و روحانیّت سے دلچسپی لی۔

۶۔ منکرینِ قرآن نے قرآنِ حکیم کو اساطیرالاوّلین (اگلے لوگوں کی کہانیوں کا مجموعہ) کیوں کہا؟ اس لئے کہ قصصِ قرآن میں علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے جیسے انمول خزانے پوشیدہ ہیں، وہ ان کے دیکھنے سے بالکل ہی اندھے تھے، اور وہ گمان بھی نہیں کرسکتے تھے کہ قصّے میں کوئی رازیا کوئی اشارہ ہوگا (لفظِ اساطیر کو قرآن کے نو مقامات پر دیکھ لیں) اس سے یہ معلوم ہوا کہ اگرچہ قرآنِ کریم میں قصّے بھی ہیں، اور تاریخی واقعات بھی، لیکن ان کا مقصدِ اصلی کچھ اور ہے، اور وہ ہے تاویلی حکمت۔

 

۴

 

۷۔ اب مذکورہ بیان کی روشنی میں یہ بڑا اہم سوال سامنے آرہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضرتِ یوسف علیہ السّلام کو (خواب و بیداری کی تمام) باتوں کی تاویل / حکمت سکھا دی، اور جیسے ارشاد ہوا کہ ایسا کرنا اللہ پاک کی طرف سے اتمامِ نعمت ہے (اور خدا کی سنت یہی رہی ہے ۱۲: ۰۶) تو کیا دینِ اسلام میں جو نعمت تامّہ ہے (۰۵: ۰۳) اس میں اور حضرتِ یوسفؑ کی نعمت میں کوئی فرق ہے، یا یہ وہی نعمت ہے؟ کیا یہ اس حقیقت کا واضح اشارہ نہیں ہے کہ اسلام میں صاحبِ تاویل موجود ہے؟ ورنہ وہ نعمت کامل ہوگی، اور یہ نعمت نامکمل، مگر یہ بات درست نہیں، نیز یہ بھی سوچنا ہے کہ سورۂ یوسف حکایت تو ہے، لیکن حکمتوں سے بھری ہوئی، جس میں بے شمار سوالات کیلئے پیشگی طور پر آسمانی جوابات مہیّا ہیں، یہ جوابات آیات کے نام سے ہیں (۱۲: ۰۷)۔

۸۔ علمِ لدنّی یعنی روحانی اور تائیدی علم ہی تاویل کا ذریعہ ہوتا ہے (۱۸: ۶۵) جیسے حضرتِ موسیٰؑ کے معلّم کو عطا ہوا تھا ، اور وہ بزرگ اسی علم کی بناء پر تاویل کیا کرتے تھے (۱۸: ۷۸ تا ۸۲) اس کا مطلب یہ ہوا کہ تاویل دو قسم کی ہوتی ہے: کتابی، اور عملی، کتابی تاویل ہر وہ شخص کر سکتا ہے، جو تاویلی کتب کا مطالعہ کرتا ہو، اور وہ بہت محدود ہے، مگر عملی تاویل صرف امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے پاس ہے، اور آپؑ اپنے لشکر میں سے جن کو چاہیں بطریقِ روحانیّت اس کی تعلیم دے سکتے ہیں، کیونکہ بحکمِ حدیثِ خاصف النّعل علیؑ (یعنی ہر امام) تاویلِ قرآن پر جنگ کرتے ہیں، مگر جس طرح آنحضرت صلعم ظاہری جہاد میں تنہا نہ تھے، اسی طرح امامِ وقتؑ بھی جہادِ باطن میں اکیلے نہیں ہوتے۔

۹۔ دین اسلام کی ایک قابلِ فہم مثال یہ ہے کہ پیغمبرِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے جس شان سے نورِ نبوّت کی تشبیہہ و تمثیل علم کے شہر اور حکمت کے گھر سے اور

 

۵

 

نورِ امامت کی مثال دروازے سے دی ہے، وہ صراطِ مستقیم کی مستقل روحانیّت ہے (جیسے آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے، اور فرمایا: میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے) خوب یاد رہے کہ ان دونوں حدیثوں میں نورِ امامت کے وسیلے سے نورِ نبوّت تک رسا ہو جانے کی تعلیم دی گئی ہے، اور اگر ہم یہاں تصوّف کی زبان میں بات کریں تو یہی ہے فنا فی الامامؑ کے ذریعے سے فنا فی الرّسولؐ، اور فنا فی اللہ کا مرتبہ حاصل کرنا۔

۱۰۔ بہت سے حضرات کو اس حقیقت کا علم ہے کہ ہر حدیثِ صحیحہ کسی ایک آیۂ کریمہ کی یا چند آیاتِ مقدّسہ کی تفسیرکرتی ہے، تو سوال ہے کہ مذکورۂ بالا دونوں حدیثوں کا تفسیری رُخ کس آیۂ مبارکہ کی جانب ہے؟

جواب: الف: ارشاد ہے: وَاْ تُواالْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا (۰۲: ۱۸۹) اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو۔ یہ حکم شروع سے آخر تک جاری ہے، چنانچہ انبیا علیہم السّلام بیوت ہیں، اور أئمّہ علیہم السّلام ابواب، اور تمام اُمتوں کو ایک ساتھ حکم ہوا کہ تم اپنے اپنے اماموں کے وسیلے سے پیغمبروں کی روحانیّت میں داخل ہوجاؤ۔

ب: آیۂ کریمہ ہے: وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲)۔ یہاں امامِ مبینؑ کی مثال ایک چار دیواری اور اس کے دروازے کی طرح ہے، اور رحمتِ عالمؐ کائنات پر محیط بھی ہیں، اور یہاں بحکمِ خدا محاط بھی، یعنی اس احاطے میں آپ ہی کُل شَی ہیں۔

ج: قرآن میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ بیت (اللہ) لوگوں کے لئے جائے ثواب اور مقامِ امن ہے (۰۲: ۱۲۵) جس سے نورِ نبوّ ت اور نورِ امامت مراد ہے، کیونکہ ہر گھر کی

 

۶

 

دو چیزیں ہوا کرتی ہیں: در و دیوار، اور اندرونی حصّہ، جس میں کسی کی حیثیت کے مطابق مال ہوتا ہے، اور خدا کے گھر میں کیا نہیں ہوسکتا، پس جاننا چاہئے کہ مذکورہ دونوں حدیثیں کئی آیات مبارکہ کی تفسیر کرتی ہیں، وَالسَّلٰمُ عَلٰی مَنِ ا تَّبَعَ الْھُدٰی (۲۰: ۴۷)۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی

پیر ۲؍رمضان المبارک ۱۴۱۰ھ

۱۶؍اپریل ۱۹۹۰ء

 

۷

 

ایک یادگار دن

 

۱۔ اس دفعہ امامِ اقدس و اطہر کے بابرکت دیدار کی عظیم سعادت ہمیں نوروز کے موقع پر یعنی ۲۱؍ مارچ ۱۹۸۹ء کو حاصل ہوئی، کوئی مومن اور کوئی عاشق ایسے یومِ سعید کو کیسے فراموش کرسکتا ہے، اسی روحانی بہار کے موسمِ گُل کی تروتازگی، شادابی، اور رنگ و بو کا تذکرہ جاری وساری تھا کہ ۲۴؍ مارچ کو خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف نے ایک پُرخلوص و پُر وقار الوداعی تقریب منعقد کی، جو میرے گلگت جانے سے متعلق تھی، جس میں دونوں اداروں کے عملداران، ارکان اور کئی احباب تشریف فرما تھے۔

۲۔ یہ تقریب میری ناچیز حیثیت سے بدرجہ ہا اعلیٰ و بالا تھی، اگر آپ چاہیں تو متعلقہ ہمت افزائی کے خطوط کو پڑھ سکتے ہیں، یا کیسیٹوں کو سن سکتے ہیں، جن میں ہمارے بہت ہی عزیز ساتھیوں نے الفاظ و معانی اور علم و دانش کی گُل افشانی کی ہے، یہ سب کچھ صدر فتح علی حبیب، صدر محمد عبد العزیز، دوسرے عملداران، اور ممبران کی اجتماعی کوشش سے ہو رہا تھا، اسی لئے وہ سب بیحد شادمان نظر آتے تھے، مسکراہٹوں سے بھی اور خاموش آنسوؤں سے بھی خوشی اور شکرگزاری کی علامت ظاہر ہورہی تھی، کیونکہ ہنگامی صورتِ حال خواہ کچھ بھی ہو، لیکن ہمیشہ اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات غالب رہتے ہیں۔

۳۔ اس بندۂ کمترین کی زندگی کی ارتقائی تصویر کا خاکہ کچھ یوں ہے: بچپن کا زمانہ، چوپانی کا دور، مکتب و مدرسہ کا عہد، گلگت سکوٹس اور آرمی کے چند سال، پھر فوجی ملازمت سے استعفا اور حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا قیامت

 

۸

 

بدامان دیدار، جوڈائمنڈ جوبلی (؁۱۹۴۶ء) کے موقع پر حاصل ہوا، بعد ازان اپنے گاؤں میں سکول ماسٹری کے ماہ و سال، پھر غیر شعوری طور پر طلبِ علم کی خاطر چین جانا، اور روحانی انقلاب، جو کسی طرح بھی قیامت سے کم نہ تھا، بعد ازان ہونزا اور گلگت کی زندگی، جو انقلابی ہی انقلابی تھی، جیسے میر محمد جمال خان کی شخصی حکومت کی موجودگی میں مذہبی والینٹئرز کی تنظیم کو قائم کرنا، وغیرہ۔

۴۔ اس کے بعد خداوند کے فضل و کرم سے میری مزید ترقی ہوئی، اور میں ؁۱۹۶۲ء میں اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کراچی مرکز سے منسلک ہوگیا، اور تقریباً چودہ سال تک میں نے اس علمی ادارے میں کام کیا، میں سمجھتا ہوں کہ امامِ زمان علیہ السّلام کی ہدایت و تائید حاصل تھی، لہٰذا تر قی کی اور منزلیں طے ہوتی رہیں، تاآنکہ میں مولا کی دستگیری سے قلمی خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال ہوگیا، اور بذمۂ خود کچھ علمی خدمت کی غرض سے کام شروع کیا، اس مقصد کے پیشِ نظر ہم نے بہت پہلے یعنی ۲؍جون ؁۱۹۶۲ء کو اپنے گاؤں میں مدرسۂ دارالحکمت قائم کیا تھا، جس کی منظوری اور افتتاح کے لئے ہم نے میر محمد جمال خان صدرِ سپریم کونسل برائے وسطی ایشیا کو دعوت دی، مگر انھوں نے اپنے نمائندوں کو بھیجا، اور یہی ان کی منظوری کی ایک واضح علامت تھی، ہم نے اس تقریب میں شرکت کے لئے مرتضیٰ آباد پائین سے لے کر التت تک ہر گاؤں سے دو دو مذہبی نمائندوں کو مدعو کیا، ساتھ ہی ساتھ گاؤں کی خواتین نے دیہاتی کھانوں اور غذاؤں کی ایک نمائش بھی کی تھی، تاکہ مہمانوں کے لئے کھانے کا اہتمام ہو۔

۵۔ اسی بنیاد پر اسماعیلیہ دارالحکمت وجود میں آکر رفتہ رفتہ آگے بڑھنے لگا، اور غلام محمد بیگ صاحب کے نام پر امامِ زمانؑ کے حضور سے ادارۂ ہٰذا کے ممبروں کے

 

۹

 

حق میں دعائے برکات کا تعلیقۂ مبارک موصول ہوا، جس پر تاریخ۴؍ اکتوبر ؁۱۹۶۶ء درج ہے، پس یہی دارالحکمت آگے چل کر “خانۂ حکمت” کے نام سے مشہور ہوا۔

۶۔ میری اوّلین تصنیف “سلسلۂ نورِ امامت” ماہِ جنوری ؁۱۹۵۸ء میں امامِ زمان علیہ السّلام کے حضورِ اقدس میں پیش کی گئی تھی، اور اس میں جو تین فارسی نظمیں ہیں ان کی وجہ سے ایران کے جماعتی نمائندوں نے بطورِ تبرّک اس کتاب کی ایک کاپی پر حضرت پرنس علی شاہؑ کا آٹو گراف لیا تھا، ممکن ہے کہ اب تک یہ کتاب جناب سیّد جلال بدخشانی کے دولت خانہ میں محفوظ ہو، کیونکہ ان کے والدِ محترم ان فارسی نظموں کو بہت پسند کرتے تھے، اور شاید مذکورہ بابرکت آٹو گراف انھوں نے لیا تھا۔

۷۔ اگرچہ مجھے بروشسکی شاعری کا شوق بہت پہلے سے تھا، اور اس کی مشقیں زمانۂ چوپانی سے ہورہی تھیں، تاہم اس کی ایک باقاعدہ نظم ؁۱۹۴۰ء میں جماعت کے سامنے آئی، اور تب سے بعنایتِ الٰہی میں اعتماد کے ساتھ شعر کہہ سکتا تھا، پس بوقتِ فرصت اس مقدّس کام میں مصروف رہا کرتا تھا، جب ؁۱۹۶۱ء میں اس بندۂ خاکسار کے لئے مولانا حاضر امام صلوات اللہ علیہ کے حضورِ عالی سے دعائے پُرنور آئی، تو پھر میری ہمت آسمان کو چھونے لگی، اور بروشسکی شاعری حالانکہ انتہائی مشکل کام ہے، مولائے پاک کی اس دعائے مبارک کے صدقے سے بیحد آسان ہوگئی، صرف یہی نہیں، بلکہ اس میں بے شمار برکتیں ہیں۔

۸۔ نور اور کتابِ مبین کا ربط و رشتہ ایک دائمی اور اٹل قانون ہے، لہٰذا ہر پیغمبر کا ایک وارث ہوا کرتا ہے، تاکہ سلسلۂ نور ہمیشہ جاری و ساری رہے، اور ظاہر ہے کہ نور شخصِ کامل میں ہوتا ہے، اور نور ہادیٔ برحق کی شخصیّت کے توسط سے سرچشمۂ ہدایت قرار پاتا ہے، ورنہ نورِ مجرّد تک لوگوں کی رسائی قطعاً ناممکن ہوجاتی ہے، جیسے حضرت

 

۱۰

 

آدم علیہ السّلام اور فرشتوں کا قصہ ہے کہ تاجِ خلافت سے آدمؑ ہی کو سرفراز کیا گیا، فرشتوں کو نہیں، حالانکہ ان کی خواہش تھی کہ انہی کو خلیفہ بنادیا جائے، ان کو اپنی پاکیزگی پر بڑا اعتماد تھا، اور یہ مطلب آیۂ کریمہ کے اس مفہوم میں پوشیدہ ہے: اور ہم ایسے صاف ستھرے ہیں کہ اس کی بدولت ہم تیری حمد کی تسبیح اور تیری ذات کی تقدیس کرسکتے ہیں (۰۲: ۳۰)۔

۹۔ قرآنِ حکیم میں بغور دیکھنے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ نہ کبھی سنتِ الٰہی میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے، اور نہ کسی وقت نور شخصیّت سے الگ ہونے والا ہے، اور یہ حقیقت اس طرح ہے کہ آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) میں جیسا ارشاد ہوا ہے، وہ سنتِ الٰہیہ کی روشن ترین مثال ہے، جس کی ترجمانی و تفسیر آیۂ سراج (۳۳: ۴۶) ہے، یعنی حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا اپنے وقت میں نورِ مجسّم ہونا، اس درخشندہ و تابندہ حقیقت سے جملہ زمانوں پر روشنی پڑتی ہے کہ مسکنِ نور ہمیشہ انسانِ کامل کا دل و دماغ ہوا کرتا ہے، اور یہاں یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ کوئی آدمی اپنے علم کے معیار سے انسانِ کامل کو نہیں پرکھ سکتا، بلکہ صرف حقیقی فرمانبرداری ہی سے اس کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے۔

۱۰۔ قرآنِ حکیم میں درخت کی مثال کو بہت بڑی اہمیت دی گئی ہے، آپ خود دیکھ کر اس حقیقت کا یقین حاصل کرسکتے ہیں، درخت کی بنیادی اور بڑی تقسیم تین حصّوں میں ہوا کرتی ہے: جڑیں، تنہ، اور شاخیں، جڑیں اصولِ دین ہیں، شاخیں فروعِ دین، اور تنہ شخصِ کامل میں ان سب کی وحدت و سا لمیت ہے۔

۱۱۔ درخت کی دوسری مثال علم کے لئے ہے، جس کا ڈایا گرام نقوشِ حکمت میں بھی ہے، علم کا سدا بہار شجر کسی مخصوص موسم ہی میں نہیں، بلکہ ہر وقت اور ہمیشہ اپنے ربّ کے حکم سے پھل دیتا رہتا ہے (۱۴: ۲۵) دیکھ لیں، زندگی ہی میں پہچان لیں۔

 

۱۱

 

۱۲۔ اللہ تعالیٰ نے جن خوش نصیب لوگوں کو علم کی گونا گون نعمتوں کی لذتیں چکھا دی ہیں، ان پر خدا کا بہت بڑا فضل و احسان ہوا ہے، وہ علم کی اہمیت کو بخوبی جانتے ہیں، اور اس کے بڑے قدردان ہیں، وہ مزید علم کے حصول میں لگے ہوئے ہیں، ان شاء اللہ ایسے مومنین کو دونوں جہان کی سُرخروئی اور سربلندی حاصل ہوگی۔

۱۳۔ اب بفضلِ خدا قرآنی علاج اور علمی علاج کے بعد روحانی علاج کا کورس بھی تقریباً ہوچکا ہے، اس لئے فی الوقت نقوشِ حکمت کا کورس شروع ہونے والا ہے، کتابِ نقوشِ حکمت اب تک چھپ کر آچکی ہوگی، میں ۲۶؍مارچ ۱۹۸۹ء کو کراچی کے عزیزوں سے مرخص ہوکر بذریعۂ جہاز راولپنڈی پہنچا، ۲۹؍تاریخ کو گلگت آیا، اور یومِ جمعہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۸۹ء کو ہم اپنے نئے مکان میں رہائش کرنے لگے، جو قریۂ ذوالفقار آباد (گلگت) میں بنا ہے، اگرچہ یہ نیا گھر ہماری غریبانہ حیثیت سے بڑھ کر ہے، تاہم فی الحال یہاں بعض ایسی سہولتیں میّسر نہیں، جو کراچی میں تھیں، خصوصاً پانی، بجلی وغیرہ کی دقت، پھر بھی دعا ہے کہ خدا مسبب الاسباب ہمیں کام کرنے کی توفیق و ہمت اور حوصلہ عنایت فرمائے!

۱۴۔ ذوالفقار آباد اور اس کے آس پاس جیسے انتہائی قابل اور معزز حضرات بس رہے ہیں، ان کو دیکھ کر دل بے ساختہ کہتا ہے: چشم بد دُور! مستقبلِ قریب میں ان شاء اللہ یہاں سے امامِ عالیمقام علیہ السّلام کی علمی ذوالفقار اپنا کام کرنے لگے گی، جیسا کہ مولای رومی شمشیرِ علم کے بارے میں کہتے ہیں: نکتہ ہا چون تیغِ فولاد است تیز ۔۔،’ چون نداری تو سِپر واپس گریز۔ علمی نکات فولادی شمشیر کی طرح تیز ہیں، اگر تیرے پاس عقل و دانش کی ڈھال نہیں ہے تو اس میدان سے بھاگ جا۔

 

۱۲

 

۱۵۔ مجھے امید ہے کہ میرے عزیزان جو امامِ اقدس و اطہرؑ کے علمی لشکر میں سے ہیں، وہ اب شکر گزاری اور قدردانی کے ساتھ میدانِ علم وعمل میں آگے بڑھ کراسلام اور انسانیت کے لئے عظیم الشّان کارنامے انجام دیں گے، تاکہ ان بیمثال اور لازوال علمی خزانوں سے دین و دنیا میں ان کی سرفرازی ہو، آمین!

 

نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔ذوالفقار آباد گلگت

یکم رمضان المبارک۱۴۰۹ھ

۸؍اپریل ۱۹۸۹ء

 

۱۳

 

سائنس اور روحانیّت

 

۱۔ عصرِحاضرمیں وعدۂ الٰہی کے مطابق آیاتِ آفاق بصورتِ سائنس عرصۂ شہود میں جلوہ نما ہیں، اور اب یقیناً روحانی معجزات (آیات) کا وقت بھی آچکا ہے (۴۱: ۵۳) ایسے میں سائنسی کرشموں کی حکمت پر غور کرنا بڑا مفید ثابت ہوسکتا ہے، لہٰذا ذیل میں سائنسی ایجادات کی چند مثالیں درج کی جاتی ہیں، تاکہ روحانی ممثولات سے متعلق علم الیقین حاصل ہوسکے۔

 

۲۔ بجلی گھر/طاقت گھر (POWER HOUSE): جو کسی ملک یا شہر کی ہر گونہ مادّی ترقی و بہبودی کا سرچشمہ ہے، اگر یہ نہیں تو لوگ حیاتِ نو سے بے بہرہ رہ جاتے ہیں، چنانچہ بجلی گھر نورِ ہدایت کی مثال ہے، کیونکہ دین میں سب سے بڑی اساسی طاقت ہدایت حقّہ (نور) ہے، جس کی سب سے بڑی اور کائناتی مثال تو سورج ہی ہے، تاہم بہت سی ذیلی مثالیں بھی ہیں۔

 

۳۔ برق زا/جنریٹر(GENERATOR): پیدا کرنے والا، بجلی پیدا کرنے والی مشین، یہ ذکرِ سریع کی تشبیہہ و تمثیل ہے، جس سے مومنِ ذاکر کے عالمِ دل میں روشنی پیدا ہوجاتی ہے، قرآنِ کریم میں مادّۂ س ع ی کے بعض الفاظ میں ذکرِ سریع کے اشارے موجود ہیں،اور سورۂ عادیات (۱۰۰: ۰۱ تا ۰۲) میں بھی اس کی حکمت بیان ہوئی ہے۔

 

۱۴

 

۴۔ ہوائی جہاز(AEROPLANE): اس کا اشارہ سیر و سلوک اور تختِ روحانیّت کی جانب ہے، اُڑن طشتری اور جسمِ مثالی بھی روحانی جہازوں میں سے ہیں، سرابیل (۱۶: ۸۱) محاریب (۳۴: ۱۳) وغیرہ میں بھی اس کا حکیمانہ تذکرہ فرمایا گیا ہے۔

 

۵۔ متحرک تصویر /سنیما (MOVIE): جوہرقسم کی برائی سے پاک، سبق آموز، اور صرف تعلیمی مقصد کے لئے ہو، وہ روحانیّت کی مثال ہے، خدا کی قَسم بیت الخیال اور روحانیّت اگر رُوبہ عروج ہے تو بہشت کی مووی ہے، جو زندہ اور انتہائی اعلیٰ ہے۔

 

۶۔ ریڈیو (RADIO): مخاطبۂ روحانی (کلامِ مؤکّل) کی دلیل ہے، یعنی فرشتوں کی گفتگو، جس کے کئی نظائر قرآنِ عزیز میں موجود ہیں، جیسے مادرِ موسیٰؑ، مریمؑ، اور حواریوں سے ملائکہ کا کلام کرنا (۲۰: ۳۸؛۰۳: ۴۲؛۰۵: ۱۱۱) اور صفِ اوّل کے مومنین سے فرشتوں کی مخاطبت (۴۱: ۳۰) پس روح اور روحانیّت کی تشبیہہ و تمثیل کے لئے تمام سائنسی آلہ جات پیدا کئے گئے ہیں۔

 

۷۔ دُورگو/ٹیلیفون (TELEPHONE): یہ مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات کی علامت ہے، چنانچہ جو مومنِ صادق لقائے روحانی کی خاطر گریہ و زاری اور مناجات کرتا ہو تو یقین کیجئے کہ اس کا باطنی ٹیلیفون خوب کام کررہا ہے۔

 

۸۔ برقاؤ/چارج کرنا (CHARGING): جب خاص قسم کی

 

۱۵

 

بیٹری استعمال کی وجہ سے کمزور ہوجاتی ہے، تو اس میں برقی قوّت بھرنے کے لئے چارج کیا جاتا ہے، یہ ذکر و عبادت کی مثال ہے، جس سے دل و دماغ کی صرف شدہ طاقت بحال ہوجاتی ہے، گویا یادِ الٰہی اور بندگی سے قلب و روح کی تمام بیٹریاں چارج ہوجاتی ہیں، مگر اس میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ مادّی بیٹری میں صرف محدود برقی قوّت کیلئے جگہ ہوتی ہے، اس کے برعکس باطنی بیٹریز میں بے پناہ طاقت کی گنجائش ہے۔

 

۹۔ پیمانہ / مقیاس (METER): مقیاس الحرارت، مقیاس الماء، مقیاس الہوا، وغیرہ یہ مادّی قسم کے میٹرز ہیں، اسی طرح روحانی پیمانے بھی ہیں، مگر ان کی بہت بڑی اہمیت ہوا کرتی ہے، روحانیّت کا ہر پیمانہ احساس و شعور ہی میں کام کرتا ہے، یعنی حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن میں، اگر نورِ ہدایت کی روشنی میں اس عمل کی تر قی ہوئی، تو پھر بحکمِ خدا وہ فرقان دستگیری کرنے لگے گا، جو فرق و امتیاز اور فیصلے کے لئے مقرر ہے (۰۸: ۲۹)۔

 

۱۰۔ اِشارہ(SIGNAL): جس طرح امن یا خطرے کا ظاہر میں اشارہ ہوتا ہے، اسی طرح باطن میں بھی سگنل ہوا کرتا ہے، اس کا مقام خیال، خواب، اور روحانیّت ہے، جس میں ایک اشارہ خوشخبری کا ہے اور دوسرا اشارہ ڈرانے کا (۳۳: ۴۵)۔

 

۱۱۔ دُور بین / منظار / ستارہ بین (TELESCOPE): یہ مشاہدۂ روحانیّت کی مثال ہے، حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے ستارہ، چاند، اور سورج

 

۱۶

 

کو چشم باطن سے دیکھا تھا (۰۶: ۷۶ تا ۷۸) ظاہری دوربین جسمانی آنکھ سے الگ ایک چیز ہے، لیکن باطنی دوربین اور دیدۂ دل ایک ہی شیٔ ہے۔

 

۱۲۔ خُردبین (MICROSCOPE): وہ آلہ جو چھوٹی چیز کو بڑا دکھاتا ہے، یہ چشم بصیرت کی نظیر ہے، جس سے ذرّاتِ روحانی کا مشاہدہ ہوجاتا ہے، اور ہر ذرّہ خورشیدِ جہانتاب کے برابر نظر آتا ہے۔

 

۱۳۔ ترسیمی آلہ/ریکارڈنگ مشین (RECORDIG INSTRUMENT): یہ کراماً کاتبین (۸۲: ۱۱) کی طرف اشارہ ہے،یعنی وہ بزرگ فرشتے ، جو نامہ ہائے اعمال کو ریکارڈ کرتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ہرقول و فعل اور اس کے ماحول کو فلماتے بھی ہیں، تاکہ روحانیّت اور آخرت میں اس کودیکھا جائے۔

 

۱۴۔ تصویر /عکسی تصویر (PHOTO ): فرشتۂ خیال روحانی فوٹوگرافی کا کام کرتا رہتا ہے، آسمان اور زمین کی جتنی چیزیں آپ کے مشاہدے میں آتی ہیں، اور جن لوگوں کو آپ دیکھتے ہیں، ان سب کی روحانی تصویر اور نورانی فلم آپ کے نامۂ اعمال میں شامل ہوجاتی ہے (۱۸: ۴۹)۔

 

۱۵۔ نقل گیر مشین( COPYING MACHINE): کوئی بھی مشین جو کسی چیز کی نقلیں یا کاپیاں بناتی ہو، وہ اس حقیقت کی مثال و دلیل ہے کہ منزلِ عزرائیلی میں روحِ عارف کی نقول بنائی جاتی ہیں، اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتنی بڑی

 

۱۷

 

رحمت ہے کہ مومن ایک سے بے شمار ہوجاتا ہے (۰۲: ۲۴۵)۔

 

۱۶۔ شمارندہ / حساب کار (COMPUTOR): کمپیوٹر حساب کتاب کے علاوہ اور بھی بہت سے کاموں کو بڑی سرعت کے ساتھ انجام دیتا ہے، اور یہ سائنسی کمالات کی ایک قابلِ توجہ چیز ہے، لہٰذا کمپیوٹر روح کے کُنۡ فیکونی معجزات کا ایک ادنیٰ سا نمونہ ہے۔

 

۱۷۔ ذیلی سیّارہ / مصنوعی سیّارہ (SATELLITE ): جب بندۂ مومن حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے ارشادِ گرامی کے مطابق بوسیلۂ فرمانبرداری اور ذکر و عبادت اپنی روح کی کاپی جسم سے باہر نکالتا ہے، تو گویا وہ ایک مصنوعی سیّارہ عالمِ علوی کی طرف بھیجتا ہے، اس وقت ایسے نیک بخت شخص کو خدا کی قربت و نزدیکی حاصل ہوجاتی ہے، اور اس کی دعا مقبول ہوجاتی ہے۔

 

۱۸۔ لاسِلکی، بے تار خبر (WIRELESS): یہ آلہ تائیدِ روحانی اور اجابت و قبولیّت کی دلیل ہے، کہ مومن کی دعا وائرلیس کی طرح بارگاہِ خداوندی میں پہنچتی ہے، اور نورانی ہدایت کی صورت میں جواب دیا جاتا ہے۔

 

۱۹۔ دُور نُمائی/ٹیلی ویژن (TELEVISION): ٹیلی ویژن ایک مثال ہے اس کامیاب طریقِ عبادت کی جو مشاہداتِ روحانی پر منتج ہوتا ہے، کیونکہ مرشدِ کامل (ہادیٔ برحق) کی رہنمائی اور عبادت و ریاضت ہی سے باطنی آنکھ کھل جاتی ہے، جس سے روحانی عجائب و غرائب سے بھر پور مناظر سامنے آنے لگتے ہیں،

 

۱۸

 

غرض سائنس کے تمام مفید کرشمے مل کر روح اور روحانیّت کی کم سے کم مثالیں پیش کرتے ہیں، تاکہ اہلِ دانش ان مثالوں سے ممثولات کو سمجھ سکیں۔

 

والسّلام

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۸؍شوال ۱۴۰۹ھ

۱۴؍ مئی ۱۹۸۹ء

 

۱۹

 

نمونہ ہائے حکمت

 

۱۔ انسان اور آسمان: کیا پیدائش میں تم زیادہ سخت ہو یا آسمان؟ اللہ نے اس کو بنایا، اس کی سقف کو بلند کیا پھر اس کو برابر کیا(۷۹: ۲۷ تا ۲۸) اس سے نفسِ کلّی مراد ہے، کیونکہ عالمِ شخصی کا آسمان وہی ہے، جس کی سقف عقلِ کلّی ہے، جہاں برابری (یعنی مساواتِ رحمانی) ہوتی ہے، پس یہ انسان کے روحانی عروج کا تذکرہ ہے، جبکہ وہ شروع شروع میں ایک آدمی تھا، اس کے بعد وہ ایک کائنات ہوگیا۔

 

۲۔ لفظِ خلیفہ کی حکمت (۰۲: ۳۰): یہ خیال نہ ہوکہ آپ لفظِ خلیفہ کی ساری حکمتیں جان چکے ہیں، حالانکہ اس باب میں ہنوز آپ کو بہت کچھ جاننا باقی ہے، مثال کے طور پر: خدا کی خدائی میں نظامِ خلافت کب سے شروع ہوا اور کب تک جاری رہا؟ یا رہے گا؟ کیا خلافتِ الہٰیہ صرف زمین تک محدود ہے؟ اگر ایسا سمجھا جائے، تو پھر آسمان کے فرشتے آدمِ خاکی کے سجدے میں کیوں گر پڑے؟ اور کیوں انھوں نے آپؑ سے علم حاصل کیا؟ کیا حضرتِ آدمؑ براہِ راست خلیفۂ خدا ہیں؟ یا خلیفۂ سابق کے خلیفہ ہیں؟ خلیفہ (نائب، جانشین) کسی بشر کا ہوتا ہے، جبکہ وہ خود موجود نہیں ہوتا، لیکن یہ انتہائی عظیم راز کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو اَلْحَیُّ الْقَیُّوم ہے، اس کا خلیفہ ہے؟

 

۳۔ گنجِ ازل (۱۵: ۲۱): جس طرح مالی اعتبار سے دنیوی خزانے کا بار بار تذکرہ اور رجوع ہوتا رہتا ہے، اسی طرح گنجِ ازل سے علمی اور فکری رجوع بیحد ضروری ہے، اس سِرِّ عظیم کا بے پایان خزانہ ہر شخص کی امکانی روحانیّت کی چوٹی پر

 

۲۰

 

موجود ہے، جس میں تمام قرآنی حکمتیں جمع ہیں، اور یہاں یہ نکتۂ دلپذیرخوب یاد رہے کہ اگرچہ یہ زندہ اور ناطق خزانہ لامکان اور لازمان ہے، تاہم ہر جگہ اور ہر وقت کے اہلِ معرفت اس کا مشاہدہ کرکے بے شمار فائدے حاصل کرسکتے ہیں۔

 

۴۔ حجرِ ابیض: حجرِاسود جو خانۂ کعبہ کی دیوار میں نصب ہے، وہ فی الاصل بہشت میں دودھ سے زیادہ سفید تھا،اور ہے، کیونکہ جنّت کی چیزیں دنیا میں بذاتِ خود نہیں آتیں، بلکہ یہاں ان کے مادّی سائے بنتے ہیں، پس بہشتِ روحانیّت میں حجرِ ابیض یعنی دُرّمکنون موجود ہے، اور وہ حجِ اکبر کی علامت و دلیل ہے۔

 

۵۔ ظلِ ممدود (۵۶: ۳۰): یعنی بہشت میں ہر مومن کے لئے سایۂ دراز ہوگا، اور یہ درازی مقدار کے لحاظ سے بھی ہے، اور تسلسل کے اعتبارسے بھی، اس سے یہ مراد ہے کہ بہشتی روح انائے علوی سے بہشت ہی میں رہتی ہے، مگر انائے سفلی کا ظہور جسم کے سایوں میں بار بار ہوتا رہتا ہے، اور ظلِ ممدود کا مطلب یہی ہے۔

 

۶۔ عقلی ہلاکت اور عقلی زندگی (۰۸: ۴۲): سب سے بد ترین موت عقلی ہلاکت ہے، اور سب سے اعلیٰ زندگی عقلی حیات، جن لوگوں کو قرآنِ حکیم نے جاہل، نادان، اور چوپائے قرار دیا ہے، وہ دلیلاً مرچکے ہیں، اور جن کو صاحبانِ عقل کہا گیا ہے، وہ دلیلاً اور حقیقی معنوں میں زندہ ہوگئے ہیں، پس قرآن اور امامؑ کے سرچشمۂ علم و حکمت سے ہر وقت فیوض و برکات حاصل کرتے رہنا ۔

 

۷۔ عالمِ وحدت اور عالمِ کثرت: وہ جہان جس میں تمام ارواح یکجا ہیں، عالمِ وحدت کہلاتا ہے، اور یہ دنیا جس میں لوگ متفرق و منتشر ہیں،

 

۲۱

 

عالمِ کثرت ہے، عالمِ وحدت کے کئی نام ہیں، جیسے: نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) اُ متِ واحدہ (۰۲: ۲۱۳) عالمِ ذرّ(۳۶: ۴۱) ابداع و انبعاث (۳۱: ۲۸) عالمِ شخصی (۰۶: ۹۸) امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲) عددِ واحد (۱۹: ۹۴) ملکوت (۳۶: ۸۳) نفسِ کل (۱۴: ۳۴) کنز یعنی عقلِ کل (۱۱: ۱۲) عالمِ امر (۰۷: ۵۴) وغیرہ، عالمِ وحدت زندہ، گویندہ، اور دانا ہے، وہ ایک کامل انسان بھی ہے، اور ایک عظیم فرشتہ بھی۔

 

۸۔ حضرتِ ابراہیمؑ کی مثال: حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نفسِ واحدہ، مجموعۂ ارواح، عالمِ ذرّ اورعالمِ وحدت ہونے کی وجہ سے تنہا ایک اُمت اور موحد اعظم تھے (۱۶: ۱۲۰) آیۂ کریمہ کا اشارہ یہ ہے کہ آپؑ کی روحانیّت میں تمام لوگ فردِ واحد کی طرح متحد اور کامل طور پر فرمانبردار ہوئے تھے، اور جملہ انسانانِ کامل ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔

 

۹۔ دائرے ہی دائرے: آپ چشم بصیرت سے جہاں بھی مشاہدہ کریں، وہاں دائرے ہی دائرے نظر آئیں گے، وجود و عدم دائرہ، شب و روز دائرہ، آسمان و زمین کی شکل اور گردش دائرہ، ہر چیز کا اپنی اصل کی طرف رجوع دائرہ، اور کوئی چیز نہیں، جو ایک دائرے پر گردش نہ کرتی ہو(۳۶: ۴۰) چنانچہ موجوداتِ ظاہر و باطن کا دائرۂ عظیم بڑا عجیب اور حیرت انگیز ہے، کہ زمین (جس میں معدنیات و جواہر ہیں) سے بے شمار مراتب کا آغاز ہوتا ہے، اور زمینِ نفسِ کلّ اور گوہر ہائے عقلِ کلّ پر جاکر دائرۂ معرفت مکمل ہوجاتا ہے۔

 

۱۰۔ ہر قرآنی موضوع کا مجموعی مفہوم: مسئلہ نور سے متعلق ہو،

 

۲۲

 

یا ہدایت سے، آپ اسے حل نہیں کرسکتے، جب تک کہ اس موضوع کا مجموعی مفہوم واضح نہ ہو، مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: پہلی آیت میں ارشاد ہوا (ترجمہ): اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵) اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا (ترجمہ): اے نبیؐ ہم نے تم کو گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا اور خدا کی طرف اسی کے حکم سے بلانے والا اور (ہدایت کا)روشن چراغ بنا کر بھیجا (۳۳: ۴۶)اور اس کی تفسیر یہ ہے (ترجمہ): اے ایماندارو! خدا سے ڈرو اور اس کے رسول (محمدؐ) پر ایمان لاؤ تو خدا تم کو اپنی رحمت کے دو حصّے اجر عطا فرمائے گا اور تم کو ایسا نور مقرر فرمائے گا جس (کی روشنی) میں تم چلو گے اور تم کو بخش بھی دے گا (۳۳: ۲۸) کسی شک کے بغیر یہ نورِ امامت ہی ہے، پس موضوعِ نور کا مجموعی مفہوم یہی ہے۔

 

۱۱۔ دو دو چیزیں: ہر شیٔ دو قسم کی ہوا کرتی ہے، چنانچہ عقل دو طرح کی ہوتی ہے: دینی اور دنیوی، روح بھی دو قسم کی ہے: روح الایمان، اور روح الحیوان، اور جسم بھی دو قسموں میں ہے: لطیف اور کثیف، پس نیک بخت اور ہوشمند مومن وہی ہے، جو علم و معرفت سے ہمیشہ دینی عقل کو تقویت دیتا ہے، اعمالِ صالحہ سے ایمانی روح کو طاقتور بناتا ہے، اور تقویٰ سے جسمِ لطیف کو اجاگر کرلیتا ہے، تاکہ وہ قیامت کے دن ان تین چیزوں میں زندہ ہوجائے۔

 

۱۲۔ بالواسطہ لذّت و شادمانی: حلاوت و مسرّت براہِ راست بھی ہے، اور بالواسطہ بھی، مثلاً علم و حکمت اگرچہ غذائے عقل، ذکر و عبادت خوراکِ روح، اور طعامِ ظاہر جسم کا کھانا ہے، تاہم ان غذاؤں میں سے ہر ایک میں مشترکہ لذّتیں اور خوشیاں بھی ہیں، لیکن جس کی ایسی عقل اور ایسی روح نہ ہو، اس کی لذّت و خوشی بہت

 

۲۳

 

محدود ہوا کرتی ہے، جس کی مثال حیوان ہے، اور وہ انسان جو حیوان کی طرح ہے۔

 

۱۳۔ وارثِ قرآن کون ہے؟: سورۂ فاطر (۳۵: ۳۲) میں یہ ارشاد ہے (ترجمہ): پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے ان کو قرآن کا وارث بنایا جنھیں برگزیدہ کیا (۳۵: ۳۲) یہ أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہیں، پس جب تک دنیا میں قرآن باقی ہے، تب تک وارثِ قرآن (امامؑ) موجود و حاضرہے، کیونکہ قرآن اور اس کا معلّم لازم و ملزوم ہیں (۰۵: ۱۵) جیسے زمانۂ نبوّت میں نبی اکرمؐ قرآن کے معلّم تھے۔

 

۱۴۔ خوشبو میں حکمت: پروردگارِ عالم کی بے شمار اور لامحدود نعمتوں میں سے ایک نہایت عمدہ اور لطیف نعمت خوشبو ہے، جس کو آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم پسند فرماتے تھے، اور آپؐ کی اس پسندیدگی میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ خوشبو فتح و کشائشِ روح کی مثال ہے، اور پیراہنِ یوسفی (۱۲: ۹۳)کا نمونہ ہے، کیونکہ بہشت میں جسمِ لطیف کے لئے کھانے پینے کی لطیف نعمتیں خوشبوؤں کی صورت میں ہیں، اور دوستانِ خدا کو حصولِ معرفت کے سلسلے میں ان نعمتوں کی شناخت سے سرفراز کیا جاتا ہے۔

 

۱۵۔ بشر اور مَلک (فرشتہ): روحانی عروج وارتقا کی منزلیں تین بڑی قسموں میں ہیں:

الف: بشریت کی منزلیں۔

ب: فرشتگی کی منزلیں۔

ج: فنافی اللہ و بقاباللہ کی منزلیں۔

پس ظاہر ہے کہ حضورِ انورؐ پہلے پہل بشر تھے، پھر فرشتۂ ارضی (۱۷: ۹۵)

 

۲۴

 

ہوگئے، اور جب آنحضرتؐ کو معراج ہوئی، تو اس وقت آپ فرشتۂ مقرب سے بھی ارفع و اعلیٰ ہوکر مرتبۂ فنافی اللہ و بقا باللہ میں پہنچ گئے، پس سرورِ انبیا و رُسلؐ کا اسوۂ حسنہ یہی ہے، جس کی طرف قرآنِ حکیم ہمیشہ دعوت کرتا رہتا ہے (۳۳: ۲۱)۔

 

۱۶۔ کارخانۂ الٰہی کے عجائب و غرائب: موالیدِ ثلاثہ میں سب سے نچلا درجہ جمادات کا ہے، لیکن چشم بصیرت سے نہ صرف معدنیات و جواہر کی رعنائی و دلکشی ہی کو، بلکہ کسی ذرّۂ خاکی کو بھی دیکھ لیں کہ اس کے ظاہر و باطن میں دستِ قدرت کی کیسی انتہائی عجیب صناعی ثبت کی گئی ہے، زمین میں یہ دائمی صلاحیت موجود ہے کہ اس کے بطن سے ہمیشہ سونا، چاندی، اور لعل و گوہر جیسی خوبصورت و گرانمایہ چیزیں پیدا ہوتی رہیں، نباتات کا کارخانہ اور بھی زیادہ عجیب ہے، دیکھئے اب سے بہت پہلے جب سیّارۂ زمین پیدا ہوکر روئیدگی کے قابل ہوا، تو اس وقت یہ سارے درخت کس طرح پیدا ہوئے؟ کیا یہ بہشتِ برین کا مادّی ظہور نہیں ہے؟

ظاہر ہے کہ جمادات میں قدرت کی نشانیاں ہیں، نباتات میں قدرت کی کارفرمائی نمایان ترہے، کیونکہ اس درجہ کی تخلیق میں روحِ نباتی کا اضافہ ہے، حیوانات میں مزید عجائب و غرائب ہیں، جبکہ ان میں روحِ نباتی کے ساتھ روحِ حیوانی بھی کام کررہی ہے، انسان دراصل جمادات، نباتات، اور حیوانات سے افضل ہے، جس کی وجہ انسانی روح ہے، جس میں عقل جیسی خدا کی سب سے بڑی نعمت پیدا ہوسکتی ہے، اور اشرفِ مخلوقات کا زندہ ثبوت انسانِ کامل ہے۔

اب یہ حقیقت قابلِ فہم ہوگئی کہ ہر مومنِ سالک جو منزلِ مقصود تک رسائی رکھتا ہو، وہ بڑا عجیب کارخانۂ قدرت قرار پاتا ہے، اس کی روحانیّت میں عوالمِ لطیف اپنا اپنا کام کرتے رہتے ہیں، مثلاً عالمِ جماد بشکلِ روحانی کہ وہ جواہرات کو دیکھتا ہے،

 

۲۵

 

عالمِ نبات بصورتِ لطیف، اسی لئے وہ اپنے باطن میں باغ و گلشن کا نظارہ کرتا ہے، عالمِ حیوان، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی روحانیّت میں خوبصورت چرند و پرند کو دیکھتا ہے، ناسوت وغیرہ، جو خدا کی عطا کردہ سلطنت ہے، پس انسان اپنی اصلیت میں سب سے عظیم کارخانۂ قدرت ہے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۱۷؍ ذیقعدہ ۱۴۰۹ھ

۲۲؍جون ۱۹۸۹ء

 

۲۶

 

کلیدی حکمتیں

 

۱۔ اسلام دینِ قدیم: اسلام دینِ قدیم و قائم ہے، اور یہ اس وقت سے ہے، جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا (۰۹: ۳۶) دین کا ایک لفظی ترجمہ قانون بھی ہے، جس سے قانونِ فطرت مراد ہے، اور اسی معنی میں اسلام کو (دینِ) فطرت کہا جاتا ہے، جیسا کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کُلُّ مولودٍ یولدُ علی الفطرۃِ۔۔۔۔ ہر بچہ فطرت (یعنی اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔۔۔ ۔ پس اسلام نظامِ کائنات کے مطابق مستحکم ہے۔

 

۲۔ آنحضرتؐ سے قبل کا زمانہ اور سنتِ الٰہی: اس کی چند قرآنی مثالیں یہ ہیں:

الف: خدا کی سنت و عادت کا مظہر انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام ہیں۔ ( فِی عبادہٖ ۴۰: ۸۵)۔

ب: ہر قوم کے لئے ایک نذیر اور ایک ہادی ہوا کرتا ہے (۱۳: ۰۷)، کیونکہ صراطِ مستقیم کی ہدایت ان ہی کی پیروی سے وابستہ ہے۔

ج: نذیر اور ہادی (پیغمبرؐ اور امامؑ) کا دوسرا نام خدائی نور ہے، جس کو کوئی نہیں بجھا سکتا (۰۹: ۳۲؛ ۶۱: ۰۸)۔

د: پروردگارِ عالم روزِ قیامت ہر زمانے کے لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائے گا (۱۷: ۷۱)، اس سے ظاہر ہے کہ جب سے لوگ ہیں تب سے نورِ امامت

 

۲۷

 

موجود ہے اور موجود رہے گا۔

ہ: آیۂ اصطفاء (۰۳: ۳۳) کو غور سے دیکھنا بیحد ضروری ہے کہ اللہ پاک نے حضرت آدمؑ، حضرتِ نوحؑ، خاندانِ ابراہیمؑ، اور خاندانِ عمرانؑ کو سارے جہان سے برگزیدہ کیا ہے، پس یہاں خاندانِ ابراہیمؑ میں رسولِ اکرمؐ اور أئمّۂ طاہرینؑ کی برگزیدگی کا ذکر ہے۔

 

۳۔ نورِ امامت کی پیروی: الاعراف (۰۷: ۱۵۷) میں ارشاد ہے: پس جو لوگ اس (نبی محمدؐ) پر ایمان لائے اور ان کی حمایت کی اور ان کی مدد کی اور اس نور (یعنی نورِ امامت) کی پیروی کی جو ان کے ساتھ نازل ہوا ہے تو یہی لوگ اپنی دلی مراد پائیں گے (۰۷: ۱۵۷) حضرتِ امام جعفرصادق علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ اس آیت میں نور سے مراد علی بن ابی طالبؑ اور أئمّۂ حقؑ ہیں (حاشیۂ ترجمۂ قرآن، مولانا فرمان علی)۔

 

۴۔ أئمّۂ ہدیٰ ہی صادقین ہیں: ارشاد ہے: اے ایماندارو! خدا سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ (۰۹: ۱۱۹)، خدا سے ڈرنے (تقویٰ) میں اتنی بڑی جامعیّت ہے کہ اس میں اسلام کے سارے اوصاف و کمالات مرکوز ہوجاتے ہیں، تاکہ اہلِ ایمان کو صادقین کی وہ روحانی صحبت و ہمنشینی نصیب ہو، جو علمی اور عرفانی معجزات سے بھرپور ہے، کیونکہ آپ قرآنِ عظیم (۰۴: ۶۹) میں دیکھ سکتے ہیں کہ انبیاء علیہم السّلام کے بعد سچوں (اولیاء) کا مقام ہے، اور یہ سچے (صدق والے) وہ حضرات ہیں، جو اسرارِ الٰہی، رموزِ روحانیّت اور تاویلِ قرآن و شریعت کو بیان کرنے میں انتہائی صدق سے کام لیتے ہیں۔

 

۲۸

 

۵۔ مقامِ محمود (۱۷: ۷۹) کیا ہے؟: انبعاث کے دو پہلو ہیں: مکانی اور لامکانی، چنانچہ حضورِ انور صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے شبِ معراج میں عملاً مقامِ محمود (سراہا ہوا مقام) کو عرشِ الٰہی کی داہنی جانب دیکھا تھا، اس میں مرتبۂ عقلِ کلّی کا اشارہ ہے۔

 

۶۔ دُرود کا مجموعی مفہوم: درود (صَلوٰۃ) کیا ہے؟ توفیق، روشن ہدایت، علمی تائید، چنانچہ سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) میں ارشاد ہے: وہ وہی ہے جو خود تم پر درود (تائیدِ روحانی) بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تم کو (جہالت کی) تاریکیوں سے نکال کر (علم و حکمت کی) روشنی میں لے آئے (۳۳: ۴۳) جب احکم الحاکمین نے تمام موجودات و مخلوقات کے ظروف کو علم ہی کے موتیوں سے لبالب کردیا ہے، تو پھر قرآنِ حکیم کی کوئی شی اور کوئی مثال تذکرۂ علم سے کیونکر خالی ہوسکتی ہے (۰۶: ۸۰؛۴۰: ۰۷) پس یقین کیجئے کہ درود کی مثال میں بھی علم و حکمت موجود ہے، جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے: اس میں شک نہیں کہ (تمہارے لئے) خدا اور اس کے فرشتے پیغمبرؐ(اور ان کی آل) پر درود (تائید) بھیجتے ہیں، تو اے ایماندارو! تم بھی کہا کرو: یا اللہ محمدؐ و آلِ محمدؐ پر (ہمارے لئے) درود نازل فرما (اور اے مومنو!) فرمانبرداری کرنا جیسا کہ اس کا حق ہے (۳۳: ۵۵)۔

 

۷۔ سب سے بڑی نعمت، جو نعمتوں کی کائنات ہے: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: آج میں نے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی (۰۵: ۰۳) ، یہاں دین سے قرآن مراد ہے اور نعمت معلّمِ قرآن (نور) ہے، جو عالمِ شخصی میں نعمتوں کی کائنات ہے، اب رہا سوال کہ دین کا نام “اسلام” کس معنی کے

 

۲۹

 

پیشِ نظر رکھا گیا ہے؟ اسلام کے اصل معنی ہیں اپنے آپ کو کسی کے حوالے کردینا، پس دین اسلام کا مقصد و منشا ہے خدا وندِ قدوس کے امروفرمان کے لئے سرِتسلیم خم کردینا، یعنی خدا و رسولؐ اور صاحبِ امرؑ کی اطاعت کرنا (۰۴: ۵۹)۔

 

۸۔ توبہ اور صدقہ کی حکمت (۰۹: ۱۰۴): توبہ اور صدقہ کی باہمی مناسبت نہ صرف ظاہرہی میں ہے، بلکہ یہ دونوں چیزیں مقامِ عقل پر بھی ایک ساتھ ہیں، کہ توبہ بارگاہِ ازل کی طرف لوٹ جانا ہے،اور صدقات گوہر ہائے مکنون ہیں (۰۹: ۱۰۹) یعنی مظاہرۂ عقل۔

 

۹۔ یہ مومنین (۰۹: ۱۰۵) کون ہیں؟: اور (اے رسولؐ) تم کہدو کہ تم لوگ اپنے اپنے کام کئے جاؤ ابھی تو خدا اور اس کا رسولؐ اور مومنین (أئمّۂ طاہرینؑ) تمہارے کاموں کو دیکھیں گے(۰۹: ۱۰۵) حضرت امام جعفرصادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ اس آیت میں وَالْمُؤْمِنُوْن سے مراد أئمّہ علیہم السّلام ہیں (حاشیۂ ترجمۂ قرآن، مولانا فرمان علی)۔

 

۱۰۔ حضراتِ أئمّہ لوگوں پر گواہ ہیں: سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۴۳) میں ارشاد ہے: اور اسی طرح (اے أئمّہ) ہم نے تم کوعادل اُمت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول (محمدؐ) تم پر گواہ بنیں (۰۲: ۱۴۳) آپ حکمت نمبر ۹ اور نمبر ۱۰ کو ذرا غور سے دیکھیں کہ گواہ صرف وہی بن سکتے ہیں جو اعمال کو دیکھ سکیں۔

 

۱۱۔ جس کے پاس کتاب (قرآن) کا علم ہے: یہ بہت بڑی حکمت سورۂ رعد کے آخر میں ہے: اور (اے رسولؐ) کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم پیغمبر

 

۳۰

 

نہیں ہو تو تم (ان سے) کہدوکہ میرے اور تمہارے درمیان (میری رسالت کی) گواہی کے واسطے خدا اور وہ شخص جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا علم ہے کافی ہیں (۱۳: ۴۳) اہلِ دانش کے لئے یہاں بہت سے اسرار موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی علیہ السّلام کو اس انتہائی عظیم گواہی میں اپنے ساتھ رکھا ہے، پس مولا علیؑ آنحضرتؐ کی رسالت کے گواہِ ثانی اس لئے ہوئے کہ بحکمِ خدا آپؑ نے رویتِ روحانی اور تجدّدِ امثال میں دیکھا کہ کلمۂ کنْ اور قلمِ الٰہی سے قرآنِ کریم لوحِ محفوظ پر نازل ہورہا تھا، اور وہاں سے رسولِ اکرمؐ پر، یہ انمٹ تجدّدِ امثال آپؑ کی اپنی ذات میں ہوا، لہٰذا قرآنِ مجید کی تاویلی حکمتیں نورِ امامت کے عالمِ شخصی میں لازم (چسپان) ہوگئیں۔

 

۱۲۔ نور اور کتاب (قرآن) کا رشتہ اور تعلّق: سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) میں فرمایا ہوا ہے: قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ۔ تمہارے پاس تو خدا کی طرف سے ایک (چمکتا ہوا) نور اور صاف صاف بیان کرنے والی کتاب (قرآن) آچکی ہے (۰۵: ۱۵) یہاں نور سے مراد حضرتِ رسولؐ ہیں، اور کتابِ مبین قرآنِ پاک ہے، اس آیۂ کریمہ میں پہلے نور کا تذکرہ ہے پھر کتاب کا، کیونکہ نزولِ قرآن سے قبل آنحضرتؐ کا قلبِ مبارک منور ہوا، اور اس کے بعد اللہ کی یہ کتاب نازل ہونے لگی، دوسری دلیل یہ ہے کہ قرآن آپؐ کی ذاتِ عالی صفات میں ایک زندہ روح اور نور تھا (۴۲: ۵۲) مگر روحانی اور عقلی روشنی کبھی بصورتِ اصل کتابی تحریر میں منتقل نہیں ہوسکتی، پس اس کتابِ سماوی کی روحِ گویندہ و دانا (یعنی نور) حضورؐ ہی میں قائم رہی، جبکہ قرآن کا ظاہری پہلو ضبطِ تحریر میں لایا گیا، پس نور اور کتاب کا رشتہ و تعلق

 

۳۱

 

یہ ہے کہ نور ، ہدایت نامۂ سماوی کا باطنی پہلو ہے اور کتاب ظاہری پہلو۔

 

۱۳۔ نور کس طرح منتقل ہوجاتا ہے؟: دانشمندوں کے نزدیک یہ سوال جتنی بلندی کا ہے، اتنی اہمیت کا بھی حامل ہے، اور اس کا جواب انتہائی عظیم کیوں نہ ہو، چنانچہ ایک کامل شخصیت سے دوسری کامل شخصیت میں نور کی رسائی اور پھر منتقلی اس طرح ہوجاتی ہے۔

الف: یہ حکمت آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کی مثال میں پوشیدہ ہے کہ ایک درخشندہ چراغ ہر طرف روشنی بکھیر رہا ہے، اگر دوسرے چراغ کو بھی روشن کرنا ہے، تو اسے ہر طرح سے تیار کرکے چراغِ اوّل کے انتہائی قریب لانا ہوگا، پھر اس کے شعلۂ تابان سے اس کو سلگانا ہوگا، اس کے معنی ہیں کہ پیغمبرِ اکرمؐ نے خدا کے حکم سے علیؑ کو اسرارِ علم و حکمت، مرتبۂ مہروشفقت، موقعِ خدمت، تعلیمِ اسمائے بزرگ، اور انتہائی پُراثر دعاؤں میں اپنے قربِ خاص میں رکھا، جس سے یہ چراغ بھی روشن ہوگیا، اور اسی خدائی معجزے کا نام “نورٌعلٰی نور” ہے، یعنی ایک شخصیت سے دوسری شخصیت میں نور کی منتقلی۔

ب: اللہ تعالیٰ نے اپنی روح (نور) حضرت آدمؑ میں پھونک دی (۱۵: ۲۹؛ ۳۸: ۷۲) یہ پھونک دینا بے معنی نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کے معنی ہیں تعلیم، اسمِ اعظم وغیرہ، جس طرح اوپر ذکر ہوا، کیونکہ حضرتِ مریمؑ میں بھی روحِ قدسی پھونک دی گئی تھی (۲۱: ۹۱؛ ۶۶: ۱۲) مگر ایک دوسری آیت سے ظاہر ہے کہ یہ ایک کلمہ تھا (۰۴: ۱۷۱) یعنی اسمِ بزرگ اور کلمۂ کُنۡ کے بہت سے معنوں میں سب کچھ ہے۔

ج: پیغمبرِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم سراجِ منیر (روشن چراغ ۳۳: ۴۶)

 

۳۲

 

تھے، یعنی ایسا نور جو براہِ روحانیت دل سے دلوں کو منور کردیتا ہے، دراصل یہی سراجِ وَھّاج (تابناک چراغ ۷۸: ۱۳) ہے، جس سے ہمیشہ کے لئے نورِ امامت کا چراغ روشن ہوگیا۔

د: صوفیوں کے وہاں مشاہدۂ نور کا طریقہ فنا فی الشّیخ (المرشد) ،فنا فی الرّسولؐ، اور فنا فی اللہ ہے، اور اسماعیلیوں کے یہاں فنا فی الامام، فنا فی الرّسولؐ، اور فنا فی اللہ ہے، چونکہ پیغمبرِ اکرمؐ اور أئمّۂ طاہرینؑ اللہ تعالیٰ کے اسمائے بزرگ ہیں (۰۷: ۱۸۰) لہٰذا اس (طریقے) میں بڑی آسانی سے محویّت و فنائیّت اور معرفتِ نور حاصل آسکتی ہے، پس دیکھنے والوں نے نور اور اس کے کائناتی عمل کو دیدۂ دل سے دیکھ لیا ہے، اور اسی لئے وہ دیوانہ وار ہمیشہ اس کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں، عاجزانہ دعا ہے کہ پروردگارِ عالم تمام انسانوں کو نورِ اسلام کی ہدایت نصیب فرمائے! آمین!!

 

نوٹ: مضمون اور محولہ آیاتِ کریمہ کو غور سے پڑھیں، اور یہ بات یادرہے کہ یہ ایک خصوصی نعمت ہے، اور ہر نعمت کی عملی شکر گزاری بیحد ضروری ہے، کیونکہ قیامت کے دن نعمتوں کی پوچھ ہوگی (۱۰۲: ۰۸) ۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۲۲؍ذیقعدہ ۱۴۰۹ھ

۲۷؍جون۱۹۸۹ء

 

۳۳

 

حضرتِ یونسؑ

 

۱۔ ذَاالنُّون (۲۱: ۸۷) /صاحب الحوت (۶۸: ۴۸): مچھلی والا، یعنی حضرتِ یونس علیہ السّلام، جنھیں مچھلی نگل گئی تھی، حدیثِ شریف میں ہے کہ قرآنِ کریم کی آیات میں کوئی آیت ایسی نہیں جس کا ایک ظاہر اور ایک باطن(نہ ہو) اور اس باطن کے سات بواطن نہ ہوں۔ چنانچہ ہم یہاں خداوندِ قدوس کی توفیق و تائید سے مچھلی کی باطنی حکمت بیان کریں گے، وہ یہ ہے کہ خشکی تاویل کی زبان میں جسمانیّت کو کہتے ہیں، اور سمندر روحانیّت کا نام ہے، پس مچھلی سے وہ روح مراد ہے، جو بحرِ روحانیّت میں رہتی ہے، لیکن یہ مچھلیاں بھی چھوٹی بڑی اور اچھی بری ہر طرح کی ہوا کرتی ہیں، ان میں سے ایک نفسِ امّارہ کی مچھلی ہے، جو بڑی آسانی سے آدمی کو نگل سکتی ہے، بظاہر یہ ہمارے اندر ہے، لیکن تسلّط اگر اسی کا ہے تو ہم گویا اس کے پیٹ میں محبوس و مقید ہیں۔

 

۲۔ دریائے شیرین اور دریائے شور/ دو قسم کی روحانیّت: سورۂ فاطر (۳۵: ۱۲) میں خیر و شر دونوں کی روحانیّت کا ذکر ہے، اگرچہ یہ دونوں سمندر ایک جیسے نہیں، تاہم مچھلیوں کے تازہ گوشت اور موتیوں کے حصول میں کوئی فرق نہیں، یہاں تازہ گوشت سے روحانی علم مراد ہے، اور موتی اسرارِ عقل ہیں (۳۵: ۱۲)۔

 

۳۔ تین قسم کا گوشت: قرآنِ حکیم میں تین قسم کے حلال گوشت کا

 

۳۴

 

ذکر فرمایا گیا ہے، گوسفند وغیرہ کا گوشت: یہ حدودِ جسمانی کے علم کی مثال ہے، مچھلی کا گوشت: یہ حدودِ روحانی کے علم کی دلیل ہے، پرندے کا گوشت: یہ فرشتوں کے علم کی طرف اشارہ ہے، ہر چند کہ روحانی اور فرشتہ ایک ہے۔

 

۴۔ حالتِ اِحرام میں شکار: اس میں کیا راز پوشیدہ ہے کہ حالتِ احرام میں دریا کا شکار تو حلال ہے، مگر خشکی کا شکار حرام ہے؟

 

جواب: امامِ عالیمقامؑ خدا کا زندہ گھر ہیں، حالتِ احرام ان کی روحانی نزدیکی اور حجِ باطن ہے، دریائی شکار کی تاویل ہے حدودِ روحانی سے علم حاصل کرنا جو حلال ہے، اور برّی شکار کی تاویل ہے جسمانی حدود سے علم لینا، اور یہ اس حال میں ممنوع ہے (۰۵: ۹۶) پس شروع سے لے کر یہاں تک جو کچھ بیان ہوا، اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ مچھلی کی تاویل ہے روح، روحانی، اور حدودِ روحانی، اور اس کا شکار علمِ روحانی ہے، لہٰذا اب ہم اس حوت/روح کے بارے میں کچھ بیان کریں گے، جو قصّۂ یونسؑ کے باطن میں ہے۔

 

۵۔ چلنا دوطرح سے ہے: ایک چلنا ظاہر میں ہے، اور دوسرا باطن میں، باطن میں ذکر و عبادت سے چلاجاتا ہے، چنانچہ حضرت یونس علیہ السّلام اپنی قوم پر غضبناک ہوکر راہِ روحانیّت پر چلے اور یہ خیال کیا کہ اس سے رزقِ روحانی میں تنگی نہیں ہوگی، مگر وہ جاکر ایک روحانی مچھلی کے پیٹ میں مبتلا ہوگئے، پس انھوں نے تاریکیوں یعنی انوار کے منقطع ہونے کی حالت میں پکارا: لَآاِلٰہَ اِلَّا ٓاَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ (۲۱: ۸۷) آگے ارشاد ہے: تو ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور انھیں غم سے نجات دلائی اور ہم تو مومنین کو اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں (۲۱: ۸۸)۔

 

۳۵

 

۶۔ قصّۂ قرآن روحانیّت کی ہرمنزل کے ساتھ منطبق (برابر و موافق) ہے: حضرتِ یونسؑ بھاگ کر جس بھری ہوئی کشتی کے پاس پہنچ گئے، وہ کیا چیز تھی؟ قرعہ سے کیا مراد ہے؟ اس کشتی سے عالمِ ذرّ مراد ہے، جو ذرّاتِ روح سے مملو ہے، یہ کشتی حقیقی ذکر سے چلتی ہے، مگر حضرت یونس علیہ السّلام پر آزمائش تھی، اس لئے حقیقتِ حال کا قرعہ آپؑ کے نام پر نکلا، اور آپؑ نے ان بے شمار روحوں کی قربانی کی خاطر دریائے روحانیّت میں چھلانگ لگائی، پس انھیں روح کی ایک بڑی مچھلی نگل گئی، چنانچہ قرآن کا فرمانا ہے کہ: اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو روزِ قیامت (یعنی انبعاث) تک اس کے پیٹ میں رہتے (۳۷: ۱۴۴)۔

 

۷۔ خیر و شرّ کی تمثیلات: اگرچہ روحانیّت میں خیر و شر صرف دو ہی چیزیں ہیں، لیکن ان کی گوناگون مثالیں بہت سی ہیں، جیسے آپ ہمیشہ عالمِ خواب میں خیر و شر کے سوا کچھ نہیں دیکھتے ہیں، مگر ظاہر ہے کہ ان دونوں کی بے شمار تشبیہات و تمثیلات ہیں، اس لئے ہر بار تعجب ہوتا ہے کہ آپ نے کچھ نئی چیزیں دیکھ لیں، حالانکہ وہی خیر ہے اور وہی شر، مگر ان کی شکلیں بار بار بدلتی رہتی ہیں، سو حضرت یونس علیہ السّلام جس مچھلی کے پیٹ میں رہے، اس کی اور بھی تمثیلات ہوسکتی ہیں، جن کی اصل حقیقت و کیفیت یہی ہو،اور اگریہ بات درست ہے، تو پھر دوسری مثالوں میں بھی مذکورۂ بالا آزمائش کا بیان ہوسکتا ہے۔

 

۸۔ ہدایتِ انبیاؑء اور منزلِ مقصود: اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ انبیاء علیہم السّلام خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، اسی لئے وہ حضرات لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے بھیجے گئے، ان میں سے کوئی بھی پیغمبر درمیانی راستے سے

 

۳۶

 

نہیں، بلکہ منزلِ مقصود سے ہوکر مرتبۂ اعلیٰ کی معرفت کے ساتھ آیا تھا، کیونکہ جب قرآنِ حکیم کہتا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا (۰۲: ۲۱۳) تو عقل کا یہ سوال جائز اور مناسب ہے کہ حضراتِ انبیاءؑ کس روحانی مقام سے یا کس درجے سے بھیجے گئے؟ اور اس کا یہی ایک فطری جواب مہیّا ہے کہ پروردگارِ عالم نے پیغمبروں کو اپنے قرب و حضور سے بھیجا، اگر ہم اس آیۂ کریمہ کے لفظِ بَعَثَ سے ابداع و انبعاث کے معنی لیں، تو پھر بھی اس کا یہی مطلب ہوگا کہ انبیاءؑ روحانیّت کے بلند ترین مقام سے آئے ہیں، ہر چند کہ وہ حضرات جسمانی طور پر شروع ہی سے لوگوں کے ساتھ تھے، پس آئیے ہم اس یقین کے ساتھ قرآنِ حکیم میں دیکھیں، تاکہ حضرتِ یونسؑ کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوں۔

 

۹۔ یہ چٹیل میدان (عراء ۳۷: ۱۴۵) کونسا ہے؟: ارشاد ہے: سو ہم نے ان کو چٹیل میدان میں ڈال دیا اور وہ بیمار تھے، اور ہم نے ان پر ایک بیلدار درخت اُگا دیا، اور ہم نے ان کو ایک لاکھ یا اس سے زیادہ آدمیوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا، پھر وہ لوگ ایمان لے آئے تھے تو ہم نے ان کو ایک زمانہ تک بہرہ مند کیا (۳۷: ۱۴۵ تا ۱۴۸) یہ میدانِ عقل ہے، جس میں حضرتِ یونسؑ کو پہنچا کر بدرجۂ انتہا عقلی صحت کی دولت سے نوازنا مقصود تھا، اور بیلدار درخت سے ظہورِ معجزۂ عقل مراد ہے، جس میں عقل و دانش اور علم و حکمت کے لاتعداد اشارات و رموز موجود ہیں، اسی مقام پر گنجِ ازل، کلمۂ باری، اورمرتبۂ فنا فی اللہ بھی ہے۔

 

۱۰۔ قانونِ اسرار و حجابات: جیسا کہ اس مضمون کے شروع ہی میں حدیثِ شریف کی روشنی میں یہ ذکر ہو چکا کہ قرآنِ پاک کی ہر آیت کا ایک ظاہر اور

 

۳۷

 

ایک باطن ہے، اس کا یہ مطلب ہوا کہ آیۂ کریمہ کا ظاہر حجاب ہے اور باطن محجوب، جیسے اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ جب بشر سے کلام کرتا ہے، تو پردہ کے پیچھے سے کرتا ہے (۴۲: ۵۱) یقیناً یہ نورٌعلیٰ نور کی طرح ہے کہ ایک نور دوسرے نور کا حجاب ہوا کرتا ہے، جیسے سورج، کہ وہ اپنا پردہ خود ہی ہے، اس لئے آپ اس کے پس منظر کو نہیں دیکھ سکتے، نہ کبھی اندرونی حصّے کو دیکھ سکتے ہیں، اور نہ ہی پیش منظر کو نظر جما کر دیکھ سکتے ہیں، اس سے ظاہر ہوا کہ علم کا حجاب علم ہی ہوا کرتا ہے۔

 

۱۱۔ حضرتِ یونسؑ کی برگزیدگی: سورۂ قلم (۶۸: ۴۸ تا ۵۰) میں ارشاد ہوا ہے: تو تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کرو اور مچھلی والے (یونسؑ) کے ایسے نہ ہوجاؤ، کہ جب وہ غصہ میں بھرے ہوئے تھے اپنے پروردگار کو پکارا، اگر تمہارے پروردگار کی مہربانی ان کی یاوری نہ کرتی تو وہ چٹیل میدان میں بدحالی کے ساتھ ڈالے جاتے، پھر ان کے ربّ نے ان کو برگزیدہ کرکے نیکو کاروں سے بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ عظیم الشّان پیغمبروں کی عقلی اور علمی تربیت ایسی روحانی بلندی پر فرماتا ہے کہ لوگ اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے، مثال کے طور پر اگر کہا جائے کہ جس میدان کا یہاں ذکر ہوا ہے، وہ میدانِ عقل ہے، تو بہت ہی کم لوگ باور کریں گے، کیونکہ عوام کے سامنے دشوار ترین حجابات ہوتے ہیں۔

 

۱۲۔ عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کی بہت سی مثالیں کیوں ہیں؟: سنت الٰہی ہمیشہ کے لئے یہی رہی ہے کہ وہ عزّو جلّ کسی استثناء کے بغیر ہر چیز کو لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے، جب یہ بات حقیقت ہے، تو پھر اس کی بہت سی نظیریں قرآنِ کریم میں کیوں نہ ہوں، لیکن یہ جاننا ہوگا کہ دستِ قدرت کس طرح کائنات کو اور اس کی

 

۳۸

 

چیزوں کو ملفوف کرتا ہے؟ دیکھئے! جب کسی میوہ دار درخت پر پھل پک جاتا ہے، تو اسی کے ساتھ جملۂ درخت بحدِّ قوّت، بصورتِ جوہر، اور بحالتِ روحِ نباتی گٹھلی یعنی مغز میں لپیٹ لیا جاتا ہے، حالانکہ درخت اپنی جگہ موجود ہے، اسی طرح اہلِ معرفت کے مشاہدۂ روحانیّت میں کائنات کو لپیٹ کر ازسرِنو وجود دیا جاتا ہے، اگر چہ کائنات ظاہراً اپنی جگہ قائم ہے۔

اُمّ الکتاب لوحِ محفوظ (نفسِ کلّ) کا نام ہے، سورۂ فاتحہ کا بھی یہی نام ہے، اور مولا علی علیہ السّلام کا بھی، چنانچہ سورۂ فاتحہ میں قرآن لفظی اور معنوی طور پر مرکوز ہے، اور امامِ زمانؑ (جو علیؑ ہیں) میں روحانی اور عقلی طور پر قرآن مجموع ہے، پس اگر یہ حقیقت تسلیم کر لی جائے کہ عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطقؐ، اور اساسؑ کے بہت سے نام اور بہت سی مثالیں ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآنِ عظیم ان قدسیوں کے تذکروں سے بھرا ہوا ہے، جیسے آپ نے سنا، یا پڑھا کہ چٹیل میدان (عرای) مرتبۂ عقل کی مثال ہے، اور بیلدار درخت بھی، اسی طرح بہت سی مثالیں ہیں، جو پیغمبروں کے قصّے میں آکر ان کی عظمت و بزرگی، اعلیٰ روحانیّت، اور مرتبۂ عقل کو ظاہر کرتی ہیں۔

اگر میں کہوں کہ سماء و ارض عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کے نام ہیں، تو شاید آپ کو تعجب ہو، حالانکہ یہی دو کلید آپ کے علمی انقلاب کے لئے کافی ہوسکتی ہیں، اور یہ انقلاب بنیاد ہی سے شروع ہوجائے گا، جبکہ آپ آیۂ اعلانِ خلافت ( اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ۰۲: ۳۰) کے ترجمہ: “میں سیّارۂ زمین پر ایک خلیفہ (نائب) مقر ر کرنے والا ہوں۔” کی جگہ پر: ’’میں زمینِ نفسِ کلّی میں ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں۔” کو ترجیح دیں گے، کیونکہ اس سے یہ نظریہ قائم ہوگا کہ انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام کو ساری کائنات کی خلافت حاصل ہے، اور یہ حقیقت ہے، تاہم کوئی بھی انقلاب صرف بٹن

 

۳۹

 

دبانے، یا سوِچ آن کرنے، یا چابی گھمانے سے آنہیں سکتا، اور نہ ہی چل سکتا ہے، لہٰذا اس کے لئے عقل و دانش اور شدید محنت کی بیحد ضرورت ہے، ان شاء اللہ کامیابی ہوگی۔

 

نوٹ: آپ لازمی طور پر حضرت یونس علیہ السّلام کے قصّے کو قرآن و تفسیر میں پڑھ لیں، تاکہ اس کے ظاہری اورباطنی پہلو سے واقفیت و آگہی ہو۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔لنڈن

۱۱؍ ذوا لحجہّ۱۴۰۹ھ

۱۴؍جولائی ۱۹۸۹ء

 

۴۰

 

قرآنی میناروں سے روشنی

(قسطِ اوّل)

 

۱۔ منار، منارہ اور مینار کے معنی ہیں نور کی جگہ، چراغ دان، اونچا ستون، ٹاور، لائٹ ہاؤس، وغیرہ، اگر گھر کے چراغ کو کسی پست جگہ رکھا جائے، تو اس کی ضیاپاشی میں رکاوٹوں کی وجہ سے روشنی محدود ہوجاتی ہے، اور ماحول کی چیزوں کے سائے زیادہ ہوتے ہیں، اسی لئے اس کو چراغدان پر یا طاق میں رکھا جاتا ہے، اسی طرح شہری بازار کے برقی قمقمے اونچے اونچے ستونوں ہی سے روشنی بکھیر سکتے ہیں، شاید آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ سمندری جہاز کی رہنمائی کے لئے روشنی کے بلند و بالا مینار (لائٹ ہاؤسز) ہوا کرتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر نظامِ فطرت کو دیکھئے کہ خالقِ اکبر نے خورشیدِ انور،ماہِ تابان، اور درخشندہ ستاروں کو آسمان کی بلندیوں میں جگہ دی، تاکہ وہ اپنے اپنے وقت میں اہلِ زمین پر بلادریغ نور کی بارش برساتے رہیں، پس اسی قانونِ قدرت کے مطابق شہرستانِ قرآن میں بھی عظیم اور کامل انسانوں کی صورت میں متعدد میناروں کا انتظام فرمایا گیا ہے، ان منار ہائے ہدایت کی رفعت و فوقیّت سے جس طرح نورِ علم و حکمت ضوفگن ہورہا ہے، اس سے اہلِ بصیرت کے قلوب منور و شادمان ہوتے ہیں۔

 

۲۔ حضرتِ آدمؑ: قصّۂ قرآن میں حضرتِ آدم علیہ السّلام کو مینارِ اوّل کی مرتبت حاصل ہے، اگر آپؑ سے متعلق آیاتِ کریمہ میں چشم بصیرت سے دیکھا جائے،

 

۴۱

 

تو یقیناً بڑے بڑے بھید منکشف ہوجائیں گے، مثال کے طور پر آپ ربِّ جلیل کے خلیفہ تھے، کہاں کہاں؟ زمینِ ظاہر پر، عالمِ دین میں، عالمِ شخصی میں، اور زمینِ نفسِ کلّی میں، سویہ کائناتی خلافت ہے، پھر بھی یہاں مطلب واضح نہ ہوسکا، کیونکہ نفسِ کلّی میں خلافت انتہائی عظیم چیز ہے، جس سے عقلِ کلّی الگ نہیں، اسی خلافت میں امامت بھی ہے، لوحِ محفوظ کا دوسرا نام نفسِ کلّ ہے، جس میں ہر چیز کا زندہ ریکارڈ موجود ہے، اور یقیناً اس میں ازل ہی سے ہر شخص کی انائے علوی بھی ہے، پس خلیفۂ خدا نے مرتبۂ نفسِ کلّ میں انائے علوی کو پہچانتے ہوئے اپنے ربّ کو پہچان لیا، اور معرفتِ کاملہ کا مقام یہی ہے۔

۳۔ خدا کی خدائی میں بے شمار آدموں کے ادوار ہیں، مگر ان کی اصولی باتیں ایک جیسی ہیں، لہٰذا قرآنِ حکیم نے علمی اور عرفانی آزمائش کے پیشِ نظر تمام آدموں کے قصّوں کو ایک ہی آدم کا قصّہ بنا کر بیان فرمایا، جیسے اس نے انسانوں کی مشترکہ خصوصیات بیان کرتے ہوئے صیغۂ واحد (یعنی لفظِ انسان) استعمال کیا ہے، درحالیکہ قرآن میں جہاں جہاں انسان کا ذکر آیا ہے، وہ لاتعداد انسانوں کا تذکرہ ہے۔

 

۴۔ حضرتِ ہابیلؑ: اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام میں حکمتِ بالغہ ہے (۵۴: ۰۵) یعنی ایسی حکمت، جو آیۂ مقدسہ کے مطلب کو بلند کرکے مقامِ حق الیقین تک پہنچا دیتی ہے، اور دوسری طرف کلامِ الٰہی صدق اور عدل سے بھر پور ہے (۰۶: ۱۱۵) یعنی اس کے سب سے اعلیٰ معنی میں نورِ عقل اور کلمۂ باری کے اسرار پنہان ہیں، کیونکہ صدق و عدل عقل اور امر کے ناموں میں سے ہیں، چنانچہ حضرتِ ہابیل علیہ السّلام کی قربانی قبول ہوجانے کی حکمتِ بالغہ یہ ہے (۰۵: ۲۷) کہ آپ کئی فناؤں سے گزر جانے کے

 

۴۲

 

بعد بالآخر وجہِ خدا میں فنا ہوکر امامِ اساس مقرر ہوئے، کیونکہ ان کی ظاہری قربانی روحانی قربانی کی مثال ہے، اور اس مقدّس آگ کے پس منظر میں نورِعقل کا تذکرہ ہے، لیکن کچھ مدت کے بعد قابیل نے حضرت ہابیلؑ کو شہید کردیا، اور نورِ امامت حضرت شیثؑ میں منتقل ہوگیا۔

 

۵۔حضرتِ ادریسؑ: سورۂ مریم (۱۹: ۵۶ تا ۵۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور (اے رسولؐ) کتاب (کی روحانیّت) میں ادریسؑ کا بھی تذکرہ کرو اس میں شک نہیں کہ وہ بڑے سچے نبی تھے، اور ہم نے ان کو (روحانیّت کے) مقامِ اعلیٰ تک پہنچایا (۱۹: ۵۶ تا ۵۷) حضرتِ ادریس علیہ السّلام کے بارے میں جو قصّہ مشہور ہے وہ یہ ہے: ایک مرتبہ فرشتۂ موت خدا کی اجازت سے آپؑ کی زیارت کو آئے، تو آپؑ نے فرمایا: میری روح قبض کرو، تاکہ اس کی تلخی معلوم کروں، ملک الموت نے آپؑ کی روح قبض کی، پھر اسے داخلِ بدن کردیا، اس وقت آپؑ نے فرمایا: تم مجھ کو آسمان پر لے چلو، اور دوزخ بہشت کی سیر کرادو، غرض آسمان پر گئے، اور دوزخ پر سے ہوتے ہوئے بہشت میں پہنچے، جب سیر کرچکے، تو ملک الموت نے کہا: اب چلئے، میں آپ کو زمین پر پہنچادوں، اس پر خدا کا حکم ہوا: اے ملک الموت، اب انھیں یہیں رہنے دو، کیوں کہ دنیا کی تکلیف، موت کی سختی اٹھا چکے، دوزخ پر سے گزر چکے۔

۶۔ یہ قصّہ قاعدۂ تاویل کے ساتھ مربوط ہے، اور اس میں راہِ روحانیّت کی منزلِ عزرائیلی کی وضاحت کی گئی ہے، جس میں قبضِ روح کا سلسلہ چند دن تک جاری رہتا ہے، جو روح جسمانی موت سے قبل قبض کی جاتی ہے، وہ واپس بدن میں نہیں آتی (۳۹: ۴۲) اس کی جگہ باہر سے تازہ روح ڈالی جاتی ہے، یہ توابتدائی فناہے، اور آخری

 

۴۳

 

فنا اس سے بھی بہت بلندی پر ہے، یعنی مرتبۂ وجہ اللہ، جس میں جو فنا ہوجاتا ہے، وہ واپس آتا بھی ہے، اور نہیں بھی آتا، واپسی کی مثال یہ ہے کہ حضرتِ موسیٰؑ کوہِ طور سے اور حضرتِ محمدؐ معراج سے واپس تشریف لائے، اور نہ آنا اس اعتبار سے ہے کہ اس مرتبۂ عالی میں انائے علوی پہلے ہی سے موجود تھی، یعنی عارف وہاں ہے ہی، مگر کسی اور نام سے، اب انائے سفلی کو خزانۂ معرفت حاصل ہوا، یہ حضرتِ ادریسؑ کی پہچان ہے، آپ امامؑ تھے، آپؑ کا نام سلسلۂ امامت میں اخنوخ ہے۔

 

۷۔ حضرتِ نوحؑ: سورۂ نوح کی تین آخری آیات کا ترجمہ: اور نوح نے کہا کہ اے میرے پروردگار کافروں میں سے زمین پر ایک باشندہ بھی مت چھوڑ، کیونکہ اگر تو ان کو چھوڑدے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کردیں گے اور ان کی اولاد بھی بس گنہگار اور کافر ہی ہوگی، پروردگارا مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو مومن میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایماندار مردوں اور مومنہ عورتوں کو بخش دے اور ظالموں کی بس تباہی کو اور زیادہ کر (۷۱: ۲۶ تا ۲۸)۔

۸۔ بہتر یہ ہے کہ آپ قصّۂ نوحؑ میں طوفانِ آبی کو مثال اور طوفانِ روحانی کو ممثول تسلیم کریں، تاکہ آپ کے لئے علم کا راستہ ہموار ہو اور حکمت کا دروازہ کھل جائے ، چنانچہ زمانہ جس پیغمبر کا بھی ہو، اس میں خدائے بزرگ و برتر کا ایک ہی قانون ( سنت) ہوا کرتا ہے، سو حضرتِ نوح علیہ السّلام کے عالمِ شخصی میں جب روح و روحانیت کا طوفان برپا ہوا، تب مومنین کشتیٔ دعوتِ حق میں داخل ہوچکے تھے، مگر منکرین اس سے باہر رہ کر غرق و ہلاک ہوگئے، اور یہ ان کی ہلاکتِ روحانی تھی، اور حضرتِ نوحؑ کی دعا کا مقصد بھی یہی تھا کہ عالمِ شخصی کی زمین پر کوئی کافر باقی نہ رہے، تاکہ اس میں صرف

 

۴۴

 

اہلِ ایمان ہی کی نسلیں بڑھتی جائیں۔

 

۹۔ چند سوالات: حضرتِ نوح علیہ السّلام کو آدمِ ثانی کیوں کہا جاتا ہے؟ حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے اپنے اہلِبیت کی مثال سفینۂ نوح سے دی ہے، اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ سورۂ ھود (۱۱: ۳۷) کے اس حکم میں کیا اشارہ ہوسکتا ہے: وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا؟ اس قصہ میں تنور کے کیا معنی ہوتے ہیں (۱۱: ۴۰)؟ کشتی میں اقسامِ جانوروغیرہ کا ایک ایک جوڑا کیوں ضروری تھا (۱۱: ۴۰)؟ آیا اس میں کوئی راز یا اشارہ ہوسکتا ہے کہ طوفان تھم جانے کے ساتھ کشتی جاکر کوہِ جودی پر ٹھہری (۱۱: ۴۴) ؟ کہا گیا کہ اے نوح اترو ہماری طرف سے سلام اور برکتوں کے ساتھ جو تم پر نازل ہوں گی اور ان جماعتوں پر جو تمہارے ساتھ ہیں (۱۱: ۴۸) آپ بتائیں کہ سلام کس چیز کا نام ہے؟ برکتیں کیا ہیں؟ اور یہ اُمم یعنی جماعتیں کون کون سی ہیں، جو حضرتِ نوحؑ کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئی ہوں، حالانکہ اس میں بظاہر مومنین کی ایک ہی جماعت تھی؟

 

۱۰۔ جوابات:

الف: حضرتِ نوحؑ کو آدمِ ثانی ظاہراً اس لئے کہا جاتا ہے کہ طوفان کے بعد دنیا آپؑ اور آپؑ کے ساتھیوں کی نسل سے آباد ہوئی، مگر اس کی باطنی وجہ زیادہ صحیح ہے، جس کا ذکر انہی جوابات کے سلسلے میں آئے گا۔

ب: آنحضرتؐ کا ارشاد ہے: میرے اہلِبیت کی مثال کشتیٔ نوحؑ کی طرح ہے۔۔۔۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ ہر پیغمبر کے ساتھ ایک امام ہوا کرتا ہے، جس کی شناخت ہی کشتیٔ نجات ہے، چنانچہ حضرت نوح علیہ السّلام کے ساتھ امامِ اساس

 

۴۵

 

مولانا سام علیہ السّلام تھے۔

ج: وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا، اور تم کشتی کو ہمارے(آفاقی) حقائق اور ہماری وحی کے مطابق بناؤ۔ یعنی امام کی معرفت کی کشتی دوقسم کے دلائل پرمبنی ہو، دلیلیں آفاق سے بھی ہوں اور وحی سے بھی۔

د: تنور وہ جگہ ہے جہاں آگ جلائی جاتی ہے، اس سے مومنِ سالک کا ذکر مراد ہے، جیسا کہ قرآن میں ہے: وَفَار التّنّور (۱۱: ۴۰) اور تنور نے جوش مارا، یعنی ذِکر میں جوش آیا، اور بس وہیں سے روحانی طوفان شروع ہوا۔

ہ: کشتی میں تمام قسم کے جانوروں سے ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ کو لینے کے یہ معنی ہیں کہ قانونِ دوئی (جفت) اور اصولِ اضداد کے بغیر علم و معرفت کی کشتی تیار نہیں ہوسکتی ہے،نیز اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ حضرتِ نوحؑ کے عالمِ شخصی میں دنیا کی تخلیق و آبادی کا تجدّدِ امثال مقصود تھا۔

و: جی ہاں، اس میں راز واشارہ ہے کہ کشتی کوہِ جودی پر جا ٹھہری، اور وہ یہ کہ روحانی طوفان کے نتیجے میں ذکر و معرفت کی کشتی کوہِ عقل پرجاکر ٹھہر جاتی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کا بے حساب جود و کرم ہے۔

ز: سلام تائید کا نام ہے، برکتوں سے تاویلات مراد ہیں، اور جماعتیں جو حضرتِ نوحؑ کے ساتھ تھیں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنے مومنین سمیت ایک جماعت تھا۔

 

۱۱۔حضرتِ ھودؑ: جس طرح مولانا ھُنید (Hunayd) امامِ مقیم اورمربیٔ آدمؑ تھے، اسی طرح مولانا ھودؑ امامِ مقیم اور مربیٔ نوحؑ تھے، یہاں یہ نکتہ یاد رہے کہ

 

۴۶

 

بتقاضائے حکمت بعض حضراتِ انبیاء سلسلۂ امامت سے بھی منسلک تھے، آپ دورِ نبوّت کی اسماعیلی تواریخ کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔

۱۲۔ سورۂ اعراف (۰۷: ۶۵) میں ارشاد ہے: اور ہم نے قومِ عاد کی طرف ان کے بھائی ھودؑ کو بھیجا انھوں نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو (اِعبدوااللہ) اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں سو کیا تم نہیں ڈرتے (۰۷: ۶۵) “تم اللہ کی عبادت کرو۔” یہ خدا کی جانب سے ایک ایسا اہم اور بنیادی حکم ہے کہ ہر پیغمبر نے دعوتِ دین کے شروع ہی میں اسے اپنی قوم کو سنایا، چونکہ انبیاء علیہم السّلام خود نورِ معرفت کی روشنی میں حضرتِ ربِّ عزت کی عبادت کیا کرتے تھے، لہٰذا ان کے پاس اس امر کی واضح ضمانت تھی کہ جو شخص حقیقی معنوں میں ان کی اطاعت کرے، اس کو معرفت کی لازوال دولت سے مالا مال کیا جائے گا، جیسے حضرتِ ھودؑ اور کئی پیغمبروں نے اپنے اپنے وقت میں قاعدہ اور اصول کے طور پر فرمایا: اَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ (۰۷: ۶۸) میں تمہارا سچاخیر خواہ ہوں، یعنی تم میری نصیحت پر عمل کرو تاکہ میں تمھیں کچھ امانت سپرد کروں، غرض پیغمبروں کو جو نور نظر آتا ہے، اس کی تشبیہہ و تمثیل آگ سے اس لئے دی گئی ہے کہ آگ کی چنگاری کہیں سے لاکر خاندان اور ساتھیوں کے فائدے کی خاطر آگ جلائی جاتی ہے، دیکھ لیجئے یہ قرآن ہی کی حکمت ہے: قَبَسْ (۲۰: ۱۰) شِھَابٍ قَبَسْ (۲۷: ۰۷) جَذْوَۃ (۲۸: ۲۹) پس یہاں خوب سوچ لینا ہے۔

۱۳۔ حضرتِ ھودؑ نے فرمایا: اور اے میری قوم اپنے پروردگار سے مغفرت کی دعا مانگو پھر توبہ کرو (یعنی اس کے قریب ہوجاؤ) تو وہ تم پر (روحانیّت کی) موسلادھار مینہ برسانے والا آسمان بھیجے گا (۱۱: ۵۲) ربّانی نصیحت و ہدایت تمام لوگوں کے لئے ہوا کرتی ہے، خصوصاً ان مومنین کے لئے، جو راہِ روحانیّت کے مختلف درجات پر ٹھہرے

 

۴۷

 

ہوئے ہیں، کیونکہ عام حالت سے آگے بڑھ کر کسی روحانی منزل میں پہنچنا اگرچہ ترقی ہے، لیکن موحدین کا کہنا ہے کہ جو کچھ خدائے واحد سے تجھ کو غافل رکھے وہ تیرا بت ہے، جیسا کہ حضرتِ امام باقر علیہ السّلام کا ارشاد ہے: کُلّ مَنْ شَغَلَکَ عَن مُطالَعَۃِ الْحَقِّ فَھُوَ طَاغُوتُک، جو چیز بھی تجھے مطالعۂ حق (مشاہدۂ تجلّی) سے باز رکھے، وہی شیطان اور بت ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ قرآنِ حکیم کی نصیحت و ہدایت میں صرف دعوتِ اسلام ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مومنین کے لئے منازلِ روحانیّت کی روشنی بھی ہے، تاآنکہ وہ خدا تک پہنچ جائیں۔

۱۴۔ سورۂ شعرآء (۲۶: ۱۲۳ تا ۱۲۴) میں ارشاد ہے: قومِ عاد نے پیغمبروں کو جھٹلایا جبکہ ان سے ان کے بھائی ھودؑ نے کہا کہ کیا تم ڈرتے نہیں ہو۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ایک پیغمبر کو جھٹلانے سے درحقیقت جملہ انبیاء کی تکذیب ہوجاتی ہے، جس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ وہ حضرات سب کے سب نفسِ واحدہ کی طرح ایک ہوتے ہیں، اور نورِ نبوّت ایک ہی ہے، چنانچہ بعد کے کسی نبی سے انکار کی صورت میں خود بخود اگلے پیغمبروں کی بھی نفی ہوجاتی ہے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جہاں تمام حضراتِ انبیاء اس عہد و پیمان کے مطابق جو خدائے پاک نے ان سے لیا تھا ایک دوسرے کی تصدیق و تائید کرتے ہیں (۰۳: ۸۱) وہاں اگر کچھ لوگ ایک پیغمبر کو نہیں مانتے ہیں، تو اس سے جملہ انبیائے کرام کو جھٹلانے کا ارتکاب ہوجاتا ہے۔

 

۱۵۔ حضرتِ صالحؑ: سورۂ اعراف (۰۷: ۷۳) میں ارشادِ خداوندی ہے: اور ہم نے قومِ ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا انھوں نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں تمہارے پاس تمہارے

 

۴۸

 

پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی ہے یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لئے نشانی ہے سو اس کو چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگانا ورنہ تم دردناک عذاب میں گرفتار ہوجاؤ گے (۰۷: ۷۳) دعوتِ حق خداوندِ قدّوس کی بامعرفت عبادت کے بیان سے شروع ہوتی ہے، کیونکہ جب قانونِ دین میں عبادت کا ذکر آتا ہے، تو اس سے کامل اور عارفانہ عبادت مراد ہوتی ہے، جیسا کہ خداوندِ عالم نے ارشاد فرمایا: وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنِ (اَی لِیَعْرفُوْنِ (۵۱: ۵۶) میں نے جنّوں اور انسانوں کو اپنی عبادت یعنی اپنی معرفت کے لئے پیدا کیا ہے۔

۱۶۔ اونٹ ناطق کی مثال ہے اور اونٹنی اساس ( حجت) کی، پھر یہی مثال ہر دوسرے پیغمبر اور ان کے حجت کی بھی ہے، اور ہر امام و حجت کے لئے بھی، اس کے علاوہ عالمِ شخصی میں اونٹ عقل ہے اور اونٹنی روح، چنانچہ حضرتِ صالح علیہ السّلام کا حجت علمِ روحانی میں ایک معجزے کی حیثیت سے تھا، خدا کا حکم یہ تھا کہ حجتِ صالحؑ کو زمینِ دعوت میں کارِ تبلیغ کے لئے آزادی دو، اونٹنی کھاتی پھرے، یعنی حجت ہر جگہ لوگوں کو علم بیان کرے، کیونکہ کھالینا اور کھلا دینا علم بیان کرنے کی مثال ہے، جس میں روحانی غذائیت و لذّت ہے۔

۱۷۔ حضرتِ صالح علیہ السّلام کی اونٹنی پہاڑ کی ایک چٹان سے پیدا ہوئی، اس کی تاویل یہ ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام کا حجت عقلی حیثیت میں حجرِ نور سے پیدا ہو جاتا ہے، اس میں کیا راز ہے کہ ناقہ (اونٹنی) گیابھن (گابھن) پیدا ہوئی تھی؟ اور اسی وقت اس نے بچہ بھی دیا تھا؟ جب حجتِ صالحؑ کوہِ عقل سے ہوکر آیا، تو اس وقت اس میں جلد ہی اپنے جانشین کو علمی جنم دینے کی صلاحیت پیدا ہوئی، اور اس نے ایسا ہی کیا،

 

۴۹

 

اس میں کیا حکمت ہے کہ پانی کی باری ہوتی تھی، ایک روز کنویں کا سارا پانی ناقہ پی لیتی تھی، اور اس سے اتنا دودھ حاصل آتا تھا کہ سب کو خاطر خواہ مہیّا ہوجائے اوردوسرے دن پانی کولوگ استعمال کرتے تھے؟ پانی سے علم مراد ہے، چنانچہ جس روزعلم کا پانی حجت کے زیرِ تصرّف ہو تو وہ ظاہری علم کو بھی باطنی علم میں تبدیل کرکے پیش کرتا تھا، اور جس دن لوگوں کی باری ہوتی، تو علم کے وقت کو جاہلانہ سوالات اور طفلانہ بحثوں میں ضائع کرتے تھے۔

۱۸۔ سورۂ قمر (۵۴: ۲۹) میں ہے: تو ان لوگوں نے اپنے رفیق (قدار) کو بلایا تو اس نے پکڑ کر (اونٹنی کی) کونچیں کاٹ ڈالیں تو (دیکھو) میرا عذاب اور ڈرانا کیسا تھا (۵۴: ۲۹) یعنی حجتِ صالحؑ کے چار نقیب یا داعی تھے، جن پر حجت کے امورِ دعوت کا قیام تھا، جس طرح اونٹنی اپنے چار پاؤں پر کھڑی ہو کر چل پھر سکتی ہے، سو مخالفین نے ایسے حالات پیدا کردیئے کہ دعوت کا کام بالکل رک کر رہ گیا، یا یہ کہ حجت اور چاروں داعی شہید کئے گئے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔لنڈن

جمعرات ۱۷؍ ذوالحجہّ۱۴۰۹ھ

۲۰؍ جولائی۱۹۸۹ء

 

۵۰

 

قرآنی میناروں سے روشنی

(قسطِ دوم)

 

۱۔ عالمِ شخصی اور آیات کی معرفت: سورۂ نمل کے آخر (۲۷: ۹۳) میں اللہ تعالیٰ کا یہ پُرحکمت ارشاد ہے: وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ سَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ فَتَعْرِفُوْنَھَا وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(۲۷: ۹۳) اورتم کہدو کہ الحمدللہ وہ عنقریب تمھیں اپنی آیات دکھادے گا تو تم انھیں پہچان لوگے، اور جو کچھ تم کرتے ہو تمہارا پروردگار اس سے غافل نہیں ہے۔ اس تعلیمِ سماوی کا مرکزی موضوع “آیات اور معرفت” ہے، لہٰذا اہلِ دانش کے لئے اس کی حکمت بیحد ضروری ہے، چنانچہ پوچھنا یہ ہے:

س: اللہ تعالیٰ کی آیات کہاں کہاں ہیں؟

ج: قرآنِ حکیم، آفاق، اور انفس میں (۴۱: ۵۳؛۵۱: ۲۱) ۔

س: آیا حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام بھی آیات کہلاتے ہیں؟

ج: کیوں نہیں، جبکہ حضرتِ عیسیٰؑ اور ان کی والدۂ معظّمہ آیت ہیں (۲۳: ۵۰)۔

س: ان چار مقامات کی آیات کی معرفت کہاں اور کب حاصل ہو سکتی ہے؟

ج: عالمِ شخصی میں، جبکہ اپنی روح اور پروردگار کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔

 

۲۔ معرفتوں کی یکجائی: اوپر کی آیۂ کریمہ کے آخر میں جس طرح عمل کے بارے میں ذکر ہوا، ا س کا یہ اشارہ ہے کہ عمل ہی کی کمی سے آیات کے مشاہدات اور معرفت میں تاخیر ہورہی ہے، ورنہ اور کوئی چیز اس میں مانع نہیں ہوسکتی،

 

۵۱

 

اب ہمیں یقین سے یہ کہنا ہوگا کہ معرفت کا دروازہ ہر وقت کھل سکتا ہے، کیونکہ یہ کسی خاص زمانے سے مشروط نہیں، جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے: أعر فکم بنفسہٖ أعرفکم بربّہٖ (تم میں جو اپنے آپ کو زیادہ پہچانتا ہے وہی تم میں اپنے پروردگار کو زیادہ پہچانتا ہے۔ زادالمسافرین ، ص ۲۸۷) اس حدیثِ شریف سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام میں معرفت کا آغاز زمانۂ نبوّت ہی سے ہوا، کیونکہ “تم” کا خطاب اگرچہ ہر زمانے کے مومنین سے ہے، لیکن اس کا اوّلین تعلق اصحابِ رسولؐ سے ہے، دوسرا نکتہ یہ ہے کہ معرفت یعنی خدا شناسی کے درجات ہوا کرتے ہیں، پس آپ کے لئے یقینی علم کی بات ہے کہ عالمِ شخصی میں تمام معرفتیں یکجا کی گئی ہیں، کیونکہ خدا ہر ہر کائنات کو دستِ قدرت میں لپیٹ لیتا ہے، اب آپ یقین کریں گے کہ پروردگار کی معرفت میں ساری معرفتیں جمع ہیں، اور یہ خزانۂ خزائن ہے، جس سے کوئی خزانہ باہر نہیں، پس پیغمبروں کا قصّہ اگر معرفت کی روشنی میں ہوسکے تو اس سے بہت فائدہ ہوگا۔

 

۳۔ حضرتِ ابراہیمؑ: سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے: اور جس وقت ابراہیم کو ان کے پروردگار نے چند کلمات میں آزمایا اور انھوں نے پورا کردیا تو خدا نے فرمایا میں تم کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں ( حضرتِ ابراہیمؑ نے) عرض کی اور میری اولاد میں سے، فرمایا (ہاں مگر ) میرے اس عہد پر ظالموں میں سے کوئی شخص فائز نہیں ہوسکتا (۰۲: ۱۲۴) حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی یہ آزمائش روحانی عروج و ارتقاء کے لئے اسمائے عظام اور کلماتِ تامّات سے ہوئی تھی، تاکہ حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام کی پاکیزہ شخصیّت کے بلند و بالا مینار پر نورِ امامت کا آفاقی چراغ فروزان کیا جائے۔

 

۵۲

 

۴۔ امامت عہدِ الٰہی: خدا وندِ قدوس نے مرتبۂ امامت کو “عہدی” (میرا عہد) کہا (۰۲: ۱۲۴) عہد کے معنی ہیں اقرار، قول و قرار، اس کا دوسرا لفظ میثاق ہے، یعنی پختہ عہد، قول و قرار، جس پر قسم کھائی گئی ہو، یا پختگی اور مضبوطی کا ذریعہ، جب یہ ایک روشن حقیقت ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے لوگوں سے حضرت ابراہیمؑ کی امامت کاعہد و اقرار لیا ہوگا، جبکہ ان کے بابرکت عالمِ شخصی میں عہدِ الست کا تجدّدِ امثال ہوا (۰۷: ۱۷۲) کیونکہ اللہ کا عہد، یعنی دنیا بھر کے لوگوں سے ربوبیّت، نبوّت، اور امامت کا اقرار لینا واقعۂ الست سے شروع ہوجاتا ہے، جیسا کہ سورۂ رعد میں صاحبانِ عقل (۱۳: ۱۹) کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: اور یہ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ سے جو کچھ انھوں نے عہد کیا ہے اس کو پورا کرتے ہیں اور عہد کو توڑتے نہیں (۱۳: ۲۰)۔

 

۵۔ عہدِ اَلَسْت اور بیعت: ہر پیغمبر اور امام کے مبارک عالمِ شخصی میں واقعۂ الست کا تجدّدِ امثال ہوتا ہے، اور اس میں بحالتِ روحانی دنیا کے سب لوگوں سے یہ اقرار لیا جاتا ہے کہ ان کی عقلی اور روحی پرورش خدا، پیغمبر، اور امام سے ہے، یہی راہِ راست اور دینِ اسلام ہے، اور بیعت، جس میں عہدِ خدا (یعنی امامت) کا ذکر ہے، اسی میثاقِ الست کی تجدید ہے، جیسا کہ خداوندِ عالم کا ارشاد ہے: جولوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں تو وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے پھر جو شخص عہد توڑے گا سواس کے عہد توڑنے کا وبال اسی پر پڑے گا اور جو شخص اس بات کو پورا کرے گا جس پر خدا سے عہد کیا ہے تو عنقریب خدا اس کو بڑا اجردے گا (۴۸: ۱۰) جو بیعت خدا کے ہاتھ سے لی جائے اس کی اہمیت، فضیلت، اور عظمت کا کیا عالم ہوگا، اور اس امرِ عظیم میں کیسے کیسے معنی ہوں گے، پس نمائندگیٔ دستِ خدا کی

 

۵۳

 

اس عظیم نعمت کو برقرار و باقی رکھنے کے لئے خدا و رسولؐ نے امام کو مقررفرمایا، اور یہ کام ازل سے جاری ہے۔

 

۶۔ حضرتِ ابراہیمؑ اور حجِّ باطن: قرآن کا حکایتاً یہ کہنا ہے کہ خداوندِ عالم نے حضرتِ ابراہیمؑ سے فرمایا: اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو لوگ تمہارے پاس چلے آئیں گے پیادہ بھی اور دبلی سواریوں پر بھی جو دور دراز راستوں سے پہنچی ہوں گی (۲۲: ۲۷) خداوندِ عالم نے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو نہ صرف خانۂ کعبہ کی جگہ بتلا دی، بلکہ آپ کو اس کا ممثول بھی بنا دیا (۲۲: ۲۶) چنانچہ بحکمِ خدا صورِ اسرافیل کی آواز سے سیّارۂ زمین کے سارے باشندے بشکلِ ذرّات حضرتِ ابراہیمؑ کے عالمِ ذرّ میں آنے لگے، جو لوگ اقرار و معرفت کی وجہ سے خانۂ خدا (مرکزِ امامت) کے قریب تھے، وہ تو گویا پیادہ چل کر آسانی سے روحانی حج کو پہنچ گئے، اور دوسرے سب لوگ جتنے بھی تھے، وہ اپنے اپنے حجتِ جزیرہ اور داعیوں سے وابستہ ہوکر حاضر ہوئے، اس مثال سے ظاہر ہے کہ جو شخص امامِ وقت کو نہیں پہچانتا، وہ ذیلی حدود کو بھی نہیں پہچانتا ہے، ایسے میں اس کا روحانی سفر مشکل ہوجاتا ہے، کیونکہ حجت اورداعی اس کے حق میں کمزور سواریوں کی طرح کام کرتے ہیں۔

 

۷۔ ستارہ، چاند، اور سورج: خداوندِ بزرگ و برتر نے حضرتِ ابراہیمؑ کو آسمانوں اور زمین کے ملکوت کا روحانی مشاہدہ کرایا، تاکہ آپؑ موقنین یعنی عارفوں میں سے ہوجائیں، ملکوت کے معنی ہیں عظیم الشّان سلطنت، عالمِ ارواح و ملائکہ، حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام نے پہلے آسمانِ روح میں علی التّرتیب ستارہ، چاند، اور سورج کو دیکھا، اس کے بعد آگے چل کر آپؑ نے آسمانِ عقل میں بھی یہی واقعہ

 

۵۴

 

دیکھا، مگر وہاں ایک ہی نور تھا، جو اپنے بار بار کے طلوع و غروب سے کبھی ستارہ کہلاتا تھا، کبھی چاند اور کبھی سورج، اور ان دونوں مقاموں کے اشارے حدودِ دین کی طرف تھے، اور یہ آپ جیسے موحدِ اعظم کے لئے مرتبۂ حق الیقین کی طرف عملی رہنمائی تھی، پس ان کو ربِّ عزت کا پاک دیدار حاصل ہوا، جیسا کہ قرآن میں ہے:

 

۸۔ ایک بہت بڑا راز: مذکورۂ بالا حقائق و معارف کے لئے سورۂ انعام، آیت ۷۵ تا ۷۹ (۰۶: ۷۵ تا ۷۹) پیشِ نظر ہو، ان شاء اللہ، اب یہاں یہ سعی کی جاتی ہے کہ اس سلسلے میں کوئی سرِّ عظیم منکشف ہوجائے، اور وہ اس آیۂ مبارکہ میں ہے: اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۔۔۔ (۰۶: ۷۹) ۔

الف: میں نے اپنا چہرۂ جان آسمانوں اور زمین کے خالق کی طرف متوجہ کیا۔

ب: میں نے اپنا روحانی چہرہ معرفت کے بعد ہی اپنے ربّ کی طرف متوجہ کیا۔

ج: میں نے اپنی انائے علوی اور اپنے ربّ کو پہچان لیا، اس لئے اب میرا رُخ اسی کی طرف ہوجاتا ہے۔

د: اللہ جو کچھ فرماتا ہے، وہ صدق و عدل سے بھر پور ہوتا ہے (۰۶: ۱۱۵) چنانچہ اگر دستِ خدا کی نمائندگی ظاہر میں درست ہے تو باطن میں بھی درست ہے، اور اسی طرح چہرۂ خدا کی بھی نمائندگی صحیح ہے، اب راز کی بات سن لیں کہ حضرت ابراہیمؑ کو چہرۂ خدا کا سب سے عظیم دیدار حاصل ہوا تھا، اس میں ہر چیز اور ہر روح فنا ہوجاتی ہے (۲۸: ۸۸؛ ۵۵: ۲۷) مگر جو معرفت کے ساتھ فنا ہوجائے، تو وہی ہمیشہ کے لئے زندہ ہوجاتا ہے، پس مقامِ عقل پر حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو فنا فی اللہ اور بقا باللہ کا مرتبہ حاصل ہوا، جس کے نتیجے میں آپؑ نے فرمایا: میں نے اپنا چہرۂ باطن (بطورِ نمائندگی)

 

۵۵

 

اس کا چہرہ قرار دیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔۔۔ (۰۶: ۷۹)۔

 

۹۔ ضروری سوالات: س: ناطقِ سوم حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام کے والدِ بزرگوار کا کیا نام تھا؟ اور امامِ مقیم جس نے آپ کو روحانی اور علمی تربیت دی کون تھا؟

ج: اسمِ والد تارح ہے، اور امامِ مقیم حضرتِ صالحؑ تھے، بعض کے نزدیک خود حضرتِ تارح امامِ مقیم ہیں۔

س: حضرت ابراہیمؑ سے آزر (۰۶: ۷۴) کا کیا رشتہ تھا؟

ج: آزر حضرت ابراہیمؑ کے چچا کا نام ہے، بعض کے نزدیک یہ وہ استاذ تھا، جس نے آپؑ کوعلمِ ظاہر کی باتیں سکھائی تھیں، لیکن حضرتِ ابراہیمؑ معرفت اور علمِ توحید کے ایسے مقام پر فائز ہوگئے کہ اب اس شخص کی تعلیم باطنی بت پرستی لگ رہی تھی۔

س: وہ آیۂ مقدسہ جو خلافتِ آدمؑ سے متعلق ہے (۰۲: ۳۰) زبانِ حکمت سے کہہ رہی ہے کہ جب تک زمین (الارض ۰۲: ۳۰) ہے، تب تک اس خلافتِ کبریٰ کا سلسلہ جاری رہے گا، اسی طرح اس آیۂ کریمہ کا بھی اشارہ ہے، جو حضرتِ ابراہیمؑ کی امامت کے بارے میں ہے (۰۲: ۱۲۴) کہ جب تک لوگ ہیں ( لِلنّاس۰۲: ۱۲۴) تب تک امام ہوگا، تو کیا خلافت اور امامت دو الگ الگ چیزیں ہیں، یا یہ ایک ہی منصب ہے؟

ج: خلافت اور امامت یا خلیفہ اور امام میں لفظی اعتبار سے ضرور فرق ہے، مگر حقیقت میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ جو خدا کا نمائندہ (خلیفہ) ہوتا ہے، وہی لوگوں کا پیشوا (امام) ہوتا ہے۔

 

۵۶

 

۱۰۔ آلِ ابراہیمؑ/آلِ محمّدؐ: سورۂ نِساء (۰۴: ۵۴) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: سو ہم نے ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی ہے (۰۴: ۵۴) اس میں یہ ذکر ہے کہ جب تک دنیا میں کتاب و حکمت کی ضرورت ہے، تب تک آلِ ابراہیمؑ یعنی آلِ محمدؐ کی امامت (روحانی سلطنت) جاری رہے گی، یہ سلطنت غلامی سے صرف نجات ہی دلانے پر اکتفا نہیں کرتی، بلکہ اس میں داخل ہوجانے والوں کو سلطان بھی بنا دیتی ہے (۰۵: ۲۰؛ ۰۳: ۲۶)۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔لنڈن

۲۲؍ذوالحجہّ ۱۴۰۹ھ

۲۵؍ جولائی۱۹۸۹ء

 

۵۷

 

قرآنی میناروں سے روشنی

(قسطِ سوم)

 

۱۔ دعائے ابراہیمی: سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۲۶ تا ۱۲۹) میں غور سے دیکھ لیں، جہاں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے دین کی انتہائی اہم اور اساسی چیزوں کے لئے ربِّ جلیل سے درخواست کی۔

اوّل: شہرِ مکہ پناہ و امن کا مقام ہو، اور اس کے باشندوں میں سے جو خدا اور روزِ آخرت پر ایمان لائے، اس کو طرح طرح کے پھل نصیب ہوں، یعنی مرتبۂ اساس کی معرفت مومنین کے لئے باعثِ امنِ روحانی ہو، اور اس سے علم و حکمت کے ثمرات حاصل ہوتے رہیں۔

دوم: تعمیرِخانۂ کعبہ کی خدمت جو حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام نے انجام دی، اسے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔

سوم: تعمیرِبیت اللہ کے دوران دونوں بزرگوں نے یہ دعا بھی کی کہ پروردگارِ عالم ان دونوں کو اپنا خاص فرمانبردار بنالے۔

چہارم: یہ کہ ان کی ذرّیت سے ایک ایسی جماعت ہو، جو حقیقی معنوں میں خدائے تعالیٰ کی فرمانبرداری کرے، یعنی أئمّۂ ہُدا علیہم السّلام۔

پنجم: یہ دعا تھی: وَاَرِنَا مَنَا سِکَنَا (اور ہم کو ہمارے حج کی جگہیں یعنی مقاماتِ روحانی دکھا دے) وَتُبْ عَلَیْنَا (اور ہماری توبہ قبول فرما، یعنی ہماری طرف لوٹ آ، اور ہمیں مرتبۂ حق الیقین پر پہنچادے، جو مقامِ ازل ہے)۔

 

۵۸

 

ششم: یہ درخواست کی گئی ہے: اے ہمارے پروردگار! ان (أئمّہ) میں انہی میں سے ایک رسولؐ کو بھیج جو ان کو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور آسمانی کتاب اور حکمت سکھائے اور ان (کے نفوس) کو پاکیزہ کردے۔ تاکہ اس پاکیزگی (تزکیہ و تطہیر) کے بعد وہ لوگوں کے أئمّہ ہوجائیں۔

 

۲۔ مجتبیٰ کون ہیں (۲۲: ۷۸)؟: حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام خاص مومنین ہیں (۰۹: ۱۰۵) اور مجتبیٰ (برگزیدہ) بھی وہی ہیں (۲۲: ۷۸) آپ سورۂ حج کی آخری دوآیتوں کو بغور دیکھ لیں، وہاں جو کچھ ارشاد ہوا ہے، وہ أئمّۂ آلِ محمدؐ کے بارے میں ہے، جو آلِ ابراہیمؑ ہیں (۰۴: ۵۴) جیسا کہ نمونۂ ارشاد ہے: ھُوَاجْتَبٰکُمْ (اسی نے تم کو برگزیدہ کیا) وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ (اور امورِ دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں کی، یعنی احکام کی تعبیر و تاویل اور تشریح و توضیح کا وسیع علم عطا فرمایا) مِلّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ( یہ اسلام تمہارے باپ ابراہیمؑ کا مذہب ہے یعنی تم اس دین کے وارث ہو) ھُوَسَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (اسی نے تمہارا نام مسلمین یعنی فرمانبردار رکھا) مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا (یہ نہ صرف پہلے کی بات ہے بلکہ اب اس قرآن میں بھی ایسا ہے) لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْداً عَلَیْکُمْ (تاکہ رسولؐ یعنی نورِ نبوّت تم پر حاضر اور گواہ رہے) وَتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ ج (اورتم یعنی نورِ امامت تمام لوگوں پر حاضر اور گواہ رہے) یہاں اس آیۂ کریمہ کی یہ کلیدی حکمت بحسن و خوبی دلنشین ہو کہ نورِ نبوّت نورِ امامت پر دائمی گواہ ہے، اور نورِ امامت لوگوں پر دائمی گواہ ہے، اور ایسا گواہ ہمیشہ حاضر رہتا ہے، ہر چند کہ لوگ اس روشن حقیقت سے بے خبر ہیں۔

 

۳۔ ابراہیمؑ- لوگوں کا باپ: اِب (باپ) راہیم (جمہوریا عوام)

 

۵۹

 

یہ کلدانی زبان کا لفظِ مرکب ہے، بمعنی لوگوں کا باپ، جس طرح حضرت آدمؑ کا لقب ہے: ابوالبشر، اور جیسے حضرتِ نوحؑ کا لقب ہے: ابوالبشرِثانی،اسی طرح ہر پیغمبر اور ہر امام باطن اور روحانیّت میں لوگوں کا باپ ہوا کرتا ہے، روشن ثبوت کے لئے دیکھئے آیۂ اخذِ ذرّیت (۰۷: ۱۷۲) کہ پروردگار نے اولادِ آدمؑ کی پشتوں سے ان کی ذرّیت کو باہر نکال کر پوچھا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ تو سب کے سب بولے: کیوں نہیں (۰۷: ۱۷۲) پس یہ بنی آدم بمرتبۂ کمالاتِ روحانی انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہیں، جن کی پشتوں میں جو عالمِ ذرّ ہے، اس سے اپنے اپنے وقت میں ان کی ذرّیت یعنی لوگوں کو باہر نکال کر ربوبیت کا اقرارلیا گیا، اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے مبارک نام میں یہ اشارہ موجود ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام کو اپنے وقت میں کلی طور پر ابوالبشر کا مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے۔

 

۴۔حضرتِ لوطؑ کا حلقۂ دعوت: حضرتِ لوطؑ حضرتِ ابرہیمؑ کے بھائی حاران کے بیٹے تھے، آپؑ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے مرتبۂ نبوّت سے نواز کر سرفراز فرمایا، جیسا کہ سورۂ انبیاء (۲۱: ۷۱) میں فرمایا ہوا ہے (ترجمہ): اور ہم نے ابراہیمؑ کو اور لوطؑ کو ایسی زمین کی طرف بھیج کر نجات دی، جس میں ہم نے دنیا جہان والوں کے لئے خیر و برکت رکھی ہے (یعنی زمینِ نفسِ کلّی) نیز اسی سورہ (۲۱: ۷۴) میں ارشاد ہے: اور لوطؑ کو ہم نے حکمت اور علم عطا فرمایا، اور ہم نے ان کو اس بستی سے نجات دی جس کے رہنے والے گندے گندے کام کیا کرتے تھے (۲۱: ۷۴) اُردن کی اس جانب جہاں آج بحرِ میّت یا بحرِ لوط واقع ہے یہی وہ جگہ ہے، جس میں سدوم، عامورہ، وغیرہ کی بستیاں آباد تھیں، انہی بستیوں میں کارِ دعوت انجام دینے کے لئے حضرتِ لوط علیہ السّلام مامور ہوئے تھے۔

 

۶۰

 

۵۔ قومِ لوطؑ کے شرمناک افعال: حضرتِ لوط علیہ السّلام نے جب شہرِ سدوم میں آکر قیام کیا تو دیکھا کہ یہاں کے باشندے فواحش اور نافرمانیوں میں اس قدر مبتلا ہیں کہ الامان، یہ لوگ دوسری تمام برائیوں کے علاوہ ایک خبیث عمل کے موجد تھے، یعنی اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے وہ عورتوں کی بجائے اَمْرد لڑکوں سے اختلاط کرتے تھے، دنیا کی قوموں میں اس عمل کا اس وقت تک قطعاً کوئی رواج نہ تھا، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے: اور (یاد کرو) لوط کا واقعہ، جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا تم ایسے فحش کام میں مشغول ہو، جس کو دنیا میں تم سے پہلے کسی نے نہیں کیا، یہ کہ بلاشبہ تم عورتوں کی بجائے اپنی شہوت کو مردوں سے پوری کرتے ہو، یقیناً تم حد سے گزرنے والے ہو (۰۷: ۸۰ تا ۸۱)۔

 

۶۔ لواطت و اِغلام کا باطنی پہلو: اس سلسلے میں بہتر تو یہ ہے کہ آپ کتابِ وجہِ دین گفتار ۴۱ کو غور سے پڑھیں، تاہم یہاں بھی کچھ وضاحت کی جاتی ہے کہ دنیا میں ہمیشہ سے ایک طرف طائفۂ اہلِ حق ہے، اور دوسری جانب طائفۂ اہلِ باطل، گروہِ حق کو مرد کا درجہ حاصل ہے، اور گروہِ باطل گویا ایک عورت ہے، چنانچہ حقیقت میں یہ امر بیحد ضروری ہے کہ یہ مرد اس عورت سے روحانی نکاح کرلے، یعنی دعوتِ حق کی تعلیمات سے اس کو مستفیض کرے، اور وہ اس کو قبول کرے، اگر اس حقیقتِ حال کے برعکس اہلِ باطل کا کوئی فرد جو عورت کی حیثیت سے ہے دعوت کا کام کرتا ہے، تو وہ خدا و رسولؐ کی لعنت میں گرفتار ہوجاتا ہے، کیونکہ اس نے خود کو روحانی مرد کے مشابہ کرلیا، اسی لعنت میں اہلِ حق کا ایسا شخص بھی مبتلا ہوجاتا ہے، جو بحدِّقوّت مردِ روحانی تھا، لیکن اس نے جہالت و نادانی سے ایک عورت کو اپنا شوہر بنالیا، جیسا کہ پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا ارشاد ہے:

 

۶۱

 

لعنۃُ اللّٰہِ عَلَی المُتَشبِھِّینَ مِن الرِّ جالِ بالنِّسائِ والمُتَّشَبِّھاتِ مِن النِّسائِ باالرِّجال: خدا کی لعنت ہے، ایسے مردوں پر جو عورتوں کی طرح ہوجاتے ہیں، اور ایسی عورتوں پر جو مردوں کی طرح ہوجاتی ہیں اس میں لِواطہ اور سِحاقہ دونوں کی مذمت کی گئی ہے۔

 

۷۔عذابِ الٰہی: آخر عذابِ الٰہی کا وقت آپہنچا، ابتدائِ شب ہوئی تو ملائکہ کے اشارہ سے حضرتِ لوطؑ اپنے خاندان سمیت دوسری جانب سے نکل کر سدوم سے رخصت ہوگئے، اور ان کی بیوی نے ان کی رفاقت سے انکار کردیا، اور راستہ ہی سے لوٹ کر سدوم واپس آگئی، آخرِ شب ہوئی تو اوّل ایک ہیبت ناک چیخ نے اہلِ سدوم کو تہ و بالا کردیا اور پھر آبادی کا تختہ اوپر اٹھا کر الٹ دیا گیا اور اوپر سے پتھروں کی بارش نے ان کانام و نشان تک مٹا دیا، اور وہی ہوا جو گزشتہ قوم کی نافرمانی اور سرکشی کا انجام ہوچکا ہے۔

 

۸۔ حضرتِ اسمٰعیلؑ: یہ مبارک نام دو لفظوں سے مرکب ہے: اِسمع+ ایل = اسمٰعیل ، عبرانی میں “ایل” اللہ کے مترادف ہے، عربی کے لفظِ اِسمع اور عبرانی کے شماع کے معنی ہیں “سُن’ چونکہ اسمٰعیل علیہ السّلام کی ولادت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیمؑ کی دعا سن لی، اور ہاجرہ کو فرشتہ سے بشارت ملی کہ: “خداوند نے تیرا دکھ سن لیا۔” اس لئے ان کا یہ نام رکھا گیا، عبرانی میں اس کا تلفظ “شماع ایل” ہے۔

 

۹۔ وادیٔ غیر ذی زرع اور ہاجرہ و اسمٰعیل: جب حضرتِ ہاجرہ سے حضرتِ اسمٰعیلؑ پیدا ہوئے تو حضرتِ سارہ میں سوکن کا لڑکا ہوتے ہی رشک و حسد

 

۶۲

 

کی آگ بھڑک اٹھی، آخر جب ان دونوں میں کسی طرح نہ بنی، تو حضرتِ ابراہیمؑ ہاجرہ و اسمٰعیلؑ کولیے ہوئے خدا کے حکم سے مکہ کے میدان میں آئے، جب کہ وہاں بالو اور پہاڑ کے سوا کچھ نہ تھا، جیسا کہ ارشاد ہے: اے ہمارے پالنے والے میں نے تیرے معزز گھر (کعبہ) کے پاس ایک بے کھیتی بیابان (مکہ) میں اپنی کچھ اولاد کو لاکر بسایا ہے تاکہ اے ربّ یہ لوگ یہاں نماز پڑھا کریں تو توکچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر اور انھیں طرح طرح کے پھلوں سے روزی عطا کر تاکہ یہ لوگ شکر کریں (۱۴: ۳۷)۔

 

حکمت: جب مومنین پر تکالیف آتی ہیں، تو ان آزمائشوں میں روحانی عروج و ارتقا کے بھید پوشیدہ ہوتے ہیں، چنانچہ امامِ عالیمقام صلوات اللہ علیہ اپنے ہر ایسے روحانی فرزند کو جس کی حق تلفی ہوئی ہو شفقت و محبت کی ماں کے ساتھ عالمِ شخصی کے اس بیابان میں رکھ دیتا ہے، جس میں آگے چل کر کعبۂ جان بننے والا ہے، تاکہ تمام واقعاتِ روحانیّت کے عظیم الشّان تجدّدِ امثال سے حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام کی کامل معرفت حاصل ہو۔

 

۱۰۔ چند سوالات:

الف: السّعی (دوڑنا) سے کیا مراد ہے (۳۷: ۱۰۲)؟

ب: فدا اور ذِبحٍ عظیم کے کیامعنی ہیں (۳۷: ۱۰۷)؟

ج: اس قربانی میں جبین (ماتھا ۳۷: ۱۰۳) کا ذکر کس مناسبت سے ہے؟

جوابات: (۱) ہر زندہ شیٔ میں حرکت ہوتی ہے، چنانچہ نور ایک زندہ حقیقت ہے، اور اس میں کئی طرح کی حرکتیں پائی جاتی ہیں، ان میں سے ایک حرکتِ ذکر ہے،

 

۶۳

 

یعنی نورِ نبوّت و امامت کا ایک کمال یہ ہے کہ اس میں ذکرِ اسمِ اعظم بڑی سرعت کے ساتھ خود بخود جاری رہتا ہے، یہ ہوا حضرت اسماعیلؑ کا اپنے والد کے ساتھ دوڑنے کے قابل ہو جانا، اور ایسے وقت میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی روحانی قربانی ہوجاتی ہے۔

(۲) فدا کا مطلب ہے قربان کردینا، ذِبحٍ عظیم کی تاویل ہے حضرتِ اسماعیلؑ کی بدنی قربانی کی بجائے روحانی قربانی، جو بہت بڑی ہے، اور حضرتِ اسحاقؑ کی ایسی قربانی۔

(۳) جبین کا اشارہ اس لئے ہے کہ روحانی قربانی میں روح ماتھے پر مرکوز ہو کر بلند ہوجاتی ہے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔہونزائی

۱۶؍ محرم الحرام۱۴۱۰ھ

۱۹؍ اگست۱۹۸۹ء

 

نوٹ: انبیاء علیہم السلام کے ظاہری قصّہ کے لئے “قصص القرآن” کو بھی دیکھیں، جو مولانا محمد حفظ الرحمٰن سیوہاروی کی تالیف ہے۔

 

۶۴

 

ستاروں پر لطیف زِندگی

 

معرفتِ ذات و کائنات کے سلسلے میں ہمیں بوسیلۂ نورِ قرآن یہ سوچنا اور جاننا بیحد ضروری ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات میں ایسی کثرت سے اور اتنے بیشمار ستارے کیوں سجائے ہوئے موجود ہیں؟ آیا یہ تصوّر درست ہوسکتا ہے کہ زندگی صرف اور صرف ہماری زمین پر پائی جاتی ہے، باقی تمام ستاروں پر کوئی زندہ مخلوق نہیں؟ کیا ہر ستارہ لطیف مخلوقات سے پُر ایک دنیا نہیں؟ اس بارے میں قرآنِ حکیم کا کیا ارشاد ہے؟ اس کے جوابی دلائل ذیل کی طرح ہیں:

 

دلیل (۱): سورۂ بقرہ کے ایک حکمت آگین ارشاد (۰۲: ۲۲) کے مطابق زمین انسان کے لئے فرش کا کام دیتی ہے، اور آسمان یعنی فضائے محیط چھت کی طرح ہے، اور اس حکم کا اطلاق یقیناً ہر ستارے پر ہوجاتا ہے، پس اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کوئی ستارہ لطیف مخلوقات سے خالی نہیں۔

 

دلیل (۲): سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) میں غور سے دیکھ لیجئے کہ کائنات کی کوئی چیز باطل نہیں پیدا کی گئی ہے، پھر نجوم یعنی ستارے کیونکر بیکار اور فضول ہوسکتے ہیں، بلکہ یہ حقیقت ہے کہ وہ انسان کی زندگانیٔ لطیف کیلئے بے شمار دنیائیں ہیں۔

 

دلیل (۳): نہ صرف ہر آدمی ایک دنیا ہے، بلکہ ہر ستارہ بھی ایک عالم ہے، پس قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں لفظِ “عالمین” آیا ہے، اس کے معنی ہیں شخصی دنیائیں اور انجم (ستارے) جن کا خالق اور ربّ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے، اور اس

 

۶۵

 

میں خدائے بزرگ و برتر کی سب سے بڑی تعریف (الحمد) اس معنی میں ہے کہ وہ احد و صمد اپنی بیمثال ربوبیّت سے ہر انسان کی اس حد تک عقلی اور علمی پرورش کرسکتا ہے کہ وہ کسی ستارے کا خلیفہ اور بادشاہ ہوجائے (۲۴: ۵۵) ۔

 

دلیل (۴): قرآنِ عزیز ہی کا مفہوم ہے کہ قانونِ فطرت (جس کے مطابق خدا نے کائنات اور ستاروں کو پیدا کیا) اور لوگوں کی فطرت (پیدائش) ایک ہی چیزہے (۳۰: ۳۰) اس کا مطلب یہ ہوا کہ ستارے بھی انسانوں کی طرح مختلف زمانوں میں پیدا ہوجاتے ہیں، اور الگ الگ ادوار میں مرجاتے ہیں، ہر چند کہ ان کی عمریں انتہائی طویل ہوا کرتی ہیں۔

 

دلیل (۵): کوئی چیز خواہ ظاہری ہو یا باطنی، رحمت اور علم سے ہر گز خالی نہیں (۰۶: ۸۰؛۴۰: ۰۷) اور یاد رہے کہ رحمت میں روحانی نعمتیں ہیں، اور علم میں عقلی نعمتیں، پس اکثر ستاروں پر اگرچہ ظاہری آبادی نہیں ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ وہاں رحمت و علم سے بہشت کی معموریت ہو، اورانسان ہمیشہ بے پایان نعمتوں میں شادمان رہے۔

 

دلیل (۶): کوئی چیز اور کوئی ستارہ ایسا نہیں، جو خزائنِ الٰہی کا محتاج نہ ہو، اور اس پر خداوندِ عالم بتدریج عقل و جان کی برکتیں نازل نہ فرماتا ہو (۱۵: ۲۱) اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ یہ بالواسطہ تذکرہ انسان ہی کا ہے کہ وہی دراصل ستارے کی روح اور اس کا باشندہ ہے۔

 

دلیل (۷): سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) کے حوالے سے بارہا یہ ذکر ہوچکا ہے کہ پروردگارِ عالم نے اپنی عنایتِ خاص سے ایسے کُرتے بنائے ہیں، جو ہر قسم کی گرمی سے بچا سکتے ہیں، اور ایسے کُرتے بھی، جو تمام جنگوں سے محفوظ رکھنے والے ہیں، ان سے

 

۶۶

 

اجسامِ لطیف مراد ہیں، جن کے حصول کے بعد ہی آدمی گرم ترین اور سرد ترین ستاروں پر جنت کی پُرلذت زندگی گزار سکتا ہے۔

 

دلیل(۸): اشارۂ قرآن یہ ہے کہ بہشت جہاں اپنی جگہ پر ہے، وہاں کائنات کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے (۰۳: ۱۲۳؛۵۷: ۲۱) اور جہاں نزدیک لائی جاتی ہے (۲۶: ۹۰؛۵۰: ۳۱) وہاں عالمِ شخصی میں ہے، پس انجم مجموعی طور پر بہشت کی زمینِ ظاہر ہیں، جس میں بدنِ کوکبی کے لئے ہر گونہ لطیف نعمتیں مہیّا ہیں، اور کسی چیز کی کمی نہیں۔

 

دلیل (۹): خدا کی آیات أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہیں، چنانچہ ارشادِ ربّانی ہے: جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور (ان کے اقرار) سے تکبر کرتے ہیں ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور وہ لوگ کبھی جنت میں داخل نہ ہوں گے (۰۷: ۴۰) اس سے ظاہر ہے کہ آسمانِ ظاہر اور آسمانِ روحانیّت کے دروازے بہشت کے دروازے ہیں، اور وہ صرف علم و معرفت ہی سے کھل سکتے ہیں۔

 

دلیل (۱۰): کائنات کا ہیولیٰ یا ایتھر (Ether) بحرِ محیط ہے، اس میں ستارے خدا کی عظیم کشتیاں ہیں، ہر ایسی کشتی میں سوار شدہ لوگوں کو جب فنافی اللہ اور بقا باللہ کا مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے، تو وہ کثیف سے لطیف جسم میں منتقل ہوکر انجم کو بہشت کی زمین پاتے ہیں (۵۵: ۲۴ تا ۲۷)۔

 

دلیل (۱۱): اگرچہ افرادِ انسانی الگ الگ ہیں، لیکن ان سب کو ملا کر انسان یا عالمِ انسانیت کہا جاتا ہے، اسی طرح کیا عجب ہے کہ قرآنِ مجید تمام ستاروں کو زمین کا نام دے رہا ہو اور ہم اپنی عقلِ جزوی کی وجہ سے صرف اسی سیّارے کو زمین مانتے

 

۶۷

 

ہوں، جس پر ہم فی الوقت بستے ہیں، جی ہاں، لاتعداد ستاروں کا مجموعہ ہی خدا کی ظاہری زمین ہے، جو خلافت و سلطنت کی غرض سے بیحد وسیع ہے (۲۹: ۵۶؛ ۳۹: ۱۰)۔

 

دلیل (۱۲): اللہ تعالیٰ کی کرسی یعنی نفسِ کلّی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے (۰۲: ۲۵۵) اور آپ جانتے ہیں کہ ہرُ کل اپنے اجزاء کا مجموعہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ کائنات کی فضائے محیط اور جملہ ستاروں پر نفسِ کل کے اجزاء بھرے ہوئے ہیں، جو جنّات، ملائک، اور نفوسِ بشر ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوا کہ چاند ہو، یا مِریخ، یا کوئی اور ستارہ، وہ مخلوقاتِ لطیف سے ہر گز خالی نہیں ہوسکتا۔

 

دلیل (۱۳): میں نے ملکِ چین میں شدید مشقت اور ریاضت کے دوران ایک نورانی خواب دیکھا، جس میں یہ مشاہدہ ہوا کہ عبدالاحد نامی ایک مومن کی صورت میں کوئی فرشتہ ہاتھ سے یہ اشارہ کررہا تھا کہ ستاروں میں اہلِ ایمان کیلئے روحانی سلطنتیں رکھی ہوئی ہیں، عبدالاحد کا بہت بڑا مالی نقصان ہوا تھا، جس کی وجہ سے وہ خدا کے حضور بکثرت گریہ و زاری اور مناجات کرتا رہتا تھا۔

 

دلیل (۱۴): سورۂ رحمان کے اس ارشاد میں دیکھ لیں: اے گروہِ جن و انس! اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکلو، مگر بدونِ زور کے نہیں نکل سکتے (۵۵: ۳۳) یہاں ستاروں اورآسمانوں سے بھی اوپر جاکر صاحبِ عرش میں فنا ہوجانے کی ایک حکیمانہ دعوت دی گئی ہے، جس کے لئے زور (سلطان، غلبہ) کی سخت ضرورت ہے، اور وہ ہے: ذکر و عبادت، اور علم و معرفت۔

 

دلیل (۱۵): آپ نے فنا فی اللہ اور بقاباللہ کے بارے میں سنا ہوگا، یہ مرتبہ جنت سے بہت اعلیٰ اور لازوال ہے، چنانچہ یہ امر ممکن ہے کہ کسی ستارے کی

 

۶۸

 

بہشت میں جس مومن کو بادشاہی عطا ہوئی ہے، وہ زمانہائے دراز کے بعد درجۂ رضوان (۰۹: ۷۲) یا منزلِ فنا میں پہنچ کر جنّت سے بے نیاز ہوجائے، البتّہ یہی وجہ ہے کہ فردوسِ برین کی سرداری میراث کے طور پر ملتی رہتی ہے (۲۳: ۱۰ تا ۱۱) اور کسی چیز کو میراث اس وقت کہا جاتا ہے، جبکہ اس کا مالک مرجاتا ہے، خواہ وہ جسمانی موت ہو، یا نفسانی، یا فنافی اللہ۔

 

دلیل (۱۶): سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۵) میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ اس کے صالح بندے زمین کے وارث ہوں گے، خدا کا یہ وعدہ زمینِ انجم کی وراثت سے متعلق ہے، ورنہ سوال پیدا ہوگا کہ کب ایسا ہوگا؟ جبکہ اللہ کے بہت سے نیک بندے دنیا سے گزر چکے ہیں؟

 

دلیل (۱۷): قرآنِ حکیم (۴۵: ۱۳) میں غور سے دیکھ لیں کہ کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں، جو مومنین کے لئے مسخر نہ کی گئی ہو، اور آسمانوں اور زمینوں یعنی انجم میں وہ کونسی چیز باقی ہے، جو بندوں کو عطا نہ ہوئی ہو(۱۴: ۳۴) غرض ستاروں کی زمین بہشت کی زمین ہے، جس کے وارث مومنین ہوں گے۔

 

دلیل (۱۸): اپنے آپ کو خواب میں پرواز کرتے ہوئے دیکھنا کسی اچھی عبادت یا گریہ و زاری کا نتیجہ ہوا کرتا ہے، اور اس کا اشارہ یہ ہے کہ کل ستاروں کی بہشت میں بڑے پیمانے پر اڑنے کی قدرت عنایت ہونے والی ہے، تاکہ اس سے ستاروں کی سیاحت ممکن ہو، جس طرح حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے خواب میں جعفرِ طیار کو بہشت میں اڑتے ہوئے دیکھا تھا۔

 

دلیل (۱۹): جہاں اور جب اللہ تعالیٰ دستِ قدرت میں کائنات و موجودات

 

۶۹

 

کو لپیٹ لیتا ہے، تو اس کے بہت سے معنی ہوتے ہیں،من جملہ یہ کہ ہر دُوریٔ مکان و زمان کو ختم کردیتا ہے، منتشر کو یکجا کرلیتا ہے، اجزاء کو کل سے ملاتا ہے، ازل وابد کا دائرہ بناتا ہے،ہرچیز کی ازسرِ نوتخلیق فرماتا ہے ،آفرینشِ عالم و آدم کا تجدّد کرتا ہے، نفوسِ خلائق کو نفسِ واحدہ کے ساتھ ایک کرلیتا ہے، اور ایسے میں یوں کہنا چاہئے کہ ستاروں کی زمینیں اگرچہ بے شمار ہیں، لیکن وہ ایک ہی ہے، یعنی سارے نجوم کا نام “الارض” ہے۔

 

دلیل (۲۰): خدا وندِ عالم نے جگمگاتے ستاروں (کواکب) سے آسمانِ دنیا کو زینت بخشی ہے (۳۷: ۰۶) اور حفاظت بھی کی ہے ہر سرکش شیطان سے (۳۷: ۰۷) وہ شیاطین عالمِ بالا کے سردار فرشتوں کی طرف کان نہیں لگا سکتے اور وہ ہر طرف سے مار کر دھکے دیئے جاتے ہیں (۳۷: ۰۸) یعنی کواکب کے اسرار ایسے آسان نہیں کہ ان پر عبور حاصل کرکے ہر کوئی عالمِ علوی میں پہنچ سکے۔

 

دلیل (۲۱): غیر آباد ستاروں پر مخلوقاتِ لطیف موجود ہونے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ شروع شروع میں جب سیّارۂ زمین بیابان تھا، تو اس وقت یہاں جنّات بستے تھے، پھر ان کی اکثریت کو ہٹا کر اس پر آدم وبنی آدم بسائے گئے، تاکہ جنّوں کا غلبہ نہ ہو، اگر یہ دنیا کبھی پانی کے ذخائر سے محروم ہو کر خشک صحرا بن جائے (۱۸: ۰۸) تو پھر اس پر جنّات کا قبضہ ہوگا، کیونکہ یہ کائنات مکان و مکانیت اور ظرفیت کے قانون پر ہے، چنانچہ کوئی ظرف خالی نہیں رہ سکتا، اس میں یا تو ہوا ہوتی ہے، یا پانی ہوتا ہے یا کچھ اور، واقعہ کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جب یہ سیّارہ بے آب و گیاہ بیابان ہوگا، تب تک انسان جسمِ لطیف میں منتقل ہوچکا ہوگا۔

 

دلیل (۲۲): ستاروں کے چراغوں (مصابیح ۶۷: ۰۵) سے نور بھی ہے اور

 

۷۰

 

نار بھی، یعنی ان میں علم و ہدایت کی روشنی بھی ہے اور دھتکار کا شعلہ بھی، جیسے دربان بادشاہ کے دوستوں کو محلِ خاص تک رہنمائی کرتا ہے، اور چوروں کو بھگا دیتا ہے (۷۲: ۸)۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی

۸؍ربیع الاوّل ۱۴۱۰ھ

۱۰؍اکتوبر۱۹۸۹ء

 

۷۱

 

اسمِ اعظم- سِرِّ اَسرار

 

۱۔ اللہ تعالیٰ کا سب سے بزرگ اور سب سے بابرکت نام اسمِ اعظم یا اسمِ اکبر کہلاتا ہے، اور خدا کی خدائی میں یہی سرِّ اسرار (بھیدوں کا بھید) اور خزینۂ خزائن کا درجہ رکھتا ہے، یہ واحد بھی ہے، اور جمع بھی، چنانچہ ارشاد ہوا (ترجمہ): اور بہت ہی اچھے نام (اسمائُ الحسنیٰ) اللہ ہی کے لئے ہیں سو ان ناموں سے اس کو پکارا کرو اور ایسے لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں کجروی کرتے ہیں (۰۷: ۱۸۰) اسمائُ الحسنیٰ کا بنیادی ذکر اگرچہ قرآنِ حکیم کے چار مقام پر فرمایا گیا ہے، لیکن جب اللہ کا مقصد و منشا اور حکم انہی اسماء سے عبادت و بندگی کرنے کے لئے ہے، تو پھر عارفوں کو اس حقیقت کا یقین کیوں نہ ہو کہ تمام قرآن میں جس طرح ذکر و عبادت اور علم و معرفت کا بیان پھیلا ہوا ہے، وہ دراصل اسمِ اعظم ہی کا بیان ہے۔

۲۔ اسمِ اعظم ہمیشہ نورِ ہدایت سے وابستہ ہے، لہٰذا کوئی شخص اسے ہادیٔ برحق سے الگ کرکے اپنے لئے ضبطِ تحریر میں محفوظ نہیں کرسکتا، اگر یہ امر ممکن ہوتا، تواہلِ کتاب ایسا کرلیتے، جیسے خدا کی رسّی کا تصوّر ہے کہ اسے لوگ پکڑ بھی سکتے ہیں، اور چھوڑ بھی سکتے ہیں مگر اسکا بالائی سِرا کبھی خداوندِ عالم کے ہاتھ سے چھوٹ نہیں سکتا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دینِ حق کی تمام اہم چیزیں ایک ہی جگہ جمع ہیں، اور وہ جگہ مرکزِ ہدایت ہی ہے، یعنی امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲)۔

۳۔ کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت ۲۹ میں حضرتِ امیر المومنین علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: اَنَا الْاَسمآئُ الحُسنٰی الَّتی اَمَر اللّٰہُ اَنْ یُّدعیٰ بھا۔ یعنی میں

 

۷۲

 

خدا کے وہ اسمائِ حسنیٰ ہوں جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کو ان اسماء سے پکارا جائے (۰۷: ۱۸۰) پس اصل اسمِ اعظم صوتی، حرفی، لفظی، اور تحریری نہیں، بلکہ شخصی، روحانی، اور نورانی ہے، یعنی امامِ زمانؑ ہی خدا کا زندہ اسمِ بزرگ ہیں، اور ہاں اس وسیلے کے بعد اسمِ اعظم کا تلفظ و ذکر ممکن ہوجاتا ہے، جبکہ نورانی اسم کا نمائندہ کوئی مناسب لفظی اسم قرار پاتا ہے۔

۴۔ جب حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام میں خدائی روح پھونک دی گئی، یعنی جس وقت نور داخل ہوا، تو اس وقت آپؑ نورانی اسمِ اعظم ہوگئے، اور پھر تمام دوسرے اسماء کی حکمتیں بھی ان پرروشن ہونے لگیں، چنانچہ آپ کو یقین کرنا ہوگا کہ ربّانی تعلیم خود کار طور پر دی جاتی ہے، خواہ وہ حضرتِ آدمؑ کے لئے ہو، یا فرشتوں کے لئے، یا کسی اور کے واسطے، بہر حال روحانی علم کا ایک ہی قانون چلتا رہتا ہے اور وہ اسمِ اعظم کے تحت ہے۔

۵۔ اگرچہ سارا قرآن اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ ہی کی تفصیلات و توضیحات سے مملو ہے، تاہم لفظِ حسنیٰ کا اوّلین تعلق ان جملہ الفاظ سے ہے، جو مادّۂ ح۔س۔ن سے بنے ہیں، کیونکہ قرآنِ حکیم کا ہر لفظ بنظرِ حکمت ایک کتاب کا درجہ رکھتا ہے، چنانچہ خدائے بزرگ و برتر کا سب سے حسین و جمیل نام (اسمِ اعظم) تجلّیاتِ صفات اور عقل و بصیرت کے حسن و جمال کی بولتی کتاب ہے، اور شاید کوئی مومن اس حقیقت کا یقین اس وقت کرتا ہوگا، جبکہ شخصی اور کلیدی اسمِ اعظم (امامِ زمانؑ) کے نور کی روشنی میں رنگِ خدا (صبغۃ اللّٰہ ۰۲: ۱۳۸) کی کائنات کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے، جس میں نہ صرف بندۂ مومن کا باطن ہی بلکہ دوسری تمام اشیا بھی نورانیت سے رنگین نظر آتی ہیں، یہ دنیا کا رنگ ہرگز نہیں، بلکہ مختلف رنگ کے انوار ہیں، جن کا ذکر ہوچکا ہے،

 

۷۳

 

پس اسماء الحسنیٰ کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ان کے اصولی ذکر و عبادت سے روحانیّت اور صبغۃاللہ کا دروازہ کھل جاتا ہے ، اور ہر چیز نورِ عبادت سے رنگین ہو جاتی ہے۔

۶۔ چونکہ حضراتِ انبیاء و أئمّۂ علیہم السّلام اپنے اپنے وقت میں خدا کے اسمائے جلیل و جمیل کی مرتبت میں ہوتے ہیں، لہٰذا قرآنِ عزیز میں اس حقیقت کی کوئی جامع مثال ہونی چاہئے، تاکہ ایک کو دیکھ کر سب کو پہچان لیا جائے، جی ہاں، اللہ تعالیٰ کے حسین ترین ناموں یعنی اسماءالحسنیٰ میں سے ایک اسم حضرت یوسف علیہ السّلام تھے، مگر یہاں یہ جاننا ازحد ضروری ہے کہ حسن و جمالِ یوسفؑ دراصل روحانی، علمی، عرفانی، اور عقلی صورت میں تھا، کیونکہ ظاہری و جسمانی زیبائی و دلکشی بہت سے عام انسانوں میں بھی ہوتی ہے، جس کی کوئی خاص اہمیت نہیں، اور نہ وہ بزرگی کی علامت ہے، چنانچہ حضرتِ یوسفؑ کا حسنِ ظاہر ان کے حسنِ باطن پر حجاب و پردے کا کام کررہا تھا، آپؑ اپنے وقت کے امام اور اسمِ اعظم تھے، اس لئے یہ امر ضروری تھا کہ آپ کا چہرۂ باطن چہرۂ خدا کی جگہ پر بدرجۂ انتہا حسین و جمیل ہو، اور حقائق و معارف کے پروانے اس سر چشمۂ نور کاطواف کرتے ہوئے فنا ہوجائیں۔

۷۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم خدائے لایزال کے اسماء الحسنیٰ تھے، اسی لئے آج اسلام میں اطاعتِ رسولؐ اطاعتِ خدا ہے (۰۴: ۸۰) اور جب عشقِ رسولؐ عشقِ خدا ہے (۰۳: ۳۱) تو پھر ذکرِ رسولؐ کے بغیر حضورؐ کا عشق کیسے حاصل ہوسکتا ہے، اگر آپ مانتے ہیں کہ ذکرِ رسولؐ حق ہے (۹۴: ۰۴) تو یہ صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہوگا وہ یہ کہ پیغمبرِ اکرمؐ کو اللہ کا اسمِ اعظم مانا جائے، ورنہ عبادت میں وحدت نہ ہوگی، دُوئی ہوگی، اور دوئی بت پرستی ہے، اس دلیل سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ

 

۷۴

 

پیغمبر اور امام علیہما السّلام وہ اسمائے حسنیٰ ہیں، جن سے خدا کو پکارنا ضروری ہے، کیونکہ مقبول عبادت و بندگی اور رضائے الٰہی کا طریقہ یہی ہے۔

۸۔ پیغمبرؐ اور امامِ زمانؑ کس طرح اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ کا مرتبہ رکھتے ہیں، اور ان بزرگ ناموں سے خدا کو کیسے پکارا جائے، اس کی دوسری مثال یہ آیت ہے: اگر یہ لوگ جس وقت اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے آپ کے پاس آتے پھر خدا سے بخشش مانگتے اور رسولؐ بھی ان کے لئے خدا سے بخشش مانگتے تو ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحمت کرنے والا پاتے (۰۴: ۶۴) یہ حکم ایک کُلّیّہ کی حیثیت سے ہے، یعنی اس کا تعلق سب سے ہے، اور یہ ہر زمانے کے لئے ہے، کیونکہ نورِ ہدایت ہمیشہ حیّ و حاضر ہے، تاکہ لوگ اس نامِ بزرگ کے وسیلے سے خدا کو پکارا کریں۔

۹۔ اس حقیقت کی تیسری دلیل کے لئے سورۂ توبہ کا یہ ارشاد پیشِ نظر رہے: اور بعض دیہات والے ایسے بھی ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو خدا کے نزدیک قرب حاصل ہونے کا ذریعہ اور رسولؐ کی دعا کا ذریعہ بناتے ہیں ۔۔۔ (۰۹: ۹۹) پس رسولِ اکرمؐ اور امامِ عالیمقامؑ کی دعا ہی کے معنی ہیں اسمِ اعظم سے خدا کو پکارنا (۰۷: ۱۸۰) اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت بڑی عنایت ہے کہ اس نے ہر زمانے میں دعائے مقبول کے لئے اپنے بزرگ ترین نام کا وسیلہ بنادیا، جو نبوّت کے بعد سلسلۂ امامت ہے۔

۱۰۔ چوتھی دلیل یہ ہے: آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے جس کے ذریعے سے آپ ان کو پاک صاف کردیں گے اور ان کے لئے دعا کیجئے یقیناً آپ کی دعا ان کے لئے موجبِ اطمینان ہے (۰۹: ۱۰۳) کیا ان کو اس بات کا علم نہیں

 

۷۵

 

کہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات لیتا ہے۔۔۔ (۰۹: ۱۰۴) یہاں پہلی آیت دوسری آیت کی تفسیر و تشریح کا کام کررہی ہے، جس سے یہ حقیقت مثلِ خورشیدِ انور درخشان و تابان ہورہی ہے کہ رسولؐ اور نائبِ رسولؐ (امامؑ) اپنے اپنے وقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات پر مامور ہیں کہ وہ اہلِ ایمان سے صدقہ (زکات وغیرہ) لے کر ان کو روحانی اور عقلی طور پر پاک و پاکیزہ کرلیں، اور ان کے حق میں ایسی بے مثال دعا کریں کہ یہ معجزانہ دعا ان کے سوا کوئی نہیں کرسکتا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کے زندہ اور گویندہ اسمِ اعظم میں جو رضائے الٰہی اور مقبولیت رکھی ہوئی ہے، وہ کسی دوسرے نام میں نہیں، مگر ہاں، جب اللہ کے اسمائے حسنیٰ کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے، تو ان کے نور سے دوسرے تمام اسماء بھی منور ہوجاتے ہیں۔

۱۱۔ پانچویں دلیل ملا حظہ ہو: بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے دُرود بھیجتے ہیں پیغمبر پر، اے ایمان والو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو جیسا کہ حق ہے (۳۳: ۵۶) اس آیۂ کریمہ کی تفسیرو تاویل اس طرح ہے کہ خدا اور اس کے قلم ولوح (کیونکہ یہ دونوں بڑے فرشتے ہیں) اور دیگر تمام فرشتے نبی رحمتؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے اہلِ ایمان تم بھی اسی مقصد کیلئے عرش والے سے درخواست کرتے ہوئے کہا کرو: اَللّٰھُمَّ صلِّ علٰی محمّدٍ وّاٰلِ محمّد۔۔۔ تاکہ لاہوت، جبروت، ملکوت، اور ناسوت اس ہمہ رس وہمہ گیر درود سے ہر وقت گونج اٹھے، اور ہمیشہ نورِ رحمت کی بارش برستی رہے، یہاں یہ بہت بڑا سوال سامنے آتا ہے کہ یہ کائناتی درود جو خالق اور مخلوق سب کی طرف سے آنحضرتؐ کی تعظیم و تکریم کے معنی میں بھیجی جاتی ہے، وہ دراصل کس کا ذکرہے؟ خدا کا؟ یا بندے کا؟ یا دونوں کا؟ جواباً یہ کہنا ہوگا کہ یہ ذکر اسمائے عظام کا

 

۷۶

 

ہے، یعنی محمدؐ وآلِ محمدؐ کا، اور اصلاً خدا کا ذکر ہے۔

۱۲۔ قرآنِ حکیم جہاں یہود ونصاریٰ کو اہلِ کتاب کہتا ہے، وہاں اس قولِ خداوندی کا یہ مطلب ہے کہ توراۃ اور انجیل میں پہلے کی طرح سب کچھ موجود ہے، اور اللہ تعالیٰ کے وہ تمام اسمائے ظاہر بھی ہیں، جو کبھی ان کے لئے کام کرتے تھے، مگر اب ان کے وہاں اسماءالحسنیٰ موجود نہیں، وہ تو صراطِ مستقیم اور نورِ ہدایت کے عنوان سے اسلام میں منتقل ہوچکے ہیں، یعنی حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم اللہ تبارک و تعالیٰ کا اسمِ اکبر ہیں، لہٰذا اہلِ کتاب آپ کے بغیر جس نام سے بھی خدا کو پکارا کریں، اس سے ان کے لئے کوئی شنوائی اور قبولیت ممکن نہیں۔

۱۳۔ سورۂ انفال کے اس پُرحکمت حکم (۰۸: ۲۴) میں چشم بصیرت سے دیکھنا ہوگا: اے ایمان والو تم اللہ اور رسولؐ کی دعوتِ خاص کو قبول کرو جب کہ رسولؐ تم کو اس چیز کی طرف بلاتے ہوں جو تم کو زندہ کردینے والی ہے (یعنی امامتِ علیؑ اور اسمِ اعظم) اور یہ جاننا ہوگا کہ خدا تعالیٰ آڑ بن جایا کرتا ہے آدمی اور اس کے قلب کے درمیان ۔۔۔ (۰۸: ۲۴) یعنی جب تم اس دعوت کو قبول کروگے، تو تم حیاتِ طیبّۂ ازلی وابدی میں زندہ ہوکر اپنی انائے علوی اور خدا کو پہچان لوگے، پھر اس وقت اللہ تعالیٰ تمہاری انائے سفلی کو انائے علوی سے واصل کردے گا۔

۱۴۔ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کی تعلیمات میں ہے کہ مومنین زمانۂ آدمؑ میں بھی اور زمانۂ علیؑ میں بھی جسمانیّت میں بشر اور روحانیّت میں فرشتے تھے، اس کا اشارہ یہ ہے کہ بتقاضائے سنتِ الٰہی ہر پیغمبر اور ہر امام بعض مومنین کو اسمائے حسنیٰ کی وہ تعلیم دیا کرتا ہے، جو ابتداء میں حضرتِ آدم علیہ السّلام نے فرشتوں کو دی تھی، تاکہ ہمیشہ سے نورِ ہدایت اور اسمِ اعظم کے تمام معجزات و تجلّیات کا تجدّدِ امثال

 

۷۷

 

ہوتا رہے، اور اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی

۱۴؍ربیع الاوّل ۱۴۱۰ھ

۱۶؍اکتوبر۱۹۸۹ء

 

۷۸

 

حکمتیں ہی حکمتیں

 

۱۔ قرآنِ پاک، نورِ ہدایت، اسمِ اعظم، خانۂ خدا، شب خیزی، گریہ و زاری، ذکرِ دائم، عشقِ محمدؐ و آلِ محمدؐ، عاجزی، آفاق، اور عالمِ شخصی، ان سب خزانوں کو علم و عمل سے مربوط کرکے دیکھا جائے تو حکمتیں ہی حکمتیں نظر آئیں گی، حکمت مومن کی گم شدہ متاع ہے، جس کی بازیابی کے بغیر تمہیں کیسے قرار مل سکتا ہے، پس تم دیوانہ وار علم و حکمت کی جستجو میں لگے رہو، تا آنکہ خزائنِ حقائق و معارف سے مالا مال ہوجاؤ۔

۲۔ حضرتِ آدم علیہ السّلام اپنے وقت میں اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم تھے، لہٰذا سجدۂ آدمؑ کے حکم میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے، جس کوبجا لاکر فرشتوں نے علم الاسماء کے نور کو حاصل کرلیا، مگرشیطان اس عظیم سعادت سے محروم رہا، کیونکہ اس نے سجدہ نہیں کیا، جس کی وجہ تکبر ہے، اور تکبر کی وجہ جہالت ہے، جبکہ ہر برائی جہالت سے اور ہر اچھائی علم سے پیدا ہوجاتی ہے، پس شیطان جاہل تھا، اسی لئے اس نے اپنے آپ کو کسی حق کے بغیر بڑا سمجھا، اور جاہل ہی رہا، اگر دانا ہوتا تو تکبر نہ کرتا، بلکہ عاجزی سے اسمِ اعظم کے سامنے سر جھکاتا، جب اسمِ بزرگ (یعنی آدمؑ) سے شیطان نے دشمنی کی، تو پھر توبہ اور رجوع کیسے کرسکتا تھا۔

۳۔ حضرتِ آدمؑ کی خلافتِ عالیہ حضراتِ انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام کے سلسلے میں تا قیامۃ القیامات جاری و باقی رہنے والی ہے، اسی وجہ سے فرشتوں نے شروع سے لے کر آخر تک ہر امکانی فساد و خونریزی کو آدم صفی اللہ سے منسوب کیا (۰۲: ۳۰) ملائکہ نے ایسے واقعات کو اگلے آدموں کے ادوار میں دیکھ لیا تھا، اس فساد و خونریزی کا

 

۷۹

 

ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، ظاہر کو تو سب ہی جانتے ہیں، مگر باطن بڑا عجیب و غریب ہے، وہ اس طرح کہ جب ذکر و عبادت اور علم و معرفت کے نتیجے میں کسی عالمِ شخصی میں ذاتی قیامت کا وقت آتا ہے، تو سب سے پہلے صورِ اسرافیل کی آواز پر لاتعداد و بے شمار یاجوج و ماجوج (جوانتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّاتِ لطیف ہیں) آکر قریۂ ہستی میں فساد کرتے ہیں، یہ فساد برائے اصلاح ضروری ہے، اور یہی لشکر عالمِ شخصی ہی میں خون بہاتا ہے، یعنی شکوک و شبہات کا اِزالہ کرتا ہے، کیونکہ جس طرح خونِ گوسفند حرام ہے، اس لئے بذریعۂ ذبح اسے بہایا جاتا ہے، اسی طرح شک و شبہ حرام ہے، لہٰذا اسے دور کیا جاتا ہے، تاکہ مومن کی روحانی ترقی ہو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قصّۂ آدمؑ کا طول یاجوج و ماجوج کے خروج تک ہے، یا یہ مان لیا جائے کہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اپنے اپنے وقت کے آدم ہیں۔

۴۔ حضرتِ آدم علیہ السّلام کے بعد حضرتِ ہابیل علیہ السّلام کی معرفت لازمی ہے، اس مقصد کے لئے سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۷ تا ۳۲) میں خوب غور و فکر سے دیکھنا ہوگا، جس کا باطنی پہلو اور تاویلی مفہوم یوں ہے: اور اے رسولؐ آپ ان کو آدم کے دو بیٹوں کی خبر “حق الیقین” کے ذریعہ پڑھ کر سنائیے، جبکہ دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی، یعنی نارِ مقدّس (نورِ عشقِ الٰہی) نے حضرتِ ہابیل علیہ السّلام کی گوسپندِ نفس کو جلا کر نور بنالیا، پس آپ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے امام اور اسمِ اعظم ہوگئے، کیونکہ یہاں لفظِ “قربان” اور “قبول” آدمؑ اور وصیٔ آدمؑ کی مناسبت سے اپنے انتہائی اعلیٰ معنی دیتے ہیں، چنانچہ اس قرب و قبولیت کا مطلب یہ ہوا کہ ہابیلؑ راہِ روحانیّت پر منزل بمنزل چلتے گئے، تاآنکہ منزلِ فنا میں داخل ہوگئے، اور سنتِ الٰہی کے مطابق آپؑ میں خدائی

 

۸۰

 

روح (نور) پھونک دی گئی، کیونکہ ظرفِ چراغ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے، مگر نورِ ہدایت کبھی بجھتا نہیں۔

۵۔ قرآنی حکمت بڑی عجیب و غریب ہوا کرتی ہے، چنانچہ حضرت ہابیلؑ کی شہادتِ ظاہر اور شہادتِ روحانی کا تذکرہ ایک ساتھ ہے، کیونکہ اگر قرآنِ پاک میں ظاہری موضوعات اور تاریخی واقعات سے زیادہ کچھ نہ ہوتا، تو یہ قرآنِ حکیم نہ کہلاتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹) پس حضرتِ ہابیل علیہ السّلام شہادت کے تمام مراتب سے گزر گئے، اور وہ پانچ ہیں:

۱۔ منزلِ عزرائیلی

۲۔ منزلِ صاعقہ (۰۲: ۵۵)

۳۔ منزلِ انبعاثِ اوّل (۲۷: ۳۹)

۴۔ منزلِ انبعاثِ دوم (۲۷: ۴۰)

۵۔ اور جسمانی شہادت

۶۔ اس کی وضاحت یوں ہے: سب سے پہلے یہ جاننا ہے کہ حضراتِ انبیا علیہم السّلام وغیرہ کے قرآنی قصّے نمونہ ہائے ہدایت اور قوانینِ رحمت کی حیثیت سے سب انسانوں کو قربِ خداوندی کی دعوت دیتے ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا، اور یہ پُرحکمت حکایات صرف پیغمبروں اور اماموں ہی کی ذواتِ مقدّسہ تک محدود ہوتیں، تو لوگوں سے بار بارنہ فرمایا جاتا کہ تم صراطِ مستقیم پر چلو، جو انبیاء و اولیاء کا راستہ ہے، جس پر چلنے والوں کو خدا اپنی خاص خاص نعمتوں سے نوازتا رہتا ہے، اس روشن دلیل کے بعد ہماری گزارش یہ ہوگی کہ جسمانی موت سے قبل جو نفسانی موت اور عزرائیل کا عمل ہے، اس کے بارے میں اختلاف نہیں ہوسکتا، لیکن جہاں تک مجموعی موت کے تجزئیے

 

۸۱

 

کا تعلق ہے، وہ البتّہ مشکل ہے، بہرحال مذکورۂ بالا منزلیں ہر مومنِ سالک کے لئے مقرر ہیں، جن کی مثالوں سے قرآنِ حکیم بھرا ہوا ہے، منزلِ عزرائیلی کی ایک مثال: عالمِ شخصی سے متعلق نافرمان روحیں ثمود اورعاد کی طرح صورِ اسرافیل کی زور دار آواز اور عملِ عزرائیل سے ہلاک ہوجاتی ہیں (۶۹: ۰۴ تا ۰۷) منزلِ صاعقہ کی دلیل: حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے جن ستّر رجال کا انتخاب کیا تھا، وہ راہِ روحانیّت پر گامزن تھے، اسلئے اصولاً ان پر صاعقہ اور زلزلہ کی پُرحکمت موت واقع ہوئی (۰۲: ۵۵؛۰۷: ۱۵۵) انبعاثِ اوّل کا نمونہ: عفریت نے کوئی بڑی روح کھینچ کر حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے حضور پیش کردی، جو تختِ بلقیس کے نام سے مشہور ہے، انبعاثِ دوم کا اشارہ: یہی کام بارِ دوم اس شخص نے بھی کیا، جس کے پاس کتابِ روحانی کا علم تھا، مگر چشم زدن میں (۲۷: ۴۰) اور آخر میں جسمانی موت ہے، جس کی دلیل وہ خود ہے۔

۷۔ سورۂ فرقان (۲۵: ۳۰) کا یہ ارشادِ مبارک بہت زیادہ قابلِ توجہ اور زبردست حیرت انگیز ہے: اور (اس دن) رسولؐ کہیں گے کہ اے میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا (۲۵: ۳۰) اس آیۂ کریمہ کا ایک دوسرا مستند ترجمہ یہ ہے: اور کہا رسولؐ نے اے ربّ میرے تحقیق میری قوم نے پکڑا ہے اس قرآن کو چھوڑا ہوا ۔ یعنی پکڑا ہے صرف ظاہر کو اور چھوڑا ہے باطن کو، جو ذخائرحکمت سے مملو ہے۔

۸۔ ایک مرتبہ آنحضرتؐ نے حضرت علیؑ سے فرمایا کہ: جنّت میں تمہارے لئے ایک مکان مخصوص ہے اور تم اس اُمت کے ذوالقرنین ہو (مفرداتُ القرآن، مادّہ: ق ر ن) خدا و رسولؐ کے نزدیک کسی دنیاوی بادشاہ کی کوئی اہمیت ہی نہیں، اس بناء پر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ذوالقرنین اپنے وقت میں امام تھے، اسی لئے مماثلت سے

 

۸۲

 

مولا علیؑ کی توصیف فرمائی گئی، کیونکہ آپؑ قیامت تک اس امت کے امام ہیں، اور قرآنِ حکیم میں جو کچھ ذوالقرنین سے متعلق ہے، وہ مضمونِ امامت میں شامل ہے۔

۹۔ لفظِ “قَرْن” قرآنِ حکیم میں مستعمل ہے، جس کے معنی ہیں ایک زمانہ کے لوگ، اور ذوالقرنین سے امامِ اقدس و اطہر ہی مراد ہیں، جن کا تعلق اہلِ زمانہ سے دوطرفہ ہے، یعنی ظاہر میں بھی، اور باطن میں بھی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے امامِ زمان علیہ السّلام کو زمینِ روحانیّت میں قدرت عطا کردی ہے، اور ازل سے اس طرف پھر یہاں سے ازل کی جانب ہر چیز کا راستہ دیا ہے (۱۸: ۸۴) پس ذوالقرنین عالمِ شخصی کے مراحل طے کرنے لگے (۱۸: ۸۵) یہاں تک کہ جب آفتابِ نور کے مغرب میں پہنچے تو اس آفتاب کو چشمۂ گل میں ڈوبتا ہوا پایا، یعنی عالمِ سفلی میں انسانِ کامل کی شخصیّت میں، اور عالمِ علوی میں اسی کے چہرۂ نورانی میں، اور چشمہ اس معنی میں کہ یہ مرتبہ اور اس کا فعل ہمیشہ جاری و ساری ہے، اور انہوں نے یہاں ایک قوم دیکھی، یعنی وہ تمام لوگ جو شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر اس مغرب میں رہتے ہیں ۔۔۔ (۱۸: ۸۶) ۔۔۔ پھر وہ وہاں سے بھی آگے گئے (۱۸: ۸۹) یہاں تک کہ نورِ عقل یا نورِ ازل کے مشرق میں پہنچ گئے، جہاں ان کا عارفانہ سفر ختم ہوگیا، اور انھوں نے چشم باطن سے مشاہدہ کیا کہ خورشیدِ عقل اہلِ معرفت پر بے حجاب طلوع ہوتا رہتا تھا (۱۸: ۹۰) ۔۔۔ پھر وہ وہاں سے واپس آئے (۱۸: ۹۲) یہاں تک کہ بحیثیتِ امام وہ دو دیواروں کے درمیانی مقام میں پہنچ گئے، یعنی نورانی ہدایت کا وہ مرتبہ، جس میں امامِ عالی مقامؑ اپنا نورانی حجاب اور مرید کا ظلمانی حجاب اٹھا کر باطنی تعلق پیدا کرتا ہے، تاکہ اولیائی کرامات ظہور پذیر ہوں۔

۱۰۔ سوال: ذوالقرنین پہلے مغرب میں پہنچ گئے، پھر مشرق میں، اور آخراً

 

۸۳

 

یاجوج و ماجوج کے مسئلہ سے دوچار ہوئے، اس ترتیب میں کیا حکمت ہے؟

جواب: مجموعی طور پر عالمِ عقل مشرق ہے، جو سفرِ باطن کی منزلِ آخرین ہے، جہاں سے آفتابِ نور طلوع ہوجاتا ہے، عالمِ شخصی مغرب ہے، جس میں خورشیدِ نور غروب ہو جاتا ہے، چنانچہ اس سفر میں مغرب پہلے آتا ہے، اور مشرق بعد میں، اور اگرچہ یاجوج و ماجوج (ذرّاتِ روح) کا خروج شروع ہی میں ہوتا ہے، لیکن یہاں ان کا تذکرہ دوسروں کی نسبت سے آخر میں فرمایا گیا ہے، یعنی یہ واپسی اور تصرّف کی بات ہے۔

۱۱۔ سوال: اس کا کیا اشارہ ہوسکتا ہے کہ یاجوج و ماجوج بات کو ذرا بھی نہیں سمجھ سکتے تھے؟ اور وہ زمین میں فساد کیوں کرتے تھے؟

جواب: دنیائے ظاہر ہو، یا عالمِ شخصی، اس میں جو لوگ علم و حکمت کے بغیر کام کرتے ہیں، اور ہادیٔ برحق کی اطاعت نہیں کرتے، وہ حقیقت میں بات کو بالکل ہی نہیں سمجھتے، اور فساد کررہے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہوا ہے کہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد مت کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح ہی کرنے والے ہیں (۰۲: ۱۱)۔

۱۲۔ سوال: ظاہری اور روحانی یا جوج وماجوج کے شرو فساد سے بچنے کے لئے سدِ ذوالقرنین کس طرح بنایا جاتا ہے؟

جواب: ایسی عبادت و بندگی سے، جو کسی کاہلی کے بغیر بھرپور توجہ سے کی جاتی ہے، علم کی ایسی باتوں سے، جو لوہے کے ٹکڑوں کی طرح ٹھوس ہوں، ایسے پُرحکمت ذکر سے، جو آتشِ عشق بن کر ان تمام ٹکڑوں کو سرخ انگارا بنائے، اور ایسے علمِ توحید سے، جو ان تمام حقیقتوں کو ایک کردے (۱۸: ۹۵ تا ۹۶)۔

۱۳۔ عالمِ عقل (عالمِ وحدت) میں جن لوگوں پر خورشیدِ نورِ ازل کسی حجاب

 

۸۴

 

کے بغیر طلوع ہوجاتا ہے، وہ معرفت کے جملہ بھیدوں سے واقف و آگاہ ہوجاتے ہیں، یہی لوگ مقربین کہلاتے ہیں (۸۳: ۲۱) اگر تنہا عالمِ وحدت ہی کا تصوّرکیا جائے، تو باور کرنا ہوگا کہ اس کا مشرق و مغرب ایک ہی ہے، اور یہی آفتابِ قیامت کا مغرب سے نکلنا ہے، یاد رہے کہ حضرت ذوالقرنین (یعنی امام) جیسے روحانی اور عرفانی طور پر مقامِ ازل تک پہنچ گئے، اور وہاں ایک قوم کو پایا، تو اس میں ہادیٔ برحق کی کامیاب ہدایت کا اشارہ ہے، آخر میں یہ حقیقت بھی دلنشین ہوکہ عالمِ وحدت میں لوگ منتشر نہیں ہوسکتے، بلکہ صرف ایک ہی شخص کی شکل میں مجتمع ہوجاتے ہیں، پس یقین کرلو کہ وہاں امامؑ ہی میں ایک ایسی قوم پوشیدہ تھی، جس کا ذکر ہوچکا۔

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی

۲۲؍ربیع الاوّل ۱۴۱۰ھ

۲۴؍اکتوبر ۱۹۸۹ء

 

۸۵

 

پیغمبرؐ اور امامؑ کی دعائے برکات

 

۱۔ سرورِ انبیاء صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے پُرحکمت ارشاد کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دینِ اسلام کا مجموعی مفہوم نصیحت یعنی خیر خواہی ہے (اَلدّینُ النَّصیحَۃُ) اور خیر خواہی میں قلبی دعاؤں کے معنی موجود ہیں، اس سے ایک طرف تو دعا و خیر خواہی کی بہت بڑی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوا، اور دوسری جانب یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ دین کی کوئی چیز ایسی نہیں، جس میں دعا کے لئے کوئی ہدایت یا اشارت نہ ہو۔

۲۔ یہ بات اہلِ دانش کے نزدیک یقینِ کامل کا درجہ رکھتی ہے کہ حقیقی عبادت معرفت ہی کی روشنی میں ہوسکتی ہے، اور ایسے ہی خاص مقام پر دعا مغز عبادت ہوا کرتی ہے، تاہم مغزیات ایک جیسے نہیں ہوتے، اور نہ ہی سب دعائیں یکسان ہوتی ہیں، چنانچہ ہمیں ایک ایسی دعا کی شناخت اور طلب ازحد ضروری ہے، جو تمام دعاؤں کی سردار اور جملہ خیر خواہیوں کی روح کی حیثیت سے ہے، اور وہ پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم اور امامِ برحق علیہ السّلام کی بابرکت دعا ہے، اور اس میں اہلِ ایمان کو کُلّی یقین حاصل ہے کہ یہ پاک و پاکیزہ دعا بہت ہی جلد بارگاہِ ایزدی میں قبول ہوجاتی ہے۔

۳۔ حضرتِ نوح علیہ السّلام نے سب سے پہلے اپنے حق میں دعائے مغفرت کی، پھر اپنے والدین کے حق میں، پھر ہر اس مومن کے لئے، جو آپؑ کے خانۂ نورانیّت میں داخل ہوچکا تھا، اور آخر میں عام مومنین کے واسطے یہ دعا کی (۷۱: ۲۸) آپؑ نے اوّل ذاتی طور پر حضرتِ ربّ سے طلبِ بخشش کی، کیونکہ یہ دعا کرنے کیلئے باطنی طہارت تھی، پھر اپنے عظیم والدین اور ہر درجہ کے مومنین کے حق میں دعا بہت

 

۸۶

 

ضروری ہوئی، اس مثال سے پیغمبرانہ دعا کی اہمیت ظاہر ہوجاتی ہے۔

۴۔ پیغمبروں کی مبارک دعاؤں کی فضیلت کے بارے میں کسی مومن کو کیا شک ہوسکتا ہے، لیکن جس طرح حضرتِ محمد مصطفیٰ خاتمِ انبیاء، محبوبِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی شانِ رسالت بے مثال ہے، اسی طرح حضورِ انور و اطہرؐ کی دعائے پاک بھی نرالی ہے، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے: ۔۔۔ وَصَلِّ عَلَیْھَمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ (۰۹: ۱۰۳) اور ان کے واسطے دعائے خیر کرو کیونکہ تمہاری دعا ان لوگوں کے حق میں اطمینان (کا باعث) ہے (۰۹: ۱۰۳) یاد رہے کہ قرآنِ پاک کے موضوعات اور الفاظ میں حکیمانہ ربط و رشتہ پوشیدہ ہے، لہٰذا سَکَنٌ کا تعلقِ اوّلین لفظ سَکِیْنَۃ ٌسے ہے، جو قرآنِ کریم کے چھ مقامات پر موجود ہے، جس کا مفہوم ہے وہ جسمانی، روحانی، اور عقلانی سکون و اطمینان، جو ربِّ کریم کی طرف سے عطا ہوجاتا ہے، اور آپ کو یہ نکتۂ دلپذیر بھی یاد ہوکہ قرآنی الفاظ کے معانی سب کے سب قلمِ الٰہی (یعنی گوہرِ عقل) سے نازل ہوئے ہیں، اس لئے تمام تاویلات لوٹ کر مقامِ عقل پر مرکوز و مجموع ہوجاتی ہیں، پس آنحضرتؐ کی بابرکت دعا سے مومنین کو سکون (سَکَنٌ ۰۹: ۱۰۳) مل جانے کا اشارہ یہ ہے کہ اس کے حصول کا آخری درجہ گنجِ عقل ہے، جس میں انتہائی اعلیٰ مرتبت کی سکینت (تسکین) ہے، کیونکہ منزلِ آخرین (منزلِ مقصود) یہی ہے، جس میں مومن کو ساکن ہو جانا ہے۔

۵۔ حضورِ انور صلّی اللہ علیہ وآلہٖ سلّم کی ذاتِ عالی صفات تمام جہانوں اور سارے زمانوں کے لئے مرکزِ رحمت ہے (۲۱: ۱۰۷) اور دوسرے تمام انسانانِ کامل، یعنی انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام آپؐ کے نمائندے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ہر عالم خصوصاً عالمِ دین کو اس کے مرکز میں لپیٹ لیتا ہے، اور پھیلا دیتا ہے (۰۲: ۲۴۵؛ ۲۱: ۱۰۴)

 

۸۷

 

چنانچہ رحمتِ عالمؐ کی دعائے برکات جس طرح آپؐ سے قبل کے پیغمبروں کے توسط سے ملتی رہی تھی، اسی طرح بعد میں اماموں کے وسیلے سے ملتی آئی ہے، جیسے سورۂ انعام (۰۶: ۲۰) میں ارشاد ہوا ہے: جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے (یعنی اہلِ کتاب کے عرفاء) وہ تو جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اسی طرح اس نبی (محمد صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم) کوپہچانتے ہیں (۰۶: ۲۰) یہ امرِ واقعی زمانۂ موسیٰؑ اور زمانۂ عیسیٰؑ کے عارفوں سے متعلق ہے، جنھوں نے چشم باطن سے نور کو دیکھا اور پہچان لیا، اس مقام پر بڑی بڑی عنایات ہوا کرتی ہیں، من جملہ یہ کہ نور نے عارفین سے فرمایا: “میں تمہارا بیٹا ہوں، کیونکہ تم نے اپنے عالمِ شخصی میں مجھے جنم دیا، پس میں تمہارے لئے بیٹے کی طرح کام کروں گا۔” جب نورِ محمدیؐ تک عارفوں کی رسائی کا یہ عالم ہے، تو پھر انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے اس سے ہمیشہ واصل رہنے کی کیا شان ہوگی! اس روشن دلیل سے یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ امامِ زمانؑ کے توسط سے رسول اللہؐ کی دعائے برکات اہلِ ایمان کو حاصل ہوجاتی ہے، اور یہ انتہائی عظیم سعادت ہے۔

۶۔ آپ سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۶ تا ۲۵۱) میں حضرتِ طالوت علیہ السّلام (جو امام تھے) اور صندوقِ سکینت کا قصّہ حکمت کی روشنی میں پڑھ لیں، مگر اس میں یہ نکات خوب یاد رہیں کہ: بَعَثَ (اس نے زندہ کیا) میں انبعاث کا ذکرہے، یعنی حضرتِ طالوتؑ روحانی موت کے تمام مراحل سے گزر کر حقیقی معنوں میں زندہ ہوگئے تھے، جس طرح انسانِ کامل کے لئے اللہ کا قانون ہے، اور مَلِک (بادشاہ) امام کو کہا جاتا ہے،جو عقلِ کلّ کے علم اور نفسِ کلّ کے جسمِ لطیف سے کائنات پر محیط ہوا کرتے ہیں، جیسا کہ سورۂ یاسین (۳۶: ۱۲) میں ہے: وَکُلَّ شَیْ ئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) الغرض حضرتِ طالوتؑ کی ہدایات، تعلیمات، اور دعائے برکات سے خاص خاص

 

۸۸

 

مومنین کو صندوقِ سکینت حاصل آیا، جس میں اسرارِ الٰہی کے انمول جواہر بھرے ہوئے ہیں، اب ایسے میں کسی کو عقلی دولت کی ازلی و ابدی تسکین و اطمینان کیوں نہ ہو۔

۷۔ سورۂ قمر (۵۴: ۰۵) میں جس شانِ عالی سے قرآنی حکمت کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، اس کے محجوب (بھید) کشف ہوجانے سے آپ بیحد مسرور و شادمان ہوجائیں گے، وہ صرف دوہی لفظ ہیں: حِکْمَۃٌ بَالِغَۃٌ (حکمتِ بالغہ)، درجۂ انتہا کی حکمت، ایسی حکمت، جو ایک ساتھ ازل وابد کے تمام بھیدوں کو چھوتی رہتی ہے، کیونکہ لفظِ بالغہ (پہنچنے والی) بُلُوغ سے اسمِ فاعل ہے، اور اس حکمت کے پہنچنے کیلئے کوئی حد یا مقام چاہئے، جی ہاں، حد اور مقام ہے، اور وہ بہت سے ناموں اور مثالوں کے ساتھ ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ حکیم کی گہری دانائی کا نام حکمتِ بالغہ اس معنی میں ہے کہ یہ نہ صرف خود ہی گنجِ ازل تک پہنچنے والی ہے، بلکہ وہ اس انتہائی اعلیٰ مقام تک ہر ایسے مومن کی رہنمائی بھی کرتی رہتی ہے، جس کو حکمت عطا ہوئی ہو۔

۸۔ برکت یا برکات قرآنِ حکیم کا ایک ایسا حکمت آگین لفظ ہے، جس کے غیر محدود معنی میں ان لاتعداد و بے شمار عقلی، روحانی، اور مادّی نعمتوں کا ذکر ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوتیں، ہمیشہ ان کے سرچشمے مخلوقات کی طرف جاری و ساری رہتے ہیں، کیونکہ ہر ایسا سرچشمہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے عطا ہوتا ہے، مثال کے طور پر سورج کو لیجئے کہ اس انتہائی عظیم سرچشمۂ نور سے مادّی برکتوں کی کتنی بڑی طوفانی لہریں کائنات میں پھیلتی رہتی ہیں، یہ تو ہوا آفتابِ عالمِ جسمانی، اب اس خورشیدِ انور کی بات کیجئے، جو ہمیشہ عالمِ روحانی میں عقل و جان کی تابناک برکتیں بکھیرتا رہتا ہے، وہ نورِ ہدایت اور سراجِ علم و حکمت ہے۔

۹۔ اگر چہ نبوّت آنحضرتؐ پر آکر ختم ہوئی، لیکن خلافت و امامت کا سلسلہ

 

۸۹

 

جاری ہے، تاکہ نورِ ہدایت منشائے الٰہی کے مطابق ضروری امور کو انجام دیتا رہے، تاکہ دینِ حق میں کوئی تنگی (حرج ۲۲: ۷۸) نہ ہو، دشواری نہ ہو، آسانی ہو (۹۴: ۰۶) دینِ اسلام کی کمالیت اور نعمتِ خداوندی کی تمامیت میں کوئی کمی واقع نہ ہوجائے (۰۵: ۰۳) تسکین بخش دعائے برکات ملتی رہے (۰۹: ۱۰۳) اخذِ زکات اور علم و حکمت کے سکھانے سے مومنین کی روحانی اور عقلی پاکیزگی ہو (۰۹: ۱۰۳؛ ۰۲: ۱۲۹؛ ۰۲: ۱۵۱) بیعت لی جائے (۴۸: ۱۰) عبادت اسماءالحسنیٰ سے ہو (۰۷: ۱۸۰) تاکہ یہ نور قرآن سے وابستہ ہو اور معلّمِ روحانی و نورانی کا کام انجام دیتا رہے (۰۵: ۱۵) اور روزِ قیامت یہ عذرِ لنگ نہ ہوکہ رسولؐ کے بعد کوئی ہادی نہ تھا (۰۴: ۱۶۵)۔

۱۰۔ اللہ تعالیٰ مومنین پر دُرود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی (جس میں علم و رحمت کی برکتیں ہوتی ہیں) تاکہ ان کو جہالت و نادانی کی تاریکیوں سے نکال کر علم و حکمت کے نور میں لے جائے (۳۳: ۴۳) اس روشن ہدایت سے کسی شک کے بغیر درود کا اصل مقصد معلوم ہوا، اور وہ ہے عقل کے لئے علمِ الٰہی، اور روح کے لئے رحمتِ خداوندی، پس درود میں یہی دو معنی پوشیدہ ہیں، لیکن یہاں یہ سوال سامنے ہے کہ آیا یہ آسمانی درود رحمتِ عالمؐ کے تو سط سے بندوں پر نازل ہوجاتی ہے؟ یا براہِ راست؟ تو جواباً گزارش یوں ہے کہ جب ہم رسولِ اکرمؐ کی تعلیم کے مطابق کہا کرتے ہیں: اَللّٰھُمَّ صَلِّ علٰی محمّدٍ وّاٰلِ محمّدٍ، تو اس کا یہ مفہوم ہوتا ہے کہ: “یا اللہ! وہ درود، جس کا تو نے ذکر فرمایا ہے (۳۳: ۴۳) محمدؐ و آلِ محمدؐ کے وسیلے سے نازل فرما۔” چنانچہ پروردگارِ عالم اسی وسیلے سے اپنے بندوں پر درود نازل فرماتا ہے، یہی راز پیغمبر اکرمؐ اور امامِ زمانؑ کی دعائے برکات میں پنہان ہے، اور اسی معنی میں درود کی طرف پُرزور توجہ دلائی گئی ہے (یہاں زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے)۔

۹۰

 

۱۱۔ اسمِ اعظم ہی سے اللہ کو پکارنے کا حکم تو قرآنِ عزیز میں موجود ہے (۰۷: ۱۸۰) لیکن کیا معلوم کہ ہم اس پر حقیقی معنوں میں عمل کرسکتے ہیں یا نہیں، اس لئے کیا یہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت نہیں کہ اس کا زندہ اسمِ اعظم (امامِ زمانؑ) ہمارے حق میں دعائے خیر کرے؟ اس مثال سے (ان شاء اللہ) آپ بہت کچھ سمجھنے کے لئے کوشش کریں گے کہ مومنِ صادق کی سعادتِ دارین اسی میں ہے کہ وہ اپنے مولا و آقا کی خوشنودی اور دعائے برکات حاصل کرے، تاکہ اس سے خدا و رسولؐ کی رضا حاصل ہو۔

۱۲۔ خدا کے نزدیک سب سے عظیم شیٔ امرِکُنْ (ہوجا) ہے ، اور بندے کے پاس سب سے بڑی چیز دعا ہی ہے، امر اور دعا کے درمیان ایک عجیب و غریب قسم کا رشتہ پایا جاتا ہے، یہ رشتہ لفظ میں بھی ہے، معنی میں بھی، عشق میں بھی ہے، اور قبولیت میں بھی، اور اگر آپ کے حق میں اسمِ اعظم خود ہی دعا ئے برکات فرماتا ہے، تو پھر یہ رشتہ بدرجۂ انتہا مضبوط ہوجاتا ہے، پس اے مومنین! امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی دعائے برکات کی اہمیت و فضیلت کو قرآنِ پاک ہی کی روشنی میں دیکھنا اور سمجھ لینا ، تاکہ پروردگارِ عالم کے اس احسانِ عظیم پر آپ پگھلتے ہوئے شکر کرسکیں کہ اس مہربان نے آپ کو ظلِ امامت میں رکھا، کائناتِ ظاہر و باطن خصوصاً سورج (یعنی امامؑ ۴۵: ۱۳) کو آپ کے کام میں لگا دیا، اور سب کچھ عطا کردیا (۱۴: ۳۴؛ ۱۳: ۲۰؛ ۱۵: ۲۱) الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی

بدھ یکم ربیع ا لثانی ۱۴۱۰ھ

یکم نومبر ۱۹۸۹ء

 

۹۱

 

امامِ عالیمقامؑ کے چند قرآنی نام

قسط: ۱

 

۱۔ امام المتّقین (۲۵: ۷۴): اور وہ لوگ جو ہم سے عرض کیا کرتے ہیں کہ پروردگارا ہمیں ہماری بیویوں سے اور ذرّیت کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیزگاروں کا پیشوا (امام ۲۵: ۷۴) بنا۔ یہ دعا حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام ہی کے لئے مخصوص ہے، اور اس میں بزبانِ حکمت یہ فرمایا گیا ہے کہ سلسلۂ امامت زمانۂ آدمؑ سے شروع ہوا، اور قیامتِ قیامات تک جاری و باقی رہے گا، کیونکہ جب سے دین ہے، تب سے پرہیزگاروں کی بات چلتی ہے، قصّۂ ہابیلؑ کو پڑھ لیں (۰۵: ۲۷) اور یہاں یہ اشارہ بھی سمجھ لینا ہے کہ لفظِ ذرّیت کا تعلق نہ صرف مستقبل ہی سے ہے، بلکہ اس میں یہ ذکر بھی ہے کہ حال کاامام کس طرح ماضی میں بھی امام ہوا کرتا ہے، پس یہی وجہ ہے، جو آیۂ اِصطفاء (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) میں ارشاد ہوا کہ انبیاء علیہم السّلام ایک دوسرے کی ذرّیت ہوا کرتے ہیں، مثال ملاحظہ ہو:

 

۲۔ اہلِ ذکر(۱۶: ۴۳): ذکر سے حضرتِ رسولؐ مراد ہیں (۶۵: ۱۰ تا ۱۱) ذکر قرآنِ پاک بھی ہے (۱۵: ۰۹) ذکر اسمِ اعظم بھی ہے (۰۷: ۱۸۰) ذکر نصیحت بھی ہے، اور یاد کرنا بھی، چنانچہ اہلِ ذکر سے أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہی مراد ہیں، جواہلِ بیتِ رسول

 

۹۲

 

صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم ہیں جن کے پاس قرآن کی روحانیّت اور اسمِ اکبر پوشیدہ ہے، اور یہی حضرات لوگوں کیلئے سرچشمۂ ہدایت و نصیحت اور یاد و تذکرہ کا وسیلہ ہیں، پس انہی تمام معنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: (اے رسولؐ) تم سے پہلے مردوں ہی کو پیغمبر بنا بنا کر بھیجا کئے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے تو (تم لوگوں سے کہو) اگر تم خود نہیں جانتے ہو تو اہلِ ذکر (اہلِ بیتِ رسولؐ /امامؑ) سے پوچھو (کیونکہ یہ حضرات شروع ہی سے اپنی نورانیّت میں نورِ نبوّت سے وابستہ رہتے آئے ہیں) اور عالمِ شخصی میں ہر عارف کے لئے معرفت کا ذریعہ تجدّدِ امثال ہے۔

 

۳۔ نفسِ رسولؐ (۰۳: ۶۱): آپ واقعۂ مباہلہ کے بارے میں درست معلومات رکھتے ہوں گے، چنانچہ نفسِ رسولؐ سے مولا علیؑ مراد ہیں، آپ اس آیۂ مکرمہ میں دیکھ رہے ہیں کہ علیؑ پیغمبرؐ کی جان ہیں، کیونکہ “نفس” عربی میں جان کو کہتے ہیں، لیکن یہاں یہ پُرمغز نکتہ بھی سامنے آیا ہے کہ جب آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم سراپا نور تھے، تو پھر کس طرح کوئی عام و معمولی شخصیّت حضورؐ کی جان ہوسکتی تھی، جبکہ اس کا اشارہ محبوبیّت و وحدت کی طرف ہے، چنانچہ یہاں “نفس” نور کے معنی میں ہے، جیسے کہا جاتا ہے: نفسِ مطمئنہ، نفسِ واحدہ، نفسِ کلّی، وغیرہ، یہ نور ہی ہوتا ہے، پس یہاں نورِ نبوّت اور نورِ امامت کی وحدت کا اشارہ ہے۔

 

۴۔ اصحابِ اعراف (۰۷: ۴۶): اعراف اس مقامِ عالی کا نام ہے، جہاں معرفتیں جمع ہوجاتی ہیں، یہ عالمِ شخصی میں امامِ برحق علیہ السّلام کا مرتبۂ عقلی ہے، جہاں وہ سب کو چہروں سے پہچانتے ہیں، اشارہ ہے کہ ہر قسم کی معرفت کا تعلق چہرے سے ہے، اور انتہائی اعلیٰ معرفت کا تعلق بھی۔

 

۹۳

 

۵۔ یوم الآخر (۰۲: ۰۴): چھ ناطق جو صاحبانِ شریعت ہیں، خدا کے چھ دن ہیں، اور حضرتِ قائم ع س ساتواں دن یعنی سنیچر ہے، جو یوم الآخر ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: الٓمّٓ (نورِ امامت، جوکتابِ ناطق ہے ۲۳: ۶۲) وہ ایسی کتاب ہے کہ اس میں شک نہیں (یقین ہی یقین ہے) وہ پرہیزگاروں کی رہنما ہے، جو مشاہدۂ روحانیّت سے عالمِ روحانی پر ایمان لاتے ہیں، اور نماز کو قائم کرتے ہیں (یعنی دعوتِ حق کا کام انجام دیتے ہیں) اور جو کچھ ہم نے ان کو رزق دیا ہے، اسی سے خرچ کرتے ہیں (یعنی وہ روحانی علم کی تعلیم دیتے ہیں) یہ وہ لوگ ہیں جو (دیدہ و دانستہ) اس چیز پر ایمان لاتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی ہے، اور اس چیز پر بھی جو تم سے پہلے نازل کی گئی ہے، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں، یعنی ان کو حضرتِ قائم ع س کی روحانی اور عقلی معرفت حاصل ہوئی ہے، اور اسی کی بدولت یہ سب کچھ ہے، جس کا اوپر ذکر ہوا، یاد رہے کہ یقین کا سرچشمہ حضرتِ قائم القیامت علینا سلامہ ہیں، اسی لئے ارشاد ہوا: وَبِالْاٰ خِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (۰۲: ۰۴) پس یہاں یہ قاعدہ خوب دلنشین کرلینا ہے کہ قرآنِ حکیم میں جتنے قیامت کے نام آئے ہیں، وہ حضرتِ قائم ع س کے اسما والقاب ہیں۔

 

۶۔ کوثر (۱۰۸: ۰۱): کوثر کے معنی ہیں خیرِ کثیر اور مردِ کثیر الذرّیہ، جس سے حضرتِ امیر المومنین علیؑ مراد ہیں، حوضِ آبِ کوثر بھی بصورتِ قائم القیامت مولاعلیؑ ہیں، اور آبِ کوثر کے ساقی بھی، کوثر کتابِ مکنون کا علم ہے، یہ سب حکمت اور خیرِ کثیر ہے۔

 

۷۔ مؤمنون (۰۹: ۱۰۵): ایمان کے شروع سے لے کر آخر تک مختلف درجات ہوا کرتے ہیں، چنانچہ ہر امیر المومنین (امامؑ) ایمان کے درجۂ کمال پر

 

۹۴

 

ہوتا ہے، اور اسی معنی میں أئمّۂ طاہرینؑ کا ایک لقب مومنون ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے: اور (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ تم لوگ اپنے اپنے کام کئے جاؤ ابھی توخدا اور اس کا رسولؐ اورمومنین (یعنی أئمّہ) تمہارے کاموں کودیکھیں گے (۰۹: ۱۰۵) اس حکم سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ اللہ اور پیغمبرؐ کے بعد حضراتِ أئمّہ اعمالِ خلائق کو دیکھ رہے ہیں، اس لئے کہ خدا نے ان کو لوگوں پر گواہ بنایا ہے (۱۱: ۱۷؛ ۵۰: ۲۱) اور یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن اہلِ زمانہ کو ان کے امام کے ساتھ بلایا جائے گا (۱۷: ۷۱)۔

 

۸۔ شاہد (۱۱: ۱۷) شہید (۵۰: ۲۱) شُہداء (۰۲: ۱۴۳): جہاں خدائے پاک خود اور فرشتے توحید اورمعبودیت کی گواہی دیتے ہیں، وہاں علم والے (اولوا العلم ۰۳: ۱۸) بھی یہ شہادت دیتے ہیں، یہ علم والے کون ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بعد فرشتۂ قلم، فرشتۂ لوح، حاملانِ عرش، عزرائیل، اسرافیل، میکائیل، اور جبرائیل جیسے عظیم فرشتوں کے ساتھ ایسی عقلی و عرفانی بلندی کی گواہی دیتے ہیں؟ کیا دیکھے اور پہچانے بغیر کوئی گواہی درست ہوسکتی ہے؟ نہیں نہیں، یہ حضرات جو علمِ توحید اور خدا شناسی کی چوٹی پر پہنچ چکے ہیں، انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہیں، جو عدل وانصاف پر قائم ہیں (۰۳: ۱۸)۔

 

۹۔ وارِثِ قرآن (۳۵: ۳۲): سورۂ فاطر میں فرمایا گیا ہے: پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے خاص ان کو کتاب (قرآن ) کا وارث بنایا جنھیں (اہلیت دے کر) منتخب کیا تھا (۳۵: ۳۲) یہ حضراتِ أئمّۂ ہدا علیہم السّلام ہی ہیں، جو قرآنِ حکیم کے خازن ہیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ قرآنِ مجید کی روح و روحانیّت

 

۹۵

 

(۰۵: ۱۵) اور نور و نورانیت (۴۲: ۵۲) امامِ زمان صلوات اللہ علیہ میں ہے، اور اسی معنیٰ میں آپؑ قرآنِ ناطق ہیں (۴۵: ۲۹) الحمد للہ۔

 

۱۰۔ اُمّ الکتاب، کتاب (۴۳: ۰۴؛ ۷۸: ۲۹): اُمّ الکتاب سے اساس مراد ہیں اور کتاب امام ہیں، کیونکہ نورِ محمد مصطفیؐ قلم ہیں، اور نورِعلی مرتضیٰؑ لوحِ محفوظ، اور یہی اُمّ الکتاب بھی ہے، پس قرآن جہاں اس زندہ اور نورانی اُمّ الکتاب میں ہے، وہاں وہ بڑا عالی اور پُرازحکمت ہے (۴۳: ۰۴) اور اسی لوحِ محفوظ میں قرآنِ مجید محفوظ ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) چونکہ حضرتِ علیؑ کے بعد کا ہر امام بھی یہی نور ہے، اس لئے فرمایا گیا: وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ کِتٰباً (۷۸: ۲۹) اور ہم نے ہر چیز کو ایک کتاب میں محدود کر رکھا ہے، یہ اشارہ ہے خدا کے اس فعل کی طرف، جس سے وہ قادرِ مطلق پوری کائنات کو اپنے ہاتھ میں لپیٹ لیتا ہے، اور یہ کام اللہ تعالیٰ امامِ زمان علیہ السّلام کی مبارک ہستی میں کرتا ہے، اسی لئے ارشاد ہوا: وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲)۔

 

۱۱۔ مثیلِ ہارونؑ (۲۰: ۲۹ تا ۳۴): قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلّم لِعلی: اَنتَ مِنّی بمنزلۃ ھَارُون مِنْ موسٰی(اخرجہ المسلم وغیرہ)جناب رسالت ماب صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے جنابِ امیرؑ سے ارشاد فرمایا کہ تم مجھ سے بمنزلۂ ہارون کے ہو موسیٰ سے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرتِ امیر المومنین علیؑ مثیلِ ہارونؑ ہیں، اور حضرتِ ہارون علیہ السّلام کے جوجوفضائل قرآن میں بیان ہوئے ہیں، وہ سب کے سب بجز نبوّت کے مولا علی علیہ السّلام میں بھی ہیں، یہ حدیثِ شریف بطریقِ حکمت قصّہ ہارونؑ کی تمام حکمتوں کو موضوعِ امامت میں شامل کردیتی

 

۹۶

 

ہے، یقیناً اس لئے کہ مولانا ہارون علیہ السّلام امامِ اساس تھے، جیسے مولا علی صلوات اللہ علیہ امامِ اساس ہیں۔

 

۱۲۔ بابِ حطّہ(۰۲: ۵۸): کوکبِ دُرّی، ارجح المطالب، وغیرہ میں مذکور ہے کہ حضرتِ رسولِ خداؐ نے فرمایا: عَلِیٌّ بابُ حِطَّۃٍ۔۔۔ علیؑ توبہ اور استغفار کا دروازہ ہے۔۔۔۔ یہاں میں بصد عاجزی یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن و حدیث کا قانونِ حکمت ایسا ہے کہ ہر ممثول کی کئی مثالیں ہوا کرتی ہیں، جیسے مولاعلیؑ کی بے شمار مثالوں میں سے ایک مثال دروازہ ہے، یعنی بابِ علمِ نبیؐ، بابِ حکمتِ پیغمبرؐ، دروازۂ توبہ، بابِ سماء (۰۷: ۴۰) درِبہشت، وغیرہ۔

 

۱۳۔ مَلِک (بادشاہ ۰۲: ۲۴۷): آپ قرآنِ حکیم میں قصّۂ طالوتؑ (۰۲: ۲۴۶ تا ۲۵۱) کو گہرائی سے پڑھ لیں، پھر ان مسائل کو حل کریں:

مسئلہ الف: بنی اسرائیل کے یہ سردار دینی تھے؟ یا دنیوی؟

مسئلہ ب: ان سرداروں نے خود ہی جہاد کا اہتمام کیوں نہیں کیا؟

مسئلہ ج: ان کی درخواست پر خدا اور پیغمبر نے جب طالوتؑ کو بادشاہ بنایا، تو اسے کوئی بڑی سے بڑی طاقتِ روحانی بھی عطا کی گئی؟ یا نہیں؟

مسئلہ د: جو شخص اللہ تعالیٰ اور نبی کی طرف سے بادشاہ مقرر ہوا ہو، وہ دینی بادشاہ کہلائے گا؟ یا دنیوی؟

مسئلہ ھ: اگر دین میں ایسے بادشاہ کی ضرورت ہے کہ اس کو صرف خدا اور پیغمبر ہی منتخب کرسکتے ہیں، تو پھر زمانۂ نبوّت میں ایسا پسندیدہ شخص کون تھا؟ جسے اللہ اور اس کے رسولؐ نے بادشاہت دی ہو؟ جوابِ جامع: علیؑ۔

 

۹۷

 

مسئلہ و: اس حقیقت پر قرآن کی کیا دلیل ہے؟ جواب ملاحظہ ہو:

دلیلِ اوّل: اللہ تعالیٰ نے آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کو دوسری بڑی بڑی نعمتوں کے ساتھ عظیم سلطنت بھی عطا کردی ہے، جب تک دنیا میں قرآن باقی ہے، تب تک یہ بادشاہی (۰۴: ۵۴) جاری ہے۔

دلیلِ دوم: دنیا ہو یا دین، حکم اور امر سے کوئی بڑی چیز نہیں، کیونکہ ہر بادشاہی اور حکومت کا قیام اسی پر ہے، چنانچہ پروردگارِ عالم اور رسولِ اکرمؐ نے پاک اماموں کو اولواالامر کا درجہ عطا کرکے لوگوں پر پادشاہ بنا دیا (۰۴: ۵۹) تاکہ لوگ حقیقی اطاعت و محبت کے ذریعہ ان میں فنا ہوکر پادشاہ ہوسکیں، جس کا وعدہ قرآن و حدیث میں موجود ہے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی

منگل۷؍ ربیع الثّانی۱۴۱۰ھ

۷؍نومبر۱۹۸۹ء

 

۹۸

 

اصحابِ کہف کی عظیم حکمتیں

 

۱۔ اہلِ ایمان ہمیشہ اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ قرآنی قصّے دنیا کے قصّوں سے قطعاً مختلف اور الگ ہیں، کیونکہ قرآنِ پاک کی ہرآیت علم و حکمت اور باطنی تاویل کے گرانمایہ موتیوں سے لبریز ہے، لہٰذا ہوشمند مومنین کا اوّلین فرض یہ ہے کہ وہ بقدرِ امکان قرآنِ حکیم کے قصّوں کی تاویلی حکمتوں کے لئے ساعی رہیں، تاکہ نورِ قرآن اور روحِ اسلام کی معرفت حاصل ہو۔

 

۲۔ اصحابِ کہف (۱۸: ۰۹): صاحبانِ تقیہ اور اہلِ باطن، جو اسمِ اعظم اور مخفی عبادت سے منسلک ہوا کرتے ہیں، ان حضرات کی راہِ روحانیّت میں تین غار واقع ہیں:

اوّل: غارِ طریقت

دوم: غارِ حقیقت

سوم: غارِ معرفت

 

یہ مراحل علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین بھی کہلاتے ہیں، چنانچہ ہر قسم کی فرمانبرداری اور یقینی علم سے آراستہ ہوکر حلقۂ کارِ بزرگ میں شامل ہوجانا گویا غارِ اوّل میں چھپ جانا ہے، اگر اس سلسلے میں کسی خوش بخت مومن پر روحانیّت کا دروازہ کھل جاتا ہے، تو وہ یقیناً دوسرے غار میں داخل ہوجاتا ہے، اور تیسرا غار انتہائی بلندی پر ہونے کی وجہ سے بہت مشکل ہے، کیونکہ وہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا غار ہے، تاہم

 

۹۹

 

ناممکن نہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے نورِ ہدایت موجود ہے، غارِ سوم کہفِ عقلانیّت ہے (یعنی د ۔ م) پس حقیقی معنوں میں اصحابِ کہف وہ حضرات ہیں،جو غارِ عقل میں پوشیدہ ہیں ، آپ سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں وَجَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَکْنَانًا کو دیکھ لیں، جس میں عوالمِ شخصی کے عقلی غاروں کا اشارہ ہے۔

 

۳۔ رقیم (۱۸: ۰۹) کیا ہے؟: رقیم کے لفظی معنی ہیں: نوشتہ، کتبہ، یہاں اس سے وہ روحانی تحریر مراد ہے، جو مشاہداتِ باطن اور روحانیّت کے عجائب و غرائب کے سلسلے میں سامنے آتی ہے، یہ رقیم منازلِ روح میں بھی ہے، اور مراحلِ عقل میں بھی، اور دنیائے عقل میں جو کوہِ قاف ہے، جو قرطاسِ نور کی طرح صاف و شفاف ہے، اس پر رقیم ایسے نورانی الفاظ میں ہے کہ ہر لفظ کے آخر میں ق (قاف) موجود ہے، شاید اس مقام کا نام اسی وجہ سے کوہِ قاف ہوا ہو، یہاں یہ بات بھی خاطر نشین کرلیں کہ سب سے اعلیٰ رقیم کلمۂ باری ہی ہے، کیونکہ اصحابِ کہف اور رقیم آیاتِ قدرت و حکمت میں سے ہیں۔

 

۴۔ چند جوانوں کا غار میں جا بیٹھنا (۱۸: ۱۰): ایسے باصلاحیت اور عالی ہمت مومنین کا باذنِ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ خصوصی عبادت، ذکر ، اور روحانیّت کی طرف رجوع کرنا ، جو نہ صرف جسمانی طور پر جوان ہوچکے ہیں، بلکہ بندگی اور دینی شعور کے اعتبار سے بھی ان کا عنفوانِ شباب ہے، کیونکہ روحانیّت کا کوئی وجود ہی نہیں بنتا، اِلاّنفسِ جوانی کی خواہشات کو کچل دینے سے، اور یہی سبب ہے کہ بقولِ قرآن کامل انسانوں کو جوانی ہی میں روحانی اور عقلی دولت سے مالا مال کیا جاتا ہے۔

 

۱۰۰

 

۵۔ رحمتِ لَدُنی اور رُشد و ہدایت کی درخواست (۱۸: ۱۰): انھوں نے رحمتِ لدنّی (وہ ربّانی رحمت جو خاص ہے) کیلئے دعا کی، اور رشد و ہدایت کے طلب گار ہوئے، تاکہ دین و دنیا کی کامیابی حاصل ہو، اس دعا کی حکمت سے ظاہر ہے کہ اصحابِ کہف کو لوگوں کے ساتھ رہنا ہے، اور میدانِ آزمائش سے بھاگ کر کہیں ہمیشہ کے لئے چھپ جانا مقصود نہیں۔

 

۶۔ کانوں پر ضرب لگ جانا (۱۸: ۱۱): اس کا مطلب ہے: ذکر و عبادت میں معجزانہ یکسوئی، وسوسے کا خاتمہ، اور قیامت خیز روحانی ترقی کا آغاز، جس میں عالمِ خواب کی طرح دنیا سے بے خبری اور لا تعلقی پائی جاتی ہے، کیونکہ صورِ اسرافیل میں ایک طرف شدت کی غایت ہے، اور دوسری طرف شیرینی کی انتہا، تو ایسے میں یہ حالت ایک نیند جیسی ہے، جس میں آدمی دنیائے ظاہر سے کسی حد تک یا بڑی حد تک منقطع ہوجاتا ہے، تاکہ محویّت و فنائیّت حاصل ہو۔

 

۷۔ خدا نے ان کو زندہ کیا (۱۸: ۱۲): (ثُمَّ بَعَثْنٰھُمْ) پھر ہم نے ان کو زندہ کیا، یہ منزلِ عزرائیلی کا تذکرہ ہے، جس میں جیتے جی قبضِ روح پھر حیاتِ نو کا معجزہ ہے، تاکہ یہ واضح ہو کہ اہلِ ظاہر اوراہلِ تائید کے دوگروہ میں سے کون ایسا ہے جو ان کے غار میں ٹھہر جانے کی مدت کا درست اندازہ کرسکتا ہو، اشارہ یہ ہے کہ اس مقام پر وقت کم سے کم بھی ہوسکتا ہے، اور زیادہ سے زیادہ بھی، کیونکہ روحانیّت میں دستِ قدرت زمانے کو جتنا چاہے لپیٹ سکتا ہے، اور جیسے چاہے پھیلا سکتا ہے، اور خدا بے شمار چیزوں کو کسی چھوٹے عدد میں بھی گھیر سکتا ہے۔

 

۱۰۱

 

۸۔ مرتبۂ حق الیقین (۱۸: ۱۳): یہ قصّہ روحانیّت کی انتہائی بلندی تک پہنچ جاتا ہے، جہاں حق الیقین ہے، کہ غار والے جوانی ہی میں ایمان اور ہدایت کی دولت سے مالا مال ہوگئے تھے، اور جب ان کی ذاتی قیامت برپا ہورہی تھی (اِذْقَامُوْا ۱۸: ۱۴) تو خدا نے ان کو صبر و ثبات عطا فرمایا، کیونکہ یہ آزمائش کوئی آسان واقعہ ہے نہیں، پھر ان کو توحید و معرفت کے اسرار کا علم ہوا (۱۸: ۱۴) اب وہ غارِ روحانیّت سے غارِ عقلانیّت میں منتقل ہوگئے، جہاں وہ اپنے ربّ سے کل کائنات کی حد تک وسیع رحمت (یعنی نفسِ کل کے دیدار اور سماعتِ امر) کی لازوال عنایت حاصل کرسکتے تھے (۱۸: ۱۶) یعنی ایک ذاتی کائنات اور اس کی بادشاہی مطلوب تھی۔

 

۹۔ منزلِ مقصود اور آفتابِ عقل کا طلوع (۱۸: ۱۷): اے سالک تو خورشیدِ عقل کو دیکھتا ہے کہ جب طلوع ہوجائے تو ان کے غار سے داہنی طرف جھک کے نکل جاتا ہے اور جب غروب ہو جاتا ہے تو ان سے بائیں طرف کترا جاتا ہے اور وہ لوگ غار کے اندر ایک وسیع جگہ میں ہیں (۱۸: ۱۷) آپ اس حکمت کو سمجھنے کے لئے سورۂ حدید (۵۷: ۱۲) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۸) میں تذکرۂ نورِ مومنین کو بھی دیکھ لیں، اور یہ امر ضروری ہے، چنانچہ غار والے مکان و زمان کی بے پناہ مسافتوں سے بالا تر ہو کر لامکان و لازمان ہوگئے، اس حال میں اسرارِ ازل و ابد کا یکجا مطالعہ ہوا، تاہم اس پر غور و فکر کا عمل ایک طویل سلسلہ تھا۔

 

۱۰۔ صبحِ ازل اور شامِ ابد (۱۸: ۱۷): جب غارِ عقل والوں پر سورج (نورالانوار) طلوع ہوا، تو یہ صبحِ ازل تھی، اور جیسے ہی غروب ہوا ، تو شامِ ابد

 

۱۰۲

 

ہوئی، اسی طرح وہاں لاتعداد ازلیں اور ابدیں دیکھنے میں آئیں، پس ازل الآزال اور ابد الآباد کہیں بھی نظر نہیں آتی تھیں، شاید یہ دونوں لفظ لا ابتدائی اور لا انتہائی کے معنی میں تھے، اس مقام پر طلوع و غروب کے بہت سے اشارے ہیں، مثال کے طور پر نقشِ ذیل کو دیکھیں:

تجدّدِ ازل

طلوع غروب طلوع غروب
ازل ابد تنزیل تاویل
عقلِ کل نفسِ کل قلم لوح
ناطق اساس خلق امر
روز شب عرش کرسی
اوّل آخر آدم حوّا
ظاہر باطن آسمان زمین
نور ظلمت فتق (۲۱: ۳۰) رتق (۲۱: ۳۰)
بقا فنا کل شی (۳۶: ۱۲) احصا (۳۶: ۱۲)
کتاب حکمت یدُاللہ وجہُ اللہ
کثرت وحدت بسط قبض

 

۱۱۔ دنیا خواب ہے اور آخرت بیداری (۱۸: ۱۸): اے سالک تو ان کو بیدار سمجھتا ہے حالانکہ وہ خوابیدہ ہیں، یعنی آئندہ شعور کے مقابلے میں

 

۱۰۳

 

موجودہ شعور خواب کی طرح ہے، خدا ان کو کبھی ظاہر (یمین) کی طرف اور کبھی باطن (شمال) کی طرف پھیرتا رہتا ہے، اور ان کا کتا اپنے آگے کے دونوں پاؤں پھیلائے چوکھٹ پر بیٹھا ہے (یعنی وہ شخص جو غار والوں سے وابستہ ہوا تھا۔۔۔۔) اے سالک اگر تو غارِ عقل یا غارِ روح میں جھانک کر ان کو دیکھے تو اُلٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہو اور تیری پوری ہستی میں ان کا رعب چھا جائے (۱۸: ۱۸) کیونکہ بتقا ضائے حکمت روحانیت کا ایک پہلو خوف کا ہے اور دوسرا امن کا۔

 

۱۲۔ غارِ عقل میں انبعاث (۱۸: ۱۹): اب ان کا عقلی اور عرفانی انبعاث ہوجاتا ہے، اور وہ حقیقی معنوں میں زندہ ہوجاتے ہیں، تاکہ انھیں ہر گونہ معرفت حاصل ہو، اور ان کے آپس میں سوال و جواب ہوا کرے۔۔۔۔انھوں نے اپنے ایک ساتھی کو سکۂ علمِ روحانی (وَرِق) کے ساتھ شہر کی طرف بھیجا، تاکہ وہ جاکر دیکھے کہ کونسا شخص یا اشخاص اس علم کی پذیرائی کے لئے پاک فطرت ہیں ( اَزْکٰی طَعَاماً) ساتھ ہی ساتھ انھیں یہ اندیشہ بھی تھا کہ کہیں راز فاش نہ ہوجائے، کیونکہ اگر لوگوں کو دعوتِ حق کا پتا چلا، تو حسد و دشمنی سے مسائل کی سنگ باری کریں گے یا اپنا ہی نظریہ مسلّط کردیں گے (۱۸: ۲۰) تاہم اس بھید کے ظاہر ہونے میں بھی عظیم حکمت تھی، وہ یہ کہ غاروالوں میں قیامت کی مثال موجود ہے، پس جو لوگ اصحابِ کہف کی عظمت و بزرگی کے قائل ہوگئے، ان کے درمیان یہ بحث ہونے لگی، کہ غار پر بطورِ یادگار کوئی عام عمارت بنائیں؟ یا مسجد؟ یہ اشارہ ہے کہ ان کو کس درجے میں مانیں؟ ذیلی حدود؟ یا امام؟ لیکن زیادہ زور اور وزن اُن دلائل میں تھا، جو اس قصّے کی اصلیت و روحانیّت امامِ عالیمقامؑ سے متعلق ہونے کے بارے میں تھے، لہٰذا یہ مانا گیا کہ اس حکایت میں بھی

 

۱۰۴

 

امامؑ ہی کے اسرار پوشیدہ ہیں، جس طرح قصّۂ ذوالقرنین میں امام ہی کا تذکرہ ہے، پس مسجد امام علیہ السّلام کی مثال ہے، کیونکہ آپ خدا کا گھر ہیں۔

 

۱۳۔ غار والے کتنے تھے (۱۸: ۲۲)؟: اصحابِ کہف کی وہی تعداد بالکل درست ہے، جو رَجْماً بِالْغَیْبِ کے بعد ہے، یعنی وہ سات ہیں، اور ان کا آٹھواں کتا ہے، یہ امامِ وقتؑ کے سات باطنی درجات ہیں، جو روحانیّت کے سات آسمان ہیں، اور سگِ اصحابِ کہف ہر وہ مومن ہے، جو امامِ برحق کی پیروی، محبت، خدمت، اور وفاداری میں طرح طرح کی ذلتیں برداشت کرتا ہے، اور ہمیشہ درِاقدس سے وابستہ رہتا ہے، تاآنکہ یہ کتا بحکمِ قرآن اپنے آقا میں فنا ہوکر خود کو اصل سے واصل پاتا ہے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی

۱۲؍ربیع الثّانی۱۴۱۰ھ

اتوار ۱۲؍نومبر۱۹۸۹ء

 

۱۰۵

 

معرفتِ آیات و معجزات

 

۱۔ انسان کا روحانی عروج و ارتقا (۹۵: ۰۴ تا ۰۵): سورۂ تین (۹۵: ۰۱ تا ۰۸) کی دعوتِ فکریہ ہے کہ ہر دانشمند اس بات پرغور کرے کہ انسان کی روحانی اور عقلی ترقی کا درجۂ کمال کیا ہے؟ یعنی آدمی مراحلِ ارتقاء کے سفر میں بالآخر کس بلندی کو چھو سکتا ہے؟ اور اگر اس کو پھیر دیا جاتا ہے، تو کس پستی تک ؟ چنانچہ ترجمہ و تفسیر کو دیکھنے کے بعد تاویلی حکمت بھی ملاحظہ ہو: قَسم ہے عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اور اساس کی (وجہِ دین، گفتار نمبر ۱۱) کہ ہم نے انسان کو بہترین تقویم پر پیدا کیا (تقویم: سیدھا کرنا، قائم کرنا، بلند کرنا) یعنی اسے انتہائی عروج کا درجہ دیا، پھر ہم نے اسے پست ترین حالت میں پھیر دیا، مگر جو لوگ کما حقہ ایمان لائے اور حقیقی معنوں میں اچھے کام کرتے رہے ان کے لئے تو کبھی ختم نہ ہونے والا اجر و ثواب ہے (۹۵: ۰۱ تا ۰۶) خدائے بزرگ و برتر کی اس پُرحکمت قَسم کا ایک بڑا مقصد بھی ہے، اور ایک خاص مناسبت بھی، مقصد امکانی عروج و ارتقا کی طرف بھر پور توجہ دلانا ہے، اور مناسبت یہ ہے کہ روحانی اور عقلی ترقی کا انحصار چار اصل کی معرفت پر ہے، اور وہ عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اور اساس ہیں۔

 

۲۔ معرفت کا روشن ثبوت (۲۷: ۹۳): سورۂ نمل بھی روحانی اور قرآنی عجائب و غرائب کی ایک کائنات ہے، وہ اپنی تمام آیات میں پھیلی ہوئی ہے، مگر آخری آیت میں بطورِ خلاصہ ولُبِّ لُباب لپیٹی ہوئی ہے، وہ ارشادیہ ہے: اور تم کہہ

 

۱۰۶

 

دوکہ الحمد للہ وہ عنقریب تمھیں اپنی آیات (معجزات) دکھا دے گا تو تم انھیں پہچان لوگے اور جو کچھ تم کرتے ہو تمہارا پروردگار اس سے غافل نہیں ہے (۲۷: ۹۳) سب سے بلند ترین آیات عالمِ علوی میں ہیں، جیسے کلمۂ باری (کُنْ = ہوجا) قلم، لوح، عرش، کرسی ، وغیرہ، لیکن مشاہدہ اور معرفت سے کسی عظیم چیز کو مستثنا رکھے بغیر خدائی حکم ہوا کہ تم نیک عمل کرتے رہو جیسا کہ چاہئے، ہم تمھیں آفاق وانفس میں اپنی آیات دکھاتے رہیں گے، یہاں تک کہ تم کو حق الیقین کی معرفت حاصل ہو (۴۱: ۵۳)۔

 

۳۔ کلمۂ “کن” کی معرفت: آیاتِ کُبریٰ میں سب سے پہلے امرِکُلّ ہے، یعنی فرمانِ الٰہی، جوکُنْ سے عبارت ہے، یہ اصل کلمہ کے بے شمار مفہومات میں سے ایک مفہوم ہے، چونکہ زبانوں کا اختلاف بھی آیاتِ قدرت میں سے ہے (۳۰: ۲۲) لہٰذا یہ کہنا حقیقت ہے کہ ہر زبان میں بحدِّ فعل یا بحدِّ قوّت کلمۂ کُنْ موجود ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب کبھی اللہ نے کوئی پیغمبر بھیجا تو خدا اس سے اس کی قوم کی زبان میں باتیں کرتا تھا (۱۴: ۰۴) اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا بدرجۂ اعلیٰ کلام کرنا کلمۂ “امر” میں ہے، پس اس سے ظاہر ہوا کہ کلمۂ کُنۡ اور اس کی ترجمانی ہر زبان میں ہے، کیونکہ وہی تمام الفاظ و معانی کا سرچشمہ اور مرکز ہے، جس طرح ہمیشہ سنت الٰہی یہی رہی ہے کہ ایک آدم کی پشت سے سارے آدمی دنیا میں پھیل جاتے ہیں، اور پھر دوسرے آدم میں ملفوف و مجموع ہوجاتے ہیں، اسی طرح عالمِ شخصی کے تجدّدِ امثال میں ساری باتیں کُنْ سے منتشر ہوجاتی ہیں، اورکُنْ ہی میں سمٹ جاتی ہیں ۔

 

۴۔ فرشتۂ عقل کی معرفت: عقلِ کُل عظیم فرشتہ ہے، یہی قلمِ قدرت اور نورِ ازل بھی ہے، یہی وہ خورشیدِ انور ہے، جس کو انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اپنی پیکرِ نورانی

 

۱۰۷

 

سے طلوع و غروب ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، جس میں عالمِ عقلانی کی تعمیر و ترقی کا راز مضمر ہے، اگر آپ ظاہری سورج کے چھوٹے بڑے کائناتی فیوض و فوائد کو شمار کرنا چاہیں تو یہ کام ممکن ہی نہیں، پھر شمسِ عقل کی برکتوں سے جتنی نعمتیں وجود میں آتی ہیں، ان کو کون گن سکتا ہے، تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ کائناتیں تین ہیں: کائناتِ ظاہر، کائناتِ روحانی، اور کائناتِ عقلانی، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ حکیم میں سب سے پہلے عقلی چیزوں کا تذکرہ ہے، پھر روحانی اشیا کا، اور آخر میں مادّی اشیا کا ذکر ہے، اور ممکن ہے کہ کسی مقام پر مادّیت کو اہمیت نہ دی گئی ہو، مثال کے طور پر آسمان، سورج، چاند، ستارے، بادل، برق، رعد، وغیرہ، یہ چیزیں سب سے پہلے عالمِ عقل سے متعلق ہیں، یہی مثال زمین، پہاڑ، اور سمندر کی چیزوں کے بارے میں بھی ہے۔

 

۵۔ فرشتۂ نفس (روح/جان) کی معرفت: نفسِ کُل دوسرا عظیم فرشتہ ہے، یہی لوحِ محفوظ اور اُمّ الکتاب بھی ہے، اور وہ زمین بھی جس سے آسمان الگ کرکے بلند کیا گیا (۲۱: ۳۰؛۵۵: ۰۷) جو ارضِ مبارک ہے (۲۱: ۷۱) جہاں زمان و مکان کی کُل مسافتیں سمٹ سمٹ کر ختم ہوجاتی ہیں، کیونکہ یہ طوٰی کی پاک وادی ہے (۲۰: ۱۲) جس میں پہنچ جانے پر حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے فرمایا گیا کہ اب روحانی جوتے اتارو کیونکہ سفر ختم ہوا، اور یہ منزلِ مقصود ہے، جبکہ اسی مقام پر سب کچھ موجود ہے، یہ سارے معانی لفظ طوٰی میں پوشیدہ ہیں، جس میں نطوی (۲۱: ۱۰۴) اور مطویّات (۳۹: ۶۷) کی طرح کائناتِ باطن کو لپیٹ کر یکجا دکھانے کا ذکر ہے۔

عقلِ کُل جہاں عرش ہے، نفسِ کُل وہاں کرسی ہے، اور کرسی کی ایک صفت یہ ہے کہ اس نے خدا کی قدرت سے آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر گھیر لیا ہے، اس عمل کا

 

۱۰۸

 

تصوّر دو طرح سے ہے:

پہلا: آفتابِ نور جو کائنات اور ہر چیز کا نمائندہ ہے نفسِ کلّی میں غروب ہوجاتا ہے۔

دوسرا: کرسی یا نفسِ کُل جو روحِ اعظم ہے، اس کے سمندر میں کائنات ڈوبی ہوئی ہے، اسی طرح خدا کی کرسی ارض و سماء پر محیط ہے۔

 

۶۔ فرشتۂ عرش کی معرفت: خدائے علیم و حکیم کی طرف سے سب سے بڑا اور مشکل ترین امتحان معرفت ہی ہے، بالخصوص عرش اور صاحبِ عرش کی معرفت، لیکن جہاں کوئی امتحان مقصود ہوتا ہے، وہاں اس میں کامیابی کی غرض سے تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی ہوا کرتا ہے، چنانچہ ہمیں نورِ ہدایت کی روشنی میں خوب سوچنا چاہئے کہ آیا عرشِ الٰہی عقل و جان کی انتہائی خوبیوں اور علم و حکمت کے بے مثال کمالات کے سوا کسی اور انمول شیٔ سے مزین و آراستہ ہوسکتا ہے؟ کیا قرآن کا تذکرۂ عرش کائناتِ ظاہر سے متعلق ہے؟ یا اس کا تعلق عالمِ شخصی سے ہے؟ اگر آپ نے مان لیا کہ یہ عالمِ شخصی ہی کی روحانی ترقی کا قصّہ ہے، تو پھر سمجھ لینا کہ اب یہ مسئلہ حل ہونے لگا، کیونکہ حقیقت این جانب ہے، جی ہاں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں ارض و سما کی تخلیق کی، پھر اس نے عرش پر اِستواء فرمایا، اِستواء کے کئی معنی بیان ہوئے ہیں، مگر ہم یہاں یہ عرض کریں گے کہ خدا نے عرش کو دستِ قدرت میں لے لیا، کیونکہ عرش عقل اور قلم ہے، جو قبضۂ قدرت میں ہوتا ہے، تاکہ عقلی تحریروں سے مساواتِ رحمانی کے لئے کام کیا جائے ، پس عرشِ عظیم سے نورِ عقلِ کُل مراد ہے، اور حاملانِ عرش سے حاملانِ نور مراد ہیں، اور وہ حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام ہیں، جن

 

۱۰۹

 

کے عالمِ شخصی میں عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ کا ظہور و مظاہرہ ہوتا ہے۔

 

۷۔ المثل الاعلیٰ (۱۶: ۶۰) کی معرفت: ذاتی دنیا کے عالمِ علوی میں ایک انتہائی جامع الجوامع اور لاثانی مَثَل (کہاوت، مثال) ہے، جو کلمۂ کُنۡ، عقلِ کلّ، گوہر، اور نفسِ کُلّ سے بطریقِ تجدّدِ امثال ظہور پذیر ہوتی رہتی ہے، جس میں تمام علم و معرفت کے خزانوں کی کلیدیں گھیری اور لپیٹی ہوئی ہیں، چنانچہ اسرارِ الٰہی کا خزینۂ خزائن اسی مقام پر مخفی ہے، مثال کے طور پر یہ بھید کتنا عجیب و غریب ہے کہ عقلِ کلّی نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) یعنی نفسِ کلّی کے ساتھ ایک بھی ہے اور الگ بھی، جیسے مظاہرۂ گوہر سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے، اسی طرح ناطق اور اساس بھی انائے علوی سے نفسِ کلّی میں ہیں، مگر شخصیّت میں جدا ہیں، اب جبکہ ان کی متحدہ پیکرِ نورانی سے آفتابِ علم و حکمت طلوع ہوجاتا ہے، تو آپ اس نور کو بتقاضائے حکمت سب سے یا کسی ایک سے منسوب کرسکتے ہیں، بلکہ یہ وحدت ایسی ہے کہ اس میں عرش، کرسی، قلم، لوح، اور دوسرے تمام حقائق ایک ہیں، اور یہی نظریۂ “یک حقیقت” (MONOREALITY) کا اوّلین اور رہنما نمونہ ہے۔

 

۸۔ عِلّیّین اور کتابِ اَبرار (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) کی معرفت: ارشاد ہے (ترجمہ): ہر گز ایسا نہیں، بیشک نیکوکاروں کا نامۂ عمل عِلّیّین میں ہے، اور تم کو کیا معلوم کہ عِلّیّین کیا ہے، وہ ایک لکھا ہوا دفتر ہے، (جس میں نیکوں کے اعمال درج ہیں) اس کے پاس مقرب لوگ حاضر ہوجاتے (یعنی اس کو دیکھتے ہیں) اس عظیم الشّان حکمت میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، کہ عِلّیّین عقلِ کلّی، نفسِ کلّی، ناطق اور اساس ہیں، جونہ صرف خود ہی لکھا ہوا دفتر ہیں، بلکہ اسی دفتر میں مومنین کا

 

۱۱۰

 

نامۂ اعمال بھی محفوظ ہے، اس کتابِ مرقوم کو جس کا نام عِلّیّین ہے مقربین دنیا میں بھی دیکھ سکتے ہیں، اور یہی رازِ معرفت ہے۔

 

۹۔ کتابِ ناطق (۲۳: ۶۲؛۲۹: ۴۵) کی معرفت: امامِ اقدس و اطہر صلوات اللہ علیہ و سلامہ ظاہری ہدایت کی مرتبت میں بھی اور درجۂ روحانیّت و قیامت میں بھی بولنے والی کتاب ہیں، چونکہ کتابِ ناطق قربِ خداوندی کے خاص مقام پر ہے (لَدَیْنَا ۲۳: ۶۲) لہٰذا اس کی نورانی معرفت کسی شخص کو صرف روحانی ترقی ہی سے حاصل ہوسکتی ہے، جو امامِ عالیمقامؑ کی فرمانبرداری سے وابستہ ہے، اس بارے میں یہ نکتہ زیادہ سے زیادہ قابلِ توجہ ہے کہ جو نیک بخت لوگ جسمانی زندگی ہی میں حضرتِ عزرائیلؑ اور اس کے لشکر کے عمل سے گزر کر ذاتی قیامت کے احوال کو دیکھتے ہوں، وہی لوگ بولنے والی کتاب کے روحانی اور عقلی عجائب و غرائب کا احساس و ادراک کرسکتے ہیں، کیونکہ آیۂ مبارک: یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمْ (اس دن (کو یاد کرو) جب ہم تمام لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے ۱۷: ۷۱) کا تعلق انفرادی قیامت سے بھی ہے، جس میں اجتماعی قیامت پوشیدہ ہوا کرتی ہے، پس معرفتِ آیات و معجزات کا وسیلہ یہی ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی

۱۸؍ربیع الثّانی ۱۴۱۰ھ

۱۸؍نومبر۱۹۸۹ء

 

۱۱۱

 

حکمتِ اضداد

 

۱۔ آدم و حوّا کی مثال (۳۹: ۰۶): یقیناً اسی امر میں سرِّحکمت اور رازِ مصلحت پوشیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو پیدا کیا، پھر آپؑ سے بی بی حوا علیہا السّلام کو عرصۂ وجود میں لایا، پھر ان دونوں عظیم المرتبت ہستیوں سے بے شمار انسانوں کو پیدا کیا، اور یہیں سے زَوْجَیْن (دوجوڑے ۵۳: ۴۵) کا قانون نمایان ہونے لگا، اور خوب یاد رہے کہ قانونِ ضِدَّیْن یہی ہے، اور اس اصول سے کوئی چیز باہر نہیں ہوسکتی، جیسا کہ سورۂ یاسین (۳۶: ۳۶) میں خدا وندِ عالم کا یہ ارشاد ہے: وہ (مخلوق کی ہر صفت سے پاک ہے جس نے زمین سے اُگنے والی چیزوں اور خود ان لوگوں کے اور ان چیزوں کے جن کی انھیں خبر نہیں سب کے جوڑے پیدا کئے۔ آپ قرآنِ کریم میں اس پر حکمت موضوع کو کما حقہ پڑھ لیں۔

 

۲۔ جفت بسیط: عقلِ کُل اور نفسِ کُل جفت بسیط کہلاتے ہیں، یعنی ایسے دوجوڑے جو کائنات پر محیط ہیں، جن کی نورانی لہروں کے زیرِ اثر تمام چیزیں دو دو ہوگئی ہیں، اس قانون کا اطلاق نہ صرف نر ومادہ ہی پر ہوتا ہے، بلکہ اس کا تعلق ہر دومتضاد و مخالف چیزوں سے بھی ہے، جیسے دن رات، حیات و ممات، آسمان اور زمین، اور دوسری سب اضداد، جن میں لا تعداد حکمتیں پنہان ہیں، اور یہ ساری حکمتیں مجمع البحرین میں منعکس ہوتی رہتی ہیں، یہ وہی مقام ہے، جہاں عقلِ کلی اور نفسِ کلی ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں (۱۸: ۶۰) (مَرج البحرَین ۵۵: ۱۹)۔

 

۱۱۲

 

۳۔ خدا کے دونوں ہاتھ: سورۂ مائدہ میں ہے: بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ (۰۵: ۶۴) بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں ۔ یعنی عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ، دوسرے اعتبار سے ناطق اور اساس، تیسرے اعتبار سے امام اور باب اللہ کے دونوں ہاتھ ہیں، کیونکہ فعلِ خداوندی کا ظہور مظاہر سے ہوتا ہے، جیسے فرشتۂ قلم، فرشتۂ لوح، اور دیگر فرشتوں کی مثال ہے، اور جس طرح آنحضرتؐ مظہرِ دستِ خدا تھے (۰۸: ۱۷؛۴۸: ۱۰) کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اعضا و جوارح کے تصوّرسے پاک و برتر ہے، پس عقلِ کلّی نورِ نبوّت ہے، اور نفسِ کلّی نورِ امامت، چنانچہ خدا کے یہ دونوں ہاتھ ہمیشہ اور ہر دم عالمِ شخصی کو آسمانوں اور زمین کی حدود تک پھیلا کر پھر اسے نقشِ کائنات سمیت لپیٹ دیتے ہیں، اور یہ عملِ عظیم جس میں بے حساب حکمتیں ہیں، ہر وقت جاری و ساری ہے، تاکہ دُور کی بہشت اور سلطنت نزدیک لائی جائے۔

 

۴۔ ضِدَّیْن (دومخالف چیزیں): ضدین ایک دوسرے سے بنائی جاتی ہیں، جیسے مرد اور عورت بلحاظِ جنس ایک دوسرے کے برعکس ہیں، اوراسی تضاد کی بدولت مرد شوہر بن جاتا ہے، اور خاتون بیوی کہلاتی ہے، اور یہ دونوں نام کسی تقدیم و تاخیر کے بغیر ایک ساتھ شروع ہوجاتے ہیں، چنانچہ یہ راز تو ظاہر ہے کہ حضرتِ آدمؑ سے حضرتِ حوّا کا وجود بنا، مگر یہ بھید صرف خواص ہی جانتے ہیں کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے سے بنانے کی خدائی حکمت دونوں طرف برابر برابر تھی، اور یہی حال عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ کا بھی ہے، کہ وہ قلم اور لوحِ محفوظ ہیں، جن کا عملی وجود ایک دوسرے سے ہے۔

 

۵۔ نقشۂ اضداد اور تجدّدِ امثال: ذاتِ سبحان کے سوا جو کچھ

 

۱۱۳

 

بھی ہو، وہ کسی نہ کسی پہلو سے ایک ضد ضرور رکھتا ہے، اور اسی میں بڑی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہوا کرتی ہیں، مثال کے طور پر نقشۂ ذیل میں غور سے دیکھیں:

اضداد کا لاابتدا و لا انتہا ادل بدل

لاابتدا روزِ ازل شبِ ابد روزِ ازل شبِ ابد لا انتہاء
ازل ابد ازل ابد
عقلِ کل نفسِ کل عقلِ کل نفسِ کل
ناطق اساس ناطق اساس
اول آخر اول آخر
ظاہر باطن ظاہر باطن
مکان لامکان مکان لامکان
بقا فنا بقا فنا
کثرت وحدت کثرت وحدت
بسط (۲: ۲۴۵) قبض (۲: ۲۴۵) بسط قبض
فتق رتق فتق (۲۱: ۳۰) رتق (۲۱: ۳۰)
خلق (۷: ۵۴) امر (۷: ۵۴) خلق امر

۶۔ نقشۂ اضداد کی وضاحت: سورۂ معارج کے ارشاد (۷۰: ۰۴) کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک ایسا دن (دَور) بھی ہے، جو لوگوں کے حساب سے ۵۰۰۰۰ (پچاس ہزار) برس کا ہے، مگر ممکن ہے کہ یہی عرصۂ طویل مقامِ عقل پر

 

۱۱۴

 

سمٹ سمٹ کر کم و بیش پانچ سیکنڈ کا ہو، جس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہاں مکان و زمان کی بے پناہ مسافتیں لپیٹ لی جاتی ہیں (۳۹: ۶۷) دوسری وجہ یہ کہ اس جگہ مومنینِ بایقین کا نور برق رفتاری سے اپنا کام کرنے لگتا ہے(۵۷: ۱۲) اور تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ دارالابداع ہے، جہاں ہر کام براہِ راست امرِ “کُنۡ” سے کسی تاخیر کے بغیر انجام پاتا ہے (۳۶: ۸۲) الغرض عالمِ شخصی میں ازل و ابد کا تجدّدِ امثال ہونے لگتا ہے، اور یہیں سے قانونِ اضداد کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے، مثلاً روزِ ازل کے ساتھ ساتھ شبِ ابد کیوں ضروری ہے؟ اس نقشے میں دیکھ کر بتائیں، کہ آیا ابد سے قبل ازل اور ازل سے پہلے ابد نہیں ہے؟ اگر آپ مانتے ہیں کہ ہاں، ایسا ہی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ازل و ابد جو باہم ضد ہیں، وہ ایک دوسرے سے پیدا ہوئیں، اور یہ دائرۂ مستدیر پر واقع ہیں، جس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہاء۔

 

۷۔ قرآنی حقائق و معارف کا تعلّق: امرِ واقعی یہی ہے کہ قرآنِ حکیم کے حقائق و معارف کا زیادہ سے زیادہ تعلق عالمِ شخصی سے ہے، چنانچہ تخلیقِ ارض و سما، ظہورِ عرش و کرسی، واقعۂ قلم و لوح، حکایاتِ انبیاءؑ ، قصۂ اصحابِ کہف، تذکرۂ ذوالقرنین وغیرہ کا باطنی پہلو پرسنل ورلڈ (عالمِ صغیر) میں ہے، اور ہر انسانِ کامل ایک مکمل کائنات ہے، جس کا روحانی سفر ڈائل (DIAL) یا دائرے کی طرح ہے، وہ اس مثال میں نقطۂ آغاز یا زیرو یا صفر سے روانہ ہوکر ۱۸۰ ڈگری تاریکی میں اور ۱۸۰ ڈگری روشنی میں چلتا ہے، اور اسی سٹارٹنگ پوائنٹ پر پہنچ جاتا ہے، جہاں سے اس نے یہ سفر شروع کیا تھا، اب اس جگہ ۳۶۰ ڈگری ہوجاتی ہے، جیسے: ۳۶۰۰، تب اس کے دل و دماغ میں آفتابِ نورِ ازل طلوع ہوکر حقائق و معارفِ ازلی و ابدی کا تجدّدِ امثال

 

۱۱۵

 

ہونے لگتا ہے۔

۸۔ اس نقشے کی حکمتیں: اس میں جو جو الفاظ و اصطلاحات درج ہوئے ہیں، ان سے آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس میں بہت سی حکمتیں پنہان ہیں، مثال کے طور پر یہ سوال ہے: لفظِ فَتْق و رَتْق کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ اور یہ یہاں اس ترتیب میں کیوں رکھے ہوئے ہیں، حالانکہ سورۂ انبیاء (۲۱: ۳۰) میں رَتْق کے بعد فَتْق ہے؟

جواب: رتق کے معنی ہیں، منہ بند ، جڑا ہوا، اور فتق کے معنی ہیں شگافتہ کرنا ، قرآنِ پاک میں ہے کہ: آسمان اور زمین دونوں جڑے ہوئے تھے تو خدا نے دونوں کو شگافتہ کیا (۲۱: ۳۰) یعنی دونوں ایک تھے، پھر اللہ نے ان کو الگ کردیا، اور نقشے سے ظاہر ہے کہ پھر اس نے آسمان و زمین کو ایک کیا، پس یہ آسمانِ عقلِ کلّی اور زمینِ نفسِ کلّی کی بات ہے کہ نورِ عقل اس زمین کے اندر غروب ہوجاتا ہے، اور طلوع ہوجاتا ہے، اور یہ عمل ہمیشہ جاری ہے، چونکہ یہ کلیدی اور اصولی حکمت ہے، اس لئے اس کے سمجھنے سے کسی مومن کے عام نظریات میں انقلاب آسکتا ہے، اب آپ ہی بتائیں کہ “رَتْق” نفسِ کُلّ اور اساس کی طرف ہونا چاہئے، یا نہیں؟

 

۹۔ بہشت کے دو دو میوے (۱۳: ۰۳؛۵۵: ۵۲): یہی مضمون علمی علاج (کتاب العلاج)، ص ۳۸۲ پر بھی شروع ہوجاتا ہے، جنت کے روحانی، نورانی، عرفانی، علمی ، اور عقلی میوے جوڑے جوڑے اس معنیٰ میں ہیں کہ ہر جفت پھل نر و مادہ کی مثال پر بہت سے پھلوں کو جنم دے سکتا ہے، اور یہ بات البتّہ اہلِ جنت کی خواہش و کوشش پر منحصر ہے کہ وہ دو باتوں سے کئی منطقی نتائج نکالیں، بہشتِ برین

 

۱۱۶

 

میں بتائیدِ الٰہی یہ کام آسان ہے۔

 

۱۰۔ قرآنی بہشت کے ثمرات: قرآنِ عزیز فردوسِ علم و حکمت سے ہے، لہٰذا اس میں بھی تمام کی تمام جفت جفت نعمتیں موجود ہیں، مثال کے طور پر کتاب: کتابِ صامت اور کتابِ ناطق، نور: نورِ نبوّت اور نورِ امامت، علم: علمِ ظاہر اور علمِ باطن، نعمت: نعمتِ روحانی اور نعمتِ عقلانی، کشتی (فُلک): کشتیٔ آب اورکشتیٔ علم، آسمان: آسمانِ جسمانی اور آسمانِ روحانی، زمین: زمینِ ظاہر اور زمینِ باطن، وغیرہ ، جیسا کہ سورۂ لقمان میں خداوندِ عالم کا ارشاد ہے: کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے، اور جو کچھ زمین میں ہے، (غرض سب کچھ) اللہ ہی نے یقیناً تمہارا تابع کردیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردیں (۳۱: ۲۰) اس روح پرور اور ایمان افزا ربّانی تعلیم کا براہِ راست تعلق اس جامع الجوامع نعمت سے ہے، جس کا ذکر دین کے مکمل ہونے پر فرمایا گیا تھا ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ۔۔۔ ۰۵: ۰۳) الغرض حکمتِ اضداد کا قرآنی موضوع علمی بہشت کے باغات میں سے ایک باغ ہے، جس کی بیمثال نعمتیں ازلی و ابدی ہیں، آپ ہمیشہ اور ہر وقت حسنِ توفیق کے لئے دعا کرتے رہیں۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی

جمعرات ۲۳؍ربیع الثانی۱۴۱۰ھ،  ۲۳؍نومبر۱۹۸۹ء

 

 

۱۱۷

 

عقل آدم اور روح حوّا

 

۱۔ خزینۂ قرآن: جب خزائنِ الٰہی بے پایان ہیں (۱۵: ۲۱؛۳۱: ۲۷) تو پھر خزینۂ قرآن کے علمی عجائب و غرائب کیسے ختم ہوسکتے ہیں، اگر اس مبارک پہاڑ سے ہر وقت تازہ بتازہ جواہرِ گرانمایہ مل جاتے ہیں اور یہ پاک سمندر ہمیشہ انمول موتیوں سے بھرا رہتا ہے، تو آئیے ہم اپنی زندگی کے ایک خاص حصّے کو اس دولتِ سماوی کے حصول کے لئے وقف کردیں، ہمارے لئے سعادتِ دارَین اسی میں ہے کہ قرآن اور امامؑ سے وابستہ رہیں، تاکہ ہم اسرارِ خداوندی سے بانصیب ہوجائیں، یہ اس وقت ممکن ہے، جبکہ ہم نورِ ہدایت کی روشنی میں قرآنِ حکیم کا بطریقِ احسن فکری مطالعہ کریں۔

 

۲۔ جفت جفت حکمتیں: آپ نے “حکمتِ اضداد” کا مضمون پڑھا ہوگا، اور دیگر موضوعات میں بھی ایسے کئی نکات نظر سے گزرے ہوں گے، اور نتیجے کے طور پر آپ کو اس حقیقت کا یقین حاصل ہوا ہوگا کہ ہر حکمت دراصل طاق نہیں جفت ہوا کرتی ہے، مثال کے طور پر انسان کی خودی (انا) بظاہر ایک مانی جاتی ہے، لیکن روحانی علم کی روشنی میں تحقیق کی گئی ہے کہ انائے علوی اور انائے سفلی دو ہیں، کیونکہ قرآنِ کریم فرماتا ہے کہ ایک تو اصل چیز ہے اور دوسرا اس کا سایہ (۱۶: ۸۱) چنانچہ وہ انسانی حقیقت جو عالمِ علوی (عالمِ امر) سے ازلی و ابدی وابستگی رکھتی ہے، اور لمحہ بھر کے لئے بھی الگ نہیں ہوسکتی، انائے علوی کہلاتی ہے، اور اس کا سایہ جو عالمِ خلق

 

۱۱۸

 

میں آیا ہے، انائے سفلی ہے۔

 

۳۔ حضرتِ آدمؑ کی دو انائیں: آدم و بنی آدم کی دودو انائیں علمی بہشت کے دو دو میوؤں میں سے ہیں، لیکن کیسے دو دو؟ آیا اسی طرح کہ نظر ڈالتے ہی معلوم ہوجائے کہ یہ دو چیزیں ہیں اور بس؟ نہیں، ایسا نہیں دانۂ گندم، یاکوئی اور بیج، یا اخروٹ بظاہر ایک ہوتا ہے، لیکن اس کے اندر ایک حصۂ نر اور ایک حصۂ مادہ دوہیں، جس کو علم والے ہی جانتے ہیں، چنانچہ حضرت آدم علیہ السّلام کی دو انائیں تھیں، آپؑ انائے علوی سے بہشت ہی میں رہ گئے، اور انائے سفلی سے دنیا میں بھیجے گئے، پس اکثر لوگوں نے خلیفۂ خدا کو نہیں پہچانا، جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے، آپؑ میں خدائی روح پھونک دی گئی تھی روح کہیں یا نور، اس کے جسمِ بشری میں آنے کی مثال ایسی ہے، جیسے آسمان میں خورشیدِ انور اور زمین پر کسی آئینے میں اس کا عکس، شاید یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ پھر حضرت آدمؑ کی گریہ و زاری اور توبہ کا کیا مقصد تھا؟

جواب: مقصد چندان مختلف نہیں، کیونکہ ایک حقیقی مومن بھی تقریباً وہی گریہ و زاری اور توبہ کرتا ہے، تاکہ بہشت اور اپنی انائے علوی کو دیکھ سکے۔

 

۴۔ روح کا بالائی سرا اور زیرین سرا: ارشادِ ربّانی ہے: وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (۸۱: ۰۷) اور جس وقت روحیں دودو ہوں گی۔ یعنی جب قیامت اور کشفِ روحانیّت سے اس بات کا علم ہوگا کہ ہر روح کے پس منظر میں ایک اور روح موجود ہے، جیسا کہ سورۂ یاسین (۳۶: ۳۶) میں فرمایا گیا ہے کہ لوگوں کی روحیں دو دو ہیں، پس ایک انائے مستقر ہے اور دوسری انائے مستودع (۰۶: ۹۸) تاکہ روح کا بالائی سِرا درخت کی طرح عالمِ امر میں برجا رہے، اور دوسرا سِرا سائے کی طرح عالمِ خلق

 

۱۱۹

 

میں آجائے (۱۶: ۸۱)۔

 

۵۔ روحِ اعظم اور اس کا سایہ: جب ہم “انائے علوی” کے قائل ہیں، تواس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ کوئی معمولی سی ہستی ہے، بلکہ ہمارا یقین تو یہ ہے کہ وہ سب سے بڑی روح ہے، وہ ایک ہے، مگر نفسِ واحدہ ہونے کے سبب سے سب ہے، جس طرح کتابِ “روح کیا ہے؟” میں دوسری بہت سی حقیقتوں کے علاوہ یہ ذکر بھی ہوا ہے کہ ہر روح بے شمار روحوں کا مجموعہ ہوا کرتی ہے، اس لئے وہ اپنی ذات میں ایک کائنات ہے، پس اسی دلیل سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نفسِ واحدہ میں سب جمع ہیں، اور اس دنیا کا ہر شخص اس کا سایہ ہے، چنانچہ یہ مثال قابلِ توجہ ہے کہ سایہ جوں جوں درخت سے قریب تر ہوتا رہتا ہے، توں توں اس کی تاریکی کم ہوتی جاتی ہے، یہ اس حقیقت کی طرف بڑا عمدہ اشارہ ہے کہ آدمی جیسے جیسے علم و معرفت میں آگے بڑھ جاتا ہے، ویسے ویسے روحِ کلّی سے نزدیک تر ہوجاتا ہے، اور جب وہ شمس الانوار کو دیکھتا ہے، تو اس کی اپنی معرفت نور کی معرفت ہونے لگتی ہے۔

 

۶۔ عقل اور جان نمونۂ آدم و حوّا: عالمِ شخصی میں بھی آدم و حوّا ہیں، اور وہ ہیں عقل و روح، جن کی اعلیٰ معرفت حضرتِ ابوالبشرؑ کی معرفت ہے، یہی وجہ ہے، جو ارشاد ہوا: اس میں تو شک ہی نہیں کہ ہم نے تم کو (جسمانی طور پر) پیدا کیا پھر تمہاری (روحانی اور رحمانی) صورتیں بنالیں پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدمؑ کو سجدہ کرو (۰۷: ۱۱) یہ دوستانِ خدا یعنی عارفین ہیں، جو منازلِ معرفت اور تجدّدِ امثال کے سلسلے میں واقعۂ آدمؑ سے گزرتے ہیں، جو عجائب و غرائب سے پُر اور کلیدی حکمتوں سے مملو ہے۔

 

۱۲۰

 

۷۔ حضرتِ آدمؑ اور بہشت: جب آدم علیہ السّلام میں خدائی روح پھونک دی گئی، تو اسی کے ساتھ عقل و جان کی نعمتوں کی جنت آپؑ میں داخل ہوئی، یعنی یہ روح نور ہی ہے، جس میں کائناتی بہشت کی سلطنت پوشیدہ ہوتی ہے، چنانچہ فرشتوں نے حضرت آدمؑ کو جنت میں دو دفعہ سجدہ کیا، پہلی بار عالمِ ذرّ میں، اور دوسری بار مقامِ عقل پر، شروع شروع میں ملائکہ نورانی ذرّات کی شکل میں تھے ، لیکن مرتبۂ عقل پر ایک کامل متحدہ نور، کیونکہ تمام بڑے بڑے فرشتوں کا جامع فرشتہ ایک ہی ہوتا ہے، وہی دو، اور سب کا سب ہے، اور خوب یاد رہے کہ یہی قانون بڑی بڑی روحوں کے لئے بھی ہے۔

 

۸۔ فرشتوں کا سجدہ کس نوعیت کا تھا؟: یہ سوال اس لئے پیدا ہوا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ساری مخلوقات اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ کررہی ہیں، مگر ان میں سے اکثر موجودات وہ ہیں ،جو اپنے اپنے فعل کے معنی میں سجدہ کرتی ہیں، اور فرشتوں کے بارے میں آپ کو یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ آیا وہ جہاں ذرّۂ نور ہیں یا کامل نور ہیں وہاں وہ پیشانی سے سجدہ کرتے ہیں؟ یا تابعداری سے؟ اور اس میں بھی غورکرنا لازمی ہے کہ حضرتِ یوسفؑ کے والدین تخت (عرش ۱۲: ۱۰۰) سے آپؑ کے سجدے میں کیوں گرپڑے؟ اس میں کیا راز ہے؟ یاد رہے کہ فرشتوں کے ایک یا دو رسمی سجدوں سے خلافتِ آدم کا مقصدِ اصلی پورا نہیں ہوسکتا تھا۔ لہٰذا انھوں نے بحکمِ خدا عالمِ شخصی میں بھی اور کائنات میں بھی روح اور عقل کے مقام پر حضرتِ آدمؑ کی اطاعت کی، جس سے تمام معنوں میں خلافتِ الٰہیہ ثابت ہوئی، سجدہ کی مثالوں کے لئے دیکھئے: (۱۳: ۱۵؛۱۶: ۴۹؛۲۲: ۱۸)۔

 

۱۲۱

 

۹۔ آدم و حوّا پانچ قسم کے ہیں: عالمِ کبیر میں عقلِ کلّی اور نفسِ کلّی، دورِ اعظم میں آدم و حوّا، دورِ نبوّت میں ہر ناطق اور اساس، دورِ امامت میں ہر امام اور باب، اور عالمِ صغیر میں عقل و روح آدم و حوّا ہیں، تاکہ خلافتِ کبریٰ اور خلافتِ صغریٰ سے متعلق خداوندِ عالم کا جو وعدہ ہے، وہ پورا ہوجائے (۲۴: ۵۵) اور معرفت و علمِ روحانی کا دروازہ ہر زمانے میں کشادہ رہے، کیونکہ دینِ اسلام میں کوئی تنگی (حرج ۲۲: ۷۸) نہیں، جبکہ یہاں ہمیشہ نورِ ہدایت موجود ہے، اور جبکہ قرآنی علم و حکمت کے خزائن سامنے ہیں (۰۵: ۱۵)۔

 

۱۰۔ والد اور ولد (۹۰: ۰۳): باپ اور بیٹا ، یہ دونوں نام نور کے ناموں میں سے ہیں، کیونکہ نور عالمِ شخصی میں ایک جانب سے باپ ہے، اور دوسری جانب سے اولاد، چنانچہ حضرتِ یوسف علیہ السّلام نے عالمِ شخصی کے روحانی عروج و ارتقاء کے سلسلے میں نور اور اس کے حجتِ اعظم (باب) کو تختِ عقل (عرش ۱۲: ۱۰۰) پر بٹھا دیا ، تب ان دونوں نے جوشمس و قمر بھی کہلاتے تھے (۱۲: ۰۴) آپؑ کو سجدۂ اطاعت کیا، جیسے ملائکہ نے حضرت آدمؑ کو یہ سجدہ کیا تھا، یاد رہے کہ حضرتِ یعقوب اور حضرتِ یوسف علیہما السّلام امامانِ مستودع کے سلسلے میں تھے۔

 

۱۱۔ قیامت کے دن ہر نسب ختم ہوجائیگا (۲۳: ۱۰۱): ارشاد ہے: پھر جس وقت صور پھونکا جائے گا تو اس دن نہ لوگوں میں قرابت داریاں رہیں گی اور نہ ایک دوسرے کی بات پوچھیں گے (۲۳: ۱۰۱) یہ ایک رازِ سربستہ ہے، کہ جب بھی کسی آدم کی ذاتی قیامت برپا ہوئی، تو اس میں اجتماعی قیامت پوشیدہ ہوا کرتی ہے، اور آدمِ زمانؑ میں تمام دنیا والوں کا باطنی اور روحانی حشر ہو جاتا ہے، پھر

 

۱۲۲

 

نشر ہو جاتا ہے، یعنی اسرافیل کی دعوت پر ارواحِ خلائق جمع ہوجاتی ہیں، اسی کے ساتھ جملہ ارواح آدمِ حاضر و موجود کی ذرّ یت قرار پاتی ہیں اور ان کی سابقہ قرابت ختم ہوجاتی ہے، پھر یہ ساری روحیں اپنے اپنے جسم میں واپس ہوجاتی ہیں، یہ ہوا حشر اور نشر کا ایک نمونہ، اگلے نسب کا خاتمہ، اور نئے نسب کا آغاز۔

 

۱۲۔ سنتِ الٰہی کا موضوع اور تصوّر: آیا آپ نے ان تمام آیاتِ کریمہ کا بغور مطالعہ کیا ہے،جو سنتِ الٰہی کے بھیدوں سے پُر ہیں؟ کیا خدا کی سنت و عادت وہ نہیں، جو اس کے خاص بندوں یعنی انبیاء و اولیاء میں ہو گزری ہے، اور حال و مستقبل میں بھی وہی ہوتی رہے گی؟ تو کیا اس میں بار بار روحانی قیامت برپا ہوجانے کا ذکر نہیں؟ ضرور اس میں یہی اشارہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی امر ایسا نہیں، جس کے وقوع پذیر ہوجانے کے لئے کوئی انتظار ہو، بلکہ اس کے حکم پر عمل ہوچکا ہے (۳۳: ۳۷)۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی

بدھ ۲۹ ؍ربیع الثّانی ۱۴۱۰ھ

۲۹؍نومبر۱۹۸۹ء

 

۱۲۳

 

حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن

 

۱۔ حواسِ ظاہر پانچ ہیں: دیکھنا، سننا، سونگھنا، چکھنا، اور چھونا، جن کو باصرہ ، سامعہ، شا مہ، ذائقہ، اور لامسہ بھی کہتے ہیں، ان میں سے ہرحس میں ایک طرف دوئی ہے، اور دوسری طرف وحدت، وہ یوں کہ آنکھیں دو ہیں، مگر ان کا فعلِ بینائی ایک ہی ہے، کان اگرچہ دو ہیں، لیکن قوتِ سماعت ایک ہے، نتھنے دو ہیں، اور خوشبوکا احساس ایک، منہ اور زبان بھی دو حصوں پر منقسم ہے، تاہم چکھ لینے کا نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے، اور اسی طرح ہاتھ دو ہیں، اور چھونے کے احساس میں وحدت ہوا کرتی ہے، تاکہ ہر دانشمند ظاہر و باطن اور کثرت و وحدت کے بارے میں کچھ غور کرے۔

۲۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل جیسی بیمثال قوّت سے ممتاز و سرفراز فرمایا ہے، ورنہ ظاہری حواس کے پیشِ نظر آدمی سے حیوانات کہیں زیادہ قوّی ہیں، مثال کے طور پر بعض جانور جس طرح اندھیری رات میں دیکھ سکتے ہیں، اسی طرح انسان نہیں دیکھ سکتا، اور نہ وہ بعض حیوانوں کی طرح سونگھنے کی زبردست قوّت رکھتا ہے، اور یہ حقیقتِ حال تقاضائے حکمت کے مطابق ہے، کیونکہ حیوان حواسِ ظاہر ہی میں محدود ہے، اور انسان زیادہ سے زیادہ حواسِ باطن کے لئے محتاج ہے، تاکہ وہ روحانی نعمتوں کو حاصل کرسکے۔

۳۔ حواسِ خمسۂ ظاہر پانچ حواسِ باطن کی مثال ہیں، نیز یہ پانچ حدودِ جسمانی کی دلیل ہیں، یعنی ناطق، اساس، امام، حجت، اور داعی، ان کے ظاہری اور باطنی دودو درجے ہیں، جس طرح حواسِ ظاہر دو طرفہ (دائیں بائیں) ہیں،جن کا

 

۱۲۴

 

شروع ہی میں ذکر ہوچکا، یہاں یہ نکتۂ دلپسند بھی خوب یاد رہے کہ جس طرح ظاہری حواس دو درجوں میں ہیں: حواسِ حیوانی، اور حواسِ انسانی، اسی طرح حواسِ باطن بھی دومرتبوں میں ہیں: حواسِ روحانی اور حواسِ عقلانی، آپ ان کو مُدرِکات بھی کہہ سکتے ہیں۔

۴۔ حواسِ باطن کی اصل حکمت یہ ہے کہ روحانی ترقی ہونے سے نورِ ناطق باصرۂ دل ہوجاتا ہے، نورِ اساس سامعۂ جان، نورِ امام شامّۂ روح، حجت ذائقۂ نہانی، اور داعی لامسۂ باطنی ہوجاتا ہے، کیونکہ حدودِ دین ہی اہلِ حقیقت کے باطنی حواس ہوا کرتے ہیں، جیسا کہ سورۂ نحل (۱۶: ۷۸) میں ہے: وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَ فْئِدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔ اور خدا نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر کرو۔ یہ حواسِ باطن ہیں، یعنی حدودِ دین ، جو روحانی بھی ہیں اور عقلی بھی، جن سے ایسی گرانمایہ نعمتیں حاصل ہوتی ہیں کہ ان پر ربِّ کریم کا شکر بیحد ضروری ہوتا ہے، ورنہ حواسِ ظاہر حیوان کے بھی ہیں، اور کافر کے بھی۔

۵۔ حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے: “اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں،پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہوجاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں ہوجاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے “قرآنی علاج (کتاب العلاج)، ص ۸۵” واللہ، خدا کا یہ کام حدودِدین ہی کے توسط سے ہوتا ہے، کیونکہ ذاتِ سبحان کسی آدمی کے اعضاء و جوارِح اور حواس بن جانے سے پاک و برتر ہے۔

۶۔ کتابِ “قرآنی علاج(کتاب العلاج)” میں عنوانِ ’’امواجِ نور کا

 

۱۲۵

 

تصوّر” کے تحت حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام کی ایک انتہائی پُرحکمت دعا کو دیکھئے ، جس کا ترجمہ اس طرح ہے: “یا اللہ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کردے، اور میرے کان، آنکھ، اور زبان میں بھی نور بنا دے، میرے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں، اور رگوں میں بھی نور بنا دے، اور میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر، اور نیچے بھی نور مقرر فرما!” اس دعائے مبارک کا مطلب بھی حدیثِ تقرب ہی کی طرح ہے، کہ حدودِ دین کا نور بندۂ مومن کے باطن میں حواس و مُدرکاتِ نورانی کا کام کرتا ہے، اور خدا کی طرف سے نورِ ہدایت اسی مقصد کے لئے مقرر ہے۔

۷۔ اللہ تعالیٰ نہ کسی آدمی میں حلول۱ ہوجاتا ہے اور نہ کسی دوسری شیٔ میں، بلکہ اس نے اپنے حضورِ اقدس سے ایک نور کو بھیجا ہے، جس کا انتہائی حسین و جمیل تذکرہ تمام آیاتِ نور میں موجود ہے، یہی نور حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے توسط سے مومنینِ با یقین میں اپنا مقررہ کام کرتا ہے، جس کا فعل بوجہِ نمائندگی خدا کا فعل قرار پاتا ہے۔

۸۔جس طرح لوگوں کو اقرارِ نبوّت آسان ہے، مگر اقرارِ ولایت یعنی مولا علیؑ کی امامت کو تسلیم کرنا مشکل ہے، اسی طرح عینِ یقین سے ابتدائی انوار کا مشاہدہ آسان ہے، لیکن اُذُنٌوَّاعِیَۃٌ (یاد رکھنے والا کان ۶۹: ۱۲، جو اساس کا مرتبہ ہے) سے روحوں کی آوازیں سننا دشوار کام ہے، بلکہ یہ امرِ ناممکن ہے، جب تک کہ ذاتی قیامت برپا نہ ہوجائے، ہاں، جس وقت صورِ اسرافیل بجنے لگتا ہے، اور ارواح کا حشر ہوجاتا ہے، تو اسی وقت باطنی سماعت کا دروازہ کھل جاتا ہے، اور اساس کے مقابلے میں امام کی

 

؎۱: حلول: ایک چیز کا دوسری چیز میں اس طرح داخل ہو جانا کہ دونوں میں تمیز نہ ہو سکے (۲) تناسخ، آواگون۔

 

۱۲۶

 

شناخت زیادہ مشکل ہے، یہی سبب ہے کہ روحانی خوشبوؤں کا تجربہ بعد میں ہوتا ہے، اس بارے میں نقشۂ ذیل کو دیکھئے:

حواسِ باطن

ق اساس امام حجت داعی

 

باصرہ سامعہ شامّہ ذائقہ لامسہ
دیکھنا؟ سننا؟ سونگھنا؟ چکھنا؟ چھونا؟
تمام روحانی مناظر جملہ باطنی آوازیں ساری روحی خوشبوئیں ہر روحانی غذا سب چھونے کی چیزیں
دیکھو آیاتِ رویت آیاتِ سماعت آیاتِ خوشبو آیاتِ غذائے روحانی آیاتِ لمسِ باطن
دیدار کلام بوئے یوسفی من و سلوی کتابِ مکنون
تجلّیات تلاوتِ روحانی رِیاح/خوشبوئیں مائدۂ عیسیٰؑ گوہرِ عقل
نتیجہ ؟ معرفت ؟ معرفت—– ؟ معرفت—– ؟ معرفت—– ؟ معرفت—–

 

۹۔ سورۂ تین (۹۵: ۰۱ تا ۰۸) کے مطابق انسان کا دائرہ نما سفر عالمِ علوی اور عالمِ سفلی کے درمیان واقع ہے، وہ اس سلسلے میں مثال کے طور پر سب سے پہلے جماد ہے، پھر نبات، پھر حیوان کے درجے میں آتا ہے، اس کے بعد انسانیت کے درجات میں داخل ہوجاتاہے، جن میں نہ صرف پشتِ پدر اور شکمِ مادر کے مختلف مراحل ہیں، بلکہ وہ جنم لینے کے بعد بھی نشو و نما کی کئی منزلوں کو طے کرتا ہے، وہ خلّیّات کی ایک کائنات بھی ہے، ارواحِ نباتی، ارواحِ حیوانی، اور ارواحِ انسانی کے تین مجموعوں کا مجموعہ بھی، وہ عالمِ ذرّ بھی ہے، اور تمام حدودِدین کا نمونہ بھی، یعنی وہ اپنی ذات میں جملہ حدودِ جسمانی و روحانی کو پاتا ہے، اور پہچانتا ہے، اور یہ خدا وندِ تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے ناطق، اساس، امام ، حجت، اور داعی کو مومنین کی روحانیّت میں

 

۱۲۷

 

حواس و مُدرکات کا کام سونپ دیا ہے۔

۱۰۔آدمی کے آخری حواسِ باطن عقل، نفس، جدّ، فتح، اور خیال ہیں، کیونکہ پروردگارِ عالم نے انہی مُدرکات سے انسانِ کامل کو تعلیم دی، جیسا کہ ارشاد ہے: اِقْرَاْ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (۹۶: ۰۳ تا ۰۴) پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم (یعنی عقل) کے ذریعہ سے تعلیم دی۔ یہاں قلم سے عقل مراد ہے، اور قلم و لوح لازم و ملزوم ہیں، لہٰذا اس کی حکمت یہ ہوئی کہ خدا نے انسانِ مقدم یعنی انسانِ کامل کو عقلِ کلّی اور نفسِ کلّی(اور دیگر تین فرشتوں) کے توسط سے علم سکھایا، یہ ہوئے حواسِ خمسۂ عقلی، یاد رہے کہ اسمِ “الاکرم” میں عرش کے علم و معرفت کا ذکر ہے۔

۱۱۔ خوب توجہ سے سن لیجئے کہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے تمام اسرار، معجزات، عجائب و غرائب، اور سب سے اعلیٰ حواسِ باطن پیشانی میں پوشیدہ ہیں، مثلاً حضرتِ آدمؑ کی بہشت کا راز، حضرتِ ادریسؑ کی اونچی جگہ (۱۹: ۵۷) حضرتِ نوحؑ کی کشتی اور کُوہِ جودی (۱۱: ۴۴) حضرتِ ھودؑ کا آسمان، جس سے موسلادھار بارش برستی ہے (۱۱: ۵۲) حضرتِ ابراہیمؑ کے ملکوتی بھید (۰۶: ۷۵) حضرتِ لوطؑ کی بابرکت زمین (۲۱: ۷۱) انبیاء علیہم السّلام کس معنی میں ہاتھوں اور آنکھوں والے ہوتے ہیں (۳۸: ۴۵)؟ وہ جگہ جہاں حضرتِ یوسفؑ کے لئے گیارہ ستاروں اور شمس و قمر نے سجدہ کیا (۱۲: ۰۴) حضرت شعیبؑ کا بقیتُ اللہ (۱۱: ۸۶) حضرت موسیٰؑ کا طُور (۱۹: ۵۲) حضرتِ داؤدؑ کی خلافت (۳۸: ۲۶) حضرتِ سلیمانؑ کی مملکت (۳۸: ۳۵) حضرتِ عیسیٰؑ اور حضرتِ مریمؑ کی بلند ترین جگہ (۲۳: ۵۰) اور آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا مقامِ معراج جبین (پیشانی) ہے تاکہ عالمِ شخصی کے خزائنِ معرفت میں کوئی کمی نہ ہو۔

۱۲۔ جس طرح حواسِ ظاہر کا سر چشمہ دل ہے، اسی طرح حواسِ باطن اور

 

۱۲۸

 

مُدرکاتِ عقلی کا مرکز قائم القیامت ہے، کیونکہ وہی عظیم المرتبت ہستی تمام حدودِ دین کا قلب ہے، چنانچہ آنحضرتؐ نے شبِ معراج میں جو کچھ دیکھا، وہ دل سے دیکھا (۵۳: ۱۱) کہ مرتبۂ قائم دل ہے (۰۸: ۲۴) اور خداوندِ عالم کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے مومنین کو ایسا معجزاتی اور بیمثال قلب عنایت کردیا (۰۸: ۲۴؛ ۲۳: ۷۸) اور ربّ کریم کا یہ امرِعظیم اسرارِ عجائب و غرائب اور کلیدی حکمتوں سے پُر ہے، تاکہ علم و معرفت کے ہر گنجِ گرانمایہ کا مقفّل دروازہ کھل جائے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی

اتوار ۱۰؍جمادی الاوّل ۱۴۱۰ھ

۱۰؍دسمبر۱۹۸۹ء

 

۱۲۹

 

چوٹی کے سوالات

قسط: ۱

 

س ۱: قرآنِ حکیم کے اس امر میں کیا حکمت ہے کہ خصوصاً صبح و شام ذاتِ سبحان کی پاکی بیان کرنے یا تسبیح پڑھنے کا حکم (۰۳: ۴۱؛ ۳۳: ۴۲؛ ۴۸: ۰۹) ہے؟

ج: اس فرمانِ الٰہی کی خاص حکمت یہ ہے کہ عالمِ شخصی میں جہاں سب سے بڑا معجزہ صبح ازل اور شامِ ابد ہے، وہاں اللہ تعالیٰ کو تغیرات سے پاک و برتر مانا جائے۔

س ۲: اگر یہ بات حقیقت ہے کہ عالمِ شخصی میں وہ سب کچھ ہے، جو عالمِ ظاہر میں ہے، تو جس طرح ظاہر میں انبیاء علیہم السّلام تشریف لائے، اس کی کوئی مثال بندۂ مومن کی روحانیّت میں کہاں ہے؟

ج: سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۰) میں غور سے دیکھ لیں، خاص کر جَعَلَ فَیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکاً (یعنی خدا نے تمہارے ظاہر میں نیز تمہارے باطن میں پیغمبر بنائے اور تم کو بحدِّ قوّت بادشاہ بنایا ۰۵: ۲۰) اگرچہ اس تذکرے میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا خطاب پوری قوم سے ہے، تاہم حدودِ دین ہی وہ حضرات تھے، جن کو اس حقیقت کی نمائندگی حاصل تھی، اور انہی کے توسط سے سارے مومنین بہشت میں بادشاہ ہوئے۔

س ۳: بہشت میں پہلے بہت کم لوگ پھر رفتہ رفتہ سب داخل ہوسکیں گے، اگرچہ یہ بہت بڑا راز ہے، تاہم یہ زمانہ ایسا ہے کہ اگر ہوسکے تو اس میں بھیدوں کو جاننا چاہئے، جیسے سائنس کے بھید ظاہر ہونے سے فائدہ ہورہا ہے، پس سوال یہ ہے کہ آیا اہل جنت مختلف درجات پر فائز ہوجائیں گے یا سب کے سب یکسان ہوں گے؟

 

۱۳۰

 

ج: بہشت میں مساواتِ رحمانی بہت دیر کی حقیقت ہے، اس لئے قبلاً وہاں درجات ہوں گے، جس کا ایک روشن ثبوت سورۂ انسان (سورۂ دہر ۷۶: ۲۰) سے مل سکتا ہے، وہ یہ کہ اس میں بعض لوگ بادشاہ ہوں گے، اور ظاہر ہے کہ یہ عظیم الشّان سلطنت رعیت کے بغیر بے معنی ہے، چنانچہ معلوم ہوا کہ بہشت والے مختلف درجوں میں ہوں گے۔

س۴: جدّ، فتح، اور خیال (یعنی اسرافیل، میکائیل، اور جبرائیل) کا تذکرہ دینی کتب میں بار بار آتا ہے، مگر ان کے ساتھ عزرائیل کا کوئی ذکر نہیں ہوتا، حالانکہ وہ بھی ایک مقرب فرشتہ ہے، اور مومن کی روحانی ترقی کے سلسلے میں اس کا مفید کام بڑا عجیب ہے، اس کی کیا وجہ ہے کہ یہ ان تین فرشتوں کے ساتھ شامل نہیں کیا گیا ہے؟

ج: حکمتِ عزرائیلی حجاب میں رکھی گئی ہے، اگر یہ حکمت ظاہر ہوتی، اور سب لوگ اس کو یقین سے جانتے، تو پھر لوگ وقت سے پہلے مرجانا پسند کرتے، اور دنیا کی آبادی متاثر ہوجاتی ۔

س ۵: سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴) کے حوالے سے یہ پوچھنا ہے کہ آتشِ دوزخ کے ایندھن لوگ اور پتھر کیوں ہیں؟ پتھروں (الحجارۃ ۰۲: ۲۴) کو کس جرم میں جلایا جاتا ہے؟

ج: خوب یاد رہے کہ علم و حکمت نور ہے، اور جہالت و نادانی نار، پس اگر انسانی عقل علم و حکمت کے نور سے منور ہو رہی ہے، تو یہ ایک انتہائی قیمتی پتھر (گوہرِ گرانمایہ) ہے، ورنہ وہ ایک ایسا پتھر ہے، جو نارِ نادانی میں جل رہا ہے۔

س۶: جس دن بلانے والا ایک ناشناختہ چیز کی طرف بلائے گا (۵۴: ۰۶) یہ بلانے والا کون ہوگا؟ کہاں سے بلائے گا؟ اور وہ شیٔ کیا ہے، جس کو لوگ نہیں پہچانتے؟

ج: یہ عالمِ شخصی کا داعی ہے، جو کانوں سے صورِ اسرافیل کی آواز کے ساتھ

 

۱۳۱

 

ساتھ لوگوں کو امرِ امامت کی طرف مدعو کرے گا، کیونکہ قیامت دراصل حضرتِ قائم علیناسلامہ کی قہر مانی اور جلالی دعوت ہے، تاکہ سب لوگ اس کی بادشاہی میں ایک ہوجائیں (۴۰: ۱۶) ۔

س ۷: بے شک خدا مچھر یا اس سے بڑھ کر کوئی مثل بیان کرنے میں نہیں شرماتا (۰۲: ۲۶) اس سے کیا مراد ہے؟ یا اس کا ممثول کیا ہے؟

ج: یہ انفرادی روحانیّت اور قیامت کے سلسلے کی ابتدائی آواز ہے، جس کا آغازکان کے بجنے سے ہوجاتا ہے، جو مچھر کی آواز جیسی ہے، دراصل ذرّۂ لطیف میں یہی داعی ہے۔

س ۸: صورِ اسرفیل کی آواز پر قبروں سے اٹھنے والوں کی تشبیہہ و تمثیل ٹڈیوں (۵۴: ۰۷) اور پروانوں (۱۰۱: ۰۴) سے کیوں دی گئی ہے، حالانکہ یہ اڑنے والی مخلوقات میں سے ہیں، اور آدمی جسمِ خاکی میں پرواز نہیں کرسکتا؟

ج: عارف اسی جسم میں روحانی قیامت کا مشاہدہ کرتا ہے، اور لوگوں پر غیر شعوری قیامت گزرتی ہے، وہ اس طرح کہ ان کے زندہ ابدان (اجسام) گویا قبریں ہیں، جن سے نمائندہ ذرّات (جو روح بھی ہیں اور جسمِ لطیف بھی) مرکزِ قیامت یعنی ظہور گاہِ قائم ع س کی طرف پرواز کرجاتے ہیں، جن کی مثال ٹڈیوں اور پروانوں کی طرح ہے۔

س ۹: سورۂ رعد (۱۳: ۰۸) کے اس ارشاد: وَکُلُّ شَیْ ئٍ عِنْدَہ‘ بِمَقْدَارٍ (۱۳: ۰۸) “اور ہر چیز اس کے نزدیک ایک اندازے سے ہے۔”  کے بارے میں سوال ہے کہ خداوندِ عالم کی یہ مقدار کیا ہے؟

ج: اگرچہ کائناتیں اور کہکشاں(GALAXY)  ایک سے کہیں زیادہ ہیں،

 

۱۳۲

 

زمانہائے دراز کی مدّت بے پناہ ہے، اور موجودات و مخلوقات کا کوئی شمار ہی نہیں ہوسکتا، لیکن قادرِ مطلق نے ہر چیز کو سمیٹ کر ایک معیّن مقدار میں محدود کردیا ہے، اور وہ دستِ قدرت کی مٹھّی سے بھی کم ہے، اور وہ تمام چیزیں، جو ہمارے نزدیک بے شمار ہیں، اس نے ان کو عددِ واحد میں محدود کردیا ہے، اور وہ مقدار بھی اورعددِ واحد بھی یہی  ہے:ʘ ۔

س ۱۰:۔ سورۂ قلم (۶۸: ۴۲) میں ہے: یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْ عَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۔ جس دن پنڈلی کھول دی جائے اور لوگ سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو (سجدہ) نہ کرسکیں گے (۶۸: ۴۲) پنڈلی کھولنے کی کیا تاویل ہے؟ اور سجدہ سے اس کی کیا نسبت ہے؟

ج: پنڈلی عقل ہے، کیونکہ تمام حدودِ دین کا قیام اسی پر ہے، اور پنڈلی کھولنے کا اشارہ ظہورِ عقل کی طرف ہے، اور اس واقعہ سے سجدے کا رشتہ یہ ہے کہ جواہرِعقل کے لئے سرِ تسلیم خم کردینا چاہئے، لیکن یہ کام عوام النّاس کے لئے ممکن ہی نہیں۔

س ۱۱: آیا سیّارۂ زمین پر اس افسانوی کوہِ قاف کا کوئی وجود ہے، جس پر جِنّ و پری یا سیمرغ رہتا ہو؟

ج: ظاہر میں ایسا کوئی پہاڑ کہیں بھی نہیں، مگر روحانیّت میں ایک نورانی پہاڑ ضرور ہے، جس پر جابجا ایسے الفاظ درج ہیں، جن کے آخر میں قاف ہی قاف ہے، جس میں بھیدوں کے جِنّ و پری کے علاوہ روحِ اعظم کا سیمرغ رہتا ہے۔

س ۱۲: وہ عجیب و غریب الفاظ جو کوہِ قاف پر لکھے ہوئے ہیں، کس نوعیت کے ہیں؟ خیر کو ظاہر کرتے ہیں؟ یا شرّ کو؟ یا دونوں معنی رکھتے ہیں؟ کیا ان کے نمونے قرآنِ مجید میں موجود ہیں؟

 

۱۳۳

 

ج: وہ الفاظ حکمتوں سے پُر ہیں، جو خیر و شرّ دونوں پر روشنی ڈالتے ہیں، جن کی مثالیں قرآنِ حکیم میں جابجا موجود ہیں، جیسے: قٓ (۵۰: ۰۱) سے قلمِ قدرت مراد ہے، یعنی عقلِ کُلّ، اب چند ایسے قرآنی الفاظ ملا حظہ ہوں، جن کے آخر میں حرفِ “ق” ہے، مثلاً: صدق: اس کا مطلب یہ ہوا کہ صداقت کا اصل مقام مرتبۂ عقل ہے، کیونکہ اس لفظ کے آخر میں قاف آیا ہے، جو کوہِ عقل کے معنی رکھتا ہے،عمیق: عقل کی گہرائی، بیت العتیق: عقل کا قدیم گھر، عذاب الحریق: عقلی عذاب یعنی آتشِ جہالت سے جلنا، حقیق: حق شناس، وہ شخص جو مرتبۂ عقل تک رسائی رکھتا ہو، طبق: عقلی آسمان، سابق: نورِ عقل تک آگے بڑھنے والا، ساق: پنڈلی، یعنی عقل، جو حدودِ دین کی اساسِ ازلی ہے، عٓسٓقٓ (۴۲: ۰۲): عشقِ حقیقی، جو عقل کی معرفت کے ساتھ ہو۔

س ۱۳: راہِ خدا میں قربانی کس کی ہوئی تھی؟ اور ذبیح اللہ کس کا لقب ہے؟ حضرتِ اسماعیلؑ کا؟ یا حضرتِ اسحاقؑ کا؟ بتائیے کہ ذِبحٍ عظیم (۳۷: ۱۰۷) سے کیا مراد ہے؟

ج: قربانی کا حکم حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام کے بارے میں ہوا، پھر بجائے اس کے کہ جسم قربان ہو، آپؑ کی روحانی قربانی ہوئی، اور یہی قربانی حضرتِ اسحاق علیہ السّلام کی بھی ہوئی، پس ایک پاکیزہ شخصیّت کے بدل دو عظیم روحوں کی قربانی ذِبحِ عظیم کہلائی، دراصل ہر کامل انسان کی روح قربان ہوجاتی ہے۔

س ۱۴: سورۂ مومن (۴۰: ۱۶) کے اس ارشادِ مبارک کی حکمت بیان کریں: لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ط لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ۔ آج کس کی بادشاہت ہے؟ خاص خدا کی جو اکیلا (اور) غالب ہے(۴۰: ۱۶)۔

ج: خدا کے بادشاہِ قدیم ہونے میں کسی مومن کو کیوں کر شک ہوسکتا ہے،

 

۱۳۴

 

تاہم یہ بھی ایک بڑی حکمت ہے کہ اس کی سلطنت عالمِ شخصی میں ظہورِ قیامت کے ساتھ ساتھ قائم ہوجاتی ہے، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی یہ بادشاہی بصورتِ خلافت و نیابت ہوتی ہے، پس یہ بادشاہت یقیناً اللہ تعالیٰ کی ہے، حضرتِ قائم ع س کی ہے، اور مومنین کی ہے۔

س ۱۵: مومنین کی بڑی سے بڑی روحانی ترقی کی کوئی مثال قرآنِ پاک سے پیش کریں، تاکہ وہ اپنی تمام تر ذمّہ داریوں کو صحیح معنوں میں محسوس کرسکیں۔

ج: مومنین حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی اطاعت و پیروی کرتے ہوئے روحانیّت کے تمام مراحل سے آگے جاسکتے ہیں، تا آنکہ وہ چشم باطن سے یہ دیکھ لیں کہ عالمِ جبین میں نورِ ازل ابھی ابھی طلوع ہوا، یہ نور خورشیدِ عقل بھی کہلاتا ہے، جس کا مشرق و مغرب ایک ہی جگہ ہے (۵۷: ۱۲؛۶۶: ۰۸) یہیں سب سے بڑا دیدار اور مرتبۂ فنا حاصل ہوجاتا ہے، اور اسی مقام پر جملہ مخفی خزائن اور ان کی کلیدیں موجود ہیں، چنانچہ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے بمقامِ حسن آباد (بمبئی) ایک خاص مجلس میں دستِ مبارک سے بطورِ نمونہ اپنی پاک پیشانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: “یہاں بہشت ہے، اسے حاصل کرلو۔” یہ بابرکت ارشاد ڈائمنڈ جوبلی کے پُرمسرّت ایام کی یاد تازہ کرتا ہے(۱۹۴۶ء)۔

 

نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی

پیر۱۸؍جمادی الاوّل ۱۴۱۰ھ

۱۸؍دسمبر۱۹۸۹ء

 

۱۳۵

 

چوٹی کے سوالات

قسط: ۲

 

س ۱: آپ نے سورۂ انعام (۰۶: ۱۸؛۰۶: ۶۱) کے حوالے سے یہ نوٹ کیا ہے: “خدا کی زبردستی اس کے خاص بندوں پر خوب چلتی ہے، اور اسی میں بڑی حکمت ہے۔” اس میں کیا راز ہے؟

ج: دونوں جگہ وہ مبارک الفاظ یہ ہیں: وَھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ ۔ وہی اپنے (خاص) بندوں پر غالب ہے۔ دنیا کے ہر ظالم کی زبردستی میں شرّ و فساد ہے، مگر اللہ کی زبردستی (قاھریت) میں خیر و صلاح اور عظیم حکمت ہے، لہٰذا اس کا تعلق منکرین سے نہیں، صرف مومنین ہی سے ہے، کیونکہ کافروں کو دنیوی زندگی کی مہلت دی گئی ہے، مگر ہاں قیامت کے دن (۴۰: ۱۶) ۔

س ۲: سورۂ مومن (۴۰: ۱۵) میں ہے: رَفِیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُوْالْعَرْشِ ۔ خدا تو درجات کا بلند کرنے والا (اور) عرش کا مالک ہے(۴۰: ۱۵) اس ارشاد کا تاویلی مفہوم کیا ہے؟

ج: درجات سے حدودِ دین مراد ہیں، اور عرش کے معنی ہیں عقلِ کلّی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا تمام حدود کو عقلِ کلّی تک بلند کرتا ہے، جہاں علم و معرفت اور اسرارِ خداوندی کی ازلی و ابدی بہشت اور اس کی تمام نعمتیں موجود ہیں۔

س ۳: تقیہ الگ ہے، مگر روحانی علم کو چھپانا ظلم ہے، جیسا کہ خدائے بزرگ و برتر کا ارشاد ہے: وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَھَادَۃً عِنْدَہ‘ مِنَ اللّٰہِ (۰۲: ۱۴۰) اور اس سے

 

۱۳۶

 

بڑھ کر کون ظالم ہوگا جس کے پاس خدا کی طرف سے کوئی گواہی (موجود) ہو اور پھر وہ چھپائے (۰۲: ۱۴۰) کیا آپ اس کی مزید وضاحت کریں گے؟

ج: اگر کسی شخص نے اللہ کے نورِ ہدایت کی روشنی میں قرآن اور اسلام کے روحانی عجائب وغرائب کا مشاہدہ کیا ہے، تو یہ اس پرخدا کی طرف سے ایک بڑا مقدّس فریضہ بن جاتا ہے کہ اس شہادت کو ہادیٔ زمان کے منشاء کے مطابق بیان کرے، ورنہ وہ بہت بڑا ظالم قرار پائے گا۔

س ۴: عاشق اور عارف میں کیا فرق ہے؟ عارف اور معرفت کا درجۂ کمال کیا ہے؟ معرفت کے بارے میں آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا ارشادِ گرامی کیا ہے؟ اور اس باب میں امامِ عالیمقام صلوات اللہ علیہ کی کیا ہدایتِ عالیہ ہے؟

ج: ایمان میں درجہ بدرجہ عشق موجود ہے، مگر معرفت علم الیقین کی بنیاد پر عین الیقین سے شروع ہو کر حق الیقین کے مقام پر مکمل ہو جاتی ہے، اور یہی اس کا درجۂ کمال ہے، یہ بڑا عمدہ قول ہے: سبحٰنک ماعبدناک حقّ عبادتک، سبحٰنک ماعرفناک حقّ معرفتک۔ توپاک ہے ہم نے تیری عبادت نہیں کی جیسا کہ اس کا حق ہے۔ تو پاک ہے ہم نے تجھ کو نہیں پہچانا جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے، ارشادِ نبوّی ہے: أعرفکم بنفسہٖ أعرفکم بربّہٖ۔ تم میں جو سب سے زیادہ اپنی روح کو پہچانتا ہے، وہی تم میں سب سے زیادہ اپنے ربّ کو پہچانتا ہے۔ اس سے معرفت کے بہت سے درجات مرتب ہوجاتے ہیں، اسی کی تصدیق کرتے ہوئے مولا علیؑ نے فرمایا: مَن عَرف نَفسہ فَقد عَرف رَبّہ۔ جس نے اپنی روح (یعنی انائے علوی) کو پہچانا بیشک اس نے اپنے پروردگار کو پہچانا، آپ أئمّۂ برحقؑ کے ان گرانمایہ ارشادات کا مطالعہ کریں، جو معرفت کے بارے میں ہیں۔

 

۱۳۷

 

س ۵: یہ آپ ہی کا بیان ہے: “ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مسگار میں قربان علی خان صاحب کے گھر میں بموقعِ دعوتِ بقا شب بیداری کی مجلس جاری تھی، اس حال میں مجھ پر چند لمحات کے لئے نیم خوابی کی کیفیت طاری ہوئی، اور یکایک قرآنِ مجید جو درمیانی سائز کا تھا سامنے آیا، اور تیزی سے خود بخود اس کے مقدّس اوراق کھلتے گئے، یہاں تک کہ آیۂ کرسی پر یہ عمل ٹھہر گیا۔” اس کے کیا معنی ہیں؟

ج: اس کے معنی انتہائی عجیب و غریب ہیں، مثلاً:

الف: آیۂ کرسی میں امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے مرتبۂ اسمِ اعظم پر ہونے کا ذکر ہے۔

ب: یہ اعظم الآیات ہے، اس لئے اس کا پڑھنا ضروری ہے۔

ج: صاحب خانہ اوراہلِ مجلس کیلئے خوشخبری تھی۔

د: اس میں یہ واضح اشارہ بھی تھا کہ قرآنی روح و روحانیّت سے کامل رسائی ہوسکتی ہے، اور مرتبۂ عقل پرقرآنِ مجید کی معرفت بھی ممکن ہے۔

س۶: شیاطین اِنسی شکل کے بھی ہیں، اور جنّی صورت کے بھی (۰۲: ۱۱۲) ، آپ بتائیں کہ ان میں زیادہ خطرناک کون ہیں؟ نیز یہ بیان کریں: اس کے کیا معنی ہیں کہ شیطان صراطِ مستقیم کے مسافروں پر آگے، پیچھے، داہنے، اور بائیں سے حملہ کرتا ہے؟

ج: شیاطینِ انسی سے احتیاط بیحد ضروری ہے، آگے سے حال و مستقبل مراد ہے، پیچھے ماضی ہے، داہنے ظاہر ہے، اور بائیں باطن (۰۷: ۱۷)، چونکہ شیطان دراصل رجیم (سنگسارکیا گیا ، اور سنگسار کرنے والا) ہے، لہٰذا وہ مذکورہ اطراف سے گمراہ کُن باتوں کی سنگباری کرتا ہے، جس کا دفاع ولیٔ امرہی کے علم سے ہوسکتا ہے۔

 

۱۳۸

 

س ۷: اصحابِ فیل کا واقعہ حضورِ انورؐ کی پیدائش سے ایک سال قبل کا ہے، لیکن قرآنِ حکیم کا خطاب اس طرح ہے، جیسے یہ واقعہ آنحضرتؐ کے سامنے ہی پیش آیا ہو، جیسا کہ ارشاد ہے: اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ (۱۰۵: ۰۱ ، اے رسولؐ) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا۔ اس میں کیا راز ہے؟

ج: روحانیّت ایسا معجزہ ہے کہ اس سے ماضی بھی اور مستقبل بھی حال میں مرکوز ہوجاتے ہیں، چنانچہ سرورِ انبیا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم چشم باطن سے ہر ضروری چیز کا مشاہدہ کرتے تھے، جس کا اشارہ قرآنِ پاک میں موجود ہے (دیکھو آیۂ کشفِ غطاء ۵۰: ۲۲)۔

س ۸: آپ نے چند سال قبل اپنے بعض تلامذہ سے کہا تھا کہ قرآنِ کریم میں جہاں جہاں لفظِ “کذالک” آیا ہے وہاں آیۂ ماقبل اور مابعد کو خوب غور سے دیکھا کرو، کیونکہ وہاں کچھ جواہرِ اسرار پوشیدہ ہیں، اور آپ کے کہنے پر ایک ہوشمند سٹوڈنٹ نے اس سے متعلق تمام حوالہ جات کا گوشوارہ بنا کر پیش کیا تھا، تو کیا آپ یہاں اس کلید کی بہت بڑی اہمیت کی کوئی مثال بیان کریں گے؟

ج: اس لفظ میں کاف حرفِ تشبیہہ ہے، اور ذالک اسمِ اشارۂ بعید، پس کذالک کے معنی ہوئے اُسی طرح، مثال: وَکَذَالِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطاً لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْداً (۰۲: ۱۴۳) اور اُسی طرح (یعنی اگلے قانونِ ہدایت کے مطابق اے گروہِ أئمّہ) ہم نے تم کو عادل اُمت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسولؐ تم پر گواہ بنیں (۰۲: ۱۴۳) اس آیۂ کریمہ کی واضح حکمت یہ ہے کہ نورِ نبوّت امامؑ پر

 

۱۳۹

 

دائمی گواہ اور حاضر و ناظر ہے، اور نورِ امامت لوگوں پر دائمی گواہ اورحاضر و ناظر ہے ، جیساکہ سورۂ توبہ (۰۹: ۱۰۵) میں ارشاد ہے: وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہ‘ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط۔ اور (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ تم لوگ اپنے اپنے کام کئے جاؤ ابھی تو خدا اور اس کا رسولؐ اور مومنین (یعنی أئمّہؑ) تمہارے کاموں کو دیکھیں گے (۰۹: ۱۰۵)۔

س ۹: اللہ تعالیٰ کے حضور جانے کی کیا کیفیت ہوگی؟ کیا لوگ تنہا تنہا جائیں گے (۰۶: ۹۴)؟ یا گروہ گروہ ہوکر (۱۷: ۱۰۴)؟

ج: خدا وندِ تعالیٰ انسانِ کامل میں سب لوگوں کو سمیٹ کر نفسِ واحدہ بنائے گا، اب یہی اکیلا شخصِ کامل خدا کے پاس جاسکے گا(۳۱: ۲۸) کیونکہ جب لوگ دنیا کی طرف آرہے تھے، تو اس وقت بھی وہ سب کے سب نفسِ واحدہ میں ذرّاتِ روحانی تھے، اور واپسی پر بھی ایسے ہی ہوں گے، پس نفسِ واحدہ ایک طرف سے سب ہے، اور دوسری طرف سے اکیلا (۰۴: ۰۱؛ ۰۶: ۹۸؛ ۰۷: ۱۸۹؛ ۳۱: ۲۸؛ ۳۹: ۰۶)۔

س ۱۰: جب نفسِ واحدہ یعنی انسانِ کامل کے خدائے بزرگ و برتر کی طرف لوٹ جانے کا یہ عالم ہے، جس کا ذکر ہوا، تو کیا آپ کوئی ایسی آیۂ مقدسہ بتا سکتے ہیں، جس کی حکمت سے یہ معلوم ہو کہ حضورِ اکرمؐ میں زمانہ بھر کے لوگوں کا انبعاث ہوا تھا؟

ج: ایسی آیاتِ کریمہ کئی ہیں، مثال کے طور پر سورۂ نصر (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۳) کو لیں: (اے رسولؐ) جب خدا کی مدد اور (ذاتی قیامت و عالمگیر) فتح آپہنچی تو تم نے (دنیا بھر کے) لوگوں کو (بصورتِ ذرّات) دیکھا کہ غول کے غول خدا کے دین (یعنی تمہاری شخصیّت) میں داخل ہورہے تھے، پس تم مقامِ عقل پر اپنے ربّ کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرو اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو، وہ بیشک توبہ قبول کرنے والا ہے، یعنی جب کوئی روحانی سفر میں عملاً لوٹ کر اس کے پاس جاتا ہے، تو اس کو قبولتا ہے، اور اپنی

 

۱۴۰

 

ذات میں فنا کر لیتا ہے، پس توبہ کے اصل معنی یہی ہیں۔

س۱۱: جیسا کہ س نمبر ۹ کے حوالے سے ظاہر ہے کہ روزِ قیامت بندے کو خدا کے پاس جانا ہے، لیکن دوسری طرف سورۂ فجر میں یہ ارشاد ہوا ہے: وَجَآئَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفّاً صَفّاً (۸۹: ۲۲) اور تمہار اپروردگار اور فرشتے قطار کی قطار آجائیں گے (۸۹: ۲۲) آپ وضاحت کریں کہ قیامت کے دن لوگوں کو اللہ کے حضور جانا ہے؟ یا خدا اور فرشتوں کو دنیا میں نازل ہونا ہے؟

ج: عالمِ امر لامکان ولا زمان ہے، لہٰذا اس کے حقائق و معارف مکان و زمان کی کسی ایک تشبیہہ و تمثیل میں محدود نہیں ہوسکتے، بلکہ ان کا بیان مختلف مثالوں میں کیا جاتا ہے، پس جو ذات حقیقت میں آنے جانے سے برتر ہے، اس کے متعلق مجازاً یہ کہنا درست ہے کہ لوگ اس کی طرف جانے والے ہیں، اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ وہ ذاتِ پاک لوگوں کے پاس آنے والی ہے۔

س ۱۲: اگر خدا وندِ عالم بذاتِ پاکِ خود آنے جانے سے منزہ و برتر ہے، تو پھر پروردگار اور فرشتوں کے نزول کی یہ مثال کس چیز سے دی گئی ہے؟

ج: اس انتہائی عظیم واقعہ کی مثل حضرتِ قائم القیامت علیناسلامہ کا ظہور ہی ہے، جس کا تعلق عالمِ دین اور عالمِ شخصی سے ہے، اَلحمد لِلّٰہ علٰی مَنّہٖ و اِحْسَانہٖ۔

 

نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی

جمعہ ۲۲ ؍جمادی الاوّل ۱۴۱۰ھ

۲۲؍دسمبر۱۹۸۹ء

 

۱۴۱

 

سابقون کی سبقت کا راز

 

۱۔ اَلسَّبْقُ: اس کے اصل معنی ہیں چلنے میں کسی سے آگے بڑھ جانا، اسی سے سابق ہے، یعنی آگے بڑھنے والا، اور اس کا صیغۂ جمع سابقون اور سابقین ہے (یعنی آگے بڑھنے والے) چنانچہ ارشادِ خدا وندی ہے: وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ (۵۶: ۱۰) اور جو آگے بڑھنے والے ہیں وہ آگے ہی بڑھ جانے والے تھے۔

 

۲۔ سابق کی حکمت: لفظِ سابق کے آخر میں حرفِ قاف (ق) موجود ہے، جو مرتبۂ عقل کا اشارہ ہے، چنانچہ سابقون وہ خوش بخت حضرات ہیں، جو سرچشمۂ عقل کی طرف سب سے آگے بڑھ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ احوالِ روحانی اور اعمالِ ظاہری میں بھی سبقت کرتے ہیں، کیونکہ عقل ہی سے روح اور جسم کی بہتری ہوسکتی ہے۔

 

۳۔ سابقون اور نامۂ اعمال: سورۂ واقعہ (۵۶) (۵۶: ۰۱ تا ۱۲) کی ابتدائی بارہ آیاتِ مقدّسہ کو بمعِ ترجمہ غور سے پڑھ لیں، جس سے پتا چلے گا کہ زلزلۂ قیامت سے عالمِ شخصی کے پہاڑ (منجمد روحیں) کس طرح ذرّات بن کر اڑنے لگتے ہیں، اور یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ اس وقت لوگ تین درجوں میں ہوجاتے ہیں: داہنے ہاتھ میں نامۂ اعمال لینے والے، بائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال لینے والے، اورسابقون، جوسب سے آگے ہیں، جو مقربین ہیں، جن کا نامۂ اعمال سامنے (جبین) اور عِلّیّین میں ہے (۸۳: ۱۸ تا ۲۳)۔

 

۱۴۲

 

۴۔ عِلّیّین کیا ہے؟: اگرچہ لفظِ عِلّیّین کے بارے میں کئی وضاحتیں ہوچکی ہیں، لیکن کوئی ربّانی خزینہ چند ہی سکّوں کے لینے سے کس طرح ختم ہوسکتا ہے، چنانچہ عِلّیّین کی مزید حکمت یہ ہے کہ روحانیّت اور قیامت کے موقع پر ہر مومن کی پیشانی میں علیؑ کا نور تابان و درخشان ہوگا (۰۶: ۱۲۲؛۵۷: ۱۲؛ ۵۷: ۱۹؛ ۶۶: ۰۸) چونکہ ہر امام اپنے وقت کا علیؑ ہی ہوا کرتا ہے، لہٰذا تمام حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام کا اجتماعی نام عِلّیّین یا عِلّیّون(۸۳: ۱۸ تا ۱۹) ہوا، آپ نے کتابِ “وجہِ دین” میں پڑھا ہوگا کہ امام ہی مومنین کی گردن (عُنُق۱۷: ۱۳) ہے، اور اسی میں ان کا نامۂ اعمال ہے، پس حضرتِ امامِ عالیمقامؑ کے جن نیک بخت مریدوں نے اپنی پیشانی ہی میں امامِ اقدس و اطہرؑ کا نورانی دیدار کیا ہے، تو انھوں نے عِلّیّین (کتابِ مرقوم) میں بطورِ پیشگی یعنی قبل ازجسمانی موت اپنے نامۂ اعمال کا مشاہدہ کیا، اور یہ کتنی بڑی سعادت اور کیسی عظیم بشارت ہے کہ دوستانِ خدا چشم بصیرت سے نورِ عقل کو دیکھتے ہیں۔

 

۵۔ نورانی کُرتے (سرابیل ۱۶: ۸۱): اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے نور کے ایسے لباس بنائے ہیں، جو آتشِ نادانی کی حرارت و گرمی سے بچا سکتے ہیں، اور ایسے کپڑے بھی، جو جنگِ قیامت (جہادِ روحانی) میں مومنین کے لئے بیحد ضروری ہیں، یعنی نورِ اساس (علیؑ) کے لباس اور نورِ قائم ع س کے لباس، کہ پہلے میں علمِ دین ہے، اور دوسرے میں علمِ قیامت، اور آپ نے یہ حکمت سنی ہوگی کہ مقامِ روح اور مقامِ عقل پر امامِ برحق علیہ السّلام کے نور سے مذکورۂ بالا کُرتے بنتے ہیں، جن کے بہت سے نام ہیں، اور ان میں سے ایک نام عِلّیّین بھی ہے۔

 

۶۔ دَوڑ پڑو۔ آگے بڑھو: آپ یہ حکم سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۳۳)

 

۱۴۳

 

اور سورۂ حدید (۵۷: ۲۱) میں دیکھ سکتے ہیں، لیکن اس دوڑنے اور آگے بڑھ جانے کے کیا معنی؟ جبکہ دین میں ہر قول و فعل سنجیدگی اور سکون سے کیا جاتا ہے؟

ج: یہ امر علم و عمل میں سبقت کرنے سے متعلق ہے، اور اس کا زیادہ سے زیادہ تعلق منازلِ عقل سے ہے، کیونکہ وہاں تو مومنین کا نور دوڑتا رہتا ہے(۵۷: ۱۲؛ ۶۶: ۰۸) تاہم مجموعی اعمال میں سبقت کا یہ اشارہ ہے کہ بہشت میں داخل ہوجانا آسان بات ہے، مگر اللہ کی خوشنودی حاصل کرکے خود کو دوسروں کے حق میں بہشت بنانا انتہائی مشکل کام ہے۔

 

۷۔ طریقِ احسن: قرآنی و اسلامی ہدیات و تعلیمات سے صراطِ مستقیم مرتب ہوجاتی ہے، جس پر قدم بقدم اور منزل بمنزل آگے بڑھ جانا مقصود ہے، اور یقیناً اسی عمل میں بہتر سے بہتر چیز کی پیروی ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ منزلِ آخرین میں عقل کا معجزہ آتا ہے، جو سب سے بہترین چیز ہے، جیسا کہ حضرتِ موسیٰؑ سے فرمایا گیا: تم توریت کو مضبوطی سے لو اور اپنی قوم کو حکم دے دو کہ اس کی اچھی سے اچھی باتوں پر عمل کریں (۰۷: ۱۴۵) اور اگر قرآنِ حکیم کی ان آیاتِ مبارکہ میں، جن میں لفظِ “احسن” موجود ہے، خوب غور سے دیکھا جائے، تو یہ حقیقت روشن ہوجائے گی کہ قرآنی ہدایات درجہ بدرجہ ہیں، اور اس کی تعلیمات رفتہ رفتہ نورِ عقل تک پہنچا دیتی ہیں، پس یہی عقلی راستہ اس کا طریقِ احسن ہے۔

 

۸۔ درجات کی سیڑھیاں: قرآنِ کریم کے کُل ا ٹھارہ مقامات پر درجہ اور درجات کا ذکر موجود ہے، سورۂ معارج (۷۰) میں سیڑھیوں کا، اور سورۂ اِنشقاق (۸۴: ۱۹) میں طبقات کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، الغرض سب سے اعلیٰ سیڑھی

 

۱۴۴

 

کے مختلف مدارج پر انبیاء جارہے تھے، پھر اسی طرح اولیاء کی سیڑھی اس کے نیچے لگی ہوئی ہے، جس پر دوستانِ خدا زینہ بزینہ چڑھ رہے ہیں، اس کے تحت شہدا کی سیڑھی جڑی ہوئی ہے، جو صالحین کی سیڑھی پر قائم ہے، اس کا قیام تابعین کی سیڑھی پر ہے، اور یہ عوام النّاس کی سیڑھی پر کھڑی کی گئی ہے، یہی تصوّرصراطِ مستقیم کا ہے (۰۴: ۶۹) لیکن یہاں بڑا اہم سوال یہ ہے کہ ان بے شمار درجوں کا تعین کس فرق و تفاوت کی بنیاد پر کیا گیا ہے؟

جواب: فرق و امتیاز میں اصل چیز علم ہی ہے، جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے: نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآئُ وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ (۱۲: ۷۶) ہم جسے چاہتے ہیں اس کے درجے بلند کردیتے ہیں اور ہر صاحبِ علم سے اوپر ایک اور عالِم ہے (۱۲: ۷۶) اس سے یہ حقیقت کسی شک کے بغیر ظاہر ہوئی کہ قرآنی علم و عرفان درجہ بدرجہ اوپر سے اوپر جا کر خورشیدِ عقل سے مل جاتا ہے، پھر وہاں سے اس کا ایک پہلو نورِ منزّل کے ساتھ نیچے آکر پھیل جاتا ہے۔

 

۹۔ اسلام کے دو نام: دینِ قائم اور دینِ فطرت اسلام کے خاص ناموں میں سے ہیں، دینِ قائم (۰۹: ۳۶) اس معنی میں کہ یہ اپنی باطنی جڑوں پر قائم و برجاہے، اور اس میں ذرّہ بھر کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، اور دینِ فطرت (۳۰: ۳۰) اس وجہ سے کہ یہ ظاہری حرکت و ارتقاء میں قانونِ فطرت کے عین مطابق بنا ہے، تاکہ انسان کی ترقی میں کوئی تنگی (حرج ۲۲: ۷۸) نہ ہو، پس ہر مومن کے لئے نہ صرف مادّیت میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ روحانی عروج ضروری ہے، تاکہ وہ دیدۂ دل سے یہ دیکھ سکے کہ عالمِ شخصی کے خزانوں میں حقائق و معارفِ اسلام

 

۱۴۵

 

کس شان سے تر وتازہ محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔

 

۱۰۔ کائناتی اور آفاقی ہدایت: اگر کوئی دانشمند اللہ تعالیٰ کی ہدایتِ کُلیّہ کو چشم ظاہر سے دیکھنا چاہے، تو وہ اس کائنات کے بحرِ محیط کی حرکتِ مستدیر کی شکل میں دیکھ سکتا ہے، کہ کس طرح آسمان، ستارے، زمین، اور چار موسم دائمی گردش میں ہیں، اسی معنٰی میں فرمایا گیا: وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوُنَ (۳۶: ۴۰) اور ہر چیز ایک دائرے میں گردش کرتی ہے، یہ تو ہوئی ہدایتِ مدوّر، اور اب اس ذیلی ہدایت کے بارے میں بات کرتے ہیں، جو ارتقائی صورت میں کام کررہی ہے، وہ ہے جمادات سے نباتات بنانا، نباتات کو حیوان میں فنا کردینا، حیوان کو انسانیّت کی خاطر قربان کردینا، اور عام انسانوں کو انسانِ کامل سے واصل کرلینا، اس سے ظاہر ہوا کہ قرآنِ پاک کے علاوہ کتابِ کائنات کے متعدد مقامات پر بھی “آگے بڑھو، اور ترقی کرو۔” کا حکم مرقوم ہے، پس اے بھائیو! اپنے علم و عمل کی کوششوں کو تیز تر کرو۔

 

۱۱۔ فطرت کا بہترین نمونہ: آدم و آدمی کو بجا طور پر قانونِ فطرت کا شہکار مانا جاتا ہے، کیونکہ دستِ قدرت کی تخلیق کا بہترین نمونہ یہی ہے، جیسے ربّ العزّت کا ارشاد ہے: فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذَالِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَّ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ (۳۰: ۳۰)اس کا حکمتی مفہوم یہ ہے: پس اے رسولؐ تم ابراہیمؑ کی طرح باطل سے کترا کے مرتبۂ عقل پر اپنے چہرۂ جان کو دین کے لئے پیکرِ نورانی قرار دو، وہی خدا کی بناوٹ ہے، جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے خدا کی اس بناوٹ میں بدل نہیں ہوسکتا یہی

 

۱۴۶

 

اُستوار اور سیدھا دین ہے، مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں (۳۰: ۳۰) ملاحظہ ہو: قرآنی میناروں سے روشنی، قسطِ دوم، ۸ – ایک بہت بڑا راز۔

 

۱۲۔ صورتِ رحمان کا سِرِّ عظیم: جب خدائے پاک و برتر خود جسم نہیں ہے، تو پھر اس کے اعضاء و جوارح اور صورت بھی نہیں، وہ ایسی تشبیہہ و تمثیل سے منزہ ہے، مگر یہ ہے کہ وہ پیغمبر اور امام کو اپنا خلیفہ بنا کر کہہ سکتا ہے کہ یہ میرا نور، میری روح، میرا چہرہ، اور میرا ہاتھ ہے، اور اللہ کی یہی سنت چلی آئی ہے، سو حضرتِ آدمؑ سے قبل جو امام تھا، اس کو صورتِ رحمان کی مرتبت حاصل تھی، چنانچہ پروردگارِ عالم نے اسی سابقہ صورتِ رحمانی پر حضرت آدمؑ کو پیداکیا، تاہم یہ راز سمجھ لینا کہ اس میں تخلیقِ روحانی اور چہرۂ جان کا تذکرہ ہے، اور یہی چہرہ مقامِ عقل پر وجہُ اللہ کی نمائندگی کرتا ہے (۲۸: ۸۸؛ ۵۵: ۲۷) پس مذکورۂ بالا آیۂ مبارکہ میں بزبانِ حکمت یہ ارشاد ہوا ہے کہ دینِ حنیف، دینِ قائم، اور دینِ فطرت یہ ہے کہ رسولِ خداؐ اور امامِ زمانؑ کے چہرۂ روحانی کو صورتِ رحمان اور وجہُ اللہ مان لیا جائے، اور ایسے حقائق و معارف کی بہت بڑی اہمیت کے پیشِ نظر سابقون کی شاندار تعریف کی گئی ہے، وَمَا عَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ (۳۶: ۱۷)۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی

بدھ ۲۷؍جمادی الاوّل ۱۴۱۰ھ

۲۷؍دسمبر۱۹۸۹ء

 

۱۴۷

 

چوٹی کے سوالات

قسط: ۳

س۱: آپ نے اپنی تحریروں میں بار بار یہ ذکر کیا ہے کہ آدم صفی اللہ علیہ السّلام سے قبل کے بہت سے ادوار میں بہت سے آدم ہو گزرے ہیں، اور آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اس دورِ کبیر کا آدم سراندیب (SRI LANKA) میں پیدا ہوا تھا، اگر ایسا ہے، تو کیا آپ بتائیں گے کہ آدمِ سراندیبی کے والد کا کیا نام تھا؟

ج: آدم ایک اجتماعی لقب ہے، جس کا اطلاق ہر دورِ کبیر کے ابتدائی انسانِ کامل، ہر ناطق، اور ہر امام پر ہوتا ہے، عبداللہ آدمِ سراندیبی کا ذاتی لقب ہے، ان کا اصل نام تخوم ہے، اور ان کے والد کا نام بجلاح بن قوامہ بن ورقتہ الرّویادی ہے (بحوالۂ سرائرواسرار النطقاء، ص ۳۱، جعفر بن منصور الیمن)۔

س ۲: سورۂ صآفّات (۳۷: ۷۷) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ خدا وندِ عالم نے صرف حضرتِ نوح علیہ السّلام ہی کی ذرّیت کو دنیا میں باقی و برقرار رکھا (۳۷: ۷۷) جبکہ سورۂ ھود (۱۱: ۴۷) سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ آپؑ کے ساتھ کشتی میں مومنین کی جماعتیں (اُمم) بھی تھیں، آیا ایسے لوگوں کی ذرّیت، جن سے سلامتی اور برکتوں کا وعدہ فرمایا گیا تھا، رفتہ رفتہ ہلاک ہوگئی؟

ج: ہرگز ایسا نہیں، کشتی میں جتنے لوگ اور جس قدر ذرّاتِ روحانی سوار ہوئے تھے، ان سب کو حضرتِ نوحؑ کی ذرّیتِ روحانی ہونے کا شرف حاصل ہوا، اور مذکورہ آیۂ مبارکہ میں اسی ذرّیت کو باقی رکھنے کا ذکر ہے۔

 

۱۴۸

 

س ۳: سورۂ سجدہ (۳۲: ۱۷) میں ہے: ان لوگوں کی کار گزاریوں کے بدلے میں کیسی کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک پوشیدہ رکھی ہے، اس کو تو کوئی نفس (شخص) جانتا ہی نہیں (۳۲: ۱۷) آنکھوں کی ٹھنڈک سے کیا مراد ہے؟ اور اس میں نفس کا ذکر کیوں فرمایا گیا ہے؟

ج: آنکھوں کی ٹھنڈک امامِ اقدس و اطہر صلوات اللہ علیہ کا وہ پاک دیدار ہے، جو نیکو کاروں کو مرتبۂ عقل پر حاصل ہوجاتا ہے، جس کے تحت بہشت کی تمام نعمتیں مہیّا ہیں، اور نفس کا ذکر یہاں اس وجہ سے ہے کہ یہ مقامِ عقل کا قصّہ ہے، منازلِ جان (نفس) کا نہیں، یعنی یہ معرفت عقل ہی کو حاصل ہوجاتی ہے۔

س۴: ہر پیغمبر اپنے قرآنی قصّے میں دوسرے تمام انبیاء اور جملہ أئمّہ کا ترجمان (INTERPRETER)  ہوا کرتا ہے، اسی طرح ماضی کے قصّۂ مومنین میں بعد کے اہلِ ایمان کے لئے بہت سی مثالیں ہیں، جیسے زمانۂ آدم کے مومنین کہ وہ روحانیّت میں فرشتے تھے، اور جسمانیّت میں بشر، اب آپ اسرائیل (حضرتِ یعقوبؑ) اور بنی اسرائیل کی مناسبت سے یہ بتائیں کہ اس نام میں کیا اشارہ ہے؟

ج: اسرائیل عبرانی اسم ہے، چنانچہ اسرائیل کے معنی ہیں: عبداللہ، یعنی بندۂ خدا ، جبکہ اِسرا بندہ ہے، اوراِیل خدا، یعنی اللہ کا خاص بندہ، پس بنی اسرائیل کے معنی ہوئے: خدا کے بندۂ خاص کی اولاد، جس سے ہادیٔ برحق کے فرزندانِ روحی مراد ہیں، تاکہ ہر مقام پر اور ہر مثال میں قرآنی علم و حکمت کا رخ مومنین ہی کی طرف ہوجائے، اور قرآنِ حکیم کو ایسا ہی ہونا تھا، پھر آپ اس بیان کی روشنی میں یوں سمجھ لیں کہ روحانیّت میں وہی سارے معجزات، تمام نعمتیں، اور فضیلتیں اب بھی موجود ہیں، جن کا ذکر قصّۂ موسیٰؑ میں ملتا ہے (۰۲: ۴۷؛ ۰۲: ۵۵؛ ۰۵: ۱۲؛ ۱۷: ۱۰۱) بلکہ وہ جملہ نعمتیں بھی، جن

 

۱۴۹

 

کا تذکرہ دیگر انبیاءؑ کے قصّوں میں آیا ہے۔

س ۵: سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) میں ارشاد ہے: اور ہم نے موسیٰؑ اور ان کے بھائی (ہارونؑ) کے پاس وحی بھیجی کہ مصر میں اپنی قوم کے لئے گھر بناؤ اور اپنے اپنے گھروں ہی کو قبلہ قراردے کر پابندی اور درستی سے نماز پڑھا کرو اور مومنین کو خوشخبری دے دو (۱۰: ۸۷) اگرچہ یہ شریعتِ موسیٰؑ کا ذکر ہے، تاہم سورۂ نور کی آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کے بعد والی دو آیتوں میں بھی غور سے دیکھ کر بتائیں کہ لفظِ قبلہ میں کیا حکمت ہے؟ اور فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَفِیْھَا اسْمُہ‘۔۔۔ (۲۴: ۳۶ تا ۳۷) کے کیا معنی ہیں؟

ج: قرآنِ کریم کی ہر آیۂ مبارکہ کی بے شمار خوبیاں ہیں، اور سب سے خاص خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی حکیمانہ ہدایت سے بندۂ مومن کو خدا سے واصل کردینے کی بھر پورصلاحیت رکھتی ہے، چنانچہ خانۂ جسم اور خانۂ جان کو قبلہ بنانے کا یہ اشارہ ہے کہ مرتبۂ فنا فی اللہ حاصل کیا جائے، یہی سبب ہے کہ پروردگارِ عالم نے مومنین کو اجتماعی عبادت کے تاکیدی حکم کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے گھروں میں انفرادی ذکر و تسبیح کی اجازت بھی دے رکھی ہے، کیونکہ جب قرآن ذکرِ کثیر کرنے کے لئے فرماتا ہے (۳۳: ۲۱؛ ۳۳: ۴۱؛ ۶۲: ۱۰) تو اس کا ایک بڑا حصہ گھر ہی میں ہوسکتا ہے۔

س۶: قانونِ فطرت کے مطابق سال کے بارہ مہینے ہوا کرتے ہیں (۰۹: ۳۶) بنی اسرائیل میں بارہ نقیبوں کا انبعاث ہوا (۰۵: ۱۲) حجرِ مکرم سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے (۰۲: ۶۰) اور حضرتِ عیسیٰؑ کے بارہ حواری تھے (۰۳: ۵۲) اس بارہ کے عدد میں کیا حکمت ہے؟

ج: اس کی دلیل یہ ہے کہ اپنے اپنے وقت میں ناطق، اساس، اور امام کے

 

۱۵۰

 

بارہ بارہ حجت ہوتے ہیں۔

س ۷: یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ انسان نام ہے جسم، روح، اور عقل کا، اور آپ نے یہ مثال دی تھی کہ جسمِ انسانی ایسے قطعۂ زمین کی طرح ہے، جس کو دربارِ شاہی بنانے کے لئے پسند کرکے درست کیا جاتا ہے، روح وہ بہترین چبوترا ہے، جو دربارِ جسم میں بنایا گیا ہے، اور اس پر تختِ عقل بڑی شان سے سجایا جاتا ہے، تاکہ اس پر بادشاہ جلوہ افروز ہو، اس تشبیہہ و تمثیل سے عقل کی فضیلت و برتری واضح اور نمایان ہوجاتی ہے، اب اگر کوئی بندۂ مومن قرآنِ حکیم کی ہر آیت میں عقل کی تجلّیوں کو دیکھنا چاہے، تو یہ امر کس طرح ممکن ہوگا؟

ج: یہ سوال قرآنِ پاک کی معرفت ہی کے بارے میں ہے، جو ربِّ کریم کی پہچان سے الگ نہیں، اس کا طریقہ خود شناسی ہی ہے، تاکہ خدا اور کلامِ خدا (قرآن) کی شناخت ہو، کیونکہ قرآنِ عظیم کے تین بڑے مرتبے ہیں:

مرتبۂ اوّل: ظاہر

مرتبۂ دوم: روحانیّت

اور مرتبۂ سوم: عقلانیّت

جو انتہائی بلندی پر ہے، اور حقیقی بہشت وہی ہے۔

س۸: کیا آپ قرآنِ عزیز کے مذکورہ تین مراتب کے بارے میں کچھ وضاحت کریں گے؟ علی الخصوص روحانیّت اور عقلانیّت کے باب میں ضروری باتیں بتائیں۔

ج: قرآنِ حکیم کا ظاہر آپ کے سامنے ہے، اس کے علاوہ قرآن کی ایک عظیم روح (۴۲: ۵۲)

 

۱۵۱

 

اور ایک کامل عقل بھی ہے، عقل کا دوسرا نام نور ہے (۴۲: ۵۲) قرآنِ مجید آنحضرتؐ کے قلب مبارک پر زندہ روح اور نور (عقل) کی صورت میں نازل ہوا تھا، لیکن یہ ممکن ہی نہیں کہ زندہ اور حرکت والی چیزیں تحریر میں منتقل ہوجائیں، چنانچہ کتابِ سماوی کا ظاہری مرتبہ کاتبانِ وحی سے لکھایا گیا، مگر اس کی روحانیّت و نورانیّت حضورِ اکرمؐ کے جانشین میں منتقل کی گئی ، اسی لئے ارشاد ہوا کہ نور اور کتاب دو الگ الگ چیزیں ہیں (مفہوم۰۵: ۱۵)۔

اب جو شخص بطریقِ خود شناسی خلیفۂ رسولؐ میں فنا ہوجائے، وہی مشاہدہ کرسکے گا کہ قرآنِ پاک کی روح و روحانیّت اور عقل و عقلانیّت کی کیسی کیسی کائناتیں ہیں! قرآن میں ارض و سما کے ذکر کو دیکھ کر اگر چہ مادّی زمین و آسمان کو ذہن میں لانا بجا ہے، لیکن یہ بات ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ یہی تذکرہ عالمِ روحانی اور عالمِ عقل کا بھی ہے، اسی طرح سراسر قرآن میں ایک ساتھ جسمانی، روحانی، اور عقلی چیزوں کا ذکر موجود ہے۔

س ۹: بیت المقدّس کے عابدوں میں اس بات پر باہم جھگڑا ہوا کہ ہر شخص حضرتِ مریمؑ کی پرورش کرنے کی تمنا رکھتا تھا، آخر یہ مشورہ قرار پایا کہ وہ سب اپنے اپنے قلم پانی میں ڈال دیں، اور جس کا قلم تیرتا رہ جائے، وہی مریمؑ کی کفالت کرے گا، اس میں حضرت زکریاؑ کے قلم کو معجزہ ہوا، اور دوسرے تمام قلم ڈوب گئے، اس کی کیا تاویل ہے؟

ج: قلم نورِ عقل کا نام ہے، جو امامِ اقدس و اطہرؑ کی مبارک پیشانی میں تیرتا رہتا ہے، چنانچہ قلم کا پانی کی سطح پر ابھر جانا یا تیرنا نورِ امامؑ کے بحرِ علم پر محیط و حاوی ہوجانے کی دلیل ہے، حضرتِ زکریا علیہ السّلام منصبِ امامت پر فائز تھے، اس لئے ان کے علم و حکمت سے دوسروں کا کیا مقابلہ ہوسکتا تھا! پس حضرتِ مریمؑ کی علمی اور

 

۱۵۲

 

روحانی پرورش نورِ امامت سے ہوئی۔

س ۱۰: قرآنِ مجید میں اِھْبِطْ (تو اُتر) اِھْبِطَا (تم دونوں اُترو) اِھْبِطُوْا (تم اُترو) کے الفاظ ، جو ہبوط سے ہیں، بلندی سے اتر جانے کے لئے استعمال ہوئے ہیں، لیکن اس حکمِ خداوندی میں کیا حکمت ہے، جو بنی اسرائیل سے فرمایا کہ: اِھْبِطُوْا مِصْراً (تم کسی شہر میں اتر پڑو ۰۲: ۶۱) حالانکہ وہ کسی ظاہری بلندی پر نہ تھے؟

ج: عقل مقامِ وحدت ہے، اس لئے وہاں من و سلویٰ کا طعامِ واحدد یاجاتا ہے، (۰۲: ۶۱) لیکن صفِ اوّل کے بنی اسرائیل ہمیشہ عقل کی بلندی پر کس طرح ٹھہر سکتے تھے، لہٰذا انھیں وہاں سے اتر جانا پڑا۔

س ۱۱: کتابِ وجہِ دین، جو تاویلی حکمتوں کا خزانہ ہے، اس کے کلام نمبر ۳۳ کے آخر میں ہے: “قائم کو کوئی شخص پہچان نہ سکے گا، مگر پانچ حدود کے ذریعے سے، جیسے اساس، امام، باب، حجت، اور داعی۔” یہ کیوں ایسا ہے؟ حضرتِ قائم علیناسلامہ کی معرفت جملہ مومنین کے لئے کیوں آسان اور عام نہیں؟

ج: پروردگارِ عالم نے حضرتِ قائم ع س، قیامت، اور اس کے علم کو اپنے اسمِ اعظم کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ مخفی رکھا ہے، تاکہ قبل از وقت خدائی بھیدوں کا عوام النّاس کو پتا نہ چلے۔

س ۱۲: اسلام کے اصل معنی کیا ہیں؟ دینِ حق کا نام “اسلام” کب سے مقرر ہوا؟ اور کیوں؟

ج: اسلام کے اصل معنی ہیں: “اپنے آپ کو کسی کے حوالہ کردینا۔” دینِ اسلام کو اسی لئے اسلام کہتے ہیں کہ اس کو قبول کرنے والا اپنے آپ کو خدا کے حوالہ کردیتا ہے، دینِ حق کا یہ نام شروع ہی سے ہے، اس لئے کہ اس کا ماننے والا خود کو اللہ

 

۱۵۳

 

کے سپرد کردیتا ہے، (ملاحظہ ہو: قاموس القرآن،ص ۵۶) اس حوالگی اور سپردگی کے تحت اسلام کے اور بھی معنی درست ہوسکتے ہیں، مگر یہاں مختصراً یہ کہنا ہے کہ اپنے چہرۂ جان کو خدا کے حوالہ کردینا اسلام کی سب سے بڑی تعریف ہے، اور یہی فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ ہے، جس کا ذکر چہرۂ خدا اور چہرۂ عارف سے متعلق آیات کریمہ میں ہے (۲۸: ۸۸؛ ۵۵: ۲۷؛ ۰۶: ۷۹؛ ۰۳: ۲۰؛ ۳۰: ۳۰؛ ۳۰: ۴۳؛ ۰۲: ۱۱۲؛۰۴: ۱۲۵؛ ۳۱: ۲۲)۔

 

نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی

جمعہ ۷؍جمادی الثّانی ۱۴۱۰ھ

۵؍جنوری ۱۹۹۰ء

 

۱۵۴

 

عالمِ عقل-عالمِ وحدت

 

۱۔ جب آپ قرآنِ پاک کے شروع میں تلاوت کرتے ہیں: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ تو طالبانِ حقیقت کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ عوالم کون کون سے ہیں؟ اور کتنے ہیں؟ اس کا درست جواب یہی ہوگا کہ ہر فردِ بشر ایک عالمِ شخصی ہے، اور چونکہ افراد بے شمار ہیں، اس لئے عوالمِ شخصی بے حساب ہیں، تاہم اساسی طور پر ان عالموں کے تین درجے ہیں: عالمِ کثرت، عالمِ ذرّ، اور عالمِ وحدت، دوسرے لفظوں میں: عالمِ جسمانی، عالمِ روحانی اور عالمِ عقل، پس یہاں عالمِ عقل کے بارے میں کچھ حقائق و معارف بیان کرنا مقصود ہے، جو عالمِ وحدت اور یک حقیقت (MONOREALITY)  ہے۔

۲۔ عالمِ ظاہر ہی کا نام عالمِ کثرت ہے، جس میں جتنے انسان ہیں، وہ سب متفاوت، مختلف اور منتشر ہیں، لوگوں کا یہ اختلاف و انتشار قیامت کے دن عالمِ ذرّ ہی میں کم سے کم اور عالمِ عقل میں ختم ہوسکتا ہے، تاہم واقعۂ قیامت بڑا عجیب و غریب ہے کہ جولوگ نفسانی طور پر یا جسمانی طور پر مرچکے ہیں، وہ تو مراحلِ قیامت سے آگے گزر گئے ہیں، جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے: “مَنْ مَاتَ فَقدْ قَامَتْ قِیَامَتُہ‘۔ جو نفساً یا جسماً مرجائے تو بے شک اس کی انفرادی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔” اور جو لوگ موت کے دروازے سے داخل نہیں ہوئے ہیں، اور علمِ قیامت کے کتابی پہلو سے بھی آگاہ نہیں ہیں، تو وہ قیامت کا انتظار کررہے ہیں۔

۳۔ عالمِ وحدت کس طرح واحد ہے؟ اور اس کی مثال کیا ہوسکتی ہے؟

 

۱۵۵

 

جواب: بحرِ عقول (عقلِ کلّی) اور بحرِ نفوس (نفسِ کلّی) کے سنگم ہی کا نام مجمع البحرین (۱۸: ۶۰) ہے، جس کے بارے میں ارشاد ہوا: مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ۔ بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ۔ فَبِاَیِّ ٰ الَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ یَخْرُجُ مِنْھُمَا اللُّؤْ لُؤُ وَالْمَرْجَانُ (۵۵: ۱۹ تا ۲۲) “اسی نے دودریا باہم ملا کر بہائے جو ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں، دونوں کے درمیان ایک حدِّ فاصل بھی ہے، جس سے تجاوز نہیں کرسکتے (تو اے جِنّ و اِنس) تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے، ان دونوں دریاؤں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں‘‘۔ مثلاً شخصِ کامل کی عقل اور روح (نفس) اس کی ہستی میں

متصل و متحد بھی ہیں، اور الگ الگ بھی، جیسے شعلۂ چراغ اور روشنی، جس میں برزخ یعنی حدِّ فاصل تو ہے، مگر بیچ میں کوئی غیر چیز نہیں بس وصل ہی وصل ہے آپ مَرَجَ، یَلْتَقِیٰن، اور مجمع کے الفاظ میں غور کریں۔

۴۔ بعض حضرات عقلِ کُل کے وجود سے انکار کرتے ہیں، لیکن یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں نفسِ واحدہ (نفسِ کُلّ ) کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، وہاں پوشیدہ طور پرعقلِ کُلّ کا ذکر بھی ہے، کیونکہ کوئی عظیم روح مکمل عقل کے بغیر نہیں ہوسکتی، اور نہ حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ کا تصوّر عقلِ کامل اور روحِ اعظم کے سوا درست ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی ہے کہ جس عظیم فرشتے کا نام عرش ہے، وہ عقلِ عقول ہے، اور جس بڑے فرشتے کو کرسی کہا جاتا ہے، وہ نفسِ نفوس کہلاتا ہے، اور ان دونوں میں وحدت ہے۔

۵۔ آیۃ الکرسی کی عظمت و بزرگی اور اس کا ملکوتی نسخۂ کیمیا ہونا اس وجہ سے ہے کہ اس میں علم و حکمت کے عجائب و غرائب اور اسرارِ بدائع و صنائع پوشیدہ ہیں، جیسے کہ ارشاد ہے: وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ج(۰۲: ۲۵۵) اس کی کرسی نے سب

 

۱۵۶

 

آسمانوں اور زمین کو (اپنے اندر) گھیر لیا ہے۔ چنانچہ یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے کہ نفسِ کلّ نے عالمِ عقل یعنی عقلِ کلّ کو اپنی ہستی میں سمالیا ہے، اور اسی طرح نفسِ واحدہ عالمِ وحدت ہے، اور یہی دودریاؤں کا سنگم ( مجمع البحرین) ہے، جس سے علم و معرفت کے موتی اور مونگے نکلتے ہیں، پس یہی یک حقیقت (MONOREALITY) ہے۔

۶۔ آیاتِ نور جس طرح قرآنِ عظیم اور دینِ اسلام میں ہدایتِ حقہ کی روشنی بکھیر رہی ہیں، وہ حقیقت مومنین سے مخفی نہیں، اور ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ قرآنِ کریم میں جو تذکرۂ نور ہے، وہ دراصل تذکرۂ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہی ہے، لیکن یہاں یہ پوچھنا ہے کہ آیا تمام پیغمبروں اور اماموں کے انوار الگ الگ ہیں؟ نہیں، ہرگز ایسا نہیں، بلکہ بفرمودۂ نورٌعلیٰ نور (نور بالائے نور ہے ۲۴: ۳۵) جملہ انوار کی وحدت ہے، جس کا مشاہدہ عالمِ عقل میں ہوجاتا ہے، جہاں ایک اکیلا نور کُل اور سب ہے۔

۷۔ “چوٹی کے سوالات، قسط: ۲” میں انسانی وحدت سے متعلق نکات کو غور سے دیکھنا، کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے لوگوں کو کس طرح نفسِ واحدہ/ آدم/نفسِ کُلّ سے پیدا کیا! اور آخر کار کس طرح اسی مرتبہ میں ان سب کا شعوری یا غیر شعوری انبعاث ہوتا ہے! آپ یہ نکتۂ جانفزا ہمیشہ کے لئے دلنشین کرلیں کہ ہر پیغمبر اور ہر امام کے ساتھ عالمِ ذرّ موجود ہوتا ہے، اور لوگ بصورتِ ذرّات غیر شعوری طور پر اس میں حاضر ہوجاتے ہیں، دیکھئے قصّۂ آدمؑ (۰۷: ۱۱) اور قصّۂ نوحؑ (۱۷: ۰۳) کہ لوگ ہر کامل انسان کے عالمِ ذرّ میں رہتے آئے ہیں، اور عالمِ عقل سے بھی منسلک و متعلق رہے ہیں، مگر غیر شعوری طور پر، چنانچہ لوگوں پر بہت سے روحانی واقعات گزرچکے ہیں، لیکن

 

۱۵۷

 

انبیاء و اولیاء کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا، الغرض تمام انسان نفسِ واحدہ میں ایک ہیں، اسی لئے وہ سب کچھ ہے۔

۸۔ خداوندِ عالم کی فطرت و صناعیت کا بہترین نمونہ انسان ہی ہے، اسی لئے قرآنِ حکیم لوگوں کو اپنی ذات کی معرفت کی طرف پُر زور توجہ دلاتا ہے، ایسی توجہ یا حکم کی چند مثالیں یہ ہیں:

الف: فِطْرَتَ اللّٰہِ (۳۰: ۳۰)۔

ب: اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ (۲۳: ۱۴)۔

ج: فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (۹۵: ۰۴)۔

د: وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ (۵۱: ۲۱)

ھ: وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ (۱۷: ۷۰)۔

و: قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ (۱۷: ۸۵) اس کی وضاحت:

۹۔ اگر تمہارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ خالقِ کائنات نے آدمِ اوّل اور ابتدائی لوگوں کو کس طرح پیدا کیا؟ تو اس کا جواب موجودہ انسانوں کی فطرت و تخلیق کی کیفیت میں تمہارے سامنے ہے( ۳۰: ۳۰) خدا احسن الخالقین ہے، کیونکہ اس نے خلقِ آخر (انسانِ لطیف/مبدع) کو پیدا کیا (۲۳: ۱۴) اللہ نے انسان کو عروج وارتقاء کی شکل میں پیدا کیا، یہاں تک کہ وہ عِلّیّین میں پہنچ گیا، اب اس کا وہاں سے نیچے آنا، یا نہ آنا علم و عمل پر منحصر ہے (۹۵: ۰۵ تا ۰۶) تمہاری جانوں میں قدرت اور معرفت کی تمام نشانیاں موجود ہیں (۵۱: ۲۱) جو حضرات حقیقی معنوں میں اولادِ آدم کہلاتے ہیں، ان کی کرامت و فضیلت عظیم فرشتوں سے بھی اوپر ہے (۱۷: ۷۰) روح کلمۂ امر یعنی کُنْ (ہوجا) سے پیدا ہوئی ہے، اس لئے اس کا رشتہ امر و فرمان سے

 

۱۵۸

 

ہے، اور اس کی عرفانی رسائی بھی امرِ باری تک ہے (۱۷: ۸۵) جہاں اسرارِ ازل کے خزانے ہی خزانے موجود ہیں، اور وحدتِ کُل انسان کی سب سے بڑی دولت ہے، جو بیمثال اور لازوال ہے۔

۱۰۔ انسان اپنی موجودہ ہستی میں ایک اکیلا فرد ہے، لہٰذا وہ عالمِ وحدت کی مثال ہے، لیکن کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ اس میں کتنے خلیات ہیں؟ بے شمار، کتنے روحِ نباتی کے ذرّات ہیں؟ بے حساب، کتنے روحِ حیوانی کے اجزاء ہیں؟ لاتعداد، کتنے روحِ انسانی کے نمائندے ہیں؟ حدّو حساب سے باہر، اور اگر ہر نمائندہ ذرّہ بحدِّ قوّت ایک کائنات ہو، تو ان کائناتوں یا عوالمِ شخصی کو صرف خدا ہی شمار کرسکتا ہے، اس سے اندازہ ہوا کہ عالمِ عقل (عالمِ وحدت) میں سب کچھ موجود ہے، ہر چند کہ وہ نورِ واحد ہی ہے، لیکن اس کے ظہورات و تجلّیات کُل جہانوں کے خزائن ہیں، پس مومنین کے نور کا دوڑنا لا انتہا تجلّیوں کا سلسلہ ہے (۵۷: ۱۲؛ ۵۷: ۱۹؛ ۶۶: ۰۸) یاد رہے کہ فنا فی الامامؑ، فنا فی الرّسولؐ، اور فنا فی اللہ کے بغیر نور مومنین سے منسوب نہیں ہوسکتا۔

۱۱۔ قلبِ قرآن (سورۂ یاسین) میں یہ حکمت آگین ارشاد ہے ( مفہوم): ہم ہی یقیناً نفسانی اور جسمانی مردوں کو زندہ کرتے ہیں، اور جو کچھ اعمال انھوں نے کئے ہیں وہ سب ہم لکھتے جارہے ہیں، اور جو کچھ آثار انھوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ہم درج کر رہے ہیں، اور (وہ عقلی تحریر اس طرح ہے کہ) ہم نے سب ہی چیزوں کو سمیٹ کر پیشوائے ناطق میں گوہرِ عقل بنا دیا ہے (۳۶: ۱۲) چنانچہ اَحْصَیْنَا ، ح ۔ ص۔ ی کے مادّہ سے ہے، جس کا ایک لفظ اَلْحَصٰی (کنکری) ہے، اور دوسرا اَلْحَصَاۃ (عدد، عقل و رائے) ہے، اور مبین کے معنی ہیں بولنے والا، ناطق، جیسا کہ سورۂ زُخرف

 

۱۵۹

 

(۴۳: ۱۸) میں اس کے یہ معنی ہیں، پس امامِ مبینؑ (تأویل بیان کرنے والا امام) جو نورِ ہدایت اور کتابِ مکنون ہے، وہ نہ صرف عالمِ جسمانی ہی میں پیشوائے ظاہر و حاضر ہے، بلکہ عالمِ روحانی اور عالمِ عقل میں بھی امامِ مبینؑ، اور کتاب ناطق ( مُؤوِّل / تأویل بیان کرنے والا ) ہے، تاکہ اس سے انسانی وحدت کے اسرار معلوم ہوجائیں۔

۱۲۔ عرشِ الٰہی علم و حکمت کا سرچشمہ ہے، اس لئے حاملانِ عرش کا علمی مرتبہ سب سے ارفع و اعلیٰ ہے، انھیں ہر چیز میں رحمت و علم کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے، چنانچہ قرآنِ پاک نے ان کی ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا: رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّ عِلْماً (۴۰: ۰۷) اے ہمارے پروردگار تیری رحمت اور علم ہر چیز کو شامل ہے۔ اس قرآنی حکم و فیصلے سے یہ یقین حاصل ہوا کہ ہر چیز میں روح کے لئے رحمت بھی ہے، اور عقل کے لئے علم بھی، پس ہماری توجہ اور فکر سب سے پہلے قرآنی چیزوں میں مرکوز ہونی چاہئے کہ قرآن کی ہر مثال، ہر قصّہ، ہر اشارہ، ہر آیت، ہر جملہ، اور ہر بات میں کس طرح رحمت و علم کا تذکرہ موجود ہے، اب اس اصولی بیان کی روشنی میں ہمیں اپنے آپ سے پوچھ کر ایک معقول و پسندیدہ جواب مہیّا کرلینا ہوگا، وہ اس طرح کہ آیا اللہ تعالیٰ کائنات کو مادّی طور پر لپیٹتا ہے؟ یا روحانی اور عقلی کیفیت میں (۲۱: ۱۰۴؛ ۳۹: ۶۷) ؟ اس کا درست جواب یقیناً یہی ہوگا کہ مادّیت کا پھیلاؤ اپنی جگہ پر موجود ہے، مگر اس کی تمام قدریں بصورتِ ذرّات عالمِ شخصی میں سمیٹ لی جاتی ہیں، اور روحانیّت کی اقدار مرتبۂ عقل پر لپیٹ لی جاتی ہیں، اسی لئے کہا گیا کہ عالمِ عقل عالمِ وحدت ہے، جس میں آسمان و زمین کی ہر ہر چیز کا علمی جوہر (گوہر) اپنا جلوہ دکھاتا ہے، یہ عجوبہ انتہائی حیران کُن ہے کہ ایک طرف وحدت ہی وحدت ہے! اور دوسری جانب تجلّیاتِ بے شمار ہیں! سبحان اللہ! مجمع البحرین اور عالمِ وحدت کی شانِ عجائب و غرائب

 

۱۶۰

 

کا کیا کہنا!

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی

ہفتہ ۱۵؍جمادی الثّانی ۱۴۱۰ھ

۱۳؍جنوری ۱۹۹۰ء

 

۱۶۱

 

شبِ قدر کے معجزات

 

ا۔ عالمِ شخصی میں شبِ قدر (۹۷: ۰۱ تا ۰۵): یہ امر ہر مومن کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ سورۂ قدر کو نہ صرف ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھے، بلکہ سعیٔ بلیغ کرکے اس کی حکمت کو بھی سمجھ لے، ظاہر ہے کہ شبِ قدر وہ بابرکت رات ہے، جس میں فرشتوں، روح القدس، اور دیگر ارواح کا نزول ہوتا ہے، ان سب میں حضرتِ اسرافیلؑ اور حضرتِ عزرائیلؑ بھی اپنا اپنا کام کرتے ہیں، چنانچہ جس وقت کسی عالمِ شخصی میں روحانیّت کی انقلابی ترقی شروع ہوجاتی ہے، اور انفرادی قیامت برپا ہونے لگتی ہے، تو وہ شبِ قدر ( حجتِ قائمؑ) کی وجہ سے ہے، جو خیر و برکت کا سرچشمہ ہے(۹۷: ۰۳؛ ۴۴: ۰۳)۔

 

۲۔ فرشتوں کا خطاب (۴۱: ۳۰): سورۂ فُصِّلَتْ (حٰمٓ السّجدۃ (۴۱: ۳۰ تا ۳۲)میں د قتِ نظر سے دیکھ لیں کہ فرشتے کس طرح ان مومنین سے خطاب کرتے ہیں، جن کے عالمِ شخصی میں شب قدر واقع ہوئی ہے: تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ۔ ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (نازل ہوں گے۔ چونکہ یہ لفظ مضارع ہے) ۔۔۔ ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی۔۔۔(۴۱: ۳۱) فرشتوں کی اہلِ ایمان سے دوستی میں بہت سے اشارے ہیں، مثلاً تائید، منازلِ روحانی اور مراحلِ عقلانی میں ترقی، اور حصولِ کمالات، وغیرہ۔

 

۳۔ نزولِ ملائکہ و ارواح کا مقصد؟: اگر یہاں یہ سوال ہو کہ

 

۱۶۲

 

تمام فرشتوں اور جملہ ارواح کا نزول قدر کی رات میں کیوں ضروری ہوا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالمِ شخصی میں عملی معرفت اور تجدّدِ امثال کی غرض سے جتنے امور ضروری ہیں، ان سب کی انجام دہی کے لئے فرشتوں اور روحوں کا حاضر ہونا لازمی ہے، جیسا کہ خود سورۂ قدر (۹۷: ۰۴) میں ہے کہ: پروردگار کے حکم سے ملائکہ و ارواح کا نزول شبِ قدر میں ہر کام کی غرض سے ہوتا ہے (مِنْ کُلِّ اَمْرٍ۹۷: ۰۴ ہر کام کی غرض سے) اگر آپ اس “آئینۂ کُل” میں غور سے دیکھیں، تو کسی شک کے بغیر یہ حقیقت روشن ہوجائے گی کہ قرآنِ پاک میں جتنے امور فرشتوں اور روحوں سے متعلق ہیں، ان سب کا عالمِ شخصی میں تجدّدِ امثال ہوجاتا ہے، تاکہ مشاہدۂ روحانیّت اور حصولِ معرفت کے سلسلے میں کوئی کمی نہ رہے، یاد رہے کہ تجدّدِ امثال سنتِ الٰہی کی تفسیر و توضیح ہے، پس حقائق و معارف کو تجدّد کے طریق پر سمجھانے کی ضرورت ہے۔

 

۴۔ ماضی اور مستقبل کا حال میں مرکوز ہوجانا: بہشت میں نہ توماضی ہے، اور نہ مستقبل، فقط حال ہی حال ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں گزرجانے والا وقت نہیں، بلکہ ٹھہرا ہوا زمانہ ہے، اور جب بہشت عالمِ شخصی کی روحانیّت میں نزدیک لائی جاتی ہے، تو اس میں بھی یہی کیفیت ہوتی ہے کہ ماضی اور مستقبل گویا حال میں مرکوز ہوجاتے ہیں، اور بس عارف ہر چیز کا مشاہدہ حال ہی میں کرتا ہے، اس قانون کی روشنی میں معلوم ہوا کہ شبِ قدر سے ایسی روحانیّت کا دروازہ کھل جاتا ہے، جس میں تمام انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے معجزات بھی ہیں، آنے والی آخری قیامت کے زندہ واقعات بھی، اور ازل و ابد کے اسرارِ عظیم کی تجلّیات بھی، پس اسی معنٰی میں شبِ قدر کی مبارک رات یعنی حجتِ قائمؑ خیر کُل ہیں۔

 

۱۶۳

 

۵۔ نزول کے پس منظر میں عروج: جس طرح “چوٹی کے سوالات، قسط: ۲” میں ربّ اور فرشتوں کے آنے کے بارے میں ذکر ہوا، اسی طرح ہم یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ لیلۃُ القدر میں اس عالمِ شخصی کا عروج ہوجاتا ہے، جس میں ملائک اور ارواح کا نزول ہوا ہو، بلکہ دوسرے اعتبار سے یہ کہنا بھی درست ہے کہ سورۂ معارج (۷۰: ۰۴) کے مطابق شبِ قدر میں خود فرشتے اور ارواح بھی خدا کے پاس چڑھ کر جاتی ہیں، کیونکہ روحانی اور قرآنی حقیقت ایک ہی ہے، مگر اس کی مثالیں طرح طرح سے بیان کی گئی ہیں (۱۷: ۸۹؛ ۱۸: ۵۴) تاکہ لوگوں کے سمجھنے میں آسانی ہو۔

 

۶۔ شبِ قدر اور حضرتِ آدمؑ: وہ وقت تاویلاً شبِ قدر ہی کا تھا، جبکہ تمام فرشتوں نے حضرت آدمؑ کو سجدہ کیا، در حالیکہ بے شمار روحیں آپؑ کی برگزیدہ ہستی کا حصّہ تھیں، کیونکہ ہر فردِ بشر لاتعداد روحوں کا مجموعہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ آپ قرآنِ عظیم میں دیکھ سکتے ہیں کہ جہاں فرشتوں نے آدمؑ کو سجدہ کیا، وہاں وہ تنہا نہ تھے (۰۷: ۱۱) اور تنہا کیونکر ہوتے جبکہ ہر کامل انسان میں ایک عالمِ ذرّ ہوا کرتا ہے، اور انسانِ مکمل کی بہت سی کاپیاں بھی ہوتی ہیں، جن کا مشاہدہ نہ صرف منزلِ عزرائیلیہ ہی میں ہوتا ہے، بلکہ مرتبۂ عقل پر بھی یہ سرِّ عظیم موجود ہے، تصوّر کریں اور سوچ لیں کہ وہاں کس طرح ہر بار ایک نورانی جنم ہوتا ہے۔

 

۷۔ عہدِ اَلَسْت کی تجدید: قرآنِ مجید کے ہر واقعۂ روحانی اورہر معجزۂ عقلی کا تعلق عالمِ شخصی ہی سے ہے، لہٰذا ہر عالمِ شخصی کے لئے یہ امر ضروری ہوا کہ اس میں تمام گزشتہ معجزات رونما ہوجائیں، چنانچہ شبِ قدر وہ موقع ہے، جس میں بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذرّیت کو لے کر انھیں اپنی روح کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے، اور

 

۱۶۴

 

اس پرورشِ روحانی و عقلی کے پیشِ نظر خدا نے پوچھا: “آیا میں تمہارا ربّ (ہر گونہ پرورش کرنے والا ) نہیں ہوں؟ انھوں نے کہا کیوں نہیں۔” یہ عہدِ الست ہے، جو ہر ہر انسانِ کامل کی روحانیّت میں تمام انسانوں کو حاضر کرکے لیا جاتا ہے۔

 

۸۔ نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸): سورۂ لقمان میں ارشاد ہے: تم سب کا پیدا کرنا اور زندہ کرنا (یعنی ابداع وانبعاث) بس ایسا ہی ہے، جیسا ایک شخص (یعنی انسانِ کامل) کا (۳۱: ۲۸) یہ ترجمہ اصل راز کی نقاب کشائی کے لئے کافی نہیں، آئیے نفسِ واحدہ کے دوسرے معنی کو دیکھتے ہیں: واحدہ فاعلہ کے وزن پر وہ چیز ہے، جو ایک کرلینے والی ہے، چنانچہ نفسِ واحدہ کے معنی ہوئے حضرتِ آدمؑ، ہر پیغمبر، اور ہر امام، یعنی انسانِ کامل، جو اپنی ابداع و انبعاث میں جملہ ارواح کو ایک کرلیتا ہے، کیونکہ ہر کل اس وقت بحقیقت کُل ہوسکتا ہے، جبکہ اس کے تمام اجزا واصل ہوں، پس ہر شخص نہ صرف انسانِ کامل ہی کی ابداع و انبعاث سے وابستہ ہے، بلکہ اپنی ذات میں بھی انفرادی قیامت کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا، تو خدا وندِ تعالیٰ سورۂ عصر (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۲) میں قسمیہ ارشاد نہ فرماتا کہ انسان خسارے میں ہے، ظاہر ہے کہ آدمی کا خسارہ صرف روحانی ترقی ہی میں ہے۔

 

۹۔ شبِ قدر کی صبح (۹۷: ۰۵)؟: یعنی اس آیۂ مبارکہ میں کیا حکمت پوشیدہ ہے: سَلٰمٌ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۔ ع وہ (رات) سلامتی ہے طلوعِ فجر تک؟

جواب: سلام تائید ہے اور فجر سے صبحِ قیامت مراد ہے، جو طلوعِ نورِ عقل اور صبحِ ازل ہے، اس کا یہ مطلب ہوا کہ عالمِ شخصی کا دورِ روحانی شب ہے، اور دورِ

 

۱۶۵

 

عقلانی روز، پس شبِ قدر تمام روحانی منازل پر محیط ہے، اور اس کا کمال یہ ہے کہ یہ ظہورات و تجلّیاتِ ازل تک پہنچا دیتی ہے، کیونکہ انسان مرتبۂ ازل سے یہاں آیا ہے، اور اسے لوٹ کر وہاں جانا ہے۔

 

۱۰۔ شب قدر اور اجتماعی قیامت: شاید آپ نے پڑھا ہوگا کہ قیامت انفرادی بھی ہے، اور اجتماعی بھی، چنانچہ اس دور کی اجتماعی قیامت کی شبِ قدر ہیں: حجتِ قائمؑ، اور ایسی لیلۃ القدر میں حضرتِ قائم القیامت پوشیدہ پوشیدہ نازل ہوئے، اور قیامت مخفی برپا ہوگئی، اب اس کے دُوررس اثرات و نتائج کا سلسلہ جاری ہے، چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک دن ہمارے ہزار سال کے برابر ہوتا ہے(۲۲: ۴۷) لہٰذا روزِ قیامت جو سنیچر ہے، وہ فیصلہ، پھر نتائج کے لحاظ سے ہزار برسوں پر محیط ہے، یہ ہفت ادوارِ کبیر میں سے آخری دور ہوگا، جس میں بڑے بڑے واقعات و معجزات رونما ہونگے، بین الاقوامی اتحاد و یگانگت کا دور دورا ہوگا، سیّارۂ زمین نمونۂ بہشت بن جائے گا، دنیا بھر میں نورِ اسلام کی روشنی پھیل جائے گی، روحانی سائنس عام ہوجائے گی، لوگ اُڑن طشتریوں کی مدد سے پرواز کرکے دوسرے سیّاروں کی سیاحت کریں گے، اور مومنینِ بایقین سے اولیاء اللہ کی طرح ظہورِ کرامات ہونے لگے گا۔

 

۱۱۔ فرشتوں اور روحوں کے نزول کا عالمی مقصد: ملائکہ و ارواح کے نازل ہونے کا ایک مقصد عالمِ شخصی میں ہے جس کا مختصر ذکر ہوچکا، اور دوسرا مقصد آفاقی اور عالمی ہے، وہ یہ ہے کہ اب ان آسمانی طاقتوں کے باطنی عمل سے وہی انقلاب برپا ہوجائے گا، جس کا ذکر قیامت کے عنوان سے قرآنِ کریم میں موجود ہے، تاہم ان تمام پُرحکمت پیش گوئیوں کو حقیقی معنوں میں جاننے کی ضرورت ہے، جو

 

۱۶۶

 

دورِ قیامت کی بڑی بڑی تبدیلیوں اور ترقیوں سے متعلق ہیں، آپ یہ بات بھول نہ جائیں کہ فرشتہ اور روح مرتبۂ روحانیّت پر کچھ اور ہے، اور مقامِ مادّیت پر کچھ اور، چنانچہ ہر سائنسی دریافت و انکشاف (DISCOVERY) فکر سے ہوئی، اور ایسی فکر میں فرشتہ تھا، یا روح تھی، اسی طرح آج کی اس بے پناہ طوفانی ترقی میں “شبِ قدر” کے فرشتوں اور روحوں کا ہاتھ ہے، تاکہ دنیا کی حالت یکسر تبدیل ہوکر خداوندِ عالم کا وعدہ پورا ہوجائے، وہ وعدہ، جو اس نے قرآنِ عزیز میں فرمایا ہے، مذہب، اخلاق، انسانیّت، علم، اور سائنس (حکمت) کی روشنیوں سے سیّارۂ زمین منوّر ہوجانے سے متعلق ہے (۳۹: ۶۹)۔

 

۱۲۔ ایک ترتیبی حکمت: سورۂ حجر (۱۵: ۸۵ تا ۸۷) میں یہ ترتیبی حکمت موجود ہے کہ پہلی آیۂ کریمہ میں تخلیقِ کائنات کا ذکر ہے، پھر قیامت کے آنے کی یقین دہانی کے ساتھ آنحضرتؐ سے فرمایا گیا ہے کہ آؐپ لوگوں کی جہالت و نافرمانی پر دلگیر نہ ہوجائیں، بلکہ خوبی کے ساتھ درگزر کریں، دوسری آیت میں پروردگار کی صفتِ “َلْخَلَّاقُ الْعَلِیْم” (بڑا پیدا کرنے والا بڑا دانا ہے) بیان ہوئی ہے، جس طرح لفظِ رازق سے رزّاق خاص ہے، اسی طرح اسمِ خالق سے خلّاق خاص ہے، پس اس حکم میں بزبانِ حکمت یہ بشارت دی گئی ہے کہ رسولِ اکرمؐ کی جانشینی کی مرتبت میں ظاہراً و باطناً کارِ دین کے لئے خداوندِ تعالیٰ خاندانِ نبوّت سے یکے بعدِ دیگرے اشخاصِ امامت کو پیدا کرتا رہے گا، اور تیسری آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس احسانِ عظیم کا تذکرہ ہے کہ اس نے ازراہِ عنایت حضورِ انورؐ کو ایامِ ہفتہ کی طرح سات سات اماموں کا نورانی سلسلہ اور حضرتِ قائم دیا ہے کہ آپ قرآنِ عظیم کی تأویل ہیں، کیونکہ

 

۱۶۷

 

تأویل روحانیّت اور قیامت کی صورت میں آنے والی تھی، جو شبِ قدر اور حضرتِ قائم علینا سلامہ کے نور سے وابستہ ہے(۰۷: ۵۳) الحمد للہ ربّ العالمین۔

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی

ہفتہ ۲۲؍جمادی الثّانی ۱۴۱۰ھ

۲۰؍جنوری۱۹۹۰ء

 

نوٹ: آپ کتابِ “وجہِ دین” کا بغور مطالعہ کریں، تاکہ شبِ قدر اور حضرتِ قائم علینا سلامہ سے متعلق معلومات میں زبردست اضافہ ہو۔

 

۱۶۸

 

روح اور مادّہ

قسط: ۲

 

۱۔ ظاہری فرق: روح اور مادّہ ظاہراً ایک دوسرے کے برعکس ہیں، کہ روح لطیف، زندہ، اور غیر مرئی (نادیدنی) ہے، وہ تقسیم نہیں ہوتی، زمان و مکان سے بالاتر ہے، اس کی نہ تو مکانی مسافت ہے، اور نہ ہی زمانی، اس میں ابعادِ ثلاثہ (طول، عرض، عمق) نہیں، اور نہ ہی اس کی کوئی جہت (طرف) پائی جاتی ہے، وہ روکنے سے نہیں رکتی، کیونکہ اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں، تم ہوا جیسی چیزوں کو بھی قید کرسکتے ہو، مگر روح کو نہیں، لیکن جسم کی یہ خصوصیات نہیں، یہ کثیف، مردہ (جبکہ روح نہ ہو) اور دیدنی ہے، تقسیم ہو سکتا ہے، زمان و مکان کے تحت ہے، وقت اور جگہ کی مسافت سے مجبور اور ابعادِ ثلاثہ کا حامل ہے، اس لئے اس کی اطراف ہیں، اور اس کے واسطے بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں، پس روح اور مادّہ کے درمیان بڑا فرق ہے، جس کا یہاں مختصراً ذکر ہوا۔

 

۲۔ روح اور جسم کی شرکت: جو بات روح کے بارے میں کہی گئی، اور جو خاصیت جسم کی بیان ہوئی، وہ ان دونوں کے الگ الگ ہونے کی صورت میں ہے، مگر جب تک جسم و جان ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، تب تک اس شرکت سے کچھ اور بات بن جاتی ہے، مثلاً روح جو ذاتِ اصل میں تقسیم نہیں ہوسکتی تھی، اب یہاں بہت سے اجسام کے توسط سے تقسیم ہوگئی، جیسے خورشیدِ جہان آرا کہ وہ فی نفسہٖ

 

۱۶۹

 

قسمت پذیر نہیں، لیکن اس کے سامنے جتنے آئینے رکھے جائیں، ان میں اتنے سورج نظر آئیں گے، اور اس اشتراک میں جسم کی مثال یہ ہے کہ وہ ازخود مردہ تھا، اور مردہ ہوگا، لیکن جب تک روح کے ساتھ ہے، تب تک زندہ ہے، اس بیان کا خلاصہ یہ ہوا کہ:

الف: روحِ مجرد پر الگ غور کرنا ہوگا،

ب: بے روح جسم پر جداگانہ سوچنا پڑے گا،

ج: پھر جسم و جان کے وجودِ مربوط کو دیکھنے کی ضرورت ہوگی، تاکہ یہ معلوم ہو کہ ان تین حالتوں میں سے ہر ایک حالت کی کیا حقیقت ہے، تاکہ اس تحقیق سے خود شناسی میں مدد مل سکے، جس میں حضرتِ ربّ العزّت کی معرفت پنہان ہے۔

 

۳۔ روح اور مادّہ کی وحدت: ہر چیز کی حقیقتِ حال کا علم تصوّرِ ازل ہی سے ہوسکتا ہے، چنانچہ آپ نے بارہا سنا ہے کہ عالمِ شخصی میں ازل کا تجدّد ہوتا ہے، آپ اسے مظاہرہ (DEMONSTRATION) بھی کہہ سکتے ہیں، جس میں وحدت و یک حقیقت کا نورطلوع ہوجاتا ہے، اس نور میں کن کن اشیاء کی وحدت ہے، اس کا پتا نہیں چلتا، مگر قرآنِ عزیز اور امامِ برحقؑ ہی کے وسیلے سے، چنانچہ وہ نورِ اقدس و اطہر ایک اکیلا ہونے کے باوصف کل حقیقتوں اور معرفتوں کا جامع بھی ہے، اور نمائندہ بھی، کیونکہ یہ وہ لؤلوئے مکنون ہے، جس کو پھیلانے سے دونوں جہان کا وجود بنتا ہے، پھر دستِ قدرت کون و مکان کو اسی گوہرِ یک دانہ کی صورت میں لپیٹ لیتا ہے، پس یہی لؤلو جوہرِ جواہر، حقیقتِ حقائق، جامعِ جوامع، اصلِ اصول، عقلِ عقول، اور نورِ انوار ہے، پس یہ نورِ روح الارواح بھی ہے، اور حجرِ ابیض (سنگِ سفید) بھی، یعنی

 

۱۷۰

 

یہاں روح اور مادّہ ایک ہی چیز کے دونام ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات و موجودات کی درجاتی سیڑھی بھی ہے، اور مساواتِ رحمانی کی چھت (عرش /تختِ شاہی) بھی، یہاں پر تمام معترضانہ سوالات ختم ہوجاتے ہیں۔

 

۴۔ ہر اسم اور ہر مُسَمّٰی کی یکجائی و یک حقیقتی: ربّ کریم نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو تین مرحلوں میں علمِ اسماء کی تعلیم دی، وہ مراحل یہ ہیں: ظاہر، روحانیّت، اور عقلانیّت، چنانچہ پہلے مرحلے میں ایک اسمِ اعظم سکھایا گیا، دوسرے مرحلے میں کئی اسمائے عظام عطا ہوئے، اور تیسرے میں کلماتِ تامّات سکھائے گئے(۰۲: ۳۱؛ ۰۲: ۳۷) جن کے آخر میں کلمۂ باری (کُنْ/ہوجا) آکر سب سے اوّل قرار پایا، اب آدمِ صفی اللہ کو مقامِ ازل کا مشاہدہ ہوا، جہاں ہر اسم اور ہر مسمّٰی کی یکجائی اور یک حقیقتی کا منظر تھا، کیونکہ یہ کہنا بجا ہے کہ جس طرح عالمِ کثرت میں چیزیں منتشر اور کثیرہیں، اسی طرح عالمِ وحدت میں یہی چیزیں مرکوز و منظم اور ایک ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ ایک ہے، اور وہ نورِ وحدت ہے، جس کے اسماء بے شمار ہیں، کیونکہ وہ ہر ہر مسمّٰی کا نمائندۂ حقیقی و عرفانی ہے، پس وہ نہ صرف روح اور مادّہ ہے، بلکہ کائنات و موجودات کی ہر شیٔ بھی ہے، قرآنِ حکیم کی ہر مثال کا ممثول بھی وہی نور ہے، اور ہر ہر آیت کے اشارۂ حکمت کا مُشارٌ اِلَیہ (وہ جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہو) بھی بس یہی نور ہے۔

 

۵۔ آسمان اور اس کی چیزیں: جب قرآنِ حکیم کے ظاہر و باطن میں ہر علم اور ہر چیز کا بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹) تو یقیناً اس میں علمِ اسماء بھی محفوظ ہے، جس کے حصول سے حضرتِ آدمؑ سرفراز ہوئے تھے، چنانچہ قرآنِ پاک کا حکیمانہ اشارہ

 

۱۷۱

 

یوں ہے کہ عالمِ وحدت (عالمِ عقل) میں نورِ ازل ہی بجائے خود سب کچھ ہے، لہٰذا حقیقت یہی ہے کہ اس نور کی نورانیّت میں ہر مسمّٰی اور ہر اسم موجود ہے، مثال کے طور پر نور ہی آسمان اور اس کی ہر چیز ہے، جیسے سورج، چاند، ستارے (خواہ واحد ہو یا جمع) بادل، بجلی، بارش، دن، رات، صبح، شام، مشرق، مغرب، ہفتہ، مہینہ، سال، کسوف (سورج گرہن) خسوف (چاند گرہن) بروج، رُجوم، اس کے علاوہ عرش و کرسی، اور قلم و لوح سے متعلق تمام اشارات بھی نورِ عقل کی حرکت میں موجود ہیں، الغرض علمِ اسماء (علمِ حقائقِ اشیاء) کی روشنی میں عالمِ امراور نورِ ازل کا تصوّر ہوا، جس سے پتا چلا کہ اس میں یہ مادّی آسمان اور اس کی ہر چیز ایک زندہ نور کی صورت میں موجود ہے، پس ظاہر ہوا کہ مادّہ بھی دراصل ایک ازلی روح ہے، جو فی الوقت قدرت و حکمتِ خداوندی سے منجمد ہوگئی ہے، لیکن جب قیامت القیامات برپا ہوجائے گی، تو اس وقت یہ جمود ٹوٹ جائیگا، اور متعلقہ روح بیدار ہوجائے گی۔

 

۶۔ خزائنِ خداوندی: سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں اللہ تعالیٰ کے خزانوں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، یہ خزانے کہاں ہیں؟ خدا کے پاس (عِنْدَنَا) اور اس مادّی دنیا میں کوئی ایسی چیز ہے ہی نہیں، جو پروردگارِ عالم کے خزینوں سے نازل نہ ہوئی ہو، خواہ سنگِ سیاہ کیوں نہ ہو، آپ نورِ ازل کا خیال کریں کہ وہ ربّ کریم کے پاس کتنا ہی بڑا خزانہ ہے، اور عقل و روح کے دوسرے خزانے بھی ہیں، جملہ خزائن سے ہر گونہ برکتیں نازل ہوتی رہتی ہیں، اور ان میں سے بعض روحانی برکتیں خدا کے حکم سے مادّی صورت میں بدل جاتی ہیں، یہ ہوا مادّیت کا ایک بہت بڑا راز، جس کا علم بیحد ضروری تھا، تاکہ مذہب اور سائنس کی ہم آہنگی معلوم ہوسکے۔

 

۱۷۲

 

۷۔ مادّہ روح سے ہے، اور روح امر سے: عوالم تین ہیں، جن میں سب سے اوپر عالمِ امر ہے، جو عالمِ عقل اور عالمِ وحدت ہے، اس کے نیچے عالمِ روحانی ہے، اور سب سے نیچے عالمِ جسمانی ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ نہ صرف یہ مادّی کائنات، بلکہ عالمِ روحانی بھی امرِ کُنْ(ہوجا) کے تحت ہے، چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ روح اور جسم دراصل سرچشمۂ ابداع ہی سے ہیں، جیسا کہ قرآنِ کریم کا بابرکت ارشاد ہے: بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِذَا قَضٰٓی اَمْراً فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنُ (۰۲: ۱۱۷) خدا موجد ہے آسمانوں اور زمین کا اور جب کوئی امر (کام ) مقرر کرتا ہے تو بس اسے فرما دیتا ہے کہ “ہوجا” پس وہ ہوجاتا ہے (۰۲: ۱۱۷) اس حکم میں تین بنیادی حکمتیں ہیں:

الف: کائنات (آسمان و زمین) کی روحانی اور مادّی دو حیثیتیں ہیں، روحانی حیثیت میں یہ امرِ کُنْ سے پیدا ہوئی ہے، پھر رفتہ رفتہ اس میں مادّیت مکمل ہوئی ہے۔

ب: اسی طرح ہر ستارہ اور سیّارہ وجود میں آتا ہے۔

ج: شب و روز کی مثال پر فنا و بقا یا عدم و وجود کے بڑے بڑے ادوار ہیں، اور یہ کبھی ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہے (۲۸: ۸۸؛ ۰۲: ۱۱۷) تصوّرِ ازل کا یہی اشارہ ہے، کہ اس میں آفتابِ نور اپنے مسلسل طلوع و غروب سے دائرۂ بقا و فنا پر چیزوں کی گردش کو ظاہر کرتا ہے۔

 

۸۔ جزو سے کل کی دلیل: کائنات و موجودات یعنی آسمان، عناصر، جمادات، نباتات، حیوانات، انسان، جنّ، اور فرشتہ ایک ہی اصل سے ہیں، اور وہ خزینۂ خزائن ہے (۱۵: ۲۱) اور ان کا ایک دوسرے سے بہت مختلف اور الگ الگ ہونا

 

۱۷۳

 

درجات کی وجہ سے ہے، تو درجات میں عروج بھی ممکن ہے، اور نزول بھی، جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے: قُلْ کُوْنُوْاحِجِارَۃً اَوْحَدِیْداً (۱۷: ۵۰) کہو کہ تم پتھر ہوجاؤ یا لوہا۔ یہ مفروضۂ محال نہیں، بلکہ یہ خدائے قادرِ مطلق کا وہ غالب قانون اور زبردست حکم ہے، جو آگ کو گلشن (۲۱: ۶۹) اور آدمی کو بندر بنا سکتا ہے (۰۲: ۶۵) پس ان لوگوں کی روح، جن کے بارے میں یہ حکم ہوا ہے، یقیناً مرجانے کے بعد پتھر یا لوہے کی شکل میں منجمد ہوگئی، اس قرآنی دلیل سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ مادّہ کا وجود روح سے بنا ہے، اس لئے اس کا سائنسی رجحان و میلان روح ہی کی طرف ہے، اور اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں، جیسے مادّہ کا کسی بھی پاور میں تبدیل ہوجانا۔

 

۹۔ سیّارۂ زمین کی ابتدائی آبادی؟ قانونِ خزائن کی حکمت کا کہنا ہے کہ ہر چیز خدا کے کسی ایک خزانے سے نہیں آتی، بلکہ اوپر سے نیچے کی طرف تمام خزانوں سے ہوکر خزینۂ آخر سے نازل ہوجاتی ہے (۱۵: ۲۱) تاکہ سارے خزانوں کی برکتوں کے لئے سبیل بنے، پس سیّارۂ زمین کی صورتِ باطن (روح) اسی طرح نازل ہوئی، وہ روحِ منجمد کی مادّیت کے لباس میں ملبوس ہوا، اسی میں عناصر کا ذکر بھی ہے، اور پہاڑوں کا تذکرہ بھی، زمین پر نباتات اور درختوں کو اگانے کے لئے ابداعی قسم کے بیچ بکھیر دیئے گئے، کیڑے مکوڑے جیسے چھوٹے چھوٹے جانور بھی البتّہ ابداعی انڈوں سے پیدا ہوئے، بڑے بڑے جانور، جیسے حیوان اور انسان، پہلے پہل اجسامِ لطیف میں پیدا ہوئے، پھر رفتہ رفتہ ان میں موجودہ جسمانیت پیدا ہوگئی، جیسا کہ سیّارۂ زمین کے آدمِ اوّل کے ہُبُوط (نیچے اترنا) کا قصّہ ہے (۰۲: ۳۸) کہ وہ اور ان کے تمام ساتھی لطیف جسموں میں آئے تھے، انسان ہمیشہ سے سیّارہ بہ سیّارہ منتقل

 

۱۷۴

 

ہوتا رہا اور رہے گا (۸۴: ۱۹)۔

 

۱۰۔ لطیف زندگی: کائناتِ ظاہر نفسِ کلّی کے بحرِمحیط میں مستغرق ہے، روحِ اعظم کا یہی نورانی سمندر امامِ مبینؑ اور لوحِ محفوظ ہے، جس میں کسی استثناء کے بغیر تمام چیزوں کی لطیف، زندہ، اور بولتی تصویریں مچھلیوں کی طرح تیر رہی ہیں، اور ہمیشہ کے لئے محفوظ ہیں، یہی لوحِ محفوظ کا سب سے وسیع اور قابلِ فہم تصوّر ہے، روح الارواح کا یہ بے پایان سمندر کلمۂ باری اور قلمِ الٰہی کے بعد تیسرا خزانۂ غیب ہے، جس سے مذکورۂ بالا قانونِ خزائن کے مطابق چیزیں سیّارۂ زمین پر نازل ہوتی رہتی ہیں، بغیر اس کے کہ اللہ کے خزانوں میں کوئی کمی واقع ہوجائے۔ آخر میں عاجزانہ دعا ہے کہ ربِّ کریم اپنے خزانۂ نور کے علم سے سیّارۂ زمین کو منور کردے (۳۹: ۶۹)

 

نوٹ: مقالۂ ہٰذا کی قسطِ اوّل کو کتابِ “حقائقِ عالیہ” میں پڑھ لیں، حکمتِ انجماد کے لئے حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام کے ارشادِ مبارک کو”علمی علاج (کتاب العلاج )” ص۴۰۳ پر دیکھ لیں۔

 

نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی

اتوار ۳۰؍جمادی الثّانی ۱۴۱۰ھ

۲۸؍جنوری ۱۹۹۰ء

 

۱۷۵

 

آیت کی تفسیر آیت سے

 

۱۔ اطاعتِ رسولؐ: قرآنِ حکیم کی لاتعداد خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس کی ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت سے یا آیات سے ہوا کرتی ہے، مثال کے طور پر سورۂ نساء کے اس ارشادِ مبارک کو دیکھ لیں، جو اطاعت جیسے دین کے سب سے بڑے موضوع کے بارے میں ہے، اور وہ یہ ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقْدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (ترجمہ: ) جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا (۰۴: ۸۰) اس ربّانی تعلیم سے پیغمبرِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی اطاعت و فرمانبرداری کی بہت بڑی اہمیت ظاہر ہوجاتی ہے، تاہم یہاں اہلِ دانش کے لئے یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ حضورِ انورؐ کی یہ اطاعت براہِ راست ہوسکتی ہے؟ یا بالواسطہ؟ پس وہ تفسیری آیت، جس میں اس سوال کا جواب موجود ہے، یہ ہے:

۲۔ (ترجمہ): اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں صاحبانِ امر ہیں (۰۴: ۵۹) اب اس روشن ہدایت سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ پیغمبرِ خداؐ کی اطاعت أئمّۂ طاہرینؑ کے توسط سے ہوسکتی ہے کہ امامانِ حق ہی اولواالامر ہیں، ان کے سوا کوئی ایسا سلسلہ ہے ہی نہیں، جو رہتی دنیا تک جاری و باقی ہو، جس کے دلائل قرآن و حدیث میں موجود ہوں، جس کو خدا نے اپنا نور قرار دیا ہو، جیسے اس علیم و حکیم نے سلسلۂ امامت کو اپنا نور ٹھہرایا ہے (۰۵: ۱۵؛۰۷: ۱۵۷؛۲۴: ۳۵؛ ۰۴: ۱۷۴؛ ۵۷: ۲۸؛ ۰۹: ۳۲؛۶۱: ۰۸)۔

 

۳۔ آیۂ بیعت: سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۱) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: بیشک

 

۱۷۶

 

اللہ تعالیٰ نے مومنین سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی (۰۹: ۱۱۱) چنانچہ پروردگارِ عالم اوراہلِ ایمان کی اسی بیع و شرا (خرید و فروخت) اور عہد و پیمان کی تجدید و وضاحت کی خاطر عملِ بیعت کا حکم ہوا، اور وہ یہ ہے: جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا ہی سے بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے ۔۔۔ (۴۸: ۱۰) خوب یاد رہے کہ لفظِ “بیعت” باعَ سے ہے، جس کے معنی ہیں: بیچنا، خریدنا، اور یہ عہد و پیمان بھی ہے، پھر آپ یہ حکمت بھی سمجھ لیں کہ عرفانی بیعت کا مظاہرہ عالمِ عقل میں ہوتا ہے، جس کے بارے میں حکیم پیر ناصرِ خسرو ق س اپنے دیوان میں فرماتے ہیں:

دستم بکفِ دستِ نبی داد ببیعت

زیرِ شجرِ عالی پُرسایہ و مُثمر

 

(میرے عظیم معلّمِ روحانی نے) بیعت کے لئے میرے ہاتھ کوپیغمبراکرمؐ کے دستِ مبارک کی ہتھیلی میں دے دیا، اس عالی شان سایہ دار اور پُرثمر درخت کے نیچے (جس کا ذکر قرآنِ مجید (۴۸: ۱۸) میں موجود ہے) جس کو تاریخ و تفسیر میں “بیعتِ رضوان” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

 

۴۔ رسولؐ کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے: جس طرح فرمایا گیا کہ رسولؐ کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے، اسی طرح ارشاد ہوا کہ پیغمبرؐ کی بیعت اللہ ہی کی بیعت ہے، تو کیا اس کے معنی یہ نہیں ہوئے کہ آنحضرت صلعم کا دستِ مبارک یدُاللہ کا درجہ رکھتا تھا؟ پس کیا عجب ہے کہ پیغمبرِ اکرمؐ کے بعد بھی یہ انتہائی عظیم نعمت برقرار رہے، اور حضورِ اکرمؐ کی برحق جانشینی کی بدولت امامِ عالیمقامؑ کا بابرکت ہاتھ دستِ خدا

 

۱۷۷

 

کے مرتبے پر ہو، کیونکہ دینِ اسلام دوگرانقدر چیزوں کی بنیاد پر مکمل ہوا ہے: قرآن، اور اس کا معلّم، یا نور، اور کتاب (۰۵: ۱۵) ورنہ نور کے نہ ہونے سے دین میں بہت بڑا خلا پیدا ہوجائے گا، مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: سورۂ توبہ (۰۹: ۱۰۴) میں ہے کہ: “خدا ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات کو لیتا ہے۔” اس ہدایت سماوی میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے، جو ذیل کی طرح ہے:

۵۔ اگر خدا چاہتا تو ایک ساتھ توبہ اور صدقہ دونوں کے لئے لفظِ “قبول” کو استعمال فرماتا، مگر ایسا نہیں کیا، بلکہ صدقات کے بارے میں ارشاد ہوا: یَاْخُذُ (وہ لیتا ہے) اور یہ ہاتھ کا فعل ہے، جس کو زمانۂ نبوّت میں رسول اللہؐ نے انجام دینا تھا، بعد ازان یہ کام امامِ زمانؑ کا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا امرِدوامی (خُذْ) برقرار و باقی رہے، اور وہ ارشاد یہ ہے: خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلَوٰ تَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ (۰۹: ۱۰۳، اے رسولؐ) تم ان کے مال کی زکوٰۃ لو (اور) اس کی بدولت ان کو (روح اور عقل کی آلودگیوں سے) پاک صاف کرو اور ان کے واسطے دعائے خیر کرو کیونکہ تمہاری دعا ان لوگوں کے حق میں اطمینان (کا باعث) ہے (۰۹: ۱۰۳) اور یہ رازِ سربستہ دل نشین کرلینا کہ عارفانہ زکات عالمِ عقل میں لی جاتی ہے۔

 

۶۔ قرآنِ حکیم کے دروازے بند نہیں ہوئے: اگرچہ حضرتِ خاتمِ انبیاء صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی رحلت کے ساتھ ساتھ نزولِ وحی کے دروازے بند ہوگئے، لیکن قرآن کے علم و حکمت اور اس کے نورِ مجسّم (۰۵: ۱۵) کی معلّمی کے بابرکت ابواب (دروازے) ہمیشہ کے لئے اسی شان سے مفتوح ہیں، کیونکہ یہ

 

۱۷۸

 

بات رحمتِ خداوندی سے بہت ہی دور ہے کہ شروع شروع کے مسلمین و مومنین کے لئے قرآن اور اسلام کا خوانِ نعمت عام ہو، اور بعد میں آنے والے محض تاخیرِ زمانی کی بناء پر ان عالی قدر نعمتوں سے محروم رہ جائیں، پس یہ حقیقت ہے کہ جس شان سے نورِعلیؑ یعنی نورِ امامت پیغمبرِ خداؐ کے علم و حکمت کا دروازہ ہے، اسی شان سے اور اسی معنٰی میں یہ قرآن کا بھی دروازہ ہے، کیونکہ رحمتِ عالمؐ کا علم و حکمت دراصل قرآن ہی ہے۔

 

۷۔ قرآن کا مخاطِب اور مخاطَب: قرآنِ کریم کا مخاطِب ( خطاب کرنے والا) ایک ہی ہے، اور وہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہے، اور مخاطَب (جس سے خطاب ہو) آنحضرتؐ اور زمانۂ نبوّت کے مومنین ہیں، اور اس کے بعد قرآنی خطاب کا تعلق ہر زمانے کے امام اوراہلِ ایمان سے ہے، تاہم قرآن کے تاریخی واقعات کا ظاہری پہلو اپنی جگہ پر ہے، اگرچہ ان میں بھی تاویل ہے، جس کا تعلق تمام زمانوں سے ہے، جس طرح بیعتِ رضوان اگرچہ ایک تاریخی واقعہ ہے، لیکن آپ نے یہاں سن لیا کہ حضرتِ پیر ناصرِ خسرو ق س نے کس طرح مقامِ عقل پر وہی بیعت کی۔

 

۸۔ آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کی تفسیر: سورۂ نور کا یہ عالیشان ارشاد بڑا بابرکت ہے: خدا آسمانوں اور زمین کا نور (یعنی ہدایت کی روشنی ) ہے۔۔۔ (۲۴: ۳۵) اس آیۂ مبارکہ کی تفسیر آیۂ سراج (۳۳: ۴۶) ہے، جس کے علم و حکمت کا دروازہ سورۂ حدید کی اس آیۂ کریمہ میں ہے: اے ایمان والو! خدا سے ڈرو اور اس کے رسول (محمدؐ) پر ایمان لاؤ (جیسا کہ حق ہے) تو خدا تم کو اپنی رحمت کے (ظاہری و باطنی) دو حصّے اجر عطا فرمائے گا اور تم کو ایسا نور مقرر کرے گا (یعنی نورِ امامت کی معرفت عنایت ہوگی) جس کی روشنی میں تم چلو گے ۔۔۔ (۵۷: ۲۸) مانا کہ اس آخری

 

۱۷۹

 

نور (یعنی چراغِ امامت) کی روشنی میں چلنا تو ہے، لیکن کہاں ؟ کس طرف؟ آیا راہِ مستقیم پر؟ کیا روح اور عقل کی منزلوں میں؟ نورِ نبیؐ کی طرف؟ اسرارِ قرآن و حدیث کی جانب؟ فنافی الرّسولؐ اور فنافی اللہ کی سمت؟ ان سب سوالات کا واحد جواب ہے: “جی ہاں۔”

 

۹۔ چلنے کی مثالیں: قرآنِ حکیم میں اس قسم کے بہت سے الفاظ ہیں، جن میں چلنے کے معنی موجود ہیں، جیسے لفظِ ہدایت ، صراط، سبیل، شرعۃ، منہاج، طریق، طریقۃ، سبب، سیر، سلوک، زاہب (مذہب) مناکب (راستے) اتباع (پیروی کرنا) سعی، سارِعوا، سابقوا، مساق (چلنا) اور ایسے بہت سے الفاظ ہیں، جو چلنے کے معانی رکھتے ہیں، جس کا مقصد روحانی ارتقا اور عقلانی سعی (۶۶: ۰۸) ہے، تاکہ گنجِ ازل کی دولتِ لازوال حاصل ہو، یاد رہے کہ “نور” صرف آنکھوں ہی کے لئے نہیں، بلکہ آدمی کے جملہ حواسِ ظاہر و باطن اور اس کے عالمِ شخصی کے ذرّہ ذرّہ کو جگمگانے کے واسطے اس کی سخت ضرورت ہے، آپ کتابِ “قرآنی علاج(کتاب العلاج )” کے صفحہ ۱۸۵ پر ملاحظہ کریں کہ حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام نے کس حکیمانہ انداز سے ضرورتِ نور کی ترجمانی فرمائی ہے، اس سے یہ حقیقت بدرجۂ انتہا نکھر کر سامنے آگئی کہ اللہ تعالیٰ عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اسی لئے عالمِ عقل کا ذرّہ ذرّہ پُرنور و پُرضیاء ہوگیا ہے، اور عالمِ دین، جس پر ہمیشہ نورانی بارش برستی رہتی ہے، باطناً عالمِ شخصی ہی میں ہے۔

 

۱۰۔ جامعِ جوامع- کُلِ کُلّیّات: اللہ تبارک و تعالیٰ نے امامِ مبینؑ کے نورِ اقدس کومجموعات کا مجموعہ اور کُلّیّات کا کل بناکر تمام چیزوں پر محیط کردیا

 

۱۸۰

 

ہے، جیسا کہ سورۂ یاسین (۳۶: ۱۲) میں ہے، وہ جوامع اس طرح ہیں: امرِ کُلّ (کلمۂ باری، کلمۂ کُنْ ) عقلِ کلّ (سماواتِ عقلی ۲۱: ۳۰؛ ۵۵: ۰۷) نفس کلّ (سات زمین ۳۹: ۱۰، مِثْلَھُنَّ۶۵: ۱۲) روحِ کل (روحِ اعظم، روحُ الارواح ۱۷: ۸۵) نفسِ واحدہ، کتابِ کل (اُمّ الکتاب ۷۸: ۲۹؛ ۴۳: ۰۴) الکتاب و المیزان (۵۷: ۲۵) کتابِ مکنون، کتابِ مرقوم (عِلِّیّین) کتابِ ناطق، کتابِ صامت، دَھر، ازل ( حین ۷۶: ۰۱) آزال، کنزِ ازل، نورِ ازل (گوہرِ عقل) نورالانوار، خزائنِ اشیاء، قلمِ قدرت، لوحِ محفوظ، عرشِ عظیم، کرسی، مُلکِ قدیم، اسرارِ ابد(کلماتِ تامّات)آباد (ابدیں) بیت اللہ، بیت العتیق، بیت العزّۃ، بیت المعمور، بہشت، رضوان، عالمِ شخصی، عالمِ صغیر، عالمِ کبیر، عالمِ لطیف، عالمِ علوی،عالمِ دین، ناسوت، ملکوت، جبروت، لاہوت، عالمِ ذرّ، عالمِ روحانی، عالمِ عقل (عالمِ وحدت) اسمِ اعظم، نقشِ مکرم، نگینۂ حکمت، اسمائُ الحسنیٰ، معجزاتِ انبیاء، واقعاتِ عالم، حقائقِ اشیاء، معارفِ بقاوفنا، وغیرہ، پس امامِ زمان صلوات اللہ علیہ مجموعۂ مجموعات اور کُلِ کُلّیّات ہیں، اور کائنات کو لپیٹنے کا اشارہ اسی حقیقت کی طرف ہے۔

 

۱۱۔ مُفسِّر و مُؤوّلِ قرآن: ایک حدیثِ شریف (مَنْ مَاتَ ۔۔۔۔ ) کے مفہوم کے مطابق امامِ زمان علیہ السّلام اس نورِ مجسّم کا نام ہے، جو نور کی حقیقی شناخت حاصل کرنے والوں کے لئے دن رات قرآن کی تفسیر و تاویل کی ضوفشانی کرتا رہتا ہے، سچ بات تو یہ ہے کہ امامِ عالیمقامؑ کے علمی اور روحانی کمالات و معجزات سب کے سب اسی میدان سے متعلق ہیں، چونکہ یہ عقلی معجزات ہیں، اور قرآنی علم و حکمت کی روشنی پھیلانے کی خاطر، لہٰذا ہر طرف اس کے جیسے دینی فوائد ہیں، ان کا نہ کوئی شمار ہوسکتا ہے، اور نہ کوئی اندازہ۔

 

۱۸۱

 

۱۲۔ آخری تفسیر و تأویل: جس طرح خدا کی اطاعت سب سے پہلے ہے، اس کے بعد رسولؐ کی اطاعت ہے، اور آخر میں اولوا الامر (یعنی أئمّۂ ہُدا) کی اطاعت ہے، اسی طرح قرآنِ حکیم کی آخری تفسیر و تأویل ان آیاتِ کریمہ میں ہے، جو نورِ امامت کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، تاکہ بمقتصائے حکمت قرآنِ عزیز کی تدریجی ہدایت سلسلۂ امامت کے توسط سے ظاہر ہوتی رہے، کیونکہ قرآنی تأویل بہت سے ارتقائی درجات پر مبنی ہے، اس لئے وہ شروع سے لے کر قیامت تک پورے دور پر محیط ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی

بدھ ۱۰؍رجب المرجب ۱۴۱۰ھ

۷؍ فروری ۱۹۹۰ء

 

۱۸۲

 

عزیزانِ امریکا کے سوالات

 

چیئرمین نورالدّین راجپاری صاحب اور ایڈوائزر شمس الدّین جمعہ صاحب خدا کے فضل و کرم سے صفِ اوّل کے مومنینِ بایقین میں سے ہیں، ہمارے یہ دونوں خاص شاگرد اور ایمانی دوست امریکا جیسے انتہائی دور ملک سے (جو سیّارۂ زمین کے دوسرے حصے پر ہے) یہاں ملاقات و علمی سوالات کی خاطر آئے ہوئے ہیں، اس سے آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ سبحان اللہ! یہ نیک بخت عزیزان اور ان کے ہمدرس مومنین، جو امریکا اور دوسرے ممالک میں رہتے ہیں، کس شدّت سے علمِ امامت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں، اور کس حد تک معرفت کے دلدادہ ہیں، کیا یہ ان عالی ہمت دانشمندوں کے جذبۂ دینداری کا کمال نہیں ہے، کہ امریکا میں حسن و خوبی سے علمی خدمت انجام دے رہے ہیں، جہاں ہر گونہ مادّی ترقی کا زبردست طوفان جاری ہے؟ آیا ان کے سامنے دنیوی مشکلات اور رکاوٹیں نہیں ہیں؟ بہت زیادہ ہیں، لیکن جہاں کوئی مومن سعادتِ ازلی سے راہِ مستقیم پر گامزن ہورہا ہو، وہاں وہ نورانی ہدایت کی روشنی میں دنیا کی ہر ہر تکلیف کو عارضی قراردے کر بھول جاتا ہے، آپ سب دعا کریں کہ ہر دینی اور علمی خادم کی مشکلات رفتہ رفتہ آسان اور ختم ہوجائیں! آمین!

 

وہ سوالات یہ ہیں:

سوال نمبر۱: کتابِ ’’روح کیا ہے؟‘‘ سوال (۵۷) کے جواب میں آپ نے کسی راز کا اشارہ کرتے ہوئے ن۔س۔ل کا ذکر کیا ہے، کیا آپ اس کے بارے میں کچھ وضاحت کریں گے؟

 

۱۸۳

 

جواب: یہ راز جیسے پہلے تھا، ویسے اب بھی راز ہی ہے، جو سورۂ یاسین (۳۶: ۵۱) میں ہے، مگر ہاں، میں زبانی بصیغۂ راز یہ بھید بتاؤں گا، اور اس کی شرط یہ ہوگی کہ آپ تھوڑی دیر کیلئے قلم اور کاغذ کو چھوڑ دیں، اور کلاس کے ٹیپ ریکارڈر کے سٹاپ بٹن کو بھی دبائیں۔

سوال نمبر۲: بحوالۂ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۱) “اور ہم نے تم کو پیدا کیا پھر ہم نے ہی تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو۔” اس آیۂ مبارکہ کی ترتیب میں کیوں پہلے جسمانی تخلیق کا ذکر ہے؟ اور جہاں سجدۂ آدم کا مقام ہے، وہاں دوسرے بہت سے لوگ کیوں موجود ہیں؟ نیز یہ بتائیں کہ جب کوئی عارف منازلِ معرفت کے سلسلے میں واقعۂ آدمؑ سے گزرتا ہے، تب شیطان کیوں سامنے ہوتا ہے؟ کیا ایسا ہونا ضروری ہے؟ کیوں؟

جواب: ہر ہر علمی و عرفانی چیز اور ہر حکیمانہ مثال امامِ مبینؑ کی ذاتِ عالی صفات میں محدود ہے ( ۳۶: ۱۲) پس یقیناً امامِ زمانؑ نمونۂ آدمؑ بھی ہیں، چنانچہ ہادیٔ برحقؑ کے وجودِ مبارک کو دیکھنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ تخلیقِ آدم جسمانیّت سے شروع ہوکر روحانیّت و عقلانیّت میں مکمل ہوگئی تھی، جواب کا دوسرا حصّہ: ہر آدم کے عالمِ شخصی میں ازسرِ نو لوگوں کی تخلیق ہوتی ہے، لِذا (لہٰذا) جہاں فرشتے آدم کے لئے سجدہ کرتے ہیں، وہاں لوگ غیر شعوری طور پر موجود ہوتے ہیں، تیسرا حصّہ: واقعۂ آدمؑ سے اگر شیطان کو الگ کردیا جائے، تو پھر ایسا واقعہ اور اس کی معرفت کیسے درست اور کامل ہوسکتی ہے، جبکہ دراصل اس میں شیطان بھی موجود ہے۔

سوال نمبر۳: بحوالۂ (۰۷: ۱۳): پس شیطان سے فرمایا جاتا ہے کہ: “تو اس مقام سے اتر جا تجھ کو حق حاصل نہیں کہ تو اس میں تکبر کرے سو نکل جا۔” یہ کونسی جگہ

 

۱۸۴

 

ہے، جہاں سے شیطان کو اترنے اور نکل جانے کا حکم ملا؟

جواب: یہ عالمِ شخصی کی بہشتِ برین (مقامِ عقل) ہے، جہاں سے شیطان زمینِ روح پر گرگیا، پھر وہاں سے خارج ہوا کیونکہ پہلا حکم ہے: فَاھْبِطْ مِنھا، اور دوسرا حکم ہے: فَاخْرُجْ (۰۷: ۱۳) یاد رہے کہ یہ دو مختلف حکم ہیں، ایک ہے بلندی سے اترنے کے لئے اور دوسرا پاکیزہ جگہ سے نکلنے کے لئے۔

سوال نمبر۴: انسان کی جسمانی پیدائش کے لئے ۹ماہ کا عرصہ مقرر ہے، آیا روحانی جنم کے لئے بھی کوئی ایسا وقت مقرر ہے؟ اگر ہے تو وہ کیسا اور کتنا وقت ہے؟

جواب: جسمانی پیدائش آدمی کے اختیار سے بالا تر ہے، لِذا اس کے لئے وقت معین ہوا، مگر روحانی جنم چونکہ انسان کے اختیار میں ہے، اس لئے وہ جلدی بھی ہوسکتا ہے، اور بڑی دیر سے بھی، تاہم اختیار کی مہلت ختم ہوجانے کے بعد اس کا ایک وقتِ مقرر بھی ہے، اوروہ ہے نولاکھ برس کا زمانہ (۹۰۰۰۰۰) جس میں آدمی کا روحانی جنم ہوتا ہے اور دودھ چھڑایا جاتا ہے، اور اس کو معلوم کرنے کا قرآنی قاعدہ یہ ہے:

اور اس کو پیٹ میں رکھنا اور دودھ چھڑانا تیس ۳۰ مہینے میں پورا ہوتا ہے، (۴۶: ۱۵) اوسط مہینہ ۳۰ دن کا ہوتا ہے، اس لئے ۳۰ دن×۳۰ ماہ=۹۰۰ دن ہوئے، چونکہ خدا کا ایک دن ہمارے ہزار سال کے برابر ہوتا ہے(۲۲: ۴۷) لِذا ۹۰۰× ۱۰۰۰ = ۹۰۰۰۰۰ (نولاکھ) برس کا زمانہ ہوا، جیسا کہ قول ہے: نُہ صد ہزاران سال شُد تا قالبم را ساختند۔ نوسو ہزار (۹۰۰۰۰۰) سال ہوئے، تب میرا جسم بنایا گیا۔

سوال نمبر۵: ’’اے ایمان والو تم یہود و نصاریٰ کو دوست مت بنانا (۰۵: ۵۱)‘‘ براہِ مہربانی اس حکمِ الٰہی کی وضاحت کریں؟

جواب: یہود و نصاریٰ جیسے لوگوں کے ساتھ ظاہری دوستی جائز ہے، مگر قلبی

 

۱۸۵

 

دوستی منع ہے، جیساکہ سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۱۸) کا ارشاد ہے: “اے ایمان والو اپنے سوا کسی کو دلی دوست مت بناؤ۔” چنانچہ اس حکم میں گہری دوستی کی ممانعت کی گئی ہے (۰۵: ۵۱) جس کی تفسیر یہ آیت ہے (یعنی ۰۳: ۱۱۸)۔

سوال نمبر۶: “میزان الحقائق” کے صفحہ ۸۰ پر ہے: “اس سیّارے کے انسانوں کے علاوہ انسانوں کے آٹھ قسم کے گروہ اور بھی ہیں۔” گویا کل نو قسم کے گروہ ہیں، کیا ہم ان نو گروہ کو، جوجواہرِ مختلفہ سے بنے ہوئے ہیں، ترتیب اور فرقِ اجسام کے لحاظ سے الگ الگ نام دے سکتے ہیں؟ اگر دے سکتے ہیں، تو وہ جدا جدا اسماء کونسے ہیں؟ اور وہ لطیف اجسام کائنات میں کہاں کہاں ہیں؟

جواب: ظاہری انسان ایک گروہ ہے لطیف انسان کے گروہی درجات بعنوانِ بہشت آٹھ ہیں، جو مختلف سیّاروں سے متعلق ہیں، کیونکہ ہر بہشت ایک لطیف انسانی گروہ ہے، پس ان روحانیوں کے مراتب وہی ہیں، جو جنتوں کے لئے مقرر ہیں، اور نام بھی وہی ہیں، جیسے: خلد، دارالسّلام، دارالقرار ، جنتِ عدن ، جنت الماویٰ، جنت النعیم، عِلّیِّین، فردوس۔

سوال نمبر۷: مذکورہ کتاب کے صفحہ ۸۱ پر درج ہے: “ان آٹھ قسم کے روحانیوں کے اجسام گرمی، سردی، تری، اور خشکی سے بالاتر مختلف جوہروں سے ہوسکتے ہیں۔” آپ نے نویں جسم کو روحانیین میں شامل نہیں کیا ہے، اس کے بارے میں کچھ وضاحت کریں؟

جواب: اس بیان میں ایک تو جسمِ عنصری ہے، اور آٹھ قسم کے کوکبی اجسام ہیں، پھر جسمِ خاکی کو ابدانِ لطیف میں کیسے شامل کیا جائے، یعنی موجودہ جسم کو بہشتی لباس نہیں کہہ سکتے۔

 

۱۸۶

 

سوال نمبر۸: انسان اور جنّات کے بعد جوسات گروہ ہیں، ان میں سے پہلے کونسے گروہ نے اپنی ذات کی معرفت میں اپنے ربّ اور اس کی پیدا کردہ کائنات کی شناخت حاصل کرلی ہے؟

جواب: چونکہ یہ سوال میزان الحقائق سے پیدا ہوا ہے، اس لئے اسی کتاب (صفحہ ۸۱) سے پڑھ لیں: ان سب کی حقیقت ایک ہی ہے، ابتداء میں یہ انسان تھے، اور اب بھی شکل و شباہت میں انسان ہی ہیں، صرف فرق اِن میں اور اُن میں اتنا ہے کہ وہ تسخیرِ کائنات کے اعلیٰ ترین مدارج پر پہنچ چکے ہیں۔۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ معرفت اگرچہ کاملین کو دنیا ہی میں حاصل ہوجاتی ہے، لیکن بحیثیتِ مجموعی یہ اوپر سے اوپر جاکر مکمل ہوجاتی ہے، اور ہاں، جن کو دوزخِ جہالت کی سزا کے بعد بہشتِ اوّل میں داخل کیا جاتا ہے، ان کی معرفت وہاں سے شروع ہوجاتی ہے۔

سوال نمبر۹: حضرتِ نوح علیہ السّلام ۹۰۰ (نوسو) سال تک زندہ رہے،اور ایک روایت کے مطابق ان کا قد بھی آٹھ گز کا تھا، اس کی کیا وجہ ہے؟ آج لوگ مقابلتاً چھوٹے چھوٹے کیوں ہیں؟ اور ان کی عمریں اتنی مختصر کیوں ہیں؟ آیا کسی دور میں پھر انسان کی عمر اور قد کے بڑھ جانے کا امکان ہے؟

جواب: جی ہاں، تاریخِ انبیاءعلیہم السّلام میں سب سے طویل عمر حضرتِ نوحؑ کی ہے، اور وہ ایک روایت کے مطابق اس طرح ہے: آپؑ کو چالیس برس میں نبوّت ملی، اور ساڑھے نوسوبرس وعظ فرمایا، پھر طوفان کے بعد ساٹھ برس زندہ رہے، اس حساب سے ان کی عمر ایک ہزار پچاس سال کی ہوئی، اس میں چند حکمتیں ہیں:

الف: عمرِ نوحؑ قدرتِ خداوندی کی ایک نشانی (معجزہ) ہے۔

ب: ہمیشہ کے لئے دنیا والوں پر یہ ظاہر کرنا تھاکہ جولوگ دعوتِ حق سے

 

۱۸۷

 

منکرہو جاتے ہیں، وہ بار بار کی نصیحت اور طولِ زمانہ سے ایسے دشمن ہوجاتے ہیں کہ ان پر عذاب نازل ہوجاتا ہے۔

ج: لوگوں کے مسلسل گناہوں کی وجہ سے آج جتنی بیماریاں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں، اتنی اس زمانے میں نہ تھیں (۳۰: ۴۱)۔

د: اگر کوئی شخص عمرِنوحؑ کی طرح درازیٔ زندگانی چاہتا ہے، تو وہ اپنے آپ کو جسمِ لطیف کے لئے تیار کریں، جس کی حیات کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ اس کے شکمِ مادر میں رہنے اور دودھ چھڑانے کی مدت نولاکھ برس کی ہے، لیکن سب سے بڑی بات اس حدیث قدسی میں ہے: اے ابنِ آدم تومیری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی مانند بناؤں گا، ایسا زندہ کہ تو کبھی نہ مرے۔۔۔۔

سوال نمبر۱۰: بحوالۂ مقالہ: شبِ قدر کے معجزات، نکتہ (۱۰)، محوّلہ آیت: (۲۲: ۴۷)، آپ نے ارشاد فرمایا کہ: “روزِ قیامت، جو سنیچر ہے، وہ فیصلہ پھر نتائج کے لحاظ سے ہزار برسوں پر محیط ہے، یہ ہفت ادوارِکبیر میں سے آخری دور ہوگا،” کیا آپ ان ہزاربرسوں کی کوئی خاص مدت بیان کرسکتے ہیں؟ اس کے بعد کیا ہوگا؟ بعد کے دور کی مدّت کیا ہوگی؟

جواب: ایک قیامت حضورِ پاکؐ کے عالمِ شخصی میں پوشیدہ تھی، ایک قیامت آپؐ کے ساتھ تھی (اساس=علیؑ) ہر امام ایک قیامت، ہر ساتواں امام ایک بڑی قیامت، حضور سے تین سو سال بعد ایک بڑی قیامت، ۷×۷=۴۹ پر ایک بہت بڑی قیامت، جو قبلاً برپا ہوچکی، اور اب ہم سب دورِ قیامت میں داخل ہوگئے، اب انقلابات ہی انقلابات آئیں گے، سب سے پہلے روحانی انقلاب، علمی انقلاب، سائنسی انقلاب، فنی انقلاب، سیاسی انقلاب، وغیرہ، تفصیل کے لئے یہاں گنجائش

 

۱۸۸

 

نہیں۔

 

نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی

جمعہ ۱۹؍رجب المرجب ۱۴۱۰ھ

۱۶؍ فروری ۱۹۹۰ء

 

۱۸۹

 

حضرتِ طالوتؑ

 

ضروری مشورہ: قصّۂ طالوت قرآنِ کریم کے صرف ایک ہی مقام پر موجود ہے، لہٰذا آپ پارۂ سیقول کے آخری سات آیت کا ترجمہ خوب غور سے دیکھ لیں۔

 

۱۔آپؑ کا مرتبہ؟ حضرتِ طالوت علیہ السّلام امام تھے، جس کی کئی روشن دلیلیں قرآنِ حکیم میں موجود ہیں، آپ قرآنِ پاک میں قصّۂ طالوتؑ کو خوب غور و فکر سے پڑھ لیں، تاکہ ایسے قرآنی خزائن سے واقفیت و آگہی ہو، جو اسرارِ امامت کے انمول جواہر سے مملو ہیں، جن میں سے ہر گوہر دُرّ یتیم اس معنٰی میں ہے کہ وہ سرمایۂ دو جہان ہے۔

 

۲۔ بنی اسرائیل کے سردار: حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کے بعد بنی اسرائیل کے سرداروں نے اپنے نبی (شموئیل) سے کہا کہ ہمارے واسطے ایک بادشاہ (یعنی امام) مقرر کیجئے تاکہ ہم راہِ خدا میں (ظاہری اور باطنی) جہاد کریں۔۔۔ (۰۲: ۲۴۶) ظاہر ہے کہ یہ سردار دنیاوی نہیں بلکہ دینی تھے، لہٰذا ان کا حدودِ دین ہونا ثابت ہے، چنانچہ انھوں نے دینی بادشاہ (امام) کے تقرر کے لئے درخواست کی، کیونکہ امام ہی روحانیّت اور علم و حکمت کا سر چشمہ ہوا کرتا ہے، جس کے بغیر جہادِ باطن ممکن ہی نہیں۔

 

۱۹۰

 

۳۔ مَلِک (بادشاہ، یعنی امام): دراصل قرآنِ حکیم نے کسی ظاہری اور دنیوی بادشاہ کو کبھی بادشاہ ہی نہ کہا، بلکہ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ بادشاہ (مَلِک) کا لفظ امامِ عالیمقامؑ کے لئے استعمال ہوا ہے، جبکہ دنیا کی مثال میں بادشاہ اپنی حد تک با اختیار اور قانون ساز ہوا کرتا ہے، تو امام جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ولیّٔ امر اور صاحبِ اختیار ہے، وہ مَلِک (بادشاہ) کیوں نہ کہلائے، پس امام علیہ السّلام کے روحانی بادشاہ ہونے میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے۔

 

۴۔ اِنبعاث کا راز: حضرت امام طالوت علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں لفظِ “بعث” آیا ہے، جس کے معنی ہیں: اس نے بھیجا، زندہ کیا، اٹھایا، مردے کو جلا اٹھایا، اس میں ابداع وانبعاث کا راز پوشیدہ ہے، سو اس سے ظاہر ہوا کہ طالوتؑ یوں ہی مرتبۂ امامت پر فائز نہیں ہوئے تھے بلکہ تمام روحانی مراحل کی شدید آزمائشوں سے گزرجانے کے بعد ان کو یہ مقام عطا ہوا تھا۔

 

۵۔ امامؑ خدا کی طرف سے ہوتا ہے: ان کے نبی نے ان سے کہا کہ بیشک خدا نے طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر کیا ( بعث، یعنی ابداع و انبعاث کے بعد بھیجا)۔۔۔ خدا نے اسے تم پر فضیلت دی ہے اور (مال میں نہ سہی مگر) علمِ روحانی اور جسمِ کوکبی کا پھیلاؤ تو اسی کا زیادہ فرمایا ہے اور اللہ اپنی بادشاہی جسے چاہے عطا کرتا ہے۔۔۔ (۰۲: ۲۴۷)۔

 

۶۔ علم و جسمِ بسیط: امامِ اقدس واطہرؑ کے مرتبۂ علمی کے قائل تو بہت سے لوگ ہیں، لیکن ان کے معجزاتی بدن کے بارے میں جاننا ہر شخص کے بس کی بات

 

۱۹۱

 

نہیں، چنانچہ متعلقہ آیۂ کریمہ کا یہ حصّہ انتہائی عجیب و غریب ہے: وَزَادَہ‘ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۔۔۔ (۰۲: ۲۴۷) عام حالت میں جسم کا ذکر پہلے آتا ہے اور علم کا تذکرہ بعد میں ہوتا ہے، لیکن یہاں چونکہ قالبِ عنصری کی بات ہی نہیں، جسمِ بسیط کا بیان ہے، جو علم و معرفت کے ایک خاص حصّے کے بعد حاصل ہوجاتا ہے، لہٰذا آیت کی الفاظی ترتیب میں علم پہلے ہے اور جسم بعد میں، تاکہ اہلِ عقل یہ رمز سمجھ سکیں۔

 

۷۔ عالمِ ذرّ، یا ذرّاتی جسم: ذَرُّ کے اصل معنی ہیں: چھوٹی چیونٹیاں، کرمک، ہوا میں منتشر غبار، ذرّات (واحد: ذرّہ) نسل، اسی سے “عالمِ ذرّ” کی اصطلاح بنی ہے، یعنی ایک ایسی لطیف دنیا، جس کی تمام چیزیں انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات کی شکل میں ہیں، عالمِ ذرّ میں کائناتِ ظاہر کی ہرہر چیز کی نمائندگی ہے، اور یہی عالم امامِ مبینؑ کا ذرّاتی جسم بھی ہے، جس طرح ہر آدمی کا بدن بے شمار خلیات (CELLS) کا مجموعہ ہوا کرتا ہے، درحالے کہ ہر خلیہ میں ایک کائنات سوئی ہوئی ہے، اسی طرح انسانِ کامل کا ذرّاتی بدن ہے، جو ذاتی قیامت اور صورِ اسرافیل کی وجہ سے حقیقی معنوں میں بیدارو زندہ ہوچکا ہے، اور اسی لئے وہ بحرِعلمِ لدنّی کے ساتھ ساتھ بسیط و محیط ہوگیا ہے۔

 

۸۔ جسمِ لطیف کے ظہورات: قصّۂ طالوتؑ میں اس اصول کا ذکر ہوا ہے کہ امامِ برحقؑ کی فضیلت و برگزیدگی دو چیزوں کی وجہ سے ہے: علمِ روحانی، اور جسمِ لطیف، یہ دونوں چیزیں اگر سب کے سامنے ظاہر اور عام ہوجاتیں، تو معرفت کا سارا امتحان اور کامیابی کے تمام درجات بالکل ختم ہوجاتے، مگر یہ بات خدائے علیم و حکیم کو منظور ہی نہ تھی، پس امامِ عالیمقام علیہ السّلام کے یہ دونوں ہمہ رس اور عالمگیر

 

۱۹۲

 

معجزے محبت و تابعداری سے مشروط ہوئے چنانچہ اہلِ معرفت پر یہ آفاقی حقیقت منکشف ہوگئی کہ ہر چیز ایک جہت سے امامِ مبینؑ کی ذاتِ بابرکات میں محدود ہوکر نورِ امامت کے رنگ سے رنگین اور عشق و معرفت کے عطر سے خوشبودار ہوچکی ہے (۳۶: ۱۲) اس لئے ہر شیٔ میں امام شناسی کا کوئی بھید پوشیدہ رہتا ہے، اور کوئی چیز اس قانونِ معرفت سے باہر نہیں، چنانچہ جنّات (پریوں) کے لطیف جسم میں، اُڑن طشتریوں کی مثال میں، اور روح القدس کی تمثیل (۱۹: ۱۷) میں امامِ مبینؑ کے معجزاتی ظہورات کے اشارے موجود ہیں، سبحان اللہ! امامِ برحقؑ کی شان!

 

۹۔ پیغمبرِ اکرمؐ کے دو معجزے: یقیناً ازل ہی سے سنتِ الٰہی ایسی چلی آئی کہ ہادیٔ زمان کے بنیادی معجزے آدم و حوّا کی طرح دو ہی ہوں، تاکہ یہ بتدریج بے شمار معجزات کو جنم دیں، چنانچہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم دو دائمی اور عقلی معجزے چھوڑ گئے ہیں: کتاب اللہ (یعنی قرآن) اور عترت (امام) جس میں وہی آسمانی علم اور پاک شخصیّت ہے، اور اس کے پس منظر میں جسمِ لطیف، جیسا کہ تذکرۂ طالوتؑ میں ہے۔

 

۱۰۔ امام کی روحانی سلطنت کی علامت: ان کے نبی نے ان سے یہ بھی کہا: طالوت کے (مِن جانبِ اللہ) بادشاہ یعنی امام ہونے کی یہ نشانی ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا، جس میں تمہارے ربّ کی طرف سے تسکین ہے، اور وہ چیزیں ہیں جو موسیٰ و ہارون کی اولاد نے چھوڑی ہیں اور اس صندوق کو فرشتے اٹھائے ہوں گے۔۔۔ (۰۲: ۲۴۸) روحانیّت کی گوناگون مثالیں ہیں، اور ان میں سے ایک مثال ایسے صندوقِ مقفل کی طرح ہے، جو انتہائی قیمتی اشیاء سے بھرا ہو،

 

۱۹۳

 

پس امام اور روحانی سلطنت کا مالک وہی ہوسکتا ہے، جس کے حجتوں اور داعیوں کے پاس صندوقِ سکینہ آجائے، جس میں ہر قسم کا اطمینان ہے، خصوصاً امامِ برحقؑ کے معجزاتِ علمی سے تسکین، اور فرمایا کہ اس صندوق کو فرشتے ہی اٹھاتے ہیں، یعنی یہ صندوق مادّی نہیں، بلکہ روحانی ہے، جس میں تجدّدِ امثال کے طریق پر نبوّت و امامت کے کل معجزات محفوظ ہیں ( بَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ ٰ الُ مُوْسٰی وَ ٰ الُ ھٰرُوْنَ ۰۲: ۲۴۸ ) ۔

 

۱۱۔ أساس التّاویل: قاضی نعمان نے “أساس ا لتاویل” صفحہ ۲۴۷ پر تحریر فرمایا ہے: وکانت الامامۃ دَورِ موسٰی قد انتہت الٰی طالوت۔۔۔ ۔ اور ص ۲۴۸ پر درج ہے: وکان طالوت امام الزّمان۔۔۔۔

 

۱۲۔ سرائرواسرارالنّطقاء: اس کتاب (ص ۱۸۳) کے حوالے سے طالوتؑ بنیامین کی نسل سے تھا، بنیامین حضرتِ یعقوبؑ کا بیٹا اور حضرتِ یوسفؑ کا حجت تھا، جب حضرتِ موسیٰؑ کی زندگی ہی میں حضرتِ ہارونؑ کا انتقال ہوا تو ان کے چھوٹے فرزند پر حضرتِ یوشع بن النونؑ کو کفیل اور امام بنایا گیا “واجعلہ کفیلاً علٰی ولدک الا صغر۔ ص۱۷۱) یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ہارونؑ پر وحی نازل فرمائی کہ تم یوشعؑ کو اپنے چھوٹے بیٹے پر کفیل بناؤ۔”  پس یہ واقعہ بھی اسرارِ امامت میں سے ہے۔

 

۱۳۔ دعائم الاسلام: حضرتِ امام باقر علیہ السّلام کا فرمان ہے: ہم ہی وہ لوگ ہیں جن کو خداوندِ عالم نے امامت کے مرتبۂ اعلیٰ سے نوازا ہے، اس لئے لوگ ہم سے حسد کرتے ہیں، اور اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: فَقَدْٰ اتَیْنَآٰ الَ اِبْرَاھِیْمَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاتَیْنٰھُمْ مُّلْکاً عَظِیْمًا(۰۴: ۵۴) سو ہم نے

 

۱۹۴

 

خاندانِ ابراہیمؑ کو کتاب بھی دی ہے اور ہم نے ان کو بڑی بھاری سلطنت بھی دی ہے۔ یعنی ہم نے آلِ ابراہیمؑ میں سے انبیاء و مرسلین اور أئمّہ پیدا کئے ہیں۔ الغرض مُلکِ عظیم سے مرتبۂ امامت مراد ہے، اور قرآنِ حکیم میں جہاں کہیں بھی ہو، لفظِ “مَلِک” (بادشاہ) امامِ عالیمقامؑ ہی کے لئے آیا ہے، کسی ظاہری حکمران کے لئے نہیں۔

 

۱۴۔ قصّۂ بلقیس میں”مُلوک”: بلقیس کہنے لگی بادشاہانِ مملکت جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تہ و بالا کردیتے ہیں (یعنی بصورتِ جنگ) اور اس کے رہنے والوں میں جو عزت دار ہیں ان کو ذلیل کیا کرتے ہیں (۲۷: ۳۴) اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ: حضراتِ أئمّہؑ جو روحانی مُلوک ہیں، اپنے اپنے زمانے میں اعلیٰ درجے کے عوالمِ شخصی کو فتح کرلیتے ہیں، جنگ اور تعمیرِ نو کی مثال میں فساد ہوتا ہے، اور سرکش و نافرمان قوّتوں کو ذلیل کیا جاتا ہے، اور سخت صلاحیتوں کو نرم بنایا جاتا ہے۔

 

۱۵۔ حدودِ دین یا کامیاب مومنین: خداوندِ تعالیٰ نے ہر زمانے کے امام کو بادشاہ بنایا ہے تاکہ لوگ اس کی اطاعت و پیروی کے نتیجے میں بادشاہ ہوجائیں، جیسا کہ سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۰) میں ہے: وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکاً (اور تم کو بادشاہ بنایا ۰۵: ۲۰) اس کی مثال یہ ہے کہ عالمِ شخصی ایک عظیم مُلک و مملکت ہے، یعنی بہت بڑی بادشاہی، جس پر کسی کافر دشمن نے قبضہ کیا ہے، اس کافر کو آپ کچھ بھی نام دیں، مثلاً شیطان، یا دیو، یا نفسِ امّارہ، بہرحال یہ بادشاہی دشمن کے تصرّف میں ہے، اب جہاد کے سوا کوئی چارہ نہیں، اور جہاد امامِ وقتؑ کے بغیر ممکن ہی نہیں، کیونکہ یہ کوئی

 

۱۹۵

 

بازیچۂ اطفال ہے نہیں، پس حدودِ دین یا کامیاب مومنین امامِ عالی نسبؑ کی تائید سے اپنے عالمِ شخصی میں جنگ کرتے ہیں، جو بڑی سخت ہوا کرتی ہے، تاہم آخر کار بفضلِ خدا انھیں فتح حاصل ہوجاتی ہے، اور لازوال سلطنت کے مالک ہوجاتے ہیں، یہ ملکۂ سبا کے قصّے میں سے قاعدۂ ملوک (۲۷: ۳۴) کی وضاحت ہے۔ اور سارے بیان کا مرکز بھی یہی ہے، کیونکہ اس میں شروع سے لے کر آخر تک تمام أئمّہ (ملوک) کی عادت کا تذکرہ ہے کہ وہ ہمیشہ کس طرح اپنے لشکر سے کام لے کر عوالمِ شخصی کو لیا کرتے ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی

اتوار۲۱؍رجب المرجب ۱۴۱۰ھ

۱۸؍ فروری ۱۹۹۰ء

 

۱۹۶

 

چند پیچیدہ مسائل

 

۱۔ جِنّ کس اصل سے پیدا ہوتا ہے؟: جواب: جِنّ پوشیدہ ، نادیدہ، اور لطیف ہے، جو کثیف سے پیدا ہوجاتاہے، یعنی انسان سے، انسان اچھے بھی ہیں اور برے بھی، چنانچہ نکوکار انسانوں سے نکوکار جنّات بنتے ہیں، آپ انھیں فرشتے بھی کہہ سکتے ہیں، اور بد اعمال آدمیوں سے بد اعمال جنّوں کا وجود بنتا ہے ایسے جنّات شیاطین کہلاتے ہیں۔

 

۲۔ کیا اب بھی وہی شیطان موجود ہے، جو زمانۂ آدمؑ میں تھا؟ جواب: نہیں، یہ قانون نہیں، بلکہ نمائندگی کا قانون چلتا ہے، وہ یہ کہ جس طرح ہر زمانے میں حضرتِ آدمؑ کا ایک جانشین ہوا کرتا ہے، اسی طرح ابلیس اور شیطان کے نمائندے ہوا کرتے ہیں، کیونکہ نہ صرف ھادی ہی کی شخصیت بدلتی ہے، بلکہ مضل (گمراہ کرنے والا، یعنی شیطان) بھی دوسرا مقررہوتا ہے۔

 

۳۔ آیازمانۂ آدمؑ میں صرف ایک ہی شیطان تھا؟: جواب: جی نہیں ، یہ بھی ایک بڑا عجیب راز ہے کہ حضرتِ آدم علیہ السّلام کے چند اِنسی اور جنّی شیاطین تھے، جیسا کہ سورۂ انعام (۰۶: ۱۱۲) میں ہے: اور اسی طرح ہم نے اِنسی اور جنّی شیاطین ہر نبی کے دشمن بنائے۔۔۔ (۰۶: ۱۱۲) لِکُلِّ نَبِیٍّ (ہر نبی کے لئے) سو یہ کُلّیّہ ہے ہر پیغمبر کے واسطے، اور پھر پیغمبرؐ کے جانشین کے لئے بھی، تاکہ آزمائش کا

 

۱۹۷

 

سلسلہ کسی فرق و تفاوت کے بغیر جاری رہے، کیونکہ دین کے بنیادی قوانین ہمیشہ ایک جیسے رہتے ہیں۔

 

۴۔ شیطان کی بنیادی علامت کیا ہے؟: جواب: کوئی شک نہیں کہ شیطان میں بے شمار برائیاں ہیں، لیکن تمام برائیوں کی جڑ یہ ہے کہ وہ ھادیٔ برحق کے سامنے سرِتسلیم خم نہیں کرتا، وہ اپنے آپ کو آدمِ زمانؑ سے بہتر اور برتر سمجھتے ہوئے تکبر کرتا ہے، اسی عمل سے وہ درحقیقت مشرک قرار پاتا ہے، کیونکہ خلیفۂ خدا کو نہ ماننا ہی سب سے بڑا شرک ہے۔

 

۵۔ اِنسی شیاطین اور جنّی شیاطین کس طرح ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں؟ جواب: وہ ایک دوسرے کے جی میں چکنی چپڑی باتیں ڈالتے ہیں، تاکہ ان سے لوگوں کو فریب دے کر گمراہ کرسکیں، کیونکہ عوام النّاس مُلمّع کی ہوئی باتوں سے بہت متاثر ہوجاتے ہیں، اور وہ بیچارے یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ان میں مغزِ حقیقت ہے؟ یا نہیں؟ (۰۶: ۱۱۲)۔

 

۶۔ گورخیز کسے کہتے ہیں؟: جواب: گورخیز (قبر سے اٹھنے والا) وہ شخص ہوتا ہے، جو مرجانے اور سپردِ خاک ہونے کے فوراً بعد البتّہ جسمِ لطیف میں نمودار ہوکر لوگوں میں خوف و ہراس پھیلاتا ہے، اور اصل واقعہ یوں ہے کہ کبھی کبھار جِنّ مردۂ آسیب زدہ کے روپ میں یہ کام کرتا ہے، جیسا کہ سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۷۵) میں ارشاد ہے: جو لوگ سود کھاتے ہیں (مرجانے کے بعد) نہیں کھڑے ہوں گے، مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شخص جس کو شیطان ( جِنّ ) دیوانہ بنادے لپٹ کر (۰۲: ۲۷۵) سود

 

۱۹۸

 

کی تأویل ہے، جس کا ذکر جداگانہ ہونا چاہئے، غرض جس پر جِنّ سوار ہو، وہ ایک اعتبار سے جِنّ ہے، اور دوسرے اعتبار سے خود ہے۔

 

۷ ۔ گورخیز کو کس نے دیکھا ؟: جواب: مرحوم حمید علی شاہ ہمارے گاؤں (حیدرآباد) کے اکابر اور معتبر حضرات میں سے تھے، انھوں نے یہ ذکر کیا کہ بزرگوار شاہ نواز شاہ (بلبل پیر) صاحب اور ا ن کے والد محترم پیر شاہ عبدالحمید صاحب بوقتِ شام اپنے گھوڑوں پر گھر کی جانب تشریف لے جارہے تھے کہ بڑونامی گورخیز (یعنی جِنّ) ایک گھوڑے پر سوار ہوکر نمودار ہوا، وہ دائیں بائیں آگے پیچھے سے آکر ان باکرامت ہستیوں کو ڈرانے کی ناکام کوشش کررہا تھا، اتنے میں بزرگ پیر شاہ عبدالحمید صاحب نے چند پتھروں پر دم کیا، اور جِنّ پر سنگ باری کی، یہاں تک کہ وہ حضرات گھر پہنچ گئے، اب گورخیز غائب ہوچکا تھا، ایک ایسا واقعہ سریقول (چین ) میں بھی ہمارے وہاں جانے سے پہلے پیش آیا تھا، جس کا تذکرہ فتح علی خان صاحب اور دوسرے صاحبان کرتے تھے، یہ واقعہ تحقیق (ریسرچ )کے لئے بڑا اہم ہے اس لئے مسگار کے عزیزان پوچھ کر تحقیق کریں۔

 

۸۔ کیا آپ اس پر مزید قرآنی روشنی ڈال سکتے ہیں؟: جواب: ان شاء اللہ، سورۂ مریم (۱۹: ۱۷) میں معنوی گہرائی سے دیکھ لیں کہ جب حضرتِ مریم علیہا السّلام کے سامنے حضرتِ جبرائیلؑ کا مثالی ظہور ہوا، تو وہ کسی عام انسان کی شکل میں نہیں بلکہ شخصِ کامل کی صورت میں تھا (بَشَراً سَوِیّاً ۱۹: ۱۷) چنانچہ اگر فرشتہ مظہرِ اعلیٰ میں ظاہر ہوسکتا ہے، تو پھر اس میں کیا شک ہے کہ شیطان مظہرِادنیٰ میں آشکار ہو، یعنی کسی ایسے آدمی میں جو غافل، جاہل اور گمراہ ہے، کیونکہ ہر مخلوق کی

 

۱۹۹

 

فطری پسند جداگانہ ہوا کرتی ہے، مثال کے طور پر تتلیوں اور بھونروں کو پھول پسند ہیں، مگر مکھیوں کو ایسی چیزیں نہیں بھاتیں، وہ تو غلاظتوں کو چاہتی ہیں، پس انسان کو اختیار حاصل ہے، اگر وہ چاہے تو فرشتے کی منزل (اترنے کی جگہ) ہوسکتا ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ شیطان کا آ لۂ کار بنے (۴۳: ۳۶)۔

 

۹۔ آیا شیاطین حاضر ہوسکتے ہیں؟: جواب: جی ہاں، شیاطین نہ صرف آدمی کے دل میں وسوسہ ڈالتے ہیں، بلکہ کسی جانور یا کسی انسی شیطان کی صورت میں حاضر بھی ہوسکتے ہیں، جیسا کہ سورۂ مومنون کی ان دوآیتوں کا ارشاد ہے: اور دعا کرو کہ اے میرے ربّ! میں شیاطین کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں (۲۳: ۹۷) اور اے میرے پروردگار! اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ شیاطین میرے پاس حاضر ہوجائیں (۲۳: ۹۸) کسی کا حاضر ہونا یہ ہے کہ وہ ہماری ظاہری نگاہ کے سامنے آجائے، یہ شیاطینِ انسی بھی ہوسکتے ہیں، اور شیاطینِ جنّی بھی، کیونکہ دونوں قسم کے شیطانوں کا ایک ہی مقصد ہے۔

 

۱۰۔ نادیدہ مخلوق سے پتھراؤ کیوں ہوتا ہے؟: جواب: بعض دفعہ کسی خاص مقام پر شیاطین علامت کے طور پر چھوٹے چھوٹے پتھر پھینکتے ہیں، اس میں خوف و خطر کی کوئی بات نہیں، یہ صرف قانونِ فطرت کا ایک تجرباتی اور علمی منظر ہے، اس اشارے کے ساتھ کہ شیطان کی عادت ہے پتھراؤ (سنگ باری) کرنا، کیونکہ وہ رجیم (سنگسار کیا گیا، اور سنگسار کرنے والا) ہے، اس لئے دوسروں کو بھی رجیم بنانا چاہتا ہے، اس کی تأویل یہ ہے: دینی دشمن کا ہر سوال، ہر مسئلہ ، ہر طعنہ ایک ایسا خطرناک پتھر ہے، جس کی زد سے کمزور مومن یا تو مر ہی جاتا ہے، یا زخمی ہوجاتا ہے، جس کے

 

۲۰۰

 

معنی ہیں دل میں شکوک و شبہات کا جنم لینا، اور روح الایمان کا ختم ہوجانا، جو جیتے جی جہالت کی موت ہے، اور یہ بدترین مرگ ہے۔

 

۱۱۔ لطیف شیطان کس طرح سنگباری کرسکتا ہے؟: جواب: یہ مسئلہ بیحد ضروری ہے، کیونکہ اس کا تعلق ہر لطیف مخلوق کے فعل سے ہے جیسے فرشتہ، روح، جِنّ، وغیرہ اس کا جواب ظاہری مثالوں سے یہ ہے کہ درخت کثیف ہے، اور اس کے مقابلے میں ہوا لطیف، لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کہ آندھی اپنی ایک ہی ٹھوکر سے کتنے بڑے اور مضبوط درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے، ہاتھی کو کیا چیز اٹھارہی ہے؟ روح، گھوڑے کو اس سختی سے کیا شیٔ دوڑا رہی ہے؟ روح ، پرندے کس شیٔ کے زور سے محوِ پرواز ہیں؟ روح کی طاقت سے، مملکتِ سلیمانی میں جنّات کا کیا کردار تھا؟ ہر کام وہی کرتے تھے، آیا قرآنِ پاک میں یہ تذکرہ نہیں کہ فرشتوں نے جہاد میں حصّہ لیا؟ کیوں نہیں، الغرض طاقت کا اصل سرچشمہ روحِ لطیف ہے، اور جسمانی طاقت ہمیشہ اسی کی بدولت مہیّا ہوتی رہتی ہے۔

 

۱۲۔ کیا عصرِ حاضر میں جنّات کا کوئی مشہور واقعہ ہے؟: جواب: ذاتی واقعات سے قطعِ نظر، شمالی علاقہ جات کے ایک معزز خاندان کا مشہور قصّہ ہے، کہ جنّات یا اجسامِ لطیف یا افرادِ روحانی یا مردانِ پری ظاہر ہوئے بغیر آگئے، وہ اپنی گوناگون حرکتوں سے سب کو پریشان کررہے تھے، مثلاً سنگباری کرنا، بسترہ اور تکیہ کو پھینکنا، چار پائی کو الٹنا، وغیرہ یہ سارے واقعات اکثر رات کے وقت پیش آتے تھے، اسی طرح یہ سلسلہ چند سال تک جاری رہا، مگر پھر بھی شکر ہے کہ وہ حضرات وہاں سال کے ایک ہی موسم میں رہتے تھے، بہرحال سوائے خوف و ہراس کے شاید ان کا

 

۲۰۱

 

کچھ نقصان نہیں ہوا، تاہم اس واقعہ میں بہت سے اشارے پوشیدہ ہوسکتے ہیں، جن میں جسمِ لطیف کے بارے میں اچھی خاصی معلومات ہوں، جس پر بہشت کا قیام ہے۔

 

۱۳۔ آیا جِنّ جانور کا روپ دھار سکتا ہے؟: جواب: بہت سے لوگوں کو یہ ایک بہت بڑی غلطی ہوئی ہے کہ وہ جِنّ و پری کو الگ الگ دوقسم کی مخلوق سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ ایک ہی ہے، جس کو عربی میں جِنّ اور فارسی میں پری کہتے ہیں، پس پری قوم میں سے کوئی مرد یا عورت جانور کا روپ دھار سکتی ہے، یہاں ایک واقعہ بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہیں، قصّہ ہے بہت پہلے کا، کہ میرے دادا جان خلیفہ محمد رفیع ابنِ فولاد بیگ بوقتِ شب کسی روحانی مریض پر عملِ حاضراتِ ارواح کرکے گھر کی طرف آرہے تھے کہ دیوان شاہ کے باغیچہ میں ایک بچھڑا نظر آیا، انھوں نے خیال کیا کہ یہ دیوان شاہ کا بچھڑا ہی ہے جسے وہ یہاں سے لے جانا بھول گئے ہوں گے، لیکن بڑا عجیب واقعہ پیش آیا، کہ وہ بچھڑا اونچی اونچی دیواروں کو پھلانگتا ہوا اس طرف چلنے لگا، جس طرف میرے دادا صاحب جارہے تھے، پھر وہ چو کناہوگئے اور دم دعا شروع کی، تاآنکہ گھر کے قریب آتے ہی یہ مخلوق بلی کی صورت میں بدل گئی، جوغضبناک ہوکر میاؤں میاؤں کرتی رہتی تھی، پس وہ سمجھ گئے کہ حاضرات میں کوئی کسر رہ گئی ہے، چنانچہ انھوں نے بلی کو گوشتِ خام کا ایک حصہ دیا، اور وہ اسے غرّاتے ہوئے لے گئی، یہ جنات یعنی پریوں کا ایک قصّہ ہے، جو علمِ تحقیق کی روشنی میں بیان ہوا۔

 

۱۴۔ اگر کسی گھر میں جِنّ(پری) ہو، تو اس کا کیا علاج ہے؟: جواب: اس کا علاج یہ ہے کہ وہاں بوقتِ شب کثرت سے خدا کو یاد کیا

 

۲۰۲

 

جائے، بار بار ذکرِ جلی ہو، عملِ چراغ روشن کے ذریعے گھر کو ہر قسم کے شر سے اللہ کی پناہ میں رکھا جائے، ہر روز اس میں قرآنِ مجید کی آوازبلند ہو، اور سویرے سویرے گریہ و زاری پر مبنی مناجات کی جائے، اور اگر وہ آفت پھر بھی نہیں ٹلتی، تو سمجھ لینا چاہئے کہ اسی میں حکمت و مصلحت ہے، پس ایسی جگہ عبادت، ذکر ، ریاضت، چلّہ، وغیرہ کے لئے انتہائی مفید ہے (۰۹: ۵۲) اور یہ روحانی تر قی کی ضمانت ہے (۰۲: ۱۵۵) کیونکہ یہ آزمائشی خوف کا مقام ہے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی

پیر ۲۹؍رجب المرجب ۱۴۱۰ھ

۲۶؍ فروری ۱۹۹۰ء

 

۲۰۳

 

پرتگال سے دوسوال

 

شعر:      منّت منہ کہ خدمتِ سلطان ہمی کنم

منّت شناس ازو کہ بخدمت بداشت است

 

احسان مت رکھ یہ کہتے ہوئے کہ میں بادشاہ کی خدمت کررہا ہوں، تو خود اسی کا احسان مان لے کہ اس نے تجھ کو اپنی خدمت میں رکھ لیا ہے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے دینی پادشاہ نے ہمیں اور ہمارے عزیزوں کو شرق و غربِ عالم میں خدمت کا زرّین موقع عنایت کردیا ہے، الحمد لِلّٰہِ علٰی منّہٖ واِحْسانہٖ۔

پرتگال سے بتوسطِ عزیزان دو سوال آئے ہیں، اور پہلا سوال یہ ہے: اسلام میں روحانی لحاظ سے مُخَنّث کی کیا حیثیت ہے؟ یہ سوال بیحد مشکل ہے، اس لئے کہ اس کا حل کسی بھی ظاہری کتاب میں موجود نہیں، مگر امامِ زمان علیہ السّلام کو خدائے بزرگ و برتر نے ہر چیز کا علم عطا کردیا ہے (۳۶: ۱۲) لہٰذا ہم اسی پاک و پاکیزہ ہستی سے رجوع کرتے ہیں تاکہ تائید حاصل ہو، آمین!

مُخَنّث(ہیجڑاEUNUCH=) کا نام سنتے ہی عوام الناس نفرت کرنے لگتے ہیں، مگر حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں، جب ہم مسئلۂ مُخَنّث کو فقہ کی شہرۂ آفاق کتاب دعائم الاسلام ، جلدِ ثانی، کتاب الفرائض، فصل۷ میں دیکھتے ہیں، تو حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ ہیجڑا مقامِ پیشاب کے پیشِ نظر بظاہر ایسا فردِ بشر لگتا ہے جو مرد اور عورت کے درمیان ہے، لیکن مذکورہ کتاب کے حوالے سے أئمّۂ ہُدا علیہم السّلام نے اس مسئلے کو جس طرح حل کیا ہے، اس کی روشنی میں عمل کرنے سے معلوم ہوجائے گا کہ

 

۲۰۴

 

ایسا شخص درحقیقت یا تو مردوں کی میراث لینے والا ہے، یا عورتوں کی طرح، اور درمیان میں بھی ہوسکتا ہے، اس حال میں نصف میراث مردانہ اور نصف میراث زنانہ ملے گی، آپ مذکورۂ بالاکتاب میں دیکھیں۔

اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف کہ: اسلام میں روحانی لحاظ سے مُخَنّث کی کیا حیثیت ہے؟

جواب: الف: روحِ انسانی اس مادّی دنیا میں آکر کس نوعیت کے بشری لباس میں ملبوس ہوگئی، یہ بات ہنگامی قسم کی ہے، اس لئے اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں، کیونکہ دراصل دیکھنا یہ ہے کہ روح کا مرتبۂ ازل کیا ہے، اور اس کو دوبارہ کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ب: قرآنِ حکیم کبھی پیدائشی معیوب انسانوں کی مذمت نہیں کرتا، جیسے جسمانی اندھے، بہرے، گونگے، وغیرہ اس سے ظاہر ہے کہ کوئی بھی فطری عیب انسان کے اختیار میں نہیں، اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں کوئی خدائی مصلحت ہے، پس کسی کے مُخَنّث ہونے میں ضرور اللہ کا کوئی راز ہے، اور ہم بندوں سے امتحان۔

ج: روحانی اور علمی اعتبار سے روحِ انسانی مرتبۂ رُجولت (رُجولیت) پر بھی ہے، مرتبۂ نسوانیّت پر بھی، اور درمیان میں بھی ہے، لیکن ان تمام مراتب سے بالاتر جاکر فنافی اللہ ہوجانے کی جو سیڑھی ہے، وہ کبھی بند نہیں ہوسکتی۔

د: آجکل دورِ قیامت اور سائنس کی روشنی میں یہ ایک بڑا عجیب واقعہ بھی مشہور ہورہا ہے کہ قدرتی طور پر جنس تبدیل ہوجانے کی مثال سامنے آئی ہے، یعنی کبھی کبھار کوئی لڑکا بدل کر لڑکی ہوجاتا ہے، اسی طرح کوئی لڑکی لڑکا ہوجاتی ہے، اس واقعہ سے یہ درست نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ روح کے لئے نر و مادہ وغیرہ جیسی صفات عارضی

 

۲۰۵

 

ہیں، جبکہ انائے علوی میں اس کا حقیقی اور دائمی مرتبہ اصل سے واصل رہنا، اور فنافی اللہ و بقا باللہ ہے۔

ھ: جب یہ حقیقت تسلیم کی گئی کہ آدمی ایک کائنات ہے، یعنی عالمِ شخصی، اور اس میں بیشمار خلیات و لاتعداد ارواح کا نظام قائم ہے، بلکہ اس میں عالمِ کبیر کی تمام چیزیں بصورتِ لطیف مجموع ہیں، تو پھر ایسے میں انسانی حقیقت کو صرف ایک جسمانی مرد، یا عورت ، یا متوسط کی حد تک محدود ماننا زیادتی ہوگی۔

و: ہر شخص، خواہ کوئی ہیجڑا ہی کیوں نہ ہو، اپنے ذرّاتِ روح کی پر حکمت کثرت کی بدولت دنیا بھر کے مردوں اور خواتین میں پوشیدہ ہے (۰۶: ۱۲۲) بیشک یہ بات آج بحدِّ قوّت ہے، تاکہ کل بہشت میں وہ بحدِّ فعل روحِ کُل (نفسِ واحدہ) میں زندہ ہو کر پسندیدہ افراد کے روپ میں متجلی ہوسکے۔

ز: انسان بحیثیتِ سایۂ روح عالمِ امر سے یہاںآیا ہے (۱۷: ۸۵) یہ وہاں نہ تو مرد ہے، اور نہ عورت،بلکہ ان دونوں سے بالا تر کوئی حقیقت ہے، آپ اسے فرشتہ یا نور کہہ سکتے ہیں، اور یک حقیقت بھی، پس جب کوئی فرد خدا کے حضور لوٹ جاتا ہے، تو وہ اس حال میں مرد،عورت وغیرہ کے اوصاف سے مجرد و آزاد ہو کر اپنی ازلی کیفیت میں جاتا ہے (۰۶: ۹۴)۔

ح: حدودِدین سیڑھی کی طرح ہیں، آپ اس نقشہ میں دیکھ سکتے ہیں کہ سب سے اوپر کا درجہ صرف نر ہی ہے، درمیان کا ہر درجہ مافوق کے پیشِ نظر مادہ ہے، اور ماتحت کے لحاظ سے نر ہے، اور سب

 

۲۰۶

 

سے نچلا درجہ صرف مادہ ہے، یعنی مستجیب، جو فیضِ علم حاصل کر سکتا ہے، مگر کسی کو فیض نہیں پہنچا سکتا، کیونکہ وہ ہنوز مستجیب ہے، اور ماذون نہیں ہوا۔

ط: اس تاویلی سیڑھی سے تین باتوں کا پتا چلتا ہے: ایک وہ ہے، جو صرف مرد ہی کی طرح فیض دیتا ہے، دوسرے وہ ہیں جو عورت کی طرح فیض لیتے بھی ہیں اور پھر مرد کی طرح فیض دیتے بھی ہیں، اور آخری درجہ ایسا ہے کہ وہ فی الوقت عورت کے مقام پر ہے، تاہم وہ علم و عمل سے مرد بھی ہوسکتا ہے، جیسے اس کے اوپر والے ہیں، اور ان سے بھی اوپر جاسکتا ہے۔

ی: اس بیان میں صراحت سے بھی اور اشارت سے بھی مطلوبہ جواب مہیّا کیا گیا ہے، ہماری کتنی کمزوری ہے کہ معاشرے کی مخالفت کے ڈر سے بعض مسائل پر کھل کر روشنی نہیں ڈال سکتے ہیں، الغرض مُخَنّث بھی انسان ہی ہے، خواہ وہ ایک کمزور مرد کی حیثیت میں ہو، یا ایک عاجز عورت کی کیفیت میں، یا درمیانی حالت میں، جس کا قبلاً ذکر ہوچکا، بہرحال یہ اس کی جسمانیّت ہی کی بات ہے، مگر اس کا تعلق روحانیّت سے ہرگز نہیں، کیونکہ مُخَنّث کی روح دوسروں سے مختلف نہیں۔

دوسرا سوال ایک دیندار بہن کا ہے، جس کا پیشہ نرسنگ ہے، ۔۔۔ ان کی خواتین کے لئے نصیحت بالکل درست اور حق ہے، اور جیسا مشورہ دیتی ہیں، وہ جائز ہے۔

 

نوٹ: پہلے سوال کے جواب میں، جو دس اجزاء پر مشتمل ہے، بہت سی گرانقدر معلومات درج ہوئی ہیں، جو بھی اس تحریر کو پڑھیں، ان سے گزارش ہے کہ اس میں خوب غور سے کام لیں، مثال کے طور پر یہ کہنا کوئی عام بات نہیں کہ ہر شخص بحدِّ قوّت دنیا بھر کے لوگوں میں رہتا ہے، اور کل بہشت میں یہ معجزہ فعلاً ظاہر ہوجائے

 

۲۰۷

 

گا، تاکہ روحِ نجات یافتہ کے بہت سے حقیقی ظہورات ہوں۔

بعض دفعہ کوئی ایسا سوال بھی پوچھا جاتا ہے کہ آیا خواتین جنت میں بھی خواتین ہی رہ کر رجال کے مقابلے میں کمتراور حقوق میں محدود و محبوس ہوں گی؟ یا ان کے لئے بھی بڑے بڑے درجات ہوں گے؟

یاد رہے کہ رجولت و نسوانیّت کا تعلق صرف جسمِ خاکی ہی سے ہے، جو موت کے بعد ضائع ہوجاتا ہے، رہا جسمِ ابداعی کا سوال، وہ تو معجزاتی ہے، اس لئے اس میں فرشتہ، جِنّ (پری) حور، غلمان، مردوزن سب کے ظہورات ہیں، آپ قرآنِ مجید میں دیکھیں کہ بہشت میں کون کون سی نعمتیں حاصل ہوں گی، اور کیا کیا چیزیں ناممکن ہیں (۱۴: ۳۴؛ ۱۵: ۲۱؛ ۳۱: ۲۰؛ ۵۰: ۳۵)۔

 

نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی

اتور ۶؍شعبان المعظم ۱۴۱۰ھ

۴؍ مارچ ۱۹۹۰ء

 

۲۰۸

 

سرورِ دوستان، فخرِ محبان، عز یزعزیزان، میرے

محسن و مہربان جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی صاحب

دامت برکاتہ‘!

 

صد گونہ شوقِ ملاقات و آرزوئے دستبوسی کے ساتھ گلشنِ دل سے گلدستۂ “یاعلی مدد” پیش کرتا ہوں، دنیائے ظاہر کے پھول مرجھا مرجھا کر زبانِ حال سے گلہائے باطن کی سدا بہار خوبیوں کا تذکرہ کررہے ہیں، جی ہاں، ہر زوال پذیرشیٔ کسی لازوال حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے، اور ہر چیز کی شناخت اس کی ضد سے ہوتی ہے، پس ان پھولوں میں یہ جاذبیّت و کشش اس لئے رکھی گئی ہے کہ، ہم ان غیر فانی گلوں کو یاد کریں، جو باطن، روحانیّت، اور جنت میں ہیں۔

آپ کا ہر ترجمہ لفظی اور معنوی جمال و کمال کی بہشتِ برین ہے، آپ کے قلمِ مقتدرنے بیاض کو ریاضِ جنت بنادیا، آج اگر یہ خوبصورت اور کامیاب تراجم نہ ہوتے، تو شرق و غربِ عالم میں ہمیں ایسے عالی مرتبت دوست کیسے ملتے، ایک بڑے وسیع حلقے سے جس طرح آج دعا حاصل ہورہی ہے، اس کی سعادت ہمیں ممکن نہ ہوتی، اور سب سے بڑھ کر امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے وہ مبارک الفاظ ہم کہاں سے اور کیسے پیدا کرسکتے، جو ان ترجموں کی بدولت آج ارشاد ہوئے ہیں، جیسا کہ مولائے پاک نے ارشاد فرمایا: “میرے پاس پاکستان کے شمالی علاقہ جات سے تازہ لٹریچر آرہا ہے۔” کسی اور میٹنگ میں مولانے ارشاد فرمایا: “علّامہ نصیرالدّین بہت ایمانی شخص ہیں۔” گزشتہ سال امامِ زمانؑ جب یہاں تشریف لائے تھے، اس دوران ایک شخصیت نے فون پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ مولائے پاک آپ سے بہت

 

۲۰۹

 

خوش ہیں۔

کسی بڑے عملدار نے کہا کہ مولا آپ سے بیحد راضی ہیں، اگر آپ کو حاضر امامؑ کی خصوصی ملاقات کرائی جائے، تو آپ دیکھ سکیں گے کہ مولا آپ سے کس حد تک خوش ہیں، ایک وزیر نے کہا کہ مولانا حاضر امام علیہ السّلام علّامہ نصیر الدّین کی کتابوں سے نہایت شادمان ہیں، یہ انتہائی عظیم سعادت کس طرح حاصل ہوئی؟ مجھے جذباتی انداز میں کہنا چاہئے: میں ان سے فدا ہوجاؤں، جنھوں نے ترجموں کا مشکل کام انجام دیا، اور ان سے بھی میری جان قربان ہو، جنھوں نے گونا گون خدمات انجام دیں۔ جب ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی آستین چڑھا کر ترجمے کے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں، تو گمان ہوتا ہے کہ بہت سی اعلیٰ روحیں رشک کررہی ہیں، اور آسمان کے فرشتے دعائیں دے رہے ہیں۔

 

آپ کا احسانمند و ممنون

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۵؍ مارچ ۱۹۹۰ء

 

۲۱۰

 

سب سے عالیقدر خدمت

 

یہ ایک روشن حقیقت ہے، اور اس میں ذرّہ بھر شک و شبہہ کی گنجائش نہیں کہ دنیا میں سب سے عظیم، سب سے افضل، اور سب سے عالیقدر کام علم ہی کا کام ہے، اس بات کی نہ کوئی شخص تردید کرسکتا ہے، اور نہ کوئی مخالفت ممکن ہے، کیونکہ علم کائنات و موجودات کی جملہ اشیاء پر محیط ہے، یعنی ہر چیز پر علم ہی کا تسلّط ہے، چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ علم ہر چیز پر بادشاہ ہے، لہٰذا علمی کام یا علمی خدمت تمام خدمات پر بادشاہ ہے، اور یہ بات کئی معنوں میں درست ہے، مثال کے طور پر سارے لوگ مختلف قسم کی خدمتوں میں لگے ہوئے ہیں، اور کوئی فردِ بشر خدمت سے خالی نہیں، یعنی بعض افراد اپنے بچوں اور خاندان کی خدمت کر رہے ہیں، بعض اپنے محلے کی خدمت انجام دے رہے ہیں، بعض لوگ گاؤں کے لئے مفید کام کرتے ہیں، کچھ حضرات کو ملک و قوم کی خدمات کی سعادت حاصل ہے، اور بعض صاحبان کا دائرۂ خدمت بہت ہی وسیع بھی ہوسکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ جب خدمات بے شمار ہیں، تو ان سب میں وہ انتہائی ضروری اور سب سے عالیقدر خدمت کونسی ہے، جو بحقیقت سردار یا بادشاہ کہلائے؟ اس کا جواب عقل کی طرف سے یہ ملتا ہے کہ دنیائے خدمات کی بادشاہ علمی خدمت ہی ہے، یعنی قرآنی اور دینی علم کی خدمت، کہ وہ ہر خدمت سے بالا تر ہے۔

آپ یقین کریں کہ ہم بہت سے ساتھی ظاہراً و باطناً مل کر علمی خدمت کررہے ہیں، کیونکہ ظاہر میں ہم سب ایک ہی ادارے میں کام کررہے ہیں، اور باطن میں ہر ساتھی کے دل و دماغ میں سب کی نمائندگی ہے، اور اس میں کوئی تعجب نہیں،

 

۲۱۱

 

کیونکہ ملائک سیرت احباب کی اجتماعی روح تائیدی خیال بن کر آتی ہے، توجہ دی جائے تو پتا بھی چل سکتا ہے کہ کس کی صورت میں ہے، ورنہ وہ روح خاموشی سے اپنا کام کرتی رہتی ہے۔

خانۂ حکمت کے سرپرست صدر فتح علی حبیب اور ان کی فرخندہ بخت بیگم گُل شکر ایڈوائزر کی علمی خدمات گونا گون ہیں، ان کی علم دوستی اور زرّین کارنامے قابلِ ستائش ہیں، اس دفعہ جب میں ۶؍اکتوبر ۱۹۸۹ء میں کراچی آیا، تو انھوں نے اپنے دولتخانہ میں مجھے بطورِ مہمان رکھا، تاآنکہ میں ۱۴؍ مارچ ۱۹۹۰ء کو رحیم کورٹ میں رہنے کیلئے گیا، اس طویل عرصے میں جس خلوص سے مہمان نوازی کی گئی، اور جیسی گوناگون خدمات ہوئیں، ان کی کوئی مثال نہیں ملتی، اور اس پر مزید آخراً معصومانہ آنسوؤں کی بارش کے ساتھ یہ درخواست بھی کرنا کہ سر پلیز! آپ خالی گھر میں نہ جائیں، کیونکہ اس عمر میں آپ تکالیف برداشت نہیں کرسکتے، ہمیں مزید خدمت کے لئے موقع عنایت کریں، یہ ان کی کتنی بڑی مہربانی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ ہم اپنے جانی دوست فتح علی حبیب، گُل شکر آسمانی بیٹی (خداداد دُختر) اور ان کے بہت ہی پیارے بچوں نزار، رحیم، اور فاطمہ کو اپنی عاجزانہ دعاؤں میں یاد رکھیں گے، آمین!

میں مومنین کی ’’خاکِ پا‘‘ کیا حیثیت رکھتا ہوں، اور کیا چیز ہوتا ہوں کہ تن تنہا کسی عظیم کارنامۂ علمی کا دعویٰ کروں؟ جبکہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام جیسے جلیل القدر پیغمبر بھی مدد کرنے والوں (انصار ۰۳: ۵۲) کے بغیر دین کا کام نہیں کرسکتے تھے، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: قَالَ مَنْ اَنْصَارِیٓ اِلَی اللّٰہِ ط قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ ج(۰۳: ۵۲) تو عیسیٰ نے فرمایا کوئی ایسے آدمی بھی ہیں جو میرے مدد گار ہو جائیں اللہ کے واسطے؟ حواریین بولے کہ ہم ہیں مددگار اللہ (کے دین) کے۔ پس آپ کو یہاں

 

۲۱۲

 

حقیقی علم کی روشنی میں سوچنا ہوگا۔

فرعون کی بیوی آسیہ بڑی سعادت مند، پاک فطرت، اور مخفی دیندار خاتون تھیں، انھوں نے حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کے لئے جو بے مثال خدمات انجام دیں، ان کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے، اور ان پر اللہ تعالیٰ کا ایک خاص انعام یہ بھی ہے کہ خدا نے ان کو ایمان کا نمونہ بنایا (۶۶: ۱۱) اور ان کی دعا کو پاک کرکے اور پُرحکمت بنا کر قرآنِ حکیم میں جگہ دی، وہ دعا یہ ہے: ۔۔۔ ربِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتاً فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۶۶: ۱۱) اے میرے پروردگار میرے واسطے جنت میں اپنے قرب میں مکان بنائیے اور مجھ کو فرعون سے اور اس کے عمل سے چھٹکارا دیجئے اور ظالم لوگوں سے نجات دیجئے۔

سوال و جواب میں غور کریں: کیا بہشت مکانی ہے یا لامکانی؟ (لامکانی) آیا

جنت میں پہلے ہی سے بنے بنائے محلات موجود نہیں ہیں؟ (ہیں، مگر مومن کے اعمال کی بنیاد پر ازسرِ نو تعمیر کئے جاتے ہیں) عالمِ شخصی میں قربِ الٰہی کا مقام کونسا ہے؟ (پیشانی اور اس کے معجزات) جب یہ دعا ایک انسان کی ہے تو یہ کلامِ الٰہی کے معیار پر کس طرح پُرازحکمت ہوسکتی ہے؟ (یہ پُرحکمت ہے، کیونکہ خدانے اس کو زمین سے آسمان پر اٹھا کر اپنے کلام میں فنا کردیا) جب بہشت لامکانی ہے، تو اس صورت میں اللہ کے نزدیک گھر بنانے کے کیا معنی ہوئے؟ (اس کے معنی ہیں سب سے اعلیٰ مرتبہ، یعنی فنافی اللہ و بقا باللہ) کیا بقا باللہ کو قرب کہہ سکتے ہیں یا وحدت؟ (قرب) ہر چند کہ اللہ مکان سے بے نیاز ہے، لیکن پھر بھی مثال کی خاطر دنیا میں اس کا ایک گھر ہے، تو کیا بہشت میں بھی ربّ العزت کا کوئی گھر ہے؟ (جی ہاں، وہاں عقل و جان کا محل ہے، یعنی بیت المعمور)۔

 

۲۱۳

 

سورۂ تحریم (۶۶) کی آخری تین آیات (۶۶: ۱۰ تا ۱۲) میں کفر اور ایمان کی بڑی حیرت انگیز مثالیں بیان ہوئی ہیں، اس میں سب سے پہلے عجیب بات تو یہ ہے کہ حضرتِ نوحؑ کی بیوی اور حضرتِ لوطؑ کی بیوی دونوں عورتیں کس وجہ سے دائرۂ ایمان میں داخل نہ ہوسکیں! حالانکہ وہ مرکزِ دعوت اور سرچشمۂ ایمان کے قربِ ظاہر میں رہتی تھیں، شاید یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی بشریت ہی گنجِ معرفت کی راہ میں وہ طلسماتی آزمائش ہے، جس سے کامیابی کے ساتھ آگے گزر جانا انتہائی مشکل کام ہے۔

دوسری تعجب خیز مثال بی بی آسیہ کی ہے، جن کا قبلاً ذکر ہوچکا، فرعون انتہائی ظالم اور بیحد مغرور کافر پادشاہ ہونے کی وجہ سے دین و ایمان کا سب سے بڑا دشمن تھا، جس نے ہزاروں کی تعداد میں بنی اسرائیل کے نومولود (نوزائیدہ) معصوم بچوں کو قتل کردیا، ایسے زبردست خطرناک طوفانِ کفر و ظلم کے عالم میں آسیہ وہ نیک بخت اور عالی ہمت خاتون تھیں، جو خفیہ خفیہ حضرتِ موسیٰؑ پر ایمان لے آئیں، لیکن کمالِ ایمانی سے نواز نے کی خاطر خدا کے دوستوں پر آخری امتحان بھی آہی جاتا ہے، چنانچہ کسی طرح سے فرعون کو یہ پتا چلا کہ اس کی بی بی نے حضرتِ موسیٰؑ کے دین کو قبول کرلیا ہے، تو وہ بدبخت غیض و غضب سے آگ بگولا ہوگیا، اوّل تو اس نے یہ کوشش کی کہ آسیہ اس دین کو ترک کردیں، جب انھوں نے نہیں مانا، تو ان کو دھوپ میں لٹادیا، اور ان کے سینے پر ایک بھاری پتھر رکھ دیا، اور اسی حال میں وہ مرتبۂ شہادت پر فائز ہوگئیں۔

آخری مثال حضرتِ مریمؑ کی ہے، جن کا ظاہری قصّہ مشہور ہے، تاہم باطنی حکمتیں خزائنِ امامت میں محفوظ ہیں، مثلاً :

الف: آپ خواتین کے لئے روحانی ترقی کا نمونہ ہیں۔

 

۲۱۴

 

ب: حجت کی مثال ہیں۔

ج: انھوں نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا، یعنی کان سے غیر مذہب کی کوئی بات قبول ہی نہیں کی۔

د: پس ان کے ایسے پاک و پاکیزہ کان سے خدائی روح پھونک دی گئی، یعنی خصوصی علم، اسمِ اعظم، اور اس کے نتائج کے ذریعے سے۔

 

خزائنِ کیسیٹ لائبریری

 

یہ بڑا عجیب و غریب نام آپ نے کبھی سنا ہی نہ ہوگا، جی ہاں، یہ ایک نہایت

پُرمغز و پُرحکمت جدید کیسیٹ لائبریری کا نام ہے، جسے ہمارے کریم آباد (کراچی) کے عزیزان نے مورخہ ۲؍فروری ۱۹۹۰ء میں قائم کیا ہے، اس لائبریری میں ایک ہزار سے زیادہ کیسیٹ جمع ہیں، ایک گھنٹہ اور ڈیڑھ گھنٹے کے ان کیسیٹوں میں مختلف موضوعات پر دیئے گئے لیکچرز کے ذخائر موجود ہیں، مثلاً قرآنی حکمت، تاویل، توحید، نبوّت، امامت، روحانیّت، روح، ذکر، عبادت، اسمِ اعظم، تصوّف، ریاضت، علم، اسلام، حقیقت، فنا، عشق ، گریہ وزاری، مناجات، دعا، معجزہ، عقل، نفس، شیطان، فرشتہ، جِنّ، جسمِ لطیف، آخرت، بہشت، ابداع وانبعاث، ازل و ابد، تجدّدِ امثال، سوال وجواب، روحانی تجربات، قرآنی اور علمی علاج، نیز روحانی علاج، اور بہت سے دوسرے موضوعات سے بحث کی گئی ہے، جن کی فہرست بڑی طویل ہوسکتی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ کیسیٹوں کے ذخائر علم و حکمت کے خزائن ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے کریم آباد کے ساتھیوں نے اپنے محلے کی اس لائبریری کا نام “خزائنِ کیسیٹ لائبریری” رکھا ہے، اور یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ اگر ادارۂ عارف کے

 

۲۱۵

 

صدر محمد عبدالعزیز کیسیٹ ریکارڈنگ کی سکیم نہ بناتے، اتنی قیمتی مشینیں نہ خریدتے، شب و روز شدید محنت سے کام نہ کرتے، اور ان کی نیک بخت بیگم یاسمین سیکریٹری ان کی بھرپور مدد نہ کرتیں، تو یہ سارے خزائن ہوا میں بکھر جاتے( برباد ہوتے) خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ حقیقی علم کی یہ بہت بڑی دولت اور روحانیّت کی بہت بڑی نعمت ضائع ہونے سے بچ گئی۔

ہمارے کریم آباد کے بہت ہی عزیز دوستوں نے ذاتی اخراجات ہی سے یہ لائبریری بنالی ہے، جس سے وہ علمی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور دوسروں کو بھی فائدہ دلانے کے خواہشمند ہیں، یہ عزیزان بڑے عالی ہمت اور علم و حکمت کے عاشق ہیں، ان کی کوششوں کو دیکھ کر یہ یقین آتا ہے کہ ان شاء اللہ یہ نوجوان مستقبلِ قریب میں بڑے بڑے دانشمند بنیں گے، آمین!

 

نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی

اتوار ۲۰؍شعبان المعظم ۱۴۱۰ھ

۱۸؍ مارچ ۱۹۹۰ء

 

۲۱۶

 

کیا جِنّات مسخر ہوسکتے ہیں؟

 

۱۔ اس حقیقت کی شہادت کائنات سے مل رہی ہے، اور روشن دلیل قرآنِ پاک میں موجود ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی آدم کو اپنی بہت سی مخلوقات و موجودات پر کرامت و فضیلت عنایت کردی ہے (۱۷: ۷۰) اور اسی تفوق و برتری کے نہج پر اس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں میں سے ایک ایک زندہ عکس کو اپنے بندوں کے لئے مسخر بنادیا ہے (۴۵: ۱۳) پس اس سلسلے میں عقل و دانش سے خوب سوچنے کی ضرورت ہے کہ عکسِ کائنات (جَمِیْعاً مِّنْہُ ۴۵: ۱۳) کس طرح مسخرہوسکتا ہے؟ آیا کائناتی بہشت کی روح و روحانیّت ہر کامیاب عالمِ شخصی میں ظہور پذیر ہوجاتی ہے؟ کیونکہ انفرادی قیامت میں جنت نزدیک لائی جاتی ہے (۵۰: ۳۱)۔

۲۔ قرآنِ حکیم کی متعدد آیاتِ کریمہ سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ کوئی بھی ایسا مشکل کام نہیں، جو خدا کی مدد سے آسان نہ ہوجاتا ہو، اور کوئی بھی ہنگامی ناممکن امر ایسا نہیں، جو اپنے وقت اور خاص مقام پر ممکن نہ ہوتا ہو (۹۴: ۰۶؛ ۱۴: ۳۴؛ ۱۵: ۲۱) جیسا کہ ارشادِ قرآنی کا مفہوم ہے کہ جنت میں کوئی نعمت اور کوئی شے غیر ممکن نہیں (۵۰: ۳۵) اور اس آیۂ کریمہ میں زبردست جوابی علم پوشیدہ ہے۔

۳۔ اس موضوع پر خامہ فرسائی کی خاص وجہ ہے کہ جب سے دوستوں اور عزیزوں نے زبانی اور قلمی طور پر اس بندۂ ناچیز کا وسیع تر اور دُور رس تعارف کرایا، تب سے بڑے پیمانے پر طرح طرح کے سوالات ہونے لگے، مثال کے طور پر کسی نے پوچھا کہ بتائیے تسخیر جِنّ کا آسان طریقہ کونسا ہے؟ ایک صاحب نے سوال کیا: ہمزاد

 

۲۱۷

 

کو کس طرح مسخرکیاجاتا ہے؟ ایک جگہ سے فون آیا: رات کے وقت گھر میں کوئی خوفناک آفت آتی ہے، لوگ کہتے ہیں کہ اس گھر کو چھوڑ دو، آپ کا کیا مشورہ ہے؟ ایک شخص نے پوچھا: جناب مجھے چلّہ کاٹنے کا بڑا شوق ہے، آپ بتائیے چلّہ بیٹھنے کے لئے کونسی جگہ بہتر ہوگی؟ کوئی زیارت؟ یا قبرستان؟ یازاویہ؟ یا کوئی جنگل؟ یا پہاڑاور غار؟ اور ویسے تو سوالات کا سلسلہ بہت ہی طویل ہے، تاہم جِنّ سے متعلق سوالات و جوابات بڑے دلچسپ اور بیحد مفید ہیں مثال کے طور پر جِنّ اور پری کو الگ الگ سمجھنا بھی ایک حجاب ہے، حالانکہ یہ ایک ہی مخلوق ہے، اور لفظِ پری فارسی ہے، اس لئے یہ دراصل مؤنث نہیں، بلکہ اس میں اڑنے کے معنی موجود ہیں، کیونکہ یہ پریدن (اڑنا) سے ہے۔

۴۔ حدیثِ شریف میں ہے: مَنْ کَان لِلّٰہِ کَان اللّٰہ لَہ ( جوحقیقی معنوں میں خدا کا ہوجائے تو خدا بھی دراصل اسی کا ہوجاتا ہے) اور جس سب سے بڑے سعادتمند انسان کو قربِ الٰہی کا یہ مرتبہ حاصل ہوا ہو، اس کے لئے آسمان و زمین کی تمام چیزیں کیوں مسخر نہ ہوں، جِنّ اور ہمزاد کیا، بلکہ جملہ کائنات و موجودات ایسے دوستِ خدا کے عالمِ شخصی میں ذاتی قوّتوں کی حیثیت سے کام کررہی ہوں گی، کوئی شک ہی نہیں کہ معرفت کی جس انتہائی بلندی پر خداوندِ عالم کا نورِ اقدس ازل کا گنجِ مخفی ہے، اس کے ساتھ اور اس کے تحت نہ صرف ہر گوہرِ گرانمایہ موجود ہے، بلکہ ہر چیز کی تسخیر اور کنٹرول کا راز بھی اسی کنزالکُنوز میں محفوظ ہے۔

۵۔ اگر آپ کو اس پر یقین ہے، اور اسرارِ معرفت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، تو یہاں خدائے بزرگ و برتر کی توفیق سے ایک بہت بڑے راز کی وضاحت کی جاتی ہے، وہ یہ کہ آپ کی اپنی ہی ذات میں سب کچھ ہے، آپ کے عالمِ شخصی ہی میں

 

۲۱۸

 

بحدِّ قوّت ایک سلطنتِ سلیمانی پوشیدہ ہے، جس میں جنّوں، انسانوں، اور پرندوں کے الگ الگ لشکر سوئے ہوئے ہیں، ان سب کو بیدار کردینے اور اپنی روحانی بادشاہی کو حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں لانے کیلئے کوئی بھی چلّہ نہیں چاہئے، بلکہ عام و خاص ذکر و عبادت کی ضرورت ہے، اور مناجات، یا گریہ و زاری بیحد ضروری ہے، لیکن کوئی چیز علم کے بغیر نہ ہو، کیونکہ علم و حکمت کے بغیر ہر محنت ضائع اور ہر کوشش ناکام ہوجاتی ہے۔

۶۔ آپ اس حقیقت سے خوب باخبر ہیں کہ علم و حکمت کی جملہ نعمتیں طاق نہیں جفت جفت پائی جاتی ہیں، یعنی دو دو ہیں، چنانچہ خدا کے دو آفاقی گھر ہیں:

اوّل: خانۂ کعبہ جو صامت ہے،

دوم: امامِ زمانؑ جو ناطق ہے، نیز اللہ کے دو ذیلی گھر ہیں: ایک وہ جو گاؤں یا محلے میں ہے، اور دوسرا دل یا دماغ میں ہے، پس معبودِ برحق کی عبادت کے لئے یہی مقامات کافی، پسندیدۂ خدا اور باکرامت ہیں۔

۷۔ سوال: اگر عبادت اور اعتکاف کے لئے پہاڑ کی کچھ خصوصیات نہیں ہیں، تو بعض حضراتِ انبیاء علیہم السّلام معتکف ہونے کے لئے پہاڑوں پر کیوں تشریف لے گئے؟ اور اگر غار میں ذکر و عبادت کرنے کی کوئی خاص اہمیت نہیں، تو پھر قرآنِ مجید غار والوں کی تعریف و توصیف کیوں کرتا ہے؟

جواب: الف: دین کے بعض امور ایسے بھی ہوا کرتے ہیں، جو صرف پیغمبروں ہی کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔

ب: آنحضرتؐ کے بارے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ قبل از وقت حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم اپنی نمایان عبادت کے اشارے سے دعوتِ اسلام نہیں کرسکتے تھے، لہٰذا پوشیدہ عبادت کی غرض سے غارِ حرا میں تشریف لے گئے۔

 

۲۱۹

 

ج: ہر وہ مثال جس میں تاویلی حکمت ہو، صرف صاحبانِ شریعت ہی قائم کرسکتے ہیں، چنانچہ پہاڑاور غار کے استعمال سے یہ فرمایا گیا کہ سر جبل (پہاڑ) ہے اور پیشانی غار، اس میں اعتکاف کرکے نورِ ازل کی معرفت کو حاصل کرو۔

د: پہاڑ کی اور بھی تاویلات ہیں، مگر اس کی آخری تاویل طورِ عقل ہے، جو پیشانی میں ہے، حضرتِ موسیٰؑ طورِ سَینا پر ضرور جاتے تھے، لیکن خدائی معجزات اپنی پیشانی ہی میں دیکھتے تھے۔

ھ: غار والوں کو اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ تھا۔

۸۔ آپ کسی جِنّ یا ھمزاد کو کس مقصد کے پیشِ نظر مسخر کرلینا چاہتے ہیں؟ کیا اس سے دنیوی کاموں میں مدد لینا مقصود ہے؟ یہ تو بالکل جائز ہی نہیں، آیا اس سے دینی کام لیا جائے گا؟ مگر رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے کب فرمایا کہ تم اپنے اسلامی فرائض کو جنّات پر ڈال دو؟ اور یہ بات الگ ہے کہ جنگِ بدر میں خدا کے حکم سے فرشتوں نے لشکرِ اسلام کی مدد کی تھی، اور اچھے جنّات ہی فرشتے کہلاتے ہیں۔

۹۔ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے بارے میں یہ جو قصّہ مشہور ہے کہ ان کے لئے جنّوں، انسانوں اور پرندوں کے لشکر کام کرتے تھے، وہ امرِ واقعی ہے، مگر اس کا تعلق ذاتی عالمِ ذرّ سے ہے، اور یہ عالم وہ ہے، جس کے متعلق حضرتِ امیر المومنین علی صلوات اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: وَتحسبُ اَنّکَ جِرمٌ صغیرٌ ۔۔،’ وَفیکَ انْطَوَی الْعالمُ الْاَ کبر= اور تو خیال کرتا ہے کہ تو عالمِ اصغر ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے (از دیوانِ حضرتِ علیؑ) شاہِ ولایت کا یہ بابرکت شعر قرآنِ کریم کی ان دونوں پُرحکمت آیتوں کی تفسیر ہے، جن میں یہ ذکر ہوا ہے کہ (ہر شخصِ کامل کی ذاتی) قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ کائنات کو لپیٹتاہے (یعنی آسمان و زمین کی تمام ارواح و عقول

 

۲۲۰

 

اور ہر مخلوق کو عالمِ شخصی میں حاضر کردیتا ہے، (۲۱: ۱۰۴؛ ۳۹: ۶۷) یہی ہے انسانیّت کا وہ ارفع و اعلیٰ مقام، جس میں نہ صرف جنّات ہی مسخرہوجاتے ہیں، بلکہ کائنات کی ہر ہر مخلوق رام ہوجاتی ہے۔

۱۰۔ بہشت آسمانوں اور زمین کی وسعتوں پر مبنی ہے (۰۳: ۱۳۳؛ ۵۷: ۲۱) اس کا اشارہ یہ ہوا کہ جنت کا قیام و بقا آسمان اور زمین پر ہے، کیونکہ وہ کائناتی عقل، کائناتی روح، اور کائناتی جسمِ لطیف ہے، لہٰذا جب تک بہشت ہے، تب تک کائنات برقرار رہے گی (۱۱: ۱۰۸) چنانچہ بہشت کے چار عناصر یہ ہیں: عالمِ جسمِ کثیف، عالمِ جسمِ لطیف، عالمِ روحانی، اور عالمِ عقلانی، اس کے معنی یہ ہوئے کہ اہلِ جنت کو جو بہت بڑی سلطنت حاصل ہے (۷۶: ۲۰) اس سے وہ ستاروں کی لطیف مخلوقات پر بھی خلافت و بادشاہی کریں گے، اور جنّات یعنی پری مرد اور عورتیں لطیف مخلوقات میں سے ہیں، اور اُڑن طشتریاں بھی، پس ان سب پر بہشت کے بادشاہوں کی بادشاہت ہوگی (۷۶: ۲۰) جس کی ایک مثال مملکتِ سلیمانی ہے۔

۱۱۔ جب خدا و رسولؐ کے حکم کے مطابق حقیقی فرمانبرداری سے آپ امامِ زمانؑ کے ہوجائیں ، تو امامِ مبینؑ(۳۶: ۱۲،جن میں سب کچھ ہے) آپ ہی کے ہو جائیں گے ، اس وقت اپنی اس حقیقتِ حال سے متعلق تمام عجائب و غرائب اور معجزات کو ایک ایک کرکے شروع سے آخر تک دیکھیں گے، خیر و شرّ کے جنّوں میں سے ہر ایک اپنے عجیب و غریب نمونۂ عمل آپ کے سامنے پیش کرے گا، تاکہ اس بات کا پختہ یقین ہو کہ سلیمانِ زمانؑ کی روحانی سلطنت آپ کی سلطنت ہے، یاد رہے کہ لفظِ جِنّ قرآنِ حکیم کا ایک خاص خفیہ لُغَتْ یعنی کوڈ ورڈ (CODE WORD) ہے، اسلئے جِنّ کے بہت سے معنی ہیں، جیسے: فرشتہ، شیطان، نیک روح، بدروح ،جسمِ مثالی، ہمزاد،

 

۲۲۱

 

اُڑن طشتری، اہلِ باطن، وغیرہ۔

۱۲۔ اگرچہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے زیرِنگین ہر قسم کے جنّات کام کرتے تھے، اور ان میں روحانی عمل کے اعتبار سے بڑے زبردست جنّوں کی کوئی کمی نہ تھی، تاہم وہ شخص قوّت کی چوٹی پر تھا، جس کے پاس کتابِ روحانیّت کا علم تھا (۲۷: ۴۰) یعنی آصف بن برخیا، یہاں یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ بعض جنّات صرف جنّات ہی ہیں، اسی طرح بعض انسان صرف انسان ہیں، لیکن انسانانِ کامل جسمِ کثیف سے بشر اور جسمِ لطیف سے جِنّ (یعنی فرشتہ) ہوجاتے ہیں، اور آصف وزیرِ سلیمانؑ ایسا ہی تھا۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی

۲۷؍شعبان المعظم ۱۴۱۰ھ

۲۵؍ مارچ ۱۹۹۰ء

 

۲۲۲

 

اے دل! جواب دے

 

مسئلہ نمبرا: اے دل! ہادیٔ برحق صلوات اللہ علیہ کی ظاہری و باطنی ہدایت کی روشنی میں تو ہمیں یہ بتادے کہ جب پونا (۱۹۴۶ء) میں اس بندۂ حقیر کو حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کا دیدارِ مقدس پہلی بار حاصل ہوا، تو اس وقت اس غریب کے لئے ذاتی بھونچال (زلزلہ) کامعجزہ کیوں ہوا؟

 

جواب: ارے نا شکرا انسان! شکر گزاری میں خوب آنسو بہادے، کہ اس میں تیرے امامؑ کے صاحبِ قیامت ہونے اور تجھ پر انفرادی قیامت واقع ہونے کی بشارت تھی۔

 

مسئلہ نمبر۲: سریقول (چین) میں جو بڑا عجیب خواب دیکھا، جس میں نہ معلوم کس نے مجھے ذبح کیا تھا؟ میرا سر شمالاً جنوباً ایک دیوار پر آویزان تھا، جسم بھی شمالاً جنوباً زمین پر پڑا تھا، میں زمین سے کچھ بلندی پر ایک چمکتی ہوئی نرالی فضا میں قریب ہی سے مشرق کی جانب یہ منظر دیکھتا ہوں، اور مجھے اس واقعہ سے ذرابھی غم اور افسوس نہیں ہوتاہے، بلکہ ایک نامعلوم خوشی کا احساس ہونے لگتا ہے، اے دل! بتادے کہ اس کی تعبیر (تاویل) کیا ہے؟

 

جواب: اے خفتۂ خوابِ غفلت! بیدار ہوجا، اور دعا ومناجات کیا کر، کہ تجھ پر خداکا فضل و احسان ہوا ہے ۔۔۔ (۰۲: ۷۱؛ ۰۳: ۱۶۹) دیوار کے نیچے ایک خزانہ مخفی تھا (۱۸: ۸۲) نیز یہ دیوار سدِذوالقرنین کی مثال تھی (۱۸: ۹۴) اور وہ نورانی فضا تھی آخرت

 

۲۲۳

 

اور عالمِ علوی۔

 

مسئلہ نمبر۳: عالمِ خواب میں ایک صاف شفاف سمندر کا مشاہدہ ہوا، جس کا کوئی کنارا نظر نہیں آتا تھا، معلوم نہیں میں کیسے اس میں گر کر ڈوب گیا، اور خیال آیا کہ اب میں دم گُھٹ جانے سے فوراً ہی مر جاؤں گا، مگر ایسا نہیں ہوا، میں غیر معمولی طور پر شادمان تھا، اس میں کیا حکمت تھی؟

 

جواب: اے چوپان! فخر مت کرنا، ورنہ تو ہلاک ہوجائیگا، کہ وہ سمندر امامِ مبینؑ کا روحانی علم تھا، جو پاک و صاف ہے۔

 

مسئلہ نمبر۴: بیداری، خیال، خواب، اور روحانیّت میں بے شمار عجائب و غرائب کا نظارہ ہوا، ان میں سے صرف چند کا یہاں تذکرہ ہو رہا ہے، منجملہ یہ کہ ایک دفعہ میں قید خانے کی دیوار سے ٹیک لگاکر عبادت کررہا تھا، جیسے ہی سر سے دیوار کو چھوا، تو محسوس ہوا کہ میرے اندر سے کوئی چیز ٹھوس دیوار سے پار گزر رہی ہے، وہ کیا شی تھی؟

 

جواب: اے خاکِ پائے مومنان! اگر یہ سوالات روحانی علم پھیلانے کی غرض سے ہیں، تو بہتر ورنہ مت پوچھ، اور یاد رکھ کہ دیوار سے گزر جانے کا وہ بڑا عجیب کام جسمِ لطیف کا کرشمہ تھا کہ اس کے سامنے کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے۔

 

مسئلہ نمبر۵: جب میں پہلی بار قید ہوا، اور رات کے وقت تنہا ایک تاریک مکان میں سورہا تھا، کوئی نصف شب کے قریب ایک چھوٹا سا پتھر پھینکا گیا، جو غلیل کا غلّہ جتنا ہوسکتا ہے، اسی کے ساتھ ایک قسم کی بدبو پھیل گئی، یہ کیا واقعہ تھا؟

 

جواب: گریہ وزاری کی عادت بنالے تاکہ تجھ کو خودنمائی کی بیماری نہ ہو،

 

۲۲۴

 

کہ سلیمانِ زمانؑ کی جانب سے دعوت نامہ لے کر تیرے پاس ہدہد( کھٹ بڑھئی) آیا تھا، اور وہ بدبو اسی کی علامت تھی، اور یہ بات جان رکھ کہ خوشبو کے آنے سے قبل بدبو کا تجربہ ہوتا ہے، تاکہ تو باور کرسکے کہ روحانیّت میں بری چیزیں بھی ہیں، اور اچھی چیزیں بھی۔

 

مسئلہ نمبر۶: ظاہر ہے کہ شیطان کا کوئی ایک روپ نہیں، بلکہ وہ طرح طرح کی شکلوں میں حملہ آور ہوتا ہے، چنانچہ روحانی انقلاب کے دوران ایک بار وہ مکڑی بن کر آیا، اور مجھے کسی ٹائٹل سے بلانے لگا، اتنے میں روحانی نے فرمایا: خبردار! تم بالکل خاموش ہی رہنا، اور کوئی جواب نہ دینا، یہاں سوال یہ ہے کہ شیطان کیوں مکڑی کی صورت میں سامنے آیا؟

 

جواب: ارے کم فہم انسان! تو سجدۂ شکر بجا لا، کہ امامِ عالیمقامؑ کی دستگیری ہوئی، اور شیطان کمزور ترین بھیس میں تیرے مقابلے میں آیا، جیسا کہ سورۂ عنکبوت (۲۹: ۴۱) میں اس کا اشارہ موجود ہے، ورنہ تو سخت مشکل میں مبتلا ہوجاتا۔

 

مسئلہ نمبر۷: یارقند (چین) کے جس گاؤں میں اس خاکسار کا قیام تھا، اس کا نام قرانگغوتوغراق ہے، قریب ہی سے کوئی مرغِ سحر (مرغا) بڑی پُراسرار بروشسکی بولی میں اذان دیتا تھا، اگرچہ اس کے بہت سے معنی ہیں، تاہم اس کا ایک مقصد تمام گاؤں والوں کو عبادت کے لئے جگانا تھا، لیکن تعجب ہے کہ اوّل مرغ کی بولی، اور پھر اس پر مزید بروشسکی بولی میں ایسے لوگوں کو دعوت دینا، جو صرف ترکی جانتے ہوں، اس میں کیا راز ہے؟

 

جواب: اے بندۂ کمترین ! یہ راز ایسا نہیں جس کو کھول کھول کر بیان کیا

 

۲۲۵

 

جائے، تاہم یہاں یہ حکمت ضرور جان لے کہ اس اذان کا زیادہ سے زیادہ تعلق خود تمہارے عالمِ شخصی سے ہے، کیونکہ اس میں جتنے ترکستان کے لوگ ہیں، وہ سب تمہاری وجہ سے بروشسکی بولتے ہیں۔

 

مسئلہ نمبر۸: جب یہ ناچار شخص آخری دفعہ قیدِ تنہائی میں تھا ، تو اس حال میں شاید میری درویشی کو آزمانے کے لئے قوّتِ لایموت (اس قدر خوراک جس سے زندگی قائم رہے) یعنی نہ ہونے کے برابر غذا دینے لگے، لیکن خدا کے فضل و کرم سے سلیمانِ زمانؑ کو میری حالتِ زار پر شاید رحم آیا، اور انھوں نے البتّہ جنّات کو حکم دیا کہ اس غریب کو لطیف خوراک دیا کرو، چنانچہ کچھ جنّوں نے نظر آئے بغیر صرف گفتگو سے رابطہ قائم کیا، اور طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں غذاہائے لطیف سنگھاتے رہے، وہ حضرات انتہائی صاف و صریح بروشسکی میں بات کرتے تھے، وہ پوچھتے: تم کس خوشبو میں غذا لوگے؟ میں کہتا: گلاب، زرد گلاب ،گُلِ سنجد، بنفشہ، گُلِ داؤد، وغیرہ ، یا کسی پھل کا نام لیتا،یا کسی جڑی بوٹی کو یاد کرتا، تو فوراً اس چیز کی خوشبو آنے لگتی تھی، اس میں کیا راز ہے؟

 

جواب: اے طفلِ مکتب! یہ بہت بڑی سعادت ہے، تو ہمیشہ عاجزی سے ربّ العزت کو یاد کیا کر، اور ان خوشبوؤں کا راز یہ ہے کہ ان کا تعلق سرچشمۂ امر سے ہے، یعنی یہ خزینۂ کُنْ (ہوجا) سے آتی ہیں۔

 

مسئلہ نمبر۹: بندے کو آخری قید سے نکال کر وطن کی طرف روانہ کردیا گیا، یہ ناچیز گھوڑے پر سوار جارہا تھا، اس نے دل ہی دل میں ایک بزرگ اسم کا ورد شروع کیا، تو فوراً ہی محسوس ہوا کہ گھوڑا زمین سے کچھ بلندی پر مستانہ رقص کے ساتھ

 

۲۲۶

 

چل رہا ہے، آنکھیں کھول کر دیکھا تو ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی ، جب اسمِ پاک کو اسی انداز میں دوبارہ پڑھا، تو وہی حال ہوا، یہ اسمِ اکبر کا کیا معجزہ تھا؟

 

جواب: تیری نہ سابقہ کوئی بندگی ہے، نہ انعام کے بعد کوئی شکر گزاری، پھر بھی عجب ہے کہ یہ روح اور جسمِ لطیف کا معجزہ ہوا۔

 

مسئلہ نمبر۱۰: سورج زبانِ حال سے کہہ رہا ہے کہ روحِ انسانی قدیم ہے، اور چاند یہ ظاہر کرتا ہے کہ روح کی قدامت کے ساتھ ساتھ جدت بھی ہے، شاید اسی وجہ سے ہمیں اپنی زبان میں رویتِ ہلال کی یہ دعا سکھائی گئی تھی: “تھݸݽ گٹوجݹ مݵن شُروجݹ (اے خدا!) مجھے نیا لباس دے (اور) پرانا رزق دے۔” جب واپسی سفر کے دوران ہم ایک منزل میں ٹھہر گئے، تو شام کے وقت زمین کی سطح سے کوئی آواز آنے لگی، جس میں کوئی روح ترنّم سے یہ دعا پڑھ رہی تھی، اور اسی کی ہم آہنگی میں کوئی ساز بھی بج رہا تھا، اسی کے ساتھ میری روح کے اکثر ذرّات نکال کرلیے جارہے تھے، اور یہ سب کچھ کسی چیز پررفتہ رفتہ بلند ہورہا تھا، یہ کیا واقعہ تھا؟

 

جواب: اے بے فکر انسان! تو نے ابھی تک ان اشارات میں غور ہی نہیں کیا ہے، تو اب خوب غور کر کہ مذکورہ دعا میں واضح اشارہ موجود ہے، اور مجموعاً اس واقعہ کے کئی معنی ہیں، مثلاً: قول و عمل کا بلند ہوجانا (۳۵: ۱۰) مرکر زندہ ہوجانا (۲۰: ۵۵) وغیرہ۔

 

مسئلہ نمبر۱۱: ایک دفعہ کچھ ایسے عجیب قسم کے لطیف و پاکیزہ لوگوں کو دیکھا، کہ جن کے ریشمی لباس کی علامت سے اہلِ بہشت ہونے کا گمان ہوتا تھا (۲۲: ۲۳) وہ اپنے چہروں کو نقابوں میں چھپائے ہوئے رقص کنان ذکر کررہے تھے،

 

۲۲۷

 

یہ کونسے لوگ تھے؟

 

جواب: اے فراموشی کا پتلا! یہ جنّات تھے، یعنی پریوں کا طائفہ، یہ بات بھول نہ جاکہ جِنّ بڑے سے بڑے بھی ہیں اور چھوٹے سے چھوٹے بھی، چنانچہ عالمِ ذرّ کے جنّات ذرّات ہی کی شکل میں ہوا کرتے ہیں، پس اگر قرآنی اور سلیمانی اصطلاح میں سائنس کی بات کرنی ہے، تو یقیناً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذرّاتی جنّوں کی بدولت انسانی جسم کے تمام تر مفید کام انجام پاتے ہیں، تم خود حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن کو روحانیّت اور حکمت کی روشنی میں پڑھ کر دیکھو، تو اس حقیقت کا مکمل یقین ہوجائے گا کہ واقعی ہمارے قریۂ ہستی میں خلیاتی جِنّ مسخراور مصروفِ عمل ہیں۔

 

مسئلہ نمبر۱۲: یہ واقعہ بالاکوٹ کا ہے، حقیر ایک کمیشن ایجنٹ کے وہاں ٹھہرا ہوا تھا، کمرے میں صرف احقر اور ایجنٹ صاحب کے منشی سوتے تھے، منشی نے کہا: “سچ بات تو یہ ہے کہ آج دوسری رات بھی میں شدید خوف سے لرزہ براندام ہوگیا، کیونکہ تقریباً نصف شب کے وقت کوئی ہیبت ناک شخص آکر آپ کے سرہانے کے پاس کھڑا رہتا ہے، میں تو اس کمرے میں اب نہیں سوسکتا۔” یہ مہیب شخص کون تھا؟

 

جواب: ارے حقیر آدمی! تم بجائے خوش ہوجانے کے بار بار گریہ و زاری کرو کہ وہ تمہارا دوست جِنّ یعنی جسمِ لطیف تھا، جس کو تم نے بار ہادیکھا ہے۔

 

مسئلہ نمبر۱۳: کسی آدمی کی ذاتی دنیا (عالمِ شخصی) اگرچہ فی الوقت سلطنتِ سلیمانی تو نہیں، لیکن اسی کی مثال پر ایک چھوٹی سی ریاست ضرور ہے، جس میں جنّوں، انسانوں، اور پرندوں کے بے شمار لشکر الگ الگ منظم طور پر کام کررہے ہیں، یہ سب خلیات (CELLS)ذرّاتِ روحانی، اور مفید جراثیم کی حیثیت میں ہیں،

 

۲۲۸

 

اور ذکر و روحانیّت کی روشنی میں اس کا مشاہدہ ہو جاتا ہے، آیا یہ درست ہے؟

 

جواب: کیوں نہیں، لیکن تم اس علمِ امامت کی تعظیم میں فنا ہوکر خاک و خاکستر ہوجاؤ، یعنی بیحد عاجزی سے خدمت کرو۔

 

مسئلہ نمبر۱۴: میری برادری کی ایک خدمت گزار اور نیک نام بہن بی بی رہنما (مرحومہ) زوجۂ منشی غلام محمد خان صاحب (مرحوم) اپنے گاؤں مسگر میں محفلِ ذکر سے فیض حاصل کرتی رہتی تھیں، انھوں نے ایک بار اپنے معمول سے زیادہ گریہ و زاری کی، تو میں نے گمان کیا کہ شاید انھوں نے کسی چیز کا مشاہدہ کیا، بعد میں دریافت کرنے پر آپ نے بتایا کہ ایک مومن شخص(۔۔۔شاہ) الٹے پوستین میں ملبوس ہوکر عجیب طرح سے رقص و ذکر کررہا تھا، وہ کون تھا؟

 

جواب: وہ ایک مومن جِنّ تھا، پس اہلِ ایمان کو راہِ ہدایت اور منازلِ معرفت مبارک ہوں!

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی

ہفتہ ۴؍رمضان المبارک۱۴۱۰ھ

۳۱؍ مارچ ۱۹۹۰ء

 

۲۲۹

 

قرآن اور اِنس وجآنّ

 

۱۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ قرآنِ حکیم وہ مکمل ترین ہدایت نامۂ سماوی ہے، جس کو پروردگارِ عالمین نے حضرتِ محمد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم پر نازل فرمایا، تاکہ بنی نوع انسان کی رہبری ہو، سو لازمی طور پر قرآنِ پاک کے تمام تر مضامین ایسی ہدایت و تعلیمات پر مبنی ہیں، جو انسانوں کے لئے ضروری ہیں، تاہم یہاں اگر میں یہ کہوں کہ ہدایت کی اس ضرورت میں آدمی کے ساتھ ساتھ جِنّ بھی ہے، تو شاید آپ تعجب سے یہ کہیں گے کہ جِنّ کا تذکرہ تو قرآنِ عزیز میں صرف چالیس بار آیا ہے، لہٰذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ قرآن کے ان کثیر مقامات پر مذکور و موجود ہو، جہاں انسان کا ہر گونہ ذکر فرمایا گیا ہے؟ ان شاء اللہ، میں ذیل میں اس حقیقت کا ثبوت اور اس سوال کا جواب پیش کروں گا:

۲۔ خدائے بزرگ و برتر کا پاک ارشاد ہے: وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنِ (۵۱: ۵۶) اور میں نے جِنّ اور انسان کو اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کیا کریں ( اور مجھ کو پہچانیں) سورۂ ذاریات کے اس حکمِ عالی کے مطابق جب آفرینشِ جِنّ و اِنس کا مقصدِ اعلیٰ عبادت اور معرفت ہے، تو پھر یہ امر لازمی ہے کہ یہی سب سے بڑا مقصد تمام ذیلی و ضمنی مقاصد پر محیط و حاوی ہو، یعنی قرآنی ہدایات و تعلیمات کی کوئی بات ایسی نہیں، جس کا آخری مطلب مذکورۂ بالا عبادت و معرفت نہ ہو، جیسے ثمردار درخت میں جتنی چیزیں ہیں، وہ سب کی سب پھل اور مغز کو پیدا کرنے کی غرض سے ہوا کرتی ہیں، اسی طرح درختِ اسلام کا میوہ عبادت، اور مغز علم و معرفت

 

۲۳۰

 

ہے، جس کے تقاضوں کو قولاً و فعلاً پورا کرنا اِنس و جِنّ دونوں کا فریضہ ہے۔

۳۔ سورۂ رحمان کو حسن و جمالِ معنوی کی وجہ سے عروس القرآن (قرآن کی دلہن) کا نام دیا گیا ہے، ایسی انتہائی پُرحکمت اور روحانی جواہر سے مملو سورہ میں اہلِ دانش کے لئے خزائنِ اسرار کی کلیدیں کیوں نہ ہوں، چنانچہ ایک بہت بڑا عجیب راز یہاں یہ کھل جاتا ہے کہ اِنس و جان ( جِنّ) دراصل ایک ہی مخلوق ہے، کیونکہ جِنّ یا پری (پوشیدہ مخلوق) آدمی کے جسمِ لطیف یا آسٹرل باڈی کو کہتے ہیں، جیسے مذکورۂ بالاسورہ میں پہلے انسان کے جسمِ کثیف کی تخلیق کا تذکرہ ہے (۵۵: ۱۴) اور اس کے بعد جسمِ لطیف کا (۵۵: ۱۵) کیونکہ یہ ایک ظاہری کُرتہ ہے، اور وہ ایک باطنی کُرتہ، اور آپ کو علم ہے کہ خدا کے ہاں انسانی روح کے واسطے زندہ کُرتے موجود ہیں (۱۶: ۸۱) پس اگر آپ بعنایتِ الٰہی ایسے کثیر کُرتے پہن لیں گے، تو وہ سب کے سب آپ کی ذات میں ایک ہوجائیں گے، کیونکہ ان کی خاصیت ہے ایک ہوجانا، اس لئے کہ وہ زندہ کُرتے ہیں۔

۴۔ سورۂ رحمان میں اگر چشم بصیرت سے دیکھا جائے، اور عقل و دانش سے سوچا جائے، تو بلاشک و شبہ یہ حقیقت روشن ہوجائے گی کہ دنیا و آخرت کی جملہ ربّانی نعمتوں اور احسانات میں اِنس و جان ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، اسی وجہ سے ہر بار کچھ بڑی بڑی نعمتوں کے احسان کا ذکر فرماتے ہوئے دونوں گروہ سے پوچھا جاتا ہے: “سواے جِنّ و اِنس تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاتے ہو؟” اسی طرح پروردگارِ عالم اپنی خاص خاص نعمتیں اور عظیم احسانات آدمی اور جِنّ کو یاد دلاتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ ان دونوں کے ایک ہونے کا حکیمانہ اشارہ بھی فرماتا ہے، تاکہ صاحبانِ عقل اِنس و جِنّ کی وحدت کے راز ہائے سربستہ کو سمجھ سکیں۔

 

۲۳۱

 

۵۔ ایک مثال اور سوال: رحمان نے قرآن کی تعلیم دی، اس نے انسان کو پیدا کیا (اور) اس کو بولنا سکھایا ۔۔۔ تاآیت نمبر ۱۲(۵۵: ۰۴ تا ۱۲)، یہاں تک ظاہری ترجمہ و تفسیر کے مطابق نہ تو جِنّ کا کوئی ذکر موجود ہے، اور نہ ہی ان نعمتوں کا کوئی بیان ہے، جو اس کے لئے عطا ہوئی ہیں، پھر اس میں کیا راز پوشیدہ ہے کہ آیت نمبر ۱۳(۵۵: ۱۳) میں یکا یک جِنّ و اِنس دونوں سے ربّانی نعمتوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے؟

جواب ملاحظہ ہو: خدائے رحمان نے (ہر انسانِ کامل کو) قرآن یعنی آسمانی کتاب کے علم و حکمت کی تعلیم دی، اس نے (اپنی خاص قدرت سے جسمِ لطیف میں کامل) انسان کو پیدا کیا، اور اسے علمِ بیان(علمِ تاویل) سکھایا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ جب آدمی کا روحانی جنم ہوتا ہے، تو اسی کے ساتھ اس کے عالمِ شخصی کے تمام جنات بھی پیدا ہوجاتے ہیں، یعنی خَلَقَ الْاِنْسَانَ(اس نے انسان کو پیدا کیا ۵۵: ۰۳) سے پرسنل ورلڈ کی تخلیق مراد ہے، جس میں جنّات وغیرہ، سب کچھ موجود ہے۔

۶۔ یہ درست ہے کہ عَلَّمَ الْقُرْآن کا اوّلین تعلق عقلِ کُل سے ہے، کیونکہ خدا نے اسی کو سب سے پہلے قرآن سکھایا، اور خَلَقَ الْاِنْسَان میں نفس کُلّ کی آفرینش کا تذکرہ ہے، لیکن اس فعلِ خداوندی کا تجدّد انسانِ کامل میں ہوتا ہے، لہٰذا اس کا اطلاق انسانِ کامل پر بھی ہوتا ہے، پس حضرتِ رحمان نے مرتبۂ روح و عقل پر انسانِ کامل کو قرآنی خزائن سے مالا مال فرمایا، اسی وجہ سے وہ درجۂ کمال پر خلقِ آخرکہلایا، یعنی اس کو کوکبی بدن حاصل ہوا جس کو جِنّ یا پری کہا جاتا ہے، اب اس انقلابی تصوّر سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں انسانی تخلیق کے درجۂ کمال کی بات ہے، وہاں اس میں لازماً تخلیقِ جِنّ (جسمِ لطیف) کا بیان پوشیدہ ہے، کیونکہ جو شخص روحانی ترقی کے عمل میں کامیاب ہوجائے، اس کو بادشاہِ حقیقی خلعتِ بہشتی سے

 

۲۳۲

 

نوازتا ہے، وہ خلعت زندہ و گوئندہ ہے، یعنی جِنّ، پری، یا قرطۂ ابداعی، یا کوئی اور ہستی، تاہم یہ بات الگ ہے کہ تجزیہ و تشریح کے طور پر قرآنِ حکیم نے اِنس و جِنّ کی آفرینش کا جدا جدا ذکر بھی فرمایا ہے، کیونکہ انسان جب اور جہاں عالمِ صغیر ہے، تب وہاں وہ اِنس و جِنّ اور سب کچھ ہے۔

۷۔ جیسا کہ اس کا ذکر ہوچکا کہ سورۂ رحمان کے آغاز (خَلَقَ الْاِنْسَان ۵۵: ۰۳) میں آدمی کی انتہائی اور کُلّی پیدائش کا تذکرہ ہے، جس میں جنات کی تخلیق بھی شامل ہے، اور آگے چل کر آیت ۱۴ اور ۱۵ میں انسان اور جِنّ کی جزوی اور ذیلی آفرینش کا بیان فرمایا گیا ہے، جیسے ارشاد ہے: خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَا لْفَخَّارِ (۵۵: ۱۴) اسی نے انسان کو ایسی مٹی سے جو ٹھیکرے کی طرح بجتی تھی پیدا کیا۔ مٹی سے مومن مراد ہے، انسان سے شخصِ کامل، ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی وہ مومن ہے، جس کی روحانی ترقی صورِ اسرافیل تک پہنچ گئی ہو، یعنی یہ قصّہ حقیقت میں کاملین و عارفین ہی کا ہے، کیونکہ ہر عالمِ شخصی میں ایک تو ہوتا ہے انسانِ کامل کا ظہور اور تجدّدِ امثال اور دوسرا ہوتا ہے عروجِ عارف، اور یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔

۸۔ منزلِ عزرائیلی و اسرافیلی ہی میں نہ صرف آدمی کا روحانی وجود بنتا ہے، بلکہ جنّات بھی وہیں پیدا ہوجاتے ہیں، جیسے قرآنِ پاک میں ہے: وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍج (۵۵: ۱۵)اور جنّات کو خالص آگ سے پیدا کیا۔ جب مومنِ سالک کی ذاتی قیامت برپا ہو جاتی ہے، تو اسرافیلؑ اور عزرائیلؑ کے عمل سے روح بار بار سر سے شعلۂ چراغ کی طرح بلند ہوجاتی ہے، اور یہ سلسلہ تقریباً ایک ہفتہ تک جاری رہتا ہے، پس اسی خارج شدہ روح (جس کی تشبیہہ شعلۂ آتش سے دی گئی ہے) سے بہت سے فرشتے بنائے جاتے ہیں، جن کو حجاب میں رکھنے کیلئے جنّات کہنا مناسب ہے،

 

۲۳۳

 

جیسے حضرتِ عیسیٰؑ نے ان فرشتوں کو پرندوں کا نام دے کر پوشیدہ رکھا تھا(۰۳: ۴۹) شعلۂ آتش کا نچلا حصّہ نظر آتا ہے، مگر اوپر کا حصّہ دکھائی نہیں دیتا، اسی طرح جِنّ جب چاہے ظاہر ہوجاتا ہے، اور جب چاہے غائب ہوجاتا ہے، اور یہ جِنّ کے کمالات میں سے ہے، اگر آپ کو جنّات / پری لوگوں کے عجائب و غرائب کو جاننا ہے، تو قرآن میں اسی مضمون کو غور سے پڑھیں، اور وضاحت کے لئے اس نوعیت کے مقالوں کو۔

۹۔ یہاں آپ کو یہ بھید بھی معلوم ہوا کہ جنّات جو فرشتے ہیں، وہ ہرگز ایسی کسی آگ سے نہیں ہیں، مثلاً: آتشِ ظاہر، آتشِ حسد و دشمنی، آتشِ دوزخ (جہالت و نادانی) وغیرہ، بلکہ وہ اس قسم کی آگ سے ہیں: شعلۂ چراغِ روح، آتشِ عشق، اور آتشِ نور، کیونکہ جب حجاب کی خاطر فرشتے کا نام جِنّ ہوا، تو لازمی طور پر نور کو نار کہا گیا، جیسے آتشِ طور مشہور ہے، جس کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے (۲۰: ۱۰؛ ۲۷: ۰۸؛ ۲۸: ۲۹) یہ آگ نور ہے، اور آگ (یعنی شعلۂ چراغ) ہی سے نورِ خدا (۲۴: ۳۵) اور نورِ رسولؐ (۳۳: ۴۶) کی تشبیہہ و تمثیل دی گئی ہے، چنانچہ فرشتوں ( جنّوں) کے نور کی مثال بھی شعلۂ چراغ سے دی گئی ہے، اگر یہ بات نہ ہوتی،توتخلیقِ جِنّ سورۂ رحمان کی خاص نعمتوں میں شمار نہ ہوتی، یاد رہے کہ اِنس و جِنّ کی روحانی پیدائش ایک ہی منزل میں ہوئی، جو بڑی بابرکت ہے، یعنی منزلِ محو و فنا، جو حضرتِ اسرافیلؑ اور حضرتِ عزرائیلؑ کے عجائب و غرائب اور اسرارِ معرفت سے معمور ہے، آپ سورۂ رحمان میں بغور دیکھیں کہ ۳۱ مرتبہ خاص روحانی نعمتوں کی معرفت اور شکر گزاری کی طرف پر زور توجہ دلائی گئی ہے، اور اس سلسلے میں دعوتِ فکر کی اوّلین منزل اِنس و جِنّ کی آفرینش ہے (۵۵: ۱۶) آپ یقین کریں کہ ارشادِ مَنْ عَرَف کا گہرا تعلق اسی مقام سے ہے۔

۱۰۔حضرتِ سلیمان علیہ السّلام اپنے وقت میں امامِ مستودع تھے، آپؑ کی

 

۲۳۴

 

سلطنت جو قرآن میں مذکورہے، اس روحانی بادشاہی کی مثال تھی، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے ہر امام کو عطا ہوتی ہے، آپؑ کے بارہ حجت جنّات کی طرح آسٹرل باڈی سے دنیا کے بارہ جزیروں میں جاکر کارِ دعوت انجام دیا کرتے تھے، ہر حجت اپنے لئے ایک مقامی شخص کو منتخب کرکے اسی کے توسط سے یہ کام کرسکتا ہے، اور وہ اس کے ۳۰ داعیوں میں سب سے مقدم ہوتا ہے، سیارۂ زمین کے بارہ جزیروں میں ظاہری دعوت بہت کم بھی ہوسکتی ہے، لیکن باطنی دعوت اور روحانی جہاد ہر قیامتِ صغریٰ کا اہم ترین حصّہ ہے، جیسا کہ ارشاد ہے (۲۷: ۱۷): وَحُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُہ‘ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْرِ فَھُمْ یُوْ زَعُوْنَ۔ اور سلیمانؑ کے لئے ان کے لشکر جنّات اور آدمی اور پرند سب جمع کئے گئے پھر انھیں صف آرا کیا جاتا تھا (۲۷: ۱۷) لشکر کا تعلق جنگ سے ہے، اور ان کوصف آرا کرنا جنگ کے لئے تیار کرنا ہے، آپ یہ بات ضرور جانتے ہیں کہ “حُشِرَ” قیامت کا ایک نام ہے، پس “حُشِرَ” کا مطلب ہے قیامتِ صغریٰ کے طور پر جمع کئے گئے۔الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی

اتوار ۱۲؍رمضان المبارک۱۴۱۰ھ

۸؍ اپریل۱۹۹۰ء

 

۲۳۵

قرّۃ العین

قرۃ العین
آغازِ کتاب

بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم: سورۂ اعراف (۰۷: ۹۷) کے اس حکمت آگین ارشاد میں مومنینِ بایقین کے لئے بہت سے جواہرِ اسرار موجود ہیں، ترجمہ: اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے (حقیقی معنوں میں) ایمان لاتے اور پرہیز گار بنتے تو ہم ان پرآسمان و زمین کی برکتوں (کے دروازوں) کو کھول دیتے (۰۷: ۹۶) اس آیۂ کریمہ کی ایک تاویلی حکمت یہ ہے کہ امامِ زمان صلوٰت اللہ علیہ وسلامہ عالمِ دین کا آسمان ہے، اور اہلِ ایمان کی پاکیزہ روحیں زمین ہیں، اور اسی قانونِ امامت کے تحت دوسری تاویل یہ ہے کہ عالمِ شخصی میں ہر حقیقی مومن اور مومنہ کا سر آسمان ہے، اور پاؤں زمین، چنانچہ اسی طرح دیکھنے والوں نے یقیناً دیکھ لیا ہے کہ باطنی آسمان و زمین کی عقلی، علمی اور روحانی نعمتیں

۴

(برکتیں) عارفین و مومنین کو کس طرح حاصل ہوجاتی ہیں۔

آسمان و زمین کی تاویل یہ بھی ہے: عقلِ کلّ عرش بھی ہے اور آسمان بھی، اور نفسِ کُلّ کرسی بھی ہے اور زمین بھی، نیز حدودِ دین کی ترتیب میں ہر اوپر کا درجہ آسمان اور اس سے متصل نچلا درجہ زمین ہے، اور حدود اوپر سے نیچے کی طرف یہ ہیں: عقلِ کلّ، نفسِ کُلّ، ناطق، اساس، امام، باب، حُجّت، داعی (اور باقی حدود) اس میں عقلِ کلّ آسمانِ مطلق ہے اور داعی وغیرہ زمینِ مطلق ہیں، لیکن درمیانی حدود (نفسِ کُلّ سے حُجّت تک) ایک طرف سے آسمان ہیں اور دوسری طرف سے زمین۔

قرآنِ حکیم میں آسمان کے لئے کبھی اسمِ واحد آیا ہے، جیسے “سماء” اور کبھی جمع، جیسے “سماوات،” جس کا راز یہ ہے کہ امامِ زمان علیہ السّلام ایک ہے، مگر عالمِ شخصی میں اس کے بڑے روحانی ظہورات سات ہیں، اس لئے وہ سماء بھی ہے اور سماوات بھی، حضرتِ امامؑ کے سات ظہورات کا مقصد یہ بھی ہے کہ عارفین چھ ناطقوں اور حضرتِ قائمؑ کی معرفت حاصل کریں، یہی مطلب دوسری مثال میں یہ ہے کہ خدا کے چھ دنوں کو پہچانیں، جن میں اس نے عالمِ دین کو بنایا، اور سنیچر کی شناخت کریں، جس میں اللہ تعالیٰ نے نورِ عرش سے متعلق تمام

۵

امور کو انجام دیا۔

اس کتاب میں بعض ایسے مقالے بھی شامل کئے گئے، جو قبلاً تحریر ہوچکے تھے، کیونکہ علم و حکمت کے اعتبار سے ان کی بہت بڑی اہمیّت بھی ہے، اور کتاب کے مرکزی موضوع سے مطابقت بھی، تاکہ قارئین کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو، قرّۃ العین کے آخر میں ایک خاص ضمیمہ بھی ہے، جو حضرتِ حکیم پیر ناصر خسرو ق س کی مایۂ ناز کتاب جامع الحکمتیں سے بطورِ تبرّک ماخوذ ہے، جس کا ترجمہ جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی نے کیا ہے۔

وجہِ تسمیۂ کتاب:

قُرّۃ العین، جو اس پیاری کتاب کا نام مقرّر ہوا، اس میں ایک عظیم قرآنی راز مخفی ہے، وہ بھید جس میں مفتاحِ سعادت پوشیدہ ہے، اس آیۂ مقدّسہ میں ہے، ترجمہ: اور وہ لوگ جو (ہم سے) عرض کیا کرتے ہیں کہ پروردگار ہمیں ہماری بیویوں اور ذُرّیّت (ذرّاتِ روح) سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیزگاروں کا پیشوا بنا (۲۵: ۷۴) یہ دعا أئمّۂ طاہرین علیھم السّلام کے لئے خاص ہے، ان کے فرزند دو قسم کے ہوا کرتے ہیں، جسمانی اور روحانی، پس امامِ اقدس و اطہرؑ کے لئے یہ دونوں

۶

بیٹے آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں، کہ جسمانی بچّے کے ذریعے سے وہ عالمِ دین کا امام ہوجاتا ہے، اور روحانی بچّوں کے توسّط سے عالمِ شخصی کا امام۔

 

امام کے ظہورات:

مقامِ روح اور مرتبۂ عقل پر امامِ عالیمقامؑ کے بہت سے ظہورات ہیں، لیکن اوّلین شرط یہ ہے کہ تم اس کو خدا کا نور اور زندہ اسمِ اعظم مانو، پھر علم و عبادت سے روحانی سفر اختیار کرکے عالمِ شخصی میں داخل ہوجاؤ، اور چشمِ بصیرت سے دیکھو: وہ جبلِ روح تھا، اب عالمِ ذرّ ہوگیا، جس کا ہر ذرّہ ایک آفتابِ عالمتاب ہے، صورِ عشق اس کے سوا اور کون ہوسکتا ہے؟ آتشِ موسیٰؑ اور طورِ عقل بھی وہی ہے، اس کا مقدّس نور اپنی لاتعداد کرنوں سے لشکرِ ارواح و ملائکہ کا کام کرتا ہے، وہ ہر کامیاب مومن اور مومنہ کا روحانی باپ بھی ہے اور نورانی فرزند بھی، بے حد خوشی کی بات ہے کہ وہ بذاتِ خود مومنین و مومنات کا نامۂ اعمال ہے، وہ عارف بھی ہے اور معروف بھی، وہ اللہ تعالیٰ کے عجائب و غرائب کی ظہور گاہ ہے، اس لئے وہ مظہر العجائب کہلاتا ہے، جب وہ امامِ مبین ہے، تو پھر اس میں کیا نہیں ہوسکتا؟

۷

عالمِ وحدت:

قرآنِ پاک اپنے حکیمانہ بیان میں اس بات پر زور دیتا ہے کہ خالقِ اکبر نے تمام چیزوں کو جفت جفت بنایا ہے، جفت کے معنی میں نرو مادہ بھی ہیں اور اضداد بھی، پس خدا نے عالمِ وحدت سے عالمِ کثرت کو پیدا کیا، اور دونوں کے درمیان فرق رکھا، تاکہ اس کی روشنی میں عالمِ وحدت کے بھیدوں کا علم ہو سکے، مثال کے طور پر اس دنیا یعنی  عالمِ کثرت میں ہزار آدمی ہزار شکلیں رکھتے ہیں، مگر عالمِ وحدت میں ان سب کو ملا کر ایک شخص بنایا جاتا ہے، جو ہزار شکلوں میں ظاہر ہوسکتا ہے، یہی حال دوسری حقیقتوں کا بھی ہے۔

 

تاریخی یادداشت:

یہ بندۂ عاجز و ناتوان خاکِ پائے مومنان کراچی سے بوقتِ سحر ۱۹۔جون (۱۹۹۱ء) کو ربّ العزّت کا نام لے کر سفرِ مغرب پر روانہ ہوا، اور اسی روز بفضلِ الٰہی لنڈن میں وارد ہوا، اور وہاں ارضی فرشتوں کی پُر لطف ملاقاتوں، حضرتِ امام علیہ السّلام کے علم و حکمت کی باتوں، درویشانہ مناجاتوں، اور ایک پیاری کتاب “قرّۃ العین” کی تصنیف میں ایک ماہ کا عرصہ انتہائی مسرّت و شادمانی اور کامیابی

۸

سے گزر گیا، کیونکہ خداوندِ قدوس نے لنڈن میں کچھ قدسیوں کو خزائنِ اسرار بنادیا ہے۔

 

الحمدللہ، امریکا کا کامیاب دَورہ خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کی تاریخ میں بڑا اہم ثابت ہوگا، یہ حقیر ۱۹۔ جولائی ؁۱۹۹۱ء  کو تین ہفتوں کے لئے وہاں پہنچا، اور امامِ عالیمقام علیہ السّلام کے علمی لشکر نے اس خاکسار کو اتنی عزّت اور ایسی خوشی دی کہ اس کا بیان لفظوں میں کبھی ہو نہیں سکتا، مہربان دوستوں نے اپنے اپنے آراستہ و پیراستہ اور پُرسکون گھروں میں کمالِ شوق سے علمی مجالس کا اہتمام کیا، جملہ حاضرین آتشِ عشقِ امامؑ میں خوب پگھل گئے، جبکہ مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات ہورہی تھی، اور جب جب باترنّم لیکچر ہوتا تھا، اور محض علم و دانش کی خاطر بڑے ادب سے سوالات کئے گئے، اور خود ان کی قوّتِ ایمانی کے صدقے سے حیرت انگیز جوابات دیئے گئے، اس بندۂ کمترین پر نورِ امامت کے بے شمار احسانات تھے، اب اور بھی زبردست احسانات ہوئے۔

۱۱۔ اگست ؁۱۹۹۱ء کو میں اور چیئرمین نور الدّین راجپاری ہوائی جہاز پر امریکا سے کنیڈاجارہے تھے، جب ایڈمنٹن قریب آیا، تو وہاں نورانی خیال میں ایک تاویلی کرامت ہوئی، شاید یہ اس امر کی خوشخبری تھی کہ اس شہر میں بھی بڑی سے بڑی کامیابی

۹

ہونے والی ہے، چنانچہ خدا کے فضل و کرم سے ہمیں اہلِ بیتِ رسولؐ کا بہت سا علمی صدقہ ملا، کیونکہ وہاں چند ایسے مومنین و مومنات کا پروگرام تھا، جن کے پاکیزہ گھروں پر صبح و شام آسمانی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے، انھوں نے ہفتہ بھر علمی ورک شاپ (Work Shop) کیا، اور ایسا یقین آتا ہے کہ خداوندِ تعالیٰ نے ان کو دینی دولت سے مالا مال کردیا، آمین!

۱۸۔ اگست کو ہم کنیڈا سے واپس امریکا آگئے، شام نہیں بلکہ رات ہوچکی تھی، عزیزان دور دراز مقامات سے آکر منتظر اور چشم برراہ تھے، کیونکہ ان کے روحانی مُعلّم کو دوسرے دن (۱۹۔اگست ؁۱۹۹۱ء) لندن کی طرف روانہ ہونا تھا، اس لئے خواتین و حضراتِ ادارۂ عارف سب مل کر عزیزم عبدالمجید پنجوانی کے گھر میں الوداعی تقریب کا پروگرام کررہے تھے، اس پُر رونق محفل میں علمِ امامت کے عاشقوں نے جو کچھ کہا اور جو کچھ پڑھا، اس سے میں گداختہ اور ازخود رفتہ ہوکر سجدۂ شکر گزاری میں گیا، اور خاطر خواہ طویل سجدوں میں آنسو بہاتا رہا، کنیڈا میں بھی عزیزوں نے ایسی شدّت سے رُلایا تھا، امید ہے کہ کراماً کاتبین (۸۲: ۱۱) نے ہر ہر مجلس کو جیسا کہ بہشت کا تقاضا ہے ریکارڈ کیا ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۱۰

تعاون و ترجمہ:

“کیا تیرا یہ گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، اور حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر سمایا ہُوا ہے؟” مولاعلی علیہ السّلام کے اس مبارک قول کو عشق و محبّت کے ساتھ بار بار پڑھنا چاہیئے، کیونکہ اس میں عظمتِ انسانی کا بنیادی اور نورانی درس ہے، لیکن جن لوگوں کا دل جہالت و نادانی سے تنگ و تاریک ہوچکا ہو، اس میں عالمِ اکبر کیسے سما سکتا ہے، پس یہاں علم کی بہت بڑی اہمیّت ظاہر ہوجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ علم کی طرف ہمیشہ پُرزور توجّہ دلائی گئی ہے، آئیے ہم نیک نیتی اور صاف دلی سے علم کی خدمت کریں، دنیا میں علم و حکمت کی روشنی پھیلائیں، بہت سی خدمات ایسی ہیں، جن کا فائدہ محدود لوگوں کو پہنچتا ہے، لیکن علمی خدمت کا فائدہ لا محدود اور غیر فانی ہے۔

جو عزیزان یہاں جیسے تعاون کررہے ہیں اور جو حضرات کتابوں کا ترجمہ کرتے آئے ہیں، ان سے قربان ہوجانے کیلئے جی چاہتا ہے، آمین! آپ کو میری بات سے شاید تعجّب ہوگا کہ میں فعلاً تمام عزیزوں سے قربان ہوچکا ہوں جو اس علمی خدمت میں میرے ساتھ ہیں، اسی کا اشارہ وہ نورانی خواب تھا، جو میں نے تاشغورغان (چین) میں دیکھا تھا، جس میں مَیں نے اپنے آپ کو

۱۱

مذبوح اور سربُریدہ پایا، یہ ایک بڑا روحانی معجزہ تھا، جس میں کئی اسرار پوشیدہ ہیں۔

دراصل یہ کوئی نیا واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ وہی معجزہ ہے، جو زمانۂ ماضی سے جاری رہا ہے، یعنی خواب میں کسی مومن کا خود کو مردہ دیکھنا، قربانی اور روحانی شہادت کی مثال ہے، جیسے حضرتِ پیغمبرِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کُلُّ مُؤمِنٌ شہیدٌ۔ یعنی ہر مومن شہید کا درجہ رکھتا ہے، اب اگر بعض مومنین نے خواب میں اپنی موت کو دیکھا ہے، تو ان کو خوشخبری ہے، لیکن علم و عمل کی قربانی پیش کرنے کے لئے ابھی بہت سے مراحل سے آگے گذرجانا باقی ہے۔

آپ سورۂ صافات (۳۷: ۱۰۲) میں خوب غور سے دیکھ لیں کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے خواب میں اپنے فرزندِ دلبند حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام کو ذبح کر ڈالا، بنا برین آپؑ نے بیداری میں اس حکم پر عمل کرنے کے لئے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا ہی تھا کہ خداوندِ عالم نے یہ قربانی قبول کرلی، جبکہ اللہ نے حضرتِ اسماعیلؑ کے لئے ذبحِ عظیم (۳۷: ۱۰۷ معجزۂ عزرائیل) کو فدیہ یعنی بدلہ قرار دیا، ذبحٍ عظیم کے معنی ہیں ذبح کرنے کا بڑا جانور، جس سے روحِ امامت مراد ہے، کیونکہ اس کی عظمت و بزرگی کا یہ عالم ہے کہ جب منزلِ عزرائیلی میں اس کی قربانی ہوجاتی ہے تو اس سے

۱۲

بے شمار روحوں کو نجات مل جاتی ہے۔

 

الفاظِ تشکّر:

مشرق و مغرب میں یہ علمی لشکر میرے نہیں میرے مولا کے ہیں، چونکہ میں مولا کا غلام اور اس لشکر کا خادم ہوں، لہٰذا میں اس غلامی اور خدمت سے بے حد شادمان، اور شکر گزار ہوں۔

شاید بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہوگا کہ ہر گونہ خوشی اس بات میں ہے کہ وہ خودی اور بڑائی کو برقرار رکھیں، اس کے برعکس میں یہ سمجھتا ہوں کہ اصل مُسّرت و شادمانی اس امر میں ہے کہ ہم بڑائی اور فخر کے بت کو بار بار توڑ ڈالیں، یہی وجہ ہے کہ میں عزیزوں سے قربان ہوجانا چاہتا ہوں، ان کی دست بوسی اور پابوسی کا خواہشمند رہتا ہوں!… اس کی تاویل یہ ہے کہ ہم سچ مُچ منزلِ عزرائیلی میں ان سے قربان ہوجائیں، آمین! تاکہ وہ کامل یقین کے ساتھ علمی خدمت میں آگے سے آگے بڑھ جائیں الحمدللّٰہ ربّ العالمین والعاقبۃ للمتّقین۔

 

نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی۔ لنڈن۔

۱۴صفر ۱۴۱۲ھ/ ۲۴۔اگست ۱۹۹۱ء

۱۳

استنباط

 

۱۔ بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم: خداوندِ قُدّوس کے مُسَبب الاسباب ہونے میں کس مومن کو شک ہوسکتا ہے، وہی تو واحد و یکتا اور برحق خدا ہے جو ہر نیک کام کے لئے کوئی سبب بنا دیتا ہے، چنانچہ گزشتہ چند سالوں کی طرح بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ محبّت و یگانگت اور اشتیاق کے ساتھ ہمارے عزیزوں نے اس بندۂ ناچیز و درویش کو لنڈن اور امریکا مدعو کیا، لہٰذا یہ خاکسار کل ہی ۱۹۔جون ۱۹۹۱ء کو لنڈن میں داخل ہوا، اور ربّ العزّت کے فضل و کرم سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا اور ایسی ہی پُرخلوص دعوت فرانس کے دوستوں سے بھی آتی رہی ہے۔

۲۔ ہمارے اس علمی سفر کے رفیقانِ راہ ہر قدم پر علم و حکمت کے عجائب و غرائب کا نظّارہ کرنا چاہتے ہیں، جس کے لئے ہم سب

۱۴

کو دعا کی بے حد ضرورت ہے، اور دعا بھی عام نہیں، خاص ہو، جو پاکیزہ گریہ و زاری اور فنا پر منتج ہونے والی مُناجات کی حیثیت میں ہوسکتی ہے، اس کے بغیر نورِ علم کی روشنی سے ہم کیسے مستفیض ہو سکتے ہیں۔

۳۔ قرآنِ حکیم کے جن مبارک الفاظ میں کلیدی قسم کی حکمتیں پوشیدہ ہیں، اُن میں سے ایک لفظ یَسْتَنبطُون (۰۴: ۸۳) ہے، جس کے مستعمل معنی ہیں: وہ تحقیق کرتے ہیں، اسی سے “استنباط” کی اصطلاح بنی ہے، اب ذرا اس کے اصل معنی کو بھی دیکھیں، جس کی غرض سے کوئی مستند لُغاتُ القرآن پیشِ نظر ہو، یا حَدُّالقاموس

جلد ہشتم کو دیکھ لیں، کہ اسْتنباطٌ کے معنی ہیں کُنّواں کھود کر پانی تک پہنچنا اور پانی نکالنا، کسی چیز کو کاوش کے بعد برآمد کرنا، مثلاً: اسْتَنْبَطَ الفقیہہ (فقیہ نے استنباط کیا) یعنی اجتہاد سے کسی مسئلہ کا استخراج کیا۔

۴۔ “ا ستنباط” کا ذکر اگرچہ قرآنِ کریم کی صرف ایک ہی آیۂ مقدّسہ میں آیا ہے، اور وہ پاک جگہ سورۂ نساء (۴) کی آیت نمبر ۸۳ (۰۴: ۸۳) ہے، لیکن یہ پُرحکمت لفظ صاحبانِ امر سے متعلّق ہوکر اپنی معنوّیت میں قرآنِ پاک کے شروع سے لے کر آخر تک پھیل جاتا ہے، کیونکہ “استنباط” تحقیق کرنے سے عبارت ہے، یا بجا طور پر غور و فکر کرنے کا نام ہے، یا یہ خود حکمت اور تاویل ہی ہے، یا اس کو آیت

۱۵

کا باطن کہنا چاہیئے، بہ ہر معنی استنباط قرآنِ کریم کے ہر مقام پر موجود ہے۔

۵۔ چونکہ معنوی گہرائی صرف قرآن و حدیث ہی میں ہے، لہٰذا “استنباط” کا تعلق خدا اور اس کے رسولؐ ہی کے کلام سے ہے، جیسے کہا گیا ہے: اِستَنبط الفقیہُ ھٰذِہٖ المسئلۃ مِن تِلک الآیۃ (فقیہ نے اس آیت میں نظر و فکر کرکے اس سے یہ مسئلہ استخراج کیا) ملاحظہ ہو: قاموس القرآن ص ۷۱۷، اور لغات القرآن، جلدِ ششم ص ۲۴۶۔۲۴۷، از مولانا محمد عبدالرّشید نعمانی۔

۶۔ زیرِ بحث آیۂ شریفہ کا ترجمہ یہ ہے: اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر آئی تو اسے مشہور کردیتے ہیں (حالانکہ) اگر وہ اس خبر کو رسولؐ اور اپنے صاحبانِ امر تک پہنچاتے تو جو لوگ ان میں سے اس کی تحقیق کرنے والے ہیں (یعنی حدودِ دین) اس کو سمجھ لیتے (۰۴: ۸۳) اس کا حکیمانہ اشارہ یہ ہے کہ پیغمبرِ اکرم صلعم اور اولوالامر کے لئے مومنین کا قلبی اقرار و ایقان ہونا چاہیئے، تاکہ ان کو امامِ وقتؑ اور جسمانی و روحانی حدود سے استنباط کا فیض حاصل ہو، کیونکہ اس ارشادِ ربّانی میں دو دفعہ منھُمْ کا لفظ آیا ہے، جس میں پہلے صاحبانِ امر کے لئے ہے، اس کے بعد ذیلی حدود کے لئے، اور آپ جانتے ہیں کہ علمِ الٰہی پیغمبرؐ پر نازل ہوا ہے، آنحضرتؐ نے یہ علم اولوالامر (أئمّہ) کو عطا کردیا ہے،

۱۶

اور وہ حضرات دروازۂ علم و حکمت اپنے نمائندوں کے لئے کھول دیتے ہیں۔

۷۔ سُورۂ نساء کی یہ دونوں نمائندہ آیتیں اعنی آیۂ اطاعت (۰۴: ۵۹) اور آیۂ استنباط (۰۴: ۸۳) صاحبانِ امر کے بارے میں ہونے کی وجہ سے ایک ہی مضمون کی ہیں، اور وہ ایک دوسرے کی تفسیر ہیں، ان میں اوّل الذّکر کا ترجمہ یہ ہے: اے ایمان والو خدا کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور صاحبانِ امر کی جو (پوری تاریخ اور تمام ادوار میں) تمہارے ساتھ ہیں پس اگر تم کسی بات میں جھگڑا کرو تو اس مسئلہ میں خدا اور رسولؐ (اور صاحبانِ امر) کی طرف رجوع کرو اگر تم خدا اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہی (تمہارے حق میں) بہتر ہے اور تاویل کے لحاظ سے بہت اچھّا ہے (۰۴: ۵۹)۔

۸۔ یہ بڑا اہم نکتہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ جس طرح خدا و رسولؐ کے بعد اُولی الامر (أئمّہ) کی اطاعت فرض کی گئی ہے، اسی طرح مسائل میں ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے، لیکن اس میں اطاعت مقدّم ہے، اور رجوع مُؤخّر، اس لئے اگر کوئی شخص اللہ، پیغمبرؐ اور صاحبِ امرؑ کی کامل فرمانبرداری (اطاعت) کے بغیر علمی مسائل کے لئے رجوع کرے تو علم و حکمت کا دروازہ نہیں کھلے گا، کیونکہ اس کی اوّلین اور سب سے بڑی شرط اطاعت

۱۷

ہے۔

۹۔ اگرچہ آیۂ اطاعت (۰۴: ۵۹) میں بظاہر یہ حکم نظر نہیں آتا کہ تم نظریاتی تنازع کے فیصلہ کے لئے اولی الامر سے رجوع کرو، لیکن آیۂ استنباط میں رجوع کا حکم واضح ہے کہ وہ اس کی تفسیر ہے، نیز اطاعت بہت اعلیٰ شیٔ ہے، اور رجوع اس کا تابع ہے، یعنی جب کوئی نیک بخت مومن خدا، رسولؐ اور امامؑ کی حقیقی اطاعت کررہا ہو تو اسی کے ساتھ خود بخود رجوع بھی ہوجاتا ہے، اور کسی رسمی سوال کے بغیر ہر قسم کا جواب ملتا رہتا ہے، اور یہی ہدایتِ کاملہ ہے۔

۱۰۔ قرآنی الفاظ کی شان بڑی عجیب و غریب اور انتہائی نرالی ہے، مثلاً جس لفظ کا جیسا لغوی پس منظر ہے، اس میں ویسی ہی تاویل بھی رکھی گئی ہے، چنانچہ استنباط کے اصل معنی ہیں کُنواں کھود کر پانی تک پہنچنا اور پانی نکالنا، جس کی تاویل ہے عالمِ شخصی میں کنواں کھود کر روحانی علم کا پانی نکالنا، اور یہ تاویل ایسی نہیں جس سے کوئی دانشمند انکار کرسکے، پس امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے خاص علمی نمائندوں کا کام استنباط کرنا ہے، جیسا کہ ہمارے ماضی کے بزرگوں نے کیا۔

۱۱۔ ہر مومن، ہر مسلمان اور ہر انسان کی زمینِ روحانی کی کم گہرائی میں آبِ شیرین کا کبھی ختم نہ ہونے والا بہت بڑا ذخیرہ

۱۸

موجود ہے، پس جو لوگ آبِ علم کے اس امکانی کنویں کو استعمال نہیں کرتے ہیں، ان کے لئے افسوس ہے، کیونکہ انہوں نے عالمِ شخصی کے معجزاتی کنویں کو بیکار اور عالیشان شاہی محل کو خالی چھوڑا ہے ۔ بِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّقَصْرٍ مَّشِيْدٍ   (۲۲: ۴۵)۔

۱۲۔ گائے یا بیل آدمی کے نفسِ خورندہ کی مثال ہے، چنانچہ ہر بالغ مومن ابتداءً قصّۂ بنی اسرائیل کے اُس بیل کی طرح ہے، جس کو ذبح کرنے کا حکم ہوا، جس سے شدید ریاضت اور فنا مراد ہے، اگر اس میں کامیابی ہوئی تو وہ سالک اس بیل جیسا رام (تابعِ فرمان) ہوجاتا ہے، جو ہل چلاتا ہے، اور اگر اس سے بھی زیادہ ترقی ہوئی تو وہ روحانی شخص قرآنی مثال میں ایسا بیل ہے، جو کنویں سے پانی نکال کر لوگوں کی کھیتی باڑی کو سیراب کردیتا ہے (۰۲: ۷۱) یعنی باطنی علم کے پانی سے عالمِ شخصی کے باغوں، گلزاروں، اور کھیتوں کو سیراب و معمور کرتا رہتا ہے۔

۱۳۔ چاہِ علم (علمی کنواں) کی مثال حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام سے متعلق یہ ہے کہ انہوں نے اس عظیم المرتبت پتھّر کو ہٹا دیا، جو کنویں کے دہانہ پر رکھا ہُوا تھا، جس سے گوہرِعقل مراد ہے، کیونکہ اس مثال میں علم و حکمت کا کُنّواں اسی پتّھر کے نیچے ہے (۲۸: ۲۳)۔

۱۴۔ حضرتِ یوسف علیہ السّلام کو ان کے بھائیوں نے کنویں کی اندھیری گہرائی میں ڈال دیا، مگر اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو نور بناکر

۱۹

چاہِ عقل (عقلی کنویں) میں رکھ دیا، تاکہ یہ نوراسی مقام سے طلوع ہوکر وہیں غروب ہوجائے، (۱۲: ۱۵) اور یہیں سے ہر مومنِ سالک کو یوسفِ زمانؑ مل جاتا ہے، یعنی امامِ زمان صلوات اللہ علیہ وسلامہٗ کا نورِ مقدّس۔

۱۵۔ اس بیان سے جو شروع سے اب تک ہُوا ظاہر ہے کہ “ا ستنباط” تاویل کا دوسرا نام ہے، اور یہ تاویل سے ہرگز کم نہیں، جیسا کہ ذکر ہوا کہ اس کا تعلّق اُن حضرات سے ہے، جن کو ربّ العزّت نے بوسیلۂ امامِ عالیمقامؑ تاویل کرنے کی نورانی تائید و توفیق عنایت فرمائی ۔ اللّٰھُمَّ صَلِّ علیٰ محمّدٍ وّآلِ محمّد۔

 

نصیرالّدین نصیرؔ ہونزائی، لنڈن۔

۸ ذوالحجّہ ۱۴۱۱ھ

۲۱۔ جون ۱۹۹۱ء

۲۰

تعلیمی سوالات

 

۱۔ س: آپ ہمیں عالمِ شخصی ہی کے حوالے سے قرآنِ پاک کا یہ مطلب سمجھادیں: شروع شروع میں سب لوگ ایک ہی جماعت تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا، جو کہ خوشی سُناتے تھے اور ڈراتے تھے، اور ان کے ساتھ کتاب نازل فرمائی… (۰۲: ۲۱۳) آیا لوگ پہلے ہی سے موجود تھے؟ اور انبیاء علیھم السّلام بعد میں بھیجے گئے؟ کیا تمام پیغمبروں کی آسمانی کتاب ایک ہی ہے؟

ج: عالمِ شخصی میں سب سے پہلے بشکلِ خلّیات و ذرّات بے شمار لوگوں کی نمائندگی موجود ہوتی ہے، پھر اس کے بعد روحانی عروج و ارتقاء کے نتیجے میں انوارِ انبیاء کے مختلف ظہورات ہوتے ہیں، اور وہاں تمام ظاہری کتبِ سماوی کی ایک ہی روح و روحانیّت ہوتی ہے، جس کا نام قرآنِ حکیم میں “الکتاب لاریب

۲۱

فیہ” ہے، یعنی وہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں (۱۰: ۳۷)۔

۲۔ س: آپ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ نور اپنے سلسلے میں ایک پاک پیشانی سے دوسری پاک پیشانی میں منتقل ہوتا رہتا ہے، مگر قرآن و حدیث میں نور کی منتقلی کے بارے میں ذرّیّت اور اصلاب و ارحام کا ذکر فرمایا گیا ہے، آپ اس کی وضاحت کریں۔

ج: وجود وہستی کے اعتبار سے نور کے تین مراتب ہیں: مرتبۂ جسمی، مرتبۂ روحی، اور مرتبۂ عقلی، چنانچہ نور کا جسمانی فرزند پُشتِ پدر اور بطنِ مادر سے ہے، روحانی فرزند ذکر و عبادت سے ہے، جبکہ وہی طریقِ بندگی اپنائے، جو روحانی باپ نے بتایا ہے، اور عقلانی فرزند علم و حکمت سے پیدا ہوتا ہے، پس مرتبۂ عقل پر نور ایک پیشانی سے دوسری پیشانی میں منتقل ہوجاتا ہے۔

۳۔ س: سورۂ مُلک کے آغاز (۶۷: ۰۳) میں یہ ارشاد ہے: خدا نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کئے تو رحمان کی خلقت میں کوئی فرق نہ دیکھے گا۔ یہاں یہ پوچھنا ہے کہ آیا سارے آسمان نیچے سے اوپر تک درجہ بدرجہ نہیں ہیں؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ درجہ وار ہیں، تو پھر ہم کس طرح یہ سمجھ سکیں کہ رحمان کی مخلوقات میں کوئی فرق و تفاوت نہیں؟

ج: نورِ عقل عالمِ وحدت ہے، جس کا ہر ظہور ایسا باکمال اور علم و قدرت سے بھرپور ہے کہ اس میں تمام چیزوں کی نمائندگی ہو

۲۲

جاتی ہے، چنانچہ اس کے سات ظہورات جو یکسان ہیں، سات عقلی آسمان کہلاتے ہیں۔

۴۔ س: رُؤیت یعنی دیدارِ الٰہی کے بارے میں آپ کا ذاتی عقیدہ یا نظرّیہ کیا ہے؟ جبکہ قرآنِ کریم کا واضح ارشاد ہے کہ: لاتدرکہ الابصار۔ اس کو آنکھیں نہیں پاسکتی ہیں (۰۶: ۱۰۳)؟

ج: میں سمجھتا ہوں کہ رُؤیت نہ صرف مومن کی جسمانی موت کے بعد ملنے والی سب سے بڑی نعمت ہے، بلکہ دنیا کی زندگی میں بھی بشرطِ فنائے نفسانی اس کا تجربہ ضروری ہے، ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ دیدۂ دل خدا تک رسا نہیں ہوسکتی، مگر وہ خود چشمِ سِرّ کو پاسکتا ہے وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ  (۰۶: ۱۰۳) خوب غور کرکے دیکھ لیں کہ یہ بالواسطہ ادراکِ تجلّی ہے، یعنی اس کے نورِ اقدس کے توسّط سے دیدار ہوتا ہے، اور اس حقیقت کے ثبوت میں قرآن و حدیث کے بہت سے دلائل موجود ہیں۔

۵۔ س: “اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا۔” آیا اس میں ظاہری شکل کا ذکر ہے یا چہرۂ جان کا؟

ج: آدم اور آدمیوں کی جسمانی صورت ایک جیسی ہے، لہٰذا جو چیز سب کو دی گئی ہے، اس میں آدمؑ پر احسان کیوں کر ہو

۲۳

سکتا ہے، پس یہ صورتِ روحانی کی بات ہے کہ خدا نے اپنے خلیفہ کو مقامِ عقل پر چہرۂ رحمان قرار دیا، اور یہ نکتہ بھول نہ جائیں کہ امامِ وقت آدمِ زمان ہوتا ہے۔

۶۔س: کیا قرآن کی ہر آیت کی طرح حدیث کا بھی ایک ظاہر اور ایک باطن ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کی کوئی مثال پیش کریں۔

ج: حدیثِ شریف میں ہے کہ بخار ربِّ غفور کی طرف سے مومن کے لئے پاکیزگی کا ایک وسیلہ ہے۔ اس ارشاد نبوّی کے ظاہر میں اگرچہ مَرضِ بخار کا ذکر ہے، لیکن باطن میں روحانی زلزلہ مراد ہے، جس کا تذکرہ قرآنِ پاک کے چار مقامات پر ہے (۰۲: ۲۱۴، ۲۲: ۰۱، ۳۳: ۱۱، ۹۹: ۰۱)۔

۷۔ س: سورۂ یاسین (۳۶: ۱۲) کے حوالے سے کہتے ہیں کہ کائنات و موجودات اور قرآنیات و اسلامیات کے تمام علمی و عرفانی خزائن امامِ مُبینؑ کے نورِ اقدس میں مجموع و محدود ہیں، اگر یہ بات درست اور حقیقت ہے تو پھر ہمیں بہ آسانی اور بلا مشروط علم کیوں نہیں دیا جاتا؟

ج: یہ انتہائی عظیم کارنامہ یعنی خدا کے خزانوں تک رسا ہوجانا نہ تو آسان ہوسکتا ہے اور نہ ہی شرائط کے بغیر ممکن ہے، تاہم غیر ممکن ہرگز نہیں، آپ اس سوال کی مناسبت سے حضرتِ موسیٰؑ کا وہ قرآنی قصّہ پڑھ لیں ( ۱۸: ۶۰ تا ۸۲) جس میں راہِ علمِ

۲۴

لَدُّنی کی بہت سی مشکلات، شرائطِ تابعداری اور صبر و تحمّل کا ذکر فرمایاگیا ہے، تاکہ ہوشمند مومنین اطاعت و فرمانبرداری ہی سے نور تک پہنچ سکیں۔

۸۔ س: اس میں کیا رازِ حکمت پوشیدہ ہے کہ خداوندِ تعالیٰ نے حضرتِ موسیٰؑ کو ہدایت کی غرض سے لوگوں کے پاس بھیجا، اور جس بندۂ خاص کی ذات میں روحانی علم کا بہت بڑا خزانہ تھا، اس کو دودریاؤں کے سنگم پر رکھا؟

ج: ہدایتِ عامّہ اور روحانی علم کے اعتبار سے امامِ برحقؑ کے دو مقام ہیں، مقامِ اوّل جو جسمانی ہے اس میں لوگوں کی ظاہری ہدایت کے لئے امام کا سامنے ہونا ضروری ہے، دوسرا مقام جو باطنی ہے اس میں علمِ لَدُنّی کی غرض سے صرف قربِ روحانی ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔

۹۔ س: آپ کا کہنا ہے کہ قرآنِ حکیم کی ہر مثال میں جو حکمت پنہان ہے، وہ امامِ زمان علیہ السّلام سے متعلّق ہے، آپ بتائیں کہ ملکۂ سبا کے عظیم تخت (۲۷: ۲۳) کی کیا حکمت ہے؟ اور امامِ مبینؑ سے اس کا کیا تعلّق ہے؟

ج: امامِ مُستودع حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے حُجتّانِ شب میں سے ایک ملکۂ بلقیس تھی، جس کی بادشاہی بطریقِ روحانی امامؑ نے لے لی، اور وہ مسلمان ہوگئی، یہاں تخت سے سلطنت

۲۵

مراد ہے، اگرچہ اس کے اور بھی معنی ہیں۔

۱۰۔ س: کیا یہ ممکن ہے کہ مومنین بہشت کے روحانی مشاہدات کے سلسلے میں تاریخ عالم اور واقعاتِ اُمَم کی جیتی جاگتی صورت کو بھی دیکھ سکیں؟ اگر یہ ممکن ہے تو اس کی کیا دلیل ہے؟

ج: کیوں نہیں، جبکہ جنّت ایسی جگہ ہے جہاں ہر مطلوبہ شیٔ مل سکتی ہے (۵۰: ۳۵) اور وہاں وہ چیزیں ملیں گی جن کو جی چاہے گا (۴۳: ۷۱) اور جتنی چیزیں ہیں ہمارے پاس سب کے خزانے ہیں اور ہم اس کو ایک مُعَیَّن مقدار سے اتارتے رہتے ہیں (۱۵: ۲۱)… سب چیزیں بولنے والی کتاب میں محفوظ و موجود ہیں (۰۶: ۵۹)

۱۱۔ س: کیا یہ درست ہے جو کہا جاتا ہے کہ جس طرح آخرت سے دُنیا وجود میں لائی جاتی ہے، اسی طرح دُنیا سے آخرت بنائی جاتی ہے؟ اگر یہ بات صحیح ہے تو دلیل سے سمجھا دیں۔

ج: جی ہاں، امر واقعی یہی ہے، جس کی قرآنی مثال یہ ہے کہ خالقِ اکبر ضدَّیْنْ کو ایک دوسرے سے پیدا کرتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: اے اللہ … تو رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تو ہی بے جان سے جاندار کو پیدا کرتا ہے اور تو ہی جاندار سے بے جان نکالتا ہے (۰۳: ۲۷)۔

۱۲۔ س: دنیا کی شکل آسمانوں اور زمین کی حیثیت میں ظاہر

۲۶

ہے، لیکن آخرت کی صورت معلوم نہیں، کیا آپ اس بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟

ج: ان شاء اللہ (اگر خدانے چاہا تو) دُنیا و آخرت درخت اور پھل کی طرح ہیں، یعنی کائنات گویا شجر ہے، اور انسان اس کا ثمر، پس آدمی کے عالمِ شخصی میں آخرت بحدِّ قوّت پوشیدہ ہے، جیسے پھل کی گُٹھلی میں درخت بحدِّ قوّت موجود ہوا کرتا ہے، اور یہاں یہ نکُتہ بھی یاد رہے کہ دُنیا کثیف ہے، اور آخرت لطیف، جس کی مثال عالمِ خیال اور عالمِ خواب ہے، اور اگر ان دونوں کو علم و عبادت سے کامل ترقی دی جائے، تو خیال اور خواب کی تحلیل سے عالمِ روحانیّت بن جاتا ہے، اور ایسی ہی مکمل روحانیّت آخرت اور جنّت کی مثال ہوسکتی ہے، دعا ہے کہ پروردگارِ عالمین نورِ علم و حکمت سے قلوبِ مومنین کو منوّر کردے! آمین!

 

نصیر الّدین نصیرؔ ہونزائی، لنڈن۔

۱۲ ذوالحجّہ ۱۴۱۱ھ

۲۵۔ جون ۱۹۹۱ء

۲۷

دائرۂ لطیف و کثیف

 

۱۔ اگر کوئی آدمی یہ سوال کرے کہ: بتاؤ دن پہلے ہے یا رات؟ تو اس کو یہ جواب دینا غلط ہوگا کہ رات پہلے شروع ہوتی ہے، اور یہ کہنا بھی درست نہیں کہ دن کا آغاز پہلے ہوتا ہے، کیونکہ ان دونوں کی گردش اپنے دائرے پر کسی تقدیم و تاخیر کے بغیر ایک ساتھ جاری ہے، مثال کے طور پر جب کُرۂ ارض وجود میں آیا تو معاً زمین پر روز و شب کا آغاز ہوا، جیسا کہ سورۂ فرقان (۲۵: ۶۲) میں خِلْفَۃ کے عنوان کے تحت اس کا ذکر آیا ہے، یعنی خدا نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والے بنائے، اور اس میں بے شمار حکیمانہ اشارے ہیں۔

۲۔ قرآنِ کریم کا فرمانا ہے کہ ہر چیز کی گردش دائرہ نما ہے (۲۱: ۳۳، ۳۶: ۴۰) اور اس کُلّیّہ سے کوئی مخلوق باہر نہیں، آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، ہوا، پانی، وغیرہ سب اپنی اپنی گردش کے دائرے

۲۸

بنا بنا کر زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ تصوّرِ آفرینش دائرے کی طرح ہے، جس کا کہیں بھی کوئی سرا نہیں، یعنی اس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہاء، کیونکہ کوئی ایسا زمانہ نہ تھا اور نہ کبھی ایسا وقت آئے گا، جس میں خداوند تعالیٰ تخلیق کا کام نہ کرے، بلکہ جس طرح وہ اپنے ذات و صفات میں قدیم ہے، اسی طرح ہمیشہ کائناتوں کو لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے۔

۳۔ دنیا کی کوئی مخلوق جسامت میں چھوٹی ہوسکتی ہے مگر حکمت کے اعتبار سے کمتر یا فضول نہیں ہوسکتی، مثلاً ریشم کے کیڑے کو دیکھیں، جو وقت آنے پر تبدیل ہوکر پروانہ بن جاتا ہے، پھر وہ انڈے سے ہوکر کیڑا بن جاتا ہے، اس میں اہلِ دانش کے لئے دائرۂ لطیف و کثیف کا اشارہ موجود ہے، کہ انسان کثیف سے لطیف ہوکر پرواز کرتا ہے، اور اس پر خدا کی کیسی بے پایان برکت ہے کہ پھر عمل کی غرض سے جسمِ کثیف کا لباس پہنتا ہے، جیسے پروانہ ریشم کو پیدا نہیں کرسکتا ہے، لہٰذا وہ اس مقصد کے لئے کیڑا بن جاتا ہے، تاہم اس دائرےمیں بڑی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

۴۔ تصوّف اور قانونِ وحدتِ ارواح کے بھیدوں سے یہ پتا چلتا ہے کہ انسان، جنّ، پری، فرشتہ، روحانی وغیرہ دراصل ایک ہی ذات کی مخلوق ہے، اور بہشتِ برین کی حور و غلمان بھی اسی سے ہیں، کیونکہ سر چشمۂ عقل و جان ایک ہی ہے، جو عقول و نفوس

۲۹

کی بازگشت ہے، اور تمام اعلیٰ سرابیل (لباسِ لطیف ۱۶: ۸۱) کے مظاہر آدم و آدمی ہی کے لئے ہیں، تاکہ وہ ان عظیم اور گرانقدر نعمتوں پر خدا کا شکر کرے، جیسا کہ حق ہے۔

۵۔ اس قدرتِ خداوندی اور “روح در روح” کے قانون میں بڑی سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ کبھی کبھار کسی شخص میں کوئی دوسری روح کس طرح داخل ہوجاتی ہے؟ کوئی جنّ؟ پری؟ اعلیٰ روح؟ یا ادنیٰ روح؟ اگر یہ واقعہ سچ ہے تو پھر اصل، باقاعدہ اور عارفانہ روحانیّت کے مراحل میں اس نوعیت کے کیسے کیسے عجائب و غرائب رونما ہوتے ہوں گے؟ اس سے بھی بڑھ کر عالمِ لطیف یعنی بہشت کی عظیم روحانی سلطنت میں کیسی کیسی عجیب و غریب نعمتوں کی فراوانی ہوگی؟ آیا بہشت کا ہر گھر عقل و جان کی خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ نہیں (۲۹: ۶۴)؟ کیا وہاں کا ہر شاہی محل ایک مقدّس زندہ و گویندہ ہستی کی صورت میں نہیں ہوسکتا؟ یقیناً ایسا ہی ہے مگر محض الفاظ سے عالم لطیف کی عکاسی ممکن نہیں۔

۶۔ عجب نہیں کہ کوئی طالبِ حقیقت کچھ وقت کے لئے علم ہی کے جنگل میں کھوئے پھرے، اور شاید ایمانداری سے میں اپنا تجربہ بیان کررہا ہوں، چنانچہ سب سے اہم اور سب سے مشکل علم قصّۂ آدمؑ میں ہے، وہ بہت بڑا نازک معاملہ ہے، کیونکہ اگر آدم شناسی میں ہم سے کوئی غلطی ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہوگا:

۳۰

خشتِ اوّل چون نہد معمار کج

تاثُریّا می رود دیوار کج

مطالعۂ قرآن اور ہر آیۂ شریفہ میں عمیق اور اتھاہ غور و فکر کی عادت بے حد ضروری ہے، قانونِ فطرت (پیدائش) کے اعتبار سے حضرتِ آدمؑ اور دوسرے حضراتِ انبیاءؑ کے درمیان آیا کوئی فرق و تفاوت ہوسکتا ہے؟ اس کے لئے اللہ کی سُنّتِ ازل سے متعلق آیاتِ کریمہ کی روشنی میں دیکھنا از بس مفید ہوگا، اور آیۂ فطرت (۳۰: ۳۰) بھی ہمہ رس روشنی ڈالتی ہے، پس لا نفّرق بین احدٍ مّن رّسلہ (ہم اس کے پیغمبروں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے (۰۲: ۲۸۵) کی ربّانی تعلیم میں مزید سوچنا چاہیئے۔

۷۔ قرآنِ حکیم فرماتا ہے کہ روح عالمِ امر سے ہے (۱۷: ۸۵) جو خدا کی رسّی کی طرح دنیا میں آئی ہے (۰۳: ۱۰۳) جس کا بالائی سرا ازلی و ابدی طور پر اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور زیرین سرا بشری قالب میں، روحِ اعظم کی دوسری مثال خورشیدِ انور ہے، اس کا نور اور عکس زمین کی ہر چیز پر پڑ رہا ہے، اگر دنیا بھر کے لوگ سورج کو ایک ایک آئینہ دکھائیں تو ان کے یہاں بہت سے سورج ہوں گے، حالانکہ آسمان میں صرف ایک ہی سورج ہے، چنانچہ ہر فردِ بشر کی ۲ دو انائیں ہیں، انائے عُلوی جو عالمِ امر میں ہے، اور انائے سفلی جو عالمِ خلق میں ہے، پس حضرتِ آدمؑ اور دوسرے تمام اہلِ جنّت کے لئے ایک تو انائے اعلیٰ کے اعتبار سے یہ حکم تھا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ

۳۱

جنّت ہی میں رہیں گے (ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ۰۲: ۲۵) اور دوسرا انائے اسفل کے لحاظ سے یہ امر ہوا کہ اس بہشت سے سب کے سب نیچے جاؤ (اھْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًا ۰۲: ۳۸)

۸۔ مولوی معنوی کا قول ہے: ماآمدہ نیستیم این سایۂ ماست (ہم بہشت سے نکل کر دُنیا میں آئے ہی نہیں ہیں، یہ ظاہری وجود ہماری اُس ہستی کا سایہ ہے) اگر یہ حقیقت ہے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ہمارا سایہ ازل سے دائرۂ لطیف و کثیف پر گردش کررہا ہے، اور پروردگارِ عالم کی لاتعداد نعمتوں کے حصول کا طریقہ بس یہی ہے، کیونکہ دنیا ہی آخرت کی کھیتی باڑی ہے۔

۹۔ انسان ، جنّ، پری، فرشتہ، دیو اور شیطان کے بارے میں جاننے کی غرض سے حضرتِ حکیم پیر ناصر خسرو ق س کی مشہور کتاب جامع الحکمتیں (ص ۱۳۵۔۱۴۴) کا مطالعہ کریں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ انسان ہی ہے، چنانچہ آدم سے قبل آسٹرل باڈیز میں زمین پر انسان ہی بستے تھے، مگر جسمِ لطیف کی وجہ سے جنّات کہلاتے تھے، ملاحظہ ہو: کتابِ دعائم الاسلام، الجزء الاوّل، ذکر الرّغائب فی الحجّ۔ قانونِ فطرت یہی ہے کہ لوگ سب کے سب پھر جنّات ہوجائیں گے، یعنی جسمِ لطیف میں منتقل ہوں گے، جس کا عمل اُڑن طشتریوں کے ظہور

۳۲

کے ساتھ ساتھ شروع ہوچکا ہے، جنّات سے پری مرد اور پری عورتیں مراد ہیں، ان میں سے جو نیک ہیں، وہ فرشتے ہیں اور جو بد ہیں، وہ دیو اور شیاطین کہلاتے ہیں، یعنی شیاطینِ جنّی۔

۱۰۔ انسان ہی ہیں جو کثیف سے لطیف ہو کر پوشیدہ ہونے کی وجہ سے جنّ، روحانی حسن و جمال کے سبب سے پری، اور بہشت میں جاکر بسنے کی بناء پر حور و غلمان کہلاتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی کا نام ہر بار مرتبہ اور کام کے مطابق بدل جاتا ہے، اور یہ ربِّ کریم کی عنایتِ بے نہایت ہے کہ اسی طرح بنی آدم کو ہر درجہ حاصل ہے، اسی معنیٰ میں کہا گیا ہے کہ انسان عالمِ اکبر کا خلاصہ اور نچوڑ ہے، اور اس میں بصورتِ لطیف وہ سب کچھ مجموع و یکجا ہے، جو دنیائے ظاہر کی وسعتوں میں منتشر ہے۔

۱۱۔ قرآنی حکمت کی تجلیّات عقل و دانش والوں کو بیہوش کردیتی ہیں، چنانچہ اس مضمون کی مناسبت سے یہاں اہلِ جنّت کی کوئی مثال لازمی ہے، وہ یہ کہ بہشت میں ہر مومن مُطَھَّرْ (پاک کیا گیا) ہوگا، اور یہ حکمت اس آیۂ کریمہ کے پس منظر میں پوشیدہ ہے: وَلَھُمْ فِيْهَآ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ  (اور ان کے واسطے ان بہشتوں میں بیبیاں ہوں گی صاف پاک کی ہوئی ۰۲: ۲۵) مُّطَھَّرَۃ اسمِ مفعول ہے، جس کا کوئی فاعل ہُوا کرتا ہے، اور یہاں فاعل خدا ہی ہے، اسی نے مذکورہ بیبیوں کو جسمِ لطیف عنایت

۳۳

فرما کر ہر قسم کی جسمانی آلائش سے پاک کردیا ہے، ان کی روحانی تطہیر خصوصی ذکر و عبادت سے اور عقلی پاکیزگی علم و حکمت سے ہوئی ہے، اور ان کے شوہروں کے بھی کُلّی طور پر یہی اوصاف ہیں، کیونکہ بہشت میں میاں بیوی مرد اور پری عورت کی طرح برابر کے حسین و جمیل اور ہر طرح سے پاک ہوں گے۔

۱۲۔ حورانِ بہشتی کے تذکرے کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم امامِ برحقؑ کی دعا سے اس خاص علم و حکمت کو آپ کے سامنے لانے کے لئے کوشش کریں، جو متعلقہ آیاتِ کریمہ میں مخفی و مخزون ہے، جیسا کہ سورۂ واقعہ (۵۶) کا ارشاد ہے: ہم نے زنانِ بہشت کو بنایا جیسا کہ بنانے کا حق ہے ( یعنی ان کی ابتدائی اور جسمانی تخلیق دنیا ہی میں ہوئی، تاکہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ حور ایک افسانہ ہے) پھر ہم نے ان کو کنواریاں بنایا (یعنی دنیا کی زندگی کے بعد ان کو جسمِ لطیف عطا ہُوا، جس میں اب وہ کنواریاں ہوگئیں، اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ مردوں کو بھی کوکبی بدن ملتا ہے، ۵۶: ۳۵ تا ۳۶)۔

 

نصیرالّدین نصیرؔ ہونزائی، لنڈن

۱۵، ذوالحجّہ ۱۴۱۱ ھ۔ جون ۱۹۹۱ء

۳۴

بہشت اور خزائنِ اسرار

 

۱۔ بہشت کی معرفت:

خداوندِ بزرگ و برتر کی طرف سے نور اور کتاب یعنی قرآن کا نزول اس لئے ہوا ہے (۰۵: ۱۵) کہ اہلِ ایمان بوسیلہؐ علم و عمل اس مرتبۂ اعلیٰ پر فائز ہوجائیں، جہاں چشمِ بصیرت روشن ہوجاتی ہے تاکہ وہ اپنی ذات ہی میں ہرگونہ معرفت حاصل کرسکیں، کیونکہ انسان کی اپنی شناخت میں تمام معرفتیں جمع اور یکجا ہیں، پھر بہشت کی معرفت عالمِ شخصی سے باہر کیونکر ہوسکتی ہے، بلکہ اسی میں یقیناً جنّت کا مشاہدہ اور حصولِ معرفت ممکن ہے، اگر بہشت کی معرفت کا کوئی امکان نہ ہوتا، تو سورۂ محمّد (۴۷) کی آیۂ ششم (۴۷: ۰۶) کا یہ مفہوم نہ ہوتا کہ دُخولِ جنّت کی ضروری شرط اس کی معرفت ہی ہے، کیونکہ جو شخص اس دنیا میں حقائق و معارف سے اندھا ہو تو وہ آخرت میں

۳۵

بھی اندھا ہی رہتا ہے (۱۷: ۷۲)۔

 

۲۔ خزائنِ بہشت:

قرآنِ حکیم میں جن ربّانی خزانوں کا ذکر آیا ہے، وہ سب کے سب جنّت میں موجود ہیں، یہ خزائن زندہ و گوئندہ ہونے کے ساتھ ساتھ رحمت و علم سے بھی مملو ہیں، رحمت نفوس کے لئے ہے، اور علم عقول کے لئے، اور یہیں سے رحمت و علم کی ایک ایک صورت ہر چیز کو عطا کردی جاتی ہے، جب کسی مملکت میں کوئی بڑی سے بڑی دولت پھیلی ہوئی ہوتی ہے، تو اس کو خزانہ نہیں کہتے، کیونکہ خزانہ اس محدود مقام کا نام ہے، جس میں بصورتِ زرو گوہر (اور دیگر قیمتی اشیاء) سارا سرمایہ سمیٹا ہوا ہوتا ہے، اسی طرح خزائنِ بہشت خزائنِ اسرارِ الٰہی ہیں۔

 

۳۔ ایک اہم سوال:

آیا کوئی شخص دُنیا ہی میں جنّت کا مشاہدہ کرسکتا ہے؟ اس حدیثِ قدسی کا کیا فیصلہ ہے: اَعْدَرْتُ لِعبادِی الصّالحین مالا عینٌ رأت ولا اذنٌ سمعت ولا خطر علیٰ قلبِ بشر (میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جسے نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سُنا اور نہ کسی انسان

۳۶

کے دل میں گزرا)؟

جواب: اس ارشاد کا اطلاق ہر قسم کے بشر پر ضرور ہوتا ہے، مگر فرشتگانِ ارضی و سماوی پر نہیں، چنانچہ حضرتِ آدمؑ کو فرشتۂ ارضی کی حیثیت سے بہشت کی معرفت حاصل تھی، اسی طرح ہر انسانِ کامل فرشتۂ ارضی ہوا کرتا ہے، اور وہ مومنِ سالک بھی فرشتۂ ارضی ہے، جس کو فنا کا تجربہ حاصل ہوا ہو۔

 

۴۔ نفوسِ مُطمئنہّ:

زمین پر کسی کے فرشتہ ہونے کی بہت بڑی شرط حقیقی اطمینان ہے (۱۷: ۹۵) آپ اس مبارک لفظ کی حکمتوں کے لئے قرآنِ پاک کے تیرہ مقامات پر دیکھ لیں، خصوصاً سُورۂ فجر (۸۹) کی آخری چار آیاتِ مقدّسہ کو غور سے پڑھ لیں، جن کا ترجمہ یہ ہے: اے اطمینان والی روح، تُو اپنے پروردگار کی طرف رجوع کر (واپس ہوجا) تُو اس سے خوش وہ تجھ سے راضی، پس میرے (خاص) بندوں میں داخل ہوجا، اور میری جنّت میں داخل ہوجا (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) یہ حکم ہر ایسے مومن کے لئے ہے جو فنافی الامامؑ، فنافی الرّسولؐ، اور فنا فی اللہ کے مرتبہ کو پاتا ہے، کیونکہ اطمینان جسمانی موت میں نہیں، نفسانی موت میں ہے، جو ذکر و عبادت کی کثرت، حقیقی علم، نیک اعمال، اور روحانیّت کے عروج و ارتقاء سے واقع ہوتی ہے۔

۳۷

۵۔ انسانِ کامل میں بہشت:

جب بندۂ مومن علیِّٔ زمانؑ میں فنا ہوجاتا ہے، جیسا کہ حق ہے، تو اسی وسیلہ سے وہ دوسرے أئمّۂ طاہرینؑ اور رسولِ پاکؐ میں فنا ہوجاتا ہے، سو یہی ہُوا خدا کے خاص بندوں میں داخل ہوجانا (فادخلی فی عبادی ۸۹: ۲۹) اور اسی میں فنا فی اللہ کا سب سے بلند ترین مرتبہ پوشیدہ ہے، پس معلوم ہوا کہ مومنِ سالک سب سے اعلیٰ روحانیّت کی بہشت میں داخل ہوجاتا ہے (۸۹: ۳۰) اور نورِخداوندی اس کے لئے حواسِ ظاہر و باطن کا کام کرتا ہے، تاکہ بندۂ مومن کو ہر قسم کی معرفت حاصل ہو، جیسا کہ اس حدیثِ قدسی میں ہے جو نوافل اور تقرّب کے بارے میں ہے۔

 

۶۔ بہشت میں تین قسم کی نعمتیں:

وجودِ انسانی تین چیزوں کا مجموعہ ہے: جسم، روح اور عقل، لیکن یہ چیزیں دنیا میں یعنی شروع شروع میں ناتمام ہیں، لہٰذا اہلِ جنّت کی حیاتِ طیبّہ (۱۶: ۹۷) جسمِ لطیف، روحِ پاک اور عقلِ کامل میں ہوگی، اسی طرح میوہ ہائے بہشت لطیف، جسمانی (جیسی خوشبوئیں) روحانی اور عقلی قسم کے ہوں گے، روحانی غذاؤں کی مثال ذکر و عبادت، حمد و ثنا، نعتِ رسولِ مقبولؐ اور امامِ

۳۸

عالیمقامؑ کی منقبت ہے، اور عقلی نعمتیں علم و حکمت اور اسرارِ الٰہی میں ہیں، ان میں سےکوئی نعمت ختم ہونے والی نہیں، اور نہ اللہ کی نعمتوں کو انسان شمار کرسکتا ہے، جیسے قرآنِ پاک میں ہے: اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننے لگو تو نہ گن سکو (۱۶: ۱۸)۔

 

۷۔ آنکھوں کی ٹھنڈک:

بہشت کے ہر درجے میں جو بے مثال اور لازوال نعمتیں دیدار، ملاقات، مشاہدہ اور نظّارہ سے متعلق ہیں، وہ قرآن میں آنکھوں کی ٹھنڈک (۳۲: ۱۷) کہلاتی ہیں، ان میں تجلّیاتِ ربّانی سب سے خاص اور سب سے افضل ہیں، اور جنّت کی رحمتِ کُلّ سے بعید نہیں کہ نور ہر مومن اور مومنہ سے کہے کہ میں عالمِ شخصی میں تمہارا فرزند ہوں، کیونکہ قُرَّۃُ الْعَیْن میں ہر قسم کی اولاد کا اشارہ بھی ہے، دوسری جانب یہ بات انسان کی عادت میں شامل ہے کہ وہ پرانے رشتوں کو بھول جاتا ہے، پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے عالمِ ذرّ میں سب لوگوں کو آدمِ زمانؑ کی پشتِ مبارک سے پیدا کیا، تاکہ بہشت والے اس نورانی رشتے میں منسلک ہوکر ایک دوسرے کو “قُرَّۃُ الْعَیْن” قرار دیں۔

۳۹

۸۔ سب کے سب بادشاہ کیسے؟:

دُنیا کےکسی ملک میں جہاں بادشاہت کا نظام ہووہاں ایک ہی بادشاہ ہُوا کرتا ہے، اور باقی تمام لوگ رعایا اور محکوم ہوتے ہیں، بنا برین یہ ایک علمی سوال ہے کہ حضرتِ موسیٰؑ کے مومنین کس طرح سب کے سب بادشاہ بنائے گئے (۰۵: ۲۰)؟ جواباً عرض ہے کہ اس آیۂ شریفہ کی حکمت کا تعلق عالمِ شخصی سے ہے، جس میں بوسیلۂ فنا (جیسا کہ ہونا چاہیئے) ہر مومن روحانی پادشاہ ہوسکتا ہے، یہ سلطنت خدائے احد و صمد نےآلِ ابراھیمؑ اور آلِ محمّدؐ کو اس لئے عطا کردی ہے (۰۴: ۵۴) کہ لوگ اپنے وقت کے نورِ مجسّم میں فنا ہوکر آخرت کے لئے اس بادشاہی کو حاصل کریں، کیونکہ بہشت میں یہی حکمرانی ہے جو بڑی سلطنت (مُلْکاً کبیراً ۷۶: ۲۰) کہلاتی ہے، آپ اچھی طرح سے سوچ سکتے ہیں کہ دنیا کی بادشاہی کیا ہے، اور جنّت کی سلطنت کیسی ہوگی؟

 

۹۔ سلطنتِ سلیمانی:

قرآنِ حکیم کا کوئی قصّہ اسرار و رموز کی بے پیان دولت کے بغیر نہیں، چنانچہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی بادشاہی روحانی سلطنت کی مثال ہے، جو دوستانِ خدا کے عالمِ شخصی میں ہوتی

۴۰

ہے، اور یہی سلطنت بہشت میں جاکر عظیم اور لازوال بن جاتی ہے، خوب یاد رہے کہ بادشاہی بہت بڑی مثال ہے، لہٰذا بہشت کی عظیم سلطنت (۰۴: ۵۴) میں بہت سے اسرار اور بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں، اور یہ بہت سے انقلابی تصوّرات کی متقاضی ہے، مثلاً اوّلین و آخرین میں سے مقرّبین اور ابرار عوالمِ بہشت کے بادشاہ ہوں گے، اور رعیّت بنانے کی غرض سے دوزخِ جہالت کے سارے لوگوں کو جنّت میں منتقل کردیا جائیگا، بہشت کی رعیّت کو کیا تکلیف ہوسکتی ہے؟ اور اس کے بادشاہوں کو کس نعمت کی کمی ہوسکتی ہے؟ اس پر خوب غور کریں۔

 

۱۰۔ خدا ہر وقت کسی نہ کسی کام میں رہتا ہے:

سورۂ رحمان (۵۵: ۲۹) میں ہے: كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ۔ قرآنِ حکیم کی ہر حکمت چوٹی سے شروع ہوجاتی ہے اور زمین پر نازل ہونے کے باوجود عرش پر جا پہنچتی ہے، چنانچہ یہاں یوم سے دَور مراد ہے، اور سُورۂ ھود (۱۱: ۱۰۶ تا ۱۰۸) میں دقّتِ نظر سے دیکھ لیں کہ سب سے بڑا دَور وہ ہے جو ایک ساتھ دوزخ، بہشت اور کائنات کی عمر پر محیط ہے، سو خداوند تعالیٰ جب کائنات کو لپیٹ لیتا ہے، تو اسی کے ساتھ دوزخ اور بہشت کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے، لیکن یہ تو اللہ کا ایک ہی دن

۴۱

ہوا، لہٰذا ہم اس بات کے قائل ہوسکتے ہیں کہ ایسے ادوارِ عظیم کی کوئی ابتدا و انتہا نہیں، کیونکہ خدا ہر ایسے بڑے دَور میں یہی کام کرتا ہے، تاکہ کائنات، دوزخ اور بہشت کا تجدُّد ہو۔

 

۱۱۔ زمین و آسمان کی تبدیلی:

تجدُّدِ کائنات کا مطلب یہ ہے کہ اس زمین کی بجائے دوسری زمین بنائی جائے گی اور اسی طرح آسمان بھی دوسرے ہوں گے (۱۴: ۴۸) جس طرح نورِ مجسّم کی پاک و مبارک شخصیّت ہر زمانے میں بدلتی رہتی ہے، تاکہ اہلِ بہشت کے لئے عطیّۂ الٰہی غیر منقطع اور لازوال رہے (۱۱: ۱۰۸) اسی طرح ارض و سما کے تجدّدِ اَمثال کا سلسلہ جاری ہے۔

 

۱۲۔ جسمِ مثالی:

جس طرح پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ یکے بعد دیگرے دو متضاد چیزوں کے آنے جانے سے ایسے دائرۂ آفرینش کا تصوّر ہوتا ہے، جس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، چنانچہ خداوندِ مہربان نے انسان کو کثیف و لطیف دو جسم عطا کردیئے (۵۶: ۶۱) تاکہ ہر فرمانبردار بندہ دُنیا و آخرت

۴۲

دونوں سے فائدہ اٹھائے، جسمِ لطیف کے کئی نام ہیں، جیسے جسمِ مثالی، جسمِ فلکی، کوکبی بدن، جُثّۂ ابداعیہ، پیرہنِ یوسفی، جنّ، پری، وغیرہ۔

 

نصیر الّدین نصیرؔ ہونزائی

لنڈن (London)

۱۸۔ ذوالحجّہ ۱۴۱۱ھ/یکم جولائی ۱۹۹۱ء

۴۳

رحمتِ عالمینؐ

 

۱۔ آنحضرتؐ تمام جہانوں کیلئے رحمت:

سورۂ انبیاءمیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے بارے میں ارشاد فرمایا: وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (۲۱: ۱۰۷) اور (اے رسولؐ) ہم نے تو تم کو سارے جہانوں کے حق میں ازسر تا پا رحمت بناکر بھیجا۔ یعنی حبیبِ خداؐ کا نورِ اقدس ابتداء ہی سے عوالمِ شخصی کے لئے سرچشمۂ رحمت رہا ہے، جس کی نمائندگی انبیائے کرامؑ اور أئمّۂ طاہرینؑ نے کی، پس عالمین سے عوالمِ شخصی مراد ہیں، جیسا کہ حضرتِ امام جعفر الصّادقؑ کا ارشاد ہے کہ “عالمین” سے انسان مراد ہیں۔

 

۲۔ رحمت اور علم:

اگرچہ یہ بات حقیقت ہے کہ رحمت کا تعلّق روح سے

۴۴

ہے، اور علم کا تعلّق عقل سے، تاہم یہ بھی جاننا ہے کہ رحمت علم کے بغیر نہیں، اور نہ علم رحمت سے الگ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمِ بالا میں عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ  جو علم و رحمت کے سر چشمے ہیں وہ ایک ساتھ کام کررہے ہیں، پس حضورِ انورؐ عالمین کے لئے نہ صرف رحمت ہی ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ علم بھی ہیں، جیسا کہ رسولِ خداؐ نے ارشاد فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور (زمانے کا) علیؑ اس کا دروازہ ہے، اور یہ حدیث بھی ہے: میں حکمت کا گھر ہوں اور علؑی (یعنی امامِ وقت) اس کا دروازہ ہے۔

 

۳۔ سب لوگوں کیلئے پیغمبرؐ:

سُورۂ سبا (۳۴: ۲۸) میں دیکھ لیں کہ سرورِ انبیاء علیہ الصّلوٰۃ والسّلام ماضی، حال، اور مستقبل کے تمام لوگوں کے لئے پیغمبر تھے، اس قانونِ الٰہی کے مطابق دورِ نبوّت میں انبیاء اور دورِ امامت میں أئمّہ آپؐ کے نمائندے قرار پاتے ہیں، تاکہ اسی طرح کوئی زمانہ علم و رحمت سے بے نصیب نہ رہے، اور قیامت کے دن لوگ یہ نہ کہیں کہ ان کے زمانے میں نہ کوئی پیغمبر تھا، اور نہ کوئی نمائندۂ پیغمبر، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہےـ: لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللّٰهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ  (۰۴: ۱۶۵) تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں کی خدا پر کوئی حُجّت

۴۵

باقی نہ رہ جائے۔ اس آیۂ کریمہ کا اعجاز یہ ہے کہ یہاں صرف رسولوں کا ذکر ہوا، کیونکہ موقع کی مناسبت سے انبیاء و أئمّہ کا لُزُوم خود بخود ظاہر ہوجاتا ہے، جبکہ بڑی حکیمانہ جامعیّت سے یہ فرمایا گیا ہے کہ کوئی زمانہ نورِ ہدایت سے خالی نہیں ہوسکتا۔

 

۴۔ سراجِ مُنیر=چراغِ روشن:

اس میں اہلِ ایمان کو ذرّہ بھر شک نہیں کہ حضورِ پاکؐ کی مبارک شخصیّت میں خداوندِ دوجہان کا نورِ اقدس جلوہ گر تھا، اور اس حقیقت پر قرآن وحدیث کی شہادتیں کثرت سے مل سکتی ہیں، من جُملہ ایک نمائندہ آیۂ سراج ہے (۳۳: ۴۶) جس کے ارشادِ مبارک کے بموجب آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم تمام زمانوں کے لئے چراغِ روشن ہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرتِ اقدسؐ کے نور نے نہ صرف زمانۂ نبوّت ہی میں علم و ہدایت کی روشنی پھیلائی، بلکہ ماضی کے انبیائے کرام اور مستقبل کے أئمّۂ ھُدا کے توسّط سے بھی لوگوں کی رہنمائی اور دستگیری کی، اور “رحمتِ عالمین” جیسے لقبِ مبارک کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ نور ہمیشہ دنیا میں موجود ہو۔

۴۶

۵۔ چار اسمائے رسولؐ:

شاید آپ کو علم ہوگا کہ آنحضرتؐ کے بہت سے بابرکت نام ہیں، ہم ان میں سے چار اسماء کا یہاں ذکر کرتے ہیں، وہ مبارک نام یہ ہیں: اوّل، آخر، ظاہر، اور باطن، یہ نور کا وصف ہے، آنحضرتؐ کا اوّل ہونا یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے نورِ محمّدی کو پیدا کیا، پھر اس کو پیغمبروں کے سلسلےمیں چلایا، ظاہر یہ کہ عرب میں خاتم الانبیاء کی مرتبت پر آپؐ کا ظہورِ قدسی ہوگیا، باطن یہ کہ نورِعقل مخفی ہوتا ہے، اور آخر کا مطلب یہ ہے کہ حضورِ اکرمؐ کا نور أئمّۂ آخرین کے سلسلے میں منتقل ہوگیا، تاکہ نورِ ہدایت سے دنیا کسی وقت بھی خالی نہ ہو۔

 

۶۔ نورٌ علیٰ نور (۲۴: ۳۵):

ایک نور پر دوسرا نور، لیکن کس طرح؟ جبکہ باپ نور ہے، مگر جانشین بیٹا ابھی نور نہیں ہوا؟ جواب: یہ ابتدائی وقت کی بات نہیں، آخری وقت کا ذکر ہے، جس میں وارث بھی نور ہوچکا ہوتا ہے، تبھی نورِ اوّل نورِ دُوُم میں منتقل ہوجاتا ہے، چنانچہ رسول اللہؐ پہلے ہی سے اپنے نورِ اقدس کا عکس مولاعلیؑ کے قلب مبارک پر ڈال رہے تھے، اس عمل میں سب سے بڑی طاقت اللہ

۴۷

کی رضا ہوتی ہے، پھر پیغمبرؐ کی خوشنودی، دُعا، شفقت، تعلیم، توجّہ وغیرہ اور حضرتِ علیؑ حصولِ نور کے لئے ہر طرح سے مستعد اور آدابِ ضروری سے باخبر تھے، اس کے علاوہ ان کو پیغمبرِ اکرم سے بے پناہ محبّت تھی، اور اسمِ اعظم تو انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کا سب سے بڑا راز ہے۔

 

۷۔ آیۂ تطھیر:

آیۂ تطھیر سورۂ احزاب (۳۳: ۳۳) میں موجود ہے، جو اہلِ بیتِ اطہار علیھم السّلام کی شان میں نازل ہوئی ہے، جس میں ربِّ جلیل کا یہ اعلان ہے کہ وہ ان حضرات کو ہر طرح سے پاک و پاکیزہ کرنا چاہتا ہے، اس میں تین قسم کی پاکیزگی مقصود ہے: جسمانی، روحانی، اور عقلانی، اور یہ دراصل معجزۂ اسمِ اعظم اور عملِ روحانیّت و نورانیّت ہی ہوتا ہے، جو خاندانِ رسولؐ کے نورانی گھر میں ہمیشہ جاری ہے، پس خداوندِعالم نے عملِ تطہیر کے نتیجے میں اہلِ بیت علیھم السّلام کو نورِ عقل بنادیا، تاکہ اس کے علم و حکمت کی تجلیوں سے عالمِ دین منوّر ہوجائے۔

 

۸۔ اہلِ ایمان کی تطہیر:

ظاہری طہارت و پاکیزگی پانی سے ہوتی ہے، اور باطنی تزکیہ

۴۸

علم سے ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم کے کئی مقامات پر ارشاد ہے کہ پیغمبراکرمؐ اپنے وقت میں علم و حکمت سے مومنین کو پاکیزہ کرتے تھے، اس سے پتا چلا کہ آیۂ تطہیر میں خدا کی جانب سے اہلِ بیت کو نورانی علم ملنے کا ذکر ہے، کیونکہ اس میں انتہائی پاکیزگی کے معنی ہیں، یعنی جہالت و نادانی کے میل کے نام و نشان کو مٹانا ہے، یہ اس وقت ممکن ہے، جبکہ ان قدسیوں کی ذات میں نورِ عقل کی علمی تجلیّات کا عالم ہو، اور علم و حکمت کی ضَوفشانیوں کے سوا کوئی وقت نہ گزرے۔

 

۹۔ سلمانِ فارسی:

بموجبِ ارشادِ نبوی سلمان فارسی کو اہلِ بیتِ اطہارؑ کی نورانیت میں داخل و شامل ہونے کا شَرَفْ حاصل ہوا تھا، یہ ایک ایسی عملی حقیقت ہے کہ اس میں ذرا بھی شبہ نہیں، چنانچہ سلمان کی پاکیزہ ہستی میں بھی آفتابِ نور طلوع ہوگیا، اور اس روشن مثال میں عالی ہمّت مومنین کے لئے زبردست خوشخبری ہے، کیونکہ یہ روحانی عروج و ارتقاء صرف سلمان ہی کی ذات تک محدود نہیں، بلکہ یہ وہی لطفِ عمیم ہے، جو نورِ ہدایت میں محو و فنا ہوجانے سے ہر مومن کو حاصل ہوسکتا ہے، آیا خزائنِ الٰہی میں کوئی ایسی نعمت ہوسکتی ہے، جس سے بندہ محروم رہے (۱۵: ۲۱)؟ آپ اس

۴۹

حدیثِ قدسی کو بار بار پڑھیں، جو اطاعت سے متعلق ہے (یا بنی آدم اطَغی….)۔

 

۱۰۔ قرآن و اسلام کی نعمتیں:

قرآن اور اسلام اپنی بے شمار نعمتوں کے ساتھ اصلاً ایک زندہ نور ہے، جو آنحضرتؐ کے عالمِ شخصی میں طلوع ہُوا (۰۵: ۱۵، ۴۲: ۵۲)، دوسری طرف رفتہ رفتہ قرآن کی تحریری صورت مکمّل ہُوئی، بغیر اس کے کہ نور میں ذرّہ بھر کمی واقع ہو، جیسے نزولِ قرآن کی وجہ سے لوحِ محفوظ میں جو قرآنِ مجید ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) اس میں کوئی فرق نہیں آیا، پس رسول اللہؐ کی ذاتِ اقدس میں جو نور بصورتِ ذاتی کائنات ضوفگن تھا، اس میں لاتعداد نورانی، عقلی، علمی، اور روحانی نعمتیں تھیں، چنانچہ اگر یہ نور کاملاً حضورِ اکرمؐ کے جانشین میں منتقل نہ ہوتا، تو آنحضرتؐ کے بعد دین کامل نہ رہتا، اور خدا کی باطنی نعمتیں نا تمام ہوجاتیں (۰۵: ۰۳، ۳۱: ۲۰) لہٰذا حضرتِ خاتم الانبیاؐ کا نورِ اقدس مولا علیؑ کی پاک شخصیت میں منتقل ہوگیا۔

 

۱۱۔ ایک حدیث شریف:

جناب رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے فرمایا: میںؐ اور علیؑ ایک نور تھے، اور وہ نور آدمؑ کو پیدا کرنے سے چودہ ہزار

۵۰

سال پیشتر خدائے عزّوجّل کی درگاہ میں طاعت اور تقدیس کرتا تھا، جب آدمؑ کو پیدا کیا، اس نور کو آدمؑ کے صُلب میں رکھا، اور برابر ایک صُلب سے دوسرے صُلب میں منتقل کرتا رہا، یہاں تک کہ اس کو عبدالمطلب کے صُلب میں قرار دیا، پھر اس نور کو دو حصّوں میں منقسم کیا، میرے حصّہ کو عبداللہ کی پشت میں قائم کیا، اور علیؑ کے حصّے کو ابوطالب کے صُلب میں، پس علیؑ مجھ سے ہے اور میں علی سے۔ (کوکبِ دُرّی، بابِ دوم، منقبت۱)۔

 

۱۲۔ حدیثِ خاصفُ النّعل:

پیغمبرِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: اے لوگو! تم میں سے ایک شخص ہے کہ وہ تاویلِ قرآن پر جنگ کرے گا، جیسا کہ میں نے تنزیلِ قرآن پر جنگ کی ہے۔ ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں: ہم نے عرض کی، یا رسول اللہ وہ شخص کون ہے، فرمایا: وہ شخص جو میری جوتی درست کر رہا ہے، ابو سعیدؓ  کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امیر کے پاس جاکر خوشخبری دی، وہ میری بات کی طرف متوجہ نہ ہوئے، گویا کہ وہ پہلے ہی سُن چکے تھے۔ (کوکبِ دُرّی، بابِ دوم، منقبت نمبر ۶۷)۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

لنڈن (London)

۲۰۔ ذوالحجہ ۱۴۱۱ھ۔۳۔جولائی ۱۹۹۱ء

۵۱

سورۂ قیامت کی چند حکمتیں

 

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم۔ خداوندِ بزرگ و برتر جس طرح اس سورہ کے شروع میں روز قیامت کی قسم کھاتا ہے، اس سے یومِ آخرت کی بہت بڑی اہمیت اور زبردست عظمت ظاہر ہوجاتی ہے (۷۵: ۰۱) اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہاں “نفسِ لوّامہ” یعنی ایسے جی (جان=روح) کی بھی قسم کھائی ہے، جو اصلاحِ ذات اور روحانی ترقی کی غرض سے خود کو بار بار ملامت کرتا رہتا ہے، اور یہ عمل یقیناً گریہ و زاری اور مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات کے دوران زیادہ مؤثّر و مفید ہوسکتا ہے، چنانچہ اس آیۂ کریمہ کا حکیمانہ اشارہ یہ ہے کہ ہوشمند آدمی وہ ہے، جو اخلاقی، علمی، عملی اور روحانی ترقی کی خاطر ہمیشہ اپنے آپ کو ملامت کرے، تاکہ “خود ملامتی” کے اس پُرحکمت طریق سے نفس کی پاکیزگی ہوکر راہِ روحانیّت میں پیش رفت ہوسکے،

۵۲

اس قَسَمْ میں نفسِ لَوّامہ (بہت ملامت کرنے والا جی) کو مرتبۂ روحانیّت و ذاتی قیامت کی طرف متوجّہ کیا گیا ہے، تاکہ اہلِ دانش “خود تنقیدی” کے زرّین اصول پر عمل پیرا ہوکر مرتبۂ نفسِ مُطمئنۂ (۸۹: ۲۷) کو حاصل کریں۔ (۷۵: ۰۲) جسمانی موت کے بعد جس کیفیت میں دوبارہ زندہ ہوجانا ہے، اس کے متعلّق بہت سے لوگ تو بنیاد ہی سے منکر ہیں، مگر جو لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں، ان کو قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ بزبانِ حکمت مزید دعوت ہے کہ اُخروی زندگی کو علم الیقین اور عین الیقین سے دیکھ کر سمجھ لیا جائے(۷۵: ۰۳) ہڈیوں کی تاویل: جس طرح جسمانی زندگی میں ٹھوس چیزیں ہڈیاں ہی ہیں، اسی طرح حیاتِ روحانی میں اصل اشیا ذرّاتِ لطیف ہیں، جن کے یک جا ہوکر بصورتِ انسان زندہ ہوجانے کے بھیدوں کا علم رسولِ خدا صلعم کے برحق جانشینؑ کے خزانے سے مل سکتا ہے۔ انگلیوں کی پوریوں کی تاویل: دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں میں ۴ پوریاں ہیں، جو چار حجتانِ مقرب (یعنی ۔۔۔ نین و ۔۔۔ رین) کی دلیل ہیں، باقی انگلیوں کی پوریاں ۱۲+۱۲ = ۲۴ ہیں، جو دن رات کے حُجّتانِ جزائر کی مثال ہیں، پس مومنِ صادق کے ذاتی انبعاث میں یہ ۲۸ حُجج عالمِ شخصی کے لئے کام کریں گے (۷۵: ۰۴) یہاں انسان کی اس بنیادی بُرائی کا ذکر ہے، جس میں وہ ہادیٔ برحق

۵۳

کی نافرمانی کرتا ہے

(۷۵: ۰۵) بہت سے لوگوں کے دل میں وقوعِ قیامت کے بارے میں سوال موجود ہوتا ہے (۷۵: ۰۶) قرآنِ کریم اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ قیام قیامت اس وقت ہوگا، جب کہ روحانیّت کی طوفانی روشنی سے کسی کی چشمِ باطن خیرہ ہوجائے گی، یعنی ذاتی روحانیّت کی ابتداء میں جہاں دریائے نور متلاطم ہوتا ہے، اس سے بھی  منزلِ قیامت کچھ آگے ہے، پس سوچنے کی ضرورت ہے کہ آیا ایسی قیامت انفرادی ہوسکتی ہے یا اجتمائی ؟

(۷۵: ۰۷)چاند حُجّت کی مثال ہے، خُسوفِ قمر (چاند گرہن) حُجّت کی روشنی میں رکاوٹ پیدا ہونے کی دلیل ہے (۷۵: ۰۸)پھر وہ حُجّت یا دَورِ قیامت کا ہر مومنِ سالک آفتابِ امامت میں واصل ہوجاتا ہے، اگرچہ دَورِ قیامت میں امام علیہ السّلام اور اہلِ بیت (خاندانِ نورانی =نورانی فیملی) کے سوا حدود جسمانی ظاہر نہیں ہیں، کیونکہ آفتابِ نور طلوع ہوچکا ہے، تاہم دن کے وقت بھی چاند اور ستارے اپنی جگہ موجود اور روشن ہوتے ہیں (۷۵: ۰۹) قیامت انفرادی ہو یا اجتمائی، بہرحال اس میں بہت بڑی سختی ہوا کرتی ہے، اور یہ کلیدی نکتہ بھی ذہن نشین کرلینا ضروری ہے کہ ذاتی قیامت میں اجتماعی قیامت بھی پوشیدہ ہوتی ہے، لہٰذا اس وقت انسان زبانِ حال سے کہے گا کہ اس عذاب سے

۵۴

بھاگنے کی جگہ کہاں ہے (۷۵: ۱۰) وہاں بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں، اور نہ کہیں پناہ مل سکتی ہے (۷۵: ۱۱) مگر پناہ کے لئے صرف ایک ہی ٹھکانا ہے، وہ تیرے پروردگار کا حضور ہی ہے، جس نے تیری عقل اور روح کی پرورش کے جملہ ذرائع مُہیّا کردیئے تھے، اگر تو نے اُن وسائل سے فائدہ حاصل کیا ہوتا، تو آج تجھ کو پروردگارِ عالم کے حضور میں پناہ مل جاتی (۷۵: ۱۲) اس دن ہر آدمی کے اعمال پر علمِ الٰہی کی روشنی پڑے گی (۷۵: ۱۳) کچھ لوگ براہِ راست چشمِ بصیرت سے اوربعض بالواسطہ اپنے اپنے اعمال دیکھیں گے (۷۵: ۱۴) اگرچہ وہ عذر خواہی کیوں نہ کریں (۷۵: ۱۵)

اس حکم میں آنحضرتِ صلعم سے وحی کے بارے میں عجلت نہ کرنے کے لئے فرمایا جاتا ہے، نیز اس میں کارِبزرگ اور ذکرِ اسمِ اعظم کی بابت ایک خاص راز بھی ہے (۷۵: ۱۶) وحی نازل کرنا اور اس کا مکمل طور پر پڑھنا خدا کے ذمّہ ہے، اور یہ امر بھی اسی کے ذمہّ ہے کہ وہ ایک دن اسمِ بزرگ کےمنتشر اذکار کو جمع کرلائے، اور سب سے بڑے اسم کو وہ خود پڑھ پڑھ کرسُنائے، یعنی اسمِ اعظم کو “خود کار” یا بولتا ذکر یا ذکرِ ناطق بنائے (۷۵: ۱۷) حضورِ اکرمؐ سے فرمایا گیا کہ آپؐ اس انتظار کے بعد وحی اس طرح پڑھیں، جس طرح زبانِ قدرت پڑھ کر سناتی ہے، نیز اس میں یہ لطیف اشارہ بھی ہے کہ جب اسمِ اکبر

۵۵

آٹومیٹک ہوجاتا ہے، یعنی ازخود ذکر ہونے لگتا ہے، تو اس حال میں صرف خاموشی سے ذکرِ نورانی کو سننا پڑتا ہے (۷۵: ۱۸)

پھر اللہ تعالیٰ اپنی اس ذمّہ داری کاتذکرہ فرماتا ہے کہ اس نے دنیا میں تنزیلِ قرآن کے بعد اس کے بیان (تاویل) کا بھی اہتمام کردیا ہے، دوسری طرف یہ اشارہ بھی ہے کہ جب اسمِ اعظم کا ذکر “خود کار” ہوگیا اور روحانیّت کا طوفان برپا ہوا تو اس کی تاویلات بھی اپنے وقت پر آسکتی ہیں (۷۵: ۱۹) یہاں اس بات پر اعتراض ہے کہ لوگ دُنیا اور اس کی جلد ملنے والی مسّرت و شادمانی کو چاہتے ہیں (۷۵: ۲۰) اور آخرت کی ابدی نعمتوں کو نظر انداز کرتے ہیں (۷۵: ۲۱)قیامت کے دن بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے (۷۵: ۲۲) کیونکہ وہ اپنے پروردگار کے دیدارِ پاک سے مشرف ہوں گے، اور یہاں یہ بات جاننا ازبس ضروری ہے کہ اعلیٰ روحانیّت آخرت میں شامل ہے، اور معرفت کا موقع دنیا ہی میں ہے، اس لئے حقیقت یہی ہے کہ دوستانِ خدا بوسیلۂ فنا چشمِ سِرّ سے حضرتِ ربّ العزّت کو دیکھتے ہیں، یعنی عارفوں کے لئے دنیا ہی میں مشاہدہ (رُؤیت) اور معرفت بے حد ضروری ہے (۷۵: ۲۳) اس کے برعکس بہت سے چہرے اس روز اداس ہوں گے (۷۵: ۲۴) کیونکہ ان کو گمان گزرے گا کہ اب اُن

۵۶

کے ساتھ کمر توڑ برتاؤ ہونے والا ہے (۷۵: ۲۵)

قرآن فرماتا ہے کہ ہرگزایسا نہیں جیسا کہ تم سمجھ رہے ہو، جب جان گلے کی ہڈیوں تک پہنچ جاتی ہے تو یہی طریقِ روحانیّت میں معجزۂ عزرائیلی ہے (۷۵: ۲۶) اور پوچھا جاتا ہے کہ کوئی جھاڑنے پھونکنے والا ہے، مراد یہ ہے کہ عزرائیل جھاڑتا ہے اور اسرافیل پھونکتا ہے،  تاکہ مومنِ سالک کو منزلِ فنا کے عجائب و غرائب کا تجربہ حاصل ہو (۷۵: ۲۷)اور وہ گمان کرتا ہے کہ یہ جدائی کا وقت ہے، یعنی وہ گمان کرتا ہے کہ یہ جسمانی موت ہے، حالانکہ یہ نفسانی موت کا معجزہ ہے (۷۵: ۲۸) اور ایک پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ جاتی ہے، کیونکہ مسلسل قبضِ روح کے اس معجزے کا سب سے بڑا اثر پاؤں پر پڑتا ہے، جبکہ جان سب سے پہلے وہاں سے سر کی طرف بلند ہوجاتی ہے، اور ہر بار اوپر سے پاؤں تک کچھ دیر سے پہنچتی ہے (۷۵: ۲۹)اس روز تیرے ربّ کی طرف جانا ہوتا ہے، بمعنیٔ فنافی اللہ (۷۵: ۳۰) چونکہ یہ عالمِ شخصی ہے اس لئے اس میں کُلّ کی نمائندگی ہوتی ہے، چنانچہ مفہوم ہے: تو اس نے نہ تو عین الیقین سے امورِ دین کی تصدیق کی تھی اور نہ ہی اس کو نماز و دعا کی روح حاصل ہوئی (۷۵: ۳۱) لیکن اس نے تکذیب کی تھی اور مُنْہ موڑا تھا، یعنی وہ حقیقت اور قیامت سے انکار کرتا تھا (۷۵: ۳۲) پھر ناز و نخرہ کے ساتھ اپنے لوگوں کی طرف جاتا تھا، کیونکہ اسے گمان تھا کہ وہ بہت کچھ جانتا ہے (۷۵: ۳۳) تیری

۵۷

کمبختی پر کمبختی آنے والی ہے (۷۵: ۳۴) پھر تیری کمبختی پر کمبختی آنے والی ہے (۷۵: ۳۵) کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ یوں ہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا، ایسا نہیں ہوگا، بلکہ حکمت اسی میں ہے کہ بالآخر واحدِ قہّار سب کو زبردستی سے ایک کردے گا (۷۵: ۳۶) یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نورِ ہدایت کا آفتاب نہ عالمِ آب و گل میں روشنی ڈالے اور نہ عالمِ جان و دل میں ضیا پاشی کرے، حالانکہ جسمانی و روحانی تخلیق و تکمیل اور عروج و ارتقاء کا سلسلہ جاری ہے، تو کیا وہ شخص ابتداء میں ایک قطرۂ منی نہ تھا جو (عورت کے رحم میں) ٹپکایا گیا تھا (۷۵: ۳۷) پھر وہ خون کا لوتھڑا ہوگیا، پھر خدا نے اس کو کئی مراحل سے گزار کر انسان بنایا، پھر اسے روحِ ناطقہ اور عقل عطا کرکے درست کیا (۷۵: ۳۸) پھر اس کے دو جوڑے بنائے، یعنی مرد اور عورت، پس یہی مثال دین میں بھی ہے، جس میں سب سے پہلے روحانی ماں باپ کا ہونا لازمی ہے، تاکہ کوئی شخص جسمانی طور پر پیدا ہو جانے کے بعد روحانی طور پر بھی پیدا ہوجائے (۷۵: ۳۹) تو کیا وہ خدا جو ہر چیز پر قدرتِ کاملہ رکھتا ہے، اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مُردوں کو زندہ کردے، جاننا چاہئے کہ اللہ نہ صرف جسمانی مُردوں ہی کو زندہ کرتا ہے، بلکہ وہ نورِ علم سے مُردگانِ جہالت کو بھی زندہ کرسکتا ہے، پس سورۂ قیامت میں شروع سے لے

۵۸

کر آخر تک اگرچہ ظاہراً اجتماعی قیامت کا تذکرہ ہے، لیکن باطناً انفرادی قیامت کا بیان ہے، جس میں بشکلِ ذرّات سب لوگ حاضر ہوجاتے ہیں (۷۵: ۴۰)

 

 

عزیزانِ من! یہ امر بیحد ضروری ہے کہ آپ پہلے پہل اس سُورۂ مبارکہ(۷۵) کو ترجمۂ قرآن میں دیکھیں، تاکہ اوّل لفظی معنوں کا علم ہو، اور اس کے بعد تاویلی حکمت کو سمجھنے کے لئے سعی کی جائے، ورنہ فائدہ نہیں ہوگا۔

 

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

۲۵۔ ذوالحجّہ ۱۴۱۱ھ۔ ۸ جولائی ۱۹۹۱ء

کراچی: ۸۲/۱۲/۲۳

لنڈن: ۹۱/۷/۸

۵۹

دیدارِ الٰہی

 

میں انتہائی عاجزی اور محتاجی کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ سے توفیق و ہمّت اور یاری کے لئے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے ولّیٔ زمان آلِ رسولؐ کے نورِ ہدایت سے میری رہنمائی اور دستگیری فرمائے، کیونکہ اُس کی تائید و نصرت کے بغیر کوئی کام ہونہیں سکتا، خصوصاً دیدارِ الٰہی جیسے سب سے مشکل موضوع پر قلم اٹھانا، اس ضعیف و ناتوان بندے کے لئے قیامت صُغریٰ سے گزرنے کی طرح ہے، بہرکیف میرا ذاتی عقیدہ ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کے دیدارِ اقدس کی انتہائی عظیم نعمت تمام ظاہری و باطنی نعمتوں پر بادشاہ ہے، لہٰذا ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ دین کی سب سے اعلیٰ اور سب سے بڑی نعمت یہی ہے، اور یہ دونوں جہان کی روحانی اور عقلی بلندی پر اپنی بے مثال

۶۰

عظمت و جلالت کی شان میں موجود ہے۔

دلیل نمبر۱: خالقِ اکبر نے دو قسم کی مخلوق پیدا کی: دکھائی دینے والی، اور نہ دکھائی دینے والی، اور وہ خود سبحانہٗ و تعالیٰ ان کی صفت سے پاک و برتر ہے، یعنی یہ اس کی اپنی صفت نہیں کہ دکھائی دے، اور یہ بھی اس کی تعریف نہیں کہ نہ دکھائی دے، جبکہ یہ دونوں باتیں مخلوق کے لئے ہیں، جس کا ذکر ہوا، پس خدا کے لئے کوئی حّد نہیں، جیسا کہ اس کا اپنا قول ہے: وہی سب سے اوّل اور سب سے آخر ہے، وہی سب سے ظاہر اور سب سے باطن ہے (۵۷: ۰۳) یہ اس حقیقت کی دلیل ہے کہ وہ کسی ایک حّد میں محدود نہیں، وہ فعّالٌ لِّمایُرید ہے، یعنی جو چاہتا ہے کرتا ہے (۸۵: ۱۶) اس لئے اس کی شانِ کریمی سے بعید نہیں کہ وہ اپنے بندگانِ خاص کو دولتِ دیدار سے نوازے۔

دلیل نمبر۲: خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵) اس حکم کا براہِ راست تعلق چشمِ باطن سے ہے، دیدۂ ظاہر سے نہیں، یعنی چشمِ سَر سے نہیں، بلکہ چشمِ سِرّ سے اس نور کا مُشاہدہ ہوسکتا ہے، کیونکہ حق تعالیٰ کا نور عالمِ عقل و جان کا سورج ہے، اور جو صاحبانِ بصیرت عالمِ روحانی کا مشاہدہ کرتے ہیں، وہ اس آفتابِ نور کو دیکھ سکتے ہیں۔

دلیل نمبر۳: یہ واقعہ عالمِ آخرت میں نہیں، بلکہ دنیا ہی میں

۶۱

پیش آیا، جب کہ ربِّ کریم نے بنی آدم (انسانانِ کامل) کی پشتوں سے ان کی ذرّیّت کو ہٹا کر ان کو اپنی انائے عُلوی کے سامنے حاضر کر دیا، اور پوچھا: آیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کہ کیوں نہیں، ہم سب گواہ بنتے ہیں (۰۷: ۱۷۲) یہ ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں دیدارِ خداوندی کا تذکرہ ہے، کیونکہ حضرتِ آدمؑ کے حقیقی بیٹوں نے ربّ اور اس کی رُبُوبیّت کو دیکھا، تب اُنھوں نے کہا کہ ہم گواہ ہیں، ورنہ یہ بات نہ ہوتی۔

دلیل نمبر۴:حضرتِ آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا، یہ درحقیقت روحانی صورت کی بات ہے، اور حدیثِ شریف میں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی نورانی صورت میں انتہائی حسین و جمیل ہے، نیز یہ حدیثِ قدسی بھی مشہور ہے کہ وہ ایک پوشیدہ خزانہ تھا، پس اس نے اپنی شناخت کی خاطر خلق کو پیدا کیا، چنانچہ یہ سب اشارے دیدار ہی کی طرف کئے گئے ہیں، تاکہ معرفت کی لازوال اور غیر فانی دولت حاصل ہو۔

دلیل نمبر ۵ شریعت کا پھل طریقت ہے، طریقت کا میوہ حقیقت اور حقیقت کا ثمرہ معرفت ہے، اس کی منطق یہ بنتی ہے کہ منزلِ حقیقت میں دیدارِ پاک ہے، اور اسی کا نتیجہ معرفت ہے، کیونکہ معرفت پہچان کو کہتے ہیں، جو مشاہدہ کے سوا ممکن ہی نہیں۔

دلیل نمبر ۶: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا:

۶۲

من رَاٰنی فقد رَأاللّٰہ =جس نے مجھے دیکھا بیشک اس نے خدا کو دیکھا۔ یعنی مرتبۂ روحانیّت پر جس نے محبوبِ خداؐ کا دیدار کیا، اس نے گویا خدا کا دیدار کیا، اس سے ظاہر ہوا کہ دیدارِ خداوندی نمائندگی میں بھی ہے، جس طرح دین کے دوسرے بہت سے امور کی تکمیل نمائندہ ہی سے ہوتی ہے۔

دلیل نمبر ۷: قرآنِ کریم میں جہاں واضح طور پر فنا فی اللہ کا ذکر آیا ہے، وہاں چہرۂ خدا کا تذکرہ بھی موجود ہے، کیونکہ تجلّی اور دیدار ہی سے کاملین جیتے جی فنا ہوجاتے ہیں، آپ سورۂ رحمان (۵۵: ۲۶ تا ۲۸) میں دیکھیں۔

دلیل نمبر ۸: فنا فی اللہ کی تشبیہہ و تمثیل کئی طرح سے دی گئی ہے، اگر یہ بات درست ہے، تو ہم یہ بھی مانیں گے کہ تجلّیٔ حق سے حضرتِ موسیٰؑ پر جو کچھ گزرا، وہ فنافی اللہ کی مختلف مثالوں میں سے ایک مثال ہے، کیونکہ دیدارِ خداوندی کے جمال و جلال کے سامنے کسی کی بشریّت ٹھہر ہی نہیں سکتی، اور فنا کی روشن دلیل یہی ہے۔

دلیل نمبر۹: مولانا ھابیلؑ کو دیدارِ پاک اور فنافی اللہ کی عظیم سعادت نصیب ہوئی تھی، جس میں ان کی بشریت کی تشبیہہ گوسفند سے دی گئی ہے، اور دیدارِ الٰہی کو نارِ مقدس کہا گیا ہے، یقیناً دیدار آتشِ عشق ہے، اور قبل ازدیدار جو عشق ہے، وہ

۶۳

اسی دُور رس آتش کی بابرکت حرارت ہے۔

دلیل نمبر ۱۰: حضرتِ اسماعیل ذبیح اللہؑ کو مرتبۂ فنافی اللہ حاصل ہُوا تھا، ان کے نفسِ حیوانی کی مثال بہشت سے لایا ہُوا دنبہ سے دی گئی ہے، اور خدا کا دیدار اور عشق نفسِ حیوانی یا دنبہ کے لئے چُھری کی طرح کام کرتا تھا (۳۷: ۱۰۷)۔

دلیل نمبر۱۱: عشق، دیدار، اور فنا کی مثال شہیدوں کی شہادت سے دی گئی ہے اور ایسے ہی شہید واقعی جسماً وَ رُوحاً زندہ ہوتے ہیں، اور انہیں اس دنیا میں بھی نور حاصل ہوتا ہے (۵۷: ۱۹)۔

دلیل نمبر ۱۲: قرآنِ مجید میں انبیائے کرام علیہم السّلام کے جتنے معجزات مذکور ہیں، ان سب کا تجدّد امامِ مبینؑ میں ہوتا ہے، امام زمان صلوات اللہ علیہ وسلامہٗ روحانیّت و نورانیّت کا وہ زندہ و گویندہ آفتاب ہے، جو عالمِ شخصی میں طلوع ہوجاتا ہے، اور اسی طرح یہ بھی ایک نمائندہ دیدار ہے، اور اس میں سب کچھ ہے۔

دلیل نمبر ۱۳: اگر حضرتِ موسیٰؑ کو خدا کا دیدار نہ ہوا ہوتا، تو آپ اپنی قوم سے منتخب کرکے ستر رجال کو دیدارِ الٰہی کے لئے کُوہِ طور نہ لے جاتے (۰۷: ۱۵۵) دراصل یہ انتخاب حدودِ جسمانی ہی کا تقرّر و تعیّن تھا، صاعقہ صورِ اسرافیل کی آواز ہے (۰۲: ۵۵) جس کی وجہ سے وہ ذاتی قیامت کے منظر کو دیکھنے لگے (تنظرون) اور اسی سے جیتے جی ان کی نفسانی موت واقع ہوئی، پھر خدا نے

۶۴

ان کا انبعاث کیا، تاکہ وہ عظیم روحانی نعمتوں کا شکر بجالائیں (۰۲: ۵۶) وہ طلبِ دیدار میں کامیاب ہوگئے، اسی لئے شکر واجب ہوا۔

دلیل نمبر ۱۴: قرآنِ حکیم کے تمام اسرار حجابات میں ہیں، خصوصاً وہ اسرار پردۂ اخفا میں ہیں، جو عارفین کی دنیوی زندگی کی روحانیّت میں دیدارِ الٰہی حاصل ہونے سے متعلق ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ حجاب کے پیچھے سے کلام کرتا ہے (۴۲: ۵۱) پھر قرآنی بھیدوں کے لئے الفاظ کے پردے کیوں نہ ہوں۔

دلیل نمبر۱۵: سلسلۂ دیدار کا ایک کلیدی لفظ “تَجَلّی” (۰۷: ۱۴۳) ہے، جس کے معنی ہیں: ظاہر ہُوا، روشن ہُوا (۹۲: ۰۲) یعنی ربّ العزّت ظہور فرما اور جلوہ فگن ہوا، اب یہاں پوچھنا یہ ہے کہ اس  ظہور کے لئے درخواست کس نے کی تھی؟ کوہِ طور نے یا حضرتِ موسیٰؑ نے؟ معلوم ہے کہ یہ تجلّی موسیٰ کلیم اللہ کے لئے تھی، پس انہوں نے ربّ کو دیکھا، مگر نہیں دیکھ سکا جیسا کہ دیکھنے کا حق ہے۔

دلیل نمبر ۱۶: بڑی عجیب و غریب بات تو یہ ہے کہ پروردگار کا ایک علمی دیدار بھی ہے،کیونکہ علم روحانی اور نورانی صورت میں خدا کا نور ہے، اور نور کی گونا گون تجلیّات ہوا کرتی ہیں، جن سے علم کی بہشت معمور و پُرنور ہوجاتی ہے۔

دلیل نمبر ۱۷: آپ قرآنِ پاک کے ۱۸ مقامات پر “دَرَجات”

۶۵

کے مضمون کو خوب غور سے پڑھیں، ظاہر ہے کہ علم و عمل کی وجہ سے لوگوں کے مختلف درجے ہیں، مثال کے طور پر اَولیاء (۱۰: ۶۲) کا تصوّر کریں، ان کی روحانیّت کا کیا عالم ہوگا؟ یقیناً پروردگار نے اپنے دیدارِ پاک کے گنجِ مخفی سے ان کو نوازا ہوگا، اور وہ حضرات فنافی اللہ ہوکر مطمئن ہوچکے ہوں گے، اسی لئے ارشاد ہے کہ: یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں (۱۰: ۶۲) یہ بحث الگ ہے کہ اولیاء کون ہیں؟

دلیل نمبر ۱۸: صراطِ مستقیم اور خدا کی رسّی کا ایک ہی مطلب ہے، پس جو لوگ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رہتے ہیں (۰۳: ۱۰۳) وہ گویا خدا کو مضبوط پکڑتے ہیں (۰۳: ۱۰۱) پھر وہ اسی معنی میں راہِ راست کی منزلِ مقصود میں پہنچ جاتے ہیں، یعنی وہ خزینۂ دیدار میں داخل ہوجاتے ہیں، یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی لقا اور خوشنودی بہشتِ برین سے بہت بڑی ہے (۰۹: ۷۲) آپ پڑھیں، سوچیں اور پوچھیں کہ یہ بات کیوں ایسی ہے؟ آیا اس سے یوں نہیں لگتا کہ آپ کو بہشت سے بھی اوپر جانے کے لئے دعوت آئی ہے؟

 

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی۔ لنڈن۔

۲۸، ذوالحجّہ ۱۴۱۱ھ / ۱۱۔جولائی ۱۹۹۱ ء

۶۶

قرآنِ حکیم=خزینۂ خزائِن

 

۱۔ قرآنِ حکیم سرچشمۂ آفتابِ ہدایت ہے، نامۂ اسرارِ الٰہی، مرقومِ قلمِ قدرت، شفا خانۂ سماوی، چشمۂ ماءُ الحیات، رسنِ نورانی، بہشتِ علم و حکمت، بحرِ گوہر زا، معدنِ جواہر، کانِ سیم و زر، ذخیرۂ شہد و شکر، آسمانِ عقل و خرد، عکسِ لوحِ محفوظ، طورِ تجلّیات، معجزۂ درختِ طوبیٰ، شہرستانِ دین و دانش، برجِ انوارِ حقائق، منبعِ اسلام، آئینۂ دوجہان، ربّانی نعمتوں کا دستر خوان، اہلِ جہان کے لئے روحانی یونیورسٹی، دبستانِ انبیاء مدرسۂ اولیاء، منزلِ جبرائیلؑ، دربارِ دُرّبارِ خدا و رسولؐ، دریائے دُرّفشان، مجموعۂ معجزاتِ محمّدؐ، ہدایت نامۂ سماوی، نرد بانِ بامِ عرش، نسخۂ لاہوت، منظرِ ملکوت، غُرفۂ جنّت، راحتِ روح، فروغِ جان، قَرّۃُ العیوان، رحیقِ مختوم، جامع الامثال، تربیّۃُ الرّوح، اکسیرِ الٰہی، کنزالعرش،

۶۷

کتاب الکتب، اور خزینۂ خزائن ہے، اب ہم ان شاء اللہ ذیل میں قرآنِ حکیم کی اسی آخری مثال کے بارے میں کچھ عرض کریں گے۔

۲۔ یہ قرآنِ پاک مرتبۂ روح و روحانیّت اورنور و نورانیّت میں امام ہے، اور وہ امامِ برحقؑ اُسی مقام پر قرآن ہے، اسی معنیٰ میں قرآن علیؑ کے ساتھ ہے اور علیؑ قرآن کے ساتھ، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے، ترجمہ: سو میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے گرنے کے مقامات کی، اگر تمہیں علم ہو تو یہ ایک بڑی قسم ہے کہ بیشک وہ باکرامت قرآن ہے، جو ایک پوشیدہ کتاب (یعنی نورِ امامؑ) میں درج ہے کہ اس کو بجُزاُن کے جو پاک کئے گئے ہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا (۵۶: ۷۵ تا ۷۹)۔

مواقعِ نجوم کی وضاحت: مواقعِ نجوم سے انسانانِ کامل مراد ہیں، کیونکہ ان کی ذاتی قیامت میں نفوس و عقول کے ستارے ان میں گرجاتے ہیں، اور یہ بڑی قسم ہے کہ اسی طرح اللہ اپنے نمائندوں یعنی انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کی قسم کھاتا ہے، اگر خدا تعالیٰ کی یہ قسم ظاہری چیزوں کی مثال تک محدود ہوتی، تو اصل حکمت کو جاننے کے لئے علم کی جو شرط ہے وہ نہ ہوتی (لَوتعلمون ۵۶: ۷۶) یہاں یہ نکتہ جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی قسم کسی خاص راز کی طرف توجّہ دلانے کی غرض سے ہوتی ہے، اور اسی طرح بڑی قسم کسی عظیم راز کی نشاندہی کرتی ہے، پس قرآن جس بلندی پر کتابِ

۶۸

مکنون میں ہے، وہاں خزینۂ خزائن ہے، اور یہ سِرُّ الاَسرار (بھیدوں کا بھید) ہے۔

۳۔ رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے یہ کُلّیہّ عطا فرمایا: لِکُلِّ شَیْ ءٍ بَابٌ= ہر چیز کا ایک دروازہ ہوا کرتا ہے۔ یہ حدیثِ شریف سورۂ انعام کے ایک ارشاد (۰۶: ۴۴) کے مطابق ہے، اس کائناتی اور آفاقی قانون کے مطابق قرآنِ پاک کا بھی کوئی دروازہ ہوگا، یقیناً اس کا دروازہ ہے، اور وہ وہی مبارک ہستی ہے، جس کو آنحضرتؐ نے اپنے علم و حکمت کا باب (دروازہ) قرار دیا، مختصر یہ کہ پیغمبرِ اکرمؐ قرآنی علم کا شہر اور اس کی حکمت کا گھر ہیں، اور علیؑ اس کا دروازہ۔ اور یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ہدایت کا یہ نظام کبھی ہو اور کبھی نہ ہو، پس ظاہر ہوا کہ وہی دروازہ اب بھی موجود ہے، جو زمانۂ نبوّت میں تھا۔

۴۔ کسی مادّی گھر کا دروازہ کبھی دربان نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی کبھی ظاہری خزانے کا گیٹ پاسبان یا خزانچی کہلاتا ہے، لیکن اس کے برعکس جہاں کسی خزانے کا زندہ اور عاقل دروازہ ہو، وہی خود خزانہ دار بھی ہوسکتا ہے، چنانچہ کسی شک کے بغیر حضرتِ علی علیہ السّلام قرآنی علم و حکمت کا دروازہ اور خازن ہے، اور یہی مرتبہ ہر زمانے کے امامؑ کا ہوتا ہے۔

۵۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ ہر آیۂ قرآن کا ایک ظاہر اور

۶۹

ایک باطن ہے، سو آئیے آج ہم آپ کو ایک بڑی خاص اور بہت ہی مفید بات بتاتے ہیں، وہ اس آیۂ مقدّسہ کی تاویلی حکمت ہے: قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ   (۱۲: ۵۵) یوسفؑ نے کہا کہ مجھے (عالمِ شخصی کی) زمین کے خزانوں کا خزانہ دار مقرر کردو کیونکہ میں امانتدار اور واقف کار ہوں۔ اس قصّہ میں بادشاہ سے امامِ مستقر مراد ہے، جو حضرتِ اسماعیل ذبیح اللہ کی نسل کے امامانِ مستقر میں سے تھا، چنانچہ حضرتِ یوسف امامِ مستودع نے اسی سے یہ درخواست کی تھی، الغرض خزائنِ علم و حکمت امامؑ ہی کے سپرد ہوتے ہیں، اس کی پُرحکمت مثال قصّۂ یوسفؑ میں ہے، کہ ذخیرۂ غلّہ کی تاویل خزانۂ علم ہے، جس کا خزانچی امامؑ ہوتا ہے۔

۶۔ ہر آدمی کے دل میں بحدِّ قوّت ایک انتہائی عظیم خزانہ پوشیدہ ہے، مگر اس کا دروازہ مُقَفّل ہے (۴۷: ۲۴) جس کی کلید اللہ، رسولؐ، اور صاحبِ امرؑ کی اطاعت سے وابستہ ہوا کرتی ہے، جیسا کہ سورۂ زُمر (۳۹: ۶۳) اور سورۂ شورٰی (۴۲: ۱۲) میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان و زمین کی کوئی چیز قانونِ خزائن (۱۵: ۲۱) سے باہر نہیں، یعنی ہر چیز کا ایک خزانہ، دروازہ، قَفل اور کنجی ہوا کرتی ہے، چنانچہ جب اطاعت و محبّت کی کلید سے تالا کھول کر دروازۂ دل کو مفتوح کیا جائے، تو ان شاء اللہ خازنِ قرآن کا نور ایسے

۷۰

قلب میں طلوع ہوجائے گا، پھر قرآنِ کریم کے روحانی اور عقلانی معجزات کا تجدّد ہوگا۔

۷۔ سورۂ کھف (۱۸: ۷۷، ۱۸: ۸۲) میں دیکھیں: اتنے میں ان کو وہاں ایک دیوار ملی جو گرا ہی چاہتی تھی تو اس بزرگ نے اس کو سیدھا کردیا … یہ دیوار دو یتیم لڑکوں کی تھی جو اس شہر میں ہیں اور اس دیوار کے نیچے ان کا ایک خزانہ ہے، اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ جاننا چاہیئے کہ “یتیم” امامِ عالیمقامؑ کے ناموں میں سے ہے، کیونکہ یتیم: فرد یعنی منفرد کو کہتے ہیں، اور یہ صفت حضرتِ امام علیہ السّلام کی ہے، کہ وہ یگانۂ روزگار ہے، پس دو یتیم لڑکوں کی تاویل یہ ہے کہ عالمِ شخصی کے ابتدائی مراحل میں جب کہ معجزۂ عزرائیل سے فنائے اوّل واقع ہوتی ہے، اس وقت امامِ اقدس و اطہر کا نور اپنی لاتعداد شعاعوں سے طرح طرح کی مثالوں میں کام کرتا رہتا ہے، ان میں دو نورانی بچّوں کی گفتگو نمایان ہے، جو امام مستقر اور امامِ مستودع کی مثال ہیں، اس دوران بوجہِ فنا دیوارِ شخصیّت کے نیچے سے گنجِ اسرارِ روحانیّت ظاہر ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے، لہٰذا قبضِ روح کا مظاہرہ (DEMONSTRATION) بند کردیا جاتا ہے، تاکہ فنائے دوم تک مومن سالک علم و عمل میں بالغ ہوجائے اور اپنے گنجِ گرانمایہ کو حاصل کرے، اور فنائے دوم مرتبۂ عقل پر ہے۔

۷۱

۸۔ سورۂ ماعون (۱۰۷) کو خوب غور سے پڑھ لیں، شروع کی دو پاک آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: کیا تم نے اُس شخص کو دیکھا ہے جو روزِ جزا کو جھٹلاتا ہے، سو یہ وہی شخص ہے جو یتیم کو دھکّے دیتا ہے، اور مسکین کے طعام کی ترغیب نہیں دیتا (۱۰۷: ۱ تا ۳) جیسا کہ اوپر ذکر ہوا یتیم امام علیہ السّلام کا نام ہے، اس کو خداوند تعالیٰ اور رسول صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے اس لئے مقرّر فرمایا ہے کہ وہ اپنے نورِ پاک کے توسّط سے عالمِ شخصی میں آکر لوگوں کو علم دیا کرے، لیکن جو شخص امامِ عالیمقامؑ سے دشمنی کرتا ہے، وہ گویا ایسے امامؑ کو جو خزائنِ علم و حکمت کے ساتھ گھر آیا ہو دھکّے دے کر نکال دیتا ہے، اس صورت میں علمِ قیامت کے نہ ہونے کی وجہ سے یومِ جزا کی تکذیب ہوجاتی ہے، اور ایسا شخص حُجّت کے علم کی بھی ترغیب نہیں دیتا ہے کہ مسکین حجّت ہے، جس کے علم سے تسکین ملتی ہے، اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ حضرتِ امامؑ کا نور عالمِ شخصی یا عالمِ دل میں طلوع ہو جاتا ہے۔

۹۔ ہمیں اس بات کو تا بدرجۂ یقین جاننا ضروری ہے کہ نور کو نار کیوں کہا گیا (۲۷: ۰۷ تا ۰۸) حالانکہ یہ نور ہے؟ اِس آگ یا نور میں کون ہے؟ اور اس کے گردا گرد کون ہیں؟ آیا یہ عقیدہ درست ہے کہ نور نہ صرف آفتابِ علم و ہدایت ہی کا نام ہے،

۷۲

بلکہ وہ آتشِ عشق و محبّت بھی ہے؟ کیا اسی آگ میں جلنا فنائے مطلق کا درجہ ہوسکتا ہے؟ یقیناً یہاں اسی عمل کی برکتوں کا ذکر ہے (۲۷: ۰۷ تا ۰۸)۔

۱۰۔ بخدا ہم سب کو اللہ، رسولؐ، اور قرآن سے عشق ہے، مگر یہ عقیدے کی حدّ تک محدود ہے، کیونکہ ھنوز ہم نورِ قرآن (۰۵: ۱۵) کی آتشِ عشق میں نہیں جل رہے ہیں، حالانکہ خداوند تعالیٰ نے اس مقصد کے پیشِ نظر نور کو نار کہا ہے، ہم میں آتشِ عشق لگ جانے کی کوئی علامت نظر نہیں آتی، نہ کوئی درد، نہ رُوئے زرد، نہ کوئی بیقراری، نہ شب بیداری، نہ آنسوؤں کی برسات، نہ وقتِ سحر کی مناجات، اور نہ کثرتِ ذکرکا کوئی سلسلہ، اگر ہم حقیقی معنوں میں عبادت و اطاعت کرتے تو دل کا تالا خود بخود کُھل جاتا، اور ہم بذاتِ خود قرآن کی زندہ نورانیّت میں داخل ہوجاتے اور خزینۂ خزائنِ قرآن سے ہمیشہ جواہرِ اسرار کو حاصل کرتے رہتے۔

۱۱۔ قرآنِ کریم جہاں کتابِ مکنون میں ہے، وہاں اس کو چھو لینا غیر ممکن تو ہر گز نہیں، لیکن اس کی شرط روحانی اور عقلی پاکیزگی ہے، اس کی بہترین مثال زمانۂ نبوّت سے مل سکتی ہے کہ حضورِ اکرمؐ حقیقی مومنین کو علمِ سماوی کا پانی اور حکمتِ بہشتی کا صابون عطا کرکے پاک کردیتے تھے (۰۲: ۱۵۱، ۶۲: ۰۲) اور رسول اللہؐ کے بعد

۷۳

بھی عملِ پاکیزگی کا یہی سلسلہ أئمّۂ طاہرینؑ کے توسّط سے جاری ہے (۰۲: ۱۵۰) کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے، کہ اس کی وہ ساری دینی نعمتیں جو زمانۂ نبوّت میں درجۂ تمامیّت و کمالیّت پر پہنچ چکی تھیں، وہ سب کی سب بلاکم و کاست آئندہ مومنین کے لئے بھی جاری و باقی رہیں گی۔

۱۲۔ قرآنِ پاک علم و حکمت کے خزانوں کا خزانہ ہے، اس کا وجودِ باطن حضرتِ رسول صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم تھے، یعنی قرآن کی روح و روحانیّت نورِ نبوّت میں تھی، پھر وہ نور بحکمِ “نورٌعلیٰ نور” سلسلۂ نورِ امامت میں منتقل ہوگیا، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے اپنے نور کو عالمِ دل کا آفتاب بنادیا ہے۔

 

نصیرُالدّین نصیرؔ ہونزائی۔

لنڈن۔

۲۔ محرم الحرام ۱۴۱۲ھ

۱۴۔ جولائی ۱۹۹۱ء

۷۴

سورۂ عصر کی چند حکمتیں

 

بِسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم۔ ترجمہ: عصر کی قسم، بیشک انسان گھاٹے میں ہے، مگر جو لوگ ایمان لائے اور اچھّے کام کرتے رہے اور آپس میں حق (حقیقی علم) کی باتیں اور صبر کی وصیّت کرتے رہے (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۳)۔

حکمت نمبر۱: عصر کے ایک معنی ہیں: نمازِ دیگر، نمازِ وُسطیٰ (۰۲: ۲۳۸) اس سے اساس مراد ہے، یعنی حضرتِ علیٔ مرتضیٰ علیہ السّلام، ملاحظہ ہو: کتابِ وجہِ دین: گفتار یا کلام ۲۰۔

حکمت نمبر۲: عصر کے دوسرے معنی ہیں: زمانہ، جس سے زمانۂ باطن مراد ہے، کیونکہ لفظِ “عصر” میں نچوڑنے اور نچوڑ (ست عطر، لُبِّ لُباب، جوہر خلاصہ، حاصل، نتیجہ) جیسے معنی ہیں، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ہر دَور کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں،

۷۵

ایک کا تعلّق ظاہر سے اور دوسرے کا لگاؤ باطن سے ہوتا ہے، مثال کے طور پر کسی قوم کی ظاہری تاریخ اتنی منظّم اور کامل کبھی ہو ہی نہیں سکتی، جتنا کہ اس کا نامۂ اعمال نظم و ضبط کے ساتھ مکمل ہوتا ہے، اس مثال سے معلوم ہوا کہ زمانے کے روحانی پہلو کی بہت بڑی اہمیت ہے، جس کا تعلق صاحبِ تاویل سے ہے، یعنی صاحبِ عصر اساس ہے، اور اُمتّوں کے اعمال ناموں سے زمانۂ باطن کا ثبوت ملتا ہے (۴۵: ۲۸)۔

حکمت نمبر۳: آپ یقین کریں گے کہ پروردگارِ عالم کی ہر بات اپنے معنی میں کائنات و موجودات پر حاوی اور محیط ہوجاتی ہے، چنانچہ رحمتِ خداوندی اور قرآنی حکمت اس بات کی مقتضی ہے کہ یہاں اس دولتِ پائندہ کا بھی تذکرہ یا اشارہ ہو، جس کے حاصل نہ ہونے کی وجہ سے کوئی انسان خسارے میں ہوتا ہو، جی ہاں، اس کا اشارہ لفظِ “عصر” ہی میں ہے، جس کی کلیدی حکمت شروع ہی میں بتائی گئی، مزید برآن سلسلۂ سخن جاری ہے کہ ید اللہ (خدا کا ہاتھ) کائنات و موجودات کو عالمِ شخصی کی طرف نچوڑتا اور لپیٹتا ہے تاکہ عالمِ صغیر میں ایک بہشت اور اس میں بڑی سلطنت قائم ہوجائے، پس کسی آدمی کا سب سے بڑا گھاٹا اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی غفلت و جہالت کی وجہ سے ایسی عظیم سلطنت سے

۷۶

ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

حکمت نمبر۴: سورۂ یوسف (۱۲: ۴۷ تا ۴۹) کی مثال پیشِ نظر ہو: چنانچہ عالمِ دین میں ناطقوں کے سات بڑے ادوار ہیں، اور اماموں کے سات چھوٹے ادوار، پھر اس کے بعد دَورِ قائم ہے، جس میں علمِ روحانی کی خوب بارش ہوگی، اس میں لوگ پھلوں کو نچوڑیں گے (یعصرون ۱۲: ۴۹) یعنی تنزیل کی تاویل کریں گے، کیونکہ قرآنی پیش گوئی کے مطابق وہ تاویل کا زمانہ ہوگا (۰۷: ۵۳) پس یہ “عصر” یعنی نچوڑنے کی تشریح ہے۔

حکمت نمبر ۵: قانونِ فطرت ہمیشہ چیزوں کو نچوڑتا رہتا ہے، دیکھئے معدنیات زمین اور پہاڑ کے نچوڑ سے بنتی ہیں، نباتات جمادات کے نچوڑنے سے، حیوانات نباتات کا نچوڑ ہیں، انسان حیوانوں کا نچوڑ، اور انسانِ کامل عالمِ انسانیّت کا خلاصہ (نچوڑ) ہے، یہ “عصر” یعنی نچوڑنے کی ظاہری مثال ہے، جس سے انکار کرنا ممکن نہیں۔

حکمت نمبر ۶: اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت بڑی قدرت اور عظیم حکمت ہے کہ وہ جلّ شانہ آسمانوں اور زمین کو نچوڑ کر اور لپیٹ کر عالمِ شخصی بناتا ہے، اور اس میں سب کچھ موجود ہوتا ہے، کیونکہ خداوندِ دو جہان ایسے میں اپنے تمام خزائن (۱۵: ۲۱) کو بھی بے حد فیاضی سے اس میں رکھ دیتا ہے، چنانچہ اس کے خزانوں

۷۷

سے کوئی شیٔ باہر نہیں ہوسکتی ہے، آپ قرآنِ حکیم میں بار بار قانونِ خزائن اور قانونِ کُلّ کو بغور پڑھیں۔

حکمت نمبر ۷: ید اللہ (دستِ خدا) یقیناً کائنات و مخلوقات کو ہر وقت نچوڑ اور لپیٹ لیتا ہے، درحالے کہ عالمِ جسمانی اور عالمِ روحانی اپنی اپنی جگہ موجود ہیں، اس کا راز یہ ہے کہ خداوندِ جہان تمام چیزوں کی باطنی صورت کو عالمِ شخصی کے مرتبۂ روح پر اور پھر مرتبۂ عقل پر گھیر لیتا ہے۔

حکمت نمبر۸: مگر جو لوگ ایمان لائے جیسا کہ اللہ چاہتا ہے، یعنی خدا و رسولؐ اور نورِ مُنَزَّل (۶۴: ۰۸) پر ایمان لائے، اچھے کام کرتے رہے، آپس میں حق و حقیقت کی باتیں اور صبر کی وصیت کرتے رہے، تو وہ بہت بڑے فائدے میں ہیں، اور وہ عظیم فائدہ یہ ہے کہ ان کو بہشت کی بہت بڑی سلطنت (۷۶: ۲۰)ملے گی۔

حکمت نمبر۹: اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ہمیشہ سے بمقتضائے حکمت خیر و شرّ دونوں کو پیدا کیا ہے، خیر کا وسیلہ ھادیٔ برحق ہے، اور شرّ کا ذریعہ مُضِل یعنی شیطان، مگر یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ مُضِل کے پاس بہت بڑا لشکر ہو، اور ھادی کے پاس قلیل فوج بھی نہ ہو، بلکہ ہمیں یوں سمجھ لینا چاہیئے کہ خیر و شرّ کی اس جنگ میں دونوں طرف برابر برابر ضروری سامان دیئے گئے ہیں، چنانچہ اگر مُضِل (شیطان) کے لئے یہ کام بہت آسان ہے کہ وہ آدمیوں

۷۸

کے دلوں میں نہ صرف وسوسہ ہی ڈال سکتا ہے (۱۱۴ :۰۵) بلکہ وہ ان سے مکمل طور پر گفتگو بھی کرسکتا ہے (۱۷: ۶۴، ۵۹: ۱۶) تو پھر یہ امر کیونکر ناممکن ہوکہ ھادیٔ زمانؑ اپنے نورِ پاک سے مومنین کے باطن میں جلوہ فگن ہوجائے (۰۶: ۱۲۲) اور انہیں علم وہدایت کی دولت سے نوازے۔

حکمت نمبر ۱۰: حقیقی مومنین جس طرح آپس میں حق کی باتیں اور صبر کی وصیّت کرتے رہتے ہیں، اس سے برابری اور وحدت کا تصوّر ملتا ہے، اور یہ اس مجموعی صورت کا تذکرہ ہے، جس میں اہلِ ایمان بشر بھی ہیں، لشکرِ ارواح (ذرّاتِ روحانی) بھی ہیں، اور فرشتے بھی، یعنی اہلِ ایمان زمین پر آدمی ہیں، عالمِ ذرّ میں آسمانی لشکر، اور عالمِ عقل میں ملائک ہیں۔

حکمت نمبر ۱۱: جن لوگوں نے (قول و فعل اور علم و معرفت کے ساتھ) کہا کہ ہمارا ربّ اللہ ہے پھر انھوں نے “استقامہ” کیا (یعنی اختیاری قیامت طلب کی) تو ان پر فرشتے اترتے ہیں … ہم تمہارے دوست ہیں دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی (۴۱: ۳۰ تا ۳۱) ظاہر ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں مومنین ایک دوسرے کے دوست ہوا کرتے ہیں، پس وہ دوست فرشتے مومنین میں سے ہیں۔

حکمت نمبر۱۲: اِس پُرحکمت سورہ میں آٹھ عنوانات ہیں:

۷۹

عصر، انسان، خسارہ، ایمان ، عملِ صالح، وصیّت، حق اور صبر، پس عصر میں بڑے مقدّس معنی پوشیدہ ہیں، اسی لئے خدا اس کی قسم کھاتا ہے، اگر انسان روحانی سلطنت کو حاصل نہیں کرسکتا ہے، تو وہ بہت بڑے خسارے میں ہے، یہاں جِس ایمان کا ذکر ہے وہ درجۂ کمال کا ایمان ہے، اور اسی طرح نیک عمل بھی، یہ وصیّت حق الیقین سے متعلّق ہے، اور صبر ذاتی قیامت کی سختیوں کے بارے میں ہے۔اللّھمّ صَلِّ علیٰ محمّد وّآلِ محمّد۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی۔ لنڈن۔

۶۔ محرم الحرام ۱۴۱۲ھ / ۱۸جولائی ۱۹۹۱ء

۸۰

لفظِ “تاویل” کی تحلیل

 

۱۔ قرآنِ کریم میں لفطِ “تاویل” ۱۷ سترہ دفعہ مذکور ہے، ہر اُس آیۂ مقدّسہ سے، جِس میں تاویل کا ذکر فرمایا گیا ہے، تصوّر تاویل پر حکیمانہ روشنی پڑتی ہے، تاہم اصولِ تاویل کی بنیادی حقیقتیں سُورۂ یوسف سے معلوم ہوسکتی ہیں، کیونکہ خداوندِ تعالیٰ نے وہاں تاویل کو ایک جیتی جاگتی حقیقت کی صورت میں پیش کیا ہے۔

۲۔ التّاؤیلُ اوّل سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں: اصل کی طرف رجوع ہونا، کسی مثال کو ممثول (حقیقت) کی طرف لوٹانا، معنی کو اصل اور باطن کی طرف پھیر دینا، وغیرہ، لفظ تاویل صیغۂ مصدر ہے، اور اسی کے مادّہ (۱۔و۔ل=اوّل) سے ایک لفظ مُؤَوِّلْ ہے، یعنی تاویل کرنے والا، جیسا کہ مولاعلیؑ نے فرمایا: انا مُؤَوِّلُ التّاؤیل=میں ہی تاویل کرنے والا ہوں۔

۸۱

مثال: اَوَّلَ اللّٰہُ علیک ضَآلَّتُکَ= خدا تیری کھوئی ہوئی چیز کو تیری طرف لوٹادے۔ پس تَاؤِیلٌ کسی بات کو اس کی اصل کی طرف پھیرنے کو کہتے ہیں، جیسے ارشادِ قرآنی ہے: وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ   وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ (۰۳: ۰۷) حالانکہ اس کی تاویل (یعنی باطنی معنی) خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا یا وہ لوگ جو علم میں دستگاہِ کامل رکھتے ہیں۔

۳۔ قرآنِ پاک میں ہے: وَكَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ  (۱۲: ۰۶) اور اسی طرح (نورانی خواب و روحانیّت سے) پروردگار تمہیں برگزیدہ کرے گا اور تمام باتوں کی تاویل (روحانی اصلیّت) سکھائے گا۔ یعنی حضرت یعقوبؑ نے اپنے فرزند حضرتِ یوسفؑ سے کہا کہ یہ جو تم نے خواب دیکھا ہے وہ عام نہیں، بلکہ بہت ہی خاص ہے، کیونکہ نورانی خواب اور روحانیّت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، جس کے ذریعے سے حضرتِ ربّ العزّت تمہیں علمِ تاویل سکھانا چاہتا ہے۔

۴۔ فرمایا گیا ہے:وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ۡ وَلِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ  (۱۲: ۲۱) اور اس طرح ہم نے یوسفؑ کو زمین (عالمِ شخصی) میں جگہ دی اور غرض یہ تھی کہ ہم ان کو تاویل سکھائیں۔ یعنی ان کو زمینِ روحانیّت خصوصاً ارضِ نفسِ کُلّی میں جگہ دی گئی، اور اسی کی بدولت علمِ تاویل (علمِ لدنّی) ملا، ورنہ مصر میں جگہ

۸۲

دینے سے تاویل کی کیا نسبت ہوسکتی تھی، یاد رہے کہ عقلِ کلّ آسمان ہے، اور نفسِ کُلّ زمین، یہ دونوں مل کر بھی ہیں، اور الگ الگ بھی (۲۱: ۳۰)۔

۵۔ سورۂ یوسف ہی میں حکایتاً ارشاد ہے: قَالُوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ  ۚ وَمَا نَحْنُ بِتَاْوِيْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِيْنَ (۱۲: ۴۴) انھوں نے کہا یہ تو پریشان سے خواب ہیں اور ہمیں ایسے خوابوں کی تاویل نہیں آتی (جو بکھرے ہوئے ہیں) مطلب یہ ہے کہ اگر خواب ان کے بقول مربوط ہوتا تو وہ اس کی تاویل کرتے۔

۶۔ حضرت یوسف علیہ السّلام کے ساتھ جو دو جوان قید خانہ میں داخل ہوئے تھے، انہوں نے گزارش کی کہ: ہمیں ان خوابوں کی تاویل بتا دیجئے کہ ہم آپ کو نیکو کاروں میں سے دیکھتے ہیں (۱۲: ۳۶) یوسفؑ نے کہا کہ: تمہارا کوئی کھانا جو تم کو ملنے والا ہے ایسا نہیں جس کی تاویل میں تم کو پیشگی طور پر نہ بتا سکوں، یہ ان باتوں میں سے ہیں جو میرے پروردگار نے مجھے سکھائی ہیں (۱۲: ۳۷) یہاں پر تاویل سے متعلق ایک بہت ہی عظیم راز منکشف ہوجاتا ہے، وہ یہ ہے کہ حضرتِ یوسفؑ اپنی روحانیّت و نورانیّت کی روشنی میں نہ صرف گذشتہ باتوں کی تاویل کرسکتے تھے، بلکہ اس روحانی رزق (یعنی علم) کی پیشگوئی کرنے کی بصیرت بھی رکھتے تھے، جو مومنین کو ملنے والا ہے، کیونکہ پیش گوئی بھی تاویل ہی ہوتی ہے، جب کہ

۸۳

کسی بات کو روحانی مشاہدات و تجربات کی طرف لوٹا کر کہنا پڑتا ہے کہ آگے چل کر ایسا ہوگا، یا اب ہورہا ہے۔

۷۔ تمام دینی امور کی تصدیق صاحبِ تاویل کے علم سے ہوتی ہے، اس معنےٰ میں حضرتِ یوسفؑ کو صِدّیق کہا گیا ہے (۱۲: ۴۶) اور قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں صِدق سے متعلّق الفاظ آئے ہیں، جیسے صادقین، صِدّیقین وغیرہ، ان میں تاویل کا ذکر فرمایا گیا ہے، جیسا کہ سُورۂ توبہ میں ارشاد ہے: اے ایمان والو! خدا سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ (۰۹: ۱۱۹) اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اہلِ ایمان سب کے سب عام طور پر سچ نہ بولا کرتے تھے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ أئمّۂ طاہرینؑ کے ساتھ ہوجائیں، تاکہ تاویلی حکمت کی دولت سے مالا مال ہوجائیں۔

۸۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ تاویل گزشتہ اور آئندہ تمام حالات پر محیط ہوتی ہے، چنانچہ حضرتِ یوسف نے کہا: ۚ وَقَالَ يٰٓاَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ  (۱۲: ۱۰۰) اور یوسف نے کہا ابّا جان یہ میرے اس خواب کی تاویل ہے جو میں نے پہلے (بچپن میں) دیکھا تھا، یعنی تاویل کا زاویۂ نگاہ بدل جاتا ہے، کہ کبھی تاویلی پیش گوئی کے لئے مستقبل کو دیکھنا پڑتا ہے، اور کبھی اصل اشارہ کے لئے ماضی کی طرف جانا ضروری ہوتا ہے، حضرتِ یوسفؑ نے شکر گزاری اور دعا و ثنا کے طور پر کہا: اے میرے پروردگار تو نے مجھ کو (روحانی)

۸۴

سلطنت سے بہرہ ور کیا ہے … (۱۲: ۱۰۱) یہاں پہلے روحانی بادشاہی کا ذکر ہے، پھر اس کے بعد تاویل کا، کیونکہ پہلے تو ارضِ نفسِ کُلّی کی بادشاہی عطا ہوجاتی ہے، پھر پانچ حدودِ عُلوی کی تائید سے علمِ تاویل کی روشنی آتی رہتی ہے۔

۹۔… ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا (۰۴: ۵۹) مومنو! خدا اور اس کے رسولؐ کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں ان کی بھی، اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسولؐ (اور صاحبانِ امر) کی طرف رجوع کرو، اگر خدا اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہت اچھّی بات ہے اور تاویل (یعنی رجوع اور باطنی حکمت) کے لحاظ سے بھی بہت عمدہ ہے (آیۂ اطاعت کی تشریح و تاویل کے لئے دیکھیں: مفتاح الحکمت، ص ۲۲۔۳۴ اور نقوشِ حکمت، ص ۵۱۔)

۱۰۔… وَاَوْفُوا الْكَيْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَــقِيْمِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا (۱۷: ۳۵) اور جب (کوئی) ناپ کر دینے لگو تو پیمانہ پورا کرو اور (جب تول کر دوتو) ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو، یہ بہت اچھی بات ہے اور تاویل کے لحاظ سے بہترین ہے، اَلکیل عقلِ کل ہے، اور القِسطاس نفسِ کُلّ، نیز الکیل مرتبۂ ناطق ہے، اور القسطاس مرتبۂ اساسِ۔

۱۱۔ ….هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِيْلَهٗ

۸۵

(۰۷: ۵۳) اور ہم نے ان کے پاس کتاب پہنچادی ہے… کیا یہ لوگ سوائے اس کی تاویل کے (اور کسی چیز کا) انتظار کرتے ہیں؟ جس دن اس کی تاویل آئے گی…۔

۱۲۔ بَلْ كَذَّبُوْا بِمَا لَمْ يُحِيْطُوْا بِعِلْمِهٖ وَلَمَّا يَاْتِهِمْ تَاْوِيْلُهٗ (۱۰: ۳۹) حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کے علم پر قابو نہیں پاسکے اس کو (نادانی سے) جھٹلادیا اور ابھی اس کی تاویل ان کے پاس نہیں آئی ہے، اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے بھی تکذیب کی تھی ( ۱۰: ۳۹)۔

 

نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی، امریکہ۔

۹ محرم الحرام ۱۴۱۲ھ

۲۱۔ جولائی ۱۹۹۱ء

 

سابقہ تاریخ: ۹۔ اکتوبر ۱۹۸۲ء

۸۶

حضرتِ موسیٰؑ کے ۹نو معجزات

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کو ۹نو کُھلے معجزے عطا کردیئے تھے (۱۷: ۱۰۱، ۲۷: ۱۲) وہ یہ ہیں: عصا، یدِبَیضا، قحط، طوفان، ٹڈی، چیچڑی، مینڈک، خون اور میووں کی کمی، یہ عظیم معجزات اگرچہ ظاہری اور حسّی قسم کے تھے، لیکن ان میں سے ہر معجزے کا ایک روحانی اور تاویلی پہلو بھی ہے، جس کا ہم ذیل میں (اِن شاء اللہ تعالیٰ) کچھ تذکرہ کریں گے:

۱۔ پروردگارِ عالم کی جانب سے کسی پیغمبر کا مُعجزہ اس معنیٰ میں ہوتا ہے کہ وہ منکرین کو عاجز کردیتا ہے، چنانچہ حضرتِ موسیٰؑ کا پہلا معجزہ عصا تھا (۰۲: ۶۰، ۰۷: ۱۱۷، ۰۷: ۱۶۰، ۲۶: ۶۳، ۲۸: ۳۱، ۲۷: ۱۰، ۰۷: ۱۰۷، ۲۶: ۳۲، ۲۶: ۴۵، ۲۰: ۱۸) اس لاٹھی کی تاویل اسمِ اعظم اور اس کا زندہ معجزہ ہے، یعنی نورانی ذکر اور یادِ الٰہی، جو سب سے اعلیٰ اور سب سے بزرگ ہونے
۸۷

کی وجہ سے کائناتی طاقت کا سرچشمہ ہے، یقیناً اسمِ اعظم ہی ہے، جس کی حیثیت میں نورِ نبوّت اور نورِ امامت اپنا سارا کام کرتا رہتا ہے، نیز لاٹھی کی دوسری تاویل مظاہرۂ عقل ہے، پس مقامِ روح پر اسمِ اعظم اور مقامِ عقل پر نورِ علم عصائے موسیٰؑ اور اژدھا کی طرح کام کرتا ہے، جس سے شرّ اور تضاد کی تمام قوّتیں نیست و نابود ہوجاتی ہیں۔

۲۔ یدِبَیضا کا معجزہ ہے نورِ اَبَیض کو ہاتھ میں لینا، کتابِ مکنون کو چُھونا اور یہاں قرآنِ کریم کا اشارہ یہ ہے کہ روحانی اور باطنی معجزات کا تعلّق صرف ناظرین ہی سے ہے (۰۷: ۱۰۸، ۲۶: ۳۳) یعنی ان کو صرف چشمِ بصیرت ہی سے دیکھا جاسکتا ہے۔

۳۔ قحط براہِ راست عذاب کے معجزوں میں سے تھا، جس کی تاویل یہ ہے کہ جو لوگ ہادیٔ برحق کے علم سے انکار کرتے ہیں وہ ہمیشہ کے لئے علمی قحط میں گرفتار رہتے ہیں، کیونکہ علم کا سرچشمہ صرف وہی ہوتا ہے۔

۴۔ طوفان انسانِ کامل کی ذاتی قیامت کا نام ہے، جس میں علم کی انتہائی شدید بارش اور روحوں کا عالمگیر طوفان برپا ہوجاتا ہے اس کے لئے کشتیءِ نجات یہ ہے کہ لوگ ہادیٔ زمان کو پہچانیں، تاکہ وہ غرقابی سے بچ جائیں، یہ عالمِ ذرّ کا واقعہ ہے۔

۵۔ ٹڈیاں (جَراد، واحد، جِرادہ ۰۷: ۱۳۳) یعنی ایسی بُری روحیں

۸۸

جو شکوک و شبہات اور متضاد خیالات کی صورت میں دینی اور اعتقادی فصل کو تباہ کردیتی ہیں، جس طرح جسمانی ٹڈیاں ظاہری فصل کو برباد کرتی ہے۔

۶۔ چیچڑیاں (قُمَّل واحد، قُمَّلَۃ ۰۷: ۱۳۳) یہ بھی عذاب کے معجزات میں سے ہے کہ بعض بُری روحیں چیچڑیوں کی طرح آدمی کے ظاہر و باطن میں چمٹ کر اذیّت دیتی ہیں، یہ آزمائش ہے کہ جسمِ لطیف کو مانتے ہو یا نہیں؟

۷۔ مینڈک (ضفادِع، واحد، ضِفدِع ۰۷: ۱۳۳) ایسی روحوں کا شور و غُل، جس کی وجہ سے اعلیٰ روحوں اور فرشتوں کی آوازیں سُنائی نہیں دیتی ہیں، پھر بھی یہ معجزہ حیران کُن ہے۔

۸۔ دَمّ (خون، جمع، دِماء ۰۷: ۱۳۳) پانی کا خون ہونا، یہ بھی ایک عقلی عذاب ہے، کہ کسی نادان شخص کی نظر میں حقیقی علم مشکوک اور بُرا لگتا ہے، اس کا مطلب ہے، کہ پاک پانی اس آدمی کے لئے خون ہوگیا، اب اس کی پیاس بجھانے کے لئے دوسرا پانی نہیں ملے گا، پس یہ بھی ایک باطنی عذاب تھا کہ فرعون اور اس کی قوم کو حضرتِ موسیٰؑ اور حضرتِ ہارونؑ کا آبِ علم خون جیسا ناگوار لگ رہا تھا۔

۹۔ پھلوں کی کمی (ثمرات، واحد،ثمر ۰۷: ۱۳۰) اگر کوئی شخص دینی طور پر عاقل و دانا اور ذہین ہے، تو اس کے پاس فکری نتائج کے میووں کی فراوانی ہے، اور جس کو نورِ ہدایت سے دشمنی ہو، اس کے

۸۹

ہاں کوئی ایسا علمی پھل نہیں، پس خدا کی طرف سے یہ بھی ایک سزا ہے۔

۱۰۔ آیاتِ تِسعہ (۹نو معجزات) کی تاویلی حکمت بے حد ضروری ہے، اس میں کلیدی حکمتیں موجود ہیں، اور یہاں سے آپ کو بڑا تعجّب ہوگا کہ بعض معجزات باعثِ عذاب اور بعض باعثِ ثواب ہوا کرتے ہیں، اور یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ در و دیوار کے اندر رحمت ہے اور باہر عذاب (۵۷: ۱۳) یا اللہ جیسا کہ تونے فرمایا ہے (۳۳: ۴۳) محمّدؐ و آلِ محمّدؑ کے وسیلے سے مومنین پر ایسا درود بھیج کہ اس میں حقیقی علم کی روشنی ہو! آمین!!

 

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی، امریکہ۔

۱۱محرم الحرام ۱۴۱۲ھ

۲۳۔ جولائی ۱۹۹۱ء

سابقہ تاریخ: ۲۲۔ جولائی ۱۹۸۲ء

۹۰

سورۂ عادیات کی چند حکمتیں

 

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم۔ ترجمہ:(غازیوں کے)سرپٹ دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم جو نتھنوں سے فراٹے نکالتے ہیں (۱) پھر پتھر پر ٹاپ مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں (۲) پھر صبح کے وقت تاخت و تاراج کرتے ہیں (۳) پھر اس وقت غبار اڑاتے ہیں (۴) پھر اس وقت (دشمنوں کی) جماعت میں جا گھستے ہیں (۵) بیشک انسان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے (۶)اور وہ خود بھی اس حالت پرگواہ ہے (۷) اور وہ (دُنیوی) راحت کی محبّت میں بڑا مضبوط ہے (۸) تو کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ جب مُردے قبروں سے اٹھائے جائیں گے (۹) اور حاصل کیا جائے گا جو کچھ دلوں میں ہے (۱۰) بے شک اس دن ان کا پروردگار ان سے پورا آگاہ ہے (یعنی انہیں آگاہ کردے گا) (۱۱) (۱۰۰: ۰۱ تا ۱۱)

۹۱

حکمت نمبر۱: ظاہری جہاد کا گھوڑا ایک حیوان ہے لیکن باطنی جہاد کا گھوڑا اوّل ذکرِ الٰہی ہوا کرتا ہے، اور دوسرا علم، جو دونوں مختلف سطحوں پر بلند ہوجاتے ہیں، اور جب ذکر اور علم خود بخود بولنے لگتا ہے، تو وہ داعی کہلاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کتابِ وجہِ دین میں گھوڑے کی تاویل داعی ہے، جو عالمِ شخصی میں پوشیدہ ہے، چونکہ اذکار میں سب سے مؤثّر اور کامیاب ذکرِ سریع ہی ہے، لہٰذا خداوندِ دانا و بینا اسی کی قسم کھاتا ہے، گھوڑے کی نتھنوں سے فراٹے نکالنے کی تاویل ہے، ذکر کی سُرعت و سختی سے نفس پر دباؤ ڈالنا، نیز اپنے ذکر کی آواز میں مستغرق ہوجانا۔

حکمت نمبر۲: پتّھر پر ٹاپ مار کر چنگاریاں نکالنا، یعنی تحلیلِ نفسی کی چنگاریاں، جو ذکرِ سریع کے نتیجے میں پیدا ہوجاتی ہیں، یہ مقامِ روح کی تاویل ہے، اور مرتبۂ عقل کی حکمت اس سے بڑھ کر ہے، کیونکہ وہاں سنگِ عقل پر ٹاپ مارنے سے جواہرِ اسرار بکھر جاتے ہیں۔

حکمت نمبر۳: صبح کے وقت تاخت و تاراج کرنے کا پُرحکمت اشارہ یہ ہے کہ صبح کی کارِ بزرگی اور خصوصی بندگی روحانی جہاد کا درجہ رکھتی ہے، جس سے باطنی مالِ غنیمت کا بڑا ذخیرہ ہاتھ آتا ہے (۴۸: ۲۰)

۹۲

حکمت نمبر۴: غبار اُڑانا، یاد رہے کہ روحانی جہاد اور صورِ اسرافیل کی طوفانی طاقت سے جس طرح خلائقِ عالم کی تمام روحیں عالمِ ذرّ میں جمع کی جاتی ہیں، وہ حسبِ وعدۂ الٰہی مغانمِ کثیرہ (بہت سی غنیمتیں ۴۸: ۲۰) ہیں، اور عملِ عزرائیل سے روح کو قبض کرنا گویا غبار اڑانا ہے۔

حکمت نمبر ۵: یہ تو صرف روحانی فتح تھی، اب عقلی فتح کے لئے ایک اور جنگ لڑی جاتی ہے، جسِ کے واسطے اعلیٰ اور کثیر علم کی ضرورت ہے، تاکہ علمی لشکر دشمن کی جماعت میں جا گھسے، اور غالب و فاتح ہوجائے۔

حکمت نمبر۶: انسان اپنے ربّ کا بڑا نا شکرا ہے، کیونکہ وہ مذکورۂ بالا تمام نعمتوں اور عظیم روحانی سلطنت کے حصول کی خاطر سعیٔ بلیغ نہیں کرتا ہے، نہ وہ ذکر و بندگی اور علم و حکمت کے لئے محنت کرتا ہے، جیسا کہ اس کا حق ہے۔

حکمت نمبر۷: انسان کئی معنوں میں اپنے کُفرانِ نعمت (نعمت کی ناشکری) کو جانتا ہے، کیونکہ وہ خود اپنی روحانی پس ماندگی کو دیکھ رہا ہے، اور دین کی روشن ہدایات و تعلیمات اس کے سامنے ہیں۔

حکمت نمبر۸: حالانکہ وہ دنیا کی راحت کو بیحد چاہتا ہے، یعنی وہ ایسا بے حس نہیں کہ روحانیّت اور آخرت کی نعمتوں

۹۳

کے بارے میں کچھ بھی نہ سمجھے، وہ سمجھتا ہے، مگر اس کے پاس بے عملی کے حیلے بہانے بہت ہیں۔

حکمت نمبر۹: کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ روح جب تک بدن میں ہے، تب تک وہ گویا قبر میں ہے، لہٰذا اسے یہاں سے اٹھانا اور بلند کردینا ہے۔

حکمت نمبر۱۰: اسی طرح جب کسی مومن کی انفرادی قیامت برپا ہوگی، تو اس وقت حدودِ دین (صُدور=قلوب) سے اسرارِ معرفت حاصل کئے جائیں گے۔

حکمت نمبر۱۱: بے شک ربِّ کریم ہر مومنِ سالک کی ذاتی قیامت میں اس پر عظیم بھیدوں کا دروازہ کھول دیتا ہے، تاکہ اسے کامل معرفت حاصل ہو۔

 

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی، امریکہ۔

۲۵۔ جولائی ۱۹۹۱ء ۱۴ محرم الحرام ۱۴۱۲ھ

۹۴

سُورۂ قارعہ کی چند حکمتیں

 

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم۔ ترجمہ: کھڑکھڑانے والی (۱) وہ کھڑکھڑانے والی کیا ہے (۲) اور تم کو کیا معلوم کہ وہ کھڑ کھڑانے والی کیا ہے (۳) جس دن لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے (۴) اور پہاڑ دُھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح ہوجائیں گے (۵) پھر جس شخص (کے علم و عمل) کا پلّہ بھاری ہوگا (۶) وہ دل پسند عیش میں ہوگا (۷) اور جس شخص کا پلّہ ہلکا ہوگا (۸) تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا (۹) اور تم کو کیا معلوم کہ ہاویہ کیا ہے (۱۰) (وہ) دہکتی ہوئی آگ ہے (۱۱) (۱۰۱: ۰۱ تا ۱۱)

حکمت نمبر ۱: القارعہ، کھڑکھڑانے والی، یعنی روحانیّت اور ذاتی قیامت کی صدا، کانوں کو کھٹکھٹانا، خانۂ وجود کے دروازے پر بیرونی روحوں کی دستک وغیرہ، کیونکہ قیامت کی

۹۵

بے شمار مثالیں ہیں، اور ان میں سے ایک یہ کہ دروازۂ دل کھولنے کے لئے زبردستی سے کھڑکھڑایا جاتا ہے۔

حکمت نمبر ۲: اس عجیب و غریب واقعہ کی طرف بھرپور توجّہ دلانے کی غرض سے سوال فرمایا گیا ہے، اور خدا کے سوال میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔

حکمت نمبر ۳: یقیناً لوگ واقعاتِ قیامت سے غافل اور بے خوف ہیں، حالانکہ پوری زندگی میں اسی کی فکر اور عملی تیاری ہونی چاہئے۔

حکمت نمبر۴: جس دن لوگ ایسے ہوں گے، جیسے بکھرے ہوئے پروانے، یعنی ارواحِ خلائق ذرّاتِ لطیف میں منتشر ہوں گی، اور یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ روحانیّت و قیامت “عالمِ ذرّ” میں موجود ہے، جو جسمِ لطیف کے ذرّات کا عالَم ہے، اس آیۂ کریمہ میں پروانوں کی مثال کئی حکمتوں کی حامل ہے، اوّل یہ کہ جس طرح بعض کیڑوں مکوڑوں کا حشر پروانوں اور پتنگوں کی صورت میں ہوتا ہے، اسی طرح کامل انسانوں کی قیامت مکمّل جسمِ لطیف میں ہوتی ہے، اور دوسرے انسانوں کو ذرّاتِ لطیف میں محشور کیا جاتا ہے، اس مثال کی دوسری حکمت یہ ہے کہ جہاں انسانِ کامل میں قیامت برپا ہوجاتی ہے، وہاں نورِ اسمِ اعظم کی طرف تمام روحیں آکر پروانوں کی طرح بکھر جاتی

۹۶

ہیں، جیسے پتنگے چراغ کے گرداگرد جمع ہوجاتے ہیں۔

حکمت نمبر۵:جب تک روحانیّت و قیامت کا عالم نہ ہو، تب تک ہر آدمی کی روح پہاڑ کی طرح منجمد رہتی ہے، مگرقیامت کے برپا ہوجانے سے کوہِ روح کا جمود کلّی طور پر ٹوٹ جاتا ہے، اور جبلِ روح نہ صرف ریزہ ریزہ ہوکر لاتعداد لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے، بلکہ اس میں دلاویز لطافت و رنگینی بھی پیدا ہوجاتی ہے، اور یہ مطلب صبغۃ اللّٰہ (۰۲: ۱۳۸) سے الگ نہیں ہے۔

حکمت نمبر ۶: قیامت کے دن ایسے نیک اعمال میں بڑا وزن ہوگا، جو عقل و دانش اور علم و حکمت کے ساتھ کئے گئے ہوں، کیوں کہ خیرِ کثیر حکمت سے وابستہ ہے (۰۲: ۲۶۹) اور دوسری طرف یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کے پاس آج دینی عقل نہ ہو، وہ کل دوزخ میں افسوس کرنے والے ہیں (۶۷: ۱۰)

حکمت نمبر۷:جس شخص کے علم و عمل کا پلّہ بھاری ہو، وہ دلپسند عیش میں ہوگا، یہ بہشت کی سلطنت کی طرف اشارہ ہے، جس کا تذکرہ سورۂ دھر (۷۶: ۲۰) میں ہے، “عِیشۃٍ رّاضیہ” میں چوٹی کی نعمتوں کا ذکر ہے، جس سے جنّت کی بادشاہی مراد ہے۔

حکمت نمبر۸: جس شخص کا پلّہ جاہلانہ اعمال کی وجہ سے ہلکا ہوگا، وہ زیانکار اور نامراد ہوجائے گا۔

حکمت نمبر۹: ایسے انسان کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا، ہاویہ کے

۹۷

معنی ہیں دوزخ، گرنے والی، یعنی نادان و جاہل، جو خود گرا ہوا ہے، اور دوسروں کو بھی گرا دیتا ہے۔

حکمت نمبر ۱۰: ھاویہ کو تم جانتے ہی نہیں ہو، وہ گرنے اور گرانے کی جگہ ہے۔

حکمت نمبر۱۱: وہ دہکتی ہوئی آگ ہے، یعنی نادان اور اس کی پھیلتی ہوئی عملی نادانی، جولوگوں کو تباہ کررہی ہے، کیونکہ جہالت آتشِ دوزخ ہے، جس میں بہت بڑا عقلی عذاب موجود ہے۔

 

نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی

شکاگو (امریکہ)

۳۱۔جولائی ۱۹۹۱ء

سابقہ تاریخ: ۱۲ستمبر ۱۹۸۲ء

۹۸

سُورۂ تکاثُر کی چند حکمتیں

 

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم۔ترجمہ: نسل و مال کی بہتات نے تم لوگوں کو غافل بنارکھا ہے (۱) یہاں تک کہ تم نے قبریں دیکھیں (۲) ایسا نہیں تمہیں عنقریب ہی معلوم ہوجائے گا (۳) پھر ایسا نہیں تمہیں عنقریب ہی معلوم ہوجائے گا (۴) ایسا نہیں اگر تم علم الیقین جانتے (۵) تو تم لوگ ضرور دوزخ کو دیکھ لیتے (۶) پھر تم اس کو عین الیقین (یقین کی آنکھ) سے دیکھ لوگے (۷) پھر اس روز تم سب سے نعمتوں کے بارے میں ضرور باز پُرس کی جائے گی (۸) (۱۰۲: ۰۱ تا ۰۸)

حکمت نمبر۱: یہ ایک بڑا حکیمانہ اشارہ ہے کہ خدا اور روزِ آخرت سے آدمی اکثر اس وجہ سے غافل رہتا ہے کہ وہ دُنیاوی اور مادّی ترقّی میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھ جانے کی خواہش رکھتا ہے، اسی طرح جب انسان کے دل میں دنیا کی حرص و ہوس

۹۹

کا غلبہ ہوتا ہے، تو اس میں اللہ تعالیٰ کی پاک یاد و محبّت کے لئے کوئی جگہ باقی ہی نہیں رہ سکتی۔

حکمت نمبر۲: اگر کسی شخص کی غفلت وقتی طور پر ہے، تو اور بات ہے کہ آدمی کو ہوش آنے کے بعد اصلاح ہوسکتی ہے، اور اگر یہ دائمی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کسی دینی کارنامہ کے بغیر قبر میں جائے گا، اور قبر دو قسم کی ہوا کرتی ہے، ایک مردہ قبر ہے، اور دوسری زندہ، چنانچہ ظاہری موت کے بعد جسم کو مردہ قبر میں دفنایا جاتا ہے، مگر روح زندہ قبر میں جاتی ہے، اور خوب غور سے دیکھ لیں کہ یہاں زندہ قبروں کے بارے میں اس طرح ارشاد ہوا ہے: “کہ تم نے قبریں دیکھ لیں۔” یعنی تمہاری غفلت کا یہ حال ہے کہ تم جہالت کی موت مرگئے، اور تم نے غیر شعوری طور پر اپنی زندہ قبروں کی زیارت بھی کرلی۔

حکمت نمبر۳: ایسا نہیں تمہیں عنقریب ہی معلوم ہوجائے گا، یعنی تمہارے نظریات اور معلومات درست نہیں، ان میں ایک بار اصلاح کی ضرورت ہے۔

حکمت نمبر۴: پھر ایسا نہیں تمہیں عنقریب ہی معلوم ہوجائے گا، یعنی تمہارے نظریات و معلومات میں آگے چل کر مزید درستی کی ضرورت ہوگی۔

حکمت نمبر ۵: ایسا نہیں اگر تم علم الیقین جانتے، یعنی یہی تو

۱۰۰

خرابی ہے کہ تم علم الیقین نہیں جانتے ہو، کیونکہ جہالت و نادانی اور شکوک و شبہات جیسے مذہبی امراض کا علاج علم الیقین ہی سے ہوجاتا ہے، جبکہ یقین معرفت کا نام ہے، اور علم الیقین ایسے علم کو کہتے ہیں، جس میں روایتی علم کے برعکس معرفت کے چشم دید اسرار کا بیان ہوتا ہے۔

حکمت نمبر ۶: دنیا میں کوئی ایسا علم نہیں، جس سے دوزخ اور بہشت کی ثانوی معرفت اسی زندگی میں حاصل ہوسکے، مگر علم الیقین ہی ہے، کہ وہی آنکھ کا کام دے کر دکھاتا ہے کہ جہالت و نادانی ہی آتشِ دوزخ ہے اور علم بہشت کی نعمت و راحت ہے، تاکہ ہوشمند مومنین اس شناخت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو علم سے خوب آراستہ کریں، اور جہالت سے بچ جائیں۔

حکمت نمبر ۷: جب بندۂ مومن علم الیقین کے مراحل سے گزرتا ہے، اور دوزخ و بہشت کو پہچان لیتا ہے، تو پھر لازمی طور پر وہ وقت بھی آجاتا ہے، جس میں وہ عین الیقین سے حجیم و جنّت کو دیکھ سکتا ہے، تاکہ اس کو یہ بشارت ہوکہ وہ دوزخ سے بچ کر بہشت میں داخل ہونے والا ہے۔

حکمت نمبر۸: جہاں علم الیقین کی روشنی میں دوزخ (جہالت) ظاہر ہے، وہاں یقیناً دوسری طرف بہشت یعنی خود علم بھی عیان

۱۰۱

ہے، اور جب عین الیقین کی منزل آتی ہے، تو اس وقت یہ حقیقت مثلِ خورشید روشن تر ہوجاتی ہے، ایسے حال میں دینی نعمتوں سے متعلق سوالات دنیا میں بھی ہوسکتے ہیں، اور آخرت میں بھی، مثال کے طور پر ایسا لگ رہا ہے، جیسے کوئی فرشتہ پوچھ رہا ہو کہ: تم نے اس کُلّی اور بنیادی نعمت سے کیا کیا کام لیا، جس کا ذکر الیوم اکملتُ (۰۵: ۰۳) میں ہوا ہے؟ جیسا کہ ارشاد ہے: آج (یعنی اس دور میں) میں نے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے دینِ اسلام (یعنی تدریجی ہدایت کی فرمانبرداری) کو پسند کیا۔ یہاں یہ نکتہ یاد رہے کہ الیوم سے وہ دَور مراد ہے، جس کا آغاز اعلانِ امامت سے ہوا، کیونکہ یوم دن کو بھی کہتے ہیں، اور دَور کو بھی، آپ تحقیق کرسکتے ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی۔ امریکہ۔

۶۔ اگست ۱۹۹۱ء

۱۰۲

تصوّرِ آفرینش۱ ۔ خط یا دائرہ؟

خطِ مستقیم:    ──    خطِ عمودی:   │ دائرہ: ○

 

اِس سِلسِلۂ موضوع میں سب سے پہلے عنوانِ بَالا بُنیادی سوال بن کر سامنے آرہا ہے کہ تصوّرِ آفرینش کی مثال کیا ہے؟ آیا یہ تصوّر خط یعنی لکیر کی طرح ہے یا دائرے کی طرح؟ خط اور دائرے کے درمیان جو کچھ فرق ہے وہ روشن ہے کہ خط کے دوسِرّے ہیں جو ابتداء اور انتہا کی نشاندہی کرتے ہیں، لیکن اس کے برعکس دائرے کا کوئی سِرا نہیں، جِس کا اشارہ ہے لا ابتدا و لاانتہا۔۲

اب اگر ہم مذکورۂ بالا سوال کے جواب میں یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مخصوص زمانے میں کارِ تخلیق کا آغاز ایک ایسے فعل کی حیثیت سے کیا جو پہلے کبھی اُس سےصادر نہیں ہُوا تھا، تو

۱؎: آفرینش (آف۔ری۔نش) پیدائش۔ مخلوق، دنیا

۲؎: لاابتدا و لاانتہا ۔ وہ چیز جو ہمیشہ ہو جسکی ابتدا و انتہا نہ ہو۔

۱۰۳

اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تصوّرِ آفرینش کی مثال خط ہے، اور خط کی کیفیت یہ ہے کہ وہ ابتدائی سِرّے سے پہلے اور انتہائی سرّے کے بعد معدوم۱ ہے، مگر یہ تصوّر قطعاً درست نہیں، کیونکہ اِس نظریہّ کے نتیجے میں ہزاروں ایسے سوالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ اُن میں سے کوئی ایک بھی حل نہیں ہوتا، مثال کے طور پر یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ ہم خدائے قادرِ مطلق کے لئے ایک ایسے وقت کا تعیّن کریں، جس میں وہ خالق کہلائے اور مخلوق کا نام و نشان تک موجود نہ ہو، ربِّ کریم ہو مگر کوئی مربوب نہ ملے، رحمان و رحیم جیسے اوصافِ خداوندی فعلاً نہیں صرف برائے نام ہوں، اور خدا کی ہر صفت پہلے حدِّ قوت میں ہو، پھر اس کے بعد  حدِّ فعل میں آئے، ایسی صفات سے اللہ تعالیٰ پاک و برتر ہے، جب کہ اس کی ذات و صفات دونوں قدیم ہیں، اس میں کوئی تغیّر نہیں آتا، اس کی جتنی صفات ہیں، وہ ہمیشہ ایک جیسی ہیں، اور اسی معنیٰ میں وہ حادث نہیں بلکہ قدیم ہے۔

اگر ہم نظریۂ تخلیق کی تشبیہہ دائرے سے دے کر یہ مانیں کہ خداوندِ عالم کی صفتِ خالقیت بالفعل ایسی قدیم ہے، جیسی اس کی ذات قدیم ہے، تو پھر سارے سوالات ختم ہوجاتے

۱؎: نیست و نابود کیا گیا۔

۱۰۴

ہیں، آئیے ہم اِس تصوّر کے حق ہونے کی شہادتیں قرآنِ پاک اور آفاق وانفس سے لیتے ہیں:

قرآنِ حکیم کے حکمتی مفہومات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر علم یا عمل کے چند طریقے ہمارے سامنے ہیں تو ہمیں ان میں سے بہترین کو اختیار کرلینا چاہئے، آپ اِس مفہوم کے لئے قرآنِ پاک میں لفظِ “احسن” کو دیکھ سکتے ہیں، خاص کر (۰۷: ۱۴۵) اور (۳۹: ۵۵) میں، مگر ترجموں میں فرق ہوگا، اِس لئے غور و فکر سے کام لینا ہوگا، بہر کیف تخلیق کا احسن تصوّر دائرے کی شکل میں ہے، کہ اس میں کوئی نقص نہیں، وہ عقل و منطق اور علم و حکمت کی تمام ترخوبیوں سے آراستہ ہے۔

اگر خداوندِ عالم کی خدائی، بادشاہی اور فعلِ تخلیق بصورتِ دائرہ کسی ابتداء و انتہا کے بغیر نہ ہوتی تو قرآنِ حکیم اور کائناتِ ظاہر میں دائرے ہی دائرے نظر نہ آتے، یعنی قانونِ فطرت کی ہر چیز گول نہ ہوتی، اس کی بجائے کسی اور شکل کی بہت بڑی اہمیّت ہوتی، مگر آپ دیکھتے ہیں کہ زمان و مکان کی تمام اشیاء اور ان کی حرکتیں گول ہیں، جیسے آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، پانی، ہوا وغیرہ، قرآنِ عزیز میں جس طرح دائروں کا قانون ملتا ہے، وہ مثال کے طور پر یوں ہے کہ رات اور دن میں سے ایک آگے اور ایک پیچھے نہیں، بلکہ

۱۰۵

یہ دونوں کُرّۂ ارض پر بیک وقت واقع ہیں، جو دو قوس (کمان) کی طرح ہیں کہ ایک دوسرے سے ملکر مکمل دائرہ بناتی ہیں، جیسے نقشۂ ذیل سے یہ حقیقت ظاہر ہے:

دو کمان                                      دائرہ

Ꝋ                        

(۰۳: ۲۷،  ۳۹: ۰۵،  ۲۳: ۸۰،  ۱۳: ۰۳،  ۳۶: ۴۰)

 

ارشاد فرمایا گیا ہے: تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور تو ہی دن کو رات میں داخل کرتا ہے، تو ہی بے جان سے جاندار پیدا کرتا ہے اور تو ہی جاندار سے بے جان پیدا کرتا ہے (۰۳: ۲۷) نیز سورۂ یٰسٓ (۳۶: ۴۰) میں یہ واضح مفہوم ہے کہ نہ تو رات دن سے آگے ہے اور نہ ہی دن رات سے، بلکہ ہر چیز ایک دائرے پر گردش کررہی ہے۔

دن رات اور حیات و ممات کے اِس کلّیہ سے یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ عالمِ امر اور عالمِ خلق (آخرت اور دنیا) میں سے کوئی ایک زمانی طور پر آگے اور ایک پیچھے نہیں، بلکہ وہ دائرۂ وجود پر ہمیشہ سے دن رات کی طرح ایک ساتھ واقع ہیں، اور یہ بات الگ ہے کہ عالمِ آخرت کو دنیا پر تقدُّمِ

۱۰۶

شَرَفی حاصل ہے، یعنی وہ شرف کے لحاظ سے آگے ہے، مگر وقت کے لحاظ سے نہیں، چنانچہ جب قانونِ فطرت کی بنیاد میں عالمِ امر اور عالمِ خلق روز و شب کی طرح ایک دوسرے سے پیدا ہوتے رہتے ہیں، اور سب سے عظیم دائرہ بناتے ہیں، تو پھر کون سی چیز دائرے کے بغیر باقی رہ سکتی ہے، سو یہ تصوّر ایک یقینی حقیقت ہے کہ کارِ تخلیق کی مثال دائرہ ہے، جس کی ابتداء و انتہا کا کوئی سِرا نہیں۔

فرمانِ الٰہی ہے: وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ  (۰۳: ۱۴۰) اور ہم ان ایّام (یعنی زمانے) کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہا کرتے ہیں۔ اس خدائی قانون میں نہ صرف بے پناہ زمانوں کو بلکہ عرصۂ وجود کے تمام لوگوں کو بھی گردشِ ایّام کے دائرے پر پیش کیا گیا ہے، اور اس میں یہ دُور رس مفہوم بھی رکھا ہوا ہے کہ سعادت و شقاوت بھی زمانہائے دراز کی گردش میں آتی جاتی رہتی ہے۔

قرآنِ حکیم میں لاانتہائی کے دائرے ہی دائرے ہونے کی ایک خاص صورت یہ ہے کہ کبھی تو چیزوں کا تذکرہ عالمِ جسمانیّت سے آغاز کرکے عالمِ روحانیّت میں پہنچ جاتا ہے اور پھر وہاں سے لوٹ کر اس دنیا میں آتا ہے، جیسے قصّۂ آدمؑ کہ وہ اس دنیا میں پیدا ہوا، پھر بہشت میں داخل کیا گیا، پھر

۱۰۷

وہاں سے دنیا میں بھیجا گیا، اسی طرح اس کا ایک چکّر تو مکمل ہوگیا، یعنی اِس سے دائرے کا ثبوت مل گیا، اور پھر کبھی کسی چیز کا ذکر عالمِ ارواح سے شروع ہوکر عالمِ اجسام میں آتا ہے اور یہاں سے واپس وہاں جاتا ہے، جہاں سے بات شروع ہوئی تھی، مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: موسیٰؑ نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے عالمِ امر کی ہر چیز کو عالمِ خلق میں ایک صورت دی، پھر اسے اصل مقام پر پہنچا دیا (۲۰: ۵۰ مفہوم)  مگر یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ صرف ایک ہی آیت میں دائرے کی بات آئے، بلکہ متعلّقہ موضوع کی ایک سے زیادہ آیتوں سے بھی یہی ثبوت ملتا ہے، جیسے (۱۷: ۸۵) میں ارشاد ہے کہ روح عالمِ امر سے آئی ہے، اور (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) میں اس کی مَراجِعت کا ذکر ملتا ہے، پس روح کا اِس دنیا میں آنا ایک قوس (کمان) ہے اور عالمِ بالا کی طرف لوٹ کر جانا دوسری قوس ہے اور دو قوس سے دائرہ بن جاتا ہے۔

حکمائے دین کا کہنا ہے کہ نیستی (Nothingness) ابداع کا دوسرا نام ہے، (بحوالۂ زادالمسافرین تصنیفِ حکیم ناصر خسرو) اور عدمِ محض جیسی کوئی چیز نہ کبھی پہلے تھی نہ اب ہے اور نہ ہی بعد میں کبھی ہوگی، یعنی خدا کی قدیم بادشاہی میں ایک طرف عالمِ امر ہے، جس میں “کلمۂ کُن” کی کارفرمائی ہوتی رہتی ہے، جو طریقۂ ابداع کہلاتا ہے اور دوسری طرف عالمِ خلق ہے،

۱۰۸

جس میں ہمیشہ سے خدا کی تخلیق جاری ہے، اس منطق سے یہ حقیقت صاف طور پر روشن ہوئی کہ خدا کی خدائی میں کبھی کوئی ایسا وقت نہیں گزرا ہے، جس میں کہ اس کی مخلوق موجود نہ ہو۔

حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: “یہودی تصوّرِ آفرینش اور اسلامی تصوّرِ آفرینش میں بنیادی فرق ہے، اسلامی تصوّر کے مطابق تخلیق ایک وقتِ معیّن میں کسی منفرد عمل سے عبارت نہیں بلکہ وہ ایک دائم اور مسلسل واقعہ ہے۔” امامِ عالیمقامؑ کے اِس مبارک ارشاد میں “دائم اور مسلسل” کا مطلب ہے ابتداء اور انتہا کے بغیر، جس کا نمونہ دائرۂ دائمیّت ہے۔

یہ بھی عملاً دائرے ہیں

اس دنیا میں اور خود انسان کی ہستی میں بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو ظاہراً دائرہ نہیں لگتی ہیں، مگر ذرا غور سے ان کے فعل کو دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ دائرے کی طرح کام کرتی ہیں، مثال کے طور پر ایک ایسے پل کو لیجئے جو دو شہروں

۱۰۹

کو ملاتا ہے، جس کی ایک طرف سے لوگ جاتے ہیں اور دوسری طرف سے آتے ہیں، تو یہ بھی دائرۂ دائمیّت کا ایک نمونہ ہے، اسی طرح آدمی  کا سانس ہے جو حیات و بقا کے اُس پُل کی مثال ہے، جو لوگوں کے آنے جانے کے لئے دونوں جہان کے درمیان بنایا گیا ہے، جس پر لوگ ہمیشہ آتے جاتے رہتے ہیں، نیز انسان کے اندر حرکتِ قلب ہے جو اگرچہ فعلاً پمپ کی طرح نظر آتی ہے مگر اِس سے دورانِ خون کا جو نظام قائم ہے، وہ بشکلِ دائرہ جاری ہے، تاکہ عقل والے اس رازِ فطرت میں غور کرسکیں کہ ہر چیز دائرے سے وابستہ کیوں ہے اور ایک ہی شیٔ بار بار کیوں سامنے آتی رہتی ہے۔

کوئی شخص یہ کہے گا کہ انسان یعنی روح اِس دنیا میں بار بار آتی رہتی ہے، دوسرا کوئی اس کی تردید کرتے ہوئے کہنے لگے گا کہ نہیں، روح صرف ایک بار یہاں آتی ہے، یہ دونوں باتیں محدود ہیں، میں امامِ اقدس و اطہرؑ کے خزانے سے اِس سلسلے کی ایک بات بتاؤں گا جو اِن شاء اللہ بہت ہی عظیم ہوگی، اور وہ یہ ہے کہ روحِ انسانی اِس دنیا میں ایک اعتبار سے بار بار آتی بھی ہے اور دوسرے اعتبار سے نہیں بھی آتی ہے۔

آپ بتائیں تو سہی کہ دنیا اور آخرت کے درمیان کتنی مسافت ہے؟ آخرت یا عالمِ بالا کہاں ہے یا کیا ہے؟ آیا وہ

۱۱۰

کوئی مادّی عالم ہے یا روحانی؟ آخرت کے ان بنیادی مسائل کے علم کو حاصل کئے بغیر دُنیا میں بار بار آنے کی بحث میں پڑنا بے سود ہے، چنانچہ جاننا چاہئے کہ دنیا جسم ہے اور آخرت جان، بس اسی ایک جملے میں تمام جوابات مہیّا ہوگئے، آپ دیکھ کر تسلّی کرلیں، پس آپ یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ جسم کی نگاہوں سے جو کچھ نظر آتا ہے وہ دُنیا ہے، اور روح کی آنکھوں سے جس عالم کا مشاہدہ ہوتا ہے وہ آخرت ہے، اور اس حقیقت کی ایک ادنیٰ مثال عالمِ خواب ہے۔

اس مادّی دنیا میں ایسے بہت سے خوش نصیب اشخاص ہو گزرے ہیں اور اب بھی ہوسکتے ہیں جنہوں نے نورِ ہدایت کی روشنی میں چل کر اسی زندگی میں آخرت کا مشاہدہ کیا، یہ بات ایسی ہے جیسے کوئی شخص دنیا میں رہتے ہوئے آخرت میں گیا، اور ہر کامل انسان اسی پوزیشن میں ہوا کرتا ہے، جب دنیا میں یہ بات ممکنات میں سے ہے کہ کوئی شخص جسم سے مادّی عالم میں رہے اور روح سے روحانی عالم کو پائے، تو آخرت کے معجزات کا کیا عالم ہوگا، چنانچہ وہاں ہر مومن لطیف جسم میں ہوگا، وہ جسم اِس خاکی جسم سے قطعاً مختلف اور معجزاتی نوعیت کا ہے، اس کی دوطرفہ (ظاہری و باطنی) آنکھوں کے سامنے دنیا بھی ہے اور آخرت بھی، تو پھر وہ جسمِ عنصری میں قید ہوکر

۱۱۱

کیوں آئے، اور حُبثّۂ ابداعیّہ میں کیوں نہ آئے، یہی ہے روح کی وہ حقیقت جس میں کہ انسان ایک اعتبار سے اس دنیا میں بار بار آنا کیا بلکہ ہمیشہ موجود ہے اور دوسرے اعتبار سے نہیں آتا، یعنی وہ موجودہ جسمانی زندگی کی طرح یہاں قید نہیں ہوتا، کیونکہ اس کی زیادہ سے زیادہ حلاوت و لذّت اور مسّرت و شادمانی روحانی نعمتوں میں ہے۔

یہی حقیقت دوسری مثال میں بھی پیش کی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ بحکمِ حدیثِ صحیح: اَلْمؤْمِنُ یَنْظَرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ (مومن نورِ خدا کی روشنی میں دیکھتا ہے) اور نورِ خدا کی روشنی سے آسمان و زمین اور دنیا و آخرت منوّر ہیں، سو اگر مومن دنیا میں ہے تو وہ آخرت کو بھی دیکھ سکتا ہے، اور اگر آخرت میں ہے تو آخرت کے علاوہ دُنیا کو بھی دیکھ سکتا ہے، اگر مومن دنیا میں کسی قدر کمزور ہے تو کل اِن شاء اللہ ایسا نہیں ہوگا۔

رسول، نبی اور امام جیسے الفاظ خاص ہیں، ان میں اُمّت کی کوئی شرکت نہیں، مگر لفظِ “مومن” پیغمبر، امام اور اُمّت کے درمیان مشترک ہے، لہٰذا یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ رسولِ خداؐ اور امامِ برحقؑ کے توسّط سے کامیاب مسلمین یعنی مومنین اِس خدائی نور کی آنکھ سے دونوں جہان کو دیکھ سکتے ہیں۔

۱۱۲

کُلّیات اور جزئیّات کے درمیان اصولی فرق یہ ہے، کہ ہر کُلّ متضاد معنوں، باتوں یا صفتوں کا متحمل ہوسکتا ہے، جب کہ کوئی جُزو اس کی اہلیّت نہیں رکھتا، مثلاً اگر ہم کہیں کہ پانی ٹھنڈا بھی ہے اور گرم بھی، تو یہ بات کُلّ پانی کے متعلّق بالکل صحیح ہوتی ہے مگر جہاں گلاس بھر پانی ہو، وہاں یہ بات غلط ہوجاتی ہے، جس کی وجہ ظاہر ہے کہ جُزو میں وہ عظمت اور وسعت نہیں جو کُلّ میں ہے، اسی طرح اگر کہا جائے کہ بیک وقت دن بھی ہے اور رات بھی، تو یہ متضاد بات سیّارۂ زمین سے متعلّق درست ہے، کہ اس پر ایک طرف دن اور دوسری جانب رات ہوا کرتی ہے، مگر یہ بات کسی محدود علاقے پر صادق نہیں آسکتی ہے، اور ایسی مثالیں بہت زیادہ ہیں، پس کلیّات کے علم کو حاصل کرنا چاہئے، جیسا کہ حکیم پیر ناصر خسرو ق س کا قول ہے:

تُو بکُلّ بینا نہ ای زانگہ تو بیراہ ماندہ ای

تُو بکُلّ بینا شوی جان و جسد یکسان توست

ترجمہ:تُو کُلّ کو نہیں دیکھتا ہے اسی سبب سے تو گمراہ ہوا ہے، اگر تُوکُلّ کو دیکھے تو تیری روح اور جسم کی اہمیت یکسان ہوگی۔ یعنی روح اگر آج کثیف جسم میں ہے تو کل یہ لطیف جسم میں ہوگی اور اس کے بغیر روح کی کوئی زندگی نہیں۔

قرآنِ حکیم کے اس انقلابی راز میں اس طرح غور کیا جائے جیسا

۱۱۳

کہ اس کا حق ہے: کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ نور عطا کیا جس کے اُجالے میں وہ لوگوں کے درمیان (فی النّاس) چلتا رہتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکل سکتا ہو (۰۶: ۱۲۲) یہاں عقلِ سلیم سے سوچنے کی سخت ضرورت ہے کہ اگر مذکورہ شخص کو ایک عام زندگی ملی ہے جو دوسروں کو ملتی ہے اور وہ لوگوں کے درمیان جسمانی طور پر اس طرح چلتا ہے جس طرح دوسرے لوگ چلتے ہیں، تو پھر یہاں زندگی اور نور کا اختصاص و احسان کیوں ہے اور دوسرے پر فوقیّت کا ذکر کیوں ہونا چاہئے، پس جان لیجئے کہ یہاں انسان کے اُس مرتبۂ اعلیٰ کا ذکر ہے، جس پر فائز ہوکر وہ لوگوں کے درمیان روحانیّت میں چلتا ہے، جسمانیّت کی بات ہی نہیں، یہ مرتبہ انسانِ کامل کو اب بھی حاصل ہے اور دوسرے سب کو اس کے حصول کے لئے فرمانبرداری کی ضرورت ہے۔

اس موضوع کے سلسلے میں یہاں تک جو حقائق بیان ہوئے ان کی روشنی میں اِس امر کی بہت بڑی اہمیّت ظاہر ہوجاتی ہے کہ تصوّرِ آفرینش کے بارے میں ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے کیونکہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ خالقِ برحق نے جن لوگوں کو پیدا کیا ہے، ان کی تخلیق مکمل ہوچکی ہے، حالانکہ حقیقت اس کے

۱۱۴

برعکس ہے، وہ یہ کہ جسمانی تخلیق کے بعد روحانی تکمیل شروع ہو جاتی ہے، جس کی شرط خدا و رسولؐ اور ولّی ءِ امرؑ کی اطاعت ہے۔ وباللّٰہِ التّوفیق۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی۔

تحریر: ۱۵۔دسمبر ۱۹۸۲ء

تحقیق: ۲۵۔ اگست ۱۹۹۱ء

۱۱۵

پیراہنِ یوسفؑ یا معجزاتی کُرتا

 

بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم۔ یاعلی مدد! میں آج بڑی مسّرت و شادمانی کے ساتھ پچھلی رات کے پُرسُکوت و پُرسکون ماحول میں پاکیزہ مسگار کے ہمارے جانی عزیزوں کو ایک بہت ہی پسندیدہ علمی خط یا کہ مضمون تحریر کررہا ہوں، یہ خصوصی مکتوب جو حُسنِ کارکردگی کے عوض میں انعام اور یادگار کے طور پر ہے اِن شاء اللہ تعالیٰ بنیادی حکمت کے سلسلے میں مفید اور مسّرت انگیز ثابت ہوگا، اور اس میں قریۂ مسگار کی مخلص جماعت کی ایمانی اور روحانی طاقتیں خداوندِ برحق کی مرضی سے میرے ساتھ ہوں گی، کیونکہ وہاں کی پاکیزہ روحیں آسمانی محبت کی نورانی بارش کے زیرِ اثر صاف و شفاف اور خدائے قدّوس کی پسندیدہ ہیں، خانۂ حکمت کےسلسلے میں ان عزیزوں

۱۱۶

کی کافی خدمات اور قربانیاں ہیں، لہٰذا مجھے یقینِ کامل ہے کہ اِس پُرخلوص خط سے جو کسی سپاسنامے سے کم نہیں، نہ صرف مسگار کے عزیزوں کو شادمانی ہوگی بلکہ اس سے پاکستان، لنڈن، فرانس، امریکا اور کنیڈا کے عزیزان بھی خوش ہوں گے اور اس کی کاپی کو مجلس میں پڑھنے کے بعد ریکارڈ میں رکھ لیں گے۔

یہ علمی اور عرفانی قصّہ بڑا عجیب و غریب اور بے حد دلپذیر ہے، اور اس میں ایک ایسے پیغمبرانہ معجزے سے بحث مقصود ہے کہ اس کی تہ تک جانے سے نہ صرف انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کی معرفت کا ایک اہم دروازہ کھل جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان آفاقی معجزات سے بھی آگہی ہوتی ہے جو آئندہ بڑے پیمانے پر اس دنیا میں رونما ہونے والے ہیں، اور یہ پُرحکمت قصّہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے معجزانہ کرتے کا ہے، چنانچہ آپؑ نے اپنے والدِ محترم حضرت یعقوب علیہ السّلام کے لئے جو کُرتا مصر سے کنعان بھیج دیا تھا وہ کوئی ظاہری اور دنیاوی کپڑے کا نہ تھا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ جثّۂ اِبداعیّہ تھا، جو خداوندِ عالم کے ازلی و ابدی معجزات سے بھر پور اور “کُنْ فیکون” کے اوامر سے معمور ہے، یعنی وہ آسمانی لطیف جسم تھا جو قدرتِ خدا سے ہمہ رس اور ہمہ گیر ہے، مگر افسوس ہے

۱۱۷

کہ بہت سے لوگ ایسے بھیدوں سے بے خبر ہیں۔

یہ بات یاد رہے کہ حضرت یوسفؑ اپنے زمانے میں امامِ مُستَودع  تھے، آپ کو اپنے والدِ بزرگوار حضرت یعقوب سے امامت غیر معمولی طور پر یعنی قبل از وقت مل گئی تھی، کیونکہ اس میں بھی ایک عظیم حکمت پوشیدہ ہے کہ کبھی کبھار نورِ امامت پہلے ہی منتقل ہوجاتا ہے۔

یہاں پر یہ نکتہ بھی خوب یاد رہے کہ نورِ اقدس و اطہر کے کئی پہلو ہوتے ہیں، وہ اس طرح کہ ایک ہی نور ہے مگر اس کی بہت سی نسبتیں، یعنی یہ اگر ایک طرف سے خدا و رسولؐ اور علی کا نور ہے تو دوسری طرف سے زمانے کے امامؑ اور ان کے آباواجداد کا ہے، چنانچہ نور کبھی بیٹا کہلاتا ہے اور کبھی باپ، امامؑ کی مبارک پیشانی میں نورِ ہدایت آبا و اجداد کی حیثیّت سے ماضی کے واقعات و حالات بھی بیان کرسکتا ہے اور آئندہ نسلِ امامت کی نمائندگی کرتے ہوئے مستقبل کے امور پر بھی روشنی ڈال سکتا ہے۔

برادرانِ یوسفؑ تاویلاً حدودِ دین ہیں، جو فلکی ذرّات میں کام کرتے ہیں، اور وہی حضرات امامِ عالیمقامؑ کی آسمانی قمیض لایا، لے جایا کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوں (یعنی حدودِ دین سے فرمایا کہ: یہ میرا کُرتا لے جاؤ

۱۱۸

اور اس کو ابّا جان کے چہرہ پر ڈال دینا کہ وہ پھر بینا ہوجائیں گے (۱۲: ۹۳)۔

دُنیا کا کوئی کرتا ایسا معجزاتی نہیں ہوسکتا ہے کہ اس کی بدولت ایسی آنکھوں کی بینائی بحال ہوجائے، جن کی بصارت ضائع ہوچکی ہو، مگر یہ ہے کہ وہ کُرتا دستِ قدرت سے تیار ہوا ہو، اور اس میں “کُنْ فیکون” کا خدائی معجزہ کام کرتا ہو، ہاں صرف آسمانی کُرتا ہی ایسا ہے، کیونکہ وہ تمام معجزات کا سرچشمہ ہے اور اس میں اور بھی تاویلی راز ہیں۔

حضرت یعقوبؑ کو حضرت یوسفؑ کی خوشبو قمیص کے پہنچنے سے بہت پہلے روانگی ہی پر محسوس ہونے لگی، اور جب آپؑ نے اس بات کو ظاہر کیا تو اِس پر آپ کے گھر والوں نے مذاق اڑایا، اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ مبارک خوشبو روحانی قسم کی تھی، اسی لئے یہ صرف یعقوبؑ ہی کو محسوس ہورہی تھی، اور اگر واقعہ اس کے برعکس ہوتا تو اِس احساس میں سب برابر کے شریک اور یکسان ہوتے، اس سے معلوم ہوا کہ امام کا فلکی یعنی نوری جسم برحق ہے۔

اب ہم اس سے بھی زیادہ تاویلی نزاکتوں کی طرف آگے سے آگے بڑھتے ہیں، وہ یہ کہ امام صلوات اللہ علیہ بمرتبۂ انسانِ کامل ایک ایسی پاک شخصیّت اور ایک ایسی مکمل روح کا نام

۱۱۹

ہے جس کو قرآنِ مقدّس نے نفسِ واحدہ (۰۶: ۹۸،  ۳۱: ۲۸) کے اسم سے موسوم کیا ہے، اور یہ عظیم الشّان روح یا کہ نور اس لئے ہے تاکہ مومنین اس سے واصل ہوکر حقیقی معنوں میں زندہ ہوجائیں، جیسا کہ زندہ ہوجانے کا حق ہے، اس کا صاف صاف مطلب یہ ہوا کہ مومنین کو امامِ اقدس و اطہر کے مبارک نور میں فنا ہوجانا چاہئے، تاکہ امام کے جسمِ فلکی میں زندہ ہوجائیں، اور یہ فنا حقیقی فرمانبرداری اور سچّی محبّت میں پوشیدہ ہے۔

امامؑ کے فلکی جسم میں مومنین کے سموجانے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہوجانے کے بارے میں یوں ارشاد ہے:

وَّجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيْلَ تَـقِيْكُمُ الْحَـرَّ وَسَرَابِيْلَ تَقِيْكُمْ بَاْسَكُمْ ۭكَذٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُوْنَ (۱۶: ۸۱) اور اسی نے تمہارے لئے کُرتے بنائے جو تمہیں گرمی سے محفوظ رکھیں اور کُرتے جو تمہیں جنگ سے بچائیں اسی طرح خدا اپنی نعمت تم پر پوری کرتا ہے تاکہ تم سلامت رہو۔

یہاں آیۂ کریمہ سے مطلب واضح ہے کہ یہ خطاب مسلمین و مومنین سے فرمایا گیا ہے اور پروردگار کی یہ مخصوص نعمت بھی انہی کے لئے ہے، لیکن ظاہر میں ایسا کُرتا کہاں ہے جو ہم کو ہر قسم کی گرمی سے بچا سکے؟ اور اس زمانے میں وہ کون سا کُرتا ہے جو ایٹمی جنگ کی زد سے کسی کو محفوظ رکھ سکتا ہو؟

۱۲۰

کیا کوئی مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ اب قرآن کی ایسی باتیں (نعوذ باللہ) پُرانی ہوچکی ہیں؟ پس اس بیان سے یہ تاویلی حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ یہ معجزانہ کُرتے اجسامِ لطیفہ ہی ہیں، جن پر نہ تو گرمی اثر انداز ہوسکتی ہے اور نہ ہی کوئی ہتھیار، کیونکہ یہ تو قدرتِ خدا کے بنائے ہوئے معجزاتی کُرتے ہیں۔

اگر کوئی شخص تاویلی حقیقتوں کو سننے کی سعادت چاہتا ہے تو اسے یہ اصول ماننا پڑے گا کہ قرآنِ حکیم نے ایک ہی حقیقت کو طرح طرح کی مثالوں میں بیان کیا ہے (۱۷: ۸۹) چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کی سلطنتِ روحانیہ کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ آپؑ کو ہوا مسخّر کی گئی تھی (۳۸: ۳۶) یعنی جسمِ لطیف، جو ہوا کی طرح لطیف اور بسیط ہے، جس کو عام طور پر تختِ سلیمانؑ کہتے ہیں، اب یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے آیا سلیمانؑ کا تخت صرف سلیمانؑ ہی کو نصیب ہوا تھا؟ نہیں تو اس سے عام مومنین کس طرح بہرہ ور ہوسکتے ہیں؟ اس کا جواب بھی خود قرآن ہی دیتا ہے کہ:

وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ  ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا (۱۴: ۳۴) اور جو کچھ تم نے مانگا سب میں سے تم کو عنایت کیا اور اگر خدا کی نعمتوں کو گننے لگو تو شمار نہ کرسکو۔ مطلب بالکل واضح ہے کہ مومنین اگر کامل

۱۲۱

انسانوں کے نقشِ قدم پر چلتے گئے تو رحمتِ خداوندی ان کو توقع سے زیادہ نوازنے والی ہے اور ان کو اجسامِ لطیفہ کے تخت ملیں گے۔

آپ ذرا سوچ کے بتادیجئے کہ تختِ سلیمانؑ اور تختِ بہشت (جو ہر مومن کو ملے گا) کے درمیان کیا فرق ہے؟ یا ان میں اعلیٰ کون سا ہے؟ جیسا کہ اس ارشاد میں فرمایا گیا ہے کہ: وہاں وہ تختوں پر تکئے لگائے (بیٹھے) ہوں گے نہ وہاں (آفتاب کی) دھوپ دیکھیں گے اور نہ شدّت کی سردی (۷۶: ۱۳) آپ دیکھتے ہیں کہ اس تعلیم میں بھی وہی حقیقت جھلکتی ہے جو گرمی اور جنگ سے بچانے والے کرتوں میں پوشیدہ ہے (۱۶: ۸۱) اب تختِ سلیمانؑ کی بات کریں کہ اگر مانا جائے کہ وہ جسمِ لطیف تھا جو زندہ اور عقل و علم کے جواہر سے آراستہ ہے تو پھر یہ وہی ابدی بہشت کا تخت ہوا، اور اگر نہیں تو دنیا کی چند روزہ تخت کی کیا وقعت ہو سکتی ہے، جبکہ آج کی دنیا  والے بھی ہواؤں میں اُڑتے پھرتے ہیں، اب اس سلسلے میں ہم پھر قرآن میں دیکھتے ہیں اور اس باب میں خود حضرت سلیمانؑ کے قول کی ترجمانی ہوتی ہے کہ: (اور سلیمانؑ نے) کہا پروردگارا مجھے بخش دے اور مجھے وہ سلطنت عطا فرما جو میرے بعد کسی اور کی ملکیّت نہ ہو یقیناً تو وَھّاب (دینے والا) ہے (۳۸: ۳۵)

۱۲۲

اس سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ حضرت سلیمانؑ کی نظر میں دنیاوی بادشاہی کی کوئی اہمیّت ہی نہ تھی، لہٰذا آپ ایک ایسی لازوال اور ابدی سلطنت چاہتے تھے جو روحانی طور پر آپ کی ذات ہی سے وابستہ ہو، وہ مادّی تخت و تاج کی طرح آپ کے بعد بطورِ ترکہ کسی اور کو نہ ملے اور اس دُعا کے آخر میں “وَھّاب” کا اسم لایا گیا، جس کی موجودگی کی صورت میں کسی کا یہ خیال ہر گز درست نہیں کہ حضرت سلیمانؑ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ کسی اور کو بھی ایسی سلطنت نصیب ہو، پس یہ مفروضہ انبیائے کرام صلوات اللہ علیھم کے اخلاقِ حسنہ سے بہت دور ہے۔

یہاں یہ جاننا بہت ہی ضروری ہے کہ خدا کے دین میں دُنیاوی قسم کی بادشاہت کے لئے کوئی جگہ نہیں، اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت ہے، کیونکہ دین میں تو صرف خدا ہی کی ظاہری و باطنی حکومت ہے، آپ قرآنِ پاک میں اچھی طرح سے دیکھ سکتے ہیں کہ کسی بھی پیغمبر کے زمانے میں کوئی ایسا بادشاہ نہیں ملتا جو نبوّت یا امامت کے بغیر دینی قانون کا مالک ہوسکے، کیونکہ دنیا میں ہمیشہ سے خلافتِ الھٰیّہ اور آسمانی بادشاہی چلتی آئی ہے، جیسا کہ آلِ ابراہیمؑ کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ:

۱۲۳


ہم نے تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی ہے اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی ہے (۰۴: ۵۴) چنانچہ اس روحانی سلطنت کی ایک اور مثال حضرت طالوت علیہ السّلام سے بھی مل سکتی ہے کہ آپ حضرت  داؤدؑ سے پہلے امام تھے، آپ کے روحانی علم اور فلکی جسمِ کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے اور وہ یہ ہے:

قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهٗ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۭ وَاللّٰهُ يُؤْتِيْ مُلْكَهٗ مَنْ يَّشَاۗءُ  ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ (۰۲: ۲۴۷ نبی نے) کہا خدا نے اسے تم پر برگزیدہ کیا ہے اور علم و جسم کا پھیلاؤ بڑھا دیا ہے اور خدا اپنا ملک جسے چاہے عطا کردیتا ہے اور خدا سب سے وسیع علم رکھتا ہے۔

اس آیۂ کریمہ میں انتہائی خوبصورتی سے مرتبۂ امامت کی اُن دو عظیم الشّان چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے صرف انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کو عطا ہوتی ہیں، وہ روحانی علم اور فلکی جسم (آسڑل باڈی)ہیں، چنانچہ اس آیت میں آپ دیکھتے ہیں کہ پہلے علم کا ذکر ہے پھر جسم کا، اور دونوں کو پھیلاؤ میں بڑھانے کا تذکرہ ہے، دانشمند جانتا ہے کہ اس میں عام جسم کی بات ہی نہیں، یہ تعریف لطیف جسم سے متعلق ہے۔

۱۲۴

ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ کسی وقت یو۔ ایف۔ او۔

کا بھی کچھ بیان کردیں گے، کیونکہ یہ آج کل کا اہم ترین مسئلہ ہے۔

 

امامِ زبان کا ایک ادنیٰ غلام

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

تحریر: ۱۲۔ جنوری ۱۹۸۱ء

تحقیق: ۲۱۔ اگست ۱۹۹۱ء

۱۲۵

روحانیّت کے مشورے

 

۱۔ بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم۔ روحانی ترقی کے لئے سب سے پہلی چیز اخلاق ہیں، پھر عقیدہ، بندگی اور علمِ یقین۔

۲۔ تقویٰ کی صفت اخلاق اور دینداری کے تمام نتائج و ثمرات کا جوہر ہے، لہٰذا تقویٰ بندۂ مومن کو اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے۔

۳۔ تقویٰ میں خوفِ خدا ایک غالب عنصر بھی ہے، مگر خوفِ خدا کس طرح سے ہوسکتا ہے، وہ سمجھنے کی بات ہے کیونکہ اُس خوف کا تصوّر علم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

۴۔ اس دُنیا میں اگر مولا کے پیارے بندوں کی ہم نشینی میسّر ہو تو وہ بڑی غنیمت ہے، کیونکہ وہ نیکی کی طرف ایک عملی ہدایت ہے۔

۱۲۶

۵۔ آپ کا علمی مرتبہ جو کچھ بھی ہو، ہر حالت میں دوسروں کو کچھ علم دینا چاہئے، کیونکہ اس سے قدرتی طور پر علم میں تحریک پیدا ہوتی ہے، وہ اس طرح کہ آپ اپنے دل سے علم کی جو مقدار نکال کر دیں گے، اس کی جگہ لینے کے لئے خدائی علم آئے گا، جب کہ اس کام کے ساتھ ساتھ تقویٰ بھی ہو۔

۶۔ علم دو طریقوں سے دیا جائے، ایک عام مجلس یا اجتماع میں اور ایک خاص حلقۂ احباب میں، تاکہ ہر کسی کو اس کی سمجھ بوجھ کے مطابق سمجھانے کا موقع فراہم ہو، ساتھ ہی ساتھ آپ کے علمِ عام اور علمِ خاص میں برکت پیدا ہو۔

۷۔ عبادت کے لئے سب سے اچھی جگہ جماعت خانہ ہے، کیونکہ وہ ثواب اور امن کی جگہ ہے جیسا کہ قرآنِ مجید میں مذکور ہے (۰۲: ۱۲۵) اس کے علاوہ جماعت خانہ سے باہر بھی عبادت کریں، تنہا بھی اور دوستوں کے ساتھ بھی۔

۸۔ جماعتی خدمت سے روحانی ترقی میں مدد ملتی ہے، اور خدمت جتنی دور رس ہو اتنا اس کا ثواب ملے گا، اس سلسلے میں علمی خدمت سب سے زیادہ مفید ہوسکتی ہے، کیونکہ وہ حال اور مستقبل میں تمام دنیائے اسماعیلیت کے لئے مفید ہوسکتی ہے۔

۹۔ نیّت، قول اور عمل یہ تین چیزیں ہیں، جن کے ذریعے

۱۲۷

سے مومن روحانی ترقی کرسکتا ہے، لہٰذا ان تینوں کو انتہائی پاک و پاکیزہ رکھنا چاہئے۔

۱۰۔ اگر کسی کے اعمال پاک نہیں ہوتے تو اُسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس کی زبان پاک نہیں ہے اور اگر زبان پاک نہیں تو جاننا چاہئے کہ دل یعنی نیّت پاک نہیں، اسی لئے پیغمبرِ برحقؐ نے ارشاد فرمایا کہ: اعمال کا دارومدار نیّات پر ہوتا ہے۔

۱۱۔ ذکر و عبادت میں انقلابی ترقی ہو سکتی ہے اور رفتہ رفتہ ترقی بھی، نیز کچھ اس میں سے اور کچھ اُس میں سے بھی ہو سکتی ہے۔

۱۲۔ روحانی ترقی تواضع، حلم اور انکساری کے بغیر ناممکن ہے، تکبّر سے انسان گر جاتا ہے۔

۱۳۔ ذکرِ الٰہی کسی ایک اسم سے بھی ہوسکتا ہے یا کسی ایک تسبیح کے ذریعے بھی کیا جاسکتا ہے، اور مختلف اسماء سے بھی، آپ کو اگر کسی ایک اسم سے بہت لذّت محسوس ہوتی ہے تو اس کو پڑھتے رہیں، اگر مختلف اذکار سے خوشی ہوتی ہے تو انہیں سے فائدہ اٹھائیں، یہ بات خصوصی ذکر کے علاوہ عبادت کے لئے ہے۔

۱۴۔ ذکر و عبادت کے اشغال مختلف ہوا کرتے ہیں، چنانچہ ایک شغل پروردگارِعالم کی نعمتوں کی شکر گزاری ہے، ایک شغل

۱۲۸

گناہوں سے توبہ ہے، ایک شغل دیدارِ الٰہی کے لئے رونا ہے، ایک شغل ایسی دعاؤں پر مبنی ہے جن میں اپنے لئے اور تمام مومنین کے لئے بھلائی اور بہتری مانگی جاتی ہے۔

۱۵۔ تنہائی میں اور آزاد عبادت میں جب بھی سجدہ کیا جائے تو وہ انتہائی ادب اور عاجزی سے ہو اور اس میں کچھ دیر زمین سے پیشانی نہ اٹھائی جائے، کیونکہ خداوند نے فرمایا ہے: وَاسْجُدْوَ اقترِبْ (سجدہ کر اور نزدیک ہوجا) اور سجدہ میں دعائیں مانگی جاتی ہیں۔

۱۶۔ ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگنے کی عادت ہونی چاہئے، تاکہ دل کی کیفیت خدا کے حضور میں ہمیشہ محتاج رہے، تاکہ جس سے خدا کی رحمت شاملِ احوال ہو۔

۱۷۔شیطان خواہشاتِ نفس کے وسیلے کے بغیر نہیں آسکتا، نفس ہی شیطان کا گدھا ہے، جس پر سوار ہوکر اپنا کام پورا کرتا ہے، اگر انسان اپنے نفس کا مخالف رہا تو شیطان قریب بھی نہیں آسکتا۔

۱۸۔حقیقی مومن کو یہ حکمت سمجھنا چاہئے کہ جو لوگ امام سے دور ہیں، ان سے دور رہنا ہے اور جو امامِ زمان کے قریب ہیں ان کے قریب رہنا ہے۔

۱۹۔ لذّتیں دو قسموں میں ہیں، روحانی اور جسمانی۔ چنانچہ

۱۲۹

جب تک حرام جسمانی لذّتوں کے تصوّر کو ترک اور حلال کو کم نہ کیا جائے تو روحانی لذتیں ہرگز حاصل نہیں ہوتیں۔

۲۰۔ روحانی ترقی جب بھی رُک جائے تو وہ گناہوں کے سبب سے ہے، خواہ وہ گناہ ایک ہو اور بہت بڑا ہو یا بہت سے چھوٹے چھوٹے گناہوں کا مجموعہ ہو۔

۲۱۔ ایک مومن کہتا تھا کہ میری روحانی ترقی نہیں ہورہی ہے، حالانکہ میں عبادت میں باقاعدگی رکھتا ہوں، دسوند وغیرہ بھی ٹھیک سے ادا کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ گناہ نہیں کرتا ہوں۔ میں نے کہا ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ کا کوئی بھی گناہ نہ ہونے کے باوجود روحانی ترقی نہ ہو، بہت ممکن ہے بلکہ یقینی بات ہے کہ آپ کا گناہ ہے جس کی وجہ سے ترقی نہیں ہوتی ہے۔

۲۲۔ گناہ کئی طرح سے ہوتا ہے، جانتے بوجھتے ہوتا ہے، لاعلمی اور نادانی سے ہوتا ہے، ظاہر میں ہوتا ہے، باطن میں ہوتا ہے، بُرا سمجھتے ہوئے ہوتا ہے، غرضیکہ گناہ جس نوعیت کا بھی ہو، گناہ ہی ہے، وہ اپنا اثر دکھاتا ہے، روحانی ترقی سے روکتا ہے، بلکہ اکثر دفعہ ابدی عذاب میں گرفتار کرڈالتا ہے۔

۲۳۔ یہ معلوم کرلینے کے لئے کہ دل میں تقویٰ ہے یا

۱۳۰

گناہ، مومن کو یہ دیکھنا ہوگا کہ اس سے ہر قسم کے دینی فرائض ادا ہوتے ہیں یا نہیں؟ ذکر و عبادت آگے بڑھتی رہتی ہے یا مزہ نہیں آرہا ہے؟ دینی علم کا شوق بڑھ رہا ہے یا ملالت ہورہی ہے؟ کیا دل میں عشقِ مولا آگیا ہے؟ اگر اس قسم کی نیکی کی علامتیں نہیں ہیں یا کمزور ہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ گناہ ہے۔

۲۴۔ گناہ درختِ ملعون ہے، اس کی شاخ بدی سے وہ اور بڑھ جائے گا، اس لئے اس کی جڑوں کو کاٹنا چاہئے، تاکہ وہ سُوکھ کر ختم ہوجائے۔

لفظی توبہ سے کچھ نہیں بنے گا، جب تک کہ عملاً توبہ نہ کرلی جائے، اور عملی توبہ مشکل ہے جب کہ اس عمل کا علم نہ ہو یعنی ترکِ گناہ اور توبہ کا مطلب سمجھ لینا ضروری ہے۔

۲۵۔ عبادت خداتعالیٰ کی غلامی کا نام ہے اور غلامی میں آقا اور مالک کی ساری خدمتیں مطلوب ہیں، اور اس میں سب سے اعلیٰ خدمت وہ ہوگی جو آقا کی مرضی کے مطابق ہو اور جس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

۲۶۔ علم طہارت یعنی پاکیزگی بھی ہے، علم عبادت بھی ہے، علم زکات بھی ہے، علم روزہ بھی ہے، علم حج بھی ہے، علم جہاد بھی ہے اور علم ولایت بھی ہے، کیونکہ علم سب

۱۳۱

کچھ ہے۔

۲۷۔ اگر آپ علم دے سکتے ہیں یا علم دینے میں مدد کر سکتے ہیں، تو گویا کسی نابینا کو آنکھ دیتے ہیں یا کسی بہرے کو کان عطا کرتے ہیں، کسی گونگے کو زبان عنایت کرتے ہیں، کسی لُولے کو ہاتھ بخشتے ہیں، کسی لنگڑے کو پاؤں دیتے ہیں اور کسی مُردے میں روح پھونکتے ہیں، ننگے کو لباس مہیّا کردیتے ہیں، بھوکے کے لئے خوراک کا انتظام کردیتے ہیں، مفلس کو خزانہ دیتے ہیں، گدا کو بادشاہ بناتے ہیں اور جاہل کو عاقل بنادیتے ہیں۔

۲۸۔ حقیقی مومن نیت کرے کہ وہ راہِ مولا میں اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتے ہوئے چالیس مرتبہ سخت غصّہ کو پی لے گا، چالیس دفعہ نفس کی خواہشات کو ٹھکرائے گا، چالیس ایسے مومنوں کے حق میں نیک دعائیں مانگے گا، جن کے متعلق اس کا گمان ہو کہ وہ اچھے نہیں ہیں، چالیس اچھی عادتوں کو اپنائے اور چالیس دن کثرت سے خدا کو یاد کرے۔

۲۹۔ مومن یہ کوشش کرے کہ وہ ہر روز نیکی کمائے، نیک کاموں میں وقت گزارے، روزانہ کچھ علم حاصل کرے، دینی کتابوں کا مطالعہ جاری رکھے، نیک لوگوں سے ملے اور عبادت سے خوشی حاصل کرے۔

۱۳۲

۳۰۔ روحانی ترقی شروع ہونے کی علامتیں یہ ہیں کہ ذکر و عبادت سے سخت عشق پیدا ہوجاتا ہے، وقت پر بلکہ پیشگی طور پر جاگا جاتا ہے، دل میں بہت ہی نرمی اور بار بار گریہ و زاری ہوتی ہے، ذکر کا خوب سلسلہ بنتا ہے اور بہت زیادہ سنجیدگی اور اندر ہی اندر سکون پیدا ہوتا ہے۔

۳۱۔ کچھ وقت کے بعد دل کی روشنی پیدا ہوتی ہے اور اس روشنی میں بے حد خوشی ہے گو کہ یہ ابتدائی قسم کی روشنی ہے جو مادّی روشنی سے مشابہ ہے مگر اس سے نہایت ہی خوش رنگ ہے اور رفتہ رفتہ انتہائی تیز ہوجاتی ہے۔

۳۲۔ اس مقام پر اگرچہ یہ روشنی روحانی اور عقلی نہیں بلکہ یہ طبعی ہے، تاہم اس سے مومن کے دل میں بے حد خوشی پیدا ہوتی ہے، شاید اس لئے کہ اس منزل میں اس کی باطنی آنکھ کُھل جاتی ہے اور اپنی ہستی کی شناخت کا آغاز ہوجاتا ہے۔

۳۳۔ جس طرح عالمِ ظاہر میں مادّی، فنّی اور علمی روشنی ہے، یعنی سورج وغیرہ کی روشنی، ہُنر کی روشنی اور علم کی روشنی، اسی طرح عالمِ باطن میں طبیعت کی روشنی ہے، بعد ازان روح کی روشنی اور عقل کی روشنی ہے، یا طبیعت کو جسمِ لطیف کہنا چاہئے۔

۱۳۳

۳۴۔ جسمِ لطیف کو ماننا چاہئے کیونکہ جسمِ لطیف موجود ہے وہ فلکی جسم ہے، جثّۂ ابداعیہ ہے، وہ نورانی جسم ہے۔

۳۵۔ جسمِ لطیف آسڑل باڈی (ASTRAL BODY) یا اثیر (ETHER) کا جسم ہے جس کو اثیری جسم کہنا چاہئے۔

۳۶۔ عالمِ باطن سے کون انکار کرسکتا ہے، اس میں سب کچھ ہے مگر لطیف شکل میں، کُلُّ شَیٍٔ لطیقۃ مُوْدَعَۃ فی ھٰذہٖ المجموعہ (ہر لطیف شیٔ اس مجموعہ میں یعنی قالبِ انسانی میں ودیعت کی گئی ہے)۔

 

فقط دعا گو

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

لنڈن

۲۷۔ اگست ۱۹۹۱ء

۱۳۴

سب سے عظیم تاویلی راز عرشِ اعلیٰ

 

۱۔ عرش کے ابتدائی لغوی معنی بلند جگہ ہیں اور اسی معنیٰ میں عرش کا مطلب تخت ہوا، جس میں بادشاہ اور بادشاہی کا تصوّر موجود ہے، چنانچہ اصطلاحِ دین میں عرش اللہ تبارک و تعالیٰ کے تختِ بادشاہی کو کہتے ہیں، چونکہ عرش بموجبِ ارشاداتِ قرآن نہ صرف ظاہری طور پر بنیادی اہمیّت کا حامل ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ سب سے عظیم تاویلی راز بھی ہے، لہٰذا لازمی ہے کہ امامِ برحق صلوات اللہ علیہ کی دستگیری اور یاری سے عرشِ اعلیٰ کی چند حکمتیں بیان کی جائیں۔

۲۔ قرآنِ پاک میں آسمان و زمین کی تخلیق کا تذکرہ ظاہر ہے، لیکن عرش کو وجود میں لانے کا براہِ راست کوئی ذکر نہیں، بلکہ فرمایا گیا ہے کہ خدا کا تخت پانی پر تھا (۱۱: ۰۷) اس کے یہ معنی ہوئے

۱۳۵

کہ عرشِ الٰہی ہمیشہ سے موجود ہے، کیونکہ وہ عالمِ امر ہے، اس لئے وہ قدیم اور تخلیق سے بالا تر ہے۔

۳۔ حکمائےدین کے نزدیک عرشِ خداوندی مادّی قسم کا کوئی تخت ہرگز نہیں، بلکہ یہ لفظ ایک مثال ہے اور اس کا ممثول ایک عظیم فرشتہ ہے، جس کو خداوند تعالیٰ نے تمام عقول کا سرچشمہ بنایا ہے، اس لئے اس کو عقلِ کلّ کہا جاتا ہے، پس یہی سب سے عظیم فرشتہ عرشِ الٰہی بھی ہے اور قلمِ قدرت بھی۔

۴۔ ہر دانشمند اس حقیقت کو قبول کرلیتا ہے کہ اللہ کا تخت نہ صرف پہلے ہی پانی پر قائم تھا، بلکہ یہ اب بھی اسی طرح ہے، کیونکہ پانی سے علم مراد ہے اور عرش کا مطلب عقلِ کلّ ہے، سو فرشتۂ عقلِ کلّی کا قیام ہمیشہ کے لئے علم ہی پر ہے، یہ ہُوا خداوندِ عالم کے عرش کا پانی پر ہونا۔

۵۔ عرشِ اعلیٰ جو ایک عظیم فرشتہ ہے، اس کا روحانی مشاہدہ انسانی صورت میں ہوتا ہے، کیونکہ فرشتہ خود انسان کی ترقی یافتہ صورت ہے، اور انسان وہ ہے جس کو رحمانی شکل و شمائل پر پیدا کیا گیا ہے۔

۶۔ اسلام میں جس طرح عرش کی عظمت و رفعت بیان کی گئی ہے، وہ جسمانی اور مکانی اعتبار سے نہیں، بلکہ روحانی

۱۳۶

اور شرفی لحاظ سے ہے، یعنی عرشِ عظیم اور عرشِ اعلیٰ کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ جسامت اور ضخامت میں کائنات کی وسعتوں پر محیط اور حاوی ہے، بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ نورانیّت اور روحانیّت میں ہر چیز سے عظیم و اعلیٰ ہے۔

۷۔ یہ جو حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ بندۂ مومن کا قلب اللہ تعالیٰ کا عرش ہے، اس کا مطلب بھی وہ عرفانی تصوّر ہے جو صرف حقیقی مومن کے دل و دماغ میں قائم اور روشن ہوجاتا ہے، جو ایمان وایقان کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔

۸۔ عرش روح میں ہے جسم میں نہیں، لیکن روح اور جسم کے درمیان جو رشتہ اور رابطہ ہے، اس کے اعتبار سے جسم میں بھی کوئی ایسا مقام ہونا چاہئے، جو عرش کی مثال اور مقابل ہو، یا اس کا مظہر کہلائے، ہاں ایسا مقام ہے اور وہ پیشانی ہے۔

۹۔ انفرادی اور ذاتی روحانیّت کے عالم میں پیشانی وہ جگہ ہے جہاں اہلِ بصیرت کے سامنے ایسے بہت سے واقعات آتے ہیں، جن کا تعلق قصّۂ قرآن میں عرشِ عظیم سے ہے۔

۱۰۔ یہ حقیقت ہے کہ کائنات پر کُرسی محیط ہے، جو نفسِ کلّی ہے، اور کرسی پر عرش محیط ہے، جو عقلِ کلّی ہے، مگر یہ احاطہ روحانی اور عقلی ہے، نہ کہ ظاہری اور مادّی، جس کی مثال ہم انسانی جسم سے لے سکتے ہیں، کہ جسم پر روح کا کنٹرول

۱۳۷

ہے بغیر کسی مادّی احاطہ کے، اور اسی طرح روح پر عقل محیط ہے بغیر کسی ظاہری حصار کے۔

۱۱۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی حکمت ہے کہ اُس نے ظاہری کائنات، عالمِ دین اور عالمِ شخصی کو ایک دوسرے کے مشابہ بنایا ہے، تاکہ اس کے مخلص بندوں پر حقیقت کے اسرار پوشیدہ نہ رہیں، اور اہلِ بصیرت اپنی ذات ہی میں آیاتِ قدرت و حکمت کا مشاہدہ اور مطالعہ کرسکیں۔

۱۲۔ قرآن (۲۷: ۴۰) میں ہے کہ ملکۂ بلقیس کے مطیع ہوکر آنے سے قبل اُس کا تخت جو عربی میں عرش ہے سلیمانؑ کے حضور میں لایا گیا تھا، اس کی تاویل اس ملکہ کی روحانی تصویر ہے، جس پر بلقیس کی “انا” قائم تھی، اس مثال سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ عرشِ عظیم انسانِ کامل کا روحانی عکس ہے، جو معرفتِ خدا اور تصوّرِ توحید کا حامل ہے۔

۱۳۔ قرآن (۲۷: ۲۶) میں جو “ربّ العرش العظیم” فرمایا گیا ہے، اس کے معنی ہیں کہ اللہ عرشِ عظیم کا مالک و پروردگار ہے اور اس کا اشارہ یہ بھی ہے کہ خدا ان فرشتوں اور روحوں کا پروردگار ہے جو عرش کے نزدیک ہیں، یعنی عرش سب سے اعلیٰ درجے کی روحانی تربیت گاہ ہے۔

۱۴۔ آیت کا یہ حصّہ: “ثُمّ اسْتوٰی عَلَی الْرش” (۰۷: ۵۴)

۱۳۸

تاویل طلب ہے، جس کی تاویل کئی طرح سے ہے، اور اس کی ایک بہت بڑی انقلابی تاویل یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ نے آسمان و زمین کی مخلوقات میں مختلف درجات مقرّر کردیئے، مگر عرش تک جو چیزیں پہنچتی ہیں، ان میں اتحاد و یک رنگی پیدا کرکے اپنی رحمانیّت کے مساوات کا ثبوت دیا۔

۱۵۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: اور ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور تمام آسمان لپٹے ہوں گے اس کے داہنے ہاتھ میں (۳۹: ۶۷) اس کے یہ معنی ہیں کہ زمین و آسمان کی سب چیزیں خدا کے داہنے ہاتھ میں ایک ہوں گی، اور اللہ تعالیٰ کا یہ فعل عرش پر وقوع میں آئے گا، کیونکہ اس وقت ارض و سما کا وجود خدا کے قبضۂ قدرت میں ایک موتی کے برابر ہوگا۔ یہ ہوئی تاویل “استوٰی علی العرش” کی۔

۱۶۔ سورۂ حج آیت نمبر ۱۰۴میں بھی یہی مفہوم ہے کہ خداوند تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ سےساری کائنات کو لپیٹ کر ایک ایسا گوہر بنا لے گا، جیسا کہ یہ خلقتِ عالم و آدم سے پہلے تھا، جس سے کائنات پیدا کی گئی، تاکہ دیدۂ دل رکھنے والے اپنے عرفانی مشاہدے سے یہ سمجھ سکیں کہ ازل میں بھی اور ابد میں بھی تمام حقیقتوں کی ایک ہی حقیقت ہے، جس کو مونوریالزم یعنی یک حقیقت کہا جاتا ہے۔

۱۷۔ جس آدمی کو عرش کی شناخت نہ ہو اس کو خدا کی شناخت

۱۳۹

نہیں، کیونکہ خدا حقیقی بادشاہ ہے اور عرش اس کا تخت، نیز اس لئے بھی کہ عرشِ الہٰی نورِ معرفت کی حیثیت سے ہے، جس سے تمام اعلیٰ درجے کے حقائق و معارف وابستہ ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ قرآن میں کئی دفعہ عرش کا حوالہ دیا گیا ہے جبکہ خدا شناسی کے بارے میں لوگوں کے غلط تصوّر کا ذکر ہوا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:

آسمان اور زمین کا مالک جو کہ عرش کا بھی مالک ہے ان باتوں سے پاک ہے جو یہ (کافر) لوگ بیان کرتے ہیں (۴۳: ۸۲) یعنی خدا شناسی کے لئے صرف آسمان و زمین کی آیات میں غور کرنا کافی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر عرش کی پہچان زیادہ ضروری ہے۔

۱۸۔ جب بندۂ مومن کا دل علم و عمل سے جیسا کہ چاہئے خدا کا عرش بن جاتا ہے، تب ایسا بندہ عرش کے بالکل قریب ہو جاتا ہے اور وہ اُس حالت میں عرش کے اسرار سے واقف و آگاہ ہوجاتا ہے اور مساواتِ رحمانی کے بھیدوں کو سمجھتا ہے۔

۱۹۔ اہلِ معرفت کا دل و دماغ حقیقی علم کا پانی ہے، جس پر عرشِ خداوندی کا روشن تصوّر قائم ہوجاتا ہے، اسی طرح وہ عرش کو روحانی طور پر دیکھ سکتے ہیں اور اس کی حکمتوں کو سمجھ سکتے ہیں۔

۲۰۔ عرشِ عظیم کے اٹھانے والے فرشتوں سے أئمّۂ طاہرین

۱۴۰

علیھم السّلام مراد ہیں، چونکہ عرش نور ہے اور اس کے حامل پاک امام ہیں، نور اور عظیم روح ایک ہے، اور پاک أئمّہ روحانیّت و جسمانیّت دونوں میں عظیم فرشتے ہیں۔

۲۱۔ سورۂ یوسف (۱۲: ۱۰۰) میں ہے کہ: وَرَفَعَ اَبَوَيْهِ عَلَي الْعَرْشِ وَخَرُّوْا  لَهٗ سُجَّدًا  ۔ اور (یوسف نے) اپنے والدین کو تخت پر رفعت دی اور وہ سب یوسف کے آگے سجدے میں گرگئے۔ یعنی یوسف نے اطاعت کرکر کے اپنے روحانی والدین (امام اور باب) کو روحانیّت میں تختِ پیشانی پر بٹھادیا، پھر وقت آنے پر امام، باب اور گیارہ حجتوں نے یوسف کی اطاعت کی، یعنی یوسف خود امام بن گیا، پس یہاں یہ اشارہ ہے کہ پیشانی شخصی عالم کا عرش ہے۔

۲۲۔ قرآنِ پاک (۰۲: ۲۱۳) میں ہے کہ لوگ شروع میں ایک ہی اُمّت تھے، یعنی یہ ازل کی بات ہے اور اسی طرح وہ ابد میں بھی ایک ہوں گے، کیونکہ جو چیز ازل میں جیسی تھی، وہ ابد میں بھی جاکر ویسی ہوگی، یہ عرش پر خدا کے استوٰی کرنے کے معنی ہیں۔

۲۳۔آیۂ کریمہ کا ترجمہ ہے کہ: آپ فرمائیے کہ اگر خدا کے ساتھ اور بھی معبود ہوتے جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو اس

۱۴۱

حالت میں عرش والے تک انھوں نے رستہ ڈھونڈ لیا ہوتا (۱۷: ۴۲) اس کا مطلب یہ ہوا کہ عرش ازل و ابد میں وہ مقام ہے جہاں پر سب کو لازماً ایک ہوجانا ہے۔

۲۴۔ قرآنِ مقدّس اور عملی روحانیّت کا اصول یہ ہے کہ کشفِ باطن اور روحانی مخاطبہ تین مقامات سے ہوتا ہے، مقرّبین کے لئے سامنے (یعنی پیشانی) سے، اصحابِ یمین کے لئے دائیں کان سے، اور اصحابِ شمال کے لئے بائیں کان سے، اور قیامت کے دن بندوں کو تین درجوں میں جو اعمالنامہ ملنے والا ہے، وہ بھی یہی ہے، چونکہ روحانیّت خود قیامت ہے، پس روحانیّت کا سب سے اعلیٰ دروازہ سامنے سے کھلتا ہے، دوسرا اور تیسرا درجہ دائیں اور بائیں کان ہیں، اس بیان سے یہ معلوم ہوا کہ پیشانی عرشِ عظیم کی مثال ہے۔

۲۵۔حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی معراج آپؐ کی مبارک پیشانی میں ہوئی تھی، اس لئے کہ ذاتی روحانیّت میں پیشانی عرش کی مظہر ہے، اور آنحضرتؐ کو ایسی کئی معراجیں ہوئی تھیں، مگر نمایان ذکر اسی معراج کا ہے جو پہلی بار حضورِ انورؐ کے سامنے آئی تھی، پس یاد رہے کہ پیشانی کے مقام پر روحانیّت کے جو عجائب و غرائب وقوع پذیر ہوتے ہیں، ان میں عرشِ الہٰی کے عظیم اسرار پوشیدہ ہیں۔

۱۴۲

فقط عزیزوں کا علمی خادم

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

حیدرآباد۔ ہونزا

گلگت

تحریر: ۲۱۔ اگست ۱۹۸۰ء   تحقیق: ۲۸۔ اگست ۱۹۹۱ء

۱۴۳

ضمیمہ

فرشتہ، پری اور دیو کے بارے میں

 

فرشتہ و پری و دیورا بدانستم

کہ ہست و نیز بباید بہست بر، تکرار

زما و کیف بگوی و برسم برہان گوی

گرآمدہ استِ برون این سخنت از استار

۱۔ یہ شخص کہتا ہے کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ فرشتہ، پری اور دیو موجود ہیں، لیکن یہ بے دلیل اقرار کافی نہیں۔ اس لئے بتائیے کہ ان میں سے ہر ایک کیا ہے؟ اور کیسا ہے؟ جیسا کہ کہا: “زماوکیف بگوی‘ و برسم برہان گوی” یعنی ان کی ماہیت و کیفیت کے بارے میں ازروئے قانونِ استدلال بتائیے۔ (اب فرشتہ، پری اور دیو کی ماہیت و کیفیت بتانے سے پہلے یہ جاننا

۱۴۴

ضروری ہے) کہ ماہیت کسی چیز کے “کیا ہونے” کو کہتے ہیں، جو تلاش ہے اس کی جنس کے بارے میں۔ اور کیفیت اس چیز کے “کیسے ہونے” کو، جس سے مراد اس کی شکل اور رنگ ہے اگر وہ چیز جسم ہے، اگر جسم نہیں تو اس کے فعل کی صفات … مثلاً کوئی پوچھے کہ “درخت کیا ہے؟” تو یہ درخت کی جنس کے بارے میں اس کی تلاش ہے۔ اس کے جواب میں اگر کوئی نباتات (اُگی ہوئی چیز) سامنے ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ درخت اس کی جنس میں سے ہے۔ اگر سامنے کوئی نباتات نہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ درخت ایک بڑھنے والا اور مٹی اور پانی کو ایک دوسری صورت میں بدلنے والا جسم ہے۔ اور جو پوچھے کہ “درخت کیسا ہوتا ہے؟” تو اس کو جواب دیا جاتا ہے کہ اس کا ایک سِرا زمین میں گاڑا ہوا ہوتا ہے، اور دوسرا سِرا بہت سی شاخوں اور پتّوں کے ساتھ ہوا میں بلند ہوتا ہے۔ یہ ہیں معنی “ماوکیف” یعنی ماہیت و کیفیت کہ اس شخص نے ان ابیات میں پوچھا ہے۔

۲۔ اگر کوئی فرشتہ کے بارے میں پوچھے کہ “کیا ہے؟” تو اس کے لئے جواب بقول (فلاسفر) کے یہ ہے کہ فرشتے کواکبِ آسمان کے یہ اجرام ہیں جو زندہ و سخنگو ہیں اور خدا کے حکم سے عالم میں کام کرنے والے ہیں۔ ثابت بن قرّۃ الحراتی، جس نے یونانی

۱۴۵

زبان اور رسم الخط سے عربی زبان اور رسم الخط میں فلسفہ کی کتابوں کا ترجمہ کیا ہے اس قول کے ثبوت میں کہ افلاک و کواکب زندہ و سخنگو ہیں، دلیل دیتے ہوئے کہا ہے کہ “انسان کو زندگی اور سخنگوئی اس بنیاد پر حاصل ہے کہ اس کا بدن ایک بہت ہی شریف بدن ہے اور ایک بہت ہی شریف بدن میں جو انسانی بدن ہے ایک بہت ہی شریف روح اُتر آئی ہے اور وہ زندہ و سخنگو روح ہے۔” یہ ایک مقدمۂ صادقہ ہے۔ پھر کہا ہے “اور افلاک و انجم کے اجرام نہایت ہی شریف اور لطیف ہیں اور نہایت پاکیزہ ہیں۔” یہ دوسرا مقدمۂ صادقہ ہے۔ ان دو مقدمات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ افلاک و انجم کی ایک نہایت ہی شریف روح ہے۔ چونکہ وہ روح جو نہایت ہی شریف ہے نفسِ ناطقہ ہے اس لئے افلاک اور انجم بھی نفسِ ناطقہ رکھتے ہیں اور یہ زندہ و سخنگو ہیں۔ یہ ایک دلیل ہے جو اس فیلسوف نے اس قول کے ثبوت میں کہ فرشتے افلاک و کواکب ہیں اور سخنگو ہیں، پیش کی ہے۔

۳۔ فلاسفر پری کو نہیں پہچانتے ہیں، لیکن وہ دیو کے ہونے کا اقرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بدکردار جاہلوں کی وہ روحیں جو بدن سے جدا ہوتی ہیں اسی عالم میں رہ جاتی ہیں، چونکہ یہ حِسی خواہشوں کے ساتھ بدن سے نکل جاتی ہیں، اور وہ خواہشات

۱۴۶

ان کو کھینچتی ہیں اس لئے وہ طبائع سے گزر نہیں سکتی ہیں۔ اور (ایسی روح) ایک بد صورت بدن میں داخل ہوجاتی ہے، اور دنیا میں گردش کر رہی ہے، اور لوگوں کو دھوکہ دیتی، اور بدکرداری سکھاتی ہے، اور بیابانوں میں لوگوں کو گمراہ کردیتی ہے تاکہ وہ ہلاک ہوجائیں، جیسا کہ محمد زکریاءِ رازی نے “کتابِ (علمِ) الہٰی” میں کہا ہے کہ “بدکرداروں کی روحیں جو دیوبن جاتی ہیں، خود کو ایک صورت میں لوگوں کو دکھاتی ہیں اور ان سے کہتی ہیں کہ جاؤ! لوگوں سے کہہ دو کہ میری طرف ایک فرشتہ آیا ہے اور کہا ہے کہ خدا نے تجھے پیغمبری دی ہے، اور میں وہ فرشتہ ہوں! تاکہ اس سبب سے لوگوں کے درمیان اختلاف پڑجائے، اور اس روح کی تدبیر سے جو دیو بن گئی ہے بہت سے لوگ قتل ہوجائیں۔” ہم نے “بستان العقول” میں اس بیباک خبطی کے قول کی تردید میں بحث کی ہے۔ اس لئے اب پھر یہاں اس خبط کے جواب دینے میں مصروف نہیں ہوجائیں گے تاکہ ہم اپنے مقصد سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ یہ ہے فلسفیوں کا قول فرشتہ اور دیو کے بارے میں۔

۴۔ لیکن اہلِ تائید کا جواب جو اس سوال (یعنی فرشتہ کیا ہے؟) کا ہے ہم کتابِ خدا اور شریعتِ رسول علیہ السّلام و علی وارث مقامہ، کے علم کے خازن کی اجازت سے بیان کرتے ہیں کہ: فرشتہ

۱۴۷

ایک مجرّد (یعنی مادّہ سے خالی) روح ہے، جو باری سبحانہ سے ابداع کے ذریعے وجود میں آیا ہے: جیسے عقل، نفس، جدّ، فتح اور خیال، جن کے نام کتاب و شریعت کے ظاہر میں قلم، لوح، اسرافیل، میکائیل اور جبرئیل ہیں۔ اور ابداعی موجودات کے دو اصل (جڑیں) ہیں: جیسے عقل اور نفس۔ اور ان سے تین فرعیں (شاخیں) ہیں: (جیسے) جد، فتح اور خیال، اور دو اصل خلقی جسمانی موجودات کے ہیں: جیسے آباد( واحداب، باپ) اور اُمہّات (واحد اُمّ، ماں) ، یعنی انجم و افلاک اور طبائع۔ اور ان سے بھی موالید تین ہیں: جیسے معادن، نبات اور حیوان، جس کا آخر انسان ہے۔ اور عالمِ صغیر میں دو اصل دین کے ہیں: جیسے رسول (ناطق) اور وصی (اساس) اور ان کی تین فرعیں امام، حجّت اور داعی ہیں۔ اور ان موالید میں سے ہر مولود کی بہت شاخیں ہیں۔

۵۔ پس ابداعی فرشتے مجرّد ہیں جن کا وجود اپنے فعل سے ہے۔ اور ان کا فعل افلاک و کواکب میں نمایان ہے، یعنی کہ افلاک و کواکب جو دیدنی اور ناشنودنی فرشتے ہیں کا نور اور قوّت ان ابداعی فرشتوں سے ہے۔ اور خدا کی غرض ان خلقی اور دیدنی فرشتوں کے مقرر کرنے (تقدیر) سے انسانوں سے بالقوّہ فرشتوں کا حاصل کرنا ہے۔ جن کو رسول اور وصی کتاب و شریعت کے توسط سے (حدِ قوّت سے) حدِّ فعل میں لاتے ہیں۔ اور جس طرح ستارے جو کہ

۱۴۸

دیدنی فرشتے ہیں، بالقوّہ فرشتوں کو پیدا کرنے کے لئے ابداعی فرشتوں جو کہ بالفعل ہیں اور انسانوں کے درمیان جو بالقوّہ فرشتے ہیں واسطہ ہیں، اسی طرح انبیاء واوصیاء و أئمّہ بھی بالقوّۃ فرشتے جو انسان ہیں اور بالفعل فرشتوں جو کہ اَوّلی و ابداعی (فرشتے) ہیں، کے درمیان واسطہ ہیں تاکہ کتاب و شریعت کے توسط سے ان کو بالفعل بنادیں۔ اور جو بالقوّہ فرشتے کو حدِّ فعل میں لاسکتا ہے وہ مرتبۂ فرشتگی تک پہنچا ہوا ہوتا ہے اور وہ زمین میں خدا کا خلیفہ (جانشین) ہوتا ہے، جیسا کہ خدا فرماتا ہے: “قولہٗ وَلَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَّلٰۗىِٕكَةً فِي الْاَرْضِ يَخْلُفُوْنَ  (۴۳: ۶۰) (اور اگر ہم چاہتے تو تم میں سے (منتخب کرکے) فرشتے بناتے اور وہ زمین پر (آدم کی) خلافت کرتے)۔” یہی سبب تھا کہ خدا نے اپنے اوپر ایمان لانے کے بعد اپنے فرشتوں، کتابوں اور پیغمبروں پر بھی ایمان لانے کے لئے فرمایا، جیسے کہ اس نے کہا: “وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ”(۰۲: ۲۸۵) (اور مؤمنین نے بھی ایمان لایا۔ سب نے خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لایا)۔”

۶۔ اور خداتعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے دو گروہوں کو یاد کیا ہے کہ “اپنی پرستش کے لئے پیدا کیا۔” ان میں ایک جنّ کو یاد کیا جس کو فارسی میں “پری” کہتے ہیں اور دوسرے انس یعنی

۱۴۹

آدمی، جیسا کہ فرمایا: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ  (۵۱: ۵۶) (اور میں نے پریوں اور آدمیوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا)۔” اور نہیں فرمایا کہ “میں نے دیو کو پیدا کیا،” بلکہ فرمایا کہ “دیوپری تھے، پس انھوں نے نافرمانی کی اور اپنے خدا کی نافرمانی کی وجہ سے دیو بن گئے،” جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے: وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ (۱۸: ۵۰) اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا (جو) پریوں میں سے تھا اور پھر اپنے پروردگار کے فرمان سے نکل بھاگا۔)” اس آیت کے مطابق دیو کے وجود کا سبب انسان کا وجود ہے۔ کیونکہ خدا فرماتا ہے کہ: ابلیس کو آدم کی فرمانبرداری کا حکم دینے سے پہلے وہ پریوں میں سے تھا۔ پس مخلوق کی دو قسمیں ہوئیں: ایک انسان کی اور دوسری پری کی۔ اور پری کی بھی دو قسمیں ہوئیں: ایک فرشتہ کی اور دوسری دیوکی، یعنی پریوں میں سے جو فرمانبرداری پر (ثابت قدم) رہا وہ فرشتہ ہوگیا اور جو نافرمان ہو وہ دیو بن گیا۔ اور خدا نے اپنی کتاب میں فرشتہ و پری میں کوئی فرق نہیں کیا سوائے اس کے جو فرمایا کہ: جب پری نافرمان ہوگیا تو دیو بن گیا، نہیں تو فرشتہ و پری کو ایک ہی مرتبے میں رکھا ہے، جیسا کہ اس آیت

۱۵۰

سے ظاہر ہے: وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ  (۱۸: ۵۰) یعنی خدا فرماتا ہے کہ “جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے جو پریوں یعنی فرشتوں میں سے تھا۔” پس اس آیت سے ظاہر ہے کہ وہ پری تھا۔ اور پریوں میں سے جو نافرمان نہیں ہوا وہ فرشتہ ہوگیا، جس طرح جو نافرمان ہوگیا وہ دیو بن گیا۔ پس ظاہر ہوا کہ پری کے فرشتہ بننے کا سبب فرمانبرداری ہے، اور دیو بننے کا سبب نافرمانی۔ اور خدا کی فرمانبرداری و نافرمانی رسول کی وساطت کے بغیر نہیں ہوتی ہے، جیسا کہ آدم کے قصّے میں فرماتا ہے کہ: جب ابلیس نے خدا کی نافرمانی کی تو فرشتہ ہونے کے بعد وہ دیو بن گیا۔

۷۔ پس یہ ضروری ہے کہ رسول پری اور انسان دونوں کی طرف رسول ہو، جیسا کہ خدا اپنی کتاب میں فرماتا ہے: قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّهُ اسْتَـمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا يَّهْدِيْٓ اِلَى الرُّشْدِ  (۷۲: ۰۱ تا ۰۲) (کہہ دو کہ میرے پاس وحی آئی ہے کہ پریوں کی ایک جماعت نے (قرآن کو) جی لگا کرسنا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سُنا ہے جو بھلائی کہ راہ دکھاتا ہے)۔” دوسری جگہ پر اپنے رسول سے فرمایا کہ “جب پریوں کے ایک گروہ کو تمھاری طرف بھیجا تاکہ قرآن کو غور سے

۱۵۱

سُنیں۔ جب وہ حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا غور سے سُنو، جب انھوں نے سُنا تو اپنی قوم کی طرف (ڈرانے والوں کی حیثیت سے) واپس ہوگئے اور کہا: ای ہماری قوم ! خدا کے داعی کو قبول کرو۔” جیسا کہ اس نے کہا: وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ (۴۶: ۲۹)۔” اور دوسری جگہ پر فرمایا۔ “کہو! اے لوگو! میں خدا کا رسول ہوں تم سب کی طرف (جمیعا)” یعنی انسانوں اور پریوں کی طرف۔ اور لفظ “جمیعا” پری کو انسان کے ساتھ ملا دیتا ہے۔ اور یہ لفظ اس پر دلیل ہے کہ پری انسانوں میں سے ہے، جب وہ فرماتا ہے کہ “کہو! اے لوگو! میں خدا کا پیغمبر ہوں تم دونوں کی طرف”  یعنی انسان اور پری، قولہ “قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨ (۰۷: ۱۵۸) نیز سورۂ الرحمٰن میں عتاب کے طور پر اکتیس جگہوں پر فرماتا ہے۔ “ای انسانو اور پریو! تم دونوں اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں سے پیغمبر کو جھٹلاؤ گے؟ فبأیّ آلائِ رَبِّکُما تکذبّان (اے آدمیو اور پریو! تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں سے انکار کرو گے)۔” پس ان آیتوں سے ثابت ہوا کہ پیغمبر آدمیوں کی طرف بھی پیغمبر تھے اور پریوں کی طرف بھی۔

۱۵۲

۸۔ اور یہ جاننا ضروری ہے کہ عالمِ دین میں انسان کے دو گروہ ہیں: ایک پریوں کا گروہ اور دوسرا آدمیوں کا اور پریوں کے بھی دو گروہ ہیں کہ ان میں سے جو فرمانبرداری پر قائم رہا وہ فرشتہ بن کر اس عالم سے گزر جاتا ہے، اور جو فرمانبرداری سے منہ موڑ دے تو وہ دیو بن کر اس عالم سے باہر جاتا ہے، اور عام لوگوں کے نزدیک یہ مشہور ہے کہ پری خوبصورت ہے اور دیو بد صورت۔ اور چونکہ دیو کی بدصورتی نافرمانی کی وجہ سے ہے، اس لئے پری کی خوبصورتی فرمانبرداری سے ہونا لازمی ہے۔ اور یہ خوبصورتی و بدصورتی اعتقاد کی وجہ سے ہے، جو کہ روحانی ہے نہ کہ جسمانی۔ اور عام لوگوں کے ہاں پریاں لوگوں سے پنہان ہیں۔ اور پری کا نام عربی میں “جنّ” ہے، جس کے معنی پوشیدہ یا چھپے ہوئے کے ہیں۔ پس ظاہر ہوا کہ رسول کی اُمّت میں سے کچھ پوشیدہ ہیں اور کچھ آشکار ہیں، اور جو پوشیدہ ہیں وہ حدِّ قوّت میں فرشتے ہیں: ان میں سے جو فرمانبرداری کے ساتھ اس عالم سے باہر جاتا ہے وہ حدِّ فعل میں فرشتہ بن جاتا ہے، اور جو فرمانبرداری سے پھر جاتا ہے وہ حدِّ قوّت میں دیو ہوجاتا ہے، اور (اسی حالت میں) دنیا سے نکل جائے تو حدِّ فعل میں دیو ہوجاتا ہے۔ اور وہ جو آشکارا ہیں وہ حدِّ قوّت میں پریاں ہیں اور جب تک وہ حدِّ فعل میں پری نہ ہو جائیں تو حدِّ قوّت میں فرشتہ نہیں ہوتے ہیں، اور جو حدِّ قوّت میں

۱۵۳

فرشتہ نہ ہو تو حدِّ فعل میں فرشتہ نہیں ہوتا۔ پس اس گروہ میں سے جو آشکارا ہے، جو پری ہوجاتا ہے وہ ان دوسروں سے پنہان ہو جاتا ہے تاکہ پری ہوکر فرشتہ بنے۔ اور یہ جو کچھ ہم نے کہا وہ ایک مثال ہے اہلِ ظاہر و باطن کی، کہ جو ظاہر سے باطن میں آتا ہے ایسا ہے کہ آدمی پری ہوجائے اور خوبصورت ہوجائے۔

۹۔ اور پیغمبر کے نزدیک ان دونوں اُمتّوں میں سے دیو ہیں، یعنی وہ جو حدِّ پنہانی سے پھر جاتے ہیں دیو ان جِنّی کی طرح ہیں، اور وہ جو پوشیدگی کی حد میں آنے کے لئے آشکارگی (کی حد) سے پھر جاتے ہیں وہ دیوانِ انسی کی طرح ہیں، جیسا کہ خدا نے فرمایا: “وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ  (۰۶: ۱۱۲) (اور اسی طرح ہم نے انسی اور جِنّی دیوؤں کو ہر نبی کے لئے دشمن بنایا)۔”

۱۰۔ اور ہم کہتے ہیں کہ نفسِ ناطقہ ہر انسان میں بالقوّہ فرشتہ ہے، اور بالقوّہ فرشتہ پری ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا۔ اور نفسِ شہوانی (یعنی خواہشات والی روح) اور نفسِ غضبی (یعنی غضب رکھنے والی روح) ہر ایک انسان میں دو بالقوۃ دیو ہیں۔ ہر وہ شخص جس کا نفسِ ناطقہ نفسِ غضبی اور شہوانی کو اپنی فرمانبرداری میں لائے تو وہ فرشتہ ہوجاتا ہے اور ہر وہ شخص جس کے نفسِ شہوانی اور نفسِ غضبی نفسِ ناطقہ کو اپنی فرمانبرداری میں لائیں تو وہ

۱۵۴

بالفعل دیو بن جاتا ہے۔ اور رسول مصطفٰےؐ نے فرمایا کہ انسان کے دو دیو ہیں جو اس کو دھوکہ دیتے ہیں، جیسا کہ اس حدیث میں ہے: “لِکُلِّ انسانٍ شیطانان یُغْوِیانہ (ہر انسان کے دو دیو ہیں جو اسے گمراہ کردیتے ہیں)۔” اس حدیث میں ظاہر ہے کہ انسان نفسِ ناطقہ ہے جو ایک ہے اور اس کے دیو دو ہیں: ایک نفسِ شہوانی اور دوسرانفسِ غضبی۔ پھر رسول سے پوچھا گیا کہ “اے پیغمبر! کیا تمھارے بھی یہ دو دیو ہیں؟” آنحضرتؐ نے فرمایا کہ “میرے بھی دو دیو تھے لیکن خدا نے میری نصرت فرمائی اور میں نے ان کو مسلمان بنایا۔” اور حدیث کے الفاظ جو آنحضرتؐ نے فرمائے، یہ ہیں: حدیث “کانالی شیطانان ولٰکن نَصَرَنی اللہ علیھما فأ سلما ( میرے دو دیو تھے لیکن خدا نے مجھے ان دونوں پر نصرت بخشی اور وہ دونوں مسلمان ہوگئے)۔” پس ہم نے ظاہر کردیا کہ انسان میں فرشتہ (بھی) ہے اور دیو (بھی) اور وہ خود پری ہے۔ دیو خدا کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے بلکہ اس کا وجود اپنی نافرمانی کی وجہ سے ہے۔ اور پری حدِّ قوّت میں فرشتے ہیں، اور جب وہ فرمانبرداری (کے راستے پر) چلتے ہیں تو وہ حدِّ فعل میں آتے ہیں، اور دیو بھی حدِّ فعل میں آتے ہیں جب وہ نافرمانی (کے راستے پر) چلتے ہیں۔ اور انسان بالقوّہ فرشتے اور دیو ہیں، اور وہ عالم بالفعل

۱۵۵

فرشتوں اور دیوؤں سے بھرا ہوا ہے اور یہ ایک مفصل اور مشروح بیان ہے۔

 

ترجمہ از کتاب جامع الحکمتین، سید نا حکیم پیر ناصر خسرو قدس سرہ

 

فقیر محمد ھونزائی، لنڈن

۱۱۔ جولائی ۱۹۹۱ء

۱۵۶

قوانینِ قرآن

قوانینِ قرآن

ماہِ محل بدرالدین برانچ

ماہِ محل بدرالدین کی بہت بڑی ازلی سعادت ہے کہ انہوں نے کریم آباد ریلیجس نائٹ سکول جیسی عظیم درسگاہ میں کئی سال تک آنریری ٹیچر کی حیثیت سے بہترین خدمات انجام دیں، درحالے کہ آپ کی پاکیزہ روح حقیقی علم کے زیور سے آراستہ تھی، بعد ازان امریکا میں بقدرِ امکان اپنے عزیز استاد کی علمی نمائندگی کرتی رہیں، اور اب بفضلِ خدا “ایم۔بی برانچ” کے درجے میں آپ دونوں عملدار کام کر رہے ہیں، یعنی محترم بدرالدین ایڈوائزر اور محترمہ ماہِ محل سیکریٹری ہیں، مجھے کامل یقین ہے کہ ان عزیزوں کی جملہ زرین خدمات دراصل امامِ عالیمقام علیہ السّلام ہی کے لئے ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ ان کی نورِ چشم بیٹی ملکۂ سبابھی اپنے وقت میں عظیم و نامور اسماعیلیوں کی طرح حضرتِ امامِ اقدس علیہ السّلام کی خدمت کرے گی، آمین!

 

۲۵۔ دسمبر ۱۹۹۳ء

 

 

مختصر حالاتِ مصنف

 

یہ بندۂ خاکسار قریۂ حیدر آباد، ہونزا (ہ۔و۔ن۔ز۔ا) میں بتاریخ … ۱۳۳۵ھ / ۱۹۱۷ء پیدا ہوا، میرے والدِ محترم خلیفہ حبِّ علی ابنِ خلیفہ محمد رفیع نے اپنے اس سب سے چھوٹے فرزند کا نام پرتوِ شاہ

رکھا، اور جب میری بروشسکی

شاعری کا آغاز ہوا، تو اس وقت میں نے اپنا قلمی نام نصیر الدین اور تخلص نصیرؔ اختیار کیا، اور چونکہ اس خطۂ ارضی کا حق شناخت بھی واجب ہوتا تھا، جس کے عناصرِ اربعہ سے میرے وجودِ جسمانی کی تخلیق و تعمیر ہوئی تھی، لہٰذا ہونزا کی تاریخ میں سب سے پہلے میں نے ہی نام کے آخر میں لفظِ  “ہونزائی” درج کیا، اور خدائے بزرگ و برتر کی رحمت و مہربانی سے ایک قلمی انقلاب کا آغاز ہوا، اور بڑھتا ہوا جاری رہا۔

وہ زمانہ معاشی اور معاشرتی اعتبار سے بڑا سخت اور بہت ہی مشکل تھا، ریاستِ ہونزا میں میر محمد نظیم خان جیسے قدامت پسند حکمران کی حکومت- پوری ریاست کے صرف صدر مقام میں ایک ابتدائی سکول – باہر جاکر تعلیم حاصل کرنے پر بڑی سخت پابندی – نتیجے کے طور پر علاقے کے تمام بچوں کے ہاں اپنی اپنی بکریاں چرانے کا رواج – اگر انہیں ذرا سا وقت مل گیا تو کسی پسندیدہ

 

۵

 

کھیل میں مصروف رہنا – یہی وہ زمانہ تھا، جس میں اگر وہاں کوئی اعلیٰ درسگاہ ہوتی تو شاید میں اور دوسرے بہت سے بچے کوئی بڑی تعلیم حاصل کرسکتے، لیکن خداوندِ تعالیٰ جو قادرِ مطلق ہے، اس کے لئے کوئی شے ناممکن اور ان ہونی نہیں، چنانچہ اُس نے اپنی عنایتِ بے نہایت سے مجھ ناچیز پر ایک انتہائی سخت قسم کا مؤکل اور نگران بٹھا دیا، اسکا نام شوق یا جذبہ ہے، وہ مجھے ہر وقت حصولِ علم پر آمادہ کرتا اور ابھارتا رہا، پس میں نے کچھ تعلیم گھر سے، کچھ گاؤں سے، کچھ پرائمیری سکول بلتت سے، اور کچھ مختلف استادوں سے حاصل کی، نیز گلگت سکوٹس اور پھر آرمی میں شامل ہونے سے کافی معلومات فراہم ہوئیں، اس کے علاوہ کتب بینی اور ذاتی روحانیّت کا انتہائی عظیم انقلاب جو اپنے دامن میں بے شمار علمی برکتیں لیکر آیا، میں کیسے اسے بھلا سکتا ہوں، یہ ملک چین کا واقعہ ہے۔۔۔۔

“قراقرم رائٹرز فورم گلگت” کے آفس سیکریٹری جناب شیر باز علی خان پرچہ کی کتاب “تذکرۂ اہلِ قلم و شعرائے گلگت” میں میرے حالات زندگی کا ایک ضروری حصّہ درج ہے، جو عنقریب شائع ہوگی، اور میری زندگی کے غیر معمولی واقعات پر ریسرچ (تحقیق) کرنے کی غرض سے میرے دوستوں نے “ادارۂ عارف” کو قائم کیا ہے، علاوہ برآن ہمارے دو ادارے اور ہیں: خانۂ حکمت، اور برشسکی ریسرچ اکیڈمی، ہر ادارے کے

 

۶

 

انتہائی مخلص و جان نثار عملدار اور ارکان ہیں، اور تینوں ادارے ایک سرپرستِ اعلیٰ کے تحت کام کررہے ہیں، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری کتابوں اور ان میں سے بعض کے ترجموں کی مجموعی تعداد میری عمر کے سالوں سے تقریباً دگنی (۷۱ x  ۲ = ۱۴۲) ہوگئی ہے، ترجمہ کے عظیم کارناموں کے لئے میں عزیز دوستوں کا مرہونِ منت ہوں، ہم نے اور ہمارے احباب نے (جن کے کار ہائے نمایان آئندہ تاریخ میں ناقابلِ فراموش ہوں گے) مل کر مختلف ممالک کے لاکھوں انسانوں کو روحِ اسلام کا پیغام سنایا، اور اگر خدا چاہے، تو کارِ خیر کا یہ دائرہ اور بھی وسیع تر ہوسکتا ہے۔

میں قرآن و روحانیّت کی روشنی میں نئی اور آئندہ نسل سے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اسلامی روح کے عجائب و غرائب سے متعلق جو علم ہے، اس کا مطالعہ کریں، خود کو قبولِ روحانیّت کے لئے تیار کر رکھیں، کیونکہ عنقریب ایک روحانی انقلاب کی آمد آمد ہے، اس لئے کہ آفاقی آیات/معجزات یعنی سائنسی اکتشافات کے فوراً بعد ہی روحانی معجزات ظہور پذیر ہونے والے ہیں (القرآن، ۴۱: ۵۳) یہ اڑن طشتریاں کیا ہیں، جو پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھی تھیں؟ یہ جسمِ لطیف کا قصّہ کیوں مشہور ہو رہا ہے؟ یہ بعض درویش کیوں کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے روح کا مشاہدہ کیا، جنّ کو دیکھا، اور آسٹرل باڈی سے ملاقات کی؟

 

۷

 

یہ آج کی دنیا میں علومِ مخفی (OCCULT SCIENCES) کا ایسا رجحان کیوں ہے؟ پس اس روشن حقیقت میں کوئی شک ہی نہیں کہ روحانی ترقی کا دور آرہا ہے، جسکی بہت سی پیش گوئیاں قرآنِ پاک میں موجود ہیں۔

میں روحانیّت پر کیوں یقین رکھتا ہوں، اور کس بنا پر اس کا مشورہ دیتا ہوں، اگر آپ کو اس کا پس منظر جاننا ہے، تو میری کتابوں کو پڑھیں، ان میں جو چیزیں پسند ہوں، وہ آپ قبول فرمائیں، اور باقی ہمارے لئے چھوڑدیں، یہ کتابیں سو میل پا پیادہ سفر کرنے کی طرح ضخیم نہیں کہ آپ کو تھکائیں، بلکہ ہوائی جہاز میں سوار ہوکر کم وقت میں زیادہ مسافت طے کرنے کی مثال پر مختصر اور جامع ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ میری ایک کتاب “روح کیا ہے؟” ایک علمی انقلاب ہے، جس پر آج نہیں تو کل ضرور کہیں ریسرچ ہوگی، میرا خیال ہے کہ میں نے ذہنی علاج کے سلسلے میں اسلامی طریقِ کار کو اجاگر کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں: قرآنی علاج، علمی علاج، اور روحانی علاج، میں نے قرآنی علاج ص ۱۲۶ پر دنیا بھر کے ممالکِ اسلامیہ سے عاجزانہ گزارش کی ہے کہ وہ اب روحانی سائنس کے ادارے قائم کریں، والسلام۔

 

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

ہفتہ ۱۸۔ رجب المرجب ۱۴۰۹ھ

۲۵۔ فروری ۱۹۸۹ء

 

۸

 

شجرۂ کار

(۱۹۹۳ء)

 

شجرۂ کار سے متعلق سابقہ معلومات کے لئے کتابِ “لعل و گوہر” کے صفحات از ۱۲ تا ۱۸ کو پڑھیں، خداوندِ قدوس کی عنایتِ بے نہایت سے علمی بہشت کا یہ سدا بہار درخت ہمہ وقت علم و حکمت کا میوۂ روح پرور دیتا رہتا ہے، اور اس کی روز افزون ترقی پر ہم سب مل کر جتنا بھی شکر کریں، وہ انتہائی قلیل ہوگا، پس اے دوستانِ عزیز! اب ہمیں ان بے شمار عظیم نعمتوں کی ناشکری سے ڈرتے ہوئے ربِّ غفور کی بارگاہِ اقدس میں گریہ و زاری اور مناجات کرنے کی سخت ضرورت ہے، تاکہ وہ کریم کار ساز رحیمِ بندہ نواز ہمیں ایسی اعلیٰ توفیق و ہمت عنایت فرمائے کہ جس سے ہم اس کی ہر نعمت کی شکر گزاری اور قدر دانی کرسکیں۔

خداوندِ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے تمام عملداروں اور ممبروں نے شرق و غرب میں مجموعی طور پر جتنا کام کیا ہے، جوجو عظیم کارنامے انجام دیئے ہیں، اور جتنی علم کی روشنی پھیلائی ہے، اس کی تفصیلات بیان کرنا میرے لئے انتہائی مشکل کام ہے، اس لئے میں یہاں صرف شجرۂ کار کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا

 

۱۰

 

ہوں۔

عزیز ساتھیو! آپ کو تاریخی معلومات فراہم کردینے کی خاطر آج میں سب سے پہلے شمالی علاقہ جات کے دوستانِ حمیم اور یارانِ قدیم کا کچھ تذکرہ کر رہا ہوں، کیونکہ وہ ہمارے اس زمانے کے حامی اور ساتھی رہ چکے ہیں، جس میں ہم بار بار بڑی مشکلات سے دوچار ہوجاتے تھے، مثال کے طور پر جب ہم نے اپنے گاؤں حیدرآباد میں شمالی علاقہ جات کی اوّلین رضا کار تنظیم قائم کی تو اس وقت ریاستِ ہونزا کے اہلِ سیاست نے بڑی شدّت سے ہماری مخالفت کی، اور بعض والینٹیئرز کو فرداً فرداً ڈرانے کی کوششیں ہوئیں، لیکن خدا کی مدد شاملِ حال تھی، لہٰذا ہمارے عالی ہمت جوان اس عملِ خیر پر ڈٹے رہے، کیونکہ ہمارا منصوبہ نیک تھا، اور جوانوں کا انتخاب میں میں نے بہت سی خوبیوں کی بنیاد پر کیا تھا، چنانچہ میں نے ان کی حوصلہ افزائی کی خاطر ایک عمدہ بروشسکی ترانہ بھی بنایا، جو دیوانِ نصیری میں موجود ہے، جس کو والینٹیئرز اور دوسرے سب بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔

الغرض کراچی مرکز نے اب اپنی شاخِ گلگت کوریجنل برانچ کا درجہ دیدیا ہے، جس کی ذیلی برانچز آٹھ ہیں: ۱۔ مسگار برانچ، ۲۔ التت۔ کریم آباد برانچ، ۳۔حیدرآباد۔ علی آباد برانچ، ۴۔ مرتضیٰ آباد برانچ، ۵۔ اوشی کھنداس برانچ، ۶۔نومل برانچ، ۷۔ زیارت خان

 

۱۱

 

برانچ، ۸۔ یاسمین شیرولی برانچ کا نام ان شاء اللہ درج ہوگا۔

عزیزم زیارت خان بڑی جانفشانی سے علم و حکمت کی خدمت کررہے ہیں، اس لئے ان کی شخصیت کو ۲۵ اشخاص پر مبنی برانچ کا درجہ دیا گیا، تاکہ بہترین خدمت کی ایک مثال قائم ہوجائے، مجھے یقین ہے کہ اس ترقی سے گلگت کے ہمارے تمام عزیزان خوش ہوجائیں گے۔

کراچی مرکز سے وابستہ اسلام آباد برانچ کا نام ۲۶۔ نومبر ۱۹۹۳ء سے نذیر صابر برانچ مقرر ہوا ہے، یہ ان گرانقدر اور قابلِ ستائش خدمات کی وجہ سے ہے، جن کو حقیقی علم کی روشنی پھیلانے کی خاطر نذیر صابر صاحب انجام دے رہے ہیں، کراچی میں اس وقت دو برانچز ہیں: شاہ بی بی برانچ، اور کریم آباد برانچ۔

مغرب میں ہماری یہ برانچز ہیں: لنڈن برانچ (یو۔کے) امام داد برانچ (فرانس) شکاگو برانچ (امریکا) یاسمین نور علی برانچ (امریکا) ماہِ محل بدرالدین برانچ (امریکا) عزیز راجپاری برانچ (امریکا) مرینہ شفین برانچ (امریکا) ایڈمنٹن برانچ (کنیڈا) یاسمین کریم برانچ (کنیڈا) آپ ہمارے شجرۂ کار کو دیکھیں، اس میں مرینہ شفین برانچ کا نام ہنوز درج نہیں ہوا، ان شاء اللہ بعد میں ہوگا۔

ہمارے عزیزان جو علمِ اہلِ بیت کے متعلمین اور خادمین میں سے ہیں، بڑے خوش نصیب ہیں کہ زمانۂ قیامت اور دورِ تاویل کی نہ

 

۱۲

 

صرف شناخت رکھتے ہیں، بلکہ اس خصوصی علم کے انمول جواہر سے دوسروں کو مستفید بھی کررہے ہیں، جن لوگوں کو امامِ زمان صلواۃ اللہ علیہ کا علمی صدقہ مل رہا ہو،ان کی سعادتمندی کا کیا کہنا، مگر بات یہ ہے کہ خداوندِ عالم ایسی بے شمار نعمتوں کی شکر گزاری کی توفیق و ہمت عنایت کرے! آمین یا ربّ العالمین!

نوٹ: “جشنِ خدمتِ علمی”  تمام عزیزوں کو مبارک ہو! یہ ایک عملی عید ہے، جو سال بھر جاری رہے گی۔

 

این این ہونزائی

کراچی

۲۱۔جمادی الثانی ۱۴۱۴ھ

۶۔ دسمبر ۱۹۹۳ء

 

۱۳

 

ابتدائی کلمات

 

۱۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم: ہر اعلیٰ تعریف اس ذاتِ پاک کے لئے ہے جو قدیم اور احد وصمد ہے، وہی خدائے برحق اور دانائے مطلق ہے، وہ اوّل، آخر، ظاہر، اور باطن اس معنیٰ میں ہے کہ اس کے لئے کوئی حد نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، نہ کوئی ضد ہے، وہ ایک اور اکیلا ہے، لیکن عددِ واحد کی طرح نہیں، اس کی صفتِ لم یلد۔ ولم یولد (نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ) میں اگرچہ علم الاشارۃ کا ایک خزانہ پوشیدہ ہے، تاہم ضروری نکتہ یہ ہے کہ اولاد ہونے کے کئی مقاصد ہیں، مثلاً اولاد کو دیکھ کر خوش ہوجانا، باپ کے کام میں مدد کرنا، بیماری میں تیمار داری، باپ کی موت کے بعد جانشینی وغیرہ، لیکن خدا ہر ضرورت سے بے نیاز و برتر ہے، نیز یہ بھی محال ہے کہ خدا کسی کی اولاد ہو، کیونکہ اولاد وہ ہے جو زمانہائے دراز تک نہ ہونے کے بعد پیدا ہوجاتی ہے، جبکہ اللہ کے لئے کوئی ایسا زمانہ نہیں، جس میں وہ جلّ جلالہ حیّ و حاضر نہ ہو۔

 

۲۔ مجموعۂ معجزات:

حضرتِ محمد مصطفیٰ رسول اللہ، حبیبِ خدا، خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیمثال ذاتِ اقدس کی جیسی

 

۱۴

 

عظمت و جلالت تھی، اس کا سب سے بڑا ثبوت اور لاتعداد معجزات کا مجموعہ قرآنِ حکیم ہے، ساتھ ہی ساتھ قرآنِ پاک سب کے لئے ہدایت نامۂ الہٰی بھی ہے، چنانچہ اللہ کے فضل و کرم سے تقریباً چودہ سوسال کے عرصے میں قرآنِ عظیم کے ظاہری علوم پر علمائے کرام نے بہت کام کیا ہے، اور بہت کچھ تحریر فرمایا ہے، لیکن باطنی علوم کی طرف بہت کم توجہ دی گئی، چنانچہ یہ بندۂ ناچیز اپنی قلمی کمزوریوں کے باوجود خدا کا نام لیکر اس وسیع میدان میں کسی نامور بزرگ کے نقشِ قدم پر چل پڑا، اور کامیابی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

 

۳۔ بحث و مناظرہ:

سب سےپہلے آج میں یہ کہوں گا کہ اگر میں درویش ہوں تو مجھے کسی سے مناطرہ نہیں کرنا چاہئے، ویسے بھی بحث و مناظرہ کا وقت ختم ہوچکا ہے، میری عاجزانہ گزارش یہ ہے کہ کوئی شخص مجھے سوالنامہ نہ لکھے، وہ بیشک دستیاب کتابیں پڑھ سکتا ہے، یہ کوئی دانشمندی نہیں کہ ہم اپنی عمرِ گرانمایہ کے قیمتی اوقات کو فضول بحثوں میں صرف کریں۱، ہونا یہ چاہئے کہ ہم نیک نیتی اور خیر خواہی کے جذبے سے سرشار ہوکر قرآن اور اسلام کی علمی خدمت کریں، اور صاف دلی سے تقریر و تحریر کا فائدہ پہنچائیں۔

 

۴۔ نور اور اسرارِ قرآن:

جس طرح ظاہر میں دنیا کی ہر چیز کی

 

۱: میرا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے عزیزان تعلیمی سوالات نہ کریں۔

 

۱۵

 

شناخت سورج کی روشنی میں ہوسکتی ہے، اسی طرح قرآنِ عزیز کے باطن میں علم و حکمت کے جواسرار ہیں، ان کی معرفت ہادیٔ زمان کے نورِ اقدس سے حاصل ہوجاتی ہے، کیونکہ وہی انسانِ کامل قرآنِ ناطق بھی ہے، اور معلّمِ ربّانی بھی، جیسے زمانۂ نبوّت میں آنحضرتؐ خود نورِ مجسّم، قرآنِ ناطق، اور معلّمِ کتابِ سماوی تھے، اور اس حقیقت سے کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا ہے، کیونکہ قرآنِ پاک اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے پیغمبرِ اکرم صلعم کا سب سے بڑا معجزہ ہے، لہٰذا یہ معجزاتی کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد آپؐ کے برحق جانشین کے سوا اور کوئی نہیں کرسکتا ہے۔

 

۵۔ ذوالقرنین:

امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کا روحانی لقب ہے، پُرحکمت قصّہ سورۂ کہف کے رکوعِ یازدہم (۱۸: ۸۳ تا ۱۰۱) میں غور سے پڑھ لیں، قرآنِ حکیم میں کوئی لفظ کوئی نام حکمت کے بغیر نہیں، پس ذوالقرنین کے لفظی معنی ہیں دو زمانوں کا مالک، اور اس کی تاویل ہے زمانۂ ظاہر اور عصرِ باطن کا مالک، کیونکہ انسانِ کامل پر دہرے قسم کے واقعات گزرتے ہیں: ظاہر میں اور باطن میں، “ذوالقرنین” کی اس وجہِ تسمیہ کے بعد ہی یہ بنیادی حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ سورج تک رسائی کا سفر روحانی اور تاویلی ہے، اور سورج سے نورِ عقل مراد ہے، کیونکہ آج کے زمانے میں سائنس کی روشنی میں فکرِ جدید

 

۱۶

 

کی سخت ضرورت ہے، کیا ظاہری سورج ہماری زمین سے کروڑوں میل کی مسافت پر نہیں ہے؟

 

۶۔ راستوں والاآسمان:

قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: وَالسَّمَاۗءِ ذَاتِ الْحُبُكِ = قسم ہے آسمان راستوں والے کی (۵۱: ۰۷) یہ آسمان مرتبۂ نورِ عقل پر امامِ عالیمقامؑ ہی ہے، جس سے اسرارِ علم و حکمت کے راستوں کی ہدایت ملتی ہے، انہی راستوں کو سُبُلَ السَّلٰمِ (۰۵: ۱۶) بھی کہا گیا ہے، اور یہی راستے قصّۂ ذوالقرنین (۱۸: ۸۴) میں سبب اور اسباب بھی ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: وَاٰتَيْنٰهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا  =اور ہم نے اس کو ہر (روحانی اور عقلانی) چیز کا راستہ دکھایا۔

 

۷۔ فنا فی اللہ کی دوسری تشریح:

میں نے “چہل حکمتِ جہاد” کے دیباچہ میں فنافی اللہ و بقا باللہ کی تشریح حدیثِ قدسیٔ نوافل سے کی ہے، جو بہت ہی عمدہ اور بڑی دلنشین ہے، اب یہاں اسی مقصد کے پیشِ نظر ایک اور عالیشان حدیثِ قدسی کو لیتے ہیں، وہ یہ ہے: عبدی اطعنی اجعلک مثلی حیّاً لاتموت، وعزیزاً لاتزل، و غنیاً لا تفتقر = اے میرا بندہ! میری اطاعت کرتا کہ میں تجھ کو اپنی ہستی کی طرح (ہمیشہ کے لئے) زندہ بناؤں گا کہ تو کبھی نہیں مرے گا، اور ایسا باعزت بناؤں گا کہ تو کبھی ذلیل نہیں ہوگا، اور ایسا توانگربناؤں گا کہ تو کبھی مفلس نہیں ہوگا۔ پس یہ حدیثِ قدسی عارفِ کامل کی فنا فی اللہ و بقا باللہ کی سب سے بہترین وضاحت اور سب سے

 

۱۷

 

روشن ترین دلیل ہے۔

 

۸۔ قوانینِ قرآن:

خداوندِ قدوس کی رحمت و مہربانی سے جون ۱۹۹۳ء میں لنڈن کے عظیم المرتبت دوستوں کے ساتھ بہت سے علمی مشورے ہوئے، اور اس میں یہ تجویز بھی ہوئی کہ “قوانینِ قرآن” کے موضوع پر لکھا جائے، اور “علم الاشارۃ” کے بارے میں شاید کراچی میں بات ہوئی تھی، اب یہ قوانینِ قرآن حصّۂ اوّل آپ کے سامنے ہے، ہر چند کہ قرآنِ شریف کی ہر آیۂ کریمہ بجائے خود ایک قانون کا درجہ رکھتی ہے، تاہم مختلف موضوعات کی بناء پر بعض آیاتِ کریمہ کا انتخاب بھی ہوتا ہے، مثال کے طور پر قانونِ ہدایت کے لئے جملہ متعلقہ آیات میں سے نمائندہ آیۂ کریمہ یہ ہے:  اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ   (اے رسولؐ) تم تو صرف ڈرانے والے ہو، اور ہر قوم کے لئے ایک ہدایت کرنے والا (یعنی امام ہوا کرتا) ہے (۱۳: ۰۷)۔

 

۹۔ صاحبِ جثۂ ابداعیہ:

یعنی امامِ زمان علیہ الصلاۃ والسّلام، جو جسمِ لطیف کے مالک ہیں، اگرچہ حضرتِ مولا کے اس انتہائی عظیم معجزے کا ذکرِ جمیل کئی بار ہوچکا ہے، لیکن عشاق ہر وقت دیدارِ پاک اور اس کا تذکرۂ شیرین چاہتے ہیں، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے: وَمِنْ اٰيٰتِهٖ يُرِيْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَـعًا = اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ تم کو ڈرانے اور امید دلانے کے واسطے بجلی (نورانی ہستی =جثۂ ابداعیہ) دکھاتا ہے (اور آسمان سے پانی برساتا ہے، ۳۰: ۲۴)

 

۱۸

 

بیشک ظاہری نورانی دیدار میں خوف بھی ہے اور عشق (طمع) بھی، اور یہ روحانی ترقی کا وہ اعلیٰ مقام ہے، جہاں آسمانِ عقل سے علمِ لدنّی کا پانی برستا ہے، جس میں حقیقی زندگی ہے، الحمد للّٰہ ربّ العّالمین۔

 

۱۰۔انا الساعۃ:

کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت نمبر ۲۷ میں مولا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: اَنَا السّاعۃُ = میں ساعت (یعنی قیامت) ہوں، اور اس حدیثِ شریف میں بھی یہی تاویل ہے: بُعِثْتُ اَنا والسَّاعَۃَ کَھاَتَیْنِ = میں اور قائم (ساعت =قیامت) ان دو انگلیوں کی طرح ساتھ ساتھ بھیجے گئے ہیں (بحوالۂ کتابِ وجہ دین، اردو، حصّۂ اوّل، ص ۹۹) یقیناً قرآنِ پاک کے ہر ایسے مقام پر حضرتِ قائم علیہ السّلام کا ذکر ہے، جہاں کسی بھی عنوان سے قیامت کا بیان آیا ہو، سب جانتے ہیں کہ قرآنِ عظیم احوالِ قیامت کے تذکروں سے بھرا ہوا ہے، اور یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ بادشاہِ مطلق ہے، اس لئے وہ صرف امر فرماتا ہے، جس سے ہر عظیم فرشتہ اپنا کام کرتا ہے، جیسے فرشتۂ قلم خدا کے حکم سے لکھتا ہے، فرشتۂ لوح اس عقلانی اور روحانی تحریر کو اپنی ذات میں محفوظ کرلیتا ہے، اور دوسرے تمام فرشتے اپنا اپنا کام کرتے ہیں، اسی طرح حضرتِ قائم القیامت علیہ السّلام جو انہتائی عظیم فرشتہ ہے، وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے کارِ قیامت

 

۱۹

 

کے لئے مقرر ہے۔

 

۱۱۔ دعائے بے مثال:

سید الانبیاءِ والمرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعائے مقدّسہ و مبارکہ اپنے وقت میں معجزانہ اور بے مثال تھی، (۰۴: ۶۴، ۰۹: ۹۹، ۰۹: ۱۰۳) اور یہی پاک و بابرکت دعا امامِ آلِ محمدؐ کے نور میں جاری و باقی ہے، پس ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مولا ہم سے راضی ہو، تاکہ اس کی نورانی دعا ہمارے حق میں کام کرتی رہے، ہر مومن اور مومنہ کے لئے علیٔ زمانؑ کی دعا اور خوشنودی سے بڑھکر کوئی نعمت نہیں۔

 

۱۲۔ خاموش خادم:

عزیز ساتھیو!آپ ہر ہر نعمت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے شکر کریں، خاموش خادم بن جائیں، دل و دماغ اور طبیعت میں نرمی اور عاجزی پیدا کریں، کیونکہ ساری حکمت و دانائی اسی میں ہے، فخر و غرور کے جراثیم کو مارنے کے لئے گریہ و زاری اور مناجات سے کام لیں، اگر یہ درست ہے کہ آپ “تنظیمِ اخوان الصفا” کی طرح امامِ عالیمقامؑ کا ایک باطنی ادارہ ہیں، تو پھر آپ کو صرف باطنی اور اخروی عزت ملے گی، مولا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، اس لئے اس کے ادارے دونوں مقام پر ہوسکتے ہیں۔

 

۱۳۔ فدا ہوجانے کی تاویل:

اگر ہم کو اپنے محبوب امامؑ سے عشق ہے تو اس کی سرمستی میں کہنا ہوگا کہ ہم مولا کے ہر ادارے سے قربان اور فدا ہوجائیں! خصوصاً ان اداروں سے، جن میں دینی

 

۲۰

 

علم کا کام ہوتا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ ہم فعلاً فدا ہوچکے ہیں، کوئی پوچھے، کیوں؟ اور کس طرح؟ تو ان شاء اللہ عرض کریں گے۔

الحمدللّٰہ علیٰ مَنِّہٖ واحْسَانِہٖ۔

 

ن۔ن ہونزائی

کراچی

۷۔ رجب المرجب ۱۴۱۴ھ

۲۱۔ دسمبر ۱۹۹۳ء

 

۲۱

 

قوانینِ قرآن

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

قانون۱۔ تخلیق در تخلیق:

حق بات تو یہ ہے کہ خالقِ اکبر کی صفتِ خالقیت قدیم ہے، اس لئے کوئی ایسا وقت یا دور ممکن نہیں، جس میں خدا فعلاً خالق نہ ہو، وہ سبحان رازق کہلائے، مگر کوئی مرزوق نہ ہو، ربّ ہواور مربوب کا کوئی وجود ہی نہ ہو، پس اس مختصر اور روشن دلیل سے ظاہر ہوا کہ”تصورِ آفرینش” کسی ابتداء و انتہا کے بغیر ہے، یعنی  خط  (لکیر) کی طرح نہیں کہ اس کا ایک ابتدائی سرا اور دوسرا انتہائی سرّا ہوتا ہے، بلکہ دائرے کی طرح ہے، جس کا کوئی سرّا نہیں، جیسا کہ قرآنِ عظیم میں فرمایا گیا ہے:

ہر چیز ایک دائرے پر گردش کرتی ہے (۲۱: ۳۳، ۳۶: ۴۰) یہاں سب سے زیادہ حیران کن سوال یہ ہے کہ سورج کس طرح ایک دائرے پر گردش کررہا ہے جبکہ وہ اپنی جگہ پر ساکن ہے؟ اس کا بڑا عجیب جواب یہ ہے کہ سورج تخلیق در تخلیق کے مطابق ہے، یعنی وہ بہت بڑا کائناتی چراغ ہے (۲۵: ۶۱، ۷۱: ۱۶، ۷۸: ۱۳) جس کا شعلہ مسلسل روشنیوں کی صورت میں فنا ہوتا رہتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ دستِ قدرت

 

۲۵

 

اس میں ایندھن (فلکی مادّہ / ایتھر) ڈالتا رہتا ہے، تاکہ اس میں چراغِ خانہ کی طرح تجدّدِ امثال کا لاانتہا عمل جاری رہے، اور اسی طرح شعلۂ آفتاب، روشنی، اور ایندھن کے لگاؤ سے ایک عظیم رننگ سرکل بن جاتا ہے، پس اللہ تعالیٰ کی کبھی ختم نہ ہونے والی نعمتوں کا بہت بڑا راز اسی میں ہے کہ ہمیشہ تخلیق درتخلیق کا سلسلہ جاری ہے۔

 

قانون۲: کمالِ روحانی:

سورۂ تین (۹۵: ۰۱ تا ۰۸) کا پورا موضوع انسان کی عظیم الشّان روحانی تخلیق و تکمیل سے متعلق ہے، چنانچہ شروع کی تین آیاتِ کریمہ میں خداوندِ عالم نے عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اور اساس کی قسم کھائی ہے کہ قادرِ مطلق نے انسان کو روحانیّت میں عروج و ارتقاء کے انتہائی حسین اور بے مثال درجات میں بلند کرتے ہوئے پیدا کیا، جیسا کہ پیدا کرنا چاہئے، تاآنکہ اس کو مرتبۂ علیین (۸۳: ۱۸) تک پہنچا دیا، اور یہی وہ حکمت ہے، جس سے انائے علوی، روحِ مستقر، اور حقیقتِ واحدہ (مونوریالٹی) پرروشنی پڑتی ہے۔

پھر اس علیم و حکیم نے بمقتضائے حکمت انسان کو انائے سفلی کے اعتبار سے درجۂ اسفل کی طرف لوٹا دیا، تاکہ اس کی آزمائش ہوجائے، لیکن اس امتحان میں وہ لوگ کامیاب و کامران ہوگئے، جو حقیقی معنوں میں ایماندار اور اچھے کام کرنے والے تھے، وہ علم و

 

۲۶

 

معرفت کی روشنی میں اس حقیقت کو جانتے تھے کہ پروردگارِ عالم کے ہر ہر کام میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہوا کرتی ہے، پس یقیناً ان کے لئے غیر ممنون اجر وصلہ ہے، یعنی ایسا ثواب جو غیر منقطع اور بے پایان ہے، اور اس میں احسان جتلانا بھی نہیں ہے۔

 

قانون۳: درجاتِ ہدایت:

سورۂ طٰہٰ کی ایک تاویلی حکمت اس طرح سے ہے کہ ربّ العزّت نے عالمِ امر کی ہر چیز کو عالمِ خلق میں نازل کرکے خلقی صورت دی، اور اس کے درجے کے مطابق ہدایت بھی دے دی (۲۰: ۵۰) اس سے ظاہر ہوا کہ کائنات و موجودات کی کوئی چیز اپنی نوعیت کی ہدایت سے خالی نہیں، لیکن تمام چیزیں درجات میں ہیں، اسی وجہ سے ہدایت کے بھی درجات مقرر ہوگئے، پس انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام جو خدا کی جانب سے لوگوں کے راہنما ہیں، ان کی ہدایت سب سے اعلیٰ و ارفع ہے، جو صراطِ مستقیم کی نورانی ہدایت ہے، اور اہلِ ایمان کو انہی مقدّس ہستیوں کے پیچھے پیچھے چلنے کا حکم ہوا ہے۔

 

قانون ۴: درجاتِ علم:

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ پاکؐ نے جن لوگوں کو جاہل کہا ہے یا چوپایوں کے مشابہ قرار دیا ہے، وہ تو علم کے کسی بھی درجے پر نہیں ہوسکتے ہیں، جی ہاں، یہی بات بالکل درست اور حقیقت ہے کہ علم کے درجات اور حجابات ہیں، جو حاملانِ عرش جیسے عظیم فرشتوں، مقدّس ہستیوں، اور ایمانی روحوں

 

۲۷

 

کے درمیان ہیں، جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:  نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاۗءُ  ۭ وَفَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ (۱۲: ۷۶) ہم جسے چاہتے ہیں اس کے درجے بلند کردیتے ہیں، اور ہر صاحبِ علم سے بڑھ کر ایک اور عالم ہے۔

 

قانون۵: ہر چیز میں علم:

کوئی شک نہیں کہ قرآنِ حکیم ظاھراً و باطناً علم و حکمت کے معجزات و عجائبات سے مملو ہے، اس کے علاوہ آفاق و انفس میں بھی کوئی شیٔ ایسی نہیں، جس میں علم و حکمت کے اسرار تہ بتہ پنہان نہ ہوں، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ہر چیز ایک صندوقچۂ مقفل کی طرح ہے، جس میں علمِ الہٰی کے گوہرِ گرانمایہ پوشیدہ پائے جاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ خداوندِ تبارک و تعالیٰ نے عالمِ جسمانی کو مجمع البحرین (بحرِ رحمت اور بحرِ علم)میں غریق رکھا ہے، بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو پانی میں ڈوب کر بھی اندر سے خشک ہی رہتی ہیں، مگر دریائے رحمت اور دریائے علم ہر ذرّہ اور ہر خلیہ کے ظاہر و باطن میں موجزن ہے۔

 

قانون۶: قرآن اور لوازمِ قرآن:

یہ ایک اصولی بات اور مسلّمہ حقیقت ہے کہ ہر عظیم چیز سے پورا پورا فائدہ حاصل کرنے کے لئے کچھ لوازم ہوا کرتے ہیں، چنانچہ خود قرآنِ پاک ہی کی روشنی میں لوازمِ قرآن یہ ہیں: (۱) نور (۰۵: ۱۵) یعنی رسولؐ اور بعد میں جانشین رسولؐ (۲) راسخون فی العلم (۰۳: ۰۷) یعنی محمدؐ و أئمّہ آلِ محمدؐ (۳) کتابِ

 

۲۸

 

ناطق (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) یعنی امامِ زمانؑ، کیونکہ اس کے بغیر قرآنِ پاک کی روح، روحانیّت، نورانیّت، اور حکمت محال ہے، (۴) آلِ ابراہیمؑ کے بعد آلِ محمدؐ (۰۴: ۵۴) اس لئے کہ آسمانی کتاب، حکمت، اور روحانی سلطنت انہی حضرات کے ساتھ ہے (۵) وارثِ کتاب (۳۵: ۳۲) یعنی امامِ مبینؑ (۶) الکوثر (۱۰۸: ۰۱) یعنی حضرتِ مولا علیؑ و أئمّۂ اولادِ علیؑ، چونکہ الکوثر (مردِ کثیر الذریّت) سلسلۂ امامت کے معنی میں مولا علیؑ ہی ہیں، جو آنحضرتؐ  کے باقی ماندہ دینی کام کے لئے مامور ہوئے ہیں (۷) خداوندِ تعالیٰ واحد و یکتا ہے، اور دین و دنیا کی تمام چیزیں دو دو ہیں (بحوالۂ متعدد آیاتِ قرآنی) اور اسی قانونِ الہٰی کے مطابق حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اپنی امت کی ہدایت کے لئے دو گرانمایہ چیزیں چھوڑ دی ہیں (یعنی اللہ کی کتاب اور اپنی عترت) یعنی قرآن اور امام، جو معلّمِ قرآن ہے۔

 

قانون ۷: نفوسِ جزوی:

خالقِ اکبر نے ہر بڑے اور چھوٹے دور میں سب سے پہلے نفسِ واحدہ کی روحانی تخلیق مکمل کردی، اور اسی سے تمام نفوسِ جزوی کا تجدّد فرمایا، پھر روح کے سماوی سرے کو مستقر کا نام دیا، اور ارضی سرے کو مستودع کے اسم سے موسوم کیا (۰۶: ۹۸) نفسِ واحدہ کا دوسرا نام “الر وح” ہے، یہ روحِ جزوی نہیں، بلکہ روحِ کلّی اور روحِ اعظم ہے، جو خود عالمِ امر بھی ہے، اور سرچشمۂ ارواح (روح الارواح) بھی (۱۷: ۸۵) جیسا کہ حضرتِ

 

۲۹

 

امیر المومنین علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: اَنا اُمر اللہِ والرّوح (کوکبِ دری، ص ۲۰۲) میں خدا کا امر (عالمِ امر یعنی عالمِ ابداع) اور روحِ کلّی ہوں۔

 

قانون۸: مساواتِ رحمانی:

خداوندِ مہربان کی خدائی میں اس کی مخلوقات کے لئے اگر ایک طرف درجات ہیں، تو دوسری جانب ان سب کی مساوات (برابری) بھی ہے، درجات گویا سیڑھیاں ہیں، اور سیڑھی صرف راستے ہی کا کام دیتی ہے، اس لئے وہ کوئی مستقل اور دائمی ٹھکانہ نہیں، اور یہ بھی ایک عظیم راز ہے کہ درجوں کا تعلق وجودِ خاکی اور انائے سفلی سے ہے، جبکہ انائے علوی ازلی اور ابدی طور پر اپنی اصل کے ساتھ عالمِ بالا میں ہے، اور اصل ہی ہے، جس کو حقیقتِ واحدہ (مونوریالٹی) کہا گیا، اور اسی پیکرِ نورانی اور صورتِ رحمانی کے بارے میں یہ پُرحکمت ارشاد ہے: مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ = تمہیں رحمان کی آفرینش (حقیقتِ واحدہ) ایک جیسی نظر آتی ہے (۶۷: ۰۳)۔

اہلِ دنیا سب کے سب چہرۂ انسانی کے حسن و جمال پر ہر لحظہ مرتے رہتے ہیں، لیکن وہ ذرا بھی نہیں سوچتے کہ موجودات کی کوئی چیز اشارۂ حکمت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی، اے کاش! لوگ حقیقتِ واحدہ اور مساواتِ رحمانی کا تصوّر کرتے، کاش! وہ مثال کو چھوڑ کر ممثول کی طرف دوڑ پڑتے، تو شاید انہیں صورتِ رحمان کی تجلّیات کا دیدار ہوتا۔

 

۳۰

 

قانون ۹: اسمِ اعظم:

قرآنِ حکیم کے دو مقام پر خدا وندِ تعالیٰ کے زندہ اسمِ اعظم کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، اور اللہ کا وہ زندہ نامِ بزرگ امامِ زمانؑ ہی ہے، پھر چار مقام پر اسماء الحسنیٰ کے عنوان سے اس کے بے شمار فوائد کی حکمت موجود ہے (۰۷: ۱۸۰، ۱۷: ۱۱۰، ۲۰: ۰۸، ۵۹: ۲۴) اسماء الحسنیٰ کا مطلب یہ ہے کہ امامِ حیّ و حاضر صلوات اللہ علیہ وسلامہ کا نورانی اور بابرکت وجود خدا کے اسمائے عظام کا مجموعہ ہے، جیسا کہ حضرتِ مولا علی علیہ السّلام کا ارشادِ گرامی ہے: انَا الاسماءِ الحُسنٰی الّتی اَمَرَ اللّٰہ اِن یّدعیٰ بھا۔ یعنی میں خدا کے اسماءِ حسنیٰ ہوں جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کو ان اسماء سے پکارا جائے (کوکبِ دری، منقبت نمبر ۲۹)۔

 

قانون ۱۰: عشقِ الٰہی:

قرآنِ کریم میں جا بجا خدائے پاک و برتر کی پُرحکمت محبت کا ذکرِ جمیل آیا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ شدید محبّت کا دوسرا نام عشق ہے، جیسے قرآنِ پاک کے یہ الفاظ ہیں: اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰهِ (۰۲: ۱۶۵) لیکن یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ اللہ جو مکان و لامکان سے برتر اور پاک ہے، اس کا عشق براہِ راست ممکن ہی نہیں، لہٰذا پیغمبرِ اکرمؐ اور امامِ حیّ و حاضرؑ کے وسیلے سے خدا کا عشق ہوسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں مولا علیؑ کی دوستی اور محبّت کا عیان و نہان ذکر ملتا ہے۔

 

قانون ۱۱: لاہوتی دوا:

قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں اللہ تبارک و

 

۳۱

 

تعالیٰ کی محبت کا تذکرہ آیا ہے، وہاں اس کی تاویل امامِ اقدس و اطہرؑ کی محبت ہے، اور یہی پاک و پاکیزہ محبت تمام اخلاقی اور روحانی بیماریوں کے لئے لاہوتی دوا کا کام کرتی رہتی ہے، مولائے پاک کا عشق دلوں سے غموں کو مٹاتا ہے، شکوک و شبہات اور وسوسوں کو جَلاتا ہے، باطن کو منور کردیتا ہے، اور ذکر و عبادت کو انتہائی شیرین بناتا ہے، پس یہ عشق وہ نسخۂ کیمیا ہے جس سے ہر بندۂ خاکی فرشتۂ نورانی ہوجاتا ہے۔

 

قانون ۱۲: قیامت:

روحانیّت کا ایک سرِّعظیم یہ ہے کہ ہر بار انفرادی قیامت میں اجتماعی قیامت کا واقعہ پوشیدہ ہوا کرتا ہے، پس ایسی قیامت بڑی پُرحکمت ہوا کرتی ہے کہ ایک اعتبار سے انفرادی قیامت ہے، اور دوسرے اعتبار سے اجتماعی قیامت، یہ پہلو دار حقیقت اس وجہ سے ممکن ہوئی کہ ہر آدمی بحدِّ قوّت ایک عالمِ صغیر (پرسنل ورلڈ) ہے، جس میں تمام چیزیں اور سب لوگ بصورتِ ذرّات موجود ہیں، اس معنی میں انسان عالمِ ذرّ بھی ہے، چنانچہ جب کسی مومنِ سالک پر ذاتی اور انفرادی قیامت گزرتی ہے، تو وہ تنہا اپنی ذات میں اجتماعی قیامت کا مشاہدہ اور تجربہ کرتا ہے، جبکہ لوگوں کو اس قیامت کا کوئی علم ہی نہیں ہوتا کہ کیا ہورہا ہے۔

 

قانون۱۳: خدا کے پاس جانا:

سوال ہے کہ قیامت کے دن لوگ خداوندِ تعالیٰ کے حضور کس طرح جاتے ہیں؟ سب ملکر؟

 

۳۲

 

یا ایک ایک ہو کر؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ربّ العزّت کی بارگاہِ عالی عالمِ وحدت ہے، جس میں کثرت کی کوئی گنجائش نہیں، لہٰذا لوگ طَوْعًا وكَرْھًا  (خوشی سے یا زبردستی سے ، ۰۳: ۸۳) انسانِ کامل میں فنا ہوکر ایک ہوجاتے ہیں، اور یہی ایک ہستی خدا کے پاس پہنچ جاتی ہے، پھر اس کی دو تعبیریں ہوتی ہیں، (الف): پھر جب آخرت کا وعدہ آ پہنچے گا تو ہم تم سب کو سمیٹ کر لے آئیں گے (۱۷: ۱۰۴) (ب): اور تم ہمارے پاس ایک ایک ہوکے آئے جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار (نفسِ واحدہ سے) پیدا کیا تھا (۰۶: ۹۵) یعنی لوگ نفسِ واحدہ (انسانِ کامل) کی وحدت میں خدا کے حضور سے آتے ہیں، اور اسی کی وحدت میں اس کے حضور جاتے ہیں۔

 

قانون ۱۴: نفسِ واحدہ:

سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ = تمہاری (قیامت و روحانی) پیدائش اور انبعاث نفسِ واحدہ (انسانِ کامل) کی طرح ہے۔ یعنی تم سب کی اجتماعی قیامت، روحانی تخلیق، اور ابداع و انبعاث وغیرہ انسانِ کامل کی ذاتی قیامت میں پوشیدہ ہے، اور تم میں جو عالی ہمت مومنین و مومنات ہیں، وہ بھی ایسی قیامت کا مکمل تجربہ حاصل کرسکتے ہیں۔

 

قانون ۱۵: تجدّدِ امثال:

بے شمار آدموں کے سلسلے میں ہر دوسرے آدم کا اصولی قصّہ پہلے آدم کے قصّے کا تجدّد ہے، جس

 

۳۳

 

سے یوں لگتا ہے، جیسے ایک ہی آدم گزرا ہو، اسی طرح ہر دوسری قیامت پہلی قیامت کا تجدّد ہے، جس کی وجہ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بس ایک ہی قیامت ہے، جو آنے والی ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ قیامت اعلیٰ روحانیّت کا ایک مخفی نام ہے، جس کا سلسلہ ہر دور کے کاملین میں جاری تھا اور ہے۔

تجدّد ایک کائناتی اور ہمہ گیر نظام ہے، جو چھوٹے بڑے وقفوں میں بھی ہے، اور مسلسل بھی، تاہم تجدّدِ امثال کا اطلاق ایک جیسی چیزوں پر ہوتا ہے، چنانچہ سب سے ضروری اور سب سے اعلیٰ تجدّد “تصوّرِ ازل” سے متعلق ہے، کیونکہ ازل خدا شناسی کا وہ انتہائی اعلیٰ مقام ہے، جہاں آفتابِ حقائق و معارف بے حجاب طلوع ہوجاتا ہے، کائنات لپیٹ کر غائب کرلی گئی، تو یہ فنائے عالم اور لامکان و لازمان کا مظاہرہ ہوا، اور یہی دہر بھی ہے، پھر کلمۂ کُنۡ سے ایک نئی کائنات پھیلائی گئی، تو یہ عالمِ شخصی کے آخری معجزات میں سے ہیں (قرآنِ پاک کی متعلقہ آیات میں غور و فکر کی ریاضت کریں)۔

 

قانون ۱۶: کائنات کو لپیٹنا:

خدا قیامت کا یہ کام عالمِ شخصی میں کرتا ہے، جس میں بے شمار حکمتیں مخفی ہیں، مثال کے طور پر چند حکمتیں یہ ہیں، بکھرے ہوئے علوم کی یکجائی کے لئے، مکان کو ہٹا کر لامکان سامنے لانے کی غرض سے، زمان کو اٹھا کر لازمان دکھانے کی خاطر، تمام لوگوں کو نفسِ واحدہ میں واپس لینے کے لئے، کائنات و موجودات کو نچوڑ

 

۳۴

 

کر جوہر (گوہر) بنانے کی غرض سے، آسمان و زمین کی تبدیلی کے پیشِ نظر (۱۴: ۴۸) عالمِ کبیر کو عملاً عالمِ صغیر میں محدود کردینے کی وجہ سے، یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ آفتابِ قیامت کس طرح طلوع ہوجاتا ہے، عرش، نورِ عرش اور حاملانِ عرش کی معرفت کے واسطے، یہ دکھانے کے لئے کہ مومنین و مومنات کا نور کس طرح کام کرتا ہے، اور یہ حقیقت سمجھانے کی غرض سے کہ امامِ مبین کی کامل معرفت میں عقل و دانش اور علم و حکمت کی تمام چیزیں سمائی ہوئی ہیں۔

 

قانون ۱۷: روح اور مادّہ:

حقائقِ اشیاء سے بحث کرنے والوں کے سامنے ہمیشہ یہی ایک اساسی مسئلہ رہا ہے کہ آیا روح اس کیفیت میں منجمد ہوسکتی ہے، جس کو ہم مادّہ کہہ سکیں؟ اگر اس کا جواب “ہاں” میں مل جاتا ہے تو پھر یہ بات بھی ممکنات میں سے ہے کہ مادّہ کی تحلیل سے روح بن سکتی ہے، ہم اس کے عملی جواب کے لئے قرآنِ پاک سے رجوع کرتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اس بے مثال کتاب کی یہ شان ہے کہ اس کے ظاہر و باطن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹)۔

دلیل نمبر۱: قرآنِ کریم کا ارشاد ہے کہ ہر چیز ایک دائرے پر گردش کررہی ہے (۲۱: ۳۳، ۳۶: ۴۰) پس یہ گردش دو طرح سے ہے: گردشِ تحلیل و تخلیق، اور گردشِ فعل، مثال کے طور پر خوبانی کی گٹھلی کا دائرۂ تحلیلی و تخلیقی یہ ہے کہ وہ پودا اور درخت بن جانے کے بعد پھول

 

۳۵

 

اور پھل سے گزر کر پھر گٹھلی ہو جاتی ہے، مگر درمیان میں کہیں گٹھلی نظر نہیں آتی، اور فعلی گردش کی مثال زمین کی گردش ہے، جس کو سب جانتے ہیں، چنانچہ یہ کائنات (جو جسم اور مادّہ ہے) پودا اور درخت کی طرح ہے، اور روح پھول، پھل اور گٹھلی کی طرح۔

دلیل نمبر۲: اگر چہ مادّہ مردہ ہے، اور روح زندہ، لیکن خدا وہ قادرِ مطلق ہے کہ بیجان چیز کو جان عطا کردیتا ہے، اور جاندار شیٔ کو موت کی نیند سلا دیتا ہے (بحوالۂ متعدد آیاتِ کریمہ)۔

دلیل نمبر ۳: جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو حکم دیتا ہے کہ “ہوجا” تو وہ ہوجاتی ہے، اگر خدائے بزرگ و برتر ایسا کوئی امر اپنے محبوب رسول کی زبان سے دے، تو اس صورت میں بھی ابداع کا یہ کام ہو جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا: قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِيْدًا   (۱۷: ۵۰) (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ تم چاہے پتھر بن جاؤ یا لوہا۔ خوب یاد رہے کہ خدائے علیم و حکیم کی کوئی بات مغزِ حکمت سے خالی نہیں ہوتی، پس یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ پتھر جیسی چیزوں میں بھی روح کی صلاحیت خوابیدہ ہے۔

دلیل نمبر ۴: ہر چیز خزائن سے نازل ہوجاتی ہے (۱۵: ۲۱) لیکن اصلاً نزول کے معنی ہیں کسی چیز کا روحانی بلندی سے اتر کر مادّی صورت میں ظاہر ہوجانا، اس سے ظاہر ہوا کہ جمادات کی ہر چیز خدا کے خزانوں سے اس طرح زمین پر آئی ہے کہ وہ قبلاً روح کے

 

۳۶

 

آسمان میں تھی، اور اب وہ جسمانی زمین پر آگئی ہے، کیونکہ حقیقی معنوں میں کائناتِ ظاہر کی کوئی بلندی و پستی نہیں۔

دلیل نمبر۵:جمادات یعنی مٹی کا بالائی سرا نباتات سے ملا ہوا ہے، نباتات کا سرا حیوانات سے متصل ہے، حیوانات فوائد کے معنی میں انسانوں سے وابستہ ہیں، انسانوں کا طبقۂ روحانی فرشتوں کو چھورہا ہے، اور فرشتۂ اعظیم کے ہاتھ میں سب سے قیمتی پتھر ہے، پس معلوم ہوا کہ یہی دائرۂ کلّی ہے، جس پر روح اور مادّہ کے شب و روز گردش کررہے ہیں۔

دلیل نمبر ۶: ہمیں ظاہری سائنس کے ساتھ ساتھ روحانی سائنس کو بھی قبول کرنا ہوگا، کیونکہ اس میں بھی لاتعداد انسانی فائدے ہوسکتے ہیں، ہاں یہ بات سچ ہے کہ جسمِ کثیف کے علاوہ ایک اور جسم بھی ہے، جس کا نام جسمِ لطیف ہے، وہ مختلف صورتوں میں پایا جاتا ہے، شروع شروع میں اس کے بے شمار ذرات نظر آتے ہیں، جو اڑتے ہوئے آتے ہیں، اس مادّۂ لطیف کا ہر ذرہ جسم و روح کا مرکب ہے، پس میرا خیال ہے کہ اس بیان سے جو قرآن اور روحانیّت کی روشنی میں ہے روح و مادّہ کی شناخت میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے۔

دلیل نمبر۷: انسان جو اب اس دنیا میں ہے، وہ پہلے شکمِ مادر میں تخلیق کے مختلف مراحل سے گزر رہا تھا، وہ وہاں بے شمار

 

۳۷

 

جراثیمِ حیات میں سے ایک جرثومہ یعنی ایک دمدار کیڑا تھا، یہ تخمہائے زندگی نطفۂ پدر کے توسط سے آئے، اور اس سے پہلے ان بیجوں کا ذخیرہ عالمِ ذر میں تھا اور ہے، عالمِ ذر اور خزائنِ الٰہی انسانِ کامل میں مخفی ہیں۔

دلیل نمبر ۸:حضرتِ نوح علیہ السّلام کے ظاہری طوفان کے پیچھے ایک روحانی طوفان بھی تھا، جس سے تمام جمادات، نباتات، حیوانات، اور سارے انسان ہلاک ہونے والے تھے، اس لئے ان کو حکم ہوا کہ نافرمان لوگوں کو چھوڑ کر باقی ساری چیزوں کی ہر ہر نوع سے دو دو جوڑے عالمِ ذر کی کشتی میں لئے جائیں (۱۱: ۴۰، ۲۳: ۲۷) اس سے پتا چلا کہ عالمِ ذر میں پتھر جیسی چیز کا بھی ذرۂ نر اور ذرۂ مادہ ہے، مگر یہ ضروری نہیں کہ یہ نر و مادہ حیوان کی طرح ہوں۔

دلیل نمبر۹: روحانی ریسرچ کے مطابق حضرت ذوالقرنین اپنے وقت کے امام تھے، ان کا تمام قرآنی قصّہ عالمِ شخصی، عالمِ ذر، اور روحانیّت سے متعلق ہے، انہوں نے اپنے عالمِ ذر میں ایسے ذرّات کو بھی دیکھا تھا، جو زندہ ہونے کے علاوہ پرواز بھی کرتے تھے، مگر بول نہیں سکتے تھے، اس کی یہ تاویل ہے کہ وہ جمادات، نباتات، حیوانات، اور اہلِ شر کی روحیں تھیں، اور یہی یاجوج و ماجوج بھی ہیں (۱۸: ۹۴، ۲۱: ۹۶)۔

 

۳۸

 

دلیل نمبر۱۰: روح اور مادّہ کے درمیان کوئی حدِ فاصل نہیں، بلکہ یہ دراصل ایک ہی چیز ہے، جس کے دو نام ہوئے، جسکی مثال پانی ہے کہ وہ کہیں برف کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے، چنانچہ ہمیں جسمِ لطیف پر غور کرنا چاہئے کہ وہ مادّہ اور روح کی وحدت کا مقام ہے، اسی وجہ سے وہ ظاہر بھی ہوسکتا ہے، اور غائب بھی، اور اسی سب سے عظیم صلاحیت کی بناء پر وہ جثّۂ ابداعیہ کہلاتا ہے۔

دلیل نمبر ۱۱: فرشتے اور جنّات (مردان و زنانِ پری) اسی لطیف جسم میں ظاہر ہوسکتے ہیں، اور شیاطینِ جنّی کو انبعاث تک جس چیز کی مہلت دی گئی ہے، وہ ان کے اپنے اجسامِ لطیف میں کام کرنے کی اجازت ہے (۰۷: ۱۴، ۱۵: ۳۶، ۳۸: ۷۹)۔

 

قانون ۱۸: ابداع:

قرآن عظیم کا پُرحکمت ارشاد ہے: بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭوَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ  (۰۲: ۱۱۷) وہی آسمان و زمین کا موجد ہے، اور جب کوئی امر پورا ہوجاتا ہے تو اسے فرماتا ہے کہ “ھوجا” تو وہ ہوجاتا ہے (۰۲: ۱۱۷) واقعۂ ابداع کی ایک مثال یہ ہے کہ جب بندۂ سالک علم و عبادت کے ذریعے سے راہِ روحانیّت پر گامزن ہوتا جاتا ہے اور اس کی ہستی میں لطافت پیدا ہونے لگتی ہے، تو اس وقت اسرافیل، عزرائیل اور دیگر فرشتے حاضر ہوکر اس کی جان (جو بے شمار ذرات پر مبنی ہے)

 

۳۹

 

کو نکال کر دنیا میں پھیلاتے ہیں، پھر اسے نفوسِ خلائق کے نمائندہ ذرات کے ساتھ واپس لاکر جسم کے سانچے میں ڈالتے ہیں، اور یہ معجزہ کئی دن تک جاری رہتا ہے، اور اس دوران عالمِ شخصی کے روحانی آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق ہو جاتی ہے، مگر عقلی آسمان و زمین کی آفرینش ابھی دور ہے۔

ہر مومن اور مومنہ کے پرسنل ورلڈ میں بطریقِ ابداع مراتبِ روحانیّت کے سات آسمانوں اور سات زمینوں کا ظہور ہوتا ہے (۶۵: ۱۲) ان سے سات صاحبانِ ادوار اور ان کے حجج مراد ہیں، اور اسی طرح یہ سات + سات = چودہ ابداعی ظہورات مراتبِ عقل پر بھی ہیں، مگر وہاں عالمِ وحدت کے طور پر ہیں۔

عالمِ امر ہی عالمِ ابداع ہے، جس کے ظہورات و معجزات کلمۂ کُنۡ سے ہوتے رہتے ہیں، کلماتِ تامّات میں جو کلمۂ تامّہ سب سے آخر ہے، اسی کا منشاء و مفہوم “کُنۡ” کہلاتا ہے، بالفاظِ دیگر یہ اس کلمے کی ترجمانی ہے، نیز یہ ارادۂ الٰہی کی بھی ترجمانی ہے، کیونکہ ابداع کے اکثر مقامات پر وہ کلمہ نہیں، مگر خدا کا ارادہ کار فرما ہے۔

ابداع کی چند قابلِ فہم صورتیں یہ ہیں: (الف): کسی چیز کا روحانی شکل اختیار کرکے عالمِ امر کی طرف بلند ہوجانا (ب): عالمِ امر سے اس جہان میں کسی معجزے کا ظہور (ج): عالمِ غیب سے عالمِ  لطیف (عالمِ امر) میں کوئی ظہور (د): کسی ایسے ظہور کا

 

۴۰

 

غائب ہوجانا (ھ): ایک ظہور سے دوسرا ظہور، یا مختلف ظہورات کا سلسلہ، یا ایک ساتھ گوناگون تجلّیات، یہ سب ابداعی امور ہیں۔

اس مقام پر جثّۂ ابداعیہ  کا ذکر بھی ضروری ہے، کہ وہ امامِ عالیمقامؑ کے عظیم الشّان معجزات میں سے ہے، اس کے بہت سے قرآنی نام ہیں، جیسے: برق (۱۳: ۱۲، ۳۰: ۲۴) استبرق (۱۸: ۳۱، ۴۴: ۵۳) کیونکہ اس کی رفتار برق کی طرح ہے، اور یہ آسمانی بجلی کی مانند نظر آتا ہے اور غائب ہوجاتا ہے، جنود (۲۷: ۱۷) یعنی افواج کہ اس میں جنّوں، انسانوں، اور پرندوں کے لاتعداد لشکر موجود ہیں، اسی معنی میں یہ محراب (قلعہ) بھی ہے (۳۴: ۱۳) کیونکہ اس میں تین قسم کے زبردست لشکر رہتے ہیں، جن کی عسکری طاقت کا کوئی جواب اور کوئی مقابلہ نہیں۔

 

قانون ۱۹: روحانی سلطنت:

بہشت کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے کہ اس میں ایک عظیم بادشاہت ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک (۷۶: ۲۰) میں فرمایا گیا ہے، لیکن سب کے سب بادشاہ کیسے ہوسکتے ہیں، ظاہر ہے کہ تھوڑے ہی لوگوں کو جنّت کی سلطنت ملے گی، اور باقی سب کے سب گویا رعایا ہوں گے، کیونکہ رعیّت کے بغیر کوئی بادشاہی محال ہے، تاہم بہشت کے عوام کو کیا تکلیف ہوسکتی ہے، وہ تو دائمی راحت میں ہوں گے۔

قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں روحانی بادشاہ یا بادشاہت کا

 

۴۱

 

ذکر آیا ہے، وہاں وہ بہشت کی پیشگی بادشاہی ہے، اس کی مثال آلِ ابراہیمؑ کی عظیم سلطنت (۰۴: ۵۴) ہے، کیونکہ آسمانی کتاب، حکمت، اور سلطنتِ روحانی کسی شک کے بغیر بہشت کی انتہائی اعلیٰ نعمتیں ہیں، الغرض انبیاء و مرسلین اور أئمّۂ طاہرین کے ساتھ صفِ اوّل کے اہلِ ایمان بھی جنّت کے ملوک و سلاطین ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ کی سنت یہی چلی آئی ہے، اور اس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں کہ وہ اپنی عنایتِ بے نہایت سے مومنین کو نوازتا ہے، اور ہر قسم کی نوازش کے لئے اس نے انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کا وسیلہ بنایا، جیسا کہ حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیھما السلام کی قوم کے بارے میں ارشاد ہے: اور موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تمہیں عنایت کردی ہے جبکہ اس نے تم میں پیغمبر بنائے اور تم کو سلاطین بنایا (۰۵: ۲۰) یعنی تمہاری روح و روحانیّت جس مرتبۂ باطن پر امامِ وقت کے ساتھ ایک ہوئی ہے، اسی مرتبت پر خدا نے تم کو ملوک بنایا ہے۔

جب حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے اسمِ اعظم، اسماءالحسنی، اور کلماتِ تامّات کی عبادت اور معرفت مکمل کرلی، تو ان کو پروردگارِ عالم نے لوگوں کا امام بنا دیا، آپ نے خدا سے درخواست کی کہ

 

۴۲

 

میری ذریّت سے بھی أئمّہ بنا دیجئے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا (تم تسلی رکھو امامت تمہاری ہی ذریّت میں جاری رہے گی، اور جو لوگ از خود اس کا دعویٰ کریں، وہ ظالم قرار پائیں گے اور) ظالموں کو میرا عہد نہیں ملیگا (۰۲: ۱۲۴)۔

حضرتِ ابراہیمؑ نے کسی اور موقع پر یہ بھی کہا: فمن تبعنی فانہ منی (۱۴: ۳۶) پس جو کوئی میری پیروی کرے تو وہ مجھ سے ہے( یعنی ایسے لوگ میرے روحانی فرزند ہوں گے) چنانچہ جن مومنین و مومنات پر روحانی ماں باپ کا نور طلوع ہوجاتا ہے، ان کو عالمِ شخصی اور جنّت کی عظیم سلطنت مل جاتی ہے، قرآنِ حکیم کی جن آیاتِ مبارکہ (۵۷: ۱۲، ۵۷: ۱۹، ۶۶: ۰۸) میں مومنین و مومنات کے نور کا ذکر آیا ہے، ان میں خوب غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ان میں روحانی سلطنت کے عظیم اسرار پوشیدہ ہیں۔

 

قانون ۲۰: حیوانِ انسان نما:

قولہٗ تعالیٰ: وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِيْثًا  = اور خدا تعالیٰ سے بڑھ کر بات میں سچا کون ہوگا (۰۴: ۸۷) چنانچہ یہاں ایک قرآنی فیصلے کا تذکرہ کیا جاتا ہے، اور وہ یہ ہے (ترجمہ): کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ان میں اکثر (بات) سنتے یا سمجھتے ہیں؟ (نہیں) یہ تو بس بالکل چوپایوں کی طرح بلکہ یہ اُن سے بھی زیادہ بے راہ ہیں (۲۵: ۴۴)۔

یہی حکم سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۹) میں تفصیل کے ساتھ ہے (ترجمہ):

 

۴۳

 

اور ہم نے بہتیرے جنّات اور آدمیوں کو جہنم ہی کے واسطے پیدا کیا ان کے دل تو ہیں (مگر) ان سے سمجھتے ہی نہیں، اور ان کی آنکھیں ہیں، (مگر) ان سے دیکھتے ہی نہیں، اور ان کے کان بھی ہیں (مگر) ان سے سنتے ہی نہیں (خلاصہ) یہ لوگ گویا چوپائے ہیں بلکہ ان سے بھی کہیں گئے گزرے ہوئے، یہی لوگ غفلت زدہ ہیں (۰۷: ۱۷۹)۔

قرآنِ حکیم کے اس فیصلے کے بعد اگر ایسے لوگوں کو حیواناتِ انسان نما کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا، کیونکہ وہ شکل و صورت سے تو انسان ہی ہیں، لیکن دینی علم و عمل سے لاتعلق رہنے کہ وجہ سے یہ لوگ چوپایوں سے بھی زیادہ نا سمجھ ہیں، اور قرآن کا فرمانا ہے کہ اس قسم کے لوگ دنیا میں بہت زیادہ ہیں، تاہم یہ سوال الگ ہے کہ بالآخر ان کا کیا حشر ہوگا؟

 

قانون ۲۱: رحمتِ کل:

خدا وند بزرگ و برتر کا پاک ارشاد ہے: وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (۲۱: ۱۰۷) (اے رسولؐ) ہم نے آپ کو ہر عالمِ شخصی کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اسی رحمتِ کل کے پیشِ نظر مرتبۂ عقل کے عظیم فرشتے اہلِ زمین یعنی تمام انسانوں کے لئے طلبِ مغفرت کرتے رہتے ہیں (۴۲: ۰۵) وہ اگر یہ دیکھتے کہ دوزخِ جہالت سے لوگوں کی نجات کا کوئی قانون ہی نہیں تو پھر وہ زمین کے تمام باشندوں کے حق میں ایسی کوئی دعا ہی نہ کرتے، جب نورِ عقل کے فرشتوں کی جانب سے ہمیشہ دعا ہورہی ہے، ہمیں یقین آتا ہے

 

۴۴

 

کہ اپنے وقت پر لوگوں کے واسطے رحمت اور علم کا دروازہ کھل جائے گا، اور معلوم ہے کہ نبیٔ اکرمؐ جہاں بحرِ رحمت اور شہرِ علم ہیں، وہاں امامِ برحقؑ آپؐ کا دروازہ ہیں۔

قیامت حق ہے، اس کی سختی حق ہے، دوزخ حق ہے، اور جنّت حق ہے، نیز قرآنِ کریم کا یہ فرمانا بھی حق ہے کہ ہر چیز قانونِ رحمت اور قانونِ علم کے تحت ہے، یا ہر شیٔ کے ظاہر و باطن میں ایک رحمت اور ایک علم ہے (۰۶: ۸۰، ۰۷: ۱۵۶) تو اس میں اہلِ بصیرت کے لئے روشنی ہی روشنی ہے، تاہم عوام کے سامنے کئی مسائل ہوسکتے ہیں، مثال کے طور پر کوئی یہ پوچھے کہ جہاں مجرمین ہمیشہ کے لئے آتشِ دوزخ میں جلتے رہیں گے، وہاں کیا رحمت ہوسکتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہوگا کہ دوزخ دائمی نہیں بلکہ عارضی ہے، اور وہ بھی مجرموں کی اصلاح کی خاطر ہے، پس اللہ کا قید خانہ نافرمان لوگوں کے واسطے باعثِ رحمت ہے، کیونکہ وہاں ان کی اصلاح ہوجاتی ہے۔

 

قانون ۲۲: خیر و شر:

خیر مستقل اور دائمی ہے، مگر شر عارضی جس طرح خیر پر عمل کرنے میں رحمت ہے، اسی طرح شر سے بچنے میں بھی رحمت ہے، عالمِ دین میں ہادیٔ برحق خیر کا سرچشمہ ہے، اور مضل یعنی شیطان شر کا ذریعہ، عالمِ شخصی میں عقل نمائندۂ ہادی اور نفس امّارہ نمائندۂ شیطان ہے، شیطان کے لئے جو مہلت دی گئی ہے، وہ یومِ انبعاث تک ہے، اس کے بعد شیطان اور شر کا کام ختم ہوجاتا ہے، جس کی مثال عالمِ شخصی میں پائی جاتی ہے کہ جب

 

۴۵

 

خدا وندِ عالم آسمان و زمین اور ان کی تمام چیزوں کو اپنے مبارک ہاتھ میں لپیٹ لیتا ہے، اس وقت شر فنا ہوکر خیر ہوجاتا ہے، کیونکہ خدا کے ہاتھ میں جو کچھ ہے، وہ خیر ہی خیر ہے (۰۳: ۲۶) اس کا اشارہ یہ ہے کہ حضرتِ قائم القیامت علیہ السّلام کے علم کی روشنی میں خیر و شر کے اسرار منکشف ہوسکتے ہیں۔

 

قانون ۲۳: سود کی تاویل:

تجارت حلال اور سود حرام ہونے کی تاویل یہ ہے کہ اللہ، رسولؐ، اور ولیٔ امر کی حقیقی اطاعت و فرمانبرداری کے وسیلے سے روحانی علم کا حصول ممکن اور ضروری ہے، اور اس طریق کے بغیر یہ علم ممنوع ہے، یعنی مل ہی نہیں سکتا، اور نہ ایسا کوئی علم صحیح و درست ہوسکتا ہے، کیونکہ علم و حکمت کے خزائن اطاعت کے شروع میں نہیں بلکہ آخری درجے میں ہیں۔

 

قانون ۲۴: چار پرندے:

انسانِ کامل کے چار پرندے یہ ہیں: قوّتِ جبرائیلیہ، قوّتِ میکائیلیہ، قوّتِ اسرافیلیہ، اور قوّتِ عزرائیلیہ، ان قوّتوں کو فعلاً زندہ کردینے کے لئے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے بحکمِ خدا خصوصی عبادت سے کام لیا، جس میں اللہ کے بزرگ نام اس تعداد میں تھے: ایک دو، چار، اور زیادہ، چونکہ یہ مقام خیر و شر کےدو دریاؤں کا سنگم ہے، جہاں شر خیر میں فنا ہوجاتا ہے، اس لئے مذکورہ قوّتوں میں دو مومن اور دو کافر کا سلسلۂ کار جاری رہتا ہے، تاکہ حقیقتِ واحدہ (مونوریالٹی) کا تصوّر قابلِ فہم ہوجائے۔

 

۴۶

 

(۳۵: ۱۲، ۱۸: ۶۰، ۲۵: ۵۳، ۲۷: ۶۱، ۵۵: ۱۹) البحران، البحرین۔

 

قانون ۲۵: سلطنتِ سلیمانی:

حضرت سلیمان علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں آلِ ابراہیمؑ کی عظیم روحانی سلطنت کے بڑے بڑے اسرار اور عجائب و غرائب موجود ہیں (۰۴: ۵۴) چنانچہ حضرتِ سلیمانؑ نہ صرف پرندوں کی بولی جانتے تھے، بلکہ ہوا، پانی، وغیرہ کی آواز میں بھی ان کے لئے ایک مختصر گفتگو تھی، لیکن اصل پرندہ روح، فرشتہ، اور جثّۂ ابداعیہ ہے (۲۷: ۱۶) جناب سلیمانؑ کے لئے ان کے تمام لشکر کا جمع ہوجانا، جو جنّات، آدمیوں، اور پرندوں میں سے تھے، دوطرح سے تھا: ایک یا جوج و ماجوج یا ذراتِ لطیف کی صورت میں، اور دوسرا جسمِ لطیف کی شکل میں، کیونکہ وہ تمام جنّوں، انسانوں، اور پرندوں کا خلاصہ اور جوہر ہے، اس لئے وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔

 

۴۷

 

قصّۂ سلیمان میں وادیٔ نمل (چیونٹیوں کی وادی) سے عالمِ ذرّ مراد ہے، جو عالمِ شخصی میں شامل ہے، جس میں ہر قسم کے روحانی ذرات موجود ہیں (۲۷: ۱۸) بلقیس جو سبا کی ملکہ تھی، اس کا قصّہ جہاں قرآن حکیم میں ہے، وہاں وہ تاویلی حکمتوں سے مملو ہے، مثال کے طور پر اس آیۂ شریفہ کو لیتے ہیں: … وَّ لَهَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ    = اور اس کی ایک بڑی سلطنت ہے (۲۷: ۲۳) کیونکہ یہاں عرش کے معنی سلطنت بھی درست ہیں، اب آئیے اس کلیدی حکمت کو لیکر وہاں جاتے ہیں، جہاں سب سے بڑا خزانہ موجود ہے، اور وہ یہ ہے: وَّكَانَ عَرْشُهٗ عَلَي الْمَاۗءِ = اور اس کی بادشاہی (قبلاً) پانی (یعنی علم) پر تھی (۱۱: ۰۷) یعنی اس دورِ اعظم سے پہلے بھی لوگ تھے، اللہ تعالیٰ کی عنایت سے انکی علمی ترقی کا یہ عالم تھا کہ وہ گویا علم کے سمندر میں ڈوب گئے تھے، اور خدا کی بادشاہی کی یہ شان تھی۔

دنیا کی ہر بادشاہی اور حکومت مغلوب ہوکر روحانی سلطنت میں شامل ہوجاتی ہے، اور اسی حقیقت کی ایک روشن مثال ملکۂ سبا کے اس قصے میں ہے، آپ ذرا غور کرکے معلوم کرسکتے ہیں کہ دعوتِ حق کی سب سے آخری شکل روحانی جنگ ہے، جس کا دوسرا نام قیامتِ صغریٰ (ذاتی یا انفرادی قیامت) ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں جہادِ روحانی سے متعلق بہت سے الفاظ و اصطلاحات موجود ہیں، اس امرِ واقعی کی مثال قصّۂ

 

۴۸

 

سلیمانؑ میں نمایان ہے، جیسے جنود (جند واحد = لشکر) کہ دنیا کا کوئی لشکر ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا، کیونکہ وہ روحانی جنگ کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے، یوزعون (انہوں نے حربی تیاری کا مظاہرہ کیا) ممکن ہے کہ اس سے انفرادی قیامت مراد ہو، جو اجتماعی قیامت اور عالمگیر روحانی جہاد کی مثال ہے۔

اگر یاجوج و ماجوج جیسے انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات کا خروج ہوا، یا اڑن طشتریوں کی طرح کوئی روحانی لشکر حملہ آور ہوا، تو اسے کون روک سکتا ہے؟ میرا یقین ہے کہ قیامت، یا روحانی جنگ جسمانی خون خرابہ کے لئے ہر گز نہیں، بلکہ تمام دنیا والوں کو ایک ہی سلکِ وحدت میں منسلک کردینے کے لئے ہے، الحمدللہ۔

 

قانون ۲۶: موت کی تحقیق:

موت کی کئی قسمیں ہوسکتی ہیں، لیکن جو موت بامقصد اور پُرحکمت ہے، اسی کا ذکر کرنا ضروری ہے، اور وہ نفسانی موت ہے، جو کسی مومنِ سالک پر جسمانی موت سے پہلے ہی واقع ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں علم و عرفان کے انمول خزائن پائے جاتے ہیں، اور اس پر حکمت موت کا بنیادی تذکرہ یہ ہے: كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ (۰۳: ۱۸۵) ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔اس کا اشارہ یہ ہے کہ نفسانی موت سے عرفانی مشاہدات و تجربات کی لازوال دولت حاصل ہوجاتی ہے، جس کی مثال کسی مزہ والی چیز کو چکھ

 

۴۹

 

کر معلوم کرلینے سے دی گئی ہے، تاہم یہاں ایک بڑا اہم سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کا کیا حال ہوگا، جو ایسی مقدّس و مبارک موت سے نہیں گزر سکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس شخص پر مذکورہ موت واقع ہوجاتی ہے، اس میں سب کی نمائندگی موجود ہوتی ہے، چنانچہ کل بہشت میں لوگ اجتماعی نامۂ اعمال میں یہ سب کچھ دیکھ سکیں گے، اور ان کو بڑی حیرت اور بیحد خوشی ہوگی، کہ وہ سب نفسِ واحدہ میں ایک ہیں۔

 

قانون۲۷: دائرے ہی دائرے:

چشمِ بصیرت (دیدۂ دل) سے دیکھا جائے تو خدا کی خدائی اور بادشاہی کی ہر ہر چیز ہمیشہ ایک ایسے دائرے پر روان دوان نظر آتی ہے، جس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے، اور نہ ہی کوئی انتہا، اور اس کلیہ سے کوئی چیز مستثنیٰ نہیں، اگر موت و فنا کی تحقیق کی جائے، تو وہ بھی دراصل کسی شیٔ کے حق میں ابتداء یا انتہا ثابت نہیں ہوسکتی، کیونکہ حکمائے دین کے نزدیک عدمِ محض کا تصوّر نہیں، جبکہ نیستی عالمِ امر کا ایک نام ہے، جیسا کہ حکیمِ مطلق کا ارشاد ہے: كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ (۰۲: ۲۸) تم خدا سے کیسے منکر ہوسکتے ہو، حالانکہ تم مرے ہوئے تھے تو اسی نے تم کو زندہ کیا، پھر تمہیں موت دے گا، پھر تم کو زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹ جاؤ گے۔

 

۵۰

 

چنانچہ ربِّ حکیم نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ: “تم کچھ بھی نہ تھے” بلکہ ارشاد ہوا کہ تم تھے تو سہی مگر مردے، یعنی تمہاری روح بے علم تھی، اور تمہارے جسم کے اجزاء عناصر میں بکھرے ہوئے تھے، پس مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ سے واضح طور پر موت اور حیات کے شب و روز کا یہ دائرہ بن جاتا ہے:

رجوع حیات موت حیات موت

 

قانون ۲۸: سایۂ بہشت:

یہ نکتۂ دلپذیر خوب یاد رہے کہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کی بادشاہی اہلِ بہشت کی سلطنت کی مثال و دلیل تھی، چنانچہ جن پاک و پاکیزہ روحوں کو جنّت کی عظیم سلطنت عطا ہوگی (۷۶: ۲۰) انہی کو ایک طرح سے دنیا کی بادشاہی بھی حاصل ہوگی، اس حقیقت کے بہت سے حکیمانہ اشارے قرآنِ حکیم میں موجود ہیں، اور ان میں سے ایک اشارہ سایۂ بہشت میں ہے، کیونکہ بہشت کے سائے وہاں نہیں، یہاں نمودار ہوتے رہتے ہیں، جیسا کہ مولوی معنوی نے کہا:

ع    تن چو سایہ بر زمین و جانِ پاکِ عاشقان

در بہشتِ عدن تجری تحتھا الانہار مست

جسم سائے کی طرح زمین پر ہے، اور عاشقانِ الٰہی کی پاک روح – دائمیّت کی اس بہشت میں مست ہے جس کے نیچے نہریں بہتی رہتی ہیں۔

نیز مولائے روم ہی نے فرمایا کہ: “ما آمدہ نیستیم این سایۂ ماست” = ہم دراصل دنیا میں آئے ہی نہیں ہیں، یہ (جو کچھ نظر

 

۵۱

 

آرہا ہے) ہمارے وجودِ اصلی کا سایہ ہے۔

پس بہشتِ برین کی نعمتوں کے سلسلے میں جن سایوں کا ذکر آیا ہے، وہ اہلِ دنیا ہیں، جن پر جنّت والوں کی بادشاہی ہوتی رہتی ہے، اورظلِّ جنّت (سایۂ بہشت) میں اعلیٰ بھیدوں کا خزانہ مخفی ہے، پس اس حقیقت میں کوئی شک ہی نہیں کہ زمانے کا امام علیہ السّلام ظلِّ الٰہی بھی ہیں اور سایۂ عرش بھی، کیونکہ خداوند تعالیٰ نے جہاں ہر چیز کا ایک سایہ بنایا (۱۶: ۸۱)وہاں اس نے اپنے نورِ اقدس کا بھی ایک سایہ یعنی عکس بنایا (۲۵: ۴۸) جیسا کہ ارشاد ہے: اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ  ۚ وَلَوْ شَاۗءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا  ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا  (۲۵: ۴۵) تاویلی مفہوم: اے رسولؐ کیا تم نے معراج میں اپنے ربّ کی طرف نہیں دیکھا کہ اس نے اپنے سایۂ نور (عکس = صورتِ رحمانی = چہرہ یزدانی) کو کس طرح وسیع معنوں پر محیط بنادیا ہے؟ کیا اس میں تمام حقیقتوں کی وحدت و سالمیت نہیں؟ کیوں نہیں، اگر وہ چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا بھی رکھتا، یعنی اس کی معنوی حرکت و وسعت کو روک لیتا، مگر تمہارے لئے ایسا نہیں کیا، پس نورِعقل کی تائید سے اس کے اسرار محدود بھی ہوجاتے ہیں اور وسیع بھی۔

 

قانون ۲۹: جسمِ لطیف:

پروردگارِ عالم نے اہلِ جنّت کے لئے جسمِ لطیف بنا دیا ہے، جس کے کئی نام منکشف ہوئے ہیں، جیسے ظل (سایہ) ریش (۰۷: ۲۶) سرابیل (۱۶: ۸۱) محراب (۱۹: ۱۱) تمثال (۳۴: ۱۳)

 

۵۲

 

جنّ / پری، فرشتہ، اریکہ (جمع ارائک = تخت) طیر = پرندہ، رعد، استبرق = برق، رفرف (۵۵: ۷۶) جسمِ فلکی، بدنِ کوکبی، جثۂ ابداعیہ، وغیرہ۔

جیسا کہ سورۂ یاسین میں ارشاد ہے: هُمْ وَاَزْوَاجُهُمْ فِيْ ظِلٰلٍ عَلَي الْاَرَاۗىِٕكِ مُتَّكِــــــُٔـوْنَ  (۳۶: ۵۶) وہ اور ان کی بیویاں سایوں میں تخت ہائے شاہی پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔ چونکہ جسمِ لطیف ہی بحقیقت عالمِ شخصی اور عالمِ لطیف ہے، لہٰذا وہ ہر چند کہ ایک نورانی شخص نظر آتا ہے، لیکن وہ ایسی بہشت ہے، جو طول و عرض میں کائنات کے برابر ہے، اور اس میں سب کچھ ہے (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱)۔

 

قانون ۳۰: علم سے عشق:

خدا وندِ تعالیٰ جن مومنین و مومنات کو علم کی لازوال دولت سے مالا مال کردینا چاہتا ہے، ان کے دل میں علم کا عشق پیدا کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ علم کی تلاش میں لگے رہتے ہیں، اور یہ ان کی بہت بڑی سعادت ہے، کیونکہ علم جہاں حقیقی ہے، وہاں اس میں نورِ الٰہی کی تجلّیات ہیں چنانچہ نورالانوار کی تمثیل طور (پہاڑ) سے دی گئی ہے، اور گوناگون تجلّیات کی تشبیہہ پہاڑ کے ریزہ ریزہ ہوجانے سے دی گئی ہے، پس محبوبِ جان کا نورانی، عقلی، اور علمی دیدار یہ ہے کہ آپ علم و حکمت کے اسرار کا ادراک کرسکیں۔

ربّ العزّت کی تجلی ہر زمانے میں کاملین کو ہوتی رہی ہے، لیکن یہ واقعہ ایسا کیوں ہوا کہ صرف حضرتِ موسیٰؑ ہی بیہوش ہوکر

 

۵۳

 

گر پڑے (۰۷: ۱۴۳)؟ یہ دراصل حیرت اور عشق کی بات ہے، جو علمِ الٰہی کے عجائب و غرائب سے پیدا ہوجاتے ہیں، خداوند تعالیٰ کے عاشق ہونے کا دعویٰ کرنا بہت بڑی بات ہے، اس لئے دعا اور کوشش یہ ہو کہ ہر شخص نورانی علم کا شیدائی بنے، تاکہ اللہ کی خوشنودی حاصل ہو، کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ اس کے بندے ہر وقت علم کی روشنی میں رہیں۔

 

قانون۳۱: مرگِ جہالت:

قرآن و حدیث میں عقل اور علم کی تعریف و توصیف اور کرامت و فضیلت بیان کی گئی ہے، اور جہالت و نادانی کی بڑی سختی سے مذمت کی گئی ہے، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ جہالت تاریکی بھی ہے، بیماری بھی، موت بھی ہے، اور عذاب بھی، اور یہ حقیقت ہے کہ یکے بعد دیگرے تمام برائیاں جہالت ہی سے جنم لیتی ہے، پس جہالت بہت بری موت ہے، کیونکہ اس سے کسی فرد یا افراد یا قوم کی تمام امکانی خوبیاں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں، اسی وجہ سے جہالت کی تشبیہہ آتشِ دوزخ سے دی گئی ہے، جیسا کہ قولِ رسولؐ ہے: والجاھل فی النار = اور نادان آگ میں جل رہا ہے۔ یعنی جہالت و نادانی ہی آتشِ دوزخ ہے، اور یہی عقلی عذاب ہے، جو عذابِ اکبر ہے (۳۲: ۲۱،  ۳۹ : ۲۶،  ۶۸: ۳۳، ۸۸: ۲۴)۔

موت اور حیات کی کئی قسمیں ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ یہ

 

۵۴

 

درجات میں ہیں، مثال کے طور پر جمادات مردہ ہیں، نباتات زندہ، لیکن حیوانات کے مقابلے میں یہ مردے کی طرح ہیں، حیوان زندہ ہے، مگر انسان کے سامنے مردہ جیسا ہے، کیونکہ اسکی کوئی عقل نہیں، انسان عقلِ جزوی کے اعتبار سے زندہ ہے، تاہم یہ دینی اور روحانی پرورش کی محتاج ہے، اور تربیت و پرورش کے شروع سے آخر تک درجات ہیں۔

 

قانون ۳۲: بیت اللہ:

خداوندِ بزرگ و برتر کی سنت میں انتہائی عظیم و عجیب حکمتیں پوشیدہ ہیں، کہ اس کی خاص چیزیں مثال و ممثول کے طور پر ہوا کرتی ہیں، جیسے اس کا ظاہری گھر مثال ہے، اور باطنی گھر ممثول، چنانچہ حضرتِ ابراہیمؑ کا مبارک وجود اپنے وقت میں خانۂ کعبہ کا ممثول اور اللہ تعالیٰ کا باطنی گھر تھا، پس خدا نے آپؑ کو حکم دیا کہ (دنیا بھر کے) لوگوں کو (ذاتی قیامت اور روحانی) حج کے لئے بلالو، اور اس فرمانِ الٰہی کی تعمیل اس طرح ہوئی کہ انہوں نے اپنی روحانی قوّتوں (قوّت اسرافیلیہ وغیرہ) سے کام لیکر تمام لوگوں کو بلالیا، اور سب لوگ انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں حاضر ہوگئے، تاکہ دنیا والے ایک بار یہ دیکھ سکیں کہ حاملِ نور کی شخصیّت ان کے فوائد کی خاطر کس طرح کام کر رہی ہے۔

یہ سورۂ حج (۲۲: ۲۶…) کا بہت بڑا تاویلی راز ہے، کہ “ناس”

 

۵۵

 

کے معنی ہیں سب لوگ، اور حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے زمانے میں دنیا بھر کے لوگوں کو حج کے لئے بلانا صرف صورِ اسرافیل ہی سے ممکن تھا، اور ایسا ہی کیا گیا، پس انسانِ کامل کی انفرادی قیامت میں اہلِ جہان کو دینِ حق میں داخل کرنا بھی ہے، اور ان کا حج اکبر بھی ہے۔

 

قانون ۳۳: دینِ مجسم:

حضرتِ محمد مصطفیٰ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دینِ حق کی تمام خوبیوں کا مجموعہ تھے، اسی لئے خداوندِ عالم نے آپؐ کو “دین اللہ” جیسے پیارے نام سے یاد فرمایا، جیسا کہ سورۂ نصر میں ہے: (اے رسولؐ)جب خدا کی مدداور فتح آگئی (یعنی جبرائیل، میکائیل، اور شخصی قیامت) اور تم نے تمام لوگوں کو دیکھا کہ جوق درجوق اللہ کے دین (یعنی تمہاری شخصیّت) میں داخل ہورہے تھے، پس مرتبۂ عقل پر اپنے پروردگار کی پاکی بیان کرو اور (اسی مقام پر) اس سے بخشش مانگو بے شک وہ (اسی مقام پر) لوٹنے والا ہے (یعنی مرتبۂ عقل ہی پر بندہ خدا کی طرف اور خدا بندے کی طرف لوٹ جاتا ہے، (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۳)۔

ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں ذاتی قیامت کا تجدّد ہو جاتا ہے، جس میں زندے اور مردے سب کے سب بصورتِ ذرّات جمع ہوجاتے ہیں، اور اسی طرح روحانیّت و قیامت کے جملہ اسرار منکشف ہوجاتے ہیں، اور اس کے بغیر معرفت ممکن نہیں، ہر سالک

 

۵۶

 

کے لئے کامل معرفت اس امر میں ہے کہ وہ جیتے جی مقامِ روح پر مرکر زندہ ہوجائے، اور مرتبۂ عقل پر پہنچ کر فنا فی اللہ و بقا بااللہ عملی معرفت حاصل کرے، اس کے سوا حقیقی معنوں میں کوئی معرفت نہیں، آپ اس میں خوب غور کرلیں۔

 

قانون ۳۴: خدا کی رسی:

اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ علیم و حکیم ایک ہی حقیقت کو طرح طرح کی مثالوں میں بیان فرماتا ہے (۱۷: ۸۹، ۱۸: ۵۴) چنانچہ اللہ کی رسی سے ہادیٔ برحق علیہ السّلام کا نور مراد ہے، جس کا آسمانی سرا خدا کے ہاتھ میں اور زمینی سرا بصورتِ انسانِ کامل لوگوں کے درمیان ہے، یہ نورانی رسی ارض و سما کے درمیان درجات کی سیڑھی بھی ہے، ربّ العزّت کی طرف جانے کے لئے صراطِ مستقیم بھی، کیونکہ ذاتِ سبحان کی چیزیں روحِ قدسی اور عقلِ کامل سے آراستہ ہوا کرتی ہیں، اس لئے وہ بولنے اور جاننے والی ہوتی ہیں۔

اللہ کی رسی (۰۳: ۱۰۳) کی مثال میں بڑی عجیب و غریب حکمتیں مخفی ہیں، یعنی (الف): نورِ ہدایت عالمِ علوی سے عالمِ سفلی میں اس طرح آیا ہے کہ اس کا فوقانی سرا  عالمِ بالا میں اور تحتانی سرا اس دنیا میں ہے، (ب): تاکہ لوگ اس سے وابستہ ہوکر اپنے ربّ کے حضور جا سکیں، (ج): مقصودِ خدا یہ ہے کہ لوگوں کو عالمِ ناسوت کے تنگ و تاریک اور عمیق کنویں سے نکالا جائے، (د): تمام باطنی (روحی، اور عقلی) چیزیں عالمِ لامکان سے اسی خدائی رسی کی شکل میں آتی

 

۵۷

 

ہیں، پس جن لوگوں نے اس نورانی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا، تو ان کے لئے سب کچھ ہے، (ھ): نور مرتبۂ ازل میں سورج کی مثال پر مجتمع اور یکجا ہے، عوالمِ شخصی میں منتشر، اور اشخاصِ نبوّت و امامت کے سلسلے میں رسی کی طرح ہے (و): قرآنِ پاک میں سب سے عظیم الشّان آیات نور سے متعلق ہیں، ان میں سب سے بڑی آیت “اللہ نور السماوات” ہے، جس کی وضاحت “نورٌ علیٰ نور” ہے، یعنی ایک پیغمبر کے بعد دوسرا پیغمبر، پھر ایک امام کے بعد دوسرا امام، اس سے ظاہر ہوا کہ دین میں خدا کی نورانی رسی سب سے بڑی چیز ہے۔

جب خداوند تعالیٰ نے فرمایا کہ: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا   (یعنی تم سب مل کر خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور فرقہ فرقہ نہ ہوجاؤ ۰۳: ۱۰۳) تو اس سے کئی امکانی باتیں ظاہر ہو جاتی ہیں، خصوصاً لوگوں کے ہاتھ سے خدا کی رسی کا چھوٹ جانا، اور ان کا فرقہ فرقہ ہوجانا، جس کا چارۂ کار یہی تھا کہ لوگ عقل و دانش اور علم و عمل سے خدا کی نورانی رسی کو پہچان لیتے، جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے، تاکہ اس کے بے شمار فوائد سے آگہی ہوتی، پھر سب لوگ خود بخود اس کے گرداگرد جمع ہوجاتے۔

اللہ کی پاک رسی کی جو پُرازحکمت مثال ہے، اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ: انسان کی رسی جان و عقل کے اوصاف سے عاری، کوتاہ و نارسا، ناقص، کمزور، محدود، اور ٹوٹ جانے والی ہوا کرتی

 

۵۸

 

ہے، جبکہ خدا کی رسی مثال میں رسی ہے، مگر ممثول میں روحِ عالم اور عقلِ کامل ہے، اس لئے وہ عالمگیر نور اور زندہ بہشت ہے، اور بے مثال خوبیوں اور تجلیوں کی کائنات ہے، پس خدا کی رسی میں دین کی ساری نعمتیں موجود ہیں۔

 

قانون ۳۵: قرآن کا لسانی معجزہ:

سورۂ ابراہیم کی چوتھی آیۂ مقدّسہ (۱۴: ۰۴) کو خوب توجہ سے پڑھ لیں، وہ یہ ہے: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ =اور کوئی رسول نہیں بھیجا ہم نے مگر بولی بولنے والا اپنی قوم کی تاکہ ان کو سمجھائے۔ دوسری متعلقہ آیۂ شریفہ: قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا =تو کہہ اے لوگو میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف (۰۷: ۱۵۸) اور تیسری آیۂ کریمہ، جس کا اس مضمون سے براہِ راست تعلق ہے، یہ ہے: وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ = اے نبیؐ ہم نے تو تم کو دنیا والوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے (۲۱: ۱۰۷)۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ابتدائی قوم ملکِ عرب کے مسلمان ہیں، اجتماعی قوم دنیا بھر کے مسلمان ہیں، جن کی زبانیں اور بولیاں مختلف ہیں، اور حضورؐ کی امکانی قوم تمام غیر مسلم ہیں، پس خدائے بزرگ و برتر نے حضرتِ خاتم الانبیاءؐ کو ظاہراً ایک انتہائی پاک شخصیّت اور باطناً ایک عالمگیر نور بنا کر بھیجا تاکہ باطن اور نورنیّت میں پاک پیغمبرؐ ہر بولی والے سے کلام کرسکے، چونکہ

 

۵۹

 

قرآن ظاہر میں تحریری کتاب اور باطن میں نور ہے، اس لئے قرآن حکیم کا روحانی خطاب دنیا کی ہر زبان میں ہے، اور یہ قرآنِ عظیم کا لسانی معجزہ ہے، مگر یہ معجزے اس وقت ہوسکتے ہیں، جبکہ خدا، رسولؐ اور صاحبِ امر کی حقیقی اطاعت بجالائی جاتی ہے۔

البقرۃ (۰۲: ۱۷۴) اور آلِ عمران (۰۳: ۷۷) میں یہ مفہوم ہے کہ قیامت کے دن خداوند تعالیٰ اچھے لوگوں سے کلام کرے گا، اور برے لوگوں سے کلام نہیں کرے گا، سوال ہے کہ وہ مہربان جن جن سے کلام فرمائے گا، وہ کس زبان میں ہوگا؟ اس کا عقلی اور منطقی جواب یہ ہے کہ خدا ہر زبان اور ہر بولی میں کلام کرسکتا ہے، اس لئے یہ کہنا درست ہے کہ اللہ ہر حقیقی مومن کی بولی میں خطاب فرمائے گا، اور بہت ممکن ہے کہ خداوندِ عالم کا ایسا کلام جو خدا کے خاص بندوں سے ہونا چاہئے، وہ پہلے ہی سے قرآن کی روحانیّت و نورانیّت میں موجود ہو، یقیناً امرِ واقعی ایسا ہی ہے کہ جو لوگ جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مرکر قیامت کے مناظر دیکھتے ہیں، وہ قیامت سے متعلق تمام باتوں کو اپنی ہی زبان میں سنتے ہیں، اور یہ نورِ قرآن اور نورِ امام کا روحانی معجزہ ہے، اور نور باطن میں ایک ہی ہے۔

خدا ، ملائکہ، انبیاء، اور أئمّہ ہر بولی اور ہر زبان میں کلام کرسکتے ہیں، لیکن یہ معجزہ صرف مراحلِ روحانیّت (ذاتی قیامت) اور بہشت میں ممکن ہے، نیز یہ بھی یاد رہے کہ نامۂ اعمال ہر کسی

 

۶۰

 

کی اپنی ہی زبان میں ہوتا ہے، جس کے لئے ظاہری تحریر ضروری نہیں، وہ نوشتۂ روحانی ہے، یعنی وہ ایک زندہ کتاب (فرشتہ) ہے، اس بیان سے چند حقیقتیں اجاگر ہوگئیں، اور ان میں سے ایک حقیقت یہ کہ ہر زبان آیاتِ قدرت میں سے ہے، یعنی وہ خدا کی بنائی ہوئی ہے۔

 

قانون ۳۶: کتابِ ناطق:

قرآنِ حکیم کے دو مقام پر کتابِ ناطق (بولنے والی کتاب) کا تذکرہ ہے، وہ بابرکت اور پُرحکمت الفاظ یہ ہیں: وَلَدَيْنَا كِتٰبٌ يَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ   = اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے، جو حق بات بولتی ہے، اور لوگوں پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا (۲۳: ۶۲) ھٰذَا كِتٰبُنَا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِّ = یہ ہماری کتاب ہے جو تم پر ٹھیک ٹھیک بول رہی ہے (۴۵: ۲۹)۔

یہ امامِ زمان علیہ السّلام کے نورِ اقدس کی صورت میں نامۂ اعمال ہے، کیونکہ امامِ عالیمقامؑ خدا و رسولؐ کی طرف سے لوگوں پر گواہ ہے، اور وہی قرآنِ ناطق بھی ہے، یعنی نورِ قرآن (۰۵: ۱۵) اور روحِ قرآن (۴۲: ۵۲) نیز معلمِ قرآن (۰۲: ۱۵۱) کیونکہ حضرتِ امامؑ باطن میں قرآن کے ساتھ ہے، اس کے برعکس اگر خدا کے پاس کوئی جدا گانہ اور خاص قسم کی بولنے والی کتاب اس مقصد کے لئے پوشیدہ رکھی ہوئی ہوتی کہ اس سے اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اپنے بندوں کے اعمال کی گواہی لینے والا ہے، تو اس صورت میں (نعوذ باللہ)

 

۶۱

 

دنیا میں نظامِ ہدایت نامکمل اور آخرت میں قانونِ عدالت بڑا سخت گیر ہوتا، لیکن یہ امر محال (ناممکن) ہے۔

کوکب دری، ص ۲۲۷ پر مولا علی صلوات اللہ علیہ کا یہ ارشاد درج ہے: انا التکلّمُ بِکُلِّ لُغَتٍ فی الدّنیا = یعنی میں ہوں وہ شخص جو دنیا کی ہر لغت و زبان میں کلام کرتا ہے۔ اسمِ علی سے نورِ امامت مراد ہے کہ وہ بڑا بلند مرتبہ ہے، جو سیّارۂ زمین کی ہر زبان میں کلام کرتا ہے، اور یہ قرآن کی روحانیّت و حکمت بھی ہے، اور نامۂ اعمال بھی، کیونکہ اسلام آفاقی دین ہے، اس لئے اس کی ہدایت میں کوئی تنگی (حرج ۲۲: ۷۸) نہیں۔

 

قانون ۳۷: السنۂ عالم:

سورۂ روم کی اس آیۂ کریمہ کو بہ یقینِ حکمت دیکھ لیں: وَمِنْ اٰيٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــلْعٰلِمِيْنَ  = اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش، اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے، یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانشمند لوگوں کے لئے (۳۰: ۲۲)۔

اس آیۂ مبارکہ سے یہ حقیقت پوری طرح روشن ہوجاتی ہے کہ السنۂ عالم کی تخلیق خدا نے فرمائی ہے، کیونکہ یہ آیاتِ قدرت میں سے ہیں، اور ہر آیت خدا کے حضور سے آتی ہے، یا اس کی تخلیق ہوتی ہے، جیسے آسمان اور زمین کی پیدائش، اور انسانی رنگوں اور چہروں

 

۶۲

 

کا اختلاف کہ یہ چیزیں انسان کے اختیار میں نہیں ہوتیں، چنانچہ کرۂ ارض کی ابتدائی زبان کا ایجاد و اختراع، اور اسی سے مختلف زبانوں کا ظہور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، یہ بات ایسی ہے جیسے خالقِ اکبر نے آدمؑ کو اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا، اور اسی نمونۂ حسن و جمال کی اساس پر بنی آدم کی صورتوں میں گونا گونی اور رنگا رنگی پیدا کردی۔

 

قانون ۳۸: اہلِ جنّت کی زبان:

سب سے پہلے بہشت کے بارے میں یہ جاننا ازحد ضروری ہے کہ وہ کہاں واقع ہے؟ مکانی ہے؟ یا لامکانی؟ پس یاد رہے کہ اشارۂ قرآن (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) کے مطابق بہشت پوری کائنات کے جسمِ لطیف میں ہے، جس کا ظاہری پہلو مکانی اور باطنی پہلو لامکانی ہے، یہ اجتماعی جنّت ہے، جس کی زبان بحوالۂ ارشادِ نبویؐ عربی ہے، (ترجمہ:) عربی زبان سے تین وجوہ کی بناء پر محبت کرنی چاہئے، ایک یہ کہ میں (رسولِ کریمؐ) عربی ہوں، دوسرے قرآن عربی ہے، تیسرے اہلِ جنّت کی زبان عربی ہے (المنجد ص ۱۰)۔

اجتماعی جنّت میں ہر مومن اور مومنہ کے لئے انفرادی جنّت بھی ہے، وہ اس کا عالمِ شخصی (جسمِ لطیف) ہے، اور کوکب یعنی ستارہ، جس پر اس کی بادشاہی قائم ہوگی، پس ہر شخص کی ذاتی بہشت میں اس کی اپنی زبان بولی جائے گی، اس کی دلیل یہ ہے

 

۶۳

 

کہ بہشت میں ہر مطلوبہ نعمت موجود ہے، اگر کوئی شخص انفرادی بہشت میں کسی اور زبان کو استعمال کرنا چاہے تو وہ خواہش بھی پوری ہوجائے گی۔

اجتماعی بہشت میں عربی زبان کیوں؟- (الف): اس لئے کہ قرآنِ مجید، احادیثِ قدسی، اور احادیثِ صحیحۂ نبوّیؐ عربی میں ہیں، اور اس ذخیرۂ نورانی میں عقل و دانش کے لئے جیسی اور جتنی آسمانی نعمتیں تھیں، وہ سب جوں کی توں ہیں (ب): اس لئے کہ ہر عالمِ شخصی کی روحانیّت و جنّت میں قرآنِ حکیم کا آسمانی ترجمہ مہیا ہے (ج): اس لئے کہ قرآنِ مجید اب بھی لوحِ محفوظ (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) میں بقلمِ الٰہی لکھا ہوا موجود ہے، تاکہ اہلِ بہشت اس کے ازلی و ابدی اسرار کا مشاہدہ مطالعہ کریں، (د): قرآنِ پاک جو عربی میں ہے، وہ تمام اگلی آسمانی کتابوں کا مجموعہ، خلاصہ، اور محافظ ہے (۰۵: ۴۸) جس میں جملہ انبیاء علیھم السّلام کی عقلی اور روحانی نعمتوں کا ذکر ہے۔

 

قانون ۳۹: زبان محفوظ ہے:

خدائے قادرِ مطلق نے عالمِ لطیف (بہشت) کو ہرگونہ نعمتوں سے بھر پور بنایا ہے، وہاں ہر خواستہ و مطلوب چیز مل جاتی ہے، اور کوئی شی ناممکن نہیں، اور اس حقیقت پر قرآن پاک کی بہت سی شہادتیں ملتی ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: لَهُمْ مَّا يَشَاۗءُوْنَ فِيْهَا وَلَدَيْنَا مَزِيْدٌ  = وہاں ان کے لئے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس اس سے زیادہ بھی ہے (۵۰: ۳۵) پس ہم یقیناً یہ کہہ سکتے ہیں کہ بہشت میں نہ صرف

 

۶۴

 

دنیا کی زبانیں محفوظ ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ ہر زبان کی مکمل تاریخ بھی زندہ رکھی ہوئی ہے کہ وہ زبان کب سے اور کہاں سے چلی آئی ہے، اس کی پہلی دلیل: وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ كِتٰبًا  = اور ہم نے ہر چیز گن گن کر لکھ رکھی ہے (۷۸: ۲۹) دوسری دلیل: زمانۂ قدیم کے رجال بہشت میں بصورتِ غلمان زندہ اور موجود ہیں، وہ گویا متعلقہ زبان کی ہسٹری بھی ہیں، اور لغات بھی (۵۶: ۱۷، ۷۶: ۱۹) جیسے مؤکل نے دعا کی: “تھوݽ گٹݸ جݹ مݶن شروجݹ” یعنی مجھے نیا لباس (جسمِ لطیف) دو، اور پرانا رزق (قدیم علم) دو۔

تیسری دلیل: دوسری تمام چیزوں کی طرح قانونِ خزانہ بھی گول شکل کا ہے کہ سکہ نہ صرف اس سے خارج ہوجاتا ہے، بلکہ گھوم پھر کر اس میں داخل بھی ہوجاتا ہے، چنانچہ زبان بہشت جیسے خزائن (۱۵: ۲۱)سے نازل ہوئی ہے، اور پھر بہشت کی طرف لوٹائی جاتی ہے، چوتھی دلیل: نیک لوگوں کا نامۂ اعمال عالی مرتبہ ہستیوں (علّیّین = أئمّہ) میں ہوتا ہے (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) اس کا اشارہ یہ ہے کہ ابرار کا نامۂ اعمال نورِ امامت کی روشنی میں ہے، بلکہ ملکر ہے، لہٰذا اس میں کوئی تعجب نہیں کہ ایسی بلندی کی کتابِ اعمال میں قدیم زبان، ادب اور علم کا بہت بڑا خزانہ موجود ہو، کیونکہ نور تمام زمانوں پر محیط ہے۔

 

۶۵

 

قانون ۴۰: یوم الخلود:

حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ادْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍ ۭ ذٰلِكَ يَوْمُ الْخُلُوْدِ = جنت میں صحیح و سلامت داخل ہوجاؤ، یہی تو ہمیشہ رہنے کا دن ہے (۵۰: ۳۴) یہاں کسی کا یہ سوال ممکن ہے کہ بہشت کی ہمیشگی کس طرح ہے؟ ایک شخص ماضی میں بہشت سے باہر رہتا تھا، اور اب مستقبل کے لئے بہشت میں داخل ہوگیا تو یہ کل وقت نہیں ہوا، پھر کیسے اس کا نام ہمیشہ (خلود) ہوسکتا ہے؟

جواب: بہشت میں ماضی و مستقبل نہیں، بس وہاں حال ہی حال ہے، یعنی اس میں دہر یا ٹھہرا ہوا زمان ہے، گزرنے والا زمان نہیں، ایسی جنّت میں ہر انسان اپنی انائے علوی کے اعتبار سے ہمیشہ ہمیشہ موجود ہے، اس کے علاوہ وہ انائے سفلی کے اعتبار سے اس دنیا میں بھی آتا ہے، مگر جب یہ واپس بہشت میں داخل ہوجاتا ہے تو یوں لگتا ہے، جیسے وہ چشمِ زدن ( كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ  ۱۶: ۷۷) میں یا اس سے بھی زیادہ سرعت سے لوٹ آیا، کیونکہ بہشتِ برین کا وقت اپنی کیفیت میں ٹھہرا ہوا ہوتا ہے۔

 

۶۶

 

ایک میں سب

 

۱۔ نفسِ واحدہ:

خدا کی خدائی میں ایسا “ایک” کون ہوسکتا ہے جس کی ذاتِ عالی صفات میں لوگ سب کے سب موجود ہوں؟ کیا وہ کوئی کامل انسان ہے؟ یا فرشتۂ مقرب؟ یا کوئی عظیم روح؟ آیا ہم میں ہر فرد ایسی محیط اور ہمہ گیر ہستی کو حقیقی معنوں میں پہچان سکتا ہے؟ اگر یہ شناخت ممکن ہے تو اس کا طریقہ کیا ہے؟

 

۲۔ جوابِ جامع:

ایسا “ایک” وجود، جس میں تمام نفوسِ جزوی کی ازلی و ابدی وحدت برجا (قائم) ہے، نفسِ واحدہ کہلاتا ہے، وہ جسمانیّت میں انسانِ کامل، روحانیّت میں روحِ اعظم (نفسِ کلّی) اور عقلانیّت میں فرشتۂ مقرب (عقلِ کلّی) ہے، پس ہم سب کے لئے اس کی معرفت ممکن بھی ہے اور ضروری بھی، جس کا طریقہ (راستہ) خود شناسی ہی ہے۔

 

۳۔ ازلی وابدی وحدت:

آج کی علمی گفتگو کے شروع ہی میں یہ کتنا عظیم راز ظاہر ہوا کہ تمام لوگوں کی ازلی وابدی وحدت نفسِ واحدہ میں برجا ہی ہے، کیونکہ خالقِ اکبر نے انسانوں کو

 

۶۷

 

نفسِ واحدہ سے پیدا کیا (۰۴: ۰۱، ۰۶: ۹۸، ۰۷: ۱۸۹، ۳۱: ۲۸، ۳۹: ۰۶) لیکن اس طرح سے نہیں کہ انسان کی ازلی حقیقت یا انائے علوی نیچے لائی گئی ہو، جبکہ حقائقِ ازل مکان و زمان کی قید سے بالا و برتر ہیں، اس لئے وہ اپنے اصل مقام سے منقطع ہوکر دنیائے آب و گل میں نہیں آسکتے، مگر ہاں، یہی سچ ہے کہ ہر آدمی نفسِ واحدہ سے اس طرح پیدا کیا گیا، جیسے کسی درخت سے اس کا سایہ بن جاتا ہے، تاہم نفسِ واحدہ کے نورِ مقدّس کا تاریک سایہ نہیں، صرف پَرتَو (عکس) ہے، پس اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے، تو یہ حقیقت سامنے آئے گی، کہ ہر شخص نفسِ واحدہ یعنی نفسِ کلّی کا عکس ہے۔

 

۴۔ ہر چیز کا سایہ:

سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں یہ کلّیہ آیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کے فائدے کی خاطر، ہر چیز کا ایک سایہ مقرر فرمایا، چنانچہ اجسام، نفوس، اور عقول میں سے کوئی مخلوق ایسی ہرگز نہیں، جس کا کوئی بھی سایہ نہ ہو، حتیٰ کہ سورج، چاند، اور ستاروں کا بھی سایہ ہے، اور وہ ان کا عکس ہے، جو آئینہ، ابرق، صاف پانی، وغیرہ میں نظر آتا ہے، اسی طرح خدائے بزرگ و برتر نے لوگوں کو نفسِ واحدہ کے نور سے بحیثیتِ عکس پیدا کیا، یہ صرف روحانی تخلیق کی بات ہے، جسمانی پیدائش کا تذکرہ نہیں، تاکہ اس عکس سے جو آئینے میں ہے سورج کی طرف علمی و عرفانی سفر کیا جائے، وہ اس طرح کہ اگر تمہارے آئینۂ قلب پر ہادیٔ برحق کے نور کا پرتو

 

۶۸

 

پڑ رہا ہو، تو یقین کرو کہ تم اس کے ظل یعنی سایہ ہوگئے، اور تمہارا روحانی جنم ہوا، لیکن یاد رکھو کہ مرتبۂ عین الیقین پر یہ پہلا جنم ہے، یہاں سے تم کو آگے حق الیقین کی طرف جانا ہے، جہاں تمہارا دوسرا جنم ہوگا، جو عقلی جنم ہے، اس کے بعد کہیں آگے چل کر تم اپنی انائے علوی کو سرچشمۂ نور میں پاؤ گے۔

 

۵۔ زندہ بہشت:

بہشت دراصل زندہ اور دانندہ (دانا) ہے، اور وہ نفسِ واحدہ ہے، اس میں اہلِ جنت کے لئے سب کچھ ہے:  OO MANASAN API یعنی وہاں کوئی نعمت اور کوئی چیز ناممکن نہیں، ہر اعلیٰ سے اعلیٰ مرتبہ حاصل ہے، یہاں تک کہ دوستانِ خدا اپنے آپ میں بہشتِ برین ہوجاتے ہیں، یعنی نفسِ کلّ کی حقیقت میں بیدار (زندہ) ہوجاتے ہیں، پھر ان کی کوئی ایسی خواہش باقی نہیں رہتی، جو پوری نہ ہوسکے (۱۶: ۳۱، ۲۵: ۱۶، ۳۹: ۳۴، ۴۲: ۲۲، ۵۰: ۳۵) جیسے حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے: اے ابنِ آدم میری اطاعت کرتا کہ میں تجھ کو خود ایسا بناؤں گا (یعنی علم و معرفت کے ذریعے سے تجھ پر یہ راز ظاہر کروں گا کہ میں تیری روح کی روح اور انائے علوی ہوں) …۔

 

۶۔ شمسِ ظاہر اور شمسِ باطن:

ظاہری شمس سورج ہے، اور باطنی شمسی نور، اِس میں اور اُس میں بے انتہا فرق ہے، کیونکہ یہ مثال ہے اور وہ ممثول، یہ عقل و جان سے عاری ہے، اور

 

۶۹

 

وہ عقل و روح کا سرچشمہ،  پراگندہ  (SCATTERED) ہے، مگر وہ مجتمع، جیسا کہ ارشاد ہے: جس وقت آفتاب لپیٹ لیا جائے گا (۸۱: ۰۱) یعنی ذاتی قیامت عالمِ شخصی کے اس عجیب و غریب واقعے کا نام ہے جس میں آفتابِ عقل اپنی تمام کرنوں (عقولِ جزوی) کے ساتھ لپیٹ لیا جاتا ہے، ایسے میں تمہاری عقل بھی عقلِ کلّی سے ملی ہوئی نظر آئے گی۔

 

۷۔ روحِ مستقر اور روحِ مستودع:

قرآن حکیم نے انسانی حقیقت سمجھانے کے لئے طرح طرح کی مثالوں سے کام لیا ہے، چنانچہ روحِ مستقر انائے علوی ہے، اور روحِ مستودع انائے سفلی (۰۶: ۹۸) پس مومن بمرتبۂ انائے علوی ہمیشہ بہشت میں ہے، اور بحیثیتِ انائے سفلی زمین پر، چونکہ بہشت میں یوم الخلود (ہمیشہ رہنے کا دن ۵۰: ۳۴) ہے، یعنی ناگزشتہ اور ٹھہرا ہوا زمانہ، یا دھر، یا تجدّدِازل، جو زمانۂ ظاہر سے برتر ہے، کیونکہ عالمِ علوی میں وہ ماہ و سال نہیں جو آسمان کی گردش سے بنتے ہیں، لہٰذا کوئی مومن جب بھی عالمِ شخصی کی جنّت میں داخل ہوجاتا ہے تو وہ خود کو ازل میں دیکھتا ہے، جہاں ابد بھی ساتھ ہے۔

 

۸۔ ہر دن خدا کی ایک نئی شان (۵۵: ۲۹):

یوم (دن) سے مراد اسم اور ذکر و عبادت ہے، شانِ الٰہی کا مطلب تجلیٔ حق ہے، جس کا تعلق عالمِ شخصی سے ہے، یہ تجلّیاتِ الٰہیہ حق ہے، جس کا تعلق عالمِ شخصی سے ہے، یہ تجلیاتِ الٰہیہ

 

۷۰

 

بصورتِ علم و حکمت تین مقامات پر ہیں: علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین، اور تجلّیات کا یہی سلسلۂ لا ابتداء و لا انہتا ہمیشہ جاری و باقی ہے۔

 

۹۔ اسمائے الٰہی میں وحدتِ معنوی:

اگرچہ اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء لفظی معنوں کے اعتبار سے بظاہر الگ الگ نظر آتے ہیں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ روحانیّت کی بلندی پر خدا کے سارے نام آپس میں ملے ہوئے ہیں، مطلب یہ کہ خدائے واحد کے ہر اسم میں جملہ اسماء کے معانی پوشیدہ ہیں، جس طرح اس مقالے کا عنوان ہے: “ایک میں سب۔” چنانچہ الحمدللہ ربّ العٰلمین کا موضوع ہر چند کہ ظاہراً ربوبیّت کا ہے، لیکن اس کی باطنی حکمت پر غور کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ پروردگار کی یہ پرورش جو قابلِ تعریف اور لائقِ تحسین ہے، تمام اسماء کے معنوں کے ساتھ ہے۔

 

۱۰۔ انفرادی قیامت:

سورۂ انشقاق (۸۳: ۰۶ تا ۱۱) میں ارشاد ہے (ترجمہ): اے انسان تو اپنے پروردگار کی حضوری کی کوشش کرتا ہے تو تو اس کے سامنے حاضر ہوگا، (پھر اس دن) جس کا نامۂ عمل اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اس سے تو حساب آسان طریقہ سے لیا جائے گا اور (پھر) وہ اپنے (مومنین کے) قبیلہ کی طرف خوش خوش پلٹے گا، لیکن جس شخص کو اسکا نامۂ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا وہ تو موت کی دعا کرے

 

۷۱

 

گا۔

وَّيَنْقَلِبُ اِلٰٓى اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا (۸۴: ۰۹) اور وہ اپنے اہلِ دعوت کی طرف شادمان شادمان لوٹے گا، یہ انفرادی قیامت کی بات ہے، جو جیتے جی منازلِ روحانیت میں واقع ہوجاتی ہے، اگرچہ اس میں شدید مشقت (کدح ۸۴: ۰۶) ہے، لیکن زہے نصیب جسکو بعد از ہزار رنج یہ گنج ملے، پھر جو خوشی ہوگی، وہ کامیابی، اور خزائنِ علم و حکمت سے متعلق ہوسکتی ہے، اور وہ بھی اہلِ دعوت کے ساتھ، کیونکہ وہ اس عظیم واقعہ میں ان کا نمائندہ تھا۔

 

۱۱۔ قربانی کی تاویل:

دینِ فطرت یعنی اسلام برحق ہے، اور نظامِ فطرت ترقی پر قائم ہے، اس لئے اسلام میں بحقیقت دیکھا جائے تو ترقی ہی ترقی ہے، اس کا روشن ثبوت خدا، رسولؐ، اور أئمّۂ طاہرینؑ کی پاک ہدایات کا سلسلہ ہے، جو زمان و مکان کے تقاضوں کے مطابق کامیابی سے آگے بڑھتا جارہا ہے، چنانچہ یہ بھی بڑی اہم پیش رفت ہے کہ قرآن اور شریعت کے ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن یعنی تاویل بھی ہو، اور آپ دینی کتب میں اس امر کو دیکھ سکتے ہیں کہ قربانی کی تاویل بڑی عجیب و غریب ہے، وہ یہ کہ مومنین کی خاطر ناطق، اساس، امام، حجت، اور داعی کے پاکیزہ نفوس قربان ہوجاتے ہیں، ان حضرات کی یہی قربانی روحانی شہادت بھی ہے، فنائیت بھی، اور نمائندہ قیامت بھی۔

 

۷۲

 

۱۲۔ مستقبل میں کیا ہوگا؟

قرآنِ حکیم ظاہراً و باطناً ماضی، حال، اور مستقبل کے تمام واقعات پر روشنی ڈالتا ہے، چنانچہ اس میں دوسرے بہت سے علوم کے ساتھ ساتھ پیش بینی اور پیش گوئی کا علم بھی ہے، اس لئے اہلِ بصیرت سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ اب کونسا زمانہ ہے؟ اور آئندہ کیا ہونے والا ہے؟ چونکہ تمام لوگ نفسِ واحدہ سے پیدا کئے گئے ہیں، لہٰذا بالآخر دنیا بھر کے انسان کسی بھی صورت میں ایک ہوجائیں گے، اور یقیناً واحدِ قہار اہلِ زمین کو اپنی بادشاہی کے زیرِ نگین متحد کرلیگا (۴۰: ۱۶) چاہے لوگ بادشاہِ حقیقی کو پہچانیں یا نہ پہچانیں، لیکن ضرور وہ سب کے سب ہو جائیں گے ایک۔

دنیا میں جن لوگوں کو بڑی حد تک ظاہری کامیابی حاصل ہوئی تھی، ان میں سے اکثر یہ حقیقت بھول چکے تھے کہ یہ نعمت دراصل خدا کی طرف سے ہے، پس اب بھی اور آئندہ بھی لوگوں کی اس غلط فہمی کا امکان ہے کہ وہ دورِ روحانی کے معجزات کو کچھ اور سمجھ بیٹھیں۔

 

۱۳۔ انفرادی زندگی، قومی زندگی، اور عالمی زندگی:

ہر قرآنی تعلیم اور پیش گوئی کا تعلق سب سے پہلے فرد کی زندگی (یعنی عالمِ شخصی) سے ہے، پھر قومی زندگی ہے، اور آخر میں عالمی زندگی ہے، تاکہ ہر آدمی پہلے پہل اپنے آپ کو پہچانے، اور اسی پہچان (معرفت)

 

۷۳

 

کی روشنی میں قوم اور تمام دنیا والوں کے آغاز و انجام کو سمجھے، کیونکہ حق الیقین کی معرفت سے کوئی چیز باہر نہیں، اس لئے کہ ایک میں سب رہتے ہیں۔

 

۱۴۔ قرآن کی معرفت:

آیا قرآنِ پاک کی معرفت ممکن ہے؟ اگر امکان ہے تو کس طرح؟مقامِ روح پر؟ یا مرتبۂ عقل پر؟ یا تمام مراحل میں؟ کیا اس میں بھی کوئی تجدّدِ امثال کا عمل ہے؟ آیا یہ بات درست ہے کہ آیاتِ قرآن، آیاتِ آفاق، آیاتِ انفس اور آیاتِ نورِ امامت عالمِ شخصی میں ایک ہیں؟ کیا کوئی عارف اپنی ذات میں قرآنِ ناطق (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) کو پا سکتا ہے؟ اور اسی کی نورانیّت میں قرآن  کی نورانیت ہوتی ہے؟ جی ہاں ممکن ہے، خود شناسی کے طریق پر، روح اور عقل کی جملہ منازل میں، ہاں تجدّد لازمی امر ہے، جی … تمام آیات دراصل ایک ہی ہیں، ہاں جب عارف اپنے قلبِ منور میں بولنے والی کتاب کو پاتا ہے تو دہی قرآن کی نورانیت ہوتی ہے، اور اسی کی روشنی میں وہ اسرارِ قرآن کو جانتا ہے۔

آخر میں بجائے اس کے کہ اپنا نام درج کرلوں، میں طوفانی مسرّتوں کے ساتھ عزیزم غلام قادر چیف ایڈوائزر، عزیزم سلطان اسحاق صدر، دیگر عملداران، ممبران، اور عزیز دوستوں کو نہ صرف یاد کرتا ہوں، بلکہ ان کو اپنی پیاری روح کا حصّہ بھی سمجھتا ہوں، کیونکہ انہوں نے اپنے حسنِ عمل سے ہم سب کو سرفراز کردیا۔

 

کراچی، ۱۶۔ نومبر ۱۹۹۲ء

 

۷۴

 

عالمِ شخصی اور عملی معرفت

 

شاید آپ نے قرآنِ عظیم کے اس پُرنور و پُرحکمت ارشاد کا خوب غور سے مطالعہ کیا ہوگا جو آفاق و انفس میں آیاتِ خداوندی (معجزات = نشان ہائے قدرت) کے ظہور کے بارے میں فرمایا گیا ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ وہ برحق ہے (۴۱: ۵۳)۔

یقیناً اس ربّانی تعلیم میں دورِ قیامت کے آغاز ہوجانے اور عالمِ کبیر و عالمِ شخصی کی آیات (معجزات = عجائب و غرائب) کے ظہورات کی پیش گوئی ہے، اور وہ آفاقی آیات سائنسی ایجادات و اکتشافات کی صورت میں لوگوں کے سامنے آرہی ہیں، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ سائنس کا عظیم انقلاب قیامت کے ظاہری پہلو کی وجہ سے جاری ہے، جبکہ قیامت کا باطنی پہلو عالمِ شخصی میں پوشیدہ ہے، جس کا تعلق علم و معرفت سے ہے، یہی سبب ہے کہ مذکورۂ بالا قرآنی تعلیم میں پہلے ظاہری آیات کا ذکر آیا ہے، اس کے بعد باطنی آیات کا، اور آخر میں معرفت کا اشارہ فرمایا گیا

 

۷۵

 

ہے، پس قیامت کی شناخت و معرفت کا براہِ راست تعلق ان آیاتِ قدرت سے ہے، جن کا ظہور عالمِ شخصی میں ہوتا ہے، کیونکہ قیامت انہی آیات میں ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس زمانۂ تاویل کے آنے کی پیش گوئی فرمائی ہے، وہ یہی زمانہ ہے، کیونکہ دورِ قیامت اور دورِ تاویل کا مطلب ایک ہی ہے، جیسا کہ سورۂ اعراف میں ارشاد ہے: ہم ان لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب (قرآن) لے آئے ہیں جس کو ہم نے (ایک خاص) علم کی بناء پر مفصل بنایا ہے اور جو ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔ اب کیا یہ لوگ اس کے سوا کسی اور بات کے منتظر ہیں کہ اس (کتاب یعنی قرآن) کی تاویل آجائے …. (۰۷: ۵۲ تا ۵۳) اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ اجتماعی قیامت قرآنِ پاک کی آخری تاویل ہے، اور کاملین کی انفرادی قیامت بروقت تاویل ہے، جس سے اہلِ ایمان کی علمی تربیت ہوتی ہے۔

سوال: انفرادی یا اجتماعی قیامت سے قرآن کی تاویل کس طرح ہوسکتی ہے؟ کتابی تاویل کس حد تک مفید ہوسکتی ہے؟ تاویل اور حکمت کے درمیان کیا فرق ہے؟ کیا علمِ لدنّی اور تاؤیل ایک ہی چیز ہے؟

جواب: جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ قیامت اور تاویل ایک ہی چیز

 

۷۶

 

ہے، پس جس شخص پر انفرادی قیامت گزرتی ہے، اس پر بے شک تاویل کے معجزات گزرتے ہیں، کتابی تاویل کا فائدہ یہ ہے کہ وہ علم الیقین ہے، تاویل کا دوسرا نام حکمت ہے، اس لئے ان دو ناموں کے درمیان کوئی فرق نہیں، جی ہاں، علمِ لدنّی اور تاویل ایک ہی چیز ہے۔

علم الیقین کے مقامات پر جو روشن اور دلنشین باتیں ہوتی ہیں، وہ بیحد ضروری ہیں، کیونکہ وہ بنیادی معرفت کا درجہ رکھتی ہیں، علم الیقین اور کامیاب ذکر و عبادت سے عین الیقین (چشمِ باطن) کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے، جس سے عالمِ نفسی منور ہوجاتا ہے، اور مرتبۂ حق الیقین وہاں سے بہت آگے چل کر انتہائی بلندی پر ہے، جہاں تمام اسرارِ معرفت بصورتِ خزانۂ خزائن جمع ہیں، جن کے مشاہدے کی بدولت عملی معرفت رفتہ رفتہ کامل و مکمل ہو جاتی ہے۔

حق الیقین مومنِ سالک کی وہ آخری منزل ہے، جس میں ہر اسم اور ہر مسمٰی موجود و محدود ہے، اسم اور مسمٰی کی ماسبت سے یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ حضرتِ آدمؑ کو علم الاسماء کی تعلیم اسی مقام پر دی گئی تھی، وہاں تمام چیزوں کی ازلی وحدت و سالمیت اسی طرح برجا و برقرار ہے، اس لئے ایک ہی مسمٰی پر سارے اسماء کا اطلاق ہوجاتا ہے، دوسری مثال میں وہ

 

۷۷

 

کل چیزوں کا عالمِ وحدت ہے، اور اسے سب سے احسن صورت میں ہونا تھا، اس لئے یہ عالمِ وحدت انسانی شکل میں ہے، اور وہ دراصل انسانِ کامل ہے، اسی لئے مولا علی علیہ السلام نے خطبۃ البیان میں اپنی ذاتِ پاک کے بہت سے اوصاف و اسماء کو ظاہر فرمایا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ ہرمومن اور مومنہ امامِ وقتؑ کو پہچان کر خود کو پہچانے، تاکہ وہ اپنے عالمِ شخصی ہی میں ہر خزانہ اور ہر عزت کو حاصل کرسکے۔

عالمِ وحدت کے بارے میں ارشاد ہے: لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا. وَكُلُّهُمْ اٰتِيْهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَرْدًا(۱۹: ۹۴ تا ۹۵) اس نے ان سب کو گھیر کر (نرالے طریق سے) ان سب کو گن لیا (یعنی ایک شخص بنادیا) کیونکہ قیامت کے دن سب کو ایک ہی فرد ہو کر اس کے پاس جانا ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

کراچی

پیر ۷۔ جمادی الثانی ۱۴۱۴ھ

۲۲۔ نومبر ۱۹۹۳ء

 

۷۸

 

جسمانی اور روحانی علاج

 

۱۔ وجودِ انسانی کی بہت سی مثالیں ہوسکتی ہیں، ان میں سے ایک مثال یہ کہ وہ تین منزلہ عمارت کی طرح ہے، بشری ہستی و بقا کے اس مکان کی پہلی منزل جسم ہے، دوسری منزل روح، اور تیسری منزل عقل، اس مثال کی منطقی توجیہہ یہ ہے کہ سب سے پہلے آدمی کا جسم بنتا ہے، اس کے بعد (روحِ ناطقہ) کی تکمیل ہوتی ہے، اور عقل جس قدر بھی ہو آخر میں آتی ہے، جیسے سہ۳ منزلہ بلڈنگ کی تعمیر نیچے سے شروع ہوکر اوپر کی طرف جاتی ہے۔

۲۔ یہ حقیقت کسی شک کے بغیر مسلمہ ہے کہ جسم سے روح بالا وبرتر ہے، اور روح سے عقل ارفع و اعلیٰ ہے، تاہم ضرورت و اہمیت کی بات بھی ہوکہ جسم کے بغیر روح اور عقل کا کوئی قول و فعل ممکن ہی نہیں، پس یہاں سے ظاہر ہوا کہ جسمانی اور روحانی دونوں قسم کے علاج ایک ساتھ ضروری ہیں، تاکہ خصوصی عبادت اور حقیقی علم کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، اور مراحلِ کمالات طے ہوسکیں۔

۳۔ ہم نے جس طرح اپنی تین کتابوں میں باطنی علاج کی اہمیت

 

۷۹

 

پر زور دیا ہے، اس سے کوئی عزیز یہ نہ سمجھے کہ ہم ظاہری طب اور ڈاکٹری کی نعمتوں سے منکر ہیں، ایسا ہر گز نہیں، اس مفروضے کے برعکس میرے پاس طب اور ڈاکٹری کی چھوٹی موٹی کتابیں ہر وقت موجود رہتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ میرا دل پوشیدہ پوشیدہ یوں کہا کرتا ہے کہ کاش میں اس درویشی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر بھی ہوتا! تاکہ بہت سے انسانوں کی عاجزانہ خدمت کرسکتا۔

۴۔ قرآن کریم میں اگر جسمانی علاج کا کوئی ذکر موجود نہ ہوتا، تو آج عالمِ اسلام میں طبِ نبوی کی کوئی کتاب نہ ہوتی، اہلِ دانش سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ حضورِ انور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پاکیزہ تعلیمات میں پرہیز اور علاج و معالجہ کی بنیادی مثالیں موجود ہیں، کیونکہ آپؐ پر جو بے مثال کتاب نازل ہوئی، اس کا ایک نام “شفا” ہے، یعنی ایسی کتاب، کہ وہ آسمانی دواؤں سے پر ہونے کی وجہ سے نہ صرف عقل و جان ہی کے لئے باعثِ شفا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ جسم کی سلامتی کا بھی ذریعہ ہے۔

۵۔قرآن و حدیث کے بعد امامِ عالیمقامؑ کے ارشادات کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے، چنانچہ معلوم ہے کہ مولانا حاضر امامؑ ہیلتھ کے اداروں کو بہت بڑی ترجیح دیتے ہیں، اور ہسپتالوں پر بدریغ زرِ کثیر صرف کر رہے ہیں، اس سے ظاہر ہوا کہ شعبۂ علاج سے جو خواتین و حضرات وابستہ ہیں، وہ انسانی جسم کی خدمت کی وجہ سے عظیم ہیں،

 

۸۰

 

کیوں نہ ہوں، جبکہ آدمی کا بدن اپنے باپ آدمؑ کی مثال پر ہے، اور آدمؑ رحمانی صورت پر پیدا کیا گیا تھا، جیسا کہ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا ارشادِ مبارک ہے: ’’اسلام کے نزدیک ایک صحتمند انسانی جسم ایک ایسا عبادت خانہ (مَعْبَدْ = TEMPLE) ہے، جس میں روحِ قدسی کا شعلہ فروزان رہتا ہے ….۔”

۶۔ مذکورۂ بالا ارشاد تشریح طلب ہے، کیونکہ “پاک روح” کی تجلّی کے لئے تنہا جسم کا صحت مند ہونا کافی نہیں، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ روح اور عقل کی کامل صحت بھی ازبس ضروری ہے، جس کے لئے روحانی طبیب یا ڈاکٹر کا ہونا لازمی ہے، اور ایسا پاک بے مثال ڈاکٹر خداوند تعالیٰ ہے، پھر رسولؐ اور امامؑ ہیں، تاکہ قانونِ رحمت کے تقاضوں کے مطابق ہمیشہ روحانی علاج کے وسائل مہیا رہیں۔

۷۔ لوگوں میں سب سے بدترین باطنی بیماری جہالت ہے، اور سب سے بہترین مرض آسمانی عشق، جس سے خداوندِ کریم، پیغمبرِ برحقؐ، اور امامِ زمانؑ کی شدید محبت مراد ہے، جیسا کہ خواجہ حافظ کا قول ہے:

ع    طبیبِ عشق چو عیسیٰ دم است و مشفق لیک

چودرد درتو نہ بیند کرا دوا بکند

ترجمہ: عشق کا طبیب (یعنی مرشدِ کامل) حضرتِ عیسیٰؑ کی طرح معجزانہ دعا کرسکتا ہے اور وہ بڑا مہربان بھی ہے، لیکن جب تجھ میں

 

۸۱

 

دردِ عشق نہ ہو تو پھر وہ کس کا علاج کرے گا۔

۸۔ خدائے بزرگ و برتر کا براہِ راست عشق ممکن نہ تھا، اسی لئے حکم ہوا کہ پیغمبرِ اکرم صلعم کی اطاعت و محبت کا سہارا لو (۰۳: ۳۱) اور اسی طرح اب آنحضرتؐ کی محبت امامِ زمانؑ کے وسیلے سے ممکن ہے، کیونکہ اس مقدّس عشق کی آخری اور کلیدی اس بات میں ہے کہ امامِ زمان علیہ السّلام کی اطاعت کی جائے۔

۹۔ سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وقت میں دین و دنیا دونوں کی رہنمائی فرمائی تھی، اور اپنے عالمِ شخصی کو علم کا شہر اور حکمت کا گھر قرار دیتے ہوئے یہ جامع الجوامع اشارہ فرمایا تھا کہ آپؐ کے نورِ اقدس کے احاطے سے نہ کوئی علم باہر ہوسکتا ہے، اور نہ کوئی حکمت خارج ہوسکتی ہے، اب رہا سوال سائنس کا، تو یہ اسی حکمت کی ایک ظاہری شاخ ہے، کیونکہ دنیا میں کوئی ایسی چیز موجود ہی نہیں، جو اللہ کے خزائن سے نہ آئی ہو (۱۵: ۲۱) اور خدا کا سب سے بڑا خزینہ نبوّت و امامت کا نور ہے، جیسے عالمِ ظاہر

 

۸۲

 

کا سب سے بڑا خزانہ سورج ہے، جس سے بے شمار چیزیں کائنات میں بکھرتی رہتی ہیں، پھر بھی وہ اسی طرح بھرا ہوا ہے۔

۱۰۔ میں نے کہا تھا کہ خدا روحانی طبیب یا ڈاکٹر ہے، اور یہ بات حق ہے، کیونکہ سب لوگ اس کو شافیٔ مطلق کہتے ہیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ شافی اور بھی ہیں، مگر حقیقی معنوں میں شافی صرف خداوند تعالیٰ ہی ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے (۰۹: ۱۴، ۲۶: ۸۰) اور قرآنِ مجید روحانی شفا خانہ ہے (۱۰: ۵۷، ۱۶: ۶۹، ۱۷: ۸۲، ۴۱: ۴۴) جسکی مثال کسی بڑے ظاہری ہسپتال سے دی جاسکتی ہے کہ اس میں بڑا ڈاکٹر اکیلا نہیں ہوتا، بلکہ اسکے تحت اور بھی ڈاکٹرز کام کرتے رہتے ہیں۔

۱۱۔ آج دنیا میں جتنے علوم رائج ہیں، وہ سب سرچشمۂ ازل میں ایک ہیں، اس لئے ان میں نسبت اور مماثلت پائی جاتی ہے، خصوصاً جسمانی علاج اور روحانی علاج میں، یعنی جس طرح ہر شخص ظاہری بیماری میں ضروری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے، اسی طرح لازمی ہے کہ وہ اپنے باطنی علاج کے لئے روحانی طبیب کے پاس جائے، اور وہ یہ ہے کہ اطاعت و فرمانبرداری، اور علم و عبادت سے بھر پور روشنی حاصل کرے۔

۱۲۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا: ’’اُمِرتُ لِصلاحِ دُنیا کم و نجات آخر تکم  = میں تمہاری دنیاوی بہتری

 

۸۳

 

اور اُخروی نجات کے لئے مامور ہوا ہوں۔” یہاں مطلب صاف ظاہر ہے کہ نہ صرف ہیلتھ کا ادارہ بلکہ امامِ زمان علیہ السلام کا ہرادارہ خواہ جماعت کی دنیوی بہتری کے لئے ہو یا سب کیلئے، وہ بہرحال اسی حکم کے تحت ہے، لہٰذا ہادیٔ زمانؑ کے تمام ادارے مقدس ہیں، کیونکہ وہ خدا و رسولؐ کے منشاء کے مطابق ہیں، پس اہلِ دانش پر شکر واجب ہے کہ وہ علم کی روشنی میں دین و دنیا کی ہر بات اور ہر چیز کو بخوبی جانتے ہیں، اور انہیں یقین ہے کہ پروردگارِ عالم کی طرف سے ہمیشہ جسمانی، روحانی، عقلانی رحمتوں اور برکتوں کی بارش ہورہی ہے۔

۱۳۔ ہم جان و دل سے ان تمام معزز ڈاکٹروں کے شکر گزار اور ممنون ہیں، جنہوں نے کبھی ہمارا یا ہمارے خاندان کے کسی فرد کا علاج کیا ہو، کیونکہ دینداری اور انسانیّت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اپنے ہر محسن کے احسان کا پُرخلوص شکریہ ادا کریں، اب میں اپنے ادارے سے متعلق ایک مسرت انگیز بات کرتا ہوں کہ اس وقت بفضلِ خدا ادارے کو چار فرشتہ خصلت ڈاکٹروں کی مشورت و سرپرستی حاصل ہے، یقیناً وہ پاک باطن اور ایمانی ہیں، ان کے دل میں ہمیشہ حقیقی علم اور عبادت کا شوق موجزن رہتا ہے، انکی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے حضور بار بار گریہ و زاری کریں، اور یہ سعادتِ عظمیٰ انہیں نصیب بھی ہو جاتی ہے، ایسے میں ان شاء اللہ

 

۸۴

 

ان کے ہاتھ میں شفاء ہوگی، یہ چاروں عزیزان میڈیکل ایڈوائزرز اور پیٹرنز ہیں، اور ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

ڈاکٹر رفیق جنت علی (ایم۔بی۔بی۔ایس، آر۔ ایم۔ پی) جو خانۂ حکمت کے آنریری چیف سیکرٹیری بھی ہیں، انکی بیگم ڈاکٹر شاہ سلطانہ (ایم۔ بی ۔بی۔ ایس، آر۔ ایم۔ پی) جو کریم آباد برانچ (کراچی) کی چیئر پرسن بھی ہیں، ڈاکٹر حسین علی (مرحوم) کی بیگم ڈاکٹر زرینہ (ایم۔ بی ۔بی۔ ایس، آر۔ ایس۔ ایچ) اور ڈاکٹر نیلوفر بابر خان (ایم۔ بی ۔بی۔ ایس، ڈی۔جی۔ او) ان شاء اللہ تعالیٰ ایسی بابرکت ہستیوں کی سرپستی سے ہمارے ادارے کی تاریخ روشن ہوجائے گی۔

۱۴۔ ڈاکٹر رفیق صاحب نے اس مقدّس علمی ادارے کی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں، سب سے بڑی خوبی کی بات تو یہ ہے کہ آپ دینی سکالرز میں شامل ہیں، آپ کا بیان ہر بار روشن دلائل پر مبنی ہوا کرتا ہے، ڈاکٹر شاہ سلطانہ صاحبہ تمام تر انسانی اور مذہبی خوبیوں کے ساتھ ساتھ شرافت و متانت (سنجیدگی) میں منفرد ہیں، محترمہ ڈاکٹر زرینہ کو ادارے کا تعارف اگرچہ بعد میں کرایا گیا ہے، لیکن انہوں نے اس قلیل عرصے میں علم کی قدردانی اور بھرپور خدمت سے ہم سب کے دلوں کو جیت لیا ہے، قدرت نے ان کے پاکیزہ دل میں مہر و شفقت کوٹ کوٹ کر بھردی ہے، آپ دینی علم کے

 

۸۵

 

حصول کی خاطر شب وروز محنت کر رہی ہیں۔

۱۵۔ ڈاکٹر نیلوفر صاحبہ کی جملہ اخلاقی خوبیاں انکے بزرگ والدین سے آگئی ہیں، ان کا پورا خاندان ایمان اور محبتِ اہلِ بیت کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے، بنا برین ربّ العزّت نے ڈاکٹر نیلوفر کو عجیب و غریب خصوصیات سے نوازا ہے، آپ کے نامدار شوہر بابر خان صاحب کا تعلق بھی ایسے ہی خاندان سے ہے، عزیزم بابر خان کی ذات میں امامِ اقدس و اطہرؑ کا ایک معجزہ پنہان ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جماعت کی بے شمار خدمات انجام دی ہیں، یاد رہے کہ ہر کامیاب مومن کی صلاح و فلاح کا راز علم و عبادت اور مناجات میں ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی، کراچی

اتوار ۲۶۔ رمضان المبارک ۱۴۱۳ھ

۲۱۔ مارچ ۱۹۹۳ء بموقعِ جشنِ نوروز

 

۸۶

 

یاسمین نور علی کے سوالات

 

محترمہ یاسمین (نور علی) برانچ بھی ہیں اور ریکارڈ آفیسر بھی، ہم نے ان کی گرانقدر خدمات کا بار بار اعتراف کیا ہے اور کرتے رہیں گے، اب ان کی برانچ میں کئی ہوشمند اور علم دوست ارکان کی شمولیت بھی ہوئی ہے، میں اصول کے مطابق رفتہ رفتہ نئے ممبروں کے کارناموں کا تذکرہ کروں گا، جیسے عزیزم غلام مصطفےٰ قاسم علی (مومن) جو علم کے قدردان اور ذہین نوجوان ہیں، پہلی ملاقات جولائی ۱۹۹۳ء میں ہوئی، ان کو حقیقی علم سے زبردست عشق ہے، مجھے کامل یقین ہے کہ ہر ایسا دیندار شخص حصولِ علم میں بہت جلد کامیاب ہوجائے گا۔

ریکارڈ آفیسر یا سمین نور علی کے علمی سوالات یہ ہیں: (۱): وہ حضراتِ انبیاء علیھم السّلام جن کے پاس مرتبتِ امامت بھی تھی، ان کو قرآنِ حکیم نے بزبانِ حکمت بادشاہ (مَلِک) کہا ہے، لیکن ان پیغمبروں میں حضرتِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اسمِ گرامی موجود نہیں، حالانکہ کسی شک کے بغیر آنحضرتؐ سردارِ رسل اور خاتم الانبیاء ہیں، آپ اس مسئلے کا حل بتائیں؟ (۲): اوّل

 

۹۲

 

نبوّت اور امامت کا ایک ہی شخصیت میں جمع ہونا، دوم صرف پیغمبر ہونا، اور سوم صرف امام ہونا، ان تین مراتب میں کیا فرق ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ کسی پیغمبر کو امام بھی بنایا گیا؟ (۳): آیا جو حضرات صرف امام ہی ہوتے ہیں، ان کو بھی قرآنِ مجید نے بادشاہ کہا ہے؟

جواب : (۱): اعلیٰ علم یا حقیقتِ عالیہ ایک ایسے ڈائمنڈ کی طرح ہے، جو کثیر پہلو رکھتا ہو، خصوصاً حقیقتِ محمدی، آپ اس حدیثِ شریف میں خوب غور کریں، جو کوکبِ دری، بابِ دوم، منقبت نمبر۱، ص ۱۷۸ پر ہے (ترجمہ:) میں اور علی ایک نور تھے، اور وہ نور آدم کو پیدا کرنے سے چودہ ہزار سال پیشتر خدائے عزوجل کی درگاہ میں طاعت اور تقدیس کرتا تھا، جب آدم کو پیدا کیا، اس نور کو آدم کے صلب میں رکھا، اور برابر ایک صلب سے دوسرے صلب میں منتقل کرتا رہا، یہاں تک کہ اس کو عبدالمطلب کے صلب میں قرار دیا، پھر اس نور کو دوحصّوں میں منقسم کیا، میرے حصّہ کو عبداللہ کی پشت میں قائم کیا، اور علی کے حصّے کو ابوطالب کے صلب میں، پس علی مجھ سے ہے اور میں علی سے۔

پیغمبرِ اکرمؐ کے اس ارشادِ مبارک سے یہ ظاہر ہوا کہ آنحضرتؐ کی عظمت و بزرگی اپنی جگہ مسلّمہ ہے، تاہم خدا کی مصلحت و حکمت اور لوگوں کی سب سے بڑی آزمائش اس امر میں مخفی رہی کہ ایک

 

۹۳

 

پیر ہو، اور دوسرا شاہ، تاکہ اس مشکل امتحان میں کامیاب ہو جانے کے بعد مرتبۂ یک حقیقت (مونوریالٹی) میں نہ صرف پیر اور شاہ، بلکہ سب کے سب ایک ہوجائیں گے، پس یہاں یہ نکتۂ جانفزا خوب یاد رہے کہ حضرتِ امامِ عالیمقام صلواۃ اللہ علیہ نے ہمیں ایک پُرمغز تاویلی اصول عطا کیا ہے، اور وہ عالیشان اصول ہے: “پیر شاہ۔”

۲۔ ایک ہی پاک و پاکیزہ شخصیّت میں نورِ نبوّت اور نورِ امامت کی یکجائی اور وحدت دورِ نبوّت ہی میں ہوتی رہی ہے، اور وہ بھی صرف سلسلۂ امامت ہی میں، جو حضرت آدم سے چلا آیاہے، دورِ نبوّت میں جتنے حضراتِ أئمّہ پیغمبر بھی ہوئے ہیں، اور ان میں سے جن اماموں کا تذکرہ قرآنِ حکیم میں نمایان ہے، اس میں امام شناسی کے بے شمار فائدے ہیں، اور ظاہری فرق یہ ہے کہ پیر جتنا بھی عظیم ہو، وہ بہر حال لوگوں کو شاہ کی طرف دعوت دیتا ہے، اب رہا سوال ایسے امام کے بارے میں، جو دورِ امامت میں ہونے کی وجہ سے نبی نہیں، صرف امام ہی ہے، اس میں اور دورِ نبوّت کے کسی امام میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ وہ بھی شاہ تھا، اور یہ بھی شاہ ہے، تاہم ممکن ہے کہ خداوندی پروگرام کی وجہ سے نورِ امامت دورِ قیامت میں درجۂ کمال پر کام کرے، غور سے دیکھیں: ان یتم نورہ (۰۹: ۳۲)، متم نورہ (۶۱: ۰۸)۔

 

۹۴

 

۳۔ جوابات مکمل ہوگئے، اب اگر کوئی بات ہے تو وہ مزید وضاحت ہے، یاد رہے کہ “پیر شاہ” کا تصوّر کوئی معمولی شیٔ نہیں، یہ قرآنی حکمتوں کی سب سے بڑی کلید ہے، روحانی انقلاب کے زمانے میں اس پر رباب کی موسیقی کے ساتھ ذکر کیا گیا، جس سے واللہ، شرابِ جنّت کی سی کیفیت طاری ہوگئی، یہ بات اس حقیقت کی ایک روشن دلیل تھی کہ “پیر شاہ” وہ سب سے بڑی کلید ہے، جس سے عظیم خزانوں کے اقفال کھل سکتے ہیں، کیونکہ یہ خداوندِ عالم کے دو مخفی اور بزرگ نام ہیں (یعنی محمدؐ وعلیؑ)۔

الحمدللہ ربّ العالمین۔

 

این این ہونزائی

خاکِ پائےاہلِ ایمان

کراچی ہیڈ آفس

جمعرات ۲۴۔ جمادی الثانی۱۴۱۴ھ

۹۔ دسمبر ۱۹۹۳ء

 

۹۵

کارنامۂ زرّین – حصّۂ اوّل

کارنامۂ زرین حصّۂ اوّل

انتساب بنامِ عزیزانِ گلگت

اعتکاف اور چلّہ

اعتکاف کے معنی ہیں: گوشہ نشینی، گوشہ گیری، گوشہ نشینئ عبادتخانہ، اپنے کو منہیات سے باز رکھنا۔

چلّہ: یہ لفظِ چل سے ہے جو چہل کا مخفف ہے، معنی: چالیس ۴۰ دن کا عرصہ، چالیس دن کا زمانہ، چالیس دن کی گوشہ نشینی اور وظیفہ خوانی، چالیس روز کا عمل۔

حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام نے کوہِ طور پر اللہ کے حکم سے تیس/۳۰ دن کا اعتکاف کیا، خدا نے مزید دس دن عبادت کرنے کے لئے فرمایا، اسی طرح چلّہ ہوگیا، اسی عظیم واقعہ کے پیشِ نظر چالیس ۴۰ دن کی گوشہ نشینی اور ذکر و عبادت بہت بڑی اہمیّت کی حامل ہے، ہم نے کہیں اس کا ذکر کیا ہے۔

اعتکاف اور چلّہ انبیائے کرام علیہم السّلام کی سنّت ہے، اس لئے یہ عمل بڑا مبارک ہے، کہتے ہیں کہ اگر نیّت کی جائے تو کم سے کم اعتکاف ایک گھنٹے کا بھی ہو سکتا ہے،  یہی وجہ ہے کہ امام عالیمقامؑ کے فرمانِ اقدس کے مطابق صبح نورانی وقت کی خصوصی بندگی ایک گھنٹے کی ہوا کرتی ہے۔

 

 

اگر کوئی عزیز چلّہ یا اعتکاف کر رہا ہے تو وہ عوام کے سامنے ہرگز اس کا تذکرہ نہ کرے، کیونکہ یہ ایک عظیم راز ہے، بہت سے لوگ وقت سے پہلے راز کو فاش کرکے ناکام ہوجاتے ہیں، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جہاں بہت بڑی عاجزی کی ضرورت ہے، وہاں فخر کا مظاہرہ ہو سکتا ہے، جو بڑا نقصان دہ ہے۔

عزیزانِ من! یہ دورِ قیامت اور زمانۂ تاویل ہے، اس میں خصوصی عبادت اور حقیقی علم کے توسط سے حضرتِ قائم القیامتؑ کے عظیم اسرار کو حاصل کرنا ہے، جس کے لئے انقلابی ریاضت درکار ہے، عاجزی اور گریہ و زاری سے خود کو یکسر تبدیل کرنا ہوگا، اس میں امامِ زمانہؑ کی شناخت اور محبت کلیدی وسیلہ ہے، اگر یہ پاک و پاکیزہ محبت بدرجۂ عشق پہنچ گئی ہے تو مبارک ہو! کیونکہ اس سے ذکر و عبادت کی راہ میں حائل ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔

 

ن ۔ ن ۔ (حبِّ علی) ہونزائی

۱۲؍ دسمبر ۱۹۹۴

کراچی

 

 

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم۔

الحمد للہ ربّ العٰلمین و صلی اللہ علی رسولہ الامین محمد شفیع المذنبین و علی وصیہ امام المتقین علی امیر المؤمنین و علی الائمّۃ من ذریتھما الطاہرین و صحبہ المنتخبین۔

تحیۃ سنیۃ و تکرمۃ ھنیۃ یخص بھا لحکیم القلم، الفیلسوف الاغر، الانور من البدر، العلامۃ نصیرُ الدّین الھنزائی زاد اللہ تعالیٰ شأن علمہ و طول حیوۃ۔

ھھنا بحمد اللہ و ببرکۃ الخمسۃ الاطھار علیم السّلام خیرات و سعادات موجود الیضاً الیکم مطلوب ۔ اشکرکم شکراً جز یلاً للتحائف النادرۃ الخطیرۃ اعنی کتبکم التی یجث فیھا عجائب القراٰن و غرائبھا بمعرفۃ عظیمۃ ۔ ھذا قولنا الصٰادق ما رأیت التفا سیر مثلھا ولا نظیرلہا فی ھذا العصر ۔ لو احد من الرجال و النسأ ءِمن پرید و یحب ان یا خذ المعارف فی امورالدین

 

۹

 

من کتبہ فیجب علیہ ان ینظر الی کتبہ بالتفکّر والتدبّر لان فیھا اسرار او معارفا ۔ التمس الیٰ مبدع سبحٰنہ و ھو جل شأ نہ بان یطیل عمر کوم فی خدمتہ نشرالدعوۃ اہل البیت (ع) ۔ ووفر جزأکم باحس الجزأ و نسأل اللہ ان یکمل لکم افضل الاجر۔

حررفی نھار یو م میلاد النبی صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ شہر بیع الاول فی سنتہ  ۱۴۱۵ ھ ص۔

قاضی عباس برھانی

 

۱۰

 

پیش لفظ

۱۔ بِسْمِ اللہِ الَرّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ اللہ تبارک و تعالی کی مقدّس معرفت سب سے خاص اور سب سے برتر شۓ ہے، لہٰذا اس کا ذکر قرآنِ حکیم اور حدیث شریف میں حکیمانہ اشارات میں فرمایا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ حکمت کی اس شان سے تعریف کی گئی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: ۔ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا  اور جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بہت سی بھلائی مل گئی۔ (۰۲: ۲۶۹)۔

یقیناً خیر کثیر حکمت ہی سے وابستہ ہے، کیونکہ دین کا ہر راز حکمت کی زبان میں ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ربّ العزّت کی معرفت اسرارِ حکمت میں مخفی ہے، اور جس کو یہ معرفت حاصل ہو، اس کو اپنی ذات یعنی عالمِ شخصی ہی میں کنزِ اسرارِ ازل مل جاتا ہے۔

 

۱۱

 

۲۔ اللہ جلَّ شانہٗ کی سنتِ عالیہ کے بھیدوں کو جاننے کے لئے سعی کرتے رہیں، اس کی پاک سنّت ازل ہی سے چلی آئی ہے، چنانچہ یہ امر عظیم اس کی سنت میں ہے کہ وہ تمام اشیاء کو بار بار پھیلاتا اور لپیٹتا رہتا ہے، اور فعلِ قدرت کی سب سے بڑی حکمت اسی میں پوشیدہ ہے، اس امرِ واقعی کی مثالیں اور شہادتیں قرآنِ عظیم کے علاوہ کتابِ کائنات اور کتابِ نفسی میں بھی ہیں، پس کائنات مجموعاً ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں مرکوز و محدود ہو جاتی ہے، جب کہ ذاتی قیامت برپا ہو رہی ہو، پھر وہ روحاً و عقلاً کائنات بھر میں پھیل جاتا ہے، درین حال شخصِ کامل میں نفسِ واحدہ کا تجدّد ہو جاتا ہے اور جملہ ارواح کو یہاں نجات مل جاتی ہے۔

۳۔ روح عالمِ خلق سے نہیں، بلکہ عالمِ امر سے ہے، وہ ایک اعتبار سے یہاں آئی ہے اور دوسرے اعتبار سے نہیں آئی ہے، اس میں بہت سی

 

۱۲

 

حکمتیں ہیں، کہ اپنے کُل کی کاپی (COPY ) بھی ہے اور الگ بھی نہیں، روح بسیط یعنی ہر جگہ حاضر ہے، یہ کُل میں ایک اور کاپیوں میں کثیر ہے، جیسے سمندر ایک ہوتا ہے، مگر امواج و اجزاء کی کثرت ہوتی ہے، پس آپ اپنے کُل کو پہچان لیں اور اس میں فنا ہو کر دیکھ لیں تب ہی معرفت حاصل ہو جائیگی، فنا فی الامام کا عظیم الشّان مرتبہ تابعداری اور عشق سے حاصل ہوجاتا ہے، چونکہ امام حیّ و حاضر علیہ السّلام خداوند تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ کا مجموعہ ہے، اس لئے امامِ زمانؑ کا عشق بحقیقت اللہ کے اسمِ اعظم کا عشق ہے، پس بڑے نیک بخت ہیں وہ لوگ جو خدا کے اسماء الحسنیٰ سے کامل عشق رکھتے ہیں اور انہی ناموں سے اس کو پکارتے ہیں (۰۷: ۱۸۰، ۱۷: ۱۱۰، ۲۰: ۰۸، ۵۹: ۲۴)۔

۴۔ مجموعۂ اسماء الحسنیٰ جس کا ذکر ہوا وہ زندہ و گویندہ، نور ہدایت، صاحبِّ علم و حکمت، خزینۂ اسرارِ معرفت اور سرچشمۂ حسن و جمالِ صوری و

 

۱۳

 

معنوی ہے، آپ سورۂ رحمان کی خصوصیات اور خوبیوں کے بارے میں جانتے ہوں گے، اس کا خلاصہ، لبِ لباب، اور جوہر آخری آیۂ کریمہ (۵۵: ۷۸) ہے، جس میں اسمِ اعظم یعنی اسماء الحسنیٰ کی بے شمار برکتوں کا تذکرہ ہے، اور اشارہ یہ فرمایا گیا ہے کہ یہاں جن اعلیٰ نعمتوں کا ذکر ہوا، وہ سب کی سب مجموعۂ اسماء الحسنیٰ کے عظیم الشّان خزانے میں ہیں، جن کے حصول کے لئے اساسی شرط یہ ہے کہ اہلِ ایمان خداوندِ قدوس کو انہی بزرگ ناموں سے پکارا کریں۔

۵۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے یہ ارشاد فرمایا: القراٰنُ مع علیٌّ و علی مع القراٰن۔ قرآن علیؑ کے ساتھ ہے اور علیؑ قرآن کے ساتھ ہے۔ یعنی قرآنِ حکیم کی زندہ روح و روحانیّت اور نور و نورانیّت علیؑ میں ہے، اور علیؑ کی حقیقت و معرفت کا تذکرہ قرآنِ پاک میں ہے، اور علیؑ سے نورِ امامت مراد ہے، یہی سبب ہے کہ امامِ زمانؑ کو علیٔ زمان

 

۱۴

 

(علیہ السلام) کہا جاتا ہے، اور اس میں بڑی حکمت ہے، کیونکہ نور ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے۔

۶۔ دعائم الاسلام، جلد ثانی، کتاب العطایا کے شروع میں یہ دونوں حدیث شریف درج ہیں: کُلُّ معروفٍ صدقۃً، ہر نیکی ایک صدقہ ہے۔ الخلق عیال اللہ، و أَحَبُّ الخلق اِلی اللہ مَن نَفَعَ عیالہٖ و أدخل السّرورَ علیٰ اہل بیتۃٖ و مشیٌ مع أخً مسلمً حاجتہ، أَ حَبُّ اِلی اللہ مِن اعتکاف شہرَیَن فی المسجد الحرام = مخلوق (گویا) خدا کا کنبہ ہے، اور اللہ لوگوں میں سے اس شخص کو زیادہ محبوب رکھتا ہے جو اس کے کنبے کو فائدہ پہنچائے اور خدا کے اہلِ خانہ کو خوشی دے، اور مسلمان بھائی کے ساتھ اس کی ضرورت کی خاطر چلنا خدا کے نزدیک خانہ کعبہ میں دو ماہ اعتکاف کرنے سے زیادہ پسند ہے۔

۷۔ حضورِ انور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اس پُرحکمت ارشاد میں ہر ہوشمند مومن اور مومنہ کے لئے بلند ترین ہدایات و تعلیمات موجود ہیں، چونکہ اسلام آفاقی دین ہے اور اس کے قوانین دراصل قانونِ فطرت کے مطابق

 

۱۵

 

ہیں، لہٰذا دینِ اسلام میں تمام لوگوں کی خیر خواہی اور خدمت کی بہت بڑی اہمیت ہے، کیونکہ سب لوگ “عِیَالُ اللہ” کی مثال پر ہیں، پس لوگوں کی خدمت اللہ تبارک و تعالی کی بہت بڑی عبادت ہے۔ اگر کوئی شخص خانۂ کعبہ میں دو مہینے کا مسلسل اعتکاف کرتا ہے تو یہ خدائے بزرگ و برتر کی عظیم عبادت ہے، اور اس سے بھی عظیم تر عبادت یہ ہے کہ آپ جماعت، قوم، اور تمام لوگوں کی کوئی نہ کوئی خدمت انجام دیں، اس کلیدی حکمت سے یہ پتہ چلا کہ قرآنِ پاک میں جہاں جہاں عبادت کا ذکر آیا ہے یا اطاعت کا حکم ہے یا نیکی کی تعلیم ہے یا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا تذکرہ ہوا ہے تو ہر ایسے مقام پر خدمتِ خلق بھی مقصود و مطلوب ہے، الغرض قرآنِ حکیم کے بہت سے عنوانات کے تحت ہر گونہ خدمت کا تذکرہ یا اشارہ فرمایا گیا ہے۔

۸۔ اگر آپ کسی بادشاہ کی تعریف نہیں کرتے ہیں تو تنقید بھی نہیں کر سکتے اور نہ ہی انہیں کوئی

 

۱۶

 

مشورہ دے سکتے ہیں، چنانچہ میں نے میر محمد جمال خان کے بارے میں کتابچۂ “آئینۂ جمال” تصنیف کیا، اور اس عمل میں کئی حکمتیں پوشیدہ تھیں جن کی وضاحت یہاں ضروری نہیں، پھر میں نے بہت بڑا انقلابی قدم اٹھایا کہ شمالی علاقہ جات کے ایک گاؤں (حیدرآباد) میں میر صاحب سے پوچھے بغیر والنٹیئرز کی تنظیم قائم کی، حالانکہ قبلاً تمام علاقوں میں ایسی کوئی مثال نہیں تھی، ھادئ برحقؑ کی ظاہری و باطنی ہدایت سے نہ صرف اس گاؤں کی یہ تنظیم کامیاب ہوئی، بلکہ اس نمونۂ عمل کو دیکھ کر ہر اسماعیلی گاؤں میں رضاکار کا یہ ادارہ قائم کیا گیا۔

۹۔ اس کتاب کا نام “کارنامۂ زرین” ہے، یہ ایک خاص پروگرام کے تحت لکھی گئی ہے، وہ “جشنِ خدمتِ علمی” ہے، جس کی تجویز ہمارے ان عزیزوں کی خواہش پر ہوئی تھی، جو امریکہ میں قیام پذیر ہیں، چنانچہ تمام عملداران و ممبران کا یہی حتمی فیصلہ ہوا ہے کہ اس کتاب میں صرف ان اشخاص کا کچھ تذکرہ ہوگا، جنہوں نے کسی بھی حیثیت میں علامہ نصیر سے تعاون کیا ہے، اس کے علاوہ اگر استاد چاہیں تو کسی علمی شخصیت کا بھی ذکر کر سکتے ہیں، بہر کیف یہ سچ ہے کہ میں لوگوں کی عام تاریخ نہیں لکھ سکتا ہوں، میں اس خدمت سے قاصر ہوں۔

۱۰۔ میں دنیائے اسماعیلیت کے ان روحانی بھائیوں اور بہنوں

 

۱۷

 

کا شکر گزار اور دعاگو ہوں جو بڑے شوق سے میری کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں، جو عشق و محبت سے میری مذہبی نظمیں پڑھتے ہیں اور جو اسی شان سے مست و مستانہ سنتے رہتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی ایک خصوصی نعمت ہے، جس کی شکرگزاری اور قدر دانی ہم پر واجب ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ، آج ہم جشنِ خدمتِ علمی کے سلسلے میں ان تمام پاک و پاکیزہ نفوس کو یاد کریں گے جو اس علمی خدمت میں شریک و شامل ہیں، اور جو اس سے بہرہ مند ہوتے ہوئے شادمان ہیں۔

۱۱۔ شمالی علاقہ جات نے زمانۂ قدیم سے اپنے باشندوں کو جفاکش، غیرت اور بہادری کا درس دیا ہے، جی ہاں، ہمارے وہ تمام ساتھی ایسے ہی ہیں، جن کے بارے میں یہ کتاب (کارنامۂ زرین، حصّۂ اوّل) لکھی گئی ہے، ہم ان شاءٔ اللہ عنقریب کارنامۂ زرین حصۂ دوم و سوم بھی لکھ کر شائع کریں گے، کام، کارنامہ اور کارنامۂ زرین میں آسمان زمین کا فرق ہے، کیونکہ علمی خدمت جو تمام خدمات کی بادشاہ ہے، ہمارے نزدیک وہی زرین کارنامہ ہے، اگرچہ والنٹیئرز کی خدمت علمی نہیں بلکہ سوشل قسم کی ہوا کرتی ہے، تاہم قریۂ حیدرآباد کے رضاکار بار بار کہا کرتے تھے کہ: ہم ایک عالمِ دین کی دعوت پر یہاں خدمت کے لئے منظم ہوگئے ہیں۔

۱۲۔ اس کتاب میں ان عالی ہمت ساتھیوں کا ذکر جمیل بھی موجود

 

۱۸

 

ہے، جنہوں نے گلگت اسماعیلی مرکز میں نہ صرف مجھے خدمت کا موقع فراہم کیا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ دوسرے واعظین حضرات کی زرین خدمات سے بھی اپنی نیکنام جماعت کو فائدہ دلایا، اور اسی عملی کوشش سے گلگت میں اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برانچ قائم ہوسکی۔

۱۳۔ چیف ایڈوائزر غلام قادر برائے شمالی علاقہ جات و پنجاب، اب بفضلِ اِلٰہ ۹؍ستمبر ۱۹۹۴ ء سے “چیف ایڈوائزر برائے علامہ نصیر الدین ہونزائی” کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہو گئے ہیں، اس کے باطنی معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ساتھی حسنِ خدمت کی وجہ سے ہمیں بیحد عزیز ہیں، وہی احباب ہمارے عالمِ جان و دل (عالمِ شخصی) کے فرشتے ہیں، آپ کو معلوم ہے کہ اہلِ ایمان ہی فرشتے ہوا کرتے ہیں، آپ “ہر پاکیزہ و کامیاب روح میں سب‘” کے قانون کو بھول نہ جائیں، یاد رہے کہ اللہ جلّ جلالہٗ کی قدرتِ کاملہ کے تماتر عجائب و غرائب اور معجزات روح میں ہیں، کیوں نہ ہو جبکہ روح نفسِ واحدہ یا انسانِ کامل کی کاپی ہونے کی وجہ سے سب کچھ ہے، اس کے خزائن سے کوئی چیز باہر نہیں، کیونکہ وہ کامل و مکمل عالمِ شخصی ہے، جس میں عرش، کرسی، سات آسمان اور سات زمین موجود ہیں۔

۱۴۔ خانۂ حکمت ریجنل برانچ گلگت کے نیک نام صدر سلطان اسحاق صاحب کی مخلصانہ اور انتھک کوششوں اور ان کے ہوشمند

 

۱۹

 

ساتھیوں کے بھر پور تعاون سے وہاں توقع سے زیادہ ترقی ہو رہی ہے، ان شاء اللہ گلگت میں ہمارے تینوں ادارے اور بھی زیادہ مضبوط ہوجائیں گے، کیونکہ اب ترقی کے مواقع ہیں، اور ہر قسم کی کامیابی سے ہم سب کو زبردست حوصلہ مندی اور قوّت حاصل ہوئی ہے، اے کاش، ہم ان بے حساب و لاتعداد نعمتوں پر خدائے پاک و برتر کی شکر گزاری کر سکتے !

۱۵۔ خانۂ حکمت برانچ اسلام آباد کے عزیز صدر نذیر صابر صاحب اور ان کے بزرگ والد کے بارے میں کتاب “لعل و گوہر” میں از صفہ ۱۹ تا ۲۴ لکھا گیا ہے، بڑا اچھا مضمون ہے، آپ ضرور پڑھیں، موصوف صدر صفِ اوّل کے مومنین میں سے ہیں، ان کی ذات میں اخلاقی اور مذہبی خوبیوں کا ایک بڑا خزانہ پوشیدہ ہے، میں نے بہت سے ممالک کے لوگوں کو دیکھا ہے، نذیر صاحب جیسے مثالی انسان دنیا میں خال خال ملتے ہیں، آج کل ہمارے یہاں “جشنِ خدمتِ علمی” کا سلسلہ چلتا ہے، اس لئے ہم اپنے عملداروں کے بارے میں جو کچھ حق اور سچ ہے، وہ لکھ دیتے ہیں۔

۱۶۔ صدر فتح علی حبیب علمی خدمت میں بہت سینیئر ہیں، آپ کے بارے میں بہت اچھی تحریریں موجود ہیں، خداوندِ عالم نے ان کو اہلِ بیتِ پاک علیہم السّلام کی مقدّس محبت کی لازوال دولت

 

۲۰

 

سے مالا مال فرمایا ہے، کوئی شک نہیں کہ اسی سرمایۂ ایمان سے بہت سی روحانی خوبیاں پیدا ہوجاتی ہیں، چنانچہ موصوف صدر صاحب کی ایک بہت بڑی خصوصیت ان کی سریلی اور رسیلی آواز ہے، آپ جب جماعت خانہ میں ہمارے عظیم پیروں کا کوئی گنان پڑھتے ہیں تو اس وقت اہلِ ایمان کے قلوب آتشِ عشقِ سماوی سے پگھل جاتے ہیں، آپ کی رفیقۂ حیات ایڈوائزر گل شکر کی خدمات کا سلسلہ بھی اتنا ہی طویل ہے، اور اب بفضلِ خدا ان کے تینوں پیارے بچے: نزار، رحیم اور فاطمہ بھی ایمان اور علمی خدمت کے اسی پسندیدہ راستے پرگامزن ہو رہے ہیں۔

۱۷۔ ہمارے ادارۂ عارف کے صدر محمد عبدالعزیز کی گرانقدر خدمات کا ذکرِ جمیل جتنا بھی کریں کم ہے، ان کی ایک پائندہ اور ہمہ رس خدمت آڈیو کیسیٹ ریکارڈ کا کام ہے، جس سے انہوں نے پندرہ سو سے زیادہ مختلف لیکچروں کو محفوظ کر لیا، اور جہاں جہاں سے فرمائش آتی ہے وہاں بھیجتے رہے، موصوف صدر کے توسط سے امریکہ میں نورالدین راجپاری جیسے عظیم دوست ملے، اور پھر وہاں ادارۂ عارف قائم ہوا، اور کئی عزیز شاگرد پیدا ہو گئے، ہر شاگرد میرے نزدیک ایک زندہ کائنات ہے، جبکہ وہ عالمِ شخصی ہے، غرض صدر محمد عبدالعزیز کی بے شمار خدمات ہیں، ان کی بیگم کوآرڈینیٹر

 

۲۱

 

یاسمین جو حقیقی علم کی شیدائی ہیں، وہ ہر نیک کام میں اپنے محترم شوہر کی مدد کر رہی ہیں، ان دونوں عزیزوں کے فرزند بڑے پیار ہیں، شہزاد امریکہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، سیلینہ (SELINA)اور زہرا کراچی ہی میں پڑھ رہی ہیں۔

۱۸۔ عموماً ہر ملازم اور مزدور صبح آٹھ یا نو بجے اپنے کام پر جایا کرتا ہے، میں جس بندہ پرور اور غریب نواز آقا کا غلام اور مزدور ہوں، وہ بار بار فرماتا ہے کہ سنو، شب خیزی کی دولت سے مالا مال ہو جاؤ، نورانی ذکر، بندگی اور مناجات ہی سے ملا کر قلمی عبادت شروع کرو، پس میں کوشش کرتا ہوں کہ اس بابرکت ہدایت پر عمل ہو جائے، الحمد اللہِ، اکثر کامیابی ہوجاتی ہے۔

اگر میں کہوں: لندن کے عزیزان، تو ظاہر ہے کہ اس سے وہاں کے میرے تمام پیارے شاگرد مراد ہیں، اسی طرح سب کو ایک ساتھ یاد کرنا بہت اچھی بات ہے، اگرچہ ان میں ایک مرکز بھی ہے، اور یہ نکتہ یاد رہے کہ بہشت میں “ہر ایک میں فعلاً سب ہوتے ہیں” یعنی ہر فرد اپنے ابداعی ظہورات سے ہر مرد و زن ہوسکتا ہے، میری روح ان سے بار بار فدا ہو! ان کی لذیذ و دل آویز یاد کی برکت سے بہشت کا ایک عظیم راز سپردِ قلم ہوگیا، اس دفعہ عزیز و محترم غلام قادر صاحب فرمارہے تھے کہ

 

۲۲

 

آپ کی جملہ کتابیں جواہرِ علم و حکمت سے مملو ہیں، پھر بھی جو کتابیں لندن میں لکھی گئی ہیں، ان کی ایک نرالی شان ہے۔

 

ن۔ ن (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

بدھ ؍۶جمادی الاول ۱۴۱۵ ھ   ۱۲ ؍ اکتوبر ۱۹۹۴ ء

 

۲۳

 

بابِ اوّل

شب بیداری اور گریہ و زاری

 

۲۵

 

شب بیداری کی شیرینی

رات بھر بیدار رہ کر عبادت کرنا شب بیداری ہے، اس عمل میں بہت سے روحانی فائدے ہیں، اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ خدا کے لئے شب بیداری نہ صرف نفسِ امّارہ کی شدید ترین پامالی کا باعث ہے، بلکہ اس سے علمی اور عقلی گفتگو بھی بدرجۂ کمال درست ہو جاتی ہے (۷۳: ۰۶) یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ انسان میں جو نفسِ حیوانی ہے، وہ ہر وقت روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے رہتا ہے، لہٰذا نفس پر کنٹرول کرنے کا بہترین طریقہ شب بیداری، شب خیزی اور ذکر و عبادت ہے، آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں رات کی عبادت، دعا، مناجات، اور گریہ وزاری کی فضیلت کو دیکھ سکتے ہیں۔

میں نے بہت سے ممالک اور علاقوں کا سفر کیا، اور بہشت کی وسیع ترنعمتوں کی طرح بہت سے جماعت خانوں میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی، ان میں سے بعض میں ذکرِ جلی کی اجازت ملی، اور بعض میں ہم نے جماعت

 

۲۷

 

کے ساتھ شب بیداری بھی کی، واللہ اس میں بیحد شیرینی ہے، بڑی دلکش روشنی ہے، اور عجیب و غریب قسم کی شادمانی ہے۔

مجھ پر اپنی جائے پیدائش و رہائش قریۂ حیدرآباد کے بے شمار احسانات ہیں، اس مقام کا ابتدائی نام بروشسکی میں “بی مل”  تھا، شخصِ اوّل نے جب اس صحرا کو یہ نام دیا تو اس کا انداز مثبت تھا جیسے بُل مَل جِل مَل، بی مَل (وہ آبادی جس میں سب کچھ ہوگا) کیونکہ یہ ایک عظیم قرآنی اور روحانی راز ہے کہ ہر چیز اور ہر لفظ کے ایجاد میں قدرتِ خدا کی کارفرمائی ہوا کرتی ہے، پھر بِمَل ۱۲۲۱ھ / ۱۸۰۶ ء میں حیدرآباد کے بابرکت اسم سے موسوم ہوا، اس کے اعتقادی معنی ہیں: وہ گاؤں جس کو باطنی طور پر علیِ حیدر نے آباد کیا، میرے پاس سپردِ قلم کر دینے کے لئے ایک اور عظیم امانت ہے، وہ یہ کہ جب مولانا حاضر امام علیہ السّلام پہلی بار شمالی علاقوں میں تشریف لے آئے تو اس دوران حیدرآباد کی جماعتِ باسعادت کی عقیدت، محبت، عشق اور خاموش آنسوؤں کی بارش کے پیشِ نظر ارشاد فرمایا: “میں نے ۳۷ ملکوں کو دیکھا تھا، مگر ایسا نہیں دیکھا تھا” اس فرمانِ مبارک میں معنویت کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔

 

۲۸

 

ایک ایمان افروز اور روح پرور یاد

ہماری مذہبی زندگی میں ایک خوشگوار زمانہ وہ بھی تھا، جب کہ ہم بلتت برونگشل جماعت خانہ میں شب بیداری کی نعمتِ عظمیٰ سے لطف اندوز ہوتے رہتے تھے، اللہ و رسولؐ اور اہلِ بیتِ اطہارؑ کے مقدّس عشق سے سرشار جماعت، ذکر خفی و جلی کی مخموریت، مناجات اور گریہ وزاری کی محویّت و فنائیّت، علم و حکمت کی نورانیّت، نیم خوابی کے عجائب و غرائب، حمد و نعت اور منقبت کی جانفزا آواز، عاشقانہ آنسوؤں کے ساتھ سجدے، خلوصِ نیّت کے ساتھ دعائیں، ذکرِ کثیر سے قلبی اطمینان، جماعت اور جماعت خانہ کی ایسی زیارت سے معجزانہ شادمانی، اور اس قسم کی بے شمار روحانی نعمتیں حاصل تھیں۔

میرے دو بہت پیارے شاگرد عالیجاہ موکھی غلام قادر ابن خلیفہ محمد سراج اور عبداللہ شاہ ابن محمد شفیع اس پاکیزہ محفل میں ہر بار منقبت پڑھا کرتے تھے، ان

 

۲۹

 

کو بہشتے بلبلشو کہیں یا سوجو مایویو، بہرکیف ان کے ساز و آواز سے اہل دل کو خمرِ جنت کی لذّت حاصل ہوتی رہتی تھی، بروشسکی نظموں میں ایک خوش آئند انقلاب پوشیدہ تھا، اس لئے سب خوشی اور مستی سے جھومتے اور ہم آہنگ ہوجاتے ۔

اگر ہم اس نیک نام جماعت کی میزبانی کا ذکرِ جمیل نہ کریں تو البتہ ناشکری ہوگی، پوری جماعت کا جوش و خروش سے حرکت میں آنا، اس حقیقت کی دلیل ہے کہ وہ سب ان مجالس سے شادمان ہوجاتے تھے، ہم محفل سے پہلے اور بعد میں برادرِ بزرگ جوہر بیگ صاحب کے دولت خانے میں ذرا آرام کرتے ۔

بروݣ شال (قبیلۂ برونگ کی جگہ) ہمارے قدیم آبا واجداد اسی مقام پر رہتے تھے، یہاں تک کہ ہمارے والد کا پڑ دادا ترنگفہ شمشیر بیگ میر سلیم خان کے عہد (۱۲۲۱ ھ  / ۱۸۰۶ء) میں حیدرآباد آئے، پس کس زبان سے اور کن الفاظ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس مسبب الاسباب نے ہمارے لئے یہ سبب بھی بنا دیا کہ ہم اس زمانۂ حقیقت میں جا کر اپنے آباواجداد کے اصل مقام پر معمور شدہ جماعت خانے میں خصوصی عبادت کریں، الحمد للہِ ربّ العٰلمین۔

 

۳۰

 

بابِ دوم

ھونزہ میں پہلی بار رضاکار تنظیم کا قیام

 

۳۱

 

غلام محمد بیگ

شجرۂ نسب: دارا بیگ عرف تھرا (ثانی) ۔۔ فرحت بیگ ۔۔۔ میرزا حسن ۔۔۔ سید امیر ۔۔۔ محمد امیر ۔۔۔ میر زا حسن (ثانی) ۔۔ غلام محمد بیگ۔

کسی دانشمند شاعر نے کیا خوب کہا ہے: ۔

؎ سالہا باید کہ تا یک سنگِ اصلی زافتاب

لعل گردد در بدخشان یا عقیق اندر یمن

 

نیز خواجہ حافظ کا یہ شعر ملا حظہ ہو: ۔

؎ گویند سنگ لعل شود در مقامِ صبر

آری شود و لیک بخونِ جگر شود

 

ترجمہ ۱: سالہائے فراوان درکار ہیں تاکہ سورج کے اثر سے اصلی پتھر بدخشان میں لعل بن جائے یا یمن میں عقیق بن جائے، یعنی زمانہائے دراز کے بعد ہی قوم میں کوئی بہت ہی قابل شخصیت پیدا ہو جاتی ہے۔

ترجمہ ۲: کہتے ہیں کہ (اصلی) پتھر صبر کے مقام میں لعل ہو

 

۳۳

 

جاتا ہے، ہاں ایسا ہوتا ہے لیکن خونِ جگر سے ہوتا ہے یعنی کوئی بھی عظیم المرتبت شخص قدر و منزلت کے مراحل کو شدید مشقت کے بغیر طے نہیں کرسکتا۔

غلام محمد بیگ صاحب کی کوئی مثال نہیں ملتی، وہ خود اپنی مثال آپ تھے، دنیا میں سب سے بڑے میدان صرف دو ہیں، مذہب اور سیاست، آپ دونوں میدان کے شہسوار تھے، جہاں بھی گئے قومی اور جماعتی خدمت کو ترجیح و اوّلیّت دی، آپ دینی علم و حکمت کے شیدائیوں اور امامِ زمان علیہ السلام کے فدائیوں میں سے تھے، خدا وندِ عالم نے ان کو قائدانہ صلاحیتوں سمیت بہت سی خوبیوں سے نوازا، یکے بعد دیگرے مذہب کے بڑے بڑے عہدے پر فائز ہوگئے، جماعتی لیڈروں کے ساتھ امام ِوقتؑ کے حضور پر نور سے مشرف ہوئے۔

ہم دونوں یک جان دو قالب تھے، یہ بیمثال دوستی دینی علم اور ترقی پسندی کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی، خداوندِ قدوس کی توفیق و تائید سے میں نے اپنے گاؤں حیدرآباد میں اوّلین اور مثالی والنٹیئرز تنظیم قائم کر کے تمام شمالی علاقہ جات کے اسماعیلیوں کو مذہبی آزادی اور ترقی کا سگنل دیا، تقریباً ایک سال کے بعد ہماری اس

 

۳۴

 

تنظیم میں غلام محمد بیگ شامل ہوگئے، زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ میں نے ان کو کیپٹن بنانے کی تجویز کی تو سب نے اس بات کو بخوشی قبول کر لی۔

میں اس تنظیم کا مؤسس (بانی = FOUNDER) اور سربراہ رہا، اور جی۔ ایم بیگ صاحب اوّلین کیپٹن مقرر ہوئے، اور کسی شک کے بغیر ہم سب نے مل کر مثالی ترقی کا کام کیا، میں نے شروع ہی میں والنٹیئر تنظیم کے لئے چار قبیلوں سے بہت ہی اچھے جوانوں کو منتخب کیا تھا، کیونکہ ہمارے سامنے بہت سے چیلنجز تھے، لیکن ہمارے عہدیداروں اور ممبروں کے دل میں خیر خواہی کے سوا اور کوئی بات ہی نہ تھی، لہٰذا مولا کی تائید سے سیاسی مخالفت کی جنگ میں فتح نصیب ہوئی، چونکہ حیدرآباد والنٹیئرز کی نیکنامی اور شہرت نہ صرف وادیٔ ہونزہ میں گونجنے لگی، بلکہ تمام شمالی علاقہ جات میں بھی اس نیک کام کا چرچا ہونے لگا، تب شمالی علاقوں کے ہر اسماعیلی گاؤں میں والنیٹئرز میدانِ عمل میں آگئے۔

علی آباد کی اسماعیلی جماعت بڑی نیکنام اور ترقی پسند ہے، چنانچہ وقت آنے پر دونوں تنظیموں میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ اب ہم اپنے مذہب کی ہر سالگرہ منائیں

 

۳۵

 

گے، سو علی آباد ہی میں جوانوں نے سورڈ ڈانس اور ڈکو ڈانس کا مختصر سا کورس کر لیا، تاکہ ہر مذہبی جشن کو شایانِ شان طور پر منایا جائے۔

ہم نے یہ کوشش بھی کی کہ کریم آباد (بلتت) والینٹیئرز بھی اس اتفاق میں آجائیں، تاکہ اصولاً پورے ہونزہ میں تمام رضا کار مل کر ایک ہی تنظیم ہو جائیں، لیکن ہماری یہ دعوت قبول نہ ہوسکی، ورنہ یہ سچ ہے کہ ہم التت جیسے بڑے قلعہ کے والینٹیئرز کو بھی دعوت دیتے، اور اسی طرح اتفاق و اتحاد کرنے کے بعد فوراً ہی وسطی ہونزہ، گوجال، اور شیناکی میں ایک ایک میجر اور کُلّ کے لئے ایک کرنل ہوتا، اگر یہ امکانی اتفاق ہوتا اور اس کے ساتھ انصاف بھی ہوتا تو میرا خیال ہے کہ سب سے سینیئر ہونے کی وجہ سے غلام محمد بیگ ہی سب کا کرنل ہو جاتے، اس کے باؤجود ہم نے یہ بھی سوچا تھا کہ اگر میرمحمد جمال خان اپنے کسی شہزادے کو آل ہونزہ والینٹیئرز کا کرنل بنانا چاہیں تو ہم قبول کریں گے، تاہم اتنے بڑے پیمانے پر اتفاق و اتحاد نہ ہوسکا۔

 

۳۶

 

“True Copy”

 

21st May 1973

 

My dear President and Members,

On the occasion of Imamat Day, 11th July, I would like you to perform the opening ceremony of the new Jamatkhana at Skardu. My spiritual children in Skardu should use the new Jamatkhana as from Imamat Day.

I send my most affectionate paternal maternal loving blessings to the following beloved spiritual children for their devoted services and good work:

Ghulam Mohamed Hunzaie

S.M. Abdul Hakeem

Ghulamali Shah

Mashroof Khan

Mahmood Beg

 

۳۷

 

I give my most affectionate paternal maternal loving blessings to all beloved spiritual children for their donations towards the building of the new Jamatkhana with best loving blessings to all those who helped towards the construction work.

 

Yours affectionately,

Sd/-

Aga Khan

 

The President and Members,

H.H. Aga Khan Ismailia Supreme

Council, Karimabad

 

۳۸

 

فہرستِ شاہین والینٹیئرز حیدرآباد ہنزہ

 

تاریخِ داخلہ داخلہ نمبر نام ولدیت عہدہ کیفیت
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۱ علامہ نصیر الدین حبِّ علی موسس والنٹیئرز ۔
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۲ توالد شاہ علی موجود صوبیدار سالار
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۳ حضور مکھی ملازمان عین الضحیٰ شاہ نائب صوبیدار سالار
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۴ شاہ دل امان شاہ مازون فدائی ۱۹۸۸ میں انتقال ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۵ رستم خان پہلوان فدائی ۱۹۸۹ میں انتقال ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۶ شاہ میر بیگ اسد اللہ بیگ فدائی سالار
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۷ محمد علی بیگ قلندر شاہ فدائی سالار
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۸ تحویل شاہ طلا بیگ فدائی ۱۹۶۵ میں مستعفی ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۹ خواجہ زرین علی بیگ فدائی سالار
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۱۰ محمود شاہ حبِّ علی نائب صوبیدار سالار
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۱۱ تیتم دادو بوسگ حوالدار ۱۹۷۶ میں ناظم آباد منتقل ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۱۲ مولا داد بہرام شاہ فدائی ۱۹۸۹ میں مستعفی ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۱۳ امیر حیات شمشیر بیگ فدائی سالار
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۱۴ علی ممبر علی مدد فدائی سالار
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۱۵ رضا شاہ شاہ علی فدائی ۱۹۸۵ میں مستعفی ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۱۶ پہلوان اشدر امان نائیک ۱۹۸۸ میں مستعفی ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۱۷ درویش علی سفر علی فدائی ۱۹۸۰ میں انتقال ہوا

 

۳۹

 

یکم مارچ ۱۹۵۷ ۱۸ خوشدل امان مایون شاہ فدائی ۱۹۷۵ میں گلگت منتقل ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۱۹ ظاہر شاہ فقیر شاہ فدائی سالار
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۲۰ علی بیگ دولت شاہ فدائی ۱۹۷۸ میں مستعفی ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۷ ۲۱ لالیو شاہ گل حیات فدائی ۱۹۸۵ میں مستعفی ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۸ ۲۲ کاروان باشی غلام حیدر نائیک سالار
یکم مارچ ۱۹۵۸ ۲۳ غلام محمد بیگ مرزا حسن کیپٹن ۱۹۸۹ میں انتقال ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۸ ۲۴ داد علی شاہ نیت شاہ وائس کیپٹن ۱۹۷۲ میں مستعفی ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۸ ۲۵ مرزا جانان زیارت شاہ کوارٹر ماسٹر ۱۹۷۸ میں مستعفی ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۸ ۲۶ عنایت خان دادو بائی حوالدار ۱۹۸۴ میں انتقال ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۸ ۲۷ وفادار علی عصمت فدائی ۱۹۷۹ میں انتقال ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۸ ۲۸ طاہر شاہ فقیر شاہ فدائی ۱۹۷۲ میں مستعفی ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۸ ۲۹ محمد رضا بیگ دادو خان فدائی سالار
یکم مارچ ۱۹۵۹ ۳۰ کامڑیا پلشر بیگ سفر علی لیفٹیننٹ ۱۹۹۳ میں انتقال ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۹ ۳۱ غریب فتح اللہ بیگ حرمت اللہ بیگ نائب صوبیدار ۱۹۷۸ میں مستعفی ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۹ ۳۲ محبت خان حاجت امان نائب صوبیدار ۱۹۷۰ میں مستعفی ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۹ ۳۳ خلیفہ غلام حیدر مبارک شاہ فدائی ۱۹۷۷ میں انتقال ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۹ ۳۴ مکھی قدیر امان مہربان لانس نائیک ۔

 

۴۰

 

یکم مارچ ۱۹۵۹ ۳۵ جان خان دادو بوسگ حوالدار میجر ۔
یکم مارچ ۱۹۵۹ ۳۶ حبیب اللہ دادو بوسگ فدائی ۱۹۸۰ میں مستعفی ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۹ ۳۷ قدیر خان تراب خان حوالدار میجر ۱۹۷۸ میں مستعفی ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۹ ۳۸ دادو خان سنگی خان نائیک ۱۹۷۱ میں مستعفی ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۹ ۳۹ رائی امیر اللہ بیگ رحمٰن اللہ بیگ نائب صوبیدار سالار
یکم مارچ ۱۹۵۹ ۴۰ محمد یار بیگ مظہر شاہ حوالدار ۱۹۶۲ میں مستعفی ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۹ ۴۱ حاجی بیگ لطف علی نائیک ۱۹۶۷ میں انتقال ہوا
یکم مارچ ۱۹۵۹ ۴۲ غلام قادر قنبر علی نائیک ۔
۲۱ مارچ ۱۹۵۸ ۴۳ دادو خان روبی علی نائب صوبیدار ۱۹۶۰ میں مستعفی ہوا
۲۱ مارچ ۱۹۶۰ ۴۴ کامڑیا غلام حیدر پلشر بیگ نائیک ۱۹۹۰ میں مستعفی ہوا
۲۱ مارچ ۱۹۶۰ ۴۵ غلام پہلوان فدائی ۱۹۸۹ میں انتقال ہوا
۲۱ مارچ ۱۹۶۰ ۴۶ خداداد خدا یار فدائی ۱۹۷۸ میں مستعفی ہوا
۲۱ مارچ ۱۹۶۰ ۴۷ نصر اللہ قنبر علی نائیک ۱۹۶۷ میں انتقال ہوا
۲۱ مارچ ۱۹۶۰ ۴۸ سخاوت بہادر فدائی ۱۹۶۳ میں انتقال ہوا
۲۱ مارچ ۱۹۶۲ ۴۹ حاجی بیگ فیض اللہ امان نائب صوبیدار ۱۹۸۰ میں دنیور منتقل ہوا
۲۱ مارچ ۱۹۶۲ ۵۰ قبول علی شاہ ولی نائیک ۱۹۷۸ میں مستعفی ہوا
۲۱ مارچ ۱۹۶۲ ۵۱ ایمان شاہ فدایت شاہ فدائی ۔

 

۴۱

 

۲۱ مارچ ۱۹۶۳ ۵۲ دولت شاہ فقیر شاہ فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۶۳ ۵۳ عین الحیات عبد الحیات لیفٹیننٹ ۔
۲۱ مارچ ۱۹۶۴ ۵۴ سردار خان رحمٰن اللہ بیگ فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۶۴ ۵۵ کامڑیا نادر امان مہربان حوالدار سالار
۲۱ مارچ ۱۹۶۵ ۵۶ جنگی عالم زوارہ بیگ فدائی ۱۹۷۰ میں مستعفی ہوا
۲۱ مارچ ۱۹۶۷ ۵۷ رحمٰن بیگ حاتم بیگ حوالدار میجر ۱۹۹۳ میں مستعفی ہوا
۲۱ مارچ ۱۹۶۷ ۵۸ محمد خان شاہ برات حوالدار سالار
۲۱ مارچ ۱۹۶۷ ۵۹ حاجی بیگ بیگ نظر فدائی ۱۹۷۰ میں مستعفی ہوا
۲۱ مارچ ۱۹۶۷ ۶۰ شاہ گل حیات دلاور خان فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۶۸ ۶۱ غلام قادر فقیر شاہ فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۶۸ ۶۲ حضور مکھی رحمدل خان نظر شاہ کیپٹن ۱۹۹۰ میں مقامی کونسل کا صدر مقرر ہونے پر مستعفی ہوا
۲۱ مارچ ۱۹۷۰ ۶۳ حضور مکھی شاہ میر بیگ شاہ گل حیات کیپٹن ۔
۲۱ مارچ ۱۹۷۰ ۶۴ عالم جان محمد امان صوبیدار ۔
۲۱ مارچ ۱۹۷۰ ۶۵ محمد امین محمد امان حوالدار ۔
۲۱ مارچ ۱۹۷۲ ۶۶ بیکو اکبر شاہ صوبیدار میجر ۔
۲۱ مارچ ۱۹۷۲ ۶۷ محمد ولی شاہ ولی لیفٹیننٹ ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ ۶۸ عرب خان نیت شاہ حوالدار ۔

 

۴۲

 

۲۱ مارچ ۱۹۸۰ ۶۹ اشتیاق علی درویش علی فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ ۷۰ محمد فقیر عرب خان حوالدار ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ ۷۱ عبداللہ جان عبدالغفار فدائی ۱۹۸۷ میں مکھی کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد مستعفی ہوا
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ ۷۲ غلام عباس بابر خان فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ ۷۳ اکرام خان گری خان فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ ۷۴ امتیاز حسین عرب خان فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ ۷۵ درویش علی علی ممبر وائس کیپٹن بینڈ ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ ۷۶ عالم جان دولت امان فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ ۷۷ محمد حسین نعمت خان فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ ۷۸ رمضان خان ہمایون فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ ۷۹ محمد فقیر وفادار فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۴ ۸۰ صحت علی نظر شاہ بینڈ کیپٹن ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۴ ۸۱ وزیر بیگ دولت شاہ فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۴ ۸۲ علی جمہور قلندر شاہ فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۴ ۸۳ شاہ مراد شاہ داد فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۴ ۸۴ فدا علی غلام قادر فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۴ ۸۵ سرتاج کریم مالک شاہ فدائی ۔

 

۴۳

 

۲۱ مارچ ۱۹۸۴ ۸۶ دیدار کریم لطف علی فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۵ ۸۷ جاوید کریم مالک شاہ فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۵ ۸۸ اسلام الدین سگ علی فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۵ ۸۹ ابراہیم قلندر شاہ فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۸۵ ۹۰ غریب علی قبول علی فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۹۱ فرمان علی امان علی فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۹۲ شیرعلی ملا یوسف فدائی ۱۹۹۱ میں مستعفی ہوا
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۹۳ میر احمد جان محمود شاہ فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۹۴ الیاس خان محمد حسین فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۹۵ موسیٰ خان مرزا جانان فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۹۶ اکرام اللہ بیگ عطا اللہ بیگ فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۹۷ غلام رسول لیمان شاہ فدائی ۱۹۹۱ میں مستعفی ہوا
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۹۸ نجیب اللہ بیگ ہدایت اللہ بیگ فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۹۹ حضور مکھی صحت علی سگ علی فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۰۰ غلام سرور عبدالرحمن فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۰۱ اسماعیل خان سید امیر صوبیدار ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۰۲ علی محمد عنایت خان صوبیدار ۔

 

۴۴

 

۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۰۳ فدا علی درویش علی نائب صوبیدار ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۰۴ احمد جامی نواب شاہ نائب صوبیدار ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۰۵ رحمٰن بیگ گری خان سیکریٹری ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۰۶ شکر اللہ بیگ قدیر شاہ کوارٹر ماسٹر حوالدار ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۰۷ غلام خان عبادت شاہ فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۰۸ رحیم اللہ بیگ حیات بیگ فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۰۹ عزیز علی محمد رحیم فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۱۰ عزیز علی عنایت خان فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۱۱ آصف حیدر غلام حیدر فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۱۲ الیاس کریم رحمدل خان فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۱۳ غریب علی علی حرمت جوائنٹ سیکریٹری ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۱۴ غلام علی داد علی فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۱۵ سرباز خان میرباز خان فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۱۶ شکر اللہ بیگ قلندر شاہ فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۱۷ اسلام علی شاہ نادر امان فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۱۸ محمد اسحاق مرزا جانان فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۱۹ صدر الدین خواجہ عربی فدائی ۔

 

۴۵

 

۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۲۰ عیسیٰ خان داد علی فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۲۱ مشغول عالم امیر حیات فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۲۲ اسد اللہ بیگ ہدایت اللہ بیگ فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۲۳ نظام الدین قلندر شاہ فدائی ۱۹۹۱ میں مستعفی ہوا
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۲۴ راحت اللہ بیگ اسد اللہ جان فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۲۵ امیر حیدر غلام حیدر فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۲۶ عالم جان محمد حسن فدائی ۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ ۱۲۷ عرفان اللہ علی مدد فدائی ۔

۴۶

 

 

فدائیوں کا ترانہ

 

وقت دِیݳ کݺ گکھر دینٹݺ قربانݺ فدائی!

مولا شلݺ خدمتݺ گنݺ ارمانݺ فدائی!

 

روحانی ببا گنلݸ خوشِیݺ کا گُیَٹس دِݵو

دنیا اکھݵݽن نیلترݵ حیرانݺ فدائی!

 

مقصودݺ بسار نِیَسُلݸ ڈݣ ہمّتݺ ڎٹ بے

خس گُیَر چھݽن دِیݳ کلݵ میدانݺ فدائی!

 

اُنݺ بَی کݺ بݺ غم نورݺ دمن عقلݺ مددگار

ہر ڈݹم درݸون عقلٹݺ آسانݺ فدائی!

 

گݸیَرُم وطنُلݸ بم سسݺ عزّت کݺ ادب ہݵن

اُنݺ وطنݺ زمین عزّتݺ اسمانݺ فدائی!

 

عادتُلݸ فرشتان نمݳ دلتشکݸ دُرݸئݣ او

ڞا گکھر دݵڎن ݼنکݽݺ انسانݺ فدائی!

 

مذہبݺ درݸور دَل دِیݺ دنیاتُلݸ بݽ خا

فرمانݺ برِݣ گن ژُلݺ فرمانݺ فدائی!

 

۴۷

 

ہر ڈݣ دشن ئݶڎَکݺ ایمانݺ گرݵݣ دِݵو

ایمانݺ مثال اور منݺ ایمانݺ فدائی!

 

محتاج غریبن وطنُلݸ ئݶڎکݺ فی الحال

امدادݺ بچارا گنݺ چارانݺ فدائی!

 

جݶ دِݵو لݺ نصیرؔ نورݺ دمنݺ لشکرݺ حقُ لݸ

وقت دیݳ کݺ گکھر دینٹݺ قربانݺ فدائی!

 

۴۸

 

باب الکریم

باءِ بسم اللہ و بابِ شہرِ علمِ احمدیؑ

جُز علیؑ نبوَد کہ قولِ مصطفیٰ و مرتضی است

 

اوست بابِ گنج ہایِ علمِ قرآن و حدیث

ہر کہ زین در اندر آید با مراد و بانواست

 

بی درو دیوار نبود خانہ و باغِ جہان

قصرِ دین رابی درو دیوار پنداری خطاست

 

این کہ حق گوید زمانو و کتابی آمدہ

نورِ حق در کاملی پنہان کتابش برملاست

 

لمعہ ہایِ عکسِ نورش راکنون آئینہ کیت

اکملی و اشرفی از آلِ پاکِ مصطفیٰ است

 

کعبۂ مقصودِ عالم آنچنان سلطانِ دین

نور مولا شہ کریم الحق کنون نورِ خداست

 

رہبرِ دنیا و دین و حامیِ اسلامیان

ظاہر و باطن بنورِ حیّ و قائم رہنماست

 

۴۹

 

یادِ تشریفِ قدو مش باداز بابِ الکریم

“شغف” رابشمار سالِ ہجرتِ خیرالوری است

 

مژدۂ جان بخش بادا ہر فدائی راکہ او

گر تو اند خدمت دینی و کارش بی ریاست

 

فٹ نوٹ:  صفحہ ۱۱ ۔

این قطعۂ لطیف بموقعِ تشریف آوریِ حضرتِ مولانا شاہ کریم الحسینی صلوات اللہ علیہ بہ علاقہ جاتِ گلگت و ہنزہ در سالِ “شغف” گفتہ شدہ، و یک خاصیت ظاہرِ این قطعہ چنانکہ آغازِ ہر شعری ازین اشعار علی الترتیب از حرفی میشود کہ در عوانِ ’’باب الکریم‘‘ است، و باب الکریم دروازۂ محرابی است از سنگہایِ تراشیدہ کہ فدائیانِ حیدر آبادہ (ہونزہ) آن را تعمیر کردہ اند، تا تشریف آوریِ مولانا حاضر امامؑ را دران ناحیہ علامتی و یادگاری باشد، و اِشا رۂ معنویِ آن بدان حکت است کہ امامت بابِ نبوت بودہ ہمچنا نکہ از موضوعِ نظم ظاہر است۔

 

۵۰

 

October 15th 1964

Monogram

 

My dear Spiritual Child

I have received your letter of 16th September and I send you and all members of the H.R.H Prince Karim Aga Khan Shaheen Volunteers of Hyderabad, Hunza my best loving blessings for the success of your newly formed Shaheen Volunteers Band

I send best loving blessings for the success of the Hunza Cooperative Development Society.

Yours affectionately

 

Sd/. AGA KHAN

 

Ghulam Mohamed,

P.O. Karimabad. Hyderabad

Hunza State.

 

۵۱

 

April 23rd 1966.

Monogram

My dear Honorary Captain,

I was happy to receive your letter dated 11th March and report of the services rendered by the H.R.H. Prince Aga Khan Shaheen Volunteer Group, and I send you all my warm congratulations with my best loving blessings.

Yours affectionately,

 

Sd/- AGA KHAN

 

Hon. Capt. Ghulam Muhammad Hyderabadi,

P.o. Karimabad.

Hunza State.

 

۵۲

 

18th Setember, 1966.

MONOGRAM

To,

Our Beloved Mowlana Hazar Imam

H.R.H. Prince Karim Aga Khan.

 

May it please your Royal Highness,

I have honour enough to submit a brief report about the performances of Ismailia Darul Hikmat Hyderabad Hunza State.

This institution is consisted of four sections

1)      Religious Education: Throughout Hunza State there is not a single institution to impart religious education. Having felt this need we two honorary Waizeen have been lecturing on religion and social reforms for a period of more than six years. Moreover, we have been supplying religious and Farman Books to our girls and boys students at Hyderabad, Hunza State.

 

۵۳

 

2)      Female Education: For the first time we had opened a girls primary school in 1960, which is running well on the contribution of a few social workers of Hyderabad. Last year, five students have passed their primary class, but they could not continue their further studies due to lack of further facilities. We had invited the President Ismailia Community, Central Asia and other hereditary religious chiefs to witness our school progress on the occasion of Imamat Day in 1965, but did not take any step for the progress of the school which resulted a hinderance in the growth of female education. This year, also four students have passed their primary class and I am trying to make their studies to be continued in Government girls High School Gilgit, but the poor girls students need scholarships. In this connection, we have applied to the Chairman Managing Committee Gilgit for consideration.

Moreover, our school is in need for a well education Ismailia lady teacher but not available in Hunza State. I met the President, Central Education Board for Pakistan, but he showed his unability to extend any help to our school.

 

۵۴

 

  1. Publication: The Secretary of Ismailia Darul Hikmat has published several religious and ginan books in Hunza language under the name of this Institution. We want to publish more Ismailia religious text books for our school, but due to shortage of funds and lack of any grant we are unable to do so.

Moreover, the Secretary, Mr. Nasiruddin the 1st Poet and Scholar of Hunza has been translating the ground book of our well known philosopher and Hujat-Nasir Khusrow named Wajahuddin into Urdu which will be beneficial to our educated persons.

  1. Social Service: we have a volunteers company named “H.R.H. PRINCE KARIM AGA KHAN SHAHEEN VOLUNTEERS” Hyderabad to perform social activities. The volunteers have been helping the helpless persons in the form of manual work. Moreover, all our religious functions are being performed under the good management of volunteers. The volunteers have a grand Pipe Band for amusement. Social service is continued in other walks of life too.

 

۵۵

 

Hoping for kind blessings and instructions for our onward success.

 

Your obedient spiritual Child.

 

 

Sd/- M. GHULAM MOHAMMED

Address:

Village: Hyderabad,

Post office: Karimabad,

HUNZA STATE,

GILGIT AGENCY (WEST PAKISTAN)

 

۵۶

 

28th April, 1966.

Monogram

 

My dear spiritual child,

During the last months I have been wondering what is the situation of education of the young girls who are living in Hunza and generally in Central Asia. I would be most happy if you would send me your wiews on this matter and also obtain the views of the Managing Committee of the Gilgit Central. Would you, for example, suggest the introduction of middle and secondary schools for girls in Hunza, Chitral and Central Asia?

I know that generally speaking in the above mentioned areas education for girls is not viewed with favour but we cannot allow such an attitude in remain and I would very much appreciate having your comments on this matter.

I understand also recently there has been created in Hunza a private institution called the Ismailia Dar-ul Hikma. Please would you be good enough to send me your views on this

 

۵۷

 

institution and let me know whether it was created with your approval and sanction.

I look forward so much t seeing you, your Rani, your children and family very soon and I look forward with impatience to reading your good news.

I send my most affectionate paternal maternal loving blessing to all beloved spiritual children of Hunza and Central Asia.

Yours affectionately,

Sd/- AGA KHAN.

H.H. the Mir of Hunza,

Mir Mohamed Jamal Khan H.P.,

Baltit,

Gilgit Agency,

Pakistan.

 

۵۸

 

4th Coctober, 1966

Copy

My dear Spiritual Child,

I have received your letter of 18th September and I have read the report of Ismailia Darul Hikmat with much interest and pleasure.

I am very happy indeed with your good work and devoted services, and I give my most affectionate paternal maternal loving blessings to all the members of the Ismailia darul Hikmat for their services.

Your affectionately,

Sd/- AGA KHA.

Mr. M. Ghulam Mohmadded,

Ismailia Darul Himat,

Hyderabad. Hunza State.

 

۵۹

 

بابِ سوم

گلگت میں اسماعیلیہ ایسوسی ایشن کا قیام

 

۶۱

 

دیرینہ احسان کا شکریہ!

مشہور کہاوت ہے: “دیر آید درست آید” یعنی جو کام دیر میں (سہولت میں) ہوتا ہے وہ عمدہ اور درست ہوتا ہے، لیکن کسی نیک کام کے لئے غیر معمولی تاخیر بھی درست نہیں ہوسکتی، لہٰذا اب اس موقع پر یہ بندۂ خاکسار صمیمیتِ قلب سے ان تمام محسنین کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہے جو مختلف ممالک میں اس علمی خدمت کی نمائندگی کرتے آئے ہیں، ان نیکوکاروں میں سے بعض حضرات وہ ہیں، جنہوں نے ہونزہ کی جماعتی اور قومی خدمت میں مجھ سے بھرپور تعاون کیا، اور بعض مومنین و محسنین ایسے ہیں، جن کی پُرجوش اور ولولہ انگیز مدد کے بغیر گلگت مرکز میں ایک پائدار اور مستقل علمی ادراے کا قیام ممکن ہی نہ تھا، کیونکہ اس مشکل زمانے میں ہر چھوٹی بڑی ترقی کے راستے میں بڑی بڑی چٹانیں حائل تھیں۔

اگرچہ ذاتِ سبحان ہر قسم کی مدد سے بے نیاز اور پاک و برتر ہے، لیکن دینی کاموں میں جس مدد کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے، اس کی اہمیّت و افادیت اور قدرو منزلت کو عرشِ اعلیٰ تک بلند کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ترجمہ: اے لوگو! جو ایمان

 

۶۳

 

لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو، جس طرح عیسیٰ ابنِ مریم نے حواریوں کو خطاب کرکے کہا تھا: “کون ہے اللہ کی طرف (بلانے میں) میرا مددگار؟”  اور حواریوں نے جواب دیا تھا: “ہم ہیں اللہ کے مددگار (۶۱: ۱۴)۔”

میں ایک بہت ہی عام اور بہت ہی حقیر آدمی کی حیثیت سے خود کو خوب جانتا ہوں کہ شروع سے لیکر اب تک میں کتنا کمزور چلا آیا ہوں، اور مجھے جان و دل سے اس بات کا اقرار و اعتراف بھی ہے کہ موجودہ مقام تک میری یہ ترقی اس لئے ممکن ہو سکی کہ اہلِ ایمان کے پاکیزہ دلوں کی دعاؤں سے حضرتِ امام علیہ السّلام کی بابرکت ظاہری و باطنی دعا حاصل ہوئی، جس کی برکت سے نورِ امامت کے بہت سے پروانوں اور جانثار عاشقوں نے ہر طرح سے میری مدد فرمائی، لیکن میں بڑی عاجزی اور ناچاری سے عرض کرتا ہوں کہ ان سب کا نام بنام شکریہ ادا کرنا میرے لئے ممکن نہیں، کیونکہ مجھ پر جن محسنین نے احسانات کئے ہیں، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس لئے میں ان تمام حضرات کا اجتماعی شکریہ ادا کرتا ہوں، اور بڑی عاجزی سے یہ دعا ہے کہ ربّ العزّت ان سب نیک لوگوں کو دنیا و آخرت میں کامیابی اور سربلندی عطا فرمائے! آمین!!

مذکورہ معذرت خواہی کے باوجود بعض مثالی قسم کے

 

۶۴

 

مجاہدین کا برملا تذکرہ ان کے اسمائے گرامی کے ساتھ ضروری ہے، جنہوں نے بڑے مشکل زمانے میں شمالی علاقوں کے تمام اسماعیلیوں کے لئے ایک منظم علمی ادارے کی تاسیس کے سلسلے میں اس خاکسار اور کراچی مرکز سے بھرپور تعاون کیا ہے، جس کے نتیجے میں (الحمدللہ) آج یہاں امامِ زمان علیہ السّلام کا ایک علمی لشکر مصروفِ عمل ہے، پس حقیقت میں یہ بات ایک علمی سپاہی کی نہیں، اس اعتبار سے یہ ہمارا اخلاقی اور دینی فریضہ بنتا ہے کہ ہم حقائق سے چشم پوشی نہ کریں، بلکہ آئندہ نسل کے لئے جس اصل تاریخ کی ضرورت ہے، اس کے تناظر میں کچھ بیان کریں، تاہم میں مورخ (تاریخ نویس) نہیں ہوں، اور یہ کام میرے لئے بہت مشکل ہے، یعنی میں بیباکی سے سب کچھ بیان نہیں کرسکتا ہوں، ہاں، بطریقِ حکمت ضروری باتیں کی جاسکتی ہیں۔

میری ایک پرانی ڈائری میں میرے اپنے یہ الفاظ درج ہیں: “یکم اپریل ۱۹۷۱ء تا غایتِ جولائی جماعتِ گلگت کے چند ترقی پسند حضرات نے ذاتی طور پر میرا خرچہ (مبلغ چار صد روپے ماہوار) برداشت کیا، پھر اسی بناء پر گلگت سینٹر میں دوبارہ میرا تقرر بھی ہوگیا۔”

معزز و محترم ایکس حوالدار بازگل صاحب کی اوّلین توصیف

 

۶۵

 

دینداری ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ اسی بنیادی خوبی سے بہت سی خوبیاں جنم لیتی ہیں، جس کی مثال جنابِ موصوف کی شخصیّت ہے، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ آپ خاندانی طور پر بڑے دانشمند ہیں، اندازِ گفتگو عاقلانہ، الفاظ شیرین و پُراثر، ہر بات میں ایمان، امامؑ کی محبت، اور علم دوستی کی خوشبو، دل ہمہ گیر خیر خواہی کا سرچشمہ، اور خود قائدانہ صلاحیتوں کے مالک، یہ ہیں جنابِ بازگل صاحب۔

المؤمن مِراٰۃُ المؤمن (حدیث) ترجمہ: ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہوا کرتا ہے، اس کے کئی معنی ہوسکتے ہیں، اور ان کی ایک مثال یہ کہ ایک مومن دوسرے مومن میں اپنی ایمانی خوبیوں کو دیکھ سکتا ہے، حکمت: حقیقی مومن امامِ زمان علیہ السّلام ہی ہے، اور وہی مبارک و مقدّس ہستی روحانیّت، نورانیّت اور عقلانیّت کا آئینہ معجزنما ہے، پس ہر پیرو مومن کو چاہئے کہ وہ روحانی ترقی کر کے نورِ امامت کے آئینے میں اپنے چہرۂ روح کو دیکھے، تاکہ اس کو اپنے باطنی حسن و جمال کا علم ہو جائے، کیونکہ جب مومنین و مومنات کا نور ان کے آگے اور دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا، اس وقت وہ رحمانی صورت پر ہوں گے (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۰۸)۔

محترم و مکرم موکھی عرب خان صاحب ایک مثالی مومن ہیں، ان کا سارا خاندان بھی ایسا شریف ہے، کسی نیک بخت مومن کا

 

۶۶

 

مولائے زمانؑ کی منظوری سے عملدار مقرر ہو جانا سب سے بڑی عزت کا باعث ہے، آپ کا دل تقویٰ کا مسکن، زبان یادِ الہٰی میں مصروف، آنکھوں میں شرم و حیا، چہرے پر حقیقی خوشی کی روشنی، گفتار و کردار میں ایمان کی حلاوت، شب خیزی اور ذکر و عبادت کی عادت، علم و حکمت کا شوق، عقل و دانش کا ذوق گفتگو میں سنجیدگی اور ہوشمندی، یہ ہیں جناب موکھی عرب خان صاحب کے بعض اوصاف۔

جناب ایکس حوالدار باز گل صاحب کا تاریخی خط:۔

بخدمت جناب علامہ (نصیر) صاحب

یاعلی مدد! بعد ازآداب عرض۔ آپ کے مشورے کے مطابق کچھ تحریر پیشِ خدمت ہے، اگرچہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لکھا ہے، تاہم گزرے ہوئے حالات کو صحیح لکھنے کی کوشش کی ہے، البتہ ہر اس کام کو ترتیب نہیں دے سکتے ہیں، کہ کون سا کام پہلے اور کون سا بعد میں، ان تمام ساتھیوں سے تصدیق بھی کروائی گئی جو اس کام میں شریک تھے۔

موجودہ تمام ممبران آپ کی محبت کے لئے دعا گو ہیں اور خوشی ظاہر کرتے ہیں کہ یہ قدم ( ان شا ء اللہ ) ہماری حوصلہ افزائی کا باعث ہوگا، اور ہم نصیر صاحب کے ممنون ہوں گے۔

یاعلی مدد!  فقط خادم باز گل  ۶؍جون ۱۹۹۳ء

 

۶۷

 

ایک عظیم کارنامہ

بسا اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ کوئی عظیم کارنامہ شروع شروع میں ایک عام اور معمولی کام کی حیثیت سے ہوا کرتا ہے، لیکن آگے چل کر عالیشان نتائج و ثمرات کی وجہ سے عظیم کارنامہ قرار پاتا ہے، اسی طرح گلگت مرکز میں ہماری نیک بخت جماعت اور اس کے بزرگوں نے ایسے بہت سے عظیم کارنامے انجام دیئے جو سب کے سب قابلِ ستائش ہیں، جو سب کے سامنے نمایان ہیں اور یہ ترقی کسی سے پوشیدہ نہیں، تاہم ایک اور کارنامہ ہے، جو عظیم اور ہمہ رس ہے، اور اس کا تعلق بھی اسی مرکز اور اسی باسعادت جماعت سے ہے، لیکن وہ کارنامہ نظر نہیں آتا، کیونکہ وہ لطیف یعنی عقلی اور علمی ہے، اس سے وہ مجموعی علمی خدمت مراد ہے، جسے آج یہاں کے تمام واعظین حضرات انجام دے رہے ہیں، یہ عظیم کارنامہ اس وقت جتنا ضروری اور مفید ہے، اتنی اہمیّت و افادیّت اس کی بنیاد رکھنے میں پیشِ نظر تھی، ہر عمارت کا رسمی سنگِ بنیاد صرف ایک ہی ہوتا ہے، لیکن کتنی عجیب و غریب اور پُرحکمت بات ہے، اور کیسا حسنِ اتفاق

 

۶۸

 

اور نیک شگون ہے کہ اس عظیم الشّان علمی عمارت کا آغاز سنگہائے  بنیاد سے کیا گیا، اور وہ بڑے خوش نصیب فونڈیشن سٹونز یا احجار الاساس اس ترتیب سے ہیں:

جناب عالیجاہ شاہ ولی صاحب، نصیر الدین ہونزائی، جناب اعتمادی فداء علی ایثار صاحب، اور جناب عالیجاہ عزیز اللہ نجیب صاحب، آپ اگر چاہیں تو ایک اعتبار سے شروع شروع کے ان چار نیک بخت واعظین کو گلگت برانچ کو علمی تعمیر و ترقی کے عناصرِ اربعہ بھی کہہ سکتے ہیں، اور یہ حقیقت ہے، یہاں شاید آپ یہ سوال کریں گے کہ اس بابرکت اساس (بنیاد) کے مؤسس کون حضرات ہیں؟ میں وہی تو عرض کر رہا ہوں، کہ یہ بڑا نیک کام صفِ اوّل کے چند ترقی پسند مومنین نے کیا تھا، جن کے اسمائے گرامی درج کرنے سے قبل اس منصوبے کا مختصر سا خاکہ پیش کریں گے۔

یہ سچ ہے اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ اگر گلگت میں اسماعیلیوں کی یکجائی کا کوئی مرکز نہ ہوتا تو واعظ و عالم کی ضرورت کا کوئی احساس ہی نہ ہوتا، یہ بات ایسی ہے جیسے کسی آدمی نے ایک بہت بڑا بنگلہ بنایا ہو  تو بہت ہی اچھی چیز ہے، لیکن اس کو ضروری فرنیچر اور سازو سامان سے آراستہ بھی کرنا پڑتا ہے، چنانچہ بہت سے دیندار مومنین نے علم کی شدید ضرورت

 

۶۹

 

کو محسوس کیا ہوگا، تاہم شدید احساس کے علاوہ درست منصوبہ اور عمل کی سبقت جناب ایکس حوالدار باز گل صاحب کو نصیب ہوئی، اور جناب موکھی عرب خان صاحب بڑی خوشی سے ان کے ساتھ متفق ہوئے، پھر ان دونوں نے جناب ایکس حوالدار امیر حیات صاحب کو بھی اس راز میں لیا، جنہوں نے بسرو چشم اس خدمت کو قبول کرلیا، اور اسی طرح انہوں نے کسی نام کے بغیر ایک تنظیم بنالی، جس کا ایک خاص کام یہ تھا کہ ہر ماہ حسبِ استطاعت و توفیق کچھ ذاتی چندہ جمع کرے، تاکہ جن واعظین کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری لی گئی تھی، ان کو ادارے سے تنخواہ ملنے تک خرچہ دیا جاسکے۔

ہم اس سلسلے میں محترم دوست ایکس حوالدار امیر حیات صاحب خان غندلوی کے ذکرِ جمیل کے بغیر آگے جانا نہیں چاہتے ہیں، یہ عالی ہمت مردِ مجاہد عجیب و غریب خوبیوں کے مالک، بااعتماد، امام عالیمقام کے جانثار، وفا شعار، قومی ترقی کے لئے مرمٹنے والے، سچائی کے دلدادہ، علم دوست، اور دیندار ہیں، ان کی قومی خدمات قابلِ تعریف ہیں، آپ ہمیشہ ہر مشکل کام کے لئے تیار رہتے تھے، اسی بہترین خدمات کی بنا پر آپ کو گلگت ایریا کمیٹی کا اولین چیئرمین مقرر کیا گیا۔

 

۷۰

 

ایک اہم تاریخی یاد داشت

محترم و مکرم جناب ایکس حوالدار باز گل صاحب کی تحریر کچھ لفظی اصلاح کے ساتھ یہاں درج کی جاتی ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ سُرمَنس می نمہ اُنے غیبے گریک ذم دُ مانش۔ ۔

اے خدائے بزرگ و برتر! قوم کے ہر نیک کام کے لئے توفیق و تائید تجھ ہی سے حاصل ہو، کام کا ظاہری آغاز ہم سے ہو اور یہ تیرے دستِ غیب سے مکمل ہوجائے۔

میرے پنشن آنے سے ایک سال قبل جناب عرب خان صاحب کے ساتھ اس بات پر اتفاق ہو گیا تھا کہ ہم دونوں مل کر کاروبار کریں گے، لہٰذا میرے آنے تک کرائے کی کوئی دکان لی جائے، چنانچہ جب میں ماہِ اکتوبر ۱۹۶۶ء میں پنشن آیا تو عرب خان صاحب نے راجہ بازار گلگت میں ایک دکان لے رکھی تھی، پس ہم نے ’’ہمدرد جنرل سٹور‘‘ کے نام سے ایک مشترکہ تجارت کا آغاز کیا۔

جب میں فوجی ملازمت میں تھا، تو اس وقت میں نے ترقی کے گونا گون نمونے دیکھ لئے، اور اپنے علاقے کے علاوہ

 

۷۱

 

باہر کی دنیا کو بھی دیکھ لیا، میرا خیال ہے کہ مجھ میں خوداعتمادی کی قوت پیدا ہوگئی، میں نے دیکھا تھا کہ گلگت مرکز میں ہمارے بزرگوں نے جماعت کے لئے ایک عالیشان جماعت خانہ بنایا ہے، جس کی شایانِ شان تعریف کے لئے منتخب الفاظ نہیں ہیں، اور اسی شان کے ساتھ شاہ کریم ہاسٹل وغیرہ ہے، تاہم میرے دل میں بار بار یہ خیال آتا رہا کہ اب مزید ترقی کی خاطر گلگت میں دو خاص چیزوں کی سخت ضرورت تھی، ہاسٹل میں دینوی درس و تدریس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا بندوبست، اور جماعت خانہ میں موجودہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق اعلیٰ علمی واعظ کا انتطام ۔

میں نے پہلے ہی مذکورہ ضرورتوں کے بارے میں اپنی نوٹ بک میں نوٹ کر لیا تھا، جب مولا کے فضل و کرم سے ہمارا کاروبار سیٹ ہوگیا، تب ہم دونوں ساتھیوں نے بلا تاخیر مشورہ کیا اور کہا کہ بچوں کی دینی تعلیم کے لئے کیا ہوسکتا ہے، اور جماعت خانہ میں منقبت خوانی کی ترقی کس طرح ہو، اسی گفتگو میں عرب خان صاحب سے یہ پتا چلا کہ ایک ذی علم اور درویش صفت مومن ہے، جس کا پیارا نام شاہ ولی ہے، آپ کی جائے سکونت اوشی کھنداس ہے، آپ گلگت سکاؤٹس سے پنشن پر آئے ہوئے ہیں، شاہ ولی صاحب جب بھی جماعت خانہ  میں

 

۷۲

 

کوئی منقبت پڑھتے ہیں، تو وہ جماعت کے دل کی گہرائی میں اتر جاتی ہے۔

اب مجھے شاہ ولی صاحب سے ملاقات کرنے اور جماعت کو فائدہ دلانے کا زبردست شوق پیدا ہوگیا، میں نے اپنے دینی اور جانی دوست عرب خان صاحب سے گزارش کی کہ براہِ کرم شاہ ولی صاحب کو یہ پیغام بھیج دیجئے کہ آیا وہ یہاں تشریف لاسکتے ہیں، پیغام بھیجا گیا اور جنابِ موصوف بنفسِ نفیس تشریف لائے، اسی اثناء میں ہم نے یہ فیصلہ بھی کر لیا تھا کہ اب ہم دونوں چند دوسرے ساتھیوں کو بھی اپنے ساتھ ملائیں گے، اگر قبول کرتے ہیں تو بہت اچھی بات، ورنہ ہم خود ذمہ دار ہیں، کیونکہ ہم نے کوئی بڑی میٹنگ منعقد نہیں کی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ اچھے اچھے منصوبے ابتدائی میٹنگ ہی میں اختلافات کا شکار ہو کر ختم ہو جاتے ہیں۔

جناب محترم شاہ ولی اللہ صاحب سے جماعتی خدمت اور ماہوار وظیفہ کے بارے میں گفت و شنید ہوئی، اور انہوں نے قبول فرمایا، یہاں یہ اندیشہ بھی تھا کہ اگر یہ نیک کام پوری جماعت کو معلوم ہو جائے تو ممکن ہے کہ بعض افراد کو پسند نہ آئے، اس لئے کوشش کی گئی کہ یہ علمی خدمت پوشیدہ طور پر انجام دی جائے، اور اس طریقِ کار کے بارے میں جناب شاہ ولی اللہ

 

۷۳

 

صاحب سے بھی گزارش ہوئی، چنانچہ موصوف جماعت خانہ میں قصیدہ پڑھتے تھے، اور بچوں کو مذہبی تعلیم دیتے تھے۔

 

۷۴

 

قوم کے ان عالی ہمت اور مجاہد صفت جوانوں کے اسمائے گرامی جنہوں نے آج سے ۲۲ سال قبل گلگت مرکز میں جماعت کے لئے ایک مضبوط علمی ادارہ قائم کیا

یہ اسماء بترتیبِ حروفی تہجی درج ہیں

(الف)           ۱۔ جناب امان اللہ (فوٹو گرافر) ابن حمید علی شاہ ابن عبد المجید۔

۲۔ جناب امان اللہ (دوکاندار) ابن مراد شاہ ابن زمین شاہ

۳۔ جناب امیر حیات (ایکس حوالدار) ابن فقیر شاہ ابن دولت شاہ۔

۴۔ جناب امیر الرحمان ابن مستجاب شاہ ابن عبد اللہ۔

(ب)             ۵ ۔ جناب باز گل (ایکس حوالدار) ابن فقیر شاہ

۶۔ جناب بخت بیگ (عالیجاہ، سابق لوکل صدر گلگت) ابنِ خلیفہ نورِ حیات ابنِ ترنگفہ قلندر شاہ۔

(ح)              ۷۔ جناب حمید اللہ خان ابن عبدالجبار ابن علی محمد۔

(د)               ۸۔ جناب داد علی شاہ (سابق علاقی صدر ہونزہ) ابن نیت شاہ ابن شعبان۔

 

۷۵

 

۹۔ جناب دادو خان (ایکس حوالدار) ابن غلام سرور ابن محمد مراد۔

۱۰۔ جناب دینار خان (دوکاندار) ابن شکر اللہ بیگ ابن چوڑی۔

(ر)              ۱۱۔ جناب رستم (سابق کامڑیا) ابن خلیفہ شاہ دل امان ابن خلیفہ نو جوان۔

(ش)             ۱۲۔ جناب شیر اللہ بیگ (ایکس صوبیدار) ابن ترنگفہ بخت بیگ ابن خوجہ زرین۔

۱۳۔ جناب شیر ولی خان (وکیل) ابن حیات خان ابن مت خان۔

(ط)              ۱۴۔ جناب طالب شاہ مرحوم (ہوٹل والا) ابن کلب علی ابن مبارک شاہ۔

۱۵۔ جناب طاہر بیگ مرحوم (دوکاندار) ابن خلیفہ محمد سراج ابن غلام حسن۔

(ع)              ۱۶ ۔ جناب عباد اللہ بیگ (دکاندار) ابن مستان ابن امان اللہ (منو)۔

۱۷۔ جناب عباد اللہ بیگ (ٹھیکیدار) ابن رجب شاہ ابن رمل خان۔

۱۸۔ جناب عبد الغفار (ڈاکٹر) ابن دولت شاہ ابن زمین شاہ۔

۱۹۔ جناب عرب خان( موکھی) ابن محمد خان ابن صمد خان۔

۲۰۔ جناب علی شیر (ایکس صوبیدار) ابن خلیفہ جمعہ بیگ

 

۷۶

 

ابن خلیفہ ابوذر غفاری

۲۱۔ جناب علی مدد (ایکس صوبیدار، ایس ۔جے، سابق علاقائی صدر گلگت، راعی ) ابن نیت شاہ ابن حسن۔

۲۲۔ جناب علی مدد (دوکاندار) ابن علی غلام ابن ھمایون شاہ۔

(غ)              ۲۳۔ جناب غلام رسول (خلیفہ) ابن ترنگفہ محمد حسن ابن حسن شاہ۔

۲۴۔ جناب غلام رسول (ہوٹل والا) ابن شاہ علی ابن قلندر شاہ۔

۲۵۔ جنا غلام محمد بیگ (سابق ریجنل صدر گلگت) ابن میرزا حسن، ابن محمد امیر۔

(گ)             ۲۶۔ جناب گلاب شاہ (ایکس حوالدار میجر) ابن سبیل خان ابن نادر شاہ۔

(ل)              ۲۷۔ جناب لطفِ علی شاہ مرحوم (ہوٹل والا) ابن محمد شفیع ابن قلندر۔

(م)               ۲۸۔ جناب محمد ایوب (دوکاندار) ابن خلیفہ محمد سراج ابن غلام حسن۔

۲۹۔ جناب محمد ایوب (دوکاندار) ابن خلیفہ دلا امان ابن ترنگفہ خیر اللہ۔

۳۰۔ جناب محمد سلیم (دوکاندار) ابن طیغون شاہ (کونسل) ابن نادر شاہ۔

۳۱۔ جناب موسیٰ بیگ (پروفیسر) ابن لطفِ علی ابن محمد ظہیر۔

 

۷۷

 

(م)               ۳۲۔ جناب مولاداد ابن اجابت شاہ ابن نجف شاہ۔

۳۳۔ جناب میراحمد خان (مستری) ابن علی حرمت ابن حسن شاہ۔

۳۴۔ جناب میرزا امان (عالیجاہ) ابن مہربان شاہ ابن دادو محمد پیار۔

(ھ)               ۳۵ ۔ جناب ھزارہ بیگ (دوکاندار) ابن عبد القادر ابن علی مدد۔

۳۶۔ صاحبانِ ’’ہنزہ نیشنل گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی لمیٹیڈ (قائم کردہ: ۱۹۶۹ ء)‘‘۔

 

۷۸

 

جناب باز گل صاحب مزید لکھتے ہیں: ایک دن ہماری نیک بخت کمیٹی کی میٹنگ منعقد ہوئی، جس میں ایک بڑے عالم سے گلگت جماعت کو علمی فیض پہنچانے کے بارے میں گفتگو ہوئی، اس میں دو عالم معروف اور پیشِ نظر تھے، جناب آخوند الفت شاہ صاحب جو فارسی کے اہلِ زبان اور عربی شناس تھے، لیکن اردو جیسی قومی زبان کی کمی تھی، اور علامہ نصیر تھے، جو حسبِ منشاء جماعت کی خدمت کر سکتے تھے، پس میں نے کمیٹی کے سامنے نصیر صاحب کی بھر پور سفارش کی اور تمام حاضرین نے کسی مخالفت کے بغیر مکمل حمایت و تائید کی۔

مجھ سے کہا گیا کہ براہِ کرم آپ ہونزہ جائیں اور اس سلسلے میں علامہ نصیر سے درخواست کریں، چنانچہ میں نے دوسرے دن ہونزہ کا سفر کیا، ہم اسے حسنِ اتفاق نہیں بلکہ مولائے پاک کا ایک معجزہ کہیں گے کہ میں جیسے ہی جیپ سے علی آباد کے اس مقام پر اتر گیا جہاں ماضی میں پولوگراؤنڈ تھا، وہیں پر علامہ نصیر الدین ہونزائی نمودار ہوئے، طوفانی خوشی کے عالم میں یہ خیال آیا کہ اب ان شاءٔ اللہ ہمارا منصوبہ کامیاب ہوجائے گا، شوق سے ملاقات کرنے کے بعد دل نے کہا فوراً عرض پیش کرو۔

نصیر صاحب سے عرض کی گئی: آپ گلگت آئیے تاکہ جماعت کی خدمت کر سکیں، علامہ موصوف کو یہ معلوم کرنا ضروری تھا کہ یہ دعوت کس کی جانب سے ہے؟ میں نے تمام حالات سے ان کو آگاہ

 

۷۹

 

کرتے ہوئے کہا کہ چند قومی خدمتگار ہیں، انہوں نے مجھے بھیجا ہے اور وہ حضرات یہ کام ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے اصول پر کرنے کا عزمِ صمیم رکھتے ہیں، ماسوائے تائیدِ الٰہی کے اور کچھ نہیں چاہئے۔

نصیر نے اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے کہا: ٹھیک ہے، آپ چلیں، میں ان شاءٔ اللہ ایک دو دن میں گلگت پہنچ جاتا ہوں، لہٰذا میں (بازگل) دوسرے دن واپس گلگت آیا، اور ساتھیوں کو حقیقتِ حال سے آگاہ کیا، وہ شادمان ہوگئے، دو روز کے بعد خبر ملی کہ علامہ نصیر گلگت پہنچ گئے ہیں، تب فوراً ہی ہم نے میٹنگ کال کی، اور زیر بحث مسئلے پر خوب غور ہوا، اصل بات خرچہ پورا کرنے سے متعلق تھی، اس سے پہلے شاہ ولی اللہ صاحب کو اس تنظیم کی طرف سے ماہوار -/۱۴۰ روپے کا وظیفہ مل رہا تھا، اب ہمارے ممبروں نے جو علم کے شیدائی ہیں مزید سختی کے ساتھ کمرِ ہمت باندھ لی، جس سے یہ مالی گنجائش پیدا ہوئی کہ جس سے ہماری کمیٹی علامہ نصیر کو ماہوار -/۴۰۰ روپے دینے لگی۔

اس اہم فیصلے کے بعد میں اور جناب غلام رسول صاحب ابن ترنگفہ محمد حسن علامہ نصیر الدین کی خدمت میں حاضر ہو گئے، ان سے عرض کی، انہوں نے فرمایا کہ میں ان شاء اللہ خدمت کروں گا۔

منشاء تو یہی تھا کہ یہ ساری خدمت جماعت میں چرچا کے بغیر خاموشی سے ہو، لیکن کسی نہ کسی طرح اطراف میں

 

۸۰

 

رفتہ رفتہ یہ خبر پھیل گئی، اور شاید اسی میں بہتری تھی، چنانچہ وہ بڑا نیک دن ہمیشہ کے لئے یاد رہے گا جس میں دو اور زندہ خزانے ہماری دکان پر آگئے، یعنی جناب فداء علی ایثار صاحب اور جناب عزیز اللہ نجیب صاحب، اور اپنا تعارف کرایا کہ ہم جناب محمد دارا بیگ صاحب کے شاگرد ہیں، ہمیں یہاں موقع عنایت کر دیں تاکہ ہم خود بھی کچھ سیکھ لیں اور سٹوڈنٹز کو بھی کچھ سکھا دیں گے، اب باقاعدہ اجلاس کے لئے وقت نہ تھا، اور ہاں یا نہیں میں ان کو جواب دینا بھی ضروری تھا، لہٰذا میں نے خدا پر توکل کرتے ہوئے چند فدائیوں سے فرداً فرداً رائے طلب کر لی، اور ان صاحبان کی درخواست قبول کی گئی۔

چند دنوں کے بعد میر آف ہونزہ جو سپریم کونسل کے صدر تھے گلگت آئے اور جماعت خانہ میں ارکان کے ساتھ میٹنگ میں مصروف تھے اور جیسے ہی ہمیں معلوم ہوا تو فوراً اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے میر صاحب سے مطالبہ کیا کہ جنابِ عالی! ان واعظین کے لئے جو وظائف ہم دے رہے ہیں، وہ آپ براہ کرم جماعتی ادارے سے دلوا دیجئے، کیونکہ آپ امامِ عالی مقامؑ کے نمائندہ ہیں اور آپ کوانتظامی امور میں اختیار حاصل ہے، پس میر صاحب اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے راضی ہوگئے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے بے نام ادارے کی

 

۸۱

 

نیک نامی روز بروز مشہور ہو رہی تھی، لہٰذا ایک دن جناب ایکس صوبیدار صفی اللہ بیگ صاحب نے ہم سب کو میٹنگ کے لئے بلا لیا، اور ایک نیک مشورہ پیش کیا، وہ یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ جماعت کا کام بھی بڑھ گیا ہے، اس لئے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اور آپ مل کر جماعت کا کام کریں گے، اب اس نیک کام سے کون انکار کر سکتا، جب کہ خدمت کرنے کی غرض سے ہم سب جا گ اٹھے تھے، منظور کرتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کے لئے غور کیا، کافی غور و خوض کے بعد “سیٹی کونسل” کے نام سے ایک ادارے کی منظوری کے لئے مولانا حاضر امام علیہ السّلام کے حضورِ اقدس میں درخواست بھیجی گئی، خوش بختی سے چند ایام کے اندر اندر مولائے پاک کی بارگاہِ عالی سے اس ادارے کی منظوری اور دعائے برکات آئی، جس سے ہم سب کی روح میں ایک تازہ بہار آگئی۔

 

۸۲

 

بابِ چہارم

کامیاب اور پر ثمر میٹنگیں

 

۸۳

 

راولپنڈی کی اہم میٹنگ

سپریم کونسل کی میٹنگ راولپنڈی میں منعقد ہونیوالی تھی، جس میں شرکت کے لئے ہم تمام نمائندے جو ہونزہ، گلگت، اور پولٹیکل اضلاع سے آئے تھے، ۱۴؍ اپریل ۱۹۷۲ء کو بذریعۂ ہوائی جہاز پنڈی پہنچ گئے، جناب غلام محمد بیگ صا حب (مرحوم) بھی تھے، ہمارے چترال کے نمائندے ہم سے پہلے آچکے تھے، ۱۵، ۱۶ کو ہم نے ہونزہ گلگت، اور چترال کے نمائندوں پر مشتمل غیر رسمی میٹنگ کی، جس کا مقصد ان تمام نمائندوں کے آپس میں تبادلۂ خیالات کرنا تھا تاکہ میٹنگ کی تیاری ہوسکے۔

اسی اثناء میں یہ بات سننے میں آئی کہ میٹنگ جائنٹ نہیں  بلکہ سپریم کونسل ہی سے تعلق رکھتی ہے، لہٰذا جو جماعت کے وقتی نمائندے ہیں، وہ اس اجلاس میں شامل تو ہوسکتے ہیں، لیکن اظہارِ رائے اور ووٹ کی اجازت نہ ہوگئ، پس اس بات سے ہمیں بڑا دکھ ہوا، اور ہم میں سے چند حضرات عالیہ کونسل کے صدر میر محمد جمال خان صاحب کے پاس گئے، اور کہا کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ ہم یہاں محض تماشائی بننے کے لئے نہیں آئے ہیں، اس پر صدر صاحب نے ازراہِ مہربانی فرمایا کہ یہ سپریم کونسل اور جماعت کے دیگر نمائندوں پر مشتمل

 

۸۵

 

جائنٹ میٹنگ ہے۔

۱۷ ؍ اپریل ۱۹۷۲ ء کو عالیہ کونسل کا اجلاس بوقتِ گیارہ بجے شروع ہوا، جس میں ہر شخص نے جماعت کی بھلائی کے بارے میں اظہارِخیال کیا، اور تنہا یہ حقیر بندہ تھا، جس نے روحانی تعلیم کی ضرورت و اہمیت پر ایک منظم مقالہ لکھ کر پرنٹ کروالیا تھا، اور جس کی کاپیاں تقسیم کی گئیں اور مقالہ پڑھا گیا، میرا خیال ہے کہ سب کو پسند آیا، اور کیپٹن وزیر امیر علی نے اسے بہت پسند کیا، پھر باتفاق یہ طے ہوا کہ میں مطلوبہ روحانی تعلیم سے متعلق ہدایات اور پروگرام حاصل کرنے کے لئے کراچی مرکز جاؤں، وہ کامیاب مقالہ من و عن درج ذیل ہے: ۔

 

 

۸۶

 

وہ مقالہ جو وسطی ایشیا۔ ہونزہ، گلگت اور چترال کے اسماعیلی نمائندوں اور عالیہ کونسل کے ممبران کی میٹنگ منعقدہ ۱۸؍ اپریل ۱۹۷۲ ء میں پڑھا گیا

جناب صدرِ عالیقدر و معزز نمائندگان!

یا علی مدد!

مجھے اسماعیلی جماعت کے جس ادارے نے جس ضروری کام کے لئے اس عالیشان اجلاس میں شرکت کرنے کو موقع بخشا ہے، اس کی طرف سے یہ میرا ایک واجبی اور لازمی فریضہ ہے، کہ میں ادارہ مشارٌ اِلیہ کے اُس مطالبے کے اغراض و مقاصد کی کچھ وضاحت کروں، جو ایک مختصر گوشوارے کی صورت میں اسماعیلیہ علاقائی کونسل گلگت کو پیش کیا گیا ہے۔

آپ سب حضرات کسی اختلاف کے بغیر اس بات کے قائل ہیں، اور یہ ہم سب کے لئے ایک یقینی امر ہے، کہ مولانا حاضر امام کے پاک و مقدّس فرامین کے مطابق ہمیں نہ صرف یہی کہ مادّی طور پر ترقی کرنا لازمی ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ روحانی طریق پر بھی آگے بڑھنا ازبس ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اہم ترین کام ایک ایسی اعلیٰ درجے کی روحانی تعلیم کے بغیر ناممکن ہے جس کا طریقِ کار باضابطہ

 

۸۷

 

اور منظم ہو۔

اب یہ سوال ہمارے سامنے آتا ہے کہ اس درجے کی دینی اور روحانی تعلیم سے مختلف علاقوں کی جماعتوں کو کن کن اصولوں اور طریقوں سے مستفیض و بہرہ مند کیا جا سکتا ہے، اس سوال کا تسلی بخش جواب بھی اسماعیلی مذہب کی تعلیمات میں موجود ہے، چنانچہ مولانا علی علیہ السّلام کا ارشادِ گرامی ہے کہ کلّمو ا النّاس عَلیٰ قدرِ عقو لھِم۔ یعنی تم لوگوں سے ان کی عقل کے موافق بات چیت کر لیا کرو۔ نیز اس سوال کا جواب ہمارے نامور پیروں کے اصولِ دعوت اور طریقِ تبلیغ میں بھی موجود ہے، جیسا کہ ہمارے عظیم المرتبت حضرت پیر صدرالدین اور آپ کے بعد والے نامور پیروں نے ہندوستان کے جس خطے میں بھی تبلیغ و دعوت کی ہے، وہاں ان حضرات نے لوگوں کی جائز اور مناسب رسومات و عادات کو پیشِ نظر رکھ کر انہی چیزوں کی موزونیت و مناسبت کے مطابق اسماعیلی دعوت کی ہے، کیونکہ ان بزرگوں کی نظر میں سب سے زیادہ مؤثر دعوت صرف اسی صورت میں ہوسکتی تھی، پس معلوم ہوا کہ اسماعیلی مذہب میں ہمیشہ سے ایسی بہت سی خوبیاں موجود ہیں، کہ جن کی بدولت زمان و مکان کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکتا ہے۔

بالکل اسی طرح دوسری طرف سے حضرتِ پیر ناصر خسرو (ق س) نے بھی ہندوستان کے پیروں سے بہت پہلے لوگوں کے ماحول

 

۸۸

 

اور زمان و مکان کی کیفیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دعوت کی تھی، یاد رہے کہ حضرتِ پیر ناصر خسرو نے جن جن ملکوں اور علاقوں میں دعوت کی تھی، وہاں سب کا سب اسلامی ماحول تھا، چنانچہ اگر آپ چاہیں تو اس حقیقت کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ پیر ناصر خسرو نے اپنے طریقِ دعوت اور تمام تعلیمات میں قرآن و حدیث اور اماموں کے اقوال کی روشنی میں کیسے کیسے محکم دلائل سے اسماعیلی مذہب کی حقانیت ثابت کر دی ہے، اور آج تک ان تمام ملکوں اور علاقوں کے اسماعیلیوں میں، جن کے آباو اجداد نے پیر ناصر خسرو کی دعوت قبول کی تھی، امام شناسی اور دین شناسی کا وہی  تعلیماتی اصول کارفرما اور مؤثر ہے، جسے موصوف پیر نے قائم کیا تھا۔

پیر ناصر کی تعلیمات سے ہمیں نہ صرف قرآن و حدیث کے اسماعیلی حقائق و معارف کا انکشاف ہوتا ہے بلکہ ان میں اس پاک مذہب کے متعلق فلسفہ اور منطق جیسے ظاہری علوم کے ایسے عاقلانہ دلائل بھی موجود ہیں، کہ کوئی دانشمند ہزار ہا کوشش کے باوجود بھی ان کی تردید نہیں کرسکتا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے مقدس عقیدہ کے بارے میں اعتراضات و سوالات خواہ کوئی مسلمان اٹھائے یا کوئی غیر مسلم، ان سب کے لئے مُسکِت جوابات حکیم ناصر خسرو کی تعلیمات سے مل سکتے ہیں، کیونکہ جس طرح مسلمان قرآن و حدیث کے بغیر کوئی مذہبی بات سننا گوارا ہی نہیں کرتے، اسی طرح

 

۸۹

 

غیر مسلم دانشور فلسفہ اور منطق کے بغیر نظریات کے مباحثوں اور مناظروں کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں۔

زمانۂ قدیم میں مذہب اور عقیدہ کی بابت لوگوں کی سادہ لوحی اور بھولاپن کا یہ عالم تھا، کہ اگر ایک آدمی کسی پتھر یا کسی درخت کو خدا کا مظہر قرار دیتا، تو دوسرے بہت سے آدمی کسی تحقیق و تدقیق کے بغیر پتھر یا درخت کی پرستش کرنے لگتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے، وہ زمانہ کبھی کا گزر چکا ہے، موجودہ وقت ہر قسم کی ریسرچ (تحقیق) کا زمانہ ہے، جس میں انسان نہ صرف سائنسی طور پر مادّی اشیاءٔ کا تجزیہ و تحقیق کر رہا ہے، بلکہ وہ عقلی طور پر مذہبی عقائد و رسومات کا بھی تبصرہ تنقید کرنے لگا ہے، پس اگر ہم ایسی حالت میں اپنے بچوں کو باضابطہ روحانی تعلیم کے ذریعہ پاک اسماعیلی مذہب کی بے مثال خوبیوں سے آشنا نہ کریں، تو یہ ہماری ایک ایسی غفلت ہوگی جس کا نتیجہ کسی نہ کسی وقت ہماری نئی نسل کی گمراہی کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔

اگر ہم حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ اور مولانا حاضر امام علیہما السّلام کے تمام مقدّس فرامین کو سامنے رکھ کر دیکھیں، تو ان میں جگہ جگہ مذہبی اور روحانی تعلیم کی اہمیت ظاہر ہوگی، اس کے علاوہ دینی تعلیم کی ضرورت اس امر سے بھی واضح ہو سکتی ہے، کہ امام عالی مقام نے پاکستان، ہندوستان اور افریقہ جیسے

 

۹۰

 

ملکوں کے اسماعیلی مرکزوں میں وسیع پیمانے پر دینی تعلیم اور وعظ و نصیحت کے لئے کتنے بڑے بڑے ادارے قائم کئے ہیں اور ان کے مصارف کے واسطے کتنے گرانقدر عطیات دے رہے ہیں۔

آپ کو یہ حقیقت روشن ہے، کہ ہمارے علاقہ جات کراچی کے اسماعیلی مرکز سے کتنے دور اور دینی ترقی میں کس قدر پسماندہ ہیں۔ آپ حضرات سے یہ امرواقع بھی ہرگز پوشیدہ نہیں، کہ ہمارا علاقہ ملکِ چین کی سرحدوں سے ملا ہوا ہے، اور ملک روس کی سرحد تک فضائی راستہ تقریباً پانچ میل ہے اور آپ اس صورتحال سے بھی بخوبی واقف و آگاہ ہیں، کہ مذکورہ دونوں عظیم ممالک نے کہ جن کی دنیاوی ترقی و برتری کا چرچا عالمگیر ہو چکا ہے، مادّی ترقی کے سبب سے دین اور عقیدہ کو خیرباد کہا ہے اور یہ ایک فطری امر ہے، کہ ایک غریب و نادار شخص اپنے امیر ہمسائے کے قول و فعل کی نقل و تقلید کرنے کا خواہان ہوتا ہے، کیونکہ نادان غریب، جس کو دین کی حکمتوں کی خبر نہ ہو، تنگدستی اور مفلسی کے نتیجے پر اپنی ہر بات اور ہر کام سے بیزار ہو کر امیر کی ہر بات اور ہر کام کو عقیدت و محبت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے، ہر چند کہ امیر غریب سے زبانی طور پر یہ نہیں کہتا کہ تم میری عادتوں کو اپنا لینا۔

 

۹۱

 

مذکورہ بالا بیان کا مقصد و منشاء اس کے سوا کچھ بھی نہیں، کہ اس وقت چترال، گلگت اور ہونزہ جیسے پس ماندہ علاقہ جات کے اسماعیلیوں کے لئے بڑی سختی کے ساتھ روحانی تعلیم کی ضرورت درپیش ہے، اور وہ اس حد تک ضروری ہے کہ اگر خدانخواستہ اس کارِ خیر میں کسی سبب سے تاخیر ہوئی تو آپ اس بات پر یقین کیجئے، کہ پھر آگے چل کر لاکھوں روپے کے صرف کرنے سے بھی اس بگڑے ہوئے کام کی درستی و اصلاح نہ ہوسکے گی، لہٰذا متعلقہ پسماندہ جماعتوں کی زبانِ حال اور زبانِ قال سے عرض ہے کہ اب بھی اصل وقت سے کچھ باقی ہے جس میں یقیناً آپ حضرات ان جماعتوں کی دینی اور روحانی محافظت کے لئے کوئی تعلیمی بندوبست کر سکتے ہیں۔

پس امید ہے کہ آپ تمام حضرات، جو اس اعلیٰ سطح کی میٹنگ میں شرکت فرما ہیں، ہمارے اس جائز و مناسب بلکہ ضروری مطالبے کی تائید کرتے ہوئے اپنی قیمتی سفارشات کے ساتھ مولانا حاضر امام کے حضورِ اقدس میں پیش کریں گے، تاکہ آپ کے بہت سے دینی بھائی اس مذہبی تعلیم کے نتیجے میں اپنے پاک عقائد کی خود حفاظت و نگہبانی کر سکیں، اور آپ کو اس عظیم احسان کے عوض میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نیک اور مخلصانہ دعائیں دیتے رہیں۔

فقط

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی نمائندہ مکتبۂ ناصری

اسماعیلی مرکز گلگت۔ مورخہ ۸؍ اپریل ۱۹۷۲۔

 

۹۲

 

کراچی کی اہم میٹنگ

۱۷، ۱۸، اپریل ۱۹۷۲ء میں راولپنڈی کانفرنس ختم ہوگئی، ۲۰؍ اپریل کو میں کراچی روانہ ہوا ۔۔۔۔۔ میں کراچی میں تھا کہ یکایک وزیر امیر علی صاحب نے مجھے ایک مخصوص میٹنگ کے لئے کال کیا، یہ تاریخ ماہِ مئی کی یکم تھی، اور مقام جوبلی انشورنس کی بلڈنگ میں اسٹیٹ آفس تھا، اس میٹنگ میں ہم صرف تین اشخاص تھے: جناب وزیر امیر علی صاحب، جناب فقیر محمد صاحب ہونزائی، اور یہ بندہ (نصیر الدین) یہ میٹنگ ہماری پنڈی والی کانفرنس کے اس مقالے سے متعلق تھی، جس میں پُرزور الفاظ میں روحانی تعلیم کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ہماری دوسری میٹنگ ۱۲ ؍ مئی ۱۹۷۲ کو بمقام ِباغیچہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن میں ہوئی، اب اس میں جناب کیپٹن وزیر امیر علی صاحب کے علاوہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن کے پریذیڈنٹ جناب وزیر غلام حیدر بندہ علی صاحب بھی تھے، مگر اس میں جناب فقیر محمد صاحب ہونزائی حاضر نہ ہو سکے تھے۔

تیسری میٹنگ ۱۶؍ مئی کے لئے مقرر ہوئی، مگر بعد میں تاریخ

 

۹۳

 

تبدیل کر کے ۲۳؍مئی کو رکھی گئی، اور ۲۳ میں بھی نہ ہوسکی، بلکہ ۲۴ کو یہ میٹنگ پریذیڈنٹ کے دفتر میں منعقد ہوئی، اس دفعہ بہت کچھ گفتگو کے بعد یہ طے ہو گیا کہ نصیر الدین اسماعیلیہ ایسوسی ایشن کی جانب سے گلگت وغیرہ میں کام کریں گے، اس میٹنگ میں، یہ اشخاص تھے: جناب وزیر امیر علی صاحب، جناب وزیر غلام حیدر صاحب صدر، جناب راعی قاسم علی صاحب، جناب فقیر محمد صاحب ہونزائی، اور یہ حقیر بندہ، محترم فقیر محمد صاحب ہونزائی شروع ہی سے مشفق و مہربان رہے ہیں۔

جب مجھ سے فرمایا گیا کہ آپ ایسوسی ایشن کی طرف سے گلگت میں علمی کام کریں گے، تو میں نے قبول کیا، اور یہ تجویز بھی ہوئی کہ اب آپ وہاں برانچ قائم کریں گے، میں نے کہا: ان شاء اللہ میں یہ خدمت کروںگا، اسی کے ساتھ دل میں ایک اچھا خیال آیا کہ اب موقع ہے اپنے ساتھیوں کے لئے کوئی نیک بات کرو، چنانچہ عرض کیا کہ برانچ کا کام میں اکیلا کیسے کروں گا، وزیر امیر علی صاحب نے پوچھا: آپ کس کو ساتھ لینا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا: فداعلی ایثار صاب اور عزیز اللہ نجبیب صاحب کو نیز شاہ ولی صاحب کو انہوں نے مقدم الذکر دونوں صاحبان کے لئے فوراً منظور کیا، اور دونوں عزیز انہی دنوں میں کراچی تشریف لائے، اور ہم نے ان کو یہ خوشخبری سنائی، تو وہ شادمان ہوگئے۔

 

۹۴

 

باب پنجم

جشنِ افتتاح

 

۹۵

جشنِ افتتاح

آپ یقیناً ایک ترقی پسند اسماعیلی کی حیثیت سے یہ بشارت سن کر مسرت و شادمانی محسوس کریں گے، اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کراچی نے مورخہ ۱۰؍ جون ۱۹۷۲ سے اپنی ایک شاخ گلگت میں بھی قائم کر دی ہے، جو “اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان شاخِ گلگت” کہلاتی ہے، اور اس میں ایک خوش منظر اور شاندار لائبریری بھی قائم کی گئی ہے۔ جس کا نام “ایچ۔ آر۔ ایچ دی آغاخان اسماعیلیہ مرکزی لائبریری گلگت” رکھا گیا ہے، اس میں ہر ضروری موضوع سے متعلق گرانمایہ کتابیں سجائی جارہی ہیں۔

چنانچہ مذکورہ ایسوسی ایشن اور اس کی لائبریری کی عظیم الشّان افتتاحی تقریب مورخہ ۱۸؍ فروری ۱۹۷۳ کو اسماعیلی مرکز گلگت میں منائی گئی، جس کی صدارت عالی جناب نواب جعفر خان صاحب صدر اسماعیلیہ ریجنل کونسل گلگت نے کی، اس پُررونق اور مسرت انگیز جشن کے موقع پر علماء، فضلاء اور مقررین حضرات نے جس دلکش انداز سے وعظ و نصیحت اور علم و حکمت

 

۹۷

 

کے تابناک جواہر پارے بکھیرے، اس سے حاضرینِ مجلس بیحد مسرور محظوظ ہو کر جھوم رہے تھے۔

ان تمام منظور و منثور علمی باتوں کا قلمی احاطہ نہیں ہوسکتا، اس لئے ایک نظم بطورِ نمونہ درج کی گئی ہے جو “مرکزِ علوم” کے عنوان سے لائبریری کی تعریف و توصیف میں ہے، جو علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی نے اس پُرشکوہ اجتماع میں انتہائی جوش و خروش اور آہنگ و ترنم سے پڑھی تھی۔

 

مرکزِ علوم

(لائبریری)

قائم ہوا بفضلِ خدا مرکزِ علوم                   راہِ عمل کی شمعِ ہدا مرکزِ علوم

تھا نورِ مصطفیؐ و علیؑ مایۂ عقول            جب اس جہان میں کوئی نہ تھا مرکزِ علوم

اس نور سے جہاں ہوا علم کا ظہور           پھر رفتہ رفتہ بن کے رہا مرکزِ علوم

توضیحِ رازِ علمِ سماوی فروغِ دین             میراثِ پاک آلِ عبا مرکزِ علوم

 

۹۸

 

شاہنشہِ علوم و حکم ہے کریمؑ دہر              الحق اسی نے ہم کو دیا مرکزِ علوم

روشن ہو دہر علمِ امامت سے دن بدن                   یاں اس لئے ہوا ہے بنا مرکزِ علوم

آثارِ علم ناصرِ خسرو (قس) تلاش کر                  ہاں اس لئے ہوا ہے بپا مرکزِ علوم

ناصر (قس) کے علمِ دین سے دنیا بدل گئی           وہ تھا قرین نورِ خدا مرکزِ علوم

اس در سے آکہ حکمتِ ناصر (قس) تجھے ملے    کوئی نہیں ہے اس کے سوا مرکزِ علوم

سر چشمۂ حیاتِ دوامی ہے علمِ دین           یعنی یہی ہے آبِ بقا مرکزِ علوم

علم و ہنر سے کوئی نہیں بے نیاز اب                  مرجع برائے شاہ و گدا مرکزِ علوم

ما نا کہ مرضِ جہل ہے دنیا میں بد ترین              اس مرض کی یہی ہے دوا مرکزِ علوم

جس منزلِ مراد پہ ہے نورِ کبریا               اس راہ کا ہے راہنما مرکزِ علوم

 

۹۹

 

ہے باعثِ سعادتِ دنیا و آخرت                  اللہ کا ہے جود و عطا مرکزِ علوم

مانا کہ علم دولتِ پایندہ ہے مگر                آتا نہیں ہے علم بلا مرکزِ علوم

کرتا ہو کوئی علمِ حقیقت کی جستجو                    تو اس کو روز روز دکھا مرکزِ علوم

علم و ادب کا گنجِ گران مایہ مل گیا            اس وقت سے کہ ہم کو مرکزِ علوم

آنکھیں ہوئی ہیں خیرہ فروغِ علوم سے       جب سے ہوا ہے جلوہ نما مرکزِ علوم

قائم کیا ہے قوم نے امیدِ خیر میں               یا ربّ رہے ہمیشہ بجا مرکزِ علوم

مردِ حکیم کا ہے یہی قولِ مختصر            گنجینۂ گہر ہے سدا مرکزِ علوم

دیکھا نصیرؔ زار ہوا علم کا چراغ              زینت فزائے ارض و سما مرکزِ علوم

 

(مورخہ ۱۸؍ فروری ۱۹۷۳ء)

 

۱۰۰

 

لائبریری کی رکنیّت

بسم اللہ الرّحمٰنِ الرّحیم۔

لائبریری اسکول کی طرح ایک (علمی) ادارہ ہے جہاں زیادہ سنجیدہ قِسم کا لٹریچر متعارف کرانا چاہئے، اور اسماعیلیوں، خاص کر نوجوانوں میں سنجیدہ اسماعیلی تاریخ اور اسماعیلی فلسفے کے مطالعہ کی دلچسپی پیدا کی جائے۔

(حاضر امام کا فرمانِ مبارک ۔ کمپالا ۔ ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۵۷ء۔ )

 

گنجینۂ علم و حکمت

جس طرح اس مادّی دنیا میں لعل و گوہر اور نقرہ و زرّ کے خزانوں کے بغیر “دنیاوی اور مادّی ترقی نا ممکن ہے” اسی طرح شعوری عالم میں عقل و دانش اور علم و حکمت کے گنجینوں کے بغیر دینی اور روحانی ترقی محال ہے، اور ان دونوں باتوں

 

۱۰۱

 

میں یہ مماثلت و مشابہت بھی پائی جاتی ہے، کہ مادّی دولت کا سرمایہ یعنی لعل و زرّ وغیرہ اعلیٰ قسم کے پہاڑوں کے سینوں سے نکال کر خزانہ کر لیا جاتا ہے اور شعوری دولت کا سرمایہ یعنی علم و ادب اعلیٰ درجے کے انسانوں کے سینوں سے حاصل آکر گنجینہ بن جاتا ہے۔

عقل و دانش کے گران قدر جواہر اور علم و ادب کے بیش بہا موتیوں کا خزانہ پُرمغز کتابوں کی صورت میں موجود ہوتا ہے، اور ہمارے زمانے میں کتابوں کے اس انمول خزانے کا نام لائبریری (LIBRARY) مشہور ہے، لائبریری کے معنی کتب خانہ یا کتاب گھر ہیں، ہم اسے ذخیرۂ کتب یا گنجینۂ کتب بھی کہہ سکتے ہیں۔

الحمد للہ علیٰ احسانہٖ، کہ گلگت اسماعیلی مرکز کی نیک نام جماعت کی گرانقدر مالی قربانیوں اور اس کے ہوشمند کارکنوں کے حسنِ عمل کے نتیجے پر آج ہمارے سامنے نہ صرف “ایچ ۔ آر۔ ایچ دی آغا خان، اسماعیلیہ سنٹرل لائبریری۔” کی ایک خوبصورت اور دلکش عمارت موجود ہے، بلکہ اس میں دنیائے علم و ادب کی بلند پایہ اور مفید ترین کتابوں کا ایک ذخیرہ بھی مہیا ہونے لگا ہے، اور اس سلسلے میں سب سے بڑی خوشی کی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ سال اس لائبریری کی ترقی اور کامیابی کی غرض سے مولانا حاضر امام صلوات اللہ علیہ کے حضورِ اقدس میں جو ایک حقیر

 

۱۰۲

 

سی مہمانی مرسول ہوئی تھی، اس کے جواب میں مولائے پاک کے حضورِ پُرنور سے دعائے فیوض و برکات کا مبارک و مقدّس رقیمہ عنایت ہوا ہے، جو کہ یہاں کی نامدار مقامی کونسل کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔

 

لائبریری کی اہمیّت و افادیّت:

جاننا چاہئے کہ دنیائے علم و حکمت کے نامور علماء و حکماء نے اپنی گران مایہ عمر کے عوض میں جو کچھ حاصل کر لیا تھا، وہ سب بصورتِ کتب لائبریری سے دستیاب ہو سکتا ہے، لہٰذا ایک مکمل اور وسیع پیمانے کی لائبریری نہ صرف عصرِ حاضر میں علم و حکمت کے خزانے کا درجہ رکھتی ہے، بلکہ یہ زمانۂ قدیم میں بھی علم و ادب کا چشمۂ زائندہ رہی ہے، بنا برین لائبریری ایک ایسی بے پایان وسیع و عریض معلوماتی دنیا ہے، کہ جس کی وسعتوں میں یہ جسمانی کائناتِ شش جہات ذرّۂ بے مقدار کی طرح گم گشتہ اور غائب ہے، پس معلوم ہوا، کہ لائبریری کی اس علمی دنیا کی روشنی میں بارہا آنکھ کھولے بغیر کوئی عام انسان مقامِ علم پر نہ کچھ دیکھ سکتا ہے اور نہ کچھ دکھا سکتا ہے، چنانچہ ایک عام طالبِ علم سے لیکر ایک خاص ریسرچ سکالر تک جتنے بھی علمی درجات ہیں وہ سب کے سب لازماً لائبریری کے محتاج ہوتے

 

۱۰۳

 

ہیں، اور اس کے سوا ان کا کوئی علمی اور تحقیقی کام پایۂ تکمیل پر نہیں پہنچ سکتا۔

 

لائبریری کی خدمات میں حصّہ:

جب لائبریری کی اہمیّت و افادیت سے آپ خوب واقف و آگاہ ہو گئے، تو ظاہر ہے کہ آپ کے دل میں لائبریری کی خدمات میں حصّہ لینے کا ذوق و شوق موجزن ہوا ہوگا، اگر واقعاً ایسا ہی ہے، تو آئیے! ہم آپ کو اس مقدّس خدمت کا ایک منظم طریقِ کار پیش کرتے ہیں، تاکہ اس سے آپ اپنی مالی حیثیت کے مطابق خوشی اور آسانی سے جماعت کی ایک ہمہ رس علمی خدمت میں شرکت کر سکیں، وہ طریقِ کار حسبِ ذیل ہے: ۔

ا۔        سرپرست                          اعلیٰ کا عطیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۰۰۰

۲۔       سرپرست                          درجۂ اول کا عطیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۵۰۰

۳۔       سرپرست                          درجۂ دوم کا عطیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۴۰۰

۴۔       سرپرست                          درجۂ سوم کا عطیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۳۰۰

۵۔       لائف ممبر                         درجۂ اوّل کا عطیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۵۰

۶۔       لائف ممبر                         درجۂ دوم کا عطیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۵۰

۷۔       لائف ممبر                         درجۂ سوم کا عطیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۰۰

 

۱۰۴

 

اس علمی خدمت کے فوائد:

ویسے تو اس علمی خدمت کے بے شمار فائدے اور لاتعداد ثمر ہیں، جو دنیا میں بھی اور عقبیٰ میں بھی حاصل ہونے والے ہیں، لیکن ان کے باتفصیل بیان کے لئے یہاں گنجائش نہیں ہوسکتی، اس لئے ان فوائد کی ایک چھوٹی سی ظاہری مثال پر اکتفاء کیا جاتا ہے، کہ مالی قربانی پیش کر کے مذکورہ بالا درجات حاصل کرنے والے حضرات کے اسمائے گرامی اوّل تو لائبریری کے اندر خاص قسم کے تختوں پر درجہ وار لکھے جائیں گے، اس کے بعد کسی خاص موقع پر لائبریری کی طرف سے شائع ہونے والے کسی کتابچے یا رسالے میں بھی یہ اسماء مرقوم ہوں گے، علاوہ بران لائبریری کی خاص خاص تقریبات میں شرکت کے لئے ان معزز حضرات کو دعوت بھی دی جائے گی، نیز اگر یہ امر ممکن ہوا، تو حصولِ دعائے فیوض و برکات کی غرض سے ان صاحبان کے اسمائے گرامی کی فہرست کسی مناسب ذریعے سے مولانا حاضر امام علیہ السّلام (روحی فدا) کے حضورِ اقدس میں بھی پیش کی جائے گی۔

ان تمام ظاہری خطابات و اعزازت کا مقصدِ اعلیٰ یہ ہے کہ مذہبی اور جماعتی خدمات کی باقاعدگی سے حوصلہ افزائی اور نیک کاموں کی تشویق و ترغیب ہو جائے۔

 

۱۰۵

 

درجات کا داخلہ:

مذکورہ بالا درجات کا داخلہ مورخہ ۱۸؍ فروری ۱۹۷۳ ء سے شروع ہوا ہے جب کہ “اسماعیلیہ ایسوسی برائے پاکستان، شاخ گلگت” اور اس کی مذکورہ لائبریری کی افتتاحی تقریب منائی جارہی تھی، اور اب یہ داخلہ جاری ہے۔

اس کارِ خیر میں کوئی بھی اسماعیلی فرد یا کوئی بھی اسماعیلی جماعت یا ادارہ کسی علاقائی استثناء کے بغیر حصّہ لے سکتا ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مرد و زن، صغیر و کبیر، برنا و پیر، گذشتہ و زندہ اور فرد و ادارہ سب کے سب ابدی نجات و ثواب کے محتاج ہیں، لہٰذا جس کے حق میں اس دور رس علمی کام کا ثواب مطلوب ہو، اس کا نام اس سلسلے میں لکھایا جاسکتا ہے۔

مقررہ رقومات کی بجائے کارآمد اور مفید کتابیں بھی لائبریری میں لی جاسکتی ہیں، اور فرنیچر وغیرہ بھی۔

اس کارِ خیر میں آپ کی شمولیت و شرکت کا متمنی اور دعا گو

 

علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

انچارج: اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان، برانچ گلگت۔

۱۸؍ فروری ۱۹۷۳ء

 

۱۰۶

 

دعوت نامۂ رکنیّت

از دفتر

اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان

شاخ گلگت

مورخہ۔۔۔۔۔۔۔

جناب محترم امین الدین صاحب!

یا علی مدد! ہم “اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان، شاخِ گلگت” اور اس سے ملحق “ایچ ۔ آر۔ ایچ پرنس آغا خان اسماعیلیہ سنٹرل لائبری” کی جانب سے آپ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ آپ نے امام حیّ و حاضر کی دین پرور اور علم گستر ہدایات کے مطابق مبلغ ڈھائی سو (۲۵۰) روپوں کی عظیم مالی قربانی پیش کر کے مذکورہ لائبریری کے لائف ممبر بننے کا بلند درجہ حاصل کر لیا ہے، دعا ہے کہ پروردگار عالم آپ کو دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی عنایت فرمائے! آمین یا رب العالمین!!

آپ کو اس امرِ واقع میں کوئی شک و شبہ نہ ہو کہ آپ کی یہ عظیم مالی قربانی ایک تاریخ ساز کارنامہ سے متعلق ہے، کیونکہ اس قسم کے عطیات کی فراہمی سے اسماعیلیہ ایسوسی ایشن اور اس کی لائبریری کے ایک مضبوط اور ہمہ رس علمی مرکز کی حیثیت

 

۱۰۷

 

سے قائم ہونے میں بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے، لہٰذا ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ نیک عمل کی تشویق و ترغیب اور احسان شناسی و قدردانی کی غرض سے آپ کا اسمِ گرامی نہ صرف لائبریری کے بورڈ پر مرقوم ہوگا، بلکہ ہر اُس اہم کتابچہ، نمبر وغیرہ میں بھی ثبت ہوگا جو وقتاً فوقتاً لائبریری کی طرف سے شائع ہونیوالا ہے تاکہ آپ جیسے جماعت کے محسن اور خیر خواہوں کا نامِ نامی ہمیشہ کے لئے زندہ رہے اور آنے والی نسلوں کو آپ کے اس کارنامے سے قومی خدمت کا سبق حاصل ہو۔ لہٰذا آپ کو، آپ کے جملہ خاندان کو اور پوری جماعت کو ایسی علمی و جماعتی خدمات اور کارناموں پر فخر ہونا چاہئے۔

چونکہ مورخہ ۱۸؍ فروری ۱۹۷۳ء کو بروز اتوار بوقت ایک بجے (دوپہر) اسماعیلیہ ایسوسی ایشن ہٰذا اور اس کی لائبریری کی افتتاحی تقریب منائی جارہی ہے، اس لئے آپ سے گذارش ہے کہ مقررہ وقت پر تشریف لا کر اس دینی اور علمی جشن کو کامیاب بنانے میں معاونت فرمائیں شکریہ!

فقط آپ کی علمی خادم

علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

انچارج: اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان، برانچ گلگت۔

 

۱۰۸

 

دو ماہ کورس

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان، گلگت ایریا کمیٹی

تصدیق کی جاتی ہے کہ مسمی  ___________ولد ____________ ساکن موضع _____________ تحصیل ____________ ضلع______________  نے میری نگرانی میں آر۔ جی ۔ سی کا مختصر مگر جامع دوماہ کورس منعقدہ بمقام شاہ کریم الحسینی ہاسٹل کونو داس گلگت از یکم ماہ جولائی تا غایت ماہِ اگست ۱۹۷۵ء مکمل کر لیا، جس میں، میں نے اور گلگت اسماعیلی مرکز کے سینیئر واعظین نے لیکچرز اور تحریری درس کی صورت میں مندرجہ ذیل ۳۸۰ موضوعات کی تعلیم دی ہے:

قرآنی حکمت کے ۶۲ مضامین۔ احادیثِ شریف کے ۵۲۔ کلامِ مولا یعنی مولانا مرتضیٰ علی علیہ السلام کے مبارک اقوال کے ۲۰۔ فقہی مسائل کے ۱۵۔ اسماعیلی تواریخ کے ۱۴۔ اسماعیلی دعا کے ۱۲ ۔ بچوں کی دینی تربیت کے ۱۰۔ حسنِ قرأت کے ۱۰۔ ضروری ضروری جنرل مضامین ۱۷۵۔ کل مضامین ۳۸۰ تھے۔

حامل سند ہٰذا اس کورس کی تکمیل کے امتحان میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کامیاب ہوا ہے۔

 

علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

آفیسر انچارج  ٹیچنگ اینڈ پریچنگ ڈیپارٹمنٹ

 

۱۰۹

 

بابِ ششم

مذہبی رسومات کی بیمثال خدمت

 

۱۱۱

 

ایک اجتماعی خدمت جو بیمثال ہے

حضرتِ حکیم پیر ناصر خسرو  قَدَّسَ اللّٰہُ سِرَّہ نے بحکمِ امامِ برحق علیہ السّلام جس پُرحکمت نہج پر اسماعیلی دعوت کا آغاز کیا، اور جس شان سے علم و حکمت سے مملو کتابیں تصنیف کی گئیں، اور جیسے آپ کے باکرامت شاگرد یعنی پیر، داعی، معلم وغیرہ پیدا ہوئے، ان تمام وسائل و ذرائع کی برکت سے اسماعیلی دعوت کا دائرہ بڑا وسیع ہوگیا، اور شروع سے لے کر آج تک تقریباً ایک ہزار سال کے اس عظیم دور میں کروڑوں نفوسِ انسانی اس مبارک راستے پر چل کر عرفانِ حق کے مختلف مراتب پر فائز ہوگئے۔

آپ جانتے ہیں کہ اگرچہ بنیادی اہمیّت دعوت اور قبولیت کی ہے، تاہم یہ کام محدود وقت میں مکمل ہو جاتا ہے، جبکہ اس مقدّس دعوت (یعنی مذہب) کی حفاظت اور خدمت ہمیشہ کے لئے ضروری ہے، چنانچہ ہمارے پاک عقائد کی حفاظت اور چھوٹی بڑی خدمات کی ذمہداری خلیفوں نے قبول کرلی، اور یہ خلفاء حضرات ہمارے عظیم پیروں کے جانشین اور نمائندے تھے اور ہیں، اگرچہ اہلِ تصوّف کے وہاں خلیفہ ایسے شخص کا نام ہوتا ہے، جو کسی مرشد کا براہِ راست جانشین ہوتا ہے، لیکن ہمارے یہاں خلیفہ (جانشین)  کی اصطلاح

 

۱۱۳

 

پیر بزرگوار کی نسبت سے مقرر ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ جہاں سے جہاں تک پیر ناصر کی دعوت کی دنیا ہے اس میں یقیناً خلیفوں کی اجتماعی خدمات بے مثال ہیں، ہمیں عدل و انصاف سے سوچنا اور دیکھنا چاہئے کہ ہماری مذہبی رسومات اس کثرت سے ہیں کہ خلیفہ صاحب کو ہمہ وقت ان میں مصروف رہنا پڑتا ہے، خوشی اور غمی کی کوئی ایسی رسم نہیں، جس میں خلیفہ کی ضرورت نہ ہو، ایک طرف فرائض و مسائل کا بارِ گران اور دوسری جانب کم علمی کا دکھ، ضروری کتابوں کا فقدان، استادِ کامل کی عدم موجودگی، مدارس فلک بوس پہاڑوں کے پیچھے اور تلاشِ علم کی تمام تر راہوں میں طرح طرح کی رکاوٹیں، اور شدید مشکلات کا احساس صرف خلیفہ صاحب کو ہوتا رہتا تھا۔

ہم اپنی معلومات کی آسانی کی خاطر ہونزہ کی مثال پیش کرتے ہیں کہ شروع شروع میں جب یہاں اسلام نہ تھا تو علم بھی نہ تھا، جس وقت بلتستان سے اسلام کی روشنی یہاں آئی تو اسی کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم بھی آنے لگی، جب پیرانِ بدخشان کے توسط سے ہونزہ میں اسماعیلیّت مقبول ہونے لگی تو اسی وقت سے اسماعیلی علم کی طرف توجہ دی جانے لگی، کچھ علم یا یاغستان، گلگت، اور نگر سے بھی حاصل کیا گیا، تاہم ان تمام کوششوں کے باوجود کوئی پائدار مدرسہ یا علمی مرکز قائم نہ ہوسکا، اور جو حضرات کسی حد تک کامیاب ہوئے تھے، ان کی کوئی پُراز معلومات اور مفید تحریر آج قوم کے ہاتھ میں نہیں ہے،

 

۱۱۴

 

مگر جماعت میں صرف ایک ہی مقدّس چیز ایسی ہے، جو شروع سے اب تک برابر جاری و ساری ہے، اور وہ خلیفوں کی اجتماعی خدمت ہے۔

کسی عالمِ بے عمل کے ذخیرۂ علمی سے خلیفۂ باعمل کا قلیل علم بدرجہا بہتر ہے، کیونکہ وہ شب و روز جماعتِ باسعادت کی ہرگونہ خدمات انجام دیتا ہے، اور خدمات بھی ایسی جو بیحد ضروری ہیں، جب کوئی نیک بخت خلیفہ  مقدّس رسومات کی ادائیگی میں جماعت کے لئے دلکشی پیدا کرتا ہے، تو اس کے نتیجے میں مومنین و مومنات کے قلوب میں رقت و نرمی کے بعد مولائے پاک کا دریائے محبت موجزن ہونے لگتا ہے، اور یہ بہت بڑی سعادت ہے، کیونکہ اہلِ بیت علیہم السّلام کی محبت خدا کی محبت ہے، جس میں دین کے سارے اوصاف و کمالات خود بخود جمع ہو جاتے ہیں۔

جس زمانے میں مریضوں کے علاج کے لئے کوئی ڈاکٹر یا طبیب نہیں ملتا تھا، اس وقت خلیفہ کبھی دم دعا کرتا، کبھی قرآنِ پاک میں سے کچھ پڑھتا، کبھی تعویذ گنڈے سے تسلی دیتا، اور کبھی طشتِ آب پلا دیتا، غرض یہ بھی جماعت کی ایک اہم خدمت تھی۔

سب سے مشکل ترین خدمات موت کی رسومات کی ادائیگی میں ہیں، چنانچہ اس حلقۂ دعوت کی رسم شروع ہی سے یہی چلی آئی ہے کہ جب کسی بیمار میں مرجانے کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں، اس

 

۱۱۵

 

وقت فوراً کوئی آدمی جاکر خلیفہ صاحب کو اطلاع دیتا ہے، جگہ دور ہو یا نزدیک، وقت دن کا ہو یا رات کا، ہر حالت میں خلیفہ وفات پانے والے کے پاس جاتا ہے، اور نزع (جان کندنی) سے متعلق جو اسلامی آداب ہیں، ان کو بلا کم و کاست بجا لاتا ہے، متوفی کے متعلقین کو ہر بار صبر اور شکر کی نصیحت کرتا ہے، غسلِ میت کی نگرانی اور کفن دوزی بھی اسی کی ذمہ ہے، وقفہ وقفہ سے قرآن خوانی، دعا، اور سورۂ فاتحہ کا سلسلہ تو روزِ ہفتم تک جاری رہتا ہے، خلیفہ صاحب خواہ کہن سال کیوں نہ ہو وہ جنازے کے پیچھے پیچھے پیدل چلتا جاتا ہے، وہ اور اس کے ساتھی بہ آوازِ بلند محمدؐ و آلِ محمد پر درودِ شریف پڑھتے جاتے ہیں، تا آنکہ تنہا قبر یا قبرستان آتی ہے، نمازِ جنازہ وہاں یا اس سے پہلے کسی مناسب مقام پر پڑھی جاتی ہے، اکثر دفعہ جناب خلیفہ خود ہی میت کو قبر میں اتار دیتا ہے، پھر قبر کو حسبِ معمول ڈھانپ دینے کے بعد قرآن خوانی اور دعائے مغفرت کی جاتی ہے، پھر خصوصی تسبیح پڑھنے کے لئے جماعت خانہ جانا ضروری ہے، بعد ازان خلیفہ بلا تاخیر اسی گھر کی طرف جاتا ہے جہاں موت واقع ہوئی ہے۔

اس گھر کے افراد اور آئے ہوئے رشتہ دار محترم خلیفہ کے انتظار میں ہوتے ہیں، خلیفہ آکر مخصوص سورۂ کی تلاوت کرتا ہے،

 

۱۱۶

 

بعض خلفاء روزِ ہفتم تک قرآنِ پاک کو شروع سے لیکر آخر تک پڑھ لیتے ہیں، جبکہ بعض کچھ حصّے کو پڑھتے ہیں، اور ایسے گھر میں صبح سے لیکر شام تک خلیفہ کی حاضری ضروری ہے تاکہ ہر بار آئے ہوئے لوگوں کی طرف سے ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کرتا رہے، اور یہ سلسلہ ساتویں دن تک جاری رہتا ہے۔

روزِ سوم متوفی کی قبر کی لپائی (کہگل ) کا کام ہوتا ہے، اور گھر میں رسمِ “چراغِ روشن” کے لئے تیاری ہوتی ہے، جس میں چند دعائیں پڑھی جاتی ہیں، شام کو جماعت خانہ سے فارغ ہو جانے کے بعد چراغِ روشن کا مقدّس عمل شروع ہو جاتا ہے، اہلِ دانش کی نظر میں یہ روایت باکرامت اور پُرحکمت ہے، اور حکیم پیر ناصر خسرو (قس) کے حلقۂ دعوت میں یہ ایک بڑی پُرکشش رسم ہے، کیونکہ اس میں ظاہری و باطنی بہت سی خوبیاں جمع ہیں، پس ان تمام مومنین و مومنات کی بہت بڑی نیک بختی ہے، جو دینی رسومات کو زبردست اہمیت دیتے ہیں اور ان کی حکمتوں کو سمجھتے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک ہی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے پاکیزہ قول و فعل میں قرآن حکیم کی ٹھوس عملی تفسیر و تاویل موجود ہے، یہاں یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ تفسیر مثل ہوتی ہے اور تاویل ممثول، چنانچہ رسولِ اکرمؐ نے بحکمِ خدا “چراغِ روشن”

 

۱۱۷

 

اہلِ حقیقت کے لئے رائج کر دیا، جس کی تفسیر و تاویل میں تمام آیاتِ نور کی واضح نمائندگی ہے، کیونکہ قرآنِ پاک میں نورِ مطلق کی تشبیہ و تمثیل گھر کے چراغ سے دی گئی ہے (۲۴: ۳۵) اور وہ خدائی نور یقیناً اللہ کے مظہر میں ہے، جس کا سب سے روشن ثبوت نورٌعلیٰ نور ہے، یعنی ایک مظہر کے بعد دوسرا مظہر (ایک امام کے بعد دوسرا امام) پس چراغِ روشن سب سے روشن ترین آیت کی عملی تاویل ہے، اور وہ آیۂ مصباح (اللہُ نُور السمٰوٰتِ … ۲۴: ۳۵) ہے، لہٰذا اس بابرکت رسم میں پاک دین کے مرکزی خزانے کی تاویلی کلید رکھی ہوئی ہے۔

الغرض خلیفہ صاحبان دعوتِ بقاء  اور دعوتِ فناء میں تقدّس و احترام کے ساتھ چراغنامہ (کتاب) پڑھتے ہیں، اور چراغِ روشن کے پاکیزہ عمل کو اس کے تمام اجزاء و آداب کے ساتھ انجام دیتے ہیں، جس میں باسعادت اور راسخ العقیدت مومنین و مومنات کے لئے بے شمار باطنی اور روحانی فائدے ہیں۔

جماعت کا عقیدۂ راسخ گویا ایک ثمردار درخت ہے، جس کی جڑیں مذہبی رسومات میں مضبوط ہوچکی ہیں، اس لئے ان مقدّس رسومات و روایات کی حفاظت و نگہداشت بیحد ضروری ہے، پس حکمت و دانائی اسی میں ہے کہ آپ نہ تو رسومات میں بےجا اضافے کریں اور نہ ہی کسی اہم رسم کو ختم کریں۔

 

۱۱۸

 

ہر چند کہ دین کا مقصدِ اعلیٰ علم و معرفت ہی ہے، لیکن جب تک عقیدۂ راسخ نہ ہو تو یہ عظیم مقصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتا، آپ قرآنِ پاک میں غور سے دیکھیں کہ بعض عام اور معمولی چیزیں اللہ تعالیٰ کے منشاء اور حکم سے خاص اور قابلِ حرمت قرار پاتی ہیں، اس کی مثال قربانی کے اونٹوں اور گائیوں سے لی جاسکتی ہے، سورۂ حج (۲۲: ۳۶) میں دیکھیں، پھر بُدْن کی تحقیق کریں تو اس میں قربانی کے اونٹوں اور گائیوں کا ذکر ہے، جو شعائر اللہ یعنی خدا کی نشانیوں میں سے ہیں، پس عقل و دانش اسی میں ہے، کہ ہم تمام اسماعیلیوں کی مذہبی رسومات کو عقائد کی بنیاد قرار دیتے ہوئے قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔

آج ہمارے سامنے مذہبی رسومات کی زبردست اہمیّت و افادیت سے متعلق تاجکستان کی ایک روشن مثال موجود ہے کہ اگرکمیونسٹ دور میں وہاں کوئی عظیم پیر یا کوئی بڑا عالم موجود ہوتا اور وہ اعلیٰ سطح پر دین کا کام کرنے کی کوشش کرتا تو وہ نہ کامیاب ہوسکتا اور نہ وہاں ٹھہر سکتا، لیکن خلیفوں کے بارے میں کسی غیر کو گمان تک نہ ہو سکا کہ مذہب کی جڑوں کو یہی لوگ مضبوط کر رہے ہیں، دف، رباب، قصیدہ خوانی، اور دیگر مذہبی رسومات کو کلچر (ثقافت) سمجھا ہوگا، حالانکہ یہی چیزیں مذہب کی جان ہوا کرتی ہیں، کیونکہ اسی کی بدولت روس اور چین جیسے کمیونسٹ ملکوں میں بھی اسماعیلی مذہب زندہ اور عقیدۂ امامت سے وابستہ ہے، الحمد للہ۔

 

۱۱۹

 

معروف اخوند رستم علی

یہ ایک روشن حقیقت ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ملک و ملت کا دفاع کبھی شمشیر سے کیا جاتا ہے، کبھی قلم سے، اورکبھی دونوں طاقتوں سے، قدیم ہونزہ میں خاندانِ محسن علی (محسناٹنگ) کا کردار دونوں میدان میں قابلِ تعریف رہا ہے، چنانچہ دولت علی ابنِ محسن میدانِ شمشیر کا بڑا بہادر تھا، اور آخوند رستم علی میدانِ قلم میں منفرد، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان کی انمول تحریریں نہیں ملتیں۔

اس خاندانِ محترم کا شجرۂ نسب یہ ہے: بجل خان۔۔ رستم خان۔۔ ممو۔۔ مغل خان۔۔ دودو ۔۔۔ محسن ۔۔۔ دولت۔۔ رستم علی ۔۔۔ علی گوہر، جس کے تین بیٹے تھے: سگِ علی، علی جوہر، اور گوہر حیات، میں ان تینوں بزرگوں کو اچھی طرح سے جانتا ہوں، میں فی الوقت ارباب و خلیفہ سگِ علی کے فرزندانِ ارجمند کا مختصر تذکرہ کرنا چاہتا ہوں، سب سے پہلے ان کے فرزندِ اکبر فتح علی خان (مرحوم و مغفور) کی بات ہو، جو عظیم اور نامور تھے، آپ میرے حق میں سچ مچ علی کی فتح ثابت ہوگئے، اور مجھے اس فتح و فیروزی سے جو کچھ حاصل ہوا، اس کا

 

۱۲۰

 

بیان احاطۂ تحریر سے باہر اور بالاتر ہے، انہی روحانی معجزات کی وجہ سے نہ صرف محسناٹک اور مسگار سے محبت ہونے لگی، بلکہ علاقۂ گوجال بھی بہت ہی عزیز ہوگیا۔

منشی غلام محمد خان (مرحوم) کے ساتھ میری برادری اور دوستی بہت ہی مضبوط ہوگئی تھی، اور اب بھی ان شاء اللہ وہی محبت اس خاندان کے ہر فرد سے ہے، کیونکہ ان عزیزوں میں چینی ترکستان، بدخشان، گوجال وغیرہ کے پُرکشش آداب پائے جاتے ہیں، اگر میں یہاں موصوف منشی کے بڑے صاحبزادے کا نام نہ لوں تو ناشکری ہوگی، عزیزم میراحمد خان کی بات ہے، آپ ہر لحاظ سے میری روح کے پیارے ہیں۔

برادر برابر بجانم قربان علی خان کو میں اپنا ایک دانشمند مشیر سمجھتا ہوں، انہوں نے کبھی مجھے کسی اہم کام میں اکیلا نہیں چھوڑا، ہر بار میرے دکھوں میں ان کو دکھ ہوا، میری ہر کامیابی سے وہ شادمان ہوگئے، خدا کا شکر ہے کہ آپ پورے علاقے کی معزز شخصیّت ہیں، اور گورنمنٹ کے معتمد بھی۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ھونزائی

کراچی

جمعرات، ۳؍ صفر المظفر ۱۴۱۵ ھ   ۔ ۱۴؍ جولائی ۱۹۹۴ء

 

۱۲۱

 

شجرۂ نسب پسرانِ خلیفہ طیہان شاہ ساکنِ موضعِ حیدر آباد۔ ہونزہ

قدیم قبیلہ بروݣ ھرݳݷ جو بعد میں جدِ اعلیٰ صفر کے نام سے منسوب ہو کر صفر ھرݳݷ کہلایا، ھرݳݷ قدیم بروشسکی میں خاندان کو کہتے ہیں، چنانچہ صفر / سفر ۔۔ خوجہ گل ۔۔ خواجہ ۔۔ بہرام شاہ۔ ۔ خواجہ شاہ رؤف ۔۔ خوجہ بہرام شاہ ثانی ( جس کے دو بیٹے تھے: فقراء شاہ، خود راہ شاہ )۔۔ خودراہ شاہ ۔۔ محمد شاہ اوّل۔۔ محمد طلاء ۔۔ محمد بدیل (جس کے دو بیٹے تھے: محمد شاہِ ثانی، مولا شاہ، یہ گوجال چلا گیا ) ۔۔ محمد شاہِ ثانی ۔۔ علی بیگ ۔۔ محمد شاہ سوم۔۔ خلیفہ محمد عطاء اللہ المعروف خلیفہ طیو۔۔ خلیفہ طیہان شاہ، ان کو خداوندِ قدّوس نے پانچ بیٹے دیئے: خلیفہ /موکھی/ ماسٹر جان محمد (مرحوم) جنہوں نے اپنی ساری زندگی پیاری جماعت اور پیارے مولا کی مقدّس خدمت میں صرف کر دی، سید جان جو بڑے دیندار شخص ہیں، خلیفہ / موکھی / ابوذر غفاری (المعروف شمیم الدین) صفِ اوّل کے خلیفہ، عابد، درویش، عالم اور پاک مولا کے عاشق ہیں، آپ الواعظ بھی رہے ہیں۔

 

۱۲۲

 

خلیفہ طیہان شاہ (مرحوم) کا چوتھا فرزندِ ارجمند ریٹائرڈ صوبیدار علی داد خان ہیں، کتابِ گلہائے بہشت کے صفحہ ۲۷ پر بعنوانِ “ایک پیارا تعارف” آپ کا ذکرِ جمیل موجود ہے، میرے نزدیک وہ بہت ہی عمدہ اور شایان شان تذکرہ ہے، ایسا لگتا ہے کہ عزیزم صوبیدار علی داد میری باطنی ہستی کا ایک حصّہ ہو چکے ہیں، تاکہ بڑے شوق سے علم کا کام کریں۔

خلیفہ موصوف کے فرزندِ پنجم عزیزم بلبل جان ہیں، ان کی قومی اور جماعتی خدمات کا قصّہ خاصہ طویل ہے، ممکن ہے کہ وہ کسی اور موقع پر شائع ہو جائے، میرے بہت ہی عزیز جسمانی و روحانی بھائی بلبل جان بہت پہلے ہی سے میرے ساتھ علمی خدمت میں شریک رہے ہیں، میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ اس سلسلے کی تمام باتیں حصّۂ تاریخ کے طور پر لکھ کر رکھیں، بلبل جان سچ مچ میری جان ہیں، روحانی علم عجیب سچائی کی نعمت ہےکہ میں نے بلبل جان کو اپنی جان کہا، یہ حقیقت ہے، کیونکہ جو جس کو چاہتا ہے وہ اس کی روح میں آجاتا ہے، جبکہ ایک میں سب کےلئے گنجائش ہو تی ہے، اگرچہ ہوتے تو سب ہیں، لیکن توجہ اور چاہت کی بات ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

۸؍ جولائی ۱۹۹۴ ء

 

۱۲۳

 

خلیفہ عافیت شاہ اور ان کے بیٹے

میرے محترم چچا خلیفہ عافیت شاہ ابنِ خلیفہ محمد رفیع ابنِ ترنگفہ فولاد بیگ بڑے نیک، متقی، اور درویش صفت انسان تھے، وہ قرآن حکیم، دین، ایمان، اور امامِ عالیمقام کے شیدائیوں میں سے تھے، ان کو کتاب اور علم سے شدید محبت تھی، آپ جہاں بھی ہوتے وہاں علم یا نصیحت کی کوئی بات کرتے، آپ بار بار آغا عبدالصمد شاہ صاحب کی نصائح کا حوالہ دیا کرتے ۔

خلیفہ عافیت شاہ کو خداوند تعالیٰ نے چھ نیک بیٹے عطا کر دیئے، بہت بڑی سعادت ہے کہ وہ سب بااخلاق اور ایمانی ہیں، ان کی سب سے بڑی خوشی علم و عبادت میں ہے، وہ شروع ہی سے نہ صرف خانۂ حکمت میں شامل رہے ہیں، بلکہ سرگرم ارکان کی حیثیت سے کام بھی کر رہے ہیں، ہم ان کے احسان مند اور شکرگزار ہیں۔

۱: برادرم تولد شاہ اُن جفاکش ہونزوکڎ میں سے ہیں، جہنوں نے بڑے مشکل زمانے میں پرائمیری پاس کرلی، اور مرتضیٰ آباد ڈی۔جے سکول میں اس وقت ماسڑمقرر ہوئے جب کہ تقریباً پندرہ روپے کی تنخواہ ملا کرتی تھی، ساتھ ہی

 

۱۲۴

 

ساتھ خلیفہ کے فرائض بھی انجام دیتے تھے، پھر جماعت کے موکھی بھی ہوگئے، اسی طرح ان کی زندگی کا بیشتر حصّہ جماعتی خدمت میں صرف ہوگیا۔

۲۔ نائب شاہ نورِ امامت کے عاشق اور جماعت خانہ کے شیدائی ہیں، ذکر کا ان پر زبردست اثر ہوتا ہے، منقبت بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔

سید علی (مرحوم) کی بہت بڑی نیک بختی تھی کہ انہوں نے چند سال تک مرکزی جماعت خانہ گلگت کی مقدّس مجاوری کی، ہر ایسی خدمت جس میں بندۂ مومن کو مظاہرۂ عاجزی کا زرین موقع مل جائے حقیقی خدمت ہے۔

۴۔ برادرِ عزیزم نیاز علی بہت ایماندار اور پرہیز گار شخص ہیں، آپ نے اپنی جماعت میں ایک عرصے تک بحیثیتِ موکھی کا م کیا، اور بطورِ خلیفہ اب بھی کام کر رہے ہیں، خلیفہ نیاز علی کے لئے سب سے بڑی شادمانی ذکرو عبادت اور علم و حکمت میں ہے۔

۵: سابق کامڑیا فدا علی بھی اسی ایمانی خاندان کا ایک فرد ہیں، ان کی روحانی خوشی جماعت خانہ کی حاضری میں ہے، آپ دینی کتابوں سے بہت شادمان ہو جاتے ہیں، حقیقی علم کے قدردان اور شکر گزار ہیں، اور

 

۱۲۵

 

انہی چند کلمات میں جملہ خوبیان آجاتی ہیں۔

۶: ریٹائرڈ صوبیدار یوسف علی خانۂ حکمت برانچ گلگت کے نائب صدر رہ چکے ہیں، الحمد للہ، اس خاندان کے تمام افراد صفِ اوّل کے مومنین میں سے ہیں، دیندار، مولائے پا ک کی محبت، علم دوستی، فرض شناسی، فرمان برداری اور دیگر بہت سے انسانی اور ایمانی اوصاف سے آراستہ ہیں۔

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

اتوار، ۲۹  محرم الحرام  ۱۴۱۵ ھ   ۔ ۱۰؍ جولائی ۱۹۹۴ء

 

۱۲۶

 

خلیفہ فرمان علی

عزیزم خلیفہ فرمان علی مقامی الواعظ برائے سکردو جماعت خانہ کا شجرۂ نسب اس طرح ہے:

فرمان علی بن خلیفہ ذوالنون بن خلیفہ رحمت (المعروف ملنگ جان) بن طیغون شاہ۔

فرمان علی صاحب ابتداًء شیر قلعہ پونیال میں خلیفہ اور موکھی کے مقدّس فرائض انجام دیتے تھے، اور ساتھ ہی ساتھ ڈی۔ جے گرلز سکول کی تعلیمی خدمت بھی ان کے سپرد تھی، خوش بختی سے فروری ۱۹۷۵ء میں سکردو جماعت کے لئے خلیفہ اور مقامی الواعظ مقرر ہوگئے، اور مکتب دینیہ میں گائیڈ کی خدمات بھی انجام دیتے رہے، نیز نامدار لوکل کونسل برائے سکردو کا ممبر بھی ہوگئے، مزید برآن ہیلتھ بورڈ اور ثالثی و مصالحتی بورڈ کے رکن کی حیثیت سے بھی کام کر رہے ہیں۔

میں نے مختلف ممالک اور بہت سے مقامات میں لوگوں پر ذکر جلی یا مناجات کے عجائب و غرائب گزرتے ہوئے دیکھا ہے، اگر ان تمام معجزہ جیسے واقعات کو

 

۱۲۷

 

قلمبند کر لیا جائے تو یہ بڑا طویل قصّہ ہوگا، آئیے نہ دور جاتے ہیں اور نہ طوالت کو لیتے ہیں، صرف فرمان علی یا محبت شاہ سے پوچھتے ہیں کہ آج سے بہت پہلے قربان علی خان صاحب کے گھر میں جو روحانی مجلس ہوئی تھی، اس میں ان پر رباب اور عاشقانہ مناجات کا اتنا زبردست اثر کیوں ہوا؟ وہ عشقِ مولا کی شرابِ طہور سے ایسے مست و مدہوش ہوگئے کہ اسکی کوئی مثال نہیں ملتی، میں سمجھتا ہوں کہ یہ دورِ روحانیّت کا ایک معجزہ تھا، جس میں پونیال کی پیاری جماعت بصورتِ فرمان علی و محبت شاہ ہمارے سامنے وجد میں آگئی تھی، الحمد للہ ربِ العالمین۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات ۲۳؍ ربیع الثانی  ۱۴۱۵ھ  ۔ ۲۹ ؍ ستمبر ۱۹۹۴ء

 

۱۲۸

 

بابِ ہفتم

یادِ رفتگان

نامِ نیکِ رفتگان ضائع مکن            تابماند نامِ نیکت برقرار۔

 

۱۲۹

 

چیف موکھی محمد دارا بیگ

اپنے وقت کے سب سے بڑے عالمِ دین چیف موکھی محمد دارا بیگ (مرحوم) کا شجرۂ نسب یہ ہے: محمد دارا بیگ ابنِ محمد رضا بیگ ابن وزیر اسد اللہ بیگ، ابنِ وزیر پونو، آپ بہت بڑے دانشمند، عظیم عالم، شاعر، کامیاب مدرس، شب خیزدرویش، اور امام شناس مومن تھے، آپ بڑی خوبصورتی سے فارسی شاعری کرتے تھے، لیکن افسوس کہ ان کا مجموعۂ اشعار نہیں مل رہا ہے۔

آپ درسی اور علاقائی زبانوں کے علاوہ چترالی (کھوار) اور ترکی بھی جانتے تھے، اور روسی زبان بھی سیکھ رہے تھے، کیونکہ میر محمد نظیم خان نے خواہش ظاہر کی تھی کہ آپ برائے ضرورت روسی زبان سیکھ لیں، جب کہ اس وقت روس کا کوئی آدمی کریم آباد میں موجود تھا۔

کاش مجھے ان سے دینی درس لینے کی سعادت نصیب ہوتی، جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے، حقیقت یہ ہے کہ میں صرف دس ماہ کے لئے بلتت پرائمیری سکول جا سکا، جس میں، مَیں نے تیسری اور چوتھی جماعت مکمل کر لی، اسی دوران کبھی کبھی اپنے محترم بہنوئی (محمد دارا بیگ) کے پاس بھی جایا کرتا تھا، اور ان سے

 

۱۳۱

 

ایک غیر نصابی اردو تیسری پڑھا کرتا تھا، یہ میری اپنی نارسائی تھی یا ناشکری، ویسے اس زمانے میں علم و دانش کے دو عظیم نمونے تمام لوگوں کے سامنے ظاہر تھے، یعنی جناب حاجی قدرت اللہ بیگ صاحب اور جناب محمد دارا بیگ صاحب۔

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ الصلاۃ و السّلام نے میر محمد غزن خانِ ثانی کو تین اسمائے بزرگ برائے خصوصی ذکر عنایت کر دیئے تھے، اور فرمایا تھا کہ ایک خود آپ کے لئے، اور دو ایسے دو اسماعیلی کو دینا، جن کو آپ چاہیں، چنانچہ میر محمد غزن خان نے دو میں سے ایک اسمِ اعظم محمد دارا بیگ کو دیا، اور یہی امامِ عالی مقام علیہ السّلام کی طرف سے سب سے بڑا انعام ہوا کرتا ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات، ۱۱ ؍ صفر المظفر  ۱۴۱۵ ھ   ۔۲۱؍ جولائی ۱۹۹۴ء

 

۱۳۲

 

شہزادہ سلطان خان

شجرۂ نسب: شہزادہ سلطان خان ابن شہباز خان ابن میر محمد نظیم خان ابن میر غزن خان ابن شاہ غضنفر خان ابن میر سلیم خان ابن خسرو خان ابن شاہ بیگ، ابن شہباز ابن سلطان ابن عیاشو ابن میوری ابن گرکس۔

شہزادہ سلطان خان (مرحوم) غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے، عظیم والدین کے توسط سے اسماعیلی عقائد کی تمامتر خوبیاں بچپن ہی میں آپ کی ذات میں داخل ہو گئی تھیں، جب آگے چل کر علم الیقین کی روشنی میں دیکھا گیا، تو ہر عقیدت ایک حقیقت تھی، آپ کو امامِ برحق علیہ السّلام سے تا بحدِّ جنون عشق تھا، سلطان خان کو سید شہزادہ منیر ابن سید قاسم بدخشانی کی شاگردی کی سعادت نصیب ہوئی، اسی پاکیزہ صحبت کے زیرِ اثر سلطان خان صاحب روحانی جذب و کشش میں آگئے، حضرتِ پیر کی شہرۂ آفاق کتاب وجہِ دین پر فکری ریاضت کی، جس میں انہوں نے نورِ علم کی جھلکیاں دیکھیں۔

سلطان خان ظاہری نہیں بلکہ تائیدی عالم تھے، اسی وجہ سے ان کی علمی گفتگو دلنشین ہوا کرتی تھی، البتہ یہ بھی دینی

 

۱۳۳

 

غیرت کا ایک خوبصورت نمونہ تھا کہ جب جوش میں آتے تو شیر کی طرح غراتے، اس حال میں کسی کو کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوتی۔

شہزادہ سلطان خان نے اپنی عمرِ گرانمایہ کا بیشتر حصّہ پیاری جماعت کی علمی خدمت میں صرف کر دیا، جس میں یہاں کی اسماعیلی جماعتوں نے فائدہ اٹھایا، خصوصاً علی آباد کی نیک بخت جماعت نے، کیونکہ یہ عزیز جماعت دینی بزرگوں کی خدمت اور علم دوستی میں اپنی مثال آپ ہے۔

 

۱۳۴

 

قطۂ وفات سید شاہزادہ منیر ابنِ محمد قاسم بدخشانی

جنس و نقدِ عمل و علم چو اندو ختہ شد                 خوش بہ علیین رَوَد عارف کہ ہمانش وطن است

مسکن و خانۂ عیشِ تو بودَ عالمِ جان          مزرع و باغِ جہانت ہمہ جائے محسن است

کوش تا از ہنر و علم نکو نام شوی             حاصلِ عمر گرانمایۂ تو علم و فن است

خاصہ علم است کہ ہر جا رسد و کم نشود             زانکہ ثبتش بسر صفحۂ عصر و زمن است

مقصدِ علم بُوَدْ دانشِ توحید کہ آن               رحمتِ خاصِ خدا، موہبۂ ذوالمنن است

قفلِ ہر گنج جدا گانہ کلیدی دارد       دریکی گنج و کلیدِ درآن یک سخن است

اے خوشا آن سخنِ خوش چو مینر الدین یافت                  کا ندران دولتِ دارین ہمہ سر و علن است

گفتۂ حضرتِ احمدؐ بدل و جان بشنو            مومن اندر دو جہان زندہ و باجان و تن است۔

 

۱۳۵

 

تصویرِ عمل

تاجِ شرفِ ہر دوپسر فتح علی خان             نیکو خلفِ جدو پدر فتح علی خان

سرچشمۂ اشفاق و محبت بہ قبلہ                پر فائدہ چون گنجِ گہر فتح علی خان

بازوئی توانائی ہمہ خویش و برادر             درحربِ عمل تیغ و سپر فتح علی خان

قربانیٔ ملت شدہ چون قید کشیدی               نامِ تو نویسیم بزر فتح علی خان

حق داد ترا در ہمہ کردار کشائش               ای ترجمۂ فتح و ظفر فتح علی خان

ای داعئی تہذیب بہ اطفالِ اقارب               دلدادۂ تعلیم و ہنر فتح علی خان

ای قاریٔ قرآن و سحر خیز و مصلی           عمرت شدہ باذکر بسر فتح علی خان

 

۱۳۶

 

یک رنگیٔ حبت بہمہ اہلِ زمانہ                 سازندہ کہ چون شیرو شکر فتح علی خان

ای سایۂ اسائشِ فرزند و برادر         باغی کہ پر از نعمت و بر فتح علی خان

چون پیک اجل خواند تو لبیک بگفتی                   گردی تو ازین جائے سفر فتح علی خان

یکشنبہ بدو چارمِ پنجم حع شغ سال             کزدارِ فنا کر دہ گذر فتح علی خان

ہر دم بروان تو بسی رحمتِ حق باد            در حضرتِ حق باد مقر فتح علی خان

این گلشنِ یادِ تو بُوَدْ خرم و جاوید               کز چشمۂ دانش شدہ فتح علی خان

 

بقلم نصیر الدین نصیر ھونزائی

۴۔ ۵ ۔ ۱۳۷۸ھ

 

۱۳۷

 

باب العلم (علیؑ)

حی و قیومے کہ باشد لاشریک و بے مثال            باصفا و ذاتِ پاک خود نمگیر دد زحال

ہرچہ جز او بودہ در عالم بآخر ہالک است            یعنی از حالے بحالے بگزرد در ارتحال

پس فنائے جسمِ مردم را مثالے گویحت                 کر مکے پروانہ گردو چون نبا شد پائمال

کر مکے پروانہ گردد مو منے گردو ملک            این بچشمِ سر بدیدم آن بانوارِ خیال

یا رب این احوال فرخ باد دولت شاہ را        آنِ محبِّ مرتضیٰ آن مومن نیکو خصال

در زمانِ صدرِ اعظم خسرو نیکو سیر                  آن امیرِ داد گر آن پاد شاہِ با مجال

ماہِ شعبان بود و ہجری ’’غمزۂ عین الیقین‘‘  ۱؎                      چون گزشت آن نیک فطرت از پسِ ہفتاد سال ۲؎

 

۱۳۸

 

ہر سہ ۳؎  فرزندش بنا کردند ’’باب العلم‘‘ را                بہر ایصالِ ثوابش از رضائے ذوالجلال

یا الٰہی از عطائے خود روانش شاد داد                 در جوارِ نورِ خود اے پادشاہِ لایزال

تاپزیرد حق ز رحمت کارخیرِ این نشان                اے عیسےٰ خان باغلام موسیٰ و شہ زرین بنال

ملک و ملت را تجمل باید از تعمیرِ نو                   زانکہ این معنی ہو ید اگشتہ از نامِ جمالؔ

 

۔۔۱) ۱۳۸۳ ھ

۔۔۲) ۷۰

 

۱۳۹

 

بسم اللہ الر حمٰن الر حیم۔

کلامِ یادگار

بِحُکمِ: كُلُّ مَنْ عَلَيْـهَا فَانٍ  وَيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِكْـرَامِ۔

زوجہ جناب قربان علی خان صاحب

محترم زھرا خانم بعمر ۳۵؍ سال کہ ۱۹۷۰ء بود وفات یافت

اِنَّا لِلّٰلِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

قطعۂ از خونِ دل باید کہ بنویسم کنون                  چونکہ بگذشت از جہان آن خواہر نیکو سیر

خانۂ قربان علی را باعثِ صد فخر بود                 آن زنِ فرخندہ بخت و باحیا و پر ہنر

رشتۂ عمرِ عزیزش بعد سی و پنچ سال                 ای دریغا! از قضائی ناگہانی شد یسر

مرغِ روح او زدنیا جانبِ جنت پرید            اقربیش را نہادہ داغ برجان و جگر

 

۱۴۰

 

از غمش قربانؔ علی بس عاجزو بیچارہ شد            گرچہ بودہ مرد آہن گرچہ بودہ شیرِ نر

دان کہ این مرگِ جوانی ہمچو سیل ہادم است                   خانۂ معمورِ مردم راکند زیر و زبر

یارب! از لطفِ عمیمت روح اورا شاد کن             درجوادِ رحمت خود دار دائم در نظر

چونکہ نامِ نیک آن مرحومہ زہرا خانم است           باد جانش در حضورِ فاطمہؑ بس مفتخر

 

۱۴۱

 

لوحِ مزارِ بی بی یاقوت

زوجۂ داور شاہ اُرکوی۴

کسی کو شناسد امامِ زمان               بدنیا و عقبیٰ بیاید امان

شناسندۂ نور پروردگار                  سعادت برد حاصلِ این جہان

چہ غم گر بمیر دچنین کس بتن                  کہ از جان شود زندۂ جاودان

بود فارغ از فکرِ دنیای دون            زلذاتِ جنت شود بسی شادمان

ز یدارِ نورِ خدا وندِ پاک                 مشرف شود بر فرازِ جنان

بقصرِ فضیلت بتختِ جلال             نشاند خداوندِ کون و مکان

پس ای مومنان از چہ گریان شوید              چو مولا بود این قدر مہربان

نباید کہ غمگین شوید از کسی                   کہ در دارِ باقی رودکامران

چنین بود ’’یاقوتِ‘‘پاکیزہ دین                  کہ ذکرش ہمی گفتہ شد درمیان

دعائیکہ مقرون مقبولِ تست            الٰہی ز رحمت بروحش رسان

 

حیدرآباد، ھونزہ

از فکارِ نصیر ہونزائی

 

۱۴۲

 

بیادِ درویش علی

یک فدائی بود درویش علی             مثلِ قنبر باوفا و باحیا

بس حلیم و صابر و نیکو خصال                دوستدارِ وارثِ آل عبا

آن مریدِ جان نثارِ شاہِ دین               مومنِ صادق محبِّ مرتضا

آن غلامِ شہِ کریم نامدار                 خادمِ سلطانِ تحتِ انما

بندۂ درگاہِ مولای زمان                  پاسبانِ خانۂ نور و ضیا ٔ

از رضا کارانِ مولا بود او              از گروہِ خادمان باصفا

ای کمر بستہ بخد مت شادباش                   ثمرۂ خدمت بود قربِ خدا

گفتگویت ہمچو قند و انگبین            ای لقایب مثلِ گلشنِ دلربا

ہمنشین و یارِ جانِ دلنشین               یاد تو چون گل ببوید نزدِ ما

یاد از مایان دعای جاریہ                تحفۂ جنت ترا فرحت فزا

صبر کن ای دل کہ فردا بنگری                 جلوۂ ارواحِ پاکان برسما

 

پیدائشِ درویش علی ابن صفر علی نومبر ۱۹۱۸ء

وفات: ۳۱ ؍ ستمبر ۱۹۸۰ء

 

۱۴۳

 

بسم اللہ الر حمٰن الر حیم۔

كُلُّ مَنْ عَلَيْـهَا فَانٍ  وَيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِكْـرَامِ۔ (۵۵: ۲۶ تا ۲۷)

نامور صیاد (شکاری) محمد دوست کے فرزندِ ارجمند علی مدد ساکنِ محلۂ رحیم آباد۔ علی آباد۔ ہونزہ کا انتقالِ پر ملال تقریباً ۵۶ سال کی عمر میں ہوا، خداوندِ عالم حضرت ِ محمد رسولِ خداؐ اور أئمّۂ ھُدیٰؑ کی حرمت سے انہیں روضۂ دارالسّلام میں ابدی نعمت و راحت عنایت فرمائے! آمین یا رب العالمین!!

 

تاریخِ وفات: بروزِ بدھ ۱۷ ماہِ رجب ۱۴۰۴ھ، ۱۸؍ ماہِ اپریل ۱۹۸۴ء

 

۱۴۴

 

بابِ ششم

ریکارڈ

 

۱۴۵

 

بحضور مستطاب حضرت اجل اکرم فاضل گرامی جناب آقای نصیر الدین صاحب المحترم دامت برکاۃ

السلام علیکم:

پس از عرض سلام و تشکر و امتنان از مرا حم عالی باستحضار خاطر مبارک میر ساند:

کہ کتابہای قیمتی و نفیس اھدائے آن سرور انجمند توسط برردر عزیز جناب آقائی عباس برہانی صاحب واصل گردید از درگاہ خداند متعال سلامتی و طول عمر جنا بعائے و توفیق روز افزون شمارا در راہ خدمت بیشتر بہ نحواحسن را مسئلت مینمایم ۔

باتقدیم احترام

جزاک اللہ تعالیٰ و کل اللہ مساعیک با لنجاح

 

ادارۃ الثقافہ الاسلامیہ

۲ /۴ حامد علی منزل ۵ سول لائن                                الدکتور علی محمد طھیر ۲۔۱۔ ۱۹۰۹

یونیورسٹی ایریا۔ علی گڑھ نمبر ۲                                رئیس کلیۃ معارف الاسلامیہ

انڈیا

 

۱۴۷

 

عزیزم عبادت علی شاہ

کتاب ہذا بطورِ تحفۂ اخوت و محبت ان عزیز ایام کی پُرخلوص یاد کو تازہ کرتی رہے گی جن میں ہم اور عبادت علی شاہ صاحب امام عالیمقام کے ایک ہی ادارے میں کام کرتے تھے، مجھے یہ اندازہ ہے کہ اگر پوری قوم کے ہر فرد میں خدمتِ دینی کا وہ بھرپور جذبہ ہوتا جو عبادت علی شاہ جیسے مومنوں میں پایا جاتا ہے تو کتنی اچھی بات ہوتی اور کس قدر ہم آگے بڑھ سکتے ۔ عبادت علی شاہ میں نہ صرف جسمانی طور پر ہی مقدّس دین کی خدمت کی لگن موجود ہے بلکہ انہیں والہانہ طور پر دینی کتب اور علم سے بھی دلچسپی ہے، یہاں تک کہ ان کے قیمتی وقت کا ایک بڑا حصّہ اشاعتِ کتبِ دین کی خدمت میں صرف ہوتا ہے۔

میری درویشانہ دعا یہ ہے کہ خداوندِ تعالیٰ انہیں اس مقدس دینی خدمت کی عوض دین و دنیا کی کامیابی سے نوازے اور دونوں جہان کی سرفرازی نصیب کرے!!

 

فقط دعاگو

 

نصیر ہونزائی

مورخہ ۱۱؍ مارچ ۱۹۷۵ء

 

۱۴۸

 

گور خیز تھا یا جنّ؟

کتابِ “قرآنی مینار” ص ۲۶۱۔ ۲۶۲ پر ملا حظہ ہو، جہاں ایک گورخیز کا قصّہ مرقوم ہے، میں نے سنا تھا کہ سریقول میں بھی ایک ایسا واقعہ ہو گزرا ہے، پس میں نے اس کے بارے میں جناب قربان علی خان صاحب سے پوچھا تو انہوں نے ازراہِ کرم اس کا تفصیلی قصّہ لکھ کر دیا، جس کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے:

۱۹۴۷ء کا ایک بڑا عجیب و غریب اور نہایت حیران کن واقعہ ہے، کہ تاشغورغان میں قرغز قوم کا ایک آدمی بیبت کے نام سے رہتا تھا، جو بائیں پاؤں سے لنگڑا ہونے کے باوجود برٹش کونسل کی ڈاک رسانی کی ملازمت کررہا تھا، جس کا کام تھا پیک پڑاؤ میں ڈاک لانا لے جانا، مجھے یاد ہے کہ یہ شخص ماہِ مارچ ۱۹۴۷ ء میں فوت ہوگیا، لیکن بڑی حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ تدفین کے تیسرے دن سے مرا ہوا بیبت کفن کے ساتھ بوقتِ شب بعض لوگوں کے گھروں میں آکر کھڑا ہونے لگا، لوگ اس کو پہچانتے تھے اور کچھ پوچھتے تھے، مگر وہ کوئی بات ہی نہ کرتا اور خاموشی سے واپس چلا جاتا، اسی طرح تین چار دن تک یہ خوفناک واقعہ ہوتا رہا، آخر کار وہاں کے لوگوں نے اس کی قبر پر جا کے

 

۱۴۹

 

دیکھا تو قبر حسبِ دستور بند ہی تھی، پھر بھی انہوں نے بغرض تحقیق قبر کو کھول کر دیکھا تو بیبت کا مردہ جسم اسی طرح پڑا ہوا تھا، مگر انہوں نے صرف اتنا دیکھا کہ اس کا ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر رکھا ہوا تھا۔

بڑی عجیب و غریب بات ہے کہ ان لوگوں نے یا تو سزا کے طور پر یا چلنے پھرنے سے روک دینے کی غرض سے مردے کی ٹانگوں اور پیروں کو کلہاڑی سے کاٹ کاٹ کر رکھ دیا، سمجھ میں نہیں آتا، کہ کہاں کی بات ہے۔

جنّی شیطان کسی کو دو طرح سے گمراہ کر سکتا ہے: ایک دل میں وسوسہ ڈال کر، اور دوسرا خود سامنے حاضر ہو کر، جیسا کہ سورۂ مومنون (۲۳: ۹۷ تا ۹۸) میں ارشادہ ہے: (ترجمہ) اور دعا کرو کہ پروردگار میں شیاطین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور اے میرے ربّ، میں اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس حاضر ہو جائیں۔ پس اس قرآنی تعلیم سے ظاہر ہے کہ شیطانِ جنّی لوگوں کے سامنے حاضر بھی ہوسکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح بری روح جسمِ لطیف میں حاضر ہو سکتی ہے، اسی طرح اچھی روح بھی جسمِ لطیف میں سامنے آسکتی ہے۔

 

۲۶؍ جولائی ۱۹۹۴ء

 

۱۵۰

 

عزیزم امان اللہ در حفظ و امانِ مولا باشید!

بڑے شوق سے یا علی مدد کی دعا کرتا ہوں، اسکی بارگاہِ عالی میں قبول ہو! کل ہی آپ کا بہت پیارا خط ملا، جس کا جواب کسی تاخیر کے بغیر آج لکھ رہا ہوں، یہ خط مجھے کتنا اچھا لگ رہا ہے، میں تو اسے محفوظ رکھوں گا، کیونکہ اس میں میرے محبوبِ جان کے ہمہ رس روحانی معجزے کا ذکر ہے، اس سے میرے ماں باپ قربان! وہ اپنے معتقدین پر بڑا مہربان ہے، الحمدللہ۔

آپ کے بقول آپ نے ایک عظیم نورانی خواب دیکھا، وہ اس طرح کہ ایک سبزہ زار میں مولانا حاضر امام صلوات اللہ علیہ اور ماتا سلامت کرسیوں پر تشریف فرما ہیں، وہاں ایک خالی کرسی بھی موجود ہے، مولا آپ سے فرماتے ہیں کہ تم اس کرسی پہ بیٹھ جاؤ، تو آپ اس پر بیٹھ جاتے ہیں، پھر حاضر امامؑ  فرماتے ہیں کہ ہم سب کے لئے سفید اور عمدہ کپڑے کے سوٹ بنا دو، اتنے میں مولا کا پورا خاندان وہاں موجود نظر آتا ہے، اور یہ خواب آپنے شبِ جمعہ ۲۳؍ نومبر ۱۹۹۰ء کو دیکھا تھا۔

عزیزِ من! آپ کو بہت بہت مبارک ہو! لاکھ لاکھ

 

۱۵۱

 

مبارک ہو! آپ نے اس مشورہ کے لئے بڑی دیر لگائی ہے، لیکن خیر ہے، کوئی مضائقہ نہیں، یاد رہے کہ امامِ عالیمقامؑ کو ہر کس و ناکس خواب میں نہیں دیکھ سکتا، مگر کوئی عارف، عاشق، درویش، یا مومنِ صادق، پس جو شخص حضرتِ امام کو خواب میں دیکھتا ہے، اس کو نجات مل جاتی ہے، کیونکہ امام بہشتِ مجسم ہے، اور سب کچھ ہے، یہاں تشریح کے لئے گنجائش نہیں، کرسی جو امامِ اقدس و اطہر کے قرب میں ہو، سب سے بڑی روحانی عزّت و مرتبت کی دلیل ہے، امام کی نورانی فیملی اہلِ بیت کا درجہ رکھتی ہے، انکی محبت مومنین کیلئے سرمایۂ ایمان ہے، اب رہا سوال، سفید رنگ کے عمدہ لباس کا۔

سفید رنگ نورِ ایمان کی علامت ہے، جو نورِ ابیض ہے، لباس کی تعبیر تقویٰ ہے، یعنی پرہیزگاری، پس حضرتِ امامؑ اور اہلِ بیت کے لئے سفید عمدہ سوٹ یہ ہیں کہ ہم امام اور اہلِ بیت سے متعلق اپنے عقیدے کو پہلے کی طرح سفید رکھیں، اور غیر کی باتوں سے پرہیز کریں، اگر ہم اپنی مذہبی عقیدت و محبت کی تجدید کرتے ہیں، تو سمجھ لیں کہ ہم نے اپنے امامِ برحق کو سفید لباس کا تحفہ پیش کیا، آپ کبھی یہاں آئیں تو مزید باتیں ہو سکتی ہیں، تاہم ضروری جواب لکھا گیا ہے۔

 

بہت سی نیک دعاؤں کے ساتھ

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۹؍ دسمبر ۱۹۹۱ ء

 

۱۵۲

کارنامۂ زرّین – حصّۂ دوم

کارنامۂ زرین – حصۂ دوم

درختِ سر بلند و شاخِ پُرثمر

اگر کوئی نیکوکار اور اعلیٰ شخصیّت شاخِ پُرثمر کی طرح سب کے لئے فائدہ بخش ہے تو اس کا درخت (شجرہ = خاندان) بیحد خوش نصیب، بڑا نیکنام اور قابلِ احترام ہوتا ہے، چنانچہ ہم جناب محترم و مکرم غلام قادریبگ صاحب کے عظیم آباؤ اجداد، جملہ خاندانِ محترم معزز والدین (ترنگفہ امیر اللہ بیگ مرحوم اور بی بی گل اندام ) اور عزیز قومیت و برادری کو تعظیم و تکریم اور خلوص و محبت سے سر خمیدہ سلام کرتے ہیں اور ہدیۂ دعا یہ ہے کہ خداوندِ قدوس اپنے آسمانِ نورو نورانیّت سے بطفیلِ اہلِ بیتِ اطہار علیہ السّلام ان سب مومنین و مومنات پر جہاں بھی ہیں نور و سرورِ سرمدی کی بارش برسائے، اور دیگر تمام اہلِ ایمان پر بھی ! آمین!!

جناب چیف ایڈوائزر … غلام قادربیگ صاحب جیسے عظیم المرتبت اور بیمثال انسان جس معزز خاندان کے چشم و چراغ ہیں، اس کا ذکرِ جمیل آج کارنامۂ زرّین کی سنہری تاریخ میں کیوں نہ ہو، ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کا ذاتی اور انفرادی کارنامۂ زرّین بھی اسی سلسلے میں خود بخود مرتب ہوتا رہے گا۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

 

 

خطبۂ کتاب

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

 

اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ ہی کے ذکرِ کثیر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوجاتا ہے، آپ قرآن و حدیث اور أئمّۂ آلِ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم) کے ارشادات کی روشنی میں یہ ضرور معلوم کر لیں کہ پروردگارِ عالم کے خوبصورت نام (اسماء الحسنیٰ) کیا ہیں؟ یا کون کون سے ہیں؟ کیونکہ خداوندِ قدّوس کا پاک منشا اور حکم ہے کہ اس کو اسماء الحسنیٰ سے پکارا جائے (۰۷: ۱۸۰) تاکہ اطمینانِ کلّی حاصل ہو جائے۔

یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ قرآنی الفاظ کے معانی و مطالب اسرارِ معرفت کی بلندی تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں، مثال کے طور پر یہاں ایک سوال کریں گے، وہ یہ کہ خدا کی یاد سے قلوب کو جو اطمینان ملتا ہے (۱۳: ۲۸) اس کا آخری درجہ کیا ہے؟

جواب: قرآنِ پاک میں کل ۱۳ دفعہ اطمینان کا ذکر آیا ہے، منجملہ اطمینان کا سب سے اعلیٰ درجہ وہ ہے جو حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو ذاتی قیامت اور ابداع و انبعاث کے بعد حاصل ہوا تھا( ۰۲: ۲۶۰) نیز کاملین و عارفین کے نفسِ مطمئن کو اپنی روحانیّت کی بہشت میں اطمینانِ

 

۹

 

کلّی حاصل ہو جاتا ہے، پس کوئی عزیز اسمِ عظم کے ثمرۂ ذکر کو عام اطمینان نہ سمجھ بیٹھے۔

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ محمد و أئمّۂ آلِ محمد علیہم السّلام اللہ کے اسماء الحسنیٰ ہیں، اور انہی بزرگ ناموں سے اللہ کو پکارنے کا حکم ہوا ہے، کیونکہ خدا کی ہر چیز زندہ اور بولنے والی ہوا کرتی ہے، اور اس کی کوئی چیز عقل و جان کے بغیر نہیں، چنانچہ ذاتِ سبحان کا اسمِ اکبر ایک عالمِ شخصی ہے، جس میں روحِ اعظم اور عقلِ کامل کام کرتی ہے، جہاں بہشت ہے، اس لئے ہر چیز سے نورانیّت اور حسن و جمال کا ظہور ہوتا رہتا ہے، پس اسماءالحسنیٰ، یعنی اللہ کے حسین و جمیل اسماء کہنا بلاوجہ نہیں ہے، الغرض حضرتِ ربِّ کریم کے بزرگ ناموں میں جنّت کی ساری خوبصورتی و رعنائی موجود ہے، جسمانی حسن و جمال عارضی و فنا پذیر ہے، روحانی و عقلانی حسن و جمال دائمی وغیرفانی ہے۔

امام ِزمان صلوات اللہ علیہ و سلامہٗ اسماء الحسنیٰ کا مجموعہ اور خزانہ ہے، کیونکہ اس کے نور میں تمام اسمائے بزرگ اور کلمات التّامات موجود ہیں، یعنی امامِ وقتؑ بذاتِ خود اللہ تبارک و تعالیٰ کا شخصی و نورانی اسمِ اعظم تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے پاس لفظی اسماء بھی ہیں، تاکہ ان میں سے کوئی اسم اپنے کسی مرید کو عطا کردے، اور وہ امامِ عالی مقامؑ کی طرف سے ہونے کی وجہ سے اسمِ اعظم کا کام کرے، بالفاظِ دیگر اس میں امامؑ کا نور عمل کرے، اور ذاکر پر روحانی انقلاب آجائے۔

 

۱۰

 

تحفۂ جمیل و دلپذیر:

شاید آپ کو تعجب ہوگا کہ ایسا تحفہ کون سا ہے جس کی ایسے شدّ و مد سے تعریف شروع ہوئی؟ جی ہاں، بتا رہا ہوں، مگر تعریف حقیر و بے مایہ ہے، جبکہ یہ تحفہ نادر و نایاب اور انمول ہے، کیونکہ وہ ایک بے مثال کتاب یا کتابوں کا مجموعہ ہے، جس کے ۳ حصّوں میں ۱۶ اجزاء ہیں، مجموعی صفحات ۴۹۶ +۶۶۱ + ۵۹۹  = ۱۷۰۶ ہیں، یہ کتابِ مستطاب “شرح الاخبار فی فضائلِ الائمّۃ الاطہار” ہے جو سیدنا قاضی نعمان کی عظیم الشّان کتب میں سے ہے، اس میں ان تمام احادیثِ نبوّی کی تشریح کی گئی ہے جو حضراتِ أئمّہ کی شان میں ہیں۔

یہ تحفۂ جمیل و دلپذیر میرے محسن اور عظیم دوست جناب ڈاکڑ (پی۔ایچ۔ڈی) فقیر محمد ہونزائی صاحب اور ان کی خوش خصال بیگم محترمہ رشیدہ نور محمد ہونزائی (صمصام) کے ان گنت احسانات و عنایات میں سے ہے، جماعتِ باسعادت کے لئے آپ دونوں عزیزان کی قلمی اور علمی خدمات از بس عجیب و غریب اور بے مثال ہیں۔

 

کارنامۂ زرین:

جس طرح علمی لشکر کا سارا کام امامِ زمانؑ کی نورانی تائید سے ہوا اور ہو رہا ہے، اسی طرح یہ پیارا نام بھی اسی کی مہربانی سے ہے،

 

۱۱

 

زیرِ نظر کتاب “کارنامۂ زرّین” حصّہ دوم ہے، ان دونوں کتابوں کے علاوہ جس کتاب میں بھی ہو، مجاہد صفت ساتھیوں کی حقیقی معنوں میں ہمت افزائی بے حد ضروری ہے، تاکہ جماعت میں علم پھیلانے کا کام تیزتر ہوسکے، اور آئندہ نسلیں خاندانی طور پر نہ صرف علمی خدمت کریں بلکہ علم کے ساتھ وابستہ بھی ہوجائیں۔

شرح الاخبار حصّۂ دوم ، جزءِ نہم ، ص ۳۸۱ پر بروایتِ سفیان الثوری آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا یہ ارشاد درج ہے، آپؐ نے فرمایا: نادیٰ مُنَادً مِنَ السَّمَآءِ یَوْمَ اُحُدْ: ۔ لَا فَتیٰ اِلَّا علی، وَلَا سَیْف اِلَّا ذُو لفقَار، ترجمہ: جنگِ اُحد کے دن آسمان سے ایک پکارنے والے نے یوں پکارا: علی کے سوا کوئی بہادر نہیں، اور ذوالفقار کے سوا کوئی تلوار نہیں۔

 

ہر چند کہ مولا علیؑ کی مبارک شخصیّت کے حوالے سے یہ واقعہ تاریخِ اسلام کا ایک تابناک کارنامہ ہے جس کی تردید قطعاً ناممکن ہے، تاہم اس کا ایک تاویلی پہلو بھی ہے، وہ یہ کہ علی علیہ السّلام سے نورِ امامت مراد ہے، جو ہر زمانے میں موجود ہے، جو روحانیّت اور علم و حکمت کی جنگ میں لاثانی ہے، اور ذوالفقار کی تاویل ہے: غلبۂ دلیل و بُرہان، یعنی امامِ زمانؑ کا روحانی علم جو بھی استعمال کرے، اس کے لئے عوالمِ شخصی میں فتح ہی فتح ہے۔

مذکورہ ص (۳۸۱) پر یہ حدیثِ شریف بھی ہے: النّظر الیٰ علی بن أبی طالب عبادۃ = علی ابنِ ابی طالب کی طرف دیکھنا

 

۱۲

 

ایک عبادت ہے۔

سوال: مولا علیؑ کا دیدار کس دلیل سے ایک عبادت ہوسکتا ہے؟

جواب: اس لئے کہ علیؑ رسولؐ اللہ کے بعد خداوندِ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم، قرآنِ ناطق، مظہرِ نورِ الٰہی، چہرۂ خدا، ید اللہ اور قبلۂ حقیقی  ہے، اور ہر زمانے کا امامؑ بھی ایسا ہی ہے، ایک کتابچہ “حقیقی دیدار” کو پڑھ لیں۔

 

رحمت و برکت کا رخ:

اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت کا رخ اس کے بندوں کی طرف ہے، اور جتنی چیزیں اس کے ہاتھ میں ہیں، وہ سب عطا کر دینے کے لئے ہیں، مثلاً اس کے ہاتھ میں روحانی سلطنت ہے تو وہ عنایت کرنے کی غرض سے ہے، جیسے اہلِ بہشت کی بہت بڑی بادشاہی کا ذکر آیا ہے (۷۶: ۲۰) یقیناً ہر کامیاب عالمِ شخصی میں ایک روحانی سلطنت ہوگی، یعنی ان تمام لوگوں کے لئے جن کو فنا فی الامامؑ کا بلند ترین مرتبہ حاصل ہوا ہو، جو حضرتِ امام علیہ السّلام کی روحانی اور عقلانی تصویریں یا کاپیاں ہوگئے ہوں۔

یہ قانونِ رحمت ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ “بہشت میں کوئی چیز ناممکن نہیں” اݹ منݳسن اپݵ (OOMANASAN API) جیسا کہ قرآنِ حکیم کی کئی آیاتِ کریمہ میں اس حقیقت کی روشن دلیل موجود ہے کہ جنت کی نعمتیں حسبِ دلخواہ عطا کی جاتی ہیں، پس مولائے زمان

 

۱۳

 

صلوات اللہ علیہ و سلامہٗ کے تمام عشاق یہی سب سے بڑی نعمت چاہتے ہیں کہ وہ اپنے اسی معشوقِ حقیقی میں فنا ہوکر اسی میں ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جائیں۔

 

جشنِ خدمتِ علمی:

اس جشن کا منصوبہ سب سے پہلے امریکہ میں ہوا تھا، پھر سارے عزیزوں کو یہ بہت پسند آیا، میں اس سلسلے میں بفضلِ خدا اپنے فرائض انجام دے رہا ہوں، اور میرے جملہ عزیزان بھی، چنانچہ ہر نئی کتاب اور ہر ترجمہ ایک دائمی جشن ہے، ہر کامیابی اور نیک نامی ساتھیوں کا جشن ہے، حضرتِ امامِ زمانؑ اور عزیزِ جماعت کی خوشنودی سب سے بڑا جشن ہے، اور رفقاء کارکی قلمی اور تاریخی حوصلہ افزائی خود یہی جشن ہے۔

میں جشنِ خدمتِ علمی کے اس زرّین موقع پر تمام عزیز ساتھیوں کو ان کی بے مثال کامیابی کی مبارک بادی پیش کرتا ہوں، قبول ہو! کتنی عظیم سعادت ہے کہ پیاری جماعت کی علمی خدمت کرتے کرتے خود بھی علم کی لازوال دولت سے مالا مال ہوگئے ہیں اور ہو رہے ہیں، الحمد للہ، اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے، وہ ہمیں توفیق و ہمت عنایت فرمائے! تاکہ ہم سے بڑی عاجزی کے ساتھ شکرگزاری ہو سکے،  آمین !

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل ۳؍ جمادی الثانی ۱۴۱۵ ھ       ۸؍ نومبر ۱۹۹۴ء

 

۱۴

 

بابِ اوّل

قرآن، حدیث اور فرمان

 

۱۵

 

چالیس قرآنی معجزات

 

۱۔ خدا علمِ دین کا نور ہے  ۲۴: ۳۵

۲۔ زمین پر مظہرِ نورِ  ۰۵: ۱۵، ۰۷: ۱۵۷

۳۔ اللہ کی نورانی رسی ۰۳: ۱۰۳

۴۔ امامِ مبین   ۳۶: ۱۲

۵۔ امام خدا و رسول کی طرف سے ہے   ۵۷: ۲۸

۶۔ ہادئ زمان   ۱۳: ۰۷

۷۔ رسول کی محبت کس طرح ہو  ۰۳: ۳۱، ۱۹: ۹۶،  ۴۲: ۲۳

۸۔ یومِ غدیر   ۰۵: ۶۷

۹۔ صاحبانِ امر   ۰۴: ۵۹

۱۰۔ راسخون فی العلم    ۰۳: ۰۷، ۰۴: ۱۶۲

۱۱۔ اسم اعظمِ شخصی   ۰۷: ۱۸۰

۱۲۔ نور کی شخصیت   ۰۹: ۳۲، ۶۸: ۰۸

۱۳۔ شجرِ علم و حکمت   ۱۴: ۲۴ تا ۲۵

۱۴۔ کتابِ ناطق ۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹

۱۵۔ وہ شخص جس کے پاس قرآن کا علم ہے   ۱۳: ۴۳

۱۶۔ قرآن بہ سینہ   ۲۹: ۴۹

۱۷۔ خاندانِ نبوّت کا ایک گواہ   ۱۱: ۱۷

۱۸۔ صادقین کے ساتھ ہو جاؤ    ۰۹: ۱۱۹

۱۹۔ جو دنیا میں اندھا ہو   ۱۷: ۱۷۲

۲۰۔ امام المتقین  ۲۵: ۷۴

۲۱۔ وارثِ قرآن   ۳۵: ۳۲

۲۲۔ دائمی خلافت ۰۲: ۳۰

۲۳۔ روحانی سلطنت    ۰۴: ۵۴

۲۴۔ خزانہ، دروازہ، کلید    ۰۲: ۱۸۹، ۱۵: ۲۱

۲۵۔ آیۂ تطہیر    ۳۳: ۳۳

 

۱۷

 

۲۶۔ قرآنی امثال اور علم والے    ۲۹: ۴۳

۲۷۔ معلمِ کتاب و حکمت    ۰۴: ۵۴

۲۸۔ وزیرِ رسولؐ    ۲۰: ۲۹، ۲۵: ۳۵

۲۹۔ صراطِ ناطق    ۰۳: ۱۰۱

۳۰۔ دینی شمس و قمر    ۹۱: ۱۰

۳۱۔ عالمِ علمِ لدنی   ۲۵: ۴۸

۳۲۔ خلاصۂ حکمت از سورۂ یوسف  ۱۲: ۰۱ تا ۱۱۱

۳۳۔ تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت   ۰۵: ۰۳

۳۴۔ سنتِ الٰہی کے اسرار    ۱۷: ۷۷

۳۵۔ ظاہری اور باطنی نعمتیں    ۳۱: ۲۰

۳۶۔ روحانی لشکر     ۰۵: ۵۴

۳۷۔ زمانۂ تاویل    ۰۷: ۵۳

۳۸۔ دنیا ہی میں بہشت کی معرفت    ۴۷: ۰۶

۳۹۔ سب سے عظیم امتحان   ۵۷: ۲۱، ۰۳: ۱۳۳

۴۰۔ دینِ فطرت کی علامت    ۳۰: ۳۰

 

۱۸

 

فرمان خوانی کا بہترین نمونہ

زمانۂ ماضی میں اگرچہ آفتابِ علم ہنوز طلوع نہیں ہوا تھا، لیکن پھر بھی ہمارے علاقوں کے تمام اسماعیلی عقیدۂ راسخ کی دولت سے مالا مال تھے، لوگ خلیفوں کے توسط سے اپنےاپنے پیروں کے حلقۂ مریدی سے وابستہ رہتے تھے، آج کی طرح امامت کے مقدّس ادارے نہ تھے، امامِ وقت صلوٰت اللہ علیہ و سلامہٗ کا فرمانِ مبارک کسی پیرِ روشن ضمیر کے توسط سے آتا تھا، پیر صاحب اکثر اپنے کسی نمائندے کے ساتھ یہ فرمانِ اقدس ارسال کرتے ۔

یہ شاندار قصّہ قریۂ حیدرآباد (ہونزہ) سے متعلق ہے کہ ایک دفعہ ہمارے گاؤں میں فرمان خوانی کا اہتمام تھا، افرادِ جماعت ہر طرف سے جمع ہو رہے تھے، کیونکہ گزشتہ شام اور پھر صبح منادی نے بالائی قلعہ کی چوٹی سے بار بار بآوازِ بلند ترین یوں ندا کی تھی:۔

۱۔ و امولا ڎم فرمانن دی بِلا، جیملے گٹی منین نالآؤ ۲۔     وا کھائم فرمان نُو کادُوّان، ݼݹر گٹی منین لآؤ۔

مرکزی جماعت خانہ کے سامنے احاطے میں لوگ اس طرح بھر گئے

 

۱۹

 

کہ تل دھرنے کو جگہ نہ رہی، امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کے تمام پاک باطن مرید بڑے شوق سے اس بات کے منتظر تھے کہ کب فرمانِ عالی جلوہ گر ہوگا؟ اتنے میں یہ روح پرور تہنیت آئی کہ بس اب خلیفہ طیہان صاحب کے گھر سے نمائندۂ پیر فرمانِ مبارک لا رہے ہیں، سبحان اللہ! عقیدۂ راسخ کی شان دیکھئے! ایک نورانی شخص خصوصی لباس میں ملبوس نمودار ہوا، جس نے ایک خاص چپن پہن لیا تھا اور خوبصورت پگڑی باندھ لی تھی، اور سر پر اس عقیدت و محبت سے فرمان لئے ہوئے آرہا تھا کہ پاک فرمان ریشمی رومالوں میں ملفوف اور صاف نئے تھال میں رکھا ہوا تھا۔

جیسے ہی جماعت نے ذرا دور سے فرمانِ مقدّس کو اس شان کے ساتھ لاتے ہوئے دیکھا تو احتراماً اٹھ کھڑی ہوگئی، ہر شخص دست برسینہ اشک ریزی پر مائل نظر آرہا تھا۔

جناب حاجی قدرت اللہ بیگ صاحب (مرحوم) بلتت سے آئے ہوئے تھے، تاکہ جماعتِ باسعادت کے لئے فرمانِ مبارک پڑھ کر ترجمہ کریں، چنانچہ آپ نے پُرحکمت فرمان کو اٹھا کر عشق و محبت سے چوما اور آنکھوں سے لگالیا، ہر چند کہ اس زمانے میں فرمانِ مبارک لفظی اعتبار سے فارسی ادب کی چوٹی پر ہوتا تھا، لیکن نوجوان عالم حاجی صاحب نے ایک مخصوص حیران کن لہجے میں اسے پڑھا اور بڑی عمدگی سے بروشسکی ترجمہ بھی کردیا، ان تمام خوبیوں کی وجہ سے اکثر مومنین کے آنسو آرہے تھے، اور سب کے سب با ادب کھڑے ہی تھے۔

محترم حاجی قدرت اللہ بیگ صاحب (ابنِ خان صاحب محبت اللہ

 

۲۰

 

بیگ ابنِ محمد رضا بیگ ) بے شمار صلاحیتوں کے مالک تھے، آپ کی گفتگو بڑی مؤثر ہوا کرتی تھی، اس لئے کہ آپ ہمیشہ عاقلانہ بات کرنے کے عادی تھے، میں نے سنا ہے کہ ایک دفعہ مولانا حاضر امامؑ نے ان کے بارے “دانشمند شخص (WISE MAN) کا لفظ استعمال فرمایا تھا، الغرض حاجی صاحب علم و معلومات کا ایک جیتا جاگتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی ، کراچی

منگل ۲۶؍ جمادی الاول  ۱۴۱۵ ھ       یکم نومبر ۱۹۹۴ء

 

۲۱

 

Monogram

11th December 1990

My dear Chairman,

I have received your letter of 16th November, and I am very happy to know about the Seminar on the Life and Works of Sayyidna Pir Nasir Khusrow which was held in the Northern Areas recently.

I send my most affectionate paternal maternal loving blessing to the Scholars and all the spiritual children who helped in organising the Seminar, and the participants for their good work and devoted services.

I hope that the Tariqah and Religious Education Board in Pakistan will continue to hold such Seminars in the future.

Yours affectionately,

Sd/.

Aga Khan

 

The Chairman, The Shia Imami Ismaili Tariqah and Religious Education Board For Pakistan,

Karachi.

 

۲۲

 

 

 

 

 

The Shia Imami Ismaili

Tariqah and Religious Education board for Pakistan

Ref. No. HI/91/ 0029                January  08, 1991.

 

Allamah Nasir-ud-din Nasir Hunzai,

3.A, Noor Villa,

Mill Street,

269, Garden West,

Karachi.

 

Dear Allamah Saheb,

I have great pleasure in forwarding herewith a copy of Talika Mubarak date 11th December, 1990 received from Sarcar Mawlana Hazar Imam on the occasion of holding the Seminar on the life and works of Sayyidna Pir Nasir Khusrow, held in the Northern Areas recently.

On this happy occasion please accept our heartiest congratulations.

 

۲۳

 

With kind regards and Ya Ali Madad,

Yours sincerely,

(Sd/.)

NOOR ALI H. KARMALI,

CHAIRMAN.

Encls: as above.

 

۲۴

 

تحفۂ درّ و گوہر

 

۱۔ ہر روز خدا کی ایک نئی شان (۵۵: ۲۹) کاملین میں ہوا کرتی ہے۔

۲۔ سورج کی ہر نئی شان مختلف مظاہر میں ہوتی ہے۔

۳۔ عرش نورِعقل کا نام ہے۔

۴۔ روح بسیط یعنی ہر جا حاضر ہے۔

۵۔ جو چیز ہر جگہ موجود ہو، اس کے لئے آنے جانے کا لفظ استعمال نہیں ہوسکتا ہے، مگر ہاں مظہریت سے۔

۶۔ اللہ کے لئے کوئی کام نیا نہیں، بلکہ تجددِ امثال کا قانون جاری ہے (۲۳: ۳۷)۔

۷۔ بہشت سے مومن چاہے تو زمان ہائے دراز کے بعد یہاں آسکتا ہے ورنہ نہیں، کیونکہ وہاں کی ہر نعمت چاہت سے ملتی ہے  (۱۶: ۳۱، ۲۵: ۱۶، ۳۹: ۳۴، ۴۲: ۲۲، ۵۰: ۳۵)۔

۸۔ کوئی ایسی چیز (نعمت) نہیں ، جس کے خزائن اللہ کے پاس نہ ہوں (۱۵: ۲۱)

۹۔ تنزیل پیغمبر اکرمؑ کا معجزہ ہے اور تاویل امام ِاطہرؑ کا معجزہ۔

۱۰۔ اللہ پاک باطنی کائنات کو ہمیشہ اپنے دوستوں میں لپیٹتا بھی ہے اور پھیلاتا بھی۔

 

۲۵

 

۱۱۔ بہشت کا سب سے بڑا درجہ خود مومن کا بہشت ہو جانا ہے۔

۱۲۔ حقیقی علم بہشت کی سیڑھی ہے۔

۱۳۔ موت دو قسم کی ہوتی ہے، نفسانی موت اور جسمانی موت۔

۱۴۔ حدیثِ قدسی ہے: اے اولادِ آدم! میری اطاعت کر، تاکہ مین تجھ کو اپنی کاپی بنادوں گا۔۔۔۔۔

۱۵۔ اگرچہ چھپا ہوا خزانہ سب کے لئے ہے، لیکن یہ اسی کا ہوجاتا ہے جو اس کو پہچانتا ہے۔

۱۶۔ سب سے عظیم اور سب سے مفید راز یہ کہ امامِ زمان اللہ کی تاویل ہے ، کیونکہ خدا و رسولؐ کا حقیقی نمائندہ وہی ہے۔

۱۷۔ اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں، یعنی دنیا میں ہمیشہ نورِ ہدایت موجود ہے۔

۱۸۔ جو شخص حقیقی علم سے نابلد اور جاہل ہو، وہ آتشِ دوزخ میں ہے۔ (والجاھلُ فی لنّار، حدیث)

۱۹۔ عبادت کی بڑی قسمیں تین ہیں: جسمانی عبادت، روحانی عبادت، اور عقلانی عبادت۔

۲۰۔ مومن اللہ کے نور کا پَرتو ہے، یعنی چہرۂ خدا کا عکس یا تصویر ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی ،  جمعہ  ۱۵؍ جمادی الثانی ۱۴۱۵ ھ       ۲۱؍اکتوبر ۱۹۹۴ء

 

۲۶

 

بابِ دوم

کتاب کے مہمانِ خصوصی

 

۲۷

 

صوبیدار میجر (ریٹائرڈ) عبد الحکیم خان

صوبیدار میجر (ریٹائرڈ) عبدالحکیم خان حضور موکھی، اعلیٰ نمبردار ذوالفقار آباد گلگت) ابنِ خلیفہ جمعہ بیگ ابنِ خلیفہ ابوذر غفاری ابنِ حاجی حیدر علی ابنِ حاجی بیگ ابنِ حاجی علی شیر ( جو خاندان علی شیر کذ کا جدِ اعلیٰ ہے)۔

موصوف صوبیدار میجر ایک ایسے ناموار خاندان کے چشم و چراغ ہیں جو شروع ہی سے راجگانِ ہونزہ، رعایا اور پورے علاقے کی بے مثال خدمات انجام دیتے آیا ہے۔ شاید ئنی نسل کو اس بات سے بڑا تعجب ہوگا کہ قدیم ہنزو کڎ عملِ باران (بارش برسانے کی تعویذ) تیز ہوا چلا نے کی تعویذ اور کشائش (بادلوں کو ہٹانے کی دعا ) پر یقین رکھتے تھے، یہی عقیدہ بدخشان، کاشغر اور یارقند میں بھی تھا، اور قرآنِ حکیم اس حقیقت کی بار بار تصدیق فرماتا ہے کہ اہلِ ایمان کے لئے کائنات کی ہر چیز مسخر کی گئی ہے، اس کا ایک حوالہ سورۂ جاثیہ (۴۵: ۱۳) میں ہے، لیکن اس تسخیر کے لئے عظیم شرطیں ہیں، چنانچہ علی شیر کڎ کے نیک بخت خاندان نے انتہائی شدید ریاضت کے ساتھ ہونزہ کے تمام پہاڑوں، صحراؤں اور آبادیوں کے لئے عملِ باران کی گرانمایہ خدمات انجام دیں، جس کا ذکرِ جمیل اور شکریہ قوم کی جانب سے ہم ہی کرتے ہیں۔

 

۲۹

 

اللہ تبارک تعالیٰ نے صوبیدار میجر (ریٹائرڈ) عبدالحکیم خان صاحب کو کئی زرین خدمات کے میدانوں کا بادشاہ بنایا ہے، اور وہ میدانیں آج تک آٹھ ہوئے ہیں، جن میں سب سے پہلا اور سب سے مشکل عسکری میدان ہے، دوسرا مشکل میدان سکردو جماعت خانے کی تعمیر سے متعلق ہے، تیسرا میدانِ خدمت وہ ہے، جس میں ذوالفقار آباد کی بستی نیست و نابود ہو جانے سے بچالی گئی، چوتھا میدان سوشل خدمات کا ہے، پانچواں میدان الازہر ماڈل سکول میں عرصۂ دراز تک خدمت کرنے سے متعلق ہے، چھٹا میدان ذوالفقار آباد کی تعمیر و ترقی کا ہے، ساتواں میدان یہاں کے مقدس جماعت خانے کی تعمیر سے متعلق ہے، اور آٹھواں میدان وہ ہے، جس میں ہمیشہ آپ نے خانۂ حکمت سے بے مثال تعاؤن کیا، کوئی شخص شاید یہ سوال کرے کہ آیا ہر میدان میں صوبیدار میجر صاحب اکیلے ہی تھے؟ جواب ہے کہ اکیلا کوئی نہیں ہوتا، مگر یہ دیکھا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر بے مثال خدمات کس نے انجام دیں۔

ظلم و ستم کرنے والے بادشاہوں کا زمانہ گزر گیا، اب صرف وہی فرشتہ صفت انسان تمام لوگوں کے دلوں پر بادشاہی کر رہے ہیں جن کو ہر گونہ خدمت عزیز ہے، یقیناً میرا دل کہتا ہے کہ جناب صوبیدار میجر عبدالحکیم خان صاحب سنہری خدمات کا خاموش اور بے تاج بادشاہ ہیں، جب ان کی خاندانی اور ذاتی تاریخ ایڈٹ ہو کر منظر عام پر آئے گی تو حقیقی معنوں میں پتہ چلے گا کہ آپ کی قومی خدمت کا دائرہ کس قدر وسیع اور کتنا عظیم ہے۔

خدائے بزرگ و برتر نے موصوف صوبیدار میجر صاحب کو قوم کے لئے قدرو منزلت کا ایک بڑا مضبوط پہاڑ بنا دیا ہے، اس کی بنیادی وجہ عسکری

 

۳۰

 

خدمت ہے جو اسلام، پاکستان اور علاقے کے لئے کی گئی ہے، اور یہ سچ ہے کہ ہمارے فوجی بھائی حکومت اور عوام کی نظر میں بڑے معزز ہیں، یہی سبب ہے کہ جب بھی کوئی بڑا مسئلہ درپیش ہو تو اس میں اپنے فوجی بھائیوں پر اعتماد کیا جاتا ہے۔

مہمان نوازی جیسی اعلیٰ انسانی صفت ہر کس وناکس میں پیدا نہیں ہوتی ہے، کیونکہ یہ خداوندِ عالم کی ایک عنایت ہے جو اس کے نیک بخت بندوں کو نصیب ہوتی ہے، اس پسندیدہ عمل کے نتائج و ثمرات بے حد مفید ہوا کرتے ہیں، چنانچہ محترم صوبیدار میجر عبد الحکیم خان صاحب مہمان نوازی میں شاہانہ دستر خوان کے مالک ہیں، اور حق بات تو یہ ہے کہ کھلانے پلانے سے بھی بڑھ کر کسی باعزت میزبان کی تواضع اور عاجزی بہت بڑی چیز ہوتی ہے جس میں ہمارے صوبیدار میجر بے مثال ہیں۔

الغرض ہمارے ممدوح صوبیدار میجر صاحب خدا کے فضل و کرم سے ایک عظیم سدا بہار پُرثمر درخت کی طر ح ہیں جس کا خوشگوار سایہ ہے، خوشبودار پھول ہیں، اور لذیذ میوے، عاجزانہ دعا ہے کہ یہ زندہ اور ازبس مفید درخت قومی باغ میں ہمیشہ شاداب اور ترو تازہ رہے! آمین یاربّ العالمین!!۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

ہفتہ  ۱۷؍ ربیع الثانی ۱۴۱۵ ھ       ۲۴؍ستمبر ۱۹۹۴ء

 

۳۱

 

 

“TRUE COPY”

Monogram

21st May, 1973.

My dear President and Members,

On the occasion of Imamat Day, 11th July, I would like you to perform the opening ceremony of the new Jamatkhana at Skardu. My spiritual children in Skardu should use the new Jamatkhana as from Imamat Day.

I send my most affectionate paternal maternal loving blessings to the following beloved spiritual children for their devoted services and good work.

 

Ghulam Mohamed Hunzai

S.M. Abdul Hakeem

Rahmatullah

Ghulam Ali Shah

Mashroof Khan

Mahmood Beg

 

۳۲

 

I give my most affectionate paternal maternal loving blessings to all beloved spiritual children for their donations towards the building of the new Jamatkhana with best loving blessings to all those who helped towards the constructions work.

Yours affectionately,

Sd/.

Aga Khan

The President and Members,

H.H. Aga Khan Ismailia Supreme

Council, Karim abad

 

۳۳

 

پہاڑ کی مثال

 

قرآنِ حکیم میں پہاڑ کی مثال بڑی عجیب و غریب حکمتوں سے مملو ہے، پہاڑ کے لئے قرآن میں اکثر لفظِ جَبَلْ اور طُوۡر آیا ہے، جبل کا ذکر ۶ بار ہوا ہے اور جِبال (صیغۂ جمع) ۳۳ مرتبہ مذکور ہے، اور طور ۱۰ دفعہ آیا ہے، جبل یا طور کی تاویل عالمِ علوی، عالمِ سفلی اور عالمِ شخصی کے اعتبار سے مختلف ہے، ہم آپ کی آسانی کی خاطر یہاں عالمِ شخصی کے پہاڑ کی بات کرتے ہیں، جس میں عالمِ دین کے آسمان و زمین کی ایک کاپی موجود ہے۔

جبل یا طور کی تاویل:

۱۔ مومن یا مومنہ کا سر، کیونکہ بدن زمین کی طرح ہے اور سر پہاڑ کی مثال ہے۔

۲۔ روحِ منجمد کہ اسی روح کے پہاڑ کو انفرادی قیامت کے آنے پر ریزہ ریزہ ہو جانا ہے۔

۳۔ ترقی یافتہ روح یعنی روحِ علوی جو کائنات میں سیر کرتی ہے۔

۴۔ عقلِ منجمد، کیونکہ جب تک کوہِ عقل پر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی تجلی

 

۳۴

 

نہ ڈالے تو وہ منجمد ہی رہتی ہے، اور کائناتی عقل نہیں ہوسکتی۔

۵۔ وہ کوہِ عقل جو تجلیٔ حق یعنی دیدارِ الٰہی سے ریزہ ریزہ ہوکر مکان و زمان پر محیط ہوگیا ہو۔

سوالِ اوّل: بعض انبیاء علیہم السلام کے اس عمل میں اہلِ ایمان کے لئے کیا اشارہ ہے کہ وہ حضرات پہاڑ پر جاکر ذکر و عبادت کیا کرتے تھے؟ جواب: یہ شروع شروع کی بات ہے، ان مقدس ہستیوں کی ایسی عبادت کا اشارہ یہ ہے کہ جو مومنین و مومنات اسمِ اعظم کی نورانی عبادت کر رہے ہیں وہ ذکرِ الٰہی کو بدن سے بلند کر کے سر کے پہاڑ پر لے جائیں، اور اپنی پیشانی کے غار میں بطریقِ خود کار اللہ کو یاد کرتے رہیں۔

سوال دوم: کوئی نیک بخت شخص اعتکاف و چلہ کے لئے کس طرح اپنے سر کے پہاڑ پر جا سکتا ہے؟ جواب: اختیاری نفس کشی اور نفرادی قیامت کے معجزے سے ذکر پیشانی پر بلند ہو جاتا ہے۔

سوالِ سوم: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے اوپر پہاڑ کو بلند کیا (۲: ۶۳، ۷: ۱۷۱) اس کی کیا تاویل ہو سکتی ہے؟ جواب: الف: مقامِ روح پر کوہِ روح سر کے اوپر بلند کیا جاتا ہے۔ ب: مقامِ عقل پر کوہِ عقل بالائے سر رفع کیا جاتا ہے۔

سوالِ چہارم: کیا حضرتِ موسٰی کی قوم کی اتنی روحانی ترقی ہوئی تھی کہ اس کے ہر فرد کے اوپر روحانی پہاڑ اور عقلانی پہاڑ اٹھائے گئے تھے؟ جواب: ایسا نہیں، بلکہ یہ معجزہ کاملین کےعالمِ شخصی میں ہوتا ہے، جس میں بصورتِ ذرات سب لوگ موجود ہوتے ہیں۔

 

۳۵

 

سوالِ پنجم: سورۂ حشر (۵۹: ۲۱) میں ہے: اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے، اور ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے۔ اس میں کیا حکمت پنہان ہے؟ جواب: جب خداوندِ قدوس جبلِ عقل پر اپنی پاک تجلّی ڈالتا ہے تو وہ اللہ کے خوف سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے، یعنی علم و حکمت کے بے شمار اجزاء بن جاتا ہے، کیونکہ وہ تجلّی در اصل حق تعالےٰ کی کتاب بھی ہے۔

سوالِ ششم: قرآنِ پاک (۰۲: ۶۰، ۰۷: ۱۶۰) میں اس مبارک پتھر کا ذکر آیا ہے، جس سے حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کی قوم کے لئے بارہ چشمے جاری ہوئے تھے، آیا اس پتھر کا جبلِ عقل سے کوئی تعلق ہے؟ آپ یہ بھی بتائیں کہ بارہ چشموں کی کیا تاویل ہے؟ جواب: وہ بابرکت پتھر خود عالمِ شخصی میں کوہِ عقل ہے، جو اساس کا باطنی مرتبہ ہے، اور بارہ چشموں سے بارہ حجت مراد ہیں جو علمِ اساس کے چشمے ہیں ، اساس (علیؑ) کے بعد طورِ عقل کا مرتبہ امامؑ کو حاصل ہے۔ سوالِ ہفتم: حکیم پیر ناصر خسرو (قدس اللہ سرہٗ) کے اس شعر کی حکمت واضح کر دیں:

بسانِ طیرِ ابابیل لشکری کہ ہمی                بیوفتد گہری زو بہ جاری ہر حجری

جواب: ترجمہ: جھنڈ کے جھنڈ پرندوں کی طرح ایک (روحانی) لشکر ہے، جس سے ہر پتھر کی جگہ ایک گوہر گرتا ہے۔ یعنی عالمِ شخصی میں سب کچھ موجود ہے، اور اصحابِ فیل (۱۰۵: ۰۱ تا ۰۵) کا واقعہ بھی ہے، مگر بطریقِ رحمت، کہ یہاں پرندوں کے لشکر پتھروں کی بجائے لعل و گوہر برسا دیتے ہیں، تاکہ کافروں

 

۳۶

 

کی ہلاکت کی عملی مثال بھی ہو اور عارفانِ حق کے لئے دولتِ لازوال بھی ہو۔

سوالِ ہشتم: (بحوالۂ سورہ ۰۲: ۷۴) وہ پہلا پتھر کون سا ہے جس سے نہریں جاری ہو جاتی ہیں؟ دوسرا پتھر کونسا ہے جس سے پانی نکلتا ہے؟ اور تیسرا پتھر کونسا ہے جو خدا کے خوف سے گر جاتا ہے؟ جواب: اساس اور امام علیہما السّلام، جن کے جبلِ عقل سے ہمیشہ علم کے بارہ چشمے جاری ہیں، حجت اور داعی جن کے توسط سے امامؑ کا علم ملتا ہے، اور ہر مرید (مرد و زن) جو بار بار خود کو گرا دیتا ہے، یعنی علم کی خاطر اللہ کے حضور میں عاجزی اور گریہ وزاری کرتا ہے۔

سوالِ نہم: اس حدیث شریف کی کوئی پوشیدہ حقیقت سمجھائیں: نزل الحجرالا سود من الجنۃ و ھوا شدٌ بیا ضاً سوّدتۃ خطایا بنی اٰدم ۔ حجرِ اسود بہشت میں سے اترا،  وہ بہت سپید تھا، لیکن لوگوں کے گناہوں نے اس کو کالا کر دیا۔ جواب: بہشت سے کوئی چیز دنیا میں اس طرح نازل ہوتی ہے کہ وہ شیٔ بحالتِ روحانی وہاں موجود بھی رہتی ہے، اور یہاں اس کی ایک مادّی صورت بھی بنتی ہے، اگر بہشت کی ہر نعمت بعینہٖ اٹھ کر دنیا میں اتر آتی تو اس عمل سے بہشت رفتہ رفتہ ختم ہو جاتی اور یہ دنیا بہشت بن جاتی ، مگر یہ ممکن نہیں، پس یہ مبارک پتھرہمیشہ جنت میں  حجرِ ابیض اور کوہِ عقل ہے، اور دنیا میں حجرِ اسود ہے۔

سوالِ دھم: اس میں کیا رازِ حکمت پوشیدہ ہے کہ عقل کی تشبیہ و تمثیل پتھر سے دی گئی ہے، حالانکہ پتھر جماد (بیجان) ہے، اور کائنات میں اس کا درجہ سب سے نیجے ہے؟ جواب: ہر چیز کے

 

۳۷

 

د و پہلو ہوا کرتے ہیں، چنانچہ پتھر یعنی پہاڑ کا حکمتی (باطنی) پہلو بڑا عجیب و غریب ہے: (الف) سیّارۂ زمین کی تخلیق کے بعد پہاڑ پیدا کئے گئے، اور یہ پہاڑوں کی فضیلت کی دلیل ہے، پھر ان کی وجہ سے زمین کی برکتیں پیدا ہوگئیں (۴۱: ۱۰) ۔ (ب) ویسے تو پہاڑوں سے بے شمار مفید چیزیں حاصل ہوجاتی ہیں، لیکن ان میں جواہر کی کانیں بڑی حیرت انگیز ہیں (ج) کائنات و موجودات کی جملہ اشیاء دائرۂ اعظم پر واقع ہیں، جس میں سب سے پہلے ۹ آبائے علوی، یعنی عرش، کرسی، اور سات آسمان ہیں، پھر چار اُمہات (آگ، ہوا، پانی اور مٹی) ہیں، پھر موالیدِ ثلاثہ (جمادات، نباتات اور حیوانات) ہیں، پھر ان میں سے حیوانِ ناطق (یعنی انسان) ہے، پھر انسانِ کامل ہے، پھر اس میں سے فرشتۂ اعظم اور اس کے ہاتھ میں انتہائی گران مایہ پتھر (گوہرِ عقل) ہے، یہ ہوا دائرۂ اعظم کا کوہِ عقل سے شروع ہو کر پھر کوہِ عقل پر جاکر مکمل ہو جانا، عرش و کرسی یا قلم و لوح ہی دو عظیم فرشتے ہیں۔

سوالِ یازدھم: قرآنِ عزیز اللہ تعالےٰ کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ: اُس نے تمہارے آرام کے لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے، اور اسی نے تمہارے چھپ کے بیٹھنے کے واسطے پہاڑوں میں گھروندے (غار وغیرہ) بنائے (۱۶: ۸۱) اس کی کیا تاویل ہو سکتی ہے؟ جواب: یہ خداوندِ کریم کی بڑی بڑی نعمتوں اور عظیم احسانات کا ذکر ہے، اس لئے یہ مخلوقِ خاص کا سایہ یعنی کاپی ہے، جیسے عالمِ شخصی میں سایۂ عرش = نورِ عقل، سایۂ کرسی = روح الایمان ، سایۂ قرآن =  روحانیّت، سایۂ امامؑ = تاویلی حکمت، وغیرہ۔

 

۳۸

 

پہاڑوں میں گھروندے یا غار = انبیاء و أئمّۂ علیہم السّلام (جو عقلی اعتبار سے پہاڑوں کی طرح ہیں ، ان ) کے اندر اہلِ ایمان کی مخفی زندگی ۔

سوالِ دوازدھم: آپ نے پہاڑ کی مثال میں کوہِ عقل کی تعریف و توصیف بیان کیا، جس سے عقل کی بہت بڑی اہمیت واضح ہوگئی، جب یہ امرِ واقعی ہے تو پھر پوچھنا پڑے گا کہ آیا امُ الکتاب (سورۂ فاتحہ) میں عقل کی اہمیت کے بارے میں کوئی اشارہ موجود ہے؟ جواب: جی ہاں، نہ صرف اشارے ہی ہیں، بلکہ عقل کا ایک نام بھی ہے، اور وہ ہے: حمد/ الحمد (بحوالۂ کتابِ وجہِ دین، گفتار / کلام: ۳۷)۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کی حقیقی تعریف (الحمد) عقلِ کل ہی ہے، جس کے توسط سے عوالمِ شخصی کی عقلی پرورش ہوتی رہتی ہے، اسی پرورش کی روشنی میں صفتِ رحمان و رحیم کا ثبوت مل جاتا ہے، اور روزِ جزا کے مالک کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے، اسی معرفت کا اشارہ  اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْستَعِیْن  میں موجود ہے، یہ سب کچھ ہادئ زمان علیہ السّلام کی نورانی ہدایت سے ممکن ہوا تھا، لہٰذا عطا کردہ نعمت کی شکرگزاری کے طور پر عرض کی جاتی ہے کہ: چلا ہم کو سیدھے راستہ پر، راستہ اُن کا جن پر تو نے انعام فرمایا، نہ ان کا جن پر غضب ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے امُ الکتاب میں عقلِ کل اور اس کے مظہر (امامِ زمانؑ) کا ذکر فرمایا ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

ہفتہ ، ۱۲؍شعبان المعظم ۱۴۱۵ ھ   ۱۴؍ جنوری ۱۹۹۵ء

 

۳۹

 

بابِ سوم

خانۂ حکمت ریجنل برانچ

 

۴۱

 

یارانِ طریق

اس پسندیدہ عنوان کے تحت ان عالی ہمت عزیزان کا کچھ تذکرہ مقصود ہے جو اس بندۂ خاکسار کے ساتھ جان و دل سے علمی خدمت کے راستے پرگامزن ہوتے رہتے ہیں، یعنی علمی ہمسفر اور رفقائے کار، جو مجھے بےحد عزیز ہیں، کیونکہ اس کے ساتھ میرا خاص روحانی اور اصل علمی رشتہ ہے، ان کی سکونت کی وجہ سے وہ ممالک اور مقامات بھی بہت دلکش لگ رہے ہیں، جہاں جہاں میرے عزیزان قیام پذیر ہیں، خدا کا شکر ہے کہ میں سارے انسانوں کو درجہ بدرجہ چاہتا ہوں، تاہم جو حضرات علمی خدمت میں میرے ساتھ ہیں، ان کو اپنی جان کی طرح یا اس بھی زیادہ عزیز رکھتا ہوں، میرا خیال ہے کہ ایسی بامقصد دینی اور علمی محبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی رحمت ہے۔

چیف ایڈوائزر غلام قادربیگ:

آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے، غلام قادربیگ (چیف ایڈوائزر)  ابنِ ترنگفہ امیر اللہ بیگ ابنِ ترنگفہ فیض اللہ بیگ ثانی (وزیر ݽیناکی) ابنِ ترنگفہ فیض اللہ بیگ اوّل (سالار برائے ہنگامی عسکری امور) ابنِ وزیر اسد اللہ بیگ

 

۴۳

 

ابنِ وزیر پنو. . . ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے غلام قادر بیگ صاحب کی شخصیت کو گونا گون خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ فرمایا ہے، جس اصلی و اساسی خوبی سے انسان میں ہزارہا خوبیاں پیدا ہو جاتی ہیں، وہ ایمان اور خدا ترسی ہی ہے، الحمد للہ! یہ وصف عزیزِ جان غلام قادر میں بدرجۂ اتم موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ میدانِ علم و عمل میں نمایان کامیابی اور نیک نامی کے ساتھ آگے سے آگے بڑھ رہے ہیں، ہر شخص دل و جان سے آپ کی عزت کرتا ہے، کیونکہ آپ ہر دلعزیز اور بے مثال لیڈر ہیں، اور کئی حیثیتوں میں قوم کی اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں، یقیناً غلام قادر بیگ صاحب کی رہنمائی میں خانۂ حکمت ریجنل برانج گلگت نے کافی ترقی اور نیک نامی حاصل کر لی ہے، لہٰذا ہم سب غلام قادر (چیف ایڈوائزر برائےعلامہ نصیر ہونزائی) کے بہت بہت ممنون اور شکر گزار ہیں۔

بے حد خوشی اور انتہائی شادمانی کی بات ہے کہ عزیزم غلام قادر بیگ کی “پین پاور” میں بڑی تیزی سے ترقی ہورہی ہے، جس کی ہمیں ہر طرح سے ضرورت ہے، ان شاء اللہ عنقریب ایک بہت بڑے لیڈنگ سکالر کی حیثت سے نمایان ہو جائیں گے، کیونکہ آپ بڑے روشن دماغ اور پاک باطن ہیں، اور حقیقی علم کی مکانیت و ظرفیت کے لئے ان کا دل بہت پاکیزہ اور صاف ہے، میں باور کرتا ہوں کہ غلام قادر بیگ درویش صفت ہونے کی وجہ سے فرشتگانِ ارضی میں سے ہیں، آپ کا تعلق قریۂ علی آباد سے ہے۔

 

۴۴

 

علی آباد

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام نے میر محمد غزنخانِ ثانی سے سوال فرمایا کہ آپ کی ریاست و حاکمیّت کے تحت جتنے گاؤں ہیں، ان کے کیا کیا نام ہیں؟ امامِ عالیمقامؑ کے اس ارشاد پر میر صاحب نے انتہائی اخلاص و ادب سے عرض کیا کہ یا مولا! ان تمام قریہ جات کے یہ یہ نام ہیں، پس امامِ اقدس و اطہر نے ایسے ناموں کو زیادہ پسند فرمایا جو اسلامی طرز پر ہیں، حضرتِ امام علیہ السّلام کی اس پسندیدگی میں بہت بڑی حکمت ہے، چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حسبِ اشارۂ ہادیٔ برحقؑ ہر اس گاؤں کے نام کو تبدیل کرنا چاہئے جو اسلامی نہ ہو، جس طرح اب متم داس کا نام رحیم آباد اور ہندی کا نام ناصر آباد رکھا گیا ہے۔

روحانی انقلاب کا زمانہ تھا، اور یہ درویش اپنے خیال ہی میں علی آباد کی کوئی بات یاد کر رہا تھا، اتنے میں روحانی نے ناقابلِ فراموش انداز میں کہا: ۔ اُلو کے علی اباتن بِلݳ (باطن میں بھی ایک علی آباد موجود ہے ) مجھے یقین ہے کہ اس میں بہت سے اشارے ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ ہر اشارہ مسرّت بخش اور حیرت انگیز ہے، مثال کے طور پر: ۔

عالمِ شخصی کی گونا گون تجلّیات میں اس امر کا امکان ہے کہ آپ جس قریہ،

 

۴۵

 

شہر، اور جس سیّارے یا ستارے کو دیکھنا چاہیں، دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ یہ بہشت ہے، جس میں ہر نعمت ممکن الحصول ہے، پس اگر کوئی مومن چاہے تو پرسنل ورلڈ کا روحانی ظہور اس کے اپنے گاؤں کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے، چنانچہ روحانی کا یہ فرمانا کہ:

“اُلو کے علی اباتن بِلݳ = باطن میں بھی ایک علی آباد ہے۔” یہ سب کے لئے کلّیہ بھی ہے اور اہلِ علی آباد کے لئے مژدہ بھی۔

صاحبِّ صدر:

اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور احسان ہے کہ خانۂ حکمت ریجنل برانچ گلگت کو خدمتِ خلق کی یہ بہت بڑی سعادت نصیب ہوئی، میں اس موقعہ پر اپنی طرف سے اور شرق و غرب کے تمام عزیزوں کی طرف سے صاحبِ صدر سلطان اسحاق کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں، قبول ہو، نیک نام برانچ کے صدرِ عالی قدر کا شجرۂ نسب یہ ہے: سلطان اسحٰق ابنِ محمد شریف، ابنِ مظہر علی، ابنِ رحمت شاہ، ابنِ لولوخان، ابنِ لسکرِ خان، ابنِ محمد شریف۔

عزیزم سلطان اسحٰق اسلامی اور ایمانی اقدار کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں، اس لئے ہر نیک کام میں محنت اور صداقت ان کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے، اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کے نورِ محبت نے ان کو کندن بنا دیا ہے، کتنی بڑی خوبی کی بات ہے کہ کوئی مومن ظاہراً افسر ہو اور باطناً درویش! آپ نے کئی دفعہ اپنے دولت خانے میں روحانی و علمی مجلس کا اہتمام فرمایا،

 

۴۶

 

جس میں آپ ہماری مقدّس روایت کے مطابق نہ صرف ایستادہ اور دست بستہ تھے، بلکہ نزولِ رحمت کی غرض سے اللہ کے حضور عاشقانہ آنسو بھی بہا رہے تھے، زہے نصیب!

سلطان اسحاق صاحب کا یہ عظیم احسان ناقابلِ فراموش ہے کہ انہوں نے نارتھ کے فوجی افسران کی خدمت میں بعض کتابیں پیش کیں، اور ساتھ ہی ساتھ پُرزور مشورہ دیا کہ میں میجر جنرل فضلِ غفور صاحب اور ان کے ساتھی آفیسرز کی خواہش و فرمائش کے مطابق اسلامی جہاد پر کوئی مضمون تحریر کروں، اس بابرکت مشورے کا بڑا میٹھا ثمرہ آج “چہل حکمتِ جہاد” سب کے سامنے ہے۔ اس چھوٹی سی کتاب کے توسط سے میں اپنے فوجی بھائیوں کے ساتھ ہوں، آج میں عزیزوں، کتابوں وغیرہ کی صورت میں ایک مکمل آرمی ہوں، الحمدُللہ علیٰ مَنِّہٖ و اِحْسَا نِہٖ۔

الغرض صدر سلطان اسحٰق اور ان کے عملداران و ممبران سب کے سب قابلِ صد مبارک باد ہیں کہ ان کی مجموعی کوشش سے ایسے عظیم الشّان کارنامے انجام دیئے گئے، جن سے ہر طرف خوشی اور شادمانی کی خوشبو پھیل گئی، آئیے! ہم سب مل کر کوئی ایسی عاجزانہ دعا کریں کہ جس س خداوندِ مہربان کو ہم پر رحم آئے، وہ ہمیشہ ہمیں نیک توفیقات عنایت فرمائے! تاکہ ہم کبھی مغرور نہ ہوجائیں، اس مہلک اخلاقی بیماری سے بچنے کی خاطر بار بار گریہ و زاری کریں، کیونکہ اس کے بغیر اللہ کی دوستی قائم نہیں رہتی، وہ بڑی مشکل اور نازک شیٔ ہے، یہی وجہ ہے کہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام ہمیشہ گریہ وزاری کیا کرتے ہیں (۱۷: ۱۰۹، ۱۹: ۵۸)۔

 

۴۷

 

دوستانِ عزیز! قرآنِ حکیم کے ان دونوں حوالوں میں غور سے دیکھ لیں کہ خدا کے خاص بندے گریہ وزاری کے دوران کیوں سجدہ ریزہ ہوجاتے ہیں؟ اس میں کیا راز پوشیدہ ہے؟

سابق صدر:

عزیزم خلیفہ غلام رسول قبلاً اس برانچ کے صدر تھے، اور اب ایڈوائزر ہیں، آپ کا شجرۂ نسب یہ ہے: غلام رسول ابنِ محمد حسن، ابنِ حسن شاہ، ابنِ دولت علی، ابنِ محسن، ابنِ دو دو، ابنِ مغل خان، ابنِ ممو، ابنِ رستم خان، ابنِ بجل خان جو میوری تھم کے زمانے میں ہونزہ آیا تھا۔

غلام رسول صاحب ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو قریۂ حیدرآباد میں پیدا ہوئے، ذہین اور دیندار ہونے کی وجہ سے آپ ۱۹۶۸ء کو مرکزی جماعت خانہ گلگت سے متعلق والنٹیئرز کے کیپٹن مقرر ہوگئے، بعد ازان مولانا حاضر امام علیہ السّلام نے آپ کو اسماعیلیہ ایسوسی ایشن ایریا کمیٹی گلگت کا سیکریٹری مقرر فرمایا، اس کے بعد لوکل کونسل گلگت کا ممبر منتخب ہوا، اور اس مقدّس خدمت میں ۶ سال تک ذوالفقار آباد ریلیجس گائیڈ کا فریضہ انجام دیتا رہا ، جب شاہ کریم ہاسٹل میں ٹریننگ کر کے اچھے نمبروں پر پاس ہوا تو ہیڈ کوارٹر کراچی طریقہ بورڈ نے آپ کو مقامی واعظ منتخب کیا۔

شروع ہی سے آپ خانۂ حکمت گلگت کے نائب صدر تھے، پھر صدارت پر فائز ہو گئے، اس کے بعد اب غلام رسول صاحب ایڈوائزر ہیں، اور یہاں کی جماعت کے خلیفہ بھی، آپ دیکھتے ہیں کہ عزیزم غلام رسول کی کتنی مفید خدمات ہیں!

 

۴۸

 

حضور موکھی رحمت علی

آپ کا شجرۂ نسب: رحمت علی ابنِ گوہر شاہ، ابنِ نادرشاہ، ابنِ حیات بیگ، ابنِ ایاز بیگ۔

گوہر شاہ عبادت گزار، شب خیز، منقبت خوان اور درویش صفت انسان تھے، خداوندِ قدوس ایسے مومنین کو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بڑے بڑے انعامات سے نوازتا ہے، آج ہم ان کے معزز افرادِ خاندان کو دیکھتے ہیں، وہ زمین پر چلنے پھرنے والے فرشتے ہیں، یہ بات معرفت کی روشنی میں ہے، اور یہ بڑا عجیب واقعہ کہ جو ارضی فرشتے ہوتے ہیں ان میں سے بعض کو یہ راز معلوم ہی نہیں کہ وہ یہاں کے فرشتے ہیں۔

حیات بیگ مسگار کا پہلا ارباب تھا، لفظِ ارباب علاقۂ گوجال میں ترکفا (ترنگفا / زکگوین) کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

جناب رحمت علی صاحب ہونزہ کے اوّلین اسماعیلی سول انجینیئر ہیں، آپ اپنی تمام تر اخلاقی خوبیوں میں بے مثال ہیں، عبادت اور علم سے بھر پور مزہ لینے والے، حضرتِ امامِ اقدسؑ کے دوستدار، اہلِ بیتِ اطہارؑ کے جان نثار، اپنی نیک نام جماعت کے خدمت گزار اور نیک عادتوں میں نامدار ہیں، آپ خانۂ حکمت کے لئے ایڈوائزر منتخب ہوئے ہیں۔

 

۴۹

 

مولانا حاضر امام صلوات اللہ علیہ کے لئے ان کے ظاہر و باطن میں کس درجے کا عشق ہے، اس کا اندازہ ان کے نورانی خوابوں سے ہوسکتا ہے، جبکہ اچھے خواب انبیاء علیہم السلام کے مجموعی معجزات میں سے ہیں، یہ قانونِ عشق خوب یاد رہے کہ فنا فی الا مامؑ، فنا فی الرسولؑ، اور فنا فی اللہ کا معجزۂ عشق ایک ہی ہے، اور اس کا نتیجہ و ثمرہ بھی ایک ہی ہے، الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

 

ن۔ ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل ۲۰؍ ربیع الثانی ۱۴۱۵ ھ       ۲۷؍ستمبر ۱۹۹۴ء

 

۵۰

 

اعزازی سیکریٹری

عزیزم شیراللہ بیگ خانۂ حکمت ریجنل برانچ گلگت کے آنریری سیکریٹری ہیں آپ کا شجرۂ نسب اس طرح ہے: شیر اللہ بیگ ابنِ پہلوان بیگ ابنِ رجب شاہ ابنِ پہلوان ابنِ شالی۔

آپ بڑے راسخ العقیدت اور علم دوست مومن ہیں، ان کو حلیمی اور نرم گوئی پسند ہے، عرصۂ دراز سے آنریری خدمات انجام دے رہے ہیں، کمپیوٹر میں اچھی خاصی مہارت حاصل کر لی ہے، اس فن سے دوسروں کی بھی مستفیض کر رہے ہیں، دفتری امور کا خوب تجربہ رکھتے ہیں، ذکر و عبادت اور علم و حکمت کے شیدائی ہیں، اور اس مقدّس راہ میں ان شاء اللہ ان کی ترقی ہوگی، کیونکہ خداوندِ قدوس کے فضل و کرم سے آپ خصوصی علم و عبادت کے ماحول میں رہتے ہیں۔

میں انتہائی عاجزی سے دعا کرتا ہوں کہ حضرتِ ربّ العزّت تمام اہلِ زمین کو اپنے علم و حکمت کے نورمیں ایک کردے! تاکہ وہ بےشمار ہونے کے باؤجود شخصِ واحد کی کاپیاں ہو جائیں، جس طرح منزلِ عزرائیلی میں یہ عجیب و غریب معجزہ دیکھا گیا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک دن

 

۵۱

 

عالمِ انسانیت کو لپیٹ کر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں رکھنے والا ہے، جیسے قرآنِ کریم میں اس حقیقت کا اشارہ موجود ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷)۔

تعجب کی بات ہے کہ لوگوں نے اپنی روح جیسی اعلیٰ حقیقت کی پہچان کی طرف توجہ نہ دی، جیسا کہ اس کا حق ہے، اور جس نے پہچاننے کی کوشش کی اس نے روح کو پانی سے بھی کم درجہ دیا، یہ تو روحِ انسانی پر ظلم ہوگیا، جیسے ہندؤوں کا تصوّر ہے کہ روح اس جنم میں محدود ہے، پھر دوسرے جنم میں بھی، حالانکہ پانی ایک مادّی چیز ہونے کے باوصف اپنی دنیا کے ہر مقام پر آزاد اور موجود ہے، آپ خوب غور کریں کہ عالمِ آب اور اس سے پیدا شدہ چیزیں کہاں سے کہاں تک ہیں، اور روح اس مثال سے انتہائی اعلیٰ ہے، کیونکہ وہ نورِ خداوندی کا عکس ہے، پس نور دونوں جہاں میں ہر جگہ حاضر ہے، اور عکس اس سے کیسے الگ ہوسکتا ہے، اب آپ خود بتائیں کہ حقیقی روح ہمیشہ بہشت میں ہے یا نہیں؟

حکیم پیر ناصر خسرو فرماتے ہیں: ۔

زنورِ او تو ہستی ہمچو پَرتَو            حجاب از پیش بردار و تو اوشو

تو اس کے نور کا عکس ہے، پردہ سامنے سے ہٹا کر تو اس کے ساتھ ایک ہو جا ۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

۱۹؍ جون ۱۹۹۴ء

 

۵۲

 

کو آرڈینیٹر برائے مسگار

اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ ہماری ریجنل برانچ گلگت کے عملداروں نے مجموعی طور پر بہت سے اعلیٰ کارناموں کو انجام دیا ہے، چنانچہ اسی خوشی کے نتیجے میں یہاں کے عہدہ داروں کی ہمت افزائی کے لئے کچھ کلمات تحریر کرنے کی سعی ہورہی ہے۔

کامڑیا حاصل مراد صاحب نائب صوبیدار (ریٹائرڈ) قریۂ عزیز مسگار کے لئے کوآرڈینیٹر مقرر ہوگئے ہیں، تاکہ مسگار برانچ کو ترقی میں مدد ہو سکے، آپ میرے خاص علمی دوستوں میں سے ہیں، ہماری دوستی علمی خدمت کی غرض سے ہوا کرتی ہے، کیونکہ علم ہی سب سے بڑی دولت ہے جو لازوال اور غیر فانی ہے، پس جو شخص علم کا عاشق ہو وہ خوش نصیب بھی ہے اور ہوشمند بھی، اس پر خداوندِ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس کے دل میں علم و حکمت کا عشق پیدا کر دیا ، خدا کا شکر ہے کہ میرے جملہ عزیزان (متعلّمین) حقیقی علم کے شیدائی ہیں، کامڑیا حاصل مراد کا شجرۂ نسب یہ ہے: کامڑیا حاصل مراد ابنِ خلیفہ برات ابنِ لگری خان، ابنِ عاشور جان، ابنِ محمد رفیق ایرانی۔

مسگار کے توسط سے میرے مولا نے بہت سے باطنی معجزے کئے

 

۵۳

 

ہیں، کوئی شک نہیں کہ مسگار گوجال کا ایک گاؤں ہے، چنانچہ جب یہ بندۂ درگاہِ مولا چپورسن کے دورے پر گیا تو وہاں کے مقدس جماعت خانوں میں بھی ذکر و عبادت کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ ہوا، الگرض گوجال زمانۂ قدیم سے باکرامت مقام رہا ہے، میرا خیال ہے کہ گوجال کے بعض مقامات کوہِ طور کی طرح مقدس ہیں، تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ اسماعیلی مذہب میں سب سے مقدس جگہ جماعت خانہ ہی ہے، اور روحانی ترقی کا فائدہ بھی اسی میں ہے۔

میرا ایک پسندیدہ موضوع “جسمِ لطیف” ہے، لہٰذا اس مخلوق کی موجودگی پر دلیل و شہادت کی غرض سے میں یہ واقعہ یہاں درج کر رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ میر محمد جمال خان (مرحوم) کا زمانہ تھا، ان کے گلمت والے محل میں کئی دفعہ روحانیئن نے آکر سب کو حیران و پریشان کر دیا ، یہ واقعہ کئی دفعہ بلکہ کئی سال صرف گلمت محل میں پیش آیا، سوال ہے کہ دراصل یہ کون سی مخلوق تھی؟ اس کے آنے کا کیا مقصد تھا؟ یہ واقعہ کریم آباد محل میں کیوں پیش نہیں آیا؟

جواب: مؤکل، فرشتہ، جنّ، پری، راحی ، پیالی، جسمِ لطیف، جثّۂ ابداعیہ، مخلوقِ لطیف وغیرہ، کیونکہ یہ ایک ہی مخلوق ہے، جبکہ نام الگ الگ ہیں، یہ تمام لوگوں کو آزمانے کے لئے آئے تھے کہ جسمِ لطیف پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں، اور یہ واقعہ گوجال میں اس لئے پیش آیا کہ وہ علاقہ بڑا متبرک ہے، کیونکہ وہاں کے مومنین و مومنات زمانۂ قدیم سے خدا کو بڑی کثرت سے یاد کرتے آئے ہیں، جس کی برکت سے پورا علاقہ سوجو کم (مقدس) ہو چکا ہے۔

جو لوگ عقائد و اعمال میں پاک ہوتے ہیں، ان کا گھر، مقام اور علاقہ پاک ہوتا ہے، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وا ٓلہٖ وسلم کے تقدس کی وجہ سے

 

۵۴

 

آپ کے لئے ساری زمین کو مسجد کا درجہ دے کر پاک بنائی گئی تھی، جیسا کہ ارشادِ نبوی ہے:

جُعِلّتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدً اوَّطَھُرْراً =

زمین میرے لئے مسجد اور پاک بنا دی گئی (بخاری، کتابِ تیمم) اور جس طرح حضرتِ موسیٰ اور حضرت ہارون علیہا السلام اور ان کے مومنین کو اللہ نے حکم دیا کہ تم اپنے گھروں کو قبلہ بنا لو (۱۰: ۸۷) مان لیجئے کہ اس حکم کی تعمیل میں بہت سے قبلے بنائے گئے، لیکن سوال یہ ہے کہ ایک سے زیادہ قبلے کس طرح جائز ہو سکتے ہیں؟

جواب: کوئی شک نہیں کہ ہر مومن کا گھر ایک قبلہ تھا، لیکن کوئی گھر یا قبلہ پیغمبرؐ اور امامؑ کے عالمِ شخصی سے باہر نہ تھا، کیونکہ یہ سارے بیوت مصر (شہر) یعنی مذکورہ عالمِ شخصی ہی میں بنائے گئے تھے (۱۰: ۸۷) اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ گھر دراصل باطنی ہیں، یاد رہے کہ کسی چیز کی کاپیاں بظاہر کثیر ہونے کے باوجود حقیقت میں ایک شمار ہو جاتی ہیں، جیسے سورج اگرچہ ہزار آئینوں میں نظرآتا ہے، تاہم وہ صرف ایک ہی ہے، اسی طرح اگر ایک شخص کی ہزار زندہ تصویریں بنائی گئی ہیں، تو پھر بھی وہ ایک ہی آدمی ہے۔

 

۵۵

 

کتبِ خانۂ حکمت کی چند خصوصیات

 

۱۔ قرآنیات

۲۔ اسلامیات

۳۔ توحید

۴۔ نبوّت و رسالت

۵۔ امامت

۶۔ روح و روحانیت

۷۔ عقل و عقلانیت

۸۔ قائم و قیامت

۹۔ حکمت

۱۰۔ تاویل

۱۱۔ عالمِ شخصی

۱۲۔ آیاتِ کائنات

۱۳۔ تصوف

۱۴۔ سوال و جواب

۱۵۔ ڈایا گرامز (نقوش)

۱۶۔ ابداع و انبعاث

۱۷۔ ازل و ابد

۱۸۔ گوہرِ عقل

۱۹۔ بہشت

۲۰۔ روحانی سلطنت

۲۱۔ یک حقیقت

۲۲۔ اسرارِ معرفت

۲۳۔ تصورِ آفرینش

۲۴۔ سائنس اور مذہب

۲۵۔ باطنی علاج

۲۶۔ علم کی اہمیت

۲۷۔ ذکر و عبادت

۲۸۔ عشقِ سماوی

 

۵۶

 

۲۹۔ حدودِ دین

۳۰۔ اسرارِ وحی

۳۱۔ حقیقتِ نور

۳۲۔ اسرارِ انبیاء

۳۳۔ اسرارِ امامت

۳۴۔ نفسِ واحدہ

۳۵۔ قانونِ خزائن

۳۶۔ قانونِ کل

۳۷۔ قانونِ قبض و بسیط

۳۸۔ روحِ کلّی

۳۹۔ انائے علوی

۴۰۔ عرش و کرسی

۴۱۔ قلم و لوح

۴۲۔ آدم و حوّا

۴۳۔ ملائکہ

۴۴۔ امام شناسی

۴۵۔ حکمتِ حدیث

۴۶۔ اسمِ اعظم

۴۷۔ باطنی دیدار

۴۸۔ عاجزی و گریہ و زاری

۴۹۔ ہمہ گیر خیرخواہی

۵۰۔ تخلیق در تخلیق

۵۱۔ لا ابتدا و لا انتہا

۵۲۔ تعلیمات کا پھیلاؤ

۵۳۔ سمعی و بصری تعلیم

۵۴۔ ادارۂ ہفت زبان

۵۵۔ آڈیو کیسیٹز

۵۶۔ تراجم

۵۷۔ جسمِ لطیف

۵۸۔ اڑن طشتری

۵۹۔ بقائے مستقر

۶۰۔ تصورِ رفعِ زمان

۶۱۔ نورانی جنم

۶۲۔ عالمِ وحدت

۶۳۔ تعبیرِ خواب

۶۴۔ منزلِ عزرائیلی

۶۵۔ عالمِ ذرّ

۶۶۔ ایک میں سب

۶۷۔ روحوں کا ریوائنڈ

۶۸۔ لطیف غذائیں

 

۵۷

 

۶۹۔ جنّات

۷۰۔ کوہِ قاف

۷۱۔ یاجوج و ماجوج

۷۲۔ حروفِ مقطعات

۷۳۔ کلمۂ کُنۡ

۷۴۔ علم الاعداد

۷۵۔ اشاراتی زبان

۷۶۔ پرندوں کی بولی

۷۷۔ حکمتِ تسمیہ

۷۸۔ اسماعیلیت

۷۹۔ تقویٰ

۸۰۔ اطاعت و فرمانبرداری

۸۱۔ باطنیت

۸۲۔ خدا کی ہر چیز زندہ ہے

۸۳۔ سنتِ الٰہی

۸۴۔ حکمتِ درود

۸۵۔ مطالعۂ قدرت

۸۶۔ علم الاشارات

۸۷۔ علم الاسرار

۸۸۔ عالمِ خیال

۸۹۔ عالمِ خواب

۹۰۔ عالمِ ملکوت

۹۱۔ حکمتِ تثنیہ

۹۲۔ لامکان

۹۳۔ دہر

۹۴۔ انسان

۹۵۔ وحدتِ انسانی

۹۶۔ روحانی مشقیں

۹۷۔ قصۂ معجزات

۹۸۔  روحانی خوشبوئیں

۹۹۔ روحانی سائنس

۱۰۰۔ روح اور مادہ

۱۰۱۔ دائرۂ دائم

۱۰۲۔ فنا فی اللہ

۱۰۳۔ فنا کے درجات

۱۰۴۔ درجاتِ یقین

۱۰۵۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد

۱۰۶۔ دینِ فطرت

۱۰۷۔ انسانِ کامل

۱۰۸۔ حقیقتِ توبہ

 

۵۸

 

۱۰۹۔ سلطنتِ سلیمانی

۱۱۰۔ دوزخِ جہالت

۱۱۱۔ ہر آیۂ قرآن کا معجزہ…۔

۱۱۲۔ نیستی ابداع کا نام ہے

۱۱۳۔ بہشت میں ہر نعمت ہے۔

 

۵۹

 

روحانی عجائب گھر

۱۔ قرآنِ عظیم عالمِ انسانیّت کے لئے نہ صرف ہدایت نامۂ سماوی اور ضابطۂ حیات ہی کے طور پر نازل ہوا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ کتابِ حکیم دعوت نامۂ روحانی اور وسیلۂ عرفانِ ذات بھی ہے، چنانچہ سالکانِ دینِ متین کے نزدیک طویل سفرِ روحانیّت کے ہر قدم پر عجائب و غرائب کا ایک عالم ظہور پذیر ہوتا جاتا ہے، اس اعتبار سے یہ کہنا حقیقت ہے کہ عالمِ شخصی قدرتِ خدا کا سب سے بڑا عجائب گھر (MUSEUM) ہے اور اس عجائبِ خانۂ قدرت کا سب سے اعلیٰ مقصد کنزِ مخفی تک رسا ہو جانا ہے۔

۲۔ کسی ملک کا میوزیم (عجائب گھر) اس مقصد کے پیشِ نظر ہوتا ہے کہ اس میں لوگوں کی دلچسپی، تفریح، اور معلومات کی خاطر تاریخی، ثقافتی اور سائنسی چیزیں رکھ دی جائیں، تاہم کسی ایک ملک کا عجائب خانہ تو درکنار اگر ہم ممالکِ عالم کے تمام عجائب گھروں کو ایک ہی میوزیم تسلیم کر کے بھی دیکھیں تو پھر بھی اس میں ہر ضروری اور مطلوبہ چیز کہاں ہے، اس مثال سے معلوم ہوا کہ دنیائے ظاہر میں کوئی چیز کامل و مکمل نہیں ہے

 

۶۰

 

اور یہ صورتِ حال اس حقیقت کی دلیل ہے کہ مکمل چیزیں صرف دینِ حق اور روحانیت ہی میں پائی جاتی ہیں۔

۳۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو اپنی خلق کی مثال پر بنایا تاکہ خلق سے دین کی استدلال کیا جائے اور دین سے اس کی وحدانیت کا استدلال کیا جائے (الحدیث) چنانچہ اگر دنیا میں ناقص اور نامکمل عجائب گھر ہے تو خدا کے ہاں عالمِ شخصی میں یقیناً ایک کامل و مکمل عجائب خانہ موجود ہے، جس کے دائرۂ نورِ عقل سے کوئی شے خارج نہیں، اس میں ہر عقلی، علمی، عرفانی اور روحانی چیز موجود و مہیا ہے، یعنی جو کچھ تھا، جو کچھ ہے، اور جو کچھ ہونے والا ہے، وہ سب وہاں حاضر و موجود ہے، اور اس کے تحتاتی باغوں میں اشیائے لطیف کی بہت بڑی کثرت ہے، وہاں ہر لمحہ عجائب و غرائب کی ایک نئی تجلّی اور ایک نئی شان ہے۔

۴۔ ظاہری عجائب گھر محض ایک نام ہے، اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جو مافوق الفطرت ہو یا حقیقی معنوں میں عجیب و غریب کہلائے، جبکہ روحانی عجائب گھر واقعی اور سچ مچ عجائب و غرائب سے پُر ہے، جس کی عام فہم مثل عالمِ خواب ہے، جو انتہائی حیرت انگیز اور زندہ عجائب خانہ ہے، اس کی تمام چیزیں ہمیشہ دنیائے ظاہر سے انوکھی اور نرالی ہوا کرتی ہیں، کیا یہ قدرتِ خدا کے عجائبات میں سے نہیں کہ آدمی ہر خواب میں نہ صرف عجیب و غریب واقعات کا مشاہدہ کرتا ہے، بلکہ وہ اپنے آپ کو بھی ہر بار مختلف حالت میں دیکھتا ہے، وہ کبھی بلندیوں میں پروں کے بغیر پرواز کر رہا ہوتا ہے، اور کبھی کسی پستی میں چلتا ہے، کبھی مسرور و خندان ہوتا ہے، اور

 

۶۱

 

کبھی غمگین و گریان، الغرض عالمِ خواب کے عجائب و غرائب کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔

۵۔ عجائب خانۂ قدرت ہی کا تذکرہ ہے کہ انسان کی روحانی و عقلانی تخلیق نردبانِ عروج (ارتقائی سیڑھی) پر زینہ بزینہ ہوتی جاتی ہے تا آنکہ مرتبۂ عقل پر جا کر اس کا عقلی تَولد (جنم) ہوتا ہے، جیسا کہ سورۂ تین (۹۵: ۰۴ تا ۰۶) میں ہے: ہم نے انسان کو بہترین تقویم میں پیدا کیا، پھر اسے ہم نے پھیر کر پست سے پست کر دیا، سوائے ان لوگوں کے جو (بحقیقت) ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ ان کے لئے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔

تقویم کا لفظی ترجمہ ہے: سیدھا کرنا، اس سے روحانی ترقی کی سیڑھی مراد ہے، کیونکہ اس واضح ارشاد کے مطابق روحانی تخلیق و تکمیل کی سیڑھی پچاس ہزار برس کی مسافت رکھتی ہے، جس سے اگر خدا چاہے تو کوئی نیک بخت روح اپنے فرشتوں کے ساتھ بہت کم وقت میں بھی چڑھ کر اس کے حضور جاسکتی ہے (۷۰: ۰۴)۔

۶۔ اس دنیا کے مجموعی عجائب گھروں میں اور ان کے باہر جتنی چیزیں قابلِ دید ہیں، وہ سب کی سب روحانی عجائب و غرائب کے مقابلے میں ہیچ ہیں، اس لئے کہ عالمِ شخصی کارخانۂ خدا ہے، جس میں کل کائنات کی کاپیاں بنتی ہیں، اور اس حقیقت کی شہادت و دلیل اس آیۂ کریم سے مل سکتی ہے، جو قلب قرآن میں (۳۶: ۱۲) میں موجود ہے، یعنی عالمِ شخصی بہ حقیقت امامِ مبین ہی کا ہے، اگر آپ میں بھی ہے تو اَلْحَمْدُلِلّٰہِ، مبارک باد کہ یہ

 

۶۲

 

اسی کے نورِ اقدس کا عکس ہے، اور یہ حصولِ معرفت کی غرض سے ہے۔

۷۔ سوال: نزولِ قرآن کے دوران اللہ پاک نے فرمایا تھا کہ وہ تبارک و تعالیٰ عنقریب اپنے عجائب و غرائب لوگوں کو آفاق و انفس میں دکھائیں گے (۴۱: ۵۳) لیکن بہت سی صدیاں بیت گئیں، درحالے کہ لوگ ایسے معجزات کو دیکھے بغیر مر گئے، ہم اس کی اصل حقیقت کو کس طرح سمجھیں گے؟

جواب: الف: ہر زمانے کے لوگوں نے بحیثیتِ نمائندہ ذرات اپنے امام علیہ السّلام کے عالمِ شخصی میں اللہ کی نشانیوں کو دیکھا، جبکہ وہاں مخفی قیامت برپا ہو رہی تھی، ب: چونکہ صورِ اسرافیل کی آواز کے ڈر سے سارے لوگ بشکلِ ذرات امامِ عالیمقامؑ کی طرف بھاگتے ہیں، لہٰذا بعد از موت وہ سب کے سب فعلاً بہشت میں داخل ہو جاتے ہیں، جہاں وہ آفاق و انفس کے معجزات کو دیکھتے ہیں۔ ج؟ دینِ اسلام میں نمائندگی ایک مسلمہ حقیقت ہے، پس اگر آج کے لوگ ظاہری و باطنی عجائب و غرائب کو دیکھتے ہیں تو ایسا ہے جیسے اگلے زمانے کے لوگ دیکھ رہے ہوں۔

۸۔ سورۂ بقرہ کے اس ارشاد (۰۲: ۹۱) میں خوب غور کرنے کی ضرورت ہے: قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِيَاءَ اللَّهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ ( اے رسولؐ) ان سے یہ تو پوچھو کہ تم اگر ایماندار ہو تو پھر کیوں خدا کے پیغمبروں کو سابق میں قتل کرتے تھے؟ یہاں رازِ حکمت جاننے کی غرض سے یہ سوال ہوسکتا ہے کہ کئی سو سال قبل یہودیوں نے کچھ پیغمبروں کو قتل کیا تھا، اس جرم میں زمانۂ نبوت کے یہود کس طرح شریک ہو سکتے

 

۶۳

 

ہیں، حالانکہ یہ لوگ اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے؟

جواب: چونکہ ہر مذہب کے لوگ اجتماعی عقائد، نظریات، اور اعمال میں فردِ واحد کی طرح ایک ہوا کرتے ہیں، لہٰذا اگلے یہودیوں نے جو کچھ کیا تھا، اس میں پچھلے یہودی بھی شامل و شریک ہیں۔

۹۔ قرآنِ مجید اور روحانیت (عالمِ شخصی) کا کون سا مقام ایسا ہے جہاں اسرارِ معرفت کے عجائب و غرائب نہ ہوں، مثال کے طور پر سورۂ دہر کے شروع میں دیکھ لیں: کیا انسان پر زمانِ ناگزرندہ سے ایک وقت آیا ہے کہ جبکہ وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا (۷۶: ۰۱) یعنی انسان کی انائے علوی یک حقیقت میں ہر چیز سے مجرّد اور بے مثال ہے، جس کی معرفت تجدّدِ ازل کے وسیلے سے ہوجاتی ہے، اور یہی تجدّد دہر میں سے ایک وقت (حین) ہے، ارشاد ہے: ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا، تاکہ اس کا امتحان لیں، اور اس غرض کے لئے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا (۷۶: ۰۲) خداوندِ قدوس نے جس طرح ہر انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا، اسی طرح اس نے مومنین ومومنات کو روحانی والدین (ناطق و اساس) کے مخلوط نطفے (تنزیل و تاویل کے امتزاج ) سے پیدا کیا، تاکہ آزمائش ہو، جس کے لئے انہیں مقامِ روح و روحانیّت پر سننے والے اور دیکھنے والے بنایا۔

۱۰۔ یہ روحانی عجائب گھر کی مثالوں میں سے ہے کہ آدمِ سراندیبی کی ابتدائی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی، یعنی وہ ابتداً صرف ایک مومنِ مستجیب تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے درجہ بدرجہ بلند فرمایا، تا آنکہ مرتبۂ عقل پر خدا نے

 

۶۴

 

اپنے ہاتھ سے اس کی نورانی تخلیق کی، مگر ابلیس کی نظر مٹی سے زیادہ کچھ نہیں دیکھ سکتی تھی، جیسا کہ سورۂ صٓ (۳۸: ۷۵) میں ہے: رب نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے کیا چیز اُس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے؟ تو بڑا بن رہا ہے یا تو ہے ہی کچھ اونچے درجے کی ہستیوں میں سے؟ اس نے جواب دیا “میں اس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے، اور اس کو مٹی سے۔”

۱۱۔ یہ تحریر “مقالۂ مہمان” کے عنوان سے ہے، اس کا انگریزی نام شاید “گیسٹ آرٹیکل” ہوگا ، اس کے مہمانِ خصوصی جناب (ریٹائرڈ) صوبیدار میجر شاہین خان صاحب ہیں، دیگر مہانوں میں سب سے اوّل آپ کی فرشتہ خصلت بیگم محترمہ ثریا بانو ہیں، جن کی ایمانی خصوصیات بڑی عجیب و غریب ہیں، اور دوسرے پیارے مہمان ان دونوں جسمانی فرشتوں کے عزیز بچے ہیں، یعنی ریاض شاہین، رضیہ شاہین، اور اعجاز شاہین اس خاندان پر خدائے بزرگ و برتر کی نظرِ رحمت ہے۔

محترم صوبیدار میجر شاہین خان صاحب بروشسکی ریسرچ اکیڈمی گلگت برانچ کے چئیرمین ہیں، آپ نے بہت کم وقت میں علم، عبادت، اور خدمت میں بڑی ترقی کی ہے، اور ہم اس خاندانِ محترم کی روز افزون ترقی کے لئے دعا گو ہیں، بحرمتِ محمد و آلِ محمد صلوٰۃ اللہ علیہم۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعہ۹؍رمضان المبارک  ۱۴۱۵ ھ       ۱۰؍فروری  ۱۹۹۵ء

 

۶۵

 

بابِ چہارم

ادارۂ عارف برانچ و مہمانان

 

۶۷

 

ادارۂ عارف

عزیزم موکھی شاہ جہانگیر حال ہی میں ادارۂ عارف برانچ گلگت کے چیئرمین منتخب ہوئے ہیں، آپ نوجوان مگر عقل و دانش میں پیرِ خردمند کی طرح ہیں، جماعتِ باسعادت کے نیک نام موکھی ہونے کا اعزاز اور پھر حقیقی علم کے شوق کا یہ عالم! یہ تو اللہ تعالیٰ کی ایک خاص رحمت ہے، آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے: موکھی شاہ جہانگیر، ابنِ عرب خان، ابنِ نظر شاہ، ابنِ سلطان محمد، ابنِ رستم علی۔

“شاہِ جہان گیر” کے اس پیارے نام میں قدرتی طور پر تسخیرِکائنات کے معنی پنہان ہیں، وہ یوں کہ ہر مومن اور مومنہ بحدِّ قوّت ایک عالمِ شخصی ہے، جس میں ربّ العزّت کائنات کی ایک زندہ اور باشعور کاپی لپیٹنے والا ہے، تاکہ اسی طرح ہر عالمِ شخصی میں کائنات بھر کی روحانی سلطنت قائم ہوجائے، مگر ہاں اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے علم و حکمت کی ضرورت ہے، کیونکہ جہادِ اکبر اس کے بغیر ممکن نہیں۔

وائس چیئرمین:

ادارۂ عارف برانچ گلگت کے وائس چیئرمین عزیزم علی یار خان مقرر

 

۶۹

 

ہوئے ہیں، آپ قبلاً ذوالفقار آباد والینٹیئرز کے کیپٹن بھی رہ چکے ہیں، جذبۂ دینداری سے معمور اور شوقِ علم سے سرشار ہیں، نیک کام اور دینی خدمت ان کو بہت عزیز ہے، خداوند تعالیٰ تمام عزیزوں کو دونوں جہان کی کامیابی اور سرفرازی عنایت فرمائے، آمین!

آپ کا شجرۂ نسب اس طرح سے ہے: علی یارخان، ابنِ ثناء خان، ابنِ محمد بیگ، ابنِ نامدار، ابنِ دولت بیگ، ابنِ میور بیگ، علی یارخان صاحب اے کے آر ایس پی کے ٹرانسپورٹ آفیسر بھی ہیں۔

آنریری سیکریٹری:

ادارۂ عارف برانچ گلگت کے اعزازی سیکریٹری عزیزم سخی احمد جان مقرر ہوئے ہیں، خداوندِ قدوس کے فضل و کرم سے آپ بہت سی صلاحیتوں کے مالک ہیں، علم و ادب سے دلچسپی اور وابستگی رکھنا آپ کا خاندانی ورثہ ہے، کیونکہ آپ خاندانِ اخون کڎ کے چشم و چراغ ہیں، آپ کا شجرۂ نسب یہ ہے: سخی احمد جان، ابنِ فرمان علی، ابنِ علی مراد شاہ، ابنِ آخون دولت شاہ، ابنِ وزیر فضل خان۔

کہتے ہیں کہ دولت شاہ اپنے وقت میں ایک عالم شخص تھے، انہوں نے اپنے والدِ محترم خلیفہ فضل سے تعلیم حاصل کر لی تھی، اور حصولِ علم کی خاطر بدخشان بھی گئے تھے، اس زمانے میں عالم شخص کو آخون (آخوند) کہا جاتا تھا، چنانچہ آخون دولت شاہ کی مناسبت سے اس خوش نصیب خاندان کا نام اخون کڎ ہوگیا، یعنی وہ گھرانا جس میں علم اور معلمی کی میراث رہی ہے۔

 

۷۰

 

افتخار حسین

آپ کا شجرۂ نسب: افتخار حسین (المعروف کلبِ علی) ابنِ ہزارہ بیگ (شاہ گل ہزار) ابنِ حسن علی، ابنِ قلندر خان، ابنِ حبِّ علی۔

جائے پیدائش: کریم آباد (بلتت) ہونزا۔

یومِ پیدائش: ۱۳ ؍جنوری ۱۹۳۸ء۔

قبیلہ: خور وکڎ۔

خاندان: جفوکڎ۔

آپ پنجاب یونیورسٹی سے بی ایڈ/ ایم ایڈ ہیں، قومی اور جماعتی خدمات کی تفصیلات کے لئے کئی صفحات درکار ہوں گے، لہٰذا میں ان کی بعض خصوصیات بیان کرنا چاہتا ہوں۔

یہ ایک مفید سوال ہے کہ بندۂ مومن کا باطنی و روحانی جوہر کھل سکتا ہے؟ اور وہ طریقِ کار کونسا ہے، جس کے مطابق عمل کر کے کوئی دیندار شخص راہِ روحانیّت پر گامزن ہو سکے؟

جواب: ہر انسان میں بہت سے جواہر ہیں، ان کے ظہور کے لئے کلی ریاضت کی ضرورت ہے، مثلاً مقررہ عبادت میں پابندی، شب خیزی،

 

۷۱

 

گریہ وزاری، مناجات، علمی قوّت، خدمت وغیرہ، اگر ہم ریاضت کے ان اجزاء میں سے صرف گریہ و زاری کی تحلیل کریں تو اس میں یہ معانی ہو سکتے ہیں: ۔

۱۔ کیفیتِ توبہ                                       ۲۔ مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات

۳۔ حاجت طلبی                                      ۴۔ خصوصی ذکرو عبادت

۵۔ نفسِ امّارہ کے خلاف شکایت               ۶۔ خوفِ خدا

۷۔ اظہارِ عاجزی                                   ۸۔ سب کے حق میں دعا

۹۔ شکر گزاری                                     ۱۰۔ جذبۂ عشق

۱۱۔ شوقِ دیدار                                     ۱۲ محویّت و فنائیت

۱۳۔ تطہیرِ باطن                                    ۱۴۔ علاجِ روحانی

۱۵۔ رجوع الیِ اللہ                                   ۱۶۔ انقلابی ریاضت

۱۷۔ تحلیلِ نفسی                                    ۱۸۔ نورانی تائید کے لئے درخواست

۱۹۔ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی پیروی               ۲۰۔ کم علمی کا احساس ، وغیرہ۔

آپ نے غور کیا ہوگا کہ ریاضت کی بہت سی چیزوں میں سے صرف گریہ و زاری ہی میں اتنے معانی پوشیدہ ہیں، بلکہ ان سے زیادہ بھی ہیں، پس ہم ایسے عزیزوں کی ہمت افزائی کیوں نہ کریں جو نرم دل اور آسمانی عشق میں آنسو بہانے والے ہیں، یہی تو ہمارا خاص کام ہے کہ ہم مولا کے دوستوں کے دوست بنیں، جب وہ اپنی آنکھوں سے حقیقی محبت کے موتی (آنسو) برساتے ہیں تو ہم بھی اس پاکیزہ عمل کے لئے سعی کریں۔

الحمد للہ، میں نے بطریقِ حکمت نہ صرف عزیزم افتخار حسین کی گریہ و زاری کو سراہا، بلکہ اس موقع پر جانِ جانان کے بہت سے عشاق کو بھی یاد کیا، افتخار صاحب

 

۷۲

 

جب جب مجلس میں تشریف لاتے ہیں تو احباب شادمان ہوجاتے ہیں، کیونکہ ایسے حضرات کی موجودگی سے محفل کی سطح بلند تر ہوجاتی ہے، آپ خود دانشمند ہیں، اسی لئے آپ روحانی علم کے بڑے قدردان ہیں، آپ کی تحریر سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ کے آباء و اجداد بڑے دیندار اور متقی تھے، یہی سبب ہے کہ جناب افتخار صاحب خاندانی طور پر مومنی کے بہت سے اوصاف کے مالک ہیں۔

سورۂ ذاریات (۵۱: ۵۰) میں ارشاد ہے:

“فَفِرُّوْ ا اِلیَ اللّٰہ =

پس دوڑو اللہ کی طرف۔” اس حکم میں سبقت والے اعمال کی ترغیب دی گئی ہے، جیسے سورۂ حدید (۵۷: ۲۱) میں ہے: (ترجمہ) دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو، اپنے ربّ کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے۔

فرمانبرداری میں سبقت، ذکر و عبادت میں سبقت، علم و دانش میں سبقت، خیرخواہی اور خدمت میں سبقت، غرض ہر نیک قول و فعل میں یا بحیثیتِ مجموعی سبقت ہو تو ایسے مومنین ہی قیامت میں مرتبۂ سابقون پر فائز ہو جائیں گے (۵۶: ۰۱ تا ۱۱)۔

 

ن۔ ن ۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعہ  ۲۰؍ جمادی الاول  ۱۴۱۵ ھ      ۴؍نومبر ۱۹۹۴ء

 

۷۳

 

پرسنل سیکریٹری برائے گلگت

میرے عزیز علی مدد سابق چیف وارنٹ آفیسر (= صوبیدار میجر) چند سالوں سے میری بروشسکی ریسرچ میں پرسنل سیکریٹری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، آپ محنت، ایمانداری اور شرافت جیسی صفات میں ایک مثالی مومن کی منزلت رکھتے ہیں، آپ کے آباء و اجداد شرافت اور صاف دلی میں مشہور تھے آپ کا شجرۂ نسب یہ ہے: علی مدد ابنِ دولت شاہ، ابنِ دیوان شاہ، ابنِ مبارک شاہ، ابنِ ہوس بیگ، ابنِ ایاز بیگ (یس بیگ)۔

ریکارڈ آفیسر:

ما شا ء اللہ ، عزیزم دلدار شاہ کی ذات میں ایک ساتھ بہت ساری خوبیاں جمع ہیں، موصوف میرے ان احباب میں سے ہیں، جن کو میں دوستانِ خدا سمجھ کر یاد کرتا ہوں، اور اس سے بے حد خوشی محسوس ہو تی ہے، کیونکہ ہر دوست ایک کائنات (عالمِ شخصی ) ہے، وہ مجموعۂ بہشت کی ایک کاپی ہے، اس میں سب کچھ ہے، سب کچھ، ریکارڈ آفیسر دلدار شاہ کے حلقۂ شاگردی میں ذکر و عبادت، اور علم کی ایک زندہ بہشت آباد ہو رہی ہے، جس کو میں نے اور بہت

 

۷۴

 

سے عزیزوں نے دیکھا، حیرت اور مسرت ہوئی، خداوندِ عالم اس بہشتِ اعمال کو اور زیادہ آباد کرے!

دلدار شاہ صاحب کا شجرۂ نسب یہ ہے: دلدار شاہ ابنِ زیارت شاہ، ابنِ زینت شاہ، ابنِ مایوں شاہ، ابنِ نور شاہ، ابن ڈکوؤ (ڈکویٔ)۔

 

۷۵

 

گلِ صد رنگ

۱۔ آیا اے عزیزانِ شرق و غرب! آپ میں سے کسی نے گلِ صد رنگ کو دیکھا ہے یا اس کے بارے میں پڑھا ہے یا کہیں سنا ہے؟ یقیناً اس سوال کا جواب نفی ہی میں ہوگا، کیونکہ دنیائے ظاہر میں کوئی ایسا پھول ممکن ہی نہیں جو متضاد و مختلف رنگوں اور گونا گون خوشبوؤں کا حامل ہو، اگر دنیا کے کسی خاص ملک کے بلند ترین پہاڑ پر گلِ صد رنگ کی عجیب و غریب بہار ہوتی تو دورو دراز ممالک کے تمام باشندے ایسے طرفہ تماشا اور اعجوبۂ عالم کا نظارہ کرنے کے لئے مشتاق ہوتے۔

۲۔ بہشت کے عجائب و غرائب کا تصوّر کرنے کے لئے قرآنِ حکیم نے جیسے جیسے کلیات عطا کئے ہیں، ان کی روشنی میں یوں لگتا ہے کہ جنت میں گلہائے صدرنگ اس طرح کھلتے ہیں کہ ہر لحظہ ان کا رنگ اور روپ بدلتا رہتا ہے، ان کی ہر گونہ تجلّی ہوتی رہتی ہے، اسی طرح “آیئنۂ یک حقیقت” میں باری باری سب نظر آتے ہیں، لیکن آدم علیہ السّلام کی صورت میں ، اور آدمؑ کو اللہ نے اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا تھا۔

 

۷۶

 

۳۔ اس مزرعۂ عمل یعنی کاشتگاہِ آخرت میں قرآنِ عظیم اور امامِ آلِ محمدؐ علمی و عرفانی بہشت ہیں، لہٰذا اس مثالی جنت میں بھی کوئی گلِ صد رنگ موجود ہو سکتا ہے، یقیناً ہر ایسا عالی ہمت عزیز جو ہمہ رس علمی خدمات میں بھرپور حصہ لے رہا ہو وہ ایک زندہ گلِ صد رنگ ہے، اس کی ہر خوبی گویا ایک گونہ خوش رنگ اور ایک قسم کی خوشبو ہے، اور وہ ایسا سدا بہار اور بے مثال پھول ہے جو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دلآویز رنگ و بو کے لطیف خزانے لٹانے کی اہلیت رکھتا ہے۔

۴۔ کوئی ظاہر بین کبھی یہ نہیں سوچتا  کہ باغ و گلشن کی اس زبردست دلکشی و نظر فریبی میں کون سا راز پوشیدہ ہے؟ حالانکہ خدا کی خدائی میں کوئی شے اشارۂ حکمت کے بغیر پیدا نہیں ہوئی، خصوصاً ایسی چیزیں جن کی طرف نگاہیں فوراً ہی مائل ہو جاتی ہیں، میرا عقیدہ ہے کہ پھول زبانِ حال سے بہت کچھ کہہ رہے ہیں، وہ حمد (عقلِ کلّ) کے توسط سے بہشت کی رعنائی، زیبائی، اور حسن و جمال پر اللہ جل شانہٗ کی تسبیح کرتے ہیں، اور ان میں بہشت کی حسین نعمتوں کی دعوت بھی ہے۔

۵۔ میرے بروشسکی اشعار کا دوسرا مجموعہ “بشہتے اسقرگ” ہے، اس میں “ذکرِ خدا اسقرݣ” کے عنوان کے تحت علم و عبادت کے انتہائی خوبصورت پھولوں کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے، مثال کے طور پر یہاں شعرِ چہارم و پنجم کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے: ۔

اے آفتابِ انوار! علم کے سمندر کو لئے ہوئے طلوع ہوجا، اب ہم جو آفتابِ انوار کے “سورج مکھی” ہیں، تیری طرف رخ کر لیں گے۔ کیا نور کی مثالوں

 

۷۷

 

میں جملہ تشبیہات جمع نہیں ہیں؟ (کیوں نہیں) چنانچہ وہ اپنی نورانیت کی “تجلیات در تجلیات” میں ایک (انتہائی خوبصورت) باغ بھی ہے، تو (چشمِ بصیرت پیدا کرکے ) اپنے دل میں دیکھ لے، تاکہ تجھ کو نورانی دیدار کے گلوں کا مشاہدہ ہو۔

۶۔ اس میں بڑی سنجیدگی سے سوچنے اور حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کی ضرورت ہے کہ موجودات و مخلوقات کی کوئی چیز نماز، سجدہ، اور تسبیح کے بغیر نہیں (۲۴: ۴۱، ۱۳: ۱۵، ۱۶: ۴۹، ۱۷: ۴۴) اور یہ ارشاد بھی ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ہر مخلوق اور ہر چیز خدا ئے رحمان کے پاس غلام (بندہ) ہو کر آتی ہے (۱۹: ۹۳) ۔

یہ عبادت ظاہراً زبانِ قال سے بھی ہے، زبانِ حال سے بھی، اور باطناً مقامِ روح سے بھی ہے، اور مرتبۂ عقل کی نمائندگی میں بھی، لیکن سب سے بڑی کامیابی ان لوگوں کی ہے جو نورِ ہدایت کی روشنی میں علم و عبادت کی ترقی کرتے ہیں، اور گنجِ عقل و معرفت کی دولتِ لازوال سے مالا مال ہو جاتے ہیں۔

۷۔ جو مومنین و مومنات حقیقی معنوں میں نورِ ہدایت کی پیروی کرتے ہیں، وہ نور کو ہر منزل میں دیکھ سکتے ہیں، جس کا ایک نام رنگِ خدا ہے (صِبْغۃ اللہ ۰۲: ۱۳۸) یعنی عالمِ شخصی سبز نور، زرد نور، سرخ نور، اور سفید نور سے منور ہو جاتا ہے، اور انہی پرنور رنگوں میں بارونق اور خوشنما باغات بھی ہیں (حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ ۲۷: ۶۰) حَدَائِقَ: چہار دیواری سے گھرے ہوئے باغات: جن میں کوئی چوپایہ وغیرہ داخل نہ ہوسکے، اگر اہلِ ایمان کے باطن میں اس طرح بہشت کی مثالیں نہ ہوتیں تو بہشت کی بشارت اور معرفت محال ہوتی۔

۸۔ بہشت میں کیا کیا نعمتیں ہیں، ان کے بارے میں ارشاد ہے:

 

۷۸

 

وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الأَنفُسُ وَتَلَذُّ الأَعْيُنُ (۴۳: ۷۱) اور وہاں ہر وہ چیز موجود ہے جس کو جی چاہے اور جس سے آنکھیں لذت اٹھائیں ۔ اَنْفُسُ =جانیں، واحد نفس = جان، روح جو عقل کی حامل ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنّت میں ہر طرح کی روحی اور عقلی نعمتیں مہیا ہیں، اور جن نعمتوں سے آنکھوں کو لذّت حاصل ہو جاتی ہے ان کا ذکر الگ اس لئے فرمایا گیا ہے کہ ان میں سب سے اعلیٰ نعمت اللہ تعالیٰ کی تجلّی اور دیدارِ اقدس ہے، پس چشمِ باطن کے سامنے گونا گون مشاہدات کا ایک طویل سلسلہ موجود ہوتا ہے، جس میں باغ و بہار اور گل و گلزار بھی ہے۔

۹۔ خداوندِ قدوس کی رحمتِ بیکران سے ہماری عزیز کتابوں اور ان کے تراجم کا گرانمایہ مجموعہ بے حد عجیب گلِ صدرنگ ہے، جس کی دوررس اور ہمہ گیر رنگینیوں اور خوشبوؤں سے بے شمار لوگ اپنے دیدۂ بینا اور مشامِ جان کو محفوظ و مسرور کرتے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ان عظیم احسانات پر ہم سب لشکرِ علمی خوشی کے آنسو بہاتے ہوئے جتنا بھی شکر کریں، کم ہے، کیونکہ اس کی رحمت طوفانی شکل میں کام کر رہی ہے۔

۱۰۔ حضرتِ امام زمان صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہٗ کا روحانی اور عقلانی تَوَلُّدْ (جنم) اپنی مقدّس شخصیّت کے علاوہ پاک باطن مریدوں میں بھی ہوسکتا ہے، یقیناً ہمارے عظیم پیروں میں یہ معجزہ ہوا تھا، اس کی ایک پُرحکمت مثال سورۂ بقرہ کی اس آیۂ کریمہ میں ہے، جس کا ترجمہ اس طرح ہے:

جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے، اور اس سے سات بالیں

 

۷۹

 

نکلیں، اور ہر بال میں سو (۱۰۰) دانے ہوں، اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے( ۰۲: ۲۶۱)۔

حکمت: جب عالی ہمت اور مخلص مریدوں کو اسمِ اعظم عطا ہوتا ہے، تو اس یکتا دانۂ نور کو دل کی زمین میں بویا جاتا ہے، جس سے سات بالیاں اور ان میں سات سو دانے پیدا ہوتے ہیں، جن سے عالمِ شخصی کے سات ادوار اور سینکڑوں اسرارِ معرفت مراد ہیں، یعنی چھ حضراتِ ناطقان اور حضرتِ قائم علیہم السّلام کی روحانی مثالیں، اور دوسرے اعتبار سے ہفت أئمّہ علیہم السّلام کی مثالیں  اور صد ہا بلکہ ہزارہا عرفانی مشاہدات مراد ہیں۔

۱۱۔ یہ نورِ امامت ہی کی بہت بڑی مہربانی ہے کہ اس وقت دنیا کے کسی گوشے میں کچھ نیک بخت سکالرز ابتدائی روحانیّت پر پریکٹیکل ریسرچ (عملی تحقیق) کر رہے ہیں، طریقِ کار تصوف سے ملتا جلتا بھی ہے اور مختلف بھی ہے، اس عظیم الشّان کام کی اوّلین شرط آسمانی محبت ہے، یعنی خدا، رسولؐ، امامؑ کی پاک دوستی، پھر شب خیزی، حقیقی علم اخلاقی پاکیزگی، باادب گریہ و زاری و عاجزی، کثرتِ ذکر اور اپنے احوال و اسرار سے خاموشی ہے، تا آنکہ کمال حاصل ہو جائے، پھر بھی بہترین صورت یہی ہے کہ آپ روحانیّت کی باتیں قرآنِ پاک کے حوالے سے کریں۔

۱۲۔ کوئی مردِ حکیم کسی ایسی مجلس میں کس طرح حکمت پر مبنی تقریر کر سکتا ہے جہاں قطعی خاموشی اور کامل توجہ کی بجائے لوگ آپس میں باتیں کر رہے ہوں، چنانچہ آپ جب تک سوائے قلبی ذکر کر کے ظاہراً و باطناً

 

۸۰

 

خاموش نہ ہوجائیں، تو عالمِ شخصی کے عجائب و غرائب کے ظہورات غیر ممکن ہیں، سورۂ قٓ (۵۰: ۱۶) میں ہے: (ترجمہ) اور بے شک ہم نے انسان کو پیدا کیا، اور جو وسوسے اس کے دل میں گزرتے ہیں، ہم ان کو جانتے ہیں، اور ہم تو اس کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں، اس حکیمانہ تعلیم میں عقل و دانش سے سوچنے کی سخت ضرورت ہے، کیونکہ یہاں اشارہ یہ ہے کہ جیسے ہی وسوسہ ختم ہوجائے تو اس کی جگہ کوئی رحمانی چیز کام کرنے لگے گی، جبکہ اللہ پاک اور اس کے فرشتوں کی یہ انتہائی نزدیکی معنیٔ جودو عطا کے بغیر نہیں ہے۔

 

ن۔ ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات یکم رمضان المبارک  ۱۴۱۵ ھ      ۲؍فروری ۱۹۹۵ء

 

۸۱

 

بابِ پنجم

بروشسکی ریسرچ اکیڈمی و مہمانان

 

۸۳

 

صدربابر خان

آپ کا شجرۂ نسب: بابر خان (صدر بی۔ آر۔ اے۔ کراچی) ابنِ حضور موکھی محبت شاہ ابنِ نیت شاہ ابنِ حسن ابنِ دِرم (ہونزائے پائیں کا ترنگفا / ترکفا ) کہتے ہیں کہ یہ ترکفگی ایک وزارت کے برابر سمجھی جاتی تھی ۔

جناب بابر خان صاحب زمانۂ طالبِ علمی ہی سے آج تک جماعت اور مختلف افراد کی جو بے شمار خدمات انجام دیتے آئے ہیں، ان کا احاطۂ تحریر میں لانا میرے لئے بے حد مشکل بلکہ ناممکن ہے، لیکن میں قرآنِ پاک پر کامل یقین رکھتا ہوں کہ مومنین کا نامۂ اعمال آئمۂ طاہرین علیہم السلام کی نورانیت میں درج ہوتا ہے (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) جس کو اہلِ معرفت دنیا میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جب ’’فنا فی الامام‘‘ ایک عظیم حقیقت ہے تو بندۂ مومن کا قول و فعل اس پرحکمت فنا سے کس طرح مستثنا ء ہو سکتا ہے۔

عزیزم بابر خان کی ذات میں لاتعداد خوبیان جمع ہیں، اور ان تمام کی سردار اور بادشاہ خوبی امامِ زمان علیہ السلام کی شدید محبت یعنی عشق ہے، یہ سچ ہے کہ سعادت مندی سے مولائے پاک کا عشق ان کے دل و دماغ اور جسم و جان میں جا گزین ہو سکتا ہے، جس کی علامات روحانی محفل میں ظاہر ہو جاتی ہیں، میں نے بارہا دیکھا ہے، اب میں دوسرے بہت سے عشاق کو بھی یاد

 

۸۵

 

کروں گا کہ جب علیٔ زمان کا نورِ عشق کسی عاشق پر طلوع ہو جاتا ہے، تو اس سے غیر معمولی حالات رونما ہونے لگتے ہیں، ان میں سے ہر حالت بڑی عجیب و غریب اور قرآنی حکمت کے مطابق ہوا کرتی ہے، مثلاً گریۂ عشق، زلزلۂ عشق، سجدۂ عشق، نعرۂ عشق، بادۂ عشق، نغمۂ عشق وغیرہ۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

بدھ ۲۱؍ربیع الثانی  ۱۴۱۵ ھ      ۲۸؍ستمبر ۱۹۹۴ء

 

۸۶

 

LETTER OF APPOINTMENT

For Mr. Ghulam Abbas Hunzai

On behalf of the Headquarters of the Burushaski Research Academy, it gives me great pleasure to appoint Mr. Ghulam Abbas Hunzai as the Chairman of the London branch to oversee the research and other related activities concerning Burushaski in the Western Hemisphere.

Mr. Ghulam Abbas Hunzai has an outstanding record of serving the Burushaski language and culture for many years. While a student at Karachi University, he taught the Burushaski language to interested foreign scholars and researchers. He has been instrumental in arousing awareness of and interest in Burushaski poetry and Qasidahs in Canada and Britain. He is himself a gifted poet.

His appointment is being made in the context of the growing interest in Burushaski in the western world, such as United Kingdom, Germany, France, Canada and United States of America. Mr. Ghulam Abbas Hunzai’s position, living in London, gives him the unique opportunity to act as a bridge between the east and the west in respect of the promotion of the Burushaski language and culture.

 

۸۷

 

Mr. Ghulam Abbas Hunzai also has a profound knowledge of Islamic Studies, which he pursued at McGill University in Canada and deep knowledge of Ismaili philosophy. He is further endowed with the ability to communicate effectively with people of diverse backgrounds. With all these admirable qualities, the Burushaski Research Academy has great expectations of his continuing contribution in enhancing the cause of Burushaski globally.

On this happy occasion, on behalf of the Burushaski research Academy, I which him vigour and wisdom in his future work and pray to Allah to give him greater energy and strength and to crown all his efforts with success. Amin.

 

Sd/.

Allamah Nasir al-Din Nasir Hunzai

London 7th July, 1993.

 

۸۸

 

صوبیدار میجر (ریٹائرڈ) شاہین خان

صوبیدار میجر شاہین خان ابنِ محمد خان ابنِ بائے خان۔

قبیلہ: ݽڈ ِ(ق ) قڎ۔

مقامِ پیدائش اور تاریخ: نظیم آباد( ݽݽکٹ) گوجال، ۱۹۴۹ء اندازاً ابتدائی تعلیم: گاؤں میں پرائمیری تک، اور بعداً فوج میں میٹرک تک۔

سروس: ۱۹۶۶ء میں بحیثیت ریکروٹ فوجی زندگی کا آغاز کیا، تعلیم کے مقدس پیشے سے ہر وقت منسلک رہا، مختلف عہدوں پر ترقی کرتے ہوئے ۱۹۸۷ء میں صوبیدار میجر کے عہدے پر فائز ہوا، اور عرصۂ ۲۵؍ سال عسکری زندگی خوش اسلوبی کے ساتھ گزارنے کے بعد ۱۹۹۲ء میں صوبیدار میجر  کے عہدے سے ریٹائر ہوا۔

کارنامے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات اور معجزات جو منفرد مقام رکھتے ہیں: (۱) انفنڑی سکول کوئٹہ سے مارٹر کورس میں TOP کیا، جس پر شیلڈ اور تعریفی سند مل گئی (۲) صوبیدار میجر عہدے پر جو ترقی ملی وہ مقابلے کی بنیاد پر ملی (۳) اچھی خدمات کے صلے میں پاکستان آرمی GHQ کی طرف سے پنجاب میں ۲۰۰کنال نہری زمین ملی۔

باطنی معجزات: (بندۂ ناچیز کی سروس کے دوران بونجی میں ایک

 

۸۹

 

عالیشان جماعت خانہ تعمیر ہوا (۲) جب یہ خاکسار ہسپتال میں زیرِ علاج تھا اس وقت ایک بزرگ ہستی کے دیدار کا شرف حاصل ہوا، ان کی ہدایات پر دینی کتب کا مطالعہ شروع ہوا ، عظیم شخصیّت کی زبانِ مبارک سے یہ فرمانا کہ: UN HAN MUKAN BA. KHIN HAN DAYMANA  BAY ان جانفزا الفاظ کو کیا درجہ دوں؟ کیا ان میں صورِ اسرافیل کی سی تاثیر نہیں ہے؟ جن سے میرے عالمِ شخصی میں روح کے مردہ ذرات زندہ ہوگئے۔

(۳) استادِ محترم کا عظیم احسان ہے کہ آپ نے اس بندۂ ناچیز کو بے مثال حوصلہ دیا، اپنے حلقۂ شاگردی میں قبول فرمایا، اور امامِ عالی مقامؑ کے روحانی، نورانی و لدنّی علم سے نوازتے رہے، میری روح امامِ برحقؑ سے فدا ہو!

میری دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں، تاکہ پیارے مولا کے پیارے دین کی علمی خدمت ہوسکے، اور ہم اس نعمت کے لئے شکر کریں، جیسا کہ حق ہے، آمین یا ربّ العالمین!

 

آپ کا خادم

صوبیدار میجر شاہین خان

چیئرمین BRAگلگت برانچ

 

۹۰

 

ڈاکٹر انعام محمد بیگ

کیپٹن ڈاکٹر(MBBS) انعام محمد بیگ ابنِ غلام محمد بیگ، ابنِ میرزا حسن (ثانی)، ابنِ محمد امیر ابنِ سید امیر ، ابنِ میرزا حسن، ابنِ فرحت بیگ ابنِ دارا بیگ عرف تھرا (ثانی)۔

پسند یدہ خصائل، سِتودہ شمائل اور ہمارے میوۂ دل انعام محمد بیگ کا کیا کہنا! ما شا ء اللہ اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان بھی ہیں، ڈاکٹر بھی اور فوجی افسر بھی ہیں، لیکن ان کی اخلاقی درویشی ہر چیز پر غالب آگئی ہے، اسمِ شریف کا پہلا لفظ ’’انعام‘‘ ہے، اسی لئے آپ کو اللہ، رسولؐ، اور امام ِزمانؑ کے باطنی انعامات حاصل ہور رہے ہیں، آپ نے پہلی بار ایک بہت پیاری کتاب لکھی ہے، اس پر تبصرہ الگ ہو گا، اللہ تعالیٰ کی شانِ قدرت دیکھئے، وہ فرشتۂ مجسم ہیں۔

تحفۂ حکمت:

شروع شروع میں عالمِ شخصی کا نام عالمِ ذر ہوتا ہے، جس میں تمام چیزیں لطیف ذرات کی شکل میں ہوتی ہیں، ان ذرّات کی بہت سی مثالیں ہیں اور ایک مثال کے مطابق یہ سب فرشتے ہیں، چنانچہ حضرت آدم خلیفۃ اللہ کیلئے پہلا سجدہ عالمِ ذر کے منتشر فرشتوں نے کیا، دوسرا اور آخری سجدہ عالمِ عقل

 

۹۱

 

کے متحد فرشتوں نے کیا، وہ سارے مرتبۂ عقل پر مل کر ایک ہو جاتے ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ سب کا مجموعہ فرشتہ ایک ہی ہے۔

عالمِ ذر کے ذرات کی چند مثالیں:

۱۔ یہ گویا وہ لوگ ہیں جو دنیا میں آنے سے پہلے عالمِ ذر میں موجود تھے۔

۲۔ یہ وہ اولین فرشتے ہیں جنہوں نے آدمؑ کو سجدہ کیا۔

۳۔ یہ مثلاً حضرتِ نوحؑ کی طوفانی بارش ہیں۔

۴۔ ان میں حضرتِ ابراہیمؑ کے گل و گلستان (۲۱: ۶۹) ہیں۔

۵۔ بھیڑ بکریاں (۲۰: ۱۸) حضرتِ موسیٰؑ  کے قصے میں۔

۶۔ پرندے (۰۳: ۴۹) حضرتِ عیسیٰؑ کی مثال میں۔

۷۔ یا جوج و ماجوج (۱۸: ۹۴، ۲۱: ۹۶) جو تعمیر کی غرض سے تخریب کرتے ہیں۔

۸۔ ثمرات (۲۸: ۵۷) خانۂ کعبہ کے لئے۔

۹۔ سورۂ فیل (۱۰۵: ۰۴) کی مثال میں کنکریاں۔

۱۰۔ آنحضرتؐ کی مثال میں دنیا بھر کے لوگ (۱۱۰: ۰۱) جو خدا کے دین میں داخل ہو گئے۔

۱۱۔ وہ تمام چیزیں (۳۶: ۱۲) جو امامِ مبینؑ کی ذات میں محدود ہیں۔

۱۲۔ روزِ قیامت کے اوّلین و آخرین یعنی سب لوگ (۵۶: ۵۰) وغیرہ وغیرہ ۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات   ۱۴؍ جمادی الاول  ۱۴۱۵ ھ      ۲۰؍اکتوبر  ۱۹۹۴ء

 

۹۲

 

قرآنے باراؤ لو سوالِݣ

سوال نمبر ا۔ قرآن شریف امن پیغمبر  روسوکلا؟ امت ملک لو؟ امت باݽ لو نازل منیلا؟

جواب: قرآن مجید نلݳ کے نلݳ اتسکلا، بلکہ کحتا کحتا سوکلا، قرآنَ پاک ٹوک نازل منݽ خا التراسکی دین نی بلم۔

سوال۳: اللہ تعالی امن فرشتا کا پاک پیغمبرر قراآنے آیتݣ دوشم؟ فرشتہ اڈِمے کا غیئچما، بے اقائچم؟

جواب: خدائݺ جبرائیل فرشتا کا سمولو پیغمبر علیہ السلامر قرآنے آیتݣ دوشم، جبرائیل روحانی بای، انے وجہ ڎم بُٹ پݳ وقتُ لو اقائچم، فقط التو ہیشی غوم۔

سوال ۴: مشہور اآسمانی کتابچݣ بیرم بڎن؟ دا ایکے ایکچݣ بیسن بڎن؟

جواب: مشہور اآسمانی کُتُب دلتو بڎن: تورات، زبور، انجیل، قرآنِ مجید۔

سوال ۵: قرآن پاکݺ سورݣ بیرم بڎن؟ پارݣ بیرم بڎن؟ دا قرآنِ کریم لو بسم اللہ بیرم ہیشی دی بلا؟

جواب: قراآنِ پاکݺ سورݣ ہک تھاکے ترمݳ دلتو بڎن، پارݣ التر توزمݹبڎن، بسم اللہ ہک تھاکے ترماولتی ھیشی دی بلا۔

سوال۶: قرآنݺ سورݣ ایون ببر چسکو بڎنا، بے کھیرمن غسائکو کھیرمن کھٹوئکو بڎن؟

جواب: پاک قراآنݺ سورݣ ببر چکوابی، بلکہ کھیر من غسائکو کھیرمن کھٹوئکو بڎن۔

سوال۷: حضرت رسول صلی اللہ علیہ و اآلہ وسلمے وحی گر منسے گنے ببرمن اصحابرحکم ایتم؟

سوال: وحی گرمنسر حضوریکل ڎم التوالتر(۴۰) اصحاب مقرریم۔

سوال ۸: ایون ڎم یرکماس امتِ آیت نازل منی می؟

جواب: وحی گرمنسر حضوریکل ڎم التوالتر اصحاب مقرریم۔

سوال ۸: ایون ڎم یر کماس امتِ آیت نازل منی می؟

جواب: یرکماس سورۂ علقے شروے ۵ (ݼندو)آیݣ نازل منیڎن۔

سوال ۹: پاک قرآنے آخری وحی امت بلا؟

جواب: قرآنے آخری وحی: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا.(۰۵: ۰۳)بلا؟

جواب: سورہ بقرۂ ایون ڎم غسنم بلا۔

سوال ۱۱: ایون م کھٹ سورہ امتَ بلا؟

جواب: سورہ کوثر ایون ڎم کھٹ بلا؟

سوال ۱۲: چار قل امک سورݣ بڎن؟

جواب: سورۂ کافرون، سورۂ اخلاص، سورۂ فلق، سورۂ ناس۔

سوال۱۳: قرآن لو بیرم پیغمبرتݣے چغہ بلا؟

جواب: التر ݼندو (۲۵) پیغمبر انے څغہ بلا: آدمؑ، نوحؑ، ادریسؑ، ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحٰقؑ، یعقوبؑ، یوسفؑ، لوطؑ، ہودؑ، صالحؑ، شعیبؑ، موسیٰؑ، ہارونؑ، داؤدؑ، سلیمانؑ، ایوبؑ، ذوالکفلؑ، یونسؑ، الیاسؑ، الیسعؑ، زکریاؑ، یحییٰؑ، عیسیٰؑ، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

سوال۱۴: غارِ حرا (حراکور) امُ لو بی؟

جواب: مکّا شمال یکل کوہِ نورٹے بی۔

سوال۱۵: سورۂ فاتحا بیرم آیتݣ بڎن؟

جواب: تھلو آیتݣ بڎن۔

سوال ۱۶: اُمُ الکتاب امتِ سورار سیئبان؟

جواب: سورہ فاتحا اُم الکتاب سیئبان۔

سوال ۱۷: قراآنِ کریمݺ بیرم منزلݣ بڎن؟

جواب: تھلو بسݣ (منزلݣ) بڎن۔

 

۹۳

 

بابِ ششم

عزیزان و احباب

 

۹۷

 

راعی ابراہیم شاہ موکھی

راعی ابراہیم شاہ ابنِ غلام شاہ ابنِ محمد ولی ابنِ غلام شاہ ابنِ پویو ابنِ بیر ابنِ بلیک ابنِ کنو، قوم: شین۔

آپ کو مقدس جماعت خانے سے وابستگی، مانوسیت اور محبت کی یہ سعادت بچپن ہی سے حاصل رہی، یہی سبب ہے کہ آپ زمانۂ طفولیت میں بڑے شوق سے اپنے والدِ محترم کے ہمراہ عبادت کے لئے جایا کرتے تھے۔

آفتابِ نورِ عشق روحانیّت کے آسمان پر ہے، اس کی کرنیں جماعت پر اس وقت برسنے لگتی ہیں، جبکہ کوئی عاشقِ صادق سریلی آواز اور ترنم سے منظوم حمد، نعت یا منقبت پڑھ رہا ہو، الحمدللہ! ہمارے نامور موکھی صاحب اس نیک عمل میں بھی پیش پیش ہیں، ان کو بچپن کے ایام سے منقبت خوانی کی توفیق عطا ہوئی ہے، آپ کو دینی علم سے بڑی دلچسپی ہے، اور جماعت کے نیک کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔

۱۳ ؍دسمبر ۱۹۷۶ ء کو سرکار مولانا حاضر امام علیہ السّلام نے ازراہِ مرحمت انہیں جوائنٹ کامڑیا برائے سنٹرل جماعت خانہ مقرر فرمایا، اور اس سلسلے میں ایک الگ تعلیقہ بھی صادر ہوا۔

 

۹۹

 

۱۹۸۳ء میں جشنِ سیمین (سلور جوبلی) کے دیدار کے موقع پر گلگت کے پنڈال میں مولانا حاضر امامؑ کے حضورِ اقدس میں ابراہیم شاہ نے پہلی بار بروشسکی گنان (منقبت) “دیدارِ مبارک مار” پڑھنے کی عظیم سعادت حاصل کر لی، جسے سرکارؑ نے بہت سراہا۔

۱۹۸۷ء تک جوائنٹ کامڑیا کے فرائض کی انجام دہی کے بعد ۱۱ جولائی ۱۹۸۷ء کو امامِ زمانؑ نے آپ کو سنٹرل جماعت خانہ کے موکھی کے عہدے پر فائز فرمایا، اس عہدے کے ساتھ یہ خدمات اب بھی جاری ہیں۔

درست لفظ راعی ہے، راعی = چرواہا (کنایتاً) بادشاہ، جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے: کُلُّکُمْ رَاَعْیٍ و کُلُّکُمْ مَسئُوْلٌ عَنْ رَعیّتِہٖ= تم میں سے ہر شخص چرواہا (حاکم) ہے، اور ہر شخص سے اس کے گلے کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ یعنی ہر مرد و زن بحدِّ قوّت بادشاہِ بہشت ہے، اور ہر فرد سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا، کہ اس نے اپنی رعیت کے لئے کون کون سے شاہانہ امور انجام دیئے؟

سلیمان شاہ:

سلیمان شاہ صاحب راعی ابراہیم شاہ (موکھی) صاحب کے برادرِ حقیقی ہیں، اس لئے شجرۂ نسب ایک ہی ہے۔

اسماعیلیوں میں جتنے اشخاص امامِ عالیمقامؑ کے مختلف اداروں میں کام کرتے ہیں، وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں، چنانچہ جناب سلیمان شاہ صاحب کی خوش بختی ہے کہ وہ مکمل چھ سال کے عرصے تک نامدار ریجنل کونسل

 

۱۰۰

 

گلگت کے ممبر رہے۔

آپ شمالی علاقوں کے وہ مثالی ڈونر (DONOR)ہیں جو جماعت خانوں، اسکولوں، لائبریریوں، فلاحی عمارتوں کی تعمیر میں اور دوسرے نیک کاموں کے مواقع پر فراخدلانہ طور پر عطیات دیا کرتے ہیں، خداوندِ قدوس نیکو کاروں کو دین و دنیا کی کامیابی اور سربلندی عنایت فرمائے ! آمین!!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل  ۲۲؍ جمادی الاول  ۱۴۱۵ ھ      ۱۸؍اکتوبر ۱۹۹۴ء

 

۱۰۱

 

حضور موکھی سرفراز شاہ

حضور موکھی سرفراز شاہ صاحب مجھے اتنے پیارے کیوں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ وہ بار بار یاد آتے ہیں؟ اس کا جوابِ باصواب یہ ملتا ہے کہ وہ انتہائی شریف دیندار ہیں، حسنِ اخلاق اور مذہب دوستی کا نمونہ، ہر شناسا مومن کے لئے ایک مثالی آئینہ ، اپنی ذات میں انسانی خوبیوں کا گنجینہ، اور جماعتی عملداری کا ایک زینہ ہیں۔

میں نے ( ان شاء اللہ العزیز) یہاں نہ صرف سرفراز شاہ کے ایمانی اوصاف کی تعریف کی، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس پاکیزہ آئینے میں بہت سے ہم صفت مومنین کا تصور بھی کیا، جس کے سوا کامل مسرت و شادمانی ممکن نہیں، اب کوئی علمی تحفہ چاہئے: ۔

عرش کی ایک تاویل نورِ عقل ہے، لہٰذا حاملانِ عرش سے حاملانِ نور مراد ہے، اور یہ حضرات آئمہ علیہم السلام ہیں، سورۂ مومن کی آیۂ ہفتم (۴۰: ۰۷) کی معنوی گہرائی میں اتر جانے کے لئے خوب غور وفکر کریں، دیکھئے کہ حاملانِ عرش (حاملانِ نور) کیا کہہ رہے ہیں؟ کہتے ہیں: “اے ہمارے ربّ! تو نے ہر چیز کے ظاہر و باطن میں رحمت و علم رکھا ہے” یعنی پہلی نظر میں بحرِ کائنات ہے،

 

۱۰۲

 

دوسری نظر میں یہاں روحِ اعظم کا سمندر ہے، اور تیسری نظر میں یہ عالمگیر عقل کا بحرِ محیط ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات و موجودات کا کوئی جز، کوئی ذرہ، رحمت و علم کے بغیر نہیں، اور نہ ہی قرآنِ حکیم کی کوئی شے اس کے سوا ہے۔

سوال: اس میں کیا حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات حاملانِ نور کے حوالے سے فرمائی، حالانکہ وہ خود بھی فرما سکتا تھا کہ یہ حقیقت یوں ہے؟

جواب: اس اندازِ کلام میں یہ اشارہ ہے کہ لوگ حاملِ نور کو پہچان لیں تاکہ اس کے وسلیے سے یہ سرِعظیم منکشف ہو جائے کہ کسی استثناء کے بغیر ہر شیٔ کے اندر اور باہر کسی طرح رحمت و علم پایا جاتا ہے، تاہم یاد رہے کہ اس آیۂ کریمہ کی مقدس تعلیم انتہائی بلندی پر ہے، وہ مشکل ترین ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔

حضور موکھی سرفراز شاہ کا شجرۂ نسب اس طرح ہے: سرفراز شاہ ابنِ مہربان شاہ (حضور موکھی) ابنِ گل بہار شاہ، ابنِ حیدر علی، ابنِ درویش علی، ابنِ سلاح، ابنِ فقیر، اس کے بعد چند ناموں کے بارے میں پوچھنا ہے ، پھر جوشای ثانی ابنِ سرنگ ابنِ وزیر بوٹو ابنِ وزیر چوسنگو ہے، جو گرکِس تھم کا وزیر تھا۔

یہاں پر بروشسکی قواعد (گرامر) کا ایک مسئلہ ہے کہ “چوشاݶ بوٹو” کی تحلیل کس طرح ہو سکتی ہے؟ جواب: چوسنگھ کا بیٹا بوٹو کہنے کے لئے چوشاݶ بوٹو کہتے ہیں، جیسے ہمارے شجرۂ نسب میں حجی (حاجی) کا بیٹا غریب کے نام سے تھا ، اسے حجاݶ غریب کہا گیا (حجݷ = حج + اݷ = حجاݷ ) اسی طرح لفظِ چوسنگھ کا تیسرا حرف ش ہوا اور باقی (نگھ) حذف ہو کر اݷ کے دونوں حرف اس میں داخل ہو گئے تو یہ اسمِ چوشاݷ ہو گیا، اس قاعدے کی چند مثالیں درجِ ذیل ہیں: ۔

۱۔ اَیَشو سے اَیَشوݷ = خاندانِ اَیَشو کا کوئی فرد۔

 

۱۰۳

 

۲۔ غلو سے غلواݷ = غلو کا بیٹا یا اس خاندان کا کوئی شخص۔

۳۔ ھنو سے ھنوݷ = ھنو کا فرزند۔

۴۔ خرو سے خروݷ

۵۔ برگوش سے برگوشاݷ

۶۔ لسکری سے لسکراݷ ، وغیرہ۔

چوسنگھ کے معنی ہیں شیر کو چھونے ( یعنی نہ ڈرنے ) والا، چو اور چھو دراصل ایک لفظ ہے، سنگھ شیر کو کہتے ہیں، ایسے ناموں کو تاریخی اعتبار سے بڑی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ کس دور کے لو گ تھے۔

امام شناسی ( سیٹ، نیا ایڈیشن) کے شروع میں دیکھ لیں، جہاں برادرِ بزرگ حضور موکھی مہربان شاہ (مرحوم) کے بارے میں تذکرہ ہے، جو صفحہ ۳ تا ۷ پھیلا ہوا ہے، علاوہ برآن کتاب چراغِ روشن ص ۱۸ پر بھی ان کا ایک حوالہ دیا ہوا ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

ہفتہ  ۹؍ جمادی الاول  ۱۴۱۵ ھ      ۱۵؍اکتوبر ۱۹۹۴ء

 

۱۰۴

 

Monogram

16th November, 1991.

My Dear Wazir Akbar Ali,

It is with deep sadness that I have learnt about the passing away of Huzur Mukhi Maherban Shah Gul Baher Shah.

I give my most affectionate paternal maternal loving blessings for the soul of the late Huzur Mukhi Maherban Shah and I pray that his soul may rest in eternal peace. The long devoted services of the late Huzur Mukhi Maherban Shah to the Imam of the Time and to the Jamat in Jutiyal will always be remembered, and he will be greatly missed by all.

I send my warmest and most affectionate loving blessings to Huzur Mukhiani Gool Bibi, and all the

 

۱۰۵

 

members of the late Huzur Mukhi Meherban Shah’s family for courage and fortitude in their immense loss.

 

Yours affectionately,

Sd/.

Aga Khan

 

Vazir Akbar Ali Karmali,

Karachi.

 

۱۰۶

 

آدمِ زمان

ناطق و اساسؑ تمام مومنین اور مومنات کے روحانی ماں باپ ہیں، پھر یہی مرتبہ اساسؑ اور امامؑ کو حاصل ہے، پھر امامؑ اور باب زمانے کے آدم و حوّا اور ہر مومن و مومنہ کے روحانی والدین ہیں، اور اسی سرِ عظیم میں جملہ اسرارِ معرفت پنہان ہیں۔

نُوْرٌ عَلیٰ نُوْرٍ (۲۴: ۳۵) کے قانونِ حکمت میں خصوصی غور و فکر کرنے کی غرض سے نیت کر کے کبھی اس کا ورد کر لیجئے، آیۂ مصباح کے اس پُرحکمت جزو کا یہ اشارہ ہے کہ نور ہی عالمِ وحدت اور یک حقیقت (مونوریالٹی) ہے، جس میں جملہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اور مومنین و مومنات کے انوار ایک ہیں، یا یہ کہوں کہ سب کا ایک ہی نور ہے، اور اسی نورِ واحد (ایک کرلینے والا نور) میں بار بار تجدّد ہوتا رہتا ہے، کیونکہ نور کی مثالوں میں سے ایک مثال آگ کی سی ہے، آگ بعض چیزوں کو جلا کر نیست و نابود کر دیتی ہے، اور بعض کو ہم رنگ و ہم صفت بنا کر اپنے ساتھ ایک کر لیتی ہے۔

آپ سورۂ نمل (۲۷: ۰۸) میں خوب غور سے دیکھ لیں، جہاں نور کی تشبیہہ و تمثیل آگ سے دی گئی ہے: بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَاؕ = برکت دیا گیا ہے جو آگ (نور) میں ہے، اور جو اس کے گرد ہے (۲۷: ۰۸) دراصل یہ

 

۱۰۷

 

فنا فی اللہ و بقا باللہ کا سرِ عظیم ہے، اور اس کے سوا وہ برکت ممکن نہیں جس کی تعریف اللہ خود فرماتا ہے۔

یہ جدید طرز کا انتساب جو علمی اعتبار سے بڑا مفید اور کلیدی اہمیت کا حامل ہے، ایسی بہت ہی عزیز چار شخصیتوں کے حق میں ہے، جنہوں نے پیہم گرانقدر خدمات کی انجام دہی سے اپنی ذات میں جذبۂ خدمت کی پاکیزہ روح پیدا کر لی ہے، جس کی وجہ سے اب ان کو علمی خدمت سے بدرجۂ انتہا خوشی و شادمانی حاصل ہو رہی ہے، ان کو علم و عبادت اور ذکر و مناجات کی لذّتوں اور بے شمار فوائد کا تجربہ ہو رہا ہے، اور وہ اپنے ربّ کی نعمتوں پر شکر گزار ہیں، وہ چار نیک بخت عزیزان یہ چار ریکارڈ آفیسرز ہیں، یعنی ظہیر لالانی، عشرت رومی ظہیر، روبینہ برولیا، اور زہرہ جعفر علی۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات  ۲۸؍ جمادی الاول  ۱۴۱۵ ھ      ۳؍نومبر ۱۹۹۴ء

 

۱۰۸

 

شاہ ظاہر خان ایڈوکیٹ

شاہ ظاہر خان (ایڈوکیٹ) ابنِ دینار خان ابنِ قربان غازی خان ابنِ مقصد ابنِ بیگ ابنِ عیدو ، ساکنِ گاؤں تھوئی، تحصیل یاسین، ضلع غذر، حال مقیم شیر قلعہ، تحصیل پونیال، ضلع غذر۔

عزیزم شاہ ظاہر خان ایڈوکیٹ اپنے پیشۂ وکالت کے علاوہ ہماری کتابوں کو بھی بڑے شوق سے پڑھتے رہتے ہیں، اور ہماری کلاسوں سے بھی ان کو بے حد دلچسپی ہے، دینی علم و حکمت کتنی عظیم اور عالی قدر شے ہے کہ اس کے حصول کی خاطر جج، وکیل، ڈاکٹر، انجینیئر وغیرہ سب آتے ہیں، میں اپنی ناچیز خودی کو خاکِ پائے جماعت قرار دیتے ہوئے علمِ اہلِ بیت اطہار علیہم السّلام کی تعریف کرنا چاہتا ہوں، یقیناً وہ قابلِ تعریف اور لائقِ تحسین ہے۔

مظہرِ نورِ خدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ہیں، مظہرِ نورِ محمد مصطفیٰؐ، علیِ مرتضیٰؑ ہیں ، اور نورِ علیؑ کا مظہر امام ِزمانؑ ہیں، جس کے لئے “ما کان و ما یکون” مسخر ہے، پس معجزاتِ عالیہ کیونکر مسخر نہ ہوتے ، اے عاشقِ صادق! آپ خود کو عقلی اور علمی معجزے کے لئے تیار کرلیں، مولا یہ روحانی معجزہ آپ کے دل و دماغ میں کرے گا، اور جو لوگ غافل ہیں، ان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔

 

۱۰۹

 

خدائے بزرگ و برتر کے اس بابرکت ارشاد کے مطابق جو قلبِ قرآن (سورۂ یاسین) میں ہے، امام ِمبین کی ذاتِ اقدس میں تمام عقلی اور روحانی چیزیں محدود و موجود ہیں (۳۶: ۱۲) پس یقیناً اللہ تعالیٰ کی کتابِ ناطق میں عقلی اور علمی عجائب و غرائب اور معجزات کا ہونا بد یہی اَمر ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

اتوار  ۱۰؍ جمادی الاول  ۱۴۱۵ ھ      ۱۶؍اکتوبر ۱۹۹۴ء

 

۱۱۰

 

صوبیدار شاہ بیگ

صوبیدار شاہ بیگ ابنِ ہنر بیگ ابنِ گلاب ابنِ محمد ابنِ مون ابنِ آمون ابنِ شاہ بیگ، خاندان: شابیگے، ساکن موضع اشکومن، مقام: مومن آباد۔

صوبیدار شاہ بیگ صاحب حقیقی علم کے بڑے قدردان اور عاشق ہیں، ان میں حقائق و معارف سمجھنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے، آپ میری کتابوں کا بغور مطالعہ کرتے ہیں، اور کبھی کبھی ملاقات بھی ہوتی ہے، عزیزم کیپٹن ڈاکٹر انعام محمد بیگ نے اپنی اوّلین کتاب کے آخری عنوان “میرے محسنین” کے تحت کچھ حضرات کا ذکر کیا ہے، ان میں صوبیدار شاہ بیگ صاحب کی تعریف بھی ہے۔

آپ کے لئے تحفہ علمی:

عالمِ شخصی کے اعتبار سے عقل آدم اور روح حوّا ہے، اور روحانیّت کا وہ اعلیٰ مقام بہشتِ برین ہے، جہاں عقلانی (علمی) اور روحانی نعمتوں کی کثرت ہے، الغرض آدم شخصی میں واقعۂ عالم کا تجدّد ہوتا ہے، جس میں سب کچھ ہے، مگر یہاں بعض اسرار ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ ان کا تعلق علمی معرفت سے ہے۔

 

۱۱۱

 

حضرتِ آدم علیہ السّلام پر جو جو واقعات گزرے، وہ سب قانونِ خیر و شر کے مطابق تھے، اس لئے کوئی دانشمند آدم پر اعتراض نہیں کر سکتا، دیکھنا یہ ہے کہ خلافتِ آدم کے کیا معنی ہیں؟

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات  ۱۴؍ جمادی الاول  ۱۴۱۵ ھ      ۲۰؍اکتوبر  ۱۹۹۴ء

 

۱۱۲

 

عزیزم صفی اللہ بیگ مسگاری

صفی اللہ بیگ ابنِ علی حرمت، ابنِ محمد نعیم ابنِ صفر علی ابنِ غلام ابنِ عاشور ابنِ کچور، خاندانِ قدیم بوشو کڎ، قبیلہ درَمِتݣ (درمتِنگ) قریہ مسگار گوجال، حال مقیم ذوالفقار آباد گلگت۔

میری ایک اصطلاح: “فلسفۂ وحدتِ انسانی” میرے عزیزوں کو بہت پسند ہے، کیوں نہ ہو جبکہ اس فلسفے کے پس منظر میں تمام انسانوں کی روحی اور عقلی وحدت اب بھی موجود ہے، کیونکہ عالمِ شخصی انسانِ کامل کی ایک مکمل کاپی ہے، جس میں نہ صرف مکان و زمان کی ساری چیزیں مرکوز و محدود ہیں، بلکہ لامکان و لا زمان (دہر = زمانِ نا گزرندہ) کی تمام حقیقتیں بھی یہاں جمع و یکجا ہیں، چنانچہ اس میں جملہ واقعاتِ ازل و ابد حاضر اور موجود ہیں، اور سب سے عظیم واقعہ یہ کہ وہاں رحمانی صورت پر شخصِ وحدت کا دیدار ہوتا ہے، جس میں اوّلین ، حاضرین اور آخرین سب ایک ہیں، پس کیا خوب شعر ہے:

اُیُم دِشن ئیڎ با ایلے سس ایون ببر بان

ازلے ببربم جون ابدے ببر بُٹ اُیَم

میں نے ایک بڑا مقام (مرتبہ) دیکھا ہے، جس میں سارے لوگ برابر ہیں،

 

۱۱۳

 

کتنی شیرین بات ہے کہ لوگ جس طرح ازل میں ایک اور برابر تھے، اسی طرح ابد میں بھی ایک ہوجاتے ہیں۔

مسگار کے تمام لوگ جو گلِ مقدّس (سوجو پونر) کی طرح بلندی پر رہتے ہیں، وہ اپنی پاک باطنی کی وجہ سے علمی خادموں کو بہت چاہتے ہیں، اور سب کی عزت کرتے ہیں، ان شاء اللہ، سب سے پہلے مومنین و مومنات ہی اپنے آپ کو شخصِ وحدت میں پائیں گے، اس کے لئے علم الیقین کی سخت ضرورت ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

اتور  ۱۰ ؍ جمادی الاول  ۱۴۱۵ ھ      ۱۶؍اکتوبر ۱۹۹۴ء

 

۱۱۴

 

صوبیدار نادرجان

آپ کا شجرۂ نسب: (ایکس) صوبیدار نادر جان ابنِ عبدالقادر ابنِ عبد اللہ جان ابنِ ہجوم، گاؤں غوجلتی یاسین، شریفے خاندان، حالِ مقیم ذوالفقار آباد ۔ گلگت۔

آپ سے میری ملاقات ۱۹۹۴ء کے موسمِ بہار میں ہوئی تھی، میں ان کے پسندیدہ اخلاق سے بہت متاثر ہوں، خداوندِ قدوس کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایسے عظیم انسان ہماری کلاس میں تشریف لاتے ہیں، یہ اس بندۂ خاکسار سے ایک بڑی آزمائش بھی ہے کہ شکر کرتا ہے یا کفر؟

ہمارے عزیزانِ گلگت محترم صوبیدار نادر جان صاحب کی ایمانداری اور قابلیت کی بڑی تعریف کرتے ہیں، وہ یقیناً بہت ہی اچھے ہیں، ان شاء اللہ اب ان کی اور بھی ہرگونہ ترقی ہوگی۔

ہماری بہت ہی عاجزانہ دعا ہے کہ ربِّ کریم انہیں اپنے جملہ عزیزوں کے ساتھ دین و دنیا کی کامیابی و سربلندی سے نوازے! آمین یاربِّ العالمین!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی ہیڈ آفس

جمعرات  ۲۲؍ رمضان المبارک  ۱۴۱۵ ھ      ۲۳؍فروری ۱۹۹۵ء

 

۱۱۵

 

خلیفہ برات خان

ہمارے بہت ہی پسندیدہ علاقۂ گوجال کا ایک پیارا گاؤں مسگار ہے، جہاں میں بار بار جاتا رہا ، جس کی کئی وجہیں ہیں، اور ایک وجہ یہ کہ وہاں قدرتی طور پر ذکرو عبادت اور علم و حکمت کا ایک خصوصی لگاؤ پیدا ہوگیا، میرا خیال ہے کہ اس قریہ میں ذکر و عبادت کے عجائب و غرائب ظہور پذیر ہو رہے تھے۔

میری ملاقات شروع ہی میں محترم خلیفہ برات خان (مرحوم) سے ہوئی تھی ، آپ علیٔ زمان علیہ السّلام کے خاص دوست داروں میں سے تھے، اس لئے وہ میری علمی خدمات سے بے حد متاثر تھے، وہ مولائے پاک کے عشق میں مست و مستانہ رباب بجاتے اور منقبت پڑھا کرتے تھے، آپ نے بحیثیتِ خلیفہ ساٹھ سال تک جماعت کی مقدس خدمت انجام دی، جبکہ اس زمانے میں اسی خدمت کی بہت بڑی اہمیت تھی، کیونکہ اس وقت آج کی طرح جماعتی امور کی انجام دہی کے لئے مقدس ادارے نہ تھے، لہٰذا مذہبی رسومات کی چھوٹی بڑی تمام خدمات کو خلیفہ ہی انجام دیا کرتا تھا۔

آپ کا شجرۂ نسب یہ ہے: خلیفہ برات خان ابنِ لگری خان ابنِ عاشور جان، ابنِ محمد رفیق ایرانی۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۲۶؍ رمضان المبارک  ۱۴۱۵ ھ      ۲۷؍فروری ۱۹۹۵ء

 

۱۱۶

 

صوبیدار رستم خان

(تمغۂ پاکستان _______ خدمت پاکستان)

صوبیدار رستم خان  (تمغۂ پاکستان۔ خدمت پاکستان کا شجرۂ نسب یہ ہے: رستم خان (مرحوم) ابنِ قدیر خان ابنِ رستم خان ابنِ دولت علی ابنِ خرم شاہ ابنِ شاہ برگوش ابنِ شاہ برگل ثانی ابنِ فقراء شاہ ابنِ خواجہ بہرام شاہ ثانی ابنِ خواجہ رؤف ابنِ خوجہ بہرام شاہ ابنِ خواجہ برگل اوّل ابنِ صفر ، جو قبیلۂ بروک ھری سے تعلق رکھتا تھا اور صفر کے بعد یہ خاندان صفر ہراݷ کے نام سے بھی مشہور ہوا۔

کاش میرے پاس تاریخ نویسی کا بھی کوئی ادارہ ہوتا تو شاید اپنے علاقے کے نامور لوگوں کے بارے میں کچھ تحریر کرتا! لیکن اے دلِ دیوانہ! تجھ میں خیر خواہی کی حد سے بڑھ کر یہ جنون کیوں ہے؟ تو اگر درویش ہے تو بڑی عاجزی سے سب کے حق میں دعا کر، اور جو خصوصی علمی خدمت تجھے عنایت کی گئی ہے اس کو حسن و خوبی سے انجام دیتے ہوئے بے شمار دلوں کی دعائیں حاصل کرتا رہ، ورنہ بہت بڑی ناشکری ہوگی۔

برادرِ محترم صوبیدار رستم خان کے حالاتِ زندگی اور تمام خدمات کے بارے میں لکھنے کی ذمہ داری عزیزم ماسٹر الیاس خان پر عائد ہو جاتی ہے،

 

۱۱۷

 

اسی طرح ہر تعلیم یافتہ شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کے کارناموں کو لکھ کر رکھیں، میں یہاں موصوف صوبیدار کے بارے میں ایک روحانی راز انکشاف کرنا چاہتا ہوں، تاکہ اہلِ علم اس میں غور کریں:

یارقند میں میرے اندر روحانی انقلاب برپا ہو رہا تھا، جس میں عجائب و غرائب کی ایک عظیم کائنات کا مشاہدہ ہوا، جس کے بے شمار واقعات میں ایک واقعہ یہ بھی تھا کہ ایک دفعہ ذرّاتِ ارواح کا ایک لشکر میری حمایت کے لئے آرہا تھا، جس میں صوبیدار رستم خان پیش پیش تھے، اس روحانی آرمی کے بہت کم لوگوں کو پہچان سکا، میں نے اس قسم کی امانتیں علمی و عرفانی صورت میں قوم کے سپرد کر دی ہیں، تاکہ میں قیامت کے دن / امانت میں خیانت کرنیوالوں میں سے نہ ہوجاؤں، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

صوبیدار رستم خان کی تاریخ پیدائش فروری ۱۹۱۴ء

تاریخِ وفات ۲۴؍ مئی ۱۹۹۰ء

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

۲۰؍مارچ  ۱۹۹۵ء

 

۱۱۸

 

بابِ ہفتم

بعض برانچز

 

۱۱۹

 

تحدیثِ نعمت

ہر وہ نام کتنا حسین و دلنشین ہوتا ہے، جس میں اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کی کوئی نسبت ہو، چنانچہ عزیزم امام داد کے اسمِ گرامی سے دینی عقیدت و محبت کے لازوال عِطر کی خوشبو آتی رہتی ہے، جبکہ اس بابرکت نام میں حضرتِ امام علیہ السّلام کا ذکرِ جمیل موجود ہے، اور ہر بار امامِ عالی مقام کی مبارک یاد پاکیزہ دلوں کو منور کرتی رہتی ہے۔

کریم امام داد صاحب کی گرانقدر خدمات ناقابلِ فراموش ہیں، وہ ہمارے درختِ پُرثمر کی ایک اہم شاخ بھی ہیں، اور اب ۲؍ اگست ۱۹۹۴ء سے چیف ایڈوائزر برائے فرانس کے عہدۂ جلیلہ پر فائز ہوگئے ہیں، اور یہ اعلیٰ منصب ان کے شایانِ شان ہے۔

میرے لئے دورۂ فرانس کی بہت بڑی سعادت موصوف کی تجویز اور کوشش سے حاصل ہوئی، یہ ایک ایسی نعمتِ عظمیٰ ہے جس کو جب بھی یاد کرتا ہوں تو خود کو بواسطۂ عالمِ خیال فرانس میں پاتا ہوں، جہاں میرے محبوبِ جان (مولائے زمان) کا مسکن اور مرکزی دفتر ہے، کاش میں مولا سے نہیں تو کم از کم اس کے مسکن اور دفتر سے قربان ہو جاتا!

 

۱۲۱

 

میں ہر بہانے سے مولائے پاک کے مقدّس عشق کی باتیں کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ راحتِ روح اسی عشق میں ہے، کریم امام داد ہمارے ان خاص دوستوں میں سے ہیں، جن کے ساتھ ہم بوقتِ فرصت پاک امام کے عشق میں رویا کرتے ہیں، جس سے ہماری پژمردہ روح ترو تازہ ہو جاتی ہے، خدا کرے کہ ہم سب کے لئے یہ نعمت برقرار رہے! آمین! یا ربّ العالمین !

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

ذوالفقار آباد ، گلگت

۶؍اگست ۱۹۹۴ء

 

۱۲۲

 

یاسمین شیرولی برانچ

اساسی طور پر صرف دو ہی ہیں، لیکن یہ سچ ہے کہ ہزاروں کے برابر ہیں، بلکہ اس مثال سے بھی بڑھ کر ہیں، کیونکہ ان کی بے شمار خدمات جو پیاری جماعت کے لئے انجام دی گئی ہیں، وہ بے حد مفید اور ہمہ رس ہیں، میں اپنے ان دونوں عزیز سکالرز کو مشورہ دوں گا کہ وہ اپنی اپنی زرین خدمات مستقبل کی تاریخ سازی کے لئے تحریر کر کے رکھیں، تاکہ آئندہ نسل کو اس سے درسِ خدمت ملتا رہے۔

تحفۂ علمی:

قرآنِ حکیم کی حکمت کا یہ فرمانا ہے کہ بہشت (اب لوگوں سے دور ہے لیکن) قیامت کے دن نزدیک لائی جائے گی (۲۶: ۹۰، ۵۰: ۲۱،: ۸۱: ۱۳) لفظِ اُذْلِفَتْ والی تین آیاتِ کریمہ کی روشنی میں دیکھ لیں ، چنانچہ اگر عالمِ لامکان کے پیش نظر دیکھا جائے تو اس حال میں دور و نزدیک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا، لہٰذا یہ بہت بڑی روشن حقیقت ہے کہ بہشت دراصل نورِ امامت میں ہے، وہاں سے اس کا زندہ اور روشن عکس عالمِ شخصی میں انتہائی نزدیک لایا جاتا

 

۱۲۳

 

ہے، اور یہ عظیم واقعہ انفرادی قیامت میں پیش آتا ہے۔

جنت آسمانوں اور زمین کے طول و عرض پر محیط بھی ہے (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) اور امام ِمبینؑ میں محدود بھی (۳۶: ۱۲) اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ عالم گیر روح بہشت ہے جو کائنات بھر میں اپنا کام کر رہی ہے، اور اس کا مرکز انسانِ کامل کا عالمِ شخصی ہے۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر  ۲۵؍جمادی الاول   ۱۴۱۵ ھ      ۳۱ ؍اکتبور  ۱۹۹۴ء

 

۱۲۴

 

خانۂ حکمت برانچ اوشی کھنداس

اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ روحانی اخوت اور دوستی کا دائرہ سیّارۂ زمین پر محیط ہو سکتا ہے، تاہم وطن، علاقہ اور مانوس و مالوف مقامات کی محبت بھی اپنی جگہ قائم رہتی ہے، چنانچہ جب اوشی کھنداس (شدید ہوا کی گزرگاہ) صحرا و بیابان تھا، اس وقت ہم نے حصۂ جاگیر میں ایک گسݷ حاصل کر لی تھی ، ہم شروع شروع میں مشکلات کی وجہ سے وہاں سالن کی جگہ بَبُوݼل (نمکین پانی)یادغوی ݽکر کڎ (خشک میتھی) کو استعمال کرتے تھے، اور اگر موسم ہے تو چوپری کی ڎمک بناتے ، اب اللہ کے فضل و کرم سے اوشی کھنداس میں ظاہری و باطنی نعمتوں کی فراوانی ہے۔

خدائے رحمان و رحیم کی کیسی کیسی عظیم اور بے پایان عنایات ہیں کہ اب قطعۂ زمین کی فکر سے آگے بہت ہی آگے بڑھ کر ایسے عوالمِ شخصی کی بات ہو رہی ہے، جن میں سے ہر ایک میں کل کائنات سمائی ہوئی ہے، بہت بڑی سعادت ہے کہ یہاں علمِ امامت کی روشنی میں انقلابی تعلیم دی جاتی ہے، اور وہ عالمِ شخصی کے عجائب و غرائب سے متعلق ہے۔

میں اس برانچ کے صدر حوالدار (ریٹائرڈ) جابر خان ابنِ محمد جلیل اور ان کے تمام ساتھیوں کے جذبۂ ایمان اور شرافت کو دل و جان سے

 

۱۲۵

 

سلام کرتا ہوں کہ وہ سب دینداری اور علم دوستی کے جذبے سے ہمارے ادارے کی ہرگونہ حمایت و مدد کرتے ہیں، دعا ہے کہ ربّ العزّت تمام نیک کاموں میں ان کی مدد فرمائے ! آمین!!

 

۱۲۶

 

فہرست ِ کارکنانِ اوشی کھنداس برانچ

۱۔       صدر (ایکس حوالدار) اجان خان ابنِ محمد جلیل ابنِ سعدان

۲۔       ممبر (ایکس حوالدار) محمد جامی ابنِ محمد جلیل ابنِ سعدان

۳۔       ممبر صغیر الدین ابنِ غلام سرور ابنِ محمد مراد

۴۔       ممبر درویش علی ابنِ مبارک شاہ ابنِ ظہیر شاہ

۵۔       ممبر خلیفہ نیاز علی ابنِ خلیفہ عافیت شاہ ابنِ خلیفہ محمد رفیع

۶۔       ممبر (ایکس صوبیدار) یوسف علی ابنِ خلیفہ عافیت شاہ ابنِ خلیفہ محمد رفیع

۷۔       ممبر فدا علی ابنِ خلیفہ عافیت شاہ ابنِ خلیفہ محمد رفیع

۸۔       موسیٰ بیگ ابنِ غلام قدیر ابنِ بختی

۹۔       ممبر ضمیر ابنِ مصیر ابنِ محمد ضمیر

۱۰۔    ممبر غلام سرور ابنِ نیت شاہ ابنِ ہاشم شاہ

۱۱۔    ممبر مشغول عالم ابنِ علی گوہر ابنِ رحمت اللہ امان

۱۲۔    ممبر غلام محمد ابنِ علی نظر ابنِ غلام حسن

۱۳۔    ممبر رحمت علی (انجینیئر) ابنِ علی گوہر ابن رجب علی

۱۴۔    ممبر کریم خان (گنان خوان) ابنِ محمد جان ابنِ شکر علی

 

۱۲۷

 

۱۵۔    ممبر مہربان علی ابنِ عبادت شاہ ابنِ شکر علی

۱۶۔    ممبر میر عالم ابنِ نیت شاہ ابنِ دیوانہ بیگ

۱۷۔    ممبر جل بالد خان ابنِ غلام محمد ابنِ علی نظر

۱۸۔    ممبر بی بی ناجرہ زوجۂ جابر کان

۱۹۔    ممبر بی بی شافعہ زوجۂ نیاز علی

۲۰۔    ممبر بلقیس زوجۂ یوسف علی

۲۱۔    ممبر بی بی بانو زوجۂ فدا علی

۲۲۔    ممبر امان بی بی زوجۂ محمد ضمیر

۲۳۔    ممبر بی بی سونی زوجۂ موسیٰ بیگ

۲۴۔    ممبر بی بی زیب النساء زوجۂ شا گل حیات

۲۵۔    ممبر بی بی زیبون زوجۂ امیر حیات

۲۶۔    ممبر بی بی نوئنی زوجہ علی گوہر

 

۱۲۸

 

زیارت خان برانچ

عزیزالقدرم زیارت خان (ابنِ صمد خان ابنِ نو خان ابنِ بولیو) میرے ان خوش نصیب عزیزوں میں سے ہیں، جو فرداً فرداً برانچ ہونے کا عظیم درجہ رکھتے ہیں، یہ ان کی بہت اہمیت اور قدر و قیمت والی خدمت کی وجہ سے ہے، کیونکہ اگر تنہا ایک فرد کوئی ایسا عظیم کارنامہ انجام دیتا ہے، جو ہزار آدمی مل کر بھی اتنا بڑا کام نہیں کر سکتے ہوں تو ایسے میں یقیناً وہ عالی ہمت فرد ہزار آدمیوں سے بہتر ہوگا۔

جناب زیارت خان صاحب کا مختصر مگر جامع تذکرہ کتاب قوانینِ قرآن ص ۱۲ پر بھی موجود ہے، اور شجرۂ کار میں آپ کا اسمِ شریف درج ہے، جو بہت سی کتابوں کے آغاز میں ہے، کوئی شک نہیں کہ آپ کی جماعتی خدمات کی خوبصورت فہرست بڑی طویل ہے۔

سوغاتِ علمی:

عالمِ شخصی میں آفاقی سلطنت قائم نہیں ہو سکتی جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دو دفعہ جہاد نہ کیا جائے ، جہادِ اوّل روحانی اور جہادِ دوم عقلی و علمی ہے، تاہم یہ دونوں باطنی جنگیں تائیدِ الٰہی اور آسمانی لشکر کے ذریعے سے

 

۱۲۹

 

لڑی جاتی ہیں، اس کی مثال کے لئے آپ سورۂ بنی اسرائیل کے شروع (۱۷: ۰۴تا۰۵) میں خوب غور سے دیکھ لیں۔

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر ۲۵ جمادی الاول  ۱۴۱۵ ھ     ۳۱ ؍ اکتوبر  ۱۹۹۴ء

 

۱۳۰

 

یوسٹن برانچ کے معزز ارکان

۱۔       قاسم علی نور محمد (برادرِ رشیدہ نور محمد ہونزائی)

۲۔       روزینہ نور محمد

۳۔       ملک جعفر

۴۔       روشن صدر الدین

۵۔       خیر النساء سرفانی

۶۔       نیلم جاوید

۷۔       نوشاد پنجوانی

۸۔       روزینہ نوشاد پنجوانی

۹۔       فتح علی تیجانی

۱۰۔    نیلوفر فتح علی تیجانی

۱۱۔    غلام مصطفیٰ قاسم علی مومن

۱۲۔    شیر آزاد خان

۱۳۔    فردوس مومن

۱۴۔    نور علی مامجی

۱۵۔    نادر علی نورعلی مامجی

۱۶۔    یاسمین نادر علی نور علی مامجی

۱۷۔    نسرین نور علی مامجی

۱۸۔    یاسمین نور علی مامجی

۱۹۔    ظہیر علی قاسم علی مومن

 

۱۳۱

 

دینی مکتب جیسا گھر

۱۔ دنیا کے سارے انسان ظاہری اعتبار سے حضرتِ آدم اور حضرتِ حوّا علیہما السّلام کی اولاد ہونے کی وجہ سے برابر اور ایک جیسے ہیں، لیکن دین، ایمان، تقویٰ اور علم کے لحاظ سے سب لوگ یکسان نہیں ہیں، جیسے قرآنِ عظیم کا مقدّس ارشاد ہے: (ترجمہ): لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے، تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو، (اور) خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے، بیشک خدا سب کچھ جاننے والا اور سب سے خبردار ہے (الحجرات ۴۹: ۱۳)۔

۲۔ یہ قرآنِ پاک کے واضح مفہومات میں سے ہے کہ تقویٰ اور خوفِ خدا علم کے بغیر ممکن نہیں ( ۳۵: ۲۸) اور نہ ہی حکمت کے سوا خیر کثیر کے حصول کا کوئی امکان ہے (۰۲: ۲۶۹) پس ہر مومن اور مومنہ کی باطنی ترقی کے لئے عام و خاص عبادت اور علمِ و حکمت ضروری اور لازمی ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے سب کچھ حاصل ہو۔

۳۔ خانۂ خالقِ اکبر کجا، اور خانۂ مخلوقِ ضعیف کجا، ان دونوں گھروں

 

۱۳۲

 

کے درمیان آسمان زمین سے بھی زیادہ کا فرق ہے، خدا کا گھر عرشِ عظیم کی طرح ہے، تاہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی شانِ قدرت بڑی عجیب ہے کہ وہ اپنے بندگان کے قلب کو عرش کا نمونہ بنا سکتا ہے، جبکہ حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے:

لا یسعنی ارضی و لا سمائی و یسعنی قلب عبد المؤمن = “مجھ کو میری زمین سما نہیں سکتی اور نہ میرا آسمان سما سکتا ہے، لیکن میرے بندۂ مومن کا دل مجھ کو سما لیتا ہے، یعنی دیدارِ الٰہی اور معرفت کی قابلیت و اہلیت صرف اہلِ ایمان ہی کو عطا ہوئی ہے۔

۴۔ دینی مکتب جیسا گھر بہت سے نیک بخت افرادِ خاندان اور بہت سے سعادت مند متعلقین سے کئی بار ملاقات ہوچکی ہے، اور ان کی بہشت جیس محفلِ ذکر میں شرکت کی سعادت بھی نصیب ہوئی ہے، میرا عقیدہ ہے کہ دنیا میں علم و عبادت سے بڑھ کر کوئی عظیم تر نعمت نہیں ہے، کیونکہ اس حال میں اہلِ مجلس پر نور کی بارش برستی رہتی ہے۔

۵۔ “دینی مکتب جیسا گھر” جناب انجینیئر دلدار شاہ صاحب ریکارڈ آفیسر کا دولت خانہ ہے، جس میں کبھی کبھی بہت سے ارضی فرشتے جمع ہوجاتے ہیں، یہ سب سعادت مند افراد موصوف کے شاگرد ہیں، مولا کے پسندیدہ روحانی بیٹے اور بیٹیاں، جن کی بندگی، دعا، مناجات، اور گریہ و زاری کو دیکھ کر بڑا تعجب ہو جاتا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے اپنی عبادت کے لئے کیسے کیسے عاجز اور مناجاتی درویشوں کو پیدا کیا ہے۔

۶۔ قرآنِ حکیم کے بہت سے مقامات پر خدا کو کثرت سے یاد

 

۱۳۳

 

کرنے کا حکم ہے، جس کا منشا ہے کہ مومنین و مومنات دائم الذکر ہو جائیں تاکہ اس کی برکتوں سے ان کو دنیا و آخرت کے بے شمار فائدے حاصل ہوں، اگرچہ یہ کام بہت ہی مشکل ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں، اس نیک عمل سے جماعت کو بھی فائدہ ہے، اور مقدس اداروں کو بھی، کیونکہ اس سے اجتماعی نیکی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور مسائل کم ہو جاتے ہیں۔

۷۔       اے کاش! ہر شخص کے لئے “دینی مکتب جیسا گھر”  ہوتا تو کتنی روحانی ترقی ہوتی، آپ سب دعا کریں کہ بغض، حسد، کینہ اور ہر قسم کی برائی ختم ہو جائے اور علم و عبادت کا دور دورہ ہو، تاکہ زندگی روحانی خوشیوں سے معمور ہو سکے، آمین!

 

ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۲۴؍ رمضان المبارک  ۱۴۱۵ ھ     ۲۵؍فروری ۱۹۹۵ء

 

۱۳۴

 

بابِ ہشتم

ریکارڈ

 

۱۳۵

 

THE INSTITUTE OF ISMAILI STUDIES

 

26th August 1994

 

Mr. Khan Muhammad

15 Rahim Court

312 – Garden West

Nr. Rose Garden Apt.,

KARACHI – 74550

PAKISTAN

 

Dear Mr. Khan Muhammad

Thank you for your letter of 26th July 1994 and the enclosed newspaper cuttings about the recent conferment of covetous literary title of  “Hakeem-ul-Qalam” upon Allamah Nasiruddin Hunzai.

Indeed it is an honour for the Ismaili Community world wide and we equally share your pride at Allamah Hunzai’s extraordinary accomplishments in the literary world.

Thank you again for providing us with the information and we will ensure a wide coverage at this end.

With kind regards and Ya Ali Madad.

Yours sincerely

Sadruddin Nathoo

Administrator

 

۱۳۷

 

ایک یاد گار نظم

یہ کس کے نور سے معمور ہیں ارض و سما دیکھو

یہ کس کا نام ہے ہم معنیٔ نامِ خدا دیکھو

میرے بہت ہی عزیز بھائی، بہت ہی پیارے دوست، اور عظیم رفیقِ کار فدا علی سلمانؔ البدخشانی صاحب (مرحوم و مغفور) کی ایک عالیشان نظم اسماعیلی بلیٹن میں شائع شدہ ملی ہے، جو مولانا حاضر امام علیہ السّلام کی شان میں تحریر کی گئی ہے، چونکہ مولائے پاک کی تعریف ہے، اور ایک عزیز بھائی کی یادگار نظم، اس لئے حوالے کے ساتھ اس کو یہاں درج کرتے ہیں: ۔

 

مسندِ امامت اور امام ِزمانؑ

از:  فدا علی سلمانؔ البدخشانی

یہ کس مسند کے اونچے آسمانوں سے بھی پائے ہیں؟                زمین و آسمان کس کے ادب میں سر جھکائے ہیں؟

 

۱۳۸

 

یہ کیسے شادیانے بج رہے ہیں چار سُو یا رو؟                یہ کیسا غلغلہ ہے دیکھو! دیکھو! کو بہ کو یارو؟

یہ کس کے نور سےمعمور ہیں ارض و سما دیکھو          یہ کس کا نام ہے ہم معنیٔ نامِ خدا دیکھو

یہ مسند، مسندِ رشد و ہدایت ہے زمانے میں                    اس مسند کی سب سے بڑھ کر عظمت ہے زمانے میں

تجلیٰ گاہِ انوارِ خدا مسند امامت کی            امانت گاہِ علم مصطفیٰ مسند امامت کی

اسی مسند پہ ہے جلوہ فگن اِک شخصِ نامی آج               ہے فخر شاہی و شاہنشہی جن کی غلامی آج

کریمؑ ابنِ علیؑ ہے نام امامِ وقتِ حاضر کا              ہے مومن کے لئے یہ نام باعثِ جمع خاطر کا

کہ باب و پور کے اسماء اسماءِ الٰہی ہیں               پناہِ کُل یہی اسماء ازمہ تابہ ماہی ہیں

اشارت بس یہ سلمانؔ کافی ہے خمش ہو جا            حریم ِ یار دل تیرا ہے اپنے دل ہی میں کھو جا

اسماعیلی بلیٹن جلد ۔ ۲   شمارہ   ۱۰۔ ۱۱ م    رجب شعبان ۱۳۹۶ ھ

جون ۔ جولائی ۱۹۷۶ء

 

۱۳۹

 

ایک تاریخی حوالہ

محترم و مکرم جناب ڈاکٹر (پی۔ ایچ۔ ڈی) فقیر محمد صاحب کے احسانات اس کثرت سے ہیں کہ ہم ان کو شمار ہی نہیں کرسکتے ہیں، جب موصوف نے “برکاتِ دعا” تالیف فرمائی اور پہلی بار شایع ہوئی تو اس میں ذیل کی طرح فلسفۂ دعا ( دعا مغزِ عبادت) کا حوالہ دیا ہوا تھا، ہم اس بہت بڑے انعام کو اپنی کتاب میں محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، اَلَحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ ۔

 

اس کتاب کے مرتب کرنے میں جہاں میں نے تفاسیرِ قرآن اور دوسری کتابوں سے مدد لی ہے وہاں میں نے زیادہ تر مواد علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی صاحب کی کتاب “فلسفۂ دعا” سے لیا ہے اور اس کتاب کو بنیاد بنا کر میں نے اس کام کو مکمل کیا ہے۔ جس کے لئے میں جناب علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی صاحب کا تہہ دل سے مشکور و ممنون ہوں۔

فقیر محمد

 

۱۴۰

 

برکاتِ دعا

مؤلف

فقیر محمد ہونزائی

ایم ۔ اے

 

 

شائع کردہ: ۔

دی اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان

۱ / ۲۳۰ ڈکروزروڈ ۔ گارڈن ایسٹ

کراچی نمبر۳۔

 

۱۴۱

 

FARMAN MUBARAK

Hazrat Imam Sultan Mohammad Shah

“This praying house is of stone; Ismailis have their praying house in their hearts. It is no use to have only a stone building for praying. Every Ismaili has got a praying house in his heart, head, sense and conscience. But such house helps to meet each other and to promote brotherly fellow feeling and help each other.”

Farman No. 32, Pg 23

Precious Pearls

Published by Ismailia Association for Pakistan

 

۱۴۲

 

یک قطعۂ شعر شاگردانہ بہ اوستادِ معظم نابلغۂ دوران

علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

۱۔       ایکہ شمعِ عشق در دلہا فروزان کردۂ         خانۂ دلہاز نورِ عشق تابان کردۂ

۲۔       طالبانِ حسنِ معنا را بہ شہراہِ امید              بردۂ، مفتونِ حسنِ شاہِ خوبان کردۂ

۳۔       ماہر ا نہ گلعذ ارش را چنان بستودۂ            کاند لیبان راز شو قش زارو نا لان کردۂ

۴۔       اے محبِّمصطفےٰ ای دوستد ارِ مرتضیٰ                خویش رادر راہِ عشقِ آل قربان کردۂ

۵۔       مشکلی صعب است درسِ عشق را آموختن            اوستادا! معجزانہ مشکل آسان کردۂ

۶۔       عاجزی دارم زوصفِ مہربانی ہای تو                  لطفِ بے حد اے معظم باعزیزان کردۂ

۷۔       اندرین دوران مثالت می ندانم نابلغہ !                   فتحِ شہرت از بدخشان تا بدخشان کردۂ

 

۱۴۳

 

۸۔       مخزنِ گنجِ علوم و حکمت اندرسینہ ات                 سائلان رابہرہ مند از گنجِ آن کان کردۂ

۹۔       با ریاضت و ادئ مقصود را پیمودۂ            جلوہ را دیدار انبر طورِ عرفان کردۂ

۱۰۔    خانۂ حکمت ز فردوسِ برین دارد نشان                بلغجائب خانۂ را باغِ رضوان کردۂ

۱۱۔    روحِ پاکِ ناصرِ خسرو نصیری ! از تو شاد                   درہمہ جملس کہ یادی ہم زبرہان کردۂ

۱۲۔    ای قوی پنجہ مجاہد در طریق، دینِ شاہ                 دفعِ شیرِ دیو را باحِرزِ ایمان کردۂ

۱۳۔    جاودانی زانکہ فرقِ مرگ رابشکستۂ                  از زہابِ عشقِ توشِ آبِ حیوان کردۂ

۱۴۔    درسِ نو آموخت انور کان ز دانشگاہِ تان               باطنش را با چراغِ نو چراغان کردۂ

 

انور اندرابی (از تاجیکستان)

کراچی، پاکستان۔ فروری ۱۹۹۵ ء

 

۱۴۴

 

ترجمہ:

۱۔ اے وہ شخص جس نے (بہت سے لوگوں کے) دلوں میں عشقِ حقیقی کی شمع روشن کر دی ہے، اسی طرح قلوب کے گھر کو (امامِ برحقؑ کے ) نورِ عشق سے منور کر دیا ہے۔

۲۔ آپ نے حقیقی حسن و جمال کے طلب گاروں کو امید و یقین کی شاہراہ پر گامزن کر کے شاہِ خوبان (امامِ زمان علیہ السّلام) کے جمالِ معنوی کے دلدادہ عاشق بنا دیئے ہیں۔

۳۔ آپ نے بڑی مہارت سے اس کے پھول جیسے چہرے کی ایسی تعریف و توصیف کی ہے کہ جس کی وجہ سے آپ نے بلبلوں کو اس کے عشق میں زار و قطار رلا دیا ہے۔

۴۔ اے محمد مصطفےٰ کا شیدائی اے علیٔ مرتضےٰ کے دوستدار، آپ نے تو آلِ محمد صلعم کے عشق کی راہ میں اپنے آپ کو قربان کر دیا ہے۔

۵۔ ہر چند کہ عشق کا درس سیکھ لینا مشکل کام ہے، لیکن اے استاد! آپ نے تو معجزانہ طور پر یہ مشکل بھی آسان کر دیا ہے۔

۶۔ میں آپ کی مہربانیوں کی تعریف و توصیف کرنے سے عاجز ہوں، اے عظیم استاد! آپ نے اپنے شاگردوں کے حق میں بیحد مہربانی کی ہے۔

 

۱۴۵

 

۷۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اس زمانے میں آپ ہی کی طرح کوئی شخص بےحد ذہین ہے، آپ نے سارے جہان میں شہرت و ناموری کی جنگ جیت لی ہے۔

۸۔ آپ کے سینے میں علم و حکمت کے ذخائر و خزائن موجود ہیں، آپ نے ان خزانوں سے طالبانِ علم کو بہرہ ور کر دیا ہے۔

۹۔ آپ نے عبادت و ریاضت سے وادیٔ مقصود کی مسافتوں کو طے کر لیا ہے، جلوۂ جانان کا دیدار آپ نے معرفت کے “طور” ہی پر کر لیا ہے۔

۱۰۔ خانۂ حکمت بہشتِ برین کی مثال ہے، انتہائی عجیب بات ہے کہ آپ نے ایک گھر یعنی ادارے کو باغِ بہشت بنا دیا ہے۔

۱۱۔ اے نصیر! ناصر خسرو کی پاک روح آپ سے شادمان ہے، کیونکہ آپ نے ہر مجلس میں پیر ناصر خسرو کی دلیل کو یاد کیا ہے۔

۱۳۔ اے وہ مجاہد جس کی گرفت شاہِ دین کی راہ میں بڑی مضبوط ہے، آپ نے شیطان کے شر کو ایمان کے تعویذ کی مدد سے دفع کر دیا ہے۔

۱۳۔ آپ زندۂ جاوید ہوگئے ہیں، کیونکہ آپ نے موت کو شکست دی ہے اور چشمۂ عشقِ مولا سے آبِ حیات پی لیا ہے۔

۱۴۔ آپ کی دانش گاہ سے انور خان نے جدید تعلیم حاصل کر لی ، آپ نے اس کے باطن کو چراغِ نَو سے تابان کر دیا ہے۔

 

۱۴۶

 

May 22, 1950

 

Dear Dr. Hakim,

 

I was very glad to get your letter. Of course I looked through your book on Roumi which the Finance Minister gave me to read, I also vaguely remember meeting the young philosopher at the Taj Mahal Hotel ages ago.

I may have been prejudiced against you by the fact that all your friends have spoken to me about your knowledge of Muslim and Eastern Philosophy. They have compared you with the poet Iqbal, but I feel very strongly that our philosophers interpreted the universe from the objective knowledge they then had. Even for man like Roumi, the earth was the center and his evolutionary view was the transmission of life in the abstract rather than the physical body. The European philosophers earlier than Kant suffered from similar weakness.

No doubt Hafiz as a poet has found short cuts and so have other Moslems, either by instinct or by the influence of the Qur’an, but these short cuts however excellent and ultimately true will not win us over those who seek not only the journey’s end but the journey itself.

 

۱۴۷

 

Not only the dialects of Marx but the Mathematical philosophy of Russel, and later travelers on that road, need our main attention and exposure on Qur’anic principles. As i understand Islam, it is unlike Jewish Monotheism, in fact it is Monorealism.

I hope to be in Karachi in November, in any case from a few days, and if you will kindly come there, and after personal discussion, we might find a way to carry on the work of the late Z. Hasan.

I am sure the Finance Minister will be very happy to put you up during your visit.

 

Yours Sincerely,

Sd/.

Aga Khan

 

۱۴۸

 

September 14, 1950

Dear Sir,

I was very glad to get your letter and it has cleared up the misconceptions which I had.

The beauty of the Qur’an is that its conception of Reality automatically adapts itself to the highest and most up to date as well as the most primitive thought.

Even the new fashionable logical positivism of England and both the forms of existentialism, whether of the Danes of Copenhagen or of Sartre of St. Germaindes press, cannot free themselves from Qur’anic Absolut.

Only energy without extension is our saviour today. Even our old and glorious friend Hume Having destroyed alike object and subject cannot clear himself from the facts which he assumes in spite of his philosophy in every line of his history of England.

In the work which you wish to take up, we must first realize for whose benefit we are acting. Is it for the half Educated, failed and successful graduates of our Universities or is it for a small and restricted coterie of intelligencers through-out the world?

 

۱۴۹

 

I think the professional writing should attach both but by different routes for no mixing is possible. That means you must remember the French saying namely “Clerkcalism is a different article for export and import.”

I very much look forward to meeting you when I come to stay for sometime in Karachi in March with our friend the Finance Minister we may then be able to get something done.

Zafar Hasan’s work remains unfinished. Will you be able to get from his over heirs what ever has been completed so that may used after what you reported to me on it that his remanism philosophical ideas were not completed by him but the embryo was put together and published after his death.

 

Your’s Truly,

Sd/.

Aga Khan

 

P.S.      I think Marx Dialectical Matter and our Monoreal are very same conceptions, the fundamental difference is value.

Dr. Khalifa Abdul Hakim.

 

۱۵۰

 

Alijah Mohamed Keshavjee,

Secretariat De son Altesse 1′ Aga Khan,

Aliglemont, 60270 Gouviexu, France.

14th July, 1993

Dear Alijah Mohamed Keshavjee,

I am indeed extremely grateful to you for your affection and kindness that, despite your extremely important work, you graciously spared so much of your valuable time and came to the Embassy of Pakistan in Paris to meet this most humble servant of the Imam of the time. To meet an eminent ‘amaldar like you has historical significance for me.

Your kind encouragement has given me new vigour and strength to serve the cause of our holy faith.

Despite my greatest effort, I do not think that I am able to thank you adequately. I will cherish the memory of the meeting which I had with you and the Chairman of the Tariqah Board of France and I will derive immense pleasure when I share the experience with my circle of friends everywhere.

 

۱۵۱

 

Regarding the books, in accordance with your helpful advice, I would like to send you the English translations in installments of five books, so that it may be easier for you to edit and publish and thus it will be possible to accomplish a staggered and smooth transference of all the books to you. I would also like to inform you that I have over fifteen hundred audio cassettes of lectures on numerous subjects related to the Ismaili Tariqah, as well as munajat and if you are interested, I would also like to submit them to you. However, this is my humble suggestion, but the final decision will depend on the guidance of Mawlana Hazir Imam. I hope to receive the guidance of Mawlana Hazir Iamam through you.

 

With best wishes and Ya Ali Madad,

 

Yours sincerely,

Sd/-

Allama Nasir al-Din Nasir Hunzai

 

۱۵۲

 

ایک یادگار خط

از بمبئی ۲۳ ؍ دسمبر ۱۹۴۵ ء

قبلہ و کعبۂ من در ظلِ عنایت

خداوندِ قدوس باشند!

بعد از التماس قبولیت یا علی مدد و دعائے عجز برائے فلاح و صلاح صغیر و کبیر واضح آنکہ تبریک از جانب این بندۂ احقر بہ جملۂ عقید تمندانِ جماعتِ فلاحیۂ اسماعیلیہ قبول و مقرون باد ! کہ درین اوانِ سعادت اقتران تشریفِ مبارکِ صاحب الزمان در شہر بمبئی شریف مقیم گشتہ، روزی کہ بندۂ خاکسار در بمبئی رسیدہ بود مولائے نامدار در مقام پونا تشریف داشتند، بہ شوقِ دیدارِ فیض آثار بندۂ ھمان وقت سوئی بونا روانہ شد، روزِ دیگر کہ یومِ مبارک پنجشنبہ بود بوقتِ چاشت در موضع مذکور در باغے وسیع باجملۂ جماعتِ پونا منتظر بودیم کہ مولانا تشریف آوردندو تشنگانِ شوقِ وصال را سیراب فرمودند۔

دلم بہ حی و حاضر بودنِ “نورِ زمانہ” گواہی داد، گاہی از

 

۱۵۳

 

فرطِ مسرت بگریستم و گاہی شکر کنان با خود خندیدم، در دلِ گفتم: یاری کہ بہ طلب و صال او پدر و مادر و خویش و قوم را گزاشتہ بودم، الحمد للہِ، اکنون اورا یافتم ، بہ نتیجۂ رنج غریب الوطنی چہ گنج گوہری بدست آمد۔

حاصل کلام آنکہ بندۂ عاجز را طاقتِ آن کجا کہ حدیثِ لذت دیدارِ یار را بہ احاطۂ قلم در آرد، مگر آنچہ از عنایتِ بی نہایت او باشد۔

الوقت بندۂ مسکین در بمبئی اقامت دارد، ازان کہ تشریفِ مبارک در ہمیں جاست، امید کہ بمدتِ چہار ماہ یعنی تا اختتامِ ماہِ مارچ ۱۹۴۶ ء تشریف ہمدرینجا خواہد بود، میگو یند کہ بتاریخِ سومِ مارچ ۱۹۴۶ ء جشنِ ڈائمنڈ (ڈائمنڈ جوبلی) شروع خواہد شد۔

فرمانِ مبارک از بہرِ جماعتِ پونا این طور شدہ ، شما ہمہ سعی نمائید کہ دنیا و آخرت ہر دو از برائے بندگا نیست کہ از کسبِ حلال و از اعمالِ صالحۂ خویش این ہر دو را خریدارند۔ نیز فرمودہ اند کہ: بندہ از حصول رزقِ حلال ہر گز غافل نباید شدن، دیگر فرمودند:

رسمہائے قدیم کہ از پئ آنہا حصہ از مال خود خرج کنند درست نیست، ہمچو پرستشِ عمارتہا، قبور، آستانہا

 

۱۵۴

 

وغیرہ۔

دیگر آنچہ امرِ پاکِ امامِ زمان (صلوات اللہ علیہ) صادر شود نوشتہ خواہد شد، ان شاء اللہ، ازبہر وطن خود خصوصاً در حقِ ہمۂ جماعت دعائے خیر خواہیم طلبید، دعائے ظاہری ہم دعائے باطنی، ازانکہ او بادشاہِ ظاہر و باطن است۔ والسلام

فقط بندہ، نصیر الدین

۲۳ ؍ دسمبر ۱۹۴۵ ء

 

نوٹ: ۔ یہ وہ یاد گار خط ہے ، جو میں نے بمبئی سے اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں تحریر کیا تھا، جبکہ مجھے بارِ اوّل امامِ اقدس و اطہرؑ کا مبارک دیدار حاصل ہوا، اس میں معجزہ یا کرامت کا اشارہ وہاں ملتا ہے جہاں یہ جملہ ہے: دلم بہ حیّ و حاضر بودن “نورِ زمانہ” گواہی داد۔

ن۔ ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی

۳؍جون ۱۹۸۳ء

 

۱۵۵

کارنامۂ زرّین – حصّۂ سوم

کارنامۂ زرین –  حصّۂ سوم

عملی بشارت

(انتساب)

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم۔

قرآنِ حکیم کا ہر مضمون علم و حکمت کے عجائب و غرائب سے آراستہ و پیراستہ اور اسرارِ معرفت سے مملو ہے، آئیے ہم عنوانِ بالا (عملی بشارت) سے بحث کرتے ہوئے اس حقیقت کی مثالیں دیکھنے کے لئے سعی کرتے ہیں: ۔

مثالِ اوّل: بشارت سے متعلق ایک آیۂ شریفہ کا ترجمہ یہ ہے: اور وہی تو وہ (خدا) ہے جو اپنی رحمت (ابر) سے پہلے خوشخبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے (۷: ۵۷) یہ تو تنزیلی حجاب ہوا، اب ہم جواہرِ محجوب کو دیکھتے ہیں: (الف) ہواؤں سے صورِ اسرافیل کی آواز مراد ہے کہ پھونک (نفخ) ہوا ہے (ب) ہوائیں روحانی خوشبوئیں ہیں (ج) یہ روحانی آوازیں ہیں (د) یہ منزلِ عزرائیلی کی ہوائیں ہیں (ھ) ہوائیں (ریاح) متحرک روحیں ہیں (د) ہوا سے خود ہوا کی گفتگو مراد ہے (ز) ہوا کی ایک خوشخبری یہ بھی ہے کہ مومن بحالتِ خواب ہوا میں پرواز کرتا ہے (ح) اور ہوا چلنے کی سب سے بڑی مثال حظیرۃ القدس میں ہے، روحانیّت

 

۳

 

میں ایسی بہت سی چیزیں ہیں، جن کے ذریعے سے کسی مومن کو کامیابی کی عملی خوشخبری دی جاتی ہے۔

مثالِ دوم: ایک متعلقہ آیۂ کریمہ کا ترجمہ: بے شک جن لوگوں نے (اسماءُ الحسنیٰ کے ذکر سے ) کہا کہ ہمارا ربّ اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہو جاؤ اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے، ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی (۴۱: ۳۰ تا ۳۱) یہ ان خوش نصیب مومنین و مومنات کے لئے خصوصی عملی بشارت ہے جو راہِ روحانیّت پر کامیاب ہو گئے ہیں۔

مثالِ سوم: لغاتُ الحدیث میں ہے: اَلرُّو یا جُز عٌ مِّنَ النَبُّوَّۃِ۔ خواب نبوّت کے اجزاء میں سے ایک جز ہے (یعنی پیغمبری کی صفات میں سے ایک صفت ہے) پس حقیقی مومن کے خواب میں عملی خوشخبری ہو سکتی ہے، لیکن ظاہر کرنے سے اس کا سلسلہ ختم ہوسکتا ہے، مصلحت یہ ہے کہ خاموشی اور سنجیدگی کے ساتھ علم و عبادت میں بہت زیادہ ترقی کی جائے، الغرض عملی بشارت ایک روشن حقیقت ہے، جس سے کوئی بھی عاقل انکار نہیں کرسکتا ہے۔

بعد ازین خدائے حنان و منان کی بیرون از شمار نعمتوں کی شکر گزاری کرتے کرتے پگھل جانا چاہتا ہوں، اے کاش! ایسا ہوسکتا! لیکن انسانِ

 

۴

 

ضعیف البنیان ہر بار ورطۂ حیرت میں پڑنے کے سوا کچھ بھی نہیں کرسکتا، بہر کیف ایک معزز دوست یا ایک پسندیدہ شاگرد کے تعارف سے دل بیحد شادمان ہے۔

ایک بابرکت شخص یا شخصیت یا عالمِ شخصی جناب کریم بیگ ابنِ مراد بیگ ابنِ علیکو (بڑا پیارا نام ہے) ابنِ مراد بیگ، ابنِ سلطان بیگ ابنِ خوش بیگ ابنِ جٹوری ۔ کریم بیگ صاحب کی تاریخ پیدائش: ۸: اپریل ، ۱۹۶۴ ء ، جائے پیدائش: کریم آباد، ھونزہ، تعلمی قابلیت: بی۔ ایس ۔سی (آنرز) ایگریکلچر ۔

کریم بیگ کے افرادِ خاندان:

۱۔       یاسمین کریم (بیگم صاحبہ) پیدائش: ۳ ؍نومبر ۱۹۶۶ء، تعلیم: ایف ۔ اے

۲۔       فہیم بیگ (بیٹا) پیدائش: ۶؍ ستمبر ۱۹۸۸ء، تعلیم: دوسری جماعت

۳۔       وسیم بیگ (بیٹا) پیدائش: ۱۳؍ دسمبر ۱۹۸۹؍، تعلیم: پہلی جماعت

۴۔       ارسلان بیگ (بیٹا) پیدائش: ۲۶؍ مئی ۱۹۹۲ء

۵۔       کائنات بیگ (بیٹی، یہ بڑا پیارا نام ہے) پیدائش: ۲۴؍ دسمبر ۱۹۹۳ء۔

میرے بہت ہی عزیز چیف ایڈوائزر غلام قادر صاحب نے محترم کریم بیگ کی اخلاقی اور روحانی خوبیوں کا ذکرِ جمیل کیا ہے، مزید برآن ان کی گرانقدر جماعتی خدمات کی تفصیلات بھی موصول ہو چکی ہیں، ان تمام معلومات سے مجھے اور میرے جملہ ساتھیوں کو انتہائی خوشی ہے، الحمد للہ، اب سنہری خدمات کے سنہری مواقع سامنے آرہے ہیں، اور وہ سب نورانی خواب اسی کی

 

۵

 

طرف اشارہ کر رہے ہیں، ان شاء اللہ العزیز نورانی خوابوں کی نورانی تعبیروں سے نسلاً بعد نسلٍ علم کے انمول خزانے ملتے رہیں گے۔

اے دوستانِ عزیز! ہم سب یکدلی اور عاجزی سے دعا کریں ، اور یہ تحریر بھی ہمیشہ زبانِ حال سے پر خلوص دعا کرتی رہے کہ اَللّٰھُمَّ (اے اللہ!) بحرمتِ محمد و آلِ محمد علیہم الصلاۃ و السلام اہلِ ایمان پر اپنے پاک نور کی بارش برسا دے ! پروردگارا! اپنے وعدۂ قرآن کے مطابق علمِ قائم القیامت کے نورِ غالب سے سیارۂ زمین کو منور کردے! اے قادرِ مطلق، اے دانائے برحق، تیرے لئے کیا عجب ہے کہ اس دنیا کو ایک لطیف بہشت بنا دے، تاکہ سب لوگ ہر قسم کی رنجشوں کو بھول کر ایک ہو جائیں اور تیری حمد و ثنا ء کے گیت گائیں، اللّٰھمّ صَلِّ علیٰ محمّدٍ وّآلِ محمّد۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِ علی) ھونزائی

کراچی

منگل ۲۴؍ شعبان المعظم ۱۴۱۶ھ   ۱۶؍ جنواری ۱۹۹۶ء

 

۶

 

حرفِ آغاز

بِسم اللہ الر حمٰن الرَّحیم۔ سورۂ احزاب (۳۳: ۴۱ تا ۴۳) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد اس طرح ہے: (ترجمہ: ) اے ایمان والو بہ کثرت خدا کی یاد کیا کرو، اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔ اللہ وہ ہے جو (وسیلۂ نور سے) تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالے اور وہ مومنین پر ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔

یہ درود جس کا اوپر ذکر ہوا براہِ راست ممکن ہی نہیں بلکہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے وسیلے سے اہلِ ایمان کو حاصل ہو سکتا ہے، اور حضور اکرمؐ کے بعد آپؐ کا برحق جانشینؑ ایسے مقاصد کے لئے ہر زمانے میں موجود ہے، جیسے خداوندِ قدوس نے آنحضرتؐ سے فرمایا: وَصَلْ عَلَیھِمْ (۰۹: ۱۰۳) اور ان کو خدا کا بھیجا ہوا درود پہنچا دو کیونکہ تمہاری ایسی دعا و درود ان کے حق میں باعثِ تسکین ہے۔

بناء برین مسلمانوں کو اس مقدّس دعا کی تعلیم دی گئی: اللّٰھُمّ صَلِّ عَلیٰ مُحمّدٍ وَّاٰلِ محْمّد۔ اے اللہ محمد اور آلِ محمد پر

 

۱۱

 

درود بھیج (تاکہ اس کے فیوض و برکات تیرے منشا کے مطابق اہلِ ایمان کو حاصل ہوں)۔

خدا اور اس کے ملائکہ جس درود کو مومنین پر بھیجتے ہیں وہ یقیناً علم و حکمت کے اعلیٰ معنوں میں ہے، کیونکہ صرف یہی وہ اہم چیزیں ہیں جو کسی کو جہالت و نادانی کے اندھیروں سے نور کی طرف لاسکتی ہیں، اور اہلِ ایمان کے لئے جس علم و حکمت کی ضرورت ہے، وہ فقط نبیٔ اکرمؐ اور آپؐ کی آلؑ کے توسط سے ممکن ہے، چنانچہ اللہ جلّ جلالہ نے ارشاد فرمایا: (ترجمہ: ) بے شک اللہ اور اس کے فرشتے پیغمبر (اور ان کی آل) پر درود بھیجتے ہیں (تاکہ یہ تم کو حاصل ہو) اے ایمان والوں تم دعا کرو: اللّٰھُمّ صَلِّ عَلیٰ مُحمّدٍ وَّاٰلِ محْمّد اور آلِ محمد(اے اللہ اہلِ ایمان کے لئے محمد و آلِ محمد پر درود نازل فرما) اور فرمانبرداری کرو جیسا کہ حق ہے (۳۳: ۵۶) ۔

کتاب دعائم الاسلام عربی، المجلدالاول، ص ۲۸ پر یہ روایت درج کی گئی ہے کہ جب پیغمبرِ اکرمؐ پر درود سے متعلق آیۂ شریفہ (۳۳: ۵۶) نازل ہوئی تو اصحابِ رضوان اللہ علیہم کی ایک جماعت نے آنحضرتؐ سے پوچھا: یا رسول اللہ (صلعم) ہم یہ جان چکے ہیں کہ آپ پر کس طرح سلام کریں، اب حضورؐ یہ بتائیں کہ آپؐ پر کس طرح درود بھیجیں؟ آنحضرتؐ نے فرمایا: یوں کہا کرو: اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی

 

۱۲

 

آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حمید مجید ۔اے اللہ حضرتِ محمد پر اور حضرتِ محمد کی آل پر درود بھیج جیسے تو نے حضرتِ ابراہیمؑ پر اور حضرتِ ابراہیمؑ کی آل پر درود بھیجا تھا بے شک تو تعریف کے لائق (اور) بڑی شان والا ہے۔

حبیبِ خدا، سردارِ انبیاء، حضرتِ محمد مصظفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اس ارشادِ گرامی سے نہ صرف درود کی اہمیت اور اصل صورت کا علم ہو جاتا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ الصّلوٰۃ  عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّد (صلی اللہ علیہ و علیہم اجمعین) دراصل علم و معرفت کا ایک کلیدی مضمون ہے، اور یہ ایک قرآنی حقیقت ہے کہ دین کی کوئی چیز سرِ حکمت کے سوا نہیں، پس یہ جو اشارہ ملا کہ “آل محمدؐ آلِ ابراہیمؑ جیسے ہیں” یہ تو بہت بڑا خزانۂ مفاتیح ہے، مثال کے طور پر آیۂ اصطفاء (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) کو لیں: ۔

آیۂ مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے: بے شک اللہ نے چن لیا آدم اور نوح اور ابراہیم کی آل اور عمران کی آل کو سارے جہان سے، یہ ایک ذریت ہے ایک دوسرے سے اور اللہ سنتا جانتا ہے۔ یہ آفاقی برگزیدگی اور عالمی برتری ایسی کیونکر ہو سکتی ہے جس میں محبوبِ خدا سید الانبیاءؐ

 

۱۳

 

اور آپؐ کی آلِ پاک کا ذکرِ جمیل نہ ہو، یقیناً سب کچھ ہے لیکن صرف ان ہی حضرات کے لئے جو محمد و آلِ محمد صلوات اللہ علیہم کے حسن و جمالِ معنوی کے عاشق ہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کی پراز حکمت سنت و عادت یہی چلی آئی ہے کہ وہ قادرِ مطلق ہر کائنات کو لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے، حشر اور نشر اس قانون سے مستثناء نہیں، درخت کی طرح آدمی بھی تخم میں مرکوز ہو جاتا ہے، اور پھر پھیل جاتا ہے، اور خدا ہر ساکن عالم کو بھی ایسا کر سکتا ہے، قرآنِ عظیم سب سے بڑی علمی کائنات ہے، چنانچہ خداوندِ عالم اہلِ علم و معرفت کی نظر میں قرآن کے تمام معنوں کو ام الکتاب میں مرکوز و مجموع کرتا ہے، اور پورے قرآن میں پھیلاتا بھی ہے، آیت الکرسی اور اسمِ اعظم میں بھی ایسا کرتا رہتا ہے، اور کسی بھی نمائندہ آیت میں یہی معجزۂ علمی ہوتا رہتا ہے، اسی طرح آیۂ مقدسۂ آلِ ابراہیمؐ (۰۴: ۵۴) میں بھی یہ معنوی معجزہ موجود ہے: ۔فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا   ہم نے تو مرحمت فرمادی ہے آلِ ابراہیم کو کتاب اور حکمت، اور عنایت فرمادی ہے عظیم الشّان سلطنت۔ آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ ایک ہی سلسلہ ٔ نور کی مقدّس کڑیاں ہیں، لہٰذا یہ آیۂ مبارکہ

 

۱۴

 

اسی پُرنور سلسلۂ ہدایت کی شان میں ہے، چونکہ یہ ایک نمائندہ آیت ہے اس لئے یقیناً اس میں انتہائی جامعیّت ہے، الکتاب وہ ہے جس میں ساری آسمانی کتابیں جمع ہیں، حکمت اس کتاب کی ظاہری اور باطنی تاویل کا نام ہے، اور ملک عظیم سے روحانی سلطنت مراد ہے، پس امامِ مبینؑ (جو آلِ رسولؐ ہے) کو خدا نے سب کچھ عنایت فرمایا ہے تاکہ وہ لوگوں کو بقدرِ اطاعت ظاہری اور باطنی فیوض و برکات پہنچائے۔

ھُبُوطِ آدمؑ: یعنی حضرتِ آدم علیہ السّلام کا بہشت سے دنیا میں اترنا، یہ ایک بہت ہی بڑا علمی اور عرفانی سوال رہا ہے کہ ابو البشر کس طرح سیّارۂ زمین پر وارد ہوا؟ چونکہ آدم ایک نہی ہے بلکہ بے شمار آدموں کا قصّہ ہے، لہٰذا زمین پر ان کا ھُبوط مختلف طریقوں سے ہوا ہے، کوئی آدم ایسا بھی تھا جس کو سیّارۂ زمین کا پہلا انسان کہنا چاہئے، وہ البتہ کسی دوسرے سیّارے سے جسمِ لطیف میں پرواز کر کے یہاں آیا، وہ ایک سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں، جس طرح اس دور میں اڑن طشتریوں کی مثال ہے، کوئی آدم ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دنیا میں لوگوں کے درمیان تھا، اس کی روحانی ترقی ہوئی اور اس کی روحِ قدسی بہشت سے نازل ہوئی، اور لفظِ آدم کا اطلاق اس روح پر ہوا، جیسے آدمِ سراندیبی شروع شروع میں امام کا ایک عام مرید تھا،

 

۱۵

 

مگر اس نے علم اور عبادت میں بہت زیادہ ترقی کی اور بہشت سے اس پر روحِ قدسی نازل کی گئی، جس کی وجہ سے گہا گیا کہ آدم سراندیب میں اتر گیا، یہ لفظ ھندی میں چرن دیپ تھا، اس کا مُعَرَّبْ سراندیب ہو گیا جو جزیرۂ لنکا (سیلون) ہے۔

آیۂ اِسْتِخْلاف: یعنی وہ آیۂ کریمہ جس میں صفِ اوّل کے مومنین کو عوالمِ شخصی میں اور ستاروں پر خلیفہ (جانشین) بنانے کا ذکر آیا ہے، وہ یہ ہے: تم میں سے جن لوگوں نے (حقیقی معنوں میں) ایمان لایا اور اچھے اچھے کام کئے ان سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ ان کو زمین میں ضرور (اپنا) خلیفہ مقرر کرے گا جس طرح ان لوگوں کو خلیفہ بنایا جوان سے پہلے گزر چکے ہیں (۲۴: ۵۵) ۔

کتاب کا نام: علم و حکمت کی ان چند باتوں کے بعد مضمونِ دیباچہ کی طرف آتے ہیں، کہ یہ کتاب کارنامۂ زرین حصۂ سوم ہے اس میں علم الامام کی انتہائی پیاری پیاری باتیں ہیں، نیز بعض دوستوں کے اسمائے گرامی اور بعض تاریخی کارنامے ہیں، غرض ہماری یہ کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت علمی خدمت کے لئے صرف ہو، کیونکہ جو خدمت ہمارا ادارہ کر رہا ہے وہ بے مثال بھی ہے اور سب کے لئے انتہائی مفید بھی، جبکہ یہاں روحانی سائنس کی بات ہورہی ہے،

 

۱۶

 

اور یہ بہت بڑا انقلابی کام خداوندِ قدوس کی عنایتِ بے نہایت سے ممکن ہو رہا ہے۔

اب ہم اپنے اس سدا بہار درخت کی ہر پُرثمر شاخ کو دل و جان کی خاص محبت سے دست برسینہ سلام کرتے ہیں، الحمد للہ، تمام ہری بھری شاخیں علم و حکمت کے میٹھے پھلوں سے لدی ہوئی ہیں، زہے نصیب کہ ان سے شرق و غرب کی بہت ہی پیاری جماعت کو میوۂ بہشت ملتا رہتا ہے، وہ ہمارے عزیزان ہیں جن میں سے ہر فرد ایک معمور عالم شخصی اور کل کائنات کی زندہ کاپی (copy) ہے، جس میں ایک کلی بہشت اور ابدی سلطنت ہے، ہمیں بے حد خوشی ہورہی ہے کہ ہمارے بہت ہی پیارے ساتھی جان و دل سے حکمتِ قرآن کے شیدائی اور حضرتِ امام علیہ السّلام کے جانثار عاشق ہیں، وہ دینِ اسلام کی سربلندی چاہتے ہیں، اسی غرض سے قرآنی حکمت اور روحانی سائنس کی روشنی پھیلانے کے لئے سعی کر رہے ہیں، وہ عزیزان خاموشی سے دینِ متینِ اسلام اور انسانیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ تمام حضرات میرے دل کے مکین بھی ہیں اور میری روح کے اجزاء بھی۔

 

۱۷

 

روحانی سائنس کی سب سے بڑی عجیب و غریب بات یہ ہے کہ ہر فردِ بشر (خواہ مرد ہو یا عورت) خدا کی ازلی عنایت سے بحدِّ فعل یا بحدِّ قوّت ایک عالمِ شخصی بھی ہے اور عالمِ اکبر کی کاپی بھی، جس میں وہ ایک بھی ہے اور بے شمار بھی، جہاں وہ ایک ہے وہاں خود سب سے عظیم فرشتہ ہے، جس کے بہت سے اسماء ہیں، اور جہاں وہ بڑی کثرت سے ہے یعنی بے شمار ہے، وہاں وہ خلائقِ عالم کی اشکالِ مختلفہ میں ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: مَاتَرَ فِیْ خَلْقٍ الرّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوْتٍ۔ تمہیں (خداوند) رحمان کی آفرینش میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا (۶۷: ۰۳) یہ ہے یک حقیقت کی ایک تفسیر یا مونوریالٹی کی ایک وضاحت۔ اَلْحَمد لِلّٰہ رَبّ العالمین۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِ علی) ھونزائی

کراچی

اتوار ۲۹؍ شعبان المعظم ۱۴۱۶ھ   ۲۱؍ جنواری ۱۹۹۶ء

 

۱۸

 

بابِ اوّل

بکھرئے ہوئے موتی

 

۱۹

 

MONOGRAM

MESSAGE

Each one of you should have a deep knowledge and true understanding of his Faith.

To those who contribute to the acquisition of this knowledge and understanding by others, and to those who have made it their aim to know about their Faith, I send my best loving blessings.

 

Sd/.

Aga Khan

29th October 1958.

ISMAILIA ASSOCIATION,

KARACHI.

 

۲۱

 

قرآنِ ناطق یا کتابِ ناطق

اے عزیزانِ باسعادت! ہم ان مسلمین و مومنین میں سے ہیں جو امامِ برحق علیہ السّلام کو قرآنِ ناطق مانتے ہیں، اگرچہ یہ عقیدہ اپنی جگہ حکمت اور حقیقت ہے، تاہم آئیے واضح دلائل کی روشنی میں اس امرِ عظیم کی مزید تحقیق کریں: ۔

دلیل نمبر ا: ۔ سورۂ مومنون (۲۳: ۶۲) میں ارشاد ہے: وَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ = اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو سچ سچ بولتی ہے اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔ یہ کتاب امامِ عالی مقامؑ ہی ہے، جیسے مولا علی علیہ السّلام نے فرمایا: انا ذالک الکتٰبُ لا ریب فیہ۔ میں وہ کتاب ہوں جس میں کسی قسم کا شک و ریب نہیں ہے۔ یعنی اس میں علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین ہے۔

مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں قرآنِ ناطق (نورِ امامت) کے تین اعلیٰ اوصاف بیان ہوئے ہیں: (۱) وہ مرتبۂ روحانی و عقلانی پر خدا کے پاس ہے (۲) وہ اپنی نورانیّت میں حقائق و معارف بیان کرتا ہے (۳) وہ سرچشمۂ علم و حکمت بھی ہے اور نامۂ اعمال

 

۲۲

 

بھی، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کے لئے عدل و انصاف ہی ہے، اور خدا کے دین میں کوئی ظلم (کمی) نہ دنیا میں ہے اور نہ قیامت میں ہوگا۔

دلیل نمبر ۲: ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اپنے وقت میں قرآنِ ناطق تھے، یہ بات صرف عقیدہ نہیں، بلکہ حقیقت بھی ہے، وہ یہ کہ قرآنِ پاک ظاہر میں پُرحکمت کتاب اور باطن میں روح و نور ہے، چنانچہ جب آنحضرتؐ کے قلبِ مبارک پر بتدریج قرآن بصورتِ روحانیّت و نورانیّت نازل ہوا تو آپؐ یقیناً قرآنِ ناطق ہوگئے، اگرچہ کاتبانِ وحی کی تحریر سے رفتہ رفتہ قرآن کی ظاہری صورت مکمل ہوگئی، لیکن قرآنِ عظیم کی روح اور نور (۴۲: ۵۲) حضورِ انور ہی میں رہا، پس اسی معنیٰ میں رسولِ خداؐ کا اسمِ مبارک نور اور قرآن کا اسم کتابِ مبین ہے (۰۵: ۱۵) آپؐ قرآنِ پاک کے روحانی اور نورانی معلّم تھے اس لئے آپؐ کی ذاتِ اقدس میں روحانی اور نورانی قرآن موجود تھا، اور اس معنیٰ میں آپ قرآنِ ناطق تھے۔

دلیل نمبر ۳: ۔ سورۂ زخرف کی آخری آیت سے ما قبل کو غور سے دیکھ لیجئے: اور اسی طرح (اے نبیؐ) ہم نے اپنے امر سے ایک روح (قرآنی روح) تمہاری طرف وحی کر دی ہے، تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر

 

۲۳

 

اس روح کو ہم نے ایک نور بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں، یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو (۴۲: ۵۲)۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن منازلِ روحانیّت میں روح ہے اور مراحلِ عقلانیّت میں نورِ عقل، پس حضورِ اقدسؐ ان تمام روحانی اور نورانی مدارج پر قرآنِ ناطق تھے۔

دلیل نمبر ۴: مذکورۂ بالا ربّانی تعلیم کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسولؐ ایمانی بندوں میں سے خاص ترین و کامل ترین شخص (امام) میں قرآن کی روح اور نور منتقل کر سکتے ہیں، اور یہ دینی امور میں سب سے ضروری امر ہے، کیونکہ تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت (۰۵: ۰۳) کے یہ معنی ہیں کہ کتابِ مبین کے ساتھ ساتھ ہادیٔ برحقؑ کا نور بھی موجود ہو، جس طرح زمانۂ نبوت میں قرآنِ صامت بھی تھا اور قرآنِ ناطق (نور) بھی (۰۵: ۱۵)۔

دلیل نمبر ۵: سورۂ جاثیہ (۴۵: ۲۸) میں ہے:

كُلُّ اُمَّةٍ تُدْعٰۤى اِلٰى كِتٰبِهَاؕ۔ معنیٔ اوّل: ہر امت کو اس کی کتاب (یعنی امام) کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ معنیٔ دوم: ہر امت کو اس کی کتاب (نامۂ اعمال) کی طرف بلایا جائے گا۔ دو معنی اس لئے ہیں کہ لفظِ تُدْعیٰ مضارع ہے . . . ھوَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ۔ یہ ہماری کتاب (نورِ امامت / نامۂ اعمال) تمہارے لئے سچ سچ بولتی ہے۔ یعنی اب کتابِ ناطق کی وجہ سے تم پر اسرارِ

 

۲۴

 

حقیقت منکشف ہو رہے ہیں۔

دلیل نمبر ۶: ۔ اللہ نے ہر چیز کو عالمِ شخصی میں گویائی (بولنے کی صلاحیت) دی ہے (اَنْطَقَ كُلَّ شَیْءٍ ۔ ۴۱: ۲۱) لہٰذا یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ قرآنِ صامت جو اللہ تعالیٰ کا کلامِ حکمت نظام ہے وہ امام میں بولتا ہے، اسی وجہ سے امامِ اقدس و اطہرؑ قرآنِ ناطق کہلاتا ہے، اور یہ قرآنِ پاک کے عظیم معجزات میں سے ہے کہ وہ ایک مقام پر بولتا بھی ہے، اور دوسری مقام پر خاموش بھی ہے جس میں قرآن شناسی سے متعلق لوگوں کا بہت بڑا امتحان ہو رہا ہے۔

دلیل نمبر ۷: ۔ سورۂ نحل (۱۶: ۴۴) میں دیکھ لیں کہ لوگوں کو قرآنی ہدایت اور علم و حکمت بیان کرنے کی مستقل ذمہ داری رسول اکرم کے سپرد کی گئی ہے، چنانچہ حضور اکرمؐ نے اس فریضۂ مقدّس کو اپنے وقت میں حسن و خوبی سے ادا کیا، اور زمانۂ آئندہ کے لئے خدا کے حکم سے ایسے کامل ترین شخص کو اپنا وصی اور جانشین مقرر فرمایا: جس کا باطن نورِ امامت اور نورِ قرآن سے منور ہو چکا تھا۔

دلیل نمبر ۸: ۔ خدا کی بادشاہی کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، بلکہ وہ قدیم یعنی ہمیشہ کی ہے، مگر ہاں یہ بات عالمِ شخصی کی نسبت سے ہے کہ بحوالۂ حدیث: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا، دوسری حدیث ہے کہ: خدا نے سب سے

 

۲۵

 

پہلے قلم کو پیدا کیا، اور تیسری حدیث سے ظاہر ہے کہ: اللہ پاک نے سب سے پہلے نورِ محمدی کو پیدا کیا، آپ نے سوچا ہوگا کہ یہ ایک ہی حقیقت کے تین نام ہیں، اور وہ نورِ محمدی ہی ہے، پس جہاں نورِ نبوّت عقلِ کل اور قلمِ اعلیٰ ہے، وہاں نورِ امام نفسِ کل اور لوحِ محفوظ ہے، یہ دلیل اہلِ دانش کے نزدیک بہت ہی مستحکم ہے۔

دلیل نمبر ۹: ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی رحمتِ بے پایان سے عالمِ علوی کی ہر چیز کا ایک سایہ (ظل= مظہر۔ ۱۶: ۸۱) عالمِ سفلی میں پیدا کیا، چنانچہ مظہرِ قلم رسولِ اکرمؐ ہیں، اور مظہرِ لوحِ محفوظ امامِ مبین، جیسا کہ قلبِ قرآن میں ارشاد ہے: ۔ وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے ساری لطیف چیزوں کو امامِ ظاہر میں گھیر کر رکھ دی ہیں۔ پس امام میں قرآن کی روح اور عقل (نور) بھی موجود ہے اس لئے وہ قرآنِ ناطق ہے۔

دلیل نمبر ۱۰: ۔ آپ قرآنِ حکیم میں دیکھ سکتے ہیں کہ خدا کا نور نہ بجھتا ہے اور نہ اس کو بجھایا جاسکتا ہے، جبکہ اس کے قیام و بقا کا قانون یہ ہے کہ وہ ایک کامل شخص سے دوسرے کامل شخص میں منتقل ہو تا رہتا ہے، اور اسی قانون کا نام قرآن میں نُورٌ عَلٰی نورٍ ہے (۲۴: ۳۵) پس قرآن کا نور جو آنحضرتؐ کے باطن

 

۲۶

 

میں تھا، وہ بتدریج مولا علیؑ میں منتقل ہوگیا، جبکہ قرآن کا ظاہر بصورتِ کتاب اپنی جگہ موجود تھا۔

دلیل نمبر ۱۱:۔ یہ ارشاد مبارک سورۂ عنکبوت (۲۹: ۴۹) میں ہے: بَلْ ھُوَ اٰیٰتٌ بَیّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُو الْعِلْمَ۔ بلکہ وہ (قرآن بصورتِ) روشن آیات (معجزات) ان لوگوں کے دل میں ہے جن کو (خدا کی طرف سے) علم عطا ہوا ہے۔ اس آیۂ کریمہ سے یہ حقیقت نکھر کر چشمِ بصیرت کے سامنے آتی ہے کہ قرآن بشکلِ روشن آیات و معجزات أئمّۂ طاہرین کے قلبِ مبارک میں ہے۔ اس بابرکت آیت کی یہ تفسیر حضرتِ امام جعفر الصادق علیہ السّلام کے ارشاد کے مطابق ہے، ملاحظہ ہو: کتاب دعائم الاسلام، جلد اوّل، ذکر ولایۃ الائمّہ۔

دلیل نمبر ۱۲: اصل توریت اور انجیل کے ظاہر میں لوگوں کے لئے ہدایت تھی اور ربّانی معلم کے باطن میں اس کا نور تھا (۰۵: ۴۴، ۰۵: ۴۶) آسمانی کتاب کے نور کا مشاہدہ کلی طور پر پیغمبر اور امام کرسکتے ہیں، پھر ان کے وسیلے سے یہ سعادت باب، حجت، اور داعی کو بھی حاصل ہو جاتی ہے، امام کا یہ مشاہدہ پیغمبر کو تنزیل پر شہادت (گواہی) ہے، اور ان حدودِ دین کا مشاہدہ امام کی تاویل کی گواہی ہے، دعائم الاسلام حصّۂ اوّل، ص؍۷۳ پر بھی دیکھ لیں۔

دلیل نمبر ۱۳: ۔ سورۂ نمل کی آخری آیت کیسی کیسی عظیم حکمتوں

 

۲۷

 

سے مملو ہے اس کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے، تاہم اس میں ربِّ کریم کا جیسا وعدہ ہے، وہ اہلِ معرفت کے لئے سب کچھ ہے، ترجمہ:۔ اور تم کہدو کہ الحمد للہ وہ عنقریب تمہیں اپنی آیات (معجزات) دکھا دے گا تو تم انہیں پہچان لوگے (۲۷: ۹۳) یہ آیات و معجزات قرآن، امام، آفاق اور انفس کی ہیں، اور اس مجموعے سے کوئی آیت مستثنا نہیں، اس میں عالمِ شخصی کے شروع سے آخر تک پھر مرتبۂ عقل اور حظیرۃ القدس کے مشاہدات اور کامل معرفت کا ذکر ہے، یاد رہے کہ یہ قرآن ہی کی بے مثال عظمت و بزرگی کی دلیل ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد بھی اس کا ایک ربّانی اور نورانی معلّم مقرر ہے جو کتابِ ناطق ہے تاکہ زمانے کے ساتھ ساتھ قرآنِ حکیم کے باطنی علم و حکمت کی روشنی پھیلا دی جائے۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

جمعہ  ۵؍ذی الحجہ ۱۴۱۵ ھ   ۵؍مئی ۱۹۹۶ء

 

۲۸

 

طعامِ واحد

۱۔ عنوانِ بالا کے پہلے معنی: ایک ہی کھانا، دوسرے معنی: ایک ایسا کھانا جس میں کل کھانوں کا جوہر موجود ہو، کیونکہ لفظِ واحد (بروزنِ فاعل) کے معنی ہیں: ایک کرنے والا، اور اس سے یہاں ایسا طعام مراد ہے جس نے اپنے اندر تمام غذاؤں کو بصورتِ جوہر ایک کر لیا ہے، وہ المَنَّ وَ السَّلویٰ ہے (۰۲: ۵۷، ۰۷: ۱۶۰ ۲۰: ۸۰) یعنی مشاہدۂ گوہرِعقل اور دیدارِ نفسِ کل، جس میں ہر نوع کی نعمتوں کا جوہر جمع ہے، چونکہ یہ وہ مقامِ اعلیٰ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے امام ِمبین علیہ السّلام کے نورِ اقدس میں کل اشیاء کو گھیر کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲) ۔

۲۔ بنی اسرائیل سے خداوندِ عالم کا خطاب ہے: اور جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ! ہم سے ایک ہی کھانے پر صبر نہیں ہو سکتا (۰۲: ۶۱) یہ لوگ حدودِ دین میں سے کسی کے عالمِ شخصی میں پہلے منتشر پھر متحد ذرات تھے، ورنہ عوام الناس از خود گوہرِ عقل اور نفسِ کل تک رسا نہیں ہو سکتے ۔

۳۔ پھر ان لوگوں کو جو ذراتِ متحد میں تھے حکم ہوا: اِھْبِطْوْا مِصْراً = کسی شہر میں جا اترو (۰۲: ۶۱) یعنی مرتبۂ ازل اور مقامِ

 

۲۹

 

عقل سے نیچے اتر جاؤ۔

۴۔ راستوں والا آسمان: ۔ یہ آیۂ مبارکہ سورۂ ذاریات میں ہے: وَالسَّمَآ ءِ ذَاتِ الْھُبُکِ (۵۱: ۰۷) اور (اس) آسمان کی قسم جس میں راستے ہیں۔ یعنی امام ِزمانؑ جو علمی مرتبت کا آسمان ہے، جس میں کُنُوزِ حقیقت و معرفت کے راستے ہیں، اور یقیناً یہی سلامتی کے راستے ہیں(۰۵: ۱۵ تا ۱۶)۔

۵۔ اے نورِ عینِ من! اس سرِ عظیم کو قدردانی سے سننا اور یاد رکھنا ہوگا کہ اوّل راستہ ہے، اور اس کے بعد راستے ہیں، یعنی پہلے صراطِ مستقیم پر چل کر خدا تک پہنچ جانا ہے، اور بعد ازان اس کی بادشاہی میں سیر کرتے ہوئے اسرارِ حقائق و معارف کو حاصل کرنا ہے۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

ذوالفقار آباد۔ گلگت

۴؍ جون  ۱۹۹۶ء

 

۳۰

 

آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی سے استاذ نصیر کا ایک تحفۂ دلپذیر

نوٹ ۱: میں چاہتا ہوں کہ میری تحریروں کو غور و فکر سے دیکھا جائے اور ان میں جو قرآنی آیات و کلمات آئے ہیں ان کو ٹھیک ٹھیک تلفظ اور اصل معنی کے ساتھ پڑھا جائے۔

نوٹ ۲: ہماری تعلیمات میں یقیناً ریسرچ کی بڑی گنجائش ہے، جس کی وجہ عظیم روحانی انقلاب ہے، لہٰذا عزیزان ریسرچ ورک شروع کریں۔

نوٹ ۳: ا ریسرچ (تحقیق) میں ایک اہم بات تو یہ ہے کہ تاویلی حکمت اور فکرِ جدید کے تقاضوں کے مطابق کچھ نئی اصطلاحات سے کام لیا گیا ہے، اور کچھ منتخب اصطلاحات پرانی بھی ہیں، جن کی طرف بھر پور توجہ دلائی گئی ہے۔

نوٹ ۴: خدائے بزرگ و برتر کی عنایتِ بے نہایت سے ان تعلیمات کی جملہ خوبیوں میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے وسیلے سے قرآن، حدیث، ارشاداتِ أئمّہ علیہم السّلام اور بزرگانِ دین کی کتابوں کے جواہر کو سمجھنے میں بڑی مدد مل جاتی ہے۔

نوٹ ۵: ہر دیندار اسماعیلی لازماً اپنے پاک امام علیہ السّلام

 

۳۱

 

اور پیارے دین کی روحانیّت و نورانیّت کے بارے میں سننا اور سمجھنا چاہتا ہے ہم نے امام ِ برحقؑ کی تائید و دستگیری سے اس سلسلے میں اپنی پیاری جماعت کے لئے مفید کام انجام دیا ہے، الحمد للہ۔

نوٹ ۶: حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہ کی علمی عظمت و بزرگی کے بارے میں جتنی بھی تعریف و توصیف کی جائے کم ہے، میرا خیال ہے کہ ان کے نورِ اقدس میں ایک بہت بڑی باطنی، علمی اور عرفانی قیامت پوشیدہ تھی، کیونکہ آپؑ بمطابق اشارتِ قرآنی “شبِ قدر” کی تاویل تھے، جس میں ملائکہ اور روحِ اعظم کا نزول ہوا، تاکہ سیّارۂ زمین پر مادّی سائنس اور روحانی سائنس کا انقلاب آئے۔

نوٹ ۷: کتابِ وجہِ دین آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل لکھی گئی ہے، جس میں حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام کے اوصافِ کمال کے بارے میں عظیم پیش گوئیاں موجود ہیں، آپ اس پُرحکمت کتاب میں “حجتِ قائم ” وغیرہ کے تحت دیکھیں۔

نوٹ ۸: اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ہماری کتابیں بہت ہی چھوٹی چھوٹی اور مختصر ہیں اور ضخامت کے اعتبار سے ان کی کوئی تعریف نہیں، مگر ہاں یہ سچ ہے کہ ہر کتاب بفضلِ خدا ایک ذخیرۂ علمی کا نچوڑ اور جوہر ہے، کیونکہ جہاں بڑی بڑی ضخیم

 

۳۲

 

کتابیں کام نہیں آسکتیں، وہاں یہ مختصر کتابیں (ان شاء اللہ) از بس مفید ثابت ہو سکتی ہیں، پس میں ان کتابوں کی اہمیت و افادیت سے سب کو آگاہ کر دینا چاہتا ہوں۔

نوٹ ۹: امامِ عالیمقام علیہ السّلام علم و حکمت کا دروازہ ہے، اس لئے ہر مرید اس کے روحانی معجزات کا مشاہدہ کرنا اپنے حق میں بہت بڑی سعادت سمجھتا ہے، لیکن امامؑ کے اصل معجزات نہ صرف علم و عبادت ہی سے مشروط ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بہت سی آزمائشوں سے بھی گزر جانا پڑتا ہے۔

نوٹ ۱۰: حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ الصلواۃ والسّلام نے فرمایا کہ: “اگر تم میں قرآن کے بارے میں پوچھنے والے ہوتے تو ہم ان کو بتا دیتے۔” میرا یقین ہے کہ یہ ایک تاویلی فرمان ہے، کیونکہ حضرتِ امامؑ سے ظاہر میں بہت کم پوچھا جاتا ہے، جبکہ امامِ زمان علیہ السّلام  سے سوال کرنے کا خاص طریقہ باطن اور روحانیّت میں ہے، الحمد للہ، یہ عاجزانہ شکرگزاری کی بات ہے کہ ہم نے قرآن ناطق سے قرآنی سوالات کئے اور اس نے ہر سوال کا انتہائی تسلی بخش جواب دیا، بے شمار سوالات و جوابات ہوئے اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے، ہم پوچھتے نہیں ہیں، ہماری عقل و روح پوچھتی رہتی ہیں جس کا بے مثال جواب ملتا رہتا ہے۔

نوٹ ۱۱: اسماعیلی مذہب میں سب سے اصل چیز امام شناسی

 

۳۳

 

ہے، جس کا تعلق باطن اور روحانیّت سے ہے، یہ عمل اگرچہ انتہائی مشکل ہے لیکن غیر ممکن ہرگز نہیں، اس مقصد کے حصول کے لئے کئی بڑی اہم شرطیں ہیں، تاہم مفتاحِ سعادت اور کامیابی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

نوٹ ۱۲: معرفت کی روشنی میں دیکھا جائے تو امام علیہ السّلام کی مبارک ہستی وہ روحِ کل اور بحرِ نور ہے جو کائنات پر محیط ہے، جس میں تمام انسان چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کی طرح حرکت کر رہے ہیں، لیکن جس طرح مچھلیوں کو عقل نہیں ہے، اسی طرح آدمیوں کو اس لطیف سمندر کے بارے میں معلومات نہیں ہیں، پس اگر کسی کو علم و معرفت حاصل ہو جائے تو وہ یقین کرے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مظہر (امام) کو روح الارواح اور بحرِ نور بنایا ہے۔

نوٹ ۱۳: ایک اسماعیلی مرید جہاں بھی جائے اس کے ساتھ امام موجود ہے، جیسے سمندر کی مچھلی ہمیشہ دور و نزدیک تیرتی پھرتی رہتی ہے، مگر پانی ہر وقت اس کے لئے باعثِ زندگی اور کلی سہارا رہتا ہے، ہاں بے شک دیکھنے والوں نے امام علیہ السّلام کو ہر جگہ دیکھا، مگر جن کے سامنے حجاب ہے، تو وہ لا محالہ محجوب ہیں۔

نوٹ ۱۴: مولا علیؑ نے فرمایا: “میں وہ بعوضہ ہوں، جس کی مثال قرآن (۰۲: ۲۶) میں موجود ہے۔” یہاں بعوضہ (مچھر) سے بطورِ

 

۳۴

 

خاص اس کے پروں کی وہ آواز مراد ہے جو بوقتِ پرواز ہوا کے ساتھ ٹکرانے سے پیدا ہوتی رہتی ہے، فطرت کا منظر اور تما شا بڑا عجیب و غریب ہے، کہ جس طرح طیارہ کے انجن کے گھومنے سے ایک بہت بڑی آواز پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح مچھر کے پروں کی تیز حرکت سے ایک بہت ہی باریک اور بہت ہی چھوٹی آواز پیدا ہوجاتی ہے، چنانچہ حضرت امام علیہ السّلام کے روحانی کلام کا معجزہ اس جیسی باریک اور چھوٹی آواز یعنی کان کے بجنے سے شروع ہو جاتا ہے، یہی سبب ہے کہ قرآنِ حکیم نے روحانیّت کے ابتدائی کلام کی تمثیل بعوضہ سے دی ہے۔

نوٹ ۱۵: اے کاش! بہت سارے اسماعیلی بلکہ سب کے سب حضرتِ امامِ اقدس و اطہر علیہ الصلوات و السّلام کے باطنی، روحانی، عقلانی، عرفانی، قرآنی اور علمی معجزات کا مشاہدہ کر سکتے ! تاکہ اس حال میں ان کو عوالمِ شخصی میں بہشتِ برین کے دلکش مناظر ہوتے۔

نوٹ ۱۶: ہمارے عظیم المرتبت پیروں اور بزرگوں کو امامِ برحق علیہ السّلام کے نورانی اسرار اور عقلی معجزات کا تجربہ اور علم تھا، اسی وجہ سے وہ جنگل کے بادشاہ یعنی شیر کی طرح بے خوف اور اپنے کام میں مست ہوتے تھے، یہ قابلِ تعریف مستی ان کو امامِ عالیمقامؑ کے باطنی حسن و جمال کے لازوال عشق سے حاصل

 

۳۵

 

آئی تھی، وہ کسی سے نہیں ڈرتے تھے، انہوں نے بے شمار نفوسِ انسانی کو ہلاکت سے نجات دلا کر راہِ مستقیم پر گامزن کر دیا اور نورِ امامت کے علم کے آبِ حیات سے ان کو ابدی زندگی بخش دی۔

نوٹ ۱۷: کتنی عظیم کامیابی اور کتنی بڑی خوشی کی بات ہے کہ ایک درویش آپ کے سامنے بہت سی مثالوں میں حجتوں اور پیروں کے معجزانہ علم و معرفت کی سچی شہادت پیش کر رہا ہے۔

نوٹ ۱۸: دنیا کے دکھوں کی کوئی بات ہی نہیں کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ کی طرح ہے، اس لئے یہاں تکلیف ہی تکلیف ہے، لیکن اپنی روح کی شناخت اور امامؑ کی معرفت ایسی عظیم دولت ہے کہ جس کے حصول کے لئے جتنی بھی مشقت و تکلیف برداشت کی جائے وہ بہت ہی کم ہے۔

نوٹ ۱۹: دینی عشق یا محبت دو قسم کی ہوا کرتی ہے، ایک تقلیدی ہے اور دوسری تحقیقی، جس کی مثال یہ ہے کہ ایک بچہ جب کسی اسماعیلی گھرانے میں پیدا ہو جاتا ہے تو وہ شروع شروع میں ماں باپ کو دیکھتے ہوئے تقلیدی طور پر امامؑ سے محبت کرنے لگتا ہے، لیکن آگے چل کر جب وہ علم و معرفت کی روشنی میں امامؑ کی خوبیوں کو دیکھتا ہے تو اس وقت وہ تحقیقی معنوں میں امامِ وقتؑ کا محب و عاشق ہو جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مولا کی محبت اور عشق کے بہت سے درجات ہیں۔

 

۳۶

 

نوٹ ۲۰: اس دنیا میں قدر و قیمت کے اعتبار سے تمام چیزیں مختلف درجات پر واقع ہیں، یعنی کچھ چیزیں ادنیٰ سے ادنیٰ بھی ہیں، اور کچھ اشیاء اعلیٰ سے اعلیٰ بھی، لیکن اس جہان سے جتنی اچھی چیزیں حاصل ہو سکتی ہیں اور جس قدر بھی عمدہ سے عمدہ چیزیں ممکن الحصول ہیں، ان سب کی چوٹی پر بلکہ اس سے بھی بہت بلندی پر حضرتِ مولا کی پاک معرفت کا مقام ہے، پس جو نیک بخت مومن امام ِمبین علیہ السّلام کی معرفت کو حاصل کر لیتا ہے، دونوں جہان کی مکمل قیمت بلکہ دائمی سلطنت کو پاتا ہے۔

نوٹ ۲۱: قرآنِ حکیم میں جو اعلیٰ سے اعلیٰ حکمت کی باتیں ہیں، ان میں یہ سرِ عظیم بھی ہے کہ خداوندِ عالم ہمیشہ اور بار بار دونوں جہان کے جوہر کو اپنے بابرکت ہاتھ میں لپیٹتا رہتا ہے، اور خدا کا بہت بڑا عجیب و غریب کام اس کے مظہر ہی میں ہوتا ہے، یعنی امامِ مبین علیہ السّلام کی ذاتِ عالی صفات سے کائنات و موجودات کا کوئی علم و حکمت اور کوئی راز باہر نہیں ہے۔

نوٹ ۲۲: جب یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ امامِ مبینؑ میں تمام چیزیں مجموع ہیں تو جاننا چاہئے کہ اللہ کا دیدار، قرآن کا شُھُود، اور رسولؐ کا تصوّر بھی امامؑ ہی میں ہے، الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

 

۳۷

 

ریکارڈ آفیسرز: روبینہ برولیا اور زہرا جعفر علی نے استادِ محترم کی زبان سے ۲۲ اپریل ۱۹۹۵ ء کو نقل کی، اور ۱۳۔۱۴ ستمبر ۱۹۹۵ء کو خود استاد نے اس مضمون کے بعض اسرار حذف کر لئے۔

 

۳۸

 

طوفانِ نوح اور طوفانِ روح

عالمِ شخصی کی مکمل اور کامیاب روح و روحانیّت میں انبیائے قرآن علیہم السّلام کی تمام مثالیں مخفی ہیں، اس سے قرآنِ حکیم کے وہ سارے قصّے مراد ہیں جو پیغمبروں سے متعلق ہیں، بابرکت قرآن کے ان حکیمانہ قصوں اور مثالوں میں خدا شناسی، پیغمبر شناسی، امام شناسی، اور خود شناسی کے بارے میں کس بات کی کمی ہوسکتی ہے؟ واللہ! خدا کی کتاب میں دولتِ لازوالِ معرفت کی کوئی کمی ہر گز نہیں۔

مولا علی صلوٰۃ اللہ علیہ کے اس ارشاد پر خوب غور کریں: من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ۔ جس نے اپنی ذات (یعنی انائے علوی) کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ کیا یہ معرفت نورِ نبوّت اور نورِ امامت کے سوا ممکن ہوسکتی ہے؟ نہیں، نہیں، ہرگز نہیں، پھر یقیناً “نفسہٗ” میں کوئی بہت بڑا راز ہوگا، جی ہاں، نفسہ میں فنا فی الامام اور فنا فی الرسول کا اشارہ موجود ہے جیسے اس جہان کا قانونِ فطرت ہے کہ عروج و ارتقاء اور فنا برائے بقاء کے اعتبار سے تمام چیزیں اس طرح درجہ بدرجہ موجود ہیں کہ ہر شے کو ملنے والا نفس (روح) اس کے اوپر والے

 

۳۹

 

درجے میں ہے، جیسے جماد کو ملنے والی روح نبات میں رکھی ہوئی ہے، نبات کی آئندہ روح حیوان میں ہے، حیوانی روح کی ترقی انسان میں ہے، ہر عام آدمی کا نفسِ مطمئنہ انسانِ کامل ہے، اور یہی ہے نفسہ (انائے علوی) کی حکمت۔

حضرتِ نوح علیہ السّلام کی ظاہری کشتی مثال تھی اور باطنی (روحانی) کشتی ممثول، جس طرح مادّی کشتی چند اجزاء کا مجموعہ ہوا کرتی ہے، اسی طرح امامؑ حدودِ دین کا مجموعہ ہوتا ہے، جس سے روحانی علم اور اسمِ اعظم الگ نہیں ہوسکتا، پس امام زمان علیہ السّلام طوفانِ روح و روحانیّت سے بسلامت آگے لے جانے والی کشتی بھی ہے اور کشتی بان بھی، اور قصّۂ نوح میں یہی سرِ عظیم پنہان ہے۔

حضرتِ نوح علیہ السّلام نے اپنے تابعدار مومنین کے لئے دو قسم کے علم سے امام شناسی کی کشتی بنا دی: ۱۔ نظامِ فطرت کے علم سے، ۲۔ آسمانی وحی کے علم سے (۱۱: ۳۷، ۲۳: ۲۷) یعنی امامِ برحقؑ کی اہمیت و موجودگی کی شہادتیں اور دلیلیں قرآن و حدیث میں بھی ہیں اور کائنات و موجودات میں بھی۔

سوال: طوفانِ نوح کے قصّۂ قرآن میں دو دفعہ لفظِ “تنّوُر” آیا ہے (۱۱: ۴۰ / ۲۳: ۲۷) اس سے کیا مراد ہے؟

جواب: تنور وہ ہے جس میں روٹی پکائی جاتی ہے، یہ ذکرِ اسمِ

 

۴۰

 

اعظم کی ایک مثال ہے، جس سے روحانی غذائیں تیار ہوتی ہے چنانچہ جب حضرتِ نوحؑ کے ذکر نے جوش مارا تو یہ اس واقعہ کی علامت تھی کہ عالمِ شخصی میں روحانی طوفان کا آغاز ہوا۔

سوال: یہ کشتیٔ ظاہر کا قصّہ ہے یا سفینۂ باطن کا کہ اس میں تمام اشیائے مخلوقات میں سے نرو مادہ دو دو جوڑے لینے کا حکم ہوا؟ اس کی اصل وجہ کیا ہوسکتی ہے؟

جواب: یہ سفینۂ عالمِ ذرّ کا ذکر ہے، جس میں ساری چیزیں بشکل ذرات داخل کرلی گئی تھیں (۱۱: ۴۰ / ۲۳: ۲۷) جس کا مقصد یہ ہے کہ انسانِ کامل کی ذاتی کائنات کا تجدّد ہو۔

سوال: حضرتِ نوح علیہ السّلام نے دعا کی: میرے ربّ، ان کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ۔۔۔۔ ( ۷۱: ۲۶) اور ایک آیۂ کریمہ  (۳۷: ۷۵) میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی، پھر اس کے باوجود روئے زمین پر کفار کیسے پیدا ہوگئے؟

جواب: آپؑ کی اس دعائے مستجاب کا زیادہ سے زیادہ تعلق عالمِ شخصی سے تھا، جو ہمیشہ کے لئے کفر و کافری سے پاک ہو گیا، اور ہر انسانِ کامل کا عالمِ شخصی اسی معنیٰ میں پاک و پاکیزہ ہو جاتا ہے۔

سوال: اس آیۂ شریفہ کی حکمت بیان کریں: سَلٰمٔ عَلٰی نُوحٍ فی

 

۴۱

 

الْعٰلمیْنَ (۳۷: ۷۹)۔

جواب: ترجمہ: سلام ہے نوح پر تمام دنیا والوں میں حکمت: نوح ہر عالمِ شخصی میں ابدی طور پر زندہ اور سلامت ہے، اور جملہ کاملین ایسے ہی ہیں۔

سوال: ترجمۂ آیۂ پاک ہے: اور ہم نے اسی (یعنی نوح) کی ذریت کو باقی رکھا (۳۷: ۷۷) اس کی تاویلی حکمت کیا ہوسکتی ہے؟

جواب: جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ نوح عالمِ شخصی میں زندۂ جاوید اور سلامت ہے، جس سے ہادیٔ زمان مراد ہے، اور اسی کی روحانی ذریت باقی رہنے والی ہے۔

سوال: ۔ یہ کون لوگ ہیں جن سے یوں خطاب ہوتا ہے: ذُرَّیَۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْ حٍ (۱۷: ۳) ۔ ( اے وہ ذراتِ روحانی جن کو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا)؟

جواب: یہ کاملین و مومنین ہیں، کیونکہ اس میں خداوندِ عالم اپنے احسانِ عظیم کو یاد دلاتا ہے جس کا تعلق اہلِ ایمان سے ہے کہ وہ زمانۂ حال ہی میں روحانی کشتی پر سوار ہیں۔

سوال: حضرتِ نوح علیہ السّلام کی توصیف میں ارشاد ہے: اِنَّہٗ کَانَ عَبْداً شکُوراً (۱۷: ۳) نوح ایک شکر گزار بندہ تھا۔ شکر قولی ہے یا عملی یا علمی؟ یہ روحانیّت کے کس درجے پر جا کر بحقیقت ممکن ہو جاتا ہے؟

جواب: شگرگزاری اگرچہ ایک قولی عبادت بھی ہے تاہم یہ

 

۴۲

 

علم و عمل کی متقاضی ہے، شکر کا مفہوم ہے اعلیٰ باطنی نعمتوں کی معرفت اور قدردانی، لہٰذا حضرتِ نوحؑ کے “شکور” ہونے کا یہ مطلب ہے کہ آپ کو اپنے عالمِ شخصی میں گنجِ اسرارِ ازل مل گیا تھا۔

سوال: اس آیۂ کریمہ کی حکمت بتائیں: وَآيَةٌ لَهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ (۳۶: ۴۱)۔

جواب: ترجمۂ ظاہر: اور ان کے لئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا۔ حکمت: اور ان کے لئے یہ بھی ایک قابلِ دید معجزہ ہے کہ ہم نے ان کے ذراتِ روح کو کاملین کی بھری ہوئی کشتی (عالمِ ذر) میں اٹھا لیا۔

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اَلاَ اِنَّ مَثَلَ اَھْلِ بَیْتِیْ فِیْکم مَثَلُ سَفِیْنَۃِ نُوحٍ مَنْ رَکبَھَاَ نَجیٰ وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْھَا ھَلَکَ۔ تمہارے درمیان میرے اہلِ بیتؑ کی مثال کشتیٔ نوحؑ کی سی ہے جو کوئی اس کشتی پر سوار ہوا ، اس نے خلاصی پائی اور جس نے مخالفت اور روگردانی کی وہ ہلاک ہوا۔

سورۂ نوح کے آخر ( یعنی ۷۱: ۲۸) میں خوب غور و فکر سے دیکھئے کہ وہاں جس طرح حضرتِ نوحِ علیہ السّلام کی ایک خاص دعا کا ذکر آیا ہے اس کی حکمت کے مطابق حضرتِ نوحؑ خود، آپ کے والدین

 

۴۳

 

اور خاص مومنین و مومنات نورانی گھر میں ہیں، لیکن عام مومنین و مومنات ابھی خانۂ نورانیت میں داخل نہیں ہوسکے ہیں، اسی سے زمانۂ نوحؑ کے اہلِ بیت اور کشتیٔ روحانیّت کا تصوّر قابلِ فہم ہو جاتا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہادیٔ برحق خود راہ بھی ہے اور راہنما بھی، کشتی بھی ہے اور کشتیبان بھی۔

اللہ تعالیٰ جو قادرِ مطلق ہے اس کے لئے یہ امر کیونکہ ناممکن یا مشکل ہو سکتا ہے کہ وہ بیحد مہربان ہمیشہ دنیا میں اپنے نورِ اقدس کے مظہرِ حیّ و حاضر کو مقرر کرے اور اس کی ذاتِ عالی صفات کو تمام حقیقتوں اور معرفتوں کا مرکز و منبع بنائے، جیسا کہ اس کا ارشادِ مبارک ہے: وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ ( ۳۶: ۱۲) اور ہم نے (قرآن اور عالمِ دین کی) ہر چیز کو امام ِمبین میں گھیر کر رکھا ہے۔

اگر دنیا میں بہشتِ برین کی معرفت ممکن ہے تو اس کا مشاہدہ کہاں ہو سکتا ہے؟ ناسوت تو ظاہر ہے لیکن ملکوت، جبروت اور لاہوت کا لامکانی اور عرفانی تصوّر کہاں ہے؟ اگر معرفتِ نفس اور معرفتِ ربّ ممکن ہے تو اس سے پیشتر ملاقاتِ روح اور دیدارِ الٰہی ضروری ہے پھر اس کی ہدایت و بصیرت کہاں سے مل سکتی ہے؟ پس یہ اور اس جیسے بہت سے بلکہ تمام مشکل سوالات کے معجزانہ جوابات کے لئے رجوع کا حکم یا اشارہ ہے: وَ كُلَّ شَیْءٍ

 

۴۴

 

اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ ( ۳۶: ۱۲) ۔

اے نورِ عینِ من! غور سے سن لو، یہ حکم سورۂ نحل ( ۱۶: ۴۳) میں بھی ہے اور سورۂ انبیاء (۲۱: ۰۷) میں بھی وہ یہ ہے: فسٔلوآ اَھْلَ الذِکْرِ ان کُنتُم لَا تَعلَعْمونَ ۔ اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے ہو۔ اہلِ ذکر أئمّۂ اہلِ بیت علیہم السّلام ہی ہیں کیونکہ ذکر کے خاص معنی تین ہیں: قرآن، رسولؐ اور اسمِ اعظم ہیں۔

وہ امام ِمبین، وہ قرآنِ ناطق، وہ وارثِ رسولؐ، وہ عالمِ علمِ لدنی، وہ ہادیٔ برحق، وہ بابِ علم و حکمتِ نبیؐ، وہ اولادِ علیؑ، وہ مجموعۂ اسماء الحسنیٰ، وہ گنجِ اسرارِ ازل، وہ مظہرِ نورِ اِلٰہ، وہ آئینۂ حسن و جمالِ خداوندی، وہ سرچشمۂ عشقِ سماوی، وہ کعبۂ جان، وہ قبلۂ ایمان، وہ معشوقِ عاشقان، وہ محبوبِ محبان، وہ مطلوبِ طالبان، وہ معروفِ عارفان، اور وہ استادِ عالمِ شخصی اس دنیا میں ہمیشہ حیّ و حاضر ہے، اس لئے عالمِ شخصی میں جاکر اس عارفانہ طریق پر تمام سوالات کئے جا سکتے ہیں تاکہ علم و معرفت کا سب سے بڑا خزانہ حاصل ہو جائے۔

اے نورِ عینِ من! یاد رکھو کہ قرآنِ حکیم میں جس قدر بھی عمدہ مثالیں بیان کی گئی ہیں وہ سب کی سب ایک ہی حقیقت سے متعلق ہیں، اور وہ حقیقت نورِ امامت ہی ہے، جیسے بہت سے

 

۴۵

 

مقامات پر نور کی مثال، اللہ کی رسی کی مثال، پاک کلمہ اور پاک درخت کی مثال، راہِ راست کی مثال، کشتیٔ نوحؑ کی مثال، اور اسی طرح کی بہت سی مثالیں آئی ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

جمعرات ۲۴؍ ربیع الثانی ۱۴۱۶ھ   ۲۱؍ جنواری ۱۹۹۵ء

 

۴۶

 

ایک حیرت انگیز خواب

اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے انسان کے عالمِ خواب کو بڑا عجیب و غریب بنایا ہے، آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں خواب کے عجائب و غرائب پر یقین رکھتے ہوں گے، میں بھی یقین رکھتا ہوں، اور کبھی کبھار کسی نورانی خواب کو ضبطِ تحریر میں بھی لاتا ہوں، کیونکہ اچھے خوابوں میں خوشخبری کے علاوہ علم و حکمت کے جواہر بھی پنہان ہوتے ہیں، اس لئے کہ خواب روحانیّت کا حصہ ہوا کرتا ہے۔

بڑا عجیب حسنِ اتفاق ہوا یا یوں کہا جائے کہ خدمتِ قرآن کا معجزہ ہوا جبکہ میں تاویلی انڈیکس کے سلسلے میں عشقِ الٰہی اور شرابِ جنت کے نکات پر لکھ رہا تھا کہ پیر کی رات ۱۱؍ دسمبر (۱۹۹۵ ء) کو چیف پیٹرن ڈاکٹر زرینہ حسین علی (مرحوم) کے دولتخانہ میں یہ مبارک خواب دیکھا:۔

میں اس گوہرِ یکدانہ کے تصوّر کے زیرِ اثر جو لامکانی اور بے مثال ہے بعض دفعہ خواب میں پہاڑ پر انمول جواہر کی تلاش کرتا ہوں، اگر یاقوتِ احمر یا زمردِ اخضر وغیرہ کے کچھ اعلیٰ دانے مل گئے تو یقیناً اس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ خداوندِ قدوس کے فضل و کرم اور عزیزوں کی پاکیزہ دعا سے اس دن کی

 

۴۷

 

تحریر میں کچھ موتی آجاتے ہیں، چنانچہ مذکورۂ بالا رات کے خواب میں حسبِ معمول یہ بندہ کسی پہاڑ پر قیمتی پتھروں کی جستجو کر رہا تھا کہ یکا یک میں نے ایک نرالا منظر دیکھا: میرے آگے اور دائیں بہشت کے دو باشندے ہیں، ایک نورانی خاتون اور ایک نورانی مرد، انہوں نے پتھر سے یا پتھروں سے خمرِ بہشت کے چند ظروف نکالے اور بادۂ جنّت کے نام سے اس ناچار کو پلا دیا، جیسے ہی رحیقِ مختوم اس خاکسار کے باطن میں چلی گئی، سُبحانَ اللہ! اندر سے لحنِ داؤدی جیسی نغمگی کی مسرت بخش آوازیں آنے لگیں، یہ بے مثال شادمانی زیادہ دیر تک قائم نہ رہی، کیونکہ میں اس کے اثر سے فوراً بیدار ہوگیا، لیکن یہ خواب میرے لئے ناقابلِ فراموش ہے۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِ علی) ھونزائی

۱۲؍ دسمبر ۱۹۹۵ ء کراچی

 

۴۸

 

سورۂ فاتحہ کا بُروشسکی ترجمہ

سورۃ الفاتحہ بروشسکی ترجمہ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 

 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

 

 

الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 

مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِﭤ

 

اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُﭤ

 

 

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ

 

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ

 

 

خدائے ایک نکن (شروع ایپچا)ان ابٹ شل بلیکݽ رݳ کلݳ نرݶکݽ بݳی۔

 

تھائکو تعریفݣ خدار بڎن، ان (شخصی) عالمݣ یݹشیس انݺ بݳی۔

 

ان ابٹ شل بلیکݽ دݳ کلݳنرݶکݽ بݳی۔

 

گمݽے گنڎے دمن بݳی۔

 

می فقط ان گوݶلیکیݳ باندݳ فقط ان ڎم مدت دمر چبان۔

 

می ݼن گنے مݵگڎر۔

 

اوݺ سسے گنے (مݵگڎر)می گوئمو انعامݣے اوسلجبا کے۔

 

 

 

۴۹

 

غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ اݹیٹے گموس منم اوے (اتے گنے) بے، دݳ ٹھس گݼرم اوے اݵت (گنے)کے بے۔

 

 

 

 

جمعرات: یکم جمادی الثانی ۱۴۱۶ھ، ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۹۵ ء

 

 

 

۵۰

 

اسرارِ رفیق اعلیٰ

۱۔ حدیثِ شریف کی کتابوں میں ہے کہ مرض الوفات کے آخری وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ دعا تھی: اَللّٰھُمَ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ والْحِقْنِیْ بِاالرَّفِیْقِ الْاَعْلٰے۔ اے اللہ! میری مغفرت فرمائیے مجھ پر رحم کر اور رفیقِ اعلیٰ سے مجھے ملا دیجئے۔

۲۔ رحمتِ عالم فخرِ بنی آدم صلعم کے ہر مبارک قول و فعل میں اہلِ ایمان کے لئے روشن ہدایت اور خاص علم و حکمت موجود ہے، لہٰذا یقیناً حضورِ انورؐ کے ان بابرکت الفاظ میں بھی معرفت کے عظیم اسرار پوشیدہ ہوں گے، ان بھیدوں کی طرف رہنمائی کے لئے ہم ولیّءِ زمانؑ سے عاجزانہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ مہربانِ عقل و جان ہماری دستگیری فرمائے تاکہ ہم پر یہ اسرارِ حقائق منکشف ہو جائیں، آمین یا ربّ العالمین!۔

۳۔ یہاں یہ عرفانی سوالات خود بخود ابھر کر سامنے آتے ہیں کہ آیا رفیقِ اعلیٰ کوئی عظیم فرشتہ ہو سکتا ہے؟ یا اس سے خود حضور اکرمؐ کی

 

۵۱

 

انائے علوی مراد ہے؟ کیا یہ رفیقِ انبیاء و اولیاء ہو سکتے ہیں؟ آیا خداوندِ عالم بذاتِ خود رفیقِ اعلیٰ نہیں ہے؟ کیا رفیق ہمراہ کو نہیں کہتے ہیں؟ یعنی ایسی اعلےٰ ہستی یا روح جو راہِ روحانیّت پر حضورِ پاکؐ کے ساتھ ساتھ چلتی رہی ہو؟ ان عجیب و غریب اور انتہائی مشکل سوالات کے لئے صرف ایک ہی جواب ہوسکتا ہے، وہ یہ کہ قانونِ یک حقیقت کے مطابق ایک میں سب ہیں اور بہشت میں کوئی چیز غیر ممکن نہیں۔

۴۔ اے نورِعینِ من! ہر چند کہ آپ عزیزوں نے یہ حدیثِ قدسی کئی مرتبہ سن لی ہے، لیکن اس میں کبھی ختم نہ ہونے والی روحی و عقلی غذا موجود ہے اس لئے میں آپ سب کو اس کی گہری حکمتوں کی طرف دعوت دیتا ہوں، آپ اس میں بار بار غور و فکر کریں، وہ مبارک ارشاد یہ ہے: عبدی اطعنی اجعلک مثلی حیّاً لاتموت، وعزیزاً لا تذل، وغنیّاً لا تفتقر ۔ اے بندۂ من! میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنا (یعنی خدا کا ) مثیل بناؤں گا ایسا زندہ کہ تو کبھی نہ مرے، ایسا معزز کہ تو کبھی ذلیل نہ ہوجائے، اور ایسا غنی کہ تو کبھی مفلس نہ ہوجائے۔ (اربعہ رسائل)۔

۵۔ یہی وہ کنزِ مخفی ہے جس کے حصول کی شرط کامل معرفت ہی ہے، یہی وہ بے مثال اور لازوال ثمرہ ہے جو حکمِ تخلّقوا باخلاق اللہ کی تعمیل پر کسی مومن کو مل سکتا ہے، اسی مقام کا مبارک نام مرتبۂ

 

۵۲

 

حق الیقین ہے، اسی سب سے بڑی سعادت کو فنا فی اللہ و بقا باللہ کہتے ہیں، اسی ارشاد میں رفیقِ اعلیٰ سے مل جانے کی وضاحت ہے، یہی ہے بہشت میں داخل ہو جانا بلکہ خود بہشت بن جانا بلکہ بہشت سے بھی برتر حقیقت ہوجانا، یہی اللہ کی طرف انتہائی رجوع اور اس کا قربِ خاص بمعنیٔ واصل باللہ ہے، اور یہی ہے وہ خلافت و سلطنت جو عالمِ شخصی میں مل سکتی ہے۔

۶۔ اے نورِ چشمِ من! حضرتِ امام ِاقدس و اطہر علیہ السّلام کو اپنی عقلِ جزوی کی ترازو میں تولنے کی کوشش ہرگز ہرگز نہ کرنا، کیونکہ یہ ایک غیر منطقی عمل ہے، خدانخواستہ اگر آپ میں سے کسی عزیز کو امامؑ کے بارے میں شک ہو تو اصولِ دانش یہ ہے کہ وہ علم الیقین کی روشنی میں یہ تحقیق کرے کہ آیا حضرتِ آدم، حضرتِ نوح، حضرتِ ابراہیم، حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ عیسیٰ علیہم السّلام کے ساتھ اور ان کے بعد امام موجود نہیں تھا؟ اگر ان پانچ حضرات کے ادوار میں امام کی موجودگی کا ثبوت ملتا ہے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے ساتھ اور آپؐ کے بعد پورے دور کے لئے کیوں امام نہ ہو، یہ تو صدہا دلائل میں سے صرف ایک ہی دلیل ہے۔

۷۔ قال النّبیُ صلّی اللّٰہُ علیہ و آلہٖ وسلّم:  اِنَّ عَلِیّاً مِنّیْ وَاَنَا مِنْ عَلِیٍّ وَھُوَ وَلِیٍّ کُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤمِنَۃٍ بَعْدِیْ ۔ حضرتِ رسولؐ نے فرمایا کہ: علیؑ مجھ (محمدؐ) سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ

 

۵۳

 

میرے بعد ہر مومن اور مومنہ کا ولی اور حاکم ہے۔

یہ نہ صرف میرا عقیدہ ہی ہے بلکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ رسولِ اکرمؐ کا ہر وہ ارشاد جو مولا علیؑ کے بارے میں فرمایا بڑا عجیب و غریب اور بے مثال ہے، یقیناً احادیثِ شریف کی یہ پُرحکمت تعریف و توصیف نورِ امامت کی شان میں ہے، کیونکہ قرآن و حدیث میں جو کچھ حضرتِ علیؑ سے متعلق ہے، وہ بے شک أئمّہ آلِ محمدؐ کے بارے میں ہے، جس طرح قرآنِ حکیم کا مومنین سے خطاب فرمانا نہ صرف زمانۂ نبوّت ہی کے لئے تھا بلکہ ان تمام مومنین کی بھی اس میں شرکت و شمولیت ہے جو بعد میں پیدا ہوتے جارہے ہیں۔

۸۔ اے نورِ عینِ من! آپ سب عزیزان زندگی بھر اسرارِ حقیقت کی تلاش کرتے رہیں، عادت ایسی ہو کہ مشغلۂ علم کے بغیر چین ہی نہ آئے، قرآن و حدیث کی حکمتوں کی سیکھ لیں، میرا کامل یقین ہے کہ ہر نمائندہ آیت اور حدیث سے ہر بار ایک نئی روشنی کا ظہور ہوتا ہے، جیسے آنحضرتؐ کا ارشاد ہے: ۔

عن علی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم: یا علی اِنْ لک فی الجنّۃ کنزٌ و اِنّک ذوقرنیھا ۔ جناب امیر سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:

اے علی تیرے لئے بہشت میں ایک خزانہ ہے اور تو اس کا ذوالقرنین ہے ۔ (ارجح المطالب ، ایڈیشن ۱۹۹۴ء ص ۴۷)۔

 

۵۴

 

اہلِ تاویل کے نزدیک آیت اور حدیث کی کئی تاویلیں ہوا کرتی ہیں، چنانچہ اس حدیثِ شریف کی ایک معقول تاویل یہ ہے کہ: اے علی تیرے لئے بہشتِ روحانیّت میں حظیرۃ القدس کا خزانہ موجود ہے اور تو قرنِ روحانی اور قرنِ عقلانی دونوں کا مالک ہے۔ کائنات کی بہشت دور ہے، عالمِ شخصی کی بہشت نزدیک جس میں علم و حکمت کی دولت جا بجا بکھری ہوئی بھی ہے اور خزانۂ حظیرۃ القدس میں یکجا بھی ہے، جیسے کسی ملک کا سرمایہ پھیلا ہوا بھی ہوتا ہے اور شاہی خزانے میں جمع بھی ہوتا ہے۔

۹۔ اے عزیزانِ من! آپ خداوند تعالیٰ کے سات دنوں کو جانتے ہیں جن کے آخر میں سنیچر یعنی حضرتِ قائم علیہ السّلام ہے، ہفت روز قرآن کریم میں ایام اللہ کہلاتے ہیں (۱۴: ۰۵، ۴۵: ۱۴) نیز یہ ایامِ معلومات بھی ہیں (۲۲: ۲۸) اور کلام اللہ میں جس کثرت سے روزِ قیامت کے نام آئے ہیں، وہ سب کے سب حضرتِ قائم علیہ افضل التحیۃ و السّلام کے اسمائے مبارک میں سے ہیں جیسے حضرتِ مولا علیؑ نے فرمایا: اَنَا السَّاعَۃُ اُلَّتِیْ لِمَنْ کَذَّبَ بِھَا سَعِیْراً۔ یعنی میں وہ ساعت (قیامت) ہوں کہ جو شخص اس کو جھٹلائے اور اس کا منکر ہو، اس کے لئے دوزخ واجب ہے ( کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت ۲۷)۔

۱۰۔ اے نورِ عینِ من! آپ جملہ عزیزان حضرتِ قائم علینا منہ السّلام

 

۵۵

 

کے بارے میں جتنی گرانمایہ معلومات رکھتے ہیں، وہ گنجِ مخفی کے انمول جواہر میں سے ہیں، یہ جواہر مزید مل سکتے ہیں، جبکہ آپ قرآن و حدیث اور بزرگانِ دین کی کتابوں میں جستجو کریں گے، یہ امر بیحد ضروری ہے ، کیونکہ اب عالمِ دین کا ساتواں دن یعنی یومِ شنبہ چل رہا ہے، اور آفاق و انفس میں قیامت کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں، اگرچہ قیامتِ صغریٰ ہر امام کے زمانے میں برپا ہوتی آئی ہے، لیکن یہ ایک بہت بڑی قیامت کی بات ہے۔

۱۱۔ اے برادران و خواہرانِ روحانی! آپ یقین جانیں کہ عصرِ حاضر میں جو شاندار سائنسی انقلاب آیا ہے، وہ باطنی اور روحانی قیامت کے زیرِ اثر ہے، جب سے اس کا آغاز ہوا ہے تب سے لے کر ایک ہزار سال تک دنیا یکسر تبدیل ہوجائے گی اس میں ہر قسم کی برائی کا خاتمہ لازمی اور ضروری ہے، روحانی معجزات کا ظہور ممکن ہے، یہی چیزیں روحانی سائنس بھی ہیں، لیکن جو قیامت جاری و ساری ہے وہ ایک دیوار کے پیچھے ہے، جیسے ارشاد ہے: فَضُرِبَ بَیْنَھُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ  ط  بَاطِنُہٗ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاھِرُ ہٗ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذابُ (۵۷: ۱۳) ۔ پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا (اور) اس کے اندر کی جانب تو رحمت ہے اور باہر کی جانب عذاب۔

 

۵۶

 

۱۲۔ حضرتِ قائم القیامتؑ کے بارے میں قرآنِ عظیم کی یہ پیش گوئی بڑی عجیب و غریب حکمتوں سے مملو ہے:

ترجمہ: یہ اس کے سوا اور کس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں مگر جس روز تمہارے پروردگار کی نشانیاں آجائیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اس وقت اسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو (اے پیغمبر) ان سے کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں (۰۶: ۱۵۸)۔

۱۳۔ رسول، امام، اور قائم علیہم السّلام وہ حضرات ہیں، جن پر خدا اپنی محبت یا عشق کا پَرتو ڈالتا ہے تاکہ لوگ ان کے محِبّ و عاشق ہو جائیں ، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ القَیتُ عَلَیْکَ محبّۃَ مِنِّیْ (۰۲: ۳۹) اور میں نے تم پر اپنی محبت (کا پَرتو) ڈال دیا۔

الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

منگل  ۱۷؍ ذی القعد  ۱۴۱۵ھ   ۱۸؍اپریل  ۱۹۹۵ء

 

۵۷

 

بابِ دوم

علمی انتسابات

 

۵۹

 

چیف میڈیکل پیٹرن

الحمد للہ ربّ العٰلمین، بیحد خوشی و شادمانی کی بات ہے کہ محترم ڈاکٹر زرینہ صاحبہ (حسین علی مرحوم) ۲۶ ؍ اگست ۱۹۹۴ ء سے “بورڈ آف میڈیکل ایڈوائزرز اینڈ پیٹرنز” کی چیف مقرر کی گئی ہیں، اس ترقی کی یہ سعادت ان کو مبارک ہو!

ڈاکٹروں کی عظیم و اعلیٰ خدمات کی شکرگزاری میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے، کیونکہ یہ ایک روشن حقیقت ہے، کہ وہ عزیزان اپنی عمرِ گرانمایہ میں سے کثیر جواہر پارے (یعنی اوقات) جو بڑے انمول ہیں، وہ ہماری صحت کی خاطر بیدریغ قربان کردیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو چشمِ بصیرت عطا فرمائے! تاکہ ہم ہر عزیز کی زرین خدمات کو حقیقی معنوں میں دیکھ سکیں اور قدر کر سکیں۔

محترمہ ڈاکٹر زرینہ صاحبہ کا پاکیزہ دل نیکی و خیرخواہی کا سرچشمہ ہے، آپ علم الیقین کی لازوال و غیرفانی دولت سے

 

۶۱

 

مالا مال ہو جانا چاہتی ہیں، ان کو حقیقی علم کی ہر چیز سے بیحد دلچسپی ہے، آپ بڑے یقین کے ساتھ پاک جماعت خانہ جایا کرتی ہیں، ایک دفعہ خصوصی مجلس میں ہر فرد گریہ وزاری اور مناجات کر رہا تھا، چنانچہ جب ڈاکڑ زرینہ کی باری آئی تو انہوں نے انتہائی عاجزی سے مناجات شروع کی اور رفتہ رفتہ ان پر کپکپی کی روحانی کرامت گزرنے لگی، پس یہی باطنی پاکیزگی کی دلیل ہے۔

دعائے درویشی ہے کہ خدا وندِ عالمین آپ اور آپ کے فرزندِ جگربند کرنل غلام مرتضیٰ کو دین و دنیا کی سلامتی و سرفرازی سے نوازے! آپ تمام عزیزوں کے علم اور ہر گونہ نیکی میں روز افزون ترقی ہوتی رہے ! آمین!!

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

اتوار۲۴؍جمادی الاول  ۱۴۱۵ھ   ۳۰؍ اکتوبر  ۱۹۹۴ء

 

۶۲

 

امامِ اوّلین و آخرین

انتساب

 

۱۔ اے نورِ عینِ من! (یعنی ہر عزیز) مجھے یقین ہے کہ آپ علیٔ زمان صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہ کے علمِ باطن سے بے حد شادمان اور خرسند ہیں، کیوں نہ ہو جبکہ اسی علم میں دینِ اسلام کے اسرارِ عظیم پنہان ہیں، اور اسی علم کے حصول سے اہلِ ایمان کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی خوشنودی حاصل ہو سکتی ہے، پس اے نورِ چشمِ من! آپ ان گران مایہ حقیقتوں اور معرفتوں کو بھر پور توجہ اور شوق سے سن لیں۔

۲۔ حدیثِ شریف ہے: نَزَلَ الْقُرْاٰنُ عَلیٰ سَبْعَۃِ اَحُرُفٍ، یعنی قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے۔ الاتقان میں ہے کہ اس حدیث کے معنی میں چالیس ۴۰ کے قریب مختلف اقوال  آئے ہیں، میں عرض کرتا ہوں کہ جن سات حرفوں پر قرآن نازل ہوا ہے وہ

 

۶۳

 

درجِ ذیل ہیں:۔

حرفِ اوّل حضرتِ آدمؑ، حرفِ دوم حضرتِ نوحؑ، حرفِ سوم حضرتِ ابراہیمؑ، حرفِ چہارم حضرتِ موسیٰؑ، حرفِ پنجم حضرتِ عیسیٰؑ، حرفِ ششم حضرتِ محمدؐ، اور حرفِ ہفتم حضرتِ قائمؑ، یہ قرآنِ حکیم کے وہ سات زندہ حروف ہیں جن پر قرآن نازل ہوا ، جس کی وضاحت اس طرح ہے: ۔

مذکورہ حدیث میں حرف سے باطنی اور تاویلی معنی مراد ہیں، پس قرآن کی سات تاویلات ہیں: تاویلِ آدمؑ، تاویلِ نوحؑ، تاویلِ ابراہیمؑ، تاویلِ موسیٰؑ، تاویلِ عیسیٰؑ، تاویلِ محمدؐ، اور تاویلِ قائمؑ ، ہر تاویل سرتا سر قرآنِ عزیز میں پھیلی ہوئی ہے، جیسے سورۂ اسراء (۱۷: ۸۹) اور سورۂ کھف (۱۸: ۵۴) میں یہ مفہوم ہے کہ اللہ ایک ہی حقیقت کی طرح طرح سے مثالیں بیان فرماتا ہے۔

۳۔ قرآن کی روحانیّت و عقلانیت شروع سے لے کر آخر تک ایک جیسی ہے، مگر اس کی بنیادی اور بڑی مثالیں صاحبانِ ادوار کے اعتبار سے سات قسم کی ہیں، اور لازمی طور پر ان کی تاویلیں بھی سات ہیں، پس اسی وجہ سے فرمایا گیا کہ قرآن سات حرفوں (یعنی سات تاویلی معنوں) پر نازل ہوا ہے، چنانچہ ہم یہاں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی مثال کو دیکھتے ہیں کہ خداوندِ عالم نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا:

 

۶۴

 

قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ (۰۲: ۱۲۴) خدا نے (ابراہیمؑ سے ) فرمایا کہ میں تم کو لوگوں کا امام (پیشوا) بنانے والا ہوں۔ یعنی نہ صرف حاضرین ہی کا امام بلکہ اوّلین و آخرین کا بھی، اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ جب حضرتِ ابراہیمؑ کے زمانے میں امام کا ہونا لوگوں پر اللہ کا احسان تھا، تو پھر اوّلین و آخرین پر یہ احسانِ عظیم کیوں نہ ہو، دوسری دلیل لفظِ “النّاس” ہے، یعنی خدا کا حضرتِ ابراہیمؑ کو لوگوں کے لئے امام بنانا، یہ لفظ در حقیقت محدود نہیں مطلق ہے، یعنی اس سے ہر زمانے کے لوگ مراد ہیں، چنانچہ اللہ جَلَّ جلاَ لہ یہ چاہتا تھا کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو نہ صرف محدود وقت کے لئے امام بنائے بلکہ حقیقت سے حجاب ہٹا کر یہ ظاہر کر دے کہ اس کو اپنے آباؤ اجداد کی حیثیت میں بھی امامت عطا ہوئی تھی، اور آئندہ نسل میں بھی یہ مرتبہ ملنے والا ہے، پس یہ قرآنِ حکیم کی تیسری تاویل کی ایک روشن مثال ہے۔

۴۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے والدین کی نگاہوں میں کتے حسین لگتے ہیں، یہ تو روضۂ آدمیت کے دل آویز غنچے ہیں، اس لئے ان کو سب چاہتے ہیں، انار کلی ہو یا غنچۂ گلِ سرخ یا شگوفۂ گلِ سوری یا کچھ اور نَوعروسانِ چمن (تازہ کلیاں) وہ خوش منظر اور دلکش ضرور ہیں لیکن پیارے پیارے بچوں کی طرح ہر گز نہیں، ادارۂ

 

۶۵

 

عارف کے نائب صدر محیّ الدین (ابنِ شاہ صوفی ابنِ خلیفہ قدیر شاہ ابنِ حیدر محمد) کی سات سالہ بیٹی سارہ، پانچ سالہ بیٹا قدیر شاہ، اور دو سالہ بیٹی سدرہ کا ذکرِ جمیل ہے، الحمد للہ ان عزیز بچوں کی نعمت پر ان کے والدِ محترم اور دونوں فرشتہ خصلت مائیں بے حد شادمان اور شکر گزار ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

چہار شنبہ ۱۱؍ ذی القعد ۱۴۱۵ھ   ۱۲؍ اپریل ۱۹۹۵ء

 

۶۶

 

مکانی بہشت اور لامکانی بہشت

(انتساب)

حضرتِ امام جعفر صادق علیہ و علیٰ آبائہ السّلام سے پوچھا گیا: آدم کی بہشت کیا دنیا کے باغوں میں سے ایک باغ تھی یا آخرت کے باغوں میں سے تھی؟ آپؑ نے فرمایا: وہ دنیا کا ایک باغ تھی (کسی ستارے پر جو ہمارے نظامِ شمسی میں ہے جیسے زہرہ، مشتری وغیرہ) اس میں سورج اور چاند نکلتا تھا، اگر آخرت کا باغ ہوتی تو ابلیس وہاں نہ جاسکتا نہ آدمؑ وہاں سے کبھی نکلتے (لغات ُ الحدیث، جلد اوّل، کتاب الجیم، ص ۱۱۷)۔

اس سے معلوم ہوا کہ کائنات کے بہت سے ستاروں پر بہشت اور لطیف جسم کی زندگی ہے، اور یہ بھی پتہ چلا کہ بہشت دو قسم کی ہے: مکانی اور لامکانی، جب آپ جسمِ لطیف میں کسی ستارے پر ہوں گے تو یہ آپ کی جسمانی اور مکانی بہشت ہوگی، اور جب بھی جہاں بھی آپ عالمِ باطن، روحانیّت اور نورانیّت کی طرف متوجہ ہو کر جسم اور مکان کو بھول جائیں گے اور روحانی عجائب و غرائب کا مشاہدہ کریں گے تب وہاں آپ کے سامنے لا مکانی بہشت ہو گی۔

 

۶۷

 

آپ جب کوئی ایمان پرور نورانی خواب دیکھتے ہیں تو یقیناً یہ لامکانی بہشت کی ایک چھوٹی سی مثال ہوتی ہے، اگر خصوصی علم و عبادت اور کامل تقویٰ سے آپ کا خیال ایک روشن جہان بن گیا ہے تو یہ بھی لامکانی بہشت کا ایک عام اشارہ ہے۔

ہمارے بہت ہی عزیز و محترم ڈاکٹر رفیق جنّت علی چیف سیکریٹری آف خانۂ حکمت نہ صرف ایک تجربہ کار ڈاکٹر ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ ایک روشن دماغ سکالر بھی ہیں، موصوف ڈاکٹر دسمبر ۱۹۷۸ء میں ہمارے حلقۂ علم میں آگئے تھے۔ اس وقت سے لے کر آج تک انہوں نے علم و ادب میں جو ترقی کی ہے، وہ یقیناً حیران کن ہے، الفاظ کے انتخاب اور تقریرو تحریر کی روانی میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔

ڈاکٹر رفیق کی رفیقۂ حیات ڈاکٹر شاہ سلطانہ ایک باکمال مثالی مومنہ ہیں، مدت مدید کی خاموشی کے بعد ایک دن انہوں نے جس شان سے علمی گفتگو فرمائی، اس سے سب کو بڑی حیرت ہوئی، بارہا اس حقیقت کا تجربہ ہوا ہے کہ ان کے پاکیزہ قلب میں امامِ برحق علیہ السّلام کے لئے غیر معمولی محبت ہے، اسی وجہ سے وہ خاموش اور سنجیدگی کا ایک ایسا فرشتہ لگتی ہیں، جو کسی عظیم کام کے واسطے زمین پر آیا ہوا ہو۔ آپ چیئرپرسن (آف خانۂ حکمت برانچ کریم آباد) بھی ہیں۔

 

۶۸

 

چیف سیکریٹری ڈاکٹر رفیق (جنت علی) اور ان کی نیک بخت بیگم محترمہ ڈاکٹر شاہ سلطانہ یقیناً ہمارے عالمِ شخصی کے فرشتوں میں سے ہیں، ان کے بیحد پیارے بچے بہشت کے دو غنچے ہیں یا جنت کے دو پودے ہیں، یعنی گلاب خانم رفیق (پیدائش  ۹۲۔ ۱۲۔ ۳) اور شفیق ابنِ رفیق (پیدائش ۹۴ ۔۱۲۔ ۳۱)  جب یہ دونوں غنچے ( ان شاء اللہ) اپنے وقت پر کھل جائیں گے تو ان میں دین و دنیا کے علم و ہنر کی خوشبوئیں ہوں گی، اور درخت کی مثال میں ان سے بہشت کا لذیذ میوہ ملے گا، جب ان کی جسمانی، اخلاقی، علمی اور روحانی پرورش اس نیت سے کی جائے کہ: “ہمارے یہ جسمانی بچے مولا کے روحانی فرزند ہیں، لہٰذا ہم ان کو اعلیٰ تربیت دیکر صفِ اوّل کے اسماعیلی بنانے کے لئے کوشش کریں گے۔” ان شاء اللہ ، ایسی نیّت کی وجہ سے خداوندِ قدوس کی تائید حاصل ہوگی۔

ہماری دانش گاہ میں جتنے ڈاکٹرز ہیں، وہ سب کے سب میری جسمانی صحت کے لئے شب و روز خیال رکھتے ہیں، وہ بار بار میری صحت کو چیک کرتے رہتے ہیں، میری عاجزانہ دعا ہے کہ ربّ العزت اپنی بے پایان رحمت سے جملہ عزیزان کو نوازے ! آمین یا ربّ العالمین!

 

دعا گو

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

شنبہ ۶، ذی الحجہ ۱۴۱۵ ھ    ۶؍ مئی ۱۹۹۵ء

 

۶۹

 

کلماتِ جامع

(انتساب)

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے:

بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ۔ مجھے جوامعُ الکلِم (مختصر الفاظ میں بہت سے معانی کو سمو دینا ) کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ دوسری حدیثِ شریف میں ہے: اُوْتِیْتُ جَوَامِعِ الْکَلِمِ۔ مجھے وہ باتیں ملیں جن میں لفظ کم ہیں لیکن معانی بہت ہیں (یعنی قرآن جس کے الفاظ تھوڑے اور معانی و مطالب بے شمار ہیں)۔

کَانَ یَتَکَلَّمُ بِجَوَامِعِ الکَلِمِ ۔ آنحضرتؐ ایسے کلمے ارشاد فرمایا کرتے جو بہت ہی جامع ہوتے (یعنی الفاظ تھوڑے اور معانی بہت ہوتے ) اس سے معلوم ہوا کہ “جَوامِعُ الکَلِم”  قرآن اور حدیث دونوں کا نام ہے، کیونکہ حضور اکرمؐ کے جملہ اقوال و افعال قوانین قرآن کے مطابق تھے، جبکہ محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمام اہلِ ایمان کو خود حکم دیتے ہیں کہ: تخلّقوا باخلاق اللہ (تم اوصافِ خداوندی سے آراستہ ہو جاؤ) ۔

 

۷۰

 

قرآن و حدیث کی مذکورۂ بالا جامعیت میں بطورِ خاص تاویلی حکمت کا اشارہ ہے، کیونکہ جوَامِعُ الکَلم کے  معانی سے تاویل الگ نہیں ہو سکتی، جبکہ قرآنِ حکیم میں تاویل کا مضمون زبردست اہمیت کا حامل ہے، آپ ان تمام آیاتِ کریمہ کا بغور مطالعہ کر کے دیکھیں جو تاویل سے متعلق ہیں، آیا قرآنِ پاک کے تاویلی اسرار غیر ضروری ہو سکتے ہیں؟ نہیں، قرآنِ کریم کی تمام ظاہری و باطنی نعمتیں بے حد ضروری ہیں۔

لغات الحدیث، کتاب “الف” ص ۸۵ پر یہ حدیث درج ہے: اَللّٰھُمَّ فقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ وَ عَلِّمہُ التَّاوِیْلَ ۔  یا اللہ! ابنِ عباس کو دین کی سمجھ عطا فرما اور اس کو تاویل سکھلا دے۔ مولا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: مَامِنْ اٰیَۃٍ اِلّاَ وَعَلَّمَنِیْ تَاوِیْلَھَا۔ قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں جس کی تاویل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے مجھ کو نہیں سکھلائی ہو۔

یہ حدیث شریف مثنوی کے دفترِ سوم میں بھی ہے: اِنَّ لِلْقُراٰنِ ظَھْراً وَّ بَطْناً وَ لِبَطْنِہٖ بَطْنٌ اِلیٰ سَبْعَۃِ اَبْطُنٍ۔ یقیناً قرآن کا ایک ظاہر اورایک باطن ہے اور اس کے باطن کا بھی باطن ہے سات باطنوں تک ( اور دوسری روایت میں ستر باطنوں کا ذکر ہے)۔

یہاں تک اس جدید انتساب کا خاص علمی حصّہ ہے، اب میں اپنے بہت ہی عزیز و شفیق دوست الامین (ابنِ صدرالدین ابنِ رجب

 

۷۱

 

علی خاکوانی ) جنرل سیکریٹری آف خانۂ حکمت کا ذکرِ جمیل کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ہمارے کراچی کے سینٔیر ساتھیوں میں سے ہیں، علمی خدمت کی مقدس راہ میں ثابت قدم، حقیقی مومن، امام شناسی کا شیدائی، مولا کا جان نثار، وفادار، محبِ اہلِ بیتِ اطہار (علیہم السّلام) علم و حکمت کے قدردان، کم گو، صابر، پاک باطن، متّقی، عابد، ہوشمند، خیر خواہِ خلق، اور علیٔ زمان (علیہ السّلام ) کے راسخ العقیدت دامن گیر، الحمد للہ، میرے یہ عزیز ایسے بہت سے اوصاف کے مالک ہیں۔

آپ کی خوش اخلاق بیگم محترمہ نسیم بڑی ایماندار اور سلیقہ مند خاتون ہیں، تاریخِ پیدائش: ۲۶ ؍ جون ۱۹۵۳ ء تعلیم: ایم ۔ اے (پولیٹکل سائنس، سماجی خدمات: کونسلر برائے یونین کونسل ’’ کونکر‘‘ ضلع ملیر، سندھ، (۱۹۷۹ تا ۱۹۸۳) پیشہ: بینک میں ملازمت ، عہدہ: پرنسل سیکریٹری برائے مینجنگ ڈائریکٹر، علم کی مقدس خدمت کی نسبت سے ٹو ان ون (TWO IN ONE) یعنی خانۂ حکمت کی بیمثال خدمات کے عظیم ثواب میں یہ دونوں فرشتے (الامین اور نسیم) ایک ہیں، کیونکہ یہ علمی ادارہ دونوں عزیزوں کو بیحد عزیز ہے۔

ان کی بہت ہی پیاری بیٹی نورین (۱۱ سالہ) اور بہت ہی عزیز

 

۷۲

 

بیٹا شاہ نواز (۷ سالہ) ان کے لئے محبتوں اور خوشیوں کے دو زندہ خزانے ہیں، ان شاء اللہ، علم و ہنر کے اس روشن زمانے میں یہ دونوں نیک بخت بچے غیر معمولی ترقی کریں گے، اور پیاری جماعت کی اعلیٰ خدمت اور پاک مولا کی مبارک دعا سے دونوں جہان میں سرفراز ہو جائیں گے، آمین!

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

پیر ۶؍ ذی الحجہ ۱۴۱۵ ھ    ۸؍مئی ۱۹۹۵ء

 

۷۳

 

بابِ علم و حکمت

(انتساب)

اخوانُ الصّفا کا آخری رسالہ “جامعۃ البحامۃ” کے نام سے ہے، اس کے تحقیقی مقدمہ کے ص ۲۲ کے آخر اور ۲۳ کے شروع میں یہ حدیثِ شریف درج ہے: ۔

قیل یا رسول اللہ: من قال لا الٰ الّا اللہ دخل الجنّۃ؟ فقال: نعم . . . من قالھا مخلصاً دخل الجنّۃ۔ قیل لہ: و ما اخلاصھا؟ قال: معرفۃ حدودھا و ادا ء حقو قھا۔ فقیل یا رسول اللہ: ما معرفۃ حدودھا و اداء حقوقھا؟ فقال: انا مدینۃ العلم و علّی ٌ بابھا، فمن اراد ما فی المدینۃِ فلیائ الباب۔

ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے پوچھا گیا یا رسول اللہ: آیا جس نے لا الہٰ الّا اللہ کہا تو وہ بہشت میں داخل ہو جائیگا ؟ حضورؐ  نے فرمایا: ہاں . . . جس شخص نے اخلاص کے ساتھ کہا تو وہ جنت میں

 

۷۴

 

داخل ہوجائے گا۔

آپؐ سے سوال ہوا کہ: اس کا اخلاص کیا ہے؟ آنحضرتؐ نے فرمایا: اس کی حدود کی معرفت اور اس کے حقوق کی ادائیگی۔ پھر پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ: اس کی حدود کی معرفت اور اس کے حقوق کی ادائیگی کیا ہے؟ پس حضرتؐ نے ارشاد فرمایا کہ: میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے، پس جو شخص اس شہر کی چیزوں کو چاہتا ہو تو اسے دروازے سے آنا چاہئے۔

اے رفیقانِ عزیز! آپ کو رسولِ خداؐ کے جوامِعُ الْکَلِم (الفاظِ کثیر الحکمۃ) میں خوب غور و فکر سے دیکھنا ضروری ہے ورنہ سطحی مطالعے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا، اور بہت سے مسائل جوں کے توں رہیں گے، الغرض اس حدیث سے یقیناً یہ معلوم ہوا کہ “لا الٰہ الّا اللہ” کی تفسیرو تاویل بابِ علم و حکمتِ محمدؐ یعنی علیؑ کے توسط سے ممکن ہے، اس حقیقت کی عملی مثال اور تصدیق کے لئے کتابِ وجہِ دین، کلام۔ ۱۱ کے تحت “کلمۂ اخلاص” کے مضمون کو پڑھ لیں جو ۴۷ صفحات پر پھیلا ہوا ہے، یاد رہے کہ علیؑ کا نور ہر زمانے میں موجود ہے، جیسا کہ حضرتِ مولا علی صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہ کا ارشادِ گرامی ہے:۔ ترجمہ: بے شک میرے لئے دنیا میں بار بار آنا اور رجعت کرنا ہے، میں رجعتوں والا، باریوں والا، حملوں والا، سزاؤں والا اور عجیب و غریب دولتوں والا ہوں (کوکبِ دری، خطبۂ رجعیہء

 

۷۵

 

امیرالمومنینؑ ، ص ۵۹)۔

ہمارے بہت ہی عزیز و محترم تا حیات صدر فتح علی حبیب کے جذبۂ ایمانی کا ذکرِ جمیل بڑا شیرین و دلکش ہے، یہ کتنی پسندیدہ صفت ہے کہ آپ خصوصاً ایامِ نوجوانی ہی سے عابدِ شب خیز اور خادمِ جماعت ہیں، کیا اس امر میں عنایتِ ازلی کا بہت بڑا راز پوشیدہ نہیں ہے کہ آپ شروع ہی سے ہمارے عظیم المرتبت پیروں کے پُرحکمت اور روح پرور گنانوں کے عاشق ہوگئے؟ یہ عشق در حقیقت مولائے پاک ہی کے لئے ہے، لہٰذا اس کی نورانی قوّت سے دین کی ہر مشکل آسان ہوگئی، اور فتح علی کو آسمانی فتح و نصرت حاصل ہوئی، کیا یہ کچھ کم ہے کہ خوش الحانی اور گنان خوانی کی صورت میں خنجرِ عشق ہاتھ آگیا؟ اسی عشق کی برکتوں سے فتح علی حبیب جماعت خانہ اور اس میں جو عبادت و خدمت ہے، اس کے عاشقِ صادق ہوگئے۔

صداقت اور حقیقت پر مبنی تعریف و توصیف بہشت کی نعمتوں میں سے ہے، چنانچہ صدر فتح علی حبیب کی نیک خصلت بیگم محترم گل شکر ایڈوائزر جو فرشتگانہ عادات اور بے شمار خدمات میں اپنی مثال آپ ہیں، انہوں نے ادارے کے لئے جو کارہائے نمایان انجام دیئے ہیں، ان کا قصّہ بڑا طویل ہے، تاہم بطورِ نمونہ ان کا ایک عظیم کارنامہ یہ ہے کہ ان کے مبارک گھر میں ۱۹۷۷ء سے لے کر آج تک تقریباً ۱۷۲۸ کلاسیں ہو

 

۷۶

 

چکی ہیں، ہر کلاس کے لئے وقت کا اوسط تین گھنٹوں کا ہوتا ہے، اس حساب سے محترمہ گلِ شکر نے نہ صرف گھر ہی ۵۱۸۴ (پانچ ہزار ایک سو چوراسی) گھنٹوں کے لئے ادارے کے سپرد کر دیا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان کا اپنا اور دیگر اہلِ خانہ کا اتنا قیمتی وقت بھی متعلقہ خدمات میں صرف ہوگیا، آپ جانتے ہیں کہ وقت سیم و زر اور لعل و گوہر سے بڑھ کر ہے، کیونکہ وہ عمرِ عزیز ہے۔

صدر فتح علی حبیب اور ان کی سعادت مند اہلیہ گل شکر ایڈوائزر کے تینوں باصلاحیت اور ہوشمند بچے بڑے پیارے ہیں، یہ نزار، رحیم اور فاطمہ ہیں، جو خوش خلقی اور دینداری میں اپنے نیک نام والدین کے نقشِ قدم پر گامزن ہو رہے ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِ علی) ھونزائی

کراچی

شنبہ ۱۲، ذی الحجہ ۱۴۱۵ ھ    ۱۲؍مئی ۱۹۹۵ء

 

۷۷

 

حکمتِ نباتات

(انتساب)

۱۔ سورۂ نمل (۲۷: ۶۰) میں خوش منظر اور مسرت بخش باغوں کا ذکر آیا ہے (حَدَآئقَ ذَاتَ ۔۔۔۔ ) یہ حسین و جمیل باغات جسم، روح، اور عقل کے تین مقامات پر موجود ہیں، مگر ان میں اعلیٰ و ادنیٰ کا بے انتہا فرق پایا جاتا ہے، ظاہری باغ و گلشن اپنے خوبصورت اور پُربہار پھلوں اور پھولوں کے ساتھ کتنے جاذبِ نظر اور دلکش ہوتے ہیں کہ ہر روز آپ ایسے مناظر کا نظارہ کرتے رہتے ہیں، پھر بھی جی نہیں بھرتا، یہ واقعہ کیوں ایسا ہے؟ کیا آپ نے کبھی اس بارے میں غور و فکر کیا ہے؟ شاید سوچا نہیں ہے۔

۲۔ دنیا کے باغ و بوستان اور ان کی حسین و دل آویز چیزیں زبانِ حال سے کہتی رہتی ہیں کہ اے انسان! اچھی طرح سے دیکھو اور خوب غورکرو کہ ہم صرف مثالیں اور دلیلیں ہیں، اور ممثولات و مدلولات عالمِ روحانی میں ہیں اور اعلیٰ نعمتیں بھی وہی ہیں، اس لئے اصل خوشی و لذّت بھی انہی میں ہے، پس تم مثال سے ممثول اور دلیل سے مدلول کی طرف جانے میں کامیاب ہوجاؤ۔

۳۔ سورۂ نوح (۷۱: ۱۷) میں ہے: اور اللہ نے تم کو بطورِ نبات

 

۷۸

 

زمین سے اگایا۔ نیز حضرتِ مریم سلامُ اللہ علیہا کے بارے میں ارشاد ہے: اور اس کو ایک اچھی نبات کے طور پر اگایا (۰۳: ۳۷) یعنی علم الیقین سے دیکھا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ والدین نباتات میں سے کھاتے ہیں، جس سے نطفہ بنتا ہے، اور اس سے اولاد پیدا ہوجاتی ہے، عین الیقین سے دیکھا جائے تو روحانیّت کے پھل، پھول اور ہر قسم کی حسین ہریالی نظر آتی ہے، یہ اشارہ ہے کہ مومن مرتبۂ روحانیّت پر اپنے آپ کو اگتے ہوئے دیکھ رہا ہے اور اگر حق الیقین سے دیکھا جائے تو مرتبۂ عقل پر بھی زمین سے انسان کے اگنے کی مثال موجود ہے، کیونکہ وہ المَثَلُ الاَعْلیٰ (۳۰: ۲۷)  اور نمائندۂ کُلّ ہے، جس میں تمام مثالیں سمیٹی ہوئی ہیں، اس لئے اس کا عالم گیر اشارہ بڑا عجیب و غریب ہے۔

۴۔ انتساب: نصیر فیملی کلینک اور نصیر میڈیکل سنٹر اینڈ میٹرنٹی ہوم کے مالک جناب ڈاکٹر رفیق جنت علی خانۂ حکمت کے چیف سیکریٹری بھی ہیں اور ہمارے میڈیکل پیٹرن بھی، ان کی باسعادت بیگم محترمہ ڈاکٹر شاہ سلطانہ خانۂ حکمت برانچ کریم آباد کی چیئرپرسن بھی ہیں اور میڈیکل پیٹرن بھی، ہمارے ان دونوں عزیزوں کو خداوند قدوس نے اخلاقِ حسنہ، ایمان، ایقان، تقویٰ، علم و دانش اور دینداری کی دیگر تمام صفات سے سرفراز فرمایا ہے ، الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

 

۷۹

 

۵۔ مکانی بہشت اور لامکانی بہشت (انتساب) کے عنوان کے تحت ان کے دونوں پیارے بچوں کا ذکرِ جمیل ہوچکا ہے، وہ بہت ہی عزیز بچے گلاب خانم رفیق اور شفیق ابنِ رفیق ہیں، ہم سب کو بچوں سے شدید پیار کا تجربہ ہے کہ وہ نورِ نظر اور لختِ جگر ہوا کرتے ہیں، وہ اگر کچھ وقت کے لئے ہماری آنکھوں سے دور ہیں، تو ناخواستہ ہمارے دل  میں دردِ محبت پیدا ہو جاتا ہے، چنانچہ ڈاکٹر رفیق اور ڈاکٹر شاہ سلطانہ اپنے پیارے فرزند (مرحوم) شفیق کو بہت یاد کرتے ہیں جس کی تاریخ پیدائش ۳؍ دسمبر ۱۹۹۲ ء اور تاریخِ وفات ۳؍مارچ ۱۹۹۳ء ہے، اور یہ بھول نہ جانے کی علامت ہے کہ مرحوم شفیق کا پیارا نام موجودہ بچے کو دیکر یادگار بنایا گیا ہے۔

۶۔ یہاں ایک علمی و عرفانی بات یاد آئی: دنیا کی ہر حکومت اپنے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی سے ڈر رہی ہے، کیونکہ لوگ یک طرفہ سوچتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ایک زمانہ وہ بھی آنے والا ہے جس میں سیّارۂ زمین لوگوں سے بھر جائے گا، لیکن انہوں نے خدا کے قانون یعنی سنتِ الٰہی کو نہیں سمجھا، کہ اللہ اگر ایک دور تک اپنی چیزوں کو پھیلا دیتا ہے تو وقت آنے پر ان کو لپیٹتا بھی ہے۔

۷۔ لوگ قانونِ فطرت کے مطابق کثیف سے لطیف ہونے والے ہیں، تب وہ موجودہ غذاؤں سے بے نیاز ہو جائیں گے، ان کو

 

۸۰

 

خوشبوؤں کی شکل میں بہشتی طعام ملنے والا ہے، روحانی سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ناک سے داخل ہوجانے والی لطیف خوراک کی فراوانی ہے، پس اہلِ بہشت، فرشتے ، جنّات وغیرہ یہی غذا سونگھ لیتے ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

بدھ  ۱۵؍ محرم الحرام  ۱۴۱۶ ھ    ۱۴؍جون  ۱۹۹۵ء

 

۸۱

 

آفاق و انفس کے معجزات

(انتساب)

۱۔ اے نورِ عینِ من ! کامل توجہ سے سن لو اور خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے جو جو معجزات مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے ہیں، وہ زمانۂ آدمؑ سے اس طرف انبیاء واولیاء علیہم السّلام کے عالمِ شخصی میں ظاہر ہوتے آئے ہیں، کیونکہ ایسا کوئی معجزہ کبھی ہونے والا ہی نہیں جو سنتِ الٰہی کے مطابق خدا کے خاص بندوں میں رونما نہ ہوا ہو (بحوالۂ آیاتِ قرآنی متعلقہ ٔ سنتِ الٰہی)۔

۲۔ اے نورِ عینِ من! قرآنِ حکیم میں ہر سوال کا جواب اور ہر چیز کا بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹) بشرطے کہ اس کو نورِ معلّم (۰۵: ۱۵) کی روشنی میں پڑھا جائے، یقیناً ربّ العزّت کی سنتِ بے بدل یہی رہی ہے کہ اس تعالیٰ شانہٗ نے جب بھی کوئی آسمانی کتاب نازل فرمائی تو اس کے ساتھ ساتھ نور بھی بھیجا ، یعنی ناطق اور اساس، پھر امام، کیونکہ خدائے سبحان واحد اور احد ہے، اور اس کے بعد تمام اعلیٰ و ادنیٰ چیزیں دو دو ہیں (دیکھو قرآن:   ۵۵: ۵۲،

 

۸۲

 

۱۱: ۴۰، ۱۳: ۰۳، ۳۶: ۳۶)۔

۳۔ اے نورِ عینِ من! تم اللہ، رسولؐ، اور صاحبِ امرؑ کی حقیقی اطاعت کرکے اپنے عالمِ شخصی میں روحانی انقلاب برپا کرو اور معجزات کو دیکھو، کون سے معجزات؟ سَیْرالیَ اللہ و سَیر فی اللہ کے معجزات تاکہ خزانۂ معرفت حاصل ہو۔

۴۔ اے نورِ عینِ من! سائنس کے عجائب و غرائب اللہ تعالیٰ کے وہ معجزے ہیں جو آفاق میں دکھا رہا ہے تاہم ان کی وجہ سے منکرین خدا کی ہستی کے قائل نہیں ہوں گے جب تک کہ خود ان کے نفوس میں معجزات کا ظہور نہ ہو، اس سے معلوم ہوا کہ عالمِ شخصی کے معجزات زبردست مؤثر ہوا کرتے ہیں۔

۵۔ اے نورِ عینِ من! خداوندِ تعالیٰ کا ایک دن ہماری گنتی کے مطابق ہزار سال کا ہوتا ہے ( ۲۲: ۴۷) چنانچہ چھ ناطق اللہ کے چھ دن ہوگئے، جن کا زمانہ چھ ہزار برس کا ہوا، اب حضرت قائمؑ یعنی خدا کا ساتواں دن شروع ہوچکا ہے، جو ہزار برس تک چلے گا، جس میں اجتماعی روحانی انقلاب آنے والا ہے، پس ان لوگوں کی بہت بڑی سعادتمندی ہے جو اس دن کو پہلے ہی سے پہچانتے آئے ہیں۔

۶۔ اے نورِ عینِ من! امام ِزمان صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہٗ مظہرِ

 

۸۳

 

نورِ خدا اور اسمِ اعظم اس معنیٰ میں ہے کہ تم حقیقی معنوں میں اس کی فرمانبرداری کرتے ہوئے روحانی ترقی کا فائدہ حاصل کرو، روحانی علم میں بہت زیادہ آگے بڑھو ، حضرتِ امام ِاقدسؑ کے نیکنام اداروں کی مدد کرو اور خاموش خدمت کرتے جاؤ تاکہ اسی وسیلے سے خدا کی خوشنودی حاصل ہوجائے، جس میں سب کچھ ہے۔

۷۔ انتساب: میرے عم زادہ برادرِ کلان ماسٹر موکھی تولد شاہ صاحب (ابنِ خلیفہ عافیت شاہ ابنِ خلیفہ محمد رفیع) بڑے دیندار، پرہیزگار، شب خیز، عبادت گزار، علم دوست، درویش صفت، پاک باطن، محبِ اہلِ بیتِ اطہار (علیہم السّلام ) اور جماعتِ باسعادت کے حقیقی خادم ہیں، انہوں نے زندگی بھر تعلیمات، مذہبی رسومات، جماعت خانہ اور مولائے پاک کے مریدوں کی پُرخلوص خدمات انجام دی ہیں۔

۸َ ۔ میرے برادرِ بزرگ تولد شاہ اور ان کی اہلیہ نوران کو خداوندِ قدوس نے اولاد و احفاد اور خاندان کے افراد کے خزانوں سے مالا مال ہے، جیسے محمد سلیم ہونزائی ابنِ تولد شاہ، نامور سکالر شہناز سلیم ہونزائی، جو علم و حکمت کے آسمان پر ایک درخشان ستارہ ہیں، مصباح سلیم (دس سالہ) صائمہ سلیم (آٹھ سالہ) اور مکے تاج سلیم (پانچ سالہ) ان شاء اللہ العزیز، یہ نیک بخت بچیاں اپنے اپنے وقت میں عظیم شخصیات میں سے ہوںگی، کیونکہ

 

۸۴

 

یہ روشن زمانے میں ایک اچھے خاندان میں پیدا ہوئی ہیں، الحمد للہ علیٰ مَنِّہٖ و احسانِہٖ۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی ہیڈ آفس

مولانا شنبہ  ۱۸؍ محرم الحرام ۱۴۱۶  ھ    ۱۷؍جون  ۱۹۹۵ء

 

۸۵

 

زرین خدمات اور زرین کلمات

عنوانِ بالا کا مطلب ہے: عزیزوں کی زرین خدمات اور استاد کےزرین کلمات، اصل خدمت کی مثال ایک روشن چراغ کی طرح ہے، تاہم چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے اور خدمت تلے کوئی اندھیرا نہیں، خدمت کا چراغ گویا آفتاب ہے، جس کا کوئی سایہ نہیں، یعنی خدمت اگر مخلوق کی نسبت سے خدمت ہے تو خالق کی نسبت سے عبادت ہے، پس اگر عبادت ہے تو نور ہے، جب نور ہے تو اس کا سایہ نہیں بلکہ ہر طرف روشنی ہی روشنی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جماعتی یا قومی خدمت سے خدا راضی ہوتا ہے، تمام لوگ خوش ہوتے ہیں، خادم خود بھی خوش ہوتا ہے، اس کی فیملی اور آئندہ نسل فخر محسوس کرتی ہے اور خدمت سے کوئی ناراض نہیں ہوتا، مگر ممکن ہے کہ اس سے کوئی نادان و جاہل شخص ناخوش ہوجائے۔

علم خدا کا بنایا ہوا ایک نور ہے، لہٰذا علمی خدمت نورانی خدمت ہے، پس بڑے مبارک ہیں وہ سب عزیزان جو جان و دل سے علم کی ضروری خدمات سرانجام دے رہے ہیں، جیسے ادارۂ

 

۸۶

 

عارف کے صدر محمد عبدالعزیز اور ان کی سعادتمند بیگم کو آرڈینیٹر یاسمین، یہ دونوں عزیزان نورِ علم کے پروانوں میں سے ہیں، انہوں نے بڑی مشقت سے ریکارڈنگ کی مشینیں قائم کیں، اور اپنے پیارے استاد کی تقریباً ہر تقریر، ہر علمی گفتگو، ہر درسِ حکمت، ہر مناجات ہر گریہ و زاری، ہر سوال و جواب ، وغیرہ کو ریکارڈ کیا، اب ایسے کیسیٹوں کی تعداد تقریباً دوہزار ہو چکی ہوگی، علم کے ان دونوں فرشتوں نے اتنا زیادہ کام کیا ہے کہ اس کا قلمی احاطہ کرنا بہت مشکل ہے، میرا عقیدہ ہے کہ ہمارے سب عزیزوں کو ہمارے ادارے کے کل ثواب کی ایک ایک کاپی مل جائے گی، تب معلوم ہوجائے گا کہ علمی خدمت کیا چیز ہوتی ہے، کیونکہ بہشت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہاں ہر شخص کے پاس کل چیزیں موجود ہوتی ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی ہیڈ آفس

بدھ   ۲۲؍ محرم الحرام ۱۴۱۶  ھ    ۲۱؍جون  ۱۹۹۵ء

 

۸۷

 

ایک عجیب پروانہ جو جل کر بھی نہیں مرتا

(انتساب)

یقیناً آپ نے ایسے بہت سے پروانوں کو بارہا دیکھا ہوگا جو شمعِ محفل کے عاشقان خِود سوز ہونے کی وجہ سے ظلمتِ شب سے گریزان ہوتے ہوئے شعلۂ ضوفگن میں بھر پور عشق سے اپنے آپ کو قربانیٔ سوختنی کر دیتے ہیں، اور بس اسی یکبارگی فنائے عشق ہی کے ساتھ ان کی مختصر سی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے، لیکن میں نے اسی دنیا میں چشمِ بصیرت سے کچھ دوسرے عجیب و غریب پروانوں کو بھی دیکھا ہے، جو علم و حکمت کے چراغِ جہان افروز کے شعلۂ عشق و محبت میں بار بار جل جانے کے باوجود بھی نہیں مرتے، بلکہ ان کو ہر بار ایک نئی بابرکت اضافی روح ملتی رہتی ہے، جو حقائق و معارف کی دولت سے مالا مال ہوتی ہے۔

اللہ، رسولؐ اور امام ِزمانؑ کا نورِ اقدس ہی وہ کائناتی روشن چراغ ہے، جس کے مبارک شعلۂ عشق و محبت میں جل کر بحقیقت زندہ ہوجانے والے دانا پروانے یعنی عشاق تمام زمانوں میں پائے جاتے ہیں، الحمدللہ! ہمارے تمام عزیزان (تلامیذ) بھی نورِ مطلق کے عاشقانِ صادق ہیں، منجملہ اس انتساب کی مناسبت سے میں یہاں اپنے بہت ہی عزیز امین کانجی کا ذکرِ جمیل کرتا ہوں:۔

 

۸۸

 

امین کانجی بے شمار خوبیوں کا خزانہ، علم و ادب کا گنجینہ، بندۂ خدا پرست، عابد و ساجدِ شبِ خیز، مناجاتی درویش، محبِ اہلِ بیت علیہم السّلام، خادمِ قوم و جماعت اور خیر خواہِ اسلام و انسانیّت ہیں، آپ کے نیک بخت والدین: نور الدین کانجی اور بیگم زہرا نورالدین کانجی بڑے ایمانی ہیں، امین کانجی کی خوش خصال اورنرم گو اہلیہ تیریز (TAYREEZ) کانجی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ لٹریچر میں بھی بڑی قابلیت رکھتی ہیں، مسٹر امین کانجی اور مسز کانجی کے لئے ان کی دونوں پیاری بیٹیاں: رحمت بیگم اور پریزہ (PAREZA) وسیلۂ محبت بھی ہیں اور باعثِ برکت بھی، دعا ہے کہ خداوندِ قدوس جملہ اہلِ ایمان پر اپنے پاک عشق کی شعاعیں برسائے! آمین!!

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِ علی) ھونزائی

کراچی

جمعرات ۱۵؍ جمادی الثانی  ۱۴۱۶ ھ   ۹؍ نومبر ۱۹۹۵ء

 

۸۹

 

فرشتگانہ خصوصیات

(انتساب)

اے نورِعینِ من! اس بابرکت و پُرحکمت کلیدی آیت جان و دل سے یاد رکھنا اور ہر گز ہر گز بھول نہ جانا جو نورِ منزل اور کتابِ مبین (قرآن) کے دائمی ربط و تعلق کے بارے میں وارد ہوئی ہے (۰۵: ۱۵) تاکہ ان شاء اللہ روحانی ترقی میں آگے چل کر آپ کو ہر مشکل سے مشکل علمی سوال کا معجزانہ جواب از خود مل سکے، کیونکہ نورِ ہدایت اور کتابِ سماوی کا اصل مقصد یہی ہے کہ دینِ کامل (۰۵: ۰۳) کا سرچشمۂ علم و حکمت ہمیشہ کی طرح ایک ہی شان سے جاری و ساری رہے۔

بعض عزیزوں نے ایک بہت ہی عمدہ اور مفید سوال پیش کیا ہے، وہ یہ ہے: “کون کون سی فرشتگانہ خصوصیات ایسی ہیں جو مومنین و مومنات میں کلّی یا جزوی طور پر پیدا ہو سکتی ہیں؟ ”

اس کا مفصل جواب کلامِ الٰہی میں موجود ہے: (الف: ) فرشتوں کی اوّلین خصوصیات یہ ہیں کہ انہوں نے حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کی اطاعت کرکے روحانی علم حاصل کرلیا، کیونکہ قانون یہی ہے کہ خلیفۂ خدا کے سوا اور کہیں سے حقیقی علم نہیں ملتا ہے۔ (ب: ) جو فرشتے درجۂ کمال پر پہنچ چکے ہیں وہ ہر چیز میں شاید علم و حکمت کی تجلّی دیکھتے ہیں۔ (۴۰: ۰۷) اس لئے چھوٹے فرشتوں کی

 

۹۰

 

ہر وقت یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھی علمی ترقی سے اس مقام تک پہنچ جائیں ۔ (ج: ) سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۹ تا ۲۰)  میں عظیم فرشتوں کے ذکر و عبادت اور علم و حکمت کا آفتاب طلوع ہوچکا ہوتا ہے۔

الغرض فرشتوں کی کوئی ایسی خصوصیت اور صفت نہیں جو مومنین و مومنات میں بتدریج پیدا نہ ہو سکے، جبکہ فرشتے اہلِ ایمان ہی کے ترقی یافتہ نفوس (ارواح) ہیں، الحمد للہ ربّ العالمین۔

ملائکہ ارض و سماء میں منتشر ہیں، وہ روحانی بھی ہیں اور جسمانی بھی، چنانچہ ہماری اپنی پیاری کائنات کے پیارے پیارے فرشتوں میں سے چار عزیز فرشتے اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک بڑے وسیع علمی دسترخوان کو چاروں کونوں سے پکڑ کر پھیلا دیا، یہ عزیزان بار بار احسان کرتے رہتے ہیں، دعا ہے کہ ان کو ہر لحظہ حضرتِ امام علیہ السّلام کی پاک دعا حاصل رہے! وہ ہمارے بہت ہی عزیز اور ممد و معاون فرشتے ظہیر لالانی، عشرت رومی ظہیر، روبینہ برولیا، اور زہرا جعفر علی ہیں، جو ہمارے شہرۂ آفاق ادارے میں ریکارڈ آفسیرز کے عہدوں سے سرفراز ہیں، ان شاء اللہ العزیز دنیا میں ہمارے جملہ رفیقوں کی ایک تاریخِ زرین بنے گی اور آخرت میں ایک انتہائی عظیم الشّان کائناتی نامۂ اعمال تیار ملے گا۔

میرے عزیزان جس ملک میں بھی ہیں وہ گویا میرے ساتھ ہیں،

 

۹۱

 

میں سب کو ہمیشہ اپنی عاجزانہ دعاؤں میں یاد کرتا رہتا ہوں، ہم سب مولائے پاک اور پیاری جماعت کے ساتھ ساتھ اسلام اور انسانیّت کی مقدّس خدمت کی خاطر فردِ واحد کی طرح ایک ہوگئے ہیں، جس کے نتیجے میں ہمیں بفضلِ خدا عدیم المثال کامیابی نصیب ہوئی ہے، ہم کو کسی عظیم دوست نے لطفاً اپنے باغ کا ایک شجر بنا دیا ، الحمدللہ! اس کی بہت سی پُرثمر شاخیں پیدا ہوگئیں، ان میں سے ایک “شاخِ عالیۂ لندن” اور ایک “شاخِ عالیۂ شمال” بھی ہیں، مجھے شرق و غرب سے اشارہ مل گیا کہ ان کی یہ تعریف لکھوں۔

شاید دنیا میں صرف ہم ہی وہ لو گ ہیں جو مونوریالٹی (یک حقیقت) پر یقینِ کامل رکھتے ہیں، اور اس کے اسرارِ عظیم کو درجہ بدرجہ ادراک کر لیتے ہیں، جس کی برکت سے “ایک میں سب” کی موجودگی کا انمول خزانہ حاصل ہوا، اس کی بدولت ہم پر یہ حقیقت روشن ہونے لگی کہ ہم میں سے کسی ایک کی کامیابی ہم سب کی کامیابی ہے، علاوہ بران “نظریۂ عالمِ شخصی” ہمارے لئے ایک عظیم علمی انقلاب تھا، جس سے علم و عرفان کے سارے عقدے کھل گئے، اب ہماری روحانی سائنس کا چرچا ہونے لگا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ، آئندہ ہونے والی تحقیق (ریسرچ) سے یہ پتا چلے گا کہ ہماری تمام تر تحریروں کے ظاہر و باطن میں روحانی سائنس کے خزانے موجود ہیں۔ یہ سب کچھ تیرے فضل و کرم سے ہے یا ربّ العالمین! اللّٰھُمَّ

 

۹۲

 

صَلِّ عَلیٰ مُحَمّدٍ وَّ عَلیٰ آلِ مُحَمّدٍ۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

جمعرات ۲۶؍ جمادی الثانی  ۱۴۱۶ ھ   ۲۳؍ نومبر ۱۹۹۵ء

 

۹۳

 

بابِ سوم

دو عظیم استاد

 

۹۵

 

اشعارِ یادگار

بیادِ جناب چیف موکھی محمد دارا بیگ فدائی (مرحوم) ابنِ وزیر محمد رضا بیگ، تاریخِ پیدائش ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۷ ء، تاریخِ وفات ۲؍ جون ۱۹۸۰ء۔

اے شناسائے امامِ روزگار              ساختی مارا زہجرت دل فگار

اے کہ رفتی باچنین جاہ و جلال                گریہ ہا کردند خویشان زار زار

گنجِ علم و دولتِ دین داشتی             اے تو فخرِ ملت و قوم و تبار

عالمِ دوران و استادِ عظم                مایۂ فضل و ہنر دانش شعار

واعظِ کامل فقیہِ نامور                   ذاکرو شاکر ہمہ لیل و نہار

خادمِ دین جان نثارِ شہ کریم                      اے محبِ آن امام ِنامدار

جانِ محفل شمع جمع دوستان                    طالبان رابس شفیق و غمگسار

در وطن بودی چو سروسر بلند                  در زمانہ چون درخت میوہ دار

چشمۂ اخلاق و نہر ِ علمِ دین           در معارف ہمچو باغِ پر بہار

اے سخنہایت بمعنی دل پذیر                     ہمچو شیر و ہمچو شکر خوش گوار

در حق اولاد میکر دی مدام             مہر و شفقت ہائے بے حد و شمار

چترِ عزت برسرِ اہل و عیال           دوستانِ راتکیہ گاہِ استوار

 

۹۷

 

مفخرِ اولاد و شاگرادانِ خویش                  چونکہ ایشانند از تو یاد گار

باداز ما صد سلام اے محترم!                   تو کہ رفتی جانبِ دار لقرار

مردِ عارف راچہ غم گر بگزرد                 از جہانِ بیوفائے تابکار

روحِ عارف بر بُرانِ معرفت                    بررود تا بارگاہِ کرد گار

او فنافی اللہ شود بہرِ بقاء               جسمِ خاکی را مبین اے ہوشیار

جنت جنات نورِ کبریا ست              قصہ ہائے باغہارا درگذار

آنکہ یابد گنجِ مخفی را تمام             اوست حقا در دو عالم کا مگار

اے خوشا روزے کہ از تن بگزریم            تارسد بر جان فروغِ وصلِ یار

 

از قلمِ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

 

۹۸

 

ماسڑ سلطان علی

ماسڑ سلطان علی ابنِ علی فتاح ابنِ عبد اللہ خان ابنِ میر سلیم خان ابنِ خسرو خان ابنِ شہ بیگ ابنِ شہباز (شبوس) ابنِ سلطان ابنِ عیا شو ابنِ مَیوُری تھم۔

محترم ماسٹر سلطان علی صاحب مثالی دیندار، متقی، عابد، عالم، دانا، حلیم، روشن ضمیر، پاک باطن، حقیقت شناس، راسخ العقیدت، اور درویش صفت مومن ہیں، آپ نے عرصۂ دراز تک قوم اور جماعت کے عزیز بچوں کی گرانقدر تعلیمی خدمات سرانجام دی ہیں، اس لئے ہر شخص آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

موصوف سے میری اوّلین ملاقات بوقتِ طالبِ علمی گورنمنٹ پرائمیری سکول بلتت میں ہوئی تھی، آپ بڑے ذہین تھے، اپنے اسباق کو آرام سے یاد کرکے آیۃ الکرسی کی تحریری مشق کرتے ہوئے دیکھا گیا اس سے ظاہر ہے کہ آپ خاندانی طور پر شروع ہی سے قرآن اور امام کے عاشقِ صادق ہیں۔

پھر گلگت سکاؤٹس میں ہم دو طرفہ علم دوستی کی وجہ سے جانی دوست ہو گئے، خدا کے فضل و کرم سے وہاں قلبی دوستوں کا ایک

 

۹۹

 

حلقہ تھا، ایک دن کا ذکر ہے کہ جناب سلطان علی صاحب نے اس بندۂ ناچیز کو کھانا بنوا کر دعوت دی، اور جذبۂ دوستی سے یہ شعر کہا:

خوردہ ہمان بہ کہ با دوستان خوری                    خاک بران خوردہ کہ تنہا خوری

کافی عرصے کے بعد ہونزہ میں ایک پُراثر خواب دیکھا کہ میں ایک گول سفر کی کسی منزل میں ہوں، اتنے میں ماسٹر سلطان علی صاحب پچھلی منزلوں سے پرواز کر کے میرے پاس پہنچ گئے اور وہی شعر کہا ، اس خواب کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ عالمِ شخصی میں جملہ احباب آپ کے ساتھ ہوتے ہیں، نیز یہاں یہ اشارہ بھی ہے کہ جناب ماسڑ سلطان علی جیسے بااخلاق مومن کی علمی خدمات روحانی ترقی کے لئے پرواز کا کام کرتی ہیں، الحمد للہ۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

ذوالفقار آباد۔ گلگت

یکم جون ۱۹۹۵ء

 

۱۰۰

 

بابِ چہارم

جواہرِ بدخشان

 

۱۰۱

 

سید زمان الدین عدیمؔ

شاعرِ بدخشانی

در حضورِ اہلِ دانش نزدِ اربابِ قلم            غیرِ شعر از شاعران چیزی د گراہد نشد

بحضورِ محترم علامۂ دوران شاعرِ شیواز بان سخن سنچِ نکتہ دان نصیر الدین ہونزائی ، از طرفِ سید زمان الدین عدیمؔ شاعرِ بدخشانی گوشۂ شغنان پارچۂ شعر طورِ تحفہ بہ یادگاری نزدش از من بعد از سرِ مرگ باد گارم باشد۔

نصیرالدین بُوَد یک شخصِ دانا        زآب و خاکِ دانش خیز ہنزا

بجز شعر و ادب در فلسفہ ینز                   بود این مردِ دانشمند جویا

شناسد علتِ غانئی عالم                  بقولِ رادِ مردانِ شناسا

یقیناً حتی الامکان شناسد                مدارد محورِ دنیا و عقبا

میانِ فرقہ اسماعیلیہ            بُوَد فضل و کمالش آشکارا

چنین گویند نورِ حسنِ اخلاق           بُوَد از جبۂ رویش ہویدا

برای اہلِ بیتِ دینِ اسلام                 بُوَد این مردِ عارف راہ پیما

بہ سویٔ قبلۂ حاجاتِ عالم               ہمہ وقت و زمان دار دتو لا

کند تصنیف اشعارِ دلاویز               بُوَد یکسر دل انگیز و دلارا

 

۱۰۳

 

کتابش خواندہ ام در متن شعرش                 بُوَد از حمد و نعت و مدحِ مولا

مثالِ دُرِ مکنون فخر نِ علم             بُوَد چون گنج پنہان درسویدا

ہمی خواہد کہ نامش جا و دانہ                   بما ند ثبت در تاریخِ دنیا

بُوَد با حسن ِ خط باشعر جالب                   کنند این ہر دو صنعت جذبِ دلہا

ملا قاتِ چنین شخصِ مفکر            تمامِ عمر بود ازمن تمنا

ولی این آرزو خواب و خیال است              روم در زیرِ خاک امرو زو فرادا

عدیمؔ این شعر خود اندر حضورش             طریقِ ارمغانِ بنمودا اہدا

فرستاد یمت از کوہِ بدخشان            چو لعل این گو ہر قیمت بہارا

بہ چشم ہٰذہٖ اعمیٰ ہنوز ہم                رموزِ عَلّمَ الاسماست اخفا

بشر پر ور کریم ابنِ علے شاہ                   امام ِدین و دنیا رہبرِ ما

 

بااحترام  ۲۵؍ جنوری ۱۹۹۵ ء

 

۱۰۴

 

ترجمہ: ۔

اربابِ قلم یعنی شاعروں کے نزدیک دانش مندوں کی خدمت میں ہدیہ کرنے کے لئے گوہرِ شعر سے زیادہ بہتر کوئی شے نہیں ہوسکتی۔

گوشۂ شغنان کے سید زمان الدین عدیمؔ، شاعرِ بدخشان کی طرف سے علامۂ دوران، شاعرِ شیوا بیان، شیرین زبان وخوش گفتار اور دقیقہ رس مفکر کے حضورِ عالی میں ہدیۂ شعر ارسال کیا گیا ہے تاکہ یہ تحفۂ اشعار یادگار ہے۔

تاریخِ شخصیت کا ایک یادگارباب

۱۔ نصیر الدین، ہونزہ کی دانش خیز (دانش کو پیدا کرنے والی) سرزمین سے ایک دانش مند شخص ہیں۔

۲۔ شعر و ادب کے علاوہ یہ دانش مند شخص فلسفے سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔

۳۔ آپ اس جہان کی انتہائی غرض یعنی مقصودِ آخرین کو اسی طرح جانتے ہیں جس طرح دیگر ہوش مند مردانِ راہِ حق نے اسے سمجھ لیا تھا۔

۴۔ اپنے وسیع علم و تجربات کی بنا پر وہ یقیناً حتی الامکان دنیا و

 

۱۰۵

 

عقبیٰ کے مرکز و محور کو جانتے ہیں۔

۵۔ اسمٰعیلی طریقے کے تمام افراد میں علمی فضل و کمال کی وجہ سے آپ کی شخصیت نمایان ہے۔

۶۔ یوں کہتے ہیں کہ حسنِ اخلاق کا جو نور ہے وہ ان کی پیشانی اور چہر ے سے نمایان ہے۔

۷۔ دینِ اسلام کے اہلِ بیت کی مدح سرائی اور عظمت و بزرگی کے بیان میں یہ عارف (قلمی طور پر) ابھی تک گامزن ہے۔

۸۔ وہ اس محبوبِ حقیقی کا دوست ہے جو دنیا کے تمام لوگوں کا قبلۂ حاجات ہے۔

۹۔ وہ ایسے دل کو لبھانے والے اشعار تخلیق کرتے ہیں جو پوری طرح سے دل کو (ادبی ومعنوی) مسرتوں سے سرشار و بیدار کر دیتے ہیں۔

۱۰۔ مجھے انکا دیوان اشعار پڑھنے کا موقع ملا ہے جو (اپنی معنوی گہرائی میں) سرتا سر حمد و نعمت اور مدحِ مولا کے حسین تصوّرات پیش کرتا ہے۔

۱۱۔ علم کا خزانہ جو چھپے ہوئے موتی کی طرح ہے دل کی گہرائی میں پنہان ایک گنجینے کی مانند ہے۔

۱۲۔ ان کا نام دنیا کی تاریخ میں ایک یاد گار باب کی حیثیت سے ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید رہے گا۔

 

۱۰۶

 

۱۳۔ وہ درستگیٔ خط کے ساتھ پُر کشش شعر کہتے ہیں اور یہی دو ادبی خوبیاں انسانی دلوں کو متوجہ کرتی ہیں۔

۱۴۔ ایسے ایک عالم و مفکر شخص سے ملا قات، میری پوری زندگی کی ایک تمنا رہی ہے۔

۱۵۔ مگر یہ آرزو محض ایک خواب و خیال ہی رہی کیونکہ میں تو آج یا کل دنیا سے چلا جاؤں گا۔

۱۶۔ عدیمؔ نے اپنے ان اشعار کو ان کی خدمتِ عالیہ میں ہدیۂ محبت بنا کر پیش کیا ہے۔

۱۷۔ میں (اشعار و جذبات کے) ان قمیتی موتیوں کو آپ کی طرف کوہِ بدخشان کے بیش بہا لعل کی حیثیت میں بھیج رہا ہوں۔

۱۸۔ “جو اس جہان میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا” (القرآن) کے بموجب بہت سے لوگوں کی آنکھون سے علم الاسماء کے رموز ابھی تک پوشیدہ ہیں۔

۱۹۔ انسانیت کے روحانی و عقلانی مربی کریم ابنِ علی شاہ ہیں، جو امام ِدین و دینا اور ہمارے رہبر ہیں۔

 

با احترام

۲۵؍ جنوری  ۱۹۹۵ء

اردو ترجمہ: ۔ شہناز سلیم ہونزائی

نوٹ: ۔ بدخشان تاجکستان کے ہشتاد سالہ مشہور و معروف

 

۱۰۷

 

بزرگ شاعر سید زمان الدین عدیمؔ (جنکو حکومتِ روس کی طرف سے “صاحبِ جیحون” کا لقب ملا ہے) نے حکیم القلم، لسان القوم ، بابائے بروشسکی علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی سے اپنی عقیدت کے اظہار کے لئے سرزمینِ بدخشان سے ہدیۂ شعر ارسال کیا ہے۔

 

۱۰۸

 

بابِ پنجم

عظیم دوست کے لئے تحفہ

 

۱۰۹

 

سپاسنا مہ

“جانِ عزیز” جیسے پیارے دوست کے نام پر جب مَیں اپنے آپ سے پوچھ لیتا ہوں کہ آیا کبھی یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ کسی انسان کی اپنی جان پیاری جان اندرونی طور پر ایک ہی رہے اور بیرونی طور پر دو جسموں میں مجسم ہو کر عوام کو ورطۂ حیرت میں ڈالے، تو میرے ضمیر سے، جو بار بار فنا کی زد میں آتا رہتا ہے، آواز کی انتہائی دھیمی کیفیت میں جواب ملتا ہے کہ ہاں تمہاری “یک جان اور دو قالب” ہونے کی زندہ مثال جانِ عزیز ہیں، اور تمہارے نزدیک “جان عزیز” کے معنی بھی یہی ہیں۔

جان کی باطنی وحدت اور ظاہری کثرت کے بارے میں اہلِ دانش کو ہرگز کوئی تعجب نہیں، کیونکہ جان کا اصل مطلب روح ہے اور روح تو ازلی و ابدی طور پر ایک ہی ہے، اس لئے کہ وہ حقیقت میں تقسیم نہیں ہوسکتی ہے، اور قرآنِ مقدس کی بہت سی آیات میں اس کا تذکرہ مل سکتا ہے، خصوصاً نفسِ واحدہ ۳۱: ۲۸ کے عنوان کے تحت اس

 

۱۱۱

 

کی یہی حکمت پوشیدہ ہے۔

دنیا کے تمام انسانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے قلبی جذبات کے اظہار کے لئے الفاظ کا انتخاب کریں اور اپنے عزیزوں کو اپنی پسند کے مطابق کسی نام سے پکاریں، چنانچہ مَیں اپنے عظیم المرتبت دوست ڈاکٹر (پی۔ ایچ۔ ڈی) فقیر محمد صاحب ہونزائی کو “جانِ عزیز” کے نام سے پکارتا ہوں، کیونکہ وہ میری اپنی روح ہیں، کیونکہ وہ میرا عکس ہیں اور مَیں ان کا عکس ہوں، اور دو عکس کی حقیقت ایک ہی ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی کتنی عظیم حکمت ہے، کہ انسان پر ایک وہ وقت بھی گزرتا ہے جس میں کہ وہ روح کی ہمہ گیری، جامعیت اور وحدانیّت سے ناآشنا ہوتا ہے، اور ایک یہ وقت بھی آتا ہے کہ اس میں اس کو یقینِ کامل حاصل ہوتا ہے کہ تمام انسانی روحیں آپس میں ازلی وحدت و یگانگت برقرار رکھتی ہیں، خواہ اس حقیقت کو کوئی سمجھے یا نہ سمجھے لیکن حقیقت اپنی جگہ پر حقیقت ہی ہے، اس روحانی وحدت کا عملی ثبوت سب سے پہلے مومنین کے اقوال و افعال سے مل سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک حقیقی مومن اپنے عزیزوں کو اپنی جان اور اپنی روح قرار دینے کے لئے مجبور ہو جاتا ہے۔

 

۱۱۲

 

وحدت کی صفت جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفات میں سب سے عالی اور عظیم ہے، اسی طرح وحدت روحوں کے مقام پر بھی سب سے بڑی اہمیت کی حامل ہے، چنانچہ روحوں کی توحید کا فلسفہ ایسی نرالی شان رکھتا ہے، کہ اس کے جاننے سے یعنی یہ معلوم کرلینے سے کہ ہم مومنین روحانی طور پر نفسِ واحدہ کی طرح ایک ہیں، بے پناہ خوشی حاصل ہوتی ہے۔

“جانِ عزیز” کا ذکرِ جمیل چِھڑتے ہی مسٔلہ توحید کیوں درمیان آگیا؟ اس لئے کہ آپ ہماری پیاری روح (یعنی جانِ عزیز) ہیں، اور اپنی روح کے ساتھ ہماری جو وحدت و سالمیت قائم ہے اس کے بارے میں جاننا ضروری ہے، لہٰذا ہم اپنی اس روحانی وحدت کا اظہار و اعلان کر دینا چاہتے ہیں۔

“جانِ عزیز” کے بارے میں کچھ کہنے سے قبل پیار اور محبت کے تذکرے کیوں شروع ہو گئے؟ اس لئے کہ “جانِ عزیز” خود محبت ہی کا عنوان ہے، یعنی نہ صرف اسم ہی بلکہ مسما بھی الفت و محبت کا موضوع ہے۔

“جانِ عزیز” کی شکرگزاری اور تعریف و توصیف سے پیشتر روح کی باتیں کیوں کی گئیں؟ اس وجہ سے کہ جانِ عزیز ہماری روح ہیں، وہ ہماری روحِ مجسم ہیں، لہٰذا ہم اپنی اسی روح کی وضاحت کر رہے ہیں، نہ کہ کسی اور روح کی۔

 

۱۱۳

 

کیا  یہ تحریر ڈاکڑ فقیر محمد ہونزائی کے سپاسنامہ کی حیثیت سے ہے یا کوئی علمی مقالہ کی حیثیت سے؟ یہ تحریر دونوں حیثیتوں سے ہے جبکہ ہم سپاسنامہ کو چاہتے تھے اور ڈاکٹر صاحب جماعت کے لئے علم کو، کیونکہ ان کو ذاتی توصیف کے مقابلے میں جماعت کو علم مہیا کر دینا زیادہ عزیز ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کو میرے علاوہ جماعت کا باشعور طبقہ بھی “جانِ عزیز”  کہنے لگا ہے۔

جب مَیں حلقۂ احباب میں “جانِ عزیز” کو اسی پیار بھرے نام سے یاد کرتا ہوں تو اس پُرخلوص آواز سے نہ صرف مجھے حقیقی خوشی اور راحتِ روح ہوتی ہے بلکہ تمام دوستوں کو بھی اس سے مسرت و شادمانی کی خوشبو محسوس ہو جاتی ہے، اور ان کے چہروں پر تصدیق و تائید کی روشنی نمودار ہونے لگتی ہے۔

فقیر صاحب عادات و اطوار اور اخلاق و کردار کے حقیقی معنوں میں ایک نورانی فقیر ہیں، ان کو مادّی دولت کی ذرا بھی طمع نہیں، مگر وہ علم و عرفان کے بادشاہ ہیں، کیونکہ جو بصیرت ان کو عطا ہوئی ہے وہ کسی کو نہیں ملی ہے۔ کتاب شناسی کے میدان میں جو تجربہ ان کو حاصل ہوا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور جتنا عزمِ عمل آپ میں ہے وہ کہیں بھی نہیں۔

 

۱۱۴

 

آپ کے آباو اجداد نے علمی خدمت کے سلسلے میں بزرگانِ دین کی انتھک خدمات انجام دی تھیں، اور ہمیشہ وہ پیر و بزرگ حضرات دعا فرمایا کرتے تھے، جس کے نتیجے میں خداوند تعالیٰ نے علم و فضل اور ایمان و ایقان کا یہ عظیم خزانہ اس خاندان میں سے پیدا کر دیا، سو کس قدر خوش نصیب ہے وہ خاندان جس کا جانِ عزیز چشم و چراغ ہیں۔

آپ خاندانی طور پر بدرجۂ اتم دین سے وابستگی رکھتے ہیں، آپ ایمانِ کامل اور اخلاقِ حسنہ کے قابلِ تقلید نمونہ ہیں، آپ سخت محنت اور کامیابی کی ایک بہترین زندہ مثال ہیں، آپ امامِ عالی مقام کے علمی لشکر کے ایک نامور سردار ہیں، اور بڑی خوشی کی بات ہے کہ ان تمام خوبیوں کے باوجود ان کو ذرا بھی فخر نہیں، وہ ایک حقیقی درویش کی سی زندگی گزار کر امام اور مذہب کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔

جانِ عزیز دینی اور دنیاوی علوم اور مختلف زبانوں میں سے جو کچھ جانتے ہیں اگر اس کو تفصیلاً تحریر کیا جائے تو اس کے لئے ایک بڑی ضخیم کتاب لکھنے کی ضرورت ہوگی، لہٰذا میں یہاں جانِ عزیز کے بارے میں صرف چند ہی باتیں لکھنا چاہتا ہوں، امید ہے کہ تھوڑے ہی عرصے میں پوری دنیائے اسماعیلیت ان کی ذاتِ گرامی کی طرف متوجہ ہو جائے گی۔ اور ہر علم دوست فرد ان

 

۱۱۵

 

کے علمی کارناموں سے مستفیض ہوجائے گا۔

جانِ عزیز فقیر محمد ہونزائی کے بارے میں ایک ولایت نامہ بیان کرتا ہوں جو کسی بھی معجزے سے ہر گز کم نہیں ، وہ یہ کہ جس زمانے میں مولانا حاضر امامؑ کی پُرحکمت تشریف اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کے ہیڈ کوارٹرز میں آرہی تھی، تو اس میں تمام اسٹاف اور واعظین نچلی منزل میں انتظار کر رہے تھے اور ہم چند ریسرچ ایسوسیٔٹ اوپر کے آفس میں منتظرِ دیدار تھے کہ یکایک امام ِبرحق صلوات اللہ علیہ کی عالی شان اور باکمال شخصیت دفتر کے دروازے سے داخل ہوئی، اور میں عقیدہ کے سہارے سے نہیں بلکہ یقینِ کامل کی روشنی میں کہتا ہوں کہ اس وقت جانِ عزیز کی انا امام ِزمانؑ کے نور میں عجیب طرح فنا ہوگئی، آپ پر ایک ایسی نرالی شان والی گریہ وزاری کی کیفیت طاری ہوگئی کہ اس کی کہیں مثال نہیں ملتی، مگر شاید ذکر کی انتہائی کامیاب مشقوں میں یہ چیز ملے، جانِ عزیز مرغِ نیم بِسمل کی طرح تڑپ رہے تھے، عشق و محبت اور گریہ میں عاجزانہ تھرتھراہٹ تھی اور یہ تمام کیفیات معجزانہ نوعیت کی تھیں، سرکارِ نامدار نے پوری خوشی اور خوشنودی سے آپ کے حق میں خصوصی دعائیں فرمائیں۔

 

۱۱۶

 

مجھے اب تک کوئی ایسا یگانۂ روزگار اور منفرد و ممتاز شخص نہیں ملا ہے جو ظاہری علوم میں بہت بڑے پائے کا سکالر ہونے کے علاوہ دینی علوم میں بھی ایک خاص اور اعلیٰ مقام رکھتا ہو، بزرگانِ دین کے آثار علمی سے باخبر، ذکر و عبادت کی حقیقی لذّتوں سے واقف اور حقیقت و معرفت کے بھیدوں سے آشنا ہو، جیسے کہ جانِ عزیز ہیں۔

آپ شخصیت کے اعتبار سے ایک ہی ہیں مگر اہمیت اور قدر و قیمت کے لحاظ سے لاکھوں کے برابر ہیں، کیونکہ آپ امام ِروزگار کے ایک لائق روحانی فرزند ہیں، اور اس بات میں کوئی خاص تعجب بھی نہیں، جبکہ آپ پر امامِ عالی مقام کی خصوصی نظر ہے، جبکہ آپ روحوں کی ایک عظیم دنیا ہیں اور جبکہ آپ مرتبۂ اسماعیلیت کا ایک زندہ اور اعلیٰ نمونہ ہیں۔

آپ علم و ادب اور حکمت و معرفت کے ایک گرانقدر خزانے کی حیثیت سے نہ صرف ہونزہ، گلگت، چترال اور مملکتِ پاکستان کے اسماعیلیوں

 

۱۱۷

 

کے لئے باعثِ فخر اور مایۂ ناز ہیں، بلکہ آپ کی عظیم نیک نامی اور علمی شہرت سے سرتاسر عالمِ اسماعیلیت نازان ہے، اور ان شاء اللہ تعالیٰ مستقبلِ قریب میں یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح دنیا پر عیان ہوگی۔

آپ نے اب تک جو مقالے اور رسالے لکھے ہیں اور جتنے ترجمے کئے ہیں، ان سب میں انتہائی تحقیقی اور درست انداز سے کام کیا گیا ہے، چونکہ موصوف نہ صرف ایک محقق کی حیثیت سے علم کے سلسلے میں تحقیقی کام کو زیادہ پسند کرتے ہیں، بلکہ شروع ہی سے آپ کی یہ عادت چلی آئی ہے کہ ہر لفظ کو دقتِ نظر سے دیکھتے ہیں اور ہر پہلو سے اس کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔

آج چونکہ موصوف ڈاکٹر صاحب از راہِ کرم ہمارے درمیان تشریف فرما ہوئے ہیں، لہٰذا آج ہماری ایک یادگار علمی عید کا دن ہے، جس کی وجہ سے ہمارے دلوں میں مسرت و شادمانی کا ایک سمندر موجزن ہو رہا ہے، اور ہم کس قدر خوش نصیب ہیں کہ عالی قدر ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی ہمارے علمی اور روحانی دوست ہیں، چونکہ آپ واقعاً جانِ عزیز ہیں، اس لئے آپ ہم سب کو بہت چاہتے ہیں۔

 

۱۱۸

 

جانِ عزیز! آپ سے یہ امر ہر گز پوشیدہ نہیں، کہ خانۂ حکمت اور عارف کا ایک ہی مقصد و مدعا ہے، لہٰذا ہم پاکستان اور کینیڈا کے ان دونوں علمی اداروں کے ارکان (ممبران) ایک ہی ہیں، اور ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ کے لئے ہم ایک ہی رہیں گے، ایک دوسرے کی عزت کریں گے، اور ایک دوسرے کو اپنی جان کی طرح عزیز رکھیں گے، کیونکہ “جانِ عزیز” کے اسم میں بھی اور مسمّا میں بھی ہمارے لئے یہی سبق رکھا ہوا ہے۔

جنابِ والا! آپ ہمارے خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کے علمی و ادبی طور پر پھلنے پھولنے کے لئے دعا کریں اور اپنی کریمانہ عادت کے مطابق ان دونوں اداروں سے تعاون بھی فرمائیں۔ تاکہ ہم امام ِحیّ و حاضر کے تمام عزیز مریدوں کی کچھ علمی خدمت کر سکیں، آپ کے علم میں یہ بات روشن ہے کہ آج کی دنیا میں اس مقدس خدمت کی سخت ضرورت ہے۔

جناب نیکنام فقیر محمد ہونزائی صاحب! ہم سب اس جمعیت کے افراد آپ سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ہمیشہ متفق و متحد رہیں گے، ہر وقت خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کی کامیابی کے لئے طرح طرح کی قربانیاں پیش کرتے رہیں گے، علمی خدمت کو آگے سے آگے بڑھائیں گے اور حقیقی علم کی روشنی پھیلانے میں بڑی ہمت اور

 

۱۱۹

 

جانفشانی سے کام لیں گے۔

معزز اراکین! آئیے ہم سب مل کر عاجزی اور خلوصِ دل سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور میں دعا گزاریں، کہ وہ کریمِ کارساز اور رحیم بندہ نواز فقیر محمد ہونزائی کو دنیائے اسماعیلیت کی بھر پور علمی خدمت کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ توفیق و ہمت عنا یت فرمائے ! پروردگارِ عالم ان کو دونوں جہاں کی سلامتی، کامیابی اور سرفرازی عطا کرے! آمین یا ربّ العٰلمین !!

 

فقط آپ کا مخلص

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

۲۳؍ اپریل ۱۹۷۸ء

 

۱۲۰

 

بابِ ششم

سنہری تاریخ

 

۱۲۱

 

ہونزہ فلاحی کمیٹی میٹروویل، کراچی

یہ نیک نام اور قابلِ صد ستائش کمیٹی شروع ہی سے ازبس مفید کام کررہی ہے، جس کی سنہری تاریخ اور زرین کارناموں کی تفصیلات کو احاطۂ تحریر میں لانے کے لئے وقت چاہئے، لہٰذا ہم یہاں بطورِ نمونہ صرف ان عالی ہمت عملداروں اور ممبروں کا ذکرِ جمیل کریں گے جو اس وقت منیجنگ کمیٹی میں حسن و خوبی سے کام کر رہے ہیں۔

جناب محمد یاربیگ ابنِ حرمت اللہ بیگ (حیدرآباد، ہونزہ) اس کمیٹی کے صدر ہیں، چونکہ آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ، نہایت قابل اور بڑے دانشمند ہیں، اس لئے آپ کو بی۔ آر۔ اے، کراچی کے نائب صدر ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، نیز میٹروویل والینٹئرز کور کے کیپٹن بھی رہ چکے ہیں، نامور باپ کے باسعادت فرزند کو بہت سی خوبیوں کا ورثہ ملا ہے، آپ صفِ اوّل کے دیندار ہیں، اس لئے ہمیشہ جماعتی خدمت سے بڑی دلچسپی رکتھے ہیں، علم کے

 

۱۲۳

 

بہت بڑے قدردان ہیں، آپ ترقی پسند، نیکوکار، نرم گو، خیرخواہ، پرہیز گار، خدا ترس، عاشقِ مولا، اور صاحبِ فہم و فراست ہیں، آپ کی قدآور شخصیت میں اخلاقی خوبیوں کی مقناطیسی کشش ہے، ایسی صفات اور عمدہ خدمات کی وجہ سے آپ کو اس صدارت کے لئے تیسری بار منتخب کیا گیا۔

جناب سردار خان ابنِ رحمان اللہ بیگ (حیدرآباد، ہونزہ) یہ بہت بڑی سعادت ہے کہ آپ ہونزہ فلاحی کمیٹی کے بانیوں میں سے ہیں، انہوں نے اس کمیٹی کا تصور پیش کیا، آپ ہی کے دور میں یہاں دعوتِ بقا (چراغِ روشن) کی روح پرور رسم کا سلسلہ شروع ہوا، ابتداء میں آپ نے کمیٹی کے کنوینر (CONVENER)کے فرائض انجام دیئے تھے، بعد ازان ان کی اعلیٰ خدمات کے پیشِ نظر فلاحی کمیٹی کے صدر منتخب ہو گئے، آپ بہت سی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔

حضور موکھی احمد حسین ابنِ نیت شاہ (کریم آباد، ہونزہ) اس نیک نام کمیٹی کے نائب صدر کے عہدے پر فائز ہیں، آپ بڑے دیندار اور راسخ العقیدۃ مومن ہیں، دینی علم سے ان کو عشق ہے، پروفیسر ڈاکٹر علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کی کتابوں کو گہرائی سے پڑھتے ہیں، ان کے چہرے پر ہر علمی مجلس میں روحانی بہار کی شادمانی ہوتی ہے، آپ ممبروں اور دیگر تمام دوستوں کی نگاہ میں بڑے

 

۱۲۴

 

معزز ہیں، فرصت کے لمحات کو ذکر و فکر میں گزارتے ہیں، آپ مولائے پاک کے ایک سچے عاشق ہیں، ان کی بے لوث خدمات ہونزہ فلاحی کمیٹی کے لئے ایک بڑا سرمایہ ہیں، آپ دوسرے اداروں سے بھی تعاون کر رہے ہیں، الحمد للہ، جماعتِ باسعادت کو ایسے ہی پاک باطن خادموں کی سخت ضرورت ہے۔

جناب علیم الدین ابنِ علی داد ایکس صوبیدار (حیدر آباد، ہونزہ، حال کونوداس گلگت) آنریری سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں، آپ کا تعلق ایک معزز علمی خاندان سے ہے، علیم الدین صاحب ایک متدین نوجوان، اور بڑا مخلص کارکن ہیں، ان کے دل میں ہمیشہ مذہب اور قوم کا دکھ درد ہوتا ہے، یہ اپنی ذات میں لا تعداد خاموش خوبیوں کی ایک کائنات ہیں۔

جناب عبدالمجید خان ابنِ نعمت خان (حسن آباد، ہونزہ) فینانس سیکریٹری ہیں، آپ خوش خلقی، مومنی، شرافت، حلیمی، اور علم دوستی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہیں، مذہب اور قوم کی ہر گونہ خدمت اپنے لے باعثِ سعادت سمجھتے ہیں، آپ کمیٹی کے اوّلین کارکنوں میں سے ہیں، علم و عبادت کی مجلسوں کے شیدائی ہیں انہوں نے شروع سے ہی کام کیا اور اب بھی کررہے ہیں، الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

 

۱۲۵

 

مینجنگ کمیٹی کے عہدہ داران و ارکان

 

تاحیات چیئر مین                          گلشیر خان               (کریم آباد)

صدر                                         محمد یار بیگ                    (حیدر آباد)

نائب صدر                                 حضور موکھی احمد حسین   (کریم آباد)

سیکریٹری                                  علیم الدین                (کونوداس)

جوائنٹ سیکریٹری                       امیر اللہ بیگ            (کریم آباد)

فنانس سیکر یٹری                        عبد المجید خان         (حسن آباد)

پبلسٹی سیکر یٹری                        جلال الدین               (علی آباد)

رکن                                           گلاب شاہ                (کریم آباد)

رکن                                           محمود عالم              (کریم آباد)

رکن                                           فاروق نجات شاہ       (کریم آباد)

رکن                                           دیدار علی                (اوشی کھنداس)

رکن                                           ندیم اللہ بیگ             (علی آباد)

رکن                                           فرمان علی              (علی آباد)

رکن                                           سرور خان              (علی آباد)

 

۱۲۶

 

ہونزہ ہیلتھ کا پس منظر

ہر چند کہ تمام شمالی علاقہ جات ہر اعتبار سے یا کئی اعتبارات سے ایک جیسے ہیں اور ان میں کوئی بڑا فرق نہیں تاہم نہ معلوم باشندگان ہونزہ کے متعلق یہ داستان کیوں مشہور ہے کہ ان کی صحت اور طویل العمری قابلِ رشک ہوا کرتی ہے اگر یہ بات کسی حد تک سچ ہے تو میرا خیال ہے کہ اس کا زیادہ تر اطلاق وہاں کے پرانے لوگوں پر ہو سکتا تھا، کیونکہ موجودہ وقت میں اہلِ ہونزہ کے رہن سہن اور کھانے پینے میں بڑی حد تک تبدیلی رونما ہوئی ہے، چنانچہ میں اس مضمون میں یہ بتانے کے لئے مخلصانہ کوشش کروں گا کہ قدیم ہونزہ کے لوگ کس قسم کی غذائیں کھایا کرتے تھے، اور کیسے کیسے کاموں میں ان کی شدید ورزش ہوتی رہتی تھی کیونکہ یہ قصہ نہ صرف دلچسپ ہی ہے بلکہ مفید بھی ہے اور اس میں دیگر شمالی علاقوں کی نمائندگی بھی ہے، ان شا ء اللہ ۔

آب و ہوا:       موسمِ سرما میں جہاں پانی کے جم جانے سے یخ بن جاتی ہے، تو یہ نئی یخ کہلاتی ہے، جو بہار آنے کے ساتھ پگھل کر ختم ہو جاتی ہے، لیکن جن پہاڑوں کی بلند چوٹیوں پر

 

۱۲۷

 

بکثرت برف باری سے یخ پیدا ہوئی ہے اور وہ بصورتِ یخ اور گلیشیر (GLACIER)  صدیوں سے موجود ہے، تو اسے پرانی یخ کہا جاتا ہے اور مقام قدیم روایت کے مطابق پرانی یخ اور اس کا پانی بعض بیماریوں کے لئے دوا بتا تے ہیں، چنانچہ ہونزہ کا پانی جہاں (آبادی میں داخل ہونے سے پہلے) صاف اور کسی قسم کی آلودگی کے بغیر ہو وہاں قدرتی طور پر بہترین، شیرین اور صحت بخش اس لئے ہے کہ وہ بہت ہی قریب کے پہاڑوں سے آتا ہے (جو برف، یخ ، گلیشیر اور چشموں کے ذخائز سے مالا مال ہیں) جس کی بہت سی خوبیوں کا اندازہ ایسا شخص ہر گز نہیں کرسکتا، جس نے ہونزہ سے باہر کبھی قدم نہ رکھا ہو، مگر ہاں، وہ آدمی ضرور ہونزہ کے پانی کی قدرو قیمت کو خوب جانتا ہے جس نے کم سے کم کراچی تک سفر کیا ہو، ہونزہ کی فضا اور ہوا بھی اسی طرح قابلِ ستائش ہے کیونکہ وہ ہر قسم کی کدورت و آلودگی سے پاک و صاف ہے، ہونزہ میں بلا شبہ موسمِ سرما کسی قدر سرد ہوتا ہے لیکن وہ مضر صحت نہیں، باقی تین موسم یعنی بہار، تابستان اور خزان کے موسم بے حد خوشگوار ہوتے ہیں، جو صحت و تندرستی کے لئے بدرجۂ اعلیٰ مفید ہیں۔

حرکت و محنت: یہ بات ایک عالمی حقیقت کی حیثیت سے مسلمہ ہوچکی ہے کہ تندرستی اور صحت مندی کی نعمتِ عظمیٰ کے حصول کے لئے ورزش ازبس ضروری اور لازمی ہے، اور ظاہر

 

۱۲۸

 

ہے کہ قدیم اہلِ ہونزہ ابتدأ ہی سے بہت زیادہ محنت و مشقت کرنے کے عادی ہوگئے تھے، پس یہی حرکت و محنت ان لوگوں کی جسمانی صحت کے لئے ایک قدرتی ورزش اور ایک بہترین ایکسرسائز تھی، جسکی برکتوں سے وہ ان تمام بیماریوں سے محفوظ و سلامت رہتے تھے جو شہروں میں بعض لوگوں کو چلے پھرے اور ورزش کئے بغیر پڑے رہنے سے لاحق ہو جاتی ہیں۔

غلہ جات: ہونزہ کے قدیم لوگ گندم کے علاوہ جو، باجرا، باقلا، بَرُ (و) وغیرہ کی روٹیاں بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے، اس لئے ان میں اکثر بیماریاں نہیں ہوتی تھیں، مثال کے طور پر تلخ بَرُ (و) کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اس میں کئی بیماریوں کے لئے دوا ہے، میرا اندازہ یہ ہے کہ شاید اس کا تلخ عنصر مرضِ ذیابیطس (پیشاب میں شکر آنا) کے لئے انتہائی مفید دوا ہے، چنانچہ میرا خیال ہے کہ اگر سائنس کی روشنی میں بَرُ و (BUCK WHEAT) کا طبی تجزیہ کیا جائے، تو عجب نہیں کہ اس کی قیمت گندم سے بھی زیادہ ہو، اور ہر شہر کے حکیم اور ڈاکٹر بعض مریضوں کو بک وِیٹ کیک (بَرُو ے گِیال) کھانے کا مشورہ دیں۔

بھوک ایک زبردست دوا: بار بار کی پُر خوری نہ صرف ایک عادت حیوانیہ کہلاتی ہے بلکہ یہ بہت سی بیماریوں کو بھی جنم دیتی ہے پس یہی حکمت ہے کہ دینِ اسلام نے جُوع (بھوک)

 

۱۲۹

 

کو اتنی بڑی اہمیت کے ساتھ صوم کے عنوان سے ایک بہت بڑی عبادت کا درجہ دیا، اور بھوک ہی ہے جو تقویٰ کی اصل و اساس قرار پائی، اور طب و ڈاکٹری میں پرہیز و فاقہ کے نام سے بہت مشہور ہوگئی، چنانچہ فطری طور پر قدیم ہونزائیوں میں ایک رحمت یعنی بھوک عام تھی، جس کی برکت سے وہ لوگ بڑے تندرست و طاقتور ہوا کرتے تھے، اور پہلوانوں کی طرح جو کچھ کھاتے تھے، وہ اس وقفہ وقفہ کی بھوک اور جسمانی محنت کی وجہ سے بڑے آرام سے ہضم ہو جاتا تھا۔

ترکاریاں: ترکاری سے ساگ پات اور سبزی کا سالن مراد ہے، مجھے یہ بات خوب یاد ہے کہ آج سے تقریباً پچاس ساٹھ برس قبل ہونزہ کے گھروں میں کئی قسم کی عام ترکاریوں کا رواج تھا، جو سب کی سب زودہضم اور مُلَیِّن (قبض کشا) ہوا کرتی تھیں، لیکن افسوس ہے کہ ایک طرف کچھ ترقی اور دوسری طرف طبی شعور و معلومات کی کمی یا بالکل نہ ہونے کے سبب سے ایسی کئی مفید غذائیں متروک ہوتی جارہی ہیں، ترقی کو کون نہیں چاہتا ؟ مالی حالت کی بہتری کس کو عزیز نہیں؟ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا از حد ضروری ہے کہ زمانۂ ماضی کے مقابلے میں آج جس تیزی سے بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے کیا کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟ میرے خیال میں قومی سطح پر ایک ایسا طبی ادارہ ہونا چاہئے، جو ہونزہ کی قدیم غذاؤں وغیرہ پر تحقیق (ریسرچ) کر کے لوگوں کو مفید

 

۱۳۰

 

معلومات فراہم کر سکے۔

سبزیوں کے بارے میں ایک خاص اور ضروری بات یہ بھی ہے کہ مختلف علاقوں کی آب و ہوا اور زمین کی وجہ سے وہاں کی سبزیاں اور پھل مختلف درجات کے ہوا کرتے ہیں: مثلاً اگر ہونزہ کی کوئی سبزی، آلو اور پھل کراچی میں فروخت ہوجائے تو یقیناً لوگوں کو پتا چلے گا کہ یہ چیزیں اپنی اپنی قسموں میں بہت ہی اعلیٰ ہیں، اور ان کی قیمت بربنائے عمدہ غذائیت کچھ زیادہ ہوسکتی ہے۔

تازہ اور خشک میوہ جات:   ہونزہ کا موسمِ تابستان معتدل ہوتا ہے، اس لئے وہاں جو کچھ میوے ہوتے ہیں، وہ بہت ہی عمدہ اور خوش ذائقہ ہوا کرتے ہیں، جیسے توت، خوبانی، سیب، آڑو، ناشپاتی، انگور، اخروٹ، بادام، وغیرہ، ان میں سے بعض کی کئی قسمیں ہوتی ہیں، جس زمانے میں ہونزہ باہر کی دنیا سے بالکل منقطع اور الگ تھلگ تھا، اس وقت یہ سارے پھل بڑی قدردانی اور احتیاط سے چن کر ذخیرہ کر لئے جاتے تھے، ان میں سے کسی چیز کو ضائع نہیں ہونے دیتے ، بعض پھلوں کو سکھا کر اور کچھ کو تازہ حالت میں کئی مہینوں تک بلکہ بعض چیزوں کو سال بھر کی غذا کا حصہ بنالیتے تھے، کیونکہ تنہا غلہ تمام سال کیلئے کافی نہیں ہوسکتا ، لہٰذا خشک و تر میوؤں کا سہارا ضروری ہوتا تھا لیکن بفضلِ خدا اب ایسی کوئی تنگی تو نہیں رہی، جسکی وجہ سے لوگ

 

۱۳۱

 

تُوت اور عام خوبانی کی طرف بہت کم توجہ دے رہے ہیں پھر بھی تُوت کے رس کا قندہ / خندہ ، یا بینگ (اوکھلی میں کُوٹا ہوا تُوتِ خشک) بنایا جا سکتا ہے، اور سالم خشک توت بھی بہت میٹھے ہوتے ہیں، اور ماضی میں خوبانی کی کوئی عام قسم بیگار نہیں تھی، نہ اب بیکار ہو سکتی ہے، جبکہ آپ طب کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں کہ ہر قسم کے پھلوں میں غذائیت بھی ہے اور دوا بھی۔

دودھ اور چھاچھ کی اہمیت: پرانے لوگ چائے جیسی مضرِ صحت چیز سے قطعاً ناواقف اور دور تھے، وہ تو مزہ لے لیکر چھاچھ پیتے تھے، اور سالن کی جگہ پر بھی استعمال کر لیتے تھے، گاہے گاہے جما ہوا دودھ کے ساتھ روٹی کھاتے تھے، ایسی سادہ اور پرقوت چیزوں سے ان کی بہترین صحت بن جاتی تھی، لیکن بسا اوقات دودھ سے مکھن نکالنا ضروری ہوتا ہے، مکھن دو قسم کا ہوتا ہے: گائے کا اور بکری کا، مختلف حیوانات کے دودھ کی خاصیت مختلف ہوتی ہے، آپ طب کی مستند کتابوں میں دیکھیں ، مثال کے طور پر اگر دودھ، چھاچھ، اور مکھن بکریوں کا ہے خصوصاً اس وقت کا جبکہ بکریاں تیر (ییلاق) میں طرح طرح کے پہاڑی پھولوں اور بوٹیوں پر چرتی ہیں، تو پھر ایسے دودھ اور اس کی پیداوار کا کیا کہنا، ایسی چیزیں یقیناً انسانی صحت کے لئے اکسیر کا کام کر دیتی ہیں، حق بات تو یہ ہے کہ ہونزہ کے

 

۱۳۲

 

پرانے لوگ مذکورہ صحت بخش غذاؤں کی برکت سے بڑے تندرست و طاقتور ہوتے تھے، کاش باشندگانِ شمالی علاقہ جات اس زمانے میں بھی اپنی تابستانی چراگاہوں کی قدرو قیمت کو سمجھتے ! کاش زمانۂ ماضی کی طرح اب بھی وہاں بہت ساری بھیڑ، بکریاں ہوتیں! اور تیر (تابستانی چراگاہ) میں موسمِ گل کے پھولوں میں چرائی جاتیں ! تاکہ گلوں کا ادویاتی جوہر دودھ، چھاچھ، اور مکھن میں آجاتا۔

ڈاؤڈو کے فوائد: سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ “ڈاؤڈو” کیا ہے؟ ڈاؤڈو بروشسکی میں ہر ایسی پتلی غذا کا نام ہے ، جو چمچہ سے کھائی جاتی ہے، یا چائے کی طرح پیالے میں گھونٹ گھونٹ کر کے پی لی جاتی ہے، اس غذا کو فارسی اور ترکی میں آلش کہا جاتا ہے، اور انگریزی میں  GRUEL   کہتے ہیں، ڈاؤڈو کی بہت کئی قسمیں ہیں، اور ہر قسم کی اپنی مخصوص و جداگانہ تاثیر و افادیت ہے اور ان کے مجموعی فائدے بھی ہیں، وہ یہ ہیں کہ ڈاؤڈو کھانے سے پیٹ نرم رہتا ہے، قبض کی بیماری نہیں ہوتی، پیاس نہیں لگتی، پسینہ آتا ہے، جس سے سردی اور گرمی کے مضر اثرات نہیں پڑتے، تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے، اور یہ ایک زود ہضم غذا ہے، یہی وجہ ہے کہ جسمانی مریضوں کو کوئی طبی ڈاؤڈو دیا جاتا ہے، چنانچہ ہمارے وہاں پہلے ڈاؤڈو کا رواج بہت زیادہ تھا، جس میں کفایت شعاری بھی تھی اور صحت بھی۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

۶؍فروری  ۱۹۸۸ء

 

۱۳۳

 

سلطان علی آف سلطان آباد

اگر کوئی تعارف کسی حقیقی مومن کا ہے اور وہ شخص قلبی دوست بھی ہے تو بے شک آپ صداقت و حقیقت پر مبنی اس کی تعریف و توصیف کیجئے تاکہ اس نیک عمل سے دو طرفہ خوشی ہو، کیونکہ بہشت میں بھی متّقین و مومنین کی تعریف ہوتی ہے، یہاں شاید آپ عزیزوں میں سے کوئی یہ سوال کرے کہ جنّت میں داخل شدہ مومنین کی مدح سرائی کس کی جانب سے ہوگی اور مداحین کون ہوں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دائمی مہمان نوازی اللہ جلّ شانہ کی طرف سے ہوگی اور وہ خود سبحانہٗ و تعالیٰ اپنے عزیز مہمانوں کی تعریف و توصیف فرمائے گا اور اس کے فرشتے بھی اور حوران و غلمان نیز بہشت کی مخصوص نظم و نثر میں مومنین و مومنات کی ثناء خوانی کریں گے۔

سوال: اگر کوئی متعلّم یہ کہے کہ: “استاذ! آپ کا بیانِ بالا بڑا مسرت انگیز تو ہے ہی لیکن ہمیں اطمینانِ کلّی اس وقت حاصل ہوگا جبکہ آپ اس پر قرآنی دلائل کی کچھ روشنی ڈالیں گے۔” تو

 

۱۳۴

 

میں ذیل کی طرح جواب دوں گا: ۔

جواب:          بہشت خدائے بزرگ و برتر کی نوازشات کی جگہ ہے اس میں اللہ کے نیک بندوں کو ہر وہ نعمت حاصل ہوجاتی ہے جس کی وہ خواہش کرتے ہوں، اور یہ مفہوم قرآنِ حکیم کی کئی آیاتِ مبارکہ میں موجود ہے، مثال کے طور پر چند حوالہ جات یہ ہیں (۱۶: ۳۱، ۲۵: ۱۶، ۳۹: ۳۴، ۴۲: ۲۲ ، ۵۰: ۳۵ ، وغیرہ۔

میں کسی عزیز دوست کو اپنے “کتاب گھر” میں دعوت دینے سے قبل کچھ علم کے سدا بہار پھولوں کو جمع کرتا ہوں تاکہ یارِ جانی کے احترام میں گل پاشی بھی کریں، پھولدان بھی سجائیں، اور عمدہ سے عمدہ ہار بھی بنائیں، کیونکہ ہمارے روحانی باپ کے باغ و چمن میں پھلوں اور پھولوں کی فراوانی ہے، اللہ ہمیں شکر گزاری کی توفیق عنایت فرمائے!

ارشادِ خداوندی ہے کہ: ہر روز اس کی ایک نئی شان ہوا کرتی ہے ( ۵۵: ۲۹) یعنی ہر پیغمبر اور ہر امام خدا کا ایک یوم (روز) ہے، اس میں خدائے پاک کے نورِ اقدس کی تجلّی نئی شان سے ہوا کرتی ہے، یعنی اگرچہ اللہ کا نورِ قدیم ہمیشہ ایک جیسا ہے، اور اس کی ذاتِ پاک میں کوئی تغیر و تبدل ممکن نہیں، لیکن الگ الگ مظاہر میں بمقتضائے زمان و مکان ظہورِ نور کی ایک نئی شان ہوتی آئی ہے۔

قال رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہُ علیہ و آلہٖ وسلمَ اِنّ اللّٰہَ اَمرَنِیْ

 

۱۳۵

 

بِحُبِّ اَرْبَعَۃٍ وَّ اَخْبَرَنِیْ اَنَّہُ یُحِبُّھُمْ قِیْلَ یَا رَسُوْ لَ اللّٰہِ سَمِّھُمْ لَنَا قَالُ عَلِیٌّ مِنْھُمْ یَقُوْلُ ذَالِکَ ثَلٰثاً وَ اَبُوذرٍّ وَالمِقْدَادُ وَسَلْمَاَنُ۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے چار اشخاص سے محبت کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ بھی ان سے محبت کرتا ہے، آپؐ سے پوچھا گیا: ہمیں بتائیں کہ وہ کون ہیں، آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا کہ علی بھی انہی میں سے ہیں، اور ابوذر، مقداد اور سلمان ۔ ( جامعِ ترمذی، جلد: دوم، ابواب المناقب)۔

یہ ہے ایک پسند یدہ تحفۂ علمی برائے عزیزم سلطان علی (فدائی مک) ابنِ موکھی حبِّ علی ( مرحوم) آف سلطان آباد، دنیور، گلگت، سلطان علی کی جائے پیدائش: برو کثشل، کریم آباد ہونزہ ۔

موکھی حبِّ علی ( علی کی محبت) اخلاق و دینداری کے اوصاف کے ساتھ اسم بامسمیٰ تھے، آپ کو فارسی اور بروشسکی میں حمد، نعت، اور منقبت کی تقریباً ۴۰ (چالیس) نظمیں یاد تھیں، جنہیں آپ عشق سے پڑھا کرتے تھے، انہوں نے اپنے فرزندِ جگر بند سلطان علی کی بڑی احتیاط سے اخلاقی اور مذہبی پرورش کی اور اللہ کے فضل و کرم سے توقع سے زیادہ کامیابی نصیب ہوئی کہ یکے بعد دیگرے کئی جماعتی عہدوں پر سلطان علی صاحب فائز ہوگئے، الحمد للہ! اب آپ ہمارے ساتھ بروشسکی ریسرچ میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔

 

۱۳۶

 

آپ کے سوال کا جواب: حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام پہلے انسان ہیں پھر پیغمبر، لہٰذا ان کی جسمانی پیدائش کا ذکر قرآنِ حکیم میں ہر اس مقام پر موجود ہے جہاں کسی استثنا کے بغیر سب انسانوں کے نطفۂ مخلوط یعنی ماں باپ سے پیدا ہونے کا تذکرہ آیا ہے، اس حقیقت کے کم سے کم حوالہ جات یہ ہیں: ۱۶: ۰۴، ۳۶: ۷۷، ۷۶: ۰۲، آپ ان تین مقاما ت پر دیکھیں، اس قانونِ فطرت سے نہ حضرتِ آدمؑ  مستثنا ہے نہ حضرتِ عیسیٰؑ۔

سورۂ مریم میں حضرتِ عیسیٰؑ کی ولادتِ روحانی اور پھر ولادتِ عقلی کا ذکر ہے جو حضرتِ مریمؑ کو عالمِ شخصی میں ہوئی تھی، یہ اسمِ اعظم کے عجائب و غرائب میں سے ہے کہ جب باب یا حجت یا داعی یا ان جیسا کوئی مومن کارِ بزرگ ( بڑا کام) میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس وقت امام برحق علیہ السّلام کا نورِ اقدس ایسے مومن کے عالمِ شخصی میں طلوع ہو جاتا ہے، اس نورِ عقل کے ساتھ بندۂ مومن کے کئی رشتے ہوتے ہیں، مِن جملہ ایک رشتہ یہ بھی ہے کہ امامؑ کی وہ مبارک کاپی (COPY) اس شخص کے بیٹے کے طور پر ہے، کیونکہ اس نیک بخت نے مریمؑ کی طرح بڑی مشقت سے اپنے عالمِ شخصی میں ایک نورانی بیٹے کو جنم دیا، جس طرح ظہورِ جسمانی سے پہلے آنحضرتؐ کا نور اہلِ کتاب کے باب، حجت اور داعی کو عالمِ شخصی میں جلوہ گر ہوا تھا، اور وہ اس زندہ و گویندہ نور کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے تھے (۰۲: ۱۴۶، ۰۶: ۲۰)

 

۱۳۷

 

اگرچہ نور ازل سے ہے۔

ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے وقت پر اہلِ ایمان کے حق میں اللہ کا اسمِ اعظم ہوتا ہے، آپ جانتے ہیں کہ اسم کلمہ ہے اور کلمہ اسم ہے، چنانچہ بقولِ قرآن حضرت عیسیٰؑ اپنے وقت میں خدا کا کلمہ تھا (۰۳: ۴۵، ۰۴: ۱۷۱) یعنی اسمِ اعظم، یہی اسمِ اعظم حضرت ذکریاؑ (امام ِ مستودع) نے بی بی مریمؑ کو دیا، جس میں بحدِّ قوّت حضرت عیسٰےؑ کی روحانیّت و نورانیّت موجود تھی۔

حضرتِ مریم سلام اللہ علیہا اسمِ بزرگ کی خصوصی عبادت اور روحانی ترقی کی وجہ سے اپنے لوگوں سے الگ ہو کر اعلیٰ روشنیوں کے مقام تک پہنچ گئی (مکاناً شرقیاً ۔ ۱۹: ۱۶) پھر اس نے حجاب ہی میں ایک عرصے تک اسرارِ روحانیّت کا مشاہدہ و مطالعہ کیا، اور اب اس پر ابداع و انبعاث کا وقت آیا، پس اللہ تعالیٰ نے فرشتۂ ابداع اس کے پاس بھیجا جو کلّی طور پر آدمی ہی کی طرح تھا (۱۹: ۱۷) ابداعی معجزہ بہت ہی عظیم اور بڑا عجیب ہوتا ہے، اس لئے وہ ڈر گئی (۱۹: ۱۸) فرشتہ نے کہا کہ میں تو تیرے ربّ کا ایلچی ہوں تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دینے کے لئے آیا ہوں (۱۹: ۱۹) حضرتِ مریمؑ اس کلام کی تاویل نہ سمجھ سکی، کیونکہ تاویلی حکمت بڑی دیر سے آتی ہے، حالانکہ اس کی تاویل یہ تھی کہ مریمؑ کے عالمِ شخصی میں مرتبۂ علوی پر عقلی فرزند کی ولادت ہوگی (۱۹: ۲۰)۔

 

۱۳۸

 

فرشتہ نے تاویل کی زبان میں اشارہ کیا کہ وہ عقلی بیٹا ہوگا یہ امر تیرے ربّ کے لئے آسان ہے، اللہ کا یہ معجزہ اور رحمت (یعنی روحانی اور عقلانی ترقی کا یہ مرتبہ) تمام لوگوں کے لئے ممکن ہے بشرطیکہ وہ ایمان لائیں اور ترقی کریں (۱۹: ۲۱) پس وہ اسی حکم سے عقلی طور پر حاملہ ہوگئی اور اسے لے کر بہت دور یعنی روحانی منازل کی انتہا اور عقلانی مراحل کی ابتداء میں یکسو ہوکر پھر ذکر و عبادت کرنے لگی (۱۹: ۲۲) پھر وہ غیر شعوری طور پر نفسِ کلّی کے قریب پہنچ چکی تھی، جہاں اس پر ایک درد والا معجزہ گزر رہا تھا، جس کی تمثیل عورت کے دردِ زہ سے دی گئی ہے اور یہ واقعہ اس کے لئے بڑا پریشان کُن تھا (۱۹: ۲۳) پھر اس کے نیچے سے آواز آئی کہ غمگین مت ہو جا کہ تیرے ربّ نے تیرے نیچے ایک چشمہ بنا دیا ہے، اس کا اشارہ یہ ہے کہ مریمؑ جو باب یا حجت کی مثال ہے وہ مرتبۂ عقل پر پہنچ چکی تھی، اس لئے فرشتے اور علم کے ذرائع اس کے تحت آگئے تھے (۱۹: ۲۴)۔

آواز نے کہا: اور ہلا اپنی طرف کھجور کی جڑ اس سے گریں گی تجھ پر پکی کھجوریں (آپ کو معلوم ہے کہ کسی بھی ظاہری درخت سے پھل گرانے کی غرض سے جڑ کو نہیں ہلاتے ہیں، لہٰذا اس کلام کا تعلق تاویلِ باطن سے ہے، اور وہ گوہرِعقل کی مثال ہے، جس میں ہر مثال و ممثول جمع ہے، اور اسی میں حضرتِ عیسٰیؑ کی ولادتِ عقلی کا اشارہ

 

۱۳۹

 

بھی ہے، ۱۹: ۲۵ ) اب کھا اور پی اور اپنی آنکھ ٹھنڈی رکھ (یعنی تاویل و تنزیل دونوں سے فائدہ اٹھا کر خوشی حاصل کر لے) پھر اگر تو دیکھے کوئی آدمی تو کہیو میں نے رحمان کے لئے روزہ رکھا ہے سو بات نہ کروں گی آج کسی آدمی سے (یہ حقیقت ہے کہ تاویل کے آنے سے قبل روحانیّت و عقلانیّت کی باتیں نہیں کی جاتی ہیں، اور تاویل کسی آسمانی کتاب سے متعلق ہوا کرتی ہے ، ۱۹: ۲۶)۔

پھر لائی اس کو (عالمِ شخصی میں) اپنی قوم کے پاس اس کے معجزات حفظ کر کے، وہ اس کو کہنے لگے اے مریم یہ چیز جھوٹ ہے (یعنی یہ پیغمبر نہیں اور تو جھوٹ بولتی ہے، ۱۹: ۲۷) اے ہارون کی بہن تیرا باب برا آدمی نہ تھا اور نہ تیری ماں سرکش تھی (انہوں نے معجزۂ ابداع کو نہیں سمجھا، اس لئے الزام لگایا کہ تو نے کسی غیر سے ناجائز تعلیم لی ہے اور یہ اسی کی پیداوار ہے، ۱۹: ۲۸) پھر اس نے فرزندِ عقل کی طرف اشارہ کیا (کہ یہ تم کو بتائے گا) وہ لوگ بولے کہ ہم کیونکہ بات کریں اس طفل سے جو مہد میں ہے (یعنی نوزائدہ ہے، ۱۹: ۲۹) تب حضرتِ عیسٰیؑ کے نورِ عقل نے مریم کے عالمِ شخصی میں طفل کی آواز میں کلام کیا، جیسا کہ قرآنِ حکیم (۱۹: ۳۰ تا ۳۴) میں ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

نوٹ: متی کی انجیل ، باب ۱، آیت ۱۸ تا ۲۵ کو بھی پڑھ لیں۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

منگل ۱۶؍ ذیل الحجہ ۱۴۱۵ ھ   ۱۶؍ مئی ۱۹۹۵ ء

 

۱۴۰

 

گلدستہ ای از گلستان

میرے علمی عزیزان صدر فتح علی حبیب، ایڈوائزر گل شکر فتح علی، صدر محمد عبدالعزیز، کوآرڈینیٹر یاسمین محمد، اور دیگر عملداران و ہمہ ارکان کو جذبۂ آسمانی سے یاعلی مدد کہتا ہوں، اور تمام عزیزوں کو مناجاتی شکر گزاری کے لئے دعوت دیتا ہوں کہ خداوندِ قدوس کے فضل و کرم سے ہونزہ میں بھی ہمارے ادارے کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی، مولائے پاک کے مقدّس اداروں اور تمام افرادِ جماعت نے جان و دل سے تعاون کیا، مبارک ہو!

اس بابرکت تقریب کی تفصیلات بعد میں ارسال ہوں گی ، امید ہے کہ اس کامیابی سے ہمارے تمام دوستوں کو بیحد خوشی ہوگی، گلگت اور ہونزہ کے عزیزوں نے بہت کام کیا ہے، آپ ان کی مزید ترقی کے لئے دعا کریں، عزیزم غلام قادر بیگ میرے چیف ایڈوائزر تو چشمِ بد دور!

چیف میڈیکل پیٹرن ڈاکٹر زرینہ حسین علی (مرحوم) ریکارڈ آفیسر روبینہ برولیا، اور ریکارڈ آفیسر زہرا جعفر علی نے ہمیشہ

 

۱۴۱

 

کی طرح اس دفعہ بھی اپنے استاذ کی بہت خدمت کی ہے میں جان و دل سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ہم نے راولپنڈی میں روبینہ اور زہرا سے آپ کے لئے کچھ علمی باتیں تحریر کرادی ہیں اس طریقِ کار سے ڈاکٹر زرینہ بہت خوش تھیں، ان کی نیک بخت بہو ڈاکٹر امینہ مرتضیٰ (کرنل) اب علمی مجلس میں آتی ہیں اور ادارے کے سرپرستِ اعلیٰ کی طبی خدمت بھی کرتی ہیں۔

چیف سیکریٹری ٹو علامہ اور چیف ریکارڈ آفیسر کی گرانقدر خدمات بے مثال بھی ہیں اور بے شمار بھی، الغرض ساتھیوں کی اجتماعی کوشش سے آج کی یہ عظیم الشّان فتح نصیب ہوئی، ان شاء اللہ، ہم دونوں جہان میں شاکرین میں سے ہو جائیں گے۔

یہ نکتہ ہرگز بھول نہ جائیں کہ ہر شے کے ظاہر و باطن میں علم ہی علم ہے اسی طرح چشمِ بصیرت کے سامنے کائنات گویا علم کا سمندر ہے، جس پر اللہ کا عرش قائم ہے، یعنی ہیکلِ نور اور گوہرِ نور، اور اسمِ معظم و مکرم، تاہم اس مقام پر گوہرِ مخفی اور اسمِ اعظم ظاہر ہے۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

ذوالفقار آباد ، گلگت

۲۸؍مئی  ۱۹۹۵ء

 

۱۴۲

 

حسنِ گفتار

اے نورِ عینِ من! (یعنی ہر عزیز) دینداری کا ایک بنیادی وصف حسنِ گفتار ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: و قو لوا للنّاس حُسناً (۰۲: ۸۳) اور لوگوں سے اچھی باتیں کہنا۔ سب سے اچھی اور قیمتی باتیں تو وہ ہیں جو علمِ حقیقی پر مبنی ہوں اور اس کے بعد ان باتوں کی تعریف ہے جو اخلاقی خوبیوں سے بھری ہوتی ہیں، ایسے خطاب سے نہ صرف مخاطَب (سننے والا) شادمان ہو جاتا ہے، بلکہ اس سے خود مخاطِب (بولنے والا) کو بھی خوشی حاصل ہوتی ہے۔

اے نورِ چشمِ من! عقل و دانش والی بات ہی تمام باتوں کی سردار ہے کیونکہ عقل ہی اللہ تعالیٰ کی سب سے معزز و محبوب مخلوق ہے اور عقل ہی کو ہر چیز پر اوّلیت و فوقیّت حاصل ہے، یہی وہ نورِ ازل ہے، جس کی روشنی کا نام عِلم ہے، یعنی عقلِ اوّل کی مثال سورج ہے اور علم کی مثال کرنیں اور روشنی، اس بیان سے معلوم ہوا کہ حسنِ گفتار کا رشتہ علم و عقل سے ہے۔

چین سے آکر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ میں ایک سچا

 

۱۴۳

 

خواب دیکھا، میں اپنے باغ میں رو بقبلہ بیٹھا ہوں، اتنے میں ایک عجیب و غریب نورانی ہستی جو قدسی صفت تھی وہ میری داہنی طرف جلوہ افروز ہوگئی، جس کی غیر مرئی شعاعوں نے میرے باطن میں خوشیوں کا ایک انوکھا طوفان برپا کر دیا، میں نے بے اختیار اس کا نام پوچھا تو اس نے فرمایا: “میرا نام شیرین سخن ہے” یقیناً یہ واقعہ عظیم معجزات میں سے تھا۔

قرآنِ حکیم فرماتا ہے کہ ہر چیز کے ظاہر و باطن میں علم ہے، اور اشارۂ علم کے بغیر کوئی چیز نہیں، پس معجزۂ “شیرین سخن” اسرارِ علم و حکمت کا ایک صندوق ہے جس کا ہر بھید بڑا مسرت انگیز ہے، اسمِ شیرین سخن (جس کا کلام بہت میٹھا ہو) کا اوّلین اشارہ حسنِ گفتار کی طرف ہے، جس کی تعریف ہو چکی ہے۔ الحمد اللہ ربّ العٰلمین۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

ذوالفقار آباد ، گلگت

۳۰؍مئی  ۱۹۹۵ء

 

۱۴۴

 

بابِ ہفتم

درختِ پُرثمر کی شاخیں

 

۱۴۵

 

ہمارا شجرۂ کار

۱۔                خانۂ حکمت ہیڈ کوارٹر کراچی

۲۔                ادارۂ عارف ہیڈ کوارٹر کراچی

۳۔                بی۔ آر ۔ آے ہیڈ کوارٹر کراچی

۴۔ خانۂ حکمت  ریجنل برانچ گلگت

۵۔ ادارۂ عارف  ریجنل برانچ گلگت

۶۔ بی۔ آر۔ اے  ریجنل برانچ گلگت

۷۔ خانۂ حکمت برانچ مسگار

۸۔ حکمت سٹڈی سینٹر نظیم آباد

۹۔ خانۂ حکمت برانچ التت

۱۰۔ خانۂ حکمت برانچ کریم آباد

۱۱۔ خانۂ حکمت برانچ حیدر آباد

۱۲۔ خانۂ حکمت برانچ علی آباد

۱۳۔ بی۔ آر۔ اے برانچ علی آباد

۱۴۔ خانۂ حکمت برانچ مرتضیٰ آباد

۱۵۔ خانۂ حکمت برانچ  نومل

۱۶۔ حکمت سٹڈی سینٹر سلطان آباد

۱۷۔ خانۂ حکمت برانچ  دنیور

۱۸۔ خانۂ حکمت برانچ اوشی کھنداس

۱۹۔ خانۂ حکمت برانچ زیارت خان

۲۰۔ خانۂ حکمت برانچ یاسمین شیر ولی

۲۱۔ خانۂ حکمت وومین ایڈوائزری فورم

۲۲۔ خانۂ حکمت برانچ جٹور کھنڈ

۲۳۔ خانۂ حکمت برانچ نذیر صابر اسلام آباد

 

۱۴۷

 

۲۴۔ بورڈ آف میڈیکل ایڈوائزر اینڈ پیٹرنز

۲۵۔ خانۂ حکمت برانچ کریم آباد کراچی

۲۶۔ خانۂ حکمت برانچ شاہ بی بی کراچی

۲۷۔ عارف برانچ لنڈن

۲۸۔ بی۔ آر۔ اے برانچ لنڈن

۲۹۔ امام داد کریم برانچ فرانس

۳۰۔ عارف برانچ شکاگو امریکہ

۳۱۔ ماہِ محل بدالدین برانچ ڈالاس

۳۲۔ عزیز راجپاری برانچ الاباما

۳۳۔ مرینہ شفین برانچ کولمبیا

۳۴۔ ایڈمنٹن برانچ کنیڈا

۳۵۔ یاسمین کریم برانچ وینکوور

۳۶۔ رابعہ محمدی برانچ واشنگٹن

۳۷۔ یاسمین نور علی برانچ یوسٹن

 

۱۸ ؍ نومبر ۱۹۹۵ء

 

۱۴۸

 

فہرستِ خاندانِ سلطان اسحٰق

صدرِ خانۂ حکمت ریجنل برانچ گلگت

۱۔       بیگم شمیم سلطان اسحٰق       اہلیہ

۲۔       شاہ سلطان                        بیٹی

۳۔       سلیمہ سلطان                      بیٹی

۴۔       انجم سلطان                      بیٹی

۵۔       ادیبہ سلطان                       بیٹی

۶۔       محمد شاکر سلطان              بیٹا

۷۔       ارم سلطان                         بیٹی

۸۔       کرن سلطان                       بیٹی

۹۔       ہیلن سلطان                        بیٹی

۱۰۔    محمد عارف سلطان                      بیٹا

۱۱۔    محمد شریف سلطان                      بیٹا

 

۱۴۹

 

فہرستِ خاندانِ غلام قادر بیگ

چیف ایڈوائزر ٹو علامہ

۱۔       بیگم شیرین غلام قادر بیگ            اہلیہ

۲۔       عرفان قادر بیگ                          بیٹا

۳۔       شہزاد قادر بیگ                           بیٹا

۴۔       زہرا قادر بیگ                             بیٹی

۵۔       سلمان قادر بیگ                           بیٹا

۶۔       رضوان قادر بیگ                        بیٹا

۷۔       عمران قادر بیگ                          بیٹا

 

۱۵۰

 

فہرستِ خاندانِ شیر اللہ بیگ

آنریری سیکریٹری

۱۔       تاج بیگم                           اہلیہ

۲۔       رضوان کریم بیگ              بیٹا

۳۔       کریمہ بیگ                        بیٹی

۴۔       تحسین کریم بیگ                بیٹا

۵۔       تقدس کریم بیگ                 بیٹا

۶۔       افشان بیگ                        بیٹی

 

۱۵۱

 

فہرستِ عہدہ داران و ارکانِ خانۂ حکمت حیدر آباد برانچ

۱       صدر شاہ میر بیگ ابنِ شاہ گل حیات

۲       سیکریٹری حضور موکھی علی حرمت ابنِ رحمت اللہ امان

۳       جوائنٹ سیکریٹری نظام الدین ابنِ تحویل شاہ

۴       خزانچی افسر جان ابنِ مراد خان

۵       ممبر شاہ گل حیات ابنِ دلاور خان

۶       ممبر محمد خان ابنِ برات

۷       ممبر غریب محمد ابنِ محمد خان

۸       ممبر بی بی زبون زوجۂ مرحمت شاہ

۹       ممبر بی بی معراج زوجۂ دولت امان

۱۰     ممبر مہر نمازوجۂ محمد جان

۱۱     ممبر بی بی اپی زوجۂ امان علی

۱۲     ممبر بابر خان ابنِ محبت شاہ

۱۳     ممبر حاجی بی بی زوجۂ بابر خان

۱۴     ممبر مصری بانو زوجۂ محمد حنیف خان

۱۵     ممبر صاحب خان ابنِ شاہ برات

۱۶     ممبر محمد اسحاق ابنِ سخاوت شاہ

 

۱۵۲

 

۱۷     ممبر زرنگار زوجۂ ایثار علی (مرحوم)

۱۸     ممبر عائشہ بیگم (مرحوم) زوجۂ علامہ نصیر الدین

۱۹     ممبر شاہ مراد عرف منشور ابنِ شاہ داد

۲۰     ممبر بی بی نساء زوجۂ دولت شاہ (مرحوم)

۲۱     ممبر زربانو زوجۂ مراد خان

۲۲     ممبر موکھی عرب خان ابنِ سگِ علی

۲۳     ممبر بی بی حفیدہ زوجۂ موکھی عرب خان

۲۴     ممبر علی بیگ ابنِ گری خان

۲۵     ممبر فرمان علی ابنِ ہدایت خان

۲۶     ممبر میر باز ابنِ رضا شاہ

۲۷     ممبر خیر النساء زوجۂ رضاشاہ

۲۸     ممبر صفدر کریم ابنِ مہدی خان

۲۹     ممبر بی بی اشرف زوجۂ سعدن شاہ

۳۰     ممبر باگل حور زوجۂ دادو خان

۳۱     ممبر بی بی اپی زوجۂ دادو خان

۳۲     ممبر بی بی شکرت زوجۂ لطفِ علی

۳۳     ممبر جابر انصار ابنِ حبِ علی

۳۴     ممبر موکھی میر امان (آزاد ممبر) ابنِ سلمان

۳۵     ممبر کامڑیا امان اللہ (آزاد ممبر) ابنِ علی غلام

۳۶     ممبر سینٔر کیپٹن صحت علی ابنِ سگِ علی

 

۱۵۳

 

فہرستِ عہدہ داران و مبرانِ خانۂ حکمت علی آباد برانچ

۱       صدر شاہ جہان ابنِ محمد علی، ڈورکھن

۲       نائب صدر موکھی الیاس خان ابنِ رستم خان، علی آباد

۳       سیکریٹری احمد دین ابنِ بلبل جان (والینٹیٔرز میں صوبیدار) ، ڈورکھن

۴       جوائنٹ سیکریٹری ایوب خان ابنِ سلمان، علی آباد

۵       خزانچی کامڑیا ہمت علی ابنِ نائب شاہ، علی آباد

۶       ممبر حضور موکھی امیر علی ابنِ مغل خان، ڈورکھن

۷       ممبر میرامان ابنِ ہمایون بیگ، علی آباد

۸       ممبر حضور موکھی پہلوان بیگ ابنِ رجب شاہ، علی آباد

۹       ممبر فقیر الدین ابنِ امیر علی، ڈور کھن

۱۰     ممبر علی مدد ابنِ محمد شریف، کریم آباد

۱۱     ممبر بابر خان ابنِ علی منبر، علی آباد

۱۲     ممبر پونو خان ابنِ احمد خان، علی آباد

۱۳     ممبر بیکو ابنِ پونو خان، علی آباد

۱۴     ممبر شیر اللہ بیگ ابنِ ظفر اللہ بیگ، علی آباد

۱۵     ممبر مالک شاہ ابنِ رب نواز، علی آباد

 

۱۵۴

 

۱۶     ممبر کریم خان ابنِ دینار خان، علی آباد

۱۷     ممبر یوسف علی ابنِ پونو خان، علی آباد

۱۸     ممبر شاہ عالم ابنِ قدیر خان، علی آباد

۱۹     ممبر اسلام شاہ ابنِ شاہ عالم ، علی آباد

۲۰     کامڑیا حاجی جان ابنِ خلیفہ احمد علی، ، علی آباد

۲۱     ممبر فدا علی ابنِ سگِ علی، ڈورکھن

۲۲     ممبر سرباز خان ابنِ ثناء خان، ، علی آباد

۲۳     ممبر نائب شاہ ابنِ خلیفہ عافیت شاہ، ، علی آباد

۲۴     ممبر اختر کریم ابنِ رستم خان، علی آباد

۲۵     ممبر سعادت شاہ ابنِ رجب شاہ ، علی آباد

۲۶     ممبر بی بی سونی (مرحوم) زوجۂ نائب شاہ، علی آباد

۲۷     ممبر بی بی زاہدہ زوجۂ کلبِ علی، علی آباد

۲۸     ممبر گل اندام زوجۂ امیر حیات، علی آباد

۲۹     ممبر بی بی میرل زوجۂ درویش، علی آباد

۳۰     ممبر بی بی طیفہ زوجۂ دولت خان، علی آباد

۳۱     ممبر مصری بانو زوجۂ پونو خان، علی آباد

 

۱۵۵

 

فہرستِ عہدہ داران و ممبرانِ خانۂ حکمت برانچ کریم آباد۔ ہونزہ

۱       صدر میر امان ابنِ گوہرامان

۲       سکریٹری مجید اللہ بیگ ابنِ صاحب جان

۳       خزانچی فدا عالم ابنِ غلام شاہ

۴       جائنٹ سیکریٹری امیر حیات ابنِ مومن حیات

۵       ممبر محبوب علی ابنِ مقبول شاہ

۶       ممبر امین خان ابنِ دولت امان

۷       ممبر کریم امان ابنِ میر امان

۸       ممبر اسحاق ابنِ کامل شاہ

۹       ممبر اسلام الدین ابنِ دینار خان

۱۰     ممبر نظیم امان ابنِ میر امان

۱۱     ممبر نیک پرور بنتِ میر امان

۱۲     ممبر گل زادی بنتِ غلام قادر

۱۳     ممبر میر عالم ابنِ غلام شاہ

۱۴     ممبر مظفر ابنِ مبارک شاہ

۱۵     ممبر شیر عالم ابنِ ہدایت شاہ

 

۱۵۶

 

۱۶     ممبر عزیز کریم ابنِ غلام حیدر

۱۷     ممبر کامڑیا غلام حیدر ابنِ علی رحمت

۱۸     ممبر صوبیدار صاحب جان ابنِ بلبل حیات

۱۹     ممبر غلام قادر ابنِ علی منبر

۲۰     ممبر میرزا امان ابنِ علی حرمت

۲۱     ممبر کریم خان ابنِ سگِ علی

۲۲     ممبر موسیٰ خان ابنِ سگِ علی

۲۳     ممبر شیر خان ابنِ ثنا خان

۲۴     ممبر امتیاز علی ابنِ فدا علی

۲۵     ممبر شیر باز ابنِ شیر اللہ بیگ

۲۶     ممبر شیر احمد ابنِ شیر اللہ بیگ

۲۷     ممبر امین ابنِ مولا داد

۲۸     ممبر شیر اللہ بیگ ابنِ دولت شاہ

۲۹     ممبر لعل بیگم زوجۂ گوہر امان

۳۰     ممبر کامڑیانی بی بی نوان زوجۂ غلام شاہ

۳۱     ممبر نور النساء زوجۂ خیرالحیات

۳۲     ممبر کامڑیانی لعل بانو زوجۂ غلام حیدر

۳۳     ممبر مکھیانی لعل بانو زوجۂ مراد شاہ

 

۱۵۷

 

۳۴     ممبر گوہر زوجۂ ولایت

۳۵     ممبر بی بی امینہ زوجۂ صاحب جان

۳۶     ممبر جانان زوجۂ امان اللہ

۳۷     ممبر بنفشہ زوجۂ دینار خان

۳۸     ممبر لعل بیگم زوجۂ میر امان

۳۹     ممبر بی بی چینی زوجۂ کامل شاہ

۴۰     ممبر رشیدہ زوجۂ محبت شاہ

۴۱     ممبر گوہر زوجۂ امان اللہ

۴۲     ممبر شمیم بانو بنتِ مراد شاہ

۴۳     ممبر بی بی تایک زوجۂ امیر باز

۴۴     ممبر مہر بانو زوجۂ شاہ جہان

۴۵     ممبر کریم خان ابنِ میر امان

۴۶     ممبر سلطان یاسین

۴۷     ممبر شاہ عالم ابنِ غلام شاہ

۴۸     ممبر شکر اللہ بیگ ابنِ نظر شاہ

۴۹     ممبر جبار ابنِ عبدالخالق

 

۱۵۸

 

فہرستِ عہدہ داران و ممبرانِ خانۂ حکمت التت ہونزہ برانچ

۱       صدر نصیر الدین القطوشی ابنِ ہاشم شاہ، التت

۲       نائب صدار کامڑیا مجیب اللہ ابنِ غلام رسول، التت

۳       سیکریٹری فدا علی حیدری ابنِ ثناء خان، احمد آباد

۴       ممبر غلام مرتضیٰ ابنِ قنبر علی، التت

۵       ممبر موکھی غلام رسول ابنِ قلندر علی، التت

۶۔       ممبر غلام مرتضیٰ ابنِ قلندر علی، التت

۷       ممبر خلیفہ علی مدد ابنِ علی حرمت، التت

۸       ممبر عالیجاہ ہاشم شاہ ابنِ امیر علی، التت

۹       ممبر الیاس ابنِ خلیفہ علی مدد، التت

۱۰     ممبر اعجاز ابنِ امیر حیات، احمد آباد

۱۱     ممبر نور خان ابنِ علی صفت، احمد اباد

۱۲     ممبر صاحب خان ابنِ امیر حیات، احمد اباد

۱۳     ممبر صوبیدار درویش علی ابنِ قلندر علی، التت

۱۴     ممبر مولا مدد ابنِ رمضان، مومن آباد

۱۵     ممبر موکھی کابل حیات ابنِ محمد جان، مومن آباد

۱۶     ممبر کامڑیا نور الدین ابنِ شاہ برات، مومن آباد

 

۱۵۹

 

۱۷     ممبر فرمان علی ابنِ حکومت شاہ، مومن آباد

۱۸     ممبر رحمت کریم ابنِ غلام مرتضیٰ ، التت

۱۹     ممبر گل زادی بنتِ محمد ظہیر

۲۰     ممبر کوثر بانو بنتِ علیم شاہ

۲۱     ممبر امیر اللہ ابنِ علی جوہر، التت

۲۲     ممبر عباس ولی ابنِ دولت خان، التت

۲۳     ممبر رحمت کریم ابنِ دینار خان، التت

۲۴     ممبر رحمت کریم ابنِ غلام مرتضیٰ، التت

۲۵     ممبر عرفان کریم ابنِ غلام مرتضیٰ، التت

۲۶     ممبر عجاز الدین ابنِ تولد خان، التت

۲۷     ممبر شاہد کریم ابنِ عظیم خان، التت

۲۸     ممبر امین خان ابنِ محمد فقیر، التت

۲۹     ممبر سعید خان ابنِ عبد اللہ جان، التت

۳۰     ممبر سلمان خان ابنِ عبد اللہ جان، التت

۳۱     ممبر کامڑیا بابر خان ابنِ مغل خان، التت

۳۲     ممبر موکھی یاقوت ابنِ سخاوت شاہ، التت

۳۳     ممبر صوبیدار صدر الدین ابنِ حیدر شاہ، التت

 

۱۶۰

 

فہرستِ عہدہ داران و ممبرانِ خانۂ حکمت مرتضیٰ آباد برانچ

۱       صدر عالیجاہ موکھی قلندر شاہ ابنِ سگِ علی

۲       سیکریٹری کامڑیا سلطان علی ابنِ تولد شاہ

۳       ممبر حضور موکھی تولد شاہ ابنِ خلیفہ عافیت شاہ

۴       ممبر حضور موکھی عبداللہ شاہ ابنِ امان علی شاہ

۵       ممبر میر عطا خان ابنِ منیر شاہ

۶       ممبر محمد ایوب خان ابنِ درویش خان

۷       ممبر دولت شاہ ابنِ عافیت شاہ

۸       ممبر نیت شاہ ابنِ بختاور شاہ

۹       ممبر محبوب علی ابنِ تولد شاہ

 

۱۶۱

 

 

فہرستِ عہدہ داران و ممبرانِ خانۂ حکمت نومل برانچ

۱       صدر بلبل جان ولد خلیفہ تیہان شاہ، مدینۃ الکریم

۲       نائب صدر موکھی سلیم الدین ولد نعمت خان، مدینۃ الکریم

۳       جنرل سیکریٹری اسلام الدین ولد سجاد علی، مدینۃ الکریم

۴       جوائنٹ سیکریٹری اسلام شاہ ولد امیر خان، صدر الدین آباد

۵       فائننس سیکرٹیری درویش علی ولد گوہر حیات، صدر الدین آباد

۶       ممبر موکھی شوکت خان ولد درویش علی، امین آباد نمبر ۲

۷       ممبر کامڑیا غلام جعفر ولد خدا یار، صدر الدین آباد

۸       ممبر عنایت اللہ ولد نیت شاہ، مدینۃ الکریم

۹       ممبر خلیفہ مالک شاہ ولد علی شاہ، مدینۃ الکریم

۱۰     ممبر حمایت شاہ ولد سخاوت شاہ، مدینۃ الکریم

۱۱     ممبر خان ولد اکبر خان، امین آباد نمبر ۲

۱۲     ممبر موکھی مالک شاہ ولد نیت شاہ، صدر الدین آباد

۱۳     ممبر نورالدین شاہ ولد عبد اللہ شاہ، صدر الدین آباد

۱۴     ممبر فدا حسین ولد محمد ایوب، صدر الدین آباد

۱۵     ممبر حافظ نجیب اللہ ولد فقیر شاہ، صدر الدین آباد

۱۶     ممبر عاقل شاہ ولد عبادت شاہ، صدر الدین آباد

 

۱۶۲

 

۱۷     ممبر شیر باز ولد غلام رضا، صدرالدین آباد

۱۸     ممبر عبدالرحیم ولد محمد فقیر، صدرالدین آباد

۱۹     ممبر چینی گل زوجۂ مومن حیات، صدر الدین آباد

۲۰     ممبر بی بی زاہدہ زوجۂ علی رہبر، صدر الدین آباد

۲۱     ممبر سلطان خان ولد بہادر، مدینۃ الکریم

۲۲     ممبر نور الدین ولد ثناء کان ، مدینۃ الکریم

۲۳     ممبر نظام الدین ولد رجب علی، مدینۃ الکریم

۲۴     ممبر بی بی بانو زوجۂ بہادر، مدینۃ الکریم

۲۵     ممبر بی بی اشرف زوجۂ سجاد علی، مدینۃ الکریم

۲۶     ممبر شہنشاہ ولد نادر شاہ، امین آباد نمبر ۱

 

۱۶۳

 

AMALDARS FOR IDARAH-I ARIF FOR

THE UNITED STATES OF AMERICA

 

S. NO. NAMES DESIGNATIONS
1 Noordin Rajpari East and West Research Incharge
2 Shamsuddin Juma President for ARIF
3 Karima Juma Secretary
4 Hasan Jesani Vice-President for ARIF
5 Karima Jesani Personal Secretary for Allamah Saheb
6 Akber Ali Bhai Chief Advisor
7 Shamsa A. Ali Bhai Record Officer
8 Badruddin Noorali Advisor for Dallas Branch
9 Mahamahal Badruddin Secretary, and Dallas Branch
10 Aziz Rajpari Advisor and Birmingham Branch
11 Nafisa Aziz Rajpari Record Officer for Birmingham Branch
12 Yasmeen Noorali Record Officer and Houston Branch
13 Nadir Noorali Advisor for Houston Branch
14 Nasreen Namji Secretary for Houston Branch
15 Rozina N. Panjwani Record Officer for Houston Branch

 

۱۶۴

 

16 Khairunnisa Anwar Co-ordinator for Houston Branch
17 Rukhsana Barkat Gilani Co-ordinator for Chicago Branch
18 Karim Issa Secretary for Chicago Branch
19 Aziz Abdul Majeed Panjwani Record Officer for Chicago Branch
20 Rabiya Muhammedi Seattle, Washington Branch
21 Marina Shaffin Columbia Branch
22 Sikander Muhammad Advisor for Austin Branch

 

۱۶۵

 

LIST OF ARIF MEMBERS

1 Noorali Mamji (Houston)

2 Yasmeen Noorali (Huston)

3 Nasreen Noorali Mamji (Huston)

4 Nadirali Noorali (Huston)

5 Yasmin Nadirali Noorali (Huston)

6 Mustafa Momin (Atlanta)

7 Naushadali Panjwani (Huston)

8 Rozina Naushad Panjwani (Huston)

11 Sher Azad Khan (Huston)

12 Khiairunissa Anwar Sarfarani (Huston)

13 Firdaus Alimohammad Momin (Huston)

14 Fatehali Tejani (Huston)

15 Neelofer Ali Tejani (Huston)

16 Saleem Shamsuddin Meghani (Huston)

17 Salima Shahmsuddin Meghani (Huston)

18 Zahir Momin (Huston)

19 Kabiruddin Dhanani (Orlando, Florida)

 

۱۶۶

 

خانۂ حکمت وومین ایڈوائزری فورم

گلگت مرکز

۱۔       چیف ایڈوائزر ڈاکٹر نیلوفر زوجۂ بابر خان

۲۔       سیکریٹری ڈاکٹر یاسمین

۳۔       ایڈوائزر شیرین زوجۂ غلام قادر بیگ

۴۔       ایڈوائزر شمیم زوجۂ سلطان اسحاق

۵۔       ایڈوائزر ثریا زوجۂ صوبیدار میجر شاہین خان

۶۔       ایڈوائزر بی بی صفورہ زوجۂ رحمت علی

۷۔       ممبر فردوس زوجۂ قلندر بیگ

۸۔       ممبر تاج بیگم زوجۂ میر احمد خان

۹۔       ممبر کامڑیانی مہیدہ زوجۂ کامڑیا حاصل مراد

۱۰۔    ممبر ملکہ زوجۂ صفی اللہ بیگ

۱۱۔    سرواندام زوجۂ صوبیدار علی مدد

۱۲۔    ممبر بی بی کنیزہ زوجۂ جمہور خان

۱۳۔    ممبر بی بی چنبیلی زوجۂ علی یار خان

۱۴۔    ممبر شیر نما زوجۂ محمد ایوب

۱۵۔    ممبر تاج بیگم زوجۂ شیر اللہ بیگ

 

۱۶۷

 

۱۶ ۔   ممبر گوہر نگاہ زوجۂ غلام رسول

۱۷۔    ممبر لعل بیگم زوجۂ رستم علی

کونوداس

۱۸۔    ممبر یاسمین زوجۂ ایڈوکیٹ شیر ولی

۱۹۔    ممبر خیرالنسا ءزوجۂ دلدار شاہ

۲۰۔    ممبر شیرین بنتِ دلدار شاہ

۲۱۔    ممبر خورشید بانو زوجۂ کامڑیا محبوب علی

۲۲۔    ممبر سعیدہ نورین زوجۂ کامڑیا محبوب علی

۲۳۔    ممبر بحورجان زوجۂ گری خان

۲۴۔    ممبر چشمان پری زوجۂ شاہ زمان

۲۵۔    ممبر شاہینہ زوجۂ داور شاہ

۲۶۔    ممبر شہزادی زوجۂ عیاش خان

۲۷۔    ممبر لعل بیگم زوجۂ نمبردار زیارت شاہ

۲۸۔    ممبر جانان بانو زوجۂ صوبیدار علی داد

اوشی کھنداس

۲۹۔    ممبر بلقیس بانو زوجۂ صوبیدار یوسف علی

۳۰۔    ممبر شافیہ زوجۂ موکھی نیاز علی

 

۱۶۸

 

۳۱۔    ممبر بانو زوجۂ فداعلی

۳۲۔    ممبر ناجرہ زوجۂ جابر خان

۳۳۔    ممبر بی بی سونی زوجۂ موسیٰ بیگ

۳۴۔    ممبر بی بی نوری زوجۂ علی گوہر

۳۵۔    ممبر بی بی زیبل زوجۂ شاہ گل حیات

۳۶۔    ممبر گل بی بی زوجۂ محمد ضمیر

۳۷۔    ممبر زر شہوار زوجۂ موکھی غلام محمد

۳۸۔    ممبر بی بی روشن زوجۂ باسو۔

 

۱۶۹

 

HIKMAT STUDY CENTER (HSC)

Sultanabad

LIST OF MEMBERS

 

S # Name of Member Status
1 Sultan Ali s/o Hub-e Ali [officer, Co-Operative Ban Convener
2 Hussain Ullah Baig S/o Musa Baig [Suprintendet] Secretary
3 Hajat Aman s/o Niyat Shah [Session Judge] Member
4 Sher Ali s/o Niyat Shah [Tehsildar] Member
5 Khalifa Baz Gul Hayat s/o Shaidul Aman Member
6 Karim Khan s/o Mehboob Ali Khan [Manager Al-Rahim Society] Member
7 Mehboob Ali Khan s/o Mahbat Shah [Headmaster] Member
8 Lal Must (Ex. Kamadia) Member
9 Ishaq Karim s/o Sher Ali Member
10 Kamil Shah s/o Babar Member
11 Ali Madad s/o Bakht Baig Member
12 Nasir ALi s/o Haji Sagi Ali (late) Member
13 Salman Ali s/o Ghulam Qadir Member
14 Nasiruddin s/o Inayat Member
15 Khan Zaman s/o Sirajuddin Member
16 Didar Ali s/o Akbar Khan [student] Member
17 Najibullah s/o Hidayat Shah [Student] Member

 

۱۷۰

 

18 Nazar Baig s/o Hub-e Ali [Shopkeer] Member
19 Sherullah Baig [Shop Keeper] Member
20 Shamim Bano w/o Hussain Ullah Baig [Lady Teacher] Member
21 Bibi Niati w/o Nazar Baig Member
22 Bibi Nouran w/o Inayatullah Member
23 Bibi Najat w/o Nazar Baig Member
24 Bibi Nani w/o Haji Sagi Ali  Late Member
25 Bibi Maryam w/o Inayat Shah Member
26 Bulbul Nisa w/o Akbar Khan Member
27 Mehr Bano w/o Ghulam Qadir Member
28 Shamoli Bibi w/o Ibrahim Member
29 Bibi Ghuncha w/o Ali Mamdad Member
30 Seema Gul d/o Alif Khan Member
31 Sultana Bano w/o Shahid Ali Member
32 Mahjabeen w/o Karim Khan [Lady Teacher] Member

 

۱۷۱

 

HIKMAT STUDY CENTRE (HSC)

Nazimabad (Shishkat)

LIST OF MEMBERS & OFFICE BEARERS

 

Status Name of Member S #
President Huzur Mukhi Ali Dad s/o Mubark Nazar 1
Vice-President Huzur Mukhi Ali Dad s/o Mubark Nazar Khalifa Qanbar Ali 2
Secretary Naib Shah s/o Khuda Aman 3
Treasurer Imam Yar Baig s/o Ali Mojoud 4
J.Secretary Mashghool Alam s/o Haji Baig 5
Member Imam Shah s/o Hashim Shah 6
Member Khosh Baig s/o Ali Maqsad 7
Member Huzur Mukhi Ghulam Qadir s/o Musair Khan 8
Member Titma s/o Hubi 9
Member Karim Khan s/o Dinar Khan 10
Member Afsar Jan s/o Farman Ali 11
Member Amir Hayat s/o Nazar Shah 12
Member Muhammad Alam s/o Haji Baig 13
Member Noor-ul Amin s/o Ghulam ALi 14
Member Alijah Ali Sifat s/o Mehrban Khan 15
Member Rahimullah s/o Qadir Shah 16
Member Qudratullah Baig s/o Gohar Shah 17
Member Ghulam Karim s/o Doust Mohd 18
Member Ahmed Ali s/o Ali Mohammad 19

 

۱۷۲

 

Member Aslam Khan s/o Nadir Aman 20
Member Ṣāḥib Khan s/o Willayat Shah 21
Member Sher Baz s/o Ain ul Hayat 22
Member Kamadia Ghulam Rasul s/o Lagashar Khan 23
Member Ghulam Murtaza s/o Shafa Ali 24
Member Bibi Taihoor w/o Haji Baig 25
Member Mehr Bano w/o Sher Ali 26
Member Aziza Bano w/o Mashghool Alam 27
Member Begoom w/o Farman Ali 28
Member Bibi Gulap w/o Babar Khan 29
Member Bibi Gohar w/o Nazar Shah 30

 

۱۷۳

 

ذوالفقار آباد والنٹئیرز کور میں موجود والنٹئیر کے ناموں کی فہرست

۱       امیر الطاف شاہ                            وائس کیپٹن

۲       عبداللہ بیگ                       صوبیدار

۳       حسن اللہ بیگ                              صوبیدار

۴       عبدالقیوم                 صوبیدار

۵       قمر خان                           فدائی

۶       محمد یونس                       فدائی

۷       حیدر طائی              فدائی

۸       محمد اکرم خان                  فدائی

۹       دلدار علی                          صوبیدار

۱۰     کریم اللہ بیگ           فدائی

۱۱     اسلم میر                            فدائی

۱۲     حوالدار یوسف                   فدائی

 

۱۷۴

 

۱۳     اکرام الحق               فدائی

۱۴     شاہ زمان گوہر                   فدائی

۱۵     مجیب اللہ خان          فدائی

۱۶     غازی جوہر             فدائی

۱۷     دیدار احمد میر                   فدائی

۱۸     کریم خان                فدائی

۱۹     عزیز جان               صوبیدار

۲۰     حوالدار علی اکبر                فدائی

۲۱     ولایت خان              فدائی

۲۲     عبدالامان                فدائی

۲۳     نسیم اللہ                            فدائی

۲۴     غلام سعید               فدائی

۲۵     محمدتاجان               فدائی

۲۶     شکیل احمد              فدائی

۲۷     سید اکرام الدین                   فدائی

۲۸     اکرام میر                 فدائی

۲۹     شیر باز خان            فدائی

۳۰     سر باز خان             فدائی

 

۱۷۵

 

۳۱     شاہ جہان                 فدائی

۳۲     فدا اللہ خان               فدائی

۳۳     ہدایت اللہ                 فدائی

۳۴     میر جہان شاہ           فدائی

۳۵     رحیم خان                فدائی

۳۶     سخی احمد جان                  فدائی

۳۷     عیسےٰ خان              فدائی

۳۸     نصیر احمد                        فدائی

۳۹     ارشاد علی                         فدائی

۴۰     نظیم الامین              فدائی

۴۱     شیر نایاب                فدائی

۴۲     علی احمد                          فدائی

۴۳     شاہ جہان                 فدائی

۴۳     شاہ جہان                 فدائی

۴۴     دیدار علی                         فدائی

۴۵     غلام عباس              فدائی

۴۶     شاہد احمد میر                    فدائی

۴۷     داور شاہ                           فدائی

۴۸     نعیم الدین                 فدائی

 

۱۷۶

 

۴۹     مشروف عالم           فدائی

۵۰     محمد اکرام خان                  فدائی

۵۱     علی احمد                          فدائی

۵۲     اکرام خان                فدائی

۵۳     کریم شیر                 فدائی

۵۴     پیار کریم                          فدائی

۵۵     عرفان قادر بیگ                فدائی

 

۱۷۷

 

بابِ ہشتم

اسپیشل ریکارڈ

 

۱۷۹

 

AKBAR A. ALIBAHI

Chief Advisor for U.S.A.

Akberali Alibhai was born on October 30th, 1964 in Karachi, Pakstan. He is seventh in the line of eight children. His father is a religious man who worked as a manager at the karachi Metropolitan Steel Coporation. His moter, Sakina, was a housewife who give initial religious education to all her children. Akbar was an athlete who played cricked, soccer, hockey, and many other sports as he was growing up. He completed his metriculation from Aga Khan School in first class honor. Later, he completed his intermediate form Premier College in first class. As he turned seventeen, he migrated to the states to be with his brother and pursue further education. In the states, he completed his associates in Business Administration from the University of Illinois. He plans to continue there for his bachelor degree. He also has an associate in computer programming and operations. By profession, he is an insurance agent for metropolitain Life. For recreation, he likes to play different sports. He got his primary religion education from Garden Jamat Khana in Karachi. There he came across, a few of the books written by Allama Saheb which include: Panj Makaala and Sau Savaal. Later in the states, he acquainted with Shamsuddin Juma who introduced him properly to Allama Saheb and his wonderful works. Shamsuddin opened

 

۱۸۱

 

Akber’s eyes to a horizon which was totally new and unknown. Akber met Allama Saheb in 1991. Akbar has been serving the jamat in different capacities for many years. He plans to serve the Imam for many years to come. he replaced Shamsuddin Juma as a chief advisor for Idara-e-Arif for U.S.A. in August, 1993.

 

AkberAli Alibhai

(Chief Advisor for Khanah-e-Hikmat/ Idarah-e-Arif

Chicago Branch, U.S.A)

  1. Aug. 1993

 

۱۸۲

 

SHAMSAH AKBER A. ALIBHAI

Record officer (USA)

Shamsah Akberali Alibhai was born on August 25th, 1971 in Karachi, Pakistan. Her father, Heshamuddin Poonja, was a trader by profession. He was deeply influenced by religion and served the jamat for many years. At the peak of his Khidmat years he was the mukhi of Paanch Baar Saal Majlis. He passed away on September 19th, 1989. Her mother was mukhiani of Paanch Baar Saal Majlis also. She is still serving the jamat in various ways. Shamsah was married to Akberali Alibhai on July 21st, 1990. Her husband introduced her to esoteric Ismailism through the teachings of Nasir Khusraw and Allma Saheb. Currently she is pursuing her bachelor degree in Business Administration from Robert Morris University. By profession she is an institutional trader at Kemper Securities. She is a graduate of Dar-al- Tarbia, a teachers training program instituted by the national Tariqa Board for Ismailis in America. She taught students for three years. She plans to serve the Imam and his jamat for years to come. She is deeply influenced by teachings of Allama Saheb and hopes to someday become a great scholar, so the jamat can benefit from her.

 

Shamsah Akberali Alibhai

(Record officer fro Khanah-e-Hikmat / Idarah-e-Arif

Chicago Branch, USA)

  1. August . 1993

 

۱۸۳

 

Farewell Address to Allama Nasir al-Din Nasir Hunzai

30th August, 1993

Buzurgūār callāmah Ṣāḥib,

Once again through the generosity of heart, in the spirit of Monorealism, I have been asked to give an overview of Ṣāḥib’s visit and during that mention a few words of appreciation, although I always feel who are we to ever show our appreciation really and truly to callāmah Ṣāḥib? English is no doubt an international language, but certainly my capacity and this language are not such to speak about the deep emotions in our hearts, to express our gratitude to  callāmah Ṣāḥib, but nevertheless, with Maūlā’s grace, we will try to put a few things on record.

callāmah Ṣāḥib comes to visit us here this year in June 1993, with an abundance of Barakah. He brought news of the poetry book which he has sponsored financially and in other ways. For the first time in the Northern Areas, a poetry book in which all the sects of Islam participated, has been published with his support. This poetry book is a wonderful example of the bridge building work Ṣāḥib does in the Northern areas of Pakistan. It is a beautifully published book and in it there are seven or eight of Ṣāḥib’s poems as well.

 

۱۸۴

 

Another piece of news which he brought us is that he was appointed on the Editorial Board of a book written by the General of the Northern Areas, General Fazli Ghafūr, who not only asked Ṣāḥib to be a member of the Board, but to also contribute an article for this book, which is not the subject of “Jihād”. Ṣāḥib wrote an article called “Forty Wisdoms of Jihad”, which you will later hear that cabbās Ṣāḥib has translated into English. In this article on Jihād, which some of you have already had a chance to read and which our der friend cazīz edited, he took it away on his annual holiday in order to edit it, in this article Ṣāḥib has presented for the whole world, but particularly for the reading public of Pakistan, because it is in Urdu, he has put in front of people the rich heritage of Islam. He has made points about esoteric Jihād, the Jihādi āmmārah, he has talked about the unity of Muslims, he has talked about how women participated in the Jihād of classical Islam – he has put all those concepts which we hear in the Fārāmīn of Maūlānā Hāẓir Imam and here we have an example of a personality in the present history of Ismailism, who is doing all these things practically and actively in the Northern Areas, which as you know is a volatile area, where there are sectarian difference and here is an Ismaili, and ‘alim, a scholar of the highest calibre, a man who has reached the heights of spirituality, who is setting an example for

 

۱۸۵

 

us, for the whole Jamācat and I know it is in all your hearts that we all pray that one day the whole global Ismacilī Jamācat will recognise Ṣāḥib’s contribution.

Another thing which Ṣāḥib started last year is an annual award to appreciate the work of people in the Northern Areas, towards the culture of the Northern Areas. It was so successful last year that Ṣāḥib and his compatriots decided it should be an annual award. It is going to be called the Āl-Qalam Award and one of the reasons why Ṣāḥib is anxious to return to Pakistan is not because he has no time for us, he has given us more that our fair share, but because this award is due to take place in the month starting the day after tomorrow, which is the month of September 1993. This award is called the Āl-Qalam Award and every year it will appreciate the work of two representatives of the three major communities of the Northern Areas. It is a literary award and it is something which has never happened in the Northern Areas before. I remember when we were there last year, Faquīr, ẓahīr and myself, when the award ceremony was finished, several lecturers of the Sunnī sect came up to me and said that they had come from Lahore and Islamabad and when they came to the Northern Areas, nothing literary was happening there and it felt like a desert, but that the award was the first time anything intellectual or literary had taken place there. Now Ṣāḥib has made it an annual

 

۱۸۶

 

award in which all the amaldars of Khānah-yi Hikmat, Āidārah-yi cārif and the Burushaski Research Academy are very very active in setting up and organising this award, but one personality I would like to mention today is Ghulām Qādir. Ghulām Qādir is a member of Khānah-yi Hikmat and a devoted student of cAllāmah Ṣāḥib. He is a journalist by profession and works for Pakistan radio and the wonderful news we have received recently is that Maūlānā Hāẓir Imām has appointed Ghulām Qādir on the regional Council of Gilgit and we believe Maūlā Bāpā has mentioned his bridge building efforts in this volatile area which we were talking about earlier. It is Ṣāḥib’s teachings which have provided a foundation of Ghulām Qādir to do the work he is doing, just as it is Ṣāḥib’s teaching which have brought each one of us to where we are today, in our conceptual level, in our thinking about our esoteric faith, in our vision for the global Jamācat, in our understanding of what the Imām of the time wishes from each one of us.

All this Ṣāḥib brought with him and you can imagine our excitement. Ṣāḥib remained here for sometime and then he went to France and as Chairman Amin Kotadia has mentioned, there is no word for the visit to France, except that it was miraculous. It has really revolutionised everything because in Paris, Ṣāḥib went to Jamācat khānah in Rue de Prony, met some camaldārs there and the article which he has written spe-

 

۱۸۷

 

cially for the visit to France, “forty wisdoms of Gratitude”, which was overnight translated into French by cabdul Raḥmān especially for the French Jamācat, was distributed to the members of the Jamācat, who not only wanted it in French, but also in English. There again you see that Imām’s ḥidaīat about learing English was well as the mother tongue. that is happing right here in the work which we are fortunate to be part of and while in France, Ṣāḥib had a four hour meeting with cālījāh Muhammad Keshawji, the International Co-ordinator of all the ṯarīqah Boards of the world. Ṣāḥib had lunch with him and the Chairman of the ṯarīqah Board of France, attended a gathering at the home of Varasiani Gulzar muller, which is near Hāẓir Imām’s residence in Chantilly. Her home is also the Jamācat khānah of Chantilly. There were many camaldārs there, who work for Hāẓir Imām and there Ṣāḥib congratulated them for working in the ẓāhirī huẓūr of the Imām. One of them said that certainly they were very lucky in the ẓāhirī sense, but that Ṣāḥib was the lucky one from the bāṯinī aspect.

There again we always have to keep this in mind that there is the ẓāhirī aspect and the bāṯinī aspect. May be sometimes we do not have too much of the zahir, we may fell that maybe we are always in the bāṯin and we do not get much outward recognition, but we have to understand that this is all part of the rūhānī struggle, for which Maūlā has chosen us

 

۱۸۸

 

under the leadership, under the tutorship of callāmah Ṣāḥib.

The other highlight of the Paris visit was meeting with the Ambassador of Pakistan. All the groundwork was done by our beloved karim Imamdad, who as you all know, works at the Pakistan Embassy. callāmah Ṣāḥib during his meeting with the Ambassador presented him with a copy of “Qur’anic Healing”. He at once said that he would forward it to His Highness the Aga Khan with his comments on it. When Ṣāḥib was away in America, we had a telephone call from karim Imamdad, who said that Ambassador had met Hāẓir Imām at a gathering and had said to him: ” I am going to send you “Qur’anic Healing”, written by one of your followers”, and Hāẓir Imām replied that he already has the book –  so this also is wonderful news.

All these precious gems I know when our spiritual brothers and sisters of Khānah-yi Hikmat and Āidārah-yi cārif in Karachi, Gilgit and Hunza, here then will greet them, with the precious pearls of tears as mihmānī in the huẓūr pur nūr of Maūlānā Hāẓir Imām.

Another thing which Ṣāḥib did was an interview with Madame Fremont in Paris. She knows Burushaskī and has done her doctorate from Sorbonne university in Paris and in her work for the doctorate, she had translated one of Ṣāḥib’s poems into French –  she recited it for the radio

 

۱۸۹

 

interview as part of it. I hope I have not left anything important out of this verbal description.

On the way to Chantilly, to Varasiani Gulzar’s house, the driver of Ṣāḥib’s car lost his way and suddenly they found themselves outside Hāẓir Imām’s residence. Ṣāḥib got out of the car and did a prostration in front of the gates to Maūlā’s house. The security guards were so amazed they opened the gates and Ṣāḥib walked some steps up the path and then returned to the car. This is an example of love in the bāṯin of an exemplary mūmin for the Imām, that we do not have to only yearn for and work for ẓāhirī dīdār. Being there on the doorstep, Ṣāḥib did not insist on ẓāhirī dīdār, that he did his prostration and returned form there.

Then Ṣāḥib came back and went to United States of America. now this is where I should say a few words  of appreciation because I feel it in my bones, in my blood and in my arteries, Ṣāḥib is seventy six year old. After and hours drive to Gatwick airport, he made a ten-hour flight to in Houston and as soon as he landed in Houston, in one week there were nine gatherings with an average of forty people at tending each. Then he proceeeded to Dallas, again a series of rūhānī majālis, cilmī majālis, esoteric, haqiqatī knowledge, recognition of Imām, recognition of soul. In Chicago another round of majalis and workshop and then Ṣāḥib went to Edmonton.

 

۱۹۰

 

And in Edmonton I know there the Āidārah-yi cārif group take a special holiday –  start workshops in the morning and go on until the night –  workshop after workshop after workshop. Yasmin Karim is compiling the diaries of the Edmonton visits and when they are published, you will see hour by hour how Ṣāḥib worāks at this age and I also need to tell you that we all know Ṣāḥib is not hundred per cent physically fit, that he has certain ailments parts of which are due to his age, part due to the Jihād, the struggle he has carried on for the sake of knowledge and for the sake of service to the  Imām, through his life, going back to when he was in the Gilgit Scouts, then the time he has in China with prison sentences and all that. That has had an impact on his physical life and yet with all that he did all these things. From Edmonton he came back to Chicago for one night and flew back to London travelling for seven hours. The minute he arrived we said could we have a class at six a.m. the next morning and he agreed. This is what I want all of us to hear.

Please forgive me Ṣāḥib, I am not appreciating you so much as saying to each one of us, let us not have a feeling for regret in us that we did not take the most advantage of his stay with us and maybe make a resolution that if Maūlā wills and Ṣāḥib’s health is good and if he comes next year we shall be better prepared to take more advantage of

 

۱۹۱

 

his visit, because this is very important indeed. And so when the Khānah-yi Hikmat members of Karachi and Karimabad and Gilgit, when they hear this they will take the greatest benefit of the years which are left for Ṣāḥib and for all of us to serve the Imām of the time.

Finally I want to say a few things – share some things which have come across very strongly to me during this visit of Ṣāḥib. This time Ṣāḥib has emphasised certain universal principles and it is time to recap briefly because this is our treasure of knowledge, on which we should ruminate, regurgitate as Ṣāḥib has told us vegetarian animals regurgitate on what they eat. This is what we need to do in the coming year.

For instance, Ṣāḥib has given an amazing principle of ” Nothing is impossible in Paradise” and he has taught us that our Imām, Maūlānā Jacfar Ṣādiq’s name has been mentioned, have told us that Paradise is not only after physical death. Paradise is also here and now and nothing is impossible and for that we need the highest knowledge.

Another universal principle Ṣāḥib has given us is that Ismailism is a universal religion. What proof is there for this? It is that the betterment of everybody is in the heart of an āismacilī. A true āismacilī believes that everybody will enter paradise and that Hell is temporary. This is Ṣāḥib’s teaching, it is so powerful. It is the highest teaching of our faith. When

 

۱۹۲

 

our children are young we should bring them up in a mould and when they understand that Ismailism is haqiqati truth and that the Imām of the time is the rightful, Divinely appointed guide and when our children are strong then we can give them this highest knowledge, that it is only our faith which believes that all people will go to Paradise.

Another principle is in the Preface to the book ” Jamācat khānah”, in which Ṣāḥib talks about the eight bearers of the throne. I am not going to say more because Ṣāḥib is still writing about it, but when it is published, please read it carefully.

Mubina Virani came home one afternoon and Ṣāḥib said to us that we āismacilīs want to break out of the universe just like a chicken breaks out of its shell. Do not let us be restricted to this universe, let us have the ambition that we want to go beyond.

Then another universal principle Ṣāḥib has given us is that the Imām of the time is the King and a King does not do things himself, he empowers others to do things, he enables others to do things. Why am I saying this? I would really like us to reflect on this and go into prostration that Hazir Imam in his infinite mercy has chosen us to be taught by callāmah Ṣāḥib in order to do the things which our beloved King wants us to do. We are his instruments and it is Ṣāḥib’s teaching and knowledge which has given us this understanding. We do not want to

 

۱۹۳

 

waste any time, we have a very serious mission in front of us for whatever span of life Maūlā wishes to give us, in which to really do our best to serve the Imām of the time.

Finally, Ṣāḥib you came to us in 1993 as Tajaddudi āmsāl –  renewal of similitudes. You brought a new freshness to our souls. Ṣāḥib in your own teaching – “Kulla iaūmin hūwa fī Shān” – he is in a new manifestation everyday. In 1993 Ṣāḥib came with new manifestations. It is not only the Imām who has new manifestations –  he empowers his mūmins to also have new and newer and newer manifestations.

Ṣāḥib, I want to end by saying with reference to your Burushaski qasidah in the Prefece to “Forty wisdoms of Gratitude”:

“O Maūlā if I cannot reach you to circumambulate your holy personality, then I will circumambulate those who are intoxicated with the wine of your love”.

Ṣāḥib, you are overflowing with the wine of love for the Imām of the time – you are overflowing with the wine of knowledge of the Imām of the time, and since each one of us, your humble students, cannot reach the Imām in a ẓāhirī sense, then may Maūlā give us courage to circumambulate this servant, this devoted servant of the Imām of the time. Amin.

 

۱۹۴

 

Farewell

Dearest Ṣāḥib.

Ṣāḥib, I would firstly like to say on behalf of Dad, Mum, Abuzarr, and myself, thank you for coming to London. I hope that this was short but pleasant visit of you. Ṣāḥib you have given us so much Knowledge that this will be in our head’s for the lifetime. Ṣāḥib you have given us so much Knowledge like last time, and I hope that people enjoyed accepting it as well as listening to it. I would like to say that this time I understood and have taken your Knowledge quite easily with the help of my parent’s, Faquīr Ṣāḥib and Rashida Aunty. Ṣāḥib, I would also like to say thank you for spending a day with us. You have given us so much Prayers, and please continue to. I would like to say that next time when you come, stay for a long time as well as give us the precious pearls. We pray that may Maūlā shower His blessings upon you, and give you good Health and Long life. Ṣāḥib, now I would like to end my address by saying have safe journey back to Pakistan.

Thank you

Ya-Ali-Madad

Salman Karim Kotadia.

Age: 10yrs old

Class: Year 5

 

۱۹۵

 

To my dearest Ṣāḥib.

Ṣāḥib we have had a wonderful time with you.

Please come back soon.

We will remember you.

We all love you very much.

We also like you to have a safe journey.

You gave us a huge amount of Knowledge and we have learnt a lot.

It is a very sad you are leaving.

Heave a good journey to Pakistan, and give the people there knowledge same as you gave us.

Have a good time.

From:

Abuzarr Ali Kotadia.

Age: 7 yrs old

Class: year 2

 

۱۹۶

 

BURUSHASKῙ RESEARCH ACADEMY, KARACHI

LETTER OF APPOINTMENT

For Mr. Babar Khan Hunzaī

On behalf of the headquarter of B.R.A, it gives me great pleasure to appoint Mr. Babar Khan Hunzaī as the CHIEF ADVISOR for the Burushaskī Research Academy for Karachi and northern Areas.

Mr. Babar Khan Hunzaī has an outstanding record of serving the Burushaskī language & culture for many years in capacity of a social worker and as a Chairman of the Academy. He had this privilege twice to become the chairman of B.R.A, Karachi fist in 1980 and then in Jan. 1993 till April 1995. The greatest achievement of his tenure is creating an enthusiastic team of educators and develop the taste for research work amongst the youth of the area. In addition, his tireless efforts to advance the literature of callāmah Ṣāḥib, are unforgettable.

Basically an M.P.A from the Gomal University, Mr. Babar Khan Hunzaī has served the National Council for Pakistan as a co-ordinator for Nothern Areas, Iran and

 

۱۹۷

 

Afghanistan and presently is working a co-ordinator, emergency Room Services at the Aga Khan University Hospital. Despite of his managerial tasks and vast social activities, he has deep interest in Islamic Studies, languages and diverse cultures.

He is further endowed with the ability to communicate effectively with the people of different backgrounds because of his knowledge of diverse languages, his vast public relationing and his charismatic personality with a sincere outlook for humanity.

With all these admirable qualities, we have great expectations of his continuing contribution, after his settlement in the Northern areas, in enhancing the cause of true knowledge and Burushaskī globally.

On this happy occasion, on  behalf of the Burushaskī research Academy, I wish him vigour and wisdom in his future work and pray to Allah to give him greater energy and strength and to crown all his efforts with success.

Amin.

Sd/-

Allama Nasiruddin N. Hunzai

Founder, B.R.A.

Karachi -2nd May, 1995

 

۱۹۸

 

MONOGRAM

Senior University

CERTIFIES BY THIS DOCUMENT TO ALL IT MAY CONCERN THAT

‘Allamah Nasir al- Din’Nasir’ Hunzai

IN RECOGNITION OF HIS EXEMPLARY AND ILLUSTRIOUS CONTRIBUTION TO THE DEVELOPMENT OF SPIRITUAL SCIENCES AND SERVICES TO HUMANITY HAS BEEN GRANTED THE HONORARY DEGREE OF

Doctor of Letters

AND HAS BEEN AWARDED ALL THE

RIGHTS AND PRIVILEGES PERTAINING

TO THIS DEGREE IN TESTIMONY WHEREOF ARE APPENDED THE

SIGNATURES OF THE OFFICERS OF THIS

 

۱۹۹

 

UNIVERSITY, TOGETHER WITH THE COMMON SEAL OF THE SAME.

GIVEN AT THE FIRST SPECIAL CONVOCATION HELD IN GILGIT,

PAKISTAN ON THE EIGHTEENTH OF AUGUST, ONE THOUSAND NINE

HUNDRED AND NINETY FIVE.

 

(Signed)

William E. Engbretson

PRESIDENT

 

(Signed)

Prof. Abdul Sultan Hassam

DEAN OF FACULTY

SEAL

 

۲۰۰

 

Monogram

Senior University

British Columbia, Canada Wyoming, U.S.A.

CERTIFICATE OF APPOINTMENT

This is to certify that

‘Allama Nasir al-Din “Nasir” Hunza’i D.Litt. (Hon.)

Has been appointed

Distinguished Senior

Professor

In witness whereof this certificate is issued affixed with the common seal of the university

 

۲۰۱

 

Presented on this 18th day of August, 1995

Sd/-

Professor Abdul S. hassam, Ph.D.

Executive Vice- President and Dean of Faculty

SEAL

 

۲۰۲

 

Respected Dr. Allama Saheb,

Ya Ali Madad, On behalf of the member of Houston Branch we very humbly offer our congratulations to you form the depths of our hearts for acquiring the Doctor’s degree in Literature. Our joy knew on bounds when we received a piece of literature from you on a letterhead which listed all your credentials commencing with the word “Doctor”, but this was the least that they could do for you because it’s very difficult to constrict the realms of your vast and profound wisdom into one word. Its impossible to put into words the depth of your understanding of various avenues of religion and to limit that wisdom by verbal praise. As we have stated this for you before “the ink of a scholar is more scared than the blood of a martyr.” The superior quality of your wisdom, Allama saheb, is such that it coerces a person  – to think very hard, to rationalize, to analyze, to visualize, each and every word in the sentences of your text which could bring out new avenues of knowledge to the person trying to acquire it thereby enhancing and broadening the scope on which one can base one’s research, causing and “awakening” in one to comprehend the reality of the contents of your books. Not only does this cause one to “compare” and to “realize” what one has to what his counterpart doesn’t, but it also leads one to try and share this valuable knowledge with those who have not been fortunate enough to acquire it. They Holy Prophet (peace be upon him) has said “Go as far as

 

۲۰۳

 

China in search of knowledge” but for us China has come to us for you are our China. Ruhani’s for countless ears have been waiting for the Spiritual Science that you have brought to us today. We pray to Mowla that may he grant you more and more strength to “awaken” the dormant souls in this world with your precious knowledge and cause in them a strong yearning to spread it as

much as they can. We also pray for your good health and long life. Ameen.

Accept our dast bosi and pa bosi. Ya Ali Madad.

Your humble student,

Yasmeen Noorali

October 12, 1995

 

۲۰۴

کتابُ العلاج – قرآنی علاج

کتاب العلاج  [قرآنی علاج]

کتاب العلاج

۱۔ یا الٰہی! یہ تیرا بندۂ کمترین اپنی بے شمار حاجات کا دریوزہ طلب کرنے کے لئے تیرے درِ اقدس کے سامنے گریان و سجدہ کنان (روتا اور سجدہ کرتا ہوا) حاضر ہے، اے دانا و بینا! تجھ سے اپنے ناچار بندوں کے احوالِ دل پوشیدہ نہیں، اے طبیبِ روحانی اے حکیمِ آسمانی! تو وہ عالم الغیب ذات ہے، جس کے علمِ محیط سے ظاہر و باطن کی کوئی شیٔ مخفی نہیں، اے طبیبِ عشق! اے طبیبِ عقل و جان! اے طبیبِ طبیبان! تو وہ طبیبِ کُل اور حکیمِ مطلق ہے، جو ہماری ہر ہر بیماری کو کسی قسم کی تشخیص کے بغیر جانتا ہے، وہ طبیبِ ازل جو حبل الورید سے بھی زیادہ قریب ہے بزبانِ پاکِ قرآن بار بار فرماتا رہتا تھا کہ دیکھو، تم دینِ اسلام کی تعلیمات پر پوری طرح سے عمل کرنا، اور کثرت سے خدا کو یاد کرتے رہنا، اس ہدایتِ کاملہ میں البتہ جسم، جان، اور عقل کی صحت و سلامتی بھی پیشِ نظر تھی، اے کاش! ہم متّقی

 

الف

 

ہوتے! اور بیماریاں ہم کو نہ ستاتیں!

۲۔ معجزۂ قرآن / معجزۂ محمدی: اللہ جلّ جلالہ نے اپنے محبوب رسول حضرتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (روحی فداہ) کو ایک ایسا عظیم الشّان اور جلیل القدر معجزہ عطا فرمایا ہے، کہ جس کی مثال انبیائے سلف کے سارے عظیم معجزات میں بھی نہیں ملتی، وہ اعظم المعجزات قرآنِ اقدس و اطہر ہی ہے، جو پیغمبرِ اکرمؐ کا عقلی معجزہ بھی ہے، دائمی معجزہ بھی، لوگوں کے لئے ہدایت نامۂ سماوی بھی ہے، خزینۂ علم و حکمت بھی، طبِ الٰہی بھی ہے، اور شفا خانۂ آسمانی بھی، الغرض قرآنِ کریم کے فیوض و برکات بے حد و بے پایان ہیں جن کی تعریف و توصیف مجھ جیسا ناچیز انسان کبھی کر ہی نہیں سکتا۔

۳۔ نفسِ انسانی کے تین درجات: اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے تین بڑے درجے ہیں: ۱۔ نفسِ امّارہ (بہت حکم کرنے والا نفس) ۲۔ نفسِ لوّامہ (بہت ملامت کرنے والا نفس) ۳۔ نفسِ مطمئنہ (اطمینان یافتہ نفس = روح) نفس کے ان علی التّرتیب ناموں سے ترقی کا تصوّر سامنے آتا ہے، جیسا کہ سورۂ یوسف (۱۲: ۵۳) میں نفسِ امّارہ کی فطرت کا ذکر ہوا ہے، وہ یہ ہے: میں کچھ اپنے نفس کی برأت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الّا یہ کہ کسی پر میرے ربّ کی رحمت ہو۔ یہ ہے نفسِ امّارہ جو بڑا سرکش ہے، لیکن جب جہادِ اکبر کا کوئی مجاہدِ اعظم اپنے نفس کو شکست دے

 

ب

 

کر تابعِ فرمان بناتا ہے تو اس وقت یہ اپنی بری عادتوں سے بدل کر نفسِ لوّامہ ہو جاتا ہے، جیسا کہ سورۂ قیامۃ (۷۵: ۰۱ تا ۰۲) میں ارشاد ہے: لا اقسم بیوم القیامۃ۔ و لا اقسم بالنفس اللوّامہ = نہیں، میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی، اور نہیں، میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی۔

۴۔ یہاں اشارۂ حکمت یہ ہے کہ نفسِ لوّامہ ترقی کرتے کرتے منزلِ فنائے اوّل (منزلِ عزرائیلی) میں داخل ہو جاتا ہے، جس میں جیتے جی نفسانی موت کا قیامت خیز تجربہ ہوتا ہے، پس نفسِ لوّامہ کا یہی عظیم کارنامہ اور تقدس کافی ہے کہ خدا نے قیامت کی قسم کے ساتھ ساتھ نفسِ لوّامہ کی قسم بھی کھائی ہے، بعد ازان نفسِ مطمئنہ کا ذکر آتا ہے، جس کا تعلق عارف کی ذاتی قیامت کے تمام درجات سے ہے، کیونکہ نفسِ مطمئنہ کے معنی ہیں: اعلیٰ حقائق و معارف سے اطمینان یافتہ نفس، اس سے مراد ہر وہ عارفِ کامل ہے، جس نے عین الیقین کے پُرنور و تابندہ مشاہدات کے بعد حق الیقین کے انتہائی عظیم و اعلیٰ اسرار کو بھی چشمِ بصیرت سے دیکھا ہو، اس کے بغیر اطمینانِ کلّی کا مطلب ناتمام رہتا ہے، جیسے سورۂ فجر کے آخر (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) میں ہے: اے اطمینان والی روح (نفس) تو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جا در حالے کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے راضی ہے، پھر تو میرے خاص بندوں (یعنی حظیرۂ قدس) میں داخل ہو

 

ج

 

جا، پھر میری (کلّی) بہشت میں داخل ہو جا۔

۵۔ اسلامی عبادات میں طبی پہلو: دینِ اسلام جو دینِ فطرت ہے، اس میں کوئی ایسی عبادت نہیں، جس میں طبِ روحانی کا کوئی پہلو نہ ہو، کیونکہ یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ ہر عبادت کا مقصدِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے، اور ذاتِ سبحان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسوۂ حسنۂ رسول کی پیروی ضروری ہے، جس میں عقل، روح، دل، اور دماغ کی کامل صحت و صفائی لازمی ہے، اس کے برعکس اگر باطن میں بیماری ہی بیماری ہے تو یہ حقیقت میں بے ہوشی یا نیم بے ہوشی کی مثال ہے، پھر ایسی حالت میں درست عبادت کیوں کر ہو سکتی ہے، جبکہ قرآنِ حکیم (۲۶: ۸۹؛ ۳۷: ۸۴) میں قلبِ سلیم کی بہت بڑی اہمیت بیان ہوئی ہے، دوسرے الفاظ میں ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر اسلامی عبادت ایک ساتھ عبادت بھی ہے اور باطنی علاج بھی، مثلاً روزہ ایک طرف سے اللہ تعالیٰ کے لئے عبادت ہے، اور دوسری طرف سے علاج، اسی طرح نماز اور دوسری سب عبادات ہیں۔

۶۔ حکمت ایک بہت بڑی آسمانی دوا: افراد و اقوامِ عالم میں اگر جہالت و نادانی ہو تو یہ بہت بڑی عقلی بیماری ہے، جس کی مؤثر ترین دوا حضرتِ طبیب الاطباء (اللہ) نے آسمان سے نازل فرمائی ہے، جس کا نام “حکمت” ہے، جو قرآنِ پاک میں

 

د

 

ہے، جس کے بارے میں ارشاد ہے: یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًاؕ (۰۲: ۲۶۹) خدا جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اسے حقیقت میں خیرِ کثیر مل گئی۔ عجب نہیں کہ خیرِ کثیر سے خیرِ کل مراد ہو، کیونکہ حظیرۂ قدس میں جملہ حقائق و معارف کی ایسی وحدت و سالمیت ہے کہ ان کی تقسیم نہیں ہو سکتی، پس معلوم ہوا کہ حکمت خیرِ کل ہے، اور خیرِ کل حکمت، چونکہ بدن روح کے تحت ہے اور روح عقل کے تحت، لہٰذا حکمت جو عقلی امراض کے لئے آسمانی دوا ہے، وہ روح اور جسم پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔

۷۔ ایک ناچیز کوشش برائے تعریفِ حکمت: ۱۔ حکمت حکیمِ مطلق کی ضیا افشانی ہے۔ ۲۔ حکمت وہ کنزِ اسرارِ الٰہی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول حضرتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عطا فرمایا ہے۔ ۳۔ حکمت قرآنی بہشت کے ثمرات کا سلسلہ ہے۔ ۴۔ حکمت سرچشمۂ آبِ حیات ہے۔ ۵۔ حکمت سیرِ آسمانِ عقل و جان ہے۔ ۶۔ حکمت عالمِ شخصی کی روحانیّت و نورانیّت کا ماحصل ہے۔ ۷۔ حکمت جوہرِ علم کا نام ہے۔ ۸۔ حکمت روحانی سائنس اور اصل ظاہری سائنس ہے۔ ۹۔ حکمت ایک ایسی انتہائی گرانقدر شیٔ ہے جو مومن کی ملکیت تھی، مگر کھو گئی ہے۔ ۱۰۔ حکمت کی اصل صورت اسرارِ ازل کی معرفت ہے۔ ۱۱۔ حکمت طبِ روحانی اور

 

ہ

 

علاجِ آسمانی ہے۔ ۱۲۔ حکمت جوہر الجواہر ہے۔ ۱۳۔ حکمت عطیۂ الٰہی ہے۔ ۱۴۔ حکمت علاجِ کُل اور شفائے سرمدی ہے۔ ۱۵۔ حکمت سوغاتِ بہشت ہے۔ ۱۶۔ حکمت میوۂ عقل و جان ہے۔ ۱۷۔ حکمت سرمایۂ عقلاء ہے۔ ۱۸۔ حکمت میں فنا فی اللہ و بقاء باللہ کے عظیم اسرار ہیں۔ ۱۹۔ حکمت علم کی لپیٹی ہوئی کائنات ہے۔ ۲۰۔ حکمت خیرِ کثیر / خیرِ کُل ہے، لہٰذا اس میں تمام اچھی چیزوں کے ساتھ ساتھ باطنی امراض کی اعلیٰ دوائیاں بھی موجود ہیں، اللہ تعالیٰ مریضانِ ظاہر و باطن کو شفائے کُلی بخشے! آمین!

۸۔ ایک ہی کتاب میں تین کتابیں: زیرِ نظر مجموعے کا پسندیدہ نام کتاب العلاج ہے، اگرچہ یہ کوئی نئی تصنیف نہیں، لیکن ان تین کامیاب اور مشہور کتابوں (قرآنی علاج، علمی علاج اور روحانی علاج) کا مجموعہ یا سیٹ ہے، جو باطنی علاج سے متعلق قبلاً الگ الگ شائع ہو چکی تھیں، چونکہ ان کتابوں کا طریقِ علاج علم و حکمت یا روحانی سائنس کی روشنی میں ہے، اور یہ سچ ہے کہ وہ طرزِ جدید بھی ہے اور حصولِ علم کے لئے زبردست مفید بھی، لہٰذا موجودہ شکل میں ان کو دوبارہ چھپوانے کی ضرورت پیش آئی۔

۹۔ کلماتِ زرین برائے تاریخِ آئندہ: قرآنِ حکیم میں عجائب و غرائب کا سلسلۂ لا انتہا موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ میں اپنی

 

و

 

کم علمی سے مایوس ہوئے بغیر ذاتی طور پر بھی اور احباب کے ساتھ مل کر بھی حکمتِ قرآن کی مقدّس خدمت کے لئے کوشش کر رہا ہوں، مجھے قرآنِ پاک کی ہر حکمت سے نہایت شادمانی ہوتی ہے، مجھے اس عجیب پیارے قرآنی نام سے ازبس خوشی ملتی ہے، یہ ہے: درِّ مکنون، لفظِ در (موتی) آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) سے لیا گیا ہے، اور مکنون کا مبارک لفظ قرآنِ مجید کے چار مقامات پر ہے، وہ یہ ہیں: ۳۷: ۴۹؛ ۵۲: ۲۴؛ ۵۶: ۲۳؛ ۵۶: ۷۸، درِ مکنون کے معنی ہیں: گوہرِ مخفی، اس عزیز نام میں (ان شاء اللہ) کئی برکتیں پوشیدہ ہیں، ان میں سب سے عظیم برکت یہ کہ لائف گورنر درِّ مکنون بنتِ ظہیر جو اس وقت شیر خوار بچی ہے، وہ کچھ آگے چل کر قرآنِ کریم میں اپنے پیارے نام کو دیکھے گی، اور بحکمِ خدا رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ کی مقدّس کتاب سے وابستہ ہوگی، درِّ مکنون میں بہت سی نیک علامتیں ہیں۔

۱۰۔ ریکارڈ آفیسر، لائف گورنر ظہیر لالانی اور ان کی بیگم ریکارڈ آفیسر، لائف گورنر عشرت رومی جو میڈیکل پیٹرن بھی ہیں، اور ان دونوں عزیزوں کی بہت پیاری بیٹی لائف گورنر درّی (درِّ مکنون) میرے عالمِ شخصی کے فرشتوں میں سے ہیں، اس کی وجہ خدمت کی کثرت اور محبت کی شدت ہے، اگر کوئی محبت للّٰہی ہو یعنی جذبۂ للّٰہیت کے تحت ہو تو کتنا مبارک ہے، میرے باغِ برطانیہ کے سارے ثمردار درخت، شاداب و سرسبز پودے، عطر افشان پھول، اور

 

ز

 

مسکراتے ہوئے غنچے ایسی قابلِ رشک ترقی پر ہیں کہ ان کو زمانے کی کوئی نظر نہ لگے!

۱۱۔ ظہیر لالانی اور عشرت رومی (ظہیر) میرے قلبی اور جانی عزیزوں میں سے ہیں، یہ دونوں فرشتے اور دوسرے فرشتے سب ہمارے لنڈن کے “مرکزِ علم و ادب” میں پہلے سے بھی کہیں زیادہ علمی خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کے علمی ذوق میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے، اللہ کی رحمت سے درّی بہت سی برکتوں کے ساتھ پیدا ہوئی ہے، لہٰذا عزیزانم ظہیر اور عشرت اپنے پیارے گھر کو علم و عبادت کی کارگاہ بنا رہے ہیں، تاکہ اس میں اولاد کی بہتر سے بہترین تربیت ہو۔

۱۲۔ کلماتِ زرین کی چوتھی شخصیت: حدیثِ شریف کا ارشاد ہے: الارواح جنود مجندۃ = (ہر عالمِ شخصی میں) روحیں جمع شدہ لشکر کی صورت میں موجود ہوا کرتی ہیں (ہزار حکمت، ح ۵۱) چنانچہ اس قانون کے مطابق میرے روحانی انقلاب میں جب میرے عزیزان سب کے سب حاضر تھے، پھر درّی، ظہیر، عشرت اور روبینہ ان چاروں کی روحیں اس جنگ میں کیوں کر شامل نہ ہوتیں، یہاں تذکرہ ریکارڈ آفیسر، لائف گورنر، میڈیکل پیٹرن، اور کریم آباد برانچ کی چیئرپرسن روبینہ برولیا سے متعلق ہے، ان کی بہت سی خوبیاں اس وصف میں جمع ہو جاتی ہیں کہ ان کو علم اور علمی خدمت سے والہانہ دلچسپی

 

ح

 

ہے، مزید برآن میڈیکل پیٹرن کی حیثیت میں بھی بہت بہت خدمات انجام دے رہی ہیں، جبکہ استاد ضعیف العمری کی وجہ سے بار بار بیمار ہو جاتا ہے، ہماری بہت عزیز دخترِ علمی روبینہ برولیا کی روز افزون ترقی ہے، تاہم میں چاہتا ہوں کہ دانشگاہِ خانۂ حکمت کے تمام شاگردوں کی اس سے بھی زیادہ ترقی ہو! آمین!!

۱۳۔ میں اپنے ہر عزیز (شاگرد) کے حق میں درویشانہ دعائیں کرتا ہوں، اور ان تمام ساتھیوں کے لئے بھی جو قرآنی علم و حکمت کو اس ادارے سے پھیلا رہے ہیں، دیکھتے رہنا، اور تجربہ کرنا کہ علمی زکات سے بے شمار برکتیں ملتی ہیں، اور علمی صدقہ سے بلائیں رد ہو جاتی ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
منگل ۹ ذوالحجہ ۱۴۱۸ء / ۷ اپریل ۱۹۹۸ء

ط

طبِ قرآنی

۱۔ اللّٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم و علیٰ اٰل ابراہیم انک حمید مجید۔ اللّٰھم بارک علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم و علیٰ اٰل ابراہیم انک حمید مجید ۔ (صحیح بخاری ، سورۂ احزاب)۔ درودِ شریف کے بغیر طبِ قرآنی کا دروازہ نہ تو مفتوح ہو جاتا ہے، اور نہ ہی کوئی دعا بارگاہِ خداوندی تک جا سکتی ہے، اسی درود کا ایک عظیم راز اور ایک نہایت شیرین بہشتی میوہ ہے، جس کی معرفت کے لئے آپ سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) میں دیکھیں۔

۲۔ سب سے بڑی بیماری: خوب یاد رہے کہ اگر کسی انسان میں جہالت و نادانی ہے تو یہی سب سے بڑی بیماری ہے، کیونکہ یہ عقلی بیماری ہے، اور عقل انسان میں سب سے خاص اور سب سے عظیم چیز ہے، پس سب سے پہلے عقلی بیماریوں کا

 

ی

 

علاج سیکھنا ازبس ضروری ہے، اس لئے کہ عقل کے بیمار رہنے سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی عذاب ہو سکتا ہے۔

۳۔ قلبِ سلیم کے معنی؟: قلبِ سلیم سے ایسی عقل مراد ہے جو ہر طرح کی عقلی بیماریوں سے صاف پاک ہو (۲۶: ۸۹؛ ۳۷: ۸۴) چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام بفضلِ خدا ایسی صحیح، سلامت، اور صحتمند عقل کے وسیلے سے اپنے رب کے قربِ خاص میں آئے تھے، اور یہ سارے لوگوں کے لئے عملی ہدایت کا بہترین نمونہ ہے، پس عقلی بیماری کو محسوس کر کے اس سے شفایاب ہونا ہر مومن کے لئے ازحد ضروری ہے۔

۴۔ اشک افشانی: خوفِ خدا یا عشقِ الٰہی سے بار بار اشکبار ہو جانا بہت بڑی عبادت بھی ہے، اور تمام ظاہری، باطنی، اخلاقی ، روحانی، اور عقلی امراض کے لئے بڑا زبردست اور نہایت مفید علاج بھی ہے، کیونکہ ایسی خالص اور عاجزانہ و عاشقانہ گریہ و زاری میں روحانی طبیب کا دستِ مبارک کام کرتا ہے، جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ ہر بیماری دور ہو جاتی ہے۔

۵۔ کرب = سخت غم: سخت غم (کرب) کی دوا بھی روحانی طبیب (اللہ تعالیٰ) کے پاس موجود ہے، ارشاداتِ قرآنی کے لئے دیکھ لیں: ۰۶: ۶۴؛ ۲۱: ۷۶؛ ۳۷: ۷۶؛ ۳۷: ۱۱۵، سورۂ مومن (۴۰: ۶۰) میں ارشاد ہے: وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ = تمہارے

 

ک

 

پروردگار نے فرمایا ہے کہ مجھے پکارو تاکہ میں (تمہاری دعا کو) قبول کروں۔ خداوندِ قدوس کو کس طرح پکارنا چاہئے؟ ایسی دعا و درخواست کی کیا کیا شرطیں ہیں؟ یہ سب کچھ قرآنِ حکیم میں مذکور ہے۔

۶۔ اسماء الحسنیٰ: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) میں ارشاد ہے کہ خدائے پاک و برتر کو اس کے اسماء الحسنیٰ سے پکارنا بے حد ضروری ہے، جن کی حکیمانہ تعریف قرآنِ عزیز کے چار مقامات پر آئی ہے: ۰۷: ۱۸۰؛ ۱۷: ۱۱۰؛ ۲۰: ۰۸؛ ۵۹: ۲۴، پس ہوشمند مومن وہ ہے جو ہر بیماری، ہر مشکل، ہر حاجت، اور ہر آزمائش میں گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرتا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی بے پایان رحمت سے قبول فرمائے، اگر قبولیت کے لئے کچھ وقت لگتا ہے، تو اس میں بھی یقیناًخداوند تعالیٰ کی کوئی حکمت ہو سکتی ہے، لہٰذا مایوسی منع ہے۔

۷۔ تضرع = عاجزی اور زاری: قرآنِ حکیم نے تضرع کو بہت بڑی اہمیت دی ہے، کیونکہ یہ بہت سے ظاہری اور باطنی امراض کے لئے دوا اور شفاء ہے، جس کی کئی مثالیں قرآنِ کریم میں موجود ہیں، آپ ان حوالوں میں دیکھیں: ۰۶: ۴۲؛ ۰۶: ۴۳؛ ۲۳: ۷۶؛ ۰۷: ۹۴؛ ۰۶: ۶۳؛ ۰۷: ۵۵؛ ۰۷: ۲۰۵، آپ ان آیاتِ کریمہ کو یقین سے پڑھیں، اور غور سے دیکھیں کہ تضرع یعنی گڑگڑانے سے عذابِ الٰہی بھی ٹل جاتا ہے۔

ل

۸۔ قساوتِ قلبی: یعنی ایسی سنگدلی یا قلب کی سختی کہ جس کی وجہ سے انسان پر ذکر و عبادت کا کوئی خوشگوار اثر نہیں پڑتا ہو، اور علم و حکمت کی باتوں سے کوئی حلاوت و خوشی نہ ملے، تو یہ قساوتِ قلبی کی روحانی بیماری ہے، جو بہت بڑی خطرناک بیماری ہے، قرآنِ حکیم چھ مختلف مقامات پر ایسی سخت دلی کی پُرزور مذمت کرتا ہے، وہ آیاتِ شریفہ یہ ہیں: ۰۲: ۷۴؛ ۰۶: ۴۳؛ ۵۷: ۱۶؛ ۰۵: ۱۳؛ ۲۲: ۵۳؛ ۳۹: ۲۲، جو حضرات طبیبِ آسمانی اور طبِ قرآنی سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، وہ سب سے پہلے اپنے اندر نرم دلی کی صفت پیدا کریں۔

۹۔ حضرتِ ابراہیمؑ کی نرم دلی: انبیاء و اولیاء علیہم السّلام سب کے سب اخلاقِ عالیہ کے مالک ہوتے ہیں، تاہم حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی مثالی نرم دلی کا ذکر قرآنِ مجید میں اس طرح سے ہے: اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ (۱۱: ۷۵) بے شک ابراہیم بُردبار نرم دل (ہر بات میں خدا کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے۔ اَوَّاهٌ = نرم دل، بہت آہ کرنے والا، لغات القرآن میں اس لفظ کے سولہ معنی درج ہیں، آن جناب کیسی آہیں بھرتے ہوں گے؟ فطری یا مصنوعی برائے مشقِ ریاضت؟ لیکن خدائے دانا و بینا صرف اصل چیز کی تعریف فرماتا ہے، کوئی شریف معصوم شیر خوار بچہ کب آہیں بھرتا ہے؟ رونے کے ساتھ ساتھ؟ یا اس کے بعد؟ یا گریہ کے بغیر؟

م

۱۰۔ قرآنِ کریم /شفاء خانۂ الٰہی: آپ مضمونِ شفاء کے یکجا مطالعے کے لئے ان آیاتِ کریمہ کو خوب گہرائی سے پڑھیں: ۰۹: ۱۴، ۲۶: ۸۰؛ ۱۰: ۵۷؛ ۱۶: ۶۹؛ ۱۷: ۸۲؛ ۴۱: ۴۴، آپ قرآنِ پاک کے اس عظیم معجزے پر یقین کریں گے کہ اگرچہ اس کے پُرحکمت مضامین الگ الگ ہیں، لیکن یہ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ ہر ایک مضمون کے ساتھ دوسرے سب مضامین مل کر بار بار ایک بھی ہو جاتے ہیں، اس قانون کے مطابق اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ جملۂ قرآن شفا خانۂ الٰہی ہے، جس نے بے حد و بے حساب لوگوں کو دہریت، کفر، شرک اور اصنام پرستی جیسی مہلک بیماریوں سے تو بچا لیا ہے، اور اب ظاہری، باطنی، اخلاقی، روحانی اور عقلانی بیماریوں کا علاج کر رہا ہے۔

۱۱۔ دارالسّلام = سلامتی کا گھر: سورۂ یونس (۱۰: ۲۵) میں ارشاد ہے: وَاللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِؕ = اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس فرمانِ الٰہی سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ دنیا سلامتی کا گھر نہیں ہے، اس لئے یہاں کے اکثر احوال سلامتی کے برعکس ہیں، پس خدا لوگوں کو دارالسّلام کی طرف بلا رہا ہے، دارالسّلام ایک معنی میں بہشت ہے، اور دوسرے معنی میں خدا خود دارالسّلام ہے، کیونکہ “السّلام” اللہ کے ناموں میں سے ہے، سورۂ حشر کے آخر (۵۹: ۲۳) میں دیکھئے، یہ درحقیقت فنا فی اللہ

 

ن

 

اور بقا باللہ کی دعوت ہے، جو سب سے بڑی دعوت ہے، جیسے سیر الی اللہ (خدا کی طرف چلنا) ہے، اور اس کے بعد سیر فی اللہ (خدا میں چلنا) ہے، اور یہ تصوّر اُس آیۂ مبارکہ کے عین مطابق ہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ ساری کائنات کا نور ہے (۲۴: ۳۵)۔

۱۲۔ نارِ عشق / نورِ عشق: حدیثِ شریف ہے: ان اللّٰہ جمیل یحب الجمال = اللہ تعالیٰ صاحبِ جمالِ باطنی ہے وہ باطنی جمال کو پسند فرماتا ہے (مسلم، ابنِ ماجہ، احمد بن حنبل، لغات الحدیث) بہت بڑی شادمانی کی بات ہے کہ جب صورتِ رحمان بے حد حسین و جمیل ہے، تو اس کا نہایت پُرکشش عشق و محبت کیوں نہ ہو، چاہے دیدارِ پاک آسان ہو یا مشکل، وہ اس جہان میں بھی ہو یا صرف دوسرے جہان میں، بہ ہر حال عشقِ الٰہی ایک نار بھی ہے اور ایک نور بھی۔

۱۳۔ نار اور نور کا کام: ظاہری مثال میں نار اور نور (آتش و آفتاب) فعلاً ایک ہی ہیں، اور ان کا کام بھی ایک جیسا ہے، وہ ہے: روشنی پھیلانا، کچی اور خام چیزوں کو پکانا، کچھ چیزوں کو نار و نور بنانے کی خاطر جلانا، بعض چیزوں کو نیست و نابود کر دینے کی غرض سے جلانا، بعض اشیاء کو کثیف سے لطیف بنانے کے لئے گرمانا یا پگھلانا، وغیرہ وغیرہ، اسی طرح نار و نورِ عشق سے تمام تر بیماریوں کا

 

س

 

علاج ہو سکتا ہے، جس کی وضاحت مندرجۂ ذیل دعائے نور سے ہوتی ہے، جو آنحضرتؐ کی دعا ہے:
ترجمہ: یا اللہ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کر دے، اور میرے کان، آنکھ اور زبان میں بھی نور بنا دے، میرے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں اور رگوں میں بھی نور بنا دے، اور میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر اور نیچے بھی نور مقرر فرما! (دعائم الاسلام، جلد اول، ص ۱۶۷، مسلم، جلد دوم، باب: نماز اور دعائے شب)۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو شروع ہی میں سراپا نور ہو چکے تھے، لہٰذا یہ دعا امت کے لئے ہے، پس اگر بعض مومنین کی یہ دعا خدا قبول فرماتا ہے، تو ان کی باطنی بیماریاں دریائے نور کی لہروں میں کس طرح ٹھہر سکتی ہیں۔

۱۴۔ اللہ کی ہر چیز نور ہے: اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو یقین آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کی ہر چیز بصورتِ نور موجود ہے، چنانچہ اس کا پاک عشق بھی نور ہے، اور وہ ایک ایسا بے مثال جوہر ہے کہ اس میں تمام باطنی بیماریوں کے لئے بڑی زبردست دوا اور شفا ہے، (ان شاء اللہ العزیز) الحمد للہ ربّ العالمین۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
جمعرات ۴ ذوالحجہ ۱۴۱۸ھ / ۲ اپریل ۱۹۹۸ء

ع

 

قرآنی علاج

 

اس کتاب کی اہمیت

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ ، کہ ہمارے دونوں اداروں۔ خانۂ حکمت اور عارف ۔ کی جانب سے ایک اور ازبس جامع و نافع کتاب بنامِ “قرآنی علاج” مختلف مراحل سے گزر کر آپ کے پیشِ نظر ہو جانے کی سعادت حاصل کر رہی ہے، علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی صاحب کا متواضع اور عاجزانہ قلم ہر بار علمی عجائب و غرائب کو رقم کرتا ہے، زہے نصیب کہ موصوف نے اس دفعہ اسلام اور انسانیّت کے ایک وسیع میدان میں علمی خدمت انجام دینے کے لئے بھرپور کوشش کی ہے۔
روحانی علاج کا سادہ اور آسان طریقہ زمانۂ قدیم سے ادیانِ عالم میں رائج رہا ہے، لیکن علامہ ہونزائی کی اس پُرمغز کتاب کے مطالعے سے قرآنی افکار اور روحانی سائنس کے معجزات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ روحانی علاج کے کئی پہلو ہیں، بلکہ یہ ایک سلسلہ ہے، جس میں جدید اکتشافات کی بڑی

 

۵

 

گنجائش ہے۔

کوئی شک نہیں کہ قرآنِ پاک علم و حکمت کی ایک عظیم کائنات ہے، اس میں کیا نہیں، سب کچھ موجود ہے چنانچہ اسی یقینِ کامل کے ساتھ علامہ صاحب نے کتابِ “قرآنی علاج” کا منصوبہ بنایا، اور آج خدا کے فضل و کرم سے یہ علمی کام مکمل ہو چکا ہے، اور ان کے کہنے کے مطابق توقع سے بہت زیادہ کامیابی ہوئی ہے، اور یہ ساری مہربانیاں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں۔

زیرِ نظر کتاب کے مطالعے سے نہ صرف ظاہری بیماریوں سے محفوظ رہنے کا امکان نظر آتا ہے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ باطنی صحت و بیماری کے متعلق بصیرت افروز بیان ملتا ہے، کیونکہ اس میں تمامتر روشنی اُن بیماریوں کے اسباب و علل پر ڈالی گئی ہے، جو روح، اخلاق، نظریہ اور عقل کو لاحق ہو جاتی ہیں۔

قرآنی علاج کی یہ مایۂ ناز اور قابلِ تعریف کتاب اصلاً چھبیس مقالوں اور ایک پیش لفظ پر مشتمل ہے، اور حق بات تو یہ ہے کہ ہر مقالہ ضخامت کے لحاظ سے نہیں، بلکہ علم و آگہی کے اعتبار سے ایک کتابِ جامع و نافع کا درجہ رکھتا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ خداوندِ عالم نے نصیر ہونزائی کو قرآنی جواہر کی لازوال دولت سے مالامال فرمایا ہے۔

جس طرح ایک شخص کو جسمانی طور پر تندرست و توانا رہنے کے

 

۶

 

لئے طب اور ڈاکٹری کے بہت سے اصولات پر شعوری یا غیر شعوری حالت میں عمل کرنا پڑتا ہے، اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر ہر فردِ بشر کو اُس قرآنی اور روحانی علم و عمل کی شدید ضرورت ہے، جس سے کہ وہ روحانی، اخلاقی، نظریاتی، اور عقلانی طور پر صحتمند ہو سکتا ہے، ورنہ باطنی بیماریوں سے خلاصی کی کوئی دوسری صورت نہیں۔

قرآنی علاج کی اس انتہائی مفید کتاب کا مقصدِ اعلیٰ تو یہ ہے کہ ہر دانشمند انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لائے ہوئے احکامِ خداوندی پر عمل پیرا ہو کر باطنی امراض سے کلی طور پر نجات حاصل کرے، تاہم اس میں ذیلی اور ضمنی طور پر ظاہری بیماریوں سے بچ کر رہنے کے قوانین بھی درج کئے گئے ہیں، کیونکہ قرآنِ حکیم جسم و جان دونوں کے لئے ہدایت نامۂ آسمانی ہے، اور اس ہدایت کے معنیٰ سے کوئی آیۂ کریمہ خالی نہیں، یعنی سراسر قرآن کا مقصد و منشا یہی ہے کہ لوگ ہر اعتبار سے امن و سلامتی کے راستے پر گامزن ہو جائیں، تا کہ ظاہر و باطن میں ان کو کوئی دکھ درد نہ ہو۔

استاذِ بزرگوار کی روحانی اور علمی تحقیق کے مطابق جس طرح جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے ظاہری ڈاکٹرز بدنی ورزش ضروری قرار دیتے ہیں، اسی طرح طبیبِ روحانی نے اپنی آسمانی کتاب میں جابجا بنی نوع انسان کو محنت و مشقت کرنے کا درس دیا ہے، تاکہ اس سے ان کی بدنی، روحانی، اور عقلی ورزش ہو، اور نتیجے کے طور پر آدمی ہر

 

۷

 

طرح سے صحتمند رہ سکے، چنانچہ یہ بہت بڑی خوشی کی بات ہے کہ کتابِ ہٰذا میں کئی قرآنی ورزشوں کا انکشاف کیا گیا ہے، جن میں جسمانی صحت و توانائی کے علاوہ روح و عقل کی قوّت و ترقی کا راز بھی پوشیدہ ہے، مثلاً اس کتاب میں پاؤں کی حرکت سے متعلق تفصیلی وضاحت کو دیکھئے کہ کتنی عجیب و غریب باتیں ہیں: پاؤں کی راہ سے جسم میں ذرّاتِ روح کا داخل ہو جانا، اور ان سے غذائے لطیف اور دوائے روحانی کا کام بن جانا۔

اس طوفانی ترقی کے دور میں سائنسدان بامِ عروج پر پہنچ چکے ہیں، ان کو مسلسل کامیابیاں ہوتی چلی آئی ہیں، وہ اس وقت عالمِ انسانیّت سے ہر قسم کی بیماری کی بیخ کنی کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کتاب کے مصنف کا فرمانا یہ ہے کہ وہ لوگ قابلِ قدر ہیں، کیونکہ بیماریوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، تاہم جب تک روحانی طریقِ علاج کو بھی نہ اپنائیں، تو ان کو آخری اور کلی کامیابی نصیب نہیں ہو سکتی ہے۔

ویسے تو حضرت عزرائیل علیہ السّلام اور موت کے تذکرے سے ایک عام آدمی کا دل دہل جاتا ہے، لیکن استاذِ محترم نے جس طرح اپنے روحانی تجربات کی روشنی میں فرشتۂ موت کا ذکر فرمایا ہے، اس کو دیکھ کر ہمیں حیرت بھی ہوتی ہے، اور مسرت بھی، کہ روحانی علاج کے سلسلے میں قوّتِ عزرائیلی کا جو کردار ہے، وہ بڑا حیران کُنۡ ہے۔
اس کتاب میں جگہ جگہ اس حقیقت کی بڑی عمدگی سے وضاحت

 

۸

 

کی گئی ہے کہ انسانی وجود جسمانی بیماریوں کے علاوہ بہت سی باطنی بیماریوں کی زد میں آتا رہتا ہے، حالانکہ بسا اوقات ہم اپنی ایسی اندرونی کیفیات سے بالکل لاعلم اور بے خبر رہتے ہیں، لیکن جناب نصیر الدین نصیر ہونزائی صاحب کا ایک عظیم الشّان علمی کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اس پیاری کتاب میں انسانی ہستی کے ایک ایسے معیار و میزان (جو خدا کی طرف سے ہے) کی نشاندہی فرمائی ہے، جس سے ہر شخص کو اپنی باطنی صحت اور بیماری کا بخوبی علم ہو سکتا ہے، اور ایسا معیار خواب ہے۔

ماہرینِ نفسیات نے خواب کی کئی نفسیاتی تشریحات و توضیحات کی ہیں، چنانچہ FREUD نے خواب ROYAL ROAD TO UNCONCIOUS کہا ہے، لیکن جس طرح حضرت ابراہیمؑ اور حضرت یوسفؑ کے قصّۂ قرآن میں خواب کی روحانی اور علمی اہمیت کا بیان فرمایا گیا ہے، وہ بے مثال ہے، اور یہ حقیقت ہم اس کتاب میں دیکھ سکتے ہیں، اسی لئے یہ کہنا بالکل درست اور بجا ہے کہ مصنفِ ہٰذا کی یہ کتاب ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے، جس میں دوسرے بہت سے امور کے ساتھ ساتھ خواب کے اشاروں کی مدلّل اور سائنسی وضاحت فرمائی گئی ہے، تاکہ اہلِ علم حضرات اس میں غور و فکر کریں، اور یہ سب کچھ قرآنِ پاک کی روشنی میں کیا گیا ہے۔

انسان ذکر و عبادت سے غفلت برتتے ہوئے حقیقی علم

 

۹

 

کی کمی یا نہ ہونے کی وجہ سے اپنے تئیں روحانی اور عقلی طور پر بیمار بنا دیتا ہے، لیکن ربِّ کریم نے اپنی اس اشرف ترین مخلوق کو ان امراض میں سرگردان و بے درمان نہیں چھوڑا ہے، بلکہ اس نے انسانی وجود ہی میں ایسی صلاحیتیں اور قوّتیں رکھی ہیں کہ اگر انہیں منشائے خداوندی کے مطابق استعمال کی جائیں، تو وہ انتہائی مؤثر ادویہ کا کام دے سکتی ہیں، جیسے اس کتاب میں انتہائی دلنشین الفاظ میں دعا کی صلاحیت کا ذکر کیا گیا ہے، کہ دعا ایک آسمانی دوا ہے، جسے طبیبِ ازل نے ہر دردمند، ہر رنجور، ہر مصیبت زدہ، اور ہر مبتلائے مشکل کے لئے بنا رکھی ہے۔

اس پیاری کتاب کی اہمیت اور پیشگی شہرت کا یہ عالم ہے کہ پی بی سی اور پندرہ روزہ آہنگ، نیز اخبارِ جنگ کے توسط سے جب یہ خبر پھیل گئی کہ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی قرآنی علاج پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں تو علمی قدر دانوں میں سے بہت سے حضرات نے بذریعۂ خط و کتابت یا ذاتی ملاقات سے کتابِ ہٰذا طلب کی، اور یہ امر بھی اس کی اہمیت و قدردانی کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے کہ استادِ معظم کے عزیز ترین شاگردوں میں سے ایک عالی ہمت شیرِ مرد نے جو بہت بڑا عالمِ دین بھی ہے، اور انتہائی قابل ڈاکٹر بھی، شب و روز کی محنت سے اس کا انگریزی ترجمہ کر دیا، اور اس عظیم خدمت میں موصوف کی قابلِ قدر بیگم بھی مدد کر رہی تھیں،

 

۱۰

 

ایک بڑا دانشمند فرینچ سکالر جو مسلمان ہیں اس کا ترجمہ انگریزی سے فرانسیسی میں کر رہے ہیں، اور ایک تجربہ کار خاتون سکالر گجراتی میں ترجمہ کر رہی ہیں۔

الغرض کتاب آپ کے سامنے ہے، جن حضرات نے خوش بختی سے اعلیٰ علوم کا مزہ چکھ لیا ہو، وہی صاحبان صحیح معنوں میں اس کتاب کی اہمیت و افادیت، اور قدر و قیمت کا تعین کریں گے، بہ ہر حال ہماری نظر میں یہ کتاب بہت ہی عالی اور زبردست انقلابی ہے، اور کیوں نہ ہو جبکہ ایک عاشقِ رسول درویش نے تقریباً سو (۱۰۰) تصانیف کے بعد عمر کی پختگی اور وسیع تجربات و معلومات کی روشنی میں یہ کتاب لکھی ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ قرآن، اسلام، پاکستان، اور انسانیت کی خدمت ہو، آمین یا رب العالمین!

خانۂ حکمت ۔ ادارۂ عارف
کراچی
۱۱ جمادی الثانی ۱۴۰۷ھ / ۱۰ فروری ۱۹۸۷ء

۱۱

ریڈیو انٹرویو
علامہ نصیر الدین نصیر
ملاقات: غلام قادر

ممتاز عالمِ دین علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کا شمار ملک کے ان صفِ اوّل کے اہلِ قلم حضرات میں ہوتا ہے، جن کے قلم سے ایک سو سے زیادہ کتابیں رقم ہوگئیں، ان کتابوں کا فارسی، گجراتی، انگریزی، اور فرانسیسی زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ علامہ نصیر الدین نصیرؔ قومی ادب اور ثقافت کے افق پر اس لئے بھی ہمیشہ یاد کئے جائیں گے کہ وہ شمالی علاقوں میں بولی جانے والی “بروشسکی” زبان کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر ہیں، انہوں نے بروشسکی زبان کی پہلی لغت اور کہاوتوں کی کتاب کا پچاس فیصد کام مکمل کیا ہے، انہیں وادئ ہونزہ میں بابائے بروشسکی کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ علامہ نصیر الدین نصیرؔ نے بروشسکی زبان پر تحقیق کے سلسلے میں مانٹریال یونیورسٹی کینیڈا میں بھی کچھ عرصہ کے لئے

 

۱۲

 

کام کیا، ان کی ان خدمات کے پیشِ نظر یونیورسٹی کی انتظامیہ نے انہیں ایسوسی ایٹ کی سند سے نوازا۔

علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی پچھلے دنوں جب گلگت تشریف لائے تو ریڈیو پاکستان گلگت کے نمائندے غلام قادر نے ان سے ان کی علمی خدمات اور سرگرمیوں کے بارے میں ایک تفصیلی انٹرویو کیا، جو براہِ راست نشر ہوا، اس انٹرویو کا مسودہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔ (یہ انٹرویو ریڈیو کے رسالے “آہنگ” کے ۱۶ سے ۳۱ جولائی ۱۹۸۶ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے)۔

غلام قادر: جناب علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی صاحب! آپ اپنی تصانیف کے بارے میں ہمارے سننے والوں کو کچھ بتائیں کہ آپ تصنیف کی اس منزل تک کیسے پہنچے؟

علامہ نصیر الدین: میری تصانیف اس وقت ایک سو کتابوں تک پہنچی ہیں، جن میں چھوٹے کتابچے بھی شامل ہیں، اور ان کا متعدد زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ یہ کتابیں ان دنوں مغربی ممالک کی لائبریریوں میں بڑی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اسلامی علوم کو کتابِ کائنات سے مثالیں دے کر سائنسی علوم کے مروجہ اصولوں سے ہم آہنگ کر کے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ کے فضل اور قوم کی دعا کی وجہ سے اس مقصد میں کافی کامیابی بھی ہوئی ہے۔ میری کتابوں میں “روح اور روحانیّت” ایک

 

۱۳

 

خاص موضوع ہے، جس کو میں نے قرآنِ مقدّس کی حکمت کی روشنی میں اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ سائنسی ایجادات و انکشافات سے پیدا ہونے والے سوالات اور شکوک و شبہات کا ازالہ کر سکے، رہی بات کہ میں تصنیف کی اس منزل تک کیسے پہنچا تو اس کا واحد جواب یہ ہے کہ میں نے (Self Development ) کے اصول پر سختی سے عمل کیا اور اس کے نتیجے میں یہ مقام مجھے حاصل ہوا۔

غلام قادر: آپ کی تصانیف زیادہ تر اسلامی علوم کی تشریح پر مبنی ہیں، کیا ان میں کوئی ایسا موضوع یا پہلو بھی ہے کہ جو پڑھنے والوں کے لئے حیرت انگیز اور فکر انگیز ہو، یا مستقبل میں اس قسم کا کوئی پروگرام ہے۔

علامہ نصیر الدین: جی ہاں! اگرچہ میری تصانیف میں کافی مواد ایسا ہے، جو بقول قارئین ان کے لئے ایک عجوبہ ہے، مثلاً میں نے اپنی تصنیف “میزان الحقائق” میں “اڑن طشتریوں کے وجود اور مقصدِ پرواز” اور “ایٹمی دور روحانی دور سے ملا ہوا ہے” کے موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور قرآن سے ان حقائق کے دلائل دئے ہیں۔

ان دنوں میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں، جس کا نام قرآنی علاج یا علمی علاج ہو گا، لیکن اس کا زیادہ تر مواد قرآنی ارشادات کی روشنی

 

۱۴

 

میں (Spiritual Science) سے متعلق ہوگا، اس کتاب میں یہ بتانے کی کوشش کی جائے گی کہ قرآن میں جسم سے بڑھ کر روحانی اور عقلی بیماریوں کے لئے شفا موجود ہے۔

غلام قادر: اس قسم کی کتاب لکھنے کا خیال آپ کو کیسے آیا؟

علامہ نصیر الدین: مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسلام آباد میں ایک تقریب میں صدرِ مملکت جنرل محمد ضیاء الحق نے تقریر کرتے ہوئے اہلِ قلم حضرات کو تلقین کی تھی کہ وہ اسلامی طب کے موضوع پر نئے گوشے تلاش کریں تاکہ اسلامی طب فروغ پائے، اس اپیل نے میرے ذہن کو متاثر کیا اور میں نے سوچا کہ قرآن انسان کے لئے مکمل ضابطۂ حیات ہے، اس میں شفا جیسے اہم موضوع کے بارے میں اشارات کیسے نہیں ہو سکتے ہیں، چنانچہ ایک خاص پہلو سے مطالعۂ قرآن کے نتیجے میں، میں اس نتیجے پر پہنچا کہ قرآنِ مقدّس میں انسانی شفا کا موضوع حکمت کے انداز میں محفوظ ہے، چنانچہ ان دنوں میں اس موضوع پر مختلف زاویوں سے مقالے لکھ رہا ہوں، جن کو بہت جلد کتاب کی شکل دی جائے گی، اس سلسلے میں قومی سطح کے چند دانشوروں نے بھی تعاون کا یقین دلایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کے فضل و کرم اور پاکستانی قوم کی دعا شاملِ حال رہی تو یہ منصوبہ کامیاب ہوگا۔ اور یہ نہ صرف پاکستان کی بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لئے ایک علمی خدمت ہوگی، کیونکہ آج تک اس موضوع پر براہِ راست کسی ادیب نے

 

۱۵

 

قلمی جوہر نہیں دکھایا ہے، ویسے بھی میری تصانیف کا ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ مغرب کے ادیبوں کے نظریاتی اور ثقافتی سیلاب کو جو مختلف افقوں پر عالمِ اسلام کی معصوم نئی نسل کی طرف امنڈ رہا ہے، اسلامی جدید تصورات کے ذریعے ایک فصیل، دیوار، یا بند تعمیر کر کے اسے روکا جا سکے، تاکہ ہماری اکیسویں صدی کی نئی نسل کے ذہنوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔

غلام قادر: آپ بروشسکی زبان کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر بھی ہیں، کیا آپ اس زبان کے بارے میں کچھ بتائیں گے۔

علامہ نصیر الدین: بروشسکی زبان میری مادری زبان ہونے کے علاوہ انتہائی قدیم زبان ہے۔ اب تک پاکستان اور مغرب کی یونیورسٹیوں میں اس زبان پر کافی تحقیق ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ زبان دنیا کی چند انتہائی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے، جو اپنی ساخت کے لحاظ سے منفرد ہے اور اس کی ہندی، سنسکرت، فارسی، عربی اور دوسری زبانوں سے کوئی قدر مشترک نظر نہیں آتی ہے۔ یہ زبان وادئ ہونزہ، نگر اور یاسین کے لاکھوں مکینوں کے علاوہ گلگت میں نقل مکانی کرنے والے ہزاروں لوگ بولتے ہیں، اس زبان پر کینیڈا کی مانٹریال یونیورسٹی اور جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں تحقیق ہو رہی ہے۔

غلام قادر: آپ نے بروشسکی شاعری کا آغاز کب کیا، کیا آپ

 

۱۶

 

کا کوئی مجموعۂ کلام شائع بھی ہوا ہے؟

علامہ نصیر الدین: میری شاعری ۱۹۳۹ء میں شروع ہوئی، اور پہلا مجموعۂ کلام نغمۂ اسرافیل کے نام سے شائع ہوا، پھر منظوماتِ نصیری کے نام سے، اور اب چند سال پہلے دیوانِ نصیری کے نام سے کتاب موجود ہے۔ دیوانِ نصیری رومن شکل میں ٹائپ شدہ مونٹریال یونیورسٹی میں بھی موجود ہے، اس کتاب میں قومی نغموں کے علاوہ زیادہ تر عارفانہ اور صوفیانہ کلام ہے۔

غلام قادر: اکثر شعراء و ادباء اپنی سوانح عمری لکھتے ہیں، کیا آپ نے بھی ایسا کیا ہے؟

علامہ نصیر الدین: جی! اب تک خود تو نہیں کیا البتہ میرے چند دوستوں اور طالب علموں نے میری زندگی اور تخلیقات و شاعری پر تحقیق کے لئے (Allamah Research Institute Foundation) ARIF کے نام سے چند سال قبل ایک علمی ادارہ قائم کیا ہے۔ جس کی شاخیں کینیڈا اور کراچی میں ہیں، میری زندگی پر تحقیق کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ میری زندگی میں ایک درس ہے وہ یہ کہ میں ایک عام گھرانے سے کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم پائے بغیر اس منزل تک آیا ہوں اور اس دوران محنت و مشقت سمیت بڑے کٹھن مراحل سے گزرا ہوں جس کی وجہ سے میری زندگی بڑے نشیب و فراز سے عبارت ہے۔ میری زندگی میں ایک پہلو یہ بھی ملتا ہے کہ انسان کو

 

۱۷

 

تقدیر پر تکیہ لگا کر بیٹھنے کی بجائے اپنے اندر تسخیرِ کائنات کا جذبہ پیدا کر کے دنیا میں محبت و آشتی، علم و عمل اور جہدِ مسلسل کی ایک داستان رقم کرنا چاہئے۔

۱۸

 

یارقند سے مانٹریال تک

اور بہت سی تعجب انگیز اور قابلِ قدر خصوصیات کے علاوہ ہمارے روحانی دوست جناب علامہ نصیر الدین ہونزائی پاکستان کی ادبی اور لسانی تاریخ میں اس اعتبار سے بھی یاد رکھے جائیں گے، کہ انہوں نے ہونزہ (شمالی علاقہ جات) کی قدیم زبان بروشسکی کی قواعد کو مدوّن و مرتب کرنے کی تحریک میں یادگار حصہ لیا ہے۔ کیونکہ کنیڈا کی مانٹریال یونیورسٹی کے شعبۂ السنہ میں ہونزائی صاحب نے دو فرنچ پروفیسروں کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ بروشسکی زبان کے رسم الخط کو بھی ترتیب دیا ہے۔ موصوف کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ بروشسکی زبان کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر ہیں، اور ان کا “دیوانِ نصیری” بروشسکی زبان کے شعر و ادب میں یادگار حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کو مختلف لسانی علاقوں کے وفاق کا درجہ حاصل ہے۔ ہونزہ، نگر اور یاسین کی مروجہ زبان بروشسکی ، گلگت کی زبان ݽینا اور چترال کی بولی کھوار ہے، یہ زبانیں آریائی نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہمارے

 

۱۹

 

ہونزائی صاحب اردو اور بروشسکی دونوں زبانوں میں شعر کہتے ہیں۔ اب تک ایک سو سے زیادہ رسالے اور کتابچے قلم سے نکل چکے ہیں، ادبیات اور لسانیات کے علاوہ علامہ نصیر ہونزائی کے پسندیدہ موضوعات ہیں: روحانیّت، قرآنیات، اسلامیات، تصوّف اور باطنیات وغیرہ، آج سے ۲۳۔۲۴ سال قبل بابائے پشتو غزل حضرت امیر حمزہ شنواری اور علامہ نصیر الدین ہونزائی سے روحانیّت اور روحیّت کے موضوعات پر طویل گفتگو ہوئی تھی اور ہونزائی صاحب نے اپنے تجربات اشتیاق انگیز اور شوق آمیز لہجے میں بیان کئے تھے۔ علامہ ہونزائی کی ولولہ انگیز زندگی کے پانچ چھ سال یارقند (سنکیانگ، چین) میں گزرے ہیں۔ جہاں سخت ریاضت کا موقع ملا۔ جس میں ان کے ذہن کا ایک دریچہ کھل گیا اور وہ شعوری انقلابات اور نفسیاتی تجربات کے ایک ایسے صبر آزما دور سے گزرے کہ دنیا ہی بدل گئی۔ پچھلے مضمون میں اسلامک ریسرچ سینٹر کی ایک تقریب کا ذکر کیا گیا تھا۔ جہاں میں نے “روحانیّت عہدِ جدید میں” کے موضوع پر چند معروضات پیش کی تھیں، عرض کیا تھا کہ روحیّت (سائی کک ازم) ایک فن ہے اور اس فن کا حصول انفرادی مجاہدوں، مشقوں اور ریاضتوں سے ممکن ہے۔ آج دنیا کے ہر ملک میں “روحیّت” کے مظاہر کی سائنسی تحقیقات کی جارہی ہیں، اس تحقیقی مہم میں امریکہ اور سوویت یونین پیش پیش ہیں۔ لیکن جہاں تک روحانیّت کا تعلق ہے تو انسان کی روحانی صلاحیتیں

 

۲۰

 

صرف ایک حقیقت کوش، انسانیت دوست اور ترقی پسند معاشرے ہی میں نکھر سکتی ہیں۔ روحانیّت نام ہے انسانی ذہن کے مثبت جذبات یعنی محبت، ایثار، روشن خیالی، خلوص، عزم محکم اور جذبۂ خدمتِ خلق کو بروئے کار لانے کا! صرف انسانی ہجوم ہی میں رہ کر ہی ہم ان تخلیقی اور مثبت جذبات کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں، جن سے انسانی تہذیب کو فروغ نصیب ہوتا ہے، یوگیوں کے خارق العادات مظاہر جنہیں لوگ کشف و کرامت سے تعبیر کرتے ہیں، درحقیقت شعبدہ بازی سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ روحانیّت شعور کی ترقی کا ایک مختلف درجہ ہے، علامہ نصیر ہونزائی نے اپنی سو سے زیادہ تصانیف میں سچی اور حقیقی روحانیّت پر بڑی پیاری اور دل نشین بحث کی ہے، مثلاً “ذکرِ الٰہی” میں اس کی مختلف قسموں اور ان کے فوائد کا ذکر کیا ہے: ذکرِ فرد، ذکرِ جماعت، ذکرِ جلی، ذکرِ خفی، ذکرِ کثیر، ذکرِ قلیل، ذکرِ لسانی، ذکرِ قلبی، ذکرِ بصری، ذکرِ سمعی وغیرہ۔ نصیر ہونزائی روحانی اور نفسیاتی بیماریوں کا علاج ذکرِ الٰہی سے کرتے ہیں۔ ان موضوعات پر نصیر صاحب کی تصانیف پڑھنے کے قابل ہیں خصوصیت کے ساتھ ذکرِ الٰہی، روح کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ روحانیّت یہ نہیں کہ ہم دنیا پر لات مار کر اور معاشرے سے منہ موڑ کر ہمالیہ کی کسی تنگ و تاریک کھوہ میں آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں۔ انسان کی روحانی ترقی صرف اس طرح ممکن ہے کہ وہ اس دنیا کو سنوارنے، نکھارنے

 

۲۱

 

اور ابھارنے کی کوشش کرے وہ اپنی ذاتی انا کو معاشرے کی انا میں ضم کر دے، وہ رزقِ حلال اور صدقِ فعال (ہر حال میں راست بازی) پر عمل کرے۔ وہ مذہبی، نسلی، لسانی ، علاقائی تعصبات سے بلند ہو، وہ ایسے معاشرے کی تشکیل میں زبان، قلم اور قدم کے ذریعے حصہ لے جو مختلف طبقات (ظالم و مظلوم، حاکم و محکوم اور قادر و مجبور) میں بٹا ہوا نہ ہو، ایسا معاشرہ جہاں زبردست اور زیر دست کا کوئی تصور نہ ہو، بلاشبہ روحانیّت کا پودا صرف ایسی زمین میں نشونما پا سکتا ہے، جس کی آبیاری اور سیراب کاری، محبتِ انسانی، ایثارِ نفس، خلوصِ نیت، آزادئ فکر اور روشن خیالی کے چشمۂ کوثر سے کی گئی ہو، ہمارے دوست جناب نصیر ہونزائی نے اپنی تصانیف میں ان معاملات کی طرف خوبصورت اشارے کئے ہیں، علامہ ہونزائی کے سفرِ روحانی کی پہلی منزل تھی “یارقند سے مانٹریال تک” اب میں نے ان سے درخواست کی ہے کہ حضرت! آپ کی روحانی تگ و تاز کے لئے بہت بڑا میدان پڑا ہے: یورپ، امریکہ اور روس (نصیر ہونزائی کا پتہ ہے، خانۂ حکمت، ۱۷ ۔بی، نور ولا ، ۲۶۹، گارڈن ویسٹ، کراچی ۳)۔

علامہ صاحب اپنے مشاغل کے سبب عام ملاقات کا وقت نہیں نکال سکتے۔ احباب اس معذوری کو پیشِ نظر رکھیں۔

مطبوعات: علامہ نصیر الدین ہونزائی (ریسرچ ایسوسی ایٹ

 

۲۲

 

یونیورسٹی آف مونٹریال، کینیڈا) کا تعارف کرا چکا ہوں، گنجِ گرانمایہ میں انہوں نے تین اہم ترین سوالات کے جوابات قرآنِ مجید کی روشنی میں دیئے ہیں۔ یہ تین سوالات ہیں: (الف) حقیقی علم کے حصول میں حواسِ خمسہ کا کتنا حصہ ہے؟ (ب) ذہن اور روح کے درمیان کیا رشتہ ہے؟ (ج) عبادت یا ذکر کے دوران لامکانی حد میں داخل ہونا اور پھر زمان و مکان کی حد میں واپس آنے کا عمل کس طرح بیان ہو سکتا ہے؟ تینوں سوال مشکل ہیں، علامہ ہونزائی نے ان کے جوابات اتنی صفائی اور خوبی سے دیئے ہیں کہ جی خوش ہو گیا، یہ رسالہ خانۂ حکمت (پتہ درج کر چکا ہوں) سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

(رئیس امروہی۔ روزنامہ جنگ کراچی۔ ۱۴ مارچ ۱۹۸۶ء)

علامہ نصیر الدین ہونزائی: اردو اور شمالی علاقائی زبان بروشسکی کے مصنف، شاعر اور روحانیّت و قرآنیات کے عالم و مفکر حضرت علامہ نصیر الدین ہونزائی کی بیس تصانیف اب تک قرآنِ مجید اور صحتِ روحانی و جسمانی کے موضوع پر شائع ہو چکی ہیں۔ یہ بیس رسالے (یا مقالے جو اس وقت بصورتِ کتاب ۲۶ ہیں) نہ صرف کلام اللہ کے طبی اشارات کی وضاحت کرتے ہیں، بلکہ ان میں تعبیرِ خواب، ذکر کے اثرات، دعا کے معجزے، روحانی سائنس، عشقِ الٰہی، انسان بہ حیثیتِ کائناتِ اکبر اور تقویٰ و عبادت کے رموز و اسرار پر عام

 

۲۳

 

فہم زبان میں گفتگو کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں خانۂ حکمت (بی/۱۷، نور ولا، ۲۶۹، گارڈن ویسٹ ، کراچی) سے رجوع کریں۔

(رئیس امروہی۔ روزنامہ جنگ کراچی۔ ۲۰ جون ۱۹۸۶ء)

۲۴

 

 

پیش لفظ

۱۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اس قرآنی حقیقت کے بارے میں کسی دیندار کو کیوں کر کوئی شک و شبہہ ہو سکتا ہے کہ قرآنِ حکیم اور دینِ فطرت یعنی اسلام اپنے ظاہر و باطن کی وسعت میں گوناگون آسمانی نعمتوں کی ایک بھرپور کائنات ہے (۰۵: ۰۳، ۳۱: ۲۰) جو انوارِ خداوندی سے منور و درخشان اور سماوی علم و حکمت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معمور و آبادان ہے، جس میں ربِ جلیل و کریم نے اپنی رحمتِ بے پایان سے جملۂ مسلمین و مومنین کو نہ صرف بحدِّ فعل بلکہ بحدِّ قوّت بھی سب کچھ عطا کر دیا ہے، اور اگر وہ سارے کے سارے مل کر پروردگارِ مہربان کی عنایت فرمودہ تمام نعمتوں کو شمار کرنے لگیں، تو اس سعئ محال میں کوئی کامیابی نہیں ہوگی (۱۴: ۳۴) کیونکہ خداوندِ رحمان و رحیم کی نعمتیں بے حد و بے انتہا ہیں، اس کا واضح و لائح مطلب اہلِ دانش کے ہاں یقیناًیہی ہو گا کہ جسم، جان، اور عقل کی صحت و شفا ایک بہت بڑی ربّانی نعمت ہے، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تمام نعمتوں

 

۲۵

 

میں اسی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ ظاہری اور باطنی صحت ہی انسانی وجود کا کل اور کمال ہے، اور اس کے بغیر دوسری تمام نعمتوں کا احساس و ادراک ممکن ہی نہیں۔

۲۔ اگرچہ آج کی دنیا ظاہری علوم و فنون سے بہت کچھ آراستہ ہو چکی ہے، اور اس میں مادّی طریقہ ہائے علاج کی کوئی کمی نہیں، اور ان میں سے بعض بدرجۂ تعریف و توصیف مؤثر و مفید بھی ہیں، تاہم وہ سب جسمانی علاج کی حد تک محدود ہیں، اور اس میں ذرا بھی گلہ و شکوہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ کوئی انسان ازخود چارۂ روح کے سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا، اور نہ وہ امراضِ باطن کو دیکھ سکتا ہے، الا آنکہ قرآن و سنت سے جیسا کہ حق ہے کہ رجوع کیا جائے، اس لئے کہ قرآنِ کریم کا طبی پہلو ہر طرح سے کافی، شافی، اعلیٰ اور بے مثال ہے، جبکہ یہ بمرتبۂ کلامِ الٰہی ایک ایسی کامل و مکمل اور بے نظیر کتاب، اور ایک ایسا عالمگیر ہدایت نامۂ لاثانی ہے، کہ اس میں کسی کمی کے بغیر جسم و جان سے متعلق تمام موضوعات پر محیط علم و بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹)۔ آپ نے یہ تو سنا ہوگا کہ زمانۂ نبوّت میں اصحابِ کبار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے درمیان بیماری بہت ہی کم پائی جاتی تھی، اس مجموعی سلامتی کا سبب قرآن اور معلمِ قرآن صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا کہ وہ حضرات پرہیز و صحتمندی کے ان نسخہ ہائے لاہوتی پر عمل پیرا ہوتے تھے، جو قرآنِ حکیم میں درج ہیں۔

 

۲۶

۳۔ یہ کتاب جو بنامِ “قرآنی علاج” آپ کے سامنے ہے، ہر چند کہ کثیر موضوعات پر محیط نہیں، لیکن شاید یہ خیال درست ہو کہ اس کے اکثر نکات بڑے فکر انگیز واقع ہوئے ہیں، اور اگر اہلِ دانش کی نظر میں یہ کتاب واقعی پسندیدہ اور مفید قرار پائے، تو یہ قرآن ہی کا ایک علمی معجزہ ہوگا، نہ اس بندۂ ناچیز کا کوئی کمال، کیونکہ میں خاکسار اس قابل نہیں تھا کہ اپنے قلم کے زور یا ذاتی علم کی دولت سے قرآنِ مجید کی کوئی چھوٹی سی خدمت کر سکتا، پس اگر اس کتاب میں کچھ علم و حکمت کی خوبیاں ہیں، اور کچھ مجموعی صحت کے بھید ہیں، تو وہ قرآنی خزانوں کے ہیں، اور اگر اس میں بعض خامیاں ہیں، تو ظاہر ہے کہ وہ میری ہی وجہ سے ہیں، کیونکہ میں وہ انسان نہیں ہوں، جو ہر طرح سے کامل و مکمل ہوتا ہے، بلکہ ایک خام و ناتمام آدمی ہوں۔

۴۔ قرآنی علاج کی اہمیّت و افادیّت کے بارے میں ایک مزید گزارش یہ ہے کہ انسانی وجود نہ صرف دواؤں سے متاثر ہو جاتا ہے، بلکہ اس کے علاوہ یہ اقوال و احوال سے بھی اثر پذیر ہوجاتا ہے، مثال کے طور پر جب کوئی آدمی شرم کے مارے پسینہ پسینہ ہو جاتا ہے، جس وقت کوئی شخص کسی قسم کے خوف سے لرزہ بر اندام ہو جاتا ہے، یا کسی خبر جانکاہ سے زار و قطار رونے لگتا ہے، یا کوئی کثرتِ غم سے یا خوشی سے رات بھر سو نہیں سکتا، تو اس وقت اس کی حالت دگر گون ہو جاتی ہے، پس ان کیفیات کا علمی یا

 

۲۷

 

نفسیاتی تجزیہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی کیفیت ہرگز سطحی نہیں، بلکہ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ایک ذہنی چیز دل و دماغ کی گہرائی میں اتر گئی، جس کے نتیجے میں بدن کا ذرہ ذرہ اسی طرح متاثر ہوگیا، حالانکہ عقل کے نزدیک ایسا ہونا ضروری نہیں تھا، اب اگر کچھ نہ کچھ ایسے اثرات کسی ہوشمند انسان کے ذہن پر قرآنِ حکیم سے مرتب ہو جائیں، تو کیا اس کی حالت یکسر تبدیل نہ ہوگی؟ آیا وہ رفتہ رفتہ امراضِ روحانی سے نجات نہیں پائے گا؟ کیوں نہیں، یقیناً نجات ملے گی۔

۵۔ مطالعۂ قرآن سے یہ حقیقت روشن ہوکر سامنے آ جاتی ہے کہ انتہائی عاجزی اور درویشانہ اشک فشانی سے نہ صرف باطنی بیماریوں کا علاج ہو جاتا ہے، بلکہ اس میں عالمِ شخصی کی ایک انقلابی ترقی بھی پوشیدہ ہے، بشرطی کہ یہ چیز علم و عمل کے ساتھ ساتھ ہو، نماز و طاعات کے سلسلے میں جب سجدہ قربِ خداوندی کا درجہ رکھتا ہے (۹۶: ۱۹) تو اگر یہی سجدہ آپ اشکہائے للّٰہیت کے ساتھ کر سکتے ہیں، پھر میں بندۂ ناچیز اس کی کیا تعریف کر سکتا ہوں، آپ خود قرآن میں دیکھیں (۱۷: ۱۰۹) ایسے سجدے سے، جس میں بندۂ عاشق ایک طرح سے فنا ہو جاتا ہو، خدائے مہربان کی خوشنودی کا کیا عالم ہو گا۔

۶۔ جسمانی علاج کا طریقہ یہ ہے کہ ہر بیماری کے لئے نسخہ الگ ہوا کرتا ہے، اس کے برعکس روحانی علاج میں کوئی ایک دوا صد ہا امراض سے نجات دلا سکتی ہے، مثلاً ذکرِ الٰہی کو لیجئے، جس کے ذریعہ

 

۲۸

 

اطمینانِ قلب حاصل ہو جاتا ہے (۱۳: ۲۸) لیکن یہ نکتہ ہمیشہ کے لئے خوب یاد رہے کہ خدائے علیم و حکیم نے قلبِ انسانی کی جس کیفیت کو اطمینان فرمایا ہے، اس کے معنی اتنے وسیع اور عالی ہیں کہ وہ بے شمار مشکلات کا حل ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی روحانی بلندیوں تک پھیل جاتے ہیں (۰۲: ۲۶۰) دوسری طرف اطمینان کی مثال فرشتگانِ ارضی ہیں (۹۵: ۱۷) نیز نفسِ مطمئنہ کے بارے میں تذکرۂ قرآن کو دیکھئے (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) تاکہ اس پُرحکمت لفظ کے وسیع مفہوم کا اندازہ ہو جائے۔

 

۷۔ ذکر و عبادت مردِ درویش کے نزدیک بہ اعتبارِ مکان و لا مکان دو قسم کی ہوا کرتی ہے، ایک مکانی ہے، اور دوسری لامکانی، مکانی عبادت کا مطلب یہ ہے کہ بندگی کا مرکز دل میں قرار پاتا ہے، یا دماغ میں، یا آنکھ میں، یا کان میں ، یا ناک (سانس) وغیرہ میں ، اور لامکانی ذکر یہ ہے کہ اس میں صوفئ صاف باطن نہ صرف اپنے آپ کو بھول جاتا ہے، بلکہ وہ زمان و مکان کی ہر چیز سے لا تعلق اور بے خبر ہو کر یادِ الٰہی میں فنا ہو جاتا ہے، پس ان دونوں عبادتوں میں جو کچھ فرق و امتیاز ہے، وہ پوشیدہ نہیں، تاہم ہر درجے کی عبادت آخر عبادت ہی ہے، اور ہر چیز میں ایک رحمت اور ایک علم مخفی رہتا ہے (۴۰: ۰۷) چنانچہ قرآنی علاج کے بعض طریقوں میں آپ مکانی ذکر کر سکتے ہیں، جیسے “پاؤں کی حرکت سے علاج” کا طریقہ ہے، کہ اس

 

۲۹

 

میں دل و دماغ کے مرکز سے سارے بدن میں نورِ ذکر کی لہریں پھیل جانے کا تصوّر کرنا ہے، جس میں علاج و شفا کا بہت بڑا بھید پوشیدہ ہے۔

۸۔ اے کاش، میں یہ پیاری کتاب، جو “قرآنی علاج” جیسے امرِ عظیم سے متعلق ہے، شایانِ شان الفاظ و عبارات میں تحریر کر سکتا، جیسا کہ اس کا حق ہے! کاش میرے پاس بھی دوسرے بہت سے حضرات کی طرح اردو ادب کے گرانقدر ذخائر و خزائن موجود ہوتے! دریغا اسے ایسے عالی مرتبت اور نامور علمائے دین میں سے کوئی صاحب لکھتا، جو قرآنی علوم کے ساتھ ساتھ قلم کے بھی بادشاہ ہوا کرتے ہیں! اے افسوس! میری عمر کا وہ زمانہ، جبکہ میں اپنے والدِ محترم کی بکریاں چراتا تھا، کسی کالج میں صرف ہوتا! کاش شہسوارانِ رخشِ قلم میں سے کوئی اس جولان گاہ میں میری مدد کرتا! ہائے افسوس! علم و حکمت کا شہزادہ گاؤں کے ایک غریب آدمی کا متبنی تو ہو گیا، لیکن اب مشکل یہ ہے کہ یہ ناچار شخص اس کی پرورش کس طرح کرے گا، اور کس لباس میں لوگوں کے سامنے لائے گا۔

۹۔ دنیائے ظاہر میں ایک بار توڑا ہوا بت پھر کبھی اپنے آپ درست، سالم، اور بحال ہو کر بت نہیں بن سکتا، مگر آدمی کے اندر نفس یا خودی اور خودنمائی ہی کا صنم (بت) ایسا ہے، کہ اسے بار بار توڑ کر ریزہ ریزہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے، کیونکہ وہ ہر بار از خود زندہ

 

۳۰

 

ہو جانے والا جادوگر ہے، خدا کرے کہ ہم اس جہادِ اکبر کا مقدس فریضہ حسن و خوبی سے انجام دیتے رہیں! اس سلسلے میں امرِ ضروری یہ ہے کہ بوقتِ کامیابی ہم قولاً و فعلاً اللہ تعالیٰ کا شکر کریں، کہ وہی بادشاہِ حقیقی ہے، حکم اسی کا ہے، اور توفیق و دستگیری بھی اسی کی ہے، ہاں حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کا ذکر آتا ہے، لہٰذا یہ بات بھی لازمی ہے کہ ہم ان تمام حضرات کو شکر گزاری سے یاد کریں، جن کے تعاون سے، یا حوصلہ افزائی سے، یا اعتماد و خیر خواہی سے کوئی اہم کام پایۂ تکمیل پر پہنچ گیا ہو، کاش تاریخ کی کوئی ضخیم کتاب ہوتی، تو میں اپنے تمام دوستانِ حمیم اور یارانِ قدیم کے اسمائے گرامی درج کرتا، جو ہر بار کامیابی اور خوشی کے باعث بنتے چلے آئے ہیں، تاہم میرے دل میں ہمیشہ ان کی بے حد قدر دانی اور خیر خواہی موجود ہے لیکن اگر یہاں “خانۂ حکمت” اور “ادارۂ عارف” کا نمایان تذکرہ نہ کروں تو مجھ سے بہت بڑی ناشکری ہوگی، کیونکہ ان کے بے شمار احسانات ہیں اور یہ کتاب دراصل میری نہیں ان کی ہے۔

۱۰۔ مجھے دریائے گریہ و زاری میں مستغرق ہو کر خدائے بزرگ و برتر کی اس رحمت و مہربانی کا شکر بجا لانا چاہئے کہ اُس مہربان مسبب الاسباب نے اس بندۂ حقیر کے لئے خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کا وسیلہ عطا کر دیا، ورنہ اس ترقی کی زمانے میں، جبکہ لوگ بصورت ادارہ دریائے موّاج کی طرح طوفانی کام کرتے ہیں،

 

۳۱

 

ایک بیچارہ آدمی جو ۶۹ سال کا بوڑھا ہے، تنہا کس طرح علم کی کوئی خدمت کر سکتا ہے، اور اگر یہ کہوں کہ میں صرف خامہ فرسائی کرتا ہوں، تو یہ دعویٰ بھی ازروئے حقیقت بڑا عجیب ہو گا، کیونکہ قلم دراصل بہت ہی بھاری چیز ہے، مگر جب خدا چاہے تو ایک ہاتھ میں بہت سے ہاتھوں کو جمع کر دیتا ہے، پس اللہ تعالیٰ ہمیں عجب و خود بینی سے بچائے رکھے!

۱۱۔ کسی ادارے کی تعریف بحقیقت سرپرستِ ادارہ، عملداران، اور ارکان کی تعریف ہوا کرتی ہے، تاہم یہاں صدر فتح علی حبیب، اور صدر محمد عبد العزیز کا ذکرِ جمیل ضروری ہے یہ دونوں عزیز درویش ہیں، مگر ان کے پاس چار خزانے پوشیدہ ہیں، اخلاق، ایمان، ذوقِ علم، اور جذبۂ خدمتِ خلق، یعنی وہ علم کی روشنی پھیلانے والوں میں سے ہو جانا چاہتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک صرف علم ہی ایک ایسی ہمہ رس دولت ہے کہ جس سے سب کی یکسان خدمت کی جا سکتی ہے، یہ صاحبان ہمیشہ مل کر کام کرتے ہیں، اپنے دوسرے عملداروں اور ممبروں کو عزیز رکھتے ہیں، جس کی بدولت ہر مشترکہ میٹنگ بڑی درویشانہ اور پُرخلوص قسم کی ہوا کرتی ہے، چنانچہ ان کے یہ دو ادارے آدمی کی دونوں آنکھوں کی طرح متفق و متحد ہیں، جیسے آنکھوں کا انفرادی فعل ایک دوسرے میں فنا اور گم ہو کر اجتماعی فعل بن جاتا ہے، پس میں خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کے مرکز اور

 

۳۲

 

تمام شاخوں کا ممنون ہوں، اور بالکل اسی طرح بی۔آر۔ اے (بروشسکی ریسرچ اکیڈمی) کا بھی احسان مند ہوں، کہ ان اداروں کے عہدہ دار اور ارکان سب کے سب قرآنی علم کی خدمت کو اپنی جانِ عزیز سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، اور یہی ایک ایسی زبردست محرک چیز ہے، جس کی وجہ سے کسی خادم میں خدمت کے لئے ایک باہمت روح پیدا ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے۔

خاکسار:
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
بدھ ۲۴ صفر المظفر ۱۴۰۷ھ / ۲۹ اکتوبر ۱۹۸۶ء

 

۳۳

 

 

قرآنی علاج کا ثبوت

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآنِ پاک ظاہری طب یا ڈاکٹری کی کتاب تو نہیں، اور نہ اس کا مقصد کوئی ایسا محدود کام ہے، بلکہ یہ عالمگیر ہدایت و رہنمائی کی سماوی کتاب ہے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے حضرت محمد مصطفی خاتمِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئی ہے، لیکن اس کے باوجود قرآنِ حکیم جہاں بہت سے علوم کا سرچشمہ ہے، جیسی اس کی جامعیّت ہے، جس طرح یہ علم و حکمت میں بے مثال و بے نظیر ہے، اور جس معنیٰ میں ہر چیز کا بیان کرتا ہے (۱۶: ۸۹) اس کے پیشِ نظر، یعنی قرآنِ مقدّس کے بہت سے پہلوؤں کے ساتھ ساتھ روحانی سائنس (Spiritual Science) کے پہلو کو بھی عقیدت و محبت سے تسلیم کرنا چاہئے، جس میں بہت سی مفید چیزوں کے علاوہ علمِ علاج کے اشارات بھی موجود ہیں، چنانچہ ذیل میں اس حقیقت کے ثبوت کے طور پر چند دلائل درج کئے جاتے

 

۳۴

 

ہیں۔

۱۔ قرآنِ کریم بحیثیتِ مجموعی جسمانی، اخلاقی، نظریاتی، روحانی اور عقلی بیماریوں کے لئے وہ واحد و یکتا آسمانی دوا اور شفا (۱۷: ۸۲) ہے کہ اس کی مثال جملہ ادوار میں نہیں مل سکتی۔

۲۔ اگر کسی کو روحانی طب اور آنحضرت کی حکمتِ علاج کے بارے میں جاننا ہو، تو علمِ فقہ کی کتابوں میں “طب” کے عنوان کے تحت دیکھے، تاکہ یہ حقیقت روشن ہو جائے کہ اس سلسلے میں حضورِ اکرمؐ نے جیسے ارشاد فرمایا، اور جو کچھ کر کے دکھایا، وہ سب قرآن ہی سے، اور اسی کی روشنی میں تھا۔

۳۔ سورۂ فاتحہ اپنے اندر قرآنی حقائق و معارف کی جامعیّت رکھنے کی وجہ سے امُ الکتاب کہلاتا ہے، اور اس کا ایک نام سورۂ شفا بھی ہے، کیونکہ حدیثِ شریف میں ہے کہ اس کے پڑھنے سے ہر بیماری سے شفا ملتی ہے، ملاحظہ ہو، الاتقان فی علوم القرآن، حصّۂ دوم، نوع پچھتر، “خواصِ قرآن،” اس سے ظاہر ہوا کہ قرآن میں شفا ہے۔

۴۔ صحیح بخاری، جلدِ سوم، “کتاب الطب” کے شروع ہی میں یہ حدیث درج ہے: ما انزل اللّٰہ دآء الا انزل لہ شفاء = اللہ تعالیٰ نے جو بیماری پیدا کی ہے، اس کے لئے شفا بھی پیدا کی ہے۔ اس ارشادِ نبوّیؐ میں نہ صرف جسمانی بیماری کی بات ہے، بلکہ

 

۳۵

 

اخلاقی، نظریاتی، روحانی، اور عقلی بیماریوں کا بھی ذکر ہے، کیونکہ آنحضرتؐ انتہائی جامع کلمے فرمایا کرتے تھے، دیکھئے: لغات الحدیث، جلد اوّل، مادّہ: “ج م ع” کے تحت، پس باطنی بیماریوں کی شفاء قرآن میں ہے۔

۵۔ اصولِ کافی، جلدِ دوم، کتاب الدعا، باب ۵۶، “دعائے امراض” کے موضوع کے سلسلے میں دیکھئے کہ قرآنی طب اور روحانی علاج کی تائید و تصدیق ہو جاتی ہے۔
۶۔ سننِ ابنِ ماجہ، جلدِ دوم، ابواب الطب، زیرِ عنوان “قرآن سے دوا کرنا” حضرت علی علیہ السّلام سے یہ حدیث مروی ہے: نبئ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: سب سے بہتر دوا قرآن ہے (خیر الدواء القرآن)۔

۷۔ دعائم الاسلام، جلدِ دوم، کتاب الطب کو دیکھئے کہ اس سے بھی یہی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے کہ ہر قسم کی بیماری کے لئے دوا اور علاج کا ایک بنیادی طریقہ روحِ قرآن میں موجود ہے، خصوصاً روحانی بیماریوں کے لئے۔

۸۔ قرآنِ حکیم میں علمِ طب کا ایک نمایان ذکر سورۂ نحل (۱۶: ۶۹) میں موجود ہے، جہاں شہد کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے، جس سے نہ صرف قرآنی طب کا ایک روشن ثبوت مہیا ہو جاتا ہے، بلکہ اس میں دانشمند طبیبوں کے لئے یہ اشارہ بھی ہے کہ وہ ان پھولوں اور پھلوں میں تحقیق و تجربہ کر کے

 

۳۶

 

طب کو ترقی دیں، جن کے رس سے شہد بنتا ہے۔

۹۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں میں برکت رکھی ہے (۴۱: ۱۰) یہ برکت کس چیز کا نام ہے؟ پہاڑوں کی برکت میں بہت سی چیزیں شامل ہیں، اور ان میں وہ جڑی بوٹیاں بھی ہیں، جس سے دوائیاں بنتی ہیں۔

۱۰۔ پروردگارِ عالم نے درختِ زیتون کو بابرکت قرار دیا ہے (۲۴: ۳۵) چنانچہ اس کی برکتوں میں سے ایک برکت طبی نکتۂ نظر سے ہے، کہ روغنِ زیتون بہترین دواؤں میں سے ہے، آپ اس کے خواص طب کی مستند کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔

۱۱۔ برکتوں کا اصل سرچشمہ اللہ جلّ شانہ کا اسمِ بزرگ ہے (۵۵: ۷۸) جس کی برکتیں کبھی ختم نہیں ہوتی ہیں، منجملہ ہر قسم کی بیماری سے شفایابی کی برکت بھی ہے، اور خداوند تعالیٰ کے بابرکت نام میں یا نہیں ہے۔

۱۲۔ کلامِ الٰہی کے چار مقامات ایسے ہیں، جہاں قرآنِ پاک کے بابرکت (مبارک) ہونے کا ذکر فرمایا گیا ہے، ان میں سے ایک مقام پر یہ اشارہ بھی ہے کہ قرآنی برکتوں کے لئے غور و فکر کی ضرورت ہے (۳۸: ۲۹)، جس طرح پہاڑ کی بعض برکتیں سطح سے اور بعض گہرائی سے حاصل ہو جاتی ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ قرآن میں ہر قسم کی برکات موجود ہیں، اور ان میں روحانی طب بھی ہے۔

 

۳۷

۱۳۔ یہ ایک قرآنی حقیقت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اپنے وقت کے روحانی طبیب تھے، آپ جسمانی، اخلاقی، نظریاتی، روحانی، اور عقلی مریضوں کا علاج کیا کرتے تھے، کیونکہ اللہ پاک اور اس کے پیغمبروں کے نزدیک یہ نعمت کافی نہیں کہ صرف بدن کی صحت برقرار ہو، اور جسم سے اعلیٰ انسان کی جو حیثیتیں ہیں، ان کو نظر انداز کر دیا جائے، یعنی، اخلاق، نظریہ، روح، اور عقل کی سلامتی کے لئے کوئی علاج نہ ہو، اس سے ظاہر ہے کہ آسمانی ہدایت اور ربّانی ہادی (پیغمبر) کی جملہ مثالوں میں سے ایک مثال ڈاکٹری اور ڈاکٹر کی طرح ہے۔

۱۴۔ قرآنِ حکیم کے ناموں میں سے ایک نام شفاء (۱۷: ۸۲) بھی ہے، آپ جانتے ہیں کہ شفاء مرض سے صحت یاب ہونے کا نام ہے، جیسے قرآن میں ہے: وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ (۲۶: ۸۰، اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھ کو شفاء دیتا ہے) اس کے یہ معنی ہوئے کہ انسانیّت ہر طرح سے اور ہر حیثیت میں شدید بیماری کا شکار ہو چکی تھی، جس کو دیکھ کر خدائے رحمان و رحیم کو رحم آیا، لہٰذا، اُس مہربان نے آنحضرتؐ کو عظیم المرتبت روحانی طبیب بنا کر اور قرآنِ حکیم کی شفاء بخش تعلیمات کو آسمانی دواؤں کا درجہ دے کر بھیجا، پس قرآنِ پاک جہاں سر تا سر شفاء ہے، وہاں اس کے یہی معنی ہوتے ہیں۔

۱۵۔ قرآنی ارشاد کا ترجمہ ہے: اُن کے دلوں میں مرض ہے سو اور بھی بڑھا دیا اللہ نے ان کو مرض (۰۲: ۱۰) یہ لوگ کون تھے؟ زمانۂ نبوّت

 

۳۸

 

کے منافقین، ان کے دلوں میں کون سی بیماری پوشیدہ تھی؟ کفر و نفاق، جس کو آپ جہالت و نادانی بھی کہہ سکتے ہیں، پس اگر کفر و نفاق روحانی بیماری ہے تو وہ انسان کی ہستی میں اور کہیں نہیں صرف اخلاق، نظریات، روح، اور عقل میں ہو سکتی ہے، چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ بیماری کی بڑی قسمیں پانچ ہیں: جسمانی، اخلاقی، نظریاتی، روحانی اور عقلی۔

۱۶۔ مذکورۂ بالا دلیل (نمبر ۱۵) میں آپ نے روحانی بیماری کے بارے میں سن لیا، اب دوسری جانب سے روحانی صحت کے باب میں بھی سن لیجئے، کہ قرآنِ حکیم اُس دل کو، جس میں کوئی ایسی بیماری نہ ہو، اور وہ ہرگونہ صحت و سلامتی کی دولت سے مالا مال ہو، قلبِ سلیم (۲۶: ۸۹، ۳۷: ۸۴) کہتا ہے۔

۱۷۔ قرآن اور اسلام میں لفظِ السلام یا سلام بڑے موضوعات میں سے ہے، جس کے معنی سلامتی کے ہیں، اور جب مسلمان آپس کی ملاقات میں بطورِ دعا کہا کرتے ہیں: السلام علیکم! (تم پر سلامتی ہو!) تو اس کی مراد یہ ہوتی ہے: خدا تمہارے بدن، اخلاق، نظریات، روح اور عقل کو سلامتی دے! اور ہر بیماری و آفت سے محفوظ رکھے!

۱۸۔ ایک بڑا روحانی مرض قساوت (۰۲: ۷۴، سنگدلی) ہے، یعنی قلبی رقت و نرمی کا مفقود ہو جانا، قرآن ایسے بیمار دل کی مذمت

 

۳۹

 

کرتا ہے، کیونکہ صحت مند دل وہی ہے جو بار بار پگھل جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، تاکہ وہ خوفِ خدا اور علم و عبادت کے فیوض و برکات سے معمور و منوّر ہو سکے۔

۱۹۔ سب سے بنیادی اور سب سے بد ترین مرض تکبر ہے، جو ہر قسم کی روحانی بیماریوں کو جنم دیتا ہے، یہ مرض اوّل اوّل ابلیس کو لاحق ہو گیا تھا (۳۸: ۷۴) چنانچہ شیطان تمام برائیوں کی جڑ اسی وجہ سے ہوا ہے کہ اُس نے کسی حق کے بغیر اپنے آپ کو بڑا سمجھ لیا، دراصل شیطان چھوت والی بیماری میں مبتلا ہے، یہی سبب ہے کہ اس کے چھونے سے آدمی خبطی ہو جاتا ہے (۰۲: ۲۷۵) یا کوئی اور بیماری ہو جاتی ہے۔

۲۰۔ اللہ تعالیٰ کا قانون (سنت ۳۵: ۴۳) بنیادی طور پر ہمیشہ ایک جیسا رہتا ہے، اور اسلام کی روح میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی، چنانچہ قرآنِ حکیم کے اس پُرحکمت کلّیہ میں غور کیجئے کہ ہر پیغمبر کا ایک ایسا دشمن ہوا کرتا ہے کہ وہ چند انسی اور جنّی شیاطین کا مجموعہ ہوتا ہے (۰۶: ۱۱۲، متعلقہ آیت میں خوب غور کیجئے) بنا برین سامری (۲۰: ۸۵) زمانۂ موسیٰ علیہ السّلام کے انسی شیاطین میں سے تھا، جس کی وجہ سے اس کو وہی چھوت والی بیماری لگی تھی، جو دوسرے تمام شیاطین کے ساتھ ہوا کرتی ہے (۲۰: ۹۷) اور ایسی بیماری دراصل ظاہر میں نہیں، بلکہ باطن میں ہوا کرتی ہے۔

 

۴۰

۲۱۔ دینی اعتبار سے انسان کے تمام اقوال و افعال شروع میں بھی اور آخر میں بھی دو جامع اور متضاد لفظوں میں سما جاتے ہیں، جیسے اچھی چیزیں امر کے تحت آتی ہیں، اور بری چیزیں نہی کے تحت، یہی معنی خیر و شر، حسنات و سیئات، نور و ظلمت، اطاعت و معصیت، حق و باطل، اور خدا کی خوشنودی و ناراضگی جیسے دوسرے دو دو لفظوں میں بدل جاتے ہیں، اسی طرح اللہ اور رسول کی فرمانبرداری باطنی صحت ہے، اور نافرمانی بیماری، اور یہ دو معنی ایسے جامع ہیں کہ ان سے کوئی چیز باہر نہیں رہ سکتی، پس اس تصور سے زیرِ بحث موضوع کی وسعت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
۲۲۔ بے حیائی اور برے کاموں میں جسمانی، اخلاقی، نظریاتی، روحانی، اور عقلی بیماریاں موجود ہیں، اور اس حقیقت سے کسی بھی دانشمند کو انکار نہیں ہو سکتا، چنانچہ قرآن ہی نے یہ فرمایا کہ اس خرابی کا سدِ باب نماز سے ہو سکتا ہے (۲۹: ۴۵)۔

۲۳۔ قرآنِ کریم بار بار تقویٰ کی اہمیت بیان کرتا ہے، اور بہت سی آیات میں اس کی طرف پُرزور توجہ دلاتا ہے، یہاں تک کہ تقویٰ ہی کو مسلمین کی عزت و بزرگی کا معیار قرار دیتا ہے (۱۳: ۴۹) اور فرماتا ہے کہ تقویٰ کے بغیر کوئی قول و عمل قبول نہیں ہو سکتا، یہ کیوں ایسا ہے؟ اس لئے کہ تقویٰ کے معنی ہیں خدا، یا قانونِ خدا سے ڈرنا، اور ہر قسم کی بدی و بیماری سے بچنا۔

 

۴۱

۲۴۔ جب قرآن ہی سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ کفر و نفاق قلبی مرض (۰۲: ۱۰) ہے، تو پھر اس کا علاج یہی ہے کہ ایسا شخص جان و دل سے اسلام و ایمان کو قبول کرے، اس بیان سے یہ حقیقت کسی شک کے بغیر روشن ہو جاتی ہے کہ طبِ روحانی کے اعتبار سے تمام قرآنِ پاک دو حصوں پر منقسم ہے، ایک حصے میں چھوٹی بڑی ہر قسم کی باطنی بیماریوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور دوسرے میں زبردست مؤثر دوائیاں، بدرجۂ کمال نسخے، اور انتہائی کامیاب طریقہ ہائے علاج مذکور ہیں، اب ان شاء اللہ تعالیٰ، آپ کو معلوم ہوا ہوگا کہ قرآنِ حکیم کے ناموں میں سے ایک نام “شفاء (۱۷: ۸۲)” کیوں ہے۔

علامہ نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی

۴۲

 

سورۂ شفاء میں طبی اشارات

۱۔ اگرچہ ہر چیز زبانِ قال سے یا زبانِ حال سے اللہ تعالیٰ کی تعریف و تسبیح کرتی رہتی ہے،اور اس “قانونِ کل” سے کوئی مخلوق باہر نہیں (۱۷: ۴۴) لیکن خود پروردگارِ عالم نے قرآنِ حکیم کے کئی مقامات پر جس شان سے اور جن معنوں کے ساتھ اپنی ذاتِ اقدس کی تعریف و توصیف فرمائی ہے، وہ سب سے برتر، بے مثال، اور حکمتوں سے لبریز ہے، خصوصاً سورۂ فاتحہ میں دیکھئے کہ خداوندِ تعالیٰ کی تعریف اُس کی صفتِ ربوبیّت (پروردگاری) کی وجہ سے ہے، چنانچہ اس مقام پر دانشمندوں کے لئے ایک بڑا اہم اشارہ ہے، تاکہ وہ ربّانی پرورش کے قوانین میں خوب غور و فکر کریں، کہ اگرچہ وہ ہر ہر عالم کا پروردگار ہے، لیکن خصوصیت کے ساتھ عوالمِ انسانیّت کی پرورش کرتا ہے، اور کوئی شک نہیں کہ انسانوں کے لئے بھی درجات مقرر ہیں، جو اللہ اور اس کے رسولوں کی اطاعت و فرمانبرداری پر مبنی ہیں، سو درجۂ اعلیٰ کی سماوی پرورش کا شرف سب سے پہلے انبیاء علیہم السّلام کو حاصل ہوتا رہا ہے، پھر اولیاء کو، چونکہ انسانی

 

۴۳

 

وجود تین چیزوں کا مجموعہ ہے، وہ جسم، روح، اور عقل ہیں، لہٰذا آدمی ہمیشہ تین قسم کی پرورش کا محتاج ہے:

الف: ایک ایسی جسمانی پرورش، جو آسمانی کتاب (قرآن) اور دینِ فطرت کے مطابق ہونے کی وجہ سے باعثِ صحت و سلامتی ہو، بہت سی بیماریوں سے محفوظ رکھے، اور نیک کاموں کے لئے طاقت کا ذریعہ بن سکے۔

ب: ایک ایسی روحانی پرورش، جس سے نفسِ انسانی ہر قسم کی اخلاقی، نظریاتی اور روحانی بیماریوں سے بچے رہے، اور نتیجے کے طور پر درجۂ نفسِ مطمئنہ کو حاصل کر سکے (۸۹: ۲۷)۔

ج: ایسی عقلی پرورش، کہ اُس سے عقلِ جزوی کی تکمیل ہوتی جائے، وہ کسی بھی ذہنی و شعوری مرض میں مبتلا نہ ہو جائے، اور آیاتِ الٰہی میں غور و فکر کر کے نتائج کو اخذ کر سکے، تا کہ بالآخر خدا و رسول کی خوشنودی حاصل ہو۔

۲۔ ایک طبیبِ حاذق یا ایک ماہر ڈاکٹر ہمیشہ نہ صرف مریضوں ہی کے لئے بلکہ صحت مندوں کے واسطے بھی ایسی غذاؤں کو ترجیح دیتا ہے، جو غذائیت سے بھرپور ہونے کے ساتھ ساتھ دوا کا کام بھی کرتی ہوں، اس کے علاوہ ایک ہوشمند باپ بھی ہر وقت اپنی عزیز اولاد کی جسمانی تربیت و پرورش کے سلسلے میں حفظِ صحت کے اصولوں کو ملحوظِ نظر رکھتا ہے، اسی مثال کی انتہائی بلندی پر “اسلام کا تصوّرِ ربوبیّت” ہے، یعنی ربِّ عزّت کی جانب سے دینِ فطرت میں جو نظامِ پرورش ہے، وہ ایسی عالیشان، اور کامل و مکمل ہے کہ وہ پرورش بھی ہے، اور علاج و شفاء بھی، چنانچہ ہم

 

۴۴

 

یہاں یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اسمِ “رب” میں پروردگار (پالنے والا) کے معنی کے ساتھ ساتھ روحانی طبیب کی صفت بھی جمع ہے، پس یہی سبب ہے کہ سورۂ شفاء (سورۂ فاتحہ) میں دوا اور شفا کا اوّلین اشارہ آسمانی پرورش کی طرف فرمایا گیا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی تعریف اس کے بہترین نظامِ ربوبیّت (پروردگاری اور پرورش) کی وجہ سے کی گئی ہے۔

۳۔ بحوالۂ قاموس القرآن (از: قاضی زین العابدین) “حضرتِ امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے کہ عالمین سے صرف انسان ہی مراد ہیں، کیونکہ ان میں سے ہر ایک فرد اپنی جگہ ایک مستقل عالم ہے۔” بے شک خدا تعالیٰ عوالمِ شخصی کا پالنے والا ہے، کیونکہ جمادات، نباتات، اور حیوانات جیسی مخلوقات حضرتِ ربِّ کریم کی صفت کے فیوض و برکات کو جیسا کہ چاہئے اپنی طرف متوّجہ اور جذب نہیں کر سکتی ہیں، مگر صرف انسان ہی ہے، جو نہ صرف یہی کام کر سکتا ہے، بلکہ وہ حدیثِ نوافل کے مطابق حق تعالیٰ کے انتہائی قرب کو بھی حاصل کر سکتا ہے (دیکھئے: صحیح بخاری، جلدِ سوم، باب ۸۴۴، حدیث ۱۴۲۲) یہ وہ منزلِ مقصود ہے، جہاں مربوب اپنے ربّ میں فنا ہو جاتا ہے۔

۴۔ الرب کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کسی چیز کو تدریجاً نشونما دے کر حدِ کمال تک پہنچانا کے ہیں (مفردات القرآن) چنانچہ خداوند تعالیٰ کے اس فعل کا اطلاق حقیقی معنوں میں فقط انسان ہی پر ہوتا ہے، کیونکہ

 

۴۵

 

جملہ مخلوقات میں سے صرف وہی زمین پر خدا کا خلیفہ اور نائب ہو سکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بر بنائے مصلحت و حکمت انسان کو شروع شروع میں ضعیف یعنی کمزور پیدا کیا گیا ہے (۰۴: ۲۸) تا کہ وہ آسمانی تربیت سے جو قرآن اور اسلام میں ہے بتدریج آگے بڑھے، یہاں تک کہ حق تعالیٰ کا قربِ خاص حاصل ہو، تاکہ اس کو ربّانی نعمتوں کی معرفت ہو کہ وہ غذائیں بھی ہیں اور ادویہ بھی۔

۵۔ پتھر جماد ہے، وہ ایک ہی حال پر ٹھہرا ہوا ہے، یعنی اس میں ترقی نہیں، درخت اور حیوان کے وجود میں بھی بڑی تنگی ہے، لہٰذا ایسی مخلوقات میں حضرتِ ربّ کے افعال کا انتہائی عظیم کارخانہ کیسے سما سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وجودِ انسانی کو بڑی وسعت دی گئی، تا کہ اس میں نہ صرف اسمِ ربّ کی جلوہ آرائی کے لئے جگہ ہو، بلکہ دوسرے تمام اسمائے صفاتی کے ظہورات و افعال کے لئے بھی گنجائش ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سارے ناموں کا فعلی میدان درحقیقت انسان ہی ہے، اب ذرا غور فرمائیے ، کہ انسان جہاں روح اور عقل ہے، وہاں اس کا عروج و ارتقاء یا ترقی خدا کی ایسی سیڑھیوں پر پھیلی ہوئی ہے، جن کی مسافت طے کرتے ہوئے پچاس ہزار برس کا زمانہ گزر جاتا ہے (۷۰: ۰۱ تا ۰۴) ممکن ہے کہ اس سے یہ مراد ہو کہ کافرِ مطلق سے لے کر نبئ مرسل تک انسانیّت کے پچاس ہزار درجات مقرر ہیں، اور اگر یہ حقیقت ہے تو پھر ان درجات میں بیماری اور صحت درجہ وار ہوں گی، وہ اس طرح کہ سب سے نیچے کفار و منافقین

 

۴۶

 

ہوں گے، جو کلی طور پر بیمار ہیں (۰۲: ۱۰) اور سب سے اوپر انبیاء و اولیاء ہوں گے، جو مرضِ جہالت سے بالکل پاک ہیں، کیونکہ وہ حضرات قلبِ سلیم (صحت مند دل) رکھتے ہیں (۲۶: ۸۹، ۳۷: ۸۴)، باقی درجات میں نیچے سے نیچے مرض زیادہ، اور اوپر سے اوپر صحت میں اضافہ ہوگا، کیونکہ اس قانون کے بغیر درجات نہیں ہو سکتے ہیں (۰۶: ۱۳۲، ۱۲: ۷۶، ۴۳: ۳۲)۔

۶۔ ربّانی نعمتوں اور دواؤں کے استعمال کے لئے انسان میں کتنی بڑی گنجائش ہے، یا اس کی مجموعی ہستی کا سفر کتنا دور و دراز ہے، اس کی ایک اورمثال سورۂ تین (۹۵: ۰۴ تا ۰۸) میں دیکھئے کہ انسان کی روحانی تعمیر و ترقی کا تصوّر ایک ایسے مینار (Tower) کی طرح ہے، جو بلندی میں آسمانوں سے بھی گزر کر عرشِ عظیم کو چھو لیتا ہو، یہ احسنِ تقویم (۹۵: ۰۴) کی وضاحت ہے، خدا انسان کو اس مینار کی آخری بلندی تک چڑھا بھی سکتا ہے، اور اسفلِ سافلین تک لوٹا بھی سکتا ہے۔

۷۔ قرآنی الفاظ و آیات کی ترتیب و ربط میں بھی حکیمانہ اشارات پوشیدہ ہوا کرتے ہیں، چنانچہ سورۂ شفاء کی طبی تفسیر کا سیاق و سباق (Context) اس طرح ہے: سب تعریف خدا ہی کے لئے ہے جو جہانوں (یعنی عوالمِ انسانیّت) کا پالنے والا ہے، کہ وہی انسانی جسم، روح اور عقل کی پرورش بھی کرتا ہے، اور انہیں بیماریوں اور آفتوں سے محفوظ و سلامت بھی رکھتا ہے، کیونکہ وہ بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے یہ سب کچھ اس لئے

 

۴۷

 

ہونا چاہئے کہ روزِ جزا کا مالک خدا ہے، جس کی عدالت گاہ میں کسی کو یہ عذر نہ ہو کہ خدا کے دین میں روح و عقل کے لئے ہر گونہ غذا اور دوا موجود نہ تھی۔

۸۔ اس کے بعد ہی روحانی غذا اور دوا کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور وہ ایک ایسی عارفانہ اور موحدانہ عبادت ہے، جو ہر قسم کے شرک سے پاک و پاکیزہ اور خدا شناسی و توحید کے نور سے مزین و منور ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: (خدایا) ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں، یعنی ایسی مقبول عبادت کے وسیلے سے ہر نیک کام میں خدائے بزرگ و برتر کی تائید حاصل ہو سکتی ہے۔

۹۔ اب روح کے بعد عقل کی باری آتی ہے کہ اس کی غذا و شفاء کے لئے بارگاہِ خداوندی میں درخواست کی جائے، وہ آسمانی اغذیہ اور ادویہ راہِ راست کی ہدایات و تعلیمات ہیں، جن کا تعلق عقلِ انسانی سے ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ میوہ ہائے بہشتی ربّانی ہدایت و علم کی صورت میں ہیں، چنانچہ اللہ جلّ جلالہ کی جانب سے یہ دعا سکھائی گئی: تو ہم کو سیدھی راہ پر چلا دے، ان کی راہ، جنہیں تو نے (اپنی) نعمت عطا کی ہے، یہاں شاہراہِ مستقیم پر گامزن ہو کر منزلِ آخرین میں پہنچ جانا مطلوب ہے، جس کی مثال حضراتِ انبیاء ، صدیقین، شہداء، اور صالحین کی پاکیزہ زندگی سے ملتی ہے (۰۴: ۶۹) کیونکہ صراطِ مستقیم انہی

 

۴۸

 

کی راہ ہے، اور انہیں اللہ تعالیٰ نے روح و عقل کی نعمت و صحت سے نوازا تھا، پس جو لوگ خدا و رسول کی اطاعت کریں، وہ بھی ان حضرات کی رفاقت میں ہوں گے، اس دعا میں یہ آسمانی تعلیم بھی ہے: نہ اُن کی راہ جن پر تیرا غضب ہوا ہے، اور نہ گمراہوں کی۔

۱۰۔ قرآنِ حکیم کے عجائب و غرائب اور بے مثال خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کا ہر بنیادی اور اہم موضوع جو سماوی حکمتوں کا خزانہ ہے اپنی جامعیّت میں تمام قرآن کو سما لیتا ہے، جیسے عقل کا مضمون ہے، کہ اس نے لوگوں کے سارے احوال کو جو قرآن میں مذکور ہیں “یعقلون” اور “لا یعقلون” میں گھیر لیا ہے، یعنی قرآنِ پاک دینی اعتبار سے بعض لوگوں کو جاننے والے، اور بعض کو نہ جاننے والے یا جاہل قرار دیتا ہے، سو موضوعِ عقل یا قانونِ عقل کا یہی فیصلہ ہے، اور یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ جاننا صحتِ عقل کی دلیل ہے، اور نہ جاننا سقمِ (مرضِ) عقل کی علامت ہے، پس جن پر غضب کیا گیا ہے، وہ تو عقل کے لاعلاج مریض ہیں، اور جو گمراہ ہو گئے ہیں، وہ ایسی بیماری میں مبتلا ہیں کہ اس کا علاج ممکن ہے۔

جب قرآنی مثالوں کی تصریف (۱۷: ۸۹، ۱۸: ۵۴) موضوعِ شفاء (۱۷: ۸۲) کی طرف ہو جاتی ہے، تو اُس حال میں قلبی صحت و بیماری کے بہت سے مترادفات سامنے آتے ہیں، چنانچہ ذیل کے نقشے میں اس کی چند مثالیں درج کی گئی ہیں:

۴۹

 

نمبر شمار صحت اور صحت مند مرض اور مریض
۱ اسلام، ایمان (۰۲: ۱۰، ۰۹: ۱۴) کفر، نفاق (۰۲: ۱۰)
۲ توحید (۰۷: ۷۰) شرک (۳۱: ۱۳)
۳ نور [روشنی] (۰۷: ۱۵۷) ظلمت [تاریکی] (۱۳: ۱۶)
۴ عقل ، علم، دانائی (۰۲: ۱۶۴، ۰۳: ۱۸، ۲۰: ۵۴) بے عقلی، جہالت، نادانی (۳۹: ۰۹)
۵ ہدایت (۰۷: ۳۰) ضلالت [گمراہی] (۰۲: ۱۶)
۶ عدل (۱۶: ۷۶) ظلم (۰۲: ۲۵۴)
۷ پاک، پاکیزگی (۰۲: ۱۵۱) ناپاک، ناپاکی (۱۰: ۱۰۰)
۸ ذکرِ خدا (۱۳: ۲۸) غفلت (۱۸: ۲۸، ۴۳: ۳۶)
۹ خیر (۲۱: ۳۵) شر (۲۱: ۳۵)
۱۰ اطاعت (۰۴: ۸۰) معصیت [نافرمانی] (۳۳: ۳۶)
۱۱ قرب [نزدیکی] (۵۶: ۱۱) بُعد [دوری] (۲۳: ۴۴)
۱۲ یقین (۳۲: ۲۴) شک (۲۷: ۶۶)
۱۳ بصیرت (۱۲: ۱۰۸) کور باطنی (۲۲: ۴۶)
۱۴ اتحاد (۰۳: ۱۰۳) افتراق (۰۳: ۱۰۳)
۱۵ صدق (۳۹: ۳۲) کِذب (۳۹: ۳۲)
۱۶ شکر گزاری (۰۲: ۵۶) ناشکری (۱۴: ۰۷)
۱۷ خدا کی عبادت (۳۶: ۶۱) شیطان کی عبادت (۳۶: ۶۰)

 

۵۰

 

نوٹ: یہ کتاب (قرآنی علاج) پاکستان اور عالمِ اسلام کے لئے ایک علمی خدمت کی کوشش ہے، آپ کی دعا ضروری ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۲۰ جنوری ۱۹۸۶ء

خانۂ حکمت

۵۱

 

 

قرآن اور قلبِ انسان

۱۔ مطالعۂ قرآنِ حکیم سے ہر دانشمند مسلم پر یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ انسانی وجود میں قلب (دل) کو سب سے بڑی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ قلب ہی ہے جو عالمِ شخصی میں خیر و شر دونوں کی نمائندگی کرتا ہے، اور حقیقی صحت و بیماری اسی سے متعلق ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبرِ آخر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اہلِ اسلام کے دلوں کو بیماریوں سے محفوظ و سلامت رکھنے کے لئے، اور شیطانی وسوسوں سے سینہ ہائے مومنین کو بچانے کے واسطے ہر نیک قول و فعل کی بنیاد خلوصِ نیت پر قائم کی ہے، ایسی پاکیزہ نیت سے وہ دلی ارادہ مراد ہے، جس میں صرف اور صرف خداوندِ عالم کی خوشنودی مطلوب و مقصود ہوتی ہو، کیونکہ ہر ایسا قلب جو نیک نیتی کی آب و تاب سے چمکتا ہے، وہ منزل گاہِ توفیقِ الٰہی قرار پاتا ہے۔

۲۔ جب اسلام میں ہر عبادت اور ہر نیکی سے پہلے اصلاحِ نیت کا حکم ہے، تو ہمیں جاننا چاہئے کہ یہ حکم دراصل اصلاحِ قلب کے لئے ہے،

 

۵۲

 

کیونکہ اگر ہم دل کی زبان سے اچھی سے اچھی نیت بھی کریں، لیکن دل خود بیمار ہو، تو ایسی نیت سے وہ مقصد حاصل نہیں ہو گا، جو ایک صحت مند دل سے حاصل ہو سکتا ہے، اس مثال سے قلب کی اہمیت اور اس کی صحت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔

۳۔ “قلب” کے معنی الٹنا پلٹنا ہیں، علمِ تشریح الاعضاء (Anatomy) میں قلب صنوبری شکل کے اس گوشت کے لوتھڑے کو کہتے ہیں جو انسان کے سینہ کے بائیں پہلو میں ہے، چونکہ یہ دورانِ خون کا آلہ ہے اور ہر وقت حرکت میں رہتا ہے اس لئے “قلب” کے نام سے موسوم ہوا، علم النفس (Psychology) کی زبان میں اور ادب کے استعمال میں قلب اس صفتِ انسانی اور لطیفۂ روحانی کو کہتے ہیں جو حواس کے جمع کئے ہوئے معلومات و مدرکات کو ترتیب دے کر نتائج و احکام کا استخراج کرتی ہے، اور مناسب و نامناسب اور خوشگوار و ناخوشگوار امور کے مخفی احساسات کو قبول کرتی ہے، دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ قلب کا اطلاق “عقل” کے معنی میں بھی ہوتا ہے اور “وجدانِ روحانی” کے معنی میں بھی، جسے آج کل کی زبان میں “ضمیر” کے نام سے صحیح طور پر یاد کیا جاتا ہے (قاموس القرآن)۔

۴۔ قلب کی مذکورہ تشریح بالکل درست ہے، تاہم مزید معلومات کی خاطر میں یہ عرض کروں گا کہ نفسِ حیوانی جب تک حیوان میں رہتا ہے، تو وہ حیوان ہی ہے، اور اس کی کوئی ترقی ممکن نہیں، لیکن یہی

 

۵۳

 

نفس جہاں کسی انسان میں ہوتا ہے، تو وہ ترقی پذیر ہوتا ہے، جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ انسانی وجود میں علی الترتیب تین روحیں ہیں: روحِ نباتی، روحِ حیوانی، اور روحِ انسانی، اور ان پر عقلِ جزوی کی حکومت قائم ہے، ان تینوں ارواح کے مراکز یہ ہیں: جگر، دل، اور دماغ، اور انسانی روح کی کرسی پر عقل جلوہ گر ہے، چونکہ عقل اور نفسِ ناطقہ (روحِ انسانی) نفسِ حیوانی کو سکھانے اور ترقی دینے کے لئے مقرر ہیں، لہٰذا ان کی کارگاہ وہاں ہے، جہاں نفسِ حیوانی کا مرکز ہے، یعنی قلب، پس قرآنِ حکیم نے کارخانۂ عقل و جان یا روحانی اور عقلی انقلاب کے مرکز کو “قلب” کے نام سے یاد کیا، اور تمام تر ہدایتیں اور نصیحتیں اسی سے متعلق کی گئیں۔

۵۔ نباتات کے اندر نظامِ قدرت کا کونسا کارخانہ ہے؟ اور اس میں کیا چیز بنتی ہے؟ ان میں ایک ایسا عجیب کارخانہ ہے کہ اس میں مٹی جیسی بے جان چیزیں داخل ہو کر روحِ نباتی میں زندہ ہو جاتی ہیں، حیوانات کے باطن میں قدرتِ خدا کا جو کارخانہ قائم ہے، اس کی مصنوعات کیا ہیں؟ وہاں اللہ تعالیٰ کی یہ آیت (نشانی یا معجزہ) ہے کہ نباتات کو درجۂ حیوان میں بلند کیا جاتا ہے، تخلیق کے اس عروج و ارتقاء کے سلسلے میں انسان جو خدائے بزرگ و برتر کا سب سے آخری اور با کمال کارخانہ ہے، اس کی صنعتوں کا دائرہ کس حد تک وسیع ہے؟ اور اس میں کیا کیا چیزیں بنتی ہیں؟ قادرِ مطلق کا یہ زندہ اور

 

۵۴

 

بولنے والا کارخانہ، یعنی انسان باعتبارِ صنعت انتہائی وسیع و عظیم ہے، جس کو اگر کماحقہ ترقی دی جائے، اور پھر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے، تو معلوم ہو گا کہ اس میں نہ صرف ارواحِ حیوانی ارواحِ انسانی میں فنا ہو جاتی ہیں، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہاں خدا کی خداوندی کی ہر ہر چیز بنتی ہے، کیونکہ انسان میں تمام دوسرے کارخانے اور خزانے بھی جمع ہیں، جبکہ یہ ایک مستقل عالم ہے، اور یہ ساری تعریف کارخانۂ قلب کی ہے۔

۶۔ مذکورۂ بالا بیان میں آپ نے غور سے دیکھا ہو گا ، کہ قلب انسانی قانونِ قدرت کا سب سے بڑا، زندہ، اور با اختیار کارخانہ ہے، جو برائے امتحان بڑا پیچیدہ بنایا گیا ہے، جس میں بہت سی باریکیاں اور نزاکتیں ہیں، لہٰذا اس میں بار بار کوئی خرابی یعنی بیماری پیدا ہونے کا امکان موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے “قلبِ انسانی” کے موضوع کو اتنی بڑی اہمیت دی، اور اس کو اپنی بھرپور توجہ کا مرکز قرار دیا، کیوں نہ ہو، جبکہ خیر و شر کی تمام طاقتیں اسی کارخانۂ قلب کے ساتھ لگی ہوئی ہیں، جس میں عقل، روحِ ناطقہ، اور روحِ حیوانی کام کر رہی ہیں، پس قلب سے یہ تینوں چیزیں مراد ہیں۔

۷۔ اگر آسمانی دواؤں کی بدولت روحِ انسانی میں روحِ حیوانی تحلیل (Dissolve) ہو جاتی ہے، اور روحِ انسانی عقل میں فنا ہو سکتی ہے، تو یہ عقل کی صحت مندی اور کامیابی کی دلیل ہے، اُس حال میں ایسی عقل کو قلبِ

 

۵۵

 

سلیم (صحت مند دل) کہا جائے گا (۲۶: ۸۹) اور وہ نہ صرف آخرت ہی میں بلکہ دنیا میں بھی حضرت ابراہیم (۳۷: ۸۴، ۶۰: ۰۴) اور رحمتِ عالم (۲۱: ۱۰۷، ۳۳: ۲۱) کے پیچھے پیچھے چل کر خداوندِ مہربان کے قربِ خاص کو حاصل کر سکے گی۔

۸۔ اللہ تعالیٰ کے با برکت اسم اور اس کے ذکرِ کثیر میں عقل و جان کی گوناگون برکتیں ہیں، جن کے حصول سے دلوں کو اطمینان ہو جاتاہے (۵۵: ۷۸، ۳۳: ۴۱، ۱۳: ۲۸) اطمینانِ قلبی کا مفہوم کتنا عالی اور وسیع ہے، اس کے لئے قرآنِ پاک میں دیکھنا ہو گا، خاص کر حضرتِ ابراہیم کے قصے (۰۲: ۲۶۰) میں ، اور نفسِ مطمئنہ کے بیان (۸۹: ۲۷) میں چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے قلبی اطمینان کی یہ شان ہے کہ آپ نے درحقیقت معجزاتِ انبعاث کا مشاہدہ کیا تھا، اب اگر ہم نفسِ مطمئنہ سے حضراتِ انبیاء و اولیاء کی مثال لیں، تو پھر اس کا تصوّر بھی اسی بلندی پر جائے گا، جس بلندی پر حضرت ابراہیمؑ کے اطمینان کا درجہ ہے، ویسے بھی آپ متعلقہ آیۂ کریمہ (۸۹: ۲۷) میں غور و فکر کر سکتے ہیں کہ یقیناً یہاں اطمینان کے معنی بہشت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں، اس سے یہ حقیقت آفتابِ منیر کی طرح روشن ہو جاتی ہے کہ اسمِ خدا کے ذکرِ کثیر سے دلوں کو جو ربّانی اطمینان حاصل ہو جاتا ہے (۱۳: ۲۸) وہ غیر محدود ہے، اور اس میں عقل و روح کے لئے بہت سی غذائیں بھی ہیں، اور دوائیں بھی۔

۹۔ زمانۂ قدیم میں نظریۂ حکیم بطلیموس کے مطابق زمین کو کائنات کا مرکز قرار دیا گیا تھا، لیکن بعد کی تحقیق سے پتہ چلا کہ سورج ہی وسط

 

۵۶

 

میں ہے، اور وہی مرکز ہے، چنانچہ یہ کہنا درست اور حقیقت ہے کہ نظامِ شمسی (Solar System) یعنی عالمِ کبیر کا سنٹر اور دل خورشیدِ انور ہے، اور عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) کا مرکز (Centre) قلب ہے، بے شک سورج ساکن ہے، لیکن مادّی نور کی کائناتی بھٹی ہونے کی حیثیت سے سورج مسلسل بھڑکتا رہتا ہے، تا کہ دنیا زندہ اور قائم رہے، اسی طرح عالمِ شخصی کے سورج کی مرتبت میں دل ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے، اور ان نازک نازک دھڑکنوں سے عالمِ صغیر میں حیات و بقاء کی لہریں دوڑتی رہتی ہیں، اس سے یہ ناقابلِ تردید حقیقت نکھر نکھر کر سامنے آگئی کہ جیسی اہمیت دنیائے ظاہر میں سورج کی ہے، ایسی اہمیت وجودِ انسانی میں دل کی ہے۔

۱۰۔ قرآنِ حکیم کا کوئی مضمون ایسا نہیں جو براہِ راست یا بواسطہ قلب کا موضوع نہ ہو، کیونکہ قرآنِ کریم تمام انسانوں کے لئے ایک ایسا کامل و مکمل ہدایت نامۂ سماوی ہے، جس کی تعلیمات و ہدایات کا رخ انسان کے حواسِ ظاہر و باطن کے مرکز کی طرف ہے، اور وہ دل ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ اصل انسان (خواہ نیک ہو یا بد) دل ہے، جس سے قرآنِ عزیز مخاطب ہے، اور اس کے خطاب کو سمجھنے کی ذمہ داری دل ہی پر عائد ہو جاتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے (ترجمہ): تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں (۴۷: ۲۴) یعنی قرآن فہمی دل و دماغ کا کام ہے، اگر کوئی شخص اس میں

 

۵۷

 

غور و فکر نہیں کرتا ہے، یا کسی کا دل مقفل ہے، تو یہ اور بات ہے، بہر کیف یہاں ہماری بحث دل کی اہمیت، نزاکت، اور بیماریوں سے ہے، لہٰذا اس مضمون کے آخر میں قلبی بیماریوں کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں، جو قرآنی حوالہ جات کے ساتھ درجِ ذیل ہیں:

نمبر شمار قلبی بیماری آیت سورت
۱ دل پر مہر لگ جانا (۰۲: ۰۷) ۷ ۲
۲ خصومت، جھگڑا    (۰۲: ۲۰۴) ۲۰۴ ۲
۳ گواہی کو چھپانا (۰۲: ۲۸۳) ۲۸۳ ۲
۴ تنگئ دل،دل کی تنگی (۰۶: ۱۲۵) ۱۲۵ ۶
۵ یادِ خدا سے غفلت (۱۸: ۲۸) ۲۸ ۱۸
۶ مرعوب ہوجانا، بزدلی(۰۳: ۱۵۱) ۱۵۱ ۳
۷ نا سمجھی، بھولا پن (۰۷: ۱۷۹) ۱۷۹ ۷
۸ کج دلی، دل کی کجی، زیغ(۰۹: ۱۱۷) ۱۱۷ ۹
۹ بے عقلی، بے وقوفی (۲۲: ۴۶) ۴۶ ۲۲
۱۰ کور دلی، دل کا اندھا پن ۴۶ ۲۲
۱۱ منقبض، دل گرفتگی (۲۹: ۴۵) ۴۵ ۳۹
۱۲ دل پر قفل لگ جانا (۴۷: ۲۴) ۲۴ ۴۷

 

۵۸

 

نمبر شمار قلبی بیماری آیت سورت
۱۳ سنگدلی، سخت دلی (۰۲: ۷۴) ۷۴ ۲
۱۴ بد ظنی، بد گمانی (۴۸: ۱۲) ۱۲ ۴۸
۱۵ دل ڈھکا رہنا، ڈھکا ہوا دل (۰۴: ۱۵۵) ۱۵۵ ۴
۱۶ بے آرامی، بے قراری (۴۳: ۳۶) ۳۶ ۴۳
۱۷ دل پر غلاف ہونا (۴۱: ۰۵) ۵ ۴۱
۱۸ خواہشِ نفسانی کی پیروی (۱۸: ۲۸) ۲۸ ۱۸
۱۹ حد سے نکل جانا (۱۰: ۷۴) ۷۴ ۱۰
۲۰ باطل کی محبت (۰۲: ۹۳) ۹۳ ۲
۲۱ دشمنی، کینہ (۵۹: ۱۰) ۱۰ ۵۹
۲۲ لعنت، دوری از رحمت (۰۵: ۱۳) ۱۳ ۵
۲۳ دل کا بہرا پن (۰۷: ۱۰۰) ۱۰۰ ۷
۲۴ شک، تردُّد، شش و پنج (۰۹: ۴۵) ۴۵ ۹
۲۵ نفاق، منافقت (۰۹: ۷۷) ۷۷ ۹
۲۶ نجاستِ قلبی (۰۹: ۱۲۵) ۱۲۵ ۹
۲۷ حق سے دل کا پھر جانا (۰۹: ۱۲۷) ۱۲۷ ۹
۲۸ دل کی شدت (۱۰: ۸۸) ۸۸ ۱۰
۲۹ انکار (۱۶: ۲۲) ۲۲ ۱۶

 

۵۹

 

 

نمبر شمار قلبی بیماری آیت سورت
۳۰ تکبر (۱۵: ۲۲) ۲۲ ۱۶
۳۱ دل کا لہو و لعب (۲۱: ۰۳) ۳ ۲۱
۳۲ غمرت (سختی) غفلت (۲۳: ۶۳) ۶۳ ۲۳
۳۳ دلی عداوت (۴۷: ۲۹) ۲۹ ۴۷
۳۴ حمیتِ جاہلیہ، کافرانہ عار (۴۸: ۲۶) ۲۶ ۴۸
۳۵ قلبی پراگندگی، انتشار (۵۹: ۱۴) ۱۴ ۵۹
۳۶ دل پر زنگ لگنا، دل کا چرکین ہو جانا (۸۳: ۱۴) ۱۴ ۸۳
۳۷ وسوسہ، برے خیالات (۱۱۴: ۰۵) ۵ ۱۱۴
۳۸ فتنۂ شیطان، یا آزمائش (۲۲: ۵۳) ۵۳ ۲۲
۳۹ سرکشی، نافرمانی (۰۶: ۱۱۰) ۱۱۰ ۶
۴۰ آیات سے لطف نہ اٹھا سکنا (۰۶: ۱۱۰) ۱۱۰ ۶

حاشیہ: مذکورۂ بالا اور دوسری تمام باطنی بیماریاں جو شدید اور لاعلاج ہیں، وہ دراصل دائرۂ اسلام سے باہر موجود ہیں، اور قطعی ثبوت کے طور پر اکثر حوالے بھی انہی سے متعلق دیئے گئے ہیں، لیکن اگر ہم مسلمانوں میں خفیف اور قابلِ علاج بیماریاں بھی نہ ہوتیں، تو نہ فرمایا جاتا کہ قرآن ذریعۂ علاج ہے، اس مفہوم کے لئے دیکھئے: ۰۹: ۱۴، ۱۰: ۵۷، ۱۷: ۸۲، ۴۱: ۴۴، (سورہ:آیہ)۔

۲۹ جنوری ۱۹۸۶ء

۶۰

 

آیاتِ شفاء

۱۔ “قرآنی علاج” کے اس موضوع کا بنیادی تعلق اُن آیاتِ کریمہ سے ہے، جن میں نمایان طور پر “شفاء” کا ذکر فرمایا گیا ہے، اگرچہ لفظی اعتبار سے آیاتِ شفاء چھ ہیں: ۰۹: ۱۴، ۲۶: ۸۰، ۱۰: ۵۷، ۱۶: ۶۹، ۱۷: ۸۲، ۴۱: ۴۴، لیکن معنوی لحاظ سے دیکھا جائے، تو کوئی آیت اس موضوع سے الگ نہیں، جبکہ قرآنِ کریم کے اسماء میں سے ایک اسم “شفاء” ہے، اور جبکہ قرآنی موضوعات ایک دوسرے میں داخل و شامل ہیں، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس آخری کتابِ حکیم میں ایک ہی حقیقت کی طرح طرح سے مثالیں بیان کی گئی ہیں، یہ قرآنِ پاک کا وہ اصول ہے، جس کے تحت آیات و امثلہ کی تصریف (پھیرنا) ہوتی ہے: ۰۶: ۶۵، ۰۷: ۵۸، ۱۷: ۸۹، ۱۸: ۵۴۔

۲۔ قرآنی علم و حکمت اُس چشمۂ بہشت کی طرح معجزاتی اور ہمہ رس ہے، جس کو اہلِ جنت جہاں چاہیں بہا کر لے جا سکتے ہیں (۷۶: ۰۶) چنانچہ آپ مضامینِ قرآن میں سے جس مضمون کو زیرِ بحث لائیں، اُسی پر ہر آیت روشنی ڈالے گی، یہ بے مثال خوبی صرف قرآنِ مقدس ہی کی ہے، پس

 

۶۱

 

یہاں ہم کسی جھجک کے بغیر یہ کہہ سکتے ہیں کہ رحمانی طب یا شفاء کا موضوع اتنا وسیع ہے، جتنا کہ خود قرآن ہے۔

۳۔ لفظِ “شفاء” سب سے پہلے سورۂ توبہ کے ایک ایسے حکم (۰۹: ۱۴) میں ملتا ہے جو جہاد سے متعلق ہے، جس کا واضح مفہوم یہ بتاتا ہے کہ فریضۂ جہاد میں مومنین کے صدور (قلوب) کے لئے شفاء ہے، کیونکہ جہاد کا عزمِ صمیم، جو ملک و ملت کی خیر خواہی میں ہو، مردِ مومن کو خود غرضی اور نفس پرستی کی بیماریوں سے نجات دلاتا ہے، اور آپ جانتے ہوں گے کہ جہاد کی کئی قسمیں ہیں، مثال کے طور پر ہر وہ عظیم خدمت، جو قوم اور اسلام کے لئے ضروری ہو، ایک جہاد ہے، پس ایسی اہم خدمات انجام دینے والے مومنین خدا تعالیٰ کی نظر میں نہ صرف مجاہدین ہیں بلکہ زندہ شہداء بھی ہیں (۵۷: ۱۹)۔

۴۔ سورۂ یونس (۱۰: ۵۷) میں شفاء سے متعلق ارشاد اس طرح ہے (ترجمہ): لوگو تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت (یعنی کتاب) آچکی ہے اور جو (برے کاموں کے امراض) دل میں ہیں اُن کی شفاء (دوا) اور ایمانداروں کے لئے ہدایت اور رحمت (۱۰: ۵۷) یعنی قرآنِ حکیم سر تا سر ابتداءً نصیحت کی دوا ہے، پھر ہدایت کی، اور آخر میں رحمت کی دوا ہے، تاکہ لوگ بتدریج قلبی صحت کے درجۂ کمال کی طرف آگے بڑھ سکیں، اور صحت مند دلوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب و حضور میں جو جو پاک اور اعلیٰ نعمتیں ہیں، وہ حاصل ہوں (۲۶: ۸۹)۔

۶۲

۵۔ سورۂ نحل (۱۶: ۶۹) میں قرآنِ کریم باطنی طب کے علاوہ ظاہری طب پر بھی روشنی ڈال رہا ہے، بلکہ اس ارشاد میں روح اور جسم دونوں کے لئے ایک ایسا ادویاتی (Medicinal) خزانہ ہے، کہ اس کی برکتیں کبھی ختم نہیں ہو سکتیں، وہ قرآنی علم و حکمت کا شہد بھی ہے، اور ظاہری شہد بھی، جس میں اہلِ دانش کو غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے، تاکہ اس کے ہر پہلو کو چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے، کہ شہد خالقِ کائنات کے عجائب و غرائب میں سے ہے، سب سے پہلے نظامِ قدرت نے عناصرِ اربعہ کو باہم ملا کر نچوڑا، جس کا ست یا جوہر نباتات (جھاڑ، درخت وغیرہ) کی صورت میں ظاہر ہوا، پھر اس جوہر سے دوسرا جوہر نکالا گیا، وہ پھول اور پھل ہے، پھر شہد کی مکھی سے فرمایا گیا کہ اب تو تیسرا جوہر نکال، وہ رس ہے، پھر دستِ قدرت نے اسے چوتھا جوہر بنایا، جو شہد ہے، اور پھر اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ایک خصوصی شفاء رکھ دی، اب اگر کوئی مسلمان اسی قرآنی حوالے سے شہد کو بطورِ دوا و غذا استعمال کرتا ہے، اور دل و جان سے رحمانی طب پر یقین رکھتا ہے، تو اس کے لئے ظاہراً و باطناً بہت سے فائدے حاصل ہوں گے۔

۶۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۸۲) میں قرآنِ پاک کو سراسر دوا اور شفاء قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ اُس ارشادِ مبارک کا ترجمہ ہے: اور ہم تو قرآن میں وہی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے (سراسر) شفاء اور رحمت ہے (مگر) نافرمانوں کو تو گھاٹے کے سوا کچھ بڑھاتا ہی نہیں (۱۷: ۸۲) اسی

 

۶۳

 

آیۂ شفاء کے مطابق قرآنِ مجید کا ایک نام “شفاء” مقرر ہوا، اس کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ جلّ شانہ ربّ بھی ہے، اور بحقیقت روحانی طبیب بھی، جس نے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیگر صفاتِ کاملہ کے ساتھ ساتھ طبیبِ روح کی صفت سے بھی آراستہ فرما کر بھیجا، قرآنِ حکیم کو ایک انتہائی عظیم شفا خانہ( Hospital) بنایا، اور رسول کے نمائندوں کو بھی یہ طبابت سکھائی گئی، تاکہ وہ اس دار الشفاء میں کام کریں، یقیناً قرآنی شفاء کا مقصد اسی طرح پورا ہو سکتا ہے۔

۷۔ سورۂ شعراء (۲۶: ۸۰) میں لفظِ شفاء حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ (۲۶: ۸۰) اور جب بیمار پڑتا ہوں تو وہی مجھے شفا عنایت فرماتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ خدائے دو جہان کو جسم و جان کا حقیقی طبیب مانتے ہیں، اور اسی کو جملہ اسباب (ذرائع اور وسائل) کا مسبب و کارساز تسلیم کرتے ہیں، کیونکہ اگرچہ دوا کسی شک کے بغیر ایک سبب ہے، اور ڈاکٹر بھی ایک سبب ہے، لیکن ہر سبب کا پیدا کرنے والا خدا ہی ہے، جس نے صرف موت کو چھوڑ کر باقی ہر بیماری کے لئے دوا نازل فرمائی، یعنی ہر دوا کی روح خزانۂ خداوندی سے آتی ہے، اور روح نہ صرف متحرک ہے، بلکہ وہ ساکن اور جامد بھی ہے، پہاڑ کے سینے میں جواہر اور معدنیات کی متحرک ارواح داخل ہو کر جمود اختیار کر لیتی ہیں، تاکہ اس سکون اور ٹھہراؤ کی وجہ سے ذرۂ روح پتھر کی ایک چھوٹی سی مقدار کو یاقوت یا

 

۶۴

 

زمرد وغیرہ بنا سکے، غرض یہ کہ ہر چیز میں اور ہر دوا میں روح پوشیدہ ہوتی ہے، اور قانونِ فطرت کے مطابق کام کرتی ہے۔

۸۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام جیسے عظیم المرتبت پیغمبر اور خدا کے خاص دوست روحانی مریض ہو سکتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں، پھر کیا وہ جسمانی بیمار ہو سکتے ہیں؟ کیوں؟ جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے آپ خود طبیب تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح مومن کی بیماری اور کافر کی بیماری میں بڑا فرق ہے، وہ یہ کہ مومن کی ہر ہر مشقت اور بیماری عبادت میں شمار ہو سکتی ہے، مگر کافر کو یہ سعادت حاصل نہیں ہو سکتی، اسی طرح ایک پیغمبر کی جسمانی بیماری اور ان کی امت کی جسمانی بیماری میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے، کیونکہ ہر بڑے نبی کی زندگی میں سب کے لئے عملی ہدایت کے بہت سے نمونے ہوا کرتے ہیں، اور ان میں سے ایک نمونہ یا مثال بیماری بھی ہے، لیکن مؤمنین میں عام طور پر یہ بات نہیں ہو سکتی، اور نہ کوئی مؤمن سوائے اولیاء کے لوگوں کا مرکزِ توجہ ہو سکتا ہے۔

۹۔ سورۂ حٰم ٓ سجدہ (۴۱: ۴۴) میں شفاء کا ذکر اس طرح فرمایا گیا ہے (ترجمہ): (اے رسول) تم کہہ دو کہ ایمانداروں کے لئے تو یہ (قرآن از سر تا پا) ہدایت اور (ہر مرض کی) شفاء ہے، اور جو لوگ ایمان نہیں رکھتے، ان کے کانوں (کے حق) میں گرانی (بہرا پن)، اور وہ (قرآن) ان کے حق میں نابینائی ہے، تو وہ لوگ بڑی دور کی جگہ سے پکارے جاتے ہیں

 

۶۵

 

(۴۱: ۴۴) اس میں بڑی عجیب حکمت ہے کہ یہی قرآن ہے، جس کی وجہ سے ایک طرف اہلِ ایمان ہر بیماری سے شفا یاب ہو جاتے ہیں، اور دوسری طرف منکرین نظریاتی، روحانی، اور عقلی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جیسے چشمِ بینا کے لئے سورج روشنی کا باعث ہے، مگر ایک چندھا آدمی کے حق میں یہی آفتاب اذیت ناک ہوتا ہے، نیز قرآنی علم و حکمت کی تشبیہ و تمثیل ایسی مقوی، عمدہ، اور پُر لذّت غذاؤں سے دی جا سکتی ہے، جن کو تندرست انسان مزہ لے لے کر کھاتا ہے، لیکن پیٹ کا دائمی مریض نہیں کھا سکتا، اور اگر کھائے تو اس کی بیماری بڑھ جاتی ہے۔

۱۰۔ اس کتاب کے پڑھنے والوں میں سے کسی کے دل میں یہ سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ: بیشک قرآنِ مجید میں اخلاقی، نظریاتی، روحانی، اور عقلی شفاء تو ضرور موجود ہے، لیکن اللہ کی اس کتاب میں بدنی صحت و سلامتی کی ضمانت کس طرح ہو سکتی ہے؟ سو جواباً میری گزارش یہ ہو گی کہ قرآنِ حکیم مسلمانوں کو جن پُرحکمت اقوال و اعمال کا حکم دیتا ہے، ان میں ظاہری و باطنی ہر قسم کی صحت و شفاء کی ضمانت ہے، مثال کے طور پر قرآن نے ان تمام چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، جو کسی بھی پہلو سے صحت کے لئے مضر ہوں، اس کے برعکس قرآن میں ہر ایسی چیز حلال ہے، جس سے تندرستی قائم رہتی ہو، اور حلال کے دائرے میں بھی حدِ اعتدال کے اندر رہنے کی تاکید ہے، تاکہ کسی بھی حلال چیز کے زیادہ کھانے سے صحت پر برا اثر نہ پڑے، اور علم و عبادت

 

۶۶

 

جیسے نیک کاموں میں خلل نہ آئے۔

۱۱۔ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: اور جو لوگ کافر ہیں وہ عیش کر رہے ہیں اور اس طرح کھاتے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں (۴۷: ۱۲) یہ آسمانی تعلیم غور و فکر کی متقاضی ہے، تاکہ اہلِ دانش اپنے قریب کے حیوانوں کو دیکھیں، اور ان کی عادتوں کا تجزیہ کریں کہ وہ کھانے پینے اور زندگی گزارنے میں کتنے ذلیل اور پست ہیں، اور خود غرضی و پُرخوری (زیادہ کھانا) میں کس حد تک آگے بڑھے ہوئے ہیں، یہ مثال صرف اس لئے ہے کہ انسان اس سے اپنے لئے مفید نتائج اخذ کرے، اور فعلاً مرتبۂ انسانیّت کی قدر کرتا رہے، تاکہ وہ ہر قسم کی صحت اور دین کی ہر نعمت سے محظوظ ہو سکے، رہی چوپایوں کی بات، وہ تو غلبۂ نفس سے مجبور ہیں، کیونکہ ان میں عقل نہیں، لہٰذا ہم ان کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔

۱۲۔ انسان اپنی اصلی فطرت میں نہ تو فرشتہ ہے اور نہ حیوان، بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان پیدا کیا گیا ہے، اور یہی اس کا سب سے بڑا مسئلہ و امتحان ہے کہ دونوں سے اس کا رشتہ قائم ہے، کیونکہ اس کا نفس عالمِ حیوان سے ہے، اور عقل عالمِ ملکوت سے، اب دیکھنا یہ ہے کہ عقل و نفس کی اس کشاکش میں انسان کس کی مخالفت کرتا ہے اور کس کی حمایت کرتا ہے، اگر وہ عالمِ شخصی (Personal World) میں عقل کی سلطنت بناتا ہے تو عجب نہیں

 

۶۷

 

کہ وہ فرشتہ بن جائے، اور ظاہر ہے کہ اس کے برعکس نفس کی پیروی کرنے سے وہ حیوان بن جائے گا، اس کے باوجود کہ وہ بیرونی طور پر انسان نظر آتا ہے، یہ قرآنی تشخیص کی ایک وضاحت ہے، جو بیمار انسانیت سے متعلق ہے، آپ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۹) اور سورۂ فرقان (۲۵: ۴۳ تا ۴۴) میں دیکھ سکتے ہیں کہ ایسے دل مریض ہیں، جو اس معیار کے مطابق نہیں سمجھتے ہیں، جس کو خدا اور اس کے برحق رسول نے مقرر فرمایا ہے، ایسی آنکھوں میں بیماری ہے، جو منشائے دین کے موافق نہیں دیکھ سکتیں، اور ایسے کانوں میں روگ ہے جو حق کو نہیں سن سکتے، پس ایسے لوگ چوپایوں سے زیادہ بے راہ ہیں، اور ان جیسی نصیحتوں کی صورت میں قرآنِ حکیم پرہیز کو انتہائی بڑی اہمیت دیتے ہوئے دوا اور علاج پر مقدم رکھتا ہے۔

منگل ۲۳ جمادی الاول ۱۴۰۶ھ / ۴ فروری ۱۹۸۶ء

۶۸

 

قرآنی طب اور تقویٰ

۱۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: بعثت بجوامع الکلم = میں جوامع الکلم کے ساتھ بھیجا گیا ہوں [صحیح بخاری، جلدِ سوم، کتاب الاعتصام، باب ۱۲۰۴] اس ارشادِ نبوّی میں قرآنِ حکیم اور احادیثِ صحیحہ کے ہر کلمے کی انتہائی جامعیّت کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، چنانچہ کلمۂ “تقویٰ” اس سلسلے کا ایک عالی شان نمونہ ہے، جس میں ظاہری اور باطنی ہر قسم کی پرہیز و پرہیز گاری کے تمام معانی جمع ہیں، جیسے نقصان دینے والی چیز سے بچنا، احتراز، اجتناب، علیحدگی، خود داری، شکیبائی، حذر، دوری، پارسائی، اتقا، زُہد، ورع، احتیاط، خوف، اندیشہ، ناجائزاور حرام چیزوں سے دوری، ان جیسے بہت سے مطالب تقویٰ کے معنی میں سمائے ہوئے ہیں، اس تمہید سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ آسمانی (قرآنی) طب تقویٰ کے اصول پر قائم ہے ، بلکہ تقویٰ خود بہت سی بیماریوں کے لئے شفاء ہے۔

۲۔ ایک مشہور مثل ہے: “پرہیز سب سے اچھا نسخہ ہے۔”

 

۶۹

 

یہ نسخہ عصرِ حاضر میں ایک مستقل علم کی صورت میں پہچانا جاتا ہے، وہ علمِ حفظانِ صحت یا حفظِ صحت (Sanitary Science) کہلاتا ہے، جو تندرستی کو برقرار رکھنے اور بیماریوں سے بچنے سے متعلق ہے، چنانچہ قرآنی حفظِ صحت کا علم تقویٰ کے موضوع میں ہے، جس کے زرین اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے نہ صرف عقل و جان کی صحت و سلامتی محفوظ رہتی ہے، بلکہ جسمانی صحت و کامیابی کے تمامتر بھید بھی اسی میں پوشیدہ ہیں۔

۳۔ تقویٰ کا مادّہ و ق ی ہے، جو قرآنِ حکیم میں بصیغہ ہائے مختلف ۲۵۸ بار مذکور ہے، ان میں بعض یہ ہیں: وقانا (اُس نے ہم کو بچایا ،۵۲: ۲۷) و من تق ( اور جس کو بچایا تو نے ،۴۰: ۰۹) قنا (بچا ہم کو ،۰۲: ۲۰۱) قوا (بچاؤ ،۶۶: ۰۶) لعلکم تنقون (تا کہ تم ڈرو /بچو ،۰۲: ۲۱) واقٍ (بچانے والا ،۱۳: ۳۴) تقی (پرہیزگار، متقی ،۱۹: ۱۳) اتقی /اتقا (بڑا پرہیزگار، بڑا ڈرنے والا ،۴۹: ۱۳) تقاۃ (بچنا، ڈرنا ،۰۳: ۲۸) تقویٰ (بچنا، پرہیزگاری ،۰۲: ۱۹۷) متقون، متقین (پرہیزگار لوگ، بچنے والے، ڈرنے والے) غرض یہ کہ تقویٰ اپنے تمام معنوں کے ساتھ ہر درختِ نیکی کی اصل (جڑ) بھی ہے، اور ثمر بھی، اور کوئی عبادت اس کے بغیر مقبول نہیں، اور تقویٰ کی یہ زبردست اہمیت اس لئے ہے، تاکہ انسان ظاہراً و باطناً ہر آفت و مرض سے محفوظ و سلامت رہے۔

۷۰

۴۔ اگرچہ قرآنِ پاک عمومی پہلو سے دنیا کے سب لوگوں کے لئے ہے (۰۷: ۱۵۸) تاہم اس کا خاص تعلق پرہیزگاروں سے ہے (۰۲: ۰۲) اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن اپنے ظہور ہی میں عوام کے لئے کچھ اور ہے اور خواص کے لئے کچھ اور، اور ان دونوں بڑے درجوں کے بہت سے ذیلی و ضمنی درجات ہیں، پس قرآن میں ہر درجہ کے لئے علاج و شفا موجود ہے۔

۵۔ قرآنِ شریف لوگوں کے درجات کا تصور دیتا ہے (۰۳: ۱۶۳) اور اسی سے متعلق مثالیں پیش کرتا ہے (۳۲: ۰۵، ۷۰: ۰۴، ۱۲: ۷۶) اسی طرح تقویٰ کے بھی مدارج ہیں (۴۹: ۱۳) اور یہی تقویٰ اہلِ ایمان کے لئے عزت و بزرگی کا معیار بھی ہے، اگرچہ اسلام میں اور بھی بہت سے فضائل ہیں، لیکن کسوٹی تقویٰ ہی سے بنائی گئی، اور ارشاد ہوا: اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ (۴۹: ۱۳) اس میں شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تم میں بڑا معزز وہی ہے جو بڑا پرہیزگار ہو۔

۶۔ حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے: التقیٰ رئیس الاخلاق = خوفِ خدا (پرہیزگاری) اخلاق کا رئیس ہے (نہج البلاغہ، ترجمۂ علامہ سید شریف، ارشاد: ۴۱۰) اسی کتاب کے ارشاد ۴۳۹ میں زہد (پرہیزگاری) کے بارے میں فرمایا گیا ہے: پورے کا پورا زہد قرآن کے دو کلموں میں منحصر ہے: اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے: “تا کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اُس کا غم نہ کھاؤ، اور جو کچھ خدا نے تمہیں دے دیا

 

۷۱

 

اُس کی خوشی نہ مناؤ۔” اور جس نے گزشتہ کا غم نہ کھایا، اور نہ آئندہ کی خوشی منائی، وہ سمجھ لے کہ اُس نے زہد کو دونوں سروں سے پکڑ لیا۔

۷۔ فرمایا گیا ہے کہ: ہر دل کے دو کان ہوتے ہیں، ایک میں ہدایت کرنے والا فرشتہ بات کہتا ہے، اور دوسرے میں فتنہ پرداز شیطان، یہ حکم دیتا ہے اور وہ منع کرتا ہے، شیطان گناہوں کا حکم دیتا ہے، اور فرشتہ اس سے روکتا ہے (اصولِ کافی، جلدِ دوم، باب ۱۰۹) حقیقت ظاہر ہے کہ جب تک کسی قلب میں آلودگی نہ ہو، تو شیطان اس میں وسوسہ نہیں ڈال سکتا، اور نہ ایسے دل میں فرشتہ کوئی القا کر سکتا ہے، جس میں تقویٰ کی پاکیزگی نہ ہو، اس بیان کا ماحصل یہ ہوا کہ انسان خود ہی اپنے اختیار سے یا تو فرشتہ کو موقع دیتا ہے یا شیطان کو۔

۸۔ فضول خرچی اصولِ تقویٰ کے خلاف ہے، کیونکہ اس میں شیاطین کو شرکت کا موقع مل جاتا ہے، اور اس سے کئی ظاہری و باطنی بیماریاں جنم لیتی ہیں، جیسا کہ خدائے پاک کے ارشاد کا ترجمہ ہے: اور قرابتداروں اور محتاج اور پردیسی کو ان کا حق دے دو اور (خبردار) فضول خرچی مت کرو، کیونکہ فضول خرچی کرنے والے یقیناً شیطانوں کے بھائی ہیں (۱۷: ۲۶ تا ۲۷) یہ ایک بہت برا فعل ہے کہ کوئی شخص ادائے حقوق کے بجائے مال کو بیجا خرچ کرے، اور شیطانوں کی برادری میں داخل ہو جائے، آپ جانتے ہیں کہ شیاطین انسی بھی ہیں، اور جنّی بھی (۰۶: ۱۱۲) تاہم یاد رہے کہ اوّل الذّکر شیاطین زیادہ خطرناک ہوا کرتے ہیں، کیونکہ یہ ایک ٹھوس طاقت ہیں،

 

۷۲

 

اور دوسرے ان کے سائے۔

۹۔ پرہیزگاری کو قائم رکھنے یا حاصل کرنے کے لئے کھانے پینے میں حدِ اعتدال کے اندر رہنے کی ضرورت ہے، ورنہ پُرخوری سے کئی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں، جیسے مرضِ کثرت الاکل (زیادہ کھانا، Polyphagia) جس سے بعض دوسری بیماریاں جنم لیتی ہیں، لہٰذا قرآنِ حکیم نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا (ترجمہ): اور کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو، بے شک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو دوست نہیں رکھتا (۰۷: ۳۱) اسی طرح حدیثِ شریف میں ہے: انسان نے پیٹ سے زیادہ برا برتن کوئی نہیں بھرا، آدم کے بیٹے کے لئے چند لقمے کافی ہیں، (جس سے زندہ رہ سکے) اور اگر اس سے (زیادہ کھانا) ضروری ہی ہو تو ایک تہائی اس کے کھانے کے لئے، ایک تہائی پانی کے لئے رکھے، اور ایک تہائی سانس کے لئے باقی رکھے، (ترمذی، جلدِ دوم، ابواب الزہد، باب ۱۲۶)۔

۱۰۔ اسلام کی کوئی عبادت طبی حکمت و منفعت سے خالی نہیں، مثال کے لئے روزۂ رمضان کو دیکھئے کہ وہ تزکیۂ قلب اور تحلیلِ نفس کا ایک بہترین ذریعہ ہے، اور اس کا مقصد پرہیزگاری ہے، تاکہ منزلِ مقصود کی طرف پیش رفت ہو، جیسا کہ ارشادِ خداوندی کا ترجمہ ہے: اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے (امتوں کے ) لوگوں پر فرض کیا گیا تھا اس توقع پر کہ تم (روزہ

 

۷۳

 

کی بدولت رفتہ رفتہ) متقی بن جاؤ (۰۲: ۱۸۳)۔

 

۱۱۔ دینِ اسلام کے احکام کی تعمیل سے بے شمار مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں، لیکن ہمیشہ سے حکمتِ الٰہی کا قانون یہی رہا ہے کہ آسمانی کتاب صرف مقصدِ اعلیٰ ہی کو بیان کرے، اور ذیلی فوائد و مقاصد کے علم و عرفان میں لوگوں کو آزمایا جائے، تاکہ لوگ ایمان کی پختگی کے ساتھ آیات میں غور و فکر کریں، کیونکہ اس بابرکت اور پُرحکمت محنت و ریاضت کے بغیر عقل کی تعمیر و ترقی نہیں ہو سکتی، جیسا کہ سورۂ بلد (۹۰: ۰۴) میں اس حقیقت کا ذکر فرمایا گیا ہے: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ كَبَدٍ (۹۰: ۰۴) تحقیق ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے۔ اس آیۂ حکمت آگین میں دراصل علمی و عرفانی مشقت کا تذکرہ ہے، کیونکہ اسی میں انسانی کمال پوشیدہ ہے۔

۱۲۔ قرآنِ حکیم متعدد آیات میں ظاہری اور باطنی صفائی و پاکیزگی کی طرف توجہ دلاتا ہے، بلکہ اس پر زور دیتا ہے، اور اس کو عبادت کا درجہ عطا کرتا ہے، کیونکہ جسم و جان کی صحت کے لئے یہ انتہائی ضروری امر ہے کہ ہر متعلقہ چیز صاف و پاک ہو، جیسا کہ سورۂ بقرہ کے ایک ارشاد (۰۲: ۲۲۲) میں فرمایا گیا ہے (ترجمہ): یقیناً اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتا ہے پاک صاف رہنے والوں سے (۰۲: ۲۲۲) خدا جن نیک بندوں سے محبت کرتا ہے، وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں، اور جن خوبیوں کی بدولت ان کو یہ مرتبہ حاصل ہوا ہو، وہ انتہائی

 

۷۴

 

بلندی کی نیکیاں ہوا کرتی ہیں۔

۱۳۔ پرہیزگاری سفرِ آخرت کے لئے بہترین زادِ راہ [توشہ] ہے (۰۲: ۱۹۷) تقویٰ ایک ایسا لباس سے جو بچاؤ کے لحاظ سے بھی اور زینت کے اعتبار سے بھی سب سے عمدہ ہے (۰۷: ۲۶) تقویٰ انسانی عفو اور عدل سے بھی بڑھ کر ہے (۰۲: ۲۳۷، ۰۵: ۰۸) جس کے دل میں تقویٰ ہو، وہی شعائر اللہ (خدا کی نشانیاں) کی تعظیم کرتا ہے (۲۲: ۳۲) کسی بھی قربانی کی کوئی چیز خدا کے حضور نہیں پہنچ سکتی ہے، مگر تقویٰ (۲۲: ۳۷) اصل تقویٰ امتحان کے بعد مومنین کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے (۴۹: ۰۳)۔

۱۴۔ لفظِ “سکینۃ” قرآنِ پاک کے چھ مقامات پر موجود ہے: ۰۲: ۲۴۸، ۴۸: ۰۴، ۴۸: ۱۸، ۰۹: ۲۶، ۰۹: ۴۰، ۴۸: ۲۶، اس سے روحانیّت مراد ہے، جس میں تسکینِ قلب ہے، اور یہ بات خوب یاد رہے کہ اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم میں سے بعض حضرات پر خدا اور اس کے برحق رسول کے روحانی معجزات گزرتے تھے، چنانچہ “کلمۂ تقویٰ” اسی سلسلے کا ایک روحانی معجزہ ہے (۴۸: ۲۶) جیسا کہ قرآنی ارشاد کا ترجمہ ہے: پس خدا نے اپنے رسول اور مومنین (کے دلوں) پر اپنی طرف سے تسکین (یعنی روحانیّت) نازل فرمائی اور ان میں کلمۂ تقویٰ چسپان کر دیا اور یہ لوگ اسی کے سزاوار اور اہل بھی تھے (۴۸: ۲۶) یہ تقویٰ کا درجۂ کمال ہے کہ ان عظیم المرتبت اصحاب کے قلوب میں اللہ تعالیٰ کا بزرگ اسم خود بخود بولتا رہتا تھا، اور ساتھ ہی ساتھ حضرتِ عزرائیل ان کی ارواح کو بار بار اوپر کی طرف کھینچتے ہوئے

 

۷۵

 

عملِ تطہیر و تزکیہ کرتے تھے، اور یہی نفسانی موت ہے، جو خدا کے خاص دوستوں کو جسمانی موت سے پہلے ہی دی جاتی ہے، ان بزرگوں کے دل میں پہلے ہی سے بامقصد موت کی شدید تمنا تھی، لہٰذا انہوں نے ایسی موت کا شعوری طور پر مشاہدہ کیا (۰۳: ۱۴۳)۔

۱۵۔ زمانۂ نبوّت کی روشنی میں دیکھنے سے دین کے بنیادی حقائق روشن ہو جاتے ہیں، چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے کہ بوقتِ ضرورت خدا کے حکم سے فرشتے دورانِ جہاد لشکرِ اسلام کی بھرپور مدد کرتے تھے (۰۳: ۱۲۴ تا ۱۲۵، ۰۸: ۰۹) اور قانونِ رحمت کا تقاضا یہی ہے کہ جہادِ اکبر میں بھی یہ مدد شاملِ حال ہو، کیونکہ جو حکم (فیصلہ) اجتماعی حیثیت کے حق میں فرمایا گیا ہو، اس کا اطلاق ایک فرد پر بھی ہوتا ہے، جبکہ فرشتے مومنین کے دوست ہیں (۴۱: ۲۹ تا ۳۰) جبکہ فریاد، نالش، اور دہائی ہر وقت ہو سکتی ہے (۰۸: ۰۹) اور جبکہ تائیدِ الٰہی ہمیشہ ممکن ہے (۵۸: ۲۲) پس آپ یہ سمجھ لیں کہ دیگر فرشتوں کے ساتھ عزرائیل علیہ السّلام بھی مومنین کے دوست ہیں، اور وہ جس طرح موت کا فرشتہ ہیں، اسی طرح تقویٰ کا بھی فرشتہ ہیں، کیونکہ وہ ہر بندۂ مومن سے نیکی اور کثرتِ ذکر یا گریہ و زاری کے نتیجے میں کئی قسم کے جراثیم کو کھینچ نکالتے ہیں۔

۱۱ فروری ۱۹۸۶ء

۷۶

 

قرآنی طب اور آواز

۱۔ آواز کی اصل و اساس کیا ہے؟ یہ کس طرح پیدا ہو جاتی ہے؟ اس کی مختصر تعریف کیا ہے؟ آیا پانی میں غوطہ لگانے کی حالت میں آواز سنائی دیتی ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ ظاہر ہے کہ مادیّت میں آواز کی لہریں یا تو ہوا سے پھیل جاتی ہیں یا برقی طاقت سے، لیکن آپ یہ بتائیں کہ دل و دماغ کا حکم ہاتھ یا پاؤں کس طرح سنتا ہے، جبکہ فرمانے پر یہ پکڑتا ہے اور وہ چلتا ہے؟ کیا آدمی کے اندر بھی کوئی برقی نظام ہے یا روح خود برق کی طرح کام کرتی ہے؟ نیز آپ یہ بتائیں کہ انسان اپنے ضمیر کی آواز یا حدیثِ نفسی کس طرح سنتا ہے؟ یہاں یہ بھی ایک ضروری سوال ہے کہ آیا فرشتہ، جنّ اور شیطان کی آواز کا تعلق آدمی کے ظاہری کان سے ہے یا باطنی کان سے؟ یا دونوں سے؟ یہاں یہ سوالات کسی سے بحث کرنے کی غرض سے نہیں ہیں، بلکہ اس طریقِ گفتگو کا مقصد صرف یہی ہے کہ آپ آواز کی اہمیت و کیفیت کی طرف بھرپور توجہ دیں۔

۷۷

۲۔ آواز ظاہراً و باطناً ایک کائنات ہے، مگر موجودات و مخلوقات سے الگ نہیں، وہ سب سے پہلے بھی اور سب سے آخر میں بھی کلمۂ “کن” ہے، وہ بصورتِ نغماتِ بہشت ایک بے حد شیرین نعمت ہے، وہ کتبِ سماوی کی روح میں خدا کا کلام اور فرشتوں کا پیغام ہے، انبیاء و رسل علیہم السّلام کی نبوّت و رسالت بھی ایک مقدّس آواز تھی، بندگانِ حق پرست کی بندگی، اور عاشقانِ الٰہی کی گریہ و زاری بھی آواز ہی ہے، مگر بڑی بابرکت آواز، آپ خود بھی ذرا غور کریں کہ دنیائے آواز کہاں سے کہاں تک پھیلی ہوئی ہے، اور اس میں رحمت و علم کے کیا کیا خزانے ہیں، تاکہ نتیجے کے طور پر قرآنی طب میں آواز کی اہمیت کا پتہ چلے۔

۳۔ آپ جانتے ہیں کہ جسمانی دوا عام طور پر کھلائی جاتی ہے، مگر یاد رہے کہ روحانی دوا کھلائی نہیں جاتی، بلکہ سنائی جاتی ہے، کیونکہ روحِ حیوانی کی غذا و دوا کا راستہ حلق ہے، اس کے برعکس روحِ انسانی اور عقل کی اغذیہ و ادویہ کی راہ کان ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص جسمانی طور پر شروع ہی سے بہرا ہو، تو وہ بہرا ہونے کے سبب سے گونگا اور بے عقل رہتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ بتوسطِ آواز روحِ ناطقہ کان سے داخل نہ ہو سکی، اس سے آواز یعنی علمی گفتگو اورقوّتِ سماعت دونوں کی اہمیت ظاہر ہو جاتی ہے۔

۴۔ روحانی غذا اور دوا کی سبیل کان ہے، لہٰذا آسمانی طبیب نے ارشاد فرمایا (ترجمہ): اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان

 

۷۸

 

لگایا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو (۰۷: ۲۰۴) ظاہر ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ پُرحکمت حکم ہر زمانہ اور ہر ملک کے مسلمانوں کے حق میں یکسان ہے، جن میں قرآن کی زبان کو سمجھنے والے بھی ہو سکتے ہیں، اور نہ سمجھنے والے بھی، کیونکہ قرآن کی مبارک آواز میں ہر درجہ کے مسلمانوں کے لئے غذائے روح اور دوائے باطن موجود ہے، جبکہ یہ تمام اہلِ ایمان کے حق میں وسیلۂ شفاء ہے (۱۷: ۸۲) اور جبکہ یہ نصیحت کے معنی میں بھی اور یادِ الٰہی کے معنی میں بھی “ذکر” کہلاتا ہے (۱۶: ۴۴) پس اگر کوئی مسلمان براہِ راست آوازِ قرآن کی نصیحتوں کو نہیں بھی سمجھتا ہو، تو وہ ضرور اس روح پرور ذکر سے اپنی غفلتوں کا مداوا کرتا ہے، اور کثرتِ ذکر ہی سے تمام بیماریاں اور کمزوریاں دور ہو جاتی ہیں (۶۲: ۱۰)۔

۵۔ قرآنِ پاک کا ایک حکمت آگین لفظ صیحہ (الصیحۃ) ہے، جو قرآن کے تیرہ مقامات پر مذکور ہے، جس کے معنی ہیں چنگھاڑ، چیخ، سخت یا بلند آواز، نعرہ، اور یہ صورِ اسرافیل سے متعلق ہے، چنانچہ قرآن میں ہے کہ اسی سخت آواز سے بہت سے سرکش ونافرمان لوگوں کو ہلاک کیا گیا ہے (۲۹: ۴۰) جب صورِ اسرافیل کی آواز کی طاقت کا یہ عالم ہے، تو کلامِ الٰہی یعنی قرآن کی آواز بندۂ مومن کے ان تمام جراثیم کو کیوں نہ مارے، جو شیطان سے آتے ہیں، اس دلیل سے قرآنی علاج کی حقیقت آفتابِ عالمتاب کی طرح روشن ہو جاتی ہے۔

۷۹

۶۔ صورِ اسرافیل کی آواز ایسی ہیبت ناک ہے کہ اس کے سننے سے آسمان و زمین میں رہنے والے سب ڈر جاتے ہیں، مگر خدا جس کو چاہے، وہ اس سے محفوظ رہے گا (۲۷: ۸۷) اس سے سماء و ارض والے بے ہوش ہو جاتے ہیں، اس سے پھر ہوش میں آتے ہیں (۳۹: ۶۸) اس کا معجزہ یہ ہے کہ اس کے سننے سے قبروں کے مردے زندہ ہو کر اپنے ربّ کی طرف دوڑنے لگتے ہیں (۳۶: ۵۱) اس کی زبردست آواز کے زیرِ اثر لوگ خدا کے حضور میں جمع ہو جاتے ہیں (۷۸: ۱۸) صورِ اسرافیل کی یہ انتہائی پُراثر اور معجزاتی آواز، جو نہ صرف مہلک ہے بلکہ حیات بخش بھی ہے، آخر کس کی طرف سے ہے؟ اللہ کی طرف سے ہے، پس آپ یقین کریں کہ دراصل آوازِ قرآن میں بھی ایسے معجزات پوشیدہ ہیں، جیسا کہ فرمایا گیا (ترجمہ): اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر (بھی) نازل کرتے تو تم اس (پہاڑ) کو دیکھتے کہ خدا کے ڈر سے جھکا اور پھٹا جاتا ہے (۵۹: ۲۱) یہ قرآن کی مخفی طاقت کی ایک مثال ہے۔

۷۔ طبیبِ حاذق کی ہر مؤثر دوا مریض کے جسم میں پہنچتے ہی اپنا بھرپور اثر دکھانے لگتی ہے، جس سے یہ سمجھنا چاہئے کہ دوائی سارے بدن میں پھیل کر بیماری کو مار رہی ہے، جیسا کہ طبیبِ روحانی دوائے قرآن کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے (ترجمہ): اللہ تعالیٰ نے بڑا عمدہ کلام (یعنی قرآن) نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ باہم ملتی جلتی ہے بار بار دہرائی گئی ہے جس سے اُن لوگوں کے جو اپنے ربّ

 

۸۰

 

سے ڈرتے ہیں بدن کانپ اٹھتے ہیں، پھر ان کے بدن اور دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں (۳۹: ۲۳) اس ربّانی تعلیم کی وضاحت یہ ہے کہ انسانی جسم میں ۵۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ [پانچ سنکھ] سے زیادہ خلّیات (Cells) ہوتے ہیں، جو زندہ ہیں، اور مرتے بھی ہیں، اور ہر خلیہ سے بے شمار روحیں وابستہ ہیں، چنانچہ آوازِ قرآن یا ذکرِ الٰہی سے جس طرح خوفِ خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، یا اُن پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بدن کا ہر ہر خلیہ اور اس کی روحیں خوابِ غفلت سے بیدار ہو جاتی ہیں، اور جسم کا ذرّہ ذرّہ، جو زندہ ہے، یادِ الٰہی کے زیرِ اثر خوف و اشتیاق سے لرز اٹھتا ہے، اس بیان سے یہ معلوم ہوا کہ آیۂ کریمہ (یعنی ۳۹: ۲۳) میں جِلد (جسم) سے زندہ خلّیات مراد ہیں، اور خلّیات ہی کے معنی میں قلب کے ساتھ بدن بھی ذکرِ خدا میں مصروف ہو سکتا ہے۔

۸۔ ہمارے اجسام اربوں کھربوں انتہائی چھوٹے چھوٹے زندہ خلّیات سے بنائے گئے ہیں، خلیوں ہی سے ہماری جلد، ہڈیاں، عضلات، اور دوسرے تمام اعضاء بن جاتے ہیں، ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں، اس میں یہ تمام چھوٹے چھوٹے خلّیات، جو شکل اور جسامت میں مختلف ہیں، ہمارے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں، اور وہ سب آپس میں مل کر کام کرتے ہیں (برٹش میوزیم ، نیچرل ہسٹری) اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی بدن کا کوئی حصہ ایسا نہیں، جو خلّیات سے پُر نہ ہو،

 

۸۱

 

خواہ وہ ہڈی کیوں نہ ہو، چنانچہ جب بندۂ مومن قرآنِ پاک پڑھتا ہے، یا کسی اور سے سنتا ہے، تو اس کی آواز دل میں اترتی ہے، اور وہاں سے اس کی گونج (Echo) سارے جسم کے خلیوں میں سنائی دیتی ہے، اب ہم اس مادّی اور روحانی سائنس کی روشنی میں یہ عرض کریں گے کہ انسان کی کوئی بیماری خواہ جسمانی ہو یا روحانی، آوازِ قرآن یا ذکر و عبادت کی گرفت و گیرائی سے نہیں بچ سکتی ہے، لیکن اس کی شرط پرہیزگاری ہے۔

۹۔ اب اگر ہم یہ کہیں کہ ہر بیماری کی ایک زندہ روح ہوا کرتی ہے، تو غلط نہ ہوگا، جبکہ انسانی جسم بے شمار زندہ خلّیات اور ان کی لاتعداد ارواح کا مجموعہ ہے، اور بدن کا کوئی ذرّہ روح سے خالی نہیں، اور یہی بیماری کی روحیں سائنس کی زبان میں جراثیم کہلاتی ہیں، جس کا صیغۂ واحد جرثومہ (Bacterium) ہے، جس طرح ایک حدیث میں بخار کی روح کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: اے بخار! اگر اللہ پر تیرا ایمان ہے تو نہ گوشت کھا اور نہ خون پی اور منہ کی جانب شعلہ زن نہ ہو، بلکہ تو اس شخص میں منتقل ہو جا جو خدائے واحد کے ساتھ ایک دوسرے خدا کا عقیدہ رکھتا ہے (دعائم الاسلام، جلدِ دوم، کتاب الطب، فصل ۳) اگر کسی شخص کو اس حقیقت پر یقین نہ ہو، تو وہ اس کا مشاہدہ اور تجربہ نہیں کر سکے گا۔

۱۰۔ اب مادّی سائنس کی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے زیادہ سے

 

۸۲

 

زیادہ روحانی یعنی قرآنی سائنس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر آپ دیکھتے ہیں کہ آج کل ہر اہم واقعے کو فلما کر محفوظ کر لیا جاتا ہے، تاکہ بوقتِ ضرورت کسی کمی بیشی کے بغیر دور نما (ٹی وی) پر دکھایا جائے، چنانچہ میرا یہ عقیدہ قرآن ہی کی روشنی میں ہے کہ نامۂ اعمال نہ صرف ہر فرد کا ہوتا ہے، بلکہ ہر قوم اور ہر امت کا بھی ہوتا ہے، دیکھئے سورۂ جاثیہ، آیہ ۲۸ (یعنی ۴۵: ۲۸) پس شروع سے لے کر آخر تک امتوں کے اعمال نامے اور نازل شدہ آسمانی کتابیں عکسِ روحانیّت اور کتابِ منشور (۱۷: ۱۳) کی صورت میں محفوظ ہیں، مثال کے طور پر توراۃ کس طرح نازل ہوئی تھی، اس کی نزولی کیفیات کیا کیا تھیں، اور حضرتِ موسیٰؑ کی امت نے اپنی قومی زندگی کے سلسلے میں اس سماوی ضابطۂ حیات پر کس طرح عمل کیا، یہ سب کچھ یہودیوں کے اجتماعی نامۂ اعمال میں درج اور مکمل ریکارڈ ہے۔

۱۱۔ اب قرآنِ پاک کے بارے میں عرض ہے کہ یہ وہ کامل و مکمل اور انتہائی پُرحکمت کتاب ہے، جو حضرتِ خاتم، رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئی ہے، لہٰذا خداوندِ تعالیٰ کی یہ آخری کتاب اپنی روح و روحانیّت میں نہ صرف مسلم امت کا اعمال نامہ ہے، بلکہ یہ سابقہ امتوں کے تمام انفرادی اور اجتماعی اعمال ناموں پر بھی محیط ہے، کیونکہ یہ اپنے نور میں لوحِ محفوظ کی ایک مکمل کاپی (Copy) ہے، جو بالکل اصل ہی کی طرح ہے، جیسے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ كُلَّ

 

۸۳

 

شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ كِتٰبًا (۷۸: ۲۹) اور ہم نے ہر چیز کو ایک کتاب میں گھیر کر رکھا ہے (۷۸: ۲۹) اب اس میں ذرا سوچ کر آپ ہی بتائیں کہ ایسی کتاب سے کیا چیز باہر ہو سکتی ہے، جو لوحِ محفوظ کا زندہ و گویندہ نورانی عکس ہے، جس میں اوّلین و آخرین کے تمام نامہ ہائے اعمال جمع ہیں، جس کو مرنے سے قبل مر کر دیکھو تو خود بولتی ہے (۲۳: ۶۳، ۴۵: ۲۹) جو ظاہراً و باطناً محفوظ قرآن ہے (۱۵: ۰۹) جس کی آواز اور تعلیمات لوگوں کے تمام درجات پر محیط ہیں، سو قرآنِ مقدّس کی آواز کو ہر شخص اپنی عقیدت، محبت اور رسائی کے مطابق سنتا ہے، اور اس سلسلے میں خدا کے وہ دوست بہت آگے ہیں، جو جیتے جی نفس سے مر چکے ہیں (۵۷: ۱۹)۔

۱۲۔ ہمیں خوب سوچنا چاہئے کہ انسان میں حواسِ ظاہر کے ساتھ حواسِ باطن کیوں ہیں؟ آخر ان کا کوئی مقصد ہو گا، اور وہ البتہ یہی ہے کہ ان کے ذریعہ اسلام کی روح و روشنی کا احساس و ادراک ہو، جس کے لئے جملہ ہدایت اور طریقِ علاج قرآن میں موجود ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا ہے (ترجمہ): (اے رسول) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نمازیں پڑھا کرو اور قرآنِ فجر بھی (یعنی نمازِ صبح اور قرآن خوانی) کیونکہ صبح کی قرآن خوانی سے (روح و روحانیّت کا) مشاہدہ ہو جاتا ہے (۷۸: ۱۷) مشہود کے جتنے دوسرے معنی کئے گئے ہیں، وہ سب اس مطلب میں شامل ہیں۔

نوٹ: اس مضمون کے شروع میں جو سوالات کئے گئے

 

۸۴

 

ہیں، ان کے جوابات ان شاء اللہ کسی مضمون میں یا الگ دئے جائیں گے۔

۷ جمادی الثانی ۱۴۰۶ھ / ۱۷ فروری ۱۹۸۶ء

۸۵

 

خواب کے اشارات

۱۔ روحانی علاج کے سلسلے میں خواب (Dream) کی اہمیت و افادیّت بے حد عجیب و غریب ہے، یعنی انسان نیند کے عالم میں جو خواب دیکھتا ہے، اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے علم و آگہی اور روح و روحانیّت کے لاتعداد اشارات کام کرتے ہیں، اور اسی ضمن میں یہ عقل و روح کا بڑا مفصل و مشرح ایکس ریز (X-Rays) بھی ہے، جو قانونِ قدرت کے تحت خود بخود تیار ہو کر آدمی کے سامنے آتا ہے، تاکہ ہر ہوشمند اور حقیقت پسند انسان، جس کو ترقی عزیز ہو اپنے متعلق خوب اندازہ کر سکے کہ وہ عقلی اور روحانی طور پر کس حد تک بیمار یا صحت مند ہے، تاکہ وہ اس صورتِ حال کے مطابق مرض کا علاج کرے، اور صحت کو قائم رکھے، ایکس ریز (X-Rays) کے معنی ہیں: لا شعاعیں، یعنی نامعلوم شعاعیں، چنانچہ عالمِ خواب بھی ایک ایسے نور کے زیرِ اثر کام کرتا

 

۸۶

 

ہے، جو خود نظر نہیں آتا۔

۲۔ اگرچہ عصرِ حاضر کے سائنسدانوں نے بیماریوں کی تحقیقات کی غرض سے ایکس ریز سے بڑھ کر جدید آلات و ذرائع بنا لئے ہیں، جن کی مدد سے بہت سی بیماریوں کا حال بآسانی معلوم ہو جاتا ہے، جیسے بصری خردبین (Optical Microscope) تپش نگاری (Thermography) برقیائی خردبین (Electron Microscopy) درون بینی (Endoscopy) وغیرہ، اور مستقبل میں بھی کئی اور آلے ایجاد کریں گے، جن سے امراض کو دیکھنے میں بڑی حد تک مدد ملے گی، لیکن پھر بھی روحانی سائنس کا یہ آلۂ واحد (خواب) جس طرح ہمیشہ سے معجزاتی کام کرتا ہے، اس میں یقیناً بے مثال و بے نظیر ہے، بشرطیکہ کوئی شخص اس کے مقاصد کو بجا طور پر سمجھے، اور اشارہ شناس ہو۔

۳۔ سورۂ روم کے ایک ارشاد (۳۰: ۲۳) کی یہ تفسیر ہو سکتی ہے: اور خدا تعالیٰ کی آیات یعنی نشانیوں یا معجزات میں سے ایک ایسا عظیم معجزہ جس میں بے حساب عجائب و غرائب سمیٹے ہوئے ہیں، تمہارا خواب ہے رات میں اور دن میں اور جسم و جان کے لئے اسی کی روزی تلاش کرنا ہے، یعنی خواب جسمانی آرام کے علاوہ غور و فکر کا مقام بھی ہے، بے شک خواب میں ان لوگوں کے لئے بہت سے معجزات ہیں، جو گوشِ ہوش سے سنتے ہیں، یعنی اس کے اشارے صرف اہلِ دانش ہی جانتے ہیں (۳۰: ۲۳) یہاں کوئی انجان شخص یہ

 

۸۷

 

سوال کر سکتا ہے کہ کسی آدمی کا خوابِ پریشان (یعنی ایسا بکھرا ہوا خواب کہ اس کا کوئی ربط ہی نہ ہو) کس طرح اللہ تعالیٰ کے معجزات میں سے ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خواب اگر اچھا نہیں، تو اس کی وجہ آدمی کے قول و فعل میں ہے، لہٰذا یہ عملِ خواب کی تعریف ہے کہ اس نے انسان کے اندرونی انتشار کا ٹھیک ٹھیک ایکسریز (X-Rays) نکال کر سامنے رکھا، تاکہ وہ قرآن اور اسلام کی روشنی میں قولاً و فعلاً منظم ہو جائے ، اور ہر قسم کے انتشار و پریشانی سے خود کو بچائے۔

۴۔ خواب کے اشاروں کو سمجھنا پروردگارِ عالم کی ہدایت و تائید کے بغیر ممکن نہیں، اور اس کی ہدایت صراطِ مستقیم پر واقع ہوتی رہی ہے، اور راہِ مستقیم انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین اور بندگانِ مطیع کے لئے مقرر ہے (۰۴: ۶۹) اس کا مطلب یہ ہوا کہ خواب کے اشارات کو سب سے پہلے اور سب سے اعلیٰ درجے پر انبیاء علیہم السّلام جانتے ہیں، پھر علی الترتیب وہ حضرات، جن کا یہاں ذکر ہوا ہے، آئیے ہم سورۂ صافات (۳۷) میں دیکھتے ہیں، جس کی ایک آیۂ کریمہ کی طبی تفسیر یہ ہے کہ: ابراہیم ایک صحت مند دل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے مرتبۂ قربِ خاص پر فائز ہو گئے تھے (۳۷: ۸۴) یہ توحید شناسی کا اصل مقام تھا، چنانچہ جب آپ نے ایک دفعہ خواب میں یا خیال میں ستاروں کو دیکھا تو کہنے لگے کہ میں بیمار ہوں (۳۷: ۸۸ تا ۸۹) کیونکہ ان کا معیارِ روحانیّت ستارہ، چاند اور سورج کے مشاہدے سے بالاتر تھا

 

۸۸

 

(۰۶: ۷۵ تا ۷۹) اگرچہ عام خواب اور اس کی بشارت کے پیشِ نظر آسمان تو آسمان ہی ہے (جس کی چیزوں کو دیکھنے میں یقیناً روحانی ترقی کی خوشخبری ہے) زمین کی بعض چیزوں میں بھی کامیابی کے اشارے پنہان ہیں، مثال کے طور پر خواب میں پہاڑ دیکھنا، باغ و گلشن دیکھنا، صاف پانی دیکھنا، اسلام اور ایمان کی کوئی چیز دیکھنا اور اس سے اپنے آپ کو وابستہ پانا وغیرہ۔

۵۔ انبیائے کرام اور اولیائے عظام کا عالمِ خواب دراصل عوام النّاس کے عالمِ خواب سے مختلف ہوا کرتا ہے، کیونکہ وہ اولیائی خواب ہے، جو روحانیّت سے ملا ہوا ہے، وہ شعور کے اعتبار سے بیداری کی طرح ہے، لیکن اس میں احساس و ادراک کی توجہ عالمِ روحانیّت کی طرف رہتی ہے، یہی سبب ہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام اپنے اُس خواب کے حکم پر بلا تأمل عمل کرنے لگے، جس میں آپ سے فرمایا گیا تھا کہ اپنے عزیز فرزند کی قربانی کرو (۳۷: ۱۰۲)۔
قاموس القرآن ، صفحہ ۵۵۶ پر درج ہے: سچا خواب بحکمِ حدیث نبوّت کا چھیالیسواں جزو ہے۔ (بخاری) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آن حضور علیہ الصلوٰۃ و السّلام نے فرمایا: لم یبق من النبوۃ الا المبشرات، قالوا و ما المبشرات؟ قال الرویا الصالحہ ۔ یعنی آنحضرت نے فرمایا کہ نبوّت تو مجھ پر ختم ہو چکی ہے، اب دنیا میں صرف ایک حصّہ یعنی مبشرات باقی رہ گئے ہیں، صحابۂ کرام نے عرض کیا

 

۸۹

 

مبشرات کیا ہیں؟ فرمایا: عمدہ خواب (یعنی نورانی خواب)۔

۶۔ مذکورہ حدیث سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ اولیائے خدا اپنے سچے خوابوں میں نورِ نبوّت کے انتہائی قریب ہو جاتے ہیں، جس کا نتیجہ روحانیّت کی صورت میں نکلتا ہے، ان کے بعد تمام مومنین میں خواب کی دو صورتوں کا امکان نظر آتا ہے، وہ یہ کہ کبھی تو کسی مسرّت بخش واقعے کی زبانی بشارت دی جاتی ہے، اور کبھی کسی ذریعے سے ڈرایا جاتا ہے، تاکہ ہر شخص اپنی روح کی صحت و بیماری کا بخوبی اندازہ کر سکے، اور ہر حال میں ذکرِ الٰہی کی دوا سے بیش از بیش کام لیا جائے۔

۷۔ سورۂ زمر کے ایک پُرحکمت ارشاد (۳۹: ۴۲) سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ نفسانی موت، جسمانی موت، اور نیند یہ تینوں چیزیں کئی معنوں میں ایک جیسی ہیں، کیونکہ تینوں حالات میں روح قبض کی جاتی ہے، تاہم روحانیّت میں یا جسمانیّت میں مر جانے کے بعد ہر شخص کو اس کے اعمال سے متعلق ایک مکمل کتاب دی جاتی ہے، اور جو لوگ زندہ ہیں، ان میں سے ہر فرد کو ہر روز اس کے نامۂ اعمال کا ایک جزو بطورِ نمونہ و مثال دیا جاتا ہے، یہ جزوِ کتاب خواب ہے، تاکہ وہ ضرور باالضرور بروقت اس میں اصلاح کر کے بہتر بنائے، تاکہ فردائے قیامت اسے یہ افسوس نہ ہو کہ اس نے اپنی بیماریوں کا علاج کیوں نہیں کیا، جبکہ اس نے اپنے باطن کے بنیادی امراض کو دیکھ لیا تھا۔

۹۰

۸۔ سورۂ قیامت (۷۵: ۱۴) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِیْرَةٌ (۷۵: ۱۴) بلکہ انسان خود اپنی حالت پر خوب مطلع ہے، اس آیۂ کریمہ میں جیسے لفظِ “بصیرۃ” آیا ہے، وہ متعلقہ حکمت کی کلید ہے، جس کا حقیقی اطلاق انسانِ کامل پر ہو سکتا ہے، کیونکہ بصیرت دل کی بینائی کا نام ہے، جس سے ایک مکمل روحانیّت مراد ہے، اور یہ آیۂ شریفہ براہِ راست سورۂ یوسف کے اُس ارشاد سے (۱۲: ۱۰۸) مربوط ہے، جس میں لفظِ بصیرت پر روشنی اس طرح ڈالی گئی ہے کہ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے استعمال کیا گیا ہے، اور آپ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے والوں کے لئے بھی، اور عوام کو اس سے جو حصہ ملا ہے، وہ خواب ہے، جس میں آدمی کی نیکی اور بدی کا نتیجہ سامنے آتا ہے۔

۹۔ آدمی درحقیقت آئینۂ خواب میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے، لیکن وہ گمان کرتا ہے کہ کوئی اور ہے، کیونکہ خواب ایک طرح کا نامۂ اعمال ہے، جس کے مرقومات دنیا کی تحریروں سے قطعاً مختلف ہیں، جبکہ اس میں ہر قول و فعل کو اشاراتی یا تمثیلی شکل کا لباس پہنایا گیا ہے، اور ظاہر ہے کہ کتابِ اعمال، جو اشارہ و مثال کی زبان سے بولتی ہے، وہ ہر شخص کی اپنی ہی ہوتی ہے، اور اس میں دوسرے کسی کا دخل نہیں ہوتا، قادرِ مطلق کی شانِ قدرت دیکھئے کہ اس نے اشرفِ مخلوقات یعنی انسان کو کتنی عظیم اور کیسی عجیب و غریب روح عنایت کر دی ہے! کہ وہ دنیائے

 

۹۱

 

لطیف یا عالمِ مثال ہے، اس میں بے شمار صلاحیتیں پوشیدہ ہیں، اس میں خدا کا ہر خزانہ اور ہر درد کی دوا موجود ہے، اس سلسلے میں یہ بات ہمیشہ یاد رہے کہ اگر وجودِ انسانی کا صوفیانہ مطالعہ گہرائی سے کیا جائے تو وہ ایک کائنات ہے، اور اگر اسی نظر سے کائنات کو دیکھا جائے تو وہ ایک لطیف انسان کی شکل میں سامنے آتی ہے، جبکہ جسدِ کوکبی (Astral Body) کائنات کی تمام لطافتوں کا مجموعہ ہے، جبکہ سب کی سب بیرونی اقدار (Values) انسان میں جمع ہیں، اور جبکہ انسان وہاں، جہاں وہ کامل و مکمل ہے، خلیفۂ خدا ہو سکتا ہے۔

۱۰۔ کسی متّقی مسلمان کے خواب اچھے یعنی نورانی ہو سکتے ہیں، کسی غافل کے خواب برے یا ظلمانی ہو سکتے ہیں، اور کسی متوّسط شخص کے خواب دونوں قسم کے ہو سکتے ہیں، لہٰذا آپ ذاتی تعصب سے بالاتر ہو کر تنقیدی نظر سے اپنے خوابوں کا جائزہ لیں، اور باطنی بیماریوں کا علاج کرکے اپنے احوال کی اصلاح کریں، مومنین پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ کتنا عظیم احسان ہے کہ اُس حکیمِ مطلق نے بکیفیتِ خواب ایک زندہ تصویری اور اشاراتی کتاب بنائی، جو ہر وقت حجاب میں رہتی ہے، اور ہر فرد کو اس کی بیماری اور کمزوری سے پردے ہی میں آگاہ کرتی رہتی ہے، اور جب تک آدمی خود اپنے خواب کو ظاہر نہ کرے، کوئی نہیں جانتا کہ اس کا خواب اچھا تھا یا برا، جس طرح قرآن کا قانون ہے کہ عام اصلاحی نصیحت اجتماعی انداز میں کی جائے، تا کہ یہ طریقِ کار

 

۹۲

 

پردے کا کام دے، اور ہر شخص دل ہی دل میں اپنی بیماری کو سمجھ سکے۔

۱۱۔ قرآنِ حکیم کے علمی عجائب و غرائب کے اندازے ہی سے انسان کی ناچار عقل دنگ رہ جاتی ہے، چنانچہ قرآنِ پاک میں جہاں دوسرے بہت سے علوم ہیں، وہاں علمِ تعبیر بھی ہے، مثال کے طور پر کسی شخص کا خواب میں عمدہ اور پاکیزہ لباس میں ملبوس ہونا تقویٰ کو ظاہر کرتا ہے (۰۷: ۲۶)، جبکہ میلے کچیلے یا پھٹے پرانے کپڑے پہننا، یا ننگا رہ جانا تقویٰ کے برعکس جانے کا اشارہ ہے (۰۷: ۲۷) آلودگی دیکھنا بت پرستی کی نشانی ہے (۲۲: ۳۰) ستارہ، چاند، اور سورج دیکھنا منزلِ توحید کی طرف جانے کی دلیل ہے (۰۶: ۷۶ تا ۷۹) باغ و گلشن دیکھنا علم اور روحانی ترقی کی علامت ہے (۲۷: ۶۰) جواہر یا سکّے دیکھنا علم و حکمت کی گرانقدر باتوں کی طرف اشارہ ہے (۱۵: ۲۱، ۱۸: ۱۹)۔

۱۲۔ جاننا چاہئے کہ چیزیں دو قسم کی ہوا کرتی ہیں: ذہنی، اور خارجی، چنانچہ جو چیز ذہنی ہوتی ہے، اس کی اپنی کوئی معیّن شکل نہیں ہوتی، اور نہ ہی اس کا جسم ہوتا ہے، جیسے کینہ، نیند، طمع، علم، حلم، غصّہ وغیرہ، اور جو چیز خارجی ہے، اس کی اپنی ایک خاص شکل ہوتی ہے اور جسم بھی ہوتا ہے، جیسے سانپ، خرگوش، بطخ، پانی، اونٹ، کتا، وغیرہ، پس اگر کسی شخص میں کینہ ہے، تو یہ اس کے خواب میں سانپ بن کر سامنے آئے گا، کیونکہ کینے کی خارجی شکل سانپ ہے،

 

۹۳

 

اسی طرح نیند کا مظہر خرگوش ہے، طمع کا بطخ یا چیونٹی، علم کی بیرونی شکل پانی، حلم یعنی حلیمی کی مثال اونٹ ہے، اور غصّہ یا مردم آزاری کا مجسم کتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگرچہ ذہنی چیزیں جسم و شکل کے بغیر ہیں، تاہم خارجی چیزیں ان کے لئے مظاہر کا کام دیتی رہتی ہیں، تاکہ قانونِ قدرت ہر آدمی کے خواب میں اشاراتی زبان سے یہ بتا سکے کہ تم میں یہ بیماری ہے، یا یہ کامیابی ہے۔

۱۴ جمادی الثانی ۱۴۰۶ھ / ۲۴ فروری ۱۹۸۶ء

۹۴

ذکرِ خدا ۔ اکسیرِ اعظم

۱۔ اللہ تعالیٰ کی بابرکت و پُرحکمت یاد گویا روحانیّت کی کیمسٹری (Chemistry) ہے، یعنی علمِ کیمیا، یا اکسیر (رساین ودیا) جس میں قدیم روایتی معنی بھی ہیں، جیسے دھات سے سونا یا چاندی بنانا، اور جدید عملی سائنس کی مصنوعات بھی، جن کا تعلق کیمسٹری سے ہو، اور اکسیر ایسی سریع التاثیر اور شافی دوا کو بھی کہتے ہیں، جو ہر مرض کو دفع کرے، اور جس کے کھانے سے آدمی کبھی بیمار نہ ہو، یقیناً ذکرِ الٰہی میں یہ دونوں معنی بدرجۂ کمال موجود ہیں، کہ اس نے بہت سارے انسانوں کو خاکِ ذلت سے اٹھا کر عقل و دانش کی بلندیوں میں گوہرِ گرانمایہ بنا دیا ہے، اور جس شخص نے اس کو دنیا کی تمام چیزوں میں سے درمانِ جان کے طور پر منتخب کر لیا، تو وہ ہر قسم کی باطنی اور روحانی بیماری سے محفوظ و سلامت رہتا ہے۔

۲۔ جس طرح علمِ کیمیا (Chemistry) کے ذریعے مختلف اشیاء کے مرکبات سے نئی چیز کا وجود عمل میں لایا جاتا ہے، اسی طرح ذکر و

 

۹۵

 

عبادت اور علم و عمل کے وسیلے سے ایک ہوشمند صوفی اپنے عالمِ شخصی (Personal World) میں ہر خوابیدہ صلاحیت کو بیدار کرکے انقلاب لاتا ہے، جس کو لمحہ بہ لمحہ حرکت دینے والی اصل طاقت یادِ خدا ہے، جس کی وجہ (جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے) یہ ہے کہ ہر دل کے دو کان ہوا کرتے ہیں، ایک طرف ایک فرشتہ کچھ کہتا ہے، اور دوسری طرف ایک شیطان وسوسہ ڈالتا ہے، لیکن جب ذکرِ الٰہی کی کثرت سے فرشتے کو مسلسل بولنے کا موقع فراہم ہوا، اور اس سے جیسے شیطان مایوس ہوگیا، تو نتیجے کے طور پر مردِ صوفی کو اپنے آپ پر ایک دائمی فتح حاصل ہونے لگتی ہے، چونکہ فرشتہ توفیقاتِ الٰہی کا خزینۂ بے پایان ہوا کرتا ہے، لہٰذا ذکر جس قدر بھی کثیر و طویل ہو، فرشتے کی فیض رسانی بھی اتنی زیادہ مفید ہوتی جاتی ہے۔

۳۔ آواز کی بلندی و پستی کے بہت سے درجات ہیں، کیونکہ وہ جہر سے زیادہ جہر بھی ہے، اور خفی سے زیادہ خفی بھی (۲۰: ۰۷) چنانچہ کسی بھی درجے میں ذکر و بندگی، اور علم و حکمت کی آواز، اور رشتۂ مجسم (۰۶: ۰۹) یا فرشتۂ مجرّد کی آواز قلبِ انسانی کے لئے دوا، شفاء اور صحت ہے، اس کے برخلاف شیطان خواہ انسی ہو یا جنّی (۰۶: ۱۱۲) اس کی آواز قلبِ بنی آدم کے لئے بیماری ہے، اس لئے ہر دانشمند مسلمان اپنے دل کو ذکرِ الٰہی کی گونج میں مستغرق رکھتا ہے، جس کی بدولت ایک

 

۹۶

 

طرف شیطانی وسوسے کا سدِ باب ہو جاتا ہے، اور دوسری جانب فرشتہ (ان شاء اللہ) اُس کے قلب میں کوئی نورانی بات ڈالتا ہے، جسے القاء کہا جاتا ہے، اور الہام (۹۱: ۰۸) یا توفیق و تائید (۵۸: ۲۲) بھی اسی طرح ہوتی ہے، مگر اس کی شرط تقویٰ ہے، جیسا کہ ہونا چاہئے۔

۴۔ چونکہ ذکرِ الٰہی زائد عبادات (نوافل) میں سے ہے، اس لئے یہ امر ازحد ضروری ہے کہ یہاں اس قسم کی عبادت کا مقصدِ اعلیٰ بیان کیا جائے، تاکہ وہ حضرات، جو یادِ خدا کی لازوال دولت چاہتے ہیں، اس کے مبارک و مقدّس نتائج و ثمرات کے بارے میں یقین کریں، چنانچہ صحیحِ بخاری، جلدِ سوم، کتابِ رقاق، باب ۸۴۴، حدیث ۱۴۲۲ کا ترجمہ ہے:
“اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعہ مجھ سے قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے۔” اللہ تبارک و تعالیٰ کی یہ عادت و سنت ہمیشہ سے قائم ہے، اور اس سعادتِ عظمیٰ کا عملی نمونہ حضراتِ انبیاء و اولیاء ہیں، اور یہ دعوتِ عمل ہر فردِ مسلم کے لئے ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ مذکورہ حدیثِ شریف آیۂ نور (۲۴: ۳۵) کی ایک

 

۹۷

 

وضاحت ہے کہ خدا کا نور وہ ہے، جس کی روشنی کے بے پناہ سمندر میں آسمان و زمین اور ان کی تمام چیزیں ڈوبی ہوئی ہیں، چنانچہ جب کوئی ذاکر و سالک قدم بقدم اور منزل بمنزل قربِ خاص کی طرف آگے بڑھ جاتا ہے، تو نورِ ہدایت اُس پر طلوع ہو جاتا ہے، جس سے اُس کے حواسِ ظاہر و باطن منوّر ہوکر غیر معمولی طور پر (Extra Ordinary) کام کرنے لگتے ہیں، پس ایسے خوش نصیب حضرات یقیناً خدا کے دوستوں میں شامل ہو جاتے ہیں، اور یہ سب کچھ یادِ الٰہی کی اکسیرِ اعظم کی بدولت حاصل ہو جاتا ہے۔

۵۔ آپ قرآنِ مجید کے پُرحکمت موضوعات میں سے “برکت” کے موضوع کا بصد شوق مطالعہ کریں، جو صرف ۳۲ آیاتِ کریمہ پر مشتمل ہے، اس میں روحانی برکتوں کو سمجھنے کے لئے مادّی برکات کے ذرائع پر خوب غور کرنا ہوگا، مثال کے طور پر پہاڑ (۴۱: ۱۰) اور بارش کے پانی (۵۰: ۰۹) کو دیکھئے کہ یہ قرآن کے نزدیک مادّی اعتبار سے مبارک یعنی برکت دیئے گئے ہیں، جن کی برکتوں کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے جاری رہتا ہے، اسی طرح بابرکت روحانی چیزوں میں سے تین کا یہاں مختصر ذکر کیا جاتا ہے، جو قرآنِ حکیم (۳۸: ۲۹) اللہ تعالیٰ کا اسمِ بزرگ (۵۵: ۷۸) اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ گرامی ہے (۲۵: ۰۱، ۱۱: ۷۳، ۱۹: ۳۱) اور اس حقیقت میں کسی مسلمان کو کیا شک ہو سکتا ہے کہ حضورِ انورؐ کا انتہائی عظیم مرتبہ کئی معنوں میں لا انتہا فیوض و

 

۹۸

 

برکات کا سرچشمہ ہے، چنانچہ یہ تینوں مبارک و مقدّس چیزیں نہ صرف برکت کے رشتے سے بلکہ اور بھی کئی رشتوں سے آپس میں منسلک و مربوط ہیں، لہٰذا یہ یقین کرنا ہوگا کہ نورِ ذکر کی روشنی میں قرآن و حدیث کے حقائق و معارف نمایان ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ہر متقی ذاکر کی رہی سہی اور بچی کھچی اخلاقی، نظریاتی، روحانی، اور عقلی بیماریاں ختم ہو سکتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ ذکرِ الٰہی کا حکم دیا گیا ہے، اور طرح طرح سے اس کی تعریف و توصیف فرمائی گئی ہے، خصوصاً سورۂ رحمان کے آخر (۵۵: ۷۸) میں، جبکہ یہ سورہ عروس القرآن ہے، جو دنیائے قرآن کے حسن و جمال کا یکتا آئینہ ہے، جس کا خلاصہ یہ آیۂ مقدّسہ ہے (ترجمہ): بڑا بابرکت نام ہے آپ کے ربّ کا جو عظمت والا اور احسان والا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سارے قرآن میں جتنی نعمتوں کا مفصل بیان ہوا ہے، ان سب کا مجمل تذکرہ سورۂ رحمان میں فرمایا گیا ہے، اور عروس القرآن کی جملہ برکات کا سرچشمہ و مرکز اس کی آخری آیت ہے، جس کا مقصد اللہ تعالیٰ کا اسمِ اکبر ہے، جو یادِ الٰہی کا وسیلہ ہے۔

۶۔ ذکرِ الٰہی ہر چند کہ بظاہر فیضِ عام ہے، تاہم یہ دراصل کچھ نزاکتوں کی وجہ سے خاص ہے، جس کی ایک مثال سورۂ اعراف کی آخری دو آیتوں (۰۷: ۲۰۵ تا ۲۰۶) کے مفہومات میں اس طرح ہے: الف: ربّ کو دل کی گہرائی یعنی روح میں انتہائی عاجزی اور بڑے خوف

 

۹۹

 

سے یاد کرناہے، اگر یہ عاجزی حقیقی ہے، یعنی دبی ہوئی یا سنجیدہ گریہ و زاری کا نتیجہ جیسی ہے، تو یہ روحانیّت کی جراثیم کش (Germicidal) دوا ہے، جس کے استعمال سے تمام باطل خیالات کے جراثیم مر جاتے ہیں، اور خوفِ خدا وہ حفاظتی دوا ہے، جو اپنی تاثیر کی بدولت ایسے جراثیم سے دل کو محفوظ رکھتی ہے۔ ب: اگر یہ ذکر خصوصی اور اخفیٰ (سب سے پوشیدہ) ہے، تو صبح و شام اس کے تلفظ کو جہر کے بغیر ادا کرنا چاہئے، یعنی یہ ذکر خفی سے بھی زیادہ خفی ہو، تاکہ دل کی زبان اس میں ایسی شدید اور مسلسل مصروف ہو کہ شیطانی وسوسہ اس کو نہ چھو سکے۔ ج: ان دو وقتوں کے علاوہ بھی خدا کو یاد کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے، کیونکہ ذکرِ کثیر (۰۳: ۴۱، ۳۳: ۲۱) میں بے شمار فائدے ہیں، اور ان میں سے ایک خاص فائدہ یہ ہے کہ کثرتِ ذکر سے دل میں رقت، عاجزی، اور خوفِ خدا کی کیفیت پیدا ہو کر قائم رہتی ہے، تا کہ پہلے ہی سے ذکرِ قلبی کے لئے خوب تیاری ہو، ورنہ مشکل ہے۔ د: فرشتے اور خدا کے دوست اس کے مقرّب ہوا کرتے ہیں، وہ ہر وقت اس کی عبادت و بندگی میں مستغرق و محو رہتے ہیں، اور ذرّہ بھر تکبر نہیں کرتے، کیونکہ وہ کثرت سے خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، اور اس کے لئے انتہائی عاجزی سے سجدہ کرتے ہیں۔

۷۔ دنیا میں بھی، اور دین میں بھی، صرف وہی لوگ کامیاب، سربلند ، اور سرخرو ہوتے ہیں، جو حقیقی معنوں میں عقل و دانش رکھتے ہیں، مگر مرتبۂ

 

۱۰۰

 

عقل جتنا عالیشان ہے، اتنا اس کا حصول مشکل بھی ہے، کیوں نہ ہو، جبکہ عقل تمام چیزوں اور جملہ نعمتوں سے اعلیٰ و افضل، اور سب سے بیش بہا و گرانمایہ ہے، اور عقل ہی کی راحت و جنّت سب سے بڑی بہشت ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم کے مختلف الفاظ میں عقل سے متعلق کئی موضوعات ہیں، اور ان میں سے ایک زبردست دلکش موضوع “اولوا الالباب” (عقل والے) ہے، جو صرف ۱۶ آیاتِ کریمہ پر مشتمل ہے، جس میں آپ کو بڑے ذوق و شوق سے یہ دیکھنا بے حد مفید ہوگا کہ پروردگارِ عالم نے کس شان سے اہلِ عقل کی تعریف و توصیف فرمائی ہیں؟ ان کے کیا کیا اوصاف ہیں؟ ان کا طریقِ کار کیا ہے؟ اور وہ اصل راز یا کلیدی بھید کیا ہے، جس کے مطابق عمل کرنے سے لوگ اہلِ دانش کی صف میں آجاتے ہیں؟ سو آئیے کہ اب ہم اس سلسلے کی دو ایسی نورانی آیتوں کو دیکھتے ہیں، جن میں یہ نسخۂ کیمیا اور یہ راز موجود ہے کہ معمولی دھات سے سونا یا چاندی بنانے کی طرح ہر نیک نیت مسلمان اس قرآنی کیمیا (Chemistry) سے کس طرح اپنے آپ کو بحقیقت زمرۂ اہلِ دانش میں شامل کر سکتا ہے، ان دونوں پُرحکمت آیتوں کا ترجمہ درجِ ذیل ہے:
“بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے بنانے میں اور یکے بعد دیگرے رات اور دن کے آنے جانے میں نشانیاں ہیں اہلِ عقل کے لئے، جن کی یہ حالت ہے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی یاد کرتے ہیں کھڑے بھی بیٹھے بھی لیٹے بھی اور آسمانوں اور زمین کے پیدا ہونے میں غور کرتے

 

۱۰۱

 

ہیں کہ اے ہمارے پروردگار آپ نے اس کو لایعنی پیدا نہیں کیا ہم آپ کو منزہ سمجھتے ہیں سو ہم کو عذابِ دوزخ سے بچا لیجئے۔” (سورۂ آلِ عمران، آیت: ۱۹۰ تا ۱۹۱) (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) اس سماوی تعلیم میں آپ دیکھتے ہیں کہ عقل و دانش، غور وفکر، اخذِ نتائج، خدا شناسی، آتشِ دوزخ سے نجات، اور حصولِ بہشت، یہ سب کچھ ایسے ذکرِ الٰہی کا ثمرہ ہے، جو مذکورۂ بالا آیۂ مقدّسہ کے مطابق نشست و برخاست کی ہر حالت (Position) میں جاری رہتا ہے، پس یقیناًذکرِ خدا اکسیرِ اعظم ہے۔

۸۔ انسان کے دل کی کیفیت بار بار کیوں دگر گون ہوتی رہتی ہے؟ قلبی بیماریوں پر کیسے قابو (Control) ہو سکتا ہے؟ اس کے لئے (جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے) یہ جاننا نہایت ہی ضروری ہے، کہ قلبِ انسانی کے پاس ایک فرشتہ اور ایک شیطان دو ساتھی مقرر ہیں، چنانچہ ظاہر ہے کہ فرشتے کو ذکرِ الٰہی سے عمل کا موقع ملتا ہے، اور اس کے برعکس شیطان کو غفلت سے، جیسا کہ سورۂ زخرف میں ارشاد ہوا ہے (ترجمہ): اور جو شخص خدا کی یاد سے اندھا بنتا ہے ہم (گویا خود) اس کے واسطے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہی اس کا (ہر دم کا) ساتھی ہے (۴۳: ۳۶) اس قانونِ خداوندی کا دوسرا رخ (پہلو) یہ ہے کہ یادِ الٰہی کی وجہ سے ایک فرشتہ بھی مقرر ہو جاتا ہے، تا کہ خدائے برحق کے عدل و انصاف کی خوبیوں میں کوئی کمی واقع نہ ہو جائے کہ اُس نے صرف بیماری نازل نہیں کی، بلکہ اس کی دوا بھی نازل فرمائی ہے۔

۱۰۲

۹۔ جب ایک حقیقی صوفی ذکرِ الٰہی کے نتائج و ثمرات کی لازوال و غیر فانی دولت سے مالامال ہو جاتا ہے، اور جسمانی موت سے پہلے ہی نفسانی موت کا مزہ چکھ لیتا ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہ وہ مرشدِ کامل میں فنا ہو جاتا ہے، پھر رسول میں ، اور آخر میں فنا فی اللہ ہو جاتا ہے، تو اس وقت ایسے کامیاب بندۂ مومن کے نامۂ اعمال (زبور = کتاب، مراد ہے: کتابِ اعمال) میں بحروفِ روحانی یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ روئے زمین کے وارث خدا کے نیک بندے ہوں گے (۲۱: ۱۰۵)۔

۲۰ جمادی الثانی ۱۴۰۶ھ / ۲ مارچ ۱۹۸۶ء

۱۰۳

 

خوفِ بے جا کا علاج

۱۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے، اصل تقویٰ اور جملہ عبادات کی روح ہے، جس کا ذکر ہو چکا ہے، اور ہر مسلمان کا یہ پُرحکمت خوف رکھنا نہ صرف بجا اور درست ہے، بلکہ انتہائی ضروری بھی ہے، اور اس کے برعکس مخلوق سے ڈرنا “خوفِ بے جا” کہلاتا ہے، یعنی یہ خوف نامناسب ، فضول، اور باطل ہے، جس سے بہت سی ذہنی، نفسیاتی، اور روحانی بیماریاں جنم لیتی ہیں، اور ایسا آدمی مجاہدانہ قسم کے کارناموں کو انجام نہیں دے سکتا، چنانچہ قرآنِ حکیم نے اپنی حکمت آگین تعلیمات میں کسی غیر سے نہیں، بلکہ صرف خدا ہی سے ڈرنے کا حکم دیا ہے (۳۳: ۳۹) تاکہ اہلِ ایمان کے دلوں پر خوفِ خدا کے تسلّط و قبضہ ہونے کی وجہ سے کسی دوسرے کا خوف قریب بھی نہ آسکے۔

۲۔ اس موضوع کے سلسلے میں آپ کو یہ جاننا ازبس ضروری ہے کہ بے جا خوف دراصل نفسِ امّارہ (نفسِ حیوانی) اور شیطان کی وجہ

 

۱۰۴

 

سے ہے، تاہم اس کی بنیاد نفس ہی ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اگرچہ بظاہر جملہ غلط کاریوں کا ذریعہ شیطان ہے، لیکن انسان کو اپنے دائرۂ اختیار میں جیسے تمام وسائل حاصل ہیں، اس کے سبب سے وہ خود اپنے اعمال کا مسئول ہے، چنانچہ ہر مومنِ صادق کے لئے یہ امر بے حد ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ ایمان کی پختگی، توکّل، عالی ہمتی اور ذکر و عبادت کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کی خدمت میں لگے رہے، کیونکہ اس کا ثواب بہت ہی بڑا ہے۔

۳۔ سورۂ یونس کی اس آیۂ مقدّسہ کی روشنی میں بار بار غور کیجئے: اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ  (۱۰: ۶۲) آگاہ رہو اس میں شک نہیں کہ دوستانِ خدا پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ اس آیۂ کریمہ کی حکمت سے زیرِ بحث مضمون کے سمجھنے میں بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے، وہ اس طرح کہ خدا کے دوست بھی انسان ہی ہیں، مگر قرآنِ حکیم نے انہیں انسانی ترقی کا نمونہ قرار دیتے ہوئے واشگاف الفاظ میں یہ فرمایا کہ ان کو خوفِ بے جا کی بیماری لاحق نہیں ہو سکتی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیشہ ان کے قلب میں خوفِ خدا اس طرح موجود ہوتا ہے کہ وہاں اس کی اصل علمی صورت ہوتی ہے، کیونکہ خوفِ خدا یا تقویٰ درحقیقت علمی کیفیت میں ہے (۳۵: ۲۸) اس سے ایک طرف تو تقویٰ کے ساتھ ساتھ علم کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے، اور دوسری طرف یہ امر ممکن نظر آتا ہے کہ مومنین علم و عمل کے

 

۱۰۵

 

ذریعے رفتہ رفتہ بے جا خوف سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں، کیونکہ اہلِ ایمان اگرچہ سب کے سب اولیاء (یعنی خدا کے خاص دوست ) تو نہیں، لیکن وہ خدا تعالیٰ کے عام دوست ضرور ہیں (۰۵: ۵۵)۔

۴۔ کسی عام جسمانی بیماری کے مقابلے میں سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں بعض افراد ایسے صفائی پسند، کھانے پینے میں محتاط، تندرست و قوّی، اور بہترین قوّتِ مدافعہ کے مالک ہوا کرتے ہیں کہ بسا اوقات مرض ان کو چھو بھی نہیں سکتا ، اس لئے کہ وہ حفظانِ صحت کے ہر اصول پر عمل کرتے ہیں، دوسرے لوگ وہ ہیں، جو ایک بار بیماری میں مبتلا ہو جانے کے بعد علاج و معالجہ سے اس کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور لوگوں کا تیسرا گروہ ایسا ہے کہ اس کے افراد و اشخاص بہ آسانی علیل ہو کر عرصۂ دراز تک صحت یاب نہیں ہو سکتے، یہی حال خوفِ بے جا کی بیماری کا بھی ہے، یعنی خوفِ باطل کے مقابلے میں لوگوں کے تین گروہ ہیں: الف: خدا کے اولیاء۔ ب: عالی ہمت مومنین۔ ج: کمزور مومنین۔

۵۔ جسمانی بیماریوں کا علاج عام طور پر دو طریقوں سے کیا جاتا ہے، پہلا: علاج بالضد، ایلو پیتھی (Allopathy) کہلاتا ہے، اور دوسرا: علاج بالمثل، ہومیو پیتھی (Homeopathy) ہے، ان دونوں کے درمیان یہ نمایان فرق ہے کہ طریقۂ اوّل میں مرض کی تاثیر کے برعکس علاج کیا جاتا ہے، اور طریقۂ دوم میں

 

۱۰۶

 

مرض کی تاثیر کے مطابق، اس کی ایک قابلِ فہم مثال ایسی ہے، جیسے کوئی دھوپ میں کام کرنے والا آدمی بار بار ٹھنڈا پانی پیتا ہو، یا اس میں نہاتا ہو، تاکہ گرمی کی تکلیف جاتی رہے، یہ “علاج بالضد” کی مثال ہے، اب اگر یہی شخص گرمی کی تکلیف کو گرمی ہی سے دور کرتا ہو، جیسے گرم چائے، وغیرہ پینا، یا کوئی موٹا کپڑا پہننا، یا چلنا پھرنا، تاکہ پسینہ کے ساتھ دھوپ کی گرمی نکل جائے، تو یہ “علاج بالمثل” کی مثال ہے، اسی طرح خوفِ بے جا کا چارہ یا تو ذکرِ الٰہی سے کیا جاتا ہے یا خوفِ خدا سے، کہ پہلا: علاج بالضد ہے، اور دوسرا : علاج بالمثل۔

۶۔ اگر آپ خوف کے بارے میں بنیاد اور گہرائی سے جاننے کے خواہشمند ہیں، تو دیکھئے کہ یہ موالیدِ ثلاثہ (جمادات، نباتات، حیوانات) میں سے صرف حیوان میں پایا جاتا ہے، حیوان دو قسم کے ہیں: حیوانِ صامت، اور حیوانِ ناطق، یعنی ایسی زندہ مخلوق جو خاموش ہے بول نہیں سکتی، جیسے چرند، پرند وغیرہ، اور ایسی زندہ مخلوق جو بولنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وہ انسان ہے، چنانچہ حیوانِ صامت میں خوف کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ یہ اس کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے، لیکن وجودِ انسانی میں آکر حیوانی خوف کو بشری اور ملکی (فرشتگانہ) خوف میں تحلیل و فنا ہو جانا چاہئے، کیونکہ پہلے میں علم و حکمت نہیں، دوسرے میں علم و حکمت ہے۔

۷۔ ڈرنے کو تو چوپایہ بھی ڈرتا ہے، اور انسان بھی ڈرتا ہے، لیکن

 

۱۰۷

 

انسان کے پاس جو عقلِ جزوی ہے، وہ خاموش جانور میں نہیں، لہٰذا ان دونوں کے ڈرنے میں بڑا فرق ہے، اب جوں جوں دینی علم کے ذریعے عقل کی ترقی ہوتی جائے گی، توں توں خوف کی نوعیّت بھی بدلتی جائے گی، تا وقتیکہ بشری خوف ملکی خوف میں تحلیل (Dissolve) ہو جائے گا، جیسا کہ قرآنِ حکیم کا اشارہ ہے کہ لوگوں کو خدا سے ڈرنا چاہئے، مگر علم کی روشنی میں، کیونکہ خوفِ خدا کا اصل مقام معرفت کی بلندی پر ہے، یعنی یہ روحانیّت اور خدا شناسی کے امور میں شامل ہے، اس تصوّر سے خوفِ خدا کے ذیلی درجات کی نفی نہیں ہو سکتی ہے، بلکہ اس سے یہ حقیقت روشن تر ہو جاتی ہے کہ خوفِ خدا علم کے ساتھ ساتھ پایہ بپایہ زیادہ سے زیادہ واضح اور بلند ہوتا جاتا ہے، جیسا کہ سورۂ فاطر (۳۵) کے ایک ارشاد (۳۵: ۲۸) سے یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے (ترجمۂ اشرف علی:) (اور ) خدا سے وہی بندے ڈرتے ہیں جو (اس کی عظمت کا) علم رکھتے ہیں۔ (ترجمۂ فرمان علی:) اس کے بندوں میں خدا کا خوف کرنے والے تو بس علماء ہیں۔ یہ بات اہلِ قرآن سب جانتے ہیں کہ علم کے بہت سے درجات ہیں (۱۲: ۷۶)۔

۸۔ حیوانی خوف جو عقل و دانش اور علم و حکمت سے بالکل عاری ہے، وہ اگرچہ نفسِ حیوانی کے ساتھ انسان میں بھی آتا ہے، لیکن یہاں آکر وہ خوفِ بے جا قرار پاتا ہے، کیونکہ یہاں خوفِ خدا کا امکان موجود ہے، جو علمی اور ملکوتی قسم کا ہے، یعنی ایسا اور اس کیفیت کا خوف، جو فرشتوں

 

۱۰۸

 

میں ہوا کرتا ہے (۱۶: ۵۰) جو انبیاء (۳۳: ۳۹) اور اولیاء (۱۰: ۶۲) کے دلوں میں ہوتا ہے، اور جس کی معرفت اہلِ علم کو ہو سکتی ہے، وہی خوف تقویٰ اور مقصودِ قرآن ہے، اور وہی دوا ہے، جس سے خوفِ بے جا کی بیماری زائل ہو جاتی ہے۔

۹۔ جہاں خدا سے ڈرنا ممکن ہو، وہاں غیرِ خدا سے ڈرنے کا کوئی جواز پیدا نہیں ہو سکتا، اگر ہم غیر سے خوف کریں، تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ (نعوذ باللہ) خدا کے اذن کے بغیر ہم پر کوئی مصیبت پڑ سکتی ہے، حالانکہ یہ بات قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے، آپ قرآنِ حکیم میں “اذن اللہ” کے مضمون کو دیکھئے، اور یہاں مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: جب کوئی مصیبت آتی ہے تو خدا کے اذن سے (آتی ہے) اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے تو خدا اس کے قلب کی ہدایت کرتا ہے (سورۂ تغابن ،۶۴: ۱۱) اس سے ظاہر ہوا کہ غیرِ خدا سے ڈرنا شرک ہے، پس درجاتِ ایمانی میں ترقی ضروری ہے تاکہ قلبی ہدایت کی روشنی نصیب ہو، اور خوفِ خدا کی روحانیّت کا مشاہدہ ہو سکے۔

۱۰۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ جلّ شانہ سے ڈرنے کے کئی درجات ہیں، اور سب سے اوپر یعنی مقامِ روحانیّت پر خوفِ خدا کے (محیر العقول) معجزات رونما ہو جاتے ہیں، جن کا مجمل بیان قرآنِ پاک میں موجود ہے، جیسے چند خلّیاتی زلزلے (۰۲: ۲۱۴) نیم مردہ یا خوابیدہ خلّیات کا جاگنا (۳۹: ۲۳) دل کے ساتھ ساتھ بدن (خلّیات) کا بھی ذکرِ خدا

 

۱۰۹

 

میں مصروف ہو جانا (۳۹: ۲۳) کلمۂ تقویٰ اور عملِ عزرائیلی (۴۸: ۲۶، ۰۳: ۱۴۳) رویتِ روحِ قرآن (۵۹: ۲۱) یعنی قرآن کی روح و روحانیّت کو دیکھ کر اللہ سے ڈرنا، لشکرِ روحانی کے حملے سے جان بہ لب ہو جانا (۳۳: ۱۰، یہ بھی روحانی موت کا معجزہ ہے ) دل کا معیارِ روحانیّت کے مطابق ڈر جانا (۰۸: ۰۲) وغیرہ، یہ سب خوفِ خدا کے معجزات میں سے ہیں۔

۱۱۔ اس مضمون کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد آپ کو اس امر کا بطورِ کامل یقین ہوگا کہ خوفِ بے جا ایک آزمائش بھی ہے (۰۲: ۱۵۵) اور ایک روحانی بیماری بھی، جس کا مکمل علاج تین چیزوں سے ہو سکتا ہے، ذکرِ خدا، خوفِ خدا، اور روحانی علم، ذکرِ خدا اس مرض کی دوا اس معنیٰ میں ہو سکتا ہے کہ اس میں معجزاتی طور پر دلوں کو آرام ملتا ہے (۱۳: ۲۸) جبکہ خوفِ بے جا سے دلی آرام چھن جاتا ہے، خوفِ خدا کی برکت سے خوفِ بے جا اس طرح نیست و نابود ہو جاتا ہے کہ جو دل بحقیقت اللہ سے ڈرتا ہو، وہ کسی مخلوق کا خوف و ہراس نہیں رکھتا، نہ اس میں خوفِ خدا کے سوا دوسرے خوف کے لئے جگہ ہوتی ہے، اور علم سے علاج ہونے کی توجیہہ یوں ہے کہ اس کی روشنی میں صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ خوفِ بے جا ایک جہالت کے سوا کچھ بھی نہیں، پس نورِ علم کی ضوفشانی سے جہالت کی یہ ظلمت کافور ہو جاتی ہے۔

۱۲۔ اس سلسلے میں سورۂ آلِ عمران کا یہ ارشاد بھی زیادہ سے زیادہ قابلِ توجہ ہے: (ترجمہ) اس سے زیادہ کوئی بات نہیں کہ یہ شیطان ہے

 

۱۱۰

 

کہ اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، سو تم ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرنا اگر تم ایمان والے ہو (۰۳: ۱۷۵) اس تعلیمِ ربّانی میں خوفِ بے جا کی بیماری اور اس کی دوا دونوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، ساتھ ہی ساتھ ارشاد ہوا ہے، کہ یہ مرض شیطان سے آتا ہے، اسی شیطان کے توسط سے، جو قلبی کان کے پاس بیٹھا ہے، چنانچہ جاہلانہ خوف کی وجہِ بیماری پوشیدہ نہ رہی، بلکہ ظاہر ہو گئی، اور اس کے ساتھ ساتھ کامیاب طریقِ علاج کا بھی علم ہوا، اب اس پر عمل کر کے کامیابی حاصل کرنے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہو جاتی ہے۔

۱۳۔ انبیائے کرام اور اولیائے عظام بیداری میں بھی اور خواب میں بھی اس طرح نہیں ڈرتے، جس طرح عامۃ الناس ڈرتے ہیں (۱۰: ۶۲) کیونکہ ان میں ہمیشہ خوفِ خدا کا معجزہ کام کرتا ہے، جو دنیاوی خوف سے بہت مختلف اور بے مثال ہے، اور اس بارے میں مومنین کے احوال الگ الگ ہوتے ہیں، یعنی ان کے بہت سے درجات ہوا کرتے ہیں، اور ہر درجہ میں خوف کی ایک جداگانہ کیفیت ہوتی ہے، حضراتِ انبیاء و اولیاء میں عام خوف نہ ہونے کی دوسری وجہ ذکر ہے، اور تیسری وجہ علم۔

۲۷ جمادی الثانی ۱۴۰۶ھ / ۹ مارچ ۱۹۸۶ء

 

۱۱۱

 

 

ایک آسمانی دوا ۔ دعا

۱۔ ایک زبردست مؤثر میڈیسن (Medicine)، نہایت ہی شفا بخش درمان، اور انتہائی کامیاب و مفید دوا، جو آسمانِ رحمت سے نازل کی گئی ہے، جو گرانقدر اور انمول ہے، جو دستیاب تو ہے، مگر پھر بھی ایک معنیٰ میں نایاب ہے، جو عام نظر آتی ہے، لیکن خاص ترین ہے، اور جس کی جتنی بھی تعریف و توصیف کی جائے کم ہے، کیونکہ وہ ہزاروں بیماریوں کی واحد و یکتا دوا ہے، آپ نے عنوانِ بالا سے یہ مطلب سمجھ لیا ہو گا کہ ایسی معجز نما دوا قرآنی دعا ہے، جسے آسمانی طبیب نے زمین کے لاتعداد آہ بھرنے اور کراہنے والے مریضوں اور دردمندوں کی حالتِ زار پر رحم فرماتے ہوئے نازل فرمائی ہے، یہ کیمیا اثر دوا اتنی قدیم ہے، جتنی کہ خود تاریخِ انسانیّت پرانی ہے، لیکن اس کے باوصف بڑی عجیب بات یہ ہے کہ اگر عصرِ حاضر کے جدید علوم کی روشنی میں اس پر تحقیق (ریسرچ، Research) کی جائے، تو یہ اپنے تمام تر فائدوں کے لحاظ سے جدید ترین بھی ثابت ہو

 

۱۱۲

 

سکتی ہے، اور اس کی کراماتی تاثیر کے نتائج بڑے عجیب و غریب ہو سکتے ہیں، اور آئندہ روحانی دور میں تو بس اسی کی بادشاہی اور کارفرمائی ہوگی۔

۲۔ دعا کی جو اصل معنوی روح قرآنِ پاک میں موجود ہے، اس کو اپنانے کے لئے ان تمام شروط پر سختی اور پابندی سے عمل کرنا بہت ہی ضروری ہے، جو دعا کے عظیم قرآنی موضوع میں مذکور ہیں، جیسے ایمان، پرہیزگاری، نکو کاری، اخلاص، امید و بیم، عاجزی، رجوع، وغیرہ، ان شرائط کی بجا آوری کے بغیر قبولیت کا دروازہ نہیں کھل سکتا، اور نہ ہی روحِ قرآن کے مطابق عمل ہو سکتا ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم نے صرف ان شرطوں کا حکم ہی نہیں دیا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ کئی دلنشین عملی مثالیں بھی بیان کی گئیں، جیسا کہ ارشاد ہے (ترجمہ): پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خالص اعتقاد کر کے اللہ ہی کو پکارنے لگتے ہیں پھر جب ان کو نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو وہ فوراً ہی شرک کرنے لگتے ہیں (۲۹: ۶۵) آپ اس ارشاد کے علاوہ سورۂ یونس (۱۰: ۲۲) اور سورۂ لقمان (۳۱: ۳۲) میں بھی دیکھئے، تاکہ مجموعی مفاہیم سے یہ حقیقت روشن ہو کہ اگرچہ سفرِ کشتی میں خوف و خطر سے دوچار ہونے والے لوگوں کا یہ اخلاص، عاجزی، رجوع، وغیرہ مستقل نہیں عارضی ہے، تاہم یہ کتنی عمدہ بات ہے، کہ اس سے خوفِ خدا اور قبولِ دعا کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے، قلب کی

 

۱۱۳

 

اس مخفی عاجزی کا نام تضرعِ خفیہ (۰۶: ۶۳) ہے، جس میں قلبی گریہ و زاری کے معنی موجود ہیں، اور اس معنیٰ میں اتنی زبردست جامعیّت ہے کہ قبولیتِ ذکرو دعا کی جملہ شرطیں اس میں داخل و شامل ہو جاتی ہیں، آپ تضرع کے مضمون کو سات آیاتِ کریمہ میں دیکھیں (۰۶: ۴۳، ۰۶: ۴۲، ۲۳: ۷۶، ۰۷: ۹۴، ۰۶: ۶۳، ۰۷: ۵۵، ۰۷: ۲۰۵)۔

۳۔ دعا کے سلسلے میں تضرع کرنے یعنی گڑگڑانے یا گریہ و زاری کرنے یا مناجات پڑھنے سے بے شمار روحانی فائدے حاصل ہو جاتے ہیں، چنانچہ اہلِ دانش پر واجب ہے کہ انفرادی طور پر بھی، اور اجتماعی طور پر بھی بار بار تضرع کر کے طرح طرح کی بلاؤں، آفتوں، اور بیماریوں سے اپنے آپ کو خدا کے حضور میں محفوظ و مامون رکھیں، ایسا نہ ہو کہ انسان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ناگہان قانونِ قدرت خود گریہ و زاری کا سامان لے کر آن پہنچے، جیسا کہ سورۂ انعام (۰۶: ۴۲ تا ۴۳) میں فرمایا گیا ہے (ترجمہ): اے رسول تم سے پہلے جو امتیں گزر چکی ہیں ہم ان کے پاس بہتیرے رسول بھیج چکے ہیں، جب انہوں نے نافرمانی کی تو ہم نے سختی اور تکلیف میں مبتلا کر دیا تا کہ وہ ہماری بارگاہ میں گڑگڑائیں، پس جب ان کے سر پر عذاب آ کھڑا ہوا تو وہ کیوں نہیں گڑگڑائے، (تا کہ ہم عذاب کو ہٹا لیتے) مگر ان کے دل تو سخت ہو گئے تھے، جو کچھ بد اعمالیاں کر رہے تھے شیطان نے ان کی نظر میں ان کو زینت دے دی تھی۔ یہ خوب سوچنے کا مقام ہے کہ گریہ و زاری

 

۱۱۴

 

کیوں اتنی ضروری ہے؟ کیا اس سے آدمی کا آئینۂ دل پاک و روشن ہو جاتا ہے؟ آیا ایسے میں ہر نیک دعا بہت جلد قبول ہو جاتی ہے؟

۴۔ جنّ و انس کی تخلیق کا مقصد معبودِ برحق کی عبادت ہے (۵۱: ۵۶) اور بحکمِ حدیثِ شریف عبادت کا مغز دعا ہے، مگر دعا کی اس فضیلت میں بڑی عجیب حکمت پوشیدہ ہے، جبکہ دعا کا مطلب ہے: اپنے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور سے کچھ طلب کرنا، کچھ مانگنا، تو سوال ہے کہ عبادت میں جہاں دوسرے اجزاء بھی ہیں، ان سب کے مقابلے میں جزوِ دعا کی یہ اہمیت کیوں ہے؟ جب کہ اس کے معنی مانگنے کے ہیں؟ جواب عرض ہے: الف: دعا ایک عملی عبادت ہے، جس میں بندۂ مومن انتہائی عاجزی سے اپنی حاجتوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور میں پیش کرتا ہے، اور یہی ایک ایسا موقع ہے جس میں اپنے دل کو قابلِ رحم بنا کر خدائے مہربان کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کر سکتا ہے۔ ب: خداوندِ عالم بے نیاز ہے، اور انسان بے حد محتاج، لہٰذا تمام عبادات کے ثمرات کا حصول دعا سے انسان ہی کو ہو سکتا ہے، جیسے ایاک نعبد کا پھل ایاک نستعین میں مل رہا ہے، اور یہی وہ مثال ہے، جس سے ہم یقین کر سکتے ہیں کہ عبادت کا ایک خاص اجر و صلہ قبولیتِ دعا اور تائید کی صورت میں مل جاتا ہے۔ ج: اگر دعا گریہ و زاری کے عالم میں کی جاتی ہو، تو اس میں بہت سے فیوض و برکات کے حاصل ہونے کا امکان ہے۔

۱۱۵

۵۔ قرآنِ حکیم میں لفظِ “مضطر” بڑا فکر انگیز اور نتیجہ خیز ہے، اس کے معنی ہیں ناچار، بے چارہ، بے اختیار، یا مجبور، اور قرآن کے نزدیک ہر ایسا بندۂ مومن مضطر (بیچارہ) ہے، جس پر کوئی قدرتی آزمائش آتی ہو، تو ایسے میں نفسِ امّارہ کم از کم ہنگامی طور پر مر جاتا ہے، پس یہ روحانی سعادت کا وقت ہے، لہٰذا اس میں ربّ سے رجوع ضروری ہے، جیسا کہ ارشاد ہے (ترجمہ): بھلا وہ کون ہے کہ جب مضطر (بے چارہ) اسے پکارے تو دعا قبول کرتا ہے اورمصیبت کو دور کرتا ہے اور تم لوگوں کو زمین میں (اپنا) نائب بناتا ہے (سورۂ نمل ،۲۷: ۶۲)

۶۔ اگر آپ اس آیۂ کریمہ (۲۷: ۶۲) کے آئینے میں انسانِ کامل یا کسی حقیقی صوفی کو دیکھنا چاہیں تو یہ بھی ممکن ہے، کہ وہ حضرات مضطر یعنی بے چارہ ہیں، جبکہ ان کی مذہبی زندگی ظاہراً و باطناً طرح طرح کی آزمائشوں میں گزرتی ہے، جس میں وہ صاحبان نفسانی طور پر یعنی جیتے جی مرتے ہوئے بھی اور مر کر بھی کامل توجہ اور یکسوئی سے دعا کرتے رہتے ہیں، اور خدائے علیم و حکیم سب سے پہلے ان کی باطنی بیماریوں کو دور کر دیتا ہے، اور ان کو عالمِ شخصی (Personal World) یعنی عالمِ صغیر میں تاجِ خلافت سے سرفراز فرماتا ہے، پس آیۂ مذکورۂ بالا کی صوفیانہ تفسیر یہی ہے۔

۷۔ میں جو بزرگانِ دین کی خاکِ پا سے بھی کمتر ہوں ، دعا کے فضائل جیسا کہ چاہئے بیان نہیں کر سکتا، آپ عبادت و بندگی، اور ذکرِ کثیر

 

۱۱۶

 

سے اپنے آپ کو پگھلا کر براہِ راست قرآنی دعاؤں میں خوب غور کریں، اس جستجو اور غور و فکر کا نتیجہ قرآنِ حکیم کا یہ مفہوم ہو گا: “اللہ تعالیٰ اپنے بندوں (مسلمین و مومنین) کی دعا ہر وقت اور ہمیشہ قبول فرماتا ہے۔” اس قبولیت میں زیادہ سے زیادہ روحانی فائدے کا اشارہ ہے، جسمانی راحت اتنی ضروری نہیں، کیونکہ جسم اس مقصد کے پیشِ نظر بنا ہے کہ وہ طرح طرح شدائد و تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے روح کو فائدہ پہنچائے، دوسرے لفظوں میں یوں کہ بدن کو روحانی ترقی کی خاطر بار بار مصائب و آلام میں مبتلا ہو جانا ہے، تاکہ اس وسیلے سے گریہ و زاری، محویت، اور فنائیت کے عالم میں دعا کی جائے، جس سے باطنی بیماریاں ختم ہو جائیں، اس کے برعکس اگر دعا سے صرف جسمانی بیماری یا کوئی اور مادّی تکلیف دور ہو جاتی، تو پھر روحانی امراض کے لئے جداگانہ دعا کیونکر ممکن ہو سکتی، کیونکہ یہ امر سب سے دشوار ترین ہے کہ ہر شخص کو اس کا ادراک و احساس ہو، اس لئے کہ روح اور عقل کی بیماریاں نظر نہیں آتی ہیں، مگر ہاں، صرف اہلِ بصیرت جانتے ہیں۔

۸۔ سورۂ بقرہ کی آیت ۱۸۶ (۰۲: ۱۸۶) پیشِ نظر ہو، جس کے مفہومات کی وضاحت یہ ہے: کوئی بندہ اپنی ذاتی کوشش سے نہیں بلکہ وسیلۂ رسول سے قربِ الٰہی کو حاصل کر سکتا ہے، اور ایسے بندوں کی دعا اللہ تعالیٰ کے حضور میں قبول ہو جاتی ہے، وہ اس طرح کہ ہمیشہ باطنی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں، اور کبھی کبھار ظاہری مشکلیں بھی، پس ایسے لوگوں کو

 

۱۱۷

 

چاہئے کہ احکامِ خداوندی پر عمل کرتے ہوئے روح و روحانیّتِ قرآن کو سنیں اور قبول کریں، تاکہ ایمان کے درجۂ کمال پر پہنچ جائیں، تاکہ رشد و ہدایت کی کامل روشنی حاصل ہو، اگر یہ سعادت نصیب ہو جاتی ہے، تو سمجھ لیجئے کہ اب باطنی بیماریاں ختم ہو رہی ہیں۔

۹۔ آپ نباتِ طبی، جڑی بوٹی (Medicinal Herb) کے سلسلے میں ضرور یہ جانتے ہوں گے کہ اس کے مختلف اجزاء سے دوا کا کام لیا جاتا ہے، چنانچہ بعض ایسی نباتات کی جڑیں کام آتی ہیں، اور بعض کے پھول، پھل، بیج وغیرہ، پس اگر قرآنِ حکیم کو بہشتِ برین مانتے ہوئے آیاتِ مقدّسہ کی تشبیہہ و تمثیل روضۂ رضوان کی جڑی بوٹیوں سے دی جائے، تو اس صورت میں بھی ہر آیۂ کریمہ کے ظاہر و باطن میں شفا ہی شفا کا تصوّر ہوگا، خاص کر ان طبی نباتات کی جڑوں اور بیجوں میں زبردست ادویاتی تاثیر ہوگی، جڑ سے معنویت کی گہرائی مراد ہے، اور بیج کا اشارہ خلاصۂ حکمت کی طرف ہے، البتہ یہی وجہ ہے کہ قرآنی فکر کی گہرائی میں اتر جانے کی تاکید فرمائی گئی ہے (۴۷: ۲۴) اور حکمت کو خیرِ کثیر کا درجہ دیا گیا ہے (۰۲: ۲۶۹)۔

۱۰۔ دعا و مناجات ایک ایسی شفا بخش دوا ہے، جو بہشتِ سماوی سے نازل کی گئی ہے، جو بعض دوسری مادّی دواؤں کی طرح تلخ نہیں، بلکہ بے حد شیرین و خوشگوار ہے، جو قوّتِ گویائی اور سماعت کے ذریعے قلب میں اتر جاتی ہے، اور وہاں سے تمام ہستی میں پھیل کر محیط ہو

 

۱۱۸

 

جاتی ہے، اس نورانی دوا کے اثر انداز ہونے کی مختلف علامات ہیں، ان میں سب سے بہترین علامت ہے: آنکھوں کا سنجیدگی اور شرافت سے اشکبار ہو جانا، اگر کسی درویش صفت مسلمان پر خدا کا یہ احسان ہو رہا ہو، تو اسے جبینِ نیاز مندی سے سجدہ کرنا چاہئے، تاکہ مناجات اور زیادہ قوّی ہو، اور عاجزی میں اضافہ ہو جائے، کیونکہ دعا، گریہ و زاری، اور سجدہ، یہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان کو ربّ العزّت بہت پسند فرماتا ہے، پس اگر کوئی مومن اس نسخۂ کیمیا سے کام لیتا ہو، تو اس کے لئے باطنی صحتمندی کی بشارت ہے (۱۷: ۱۰۹)۔

۱۱۔ بفرمودۂ حدیث مومنین کے حق میں دنیائے ظاہر کے دو پہلو ہیں: الف: دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کا باغ و گلشن ہے۔ ب: دنیا آخرت کی کھیتی باڑی ہے۔ یہ دونوں حدیث حکمت سے بھرپور ہیں، اور تضاد کا کوئی سوال ہی نہیں، اس سے ظاہر ہے کہ مومن کو اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر حال میں رنج و مشقت کا ایک مقررہ حصہ اٹھانا ہے، خواہ وہ تکالیف قید خانے کی ہوں، یا کھیتی باڑی کی، لیکن کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ وہ اپنے حصے کی ساری مشقت آخرت کی کھیتی باڑی کے کاموں میں برداشت کرے؟ تاکہ قید خانے کا تصوّر ہی ختم ہو جائے؟ کیونکہ قید خانے کا اشارہ یہ بتاتا ہے کہ اگر کوئی مومن دینی اعمال کی محنت و مشقت سے گریز کرتا ہو، تو قانونِ

 

۱۱۹

 

خدا ایسے شخص کو طرح طرح کی سزائیں دیتا ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ جو مومنین ذکر و دعا، بندگی، اور (خلوصِ نیت) سے خدمتِ خلق میں سخت محنت کرتے ہیں، وہ بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

۳ رجب ۱۴۰۶ھ / ۱۵ مارچ ۱۹۸۶ء

۱۲۰

روحانی سائنس
(قسطِ اوّل)

۱۔ سائنس (Science) وہ علم، جس میں کائنات کا مشاہدہ اور مطالعہ کیا جاتا ہے، اور تجربات سے نئی ایجادیں کی جاتی ہیں، ریڈیو، ٹیلیفون، تارِ برقی، فوٹو گرافی، سینما، خلائی راکٹ، ہوائی جہاز، تارپیڈو، ریل، موٹر، وغیرہ، ایجادات اسی علم کے طفیل معرضِ وجود میں آئیں، طبی سائنس کے ذریعے بے شمار بیماریوں کی وجوہات اور ان کے علاج کا پتا لگایا گیا ہے، یہ علم جس قدر اہمیت رکھتا ہے، اسی قدر وسیع بھی ہے، اور دنیا کے تمام علوم میں یہی ایک علم ایسا ہے، جو بنی نوعِ انسان کی زندگی میں ایک انقلابِ عظیم برپا کرنے کا موجب ہے، اور جس کی بدولت ہم آئے دن نئی ترقیات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں (فیروز سنز، اردو انسائیکلوپیڈیا) یہ مادّی سائنس کی تعریف ہے، اسی سے آپ روحانی سائنس کی مثال لیں۔

۲۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح کائنات کا ظاہری مشاہدہ اور مطالعہ مادّی سائنس ہے، اسی طرح اس کا باطنی مشاہدہ روحانی سائنس

 

۱۲۱

 

(Spiritual Science) ہے، چونکہ اس کی دائمی وابستگی نورِ خدا اور خلافتِ الٰہیہ سے ہے، لہٰذا یہ علم (روحانی سائنس) بذریعۂ اسمائے بزرگ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام کو سکھایا گیا، سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ابو البشر (آدم) کو کسی قسم کی تخفیف اور چھوٹ کے بغیر تمام اسماء کی تعلیم دی تھی، ان جملہ اسماء میں سب سے پہلے اصولی طور پر خدائے بزرگ و برتر کے اسمائے عظام (۰۲: ۳۱، ۰۷: ۱۸۰) ہوا کرتے ہیں، جن کی سلطنت کے تحت باقی سب چیزوں کے نام آ ہی جاتے ہیں، مگر یہاں یہ سوچنا اور پوچھنا ہے کہ آیا اس ربّانی تعلیم میں، جو خلیفۂ روئے زمین کو دی گئی، ہر اسم صرف لفظ کی حد تک محدود تھا؟ یا اُس کی معنوی حقیقت بھی سکھائی گئی تھی؟ اس کا جواب یقیناً یہی ہوگا کہ درس گاہِ خلافتِ کبریٰ میں اسماء و مسمّا سب کے سب حقائق و معارف کے روپ میں تھے، یعنی حضرتِ آدمؑ پر ہر چیز کی اصلیت و حقیقت روشن ہوئی تھی، ایسے علم کو “علمِ حقائقِ اشیاء” کہا جاتا ہے، اور یہی روحانی سائنس کا قدیم نام ہے۔

۳۔ جس طرح ظاہری علاج طبی سائنس کی بنیاد پر قائم ہے، اسی طرح قرآنی علاج روحانی سائنس کی اساس پر استوار کیا گیا ہے، لہٰذا یہ امر لازمی ہے کہ اس موضوع کو زیرِ بحث لایا جائے، تاکہ ہر چیز حقیقی علم کی روشنی میں واضح ہو، سو جاننا چاہئے کہ روحانی سائنس بعنوانِ روحانیّت قرآنِ حکیم اور احادیثِ صحیحہ کی تعلیمات کی روشنی میں ہر متّقی مسلمان کو

 

۱۲۲

 

حاصل ہو سکتی ہے، اور خصوصاً عصرِ حاضر میں اس کی سخت ضرورت ہے، اور وقت بھی آ چکا ہے کہ اقوامِ عالم میں اس کی تشنگی محسوس کی جائے، اور اس کی زبردست اہمیت و افادیّت کو سمجھ لیا جائے، بہرحال روحانی سائنس ہمیشہ سے ہے، تاہم اس کا مکمل ظہور اب ہونے والا ہے۔

۴۔ اگرچہ آپ کے اور ہمارے نزدیک مادّی سائنس الگ ہے، اور روحانی سائنس الگ ہے، لیکن خدا اور رسول کی نظر میں دونوں کا مجموعہ ایک ہی سلسلہ ہے، اور فرق صرف اتنا ہے کہ اس زنجیر (سلسلہ) کا ابتدائی حصہ مادّی سائنس ہے، اور آخری حصہ روحانی سائنس، بالفاظِ دیگر ظاہری سائنس کا تعلق آفاق سے ہے، اور باطنی سائنس کا لگاؤ انفس سے ہے، اور دونوں خدا کے معجزات میں سے ہیں (۴۱: ۵۳) اور دونوں میں دنیا و آخرت کی صلاح و فلاح ہے۔

۵۔ جب حضرت آدم علیہ السّلام نے بحکمِ خدا فرشتوں کو علمِ اسماء سکھایا، تو اس وقت آپ کس زبان سے بولتے تھے؟ زبانِ جسمانی سے؟ یا زبانِ روحانی سے؟ آیا سب فرشتے آپ کے سامنے جمع ہو گئے تھے؟ اگر نہیں تو یہ آواز کس طرح ان کو پہنچ رہی تھی (۰۲: ۳۳)؟ اس کلیدی حقیقت کے بارے میں ہمیں یہ قبول کرنا ہو گا کہ حضرتِ آدم کی یہ تعلیم جو فرشتوں کو مل رہی تھی، قلبی آواز میں تھی، جسے کائنات بھر کے فرشتے اپنی اپنی جگہ پر سن رہے تھے، اور اس کو ہم روحانی سائنس کہہ سکتے ہیں، اس کے علاوہ آپ کا ایک عالمِ ذرّ (عالمِ

 

۱۲۳

 

شخصی) بھی تھا، جس کو تصوّف میں عالمِ صغیر کہا جاتا ہے۔

۶۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے انسانوں کے لئے ایک خودکار (Automatic) کائنات بنائی ہے، جس کے آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، وغیرہ اپنے آپ کام کرتے ہیں، اسی قانونِ فطرت کی روشنی میں سائنسدانوں نے خودکار مشینیں بنائی ہیں، اب اس مثال سے روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کے بارے میں باور کرنا آسان ہوگیا، کہ نہ صرف فرشتوں ہی کا ذکر ہمیشہ اپنے آپ چلتا اور جاری رہتا ہے، بلکہ کامیاب صوفیوں اور حقیقی مومنین پر بھی خاص اوقات میں یہ معجزہ گزرتا ہے، اور اسی نوعیت کا ایک آٹومیٹک (خودکار) ذکر منزلِ عزرائیلی میں لازم ہو جاتا ہے، یعنی چمٹ جاتا ہے (۴۸: ۲۶) یہ ذکر اگرچہ حضرت عزرائیل علیہ السّلام کا ہے، جو صوفئ صافی کے تجربۂ موّت (قبل از جسمانی موّت) کے لئے استعمال ہوتا ہے، تاہم یہی خود کار ذکر اس نیک بخت شخص کا بھی ہے، جس کے کان میں عزرائیل یہ ذکر کر رہا ہو۔

۷۔ جب آدمی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی مکمل اطاعت کرتا ہے تو اس وقت کثرتِ ذکر کے نتیجے میں حواسِ باطن جاگ اٹھتے ہیں، اور وہ غیر معمولی چیزوں کو محسوس کرنے لگتا ہے، مثال کے طور پر وہ لشکرِ ارواح کو دیکھتا ہے،

 

۱۲۴

 

ان کی آواز سنتا ہے، تعجب خیز بات ہے کہ ہر چیز کی روح ہے، نباتات کو لیجئے، چاہے موسمِ خزان کیوں نہ ہو، مگر ہر پھول کی روح اپنی خوشبو کی دولت سے ہمیشہ مالامال نظر آتی ہے، اس کی مہک کبھی ختم نہیں ہو سکتی، نہ اس کا رنگ ماند ہو سکتا ہے، طرفہ یہ ہے کہ آبادی اور جنگل کے بعض درختوں اور جڑی بوٹیوں کے نمونے بہ کیفیتِ روح باری باری سنگھا دیئے جاتے ہیں، صرف یہی نہیں، بلکہ بہت سی چیزوں کی ارواح بہ حالتِ خوشبو آ کر جسم کو طاقت (Energy) مہیا کر دیتی ہیں، اس عملِ روحانیّت سے یوں لگتا ہے کہ یہ غریب آدمی عرصۂ دراز سے بیمار پڑا تھا، اب اس کا علاج ہو رہا ہے، اس سلسلے میں طرح طرح کی دوائیاں سنگھائی بھی جارہی ہیں، اور کھلائی بھی جا رہی ہیں، مگر کھلانے کا نمونہ بہت محدود ہے۔

۸۔ جس طرح بعض جسمانی بیماریوں کے علاج کے دوران پرہیز کی شرط لازمی اور ضروری ہوا کرتی ہے، اسی طرح روحانی علاج کے دنوں میں عام خوراک کی قلیل مقدار سے کام لینا پڑتا ہے، خصوصاً ان دنوں میں ، جبکہ مریضِ روحانی کو گوناگون خوشبوؤں کی صورت میں لطیف غذائیں دی جاتی ہیں، اور ویسے بھی یہ مناسب نہیں کہ اس حال میں، جبکہ من و سلویٰ اور مائدۂ عیسیٰ کی عملی مثال سامنے ہو، کثیف کھانے پینے کی چیزوں کو حسبِ معمول اہمیّت دی جائے، مگر افسوس اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سفرِ روحانیّت

 

۱۲۵

 

کی ایک منزل ہے، جسے چھوڑ کر منزلِ مقصود کی طرف آگے سے آگے بڑھ جانا پڑتا ہے۔

۹۔ حکمائے دین کا فرمانا ہے کہ روح القدس کی تائید کے بغیر روحانیّت نہیں، یہ روح پیغمبروں اور ان کے خاص نمائندوں کے حق میں ایسی ہے، جیسے آسمان میں سورج مستقل ہوتا ہے، اور جہاں دائماً نورِ خورشید درخشان و تابان ہے، وہاں ظلمتِ شب نہیں پھیل سکتی، اور نہ ہی بادلوں کے سائے پڑ سکتے ہیں، مگر ہاں، زمین پر روشنی اور تاریکی کے مختلف احوال گزرتے رہتے ہیں، زمین اہلِ ایمان کی مثال ہے، کہ ان پر نورِ روحِ قدسی کی نسبت دن رات، دھوپ اور چھاؤں جیسے مختلف حالات آتے جاتے رہتے ہیں، لیکن تجربات کی دولت، جس کا نام علم و معرفت ہے، وہ لازوال ہے، اس مطلب کا اشارہ سورۂ مجادلہ (۵۸: ۲۲) میں موجود ہے، آپ اسے بار بار غور سے پڑھیں: بروح منہ (ایک خاص روح سے جو اس کی طرف سے ہے) سے روح القدس مراد ہے، جیسا کہ خواجہ حافظ نے فرمایا: فیضِ روح القدس ارباز مدد فرماید + دیگران ہم بکنند آنچہ مسیحا میکرد۔

۱۰۔ روح اصلاً یعنی اپنی ذات میں ایک مجرّد (غیر مادّی) حقیقت مانی جاتی ہے، مگر پانچ مقامات پر جسم کے ساتھ اس کا اتصال ہے، وہ یہ ہیں: الف: جسمِ کلّی، جو اس کائنات کا فلکی یعنی لطیف جسم ہے،

 

۱۲۶

 

جو کرسی بھی ہے (۰۲: ۲۵۵) اور عالمگیر بہشت بھی (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱)۔ ب: قمیصِ نورانی جو ہر قسم کی جنگ سے بچانے کی خاطر ہے (۱۶: ۸۱)۔ ج: قمیصِ روحانی جو ہر قسم کی گرمی سے محفوظ رکھتی ہے (۱۶: ۸۱)۔ د: ذرّۂ روح، یا ذرّاتِ روح، یا ذرّاتِ جسمِ لطیف، یہ آپ کی طرف سے دنیا بھر کے لوگوں میں، اور ان کی جانب سے آپ میں نمائندگی کے لئے ہیں، نیز بحدِّ قوّت یہ وہ روحانی لشکر ہے جو دنیا کو فتح کر سکتا ہے (۲۷: ۱۷) کیونکہ ہر شخص کے باطن میں ایک سلطنتِ سلیمانی خوابیدہ ہے۔ ھ: ظاہری جسم ہے، جو سب کے سامنے ہے، اور اس کی بہت بڑی اہمیت ہے، کیونکہ دین و ایمان اور علم و عمل کا انحصار اسی پر ہے۔

۱۱۔ درحقیقت انسان فی الحال بحیثیتِ مجموعی مریض ہے، وہ طرح طرح کی ظاہری و باطنی بیماریوں میں مبتلا ہے، ورنہ وہ ہادیانِ برحق (انبیاء و اولیاء) کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے روحانیّت کے تمامتر عجائب و غرائب کا مشاہدہ کرتا، وہ بموجبِ ارشاد: “من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ۔” اپنی ذات (روح) اور اپنے پروردگار کو پہچان لیتا، اسی کے ساتھ ساتھ پیغمبروں کو بھی پہچان سکتا، کیونکہ معرفتِ انبیاء کے بغیر کوئی شخص حق تعالیٰ کی معرفت کو نہیں پہنچ سکتا ہے، اور ظہورِ اسلام کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شناخت (معرفت) بہت ہی ضروری ہے، جس میں تمام معرفتیں

 

۱۲۷

 

جمع ہیں، مثال کے طور پر ملائکہ اور کتبِ سماوی کی معرفت، وغیرہ۔

۱۲۔ دورِ موسیٰؑ میں بھی، اور دورِ عیسیٰؑ میں بھی، بعض درویش صفت مومنین مقامِ روحانیّت پر فائز ہو چکے تھے، جس کی بدولت وہ دیدۂ دل سے آسمانی کتاب کو دیکھتے اور پہچانتے تھے، لہٰذا قرآنِ حکیم نے ان لوگوں کو یہ نام دیا: اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ (وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی ہے ،۰۲: ۱۴۶، ۰۶: ۲۰)کیونکہ ظاہراً و باطناً کتاب دینے کا خدائی فعل ان پر مکمل ہوا تھا، چنانچہ ایسے صوفی نورِ نبوّت کو خویشی اور یگانگت کے ساتھ پہچانتے تھے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پاک و پاکیزہ شخصیت میں ظہور پذیر ہونے والا ہے (۰۲: ۱۴۶،۰۶: ۲۰)۔

۱۳۔ اب یہاں ایک بڑا اہم سوال پیدا ہو جاتا ہے، وہ یہ کہ اگر دورِ موسیٰؑ اور دورِ عیسیٰؑ کے کامیاب صوفیوں نے نورِ نبوّت اور آسمانی کتاب کو چشمِ باطن سے دیکھ کر پہچان لیا ہے، تو کیا ہم اس بات کا یقین نہیں کر سکتے کہ دینِ اسلام کے اولیاء ، اکابرِ صوفیاء، اور حقیقی مومنین نے نورِ خاتم الانبیاء اور قرآنِ پاک کی روح و روحانیّت کا عرفانی مشاہدہ کیا ہے؟ کیا نتیجۂ نوافل کے طور پر خدا تعالیٰ کا قربِ خاص حاصل نہیں ہوتا؟ اگر ہوتا ہے، اور خداوندِ عالم ایسے مقربین کا کان اور آنکھ ہو جاتا ہے، تو پھر وہ حضرات اپنے اس کان سے، جس میں نورِ الٰہی کام کر رہا ہو، کیا کیا نہیں سنیں

 

۱۲۸

 

گے؟ اور اس آنکھ سے، جس میں نورِ خدا ہے، کیا کیا نہیں دیکھیں گے؟ ظاہر ہے کہ ایسے دوستانِ خدا جن کے حواسِ باطن نورِ حق سے منور ہو چکے ہوں سب کچھ سنیں گے اور ہر چیز دیکھیں گے، اور یہی عقل و روح کی صحت مندی کی نشانی ہے۔

نوروز ۹ رجب ۱۴۰۶ھ / ۲۱ مارچ ۱۹۸۶ء

۱۲۹

روحانی سائنس
(قسطِ دوم)

۱۔ آئندہ (آنے والا) زمانے میں سیّارۂ زمین کے باشندے چار و ناچار روحانی علاج کی طرف رجوع کریں گے، کیونکہ مستقبل میں روحانی سائنس ہی کا دور دورہ ہونے والا ہے، اور یہ مسرّت بخش پیشگوئی قرآنِ حکیم کی متعدد آیات کی ہے، قرآنِ پاک ہی کا فرمانا ہے کہ ان مادّی سائنس کے معجزات کے فوراً بعد ہی روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کا ظہور ہو گا (۴۱: ۵۳) چاہے روحانیّت اور علمِ مخفی کا یہ عظیم انقلاب ممالکِ اسلامیہ ہی سے شروع ہو، یا کسی آسمانی حکمت و مصلحت کی بناء پر امریکہ، روس، چین وغیرہ، جیسے کسی ملک میں اس کا آغاز ہو جائے، لیکن بہرحال اس کی نوعیت و صورت بالکل وہی ہوگی، جس طرح کہ قرآنِ مجید کی پیش گوئیوں میں ارشاد ہوا ہے، اور یہ پیش بینی اللہ تعالیٰ کی اس کتاب (قرآن) کے برحق اور بے نظیر ہونے کا ایک روشن ثبوت ہے، جو ہر طرح سے کامل و مکمل ہے، اور جو پیغمبرِ آخر زمان پر نازل کی گئی ہے۔

۲۔ روحانی سائنس کے مطابق علاج کے پانچ طریقے خاص ہیں:

 

۱۳۰

 

الف: علاج بالقرآن، یعنی قرآنی علاج، جس کا بیان اس کتاب میں ہو رہا ہے۔ ب: علاج بالعلم (علمی علاج) کیونکہ اکثر بلکہ تمامتر روحانی اور عقلی امراض عقل و علم نہ ہونے یعنی جہالت کی وجہ سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ ج: علاج بالذکر (ذکرِ خدا سے علاج) کیونکہ غفلت سے شیطان کو اپنے عمل کا موقع ملتا ہے، اور وہ آدمی کے دل میں ایک نہ ایک بیماری کے بیج (جراثیم) بکھیر دیتا ہے۔ د: علاج بالصوت (علاج بذریعۂ آواز) یہ اس لئے ہے کہ ہر مرض کی ایک زندہ روح ہوا کرتی ہے، لہٰذا آواز بحکمِ خدا اس پر اثر انداز ہو کر مجبور کر سکتی ہے کہ وہ بیماری اس بدن سے نکل جائے۔ ھ: علاج با لمسح، یعنی چھونے سے علاج کرنا، اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر مریض کو چھونے والا معالج بڑا متّقی، کامل درویش، حقیقی صوفی، اور ذرّاتِ لطیف سے بھرپور ہے، تو ان شاء اللہ (اگر خدا چاہے) اس طریق سے کچھ ذرّات بیمار آدمی میں منتقل ہو کر جراثیم کو ہلاک کر سکتے ہیں، یا بھگا سکتے ہیں، یہ وہ طریقۂ علاج ہے، جس کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السّلام عمل کرتے تھے، اسی معنیٰ میں آپ مسیح کہلائے، یعنی ہاتھ پھیر کر تندرست کردینے والا (۰۳: ۴۵) یہ نام قرآنِ مجید کے گیارہ مقامات پر مذکور ہے۔

۳۔ خدا کی خدائی میں جہاں کلّیات ہیں، وہاں جزئیات بھی ہیں، چنانچہ اگر اللہ کے حکم سے حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام کسی شخصِ

 

۱۳۱

 

کامل، یا صوفی، یا مومن کو جسمانی زندگی ہی میں شہید کر کے حقیقی معنوں میں زندہ کر دیتا ہے (۵۷: ۱۹) تو ایسے لوگ جیتے جی اپنے پروردگار کے نزدیک مرتبۂ شہادت پر فائز ہو جاتے ہیں، ان کو نہ صرف آخرت ہی میں بلکہ دنیا میں بھی اجر و صلہ اور نور ملتا ہے، اور یہ سعادت جزوی طور پر دوسرے اہلِ ایمان کو بھی نصیب ہوتی رہتی ہے، کیونکہ ہر عظیم کارنامہ یک لخت بھی انجام پاتا ہے، اور یقیناً اجزاء سے بھی پورا ہو سکتا ہے، جبکہ جان کی قربانی کئی معنوں میں اقساط میں بھی ہے، اور عزرائیل کا عمل جزوی طور پر بھی ہے (۳۹: ۴۲)۔

۴۔ حضرتِ عزرائیل کا کام بڑا عجیب و غریب اور حکمت سے بھرپور ہے، وہ پانچ مواقع پر قبضِ روح کا عمل کرتا ہے: پہلا موقع: بندۂ مومن کی کامیاب عبادت اور قلبی ذکر کے نتیجے میں جزوی طور پر قبضِ روح کا عمل وقوع پذیر ہو جاتا ہے، وہ اس طرح کہ کچھ فرسودہ ذرّاتِ روح خارج کر کے کچھ تازہ ذرّات داخل کر دیئے جاتے ہیں۔ دوسرا موقع: یہی واقعہ اس وقت بھی ہوتا ہے جبکہ کسی مصیبت یا سخت مشکل یا بیماری کی وجہ سے بارگاہِ ربّ العزّت میں گریہ و زاری، مناجات، اور دعا کی جاتی ہے۔ تیسرا موقع: چونکہ نیند کے عالم میں بار بار ذرّاتِ روح کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے، یعنی بار بار روح قبض ہو جاتی ہے، لہٰذا وقت پر جاگ اٹھنا ضروری ہے، تاکہ اچھی روح حاصل ہو، اور وہ اس بار بار کے تبادلے میں چلی نہ

 

۱۳۲

 

جائے (۳۹: ۴۲) چوتھا موقع: جب کسی درویش صفت مومن کی روحانی ترقی ہوتی ہے، اور قیامت خیز موت کی منزل میں داخل ہو جاتا ہے، تو اس وقت وہ موتِ نفسانی کا مکمل تجربہ کر لیتا ہے (۰۳: ۱۴۳) پانچواں موقع: جب ظاہری اور جسمانی موت کا وقت آتا ہے، تو اس میں روح آخری بار اور کلی طور پر قبض کی جاتی ہے۔

۵۔ روحانی سائنس اور علاج کے سلسلے میں حضرت علی علیہ السّلام کا یہ ارشاد قابلِ توجہ ہے: تیری دوا تجھ ہی میں پوشیدہ ہے اور (افسوس ہے کہ) تو نہیں سمجھتا ہے + اور تیری بیماری بھی تجھ ہی سے ہے حالانکہ تو نہیں دیکھتا + اور تیرا گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے در حالے کہ عالمِ اکبر تجھ میں سمایا ہوا ہے + اور تو وہ بولنے والی کتاب ہے + کہ جس کے حروف سے پوشیدہ بھید ظاہر ہو جاتے ہیں (دیوانِ حضرتِ علی)۔
تشریح: تو اپنا علاج آپ کر سکتا ہے، مگر اس کے لئے حقیقی علم کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ بیماری دراصل بیرونی نہیں، بلکہ اندرونی ہے، تو نے جس طرح اپنے آپ کو ایک بہت عام اور چھوٹا سا جسم سمجھ رکھا ہے، اس کے نتیجے میں احساسِ ذمہ داری محدود ہو کر بڑا نقصان ہوا ہے، اس کے برعکس اگر تو یقین کرتا کہ تیرے اندر ایک کائناتی سلطنت پنہان ہے، تو اس سے تیری تمامتر صلاحیتیں جاگ اٹھتیں، اور یہ خسارہ نہ ہوتا، کیونکہ

 

۱۳۳

 

جب تک کسی چیز کی اہمیت و افادیت، اور قدر و قیمت کا اندازہ نہ ہو، تب تک انسان اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا، اور نہ ہی اس کی ترقی کے لئے جدوجہد کرتا ہے، اگر تو جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مر جاتا، تو اس وقت تو اپنے اعمال کی بولنے والی کتاب بن جاتا، جو معرفت کے بھیدوں سے مملو (بھری ہوئی) ہے۔

۶۔ اس آیۂ کریمہ میں جیسے ارشاد ہوا ہے، اس کا اشارہ ہے کہ کثیف سے لطیف کا ظہور ہوتا ہے، اور ظاہر سے باطن کی طرف جانا پڑتا ہے، وہ آیۂ مقدسہ یہ ہے: وَ اِذَا السَّمَآءُ كُشِطَتْ (۸۱: ۱۱) اور جس وقت کہ آسمان کی کھال اتاری جائے۔ یہاں آسمان سے پوری کائنات اور اس کے اندر کی تمام چیزیں مراد ہیں، اور کھال اتارنے کا مطلب ہے جسمِ کثیف کے اندر سے جسمِ لطیف کا ظاہر ہو جانا، یعنی عالمِ لطیف کا ظہور، اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک دن موجودہ آدمی کے کُرتۂ بدن کے نیچے سے ایک لطیف معجزاتی انسان برآمد ہوگا، جس طرح ریشم کے کیڑے سے پروانہ نکلتا ہے، پس اگر کسی صوفی پر جسمانی موت سے پیشتر یہ واقعہ گزرتا ہے، تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی اور روحانی سائنس کا تجربہ ہے، اب اسے پُرامید ہو جانا چاہئے، کہ ان شاء اللہ، وہ عقل و روح کے خزانۂ صحت سے مالامال ہو جائے گا۔

۷۔ حضرتِ آدمؑ تمام انسانوں کی ابتدائی اور آخری وحدت ہیں،

 

۱۳۴

 

کیونکہ آپ نفسِ واحدہ ہیں (۰۶: ۹۸، ۳۱: ۲۸) یعنی آدمی سب کے سب اپنی اصل روح میں حضرتِ ابوالبشر کی روحانی کاپیاں (Copies) ہیں، روحِ آدمؑ کی یہ لاتعداد زندہ تصویریں بحکمِ خدا حضرتِ عزرائیلؑ نے کھینچی تھیں، لیکن لوگ رفتہ رفتہ اپنی اصلیت و حقیقت سے دور ہو گئے، بالفاظِ دیگر وہ بیمار ہوگئے، جن کے علاج کے لئے قرآن حکیم کا نزول ہوا، تاکہ ہر شخص بتدریج اپنی اصل کی طرف لوٹ کر بحقیقت عکسِ آدم ہو جائے، بلکہ کثرت و دوئی کو چھوڑ کر نفسِ واحدہ کی وحدت میں فنا ہو جائے۔

۸۔ سورۂ لقمان کے ایک ارشاد (۳۱: ۲۸) کی اس صوفیانہ تفسیر میں غور کیجئے: تم سب کا بارِ اوّل پیدا کرنا اور پھر نفسانی موت کے بعد جِلا اٹھانا (انبعاث) نفسِ واحدہ (یعنی آدم) کی طرح ہے۔ جب حضرتِ آدم علیہ السّلام کی روحانی تخلیق ہوئی، تو اسی وقت آپ کی ہستی کے سانچے میں عالمگیر روح ڈھال ڈھال کر اتنی ساری کاپیاں (Copies) بنائی گئیں، جتنے کہ بنی آدم دنیا میں آنے والے تھے، اور جب جناب آدمؑ کا انبعاث ہوا تو آپ کے نزدیک اور آپ کی نمائندگی میں سب کا انبعاث ہوگیا، اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کا عالمِ شخصی نامکمل اور معرفت ادھوری ہوتی۔

۹۔ کائنات کا مجموعہ مکان کہلاتا ہے، اسی کی حرکت سے زمان بنتا ہے، مگر روحانیّت میں نہ مکان ہے اور نہ زمان، بلکہ وہ اس

 

۱۳۵

 

سے ماوراء (برتر) ہے، یعنی وہ لامکان و لازمان ہے، تاکہ ارادۂ “کُنۡ” جیسا بھی ہو، اس کے مطابق ہر مکان و زمان کی نورانی تصویر سامنے آسکے، وہ تصویر زندہ اور ہر طرح سے مکمل ہے، اس بیان سے یہ ظاہر ہوا کہ روحانی سائنس فرشتوں کے فعل کا نام ہے، جو قانونِ قدرت کے مطابق انجام دیا جاتا ہے، اور یہاں یہ بھی یاد رہے کہ فرشتہ مومن کے علم و عمل سے بنتا ہے، بہ ہر حال روحانیّت کے ریکارڈ (Record) یعنی نامۂ اعمال میں سب کچھ ہے، جیسا کہ نکتہ نمبر ۵ میں کتابِ مبین کی وضاحت ہوئی ہے، یہ بولنے والی کتاب کیا ہے؟ ایک عظیم روح، ایک بہت بڑا فرشتہ، ایک جیتی جاگتی دنیا، ایک بہشت، ایک خلاصۂ کائنات، ایک مکمل نور، ایک عالمِ شخصی، ایک مثیلِ آدم، ایک صورتِ رحمان، اور سب کچھ ہے۔

۱۰۔ روحانی سائنس کے سلسلے میں آئندہ، یعنی مستقبل میں کیا کیا معجزات رونما ہوں گے؟ یہ سوال بے حد دلچسپ بھی ہے، اور بڑا مشکل بھی، تاہم قرآن اور روحانیّت کی روشنی میں یہاں کچھ عرض کی جاتی ہے:
الف: چونکہ اب روحانیّت کا وقت آچکا ہے، لہٰذا دنیا بھر کے ممالکِ اسلامیہ سے میری عاجزانہ گزارش ہے کہ وہ روحانی سائنس کے ادارے قائم کریں۔ ب: کسی بڑے ملک کے ظاہری سائنسدان مادّی سائنس کی ترقی کے سلسلے میں آگے بڑھ کر روح کی تعجب خیز

 

۱۳۶

 

آواز کو سنیں گے، اور ذرّاتِ روح کو دیکھیں گے۔ ج: انسان کے حواسِ باطن کام کرنے لگیں گے، جیسے اپنے اندر ایک روشن دنیا کا مشاہدہ کرنا، غیر معمولی آوازیں سننا، خوشبوئیں سونگھنا، وغیرہ۔ د: روحانی سائنس کی بدولت اڑن طشتریاں مسخر ہو جائیں گی، جس سے سیّاروں کی سیاحت بڑی آسان ہو جائے گی۔ ھ: لوگ مشرق و مغرب میں بیٹھے ہوئے بغیر کسی آلے کے آپس میں باتیں کریں گے۔ و: اُس وقت ظاہری سائنس کے تمامتر آلات بیکار ہو جائیں گے، کیونکہ روحانیّت ان سے کہیں بڑھ کر کام کرے گی۔ ز: جنگ ختم ہو جائے گی، دنیا بھر کے لوگ صلح و آشتی کے معنی میں ایک دوسرے کے بہت قریب آئیں گے۔

۱۱۔ ح: یہ سب کچھ نورِ اسلام کی طاقت سے ہو گا، کیونکہ دراصل یہی دینِ فطرت ہے، جو شروع سے لے کر آخر تک قائم ہے۔ ط: وہ بھیدوں کا زمانہ ہوگا، کہ اس میں بہت سے اسرارِ باطن ظاہر ہو جائیں گے۔ ی: اُس وقت لوگوں کو احساس ہوگا کہ وہ مریض تھے۔ ک: اُس زمانے میں لوگ حضرت محمد رسولِ خدا خاتمِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روحانیّت، عظمت و بزرگی اور نظامِ ہدایت کے لئے اعتراف کریں گے۔ ل: ظہورِ روحانیّت کی وجہ سے قرآنی حکمتیں ظاہر ہو جائیں گی۔ م: لوگ جسمِ لطیف کو دیکھیں گے، اور اس میں منتقل ہو جانے کے لئے سعی کریں گے۔ ن: رفتہ رفتہ ہر قسم کی برائی کا

 

۱۳۷

 

خاتمہ ہو جائے گا، کیونکہ اُس زمانے میں شیطان کو دی ہوئی مہلت ختم ہو جائے گی، اور اُس کا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔

۱۲۔ قرآنِ حکیم نورِ علم و حکمت کا ایک ایسا معجزاتی عمیق اور وسیع سمندر ہے، کہ اُس سے ہر وقت گوناگون موضوعات کی موجیں اٹھتی رہتی ہیں، اور یہ انتہائی تعجب خیز بات ہے کہ ہر ایسی موج بحرِ قرآن کے اِس کنارے سے اُس کنارے تک جا پہنچتی ہے، چنانچہ قرآنِ مجید روحانی سائنس کے موضوع سے بھرا ہوا ہے، اور وہ روحانیّت ہے۔

۱۴ رجب ۱۴۰۶ھ / ۲۶ مارچ ۱۹۸۶ء

۱۳۸

 

عشقِ الٰہی

۱۔ عشقِ الٰہی ہر شدید مشکل کو آسان بنا دیتا ہے، اور وہ صد ہا بیماریوں کی واحد دوا ہے، صرف یہی نہیں، بلکہ یہ وہ روحانی آبِ حیات بھی ہے، جس کے پینے سے آدمی ہمیشہ کے لئے امر (غیر فانی) ہو جاتا ہے، اور اس کے سوا سیّارۂ زمین کے کسی مقام پر آبِ حیوان کا کوئی سرچشمہ موجود نہیں، اور جیسی کہانی ہے، وہ اسی کی مثال ہو سکتی ہے، کیونکہ جسمانی موت لازمی ہے، مگر روحانی طور پر نیست و نابود اور معدوم ہو جانا عذاب کی انتہا ہے۔

۲۔ عشقِ الٰہی پروردگارِ عالم کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے، لہٰذا اگر چشمِ بصیرت سے کام لے کر دیکھا جائے، تو قرآنِ پاک کے شروع سے لے کر آخر تک ہر مقام پر عشق کا تذکرہ ملتا ہے، مثال کے طور پر سورۂ فاتحہ کو لیجئے: الف: “اللہ” میں حیرت کے معنی ہیں،(۰۱: ۰۱) کہ انوارِ تجلّی میں عاشقوں اور عارفوں کے لئے حیرت ہی حیرت ہے۔ ب: اسمِ ربّ کی عاشقانہ تفسیر یہ ہے کہ پروردگار

 

۱۳۹

 

ہر مخلوق کو اس کی ضرورت کے مطابق پالا کرتا ہے، اسی طرح وہ اپنے پاک فطرت عاشقوں کو غذائے عشقِ حقیقی سے تقویت دیتا ہے۔ ج: رحمان و رحیم میں خود آسمانی مہر و محبت اور عشق کا ذکر ہے۔(۰۱: ۰۲) د: مالک یوم الدین میں یہ اشارہ ہے کہ قیامت کے دن مومنین عشقِ خداوندی کی لازوال نعمت سے مالا مال ہو جائیں گے۔(۰۱: ۰۳) ھ: ایاک نعبد و ایاک نستعین کا مطلب یہ ہے کہ ہم عشق و معرفت سے تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اسی لئے تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ (۰۱: ۰۴) و: اھدنا الصراط المستقیم کے معنی یہ ہیں کہ ہم کو اسی عشق کی راہِ راست پر چلا، کیونکہ سب سے آسان ترین اور سب سے نزدیک ترین راستہ یہی ہے۔ (۰۱: ۰۵) ز: صراط الذین انعمت علیہم کی وضاحت یہ ہے کہ ہم ان حضرات کے پیچھے پیچھے چلنا چاہتے ہیں، جن کو تو نے دوسری تمام نعمتوں سے بڑھ کر اپنے پاک عشق کی نعمتِ عظمیٰ سے نوازا ہے۔ (۰۱: ۰۶) ح: غیر المغضوب علیہم و لا الضآلین میں یہ تعلیم ہے کہ جن لوگوں پر تیرا غضب ہوا ہے، اور جو گمراہ ہو گئے ہیں، وہ دراصل تیرے عشق کی نورانی دولت سے بے نصیب تھے۔ (۰۱: ۰۷)

۳۔ آپ قرآنِ حکیم کی روشنی میں یہ تو جانتے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے جن حضرات کو راہِ راست کی ہدایت دے کر اپنے پُرحکمت عشق کی نعمت سے نوازا ہے، وہ کون پسندیدہ اشخاص ہیں، جی ہاں، وہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں، اور جو لوگ حقیقی معنوں

 

۱۴۰

 

میں خدا و رسول کی اطاعت کریں، وہ بھی ان حضرات میں شامل ہو سکتے ہیں (۰۴: ۶۹) مگر اتنا بڑا کام ایک دن میں کیسے مکمل ہو سکتا ہے، اس کے لئے تو مسلسل محنت اور عظیم قربانیوں کی ضرورت ہے، تاکہ نفس ایک طرح سے مر جائے، اور اس کے نتیجے میں مقدّس عشق کا تجربہ ہو۔

۴۔ قرآنِ حکیم میں آسمانی عشق کا بیان نمایان بھی ہے، اور پوشیدہ بھی، اور یہ جن جن الفاظ میں ظاہر ہے، ان میں سے ایک لفظ حبّ (محبت) ہے، اگرچہ بعض علماء کے نزدیک محبت اور عشق دو الگ الگ چیزیں ہیں، لیکن بعض کا کہنا ہے کہ یہ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں، اور یہی قول زیادہ صحیح ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ عشقِ الٰہی براہِ راست نہیں، بلکہ بواسطۂ رسول ممکن ہے، اور یہ قرآنِ پاک ہی کی تعلیم ہے (۰۳: ۳۱) کہ جب تک کوئی شخص محبت و عشق سے پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت نہ کرے، تو خدا اس سے محبت نہیں کرتا ہے، اس کی وضاحت یہ ہے کہ لوگ علم و عمل کے وسیلے سے اللہ اور اس کے محبوب رسول کے نورِ عشق سے منوّر ہو سکتے ہیں۔

۵۔ بخاری جلدِ سوم، اور مسلم جلدِ سوم کی کتاب الرویا میں یہ ارشاد نبوّی موجود ہے: من رانی فقد را الحق = اس کا ترجمہ صوفیائے کرام کے نزدیک یہ ہے: جس نے مجھے دیکھا اُس نے خدا کو دیکھا۔ یہاں کوئی ہوشمند ضرور یہ سوال کرے گا کہ آیا یہ بیداری کی بات

 

۱۴۱

 

ہے یا خواب کی؟ جواباً یوں عرض کی جاتی ہے کہ خواہ بیداری ہو یا خواب یا روحانیت، بہرحال رسول کا دیدار خدا تعالیٰ کا دیدار قرار دیا گیا ہے، کیونکہ حدیثِ شریف کے الفاظ میں جیسی جامعیت ہوا کرتی ہے، اس کا تقاضا یہی ہے، اب اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عشقِ رسول عشقِ الٰہی ہے، اور حق تعالیٰ کا دیدار بھی بطریقِ مظہریت ممکن ہے۔

۶۔ عشقِ حقیقی کی دوسری مثال آگ کی طرح ہے، آگ قرآن کی زبان میں نور بھی ہے اور نار (۲۷: ۰۸) بھی، سورج، ہر قسم کی بجلی، اور آگ نور و نار ہے، چنانچہ کائناتی نور یعنی سورج میں نہ صرف اگانے اور پکانے کی صلاحیت موجود ہے، بلکہ وہ جلانے اور بعض چیزوں کو جِلانے کی قوّت بھی رکھتا ہے، اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ آگ سے بعض چیزیں پگھلائی جاتی ہیں، پس اگر کسی مومن کو روحانی بجلی کے کرنٹ (Current) سے علاج کرنا ہے، نفسانی جراثیم کو جلانا ہے، یا اپنے آپ کو پگھلا کر انسانِ کامل کے سانچے میں ڈھالنا ہے، تو پھر اُسے انتہائی محتاجی کے احساس کے ساتھ عشقِ الٰہی کے حضور میں گڑگڑانا اور آنسو بہانا ہو گا، تاکہ ہر قسم کی پاکیزگی کے بعد اس میں روح العشق داخل ہو سکے۔

۷۔ سورۂ انفطار (۸۲) کی آیت ۰۶ تا ۱۲ (۸۲: ۰۶ تا ۱۲) خوب غور سے پڑھئے، جہاں آیت نمبر ۶ میں ربِ کریم کے اوصاف کا جو تقاضا ہے، اس کے عین مطابق انسان کو نوازنے اور انسان کے اس سے غافل ہو

 

۱۴۲

 

جانے کا ذکر فرمایا گیا ہے، نمبر ۷ میں انسان کی جسمانی تخلیق مکمل ہو جانے، پھر روحانی ترقی کے سلسلے میں تسویہ اور تعدیل کا اشارہ ہے، اب نمبر ۸ میں فِٓیۡ اَیِّ صُوۡرَۃٍ مَّا شَآءَ رَکَّبَکَ میں صورتِ روحانی اور صورتِ عقلی کا ذکر ہے، کہ قالبِ روحانی (یعنی روحانی سانچا = Mould) اور قالبِ عقلی میں ڈھال کر انسان کو تمام امکانی صورتیں دی جاتی ہیں، اور یہ خدائی محبت کی آگ میں پگھل جانے کا انتہائی عظیم اجر و صلہ ہے، اور اسی طرح ہر آدمی کے لئے یہ امر ممکن ہے کہ نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) کے سانچے میں ڈھل کر خود اس کی اور اس کی تمام کاپیوں (Copies) کی صورت اختیار کرے، اگر یہ سب سے بڑی سعادت اسے حاصل ہوئی، تو پھر اس کو اپنا کُل اور کمال مل گیا۔

۸۔ خدا کی محبت یا عشق یا دوستی ایسا لفظ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی انتہائی بڑی نوازش کا تصوّر ملتا ہے، بے شک ایسی عالی شان نوازش دوسرے کئی لفظوں میں بھی ہے، ان تمام اعلیٰ معنوں کے بعد “فنا فی اللہ” کا درجہ ہے، اور یہ انسان کی ابدی صحت و سلامتی کے لئے سب سے آخری اور سب سے کامیاب علاج ہے، اور سلامتی کے گھر میں داخل ہو جانا بھی یہی ہے، کہ اس میں سلامتی ہی سلامتی ہے، اور کسی بیماری کا کوئی خوف و خطر نہیں۔

۹۔ احادیثِ مثنوی کے صفحہ ۱۹۹ پر یہ حدیثِ قدسی درج ہے: من احبنی قتلت و من قتلتہ فانا دیتہ (المنہج القوی ۴، ص ۳۹۸)

 

۱۴۳

 

یعنی جو آدمی میرے ساتھ محبت کرتا ہے تو میں اسے قتل کر دیتا ہوں، اور جس کو میں قتل کرتا ہوں، میں بذاتِ خود اس کا خون بہا بھی بن جاتا ہوں۔ اس ارشاد میں زبردست حکمت پوشیدہ ہے، کہ مثبت راز کو منفی انداز میں ظاہر فرمایا گیا ہے، اور یہ دراصل خدا کا وہ احسان و نوازش ہے، جس کا تذکرہ سورۂ حدید (۵۷: ۱۹) میں ہے، کہ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو ایک اعتبار سے جہادِ اکبر میں اور دوسرے اعتبار سے اپنے پاک عشق میں شہیدوں کی موت عطا فرماتا ہے، حالانکہ وہ حضرات جسمانی طور پر زندہ ہوتے ہیں، اور ان کو ایسی شہادت کے عوض میں اجرِ عظیم اور نور دیتا ہے، اور جب کسی کو نور مل جاتا ہے، تو سمجھ لو کہ اس کو گنجِ مخفی کی مثال میں خدا مل جاتا ہے، پس مذکورہ حدیثِ قدسی کا مطلب یہی ہے۔

۱۰۔ احیاء العلوم، جلدِ چہارم، بابِ ششم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ دعا تحریر ہوئی ہے، جو بڑی حکمت آگین ہے: اللّٰھم ارزقنی حبک وحب من احبک و حب ما یقربنی الیٰ حبک و اجعل حبک احب الی من الماء البارد = یا اللہ مجھے تیری ذاتِ اقدس کی محبت نصیب فرما! اور اس شخص کی محبت بھی جو تجھ کو محبوب رکھتا ہے! اور جو چیز (قول و فعل) مجھے تیری محبت کے قریب کر دیتی ہو اس کی محبت بھی! اور اپنی محبت مجھے ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ عزیز اور لذیذ بنا دے! یہ دعا دین کی تمام اساسی اور اصولی خوبیوں پر محیط ہے، لہٰذا اس کی وضاحت بہت وسیع ہے۔

۱۴۴

۱۱۔ حدیثِ تقرب کا ذکر ہو چکا ہے، یہ حدیث کتابِ مجمع البحرین میں بھی “فنا فی اللہ” کے عنوان کے تحت درج ہے، جس کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ فرائض و نوافل کی انجام دہی کے نتیجے میں بندۂ مومن کو اپنے ربّ کا قربِ خاص حاصل ہو جاتا ہے، جس کی علامت یہ ہے کہ خدا فعلاً ایسے بندے کو محبوب رکھتا ہے، وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا نورِ اقدس اس ولی کے باطن میں طلوع ہو جاتا ہے، اور اس کے حواسِ باطن اور مدرکّات سب بدرجۂ انتہا منوّر ہو جاتے ہیں، اور یہ اس کی محویّت و فنائیّت ہے۔

۱۲۔ خدائے بزرگ و برتر کی پاک و پاکیزہ محبت میں کس مرتبے کی لذّت و دلکشی پائی جاتی ہے، اس کے زیرِ اثر دل میں کس شان کی رقت و نرمی اور عاجزی پیدا ہو جاتی ہے، یا اس کے عجائب و غرائب اور معجزات کیسے ہیں، اس کا تجربہ اگرچہ انسان کی کوتاہیوں کی وجہ سے بہت ہی مشکل ہے، تاہم رحمتِ خداوندی جس غلبہ اور فراوانی سے کام کرتی ہے، اس کے پیشِ نظر ناممکن نہیں، اس کے علاوہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک بہت بڑا احسان یہ بھی ہے کہ اس علیم و حکیم نے اپنی محبت یا عشق کو یک لخت نہیں بنایا، بلکہ وہ مختلف درجات میں ہے، تاکہ ہر شخص بتدریج آگے بڑھ سکے۔

۱۳۔ قرآنی بیان میں جو بدرجۂ کمال معجز نمائی ہے، اسی شان سے خدا کی دوستی کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، جیسا کہ سورۂ یونس (۱۰: ۶۲) میں

 

۱۴۵

 

ارشاد فرمایا گیا ہے (ترجمہ): یاد رکھو اللہ کے دوستوں (اولیاء) پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ عامۃ النّاس کو مستقبل کے خطرات کا خوف اور ماضی کے مافات کا غم ہوا کرتا ہے، مگر اولیائے خدا کے نزدیک دراصل نہ مستقبل اور ماضی ہے اور نہ کوئی خوف و غم ہے۔ کیونکہ وہ حضرات عالمِ “لامکان و لازمان” میں اس حقیقت کا مشاہدہ کر چکے ہیں کہ مکان (کائنات) اور زمان کی تمام چیزیں دستِ قدرت کی مٹھی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ و سلامت اور لازوال ٹھہری ہوئی ہیں (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) لہٰذا ان کو خوف و غم کی بیماری لاحق نہیں ہو سکتی۔

۱۴۔ شہیدانِ ظاہر (۰۳: ۱۶۹) اور شہیدانِ عشقِ الٰہی (۵۷: ۱۹) کے بارے میں قرآنِ حکیم نے یہ کلّیہ بتا دیا ہے کہ وہ خوش نصیب انسان ایک طرح سے قتل ہو جانے کے باوصف درحقیقت نہیں مرتے بلکہ زندہ ہو جاتے ہیں، ان کو گویا آبِ حیاتِ عشق پلایا جاتا ہے، اسی لئے وہ ابدی زندگی کے شرف سے مشرف ہو جاتے ہیں، پس ہر دانشمند اس روشن حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ جسمانی موت کے لئے کوئی علاج نہیں، مگر روحانی موت کا مداوا عشقِ الٰہی کے آبِ حیوان (آبِ حیات) سے ہو سکتا ہے۔

۲۶ رجب ۱۴۰۶ھ / ۷ اپریل ۱۹۸۶ء

۱۴۶

معیارِ صحت

۱۔ ہر چیز کے جانچنے پرکھنے کے لئے ایک معیار (Standard) ہوا کرتا ہے، یا یوں کہا جائے کہ اشیاء کی ناپ تول کا کوئی آلہ، پیمانہ، یا اندازہ مقرر ہوتا ہے، اور بعض جدید مشینوں میں تو کئی کئی میٹرز (Meters) لگے ہوئے ہوتے ہیں، تاکہ بحدِّ امکان اندرونی حالت کا پتا چلے کہ کوئی کمی بیشی تو نہیں، اور حسبِ منشا کام ہو رہا ہے یا نہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عالمِ اسلام میں حضورِ انور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرتِ طیبہ، سنتِ مطہرہ، اور اسوۂ حسنہ (۳۳: ۲۱) کو ایک ایسا کلِ کلّیات معیار بنا دیا ہے کہ اس کی روشنی میں اہلِ بصیرت نہ صرف باطنی بیماری اور صحت کی شناخت کر سکتے ہیں، بلکہ علم و معرفت کے خزائن کو بھی حاصل کر سکتے ہیں، چنانچہ آنحضرت کی ہرگونہ صحتمندی کے سلسلے میں یہاں ایک مثالی ڈایاگرام (Diagram) پیش کیا جاتا ہے:

۱۴۷

۲۔ وجودِ انسانی کی تخلیق و تکمیل کے سلسلے میں سب سے پہلے جسم بنتا ہے، پھر علی الترتیب روحِ نباتی، روحِ حیوانی، روحِ انسانی، اور اخلاق بنتے ہیں، اس کے بعد نظریہ ہے، جس سے عقیدہ، مذہب اور دین مراد ہے، پھر روح الایمان ہے، اور آخر میں عقل ہے، جس سے ایسی عقل مراد ہے، جو خدا شناس ہو۔

۳۔ مذکورۂ بالا ترتیب ظاہری تخلیق کے اعتبار سے بالکل درست ہے، تاہم فضیلت کے لحاظ سے عقل کا درجہ پہلے آتا ہے، دوم روحِ ایمان، سوم نظریہ یعنی عقیدہ، چہارم، اخلاق، اور پنجم جسم ہے، اسی

 

۱۴۸

 

لحاظ سے صحتِ عقلی، صحتِ روحانی، صحتِ نظریاتی، صحتِ اخلاقی، اور صحتِ جسمانی ہے۔

۴۔ صوفیائے کرام کا یہ طریق بڑا منطقی اور بہت معقول ہے کہ سالک (راہ چلنے والا) بصورتِ کامیابی پہلے اپنے شیخ (مرشد /امام) میں فنا ہو جاتا ہے، پھر رسول میں ،اور بالآخر خدا میں فنا ہو جاتا ہے، جب حقیقت اسی طرح سے ہے، تو نقشۂ اسوۂ حسنہ کو اور بھی زیادہ غور سے دیکھنا ہو گا، کیونکہ اگر کسی سالک کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ سلوک (راہِ روحانیّت طے کرنا) سے فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول، اور فنا فی اللہ ہو جاتا ہے، تو اس سے پہلے یہ لازمی امر ہے کہ خود حضرتِ مرشد پیغمبرِ اکرمؐ میں خداوندِ عالم میں فنا ہو چکے ہوں گے، اور اس کے بغیر فنا کا تصوّر بے معنی ہو جاتا ہے، اس سے یہ نکتہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ مذکورہ ڈایاگرام (نقشہ) میں رسول کے بعد انسانِ کامل کا بھی ذکر ہے، اور سالک کا بھی۔

۵۔ جسمِ اطہر (بہت پاک بدن) کا حوالہ سورۂ احزاب کا ایک ارشاد (۳۳: ۳۳) ہے، یہ پاکیزگی ظاہری بھی ہے، اور باطنی بھی، جس میں انسانانِ کامل آپ کے ساتھ ہیں، آنحضرتؐ کے اخلاقِ حسنہ [خلقِ عظیم ، ۶۸: ۰۴] بھی لوگوں کے لئے مثال ہیں، ہم کسی جھجک کے بغیر ضرور یہ کہیں گے کہ یہ اعلیٰ عادات اللہ تعالیٰ کی ہیں، جن کو رحمتِ عالم نے اپنایا تھا، اسی لئے فرمایا گیا کہ : تخلقوا باخلاق اللّٰہ (خدا کی عادتوں کو

 

۱۴۹

 

اپناؤ) ایمانِ کامل کا مطلب یہ ہے کہ عقیدہ اور نظریہ عام ہے، اور ایمانِ کامل خاص، نفسِ مطمئنہ روح کی ترقی یافتہ صورت ہے (۸۹: ۲۷ تا ۲۸) عقلِ سلیم کا قرآنی نام قلبِ سلیم (۲۶: ۸۹، ۳۷: ۸۴) ہے۔

۶۔ قرآنِ حکیم نے تمام باطنی بیماریوں کو قلبی یعنی عقلی بیماری کہا ہے (۰۲: ۱۰) کیونکہ اگر عقل بیمار ہوگئی ہے، تو روح، نظریہ، اخلاق اور جسم یہ سب خود بخود بیمار ہو جاتے ہیں، جس کا سبب یہ ہے کہ عقلی بیماری جہالت ہی ہوتی ہے، جس کے زیرِ اثر جسم و جان کی بہت سی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں، اور اگر اس کے برعکس عقل صحیح و سلامت ہے تو ہر چیز کی صحت ممکن ہو جاتی ہے، اور اس بات میں اہلِ دانش کو کوئی تعجب نہیں، جبکہ نباتات کا قیام روحِ نامیہ پر ہے، حیوانات کا دارومدار روحِ حسی پر ہے، اور انسان کی ہستی کی عمارت عقل کی بنیاد پر قائم ہے۔

۷۔ جو حضرات فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کے انتہائی عظیم مرتبے پر فائز ہو چکے ہیں، وہ انسانانِ کامل کہلاتے ہیں، ایسے ہدایت یافتہ مرشدین بمثل کائنات کا مرکز اور قلب ہو گئے ہیں، نقشۂ ذیل اور اس کی وضاحت کو غور سے دیکھئے:

۱۵۰

۸۔ میرے خیال میں یہ ڈایاگرام [نقشہ] حقائق و معارف کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے بے حد مفید ثابت ہو سکتا ہے، اس نقشے میں قرآنی اشارات اور علمِ روحانی کی روشنی میں اس حقیقت کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسانِ کامل دراصل کائناتِ ظاہر کے دل و دماغ کا درجہ رکھتا ہے، یعنی وہ مرکزِ عالم بھی ہے، اور دائرۂ محیط بھی، آپ ان سات دائروں کے بالائی حصے میں ایک چھوٹے دائرے کو دیکھ سکتے ہیں، یہ کیا ہے؟ یہ انسانِ کامل کا عالمگیر دماغ ہے، نیز کائنات

 

۱۵۱

 

کا دماغ ہے، اس کو ازل و ابد بھی کہتے ہیں، جو حقیقت میں ایک ہی مقام ہے، یہی عالمِ عُلوی اور عالمِ ذرّ ہے، معراجِ یقین کا مقام اور روحانی سائنس کا سرچشمہ بھی یہی ہے، یہی عالمِ لامکان و لازمان ہے، یہیں کائنات بھر کا علم و معرفت موجود ہے، کیونکہ دماغِ کائنات یہی ہے، اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں، مگر مثال کے طور پر یہاں صرف چند اسماء درج کئے گئے ہیں۔

۹۔ ع۔ن۔ عروج و نزول کا اشارہ اور دل و دماغ کا رابطہ ہے، کیونکہ دماغ عالمِ شخصی کا آسمان اور دل زمین ہے، اور یہ آسمان و زمین کا فطری ربط ضبط ہے کہ کچھ چیزیں اترتی ہیں، اور کچھ چیزیں چڑھتی ہیں (۳۴: ۰۲) تاکہ پستی سے ہمیشہ دعا بلند ہو جانے اور بلندی سے دائم رحمت برسنے کا قانون جاری و باقی رہے، یہ تو دائمی عروج و نزول کی بات ہوئی، اب دخول و خروج [درآمد و برآمد] کے بارے میں بھی سن لیجئے، کہ ساری کائنات اور اُس کی تمام چیزیں انسانِ کامل کے وجودِ مبارک میں داخل ہو کر محصور و محدود بھی ہو جاتی ہیں، اور کائنات بھر میں پھیل بھی جاتی ہیں (۵۷: ۰۴) آپ نکتہ نمبر ۷ کے اس کائناتی نقشے میں عالمِ شخصی (Personal World) کی پوزیشن (Position) یعنی مقام کو دیکھ سکتے ہیں کہ فنا و بقا کے دائرۂ اعظم پر گھومنے والی کائنات کئی معنوں میں انسانِ کامل کی پُرحکمت ہستی میں سے گزرتی رہتی ہے (۲۱: ۳۳)۔

۱۵۲

۱۰۔ انسانِ کامل مکانی اور جسمانی اعتبار سے کائنات کا مرکز اور دل و دماغ نہیں، بلکہ اس کا یہ مرتبہ سرچشمۂ عقل و روح کی وجہ سے ہے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی آدم کو جو کرامت و فضیلت عطا فرمائی ہے، وہ اسی عقل و روح کی حقیقت پر مبنی ہے، جس میں کامل انسان حضرتِ پیغمبر کے بعد سب سے آگے ہے، اور اسی کی ذات میں یہ معرفت حاصل ہو سکتی ہے کہ جملہ مخلوقات پر اولادِ آدم کی کیا فضیلت ہے اور کس طرح ہے (۱۷: ۷۰)۔

۱۱۔ انسانیّت کا درجۂ کمال سب سے پہلے بھی تھا، اور سب سے آخر میں بھی ہے، لہٰذا نقشے میں انسانِ کامل ہفتم بھی ہے اور یکم بھی، اب پوچھنا چاہئے کہ ڈایاگرام میں ایک سیڑھی کیوں ہے؟ یاد رہے کہ آسمان اوپر بھی ہے اور نیچے بھی، چنانچہ یہ ارتقائی سیڑھی ہے، جس کے پہلے زینے پر آسمان ہیں، دوسرے پر عناصر ہیں، تیسرے پر جمادات، چوتھے پر نباتات، پانچویں پر حیوانات، چھٹے زینے پر عالمِ انسان ہے، اور انسانِ کامل اس نردبان (سیڑھی) سے چڑھ کر بامِ عروج و عزت پر پہنچ چکا ہے، جہاں وہ معیارِ صحت بن کر سب کو اس مقامِ اعلیٰ کی طرف دعوت دے رہا ہے۔

۹ شعبان ۱۴۰۶ھ / ۱۹ اپریل ۱۹۸۶ء

۱۵۳

 

حقیقی صحت

۱۔ جیسا کہ اس سے پہلے یہ بیان ہو چکا ہے کہ بفرمودۂ قرآنِ حکیم (۰۲: ۱۰) سب سے بدترین اور انتہائی مہلک باطنی بیماری کفر و نفاق ہے، جو کافروں اور منافقوں کے دلوں میں ہوتی ہے، اور اس کے مقابلے میں سب سے بہترین اور مفید ترین صحت جو حیاتِ طیبہ کی حامل ہے، وہ ہے جو اسلام، ایمان، اور نورِ علم و معرفت کی صورت میں ہوا کرتی ہے، جس کا ذکر قرآنِ پاک میں قلبِ سلیم (۲۶: ۸۹، ۳۷: ۸۴) کے عنوان سے فرمایا گیا ہے، اور ایسا قلبِ پاکیزہ و منور جو حق تعالیٰ کے مقرر کردہ معیار کے مطابق بدرجۂ کمال صحت مند ہو، انبیاء و اولیاء کا مبارک دل ہے، اور اہلِ ایمان کامل اطاعت و فرمانبرداری سے اسی دل کو اپنا سکتے ہیں، یعنی قلبِ سلیم اپنے بھرپور حسن و جمال کے ساتھ سفرِ روحانیّت کی آخری منزل میں یا ارتقائی سیڑھی چڑھ جانے کے بعد ہی مل سکتا ہے، چنانچہ یہاں انسان کی جسمانی اور روحانی تخلیق و تکمیل اور عروج و ارتقاء کا ایک نقشہ درج ہے، آپ اسے غور سے دیکھئے:

۱۵۴

 

۲۔ انسانی ہستی کی تعمیر و ترقی کا آغاز افلاک یعنی آسمانوں سے ہو جاتا ہے، کہ وہ ہمیشہ عناصر پر اپنا اثر ڈالتے رہتے ہیں، عناصر سے جسم کی تخلیق ہوتی ہے، جسم میں نفسِ نباتی پیدا ہو جاتا ہے، جس پر نفسِ بہیمی (نفسِ حیوانی) قائم ہے، نفسِ حیوانی پر نفسِ امارہ (۱۲: ۵۳) ٹھہرا ہوا ہے، اگر نفسِ امّارہ کی اصلاح کی گئی، تو وہ نفسِ لوامہ (۷۵: ۰۲) بن جاتا ہے، نفسِ لوّامہ علم و عمل سے نفسِ مطمئنہ (۸۹: ۲۷) ہو جاتا ہے، اور اس کے بعد قلبِ سلیم ہے، اور یہی انسان کی آخری اور حقیقی صحت بھی ہے، اور تخلیق و تکمیل کی غایت بھی۔

۳۔ قرآنِ حکیم نے حقیقتِ انسانیہ کو سمجھانے کے لئے بہت سی مثالوں سے کام لیا ہے، من جملہ سیڑھی کی تشبیہہ و تمثیل بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے، البتہ اس لئے کہ یہ ایک ایسا واضح اور قابلِ فہم اشارہ ہے کہ اس سے انسانی عروج و ارتقاء کا مطلب نہ صرف ہر ہوشمند بلکہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے، چنانچہ اگر آپ ذرا غور سے دیکھیں، اور حقیقت پسندی سے اپنے متعلق فیصلہ کریں، تو دل ہی دل میں اس بات کا اقرار کر سکتے ہیں کہ آپ اس ارتقائی سیڑھی کے کس زینے

 

۱۵۵

 

پر رکے ہوئے ہیں، اور کیوں ایسا ہے، یہ رکاوٹ دراصل کوئی پوشیدہ بیماری ہے، جس کا علاج بتوفیقِ الٰہی آپ خود کر سکتے ہیں۔

۴۔ آدمی کی عام عادت یہی ہے کہ وہ ہمیشہ جسم کو پیشِ نظر رکھتا ہے، اور روح کا خیال ہی نہیں کرتا، جس کی وجہ سے اس کا بہت بڑا خسارہ ہو جاتا ہے، جس کی طرف قرآنِ کریم (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۳) میں بڑی تاکید کے ساتھ توجہ دلائی گئی ہے، اس پاک و پُرحکمت ارشاد کا ترجمہ یہ ہے: قسم ہے زمانہ کی کہ انسان بڑے خسارے میں ہے مگر جو لوگ کہ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی فہمائش کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی فہمائش کرتے رہے (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۳)۔ یہاں ایمانِ کامل، اچھے کام، حق (حقیقت) اور صبر میں دین کے سارے مطالب سما دیئے گئے ہیں، اور جو شخص ان اوصاف کے بغیر ہو، وہ بہت بڑے خسارے میں ہے، وہ سب سے پہلے یہ کہ اس کو “قلبِ سلیم” نہیں ملے گا، جس کے حصول میں سب کچھ ہے۔

۵۔ حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے: میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا پھر میں نے یہ پسند کیا کہ مجھ کو پہچان لیا جائے پس میں نے خلق (یعنی بطورِ خاص اہلِ معرفت) کو پیدا کیا۔ کیونکہ اس تخلیق کا مقصد عارفوں کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا تھا، اور عارف وہ شخص ہے، جو محویت و فنائیت کے ذریعے خدا کی معرفت حاصل کر لیتا ہے، جس کے لئے وہ دو وسیلوں سے کام لیتا ہے: الف: وہ ایسے مرشدِ کامل میں فنا

 

۱۵۶

 

ہو جاتا ہے جو فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ ہو چکا ہو۔ ب: پھر وہ رسول میں فنا ہو کر خدا میں فنا ہو جاتا ہے، تب ہی اس کو حق تعالیٰ گنجِ مخفی کے عنوان سے مل جاتا ہے، اور اگر کوئی انسان خود پیدا کردہ بیماریوں کی وجہ سے اس انتہائی عظیم اور لازوال خزانے کو حاصل نہیں کر سکتا، تو یہ اس کا سب سے بڑا خسارہ ہے، جس کا ذکر سورۂ عصر (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۳) کے حوالے سے ہو چکا ہے، سامنے جو روحانی ترقی کی سیڑھی کا نقشہ ہے، اس میں آپ سوچ سکتے ہیں۔

۶۔ قرآنِ حکیم میں علم وحکمت کی کون سی چیز غیر موجود ہے، وہ تو ایک ایسی کامل و مکمل کتاب ہے، جو ہر چیز کو بیان کرتی ہے (۱۶: ۸۹) چنانچہ سورۂ قصص (۲۸: ۸۸) اور سورۂ رحمان (۵۵: ۲۷) میں فنا فی اللہ کا حکیمانہ اشارہ موجود ہے، اور حقیقت یہی ہے کہ نورِ مطلق سے واصل ہو جانے کا وسیلہ صوفیانہ فنا ہے، جس کا ذکر قرآنِ پاک کے مذکورہ حوالوں کے علاوہ بھی ہے۔

۷۔ سیڑھی کا ایک قرآنی نام سُلَّم ہے (۰۶: ۳۵، ۵۲: ۳۸) چونکہ آدمی

 

۱۵۷

 

سلامتی کے ساتھ اوپر پہنچ جاتا ہے، اس لئے اس کا نام سُلَّم ہوا (لغات القرآن، مولانا محمد عبد الرشید نعمانی) یہ تو اس لفظ کی لغوی تحلیل ہوئی، اب ہم اسی مثال کی بنیاد پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک آسمانی (روحانی) سیڑھی بھی ہے، جو حقیقی صحت و سلامتی کی طرف بلند ہو جانے کا ذریعہ ہے، اور وہ مرتبۂ فنا فی اللہ ہے، جس کے کئی ہم معنی الفاظ (مترادفات) ہیں، یا اس کی کئی وضاحتیں ہیں، جیسے واصل بحق ہونا، دار السلام میں داخل ہو جانا (۱۰: ۲۵) جو بہشت اور سلامتی کا گھر ہے، خدا تعالیٰ کی معرفت سے گنجِ مخفی کو حاصل کرنا، عشقِ الٰہی میں شہید ہو کر زندۂ جاوید ہو جانا (۵۷: ۱۹) اللہ تعالیٰ کے حضور میں منفرد ہو کو جانا (۰۶: ۹۴) خدا کی طرف رجوع کرنا (۰۲: ۱۵۶) فرشتوں اور روح کا عروج (۰۴: ۷۰) اور حدیثِ قدسی کے مطابق پروردگار کا اپنے بندۂ مقرب کا کان، آنکھ وغیرہ ہو جانا، یہ تمام حقائق فنا فی اللہ سے متعلق ہیں۔

۸۔ آدم و آدمی کی لطیف ہستی ایک بے مثال شیٔ ہے، اور جو چیز بے مثال ہو، اس کے بارے میں سمجھانے کے لئے اگر آپ جملہ مثالوں کو استعمال کرتے ہیں، تو پھر بھی کم ہیں، جیسے پانی کی اپنی کوئی معینہ و مقررہ شکل نہیں، لہٰذا وہ جتنے مختلف ظروف میں ڈالا جائے، اس کی اتنی الگ الگ شکلیں ہوں گی، چنانچہ انسان کی لاتعداد مثالوں میں سے ایک کو لیجئے کہ وہ سیڑھی جیسی ہے، یعنی انسانِ کامل بحدِّ فعل اور ہر عام انسان بحدِّ قوّت ایک ایسی سیڑھی کی طرح ہے،

 

۱۵۸

 

جو آسمانِ روحانیّت پر چڑھنے کے لئے لگی ہوئی ہے، یقیناًاسی معنیٰ میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ سیڑھیوں والا ہے (۷۰: ۰۳) اس حقیقت کا پتا کسی سالک کو اس وقت چل سکتا ہے، جبکہ وہ تینوں فناؤں (فنا فی المرشد، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ) کی عملی معرفت حاصل کرتا ہے۔

۹۔ یہاں پر ایک ضروری سوال برائے تفہیم مناسب ہے، اس میں یہ پوچھنا ہے کہ ظاہری اور جسمانی طور پر تندرستی اور بیماری کے درمیان کیا نمایان فرق ہے؟ جواب: الف: ایک تندرست آدمی آرام و راحت محسوس کرتا ہے، جبکہ ایک مریض درد و رنج میں مبتلا رہتا ہے۔ ب: صحت مند انسان کو زندگی کی ہر ہر نعمت سے بیحد لذّت اور مسرّت و شادمانی ملتی رہتی ہے، اور اس کے برعکس بیمار کو ہرگونہ نعمت سے بد مزگی اور محرومی کا احساس ہوتا ہے۔ ج: تندرست انسان اپنے تمام کاموں کو حسن و خوبی سے انجام دیتا ہے، مگر بیمار آدمی کوئی کام نہیں کر سکتا، پس یہی حال باطنی صحت اور بیماری کا بھی ہے، تاہم اس میں ایک اور مسئلہ باقی ہے، وہ یہ کہ جو شخص حیوانی زندگی میں محدود ہو کر سوچتا ہو، اس کو اسلام کی روحانی اور عقلی نعمتوں کا کوئی شعور ہی نہ ہو، تو پھر ایسا آدمی اپنی باطنی بیماریوں کو محسوس نہیں کر سکتا ہے۔

۱۰۔ ایک دنیا دار انسان ہے، اور ایک آدمی حقیقی معنوں میں

 

۱۵۹

 

دیندار ہے، ان دونوں میں کیا فرق ہو سکتا ہے؟ ان میں جو فرق و تفاوت ہے، وہ ظاہری نہیں باطنی ہے، اور وہ یہ ہے کہ مذکورہ دیندار شخص میں روح الایمان ہے، جبکہ دوسرے میں یہ روح نہیں، سو ایسا نیک بخت آدمی جو ایمانی روح میں زندہ ہو چکا ہو، اپنی باطنی بیماریوں کا احساس یا اندازہ کرتے ہوئے ہر وقت حقیقی صحت کی تلاش کرتا رہتا ہے، اگرچہ حقیقی صحت بہشت میں ہے، لیکن اسی دنیا سے ایک صحت مند عقل و روح [قلبِ سلیم ، ۲۶: ۸۹] کو ساتھ لے کر اللہ کے حضور جانا ہے، ورنہ بڑی سخت نامرادی ہوگی۔

۱۱۔ جب تک کسی مریض کو اپنے درد کا احساس نہیں ہوتا، اس کو طبیب کوئی درمان نہیں دیتا، لیکن یہ امر کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی انسان اپنے باطنی امراض کو دیکھے یا سمجھے اور محسوس کرے؟ یہ کام ایمان اور علم کی روشنی میں انجام پا سکتا ہے، یعنی جب مسلمین و مومنین علم الیقین کے ذریعہ روح و روحانیّت کی امکانی ترقی اور بے پناہ باطنی دولت کے متعلق جاننے لگتے ہیں، تو پھر وہ اس بات کا بخوبی اندازہ بھی کر سکتے ہیں کہ انہیں گنجِ مخفی کے حصول میں کیوں تاخیر ہوئی ہے، غرض یوں سمجھ لیجئے کہ بندۂ مومن کا اعترافِ نافرمانی اور توبہ گویا احساسِ بیماری اور رجوع برائے علاج ہے، مگر توبہ پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

۱۲۔ اس کتاب میں جو کچھ بیان ہو رہا ہے، اس کا مقصد قارئین

 

۱۶۰

 

کو بڑی شدت کے ساتھ یہ احساس دلانا ہے کہ ظاہری بیماریوں کے مقابلے میں باطنی بیماریاں کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک ہوا کرتی ہیں، کیونکہ وہ نہ تو نظر آتی ہیں، اور نہ ہی محسوس ہوتی ہیں، بلکہ وہ ایک ایسے بڑے خطرناک جانی دشمن کی طرح اثر انداز ہوتی رہتی ہیں، جو انتہائی مخفی تحریکوں سے کسی کی جڑوں کے کاٹنے میں شب و روز لگا ہوا ہو، پھر بھی ایسا دشمن ایمان، روح، اور عقل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، بلکہ عینِ ممکن ہے کہ ایسی ناحق دشمنی کے ردِ عمل کو خدائے علیم و حکیم کسی مومن کے لئے بیحد مفید بنا دے، جبکہ باطنی امراض میں بیشمار نقصانات اور ہلاکتوں کے سوا کچھ بھی نہیں، لہٰذا یہ ہر فردِ مسلم کا فریضہ ہے کہ وہ حقیقی صحت کے روحانی مقام تک رسا ہو جانے کے لئے شب و روز سخت محنت کرے۔

۱۷ شعبان ۱۴۰۶ھ / ۲۷ اپریل ۱۹۸۶ء

 

۱۶۱

 

 

انسان دنیا میں ۔ دنیا انسان میں

۱۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ انسان جسمانی طور پر اس مادّی دنیا میں مقیم و محدود ہے، لیکن اس حقیقت سے بہت ہی کم لوگ واقف و آگاہ ہیں کہ یہ دنیا بصورتِ لطیف انسان کے باطن میں سما جاتی ہے، سو آئیے ہم دیکھیں کہ یہ امرِ واقعی کس طرح ہے، جاننا چاہئے کہ کائناتِ ظاہر کو عالمِ کبیر کہتے ہیں ، اور انسان عالمِ صغیر ہے، جس کو ہم عالمِ شخصی (Personal World) بھی کہہ سکتے ہیں، جو دراصل پانچ عوالم کا مجموعہ ہے، وہ یہ ہیں: عالمِ بیداری، عالمِ خیال، عالمِ خواب، عالمِ روحانیّت، اور عالمِ عقل، جس کا ڈایاگرام سامنے درج ہے:

۲۔ خوب یاد رہے کہ دنیائے ظاہر

۱۶۲

 

کئی طرح سے انسان کے اندر سما جاتی ہے، اس مطلب کی وضاحت یہ ہے کہ آدمی بفرمانِ الٰہی سب سے پہلے اپنے قول و فعل اور احساسات کے ذریعہ اس اجتماعی دنیا میں سے اپنے لئے ایک انفرادی اور ذاتی دنیا بنا لیتا ہے جس کا نام عالمِ صغیر یا عالمِ شخصی ہے، یہی ہر شخص کا عالمِ بیداری ہے، اور اسی میں عالمِ خیال، عالمِ خواب، عالمِ روحانیّت اور عالمِ عقل شامل ہیں۔
۳۔ حواسِ خمسۂ ظاہر [دیکھنا، سننا، سونگھنا، چکھنا، اور چھونا] خدا تعالیٰ کی طرف سے اس لئے عطا ہوئے ہیں، تاکہ ہر دیندار شخص منشائے دین کے مطابق اپنے لئے محسوسات کی ایک ایسی پاکیزہ اور پسندیدہ ذاتی دنیا آباد کرے، جو ہر قسم کی بیماری سے پاک و صاف اور بدرجۂ کمال صحتمند ہو، چنانچہ پانچ حواس گویا پانچ دروازے ہیں، جن سے ہمیشہ جہانِ ظاہر کی لطیف چیزوں کا ایک بے پایان سلسلہ عالمِ شخصی میں داخل ہوتا رہتا ہے، یہی کاروانِ زندگی بھی ہے اور زندگی کی چہل پہل بھی۔

۴۔ پرسنل ورلڈ [عالمِ شخصی] میں جو ایک عظیم اور بے مثال سلطنت قائم ہونے والی ہے، اس کے لئے حواسِ ظاہر کی جو بے شمار خدمات ہیں، اور جیسے بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے گئے ہیں، ان میں قوّتِ باصرہ کی حسنِ کارکردگی سرِفہرست ہے، کہ آنکھ اپنے پُرمعلومات مطالعے سے، جو دینی اور دنیوی کتب سمیت صحیفۂ کائنات

 

۱۶۳

 

پر مبنی ہے، ہر وقت علم و آگہی کے انمول خزانے دل و دماغ میں بھیجتی رہتی ہے، ہر چیز فطری طور پر ترقی پذیر ہوا کرتی ہے، اسی طرح ایک حقیقی مومن کثرتِ ذکر سے آنکھ کو اتنی ترقی دے سکتا ہے کہ وہ چشمِ باطن کے ساتھ مل کر ایک مخصوص وقت کے لئے ایک ہو جاتی ہے، نہ صرف تنہا آنکھ بلکہ دوسرے حواس کا بھی یہی عالم ہوتا ہے، اُس حال میں مافوق الفطرت (Metaphysical) عجائب و غرائب کا ایک ایسا پُرشکوہ ظہور ہو جاتا ہے، کہ اس کو دیکھ کر آدمی ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے، یہ حقیقت ہے کہ ایسے میں سالکِ صادق کی آنکھ روحانیّت کی دوربین (Telescope) اور حقیقت کی خردبین  ہو جاتی ہے۔

۵۔ آنکھ کے بعد کان کا درجہ ہے کہ وہ مادیّت سے لے کر روحانیّت یا مافوق الفطرت تک جس طرح اپنا کام کرتا ہے وہ حیرت انگیز ہے، کان دروازۂ ارواحِ خلائق ہے، وہ فرشتوں کی آواز سن سکتا ہے (۴۱: ۳۰) اگر کسی کا روحانی انقلاب برپا ہو، تو وہ کیا کیا نہیں سنتا ہے، اگر نورِ خدا کسی بندۂ مقرب کی آنکھ اور کان ہو جائے، تو پھر وہ کیا نہیں دیکھتا ہوگا، اور کیا نہیں سنتا ہوگا، الغرض جب درمیان سے حجاب اُٹھ جاتا ہے، یا دیوار گرائی جاتی ہے تو اس وقت حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن مل کر ایک ہو جاتے ہیں، اور عالمِ شخصی کی تعمیر و تکمیل کے لئے بڑے پیمانے پر کام کرنے لگتے ہیں، اور علم و

 

۱۶۴

 

حکمت کے عظیم خزانے حاصل ہو جاتے ہیں۔

۶۔ آپ جانتے ہیں کہ عالمِ بیداری سے عالمِ خیال وجود میں آتا ہے، جس کی دلیل صاف روشن ہے کہ آدمی کے خیال میں وہی چیزیں آتی ہیں، جن کو اس نے بیداری میں دیکھا ہو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اشیاء لباسِ مادیّت سے مجرّد ہو کر عالمِ خیال میں پرواز کر جاتی ہیں، اگر کچھ دیر کے لئے حواس کے کام نہ کرنے کی وجہ سے خیال منجمد ہو جاتا ہے، تو اس سے عالمِ خواب پیدا ہو جاتا ہے، اگر مناسب عبادت و ریاضت سے خواب کی تحلیل ہو جاتی ہے تو اس سے روحانیّت بن جاتی ہے، کیونکہ ابتدائی روحانیّت ایک پُرسکون لطیف خواب کی طرح ہے، جس کا ایک قرآنی نام نعاس [اونگھ، ۰۳: ۱۵۴، ۰۸: ۱۱] ہے، اور بالآخر روحانیّت کے جوہر سے عالمِ عقل یا عالمِ امر بنتا ہے، مگر یہاں یہ نکتہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ جو چیز آخر ہو وہی اوّل بھی ہوا کرتی ہے، اور جو چیز ازل میں ہو، وہی ابد میں بھی ہوتی ہے۔

۷۔ دنیائے ظاہر کا کوئی کامیاب غواص سمندر میں غوطہ لگا کر بڑی مشکل سے صرف چند مادّی موتیوں کو نکال سکتا ہے، لیکن عالمِ شخصی کے عارفوں نے بحکمِ خدا نہ صرف گوہر ہائے اسرار ہی کو حاصل کر لیا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ بحرِ کائنات کو بھی اپنے کوزۂ وجود [عالمِ شخصی] میں انڈیل لیا، اور یہ سارا کام دراصل دستِ قدرت ہی سے انجام پاتا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) پس یہی ہے انسان کا دنیا میں ہونا ، اور دنیا کا

 

۱۶۵

 

انسان میں سما جانا۔

۸۔ قادرِ مطلق نے اپنی خدائی اور بادشاہی میں ایک طرف ایسی وسیع و عریض کائنات پھیلائی اور اس میں اتنی کثیر چیزیں بنائی ہیں کہ جنّ و انس نہ تو اس جہان کا احاطہ کر سکتے ہیں، اور نہ ہی اس کی اشیاء کا شمار، لیکن خود ملیکِ مقتدر (بادشاہِ قادر، ۵۴: ۵۵) نے دوسری طرف تمام آسمانوں اور زمین کو اپنی مبارک مٹھی میں نہ صرف لپیٹ ہی لیا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) بلکہ اسی حال میں یعنی مشتِ نورانیّت میں ساری چیزوں کو ایک کر کے عددِ واحد میں شمار بھی کر رکھا ہے (۷۲: ۲۸) یاد رہے کہ یہ سب سے عظیم علمی و عرفانی معجزہ انسانِ کامل کے عالمِ شخصی یا عالمگیر دل و دماغ میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔

۹۔ ویسے تو کائنات میں بیشمار معنی ہیں، مگر اختصار اور آسانی کی خاطر اس نقشے میں بطورِ نمونہ صرف بارہ معانی درج کئے گئے ہیں، جن کا فیضان انسان کو حاصل ہو رہا ہے، یا ہونے والا ہے، مثال کے طور پر: الف: عرش کو لیجئے کہ جو شخص رفیع الدرجات اور صاحبِ

 

۱۶۶

 

عرش (۴۰: ۱۵) میں فنا ہو جائے تو ظاہر ہے کہ ایسا بندہ عملاً سیڑھی کا نمونہ ہو چکا ہوگا، اور عرش کے خزینۂ اسرار سے مستفیض ہوگا۔ ب: عرش قلمِ الٰہی بھی ہے (۹۶: ۰۴) اور کرسی لوحِ محفوظ بھی (۰۲: ۲۵۵، ۸۵: ۲۲) چنانچہ اس معنیٰ میں عرش و کرسی کے فیوض و برکات کا رخ انسان کی طرف ہے۔ ج: آسمان میں نہ صرف رزق ہے، بلکہ ہر وہ چیز بھی ہے، جس کے بارے میں وعدہ کیا گیا ہے (۵۱: ۲۲)۔ د: کائنات (موجودات، خلق اللہ) بنی آدمی کے لئے پیدا کی گئی ہیں، جس کی دلیل اولادِ آدم کی تکریم و تفضیل ہے (۱۷: ۷۰)۔

۱۰۔ ھ: آسمانوں اور زمین یعنی ساری کائنات کا ایک لطیف جسم ہے، جو طبیعتِ پنجم رکھتا ہے کہ وہ نہ تو خشک ہے نہ تر، نہ گرم ہے اور نہ سرد جس کی چوڑائی اور وسعت کائنات کے برابر ہے (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) اور وہی بہشتِ کلّی ہے، جو انسان کے لئے ہے، جو نزدیک بھی لائی جاتی ہے (۵۰: ۳۱)۔ و: ہر چیز کے ظاہر و باطن میں علم ہے (۰۶: ۸۰، ۰۷: ۸۹) اور کائنات تو سب چیزوں کا مجموعہ اور کُل ہے، لہٰذا وہ علم ہی علم ہے، ویسے بھی مادّہ اور وزن کے لحاظ سے عالم وہ چیز ہے جو “علم” جاننے کا آلہ بنے، جیسے خاتم اس چیز کو کہتے ہیں جو مہر کرنے کا آلہ ہو، یعنی مہر (قاموس القرآن) چنانچہ عالمِ کبیر میں علم کا جو سرچشمہ ہے، اس کا مکمل نمونہ عالمِ صغیر یعنی انسان میں موجود ہے۔

۱۱۔ ز: عالم جس طرح علم کا سمندر ہے اسی طرح رحمت کا بھی سمندر

 

۱۶۷

 

ہے (۲۱: ۱۰۷، ۴۰: ۰۷) اور اس کی روانی (بہاؤ) رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے توسط سے عالمِ انسان کی طرف ہو رہی ہے۔ ح: کائنات کے عجائب و غرائب اور بہت بڑی چیزوں میں سے ایک لطیف جسم ہے، جس کو جسمِ مثالی بھی کہتے ہیں (۱۹: ۱۷، ۱۷: ۹۹، ۳۶: ۸۱) یہ قرطۂ ابداعی ہے (۱۶: ۸۱) جس کے ذریعے بہشت نزدیک لائی جاتی ہے۔ ط: اس کائنات کے ظاہر و باطن میں دنیوی اور دینی سائنس کے لاتعداد قدرتی وسائل موجود ہیں، اور ان سب کا فائدہ عالمِ شخصی کی طرف آتا ہے۔

۱۲۔ ی: قرآن کا کہنا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی چیزیں کسی استثناء اور چھوٹ کے بغیر سب کی سب حقیقی انسانوں کے لئے مسخر کر دی گئی ہیں (۴۵: ۱۳) اور یہ تسخیر ظاہری بھی ہے، اور باطنی بھی، اور باطنی تسخیر یہ ہے کہ کائنات و موجودات کا زندہ نچوڑ یعنی جسمِ مثالی (جو عالمگیر عقل اور روحِ اعظم سے وابستہ ہے) انسان کی دوسری انا کی حیثیت سے کام کرتا ہے، نیز یہ کہ کُل اشیاء کی نمائندہ روحیں انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں کام کرتی ہیں، جس کی مثال مملکتِ سلیمانی ہے۔ ک: کُل کے معنی ہیں مجموعۂ عالم، نیز اس کے معنی ہیں انسانِ کامل، کیونکہ یہ کائنات کی کاپی ہے،اور اس کی بھی بہت ساری کاپیاں ہیں، پس خدا تعالیٰ نے ہرمومن کو اس کی ایک کاپی دیتے ہوئے سب کچھ دے دیا (۱۴: ۳۴)۔

 

۱۶۸

۱۳۔ ل: اگر آپ قوانینِ قرآن کے سلسلے میں “قانونِ خزائن” کا خوب گہرائی سے مطالعہ کریں، تو یقیناً آپ کے ہر مشکل سوال کا ایک تسلی بخش جواب مل سکتا ہے، دیکھئے کہ یہ کتنا منظم اور پُرحکمت قانون ہے کہ تمام کی تمام چیزیں قربِ خدا کے خزینوں میں ہیں، اور آپ کے پاس جتنا علم ہوگا اور جیسی معرفت ہوگی، اس کے مطابق آپ کو خدائی خزانوں کی چیزیں اور نعمتیں حاصل ہو سکتی ہیں (۱۵: ۲۱) میں سمجھتا ہوں کہ یہ علمی کوشش ایک با اثر ترغیب ہے، جو حقیقت پر مبنی ہونے کی وجہ سے اہلِ دانش کو باطنی صحت کی طرف توجہ دلا سکتی ہے۔

۲۶ شعبان ۱۴۰۶ھ / ۶ مئی ۱۹۸۶ء

۱۶۹

 

خدا کن سے محبت کرتا ہے اور کن سے محبت نہیں کرتا؟

۱۔ جیسا کہ ہم نے اس کتاب میں قبلاً ایک پُرنور و حکمت آگین حدیثِ قدسی کی روشنی میں یہ ذکر کیا تھا جس کا مطلب یہ ہے، کہ تمام باطنی بیماریوں سے ابدی نجات اور کُلی صحت و سلامتی منزلِ مقصود یعنی منزلِ فنا ہی میں میسر آتی ہے، اور یہ سب سے بڑی اور آخری سعادت ایسے مقرب بندوں کو نصیب ہو جاتی ہے، جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ محبت کرتا ہو، اور ان پر اپنے نورِ پاک کی بارش برساتا ہو، تا آنکہ یہ حضرات اس میں فنا ہو جائیں، چنانچہ اب یہاں یہ بتانا انتہائی ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے جن خاص بندوں سے محبت کرتا ہے، ان کے کیا کیا اوصاف ہوا کرتے ہیں، اور اللہ جن دوسرے انسانوں سے محبت نہیں کرتا، ان میں کیا کیا بیماریاں اور خرابیاں ہوتی ہیں، اس

 

۱۷۰

 

بارے میں جاننے کے لئے درجِ ذیل ڈایاگرام اور اس کی وضاحت کا مطالعہ ازبس مفید ثابت ہو سکتا ہے، ملاحظہ ہو:

۲۔ اس نقشے کا سب سے بیرونی دائرہ ناسوت [عالمِ اجسام = دنیا] کو ظاہر کرتا ہے، جس میں براہِ راست یا بالواسطہ قرآنِ حکیم کے اٹھائیس الفاظ درج ہیں، جن میں سے چودہ لفظوں کے مثبت معنی ہیں، اور چودہ کے منفی، کیونکہ ان میں بطریقِ اثبات و نفی جوابات ہیں، اس

 

۱۷۱

 

سوال کے لئے جو شروع (یعنی عنوان) میں کیا گیا ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ یہاں مثبت معنوں کا رخ عالمِ بالا (ملکوت) کی طرف ہے، مگر منفی معانی ایسے نہیں، اس کا واضح اشارہ یہ بتاتا ہے کہ اگر سالک کو فی الحقیقت منزلِ مقصود تک پہنچ جانا ہے، تو لازمی طور پر ان اعلیٰ اوصاف کو اپنانا چاہئے۔

۳۔ (۱۔۲:) سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۱ تا ۳۲) میں جس طرح رسولِ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری محبتِ الٰہی کی واحد شرط قرار دی گئی ہے، کہ ایمانِ کامل اسی میں ہے، اور جیسے ارشاد ہوا ہے کہ اس حکم سے سرکشی کرنا کفر ہے، اور اللہ کافروں سے دوستی و محبت نہیں کرتا، تو یہی قرآنی مفہوم نہ صرف مذکورہ نقشے کا مقصدِ اصلی ہے، بلکہ مضمون کا جوہر بھی یہی ہے، اور باقی جو کچھ ہے، وہ اس کی وضاحت ہے۔ (۳۔۴:) ارشاد کا ترجمہ ہے: اور نیکی کرو، بے شک خدا نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (۰۲: ۱۹۵) لیکن کون سی نیکی؟ کیونکہ مذاہبِ عالم کی الگ الگ کسوٹیوں کی وجہ سے جب کسی چیز کو ایک شخص نیکی قرار دیتا ہے، تو ممکن ہے کہ وہ چیز دوسرے کے نزدیک بدی ہو، چنانچہ یہ عمل یعنی نیکی کرنا اطاعتِ رسول کے تحت درست ہو گا، اور جو بات اس کے برعکس ہو، وہ بدی ہوگی، کیونکہ وہ اسلامی حسنہ (بھلائی) کی طرح نہیں (۴۱: ۳۴)۔

۴۔ (۵۔۶:) اصلاح و خرابی ایک دوسرے کی ضد ہیں، چنانچہ

 

۱۷۲

 

جب قرآنِ کریم فرماتا ہے کہ: خدا کو فساد (خرابی) پسند نہیں (۰۲: ۲۰۵) تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ خرابی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا، بلکہ اصلاح کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، کیونکہ یہاں معنی کا اطلاق حقیقی لفظ کی ضد پر ہوتا ہے۔ (۷۔۸:) جو لوگ ظاہراً و باطناً پاک و صاف رہتے ہیں، اللہ ان سے محبت کرتا ہے (۰۹: ۱۰۸) اور جو اس کے برعکس ہیں، ان کو یہ سعادت نصیب نہیں (۰۹: ۲۸) آپ جانتے ہیں کہ وجودِ آدمی تین چیزوں کا مجموعہ ہے، وہ چیزیں ہیں: جسم، روح، اور عقل، پس پاکیزگی بھی اور ناپاکی بھی تین قسم کی ہے: جسمانی، روحانی اور عقلی۔

۵۔ (۹۔۱۰:) جن لوگوں سے خدا محبت کرتا ہے، ان میں وہ لوگ بھی ہیں، جو بحقیقت توبہ کرتے ہیں، اور جو لوگ اپنی غلط کاریوں پر مصر رہتے ہیں، ان سے خدا ہرگز دوستی نہیں کرتا۔ (۱۱۔۱۲:) اسلام کی ساری خوبیاں ایمان میں جمع ہو جاتی ہیں، اور کفر میں سوائے برائی کے اور کوئی چیز نہیں، چنانچہ جب ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا (۰۳: ۳۲) تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ یقیناً مومنین سے محبت کرتا ہے، کیونکہ ایمان دونوں طرف سے محبوب ہے (۴۹: ۰۷) یعنی اللہ کی طرف سے بھی، اور بندوں کی طرف سے بھی۔

۶۔ (۱۳۔۱۴:) خدائے بزرگ و برتر ان لوگوں سے محبت کرتا ہے

 

۱۷۳

 

جو حقیقی معنوں میں عدل و انصاف کرنے والے ہیں (۰۵: ۴۲) مگر ظالم لوگ اس انتہائی پاک دوستی کے قابل نہیں ہیں (۰۳: ۵۷) عدل بھی اور ظلم بھی دو طرح سے ہے: اپنے حق میں ، اور دوسروں کے حق میں۔ (۱۵۔۱۶:) ایک جانب تقویٰ ہے اور دوسری جانب فسق و فجور (گناہ گاری)، تقویٰ میں دینداری کے تمامتر معنی موجود ہیں، لہٰذا خداوندِ عالم پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے (۰۳: ۷۶) اور دوسری جانب سے نہیں (۳۸: ۲۸) یعنی کوئی فاسق و فاجر خدا کا دوست نہیں ہو سکتا۔

۷۔ (۱۷۔۱۸:) صبر انبیاء و اولیاء کی بڑی بڑی صفات میں سے ہے، اور اس کا تعلق جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی مصائب سے ہے، پس صبر کی کامل صفت نہیں بنتی، جب تک کہ کوئی مومن طرح طرح کی مصیبتوں میں نہیں پڑتا، اور یہ امر بیحد ضروری ہے، کیونکہ خدا کسی شخص سے دوستی نہیں کرتا، جب تک کہ وہ دیندار اور صابر و شاکر نہ ہو (۰۳: ۱۴۶) اگر آدمی آزمائش کے دوران جزع فزع اور بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے، تو یہ خدا کی محبت جیسی سب سے بڑی نعمت سے محرومی کا باعث بنتا ہے (۷۰: ۲۰)۔ (۱۹۔۲۰:) حقیقی توکل ایمان کے درجۂ کمال پر ہے، جہاں ہر کامل مومن خدا کو اپنا وکیل قرار دے لیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ایسے مومنین سے بکمالِ مہربانی دوستی و محبت کرتا ہے (۰۳: ۱۵۹) لیکن کافروں کے لئے کوئی کارساز یعنی وکیل نہیں (۴۷: ۱۱)۔

۱۷۴

۸۔ (۲۱۔۲۲:) اسلام کی موجودگی میں اگر کسی دوسرے دین میں کوئی بشارت ہے، تو وہ صرف ایک ایسی بات ہو سکتی ہے، جس کے کچھ معنی نہ ہوں، اس کے برعکس قرآن میں جہاں جہاں جن مومنین کو خوشخبری دی جاتی ہے، وہاں یہ بشارت ان کے حق میں عملی ہے، جس میں اسی زندگی کے اندر ارواح و ملائکہ کی ملاقات اور خدا کی محبت حاصل ہونے کا ذکر ہے (۴۱: ۳۰، ۰۹: ۱۱۲) اور یہی بشارت ان مومنین کے لئے بھی ہے، جو حدود یعنی قوانینِ دین کی پابندی کرتے ہیں، مگر جو لوگ حد سے تجاوز کرتے ہیں، ان سے خدا ہرگز دوستی نہیں کرتا (۰۵: ۸۷)۔ (۲۳۔۲۴:) دنیا میں زہر ہر ذی حیات مخلوق کے لئے بڑی خطرناک اور مہلک چیز ہے، اسی طرح اخلاقی اور روحانی زندگی کے لئے تکبر زہر ہے، اس سمِ قاتل یا زہرِ ہلاہل کے لئے کوئی دوا نہیں، مگر ہاں صرف ایک چیز ہے، جو اسے مار سکتی ہے، اور وہ عاجزی ہے، پس عاجزی کرنے والوں سے خدا محبت کرتا ہے، اور تکبر اللہ کو پسند نہیں (۲۲: ۳۴، ۱۶: ۲۳)۔

۹۔ (۲۵۔۲۶:) قرآنِ حکیم کا کہنا ہے کہ خدائے پاک فضول خرچی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے (۰۷: ۳۱) اس کا واضح اشارہ یہ ہے کہ اللہ ایسے مومنوں کو چاہتا ہے اور ان کو اپنی پُرحکمت محبت کی لازوال دولت سے مالامال فرماتا ہے جو اس کی راہ میں مالی قربانیاں پیش کرنے سے دریغ نہیں رکھتے ہیں (۰۲: ۲۶۱)۔ (۲۷۔۲۸:) جیسا کہ آپ

 

۱۷۵

 

جانتے ہیں کہ جہاد کئی معنوں میں ہے، یعنی اس کی چند قسمیں ہیں، اور ہر جہاد اپنی جگہ پر بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے، من جملہ ملک و ملت کی ضرورت کے مطابق ترقیاتی امور کی اجتماعی جدوجہد جب سیسہ پلائی ہوئی عمارت کی طرح مربوط و منظم ہو جاتی ہے، تو خدا تعالیٰ ایسے اجتماع سے محبت کرتا ہے، اور جو لوگ بلاوجہ ایسے کاموں میں حصہ نہیں لیتے، وہ گویا جہاد کے موقع پر گھر میں بیٹھے رہتے ہیں (۶۱: ۰۴، ۰۴: ۹۵)۔

۱۰۔ یہ ہماری کتنی بڑی ناشکری اور غفلت ہے، کہ خدائے پاک و برتر کے نورِ محبت سے متعلق بہت کچھ سنتے ہیں، مگر پگھلتے نہیں، نہ اس کے حصول کے لئے کوئی انقلابی عمل کرتے ہیں، حالانکہ ساری باطنی شفا اور صحت اسی محبت میں مضمر ہے، اور جملہ بیماریاں اس اکسیرِ اعظم کے نہ ہونے میں ہیں، پس یہ چودہ صفاتِ عالیہ، جو آسمانی محبت سے متعلق ہیں، حقیقی صحت کی علامات ہیں، اور ان کے سامنے جو صفاتِ مذمومہ ہیں، وہ یقیناً باطنی امراض ہیں۔

۱۱۔ خدائی محبت ایک روح پرور اور ایمان افروز نور ہے، جس کی ضیا پاشی سے جہالت و نادانی کی ظلمتیں کافور ہو جاتی ہیں، یہ نور حیاتِ طیبہ یعنی حقیقی زندگی (۱۶: ۹۷) کا سرچشمہ ہے، پس خداوندِ تعالیٰ جس بندۂ مومن سے محبت کرتا ہے، وہ اس نور میں فنا ہو کر از سرِ نو زندہ ہو جاتا ہے، اور یہ فنا فی اللہ کی ایک وضاحت ہے، تمام انبیاء علیہم السّلام فنا فی اللہ کا مرتبہ رکھتے تھے، اور وہ حضرات کسی

 

۱۷۶

 

فرق و امتیاز کے بغیر سب انسانوں کو اسی منزلِ آخرین کی طرف دعوت و نصیحت کرتے تھے، کیونکہ ہر عظیم ہادی کی ہدایت و رہنمائی منزلِ مقصود تک ہوتی ہے، اس مطلب کو دوسرے لفظوں میں یوں ادا کرنا چاہئے کہ ہر پیغمبر اپنے دور کے حقیقی مومنین کو ان کی جسمانی موت سے پہلے ہی خدا سے واصل کر دیتا ہے، اور ظاہر ہے کہ ذاتِ خدا ہی سب کی آخری منزل ہے۔

۱۲۔ اسلام میں بہت سے عظیم المرتبت بزرگ ایسے بھی گزر چکے ہیں، جو فنا فی اللہ کا درجہ رکھتے تھے، مگر دنیا ان کو نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا ہیں، کیونکہ جو شخص بحکمِ “من عرف” اپنے آپ کو نہیں پہچانتا ہے، وہ خدا اور اس کے اولیاء کو بھی نہیں پہچان سکتا، تاہم دینِ فطرت (اسلام) میں رحمتِ خدا سے مایوسی نہیں، کیونکہ اس میں علم و معرفت کے تمامتر ذرائع موجود ہیں۔ والسلام۔

۴ رمضان ۱۴۰۶ھ / ۱۴ مئی ۱۹۸۶ء

۱۷۷

انبیاء و اولیاء کی شناخت

۱۔ آپ حضرات میں سے کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس کتاب کی بعض باتیں اصل موضوع سے ہٹ کر ہیں، لیکن میں عرض کروں گا کہ ایسا نہیں، کیونکہ جہاں قرآنِ حکیم اپنے معجزاتِ علمی کے بہت سے پہلوؤں میں سے ایک پہلو میں دوا، علاج، شفاء ، اور “موضوعِ شفاء” ہے، تو پھر کوئی ایسی بات جو قرآن سے ہو یا اس کی روشنی میں، کس طرح “قرآنی علاج” کے مضمون سے باہر ہو سکتی ہے، چنانچہ یہاں انبیاء و اولیاء کی شناخت یا معرفت کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے تاکہ ان برگزیدہ اور مقدّس ہستیوں کے ذریعے سے اہلِ دانش پر یہ حقیقت روشن ہو کہ باطنی صحت کا اصل مقام کہاں ہے، اور اس کا ثمرہ کیا ہے، کیونکہ یہی حضرات خود راہِ مجسم بھی ہیں، راہنما بھی، اور منزلِ مقصود تک پہنچ جانے کا بہترین نمونہ بھی ہیں۔

۲۔ آپ یہ حقیقت جانتے ہوں گے کہ ہر نبی ولی بھی ہے، لیکن ہر ولی نبی نہیں، اوّل اس لئے کہ نبوّت ولایت سے برتر ہے، اور دوم

 

۱۷۸

 

اس لئے کہ ولی کے معنی ہیں دوستِ خدا، یعنی اس میں نبوّت کے معنی نہیں، اور ہر پیغمبر اللہ تعالیٰ کا دوست ہوا کرتا ہے، پس قرآنِ کریم میں جہاں اولیاء یعنی دوستانِ خدا کا ذکر آیا ہے وہاں اس تذکرہ میں انبیاء علیہم السّلام بھی ہیں، جیسے ارشاد ہوا ہے (ترجمہ): آگاہ رہو اس میں شک نہیں کہ دوستانِ خدا پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں (۱۰: ۶۲) اس آیۂ پُرحکمت میں جبکہ انبیاء و اولیاء یکجا ہیں، نبوّت و رسالت کی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر باقی تمام ازلی و ابدی اسرار کے خزانے جمع ہیں، اور علم و معرفت کی کوئی چیز ان سے باہر نہیں۔

۳۔ اولیائے خدا ولایت کے اعتبار سے ایک ہیں، مگر نبوّت و رسالت کی وجہ سے دو ہیں، کہ گروہِ اوّل کا نام انبیاء ہے، اور گروہِ دوم کا نام صدیقین (۰۴: ۶۹) جو کچھ انبیاء علیہم السّلام نے دیکھا ہے، اس کو صدیقین بھی دیکھتے ہیں، اور اسی حق الیقین کے مشاہدے کی بناء پر یہ حضرات اُن حضرات کی لائی ہوئی کتابوں اور معجزات کی شہادت دیتے ہیں، اور تصدیق کرتے ہیں، اور صدیقوں کے انبیاء کے ساتھ ہونے کا پتا اس بات سے بھی چلتا ہے کہ ان کے بعد شہداء ہیں، پھر صالحین، اور آخر میں تابعین (۰۴: ۶۹) آپ شاید یہ کہیں گے کہ مذکورہ صاحبان میں سے باقی بھی تو خدا کے دوست ہیں، آپ کا کہنا بالکل بجا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی دوستی کے درجات ہیں، چنانچہ خداوند تعالیٰ کے اولیائے خاص انبیاء و صدیقین ہیں، جن کا ذکر ہوا۔

۱۷۹

۴۔ حضرت آدم علیہ السّلام کا ایک قرآنی نام نفسِ واحدہ ہے (۰۷: ۱۸۹، ۳۹: ۰۶) واحدہ بروزنِ فاعلہ کے معنی ہیں ایک، نیز اس کے معنی ہیں ایک کر لینے والا، سورۂ اعراف اور سورۂ زمر کے مذکورہ دونوں حوالوں میں خوب غور سے دیکھئے تو معلوم ہو جائے گا کہ ابوالبشر کے عالمِ ذرّ میں تمام انسانوں کے ذرّاتِ نفوس اُس وقت پیدا ہو چکے تھے، جبکہ ہنوز حضرتِ آدمؑ سے حضرت حواؑ کا وجودِ سکینت نہیں بنا تھا، کیونکہ جو خدائی روح (نور) خلیفۂ خدا میں نفخ کی گئی، وہ اپنے ساتھ ارواح و ملائکہ کا ایک بہت بڑا عالم لئے ہوئے تھی، اور یہ نفسِ واحدہ کی تعریف ہے۔

۵۔ ہر پیغمبر اور ہر ولئ کامل اپنے وقت میں نفسِ واحدہ ہوا کرتا ہے، کیونکہ روحِ خدا یا نورِ خدا اور عالمِ ذرّ کو تو ہمیشہ ہمیشہ موجود رہنا ہے، اور اس امرِ واقعی کی ایک روشن دلیل کہ کس طرح انسانِ کامل میں سب ہوتے ہیں، حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی مبارک ہستی سے مل سکتی ہے کہ آپ نہ صرف ایک مؤحدّ فرد اور ایک عظیم پیغمبر تھے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک فرمانبردار اور خداشناس امت (جماعت) بھی تھے (۱۶: ۱۲۰) اور ایسی جماعت، جس کی اللہ جلّ شانہ نے تعریف فرمائی ہے، انبیاء و صدیقین کی روحانی جمعیت تھی، جس کی نمائندگی سے آپ علیہ السّلام ماضی، حال، اور مستقبل کے تمام لوگوں کے امام مقرر ہوئے (۰۲: ۱۲۴) اور آپ کی ایسی پُرحکمت نمائندگی بر نمائندگی سے سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ صرف خلائقِ اوّلین و آخرین کے امام ہیں، بلکہ

 

۱۸۰

 

آنحضرت تو سارے انبیاء و اولیاء کے بھی امام اور پیشوا ہیں، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضورِ انورؐ کو جملہ جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے (۲۱: ۱۰۷) اور یہ رحمت ہر زمانے کے لئے ہے، لہٰذا یہ کہنا حقیقت ہے کہ یہ آفاقی رحمت سلسلۂ انبیاء و اولیاء کے توسط سے پھیلتی چلی آئی ہے۔

۶۔ رحمت کی ایک خاص صورت قرآن اور نورِ قرآن ہے (۱۰: ۵۷، ۰۵: ۱۵) قرآنِ حکیم کی روح و روحانیّت، اور علم و حکمت پہلی امتوں کی آسمانی کتابوں میں بھی تھی (۲۶: ۱۹۶) اور اب وہ کتابیں ایک طرح سے قرآن میں ہیں (۰۵: ۴۸) کیونکہ جس قانونِ وحدت کی رو سے کتبِ سماوی کے معلّمین ایک دوسرے میں ہوتے ہوئے اپنے عظیم مرکز سے وابستہ ہیں، اور وہ نورانی مرکز رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں، اسی قانون کے مطابق سارے صحائف بھی ایک دوسرے میں منتقل ہوتے ہوئے قرآنِ عظیم میں جمع ہیں، کیونکہ وجودِ مرکز اور مرکزی کشش کے بغیر کوئی نظام ٹھہر نہیں سکتا۔

۷۔ صدق (سچائی، سچ، سچا) کتنا پیارا لفظ ہے، یقیناً بے حد عزیز ہے، خصوصاً اس لئے کہ یہ یعنی صدق قرآنِ پاک کے ناموں میں سے ہے (۳۹: ۳۳) صدق سے صادق (سچا، سچ بولنے والا) ہے، جس کی مراد ہے، دین کی صداقتوں اور حقیقتوں کو جاننے والا، اور بیان کرنے والا، نیز قولاً و فعلاً ان کی تصدیق کرنے والا، اور صدیق

 

۱۸۱

 

اسی کا صیغۂ مبالغہ ہے، یعنی نہایت سچا، سراپا صدق، اور دین کی حقانیت و صداقت کو اصل و اساس سے جاننے والا، اس سے ولی مراد ہے، جس کا درجہ نبی کے بعد ہے، چنانچہ سورۂ نساء کے ایک ارشادِ مبارک (۰۴: ۶۹) کے مطابق روحانی ترقی کا پہلا درجہ اطاعت و فرمانبرداری کرنے والوں کا ہے، دوسرے زینے پر صالحین ہیں، تیسرے پر شہداء، چوتھے پر صدیقین، اور سیڑھی چڑھ کر انبیاء علیہم السّلام ہیں، درجِ ذیل نقشہ کو دیکھئے:

۱۸۲

۸۔ الف: ویسے تو عالمِ ناسوت میں سب لوگ رہتے ہیں، لیکن صرف مومنین ہی عروج و ارتقاء کی سیڑھی کے پہلے زینے پر پہنچ گئے ہیں، سیڑھی پر رکنا ممکن ہے، مگر گمراہی ناممکن (۰۳: ۱۰۱)۔ ب: صالحین بھی دوسرے تمام انسانوں کے ساتھ اسی دنیائے ظاہر میں رہتے ہیں، لیکن ان کی روحانی رسائی دوسرے زینے پر عالمِ ملکوت تک ہوئی ہے، جہاں وہ نور کی روشنیوں کو دیکھ رہے ہیں، اور ان کے عالمِ شخصی کی زمین کی اصلاح ہو رہی ہے۔ ج: شہداء دو قسم کے ہیں: ظاہری اور باطنی، ظاہری شہادت کا حال کسی پر پوشیدہ نہیں، باطنی شہید وہ ہے جو راہِ خدا (روحانیّت) میں جیتے جی مارا جاتا ہے، یا یوں کہا جائے کہ وہ منزلِ عزرائیلی سے گزر جاتا ہے، اور قیامت کی معرفت حاصل کرنے لگتا ہے، عالمِ جبروت میں صفاتِ الٰہیہ کا نورانی ظہور ہوتا ہے۔ د: صدیق (ولی) کی رسائی عالمِ لاہوت تک ہوتی ہے، جہاں وہ ذاتِ خدا میں فنا ہو جاتا ہے، اور اس کو دستِ قدرت کا لپیٹا ہوا سمیٹا ہوا سب سے عظیم خزانہ مل جاتا ہے، جس میں کلیدی نوعیت کے بھید ہی بھید ہیں، اب ایسا شخص جب علم بیان کرے گا، تو نہایت ہی سچ بولے گا، کیونکہ اس کا بیان ان ازلی اور ابدی اسرار یعنی بھیدوں کی روشنی میں ہے، جن کو اس نے عالمِ لاہوت میں دیکھا ہے، پس وہ اسی معنیٰ میں صدیق (نہایت سچ بولنے والا) ہے۔ ھ: نبی پہلے صاحبِ ولایت ہوا کرتا ہے، اور اس کے بعد مرتبۂ نبوّت پر فائز

 

۱۸۳

 

ہو جاتا ہے، نبی کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ حکم ہوتا ہے کہ وہ اپنی نبوّت کا اعلان کر کے لوگوں کو خدا کی طرف بلائے، مگر ولی کو ایسا کوئی حکم نہیں ہوتا، ہاں وہ اپنے پیغمبر کے تحت کام کرتا ہے، نبوّت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر آکر ختم ہوئی، مگر سلسلۂ ولایت جاری و باقی ہے۔

۹۔ جبرائیل علیہ السّلام کا مقام جبروت ہے، اور وہ وہاں سے اوپر نہیں جا سکتا ہے، کیونکہ جبریل ایک ایسا فرشتہ ہے جو کسی پیغمبر یا ولی کے ارتقائی سفر میں ساتھ ہوتا ہے، لیکن چونکہ لاہوت عالمِ وحدت ہے، اس لئے اس میں دو ہستیوں کی دوئی ایک ساتھ داخل نہیں ہو سکتی ہے، صرف ایک ہی فرد وہاں تک جا سکتا ہے، اور وہ بھی ہر طرح سے مجرد اور فنا ہو کر، جیسا کہ فنا ہو جانے کا حق ہے۔

۱۰۔ قرآنِ کریم میں حضرت ادریس علیہ السلام کا ایک تذکرہ اس طرح فرمایا گیا ہے: (ترجمہ:) اور (اے رسول) قرآن میں ادریس کا بھی تذکرہ کرو اس میں شک نہیں کہ وہ صدیق (ولی اور) نبی تھے (۱۹: ۵۶) اور ایسا ارشاد حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں بھی ہے (۱۹: ۴۱) اس مثال سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ ہر پیغمبر پہلے ولی ہوتا ہے، اور اس کے بعد نبی، اب یہاں مذکورہ ڈایاگرام کی روشنی میں ایک اہم سوال کا جواب دیا جاتا ہے، اور وہ سوال یہ ہے، جو پوچھا جاتا ہے کہ: عورت کی روحانی ترقی کس حد تک ممکن ہے؟ آیا کوئی

 

۱۸۴

 

خاتون کسی زمانے میں پیغمبر نبی تھی یا نہیں؟ اگر نہیں تو اس کا کیا سبب ہو سکتا ہے؟ بطورِ جواب عرض ہے کہ عورت کی روحانی ترقی اور مرد کی روحانی ترقی میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ جائے بازگشت اور منزلِ فنا دونوں کے لئے ایک ہی ہے، اور وہ عالمِ لاہوت ہے، جہاں سب کو فرداً فرداً فنا ہو جانا ہے، چنانچہ خواتین کی روحانی ترقی کی ایک روشن مثال حضرت مریم علیہا السّلام سے متعلق ہے، کہ آپ صدیقہ تھیںِ جس کا ترجمہ ہے ولی خاتون یا ولیہ، یعنی وہ کامل اولیاء اللہ میں سے تھیں، مذکورہ نقشے میں دیکھئے کہ صدیقین کی آخری منزل لاہوت ہے، پس یقیناً بی بی مریم صدیقہ (۰۵: ۷۵) اور ان جیسی نیک بخت خواتین کی پاکیزہ روحیں ملکوت تک پہنچ سکتی ہیں، میرے خیال میں مساواتِ رحمانی کے اس روشن ثبوت کی وجہ سے سوال کے باقی حصے کو خود بخود ختم ہو جانا چاہئے۔

۱۲ رمضان المبارک ۱۴۰۶ھ / ۲۲ مئی ۱۹۸۶ء

۱۸۵

قرآن میں جسمانی شفاء

۱۔ قرآنِ حکیم اللہ تبارک و تعالیٰ کی عدیم المثال حکمت آگین کتاب ہے، یہ بابرکت ہدایت نامۂ سماوی انسان کے دین و دنیا کی صلاح و فلاح سے متعلق مکمل و شافی ہدایات و تعلیمات پر مبنی ہونے کی وجہ سے ہر گونہ صحت و سلامتی کے حکیمانہ اسرار سے مملو (پُر) ہے، یہ صرف عقیدہ ہی نہیں، بلکہ حقیقت بھی یہی ہے، کہ قرآنِ عظیم خدائے واحد کا کلامِ قدیم اور خزانۂ ازل ہے، یعنی جہاں یہ عالی مرتبت کتاب کلمۂ “کُنۡ” اور قلمِ الٰہی میں نورِ اوّل اور سرِ اسرار کی حیثیت سے ہے، اور جس عظمت و بزرگی اور نورانیّت سے لوحِ محفوظ میں ہے (۴۳: ۰۴، ۸۵: ۲۲) وہاں قرآنِ کریم ہر درجہ پر ایک انمول خزینہ ہے، اور آپ البتہ قانونِ خزائن (۱۵: ۲۱) سے باخبر ہیں، جس کی بہت بڑی اہمیت کی بناء پر بار بار تذکرہ ہوتا رہا ہے، کیونکہ انتہائی ضروری قوانین کا ذکر کثرت سے ہوتا ہے، پس ہر چیز خداوند تعالیٰ کے مذکورہ خزانوں سے نازل ہوتی ہے، چنانچہ تاریخِ انسانیت کے آغاز سے لے کر آج تک دینی اور

 

۱۸۶

 

دنیوی علوم و فنون کو جیسے ابتدائی وجود ملا، اور جس طرح ان میں اضافہ و ترقی ہوتی آئی ہے، وہ سب قرآنِ پاک کے نورانی سرچشموں کی بدولت ہے۔
۲۔ ہم یہاں یہ بھی عرض کریں گے کہ قرآنِ حکیم کے بے مثال اور تمام علوم کے جامع ہونے کا ایک روشن ثبوت یہ ہے کہ یہ عالمِ بالا سے امرِ کُنۡ، قلمِ الٰہی، لوحِ محفوظ اور خزائنِ خدا کی خصوصیات، خوبیوں، حقائق، اور معارف سے بدرجۂ کمال آراستہ کر کے نازل کیا گیا ہے، لہٰذا حق بات تو یہ ہے کہ قرآن پاک بنی نوعِ انسان پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان ہے، کہ اس میں آدمی کے دین و دنیا اور جسم و روح کی بہتری اور سلامتی کی کامل ترین ہدایات کا بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹)۔

۳۔ اب ہم نفسِ مضمون کی طرف آتے ہیں، جس میں عنوانِ بالا کے مطابق یہ مدلل بیان کرنا ہے کہ کس طرح قرآنِ حکیم میں روحانی شفاء کے ساتھ ساتھ جسمانی شفاء کے رموز بھی موجود ہیں، چنانچہ اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ یقین ضروری ہے کہ جس چیز کو قرآن نے حرام قرار دیا ہے، وہ یا جسم و روح دونوں کے لئے مضرِ صحت ہے، یا ایک کے لئے، اور جو شیٔ حلال ہونے کے علاوہ حدِ اعتدال کے اندر ہو، وہ جسم و جان کی سلامتی کے لئے ضامن ہو سکتی ہے، اگرچہ قرآن اور اسلام کے ہر حکم کا مقصدِ اعلیٰ اللہ پاک کی خوشنودی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، لیکن اس اخلاصِ عمل سے جو عظیم ثواب [نیک بدلہ] ملتا ہے، وہ

 

۱۸۷

 

نہ صرف آخرت ہی میں ہے، بلکہ دنیا میں بھی ہے، اور دنیا کے ہر ثواب میں جان و تن ایک ساتھ ہیں، مثال کے طور پر اسلام میں جو پاکیزگی کی اہمیت ہے، اس پر سائنس کی روشنی میں ذرا غور کیجئے، یا نماز کے قیام و قعود، اور رکوع و سجود کو طبی نکتۂ نظر سے دیکھئے، یا روزۂ رمضان کے باب میں اسی طرح سوچئے، غرض آنکہ قرآنی تعلیمات میں کوئی گوشہ ایسا نہیں، جس میں عقل و روح کی بہتری کے ساتھ ساتھ بحدِّ امکان جسمانی صحت پیشِ نظر نہ ہو۔

۴۔ قرآنِ حکیم میں جسمانی شفاء اور اس کی بہت بڑی اہمیت کا اندازہ اس آیۂ کریمہ سے بھی لگایا جا سکتاہے، جس میں حکیمِ برحق اور طبیبِ مطلق نے شہد کی طبی تاثیر اور منفعت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے، خدائے دانا و بینا کا وہ پُرحکمت فرمان یہ ہے: فیہ شفآء للناس (۱۶: ۶۹) اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے۔ یاد رہے کہ یہاں لفظِ ناس (لوگ) مطلق ہے، یعنی اس میں زمان و مکان، عمر وغیرہ کی کوئی قید و شرط نہیں، سو اس کا مطلب یہ ہوا کہ شہد نہ صرف ہر قسم کے مریضوں کے واسطے اکسیر کا کام دیتا ہے، بلکہ یہ ہر عمر کے تندرست لوگوں کے لئے بھی بدرجۂ انتہا مفید ہے، خواہ وہ کسی گرم ملک میں رہتے ہوں، یا سرد علاقے میں، چاہے زمانۂ قدیم کے لوگ ہوں، یا جدید سائنسی دور کے، کسی بھی فرق و امتیاز کے بغیر شہد سارے انسانوں کے لئے بے حد مؤثر اور فائدہ بخش ہے، اس سے یہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ شہد تمام بیماریوں

 

۱۸۸

 

کے لئے دوا ہے، کیونکہ مذکورہ آیۂ مبارکہ ہر ہر بیماری کو چیلنج (Challenge) کرتی ہے، اور یہاں یہ نکتہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ جملہ اقسام کے پھولوں اور پھلوں کی طبی اور ادویاتی تاثیر و فائدہ رسانی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، جبکہ خدائے علیم و حکیم نے شہد کی مکھی سے فرمایا کہ: پس ہر قسم کے پھلوں سے رس چوستی پھر (۱۶: ۶۹)۔

۵۔ آپ نورِ قرآن کی روشنی میں لفظِ برکت اور موضوعِ برکت میں خوب غور کیجئے ، ان شاء اللہ ، آپ کی گرانقدر معلومات میں اضافہ ہو جائے گا، برکت کی عظمت و بزرگی کا یہ عالم ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس اور اسمِ بزرگ کے لئے وارد ہوئی ہے (۰۷: ۵۴، ۵۵: ۷۸) برکت کا مطلب ہے فیوض کی کثرت اور اس کا دوام، پھر خانۂ کعبہ اور قرآنِ کریم کے لئے لفظِ مبارک (برکت والا) استعمال ہوا ہے (۰۳: ۹۶، ۰۶: ۹۲) پروردگارِ عالم نے مادّی برکتیں پہاڑوں اور بارش کے پانی میں رکھی ہیں (۴۱: ۱۰، ۵۰: ۰۹) خدائے پاک نے کسی درخت، پھل، اور تیل کو براہِ راست برکت والا نہیں فرمایا، مگر درختِ زیتون، میوۂ زیتون، اور روغنِ زیتون کو (۲۴: ۳۵) یقیناً اس کے مرادی معنی کچھ اور ہو سکتے ہیں، لیکن لغوی معنی شجرۂ زیتون ہی ہیں، پس اس کی برکت پہاڑ اور پانی کی برکت سے بالکل مختلف ہے، اور وہ ہے اس کی زبردست طبّی تاثیر اور ادویاتی قوّتوں کی فروانی، آپ طب کی کتابوں میں بھی دیکھیں۔

۶۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں جن جن چیزوں کی قسم کھائی ہے، ان میں کچھ بھید ہوا کرتے ہیں، مثلاً ذاتِ پاک نے درختِ انجیر اور درختِ

 

۱۸۹

 

زیتون کی قسم کھائی ہے (۹۵: ۰۱) اس میں کئی اسرار پوشیدہ ہیں، اور ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ میوۂ انجیر اور روغنِ زیتون میں صحت کے دو خزانے پنہان ہیں۔

۷۔ تمام میوؤں میں جسمانی شفاء ہے، لہٰذا ان سے علاج کیا جا سکتا ہے، اور اس حقیقت کے دلائل یہ ہیں: الف: میوے سب کے سب بہشت کے ربّانی خزانوں سے نازل ہوئے ہیں (۱۵: ۲۱)۔ ب: پھلوں کو بارانِ رحمت کی برکت حاصل ہے (۵۰: ۹)۔ ج: ثمرات ایک معنی میں امن و امان والے حرم (خانۂ کعبہ کی چار دیواری) کے تبرک ہیں (۲۸: ۵۷)۔ و: یہ بھی پھلوں کی ایک بہت بڑی فضیلت ہے کہ جنت کی نعمتوں کی تشبیہہ میوؤں سے دی گئی ہے (۴۷: ۱۵)۔ ھ: جس طرح اللہ تعالیٰ کائنات کو لپیٹ کر لولوئے مکنون بناتا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) اسی طرح عالمِ ظاہر میں دستِ قدرت درخت کی بے مزہ لکڑی کو نچوڑ کر خوشبودار اور خوشذائقہ پھل بناتا ہے، اور یہ اہلِ بصیرت کے لئے بہت بڑا معجزہ ہے، پس عقل و روح کے لئے وہ موتی دوا ہے، اور جسم کے لئے یہ پھل دوا ہے۔

۸۔ پہاڑوں کے ظاہر و باطن میں گوناگون مادّی برکتیں موجود ہیں، ان برکتوں میں بے شمار طبی جڑی بوٹیاں (Medicinal Herbs) بھی ہیں، جن کی دولت رہتی دنیا تک ختم نہیں ہو سکتی ہے، شاید آپ نے کسی پہاڑ کے سبزہ زار کی دل آویز بہار اور خودرو پھولوں کی طراوت و تازگی

 

۱۹۰

 

دیکھی ہوگی، دراصل منظرِ گل ہائے رنگین کی یہ کشش ایک دعوتِ فکر ہے کہ ان میں سے ہر پھول میں بڑی قیمتی دوا ہے، جیسے جنگلی گلاب (Wild Rose) اپنے مسرّت بخش رنگ و بو کی زبانی آپ سے کہتا ہو کہ دیکھئے میرے گنجینۂ وجود میں شفا کی ایک دولت پوشیدہ ہے۔

۹۔ ارشادِ قرآنی کا ترجمہ ہے: پھر اُس (پانی) کے ذریعہ سے ہم نے رونق دار باغ اگائے (۲۷: ۶۰) سبحان اللہ! باغوں کی دل نواز رونق! سبزۂ نوخیز ہے یا فرشِ زمردین! ٹھنڈے ٹھنڈے سایوں میں اشجار کی گل افشانی اور عطر بیز خوش گوار ہوا! خوش الحان پرندوں کی نغمہ خوانی! بیدِ مجنون کی شاخوں کا جھولنا! سپیدار (Poplar)  کا جھومنا! اور بہت سے ایسے دلفریب مناظر باغ کی رونق میں شامل ہیں، جن کو دیکھنے سے طبیعت کی افسردگی دور ہو جاتی ہے، اور یہ ایک بنیادی علاج ہے۔

۱۰۔ تمامتر جسمانی بیماریوں کے سدِ باب کے لئے کام کاج، اور ورزش و حرکت بہت ہی ضروری ہے، کیونکہ قانونِ قرآن کا مفہوم ہے کہ انسان کی ظاہری اور باطنی تخلیق و تکمیل محنت و مشقت کے بغیر نا ممکن ہے (۹۰: ۰۴) کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی (۰۲: ۲۳۳) آدمی جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، تو قانونِ فطرت اس کو ابتدائی حرکت کے لئے مجبور کرتا ہے، جس وقت وہ پیدا ہو جاتا ہے، تو یہ حرکت جو بظاہر غیر منظم ہے، روز بروز اضافے کے ساتھ قوّی سے قوّی تر ہوتی جاتی ہے، غرض یہ کہ دائمی حرکت اور محنت میں صحت و کامیابی کا عظیم

 

۱۹۱

 

راز پوشیدہ ہے۔

۱۱۔ بعض لوگ اس بات سے ڈر جاتے ہیں کہ اگر انہیں شب خوابی کا وقت کم ملا، تو وہ بیمار ہو جائیں گے، ہر چند کہ ان کی اپنی عادت کی وجہ سے یہ بات درست بھی ہو سکتی ہے، لیکن اصل حقیقت وہی ہے، جس کی تعلیم قرآنِ حکیم دیتا ہے، وہ یہ کہ جن مومنین کو دین و دنیا کی ترقی اور کامیابی عزیز ہو، ان کو بہت ہی کم سونا ہے (۲۵: ۶۴، ۵۱: ۱۷) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنتِ مطہرہ بھی یہی طریقہ سکھاتی ہے، شروع شروع میں ریاضت تو لازمی ہے، مگر جس عمل کے لئے قرآنِ پاک حکم دے، اس میں کوئی بیماری نہیں، صرف صحت ہی صحت ہے۔

۱۲۔ روحانی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے؟ نفسِ حیوانی، یا نفسِ امّارہ، جس کو آپ ہٹا تو نہیں سکتے ہیں، مگر اس کی تطہیر و تحلیل کر سکتے ہیں، وہ یہ کہ اس کو اس کی خواہشات سمیت پامال کیا جائے، یعنی روندا جائے، روندنے کے کئی طریقے ہیں، مگر سب سے مؤثر طریقہ شب خیزی (اور عبادت) ہے (۷۳: ۰۶) یہ طریقہ نفس کو کچل دینے کے ساتھ ساتھ بات کو بھی بہت سیدھا کرنے والا ہے، یہاں بات سے اوّل تو عبادت و ذکر مراد ہے، اور دوم ہر قسم کی گفتگو، کہ شب بیداری سے نہ صرف بندگی کے لب و لہجہ میں نکھار پیدا ہو جاتا ہے، بلکہ اس کی برکت سے کلام اور بیان بھی ہر قسم کی لغزشوں سے پاک ہو کر مقبولِ خاص و عام اور دل نشین ہو جاتا ہے۔

۱۹۲

۱۳۔ جب آپ اچھی طرح مسواک کرتے ہیں، خوب نہا دھو کر صاف ستھرے لباس پہنتے ہیں، اور کسی پاک جگہ میں عبادت کرتے ہیں، تو اس سے آپ کی یکسوئی میں مدد ملتی ہے، اور عبادت سے زیادہ سے زیادہ لذّت حاصل ہو جاتی ہے، ایسی روحانی حلاوت و شادمانی کا راز کیا ہے، جس میں مادّی چیزوں کا سہارا لیا گیا ہے؟ وہ راز یہ ہے کہ روح جب تک اس دنیا میں سے، جسم سے وابستہ ہے، اور جب تک بدن زندہ ہے تو روح کے ساتھ ہے، چنانچہ یہ امر لازمی ہے کہ روحانی صحت و صفائی سے جسم کے ہر کام میں مدد ملے، اور اسی طرح جسمانی صحت مندی روح کے لئے کام آئے۔

۱۴۔ جسم و جان کی صحت اور روحانی حکمت اسی میں ہے کہ آپ شام کو خدا کا نام لے کر بر وقت سو جائیں، اور خداوندِ بزرگ و برتر کے اس احسانِ عظیم کا شکر بجا لائیں کہ اس مہربان نے اپنی رحمتِ بے پایان سے آپ کے سلا دینے کی خدمت حضرت عزرائیل کو دی، اور جگا دینے کے لئے حضرت اسرافیل کو مقرر فرمایا، اگر آپ نے حقیقی معنوں میں خدا و رسول کی اطاعت کی، تو یقیناً دیکھیں گے کہ یہ دونوں عظیم فرشتے آپ سے کیسی معجزاتی دوستی کرتے ہیں (۲۱: ۱۰۳،۴۱: ۳۰ تا ۳۱) آپ شروع شروع میں محنت کریں، اور سورۂ مزمل (۷۳) کے حکم کے مطابق نصف شب کو یا قدرے آگے پیچھے اٹھا کریں، ماسواء اللہ کو فراموش کرکے اسمِ خدا میں کھو جانے کے لئے دل کی نرمی از حد

 

۱۹۳

 

ضروری ہے، مثل مشہور ہے: ’’مشتے نمونہ از خر وارے‘‘۔ چنانچہ ہم نے ’’قرآن میں جسمانی شفاء‘‘ کے بارے میں صرف چند ہی مثالوں پر اکتفا کیا۔

والسلام

۱۸ رمضان المبارک ۱۴۰۶ھ / ۲۸ مئی ۱۹۸۶ء

۱۹۴

 

بعض اہم مشورے

۱۔ قرآنِ حکیم کے بہت سے مقامات پر جس طرح حکمت سے بھرپور الفاظ میں بہشتِ برین کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، اس پرہم مسلمانوں کا ایمان و یقین ہے، لیکن ایک ایسی بلند ترین مرتبت بھی ہے، جو جنت سے بدرجہ ہا بہتر اور بہت بڑی ہے، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کیا چیز ہے؟ جی ہاں، وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی [رضوان اللہ، ۰۹: ۷۲] ہے، اللہ کی رضا یا خوشنودی کے حصول کا طریقِ کار کیا ہو سکتا ہے؟ خدا و رسول کے ہر حکم کو ایسی خالص نیت سے بجا لانا، کہ اس میں اللہ کی رضا کے سوا اور کوئی مقصد پیشِ نظر نہ ہو، یہ ہے خلوصِ نیت، یعنی ارادۂ دل کی پاکیزگی اور صحت، بے شک بفرمودۂ حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اعمال کی درستی و نادرستی کا دارومدار نیتوں پر ہے، پس ہر نیکی کا اصل و اساس نیت ہے، پھر قول، اور اس کے بعد عمل ہے۔

۲۔ حسنِ توفیق یا قلبی ہدایت (۱۱: ۸۸، ۶۴: ۱۱) کے لئے نہ صرف ہر نماز کے

 

۱۹۵

 

بعد بلکہ ہمیشہ دعا کیجئے ، اس میں انتہائی عاجزی اور اظہارِ حاجتمندی کی ضرورت ہے، تاکہ دل میں کوئی کدورت باقی نہ رہے، اور درگاہِ خداوندی سے رجوع ہو، دعا اپنی زبان میں بھی ہو سکتی ہے، تاکہ صورتِ حال سے متعلق درد بھری فریاد سے دل پگھل جائے، اور خدائے مہربان کو آپ کی اس حالت پر رحم آئے مگر یہ نکتہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس میں کوئی تغیر نہیں، کہ کبھی اس کو غصہ اور کبھی رحم آتا ہو، لیکن حالات کے مطابق یہ تبدل نورِ خدا کی ان شعاعوں میں واقع ہوتا ہے، جو ہر آدمی کے باطن پر پڑتی رہتی ہیں، چنانچہ اگر دورانِ دعا آپ کی سنجیدہ گریہ و زاری ہو رہی ہے، یا دل خوب نرم سے نرم تر ہو رہا ہے، تو یقین کریں کہ خداوند تعالیٰ آپ پر نظرِ رحمت ڈال رہا ہے۔

۳۔ اگر کسی وصف کی وجہ سے لوگ آپ کی تعریف کرتے ہیں، تو شکر گزاری کے آنسو بہاتے ہوئے عجز و انکساری کے دریائے سلامتی میں ڈوب جانا، تاکہ فخر و غرور کا مرض نہ ہو سکے، اور اگر مخالفت کرتے ہیں، تو صبر کا راستہ اختیار کرنا، اور ہر حال میں خدا کو کثرت سے یاد کریں، کیونکہ اسی کے قبضۂ قدرت میں ہر چیز ہے، اور وہی حکمت والا ہے، مثل ہے: “خدا شرے بر انگیزد کہ خیرِ ما دران باشد۔” یعنی خدا ایسا قادرِ مطلق ہے کہ اگر چاہے تو شر سے بھی خیر بنا سکتا ہے۔

۴۔ اپنے شدید غصّے کا علاج کئی طرح سے کیا جا سکتا ہے: الف: وہ غصہ جس سے دل پر ضرب پڑتی ہو، جو سخت اور بے معنی ہو، وہ خطرناک ہے، ایسے غصے کا علاج ضروری ہے، وہ یہ کہ آپ حلیمی سیکھئے،

 

۱۹۶

 

اور اسی سے علاج کیجئے، ورنہ اس کے نتائج برے ہو سکتے ہیں۔ ب: غیظ و غضب کی کیفیت کسی کڑوی دوا کی طرح ہے، آپ ہر بار اسے پیتے رہیں، جیسا کہ قول ہے: شفا بایدت داروئے تلخ نوش (اگر تجھ کو شفاء چاہئے، تو تلخ دوا پی لے) سورۂ آلِ عمران کی آیت ۱۳۳ تا ۱۳۴ (۰۳: ۱۳۳ تا ۱۳۴) کو خوب غور سے دیکھئے کہ وہ جنّت جو کائنات کے برابر ہے، پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے، اور پرہیزگاروں کے چند بڑے اوصاف یہ ہیں: (ترجمہ:) ایسے لوگ جو خرچ کرتے ہیں فراغت میں اور تنگی میں اور غصے کے ضبط کرنے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور اللہ تعالیٰ ایسے نیکوکاروں کو محبوب رکھتا ہے، اسی طرح اپنے غصے کے علاج کا کورس چالیس دن تک جاری رکھیں، ان شاء اللہ غصہ بڑی حد تک کم ہو جائے گا، اگر ایک کورس سے مقصد پورا نہ ہو، تو دوسرا کورس بھی ہو سکتا ہے۔

۵۔ قرآنِ کریم اور دینِ اسلام میں چالیس کے عدد کی بہت بڑی اہمیت ہے، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ۴۰ دن کی مدت میں تمام انسانی بدن کی تجدید ہو جاتی ہے، یعنی جسم کا ذرہ ذرہ یا ہر ہر خلیہ ازسرِ نو بنتا ہے، اور وجودِ آدمی کی شکست و ریخت اور مرمت کا یہ عمل تا حیات جاری رہتا ہے، چنانچہ اگر کوئی بندۂ مومن فرائض کے علاوہ چالیس دن تک بطریقِ خاص کثرت سے خدا کو یاد کرے ، یا معتکف (گوشہ نشین) ہو جائے، یا کوئی مخفی عبادت کرتا رہے، تو امید ہے کہ اس میں کچھ نہ کچھ انقلاب آئے گا، کیونکہ ان چالیس دنوں میں جسم و جان دونوں کی پاکیزگی

 

۱۹۷

 

ہوتی ہے۔

۶۔ جس کا علم محدود ہوتا ہے، وہ تھوڑے لوگوں کا خیر خواہ ہوا کرتا ہے، اور جس کا علم بڑا وسیع ہوتا ہے، وہ جملہ خلائق کی خیر خواہی کر سکتا ہے، جیسے عظیم فرشتے علم و حکمت کے زندہ خزانے ہوا کرتے ہیں، اور وہ کسی فرق و امتیاز کے بغیر تمام اہلِ زمین کے خیر خواہ ہیں، جبکہ وہ ان سب کے لئے معافی مانگتے ہیں، جو کرۂ ارض پر رہتے ہیں (۴۰: ۰۷) اور سفارش کرتے ہیں (۵۳: ۲۶) ہر چند کہ یہ قانون اپنی جگہ پر ہے کہ آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی فرماتا ہے، غرض یہ ہے کہ آپ علم کے ساتھ ساتھ اپنے دائرۂ خیر خواہی کو بڑھاتے جائیے۔

۷۔ مسلمانوں کی خیر خواہی بطورِ خاص کیجئے ، کیونکہ وہ تو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جان و دل سے مانتے ہیں، اور وہ قرآنِ پاک کے اس حکم پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ آنحضرت خدائے بزرگ و برتر کی جانب سے کل جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں (۲۱: ۱۰۷) اور جہانوں (عالمین) سے سب انسان مراد ہیں، اس کے یہ معنی ہوئے کہ حضورِ انور بتوسطِ جملہ انبیاء تمام زمانوں کے سارے انسانوں کے لئے رحمت ہیں، لیکن پھر بھی شاید آپ کا یہ سوال ہو کہ: “مومن اور کافر کے فرق کے بغیر اور بہشت و دوزخ کے ابدی وجود کے باوصف یہ امر کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ سب لوگوں پر یکسان رحمت ہو؟” اس باب میں میری گزارش یہ ہے کہ مومن، کافر، بہشت اور دوزخ کے بارے

 

۱۹۸

 

میں جو کچھ ارشادِ ربّانی ہے، اس میں کسی مسلمان کو کیا شک ہو سکتا ہے، تاہم یہ بھی ایک قرآنی دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام دنیائے انسانیّت کے لئے رحمت ہیں، پس آپ کو مشورہ ہے کہ سورۂ ہود (۱۱) کی آیت ۱۰۷ تا ۱۰۸ (۱۱: ۱۰۷ تا ۱۰۸) میں خوب فکری ریاضت کریں، ان شاء اللہ سوال کا جواب بحسن و خوبی مل جائے گا۔

۸۔ ان دونوں پُرحکمت آیتوں کا ایک مستند ترجمہ یہ ہے: وہ ہمیشہ (دوزخ) میں رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں، الا یہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے، بے شک تیرا ربّ پورا اختیار رکھتا ہے کہ جو چاہے کرے، رہے وہ لوگ جو نیک بخت نکلیں گے، تو وہ جنت میں جائیں گے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں، الا یہ کہ تیرا ربّ کچھ اور چاہے، ایسی بخشش ان کو ملے گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو گا (۱۱: ۱۰۷ تا ۱۰۸)۔

۹۔ اگر آپ یہاں مذکورہ دونوں آیتوں سے متعلق غور و فکر کرنے کے لئے سوال و جواب سے کام لیں، تو بہتر ہوگا، مثال کے طور پر: سوال: الف: زیرِ بحث آیتوں میں جیسا کہ حکمِ خداوندی ہے، آیا اس کا اطلاق عالمِ کبیر پر ہوتا ہے؟ یا عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) پر؟ یا دونوں پر؟۔ دونوں پر اطلاق ہوتا ہے، کیوں؟ اس لئے کہ یہ دونوں خدائے واحد کے ایک ہی قانون کے تحت ہیں۔ ب: اگر ایسا ہے تو عالمِ شخصی کے حقائق و معارف کو بھی ملحوظِ نظر رکھنا ہو گا، کیونکہ یہاں جیسی مثال ہے، وہاں یعنی عالمِ کبیر میں ویسا ممثول ہے۔ ج: آیۂ کریمہ میں دوزخ کی مدتِ

 

۱۹۹

 

عمر کا کیا اندازہ بتایا گیا ہے؟ جب تک آسمان و زمین قائم ہیں، تب تک دوزخ باقی رہے گا۔ د: کیا اس ارشادِ ربّانی میں کوئی ایسا اشارہ بھی موجود ہے، جس کا مطلب یہ ہو کہ کائناتِ ظاہر و باطن ایک دن فنا ہو جائیں گی، یا دستِ قدرت میں لپیٹ لی جائیں گی؟ جی ہاں، یہی اشارہ ہے۔ ھ: کیا ایسے میں دوزخ کی عمر ختم نہیں ہوگی؟ ضرور ختم ہو گی۔

۱۰۔ عالمِ شخصی کی مثال میں جب خدائے بزرگ و برتر ارض و سما کو دستِ راست میں لپیٹ لیتا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) تو یہ وہ دن ہوتا ہے جس میں دوزخ تو ختم ہو جاتا ہے، اور بہشت نزدیک لائی جاتی ہے (۵۰: ۳۱) کیونکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ خیر اور بہشت کی سلطنت ہے (۰۳: ۲۶، ۳۶: ۸۳) مگر وہ پاک و برتر اپنی بابرکت مٹھی میں دوزخ کو نہیں لیتا، اس لئے کہ وہ شر ہے، پس خداوندِ عالم بالآخر شر اور باطل کو فنا کر ڈالتا ہے (۲۱: ۱۰۸)۔

۱۱۔ اگر ہم قرآنِ مجید کے اس قانون کو سمجھیں کہ ہر چیز کا سفر گول ہے (۲۱: ۳۳، ۴۶: ۴۰) تو ماننا پڑے گا کہ لوگ جس طرح پہلے کبھی ایک ہی امت تھے (۰۲: ۲۱۳) اسی طرح اہلِ دنیا آگے چل کر پھر متحد ہو جائیں گے، نیز یہ سب کے سب جیسے ازل میں فردِ واحد تھے، ویسے ابد میں بھی ایک ہی ہستی ہوں گے (۰۶: ۹۴) اس بات میں بھی بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے کہ لفظِ انسان، جو صیغۂ واحد ہے، یہ قرآنِ حکیم میں بطورِ واحد وارد ہوا

 

۲۰۰

 

ہے، مگر یہ کہ سورۂ فرقان (۲۵: ۴۹) میں اناسی آیا ہے، اور سارے انسانوں کو ایک ہی عادت کے ذمہ دار ٹھہرا کر اور ایک ہی انا سے منسلک کرتے ہوئے نصیحت فرمائی گئی ہے، شاید اس لئے کہ اسلام آفاقی دین ہے، لہٰذا اس میں انسانی وحدت کی بہت بڑی اہمیت ہے، پس تمام لوگوں کی خیر سگالی مومنین کی اعلیٰ صفات میں سے ہے۔

۱۲۔ سورۂ نساء کے اس ارشادِ مبارک میں جملہ خلائق کی خیر خواہی کا یہ عظیم بھید پوشیدہ ہے (ترجمہ): جو شخص اچھی سفارش کرے اس کو اس کی وجہ سے حصہ ملے گا اور جو شخص بری سفارش کرے اس کو اس کی وجہ سے حصہ ملے گا (۰۴: ۸۵)۔ اچھی سفارش کیا ہے؟ لوگوں کی خیر خواہی، دعائے نیک، اور انسانیّت کی خدمت ہے، کہ اس میں نیت، قول، اور فعل آ گیا، اور اگر ایسی سفارش علم کی روشنی میں کی جائے، تو بہت مفید ہو سکتی ہے، ظاہر ہے کہ اس آدمی کو فائدہ ملے گا، جو یہ سفارش کرتا ہو، بری سفارش کیا ہے؟ لوگوں کی بدخواہی، لعن طعن، گالی گلوچ، دعائے بد، فساد اور تخریب کاری، جس کے مرتکب کو نقصان ہو گا۔

۱۳۔ حسد، دشمنی اور کینہ جیسے اخلاقی امراض سے خدا بچائے! ایسا ہر مرض ایک آسمانی عذاب ہے، جو نافرمانی کی وجہ سے نازل ہو جاتا ہے، چنانچہ دانشمند مومنین وہ ہیں، جو اپنے دل کو ذکرِ الٰہی اور خیر خواہی کا مسکن بناتے ہیں، جس میں کوئی برا خیال داخل نہیں ہو سکتا، اور اگر کسی طرح سے داخل ہو گیا تو ٹھہر نہیں سکتا ہے، کیونکہ ذکرِ خدا برکتوں کا عظیم طوفانی

 

۲۰۱

 

سرچشمہ ہے (۵۵: ۷۸، ۲۹: ۴۵) جس کے سیلابی بہاؤ کے ساتھ ہر چیز بہہ جاتی ہے، اور کوئی شیٔ ان موجوں کو چیر کر قلب کو چھو نہیں سکتی، اور یہ اس وقت کی بات ہے، جبکہ خدائے بزرگ و برتر کا سب سے بڑا نام کثرتِ ذکر سے قیامت خیز ہو جاتا ہے۔

۱۴۔ اللہ تعالیٰ کی کتابِ عزیز (قرآن) کو زندگی بھر عقیدت و احترام کے ساتھ سینے سے لگائے رکھئے، اس کی تعلیمات پر جان و دل سے عمل کرتے رہیں، اس کے حکیمانہ بھیدوں (حکمتوں) کو سمجھنے کے لئے بجا طور پر ریاضت کا عمل جاری رکھیں، اور اسی طرح قرآنی علاج کے اسرار سے واقف و آگاہ ہو جائیے، اگر آپ اس پُرآشوب زمانے میں قرآنِ پاک سے وابستہ رہتے ہوئے اس کی کوئی خدمت کریں، تو عجب نہیں کہ اس پسندیدہ کام کے عوض میں خداوند تعالیٰ آپ کو دونوں جہان میں نوازے، کیونکہ قرآنی خدمت کا ثواب انتہائی عظیم ہوا کرتا ہے۔

۱۵۔ قرآنِ حکیم میں مادّہ کے لحاظ سے جتنے الگ الگ الفاظ ہیں، اور ان میں سے ہر لفظ کے جتنے مختلف معانی ہیں، اتنے سارے موضوعات بیان ہوئے ہیں، اگر کوئی لفظ کثرت سے مذکور نہیں، صرف دو یا ایک بار آیا ہے، تو پھر بھی وہ ایک مفصل مضمون ہے، کیونکہ ہر قرآنی لفظ کے صوری اور معنوی مترادفات ہوا کرتے ہیں، اسی طرح یہ قرآنِ کریم کا بہت بڑا معجزہ ہے کہ اس میں ہر چیز کا بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹) آخری مشورہ یہ ہے کہ آپ قرآنِ پاک کو اللہ تعالیٰ کا پُرحکمت اور بے مثال

 

۲۰۲

 

دارالعلوم (یونیورسٹی) سمجھتے ہوئے ارتقائی تصور سے اس کے حقائق و معارف کو درجہ وار پڑھتے رہا کریں، تاکہ کلّی شفاء حاصل ہو، آمین!

۲۸ رمضان المبارک ۱۴۰۶ھ / ۷ جون ۱۹۸۶ء

۲۰۳

 

 

روحانی علاج اور عقیدۂ راسخ

۱۔ روحانی یا قرآنی علاج کی سب سے اوّلین اور بنیادی شرط عقیدۂ راسخ ہے، یعنی ربّانی طب سے صرف وہی خوش نصیب لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جو قرآنِ پاک اور اس کی روحانیّت کی جملہ برکتوں پر ایمان رکھتے ہیں، اور جس شخص کو کلامِ الٰہی سے کوئی عقیدت و محبت ہی نہ ہو، وہ قرآنِ مجید کے تمام خزانوں سے دور ہے، کیونکہ دین اور روحانیّت کی ہر نعمت عقیدۂ توحید و رسالت سے وابستہ ہے، اور اس کے بغیر حقیقی معنوں میں کہیں بھی کوئی نعمت نہیں، اب یہ بات توجہ سے سن لیجئے کہ ہر عظیم چیز کو پہچاننے اور اس سے مستفید ہو جانے کے کئی مراحل یا درجات ہوا کرتے ہیں، چنانچہ قرآنی فیوض و برکات کا پہلا مرحلہ عقیدہ ہے، جو صحیح، درست، اور راسخ ہونا چاہئے، دوسرا مرحلہ علم الیقین ہے، تیسرا عین الیقین، چوتھا اور آخری مرحلہ یا درجہ حق الیقین کا ہے، پس اس بیان کی روشنی میں نہ صرف قرآنی علاج و شفاء کے بے پایان خزانوں کا پتا چلتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ

 

۲۰۴

 

کی آخری کتاب کی روح و روحانیّت، اور عظمت و جلالت کا بھی اچھی طرح سے اندازہ ہو جاتا ہے۔

۲۔ عقیدۂ راسخ دراصل ابتدائی اور بنیادی ایمان ہی کا دوسرا نام ہے، جو بتدریج آگے سے آگے چل کر درجۂ کمال پر نورِ ایمان بن جاتا ہے (۴۹: ۰۷، ۵۷: ۱۲) دوسری طرف سے یہ بھی یاد رکھئے کہ ایمان علم کے مقام پر پہنچ کر یقین کہلاتا ہے، جیسے علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین، اور یقین دیدۂ دل روشن ہو جانے کے بعد معرفت ہو جاتا ہے، پس مرتبۂ اعلیٰ پر نورِ ایمان، نورِ یقین، اور نورِ معرفت ایک ہی حقیقت ہے۔

۳۔ یہاں ایک ایسی قرآنی مثال کی ضرورت ہے، جس سے یہ حقیقت روشن ہو کہ ایمان شروع شروع میں عقیدہ، اعتقاد، بھروسہ اور باور کرنے کے معنی میں ہوتا ہے، لیکن یہی ایمان علم و عمل کی منزلوں میں پیشرفت کر کے یقین و معرفت بھی کہلاتا ہے، جبکہ مرحلۂ عین الیقین میں حقائق کا براہِ راست مشاہدہ ہو جاتا ہے، وہ مثال یہ ہے: اور جب ابراہیم نے (خدا سے) درخواست کی کہ اے میرے پروردگار تو مجھے بھی تو دکھا دے کہ تو مردہ کو کیونکر زندہ کرتا ہے، خدا نے فرمایا کیا تمہیں (اس کا) ایمان (یعنی عقیدہ، یا باور) نہیں، ابراہیم نے عرض کی (کیوں نہیں) عقیدہ تو ہے مگر (دیدۂ دل سے دیکھنا اس لئے چاہتا ہوں کہ) میرے دل کو پورا اطمینان ہو جائے (۰۲: ۲۶۰) اس سے ظاہر ہوا کہ

 

۲۰۵

 

اگرچہ ابتداء سے لے کر منزلِ آخرین تک ایمان ہی ایمان ہے، مگر اس کے کئی درجات ہیں، جبکہ شروع میں عقیدۂ محکم اور آخر میں یقین و معرفت ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے یقین کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: (ترجمہ:) اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی (روحانی) سلطنت دکھاتے رہے تاکہ وہ اہلِ یقین (عارفین) سے ہو جائیں (۷۵: ۰۶) یہ اس حقیقت کے بارے میں ایک روشن دلیل ہے کہ عقیدۂ راسخ بنیادی ایمان ہے، اور ایمانِ کامل یقین بھی ہے اور معرفت بھی۔

۴۔ عقیدۂ راسخ (مضبوط عقیدہ) کی اساسی اہمیت اور اس کے عروج و ارتقا کی افادیت پر غور کرنے کی غرض سے ذیل میں ایک نقشہ پیش کیا جاتا ہے، ملاحظہ ہو:

۵۔ اس ڈایاگرام کا نام “نقشۂ عروجِ عقیدہ” ہے، یعنی یہ ہر راسخ العقیدت مسلمان کے ایمان اور روحانی عروج و ارتقاء کا نقشہ ہے، جس میں ایک ارتقائی سیڑھی بھی ہے، جس کے زینۂ اوّل پر عقیدۂ راسخ ہے، دوسرے زینے پر علم الیقین ہے، تیسرے پر

۲۰۶

 

عین الیقین، اور چوتھے پر حق الیقین ہے، جہاں مرکزِ نور ہے، نیز یہ بھی دیکھئے کہ عقیدۂ محکم کا مطلب ایمان ہے، اور ایمان شروع سے لے کر آخر تک تمام درجات میں موجود ہے، مگر علم اور یقین دوسری منزل سے شروع ہو کر درجۂ انتہا (نور) تک پہنچ جاتے ہیں، اور مشاہدہ و معرفت کا آغاز تو منزلِ سوم سے ہوتا ہے، یاد رہے کہ مشاہدہ اور اس کا ثمرہ (یعنی معرفت) دو درجوں میں ہے، پہلا درجہ روح کا ہے، اور دوسرا درجہ نمونۂ عقل سے متعلق ہے۔

۶۔ عقیدۂ استوار کی ضرورت و اہمیت اس لئے ہے کہ اسی پر دین کی اصل و اساس قائم ہے، لہٰذا عقیدے میں کوئی سقم نہیں ہونا چاہئے، اور نہ ہی اس میں کوئی کجی کی گنجائش ہے، جیسا کہ مولوی معنوی فرماتے ہیں: خشتِ اوّل چون نہد معمار کج + تا ثریا می رود دیوار کج۔ جب عمارت بنانے والا بنیادی اینٹ ٹیڑھی رکھتا ہے، تو ایسی دیوار آسمان تک ٹیڑھی ہی جاتی ہے۔ پس قرآنِ کریم سے قلبی عقیدت و محبت رکھنا گویا اس شفا خانۂ سماوی سے رجوع کرنا ہے، جس میں ہر قسم کی شفا ہے۔

۷۔ سورۂ تکاثر (۱۰۲: ۰۵، ۱۰۲: ۰۷) میں علم الیقین اور عین الیقین کا ذکر موجود ہے، سورۂ واقعہ (۵۶: ۹۵) اور سورۂ حاقہ (۶۹: ۵۱) میں حق الیقین کا تذکرہ آیا ہے، ان حوالوں کا مقصد یہ ہے کہ درست عقائد کو علم الیقین کی روشنی میں دیکھنے کی سخت ضرورت ہے، ورنہ شیطان شکوک کی بیماری پیدا کر

 

۲۰۷

 

سکتا ہے، اور شیطان کی شکست اسی امر میں ہے کہ آپ علم الیقین کے اسلحہ سے اچھی طرح لیس ہو جائیں، نیز یقینی علم اس لئے بھی انتہائی ضروری ہے، کہ آپ اس کے بغیر منزلِ عین الیقین میں داخل نہیں ہو سکتے ہیں، اور دیکھئے کہ قرآنِ پاک میں جس علم کی تعریف کی گئی ہے، وہ علم الیقین سے شروع ہو جاتا ہے (۱۰۲: ۰۵) اس کا مطلب یہ ہے کہ اسی علم کے ذریعہ تمام ظاہری شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے۔

۸۔ عین الیقین ۔ یقین کی آنکھ، دیدۂ دل یا چشمِ باطن کا نام ہے، اگر رحمتِ خداوندی اور علم و عمل کے نتیجے میں آپ کی قلبی آنکھ کھل کر روشنی نظر آنے لگے، تو ہرگز اس کو ایک عام نعمت نہ سمجھ لینا، کیونکہ یہ گویا عالمِ روحانی میں آپ کی پیدائش ہے، جہاں تمام عظیم روحانی نعمتیں جمع ہیں، جس طرح دنیائے ظاہر میں جب کوئی بچہ پیدا ہو جاتا ہے، تو وہ بہت سی مادّی نعمتوں کی طرف رخ کر لیتا ہے، اسی طرح آپ روحانیّت کے اس مقام پر بہشت اور اس کی ہر نعمت کی جانب متوجہ ہو گئے، پس مبارک ہو! کہ یہ آپ کی بہت سی بیماریوں سے شفا یابی اور شادمانی کا موقع ہے، تاہم یہ نکتہ بھول نہ جائیں، کہ اس منزل میں جیسی انتہائی تیز بوقلمونی روشنی ہے، وہ نہ صرف درخشان ہدایت و رہنمائی ہے کہ آپ اور آگے جائیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ زبردست آزمائش اور سب سے آخری رکاوٹ بھی یہی ہے (۶۷: ۰۵، ۷۲: ۰۸) لہٰذا آپ بصد عاجزی

 

۲۰۸

 

دعا کریں، کہ خدائے بزرگ و برتر آپ کی دستگیری و رہنمونی فرمائے! اور منزلِ مقصود تک پہنچا دے ! آمین!!

۹۔ آپ کے عالمِ شخصی میں یہ عجائب و غرائب، یہ نور کے طوفانی بادل، یہ چمکتی ہوئی موجیں، یہ درخت جن کے ہر پتے سے قوسِ قزحی نور پھوٹ رہا ہے، یہ نورانی پھول، جن کا ظہور ہر لحظہ بدلتا رہتا ہے، یہ ذرّات مثلِ آفتاب، یہ بہشت جیسے مسرّت بخش مناظر، جو چشمِ زدن میں جلوہ نمائی کی کروٹ بدلتے رہتے ہیں، یہ درخشان و تابان مگر خاموش بھیدوں کی دنیا، اور یہ عالمِ خیال کے بے شمار عظیم معجزات کیا ہیں؟ اور کیوں ہیں؟ یہ قرآنِ پاک کی روح و روحانیّت ہے، اور یہ معجزے بحکمِ خدا اس لئے رونما ہوگئے، تاکہ آپ کو عین الیقین کے مقام پر شکوک و شبہات کی بہت سی بیماریوں سے شفاء مل جائے، اور آپ پُرخلوص شکر گزاری کے ساتھ اس منزل سے اور بھی آگے بڑھ جائیں۔

۱۰۔ حق الیقین ۔ یقین کا حق، یعنی یقین کی اصل حقیقت، جس سے نورِ قرآن مراد ہے (۵۶: ۹۵، ۶۹: ۵۱) جو سب کچھ ہے، جیسے نورِ عقل، نورِ معرفت، نورِ یقین، نورِ علم، نورِ ایمان، نورِ ازل، نورِ محمدی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) وغیرہ، چونکہ حق الیقین موجوداتِ لطیف کا مرکز بھی ہے، کائناتِ ظاہر کا خلاصہ، نچوڑ، اور ست بھی، اور خدائی داد و سند (لین دین) والی بابرکت مٹھی کا نمونۂ پر حکمت بھی ہے، اس لئے یہ ایک طرف سے کل چیزوں کا ازلی سرچشمہ ہے، اور دوسری طرف سے تمام اشیاء (حقائق) کا ابدی مجموعہ بلکہ

 

۲۰۹

 

وحدت ہے، پس اسی گوہر یا جوہر کو دستِ قدرت بشکلِ آسمان و زمین اور ہر چیز پھیلا دیتا ہے، اور پھر لپیٹ لیتا ہے۔

۱۱۔ ہم اپنی عقلِ جزوی پر اتراتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ہر چیز کا سایہ ہوا کرتا ہے، مگر نور کا کوئی سایہ نہیں ہوتا، لیکن قرآنِ حکیم کا اشارہ ہے کہ نور بھی اپنی نوعیت کا ایک سایہ رکھتا ہے، پھر ہم سمجھنے لگتے ہیں کہ بے شک نور کا سایہ عکس کہلاتا ہے، جیسے آئینے میں سورج کا عکس پڑتا ہے، چنانچہ آپ سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵ تا ۴۶) میں بغور دیکھئے، ان دونوں پُرحکمت آیتوں میں بظاہر سایۂ جسم کا ذکر ہے، بباطن سایۂ نور کا، یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے نورِ ازل کے عکس کو پھیلا کر آسمانوں، زمین، اور تمام مخلوقات کو بنایا، وہ اگر چاہے تو یہ سایہ ٹھہرا ہوا رکھے، تاکہ بھید کھل نہ جائے، اور اگر چاہے تو آفتابِ نور طلوع ہو جائے، اور اس کی روشنی میں چیزوں کی شناخت ہو، پھر مجموعی سائے کو جو دراصل ایک ہی عکس ہے بڑی آسانی سے اپنی طرف لپیٹ لیتا ہے (۲۵: ۴۵ تا ۴۶، ۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) تاکہ اس واقعہ کی معرفت حاصل ہو کہ ذاتِ خدا کے سوا جو کچھ بھی ہے، وہ کس طرح فنا ہو جاتا ہے (۲۸: ۸۸،۵۵: ۲۶ تا ۲۷)۔

۱۲۔ سورۂ نحل میں حضرتِ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا (۱۶: ۸۱) مفہوم: اور خدا نے اپنی مخلوقِ ازل سے تمہارے لئے سائے بنائے، یعنی تم میں سے ہر فرد کے لئے ایک عالمِ شخصی اور اس میں اپنے زندہ نور کا ایک عکس بنا دیا، تاکہ یہ گنجِ مخفی

 

۲۱۰

 

وقت آنے پر ہر خدا شناس مومن کے لئے “انائے علوی” ثابت ہو جائے، اس حقیقت کے دلائل یہ ہیں: الف: سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس آیۂ کریمہ کا خطاب اہلِ ایمان سے ہے، لہٰذا یہاں جس نعمت کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ عام نہیں، بلکہ خاص ہے، کیونکہ خداوندِ علیم و حکیم کسی ایسی چیز کے دینے میں مسلمانوں پر احساس نہیں رکھتا، جس میں کافروں اور جانوروں کی بھی شرکت ہو۔ ب: اگرچہ ہر مخلوق کا ایک سایہ ہوا کرتا ہے، لیکن مخلوقات کے اعلیٰ اور ادنیٰ درجات ہیں، چنانچہ مسلمانوں کے لئے سب سے مفید ترین سایہ وہی ہوگا، جس کا تعلق سب سے اعلیٰ ترین مخلوق سے ہو، اور وہ نورِ ازل ہے۔ ج: ہر چند کہ ہم ایک اعتبار سے جمادات، نباتات، حیوانات، وغیرہ کو مخلوق کہہ سکتے ہیں، لیکن صانعِ مطلق کسی چیز کو تخلیق کے درجۂ کمال پر پہنچا کر ہی اپنی ذاتِ پاک کی تعریف فرماتا ہے (۲۳: ۱۴) کیونکہ اُس نے ایسی مخلوق کو حقیقی معنوں میں، اور خلقِ اوّل و آخر کے طور پر پیدا کیا، اس کا مطلب یہ ہوا، کہ جس مخلوق کے سایۂ عاطفت میں عقل و جان کے لئے امن و راحت ہے، وہ سب سے کامل اور سب سے عظیم ہے، اور شفائے کلّی کا ذریعہ بھی وہی ہے۔

۱۳۔ اگر کوئی عزیز سوال کرے کہ قرآن کے حوالے سے اور عالمِ شخصی کے حوالے سے ازل کی کیفیت و حقیقت کیا ہے؟ یا اس کا تصوّر کس طرح ہے؟ میں بطورِ جواب یہ عرض کروں گا کہ ازل دونوں حوالوں سے

 

۲۱۱

 

زمانِ ظاہر کی نفی کا نام ہے، کیونکہ وہ اس کے برعکس ہے، اس لئے کہ اس میں گزر جانے والا زمانہ یعنی ماضی، حال، اور مستقبل نہیں، وہ تو ٹھہرا ہوا زمانہ ہے، جبکہ اُس میں ہمیشہ ہمیشہ ایک ایسا مظاہرہ (Demonstration) ہوتا رہتا ہے، کہ اس میں ازل و ابد ایک ہی حقیقت ہے، اور ابداع و انبعاث ایک ہی ظہور ہے، جیسے ہمیشہ اور ہر وقت کائنات کا لپیٹنا اور پھیلانا چشمِ زدن میں ایک ساتھ واقع ہوتا رہتا ہے، جو کلمۂ کُنۡ کا فعل ہے (۵۰: ۵۴) آپ اس کتاب کو غور اور دقیقہ رسی سے پڑھیں، اور ڈایاگرامز کو خوب دلنشین کر لیں، ان شاء اللہ شفا حاصل ہوگی۔
۹ شوال ۱۴۰۶ھ / ۱۷ جون ۱۹۸۶ء

۲۱۲

 

 

امواجِ نور کا تصوّر

۱۔ جیسا کہ اس حقیقت کا ذکر ہو چکا ہے کہ ایک راسخ العقیدت مسلمان کا عقیدہ یعنی ایمان درجۂ کمال پر جا کر نور بن جاتا ہے، اس لئے شروعات کے کسی بھی درجے میں نور کا خیال کرنا، یا امواجِ نور کا تصوّر کرنا ایمان میں سے ہے، یاد رہے کہ وجودِ انسانی میں بے شمار صلاحیتیں پنہان ہیں، ان میں سے قوّتِ خیال و تصوّر کی بہت بڑی اہمیت اس لئے ہے کہ اس کا تعلق کچھ ترقی کے بعد مشاہدۂ نور سے ہے، چنانچہ امواجِ نور کا تصور ایک بے حد مفید شغل (خدا کا دھیان) ہے، اور یہ بڑا اہم شغل علم و حکمت کی روشنی میں طلبِ نور سے متعلق کسی دعائے ماثورہ کے ذریعہ ہونا چاہئے، مثال کے طور پر درجِ ذیل دعا کو لیجئے، جسے حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام ہر نمازِ فجر کے بعد پڑھا کرتے تھے:
اللّٰھم اجعل لی نورا فی قلبی، و نورا فی سمعی، و نورا فی بصری، و نورا فی لسانی، و نورا فی شعری، و نورا فی بشری، و نورا فی لحمی، و نورا

 

۲۱۳

 

فی دمی، و نورا فی عظامی، و نورا فی عصبی، و نورا بین یدی، و نورا من خلفی، و نورا عن یمینی، و نورا عن یساری، و نورا من فوقی، و نورا من تحتی (دعائم الاسلام، جلدِ اول، ذکر الدعا بعد الصلوٰۃ)۔
ترجمہ: یا اللہ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کر دے، اور میرے کان، آنکھ، اور زبان میں بھی نور بنا دے، میرے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں، اور رگوں میں بھی نور بنا دے، اور میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر، اور نیچے بھی نور مقرر فرما!

۲۔ مذکورۂ بالا دعائے مبارکہ سے ایک طرف تو یہ پتا چلتا ہے کہ انسانی عقل، روح، اور جسم کی صحت و سلامتی کے لئے نور کی لہروں (امواج) کی کتنی بڑی ضرورت ہے، اور دوسری طرف یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ پُرحکمت دعا اگرچہ شروع شروع میں ایک عقیدہ، امید، اور تصوّر کی حیثیت سے ہے، لیکن آگے چل کر مومن کے حق میں ایک عملی حقیقت بن سکتی ہے، جیسا کہ سورۂ حدید کے ایک ارشاد (۵۷: ۱۲) سے ظاہر ہے کہ نورِ ایمان جب مرتبۂ کمال پر پہنچ جاتا ہے، تو اس وقت وہ مومنین و مومنات کے آگے اور دستِ راست کی جانب دوڑتا ہے، اور اس حال میں ہر ایسا مومن متذکرۂ بالا دعا کا مصداق بن جاتا ہے، یعنی وہ شش جہت (چھ اطراف) سے امواجِ نور کے گھیرے میں گھرا ہوا ہوتا ہے، کیونکہ سامنے سے ظہورِ نور درجۂ کمال کی بات ہوتی ہے، اور قرآنِ حکیم کا حکیمانہ اصول یہ ہے کہ اکثر چوٹی کی بات کرتے ہوئے ذیلی اور ضمنی باتوں کا احاطہ کر

 

۲۱۴

 

لیتا ہے۔

۳۔ جب قرآنِ مجید کہتا ہے کہ: اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵) تو اس عظیم الشّان حکم سے مجموعۂ کائنات کا تصوّر (جس میں لازماً انسان بھی شامل ہے) اہلِ دانش کے نزدیک ایسا ہوتا ہے، جیسے لوہے کا کوئی گولا دہکتی ہوئی آگ میں سرخ انگارا ہوگیا ہو، اگر یہ تصوّر صرف حق الیقین ہی کے مقام پر قابلِ فہم ہو سکتا ہے، تو پھر یوں سمجھ لیجئے کہ نورِ الٰہی ایک بے پایان سمندر ہے، جس میں آسمان زمین کی ہر ہر چیز ڈوبی ہوئی ہے، اور انسان اس میں مچھلی کی طرح تیر رہا ہے، یہ تصوّر عین الیقین سے متعلق ہے، اور ان دونوں مثالوں میں بہت بڑا فرق ہے، کیونکہ جو لوہا آگ میں گرم ہو کر سرخ انگارا ہوگیا ہو، وہ تو ایک طرح سے آگ میں فنا ہوگیا ہے، مگر مچھلی جو پانی میں تیر رہی ہو، وہ پانی کی ذات میں فنا نہیں۔

۴۔ اب آئیے ہم یہی بات علم الیقین کی روشنی میں کریں، تاکہ مطلب زیادہ سے زیادہ آسان ہو، اس سلسلے میں سب سے پہلے نور کی کیفیت و ماہیّت کے بارے میں جاننا از بس ضروری ہے، کیونکہ نور صرف وہی روشنی نہیں، جو چشمِ باطن کے لئے ہوا کرتی ہے، بلکہ نور کی صورت و فعل حواسِ ظاہر و باطن میں سے ہر حس کی ضرورت کے مطابق ہے، جس کی ایک چھوٹی سی مثال پاور ہاؤس (Power House) یعنی بجلی گھر سے دی جا سکتی ہے، کہ پاور ہاؤس شہر کے لئے صرف روشنی ہی مہیا نہیں کرتا، بلکہ وہ اور

 

۲۱۵

 

بھی بہت سے ضروری اور مفید کاموں کو انجام دیتا ہے، چنانچہ قلب یعنی دل و دماغ کے لئے جس نورِ ہدایت کی ضرورت ہے، وہ عقل و دانش، اور علم و حکمت جیسی کیفیات میں ہے، ظاہری اور باطنی کان کے لئے جو نور مقرر ہے، وہ بابرکت آواز کی مختلف حیثیتوں میں ہے، بصارت اور بصیرت کا نور بے شک روشنی ہے، جس کا تعلق مشاہدے سے ہے، اور زبان کے واسطے جو نور ہونا چاہئے، وہ ایک غیر معمولی قوّتِ گویائی کی کیفیت میں ہے، یہ امواجِ نور کا قصہ ہو رہا ہے۔

۵۔ مذکورۂ بالا دعائے نور کے مستند و پُرحکمت ہونے میں کوئی شک و شبہہ نہیں، اور یقیناً یہ زبردست مربوط و منظم اور جامعیّت و کاملیّت کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے، جس میں بحیثیتِ مجموعی عقل، جان، اور جسم کی صحت و سلامتی مطلوب و مقصود ہے، اب یہاں ایک بڑا اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا آدمی کے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں اور رگوں کے لئے بھی الگ الگ انوار کی ضرورت پڑتی ہے؟ جی ہاں، کیوں نہیں، جبکہ بدن کے ان اجزاء میں سے ہر ایک کی بناوٹ، فعل، اور ضرورت جدا اور مخصوص ہے، چنانچہ بال انسانی جسم میں روحِ نباتی موجود ہونے کی نمایان علامت ہیں، پس روحِ نباتی ذاتی طور پر نورِ ہدایت کی محتاج ہے، کیونکہ اسے پورے بدن میں صحت و صفائی سے کام کرنا ہے، نیز کچھ مواد کو بالوں کی شکل میں اگا دینا ہے، علاوہ ازین اس میں علمِ نباتات (Botany) کی طرف بھی اشارہ ہے۔

۲۱۶

۶۔ کھال یا جلد کے واسطے جو نور مقرر ہے، اس کا تذکرہ بے حد دلچسپ ہے، چنانچہ اس نور کی امواج میں سے ایک موج انسانی جلد کے بیرونی حصے میں منجمد ہو گئی ہے، یہ نورِ منجمد خصوصاً چہرے پر پایا جاتا ہے، اور اگر چہرے کا یہ نور نہ ہوتا، تو پھر آدم و آدمی کو صورتِ رحمان سے کوئی نسبت ہی نہ ہوتی، جب بندۂ مومن قرآن اور اسلام کی کسی خوشخبری سے شادمان ہو کر مسکراتا ہے، تو آپ سمجھ لیجئے کہ اس کے چہرے پر یہ ایک نورانی لہر ہے، اگر وہ دین کی فکر و غمخواری میں سنجیدہ ہو جاتا ہے، تو یہ نور کی دوسری موج ہے، اور اگر کوئی نیک بخت عشقِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور روحانی ترقی کی خاطر اشک ریز ہو جاتا ہے، تو یہ نور کی تیسری موج ہے، جو بڑی زبردست ہے، اور اس سے ایک انفرادی انقلاب آنے کی توقع ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ آپ سورۂ زمر (۳۹: ۲۳) میں دیکھ لیں، تاکہ جِلدی نور کے معجزات پر یقین ہو، اور ظاہری و باطنی شفاء کی دولت حاصل ہو سکے۔

۷۔ گوشت جسمانی طاقت کا اصل سرچشمہ ہے، لہٰذا اس کو نورِ ہدایت چاہئے، تاکہ وہ ہر شر و بدی، اور بیماری سے محفوظ و سلامت رہے، اور اس میں صبر و عبادت اور نیکی کا رجحان و میلان پیدا ہو، بندۂ حق پرست کے گوشت میں نور کی لہریں دوڑنے کی کئی علامات ہیں، جیسے یکایک کسی روحانی کرنٹ (Current) کا احساس، ذکرِ الٰہی اور یقینی علم کی باتوں کے اثر سے وجد و مستی یا رقتِ قلبی کا غلبہ، عشقِ خداوندی سے

 

۲۱۷

 

مست و سرشار ہو جانا، اور کامیاب ذکرِ کثیر کے نتیجے میں زلزلۂ طہور کا آنا، جو ایک بدنی معجزہ ہے، جس کا ذکر قرآنِ پاک کے پانچ مقامات پر ملتا ہے، یہ نورِ متلاطم منزلِ عزرائیلی اور بھرپور روحانیّت سے بہت پہلے آتا رہتا ہے، جبکہ کوئی درویش یا صوفی کثرتِ ذکر کے بعد نیم خوابی کی حالت میں لیٹا ہوا ہوتا ہے، یہاں یہ بھی یاد رہے کہ گوشت عالمِ شخصی (عالمِ صغیر) کی مٹی اور زمین ہے، جِلد اس کی سطح ہے، بال اس کی نباتات، خون اس کا پانی، رگیں پانی کی راہیں (یعنی ندیاں، نہریں، وغیرہ) ہیں، اور ہڈیاں پہاڑوں کا حکم رکھتی ہیں۔

۸۔ ایک انتہائی ضروری اور پُرحکمت مثال: پن چکی میں گندم کس طرح پس کر آٹا بن جاتی ہے؟ چکی کا پاٹ اپنے وزن کے ساتھ گھوم گھوم کر اس کو پیستا ہے، پاٹ کو کیا چیز گھماتی رہتی ہے؟ وہ مشینری جو اس کے نیچے لگی ہوئی ہے، اس مشینری کی محرک طاقت کیا ہے؟ آبشار جو چرخےّ پہیا = گراری) پر گرتا رہتا ہے، آبشار کو کون دھکیل رہا ہے؟ نہر کا پانی، نہر کے پانی کا سبب کیا ہے؟ ندی کا پانی، ندی کا ذریعہ کیا ہے؟ پہاڑی ذخائرِ آبی، ان کے اسباب کیا ہیں؟ برف و باران، بادل، سمندر، اور سورج، سورج کے اس عجیب و غریب فعل کا سبب کیا ہے؟ عالمگیر روح (نفسِ کلّی = روحِ اعظم) کا وہ مسلسل دباؤ، جو کائنات پر پڑتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے مرکزِ عالم کا ایتھر (Ether) تحلیل ہو کر ایک روشن گیس بن جاتا ہے، جس کو سورج کہتے ہیں، روح الارواح یا نفسِ کلی یہ

 

۲۱۸

 

کام کس کے حکم سے کر رہا ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے، پس اس مثال سے یہ قانون ظاہر ہوگیا کہ خدا مسبب الاسباب (سبب پیدا کرنے والا) ہے، یعنی اللہ نے ہر کام کی تکمیل کے لئے کئی کئی اسباب پیدا کر دیئے ہیں، کہ اس سلسلے میں ایک سبب کے پیچھے دوسرا بڑا سبب نظر آنے لگتا ہے، تا آنکہ اہلِ بصیرت کو اسبابِ اعلیٰ اور حضرتِ مسبب کا یقین آتا ہے۔

۹۔ مذکورۂ بالا مثال کا مقصد یہ ہے کہ علاج و شفاء کے تمام جسمانی اور روحانی اسباب و وسائل خدا نے بنائے ہیں، لیکن اس میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ہم کس طرح خدا کو زیادہ سے زیادہ یاد کر سکتے ہیں، اور کس ذریعے سے اس کو پہچان سکتے ہیں، تاہم اس حقیقت کے باؤجود خداوند تعالیٰ کی رحمتِ عمیم اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہر شخص اپنی علمیت و رسائی کے مطابق جملہ اسباب میں سے کسی بھی سبب سے کام لے سکتا ہے۔

۱۰۔ خون کی حرکت و گردش کے واسطے نور کی مسلسل لہروں کی ضرورت اس لئے ہے کہ ان نورانی موجوں کے بغیر نظامِ دورانِ خون باطنی صحت کے موافق نہیں چل سکتا ہے، جس کی ظاہری مثال یہ ہے کہ پانی جس طرح ایک دائرے پر گردش کر رہا ہے، وہ نورِ آفتاب کی طاقت و توانائی کی وجہ سے ہے، جیسے دریاؤں کا سمندر سے جا ملنا، سمندر سے بخارات، بخارات سے بادلوں کا وجود میں آنا، اور پھر بارش کا

 

۲۱۹

 

سلسلہ، یہ سب کچھ مادّی نور کی بدولت جاری ہے، اسی طرح نورِ باطن کی امواج کی مدد سے خون انسانی جسم میں کسی خرابی اور بیماری کے بغیر چل سکتا ہے، عالمِ شخصی کا سورج دل ہے، لیکن دعائے نور کی حکمت یہ کہتی ہے کہ یہ بات اس وقت درست ہو سکتی ہے، جبکہ دل میں نور ہو۔

۱۱۔ ہڈی میں بھی کوئی مرض ہو سکتا ہے، لہٰذا اس کے سدِ باب کے طور پر، یا علاج کے طور پر نورِ صحت و شفاء مطلوب ہے، کامل انسانوں پر جیسے نور کے بے شمار معجزات گزرتے ہیں، ان میں ہڈیوں سے متعلق عظیم الشّان معجزہ یہ ہے کہ وہ عالمِ شخصی کے پہاڑوں کی حیثیت سے انسانِ کامل کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں، جس کی مثال حضرت داؤد علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں موجود ہے (۷۹: ۲۱، ۳۴: ۱۰، ۳۸: ۱۸) اس کے علاوہ پیشانی کی ہڈی عالمِ صغیر کا کوہِ طور ہے، جو حق الیقین کا مقام ہے، جہاں معجزات ہی معجزات ہیں۔

۱۲۔ رگوں کی اہمیت یہ ہے کہ وہ آبی راہوں کی مثال ہونے کے علاوہ مواصلات کی طرح بھی ہیں، جن کے ذریعے سے دل و دماغ کا ہر پیغام اور حکم تمام بدن کے خلّیات  اور اجزاء کو موصول ہوتا رہتا ہے، پس ضرورت اس بات کی ہے کہ قلب میں نور کا ایک سرچشمہ پیدا ہو، تاکہ رگوں کے ذریعہ سارے جسم میں نور کی صحت بخش لہریں دوڑتی رہیں، اس مقصد کے حصول کے لئے قرآنی ہدایت کے

 

۲۲۰

 

مطابق کثرت سے خدا کو یاد کیا جاتا ہے، کیونکہ دینی احکام پر عمل کرتے ہوئے شب و روز علم الیقین کی روشنی میں قلبی عبادت کرنے سے خود بخود امواجِ نور کا تصور ہو جاتا ہے، جس میں عقل و جان، اور جسم کی صحت کا راز مضمر ہے۔

۲۲ شوال ۱۴۰۶ھ / ۳۰ جون ۱۹۸۶ء

۲۲۱

پاؤں کی حرکت سے علاج

۱۔ اس مادّی دنیا میں اب تک کوئی ایسی کراماتی یا طلسماتی دوا ایجاد نہیں ہوئی، جو ایک اکیلی ہونے کے باوجود ہر قسم کی جسمانی بیماریوں سے انسان کو صحت یاب کر سکے، کیونکہ جب تک طرح طرح کی بیماریوں کے لئے بہت ساری دوائیاں موجود و مہیا نہ ہوں، تو یہ امر ناممکن ہے، لیکن صرف قرآنِ حکیم ہی کا ہر نسخۂ کیمیا ایسا معجزاتی ہے کہ اس میں تمام عقلی، اور روحانی امراض کے مکمل علاج کے ساتھ ساتھ بہت سی بدنی بیماریوں کے لئے شفائے کلی موجود ہے، چنانچہ “قرآنی علاج” کی اس کتاب میں جتنے بھی نسخے درج ہوئے ہیں، ان میں سے ہر ایک کو مجموعی علاج سمجھنا چاہئے، تاکہ اس مقدّس اور بابرکت طریقِ علاج کا مفہوم کماحقہ وسیع تر ہو۔

۲۔ آئیے آج ہم یہاں قرآنی اور روحانی سائنس کی روشنی میں “علاج بطریقِ رکض” یعنی پاؤں کی حرکت سے علاج کے بارے میں گفتگو کریں گے، رَکضۡ یا رَکۡضٌ ایک قرآنی لفظ ہے، جس کے کئی

 

۲۲۲

 

معنی ہیں، جیسے دوڑنا، پاؤں ہلانا، دفع کرنا یا ہٹانا، گھوڑے کو مہمیز کرنا یعنی دوڑانے کے لئے ایڑ لگانا، پرندے کا بازو پھڑپھڑانا، تیزی سے بھاگ جانا، زمین یا کپڑے کو پاؤں سے ملنا (پامال کرنا) وغیرہ (مصباح اللغات، المنجد، مدُّ القاموس)  چونکہ یہ قرآنِ حکیم کے حکمت آگین الفاظ میں سے ہے، اس لئے عجب نہیں کہ اس کے ان معنوں میں ظاہراً و باطناً پاؤں وغیرہ کی طبی ریاضتوں اور ورزشوں کے اشارے موجود ہوں، اور یقیناً یہی بات ہے۔

۳۔ جس طرح “امواجِ نور کا تصور” کے موضوع میں یہ ذکر ہوا تھا کہ ہر مومن کے پاؤں کے لئے بھی نور کی سخت ضرورت ہے، اور ایک روحانی کرنٹ پاؤں کے نیچے سے داخل ہو جاتا ہے، جیسے سورۂ مائدہ (۰۵: ۶۶) میں اس حقیقت کا ایک واضح اشارہ موجود ہے کہ پاؤں کی راہ سے جو ذرّاتِ روح بدن میں داخل ہو جاتے ہیں، ان میں لطیف غذا بھی ہے اور روحانی دوا بھی، نیز حضرت ایوب علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن (۳۸: ۴۲) کو غور سے دیکھئے کہ آپ نے بحکمِ خدا زمین پر پاؤں مارا، جس سے نہ صرف ظاہر میں، بلکہ باطن میں بھی ٹھنڈے پانی کا ایک چشمہ جاری ہوگیا، جس کو استعمال کرنے سے آپ کی بیماری رفع دفع ہوگئی، باطن کے لئے جو ٹھنڈا پانی ہے، وہ نورِ صحتِ کل ہے۔

۴۔ پاؤں کی حرکت کی بہت سی قسمیں ہیں، اگر آپ چاہیں تو

 

۲۲۳

 

کوئی بھی منظم مشق کو اختیار کرسکتے ہیں، لیکن ہر ریاضت کو درجۂ کمال پر پہنچا کر بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ آپ پانچ کام ایک ساتھ انجام دیتے جائیں: ذکرِ خدا، حرکتِ پا، کان سے ذکر کی سماعت، نظر سے حرکت کی نگرانی، ہم آہنگی و ہم نوائی، یعنی یہ چیزیں الگ الگ نہ ہوں، بلکہ اس نغمۂ ذکرِ الٰہی میں سب ہم آہنگ ہو جائیں، تاکہ یہ صورتِ حال رقت انگیز یا وجد آور ثابت ہوسکے، آپ نیم دلی اور بے یقینی سے یہ ریاضت ہرگز نہ کریں، بلکہ پختہ مزاجی اور یقینِ کامل کے ساتھ مشق کو جاری رکھیں، ان شاء اللہ، کامیابی ہو گی۔

رکض نمبر ۱: آپ کرسی یا سوفہ (Sofa) پر اس طرح آرام سے بیٹھ جائیں کہ آپ کا وزن زیادہ سے زیادہ کرسی پر رہے، اور پیروں کے تلوے بڑی آسانی سے فرش کو چھوتے ہوں، دونوں ہاتھ گھٹنوں پر، اور نظر پاؤں پر ہو، اب آپ بصد عجز و انکساری اللہ جلّ شانہ کی بارگاہِ عالی سے توفیق و تائید طلب کر کے دل ہی دل میں یہ انتہائی مقدّس ذکر، جو عشقِ الٰہی کا ایک نغمۂ ملکوتی اور ذریعۂ پروازِ ملائک ہے، شروع کریں:

یاْھو

۸

یآھو

۷

یاْھو

۶

ھو

۵

+ یاْھو

۴

یآھو

۳

یاْھو

۲

ھو

۱

 

۲۲۴

 

یاد رہے کہ ۲، ۴، ۶، ۸  کے خانوں میں الف پر جو صفر دیا ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں الف کی آواز زبر کے برابر ہے، مگر ۳،۷ میں الف کی آواز معمول کے مطابق لمبی ہے، پس آپ خدائے بزرگ و برتر کے اس حسین ترین اسم کو ہزاروں نیک امیدوں کے ساتھ دل و دماغ میں پڑھتے ہوئے اپنے پیروں کو اجازت دیجئے کہ وہ بھی آپ کے ساتھ اس لاہوتی عشق میں شریک ہو کر ایک مخصوص صوفیانہ اور مستانہ حرکت سے یہ پاک و پُرحکمت ذکر کرتے جائیں، یہاں تک کہ ان میں موجِ نور یا روحِ اضافی آنے لگے، جس کی علامات کو آپ ضرور محسوس کریں گے، کچھ دنوں یا ہفتوں یا مہینوں کے بعد آپ اپنی مشق کے باب میں شاید یہ خیال کریں گے کہ کوئی مسلمان جنّ آپ کے پیروں میں داخل ہو کر اس پُرحکمت ذکر کی بزمِ جانفزا میں مست و مدہوش ہو چکا ہے، اور وہ بے خودی اور وارفتگی کی کیفیت میں عجیب و غریب حرکتیں کر رہا ہے، اور اگر اس حالت کو کوئی ناتجربہ کار یا ناواقف آدمی دیکھے تو فوراً ہی گمان کرے کہ یہاں کوئی ایسا شخص ہے جو بیٹھے بٹھائے محوِ رقص ہو رہا ہے، حالانکہ یہ دنیوی رقص ہرگز ہرگز نہیں، بلکہ یہ رکض اور وجد کا عالم ہے، ہاں اگر کوئی اسے رقصِ بسمل کہے تو کہہ سکتا ہے، اگر فی الواقع ایسا ہو گیا، تو یہ آپ کی بہت بڑی سعادت ہو گی۔

رکض نمبر ۲: بطریقِ مذکورۂ بالا آپ اپنی روحانی مشق کو جاری

 

۲۲۵

 

رکھیں، مگر اس دفعہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو بھی اس پاک اور بابرکت حرکاتی ذکر میں شامل کر لیں، تاکہ ہاتھ پاؤں کی بیس انگلیاں جو پانچ پانچ کے چار گروپ ہیں، اس نعرۂ “یا ھو” سے، جس کی صدائے بازگشت آسمان سے ہو کر آتی ہے، مست و سرشار ہو کر جھوم اُٹھیں، چونکہ ہاتھ کی انگلیاں بڑی آسانی سے ہر جانب حرکت کر سکتی ہیں، جس کی بدولت وہ بے شمار خلّیات (Cells) جو خوابِ خرگوش میں سوئے پڑے تھے، بیدار ہو کر انگڑائی لے سکتے ہیں، جس سے مسرّت و شادمانی کی لہر دوڑنے لگتی ہے، کیونکہ صحت مند انگڑائی سے جو لذّت حاصل ہوتی ہے، وہ خلّیات کا جمود ٹوٹ جانے کی وجہ سے ہے، اور اگر کوئی جمود یادِ خدا سے ٹوٹ جاتا ہے تو زہے خوش نصیبی۔

رکض نمبر ۳: آپ پلنگ، یا چارپائی، یا فرشِ زمین پر بطریقِ خواب آرام سے چِت (پشت کے بل) لیٹ جائیں، اور وہی ریاضت کا آغاز کریں، جس میں ہاتھ پاؤں کی تمام انگلیوں کو مخصوص و منظوم ذکر سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ہلانا ہے، اور ان میں روحانی برق کی لہر دوڑانے کے لئے سعی کرنا ہے، ظاہر ہے کہ اس پوزیشن میں آپ پیروں کو بہ آسانی نہ دیکھ سکیں گے، کوئی فکر کی بات نہیں، آپ اپنی نگاہ کو ہاتھوں کی نگرانی میں مصروف رکھیں، اور اگر رات کی تاریکی ہے، یا سردی کی وجہ سے ہاتھوں کو کمبل وغیرہ کے نیچے چھپانا ہے، تو پھر چشمِ خیال سے اپنی مشق کو دیکھتے رہیں، ان شاء اللہ، اس انتہائی مفید

 

۲۲۶

 

عمل سے جسم و جان کی صحت بہتر ہونے کے علاوہ ہر مشکل بھی آسان ہو جائے گی۔

ہمارے بے حد عزیز ٹرینیز (Trainees = کارآموز) یا حضراتِ قارئین میں سے کوئی شاید یہ سوال کرے کہ پیروں کی اتنی بڑی اہمیت کیوں ہے؟ ان کی مذکورہ ورزش سے بدن اور روح کو ایسے بڑے بڑے فائدے کس طرح حاصل ہو سکتے ہیں؟ آیا پیروں کے لئے بھی کوئی ذکر ضروری ہے؟ ماسوائے اس کے کہ وہ ہمیشہ نیک کاموں کے پیچھے چلتے رہیں، خواہ ان میں چھالے کیوں نہ پڑیں، اور کیوں نہ پھوٹیں؟

اس اہم سوال کا جواب جسمانی نکتۂ نظر سے اس طرح ہے کہ گاڑی کے دو دو پہیے ہوا کرتے ہیں، کشتی کے دو یا دو طرفہ چبو، پرندے کے دو بازو، اور ہوائی جہاز کے دو انجن (Engine)  ہوتے ہیں پس ان چیزوں کی جو اہمیت ہے، اس سے کہیں زیادہ اہمیت انسان کے پیروں کی ہے، کیونکہ وہ اشرف المخلوقات ہے، اگر گاڑی کا پہیا پنکچر (Puncture) ہو جائے، تو کوئی غم نہیں، جبکہ دوسرا پہیا مل سکتا ہے، اس کے برعکس اگر آدمی کے پاؤں میں کوئی علت (بیماری) پیدا ہو گئی، تو بہت بڑا مسئلہ بلکہ خطرہ ہو سکتا ہے، پیر کی بیماری کا اندیشہ اس لئے ہو سکتا ہے کہ یہ دوسرے تمام اعضاء کے مقابلے میں دل سے بہت دور ہے، جس کی وجہ سے پیروں میں خون کی رفتار سست ہو کر حرارتِ غریزی اور آکسیجن (Oxygen) کی کمی واقع ہوتی ہے،

 

۲۲۷

 

اور یہ ان لوگوں کی بات ہے، جن کو کسی بھی وجہ سے چلنے پھرنے، اور بھاگنے دوڑنے کا موقع نہ مل رہا ہو، پس ایسے لوگوں کے لئے یہ صرف پاؤں کی ورزش ہی نہیں، بلکہ ایک افضل ترین عبادت بھی ہے، اور ہر عضو کے لئے ایک ذکر مخصوص و مقرر ہے۔

اس سوال کا روحانی جواب یہ ہے کہ نور شش جہت سے انسانی جسم میں آسکتا ہے، ارواحِ علوی سر کی طرف سے نازل ہوتی ہیں، جو سب کی سب مفید ہیں، اور ارواحِ سفلی پاؤں کی جانب سے داخل ہو جاتی ہیں (۰۵: ۶۶) جن میں سے بعض فائدہ بخش ہیں، اور بعض مضر، جیسے جراثیم، بری روحیں، اور شیاطین، چنانچہ قدم ایک ایسا گیٹ (دروازہ) ہے جس سے نیک روح بھی آسکتی ہے اور بد روح بھی، پس اگر کوئی مومن ذکر کے بہانے جسمانی ورزش، اور ورزش کے بہانے سے ذکر کرتا ہے، تو یہ اس کی بہت بڑی دانشمندی ہوگی، اور ظاہر ہے کہ یہ عمل پاؤں کے لئے بے حد ضروری ہے، تاکہ جسم و جان ہر طرح سے محفوظ و سلامت رہیں۔

رکض نمبر ۴: سرہانا حسبِ معمول ہو، مگر پائینتی میں تین یا چار تکیے اس طرح رکھیں کہ ان پر آپ کے دونوں پیر کسی دقت کے بغیر اونچے رہ سکیں، پھر آپ اس بستر پر پشت کے بل (چِت) لیٹ جائیں، اور پاؤں پھیلا کر ان تکیوں کے اوپر رکھیں، اور اس حکمت کو ترنم سے پڑھیں:
الحق، الحق، ھُوَ الحق + الحق، الحق، ھُوَ الحق۔

۲۲۸

 

اب ذکر کی رفتار اور زیر و بم سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ہاتھ پاؤں کو بہ اندازِ مستانہ ہلاتے جائیں، مزاج میں ذرا بھی سختی اور مایوسی نہ ہو، امید، یقین، نرم دلی، اور عاجزی جیسے اوصاف سے یہ کام بن سکتا ہے، اس مشق میں اور دوسری ایسی مشقوں میں بھی پاؤں کے پنجوں کو گھمانے کے لئے کوشش کریں، ان شاء اللہ، جسمانی اور روحانی بہت سی بیماریاں دور ہو جائیں گی، کیونکہ اس بے مثال ریاضت میں قانونِ مذہب اور اصولِ سائنس دونوں مل کر کام کرتے ہیں۔

رکض نمبر ۵: چہل قدمی اس سلسلے کی ایک بہترین مشق ہے، باغیچہ، صحن، گھر، باہر، جہاں مناسب ہو، آپ خدائے دانا و بینا کو یاد کرتے ہوئے ٹہل سکتے ہیں، لیکن یہ بات ازحد ضروری ہے کہ گفتار اور رفتار کا ایک ہی وزن ہو، اور بالکل ایسا لگے، جیسے قلب قدم میں، اور قدم قلب میں ذکر کر رہا ہے، اور یہ بول رہا ہے: حق، حق، ھُو، حق + حق، حق، ھُو، حق۔ درین اثنا آپ آٹھ قدم ٹہل گئے، آپ یہ خیال کریں کہ اس عمل سے نفس پر ضرب پڑ رہی ہے، اور وہ پامال ہو رہا ہے، پس آپ ہر ذکر میں زور پیدا کریں، اور وہ عاجزی، منظوم ذکر، ہم آہنگی، توجہ، تسلسل، سخت محنت، اور عشقِ الٰہی سے ممکن ہے۔

رکض نمبر ۶: آپ طریقِ بالا کے مطابق چہل قدمی کریں، مگر اس دفعہ دونوں ایڑیوں کو زمین سے اٹھائے ہوئے صرف پنجوں پر چلتے جائیں، ہر ایسا قدم رکھنے کے ساتھ ساتھ گھٹنے کا سیدھا ہو جانا ضروری

 

۲۲۹

 

ہے، تاکہ اس ورزش کا جو مقصد ہے، وہ پورا ہو سکے، مگر یہ قانونِ الٰہی ہمیشہ یاد رہے کہ انسان کی تخلیق و تعمیر اور ترقی خواہ جسمانی ہو، یا روحانی محنت و مشقت ہی میں ہوتی ہے، جیسا کہ سورۂ بلد (۹۰: ۰۱ تا ۰۴) میں اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر اس حقیقت کا ذکر فرمایا ہے، پس آپ بدنی اور روحانی ریاضت ایک ساتھ کر کے دونوں قسم کی صحت مندی کا بھرپور فائدہ حاصل کریں۔

۲۷ شوال ۱۴۰۶ھ / ۵ جولائی ۱۹۸۶ء

۲۳۰

 

جراثیم اور قوّتِ عزرائیلی

۱۔ جرثومہ عربی لفظ ہے (Bacterium) یعنی وہ چھوٹا کیڑا، جو خردبین کے بغیر نظر نہیں آتا، جس کی جمع جراثیم ہے، چنانچہ جراثیم اچھے بھی ہوتے ہیں، اور برے بھی، اچھے جراثیم کی ایک عام فہم مثال کے لئے جرثومۂ حیات (Life Germ) کو لے سکتے ہیں، پس جراثیم چھوٹے چھوٹے کیڑے ہیں، جن کی روح اور ایک مختصر سی جسمانی زندگی ہے، لہٰذا وہ حیات اور موت کے مقررہ قانون سے باہر نہیں جا سکتے ہیں، اس کے علاوہ جس طرح وہ کسی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں، اسی طرح وہ کسی وجہ سے خارج بھی ہو سکتے ہیں، کیونکہ ہر چھوٹی بڑی چیز پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت چلتی ہے۔

۲۔ اگرچہ حضرت عزرائیل علیہ السّلام بظاہر ایک اکیلے فرشتے کا نام ہے، لیکن در حقیقت وہ ایک لشکرِ جرار ہے، جو انسان پر مؤکل ہے (۳۲: ۱۱، ۰۶: ۹۳) تاکہ جزوی موت، کلّی موت، روحانی موت، جسمانی موت، نیند وغیرہ کے وقت قبضِ روح کا کام کرے، ایسا ہرگز نہیں کہ موت

 

۲۳۱

 

کا فرشتہ ہماری زندگی کے صرف آخری سرے پر ہم سے دوچار ہو جاتا ہے، بلکہ ہم پر اس کے مؤکل یا وکیل ہو جانے کے یہ معنی ہیں کہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے، اور شب و روز اس عالمِ شخصی (Personal World) میں مصروفِ عمل ہے، جس سے انسان کی بے شمار ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں۔

۳۔ قرآنِ حکیم میں جس طرح تمام ضروری موضوعات نمایان طور پر موجود ہیں، اسی طرح مضمونِ تسخیر بھی موجود ہے، جس کے ایک ارشادِ گرامی کا ترجمہ یہ ہے: اور جتنی چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جتنی چیزیں زمین میں ہیں ان سب کو اپنی طرف سے تمہارے لئے مسخر بنا دیا (۴۵: ۱۳) اس تسخیر کا صحیح مطلب سمجھنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہے، الا آنکہ انسانِ کامل کی نظر سے دیکھا جائے، کیونکہ وہی شخص انسانیّت کا حقیقی معیار ہے، یعنی جب تک آپ اور ہم فنا فی المرشد، فنا فی الرسول، اور فنا فی اللہ نہیں ہونگے، تب تک آسمان و زمین کے فرشتوں اور روحوں کے مسخر ہو جانے کا مشاہدہ اور تجربہ نہ ہوگا، اگر یہ بات بہت بلندی کی ہے تو کم از کم علم الیقین کی سطح پر یہ جاننا ضروری ہے کہ بہ اشارۂ قرآنِ پاک (۴۱: ۳۰ تا ۳۱) عظیم فرشتوں کی دوستی اور مدد حاصل ہو سکتی ہے، اور اسی طرح قوّتِ عزرائیلی سے کام لے کر بیماری کے جراثیم کو ہلاک یا دور کیا جا سکتا ہے۔

۴۔ مجاہدینِ اسلام کا سب سے بڑا نعرہ زمانۂ نبوّت سے لے کر

 

۲۳۲

 

آج تک “اللہ اکبر” کیوں مقرر ہوا؟ اس کی جگہ کوئی اور نعرہ کیوں نہیں؟ گوسفند کو ذبح کرتے وقت یہی کلمہ کیوں پڑھا جاتا ہے؟ تسبیحِ فاطمہ کے شروع میں اللہ اکبر کیوں ہے؟ ان تینوں سوالات کا ایک ہی جواب ہے، وہ یہ کہ “اللہ اکبر” حضرت عزرائیل علیہ السّلام کے لئے اسمِ اعظم ہے، اسی لئے مجاہدین اپنے اندر جو قوّتِ عزرائیلی ہے، اس کو دشمنانِ اسلام کے خلاف حرکت میں لانے کی غرض سے نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہیں، ذبحِ گوسفند کے موقع پر اللہ اکبر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس عمل میں عزرائیل کو شرکت کی دعوت دیتے ہیں یا کہ خود اس کی نمائندگی کرتے ہیں، اور تسبیحِ فاطمہ کے آغاز میں یہ بزرگ اسم اس لئے ہے کہ اس کی برکت سے وہ ذرّاتِ روح بدن سے نکل جائیں، جو کام کاج کی وجہ سے فرسودہ ہو چکے ہوں، اور ان کی جگہ جدید ذرّات داخل ہو جائیں، تاکہ اسی طرح تھکاوٹ دور ہو کر آدمی تر و تازہ ہو سکے۔

۵۔ بیانِ بالا سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ عزرائیل علیہ السّلام کا سارا کام اللہ تبارک و تعالیٰ کے اسمائے بزرگ کے ذکر سے انجام پاتا ہے، چنانچہ ہوشمند مومنین دن رات یادِ الٰہی میں مشغول رہتے ہیں، تاکہ اس وسیلے سے عزرائیل ان کا دوست بنے، اور ان کے لئے کام کرتا رہے، یا ان کے عالمِ شخصی میں قوّتِ عزرائیلی اجاگر ہو جائے، کیونکہ انسان جن معنوں میں عالمِ صغیر ہے، ان معنوں میں

 

۲۳۳

 

اس میں سب کچھ ہے۔

۶۔ صرف عزرائیل ہی نہیں، بلکہ تمام فرشتے ہمیشہ اور مسلسل خدا تعالیٰ کا ذکر کرتے رہتے ہیں (۲۱: ۱۹ تا ۲۰) اور انبیاء و اولیاء کثرتِ ذکر و عبادت میں فرشتوں کی طرح ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں اسمِ اعظم کا نور اور دوسرے اسماء الحسنیٰ ہر وقت خود از خود بولتے رہتے ہیں، ایسے میں ہر بزرگ اسم ایک عظیم فرشتے کی طرح کام کرنے لگتا ہے۔

۷۔ سورۂ فتح (۴۸: ۲۶) میں جس سکینہ (تسکین) کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ بھرپور روحانیّت ہے، اور کلمۂ تقویٰ سے وہ اسمِ اعظم مراد ہے، جس کا تعلق حضرت عزرائیل سے ہے، جو اللہ اکبر کے علاوہ ہے، یہ بہت بڑا اسم اپنے آپ ذکر ہوتا رہتا ہے، یا یہ کہ ملک الموت اس کو پڑھتا جاتا ہے، اور اسی معنیٰ میں یہ اسم (کلمہ) خاص خوش بخت مومنین کے کان میں چسپان (لازم) کر دیا جاتا ہے، تاکہ اس منزلِ عزرائیلی میں ان کو جسمانی موت سے قبل روحانی موت کا تجربہ حاصل ہو، جس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں، اور یہ درجۂ کمال کا تقویٰ ہے، اس دوران قبضِ روح کا عمل کئی دن تک دہرایا جاتا ہے، وہ اس طرح کہ رشتۂ روح کا نچلا سرا دماغ سے وابستہ رہتا ہے، اور باقی جسم ہر بار مردہ ہو جاتا ہے، انسان اس وقت نہ تو بدن میں ہوتا ہے اور نہ ہی قلب میں، بلکہ وہ اپنے آپ کو دماغ میں پاتا ہے۔

۸۔ اس حال میں خلّیات اور جراثیم کی روحیں اس روحانی موت

 

۲۳۴

 

کے طوفان سے خود کو نہیں بچا سکتی ہیں، اور نہیں کوئی بیماری اپنی جگہ ٹھہر سکتی ہے، پس اس روشن مثال سے پتا چلا کہ قوّتِ عزرائیلیہ وہ وسیلہ ہے، جس کی بدولت ہر قسم کی بیماری کے جراثیم سے نجات مل سکتی ہے، اور کیا عجب ہے کہ مستقبل میں روحانی سائنس کی اتنی ترقی ہو کہ سب لوگ اس کی طرف توجہ دیں، اور اس سے لاعلاج بیماریوں کا علاج کرنے لگیں، کیونکہ جس طرح انسان کو مادّی سائنس کی سخت ضرورت ہے، اسی طرح اس سے کہیں زیادہ روحانی سائنس بھی ضروری ہے۔

۹۔ یہ نکتۂ نغز خوب یاد رہے کہ جبرائیلی علاج علم سے کیا جاتا ہے، میکائیلی علاج حکمت سے، اسرافیلی معالجہ گریہ و زاری اور عشقِ الٰہی سے اور عزرائیلی چارہ سازی محویّت و فنائیّت سے ہوتی ہے، اور یہ سب سے آخری علاج سب سے زیادہ مؤثر ہے، کیونکہ کامل تقویٰ اور کلّی تطہیر اسی میں ہے، کہ زندگی ہی میں نفس پر ایک زبردست موت واقع ہو جائے، اور یہ بہت بڑا معجزہ ہے، اس لئے کہ یہاں نہ صرف حیات کے بعد موت کا منظر ہے، بلکہ دوسری زندگی کی بھی ایک جھلک نظر آتی ہے۔

۱۰۔ حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام کا عمل مثال کے طور پر روحانیّت کا پُرحکمت زہر ہے، جس کے کھانے سے شر کا خاتمہ ہو کر خیر نکھر جاتی ہے، لیکن آپ ضرور یہ کہیں گے کہ اتنی بڑی کامیابی اور ایسا عظیم

 

۲۳۵

 

کارنامہ بہت ہی مشکل ہے، تو میں مانتا ہوں اور بڑی عاجزی سے گزارش کرتا ہوں کہ پھر آپ مذکورہ زہر ملا کر بنائی گئیں جراثیم کُش دوائیاں استعمال کرتے رہیں، تاکہ رفتہ رفتہ نفسانی جراثیم مر جائیں، وہ ادویہ کیا ہیں؟ ہر ایسا قول و فعل جو نفس کے لئے انتہائی تلخ اور دین کے حق میں بے حد مفید ہو، تاکہ نفسِ امّارہ جزوی طور پر مر جائے، کیونکہ موت جزوی بھی ہے اور کلی بھی۔

۱۱۔ فرشتہ ایک مجرّد روح کا نام ہے، وہ خیال، خواب، روحانیّت، اور بیداری میں متمثل و متشکل تو ہو سکتا ہے، لیکن وہ فی الحقیقت شکل و اعضاء سے پاک ہے، وہ ذکرِ الٰہی سے ضروری اعضاء کا کام لیتا ہے، اس کے ہاتھ، پاؤں، زبان، اور پرواز کرنے والے بازو اسی ذکر و عبادت کے ہیں، پس اگر آپ قرآنِ حکیم اور دینِ اسلام کے منشاء کے مطابق کثرت سے ذکر و عبادت کریں، جیسا کہ اس کا حق ہے، تو بندگی کی اس قیامت خیز فراوانی سے آپ کے عالمِ شخصی میں فرشتے پیدا ہو جائیں گے، اور قوّتِ عزرائیلی ہر وقت آپ کے مفاد میں کام کرتی رہے گی، کیونکہ آپ نے دن رات کی عبادت سے اس کی مدد کی ہے، اور جو شخص اسی طرح فرشتے کی مدد کرتا ہے، تو فرشتہ بڑی عمدگی سے اس کی مدد کرتا ہے۔

۱۲۔ سورۂ زمر (۳۹) کی آیۂ کریمہ نمبر ۴۲ (۳۹: ۴۲) پیشِ نظر ہو، جس میں آپ واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ آدمی کی موت اور نیند کے وقت روح قبض کر

 

۲۳۶

 

لینے کا ذکر فرمایا گیا ہے، یہ کام کون کرتا ہے؟ اللہ پاک کے حکم سے عزرائیل کرتا ہے، پس اس کا حکمتی اشارہ یہ ہے کہ ہم اپنی ہر بیماری میں اس خلوصِ نیت اور یقینِ کامل کے ساتھ بکثرت خدا کو یاد کریں کہ حضرت عزرائیل علیہ السّلام ہم پر نیند کی کیفیت طاری کرتے ہوئے بیماری کی روح کو قبض کر لے گا، یا تخفیف کرے گا، اور اسی طرح یہ عظیم فرشتہ مومنین کے غم و غصہ کو بھی بحالتِ نیند نکال لیتا ہے، بشرطیکہ وہ مومنین دائمی ذکر کے عادی ہوں۔

۱۳۔ اگر ایک عام آدمی نیند کی خاطر رات کو لیٹ جاتا ہے، اور دیر دیر تک اس کی نیند نہیں آتی ہو، تو یہ مرضِ بے خوابی ہے، جس کا نام طب میں سَہَرْ ہے، جس کو ڈاکٹری میں ایگرپنیا (Agrypnia) کہا جاتا ہے، یہ بڑی موذی بیماری ہے، جسمانی اعتبار سے اس کی وجہ کچھ بھی ہو، لیکن حقیقت میں یہ وہ عذاب ہے، جو یادِ الٰہی سے غافل ہو جانے اور حضرتِ عزرائیل کے روٹھ جانے کے سبب سے نازل ہو جاتا ہے، ایسی بے معنی اور بے حکمت بیداری ایک شیطان کی صورت ہے، جیسا کہ قرآنِ مقدّس کا ارشاد ہے (ترجمہ): اور جو کوئی یادِ رحمان سے شب کوری کرے تو ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں سو وہ اس کے ساتھ رہتا ہے (۴۳: ۳۶) اس حقیقتِ حال سے قوّتِ عزرائیلی کے کام کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ کتنا ضروری ہے۔

۲۳۷

۱۴۔ عالمِ کبیر میں جتنی عظیم چیزیں ہیں، اور جو جو واقعات رونما ہو جاتے ہیں، ان سب کے نمونے عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) میں موجود ہیں، مثال کے طور پر اگر وہاں عرش، کرسی، اور سات آسمان ہیں، تو یہاں ان کا ایک ایک نمونہ ہے، جیسے سر عرش، گردن کرسی، کندھا آسمانِ ہفتم، بازو آسمانِ ششم، کلائی آسمانِ پنجم، ہتھیلی اور اس کی پشت آسمانِ چہارم، انگلی کی جڑ والی پور آسمانِ سوم، درمیانی پور آسمانِ دوم، اور ناخن والی پور آسمانِ اوّل یا آسمانِ دنیا ہے، پس جس طرح عالمِ کبیر کا آسمانِ دنیا شیاطین پر شعلے برسا کر اوپر جانے سے روکتا ہے (۶۷: ۰۵، ۷۲: ۰۸) اسی طرح عالمِ شخصی کا آسمانِ اوّل (ناخن والی پور) ذکر و عبادت کے دوران پیروں کی طرف سے آنے والے شیاطین اور جراثیم پر شعلہ باری کر کے ان کو دور کر دیتا ہے، کیونکہ اس میں محافظت کے چراغ روشن ہیں (۳۷: ۰۶ تا ۰۷، ۴۱: ۱۲)۔

۱۵۔ یہ قدیم عقیدہ اب جدید سائنس کی روشنی میں بھی درست ثابت ہونے لگا ہے کہ ہر نبی اور ولی کے جسمِ اطہر کے گرداگرد ہالۂ نور کا ظہور ہوتا رہتا ہے، بلکہ یہ دوسرے انسانوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے، البتہ ان کامل انسانوں کے ہالۂ نور کا درجہ بہت اعلیٰ ہے، جیسے مقالہ نمبر ۲۲ (امواجِ نور کا تصوّر) سے ظاہر ہے کہ انبیاء و اولیاء ہر طرف سے نور کے گھیرے میں ہوا کرتے ہیں، تاکہ وہ حضرات ہر قسم کی برائی سے محفوظ و سلامت رہیں، (Aura)  یا (Halo)  (ہالۂ نور) جو انگلیوں

 

۲۳۸

 

سے نکلتا ہے، وہی مذکورۂ بالا آسمانِ دنیا (قریب کا آسمان) کے شہابِ ثاقب کا کام کرتا ہے، اور شیاطین کے جراثیم کو شعلوں سے مارتا ہے، مگر یہ ایمان، عبادت، اور علم کے بغیر ممکن نہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِ علی) ہونزائی
یکم ذوالحجہ ۱۴۰۶ھ / ۸ اگست ۱۹۸۶ء

۲۳۹

 

سانس سے علاج

۱۔ ہوا، پانی، اور غذا انسانی حیات و بقا کی اصلی اور اساسی ضروریات میں سے ہیں، تاہم پیاس لگے یا بھوک، وہ تو کچھ وقت کے لئے برداشت کی جا سکتی ہے، مگر تقریباً آدھ منٹ کے لئے سانس کو روک کر تازہ ہوا سے بے نیازی کا تجربہ کرنا بڑا تلخ گزرتا ہے، اس مثال سے عملِ تنفس (سانس لینے کا عمل = Respiration) کی اہمیت و ضرورت کا اچھی طرح سے اندازہ ہو جاتا ہے، کیونکہ تنفس سے ایک طرف تو ہمارے بدن کے سارے خلیوں (Cells) کو آکسیجن (Oxygen) مہیا ہوتی رہتی ہے، اور دوسری طرف کاربن ڈائی آکسایڈ (Carbon Dioxide) خارج ہو جاتی ہے۔

۲۔ ہمارا جسم جو بے شمار زندہ خلّیات کا مجموعہ ہے، یعنی ہم میں سے ہر ایک میں جو اتنے سارے ذرّاتِ روح ہیں، ان کو ہر دم آکسیجن کی ایسی شدید ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ آکسیجن میں کیا چیز پنہان ہے؟ آیا اس میں کوئی روحِ حیوانی یا روحِ نباتی پوشیدہ ہو سکتی ہے؟ کیا

 

۲۴۰

 

لفظِ روح اور ریح (ہوا) ایک ہی مادّہ سے ہیں؟ آیا یہ سچ ہے کہ چاند پر ہوا نہیں، اس لئے وہ ایک طرح سے مردہ ہے؟ اور سیّارۂ زمین ہوا کے خول میں رہتا ہے، لہٰذا یہ زندہ ہے؟ الغرض ان سوالوں میں بجا طور پر سوچنے سے پتا چلتا ہے کہ ہوا میں ایک روح ہے، جس طرح غذا میں ایک روح ہوا کرتی ہے۔

۳۔ جس طرح کھانے پینے کی چیزوں سے عمدہ صحت اور مسرّت و شادمانی حاصل کر لینے کے لئے دینی حکمت، ظاہری طب، اور ڈاکٹری کے الگ الگ قوانین مقرر ہیں، اسی طرح سانس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی غرض سے بھی ظاہری اور باطنی بہت سے قواعد و ضوابط ہیں، جن پر بہت سے حضرات نے مذہبی اور سائنسی نکتۂ نظر سے کافی روشنی ڈالی ہے، آپ اس نوعیت کی کتابوں سے استفادہ کر سکتے ہیں، اور یہ مقالہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ، یہاں بھی کچھ نہ کچھ مفید باتیں ہو سکتی ہیں، پروردگارِ عالم تمام اہلِ ایمان کی نیک دعاؤں کی حرمت سے اس بندۂ ناچیز کی دستگیری فرمائے! آمین!!

۴۔ جیسے روح اور ریح دونوں لفظ ایک ہی مادّہ سے ہیں، اسی طرح نفس (جان) اور نَفَس (دم، سانس) بھی ایک ہی روٹ (Root) کے ہیں، چنانچہ اس میں بہت بڑی حکمت اور ایک عظیم راز پوشیدہ ہے، کیونکہ السنۂ اقوامِ عالم از خود وجود میں نہیں آئی ہیں، بلکہ ان کو خلاقِ کائنات نے انتہائی منظم طریقے سے بنایا ہے، علی الخصوص

 

۲۴۱

 

عربی زبان کو، جو قرآنِ حکیم کی زبان ہے، اس کی بڑی روشن دلیل خود قرآنِ پاک میں موجود ہے، آپ کلامِ مقدّس کو کھول کر سورۂ روم (۳۰) کے رکوعِ سوم (۳۰: ۲۰ تا ۲۷) کو غور سے دیکھئے، اس میں چھ مرتبہ آیاتِ خداوندی کی طرف پُرزور توجہ دلائی گئی ہے، اور اس سلسلے میں ارشاد ہوا ہے کہ: اور اسی کی نشانیوں میں سے آسمان و زمین کا بنانا ہے اور تمہاری بولیوں اور رنگتوں کا الگ الگ ہونا ہے (۳۰: ۲۲) اس سے یہ حقیقت نورِ یقین کی سطح پر ابھر کر روشن ہو جاتی ہے کہ ظاہری اور تاریخی اسباب خواہ کچھ بھی ہوں، لیکن ہر لسان دراصل اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے، اس امرِ واقعی کے بغیر زبان (لسان، بولی) آیاتِ الٰہی میں شمار نہیں ہو سکتی ہے۔

۵۔ خدا وحدہٗ لا شریک ایک ہی ہے، اس کی ایک ہی سنت ہے، اس نے قانونِ وحدانیّت کے طور پر ایک ہی بشر (یعنی آدم) کو پیدا کیا، اور اسی سے اس کی بیوی کو وجود میں لایا (۰۷: ۱۸۹، ۲۹: ۰۶) اور ان دونوں سے تمام انسانوں کو پھیلا دیا، بالکل اسی طرح ہر عالمِ لسان میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے ایک ہی کلمہ ارشاد فرمایا، جو تمام معنوں کا سرچشمہ ہوا کرتا ہے، جیسے حضرت آدم علیہ السّلام سارے نفوسِ آدمی کا منبع تھے (۰۴: ۰۱) اور کلمۂ اوّل کے معنی سے دوسرا کلمہ بنایا، جو حضرت بی بی حوا علیہا السّلام کی طرح بابرکت ہوتا ہے، پھر دوسرے کلمات اور الفاظ ایسے بنائے گئے، جیسے بنی آدم رفتہ رفتہ اس دنیا میں

 

۲۴۲

 

پھیل گئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ زبان کوئی بھی ہو، اس کے جملہ الفاظ کا باہمی معنوی رشتہ ایسا ہے، جیسے اولادِ آدم کے خاندانوں، قبیلوں، اور قوموں کے آپس میں رشتہ ہوتا ہے، چنانچہ آپ اگر چاہیں تو اس وقت بھی اپنے تصوّر میں سب آدمیوں کو حضرتِ آدمؑ میں دیکھ سکتے ہیں۔

۶۔ اس بیان کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ روح کا ریح (ہوا) سے اور نفس کا نَفَس (سانس) سے بہت ہی قریبی معنوی رشتہ ہے، کیونکہ سانس زندگی کی علامت ہے، اور روح وہ چیز ہے، جو پھونک دی جاتی ہے، جبکہ اذن یا امر کی صورت میں بھی، اور علم و عبادت کی کیفیت میں بھی سانس ہی سے کام لیا جاتا ہے، یعنی جب خلیفۂ خدا (پیغمبرِ اکرم) یا خلیفۂ رسول کسی کو کوئی اذن، یا تعلیم و ہدایت دیتا ہے، تو وہی مبارک سانس نفخِ روح ثابت ہو سکتی ہے، مگر اس کی شرط یہ ہے کہ بندۂ مسلم اپنی زندگی کی تمام سانسوں کو خدا اور اس کے پیغمبرِ برحق کی اطاعت میں صرف کرے، اور دم بدم سلسلۂ ذکر کو جاری رکھے۔

۷۔ قرآنِ کریم میں جہاں کسی قسم کی ہوا کا ذکر آیا ہے، اس میں روحانی ہوا اور سانس کا بھی ذکر ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم کے قوانین میں سے ایک خاص قانون یہ ہے کہ وہ ایک جیسی کئی چیزوں کا ذکر ملا کر کرتا ہے، مثال کے طور پر سورۂ ذاریات (۵۱) کے آغاز میں جن ہواؤں کا بیان فرمایا گیا ہے، وہی ہوائیں ظاہری بھی ہیں، باطنی بھی، اور وہ دمِ ذکر بھی ہے، یعنی وہ ذکرِ الٰہی جو سانس میں

 

۲۴۳

 

پوشیدہ رکھ کر کیا جاتا ہے، بہت ہی مقدّس، زبردست مؤثر، اور نتیجہ خیز ہوا کرتا ہے، جس کی بدولت بندۂ ذاکر کے دل و دماغ سے غبارِ غفلت اڑ جاتا ہے، طبیعت کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے، اور عبادت کی کشتی بڑی آسانی سے چلنے لگتی ہے (۵۱: ۰۱ تا ۰۳) اور یہی علامت روحانی صحت کا پیش خیمہ ہے۔

۸۔ روحانی ہوائیں زندہ ہیں، اور ان سے فرشتے مراد ہیں، جیسا کہ سورۂ مراسلات کے شروع میں ان ہواؤں یا فرشتوں اور دمِ ذکر کے بارے میں ارشاد ہوا ہے (۷۷: ۰۱ تا ۰۵) سانس کے اذکار جو طرح طرح کے ہیں، مختلف فرشتوں کے نمونے ہیں، لہٰذا ان میں بہت سی بیماریوں کے لئے شفاء ہے، پس آپ اسمِ “یا ھُو” کا ذکرِ خفی اس طرح کرتے رہیں، کہ “یا” کے ساتھ معمول کے مطابق سانس لیں، اور “ھُو” کے ساتھ اسے چھوڑ دیں، زبان کو نہ ہلائیں، تاکہ رفتہ رفتہ روح کی زبان کو بولنے کا موقع مل سکے، یہ ذکر نسیمِ سحر کی طرح ہے، اور اگر آپ چاہیں تو اس سلسلے میں ترقی کر کے ذکرِ جلی یعنی سب سے زور دار ذکر بھی کر سکتے ہیں، اور وہ ذکرِ عاصفہ ہے، جو آندھی کی طرح تیز ہے(۲۱: ۸۱) یہ ذکر حضرت سلیمان علیہ السّلام کے لئے مسخر کیا گیا تھا۔

۹۔ یاد رہے کہ ہر عظیم روحانی طاقت کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں، ایک میں دوستانِ خدا کے لئے ثواب ہے، اور دوسرے میں اس کے دشمنوں کے واسطے عذاب، چنانچہ ذکرِ عاصفہ یا ذکرِ صرصر ہی ہے، جس

 

۲۴۴

 

نے قومِ عاد جیسے بہت سے لوگوں کو، جو انتہائی نافرمان ہو چکے تھے، ہلاک کر ڈالا ہے، ملاحظہ ہو: ۴۱: ۱۶، ۵۴: ۱۸ تا ۲۰، ۶۹: ۰۶ تا ۰۷، عالمِ شخصی کے سفرِ روحانیّت میں جب منزلِ عزرائیلی آتی ہے، تو اس وقت ایک بہت عظیم روحانی انقلاب برپا ہو جاتا ہے، جو احاطۂ بیان سے باہر ہے، مگر ایک متعلقہ بات یہ ہے کہ اس کی مسلسل سات رات اور آٹھ دن ایک طرف سے نحس ہیں، اور دوسری طرف سے سعد (مبارک، نیک) کیونکہ اس مدت میں قومِ عاد کی طرح دشمنانِ اسلام روحانی طور پر ہلاک ہو جاتے ہیں، اور اہلِ ایمان کے لئے ابوابِ رحمت مفتوح کئے جاتے ہیں۔

۱۰۔ اگرچہ اصل ذکرِ صرصرایک خود کار روحانی طاقت ہے، تاہم ذکرِ تنفس اس کا ایک نمونہ ہے، لہٰذا جو شخص سات رات اور آٹھ دن تک خلوصِ نیت سے یہ ذکر و عبادت کرے، تو ان شاء اللہ، اس کو ہر قسم کی بیماری سے شفا ملے گی، اور وہ ہر نوع کے شر سے محفوظ رہے گا، اس کی شرطیں تقریباً اعتکاف کی طرح ہیں، یعنی وہ ضرورت کے مطابق وقفہ کر سکتا ہے، تاہم اس میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ذاکر کو خداوند تعالیٰ کے بابرکت اسم پر کامل یقین رکھنا چاہئے، اور اس کے لئے قرآن فہمی یا کم از کم ان آیاتِ کریمہ کا مطلب سمجھنا ضروری ہے، جو اس موضوع سے متعلق ہیں، تاکہ اس کے یقین میں اضافہ ہو۔

۱۱۔ سانس ایک بحرِ عمیق ہے، آپ نے اس اتھاہ سمندر کو اوپر اوپر سے دیکھا ہے، مگر کبھی اس کی گہرائی کا تجربہ نہیں کیا ہے، ایک

 

۲۴۵

 

بار اس کی تہ تک غوطہ لگا کر دیکھئے تو سہی، تاکہ معلوم ہو کہ اس میں کیسے کیسے درہائے گرانمایہ پنہان ہیں، پھر آپ شاید ہر وقت ان موتیوں کی تلاش میں لگے رہیں گے، الغرض ذکرِ تنفس میں قدرتِ خدا کے بہت سے عجائب و غرائب موجود ہیں، جن کا خاطر خواہ مشاہدہ کرنے کے لئے آپ خوب سے خوب تر ریاض کر سکتے ہیں۔

۱۲۔ سورۂ عادیات کے شروع (۱۰۰: ۰۱) میں خدائے بزرگ و برتر نے جن چیزوں کی قسم کھائی ہے، وہ بظاہر مجاہدینِ اسلام کے دوڑائے جانے والے گھوڑے ہیں، مگر بباطن تیز قسم کے اذکارِ تنفس ہیں، جن کی سرعتِ رفتار سے نور کی چنگاریاں جھڑتی ہیں، اس روحانی جہاد کے نتیجے میں بوقتِ صبح نور و سرور کا مالِ غنیمت ملتا ہے، اس سے علم و حکمت مراد ہے، جس سے عقل و جان کی ہر کدورت و بیماری دور ہو جاتی ہے، تاکہ براہِ جنگِ روحی اسلام دشمن قوّتوں کی جماعت میں جا گھسیں، اور کوئی کاری ضرب لگائیں۔

۱۳۔ قرآنِ حکیم (۱۲: ۹۴) میں، جہاں پیراہنِ یوسف کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، وہاں لفظِ ریح (ہوا) بو یا خوشبو کے معنی میں استعمال ہوا ہے، چنانچہ سورۂ اعراف (۰۷: ۵۷) سورۂ فرقان (۲۵: ۴۸) سورۂ نمل (۲۷: ۶۳) اور سورۂ روم (۳۰: ۴۶) میں بھی “الریاح” کے معنی ہوائیں یعنی خوشبوئیں ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے، جس کی روح سے قریب تر ہو جانے سے بہشتِ برین کی ہوائیں آنے لگتی ہیں، جن میں گوناگون

 

۲۴۶

 

خوشبوئیں ہوا کرتی ہیں، اور یہ خوشبوئیں زبانِ حال سے خوشخبری دیتی ہیں کہ اب روحانیّت کی بھرپور اور موسلادھار بارش برسنے والی ہے، پس ذکرِ تنفس ان خوشبوؤں کی طرف آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، جن سے عقل و جان، اور جسم کی بیماریوں کا علاج ہو جاتا ہے۔

۱۴۔ زمانۂ نزولِ قرآن میں ایک انتہائی عظیم انقلابی پیش گوئی فرمائی گئی تھی، جو آفاق و انفس کی آیاتِ خداوندی کے ظہور سے متعلق ہے (۴۱: ۵۳) اب اس کا وقت آچکا ہے، بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ آفاقی نشانیوں یعنی معجزات کے بعد عالمِ نفسی یا عالمِ شخصی کے معجزات بھی شروع ہو گئے ہیں، اور ان کا مشاہدہ اور تجربہ کرنے کا راستہ اور دروازہ (ان شاء اللہ) ذکرِ تنفس ہے، سو آئیے، ہم سانسوں میں “یاھُو” کا یا کسی اور اسم کا پُرحکمت ذکر کریں، تا کہ ہمارے بدن کے خلّیہ خلّیہ اور ذرّہ ذرّہ میں بذریعۂ آکسیجن جنت کی خوشبوئیں بس جائیں، جبکہ یہ ہر مرض کے لئے نہ صرف روحانی سائنس کا علاج ہی ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ ایک اعلیٰ عبادت بھی ہے، یہاں یہ بھی خوب یاد رہے کہ روحانی چیزوں کے ظہورات بحالتِ لطافت حواسِ خمسہ کے مطابق ہوتے ہیں، اور ان میں سے ایک ظہور سونگھنے سے متعلق ہوا کرتا ہے، جس میں طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں لطیف غذائیں ہوتی ہیں۔

۸ ذوالحجہ ۱۴۰۶ھ / ۱۵ اگست ۱۹۸۶ء

 

۲۴۷

 

 

کپکپی سے علاج

۱۔ کیا کپکپی یعنی تھرتھراہٹ سے بھی کوئی علاج ہو سکتا ہے؟ لرزہ بر اندام ہو جانے سے؟ اور کانپنے سے؟ جی ہاں، اس کیفیت میں ایک بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ اس میں بہت سے اسرار و رموز پنہان ہیں، جن کا جاننا بے حد مفید ہے، حالانکہ کپکپی بظاہر ایک ایسی چیز ہے کہ اس سے علاج و دوا کا کام لینا تو درکنار، بلکہ یہ خود ایک بیماری سمجھی جاتی ہے، جبکہ یہ کسی بھی وجہ سے ازخود طاری ہو جاتی ہے، لیکن اس بات سے شاید آپ کو تعجب ہو گا کہ بعض جسمانی بیماریاں مفید ہوا کرتی ہیں، کیونکہ ان کی وجہ سے کئی مہلک بیماریوں کو حملہ آور ہو جانے کا موقع نہیں ملتا ہے، جیسے چیچک کے سدِ باب کے لئے ٹیکا لگایا جاتا ہے، جس کی بدولت ایک عارضی اور مفید بیماری پیدا ہو کر آدمی کو اس پُرخطر بیماری سے محفوظ رکھتی ہے۔

۲۔ کپکپی یا زلزلہ کی روحانی اور جسمانی کئی قسمیں ہیں، سو اگر

 

۲۴۸

 

کوئی مظلوم کسی ظالم کے خوف سے کانپ اٹھتا ہے تو یہ تھرتھراہٹ خالی از حکمت ہرگز نہیں، جبکہ یہ ایک عملی فریاد ہے، جو کسی رکاوٹ سے دوچار ہوئے بغیر بارگاہِ ربّ العزّت کی طرف بلند ہو جاتی ہے، تاکہ حقیقی بادشاہ کا قانونِ عدل و انصاف حرکت میں آئے، اور اگر ایسی کوئی لرزش شدید سردی کی وجہ سے ہے، تو یہ بھی ایک قدرتی علاج ہے، تاکہ اس حرکت سے روحِ حیوانی کی حرارتِ غریزی میں اضافہ ہو، اور نظامِ دورانِ خون جاری رہے، القصہ کوئی کپکپی ایسی نہیں جو معنی اور حکمت کے بغیر ہو۔

۳۔ دعائم الاسلام، جلدِ اوّل، کتاب الجنائز کے شروع ہی میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشادِ گرامی درج ہے: ان الحمی طھور من رب غفور ۔بخار خدائے غفور کی طرف سے ایک پاکیزگی ہے، یعنی اس سے گناہ دھل جاتا ہے، چونکہ گناہ روحانی بیماری ہے، لہٰذا یہ کہنا درست ہو گا کہ ظاہری اور باطنی بخار سے اس کا ازالہ ہو جاتا ہے، پس اس حدیثِ شریف سے یہ قول درست ثابت ہوا کہ بعض عارضی بیماریوں سے مہلک امراض کا علاج ہو جاتا ہے، البتہ اس میں ایمان، یقین، علم ، اور عمل شرط ہے۔

۴۔ قرآنِ حکیم کی وہ کون سی آیۂ مبارکہ ہے، جو بجائے خود علم و حکمت کا ایک خزانہ نہ ہو، مگر مشکل یہ ہے کہ ہم عقلِ جزوی رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے قرآن فہمی کے لئے زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت پڑتی

 

۲۴۹

 

ہے، چنانچہ اگر آپ سورۂ توبہ کی آیۂ مقدسہ نمبر ۵۲ میں غور سے دیکھیں، تو یقیناًآپ بہت خوش و خرسند ہو جائیں گے، کیونکہ اس میں یہ حکیمانہ اشارہ موجود ہے، کہ اس دنیا میں مومنین کی بہتری براہِ راست بھی ہے، اور بالواسطہ بھی، یعنی اگر راحت حاصل ہے، تو یہ کسی شک کے بغیر ڈائریکٹ (براہِ راست) بھلائی ہے، اور اگر کوئی مصیبت آتی ہے، تو وہ اِنڈائریکٹ (بالواسطہ) بھلائی کہلاتی ہے، اور قرآنِ حکیم میں اس قانونِ رحمت کا نام احدی الحسنیین (دو بھلائیوں میں سے ایک ،۰۹: ۵۲) ہے، پس ظاہر ہے کہ خدا کی طرف سے مومن پر آئی ہوئی ہر ایسی تکلیف میں یقیناًایک بڑی حکمت پوشیدہ ہوا کرتی ہے اور صرف حکمت ہی ایک ایسی شیٔ ہے، جو خیرِ کثیر کا درجہ رکھتی ہے۔

۵۔ زلزلۂ روحانیّت و قیامت یا حیرت انگیز بھونچال کا واسطہ نہ صرف عالمِ ظاہر سے ہے، بلکہ اس کا تعلق عالمِ شخصی سے بھی ہے، چنانچہ اس کا نمایان تذکرہ قرآنِ کریم کے ان چار مقامات پر موجود ہے: سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۱۴) سورۂ حج (۲۲: ۰۱ تا ۰۲) سورۂ احزاب (۳۳: ۱۱) اور سورۂ زلزال (۹۹: ۰۱ تا ۰۸) ان کے علاوہ اور بھی کئی آیاتِ کریمہ ہیں، جو بزبانِ حکمت اسی موضوعِ برتر کے اسرار و رموز کو بیان فرماتی ہیں، جیسا کہ سورۂ زمر میں ارشاد فرمایا گیا ہے:

اللہ تعالیٰ نے بڑا عمدہ کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے

 

۲۵۰

 

کہ باہم ملتی جلتی ہے بار بار دہرائی گئی ہے جس سے ان لوگوں کے جو کہ اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں بدن کانپ اٹھتے ہیں پھر ان کے بدن اور دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں (۳۹: ۲۳) اگر اس کپکپی کو عالمِ نفسی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ قرآنِ پاک اور اسمِ اعظم کا ایک بہت ہی عظیم روحانی معجزہ ہے، لیکن یہاں ایک بڑا اہم سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ جب قرآنی حکمتِ بالغہ کے بموجب خدا سے ڈرنے میں متعلقہ اور ضروری خوف کے تمام معانی جمع ہیں، تو پھر کسی دوسرے موقع پر کانپنے کا جداگانہ ذکر کیوں فرمایا گیا ہے؟ اور اس کپکپی میں کیا حکمت پنہان ہے؟

۶۔ روحانی زلزلہ یا کپکپی انبیاء، اولیاء، اور عالی ہمت مومنین کے لئے سب سے آخری درجے کا امتحان بھی ہے، اور خوفِ خدا کا نتیجہ و ثمرہ بھی، نیز اس سے تطہیر و تزکیہ بھی ہو جاتا ہے، تاکہ لوگ اس منزل کے بعد روحانیّت اور جنت میں داخل ہو سکیں، اس کے علاوہ یہ خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر حقیقی زندگی سے قریب تر ہو جانے کی دلیل ہے۔

۷۔ جب زمین کے کسی حصے میں زلزلہ آتا ہے، تو اس وقت بھونچال کی اصل طاقت گہرائی میں ہوا کرتی ہے، اسی طرح جسمانی بخار ہو یا روحانی زلزلہ، اس کے عوامل و محرکات آدمی کے قلب اور بدن کے سارے خلّیات (Cells) میں ہوتے ہیں، ہر چند کہ

 

۲۵۱

 

ابتدائی تحریک و تاثیر سطحی اور بیرونی بھی ہو سکتی ہے، اور یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے کہ انسان اور حیوان دل و دماغ سے پیغام بھیج کر اپنے جسم کے خلّیوں کو بیدار کرنے اور حرکت میں لانے میں مختلف ہیں، مثلاً جب گھوڑے کی پشت پر کوئی زخم ہوتا ہے، اور اس پر مکھی جا بیٹھتی ہے، تو گھوڑا مخصوص اسی جگہ کو لرزش دے سکتا ہے، اور دوسرے بہت سے جانور بھی ایسا کر سکتے ہیں، بلی بوقتِ غصہ اپنے جسم کے تمام خلّیات کو حرکت دے کر کس طرح رونگٹے کھڑے کر لیتی ہے، مرغی جب اپنے چوزوں کی محافظت کرتی رہتی ہے، تو اس حال میں وہ اپنے خلیوں کو چوکس کر کے جسم کے سارے پروں کو پھلائے رکھتی ہے، مگر انسان اپنی مرضی سے رونگٹے کھڑے نہیں کر سکتا، اور نہ ہی وہ پیٹھ کے کسی حصے کو لرزش دے سکتا ہے، تاہم یہ بات الگ ہے کہ ایک کامیاب باڈی بلڈر (Body Builder = تن ساز) لگاتار مشقوں کی بنیاد پر اپنے خلّیات اور گوشت کو غیر معمولی حرکت دے سکتا ہے۔

۸۔ اگر دیدۂ دانش سے دیکھا جائے تو یہ کائنات ۔ جو ایک کھلی کتاب ہے۔ ہمیں بہت کچھ سکھا سکتی ہے، اور حیوانات اسی اشاراتی کتاب کا سب سے اہم باب کی حیثیت سے ہیں، کیونکہ یہ زندہ ہیں، اور اسی زندگی کی بدولت انسان کے بہت ہی قریب

 

۲۵۲

 

ہیں، جن کی فطرت میں مثبت اور منفی انداز میں ہمارے واسطے بہت سے اشارے موجود ہیں، پس آپ غور و فکر کو اپنا شعار بنا لیں، اور قرآنِ حکیم میں تفکر و تدبر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات اور کائنات میں بھی سوچ لیں، تاکہ یہ معلوم ہو کہ انسان کیا کیا کر سکتا ہے، اور کیا کیا نہیں کر سکتا، میرے خیال میں خدا کی عطا کردہ صلاحیتوں سے کام لے کر انسان آج نہیں تو آئندہ سب کچھ کر سکے گا۔

۹۔ ہم اس گفتگو کی گل گشت میں اصل مقام سے کسی قدر دور نکل گئے، ہر چند کہ بات کا رخ اصل موضوع ہی کی طرف ہے، بہ ہر کیف مذکورہ مثالوں کے بعد اب ہمیں یہ بیان کرنا ہے کہ اگرچہ حقیقی اور روحانی کپکپی اپنے معجز نما اثرات کے ساتھ انتہائی بلندی پر واقع ہے، تاہم قانونِ قدرت یہ ہے کہ ہر بلندی کے ساتھ ساتھ ایک ارتقائی سیڑھی بھی ہوا کرتی ہے (۷۰: ۰۳) اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ بیدریغ اور کسی شرم و ناموس کے بغیر کپکپی کی مختلف مشقیں شروع کریں، کبھی ہاتھوں کو تھرتھرا لیں، کبھی پیروں کو، یہ مشق آپ کندھوں سے بھی کر سکتے ہیں، اور زانوؤں سے بھی، اور ہمیشہ اس ورزش میں یادِ الٰہی کی روح پھونکتے رہنا، تاکہ زینہ بزینہ آپ بلند ہو سکیں، ان شاء اللہ، کامیابی ہوگی۔

۱۰۔ خدا تعالیٰ کے نیک بندوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں

 

۲۵۳

 

کہ وہ بہ اندازِ دعا ہاتھوں کو لرزاتے ہیں، اور تھوڑی دیر کے بعد ان پر قدرتی کپکپی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، جس میں روحانی علاج و شفا موجود ہے، اس حال میں ان نیک بخت افراد کی خوب گریہ و زاری ہو جاتی ہے، جس کا ذکر بہ حوالۂ قرآن اس کتاب میں ہو چکا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ دو قسم کی عبادت کر سکتے ہیں، ایک وہ جس میں آپ تنِ تنہا ہوتے ہیں، دوسری بندگی اتنی فضیلت والی ہے، کہ اس میں خلّیاتِ بدن کی بے شمار روحیں خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر آپ کے ساتھ شریک ہو جاتی ہیں، یہ زلزلۂ خاص اور گریہ و زاری کا نتیجہ ہے، پس “کپکپی سے علاج” زبردست مؤثر ہو سکتا ہے۔

۱۱۔ اسی مقالہ کے نکتہ نمبر ۵ میں دیکھئے، جہاں سورۂ زمر کے ایک ارشاد (۳۹: ۲۳) کا ترجمہ درج ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ خاص مومنین کے بدن قرآنِ پاک اور اسمِ اعظم کے زیرِ اثر کانپ اٹھتے ہیں، اور یہ کانپنا اتنا زبردست مفید معجزہ ہے کہ اس سے ان کے بدن یعنی تمام خلّیات اور دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ چونکہ بدن خلّیات ہی کا مجموعہ ہے، اور خلیوں میں بے حساب ذرّاتِ روح ہیں، لہٰذا بدن کا نرم ہو کر دل کے ساتھ ساتھ ذکر کرنا یہ ہے کہ خلّیاتی روحیں بیدار ہو کر یادِ الٰہی میں مصروف ہو جاتی ہیں، پس ظاہر ہوا کہ عارفانہ

 

۲۵۴

 

کپکپی سے جسم کا ہر ہر خلیہ جاگ اٹھتا ہے، اور خدائے بزرگ و برتر کے اسمِ اکبر کے فیوض و برکات کی بدولت جملہ بیماریوں اور آفتوں سے محفوظ رہتا ہے۔

۱۲۔ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ بیماری خلّیات میں ہوتی ہے، قرآن اشارہ فرماتا ہے کہ تم جو خلّیاتی ارواح کا مجموعہ ہو ہر شر اور ہر بیماری سے بچنے کے لئے اپنے پروردگار کی پناہ میں رہا کرو (۱۱۳: ۰۱ تا ۰۵،۱۱۴: ۰۱ تا ۰۶) سائنس کا کہنا ہے کہ مریض کے جسم میں جراثیم ہوا کرتے ہیں، قرآن بزبانِ حکمت کہتا ہے کہ دنیا کی ہر مفید چیز اور ہر دوا خزائنِ خداوندی سے نازل کی گئی ہے (۱۵: ۲۱) نیز یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ عزرائیل جو تم پر مؤکل ہے (۳۲: ۱۱) وہ جراثیم کی جان لے سکتا ہے، سائنس ہر قسم کی ظاہری صفائی اور پاکیزگی کو بے حد ضروری قرار دیتی ہے، قرآن اس بات کی برملا تصدیق کرتا ہے، اور فرماتا ہے کہ صرف یہی نہیں، بلکہ روح کی پاکیزگی اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے، کیونکہ انسان کی رستگاری اسی میں ہے (۹۱: ۰۹) سائنس بدنی ورزش کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہے، اور اسے صحت کے لئے مفید ٹھہراتی ہے، قرآن کا حکیمانہ اشارہ ہے کہ انسان کی تخلیق و تعمیر اور صحت کا راز مشقت میں مضمر ہے (۹۰: ۰۴) اور مشقت یا ورزش کے دو پہلو ہیں: روحانی اور جسمانی، پس قرآن کے نزدیک جسمانی ورزش کے ساتھ ساتھ

 

۲۵۵

 

روحانی ورزش بھی ازحد ضروری ہے۔

۱۳۔ سوال: کپکپی اگر حقیقی معنوں میں ہو، تو اس میں کیا کیا عظیم فائدے پوشیدہ ہوتے ہیں؟ جواب: اس میں عملاً خوفِ خدا اور ثمرۂ خوفِ خدا ہے (۳۹: ۲۳) حقیقی عشق کی بیچارگی، بے قراری، اور فریاد ہے (۲۷: ۶۲) عاجزی اور نیازِ پنہانی کا انعام ہے (۰۷: ۵۵) قدرتی تطہیر و تزکیہ ہے (۰۹: ۱۰۳) روحانیّت کا ایک عظیم معجزہ ہے (۴۱: ۵۳) رحمت ہے کہ زمینِ روح سر سبز و آباد ہو جانے کے لئے ہلتی ہے (۲۲: ۰۵) یہ باطنی انقلاب ہے، اور قیامتِ کبریٰ کا نمونہ بھی (۲۲: ۰۱) ابدی زندگی کی ایک بڑی علامت ہے (۰۸: ۲۴) رابطۂ روحِ اعظم کا تجربہ ہے (۵۸: ۲۲) عالمِ شخصی کی قیامتِ صغریٰ کا بھونچال ہے (۹۹: ۰۱ تا ۰۸) آخری مرحلے کا امتحان و آزمائش ہے (۳۳: ۱۱) صبر و صلوٰۃ کا میوۂ شیرین و پُرمغز ہے (۰۲: ۱۵۳) آسمانی نصرت و تائید کا آغاز اور خلّیاتی ارواح کی بیداری ہے (۰۲: ۲۱۴) اور روحِ قرآن ہے، جو ایسے باسعادت مومنین کے لئے دوا اور شفا لے کر آیا کرتی ہے (۱۷: ۸۲)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِ علی) ہونزائی
۱۸ ذوالحجہ ۱۴۰۶ھ / ۲۵ اگست ۱۹۸۶ء

 

۲۵۶

کتابُ العلاج – علمی علاج

علمی علاج

دیباچہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعماتِ عظمیٰ کا تذکرہ یا اشارہ اگر خلوصِ نیّت اور عشق سے کیا جاتا ہے، تو یہ اہلِ ایمان کی بہت بڑی سعادت ہے کہ وہ شکرگزاری اور قدردانی جیسی عبادت کے لئے سعی کر رہے ہیں، اور اس نیک عمل سے خدا کی خوشنودی حاصل ہو سکتی ہے، جی ہاں، منعمِ حقیقی کی صرف ایک ہی بڑی نعمت یا چند نعمتہائے عظمیٰ کی بات نہیں، بلکہ ایسی لاتعداد اور بے پناہ نعمتوں کا ذکرِ جمیل ہونا چاہئے، اور وہ ہے ہر آدمی کا وجود، یعنی جسم، روح، اور عقل کا مجموعہ، جو عالمِ صغیر کے نام سے مشہور ہے، اور یہی عالمِ شخصی بھی ہے۔

۲۔ شخصی دنیا کا ایک خاص نام عالمِ ذرّ ہے، جو ایک ذرّاتی کائنات ہے، یہی عالمِ اکبر کا خلاصہ، جوہر، اور نچوڑ ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ بیرونی دنیا ایک ایسی عجیب، عظیم، اور بے مثال سلطنت ہے کہ اس کے سلطان کا پایۂ تخت اور تمام خزائن پرسنل ورلڈ میں

 

۵

 

ہیں، اور اسی معنیٰ میں قادرِ مطلق کائناتِ ظاہر کو مکمل انسانوں میں لپیٹ لیتا ہے (القرآن) دوسری مثال میں ظاہری دنیا ایک بہت بڑا باغ ہے، جس میں بے شمار پُرثمر درخت ہیں، جن کی لطیف شاخیں اپنے گوناگون اور بے حد شیرین پھلوں کے ساتھ عالمِ دل میں جھکی ہوئی ہیں (حکمت : ۷۶: ۱۴)۔

۳۔ تیسری مثال میں دنیا ایک وسیع گلشن ہے، جس کے پھول گلہائے بہشتِ برین کی طرح دلکش و دل آویز ہیں، ان تمام تر و تازہ گلوں کو عطارِ ازل اپنے اس کارخانۂ قدرت میں جمع کر لیتا ہے، جو عالمِ شخصی میں ہے، تاکہ ان خوش رنگ و خوش بو پھولوں سے ایک ایسا معجزانہ عطر بنایا جائے، کہ جس میں ہر پھول فنا ہوکر ازسرِ نو گلِ بہشت کی طرح کھل جائے، اور ہمیشہ کے لئے سدا بہار رہے، پس آدمی کائناتی گلستان کا عطر بھی ہے، اور خود اصل گلبن بھی۔

۴۔ چوتھی مثال میں عالمِ اکبر ایک بے پایان سمندر ہے، جس کی خوبصورت صدف (سیپ) کا گوہرِ یکدانہ، اور درِ یتیم آدم و ابنِ آدم ہی ہے، چونکہ یہ چیز درِ شہوار (بہت گرانمایہ موتی، بادشاہ کے قابل موتی) ہے، لہٰذا ایک اندازے کے مطابق اس کی قدر و قیمت کائناتِ اکبر سے بھی بہت زیادہ ہے، جس کے اسباب یہ ہیں: الف: یہ انمول موتی بھی ہے اور خود بحرِ گوہر زا بھی۔ ب: حقیقی بادشاہ اسی موتی کو بطورِ خاص اپناتا ہے اور کسی دوسری چیز کو نہیں۔ ج:

 

۶

 

یہ آئینۂ جلال و جمالِ خداوندی ہے۔ د: خلافتِ کبریٰ اور خلافتِ صغریٰ اسی کے لئے ہے۔ ھ: یہ خدائے بزرگ و برتر کی ایک ایسی کامل و مکمل مخلوق ہے کہ اس کو دیگر تمام مخلوقات پر کرامت و فضیلت دی گئی ہے۔ و: یہ مرتبۂ روحانیّت پر ایک زندہ اور گویندہ کتاب ہے، جس میں ہر بھید خود از خود بولتا ہے۔ ز: یہ خدا کا بھید ہے، اور خدا اس کا بھید ہے۔

۵۔ جب انسان کی اتنی بڑی اہمیّت ہے، اور اس کا مرتبۂ اصلی ایسا ارفع و اعلیٰ ہے، تو اس کے لئے یہ امر بے حد ضروری ہوا کہ وہ اپنی روحانی اصلاح و ترقی کی طرف ہر وقت توجہ دے، اور شب و روز شدید محنت سے کام کرے، کیونکہ اس کے عالمِ شخصی میں ایک سلیمانی سلطنت مخفی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کتاب میں سلطنتِ سلیمانی کا ذکر کیا ہے، تاکہ ہر عالی ہمت مومن ذکر و عبادت اور علم و عمل کے وسیلے سے آگے بڑھے، اور ان شاء اللہ اپنے عالمِ شخصی کی بادشاہی حاصل کرے۔

۶۔ حدیثِ شریف میں ہے: ان للّٰہ مائۃ الف نبی و اربعۃ و عشرین الف نبی من ولد آدم ۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں آئے ہیں۔ تاکہ خدا کے حکم سے عالمِ ذرّ کو حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں لانے کے لئے آدمی کی تمام خوابیدہ قوّتوں کو جگائیں، اور اس کی جملہ پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کریں،

 

۷

 

چنانچہ محسنِ انسانیّت حضرتِ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآنِ حکیم جیسی انتہائی پُرحکمت اور کامل و مکمل کتاب اور اسلام جیسے دینِ فطرت کی روشن ہدایات و تعلیمات سے انسان کی اخلاقی، مذہبی، اور روحانی ترقی کو بہت زیادہ آسان بنا دیا، جیسا کہ سورۂ قمر (۵۴: ۱۷) میں چار مرتبہ یہی ارشاد ہوا ہے: وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ (۵۴: ۱۷) اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان کر دیا ہے سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟ اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ خدا نے روحِ قرآن کو اپنے اسمِ بزرگ سے مربوط فرمایا، تاکہ اسم کا ذکر (یادِ الٰہی) جوہرِ قرآن کا ذکر ہو، اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا کتنا بڑا معجزہ اور احسان ہے۔

۷۔ اگرچہ درحقیقت علومِ مخفی خدا ہی کے ہیں، لیکن وہ بخالت سے پاک و برتر اور احسانات و نوازشات کا مالک ہے، اس لئے نزولِ قرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی بڑی زبردست فیاضی اور عنایت ہوئی، اور قرآنِ کریم اپنے وسیع دامن میں عالمِ غیب کے لاتعداد جواہرِ اسرار کو سمیٹ کر دنیا میں نازل ہوا، چنانچہ سورۂ تکویر (۸۱: ۲۴) میں ذرا غور سے دیکھئے کہ تنزیلِ قرآن کے سلسلے میں غیب کے بھیدوں کو بیان کرنے سے ہرگز بخیلی نہیں کی گئی ہے، اگر اس کے باؤجود ہم قرآنِ پاک کے علم و حکمت سے فائدۂ کافی نہیں اٹھا سکتے تو شاید ہم بیمار ہیں، پس ہمیں اپنی بیماری کا اعتراف کرتے ہوئے

 

۸

 

علاج و شفا اور صحت کے قوانین کے مطابق عمل کرنا چاہئے، تاکہ ہم کو قلبِ سلیم نصیب ہو (۲۶: ۸۹، ۳۷: ۸۴)۔

۸۔ قرآنِ حکیم کا بے مثال اور انوکھا طرزِ بیان اگرچہ بشر کے احاطۂ تعریف و توصیف سے باہر ہے، تاہم یہ بات اہلِ دانش کو معلوم ہے کہ قرآنِ کریم ایک ہی حقیقت کو طرح طرح کی مثالوں میں پیش کرتا ہے (۱۷: ۸۹، ۱۸: ۵۴) تاکہ لوگ ایک نہ ایک مثال سے مقصدِ اصلی کو سمجھ سکیں، چنانچہ دین ایک دور و دراز سفر جیسا ہے، یہ ایک پسندیدہ اور عمدہ تجارت کی طرح ہے، یا باغبانی اور کھیتی باڑی جیسی ہے، یہ کبھی جنگ، کبھی صلح، اور کبھی فتح ہے، دین اللہ کی غلامی ہے، یہ خدا کی دوستی ہے، یہ ایک سلطنتِ روحانی ہے، یہ خلافتِ الٰہیہ ہے، یہ ایک خدائی مدرسہ ہے، یہ ایک عروج و ارتقاء ہے، یہ ایک انتہائی عظیم دارالشّفاء (Hospital) ہے، اور اسی طرح حقیقتِ دین کی مثالیں بے شمار ہیں۔

۹۔ حضرتِ آدمؑ کی مثال میں دین کا مرکز مدرسۂ ملائکہ ہے، حضرتِ نوحؑ کے اشارے میں نورِ اسلام کشتئ نجات ہے، حضرتِ ابراہیمؑ نمونۂ امامت ہیں، حضرتِ اسماعیلؑ کا بے مثال کارنامہ ہر گونہ قربانی کا درس دے رہا ہے، حضرتِ یعقوبؑ جسمانی بیٹے کے لئے نہیں، بلکہ فرزندِ نورانی کے دیدار کے لئے رویا کرتے تھے، کوئی کامیاب روح کتنی حسین و جمیل ہے؟ اور اس کے علمی اوصاف و کمالات کیا کیا ہو سکتے ہیں؟ اس کا جواب حضرتِ یوسفؑ ہیں، حضرتِ موسیٰؑ کا پہاڑ

 

۹

 

(طور) اسلام کی روحانیّت میں بھی، اور عقلانیّت میں بھی اپنے تمام معجزات کے ساتھ موجود ہے، حضرتِ داؤدؑ عالمِ ذرّ کی آواز، اسرافیل کا ساز، اور داعئ عشقِ الٰہی ہیں، حضرتِ سلیمان کمالِ انسانیّت اور روحانی سلطنت کا نمونہ ہیںِ حضرتِ ایوبؑ اپنے عظیم عمل سے صبر و ثبات کا سبق پڑھا رہے ہیں، حضرتِ یونسؑ ایک بہت بڑی وھیل مچھلی (نفسِ امّارہ) کے خطرے سے خبردار کر رہے ہیں، حضرتِ مریمؑ اس صوفی یا مومن کی مثال ہیں، جس کے کان سے بتوسطِ علم و اسم نور داخل ہو جاتا ہے، اور حضرتِ عیسیٰؑ وہ نور ہیں، جو علم و اسم میں ہوتا ہے، پس عالمِ شخصی کا نور گویا مومن کا بیٹا قرار پاتا ہے، ہر چند کہ نورانی رشتے اور بھی ہیں، اور میں حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ اقدس و اطہر کے باب میں یہ عرض کروں گا کہ حضورِ انورؐ میں تمام پیغمبروں کے فضائل و کمالات اور ساری عمدہ مثالیں جمع ہیں، اور آپؐ ہر ہر عالمِ شخصی کے لئے رحمتِ بے پایان ہیں۔

۱۰۔ قرآنِ حکیم حوضِ کوثر کی طرح ایک انتہائی عظیم تالاب ہے، جو علم و حکمت کے نورانی پانی سے پُر اور لبا لب ہے، اس کے گرداگرد طرح طرح کی مثالوں کے مخارج بنے ہوئے ہیں، آپ جس مثال کو چاہتے ہیں، اسی کے مخرج (نکاس) کو کھول کر رکھیں، پورے تالاب کا پانی آہستہ آہستہ آپ کی طرف آنے لگے گا، اسی اصول کے مطابق میں نے زیرِ نظر کتاب میں علمی علاج کی مثال سے بحث کی ہے، کیونکہ

 

۱۰

 

قرآنِ عزیز نے واشگاف الفاظ میں یہ کہہ دیا کہ وہ مومنین کی شفا کے لئے نازل کیا گیا ہے (۱۷: ۸۲) ہر چند کہ میں کوئی طبیب یا حکیم نہیں ہوں، مگر ہاں، یہ درست ہے کہ میں قرآن، اسلام، اور انسانیّت کی ایک بہت ہی چھوٹی سی اور بہت ہی محدود سی خدمت کرنا چاہتا ہوں، بشرطیکہ خدائے تعالیٰ کی رضا اور تائید ہو۔

۱۱۔ میں جس علاقے سے تعلق رکھتا ہوں اس کے کچھ پہاڑوں میں یاقوتِ سرخ کی چند کانیں دریافت ہوئی ہیں، اس وجہ سے میں نے دقتِ نظر سے دیکھا کہ یاقوتِ احمر، یاقوتِ جگری، اور یاقوتِ رمانی ناقابلِ یقین حد تک خوبصورت، اور زبردست دلکش و دل آویز ہوا کرتا ہے، خصوصاً اس وقت، جبکہ ابھی ابھی کان سے تازہ بتازہ نو بنو نکالا ہوا ہوتا ہے، اگر اس وقت سنگِ سفید کے ساتھ ہو تو بڑا عجیب ہوتا ہے، اور جن لوگوں کو ایسے جواہرِ گرانمایہ ملتے ہیں، ظاہر ہے کہ وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے ہیں، اب آئیے کچھ دوسرے یاقوتوں اور جواہر کی بات بھی کرلیں، وہ یاقوتہائے علم اور جواہرِ حکمت ہیں، جو دنیائے ظاہر کے قیمتی پتھروں اور موتیوں سے انتہائی ارفع و اعلیٰ اور نہایت قیمتی ہیں، وہ جس پہاڑ سے نکالے جاتے ہیں، یقیناً اس کا مرتبہ عظیم ہے، کیونکہ وہ کوہِ طور کی طرح ہے، آیا آپ ان لوگوں کی حالتِ شادمانی اور کیفیتِ نشاط کا کچھ اندازہ کر سکتے ہیں، جو ان جواہرِ لطیف کو پھیلانے کے سلسلے میں ہر گونہ بڑی اہم خدمات انجام دے رہے ہیں؟

 

۱۱

 

میں سمجھتا ہوں کہ ایسے خوش نصیب حضرات کی مسرّتوں اور خوشیوں کو ہم بآسانی احاطۂ بیان میں نہیں لا سکتے ہیں۔

۱۲۔ اب میں سب سے پہلے با وقار اور شہرت یافتۂ روزگار روزنامۂ “اخبارِ جنگ” کا اخلاص و صداقت کے نکھرے ہوئے الفاظ میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نامی گرامی اخبار نے ازراہِ علم گستری و ترقی پسندی جناب رئیس امروہوی جیسے دانشور، کہنہ مشق صاحبِ قلم، اور ادیبِ اعظم کی تحریرِ دلپذیر و دلنشین میں میری کئی کتابوں کا شاندار تعارف کرایا، پس میں اور میرے تمام احباب مؤقر اخبارِ جنگ اور محترم رئیس صاحب کے ازحد شکرگزار و ممنون ہیں، دراصل ان تعارفی مضامین میں علم دوستی، اسلامی اخوّت، اور نیکوکاری کے کئی پہلو جھلک رہے ہیں۔

۱۳۔ ادارے کا اصول اور تاریخ کا تقاضا یہی ہے کہ جو خوش نصیب حضرات کار ہائے نمایان انجام دیتے ہیں، ان کی مفید خدمات تاریخ کے صفحات پر ثبت کی جاتی ہیں، تاہم اس سلسلے میں سب سے انوکھی بات اور سب سے نرالی چیز بندۂ مومن کا اپنا نامۂ اعمال ہی ہے، جس کو دیکھ کر ہر مومن انتہائی مسرور و شادمان ہوگا، وہ ایک جیتی جاگتی (بولتی) کتاب ہوگی (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) جس کی تحریریں بڑی عجیب و غریب ہوں گی، کہ آدمیوں، روحوں اور فرشتوں کی صورت میں خود گفتگو کریں گی، جیسے کسی روشن خواب میں کتابِ اعمال کی کوئی چھوٹی سی مثال دکھائی جاتی

 

۱۲

 

ہے، جو دنیوی تحریر میں نہیں ہوتی، اگرچہ خواب اور روحانیّت (یا آخرت) کے درمیان آسمان و زمین کا فرق ہے، لیکن پھر بھی خواب کی مثال عام فہم ہونے کی وجہ سے بہت خوب ہے، کیونکہ ایک ناخواندہ شخص بھی اس کا معمولی مطلب سمجھ سکتا ہے۔

۱۴۔ جناب فتح علی حبیب صدرِ خانۂ حکمت، ان کی بیگم محترمہ گل شکر ایڈوائزر، جناب محمد عبد العزیز صدرِ ادارۂ عارف، ان کی بیگم محترمہ یاسمین سیکریٹری اور دیگر معزز عملداران و ارکانِ مشرق و مغرب (پاکستان، لنڈن، امریکہ، کنیڈا، فرانس، وغیرہ) یہ سب پہلے خوش بختی سے نورِ اسلام و ایمان میں پگھلے ہوئے تھے، اب بفضلِ الٰہی نورِ علم میں بھی گداختہ ہوچکے ہیں، یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام ہے، میں ان سب کا انتہائی پُرخلوص شکریہ جان کی جان اور دل کے دل سے ادا کرتا ہوں، یہ زبانِ قال کی بات ہوئی، اور میری شدید خواہش یہ بھی ہے کہ میرے آثارِ علمی (کتابیں وغیرہ) زبانِ حال سے ہمیشہ شکریہ اور عمدہ سے عمدہ دعائیں کرتے رہیں، حدیثِ شریف کے مطابق ہر نیکی ایک صدقہ ہے (کل معروف صدقۃ) اور اگر کوئی نیکی ہمیشہ جاری رہنے والی ہے تو یہ صدقۂ جاریہ کہلاتی ہے، اور یہ ہمیشہ کے لئے باقی رہنے والے نیک کاموں میں شمار ہوتی ہے (و الباقیات الصالحات ۱۸: ۴۶) اس لئے پروردگارِ عالم کی بارگاہِ اقدس سے امید وابستہ ہے کہ خدائے

 

۱۳

 

بزرگ و برتر ان سب کو دونوں جہان کی سعادتوں اور برکتوں سے سرفراز فرمائے گا، آمین!

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
ہفتہ ۲۰ محرم الحرام ۱۴۰۹ھ / ۳ ستمبر ۱۹۸۸ء

۱۴

علمی علاج کیوں کر؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سوال: علم نہ تو کوئی دوا ہے، اور نہ ہی کوئی غذا، پھر تعجب خیز بات ہے، آپ کا یہ کہنا کہ اس سے علاج معالجہ کا کام لیا جا سکتا ہے! حالانکہ علم تو صرف جاننے کے لئے ہوا کرتا ہے! پس بتائیے کہ علمی علاج کس طرح ممکن ہے؟ اس بنیادی سوال کا مدلل، مفصل، اور مکمل جواب مندرجہ ذیل دلائل میں موجود ہے، توجہ فرمائیں:

دلیل نمبر ۱: علم امراضِ باطن کے لئے دوا بھی ہے، اور عقل و جان کے لئے غذا بھی، کیونکہ دنیا میں کوئی ایسا طریقِ علاج نہیں، جس پر علم و حکمت کا زبردست احسان نہ ہو، اور وہ طریقہ علم و کتاب اور معلّم کے بغیر چلتا رہے، پس ظاہر ہوا کہ ہر قسم کے طریقۂ علاج میں جو جو اسباب و ذرائع درکار ہیں، ان سب میں بنیادی اہمیّت علم ہی کو حاصل ہے۔

دلیل نمبر ۲: علم کا ایک خاص نام نور ہے، جس کی روشنی

 

۱۵

 

میں دیکھنے سے دین و دنیا کی حقیقتوں اور معرفتوں سے آگہی ہوتی ہے، اور سب نعمتوں سے بڑھ کر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا کی خوشنودی کن کن اقوال و اعمال سے حاصل ہو سکتی ہے، تاکہ ہر وقت رضائے الٰہی کی پیروی کی جائے، کیونکہ ایسے اشخاص کو اللہ تعالیٰ سلامتی کی راہوں پر گامزن کر دیتا ہے (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) اور لفظِ سلامتی (سلام) میں روحانی اور عقلانی صحت کے معنی موجود ہیں۔

دلیل نمبر ۳: معلوم ہے کہ باطنی بیماریوں سے شفایابی اور روحانی صحت مندی کا سب سے عظیم راز گریہ و زاری میں پوشیدہ ہے، اور یہ وصف بدرجۂ کمال ان حضرات کے واسطے خاص ہے، جو علمِ لدنّی کے خزائن سے نوازے گئے ہیں (۱۷: ۱۰۷)۔

دلیل نمبر ۴: خوفِ خدا ایک ایسا نسخۂ کیمیا ہے کہ اس کے استعمال سے یقیناً تمام تر اخلاقی اور روحانی امراض کے جراثیم مر جاتے ہیں، مگر جو لوگ صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، وہ صرف حقیقی علم والے ہی ہیں (۳۵: ۲۸)۔

دلیل نمبر ۵: بہشت صحت و سلامتی اور مسرّتوں کا گھر ہے (۰۶: ۱۲۷) مگر دوزخ مقامِ بیماری، جائے ہلاکت، اور منزلِ موت ہے (۲۵: ۱۳ تا ۱۴) پس اس دنیا ہی میں ہر شخص کے پاس علم الیقین کا ہونا انتہائی ضروری ہے، تاکہ اس کے ذریعہ نہ صرف جنت کو دیکھ سکے اور پہچان سکے (۴۷: ۰۶) بلکہ اس کے علاوہ جحیم (دوزخ) کو بھی دیکھ

 

۱۶

 

کر اس میں گر جانے سے خود کو بچائے (۱۰۲: ۰۵ تا ۰۶)۔

دلیل نمبر ۶: شیاطینِ انسی و جنّی نہ صرف سنگباری ہی کرتے رہتے ہیں، بلکہ یہی وہ مخلوقات ہیں، جو ہر قسم کے امراض کو بھی پھیلاتی ہیں، چنانچہ اس جنگ اور ان بیماریوں سے مومنین کو محفوظ و سلامت رکھنے کی خاطر خدائے بزرگ و برتر نے اپنے انبیاء و اولیاء کو روحانی اور علمی لباس بنانے کا ہنر سکھا دیا (۱۶: ۸۱، ۲۱: ۸۰)۔

دلیل نمبر ۷: علم ہر چیز پر محیط و حاوی ہے، یعنی ربِّ عزّت نے جملۂ اشیاء کو علم کی گرفت اور کنٹرول میں رکھ دیا ہے، پس کوئی شک ہی نہیں کہ وہ بیماریوں پر بھی غالب اور کنٹرولر ہے (۰۶: ۸۰، ۰۷: ۸۹)۔

دلیل نمبر ۸: حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے لشکرِ روحانی میں جن بھی تھے، انسان بھی، اور پرندے بھی (۲۷: ۱۷) لیکن سب سے زیادہ توانا و طاقتور شخص وہی ثابت ہوا ، جس کے پاس آسمانی، کائناتی، اور ذاتی کتاب کا علم تھا، اور اُسی نے آنکھ جھپکنے سے پہلے ہی ملکۂ سبا کے تخت کو حضرت سلیمان کے حضور لا کھڑا کر دیا (۲۷: ۴۰) چنانچہ اس عجیب و غریب کارنامے سے علم کی زبردست طاقت و تاثیر کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔

دلیل نمبر ۹: کوئی ایسی چیز کہیں بھی نہیں، جس کے خزائن اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاس نہ ہوں، اور پروردگارِ عالم اُس شیٔ کو نازل نہیں فرماتا، مگر افراد و اقوام کے علم، آگہی، معلومات، اور اعمال کی مقدار

 

۱۷

 

کے مطابق (۱۵: ۲۱) یعنی جتنا کسی کا علم و عمل ہوگا، اتنی ہی ربّانی نعمتیں عطا ہو سکتی ہیں، پس باطنی صحت کی عظیم نعمتیں علمِ حقیقی کی تابع ہیں۔

دلیل نمبر ۱۰: علم سرچشمۂ عقل سے آتا ہے، اور عقل کے بارے میں حدیثِ شریف کا یہ ارشاد ہے: اللہ نے جب عقل کو پیدا کیا تو اسے نطق بخشا اور اس سے کہا: آگے آ، وہ آگے آئی، پھر کہا، پیچھے جا، وہ پیچھے چلی گئی، پھر کہا: میرے عزّت و جلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ محبوب کوئی شیٔ نہیں پیدا کی ہے اور میں تجھے اسی کے اندر مکمل کروں گا جو مجھے پسند ہو۔

دلیل نمبر ۱۱: جو شخص طلبِ علم کے لئے کسی راستے پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے راہ ہائے بہشت میں سے ایک راستے پر لے چلتا ہے، اور فرشتے طالبِ علم کی خوشنودی کے لئے اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، اور اہلِ علم کے آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات اور زیرِ آب مچھلیاں بھی طلبِ مغفرت کرتی ہیں (حدیث)۔

دلیل نمبر ۱۲: عابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہی ہے جیسی چودھویں کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر، اور علماء تو انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔ (حدیث)۔

دلیل نمبر ۱۳: قرآنِ پاک یقیناً دوا اور شفاء ہے، لیکن یاد رہے کہ اس کی خاص و اعلیٰ شفا بخشی روح اور عقل سے متعلق ہے، ہر چند کہ قرآنِ حکیم سے جسمانی علاج بھی ہو سکتا ہے۔

۱۸

دلیل نمبر ۱۴: حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زمانۂ نبوّت میں طبیبِ روحانی تھے، آپ علم و حکمت کے لاہوتی نسخوں سے جہالت و نادانی کے مریضوں کا علاج فرماتے تھے (۰۲: ۱۵۱، ۰۲: ۱۲۹، ۶۲: ۰۲)۔

دلیل نمبر ۱۵: سورۂ یونس کی ایک آیۂ شریفہ (۱۰: ۱۰۰) کے مفہوم کے مطابق بے عقلی و نادانی پلیدی اور بیماری ہے، جس کا علاج عقل اور علم ہی سے ہو سکتا ہے۔

دلیل نمبر ۱۶: سورۂ حج (۲۲: ۴۶) میں دیکھئے: کیا یہ لوگ (عالمِ شخصی کی ) زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں (۲۲: ۴۶) اس مقدّس تعلیم میں مرضِ کور دلی کا ذکر فرمایا گیا ہے، جس کا علاج ریاضت و مشاہدۂ باطن اور عقل و دانش سے ہو سکتا ہے۔

دلیل نمبر ۱۷: دوزخ جہالت و نادانی اختیار کرنے کی سزا ہے، دیکھئے کہ دوزخی اپنے کس گناہ کا اعتراف کر لیتے ہیں: اور وہ کہیں گے اگر ہم سنتے یا عقل سے کام لیتے تو ہم دوزخ والوں سے نہ ہوتے (۶۷: ۱۰) اس سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ اسلام میں عقل و دانش اور علم و حکمت کی بہت بڑی اہمیّت و منزلت ہے، کیونکہ تمام نیکیاں اسی سے وابستہ ہیں، اور ہر قسم کی باطنی بیماری اسی سے رفع دفع ہو سکتی ہے۔

۱۹

دلیل نمبر ۱۸: علم کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ بھی ہے کہ جن حضرات کو علم عطا ہوا ہے، ان کا آئینۂ سینہ اس قدر صاف ہو جاتا ہے کہ اس میں قرآنِ پاک کا روحانی و عقلانی عکس پڑتا ہے، مگر کس طرح؟ روشن آیات و معجزات کی حیثیت میں (۲۹: ۴۹)۔

دلیل نمبر ۱۹: علم کی عظمت و بزرگی اور برتری کا ایک روشن ثبوت وہ عظیم فرشتے ہیں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، ان کو کائنات و موجودات کی ہر شے کے ظاہر و باطن میں علم ہی علم نظر آتا ہے، اور وہ اسی وجہ سے کہا کرتے ہیں: ربنا وسعت کل شیء رحمۃ و علما (۴۰: ۰۷) اے ہمارے پروردگار تو نے رحمت اور علم میں ہر چیز کو گھیرا ہوا ہے۔

دلیل نمبر ۲۰: صاحبانِ عقل (اولوا الالباب) کی بہت بڑی تعریف یہ ہے کہ وہ وجوہِ قرآن اور وجہِ احسن کو جانتے ہیں، اور اس کی پیروی کرتے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: پس (اے نبی) بشارت دے دو میرے ان بندوں کو جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کی بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانشمند ہیں (۳۹: ۱۷ تا ۱۸)۔

دلیل نمبر۲۱: جس طرح سورج کی روشنی دو درجوں میں نظر آتی ہے، درجۂ اوّل بحرِ آفتاب، اور درجۂ دوم بکھری ہوئی شعاعیں، اسی طرح نورِ علم کے بھی دو مقام ہیں، پہلا مقام سرچشمۂ نور

 

۲۰

 

ہے ، جو اصل اور گوہرِعقل ہے، جس میں ازلی و ابدی حقیقتوں اور معرفتوں کی یکجائی ہے، اور دوسرے مقام پر علم بحیثیتِ نورِ منتشر کام کر رہا ہے، کیونکہ عالمِ کثرت میں وحدت نہیں، بلکہ انتشار ہے، تاہم خدا و رسول کی ہدایتِ کاملہ وہ ہے، جو اہلِ ایمان کو راہِ مستقیم سے گزار کر سرچشمۂ نورِ علم تک پہنچا سکتی ہے، پس اسی جوش و جذبہ، اور یقینِ کامل کے ساتھ ہر چیز پر اس کی فوقیت و برتری کو تسلیم کرتے ہوئے علمی علاج سے بحث کی گئی ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
اتوار ۲ ذی الحجہ ۱۴۰۸ھ / ۱۷ جولائی ۱۹۸۸ء

۲۱

قوانینِ روح و روحانیّت

۱۔ روح اور روحانیّت کا علم عام و آسان نہیں، بلکہ یہ بڑا خاص اور بہت ہی مشکل ہے، تاہم اسلام میں ناممکن نہیں، کیونکہ قرآنِ حکیم کی پاک روح، جس کا دوسرا نام نور ہے، روحانیّت کا چشمۂ زایندہ ہے، اگر آپ جاننے کی خاطر سوال کرنا چاہیں، تو بے شک پوچھ سکتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی ایک زندہ روح سے کیا مراد ہے؟ اس کا جواب یہ ہوگا کہ حضرتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جب جب قرآنِ مجید کی کوئی آیت نازل ہوتی تھی، تو وہ روح اور نور کی صورت میں ہوتی تھی، پھر اسے آنحضرتؐ اپنی زبانِ پاک و مبارک سے پڑھتے اور کاتبانِ وحی سے لکھا لیا کرتے تھے، مطلب یہ ہے کہ اصل روح و روحانیّت قرآنِ حکیم سے وابستہ ہے (۴۲: ۵۲)۔

۲۔ اگر کسی خوش نصیب مسلمان کو روحانیّت کا کوئی تجربہ حاصل ہو جاتا ہے تو یہ نعمت، دولت، ہدایت، علم، حکمت، اور معرفت قرآن ہی کی ظاہری اور باطنی برکتوں کی وجہ سے ہے، کیونکہ اسمائے

 

۲۲

 

قرآن میں سے ایک اسم “مبارک” (۳۸: ۲۹) ہے، یعنی برکت والی کتاب، اور قرآنی برکات کے حصول کے لئے ضروری شرط یہ ہے کہ اہلِ دانش اس میں غور و فکر کریں (۳۸: ۲۹) جو شخص قرآنِ حکیم کے معنوی حسن و جمال کا عاشق ہو، اسے چاہئے کہ قرآنی برکتوں کی مثال کو اچھی طرح دلنشین کر لے، کہ برکت کی مادّی مثال کوئی ایسی چیز ہو سکتی ہے، جو ہمیشہ جاری و ساری رہے، اور کبھی ختم نہ ہو، جیسے کسی عظیم پہاڑ کی مسلسل چیزیں: پانی کا ہر وقت بہتے رہنا، درختوں اور جڑی بوٹیوں کا لگاتار پیدا ہو جانا، شکاری جانوروں کا سلسلہ، معدنیات کی فروانی، وغیرہ (۴۱: ۱۰)۔

۳۔ اب ہم قرآنِ پاک سے بار بار رجوع کرتے ہوئے انسانی روح کا کچھ ذکر کریں گے، کہ روح خدا کی خدائی میں سب سے عجیب اور سب سے نرالی چیز ہے، اور روح کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہ اپنے مرتبۂ اعلیٰ پر آئینۂ جمال و جلالِ خداوندی کا فریضہ انجام دیتی ہے، جس میں ہر آن ربِّ کریم کی صفاتِ بابرکات کے پرتو کی ایک نئی شان ہوتی ہے، اور ظہورات و تجلّیات کے اس سلسلۂ غیر متناہی کا قرآنِ حکیم نے اس طرح ذکر فرمایا : کل یوم ھو فی شان (۵۵: ۲۹) اس آیۂ کریمہ کی کئی تفسیروں میں سے ایک صوفیانہ تفسیر بھی ہے، وہ یہ کہ قادرِ مطلق کے ایام چھوٹے سے چھوٹے بھی ہیں، اور بڑے سے بڑے بھی، اس کا سبب یہ ہے کہ وہی تو خدا ہے، جو زمانی اور مکانی وسعتوں کو لپیٹتا بھی ہے، اور پھیلاتا بھی ہے، چنانچہ مذکورہ

 

۲۳

 

آیۂ مقدسہ کے چند معنوں میں سے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ آئینۂ روح (جان) میں جس پُرنور جلوے کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے، وہ ہر لحظہ بحسن و جمالِ دیگر ضیا فگن ہو جاتا ہے، آئینۂ قلب و جان میں یہ گوناگون ظہورات و تجلّیات آخر کیا ہیں؟ اور کیوں ہیں؟ یہ حقیقتِ حقائق کی بے شمار تشبیہات و تمثیلات ہیں۔

۴۔ آیا یہ بات درست ہے کہ ایک کامیاب صوفی اپنی روح کو دیکھ سکتا ہے؟ جی ہاں! ایک ایسا مسلمان جو علم و عمل سے آراستہ ہو چکا ہو، ایک حقیقی مومن، اور ایک صوفئ صاف دل اپنی روح کا مشاہدہ کر سکتا ہے، یہ مشاہدہ کس آنکھ سے ہو سکتا ہے؟ چشمِ ظاہر سے؟ یا دیدۂ دل سے؟ پہلے نگاہِ سِر سے اور پھر نظرِ سَر سے بھی، روح کی شکل و صورت کیسی ہوتی ہے؟ یا یوں پوچھنا چاہئے کہ وہ کس مخلوق کے روپ میں نظر آتی ہے؟ کیونکہ روحِ انسانی کائنات و موجودات کے جوہر (نچوڑ) سے بنائی گئی ہے، دوسرے لفظوں میں انسان یعنی روح عالمِ صغیر /عالمِ شخصی ہے، جس میں بکیفیتِ لطیف یا بحالتِ ذرات عالمِ کبیر کی ہر ہر چیز موجود ہے، لہٰذا روح بمشاہدۂ باطن ہر چیز کی شکل میں ظہور پذیر ہو جاتی ہے، تاہم اس کی ایک خاص صورت بھی ہے، وہ انسانی شکل ہے، جو اصلاً رحمانی صورت کہلاتی ہے، جس میں بدرجۂ تمام و کمال حسن و جمالِ معنوی و صوری پایا جاتا ہے۔

۵۔ روح ایک قائم بالذّات جوہر ہے، اس لئے وہ دراصل ہر چیز

 

۲۴

 

سے مجرّد ہے، تاہم وہ اس کے ساتھ ساتھ مجسّم بھی ہے، اس کی تجرید کے چار درجات ہیں: خیال، خواب، روحانیّت، اور جائے عقل، اور اس کی تجسیم کے چار مقامات ہیں: ذرّاتِ کثیف، جسمِ کثیف، ذرّاتِ لطیف، اور جسمِ لطیف، اور یہاں یہ نکتہ بھی خوب یاد رہے کہ جہاں ارواح ذرّات میں ہوتی ہیں، اس کو عالمِ ذرّ کہا جاتا ہے۔

۶۔ روح ناقابلِ تقسیم ہے، یعنی روح کی اپنی ذات میں ذرّات و اجزاء نہیں، لیکن یہ جسمِ لطیف و کثیف کے توسط سے لاتعداد مظاہر میں ظہور پذیر ہو جاتی ہے، اس حقیقت کی مثال سورج ہے کہ وہ فی نفسہٖ قسمت پذیر نہیں، مگر ہاں، وہ تقسیم ہو جاتا ہے، جہاں ہر صاف و شفاف چیز میں اس کا عکس جھلکتا ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ روحِ اعظم یا نفسِ واحدہ میں تمام نفوسِ انسانی کی ایک ہی حقیقت ہے، پس مولائے روم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ: “ہم اس دنیا میں آئے کہاں ہیں، ہماری یہ ہستی تو ہماری اس اصل ہستی کا سایہ ہے۔” انہوں نے صحیح فرمایا، کیونکہ بفرمودۂ قرآن آفتابِ روح کا سرچشمہ عالمِ امر میں ہے (۱۷: ۸۵) اور اس کے لاتعداد نورانی سائے آئینہ ہائے وجودِ انسانی میں منعکس (Reflect) ہوتے رہتے ہیں، پس انسانی روح جسمِ عنصری میں اگرچہ ایک سائے کی طرح ہے، جس کا ذکر ہوچکا، لیکن شعوری نہیں تو غیر شعوری حالت میں اپنے کل کے ساتھ اس کا رابطہ قائم اور جاری ہے، اور اگر کوئی کامل مرشد روحِ کلّی کے توسط سے اپنی آواز

 

۲۵

 

کسی انسان کو پہنچا دیتا ہو، تو اس میں کیا تعجب ہو سکتا ہے، جس طرح کسی دور ملک میں ہونے کے باوجود ٹی وی کی آواز اور تصویر بذریعۂ مصنوعی سیّارہ (Satellite) آپ کے سامنے سنائی اور دکھائی دیتی ہے۔

۷۔ قرآنی مفہوم (۳۵: ۱۰) کے مطابق انسانی روح کی انتہائی عظمت اسی میں ہے کہ اس کا پاکیزہ قول اور نیک عمل بلند ہوتے ہوتے بارگاہِ خداوندی تک پہنچ جائے، تاکہ شرفِ قبولیت و فنائیّت کے بعد بوسیلۂ امر اس کا رخ ایک نئی دنیا بسانے کی طرف ہو سکے۔

۸۔ آپ اگر چاہیں تو میری ایک کتاب “روح کیا ہے؟” میں تفصیلات دیکھ سکتے ہیں کہ نبات، حیوان، اور انسان میں ایک ایک روح نہیں، بلکہ ہر درجے کی روح اپنی قسم کے بے شمار ذرّات کا مجموعہ ہوا کرتی ہے، پس مجموعی طور پر روح کا بدن سے نکل جانا تو الگ بات ہے، جس سے ایک کلّی موت واقع ہو جاتی ہے، لیکن جزوی طور پر ذرّاتِ روحانی کا آنا جانا ہر وقت جاری رہتا ہے، اسی اصول کے مطابق آدمی کے قریۂ ہستی میں اچھی اور بری روحوں کی آمد و رفت ممکن ہو جاتی ہے، نیک روحیں گویا فرشتے ہیں، اور بد روحیں شیاطین، ساتھ ہی ساتھ یہ قانون بھی ہے کہ انسان ان متضاد ارواح میں سے جس کو چاہے دعوت دے کر لا سکتا ہے، اور بٹھا سکتا ہے، اور جس کو نہ چاہے نکال باہر کر سکتا ہے۔

۹۔ مذکورۂ بالا بیان سے واضح طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک ہی

 

۲۶

 

شخص میں دو قسم کی روحیں ہو سکتی ہیں: ایک اس کی اپنی روح، اور دوسری اضافی، خواہ اچھی ہو، یا بری، مثلاً کوئی فرشتہ، یا شیطان، یعنی کوئی مومن جنّ، یا کافر جنّ، جس طرح کسی گھر میں افرادِ خانہ کے علاوہ کچھ باہر کے آدمی بھی ہو سکتے ہیں، اس مثال میں پادشاہ، وزیر، امیر، فقیر، پیر، اور بزرگ کوئی بھی گھر آ سکتا ہے، اور دوسری طرف سے کوئی ظالم ، چور، بدمعاش وغیرہ بھی۔

۱۰۔ جن بھی روح ہے، لہٰذا یہاں اس کا بھی ذکر ہوگا، چنانچہ جنّ جسمِ لطیف میں ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے جنّات کو چھوٹے بڑے مختلف درجات میں پیدا کیا ہے، پس سب سے چھوٹا جنّ وہ ہے، جو انتہائی چھوٹے ذرّے میں ہوتا ہے، تاکہ ایسے جنّات ہمارے خلیات کے اندر صفائی کا کام کر سکیں، اور مسامات سے آتے جاتے رہیں، اور بڑے سے بڑا جنّ ایک قوی ہیکل اور قد آور جوان آدمی کے برابر ہوتا ہے، اگر وہ عفریت ہے تو مومن اور بڑا زبردست طاقتور اور بے حد کام کرنے والا ہوتا ہے، کیونکہ اس کی تخلیق آگ سے ہے، اور ہم موجودہ زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ برقی مخلوق ہے، یا کہنا چاہئے کہ ایٹمی ہے، بہ ہر حال وہ اپنے وقت پر دکھائی بھی دے سکتا ہے، اور وہیں پر غائب بھی ہو جاتا ہے، اور تعجب ہے کہ ہر شخص سے اس کی بولی میں گفتگو کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔

۱۱۔ جنّ کے بارے میں عوام میں بہت سی غلط فہمیاں پائی

 

۲۷

 

جاتی ہیں، اوّل یہ کہ جنّات کو بدصورت اور جداگانہ مخلوق مانا جاتا ہے، اور پریوں کو ان سے الگ اور خوبصورت سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ بات درست نہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ جنّ کا لفظ عربی ہے، اور اس کا فارسی ترجمہ “پری” ہے، یعنی جس موجودِ لطیف کو عربی میں جنّ کہا جاتا ہے، اسی کو قدیم فارسی میں پری کہا گیا ہے، مگر کہانیوں کی تخلیق کرنے والوں نے نجانے کیوں ایک قسم کی مخلوق کو دو گروہ میں تقسیم کر کے رکھا ہے۔

۱۲۔ قرآنِ حکیم میں ہر چیز کا بیان فرمایا گیا ہے (۱۶: ۸۹) چنانچہ اس میں پریوں کا ذکر بھی ہے، اور یہ جنّ کے موضوع میں ہے، جو پچاس مختلف مقامات پر پھیلا ہوا ہے، جنّات یعنی پریوں کا سب سے طویل ذکر سورۂ جنّ (۷۲) میں موجود ہے، اسی سورہ (۷۲: ۰۶) میں یہ الفاظ بھی ہیں: رِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ (جنّات میں سے کچھ مرد) اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنّوں (یعنی پریوں) کے مرد بھی ہیں، اور عورتیں بھی، عربی میں پری مرد کو جنّی، اور پری عورت کو جنّیۃ کہتے ہیں، ملاحظہ ہو: المنجد، المورد، مد القاموس، وغیرہ۔

۱۳۔ قرآنِ حکیم کی تعریف و توصیف کرنے سے ہر دانشمند قاصر ہے، کیونکہ وہ بے مثال آسمانی کتاب ہے، اور اس میں کائنات و موجودات کے تمام اسرار بزبانِ حکمت بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی سلطنتِ روحانی کے ضمن میں بہت

 

۲۸

 

سے لطیف و بلیغ اشارے ملتے ہیں، اگر ان میں کما حقہٗ غور کیا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ جنّات کا زیادہ تر تعلق عالمِ شخصی (عالمِ صغیر) کی تعمیر و ترقی سے ہے، اور ظاہری دنیا سے بہت کم، پس جو شخص یہ چاہتا ہو کہ کسی طرح جنّ کی تسخیر کرے ، تاکہ اسے دولت، شہرت، اور عزت حاصل ہو، اور دشمن مغلوب ہو جائے، تو وہ بہت بڑی غلطی پر ہے، کیونکہ یہ کام جسم و جان، اور دین و ایمان کے لئے ازحد خطرناک ہے۔

۱۴۔ چلہ (چالیس روز کی مسلسل عبادت) اگر اعتکاف کے معنی میں رضائے الٰہی کی خاطر ہے، تو بہت ہی اعلیٰ عمل ہوگا، اور ان شاء اللہ، اس سے کچھ روحانی ترقی ہو گی، ورنہ دوسری قسم کی چلہ کشی قانونِ روحانیّت کے خلاف ہے، اگر آپ کو منازلِ روحانیّت میں کہیں جنّات کا مشاہدہ اور تجربہ ہو جاتا ہے، تو یہ انعاماتِ خداوندی میں سے ہے، کہ آپ پر ایک بھید کھل گیا، اور آپ نے مخلوقِ لطیف کو دیکھا، پس ان شاء اللہ آپ کے لئے ایسا تجربہ بڑا مبارک ہوگا۔

۱۵۔ کہا گیا ہے کہ کوہِ قاف جو اس دنیا پر محیط ہے، اس میں سارے جنّ و پری رہتے ہیں۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ سیّارۂ زمین پر ایسا کوئی پہاڑ نہیں، جس پر جنّات ہی جنّات کی بستیاں ہوں، لہٰذا کوہِ قاف سے روحانیّت مراد ہے، جس میں ہر قسم کی لطیف مخلوق دکھائی دیتی ہے، یعنی جنّ (پری)، روح، روحانی، وغیرہ، کیونکہ اس میں آنکھوں کے سامنے سے حجاب ہٹ جاتا ہے۔

۲۹

۱۶۔ ہم، آپ، اور دوسرے سب لوگ، جو بھی ہیں، اور جیسے بھی ہوں، تسبیحِ ہزار دانہ کی طرح ایک دوسرے سے منسلک و منظم ہیں، اسی معنیٰ میں کہ ہم سب کے اجسام نفسِ واحدہ کے رشتے (دھاگا) میں پروئے ہوئے ہیں، دانہ ہائے تسبیح الگ الگ ہیں، لیکن رشتۂ تسبیح ایک ہی ہوتا ہے، اس پُرمغز مثال کے پیشِ نظر اگر ہم اپنے بدنوں کو دیکھیں تو جدا جدا ہیں، اور اگر روح کا تصوّر کریں، تو کوئی شک نہیں کہ ہم سب ایک ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ صرف ایک ہے، یعنی نفسِ واحدہ، اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اس سلکِ وحدت و سالمیّت سے نہ تو فرشتہ باہر ہے، نہ جنّ، اور نہ شیطان، پس یہی رشتۂ روح (روح کا دھاگا) تارِ برقی سے کہیں زیادہ کام کرتا رہتا ہے، اور اس کے ذریعے ہر آدمی کو اچھے اور برے خیالات کے ٹیلیگرامز موصول ہوتے رہتے ہیں۔

۱۷۔ سورۂ ناس (۱۱۴: ۰۱ تا ۰۶) کے حوالے سے عرض کرتا ہوں کہ خنّاس (شیطان) جو لوگوں میں سے بھی ہے، اور جنّوں میں سے بھی، اگر رشتۂ روح اور تارِ جان میں سب کے ساتھ پرویا ہوا نہ ہوتا، یعنی اس ہمہ گیر دھاگے میں منسلک نہ رہتا، تو وہ کس طرح لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈال سکتا، یہ مثال اگرچہ شرّ سے متعلق ہے، لیکن اس بیان میں جو حکمت ہے، وہ بڑی عجیب و غریب ہے، جس میں اہلِ دانش کو سوچنے کی دعوت دی گئی ہے، ایک نکتہ تو یہ کہ شیطان پہلے فرشتہ تھا، اب

 

۳۰

 

جنّ بھی ہے، اور آدمی بھی، اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ایک انسان برائی میں اتنا آگے بڑھ سکتا ہے کہ وہ ایک اکیلا دنیا بھر کے لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈال سکتا ہے، کیونکہ فرشتہ، جنّ، شیطان، اور انسان سب کی روح ہے، اور روح رشتۂ تسبیح کی طرح، یا سلکِ مروارید جیسی، یا نظامِ دورگو = ٹیلیفون کی مانند ہے، جس سے ایک شخص دوسرے بہت سے آدمیوں تک کوئی اچھی یا بری لہر دوڑا سکتا ہے، اور سب قائل ہیں کہ خدا کا حکم ہر چیز پر اور ہر قانون پر مقدم ہے۔

۱۸۔ سورۂ جاثیہ کے اُس ارشادِ مبارک (۴۵: ۱۳) کو دیکھئے، جس میں بطرزِ حکمت تسخیرِ کائنات کا ذکر فرمایا گیا ہے، یعنی خدائے بزرگ و برتر نے اپنی بے پایان رحمت سے آسمانوں اور زمین کو ظاہراً و باطناً انسان کے لئے مسخر کر دیا ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ آج انسان جس طرح مادّی سائنس کی مدد سے ستاروں پر کمند ڈالنے کی سعی کر رہا ہے، اور اس کی یہ کوشش منشائے الٰہی کے مطابق ہے، کیونکہ اُسی نے تو یہ سارے وسائل عطا کر دیئے ہیں، اسی طرح اگر آدمی روحانی سائنس کے ذریعے کائنات کے اُس باطنی پہلو کو مسخر کر لے، جو اس کی اپنی ذات (عالمِ شخصی) میں پوشیدہ ہے، تو یہ بھی اسی قانونِ تسخیر کے عین مطابق ہوگا، جو خالقِ کائنات نے ہر طرح سے ممکن بنا کر انسان کو عنایت کر دیا ہے۔

۱۹۔ اللہ تعالیٰ بڑا حکمت والا اور بے حد مہربان ہے، اس نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے ہر انسان کی ذات میں کائنات کو

 

۳۱

 

روحانی اور عقلانی صورت میں تبدیل کرتے ہوئے ایک ایسی عظیم، بیمثال، اور ہر طرح سے کامل و مکمل سلطنت بنا دی ہے کہ اس کو کوئی زوال نہیں، مگر یہ قانون کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ ظاہری حکومت کو حاصل کرنے اور محفوظ رکھنے کے لئے تو بیدریغ خزانے لٹا دیئے جائیں، اور بے شمار انسانی جانیں قربان کر دی جائیں، لیکن روحانی سلطنت کے حصول کے لئے کوئی جہاد اور کوئی قربانی ہی نہ ہو، یہ امر غیر ممکن تھا، لہٰذا روحانیّت کی بادشاہی کے لئے یہ لازمی شرط مقرر کی گئی، کہ ہر شخص ایک کافر جنّ کو یا تو مسلمان بنا لے، یا قتل کر ڈالے، اور یہ نافرمان جنّ ہر آدمی کا نفسِ امّارہ ہے، مگر یہ بات انتہائی عجیب ہے کہ اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا زبردست مشکل بھی ہے، اور بڑا آسان بھی۔

۲۰۔ اہلِ ایمان پر نزولِ ملائکہ کے کون کون سے مواقع ممکن ہیں؟ یہ سوال بڑا دلچسپ، خوب نتیجہ خیز، اور بے حد مفید ہے، آپ قرآنِ حکیم میں ایک خاص موضوع کے طور پر اسے دیکھ سکتے ہیں، مثال کے طور پر جنگِ بدر میں لشکرِ اسلام کی مدد کے لئے بحکمِ خدا فرشتے نازل ہوئے تھے (۰۳: ۱۲۵) نیز غزوۂ احزاب (خندق) میں بھی (۳۳: ۰۹) غزوۂ حنین میں بھی (۰۹: ۲۶) وغیرہ، چونکہ یہ ظاہری جہاد تھا، اس لئے مسلمانوں کو جنودِ ملائکہ نظر نہیں آتے تھے، لیکن جب روحانی جہاد میں مومنین کی نصرت و تائید کے لئے فرشتے اترتے ہیں، تو اس

 

۳۲

 

میں لازماً ان کا ظہور ہو جاتا ہے، جیسے روحانی مجاہدین جب جیتے جی شہید ہو جاتے ہیں، تو فرشتے ان سے کلام کرتے ہیں (۱۶: ۳۲،۴۱: ۳۰ تا ۳۲)۔

۲۱۔ اہلِ دانش حضرات اگر دیکھنا چاہیں تو دیکھ سکتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں روحانیّت کے تمام تر بیانات و اشارات موجود ہیں، چنانچہ اس میں ایسی پُرحکمت اور بابرکت موت کا بھی تذکرہ ہے، جو کسی عالی ہمت اور دائم الذکر مومن پر جسمانی موت سے پہلے واقع ہو جاتی ہے، وہ نفسانی موت کہلاتی ہے، پس اصحابِ رسول نہ صرف ظاہری شہادت کی تمنا کرتے تھے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان کی یہ بھی آرزو ہوتی تھی کہ پہلے باطنی شہادت کی سعادت نصیب ہو، اب اگر یہ حقیقت سورۂ آلِ عمران کے ایک ارشاد (۰۳: ۱۴۳) کی روشنی میں تسلیم کر لی جائے کہ بعض اصحابِ کبار کو زندگی ہی میں نفسانی موت اور روحانی شہادت کا مرتبہ حاصل ہو چکا تھا، تو پھر ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہئے کہ اس روحانی یا نفسانی موت سے کیا مراد ہے؟ اس کا درست جواب یہ ہو گا کہ قیامتِ صغریٰ یا قیامتِ ذاتی کے بغیر ایسی باکرامت موت واقع نہیں ہو سکتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: مَنۡ مَّاتَ فَقَدۡ قَامَتۡ قیامتہ ، مفہوم: جو شخص نفسانی حالت میں مر جاتا ہے، یا جسمانی طور پر مر جاتا ہے تو اس کی انفرادی قیامت برپا ہو جاتی ہے۔

۲۲۔ اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم کس کی شہادت کی آرزو کرتے تھے؟ اپنی یا دوسروں کی؟ اپنی نفسانی موت کی تمنا رکھتے تھے، متعلقہ

 

۳۳

 

آیۂ کریمہ کا خطاب کن حضرات سے ہے؟ روحانیّت کے زندہ شہیدوں سے ہے؟ یا جسمانی شہیدوں سے؟ اس فرمانِ الٰہی کا زیادہ سے زیادہ تعلق ان مومنین سے ہے، جو نفسانی موت کا تجربہ کر چکے ہیں، مگر زندہ ہیں، اور جو لوگ ظاہری طور پر شہید ہو گئے ہیں، وہ تو اس حکم کے سامنے موجود نہیں، پس جاننا چاہئے کہ: فقد را یتموہ میں عملِ عزرائیلی کی تفصیلات کو دیکھ لینے کا ذکر ہے، اور و انتم تنظرون (۰۳: ۱۴۳) میں نتیجے کے طور پر چشمِ باطن کھل جانے اور مشاہداتِ روحانیّت سے فیضیاب ہو جانے کا بیان ہے۔

۲۳۔ جیسا کہ پہلے اس کا ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کی روح لاتعداد ذرّات کا مجموعہ ہوا کرتی ہے، جس میں نہ صرف دنیا بھر کے لوگ پوشیدہ ہیں، بلکہ کائنات و اجزائے کائنات کی ہر ہر چیز موجود ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہر انسان ایک لطیف عالم ہے، اور سب لوگ مل کر عالمین کہلاتے ہیں (قاموس القرآن، صفحہ ۳۴۴) پس ہر شخص میں سب ہیں، اور سب کچھ ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر کسی کے لئے اپنی ذات کی تسخیر کائنات کی تسخیر ہے، اور اس کے لئے علم و عمل دونوں کی سخت ضرورت ہے، تاکہ انسان اپنے آپ پر فتح حاصل کر کے دیدۂ دل کو کھولے، اور اپنی روح کو پہچان سکے، کیونکہ اسی شناخت میں ربّ العزّت کی معرفت پنہان ہے، اور پروردگار کی معرفت وہ لازوال اور غیرفانی دولت ہے، جس کے حصول کے بغیر کوئی آدمی

 

۳۴

 

گنجِ مخفی کو نہیں اپنا سکتا۔

۲۴۔ اگر بحکمِ حدیث (من عرف نفسہ فقد عرف ربہ) بندۂ مومن کی اپنی روح کی معرفت پروردگارِ عالم کی معرفت ہے، تو ایسے میں، کیا قرآن کی معرفت اس سے الگ ہو سکتی ہے؟ یا وہ بھی اسی میں شامل ہے؟ اگر کوئی یہ خیال کرتا ہو کہ خدا کی معرفت سے اس کے کلام کی معرفت جدا ہے، تو یہ بات کس طرح درست ہو سکتی ہے؟ پس اس سے اہلِ دانش کے لئے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ معرفتِ روح معرفتِ ربّ بھی ہے، اور معرفتِ قرآن بھی، جب اس دلیل کی روشنی میں قرآنِ مجید کی معرفت ممکن ثابت ہوئی، تو پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ قرآنِ پاک میں جن چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، ان میں سے کوئی چیز دائرۂ معرفت سے باہر نہیں، اب مشاہدہ، مطالعہ، اور معرفت کے لئے تین مقام مقرر ہوئے: مرتبۂ عقل پر، منازلِ روحانیّت میں، اور قرآن میں، یعنی عالمِ عقل، اور عالمِ روح میں جو جو واقعات رونما ہوئے تھے اور ہوتے رہتے ہیں، انہی کا تذکرہ، اور معرفت قرآنِ حکیم میں موجود ہے۔

۲۵۔ روحِ منجمد، روحِ نباتی، روحِ حیوانی، روحِ انسانی (روحِ ناطقہ) اور روحِ قدسی، ان ارواح میں سے صرف روحِ قدسی ہی میں معرفت کا عظیم خزانہ موجود ہوتا ہے، اور یہ انتہائی پاکیزہ روح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد مرشدِ کامل میں ہوتی ہے، جس کے فیوض و برکات کو حاصل کرنے کے لئے اسلامی تعلیمات کے مطابق انتہائی سخت محنت

 

۳۵

 

کی جاتی ہے، تب کہیں جا کر مومنِ صادق کی روح میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔

۲۶۔ قوانینِ روح و روحانیّت جیسے ایک اہم موضوع سے بحث کرنے کے لئے عمدہ سے عمدہ الفاظ اور بہتر سے بہتر مثالوں کی ضرورت تھی، لیکن میں خود کو جانتا ہوں کہ میں کتنا کمزور ہوں، لہٰذا میں اپنے اس مقالے کی ادبی آرائش و زیبائش کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے شہسوارانِ میدانِ قلم سے معافی کا خواستگار ہوں، والسّلام۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
۳۰ مئی، ۱۹۸۷ء

نوٹ: یہ مضمون دوستِ قدیم، یارِ حمیم، و برادرِ بزرگ عالیجاہ رئیس امروہوی صاحب کی فرمائش پر لکھا گیا ہے۔ دوسرے عزیزان معمول کے مطابق اسے شوق سے پڑھیں، اور ضروری طور پر حوالہ جات کے تقاضوں کو پورا کریں۔
نصیر

۳۶

بے خوابی کا علاج

۱۔ بیخوابی یا بیدار خوابی کو قدیم طب کی زبان میں سَہَر کہا جاتا ہے، اور انگریزی میں اس کا نام ایگرپنیا (Agrypnoea) ہے، یعنی نیند نہ آنے کی بیماری، جس کے مریض کو نیند نہیں آتی ہے، ایسے میں عام طور پر طبیب یا ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے، اور وہ اپنے اپنے اصول کے مطابق علاج و معالجہ شروع کر دیتے ہیں، اور بعض دفعہ نیند کی گولیاں دی جاتی ہیں، اس طریقِ علاج سے بے شک نیند تو آتی ہے، مگر بیماری کی جڑ اپنی جگہ قائم رہتی ہے، یعنی ہمیشہ خواب آور گولیوں کی ضرورت رہتی ہے، اور مریض اس دوا کے بغیر سو نہیں سکتا، اسی طرح یہ بیماری مستقل ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے مریض کی ذہنی اور جسمانی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔

۲۔ آئیے ہم قرآنِ حکیم اور حدیثِ شریف کی روشنی میں اس مرض (یعنی سَہَر) کی تحلیل و تجزیہ کریں، یا اس کے پس منظر کو دیکھیں، کیونکہ یہ علت جسمانی نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ بیماری دراصل ذہنی اور خیالی ہے، اس

 

۳۷

 

حقیقت کے ثبوت کے سلسلے میں یہاں کئی روشن دلائل پیش کئے جا سکتے ہیں، منجملہ ایک دلیل یہ کہ اگر کسی غریب آدمی کو یکایک بانڈ یا قرعہ اندازی سے یا کسی اور طریقے سے ایک بہت بڑی رقم مل جاتی ہے، تو لازماً اس کے دل میں خوشیوں اور مسرّتوں کے وسوسوں کا ایک گونہ طوفان امڈ جاتا ہے، جس کی وجہ سے بوقتِ شب اُس پر نیند کی کیفیت طاری نہیں ہو سکتی ، اسی طرح کسی شخص کو بڑے یا چھوٹے غم سے بھی وسوسے پیدا ہو جاتے ہیں، اور آپ یہ تو جانتے ہیں کہ وسوسہ صرف جنّی اور انسی شیطان کے سبب سے ہو سکتا ہے (۱۱۴: ۰۴ تا ۰۶) کیونکہ شیطان انسان کا دینی دشمن ہے، لہٰذا وہ ایسے مواقع پر پے در پے حملے کر کے بنی آدم کو یادِ الٰہی سے غافل اور بیمار بنا دینا چاہتا ہے، پس خنّاس اس کے دل و دماغ میں مسلسل وسوسہ ڈالتا رہتا ہے، اور وہ اپنے اس فعل سے تھک جانے والا نہیں۔

۳۔ اللہ تعالیٰ کے قانونِ قدرت اور دستورِ حکمت کے بموجب ہر آدمی کے ساتھ نہ صرف ایک انفرادی شیطان مقرر کیا گیا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ ایک ذاتی فرشتہ بھی مؤکل ہے، چنانچہ جب کوئی انسان یادِ خدا سے غافل ہو کر اندھا پن اختیار کرتا ہے تو اُس وقت فرشتہ کچھ بھی مدد نہیں کر سکتا، اور شیطان فوراً ہی وسوسوں کی بوچھاڑ کرنے لگتا ہے (۴۳: ۳۶) دیکھئے حدیثِ شریف: مشکوٰۃ، جلدِ اوّل، کتاب الایمان، باب (۳) وسوسہ ، صفحہ ۳۸۔

۳۸

۴۔ مومن کے لئے حکمت و دانائی اسی میں ہے کہ وہ ہمیشہ نیک کاموں میں مصروف رہے، شب و روز خود کو فرائض و نوافل سے وابستہ رکھے، اور لمحہ بھر کے لئے بھی خدا کے بابرکت اسم سے غافل نہ ہو جائے، تاکہ اس وسیلے سے شیطان خاموش اور مایوس ہو، اور فرشتہ کو اپنے عمل کے لئے پورا پورا موقع مل سکے، کیونکہ قانونِ عدل کا یہی تقاضا ہے، کہ شیطان کو راستہ دینے سے جتنا نقصان ہو جاتا ہے، فرشتے کی راہ ہموار کرنے سے اُتنا فائدہ حاصل ہو جانا چاہئے، چنانچہ فرشتہ بحکمِ خدا بندۂ مومن کے دل و دماغ میں امید، یقین، توفیق، اور ہدایت کے چراغوں کو روشن کر دیتا ہے۔

۵۔ ہر بیداری کو آپ سَہَر کی بیماری نہیں کہہ سکتے، کیونکہ عمر کے لحاظ سے بھی اور ذکر و عبادت کے اعتبار سے بھی آگے سے آگے نیند کی ضرورت کم سے کم تر ہوتی جاتی ہے، یہاں تک کہ ایک متقی اور دائم الذکر مومن کی نیند بہت ہی قلیل ہو جاتی ہے، آپ قرآنِ حکیم (۳۲: ۱۶،۵۱: ۱۷، ۷۳: ۲۰) میں ایسے مومنین کا تذکرہ دیکھ سکتے ہیں، جو بہت کم سوتے ہیں، اس لئے کہ نیند کا جو مقصد ہے، وہ ذرا سا وقت میں بھی پورا ہو سکتا ہے، کیونکہ انسان جو ابنِ آدم ہے، اس کو خدا تعالیٰ نے تمام دوسری مخلوقات پر کرامت و فضیلت عنایت کر دی ہے (۱۷: ۷۰) پس بندۂ مؤمن منازلِ روحانیت میں جیسے جیسے آگے بڑھتا جاتا ہے، ویسے ویسے اُس پر انسانی صلاحیتوں کے عجائب و غرائب منکشف ہوتے

 

۳۹

 

رہتے ہیں، اور نیند سے متعلق بہت سے بھید کھل جاتے ہیں۔

۶۔ آپ شام کو بروقت سو جاتے ہیں، اگر اُس حال میں حسبِ منشا آپ کی نیند نہ آئے، تو یہ بے خوابی کی بیماری نہیں، اور نہ مقررہ وقت سے پہلے جاگنا کوئی مرض ہے، لیکن جب آپ اس حالت کو ایک روگ سمجھ کر مغموم ہو جاتے ہیں، اور اس سے ذکرِ خداوندی کا فائدہ نہیں اُٹھاتے، تو بے شک ایسے میں یہ ذہنی اور نفسیاتی بیماری بن جاتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ شام کو نیند کے نہ آنے اور رات کو ناوقت نیند اچٹ جانے میں یہ امتحان ہے کہ آیا آپ اسے اپنے لئے ایک مرض بنا لیتے ہیں؟ یا ذکر و فکر کی روشنی؟

۷۔ سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) میں خوب غور سے دیکھئے کہ کائنات و موجودات کے اسرارِ مخفی و مقفل کی کلید اہلِ عقل کی فکر ہے، اور فکر کی کلید ذکرِ الٰہی ہے، جو تین حالات پر محیط ہے، یعنی اہلِ دانش کھڑے کھڑے، بیٹھے، بیٹھے، اور لیٹے لیٹے خدائے بزرگ و برتر کو یاد کرتے رہتے ہیں، اور اس ترتیب میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں، ہم یہاں صرف لیٹ کر ذکر میں مشغول ہو جانے والوں کو پیشِ نظر رکھتے ہیں، چنانچہ کروٹوں پر (علیٰ جنوبھم) ذکر کرنے والے دانشمند یہ ہیں: الف: وہ دائم الذکر مومن جو آرام کی خاطر لیٹ گیا ہے۔ ب: وہ دیندار جو بہت تھکا ماندہ ہو۔ ج: کوئی مریض جو اٹھ نہیں سکتا۔ د: بوڑھا آدمی جو کمزور ہو۔ ھ: جو نیند کے لئے لیٹا ہو۔ و: جس نے نیند سے

 

۴۰

 

آنکھ کھولی ہے۔ ز: جس کی نیند نہ آئے۔ ح: جو فاقہ اور طویل اعتکاف سے بے تاب ہو چکا ہو۔ ط: جو نفسانی موت مر رہا ہو۔ ی: جو جسمانی طور پر مر جانے کے عالم میں ہو، وغیرہ۔

۸۔ حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام نہ صرف موت کا فرشتہ ہے، بلکہ یہ نیند کا بھی مؤکل ہے (۳۹: ۴۲) اسی طرح حضرت اسرافیل علیہ السّلام جو صاحبِ صور ہے، وہ آج بھی اور کل بھی لوگوں کو جگانے کے لئے مقرر ہے (۳۶: ۵۲) پس کسی آدمی کی بہت بڑی سعادت اسی میں ہے کہ وہ پرہیزگار ہو اور کثرت سے خدائے پاک کو یاد کرے، تاکہ فرشتے اس کو وقت پر بڑے آرام سے سلائیں، اور وقت پر دین و دنیا کی اعلیٰ امیدوں کے ساتھ جگائیں، کیونکہ علم و عمل کے بغیر کسی کو فرشتوں کی دوستی اور تائید حاصل نہیں ہو سکتی ہے۔

۹۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ آخر نیند کا مقصد کیا ہے؟ یعنی یہ اتنی ضروری کیوں ہے؟ اور اس سے کیا کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں؟ یہ مسئلہ بظاہر بڑا آسان لگتا ہے، جیسے کوئی فوراً یہ کہنے لگے کہ نیند سے دماغی اور جسمانی تھکن دور ہو جاتی ہے، اور کھائی ہوئی غذا اچھی طرح سے ہضم ہو جاتی ہے، لیکن ہم کہیں گے کہ ہر قسم کی تھکاوٹ نیند کے بغیر بھی اتر سکتی ہے، اور خوراک دن کے وقت سوئے بغیر بھی جزوِ بدن ہو جاتی ہے، مثال کے طور پر خانگی جانوروں میں سے بیل، گھوڑا، خچر، اور گدھے کو دیکھئے، یہ بیچارے جانور کتنا سخت کام کرتے

 

۴۱

 

ہیں، مگر ان کی نیند نہیں، وہ صرف کام کے بعد آرام کے لئے محتاج ہیں، پس میں عرض کروں گا کہ نیند کا اصل مقصد ذرّاتِ روح میں سے بعض کا تبادلہ ہے (۳۹: ۴۲) اور یہ عمل بہت کم نیند میں بھی انجام پذیر ہو سکتا ہے۔

۱۰۔ قرآنِ کریم انسان کو کسی ایسے کام کے لئے مکلف نہیں کرتا، جس کے کرنے کی فطری صلاحیت اس میں موجود نہ ہو (۰۲: ۲۸۶) جب یہ بات ایک قرآنی حقیقت ہے، تو پھر آئیے، ہم سورۂ مزمل (۷۳: ۲۰) کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ بعض اصحابِ کبار جو عبادت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اٹھا کرتے تھے، وہ تقریباً کتنے گھنٹے سوتے تھے؟ کب یعنی رات کے کس وقت جاگتے تھے؟ اور کتنی دیر تک ذکر و عبادت کر لیا کرتے تھے؟ اس کا جواب اسی سورہ میں موجود ہے، وہ یہ کہ وہ حضرات کبھی رات کی دو تہائی ذکر و عبادت میں صرف کرتے تھے، کبھی آدھی رات، اور کبھی ایک تہائی، اس فرق کا زیادہ سے زیادہ تعلق موسم سے ہے، اور کم سے کم تعلق ان کے مختلف احوال سے، موسم کا مطلب یہ ہے کہ سال بھر دن رات کی مقدار میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، بہر کیف قرآنی لائحۂ عمل کے مطابق نیند کا وقت بہت محدود ہے۔

۱۱۔ ہر چند کہ نیند ایک ہی چیز کا نام ہے، جس کی کیفیت طاری ہو جانے سے آدمی کے حواس معطل ہو جاتے ہیں، تاہم اس کے

 

۴۲

 

مختلف درجات ہوا کرتے ہیں، ان میں سب سے اعلیٰ درجہ پیغمبرانہ یا اولیائی نیند کا ہے، جس میں بدن اور حواس سب کے سب سو جاتے ہیں، مگر ذکرِ الٰہی کا شاندار سلسلہ جاری رہتا ہے، اور قرآنِ حکیم اسی نیند کی تعریف و توصیف میں ارشاد فرماتا ہے: وَّ جَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا (۷۸: ۰۹) اور ہم ہی نے تمہاری نیند آرام و راحت کی چیز بنائی۔ اس سے اعلیٰ درجے کی نیند مراد ہے، جس میں ذکرِ خدا کی برکتوں سے نہ صرف عقل و جان کو سکینت مل جاتی ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ جسم کو بھی سکون حاصل ہو جاتا ہے۔

۱۲۔ وہ بندۂ مومن جو پارسا اور دائم الذکر ہوتا ہے، جب عبادتِ کثیرہ کے بعد سو جاتا ہے، تو بعض دفعہ فوراً ہی کفِ پا سے سر کے بالائی حصے تک ایک میٹھا سا جھٹکا لگ جاتا ہے، جس کی وجہ سے مومن ایک دم بیدار ہو جاتا ہے، اس میں اس کے لئے یہ اشارہ ہے، کہ تمہاری نیند کا مقصد پورا ہو چکا ہے، اب تم چاہو تو مزید عبادت کر سکتے ہو، یہاں سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ یہ خوشگوار جھٹکا یا پُرمسرت لہر کیا ہے؟ یہ فرشتوں کا ایک معجزاتی عمل اور ذرّاتِ روح کا تبادلہ ہے۔

۱۳۔ اس سارے مضمون کا خلاصۂ مطالب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تندرست ہونے کے باوجود سو نہیں سکتا، اور اس کی نیند نہیں آتی ہو، تو اسے فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، اگر وہ فکر کرے تو یہی جاگنے کی رحمت اس کے حق میں زحمت اور ایک نفسیاتی بیماری

 

۴۳

 

کی شکل میں بدل جائے گی، پس دانشمند مومن وہ ہے، جو ایسی بیداری میں عبادت کرتا ہے، اور کائنات و موجودات کے حقائق و معارف میں سوچتا ہے (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱)۔

نوٹ: اس نوعیت کے مضامین اب قرآنی علاج کے بعد “علمی علاج” کے لئے مخصوص ہوں گے (ان شاء اللہ) براہِ مہربانی آپ سب دعا کریں۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
۱۱ جون ۱۹۸۷ء

۴۴

برے خوابوں کا علاج

۱۔ اس انتہائی اہم ، زبردست دلچسپ، اور بے حد مفید موضوع کے سلسلۂ بحث میں سب سے اوّل یہ ذکر کرنا ازبس ضروری ہے کہ اچھے خواب کون سے ہیں؟ اور برے خواب کیا ہوتے ہیں؟ تاکہ دونوں قسم کے خوابوں کے مابین جو فرق و امتیاز موجود ہے، وہ ظاہر اور واضح ہو، جس کا بہت بڑا فائدہ (ان شاء اللہ) یہ ہوگا کہ ہر ہوشمند انسان اپنی اس صحت و سقم کے مطالعۂ عمیق کے بعد اپنا علاج آپ کر سکے گا، کیونکہ آدمی میں نہ صرف بیماری کا بنیادی سبب پایا جاتا ہے، بلکہ اس میں اصل دوا بھی موجود ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: (ترجمہ) تیری دوا تیرے ہی پاس ہے اور تجھ کو خبر نہیں۔ اور تیری بیماری تجھ ہی سے پیدا ہوئی ہے اور تو دیکھتا نہیں۔

 

۲۔ صحیح بخاری، جلدِ سوم، کتاب التعبیر میں ارشاد ہے کہ: اچھا خواب نبوّت کے چھیالیس اجزاء میں سے ایک جز ہے۔ نیز آنحضرت صلی اللہ

 

۴۵

 

علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ: اچھا خواب اللہ کی جانب سے ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے۔۔۔ اسی باب میں یہ حدیث بھی ہے کہ: مومن کا اچھا خواب نبوّت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ اب ان پُر ازحکمت حدیثوں کے یہ چند نتائج ملاحظہ ہوں: الف: اچھے خواب خدا کے وہ خصوصی انعامات ہیں، جو انبیائے کرام علیہم السّلام کے بعد اہلِ ایمان کو بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ ب: مومن کا اچھا خواب تجربۂ روحانیّت بھی ہے، اور مرتبۂ فنا فی الرسول بھی۔ ج: یہ اجزائے نبوّت میں سے ہے، لہٰذا اس میں علم و حکمت اور رشد و ہدایت ہے۔ د: اگر کوئی بندۂ مومن دائم الذکر ہو جائے، اور ایسی حکیمانہ نیند اپنے آپ پر مسلط کر لے کہ اس میں حواسِ ظاہر و باطن سب سو جائیں، مگر ذکرِ خدا جاری و ساری رہے، تو ایسے میں وہ جو خواب دیکھے گا، اس کا درجہ بہت اعلیٰ ہوگا۔ ھ: اچھے خواب کو رویا کہتے ہیں، جس کا مادّہ ر۔أ۔ی ہے، اور اسی سے ایک لفظ مرآۃ (آئینہ) ہے، پس یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ مومن کا اچھا خواب آئینۂ روح و روحانیّت کا کام کر رہا ہے، اور یہی دستور چلا آیا ہے کہ آدمی خود کو آراستہ و پیراستہ کر لینے کے لئے آئینہ سامنے رکھتا ہے۔

۳۔ صحیح مسلم، جلدِ سوم، کتاب الرویا میں بھی خواب کے بارے میں بہت سے ارشاداتِ نبوّی درج ہیں، منجملہ ایک ارشاد یہ کہ: خواب تین قسم کا ہوتا ہے، ایک نیک خواب جو اللہ کی جانب سے خوشخبری

 

۴۶

 

ہے، دوسرا رنج والا خواب جو شیطان سے ہے، اور تیسرا وہ جو اپنے دل کا خیال (حدیثِ نفسی) ہو، تو جب تم میں سے کوئی شخص برا خواب دیکھے، وہ اٹھ کر نماز پڑھے، لوگوں کو ایسا خواب نہ بتائے۔

۴۔ اسی کتاب میں یہ حدیثِ شریف بھی درج ہے: من رانی فقد رای الحق ۔ جس نے مجھے خواب میں دیکھا اُس نے سچ دیکھا۔ حدیثِ نبوّی کی بدرجۂ انتہا جامعیّت کے پیشِ نظر اس کا یہ صوفیانہ ترجمہ بھی بالکل درست ہے، وہ یہ ہے کہ: جس مومن نے خواب میں میرا دیدار کیا، اُس نے گویا خدا کا دیدار کیا۔ کیونکہ اگر ہم جلوہ، تجلّی، ظہور، اور مظہریت کے قائل ہیں، تو پھر ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ مظہرِ اوّل حضورِ انور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ عالی صفات ہی ہے۔

۵۔ یہاں پر یہ سوال بہت مناسب ہے کہ زمانۂ نبوّت کے مومنین میں سے جو حضرات رسولِ پاک کو خواب میں دیکھتے تھے، وہ تو حضرت کو پہچانتے اور یقین کر لیتے تھے کہ یہ حضور ہی کا دیدار ہے، لیکن دوسرے زمانوں کے اہلِ ایمان کیسے یقین کر لیں گے کہ ان کو خواب میں پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دیدارِ اقدس حاصل ہوا ہے، جبکہ انہوں نے رسول اللہ کے چہرۂ مبارک کو بیداری میں نہیں دیکھا ہے؟ اس کا درست جواب یہی ہو سکتا ہے کہ آنحضرت کا پُرحکمت دیدار مرشدِ کامل کی صورت میں ہوگا، کیونکہ خلافت، نیابت، اور نمائندگی اسلام کا بنیادی قانون ہے۔

۴۷

۶۔ صحیح بخاری، جلدِ سوم کے باب ۱۰۶۴ میں یہ حدیثِ شریف تحریر ہے کہ: نبوّت میں سے صرف مبشرات باقی رہ گئی ہیں، لوگوں نے پوچھا مبشرات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اچھے خواب۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہوا کہ تمام نیک خواب بشارت و خوشخبری کے معنی رکھتے ہیں، دوسرا یہ کہ رویائے صادقہ مومن کے لئے فنا فی الشیخ اور فنا فی الرسول کا تجربہ ثابت ہو سکتا ہے، جس طرح روحانیّت میں ہوتا ہے، اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ جہاں اچھے خواب اللہ کی جانب سے ہیں، وہاں یہ پیغمبرِ اکرم کے توسط سے ہیں، اور مرشدِ کامل کے وسیلے سے، اور نبوّت کے ۴۶ معجزات میں سے نورانی خواب کا معجزہ اسی معنیٰ میں ہے۔

۷۔ جناب رسالت مآب کے ان حکمت آگین ارشادات کی روشنی میں اب برے خوابوں کا علاج مشکل نہیں رہا، کیونکہ یہ بات صاف و صریح طور پر معلوم ہو گئی کہ برے خواب شیطان سے ہیں، پس مومن کا قولاً و فعلاً، یعنی بذریعۂ علم و عمل شیطان سے خود کو بچا کر پروردگارِ عالم کے حضور میں پناہ گیر ہو جانا ہی اس روگ کا علاج ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید کا ارشاد ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (۹۱: ۰۹) یقیناً وہ شخص مراد کو پہنچا جس نے اس (یعنی اپنی جان) کو پاک کر لیا۔ کیونکہ اگر نفس کدورتوں سے آلودہ ہے، تو شیطان کو حملہ آور ہو جانے کے لئے موقع مل جاتا ہے، اور اگر نفس (جان) پاکیزہ ہے، تو وہ مایوس ہو کر رہ جاتا ہے۔

۴۸

۸۔ آپ اس موضوع کو وسیع تر مفہومات کے ساتھ سمجھنے کے لئے کتابِ “قرآنی علاج” میں سے “خواب کے اشارات” کے مضمون کو بھی پڑھ لیں، تاکہ یہ حقیقت روشن ہو جائے کہ دراصل برے خواب کا کوئی قصور نہیں، وہ تو انسان کی پوشیدہ بیماریوں کی عکاسی کرنے والی قدرتی ایکسریز مشین کا ریزلٹ ہے، قصور خود آدمی کا ہے، جو عالمِ بیداری میں یادِ الٰہی سے غافل ہو کر شیطان کو وسوسہ ڈالنے کا موقع دیتا ہے۔

۹۔ برے خواب یقیناً شیطان سے ہیں، لیکن سوال ہے کہ اس شیطانی عمل کا سبب کیا ہے؟ آیا وہ کسی پر ظلم و زبردستی کر سکتا ہے؟ کیا انسان بے وسیلہ اور مجبور ہے؟ اگر یہ بات نہیں تو اسے اپنی تمام تر ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے شیطان کے خلاف جہاد کرنا ہوگا، اور اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید سے اس دشمنِ دین و ایمان کو شکستِ فاش دینی ہو گی، جس کے لئے ایسے اعلیٰ علم کی ضرورت ہے کہ اس سے شیطان کے بچھائے ہوئے تمام دامہائے فریب تارِ عنکبوت (=مکڑی کا جالا) کی طرح پارہ پارہ ہو جائیں، اور ساتھ ہی ساتھ ایسا عمل چاہئے، جو حکمِ خداوندی کے عین مطابق اور نفس و شیطان کی خواہش کے برعکس ہو، تاکہ ایسا مومنِ مجاہد ہمیشہ کے لئے شرِ شیطان سے چھٹکارا حاصل کر سکے، اور وہ ہر رات مبشرات (رویائے صالحہ) کے عجائب و غرائب

 

۴۹

 

سے مستفیض اور اسرارِ معرفت سے مستفید ہو۔

۱۰۔ اپنا گناہ دوسرے کے سر تھوپنا، پھر اس پر مستزاد دشنام طرازی کرنا سراسر ظلم ہے، ادب، تواضع، عدل، اور عقلمندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ مومن اپنے نفسِ امّارہ ہی کو برائی کی جڑ قرار دے (۱۲: ۵۳) تاکہ اس مفید علم کی بدولت اس کی نظر ہر وقت اصل دشمن پر رہے، اور وہ نفس ہے، اور اپنی تمام تر علمی اور عملی قوتوں کو، جو مختلف اور متضاد تصورات کی وجہ سے بکھری ہوئی ہیں، مرکوز و متحد کر کے اپنے نفسِ امّارہ کے خلاف جہاد کرے، یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو جائے، پس برے خوابوں کا بنیادی اور دائمی علاج یہی ہے۔

۱۱۔ قانونِ فطرت کائنات و موجودات کی جملہ اشیاء میں یکسان کام کرتا ہے، چنانچہ ہر بڑا جسم شروع شروع میں ایک انتہائی چھوٹا ذرّہ ہوا کرتا ہے، ہر عظیم درخت پہلے ایک تخم ہوتا ہے، تخم میں مغز، مغز میں مرکز، اور مرکز میں روحِ نباتی کا ذرّہ سویا ہوا ہوتا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ سیّارۂ زمین کی تخلیق کا آغاز ایک ایٹم (ذرّہ) سے ہوا ہو، ماہرینِ حیاتیات کہتے ہیں کہ ایک جرثومہ سے لاتعداد جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں، حالانکہ زیادہ وقت نہیں گزرتا، اسی طرح یہ بھی قانونِ فطرت ہی ہے، کہ نفسِ انسانی کا ایک ہی برا خیال کم وقت میں ہزاروں برے خیالات کو جنم دے، خدا نہ کردہ، اگر ایسا ہو گیا، تو نفس بہت زیادہ قوّی، سرکش، اور توسنِ بد رِکاب و بد لگام کی طرح ہو جائے گا۔

۵۰

۱۲۔ آپ برے خوابوں سے نجات پانے کے لئے، اچھے خوابوں کے خدائی معجزات دیکھنے کے واسطے، اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب رسولؐ کی دوستی و محبت کی خاطر کثرت سے ذکر کریں، اشکبار ہو جائیں، تقویٰ کا راستہ اختیار کریں، اور خدمتِ خلق کو اپنا شعار بنا لیں۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۲۵ جون ۱۹۸۷ء

۵۱

 

اسرارِ ملکوت اور طب

۱۔ قرآنِ حکیم کے ان چار مقامات پر ملکوت کا تذکرہ فرمایا گیا ہے: سورۂ انعام (۰۶: ۷۵)، سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۵)، سورۂ مؤمنون (۲۳: ۸۸)، سورۂ یاسین (۳۶: ۸۳) اور ملکوت کے معنی یہ ہیں: عظیم الشّان سلطنت، بادشاہی، حکومت، حکمرانی، فرشتوں کا عالم، ملائک، روح و روحانیّت کا مقام، پس “اسرارِ ملکوت اور طب” کے اس عنوان میں گویا یہ سوال ہے: اللہ تعالیٰ کی عظیم الشّان بادشاہی کے بھیدوں کی معرفت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟ خداوندِ عالم جو کائنات و موجودات کا خالق ، مالک، اور بادشاہ ہے، اس کی حاکمیت و حکم کے ساتھ طب کا کوئی ربط و رشتہ ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کس طرح؟

۲۔ جہاں انسان اپنی ذات کو پہچانتا ہے، وہاں وہ ربِّ کائنات کو پہچانتا ہے، اور اسی معرفت میں اسرارِ ملکوت کی شناخت بھی ہے، اب رہا سوال طب اور اس کے عوامل کے باب میں کہ آیا قانونِ ملکوت سے طب کا رشتہ ہے یا یہ لاتعلق ہے؟ سو بطورِ جواب میری عاجزانہ

 

۵۲

 

گزارش یہ ہے کہ جب آسمان و زمین کی سب چیزوں کی بادشاہی اور حکمرانی (ملکوت) خدائے پاک و برتر کے ہاتھ میں ہے (۲۳: ۸۸، ۳۶: ۸۳) تو پھر طب یا ڈاکٹری اس قانونِ کل سے کیسے مستثنا ہو سکتی ہے، پس اس عام فہم منطق سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح ظاہر و عیان ہو جاتی ہے کہ کوئی آدمی اس رازِ ملکوت سے واقف و آگاہ ہو یا نہ ہو، بہ ہر حال طب اور ڈاکٹری ہمیشہ اور ہر وقت اذنِ الٰہی کے بغیر اپنی تاثیرات کا کوئی کرشمہ نہیں دکھا سکتی ہے۔

۳۔ ہر قسم کی طبی جڑی بوٹی اور ہر نوع کی دوا میں جو قوّتِ فاعلہ یا روح موجود ہوتی ہے، وہ ایک مقررہ مدت کے لئے ہوا کرتی ہے، اور اس کے بعد روح کے ختم ہو جانے سے وہ چیز بے اثر ہو جاتی ہے، چنانچہ ہر دوا کو دیکھنا پڑتا ہے کہ اس میں اپنی نوعیت کی پُر اثر روح موجود ہے یا نہیں؟ کیونکہ بے روح دوا میں کوئی شفاء نہیں، اسی طرح اب یہاں یہ قرآنی سر (بھید) بھی سن لیجئے کہ دعا اور دوا دونوں میں ملکوتی اور امری روح کا موجود ہونا بے حد ضروری ہے، جس کے بغیر نہ کوئی دعا مقبول و مستجاب ہے، اور نہ ہی کوئی دوا مؤثر و مفید۔

۴۔ اس مقام پر اگر کوئی شخص محض علم و آگہی کی خاطر یہ سوال کرے تو بہت اچھی بات ہے کہ ملکوتی اور امری روح سے کیا مراد ہے؟ میں جواباً عرض کروں گا کہ جب ملکوت اور عالمِ امر کے خزائن (۱۵: ۲۱) سے کوئی چیز نازل کر کے اسے دنیا میں مادّیت کا کوئی لباس پہنایا جاتا

 

۵۳

 

ہے، تو اسی دوران نہ صرف اس کی وہ حالت و کیفیت جو عالمِ بالا میں تھی، کائناتی لوحِ محفوظ میں ریکارڈ ہو جاتی ہے، بلکہ ساتھ ساتھ اس کی تنزیل اور ہر دنیوی سرگزشت کی بھی روحانی عکاسی ہو کر لوحِ نور پر بحفاظت موجود رہتی ہے، اور اگر خدا چاہے تو اس میں اصلاح بھی فرماتا ہے (۱۳: ۳۹) یہی لطیف و مجرّد تصویر، جو زندہ ہے، ہر چیز کی روح ہوا کرتی ہے، جس کا تصوّر عام ہے، اور اس کا بالائی سرا خداوندِ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے (۲۳: ۸۸، ۳۶: ۸۳) اور زیرین سرا دنیا کی کسی شیٔ سے لگاؤ رکھتا ہے، اب اگر صاحبِ ملک و ملکوت (یعنی خدا) اپنے پاک امر و فرمان سے کسی چیز کی روح کے اوپر سے نیچے تک ایک تازہ روحانی لہر دوڑاتا ہے، تو یہ ملکوتی اور امری روح ہوئی، جو روح کے اندر ایک اضافی یا جدید روح کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔

۵۔ پروردگارِ عالم خدائے برحق اور بادشاہِ مطلق ہے، وہ دنیائے ادعیہ اور ادویہ کی کسی چیز میں اذن و شفا بخشی کی روح پھیلا بھی سکتا ہے، اور قبض بھی کر سکتا ہے (۰۲: ۲۴۵) کیونکہ کائنات اور اس کی تمام چھوٹی بڑی چیزوں کے قبض و بسط کا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے (۳۹: ۶۷، ۲۱: ۱۰۴) اور وہی جس کو چاہے سلطنت دیتا ہے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لیتا ہے (۰۳: ۲۶) پس ہر مسلمان طبیب اور ہر دیندار ڈاکٹر کے لئے یہ امر ازحد ضروری ہے کہ وہ اپنے پیشے کو اسلامی برکتوں سے مالامال اور کامیاب بنانے کے لئے نہ صرف زبانی زبانی آسمانی تائید کا قائل

 

۵۴

 

رہے، بلکہ کامل تقویٰ اور علم و عمل کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی توفیق، ہدایت، دستگیری، اور یاری کے مقام کو بھی حاصل کرے، تاکہ اسے بفضلِ خدا دونوں جہان کی سرخروئی اور سربلندی نصیب

ہو۔

۶۔ یہاں کسی کے سوال کرنے سے پیشتر ایک پیشگی جواب عرض کرتا ہوں کہ اس دنیا میں دیندار اور لادین دو قسم کے لوگ رہتے ہیں، چنانچہ ان میں جو مذہب والے ہیں، خصوصاً مسلمین، وہ اگرچہ دنیا و عقبیٰ دونوں کی بہتری چاہتے ہیں (۰۲: ۲۰۱) تاہم دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے ہیں (۱۷: ۱۸ تا ۲۱) لہٰذا اہلِ ایمان نہ صرف دینی امور میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہیں، بلکہ دنیاوی کاموں میں بھی اس کی یاوری کے لئے درخواست کرتے رہتے ہیں، اور یہ اسلامی تعلیمات میں سے ہے، کیونکہ مسلمانوں کی دنیوی ترقی بھی دینداری، خوفِ خدا، علم، اور عمل سے مشروط ہے، مگر کافروں کے لئے مہلت ہے (۷۳: ۱۱) اس لئے کسی دینی شرط کے بغیر انہیں دنیا دی گئی ہے۔

۷۔ ربّانی فضل و کرم اور جود و عطا کا یہ عالم ہے کہ دستِ قدرت آسمان اور زمین کی ہر جگہ ہر چیز تک رسا اور کشادہ ہے (۰۵: ۶۴) اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ جو اشیاء بظاہر بے جان کہلاتی ہیں، ان میں بھی ایک قسم کی روح موجود ہے، جیسا کہ سورۂ لقمان (۳۱: ۱۶) میں ارشاد ہے: (ترجمہ): اے بیٹا اگر کوئی عمل رائی کے دانہ کے برابر ہو پھر وہ کسی پتھر کے اندر ہو یا وہ آسمان میں ہو یا وہ زمین میں ہو تب بھی

 

۵۵

 

اللہ اس کو حاضر کر دے گا۔ یہاں رائی کے دانہ سے روح مراد ہے، جو پتھر، فضا، اور زمین جیسی چیزوں میں بھی موجود ہوتی ہے۔

۸۔ کائنات و موجودات کا ذرّہ ذرّہ روح کی روشنی سے منوّر ہونے کی سب سے روشن ترین دلیل تو یہی ہے کہ اللہ کی نورانیّت کے سمندر میں بلندی و پستی کی جملہ اشیاء ظاہراً و باطناً مستغرق ہیں (۲۴: ۳۵) اس تصور کے مطابق دیکھنے سے یقین آتا ہے کہ ہر مخلوق اور ہر شیٔ غریقِ بحرِ نور ہے، پس اس پُرحکمت آیۂ نور کے پیشِ نظر ہر شخص اور ہر چیز بیک وقت دو روحوں سے متصّل اور وابستہ ہے، ایک تو انفرادی روح ہے، اور دوسری اجتماعی، یعنی کائناتی، جیسے ایک بہت بڑی آگ میں بہت سے انگارے ہوتے ہیں، آگ کی وحدت و سالمیّت میں کوئی شک نہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ آگ میں مختلف انگارے بھی ہیں، پس عالمگیر روح (یعنی روحِ اعظم) کی آغوش میں جو کچھ بھی ہو، اس کو اس ازلی نور میں تحلیل ہو کر روح بنے بغیر کوئی چارہ نہیں، جس طرح ایک زبردست آگ میں جو چیز ڈالی جاتی ہے، وہ فی الفور آگ ہو جاتی ہے۔

۹۔ کوئی آدمی محض اس روشن مثال کے سمجھنے سے وہ نور نہیں بن سکتا جو مرتبۂ انسانیّت کے لئے مقرر ہے، کیونکہ یہ تو صرف علم ہی ہے، اور ہنوز عمل کی کوئی بات ہی نہیں ہوئی، چنانچہ عالمِ شخصی (عالمِ صغیر) کا دھواں بحکمِ خدا نور کے آسمان میں صرف اس وقت مُبدَّل ہو سکتا

 

۵۶

 

ہے جبکہ بندۂ مومن بڑی سختی کے ساتھ احکامِ دین پر عمل پیرا ہو جاتا ہے (۴۱: ۱۱) کیونکہ قرآن میں جس طرح تخلیقِ کائنات کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس کے دہرے معنی ہیں، اوّل یہ کہ خالقِ اکبر نے عالمِ کبیر کو پیدا کیا، اور دوسرے معنی یہ کہ اس کے حکم اور تائید سے عالمِ صغیر میں روحانی تعمیر و ترقی کی گئی، اور آسمان پیدا ہوا۔

۱۰۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اپنے وقت میں روحانی طبیب تھے، آپ کا ایک بہت بڑا معجزہ یہ تھا کہ آنجناب جسمانی مردوں کو یا روحانی مردوں کو یا دونوں قسم کے مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے (۰۵: ۱۱۰) لیکن ہر ایسی دعا کے ساتھ کہتے تھے: بِاِذْنِ اللّٰہ، یعنی خدا کے حکم سے، اس سے ظاہر ہے کہ دعا یا دوا چاہے کتنی اعلیٰ کیوں نہ ہو، لیکن جب تک ملکوت سے منظوری کی تازہ ترین روح نہ آئے، تو کوئی درد کافور اور کوئی مرض زائل نہیں ہو سکتا۔

۱۱۔ بے شک اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی ساری مخلوقات اور تمام چیزوں کے لئے نورِ ہدایت ہے (۲۴: ۳۵) لیکن موجودات یکسان نہیں، اس لئے ان کی حالت و ضرورت کے مطابق ہدایت کے بہت سے مختلف درجات مقرر ہیں، چنانچہ ہدایت کی دو بڑی قسموں کے اعتبار سے انسان کے لئے اختیاری ہدایت ہے، اور غیر انسان کے لئے جبری یا اضطراری ہدایت ہے، پھر ذیلی تقسیم میں جمادات کو کَونی (بن جانے کی) ہدایت حاصل ہے، نباتات کو نشونمائی کی،

 

۵۷

 

حیوانات کو حسّی ہدایت، اور انسان کو شعوری یا عقلی ہدایت دی گئی ہے، تاہم ہدایت کے ہر درجے میں تازہ لہروں کی سخت ضرورت ہے، اور یہی نکتہ ہمارے اس موضوع کا مرکز و محور ہے۔

۱۲۔ قرآنِ مجید کی تمام سورتوں کے شروع میں فواتح اور آخر میں خواتم موجود ہیں، سورۂ یاسین کا وصفی نام “قلبِ قرآن” ہے، الاتقان، جلد دوم، نوع ۷۵، خواصِ قرآن میں سورۂ یاسین کے خواص (تاثیرات) کو دیکھ لیں، اور اس سے عظیم فوائد حاصل کریں، اس سورہ کا خاتمہ یہ ہے: فَسُبْحٰنَ الَّذِیْ بِیَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَیْءٍ وَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ (۳۶: ۸۳) پس وہ ذات پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی سلطنت ہے اور تم سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ چونکہ یہ قلبِ قرآن کا خاتمہ ہے، لہٰذا اس میں زبردست حکمتوں کے جواہر جمع ہیں، اور اس میں جسم و جان کے لئے دوا اور شفا موجود ہے، آپ اس میں خوب غور و فکر کریں کہ ذاتِ سبحان کے بابرکت ہاتھ میں کیا نہیں ہے؟ جبکہ تمام عقلی، روحانی، اور مادّی چیزیں اسی کے ہاتھ میں اور اسی کے اختیار میں ہیں، یاد رہے کہ تُرْجَعُوْنَ مضارع مجہول ہے، لہٰذا اس میں دو قسم کے رجوع کے معنی موجود ہیں، یعنی خدا کی طرف لوٹایا جانا نہ صرف مر جانے کے بعد ہے، بلکہ زندگی میں بھی بہت سی چیزیں مومن کو خدا تعالیٰ سے رجوع کراتی ہیں، مثلاً بیماریاں، مشکلات، علم، بندگی، توبہ، نیکی، خدا کی محبت، وغیرہ۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
۷ جولائی ۱۹۸۷ء

۵۸

 

ایک زبردست شفا بخش زلزلہ

۱۔ آئیے، آج ہم قرآنِ حکیم، کائنات، اور اپنی ذات میں آیۂ حرکت کا بنظرِ عمیق مطالعہ کریں، کہ حرکت نہ صرف زندگی کی علامت و نشانی ہے، بلکہ یہ خود حیات و زندگی بھی ہے، جی ہاں، حرکت سرچشمۂ برکت ہے، حرکت خیالات و افکار بھی ہے، اور گفتار و کردار بھی، حرکت ہی ترقی و پیشرفت کا وسیلہ ہے، حرکت کائنات میں روحِ اعظم کی حیثیت سے کام کر رہی ہے، اور اگر حرکت کی ضرورت، اہمیت، اور افادیت کو قریب سے دیکھنا ہے تو دل کی دھڑکن، نبض کا دھکیل، دورانِ خون، اور نظامِ تنفس کو دیکھ لیں، اور حواسِ ظاہر و باطن کے سلسلۂ عمل پر غور و فکر کریں، غرض حرکت ہر مخلوق و موجود کے قیام و بقا کے لئے بے حد ضروری ہے، اور یہی سبب ہے کہ عقلی، روحانی، اور جسمانی چیزوں میں سے کوئی شیٔ اپنی نوعیت کی حرکت کے بغیر ٹھہر نہیں سکتی ہے۔

۲۔ سونے کی کان اپنے اندر کی چیز کو سونا بنا لیتی ہے، پہاڑ اپنے

 

۵۹

 

سینے میں جواہرات پیدا کرتا ہے، سمندر انمول موتیوں کو جنم دیتا ہے، زمین ہر قسم کی نباتات اور خوبصورت پھول اگاتی ہے، خوش الحان پرندے ہوائے مردہ میں سے نغماتِ دلکش بناتے ہیں، حلال مویشی اپنے کارخانۂ شکم سے کام لے کر گھاس جیسی معمولی چیز سے گوشت اور دودھ بنا دیتے ہیں، ان سارے عجیب و غریب اعمال میں درحقیقت کس کی قدرت و توانائی کام کر رہی ہے؟ اللہ تعالیٰ کی، یاد رہے کہ یہ مثال قادرِ مطلق کی بے پناہ صناعی (کاریگری) کے لئے بہت ہی چھوٹی ہے۔

۳۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح بنی آدم کو اپنی تمام دوسرے مخلوقات پر کرامت و فضیلت عطا کر دی (۱۷: ۷۰) اسی طرح اس نے انسان کی عقلی، روحانی، اور جسمانی حرکت کو بھی جملہ اشیاء کی حرکتوں پر بادشاہ بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے آدمی کے لئے ہر چیز مسخر ہو جاتی ہے، چنانچہ خدائے بزرگ و برتر نے اہلِ ایمان کی حرکت کو ترقی دے کر بہت بابرکت بنا دیا، یہاں تک کہ اس رحمان و رحیم نے بندۂ مومن کے نیک اقوال و اعمال کی حرکتوں کے جوہر سے ایک زبردست شفا بخش زلزلہ پیدا کیا، جس میں بدرجۂ انتہا پاکیزگی بھی ہے، اور شفائے کلّی بھی (۰۲: ۲۱۴، ۳۳: ۱۱)۔

۴۔ وہ زلزلۂ روحانی بڑا پُرحکمت اور بہت بابرکت ہے، جس کا اوپر ذکر ہوا، جو روحانیّت کا ایک مقدّس بخار ہے، جس کی طرف

 

۶۰

 

اشارہ کرتے ہوئے حدیثِ شریف میں فرمایا گیا ہے کہ: بخار ربِّ غفور کی جانب سے طہور (پاک کرنے والا) ہے، پس اس زلزلہ یا بخار کی تین قسمیں ہیں: روحانی، جسمانی، اور مصنوعی یا ورزشی، اور ان میں سے ہر ایک کی کئی ذیلی قسمیں بھی ہیں۔

۵۔ قرآنِ مجید کا ارشاد ہے کہ: اور یقین لانے والوں کے لئے زمین میں (قدرتِ خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں (۵۱: ۲۰) اور خود تمہاری ذات میں بھی تو کیا تم کو دکھائی نہیں دیتا (۵۱: ۲۱)اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو چیزیں مادّی طور پر دنیائے ظاہر میں پائی جاتی ہیں، وہ اشیاء روحانی حالت میں عالمِ نفسی (عالمِ شخصی) میں بھی ہیں، چنانچہ زمین میں بھونچال پوشیدہ ہے، اور انسان کی ذات میں مذکورہ مقدّس زلزلہ مخفی ہے، جو زمانۂ آدم سے روحانیّت کے ساتھ وابستہ این جانب روان دوان آیا ہے (۰۲: ۲۱۴)۔

۶۔ یہ مبارک و مقدّس بھونچال روحانیّت کے ایک اعلیٰ درجے میں ظہور پذیر ہوتا ہے، جس کا مقصد بدرجۂ انتہا تطہیر و تزکیہ اور شفا بخشی ہے، اور یہ بظاہر آزمائش بھی ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم کا ارشاد ہے: (ترجمہ) اس موقع پر مومنین آزمائے گئے اور بڑی شدت سے ہلائے گئے (۳۳: ۱۱) دین و دنیا میں کوئی امتحان و آزمائش نہیں، مگر کسی کو ترقی دینے کے لئے، پس یہ زلزلہ بڑا بابرکت ہے۔

۷۔ اس معجزانہ بھونچال میں روحانی انقلاب کا تصوّر ہے، لہٰذا اس

 

۶۱

 

کی تخریب برائے تخریب نہیں، بلکہ برائے تعمیرِ نو ہے، اور اس کی فنا برائے فنا و انہدام نہیں، بلکہ برائے بقا باللہ ہے، ذرا دنیا کی مثال لیجئے کہ اگر ہم جھگیوں اور جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور وہ کسی سماوی یا ارضی آفت سے یا کسی اور سبب سے تباہ ہو جاتی ہیں، تو کیا ہی اچھا موقع ہے کہ اب کے ہم اپنی حکومت سے برائے تعمیرِ مکان خاصا امداد حاصل کریں گے، پھر جب ہم ایک عمدہ گھر میں رہائش پذیر ہو جائیں گے، تو اس وقت ہم اس آفت کو، جس نے ہمیں سڑی ہوئی جھونپڑی سے نجات دلائی ہو، دعائیں دیتے رہیں گے۔

۸۔ دراصل زلزلۂ روحانیّت اور زلزلۂ قیامت ایک ہی چیز ہے، لہٰذا جب تک تمام متعلقہ آیاتِ کریمہ کو اس موضوع میں شامل نہ کر لیں، تب تک اس مبارک بھونچال کی بہت سی حکمتیں پردۂ اخفا ہی میں پوشیدہ رہیں گی، چنانچہ گزارش ہے کہ سورۂ حج کے آغاز (۲۲: ۰۱ تا ۰۲) اور سورۂ زلزال (۹۹: ۰۱ تا ۰۵) میں جیسے ارشادات ہیں، وہ یقیناً قیامت کے باب میں ہیں، تاہم تمام تر بھید ایسے ہیں جو روحانیّت اور قیامت دونوں کے درمیان قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں، پس بھونچال کا تذکرہ قرآنِ حکیم میں جس بارے میں بھی ہو، ہمیں اس کی گہری حکمتوں سے استفادہ کرنا ہو گا، تا کہ روحانی طب کے متعلق کچھ عرض کی جائے۔

۹۔ اس سلسلے کی میری دوسری کتاب “قرآنی علاج” میں کپکپی سے علاج کے پورے مضمون کو دیکھئے، اور “پاؤں کی حرکت سے علاج” کے

 

۶۲

 

موضوع کو بھی پڑھئے، اس سے (ان شاء اللہ) حرکت اور زلزلہ کی حکمتوں سے آگہی ہوگی۔

۱۰۔ جو لوگ رزقِ حلال کے لئے روزمرہ ایسے کاموں کو انجام دیتے ہوں، کہ اس میں بدنی حرکت ہے، چلنا پھرنا پڑتا ہے، اور کافی مشقت برداشت کی جاتی ہے، تو یہ ان کی خوش نصیبی ہے، کیونکہ جسمانی حرکت اور محنت کی بدولت وہ بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں، اور صحت ایک ایسی گرانمایہ نعمت ہے، کہ وہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی، مگر بسا اوقات یہ کسانوں اور مزدوروں کو ادائے قیمت کے بغیر مفت ہی دی جاتی ہے، جبکہ اہلِ دولت حصولِ صحت کی خاطر لاکھوں کے حساب سے زر خرچ کرتے ہیں، پھر بھی کامیابی کبھی ہوتی ہے، اور کبھی نہیں ہوتی۔

۱۱۔ یقین ہے کہ جب مادّی سائنس ترقی کر کے روحانی سائنس کے ساتھ مل جائے گی، تو اُس وقت عالمِ انسانیّت سے ساری بیماریاں ختم ہو جائیں گی، کیوں نہ ہو، جبکہ آسمانوں اور زمین کی تمام چیزیں خدا تعالیٰ کے لئے سجدہ اور اطاعت کرتی ہیں (۱۶: ۴۹) پس روحانی علم اور ذکرِ خدا سے امراض پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے، اور یہ روحانی سائنس میں سے ہے، کیونکہ سائنس علم یا حکمت کو کہتے ہیں، پھر قرآنی حکمت کیسے روحانی سائنس نہیں ہو سکتی ہے۔

۱۲۔ جب بندۂ مومن خدائے مہربان کے حضور شدید گریہ و زاری

 

۶۳

 

کرتا ہے، تو اسی میں ایک سنجیدہ زلزلہ اپنا کام کرتا ہے، کیا آپ نے ایسے کسی عاجز درویش کی مناجات نہیں سنی ہے، جس کی آواز میں بڑی سوزش اور لرزش (تھرتھراہٹ) ہوتی ہے؟ اگر وہ اس حالت میں اپنے ہاتھوں کو بھی لرزائے، تو غالباً اس کا سارا بدن قدرتی زلزلہ (کپکپی) کی زد میں آئے گا، اور یہ مشق ہر مومن کر سکتا ہے، تا کہ یہ عمل بحکمِ خدا بہت سے ظاہری اور باطنی امراض کے لئے باعثِ شفا ہو، اس لئے کہ روحانی بھونچال قرآنی تعریف کے مطابق جتنا شدید، طاقتور، پُرحکمت، اور بااثر ہے، اتنا جراثیم کُش اور شفا بخش بھی ہے۔

۱۳۔ صحیح مسلم جلدِ سوم، کتاب الجنۃ، حدیث ۲۴۴۵ میں ارشاد ہے کہ: اللہ صاحبِ عزّت و جلالت نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو اپنی صورت پر بنایا۔۔۔ نیز فرمایا گیا ہے کہ: جو کوئی بہشت میں جائے گا، وہ آدم کی صورت میں ہو گا۔ اس حدیثِ نبوّی میں خوب غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اگرچہ کلی بہشت مومن کے مر جانے کے بعد ہے، تاہم یہ مناسب سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ آیا کسی بندۂ صالح کی روحانی ترقی اور خدا کی نزدیکی ایک طرح کی بہشت نہیں ہے؟ کیوں نہیں، یقیناً یہ حقیقت ہے، پس یاد رہے کہ قربِ خدا سے صورتِ روح بہتر سے بہتر ہو کر صورتِ آدم ہو جاتی ہے، جو صورتِ رحمان ہے، اور یہ حدیث اُس آیۂ کریمہ کی تفسیر ہے، جس میں ارشاد ہوا ہے کہ: وَ صَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْۚ (۶۴: ۰۳) اس کے مرادی

 

۶۴

 

معنی یہ ہیں کہ خدا نے تمہاری روح کی صورت بنائی، پھر (اس کے بعد مقامِ قرب میں) رنگِ نور سے آراستہ کر کے اسے صورتِ آدم کا درجہ عطا کر دیا (۰۲: ۱۳۸) اس بیان سے ظاہر ہے کہ مومنین کی روحانی ترقی کے لئے بڑی گنجائش ہے۔

۱۴۔ حدیثِ تقرب کو لیجئے، جس کا حوالہ قرآنی علاج ص ۹۰ پر موجود ہے جس کا ایک مختصر مطلب یہ ہے کہ خدا اپنے بندۂ مومن کا ہاتھ ہو جاتا ہے، جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ جس سے محبت کرتا ہے، اس کے ہاتھ میں نور کام کرتا ہے، پس جو شخص ہمیشہ اپنے ہاتھ کو پاک رکھے، تو اس میں دستِ قدرت کی نورانی برکتیں اور حکمتیں آتی ہیں، پس آپ اسی یقینِ محکم اور امیدِ واثق کے ساتھ روحانی مشقوں میں ہاتھ کی حرکت کا سہارا لیں، ان شاء اللہ تعالیٰ ، کسی درجے کے زلزلۂ روحانی کا تجربہ ہو گا، جس میں ہر بیماری سے شفا ہے، ان شاء اللہ العزیز۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
۱۴ جولائی ۱۹۸۷ء

۶۵

بھوک ایک ربّانی علاج

۱۔ خالقِ کائنات نے عالمِ انسانی میں اگرچہ بے شمار چیزیں پیدا کر دی ہیں، لیکن اُس علیم و حکیم نے اپنی حکمتِ بالغہ سے پانچ اشیاء کو منتخب فرمایا، تاکہ وہ دانا و بینا ان چیزوں پر اپنے بندوں کو صبر و ثبات کے میدانِ عمل میں آزمائے، وہ پانچ چیزیں یہ ہیں: ہر قسم کا خوف، ہر طرح کی بھوک، ہر نوع کا مالی نقصان، ہر گونہ جانی نقصان، اور ہر درجہ کے ثمرات کی کمی (۰۲: ۱۵۵) آپ سورۂ بقرہ کی آیت ۱۵۳ تا ۱۵۷  (۰۲: ۱۵۳ تا ۱۵۷) دقتِ نظر اور غور سے ضرور دیکھ لیں، تا کہ یہ حقیقت بحسن و خوبی روشن ہو جائے، کہ جہاں خدائے بزرگ و برتر صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (ان اللّٰہ مع الصابرین) وہاں صبر کس نوعیت کا فعل ہے؟ صبر کا وجود کن کیفیات کے تحت بنتا ہے؟ اور اس کے وسائل و ذرائع اور مواقع کیا کیا ہیں؟

۲۔ محولۂ بالا آیاتِ مبارکہ کے چند پُرحکمت مفہومات یہ ہیں کہ اوّل تو ارشاد فرمایا گیا ہے کہ صبر و صلوٰۃ ہی آسمانی تائید کا وسیلہ ہے، پھر صبر

 

۶۶

 

کی سب سے بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے، کہ خدا تعالیٰ صابروں کے ساتھ ہے، اور اللہ جن لوگوں کے ساتھ ہو، آپ سوچ کر بتائیں کہ ان کو کس حقیقی نعمت کی کمی ہو سکتی ہے؟ اس کے بعد یہ واضح مفہوم ہے کہ صبر کا ایک اعلیٰ مقام راہِ خدا میں مستانہ وار جامِ شہادت نوش کر لینا ہے، اور پھر مذکورہ پانچ قسم کی ربّانی آزمائشوں کا بیان ہے، نیز اہلِ صبر کے لئے بشارت اور انعاماتِ خداوندی کا تذکرہ ہے، اور بڑی حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اتنی اعلیٰ سطح پر اور ایسے اونچے درجے پر لسانِ حکمت بیانِ قرآن سے جُوع (بھوک) کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، وہ اس معنیٰ میں کہ حکیمانہ جُوع کی تکلیف برداشت کر لینے والے مومنین صابرین میں سے ہو جاتے ہیں۔

۳۔ پروردگارِ عالم نے مسلمین و مومنین کی گرسنگی (بھوک) کو اتنا اعلیٰ مرتبہ اور ایسی عظیم فضیلت عطا کر دی ہے کہ انسانی عقل دنگ ہو جاتی ہے، چنانچہ یہاں برمحل یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ بھوک میں ایسے کون سے بھید پوشیدہ ہیں، جن کی وجہ سے اس کو اتنی زبردست اہمیّت دی گئی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بھوک کے تین بڑے بنیادی فائدے ہیں: (الف:) یہ ایک افضل عبادت ہے (ب:) یہ تقویٰ اور پرہیز ہے (ج:) یہ ظاہراً اور باطناً ایک شافی علاج ہے، اور ان تین اساسی فوائد میں سے ہر ایک لاتعداد نعمتوں اور منفعتوں کا سرچشمہ ہے۔

۶۷

۴۔ انسانی صحت کی بہت سی خرابیوں کا باعث پُرخوری اور بھرا ہوا پیٹ ہے، جس کی اصلاح و درستی کا سہل ترین اور بہترین طریقہ روزہ یا فاقہ ہے، تاکہ اس سے عملِ ہاضمہ کا بگڑا ہوا نظام ازسرِ نو ٹھیک کام کر سکے، جیسا کہ پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ مبارک ہے: روزہ رکھو تاکہ تم صحت یاب ہو جاؤ گے۔ اس حدیثِ شریف میں نہ صرف جسمانی صحت ہی کا ذکر ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی سلامتی بھی مقصود ہے، کیونکہ کلامِ خدا اور فرمانِ رسول کے پُرحکمت الفاظ میں معنی کی انتہائی جامعیّت، مطلب کی تمامیت، اور منطق کی کمالیت موجود ہوتی ہے۔

۵۔ ایک ہوتی ہے نصیحت، جس میں براہِ راست کسی سے خیر خواہی کی باتیں کی جاتی ہیں، اور دوسری ہوتی ہے عبرت، کہ اس میں بالواسطہ یعنی دوسروں کے احوال و امثال سے پند و نصیحت کی جاتی ہے، پس قرآنِ حکیم میں نصیحتوں کی بھی اور عبرتوں کی بھی فراوانی ہے، جیسا کہ سورۂ محمد کے ایک ارشاد (۴۷: ۱۲) میں فرمایا گیا ہے: (ترجمہ) اور جو لوگ کافر ہوئے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور کھاتے ہیں جیسا کہ چوپائے کھاتے ہیں (۴۷: ۱۲) اس سماوی تعلیم میں ایک طرف نصیحت ہے اور دوسری طرف عبرت، اور مثال حیوان یعنی گائے، بکری، اونٹ، گھوڑا، گدھا، وغیرہ سے دی گئی ہے، اور اس حکیمانہ تشبیہہ و تمثیل میں تہ بہ تہ عجیب و غریب حکمتیں پوشیدہ ہیں، جن کا احاطہ نہیں ہو سکتا، مگر اس کی تھوڑی سی وضاحت

 

۶۸

 

قرآنی طب کے نکتۂ نظر سے یہ ہے:

۶۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ آیا قرآنِ حکیم کو یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ حیوان میں اتنی ساری حیوانی عادتیں کیوں اور کس لئے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں، کیونکہ چوپایہ اپنے دائرۂ فطرت کے عین مطابق ٹھیک عمل کر رہا ہے، تو پھر اس آیۂ مقدّسہ میں مذمت کس کی کی گئی ہے؟ کافروں کی، اچھا، تو اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ حقیقی اور عرفانی حلاوتوں سے روگردان ہو کر صرف حیوانی لذّتوں ہی میں محدود ہو چکے ہیں، جس کے سبب سے وہ بہت سی باطنی بیماریوں میں مبتلا ہیں، جیسے امراضِ عقلی، امراضِ روحانی ، وغیرہ، ظاہر ہے کہ کفر و نفاق قلبی مرض ہی ہوتا ہے۔

۷۔ کافر زمانۂ نبوّت کے ہوں یا آج کے، وہ کس طرح مریضِ عقل اور حیوان بشکلِ انسان قرار پا سکتے ہیں، جبکہ علم و دانش یا عقلی اعتبار سے گئے گزرے نہیں؟ اگرچہ بظاہر عقل دو قسم کی ہوا کرتی ہے، ایک حقیقی اور دینی ہے، اور دوسری مجازی اور دنیاوی، مگر قرآنِ پاک کے نزدیک ہر وہ شخص بے عقل اور جاہل ہے، جو دینِ اسلام کو نہیں مانتا (۰۵: ۵۰، ۳۹: ۶۴) زمانۂ جاہلیت (۰۳: ۱۵۴، ۴۸: ۲۶) کی مثال لیجئے، آیا ظہورِ اسلام سے قبل کے اکثر لوگوں کو دنیوی شعور نہ ہونے کی وجہ سے جاہل کہا گیا ہے؟ ایسا نہیں، وہ دنیائے ظاہر کے امور میں اپنے ہمعصروں سے کیسے پیچھے ہو سکتے تھے، مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ اُس عقل کی لازوال

 

۶۹

 

دولت سے محروم تھے، جس سے دین شناسی اور خدا شناسی کا مرتبۂ اعلیٰ حاصل ہو جاتا ہے۔

۸۔ جانوروں کی قوّتِ ہاضمہ بے حد مضبوط، اور زبردست تیز ہوا کرتی ہے، جو دن رات مسلسل اپنا کام کرتی رہتی ہے، اس کی ایک خاص وجہ البتہ یہ بھی ہے کہ بعض چوپائے جگالی کرتے ہیں، جیسے آپ نے گائے یا بکری کو دیکھا ہو گا، اور جو چوپایہ جگالی نہیں کرتا، وہ شدید مشقت کا کام کرتا ہے، جیسے گھوڑا، گدھا، وغیرہ، مگر پھر بھی عجیب بات تو یہ ہے کہ جب کسی حیوان کو انسانی خوراک کی کوئی چیز کچھ زیادہ کھلائی جاتی ہے، جیسے دانہ، روٹی، وغیرہ، تو اُس وقت بے چارا جانور نہ تو جگالی کر سکتا ہے اور نہ ہی سخت محنت کا کام، بس وہ فوراً ہی بیمار ہو جاتا ہے، اور بعض دفعہ کوئی ایسا حیوان مر بھی جاتا ہے، اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ انسانی غذا کیسی لذیذ اور کتنی طاقتور ہوا کرتی ہے، پس ہر دانشمند مومن کے لئے یہ بات ازحد ضروری ہے کہ وہ خوراک کے معاملے میں ہر وقت احتیاط و اعتدال کا طریقہ اپنائے، اور وقفہ وقفہ کی پُرحکمت بھوک کو اپنے حق میں ایک عبادت اور خدا کی رحمت سمجھے۔

۹۔ ادیانِ عالم میں بھوک کی اہمیت و افادیت کا یہ حال ہے کہ اسے روزہ جیسی ایک بہت بڑی عبادت کا درجہ دیا گیا ہے (۰۲: ۱۸۳) نیز طب اور ڈاکٹری میں بھی فاقہ، پرہیزی غذا (Diet) پرہیز، وغیرہ کی صورت میں بھوک کی شدید ضرورت محسوس کی گئی ہے، اس کے علاوہ جب تک آدمی

 

۷۰

 

کے شکم میں سکون و خاموشی کی راحت نہ ہو، تو وہ اس حال میں نہ تو آرام سے کوئی ذہنی کام انجام دے سکتا ہے، اور نہ کوئی کامیاب عبادت کر سکتا ہے۔

۱۰۔ قرآنِ کریم کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی کا ظلم سب سے پہلے اپنے آپ پر ہو جاتا ہے، اور پھر دوسروں پر، اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان تین چیزوں کا مجموعہ ہے: عقل، روحِ انسانی، اور روحِ حیوانی، چنانچہ ہر شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف سے اس بات پر مامور ہے کہ وہ اپنی ہستی کے ان تینوں اجزاء کے واسطے حسبِ مراتب عدل و انصاف کے عمل کو ہر وقت قائم رکھے، ان میں سے ہر ایک کو جیسا کہ چاہئے اس کا حق دلائے، اور ہر ایک کے لئے جو مقررہ اور مناسب غذا مطلوب ہے، اسی غذا سے اس کی تربیت و پرورش کا اہتمام کرے، تاکہ کلّی صحت حاصل آئے، یعنی عقل کے لئے علم و حکمت، روح کے لئے ذکر و عبادت، اور نفسِ حیوانی کے واسطے محدود رزقِ حلال کا بندوبست کرے، اور اگر کوئی انسان عقل و روح جیسی شریف و اعلیٰ چیزوں کو فراموش کرتا یا ان کو کوئی خاص اہمیت ہی نہیں دیتا ہے، اور صرف نفس ہی کی غلامی کرتا رہتا ہے، تو یہ اس کا اپنے آپ پر بہت بڑا ظلم ہے۔

۱۱۔ ایک مثال کے مطابق ہر انسان کے اندر تین مخلوقات پنہان ہیں: ایک توسنِ بد رکاب و بدلگام، یعنی نفسِ سرکش، ایک آدمی (روحِ

 

۷۱

 

انسانی) اور ایک فرشتہ (عقل) اس سلسلے میں انتہائی اہم توجّہات اور خدمات فرشتے کے لئے ہونی چاہئیں، کیونکہ وہ اس آدمی کو جو آپ کے باطن میں پوشیدہ ہے عالمِ عُلوی کی طرف پرواز سکھانے کے لئے آیا ہے، لیکن جب تک آپ کو اپنے بدمست گھوڑے کے الجھے ہوئے مسائل سے فرصت ہی نہ ہو، تو پھر آپ فرشتۂ عقل سے کوئی درسِ حکمت ہی نہیں لے سکتے، لہٰذا یہ ایک انتہائی ضروری امر ہے کہ آپ جلد از جلد اپنے بے قابو گھوڑے کی بدمستی کا علاج کریں، علاج یہ ہے کہ آپ کافی حد تک اس کا چارا دانہ کم کریں، اگر یہ اس سے نہیں سدھرتا ہے، تو پھر بھوک پیاس کا مزہ چکھانا پڑے گا، اور اس کے بعد دیکھ لیا جائے گا کہ وہ کیسے سرکشی کرتا ہے۔

۱۲۔ اللہ تعالیٰ کے اس امرِ عظیم میں یقیناًبڑی بڑی حکمتیں مخفی ہیں کہ اس نے تمام چیزوں کو جفت جفت بنایا (۳۶: ۳۶، ۵۱: ۴۹) اور قرآنِ حکیم نے اپنی مختلف مثالوں میں قانونِ اضداد کی اہمیّت و افادیت کی طرف بارہا توجہ دلائی (۰۳: ۲۷، ۳۹: ۰۵) اس کا مطلب یہ ہوا کہ شکم سیری اور بھوک میاں بیوی کی طرح لازم و ملزوم ہیں، پس ہر آدم زاد کی کامل صحت، لذّت، شادمانی، اور مقصدِ حیات کو جنم دینے کے لئے نہ صرف طعام تناول کرنا ہی کافی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ (یعنی قبلاً و بعداً) مکمل بھوک کا وجود بھی ازبس ضروری ہے، تاکہ قانونِ جفت کے مطابق ان دونوں چیزوں سے ہر قسم کی ظاہری اور باطنی خوشی اور ہر گونہ فائدہ حاصل ہو سکے۔

۷۲

۱۳۔ آخر میں بھوک کے متعلق ہم یہی مکرر عرض کریں گے کہ یہ ایک افضل عبادت بھی ہے، تقویٰ اور پرہیز بھی ہے، اور ظاہراً و باطناً ایک شفا بخش علاج بھی، اور اس کے مجموعی فائدے بے شمار ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ نورِ قرآن کی روشنی سے عالمِ اسلام اور دنیائے انسانیّت کو منور فرمائے!

فقط بندۂ کمترین
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۲۷ اگست ۱۹۸۷ء

 

۷۳

 

غصے کا علاج

۱۔ سب سے پہلے لفظِ “غصہ” کے لغوی معنی کو دیکھئے: الغصۃ = وہ چیز جس سے پھندا لگے (یعنی ایسی شیٔ جو گلے میں اٹک جائے) گلوگیر، اندوہ، غم، جیسے سورۂ مزمل کے ایک ارشاد (۷۳: ۱۳) میں ہے: وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّةٍ (۷۳: ۱۳، اور گلے میں پھنس جانے والا کھانا ہے) اس میں کوئی شک نہیں کہ غصہ مزاجِ آدمی میں فوراً ہی ایک ایسی کیفیت پیدا کر دیتا ہے، جس سے اس کا دم گھٹ جاتا ہے، دل غم و اندوہ میں ڈوبنے لگتا ہے، اور مایوسی کا اندھیرا چھائے رہتا ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ غصہ ایک شدید قسم کی اخلاقی بیماری ہے، جس کا جلد از جلد علاج بے حد ضروری ہے، تاکہ وقت گزر جانے کے ساتھ ساتھ اس کی جڑیں مضبوط نہ ہونے پائیں۔

۲۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اولادِ آدم کی اخلاقی مسکراہٹ تبسمِ گل سے کہیں زیادہ حسین و دلکش ہوا کرتی ہے، یہ گویا غنچۂ دل کھل جانے کی علامت ہے، یا یوں کہا جائے کہ ایسے میں بنی آدم کے چہرے پر نور کی

 

۷۴

 

ایک لہر دوڑتی ہے، کیونکہ مسکرانا صرف انسان ہی کا خاصہ ہے، لیکن یہ ظلم کس سے منسوب ہو کہ جب کسی بات پر اسے غصہ آتا ہے، اور وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے، تو اس وقت خندہ پیشانی کی دل آویز بہار یکسر لٹ کر تباہ و برباد ہو جاتی ہے، اور موجِ نور کے بجھ جانے سے چہرے پر تاریکی چھا جاتی ہے۔

۳۔ حکمتِ قرآن اس امر کی مقتضی ہے کہ اہلِ دانش قانونِ اضداد کا گہرا اور مکمل مطالعہ کر لیں، کیونکہ اس میں جاننے کے لئے بہت سے کلیدی بھید پوشیدہ ہیں، مثال کے طور پر عدل اور ظلم دو متضاد چیزیں ہیں، جن کی شناخت ایک دوسرے سے ہوتی ہے، اور ایک کو کم کرنے سے دوسرے میں اضافہ ہو جاتا ہے، چنانچہ عدل روزِ روشن جیسا ہے اور ظلم شبِ تاریک کی طرح، اور یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ دن کی جگہ رات چھا سکتی ہے، اور رات سے دن پیدا ہو سکتا ہے، اسی طرح اگر انسان کو ناخواست غصہ آتا ہو، تو وہ غصہ پی بھی سکتا ہے۔

۴۔ جب بندۂ مومن اپنے غیظ و غضب کو ضبط کر لیتا ہے، تو پروردگارِ عالم کے حکم سے اس میں عفو و درگزر کر دینے کی ایک مستقل صفت پیدا ہونے لگتی ہے، اور اگرچہ عفو فرمانے کی صفت دراصل اللہ تعالیٰ کی ہے (۰۴: ۴۳، ۰۴: ۹۹، ۲۲: ۶۰) تاہم بحکمِ تخلقوا باخلاق اللّٰہ (اپنی عادتیں اخلاقِ خداوندی کے مطابق بناؤ) صفاتِ الٰہیہ کے کچھ جلوے

 

۷۵

 

آئینۂ بشریت میں بھی ہو سکتے ہیں، جیسا کہ سورۂ آلِ عمران میں فرمایا گیا ہے: اور اپنے پروردگار کے سببِ بخشش اور جنّت کی طرف دوڑ پڑو جس کی وسعت سارے آسمان و زمین کے برابر ہے اور ان پرہیزگاروں کے لئے مہیا کی گئی ہے جو خوشحالی اور کٹھن کے وقت میں بھی (خدا کی راہ پر) خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو روکتے ہیں اور لوگوں کی خطا سے درگزر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے (۰۳: ۱۳۳ تا ۱۳۴)۔

۵۔ مذکورۂ بالا حکمت آگین سماوی الفاظ و تعلیمات کا مربوط و مجموعی اشارہ یہ ہے کہ اگر غصہ کو روک لیا جائے، تو اس سے قانونِ اضداد کے مطابق آدمی کی طبیعت میں عفو و درگزر کی صفتِ عالیہ بن جاتی ہے، جس سے نیکو کاری یعنی احسان ہوتا ہے، نیکو کاری کا عظیم اور انتہائی پُرلذّت ثمرہ خدا کی محبت ہے، جو بے مثال اور لا زوال ہے، اور جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ دوست رکھے، اس کے لئے کیا کچھ نہیں، سب کچھ ہے، چنانچہ ایسے لوگ ہی اپنے پروردگار کی مغفرت اور جنت کی طرف دوڑ سکتے ہیں، اور اہلِ تقویٰ میں سے ہو کر ہمیشہ کے لئے بہشت میں داخل ہو سکتے ہیں۔

۶۔ سورۂ شوریٰ (۴۲: ۳۷) میں درجۂ توکل کے مومنین کے بارے میں ارشاد ہے: اور جو لوگ بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے بچے رہتے ہیں اور جب غصہ آ جاتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں

 

۷۶

 

(یغفرون ۴۲: ۳۷) پس بندۂ مومن کا کسی کو معاف کر دینا کتنی قابلِ تعریف صفت ہے، کیونکہ اس عمل کا معنوی رشتہ خدائے بزرگ و برتر کے اسمِ غفور و غفار سے ہے، ہر چند کہ اللہ تعالیٰ کا فعل دونوں جہان پر محیط ہے، اور انسان کا عمل بشری رسائی کی حد تک محدود، تاہم مناسبت اور رشتہ اپنی جگہ پر ایک مسلّمہ حقیقت ہے، غرض غصہ کی بہترین دوا اور علاج یہ ہے کہ اپنے اندر معاف کر دینے کی عادت پیدا کر لی جائے، جس کے لئے نہ صرف تنہا علم کی ضرورت ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ عمل بھی لازمی ہے۔

۷۔ قرآنِ حکیم کی متعدد آیاتِ مقدّسہ میں غضبِ الٰہی کا ذکر آیا ہے، لیکن تعجب ہے کہ اسمائے صفات میں کہیں خدائے تعالیٰ کا کوئی ایسا نام نہیں ملتا، جو غضب کے معنی کا حامل ہو، چنانچہ اس کے بارے میں میرا ذاتی عقیدہ یہ ہے کہ خلیفۂ خدا ہی وہ اسمِ مجسّم ہیں، جن سے کبھی کبھار اللہ کے غضب کا ظہور ہوتا رہا ہے، اب رہا سوال قاہر اور قہار سے متعلق، تو اس میں غیظ و غضب کے معنی نہیں، بلکہ غلبہ اور زبردستی کے معنی ہیں، جیسا کہ روزِ قیامت کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَؕ-لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (۴۰: ۱۶) آج کے دن کس کی بادشاہی ہے؟ بس اللہ ہی کی ہے جو یکتا (ایک کر دینے والا اور ) غالب ہے۔

۸۔ اب ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جماد، نبات، حیوان، انسان،

 

۷۷

 

اور فرشتہ کے درجات میں سے کس درجے میں قوّتِ غضبیہ کا وجود بنتا ہے؟ ظاہر ہے کہ پتھر اور درخت میں غصے کی کوئی صلاحیت موجود نہیں، مگر حیوان میں یہ قوّت رکھی ہوئی ہے تاکہ وہ اس سے دفاع کا کام لے سکے، چونکہ انسان میں نفسِ حیوانی بھی ہے، لہٰذا یہاں بھی غیظ و غضب کا وجود لازمی ہوا، تاہم جانور میں عقل نہیں اور آدمی کی عقل ہے، اس لئے یہ امر ضروری ہوا کہ غصے کو مہذب اور شائستہ بنایا جائے، کیونکہ روحِ حیوانی کی وجہ سے انسان میں جتنی ادنیٰ قوّتیں پائی جاتی ہیں، وہ کارخانۂ عقل کے لئے خام مال یا خام اشیاء (Raw Materials) کی طرح ہیں، جن سے انتہائی اعلیٰ اور انمول چیزیں بنانا مقصود ہے۔

۹۔ طبی علاج کے سلسلے میں جتنی چیزیں بطورِ دوا مستعمل ہوتی ہیں، ان کی دو بڑی قسمیں ہیں، سمیات (زہریلی چیزیں) اور غیر سمیات، مگر جو چیز سمی (زہریلی) ہو، اسے طبیبِ حاذق ایسی ہی استعمال نہیں کرتا، بلکہ پہلے اسے مدبر (اصلاح کی ہوئی دوا) بناتا ہے، پھر اس سے دوا کا کام لیتا ہے، مثال کے طور پر سنکھیا، دھتورہ، نیلا تھوتھا، بادامِ تلخ، وغیرہ سمی ہیں، لیکن جب ان کی اصلاح کی جاتی ہے، تو یہ چیزیں زبردست مؤثر دوائیاں بن جاتی ہیں، اسی طرح قوتِ غضب کی بھی اصلاح کی جاتی ہے، جس سے عفو کا مادّہ بن جاتا ہے، اور اسی سے آئندہ غصے کا مداوا ہو سکتا ہے۔

۷۸

۱۰۔ غصے کی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں، مثلاً حکیمانہ غصہ، سطحی غصہ، مصنوعی غصہ، بچگانہ غصہ، اور گہرا غصہ، ان میں غصۂ عمیق برا اور خطرناک ہوتا ہے، وہ جاہلانہ طیش ہوتا ہے، جس میں غم اور مایوسی کا ایک تباہ کن لاوا (Lava) پھٹ کر ماحول کی تمام چیزوں کو برباد کر دیتا ہے، اس قسم کے غیظ و غضب سے عارضۂ قلب اور بلڈ پریشر کا اندیشہ ہے، کیونکہ شدید غصہ اور غم کی وجہ سے دل کی حرکت بہت بری طرح متاثر ہو جاتی ہے۔

۱۱۔ جو ہندو آج تک اپنے مذہب کے پابند ہیں، وہ گوشت نہیں کھاتے، اس کی ایک وجہ یہ ہے، کہ ان کے عقیدے میں کسی جانور کو جان سے مار دینا گناہ ہے، اور دوسری وجہ شاید یہ ہے کہ گوشت کے کھانے سے آدمی کے غصے میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس طرح کتا، چیتا، شیر، وغیرہ جیسے گوشت خوار جانور بڑے غضبناک ہوا کرتے ہیں، جبکہ گھاس چرنے والے حیوان ایسے نہیں ہوتے، یہ ہندوانہ فلسفہ ہے، لیکن دینِ اسلام میں حدود سے تجاوز کئے بغیر حلال گوشت کھانے میں کوئی قباحت نہیں، اور غصے کی صلاحیت جیسی نفس کی مخالفانہ قوّتوں کو بنیاد ہی سے نیست و نابود کر دینے میں کوئی حکمت نہیں، بلکہ حکمت و مصلحت اسی میں ہے کہ ان کی بدرجۂ اعلیٰ اصلاح کی جائے، اور اسلام میں رہبانیت نہ ہونے کا مطلب یہی ہے۔

۷۹

۱۲۔ اگر کسی مومن میں کچھ زیادہ غصہ ہے، تو اسے ہرگز مایوس نہ ہونا چاہئے، کیونکہ مایوسی گناہ ہے (۳۹: ۵۳) بلکہ اسے قدرت کی طرف سے یہ جو اشارہ ہے اسے خوب جاننا ضروری ہے کہ بسلسلۂ جہادِ اکبر اسے ہر بار اپنے غصے کے خلاف عمل کرنا ہے، یعنی غصے کو پینا ہے، پس اگر اس نے چالیس مرتبہ ایسا کیا، تو ان شاء اللہ، وہ اس میدان میں فاتح و کامیاب ہو گا، اور اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی پاک دوستی کی مرتبت سے اسے نوازے گا۔

۱۳۔ جب تم میں سے کسی کو غصہ آ رہا ہو، تو وہ خاموش ہو جائے (حدیث) کیونکہ اس حال میں عقل کام نہیں کرتی ہے، راس الحکمۃ مخافۃ اللّٰہ = سب سے بڑی حکمت خدا کا خوف ہے (حدیث) پس جو شخص اپنے ربّ کے غضب سے ڈرتا ہو تو وہ دوسرے پر کیسے غضبناک ہو سکتا ہے۔ رحم کرنے والوں پر رحمان رحم کرتا ہے (حدیث) صدقۃ البر تطفی غضب الربّ = نیک عمل کا صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے (حدیث) یعنی غیظ و غضب کو روک لینا نیکو کاری اور صدقہ ہے، جس سے پروردگار کا غضب ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ عفو و درگزر سے آدمی کی عزت بڑھتی ہے (حدیث) لیس الشدید بالصرعۃ انما الشدید من یملک نفسہ عند الغضب = پہلوان وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے، پہلوان تو دراصل وہ ہے جو اپنے نفس پر غصے میں قابو پا لے (حدیث)۔

۸۰

نوٹ: جس میں شدید غصہ ہو، وہ بار بار اس مضمون کو پڑھا کرے، ان شاء اللہ بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔

نصیر الدین نصیرؔ (ہونزائی)
۳ ستمبر ۱۹۸۷ء

۸۱

 

 

خیر خواہی سے علاج

۱۔ خیر خواہی ایک ایسی بے مثال اور معجزاتی دوا ہے کہ اس سے بہت سی باطنی بیماریوں کا علاج ہو سکتا ہے، کیونکہ یہی تو نیکوکاری کی اصل، اساس، اور بنیاد ہے، جبکہ خیر خواہی کی ضد بدخواہی ہے، جس کے جراثیم بڑے تباہ کن ہوا کرتے ہیں، یہی مطلب اگر دوسرے الفاظ میں بیان کرنا ہے، تو وہ اس طرح ہے کہ ایک طرف خیر خواہی ہے، جس میں خیر ہی خیر ہے، یعنی ساری نیکیاں ہیں، اور دوسری طرف بدخواہی ہے، جس میں تمام برائیاں جمع ہیں، ان شاء اللہ، ہم یہاں قرآنِ کریم اور حدیثِ شریف کی روشنی میں خیر خواہی کی کچھ حکمتیں اور منفعتیں بیان کریں گے۔

۲۔ قرآنِ پاک کے بابرکت ناموں میں سے ایک نام موعظۃ (۱۰: ۵۷) یعنی نصیحت ہے، اور نصیحت کے معنی ہیں خیر خواہی، اس سے یہ بھید کھل گیا کہ خیر خواہی سب سے بڑی صفت ہے، اسی وجہ سے یہ قرآنِ حکیم کا نام ہے، قرآنِ مجید کا ایک اور نام ذکر (۲۱: ۵۰) ہے،

 

۸۲

 

بمعنی نصیحت و خیر خواہی، نیز خیر خواہی انبیاء علیہم السّلام کی صفت ہے (۰۷: ۶۸) اور پھر یہ ضروری ہے کہ مؤمنین کی بھی صفت ہو (۰۹: ۹۱)۔

۳۔ صحیحِ مسلم اور صحیحِ بخاری کی کتاب الایمان میں ہے: ان النبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم قال الدین النصیحۃ، قلنا: لمن؟ قال: للّٰہ و لکتابہ و لرسولہ و لائمۃ المسلمین و عامتھم ۔ تمیم داری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: دین خیر خواہی اور خلوص کا نام ہے، ہم نے عرض کیا: کس کی؟ فرمایا: اللہ کی، اس کی کتاب اور اس کے رسول کی، أئمّۂ مسلمین اور سب مسلمانوں کی۔ خیر خواہی سے متعلق اور بھی احادیثِ شریفہ ہیں، اگر آپ سب کو دیکھنا چاہتے ہیں، تو الفاظِ حدیث کے ایک بڑے انڈیکس ( المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی ) کی مدد سے دیکھئے، یہ آپ کو سات بڑی جلدوں میں ملے گا، جس کے صفحات مجموعاً تین ہزار سات سو پچاس (۳۷۵۰) ہیں۔

۴۔ اگر خیر خواہی کا موضوع خود دین کا موضوع ہے، تو آئیے کہ ہم اپنے دل کو اس عظیم حکمت سے آگاہ کریں، تا کہ وہ اپنے دائرۂ خیر خواہی کو زیادہ سے زیادہ وسعت دے، کیونکہ اس عنوان سے دین کا مفہوم و مطلب بڑا آسان اور خوش آئند لگتا ہے، اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علم و حکمت کی جامعیت کے

 

۸۳

 

ساتھ کس شان سے دین کی بے شمار باتوں کو خیر خواہی کے معنی میں یکجا فرمایا، سبحان اللہ! یہ تو آسمانی تائید کا معجزہ ہے۔

۵۔ دین کا ہر قول و فعل نیک نیت کے بغیر مقبول نہیں، اور نیک نیتی کا دوسرا لفظ ہی خیر خواہی کہلاتا ہے، چنانچہ جس دل میں خیر خواہی ہو، وہ فرشتوں کا مسکن ہو جاتا ہے، اس میں شیطان داخل نہیں ہو سکتا، اور نہ وہ وہاں ٹھہر سکتا ہے، کیونکہ شیطان ایسے دل میں رہ سکتا ہے، جس میں شر کی آلودگی ہوتی ہے، جیسے مکھیوں کی بھنبھناہٹ اس جگہ ہوتی ہے، جہاں غلاظت و گندگی پائی جاتی ہے، مگر جہاں انتہائی صفائی ہو، وہاں مکھیاں نہیں ٹھہر سکتیں۔

۶۔ قرآنِ مقدّس میں دیکھئے کہ عظیم فرشتوں کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت دعا گوئی ہے (۴۰: ۰۷ تا ۰۹) اور دعا خیر خواہی کی ایک نمایان صورت ہے، یہ صفت ان کی پاک باطنی اور علم کی وجہ سے ہے، قرآنِ حکیم (۵۳: ۲۶) میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ بہت سے آسمانی فرشتے انسانوں کے حق میں سفارش کرتے رہتے ہیں، کیونکہ بڑے فرشتے اپنے وسیع علم کے سبب سے ہمیشہ خیر خواہ ہوا کرتے ہیں، مگر یہ بات الگ ہے کہ کوئی انسان اس آسمانی سفارش سے فائدہ اٹھا سکتا ہے یا نہیں، بہر کیف یہ خیر خواہی کی تعریف ہے کہ جو مومن ہمیشہ خیر خواہی کرتا ہو، وہ فرشتے کی طرح ہے۔

۷۔ ہر حکمت نہ صرف ایک تنہا خیر ہے، بلکہ وہ خیرِ کثیر بھی ہے (۰۲: ۲۶۹)

 

۸۴

 

چنانچہ مومنین اور مسلمین کی خیر خواہی کرنے میں بہت بڑی حکمت اور خیرِ کثیر ہے، اور اگر آپ اعلیٰ علم کی روشنی میں تمام لوگوں کی خیر خواہی کر سکتے ہیں، تو یہ سب سے بڑی حکمت ہے، وہ حکمت اس بات کو اچھی طرح جاننے اور ماننے کے بعد حاصل ہو سکتی ہے کہ مومنین کی خیر خواہی اور سفارش سے اہلِ دوزخ بھی آخر کار بہشت میں جائیں گے، کیونکہ لوگ جس طرح ازل میں ایک تھے، اسی طرح ان کو ابد میں بھی ایک ہو جانا ہے۔

۸۔ اللہ تعالیٰ کے بابرکت ہاتھ میں کیا نہیں، سب کچھ ہے، قدرت کی پرحکمت مٹھی میں جملہ اشیاء باہم مل کر ’’یک حقیقت‘‘ ہو گئی ہیں، حقیقتِ واحدہ کے بے شمار ناموں میں سے ایک نام خیر بھی ہے (۰۳: ۲۶) پس جو مومن علم کی روشنی میں لوگوں کا خیر خواہ ہو، اس کو خداوندِ عالم اپنے مبارک ہاتھ سے، جس میں روحانی سلطنت ہے، خیر عطا فرمائے گا، اور بدخواہی کی بہت سی بیماریوں سے محفوظ رکھے گا۔

۹۔ جس دل میں ہمہ گیر خیر خواہی نہ ہو، اس میں بدخواہی کے بہت سے امراض پیدا ہو جاتے ہیں، جن کے سبب سے آدمی ہر وقت ذہنی عذاب میں مبتلا رہتا ہے، حسد، کینہ، اور دشمنی جیسی اخلاقی بیماریوں کی وجہ سے قلبی اور ذہنی سکون چھن جاتا ہے، اور انسان روحانی حلاوتوں اور علمی لذتوں سے بے نصیب رہتا ہے۔

۱۰۔ علم و معرفت ہی سے آپ کی خیرخواہی کا دائرہ وسیع تر ہو سکتا

 

۸۵

 

ہے، یہاں تک کہ تمام انسانوں کی خیر خواہی پیدا ہو جاتی ہے، کیونکہ عالمِ شخصی کے قانون کے مطابق آپ ہی کی روح کو پھیلا کر سب لوگ بنائے گئے ہیں، اور سب کو لفیف کئے (۱۷: ۱۰۴) یعنی لپیٹے بغیر آپ کامل و مکمل نہیں ہو سکتے ہیں، اور نہ اللہ کے حضور پہنچ سکتے ہیں، لہٰذا ہر بندۂ مومن کے لئے عرفانی طور پر بنی نوع انسان کی خیر خواہی ضروری ہے۔

۱۱۔ انسان جسم، روح، اور عقل تین چیزوں کا مرکب یا مجموعہ کیوں ہے؟ اس لئے کہ وہ تین عالم سے تعلق رکھتا ہے: عالمِ جسمانی، عالمِ روحانی، اور عالمِ عقلانی، چنانچہ ہم تصوّف کی زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان درحقیقت (یعنی عالمِ وحدت یا عالمِ عقل میں) صرف ایک ہی ہے، عالمِ روحانی میں وحدت و کثرت دونوں کا حامل ہے، اور عالمِ کثرت میں وہ اپنے کثیر مظاہر میں منتشر ہے، پس دانشمند جب تمام لوگوں کی خیر خواہی کرتا ہے، تو حقیقت میں وہ اپنے آپ کی خیرخواہی کرتا ہے، کیونکہ لوگ اس کے اجزاء ہیں۔

۱۲۔ قرآنی حکمت یہ بتاتی ہے کہ جب رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معراج ہوئی، تو اس وقت مقامِ روح پر تمام روحیں آپ کے ساتھ تھیں، اور مرتبۂ عقل پر جملہ عقول آپ کی ذاتِ عالی صفات میں فنا ہو چکی تھیں، اور آپ جانتے ہیں کہ فنا کا مطلب ایک ہو جانا ہے، یہ ہوئی حضورِ انورؐ کی عملی رہنمائی کی شان کہ آنحضرتؐ نے لوگوں کو بحدِّ قوّت

 

۸۶

 

خدا تعالیٰ سے واصل کر دیا تھا، اب یہ ہر شخص کا فریضہ ہے کہ وہ راہِ مستقیم پر چلے، اور علم و حکمت کے دروازے سے داخل ہو کر اپنے آپ کو رسول میں فنا ہو جانے کی معرفت حاصل کرے، یہ اسوۂ حسنہ کی روشنی میں چل کر سب کے ایک ہو جانے کی بہترین مثال ہے۔

۱۳۔ بدخواہی سے بچ کر کامل طور پر خیر خواہی کو اپنانے کے لئے یہ بات انتہائی ضروری ہے، کہ انسانی وحدت و سالمیت کو خوب سمجھ لیا جائے، وہ اس طرح کہ عالمِ وحدت یعنی مرتبۂ ازل میں صرف ایک ہی انسان پیدا کیا گیا ہے، ہر چند کہ آج یہاں عالمِ کثرت میں اس کے بہت سے ظہورات ہیں، اور جب یہ لوٹ کر عالمِ وحدت میں جائے گا، تو پھر پہلی حالت کی طرح ایک اکیلا فرد ہو جائے گا، درحالیکہ دنیا بھر کے لوگ اس میں بہ کیفیتِ عقلی مدغم و متحد ہوں گے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے کہ لوگوں کو ایک ایک ہو کر خداتعالیٰ کے حضور جانا ہے (۰۶: ۹۴) مگر یہ نکتہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ ایک ہو جانے کے کم سے کم تین طریقے ہیں: اوّل یہ کہ ایک کو لے کر باقی سب کو چھوڑ دیا جائے، دوم یہ کہ سب کو ایک کر کے لیا جائے، اور سوم یہ ہے کہ ظاہراً ایک کو اور باطناً (یعنی عقلی طور پر) سب کو متحد کر لیا جائے، پس یہی تیسرا طریقہ انسانی وحدت کے لئے مقرر ہے، اور اسی کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے۔

۱۴۔ جو شخص بدباطنی کی وجہ سے لوگوں کی برائی چاہتا ہے، اور

 

۸۷

 

اس کا دل ہمیشہ کینہ سے خالی نہ ہو، تو یہی اس کا اخلاقی مرض، اور ذہنی عذاب ہے، اور یہ اس کی بدنیتی کی سزا ہے، اس کے برعکس جو انسان دینی ہدایات کی روشنی میں لوگوں کے حق میں نیک خیالات رکھتا ہو، وہ یقیناًخیرخواہی کی بہشت میں ہے، ایسا آدمی بڑا خوش نصیب ہے، کہ وہ خالق اور مخلوق کے بارے میں حسنِ ظن رکھتا ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم کا مفہوم ہے کہ اللہ وہ ہے جس کے قانونِ رحمت کے تحت لوگوں کو دو طرح سے جنت میں داخل کر دیا جاتا ہے: جاننے والوں کو رضا و رغبت سے، اور نہ جاننے والوں کو زبردستی سے (۰۳: ۸۳، ۲۳: ۱۱۵) اس حقیقت کی ایک روشن مثال دعوتِ اسلام ہے، جبکہ اسلام بحدِّ قوّت بہشت ہے، جس میں لوگ نہ صرف خوشی سے داخل ہو گئے تھے، بلکہ بذریعۂ جہاد زبردستی سے بھی مسلمان بنائے گئے تھے، اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس طرح ارادہ فرمایا ہے، وہ آخرکار پورا ہو کر رہے گا، جس کی خاطر بعض لوگ دوزخِ جہالت میں سزا پا کر بھی اہلِ جنّت میں شامل ہو جائیں گے، اور یہی ہے، خیرخواہی سے بہت سی باطنی بیماریوں کا علاج، الحمد للہ ربّ العالمین۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی
۲۳ جنوری ۱۹۸۸ء

۸۸

دائرۂ خیرخواہی

(۴۲: ۵)

۸۹

 

انواعِ ذکر

۱۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی کوئی حد و حساب ہی نہیں، تاہم اس کی سب سے بنیادی اور سب سے بڑی نعمت اور عظیم ترین احسان، بلکہ بزرگ ترین نعمتیں اور احسانات اسی حکمتِ بالغہ میں مرکوز ہیں کہ اس دانا، بینا، اور مہربان نے ازراہِ عنایتِ بے نہایت اپنے بابرکت ذکر کو انواعِ کثیر پر مشتمل بنایا، تاکہ اس کے مخلص بندے مختلف اوقات و احوال میں نوع بہ نوع اذکار کے فیوض و برکات سے مالامال ہوتے رہیں، اور اگر خدا کی یہ ہمہ رس، ہمہ گیر، اور محیطِ کل مہربانی نہ ہوتی، اور ذکرِ الٰہی صرف ایک ہی قسم پر مبنی ہوتا، تو اس صورت میں اہلِ ایمان کے لئے ذکر سے اکتسابِ فیض بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا۔

۲۔ کوئی شک نہیں کہ اسلامی عبادات میں سب سے اوّل نماز ہے، جس کی کئی قسمیں ہیں، اور یقیناً نماز کی ہر قسم بجائے خود اللہ تبارک و تعالیٰ کی یاد ہے (۲۰: ۱۴) پھر اس کے بعد دوسرے اذکار

 

۹۰

 

ہیں، جیسے ذکرِ فرد، ذکرِ جماعت، ذکرِ جلی، ذکرِ خفی، ذکرِ کثیر، ذکرِ قلیل، ذکرِ لسانی، ذکرِ قلبی، ذکرِ بصری، ذکرِ سمعی، ذکرِ بدنی، ذکرِ خواب، ذکرِ منفصل، ذکرِ مسلسل، ذکرِ تنفس، ذکرِ علمی، ان کے علاوہ اور بھی اذکار ہیں، جیسے حمد، تسبیح، مناجات، شکر گزاری، گریہ و زاری، سجود، دعا، قرآن خوانی، درود، وغیرہ، اور ان میں سے ہر ایک کی کئی قسمیں ہیں، تاکہ بندۂ مومن جس حال میں بھی ہو، اس کے مطابق کوئی ذکر اس کو مہیا ملے۔

۳۔ ذکرِ فرد: اگرچہ اجتماعی ذکر کی فضیلت بہت بڑی ہے، جبکہ اس کا ثواب بہت عظیم ہے، تاہم جملہ اوقات اور سارے حالات میں یہ موقع میسر نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی دن بھر اجتماع ممکن ہے، نیز آدمی بعض اوقات سفر پر بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا انفرادی ذکر ضروری ہوا، تاکہ مومن اپنے وقت اور حال کے مطابق آزادی سے پروردگارِ عالم کو یاد کر کے عقل و جان کو معطر و منور کر لے۔

۴۔ ذکرِ جماعت: اجتماعی ذکر و عبادت کے باطن میں بے شمار برکتیں اور منفعتیں پوشیدہ ہیں، چنانچہ بندۂ مومن کی دانشمندی اسی امر میں ہے کہ وہ اس پاک و پاکیزہ عمل کے لئے خود کو ہر وقت اور ہر موقع پر جماعت کے ساتھ منسلک و وابستہ رکھے، تاکہ اس کو ذاتی ثواب کے ساتھ ساتھ وہ خصوصی انعامی ثواب بھی عطا کیا جائے گا، جو جملہ جماعت کے ثواب کے برابر ہوا کرتا ہے، یعنی

 

۹۱

 

قیامت کے دن وہ اجتماعی اور قومی روح میں زندہ ہو جائے گا، اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے، یقیناً آپ کو بارہا یہ تجربہ ہو چکا ہوگا کہ جماعتی ذکر و بندگی سے بے حد لطف و لذّت اور زبردست مسرّت و شادمانی کا احساس ہوتا ہے۔

۵۔ ذکرِ جلی: قربِ خداوندی کا اصل اور خاص وسیلہ و ذریعہ ذکرِ خفی ہے، اور اس کے لئے ممد و معاون ذکرِ جلی، انسان کی روحانی ترقی کا راستہ ظاہر سے شروع ہو کر باطن کی طرف جاتا ہے، اس لئے جب تک ظاہری ذکر اور گریہ و زاری سے کسی کی قساوتِ قلبی کا مرض زائل نہ ہو جائے، تب تک باطنی ذکر یعنی ذکرِ خفی کا روحانی معجزہ ناممکن ہے۔

۶۔ ذکرِ خفی: یہ ذکر دراصل انبیاء و اولیاء کی خصوصی پیروی اور مشاہدۂ معجزاتِ روحانی کے لئے مقرر فرمایا گیا ہے، اگر اس کی شرائط اور تیاریاں ہر طرح سے مکمل کی گئی ہیں، تو یہ اپنا کام بڑی سرعت اور ایک زبردست انقلابی انداز میں کر سکتا ہے۔

۷۔ ذکرِ کثیر: اس کا مطلب ہے کثرت سے ربِّ عزّت کو یاد کرنا، خواہ ایک ہی قسم کے ذکر سے ہو، یا مختلف اذکار سے، بہ ہرکیف قرآنِ حکیم نے ذکرِ کثیر کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے، اور یہ حکم بارہا فرمایا گیا ہے، اس لئے یہ تاکیدی امر ہے، پس ذکرِ کثیر میں لاتعداد حکمتیں پنہان ہیں۔

۹۲

۸۔ ذکرِ قلیل: اگر قلیل ذکر کی وجہ محض سستی ہی ہے، تو یہ اچھی علامت ہرگز نہیں، اگر کوئی اور سبب ہے، اور اس میں اضافے کا یقین ہے، تو خیر ہے، تاہم ہونا یہ چاہئے کہ قلیل + قلیل + قلیل + قلیل + قلیل = کثیر ہو جائے۔

۹۔ ذکرِ لسانی: خدائے بزرگ و برتر نے انسان کو لسان و بیان اس لئے عطا کر دیا ہے، تاکہ ہمہ وقت زبان کو اس کے اسمِ دلنواز اور یادِ روح پرور میں مشغول رکھا جائے، اور اس روحانی حلاوت و شیرینی سے اپنی ذات کے علاوہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائے، لسانی ذکر کا خاص فائدہ اس وقت حاصل ہو جاتا ہے، جبکہ اس سے قلب میں سوز و گداز کا عالم ہو۔

۱۰۔ ذکرِ قلبی: اگر یہ صحیح معنوں میں ہے، تو حواسِ باطن کے جاگ اٹھنے کے لئے زیادہ وقت نہیں لگتا، چونکہ قلب عالمِ شخصی کا مرکز ہے، اس لئے قلبی ذکر کی بہت بڑی اہمیت ہے، چنانچہ اگر دل کی معجزاتی زبان کھل گئی ہے، اور خدا کا بزرگ نام قلب میں اتر گیا ہے، تو پھر مبارک ہو کہ یہیں پر ذکرِ خفی اور ذکرِ قلبی کے عظیم معجزات ظہور پذیر ہونے والے ہیں۔

۱۱۔ ذکرِ بصری: چشمِ ظاہر اور دیدۂ دل سے آیاتِ قدرت کا مشاہدہ و مطالعہ کرنا ہی ذکرِ بصری ہے، کیونکہ بصارت اور بصیرت دونوں اس لئے عطا ہوئی ہیں، کہ ان سے خالقِ اکبر کی تخلیقات و

 

۹۳

 

مصنوعات کے عجائب و غرائب کا نظارہ کرتے ہوئے اس کو یاد کیا جائے۔

۱۲۔ ذکرِ سمعی: یہ متبرک ذکر کان سے متعلق ہے، مثلاً اگر ایک شخص ذکر کر رہا ہے اور دوسرے اشخاص شوق سے سن رہے ہیں، تو یہ سننے والے سب ذکرِ سمعی کر رہے ہیں، اسی طرح قرآنِ کریم کا سننا اور حمد و ثناء کی سماعت کرنا ذکرِ سمعی ہے، لیکن یہ نکتہ ہمیشہ یاد رہے کہ ہر ذکر میں بھرپور توجہ اور مکمل اثر پذیری بے حد ضروری ہے۔

۱۳۔ ذکرِ بدنی: یعنی جسمانی ذکر، جس کے چند پہلو ہیں، مگر یہاں صرف اتنا ہی بتا دینا ضروری ہے کہ ہر قسم کے ذکر و عبادت کے سلسلے میں جو بھی محنت و مشقت لازماً اٹھانی پڑتی ہے، وہ سب جسم ہی برداشت کرتا ہے، لہٰذا یہ بدنی ذکر کا حصہ ہے، خصوصاً قومی اور جماعتی خدمت، جو ترقئ ذکر کی جان ہے، جس کے بغیر کوئی روحانی پیش رفت نہیں۔

۱۴۔ ذکرِ خواب: اس کا تذکرہ دراصل عجائب و غرائب میں ہونا چاہئے کہ کبھی کبھار خواب میں بھی ذکر ہوتا ہے، مگر یہ آدمی کے اختیار سے بالاتر ہے، اس لئے یہ صرف ایک اشارہ اور علامت کے طور پر مختصر ہوتا ہے، تاکہ معلوم ہو کہ بندۂ مومن بندگی میں چست ہے یا سست۔

۱۵۔ ذکرِ منفصل: یہ بیان بھی فائدے سے خالی نہیں کہ ان اذکار میں ذکرِ منفصل بھی ہے، جو چھوٹے چھوٹے وقفوں کا ذکر

 

۹۴

 

ہے، جس کی مثال ایک ایماندار اور نیکوکار تاجر کے عمل سے دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی دکان میں کام کرتے ہوئے مسلسل ذکر تو نہیں کر سکتا، مگر منفصل ذکر سے مستفیض ہو سکتا ہے، یعنی وہ طرح طرح سے خدا کو یاد بھی کر رہا ہے، اور خریداروں کے ساتھ ضروری گفتگو بھی، اور یہ کام عالی ہمت مومن کے لئے چندان مشکل نہیں، بہت سے مومنین دن کے وقت لوگوں کے درمیان نظر آتے ہیں، مگر وہ ہر بہانے سے خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں، اس دنیا میں ایسے صالح بندوں کا وجود باعثِ برکت ہے۔

۱۶۔ ذکرِ مسلسل: یہ ہر ایسے ذکر کا نام ہے، جس کا سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہتا ہو، کیونکہ آپ کو فی المثل ذکر کا ایک ایسا سلسلہ (زنجیر) بنانا ہے، یا بکتر (زرہ) بنانا ہے، جو حلقہ در حلقہ ہو، یعنی اس کی کڑیاں باہم ٹھیک ٹھیک مربوط ہوں، جیسے حضرت داؤد علیہ السّلام کو حکمِ خداوندی ہوا تھا کہ ذکرِ مسلسل سے روحانی بکتر بنائیں (۳۴: ۱۱) کیونکہ شیطان کے خلاف جنگ کرنے کے لئے مومنِ مجاہد کو زرہ پوش ہونا ہے۔

۱۷۔ ذکرِ تنفس: یہ صوفیانہ ذکر سانس کے ذریعہ کیا جاتا ہے، ہر ذکر کا ایک مخصوص فائدہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ اس ذکر کا بھی ایک بہت بڑا فائدہ ہے، جس کا ایک روحانی پہلو ہے اور ایک جسمانی۔

۱۸۔ ذکرِ علمی: یہ ایک اعلیٰ درجے کا ذکر ہے، جو قرآنی آیات اور

 

۹۵

 

ذات و کائنات کے علمی معجزات اور کلماتِ تامّات سے خدا کو یاد کرنے سے متعلق ہے۔

۱۹۔ دوسرے اذکار: حمدِ باری تعالیٰ، تسبیح، مناجات بدرگارہِ قاضی الحاجات، شکر گزارئ نعمتہا، گریہ و زاری، سجود، دعا، قرآن خوانی، درود شریف وغیرہ، اور ہر ذکر کئی درجوں میں ہے، تاکہ حق پرست بندوں کو ان کے احوال کے مطابق ایک ایک ذکر مہیا ملے، نیز ہر مومن اپنے مختلف احوال میں مختلف اذکار سے مستفید ہو جائے، تاکہ وہ بحیثیتِ مجموعی دائم الذکر ہو سکے۔

۲۰۔ مقصودِ اصلی: ان تمام اذکار کا اصل مقصد صرف ایک ہی ہے، اور وہ تقرّب الی اللہ ہے، تاکہ فنائے اوّل، فنائے دوم اور فنائے سوم حاصل ہو، جس میں نہ صرف بہشتِ برین ہی ہے، بلکہ رضوانِ اکبر بھی ہے، یہ ہے عقل و جان کی انتہائی صحت مندی اور ابدی سلامتی، جس کی طرف رہنمائی کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا نور اور قرآن نازل فرمایا (۰۵: ۱۵) الحمد للہ ربّ العالمین۔

نوٹ: ذکر کی تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو میری ایک کتاب: “ذکرِ الٰہی”

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی
۲۰ فروری ۱۹۸۸ء

۹۶

۱۔ ذکرِ قلیل
۲۔ ذکرِ کثیر
۳۔ ذکرِ اکثر
۴۔ ذکرِ قولی
۵۔ ذکرِ فعلی (عملی)
۶۔ ذکرِ علمی
۷۔ ذکرِ لفظی
۸۔ ذکرِ معنوی
۹۔ ذکرِ حقیقی
۱۰۔ ذکر قیام و قعود
۱۱۔ ذکرِ رکوع
۱۲۔ ذکرِ سجود، اور دوسرے سب اذکار اس نقشہ میں شامل ہیں، اور کوئی ذکر اس سے باہر نہیں، یہاں فنا کے تین مدارج بھی ہیں، فنا فی المرشد، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ۔

۹۷

 

راہِ رسل اور روحانی صحت

۱۔ آپ خوش بختی سے جس صراطِ مستقیم اور منزلِ مقصود کی روشن ہدایات کے لئے بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے رہتے ہیں (۰۱: ۰۵ تا ۰۶) وہ انبیاء و رسل کی راہ اور رشد و ہدایت ہے (۰۴: ۶۹) جو حقیقت میں دینِ مبین یعنی اسلام ہی ہے (۴۲: ۱۳) کیونکہ دین دراصل ایک ہی ہے (۰۹: ۳۶) وہ خدا کا دین ہے (۰۶: ۱۶۱) جس پر تمام انبیاء علیہم السّلام ایک تھے (۰۶: ۹۰) اور لوگ بھی پہلے اس دنیا میں ، یا عالمِ ذرّ میں ، یا ازل میں ایک ہی امت تھے (۰۲: ۲۱۳) اور تمام پیغمبروں کی اصل کتاب بھی ایک ہی تھی، وہ الکتاب ہے (۰۲: ۲۱۳) نیز الکتاب قرآنِ حکیم ہے (۰۳: ۰۳) کیونکہ یہ بابرکت آسمانی ہدایت نامہ ہر طرح سے کامل و مکمل، جامع الجوامع، اور مھیمن (۴۸: ۰۵) ہے، یعنی سابقہ کتبِ سماویہ کا محافظ و نگہبان، اس لئے قرآنِ کریم جملہ انبیاء علیہم السّلام کے احوال پر محیط ہے، چنانچہ ہم یہاں قرآنِ حکیم کی روشنی میں چھ ایسی مثالوں کو بیان کرنا چاہتے ہیں، جو چھ عظیم پیغمبروں کے ادوار

 

۹۸

 

میں لوگوں کے لئے روحانی صحت کی کسوٹیوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔

۲۔ معیارِ حضرتِ آدمؑ: ہر پیغمبر اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے صراطِ مستقیم پر اپنی امت کی ہدایت و رہنمائی کرتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ خوش نصیب لوگ جو فرمانبردار اور نیکو کار ہیں، بتدریج آگے بڑھتے جاتے ہیں، کیونکہ دینِ حق قربِ خدا کا راستہ ہے، اور بندۂ مومن کی نیّت، قول، اور عمل اس راستے پر حرکت ہے، اسی خالص اور پاکیزہ حرکت میں مذہبی زندگی بھی ہے، آپ قرآنِ حکیم کے بہت سے پُرحکمت الفاظ میں خوب غور کر کے اس حقیقت کا مطالعہ و مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ اسلام کا مقصدِ عالی قربِ الٰہی ہے، جس کے لئے حرکت کرنا اور چلنا بے حد ضروری ہے، اور قرآنِ مجید کے بے شمار الفاظ میں یہی معنی کارفرما ہیں، مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: صراط، سبیل، طریق، قرب، مذہب (راستہ، ۳۷: ۹۹)، مسلک، شریعت اور طریقت (منہاج، ۰۵: ۴۸)، ہدایت، ہادی، اتباع، سیق، سعی، تمشون، سابقوا، سارعوا، سابقون، وغیرہ۔

۳۔ قرآنی علاج کے صفحہ ۹۰ پر حدیثِ تقرب کے حوالے کو دیکھئے، حدیثِ قدسی کا ترجمہ یہ ہے: “اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں،

 

۹۹

 

جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے۔” ظاہر ہے کہ یہ نوافل، حرکت، ترقی، قرب، اور پاک محبت صرف اور صرف صراطِ مستقیم ہی پر آگے بڑھتے ہوئے ممکن ہے، اور نور کے باقی معجزات جو بندۂ مومن کے کان، آنکھ، ہاتھ ، اور پاؤں سے متعلق ہیں، وہ منزلِ مقصود پر وقوع پذیر ہو سکتے ہیں، پس جن حضرات کو قرب و فنا کا یہ مرتبہ حاصل ہو جاتا ہے، وہ روحانی اور عقلی بیماریوں سے کُلّی طور پر شفایاب ہو جاتے ہیں۔

۴۔ یہ فکر و تصوّر اور اجتہاد سورۂ اعراف کے نشان ۱۱ (یعنی ۰۷: ۱۱) کی روشنی میں ہے کہ خداوند تبارک و تعالیٰ اپنے دوستوں کی جسمانی تخلیق کرتا ہے، پھر روحانی صورت بناتا ہے، اور اس کے بعد وہ صاحبِ جلالت و کرامت ان کی سماعت و بصیرت ہو کر اپنے اسرارِ معرفت سے واقف و آگاہ کر دیتا ہے، اور وہ نورِ خدا کی ضیاء پاشیوں میں اس واقعۂ عظیم کو دیکھتے ہیں کہ جملہ فرشتے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے لئے کس طرح اور کن معنوں میں سجدہ کر رہے ہیں، کیونکہ قصۂ آدم اگرچہ ظاہر میں ماضئ بعید کا ایک واقعہ ہے، لیکن عالمِ شخصی میں جب خدا کسی مومن کی آنکھ ہو جاتا ہے، تو اس صورت میں ہر ماضی اور ہر مستقبل سامنے آ کر حال بن جاتا ہے، چنانچہ حضرتِ آدمؑ کی مثال میں باطنی صحت کا معیار یہ ہے کہ عالمِ شخصی میں واقعۂ آدم کا

 

۱۰۰

 

مشاہدہ کیا جائے۔

۵۔ معیارِ حضرتِ نوحؑ: آپ اگر اجازت دیں تو میں انتہائی عاجزی اور کمالِ ادب سے یہ گزارش کروں گا کہ مذکورۂ بالا حدیثِ قدسی کے تناظر میں کوئی سچا مومن اور کوئی عاشقِ صادق کس طرح یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ روحانی طور پر مریض نہیں، اس کے باطنی کان اور آنکھ کشادہ ہیں، اور علم و معرفت کا کام ٹھیک طرح سے آگے جا رہا ہے، حالانکہ اس کے حواسِ باطن ہنوز منجمد ہیں، لیکن جب اللہ کے دوستوں کی روحانی تخلیق مکمل ہو جاتی ہے، اور وہ عالمِ ذرّ کے طوفان میں اپنے آپ کو بہ شکلِ ذرّات کشتئ نوحؑ میں دیکھ لیتے ہیں، جیسا کہ قرآنِ پاک خدائے بزرگ و برتر کے اس احسانِ عظیم کا ذکر فرماتا ہے (۱۷: ۰۳) اور اس روحانی معجزے کا واضح ذکر سورۂ یاسین (۳۶: ۴۱) میں بھی ملتا ہے کہ پروردگارِ عالم نے ذرّاتِ ارواح کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا، تو پھر ایسے باسعادت مومنین روحانی صحت کی دولتِ پائندہ سے مالامال ہو جاتے ہیں۔

۶۔ معیارِ حضرتِ ابراہیمؑ: ارشادِ نبوّی ہے: “اعرفکم بنفسہ اعرفکم بربہ = تم میں جو سب سے زیادہ اپنے آپ (یعنی روح) کو پہچانتا ہے وہی تم میں سب سے زیادہ اپنے پروردگار کو پہچانتا ہے۔”  پروردگارِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس نورانی تعلیم میں ایک طرف مومن کی خود شناسی اور خدا شناسی

 

۱۰۱

 

کا ذکر ہے، اور دوسری طرف معرفت کے مختلف مراتب کا بیان، چنانچہ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ اسی کامل معرفت میں حضراتِ انبیاء و رسل کی معرفت بھی شامل ہے، کیونکہ معرفت ممکن ہی نہیں، مگر منازلِ روحانیّت میں انبیاء و اولیاء کے نقشِ قدم پر چل کر، اور اس عمل کے بہت سے نام ہیں، جیسے ہدایت، اطاعت، پیروی، قرب، وغیرہ، پس حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا: فمن تبعنی فانہ منی (۱۴: ۳۶) = پھر جو شخص میری راہ پر چلے گا پس وہ یقیناً مجھ سے ہوگا۔ یعنی وہ میری ہستی کا حصہ ہوگا، بمعنئ دیگر وہ فنا فی الرسول کے مرتبے پر فائز ہو جائے گا، اور یہی ہے اس روحانی معیارِ صحت کی ایک مثال، جو حضرت ابراہیمؑ کے دور سے متعلق ہے۔

۷۔ معیارِ حضرتِ موسیٰؑ: انسانی روح کا مقام انتہائی اعلیٰ ہے، اس کا بالائی سرا عالمِ امر میں ہے، جہاں کلمۂ کُنۡ (ہو جا) کی بادشاہی ہے (۱۷: ۸۵) چنانچہ مرتبۂ روح کی تشریح بڑی عجیب و غریب اور انتہائی حیران کُن ہے، کیونکہ روح ایک بسیط جوہر ہے، جبکہ یہ نورِ خدا کا ایک مکمل عکس ہے، جیسے آفتابِ عالمتاب اور آئینۂ مصفا میں اس کا درخشان و تابان عکس، اگرچہ یہ عکس بمقابلۂ خورشیدِ انور ایک حقیر سی چیز ہے، تاہم یہ سورج سے کب جدا ہے، بلکہ ذرا سوچنے سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آ جائے گی کہ عکس کو سورج سے الگ سمجھنا دراصل فریبِ نظر ہے، کیونکہ آئینے میں کچھ بھی نہیں، مگر

 

۱۰۲

 

یہ ہے کہ وہ ہماری نگاہوں کو سورج کی طرف اچھال رہا ہے، جو آسمان میں ہے۔

۸۔ مذکورۂ بالا مثال کے مطابق مومنین عالمِ علوی میں ملوک و سلاطین ہیں، مگر عالمِ سفلی میں غریب، جیسے زمانۂ موسیٰ سے متعلق ایک قرآنی ارشاد ہے: (ترجمہ:) اور وہ وقت بھی ذکر کے قابل ہے جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کے انعام کو جو تم پر ہوا ہے یاد کرو، جب کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں بہت سے پیغمبر بنائے اور تم کو (روحانیّت میں) سلاطین بنایا (۰۵: ۲۰) یہ ہر قسم کے باطنی امراض سے محفوظ ہو کر فنا فی اللہ ہو جانے کی بشارت ہے۔

۹۔ معیارِ حضرتِ عیسیٰ: انبیاء علیہم السّلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کے عقلی اور روحانی طبیب ہوا کرتے ہیں، جس کی واضح مثال حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کی پاکیزہ زندگی سے مل سکتی ہے، کہ آپ جسم سے بڑھ کر روح کا چارہ و علاج کیا کرتے تھے، کیونکہ بدنی صحت کے مقابلے میں روحانی صحت کہیں زیادہ ضروری ہے، چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ تمام ظاہری قسم کی مسیحائی معجزات کے پس منظر میں روحانی معجزات پوشیدہ ہیں، مثال کے طور پر جب ایک مومن سفرِ روحانیّت کے سلسلے میں منزلِ فنا (مرحلۂ عزرائیلی) میں پہنچ جاتا تھا، تو اسی مقام پر وہ مشاہدہ کرتا تھا کہ حضرتِ عیسیٰ خدا کے اذن سے مردے کو جِلاتا ہے، یہ عظیم معجزہ عالمِ شخصی میں اسمِ اعظم کے زیرِ اثر رونما ہو جاتا تھا، ایسے میں مؤمن تمام باطنی امراض سے چھٹکارا پاتا ہے۔

۱۰۳

۱۰۔ معیارِ حضرتِ محمد مصطفی: حبیبِ خدا، اشرفِ انبیاء، شاہِ رسل، ہادئ سبل، رحمتِ عالم، فخرِ بنی آدم، یعنی حضرتِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ اقدس و اطہر میں جملہ انبیاء و رسل علیہم السّلام مجتمع ہیں، اور ان سب کے اوصاف، کمالات، اور معجزات بھی، کیونکہ اگر دین کا آغاز ہے تو پیغمبروں کے سارے فضائل بحدِّ قوّت حضرتِ آدمؑ میں پائے جاتے ہیں، اور جب انجام ہے، اور دین مکمل ہوا ہے تو یہ تمام فضائل فعلاً حضرتِ خاتمؐ میں جمع ہو جاتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نہ صرف کائنات ہی کو لپیٹتا ہے، بلکہ تمام ارواح و عقول کو بھی عالمِ شخصی میں لفیف کرتا ہے (۱۷: ۱۰۴)۔

۱۱ خدائے بزرگ و برتر کے علم میں یہ حقیقت روشن تھی کہ انسانیّت جہالت و نادانی کے مرض میں مبتلا ہو گئی ہے، لہٰذا پروردگارِ عالم نے حضرتِ خاتم الانبیاء کو مبعوث فرمایا، تاکہ آپ قرآنِ حکیم کے نسخۂ کیمیا سے اس کا علاج و معالجہ فرمایا کریں، چنانچہ عہدِ رسالت میں براہِ راست اور بعد کے زمانوں میں بالواسطہ دینِ مبینِ اسلام کی روشنی پھیلائی گئی، اور عشقِ محمد و اہلِ بیت ، اور فنا فی الرسول کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے جاری رہا، جس کی برکت سے معرفت کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوا، اور کلی شفایابی ہوتی رہی۔

۱۲۔ بعض دفعہ سوال و جواب کی صورت میں حکمت کی باتیں بآسانی ذہن نشین ہو جاتی ہیں، لہٰذا اپنے آپ سے پوچھتا بھی ہوں، اور

 

۱۰۴

 

خود کو جواب بھی دیتا ہوں: صراطِ مستقیم یعنی راہِ راست اور اس پر ہدایت کی منزلِ مقصود کیا ہے؟ خدا تعالیٰ (۱۱: ۵۶، ۷۹: ۴۴) لوگوں کو اللہ کے حضور ایک ایک ہو کر جانا ہے (۰۶: ۹۴) تو پھر سب کو کس طرح لپیٹ لیا جاتا ہے (۱۷: ۱۰۴)؟ اس فعلِ خدائی سے سب کا ایک ہی ہو جاتا ہے (۳۱: ۲۸) آنحضرتؐ مقامِ معراج پر اکیلے ہی تشریف لے گئے تھے، اس میں کیا راز ہے، حالانکہ آپ نے مسلمانوں کو ساتھ لے کر خدا سے واصل کر دینا تھا؟ یقیناًحضورِ انورؐ معراج میں اکیلے تھے، مگر آپ کی ذاتِ عالی صفات میں عالمِ ذرّ موجود تھا، جس میں آپ کو چاہنے والے سب بشکلِ ذرّات پنہان تھے، یعنی وہ لوگ بحدِّ قوّت رسول میں فنا ہوئے تھے، اور بعد میں بحدِّ فعل فنا فی الرسول ہو کر ہمیشہ کے لئے سلامتی سے ہمکنار ہو گئے۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۱۴ رجب المرجب ۱۴۰۸ھ / ۴ مارچ ۱۹۸۸ء

۱۰۵

جسمِ مثالی

۱۔ جسمِ مثالی کے بارے میں یہ بندۂ ناچیز کم و بیش لکھتا رہا ہے، تاہم یہاں اگر خدا نے چاہا تو کچھ ضروری تفصیلات مقصود ہیں، چنانچہ جسمِ مثالی کے بہت سے نام ہیں، جیسے جسمِ فلکی، جسمِ نورانی، جثّۂ ابداعی، جسمِ لطیف، قرطۂ ابداعی، بدنِ برقی، جامۂ بہشتی، پیراہنِ یوسفی، عنصرِ پنجم، وغیرہ، اور ان اسماء میں سے ہر اسم کی ایک وجہ ہے۔

۲۔ قرآنی یا علمی علاج کے سلسلے میں یہ امر بے حد ضروری ہے، کہ بلند ترین موضوعات سے بحث کی جائے، تاکہ اسلام کی اعلیٰ سے اعلیٰ بے مثال، اور لازوال نعمتوں کے پیشِ نظر اہلِ ایمان میں جذبۂ علم و عمل شدید تر ہو، اور ساتھ ہی ساتھ اس حقیقت کا بھی اندازہ ہو جائے کہ روحانی صحت کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا ہے، کیونکہ ہم اپنے گمان سے جس چیز کو عقل و روح کی کامل سلامتی سمجھتے ہیں، وہ ایسی نہیں ہے، باطنی صحت و سلامتی کے کچھ خاص معنی ہوا کرتے ہیں، اور اس کے معجزات و کرامات کا کوئی شمار نہیں۔

۱۰۶

۳۔ جسمِ مثالی: انسان کے کرتۂ ثانی یا قُرطَۂ دوم کو جسمِ مثالی اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہر شخص کا مثالی جسم اس شخص جیسا ہوا کرتا ہے، تاہم اللہ تعالیٰ نے اسے لاتعداد صلاحیتوں سے نوازا ہے، اس لئے وہ کسی بھی روپ میں ظاہر ہو سکتا ہے، چنانچہ ملکۂ سبا کو اپنا جسمِ لطیف انجان کر کے دکھایا گیا تھا، تا کہ اس کی شناخت کا امتحان ہو، جسمِ مثالی کا ایک قرآنی نام تخت (عرش، ۲۷: ۴۱ تا ۴۲) بھی ہے، چنانچہ بلقیس کا یہی تخت (جسمِ مثالی) حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے حضور لایا گیا تھا (۲۷: ۴۰) غرض قرآنِ حکیم کی متعدد آیاتِ کریمہ میں جسمِ مثالی کا حکیمانہ ذکر موجود ہے۔

۴۔ جسمِ فلکی: آسمانی جسم، جو خاکی، آبی، بادی، اور آتشی عناصر کے برعکس ہے، پانچواں عنصر، ہیولیٰ، ایتھر (Ethrial Body) ، پیکرِ نورانی (Astral Body)، کوکبی بدن، نسمہ، جنّ، بدنِ برقی، اور جسمِ نورانی، جس ساری کائنات میں پرواز کرنے کی قوّت رکھتا ہے، جو دیدنی بھی ہے اور نادیدنی بھی، جس کو صحیح معنوں میں عالمِ ذرّ اور عالمِ شخصی کہا جاتا ہے، جو جامۂ جنّت یعنی بہشت کا لباسِ لطیف ہے، یہی پیراہنِ یوسفی بھی ہے (۱۲: ۹۳) اور اسی میں تمام روحیں بطورِ لشکر جمع ہیں (الارواح جنود مجندۃ = تمام روحوں کے ایسے لشکر تھے جو یکجا تھے۔ صحیح بخاری، جلدِ دوم، کتاب الانبیاء)۔

۵۔ پیکرِ نورانی: آیا ہر انسان کا جسمِ مثالی موجود ہوتا ہے، یا

 

۱۰۷

 

بعض کا؟ جی ہاں، جسمِ مثالی تو ہر شخص کا ہوتا ہے، مگر بحدِّ قوّت، اور اولیاء اللہ کا یہ جسم بحدِّ فعل ہوتا ہے، یعنی وہ خدا کے اذن سے عظیم کارنامے انجام دیتا رہتا ہے، یہ برقی بدن جو قرآنِ حکیم کی زبان میں نور (۰۶: ۱۲۲) کہا گیا ہے، دنیا بھر کے لوگوں تک رسائی کر سکتا ہے، جس طرح جنّ اور شیطان برقی بدن کی وجہ سے نہ صرف اپنے دوستوں کے پاس پہنچ ہی سکتا ہے، بلکہ وہ ان کے وجود میں داخل بھی ہو جاتا ہے، یہ تو شر کی مثال ہوئی، اور اس کے مقابلے میں خیر کی مثال یہ ہے کہ خدا کے اولیاء بھی پیکرِ نورانی میں اپنے دوستوں کے پاس جا سکتے ہیں، اور یہ بات صرف ایک راز ہی نہیں، بلکہ بحقیقت انتہائی عظیم خزانہ ہے۔

۶۔ جثّۂ ابداعی: یہ قُرطۂ (کرتۂ) ابداعی ہے، یعنی وہی جسمِ مثالی، جس کا تعلق ابداع سے ہے، ابداع کا مطلب ہے امرِ کُنۡ (ہو جا) سے کسی شیٔ کا ظاہر ہو جانا، یا غائب ہو جانا، اور یہ معجزہ اکثر عقل، روح، اور جسمِ لطیف سے متعلق ہے، چنانچہ جثّۂ ابداعی کے بہت سے اسباب اور ظہورات ہیں، اور بہت سی تعبیرات، کیونکہ مقامِ ابداع وحدت و سالمیّت کا وہ عالم ہے، جس میں تمام بڑی بڑی نعمتیں یکجا ہو جاتی ہیں، پس کرتۂ ابداعی ایک سلطان بھی ہے، اور اس میں ایک سلطنت بھی۔

۷۔ جامۂ جنت: سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں دو قسم کے کرتوں

 

۱۰۸

 

کا ذکر ملتا ہے، جو اہلِ ایمان کو گرمی اور جنگ سے بچانے کے لئے ہیں، یہ اجسامِ فلکی ہیں، اور اڑن طشتریوں کی طرح گرمی، سردی، خشکی، تری اور جنگ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، یہ وہ زندہ قلعے اور اس کے لاتعداد لشکرِ ارواح ہیں، جو حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے لئے تیار ہوتے تھے (۳۴: ۱۳) یہی اللہ تعالیٰ کے آسمانی اور زمینی جنود ہیں (۴۸: ۰۴) بہشت کے وہ ریشمی لباس بھی جو عقل و جان کے اوصاف و کمالات سے آراستہ ہیں، یہی ہیں یعنی اجسامِ لطیف۔

۸۔ پیراہنِ یوسفی: حضرتِ یوسف علیہ السّلام کی قمیص سے جسمِ مثالی مراد ہے (۱۲: ۹۳) جس کے ساتھ خوشبوؤں کی ایک جیتی جاگتی دنیا وابستہ ہے، اور یہی خوشبوئیں غذا ہائے جسمِ لطیف کا کام کرتی ہیں، یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے کہ آدمی جب شکمِ مادر میں ہوتا ہے، تو اس حال میں وہ اپنی خوراک ناف کے ذریعے جذب کر لیتا ہے، جب پیدا ہو جاتا ہے تو ناف کی راہ بند ہو جاتی ہے، اور غذا کے لئے منہ یعنی حلق کا راستہ کھل جاتا ہے، جس وقت وہ جسمِ لطیف کا تجربہ کرتا ہے، تو وہ ناک کی راہ سے خوشبوؤں کی صورت میں لطیف غذا حاصل کرتا ہے، اور جب بھی چاہے کان کی راہ سے روحانی اور عقلی نعمتوں سے حظ اٹھاتا ہے۔

۹۔ جنّ یا پری: جنّ کا لفظ عربی ہے، جو غیر مرئی مخلوق کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس کا اصل اور قدیم فارسی ترجمہ “پری” ہے، حالانکہ اکثر لوگوں نے جنّ کو مرد اور پری کو عورت مانا، یا یہ کہ دونوں

 

۱۰۹

 

کو الگ الگ مخلوق خیال کیا، مگر سچ بات تو یہ ہے کہ وہ ایک ہی ذات کی مخلوق ہے، چنانچہ درست یہی ہے کہ جنّ مرد اور جنّ عورت (جنیۃ) کہا جائے، یا پری مرد اور پری عورت، کیونکہ قرآنِ حکیم میں یہ تصور ایسا ہے (۷۲: ۰۶) اور یہ نکتہ یاد رہے کہ جنّ یا پری کے باب میں حقیقی معلومات ازبس ضروری اور بے حد مفید ہیں، آپ سورۂ جنّ (۷۲: ۰۱ تا ۱۵) اور دیگر متعلقہ آیاتِ مقدسہ کا دقتِ نظر سے مطالعہ کریں، اور عبادت، ریاضت، مشاہدہ، اور تجربۂ مجموعی معرفت کی شرطِ اوّلین ہے۔

۱۰۔ سلطنتِ سلیمانی: اللہ تعالیٰ نے آلِ ابراہیم کو عطیۂ کتاب و حکمت اور روح و روحانیّت کی عظیم سلطنت سے سربلند فرمایا ہے (۰۴: ۵۴) چنانچہ سلطنتِ سلیمانی اسی سلسلے کی ایک نمایان مثال ہے، پس حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی اصل پادشاہی روحانیّت میں تھی، آپ کے ریحِ عاصفہ (تیز ہوا، ۲۱: ۸۱) مسخر کی گئی تھی، جس سے جسمِ مثالی مراد ہے، اور تختِ روحانی بھی وہی ہے، آپ علیہ السّلام ذکر، بندگی، اور اسمِ اعظم کے ذریعہ کچھ وقت کے لئے اپنے حواسِ ظاہر پر سکوت و خاموشی طاری کر کے جسمِ لطیف سے رابطہ قائم کر لیتے تھے، جس میں روح اس بدن سے کلّی طور پر نہیں نکلتی، بلکہ اس کا صرف ایک سرا جسمِ مثالی سے منسلک ہو کر نکل جاتا ہے، باقی روح دماغ میں مرکوز ہو جاتی ہے۔

۱۱۔ عالمِ شخصی: قاضی زین العابدین نے قاموس القرآن،

 

۱۱۰

 

صفحہ ۳۴۴ پر بحوالۂ حضرتِ امام جعفر الصادق علیہ السّلام یہ لکھا ہے کہ: “عالمین سے ۔۔۔ صرف انسان ہی مراد ہیں، کیونکہ ان میں سے ہر ایک فرد اپنی جگہ ایک مستقل عالم ہے۔” نیز دیکھئے مفردات القرآن، ص ۷۲۰۔ پس یقیناً ہر آدمی عالمِ صغیر یعنی عالمِ شخصی ہے، جس میں لطیف ذرّاتی، روحانی اور عقلانی صورت میں ظاہری عالم کی اشیاء کے تمام نمونے موجود ہیں، اس کے یہ معنی ہوئے کہ ازل میں جو کچھ ہوا تھا، نیز شروع سے لے کر آخر تک اس جہان کے تمام واقعات اور قیامت سے لے کر ابد تک سارے حالات عالمِ شخصی میں محدود، ملفوف، مخزون اور مخفی ہیں، اور انہی اسرارِ عظیم کے مشاہدۂ باطن سے کوئی خوش بخت مسلمان تاجِ معرفت سے سرفراز ہو سکتا ہے، مگر خوب یاد رہے کہ جسمِ لطیف ہی عالمِ شخصی ہے، کیونکہ جسمِ خاکی مستقل نہیں، فنا پذیر ہے، لہٰذا جسمِ مثالی کی شناخت بے حد ضروری ہے۔

۱۲۔ دار الابداع: جثۂ ابداعی یعنی عالمِ شخصی اپنی حدود کے اندر “ہو جا” کے جملہ معجزات کا گھر اور ظہورگاہ ہے، یعنی اس میں ہر لحظہ عجائب و غرائب کی ایک جدید دنیا جلوہ آرا نظر آتی ہے، کیونکہ کلمۂ کُنۡ (ہو جا) کا سلسلۂ غیر متناہی ہمیشہ جاری و ساری ہے، جس کے سوا اشیائے امری کا وجود و مشاہدہ نا ممکن ہے، اسی لئے فرمایا گیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلماتِ امر کبھی ختم نہیں ہوتے، اور نہ ان کے فیوض و برکات کی کوئی انتہا ہے (۱۸: ۱۰۹، ۳۱: ۲۷)۔

۱۱۱

۱۳۔ جسمِ لطیف کے اوصاف: خالقِ اکبر نے اپنی قدرتِ کاملہ سے جسمِ لطیف کو ہرگونہ باکمال و باجمال اور لازوال بنایا ہے، وہ پیکرِ نور اور بہشتی لباس ہے، اس لئے وہ سورج کی شعاعوں کی طرح پاک و پاکیزہ اور لطیف ہے، وہ ہم خاک نشین انسانوں کی طرح کھاتا پیتا نہیں، بلکہ اس کو بطورِ غذا طرح طرح کے روحانی جواہر (=روحانی پھل) مہیا ہوتے رہتے ہیں، جو خوشبوؤں اور ذراتِ لطیف کی شکل میں ہیں، آپ کا جسمِ لطیف آپ ہی کی زبان میں گفتگو کرتا ہے، وہ سانس کے ذریعے نہیں بولا کرتا، بلکہ جوہری طور پر کلام کرتا ہے، وہ ہرگز نہیں سوتا، وہ ظاہر بھی ہو جاتا ہے، اور غائب بھی، اس کا ہالۂ نور اپنے کنٹرول میں ہے، اگرچہ وہ لطیف ہے، اور اس کے لئے کوئی بھی دیوار رکاوٹ نہیں بن سکتی، تاہم یہ بات بڑی عجیب ہے کہ وہ دروازے ہی سے آتا ہے، اور تمام بند دروازے شاید اس کی برقی قوت کے معجزے سے آناً فاناً کھل کر بند بھی ہو جاتے ہیں۔

۱۴۔ اڑن طشتری: وہ مخلوق کیا ہے، جس کا نام زمین پر بسنے والوں نے اڑن طشتری رکھا ہے؟ کیا وہ انتہائی ترقی یافتہ انسان ہے؟ آیا یہ فرشتہ ہے؟ یا جنّ؟ یا جسمِ مثالی؟ آیا یہ تختِ سلیمانی ہو سکتا ہے؟ کرتۂ ابداعی؟ بہشتی تخت؟ جامۂ جنّت؟ پریوں کا اڑن کھٹولا؟ عالمِ شخصی؟ آخر یہ کیا چیز ہے؟ وہ جثّۂ ابداعی ہے،

 

۱۱۲

 

اس لئے سب کچھ ہے، کیونکہ وہ مظاہرِ مخلوقات کا سرچشمہ اور بہشت کا خزانہ ہے، اور خدائے بزرگ و برتر کی ان نشانیوں (معجزات، ۴۱: ۵۳) میں سے ہے، جن کے ظہور کی پیش گوئی نزولِ قرآن کے زمانے میں کی گئی تھی، الغرض اڑن طشتریوں کی تسخیر سے سائنسی اور روحانی ترقی کا سب سے عظیم انقلاب رونما ہونے والا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

بندۂ عاجز و ناتوان
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی
۱۹ رجب المرجب ۱۴۰۸ھ / ۹ مارچ ۱۹۸۸ء

 

۱۱۳

 

علاجِ وسوسہ

۱۔ وسوسہ کیا ہے؟: الوسوسۃ: زیور کی جھنکار، یا ہلکی سی آہٹ، آہستہ بولنا، عقل کی خرابی سے بے تکی باتیں کرنا، برا خیال جو دل میں آئے، دل میں آنے والی برائی یا بے نفع بات، اور اصطلاحِ شرع میں وسوسہ عبارت ہے شیطان کے انسان کو ورغلانے، بہکانے، نیکی سے ہٹانے اور بدی پر ابھارنے سے، اس سے یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوئی کہ وسوسۂ شیطانی تمام بیماریوں کی جڑ ہے، جس کا علاج کرنا جملہ امراضِ ظاہری و باطنی کا سدِ باب کرنا ہے۔

۲۔ وسوسے کی اصل وجہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کے سینوں میں خناس وسوسہ ڈالتا ہے، جو جنّوں میں سے بھی ہے، اور آدمیوں میں سے بھی (۱۱۴: ۰۴ تا ۰۶) لیکن یہ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی، کیونکہ اس کا ایک پس منظر اور اصل وجہ بھی ہے، اور وہ نفسِ امّارہ ہے، جو دراصل وسوسہ پیدا کرتا ہے، اور وہی برائی کے لئے ہر وقت حکم کرتا رہتا ہے (۵۰: ۱۶، ۱۲: ۵۳) کیونکہ اسی نفس میں ایک

 

۱۱۴

 

ایسی قوّت مخفی ہے، جو ہر شخص کے ذاتی شیطان کی حیثیت سے کام کرتی ہے، جس کا اشارہ سورۂ زخرف (۴۳: ۳۶) میں اور وضاحت حدیثِ شریف میں موجود ہے (مشکوٰۃ، اوّل، کتاب الایمان) جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر آدمی کا ایک ذاتی شیطان ہوا کرتا ہے، جس کی اصلاح ممکن اور ضروری ہے۔

۳۔ تزکیۂ نفس: قرآنِ حکیم نے نہ صرف نفسِ امّارہ اور شیطان کے وسوسہ، اور مکر و فریب ہی سے خبردار کیا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ وہ طریقِ علاج بھی بتا دیا کہ اس بیماری سے کسی مومن کو کس طرح شفا حاصل ہو سکتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: قد افلح من زکھا و قد خاب من دسھا (۹۱: ۰۹ تا ۱۰) یقیناًوہ مراد کو پہنچا جس نے اس (نفس) کو پاک کر لیا اور نامراد ہوا جس نے اس کو (فجور میں) دبا دیا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ دین کے اتنے سارے نیک اعمال صرف تزکیۂ نفس اور تطہیرِ باطن ہی کے لئے مقرر ہیں، کیونکہ نفس کی صفائی و پاکیزگی کے سوا کوئی کامیابی نہیں، اور قرآنِ کریم میں یہ حقیقت روشن ہے کہ اہلِ ایمان کی روحانی اور عقلانی تزکیہ علم و حکمت سے ہو سکتا ہے (۰۲: ۱۵۱، ۰۲: ۱۲۹، ۰۳: ۱۶۴) اور اس اعلیٰ مقام کو پانے کے لئے صحیح معنوں میں خدا و رسول کی اطاعت لازمی شرط ہے، جس کے بغیر حقیقی علم و حکمت کا کہیں کوئی تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔

۴۔ درجاتِ نفس: نفسِ انسانی کی اخلاقی اور روحانی اصلاح

 

۱۱۵

 

و تہذیب اور عروج و ارتقاء کی بہت سی منزلیں ہیں، اور قرآنِ حکیم میں قانونِ جامعیّت کے مطابق ان تمام منازل پر محیط تین بڑے بڑے درجوں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، چنانچہ آدمی کا نفس چند ابتدائی منزلوں میں امّارہ کہلاتا ہے (۱۲: ۵۳) جس کے مرادی معنی ہیں اپنی خواہشات کی تکمیل کی خاطر بہت حکم کرنے والا، پس اگر خوش بختی سے اس کی اصلاح و پاکیزگی میں معتدبہ پیشرفت ہو جائے، تو یہ (نفسِ امارہ) نفسِ لوامہ (۷۵: ۰۲) بن جاتا ہے، جو درمیانی مراحل پر مبنی ہے، اس کا مطلب ہے اپنے آپ کو بہت ملامت کرنے والا، یعنی اب نفس اس قابل ہو چکا ہے کہ خدائے لطیف و خبیر کی راہ کی باریکیوں، نفاستوں، اور نزاکتوں کے پیشِ نظر وہ دل ہی دل میں بار بار خود کو ڈانٹتا ڈپٹتا رہتا ہے، اور نفس کی یہ کامل بیداری، بھرپور احساس، شدید تڑپ، سخت ریاضت، اور قرب کے لئے سعئ پیہم اللہ تعالیٰ کی نظرِ کرم میں بہت پسندیدہ ہے، اسی لئے ذاتِ سبحان نے سورۂ قیامت میں نفسِ لوّامہ کی قسم کھائی ہے (۷۵: ۰۲)۔

۵۔ نفسِ مطمئنہ: اگر عنایتِ خداوندی سے دستگیری اور رہنمائی کا مذکورہ سلسلہ جاری رہا، تو اس کے بعد تیسرا درجہ آتا ہے، جو روحانی ترقی کی آخری منازل پر مشتمل ہے، جس میں مومنِ سالک کی جان (روح) کا نام نفسِ مطمئنہ ہو جاتا ہے (۸۹: ۲۷) یعنی ایسا نفس یا ایسی روح، جس کو خدائی معیار کے مطابق اطمینان حاصل ہو چکا ہے،

 

۱۱۶

 

(۰۳: ۱۲۶، ۰۵: ۱۱۳،۰۸: ۱۰، ۱۳: ۲۸، ۰۲: ۲۶۰، ۱۷: ۹۵)، جیسا کہ پروردگارِ عزّت کا مبارک ارشاد ہے (ترجمہ): اے اطمینان والی روح تو اپنے پروردگار کی طرف رجوع ہو جا درحالے کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش ہے، پھر تو میرے (خاص) بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنّت میں داخل ہو جا (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) یہ سب سے آخری اور عظیم ترین سعادت خدا کے دوستوں کو نہ صرف مر جانے کے بعد آخرت ہی میں نصیب ہو جاتی ہے، بلکہ دنیا میں بھی اس کا ایک مکمل تجربہ حاصل ہو سکتا ہے، اس سلسلے کا ایک نہایت مفید نقشہ “قرآنی علاج” ص ۱۴۹ پر موجود ہے، ملاحظہ ہو۔

۶۔ ذکرِ کثیر اور گریہ و زاری: عبادت خدائے بزرگ و برتر کی پُرحکمت غلامی کا نام ہے، اس بے مثال و لاثانی غلامی کے سلسلے میں جو شخص اپنی انا کو اپنے مالکِ حقیقی کے لئے قربان نہیں کرتا، مٹ مٹ کر ذکرِ الٰہی کی لذّتوں کو پانے کے لئے ساعی نہیں ہوتا، راہِ عشق و وفا میں ذلت و خواری کی خاک نہیں بن جاتا، بےجا عزّتِ نفس کے بت کو بغل میں چھپائے رکھتا ہے، اور عاشقانہ گریہ و زاری کی انتہائی عظیم حکمت کو نہیں سمجھتا ہے، تو اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، مگر ہر درویش صفت مومن یقیناً یہی دعا کرے گا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ سب کو اپنی عبادت میں عجز و انکسار، اور خضوع و خشوع کی اعلیٰ توفیق و ہمت عنایت فرمائے! اور وسوسہ ہائے شیطانی سے بچا کر اپنی پناہ میں رکھے!

۱۱۷

۷۔ ذکرِ کثیر اور گریہ و زاری سے نہ صرف وسوسوں ہی کا بہترین علاج ہو جاتا ہے، بلکہ (ان شاء اللہ) روحانی ترقی بھی یقینی ہو جاتی ہے، کیونکہ جان و جگر اور آنکھوں میں آنسوؤں کے گوہرہائے گرانمایہ صرف ایک ہی مقصد کے پیشِ نظر پیدا کئے گئے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ انہیں بھرپور عشق و محبت سے بار بار راہِ خدا میں نچھاور کر دیا جائے، آپ قرآنِ حکیم میں گریہ و زاری کے موضوع سے متعلق آیاتِ کریمہ کے ترجمہ، تفسیر، اور حکیمانہ اشاروں میں غور و فکر کر سکتے ہیں، خصوصاً سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۱۰۷ تا ۱۰۹) اور سورۂ مریم (۱۹: ۵۸) میں، جہاں انبیائے کرام اور اولیائے عظام کے اس عظیم الشّان مثالی اور قابلِ تقلید عمل کی تعریف و توصیف کی گئی ہے کہ وہ حضرات کس عاجزی اور محویّت و فنائیّت سے ٹھوڑیوں سے آبشارِ اشک گراتے ہوئے ربِّ عزّت کی بارگاہِ عالی میں سر بسجود ہو جاتے ہیں۔

۸۔ خوفِ خدا: جب کسی مصلی، عابد، اور ذاکر کے قلب میں خدا کا ڈر نہ ہو، تو اس حال میں وہ لازماً اندرونی طور پر وساوس سے دوچار ہو سکتا ہے، اور یہ شرکِ خفی ہے، کیونکہ ایسے میں وہ عبادت نہیں ہو سکتی ، جو خالص ہونے کی وجہ سے انتہائی مسرت انگیز اور روح پرور ہوا کرتی ہے، پس ہر مسلمان کے دل میں خوفِ الٰہی کا ہونا ازحد ضروری ہے، تاکہ اس کی برکت سے مخلصانہ اور موحدانہ عبادت ہو (۰۷: ۲۹، ۹۸: ۰۵) جب آدمی کا دل دنیاوی خوف و

 

۱۱۸

 

خطر کے دوران ہر وسوسہ اور ہر خیالِ باطل کو وقتی طور پر ترک کر کے خدا تعالیٰ کی طرف کاملاً متوجہ ہو جاتا ہے (۱۰: ۲۲، ۲۹: ۶۵، ۳۱: ۳۲)، تو پھر خوفِ خدا کی عظمت، بزرگی، معجزاتی تاثیر، اور نتیجۂ ذکر و عبادت کی کیا شان ہوگی! خوب یاد رہے کہ خوفِ خدا کی معجون کا جزوِ اعظم علم ہے (۳۵: ۲۸)۔

۹۔ اللہ، رسول، اور مرشد کی محبت: جس پاکیزہ دل میں خداوندِ عالم کی بابرکت محبت کا چراغ روشن و ضیاء فگن ہو، تو اس میں وسوسۂ شیطانی کی اندھیاری کیسے ٹھہر سکتی ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ ذاتِ سبحان کی محبت بے وسیلہ و بلا واسطہ ممکن ہی نہیں، لہٰذا اس کا واحد وسیلہ ہیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، اور اسی طرح آنحضرتؐ کی محبت آپ کے باکرامت نمائندوں کے توسط سے حاصل ہو سکتی ہے، ویسے تو اسلامی محبّت و اخوت کا دائرہ بہت وسیع ہے، تاہم شیخ کہیں، یا مرشد، یا امام، ان کی محبت کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ فنا فی الشیخ کے بعد ہی فنا فی الرسول کا راستہ مل جاتا ہے، اور یہ مدارج صرف عشق و محبت اور اطاعت ہی سے طے ہو سکتے ہیں۔

۱۰۔ شدید ترین محبت یا عشق: قادرِ مطلق نے انسان کو بے حد و بے حساب صلاحیتوں اور قوّتوں کے خزائن سے مالامال فرمایا ہے، ان تمام قوّتوں میں ایک قوت سردار ہے، جو سب

 

۱۱۹

 

سے شدید ترین اور قوّی ترین ہے، اس کا نام محبّت اور عشق ہے، اور یہ وہ خاص وسیلہ ہے، جس سے جب کوئی بندۂ مومن خدا کا ہو جاتا ہے، تو خدا بھی بطورِ خاص اسی کا ہو جاتا ہے (من کان للّٰہ کان اللّٰہ لہ، حدیث) نیز یہ وہ ذریعہ ہے، جس سے اہلِ ایمان اشد حبّا للّٰہ (خدا کے ساتھ نہایت قوّی محبت [عشق] ہے، ۰۲: ۱۶۵) کے مرتبۂ عاشقانِ الٰہی پر فائز ہو سکتے ہیں، ہمیں یہاں ذرا ٹھہر کر بڑی سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ جن بندگانِ حق پرست کے دل میں حضرتِ باری تعالیٰ کا مقدّس عشق جاگزین ہو، ان کی کتنی بڑی سعادت و خوش بختی ہوگی! یہ آسمانی اور لاہوتی عشق، جو قولاً آسان لگ رہا ہے، لیکن فعلاً کتنا دشوار ہوگا! جی ہاں، وہ انتہائی مشکل کام ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں اور اس کے ہونے سے جملہ دشواریاں اور بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں۔

۱۱۔ خدا، یا اس کی رسی کو کس طرح محکم پکڑیں؟: سورۂ آلِ عمران کی آیت ۱۰۱ میں اللہ کو محکم پکڑنے (۰۳: ۱۰۱)  اور آیت ۱۰۳ میں اس کی رسی کو محکم پکڑنے کا حکم ہوا ہے (۰۳: ۱۰۳)، لیکن عقل کو بڑی حیرت ہے کہ کمزور انسان کے پاس ایسی کونسی بڑی طاقت ہے، جس سے وہ کسی بھی معنیٰ میں اللہ تبارک و تعالیٰ تک رسا ہوکر اس کو مضبوط و محکم پکڑ سکتا ہو؟ مگر ہاں، عشقِ لاہوتی ہے، جو خدا کی جانب سے نازل شدہ اور بندوں کو عطا کردہ بہت بڑی طاقت ہے، اور حبل اللہ

 

۱۲۰

 

کی طرح اس کا ایک سرّا اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور دوسرا سرّا بندوں کے ہاتھ میں، چونکہ قرآن، اسلام، اور دین کی ہر ہر چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئی ہے، لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ عشقِ الٰہی کی نورانی رسی بھی حضورِ پاکؐ ہی کے وسیلے سے خوش نصیب مسلمین کے ہاتھ آ سکتی ہے، تا کہ ربّانی عشق سے تمام امراضِ باطن کا علاج ہو۔ والسلام۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی
۲۴ رجب المرجب ۱۴۰۸ھ / ۱۴ مارچ ۱۹۸۸ء

۱۲۱

کابوس کا علاج

۱۔ کابوس کے لغوی معنی ہیں دبانے والا، بھینچنے والا، اصطلاحِ طب میں ایک مرض ہے، جس سے سوتے ہوئے آدمی کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی زوردار اور گران چیز اس کے سینے پر سوار ہے، یا وہ کسی بوجھ کے نیچے دبا ہوا ہے، اور اس حالت میں اس کا دم گھٹ کر رک جاتا ہے، اور وہ نہ بول سکتا ہے، اور نہ حرکت کر سکتا ہے، اسی حالت میں گھبرا کر چونک پڑتا ہے، اور بیدار ہو جاتا ہے ، انگریزی میں اس کا نام  Incubus ہے، Night mare اور Aphialtes بھی کہتے ہیں (طبی و ڈاکٹری لغات)۔

۲۔ روحانی تجربہ صاف طور پر بتاتا ہے کہ کابوس دراصل کوئی خطرناک باطنی بیماری نہیں، بشرطے کہ اس کا اشارہ و مقصد سمجھ لیا جائے، اور اس پر ٹھیک ٹھیک عمل بھی ہو، اشارت و مدعا یہ ہے کہ وہ آدمی جسے کابوس کی شکایت ہو اپنے فرائضِ دینی سے غافل نہ بیٹھے، خدا تعالیٰ کو شب و روز کثرت سے یاد کرتا رہے، قرآنِ کریم کو انتہائی شوق سے پڑھے،

 

۱۲۲

 

یا سنے، حقیقی اور مفید علم سے خصوصی دلچسپی رکھے، خدمتِ خلق اور ہر قسم کے نیک اعمال انجام دینے کی عادت بنا لے، ہمیشہ تقویٰ کو ملحوظِ خاطر رکھے، سو جانے سے قبل سو (۱۰۰) مرتبہ درودِ شریف اور ایک دفعہ معوذتان (سورۂ فلق اور سورۂ ناس) کو پڑھ کر اپنے سینے پر دم کرے، ان شاء اللہ تعالیٰ، کابوس کا موکل یعنی محافظِ روحانی مسخر یا دوست ہو جائے گا۔

۳۔ چونکہ کابوس صرف ایک خوف ہے، جو بحالتِ خواب آدمی پر طاری ہو جاتا ہے، لہٰذا ہمیں یہاں قرآنی علم و حکمت کے انمول خزانوں کی طرف رجوع کرنا چاہئے، تاکہ معلوم ہو کہ یہ خوف کس نوعیت کا ہے؟ آیا یہ خدائی اور قدرتی ہے؟ یا انسان کا خود ساختہ؟ اس میں پروردگارِ عالم کی کیا مشیّت ہے؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا؟ چنانچہ ذیل میں سورۂ بقرہ کی تین ایسی پُرحکمت آیاتِ کریمہ کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے، جن میں خدائے علیم و حکیم نے پانچ قسم کی ربّانی آزمائشوں کا ذکر فرمایا ہے، اور ان میں سب سے پہلے خوف ہے، ملاحظہ ہو:

۴۔ اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا دے ان صبر والوں کو کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا ہے یہ لوگ ہیں جن پر ان کے ربّ کی درودیں ہیں اور رحمت اور یہی لوگ راہ پر ہیں (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷) آپ دیکھ رہے ہیں کہ احکم الحاکمین مسلمانوں سے پانچ طرح کے امتحانات

 

۱۲۳

 

لیتا ہے، جو انفرادی حالت میں ہر مومن کے سامنے آسکتے ہیں، ان میں سب سے پہلے خوف کے امتحان کا ذکر فرمایا گیا ہے، خوف کے چار مقام ہیں: بیداری یعنی ظاہر، خیال، خواب اور روحانیّت ، اور ہر مقام پر کئی قسم کا خوف موجود ہے، پس اللہ تعالیٰ جس نوعیت کے ڈر سے اپنے کسی بندے کو آزمانا چاہے تو آزما سکتا ہے، اور ہر بندۂ مومن کی سعادت اسی امر میں ہے کہ مذکورہ مصائب میں سے کسی مصیبت کے آنے پر صابر و شاکر رہے، اور علم و حکمت کی روشنی میں یہ کہے کہ: “ہم خدا کے ہیں اس لئے نہ صرف مر جانے کے بعد ہی ہمیں خدا کی طرف لوٹ جانا ہے، بلکہ اس زندگی کی ہر آزمائش پر بھی ہم اس کی طرف جان و دل سے متوجہ ہو سکتے ہیں۔” تاکہ ایسے مومنین کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بشارت دیں، جیسا کہ اس قرآنی تعلیم میں یہ حکمِ خداوندی موجود ہے، یعنی و بشر (اور خوشخبری سنا دے)۔

۵۔ قرآنِ کریم کی ہر بات اپنی جگہ پر ایک درخشندہ حقیقت ہے، لہٰذا ہمیں قرآنِ پاک ہی کی روشنی میں یہ جاننا ازبس مفید ہوگا کہ آیا خدا و رسول کی طرف سے دی جانے والی بشارت مومنین کی اجتماعی حالت سے متعلق ہے؟ یا حسبِ آزمائش جدا جدا ممکن؟ اس سوال کے جواب کے لئے یہ عرض کروں گا کہ اصل بشارت روحانی صورت میں یا خواب میں ملتی ہے، اور انفرادی طور پر (قرآنی علاج میں خواب کے اشارات کو پڑھئے) کیونکہ عظیم بشارتیں جہادِ اکبر کے نتیجے پر وقوع پذیر ہو جاتی

 

۱۲۴

 

ہیں، اور وہ مومن کا اپنے نفسِ امّارہ کے خلاف جہاد ہے، چنانچہ زمانۂ نبوّت کے ظاہری جہاد میں تو اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم کو نزولِ ملائکہ سے اجتماعی خوشخبری دی گئی تھی (۰۳: ۱۲۴ تا ۰۸،۱۲۶: ۰۹ تا ۱۰) اس سے ظاہر ہے کہ خوشخبری انتہائی بڑی چیز ہوا کرتی ہے۔

۶۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: المجاہد من جاہد نفسہ = مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے (جامعِ ترمذی، جلدِ اوّل، ابواب فضائل الجہاد) چنانچہ جو مومنِ سعید اس روحانی جہاد میں اپنے نفس کو ایک خاص معنیٰ میں قتل کرے، تو اس پر جیتے جی موت کا عظیم معجزہ واقع ہوگا، اور وہ بحقیقت زندہ شہید کی مرتبت سے سرفراز ہو جائے گا (۵۷: ۱۹) اگر یہ بات حقیقت ہے، تو آئیے اب ہم اسی تصوّر کی روشنی میں قرآنی بشارتوں کو دیکھتے ہیں کہ کسی شک کے بغیر بہت سی خوشخبریاں عملی روحانیّت کی حیثیت میں دی جاتی ہیں، کیونکہ خوشخبری کا مقصد مومن کو ایمانی اور روحانی طور پر ایک بار مطمئن کر دینا ہے، اور قرآنی حکمت کا یہی اشارہ ہے کہ اطمینان اور بشارت کا اصل مقام بڑی بلندی پر واقع ہے، اور وہ روحانیّت ہی ہے۔

۷۔ خوشخبری یا بشارت کس درجے کی بلندی پر مل سکتی ہے، اور اس کی عظمت و جلالت کی کیا شان ہوا کرتی ہے، اس کی ایک عظیم المرتبت مثال ملاحظہ ہو، حدیثِ شریف میں ہے: من رأی ربہ

 

۱۲۵

 

فی المنام دخل الجنۃ = جو شخص اپنے ربّ کو خواب میں دیکھے گا وہ جنّت میں داخل ہوگا۔ یہ ایک بہت ہی بڑی عملی خوشخبری ہے، (سنن دارمی، کتاب التعبیر) مگر یہاں یہ بات بھی خوب یاد رہے کہ یہ امرِ عظیم ناممکن ہے تا آنکہ “موتوا قبل ان تموتوا (نفسانی طور پر مر جاؤ قبل اس سے کہ جسمانی طور پر مر جاؤ گے)” پر عمل ہو جائے، کیونکہ یہ حکمِ صریح بھی حدیث ہی میں ہے: “و لا ترون ربکم حتیٰ تموتوا = تم مرنے سے قبل خدا کو نہیں دیکھ سکتے۔” (سنن ابنِ ماجہ، جلدِ دوم، ابواب الفتن، ۱۸۷۸) اس ارشادِ نبوّی میں موتِ نفسانی اور موتِ جسمانی دونوں کا ذکر ہے، یعنی اگر آپ چاہیں تو اللہ کی یاری سے دنیا کی زندگی ہی میں اس کا دیدارِ پاک حاصل کر سکتے ہیں، اور اس کی بہت بڑی شرط قتلِ نفسِ امّارہ ہے، جیسا کہ ذکر ہو چکا، تاہم یہ دیدار جو خواب و روحانیّت میں ہو سکتا ہے، عملی بشارت کے معنی میں ہے، اور اگر یہ نہیں ہوسکتا ہے، تو پھر نیک اعمال کو انجام دیتے ہوئے گلدستۂ موتِ جسمانی کی خوشبو کا انتظار کریں ( الموت ریحانۃ المومن = موت مومن کا گلدستہ ہے، یعنی وہ موت بھی، اور یہ موت بھی)۔

۸۔ کابوس ایک قدرتی خوف ہے، جس میں ایک بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے، کیونکہ وہ ربّانی آزمائشوں میں سے ہے، اور اس میں حکیمانہ اشارے موجود ہیں، اور اس کا صدمہ عقل، روح الایمان، اور جسم کو نہیں بلکہ صرف نفسِ امّارہ ہی کو پہنچتا ہے، وہ اپنے اس عمل سے

 

۱۲۶

 

ایک طرف کثرت سے ذکر و عبادت اور نیکی کرنے کا اشارہ کرتا ہے، اور دوسری طرف یہ سگنل (Signal) دیتا ہے کہ موجودہ نفس بار بار بغاوت کرتا ہے، لہٰذا اسے راہِ خدا میں قتل کر دو، جس طرح حضرتِ خضر علیہ السلام نے کیا تھا (۷۴:۱۸، ۱۸: ۸۰) تاکہ اللہ تعالیٰ اس کی جگہ ایک پاک و پاکیزہ نفس، جس کو نفسِ مطمئنہ کہا جاتا ہے، عطا فرمائے۔

۹۔ حضراتِ انبیاء علیہم السّلام کی تمام شرائع میں سے ہر شرع اس بات سے پاک و برتر ہے کہ اس کے حکم کے مطابق ظاہراً کسی ایسے شخص کو قتل کیا جائے، جو فی الوقت بے گناہ ہے مگر اس کے متعلق یہ ڈر ہے کہ آگے چل کر کسی جرم کا مرتکب ہو جائے گا، اس سے ظاہر ہوا کہ وہ لڑکا جو قتل کیا گیا (۱۸: ۷۴، ۱۸: ۸۰) عالمِ شخصی میں نفسِ امارہ تھا، جس کے والدین عقل اور روح الایمان ہیں، قرآنِ مجید (۰۲: ۶۷ تا ۷۳) میں جہاں ذبحِ بقرہ کا قصّہ موجود ہے، اس کے باطنی پہلو میں بھی نفس کشی اور “موتوا قبل ان تموتوا”  کا منشائے ربّانی کارفرما ہے۔

۱۰۔ اہلِ بصیرت کے نزدیک اس حقیقت میں کوئی شک و شبہہ نہیں کہ نفسانی موت کا یہ عظیم الشّان عمل، جو اسرارِ روحانیّت اور گنجینہ ہائے معرفت سے بھرپور ہے، زمانۂ آدم سے ہمیشہ کے لئے جاری و ساری ہے، یہ طریقہ سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر انبیاء و اولیاء کا ہے، اور پھر ان خوش نصیب لوگوں کا، جو ان ہدایت یافتہ قدسیوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں، اور اسی طرح درجہ وار انبیاء، صدیقین، شہداء،

 

۱۲۷

 

صالحین، اور مطیعین یا تابعین بالآخر منزلِ مقصود میں یکجا رہتے ہیں (۰۴: ۶۹)۔

۱۱۔ ہم نے شاید اب تک اس ربّانی تعلیم میں ٹھیک طرح سے غور و فکر نہیں کیا ہے، ارشاد ہے (ترجمہ: کہو): ہمیں راہِ راست پر چلا، ان لوگوں کی راہ (پر) جن پر تو نے انعام کیا ہے (۰۱: ۰۵ تا ۰۶) یہ وہی صراطِ مستقیم ہے، جس پر گامزن ہوتے ہوئے حضراتِ انبیاء و اولیاء کو پروردگارِ عالم کی طرف سے علمی و عرفانی نعمتیں حاصل ہوئی تھیں، پس جو باسعادت مومنین ان ہادیانِ دین کی معیّت و رفاقت (۰۴: ۶۹) میں چلیں، تو ان کو بھی بہت کچھ روحانی نعمتیں عطا کر دی جائیں گی، کیونکہ مبشرات میں روحانیّت کی ایک مکمل دنیا موجود ہے۔

۱۲۔ قرآنِ حکیم کے حکیمانہ الفاظ عجیب و غریب معنوی اشارات سے مملو ہیں، چنانچہ قرآنِ پاک میں جہاں (۳۲: ۱۱) حضرتِ عزرائیل کا ذکر آیا ہے، وہاں اس کے بارے میں وکل بکم (وہ تم پر مقرر کیا گیا ہے) ارشاد ہوا ہے، یعنی وہ ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے، کیونکہ عالمِ صغیر یا عالمِ شخصی اپنی نوعیت کا ایک مکمل جہان ہے، جس میں سب کچھ موجود ہے، لہٰذا یہاں قوّتِ عزرائیلیہ بھی ہے، جس کی بدولت وقت پر آدمی کی نیند آتی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ روحانیّت میں کافی آگے چل کر اسی قوّت میں عزرائیل کا ظہور ہو کر قبضِ روح کا بھرپور تجربہ ہو جاتا ہے، واللہ! منزلِ عزرائیلی میں اسرارِ معرفت کا ایک انتہائی عظیم خزانہ مخفی ہے، پس یہ مقالہ بلکہ پوری کتاب جو قرآنی

 

۱۲۸

 

حکمت کے اشارات پر مبنی ہے، ایک کامیاب طبی مشورے کی طرح ہے، جس پر عمل کرنے میں (ان شاء اللہ) بہت سے فائدے ہو سکتے ہیں۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی
۴ شعبان المعظم ۱۴۰۸ھ / ۲۳ مارچ ۱۹۸۸ء

۱۲۹

 

اولیائی نوم

۱۔ آیا یہ حقیقت ہے کہ انبیاء و اولیاء کی نیند نورِ “الحیّ القیوم” کے زیرِ اثر بدرجۂ انتہا لطیف و شیرین، ازبس عجیب، اور خواب و بیداری کے درمیان ہوا کرتی ہے؟ کیا یہ درست ہے کہ ان مقدّس ہستیوں کی آنکھیں سو جاتی ہیں، مگر ان کے قلوب بیدار رہتے ہیں؟ کیا یہ بات بھی صحیح ہے کہ وہ حضرات اسی طرح شب و روز دائم الذکر ہوتے ہیں؟ آیا عالمِ انسانیّت کے تمام اشخاص و افراد نیند کی ضرورت و کیفیت کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں؟ یا مختلف؟ اگر آپ مانتے ہیں کہ نیند کے مختلف درجات ہیں، تو اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا ایک بچہ شکمِ مادر میں زیادہ سوتا ہے؟ یا پیدا ہو جانے کے بعد؟ اس کے بعد نیند بتدریج کیا ہوتی ہے؟ کم سے کم؟ یا زیادہ سے زیادہ؟

۲۔ قرآنِ حکیم اپنی متعدد آیاتِ کریمہ میں کائنات و موجودات کی ہر چیز میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، اور فرماتا ہے کہ اس میں

 

۱۳۰

 

اہلِ دانش کے لئے قدرت کی نشانیاں ہیں (۰۲: ۱۶۴) چنانچہ آپ نے سوچا ہو گا کہ عالمِ حیوان میں بھی نیند کے بہت سے نمونے پائے جاتے ہیں، جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں، جیسے خوابِ خرگوش، کہ وہ بیچارہ جانور غلبۂ خواب کی وجہ سے لوگوں میں بدنام ہے، حالانکہ شدید سرد علاقوں کے بعض چھوٹے موٹے جانور زیرِ زمین (سوراخوں) یا کھوکھلے درختوں کے جوف میں مہینوں تک سوئے یا نیم مردہ پڑے رہتے ہیں، دوسری طرف یہ تعجب خیز بات ہے کہ گھوڑا اور بیل اتنی ساری مشقت کے باوجود نیند کی ضرورت کو محسوس ہی نہیں کرتے، آپ نے درخت پر بسیرا لینے والے پرندوں کو دیکھا ہو گا، کیا ان پر خوابِ غفلت طاری ہو جاتا ہے؟ نہیں نہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوا، تو ان کے پنجوں کی گرفت سے درخت کی شاخ چھوٹ جائے گی، اور وہ رات کی اندھیری میں زمین پر آگریں گے، اور سب سے زیادہ عجیب و غریب حال چمگادڑ کا ہے کہ وہ ایسا پرند ہے، جو رات بھر شکار کے لئے اڑتا پھرتا ہے، اور دن کو کسی چھت یا کسی درخت کی شاخ میں الٹا لٹک کر رہتا ہے، آپ ہی بتائیں کہ اس حالت میں شپر (چمگادڑ) سوتی ہے؟ یا نہیں؟ مگر یقین نہیں آتا کہ سو جاتی ہے۔

۳۔ دنیائے انسانیّت اور عالمِ دین کے سب سے اعلیٰ مراتب پر انبیاء و اولیاء ہی فائز ہو جاتے ہیں، لہٰذا ان حضرات کے اسرار کی

 

۱۳۱

 

معرفت انتہائی مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں، کیونکہ دینِ اسلام میں رحمتِ الٰہی سے مایوسی و ناامیدی نہیں (۱۲: ۸۷) جبکہ اس میں وسیلۂ ہدایت کا روح پرور ربّانی معجزہ بڑا حیرت انگیز کام کر رہا ہے، چنانچہ قرآن و حدیث کی حکمت کی روشنی میں اولیائی نوم کے سرِ عظیم کا انکشاف ممکن ہے، کہ یہ کس کیفیت کی نیند ہے؟ اس میں حواس پر کیا اثر پڑتا ہے؟ آیا یہ عالمِ بیداری میں ہے؟ یا عالمِ خواب میں داخل ہے؟ یا دونوں کی حدِّ فاصل پر واقع ہے؟ ان شاء اللہ تعالیٰ ایسے بہت سے سوالات اس مقالے سے خود بخود حل ہو جائیں گے، تاکہ قارئینِ کرام کو روحانی صحت و سلامتی کے حقیقی معیار کا اندازہ ہو سکے۔

۴۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: تنام عینی و لا ینام قلبی = میری آنکھ سو جاتی ہے، لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے۔ سبحان اللہ! صاحبِ تاجِ معراج کی شانِ اقدس دیکھئے! ایسے میں بلا تکلف نورِ ذکر خود از خود بولتا ہے اور یہ سلسلۂ معجزاتی ہر لحظہ جاری رہتا ہے، اس مبارک حدیث کے حکمت آگین الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہ پیغمبرانہ اور اولیائی نوم (نیند) جو انتہائی لطیف، پر سکون، جانفزا، مسرّت انگیز، حیران کُنۡ، کراماتی، اور نورانیّت سے بھرپور ہے، وہ خواب و بیداری کے درمیان واقع ہوتی ہے، جس کو کیفیتِ نیم خوابی کہا جا سکتا ہے، اسی طرح جملہ پیغمبروں کے بارے میں حدیثِ شریف

 

۱۳۲

 

میں ہے: الانبیاء تنام اعینھم و لا ینام قلوبھم = تمام انبیاء کا یہی حال ہے کہ ان کی آنکھیں سو جاتی ہیں اور ان کے قلب نہیں سوتے (صحیحِ بخاری ، جلدِ دوم، کتاب الانبیاء، باب ۳۷۷۔ المعجم المفہرس، لالفاظ الحدیث النبوی، الجزء السابع، ص ۴۸) یقیناًنہ صرف صدیقین (اولیائے کرام) ہی روحانیّت میں انبیاء علیہم السّلام کے ساتھ ہیں، بلکہ یہ بہت بڑی سعادت شہداء و صالحین کو بھی حاصل ہے، اور فرمانبردار مومنین بھی اس گروہِ باشکوہ میں شامل ہو سکتے ہیں (۰۴: ۶۹) یعنی خودشناسی اور ہر گونہ معرفت ممکن ہے۔

۵۔ قرآنِ حکیم کے پُرحکمت الفاظ ذو وجوہ (کئی معنوں کے حامل) ہوا کرتے ہیں (ملاحظہ ہو: الاتقان، اوّل، نوع ۳۹) چنانچہ مجمع البحرین (۱۸: ۶۰) کے کئی معنی ہیں، اور ان میں سے ایک معنی عالمِ شخصی کے اس مقام کے ہیں، جہاں بحرِ بیداری اور بحرِ خواب کا سنگم ہے، اور اس سنگم کی ذرا سی تعریف یہ ہے کہ جو مومنِ ذاکر یہاں تک پہنچ کر قائم رہے، اس کے وسوسے سب کے سب دریا برد ہو جاتے ہیں، اور اس کا ذکر معجز نما ہونے لگتا ہے، جس کا سبب حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام ہے کہ وہ قلب میں روحِ ذاکرہ کو چھوڑ کر باقی نفس اور اس کے خیالات کو قبض کر لیتا ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک کا مفہوم ہے کہ:

 

۱۳۳

 

اللہ تعالیٰ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے، اور جن کی ابھی موت نہیں آئی ہے، ان کو نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے (۳۹: ۴۲) اسی طرح خدا کے دوستوں کی نیند روحانیّت میں تحلیل ہو جاتی ہے، پس قرآنِ کریم میں جہاں جہاں انتہائی شاندار الفاظ میں نوم کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، وہ خوابِ غفلت کی تعریف و توصیف تو نہیں ہو سکتی، بلکہ اس میں ایک ایسی نعمت کی خوبیاں بیان ہوئی ہیں، اور اس کی طرف حکیمانہ دعوت و ہدایت دی گئی ہے، جو عظیم ترین اور خاص ترین ہے، اس لئے سب سے پہلے انبیاء و اولیاء کو عطا ہوئی ہے، اور وہ نومِ روحانیّت ہی ہے، یعنی معجزاتی نیند۔

۶۔ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں بعض اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اولیائی نوم کا تجربہ حاصل ہوا تھا، جس کا تذکرہ لفظِ نعاس (۰۸: ۱۱، ۰۳: ۱۵۴، اونگھ) میں فرمایا گیا ہے، یہ کوئی معمولی اور عام قسم کی نیند نہ تھی، بلکہ ان حضرات پر کراماتی نوم اور علمِ لدنّی کے لمحات گزرتے تھے، اور اسی وجہ سے امن و سکون حاصل ہو رہا تھا، آپ متعلقہ آیاتِ کریمہ کو غور و فکر سے دیکھیں۔

۷۔ قرآنِ پاک (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) میں ہے کہ اولی الالباب ، یعنی اہلِ عقل کھڑے بھی بیٹھے بھی اور لیٹے بھی اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں، چنانچہ یہ آسمانی وصف اولیائے کرام کے لئے خاص ہے، اور وہی حضرات اس کے مصداق ہیں، ورنہ کچھ ایسے لوگ جو محدود وسائل میں الجھے

 

۱۳۴

 

ہوئے ہیں، وہ خدائے بزرگ و برتر کے نزدیک کیسے اولی الالباب کہلا سکتے ہیں، اور کس طرح لیٹ کر نیم خوابی کی کیفیت میں وہ کامیاب ذکر کر سکتے ہیں، جس میں آنکھ سو جاتی ہے، مگر دل / دماغ بیدار رہتا ہے، لیکن ہاں کوئی شخص فنا فی المرشد، اور فنا فی الرّسول ہو جائے، تو بیشک و شبہہ وہ معرفت کے ان بھیدوں سے واقف و آگاہ ہو سکتا ہے۔

۸۔ سورۂ رحمٰن کا نام عروس القرآن اس وجہ سے ہے کہ اس میں تمام روحانی نعمتوں کا اجمالاً ذکر ہے، اور جملۂ حسن و جمالِ علمی و عرفانی کا خلاصہ ہے، جیسا کہ ارشاد ہے (ترجمہ): اسی نے دو دریاؤں (یعنی بیداری اور نیند) کو ملایا کہ باہم ملے ہوئے ہیں (اور) ان دونوں کے درمیان ایک برزخ (حجاب) ہے کہ دونوں بڑھ نہیں سکتے، سو اے جنّ و انس تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاتے ہو (اسی مقام پر) ان دونوں سے موتی اور مونگے برآمد ہوتے ہیں (۵۵: ۱۹ تا ۲۲) پس یہی برزخ دو دریاؤں کا سنگم اور مقامِ روحانیّت ہے، جہاں مشاہداتِ عین الیقین کے درّ و مرجان حاصل ہو جاتے ہیں۔

۹۔ خزائنِ قرآن کی کلیدیں اس کے حکیمانہ اشاروں میں پوشیدہ ہیں، اور اسی مقصد کے پیشِ نظر بار بار تفکر و تدبر کی دعوت دی گئی ہے، چنانچہ یہ جاننا ازبس ضروری ہے کہ روحانیّت نہ صرف دریائے بیداری اور دریائے خواب ہی کے درمیان برزخ یعنی پردہ ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ اپنے وجود کا بھی حجاب ہے، جبکہ اس کے بہت

 

۱۳۵

 

سے نام حجاب کے طور پر آئے ہیں، اور برزخ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں، جیسے خود لفظِ برزخ: ۲۳: ۱۰۰، ۲۵: ۵۳، ۵۵: ۲۰، حاجز یعنی پردہ: ۲۷: ۶۱، حجاب: ۱۹: ۱۷، حجابِ مستور: ۱۷: ۲۵، سور (دیوار): ۵۷: ۱۳، سد یعنی دیوار: ۳۶: ۰۹، وغیرہ۔

۱۰۔ حدیثِ شریف میں آیا ہے کہ: “القراٰن ذلول ذو وجوہ فاحملوہ علیٰ احسن وجوھہ۔”  یعنی قرآن بہت ہی رام ہو جانے والی چیز ہے، اور وہ متعدد پہلو (وجوہ) رکھتا ہے، لہٰذا تم اسے اس کی بہترین وجہ پر محمول کرو (الاتقان، دوم، نوع ۷۸) چنانچہ قرآنِ حکیم کا ایک پُرحکمت ارشاد ہے: وَّ جَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا (۷۸: ۰۹) پہلے معنی: اور ہم ہی نے تمہاری نیند کو باعثِ سکون بنایا۔ دوسرے معنی: اور ہم ہی نے تمہاری روحانیّت کو سببِ راحت بنایا۔ کیونکہ قرآنِ حکیم کا خطاب بیک وقت اولیاء اور عوام دونوں سے ہے، پس دونوں گروہ کے نزدیک نوم کا مطلب الگ الگ ہے، کہ ایک کے واسطے یہ روحانیّت ہے، اور دوسرے کے لئے نیند۔

۱۱۔ مبشرات کا اصل مقام روحانیّت ہے، جیسا کہ حضورِ اکرمؐ کا ارشاد ہے: لم یبق من النبوۃ الا المبشرات، قالوا و ما المبشرات؟ قال الرویا الصالحۃ ، نبوت میں سے صرف مبشرات باقی رہ گئی ہیں، لوگوں نے پوچھا: مبشرات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اچھے

 

۱۳۶

 

خواب (صحیح بخاری، سوم، کتاب الرویا) اچھا خواب نبوّت کے چھیالیس اجزاء میں سے ایک جز ہے، تو مبشرات سے اولیاء اللہ کی روحانیّت کی تصدیق ہو جاتی ہے، کیونکہ ان کی ایسی نیند نہیں، جیسی عوام کی ہوتی ہے، مگر وہ روحانیّت میں مبشرات دیکھتے ہیں، اور جیسا کہ بیان ہو چکا ہے، مومنین ان کے پیچھے پیچھے چل سکتے ہیں، جبکہ راہِ مستقیم صرف ایک ہی ہے، اور منزلِ مقصود بھی ایک ہی ہے، عاجزانہ دعا ہے کہ اللہ ربّ العالمین سب کو روحانی اور عقلی صحت کی لازوال دولت سے مالامال فرمائے! آمین!!

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی
۱۰ شعبان المعظم ۱۴۰۸ھ / ۲۹ مارچ ۱۹۸۸ء

۱۳۷

 

خدمتِ خلق

۱۔ قرآنِ حکیم اور حدیثِ شریف کی حکیمانہ تعلیمات میں کوئی حکم ایسا نہیں ملے گا، جس میں براہِ راست، یا بالواسطہ خدمتِ خلق اور حقوق العباد کے کسی پہلو پر روشنی نہ ڈالی گئی ہو، اس حقیقت کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ دین کے احکام سب کے سب حقوق اللہ اور حقوق العباد کے انتہائی عظیم امرَین میں جمع ہو جاتے ہیں، اور فرائضِ دینی کی کوئی چیز ان دونوں کلیوں سے باہر نہیں رہ سکتی، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ نہ صرف بندوں ہی کے حقوق بلکہ خدا کے حقوق بھی اس مقصد کے پیشِ نظر مقرر ہوئے ہیں کہ ان کی ادائیگی سے انسان ہی کو دنیا و آخرت میں بے حد و بے شمار فائدے حاصل ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک تو ہر قسم کے نفع و ثمرہ سے بے نیاز و برتر ہے۔

۲۔ حدیثِ شریف میں ہے: الخلق عیال اللّٰہ، و احب الخلق الی اللّٰہ من نفع عیالہ، و ادخل السرور علیٰ اہل

 

۱۳۸

 

بیتہ۔ و مشی مع اخ مسلم فی حاجتہ، احب الی اللّٰہ من اعتکاف شھرین فی المسجد الحرام = ساری مخلوق (گویا) اللہ کا کنبہ ہے، لہٰذا خدائے بزرگ و برتر کے نزدیک سب سے محبوب و پسندیدہ شخص وہ ہے، جو اس کے کنبے کو زیادہ فائدہ پہنچائے، اور اس کے اہلِ خانہ کو مسرور و شادان کر دے، اور کسی مسلمان بھائی کے ساتھ اس کی حاجت برآری کی خاطر چلنا خداوندِ تعالیٰ کے نزدیک دو ماہ تک اندرونِ خانۂ کعبہ اعتکاف کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے (دعائم الاسلام، ثانی، کتاب العطایا، مزید حوالہ جات کے لئے دیکھئے: کتاب مجمع البحرین، ص ۷۰، از مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی)۔

۳۔ صاحبِ جوامع الکلم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مذکورۂ بالا ارشادِ مبارک کی شانِ جامعیّت کا حقِ تعریف و توصیف تو ادا ہی نہیں ہو سکتا، تاہم مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید، پیغمبرانہ علم و حکمت کی جس کمالیّت و تمامیّت، اور رعنائی و زیبائی سے خالقِ اکبر اور مخلوقِ احقر کے رشتے کی تشبیہہ و تمثیل دی گئی ہے، اس کی جان پرور و دلنواز علمی اور عرفانی نورانیّت و تابش سے عقلِ جزوی کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں، سبحان اللہ! یہاں تو مرتبۂ انسانیّت اور احترامِ آدمیّت انتہائی عروج و ارتقاء پر نظر آتا ہے، بخدا! ہمیں رحمتِ عالم کی اس بے مثال اور درخشندہ تعلیم میں عشق و محبت سے بار بار سوچنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم اس رازِ مخفی کو بحسن و خوبی سمجھ سکیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ درپردہ اپنی مخلوق

 

۱۳۹

 

کو محبوب رکھتا ہے، کیونکہ اس مثال میں جو بھی عیال اور اہلِ خانہ ہیں، وہ ربّ العزّت کی محبوبیّت کے درجے میں ہیں، لیکن اس محبوبیّت و دوستی میں وہ نیک بخت لوگ بہت ہی آگے جا سکتے ہیں، جو دوسروں کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔

۴۔ اس نورانی تعلیم میں خدمت کی یہ شرط بتائی گئی ہے کہ اس سے لوگوں کو فائدہ ملے اور مسرّت و شادمانی حاصل ہو، اس میں دین و دنیا سے متعلق عظیم اور دور رس خدمات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، اور ایک چھوٹی خدمت کی مثال یہ دی گئی ہے کہ اگر ایک شخص اپنے کسی مسلم بھائی کے ساتھ اس کی حاجت برآری کے لئے چلتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے عبادت و اعتکاف کے ایک اعلیٰ مقام پر بلند کر کے محبوب رکھتا ہے، اس سے آپ پُرخلوص خدمتِ خلق کی اہمیّت و افادیّت کا اچھی طرح اندازہ کر سکتے ہیں۔

۵۔ قرآنِ مجید میں احسان (نیکی) کے میوۂ شیرین کا بار بار تذکرہ ہوا ہے، اور فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں (محسنین) کو محبوب رکھتا ہے (۰۵: ۹۳) اور یقیناً خدمتِ خلق سب سے بڑی نیکوکاری ہے، جس کا ذکر ہو چکا، پس خدمت احسان ہے، جس کا سب سے عظیم اور لاثانی و غیر فانی انعام اللہ جلّ جلالہ کی دوستی اور محبوبیّت ہے۔

۶۔ خدمتِ خلق کے اس وسیع و بے پایان میدان میں جن حضرات کو تمام خدمت گزاروں پر فوقیّت و برتری حاصل ہے، وہ انبیاء و اولیاء ہیں، جو ایک اعتبار سے قوم کے سردار ہیں، اور دوسرے اعتبار

 

۱۴۰

 

سے قوم کے خادم، جیسا کہ حدیثِ نبوّی کا ارشاد ہے: سید القوم خادمھم = قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے (مجمع البحرین، ص ۴۱) اس سے ظاہر ہے کہ صرف پیغمبر اور ولئ کامل ہی صحیح معنوں میں انسانیّت کی آفاقی خدمت کر سکتے ہیں، اور پھر ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے درجہ بدرجہ دوسرے خُدّام (خَدَم)۔

۷۔ حدیثِ نبوّی میں یہ پُرحکمت کلّیہ بھی موجود ہے: کُل معروف صدقۃ = ہر نیک کام ایک صدقہ و خیرات کا درجہ رکھتا ہے (صحیح بخاری، سوم، باب ۵۸۹۔ دعائم الاسلام، ثانی، کتاب العطایا) چنانچہ ملک و ملت اور انسانیّت کی خدمت نیک عمل ہے، اس لئے وہ عظیم صدقہ ہے، اور اگر کسی خدمت کا فائدہ ہمیشہ کے لئے جاری و ساری رہ سکتا ہے، تو پھر ان شاء اللہ تعالیٰ وہ صدقۂ جاریہ ہو جائے گا، اور ایسے ہی اعمال باقیات الصالحات (باقی رہنے والے اعمالِ صالحہ، ۱۸: ۴۶) کہلا سکتے ہیں، پس معلوم ہوا کہ اگر خدمت بے ریا ہے تو وہ سب کچھ ہے، اسی خدائے پاک و برتر ہر سچے خادم کو دوست رکھتا ہے، درحالے کہ اس کی دوستی و محبت دین اور روحانیّت کی سب سے بڑی نعمت ہے، بلکہ تمام نعمتوں کی جان ہے۔

۸۔ خدائے تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب اور پسندیدہ شخص کون ہے؟ وہی جو اس کے کنبے یعنی مخلوق کی خدمت کرے، آیا ہر ایسا آدمی جو خدا کو محبوب ہو، باطنی، روحانی، اور عقلی امراض سے

 

۱۴۱

 

شفا یاب نہیں ہوگا؟ کیوں نہیں، ضرور وہ قلبِ سلیم (۲۶: ۸۹) کو حاصل کرے گا، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ پاک ہے، اس لئے وہ جب کسی سے دوستی و محبّت کرنا چاہتا ہے، تو پہلے اسے روحانی بیماریوں اور گناہوں سے پاک کر دیتا ہے، پھر اسے محبوب رکھتا ہے۔

۹۔ پروردگارِ عالمین جن بندوں کی مخلصانہ خدمت کو قبول فرماتا ہے، انہیں تمام تر اخلاقِ حسنہ اور صفاتِ ستودہ سے نوازتا بھی ہے، تاکہ وہ پاک و برتر ان سے دوستی و محبت کرے، جیسے نیکوکاری (۰۷: ۱۹۶) احسان (۰۳: ۱۳۴) تقویٰ (۰۳: ۷۶) صبر (۰۳: ۱۴۶) توکل (۰۳: ۱۵۹) عدل و انصاف (۰۵: ۴۲) طہارت و پاکیزگی (۰۹: ۱۰۸) اطاعت و محبت (۰۳: ۳۱) ایمانِ کامل اور عشقِ الٰہی (شدید ترین محبت۰۲: ۱۶۵) جذبۂ جہادِ ظاہری و باطنی (۶۱: ۰۴) حبِ رسول (۰۳: ۳۱، ۰۹: ۲۴) توبہ و پاک دلی (۰۲: ۲۲۲) اور دوسرے بہت سے اوصاف، جن سے خدا کے دوست موصوف و آراستہ ہوتے ہیں، جیسا کہ حدیثِ شریف میں ارشاد ہوا ہے (ترجمہ): جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے محبت فرماتا ہے، تو جبریل کو اس کا حکم ہوتا ہے، پس جبریل اس سے محبت کرنے لگتا ہے اور پھر تمام آسمان اور زمین والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں (صحیحِ مسلم، جلدِ سوم، باب ۳۲۰)۔

۱۰۔ حدیثِ شریف میں یہ بھی ہے کہ: جب اللہ تعالیٰ مومن کو اس کی قبر سے اٹھائے گا، تو وہ قبر سے باہر آئے گا، درحالے کہ اس کے ساتھ ایک پیکرِ نورانی (ہستئ لطیف) ہوگی، پس جب

 

۱۴۲

 

وہ مومن وہاں کی سختیوں سے گزرے گا، تو نورانی پیکر اس سے کہے گی: ڈرنا نہیں، تم پر کوئی آنچ نہیں آئے گی، پس یہ اس کو برابر امن و تسکین اور بشارت دیتی جائے گی، یہاں تک کہ تمثالِ نورانی ( مثال حسن ) اس کو بارگاہِ خداوندی میں پہنچا دے گی، پس اللہ تعالیٰ اس مومن سے ایک آسان سا حساب لے گا، پھر خدا کا حکم ہوگا کہ اس کو بہشت میں داخل کر دیا جائے، اس وقت مومن پیکرِ نورانی سے پوچھے گا، آپ کون ہیں؟ آپ پر خدا کی رحمت ہو! آپ نے مجھ سے نہ صرف وعدہ ہی کیا، بلکہ ایفا بھی ہوا، اور میرے خوف کو امن و سکون میں بدل دیا، تب پیکرِ نورانی کہنے لگے گی کہ: میں ایک مخلوق ہوں میرے رب نے مجھے اس (اجتماعی) خوشی سے پیدا کیا جو تم (اپنی خدمات اور نیکیوں سے )مومنین کو دیا کرتے تھے، چنانچہ آج میں تم کو مسرّت و شادمانی پہنچا رہی ہوں (دعائم الاسلام، جلدِ ثانی، کتاب العطایا)۔

۱۱۔ کتاب الشّافی، جلدِ دوم، باب ۸۹ ، “خدمتِ مومن” کے بارے میں ایک ارشادِ نبوّی اور اس کا ترجمہ درج ہے، ترجمہ یہ ہے: حضرت امیر المومنین (علی) علیہ السّلام نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے: جو مسلمان مسلمانوں میں کسی قوم کی خدمت کرے گا، تو اللہ تعالیٰ بقدرِ ان کی تعداد کے جنّت میں خدمت گار عطا فرمائے گا۔

۱۴۳

۱۲۔ جس طرح جسمانی علاج کے سلسلے میں تنہا مؤثر ادویہ ہی ضروری اور کافی نہیں ہوتیں، بلکہ حیاتین (وٹامن) سے بھرپور اغذیہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا “علمی علاج” کی اس کتاب میں یہ پُرحکمت خلوص سعی کرنا ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں، اور عقل و نقل کے حوالے سے، نیز حقیر تجربات و معلومات کی مدد سے کچھ صحت افزا علمی و عرفانی غذائیں بھی مہیا ہوں، و ما توفیقی الا باللّٰہ (۱۱: ۸۸)۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی
۱۸ شعبان المعظم ۱۴۰۸ھ / ۶ اپریل ۱۹۸۸ء

۱۴۴

 

دائرۂ خدمتِ خلق

(۴۲: ۰۵)

۱۴۵

 

کالا جادو اور اس کا توڑ

۱۔ جادو: واقعات کے غیر فطری طور پر ظہور میں لانے کا فن، یہ علم ہر زمانے میں ہر قوم کے افراد کے عقیدے میں داخل رہا ہے، اور مختلف اشخاص ہر جگہ اس کا دعویٰ کرتے چلے آئے ہیں، قدیم مصر کے پجاری اسی دعوے پر اپنی عبادت اور مذہب کی بنیاد رکھتے تھے، چنانچہ قربانیاں جادو ہی کی بنیاد پر کی جاتی تھیں، قدیم مصری، بابلی، ویدک، اور دیگر روایتوں میں دیوتاؤں کی طاقت کا ذریعہ بھی جادو ہی کو خیال کیا جاتا تھا، یورپ میں باوجود عیسائیّت کی اشاعت کے جادو کا رواج جاری رہا، افریقہ میں اب تک ایسے ڈاکٹر موجود ہیں، جو جادو کے ذریعے علاج کرتے ہیں۔

سیاہ علم یا کالا جادو جنّوں، دیوتاؤں، اور بد

 

روحوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے، اور علمِ سفید یعنی سفید جادو نیک روحوں اور فرشتوں کے ساتھ ملاتا ہے، اس کے علاوہ قدرتی جادو قدرت کے واقعات میں تصرف کے قابل بناتا ہے، رمل، جفر، جوتش،

 

۱۴۶

 

اور نجوم بھی اسی کی شاخیں ہیں، جو توہّم پرستی پر مبنی ہے، ہمارے ہاں بھی جادو کئی شکلوں میں تسلیم کیا جاتا ہے، مثلاً تعویذ، گنڈے، جنّ اور بھوت کا چمٹنا اور اتارنا وغیرہ (فیروز سنز، اردو انسائیکلوپیڈیا)۔

۲۔ اگر غور سے دیکھا جائے، تو پتہ چلے گا کہ مذکورۂ بالا بیان سحر (جادو) سے متعلق ایک بڑے ذخیرۂ معلومات کا مفید ترین خلاصہ ہے، اسی لئے یہ اس موضوع کے آغاز میں بطورِ تمہید درج ہوا ہے، تاہم یہ عجیب اتفاق ہے کہ سامری نے روحانیت میں جو کچھ دیکھا تھا، وہ محض ایک آسمانی معجزہ ہونے کی وجہ سے جادوئے سیاہ سے پاک تھا (۲۰: ۹۵ تا ۹۶) لیکن اس نے جبرائیلی معجزے سے ایک باطل جادو کا کام لیا، نیز سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۵ تا ۱۷۶) میں بلعم باعور یا کسی اور شخص کا قصّہ پڑھئے، تاکہ معلوم ہو جائے کہ بعض لوگ کس طرح اپنی ناشکری سے خیر کو شر بنا لیتے ہیں۔

۳۔ کالا جادو، سفید جادو، اور قدرتی جادو کی ان اصطلاحات میں غور و فکر کرنے سے یقینی طور پر پتہ چلتا ہے کہ یہ سب درجہ بدرجہ روحانیّت میں داخل تو ہیں، لیکن ان میں اعلیٰ و ادنیٰ، حق و باطل، اسلام و کفر، اور حلال و حرام ہونے کی وجہ سے آسمان زمین کا فرق پایا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قدرتی جادو جو سحرِ حلال ہے، اس سے انبیائے عظام کا معجزہ اور اولیائے کرام کی کرامت مراد ہے، جس سے واقعاتِ قدرت میں تصرّف (خرقِ عادت) ہو سکتا ہے، مگر قدرتی جادو یا سحرِ

 

۱۴۷

 

حلال کا یہ نام البتہ شاذ و نادر استعمال ہوتا ہے، جیسے حدیثِ شریف میں ارشاد ہوا ہے: و ان من البیان سحرا (مفہوم:) اور بعض بیان سحرِ حلال ہوتے ہیں (صحیح مسلم، جلدِ اوّل، کتاب الجمعہ، حدیث ۱۹۰۹، اور دیگر کتبِ احادیث)۔

۴۔ خدائے برحق اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سحرِ سیاہ کو کفر، حرام، اور باطل قرار دیا ہے، کیونکہ یہ سر تا سر برائی اور خرابی کی نیّت پر مبنی ہوتا ہے، اور اس میں ان گنت قباحتیں ہوتی ہیں، چنانچہ اسی جادو کے وہم و گمان نے فرعون کو اتنا بیباک اور مغرور بنا دیا کہ اس نے خدا ہونے کا دعویٰ کیا، اور حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام جیسے عظیم المرتبت پیغمبر کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے بھی ٹھان لیا، مگر معرکۂ حق و باطل میں ہمیشہ حق غالب اور باطل مغلوب ہو جاتا ہے، پس جادوگر سجدے میں گر گئے اور کہا کہ ہم ایمان لے آئے ہارون اور موسیٰ کے پروردگار پر (۲۰: ۷۰)۔

۵۔ یہ بات نہ صرف دیہات ہی کے باسیوں سے متعلق ہے، بلکہ شہروں میں بھی ایسے بے شمار بھولے بھالے آدمی موجود ہیں، جن کے پاس کوئی خاص علم نہیں، اس لئے وہ طرح طرح سے خوفِ بے جا میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اور یہ ایک زبردست نفسیاتی ظلم و زیادتی ہے کہ ان کو جنّ، بھوت کے سایہ و آسیب سے متاثر یا سحر زدہ قرار دے کر ڈرایا جاتا ہے، حالانکہ بسا اوقات یہ بات بے حقیقت ہوتی ہے، اور ہوتا کچھ بھی

 

۱۴۸

 

نہیں ہے، لیکن انسان میں قوّتِ واہمہ ایک ایسی صلاحیت ہے کہ اگر شدید خوف کے ساتھ اس کی طرف توجہ دی گئی تو وہ کسی ڈراؤنی شکل میں سامنے آ سکتی ہے، کیونکہ انسان بحدِّ امکان (بحدِّ قوّت) ایک عالم ہے، جس میں سب کچھ موجود ہے، پھر خوابیدہ جنّ اور خفتہ جادو کیسے نہ ہو، مگر یہ کسی کی بہت بڑی نادانی ہو گی کہ ان کو چھیڑے اور جگائے، بلکہ دانشمندی اسی میں ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرا کرے، اور اسی کی یاد میں کثرت سے مصروف رہے۔

۶۔ “کالا جادو اور اس کا توڑ” کے اس موضوع میں دراصل چار چیزوں کے بیان کی ضرورت تھی، اوّل: جادو کا پس منظر، یا تجزیہ و تحلیل، یا تعریف، یا مجموعی معلومات، دوم: اس فرضی اور وہمی جادو کا ازالہ کرنا، جس کو کسی ساحر نے تو کیا ہی نہیں، مگر شکوک و شبہات اور بدگمانیوں سے پیدا ہوکر دل و دماغ کو پریشان اور تاریک بناتا ہے، یہ ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے، جو بے بنیاد و بے حقیقت باتوں سے خوفزدہ ہوتے رہنے سے لاحق ہو جاتی ہے، اور اس کا علاج اعلیٰ علم سے اور خدا پر یقین رکھنے سے ہو سکتا ہے، لہٰذا اس بارے میں عوام کو سمجھانے کی سخت ضرورت ہے، سوم: جہاں عقل و دانش اور سنجیدگی سے یہ باور کیا جاتا ہو کہ سچ مچ سیاہ جادو ہے، تو ایسی صورت کے لئے یہ بتا دینا لازمی ہو گا کہ اسلام نے اس کے سدِ باب کا طریقہ اور ہر شر سے خدا کی پناہ لینے کا راستہ دکھایا ہوا ہے، اور چہارم: اس مضمون کے آخری حصے

 

۱۴۹

 

میں یہ بیان ہو گا کہ مسحور کا علاج و شفا کس طرح ممکن ہے۔

۷۔ آپ کو جادوئے سیاہ سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ اس کا حصول ایسا آسان نہیں، جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے، جبکہ قرآنی اشارہ یہ ہے کہ اصل جادو یا تو ان جنّات سے حاصل کیا جاتا ہے، جو سلطنتِ سلیمانی سے وابستہ ہیں، یا پھر ان دو فرشتوں سے، جو ہاروت اور ماروت کے نام سے ہیں، اگر لاتعداد انسانوں میں سے کسی کو کالا علم مل گیا تو پھر بھی وہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کسی کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا (۰۲: ۱۰۲) پس جو نیک بخت لوگ صدقِ دل سے خدا و قانونِ خد ائی پر یقین رکھتے ہیں، وہ نہ صرف جادو ہی سے بچنے کے لئے بلکہ دوسرے تمام شرور سے بھی محفوظ و سلامت رہنے کے واسطے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں، جس کی شرطیں چار ہیں: علم کی روشنی، نیّت، قول، اور عمل، یہی تمام لوگوں کے حق میں ہر قسم کی برائی کا سدِ باب اور پناہِ ربّانی کی ضمانت ہے۔

۸۔ بندوں کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی جو پناہ گاہ ہے، وہ اس کا حصنِ حصین (مضبوط قلعہ) اور مقامِ قرب ہے، جس میں داخل ہو جانے کے لئے علم و عرفان کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ قول و فعل کا تجربہ تو بہت سے لوگ کرتے رہتے ہیں، لیکن علم نہ ہونے کی وجہ سے مقصد پورا نہیں ہو سکتا، پس لمحہ بہ لمحہ اور قدم بقدم اعلیٰ علم کی ضیا پاشی اور رہنمائی نہایت ہی ضروری ہے، تا کہ شیاطینِ انسی و جنّی

 

۱۵۰

 

کے سحر اور ہر شر سے گریز کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی میں پناہ گیر ہو جانے کا طریقِ مستقیم مل جائے۔

۹۔ قرآنِ پاک کے بہت سے پُرحکمت اسماء ہیں، ان میں سے ایک اسم شفاء (۱۷: ۸۲) ہے، اور ایک دوسرا نام علم (۰۳: ۶۱) ہے، چنانچہ قرآن = شفاء = علم ہے، یعنی قرآن ہر اعتبار سے شفاء ہے، اور علمی صورت میں بھی شفاء ہے، لہٰذا جب بھی کوئی ہوشمند مومن طبِ قرآنی یعنی قرآنی علم و حکمت سے رجوع کرے، تو یقیناً وہ باطنی اور روحانی صحت و سلامتی سے متعلق روشن تعلیمات و ہدایات کے جواہر سے مالامال ہو جائے گا، پس جو شخص سو جانے سے قبل آیۃ الکرسی کو پڑھے، وہ سیاہ جادو اور تمام دوسرے شرور سے (ان شاء اللہ) محفوظ و سلامت رہے گا، کیونکہ یہ اعظم الآیات ہے (ملاحظہ ہو: الاتقان، دوم، نوع: ۷۲، ۷۳ نیز ۷۵)۔

۱۰۔ یہ علم و حکمت کی برکتوں سے مملو آیتیں جادو سے شفاء دینے والی ہیں، ان کو پڑھ کر پانی سے بھرے ہوئے ایک برتن میں دم کیا جائے، اور پھر وہ پانی جادوزدہ شخص کے سر پر ڈالا جائے، وہ آیاتِ مقدّسہ یہ ہیں:

سورۂ یونس کی آیت ۸۱۔۸۲ ، یعنی فلما القوا تا المجرمون (۱۰: ۸۱ تا ۸۲)، سورۂ اعراف کی چار آیتیں: ۱۱۸۔۱۲۱، یعنی توقع تا العالمین (۰۷: ۱۱۸ تا ۱۲۱) ، اور سورۂ طٰہٰ کی آیت ۶۹ میں سے صرف انما سے آخر تک (۲۰: ۶۹)، ان شاء اللہ ،

 

۱۵۱

 

مسحور آدمی شفا یاب ہو جائے گا (بحوالۂ الاتقان، دوم، ص ۵۱۰)۔

۱۱۔ بحکمِ خدائے بزرگ و برتر اگر جادو کا سدِ باب کرنا ہے، یا کسی مسحور کا جادو توڑنا ہے، یا ہر برائی یعنی شیطان کے ہرگونہ شر سے محفوظ رہنا ہے، تو سورۂ فلق اور سورۂ ناس کو یقینِ کامل سے پڑھا جائے، ان شاء اللہ تعالیٰ، قرآنی طب کا معجزہ ظہور پذیر ہو گا، کیونکہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادِ گرامی اور سنتِ مطہرہ کے حوالے سے کئی مستند کتابوں میں یہ نسخۂ کیمیا درج ہے، مثلاً: الاتقان، دوم، ص ۵۱۴ پر، اور دعائم الاسلام، ثانی، کتاب الطب فصل (۳) میں۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی
۲۴ شعبان المعظم ۱۴۰۸ھ / ۱۲ اپریل ۱۹۸۸ء

۱۵۲

ذکرِ سریع سے علاج

۱۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ قرآنِ حکیم میں حکمتِ ربّانی کے لاتعداد گنج ہائے گرانمایہ مخفی ہیں، جن کی کلیدیں دستِ قدرت میں محفوظ ہوا کرتی ہیں، اور اہلِ دانش اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ ان قرآنی خزانوں میں اولادِ آدم کے جسم و جان اور عقل کے لئے انتہائی مؤثر و مفید نسخہ ہائے کیمیا، شفائے کلّی، اور غیر فانی نعمتیں پوشیدہ ہیں، جس کی ایک روشن مثال “ذکرِ سریع” کی حکمت ہے، کہ ذکرِ سریع سب سے بہترین علاج ہے غفلت، نسیان، وسوسہ، حدیثِ نفسی، ملالت، سستی، غلبۂ خواب وغیرہ کے لئے، کیونکہ ذکرِ الٰہی جو دراصل نفسِ امّارہ اور شیطان کے خلاف ایک روحانی جہاد ہے، جس کا ہر لفظ بحقیقت ضربِ شمشیر و سنان ہے، پھر دشمن کے مقابلے میں تلوار اور نیزے کو بڑی سرعت اور بھرپور طاقت کے ساتھ کیوں نہ استعمال کیا جائے، جبکہ ساری بیماریوں کی جڑ یہی ہے۔

۲۔ ذکرِ سریع کا مطلب ہے دل و جان سے ساری سستی اور غفلت

 

۱۵۳

 

کو بدر کر کے انتہائی سرعت اور عشق و خوف کے ساتھ سلسلۂ یادِ الٰہی کو جاری و ساری رکھنا، تاکہ شیطان کو اس میں خلل اندازی کا کوئی موقع ہی نہ مل سکے، یقیناً یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک انبیائے کرام علیہم السّلام کی تعریف و توصیف فرماتا ہے، کہ وہ حضرات ہر نیک کام کو کسی تاخیر کے بغیر جلد از جلد انجام دیتے تھے، جیسا کہ ارشاد ہے (ترجمہ): یہ سب نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے اور رغبت (عشق) و خوف کے ساتھ ہماری عبادت کیا کرتے تھے (۲۱: ۹۰)۔

۳۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اسلام دینِ فطرت ہے، اور فطرت کا بہترین نمونہ خود انسان ہے، جس کے معنی یہ ہوئے کہ قوانینِ دین اور قوانینِ عالمِ شخصی ایک جیسے ہیں، چنانچہ جسمانی تربیت کے ماہرین ہر ایسی ورزش کو آدمی کی صحت و تندرستی کے لئے بے حد مفید قرار دیتے ہیں، جس میں دوڑ یا تیز حرکت سے کام لیا جائے، بعینہ ذکرِ سریع ہے، جس میں روحانی سلامتی اور باطنی قوّت کا راز پوشیدہ ہے، کیونکہ انسان کی حقیقی زندگی اور معیاری صحت کا انحصار تین قسم کی منظم، پُر زور، اور نتیجہ خیز حرکتوں پر ہے، یعنی جسمانی حرکت، جس کو سب دیکھتے اور جانتے ہیں، روحانی حرکت، جو ذکر و عبادت کی حیثیت سے ہے، اور عقلی حرکت، جو غور و فکر اور علم کی صورت میں ہے۔

۴۔ یہ حکم سورۂ ذاریات میں ہے: ففروا الی اللّٰہ (۵۱: ۵۰) پس تم اللہ ہی کی طرف دوڑو۔ یعنی تم لوگ ہر دینی کام کو بڑی تیزی سے

 

۱۵۴

 

کرو، کیونکہ نیک اعمال میں سست رفتاری اور تاخیر ہونے سے عمر ضائع ہو جاتی ہے، نیز اس میں ہر وقت یہ خطرہ درپیش ہوتا ہے کہ نفسِ کمینہ یا شیطان کسی دامِ فریب میں مبتلا کر لے، لہٰذا ارشاد ہوا ہے کہ بندۂ مومن قربِ الٰہی کی جانب دوڑے، اور وہ صرف ایسے قول و عمل سے ممکن ہے، جس میں کاہلی اور غفلت کا نام و نشان تک نہ ہو، اور اپنے اندر یہ صفت پیدا کرنے کے لئے ذکرِ سریع ازبس ضروری ہے، جو صحیح معنوں میں خدا کی طرف دوڑنا ہے۔
۵۔ جس طرح ظاہر میں پا پیادہ یا کسی سواری سے مسافتوں کو طے کیا جاتا ہے، اسی طرح باطن میں ذکر و عبادت اور علم و حکمت سے منازلِ روحانیّت میں پیشرفت ہو جاتی ہے، چنانچہ سورۂ عادیات (۱۰۰: ۰۱ تا ۰۵) میں اگر ایک طرف جسمانی گھوڑوں کا تذکرہ ہے، تو دوسری طرف روحانی گھوڑوں کا بھی بیان فرمایا گیا ہے، اور وہ اذکارِ سریع ہیں، جن کی سرعتِ رفتار، زور، اور تسلسل کی وجہ سے نفسِ بہیمی کی تحلیل ہو کر چنگاریاں چھوٹتی ہیں، پھر بوقتِ صبح روحانی قسم کا مالِ غنیمت ملتا ہے، جس سے غبارِ خاطر نکل جاتا ہے، اور ایسے میں اسلام کی روحانی فتوحات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

۶۔ قرآنِ کریم کا مفہوم ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ مسلمانوں کے لئے آسانی چاہتا ہے اور دشواری نہیں چاہتا (۰۲: ۱۸۵) اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے پہل کچھ دشواریاں برداشت کی جائیں، تاکہ ان سے آگے

 

۱۵۵

 

گزر جانے کے بعد آسانی اور راحتِ روحانی حاصل ہو سکے (۶۵: ۰۷،۹۴: ۰۵ تا ۰۶) پس ذکرِ سریع یعنی تیز تر اور پرزور ذکر اسی قانون کے مطابق ہے کہ اس سے نفس کی تحلیل و تطہیر ہو جاتی ہے۔

۷۔ چقماق (FLINT)اور فولاد کے درمیان سے چنگاریاں پیدا ہو جاتی ہیں، لیکن کیسے عمل سے؟ کیا دونوں چیزوں کو آہستہ آہستہ باہم ملانے سے؟ نہیں نہیں، ایک دوسرے کے ساتھ رگڑنے اور ضرب لگانے سے، اور آسمانی بجلی کا بھی یہی حال ہے جو بادلوں میں رگڑ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جن میں اصل چیز برقِ منفی اور برقِ مثبت موجود ہوتی ہے، اسی طرح اگر نفس برقِ منفی یا سنگِ چقماق کا کام کرتا ہے، تو ذکرِ سریع برقِ مثبت اور فولاد جیسا عمل کرتا ہے، جس سے عالمِ شخصی میں نور کی چنگاریاں اور روشنیاں بکھر جاتی ہیں۔

۸۔ یہ حدیثِ شریف بہت بڑی اہمیت والی ہے، لہٰذا اس کی طرف یہاں آپ کو دوبارہ توجہ دلائی جاتی ہے: القراٰن ذلول ذو وجوہ فاحملوہ علیٰ احسن وجوھہ = یعنی قرآن بہت ہی رام ہو جانے والی چیز ہے، اور وہ متعدد پہلو (وجوہ) رکھتا ہے، لہٰذا تم اسے اس کی بہترین وجہ پر محمول کرو۔ پس اس حکم کے مطابق اس آیۂ مقدسہ میں غور کیجئے: خلق الانسان من عجل (۲۱: ۳۷) آدمی جلدی سے پیدا کیا گیا ہے، یہاں جلدی سے سرعتِ ذکر اور سعئ نور مراد ہے، جو انسانِ کامل کی تخلیقِ روحانی کے بنیادی اسباب

 

۱۵۶

 

میں سے ہے، اور اس میں دراصل کسی خامِ ناتمام انسان کی بات نہیں۔

۹۔ جو خوش نصیب مومن جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مر جاتا ہے، تو اس کی ذاتی اور عرفانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، اور اس انقلابِ عظیم کے بغیر معرفتِ نفس اور معرفتِ ربّ کا دروازہ ہرگز کھل نہیں سکتا، جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے: من مات فقد قامت قیامتہ = جو مر جائے تو بس اس کی قیامت قائم ہو جاتی ہے۔ اور قرآنِ عزیز میں یہ واضح اشارہ موجود ہے کہ بعض اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم کو جیتے جی مرگِ نفسانی کا بھرپور تجربہ حاصل ہوا تھا (۰۳: ۱۴۳) اور اس کا امکان ہر زمانے میں موجود رہا ہے، اس بیان کے بعد اب یہ عرض کرنا ہے کہ سعئ نور یعنی نور کا دوڑنا یا انتہائی سرعت سے کام کرنا کس طرح ہے، اس حکمتِ عالیہ کو سمجھنے کے لئے سورۂ حدید (۵۷: ۱۲) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) میں بغور دیکھنا ضروری ہے، تاکہ معلوم ہو کہ یہ نورِ معرفت ہے، جس کے لاتعداد نام ہیں، کیونکہ یہی نورِ عقل بھی ہے، جو تمام حقائق و معارف کا نمائندہ ہے، چنانچہ بے شمار نمائندگیوں کے سبب سے اس کے بے حساب ناموں کے ہونے میں تعجب نہیں ہونا چاہئے۔

۱۰۔ مذکورۂ صدر نور آدمی کی طرح نہیں دوڑتا، بلکہ سرعت سے طلوع و غروب ہو جاتا ہے، اس کا جو مشرق ہے، وہی مغرب بھی

 

۱۵۷

 

ہے، سرعت دو معنوں میں ہے، اوّل یہ کہ اس کے ایک طلوع اور دوسرے طلوع کے درمیان کا وقت کم و بیش پانچ سیکنڈ کا ہو سکتا ہے، اور دوسرا یہ کہ نور کی اتنی قلیل سی مدت دنیائے ظاہر کے ہزار سالہ واقعات پر محیط ہو سکتی ہے، اور دوسری مثال میں یہ پچاس ہزار برس کے برابر ہو جاتی ہے، اس کا مطلب طے مراحل ہے۔

۱۱۔ یہ سارے حقائق و معارف اس لئے بیان ہوئے، تاکہ معلوم ہو جائے کہ ذکرِ سریع اور سعئ نور کے درمیان اگرچہ آسمان زمین کا فرق ہے، لیکن اس کے باؤجود ان میں مناسبت و یکجہتی اور وحدت پائی جاتی ہے کہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے، جبکہ یہ منزلِ اوّلین ہے، اور وہ منزلِ آخرین، اور دونوں ہی تکمیلِ شخصیت کے لئے ہیں، پس مومن کی دانشمندی اسی میں ہے کہ وہ تمام فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ذکرِ سریع کے نسخۂ کیمیا سے کام لے کر اپنے امراضِ باطن کا علاج معالجہ کرے، تاکہ وہ کماحقہ شفایاب ہو کر نورِ معرفت کو حاصل کر سکے، جس میں اس کی تمامیّت و کمالیّت ہے (۶۶: ۰۸)۔

۱۲۔ قرآنِ حکیم میں دیکھ لیجئے: و سارعوا (اور جلدی کرو، ۰۳: ۱۳۳) سابقوا (دوڑو، ۵۷: ۲۱) فاسعوا (شتابی کرو، ۶۲: ۰۹) والسابقون (اور آگے نکل جانے والے، ۵۶: ۱۰) ففروا (پس دوڑو، ۵۱: ۵۰) اور ان جیسے بہت سے دوسرے احکام ہیں، جن میں سرعت و تیزی اور محنت و جانفشانی سے اعمالِ صالحہ انجام دینے کے لئے فرمایا گیا

 

۱۵۸

 

ہے، پس یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ ذکرِ سریع ایک ایسا روحانی علاج ہے، جس سے بہت سی بیماریاں دور ہو سکتی ہیں، ان شاء اللہ۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۱۸ شوال ۱۴۰۸ھ / ۴ جون ۱۹۸۸ء

۱۵۹

 

شہدِ حکمت سے علاج

۱۔ جب اللہ جلّ جلالہ کے ان ارشادات سے، جو آیاتِ شفاء میں ہیں، یہ حقیقت واضح اور روشن ہو جاتی ہے کہ قرآنِ حکیم سر تا سر شفاء ہے امراضِ روحی کے لئے، (قرآنی علاج ص ۵۶) تو پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ بابرکت کتابِ سماوی وہ واحد، منفرد، انتہائی باکمال، بے مثال، اور معجزاتی جامعۂ طبِ رحمانی اور شفاء خانۂ روحانی ہے کہ اس میں نہ صرف طبابتِ لاہوتی کی نرالی تعلیم و تربیّت ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ ذخائرِ ادویۂ جبروتی بھی ہیں، اور ہرگونہ ربّانی علاج کے معجزنما نسخے بھی، پس ان قرآنی دواؤں میں سے ایک بے انتہا شیرین، زبردست پر لذت، اور بے حد مؤثر و مفید دوا شہدِ حکمت کے نام سے ہے۔

۲۔ اس سلسلے کی ایک خصوصی دعوتِ فکر سورۂ نحل کے اس ارشاد میں موجود ہے: فیہ شفاء للناس = یعنی شہد میں لوگوں کے لئے شفاء ہے (۱۶: ۶۹) یقیناًیہ حکم شہدِ مادّی اور شہدِ روحانی دونوں کے

 

۱۶۰

 

بارے میں ہے، جس کے ثبوت میں یہاں چند دلائل پیش کئے جاتے ہیں:
الف: جود و رحمتِ الٰہی کے قانون میں یہ بات قطعاً ناممکن ہے کہ جسمِ کثیف کے لئے شہدِ شیرین موجود ہو، مگر روحِ لطیف اور عقلِ شریف کے واسطے اپنی نوعیت کا کوئی شہد نہ ہو۔ ب: قرآنِ کریم بہشتِ برین کا قانون رکھتا ہے، کیونکہ یہ علم و عرفان کی نعمتوں سے معمور ایک عقلی جنت ہے، اور جنت کے تمام پھلوں کے دو دو جوڑے ہوا کرتے ہیں (۵۵: ۵۲) ج: خدا کی خدائی اور بادشاہی کی کل اشیاء جفت جفت ہیں (۳۶: ۳۶) پس شہدِ ظاہر کی مثال پر شہدِ باطن کا ہونا لازمی امر ہے۔ د: بہشت کی چار نہروں میں سے ایک نہر شہد کی ہے، جس سے نہرِ حکمت مراد ہے، کیونکہ عقلی شہد حکمت ہی ہے (۴۷: ۱۵) ھ: اللہ تعالیٰ حقائق و معارف کی مثالیں بیان فرماتا ہے، یہاں تک کہ اپنی ذاتِ اقدس کی مثال دینے سے بھی دریغ نہیں فرماتا، (۲۴: ۳۵) چنانچہ مادّی شہد عسلِ مصفا یعنی حکمت کی مثال ہے، جس میں ہر قسم کے امراضِ باطن کے لئے شفاء ہے۔

۳۔ اس سماوی اور ربّانی تعلیم میں کامل توجہ دے کر خوب غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، جس میں بڑی جامعیت کے ساتھ حکمت کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے، وہ ارشاد یہ ہے: یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًاؕ (۰۲: ۲۶۹) وہ جس کو چاہے

 

۱۶۱

 

حکمت دیتا ہے، اور جس کو حکمت دی گئی تو بے شک اسے بہت زیادہ خیر (بھلائی) دی گئی۔ یعنی خیرِ کثیر حکمت کے ساتھ وابستہ ہے، اور جہاں حکمت نہیں، وہاں کوئی خیر و خوبی نہیں، کیونکہ حکمت نہ صرف تنہا ایک خیر ہے، بلکہ یہ جامعۃ الخیرات کا درجہ رکھتی ہے، یعنی یہ جملہ خوبیوں اور نیکیوں کو اپنے اندر جمع کر سکتی ہے، جس طرح ظاہری شہد میں لاتعداد پھولوں کا رنگ و بو اور رس یکجا ہو جاتا ہے، اسی طرح باطنی شہد (حکمت) میں خیرِ کثیر مجتمع پائی جاتی ہے۔

۴۔ مذکورۂ بالا بیان کے مطابق حکمت خیرِ کُل ہے، جو خدا کے ہاتھ میں ہے ( بیدک الخیر۰۳: ۲۶) اور جو کچھ اللہ تبارک و تعالیٰ کے بابرکت ہاتھ میں ہے، وہ کیا کچھ نہیں، جبکہ وہ ملک (بادشاہی ۶۷: ۰۱) بھی ہے اور ملکوت بھی (۳۶: ۸۳) پس بلا شک و شبہہ قرآنی حکمت کا ایک سرّا دستِ قدرت میں ہے، اور دوسرا سرّا قرآن میں، تاکہ وہ علیم و حکیم جس کو چاہے حکمت عطا فرمائے، اور نوازا کرے۔

۵۔ حکمت دراصل دانائی، ہر چیز کی حقیقت، اور نورِ عقل کو کہتے ہیں، لہٰذا اس سے جملہ امراضِ باطن کا علاج کیا جاتا ہے، خصوصاً جہالت و نادانی سے لاحق ہو جانے والی بیماریوں کے لئے یہ آسمانی دوا از حد ضروری ہے، کیونکہ ایسی بیماریاں عقل و جان (یعنی روح الایمان) کے لئے مہلک ثابت ہو سکتی ہیں، جبکہ موت وجودِ آدمی کے اعتبار سے تین قسم کی ہوا کرتی ہے، جسمانی موت، روحانی موت، اور عقلی موت،

 

۱۶۲

 

ان اموات میں سے مرگِ جسمانی کو تو سب جانتے ہیں، مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ روح اور عقل کی ہلاکت کو نہیں سمجھتے، حالانکہ قرآنِ حکیم میں اس واقعے کا ذکر موجود ہے، اس کی ایک مثال کالانعام ہے، یعنی درجۂ انسانی و ایمانی سے گر کر چوپایوں کی طرح ہو جانا (۰۷: ۱۷۹، ۲۵: ۴۴، ۴۷: ۱۲) ایسے لوگ مرضِ نادانی کی موت مر کر نہ تو دینی عقل رکھتے ہیں اور نہ ایمانی روح۔

۶۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بارگاہِ ربّ العزّت میں ایک خاص دعا اس طرح کی (ترجمۂ آیت): اے ہمارے ربّ تو ان (امتِ مسلمہ) میں ان ہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں پڑھے، اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور انہیں پاک کر دے، بے شک تو ہی غالب (اور) صاحبِ حکمت ہے (۰۲: ۱۲۹) یہ دعا مسلمانوں کی خیرخواہی میں کی گئی ہے، اور اس کی جامعیّت سے دین و دنیا کی کوئی بھلائی باہر نہیں رہ سکتی، اس میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ظہورِ قدسی مطلوب ہے، اس دعا کی روشنی میں دیکھنے سے ثمرۂ نبوّت اور مقصدِ رسالت نقشۂ ذیل کی طرح ظاہر ہو جاتا ہے:

۱۶۳

 

۷۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس دنیا میں تشریف لانے کا اوّلین مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو دینِ اسلام کی طرف دعوت دی جائے، پھر ان پر خدا کی آیات پڑھی جائیں، پھر ان کو قرآنِ پاک کی تعلیم سے آراستہ کیا جائے، پھر انہیں ظاہراً و باطناً حکمت سکھائی جائے، اور آخر میں تمام نیک اعمال بالخصوص علم و حکمت کے نتیجے میں ان کو ہر طرح سے پاک و پاکیزہ فرمائیں، اس سے حکمت کی بہت بڑی اہمیت و فضیلت ظاہر ہو جاتی ہے، کہ جس کے بغیر اہلِ ایمان کی روحانی اور عقلی پاکیزگی ناممکن ہے۔

۸۔ قرآنِ عزیز میں حکمت کا ایک اہم موضوع قصّۂ لقمان علیہ السّلام ہے، جس کی روشنی میں سب سے پہلے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حکمت اگرچہ بظاہر ایک لفظ ہے، لیکن حقیقت میں خیرِ کثیر اور باطنی نعمتوں کا ایک عالم ہے، لہٰذا اس کے ملنے پر شکر واجب ہو جاتا ہے، اور ویسے بھی شکرگزاری اور قدردانی حکمت ہی کی زبان میں ہو سکتی ہے، حکمت کا سب سے اہم پہلو علمِ توحید ہے، جس سے نورِ معرفت ضیا فگن ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا راستہ بتاتا ہے، یہی سبب ہے کہ حضرتِ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے اولاً مسئلۂ شرک (و توحید) سے بحث کی، کیونکہ حکمت خصوصاً اسی امر کی مقتضی ہوا کرتی ہے۔

۹۔ قرآنِ حکیم کا ہر اعلیٰ لفظ اپنی قسم کے کئی مترادفات رکھتا ہے،

 

۱۶۴

 

چنانچہ حکمت کے معنی و مطلب صرف لفظِ حکمت ہی میں محدود نہیں، بلکہ اس کے لئے اور بھی بہت سے الفاظ مقرر ہیں، جیسے علم، کیونکہ حکمت علم کا نچوڑ اور جوہر ہے، یقین، کہ حکمت خود حق الیقین کا درجہ ہے، معرفت، جو حکمت ہی کا ایک خاص نام ہے، نور، کیونکہ حکمت ظلمت میں ٹھہر نہیں سکتی، ہدایت، اس لئے کہ حکمت میں رہنمائی ہے، روح اور عقل، وغیرہ، کیونکہ حکمت کا جو سرّا خدائے تعالیٰ کے بابرکت ہاتھ میں ہے، وہ انتہائی قرب کی وجہ سے بے جان اور بے عقل نہیں ہو سکتا۔

۱۰۔ حدیثِ شریف میں ارشاد ہے: نعم المجلس مجلس ینشر فیہ الحکمۃ = سب سے بہترین مجلس ایک ایسی مجلس ہے، جس میں حکمت پھیلائی جاتی ہو (دارمی، مقدمہ) نبئ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جب تم کسی شخص کو دنیا میں بے رغبت دیکھو اور کم گو پاؤ تو اس کے پاس بیٹھو، کیونکہ اس پر حکمت کا نزول (القاء) ہوا ہے (ابنِ ماجہ، جلدِ دوم، ابواب الزھد) حدیثِ نبوّی میں یہ بھی فرمایا گیا ہے: انا دارالحکمۃ و علی بابھا = میں حکمت و دانائی کا گھر ہوں اور علی میرا دروازہ ہیں (ترمذی، جلدِ دوم، ابواب المناقب)۔

۱۱۔ قرآن کو اختیار کرو کیونکہ قرآن عقل کی تیزی، حکمت کا نور، علم کا چشمہ، اور تمام (آسمانی) کتابوں سے نئی (کتاب) ہے، اور اللہ تعالیٰ نے توریت میں فرمایا ہے کہ محمد! میں تمہارے پاس نئی توریت بھیجتا

 

۱۶۵

 

ہوں، جو اندھی آنکھوں اور بہرے کانوں اور بند دلوں کو کھول دے گی (دارمی، فضائل القرآن)۔

۱۲۔ انتہائی عجز و تضرع سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ حسبِ وعدۂ قرآن اپنے نورِ حکمت سے سیّارۂ زمین کو بہت جلد معمور و منوّر فرمائے، اور بنی نوع انسان کو تمام جسمانی اور روحانی امراض سے کُلی طور پر شفا بخشے! آمین!!

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۲۵ شوال ۱۴۰۸ھ / ۱۱ جون ۱۹۸۸ء

۱۶۶

 

موت قبل از موت

۱۔ مولوئ معنوی فرماتے ہیں: اے خنک آنرا کہ پیش از مرگ مُرد۔ یعنی او از اصلِ این رز بوی بُرد۔ وہ شخص قابلِ مبارکباد ہے، جو مرنے سے پہلے مر گیا، یعنی اس کو اس انگورستان کی اصل کا پتا چل گیا (مثنوئ دفترِ چہارم، مضمون: قصّۂ صوفی کہ درمیانِ گلستان سربزا نو نہادہ مراقب بود) اور یہ ایک واضح اشارہ ہے موتوا قبل ان تموتوا ( مر جانے سے پہلے مرو) کی طرف، جیسا کہ ارشاد ہے: حاسبوا اعمالکم قبل ان تحاسبوا و زنوانفسکم قبل ان توزنوا و موتوا قبل ان تموتوا ۔ تم اپنے اعمال کا حساب کتاب کر لو قبل اس کے کہ تم سے حساب لیا جائے اور اپنے آپ کو تولو اس سے پیشتر کہ تم کو تولا جائے اور مرو اس سے پہلے کہ مر جاؤ (احادیثِ مثنوی، فارسی، ص ۱۱۶) اس حکم میں ذاتی اور عرفانی قیامت کا اشارہ ہے۔

۲۔ علمی علاج کے سلسلے میں موت قبل از موت کا تذکرہ کیوں ضروری ہے؟ اس لئے کہ روحانی عروج و ارتقاء کی ساری رکاوٹیں

 

۱۶۷

 

اور تمام باطنی امراض کی جڑیں نفس ہی میں استوار ہیں، لہٰذا مرگِ نفسانی کے ساتھ ساتھ جس طرح جملہ خرابیاں دور ہو جاتی ہیں، اس کے پیشِ نظر یہ بیان بے حد ضروری ہے، اور یہ امر بے انتہا ضروری کیوں نہ ہو، جبکہ یہی قربِ الٰہی اور فنا فی اللہ کا آخری وسیلہ ہے۔

۳۔ آپ جانتے ہیں کہ قرآنِ حکیم ذو وجوہ ہے، یعنی اس کے متعدد پہلو ہیں، چنانچہ اس قرآنی تعلیم میں غور سے دیکھئے: اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب کہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا، اے میری قوم! تم نے بچھڑے کو (معبود) بنا کر یقیناً اپنی جانوں پر ظلم کیا، پس تم اپنے پیدا کرنے والے کی درگاہ میں توبہ کرو، پھر تم اپنے (مشرک) آدمیوں کو خود قتل کرو (فاقتلوا انفسکم ، ۰۲: ۵۴) اور اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ تم جسمانی طور پر مر جانے سے پہلے مرو، اور خواہشاتِ نفسانی کا قلع قمع کرو (ملاحظہ ہو: مفردات القرآن، ص ۸۲۶) اس سے ظاہر ہوا کہ قرآنِ مجید میں موتوا قبل ان تموتوا کا حکیمانہ اشارہ موجود ہے۔

۴۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ کی پُرحکمت سنت ہمیشہ یہی رہی ہے کہ وہ دانا و بینا حجاب کے بغیر کسی بشر سے کلام نہیں فرماتا (۴۲: ۵۱) تو پھر قرآنِ کریم میں جہاں جہاں اسرارِ عظیم موجود ہیں، وہ کیوں کر بے حجاب ہو سکتے ہیں، پس ظاہر ہے کہ یہاں علم و حکمت اور روحانیّت کے بڑے بڑے بھید پردوں میں ہیں، اسی لئے قرآنِ پاک میں تفکر و تدبر کی پُر زور

 

۱۶۸

 

دعوت دی گئی ہے، چنانچہ ان حجابات میں سے ایک حجاب بصورتِ عتاب ہے، جیسے بنی اسرائیل کے ستر رجال پر گزرا (۰۲: ۵۵) درحالیکہ ان کے قصّے میں بھیدوں کا ایک بڑا خزانہ موجود ہے (۰۲: ۵۵، ۰۷: ۱۵۵)۔

۵۔ آج اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) دنیاوی معاملات میں بے شک بڑے ہوشیار ہیں، لیکن بڑی عجیب بات یہ ہے کہ وہ سنتِ الٰہی یعنی قانونِ دین کے ابجد کو بھی نہیں جانتے، اگر وہ ہوشمند ہوتے، تو سلسلۂ انبیاء علیہم السّلام کو تسلیم کرتے ہوئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بھی ایمان لے آتے، اور قرآنی معجزات کو دیکھنے کے لئے کوشش کرتے، پھر شاید وہ بے ساختہ اس بے مثال و بے نظیر آسمانی کتاب کو، جو اگلی کتابوں یا الکتاب کی محافظ ( مھیمناً ، ۰۵: ۴۸) ہے، سر آنکھوں پر رکھ لیتے، کیونکہ اس بابرکت کتاب یعنی قرآن میں ان حضرات کے مراحلِ روحانیّت اور فنا فی اللہ کا تذکرہ ہے، جن پر ربّ العالمین نے اپنی خاص خاص نعمتوں کی بارانِ رحمت برسائی ہے (۰۴: ۶۹)۔

۶۔ جو خوش نصیب لوگ راہِ مستقیم پر چلتے ہوئے روحانی چمک، کڑک، زلزلہ، وغیرہ کی زد میں آ جاتے ہیں، ان کے حق میں قانونِ قدرت کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ نفس کے اعتبار سے ہلاک مگر روح الایمان اور عقل کے اعتبار سے حیاتِ نو میں زندہ ہو جاتے ہیں، اور یہی ہے جسمانی طور پر مر جانے سے قبل نفسانی طور پر مر جانا، جس کی بہت سی مثالیں قرآنِ مجید میں مذکور ہیں۔

۱۶۹

۷۔ خدائے قادرِ مطلق کس طرح مردوں کو جِلا سکتا ہے، اس کی ایک قریب ترین مثال یہ ہے کہ اللہ پاک ہم میں سے ہر ایک کی روح سوتے میں قبض کر لیتا ہے، اور پھر اسے واپس بھیج کر زندگی بخشتا ہے (۳۹: ۴۲) جسے ہم عادتاً بیداری کہتے ہیں، اسی طرح کوئی حقیقی صوفی، یا درویش، یا کوئی عاشقِ صادق یادِ الٰہی میں محو و مدہوش ہو کر کچھ دیر کے لئے بھی فنا ہو سکتا ہے، جیسے کسی آدمی میں جب پری یا جنّ داخل ہو جاتا ہے، تو اس وقت ایسا شخص جزوی طور پر یا کلّی طور پر اپنی انا کھو بیٹھتا ہے، پس یوں سمجھ لینا چاہئے کہ وہ انسان وقتی طور پر مر جاتا ہے، پھر اس مخلوق کے نکل جانے پر زندہ ہو جاتا ہے۔

۸۔ بنی اسرائیل نے خدائے تعالیٰ کے حکم سے جس قسم کے بیل کو ذبح کیا تھا، اور اس عمل کے نتیجے میں جیسے قادرِ مطلق نے ایک مقتول کو زندہ کرکے اپنی قدرتِ کاملہ کی شان ظاہر فرمائی تھی (۰۲: ۶۷ تا ۷۳) اس میں نفس کشی اور موتوا قبل ان تموتوا کا حکمت آگین اشارہ موجود ہے، کیونکہ گائے یا بیل نفسِ خورندہ کی علامت و مثال  ہے، چنانچہ نفسِ حیوانی کے بیل کو خنجرِ ریاضت سے ذبح کر دینے کے بعد ہی کوئی عالی ہمت مومن ایک پاکیزہ روح کے ساتھ دروازۂ روحانیّت سے داخل ہو سکتا ہے۔

۹۔ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کا قول ہے: لن یلج ملکوت السمٰوات من لم یولد مرتین = جو آدمی دو بار پیدا نہ ہو جائے تو وہ آسمانوں

 

۱۷۰

 

کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہیں ہو سکتا۔ یعنی اسی دنیا میں جسمانی پیدائش اور تکمیل کے بعد نفسانی موت اور روحانی پیدائش از حد ضروری ہے، جیسا کہ مولائے روم فرماتے ہیں: چون دوم بار آدمی زادہ بزاد + پائے خود بر فرقِ علتہا نہاد۔ جب انسان دو بار پیدا ہوا، اس نے علتوں کے سر پر اپنا پاؤں رکھ دیا ہے (مثنوی، دفترِ سوم، زیرِ عنوانِ ہر چہ غفلت و کاہلی۔۔۔)۔

۱۰۔ جب یہ معلوم ہے کہ جہاد ظاہری اور باطنی دو قسم کا ہوتا ہے تو اسی طرح شہادت بھی جسمانی اور روحانی دو درجوں میں ہوا کرتی ہے، پس قرآنِ پاک میں جہاں جہاں شہادت کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہاں دونوں شہادتیں مراد ہیں، جیسے آلِ عمران (۰۳: ۱۴۳) کے اس ارشاد میں ہے: اور یقیناً تم موت کی خواہش کیا کرتے تھے پیشتر اس کے کہ تم اس سے ملاقات کرو، پس یقیناً تم نے اسے اپنی نظر سے دیکھ ہی لیا ہے (۰۳: ۱۴۳) آپ خوب غور کریں کہ اس خطاب کا زیادہ سے زیادہ تعلق شہیدانِ روحانی سے ہے، جنہوں نے اپنی موت کا منظر دیکھ لیا تھا۔

۱۱۔ اس موضوع کا مقصدِ آخرین یہ ہے کہ معجزۂ فنا فی اللہ پر یقین رکھا جائے، اور ہر مومن علم و عمل کے وسیلے سے صراطِ مستقیم پر آگے سے آگے بڑھ کر اس مرتبۂ برترین کو حاصل کرے، جیسا کہ سورۂ قصص کے آخر (۲۸: ۸۸) میں ارشاد ہے: کل شیء ہالک الا وجھہ۔ لہ الحکم و الیہ ترجعون ۔ سوائے وجہ اللہ کے ہر چیز

 

۱۷۱

 

ہلاک ہو جانے والی ہے، حکم اسی کے لئے ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے (۲۸: ۸۸) اگر ایک شخص یہ کہتا ہے کہ لکڑیاں جل کر فنا ہوگئیں، مگر آگ باقی ہے، تو ہر آدمی اس واقعہ کو بہ آسانی سمجھ لے کہ حقیقت کیا ہے، چنانچہ مذکورہ آیۂ کریمہ جو پہلے پہل عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) سے متعلق ہے بزبانِ حکمت یہ بتاتی ہے کہ حقیقی محبت، عشق، روحانیت، رویّت، اور معرفت سے فنا فی اللہ کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے، اور یہ تمام معانی وجہ اللہ میں موجود ہیں اور اس فنا کے بعد حکم یعنی کلمۂ امر اور رجوع ہے۔

۱۲۔ سوال: روحِ انسانی کہاں سے آئی ہے؟ اور جب یہ کامیاب ہو تو کہاں جائے گی؟ جواب: عالمِ امر اور کلمۂ کُنّ سے آئی ہے (۱۷: ۸۵، ۳۶: ۸۲) اور یہ وہیں جانے والی ہے، کہ اصل مقام اور منزلِ فنا بھی وہی ہے۔

۱۳۔ فنا کسی شیٔ کے نیست و نابود یا معدوم ہو جانے کو نہیں کہتے، بلکہ یہ اس کے ایک حال سے دوسرے حال میں تبدیل ہو جانے کا نام ہے، پس فنا فی اللہ کا مطلب ہے اپنے وجودِ نفسانی سے مر کر خدا کے نور میں زندۂ جاوید ہو جانا، جیسا کہ سورۂ رحمان (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) کا یہ مفہوم ہے: وہ تمام ارواح جو عالمِ شخصی کی زمین پر ہیں فنا ہو جانے والی ہیں اور باقی رہے گی تیرے پروردگار صاحبِ جلالت و کرامت کی وجہ (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) انسان اپنی ذات میں ایک مستقل عالم ہے،

 

۱۷۲

 

جس میں بصورتِ ارواح بے شمار لوگ رہتے ہیں، جن کو وجہ اللہ میں فنا ہو جانا ہے، اور نفسِ واحدہ کی حیثیت سے خدائے بزرگ و برتر کے حضور جانا ہے (۰۶: ۹۴، ۳۱: ۲۸)۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
جمعہ ۲ ذیقعدہ ۱۴۰۸ھ / ۱۷ جون ۱۹۸۸ء

۱۷۳

 

امکانی ترقی اور درسِ عالی ہمتی

۱۔ کیا آپ نے اس کلّیۂ احساناتِ ربّانی میں کمالِ توجہ اور انتہائی غور و فکر سے دیکھا ہے، جو سورۂ ابراہیم (۱۴: ۳۴) میں ارشاد ہوا ہے؟ اگر اسی طرح نہیں سوچا ہے تو آئیے اب اس قانونِ حکمت آگین کو دیکھتے ہیں، کیونکہ یہ اپنی نوعیّت کا سب سے بڑا کلّیہ ہے، جس کے حکیمانہ اشارات کو سمجھنے سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کی بے شمار نعمتوں میں سے بندگانِ حق پرست کو کیا کیا حاصل ہو سکتی ہیں؟ اور کتنی نعمتہائے عظمیٰ ایسی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رحمت و نوازش کے باؤجود کسی وجہ سے نہیں مل سکتی ہیں؟ وہ آیۂ کریمہ یہ ہے: وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُؕ-وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ (۱۴: ۳۴) ترجمہ: اس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا، اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو احاطہ نہیں کر سکتے، حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے (۱۴: ۳۴) تفسیری مفہوم: تم نے زبانِ قال اور

 

۱۷۴

 

لسانِ حال سے جو کچھ طلب کیا، وہ سب اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہیں بحدِّ فعل اور بحدِّ قوّت دے رکھا ہے، تمہارے لئے خدائے تعالیٰ کی ایسی نعمتیں جو علم و عمل سے مشروط ہیں، اتنی زیادہ ہیں کہ تم ان کا شمار ہی نہیں کر سکتے، پھر کیا یہ بہت بڑی نا انصافی اور نا شکری نہیں ہے کہ انسان ان ممکن الحصول، فراوان، روحانی ، اور عقلی نعمتوں سے غافل اور ہٹ کر رہتا ہے؟

۲۔ قرآنِ حکیم کا اوّلین درسِ عالی ہمتی یہ ہے: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ  صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ (۰۱: ۰۵ تا ۰۶) چلا ہم کو سیدھا راستہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ہے۔ یہ دعا نہایت ہی عالیشان ہے، اس کی جامعیّت و حکمت میں تمام نعمتیں طلب کی گئی ہیں، کیونکہ اس میں اللہ کی نورانی ہدایت کے لئے درخواست ہے، تاکہ اہلِ ایمان جو خدا کے دوست ہیں، وہ انبیاء علیہم السّلام کے نقشِ قدم پر چشمِ بصیرت سے دیکھتے ہوئے چلیں، اور منازلِ روحانیّت کی تمام نعمتوں کا عارفانہ مشاہدہ کرتے ہوئے جائیں، تاآنکہ فنا فی اللہ کا مرتبہ حاصل ہو، اس لئے کہ ہدایت کے معنی مراحلِ قیامت سے بھی آگے گزر کر بہشتِ برین تک پہنچ جاتے ہیں۔

۳۔ نورانی ہدایت کے لئے ایک خاص شرط مجاہدہ (ریاضت، نفس کُشی) ہے، سورۂ عنکبوت کے آخر (۲۹: ۶۹) میں دیکھئے: جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً

 

۱۷۵

 

اللہ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔ پروردگارِ جہان کی یہ روحانی اور نورانی ہدایت و رہنمائی نورِ منزل (۰۵: ۱۵) یعنی حضرت محمد مصطفی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے توسط سے ممکن ہے، اور اسرارِ خداوندی کے راستے ملکوت، جبروت، اور لاہوت میں ہیں، نیز روشن ہدایت کے معنی ازل و ابد تک بلیغ و رسا ہیں، کیونکہ نورِ ہدایت زمان و مکان کے حدود و قیود سے بالاتر اور باہر ہے۔

۴۔ عالمِ صغیر کا دوسرا نام عالمِ شخصی ہے، چنانچہ آپ بحدِّ قوّت ایک عالم ہیں، پس اگر آپ نے اسلام کی حقیقی روح قبول کر لی (۰۸: ۲۴) اپنی ذات کی دنیا کو مرگِ جہالت سے بچا لیا، اور اسے بتائیدِ الٰہی زندہ کر کے حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں لایا، تو اس انتہائی عظیم عمل کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے دنیا بھر کے لوگوں کو ایک بہت بڑی ایٹمی ہلاکت سے بچا لیا ہو، یہ واقعہ کیوں اتنا اہم اور بڑا ہے؟ کیونکہ عالمِ شخصی میں سارے جہان کے لوگ رہتے ہیں، چنانچہ ہابیل ایک عالمِ شخصی تھا، جس کو قابیل نے قتل کرکے اس کے اندرونی جہان اور تمام اہلِ جہان کو ہلاک کر ڈالا۔

۵۔ ہابیل اور قابیل کا قصّۂ قرآن (۰۵: ۲۷ تا ۳۱) ضرور پڑھ لیں، اور پھر ملاحظہ ہو: اسی (قتل کی) وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے، یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے، اس نے

 

۱۷۶

 

گویا تمام لوگوں کو قتل کیا، اور جس نے ایک جان کو زندہ کر دیا، پس وہ ایسا ہے جیسا کہ اس نے سب لوگوں کو زندہ کر دیا (۰۵: ۳۲) پس یہ عالمِ شخصی کی اہمیت و فضیلت سے متعلق ایک قرآنی ثبوت ہے جس میں بصورتِ ذرّاتِ روحانی دنیا بھر کے لوگ رہتے ہیں، یہ سب دراصل آپ کی روح کے اجزاء ہیں۔

۶۔ آپ خیال اور خواب میں جس طرح جانے اور انجانے لوگوں کو دیکھتے ہیں، وہ آپ کے عالمِ شخصی میں ہمیشہ کے لئے موجود ہیں، کیونکہ ہر لطیف عالم آپ کی ذات میں سمایا ہوا ہے، اور کوئی شی اس یکجائی کے بغیر نہیں، یہ خدا کی زمین، اور اس کی خلافت ہے (۳۹: ۱۰، ۲۴: ۵۵) نیز یہ ملک و ملکوت ہے (۰۳: ۲۶، ۰۷: ۱۸۵) اور یاد رہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے سماوی اور ارضی ملکوت کا مشاہدہ اپنی ذات یعنی عالمِ شخصی میں کیا تھا (۰۶: ۷۵)۔

۷۔ اگر مومن کو نورِ ایمان کے سبب سے کسی خاص صلاحیت کا مالک نہ بنایا جاتا، اور اس میں قدرتِ الٰہی کا کوئی کرشمہ نہ ہوتا، تو یہ نہ فرمایا جاتا کہ: اے ایمان والو تم اللہ کے انصار (مددگار) ہو جاؤ (۶۱: ۱۴) یقیناً یہ نصرتِ دین کی بات ہے، تاہم اس حکم کے معنی محدود نہیں ہو سکتے، کیونکہ مومن کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں، اسے راہِ مستقیم پر چل کر آگے جانا ہے، یہاں تک کہ فنا فی اللہ کا مرتبہ حاصل ہو جائے، جیسا کہ ارشاد ہے: اے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا (۴۷: ۰۷) اس سماوی تعلیم میں

 

۱۷۷

 

اہلِ ایمان کی انقلابی ترقی اور منزلِ مقصود تک رسائی کا ذکر ہے۔

۸۔ جس طرح خدا کے خاص بندے نورِ ہدایت کی دستگیری سے مقاماتِ فنا فی اللہ و بقا باللہ تک پہنچ سکتے ہیں، اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ قولِ خدا میں ان کا قول اور فعلِ خدا میں ان کا فعل ہو جائے، اور اس حقیقت کے باب میں کئی دلائل ہیں، مثال کے طور پر: الف: خدا کے رنگ میں رنگین ہو جانا (۰۲: ۱۳۸) کہ یہ آگ اور لوہے کی طرح ہے، جب لوہا آگ کا رنگ لیتا ہے تو ظاہراً و باطناً سرخ انگارا ہو جاتا ہے، اور اس کا اپنا رنگ کھو جاتا ہے۔ ب: بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَاؕ (۲۷: ۰۸) جو آگ میں ہے اور جو اس کے گرد ہے برکت دیا گیا ہے۔ ج: پاکیزہ قول اسی کی طرف چڑھتا ہے اور نیک کام اسے بلند کرتا ہے (۳۵: ۱۰) تا آنکہ بندۂ مومنِ مخلص کا قول و فعل اللہ کے قول و فعل میں جا کر فنا ہو جاتا ہے۔

۹۔ حضرت مریم علیہا السّلام صدیقہ (ولیّہ) تھیں (۰۵: ۷۵) ان کی برگزیدگی، روحانی مرتبت، آسمانی تائیدات، اور فرشتوں کے توسط سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی نورانی ہدایات کا تابناک تذکرہ سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۴۲ تا ۴۷) اور سورۂ مریم (۱۹: ۱۶ تا ۲۶) میں موجود ہے، پس اس روشن حقیقت سے صدیقین یعنی اولیاء (۰۴: ۶۹) کے روحانی احوال پر روشنی پڑتی ہے، کہ وہ وحی کے بھیدوں سے آگاہ اور مقاماتِ معرفت سے باخبر ہوتے ہیں، اور اس تصوّر کو حضرتِ یوسف علیہ السّلام کے لقبِ

 

۱۷۸

 

“صدیق” (۱۲: ۴۶) سے مزید تقویّت ملتی ہیں، کہ صدیق نہ صرف ظاہری باتوں میں سچا ہوتا ہے، بلکہ وہ خدائے علیم و حکیم کی تائید سے باطنی حقیقتوں کو بھی سچ سچ بیان کرتا ہے، اسی طرح وہ انبیاء علیہم السّلام کی عارفانہ تصدیق کرتا ہے۔

۱۰۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللّٰہ (جامع ترمذی، جلدِ دوم، تفسیر سورۂ حجر)مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ ایسے مومنین کون ہو سکتے ہیں، جو خدا کے نور سے دیکھتے ہوں؟ اولیاء، اور ان کے بعد صفِ اوّل کے اہلِ ایمان کے لئے بھی یہ امر ممکن ہے، مگر یہاں یہ نکتہ ضرور یاد رہے کہ اس نورانی نظر کا خاص اور عالی مقصد یہ ہے کہ حقائق و معارفِ ملکوت کا مشاہدہ کیا جائے (۰۷: ۱۸۵) اس لازوال روحانی دولت سے مالامال ہو جانے کے لئے حقیقی مرشد میں فنا ہو جانا انتہائی ضروری کام ہے، تاکہ فنا فی الرّسول اور فنا فی اللہ کی سب سے بڑی سعادت حاصل ہو، الغرض نہ صرف اسی موضوع میں بلکہ پوری کتاب میں قرآنِ حکیم کی روحانی غذاؤں اور دواؤں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے، اللہ تعالیٰ اسے سب کے لئے نافع بنائے! آمین!!

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۸ ذیقعدہ ۱۴۰۸ھ / ۲۳ جون ۱۹۸۸ء

 

۱۷۹

 

ایک ہی ممثول کی تین مثالیں:

 

سفرِ روحانی اور منزلِ مقصود آپ کی اپنی ذات میں پوشیدہ ہے، اللہ کا کتنا بڑا کرم اور احسان ہے کہ اس نے آپ کو ایک زندہ کائنات بنایا ہے۔

 

۱۸۰

 

بہشت کے دو دو میوے

۱۔ حق سبحانہ و تعالیٰ احد و صمد اور ہر قسم کی دوئی و کثرت سے پاک و برتر ہے، اسی خدائے واحد و یکتا نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے تمام مخلوقات و موجودات کے جوڑے بنائے، اور کوئی چیز اس کلیۂ پر حکمت سے مستثناء نہیں ہو سکتی، جیسا کہ سورۂ یاسین (۳۶: ۳۶) کا یہ مبارک ارشاد ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ وَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ مِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ۔ پاک ہے وہ ذات جس نے زمین سے اگنے والی چیزوں اور خود ان لوگوں کے اور ان چیزوں کے جن کی انہیں خبر نہیں سب کے جوڑے پیدا کئے (۳۶: ۳۶) یہ ایک ایسا قانون ہے، کہ قانونِ وحدت کے بعد اس کی بہت بڑی اہمیت ہے، جس طرح عددِ واحد (۱) کے بعد دو (۲) کا ہونا بے حد ضروری ہے، تاکہ تمام اعداد وجود میں آسکیں۔

۲۔ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ کے آخر میں بزبانِ حکمت یہ ذکر فرمایا گیا

 

۱۸۱

 

ہے کہ عقلی، علمی اور روحانی چیزوں کے بھی جوڑے ہیں، جیسے سورۂ رحمان کا ارشادِ مقدّس ہے: فِیْهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجٰنِ (۵۵: ۵۲) ان دونوں باغوں میں ہر میوے کی دو دو قسمیں ہیں۔ یعنی عقلی اور روحانی، نیز ظاہری اور باطنی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے ساری کائنات کی اشیاء کو مسخر کر دیا ہے، اور اس مہربان نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دیں ہیں (۳۱: ۲۰)۔

۳۔ آدم و آدمی تین منزلہ عمارت کی طرح ہے یعنی اس کا جسم مکان کا حصۂ زیرین ہے، روح دوسری منزل ہے اور عقل تیسری منزل، جیسے سفینۂ نوح (علیہ السّلام) کے تین طبقات تھے: تحتانی، وسطی، اور فوقانی، جو انسانی وجود کی مثال ہے، کیونکہ روحانی کشتی تو عالمِ شخصی میں ہے، چنانچہ مذکورہ سہ منزلہ بلڈنگ کی زمینی منزل میں جسمانی نعمتیں مہیا ہو جاتی ہیں، درمیانی منزل میں روحانی نعمتوں کے لئے اہتمام ہے، اور بالائی منزل میں عقلی نعمتوں کا بندوبست کیا گیا ہے، تاکہ جو لوگ اللہ کی خاطر مجاہدہ کرتے ہیں، وہ نہ صرف خود شناسی کی دولتِ پائندہ سے مالامال ہو جائیں، بلکہ ان عالی شان روحانی اور عقلانی نعمتوں کے توسط سے بہشتِ جاودانی کو بھی پہچان لیں (۴۷: ۰۶) جبکہ نورِ معرفت میں معارف کی وحدت پائی جاتی ہے۔

۴۔ یہ کتاب اپنی نوعیت کے علاج معالجہ سے متعلق ہے، لہٰذا اس میں ایسی مثالوں کی ضرورت ہے، جن میں بجا طور پر علمی غذاؤں

 

۱۸۲

 

اور عرفانی دواؤں کی تعریف و توصیف ہو، اور اگر یہ بات قرآنِ حکیم کی روشنی میں ہو سکتی ہے، تو پھر یہ بہت بڑی سعادت ہوگی، جس کے لئے تمام مومنین کی نیک دعائیں مطلوب ہیں۔

۵۔ جو آدمی صرف اور صرف جسمانی نعمتوں سے حظ اٹھاتا ہو، درحالیکہ اس کو روحانی نعمتوں (عبادات و اذکار) اور عقلی نعمتوں (علوم) کی لذات کا احساس ہی نہ ہو، تو حق بات کو نہیں چھپانا چاہئے کہ ایسا شخص باطنی مریض ہے، پس وہ ذکر و بندگی اور فکر و علم سے اپنا علاج کرے۔

۶۔ آدمی بحقیقت ایک ایسے محل میں رہتا ہے، جس کے طبقِ اوّل کے دریچے ناسوت کے مناظر کی طرف کھلے ہیں، طبقِ دوم کے جھروکوں سے اسرارِ ملکوت کا مشاہدہ ہو سکتا ہے، اور طبقِ سوم کے غرفے اس شان سے بنائے گئے ہیں کہ ان سے جلوہ ہائے حسن و جمالِ جبروت کا نظارہ ممکن ہے، لیکن انسان بڑا غافل و کاہل رہتا ہے، لہٰذا وہ زبردست خسارے میں ہے (۱۰۳: ۰۱) کہ پہلی منزل میں محدود ہو کر دوسری اور تیسری کی سیڑھیاں چڑھنے کی تکلیف ہی گوارا نہیں کرتا، یا یہ کہ وہ بیمار ہے، اس لئے اپنے مکان کی بالائی منزلوں کو استعمال نہیں کر سکتا، الا ما شاء اللہ۔

۷۔ ہر ظاہری نعمت کے مقابلے میں، یا پس منظر میں ایک بہترین باطنی نعمت کس طرح پوشیدہ ہوتی ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے

 

۱۸۳

 

کہ سب آدمیوں کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ ایک عظیم المرتبت پیغمبر یعنی حضرت آدم علیہ السّلام کی اولاد ہیں، جو خلیفۂ خدا اور مسجودِ ملائک تھے، اور اس کی باطنی حقیقت یہ ہے کہ اللہ جلّ شانہ جس مقامِ روحانیّت پر ساری کائنات کی مکانی اور زمانی مسافتوں کو لپیٹتا ہے (۳۹: ۶۷، ۲۱: ۱۰۴) وہاں آدم اور اولادِ آدم کو بھی یکجا کر کے ان کے رشتۂ روحانی کی تجدید فرماتا ہے (۰۷: ۱۱) اسی حکمت کے پیشِ نظر قرآنِ حکیم نے آدمیوں کو آدم کے بیٹے کہا، اور آدم کے پوتے نہیں کہا، حالانکہ قرآنِ پاک میں پوتے (۔۔۔ حفدۃ ۱۶: ۷۲) کا لفظ بھی اپنی جگہ استعمال ہوا ہے۔

۸۔ سورۂ رعد (۱۳: ۰۳) سورۂ زخرف (۴۳: ۱۲) اور سورۂ طور (۵۱: ۴۹) میں خوب تفکر و تدبر کرکے دیکھ لیجئے، تاکہ آپ پر یہ حقیقت روشن ہو جائے کہ علمی بہشت کے میوے دو دو کے جوڑے ہوا کرتے ہیں، اور اس میں اصل راز اضداد کا ہے، یعنی ہر دو مخالف چیزیں (ضدین) جوڑی، یا زوجین کہلاتی ہیں، اور اس قانون کی بہت سی حکمتیں ہیں، مثال کے طور پر جہاں کشتئ ظاہر کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہاں کشتئ باطن کا بھی تذکرہ موجود ہے، کیونکہ ظاہر اور باطن ضدین اور جوڑا ہیں، پس قرآنِ مجید میں سفینۂ نوح ایک علمی میوہ ہے، مگر وہ طاق نہیں، بلکہ جفت ہے۔

۹۔ سورۂ نساء (۰۴: ۶۹) میں ان حضرات کا درجہ وار ذکر ہے، جن

 

۱۸۴

 

کو ربّ العزّت نے اپنی تمام نعمتوں سے نوازا ہے، وہ درجات طاق نہیں، جفت جفت ہیں، یعنی انبیاء و اولیاء (نبیّین و صدیقین) اپنی اپنی امت کے روحانی والدین ہیں، اس مثال میں ہر نبی کو باپ کا درجہ حاصل ہے، اور ہر ولئ کامل ماں کی مرتبت رکھتا ہے، کیونکہ مومنین کا روحانی جنم ولایت کے بطن (یعنی باطن، شکم) سے ہو جاتا ہے، اور دینی اسبابِ معیشت کا اہتمام نبوّت کی طرف سے ہوتا ہے، یعنی تنزیلی اور شرعی نعمتیں پدرِ روحانی کی جانب سے ہوتی ہیں۔
۱۰۔ روحانی بہشت اور قرآنی جنت کا ہر ہر میوہ بظاہر ایک اور بباطن دو کا جوڑا کس طرح ممکن ہے، اس کے دلائل میں سے ایک ایسی دلیل جو سب سے نزدیک ترین بھی ہے اور روشن ترین بھی، اور وہ خود انسان کا وجود ہے، جس پر خالقِ اکبر نے قلمِ قدرت و حکمت سے نہ صرف آیاتِ وحدت و سالمیّت کو رقم فرمایا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دوئی اور کثرت کے قوانین کو بھی درج فرمایا ہے، وہ ذیل کی طرح ہے:

۱۱۔ آدمی کا بدن ایک ہے، مگر اس کے دو حصّے ہیں، ایک ہی بصارت کے لئے دو آنکھیں کام کر رہی ہیں، سماعت صرف ایک ہے، لیکن کان دو ہیں، ناک کی مثال اس سے مختلف نہیں، منہ (دہن) بولنے میں ایک ہے، تاہم اس کے بھی دو حصّے ہیں، قوّتِ گیرائی ایک ہے، جو دونوں ہاتھوں کا فعل ہے، چلنا ایک ہے، مگر

 

۱۸۵

 

پیر دو ہیں، اور سانس مل کر ایک ہے، لیکن اس کا کام دونوں پھیپھڑے کر رہے ہیں، غرض انسان کے ظاہر و باطن میں کوئی عضو اور کوئی جزو ایسا نہیں، جس میں وحدت، دوئی اور کثرت کی علامت و اشارت نہ ہو، یقیناًیہ تین بڑے قوانین ہیں، اور کثرت سے میری مراد خلیات (Cells) ہیں، جو کھربوں کے حساب سے پورے جسم میں بھرے ہوئے ہیں۔

۱۲۔ ارشادِ نبوّی ہے: اِنَّ لِلْقرآنِ ظهرا و بطنا لِبَطْنِهِ بطنا الى سبعَة اَبْطُن ۔ قرآن کا ظاہر اور باطن ہے اور اس کے باطن کا باطن ہے، سات باطنوں تک۔ (مثنوی، دفترِ سوم۔ احیاء العلوم، جلدِ اوّل، بابِ دوم، دوسری فصل۔ احادیثِ مثنوی، فارسی، ص ۸۳)۔

۱۳۔ قرآن علمی اور عرفانی بہشت ہے، جس کے میوے سب کے سب دو دو یعنی جفت جفت ہیں، ایک ظاہر ہے اور دوسرا باطن، جس طرح اس موضوع میں بار بار قرآنی حوالہ جات کے ساتھ ذکر ہوا، اور جیسے قرآنِ کریم کا ایک ظاہر اور سات باطن ہیں، تو وہ میوے بھی جفت جفت ہیں، مثال کے طور پر نقشۂ ذیل کو دیکھئے:

نصیر الدین نصیر ہونزائی
۱۴ ذیقعدہ ۱۴۰۸ھ / ۲۹ جون ۱۹۸۸ء

۱۸۶

 

 

حکمتِ گریہ و زاری

۱۔ حدیثِ شریف میں ہے: اَلاَ وَاِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ كُلُّهُ، وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ‏‏ اَلاَ وَهِيَ الْقَلْبُ  (بخاری اوّل، کتاب الایمان، ۳۹) خبردار ہو جاؤ کہ بدن میں ایک ٹکڑا گوشت کا ہے جب وہ سنور جاتا ہے، تو تمام بدن سنور جاتا ہے، اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے، تو تمام بدن خراب ہو جاتا ہے، سنو وہ ٹکڑا دل ہے۔ ارشادِ نبوّی کی اس مقدّس تعلیم و ہدایت کا مقصد یہ ہے کہ ہر مومن اپنے دل کو جملہ خرابیوں اور بیماریوں سے محفوظ و سلامت رکھنے کے لئے روز و شب سعئ بلیغ کرتا رہے، اور یہ سخت کوشش اسلامی اصولوں کے مطابق ہو سکتی ہے، جن میں گریہ و زاری کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔

۲۔ گریہ و زاری کمالِ انسانیّت اور وصفِ عبودیّت کی صد ہا خوبیوں کا مخفی اور انمول خزانہ کیوں نہ ہو، جبکہ خود قرآنِ حکیم بسلسلۂ اخلاق و اوصافِ انبیاء علیہم السّلام اس کی تعریف و توصیف اللہ

 

۱۸۷

 

تعالیٰ کی خوشنودی کی ضیا پاشیوں کے ساتھ بیان فرماتا ہے، آیۂ کریمہ ماقبل سے مربوط ہے، ایک مستند ترجمہ ملاحظہ ہو: یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدم کی اولاد میں سے، اور ان لوگوں کی نسل سے، جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور ابراہیم کی نسل سے اور یعقوب کی نسل سے، اور یہ ان لوگوں میں سے تھے، جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا، ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمان کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے (سجدہ) (۱۹: ۵۸) یہ ہے مقدّس آنسوؤں کا سب سے اعلیٰ مقام یعنی انبیاء و اولیاء کی پاک آنکھیں۔

۳۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۱۰۷ تا ۱۰۹) میں دیکھ لیجئے: اے نبی، ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم اسے (یعنی قرآن کو) مانو یا نہ مانو، جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے، انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں ا ور پکار اٹھتے ہیں ’’پاک ہے ہمارا رب، اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا‘‘، اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے (سجدہ) (۱۷: ۱۰۷ تا ۱۰۹) یہاں اشک فشانی علم کی چوٹی پر نظر آتی ہے۔

۴۔ کتابِ دعائم الاسلام، جلدِ اوّل، کتاب الجہاد، ذکر الرغائب فی الجہاد، میں یہ ارشادِ نبوّی درج ہے: ما من قطرۃ احب

 

۱۸۸

 

الی اللّٰہ من قطرۃ دم فی سبیل اللّٰہ، او قطرۃ دمع فی جوف اللیل من خشیۃ اللّٰہ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ: راہِ خدا میں خون کا جو قطرہ مجاہد کے جسم سے نکلتا ہے اس سے بڑھ کر خدا کے نزدیک اور کوئی قطرہ زیادہ محبوب و پسندیدہ نہیں ہے، یا پھر وہ آنسو کا قطرہ جو شبِ تاریک میں خوفِ الٰہی کے سبب ٹپکے۔

۵۔ گریہ و زاری کی کیفیت میں دینداری اور پاکدلی کے تمام تر اوصاف و کمالات کس طرح مرکوز ہو سکتے ہیں، اس کی مثال کے لئے نقشۂ ذیل ملاحظہ ہو:

۱۸۹

 

 

۶۔ تکبر اخلاقی اور روحانی اعتبار سے بڑا مہلک مرض ہے، جس کا سدِ باب اور حفظِ ما تقدم دل کی نرمی، عاجزی، اور گریہ و زاری ہی سے ہو سکتا ہے، نیز قساوتِ قلبی (دل کی سختی) بہت بری بیماری ہے، اگر اس کا علاج بروقت نہ کیا گیا، تو یہ کام آگے چل کر بڑا مشکل ہو جاتا ہے، القصہ گریہ و زاری میں بہت سی باطنی بیماریوں کے لئے شفاء ہے۔

۷۔ جب انسانی بچہ شکمِ مادر سے پیدا ہو جاتا ہے، تو قانونِ قدرت فوراً ہی اسے رونا سکھاتا ہے، جس میں عظیم حکمتیں پوشیدہ ہیں، اگرچہ ابتداءً گریۂ طفل کے اشارات و معانی محدود ہوتے ہیں، تاہم آگے چل کر ان اشارتوں اور معنوں کا دائرہ وسیع تر ہو جاتا ہے، جبکہ بچے کی ضرورتیں اور حاجتیں بڑھ جاتی ہیں، اس مثال سے آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ یقیناً بندۂ مومن کی گریہ و زاری کی معنوی وسعت کائنات کے برابر ہوگی، کیونکہ عالمِ شخصی کی معموری و آبادی اور ترقی کے لئے کل جہان کی فراخی و کشادگی چاہئے (۲۴: ۵۵، ۳۹: ۱۰)۔

۸۔ اب آئیے اس سلسلے میں یہ دیکھ لیں کہ جب ایک بچہ روتا ہے تو اس کے کیا کیا معنی ہوتے ہیں؟ ملاحظہ ہو: الف: مجھے بھوک لگ رہی ہے، دودھ پلاؤ۔ ب: مجھے گرمی لگ رہی ہے۔ ج: میں سردی محسوس کر رہا ہوں۔ د: پانی پلاؤ۔ ھ: سلا دو۔ و: میں بیمارہو رہا ہوں۔ ز: مجھے کھول دو، تاکہ ہاتھ پاؤں ہلاؤں۔ ح: روشنی چاہئے۔

 

۱۹۰

 

ط: مجھے جھولے میں سلا کر جھولا دو۔ ی: میری ماں کہاں ہے؟ اس کو بلاؤ۔ ک: میرے بستر ٹھیک نہیں۔ ل: میں ڈر رہا ہوں۔ م: مجھے غذا کھلاؤ۔ ن: میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

۹۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آفتابِ عالم تاب ہی ہے، جو سطحِ سمندر کے کثیف پانی کو لطیف بنا کر بخارات اور بادلوں کی شکل میں بلند کر لیتا ہے، پھر موسلادھار بارش برساتا ہے، چنانچہ یہ نورِ عشق ہی کا کرشمہ ہے کہ عاشقِ صادق کے بحرِ ہستی پر اپنی شعاعیں برسا برسا کر اس میں لطافت پیدا کرتا ہے، جوش و جذبے کی گھٹاؤں کو چلاتا ہے، اور رعد و برق کے ساتھ بارانِ رحمت برساتا ہے، جس کا ہر قطرہ گوہرِ یکدانہ سے کہیں زیادہ بے بہا اور انمول ہے، کیونکہ یہ قطرۂ خونِ شہید کی طرح خدا کے نزدیک محبوب و پسندیدہ ہے، اور اس محبوبیّت کی وجہِ خاص یہ ہے کہ ایسے آنسوؤں سے تقریباً سب بیماریوں کا علاج ہو سکتا ہے۔

۱۰۔ قرآنِ کریم کی جن آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے، ان میں اور خصوصاً ان کے بعد، روحانیت کے کچھ عظیم اسرار موجود و مقصود ہوتے ہیں، جیسے سورۂ شمس (۹۱: ۰۱ تا ۱۰) کے ارشادات ہیں: ۔۔۔ فالھمھا فجورھا و تقوٰھا۔ قد افلح من زکھا ۔ و قد خاب من دسھا (۹۱: ۰۸ تا ۱۰) پھر اُس (نفس) کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی، یقیناً فلاح پا گیا وہ جس

 

۱۹۱

 

نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔

۱۱۔ اس مقام پر سوچنے اور سمجھنے کے لئے ایک نہایت اہم سوال سامنے ہے، وہ یہ کہ خدائے دانا و بینا کس طرح ہر شخص کی بدی اور اس کی پرہیزگاری کو الہام کی شکل دیتا ہے؟ آیا اس سے انسانی اختیار متاثر نہیں ہوتا؟ اس کا مفصل جواب اس حدیثِ شریف میں موجود ہے:
مشکوٰۃ، جلدِ اوّل، باب وسوسہ، میں ارشاد ہے: ما منکم من احد الا وقدو کل بہ قرینہ من الجن و قرینہ من الملٰئکۃ۔ قالوا و ایاک یا رسول اللّٰہ قال و ایای و لٰکن اللّٰہ اعاننی علیہ فاسلم فلا یامرنی الا بخیر ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جس کا ایک ہمنشین (یا ساتھی) جنّ اور ایک ملائکہ میں سے مقرر نہ کیا گیا ہو، صحابہ نے یہ سن کر پوچھا: اور یا رسول اللہ آپؐ کے لئے؟ فرمایا: ہاں، میرے لئے بھی، لیکن اللہ نے اس پر مجھ کو (اپنی مدد سے) غلبہ بخشا ہے، پھر اس نے اسلام اختیار کیا، اور وہ مجھ کو (ہمیشہ) بھلائی کی ہدایت کرتا ہے۔

۱۲۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز انسان کے لئے مسخر کی گئی ہے (۴۵: ۱۳) اسی طرح مذکورہ دونوں مؤکل بھی مسخر ہیں، وہ یوں کہ آدمی خود اپنے اختیاری اقوال و اعمال کی وجہ سے آئینۂ دل کو یا

 

۱۹۲

 

تو مکدر کر دیتا ہے یا صاف و پاک، اور دونوں ساتھی ہر وقت دل کی کیفیت کو دیکھتے رہتے ہیں، پس اگر دل پر برائی کا غبار ہے، تو انفرادی شیطان اسی حالت کی بنا پر وسوسہ ڈالتا ہے، اور اگر مرآتِ قلب صاف و پاکیزہ ہے، تو فرشتہ امید و یقین اور علم و ہدایت کی باتیں کرنے لگتا ہے، اسی لئے بار بار گریہ و زاری کی شدید ضرورت ہوتی ہے، تاکہ یہ شیطان مایوس ہو جائے، اور تائید کے لئے فرشتہ کو موقع فراہم ہو۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۲۰ ذیقعدہ ۱۴۰۸ھ / ۵ جولائی ۱۹۸۸ء

۱۹۳

تجدّدِ امثال

۱۔ عنوانِ بالا کی اصل عربی ہے، مگر اصطلاح صوفیوں کی، اور اس کی حقیقت قرآنی، اسلامی، اور کائناتی ہے، جس کی شہادت (گواہی) آفاق سے بھی مل سکتی ہے، اور انفس سے بھی (۴۱: ۵۳)چنانچہ یہ موضوع علمی اور عرفانی لحاظ سے بے حد دلچسپ اور انتہائی مفید ہے، کیونکہ اس بحث کے سلسلے میں شعوری اور غیر شعوری قسم کے بہت سے سوالات خود از خود حل ہو کر ختم ہو سکتے ہیں۔

۲۔ تجدّد کے معنی ہیں: نیا ہونا، جدّت، نیا پن، اختراع، اور امثال جمع ہے مَثل کی اور مِثل کی، یعنی ہم صورت، ہم شکل، اور تجدّدِ امثال کا مطلب ہے: کسی موجود شیٔ کے وجود کا مسلسل نیا ہونا، درحالیکہ اس کی شکل وہی ہو، جو پہلے تھی، جیسے شعلۂ چراغ کی ہر آن جدّت ہوتی رہتی ہے، بغیر اس کے کہ اس کی شکل میں فرق آئے، یا جیسے کوئی آبشار ، جو ایک ہی شان سے گر رہا ہو، یا کوئی بہتی ہوئی نہر، اب ان چیزوں میں غور کرنے سے تجدّدِ امثال کی حقیقت سمجھ

 

۱۹۴

 

میں آسکتی ہے کہ حیات و بقا دراصل منجمد اور ٹھہری ہوئی چیز نہیں، بلکہ یہ چراغ کی طرح ایک حقیقت ہے، جس کی روشنی ہر لحظہ روان دوان ہے (ملاحظہ ہو میری ایک کتاب: روح کیا ہے؟)۔

۳۔ قاضی سجاد حسین بحوالۂ مولانا بحر العلوم (عبد العلی) لکھتے ہیں: “تجدّدِ امثال یہ ہے کہ کائنات کی صورتیں ہر آن تبدیل ہو رہی ہیں، ایک صورت زائل ہوتی ہے، اور دوسری صورت اس کی جگہ لے لیتی ہے اور ذات اسی طرح باقی رہتی ہے، چونکہ مٹنے والی صورت آنے والی صورت جیسی ہے، اس وجہ سے اس تبدیلی کا احساس نہیں ہوتا ہے، اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلی صورت علیٰ حالھا باقی ہے۔”  جیسے مولای روم کی مثنوی میں ہے: پس ترا ہر لحظہ مرگ و رجعتے ست + مصطفی فرمودہ دنیا ساعتے ست۔ پس تیرے لئے ہر لحظہ ایک موت اور ایک رجوع ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: دنیا ایک ساعت کی ہے (دیکھئے: مثنوی، دفترِ اوّل، ہم در بیانِ مکرِ خرگوش)۔

۴۔ سیّارۂ زمین اور اس کے باشندے جس نظامِ شمسی کی کائنات میں رہتے ہیں، اس کی آیاتِ قدرت میں سب سے عظیم آیت خود سورج ہی ہے، کہ اگر قرآنِ حکیم کی تفسیر عالمِ اکبر سے کی جائے تو آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کی مثال آفتاب سے، آیۂ سراجِ منیر (۳۳: ۴۶) کی تمثیل ماہتاب سے، اور دیگر آیاتِ نور کی تشبیہہ ستاروں سے دینی

 

۱۹۵

 

ہوگی، پھر ہمیں سکونِ قلبی کے عالم میں خوب غور کرنا چاہئے کہ نہ صرف ان مثالوں میں ، بلکہ خود لفظِ مصباح (چراغ)، نورٌعلیٰ نور، اور سراج میں بھی تجدّدِ امثال کی حقیقت کا تذکرہ موجود ہے یا نہیں؟

۵۔ سورج کوئی ٹھوس مادّہ نہیں، بلکہ ایک انتہائی زبردست طوفانی گیس ہے، اور قرآنِ مجید نے اسے چراغ (سراجاً، ۷۱: ۱۶، ۷۸: ۱۳) کا نام دے کر اشارہ فرمایا کہ اس میں ہمیشہ تجدّدِ امثال کا عمل جاری ہے، پھر اس کی وہ روشنی جو چاند اور ستاروں پر نظر آتی ہے، قانونِ اصل کے مطابق مسلسل نئی نئی ہوتی رہتی ہے، اسی طرح دھوپ، برقی روشنی، اور شعلۂ چراغ میں جدّت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، تمام مادّی روشنیوں کی اس دائمی حرکت اور تجدّد کے پس منظر میں شاید کوئی بہت بڑا راز پوشیدہ ہے، اور ہاں، یقیناً یہ ساری مثالیں نورِ عقل اور کلمۂ کُنّکُنۡ (ہو جا) کی خاطر ہیں۔

۶۔ چونکہ آدمی اپنی ہستی میں بے شمار روحانی اور عرفانی بھیدوں کا ایک انمول خزانہ پوشیدہ رکھتا ہے، لہٰذا اسے “کتابِ نفس” کہا جاتا ہے، سو آئیے ہم دیکھ لیں کہ اس عملی کتاب میں تجدّدِ امثال کے کیسے نمونے درج کئے گئے ہیں، سب سے پہلے نظامِ تنفس کو دیکھ لیجئے، پھر دل کی دھڑکن، نبض، اور دورانِ خون پر غور کیجئے، کوئی شک نہیں کہ زندگی کی ان علامتوں اور حرکتوں میں سے ہر ایک تجدّدِ امثال

 

۱۹۶

 

کا ایک طویل سلسلہ ہے۔

۷۔ قرآنِ مجید اور دینِ اسلام میں چلّہ (چالیس دن کا عرصہ) بڑی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی کافی مدت ہے، جس میں اگر انسان چاہے تو نہ صرف امراضِ باطن ہی سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے، بلکہ ان شاء اللہ روحانیّت میں اس کی بہت کچھ ترقی بھی ہو سکتی ہے، جبکہ اربعین (چلّہ، چالیس دن) میں آدمی کا پرانا وجود کلّی طور پر فرسودہ اور ریختہ ہو کر اس کی جگہ ایک جدید ہستی بنتی ہے، اگرچہ عموماً اس واقعے کا پتہ نہیں چلتا، اس لئے کہ یہ عمل کسی احساس کے بغیر بتدریج ہوتا رہتا ہے، اور اسی طرح ہر شخص ایک سال یعنی ۳۶۰ دن میں نو مرتبہ کلّی طور پر تجدّدِ امثال سے گزر جاتا ہے، جس میں ذرّاتِ ہستی کی ایسی مخلوط فنا و بقا کا احساس ممکن نہیں، جو سلسلہ وار بھی ہے، اور پیچیدہ بھی۔

۸۔ آپ یہ رازِ سربستہ بڑے شوق و مسؤلیّت کے ساتھ نوٹ کر لیجئے کہ سفرِ روحانیّت اور منازلِ معرفت کے سلسلے میں جب مرحلۂ عزرائیلی آتا ہے، تو ہر پیغمبر اور ہر ولی (صدیق، ۰۴: ۶۹) کا خصوصی تجدّدِ امثال ہونے لگتا ہے، جس میں اس پاکیزہ روح سے، جو ان حضرات سے پیاپے نکلتی رہتی ہے، بہ امرِ خدا بے شمار اجسامِ لطیف اور فرشتے بنائے جاتے ہیں، اور یہ قرآنی حکمت کی زبان میں سرابیل (کرتے، ۱۶: ۸۱) کہلاتے ہیں۔

۱۹۷

۹۔ جنت ویسے تو مکانی طور پر کائنات کے طول و عرض کے برابر ہے (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) مگر لامکانی طور پر روحانیّت میں یا قیامت میں نزدیک لائی جاتی ہے (۵۰: ۳۱، ۸۱: ۱۳) یعنی بحالتِ روح ہر شخص میں کائناتی بہشت سما سکتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انبیاء و اولیاء ہی کی طرح جنت کا بھی تجدّدِ امثال ہوتا رہتا ہے، کیونکہ تمام اعلیٰ چیزیں امرِ کُنۡ (ہو جا) کے انتہائی قریب ہیں، لہٰذا ان میں ہمیشہ ابداعی ظہورات ہوتے رہتے ہیں۔

۱۰۔ آدمی لطیف بھی ہے، اور کثیف بھی، وہ جہاں جہاں لطیف ہے، وہاں اس کے تجدّدِ امثال کے لئے کچھ زیادہ وقت نہیں لگتا، مگر وہ جس معنیٰ میں کثیف ہے، اس کی جدّت و تبدیلی کے واسطے وقت چاہئے، اور اسی مقصد کے پیشِ نظر چلہ یعنی چالیس دن کی مدت مقرر ہے، جیسے حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام پروردگارِ عالم کے حکم سے چہل روزہ عبادت کے لئے طورِ سینا پر گئے تھے، تاکہ آپ کی مبارک ذات میں بدرجۂ انتہا روحانی انقلاب آجائے (۰۲: ۵۱، ۰۷: ۱۴۲)۔

۱۱۔ آپ اگر چاہیں تو چلہ ( چالیس روز کا عمل) کر سکتے ہیں، لیکن کیسے؟ اور کس نیت سے؟ کیا آپ اس ریاضت کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو بسم اللہ کیجئے، اور وہ اس طرح کہ کسی بھی فردِ بشر کو آپ کے اس

 

۱۹۸

 

عمل کی خبر ہی نہ ہو، ورنہ صرف ناکامی ہی نہیں، بلکہ الٹا نقصان بھی ہوگا، اور یہ بھی یاد رہے کہ ہر قسم کی کامیاب نماز، عبادت، ذکر، اور اعتکاف کے لئے سب سے پاک و اعلیٰ اور سب سے بابرکت و بہترین مقام خدا کا گھر ہی ہے، جس میں بے شمار فیوض و برکات مہیا ہیں، پس کوئی دانشمند مومن خانۂ خدا کو چھوڑ کر بندگی کے لئے کوئی اور جگہ کیسے منتخب کر سکتا ہے، چنانچہ دینی عقل اس امر کی مقتضی ہے کہ مومن اہلِ ایمان کے درمیان رہتے ہوئے گمنام چلّہ کشی کر لیا کرے، اس طریق پر کہ وہ اپنے کام کاج کو حسبِ معمول انجام دیتے ہوئے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کے پُرنور ذکر کو بڑی کثرت اور بے حد عاجزی سے جاری و ساری رکھے، پھر چالیس دن کے بعد اپنے ظاہر و باطن کو دیکھے، ان شاء اللہ العزیز، اس عمل سے ترقی ہوگی، اور یہ کام بار بار یا ہمیشہ بھی ہو سکتا ہے۔

۱۲۔ عربی زبان السنۂ عالم کی بادشاہ ہے، اور پھر اس سے بڑھ کر قرآنِ حکیم کے معجزاتی بیان کی خوبیاں تو اس قدر زیادہ ہیں کہ جنّ و بشر باہم مل کر بھی ان کا احاطہ نہیں کر سکتے، ایسی عظیم الشّان، بے مثال، اور نرالی آسمانی کتاب کی ایک مختصر اور پُرحکمت آیۂ کریمہ پر کچھ دیر کے لئے غور کیجئے، وہ یہ ہے: و اذا السمآء کشطت (۸۱: ۱۱) اور جس وقت آسمان کی کھال اتاری جائے، یعنی جب کائنات کے حجابِ ظاہر کو ہٹا کر محجوبِ باطن کا مشاہدہ کرایا جائے، یہاں ایک متعلقہ علمی سوال

 

۱۹۹

 

ہے: آپ جب جب خواب میں آسمان، سورج، چاند اور ستاروں کو دیکھتے ہیں، تو کیا یہ ان چیزوں کا روحانی پہلو ہے؟ یا مادّی پہلو؟ اس کے لئے آپ کا جوابِ باصواب یہ ہونا چاہئے کہ خواب روحانیّت کا نمونہ ہے، لہٰذا خواب میں جس آسمان کو دیکھا جاتا ہے، وہ باطنی اور روحانی ہے، نیز یہ خصوصی اور ابداعی تجدّدِ امثال کا معجزہ ہے، جس طرح نکتہ نمبر ۸ اور نمبر ۹ میں اس کا ذکر ہو چکا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
اتوار ۲۵ ذیقعدہ ۱۴۰۸ھ / ۱۰ جولائی ۱۹۸۸ء

۲۰۰

 

 

قرآنی عجائب و غرائب کے نمونے
قسط : ۱

۱۔ صبغۃ اللہ (۰۲: ۱۳۸): یہ عجائب و غرائب کسی شک کے بغیر مشاہداتِ عین الیقین میں سے ہیں کہ ربّ العزّت ارواحِ مومنین اور عالمِ شخصی کی ہر ہر شے کو انوارِ مختلفہ میں رنگ دیتا ہے، جیسے نورِ اخضر، نورِ اصفر، نورِ احمر، اور نورِ ابیض، جو نور الانوار کہلاتا ہے، یہ رنگین روشنیاں عرش سے نازل ہوئی ہیں (کتاب الزینۃ۔ باب العرش) چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ کا ترجمہ ہے: رنگ تو خدا ہی کا رنگ ہے جس میں تم رنگے گئے اور خدائی رنگ سے بہتر کون سا رنگ ہو گا اور ہم تو اسی کی عبادت کرتے ہیں (۰۲: ۱۳۸)۔

۲۔ نورِ ایمان: خالقِ اکبر نے اپنی قدرتِ کاملہ سے نورِ ایمان کو نہایت ہی باکمال اور بمرتبۂ انتہا محبوب و مزیّن بنا دیا ہے، جس کے حسن و جمالِ عرفانی کے فرحت بخش جلوے دیدۂ دل کے سامنے مذکورۂ بالا الوانِ غیر مصبوغ میں ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: لیکن خدا نے تمہیں ایمان نہایت محبوب بنا دیا

 

۲۰۱

 

ہے اور اسے انوار سے آراستہ کر کے تمہارے دلوں میں باعثِ زینت کر دیا ہے (۴۹: ۰۷)۔

۳۔ عملِ عزرائیلی: سورۂ سجدہ (۳۲: ۱۱) میں حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام کا تذکرہ اس طرح فرمایا گیا ہے: آپ فرما دیجئے کہ تمہاری جان موت کا فرشتہ قبض کرتا ہے جو تم پر متعیّن ہے ( وکل بکم ) یعنی تم پر ہر وقت مؤکل ہے، چنانچہ عزرائیل کے اس عمل میں ہر قسم کی موت داخل اور شامل ہے، تاہم منجملۂ اموات صوفیانہ موت قابلِ ذکر ہے، کیونکہ وہ جسمانی مرگ سے پہلے ہی واقع ہو جاتی ہے، جس میں ایک ساتھ روحانیّت اور معرفت کے بہت سے بڑے بڑے معجزات رونما ہو جاتے ہیں، اس وقت ملک الموت کا ظہور ایک اسمِ بزرگ میں ہوتا ہے، جو اسماءُ الحسنیٰ میں سے ہے، یہ بڑا نام سر میں رہ کر اپنے آپ کو دہراتا رہتا ہے، اور اس کا ذرّاتی لشکر سراسر بدن کے خلیات میں ڈوب کر جان نکالنے میں مصروف رہتا ہے۔

۴۔ چار مرغِ خلیل (۰۲: ۲۶۰): حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے چار پرندوں میں عالمِ شخصی کی قوّتِ جبرائیلی، قوّتِ میکائیلی، قوّتِ اسرافیلی، اور قوّتِ عزرائیلی کی مثالیں ہیں، پس جس وقت خداوندِ قدوس کی تائید سے نفس کے چار پرند ذبح کئے جاتے ہیں، تو اس کے نتیجے میں یہ چاروں قوّتیں بیدار اور زندہ ہو جاتی ہیں۔

۲۰۲

۵۔ معرفتِ انبیاء و اولیاء (۰۷: ۱۱): من عرف نفسہ فقد عرف ربہ (جس نے اپنی روح کو پہچان لیا، بے شک اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا) لیکن سوال ہے کہ اپنی کون سی روح؟ یا کون سی ذات؟ روحِ کامل اور نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) کیونکہ اس کے بغیر خلق و بعث کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی، اور نفسِ واحدہ وہ وسیلۂ عرفان ہے، جس میں تمام ممکنہ معرفتیں حاصل ہو جاتی ہیں، جیسے حضرت آدم علیہ السّلام کی شناخت کے بارے میں ارشاد ہے (مفہومِ آیۂ کریمہ): اور ہم نے تمہاری جسمانی تخلیق کی پھر تمہاری روحانی صورت مکمل کر دی، پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا، بجز ابلیس کے (اور یہ سب کچھ تمہاری چشمِ بصیرت کے سامنے ہوا، ۰۷: ۱۱) پس اسی طرح انبیاء و اولیاء کی معرفت بمظاہرۂ نفسِ واحدہ مکمل ہو جاتی ہے۔

۶۔ سرابیل (۱۶: ۸۱): پروردگارِ عالم کی ایسی نعمتہائے عظمیٰ کا ذکرِ جمیل بار بار کیوں نہ ہو، کہ اس قادرِ مطلق نے اہلِ ایمان کے لئے دو قسم کے زندہ کُرتے یعنی اجسامِ لطیف بنا دیئے ہیں، ایک بہشت کے واسطے ہے، اور دوسرا دنیا میں اسلام پھیلانے کے لئے، اور جو کُرتۂ لطیف بہشت سے متعلق ہے، اس میں مومن کی انائے عُلوی یا روح کا بالائی سرا اس وقت بھی جنت میں ہے، جس کے بارے میں حدیثِ نبوّی کا ارشاد ہے: انما نسمۃ المومن طائر یعلق فی

 

۲۰۳

 

شجرۃ الجنۃ (مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت میں اڑتی پھرتی ہے) اگر طائرِ روح کا تعلق شجرۂ بہشت سے ہے تو یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ وہ درخت عقل و جان کے بغیر نہیں، یعنی وہ ایک کامل انسان بھی ہے، اور ایک عظیم فرشتہ بھی۔

۷۔ کیف مد الظل (۲۵: ۴۵): انسانوں کی اجتماعی روح، جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے، انسانِ کامل اور شخصِ مکمل کا وہ سایہ ہے، جو آفتابِ نورِ حق کے طلوع ہو جانے کی وجہ سے نمودار ہو جاتا ہے، چنانچہ خدائے بزرگ و برتر کے حکم سے یہ سایہ دور دور تک پھیل بھی جاتا ہے، اور مرکوز بھی ہو جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر آدمی نفسِ واحدہ سے نہ صرف دور ہو سکتا ہے، بلکہ نزدیک اور وابستہ بھی ہو سکتا ہے، سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵ تا ۴۶) کو غور سے پڑھ لیں۔

۸۔ عفریت من الجن (۲۷: ۳۹): سوال: آیا جنّوں میں سے وہ عفریت مسلمان تھا، جس نے حضرت سلیمان علیہ السّلام کے حکم پر ملکۂ سبا کے تخت کو لانے کے لئے اپنی خدمات پیش کی تھیں؟ جواب: جی ہاں، جب وہ سرداروں میں سے تھا (۲۷: ۳۸) تو اس کی سرداری دینی اور ایمانی مرتبت کی وجہ سے تھی، ورنہ پیغمبر کے لشکر میں یا دربار میں غیر مسلم یا ایمان کا کمزور سردار کیونکر ہو سکتا ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ عفریت (قوی ہیکل) اور وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم تھا (۲۷: ۴۰) دونوں معجزاتی کرتے تھے، جن کا ذکر سورۂ نحل

 

۲۰۴

 

(۱۶: ۸۱) میں موجود ہے، اور یہاں جنّ کی طرف توجہ دلائی گئی۔

۹۔ کلمۂ امر اور کوہِ عقل (۱۶: ۸۱): اور خدا ہی نے تمہارے آرام کے لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے اسی نے تمہارے (چھپ کے بیٹھنے کے) واسطے پہاڑوں میں گھروندے (غار وغیرہ) بنائے (۱۶: ۸۱) یعنی خدائے دانا و بینا نے تمہارے عالمِ شخصی میں ہر عظیم مخلوق کا نورانی عکس بنایا، اور سب سے پہلے کلمۂ کُنۡ اور کوہِ عقل کا نمونہ بنا دیا، جس سے زمانی و مکانی مسائل ختم ہو کر صرف ازل و ابد کی حیققتیں سامنے آجاتی ہیں، اور جہاں تجدّدِ امثال کا معجزہ کام کرتا رہتا ہے۔

۱۰۔ نٓ و القلم (۶۸: ۰۱): ارشادِ خداوندی: “نٓ و القلم و ما یسطرون” کے بارے میں حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے پوچھا گیا: فقال: نون نھر فی الجنۃ اشد بیاضا من الثلج و احلیٰ من الشہد۔ قال اللّٰہ لہ: اجمد افجمد۔ ثم قال للقلم: اکتب! فکتب القلم ما ھو کائن الیٰ یوم القیامۃ ثم قال للقلم: اصمت! فصمت ۔ تو آپؑ نے فرمایا: نون جنت میں ایک نہر ہے جو برف سے زیادہ سفید اور شہد سے بڑھ کر شیرین ہے، خدا نے اسے حکم دیا: منجمد ہو جا! تو وہ منجمد ہو گئی، پھر اللہ نے قلم کو فرمایا: لکھ دے! تو قلم نے (وہ سب کچھ ) لکھ دیا جو قیامت تک ہونے والا تھا، پھر قلم کو حکم ہوا: خاموش ہو جا، تو وہ خاموش ہو گیا

 

۲۰۵

 

(کتاب الزینۃ۔ باب القلم) قلم نے جو کچھ لکھا، اس میں علمِ الٰہی کے اسرار ہیں۔

۱۱۔ کتب قیمۃ (۹۸: ۰۳): فیھا کتب قیمۃ کے معنی یہ ہیں کہ قرآنِ پاک تمام کتبِ سماویہ کے مطالب پر حاوی ہے، کیونکہ قرآنِ پاک تمام کتبِ متقدمہ کا ثمرہ اور نچوڑ ہے (مفردات القرآن) پس کسی نیک بخت شخص کا قرآنِ مجید سے بصد شوق وابستہ ہو جانا اور عشق رکھنا جملہ آسمانی کتابوں کا عشق ہے، یہ قرآنی عشق شروع ہی سے قلب و جان میں ایک پُرلذّت اور خوشگوار درد رہا ہے، لیکن خدا کی قسم! اسے رہنے دیجئے، کیونکہ اس کی موجودگی میں دوسری بہت سی بیماریاں لاحق نہیں ہو سکتی ہیں۔

۱۲۔ شعآئر اللّٰہ (۲۲: ۳۲): ذالک و من یعظم شعآئر اللّٰہ فانھا من تقوی القلوب (۲۲: ۳۲) یہ (یاد رکھو) اور جس شخص نے خدا کی نشانیوں کی تعظیم کی تو کچھ شک نہیں کہ یہ بھی دلوں کی پرہیزگاری میں سے ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم کی تلاوت، سماعت، علم، حکمت اور عمل سے جو دولتِ پائندہ حاصل ہو جاتی ہے، اس کی مثال تو الگ ہے، مگر یہاں قرآنِ عزیز کی صرف اعتقادی تعظیم و حرمت اور تقدیس کی بات ہو رہی ہے کہ یہ بھی ایک آسان قلبی تقویٰ ہے، حالانکہ دوسری طرح سے دل کی پرہیزگاری بہت مشکل ہے، پس جو مومن قرآنِ حکیم کو کلامِ الٰہی اور رسول اللہ کا سب سے عظیم ترین معجزہ

 

۲۰۶

 

مانے، اور دل وجان سے اس کی تعظیم بجا لائے، تو اللہ تعالیٰ ایسے ہوشمند مومن کو بہت سی برائیوں اور بیماریوں سے محفوظ و سلامت رکھے گا، کیونکہ “دلوں کی پرہیزگاری” کہنے میں یہی اشارہ فرمایا گیا ہے، جبکہ دل کی پرہیزگاری طبِ روحانی میں سب سے بڑی چیز ہوا کرتی ہے، ان شاء اللہ العزیز۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
جمعہ ۷ ذی الحجہ ۱۴۰۸ھ / ۲۲ جولائی ۱۹۸۸ء

۲۰۷

 

 

قرآنی عجائب و غرائب کے نمونے
قسط: ۲

۱۔ غذاہائے لطیف: خداوندِ عالم کا پرحکمت ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ (۲۳: ۵۱) اے (میرے) پیغمبرو، پاک و پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھے اچھے کام کرو۔ اگر یہ حکم صرف ظاہری اور مادّی رزقِ حلال ہی کے بارے میں ہوتا تو اس صورت میں پیغمبروں کے ساتھ ساتھ ان حضرات کے مومنین کا بھی ذکر فرمایا جاتا، لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ اس میں رسولوں کی تخصیص ہے، پس ظاہر ہوا کہ اس آیۂ مقدّسہ میں غذا ہائے لطیف کا تذکرہ ہے، جو خوشبوؤں کی صورت میں حاصل ہو جاتی ہیں، چنانچہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ظاہری خوشبو بھی پسند تھی، اور سرورِ کائنات کی یہ پُرحکمت عادت روحانی خوشبوؤں کی مثال و علامت کے طور پر ہے۔

۲۔ پیراہنِ یوسفی: ترجمۂ آیۂ کریمہ: یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصّہ میں پوچھنے (یعنی مانگنے) والوں کے لئے

 

۲۰۸

 

یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں (۱۲: ۰۷) یہاں لفظِ سائلین پر کماحقہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کے معنی ہیں: مانگنے والے، پوچھنے والے، پس اگر کوئی مسلمان درویش یا فقیر اپنے پیغمبرِ برحق کے مقدّس در پر جا کر سورۂ یوسف کے بھیدوں کا صدقہ مانگتا ہے تو یقین ہے کہ اسے یہ خیرات اور بھیک علم وحکمت کی نشانیوں میں مل جائے گی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ان بندوں کو جو صحیح معنوں میں مانگنے والے ہیں، روحانی بھیک دلوانا چاہتا ہے، اس دلیل سے یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ پیراہنِ یوسفی کا تجربہ دنیا میں ہو یا نہ ہو، لیکن یہ ہر مومن کا جامۂ جنت ہے (۱۲: ۹۳ تا ۹۴) جس کو آپ جسمِ مثالی وغیرہ بھی کہہ سکتے ہیں، اور اس کے ساتھ خوشبوؤں سے بھرپور لطیف غذائیں بھی ہیں۔

۳۔ اڑن طشتریاں: اگرچہ فی الحال سائنسدان اڑن طشتریوں کی حقیقت و معرفت سے نا بلد ہیں، لیکن آگے چل کر ان پر یہ عظیم راز منکشف ہو جائے گا یہ انسانوں کے لئے وہ زندہ کُرتے ہیں، جن کا تذکرہ سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں فرمایا گیا ہے، ہر چند کہ یہ ہمیشہ سے موجود ہیں، لیکن اب کچھ مدت سے آسمان پر یہ مظاہرِ قدرت نظر آرہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کو مسخر کر لینے سے دنیا میں بہت بڑا انقلاب آئے گا، یہ تسخیر کسی وسیلے سے ہو سکتی ہے (۳۱: ۲۰، ۴۵: ۱۳)۔

۲۰۹

۴۔ بہشت میں پرندوں کا گوشت (۵۶: ۲۱): پرندوں کا گوشت اگرچہ اس دنیا میں ایک لذیذ اور مقوّی خوراک ہے، لیکن پھر بھی یہ غذائے لطیف تو نہیں، کہ اہلِ جنت اسے کھائیں ، کیونکہ بہشت میں کثیف غذائیں نہیں کھائی جاتیں، پس بتائیں کہ پرندوں کے گوشت کا اشارہ کس حقیقت کی طرف ہے؟ جواب: پرندوں سے فرشتے اور روحیں مراد ہیں، اور گوشت ہے ان کی ملاقات اور علم و حکمت، جس کی حلاوت و شیرینی اور قوّتِ روحانی و عقلانی بے مثال ہے (۵۶: ۲۱)۔

۵۔ صندوقِ سکینہ (۰۲: ۲۴۸): قرآنِ حکیم کے نو مختلف مقامات ایسے ہیں، جہاں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے، جو اپنی کج فہمی سے قصّہ ہائے قرآنِ پاک کو اساطیر الاوّلین (پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی کہانیاں) قرار دیتے تھے، یہ تو کفار کی انتہائی جہالت و نادانی تھی، حالانکہ سر تا سر قرآنِ کریم میں اور اس کے ہر قصے میں بے شمار نصیحتوں اور عبرتوں کے علاوہ انمول روحانی جواہر بھی موجود ہیں، مثال کے طور پر قصۂ صندوقِ سکینہ کو لیجئے: اگر مرشدِ کامل کا انتخاب خدا و رسول کے منشا کے مطابق ہو چکا ہے، تو افرادِ حلقہ میں سے بعض پر بابِ روحانیّت مفتوح ہو جائے گا اور یہی وہ صندوقِ سکینہ (تسکین والا صندوق) ہے، جس میں پروردگارِ عالم کی طرف سے تسکینِ معرفت اور انبیاء و اولیاء کے تمام روحانی اور

 

۲۱۰

 

عقلی تبرکات رکھے ہوئے ہیں (۰۲: ۲۴۸) آپ نے دیکھا کہ اس قصّے کا تعلق نہ صرف ماضی ہی سے ہے، بلکہ یہ حال و مستقبل سے بھی متعلق ہے۔

۶۔ خزائنِ الٰہی (۱۵: ۲۱): اور کوئی چیز نہیں مگر اس کے خزانے ہمارے پاس موجود ہیں اور ہم اس کو نہیں اتارتے ہیں مگر (لوگوں کی ) دانستہ مقدار کے مطابق (۱۵: ۲۱) اگر اس تعلیمِ سماوی میں ظاہری نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے: ایسی چیزیں اور نعمتیں کون سی ہیں، جو ہر وقت نازل ہو سکتی ہیں؟ آیا قرآنِ پاک زمین پر ہے؟ یا آسمان پر؟ کیا یہ خدا کے عظیم خزانوں میں سے نہیں، جن سے چیزیں نازل ہوتی رہتی ہیں؟ جواب: ان چیزوں اور نعمتوں کا نہ تو کوئی شمار ہے اور نہ کوئی اندازہ، جو خزائنِ الٰہی سے ہمیشہ نازل ہوتی رہتی ہیں، وہ نہ صرف ظاہری، مادّی اور دنیوی ہیں، بلکہ باطنی، روحانی اور دینی بھی ہیں، قرآنِ مجید مکانی اعتبار سے زمین پر ہے، مگر شرافت و عندیت کے لحاظ سے آسمان پر، اور کسی شک کے بغیر یہ پروردگارِ عالم کا ایک انتہائی عظیم خزانہ ہے، پس مذکورہ خزائن سے ہر وقت لوگوں پر بقدرِ علم و عمل گوناگون نعمتیں نازل ہوتی رہتی ہیں۔

۷۔ حقیقتِ حقائق کی گوناگون مثالیں: اس مادّی دنیا میں چیزیں دو طرح سے پیدا ہو جاتی ہیں، قسمِ اوّل کی مثال: جب بوئی ہوئی گٹھلی سے پودا پیدا ہو جاتا ہے، تو پھر گٹھلی ختم ہو چکی ہوتی

 

۲۱۱

 

ہے، اور جس وقت انڈے سے چوزہ نکلتا ہے، تو اس حال میں انڈے کا صرف چھلکا نظر آتا ہے، قسمِ دوم کی مثال: جب قلم سے کوئی کتاب لکھی جاتی ہے، تو قلم اپنی جگہ موجود رہتا ہے، اور جہاں کسی سانچے یا کارخانے میں اشیاء بنائی جاتی ہیں، وہاں نہ ہی سانچا (قالب) ختم ہو جاتا ہے، اور نہ کارخانہ، اب ہمیں ان روشن مثالوں کی روشنی میں یہ بحث کرنی ہے کہ آیا وہ لولوئے عقل اب ختم ہو چکا ہے، جس سے خالقِ اکبر نے کائناتِ ارض و سما کو پیدا کیا تھا؟ نہیں نہیں، ہرگز نہیں، کیونکہ گوہرِ عقل کی تشبیہہ و تمثیل نہ تخمِ درخت سے دی جاسکتی ہے، اور نہ ہی بیضۂ مرغ سے، مگر ہاں ، کوئی شک نہیں کہ قلم ہی لولوئے مکنون کی مثال ہو سکتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ نورِ عقل کو قلمِ الٰہی کہا گیا ، اور یہی حقیقتِ حقائق ہے، جس کی ذیلی مثالیں گوناگون ہیں۔

۸۔ کائنات کو لپیٹنا (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷): اگر آپ کو عالمِ امر سے متعلق فعلِ خدائی کے ایک عظیم راز کو جاننا ہے، تو قرآنِ کریم کے ان مبارک الفاظ میں غور کیجئے: و کان امر اللّٰہ مفعولا (۳۳: ۳۷) اور خدا کا ہر کام (ازل ہی میں عملی جامہ پہنا کر) کیا ہوا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ لولوئے مکنون میں کائنات اس وقت بھی لپٹی ہوئی ہے، مگر لوگوں کی اکثریت اس انتہائی عظیم معجزے کے تجدّدِ امثال کو صرف مر جانے کے بعد ہی دیکھ سکے گی، اور یہاں

 

۲۱۲

 

اسی مناسبت سے فعلِ خداوندی کا ذکر صیغۂ مستقبل میں ہے، یعنی فرمایا گیا: وہ دن جب کہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے، جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیئے جاتے ہیں (۲۱: ۱۰۴)۔

۹۔ معراج اور دیدارِ خداوندی: نظریۂ دیدارِ الٰہی جتنا بلند ہے، اتنا اہم بھی ہے، لہٰذا آئیے، ہم اس کے تذکرے سے اپنی عقل و جان کا مداوا کریں، وہ یہ ہے کہ مسئلۂ دیدار و ملاقات کے دو پہلو ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار ایک اعتبار سے خارج از امکان ہے ، اور دوسرے اعتبار سے ممکن ہے، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہلے عالمِ خلق میں اور پھر عالمِ امر یعنی معراج میں خدائے بزرگ و برتر کا دیدارِ پاک حاصل ہوا تھا، حضورِ انورؐ کو عالمِ آب و گل میں جو دیدار ہوا، اس کے حوالے یہ ہیں: ۔۔۔ الا وحیا (مگر اشارۂ ظہور سے، ۴۲: ۵۱) ۔۔۔ بالافق المبین (۸۱: ۲۳) ۔۔۔ بالافق الاعلیٰ (۵۳: ۰۷) اور عالمِ جان و دل میں جیسے آپ کو دیدارِ باطن ہوا، اس کا حوالہ یہ ہے: ۔۔۔ عند سدرۃ المنتھیٰ (۵۳: ۱۴)۔

۱۰۔ حضرت موسیٰؑ کو دیدار اور مرتبۂ فنا فی اللہ (۰۷: ۱۴۳): حضرتِ موسی علیہ السّلام کو بھی ایک معنی میں دیدار نہیں ہوا تھا، اور دوسرے معنی میں دیدار ہوا تھا، چنانچہ جب پروردگارِ عالم نے کوہِ عقل پر تجلّی فرمائی (یعنی ظاہر ہوا) تو خدا کی اس تجلئ علم و حکمت

 

۲۱۳

 

سے پہاڑ کے علمی و عرفانی جواہر پارے ہو گئے، جس کو حضرت موسیٰ نے دیکھا اور اس دیدارِ خداوندی کے زیرِ اثر آپ پر محویت و فنائیت طاری ہو گئی۔

۱۱۔ رویت (دیدار) علمِ لدنّی کی خاطر ہے: اللہ تبارک و تعالیٰ کا جو پاک دیدار ممکن ہے، وہ صرف مظاہرۂ اسرارِ ازل و ابد ہی کے لئے خاص ہے، پس جو ہوشمند مومنین و مسلمین عقلی بیماریوں سے بچ کر علم و معرفت کے بھیدوں کی تلاش کرتے رہیں، وہ ان شاء اللہ، ایقان و عرفان کی سیڑھی چڑھتے چڑھتے ایک دن دیدارِ اقدس کے شرف سے مشرف ہو جائیں گے، آمین!

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
منگل، ۱۱ ذی الحجہ ۱۴۰۸ھ / ۲۶ جولائی ۱۹۸۸ء

 

۲۱۴

 

امثلۂ اسرارِ وحی
قسط: ۱

۱۔ عزیز دوستو اور ساتھیو! آئیے، ہم اپنے بہت سے امراض کے علاج و شفا کی نیّت سے تھوڑی سی علمی عبادت اور ذہنی ریاضت کریں، اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے نصرت و تائید طلب کرتے ہوئے حضراتِ انبیاء علیہم السّلام خصوصاً حضرتِ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معرفت کے جان و دل سے سعی کریں، تاکہ ہمیں عشقِ رسول کا عملی تجربہ نصیب ہو، آمین!

۲۔ وحی کے لفظی معنی: وحی کے اصل معنی ہیں: اشارۂ سریعہ (تیز اشارات) چنانچہ ایسے معاملہ کو جو تیز رفتار ہو، امر وحی کہا جاتا ہے، وحی مجموعی طور پر حواسِ ظاہر و باطن سے متعلق رموز و اشارات پر مبنی ہوتی ہے، کیونکہ وہ ایک ایسی روشن اور اتنی وسیع کائنات ہے کہ رفتہ رفتہ آفاق اور عالمِ شخصی پر محیط و حاوی ہو جاتی ہے۔

۳۔ وحی کے لئے تیاری: خداوندِ بزرگ و برتر کی سنت

 

۲۱۵

 

میں روحانی اور عقلی طور پر کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا (۱۷: ۷۷، ۴۰: ۸۵) لہٰذا ہمارا عقیدۂ راسخ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضرت آدمؑ کو علمِ اسماء کی ربّانی تعلیم سے سرفراز فرمایا تھا، اسی طرح دوسرے انبیاء کو اور خصوصیت کے ساتھ ہمارے پیغمبرِ اکرمؐ کو خداوند نے علمِ اسماء کے خزائن عطا کر دیئے ، اور تمام خزانوں کی کلیدیں اسمِ اعظم میں تھیں، پس آنحضرتؐ بوسیلہ اسمِ بزرگ خدا کی یاد و بندگی کر لیا کرتے تھے، جس کے نتیجے میں نہ صرف قلبی اطمینان حاصل ہوا، بلکہ صبغۃ اللہ کی عظیم الشّان روشنیاں بھی نظر آنے لگیں (۱۳: ۲۸، ۰۲: ۱۳۸) اس سے ظاہر ہوا کہ وحی کے سلسلے میں سب سے پہلے ایک انتہائی تابناک دنیا کا مشاہدہ ہونے لگتا ہے، جس کی تیز اور رنگین روشنیوں سے چشمِ باطن خیرہ ہو جاتی ہے، تاہم یہ پیغمبرانہ وحی نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس کی منزل تجربۂ مرگِ نفسانی کے بعد آتی ہے۔

۴۔ لفظِ “بعث” میں ایک عظیم راز: بعث کے معنی ہیں زندہ کرنا، اٹھا کھڑا کرنا، جی اٹھنا، بھیجنا (قاموس القرآن) پس بعث کے معنی ہوئے: اس نے زندہ کیا، اس نے بھیجا، اور اب دیکھئے: فبعث اللّٰہ النبین (۰۲: ۲۱۳) پھر اللہ نے پیغمبروں کو (موتِ نفسانی کے بعد) زندہ کر دیا۔ اور اسی رازِ خفی کا دوسرا لفظ ہے: بھیجا، تو آپ نے اچھی طرح سے دیکھ لیا کہ ہر پیغمبر کو اوّل اوّل تجربۂ

 

۲۱۶

 

موتِ نفسانی سے گزر جانا پڑتا ہے، کیونکہ اس پُرحکمت عمل میں روحانی بھیدوں کا ایک انمول خزانہ پنہان ہے۔

۵۔ چار فرشتوں کا صوتی ظہور: مذکورۂ بالا حوالے کے مطابق جب کسی پیغمبر کے لئے موت قبل از موت کا عظیم معجزہ رونما ہونے لگتا ہے، تو وہ انتہائی بڑی عزت کی موت جبرائیل، میکائیل، اسرافیل، اور عزرائیل علیہم السّلام کے صوتی ظہور اور مشترکہ عمل کی وجہ سے واقع ہوتی ہے، جس میں موت و بعث کا سلسلہ کئی دن تک جاری رہتا ہے، اسی طرح حضرت محمد مصطفی خاتمِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قلبِ مبارک ملکوت سے مربوط ہو کر پیغمبرانہ وحی کے لئے تیار ہوا۔

۶۔ پانچ وسائط: کتاب الزینۃ، باب القلم، میں یہ روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جبرائیل سے وحی لیا کرتے تھے، جبرائیل، میکائیل سے لیتا تھا، میکائیل اسرافیل سے، اسرافیل لوح سے ، اور لوح قلم سے وحی حاصل کر لیتی تھی۔ چنانچہ آنحضرتؐ اور پروردگارِ عالم کے درمیان وحی کے پانچ وسائط تھے، جن کا ذکر ہوا، تاہم یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ روایت البتہ حضورِ اکرمؐ کی ابتدائی نبوّت اور عام حالت سے متعلق ہے، لیکن عروج و ارتقاء اور خاص حالت کا ذکر اس سے الگ ہے، جس کی ایک روشن مثال واقعۂ معراج ہے۔

۲۱۷

۷۔ خواب میں وحی: حضراتِ انبیاء علیہم السّلام کو خواب میں بھی وحی نازل ہوتی ہے، ایسے خواب نہ صرف شروع شروع میں دیکھے جاتے ہیں، بلکہ یہ سلسلہ آخر تک جاری رہتا ہے، کیونکہ اچھا خواب نبوّت کے معجزات میں سے ہے، مگر ہمیں ہرگز ایسا نہیں سوچنا چاہئے کہ انبیاء و اولیاء کی نیند ہماری نیند جیسی ہوتی ہے۔

۸۔ فرشتہ بصورتِ بشر: حدیثِ شریف میں ہے کہ کبھی فرشتۂ وحی آدمی کی صورت میں رسول اللہ کے پاس آکر کلام کرتا تھا۔

۹۔ جھنکار کی آوازیں: وحی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس میں پہلے پہل سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جھنکار جیسی آوازیں سنائی دیتی تھیں، یہ البتہ ابوابِ سماوات کھل جانے کی مثال و دلیل تھی۔

۱۰۔ فرشتہ کی خاموشی: بشکلِ بشر فرشتے کا ظاہر ہو کر رسولِ خدا سے کلام کرنا وحئ جلی ہے، ہاتھ سے کوئی اشارہ کرنا وحئ خفی ہے، اور خاموش رہنا وحئ اخفیٰ ہے۔

۱۱۔ معجزات کا تجدّدِ امثال: جب رحمتِ عالم منزلِ عزرائیلی میں داخل ہوئے تھے، تو اس وقت آپ نے اپنے عالمِ ذر میں انبیائے سلف کے ان تمام معجزات کا تجدّدِ امثال دیکھا تھا (۲۴: ۳۴) جن کا تعلق اسی منزل سے رہا ہے، جیسے حضرت آدمؑ کے

 

۲۱۸

 

لئے فرشتوں کا سجدہ کرنا (۱۵: ۲۹) معجزۂ طوفانِ نوح (۲۳: ۲۷) حضرتِ ابراہیم کے چار پرندوں کا زندہ ہو جانا (۰۲: ۲۶۰) حضرت موسیٰ کی قوم کے واسطے دریا کا شگافتہ ہو جانا (۰۲: ۵۰) حضرت داؤد کی تسبیح خوانی کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کی ہمنوائی کا معجزہ (۲۱: ۷۹) حضرتِ سلیمان کی بے شمار روحانی افواج (۲۷: ۱۷) حضرت عیسی کا اپنے مؤمنین کے لئے پرندے یعنی اڑنے والے کرتے بنانا (۰۳: ۴۹) اور حضورِ انور کی دعوتِ بابصیرت میں دنیا بھر کے لوگوں کا داخل ہو جانا (۴۸: ۲۸، ۱۱۰: ۰۲)۔

۱۲۔ مرکزِ نبوّت و رسالت: یقیناً ہر پھیلی ہوئی چیز کا ایک مرکز ہوا کرتا ہے، چنانچہ نبوّت و رسالت اللہ تعالیٰ کی جن برگزیدہ اور پسندیدہ ہستیوں میں پھیلی ہوئی تھی، وہ بہ امرِ خدا رحمتِ عالم فخرِ آدم و بنی آدم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ عالی صفات میں مرکوز و مجتمع ہوئی، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ تمام پیغمبروں کے سارے روحانی اور عقلی معجزات سرورِ انبیاء کے نورِ اقدس میں جمع ہو گئے، اور یہی حقیقت آئینۂ “نورٌعلیٰ نور” میں جھلک رہی ہے، اسمائے الٰہی میں دیکھ لیجئے کہ خدائے پاک القابض بھی ہے، اور الباسط بھی، اس کا قرآنی مطلب یہ ہے: و اللّٰہ یقبض و یبصط (۰۲: ۲۴۵) اللہ کبھی جمع کرتا ہے اور کبھی بکھیر دیتا ہے (المفردات) آیا قرآنِ عظیم سابقہ کتبِ سماوی کے علمی معجزات کا جامع اور اس سے زیادہ نہیں ہے؟ اگر ہے اور اس میں کوئی شک نہیں، تو پھر صاحبِ

 

۲۱۹

 

کتاب یعنی امامِ انبیاء و رسل صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ اقدس و اطہر میں تمام اگلے پیغمبروں کے روحانی اور عقلانی معجزات مجموع ہونے کے ساتھ ساتھ مزید معجزے اور عجائب و غرائب کیوں نہ ہوں۔

۱۳۔ کمالِ انسانیّت کے دو پہلو: سیدِ عالم یقیناً کامل انسانوں کے سردار تھے، لہٰذا آپ کی پاک و پاکیزہ اور مبارک شخصیّت کا ایک پہلو بشری تھا، اور دوسرا پہلو ملکی، پس حضورِ انورؐ نے پہلے بدرجۂ انسانِ کامل، اور پھر بمرتبۂ فرشتۂ ارضی شروع سے لے کر آخر تک ہر قسم کی وحی حاصل کر لی، تاہم یہاں وحی اور کلام کے اعلیٰ مراتب کا ذکر کرنا ازبس ضروری ہے۔

۱۴۔ کلام از پسِ پردہ: حجابات بہت سے ہیں، اور وہ تین قسموں میں ہیں: حجاباتِ جسمانی، حجاباتِ روحانی، اور حجاباتِ عقلی (علمی) یہ سب سائے ہیں، جو انسان پر پڑتے رہتے ہیں، مگر خدا پر کوئی سایہ نہیں پڑ سکتا، آپ سورج کو دیکھیں کہ سایہ اور ظلمت اس کی طرف جا ہی نہیں سکتی، پس عظیم پیغمبروں سے خدائے پاک از پسِ حجاب کلام فرماتا ہے، کیونکہ وہ حضرات اللہ کے بہت ہی قریب ہو جاتے ہیں۔

۱۵۔ وحئ رویت / وحئ تجلّی: وحی اشارت کو کہتے ہیں، اور انتہائی عظیم اشارت خدا کی ملاقاتِ پاک ہے، جو وحئ رویت، وحئ تجلّی، اور وحئ ظہور کہلاتی ہے، یہ سب سے عالیشان اور سب

 

۲۲۰

 

سے پُرحکمت وحی جو دیدار کی کیفیت میں ہے، بے شمار اشاراتِ علمی و عرفانی کا مخزن ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ دیدار جو گنجِ اوّل و آخر ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عالمِ خلق میں بھی حاصل ہوا، اور عالمِ امر (معراج) میں بھی، تاہم ان دونوں حالتوں کے درمیان یہ نمایان فرق تھا، کہ آپ صلعم یہاں بشر تھے، اور وہاں یعنی معراج میں ملک (فرشتہ) کیونکہ وہ مقام اتنا اعلیٰ و برتر اور ایسا باجلالت و کرامت ہے کہ بشر تو بشر ہی ہے، جبرائیل جیسا فرشتہ بھی وہاں نہیں جا سکتا۔ دعا ہے کہ ربّ العالمین اپنے محبوب پیغمبر کی حرمت سے ہم سب کو ہر قسم کی بیماری سے شفا بخشے ! آمین!!

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
ہفتہ ۱۵ ذی الحجہ ۱۴۰۸ھ / ۳۰ جولائی ۱۹۸۸ء

۲۲۱

امثلۂ اسرارِ وحی
قسط: ۲

۱۔ قلبِ مومن عرشِ رحمان: حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے: لا یسعنی ارضی و لا سمائی و یسعنی قلب عبدی المؤمن التقی (میری زمین مجھ کو نہیں سما سکتی نہ میرا آسمان مجھ کو سما سکتا ہے لیکن میرے پرہیزگار مومن بندے کا قلب مجھے سما لیتا ہے) ایسے مومنین فعلاً کون ہو سکتے ہیں؟ انبیاء، اولیاء (صدیقین، ۰۴: ۶۹) اور پھر ہر عالی ہمت مومن کے لئے بھی یہ بلند ترین درجہ ممکن ہے، چنانچہ جاننا چاہئے کہ عالمِ شخصی میں دل عرشِ الٰہی ہے، جس میں تجلّیات یعنی دیدارِ حق اور معرفت یقینی ہے، اور راہِ روحانیّت میں معجزاتِ وحی و الہام کا مشاہدہ لازمی ہے، کیونکہ کسی مومنِ سالک کو آگے بڑھ جانے اور منزلِ مقصود میں جا پہنچنے کے لئے صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ طریقِ انبیاء علیہم السّلام ہے، جو صراطِ مستقیم کے نام سے معروف ہے (۰۴: ۶۹) جس کے ہر مرحلۂ روحانیّت پر اسرارِ نبوّت پائے جاتے ہیں، اور ان بھیدوں

 

۲۲۲

 

یعنی تجدداتِ وحی کا مقصد یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو معرفت حاصل ہو، تاکہ ایسے مومنین روحانیّت میں بھی اور جنت میں بھی انبیاء، اولیاء، شہداء، اور صالحین کے ساتھ ہو سکیں (۰۴: ۶۹)۔

۲۔ انبیاء کے نقشِ قدم: یہ دنیا عالمِ حادث ہے، اس لئے یہاں کسی مجازی راہنما کے نقشِ پا زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتے ہیں، اس کے برعکس راہِ روحانیّت اور معجزۂ قدرت کی یہ شان ہے کہ اس میں بطریقِ تجدّدِ امثال پیغمبروں کے نقشِ قدم (یعنی بولتی نورانیّت) ہمیشہ کے لئے ثبت اور انمٹ ہیں، جیسے حضرت موسیٰؑ نے خدا کے حضور عرض کیا: کہا کہ وہ لوگ یہی تو ہیں جو میرے نقشِ قدم پر آ رہے ہیں (۲۰: ۸۴) اس میں ظاہری معنی بھی ہیں اور باطنی معنی بھی، یعنی انبیاء علیہم السّلام کے سفرِ روحانی اور نزولِ وحی کا ہر ہر ضروری نمونہ محفوظ ہے، تا کہ سالکینِ راہِ روحانیّت کے لئے علم و معرفت کے ذخائر و خزائن ہر وقت مہیا رہیں، اور اسلام میں حقیقی نعمتوں کی کوئی کمی نہ ہو۔

۳۔ ایک بہت بڑا مسئلہ اور اس کا حل: آیا قرآنِ حکیم میں کوئی ایسا اشارہ فرمایا گیا ہے، جس سے ہم یہ یقین کریں کہ مومنِ صادق یا انسانِ کامل جسم میں ہوتے ہوئے کسی حد تک فرشتہ ہو سکتا ہے؟ یا بڑی حد تک مَلک بن سکتا ہے؟ جی ہاں، ایسے لطیف اشارے بہت ہیں، مگر ان اشاروں کو سمجھنے کے لئے یہ

 

۲۲۳

 

جاننا ضروری ہوگا کہ انسان کو عقل و اختیار دینے کے بعد حیوان سے اوپر اور فرشتے سے نیچے رکھا گیا ہے، اب یہ اس کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ نافرمانیوں کی پستی میں حیوان بن جائے، یا فرمانبرداری کی بلندی میں فرشتہ ہو جائے، جس کی مثال نقشۂ ذیل میں موجود ہے۔

۴۔ انسان نما حیوان: آپ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۹) سورۂ فرقان (۲۵: ۴۴) اور سورۂ محمد (۴۷: ۱۲) میں غور سے دیکھ کر بتائیے کہ آیا اس حکمِ قرآنی میں کوئی شک ہے کہ بعض لوگ انسانی شکل میں ہونے کے باؤجود چوپایوں میں شامل ہو چکے ہیں؟ اگر اس حقیقت میں کوئی شبہہ نہیں ہے، تو پھر ترقی و تنزل کے اس قانون کے مطابق دوسری طرف سے یہ بھی ممکن ہوگا کہ کچھ تھوڑے ہی لوگ یعنی اولیاء و دوستانِ خدا

 

۲۲۴

 

انسانی شکل میں فرشتے ہوں، اور یہ ایک ایسا واضح اشارہ ہے، جو محولۂ بالا آیات میں موجود ہے۔

۵۔ تین قسم کے آدمی: مذکورۂ بالا نقشہ جو قرآنِ حکیم کی روشنی میں بنایا گیا ہے، اس میں دیکھنے سے بآسانی یہ حقیقت معلوم ہو جائے گی کہ آدمی تین قسموں میں بٹے ہوئے ہیں: الف: وہ لوگ جو جسمانی طور پر تو ناسوت ہی میں رہتے ہیں، مگر ان کے تمامتر روحانی، علمی، عرفانی، فکری، اور عقلی روابط ملکوت کے ساتھ ہیں، اس لئے وہ گویا فرشتے ہیں۔ ب: وہ آدمی جو ناسوت میں رہتے ہیں، جن کی کوئی خاص روحانی ترقی ابھی تک نہیں ہوئی۔ ج: وہ لوگ جو بظاہر ناسوت میں تو ہیں، مگر بحقیقت حیوانیّت کی پستی میں گر چکے ہیں، یا گر رہے ہیں۔

۶۔ بشر اور فرشتہ میں فرق: عالمِ ظاہر میں جب تک کوئی سالک مَلک نہ ہو، تو اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ تجلّی کے ساتھ ساتھ کلامِ الٰہی بھی سنے، کیونکہ یہ دونوں معجزے ایک ساتھ کسی ملک کے لئے ہو سکتے ہیں، مگر ہاں بشر کے لئے صرف وحئ تجلّی یعنی صرف رویت ہو سکتی ہے، جس میں بے شمار خاموش اشارے پوشیدہ ہیں، اس سے پہلے کلام از پسِ حجاب ہو سکتا ہے، اور اس سے قبل کسی فرشتے کے توسط سے وحی ہو سکتی ہے (مفہومِ آیۂ کریمہ: ۴۲: ۵۱)۔

۲۲۵

۷۔ الہام کی حقیقت: لفظِ الہام قرآنِ مجید میں خیر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سورۂ شمس (۹۱: ۰۸) میں فرمایا گیا ہے: فالھمھا فجورھا و تقوٰھا (۹۱: ۰۸) پھر اس (جان) کی اپنی ہی بدکرداری اور پرہیزگاری (کے مطابق) الہام کیا۔ جیسے حدیثِ شریف میں ہے: “تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک جنّ اس کا ساتھی ہوتا ہے اور ایک فرشتہ۔” چنانچہ جنّ انسان کی برائیوں کی بنیاد پر وسوسہ ڈالتا ہے، اور فرشتہ اس کی نیکیوں کی وجہ سے ملکوتی الہام و القاء کرتا ہے، اگر اس کی رعایت کی گئی، اور ریاضت و محنتِ شاقہ سے اسے ترقی دی گئی، تو یہ آگے جا کر اولیائی وحی کا ایک نمونہ بن جاتا ہے۔

۸۔ مومن کی فراست: پیغمبرِ اکرمؐ کا ارشاد ہے: اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللّٰہ تعالیٰ ۔ مومن کی فراست سے ڈرتے رہو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اس میں اصل راز روح و روحانیّت اور علم و حکمت کے خزانوں کو دیکھنا ہے، یعنی تم اولیاء اللہ کے سامنے اپنے علم پر اترانے سے ڈرو کیونکہ ان کے پاس علمِ لدنّی ہوتا ہے، اور وہ جو اَسرار بیان کرتے ہیں، وہ نورِ خدائے قدوس کی روشنی میں دکھائے گئے ہوتے ہیں، جبکہ نور کا مقصد ہی یہی ہے کہ اس کی ضیا پاشیوں کی روشنی میں مَلکوتِ سماوی و ارضی کا مشاہدہ ہو (۰۶: ۷۵)۔

۲۲۶

۹۔ مشاہدۂ ملکوت: حدیثِ شریف میں ہے: لو لا ان الشیٰطین یحومون علیٰ قلوب بنی اٰدم نظروا الیٰ ملکوت السماء ۔ اگر شیاطین بنی آدم کے دلوں کے گرد نہ پھرتے ہوتے تو آدمیوں کو آسمان کے فرشتے اور اَسرار نظر آتے (احیاء العلوم، جلدِ سوم) پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس مبارک ارشاد کی حکمت یہ ہے کہ اگرچہ اکثر لوگ شیاطین کی وجہ سے ملکوتِ سماوی کو نہیں دیکھ سکتے ہیں، تاہم خدا کے دوست آسمانی فرشتوں اور عظیم بھیدوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں، اس سے اَسرارِ وحی کی معرفت ممکن نظر آتی ہے۔

۱۰۔ اولیائی وحی، یا وحئ دل: حضرتِ موسیٰؑ پر پیغمبرانہ وحی نازل ہوتی تھی، اور بالکل یہی وحی حضرتِ ہارون پر بھی نازل ہو جاتی، لیکن ذاتی اعتبار سے نہیں، بلکہ حضرتِ موسیٰؑ کی نبوّت و رسالت کی گواہی دینے اور تصدیق کرنے کی خاطر (۲۸: ۳۴) کیونکہ صاحبِ کتاب و شریعت صرف حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام ہی تھے، اور حضرتِ ہارون علیہ السّلام کے سامنے ہر درجہ کی وحی کا تجددِ امثال ہوا کرتا تھا، تاکہ آپ بھرپور مشاہدہ اور کامل معرفت کی روشنی میں حضرتِ موسیٰ کی تصدیق کریں ( یصدقنی ، ۲۸: ۳۴) چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرتِ ہارون کی وحی اولیائی درجے کی تھی، اور حضرتِ مریم علیہا السّلام پر بھی وحئ ولایت کا نزول ہوا تھا، صوفیائے کرام اسی وحئ حق کو پوشیدہ رکھنے کی غرض سے وحئ دل کہتے ہیں (ملاحظہ ہو: مثنوی،

 

۲۲۷

 

دفترِ چہارم، زادنِ شیخ ابو الحسن)۔

۱۱۔ حدیثِ تقرب اور معرفتِ وحی: بخاری، جلدِ سوم، کتاب الرقاق، باب ۸۴۴ میں جو حدیثِ قدسی درج ہے، اس کی زبردست روشنی سے مایوسی کی ساری ظلمتیں کافور ہو جاتی ہیں، اور یقینِ کامل حاصل ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندۂ مومن کے کان ہو کر اپنا لاہوتی کلام سناتا ہے، اس کی آنکھ ہو کر اپنی بے مثال تجلی دکھاتا ہے، اس کا ہاتھ ہو کر مقامِ عقل پر کتابِ مکنون کو پکڑاتا ہے، اور اس کا پاؤں ہوکر عالمِ امر کی سیر کراتا ہے، اس دلیلِ کامل سے یہ حقیقت پوری طرح روشن ہو گئی کہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی میں معرفتِ وحی ممکن ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
جمعہ ۲۱ ذی الحجہ ۱۴۰۸ھ / ۵ اگست ۱۹۸۸ء

۲۲۸

مملکتِ سلیمانی کے اشارے

۱۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ عقل و جان کی صحت و سلامتی کا راز قرآنی علم و حکمت میں پوشیدہ ہے، اسی وجہ سے آیات میں تفکر و تدبر ضروری اور لازمی قرار دی گئی ہے، تا کہ اس بحرِ عمیق سے ہر بار لولوہائے اسرار حاصل ہوتے رہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ، عاشقانِ کلامِ الٰہی کی دولتِ علمی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

۲۔ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی ظاہری بادشاہی سے بحث نہیں، بلکہ آپ کی سلطنتِ روحانی کے بعض انتہائی پوشیدہ بھیدوں کا تذکرہ مقصود ہے، عجب نہیں کہ کچھ ایسے رموز کے جاننے سے آپ کے کئی بڑے بڑے سوالات خود بخود حل ہو جائیں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ علومِ مخفی کے سلسلے میں یہ اسرار کلیدوں کی طرح کام کریں، سو آئیے ہم سب مل کر توفیقِ الٰہی کے لئے عاجزانہ دعا کریں، کیونکہ یہ کام اس کی تائید کے بغیر قطعاً ناممکن ہے۔

۳۔ قرآنِ حکیم میں ہر چیز کا بیان ہے (۱۶: ۸۹) اور روحانی سلطنت

 

 

۲۲۹

 

کا موضوع نمایان ہے، ہر چند کہ اس کے اکثر حالات بھیدوں میں بیان ہوئے ہیں، تاہم جب خدا و رسول کی سنتِ عالیہ میں فیاضی اور کریمی ہے، تو پھر ہم کیوں مایوس ہو جائیں۔ چنانچہ ہمیں یقینِ کامل حاصل ہوا کہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی اصل سلطنت روحانیّت میں تھی، جو تمام انبیاء و اولیاء کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے عطا ہو جاتی ہے، اور مومنین کے لئے بھی طرح طرح سے اس کا اشارہ اور وعدہ فرمایا گیا ہے۔

۴۔ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی روحانی سلطنت کوئی نئی چیز ہرگز نہ تھی، بلکہ یہ وراثت سلسلۂ انبیاء علیہم السّلام کے آغاز ہی سے چلی آرہی تھی، جیسا کہ وورث سلیمان داؤد (اور وارث یعنی قائم مقام ہوا سلیمان داؤد کا ،۲۷: ۱۶) سے ظاہر ہے، اور اسی مقام (۲۷: ۱۶) پر چشمِ بصیرت کے سامنے یہ اشارہ بھی ہے کہ پرندوں کی بولی سمجھنا وراثتِ نبوّت کے عظیم الشّان معجزات میں شامل تھا، اور یہاں یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ منطق الطیّر (پرندوں کی بولی) سے فرشتوں کے ساتھ ہمکلام ہونا مراد ہے، اگرچہ روحِ قدسی ظاہری پرندوں وغیرہ کی آواز کو بھی ایک مختصر سی گفتگو کی صورت دیتی ہے، تاہم پرندوں کی بولی کا اصل راز فرشتوں کا کلام ہے، جو خدا کا سب سے بڑا احسان ہے، کیونکہ اس میں علم ہے۔

۵۔ ہر شخص بحدِّ قوّت یعنی امکانی طور پر ایک ذرّاتی کائنات

 

۲۳۰

 

ہے، جس کو عالمِ ذرّ کہا جاتا ہے، یہی عالمِ شخصی اور عالمِ صغیر (Microcosm) بھی ہے، اور اسی کو قرآنِ حکیم نے “چیونٹیوں کی وادی”  کہا ہے (۲۷: ۱۸) کیونکہ آدمی کی ہستی میں لاتعداد ذاتی روحیں رہتی ہیں، اور اگر خوش بختی سے کسی عالمِ شخصی میں روحانی انقلاب برپا ہوگیا، تو پھر ان روحوں پر مزید تین قسم کے سلیمانی لشکر آجاتے ہیں: جنّی لشکر، انسی لشکر، اور پرندوں (ملائکہ) کا لشکر، اور یہ سب نورانی ذرّات ہوتے ہیں (۲۷: ۱۷) اور ان کے بعض بڑے بڑے نمونے بعد میں آتے ہیں۔

۶۔ حضرتِ علی علیہ السّلام کے دیوان میں ہے (ترجمہ): “تیری دوا تجھ ہی میں ہے اور تجھ کو خبر نہیں، اور تیری بیماری تجھ ہی سے پیدا ہوئی ہے اور تو دیکھتا نہیں، اور تیرا گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے، اور تو ہی وہ کتابِ مبین (بولنے والی کتاب) ہے جس کے حرفوں سے پوشیدہ راز ظاہر ہو جاتے ہیں۔” ان مطالب میں بطریقِ حکمت قرآنِ عزیز کے دو نمایان حوالے موجود ہیں: کائناتِ اکبر کا انسان میں لپٹنا: ۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷، اور کتابِ مبین: ۱۰: ۶۱، ۳۴: ۰۳، اس سے ظاہر ہوا کہ عالمِ شخصی میں سب کچھ موجود ہے، پھر سلطنتِ سلیمانی کے نمونے کیوں نہ ہوں، کیونکہ وہ حصولِ معرفت کے سلسلے میں ازبس ضروری ہیں۔

۲۳۱

۷۔ یہ انعامِ خداوندی صرف زمانۂ موسیٰؑ ہی کے لئے مخصوص نہیں، بلکہ ہر پیغمبر کے مؤمنین کو سلطنتِ روحانی عطا ہو سکتی ہے (۰۵: ۲۰) لیکن اس کی کچھ شرطیں ہوں گی، جن کی تکمیل سے یہاں زندگی میں صرف معرفت حاصل ہوگی، اور مر جانے کے بعد وہاں بادشاہت، کیونکہ بہشت میں مومن غلام نہیں ہو سکتا، بلکہ وہ بفضلِ خدا بادشاہ ہو گا (۰۲: ۲۴۷، ۰۳: ۲۶، ۷۶: ۲۰)۔

۸۔ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی سلطنت کا اصل پہلو روحانی تھا، جیسا کہ ان کی اس دعا سے یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے: پھر اس نے رجوع کیا اور کہا کہ “اے میرے رب، مجھے معاف کر دے، اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لئے سزاوار نہ ہو، بے شک تو ہی اصل داتا ہے (۳۸: ۳۵) ظاہر ہے کہ اس سے روحانی سلطنت مراد ہے، تا کہ وہ ان کی روح سے وابستہ ہو کر آخرت میں منتقل ہو جائے، اور جنّت کی عظیم بادشاہی (ملکاً کبیراً ، ۷۶: ۲۰) کی مرتبت میں ابدی طور پر حاصل رہے۔

۹۔ حضراتِ انبیاء علیہم السّلام کے قرآنی قصّے اسرارِ روحانیّت کے انمول خزائن سے مملو ہیں، اسی طرح حضرتِ سلیمانؑ کا قصہ بڑی عجیب و غریب روحانی حکمتوں سے لبریز ہے، جس کو سمجھنے کے لئے پہلے پہل آپ کو ضرور یہ یقین کرنا ہوگا کہ خالقِ اکبر اپنی قدرتِ کاملہ سے انبیائے کرامؑ اور اولیائے عظام کے مبارک باطن میں

 

۲۳۲

 

کائنات کو لپیٹ کر رکھتا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) اس کے معنی ہیں کہ آسمان و زمین تو مادّی طور پر اپنی جگہ موجود و قائم ہے، لیکن اس کی روحانی اور عقلی صورت ہی عالمِ شخصی میں سمٹ جاتی ہے، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس انتہائی عظیم فعل سے کائنات بھر کی چھوٹی بڑی روحیں یا ان کی نظیریں انسانِ کامل میں جمع ہو جاتی ہیں، چنانچہ پروردگارِ عزّت نے اسی بزرگ ترین انعام سے حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کو نوازا، اور تمام روحانی طاقتیں ان کے لئے مسخر کر دیں (۲۷: ۱۶)۔

۱۰۔ قرآنِ حکیم کا فرمانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السّلام کو خاص علم کی لازوال دولت سے مالامال فرمایا تھا، لہٰذا ہمیں ان کے عظیم معجزات کو علمی و عرفانی نکتۂ نظر سے دیکھنا چاہئے، چنانچہ اس پُرحکمت قصّے کا ایک بڑا اہم مبحث جنّ ہے، سو یہ بات ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ پری مردوں اور پری عورتوں کا مشترکہ نام عربی میں جنّ ہے، جو شکل و شباہت میں آدمی ہی کی طرح ہیں، لیکن وہ جسمِ لطیف رکھتے ہیں، اس لئے بے حد حسین و جمیل ہوتے ہیں، ایسے کیوں نہ ہوں جبکہ وہ پری قوم ہیں، ان میں سے بعض مومن ہیں، اور بعض کافر (۷۲: ۱۴) جو مومن ہو، وہ ایمان کے کسی بھی درجے پر ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ وہ ولی اور فرشتہ بھی ہو سکتا ہے، اور جو کافر ہیں، وہ شیاطینِ جنی ہیں، اور یہ بالکل

 

۲۳۳

 

درست منطق ہے کہ جنّات میں سے اگر شیاطین ہو سکتے ہیں، تو فرشتے بھی ہوں، اس سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیان ہوئی کہ اس قصّے کے جنّات میں سے بعض شیاطین ہیں، اور بعض فرشتے۔

۱۱۔ اس کتاب میں پہلے یہ ذکر ہو چکا ہے کہ قرآنِ مجید کی ہر آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، پس یہاں اس حقیقت کا ایک نمونہ قصّۂ حضرتِ سلیمان کے عظیم بھیدوں کو جاننے کی غرض سے درج کیا جاتا ہے:

۱۲۔ اس قصّہ میں حرث (کھیت، فصل) سے ذرّاتِ نفسِ حیوانی مراد ہیں، اور غنم یعنی بکریاں یاجوج و ماجوج جیسی ارواح ہیں، تختِ سلیمان جسمِ لطیف اور مرتبۂ عقل کا نام ہے، زوردار ہوا قوّتِ ملکی اور کلمۂ کن (ہو جا) ہے، بابرکت زمین روحانیّت اور روحِ اعظم (نفسِ کلّی) ہے، اور غواص نفسِ کلّی کے سمند سے موتی نکالتے ہیں (۲۱: ۷۸ تا ۸۲)۔

۱۳۔ پرندوں کی بولی فرشتوں کے کلام کی مثال ہے، کل شی (ہر چیز) احاطۂ روحانیّت ہے، چیونٹیوں کی وادی سے ذاتی روحیں اور کان مراد ہیں، ہدہد روحِ تجسس کو کہتے ہیں، ملکۂ سبا ہر ایسی عظیم شخصیت کی مثال ہے، جسے خلیفۂ خدا تابعِ فرمان بنانا چاہتا ہو، تختِ ملکۂ سبا جثّۂ ابداعیہ کا نام ہے، حضرتِ سلیمان کا خط (کتاب) وہ تحریر یا کتاب ہے جو خواب یا خیال میں دیکھی جاتی ہے، بسم اللہ

 

۲۳۴

 

کا مطلب ہے آغازِ روحانیّت، عفریت جسمِ مثالی اور جامۂ برقی کو کہتے ہیں، وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم ہے، جنگی جسمِ لطیف ہے، محلِ سلیمانی مثال ہے مخرج و مدخلِ نور کی (۲۷: ۱۴ تا ۴۴)۔

۱۴۔ عین القطر (تانبے کا چشمہ) علمِ وحدت کی مثال ہے (۱۸: ۹۶) قلعے حربی اجسامِ لطیف ہیں، تماثیل (تصویریں) غیر حربی اجسامِ لطیف کو کہا گیا ہے، تالاب جیسے بڑے بڑے لگن = انوارِ بیان و تصدیق، بڑی بڑی دیگیں = علم و حکمت کے سرچشمے، موت یہاں نفسانی موت ہے، جو مرگِ جسمانی سے پہلے واقع ہوتی ہے، دابۃ الارض سے یاجوج و ماجوج جیسی ارواح مراد ہیں، جو انسانِ کامل کی روحِ حیوانی (عصا = لاٹھی) کو شروع ہی میں چٹ کر جاتی ہیں (۳۴: ۱۲ تا ۱۴) کیونکہ سدِ ذوالقرنین کو بالآخر اٹھانا ہے۔
۱۵۔ اصیل گھوڑے = خودگو اذکار، اور سیرِ سیّارۂ عقل، کرسی = روح، جسداً (ایک جسم)= کسی ناگوار آزمائشی جسمِ لطیف کا آکر روح پر مسلط ہو جانا، تعمیر کرنا = ظہوراتِ اشکال اور مشاہداتِ عجائب و غرائب (۳۸: ۳۰ تا ۴۰)۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
ہفتہ ۲۹ ذی الحجہ ۱۴۰۸ھ / ۱۳ اگست ۱۹۸۸ء

۲۳۵

قرآنی پیش گوئی

۱۔ قرآنِ مجید اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلامِ حکمت نظام ہے، اس کے اوصاف، کمالات، اور فضائل بے حد و بے حساب اور اس کی صوری و معنوی خوبیاں بے شمار ہیں، یہ خدائے ہمہ بین و ہمہ دان کی وہ کامل و مکمل اور جامعِ جوامع کتاب ہے، جس میں لوحِ محفوظ کے نوشتہ ہائے روحانی و نورانی کی طرح ہر چیز کا حکیمانہ بیان موجود ہے ( تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ، ۱۶: ۸۹) چنانچہ قرآنِ عزیز کے نورِ بیان سے نہ صرف ماضی و مستقبل اور اوّلین و آخرین کے احوال ہی پر روشنی پڑ رہی ہے، بلکہ اس کے لاہوتی اشاروں میں ہر بار اسرارِ ازل و ابد کے جواہرِ ثمین بھی پائے جاتے ہیں، پس پیش بینی اور پیش گوئی اگرچہ ہمارے نزدیک ایک حیرت زا عجوبہ ہے، لیکن قرآنِ حکیم کے لئے اس میں کوئی تعجب نہیں، کیونکہ ایسی تمام چیزیں اس کے پروگرام کے مطابق وقوع پذیر ہو جاتی ہیں، بہر کیف قرآنِ مجید میں پیش گوئیوں کی فراوانی ہے۔

۲۳۶

۲۔ میرا ذاتی عقیدہ ہے کہ قرآنِ پاک کی وہ پیش گوئی، جو انتہائی جامعیّت کی حامل اور سب سے زیادہ قابلِ فہم ہے، اس آیۂ کریمہ میں ہے: سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّؕ (۴۱: ۵۳) ہم عنقریب ہی اپنی (قدرت کی) نشانیاں اطراف (عالم) اور خود ان میں بھی دکھا دیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ وہی یقیناًحق ہے (۴۱: ۵۳) اس پُرحکمت ربّانی تعلیم میں پہلے آفاقی معجزات کے سلسلۂ دراز کا ذکر ہے، پھر روحانی معجزوں کے آغاز اور اس سلسلے کے نتیجے کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، اور نتیجہ یہ ہے کہ تمام منکرین حق و حقیقتِ اسلام کے لئے قائل ہو جائیں گے۔

۳۔ یہ نکتہ یاد رہے کہ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں “حتیٰ” حرفِ انتہا ہے، جو مادّی اور روحانی معجزات کے سلسلۂ طولانی اور نتیجے کو ظاہر کرتا ہے، یعنی بحکمِ خدا پہلے تو ظاہری عجائب و غرائب کا ظہور ہوتا رہے گا، جس کو معجزۂ الٰہی ماننے کی بجائے انسانی علم و ہنر جیسا نام دیا جائے گا، جس طرح آج یہی کچھ ہو رہا ہے، اور پھر ایسے ہی معجزے انسانوں کے باطن میں رونما ہونے لگیں گے، جو عالمِ شخصی میں سائنسی معجزوں کی طرح کام کریں گے، جیسے دوربین، ٹیلیفون، ٹیلیگراف، وائرلیس، ریڈیو، ریکارڈر، ٹیلی وژن، کمپیوٹر، اور دوسری بہت سی چیزیں، خواہ ان کے اصل نام کچھ بھی ہوں، لیکن

 

۲۳۷

 

ان کی مثالیں کچھ ایسی ہیں۔

۴۔ یہ زمانۂ قیامت اور دورِ روحانیّت ہی کا تذکرہ ہے، جس میں ایسے ہی عظیم معجزات کا مشاہدہ ہوگا، لیکن اختیاری یا جبری ریاضت و مشقت کے بغیر اتنا بڑا مقام کیسے حاصل ہو سکتا ہے، لہٰذا بہت سی آیات میں قانونِ قرآن کا کہنا یہ ہے کہ اس دن ہر شخص کو اپنے اعمال کے مطابق ان شدائد میں سے ایک حصّہ برداشت کرنا پڑے گا، جن کا ذکر قیامِ قیامت کے موضوع میں فرمایا گیا ہے، اور وہ سختیاں بہت زیادہ ہیں۔

۵۔ اس مقام پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بسا اوقات قانونِ قدرت انسان کو کم عرصے کے لئے رلا کر ایک دائمی شادمانی کے لئے تیار کر دیتا ہے، مثال کے طور پر ایک خاتون دردِ زہ کی سختی اور زچگی کی تکلیف سے ضرور نالان ہو جاتی ہے، لیکن وہ جب اپنے چاند جیسے خوبصورت بچے کو دیکھ لیتی ہے، تو سارا درد دکھ بھول کر ہمیشہ کے لئے مسرور و شادان ہو جاتی ہے، الغرض سخت سے سخت تکالیف کے بعد ہی روحانیّت کے انتہائی عظیم معجزات کا مشاہدہ ہو سکتا ہے۔

۶۔ صورِ اسرافیل کی جان گیر و جان بخش گونج اپنے عالیشان بھیدوں کے ساتھ حق ہے، یاجوج و ماجوج کا خروج ایک یقینی امر ہے، جو انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات ہیں، بے شک یہ عالمِ

 

۲۳۸

 

شخصی میں فساد کریں گے (۱۸: ۹۴) لیکن قرآنی روحانیّت یہ بتاتی ہے کہ یہ فساد (یعنی نفسِ حیوانی کو خراب کرنا) تعمیرِ نو اور روحانی ترقی ہی کے لئے ہو گا، جس کے سوا زمینِ آفاق اور زمینِ انفس پروردگار کے نور سے منور نہیں ہو سکتی ہے (۳۹: ۶۹)۔

۷۔ روزِ قیامت کی ایک خاص صفت یہ ہے کہ لا ریب فیہ (۰۶: ۱۲) “اس میں شک نہیں” اس کے معنی ہیں کہ قیامت میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قیامت دراصل باطنی بیماریوں کو یکسر ختم کر ڈالتی ہے، اور لوگوں کو خوشی سے یا زبردستی سے خدا کی طرف رجوع کراتی ہے (۰۳: ۸۳) پس یقیناً ایسے میں دنیا سے برائی اور ظلم کا خاتمہ ہو جائے گا، اور انہی معنوں میں زمین پروردگار کے نورِ اقدس سے روشن و تابان ہو جائے گی، کیونکہ اکثر اوقات زمین کے تذکرے سے لوگ ہی مراد ہوتے ہیں، اور روشنی کی حاجت لوگوں کو ہوتی ہے۔

۸۔ فی الحال دنیا میں کلی طور پر اور حقیقی معنوں میں امن و امان قائم نہیں ہو سکتا، جب تک کہ خدائے بزرگ و برتر کے لشکرِ بلندی و پستی روحانی جہاد کا مظاہرہ نہ کریں (۴۸: ۰۷، ۰۵: ۵۴، ۰۳: ۱۵۱) کیونکہ اللہ بڑی سخت گرفت سے ظالموں کو پکڑنے والا ہے (۴۴: ۱۶)۔

۹۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے، اور وہ خود اس کا کافی گواہ بھی ہے کہ اس نے اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

 

۲۳۹

 

کو ہدایت اور دینِ حق دے کر اس لئے بھیجا ہے تاکہ اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کر دے (۰۹: ۳۳، ۴۸: ۲۸) اور یہ سب سے بڑی فتح و فیروزی عموماً سب کے لئے اور خصوصاً مسلمین کے لئے بے پناہ رحمت کا باعث ہو گی، کیونکہ حضورِ اکرم کے وصفِ “رحمتِ عالم” کے یہی معنی ہیں (۲۱: ۱۰۷)۔

۱۰۔ معجزاتِ قیامت میں سے ایک بڑا عجیب و غریب معجزہ یہ بھی ہو گا کہ: اس روز سب لوگ ایک ایسے پکارنے والے کی پیروی کریں گے، جو بیک وقت تمام لوگوں کی زبان میں گفتگو کرے گا ( لاعوج لہ ) اور خدا کے سامنے آوازیں پست ہو جائیں گی، تو تم آوازِ خفی کے سوا کوئی آواز نہ سنو گے (۲۰: ۱۰۸) یعنی روحانی مخاطبت ہوگی۔

۱۱۔ ارشادِ خداوندی ہے: آج کس کی بادشاہت ہے؟ خدا کی جو یکتا اور غالب ہے ( للّٰہ الواحد القھار، ۴۰: ۱۶) یعنی اس دن ساری حکومتیں ختم ہو کر دنیا میں خدا ہی کی حقیقی بادشاہی قائم ہو جائے گی، جو لوگوں کو عالمِ شخصی میں بھی اور دنیائے ظاہر میں بھی ہر اعتبار سے متحد اور ایک کر لینے والا اور بڑا زبردست ہے (۴۰: ۱۶)۔

۱۲۔ آپ یہ بات ضرور جانتے ہوں گے کہ قیامت اسی دنیا میں واقع ہونے والی ہے، اور آخرت سے دوسرا جہان مراد ہے، اب اس مختصر سی وضاحت کے بعد آئیے سورۂ آل عمران

 

۲۴۰

 

کے اس ارشاد (۰۳: ۷۷) میں دقتِ نظر سے دیکھتے ہیں (ترجمہ): رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، تو ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا نہ اس کی طرف دیکھے گا (یعنی انہیں دیدار کی نوازش نہ ہو گی) اور نہ انہیں پاک کرے گا (۰۳: ۷۷) اب اس کے دوسرے پہلو میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ جو لوگ نیکوکار اور متقی ہیں، ان سے خداوندِ عالم قیامت کے دن از پسِ حجاب کلام کرے گا، ان کو اپنا دیدارِ اقدس بھی عنایت فرمائے گا، جو کلام کے بغیر ہو گا، پھر اللہ تعالیٰ ان دونوں انتہائی عظیم وسیلوں سے روحانی اور عقلانی طور پر انہیں پاک و پاکیزہ کرے گا، اور یہ بھی جاننا چاہئے کہ دوستانِ خدا کو اجتماعی قیامت سے پہلے انفرادی قیامت کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے، اور خوب یاد رہے کہ ذاتی قیامت میں عالمی قیامت کی مثال موجود ہے۔

۱۳۔ قرآنِ حکیم ہر اعلیٰ موضوع سے متعلق علم کا بحرِ بیکران ہے، میں نے یہاں اس کے موضوعِ پیش گوئی کے سلسلے میں جو کچھ عرض کیا، وہ ایک قطرہ سے بھی کم ہے، اگر آپ اس بارے میں زیادہ جاننا چاہتے ہیں، تو خود بے پایان سمندر یعنی قرآنِ عزیز سے رجوع کریں، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ علم و حکمت کے گرانقدر خزانوں سے مالامال اور صحتِ روحانی و عقلانی سے ہمیشہ کے لئے بے حد شادمان

 

۲۴۱

 

ہو جائیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ، پروردگارِ جہان اپنی عنایتِ بے نہایت سے قرآنی روح و روحانیّت کے عظیم الشّان بھیدوں کو سب پر ظاہر فرمائے! آمین!!

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
جمعہ ۵ محرم الحرام ۱۴۰۹ھ / ۱۹ اگست ۱۹۸۸ء

۲۴۲

نورانی وقت اور نورانی عبادت

۱۔ حدیثِ شریف میں ارشاد ہے: یتنزل ربنا۔ تبارک و تعالیٰ۔ کل لیلۃ الیٰ سماء الدنیا، حین یبقی ثلث اللیل الآخر، فیقول: من یدعونی فاستجیب لہ؟ من یسالنی فاعطیہ؟ من یستغفرنی فاغفرلہ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہمارا ربّ تبارک و تعالیٰ ہر رات کو آسمانِ دنیا پر اترتا ہے، جبکہ آخری تہائی رات باقی رہتی ہے، اور فرماتا ہے کہ: کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو دے دوں؟ اور کون ہے جو مجھ سے بخشش چاہے تو میں اس کو بخش دوں؟ (بخاری، جلدِ سوم، کتاب الدعوات)۔

۲۔ یہی حدیثِ شریف مسلم، جلدِ اوّل، کتاب صلوٰۃ المسافرین میں بھی متعدد روایات سے مذکور ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے: ینزل اللّٰہ الیٰ السماء الدنیا کل لیلۃ حین یمضی ثلث اللیل

 

۲۴۳

 

الاول، فیقول: انا الملک، انا الملک، من ذالذی یدعونی فاستجیب لہ؟ من ذالذی یسالنی فاعطیہ؟ من ذالذی یستغفرنی فاغفرلہ؟ فلا یزال کذالک حتیٰ یضی ء الفجر۔ ہر شب جب رات کی پہلی تہائی گزر جاتی ہے، تو اللہ تبارک و تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے، اور ارشاد فرماتا ہے کہ: میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں، کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے دیدوں؟ اور کون ہے جو مجھ سے مغفرت چاہے، میں اس کی مغفرت کروں؟ غرض کہ صبح کے روشن ہونے تک اسی طرح فرماتا رہتا ہے۔

۳۔ یہ بابرکت اور پُرحکمت حدیث سورۂ مزمل کی ان آیاتِ کریمہ کی سب سے خاص تفسیر ہے، جن میں شب خیزی اور نورانی عبادت کا حکم دیا گیا ہے، تاہم یہاں ایک بہت بڑا سوال سامنے آتا ہے کہ خداوندِ عالم کے آسمانِ دنیا پر اترنے کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ جبکہ اللہ جل شانہ جسمانی اور مکانی حرکت سے پاک و برتر ہے؟ اس کا جواب ہے کہ حق تعالیٰ کا یہ نزول جسمانی نہیں، بلکہ روحانی تجلی (ظہور) ہے، اور پروردگار کا عالمِ غیب سے درجۂ شہود کی طرف متجلی ہو جانا ہی نزول کہلاتا ہے، کیونکہ خدائے بزرگ و برتر جس لامکانی بلندی پر ہے، وہاں تک مقربین کی بھی رسائی ممکن نہیںِ لہٰذا اللہ اپنی تجلیوں میں نازل ہو کر خود ان کے قریب آتا ہے،

 

۲۴۴

 

اب رہا سوال “آسمانِ دنیا” کے بارے میں، تو اس کا مطلب ہے روحانیّت کا سب سے نزدیک آسمان، جبکہ دنیا نزدیک کو کہتے ہیں (۰۸: ۴۲)۔

۴۔ انبیاء و اولیاء اور مخلص مومنین اپنے اپنے درجے کے مطابق رات کے نورانی وقت اور نورانی عبادت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، کیونکہ یہی ایک وقت ایسا ہے کہ اس میں دن رات کی جملہ عبادات کا ایک فوری اجر و صلہ مل جاتا ہے، تاکہ ہر مومن اپنے علم و عمل کی ترقی کو دیکھ سکے، اور مزید ہمت سے کام لے، جیسا کہ قرآنِ کریم کا ارشاد ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لئے کسوٹی (فرقان) بہم پہنچا دے گا (۰۸: ۲۹) یہ معیار (Criterion) اجتماعی بھی ہوگا، اور انفرادی بھی، جو اسلامی زندگی اور روحانیّت کے تمام مراحل میں اپنا کام کرتا رہے گا، یہ صفت دراصل قرآنِ مجید ہی کی ہے کہ وہی فرقان ہے (۰۲: ۱۸۵، ۲۵: ۰۱) لہٰذا ایسی کسوٹی روحِ قرآن ہو گی، یا نورِ قرآن (۰۵: ۱۵، ۴۲: ۵۲، ۵۷: ۲۸)۔

۵۔ یہ سچ اور حقیقت ہے کہ حضرت آدم علیہ السّلام کی روحانی تخلیق چہل شب (چالیس رات) کی مدت میں مکمل کی گئی تھی، جیسا کہ حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے: خمرت طینۃ اٰدم بیدی اربعین صباحاً (میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چالیس صبحوں میں آدم کی مٹی کو گوندھا) یہ حضرت آدم کی نورانی عبادت کا سلسلہ تھا،

 

۲۴۵

 

جو رات کے نورانی وقت آپ بجا لایا کرتے تھے، جس میں بطورِ خاص خدا کا ہاتھ تھا، اب آپ سکون سے سوچ کر بتائیں کہ آیا یہ واقعہ ایک مثال کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ کا نزول نہیں ہے کہ اس نے روحِ آدم کو اپنے بابرکت ہاتھوں سے درست کیا؟ اگر کہا جائے کہ یہ کام فرشتوں نے انجام دیا تھا، تو پھر فرشتے فعلِ خداوندی کے مظہر قرار پا گئے، اور یہ نظریہ زیادہ صحیح بھی ہے، جیسے آنحضرتؐ کو قرآن نے دستِ خدا کہا (۴۸: ۱۰) تاہم مظہریت کے باب میں آپ کو خوب تر سوچنا پڑے گا کہ اس کے لئے قانونِ الٰہی کیا ہے؟ البتہ آئینہ اور مظہر ہے۔

۶۔ نورانی وقت وہ ہے، جس میں حواسِ باطن منور ہو جاتے ہیں، یا اس معجزے کو دیکھنے کے لئے خوب تیاری ہو جاتی ہے، اور یہ سب کچھ رات کے اکثر حصے کو عبادت میں صرف کرنے سے ممکن ہو جاتا ہے، کیونکہ رات ہی ذکر و بندگی کے لئے انتہائی سعید وقت ہے، اور اس سعادت کی واحد وجہ ربّ العزّت کی بے مثال اور عظیم الشّان تجلّی ہے، جس کی روشنی میں گنجینۂ ہائے مخفی کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے، اور حق بات تو یہ ہے کہ ہر رات کو خدائے بزرگ و برتر کا نزول فرمانا، خواہ جس معنیٰ میں بھی ہو، بڑی بڑی آسمانی نوازشات کے لئے خدائی اعلان ہے، اور یہ علمِ لدنّی کی دعوت و دستر خوان مائدۂ عیسیٰؑ سے بہت عظیم اور بہت وسیع ہے،

 

۲۴۶

 

پس جو شخص اس دعوت کو قبول نہ کرتا ہو، وہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی روحانی اور عقلانی طور پر بھوکا اور پیاسا ہی رہے گا۔

۷۔ سورۂ ذاریات (۵۱) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: بے شک متقی لوگ بہشتوں اور (علم و حکمت کے ) چشموں میں ہوں گے، جو کچھ ان کا ربّ انہیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے، وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکوکار تھے، راتوں کو کم ہی سوتے تھے، پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے، اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لئے (۵۱: ۱۵ تا ۱۹) یعنی متقی لوگ دنیا میں رات کے بیشتر حصے کو نورانی عبادت میں گزارتے تھے، وہ زکاتِ ظاہری اور زکاتِ باطنی (علمی) دیا کرتے تھے۔

۸۔ اسی مقام پر یہ ارشاد بھی ہے: اور اہلِ یقین کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں (معجزات) ہیں، اور خود تمہاری جانوں میں بھی، کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟ اور تمہارا (روحانی) رزق اور تم سے جو وعدہ کیا جاتا ہے (یعنی قیامت) وہ آسمان (روحانیّت) میں ہے، تو قسم ہے آسمان اور زمین کے پروردگار کی کہ وہ (قرآن) حق ہے جس طرح تم بولتے ہو (۵۱: ۲۰ تا ۲۳) یعنی قرآنِ کریم ایک روح اور نور بھی ہے (۴۲: ۵۲) اس لئے وہ مقامِ روحانیّت پر کتابِ ناطق (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) اور کتابِ مبین یعنی بولنے والی کتاب ہے (۱۵: ۰۱، ۲۷: ۰۱) پس یہ سب نورانی عبادت اور روحانیّت کی طرف پرزور دعوت ہے۔

۲۴۷

۹۔ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے رات کے نورانی وقت اور نورانی عبادت کی روشنی میں آسمانوں اور زمین کی روحانیّت (ملکوت) کا مشاہدہ کیا تھا، (۰۶: ۷۵ تا ۷۹) آپ نے عالمِ عقل کی مثلِ برترین میں آفلین یعنی ڈوبنے والوں کو دیکھا، اور آخر کار کہنے لگے: لا احب الاٰفلین (۰۶: ۷۶) میں غروب ہو جانے والوں سے محبت نہیں کرتا، پس توحید کا یہ اصول نورانی عبادت ہی کا نتیجہ تھا۔

۱۰۔ حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے چالیس شب کی نورانی عبادت کے لئے کوہِ طور پر گئے تھے، آپ نے کوہِ عقل پر ربِّ کریم کی تجلی دیکھی تھی (۰۷: ۱۴۳) اگرچہ اوقاتِ نماز و عبادت دن میں بھی ہیں، اور یادِ الٰہی تو ہر وقت ہو سکتی ہے، تاہم یہ حقیقت ہے کہ شب خیزی کے بغیر کسی شخص پر روشنیوں کا باب مفتوح نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی نورانی عبادت کے سوا صبغۃ اللہ کی نورانیّت نصیب ہو سکتی ہے۔

۱۱۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ رحمتِ عالم، نورِ مجسّم، صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ بابرکات میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (۲۳: ۲۱) یعنی جس کی یہ امید و خواہش ہو کہ خدا اس کے کان ہو کر اسرارِ ازل کو سنائے، اس کی آنکھ ہو کر نورانی وقت کی تجلیوں کو دکھائے، اس کا ہاتھ ہو کر گوہرِ عقل کو پکڑائے،

 

۲۴۸

 

اور اس کے پاؤں ہو کر عالمِ علوی کی سیر کرائے، تو پھر ایسے مومن کو حقیقی معنوں میں پیغمبرِ اکرم کے پیچھے پیچھے چلنا چاہئے، تاکہ اسے روحانی بیماریوں سے شفائے کلّی حاصل ہو جانے کے بعد مرتبۂ تقرب کی یہ ربّانی نوازشات حاصل ہوں۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
ہفتہ ۱۳ محرم الحرام ۱۴۰۹ھ / ۲۷ اگست ۱۹۸۸ء

 

۲۴۹

کتابُ العلاج – روحانی علاج

روحانی علاج

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دیباچہ

۱۔ پروردگارِ عالمین کی ہر نعمتِ عظمیٰ کی حقیقی شکرگزاری کے کئی معنوی اجزاء ہوا کرتے ہیں، چنانچہ ان میں ایک جزو روحانی مسرت و شادمانی کا بھی ہے، جس کی اصل حالت و کیفیت ظاہری اور جسمانی خوشی سے بالکل جدا اور قطعاً مختلف قسم کی ہوتی ہے، مثال کے طور پر روحانی فرحت کا معجزہ دریائے عجز و انکسار اور بحرِ عشق بن کر مؤمنِ شاکر کو اپنے اندر ڈبو لیتا ہے، جس سے بندۂ عاشق راہِ خدا میں آنسوؤں کے انمول موتیوں کو نچھاور کرتے ہوئے دل و جان کے انتہائی شوق سے بارگاہِ ایزدی میں سجدہ ریز ہو جاتا ہے، یا ایسے معجزانہ اور عارفانہ شکر سے آتشِ محبت تیز تر ہو جاتی ہے، جس سے مومنِ صادق اپنے باطن میں یکسر پگھل جاتا ہے، یا اس کو برقِ روحانیّت کے لطیف، شیرین، اور پُرکیف جھٹکے لگتے ہیں، یا اس کو اندر ہی اندر سے معجزۂ طہور کا بے حد میٹھا اور پُرحکمت بخار آتا ہے، اور ایک خاص زلزلہ خواب و بیداری کے درمیان وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔

۵

۲۔ بیانِ مذکورۂ بالا سے ایک مزید نسخۂ کیمیا کا پتا چلا کہ ربّانی نعمتوں کی حقیقی اور عاشقانہ شکرگزاری رہی سہی بیماریوں کے لئے علاجِ کامل کا کام انجام دیتی ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید کا پُرحکمت ارشاد ہے: اور وہ وقت یاد کرو جب کہ تمہارے ربّ نے حکم کیا کہ اگر تم شکر کرو گے تو تم کو زیادہ نعمت دوں گا (۱۴: ۰۷) یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھ لیجئے کہ عقل و جان اور جسم کی بے شمار نعمتوں اور لذّتوں کا مجموعہ خدائے رحمان و رحیم کے نزدیک ایک ہی نعمت ہے، لیکن بندوں کے لئے یہ ایک ایسی کائنات کی حیثیت سے ہے، جو گوناگون نعمتوں سے مملو ہے، پس جو نعمت سامنے یا قریب تر ہو، اگر اس کے لئے علم و عمل کے حقیقی معنوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر کیا جائے، تو یقیناً مجموعی نعمت میں اضافہ ہونے لگے گا، جی ہاں، ہر قسم کی صحت بھی نعمتِ خداوندی ہی ہے، لہٰذا دیگر نعمتوں کی طرح اس کی بہتری اور ترقی کا انحصار بھی عملِ شکر ہی پر ہے، تاہم آپ کے لئے اب یہ جاننا باقی ہے کہ فریضۂ شکر گزاری کماحقہ کس طرح ادا ہو سکتا ہے؟

۳۔ مشرق و مغرب کے بے حد عزیز دوستو اور ساتھیو! آؤ ہم سب مل کر بطرزِ مناجات، یا بطریقِ گریہ و زاری خدائے بزرگ و برتر کی اس عقلی اور روحانی نعمت کا شکر کریں کہ اس کارسازِ بندہ نواز کی رحمت و مہربانی سے اب قرآنی علاج، اور علمی علاج کے بعد روحانی

 

۶

 

علاج بھی مکمل ہوچکی ہے، کاش! ہم سب منزلِ محو و فنا میں مٹ مٹ کر ذرّات اور عالمِ ذرّ بن جاتے، اور صورِ اسرافیل کی گونج سے ہم آہنگی کرتے ہوئے اس ذاتِ پاک کی تسبیح و تہلیل کرتے، جس نے اپنے فضل و کرم سے یہ آسمانی نعمتیں برسا دی ہیں، ہر چند کہ ہم وہ حقیقی شکر نہیں کر سکتے، جو کرنا چاہئے، تاہم ہمارے دل و دماغ میں اس عالیشان عبادت کی کمی کے احساس سے ایک خاص درد پیدا ہوتا ہوگا، اور ان شاء اللہ تعالیٰ ، ایسے مبارک درد سے دوسرے تمام دردوں کا علاج ہوگا، جس کی مثال اس کتاب کے آخر میں موجود ہے۔

۴۔ یہ عجیب طرح کا حسنِ اتفاق ہے کہ گزشتہ سال (۶ ستمبر تا ۴ اکتوبر ۱۹۸۸ء ) میں لنڈن میں اپنے عزیز احباب کے ساتھ تھا، اس دوران کتابِ روحانی علاج کے سات ابتدائی مضامین مکمل ہوئے، اور اس کتاب کا باقی حصّہ پاکستان میں لکھا گیا، لیکن اب پھر لنڈن کی انہی پاکیزہ روحوں نے اپنی جاذبیّتِ روحانی سے مجھے کھینچ کھینچ کر یہاں لایا، تاکہ میں کتاب کی آخری چیز (یعنی دیباچہ) اس کے شروع میں لکھ کر دائرہ بناؤں، اور جس مبارک گھر میں یہ نیک کام شروع ہوا تھا، اسی میں یہ پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے۔

۵۔ جن دانشور حضرات نے اس بندۂ حقیر کی کتابوں کا نعمتہائے بہشت کی طرح انتہائی شیرین و دلکش ترجمہ کیا ہے، اس کی جیسی اہمیت،

 

۷

 

افادیت، اور عظمت ہے، وہ ہر چند کہ کسی تعریف کی محتاج تو نہیں، تاہم میرے نزدیک اس کتابی انقلاب کی کوئی تشبیہہ و تمثیل ضروری ہے، اور وہ یہ ہے کہ: کتاب کے باغ و چمن پر موسمِ خزان مسلط تھا، اب بحمداللہ اس میں دائمی بہار کی سلطانی قائم ہوئی، یا یوں کہا جائے کہ کچھ جواہر کسی تاریک گوشے میں بکھرے پڑے تھے، ان پر کسی بابصیرت جوہری کی نظر پڑی، وہ وہاں سے چن کر ایک اعلیٰ مقام پر سجائے گئے، یا اس کی مثال یہ ہے کہ ایک دخترِ نیک اختر جو بدیع الجمال بھی تھی، اور نیکو خصال بھی، چنانچہ پدرِ رضاعی نے اس لباسِ فاخرہ اور بیش بہا زیورات سے آراستہ و پیراستہ کر کے دلہن بنایا، اور شہزادۂ علم پذیر کے نکاح میں دیا۔

۶۔ میں ذاتی مصائب و آلام کے مواقع پر اشک فشانی نہیں کرتا، مگر شاید میں بوقتِ مناجات گریہ و زاری کرتا ہوں، اگر منجانبِ احباب میری کوئی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، تو اس سے میں سوز و گداز کے عالم میں ہوتا ہوں، اور آنسوؤں کی روانی ہوتی ہے، مگر یہ سعادت کبھی کبھی نصیب ہوتی ہے، اس سلسلے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ میری کتابوں کا بہترین ترجمہ میرے لئے ایک معجزہ تھا، جس سے میں بدرجۂ انتہا متاثر ہوکر دریائے گریہ و زاری میں مستغرق ہو جاتا ہوں، شاید اس لئے کہ میں ایک ناچار آدمی ہوں، مجھ میں کوئی اہلیت نہیں، میں علم و عمل دونوں سے عاری تھا، پھر یہ خزانہ کس

 

۸

 

نے عطا کر دیا؟ اور اس عطیہ کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

۷۔ اگر میرے تلامیذ جو پاکستان، انگلستان، امریکہ، کنیڈا، فرانس وغیرہ میں رہتے ہیں، اس علمی خدمت میں مجھ سے تعاون نہ کرتے، تو واللہ میں ہر طرح سے ایک کمزور انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا، مجھے یقین ہے کہ کوئی ہوشمند مؤرخ جس کو اس کام سے دلچسپی ہو، وہ میرے حوالے سے ان حضرات کے اسمائے گرامی اور کارناموں کو آئندہ نسل کی تاریخ میں رقم کر دے گا، تاہم مؤمنین کی اُس تاریخِ نورانیّت کی بات کیجئے، جسے خطا و نسیان کے پتلے انسان نہیں، بلکہ معزز فرشتے ہی لکھ رہے ہیں (۸۲: ۱۱) یعنی کتابِ اعمال، جو بہشت میں بڑی شان سے پڑھی جائے گی، آپ قرآنِ حکیم میں نامۂ اعمال سے متعلق آیاتِ کریمہ کا بغور مطالعہ کریں، خصوصاً آیۂ علّیّین (۸۳: ۱۸) کا مطالعہ، جس کی حکمت بڑی عجیب و غریب ہے۔

۸۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے (ترجمہ): ہرگز ایسا نہیں نیک لوگوں کا نامۂ اعمال علّیّین میں ہے، اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ علّیّین کیا ہے، وہ ایک لکھا ہوا دفتر ہے جس کو مقرّب لوگ دیکھتے ہیں (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) آپ کو یہ بات سن کر یقیناً حیرت انگیز خوشی کا احساس ہوگا کہ دو سماوی اور دو ارضی چار انتہائی عظیم فرشتے مذکورۂ بالا زندہ کتاب ہیں، یعنی عقلِ کل اور نفسِ کل، اور ان کے دو مظہر، کیونکہ لفظِ علّیّین میں جو “ین” ہے، وہ ایک ایسی علامتِ جمع ہے، جو ذوی

 

۹

 

العقول کے لئے استعمال ہوتی ہے، پس یہ امر ازحد ضروری ہے کہ آپ نامۂ اعمال کی معرفت حاصل کریں۔

۹۔ شاید آپ نے یہ قرآنی حکمت خوب ذہن نشین کر لیا ہوگا کہ اللہ جلّ جلالہ ہمیشہ ضدین یعنی دو مختلف چیزوں کو ایک دوسرے سے پیدا کرتا ہے، جیسے وہ رات کو دن میں داخل کر دیتا ہے اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے (۰۳: ۲۷) اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ شاگرد کا اضافی وجود (علمِ ظاہر) استاد کے توسط سے بنتا ہے، اور استاد کا اضافی وجود (علمِ باطن) شاگرد کی وجہ سے، تاکہ یہ بھی ایک دائرہ ہو جائے، جیسے بچے کو اگرچہ ماں ہی جنم دیتی ہے، لیکن دوسری طرف سے بھی دیکھنا ضروری ہے کہ بچہ ہی ہے، جس کے سبب سے کوئی عورت ماں کہلاتی ہے، اور اس میں دودھ پیدا ہو جاتا ہے، اور اس مثال میں بھی بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے کہ انسانی شیرِ مادر کا ذخیرہ دل کے سامنے سینے پر دو پستان میں ہے، جبکہ مادہ جانور میں دودھ کا مقام اس کے برعکس ہے، پس طفل کے لئے شیرِ مادر کے ۶+۶=۱۲ چشمے مقرر ہیں، جس طرح حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کے قصۂ قرآن میں بارہ چشموں کا تذکرہ موجود ہے (۰۲: ۶۰، ۰۷: ۱۶۰)۔

۱۰۔ حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیہما السّلام اپنے وقت میں مومنین کے روحانی والدین تھے، ظاہر ہے کہ ناطق کو باپ کا درجہ حاصل ہے، اور اساس کو ماں کا درجہ، چنانچہ شیرِ مادر کی مثال کے

 

۱۰

 

مطابق جناب ہارونؑ کے قلبِ مبارک میں مومنین کی پرورشِ روحانی کے لئے علم کا ذخیرہ موجود تھا، اور اس علم کے مظاہر آپ کے بارہ نقیب (حجت) تھے (۰۵: ۱۲) علمِ روحانی کی دوسری مثال یہ ہے کہ اگرچہ بظاہر ایک پتھر سے پانی کے بارہ چشمے جاری ہوئے تھے، لیکن اس کا ممثول حضرتِ ہارونؑ کا پاکیزہ دل تھا، جس سے ربِّ جلیل نے حضرتِ موسیٰؑ کے توسط سے بارہ درجات پر مشتمل علم کو جاری کر دیا، پس بارہ نقیب جن کا ذکر ہوچکا ہے علمِ ہارونی کے بارہ چشمے تھے۔

۱۱۔ چونکہ یہ کتاب کا دیباچہ ہے، لہٰذا اس میں قارئین اور آئندہ نسل کی آگہی کے لئے اصولاً یہ لکھنا پڑتا ہے کہ اتنا اہم، وسیع، اور ہمہ رس کام کس طرح کیا گیا؟ اور اس تنظیم میں وہ خوش بخت حضرات کون کون تھے، جنہوں نے کسی بھی حیثیت سے بھرپور کردار ادا کیا؟ چنانچہ میں نے اس بارے میں مختلف مواقع پر اشارہ کیا ہے، تاہم اب وقت آچکا ہے کہ اس باب میں کوئی کتابچہ مرتب کیا جائے، جس کے لئے مندرجہ ذیل حضرات سے درخواست کی جاتی ہے:

۱۲۔ فتح علی حبیب صدرِ خانۂ حکمت، نصر اللہ قمر الدین نائب صدر، محمد عبد العزیز صدرِ ادارۂ عارف، محی الدین شاہ صوفی نائب صدر، غلام رسول صدرِ خانۂ حکمت برانچ گلگت، صوبیدار (ریٹائرڈ) یوسف علی نائب صدر، غلام قادر ایڈوائزر /سابق صدر، صوبیدار (ریٹائرڈ) علی داد چیئرمین بروشسکی ریسرچ اکیڈمی، سلطان اسحاق چیئرمین ادارۂ

 

۱۱

 

عارف برانچ گلگت، امین کوٹاڈیا چیئرمین ادارۂ عارف برانچ لنڈن، نور الدین راجپاری ادارۂ عارف برانچ امریکا، نور علی مامجی کوآرڈنیٹر امریکا، اور امام داد کریم کوآرڈنیٹر فرانس، یہ حضرات اپنے دیگر عملداروں اور ممبروں سے بھی تعاون حاصل کر کے نام بُردہ تاریخ تیار کریں گے، ان شاء اللہ یہ کام اتنا مشکل نہیں۔

۱۳۔ میں اس پیاری کتاب کی تکمیل کے موقع پر تمام دوستانِ عزیز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور میری عاجزانہ دعا ہے کہ پروردگارِ عالم ہماری اس ناچیز کوشش کو پُرخلوص اور سب کے لئے نافع بنائے! آمین یا ربّ العالمین!!

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لنڈن  ۸ ذوالحجہ ۱۴۰۹ھ / ۱۱ جولائی ۱۹۸۹ء

۱۲

 

روحِ قرآن

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۔ رحمانی طب اور روحانی علاج کے اس سلسلے میں قرآن کی روح و روحانیّت کا تذکرہ بے حد ضروری ہے، تاکہ قارئینِ کرام پر اصل حقیقت منکشف ہو جائے کہ قرآنِ عظیم جن معنوں میں شفا ہے (۱۷: ۸۲) ان میں وہ سب سے پہلے نور و نورانیّت، روح و روحانیّت، اور علم و حکمت ہے، اس کے بغیر ارواحِ مومنین کی مردگی کو زندگی میں اور تاریکی کو روشنی میں تبدیل کرنے کا کوئی تصوّر ہی نہیں ہو سکتا (۰۶: ۱۲۲، ۰۸: ۲۴)۔

۲۔ قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کے امر یعنی کلمۂ کن سے بطورِ روح و روحانیّت نازل ہوا، اور یہی روح نورِ ہدایت ہے (حکمت: ۴۲: ۵۲) ارشادِ باری تعالیٰ سے یہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ قرآنِ پاک کا نزول آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قلبِ مبارک پر ہوا تھا (۰۲: ۹۷) اور دل میں صرف روحانی اور عقلی چیزیں اتر سکتی ہیں مادّی اشیاء نہیں۔

۳۔ سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ

۱۳

 

اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌ (۰۵: ۱۵) تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور اور ایک ظاہر کتاب آئی ہے۔ یہاں نور سے حضورِ انور کی ذاتِ اقدس مراد ہے، اور کتابِ مبین قرآنِ پاک ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کی زندہ روح اور نورِ ناطق آنحضرت کی بابرکت شخصیت میں جلوہ گر تھا، اور اسی معنیٰ میں پیغمبرِ خدا روشن چراغ تھے (۳۳: ۴۶) کیونکہ قرآن جس طرح لوحِ محفوظ میں بھی ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) اور ام الکتاب میں بھی (۴۳: ۰۴) اسی طرح اس کی روح یا نور آنحضرت میں بھی تھا۔

۴۔ جو خوش بخت لوگ درجۂ فنا فی المرشد کے بعد مرتبۂ فنا فی الرسول کو حاصل کرتے ہیں، وہ اس مقام پر نفسانی موت سے گزر چکے ہوتے ہیں، لہٰذا ان کو ایک طرح سے نامۂ اعمال مل جاتا ہے، یہ ایک جیتی جاگتی، بولتی کتاب، روحِ قرآن، اور نور ہے (۲۳: ۶۲، ۵۷: ۱۲) کیونکہ قرآنِ مجید اپنے نور کے معجزات میں ایسا محیط ہے کہ یہی سب کچھ ہے، پس یہ مومنین کی اصل روح بھی ہے، روحانیت بھی، نور بھی ہے، نورانیت بھی (۶۶: ۰۸) اور نامۂ اعمال بھی (۴۵: ۲۹)۔

۵۔ سورۂ عبس (۸۰: ۱۱ تا ۱۶) میں دیکھئے! ہرگز ایسا نہیں، یہ (قرآن مقامِ روح و عقل پر) ایک ناقابلِ فراموش تذکرہ ہے، پس جو شخص چاہے نصیحت حاصل کرے، یہ باعزت و باکرامت صحیفوں میں ہے، جو برتر اور پاک و پاکیزہ ہیں، وہ ایسے لکھنے والے (فرشتوں)

 

۱۴

 

کے ہاتھوں میں ہیں، جو معزز و مکرم اور نہایت نیکوکار ہیں (۸۰: ۱۱ تا ۱۶) یہ معرفت کا وہ عالیشان مقام ہے، جہاں نورِ قرآنِ کریم کتابِ مکنون (۵۶: ۷۸) میں پایا جاتا ہے۔

۶۔ سورۂ محمد میں ارشاد فرمایا گیا ہے: اے لوگو جو ایمان لا چکے ہو! اگر تم (دین کے ذاتی اور اجتماعی امور میں) اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہیں آسمانی تائیدات سے نوازے گا اور ثابت قدمی عطا فرمائے گا (تا کہ تم راہِ روحانیّت پر منزلِ مقصود تک پہنچ سکو ،۴۷: ۰۷) یہاں آپ کو اچھی طرح سوچنا ہو گا کہ انسانی مدد کتنی حقیر اور کیسی محدود ہے! اور ربّانی تائید کی وسعت و ہمہ گیری کا کیا عالم ہوگا؟ یقیناً تائید نور ہی کا دوسرا نام ہے، اور نور کا خاصہ یہ ہے کہ وہ جہاں بھی جائے، وہاں کی تمام چیزوں کو اپنی شعاعوں میں غرق کر لیتا ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ نورِ تائید کے آنے سے مومنین کے امراضِ باطن رفتہ رفتہ جل کر ختم ہو جاتے ہیں۔

۷۔ خدائے علیم و حکیم اپنے بندوں کے دلوں میں صورت و معنئ ایمان کو رقم فرماتا ہے، اور اپنے حضورِ خاص کی ایک مقرب روح سے ان کی مدد (تائید) کرتا ہے (۵۸: ۲۲) تا کہ وہ اس روحانی تحریر کو دیکھ سکیں، اور اس کے سرِ اسرار کو سمجھ سکیں، لیکن یہ کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے کہ ایسی نورانیّت روحِ قرآن کے بغیر ہو؟ یقیناً یہ قرآن ہی کی روح ہے، جس کی رہنمائی سے بھیدوں کا آخری خزانہ

 

۱۵

 

مل جاتا ہے۔

۸۔ ارشاد ہے: ہرگز ایسا نہیں، بیشک نیکوکاروں کی کتاب (نامۂ اعمال) علّیّین میں ہے، اور تمہیں کیا معلوم کہ علّیّینِ برترین کیا ہے؟ وہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے، اس کا مشاہدہ مقربین ہی کرتے ہیں (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) یعنی اللہ کے مقرب بندے اپنی کتابِ اعمال کو اس دنیا میں بھی دیکھ سکتے ہیں، جو روح اور عقل کی بلندی پر قرآن کا سب سے بڑا معجزہ ہے، کیونکہ قرآنِ مجید ہی ہے، جس کے ظاہر و باطن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹)۔

۹۔ حضرتِ آدم میں روحِ خداوندی پھونک دی گئی تھی (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) اور دوسرے تمام پیغمبروں کو بھی یہی سب سے پاکیزہ روح حاصل ہوئی، جس کی ایک نمایان مثال حضرت عیسیٰؑ ہیں ( روح منہ ، ۰۴: ۱۷۱) اگرچہ آنحضرت کے لئے بھی وہی عظیم خدائی روح تھی، تاہم حضورِ اکرم سردارِ رسل، خاتمِ انبیاء اور رحمتِ عالم تھے، لہٰذا یہ پاک روح بحکمِ خدا آپ کی ذاتِ عالی صفات میں قرآنِ عزیز جیسی بے مثال کتاب لے کر نازل ہوئی (۴۲: ۵۲) جو تمام اگلی آسمانی کتابوں کا خلاصہ اور نچوڑ بھی ہے، پس قرآنِ حکیم ظاہر ( مبین ، ۰۵: ۱۵) ہوا، اور نور (روح ، ۰۵: ۱۵) کو لازمی طور پر حضورِ اکرمؐ ہی کی ذاتِ اقدس میں رہنا تھا، تاکہ بوقتِ ضرورت قرآن پر اس کے اپنے نور کی روشنی ڈالی جائے۔

۱۰۔ انبیاء کے بعد اولیاء کا مقام اس معنیٰ میں بلند ہوتا ہے کہ

 

۱۶

 

وہ حضرات قرآن کی روح و روحانیّت کی روشنی میں پیغمبروں سے متعلق تجدّدِ امثال کا مشاہدہ کرتے ہیں، اور اسی وسیلے سے وہ ایک طرف آسمانی کتاب کے مقاماتِ روحانی و عقلی کے عارف ہو جاتے ہیں، اور دوسری جانب انبیاء و رسل کے مراتبِ عالیہ کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں، جیسا کہ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۱) میں دوستانِ خدا سے فرمایا گیا ہے: اور ہم نے تم کو (جسم میں کلّی طور پر ) پیدا کیا پھر ہم نے تمہاری (روحانی) صورت مکمل کر دی پھر ہم نے (گویا تمہارے سامنے ہی) فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو (۰۷: ۱۱) یہ ایک ایسی روشن حقیقت ہے کہ اس میں اہلِ دانش کو ذرا بھی شک نہیں ہو سکتا۔

۱۱۔ سورۂ مائدہ (۰۵: ۴۴ تا ۴۸) میں خوب غور و فکر سے دیکھ لیجئے، ہر آسمانی کتاب تمام احوالِ ظاہر و باطن پر محیط و حاوی ہوا کرتی ہے، کتاب کی ظاہری شکل مادّی تحریروں میں اور اس کی باطنی صورت روحانی اور عقلانی نوشتوں میں ہوتی ہے، اور ہمیشہ اس کی جملہ ظاہری ہدایات کا رخ روح اور نور کی طرف ہوتا ہے، تاکہ لوگ ہدایت نامۂ الٰہی کو ظاہراً و باطناً دیکھ سکیں، اور حقائق و معارف کے تمامتر خزانے مہیا رہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: ہم نے توریت نازل فرمائی تھی جس میں ہدایت تھی اور نور تھا (۰۵: ۴۴) اور انجیل کے بارے میں فرمایا گیا ہے: اور ہم نے ان (عیسیٰ) کو انجیل دی جس میں ہدایت تھی اور نور تھا (۰۵: ۴۶) یعنی کتابِ سماوی کے ظاہری پہلو میں ہدایت ہوتی ہے، اور باطنی پہلو میں نور ہوتا ہے،

 

۱۷

 

جیسے مصحف اور لوحِ محفوظ دراصل مل کر قرآن یا کتابِ مبین ہے (۲۷: ۷۵) جبکہ قرآنِ مجید لوحِ محفوظ میں بھی ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) اور وہاں وہ روحِ اعظم اور نورِ اکبر ہے۔

۱۲۔ آیاتِ نور کی یہ ایک جداگانہ خصوصیت ہے کہ ان میں بجا طور پر تفکر و تدبر کرنے سے (اگر اللہ نے چاہا تو) انتہائی عظیم اسرار منکشف ہو سکتے ہیں، اس حقیقت کی ایک روشن مثال یہ ہے: اور جو لوگ خدا پر اور اس کے رسولوں پر (کامل اور مکمل) ایمان رکھتے ہیں ایسے ہی لوگ اپنے پروردگار کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں، ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے (سورۂ حدید ، ۵۷: ۱۹) اس پُرحکمت ربّانی تعلیم میں ایسے ایمانِ کامل کا ذکر فرمایا گیا ہے، جو درجاتِ عین الیقین سے بھی آگے ہوتا ہے، کیونکہ یہ اولیاء (صدیقین) اور شہیدانِ روحانی کا ایمان ہے، اور یہ شہید وہ ہیں، جو راہِ خدا میں جیتے جی مر جاتے ہیں اور شہید کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ آسمانی کتاب کے روحانی معجزات پر گواہ بن جاتے ہیں ( و کانوا علیہ شھداء ، ۰۵: ۴۴)۔

۱۳۔ اجر کیا ہے؟ قرآنِ کریم کی روح و روحانیّت کی غیر فانی دولت، اور ثوابِ دنیا و آخرت (۰۳: ۱۴۸) اور نور کیا ہے؟ آفتابِ علم و حکمت، پس ایسے ہی خوش نصیب لوگ امراضِ باطن سے پاک و محفوظ اور عقل و جان کی سلامتی سے مسرور و شادمان ہوتے ہیں۔

۱۸

۱۴۔ تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیا ہے اور ایک ظاہر کتاب (۰۵: ۱۵) پس نور زمانۂ نبوّت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے، اور آپ کے بعد بھی اس نور کا ہونا لازمی ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لنڈن
۲۹ محرم الحرام ۱۴۰۹ھ / ۱۱ ستمبر ۱۹۸۸ء

۱۹

 

طمانیتِ قلبی

۱۔ ہر قسم کا خوفِ بیجا، ہر گونہ پریشانی، احساسِ کمتری، دنیوی حرص، گھبراہٹ، برے خیالات یا وسوسوں کی اذیت، غمگینی، بے چینی، مایوسی، ناخواستہ غصہ، سبک مزاجی، زبان کی لغزش، کم ہمتی، بد باطنی، فخر، غرور، جہالت و نادانی، غفلت ، سستی، تنگدلی، اضطراب، نسیان (بھول جانا) کند ذہنی، دماغی الجھن، اور ان جیسی تمام اخلاقی اور روحانی بیماریوں کا واحد علاج طمانیتِ قلبی ہی ہے، جو ذکرِ الٰہی کی برکتوں سے حاصل ہو جاتی ہے، جیسا کہ سورۂ رعد (۱۳: ۲۸) میں ارشاد ہوا ہے: الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب (۱۳: ۲۸) یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو (درجہ بدرجہ) اطمینان ہو جاتا ہے۔ چونکہ قلوب مختلف درجات کے ہوا کرتے ہیں، اس لئے یہ طمانیت شروع سے لے آخر تک سارے مراتب پر محیط ہے، یعنی اطمینان ہر شخص کے علم و عمل کے مطابق ملتا ہے۔

۲۔ سوال: خداوندِ قدوس کی یاد سے طمانیتِ قلبی کس طرح پیدا

 

۲۰

 

ہو جاتی ہے؟ اگر ایک مومن کسی بڑی تکلیف میں مبتلا ہے، اور وہ کثرت سے خدا کو یاد کرے، تو یہ ذکر کن معنوں میں اس کے اطمینان و سکون کا باعث ہو سکتا ہے؟

۳۔ جواب: شاید آپ نے قرآنی علاج یا علمی علاج میں اس حدیثِ شریف کا حوالہ دیکھا ہوگا کہ ہر شخص کے دو قرین (ساتھی) ہوا کرتے ہیں، ایک تو فرشتہ ہوتا ہے اور دوسرا جنّ (شیطان) سو فرشتہ ہر وقت انسان کو بھلائی کی ترغیب دیتا ہے، اور شیطان اس کے برعکس برائی کے لئے اکساتا رہتا ہے، چنانچہ جب جب بندۂ مومن ذکرِ خداوندی میں مسلسل مصروف رہتا ہے، تو اس حال میں بھی اگرچہ شیطان ڈر کے مارے کچھ ہاتھ پاؤں ضرور مارتا ہے، لیکن آخر کار شکست خوردہ ہوکر خاموش اور مایوس ہو جاتا ہے، اور دوسری طرف ذکر کی بدولت فرشتے کو بولنے کا موقع مل جاتا ہے، پس وہ دل میں علم و حکمت کی باتیں ڈالنے لگتا ہے، اگر کوئی تکلیف یا بیماری ہے تو اس کے دور ہو جانے کی خوشخبری سناتا ہے، ہر دکھ ایک عبادت قرار پانے کی بات کرتا ہے، اور روحانیّت و آخرت کی کامیابی کی بشارت دیتا ہے، چونکہ یہ آسمانی الہام ہے، جو صداقت کی روح سے پُر اور حقیقت کے نور سے منور ہے، لہٰذا اس میں زبردست طمانیتِ قلبی اور ہر بیماری کے لئے شفائے کلّی موجود ہے، ہر چند کہ شروع شروع میں اس فرشتے کی آواز صاف طور پر سنائی نہیں دیتی،

 

۲۱

 

لیکن بہ اشارۂ ضمیر یہ حالت محسوس ہو جاتی ہے کہ دل کو غیر معمولی تسکین و تسلی اور خوشی حاصل ہو رہی ہے۔
۴۔ یادِ الٰہی لاہوت اور ناسوت کے درمیان لٹکائی ہوئی ایک نورانی رسی ہے، یہ ایک روحانی پل بھی ہے، جو شہرستانِ فنا کو ملکِ بقاء سے ملا دیتا ہے، یہی راہِ راست بھی ہے، جس پر قدم بقدم اور منزل بمنزل نورِ ہدایت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، یہ بھی صحیح ہے کہ ذکر میں بہشت جیسا ایک نورانی عالم پوشیدہ ہے، جس کے عجائب و غرائب احاطۂ بیان سے باہر ہیں، پروردگار کے اسمِ مبارک میں ایک ایسی بے مثال دوا پنہان ہے، جو دنیا کے کسی بھی طبیب ، حکیم، اور ڈاکٹر سے دستیاب نہیں ہو سکتی، ذکر سے خالق اور مخلوق کے رشتۂ ازل کا تجدّدِ امثال ہو جاتا ہے، اس میں عقل و جان کی لازوال مسرتوں اور شادمانیوں کے انمول خزانے رکھے ہوئے ہیں، اگر ذکر حقیقی معنوں میں ہو، تو یہ ایک نور ہے، پھر عجب نہیں کہ روحِ ذاکر رفتہ رفتہ اس نور میں حل ہو جائے، یا فی الوقت روشنی کو قبول کرے۔

۵۔ ربِّ جلیل کے بابرکت ذکر سے جو اطمینان حاصل ہو جاتا ہے، اس کا زیادہ سے زیادہ تعلق روحانی اور عقلی نعمتوں سے ہے، کیونکہ اگر آرام و راحت میں ہمیشہ جسم ہی کا پلہ بھاری رہا، تو پھر آخرت میں نامرادی ہوگی، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم جسمانی تکالیف کو دور کرنے کے لئے کوشش ہی نہ کریں، لیکن اس کے معنی

 

۲۲

 

یہ ہیں کہ ہمیں کسی بھی دنیوی تکلیف و آزمائش میں خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہئے، پس ظاہری بیماری میں بھی کثرت سے خدا کا نام لینا ضروری ہے، تاکہ عرصۂ قلیل میں شفا ملے، اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت سے ہم مزید وقت کے لئے بیمار رہتے ہیں، تو پھر ان شاء اللہ فرشتہ (جس کا تذکرہ ہو چکا ہے) مریض مومن کے ضمیر میں کہنے لگے گا کہ: “صبر و ہمت سے کام لو، اس بیماری سے تمہاری تطہیر ہو رہی ہے، اور یہ جسمانی مرض بحکمِ خدا کئی اخلاقی اور روحانی امراض کو مار رہا ہے۔”

۶۔ سورۂ فجر میں اطمینان کی تعریف و توصیف اس شان سے فرمائی گئی ہے: اے اطمینان یافتہ روح! تو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جا (رجوع کر) درحالے کہ تو اس سے خوش وہ تجھ سے راضی ہے، تو میرے (خاص) بندوں میں داخل ہو جا، اور میری جنّت میں داخل ہو جا (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) اس قرآنی تعلیم میں یہ حکمت ہے کہ مومن کی زندگی کے تمام نیک اقوال و اعمال کا نتیجہ حقیقی اطمینان ہے، اور اس کے بعد رجوع الی اللہ (خدا کی طرف لوٹ جانا) ہے، تاہم قرآنِ پاک میں دیکھ لیجئے کہ اطمینان و رجوع سے پہلے کیسی کیسی آزمائشیں سر سے گزر سکتی ہیں (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷)۔

۷۔ یہاں اس حکمت کی وضاحت بھی ضروری ہے، جو “فادخلی فی عبادی” (تو میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا) میں پوشیدہ

 

۲۳

ہے، سو جاننا چاہئے کہ خدا کے خاص بندے انبیاء و اولیاء ہیں، جو حضرتِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نورِ اقدس میں فنا ہو کر یکجا ہو چکے ہیں، چنانچہ نفسِ مطمئنہ سے فرمایا جاتا ہے کہ وہ بھی فنا فی المرشد اور فنا فی الرسول ہو کر نفسِ واحدہ کے ساتھ ایک ہو جائے (۳۱: ۲۸) کیونکہ “فی” کے معنی ہی ایسے ہیں، کہ اس میں روح اور نور میں جا کر فنا ہو جانے کا اشارہ موجود ہے۔

۸۔ اطمینان کا ایک اور اعلیٰ مقام یہ ہے، جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: (اے رسول) آپ فرما دیجئے کہ اگر زمین پر فرشتے ہوتے کہ اطمینان سے چلتے پھرتے تو ہم ان پر آسمان سے فرشتہ کو رسول بنا کر نازل کرتے (۱۷: ۹۵) یہ ارضی فرشتے سب سے پہلے انبیاء علیہم السّلام ہیں، جن کی ایک بہت بڑی صفت طمانیتِ قلبی ہے، جس کا مفہوم بہت ہی وسیع ہے۔

۹۔ دراصل اطمینان بہت سے معنوں پر محیط ہوا کرتا ہے، اور ان میں مختلف درجات کی بشارتیں بھی ہیں، ان میں ایک بڑی بشارت فرشتوں کے توسط سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی غیبی مدد کے بارے میں ہے، جیسے جنگِ بدر میں خدا نے نزولِ ملائکہ سے لشکرِ اسلام کی مدد فرمائی تھی، جیسا کہ ارشاد ہے: اور اللہ تعالیٰ نے یہ امداد محض اس کے لئے کی کہ بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو اطمینان ہو جائے (۰۸: ۱۰) کہتے ہیں کہ فرشتے دکھائی

 

۲۴

 

دیئے تھے، یقیناً ایک ہی فرشتے کا ظہور ہوتا ہے، جس میں بے شمار فرشتے ہوتے ہیں، گویا سب سے بڑا فرشتہ ایک زندہ قلعہ ہے، اور اس کے اندر کے تمام فرشتے لشکر ہیں۔

۱۰۔ سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۱۲ تا ۱۱۵) میں دیکھ لیں، آیۂ کریمہ کا ترجمہ ہے: وہ بولے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس (سماوی دسترخوان) میں سے کھائیں اور ہمارے دلوں کو پورا اطمینان ہو جائے اور یقین کر لیں کہ آپ نے ہم سے (اپنی رسالت کے سلسلے میں جو کچھ کہا تھا) سچ فرمایا تھا اور ہم گواہی دینے والوں میں سے ہو جائیں (۰۵: ۱۱۳) اس مثال کی حکمت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے حواریین پر روحانی علم کا دسترخوان نازل ہوا تھا، اسی سے ان کے دلوں کو کامل اطمینان ہونا تھا، کیونکہ قرآنِ حکیم کا فرمانا ہے کہ پروردگار نے ہر چیز علم میں رکھی ہے (۰۶: ۸۰) چنانچہ اس باب میں ہمیں دوسری اشیاء کی طرف توجہ دینے سے پیشتر قرآنی چیزوں میں غور کرنا ازحد ضروری ہے، ان میں سے ایک چیز اور ایک مثال دسترخوان (مائدہ) ہے، جو آسمان سے نازل ہوا تھا، جس سے روحانی (لدنّی) علم مراد ہے، جو عقل و جان کی ربّانی نعمتوں کا بابرکت دسترخوان ہے، جس کی ہر نعمت عقل و جان کے لئے غذا بھی ہے، اور دوا بھی، پھر اس سے طمانیتِ قلب کیوں نہ ہو۔

۱۱۔ جیسا کہ یہ بیان ہو چکا کہ اطمینان کے مختلف درجات ہیں،

 

۲۵

اب یہاں یہ بتانا ہے کہ اس کا آخری اور بلند ترین درجہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی مثال میں موجود ہے (۰۲: ۲۶۰) انبیائے کرام اور اولیائے عظام اپنی مقدّس زندگیوں سے حقائق و معارف کے نمونوں کو پیش کرتے ہیں، اور ایسا کرنا بیحد ضروری ہے، تاکہ وہ حضرات خدا کے حکم سے بیمار اور دکھی انسانیت کو سلامتی کی راہوں پر گامزن کر سکیں، چنانچہ قرآنِ حکیم نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ منعم علیہم (۰۴: ۶۹) کا راستہ سب کے لئے کھلا ہے، ان کے پیچھے پیچھے چلو (یعنی روحانی ترقی کرو، اور ان کی رفاقتِ روحانی سے مستفیض ہو جاؤ، تاکہ معرفت کی لازوال دولت اور اسرارِ ازل کے بے مثال خزانوں سے مالامال ہو جاؤ گے)۔

۱۲۔ جس طرح جسمانی ڈاکٹر پرہیز، پھر علاج پر زور دیتے ہوئے اکثر کہا کرتے ہیں کہ: “دیکھو کسی بھی چھوٹی سی بیماری کو نظر انداز کر کے نہ بیٹھنا، بلکہ فوراً ہی اس کے علاج کے لئے رجوع کرنا، کیونکہ بسا اوقات تھوڑی سی طبیعت کی خرابی ایک بڑی بیماری میں تبدیل ہو جاتی ہے۔” اسی طرح قرآنِ مجید نے بزبانِ رمز و اشارہ کہہ دیا کہ: ظاہری مرض کے برعکس باطنی بیماری جلد آسکتی ہے، اس لئے دائم الذکر ہو جاؤ، اور طمانیتِ قلبی پر ہر وقت نظر رکھو، کیونکہ یہی کسوٹی تمہاری باطنی صحت کے لئے مقرر ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم ذرا غافل

 

۲۶

 

ہو جاؤ، اور شیطان موقع پا کر اپنی پسند کے جراثیم تمہارے دل میں پھیلائے، پھر اس وقت مشکل ہو جائے گی، کیونکہ یہ جراثیم بڑی جلدی سے کسی شدید روگ کو جنم دے سکتے ہیں، اس لئے بار بار دیکھتے رہا کرو کہ ذکرِ خدا سے دل کو ٹھیک ٹھیک سکون ملتا ہے یا نہیں؟ اگر یادِ الٰہی جیسی سب سے بڑی نعمت سے لذّت و شادمانی اور تسکین نہیں ملتی ہے، تو پھر سمجھ لو کہ یہ تمہاری علالت کی نشانی ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لنڈن
۳ صفر المظفر ۱۴۰۹ھ / ۱۵ ستمبر ۱۹۸۸ء

۲۷

قرآن اور تعبیرِ خواب
قسط : ۱

۱۔ الحمد للہ کہ روحانی علاج کے اس پسندیدہ موضوع کا تعلق براہِ راست اور بالواسطہ قرآنِ حکیم ہی سے ہے، جس میں بیرون از شمار رحمتیں اور برکتیں عیان بھی ہیں اور پنہان بھی، چنانچہ آج بھی ہمیشہ کی طرح میرا جی چاہتا ہے کہ بیحد عاجزی اور گریہ و زاری سے اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے اللہ پر توکل کروں، کیونکہ نہایت مہربان و معین وہی ہے۔

۲۔ میرا ایمان کہتا ہے کہ قرآنِ پاک کو بہت بڑا معجزہ ماننا مختصر بات ہے، جبکہ یہ بے مثال آسمانی کتاب دراصل “عالمِ معجزاتِ عقلی” ہے، کیونکہ اس میں جو علومِ مخفی کے خزائن اور خزانوں میں جیسے جواہر وغیرہ ہیں، وہ بڑے عجیب و غریب اور انتہائی محیر العقول قسم کی انمول چیزیں ہیں، پس انہی گنج ہائے اسرار میں تعبیرِ خواب کے بھید بھی ہیں، اور یہ بندۂ ناچیز شاید اپنی چھوٹی سی

 

۲۸

 

عقل اور محدود معلومات کی وجہ سے ایسی کئی چیزوں کو قرآنی انکشافات تصوّر کر رہا ہے، تاہم یہ بات کس حد تک صحیح ہے، اس کی تحقیق (ریسرچ) کی جائے گی۔

۳۔ اگر کوئی شخص یہ پوچھے کہ قرآنِ مقدّس جب خواب نامہ نہیں، تو پھر کس طرح کوئی مومن اس سے علمِ تعبیر کا کام لے سکتا ہے؟ جواب: یہ بات اہلِ دانش کے نزدیک محقق ہے کہ قرآنِ حکیم علومِ ضروریہ کا سرچشمہ ہے، اور میں عرض کرتا ہوں کہ علمِ تعبیر بھی ایک ضروری علم ہے، اس لئے اس کو قرآن میں موجود ہونا چاہئے، اور یہ موجود ہے، اب آپ غور سے اس حقیقت کی مثالوں کو دیکھیں:

۴۔ خواب میں اپنے آپ کو عمدہ اور صاف لباس زیبِ تن کئے ہوئے دیکھنا، پرہیزگاری کا نتیجہ ہے، کیونکہ قرآن میں تقویٰ کے ساتھ لباس کا ذکر ہے (۰۷: ۲۶) اور میاں بیوی تقویٰ کے معنی میں ایک دوسرے کے لباس ہیں (۰۲: ۱۸۷) اس کے برعکس اگر کوئی آدمی خواب میں خود کو بے لباس ، یا پھٹے پرانے کپڑوں میں، یا جامۂ غلیظ میں پاتا ہو، تو یہ حالت عدمِ پرہیزگاری پر تنبیہہ کرتی ہے (۰۷: ۲۷) کسی تکلیف، بیماری، اور مصیبت کے دوران کوئی بھی مسرت انگیز خواب دیکھنا، اس امر کی بشارت ہے کہ وہ صابرین میں شمار ہو رہا ہے (۰۲: ۱۵۵)۔

۵۔ خواب میں پانی علم ہے، اگر آسمان سے برس رہا ہے،

 

۲۹

 

تو یہ علمِ لدنّی ہے (۲۵: ۴۸) اگر صاف چشمہ ہے تو بھی ایسا ہے، اگر نہر میں صاف پانی بہہ رہا ہو، تو یہ روایتی علم ہے، جو آمیزش سے پاک ہے، اگر پانی آلودہ ہے، تو یہ اشارہ سمجھ لینا کہ کوئی غیر خالص علم سے واسطہ پڑا تھا، اگر آپ نے ایک بہت بڑے سمندر کو خواب میں دیکھا ہے، جس پر ایک تخت تھا، اور اس پر ایک نور (۱۱: ۰۷) تو یہ سب سے بڑی بشارت ہے، مبارک ہو! سمندر علمِ الٰہی ہے، اور باقی تعبیر خود قرآنِ مجید میں دیکھ لیں، اور اگر آپ نے تخت کے بغیر ایسے سمندر کو دیکھا ہے، تو خوشخبری ہے کہ یہ قرآنِ عظیم اور خدائی علم ہے۔

۶۔ خواب میں آسمان اور اس کی چیزوں کو دیکھنا روحانی عروج و ارتقاء کی دلیل ہے، یعنی خود آسمانِ صاف یا ابر آلود، سورج، چاند، ستارے وغیرہ (۰۶: ۷۵) یہ نکتہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ جنّت، روحانیّت، قرآن، اور نورانی خواب سنتِ الٰہی کے مطابق ایک ہی طرح سے کام کر رہے ہیں، اسی بناء پر آیاتِ قرآن سے خواب کی تعبیر ہو سکتی ہے۔

۷۔ خواب میں پہاڑ دیکھنا عظمتِ روح کی مثال ہے، پہاڑ پر چڑھ جانا روحانی ترقی کا اشارہ ہے، پہاڑ سے اترنا تنزل ہے، قیمتی پتھروں (جواہر) کو جمع کرنا علمی کامیابی ہے، کیونکہ جواہرات اور زیورات کی تعبیر روحانیّت اور علم و حکمت ہے، جبکہ حقیقی زینت اسی سے ہوتی ہے۔

۸۔ خواب میں باغ و بوستان دیکھنا، یا ہرا بھرا کھیت دیکھنا روحانی آبادی کی بشارت ہے (۲۷: ۶۰، ۴۸: ۲۹) طرح طرح کے پھلوں کو

 

۳۰

 

دیکھنا بہشت کی خوشخبری ہے (۴۷: ۱۵) خواب میں پرواز کرنا جنت میں فرشتہ بن جانے کی نشانی ہے (۳۵: ۰۱) کتاب دیکھنا نامۂ اعمال مل جانے کی مثال ہے، خواب میں اپنی موت کا منظر دیکھنا، جسمانی موت سے قبل نفسانی موت ضروری ہونے کی دلیل ہے (۰۲: ۹۴) اور اپنے آپ کو مریض دیکھنا، کسی باطنی بیماری کی طرف اشارہ ہے (۱۰: ۵۷)۔

۹۔ آپ نے خواب میں جس شخص کو دیکھا تھا، اس کا کیا نام ہے؟ کیونکہ ایسے آدمی کے اسم کی بھی تعبیر ہوا کرتی ہے، یعنی اگر نام نصر اللہ ہے، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ملے گی، اگر فتح یا فیروز نام ہے، تو کشائش ہوگی، اور اگر اسم رحمت ہے تو مہربانی ہوگی، قس علیٰ ہٰذا (اسی پر قیاس کر لو) اور یہ بات بڑی اہمیت والی ہے، کیونکہ ناموں کے معانی علمِ اسماء میں سے ہیں (۰۲: ۳۱) نیز آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ وہ شخص کس طرف سے آپ کے پاس آیا؟ آگے سے؟ داہنی طرف سے؟ بائیں طرف سے؟ یا پیچھے سے؟ کیونکہ اس میں بھی تعبیر ہے (۵۶: ۰۸ تا ۰۹، ۶۹: ۱۹، ۶۹: ۲۵، ۸۴: ۱۰) اور اگر آپ کو طرف یاد نہیں، تو کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ آدمی نیک مومن ہے؟ تاکہ ہم اس کو فرشتہ تصوّر کریں؟ اس لئے کہ فرشتہ خواب و روحانیّت میں بصورتِ آدمی نظر آتا ہے۔

۱۰۔ اگر کسی شخص نے ایسا خواب دیکھا کہ وہ کراہت اور گھن کے ساتھ کوئی کچا گوشت کھا رہا تھا، تو یہ اس نافرمانی اور بیماری کا ناخوشگوار نتیجہ ہے کہ اس نے اپنے مومن بھائی کی غیبت کی تھی (۴۹: ۱۲)۔

۳۱

۱۱۔ خواب میں نماز پڑھنا، عبادت کرنا، آیت پڑھنا، ذکر کرنا، روحانی پیشرفت کی علامت ہے (۰۳: ۱۹۱) خواب میں شعائر اللہ (خدا کی نشانیاں) دیکھنا، یعنی وہ چیزیں جو اللہ کی عظمت کے لئے نشان قرار دی گئی ہیں، جیسے قرآن، خانۂ کعبہ، مسجد، وغیرہ، یہ قلبی تقویٰ کا اشارہ ہے (۲۲: ۳۲)۔

۱۲۔ حدیثِ شریف میں ہے کہ جس نے خدا کو خواب میں دیکھا، وہ جنت میں داخل ہوگیا، اور آنحضرت نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے مجھ کو دیکھا تو اس نے گویا خدا کو دیکھا، یہ فرمانِ نبوّی بیداری اور خواب دونوں کے بارے میں ہے، اور اس سے دیدار کی نمائندگی لازم ہو جاتی ہے، تاکہ حقیقت صرف خواب ہی کی حد تک محدود ہو کر نہ رہ جائے، پس دینِ فطرت کا اصل تقاضا یہی ہے کہ خلیفۂ رسولؐ ہر وقت دنیا میں موجود ہو ، تاکہ بحکمِ “فادخلی فی عبادی” (میرے بندگانِ خاص میں داخل ہو جا) فنا فی الخلیفہ، فنا فی الرّسول، اور فنا فی اللہ کا عمل ہمیشہ جاری و ساری رہے۔

۱۳۔ خواب میں ، یا روحانیّت میں حربی نشان (بندوق وغیرہ) کے ساتھ کسی فرشتے کو دیکھنا، یا کسی لشکر کو دیکھنا، یا گھوڑے پر سوار ہو جانا روحانی جہاد کو ظاہر کرتا ہے (۰۳: ۱۲۵،۱۰۰: ۰۱ تا ۰۵) اور براہِ راست جنگ کا منظر دیکھنا خود جہاد ہی ہے۔

۱۴۔ خواب میں زلزلہ آئے، زمین پھٹ جائے (۲۲: ۰۱، ۵۰: ۴۴) یا

 

۳۲

 

بانسری، شہنائی، اور نرسنگا جیسی آواز سنائی دے (۲۳: ۱۰۱) تو یہ قیامت کی علامتیں ہوں گی (۰۶: ۷۳، ۳۶: ۵۱) اگر کسی مومن پر روحانیّت کا زلزلہ طاری ہو جاتا ہے، تو اس کی تطہیر ہو گی (۳۳: ۱۱، ۹۹: ۰۱)۔

۱۵۔ خواب میں عمدہ مکان، بنگلہ، یا کوٹھی دیکھنا، روحانی تعمیر و ترقی کی بشارت ہے، اور اس کے برعکس ویرانوں اور کھنڈروں کو دیکھنا روح کی پس ماندگی کا اشارہ ہے (۶۶: ۱۱، ۰۲: ۲۵۹)۔

۱۶۔ سورۂ انفال (۰۸: ۲۹) میں فرمایا گیا ہے: اے ایمان والو اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو وہ تمہارے واسطے ایک کسوٹی (فرقان) مقرر کردے گا، اس ہدایتِ سماوی میں دیگر وسائل کے علاوہ خواب کی طرف بھی اشارہ فرمایا گیا ہے کہ تمہارا خواب ایک خدائی اور معجزانہ معیار کی حیثیت سے کام کرے گا تاکہ اس سے تم کو اپنے اعمالِ نیک و بد کے نتائج سے آگہی ہوتی رہے، جس کی روشنی میں تم اپنی روح کو سنوار سکو۔

۱۷۔ سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں ارشاد ہوا ہے: اور اہلِ یقین کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں، اور خود تمہاری ذات میں بھی ہیں، تو کیا تم کو دکھلائی نہیں دیتا (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) اس میں بزبانِ حکمت یہ فرمایا جاتا ہے کہ سیّارۂ زمین پر جیسی اور جتنی کثیف اشیاء ہیں، ایسی اور اتنی لطیف چیزیں تمہارے عالمِ شخصی میں بھی ہیں، یعنی خواب و روحانیّت کی طرف پُرزور توجہ دلا کر کہا جاتا ہے کہ دیکھو تمہاری ذات میں سب کچھ موجود ہے، اور اگر زمین پر کوئی خلیفۂ رسول

 

۳۳

 

ہے، تو اس کا بھی عکسِ لطیف یہاں ہونا چاہئے کیونکہ وہ قدرتِ خدا کی ایک بہت بڑی نشانی ہے۔

۱۸۔ آپ کو ہر بار یہ ضرور دیکھنا ہوگا کہ خواب کا مجموعی تاثر کیسا ہے؟ اچھا ہے؟ یا برا؟ یا درمیانی؟ تاکہ آپ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے خود کو نہ صرف باطنی بیماریوں ہی سے محفوظ رکھ سکیں گے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی پیاری روح کو خاطر خواہ ترقی دینے کے قابل بھی ہو جائیں گے، لیکن یہ عظیم کارنامہ اس وقت ممکن ہوگا، جبکہ آپ اپنے خوابوں کو بہت بڑی اہمیت دیتے ہوئے ان کے اشاروں کو سمجھ لیں، اور ہر اشارہ جس بات کا متقاضی ہو، اس کے مطابق کام کریں، ان شاء اللہ العزیز۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لنڈن
۵ صفر المظفر ۱۴۰۹ھ / ۱۷ ستمبر ۱۹۸۸ء

۳۴

قرآن اور تعبیرِخواب
قسط: ۲

۱۔ خالقِ اکبر نے انسان کے لئے چار عالم پیدا کر دیئے ہیں، وہ یہ ہیں: عالمِ بیداری، عالمِ خیال، عالمِ خواب، اور عالمِ روحانیّت، جو آگے چل کر عالمِ آخرت کہلاتا ہے، ان سب کی فلاح و صلاح، اور ترقی و کامیابی کا انحصار حالتِ بیداری پر ہے، کیونکہ اسی کا ردِ عمل ہمیشہ خیال میں گھومتا رہتا ہے، اسی کے نتائجِ اعمال ہر خواب میں سامنے آتے رہتے ہیں، اور بالآخر اسی کے اقوال و افعال کی سزا و جزا آخرت میں مل جاتی ہے، پس ہر فردِ مسلم کے لئے یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ وہ خدا و رسول کی اطاعت شایانِ شان طریقے سے کرے، تاکہ اللہ تعالیٰ کے وہ عظیم الشّان وعدے جو اہلِ ایمان کے دین و دنیا کے بارے میں ہیں، اس کے حق میں پورے ہو جائیں۔

۲۔ آئینۂ ظاہر آدمی کی شکل و صورت کی عکاسی تو ضرور کرتا ہے، لیکن وہ چہرۂ جان و دل کو کیسے دکھا سکتا تھا، یہی تو سبب ہے کہ

 

۳۵

 

اس ضروری کام کے لئے قادرِ مطلق نے ایک جداگانہ اور معجزانہ آئینہ بنا کر دیا، اور وہ خواب ہے، تاکہ ہر ہوشمند انسان اس آئینے میں اپنے قول و فعل کی خوبی و زِشتی کو اس طرح تفصیل سے دیکھ سکے، جس طرح کہ وہ کل قیامت کے دن نامۂ اعمال کو دیکھے گا، لیکن ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ کتابِ خواب میں بار بار اصلاح و درستی ہو سکتی ہے، مگر کتابِ اعمال مل جانے کے بعد اس میں کوئی ترمیم ممکن نہیں۔

۳۔ خواب و روحانیّت میں آسمانی چیزوں کو دیکھنے کی جو بشارت ہے، وہ سات درجوں میں پائی جاتی ہے، وہ درجاتِ رفیع نیچے سے اوپر کی طرف اس ترتیب سے ہیں: اوّل آسمان ابر آلود، دوم آسمان بارش برساتا ہوا، سوم آسمان صاف شفاف اور اس میں کچھ نہ ہو، چہارم آسمان ستاروں سے بھرا ہوا، پنجم آسمان ماہِ تابان کے ساتھ، ششم آسمان خورشیدِ انور کے ساتھ اور ہفتم وہ مرتبہ جو مشرق بھی ہے اور مغرب بھی، جس کو تمام انبیاء و اولیاء نے دیکھ لیا ہے۔

۴۔ آدمی کے خوابوں کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کی اصلاح کرتا رہے، اگر کوئی بشارت ملی ہے، تو اس نعمت پر بڑی عاجزی سے اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر کرے، اور اگر کسی قسم کی تنبیہہ کی گئی ہے، تو پھر توبہ اور کثرتِ ذکر کا طریقہ اختیار کرے، تا کہ خداوندِ عالم اس کے حال پر رحم فرمائے۔

۵۔ اس موضوع کے سلسلے میں ایک بڑا اہم اور بنیادی قانون یہ

 

۳۶

ہے کہ تمام انبیاء علیہم السّلام اپنے اپنے وقت کے لوگوں کو خوشخبری دینے اور ڈرانے کی غرض سے بھیجے گئے تھے (مبشرین و منذرین، ۰۲: ۲۱۳) اور یہ کام چار طریقوں سے انجام پاتا ہے: کتبِ سماوی سے، پیغمبروں کی زبانِ مبارک سے، ان حضرات کے خلفاء سے، اور خواب کے توسط سے، پس یہ خوب سوچنے کا مقام ہے کہ جب کسی مسلمان کو خواب میں ایک بشارت ملتی ہے، تو اس کا پس منظر کیا ہو سکتا ہے؟ یعنی اس بشارت کے اصل بشیر کون ہیں؟ میرا یقین ہے کہ یہ وہی ذاتِ عالی صفات ہے، جس کو رحمتِ عالم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نورانی خواب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوّت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے، لہٰذا اس کی ترقی بے حد ضروری ہے، جو علم و عمل سے ہو سکتی ہے۔

۶۔ سورۂ نباء (۷۸: ۰۹) میں ارشاد ہے: وَّ جَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا (۷۸: ۰۹) اور ہم نے تمہاری نیند کو آرام (کا باعث) قرار دیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ نیند کی تو بہت سی قسمیں ہیں، ان میں سے کونسی نیند ایسی ہو سکتی ہے، جو خدائے علیم و حکیم کی تعریف و توصیف کے اس معیار کے مطابق ہو؟ اس کا جواب تین باتوں پر مشتمل ہے: یہ اصل نیند ہے جو بگڑی ہوئی نہیں، یہ اصلاح و ترقی یافتہ نیند ہے، اور روحانیّت ہے، جو نیند کی طرح ہوا کرتی ہے۔

۷۔ انبیاء علیہم السّلام کی آنکھیں سو جاتی ہیں، مگر ان کے قلوب نہیں

 

۳۷

 

سوتے، اگر ایسا ہے تو پھر لازمی طور پر ان حضرات کی مبارک پیشانی میں نورِ ذکر خود بخود بولتا رہتا ہوگا، اب آپ کو یہ سوچنا پڑے گا کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے جس خواب کی بناء پر اپنے فرزندِ عزیز کو ذبح کرنا چاہا، وہ خواب کس نوعیت کا ہو گا (۳۷: ۱۰۲)؟ آیا وہ ایسا خواب تھا، جو روحانیّت کے ساتھ مل کر ایک ہو جاتا ہے؟ کیونکہ جب مکمل اور بھرپور روحانیّت آ جاتی ہے تو وہ صرف خواب ہی پر نہیں، بلکہ بیداری اور خیال پر بھی محیط و حاوی ہو جاتی ہے۔

۸۔ نیند نہ تو مختلف جانوروں میں ایک جیسی ہے، نہ سب انسانوں میں، کیونکہ پیشہ یا عمر کی وجہ سے، اور عبادت و ریاضت کے سبب سے اس میں بڑا فرق پایا جاتا ہے، چنانچہ خدا کے دوستوں کو اس بات کا بخوبی تجربہ حاصل ہو جاتا ہے کہ ایک منزل میں جا کر نیند اور روحانیّت ایک ہو جاتی ہے، اور اسی دوران وہ نیک بخت لوگ اپنی نفسانی موت اور اس کے عجیب و غریب بھیدوں کو دیکھتے ہیں، پس منام (نیند، ۳۹: ۴۲) عوام کی حالتِ خواب ہے اور خواص کی روحانیّت، جس میں دونوں گروہ کی روح قبض کی جاتی ہے (۳۹: ۴۲)۔

۹۔ ملکوت آسمان میں بھی ہے اور زمین پر بھی (۰۶: ۷۵) اگر مومن کا خواب نورانی ہے، تو وہ اس میں ملکوتِ سماوی و ارضی کی چیزوں کو دیکھ سکتا ہے، اور یہ مشاہدہ دیدۂ دل سے عالمِ شخصی میں ہوگا، اس حال میں تمام چیزیں آیات کہلائیں گی (۴۱: ۵۳) اور ہر آیت کے معنی میں

 

۳۸

 

علم ہوگا اور حکمت ہوگی، کیونکہ آیت معجزہ ہے۔

۱۰۔ جب نورانی خواب اجزائے نبوّت میں سے ہے، اور اس کی ہر چیز ایک آیۂ قدرت (نشانی) ہے، تو اس کی کئی تعبیریں ہو سکتی ہیں، در حالے کہ اس کی فوری اور عمومی تعبیر اپنی جگہ پر صحیح ہوگی، تاکہ اس پہلودار قانون کی بدولت ہر درجہ اور ہر پیشہ کے لوگوں کو ان کے احوال کے مطابق خواب کا اشارہ ہو سکے، یہی تو سبب ہے کہ ہر آدمی کو اس کے روزمرہ ماحول کے مطابق خواب دکھائے جاتے ہیں۔

۱۱۔ ان چند صفحات پر عالمِ خواب کی ہر چیز کی تعبیر ممکن ہی نہیں، لیکن یہاں مقصد صرف اتنا ہے کہ قرآنی تعبیرِ خواب کے ثبوت میں کچھ دلیلیں اور مثالیں پیش کی جائیں، تاکہ لوگ اس علمِ شریف سے (جو قرآن میں ہے ) فائدہ حاصل کریں، اور اسی معیار پر اپنی صحت و بیماری کو پرکھ سکیں۔

۱۲۔ سورۂ نحل (۱۶: ۰۵ تا ۰۸) میں دیکھ لیں کہ وہاں چوپایوں کی ایک بنیادی تعبیر کا اشارہ موجود ہے، وہ یہ ہے کہ بھیڑ، بکری، گائے وغیرہ کو اپنی جگہ ٹھیک ٹھاک خواب میں دیکھنا فائدے کی علامت ہے، جو روحانی طور پر بھی ہو سکتا ہے، اور مادّی طور پر بھی، اور غیر مفید اشارہ وہ ہے، جس میں چوپائے تتر بتر اور ضائع ہو جاتے ہیں، اور اگر گھوڑا وغیرہ خواب میں آتا ہے تو یہ ایک طرف روحانی جہاد و سفر کی دلیل ہے، اور دوسری طرف جسمانی سفر کی۔

۳۹

۱۳۔ خواب میں کتا جیسے درندے کا حملہ کرنا اچھی بات نہیں (۰۷: ۱۷۶) ایسے خوابوں کے متعلق بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ کسی بیرونی دشمن کی مثال ہے، حالانکہ بہت ممکن ہے کہ یہ آدمی کا اندرونی کتا (خوئے مردم آزاری) ہو، کیونکہ عالمِ شخصی میں سب کچھ ہے، چنانچہ ذیل میں ایک مثالی نقشہ درج ہے، جس کے ذریعہ آپ یہ معلوم کر سکیں گے کہ خواب و روحانیّت میں کونسا جانور کس خصلت کو ظاہر کر رہا ہے، تاکہ آپ کو علمِ تعبیر کے ان خاص اصولوں سے آگہی ہونے کی وجہ سے اصلاحِ نفس کا عمل آسان تر اور تیز تر ہو سکے:

نقشۂ مظاہر:

مظہر غالب خصلت
گائے نفسِ خورندہ، پرخوری ۱
خرگوش خوابِ غفلت، نیند کی کثرت ۲
اونٹ، ریچھ، سانپ دشمنی، کینہ ۳
طاؤس (مور) فخر و ناز ۴
ہاتھی تکبر، خودبینی ۵
لومڑی مکر و فریب ۶
کتا، شیر، وغیرہ غیض و غضب، مردم آزاری ۷
کوا، وغیرہ حرام خوری ۸

 

۴۰

 

 

گدھا، مرغا، وغیرہ شہوت پرستی ۹
سور، بطخ، چیونٹی حرص، طمع ۱۰
بھیڑیا کج روی، بے راہی ۱۱
بندر، طوطا نقالی، بھانڈپن ۱۲
ہدہد جاسوسی ۱۳
بلی چاپلوسی، خوش آمدی ۱۴
چوہا چوری ۱۵

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لنڈن
۷ صفر المظفر ۱۴۰۹ھ / ۱۹ ستمبر ۱۹۸۸ء

۴۱

قرآن فہمی سے علاج

۱۔ جس شخص کو وسوسۂ شیطانی ستاتا ہے، جو آدمی خود کو ہر قسم کی برائیوں سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے، جس بندے کو آفاتِ سماوی و ارضی کا اندیشہ ہو، جو انسان دل ہی دل میں دشمنوں اور مخالفوں سے ڈرتا ہو، جو کوئی کسی بیماری سے نالان ہو، جس کو گوناگون برکتوں کی ضرورت ہو، جس کو آسمانی ہدایت کی روشنیوں سے عشق ہو، اور جو مومن خدائی علم و عرفان کا شیدائی ہے، وہ سب کے سب عقیدۂ راسخ، پاک دلی، اور امیدِ واثق کے ساتھ قلعۂ قرآن میں داخل ہو جائیں، اور شب و روز اس کے فیوض و برکات سے مستفید ہوتے رہیں، یہ دعوت بزبانِ حکمت خود قرآن ہی کی ہے۔

 

۲۔ قانونِ فطرت کی اس روشن مثال کو سبھی جانتے ہیں کہ دنیوی تعلیم کی بہت سی سطحیں ہوا کرتی ہیں، یعنی اس کے بہت سے درجے ہوتے ہیں، اور ہوشمند لوگ عمرِ گرانمایہ کے ایک بڑے حصّے کو حصولِ علم میں اور باقی ماندہ زندگی کو تجربات و معلومات میں صرف کرتے

 

۴۲

 

ہیں، پھر بھی وہ بحقیقت یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ انہوں نے دریائے علم کو اپنے کوزۂ دل میں انڈیل لیا، یہ تو صرف دنیاوی علم کی بات ہوگئی اب اسی مثال کی مدد سے قرآنی علم کے بحرِ بے پایان کا تصوّر کریں، جس کے ساحل سے بے شمار لوگ قطار در قطار اپنی اپنی ظرفیت کے مطابق آبِ علم لے رہے ہیں، مگر سوال ہے کہ ہم لوگوں کے پاس کیا کیا ظروف ہیں؟ جواب: مشک، مشکیزہ، بالٹی، پخال، چھاگل، دیگچہ، مٹکا، کوزہ، جگ، گلاس وغیرہ، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ آیا یہ کہا جائے گا کہ لوگوں نے سارا سمندر پی لیا؟ نہیں نہیں، ہرگز نہیں۔

۳۔ سورۂ کہف (۱۸: ۱۰۹) میں دیکھ لیجئے: (اے رسول ان لوگوں سے) کہو کہ اگر میرے پروردگار کی باتوں (کو لکھنے) کے واسطے سمندر بھی روشنائی بن جائے تو قبل اس کے کہ میرے پروردگار کی باتیں ختم ہوں سمندر ہی ختم ہو جائے گا اگرچہ ہم ویسا ہی (ایک اور سمندر) اس کی مدد کو لائیں۔ یہ علمِ الٰہی کی تعریف ہے، جو قرآنِ پاک کی روح و روحانیّت اور کلماتِ تامّات میں ہے، کیونکہ قرآنِ مجید لوحِ محفوظ میں بھی ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) جس سے کوئی علم باہر نہیں (۳۶: ۱۲) جب خدائی علم کے سمندر کی عظمت و بزرگی اور وسعت کا یہ عالم ہے کہ فرشتہ، جنّ، اور بشر سب کے سب مل کر بھی اس کا احاطہ نہیں کر سکتے، تو پھر ہم بدرجۂ انتہا خلوص و عاجزی کے ساتھ قرآنِ عزیز سے پوچھتے ہیں کہ اس سمندر کی غرقابی سے بچکر منزلِ قرب و فنا سے ہمکنار ہو جانے کا طریقہ کونسا ہے؟ وہ ازراہِ

 

۴۳

 

عنایت و ہدایت فرماتا ہے: اور اسی کی ہیں اونچی کی ہوئی کشتیاں جو پہاڑوں کی طرح سمندر میں کھڑی رہتی ہیں (۵۵: ۲۴) پس یہاں سمندر سے علمِ الٰہی مراد ہے، اور عالی مرتبت کشتیاں انبیاء و صدیقین (اولیاء، ۰۴: ۶۹) ہیں، جو بحرِ روحانیّت کی کشتی بھی ہیں اور کشتیبان بھی۔

۴۔ یہ پُرحکمت ارشاد بھی مذکورۂ بالا زندہ کشتیوں کے بارے میں ہے: جتنے ان کشتیوں میں ہیں وہ فنا (فی اللہ) ہو جاتے ہیں اور صرف تمہارے پروردگار کی وجہ جو عظمت اور کرامت والی ہے باقی رہتی ہے (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) اس صوفیانہ فنا سے متعلق حقائق و معارف کو جاننے کی ضرورت ہے، تاکہ کامل یقین ہو کہ وہ فنا حق ہے، اور وہ یہی ہے۔

۵۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۰) میں بھی ان عالیقدر کشتیوں کا حکمت آگین اشارہ موجود ہے، اور وہ ارشاد یہ ہے: اور ہم نے یقیناً آدم کی اولاد کو عزت دی اور خشکی اور سمندر میں ان کو (جانوروں اور کشتیوں کے ذریعے) لئے گئے اور انہیں پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر اچھی خاصی فضیلت دی (۱۷: ۷۰) اگرچہ بظاہر اولادِ آدم سارے انسان ہیں، لیکن بحقیقت حضرتِ آدم علیہ السّلام کا دینی اور علمی ورثہ صرف ان حضرات کو نصیب ہوا، جن کو قرآنِ حکیم نے منعم علیہم (۰۴: ۶۹) کے خطاب سے ممتاز فرمایا ہے، پس یہی صاحبان حضرتِ آدم کی معنوی اولاد ہیں، خشکی سے علمِ ظاہر مراد ہے، سمندر علمِ باطن ہے، کشتیاں انبیاء و اولیاء ہیں، پاکیزہ چیزوں سے علم و

 

۴۴

 

حکمت مراد ہے، اور مخلوقات دوسرے لوگ ہیں، جن کو حضرتِ آدم علیہ السّلام کی یہ مقدّس وراثت نہیں ملی، کیونکہ اسلام سے باہر کوئی دینی کرامت و فضیلت نہیں۔

۶۔ قرآنِ حکیم کا یہ پُرحکمت اشارہ کتنا عالیشان، کیسا دلنشین و دلنواز،اور کس قدر نوازشات سے بھرپور ہے، کہ اس میں بحرِ روحانیّت کی راہ سے منزلِ قرب و فنا میں پہنچا دینے کی بشارت دی گئی ہے، پس اہلِ ایمان پر واجب ہے کہ وہ آیاتِ قرآن میں خوب تفکر و تدبر کریں۔

۷۔ سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۱۴) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرمایا جاتا ہے: و قل ربّ زدنی علماً ۔ اور آپ یہ دعا کیا کیجئے کہ اے میرے ربّ میرا علم بڑھا دے (۲۰: ۱۱۴) اس حکمِ عالی سے ظاہر ہے کہ حضورِ انور ہر وقت یہ دعا کرتے رہے، اور اسی طرح آپ کے علم میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہا، تا آنکہ فرشِ زمین سے لے کر عرشِ برین تک روحانی علم کی سیڑھی لگ گئی، اور اس مبارک دعا میں مومنین کے لئے یہ تاکیدی اشارہ ہے کہ وہ قرآن فہمی کے سلسلے میں علم کے بے حد محتاج ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ یہی دعا کرتے رہیں۔

۸۔ قرآنِ حکیم اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک ایسی باکمال اور بے مثال کتاب ہے، کہ اس کی گہرائیوں کے علومِ مخفی برکتوں اور حکمتوں کے نام سے حاصل ہو جاتے ہیں، اور اس لطیف و شیرین تحصیل کا گہرا

 

۴۵

 

تعلق غور و فکر سے ہے، چنانچہ اس امرِ خاص و ضروری کی طرف قرآنِ پاک میں جابجا پُرزور توجہ دلائی گئی ہے، جس کی ایک مثال سورۂ صٓ (۳۸: ۲۹) سے یہ ہے (ترجمہ): یہ ایک بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر اس واسطے نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہلِ دانش نصیحت حاصل کریں (۳۸: ۲۹) دوسری مثال سورۂ محمد (۴۷: ۲۴) سے لیجئے: تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا دلوں پر قفل لگ رہے ہیں (۴۷: ۲۴) ان دونوں مثالوں سے کسی شک کے بغیر یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ قرآن فہمی کے لئے عقل و دانش اور غور و فکر ازبس ضروری ہے۔

۹۔ سورۂ اعراف (۰۷: ۲۰۴) میں ارشاد ہوا ہے: (لوگو) جب قرآن پڑھا جائے تو کان لگا کر سنو اور چپ چاپ رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے (۰۷: ۲۰۴) رحم کرم کو کہتے ہیں، یہ مہربانی کا نام ہے، یہی دیا، بخشش، اور عفو بھی ہے، کیوں نہ ہو، جبکہ رحم کی صفتِ عالیہ رحمان و رحیم ہی کی ہے، یقیناًسامعینِ قرآن کے جملہ احوال پر رحم کیا جائے گا، خواہ کوئی بیماری کی حالت میں ہو، یا کسی اور تکلیف میں، بہرکیف خداوندِ مہربان اس پر نظرِ رحمت ڈالے گا۔

۱۰۔ خدائے بزرگ و برتر کا ایک نام شافئ مطلق ہے، کیونکہ شفا اور صحت حقیقی معنوں میں اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے، اور وہی شفا و صحت اور تسکین دیتا ہے، جیسا کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے

 

۴۶

 

بارے میں ارشاد ہوا ہے: وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ (۲۶: ۸۰) اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھ کو شفا دیتا ہے (۲۶: ۸۰) یہ بیماری جسمانی، روحانی، اور عقلانی میں سے کوئی بھی ہوسکتی ہے، پس آپ قرآنِ مجید کو ہر قسم کی بیماری سے شفایابی کی نیت سے پڑھا کریں، اور اس کے صحیح معنوں کو سمجھنے کے لئے غور و فکر سے کام لیں، ان شاء اللہ کامیابی ہوگی، کیونکہ قرآنِ عزیز شافئ مطلق کا شفا بخش کلام ہے، جس میں ہر قسم کے امراض کے لئے نسخہ ہائے لاہوتی موجود ہیں۔

۱۱۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکمت سے مملو ارشاد ہے : فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ (۰۲: ۱۵۲) پس تم میری یاد کرو تو میں (بھی) تمہاری یاد کروں گا (۰۲: ۱۵۲) یہ ایمان افروز اور روح پرورخطاب مسلمین سے فرمایا گیا ہے، اور اب یہ بھی دیکھ لیں کہ منافقین کے بارے میں کیا ارشاد ہوا ہے: نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِیَهُمْؕ (۰۹: ۶۷) وہ لوگ خدا کو بھول گئے تو خدا بھی (گویا) ان کو بھول گیا (۰۹: ۶۷) تاہم یہاں یہ بہت ہی ضروری سوال ہے کہ خدائے پاک و برتر کس طرح اپنے بندوں کو یاد فرماتا ہے؟ اور وہ جلّ شانہ کیسے کسی منافق کو بھول جاتا ہے؟ یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے! اس کا جواب یہ ہے کہ جب بندۂ مومن بصد عاجزی و خاکساری مٹ مٹ کر اللہ کو یاد کرتا ہے، تو ایسے میں اس کو خداوندِ عالم نظرِ رحمت سے دیکھتا ہے، رحمت اگرچہ ایک لفظ ہے، لیکن اس کی نورانی معنویت کا پھیلاؤ اور دوسرے معنوں سے لگاؤ (تعلق) ایک کائنات ہے، لہٰذا نظرِ رحمت

 

۴۷

 

کی بہت ہی مختصر تعریف ذیل کی طرح ہے:

۱۲۔ رحمت سب سے پہلے “اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ” (۰۱: ۰۴) سے شروع ہو جاتی ہے، اس لئے یہ لذّتِ بندگی اور نورِ تائید ہے، پھر یہ حلاوت اور روشنی کچھ آگے چل کر ایک ذاتی کائنات (عالمِ شخصی) بن جاتی ہے، جس میں بے شمار نعمتیں ہوا کرتی ہیں، اور اس کی سب سے بڑی نعمت ہے اللہ اور اس کے رسول کا پاک عشق، مگر اس پُرحکمت عشق کو یہ بات ہرگز پسند نہیں کہ آپ کو مجنون بنا ڈالے، اور آپ معاشرے سے منقطع ہوکر راہِ بیابان اختیار کریں، اور دوسری لاتعداد نعمتیں ہیں، جن کی ایک سردار نعمت کا نام علم ہے، جس طرح ظاہری علم کی بدولت آج سائنسی چیزوں کی دنیا لوگوں کے سامنے لائی گئی ہے، اسی طرح خدائی علم کی برکتوں سے آپ کی ذات میں ایک پُرنور ذاتی دنیا کے ہونے میں کیا تعجب ہو سکتا ہے، اگر آپ کو اس بات پر یقین ہے، تو پھر سن لیجئے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو یاد کرنا درجہ بدرجہ ہے، جس کی ایک مثال یہاں درج ہوئی، اب رہا سوال منافق کے بارے میں کہ اس کو کس معنیٰ میں خدا یاد نہیں فرماتا؟ تو اس کے متعلق صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ اس پر نظرِ رحمت نہیں ہوتی ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لنڈن
۱۱ صفر المظفر ۱۴۰۹ھ / ۲۲ ستمبر ۱۹۸۸ء

۴۸

مختلف حکمتیں

۱۔ سوال: انسان کے دل میں ناخواستہ اور بے اختیار باتیں کیوں آتی ہیں؟ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ جواب: دل زندگی اور حواس کا سرچشمہ ہے، اس لئے حیات و بقا اور شعور کی نہر جاری رہنے کے لئے اس میں کچھ ہونا ضروری ہے، چنانچہ دل جب آدمی کے باضابطہ استعمال کے بغیر ہوتا ہے، تو اس وقت موجودہ حالت و کیفیت کے مطابق اس میں تقویٰ یا فجور کی کوئی بات ڈالی جاتی ہے (۹۱: ۰۸) اسی لئے کہتے ہیں کہ دل میں جو بات گزرتی ہے، اس کی چار قسمیں ہیں: رحمانی، ملکی، شیطانی، اور نفسی، اور انہی چار وجوہ سے دل میں خود بخود کوئی بات ہونے لگتی ہے، وہ اگر رحمانی یا ملکی ہے، تو اسے القا یا الہام کہتے ہیں، شیطانی ہے تو وسوسہ ، اور اگر نفسی ہے تو حدیثِ نفسی کہا جاتا ہے۔

۲۔ سوال: انفرادی اور ذاتی اعتبار سے توفیق اور ہدایت کی تعریف و شناخت کیا ہے؟ اور ا س کا حصول کس طرح ممکن ہو جاتا ہے؟ جواب:

 

۴۹

 

توفیق و ہدایت بہت سے درجات پر مشتمل ہے، مگر اس کی خاص صورت قرآنی ارشاد میں یہ ہے: کوئی مصیبت نہیں آتی ہے مگر خدا کے حکم سے، اور جو شخص اللہ پر (کامل) ایمان رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے قلب کی ہدایت کرتا ہے اور خدا ہر چیز کو خوب جانتا ہے (۶۴: ۱۱) یعنی جب بندۂ مومن عبادت و ریاضت اور علم و عمل کے ساتھ راہِ خدا کی ظاہری اور باطنی آزمائشوں سے گزر جاتا ہے، تو ربّ العزّت اس کو خصوصی توفیقات و ہدایات سے نوازتا ہے۔

۳۔ انبیاء علیہم السّلام کی دعائیں: انبیائے قرآن کے پُرحکمت قصّوں میں اہلِ ایمان کی دینی زندگی کے لئے اعلیٰ اور عظیم نمونے موجود ہیں، انہی روشن مثالوں میں وہ دعائیہ کلمات بھی شامل ہیں، جن کو حضراتِ انبیاء بوقتِ شدائد و مصائب پڑھا کرتے تھے، یہ دعائیں ہر فردِ مسلم کے لئے آسمانی دارالشّفاء (ہسپتال، یعنی قرآن) کی بعض خاص ادویہ کی حیثیت رکھتی ہیں، کیونکہ یہ دعوات اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک پہلے بھی پسندیدہ اور مقبول تھیں، اور اب بھی ایسی ہی ہیں، مثال کے طور پر دیکھئے: لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ (۲۱: ۸۷) تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک و پاکیزہ ہے بے شک میں قصوروار ہوں۔

۵۰

۴۔ ظہورِعالمِ ذرّ: ذرّہ کی جمع ذر ہے، یعنی ذرّات، ذرّہ ایک بہت چھوٹی سرخ چیونٹی کا نام ہے، نیز ذرّہ غبار کا ریزہ ہے، جو روشندان میں دھوپ کے اندر اڑتا ہوا نظر آتا ہے، ذرّہ کا ایک ہم معنی لفظ (مترادف) قرآن میں ہباء ہے (۲۵: ۲۳، ۵۶: ۰۶) چنانچہ عالمِ ذرّ کے معنی ہیں دنیائے ذرّات، اور اس سے ذراتِ روح کی دنیا مراد ہے، جو عالمِ صغیر بھی ہے اور عالمِ شخصی بھی، یاد رہے کہ اصل روحانی ترقی عالمِ ذرّ کے ظہور کے ساتھ شروع ہو جاتی ہے، یہ ظہور زبردست روحانی انقلاب ہے، اس سے پہلے جو تیز روشنیوں کا مشاہدہ ہوتا ہے، وہ محض بہت بڑا امتحان ہے۔

۵۔ حکمتِ منفی نما: قرآنِ حکیم کے ذو وجوہ ہونے کا ذکر کتابِ “علمی علاج” میں ہو چکا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آیۂ کریمہ کے کئی معنوی پہلو (وجوہ) ہوا کرتے ہیں، اس کی ایک مثال سورۂ واقعہ (۵۶: ۰۵ تا ۰۶) میں دیکھ لیجئے: اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ ہو جائیں گے پھر ذرّے بن کر اڑنے لگیں گے۔ یعنی روح، جو پہاڑ کی طرح منجمد تھی، اب اس کے انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات ہو کر پرواز کرنے لگے، اور ہر ذرّہ ایک زندہ روح ہے، کیونکہ عالمِ ذرّ کا ظہور انہی ذرّات میں سے ہوتا ہے، اور یہی عالمِ ذرّ ہر آدمی کا نامۂ اعمال بھی ہے، جیسا کہ سورۂ فرقان (۲۵: ۲۳) میں ارشاد ہوا ہے: اور ہم ان کے ان کاموں کی طرف

 

۵۱

 

جو کہ وہ کر چکے تھے متوجہ ہوں گے سو ان کو ایسا کر دیں گے جیسا پریشان غبار (ہباء ، ۲۵: ۲۳) یہ حکمتِ منفی نما ہے، یعنی ایسی حکمت، جو بظاہر منفی دکھائی دیتی ہے، مگر حقیقت میں منفی نہیں ہے، اس لئے کہ یہ درپردہ نامۂ اعمال کے ایک عظیم راز کا تذکرہ ہے۔

۶۔ نامۂ اعمال (کتابِ اعمال): جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، نامۂ اعمال دنیا کی کتابوں سے قطعی مختلف اور بڑا عجیب و غریب ہوگا، کیونکہ وہ بکھرے ہوئے ذرّاتِ روح پر مبنی ہے، جیسے سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۱۳) میں فرمایا گیا ہے (ترجمہ): اور ہم نے ہر آدمی کے نامۂ اعمال کو اس کے گلے میں لگا دیا ہے اور قیامت کے دن ہم اسے اس کے لئے نکال دیں گے کہ وہ اس کو ایک بکھری ہوئی (منشور) کتاب کی صورت میں پائے گا (۱۷: ۱۳) آیت میں جس طرح لفظِ منشور آیا ہے، اس کے معنی ہیں بکھری ہوئی کتاب، تاہم یہ کتابِ اعمال کی ابتدائی شکل ہو گی، اور آگے جا کر اس کا ظہور ایک نورانی شخص کی طرح ہو گا۔

۷۔ انس و جنّ اور فرشتہ: آپ قرآنِ حکیم کی روشنی میں یہ معلوم کر لیں کہ انسان، جنّ، اور فرشتہ کبھی کسی مقام پر ایک ہو سکتے ہیں، یا نہیں؟ آیا ان کے آپس میں اس وقت کوئی رشتہ ہے؟ یا ہر ایک ازل ہی سے ایک جداگانہ مخلوق ہے؟ یہ اور ان جیسے دوسرے سوالات

 

۵۲

 

بہت بڑی اہمیت کے حامل ہیں، چنانچہ اس بارے میں عرض یہ کرنا ہے کہ تخلیق دراصل دائرۂ فطرت پر واقع ہو جاتی ہے، جس کو قرآنِ پاک نے خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ (تخلیق در تخلیق، ۳۹: ۰۶) فرمایا، اور اس کی تفصیل سورۂ مومنون (۲۳: ۱۲ تا ۱۴) میں ہے، پس اسی مدور سلسلے کی آخری کڑی خلقِ آخر یعنی مخلوقِ لطیف ہے، اور وہ ارشاد یہ ہے: ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَؕ (۲۳: ۱۴) پھر ہم نے اس کو ایک دوسری مخلوق (یا آخری درجے کی مخلوق) بنا دیا۔

۸۔ درجۂ کمال کی مخلوق: خلقِ آخر یا درجۂ کمال کی مخلوق انسان ہے، مگر جسمِ لطیف میں، اور یہی لطیف جسم جنّ بھی ہے اور فرشتہ بھی، جس کی چند دلیلیں یہ ہیں: الف: فرمایا گیا ہے: اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے بنایا، پھر ہم نے اس کو نطفہ سے بنایا جو کہ ایک محفوظ مقام میں رہا (یہاں جوہرِ خاک نہیں رہا) پھر ہم نے اس نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنا دیا (اب اس منزل میں نطفہ نہیں ہے) پھر ہم نے اس خون کے لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا (یہاں لوتھڑا نہیں رہا) پھر ہم نے اس بوٹی کو ہڈیاں بنا دیا (اب وہ بوٹی یکسر بدل گئی) پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا (اس حال میں آدمی کی جسمانی تخلیق مکمل ہو گئی، اور وہ دنیا میں پیدا ہو کر مراحلِ زندگی میں آگے بڑھتا گیا) پھر ہم نے اس کو ایک دوسری ہی مخلوق بنا دیا (خلقاً اٰخر، یعنی آخری درجے کی

 

۵۳

 

مخلوق، یا مخلوقِ لطیف، اب یہ ہڈیوں اور گوشت سے آزاد ہے، کیونکہ اس ربّانی تعلیم میں یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہر دوسری تخلیق میں پہلی حالت نہیں رہتی ہے)۔ ب: “خلقاً اٰخر” ( آخری درجے کی مخلوق) فرمانا ہی بجائے خود ایک روشن دلیل ہے کہ یہاں مخلوقِ لطیف ہی کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ج: فتبٰرک اللّٰہ (تو خدا بہت برکت والا ہے) یہ تیسری دلیل ہے، کیونکہ اس صفتِ خداوندی میں لطیف مخلوقات کو برکتوں سے نوازنے کا اشارہ ہے۔ د: چوتھی دلیل ہے احسن الخٰلقین (خدا جو تمام بنانے والوں سے بڑھ کر ہے) اس لئے کہ خالقِ اکبر کی اس تعریف میں سب سے اعلیٰ مخلوقات کی تخلیق کا تذکرہ موجود ہے۔

۹۔ پروانہ اور ریشم کا کیڑا: اللہ تعالیٰ کا قدرتِ کاملہ کے بے حساب عجائب و غرائب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی کارفرمائی سے پروانہ اور ریشم کا کیڑا ایک دوسرے سے پیدا ہو جاتے ہیں، کہ ان دونوں میں سے پروانہ مخلوقِ لطیف کی مثال ہے اور کیڑا مخلوقِ کثیف کی، اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ایک آگے اور ایک پیچھے نہیں، بلکہ دونوں برابر برابر دائرۂ آفرینش پر گھوم رہے ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ یہ دراصل ایک ہی مخلوق ہے، وہی اس دائرے پر گردش کر رہی ہے، یقیناً یہی قانون ہے، جو حضرتِ آدم

 

۵۴

 

اور روحانیین (روحانی کی جمع روحانیین ہے) سے فرمایا گیا: قلنا اھبطوا منھا جمیعا (۰۲: ۳۸) ہم نے حکم دیا کہ نیچے اترو اس بہشت سے سب کے سب۔ غرض بہشت میں یہ سب لطیف تھے، مگر دنیا میں آکر کثیف ہوگئے، نقشۂ ذیل کو دیکھئے:

نصیرالدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لنڈن
سوموار ۱۴ صفر المظفر ۱۴۰۹ھ / ۲۶ ستمبر ۱۹۸۸ء

۵۵

 

عقل و دانش کی فضیلت

۱۔ حدیثِ شریف میں ارشاد ہوا ہے کہ جب اللہ جلّ شانہ نے عقل کو پیدا کیا تو اسے نطق بخشا اور اس سے کہا: آگے آ، وہ آگے آئی، پھر کہا: پیچھے جا، وہ پیچھے چلی گئی، پھر کہا: میرے عزّت و جلالت کی قسم! میں نے تجھ سے زیادہ محبوب کوئی شیٔ نہیں پیدا کی ہے، اور میں تجھے اسی کے اندر مکمل کروں گا، جو مجھے پسند ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک اور ارشاد اس طرح سے ہے: خدائے بزرگ و برتر نے کسی مخلوق کو جو اس کے نزدیک عقل سے زیادہ باعزّت ہو پیدا نہیں کیا۔

۲۔ عقل کے بارے میں حضرت علی علیہ السّلام فرماتے ہیں: العقل عقلان۔ مطبوع و مسموع ۔ عقل کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جو طبیعت میں ودیعت کی جاتی ہے، اور دوسری وہ جو سن کر حاصل ہوتی ہے۔ و لاینفع مسموع۔ اذا لم یک مطبوع ۔ اور جو سن کر حاصل ہوتی ہے وہ سودمند نہیں ہوتی، جبکہ طبیعت میں ودیعت کی جانے والی

 

۵۶

 

عقل موجود نہ ہو۔ کما لا ینفع ضوء الشمس۔ وضوء العین ممنوع ۔ جس طرح سے کہ آفتاب کی روشنی جب آنکھ میں روشنی نہ ہو تو بے فائدہ ہے (لغات القرآن، نعمانی، جلد دوم، ص ۱۴۷)۔

۳۔ عقل کا دوسرا نام لب ہے، جس کی جمع الباب ہے، یعنی عقلیں، لب کے معنی اس عقل کے ہیں، جو ہر طرح کی آمیزش سے خالص ہو، چونکہ لب ہر چیز کے خلاصہ اور جوہر کو کہتے ہیں، اور عقلِ خالص بھی انسان کا خلاصہ و جوہر ہی ہے، اس لئے اس کا نام لب ہوا، بعض لوگوں نے لب کے معنی پاکیزہ کے بتائے ہیں، غرض ہر لب عقل ہے، لیکن ہر عقل لب نہیں کہی جاسکتی، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید نے ان تمام احکام کو جن کا صرف عقولِ ذکیہ ہی ادراک کر سکتی ہیں “اولوا الالباب” ہی سے متعلق رکھا ہے (نعمانی)۔

۴۔ عقل کو “نھیۃ” بھی کہتے ہیں، جس کی جمع النُہیٰ ہے، نھیۃ نہی (بمنی روکنا، منع کرنا) سے ماخوذ ہے، عقل بھی انسان کو فعلِ قبیح اور غیر مناسب چیز سے روکتی ہے، اس لئے عقل کو نھیۃ کہا گیا، اولی النھیٰ (اہلِ عقل ) کا لفظ قرآنِ حکیم میں دو دفعہ آیا ہے (۲۰: ۵۴، ۲۰: ۱۲۸)۔

۵۔ سورۂ عنکبوت (۲۹: ۴۳) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: و تلک الامثال نضربھا للناس و ما یعقلھا الا العالمون ۔ اور ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں اور ان کو بس علماء ہی جانتے ہیں (۲۹: ۴۳)۔ اس آیۂ کریمہ میں عقلِ کامل کا اشارہ ہے، جس کا شروع میں ذکر

 

۵۷

 

ہوا، اور وہ علمائے ربّانی میں ہوا کرتی ہے، وہی حضرات خدا کی توفیق و تائید سے قرآنی مثالوں کو جانتے ہیں، پس ایسی عقلِ شریف کی بہت بڑی فضیلت ہوتی ہے، جو اس مقام پر کام کر رہی ہو۔

۶۔ عالمِ شخصی کی زمین ہی ارضِ روحانیّت ہے، جس کے مشاہدات و مطالعات سے عقل کو کمال ملتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: کیا یہ لوگ (عالمِ شخصی) کی زمین میں چلے پھرے نہیں تاکہ ان کے ایسے دل ہوتے جن سے سمجھتے، یا ان کے ایسے کان ہوتے جن کے ذریعے سے سنتے، کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ جو دل سینے میں ہیں وہ اندھے ہو جایا کرتے ہیں (۲۲: ۴۶) پس اس ارشادِ گرامی میں معرفتِ نفس (ذات) کی طرف دعوت دی گئی ہے، تاکہ معرفتِ ربّ سے دیدۂ دل ہمیشہ کے لئے روشن ہو جائے۔

۷۔ خود شناسی اور خدا شناسی کا دروازہ اور کہیں نہیں، صرف عالمِ نفسی (عالمِ شخصی) ہی میں کھل سکتا ہے، پھر اس کے بعد ایسے خوش نصیب لوگ آفاق میں بھی غور و فکر اور تعقل کر سکتے ہیں، دیکھئے آیۂ کریمہ کا ترجمہ: بلاشبہ آسمانوں کے اور زمین کے بنانے میں اور یکے بعد دیگرے رات اور دن کے آنے میں اور جہازوں میں جو کہ سمندر میں چلتے ہیں آدمیوں کے نفع کی چیزیں لے کر اور پانی میں جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے برسایا پھر اس سے زمین کو زندہ کیا اس کے مر جانے کے بعد اور ہر قسم کے جانور اس میں پھیلا دیئے

 

۵۸

 

اور ہواؤں کے بدلنے میں اور ابر میں جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر رہتا ہے دلائل ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں (۰۲: ۱۶۴)۔

۸۔ یہ بات آیۂ مقدسہ ہی کی ایک حقیقی تفسیر ہے کہ دینی عقل و علم سب سے بڑی پاکیزگی کا ذریعہ ہے، اور اس کے مقابلے میں جہالت و نادانی سب سے بڑی ناپاکی ہے، اور یہ ہدایت و تعلیم سورۂ یونس کے اس ارشاد کی ہے: وَ یَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ (۱۰: ۱۰۰) اور جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ان ہی لوگوں پر خدا (کفر و جہالت کی) گندگی ڈال دیتا ہے (۱۰: ۱۰۰) یعنی اسلام اور ایمان کے دائرے سے باہر رہنا جہالت کی ایسی پلیدی ہے کہ وہ کسی طرح سے بھی دُھل نہیں سکتی۔

۹۔ ہمیں قرآنِ پاک ہی کی روشنی میں یہ بھی دیکھنا اور جاننا چاہئے کہ ایسا بنیادی گناہ کون سا ہے، جس کے ہونے سے (بدی تو بدی ہی ہے) نیکی بھی بدی بن جاتی ہے، اور ایسے مجرم کو آخر کار دوزخ میں جانا پڑتا ہے؟ ہمارے اس سوال کا جواب سورۂ ملک (۶۷: ۱۰) سے ملتا ہے، اور وہ فرمانِ خداوندی یہ ہے: وَ قَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِیْۤ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ (۶۷: ۱۰) اور کہیں گے کہ اگر ہم بات سنتے یا عقل رکھتے تو (آج) دوزخیوں میں نہ ہوتے۔ اس حکم سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ عقل ہی بہشت بھی ہے اور راہِ بہشت بھی، اور جہالت دوزخ بھی ہے اور دوزخ کی زنجیر بھی۔

۵۹

۱۰۔ اب آپ قرآنِ مجید کے ان سولہ مقامات میں خوب غور سے دیکھیں، جہاں اولوا الالباب (صاحبانِ عقل) کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے تمام نیکیاں اور خوبیاں عقلِ کامل سے متعلق کرکے رکھی ہیں، اور کوئی نعمت ایسی نہیں، جو عقل و دانش کے اس وسیع دسترخوان پر نہ چنی گئی ہو، کیونکہ عقل ہی کو حکمت کہا گیا ہے، اور حکمت وہ ہے، جس کے عطا ہونے کے ساتھ ساتھ خیرِ کثیر بھی عطا ہو جاتی ہے، آپ یہ بھی سن لیں، اور شادمان ہو جائیے کہ عقل و علم کا ایک مخفی نام نور ہے، ہاں، یہ حقیقت ہے کہ عقل جب درجۂ کمال پر پہنچ جاتا ہے، تو اس کو اہلِ معرفت نورِعقل کے نام سے جانتے ہیں، کیونکہ عقل، علم، حکمت، معرفت، ہدایت، نور، یقین وغیرہ جیسے بہت سے معانی حقیقت میں ایک ہی ہیں۔

۱۱۔ قرآنِ حکیم میں جابجا درجات کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ وہ درجے علم یعنی عقل اور عمل کی بنیاد پر ہیں (آپ دیکھ سکتے ہیں ) اور اس موضوع کی ایک آیۂ مبارکہ کا اشارہ یہ بتاتا ہے کہ درجات عرشِ الٰہی تک جا پہنچتے ہیں (۴۰: ۱۵) ان درجوں کی تعداد الگ الگ مثالوں کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے، تاہم سورۂ معارج کے شروع میں جیسے ارشاد ہوا ہے (۷۰: ۰۳ تا ۰۵) اس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ درجات پچاس ہزار برس پر محیط ہیں، یعنی ایک دور افتادہ انسان کو فنا فی اللہ ہو جانے کے لئے روح اور عقل

 

۶۰

 

کے پچاس ہزار زینوں سے چڑھ جانا پڑتا ہے، اس مثال میں لوگوں کا تصوّر زینہ بزینہ اور درجہ بدرجہ صحیح ہے، لیکن ارادۂ خداوندی کا بیان اس سے الگ اور خاص ہے۔

۱۲۔ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نورِعقل اور نورِ ہدایت کے معنوں میں نورِ منزل اور روشن چراغ تھے (۰۵: ۱۵، ۳۳: ۴۶) چونکہ آپ کا نور دراصل خدائی نور تھا، اس لئے ہم یقینِ کامل کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ عقل و دانش کی یہ آسمانی روشنی نہ صرف ظاہر ہی میں اہلِ ایمان کے اجتماعات کو جگمگا رہی تھی، بلکہ اس کا سب سے بڑا کام اور سب سے عظیم معجزہ یہ تھا کہ بہت سے دلوں کو منور کر دے، اور یقیناًایسا ہی ہوا، کیونکہ بیماری دل میں ہوا کرتی ہے (جیسا کہ قرآن میں اس کا ذکر ہے، ۰۲: ۱۰) اور یہی مرض تاریکی بھی ہے، پس نور کا اصل کام بندۂ مومن کے دل میں ہے، اور وہ یہ کہ عقل و جان کی ہرگونہ ظلمت کو مٹا کر اس کی جگہ روشنی پھیلائے، تاکہ حواسِ باطن خوابِ غفلت سے جاگ اٹھیں اور اپنا کام شروع کر سکیں۔

۱۳۔ قلبِ سلیم (صحتمند دل) نورِعقل کا نام ہے، اور قلبِ سقیم (بیمار دل) ظلمتِ جہالت ہے، اور دونوں ضدین کے

 

۶۱

 

الگ الگ بہت سے نام ہیں، جن میں سے چند بطورِ مثال یہاں درج ہوئے ہیں، تاکہ اہلِ دانش کو یہ قانون معلوم ہو کہ قرآنِ حکیم کی ہر چیز (۲۰: ۹۸، یعنی ہر آیت) میں عقل و علم کا تذکرہ موجود ہے، خواہ ظاہری بیان جس شیٔ کا بھی ہو، مگر اس میں عقل و دانش کے انمول جواہر پنہان ہیں۔

قلبِ سلیم اور قلبِ سقیم

نورِ جہالت نورِ عقل
ظلمتِ کفر و نفاق نورِ اسلام و ایمان
ظلمتِ ضلالت نورِ ہدایت
ظلمتِ شرک نورِ توحید
ظلمتِ جہالت و نادانی نورِ علم و حکمت
ظلمتِ نسیان و غفلت نورِ ذکر و عبادت
ظلمتِ باطل نورِ حق و حقیقت
ظلمتِ کذب و شک نورِ صدق و یقین
ظلمتِ معصیت نورِ اطاعت
ظلمتِ بغض و عداوت نورِ عشق و محبت
ظلمتِ کور باطنی نورِ بصیرت
ظلمتِ شر نورِ خیر
ظلمتِ انکار (ناشناسی) نورِ معرفت

 

۱۴۔ اس دنیا میں اگر مضل (شیطان) نے لوگوں کے سینوں تک رسائی کر کے ان میں وسوسوں کی ظلمت پھیلائی، تو پھر دوسری جانب سے بموجبِ عدلِ الٰہی یہ ضروری امر بھی ممکن ہوا کہ ہادیانِ برحق بصورتِ نورِ ہدایت دلوں کی تاریکیوں کو مٹایا کریں، چنانچہ اس عظیم عمل کی ایک روشن مثال سورۂ انعام (۰۶: ۱۲۲) سے یہ ہے: اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَاؕ (۰۶: ۱۲۲) ایسا شخص جو کہ پہلے مردہ تھا ہم نے اس کو زندہ بنا دیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دے دیا کہ وہ اس کے ذریعہ

 

۶۲

 

لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کی حالت یہ ہو کہ وہ تاریکیوں میں ہے ان سے نکلنے ہی نہیں پاتا۔

۱۵۔ مذکورہ آیۂ کریمہ کی عظیم حکمت پر ایک حجاب ہے، اور وہ یہ ہے: میتاً ، یعنی مردہ، جس کے تین معنی ہیں: الف: سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۸) میں دیکھئے: و کنتم امواتا = اور تم بے جان تھے۔ ب: موت قبل از موت جو کامل انسانوں پر گزر جاتی ہے۔ ج: انسانِ کامل کی حیاتِ نورانی کے مقابلے میں سابقہ زندگی ایک مردگی سے زیادہ نہیں۔ اس کے بعد فی الناس کے معنی کو دیکھ لیں: آیا نور کی رسائی صرف یہی ہو سکتی ہے کہ لوگوں کے ظاہر میں چلے پھرے؟ یا اس کا کوئی بہت بڑا مقصد ہے؟ آپ اس میں خوب غور سے سوچ لیں۔

۱۶۔ حدیثِ شریف میں ارشاد ہوا ہے کہ: مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ خداوند تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے۔ ایسا مومن جو ایمان کے درجۂ کمال پر ہو، کون ہو سکتا ہے؟ انسانِ کامل، یعنی ولی، اور دوسرے مومنین سب کے سب اس اعلیٰ مقام پر نہیں ہو سکتے ہیں، جبکہ اس حکم کے مطابق ان کو مرتبۂ نور سے ڈرنا چاہئے، مگر ہاں وہ ترقی کر کے مرشدِ کامل میں فنا ہو سکتے ہیں۔

۱۷۔ عقل اور علم کا کمال آیات و معجزات میں ہے، جو روحانیّت میں ظہور پذیر ہو جاتے ہیں، اور بھرپور روحانیّت اس منزل سے شروع ہو جاتی ہے، جہاں اسرافیل بھی ہے اور عزرائیل بھی، اور جس میں

 

۶۳

 

مردوں کو زندہ کر کے روحانی اور عقلی معجزے دکھائے جاتے ہیں، اور ایسا مشاہدہ کسی سعادتمند مومن کے لئے اس وقت ممکن ہو جاتا ہے، جبکہ وہ اپنے نفس کے بیل کو علم اور عبادت و ریاضت کی چھری سے ذبح کر ڈالتا ہے (۰۲: ۷۳)۔

۱۸۔ نورِ عقل ایک زندہ کلمہ ہوتا ہے، یہ صدیقین اور شہیدانِ روحانی کے دل و دماغ میں پُرنور و پُرحکمت باتیں کرتا رہتا ہے (۵۷: ۱۹) جس کی ایک روشن مثال حضرتِ مریم علیہا السّلام ہیں، کہ ان میں حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کا نور بصورتِ ایک کلمہ القاء ہوا تھا (۰۴: ۱۷۱) اور حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے بھی اس نور کو توحید کی بات کے عنوان سے اپنی اولاد میں کلمۂ باقیہ قرار دیا تھا (۴۳: ۲۸) غرض نور صرف چشمِ باطن ہی کی روشنی کا نام نہیں، بلکہ نور ایک ایسا آفتابِ بے مثل و نظیر ہے، جو تمام روحی اور عقلی قوتوں کو جگمگاتا ہے۔

۱۹۔ سکینت کہتے ہیں اطمینان، تسکین، اور تسلئ خاطر کو، اگر اطمینان اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے، تو یہ روحانی معجزہ کہلائے گا، اور ظاہری سکون سے بدرجہ ہا اعلیٰ ہوگا، چنانچہ قرآنِ حکیم میں ایسی عظیم الشّان سکینت کے نزول کا ذکر فرمایا گیا ہے، مثال کے طور پر سورۂ فتح (۴۸: ۲۶) میں دیکھئے، کہ اس میں سکینت کے ساتھ ساتھ کلمۂ تقویٰ کا بھی تذکرہ ہے، یہ ایک اسمِ بزرگ تھا، جو مومنین کے دل و دماغ میں لازم کیا گیا، یعنی پہلے ذکرِ الٰہی کا سلسلہ زبردست کوشش

 

۶۴

 

کے باوجود بار بار ٹوٹتا رہتا تھا، اب بفضلِ خدا سکینت کی وجہ سے نورِ ذکر خود از خود اپنے آپ کو دہرانے اور اٹوٹ (مسلسل) جاری رہنے لگا۔

۲۰۔ سورۂ یاسین قلبِ قرآن ہے، اور اس کے آخر (۳۶: ۸۳) میں جو آیۂ مبارکہ ہے، وہ اس سورے کا خلاصہ اور جوہر ہے، جس میں خدائی قول و فعل کے آغاز و انجام اور جوہرِ کائنات و موجودات کا اشارہ موجود ہے، اور وہ جوہر (گوہر) خدا کے ہاتھ میں ملکوت ہے، جو عالمِ عقول ہے، جس میں عقلی وحدت پائی جاتی ہے، لہٰذا عالمِ عقل ایک ہی ہے، مگر اس میں بے شمار کی نمائندگی ہے، اور عقلی ظہورات کا بھی کوئی حساب نہیں، پس عقل و دانش کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ وہ ملکوتِ سماوی و ارضی ہے، جس میں سب کچھ ہے، اور یہ صرف اس شخص میں مکمل ہو جاتی ہے، جو اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لنڈن
۱۹ صفر المظفر ۱۴۰۹ھ / ۱ اکتوبر ۱۹۸۸ء

۶۵

ام الکتاب

۱۔ جو نیک بخت لوگ دل و جان سے قرآنِ پاک پر ایمان و یقین رکھتے ہیں، ان کے لئے پروردگارِ عالمین نے اپنی اس بے مثال و لاثانی کتاب میں بے حد و بے حساب رحمتیں اور برکتیں رکھی ہیں، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ رحمتوں اور برکتوں کے ان اَن گنت ذخائر و خزائن میں ہر گونہ دوا و شفا بھی موجود ہے، اور یہاں یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ جو کچھ سر تا سر قرآنِ مجید میں پھیلا ہوا ہے، وہ سب کا سب ام الکتاب (سورۂ فاتحہ) میں مرکوز و یکجا ہے، چنانچہ اگر کسی مسلمان / مومن کو بطریقِ آسان قرآنِ حکیم کی نعمتِ شفا سے مستفیض و مستفید ہو جانا ہے، تو وہ ہمیشہ سورۂ شفا (یعنی سورۂ فاتحہ) سے رجوع کرے، کیونکہ یہ امُ الکتاب اور جوہرِ قرآن ہے۔

۲۔ بہت سے عالموں نے حدیثِ : “ان اللّٰہ جمع علوم الاولین و الاٰخرین فی الکتب الاربعۃ و علومھا فی القراٰن و علومہ فی الفاتحۃ” (بے شک اللہ تعالیٰ نے اگلے اور پچھلے لوگوں کے علوم کو چار

 

۶۶

 

کتابوں میں جمع کیا اور ان کتب کے علوم کو قرآن میں یکجا کر دیا اور قرآن کے علوم کو سورۂ فاتحہ میں مرکوز فرمایا) کے بعد اس قدر اور بڑھایا ہے کہ: “فاتحۃ الکتاب کے علوم کو بسم اللہ میں اور بسم اللہ کے علوم کو اس کے حرفِ با میں جمع کیا ہے۔” اس کی توجیہہ یوں کی گئی ہے کہ مقصود تمام علموں سے یہی ہے کہ بندہ اپنے پروردگار سے واصل ہو جائے، اور “بسم اللہ” میں حرفِ با الصادق (ملانا) کے معنی میں آیا ہے، اس لئے یہ اشارہ بندہ کو جنابِ ربّ العزّت سے ملصق کر دیتا ہے اور یہی بات کمالِ مقصود ہے (الاتقان، دوم، ص ۴۹۴)۔

۳۔ مذکورۂ بالا حدیثِ شریف کی تصریح و توضیح میں یہ ایک انتہائی عمدہ اور بے حد معقول توجیہہ کی گئی ہے کہ جس طرح جملہ کتبِ سماوی کے علوم اور حکمتیں سورۂ شفا میں جمع ہیں، اور جیسے ان سب کا خزینۃ الخزائن بسم اللہ میں اور پھر بائے بسم اللہ میں لپیٹا ہوا ہے، اس کا مقصد و منشا اور اشارۂ آخرین یہ ہے کہ بندۂ مومن سارے باطنی امراض سے محفوظ و سلامت اور شفا یاب ہو کر خداوندِ مہربان سے واصل ہو جائے، بالفاظِ دیگر فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ حاصل کرے، کیونکہ خدا کی خدائی میں جتنی عجیب و غریب اور درجۂ انتہا پُرلذّت نعمتیں ہیں، ان میں سب سے اعلیٰ اور سب سے بڑی نعمت بس یہی ہے۔

۴۔ امُ الکتاب کی بے شمار فضیلتوں اور خوبیوں کی بنا پر اس کے بہت سے اسمائے وصفی مقرر ہوئے ہیں، جیسے فاتحۃ الکتاب (۱) فاتحۃ

 

۶۷

 

القرآن (۲)کیونکہ اسی کے ساتھ مصحفوں کا افتتاح یعنی آغاز ہوتا ہے، اور قرآنی تعلیم اور نماز کی قرأت کا شروع بھی اسی سورہ سے ہوتا ہے، ام الکتاب (۳) اور ام القرآن (۴) اس تسمیہ کی ایک وجہ یہ ہے کہ ام الشیٔ کسی چیز کی اصل کو کہا جاتا ہے، اور سورۃ الحمد قرآن کی اصل ہے، اس لئے کہ اس کے اندر تمام قرآن کے اغراض اور اس کے جملہ علوم اور حکمتیں موجود ہیں، اور اس کے اس نام رکھنے کی یہ وجہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ تمام سورتوں سے افضل ہے، چنانچہ جس طرح قوم کے سردار کو ام القوم کہتے ہیں، اسی طرح اس کو ام القرآن اور ام الکتاب کہا گیا ہے، ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سورۃ کی عزت تمام قرآن کی عزت کے برابر ہے، اس لئے یہ نام رکھا گیا ہے، نیز کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ یہ سورہ اہلِ ایمان کی جائے پناہ اور واپسی میں مجتمع ہونے کی جگہ ہے، جس طرح نشانِ فوج کو ام کہتے ہیں، کیونکہ فوج کے سپاہی اس کے زیرِ سایہ پناہ لیتے اور جمع ہوتے ہیں۔

۵۔ قرآن العظیم (۵) اور السبع المثانی (۶) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ھی ام القراٰن ، وھی السبع المثانی، وھی القراٰن العظیم ۔ امُ الکتاب کا نام سبع المثانی اس لئے ہے کہ اس میں سات آیتیں ہیں، جو دہرائی جاتی ہیں، اور یہ قرآنِ عظیم اس وجہ سے ہے کہ وہ ان تمام معانی پر مشتمل ہے، جو قرآن میں پائے جاتے ہیں۔

۶۔ الوافیہ (۷) کیونکہ قرآن کے تمام معانی اس کے اندر اچھی طرح

 

۶۸

 

سے موجود ہیں، الکنز (۸) یعنی علوم اور حکمتوں کا خزانہ، کافیہ (۹) اس لئے کہ وہ نماز کے اندر بغیر دوسری سورۃ ملانے کے بھی کافی ہو جاتی ہے، مگر دوسری سورۃ بغیر اس کو ساتھ ملانے کے کفایت نہیں کرتی، الاساس (۱۰) کیونکہ قرآن کی اصل اور پہلی سورہ ہے، نور (۱۱) کیونکہ اس میں علم و حکمت کی روشنی ہے ، سورۃ الحمد (۱۲) اور سورۃ الشکر (۱۳) اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور شکر گزاری اسی سے کی جاتی ہے۔

۷۔ سورۃ الحمدِ الاُولیٰ (۱۴) اور سورۃ الحمد القصریٰ (۱۵) یعنی ابتدائی حمد اور مختصر حمد اسی سے ہو جاتی ہے، الرقیہ (۱۶) الشفاء (۱۷) اور الشفا فیہ (۱۸) کیونکہ اس میں ہر درد و بیماری کے واسطے رقیہ یعنی منتر، شفا، اور صحت بخشی ہے، سورۃ الصلوٰۃ (۱۹) صلوٰۃ (۲۰) اور سورۃ الدعا (۲۱) اس لئے کہ نماز اس سورہ پر موقوف ہے، اور بعض علماء کا قول ہے کہ اس سورۃ کا ایک نام صلوٰۃ بھی ہے، اور اس میں دعا بھی شامل ہے، اور وہ “اھدنا” ہے۔

۸۔ سورۃ السؤال (۲۲) سورۃ تعلیم المسئلۃ (۲۳) سورۃ المناجاۃ (۲۴) اور سورۃ التفویض (۲۵) اس میں سوال بھی ہے، یعنی خدا سے مانگنا، اور طریقۂ سوال بھی، جس کی بنیاد حمد و ثناء ہے، اس میں مناجات بھی ہے، اور تفویض بھی، کہ بندہ “و ایاک نستعین” کے معنی میں اپنا تمام معاملہ خدا کے حوالہ کر دیتا ہے۔

۶۹

۹۔ امُ الکتاب کے مذکورۂ بالا ۲۵ اسماء اور ان کی توجیہہ و وضاحت کا حوالہ ہے: الاتقان ، اوّل، ص ۱۳۲ ۔ ۱۳۵۔ اب ہماری اپنی معروضہ یوں ہے کہ سورۂ فاتحہ کی بے شمار رحمتوں اور برکتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے بیش از بیش یقین چاہئے، اور یقین کا انحصار علم ہی پر ہے، پس دانشمندی اسی میں ہے کہ آپ قرآنِ حکیم اور امُ الکتاب سے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کرتے رہیں، تاکہ قرآن خوانی، نماز، دعا، اور شفا کا عمل حقیقی معنوں میں ہو سکے، کیونکہ روحانی علاج ایمان و یقین کے بغیر ممکن ہی نہیں، جیسا کہ دعائم الاسلام ، ثانی، کتاب الطب، فصلِ اوّل میں روایت مذکور ہے:

۱۰۔ امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپ ایک دن امیرِ مدینہ محمد بن خالد کے پاس تشریف لے گئے، پس اس نے آپ سے اپنے دردِ شکم کی شکایت کی، تو آپ نے فرمایا کہ میرے پدرِ بزرگوار امام باقر علیہ السّلام نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی ہے، اور انہوں نے اپنے والدِ محترم امام زین العابدین علیہ السّلام سے سن لی تھی، اور یہ روایت حضرتِ علی علیہ السّلام کے توسط سے ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں دردِ شکم کی شکایت کی، تو حضور نے فرمایا کہ شہد کا شربت بناؤ، اور اس میں تین یا پانچ یا سات سیاہ دانہ (کلونجی = حبۃ السوداء) ڈال کر پی لو، خدا کے حکم سے تم شفا پاؤ گے، چنانچہ وہ آدمی اس پر عمل کر کے شفایاب

 

۷۰

 

ہو گیا تھا، لہٰذا تم بھی اس پر عمل کرو، اس وقت اہلِ مدینہ میں سے ایک شخص جو حاضر تھا معترض ہوا، اس نے کہا کہ اے ابو عبداللہ! یہ خبر تو ہم کو بھی پہنچی تھی، اور ہم نے اس پر عمل بھی کیا تھا، لیکن ہم کو کوئی فائدہ نہ ہوا، یہ سننا تھا کہ ابو عبداللہ علیہ االسّلام غضبناک ہو گئے، اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس علاج سے صرف اہلِ ایمان ہی کو فائدہ پہنچاتا ہے، اور جو اس کے رسولوں کی تصدیق کرتے ہیں، ان کو فائدہ پہنچتا ہے، اور خداوند تعالیٰ اہلِ نفاق کو اور ان کو جو رسول کی تصدیق کے بغیر عمل کرتے ہیں، ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا۔۔۔۔

۱۱۔ قرآنِ پاک کی مقدس چیزیں تین قسموں میں ہیں: اسماء اللہ، آیات، اور سورتیں، پس اسماء میں جس طرح اسمِ بزرگ اعظم الاسماء ہے، اسی طرح آیات میں آیت الکرسی اعظم الآیات، اور سورتوں میں سورۂ فاتحہ اعظم السور ہے، ہر چند کہ اسمِ اعظم (اعظم الاسماء) قرآن میں ظاہر نہیں، لیکن آیۂ اعظم ، اور سورۂ اعظم ظاہر ہیں، لہٰذا ہر مومن پر واجب ہے کہ وہ جس شوق سے اسمِ بزرگ کو جاننا چاہتا ہے، اسی شوق سے ام الکتاب اور آیۃ الکرسی سے فائدہ اٹھائے، کیونکہ جو بڑی بڑی نعمتیں عطا ہوئی ہیں، ان کی شکر گزاری اور قدردانی کے بغیر دوسری عظیم تر رحمتیں نازل نہیں ہو سکتی ہیں۔

۱۲۔ کتابِ قرآنی علاج میں عشقِ الٰہی کے عنوان کے تحت امُ الکتاب کی عاشقانہ تفسیر کی گئی ہے، اور یہاں (ان شاء اللہ العزیز) اس کی عارفانہ

 

۷۱

 

تفسیر کے لئے کوشش کی جاتی ہے:
الف: بسم اللہ الرحمن الرحیم: نقطۂ بائے بسم گوہرِ عقل کی مثال ہے، اور وہی قلمِ الٰہی بھی ہے، جو مرتبۂ ازل کی بلندی پر عارفوں کو خداوندِ رحمان و رحیم سے واصل کر دیتا ہے (کیونکہ اسم سَمُوّاً ، بلند ہونا سے ہے) اور وہ گوہر کائنات و موجودات کی اصل و اساس بھی ہے، اور خلاصہ و لبِ لباب بھی، جس طرح نقطے سے دنیائے حروف پیدا ہو جاتی ہے، اور پھر عقلی طور پر نقطے میں سمٹ جاتی ہے۔
ب: الحمد للہ ربّ العالمین: ہر شخص اپنی ہمت و رسائی کے مطابق خدا کی تعریف بیان کرتا ہے، اسی طرح اہلِ معرفت عالمِ لاہوت کے مشاہدۂ انوار اور تحیر جمال و جلال کی بنا پر اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں، کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ عقل و روح کی پرورش کے لئے پروردگار نے عالمِ شخصی میں انتہائی عمدہ اور اعلیٰ نعمتیں پیدا کی ہیں۔
ج: الرحمن الرحیم: خداوندِ عالم کے ان دونوں ناموں میں آسمانی عشق و محبت کا ذکر ہے، جس کی بے پناہ لذّتوں اور حلاوتوں کا احساس و ادراک ویسے تو ہر منزل میں ہوتا ہے، تاہم منزلِ اسرافیلی میں محویّت و فنائیّت کا جو مزہ ہے، وہ بے مثال اور ناقابلِ فراموش ہے۔
د: مالک یوم الدین: آج دنیا میں ہر شخص اپنے اختیار کا مالک ہے، لیکن جب قیامت برپا ہو جائے گی، تو اس وقت کسی کا کوئی اختیار نہ رہے گا، پس اللہ تعالیٰ ہی فیصلہ اور جزا و سزا کا مالک ہو گا۔

 

۷۲

ھ: ایاک نعبد و ایاک نستعین: ہم نورِ معرفت کی روشنی میں تجھ کو واحد و یکتا جانتے ہوئے صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔
و: اھدنا الصراط المستقیم: وہ اگرچہ خدا کی عنایت اور پیغبرِ برحق کی رہنمائی سے ہدایت یافتہ ہیں، تاہم معلّمانہ طور پر اور من حیث القوم درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں راہِ راست پر چلا، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود ہادی تھے، مگر اپنی امت کی طرف سے یہ دعا کیا کرتے تھے۔
ز: صراط الذین انعمت علیہم: ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے عقل و جان کی سب سے خاص نعمتیں برسا دی ہیں، اور ان تمام نعمتوں کا مقصدِ اعلیٰ معرفت ہی ہے۔
ح: غیر المغضوب علیہم و لا الضالین: جن لوگوں پر تیرا غضب ہوا ہے، ان کی راہ نہ ہو، اور نہ ان لوگوں کی (راہ) جو گمراہ ہو گئے ہیں، کیونکہ وہ تیرے پاک عشق و محبّت کی نورانی دولت سے بے نصیب تھے، اسی لئے وہ راہِ حق سے بھٹک کر معرفت کے انمول خزانوں سے محروم رہ گئے۔

۱۳۔ ایک انتہائی اہم کلیدی حدیثِ شریف جس سے اہلِ علم باخبر ہیں یہ ہے: انما الاعمال بالنیات ۔ اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے، یعنی اسلام میں اچھی نیت کی بہت بڑی اہمیت ہے، کیونکہ

 

۷۳

 

کوئی بھی نیک عمل نیک نیت کے بغیر مقبول نہیں ہو سکتا، اور بندۂ مومن کا دل نیک نیتی سے معمور و روشن علم و معرفت ہی سے ہو جاتا ہے، پس ہر اس شخص کے دل میں اچھی نیت کا غلبہ ہو گا، جو ام الکتاب کو علم و معرفت کی روشنی میں پڑھتا ہو، اور اس کے فضائل و فوائد کا پختہ یقین رکھتا ہو، کیونکہ جب کسی نیک بخت مسلمان کے لئے سورۂ فاتحہ کا حجاب اٹھایا جائے، تو وہ یقیناًاس کی خوبیوں سے عاشقانہ فدا ہو جائے گا، اب ایسے میں اس کا قلب نورِ عشق سے منور ہونے لگے گا، اور پھر نیّت کی درخشانی ، سبحان اللہ! اب آپ اسی طرح عشق سے امُ الکتاب کو پڑھتے رہیں، جو ایک بہت مختصر سورۃ ہے، مگر جامعیّتِ جواہر میں ایک مکمل آسمانی کتاب ہے، بلکہ امُ الکتاب ہے، الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ کہ اس سے بے شمار فائدے حاصل ہوں گے، جن میں بیماریوں سے شفا یابی کی بہت بڑی نعمت بھی شامل ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزئی
کراچی
۲۸ صفر المظفر ۱۴۰۹ھ / ۱۱ اکتوبر ۱۹۸۸ء

۷۴

معوذتان سے علاج

۱۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ فلق اور سورۂ ناس کو معوذتان یا معوذتین کہتے ہیں، اس نام کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں پُرحکمت سورتوں میں تمام شرور سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ لینے کی تعلیم دی گئی ہے، لہٰذا ان میں زبردست حفاظتی اور شفائی برکتیں اور تاثیرات موجود ہیں، آپ ان کے ہر لفظ میں بجا طور پر غور کرتے ہوئے دیکھیں، اور متعلقہ احادیثِ صحیحہ اور تفاسیر میں بھی ان کے خواص پر نظر ڈالیں، تا کہ اس معاذ (پناہ گاہ) پر کامل یقین ہو۔

۲۔ سورۂ فلق میں سب سے پہلے لفظِ “قل” آتا ہے، جو قرآنِ عظیم کے ۳۳۲ مقامات پر مذکور و موجود ہے، یہ اللہ جلّ شانہ کا امرِ خاص ہے، کیونکہ اس میں پروردگارِ عالم حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خطاب فرما رہا ہے کہ اے رسول بطورِ تعلیم ذاتی طور پر بھی اور دیگر ذرائع سے بھی لوگوں سے کہو، پس آنحضرت نے اپنی حیاتِ طیبہ میں قولاً و فعلاً جو کچھ لوگوں کے سامنے پیش کیا، وہ حکمِ الٰہی یعنی قل

 

۷۵

 

کے تحت ہے، اس کے علاوہ رسولِ خدا نے جن معنوں میں دو گرانقدر چیزیں اپنے پیچھے چھوڑی ہیں، ان کے توسط سے بھی مذکورہ حکم کی تعمیل کا سلسلہ جاری ہے۔

۳۔ دوسرا لفظ اعوذ (میں پناہ لیتا ہوں) ہے، اس میں تین چیزیں مقصود ہیں، اوّل نیّت، دوم قول، سوم عمل، اور ان کی سب سے کامیاب صورت علم و معرفت کی روشنی میں بن سکتی ہے، کیونکہ ایمان و ایقان اور عقل و دانش کے بغیر ہر قسم کی برائی سے بھاگ کر خدا کی پناہ گاہ تک پہنچ جانا، اور وہاں اپنے آپ کو محفوظ کر لینا ممکن ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو علیم و حکیم ہے، پناہ گیر ہو جانے کے نمونے کو دین کی انتہائی بلندی پر رکھا، اور یہ بلندی حضور صلعم کی سنتِ مطہرہ ہے، یعنی کہیں نہیں فرمایا: قولوا نعوذ ، بلکہ فرمایا: قل اعوذ ، یعنی اے رسول سب سے پہلے تم ہی کہو اور تم ہی کر کے دکھاؤ کہ اللہ کی پناہ لینے کا طریقِ کار کیا ہے۔

۴۔ برب الفلق: صبح کے پروردگار کے پاس، یعنی میں صبحِ ازل کے ربّ کے حضور میں پناہ لیتا ہوں، اگرچہ صبحیں بہت سی ہیں، لیکن وہ صباح سب سے زیادہ قابلِ ذکر اور انتہائی عجیب و غریب ہے، جو نورِ ازل کے طلوع ہو جانے کے ساتھ روشن ہوئی، کیونکہ اللہ کی حقیقی پناہ کسی خوش نصیب بندے کو وہاں ملتی ہے، جہاں وہ فنا فی اللہ ہو جاتا ہے، اسی مقام پر ایسا سالک اسرارِ ازل و ابد کا یکجا مشاہدہ کرتا ہے۔

۷۶

۵۔ من شر ما خلق: تمام خلق کردہ شر سے، اس آیت میں مجملاً ساری برائیوں سے بچنے کا تذکرہ ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ جو کچھ سورۂ فلق اور سورۂ ناس میں تفصیل سے ارشاد فرمایا گیا ہے، وہ بطریقِ اجمال مذکورہ دو آیتوں میں بیان ہوا ہے، اس سے یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ فلق یعنی روحانیّت اور ازل کی صبح (روشنی) ہی تمام شرور کی ظلمتوں کو مٹا مٹا کر ختم کر سکتی ہے۔

۶۔ و من شر غاسق اذا وقب: اور شبِ تاریک کی برائی سے جب وہ چھا جائے، غاسق اسمِ فاعل ہے، بمعنی تاریکی پھیلانے والا، اور اس سے وہ شخص مراد ہے، جو جہالت و نادانی کی ظلمتوں کو پھیلاتا ہے، اور ایسا آدمی اندھیری رات سے کہیں زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ جتنی خیر علم و حکمت میں ہے، اتنا شر جہالت و نادانی میں ہے، پس قانونِ استعاذ کی رو سے یہ ضروری اور لازمی ہوا کہ جاہل اور جہل سے گریز کر کے خدا کی پناہ لی جائے۔

۷۔ و من شر النفٰثٰت فی العقد: اور میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں گرہوں میں نفث کرنے والیوں کی برائی سے، اس کی تفسیر کے لئے ملاحظہ ہو: قاموس القرآن، ص ۶۰۹۔۶۱۰۔

۸۔ و من شر حاسد اذا حسد: اور حسد کرنے والے کے شر سے جب حسد کرنے لگے، اس آیۂ کریمہ کی حکمت کا کہنا یہ ہے کہ برے لوگوں کی ظاہری برائیوں کے علاوہ باطنی برائیاں بھی تم پر اثر انداز ہو

 

۷۷

 

سکتی ہیں، جس کی مثال یہاں حسد سے دی گئی ہے، کہ اگر حاسد کا حسد تیر کی طرح نہ آیا ہوتا، تو اس کے سامنے سے ہٹ کر اللہ کی پناہ گاہ میں داخل ہو جانے کا حکم ہی نہ دیا جاتا، پس معلوم ہوا کہ شر ظاہری اور باطنی دونوں راستوں سے آ سکتا ہے۔

۹۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قل اعوذ برب الناس: کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ لیتا ہوں، یعنی اس ربِّ جلیل کی پناہ میں خود کو محفوظ و مامون رکھتا ہوں، جو آدمیوں کی جسمانی، روحانی، اور عقلی تربیت و پرورش کرنے کی کامل قدرت رکھتا ہے، جس کی عقلی نعمتیں خزائنِ ازل سے آتی ہیں، کیونکہ ربّوبیت کا سرچشمۂ اعلیٰ وہیں ہے۔

۱۰۔ ملک الناس، الٰہ الناس: لوگوں کے پادشاہ لوگوں کے معبود کی پناہ لیتا ہوں، یہاں لفظِ ملک (پادشاہ) میں قوانینِ خداوندی کی بہت بڑی اہمیت کی طرف اشارہ ہے، اور اسمِ الٰہ (معبود) میں عبادت کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ قوانینِ الٰہی کی پابندی اور حقیقی معنوں میں عبادت کے بغیر خدا کے حضور میں کسی کو کوئی پناہ نہیں مل سکتی ہے۔

۱۱۔ من شر الوسواس الخناس: وسوسہ ڈالنے پیچھے ہٹ جانے والے (شیطان) کے شر سے، وسواس (وسوسہ انداز) اور خناس (پیچھے ہٹنے والا) شیطان کے ناموں میں سے ہیں، اور شیاطینِ انسی و جنّی کی جتنی چکنی چپڑی باتیں ہیں (۰۶: ۱۱۲) وہ سب کی سب وسوسہ میں شامل ہیں۔

 

۷۸

۱۲۔ الذی یوسوس فی صدور الناس، من الجنۃ و الناس: جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے، وہ (خناس) جنّوں میں سے ہو یا آدمیوں میں سے، اس سورہ میں شروع سے لے کر آخر تک جتنی پُرحکمت ربّانی تعلیمات ہیں، وہ سب شرِ شیطان سے بچنے کے بارے میں ہیں، اور سورۂ فلق میں یقیناً یہی باتیں اشارات میں ہیں، کیونکہ شر کی بنیاد ایک ہی ہے، اور وہ شیطان ہے، اور ہر قسم کی برائی جہاں بھی ہو اسی سے ہے۔

۱۳۔ اگر آپ ہر قسم کی بیماری سے محفوظ و سلامت رہنا چاہتے ہیں، اولاد، جان، اور مال کی حفاظت کو عزیز رکھتے ہیں، اور تمام برائیوں، بلاؤں ، آفتوں، اذیتوں، اور مصیبتوں سے بچنے کے لئے خدائے قادرِ مطلق کی پناہ گاہ میں داخل ہو جانے کے خواہشمند ہیں، تو پھر بڑے شوق اور یقینِ کامل کے ساتھ معوذتین کو پڑھتے رہیں، اور اس کے خصوصی فیوض و برکات حاصل کرنے کے لئے درست معنی اور علم و حکمت لازمی اور ضروری ہے، تاکہ اس کے اصل خزانوں کا راستہ معلوم ہو، کیونکہ کسی سورت، آیت، یا اسم کی زبردست تاثیر و افادیت کا اصل راز اس کے معنی اور علم و حکمت میں پوشیدہ ہوا کرتا ہے۔

۱۴۔ آپ نقشۂ پناہ کو دقتِ نظر سے دیکھیں کہ پناہ چار درجوں پر مبنی ہے، وہ درجے ناسوت، ملکوت، جبروت اور لاہوت ہیں، ناسوتی پناہ کی مثال ایسی ہے، جیسے کوئی مسلمان بوقتِ ضرورت کسی غیر اسلامی

 

۷۹

 

ملک سے ہجرت کر کے مسلمین کے درمیان پناہ لیتا ہے، یا کوئی مومن ہنگامی طور پر خانۂ کعبہ یا مسجد میں پناہ گیر ہو جاتا ہے، فنا فی المرشد ملکوتی پناہ ہے، فنا فی الرسول جبروتی پناہ، اور فنا فی اللہ لاہوتی اور آخری پناہ گاہ ہے، اور دوسرے اعتبار سے فنائیں چار ہیں: فنائے ذکر، فنائے فکر، فنائے عشق، اور فنائے معرفت۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
۲۳ ربیع الاول ۱۴۰۹ھ / ۵ نومبر ۱۹۸۸ء

۸۰

 

عشقِ سماوی

۱۔ خدا، رسول، اور سردارِ مومنین کی محبت اگر حقیقی معنوں میں اور درجۂ کمال پر ہے، تو یہ ہر لحاظ سے آسمانی عشق ہے، کیونکہ اس کا حکم کتابِ سماوی یعنی قرآنِ پاک میں ہے، اور اس کا ذکرِ جمیل اور عالیشان چرچا تمام آسمانوں کے فرشتوں میں ہوا کرتا ہے، جیسا کہ حدیثِ شریف میں ارشاد ہوا ہے کہ: جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے، تو جبریل کو ندا دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلان سے محبت کرتا ہے، لہٰذا تو بھی اس سے محبت رکھ، تو جبریل اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر حضرتِ جبریل تمام اہلِ آسمان کو ندا دیتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ فلان کو دوست رکھتا ہے، تم بھی اسے دوست رکھو، تو آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر دنیا میں بھی اس کی مقبولیت پیدا کر دی جاتی ہے (بخاری، دوم، کتاب بدء الخلق، حدیث ۴۴۲)۔

۲۔ دنیا میں جن لوگوں کا کوئی مذہب نہیں، وہ تو لادین کہلاتے

 

۸۱

 

ہیں، ان کے وہاں نہ تو اللہ تعالیٰ کی دوستی کی کوئی منطق بنتی ہے، اور نہ دشمنی کی، کیونکہ وہ تو سرے ہی سے خدا کو نہیں مانتے، باقی لوگ جو اہلِ ادیان ہیں، وہ سب کے سب خداوندِ عالم کی دوستی کا دعویٰ کر رہے ہیں، لیکن سنتِ الٰہی کے مطابق کسی کا یہ دعویٰ اس وقت حق بجانب ہو سکتا ہے، جبکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کامل اطاعت کرے، اور یہ قرآنِ حکیم ہی کا فیصلہ ہے (۰۳: ۳۱) اور یہاں یہ بھی ایک بنیادی نکتہ ہے کہ پیغمبرِ برحق کی محبت کے بغیر کوئی حقیقی اطاعت نہیں۔

۳۔ رسولِ اکرمؐ کا ارشاد ہے: والذی نفسی بیدہ لا یؤمن احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ = اُس ذاتِ پاک کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کہ تم میں سے کوئی ایماندار نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ اور اس کی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں (بخاری، حصّۂ اوّل، کتاب الایمان) غرض حقیقی محبت اور عشقِ سماوی سے متعلق آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوّی اس کثرت سے ہیں، کہ یہاں ان سب کا کسی طرح سے بھی احاطہ ممکن نہیں۔

۴۔ حق بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت، اور اس کے محبوب رسولؐ کی محبت کی مقدّس و ملکوتی تعلیم اس زندہ دانشگاہ سے مل سکتی ہے، جس کو تصوّف کی زبان میں مرشدِ کامل کہا جاتا ہے، کیونکہ آسمانی عشق جس طرح جملہ امراضِ باطن کے لئے سب سے بڑا اور انتہائی مؤثر نسخۂ کیمیا ہے، اسی طرح اس کا حصول بھی انتہائی دشوار ہے، اور اس

 

۸۲

 

حقیقت کی دلیل ظاہر ہے کہ فنا فی اللہ براہِ راست ممکن ہی نہیں، مگر بواسطۂ فنا فی الرسول، اور فنا فی الرسول غیر ممکن ہے، الا بوسیلۂ فنا فی المرشد، کیونکہ الوھیت کا دروازہ نبوّت ہے، اور نبوّت کا باب ولایت، اے میرے عزیز! کیا آپ نے یہ نہیں پڑھا ہے کہ آسمانوں کے دروازے ہوا کرتے ہیں؟ آیا یہ دروازے آسمانِ باطن کے نہیں ہیں (۰۷: ۴۰)؟ ورنہ ظاہری آسمان کے بند دروازے کہاں ہیں؟

۵۔ اس حقیقت سے کسی مومن کو ذرا بھی شک و شبہ نہیں ہو سکتا کہ دینِ فطرت (اسلام) میں انبیاء علیہم السّلام کے بعد صدیقین یعنی اولیاء کا درجہ لازمی ہے (۰۴: ۶۹) لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ آیا ہر ولی راہِ مستقیم پر پیغمبرِ خدا کے پیچھے پیچھے اور لوگوں کے آگے آگے نہیں ہوتا؟ کیا متعلقہ آیۂ کریمہ (۰۴: ۶۹) کا نقشۂ پیروی ذیل کی طرح نہیں بنتا؟

۶۔ یقیناًعشق و فنا کے تین درجے ہیں: ولایت، نبوّت، اور الوھیت، آپ نے قرآنِ حکیم اور حدیثِ شریف میں اولیاء اللہ کے فضائل کو خوب غور سے دیکھا ہوگا، جیسے سورۂ یونس میں ارشاد ہوا ہے:

 

۸۳

 

الا ان اولیاء اللّٰہ لا خوف علیہم و لا ھم یحزنون (۱۰: ۶۲) یاد رکھو کہ اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں (وہ جو ایمانِ کامل رکھتے ہیں اور متقی ہیں، ان کے لئے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی خوشخبری ہے۔ ۱۰: ۶۳ تا ۶۴) خوف کا تعلق مستقبل اور ابد سے ہے، اور غم ماضی و ازل کی محرومیوں سے متعلق ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو اسرارِ ازل و ابد کا یکجا مشاہدہ کراتا ہے، جس میں وہ حضرات اپنی انائے علوی کو خوف و غم سے بالاتر اور آزاد دیکھتے ہیں، کیونکہ وہاں ایسی لازوال بہشت ہے کہ اس میں تمام نعمتیں بلا کم و کاست ہمیشہ موجود ہیں۔

۷۔ جب پروردگارِ عالم کی جانب سے کسی ولی کو خوشخبری آتی ہے، تو وہ عملی اور انفرادی نوعیت کی ہوا کرتی ہے، ایسی خوشخبری کے معنی ہیں: خیال، خواب، روحانیّت، اور بیداری میں پیہم عالمِ لطیف کے عجائب و غرائب کا احساس و ادراک ہونا، جس میں عقل و روح کی حکیمانہ مخاطبت اور تمام اسرارِ عظیم کی معرفت شامل ہے، اور یہاں یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ ہر پیغمبر ولی (خدا کا دوست) ہوتا ہے، مگر ہر ولی کا پیغمبر ہونا ضروری نہیں، چنانچہ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ (۱۰: ۶۲) میں تمام خدا کے دوستوں (انبیاء و صدیقین) کا ذکر ہے، لہٰذا اس کی وضاحت اور بشارت، روحانیّت اور عقلانیّت کی جملہ منزلوں پر محیط ہو جاتی ہے، یعنی پیغمبروں کے ساتھ ملا کر ذکر کرنے کی وجہ سے اولیاء

 

۸۴

 

کی روحانیّت بھی انتہائی بلندی پر لازمی ہوتی ہے۔

۸۔ آسمانی عشق ایک نور ہے، ایک مؤید فرشتہ ، ایک روحانی سوزش و جنبش، ایک میٹھا درد جو دوائے کلّی ہے، ایک قیامتِ صغریٰ جو سراسر بیداری اور آگہی ہے، ایک نغمۂ بہشت جو صرف روح سنتی ہے، ایک نرالی خوشبو جس میں تمام خوشبوؤں کا جوہر ہے، ایک انمول موتی جس سے علم و حکمت کی نہریں جاری ہو جاتی ہیں، ایک خورشیدِ انور جس میں عقل و جان کی معموریت ہے، ایک روح پرور خلیاتی لذّت، ایک بلند ترین بصیرت، ایک انتہائی مفید عزرائیلی معجزہ، ایک رقت انگیز اور اشک آور اسرافیلی ساز، ایک عظیم الشّان ملکوتی غلغلہ، ایک سماوی تطہیر جو نورِ عشق کی شعاعوں سے ہوتی ہے، ایک خاموش دعا جس میں دیدارِ الٰہی مطلوب ہے، ایک برقِ طور کا طبی کرنٹ، ایک پیراہنِ یوسفی، ایک پُرحکمت محویّت و فنائیّت، ایک مژدۂ حیاتِ سرمدی، ایک صدائے بازگشتِ عرشِ معلیٰ، اور ایک رحمتِ خداوندی۔

۹۔ عشقِ سماوی علم و حکمت اور ذکر و عبادت سے ہر بار تروتازہ ہوتا رہتا ہے، اور یہی وہ واحد وسیلہ ہے، جس سے حجاباتِ جمال و جلالِ جبروت و لاہوت اٹھا دیئے جاتے ہیں، کیونکہ طورِ ازل پر جو تجلّی ہوئی تھی، اس کے زیرِ اثر کوہِ عقل کے لاتعداد گوہر پارے ہوئے تھے، جو سب کے سب قرآنِ حکیم میں موجود ہیں، پس اگر چشمِ بصیرت سے ایسے کسی نگینے میں دیکھا جائے، تو یقیناً اس میں تجلئ ازل کا عرفانی

 

۸۵

 

عکس نظر آئے گا، اور یہ قرآنِ عظیم کا سب سے بڑا ظاہری معجزہ ہے، اور اسی علمی دیدار سے آپ ہمیشہ عشقِ حقیقی کو تر و تازہ کر سکتے ہیں۔

۱۰۔ تین مراحل کی فناؤں میں سب سے زیادہ دشوار “فنا فی المرشد” کا مرحلہ ہے، کیونکہ اوّل تو حقیقی اور کامل مرشد کی پہچان کوئی آسان بات ہے نہیں، اور اگر خوش بختی سے ربّانی مرشد مل گیا، تو پھر بھی محویّت و فنائیّت حاصل نہیں ہو سکتی، تا آنکہ علمی و عرفانی کوشش کے نتیجے میں اس کی پوشیدہ خوبیوں کا یقینِ کامل نہ ہو، اور دل میں آتشِ عشق نہ لگ جائے، اور اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی تائید سے یہ جملہ مشکلات آسان ہو جاتی ہیں، تو پھر ان شاء اللہ ، یہ علامت آگے جانے کی خوشخبری ہے۔

۱۱۔ خدائی عشق کی تشبیہہ و تمثیل آگ سے دی گئی ہے، چنانچہ جب کوئی آدمی ایمان، علم، اور تقویٰ کے معنوں میں ابنِ آدم قرار پاتا ہے، تو اس وقت آسمانِ روحانیّت سے نارِ مقدّس نازل ہو کر اس کی قربانی (گوسپندِ نفس) کو کھا لیتی ہے، جس طرح حضرتِ ہابیل علیہ السّلام کی قربانی قبول ہوئی تھی (۰۵: ۲۷) اور یہ ایک عظیم روحانی واقعہ ہے، تاہم اس کی جزوی مثالیں بھی ہیں، یعنی معجزۂ عشق کے بہت سے ذیلی درجات ہیں، تاکہ لوگوں کے باطنی امراض کا کم کم علاج ہوتا رہے۔

۱۲۔ سوال: حدیثِ شریف میں ہے: من احب القراٰن فلیبشر = جس شخص کو قرآن سے محبت ہو اس کو خوشخبری ہے (دارمی، فضائل القرآن) اس ارشاد سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ قرآنِ

 

۸۶

 

پاک کی محبّت بے حد ضروری ہے، پھر یہاں یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ آیا ایسی محبت کے وسیلے سے فنا فی القرآن ممکن ہے، جبکہ یہ سامنے موجود ہے؟ جواب: جی ہاں، بالکل ممکن ہے، مگر یہ فنا الگ نہیں، بلکہ مذکورہ تین فناؤں کے ساتھ ساتھ ہے، پس ہر دانشمند پر واجب ہے کہ وہ “موتوا قبل ان تموتوا” کے حکم پر عمل کرے، تاکہ اپنے آپ کو قرآنِ مجید میں فنا شدہ پائے، اور ایسے ہیں عشقِ سماوی کے کمالات و معجزات، پس یہی عشق تمام امراضِ باطن کے لئے سب سے بہترین نسخۂ کیمیا ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
۹ ربیع الثانی ۱۴۰۹ھ / ۲۰ نومبر ۱۹۸۸ء

 

۸۷

 

 

خواب اور خزائن

۱۔ ویسے تو روحانیّت کے موضوعات سب کے سب زبردست دلکش و مسرت انگیز ہوا کرتے ہیں، اور اگر حسنِ اتفاق سے اس میں خزانہ یا خزائن کا قصّہ بھی چھڑ جائے تو پھر اس کا تجملِ معنوی اور کمالِ حقیقی نقطۂ عروج پر پہنچ جاتا ہے، کیوں نہ ہو جبکہ خزانوں ہی سے ہر چیز پیدا ہو جاتی ہے، اور خزانوں ہی میں ہر شیٔ جمع ہو جاتی ہے (۱۵: ۲۱) اور خزانے کی سب سے بڑی تعریف و مثال یہ ہے کہ پروردگارِ عالم بذاتِ پاکِ خود ایک مخفی خزانہ تھا، جیسا کہ حدیثِ قدسی کا یہ ارشاد مشہور ہے:
کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق ۔ میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا میں نے چاہا اور پسند کیا کہ پہچانا جاؤں پس میں نے خلق کو مخلوق کیا۔ یعنی جسمانی تخلیق کے بعد روحانی تخلیق کی، کیونکہ عام خلقت سے خدا شناسی کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا، جب تک کہ عارفین پیدا نہ ہو جائیں، اس سرِ عظیم میں بدقتِ

 

۸۸

 

تمام سوچنے کی ضرورت ہے کہ خداوندِ عالم کن اعلیٰ معنوں میں گنجِ مخفی تھا اور ہے؟ اور عارفوں کو خدا کس طرح مل جاتا ہے؟

۲۔ جو نیک بخت سالکِ عارف مرتبۂ فنا فی اللہ کو حاصل کرتا ہے، وہ ہمیشہ کے لئے کنزِ مخفی میں داخل ہو جاتا ہے، اور بحکمِ “من کان لِلّٰہ کان اللّٰہ لہ” ( جو خدا کا ہو جائے تو خدا بھی بطورِ خاص اسی کا ہو جاتا ہے) اسے حیاتِ طیبۂ سرمدی مل جاتی ہے۔

۳۔ جب اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس گنجِ ازل ہے، تو پھر اس کی اسی پسندیدہ سنت و عادت کے مطابق ہر اسم ایک کنز، ہر کلمہ ایک گنجینہ، ہر آیت ایک دفینہ، اور ہر سورت ایک مخزون ہے، یہاں تک کہ انبیاء و اولیاء بھی خزائنِ الٰہی کہلاتے ہیں، مثال کے طور پر حضرتِ آدم علیہ السلام قصّۂ قرآن میں پہلا خزانہ ہیں، قس علیٰ ہٰذا۔

۴۔ قرآنِ حکیم میں کنوز و خزائن کا پُرحکمت ذکر موجود ہے، اس کے علاوہ جہاں جہاں در و دیوار اور قفل و کلید جیسے الفاظ آئے ہیں، ان کا واضح اشارہ بھی خزانوں ہی کی طرف ہے، کیونکہ یہ ساری چیزیں خزینوں سے متعلق ہیں۔

۵۔ حدیثِ شریف کی کتابوں میں دعائے “لا حول” کا ذکر کثرت سے آیا ہے، اور ارشاد ہوا ہے کہ یہ کلمہ بہشت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، اور المستدرک، جزء الاوّل، کتاب الدعا میں ارشاد ہوا ہے کہ اس میں ننانوے (۹۹) بیماریوں کی دوا ہے، ان میں سب

 

۸۹

 

سے معمولی بیماری غم ( ھمّ ) ہے، یقیناً اس میں روحانی طاقت ہوگی، جس طرح کسی ظاہری بینک میں مالی طاقت جمع رہتی ہے، اور یہاں یہ نتیجہ بھی اخذ کر لینا ہے کہ جب لا حول و لا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم جنّت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، تو پھر کسی شک کے بغیر بہشت کے دوسرے تمام خزائن بھی کلماتی، روحانی، علمی، عرفانی اور عقلی کیفیت میں ہیں۔

۶۔ خواب اور خزائن کے اس موضوع کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ واجبی طور پر کوشش کریں تو ان شاء اللہ، آپ خواب میں ایسے کسی خزانے کے عجائب و غرائب کا کوئی نمونہ دیکھ سکتے ہیں، اس کی بنیادی شرط تقویٰ ہے، پھر آپ سورتوں، آیات، کلمات، اور اسماء میں سے کوئی ایک چند دن کے لئے کثرت سے پڑھا کریں، تاکہ اس کا مخصوص فیض خواب و بیداری میں حاصل ہو، اسی طرح نوبت بنوبت اور جدا جدا بہت سے خزانوں کی روحانی اور علمی جھلکیاں دیکھ سکتے ہیں، اور اس سلسلۂ عمل کے بے شمار فائدے ہیں۔

۷۔ جب جب بندۂ مومن نورانی خواب دیکھتا ہے، تو اکثر اس کو یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ یہ کس نیک عمل کا جزوی اجر و صلہ تھا، جو خداوندِ عالم کی طرف سے عطا ہوا؟ کیونکہ اس کے نیک اقوال و افعال مخلوط ہوا کرتے ہیں، جیسے کوئی معجون اور مرکب دوا کہ بیماری کے لئے مؤثر و مفید تو ہے، لیکن سوائے طبیب اور کیمسٹ (chemist  = دواساز)

 

۹۰

 

کے کسی کو کیا معلوم کہ اس میں کیا کیا اجزاء ہیں، یا اس کی مثال ایسے رس سے دی جا سکتی ہے جو مکس پھلوں سے تیار کیا گیا ہو، یا کئی عطروں کا آمیختہ اور مجموعہ اس کی مثال ہے۔

۸۔ یہاں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ کسی سورۃ، یا آیت، یا کلمہ، یا اسم کو کس طرح اور کتنی بار پڑھنا چاہئے؟ اس کا جواب قرآنِ حکیم (۰۳: ۱۹۱) میں اس طرح ارشاد ہوا ہے: وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی یاد کرتے ہیں کھڑے بھی بیٹھے بھی اور لیٹے بھی۔ اور یہ بابرکت یاد روح کی زبان سے عاجزی اور خوف کے ساتھ ہو یا کم آواز سے ہو (۰۷: ۲۰۵) اور کم از کم ایک گھنٹے تک مسلسل جاری رہے، تو تب کوئی وظیفہ دل میں اتر کر اثرانداز ہو سکتا ہے۔

۹۔ کسی دعا کی تعداد معلوم کرنے کی ایک مثال ملاحظہ ہو: لا ۔ حو ۔ ل ۔ و ۔ لا ۔ قو ۔ ۃ ۔ ا ۔ لا ۔ با ۔ للہ ۔ ا ۔ لعلی ۔ ا ۔ لعظیم ۔ پس اس کلمہ کے پندرہ ٹکڑے ہیں، چنانچہ اس خزانے کا مؤکل (مقرر کردہ فرشتہ) پندرہ، ایک سو پندرہ، پندرہ سو، پندرہ ہزار اور پندرہ لاکھ کے کسی مقام پر مل سکتا ہے، اور یقیناًاس گنجِ روحانی کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ بیداری میں نہیں تو خواب میں ضرور ہو سکتا ہے۔

۱۰۔ تعداد کی دوسری مثال: الوھاب (عطا فرمانے والا) ا ۔ ل ۔ و ۔ ھ ۔ ا ۔ ب = ۱+۳۰+۶+۵+۱+۲ = ۴۵ x۱۰۰۰ = ۴۵۰۰۰، کیونکہ

 

۹۱

 

فرشتۂ اعظم کا عدد ایک ہزار ہے، لہٰذا پینتالیس کو ہزار سے ضرب دیا گیا، اب اس اعتبار سے اسمِ الوھاب کا ورد ۴۵ ہزار پر جا کر اپنا کام کرنے لگے گا، اور خواب و بیداری میں اس کی بشارتیں ملیں گی۔

۱۱۔ تیسری مثال: قرآنِ حکیم میں ایک بڑا عدد پچاس ہزار ہے (۷۰: ۰۴) جس میں عروج و ارتقاء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور وظیفہ خوانی بھی اسی مقصد کے لئے ہے، پس اگر کوئی مختصر کلمہ ہے، یا کوئی اسم ہے، تو اسے پچاس ہزار بار پڑھنا چاہئے، تاکہ اس کا خزانہ خواب میں معلوم ہو جائے (ان شاء اللہ العزیز)۔

۱۲۔ چوتھی مثال: اللہ تعالیٰ کے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ہوئے ہیں، اور اس تعداد میں بہت حکمت ہے ،کہ انسانیّت اتنی ساری دینی منزلوں سے گزر کر حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ عالی صفات تک پہنچ گئی ہے، اس لئے یہ عدد بڑا مبارک اور اوراد کا ایک آخری مرحلہ ہو سکتا ہے، جس میں کامیابی کی ضمانت ہے۔

۱۳۔ پانچویں مثال: پیمانۂ وقت اور گنتی کے بغیر بھی ذکر کامیاب ہو سکتا ہے، چنانچہ میں نے کچھ برس پہلے ایک دن کسی حساب کے بغیر درودِ شریف یعنی اللّٰھم صلی علیٰ محمد و اٰل محمد کا ورد کثرت سے کیا، جس کے نتیجے میں رات کو بڑا عجیب خواب دیکھا، ایک تیز اور صاف ستھری ہوا مجھے آسمان کی طرف عمودی

 

۹۲

 

پرواز دے رہی تھی، کافی بلندی پر پہنچتے ہوئے سوائے زبردست شادمانی کے اور کسی چیز کا احساس نہیں ہوا، اور یہ خزانۂ درود کا ایک پُرحکمت کرشمہ تھا، اور اس کا اشارہ بڑا عجیب و غریب ہے۔

۱۴۔ چھٹی مثال: اچھے خواب بہت زیادہ ہیں، لیکن قصّہ ایسے خوابوں کا ہے، جو کسی مخصوص وظیفہ کے تحت ہوں، چنانچہ میں نے ۲۱ نومبر ۱۹۸۸ء کی رات بعد از عبادت ایک بہت ہی انوکھا خواب دیکھا، میں چند عزیزوں کے ساتھ (جن میں عزیزم غلام قادر بھی ہیں) ایک مقام پر ہوتا ہوں، ہم کسی نشیبی علاقے سے کچھ سامان کے ساتھ آہستہ آہستہ بلندی کی طرف چڑھتے جاتے ہیں، راستے میں کچھ بھیڑ بکریاں دکھائی دیتی ہیں، جو زندہ اور چلتی پھرتی تو ہیں، مگر بہت غمگین ہیں، کیونکہ ان کے جسم پر کھال کا نام و نشان نہیں ہوتا، میں بڑی حیرت سے پوچھتا ہوں کہ ان کو کیا ہوگیا ہے؟ کوئی شخص جواباً کہتا ہے کہ: ان کی کھال اتاری گئی ہے، تاکہ اون، بال، اور کھال سے فائدہ ہو، میں نے پھر پوچھا کہ: آیا یہ بے چارے جانور بہت جلد نہیں مریں گے، جواب ملا: نہیں، کچھ وقت کے بعد ان کی جلد اور اس پر سب کچھ بحال ہو جائے گا۔

ہم وہاں سے کچھ اور اوپر جا کر ایک جگہ تازہ دم ہونے کی خاطر بیٹھ گئے، اتنے میں مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے منہ میں کوئی چیز ہے، اسے نکالنا چاہئے، سو میں نے دستِ راست سے اس چیز کو کھینچا، اور

 

۹۳

 

باہر نکال کر دیکھا، تو یہ موتیوں کا ایک انتہائی خوبصورت ہار تھا، میں جب بیدار ہوا تو خیال آیا کہ میں نے لا حول کثرت سے پڑھا تھا، اسی لئے یہ معنی خیز خواب دیکھا۔

۱۵۔ اے عزیزِ من! اگر آپ سچے دل سے قرآن و حدیث کے عاشق ہیں، تو خزائنِ حکمت سے علی الدوام فیوض و برکات حاصل کرتے رہنا، کیونکہ اس مبارک عمل میں نہ صرف باطنی بیماریوں سے محفوظ و سلامت رہنے کا راز پوشیدہ ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے لاتعداد فائدے بھی ہیں، توجہ سے سن لیجئے، خدا کی خدائی میں جو بے شمار خزانے ہیں، وہ درحقیقت کس کے لئے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے بے نیاز و برتر ہے، وہ ہر چیز کا مالک تو ہے ہی، لیکن عنایت کر دینے کے معنی میں، اس کا سب سے روشن ثبوت یہ ہے کہ وہ بذاتِ پاکِ خود عارفوں کا گنجِ مخفی ہے، اور اس میں عقل والوں کے لئے کافی بلیغ اشارے ہیں۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
۱۷ ربیع الثانی ۱۴۰۹ھ / ۲۸ نومبر ۱۹۸۸ء

۹۴

مقبول دعائیں

۱۔ جہاں روحانی علاج سے بحث ہو رہی ہے، اور جیسے خواب و خزائن کا ذکر ہوا، وہاں کوئی ہوشمند ضرور یہ سوال کرے گا کہ آیا کوئی ایسا مختصر اور آسان طریقہ ہے، جس کی روشنی میں ہر مؤمن کو قرآنِ مجید کی خاص اور مقبول دعاؤں کی معرفت حاصل ہو سکے؟ تا کہ ان مبارک و مستجاب کلمات کے فیوض و برکات سے اہلِ ایمان کا دل اللہ تعالیٰ کی طرف کاملاً متوجہ ہو، پھر بلائیں رد اور مشکلات آسان ہو جائیں؟

۲۔ اس مناسب سوال کا جواب یہ عرض کرتا ہوں کہ اس کے دو طریقے ہیں، ایک طریقہ بڑا مشکل ہے، اور دوسرا آسان، جو مشکل ہے، اس کا تعلق روحانیّت اور معرفتِ ذات سے ہے، لہٰذا یہاں اس سے بحث نہیں کرتے، کیونکہ بات پہلے اسی کی ہونی چاہئے، جو آسان ہے، چنانچہ قرآنِ پاک کی خاص اور مقبول دعاؤں کی شناخت کا آسان طریقہ ذیل کی طرح ہے:

۳۔ حمد و ثناء: جہاں قرآنِ حکیم میں کسی سورۃ یا کسی آیت کا

 

۹۵

 

آغاز خدائے بزرگ و برتر کی حمد و ثناء اور تسبیح و تہلیل سے ہوتا ہے، وہاں علم و حکمت کے بہت سے پہلوؤں میں سے ایک پہلو دعائے خاص سے متعلق ہوتا ہے، جیسے سورۂ فاتحہ کاآغاز ہے۔

۴۔ اللّٰھم: چند مقبول دعائیں اسمِ پاکِ “اللّٰھم” سے شروع ہو جاتی ہیں، جیسے حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام نے جب حواریین کے سوال پر نزولِ مائدہ (دسترخوان) کے لئے ربّ العزّت کی بارگاہِ عالی میں درخواست کی، تو اس وقت آپ نے یہ دعا اللّٰھم کے بابرکت اسم سے شروع کی (۰۵: ۱۱۴)۔

۵۔ ربّنا / ربّی: ویسے تو قرآنِ پاک میں ربّنا /ربّی کے الفاظ بر سبیلِ بیان بھی کثرت سے آئے ہیں، لیکن جہاں جہاں یہ اسمِ ندا کے طور پر مذکور ہیں، وہاں یقیناً مخصوص و مستجاب دعائیں موجود ہیں، جیسے سورۂ بقرہ کے آخر میں ہے: رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ ۔۔۔ (۰۲: ۲۸۶) اور اسی طرح کی بہت سی آیاتِ کریمہ ہیں، جن کے شروع میں دعائیہ اسم آیا ہے۔

۶۔ اللہ: لفظِ “اللہ” اسمِ ذات کا قائمِ مقام ہے، چنانچہ یہ بزرگ نام جب خصوصی تعریف و توصیف کے ساتھ آتا ہے، تب وہ آیۂ کریمہ ایک خاص دعا قرار پاتی ہے، جیسے آیت الکرسی کے آغاز میں ہے: اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ- ۔۔۔ (۰۲: ۲۵۵)۔

۷۔ لا الٰہ: جن مبارک کلمات کی اساس باری تعالیٰ کی توحید پر

 

۹۶

 

قائم ہے، وہ بھی زبردست مؤثر دعائیں اور خاص اذکار ہیں، مثال کے طور پر حضرتِ یونس علیہ السّلام کی دعا: لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ  اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ (۲۱: ۸۷)۔

۸۔ قل: چار قل (سورۂ کافرون، سورۂ اخلاص، سورۂ فلق، سورۂ ناس) اور بعض ایسی آیاتِ مقدّسہ، جو لفظِ قل سے شروع ہوتی ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ اور مقبول دعاؤں میں سے ہیں، کیونکہ قل (کہہ) کے دو معنی ہیں: لوگوں سے کہنا اور دعا کے طور پر کہنا یا پڑھنا، جیسے سورۂ طٰہٰ میں حکم ہے: وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا (۲۰: ۱۱۴) اور آپ یہ دعا کیجئے کہ اے میرے ربّ میرے علم میں اضافہ فرما۔ دوسری مثال: قل اللّٰہ ثم ذرھم (۰۶: ۹۱) طبی تفسیر: جب مخالفین تم کو وسوسوں کی صورت میں اذیت دینے لگیں، تو دل ہی دل میں اللہ اللہ کا ورد کرتے رہو تاکہ تم ان لوگوں (یعنی وسوسوں) کو پیچھے چھوڑ کر آگے جا سکو۔

۹۔ صلوا علیہ: بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی نبی پر درود بھیجا کرو اور سلام بھیجا کرو جیسا کہ حق ہے (۳۳: ۵۶) اس امرِ خداوندی سے صلوات کی بہت بڑی اہمیت ظاہر ہو جاتی ہے کہ صلوات خدا کی خدائی میں بتقاضائے حکمت اتنی ضروری ہے کہ اسے خود پروردگارِ عالم اور اس کے ملائکہ بھیجا کرتے ہیں، اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ مومن کی درود خوانی آسمانی درود سے واصل ہو کر کوئی بڑا کرشمہ دکھا سکتی ہے، اللّٰھم صل علیٰ

 

۹۷

 

محمد و آل محمد ۔

۱۰۔ دعاہائے انبیاء علیہم السّلام: جس طرح حضراتِ انبیاء علیہم السّلام اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندے ہیں، اسی طرح ان کی وہ تمام دعائیں بھی منتخب و مقبول ہیں، جو قرآنِ حکیم میں مذکور ہیں، چنانچہ حضرتِ آدم علیہ السّلام کی مبارک دعا کے دو پہلو ہیں، ایک ظاہری ہے (۰۷: ۲۳) اور دوسرا روحانی (۰۲: ۳۷) اس دوسرے حوالے کے مطابق آپ کو جن پاک و پاکیزہ کلمات کی تعلیم دی گئی تھی، وہ کلماتِ تامّات اور اسمائے عظام تھے، اسمِ اعظم اگرچہ ایک ہی ہوتا ہے، تاہم اس کے تحت یا اس کے خزانے میں بہت سے اسماءُ الحسنیٰ ہیں، پس حضرت آدمؑ کو خدا کے جملہ بزرگ ناموں اور کلماتِ تامّات کا علم عطا ہوا تھا، اور یاد رہے کہ توبہ کے اصل معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں، جس کے کئی مقامات ہیں، اور اس کا آخری مقام ازل ہے، چنانچہ توبۂ آدم کی حقیقت یہ ہے کہ آپ مذکورہ علم کے وسیلے سے مشاہدۂ اسرارِ ازل تک رسا ہو گئے اور اللہ کے اسمِ صفتِ تواب کے حقیقی معنی یہی ہیں (۰۲: ۳۷)۔

۱۱۔ ایک عجیب دعا: حضرتِ نوح علیہ السّلام کی ایک پُرحکمت دعا کا ترجمہ یہ ہے: اور نوح نے کہا کہ اے میرے پروردگار کافروں میں سے زمین پر ایک باشندہ بھی مت چھوڑ (کیونکہ) اگر تو ان کو روئے زمین پر رہنے دے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ ہی کر دیں گے اور ان کی اولاد بھی گنہگار اور کٹی کافر ہی ہوگی (۷۱: ۲۶ تا ۲۷) ۔ سوال:

 

۹۸

 

یہ کس نوعیت کی دعا ہے؟ ہنگامی؟ یا دائمی؟ اگر یہ مانا جائے کہ طوفان میں سب کافر ہلاک ہوگئے تھے، تاہم سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ جس زمین کو کفر کی نجاست سے پاک ہونے کی دعا کی گئی تھی، اس میں کفار کیسے پیدا ہوگئے؟ اس کا کوئی جواب نہیں، لیکن صرف ایک ہی جواب ہے کہ یہ حضرتِ نوح علیہ السّلام کے عالمِ شخصی کی زمین (روحانیّت) کی بات ہے، جس پر سے کافر ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئے تھے۔

۱۲۔ امر و اشارہ: یہاں یہ نکتہ بھی جاننا چاہئے کہ بعض آیاتِ کریمہ میں ذاتِ سبحان کی عبادت اور اس کی تحمید و تمجید کا حکمِ صریح موجود ہے، جبکہ بعض دوسری آیتوں میں اس عمل کے لئے صرف اشارہ ملتا ہے، مثال کے طور پر سورۂ احزاب (۳۳: ۴۲) میں سبحان اللہ کی تسبیح کا واضح حکم دیا گیا ہے، مگر اس کی انتہائی اہمیت کا ذکر ان آیاتِ مبارکہ کے اشاروں میں موجود ہے، جو ہر چیز کے تسبیح کرنے پر دلالت کر رہی ہیں، اور ایسی آیات کئی ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ تسبیح ہر شیٔ کی بقائے معنوی کا ذریعہ ہے، ورنہ وہ نیست و نابود ہو جائے گی، اور کائنات و موجودات کے حق میں یہی بہت بڑی اہمیت صلوٰۃ و سجود کی بھی ہے (۲۴: ۴۱، ۱۶: ۴۹)۔

۱۳۔ مؤمنین کی دعائیں: مثال: حسبنا اللّٰہ و نعم الوکیل (۰۳: ۱۷۳) خدا ہمارے واسطے کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ اس بابرکت دعا سے خوفِ بے جا کی بیماری زائل ہو جاتی

 

۹۹

 

ہے، اور دل اطمینان و سکون کا مسکن قرار پاتا ہے۔

۱۴۔ فواتح و خواتم: سورتوں کے افتتاحات اور اختتامات (فواتح و خواتم) حکیمانہ عجائب و غرائب سے بھرپور ہیں، اور ان میں سے بعض میں خاص خاص دعائیں بھی ہیں، مثلاً الحامدات (یعنی الحمد سے آغاز ہونے والی سورتوں) اور مُسَبَّحَات ( سَبَّحَ سے شروع ہونے والی سورتوں) کے اوائل میں دعائیں ہیں، جیسا کہ اس کا ذکر ہو چکا کہ جہاں بھی خداوندِ تعالیٰ کی تحمید و تسبیح ہو، وہاں دعا کی صورت بنتی ہے، یہ سورتوں کے فواتح میں خاص خاص دعائیں، کلمات، یا تسبیحات ہونے کی بات ہوئی، اور اب خواتم کے بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں کہ جس طرح درخت شروع شروع میں خلاصہ اور جوہر ہوا کرتا ہے، درمیان میں درخت ہوتا ہے، اور پھر آخر میں جوہر یعنی بیج یا تخم پیدا ہوتا ہے، اسی طرح نہ صرف قرآن ہی بلکہ ہر سورہ اپنے اوّل و آخر میں ست، لبِ لباب، اور جوہر ہے، اسی مثال سے ہر سورۃ کے خاتمہ کی اہمیّت و عزّت کو سمجھ لیں۔

۱۵۔ آپ سورۂ رحمان کے آخر میں دیکھ لیں: تبٰرک اسم ربک ذی الجلال و الاکرام (۵۵: ۷۸) تمہارا پروردگار جو صاحبِ جلال و کرامت ہے، اس کا نام بڑا بابرکت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم، جس کا اشارہ الحیّ القیّوم میں ہے، جس کے نور کی روشنی میں تمام اسماءُ الحسنیٰ کا یقین ہو جاتا ہے، وہ عقلی، عرفانی، علمی، اور روحانی فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے، چنانچہ سورۂ رحمان میں جتنی نعمت ہائے عظمیٰ

 

۱۰۰

 

کا ذکر ہوا، وہ سب کی سب اسی بزرگ اسم کی برکتیں ہیں، پس جو شخص اللہ کے اسمِ اکبر کی معرفت حاصل کرے، وہ ہمیشہ کے لئے سماوی برکتوں سے مالامال ہو گا، اس کی نیک دعائیں قبول اور تمام دینی مرادیں پوری ہوں گی، وہ ہر باطنی بیماری سے محفوظ و سلامت رہے گا۔

۱۶۔ اس سلسلے کی مزید معلومات کے لئے حدیثِ شریف اور فقہ کی کتابِ طب میں بھی دیکھ لیں، اور ہر مقبول دعا یقینِ کامل کے ساتھ کریں، کیونکہ پاکیزہ قول (یعنی علم و عبادت) خدائے بزرگ و برتر کی بارگاہِ عالی کی جانب بلند ہو جاتا ہے، اور نیک عمل اسے اٹھا کر لے جاتا ہے (۳۵: ۱۰) تاکہ وہ کن فیکون میں فنا ہو، اور دستِ قدرت کوئی کام کرے، پس خصوصی اور مقبول دعا صاحبِ عرش (خدا) کے حکم سے بہت سے مفید کارنامے انجام دے سکتی ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
۳ جمادی الاول ۱۴۰۹ھ / ۱۴ دسمبر ۱۹۸۸ء

۱۰۱

حکمتِ عزرائیلیہ

۱۔ نتیجہ خیز سوالات: اے میرے عزیز! کیا آپ نے قرآنِ حکیم میں حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام اور اس کے لشکر کے باب میں غور و فکر کیا ہے؟ آپ یہ وضاحت کریں کہ نفسانی موت اور جسمانی موت کے درمیان کیا فرق پایا جاتا ہے؟ کس قسم کی موت کے نتیجے میں عزرائیل اور دیگر فرشتوں کی معرفت ممکن ہے؟ جزوی موت کس حالت کو کہا جاتا ہے؟ نیند کے بارے میں قرآنِ مجید کا کیا ارشاد ہے؟ اگر نیند موت ہے تو یہ کس قسم میں شامل ہے؟ روحانی (نفسانی)؟ یا جسمانی؟ آیا قرآنِ پاک میں روحانی شہادت کا کوئی ذکر موجود ہے؟ اگر ہے تو سورۃ اور آیہ کون سی ہے؟ آیا فرشتۂ موت سب کا فقط ایک ہی ہے؟ یا ہر شخص کا ایک ذاتی عزرائیل ہوا کرتا ہے؟ عزرائیل ہر آدمی پر کس معنیٰ میں مؤکل (مقرر، ۳۲: ۱۱) ہے؟

۲۔ کیا یہ حقیقت ہے کہ نیند ایک قسم کی موت ہے، اس لئے سلانے کا مؤکل عزرائیل ہی ہے؟ پھر جگانے کا کام کس فرشتے کے سپرد ہے؟ اسرافیل؟ حضرتِ عزرائیل کس طرح کسی کی روح قبض

 

۱۰۲

 

کر لیتا ہے؟ اور اس کے لشکر کا کیا کردار ہوتا ہے؟ جو لوگ حادثات میں مرتے ہیں، ان کی جان کس طرح قبض کی جاتی ہے؟ آیا جانوروں کی موت بھی عزرائیل ہی کی نگرانی میں واقع ہوتی ہے؟ کیا یہ بات درست ہے کہ ایک کامیاب مومنِ سالک منزلِ عزرائیلی میں اپنی روحانی موت کا تفصیلی مشاہدہ کر سکتا ہے؟

۳۔ آپ عزیزوں نے کتابِ “قرآنی علاج” میں جراثیم اور قوّتِ عزرائیلی کے مضمون کو باریک بینی اور رمزدانی سے پڑھا ہوگا، وہ بے حد ضروری موضوع ہے، لہٰذا آپ اسے پھر ایک بار پڑھ لیں، تا کہ حکمتِ عزرائیلیہ آپ کے لئے زیادہ سے زیادہ قابلِ فہم ہو سکے، کیونکہ حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام کے بھیدوں کے جاننے میں مومنین کے لئے بے شمار فائدے ہیں، مثلاً یہ جاننا کیا کم ہے کہ ہر شخص میں عزرائیل کا ایک عکس ہے، جس کو قوّتِ عزرائیلیہ کہتے ہیں، یہ وہی قوّت ہے، جس سے اہلِ دانش اپنے اندر جراثیم کشی کا کام لے سکتے ہیں، آپ وسوسوں کو بھی جراثیم کہہ سکتے ہیں، جن کا خاتمہ قوّتِ عزرائیلی ہی کر سکتی ہے، جبکہ حقیقی معنوں میں اس کو ذکرِ الٰہی سے حرکت دی جاتی ہے، اور کسی شک کے بغیر یہی طاقت دوسرے تمام جراثیم کو بھی ہلاک کر ڈالتی ہے، کیونکہ ہلاکت جہاں بھی ہو، اور جس چیز کی بھی ہو، وہ بس عزرائیل ہی کا کام ہے، اور یہ بڑی جامعیت کے ساتھ ایک جواب ہے۔

۴۔ شمس (سورج) فی الاصل آسمان میں ایک ہی ہے، مگر زمین پر

 

۱۰۳

 

اس کے مقابل آئینے جس کثرت سے بھی ہوں گے، ان میں اسی کثرت سے شموس دکھائی دیں گے، چنانچہ حضرتِ عزرائیل عالمِ علوی میں صرف ایک ہی ہے، تاہم اس کی زندہ تصویریں، جو اثر انگیزی اور فعالیّت میں یکتا ہیں، تمام لوگوں میں موجود ہیں، پس اسی معنیٰ میں ملک الموت ہر شخص پر موکل اور مقرر ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ عزرائیل صرف جان لینے کی غرض سے ہماری موت کے دن کا منتظر نہیں، بلکہ اس کے اور بھی بہت سے کام ہیں، جیسے آرام کے وقت ہم پر نیند مسلط کر دینا، ذکر کے دوران وسوسوں کو مٹانا، ذاکر کے ذکر یا اسمِ اعظم کو قلب سے مرفوع کر کے پیشانی (دماغ) تک پہنچا دینا، کلمۂ تقویٰ کو لازم کر دینا، تطہیر و تزکیہ کا عمل، بدنی روح کو کائنات میں پھیلاتے ہوئے کائناتی روح کو بدن میں ڈالنا، جراثیم یا امراض کی روح کو قبض کر لینا، وغیرہ۔

۵۔ آپ سورۂ حم السجدہ (۴۱: ۳۰ تا ۳۱) میں خوب غور سے دیکھ لیں کہ خدا شناس مومنین پر فرشتے نازل ہوتے ہیں، مگر یہ بہت بڑی سعادت راہِ روحانیّت پر منزلِ عزرائیلی سے پہلے نصیب نہیں ہوتی، کیونکہ بندۂ مومن پر ملکوت کا دروازہ نفسانی موت ہی کی بدولت کھل جاتا ہے، اور خوب یاد رہے کہ ایسے میں دوسرے بڑے فرشتے اور ان کے لشکر بھی ساتھ کام کرتے ہیں۔

۶۔ سورۂ نازعات کے شروع کی پانچ آیاتِ کریمہ (۷۹: ۰۱ تا ۰۵) کے ترجمہ

 

۱۰۴

 

و تفسیر کے بعد ان کے حکمتی پہلو کو بھی دیکھ لیجئے: قسم ہے ان فرشتوں کی جو (خلیہ خلیہ میں ) ڈوب کر جان کھینچتے ہیں، اور قسم ہے ان فرشتوں کی جو روح کے بند کو کھولتے ہیں (یعنی انسانی جسم میں روح کا ایک سرا آزاد ہے، جو خواب میں لا تعلق ہو جاتا ہے، اور دوسرا سرا جسم کے ساتھ بندھا ہوا ہے، جس کی وجہ سے نیند کے دوران وہ نکل ہی نہیں سکتا) اور قسم ہے ان فرشتوں کی جو روح کو لے کر تسبیح سے پرواز کر جاتے ہیں، پھر وہ فرشتے روح کو مکان اور زمان سے آگے لے جاتے ہیں، پھر وہ ملائکہ اس روح کو امرِ ازل کی تدبیر کے سپرد کر دیتے ہیں، یعنی اس انتہائی اعلیٰ مقام پر جملۂ اسرارِ ازل کا تجدّدِ امثال ہو جاتا ہے، کیونکہ تدبیرِ امر کا اشارہ کلمۂ کن کے تجدّد کی طرف ہے۔

۷۔ ایسا کوئی مسلمان شاید کہیں بھی نہ ہوگا جو اس حقیقت سے انکار کرے کہ قرآنِ پاک علم و حکمت کی ایک بہشت ہے، یقیناًاس میں اپنی نوعیت کی تمام نعمتیں موجود ہیں، اور اس میں رحیقِ مختوم بھی ہے (۸۳: ۲۵) جس کی مہر سے مشامِ جان کو کستوری کی خوشبو آتی رہتی ہے (۸۳: ۲۶) چنانچہ ایک ایسی بابرکت آیت و ان من شیءٍ (۱۵: ۲۱) کی ہے، جس کا ایک مختصر مطلب یہ ہے ک خزائنِ الٰہی میں سب کچھ موجود ہے، اور ان سے متعلق جتنا کسی کا علم ہو گا، اتنی وہاں سے چیزیں نازل ہو سکتی ہیں، تاہم اس سلسلے میں مشاہدۂ ازل و اسرارِ ازل سب سے بڑا انقلاب ہے، چونکہ یہ تجربہ عالمِ شخصی ہی میں ہوتا ہے، جو مراتبِ روحانی کی زمین ہے، لہٰذا

 

۱۰۵

 

مذکورہ مشاہدہ ان چیزوں میں شامل و شمار ہوتا ہے، جو خداوند عالم کے ازلی خزانوں سے اترتی ہیں، اور یہاں یہ نکتۂ دلپذیر خوب یاد رہے کہ معجزۂ تجدّدِ ازل زمان سے متعلق تمام سوالات اور الجھنوں کو یکسر ختم کر ڈالتا ہے۔

۸۔ مذکورۂ صدر لاہوتی خزانوں میں ہر بیماری کے لئے کئی کئی نسخہ ہائے کیمیا بھی موجود ہیں، اور ان میں ایک خاص نسخۂ حکمتِ عزرائیلیہ ہے، پس آپ ہر نماز کے بعد تسبیحِ فاطمہ علیہا السّلام کو پڑھ کر یہ تصوّر کریں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے عزرائیل اور اس کے لشکر آپ کے جسم و روح کی بیماریوں کو کھینچ کر نکال رہے ہیں، اور اسی کے ساتھ جراثیم بھی ختم ہو رہے ہیں، وہ مبارک تسبیح یہ ہے: ۳۳ بار اللہ اکبر، ۳۳ بار الحمد للہ، ۳۳ بار سبحان اللہ، اور ایک بار لا الٰہ الا اللہ (دعائم الاسلام ، جزء اول، ص ۲۰۳، عربی)۔

۹۔ عزرائیل علیہ السّلام کا صوتی وجود ایک بولتا اسمِ اعظم ہے، اور یہی اسمِ اکبر کلمۂ تقویٰ بھی ہے، جس کا تذکرہ سورۂ فتح (۴۸: ۲۶) میں فرمایا گیا ہے، پس جب کسی مومن پر روحانی موت واقع ہو جاتی ہے، تو اس حال میں عزرائیل بائیں کان کے اندر رہ کر مذکورہ بزرگ اسم کا مسلسل ذکر کرتا رہتا ہے، اور اس کے لشکر جو ذرّاتِ روحانی ہیں، جسم کے بے شمار خلّیات میں اتر کر روح کو سر کی راہ سے نکال لیتے ہیں، مگر روح کا آخری سرا دماغ سے وابستہ رہتا ہے، پھر آفاقی روح میں سے جسم کے سانچے میں

 

۱۰۶

 

ڈالی جاتی ہے، اور یہی عمل (قبضِ روح کا تجدّدِ امثال) تقریباً ۱۸۰ (ایک سو اسی) گھنٹے تک دہرایا جاتا ہے، اور اس میں دوسرے فرشتوں کی بھی عملی شرکت ہوا کرتی ہے، بالخصوص حضرتِ اسرافیل کی۔

۱۰۔ عزرائیل اور اسرافیل نے جہاں بحکمِ خدا ایسی زبردست قوموں کو، جو سرے ہی سے نافرمان تھیں، صفحۂ ہستی سے مٹا دیا ہو، وہاں کوئی درد، مرض، جرثومہ، بیکٹیریا (Bacteria)، وائرس (Virus) اور سرطان (Cancer) کس طرح ٹھہر سکتا ہے، مگر مجبوراً یہی کہنا پڑے گا کہ ہم میں علم، یقین، اور روحانیّت کی بڑی حد تک کمی ہے، ورنہ ساری دنیا میں یہی طریقِ علاج سب سے زیادہ مفید و مقبول ہو جاتا، تاہم کوئی مایوسی نہیں، کیونکہ اب روحانی سائنس کی آمد آمد ہے۔

۱۱۔ جب آدمی کسی شدید بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے، تو وہ دن رات سخت درد محسوس کرتا ہے، مگر جب اس پر نیند طاری ہو جاتی ہے، تو اس وقت اس کو کافی آرام مل جاتا ہے جس کی وجہ بس یہی ہے کہ حضرتِ عزرائیل نیند کے عنوان سے کچھ دیر کے لئے اس کی روح کو قبض کر لیتا ہے (۳۹: ۴۲) اور اسی کے ساتھ اوپر اوپر سے بیماری یا جراثیم کی روح بھی وقتی طور پر نکالی جاتی ہے، اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ ہر مرض کی روح ہے، اور اس پر صرف عزرائیل ہی کا کنٹرول ہے۔

۱۲۔ آپ لفظِ نعاس کی قرآنی حکمت (۰۳: ۱۵۴، ۰۸: ۱۱) میں ٹھیک ٹھیک غور و فکر کر لیں، نعاس لغوی طور پر نیند کی جھپکی اور غنودگی تو ہے ہی،

 

۱۰۷

 

لیکن پروردگارِ عالم نے اسے جنگِ بدر اور جنگِ احد میں مومنین کے لئے ایک پُرسکون معجزہ بنا رکھا ہے، پس جو نیک بخت شخص راہِ خدا میں اپنے نفسِ امّارہ کے خلاف جہاد کرے، وہ نہ صرف نعاس اور عزرائیل ہی کے معجزوں کو دیکھے گا، بلکہ ان سے بڑھ کر روحانیّت کی شخصی اور ذاتی کائنات اس پر منکشف ہو جائے گی، جس میں وہ تمام روحانی اور عقلی نعمتیں موجود و مہیا ہیں، جن کا تذکرہ اور وعدہ قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۱۶ جمادی الاول ۱۴۰۹ھ / ۲۷ دسمبر ۱۹۸۸ء

۱۰۸

عین الیقین اور معرفت

۱۔ توحید اور خدا شناسی یعنی عملی معرفت عقل و جان کی سب سے موثر دوا بھی ہے اور سب سے اعلیٰ صحت بھی، کیونکہ خالقِ اکبر نے انسان کو دین و دنیا کے تمام وسائل و ذرائع کے ساتھ اسی مقصد کے لئے پیدا کیا ہے کہ وہ ان سے کام لے کر ربّ العزّت کے عرفان کی لازوال دولت سے ہمیشہ کے لئے مالامال ہو جائے، تاکہ اس کو پروردگارِ عالم کی وہ جملہ نعمتیں حاصل ہوں، جو لامحدود، غیر فانی، اور بے پایان ہیں، جن کا تذکرۂ جمیل قرآنِ حکیم میں بکثرت موجود ہے۔

۲۔ معرفت کا دلنشین و روح پَرور موضوع انسانِ اوّل، ابو البشر، حضرتِ آدم علیہ السّلام ہی سے شروع ہوتا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
و علم اٰدم الاسماء کلھا ثم عرضھم علی الملٰئکۃ (۰۲: ۳۱) اور اللہ تعالیٰ نے حضرتِ آدمؑ کو سارے ناموں کی تعلیم دی پھر ان موسومات کو فرشتوں کے سامنے کر دیا۔ دیدۂ بینا کے سامنے یہ حقیقت روشن ہے کہ آدمِ صفی اللہ کی یہ ربّانی تعلیم جو حقائق و معارف سے متعلق

 

۱۰۹

 

تھی بطریقِ روحانیّت دی گئی تھی، اسی وجہ سے یہ علم فرشتوں کے حق میں مخزنِ سماوی ثابت ہوا، اور اس میں کسی کو شک نہ ہو کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے خلیفے کو خصوصاً اسماءُ الحسنیٰ کا علم عطا فرمایا تھا (۰۷: ۱۸۰) جن کی نورانیّت میں خلیفۂ خدا نے بمشاہدۂ عین الیقین معرفت ہی کے تمام اسرار دیکھ لئے تھے۔

۳۔ کتابِ “علمی علاج” میں “بہشت کے دو دو میوے” کے مضمون کو غور سے دیکھ لیں، یقیناً کوئی چیز جفت کے بغیر نہیں، کیونکہ یکتا صرف خدا ہی کی ذات ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم کا کوئی علمی میوہ اکیلا نہیں، بلکہ ہر پھل دراصل دو کا مجموعہ ہے، مثال کے طور پر لفظِ بنی آدم کو لیجئے کہ اس کے عام و خاص دو معنی ہیں، بنی آدم کے عام معنی سب کو معلوم ہیں، اس لئے یہاں خصوصی معنی کا بیان ضروری ہے، اور وہ یہ کہ بنی آدم درحقیقت انبیاء و اولیاء ہی ہیں، کیونکہ صرف انہی پاک و پاکیزہ اور مبارک ہستیوں کے سلسلے میں حضرتِ آدم علیہ السلام کی برگزیدگی، خلافت، اور روحانیّت وراثتًہ چلی آئی ہے، اور انہی حضرات کے پاس آدمِ صفی اللہ کا خزانۂ علمُ الاسماء مخفی رہا ہے۔

۴۔ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲) میں ارشاد ہوا ہے (ترجمہ): اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم (انبیاء و اولیاء) سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد (ذرّاتِ روح) نکالی اور ان کو اپنی روح کا مشاہدہ (اور تعارف) کرایا (اور ان سے پوچھا کہ) آیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ وہ کہنے

 

۱۱۰

 

لگے کیوں نہیں، ہم گواہ ہیں (اس لئے کہ ہم نے دیکھا کہ تو ہمارا ربّ ہے، یہاں یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ ہر پیغمبر اور ولی نے اپنے وقت میں جداگانہ طور پر یہ روحانی اور عرفانی معجزہ دیکھا، اور یہ بھی یاد رہے کہ المشہود و الشہادۃ کے معنی کسی چیز کا مشاہدہ کرنے کے ہیں خواہ بصر سے ہو یا بصیرت سے، اور صرف حاضر ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے (مفردات القرآن) اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانانِ کامل عین الیقین سے روح کا مشاہدہ کر لیتے ہیں، اور ان حضرات میں سے ہر ایک کے عالمِ شخصی میں واقعۂ الست کا تجدّدِ امثال ہو جاتا ہے، تاکہ حصولِ معرفت کے ذرائع میں کوئی کمی نہ ہو۔

۵۔ معرفت کا ایک دوسرا ہم معنی لفظ “یقین” ہے، جیسا کہ سورۂ انعام کے اس ارشاد سے ظاہر ہے: اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی (روحانی) بادشاہی دکھلائی تاکہ وہ عارفوں (موقنین) میں سے ہو جائیں (۰۶: ۷۵) نیز سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰) میں دیکھئے: اور یقین والوں (اہلِ معرفت) کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ پس عین الیقین کا مطلب چشمِ معرفت ہے، اور یہ مرتبہ علم الیقین کے بعد ہے (۱۰۲: ۰۵ تا ۰۷)۔

۶۔ قرآنِ حکیم جو علم و معرفت اور حق بیانی کا سرچشمہ ہے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے اس کلیے کو کیا خوب یاد دلاتا ہے، ارشاد ہے: فمن تبعنی فانہٗ منی ۔ پس جو شخص میرے پیچھے چلے تو وہ مجھ

 

۱۱۱

 

سے ہے (۱۴: ۳۶) یعنی جو آدمی حقیقی معنوں میں میرے دین پر عمل کرے، وہ مجھ (یعنی رسول) میں فنا ہوکر میرے وجودِ روحانی و عقلی سے واصل ہو جائے گا، اور سوائے ظاہری نبوّت و رسالت کے اسے معرفت کے تمام مراتب حاصل ہوں گے، یہی مفہوم اس آیۂ کریمہ میں بھی ہے، جو خدائی انعام یافتگان کے بارے میں وارد ہوئی ہے (۰۴: ۶۹) یعنی انبیاء، اولیاء، شہداء، اور صالحین، جن کی روحانی اور عرفانی رفاقت ہر اس شخص کو نصیب ہو سکتی ہے، جو خدا و رسول کی حقیقی فرمانبرداری کرے۔

۷۔ سورۂ مائدہ کے ایک حکمت آگین ارشاد (۰۵: ۴۴) کا مفہوم ہے: اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر توریت نازل فرمائی، جس کا صرف روحانی پہلو ہی ہر قسم کی تحریف سے محفوظ و پاک تھا، پس تابندہ ہدایت، بولتا نور، اور معرفت کا خزانہ اس کتاب کی روحانیّت میں تھا، لہٰذا حضرتِ موسیٰؑ اور آپ کے پورے دور کے انبیاءؑ سب، جنہوں نے بمقامِ معرفت اپنی ذات و انا خدا کے حوالے کر دی تھی، اسی روحانی توراۃ سے یہود کو حکم دیا کرتے تھے، اور اہل اللہ و علماء بھی ایسا کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے کتاب میں سے علم و حکمت کو یاد کیا تھا، جبکہ وہ عین الیقین سے نزولِ توراۃ کے تجدّدِ امثال کو دیکھ چکے تھے، اور وہ اسی معنیٰ میں جائے نزول پر حاضر بھی تھے اور گواہ بھی (شہداء، ۰۵: ۴۴) اور یہ مثال ایک بہت بڑے خزانے کی کلید کی طرح زبردست اہمیت رکھتی ہے۔

۸۔ لفظِ شہید اگر بشر کے باطنی پہلو سے متعلق ہے، تو اس میں ایک

 

۱۱۲

 

ساتھ چار معانی مستعمل ہو سکتے ہیں: راہِ خدا میں قتل کیا گیا، وہ شخص جو روحانیّت و عقلانیّت کے مقامات پر حاضر رہا ہو، وہ جس نے روحانی اور عقلی معجزات کے تجدّدِ امثال کا مشاہدہ کر لیا ہو، اور وہ مومن جو ان واقعات کا عینی شاہد (گواہ) ہو، دراصل یہ مومنِ سالک کے چار فضائل ہیں، اس حقیقت کی ایک روشن مثال سورۂ حدید (۵۷: ۱۹) میں دیکھئے: اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر (کما کان حقہٗ) ایمان رکھتے ہیں ایسے ہی لوگ  اپنے ربّ کے نزدیک صدیق اور (زندہ) شہید ہیں، ان کے لئے (نہ صرف آخرت ہی میں ، بلکہ دنیا میں بھی) ان کا اجر اور ان کا نور ہے (۵۷: ۱۹) ظاہر ہے کہ یہاں شہید کے چاروں معنوں کا اطلاق ہو سکتا ہے، جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔

۹۔ سورۂ محمد میں مشاہدۂ عین الیقین اور معرفت سے متعلق ایک انتہائی اہم اور فیصلہ کن آیۂ مبارکہ ہے، جس کا متعلقہ لفظ “عرف” ہے (۴۷: ۰۶) اور اس کے معنی ہیں: اس نے پہچنوا دیا، شناخت کرایا، شناسا کر دیا، جو صیغۂ ماضی ہے، اور آیۂ مقدسہ یہ ہے: و یدخلھم الجنۃ عرفھا لھم (۴۷: ۰۶) اور ان کو بہشت میں داخل کرے گا جس کی پہچان کرا دی ہے۔ اس سے یہ امر بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ معرفت نہ صرف ممکن الحصول ہی ہے، بلکہ وہ بے حد ضروری بھی ہے۔

۱۰۔ جس طرح عالمِ مادّیت میں چیزوں کو دیکھنے کے لئے سورج اور آنکھ دو وسیلے ہیں، اسی طرح عالمِ روحانیّت یا عالمِ شخصی کی آیات

 

۱۱۳

 

(معجزات، ۵۱: ۲۱) کا مشاہدہ کرنے کی غرض سے نورِ معرفت کے ساتھ ساتھ عین الیقین کا بھی ہونا بے حد ضروری ہے، کیونکہ نور کے جتنے عظیم مقاصد ہیں، وہ چشمِ یقین کے بغیر پورے نہیں ہو سکتے ، چنانچہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں نور کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہاں لازماً عین الیقین کی بہت بڑی اہمیت کا اشارہ بھی موجود ہے، قرآنِ عظیم نے اس امرِ ضروری کے باب میں صرف اشارات ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ بے بصیرتی اور کور باطنی کی بڑی سختی سے مذمت بھی کی گئی ہے۔

۱۱۔ سرورِ انبیاء و رسل حضرتِ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدا کے حکم سے دعوتِ اسلام کا آغاز ہی اس طرح فرمایا، جیسا کہ آنحضرتؐ نے نورِ معرفت کی روشنی میں چشمِ بصیرت سے دیکھا تھا، اس حقیقت کو خوب دلنشین کر لینے کے لئے سورۂ نساء (۰۴: ۱۰۵) اور سورۂ یوسف (۱۲: ۱۰۸) میں غور کیا جائے، اس امرِ واقعی میں نہ تو کوئی شک و شبہہ ہو سکتا ہے، اور نہ ہی کوئی تعجب، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول کو زندہ نور (۰۵: ۱۵) اور روشن چراغ (۳۳: ۴۶) بنا کر بھیجا تھا، اور تعجب اس حقیقت میں بھی نہیں ہونا چاہئے کہ کس طرح کوئی شخص نور (یعنی رسول) میں فنا ہو کر نور ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ حیرت ایک ایسے سوال کی طرح ہے، جس میں کوئی پوچھتا ہو کہ لکڑی کیوں آگ ہو جاتی ہے، جبکہ وہ جلتی ہوئی آگ میں ڈالی جاتی ہے؟

۱۲۔ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ انسان دراصل اشرفِ مخلوقات

 

۱۱۴

 

ہے، پھر کوئی دانشمند یہ کیسے باور کرے کہ آدمی اس زندگی میں نور اور بصیرت (چشمِ دل) کو حاصل نہیں کر سکتا، حالانکہ قرآنِ مجید نے انسانیّت کی امکانی ترقی اور اگلی صفوں کی کمالیت کے پیشِ نظر ارشاد فرمایا کہ وہ اپنی روح کو دیکھ سکتا ہے (۷۵: ۱۴) اور پہچان سکتا ہے، کیونکہ وہ اپنے وجود کے سلسلے میں نہ صرف گوشت پوست اور جسم ہی ہے، بلکہ وہ روح، عقل، اور بصیرت (دل کی بینائی) بھی ہے (۷۵: ۱۴) اور اس آیۂ کریمہ میں بہت بڑی حکمت ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۲۲ جمادی الاول ۱۴۰۹ھ / ۲ جنوری ۱۹۸۹ء

۱۱۵

تجدّدِ امثال کے اشارات

۱۔ قرآنِ حکیم اور دینِ فطرت (اسلام) میں لفظِ “سنت” کی بہت بڑی اہمیت اس لئے ہے کہ یہ قانونِ دین کے معنی میں استعمال ہوا ہے، پس ہر عاقل مومن پر واجب ہے کہ وہ ان جملہ پُرحکمت آیات میں خوب تفکر و تدبر کرے، جو سنتِ الٰہی سے متعلق ہیں، تا کہ اس اصولی غور و فکر کے نتیجے میں ایسے سخت عقدے حل ہو جائیں، جن کے کھل جانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا، بالآخر اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آئے گی کہ اللہ تعالیٰ کی پاک عادت و سنت جو کسی تبدل و تحول کے بغیر ہمیشہ جاری و ساری ہے، وہ دراصل تجدّدِ امثال کی صورت میں ہے، جس کی ظہورگاہ عالمِ شخصی یعنی انسانِ کامل ہی ہے (۴۰: ۸۵)۔

۲۔ سورۂ انبیاء (۲۱: ۳۳) اور سورۂ یاسین (۳۶: ۴۰) میں یہ حکمت آگین کلّیہ مذکور و موجود ہے کہ تمام چیزیں یعنی موجودات ہمیشہ دائرۂ امکان پر گردش کر رہی ہیں، ان میں مثال کے طور پر نہ تو دن آگے ہے، اور

 

۱۱۶

 

نہ ہی رات، یعنی عالمِ خلق اور عالمِ امر کے درمیان کوئی زمانی تقدیم و تاخیر نہیں، کیونکہ دائرۂ آفرینش کا کوئی سرا اور کوئی ابتداء و انتہاء نہیں، بلکہ یہ فعلِ قدرت کے زیرِ اثر ازلی اور ابدی حقائق و معارف کا عکس یا سایہ ہے، اور اسی طرح ساری کائنات کی ہر چیز میں تجدّدِ امثال کا عمل جاری ہے۔

۳۔ آیاتِ کائنات کیونکر آیاتِ قرآن کے قوانین سے مختلف ہوسکتی ہیں، غور سے دیکھ لیجئے کہ ہر شیٔ زبانِ حال سے تجدّدِ امثال کی حقیقت بیان کر رہی ہے، جبکہ تمام اشیاء کے فعلِ مسلسل میں تجدّد پایا جاتا ہے، جیسے آسمان کی دائمی حرکتِ مستدیر، سورج، چاند، اور ستاروں کی لگاتار ضوفشانی، امواجِ ہوا کی متواتر روانی، پانی کا اپنے دائرۂ زیر و بالا پر کبھی ختم نہ ہونے والا سفر، اور وہی دن رات اور موسموں کا بار بار آتے جاتے رہنا، وغیرہ، غرض عالمِ ظاہر میں جتنی قدرت کی نشانیاں ہیں، ان سب میں تجدّدِ امثال کا عمل نمایان ہے، جو سنتِ الٰہی کی ایک روشن دلیل ہے۔

۴۔ عالمِ شخصی کی آیاتِ قدرت بھی ربّانی حکمتوں سے مملو ہیں، ان زندہ معجزات میں انتہائی قریب ہی سے دیکھا جا سکتا ہے کہ تجدّدِ امثال کا مظاہرہ کس طرح دائماً جاری ہے، مثال کے طور پر دل کی دھڑکن کے معجزے کو دیکھ لیں، یہ ازلی تجدّد کا ایک بہترین نمونہ ہے، کہ اس سے جسمِ انسانی میں ہر آن حیات و بقا کی ایک نئی لہر دوڑتی ہے،

 

۱۱۷

 

جیسے مقامِ ازل پر کلمۂ کُنۡ کے سلسلے سے لاتعداد کائناتیں وجود میں آتی ہیں، یہی اشارہ نبض، تنفس، دورانِ خون، وغیرہ کا بھی ہے۔

۵۔ آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) اور آیۂ سراج (۳۳: ۴۶) میں جس شانِ تقدس سے شعلۂ چراغ کا تصوّر دیا گیا ہے، اس میں تجدّدِ امثال ہی کی حقیقت جھلک رہی ہے، اور یہی حکمت نورٌعلیٰ نور میں بھی ہے، کاش قرآنی اسرار کی عظمت و بزرگی کے زیرِ اثر یہ ہاتھ اور قلم کانپ اٹھتا! اور اس فرسودہ جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی! کیونکہ روحانی علاج کا سب سے بڑا راز ایسے ہی انقلابی بھیدوں میں پوشیدہ ہے۔

۶۔ س: بہشت کی عمر کب تک ہے؟ ج: ہمیش ہمیش جب تک آسمان و زمین قائم ہیں (۱۱: ۱۰۸) ۔ س: اگر بہشت کی مدتِ عمر کائنات کے ساتھ وابستہ ہے، تو پھر اس وقت کیا ہو گا، جب کائنات لپیٹ لی جائے گی (۲۱: ۱۰۴)؟ ج: اللہ تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ سے ہر وقت آسمانوں کو لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے ( و اللّٰہ یقبض و یبصط ،۰۲: ۲۴۵)۔

۷۔ س: اگر بہشتیں درجات پر ہیں، تو سب سے بلند ترین بہشت کون سی ہے؟ ج: فردوس، س: آیا بندۂ عاشق کے لئے فردوس سے اوپر بھی کوئی درجہ ہے؟ ج: جی ہاں، اس سے بہت بڑا درجہ رضوان کا ہے (۰۹: ۷۲)۔ س: وہ آیۂ مبارکہ کون سی ہے، جس میں یہ اشارہ ہے کہ کچھ لوگ فردوسِ برین سے مرتبۂ رضوان پر فائز ہو جاتے ہیں، اور کچھ لوگ فردوس میں ان کے وارث و جانشین ہوتے ہیں؟ ج: یہ اشارہ سورۂ مومنون

 

۱۱۸

 

کی دو پرحکمت آیتوں میں ہے (۲۳: ۱۰ تا ۱۱)۔

۸۔ س: بعض علماء کا کہنا ہے کہ قرآنِ پاک میں صرف ایک ہی آدم کا قصّہ ہے، کیونکہ انسانِ اوّل ایک ہی تھا، مگر بعض کہتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں بطریقِ حکمت بہت سے آدموں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، اس باب میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ ج: اس بارے میں ذاتی طور پر میں یہ مانتا ہوں کہ خالقِ اکبر نے لاتعداد عظیم ادوار میں بے شمار آدموں کو پیدا کیا ہے، اور اس کا ذکر قرآنِ کریم کے حکیمانہ اشارات میں موجود ہے، مثال کے طور پر قرآنی مفہوم ہے کہ اس دور کے آدم سے لے کر آج تک جو لوگ پیدا کئے گئے ہیں، جو تاریخی اعتبار سے تمہارے سامنے ہیں، ان کو خدا نے اپنی سنتِ آفرینش (فطرت) پر پیدا کیا، جو پہلے ہی سے چلی آ رہی تھی (۳۰: ۳۰)۔

۹۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معراجِ مقدس کا مقصدِ عالی یہ تھا کہ آپ کی ذاتِ گرامی پر اسرارِ عظیم منکشف کئے جائیں، ان بے حساب بھیدوں میں ایک بہت بڑا راز سرِ دائرۂ لا ابتداء و لا انتہا بھی تھا، جس کا اشارہ قاب قوسین او ادنیٰ میں ہے (۵۳: ۰۹) یعنی دو کمان:()، پھر دائرہ: O ، اہلِ بہشت کے زیورات سونے کے کنگن اور موتی ہیں، اور لباس ریشمی (۲۲: ۲۳) پس کنگن سے حکمتِ مستدیر یعنی اسرارِ دائرہ مراد ہیں، موتیوں کا اشارہ گوہرِ عقل کی طرف ہے، اور ریشمی لباس ہے جسمِ لطیف۔

۱۰۔ اللہ تعالیٰ کی صفتِ خالقیت، رازقیت، اور دوسری تمام صفات

 

۱۱۹

 

جن کا تعلق انسان سے ہے، قدیم ہیں، حادث نہیں، یعنی ہمیشہ ہیں، پس کوئی ایسا وقت ممکن ہی نہیں، جس میں خالق کی خالقیت کا ثبوت ملے، مگر مخلوق کا کوئی وجود ہی نہ ہو، اور کسی بادشاہی کے بغیر وہ بادشاہ کہلائے۔

۱۱۔ یہ درست ہے کہ انسان بارہا فنا فی اللہ ہو کر عالمِ امر میں گویا مست و مدہوش رہ چکا ہے، مگر آدمی کی یہ فنا ذاتِ سبحان میں ممکن نہیں، اس کی صفات میں ممکن ہے، پس انائے علوی خود نہیں آئی، بلکہ اس کا ایک جیتا جاگتا سایہ یہاں آیا، چنانچہ قرآنِ مجید نے اس سرِ عظیم کو حجاب میں رکھتے ہوئے فرمایا: اور تم مردے تھے سو اس نے تم کو جلایا (۰۲: ۲۸) اگر لوگ اس سے پہلے عدمِ محض سے زیادہ کچھ نہ ہوتے، تو نہ فرمایا جاتا کہ تم مردے تھے، حالانکہ دنیا کا مردہ کم از کم ایک قفسِ عنصری تو ہوتا ہے، جس سے طائرِ روح پرواز کر گیا ہو، اسی طرح سورۂ یونس (۱۰: ۳۱) کا ایک ارشاد ہے: اور وہ کون ہے جو زندے کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندے سے نکالتا ہے (۱۰: ۳۱)۔

۱۲۔ انسان دنیا میں کہاں سے آیا ہے؟ اور کس طرح؟ یہ سوال جتنا اہم ہے، اتنا مشکل بھی ہے، تاہم اگر قرآنی حکمت کی روشنی حاصل ہو، تو کوئی مشکل نہیں، پس جب ہم قرآنِ حکیم کو خود اس کے نورِ علم کی روشنی میں دیکھتے ہیں، تو یہ بنیادی قانونِ عقلانیّت و روحانیّت واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کا نزول ایک بسیط روح کی طرح ہوا ہے، چنانچہ وہ نہ صرف

 

۱۲۰

 

عالمِ ظاہر میں بصورتِ کتاب موجود ہے، بلکہ عالمِ امر میں بھی محفوظ ہے (یعنی کتابِ مکنون اور لوحِ محفوظ میں : ۵۶: ۷۷ تا ۷۸، ۸۵: ۲۱ تا ۲۲) سو یہ عظیم واقعہ خالی از حکمت کیسے ہو سکتا تھا، یہ تو قرآنِ کریم کی سب سے بڑی عملی رہنمائی ہے، جس سے ہم یہ حقیقت سمجھ سکتے ہیں کہ انسانی روح کس طرح یہاں آئی ، اور کہاں کہاں موجود ہے۔

۱۳۔ مولائے روم نے خوب فرمایا ہے: ما آمدہ نیستیم این سایۂ ماست (ہم دنیا میں آئے ہی نہیں ہیں، یہ جسم ہماری اصل ہستی کا سایہ ہے) یہ قول دراصل قرآنی حکمت کا ماحصل ہے، کہ روح کا بالائی سرا ہمیشہ عالمِ امر میں ہے، اور زیرین سرا سائے کی طرح عالمِ خلق میں آتا رہتا ہے، پس اسی عمل میں تجدّدِ امثال کا عظیم راز پنہان ہے، اور یہی تخلیق در تخلیق کا سلسلۂ غیر متناہی بھی ہے (۳۹: ۰۶)۔

۱۴۔ بموجبِ ارشادِ ربّانی (۱۷: ۸۵) روح کے امرِ ربّ سے ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ازل میں روح نہ صرف کلمۂ کُنۡ (ہو جا) سے پیدا ہوئی، بلکہ اسی امرِ ازل کے تجدّدِ امثال میں اس کی حیات و بقا اور معرفت بھی ہے، پس یاد رہے کہ تجدّدِ امثال دونوں جہان کی جان اور حرکتِ حیاتِ جاودانی ہے، جس کی ایک روشن مثال آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) میں یہ فرما رہی ہے کہ کائنات کی بلندی و پستی کی ہر چیز میں نورِ خداوندی کی لہروں اور کرنوں کی مسلسل روانی اور تابانی ہے۔

۱۵۔ روحانی علاج کے سلسلے میں غور و فکر کی گہرائی اور انقلابی

 

۱۲۱

 

تحقیق سے کام لینے کی سخت ضرورت ہے، لیکن توفیقِ الٰہی کے بغیر کوئی نیک کام مکمل نہیں ہو سکتا، اس لئے ہم انتہائی عاجزی اور حاجتمندی کے ساتھ ربِّ عزأت کی بارگاہِ اقدس سے رجوع کرتے ہیں۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
منگل یکم جمادی الثانی ۱۴۰۹ھ / ۱۰ جنوری ۱۹۸۹ء

۱۲۲

قیامتِ صغریٰ

۱۔ ارشادِ نبوّی ہے: من مات فقد قامت قیامتہٗ (جو کوئی مرتا ہے اس کی قیامت برپا ہو جاتی ہے۔ احیاء العلوم، جلدِ چہارم، فضیلتِ صبر) چونکہ موت نفسانی اور جسمانی دو قسم کی ہوا کرتی ہے، لہٰذا قیامتِ صغریٰ یا ذاتی قیامت اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں پر بدنی موت سے پہلے ہی واقع ہوتی ہے، اور عوام پر موت کے بعد، کیونکہ عین الیقین سے خزائنِ اسرارِ معرفت کا مشاہدہ ممکن ہی نہیں، مگر جیتے جی فنا ہو جانے سے، اور وہ یہی قیامتِ صغریٰ ہے، جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے۔

۲۔ سورۂ بقرہ کی جن آیاتِ مقدسہ میں ذبحِ بقرہ کا ذکر فرمایا گیا ہے، ان میں ظاہری معجزے کے ساتھ ساتھ یہ پر حکمت مثال بھی ہے کہ نفسِ حیوانی، جو ایک بیل جیسا ہے، راہِ خدا میں بذریعۂ علم و عبادت اور ریاضت اس کی قربانی سے بندۂ مؤمن کس طرح حیاتِ طیبہ حاصل کر سکتا ہے، یعنی کیسے جیتے جی مر کر زندۂ جاوید ہو جاتا ہے،

 

۱۲۳

 

چنانچہ مولوئ معنوی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب مثنوی، دفترِ سوم میں اس حکمت کو ذیل کی طرح بیان کیا ہے:

۳۔ مجھے حضرتِ موسیٰؑ کا ایک ایسا بیل سمجھ جس کو ایک خاص جان عطا ہوئی ہے، میرا جزو جزو یعنی ذرہ ذرہ ہر ہر آزاد کا حشر (قیامت) ہے۔ حضرتِ موسیٰ کے بیل سے ایک قربان شدہ زندہ شہید مراد تھا، جس کا ایک چھوٹے سے چھوٹا جزو (ذرۂ لطیف) کسی مقتول کے لئے باعثِ حیات تھا۔ اس کی چوٹ سے مردہ جگہ سے اٹھ گیا، “اس کو اس کے بعض سے مارو” کے حکم کے مطابق۔ اے میرے بزرگو! اس بیل کو ذبح کر دو، اگر تم بصیرتی روحوں کی قیامت چاہتے ہو۔ میں پہلے جمادیت سے مرا اور نباتی بن گیا، اور نباتیت سے مر کر حیوان بن گیا۔ میں حیوانیت سے بھی مرا اور آدمی بن گیا، پھر میں کیوں ڈروں، میں مرنے سے کب گھٹا؟ دوسری مرتبہ میں بشریت سے بھی فنا ہو جاؤں گا، تاکہ فرشتوں میں ہو کر بال و پر حاصل کروں۔ فرشتے سے بھی مجھے آگے جانا چاہئے، کیونکہ بجز اس کی ذات کے ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ پس میں ملکیت سے بھی قربان ہو جاؤں گا، وہ جو عقل میں نہیں آ سکتا وہ ہو جاؤں گا۔ پھر میں عدم (نیستی) بن جاؤں گا، اور عدم ارغنون یعنی باجے کی طرح مجھ سے کہے گا کہ ہم سب اس کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

۴۔ حضرتِ یعقوب علیہ السّلام کی عارفانہ موت قبل از جسمانی موت کے بارے میں قرآنِ حکیم فرماتا ہے: ام کنتم شہداء اذ حضر

 

۱۲۴

 

یعقوب الموت (۰۲: ۱۳۳) کیا تم (اس وقت) موجود تھے جس وقت یعقوب کے پاس (عارفانہ) موت حاضر ہوئی؟ یعنی کیا تم نے عالمِ شخصی کے تجدّدِ امثال میں انبیاء و اولیاء کی عارفانہ موت دیکھی ہے؟ سوال اس لئے فرمایا گیا ہے کہ یہ امر ممکن ہے، اور اس کا مقصد ہے مذکورہ حقیقت کی طرف توجہ دلانا، پس ایسی موت کے حاضر ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس کے ساتھ علم و معرفت کی ایک ذاتی قیامت (قیامتِ صغریٰ) برپا ہو جاتی ہے۔

۵۔ اللہ جلّ جلالہ کا حکمتوں سے مملو ارشاد ہے (ترجمہ): جن لوگوں نے (سچے دل سے ) کہا کہ ہمارا پروردگار تو (بس) خدا ہے پھر وہ اسی پر (جیسا کہ حق ہے) قائم بھی ہو گئے تو ان پر (شبِ قدر کے تمام) فرشتے نازل ہوتے ہیں (اور عملاً یہ کہتے ہیں کہ) کچھ خوف نہ کرو اور نہ غم کھاؤ اور جس بہشت کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا، اس کی خوشیاں مناؤ، ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی دوست ہوں گے (۴۱: ۳۰ تا ۳۱) یہ خدا کے دوستوں کی نفسانی موت قبل از جسمانی موت اور ذاتی قیامت ہے، کیونکہ ان فرشتوں میں حضرتِ اسرافیل اور حضرتِ عزرائیل پیش پیش ہوتے ہیں، اور اللہ کے حکم سے وہ جو کچھ کرتے ہیں، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بطریقِ دوستی مومنین کے خوف و غم کا ازالہ کرتے ہوئے اسرارِ معرفت کا دروازہ کھول دیا جائے۔

۶۔ ہر حقیقت ایک ایسے ہیرے (الماس) کی طرح ہے، جس کے بہت

 

۱۲۵

 

سے پہلو ہوں، چنانچہ یہاں حقیقتِ قیامت کے جس پہلو سے متعلق بات ہو رہی ہے، اس پر کسی عزیز کو تعجب بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ شروع شروع میں بمقتضائے حکمت نہ صرف اسرارِ قیامت ہی پردۂ اخفا میں رہے ہیں، بلکہ اور بھی بہت سے علوم مخفی تھے، جو بعد میں رفتہ رفتہ ظاہر ہوئے، اور کچھ کا ظہور جاری ہے، پس قرآنِ حکیم جو خزائنِ خداوندی میں سے ہے (۱۵: ۲۱) اس کے بھیدوں کی برکتیں کیونکر محدود ہو سکتی ہیں، حالانکہ قرآنِ کریم کا مجموعی اشارہ بہت سے علمی و عرفانی اکتشافاتِ جدیدہ کی طرف ہے۔

۷۔ حق بات تو یہ ہے کہ قیامت کا ایک مقرر وقت بھی ہے، اور یہ وقت سے بالاتر بھی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قیامتِ کبریٰ اپنے وقت سے پہلے نہیں آئے گی، جبکہ قیامتِ صغریٰ، جو حصولِ معرفت کے واسطے مقرر ہے، وہ خدا کے خاص دوستوں میں ہمیشہ سے قائم ہوتی چلی آئی ہے، تاکہ اہلِ معرفت پر حقائق و معارف کا دروازہ ہر وقت کھلا رہے، اور کبھی بند نہ ہو، پس خوب یاد رہے کہ سب سے اعلیٰ روحانی ترقی یعنی فنا فی المرشد، فنا فی الرسول، اور فنا فی اللہ کی انتہائی عظیم سعادت ہر زمانے میں حاصل ہو سکتی ہے، اور یہی بڑا عالیشان اور بے مثال واقعہ قیامتِ صغریٰ ہے۔

۸۔ سوال: اگر یہ مانا جائے کہ ایک تو انفرادی قیامت ہے، اور دوسری اجتماعی قیامت، اس صورت میں کوئی عارف کس طرح ہمہ گیر

 

۱۲۶

 

قیامت کے بغیر گنجِ معرفت کو حاصل کر سکتا ہے، جبکہ وہ صرف قیامتِ صغریٰ ہی کا محدود مشاہدہ کرتا ہو؟ جواب: اللہ تعالیٰ جو قادرِ مطلق ہے، اس نے اپنی قدرتِ کاملہ سے جس طرح عالمِ صغیر میں عالمِ کبیر کو لپیٹ لیا ہے، اسی طرح قیامتِ صغریٰ میں قیامتِ کبریٰ کو محدود کر رکھا ہے، وہ یوں کہ عالمِ شخصی کا دوسرا نام عالمِ ذر ہے، جس کے لاتعداد ذرات کائنات و موجودات اور تمام انسانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں، یہ ذرات دراصل زندہ ارواح ہیں، پس عارف میں گویا سب لوگ جمع ہو جاتے ہیں، لہٰذا اس کے نزدیک انفرادی قیامت بشکلِ اجتماعی قیامت وقوع پذیر ہو جاتی ہے۔

۹۔ ایک ہوتی ہے اختیاری موت، جو “موتوا قبل ان تموتوا” کے حکم کے مطابق ہے، جو دراصل فنا فی اللہ کہلاتی ہے، اور دوسری ہے اضطراری (یعنی بے اختیاری) موت، اگرچہ دونوں صورتوں میں قیامت واقع ہو جاتی ہے، لیکن ان میں آسمان زمین کا فرق پایا جاتا ہے، پس فنا فی اللہ روحانیت کا وہ بلند ترین درجہ ہے، جس میں انسانِ کامل کی انفرادی اور مجموعی قیامت کا تجددِ امثال ہو جاتا ہے، جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے: فَسُبْحٰنَ الَّذِیْ بِیَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَیْءٍ وَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ (۳۶: ۸۳) پس وہ ذات پاک ہے جس کے ہاتھ میں تمام چیزوں کا ملکوت (یعنی مجموعۂ ارواح و ملائکہ) ہے اور تم کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے (۳۶: ۸۳)۔ یعنی پروردگارِ عالم نے اپنی

 

۱۲۷

 

قدرت کی مٹھی میں جملہ حقیقتوں اور معرفتوں کو یکجا اور ایک کر لیا ہے، سو اسی میں چھوٹی اور بڑی قیامت بھی ایک ہو گئی ہیں، درحالیکہ چیزیں اپنی اپنی جگہ الگ الگ بھی ہیں۔

۱۰۔ عنقریب وعدۂ الٰہی کے مطابق اجتماعی قیامت قائم ہونے والی ہے، اس کے احوال بڑے عجیب و غریب ہوں گے، وہ اسرافیل، عزرائیل، اور دیگر فرشتوں کے ذریعہ لوگوں پر زبردستی سے مسلط کر دی جائے گی، اس میں یاجوج و ماجوج کا کام بھی نمایان ہے، یہ ذراتِ روحانی ہیں، جو روحِ حیوانی کی مضبوط دیوار کو چاٹ چاٹ کر ایک بار ختم کر ڈالیں گے، جس کی وجہ سے حواسِ باطن بیدار ہو کر نہ صرف اپنا کام کریں گے، بلکہ حواسِ ظاہر کے ساتھ مل کر ایک بھی ہو جائیں گے، مثال کے طور پر چشمِ سِر چشمِ سَر سے روحانی عجائب و غرائب کو ظاہر میں بھی دیکھ سکے گی، اور سراسر دنیا میں روحانی انقلاب برپا ہو جائے گا۔

۱۱۔ اجتماعی قیامت کا حال ایسا ہے، جیسے آسمانی طبیب کے حکم سے فرشتے بیمار انسانیت کا آپریشن (Operation) کرتے ہوں، جس میں بے ہوشی، جراحت، شدید درد، سخت مشقت، اور خوف کے ساتھ ساتھ مرہم پٹی، دوا ، اور تیمار داری بھی لازمی ہے، پس ہوشمند مؤمن پر واجب ہے کہ وہ ہر وقت اپنی روحانی صحت کا خیال رکھے، تاکہ اس انتہائی نازک اور مشکل ترین ڈاکٹری معائنے میں آسانی ہو، جس میں جان نکال نکال کر ذرّہ ذرّہ کی روحانی پیوند کاری (Grafting)

 

۱۲۸

 

کی جاتی ہے۔

۱۲۔ قرآنِ حکیم سر تا سر اسرارِ قیامت سے مملو اور لبالب ہے، اور اس کی کوئی آیۂ کریمہ مقصدِ آخرت کی حکمت سے خالی نہیں، کیونکہ دین کا سارا نظام اس لئے بنایا گیا ہے کہ روزِ قیامت بندہ اپنے معبود کے پاس ایک ایسا دل لے کر آئے، جو تمام باطنی بیماریوں سے پاک اور ہر طرح سے صحت مند ہو (بقلب سلیم، ۲۶: ۸۹) تاکہ وہ خزائنِ معرفت کی لازوال اور بے پایان دولت سے ہمیشہ ہمیشہ مالامال اور شادمان رہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۸ جمادی الثانی ۱۴۰۹ھ / ۱۷ جنوری ۱۹۸۹ء

۱۲۹

 

انسانِ کامل

۱۔ نسفی نے جس طرح انسانِ کامل کی تعریف کی ہے، اس کا ایک نمونہ یہ ہے (ترجمہ از فارسی): جب تو نے انسانِ کامل کے بارے میں سن لیا، تو اب جان لے کہ انسانِ کامل کے بہت سے اسماء مقرر ہیں، کیونکہ مختلف اضافات و اعتبارات کی بناء پر اسے مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے، اور یہ سارے نام درست ہیں، اے درویش، انسانِ کامل کو شیخ، پیشوا، ہادی، مہدی، دانا، بالغ، کامل، مکمل، امام، خلیفہ، قطب، اور صاحب زمان کہتے ہیں، نیز جامِ جہان نما، آئینۂ گیتی نما، تریاقِ بزرگ، اور اکسیرِ اعظم کہلاتا ہے، اور عیسیٰ کہا جاتا ہے، کیونکہ مردۂ جہالت کو زندہ کرتا ہے، اُس کو خضر کہتے ہیں، اس لئے کہ اس نے آبِ حیات پی لیا ہے، اور سلیمان کہتے ہیں کہ پرندوں کی بولی جانتا ہے، اور یہ انسانِ کامل دنیا میں ہمیشہ موجود ہوتا ہے، وہ ایک سے زیادہ نہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ تمام موجودات ایک ہی شخص کی طرح ہیں، اور انسانِ کامل ایسے شخص کا دل ہے، پس انسانِ کامل

 

۱۳۰

 

اس عالم میں ہمیشہ کے لئے موجود ہے، اور دل ایک ہی ہوا کرتا ہے، لہٰذا انسانِ کامل دنیا میں صرف ایک ہی ہوتا ہے، اور جب وہ یگانۂ عالم اس جہان سے گزر جاتا ہے، تو دوسرا ایک اس کے مرتبے پر فائز ہو جاتا ہے، اور اس کا جانشین ہو جاتا ہے، تاکہ عالم دل کے بغیر نہ رہے (شرحِ اصطلاحاتِ تصوّف، تالیفِ دکتر سید صادق گوہرین، استادِ دانشگاہ)۔

۲۔ انسانانِ کامل حضراتِ انبیاء و اولیاء ہیں، جو سب اللہ تبارک و تعالیٰ کے برگزیدہ اور خاص دوست ہیں، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے: الا ان اولیاء اللّٰہ لا خوف علیہم و لا ھم یحزنون (۱۰: ۶۲) یاد رکھو کہ خدا کے دوستوں پر دراصل نہ تو ابد کا ڈر ہے اور نہ وہ ازل سے غمگین ہو جاتے ہیں، کیونکہ وہ اسرارِ گنجِ ازل و ابد سے واقف و آگاہ ہیں، اس لئے وہ کلّی طور پر مطمئن اور خرسند ہیں، اور انہیں ایسا علم الاسرار عطا ہوا ہے کہ اس کے سامنے خوف و غم زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکتا، اور علمِ لدنّی ان کی ولایت کی ایک روشن دلیل ہے۔

۳۔ جیسا کہ اس مضمون کے شروع میں ذکر ہوا، انسانِ کامل کا ایک نام خلیفہ ہے، اور اگر بچشمِ حقیقت دیکھا جائے، تو معلوم ہو جائے گا کہ خلافتِ الٰہیہ دنیا میں ہمیشہ سے ہے، اور ہمیشہ کے لئے ہے، پس اسی قانونِ دین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے (ترجمہ): تم میں سے جو لوگ (حقیقی معنوں میں) ایمان لائیں اور نیک اعمال

 

۱۳۱

 

کریں ان سے اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ ان کو زمین کی خلافت عطا فرمائے گا، جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلافت دی تھی (۲۴: ۵۵) حضرتِ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ عالی صفات تک خلافتِ انبیاء کا دور چل رہا تھا، اور آپ کے بعد خلافتِ اولیاء کا دور شروع ہوا، اب رہا سوال بہت سارے مومنین کی خلافت کا کہ اگر وہ اس شرط پر پورے اتریں، تو کیا ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ سب کے سب انسانِ کامل میں فنا ہو کر رسول اور اللہ میں فنا ہو جائیں، تو ان میں سے ہر ایک کو عالمِ شخصی کی خلافت عطا ہوگی، اور یہی ارض اللہ (۲۹: ۵۶) ہے، جس کی وسعت بے پایان ہے (۳۹: ۱۰)۔

۴۔ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے انسانِ کبیر نہ صرف ذاتی طور پر خلیفہ ہے، بلکہ ہر انسانِ صغیر کی انائے علوی بھی ہے، تاکہ جتنے مومنین اس میں فنا ہو جائیں، وہ سب اپنے اپنے عالمِ شخصی میں خلیفہ ہو سکیں، یہ روحانیّت اور آخرت کی بات ہے، جیسا کہ خداوندِ قدوس کا ارشاد ہے (ترجمہ): اور وہ ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں خلفاء بنایا اور درجات میں بعض کو بعض پر فوقیت دی (۰۶: ۱۶۵) آپ غور کر سکتے ہیں کہ اس حکیمانہ تعلیم میں درجات کی سیڑھی سے چڑھ کر خلافت کے مرتبۂ عظمیٰ سے مشرف ہو جانے کا اشارہ موجود ہے۔

۵۔ انسانِ مکمل کی روحانیّت میں حضرتِ آدم علیہ السّلام کے جملہ اسرارِ روحانی کا تجدّدِ امثال ہو جاتا ہے، اس لئے وہ مثلِ آدم اور

 

۱۳۲

 

نفسِ واحدہ ہے، چنانچہ اہلِ زمانہ کی روحانی تخلیق اور قیامت (یعنی ابداع و انبعاث) انسانِ کامل میں پوشیدہ ہے (۳۱: ۲۸) جس طرح قیامتِ صغریٰ کے مضمون میں کہا گیا کہ انفرادی قیامت بشکلِ اجتماعی قیامت وقوع پذیر ہو جاتی ہے، آپ اس عظیم راز کو سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) میں بغور دیکھ سکتے ہیں۔

۶۔ سوال: سورۂ رحمان کی ابتدائی چار آیاتِ مبارکہ کی ترتیب کی بنیاد پر یہ پوچھنا پڑتا ہے کہ حضرتِ رحمان نے قرآن کس کو سکھایا، جبکہ وہ قدرت والا خدا انسان کو بعد میں پیدا کر کے بولنا سکھاتا ہے؟ جیسا کہ اس ارشاد کا ترجمہ ہے: رحمان نے قرآن کی تعلیم دی، اس نے انسان کو پیدا کیا (پھر) اس کو گویائی سکھائی (۵۵: ۰۱ تا ۰۴) ۔ جواب: اللہ تعالیٰ اپنے جس بندۂ خاص کو قرآنِ کریم کی تعلیم دیتا ہے، وہ انسانِ کبیر ہی ہے، جس کے عالمِ شخصی میں ظہورِ قیامت، اعلیٰ روحانیّت، عالمِ امر، ازل، اور ابد کے انتہائی عظیم اسرار و رموز منکشف ہوتے ہیں، پس قرآنِ حکیم کی خدائی اور لدنی تعلیم اسی طرح ہے، اب ان عناصرِ روحی و عقلی کی سرشت سے خداوند تعالیٰ انسانِ کبیر کو بدرجۂ کمال خلق کر کے روشن دلائل اور محکم براہین کے ساتھ حکیمانہ بیان سکھاتا ہے، تا کہ وہ لوگوں کے لئے سرچشمۂ علم و حکمت قرار پائے۔

۷۔ سوال: سورۂ دہر کے شروع (۷۶: ۰۱) میں جیسا ارشاد ہوا ہے، اس کی عارفانہ تفسیر اور حکمت کا کوئی نمونہ کس طرح پیش کیا جا

 

۱۳۳

 

سکتا ہے؟ جواب: زیرِ بحث آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: کیا انسان پر دہر (زمانِ نا گزرندہ) سے وہ وقت آ چکا ہے جس میں کہ وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا۔ اس فرمانِ الٰہی میں انسانِ کامل کے احوالِ روحانی پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اس پر عالمِ امر میں دہر (ازل / ٹھہرا ہوا زمان) سے ایک ایسا وقت گزرا ہے، جس میں وہ فنا فی اللہ ہو چکا تھا، اور اب بھی ایسا ہے، یا ایسا ہونے والا ہے، مگر یہ نکتہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ ایسی پُرحکمت فنا کا تعلق روح اور عقل سے ہے، کہ وہی رنگِ بشریت کو ختم کر کے رنگِ رحمانیت میں رنگین ہو جاتی ہے (۰۲: ۱۳۸)۔

۸۔ حدیثِ شریف میں ہے: اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللّٰہ عز و جل ۔ مومن کی فراست (دانائی) سے ڈرتے رہو، کیونکہ وہ خدائے عزیز و جلیل کے نور سے دیکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خوف رکھنے کا حکم تمام اہلِ ایمان کے لئے ہے، اور جس مومنِ اخص سے ڈرنا چاہئے، وہ ولی (انسانِ کبیر) ہے، اور یہاں ڈرنے کے اصل معنی یہ ہیں کہ ہادئ برحق کے علم و حکمت کو بہت بڑی اہمیت دی جائے، کیونکہ اسی میں نورِ خدا کی روشنی، تابندگی، اور حیاتِ جاودانی ہے۔

۹۔ بخاری، جلدِ سوم، کتاب الرقاق، حدیث ۱۴۲۲ میں یہ حدیثِ قدسی ہے: ان اللّٰہ قال من عادیٰ لی ولیا فقد اذنتہ بالحرب ۔ اللہ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی، میں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔ اسی مقام پر حدیثِ تقرب بھی ہے، اور یہ

 

۱۳۴

 

اپنے خزائنِ حکمت کی وجہ سے ایسی اہم اور ضروری ہے کہ اگر ہزار مناسبتوں سے اس کی تعریف کی جائے، پھر بھی کم ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعہ مجھ سے قرب حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے پس ظاہر ہے کہ یہ حدیثِ قدسی ولئ کامل کی شان میں ہے، اور ایسے ہر مومن کے بارے میں بھی ہے، جو ولی میں فنا ہو جاتا ہے۔

۱۰۔ سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۹) میں اللہ تبارک و تعالیٰ تمام اہلِ ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ خدا سے ڈریں اور صادقین کے ساتھ ہو جائیں، صادقین اور صدیقین (۰۴: ۶۹) کا ایک ہی مطلب ہے، یہ اولیاء اللہ ہیں، یعنی انسانانِ کامل، پس ان کے ساتھ ہو جانا اس طرح ہے کہ ان کی ہدایات و تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ان میں فنا ہو جائیں، تا کہ اس وسیلے سے فنا فی الرسول، اور فنا فی اللہ کا عظیم ترین مرتبہ حاصل ہو، اور یقیناً اسی میں صداقتوں اور حقیقتوں کے تمام خزانے مرکوز و مجموع ہو جاتے ہیں۔

۱۱۔ انسانِ کامل ہی خلیفۂ رسول، اور طبیبِ روحانی ہے، اس لئے

 

۱۳۵

 

لازمی ہے کہ روحانی علاج سے متعلق موضوعات میں اس کا تذکرہ ہو، اگرچہ ہم اس آئینۂ جمال و جلالِ الٰہی کی تعریف و توصیف کرنے سے عاجز و قاصر ہیں، تاہم ان شاء اللہ ہم اپنی نیت میں مخلص ہیں، اور اس کی وہی ہر طرح سے مکمل، حکمت سے لبریز، اور بے شمار تعریفات کافی ہیں، جو خدا اور اس کے برحق پیغمبر نے حکیمانہ انداز سے فرمائی ہیں، الحمد للہ علیٰ احسانہ۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۱۴ جمادی الثانی ۱۴۰۹ھ / ۲۳ جنوری ۱۹۸۹ء

۱۳۶

 

جواہرِ طریقت

۱۔ سورۂ مائدہ (۰۵: ۴۸) میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا پُرحکمت ارشاد ہے: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًاؕ (۰۵: ۴۸) تم میں سے (اے اہلِ ملل مختلفہ) ہر ایک کے لئے ہم نے ایک شریعت اور ایک طریقت مقرر کر دی ہے۔ اس قرآنی تعلیم سے ظاہر ہے کہ تمام آسمانی مذاہب میں شریعت اور منہاج (طریقت / تصوّف) کا دستور رہا ہے، چنانچہ زمانۂ نبوّت میں درختِ شریعت کے ساتھ ساتھ نہالِ طریقت بھی پروان چڑھ رہا تھا، جس کی ایک روشن مثال اصحابِ صفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مل سکتی ہے، اور یہ واقعہ مشہور و معروف ہے کہ آیۂ کریمہ و لا تطرد الذین ۔۔۔ (۰۶: ۵۲) ان حضرات کے فضائل کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

۲۔ چوتھی صدی ہجری / دسویں صدی عیسوی میں صوفیاء نے تزکیۂ نفس کے مختلف طریقے وضع کئے، جو سلسلہ یا خانوادہ کہلاتے ہیں، ان سلسلوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جن کی آگے چل کر اور بہت سی شاخیں ہو جاتی ہیں، ان میں سے ہر شاخ کا ایک بانی ہے، ہر سلسلے

 

۱۳۷

 

کا منبع حضرتِ علی کی ذات ہے، صرف ایک سلسلۂ تقشبندیہ ایسا ہے، جس کی ابتداء حضرتِ ابوبکر صدیق سے ہوتی ہے (اسلامی انسائیکلو پیڈیا، ص ۵۰۷۔ سید قاسم محمود)۔

۳۔ آپ تصوّف کی کتابوں میں شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت جیسی اصطلاحات دیکھ سکتے ہیں، یہ دینی، علمی، اور روحانی سفر کی منزلیں ہیں، جو راہِ مستقیم پر واقع ہیں، جن پر چل کر مومنِ سالک خدائے بزرگ و برتر کا انتہائی قرب حاصل کر سکتا ہے، جیسا کہ دائرۂ معارفِ اسلامیہ، جلد ۱۱، ص ۱۹۳ پر ہے: “سلوک: (عربی: سفر کرنا)، صوفیہ کے نزدیک اس اصطلاح کے معنی راہِ طریقت پر وہ سفر ہے، جس کی ابتداء صوفی کسی طریقے میں داخل ہونے پر اپنے شیخ کے زیرِ ہدایت کرتا ہے، اور جس کی انتہا اس وقت ہوتی ہے، جب اپنی استعداد کے مطابق وہ بلند سے بلند روحانی درجہ حاصل کر لیتا ہے، سلوک سے مراد وہ تعلق باللہ کی جستجو ہے، جو عمداً اختیار کی جاتی ہے، اور جسے باقاعدہ جاری رکھا جاتا ہے، سالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ ذکر، توکل، فقر، عشق، معرفت، وغیرہ ہر مقام سے گزرے، اور اس میں کمال پیدا کرے، اس سے پہلے کہ وہ ذاتِ الٰہی سے واصل ہو جائے، لہٰذا سلوک کو جذب کی ضد خیال کیا جاتا ہے۔”

۴۔ تصوف کی ایک مشہور کتاب کشف المحجوب میں حضرتِ امام باقر علیہ السّلام کے بارے میں یہ روایت درج ہے: “آپ نے حق تعالیٰ کے

 

۱۳۸

 

ارشاد : فمن یکفر بالطاغوت و یؤمن باللّٰہ (پس جو شخص شیطان کا کفر کرے اور اللہ پر ایمان لائے، ۰۲: ۲۵۶) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: کل من شغلک عن مطالعۃ الحق فھو طاغوتک (جو چیز بھی تجھے مطالعۂ حق [مشاہدۂ تجلی] سے باز رکھے، وہی تیرا شیطان اور بت ہے) اب تم غور کرو کہ تم اللہ تعالیٰ سے کس چیز کی وجہ سے لا تعلق اور حجاب میں ہو، کہ اگر اس چیز اور حجاب کو ترک کر دو تو مکاشفۂ الٰہی تک تمہیں رسائی ہو جائے، اور تم حق سے ممنوع اور محجوب نہ رہو، اور جو شخص مشاہدۂ حق سے روک دیا گیا، اسے قربِ حق کا دعویٰ نہیں کرنا چاہئے۔”

۵۔ مذکورہ کتاب کے بابِ توبہ میں ایک انتہائی دلنشین نکتہ یہ ہے: “توبہ تین طریق پر ہوتی ہے، ایک خطا سے صواب (نیکی، نیک کام) کی طرف، ایک صواب سے صواب کی طرف، (یعنی کم نیکی سے زیادہ نیکی کی طرف) اور ایک اپنی ہستی سے حق تعالیٰ کی طرف۔” میں تیسری قسم کی توبہ کی وضاحت کرتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ انبیاء و اولیاء کی توبہ بدرجۂ انتہا رجوع الی اللہ ہی ہے، وہ ان حضرات کے عالمِ شخصی میں کشفِ گنجِ ازل اور مشاہدۂ حق ہے، اور یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ وہ کلماتِ تامّات، جو برائے ذکر و مناجات اور بطورِ خزائنِ علم و حکمت حضرتِ آدم علیہ السلام کو حاصل ہوئے تھے (۰۲: ۳۷) وہ اسی پیغمبرانہ اور اولیائی توبہ کی غرض سے تھے، یعنی مشاہدۂ کنزِ مخفی اور فنائے حقیقی کے لئے۔

۱۳۹

۶۔ سورۂ عنکبوت کے آخر (۲۹: ۶۹) میں پروردگارِ عالم کا پاک ارشاد ہے: و الذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا (۲۹: ۶۹) وہ لوگ جنہوں نے ہمارے معاملہ میں مجاہدہ کیا البتہ ہم انہیں اپنے (اسرارِ معرفت کے) راستے دکھا دیں گے۔ اور اسی حکمِ خداوندی کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نفس کے خلاف جنگ کو جہادِ اکبر قرار دیا ہے، پس اگر نفس سب سے بڑا کافر اور امراضِ باطن کی جڑ نہ ہوتا، تو ہرگز اس سے یہ شدید مخالفت اور ایسی بڑی جنگ ضروری نہ ہوتی، لیکن ظاہر ہے کہ نفسِ امّارہ بڑا مکار کافر ہے، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ کافر جہالت و نادانی کے روگ کا پتلا ہوا کرتا ہے، لہٰذا اس کا مکمل علاج جہادِ اکبر کی صورت میں لازمی ہوا، تاکہ وہ علمی و عرفانی طور پر صحیح و صحت مند مسلمان ہو جائے۔

۷۔ مؤمنِ سالک حق تعالیٰ کی عنایت و توفیق سے عالمِ شخصی (اپنی ذات) ہی میں روحانی منازل میں پیش رفت کرتا رہتا ہے، تا آنکہ اس سلوک (سفرِ روحانیّت) کا سب سے عجیب واقعہ اور عظیم ترین معجزہ رونما ہوتا ہے، وہ یہ کہ اگرچہ سفر، ازل سے ابد کی جانب ہو رہا تھا، لیکن بالآخر ابد و ازل دونوں کا ایک ساتھ کشف ہو جاتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ دائرۂ خلق و امر کی بدایت و نہایت (ابتداء و انتہاء) ایک ہی مقام پر ہے، جیسے گھڑی کے ڈائل (Dial) پر وقت کا نقطۂ آغاز (صفر) اور بارہ بجے کا نشان (0 / 12) ایک ہوا کرتا ہے، پس

 

۱۴۰

 

گنجِ ازل آپ کی ذات میں موجود ہے، مگر ۳۶۰ حجابات کے پیچھے، جن میں سے ۱۸۰ ظلمانی (تاریک) پردے ہیں، اور ۱۸۰ نورانی، اور ہر حجاب ایک منزل ہے، یاد رہے کہ تاریک منزلیں اتنی مشکل نہیں، جتنے مشکل روشن مراحل ہوتے ہیں، کیونکہ روشنی کو دیکھتے ہی صوفی کو یہ گمان ہو جاتا ہے کہ بس یہی خدا کا نور ہے، حالانکہ پردہ ہائے نورانیّت میں سے ابتدائی پردہ ہے، جس سے اس کو بہت آگے جانا ہے۔

۸۔ سالک کی منزلِ مقصود ازل و اسرارِ ازل کا کشف و مشاہدہ ہے، جو تجددِ امثال کا سب سے اعلیٰ اور سب سے افضل مقام ہے، جہاں تمام حقیقتوں اور معرفتوں کے خزائن کے ابواب ہر وقت مفتوح رہتے ہیں، اسی منزلِ آخرین میں روحِ قرآن کے حسن و جمالِ معنویت کی ہر گونہ جلوہ نمائی ہوتی رہتی ہے، یہ وہ بلند ترین مقام ہے، جہاں خداوندِ عالم کے قدیم قول و فعل کا ظہور ہوتا ہے، وہ امرِ کل اور فعلِ کل ہے، یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کا کن (ہو جا) فرمانا اور کائنات کو پھیلانا اور لپیٹ لینا، پھر اس کا تجدّدِ امثال ہوتا رہتا ہے۔

۹۔ پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے بارے میں مذکور ہے کہ: “کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم یصلی و فی جوفہ ازیزکازیز المرجل = جب پیغمبرِ خدا صلعم نماز پڑھتے تو آپ کا سینہ اس طرح جوش مارتا جیسا کہ پکتی ہوئی دیگ جوش کھاتی ہے۔”  اور حضرتِ علی علیہ السّلام کے بارے میں روایت

 

۱۴۱

 

ہے کہ آپ نماز کا ارادہ فرماتے تو آپ کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا، یہ پیغمبرانہ اور اولیائی عبادت کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے۔

۱۰۔ اہلِ تصوّف رویت (دیدارِ الٰہی) کے قائل ہیں، کیونکہ مشاہدۂ حق کے بغیر اصل معرفت محال ہے، اور معرفت وہ مقصدِ خداوندی ہے، جس کے پیشِ نظر جنّ و انس کی آفرینش عمل میں آئی، جیسا کہ حضرتِ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: و ما خلقت الجنّ و الانس الا لیعبدون ( ای لیعرفون ، ۵۱: ۵۶) میں نے جنّوں اور انسانوں کو اپنی عبادت یعنی اپنی معرفت کے لئے پیدا کیا ہے۔ عبادت میں یقیناًمفہومِ معرفت بھی موجود ہے، اس لئے آیۂ پاک و پُرحکمت کا یہ صوفیانہ ترجمہ بالکل درست ہے (دیکھئے کتابِ کشف المحجوب، پہلا کشفِ حجاب، معرفتِ الٰہی)۔

۱۱۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح ایمان، علم، نیک عمل، اور دیگر اوصافِ حمیدہ کی پختگی و کمالیت درجہ بدرجہ ممکن ہو جاتی ہے، اسی طرح معرفت کے بھی بہت سے درجات ہیں، البتہ ایک مومنِ سالک کی روحانیّت میں انہی درجوں کی سیڑھی ہے، جس کی مسافت پچاس ہزار سال کی ہے (۷۰: ۰۴) تاہم خداوندِ تعالیٰ جن مومنین کو نورِ ہدایت عطا فرماتا ہے، ان کا یہ نور ان کو لے کر ان درجات میں بڑی سرعت سے دوڑتا ہے (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۰۸، یسعیٰ نورھم میں “یسعیٰ” صیغۂ مضارع ہے، یعنی دوڑتا ہے، دوڑے گا) جس طرح سردارِ انبیاء و رسل ہادئ

 

۱۴۲

 

سبل صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انتہائی برق رفتاری سے معراج پر گئے تھے، پس ہدایت اور منزلِ آخرین کا سب سے بڑا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔

۱۲۔ قرآنِ عزیز مذکورہ مؤمنین کی ترجمانی فرماتا ہے: یقولون ربنا اتمم لنا نورنا ۔ اے پروردگار ہمارے لئے ہمارے نور کو (درجۂ تمامیت پر پہنچا کر) کامل کر دے (۶۶: ۰۸) پس ظاہر ہے کہ اس نور کا مقصد ہدایت اور معرفت ہے، یعنی اس کا کام ہے مرتبۂ انتہا تک مؤمن کی رہنمائی کرنا اور تجلّیاتِ ازل کے بھیدوں سے اس کو واقف و آگاہ اور شناسا کر دینا، تاکہ عارف معرفت کی بے مثال اور لازوال دولت سے ہمیشہ مالامال رہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۲۲ جمادی الثانی ۱۴۰۹ھ / ۳۱ جنوری ۱۹۸۹ء

۱۴۳

برکاتِ قرآن

۱۔ عالمِ مادّیت کا ہر پھول ہمیشہ سے ایک ہی قسم کے رنگ و بو کا حامل ہوا کرتا ہے، لیکن گل ہائے روحانیّت بدرجۂ انتہا عجیب و غریب ہوتے ہیں، کہ ان میں سے ہر گل اپنی گوناگون اور لا محدود تجلّیوں کی بدولت ایک بھرپور گلستان کا کام دیتا ہے، مثال کے طور پر لفظِ “برکۃ” کو لیجئے، جو علمی و عرفانی بہشت کا ایک خوبصورت اور دل آویز پھول ہے، جس میں انتہائی عمیق معنویت و حکمت کے دل کشا اور جانفزا پھولوں کی ایک لطیف کائنات سمائی ہوئی ہے، پس برکت میں علم و حکمت کی اتنی زیادہ رنگینیاں اور خوشبوئیں ہیں کہ کوئی بشر ان کا شمار ہی نہیں کر سکتا، کیونکہ برکت کے معنی ہیں بے پایان خیرِ الٰہی، یعنی عقل، روح، اور جسم کی خاطر لا انتہا نعمتوں کا پیدا ہوتے رہنا۔

۲۔ برکت کی رفعتِ معنوی اور علوِ شان کا یہ عالم ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذاتِ پاک کے وصف کے لئے پسند فرماتے ہوئے قرآنِ حکیم کے کل نو مقامات پر ارشاد فرمایا: تبارک الذی (بابرکت ہے وہ

 

۱۴۴

 

ذات) تبارک اللّٰہ (بابرکت ہے خدا) تبارک اسم ربک (بابرکت ہے تمہارے ربّ کا نام) نیز پروردگارِ عالم نے قرآنِ کریم کو باطنی، ظاہری، علمی، عرفانی، اور آسمانی طب و شفا کی بے شمار برکتوں سے مالامال و مزین فرما کر “مبارک” (برکت والا) کے اسم سے موسوم کیا، اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی برکت انتہائی عظیم نعمت ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔

۳۔ قرآنی برکات کا ظہورِ اوّل کلمۂ کُنۡ، قلمِ الٰہی (کتابِ مکنون) اور لوحِ محفوظ میں ہوا، جس کا تجدّدِ امثال عالمِ امر میں جاری و ساری ہے، اور اگر یہ اصل برکت چشمۂ زایندہ کی طرح ہمیشہ جاری اور روان دوان نہ رہتی، تو دونوں جہان کی تمام ذیلی برکتیں لازماً منقطع ہو جاتیں، یعنی یہ ممکن ہی نہیں کہ امرِ کل (ہو جا کا حکم) جو کلامِ خدا اور سرچشمۂ قرآن ہے، وہ کبھی خاموش ہو جائے، کیونکہ اس کی بدولت نہ صرف جدید چیزیں عرصۂ وجود میں آتی رہتی ہیں، بلکہ جو اشیاء موجود ہیں، وہ بھی اپنے قیام و بقا کے لئے اسی حکم کی فیض رسانی کی سخت محتاج ہیں۔

۴۔ اہلِ معرفت کہتے ہیں کہ یک حقیقت کے قانون کے مطابق امرِ کل، قرآن، اور اسمِ اعظم ایک ہی چیز ہے، اسی میں تخلیق و تعمیر کی تمام برکتیں پوشیدہ ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی امرِ کُنۡ (ہو جا) سے عالمِ شخصی کو پیدا کیا، وہ اس طرح کہ خالقِ اکبر نے اپنا یہ کام عالمِ امر

 

۱۴۵

 

میں ابداعی طور پر کسی تاخیر کے بغیر پورا کر لیا، اور عالمِ خلق میں چھ دن میں، چھ دن سے چھ روحانی منزلیں مراد ہیں، جو چھ عظیم رسولوں سے متعلق ہیں: منزلِ حضرتِ آدم (اتوار)، منزلِ حضرتِ نوح (سوموار)، منزلِ حضرتِ ابراہیم (منگل)، منزلِ حضرتِ موسیٰ (بدھوار)، منزلِ حضرتِ عیسیٰ (جمعرات)، اور منزلِ حضرتِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (یومِ جمعہ)، ان چھ دنوں یعنی چھ منزلوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، پھر اس نے عرش پر متجلی ہو کر مساواتِ رحمانیہ کے اسرار کو منکشف کر دیا۔

۵۔ سورۂ طٰہٰ میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: الرحمٰن علی العرش استویٰ (۲۰: ۰۵)۔ حکمت: اس بڑی رحمت والے نے مرتبۂ عرش پر مساوات کا کام کیا۔ س۔و۔ی کے مادہ سے مساواۃ (مساوٍ کا تثنیہ) کے معنی ہیں دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونا، جیسے قرآنِ پاک میں ہے: قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ (۳۹: ۰۹) تم کہو کیا علم والے اور جہل والے برابر ہوتے ہیں۔ نیز ملاحظہ ہو: مفردات القرآن، مذکورہ مادہ۔ اور اسی کتاب میں لفظِ عرش کو بھی دیکھیں۔

۶۔ قرآنِ مجید ہی کی لاتعداد برکات میں سے ہے کہ اس میں جس طرح لوگوں کے مختلف درجات کا ذکر ہے، اسی طرح مساوات (یک حقیقت) کا بھی تذکرہ ہے، جس کی پہلی دلیل یہ ہے: لوگ (ازل میں) ایک

 

۱۴۶

 

ہی گروہ تھے پس (اس وحدت و سالمیت کی خاطر) خداوند تعالیٰ نے پیغمبروں کو مبعوث فرمایا جو کہ بشارت دینے والے اور ڈرانے والے تھے اور ان کے ساتھ الکتاب نازل فرمائی جو حق پر مبنی تھی (۰۲: ۲۱۳) جہاں تمام پیغمبروں کی آسمانی کتابیں باطنی طور پر مل کر الکتاب کہلاتی ہیں، وہاں یہ مجموعۂ کتبِ مقدّسہ قرآنِ عظیم ہی ہے، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرکزِ انبیاء و مرسلین ہیں، اور اسلام ان شاء اللہ ایک دن جامعِ ادیانِ عالم ثابت ہوگا، خواہ یہ سب سے بڑا معجزہ ظاہر میں ہو یا باطن میں۔

۷۔ مساواتِ رحمانیہ کی دوسری دلیل اس قرآنی ارشاد میں ہے: مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍؕ (۳۱: ۲۸) تم سب کا پیدا کرنا اور زندہ کرنا بس ایسا ہی ہے جیسا ایک شخص کا۔ یعنی انسانوں کا یہ فرق و تفاوتِ درمیان ضرور ہے، لیکن ان سب کی ازلی و ابدی حالت یکسان ہوتی ہے، جیسے حضرتِ آدمؑ کے نزدیک یعنی آپ کے عالمِ ذر اور عالمِ ابداع و انبعاث میں سارے لوگ نفسِ واحدہ کی طرح ایک تھے، اور ہر انسانِ کامل کی روحانیّت میں یہ عظیم معجزہ بالکل اسی طرح وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔

۸۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ خالقِ یکتا نے ہر شخص کو جیسے ایک عالمِ صغیر کا درجہ عطا فرمایا ہے، ایسے اس کو بے حساب ذراتِ روحانی کی صورت میں جملہ خلائق کا مجموعہ بنا دیا ہے، پس اگر کسی عالمِ شخصی کی بدرجۂ

 

۱۴۷

 

کمال روحانی ترقی ہو جاتی ہے، تو یہ ان بے شمار روحوں کے حق میں، جو اس میں ہیں، مساواتِ رحمانی جیسی انتہائی عظیم رحمت ثابت ہو جاتی ہے، کیونکہ قرآنِ پاک کا حکیمانہ اشارہ ہے کہ: جو شخص کسی آدمی کو ناحق مار ڈالے وہ گویا تمام لوگوں کو قتل کرتا ہے، اور جو کسی کو (یعنی عالمِ شخصی کو علم و معرفت سے ) زندہ کرے تو وہ گویا سب لوگوں کو زندہ کر دیتا ہے (۰۵: ۳۲) کیونکہ ایک آدمی میں دنیا بھر کے لوگ موجود ہیں۔

۹۔ خدائی مساوات کی چوتھی دلیل یہ حدیثِ شریف ہے: الخلق کلھم عیال اللّٰہ فاحبھم الی اللّٰہ انفعھم لعیالہ ۔ مخلوق سب کی سب (گویا) اللہ کا کنبہ ہے لہٰذا جو اس کے کنبے کو زیادہ فائدہ پہنچائے گا وہی اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہو گا۔ اس پُرحکمت حدیثِ نبوّی سے یہ روشن حقیقت بڑی عمدگی سے دلنشین ہو جاتی ہے کہ سارے لوگوں کا مبدا و معاد (جائے شروع اور مرجع) ایک ہی ہے، جس میں وہ سب امتِ واحدہ ہو جاتے ہیں (۰۲: ۲۱۳) کیونکہ انسان دراصل ایک ہی ہے، اور باقی سب طوعاً و کرہاً اس میں فنا ہیں۔

۱۰۔ سورۂ اعراف (۰۷: ۹۶) میں حق تعالیٰ کا فرمانِ اقدس ہے (ترجمہ): اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیز کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔ ترجمہ و تفسیر کے علاوہ اس آیۂ مبارکہ کی ایک بہت بڑی حکمت بھی ہے، اور وہ یہ ہے: قریہ ہائے ہستی یعنی عوالمِ شخصی کے باشندے اگر حقیقی معنوں میں مومن ہوتے

 

۱۴۸

 

اور جیسا کہ چاہئے تقویٰ اختیار کرتے، تو ہم ان پر روحانیّت کے آسمان و زمین کی برکتیں یعنی علم و حکمت کی صاف، پاک، اور شیرین نہریں جاری کر دیتے۔

۱۱۔ برکۃ کی بنیادی قسمیں تین ہیں: عقلی (علمی)، روحی، اور مادّی، پھر ان تینوں سے ان گنت شاخیں پھوٹتی ہیں، چنانچہ قرآنی برکات عالمگیر اور ہمہ رس اس لئے ہیں کہ روحِ قرآن (۴۲: ۵۲) خداوندِ تعالیٰ کا قدیم کلام ہے، جو حیّ و ناطق ہے، جس کا اوّلین تعلق عقل، (قلم، نور، گوہر، کتابِ مکنون)، روحِ اعظم (نفسِ کل، لوحِ محفوظ) اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہے ،اور پھر ان عظیم بھیدوں کی عملی اور کامل معرفت حضور کے جانشین اولیاء کو حاصل ہے۔

۱۲۔ خزائنِ قرآن کی برکتوں سے کائناتِ ظاہر اور عالمِ شخصی مملو اور معمور ہیں، لہٰذا ان فیوض و برکات کو نہ کوئی زوال ہے، اور نہ ان میں کوئی کمی واقع ہو سکتی ہے، قرآنی طب و شفا کی خصوصی برکت بصورتِ علم و حکمت حاصل ہو سکتی ہے، جس کی ایک خاص شرط تفکر و تدبر ہے، تاکہ اس فکری جدوجہد کے پُرخلوص عمل سے عالمِ لاہوت کے بے مثال نسخہ ہائے کیمیا منکشف ہو سکیں، البتہ یہ سوال پیدا نہیں ہو سکتا کہ آیاتِ قرآنی میں غور و فکر کیوں ضروری ہے، جبکہ قرآنِ حکیم خود اپنی متعدد آیاتِ کریمہ میں نہ صرف زور دے کر تفکر و تدبر کی اہمیت کو بیان کرتا ہے، بلکہ ان لوگوں کی تعریف و توصیف بھی فرماتا ہے، جو آیات میں

 

۱۴۹

 

سوچنے کے عادی ہیں، اس سے یہ نکتۂ دلپذیر بڑی صفائی سے ذہن نشین ہو جاتا ہے کہ قرآنِ حکیم کے معنوی سمندر کی گہرائیوں میں کائنات و موجودات کے جواہرِ اسرار مخفی ہیں، تاکہ صاحبانِ عقل ہر صدف سے درِ یتیم حاصل کریں۔

۱۳۔ حضرتِ نوح علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں طوفانِ آبی طوفانِ روحانی پر حجاب کا کام کر رہا ہے، کیونکہ حجاب اور کشفِ حجاب خدا کی محبوبیت کی سنت ہے (۴۲: ۵۱) چنانچہ ظاہری طوفان کی مثال میں باطنی طوفان کا ذکر کرتے ہوئے حق تعالیٰ نے فرمایا (ترجمہ): کہا گیا کہ اے نوح (اب جودی پر سے زمین پر ) اترو ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں (کے خزائن) کے ساتھ جو تم پر (رفتہ رفتہ) نازل ہوں گی اور ان جماعتوں پر کہ تمہارے ساتھ ہیں (۱۱: ۴۸) یہاں جماعتیں انبیاء علیہم السّلام ہیں، کہ ان میں سے ہر فرد ایک امت ہے، اور یہ حضرتِ نوح علیہ السّلام کے طوفانِ روحانیّت سے اترنے کا تذکرہ ہے، کیونکہ عقل و جان کی سلامتی اور علم و معرفت کی بے شمار برکتیں صرف روحانی انقلاب (طوفان / ذاتی قیامت) ہی میں ہو سکتی ہیں۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ یکم رجب المرجب ۱۴۰۹ھ / ۸ فروری ۱۹۸۹ء

۱۵۰

انبیاء کی پیروی اور رفاقت

۱۔ جو خوش بخت مومنین قرآنی حکمتوں کے شیدائی اور دلدادہ ہیں، ان کے لئے کلامِ الٰہی کی بہشتِ برین میں کس علمی نعمت کی کمی ہو سکتی ہے، آئیے ہم شکر کنان اللہ تعالیٰ کی کتابِ عزیز میں غور و فکر کرنے کی سعادت حاصل کریں، ان شاء اللہ یہی پاکیزہ عمل ہمارے امراضِ باطن کا علاج و معالجہ ثابت ہوگا، اور یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ اسرارِ قرآن میں آسمانی طب کے تیر بہدف (سریع التاثیر) نسخے پوشیدہ ہیں۔

۲۔ قرآنِ کریم میں سب سے پہلے بہ اشارۂ تعلیم یہ حکم ہے کہ کہو: اھدنا الصراط المستقیم ۔ صراط الذین انعمت علیہم (۰۱: ۰۵ تا ۰۶) چلا ہم کو سیدھا راستہ، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ہے۔ ظاہر ہوا کہ اہلِ ایمان کو بہ امرِ خداوندِ عالم راہِ اسلام پر چل کر آگے سے آگے جانا ہے، مگر یہ بہت بڑا کام صرف اور صرف نورِ ہدایت ہی کی روشنی میں ممکن ہے، جو انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کے توسط

 

۱۵۱

 

سے حاصل ہو سکتی ہے، سورۂ فاتحہ کی اس عظیم الشّان تعلیم میں منشائے ایزدی یہ بھی ہے کہ مومنین صراطِ مستقیم اور منازلِ روحانیّت میں نہ فقط ترقی کریں، بلکہ تمام تر روحانی اور عرفانی نعمتوں سے بھی مستفیض و بہرہ مند ہوتے جائیں، کیونکہ یہ راستہ منعم علیہم (انعام یافتگان) کا ہے، جس کے ہر قدم اور ہر مرحلے میں نعمتیں ہی نعمتیں ہیں، اور یقیناًاللہ کی ساری نعمتیں بندوں ہی کے لئے ہوا کرتی ہیں۔

۳۔ اگر آپ صراطِ مستقیم پر روحانی ترقی و پیشرفت اور اس کی لامحدود نعمتوں کے بارے میں بنیادی حقیقتوں کو جاننا چاہتے ہیں، تو پھر آپ کو سورۂ نساء کی آیت ۶۹ (۰۴: ۶۹) میں خوب غور کرنا ہوگا، اسی آیۂ کریمہ میں دیکھئے کہ خدا و رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کا اجر و صلہ کیا ہے؟ انبیاء ، اولیاء، شہداء، اور نیکوکاروں کے ساتھ ہونا، یعنی جن حضرات کو ربِّ کریم نے اپنی خاص خاص نعمتوں سے نوازا ہے، ان کے پیچھے پیچھے بمعنی ان کے ساتھ اور ان کی رفاقت میں سفرِ روحانیّت کی منزلوں کو طے کرنے کی سعادت، کیونکہ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں لفظِ مع اور رفیق وارد ہوا ہے، اور ان دونوں لفظوں میں حکمت کی کلیدیں پوشیدہ ہیں، جن میں درست زاویۂ نگاہ سے دیکھنے اور صحیح اندازِ فکر سے نتیجہ نکالنے کی ضرورت ہے۔

۴۔ چونکہ روحانیّت مکان و زمان کی قید سے بالا و برتر ہوا کرتی ہے، لہٰذا ہر باسعادت پیرو اپنے پیشرو (ہادی) کے نقشِ قدم پر چلتے

 

۱۵۲

 

ہوئے بھی رہنما کے ساتھ ہوتا ہے، اور وہ اس کا رفیق (ساتھی، یار) ہوتا ہے، یہی مطلب سورۂ نساء کے رکوعِ نہم (۰۴: ۶۹) میں ہے، یہ بات دراصل نورِ ہدایت کے روحانی ظہور اور موجودگی سے متعلق ہے کہ وہی عالمِ شخصی میں انبیاء ، صدیقین، شہداء، اور صالحین کی نمائندگی کرتا ہے، اور یہی نور واحد بھی ہے، اور جمع بھی، جبکہ وحدتِ انوار کا قانون نور علیٰ نور ہے (۲۴: ۳۵)۔

۵۔ حقائق و معارف کی انتہائی عظیم کائنات، اگرچہ مکان و زمان کی بے پناہ وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے قبضۂ قدرت میں اسے لپیٹ کر عالمِ صغیر میں محدود کر دیتا ہے (۳۹: ۶۷) یہ قیامتِ صغریٰ کا واقعہ ہے، جس میں نہ صرف لوگوں ہی کے اوّلین و آخرین مجموع ہو جاتے ہیں (۵۶: ۴۹ تا ۵۰) بلکہ تمام چیزیں بھی یکجا کر دی جاتی ہیں (۰۶: ۱۱۱) اور اس میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں کہ خدائے عز و جل ایک ہی حقیقت کو طرح طرح کی مثالوں میں بیان فرماتا ہے (۱۷: ۸۹، ۱۸: ۵۴)۔

۶۔ پروردگارِ عالم کا یہ بزرگ خطاب اہلِ معرفت سے ہے (ترجمہ): اور ہم نے تم کو پیدا کیا پھر ہم نے ہی تمہاری (روحانی) صورت بنائی پھر ہم نے (تمہارے سامنے یعنی عالمِ شخصی میں) فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو (۰۷: ۱۱) پس اسی طرح انبیاء و اولیاء کی رفاقت نصیب ہو جاتی ہے، آپ اس واقعہ کو تجدّدِ امثال کا معجزہ، رفعِ زمان، مظاہرۂ نور، حقیقتوں کی یکجائی، کشفِ اسرار، مرتبۂ عین الیقین، نفسِ واحدہ،

 

۱۵۳

 

امامِ مبین، ام الکتاب، نامۂ انبیاء و اولیاء، اور فنا فی الرسول بھی کہہ سکتے ہیں۔

۷۔ جو مومنین خدا اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت و فرمانبرداری کے مرتبۂ فنا کو حاصل کرتے ہیں، وہ اپنے سفرِ روحانی میں حضرتِ نوح علیہ السّلام کے ساتھ کس طرح ہو سکتے ہیں، اس کے لئے سورۂ یس (۳۶: ۴۱، ۳۶: ۴۲) میں دیکھئے: اور ایک نشانی (اٰیۃ) ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کے ذرّاتِ روح کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا، اور ہم نے ان کے لئے اس جیسی (روحانی) کشتی بنائی جس پر یہ لوگ سوار ہو سکتے ہیں (۳۶: ۴۱ تا ۴۲) خدا کی آیت انمٹ نشانی اور لازوال معجزہ کا نام ہے، جو عالمِ شخصی میں دیکھنے کی غرض سے ہمیشہ موجود ہوا کرتا ہے، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ اہلِ معرفت اپنی ذات میں طوفان اور کشتئ نوح کا مشاہدہ کرتے ہیں، سورۂ نور (۲۴: ۳۴) میں بنظرِ حکمت دیکھ لیں (مفہوم): جہاں قرآنِ مجید کے روحانی پہلو کا تعلق لوحِ محفوظ سے ہے، وہاں بولتی آیات موجود ہیں، ان میں زمانۂ سلف کے انبیاء و اولیاء کے تمام واقعات و معجزات کا تجدّدِ امثال پایا جاتا ہے۔

۸۔ عالمِ شخصی میں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی ایک مثال یہ ہے کہ شروع شروع میں جب مومنِ سالک کی دیدۂ باطن کھل جاتی ہے، تو اس وقت تیز روشنی اور طرح طرح کی صورتیں نظر آتی ہیں، اگر حضرتِ

 

۱۵۴

 

ابراہیم جیسے موحدِ اعظم کی نگاہ سے دیکھا جائے، تو یہ کچھ تجلّیات نہیں، بلکہ سب کے سب اصنام ہی ہیں، اس لئے خلیل اللہ بڑے صنم کو چھوڑ کر باقی سب بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں (۲۱: ۵۸)۔

۹۔ ایک اور مثال یہ ہے کہ خدا کے دوستوں کی غیبت، بدخواہی، حسد، دشمنی، اور معاندانہ کوشش درحقیقت آتشِ نمرود کہلاتی ہے، لیکن قادرِ مطلق کی قدرت دیکھئے کہ ان کے عالمِ شخصی میں معجزۂ خلیلی کا تجدّد ہوتا ہے، اور اس آگ سے گلشنِ روح و روحانیّت بنایا جاتا ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا بابرکت ارشاد ہے: قلنا یا نار کونی بردا و سلاماً علیٰ ابراہیم (۲۱: ۶۹) ہم نے کہا اے آگ تو ٹھنڈی اور سلامتی (تائیدِ روحانی) ہو جا ابراہیم کے حق میں۔

۱۰۔ انسان اپنی ہستی میں پوری کائنات کا خلاصہ بھی ہے، اور عالمِ دین کا نمونہ بھی، چنانچہ عالمِ شخصی کی امکانی روحانیّت میں اتنی بڑی لچک ہے کہ اس سے انبیاء علیہم السّلام کے معجزات کی ترجمانی ہو جاتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضراتِ انبیاء نفسِ واحدہ ہیں، اس لئے ان کے معجزات ایک جیسے ہیں، اگرچہ مثالیں مختلف ہیں، چنانچہ عالمِ شخصی  میں حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کی ایک عام مثال یہ ہے کہ آپ اس بچھڑے کو جلا کر دریا میں بکھیر دیتے ہیں، جو سامری نے زیورات سے بنایا تھا، زیورات سے ابتدائی روحانیّت کی چمکیلی چیزیں مراد ہیں، جو واقعاً سیم و زر اور در و گوہر کی مصنوعات جیسی نظر

 

۱۵۵

 

آتی ہیں، سامری شیطان ہے، اور بچھڑا وہ نفسِ حیوانی، جس کو شیطان سجائے، بچھڑے کو جلا کر دریا میں ڈالنے کے معنی ہیں: ہادئ برحق سے رجوع کر کے نفس کو آسمانی عشق کی آگ میں پگھلانا اور جلانا، پھر اس کے ذراتِ خاکستر کو ہمیشہ کے لئے دریائے علم و حکمت میں ڈال دینا (۲۰: ۹۷)۔

۱۱۔ حضرتِ موسیٰ کے قصّۂ قرآن میں ہے: اور وہ وقت بھی قابلِ ذکر ہے جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کے انعام کو جو تم پر ہوا ہے یاد کرو، جبکہ اس نے تم میں (یعنی دین اور عالمِ شخصی میں) پیغمبر بنائے اور تم کو سلاطین بنایا (۰۵: ۲۰) یعنی یہ خدا کا کتنا عظیم احسان ہے کہ اس نے دین میں انبیاء بنائے، جو عالمِ شخصی تک رسا ہیں، تاکہ نتیجے کے طور پر تم کو بادشاہ بنا دیا جائے (و جعلکم ملوکا ، ۰۵: ۲۰) چنانچہ جو مومنین حضرتِ ہارونؑ، حضرتِ موسیٰؑ، اور اللہ میں فنا ہو چکے تھے، وہ بادشاہ ہو گئے تھے، اور اللہ تعالیٰ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائی جاتی۔

۱۲۔ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام بحکمِ خدا نہ صرف ذاتی روحانیت میں بلکہ مؤمنین کے عالمِ شخصی میں بھی اسمِ اعظم پڑھ کر پرندے (ابداعی کرتے) بناتے تھے (۰۳: ۴۹) یہ اجسامِ لطیف اور مومن جنات ہیں (۷۲: ۱۱، ۷۲: ۱۴) اور حضرتِ عیسیٰؑ کے بارے میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے: و جعلنی مبارکاً این ما کنت (۱۹: ۳۱) اور اس نے مجھ کو برکت والا بنا دیا جہاں کہیں بھی

 

۱۵۶

 

ہوں، یعنی چاہے میں کلمہ میں ہوں (۰۳: ۴۵) یا روح اور اپنی والدہ میں (۰۴: ۱۷۱) خواہ میں عالمِ دین میں ہوں یا عالمِ شخصی میں، چاہے میں اپنوں کے سامنے ہوں یا ان سے دور، بہر حال خدا نے مجھے برکت والا بنا دیا ہے۔

۱۳۔ حضرتِ محمد مصطفی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سارے جہانوں کے حق میں رحمت کا انتہائی عظیم مرتبہ رکھتے تھے، لہٰذا آپ ہی کا نورِ اقدس و اطہر خداوند تعالیٰ کے حکم سے تمام پیغمبروں میں کام کر رہا تھا، اسی طرح حضورِ انور تمام انبیاء میں تھے، اور سب آپ کی ذاتِ اقدس میں جمع ہو گئے، جیسا کہ سرورِ انبیاء صلعم کا ایک مبارک نام حاشر ہے، یعنی جمع کرنے والا، جناب رسالت مآب اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے وہ روشن چراغ ہیں، جو عالمِ شخصی کو نورِ علم و حکمت سے جگمگا سکتا ہے (۳۳: ۴۶) خواب و روحانیّت میں اہلِ ایمان کو جتنی اور جیسی بشارتیں ملتی ہیں، وہ سب رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے توسط سے ہیں، کیونکہ آپ ہی مبشر ہیں (۳۳: ۴۵) اگرچہ حقیقت بس یہی ہے کہ خلوتگاہِ معراج میں خدا اور پیغمبر کے سوا اور کوئی نہیں تھا، تاہم یہ کیسے ممکن ہے کہ جو لوگ فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ ہو جاتے ہیں، اور اللہ تبارک و تعالیٰ جن کی آنکھ ہو جاتا ہے، وہ معراج کا مشاہدہ نہ کر سکیں۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۸ رجب المرجب ۱۴۰۹ھ / ۱۵ فروری ۱۹۸۹ء

۱۵۷

درد سے درد کا علاج

۱۔ “درد سے درد کا علاج” جسمانی حالت میں یوں ہے کہ تلخ دوائیوں اور پرہیز جیسی چھوٹی تکلیف کو برداشت کر کے کسی بیماری کی بڑی تکلیف سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے، اور اگر کسی مرض کا دفعیہ اپریشن ( چیڑ پھاڑ) ہی سے ہو سکتا ہے، تو اس کو بھی باعثِ صحت تسلیم کرتے ہوئے صبر و ہمت سے کام لینا پڑتا ہے، تاکہ مستقل علت کا سدِ باب ہو سکے، اور ناوقت ہلاکت نہ ہو، یہی حال روحانی علاج کا بھی ہے کہ اس میں بھی درد سے درد کا علاج کیا جاتا ہے۔

۲۔ یہ صوفیوں اور درویشوں کی گریہ و زاری کیا ہے؟ احساسِ دردِ پس ماندگی ہے، جو آگے بڑھ کر سب سے بڑے درد سے شفا پانے کی خاطر ہے، یہ عاشقوں کا کراہنا اور آہ بھرنا کیا ہے؟ اظہارِ درد ہے، تاکہ دردِ عشق میں شدت پیدا ہو، اور پھر دیدار سے دردِ جہالت کا علاج ہو جائے، کیونکہ جہالت ہی سب سے بڑی اور سب سے بری بیماری ہے، اور کسی شک کے بغیر سب سے بڑا عذاب بھی یہی

 

۱۵۸

 

ہے، اس لئے کہ داناؤں کے نزدیک جسمانی درد کے مقابلے میں روحانی درد بڑا سخت ہے، اور اس سے بھی شدید درد عقلی کیفیت میں ہے، اور وہ جہالت و نادانی ہی ہے۔

۳۔ آپ قرآنِ کریم میں تضرع کے موضوع کو خوب غور سے پڑھ لیں کہ جب خدا کے حکم سے انفرادی یا اجتماعی تکالیف، بیماریاں، اور بلائیں آتی ہیں، تو ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس ظاہری اور جسمانی درد کی حکمت کو سمجھ لیا کریں، اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بارگاہِ ایزدی میں مناجات اور گریہ و زاری کریں، تا کہ بفضلِ خدا اس درد سے روحانی اور عقلی درد کا علاج ہو جائے (۰۶: ۴۲ تا ۴۳، ۰۷: ۹۴، ۲۳: ۷۶)۔

۴۔ سورۂ بقرہ کی آیاتِ مبارکہ ۱۵۵ تا ۱۵۷ (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷) پیشِ نظر ہوں، جیسا کہ ارشادِ مقدّس کا ترجمہ ہے: اور البتہ ہم تم کو آزمائیں گے کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ایسے صبر کرنے والوں کو بشارت دو کہ ان پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف پھر جانے والے ہیں ان لوگوں پر ان کے ربّ کی طرف سے درود بھی ہے اور رحمت بھی، اور یہی لوگ راہِ ہدایت پر چلتے ہیں۔ یہ سب نفسانی آلام یعنی دردوں کا بیان ہے، اور معلوم ہے کہ وہی نفسِ حیوانی، جو راحت و آسائش میں توسنِ بد رکاب کی طرح ہوتا تھا، اب درد و

 

۱۵۹

 

الم یعنی مصیبت کی برکت سے دم بخود ہو کر سرکشی سے باز آتا ہے، پس ایسے میں دانا مومن کثرت و کامیابی سے اللہ کو یاد کرتا ہے، تاکہ قولاً و فعلاً یہ ثابت ہو سکے کہ وہ خدا کا بندہ ہے، اور اسے زندگی میں بھی اور مر کر بھی اللہ تبارک و تعالیٰ سے رجوع کرنا ہے۔

۵۔ قرآنی معنوں کا اوّلین تعلق مقاماتِ روحانیّت سے ہوتا ہے، پھر وہ احوالِ ظاہر پر بھی محیط ہو جاتے ہیں، چنانچہ مذکورۂ بالا آزمائشوں کے ظاہری پہلو کو سب جانتے ہیں، لہٰذا میں یہاں ان کے روحانی پہلو کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ بعض اوقات درویشوں پر خواب و روحانیّت میں خوف و ہراس مسلط کیا جاتا ہے، یہ نفس کُشی کا ایک عمدہ وسیلہ ہے، بھوک یہ ہے کہ کوئی شخص روحانی غذاؤں کی نایابی کا بڑی سختی سے احساس رکھے، مالی نقصان یہ ہے کہ کوئی باسعادت مومن اپنی کم علمی کو شدت سے محسوس کرے، جان کی کمی اس طرح ہے کہ ہوشمند اپنی روح کے اصل مرتبہ اور موجودہ حالت کے درمیان جو فرق ہے اس پر صحیح معنوں میں افسوس کرے، اور پھلوں کا نقصان یوں ہے کہ تائیداتِ ربّانی کی بارش کبھی برستی رہتی ہے، اور کبھی تھم جاتی ہے، اور یہاں صبر کے معنی ہیں روحانیّت کی بلاؤں اور آزمائشوں سے ثابت قدمی کے ساتھ گزرتے ہوئے آگے جانا، بشارت انفرادی اور عملی ہے، جو خواب و روحانیّت کی مختلف صورتوں میں سنائی جاتی ہے۔

۱۶۰

۶۔ نیز جانی نقصان جس طرح ظاہر میں موت واقع ہونے کا نام ہے، اسی طرح باطن میں یہ وہ موت ہے، جو کسی خوش نصیب سالک پر مرگِ جسمانی سے قبل وارد ہو جاتی ہے، ہر چند کہ بحقیقت نقصان نہ اس میں ہے، اور نہ اس میں ، لیکن بتقاضائے ظاہر حکیمانہ بیان ایسا ہے، پس یہ ترتیب بالکل حکیمانہ ہے کہ پہلے خوف ہے، پھر روحانی بھوک، پھر مالی نقصان، جن کی وضاحت ہو چکی، اور اس کے بعد نفسانی موت، اب روحانی پھلوں کی بارش، پھر اس طوفان کا تھم جانا، اس کے بعد درود، پھر رحمت، اور آخر میں ہدایت، یعنی منزلِ مقصود تک رسا ہو جانا، یا واصل بحق ہو جانا۔

۷۔ درد کو قرآنِ حکیم کی زبان میں الم کہتے ہیں، اور اس کی جمع آلام ہے، چنانچہ سورۂ نساء میں فرمایا گیا ہے (ترجمہ): اور (مسلمانو!) دشمنوں کے پیچھا کرنے میں سستی نہ کرو، اگر لڑائی میں تم کو درد پہنچتا ہے تو جیسی تم کو تکلیف پہنچتی ہے ان کو بھی ویسی ہی اذیت پہنچتی ہے اور تم خدا سے وہ امیدیں رکھتے ہو جو ان کو (نصیب) نہیں (۰۴: ۱۰۴)۔ اس قرآنی تعلیم میں یہ عظیم حکمت ہے کہ درد مسلمانوں کے ایمان و روحانیت کے لئے باعثِ ترقی بھی ہے اور دشمنانِ دین کے کفر و انکار کے لئے ذریعۂ علاج بھی۔

۸۔ ایک اور درد ہے، جو عام ہونے کے باوصف بے حد مفید ہے، اور وہ ہے ہمدردی، یعنی دوسروں کے دکھ درد میں غم گساری،

 

۱۶۱

 

دردمندی، اور رحمدلی، جو اوصافِ آدمیّت کو صفائی اور جلا بخشتی ہے، جیسا کہ گلستان میں ہے:

بنی آدم اعضائے یکدیگرند

کہ در آفرینش ز یک گوہرند

چو عضوے بدرد آورد روزگار

دگر عضو ہا را نماند قرار

تو کز محنتِ دیگران بے غمی

نشاید کہ نامت نہند آدمی

ترجمہ: فرزندانِ آدم ایک دوسرے کے اعضاء ہیں، اس لئے کہ ان کی پیدائش ایک ہی جوہر سے ہوئی ہے۔ جب کوئی عضو زمانہ کے ہاتھوں درد میں مبتلا ہو جاتا ہے، تو دوسرے اعضاء بھی بے قرار ہو جاتے ہیں۔ اے شخص تو جو دوسروں کی تکلیف سے بے غم ہے، مناسب نہیں کہ تجھے آدمی کہا جائے۔

۹۔ میں نے ملکِ چین میں ایک ایسے درویش کو دیکھا، جو بالکل تندرست تھا، مگر اس کی عجز و انکساری بھری ہوئی گفتگو ایسی لگتی تھی، جیسے وہ کسی شدید بیماری میں مبتلا ہو، اور وہ مریضانہ لہجے میں ذکر و مناجات کرتا تھا، یعنی کراہتے اور آہ بھرتے ہوئے اللہ کو یاد کرتا تھا، یہ وہ طریقۂ درویشی ہے، جس سے دل کی بیماری رفتہ رفتہ نکل کر حقیقی صحت بحال ہو سکتی ہے، اس موقع پر مظاہرِ قدرت کا ایک اعجوبہ یاد آیا، وہ یہ کہ بعض دفعہ بکریوں میں ایک ایسی بکری بھی ہوا کرتی ہے، جو اغیل میں رات کے سکون کے وقت ایک خاص قسم کی نرم آواز نکالتی رہتی ہے، اس آواز کو جو بکری کی ناک سے نکلتی ہے، بروشسکی

 

۱۶۲

 

میں گرسکنس (Guruskinas) کہتے ہیں، یہ صوت بیمار آدمی کے کراہنے کی طرح ہوتی ہے، جسے اغیل کی تمام بکریاں جگالی میں مصروف ہونے کے باوجود سنتی رہتی ہیں، پس یقیناًہر چیز قالاً یا حالاً، شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر ، معرفت سے یا عقیدت سے اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے (۱۷: ۴۴) اور اس کے بغیر کوئی شیٔ ہے نہیں۔

۱۰۔ اس درویشِ باہمت کی تعریف اس لئے ہونی چاہئے کہ وہ اگرچہ ظاہراً بیمار نہیں تھا، لیکن شاید اس نے یہ یقین کر لیا کہ روح بیمار ہے، کیونکہ خالقِ اکبر نے دل یعنی روح کو آئینۂ اسرارِ ازل بنا دیا ہے، پس اگر یہ آئینہ اپنا مخصوص کام نہیں کر رہا ہو، تو ظاہر ہے، کہ اس کو یقیناًزنگِ بیماری لگ گیا ہے، پس یہ امر ازبس ضروری ہوا کہ ذکر کے سوہان (ریتی  File = ) سے دل کو پاک و صاف کیا جائے، تاہم یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ انتہائی مؤثر اور کامیاب ذکر کے لئے کون سی کیفیتِ مزاج (Mood) اور کس قسم کی آوازِ جلی یا خفی بہترین ثابت ہو سکتی ہے۔

۱۱۔ حدیثِ شریف کے مطابق بخار ربِّ غفور کی طرف سے باعثِ پاکیزگی ہے، اور اصل بخار کا معجزہ روحانیّت میں ہے، جس کا قرآنی نام “زلزلہ” ہے (۰۲: ۲۱۴، ۲۲: ۰۱، ۳۳: ۱۱، ۹۹: ۰۱) غرض اہلِ ایمان کے حق میں جسمانی تکالیف اور منازلِ روحانیّت کی آزمائشیں بڑی مفید دواؤں کا کام کرتی ہیں، تاکہ کلی طور پر روحانی اور اس کے بعد عقلی صحت حاصل ہو، اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے کہ اس نے اپنی حکمتِ بالغہ

 

۱۶۳

 

سے خیر و شر کی ہر چیز کو رجوع کا ذریعہ بنایا۔

۱۲۔ خزائنِ اسرارِ قرآن میں سے ایک خزانہ حضرتِ مریم علیہا السّلام کا قصّہ ہے، اگرچہ یہ گنجِ گرانمایہ لاتعداد انمول جواہر سے بھرا ہوا ہے، لیکن ہم یہاں موضوعِ زیرِ بحث کی مناسبت سے صرف ایک ہی دُرجِ گوہر (موتیوں کا ڈبہ) کا ذکرِ جمیل کریں گے، وہ انسانِ کامل کی نورانی ولادت کا قصّہ ہے، جو کامیاب درویش کے عالمِ شخصی میں وقوع پذیر ہوتی ہے، چنانچہ حضرتِ مریم کا دردِ زہ (مخاض ، ۱۹: ۲۳) اس معجزاتی تکلیف کی مثال ہے، جو انفرادی نور کے جنم یا ظہور کے دوران کسی درویش پر گزرتی ہے، آپ کو شاید اس بات کا تعجب ہوگا کہ بھلا دردِ زہ سے نور کی نسبت ہی کیا! لیکن یہ بات نہیں، کیونکہ نور کا جس طرح جسمانی جنم ہوتا ہے، اسی طرح اس کا روحانی جنم بھی ہے، جس سے ظہورِ نور مراد ہے، اور یہاں یہ نکتہ بھی خوب یاد رہے کہ خداوندِ عالم نے نور کو جامع الامثال بنا دیا ہے، تاکہ اس کی روشنی میں ہر مثال کی حقیقت کا علم ہو سکے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۱۴ رجب المرجب ۱۴۰۹ھ / ۲۱ فروری ۱۹۸۹ء

۱۶۴

عالمِ شخصی اور بہشت

۱۔ سورۂ ذاریات میں پروردگارِ عالم کا ارشادِ عالی ہے (ترجمہ): اور یقین والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں، اور خود تمہاری جانوں میں بھی، تو کیا تم نہیں دیکھتے ہو (۵۱: ۲۰ تا ۲۱)۔ اہلِ دانش پر یہ حقیقت روشن ہے کہ یہاں لفظِ “یقین” مشاہدۂ باطن اور معرفت کے معنی میں آیا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مومن کا لفظ عام بھی ہے، اور خاص بھی، مگر موقن (بحقیقت یقین والا) خاص ہے عام نہیں، اور یقین و موقنین پر حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کی عملی مثال سے بخوبی روشنی پڑتی ہے، جیسا کہ سورۂ انعام (۰۶: ۷۵) میں ارشاد ہوا ہے: اور اسی طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی (عظیم الشّان روحانی) سلطنت دکھلائی تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں (یعنی عارفوں ) سے ہو جائے۔

۲۔ سیّارۂ زمین پر آج جیسی بے شمار چیزیں ہیں، وہ سب کی سب قدرت کی نشانیاں ہیں، اور یہی لاتعداد نشانیاں بصورتِ لطیف

 

۱۶۵

 

عالمِ شخصی میں بھی ہیں ( و فی انفسکم = اور تمہاری جانوں میں بھی ہیں) پس یقینِ کامل یا معرفت کا انحصار عالمِ شخصی کے مشاہدے پر ہے، اور یہ امر نہ صرف ممکن ہے، بلکہ ضروری بھی ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم کا فرمانا ہے کہ: اور جو شخص اس دنیا میں اندھا رہے سو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا اور زیادہ راہ گم کردہ ہو گا (۱۷: ۷۲) دنیا کی روشنی اور آدمی کی ظاہری آنکھ دو الگ الگ چیزیں ہوا کرتی ہیں، مگر اس کے برعکس روحانیّت میں نور کہا جائے، یا چشمِ باطن، وہ ایک ہی چیز ہے، چنانچہ “اللّٰہ نور السمٰوات و الارض” میں رحمتِ خداوندی کا یہ اعلانِ عام ہے کہ لوگو آؤ نورِ الٰہی کو چشمِ بصیرت قرار دے کر عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کی حقیقتوں کا مشاہدہ کرو۔ یہ تفسیر حدیثِ تقرب کے عین مطابق ہے۔

۳۔ اجتماعی اور انفرادی نور دنیا ہی میں حاصل کیا جاتا ہے، اسی معنیٰ میں سورۂ حدید (۵۷: ۱۳) میں حکایتاً ارشاد ہوا ہے: قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًاؕ ۔ ان کو جواب دیا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ پھر (وہاں سے) نور ڈھونڈ لاؤ۔ یہاں “پیچھے” سے دنیا اور تاریخ مراد ہے، جبکہ مذکورہ قیامت انفرادی اور شخصی قسم کی ہو، ورنہ قیامتِ کبریٰ میں پیچھے لوٹ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔

۴۔ بہشت عقلی بھی ہے، روحانی بھی، اور لطیف جسمانی بھی، لہٰذا اس کا پھیلاؤ کائناتِ ظاہر کے طول و عرض کے برابر ہے (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱)

 

۱۶۶

 

یعنی جنت آسمان و زمین کے جسمِ لطیف، نفسِ کلّی، اور عقلِ کلّی میں معمور و مستور ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کا ظہور عالمِ شخصی میں بھی ہو جاتا ہے، کیونکہ جو کچھ عالمِ کبیر میں منتشر ہے، وہی کچھ عالمِ صغیر میں مجتمع بھی ہے، اس کی بہت سی مثالوں میں سے ایک وہ ہے، جس میں بہشتِ برین کو نزدیک لانے کا ذکر ہوا ہے، دیکھئے: ۲۶: ۹۰، ۵۰: ۳۱، ۸۱: ۱۳، پس آدمی کے لئے سب سے قریب ترین جنت وہی ہے، جو اس کی ذات میں ہو، یعنی عالمِ شخصی میں ،تاکہ وہ معرفتِ روح کے ساتھ ساتھ بہشت کی شناخت بھی حاصل کرے (۴۷: ۰۶)۔

۵۔ انسان کا جرثومۂ حیات جب پشتِ پدر سے شکمِ مادر میں منتقل ہو جاتا ہے، تو اس وقت وہ جسمانی، روحانی، اور عقلی تین قسم کی تاریکیوں میں پوشیدہ ہوتا ہے، لیکن خدا کے سامنے کوئی تاریکی نہیں، اس لئے وہ اس کی تخلیق در تخلیق کرتا ہے (۳۹: ۰۶) قرآنِ حکیم نے ان تین ظلمتوں کا تذکرہ اس مقصد کے پیشِ نظر فرمایا، تاکہ ہم یہ حقیقت سمجھ سکیں کہ ان کے مقابل میں انوار بھی تین ہیں: جسمِ لطیف کے لئے، روح کے لئے، اور عقل کے لئے، پس جب پیراہنِ یوسفی (کرتۂ ابداعی) سامنے آتا ہے، جب روح دکھائی دیتی ہے، اور جب مظاہرۂ عقل کا مشاہدہ ہوتا ہے، تو اس وقت تین انوار ہوتے ہیں، اور اسی حال میں جنّت عالمِ شخصی میں نزدیک لائی جاتی ہے۔

۶۔ انسان کو عالمِ وجود میں جو مقام ملا ہے، وہ حیوان اور فرشتہ

 

۱۶۷

 

کے درمیان واقع ہے، لہٰذا ممکن ہے کہ وہ گر کر حیوان بشکلِ آدمی بن جائے، اور اس میں بھی کوئی تعجب نہیں کہ وہ بشری صورت میں ہوتے ہوئے ملک ہو جائے، اور یقیناً قرآنِ حکیم میں اس تنزل و ترقی کا ذکر موجود ہے، اسی واسطے ہمیں کہنا چاہئے کہ مولائے روم کا نظریۂ ارتقاء قابلِ تعریف ہے، جس کا تذکرہ قیامتِ صغریٰ کے عنوان کے تحت ہو چکا ہے، پس یہ نکتہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ جب تک کسی کو فرشتگی کا کوئی تجربہ نہ ہو، تو وہ صرف عالمِ ناسوت ہی کو دیکھتا ہے، اور اگر وہ انسانِ کامل میں فنا ہو جائے، تو لا ریب وہ عالمِ ملکوت اور بہشت کا مشاہدہ کرے گا۔

۷۔ قرآن و حدیث کا اندازِ بیان بدرجۂ انتہا حکیمانہ ہے، اس لئے ہمیں حکمت سمجھنے کی بے حد ضرورت ہے، اور خود قرآن ہی کا ارشاد ہے کہ: خدا جس کو چاہے حکمت عطا کر دیتا ہے، اور جس کو حکمت عنایت ہوئی تو بے شک اس کو بڑی کثرت سے خیر مل گئی (۰۲: ۲۶۹) یہ حکمت کی تعریف و توصیف بھی ہے، اور اس کے حصول کے لئے تشویق و ترغیب بھی، تاکہ ہر ہوشمند مسلمان حکمت کی اہمیّت کو سمجھے اور اس کو حاصل کرتا رہے، کیونکہ حکمت مومن ہی کی گم شدہ متاع ہے۔

۸۔ قرآنِ کریم ایک علمی و عرفانی بہشت ہے، کیونکہ اس میں عقل و جان کے لئے بے حد و بے حساب نعمتیں موجود ہیں، اور خدائے

 

۱۶۸

 

بزرگ و برتر کی یہ بے عدیل و لاثانی کتاب کائناتی جنت کی وہ صورتِ مرقومہ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے بہشتِ برین کو لفیف و محدود کر کے انسان کے سامنے رکھ دیا ہے، یہ اس حقیقت کی ایک روشن مثال ہے کہ خداوندِ عالم بہشت کو اپنے بندوں کے نزدیک لاتا ہے، اس لئے کہ وہ خود بھی آدمی کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے، مگر انسان کے لئے اس کا اپنا وسوسہ ایک تاریکی ہے (۵۰: ۱۶) جب نفس کا وسوسہ ختم ہو جائے، تو دیکھ لینا کہ کیا ہوتا ہے۔

۹۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ ان باتوں کو معمولی نہ سمجھیں: الف: ہر چیز کی ازلی حیثیت خزائنِ الٰہی میں موجود و محفوظ ہے (۱۵: ۲۱)۔ ب: ہر چیز کا امکانی وجود کلمۂ باری میں ہے (۳۶: ۸۲)۔ ج: ہرچیز کی پوشیدہ کتاب قلمِ قدرت میں ہے (۵۶: ۷۸)۔ د: ہر چیز کی روحانی تحریر لوحِ محفوظ میں ہے (۸۵: ۲۲)۔ ھ: ہر چیز کا بیان قرآنِ عزیز میں موجود ہے (۱۶: ۸۹)۔ و: ہر چیز کی مادی صورت صحیفۂ کائنات میں بنائی ہوئی ہے (۰۲: ۰۲)۔ ز: ہر چیز کا ذرۂ لطیف عالمِ شخصی میں موجود ہے (۵۱: ۲۱)۔ ح: ہر چیز کی کلیدی حکمت امامِ مبین میں محدود ہے (۳۶: ۱۲)۔ ط: ہر عملی چیز کا ریکارڈ نامۂ اعمال میں ہوتا ہے (۷۸: ۲۹) اور یہ تمام کلیات آپس میں اس طرح متحد ہیں کہ ان میں سے جس کو دیکھا جائے، اسی میں دوسرے سب موجود نظر آتے ہیں۔

۱۰۔ دنیا رنج و مشقت کی جگہ ہے، اس میں کوئی آرام و راحت

 

۱۶۹

 

نہیں، اور عالمِ شخصی میں جب بہشت نزدیک لائی جاتی ہے، وہ بھی جسمانی اور نفسانی تکالیف کے ساتھ ہے، کیونکہ وہ یہاں صرف یقین و معرفت کے پہلو سے آ سکتی ہے، اور بس، آپ انبیاء علیہم السّلام کی حیاتِ طیبہ پر غور کر سکتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے عالمِ شخصی میں یقیناً نورانیّت اور علم و حکمت کی جنّت موجود تھی، مگر ایسا کوئی قانون ہی نہ تھا کہ ظاہری تکالیف ختم ہو جائیں، اور مومن کے لئے دنیا ایک کلّی بہشت بن جائے۔

۱۱۔ عالمِ شخصی میں جملہ پیغمبروں کے معجزات بصورتِ تجدّدِ امثال مجموع ہیں، ان کے علاوہ وہ تمام واقعات بھی ہیں، جن کا تذکرہ قرآنِ پاک میں موجود ہے، مگر یہ ساری چیزیں روحانی شکل میں ہیں، مثال کے طور پر عصای موسیٰؑ کو لیجئے، کہ وہ سب سے پہلے اسمِ اعظم اور ذکر ہے، پھر روح و روحانیّت، اور آخر میں عقل و علم، کیونکہ قرآنِ حکیم میں حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی کی تین صورتوں کا ذکر ہے: حیۃ (سانپ، ۲۰: ۲۰) ثعبان (اژدھا، ۲۶: ۳۲) اور جآن (جن، ۲۷: ۱۰) یہ اس مبارک عصا کے تین پرحکمت معجزے تھے، جن کی خیر کا پہلو حضرت موسیٰ کی طرف اور شر کا پہلو فرعون کی طرف تھا، ان شاء اللہ تعالیٰ کسی اور موقع پر مزید باتیں ہوں گی۔

۱۲۔ عالمِ شخصی کی بہشت سے دراصل روح اور ربّ کی معرفت مراد ہے، اسی میں شفای کلّی اور نجاتِ ابدی ہے، اور اسی سے وہ بصیرت

 

۱۷۰

 

عطا ہو جاتی ہے، جس کی ہر مومن کو بے حد ضرورت ہے، تاکہ ہر علمی حجاب میں جو گنجِ حکمت محجوب و مستور ہے، اس کو دیکھا جائے، خواہ کوئی حجاب سانپ کا ہو، یا اژدھے کا، یا جن کا، والسلام۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۲۷ رجب المرجب ۱۴۰۹ھ / ۶ مارچ ۱۹۸۹ء

 

۱۷۱

کنز المعارف – حصّۂ اوّل

کنز المعارف حصّۂ اوّل

انتساب

؎ ای خوشا! دیوِ جہالت از جہان خواہد گریخت

از نہیب دور تامت نور مولانا کریم

کتنی خوشی کی بات ہے! اے ہمارے مولا کریم کہ تیرے دورِ کامل کی ہیبت سے جہالت کا دیو دنیا سے بھاگ جائے گا۔

الحمد للہ مولانا حاضر امامؑ کی رحمتوں اور برکتوں سے بھرپور ڈائمند جوبلی کا آغاز ہو چکا ہے۔ بزرگانِ دین نے فرمایا ہے کہ حضرتِ خلیفۂ قائم (ارواحنا فداہٗ) کے وجودِ مبارک سے علمی قحط سے نجات ملے گی اور آج عملاً ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے علوم کے قحط سے انسانیّت کو نجات مل رہی ہے۔ اس سلسلے میں مولائے زمان نے اپنی گولڈن اور ڈائمنڈ دونوں جوبلیوں کے موقع پر Time and Knowledge  کی قربانی پر جو زور دیا ہے اس سے یہ حقیقت ظاہر ہو رہی ہے جو استادِ بزرگوار نے مذکورۂ بالا شعر میں فرمایا ہے۔ خدمتِ علمی کے اس زرّین موقع پر مولانا حاضر امامؑ کے ارشادِ مبارک کے مطابق جو مومنات و مومنین قربانیاں دیتے ہیں وہ نہایت ہی سعادت مند ہیں۔ زہے نصیب! ایسی ایک باسعادت فیملی مرحوم شاہنشاہِ خدمات ظلِ قائم احمد ویرانی کی ہے جنہوں نے آپ کی مثالی خدمات کی روایات کو جاری رکھا ہے اور اس کتابِ مستطاب “کنز المعارف” جو استادِ بزرگوار کے غیر مطبوعہ مقالات کا ایک مجموعہ ہے، کی طباعت و اشاعت کے اخراجات کو برداشت کیا ہے، اس کا بدلہ مولا مرحوم احمد ویرانی کے لئے اپنی تجلیات کے خوش

 

الف

 

رنگ و خوش بو گلدستوں کی صورت میں اور لواحقین کو گوناگون برکتوں، کامیابیوں اور شادمانیوں کی صورت میں عطا فرمائے۔ یہ بہت بڑی شادمانی کی بات ہے کہ مرحوم احمد بھائی کو علم کا جو بے پناہ شوق تھا اس کو خاندان میں جاری رکھا ہے۔ آپ کی بیگم ظلِ فاطمہ نسیم احمد ویرانی ، آپ کی دو سعادتمند ، نوخیز حورانِ پُرنور نورین اور قرۃ العین کو حصولِ علم کا تائیدی شوق نصیب ہوا ہے۔ قرۃ العین اس وقت ڈاکٹری کا بہت ہی وقت طلب کورس کر رہی ہے، پھر بھی وہ علمِ قیامت کے لئے جان دینے تک تیار ہے۔

 

خانۂ حکمت پھر سے نہایت خلوص کے ساتھ مولا کے حضور دعا کرتا ہے کہ وہ کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز مرحوم احمد بھائی کو دائمی شادمانی میں رکھے اور لواحقین کو حصول و اشاعتِ علم کو جاری رکھنے میں مزید عالی ہمتی سے نوازے ، ہر نیک نیت کو پوری کر دے، ہر کام میں کامیابی عطا فرمائے اور ظاہری اور باطنی پناہ میں رکھے! آمین یا ربّ العالمین!!

 

فقیر حقیر

مرکزِ علم و حکمت، لندن

۱۳ جولائی ۲۰۱۷ء

 

ب

 

گزارشِ احوال

 

یہ کتاب “کنز المعارف” حضرتِ استادِ بزرگوار علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی قس کے غیر مطبوعہ مقالوں کا ایک مجموعہ ہے، اور ان شاءاللہ موصوف کے دوسرے غیر مطبوعہ مقالوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ استادِ بزرگوار جب جسمانی صورت میں اس دنیا میں موجود تھے تو بنفسِ نفیس ہر کتاب کا دیباچہ یا تمہید تحریر فرماتے تھے، جس میں نہ فقط کتاب کا لبِ لباب ہوتا تھا بلکہ اور بھی حقائق و معارف ہوتے تھے۔ چونکہ استادِ بزرگوار کو امامِ زمانؑ کی خصوصی تائید حاصل تھی اس لئے بشمول دیباچہ ہر کتاب کا ہر جملہ اور ہر لفظ دعوتِ حق کے موازین حقائق پر تلا ہوا ہوتا تھا۔ اب ہم میں سے کسی کو وہ سعادت حاصل نہیں، اس صورت میں ہماری محدود دانست کے مطابق موصوف کے ان مقالات کے بارے میں کچھ لکھنے سے ان میں مشتمل حقائق و معارف کے سمجھنے میں کمی بیشی کا خدشہ ہے۔ اس لئے مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کو بعینہا قارئین کو پیش کیا جائے۔

 

اظہارِ تشکر

اس کتابِ مستطاب کو منصفۂ شہود پر لانے میں بہت سے مومنات و مومنین نے کام کیا ہے۔ بالخصوص ظلِ فاطمہ نسرین اکبر اور ظلِ قائم اکبر شمس الدین کا اس میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔ سب سے پہلے یہ مقالے جو مختلف جگہوں پر بکھرے پڑے تھے ان کو جمع کیا اور ان کو Scan کر کے محفوظ کیا اور پھر ان کی غلطیوں سے پاک ٹائپنگ کی اور آخر میں یہ

 

ج

 

 

انتخاب بھی ان کی محنتِ شاقہ کا نتیجہ ہے۔ اس پورے کام کو انہوں نے نہایت دقت ، جانفشانی اور تندہی کے ساتھ انجام دیا ہے۔ ساتھ ساتھ ظلِ قائم نزار حبیب کی مہارت بھی اس میں کارفرما رہی ہے خصوصاً حسن و جمال سے آراستہ و پیراستہ اور پُرمعنی سرورق تیار کرانے میں جو مہارت آپ نے حاصل کی اس کی عالمگیر شہرت ہو رہی ہے۔ نہایت خوشی کی بات ہے کہ آپ کے ساتھ ایک مثالی مومنِ ممتحن ظلِ قائم امجد علی بھی اس کام میں شامل رہے ہیں۔ خانۂ حکمت ان سب کے لئے نہایت شکر گزاری کے ساتھ دعا کرتا ہے کہ خداوندِ ربّ العزّت سب کے ایسے مقاصد میں بدرجۂ اتم کامیابی عطا فرمائے اور ان کے ہر کام میں خداوند کی خوشنودی شامل ہو۔ آمین یا ربّ العالمین۔

 

فقیر حقیر

مرکزِ علم و حکمت، لندن

۱۳ جولائی ۲۰۱۷ء

 

د

 

علم کا انقلابی شوق

 

یہ ایک مفید سوال ہے کہ کوئی مومن کس طرح اپنے دل و دماغ میں ایک ایسا زبردست اور غالب علمی شوق و جذبہ پیدا کر سکتا ہے، جو بڑا پُراثر اور نتیجہ خیز ہونے کی وجہ سے علم و دانش کا انقلابی شوق و ذوق ثابت ہو سکے، وہ ایسا کار فرما اور محرک ہو کہ مومن علمی مشاغل کے بغیر چین سے نہ بیٹھے، وہ شوق عزمِ مصمم بن کر اُس شخص کی تمام صلاحیتوں کو حصولِ علم کی طرف متوجّہ رکھے، وہ جذبہ تحصیلِ حقائق و معارف کے عشق کی شکل اختیار کرے، جس سے مومن کے تمام دنیاوی خیالات پامال ہوں، وہ شوق کسبِ کمال کے سلسلے میں مشعلِ راہ کا کام کرتا رہے، اور اس سے ہمیشہ کے لئے اس بندۂ مومن کے اِرادے میں پختگی اور مضبوطی پیدا ہو؟

 

ایمان اور اخلاص و یقین کی روشنی میں اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسا معجزانہ شوق و ذوق آسمانی تائید کے بغیر ناممکن ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنی ان تمام صلاحیتوں اور قوّتوں سے کام نہ لے جو مقامِ تائید حاصل کرنے کی غرض سے عنایت کر دی گئی ہیں، جبکہ تائید کا مطلب “مدد” ہے، اور خدائی مدد کے دو مرحلے ہیں، پہلے مرحلے میں بندے کو طرح طرح کی انسانی صلاحیتوں سے آراستہ کرکے راہِ راست کی ہدایتوں پر عمل کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے اور دوسرے مرحلے میں اس کے لئے مَلکی (فرشتگی) کی زندہ اور بولنے والی قوّتیں رکھی ہوئی ہیں، سو جب تک انسان راہِ  روحانیّت میں مرحلۂ اوّل سے نہ گزرے تو مرحلۂ دوم کا آنا ناممکن ہے۔

 

اِس دنیا کے اندر دو قسم کے لوگ رہتے ہیں، ایک وہ جو دین کو فضول چیز قرار

 

۱

 

دے رہے ہیں، ایسے لوگ اپنی نافرمانیوں کے انجام پر دین کی لازوال اور ابدی دولت سے محروم ہوچکے ہیں، دوسرے وہ لوگ ہیں جو دین کے برحق ہونے پر ایمان رکھتے ہیں، اور ان کو خدا کی طرف سے یاری و دستگیری کا بھی یقین ہے، سو ان دونوں فریق میں کتنا بڑا فرق پایا جاتا ہے، اُن بدنصیب انسانوں کی کتنی بڑی شقاوت ہے، اور اِس طرف اِن خوش قسمت مومنین کی کتنی عظیم سعادت ہے، کہ یہ ایمان کی بدولت تائیدِ ربّانی کو بھی مانتے ہیں۔

 

قرآنِ پاک میں تائیدِ روحانی کا بیان بڑے عالیشان طریقے سے فرمایا گیا ہے، جس کے لئے آپ ایک تو “روح القدس” کے لفظ کو اور دوسرا “بِروحٍ منہ” کو دیکھ سکتے ہیں، مجھے یاد ہے کہ میں نے گریہ و زاری کے مضمون میں اس بات کی تھوڑی سی وضاحت کر دی ہے، بِروحٍ منہ، کا مطلب بھی وہی روحِ قدسی ہے مگر فرق صرف اتنا ہے کہ روح القدّس کے بیان میں اصل راز ظاہر ہے اور بِروحٍ منہ میں راز بالکل راز ہی کی طرح ہے اور اس کے علاوہ ایک چیز یہ بھی ہے کہ مؤخر الذّکر میں تائید کے مختلف درجات ہیں۔

 

عوام کے لئے حقیقت کا سمجھ لینا کس قدر مشکل بلکہ ناممکن کام ہے، کہ جب روح القدّس کا نام آتا ہے تو اس سے صرف ایک تنہا فرشتہ مراد لیتے ہیں حالانکہ وہ گویا روحوں کی ایک دنیا ہے، قرآن میں اس کا ذکر ہے اور  روحانیّت میں اس کا تجربہ، کہ عظیم فرشتے مل کر کام کرتے ہیں، چنانچہ جب پیغمبروں پر وحی نازل کر دینے کا موقع ہوتا ہے تو اس میں چاروں عظیم فرشتے مل کر کام کرتے ہیں اور اس میں جبرائیل کا نام صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ بولتا ہے، حالانکہ میکائیل اس سے زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے کہ وہ ذہن اور فہم کو متوجّہ کر دیتا ہے، میکائیل سے اسرافیل کا کام بڑھ کر ہے کہ وہ نغمۂ بیخودی و فنائیت پیش کرکے بشریت سے ملکوتیت کی طرف لے جاتا ہے

 

۲

 

اور عزرائیل کا فریضہ سب سے اعلیٰ ہے کہ وہ روحِ انسانی کو اسمِ اعظم کی کشش سے پیشانی میں مرکوز کر دیتا ہے حالانکہ حدودِ دین میں حضرت عزرائیل کا ذکر انتہائی راز ہونے کے سبب سے نہیں کیا گیا ہے۔

 

آپ کو قرآن میں بھی اور  روحانیّت میں بھی یہ ساری باتیں بالکل اسی طرح سے ملیں گی، جس طرح کہ ہم آپ کو بتا رہے ہیں، کہ فرشتےاس طرح سے مل کر کام کرتے ہیں، مگر صرف ایک موقع ہے جس کا شاید میں نے کہیں ذکر بھی کیا ہے کہ جب ایک کامیاب روح معراجِ یقین کی طرف عروج کرتی چلی جاتی ہے، تو اس میں سارے فرشتے اور جملہ روحیں پیچھے پیچھے رہ جاتی ہیں، اور ایک مقام پر جبرائیل فرشتہ بھی رہ جاتا ہے، پھر۔۔۔۔۔۔

 

مجھے یقین ہے کہ اب دَورِ  روحانیّت ہے ورنہ میں بھیدوں کی شان میں یہ گستاخی نہ کر سکتا ، میں خود کی تعریف کو نہیں چاہتا ہوں بلکہ عزیزوں کی علمی ترقی چاہتا ہوں، میں نے خودی کو کئی طرح سے فنا کر دی ہے، اور اُن فناؤں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میں نے اپنے آپ کو لفظوں اور معنوں میں عزیزوں سے فدا کر دیا ہے، بہر حال علمی باتوں کو ترجیح دیجئے گا۔

 

آئیے پھر ہم اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں، کہ قرآن میں ارشاد ہے حَتّٰی اِذَا جَآئَ اَحَدَکُمُ الْموَتُ تَوَفَّتْہُ َرُسُلُنا (۰۶: ۶۱) یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آئے تو ہمارے فرستادہ (فرشتے) اس کو اُٹھا لیتے ہیں۔ اس حکم میں صرف ایک عزرائیل کیوں نہیں ہے کہ موت کے بہت سے فرشتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے؟ جبکہ قرآن ہی میں ملک الموت (عزرائیل) کا تذکرہ بھی اس معنیٰ میں ہے کہ موت کا فرشتہ وہی ہے اور وہ ارشاد یہ ہے: قُل یَتَوَفّٰکُم مَّلَکُ المَوتِ الَّذی وُکّلَ(۳۲: ۱۱) کہہ دو کہ ملک الموت جو تمہارے اوپر تعینات ہے وہی تمہاری روحیں قبض کرے گا۔ ایسے عظیم بھیدوں کو

 

۳

 

امامِ اقدس کے غلاموں کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے، سو مطلب کی بات تو یہ ہے کہ فرشتے مل کر کام کرتے ہیں جو لوگوں کو معلوم نہیں، تو ہم بھی انشاء اللہ فرشتے ہیں اسی لئے ہم مل کر کام کر رہے ہیں، اور کس کو یا کتنوں کو خبر ہے کہ بیچارہ اور باچارہ نصیر اپنے پیارے پیارے شاگردوں کی زبان سے پیاری پیاری باتیں کرتا ہے اور وہ ہمیشہ ان کے ساتھ ہے، اور اِس بھید کے متعلق کون باور کر سکتا ہے کہ نصیر کے دل و دماغ کے اندر اپنے پسندیدہ عزیزوں کی روحیں علم کی خدمت انجام دے رہی ہیں۔

 

اب حقیقت روشن ہو گئی کہ روح القدس اگرچہ تائید کا فرشتہ ہے تاہم وہ اکیلا نہیں ہے، اس کے ساتھ روحوں کا ایک زبردست لشکر کام کرتا ہے، اس لئے تائید کے مختلف درجات مقرر ہیں۔

 

یاد رہے کہ مثال کے طور پر جبرائیل درختِ  روحانیّت کی وہ سب سے پست شاخ ہے جس کو زمین ہی پر سے کھڑا کھڑا چھو کر پھل کھایا جاسکتا ہے، تاکہ ذائقہ سے لذّت گیری کے بعد درخت پر چڑھ کر زیادہ پھل حاصل کئے جائیں۔

نوٹ: براہِ کرم یہ تینوں صفحے پڑھنے کے لائق ہوں تو کاپی اتارنے کے بعد خانۂ حکمت کے کسی سرگرم رکن کو بھیج دیں، تاکہ گشتی تعلیم میں ہماری مدد ہو سکے۔

 

فقط نصیر

 

۴

 

حصولِ تائید کا خاص طریقہ

 

میرے مقدّس فرشتوں! مجھے آپ کی علمی ترقی کا زبردست شوق ہے، میں شدّت سے چاہتا ہوں کہ حقیقی علم سے امام کی پیاری جماعت کی پیاری پیاری خدمت ہو، لہٰذا ہر طرح سے علمی کوشش کی سخت ضرورت ہے، لہٰذا آج یہاں تائیدِ روحانی کے سلسلے میں ایک راز بتا دیتا ہوں:

 

صبح خاص و عام عبادت کے بعد دین کی ایک پُرمغز کتاب ہاتھ میں لیکر مولا سے پُرزور درخواست کی جائے کہ وہ ازراہِ رحمت روحانی علم کی کوئی جھلک دکھائے، پھر نہایت عاجزی کے ساتھ مولا کا نام لے کر بہت ہی غور سے اور بہت ہی سکون سے کتاب کا مطالعہ شروع کیا جائے، اور الفاظ و جملوں کے مختلف معنوں اور اِشاروں کے سمجھنے کے لئے اس طرح غور کیا جائے جس طرح کہ کوئی جوہری جواہرات کو الٹا پلٹا کر ہر پہلو سے دیکھا کرتا ہے، انشاء اللہ ایسی عادت ڈالنے سے پہلے پہل صرف اِس کام سے مزہ آنے لگے گا، اور پھر ایک دن ایک چھوٹا سا معجزہ ہوگا، وہ یہ کہ کسی فقرے یا لفظ میں سے ایک لطیف اور لذیذ معنی دل و دماغ کی سطح کو چھونے لگیں گے، اس کے ساتھ ساتھ دل پر خوشی کا ایک میٹھا سا دھکا لگے گا، تو سمجھ لینا کہ یہ روحانی تائید کا ایک ذرّہ تھا۔ اس عمل کو دہرانے کی ضرورت ہے۔ عمدہ کتاب کا انتخاب چاہیے۔ اس کام کے لئے غیروں کی کوئی کتاب نہ لیں۔آگے چل کر یہ طریقہ قرآن فہمی میں کام آئے گا۔

 

اس کو ایک زبردست علمی عبادت قرار دیں، قرآن میں اس کا ذکر فرمایا گیا ہے، جو بعد میں دکھائیں گے۔ اگر کتاب ہاتھ میں نہیں ہے تو کسی مسئلے پر بھی یہ مشق ہو سکتی

 

۵

 

ہے، یہ کام ذہنی پاکیزگی اور پُرسکون ماحول میں ممکن ہے، گریہ وزاری یا مناجات و دعا سے اس کام میں مدد ملتی ہے۔

 

ہمیشہ مولاسے روحانی علم کے لئے درخواست کی جائے، ایک حقیقی اسماعیلی کی حیثیت سے یقین کیا جائے، کتاب وجہِ دین میں بھی اس طریقے کا ذکر ہے۔

 

مجھ پر یہ معجزہ سب سے پہلے پیر ناصرِ خسرو کی کتابوں میں ہوا تھا، یعنی وجہِ دین اور زادالمسافرین میں، بعد میں قرآن اور فرامین میں بھی یہ معجزہ ہوتا رہا پھر اس کے بعد اس کے حدود بہت زیادہ بڑھ گئے ۔

 

نصیر ہونزائی

 

۶

 

 

حضرت آدمؑ کے لئے اَسمائے بزرگ اور کلماتِ تامّات

 

معبودِ برحق کے بابرکت نام سے ، جس نے اپنے محبوب پیغمبر صلّی اللّٰہ علیہ والہِ وسلّم پر ایک ایسی کامل و مکمل اور بینظیر کتاب نازل فرمائی کہ وہ اپنی زندہ روح (نورِ امامت) کے ساتھ ملکر آسمانِ حقائق و معارف کی سیڑھی اور صاحبِ عرش کی رسی کا کام دیتی ہے، ان جیسی اعلیٰ مثالیں اور صفات قرآنِ حکیم اور امامِ عالیمقامؑ کے لئے خاص ہیں ، چنانچہ وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہیں، جو نورِ ہدایت اور کتابِ سماوی کی بدولت سلامتی کی راہوں پر گامزن ہیں (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) ۔

 

میری عاجز و ناتوان روح میرے امامِ اقدس و اطہرؑ کے ایسے فرشتہ سیرت مریدوں اور بہت پیارے روحانی بچوں سے ہزار گونہ شوق کے ساتھ قربان ہو! جو قرآنی حکمتوں اور بھیدوں کے جاننے میں سب سے آگے ہیں، اور جن کو قرآنِ عزیز کے اسرار اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہیں ، اور یہ میری بہت بڑی سعادت ہوگی کہ میں امامِ وقتؑ کے پسندیدہ و برگزیدہ روحانی فرزندوں سے فدا ہو جاؤں ۔

آج ہمیں جس خاص موضوع پر لکھنے کے لئے فرمایا گیا ہے، وہ اگرچہ الفاظ و ضخامت کے اعتبار سے مختصر ہے، لیکن علمی برتری کے لحاظ سے جتنا اہم ہے ، اس کا اندازہ عزیزِ عزیزان خود کریں گے، اور وہ موضوع ہے: “حضرت آدمؑ کے لئے اسمائے بزرگ اور کلماتِ تامّات” یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السّلام کو جن اسماء الحسنیٰ اور کلمات التّامّات کی

 

۷

 

تعلیم دی تھی اُن کا بیان ، چنانچہ اِس سلسلے میں سب سے پہلے یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ حضرت آدمؑ کا قرآنی قصّہ نہ صرف نبوّت و امامت کے اسرار اور حکمتوں کا خزانہ ہے، بلکہ یہ اس کے ساتھ ساتھ مرتبۂ انسانیّت و آدمیّت کے عظیم بھیدوں کا بھی گنجینہ ہے، کیونکہ یہ قصّہ دراصل اساسی اور کلیدی تاویلات اور حکمتوں سے پُر ہے، مگر اس کا علمی و عرفانی فائدہ صرف انہی حضرات کو حاصل ہے جو چشمِ بصیرت اور گوشِ ہوش رکھنے کی سعادت سے سرفراز ہیں۔

 

ربّ العزت کا ارشادِ گرامی ہے : ۔ وَ عَلَّمَ ادَمَ الاَ سمَآئَ کُلَّھَا (۰۲: ۳۱) اور خدا نے آدم کو سارے نام سکھا دیئے۔ یعنی پروردگارِ عالم نے آدم علیہ السّلام کو تنزیلِ  روحانیّت کے آغاز میں چند بنیادی اور کلیدی اسمائِ عظام کی تعلیم دی اور باقی اسماء و کلمات کو اسی سلسلے سے لازم کر دیا، کیونکہ دینِ فطرت کی  روحانیّت کا ایک ہی قانون ہے اور وہ یہ کہ ہر کامل انسان پر روحانی واقعات بتدریج گزرتے جاتے ہیں، جس میں پہلے تنزیل اور بعد میں تاویل آتی ہے، اسی طرح قدسی ہستیوں کی ساری زندگی روحانی انکشافات سے بھرپور ہوتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نہ صرف حضرت آدمؑ بلکہ ہر عظیم پیغمبر نے اپنے وقت میں ایک طرف سے بوسیلۂ اسماء و کلمات آسمانی تعلیم و ہدایت حاصل کی اور دوسری طرف سے اُس نے یہ تعلیم فرشتوں (یعنی حدودِ دین) کو دی، اور یہ سلسلہ زندگی بھر جاری رہا۔

 

یاد رہے کہ قصّۂ آدمؑ  (۰۲: ۳۱) میں جس شان سے اسماء کا ذکر ہوا ہے، اس میں کلما ت بھی ہیں، اور قصّۂ ابراہیم کی (۰۲: ۱۲۴) میں جس انداز سے کلمات کا تذکرہ آیا ہے، وہاں اسماء بھی ہیں، بدین معنی کہ کلمات اسماء کے مشابہ ہیں اور اسماء کلمات کی طرح ہیں، تاہم اسماء اور کلمات کے درمیان فرق بھی ہے، وہ یہ کہ اسمائِ عِظام کا زیادہ سے زیادہ تعلّق روحانی عبادت اور روحانی انقلاب سے ہے ، جبکہ کلِماتِ تامّات کا زیادہ سے زیادہ لگاؤ عقلی عبادت اور تاویلی انقلاب سے ہے ، لہذا خدا کے بزرگ نام بحیثیتِ مجموعی پہلے آتے ہیں اور کلماتِ تامّات بعد میں، چنانچہ وہ چند کلماتِ تامّات جو حضرت

 

۸

 

آدمؑ کو گریہ و زاری کے نتیجے پر سکھائے گئے تھے، اُن میں خصوصی علم و حکمت اور وحدانیت کا نور تھا، پس آدمؑ نے ان کلمات کے وسیلے سے عقلی عبادت اور علمی توبہ کی، جس کو خداوندِ عالم نے نہ صرف قبول فرمایا، بلکہ آپؑ کو برگزیدہ بھی کیا۔

 

اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ حضرت آدم صفی اللہ نے اپنی لغزش کی توبہ انتہائی سخت گریہ وزاری کی صورت میں کی تھی، جو اہلِ ایمان کے لئے قابلِ تقلید ہے، لیکن توبہ کی اصل اور آخری روح اُن کلماتِ تامّات میں پوشیدہ تھی، جو ربِّ کریم نے آپؑ کو سکھا دیئے تھے، تاکہ آپؑ انہی کے نورِ معرفت کی روشنی میں “توّ اب الرحیم” کی حقیقت کو پہچان سکیں، کیونکہ توبہ کے بارے میں عوام کا جیسا خیال ہے، وہ درست نہیں، جبکہ توبہ کے کم سے کم تین دروازے ہیں، وہ اِس طرح کہ  “پہلا بابِ توبہ دینِ حق کی دعوت ہے، جس سے لوگ داخل ہو کر مسلم اور مومن کہلاتے ہیں ،  دوسرا بابِ توبہ علمِ حقیقت ہے جو نافرمانیوں سے دستبردار ہو جانے سے کھُل سکتا ہے،  اور تیسرا بابِ توبہ خاصانِ الٰہی کے لئے مقرر ہے جس کا اوپر ذکر ہو چکا۔”

 

کلمۂ تامّہ کی اسمِ اعظم سے مُشابہت یہ ہے کہ اس کا بھی مسلسل ذکر کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں علمِ لدنّی کے کرشمے ہوتے رہتے ہیں، اور اسمِ اعظم کی کلمۂ تامّہ سے مماثلت یہ ہے کہ وہ بنیادی طور پر علم و عرفان کا سرچشمہ ہوا کرتا ہے اور کلماتِ تامّات جو علم و حکمت کے گنجِ مخفی ہیں وہ اسمائے عِظام ہی کے پھل ہوا کرتے ہیں ، پس اسماء اور کلمات کا مقصدِ اعلیٰ ایک ہی ہے۔

 

 

خانۂ حکمت کراچی

۱۱۔جنوری۔ ۱۹۸۳

 

۹

 

کلماتِ تامّات

 

کلماتِ تامّات انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی  روحانیّت میں نورِ علم و حکمت کے سرچشموں کی حیثیت سے ہیں۔ جو اسرارِ خداوندی کے جواہر سے مملو اور ایقان و عرفان کی دولت سے بھرپور ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کلمہ اپنی ہمہ گیر معنویت اور ہمہ رس حقیقت کی وجہ سے ایک مکمّل صحیفۂ آسمانی کی طرح ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک اِس امرِ واقعی کی شہادت پیش کرتا ہے کہ: ۔ رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَھَّرَۃً فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (۹۸: ۰۲ تا ۰۳) اللہ کا ایک رسول پاک صحیفوں کو پڑھتا ہے جن میں (ہمیشہ) قائم رہنے والی کتابیں موجود ہیں۔ چنانچہ یہاں صُحُف سے کلماتِ تامّات مراد ہیں اور کُتُب جو اُن میں پوشیدہ ہیں حقائق و معارف ہیں یہ حقیقتیں اور معرفتیں بے بدل اور لازوال ہیں اور یہی سبب ہے کہ خداوندِ عالم نے ارشاد فرمایا کہ لاَتَبدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (۱۰: ۶۴) اس کے کلماتِ تامّات بدلتے نہیں، یہی (جاننا) تو سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یعنی کلماتِ تامّات میں جو علم و حکمت اور رشد و ہدایت پنہان ہے وہ اوّل و آخر اور ظاہر و باطن کے تمام احوال پر محیط ہے اس لئے اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی، اور کامیابی کا اشارہ اُن مومنین کی طرف ہے جو کلماتِ تامّات کے نورانی علم سے مستفیض ہو جاتے ہیں ۔

 

اِن مبارک و مقدّس اور عظیم کلمات کی حرمت سے جس طرح حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ قبول ہوئی اور جیسے آپؑ تاجِ خلافت سے سرفراز ہو کر روئے زمین پر خدا کے نائب مقرر ہو گئے، اس کے پس منظر کا اصل راز بھی کلماتِ تامّات ہی سے متعلق ہے ان عظیم

 

۱۰

 

الشّان کلمات کے تائیدی معنوں میں حقائق و معارف کی بے پناہ دولت پوشیدہ تھی، چنانچہ جب خلیفۂ خدا نے ان کلمات و اسماء کا الگ الگ ورد کیا تو اُن کی بدولت آپ کے دل و دماغ میں علمِ لدّنی کے سرچشمے جاری ہونے لگے، اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اسی میں تھی۔

 

اِس سلسلے میں قرآنِ حکیم کی ایک عالی قدر تعلیم یہ ہے کہ: کَلَّا ٓ اِنَّھَا تَذْکِرَۃٌ فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہ فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ  مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَھَّرَۃٍ بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ کِرامٍ بَرَرَۃٍ (۸۰: ۱۱ تا ۱۶) ایسا نہیں یہ تو (ناقابلِ فراموش) نصیحت ہے پھر جو کوئی چاہے اس کو یاد کرے یہ معزز صحیفوں میں ہے اور اونچے رکھے ہوئے ہیں (اور) بہت ہی پاک ہیں، وہ لکھنے والے فرشتوں کے ہاتھ میں ہیں جو بڑے درجہ کے نیکوکار ہیں، اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ قرآنِ مقدّس اپنی روحانی شکل میں ایک ناقابلِ فراموش نصیحت ہے، اور تذکرہ کا یہی مطلب ہے، کیونکہ قرآن  روحانیّت میں ایسے نورانی معجزات کے طور پر واقع ہے جو کبھی فراموش نہیں ہو سکتے، جن کے علم و حکمت کے سرچشمے کلماتِ تامّات ہیں، جن کو یہاں صُحُفِ مکرّمہ کہا گیا ہے، جو  روحانیّت کی بلندیوں پر واقع ہیں اور ہر طرح سے پاک ہیں ان پر اعمال لکھنے والے عظیم فرشتے مقرر ہیں تاکہ مومنین کو نیک کوششوں کے نتیجے میں نورِ علم کی روشنی پہنچایا کریں۔

 

یہ اصول خوب یاد رہے کہ قرآنِ حکیم میں جہاں اسمائے الٰہی کا ذکر آیا ہے وہاں کلماتِ تامّات بھی ہیں، اور جہاں کلمات کا بیان ہے وہاں اسماء بھی ہیں، کیونکہ حقیقت میں کلمہ اور اسم دو نہیں ایک ہے، جیسے ارشاد ہوا ہے کہ: اِلَیْہِ یَصعَدُ الکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ العَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ (۳۵: ۱۰) اسی کی بارگاہ تک بلند ہو کر پاک باتیں پہنچتی ہیں اور نیک کام ہی اُن کو بلند کر لیتا ہے۔اس سے ظاہر ہے کہ کلمہ کا مطلب اسم بھی ہے بلکہ ہر با معنی لفظ کلمہ ہے۔

 

کلماتِ تامّات پر عظیم فرشتوں کا مقرر ہو جانا اس معنیٰ میں ہے کہ یہ انوارِ انبیاء و اولیاء (أئمّہ) ہیں، لہٰذا یہ کلمات اپنی مخصوص صورت میں زندہ اور گویندہ ہیں، جیسے حضرت عیسیٰؑ کو کلمہ کہا گیا ہے، کیونکہ آپؑ کا اصل وجود کلماتی نور کی حیثیت میں تھا، جس کے بارے میں

 

۱۱

 

فرمایا گیا ہے کہ: جب فرشتوں نے کہا: “اے مریمؑ خدا تم کو اپنے حضور سے ایک کلمہ کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام عیسیٰ ابنِ مریمؑ ہوگا (۰۳: ۴۵)۔” اب اس قرآنی حقیقت کی روشنی میں یہ بتانا آسان ہو گیا کہ ہادیٔ زمان صلوات اللہ علیہ جو خدائے برحق کا نور ہے اس کی لطیف نورانی ہستی مومنینِ بایقین کے باطن میں کلمہ اور اسم کے طور پر ہوا کرتی ہے اور اس حقیقتِ حال کا ذکر قرآنِ پاک میں موجود ہے اور وہ یہ ہے: ۔

 

اَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ تُؤْتِیْٓ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ م بِاِذْنِ رَبِّھَا وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْن (۱۴: ۲۴ تا ۲۵) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے پاک کلمہ (یعنی کلمۂ نور) کی مثال کیسی بیان کی ہے کہ وہ گویا ایک پاکیزہ درخت ہے کہ اس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی شاخ آسمان میں (لگی) ہوں اپنے پروردگار کے حکم سے ہمہ وقت پھل دیتا ہے اور خدا لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ لوگ نصیحت (و عبرت) حاصل کریں۔ چنانچہ  روحانیّت کے اعلیٰ مدارج پر کلماتِ تامّات اور اسمائے عظام ہی ہیں جو حدودِ دین میں علم و معرفت کی روشنی بکھیرتے ہیں۔

 

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی نبوّت و امامت کے تمام اسرار کلمات و اسماء میں پوشیدہ ہیں، آپؑ اپنی مقدّس  روحانیّت کے سلسلے میں ان مراحل سے گزر رہے تھے (۰۲: ۱۲۴) ابراہیم خلیل اللہؑ کی  روحانیّت آپ کی اولاد میں تا قیامِ قیامت جاری و باقی ہے اور وہ پاک نسل آنحضرتؐ کے بعد سلسلۂ امامت ہے، اس بارے میں دانا مومنین کے لئے یہ امر بہت ہی ضروری ہے کہ وہ ان آیاتِ مقدسہ میں ذرا غور سے دیکھیں جو آلِ ابراہیم سے متعلق ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ ابراہیم کی  روحانیّت و نورانیّت کس طرح آنحضرتؐ سے ہو کر اِس وقت تک چلی آئی ہے، مثال کے طور پر کلمۂ باقیہ (۴۳: ۲۸) کو لیجئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے جو مقدس چیز کلمہ کی شکل میں اپنی اولاد کے سپرد کر دی تھی وہ کیا تھی؟ اسمِ اعظم (بول) کلمۂ نور اور ذکرِ خداجس میں  روحانیّت و نورانیّت اور ہدایت ہے تاکہ لوگ اُن سے رجوع

 

۱۲

 

کئے رہیں، اس کے سوا اور کیا چیز ہو سکتی تھی، جس کے لئے لوگ محتاج ہوں۔

 

ممکن ہے کہ کوئی شخص اِس قسم کا سوال کرے کہ کلمہ کا مطلب خدا کا کلام ہے اور وہ اِس دور میں قرآن ہے، پھر کتابِ خدا سے باہر ایسا کلمہ کہاں ہے؟ ایسے امکانی سوال کا پیشگی جواب ضروری ہے اور وہ ذیل کی طرح ہے : ۔

 

ارشاد ہے کہ: تو ہم نے اس (یعنی مریم ؑ) میں اپنی روح پھونک دی اور اُس نے اپنے پروردگار کے کلمات اور کتابوں کی تصدیق کی اور فرمانبرداری میں تھی (۶۶: ۱۲) قرآنِ پاک کی اِس حکیمانہ تعلیم سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ بی بی مریم علیھا السّلام نے دینِ حق کے اٹل قانون کے مطابق اپنی  روحانیّت کو اسمائے عظّام اور کلماتِ تامّات کی بدولت مکمل کرلی تھی، جس کے نتیجے میں نہ صرف کلماتِ خداوندی ہی کی تصدیق ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے سابقہ آسمانی کتابوں کی بھی تصدیق کی، پس ظاہر ہے کہ اِس اعتبار سے اسماء و کلمات کتابِ سماوی سے الگ ہیں، جن کی حیثیت میں ہادیٔ برحق کا نور کارِ ہدایت انجام دیتا رہتا ہے، اور قرآن وہ کتاب ہے جس کی حکمتیں اسی نور کی روشنی میں واضح ہو سکتی ہیں، جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے کہ :۔

 

قد جآء کُم مِّن اللّٰہِ نورٌ وّ کِتٰبٌ مُّبین (۰۵: ۱۵) تمہارے پاس تو خدا کی طرف سے ایک نور اور ظاہر کتاب (قرآن) آچکی ہے۔ چنانچہ اہلِ بصیرت کو اِس بات کا پورا یقین ہے کہ یہ نورِ ازل سلسلۂ انبیاء و أئمّہ میں تا قیامت جاری و باقی ہے، اور اس مقدّس نور سے مومنین کو خاص روشنی اسمائے عظّام اور کلماتِ تامّات ہی کے وسیلے سے ملتی رہتی ہے۔

 

اگر کائنات و موجودات کی ہر اُس چیز پر تحقیق وجستجو کی نظر ڈالی جائے جو ایک وسیع دائرے میں پھیلی ہوئی ہے، تو کسی شک کے بغیر معلوم ہو جائے گا کہ وہ آغاز و انجام میں خلاصہ اور مغز کی صورت میں ایک مرکز پر جمع ہو جاتی ہے اس مطلب کی مثال کے لئے میوہ دار درخت کو لیجئے کہ وہ اپنی جڑوں اور شاخوں کی حدود میں کس طرح پھیلا ہوا ہے، اور

 

۱۳

 

پھل میں جو مغز ہے، اس میں درخت کی تمام قوّتیں کس طرح مرکوز ہو گئی ہیں، پس یہ بات حقیقت ہے کہ تمام  روحانیّت کا مرکز و منبع اسم اور کلمہ ہے اور جملہ قرآن کا خلاصہ بزرگ آیات ہیں، نیز یہ کہ قرآنِ حکیم کا آغاز و انجام  روحانیّت اور پھر اسما و کلمات ہیں،الحمدللّٰہ علیٰ مَنّہ و اِحسانہِ۔

 

 

فقط غلامِ خاندانِ رسول

نصیر ہونزائی

۲۷۔ دسمبر۔۱۹۸۰ء

 

۱۴

 

 

ہدایت کی پیروی

 

ہدایت کا پُرحکمت اور پیارا لفظ اپنی تمام معنوی خوبیوں اور لطافتوں کے ساتھ قرآنِ حکیم میں سب سے پہلے اور سب سے بڑی اہمیت کے ساتھ قصّۂ حضرتِ آدمؑ اور آغازِ انسانیّت و آدمیّت میں ملتا ہے، جہاں انتہائی حکیمانہ انداز سے سلسلۂ نورِ ہدایت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ:

تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے (۰۲: ۳۸) اس پاک و پاکیزہ اور حکمت آگین آسمانی تعلیم میں جس جامعیت کے ساتھ ربّانی ہدایت اور اس کی پیروی کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس سے نہ صرف ہر زمانے میں ہادیٔ برحق کی ضرورت و اہمیت ظاہر ہو جاتی ہے، بلکہ اس کے علاوہ یہاں یہ حقیقت بھی کلی طور پر روشن ہو کر عام فہم ہو جاتی ہے کہ اہلِ ایمان کو ضروری اور لازمی طور پر رہنمائے صراطِ مستقیم کے پیچھے پیچھے منزلِ مقصود کی طرف روان دوان ہو جانا ہے، کیونکہ ہدایت کی پیروی کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ صراطِ مستقیم کے نقطۂ آغاز پر ہی ٹھہر اور جم جائیں ، بلکہ اس سے خدا کا مقصد و منشا تو یہ ہے کہ راہِ دین پر قدم بقدم اور منزل بمنزل آگے چلیں اور ترقی کر جائیں۔

 

۱۵

 

پیروی یعنی پیچھے چلنے کا عربی اور قرآنی لفظ “اتباع” ہے جو قرآن میں اپنی مختلف شکلوں میں ۱۷۴ دفعہ مذکور ہوا ہے، اور یہ کلامِ الٰہی کے ان بین اور واضح الفاظ میں سے ہے، جن کی وضاحت کی روشنی میں صراطِ مستقیم اور ہدایتِ ہادی کا اصل مقصد بآسانی سمجھ میں آتا ہے، چنانچہ اس کامل و مکمل عملی ہدایت و رہنمائی کا مقصد تو یہی ہے کہ ہم ہادیٔ زمان کے پیچھے پیچھے صراطِ مستقیم پر آگے بڑھ جائیں اور آخرکار منزلِ مقصود کو پہنچ جائیں۔

 

ہدایتِ ہادی کا تعلق یا لگاؤ صراطِ مستقیم کے شروع سے لے کر آخر تک ہے، یعنی اعلیٰ ہدایت اور کامل پیروی یہ ہے کہ کوئی شخص جانشینِ پیغمبر کے پیچھے پیچھے شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کی منزلیں طے کر جائے، یا کم سے کم مقامِ حقیقت تک پہنچ جائے، اس کے بغیر نہ تو کارِ ہدایت مکمل ہو سکتا ہے اور نہ ہی پیروی اور فرمانبرداری کا حق جیسا کہ چاہئے ادا ہو سکتا ہے، چنانچہ ہم یہاں قرآن ہی سے ایک ایسی مثال پیش کرتے ہیں، جو عملی ہدایت اور کلی پیروی کے بارے میں ہے کہ خداوندِ عالم حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی زبان سے فرماتا ہے: فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْ (۱۴: ۳۶) پس جس شخص نے میری پیروی کی تو وہ مجھ سے ہے (یعنی وہ میرا روحانی فرزند ہے) کوئی شک نہیں کہ اس میں جزوی پیروی کا بھی ذکر ہے، مگر آیۂ مبارکہ کا مقصدِ اعلیٰ یہ ہے کہ نیک بخت مومنین راہِ خدا کے شروع سے آخر تک ہادیٔ دوران کے نقشِ قدم پر چلتے جائیں، یعنی کلی طور پر رہبرِ دین کی پیروی کریں، تاکہ بالآخر ہادیٔ زمان کے ساتھ مقامِ  روحانیّت اور درجۂ وصال میں مل کر “منی” کا حقیقی

 

۱۶

 

مرتبہ حاصل کر سکیں، اس مثال سے ظاہر ہے کہ مکمل عملی ہدایت اور اس کی کلی پیروی راہِ مستقیم کی ابتداء سے انتہا تک واقع ہو جاتی ہے، یعنی اس کا طول صراطِ مستقیم کے برابر ہے۔

 

اس سلسلے میں ایک اور قرآنی مثال پیش کی جاتی ہے اور وہ یہ ارشاد ہے کہ: اور (ابراہیم نے) کہا کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جاتا ہوں وہ میری رہنمائی کرے گا (۳۷: ۹۹) یعنی میں راہِ دین پر آگے سے آگے جانا چاہتا ہوں اور اس میں خداوند میری ہدایت فرمائے گا، آپ اس تعلیم میں دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے مراحل میں آگے چل کر خدا کے قربِ خاص تک جانا چاہتے ہیں، جس کے لئے نورانی ہدایت لازمی ہے، پس یہ بات بالکل درست ہے کہ صراطِ مستقیم پر ہدایتِ حقہ کی پیروی مومن کی پیش رفت اور ترقی کی صورت میں ہے۔

 

آپ اس فرمانِ خداوندی میں بھی ذرا غور کریں کہ ارشاد ہوا ہے: “وَ السَّلٰمُ عَلٰى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى (۲۰: ۴۷) اور سلامتی اسی کے لئے ہے جس نے ہدایت کی پیروی کر لی۔” یعنی مکمل اور عملی ہدایت کا مقصد یہ ہے کہ مومنین شاہراہِ مستقیم پر گامزن ہو کر منزلِ آخرین کو پہنچ جائیں، جہاں ابدی نجات، دائمی سکون اور ہمیشہ کے لئے سلامتی ہے۔

 

اللہ تعالیٰ کا پاک فرمان ہے کہ: قُلْ هٰذِهٖ سَبِیْلِیْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ  عَلٰى بَصِیْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ (۱۲: ۱۰۸) (اے رسول) ان سے کہہ دو کہ میرا رستہ تو یہ ہے کہ میں (لوگوں کو) خدا کی طرف بلاتا ہوں، میں اور وہ شخص جس نے میری پیروی کی ہے (یعنی علی) دونوں بصیرت پر ہیں

 

۱۷

 

(اور میرا یہ پیرو بھی لوگوں کو خدا کی طرف بلاتا ہے)۔ ظاہر ہے کہ رسولِ خدا کا راستہ صراطِ مستقیم ہی ہے، جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لئے مقرر ہے، اور یہ دعوتِ حق کلمۂ شہادت کے پیش کرنے سے شروع ہو جاتی ہے، چنانچہ یہ دین کی عام بات ہے اور اس میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ حضورِ اکرمؐ کے برحق جانشین نے آپ کی مکمل پیروی کر لی ہے اور وہ آنحضرت کے ساتھ بصیرت پر ہیں۔

 

اب ہم اس آیۂ کریمہ کی روشنی میں یہ ثبوت پیش کر سکتے ہیں کہ ہدایت اور پیروی کی ابتدائی منزل میں وہ لوگ ہیں جن کو اسلام کی طرف دعوت دی جاتی ہے اور وہ قبول کرتے ہیں، مرحلۂ دوم پر اہلِ شریعت ہیں، مرحلۂ سوم تصوف کا ہے، چہارم حقیقت کا، پنجم معرفت کا اور ششم اُن حضرات کا جنہوں نے کلّی طور پر صراطِ مستقیم کی پیروی کر لی ہے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

 

(اتنے میں) شہر کے اُس سرے سے ایک شخص (حبیب نجار) دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ اے میری قوم (ان ) پیغمبروں کا کہنا مانو (پیروی کرو) ایسے لوگوں کی پیروی کرو جو تم سے کچھ مزدوری نہیں مانگتے اور وہ لوگ ہدایت یافتہ ہیں (۳۶: ۲۰ تا ۲۱)۔

 

اللہ تعالیٰ نے مسلمین و مومنین کو ایک ایسی پُرحکمت دعا کی تعلیم دی ہے، جس کا واضح مقصد ان حضرات کے راستے پر چلنا ہے، جن کو خداوند نے اپنی خاص نعمت سے نوازا ہے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں، وہ مبارک دعا یہ ہے: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ  صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ (۰۱: ۰۵ تا ۰۶) (خدایا) ہم کو سیدھے راستے پر چلا اُن لوگوں کا راستہ جنہیں تو نے (اپنی)

 

۱۸

 

نعمت عطا کی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ حضرات کون تھے، جن کے نقشِ قدم پر چلنے اور آخرکار اُن سے جا ملنے کا حکم ہوا ہے؟ اس کا جواب متعلقہ آیت میں موجود ہے اور وہ یہ ہے:

 

اور جس شخص نے خدا اور رسول کی اطاعت کی تو ایسے لوگ ان (مقبول) بندوں کے ساتھ ہوں گے جنہیں خدا نے اپنی نعمتیں دی ہیں یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں (۰۴: ۶۹) آپ کو تو روشن ہے کہ صراطِ مستقیم پر چلنا ہی خدا و رسول کی اطاعت ہے، جس کے نتیجے میں مومنین کو ان حضرات کی رفاقت حاصل ہو جاتی ہے، جو ہدایت یافتہ ہیں اور وہ پیغمبران، اساسان، امامان اور حجتان ہیں، جن کا علی الترتیب مذکورہ آیت میں ذکر ہوا ہے۔

 

اگرچہ ہدایت کے بہت سے درجات مقرر ہیں (جن کا ذکر بعد میں کریں گے) لیکن انسانوں کے لئے جو ہدایت ہے اس کے تین بڑے مقامات ہیں، ہدایت کا پہلا مقام وہ ہے جہاں کسی گمراہ کو صراطِ مستقیم کی طرف بلایا جاتا ہے، دوسرا مقام صراطِ مستقیم ہے، جہاں لوگوں کو منزل کی طرف چلایا جاتا ہے اور تیسرا مقام منزلِ مقصود ہے، جہاں اللہ کے خاص بندے ہدایت یافتہ ہو جاتے ہیں، اور وہ بحکمِ خدا دوسروں کی ہدایت و رہنمائی کرتے ہیں، ایسے حضرات انبیاء وائمّہ علیہم السّلام ہیں، پس قرآنِ حکیم میں جہاں کہیں ہدایت کا ذکر آئے تو اس میں یہ ضرور دیکھنا ہو گا کہ وہ کس درجے کی ہدایت ہے۔

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی سے متعلق ایک اہم قرآنی ارشاد کا ترجمہ یہ ہے: (اے رسول ان لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست

 

۱۹

 

رکھتے ہو تو میری پیروی کرو کہ خدا (بھی) تم کو دوست رکھے گا اور تم کو تمہارے گناہ بخش دے گا (۰۳: ۳۱) آپ دیکھتے ہیں کہ ذیل میں حضورِ انورؐ کے پیچھے چل کر ربّانی ہدایت کی پیروی کرنے کی ایک روشن مثال درج ہے:

 

خانۂ حکمت، کراچی

۹ مئی ۱۹۸۱ء

 

۲۰

 

تصوّرِ اِنبِعاث

 

میرے انتہائی شفیق و مہربان اور عزیز و عظیم دوست نے کچھ عرصہ پہلے مجھ سے فرمایا تھا کہ میں موضوعِ “اِنبِعاث” پر لکھوں ، لیکن سچ بات یہ ہے کہ میں اِس دُشوار ترین موضوع کی معنوی، عرفانی اور تاویلی بلندیوں اور نزاکتوں سے ڈر رہا تھا، کیونکہ انسان کی ظاہری اور جسمانی زندگی کے بارے میں کچھ کہنا آسان ہے، اِس لئے کہ یہ حالت مخفی نہیں، مگر آدم و آدمی کی روح و  روحانیّت اور قیامت یا اِنبِعاث جیسے ارفع و اعلیٰ حقائق و معارف کو زیرِ بحث لانا بدرجۂ انتہا مشکل کام ہے، تاہم گروہِ مومنین کی پاکیزہ دعا اور تائیدِ خداوندی کی امید پر انتہائی عجز و انکساری کے ساتھ اِس سلسلے میں قلم اُٹھایا جاتا ہے۔

 

لفظِ “اِنبِعاث”:

لفظِ “اِنبِعاث” (اُٹھنا) بابِ اِنفعال سے مصدر ہے، جس کے لغوی، اصطلاحی  اور تاویلی کئی معنی ہیں، اور یہ تمام معانی مقامِ تاویل پر آپس میں ملے ہوئے ہیں، جیسا کہ قرآنِ حکیم کے اِس ترجمۂ ارشاد سے ظاہر ہے: اور اگر وہ لوگ (غزوہ میں) نکلنے کا ارادہ کرتے تو اس کا کچھ سامان تیار کرتے لیکن خدا نے ان کے “اِنبِعاث” (اُٹھنا) کو پسند نہیں کیا (۰۹: ۴۶) یعنی اللہ تعالیٰ نے اُن کا جہاد کے لئے اُٹھنا پسند نہیں فرمایا، اور اس کے تاویلی معنی یہ ہیں کہ خدائے پاک نے ان کا مراحلِ  روحانیّت سے آگے گزر کر مرتبۂ عقل پر “جی اُٹھنا” پسند نہیں فرمایا۔

 

۲۱

 

روحانیّت کا پہلا دور:

قرآنِ حکیم زبانِ حکمت سے کہہ رہا ہے کہ  روحانیّت کے تین ادوار ہوا کرتے ہیں ملاحظہ ہو: “امام کی جسمانی پیدائش اور نورانی پیدائش۔”

 

پہلا دَور خاموش روشنیوں پر مبنی ہے، شاید آپ کو تعجب ہوگا کہ اسے  دنیا (ئے  روحانیّت ) بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ دَور ہنوز آخرت نہیں ہے، وہ تو ابھی دُور اور روحانی موت کے بعد ہے، جیسا کہ خداوندِ عالم کا فرمان ہے: “وَذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَہُمْ لَعِبًا وَّ لَھْوًا وَّغَرَّتْھُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا” (۰۶: ۷۰) اور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کش رہ جنہوں نے اپنے دین کو لہو و لعب بنا رکھا ہے اور دنیوی زندگی نے ان کو دھوکہ میں ڈال رکھا ہے۔ اس سے وہ تمام لوگ مراد ہیں، جنہوں نے بغیر ہدایتِ حقّہ کے پیہم عبادت اور سخت ریاضت کر کے  روحانیّت کی ابتدائی روشنیوں کا مشاہدہ کیا ہو، اور اسی کے نتیجے میں کوئی دین یا مسلک بنا لیا ہو، حالانکہ وہ لوگ جس روشنی کو نورِ مطلق سمجھ رہے ہیں، وہ نورِ مطلق نہیں ہے، اور نہ وہ مقام منزلِ مقصود ہے، جہاں تک ان کی رسائی ہوئی تھی، کیونکہ وہاں کی بے جان چلنے پھرنے والی تصویریں اور ساری رنگین چیزیں، جو نہایت منوّر نظر آتی ہیں، آزمائش کے لئے ہیں، اور وہ تمام صورتیں خدا کے نزدیک کھیل تماشا اور فریبِ نظر ہیں، جب تک کہ اُن میں تاویلی حکمت کی روح پیدا نہ ہو۔

 

دوسرا دور:

روحانیّت کا دوسرا دور بحقیقت آخرت کہلاتا ہے، کیونکہ اِس کے آغاز میں حضرتِ اسرافیل کے صور پھونکنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اور حضرتِ عزرائیل کئی دن تک قبضِ روح کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے، چنانچہ یہ پورا دور اہلِ تاویل کے نزدیک

 

۲۲

 

پیغمبرانہ یا عارفانہ موت کہلاتا ہے، جو رحمتوں اور برکتوں سے پُر اور سلامتیوں سے معمور ہے،  روحانیّت کے اِس حکمت آگین دور کی تشبیہہ و تمثیل جسمانی موت سے دینے میں بہت سی حکمتیں پنہان ہیں ، جس کی یہاں صرف چند مثالیں درج کی جاتی ہیں۔

 

روحانیّت کی آخرت:

ا۔ جب کوئی شخص جسمانی طور پر مر جاتا ہے تو وہ دنیائے ظاہر کو چھوڑ کر آخرت میں پہنچ جاتا ہے، اسی طرح شخصِ کامل  روحانیّت کی دنیا سے بذریعۂ روحانی موت  روحانیّت کی آخرت کی جانب سفر کرتا ہے۔

۲۔ ظاہر میں جس طرح رضائے الٰہی کی خاطر کسی حلال چوپایہ کی قربانی کی جاتی ہے،  روحانیّت میں اسی طرح نفس اور روح کی قربانی ہوتی ہے۔

۳۔ جیسے ظاہری جہاد میں بعض مجاہدین کو شہادت کا درجہ نصیب ہو جاتا ہے، ویسے روحانی جہاد میں مجاہدین کو شہادتِ عظمیٰ کا مرتبہ حاصل ہو جاتا ہے۔

۴۔ اِس مادّی دنیا میں ہر چیز کا عروج و ارتقا فنا کے بغیر ممکن نہیں، جیسے جمادات نباتات میں، نباتات حیوانات میں، اور حیوانات انسانوں میں فنا ہو کر ترقی و رفعت پاتے ہیں، اسی طرح عظیم روحیں بابِ فنا سے داخل ہو کر مراتبِ عالیہ پر فائز ہو جاتی ہیں۔

۵۔ دنیا کا یہی دستور چلا آیا ہے کہ مادّی ترقی ہونے کی صورت میں آدمی اپنے پرانے مکان کو گرا کر اس کی جگہ از سرِ نَو ایک خوبصورت مکان کی تعمیر کرتا ہے، بالکل اسی طرح جن حضرات کی روحانی ترقی ہو رہی ہو، ان کی خودی کی فرسودہ عمارت کو مسمار کرکے وہاں ایک عالیشان خانۂ خدا معمور کیا جاتا ہے، اِن مثالوں سے روحانی موت یا فنا پر

 

۲۳

 

روشنی پڑتی ہے، اور اس میں طرح طرح کی حکمتوں کے پوشیدہ ہونے کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔

 

روحانیّت کا تیسرا دَور ۔ “اِنبِعاث”:

روحانیّت کا تیسرا اور آخری دَور ’’اِنبِعاث‘‘ کہلاتا ہے، جس میں خدا کے وہ برگزیدہ بندے  جو جیتے جی  روحانیّت کی پُرحکمت موت سے گزر رہے تھے، بحقیقت زندہ ہو جاتے ہیں، جہاں عقلی اور علمی زندگی کے بھرپور وسائل موجود ہیں، جو سب کے سب رُبُوبیّت کے عظیم اسرار ہیں ، یہاں یہ نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ موجوداتِ ظاہر و باطن کے درجات مقرر ہیں، چنانچہ حقیقی اور مُطلق زندگی اُس درجے میں جو سب سے اوپر ہے، اور وہ بلند ترین درجہ عقل ہے، اور قطعی موت سب سے نچلے درجے میں ہے، یہ درجۂ اسفل جمادات (بے جان اشیاء) سے متعلق ہے چنانچہ نباتات زندہ ہیں جمادات کی نسبت سے، مگر مردہ ہیں حیوانات کی نسبت سے، حیوانات زندہ ہیں نباتات کی نسبت سے، لیکن مردہ ہیں انسانوں کی نسبت سے، اور کفر و اسلام کے اعتبار سے بنی نوعِ انسان کے بھی کئی طبقات و درجات ہیں، چنانچہ مثال کے طور پر کافر لوگ زندہ ہیں حیوانات کے مقابلے میں، لیکن مردہ ہیں اہلِ ایمان کے مقابلے میں، جیسا کہ پروردگار کا ارشاد ہے:۔

 

حیات و ممات کے درجات:

اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَل (۰۷: ۱۷۹)  (اور ہم نے ایسے بہت سے جنّ اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے) یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ لوگ زیادہ بے راہ ہیں۔ اِس سے یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے کہ کفّار دینی شعور کے اعتبار سے مردہ ہیں اور مومنین بمقابلۂ کفار زندہ ہیں، لیکن یہ سلسلہ

 

۲۴

 

یہاں پر ختم نہیں ہوتا، کیونکہ زندگی کے اور بھی مراتب باقی رہتے ہیں، جیسا کہ ربّ العزت کا فرمان ہے: اے ایمان والو تم اللہ اور اس کے رسولؐ کی دعوتِ (خاص) کو قبول کرو جبکہ رسولؐ تم کو ایک ایسی چیز کی طرف بلاتے ہوں جو تمہارے لئے حیات بخش ہے (۰۸: ۲۴) اس کے یہ معنی ہوئے کہ مومنین کی موجودہ زندگی اگرچہ ایک اعتبار سے عمدہ زندگی ہے، لیکن دوسرے اعتبار سے (یعنی حیاتِ روحانی کے مقابلے میں) یہ بھی ایک موت ہے، لہٰذا روحانی زندگی کے لئے جدّوجہد لازمی ہوئی۔

 

مذکورہ بالا قانون و ترتیب کے مطابق  روحانیّت کا پہلا دَور بمقابلۂ جسمانیّت حیات ہے، لیکن یہ دوسرے دَور کی نسبت سے ممات ہے، اسی طرح دوسرا دَور زندگی ہے دورِ اوّل کی نسبت سے، مگر موت ہے تیسرے دور کے مقابلے میں، لیکن تیسرا دور جو آخری دور ہے وہ زندگی ہی زندگی ہے اور اس میں یا اس کے بعد کوئی موت نہیں، کیونکہ وہ اِنبِعاث ہے۔

 

تین دن سے تین ادوار مراد ہیں:

جب ہم قرآن و  روحانیّت کی روشنی میں اس حقیقت کا یقین رکھتے ہیں کہ ہر کامل انسان اپنی دنیائے  روحانیّت میں پیدا ہو جاتا ہے، اور ایک دور کے بعد اُس پر تاویلی موت واقع ہو جاتی ہے، تو پھر جیسے کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں:  روحانیّت کا پہلا دور دنیائے باطن ہے، دوسرا دور اس باطنی دنیا کی آخرت ہے اور تیسرا دور اس آخرت کا یوم بعث ( جی اُٹھنے کا دن ) ہے ، جیسا کہ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے: وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا (۱۹: ۱۵) اور اُس پر سلامتی ہے جس دن پیدا ہوا اور جس دن انتقال کرے گا اور جس دن زندہ ہو کر اُٹھایا جائے گا۔ ان تین دنوں سے مذکورہ تین ادوار مراد ہیں، اور یہی ذکر سورۂ مریم (۱۹: ۳۳) میں حضرت

 

۲۵

 

عیسیٰ علیہ السّلام کی بابت بھی ہے۔

 

حق تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً  وَّاحِدَۃً  فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ(۰۲: ۲۱۳) (ایک زمانہ میں) تمام لوگ ایک ہی کیش پر تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا جو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تھے۔ اِس مقام پر کوئی بھی عقلِ سلیم یہ سوچ سکتی ہے یا سوال کر سکتی ہے کہ خداوندِ عالم نے انبیاء علیھم السّلام کو کہاں سے کہاں بھیجا یا کس مرکز سے بھیجا؟ کیونکہ بظاہر ایسا نہیں ہے کہ وہ حضرات کسی اور دنیا یا دوسرے ملک سے آئے ہوں، بلکہ وہ مقدّس اور کامل و مکمّل افراد اپنی حیاتِ طیّبہ کے شروع سے آخر تک دوسرے لوگوں ہی کے ساتھ رہا کرتے تھے، چنانچہ اس فکر و سوال سے ظاہر ہے کہ پیغمبروں سے متعلق “بَعَثَ” اور “اَرسَلَ” (یعنی خدا نے بھیجا ) جیسے تمام الفاظ کا ایک تاویلی پس منظر ہے، اور وہ اِس طرح ہے کہ خالقِ حکیم نے انبیاء و مُرسلین صلوات اللہ علیھم کو مختلف زمانوں میں جسمانی طور پر پیدا کرکے راہِ مستقیم پر چلایا، پھر ان کو  روحانیّت و نورانیّت میں پیدا کیا، اور پھر ایک عرصے کے بعد اُن کی ذاتی و انفرادی قیامت برپا ہوئی، تاکہ پیغمبروں اور ان کے نمائندوں کی دعوتِ حق بصیرت پر مبنی ہو (۱۲: ۱۰۸) یاد رہے کہ اس مجموعی قیامت بصورتِ انفرادی قیامت سے قبل خاموش  روحانیّت کا دَور گزرتا ہے، مگر جب یہ قیامت برپا ہو جاتی ہے تو اسی کے ساتھ ساتھ بولتی  روحانیّت کے دَور کا آغاز ہو جاتا ہے، تاہم بتقاضائے حکمت اس دور کی  روحانیّت کو کئی اعتبار سے نفسانی یا روحانی موت کہا گیا ہے، جس کا قبلاً ذکر ہو چکا ہے۔

 

لُولُوئے عقل:

تاویلی موت کے زمانے کے بعد انبعاث کا وقت آتا ہے، جس میں سب سے پہلے انبیائے کرامؑ بحقیقت زندہ اور عقلی طور پر بیدار ہوگئے، اُن حضرات کو اسی مقام

 

۲۶

 

پر ازل اور ابد کے تمام عظیم بھید ایک ساتھ معلوم ہوگئے، اور انہوں نے وہاں لُولُوئے عقل کے علمی کرشموں کو دیکھا، اور پھر ہر طرح کے مشاہدوں اور معرفتوں کے بعد اِسی مرکزِ عقل اور مرتبۂ قربِ خاص سے انبیاء علیھم السّلام لوگوں کی طرف بھیجے گئے، اور بَعَثَ یا اَرسَلَ جیسے الفاظ کا تاویلی پس منظر یہی ہے جو بیان ہوا۔

 

حضرت طالوتؑ:

فرمانِ خداوندی ہے:  وَقَالَ لَھُمْ نَبِیُّھُمْ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا (۰۲: ۲۴۷) اور ان سے ان کے پیغمبر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔ اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ حضرت طالوت علیہ السّلام امام تھا، جسے پروردگارِ عالم نے تکمیلِ نور کے لئے مراحلِ  روحانیّت پر گامزن کر دیا، اور مرتبۂ “نورِ عقل” میں طالوتؑ کا اِنبِعاث ہوا، جیسا کہ اِنبِعاث کا حق ہے، تاکہ وہ لوگوں کا دینی بادشاہ قرار پائے، کیونکہ دینِ خدا میں کسی دُنیوی بادشاہ کے لئے کوئی گنجائش نہیں، چنانچہ حضرت طالوتؑ کے نہ صرف علم میں بے پناہ اضافہ ہوا، بلکہ جسم میں بھی بطریقِ حکمت بے حد فراخی ہوئی، وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امام طالوت علیہ السّلام کو عالمِ ذرّ عنایت ہوا، نیز ابداعی جسم مل گیا، جو کائنات پر محیط ہے، جس میں ابداع و انبِعاث کے جملہ معجزات موجود ہیں۔

 

مومنین بحقیقت کون ہیں؟

ارشاد فرمایا گیا ہے : لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِم (۰۳: ۱۶۴)

تحقیق اللہ تعالیٰ نے مومنین پر اِحسان کیا جب کہ ان میں ان ہی کی جنس سے ایک پیغمبر کو بھیجا اِس آیۂ کریمہ کی تاویل یہ ہے کہ یہاں مومنین سے أئمّۂ ھُدا صلوات اللہ علیھم مراد ہیں، کیونکہ ایمان کے درجۂ کمال پر وہی حضرات ہیں، اور رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ان ہی کی جنس میں سے اور ان ہی کے باطن (ذات) میں سے ہیں، اور

 

۲۷

 

ان ہی کی روح و  روحانیّت میں پیغمبرؐ بھیجا گیا ہے، کیونکہ ہر امام کے باطن میں رسولِ خداؐ کے اِنبِعاث مظاہرہ ہوتا ہے اور اسی میں سب کچھ ہے۔

 

بارہ نقیب پانچ گروہ جن پر انعام ہوا:

سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۲) میں فرمایا گیا ہے: وَ بَعَثَنَا مِنھُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْباً (۰۵: ۱۲) اور ہم نے (بنی اسرائیل) میں سے بارہ سردار مقرّر کئے۔ یہ بارہ نقیب بارہ حجّت تھے، جن کو مکمّل  روحانیّت حاصل ہوئی اور انہوں نے اسی جسم میں زندہ ہوتے ہوئے قیامت، نفسانی موت، اور پھر جی اُٹھنے (اِنبِعاث) کا مظاہر و منظر دیکھا، کیونکہ ان مشاہدات کے بغیر معرفت کا کوئی تصوّر نہیں، اور معرفت کے بغیر کوئی حجّت نہیں، اور یاد رہے کہ لوگوں میں سے چار گروہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو صراطِ مستقیم کی منزلِ مقصود پر پہنچا کر اپنی خاص نعمتوں سے نوازا ہے، وہ چار گروہ: انبیاء ، صدّیقین، شہداء  اور صالحین اور پانچواں طُفیلی گروہ بھی ان کے ساتھ ہے، جو فرمانبردار مومنین پر مشتمل ہے (۰۴: ۶۹ تا ۷۰) اس کے معنی ہیں کہ ہر پیغمبر، ہر اساس، ہر امام، ہر بزرگِ دین اور ہر اطاعت گزار مومن کو یہ فضلِ کبیر حاصل ہے۔

 

اِنبِعاث غیر شعوری:

یہ سورۂ یٰسٓ کی مقدّس تعلیمات میں سے ہے: قَالُوْا ٰیوَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا (۳۶: ۵۲) کہیں گے کہ ہائے ہماری کم بختی ہم کو ہماری خوابگاہ سے کس نے اُٹھا دیا۔ ان لوگوں کا یوں کہنا زبانِ قال سے نہیں، بلکہ زبانِ حال کی ترجمانی ہے، لہٰذا یہ اِنبِعاث شعوری طور پر نہیں، بلکہ غیر شعوری کیفیت میں ہے، کیونکہ جس طرح کسی کی انفرادی قیامت میں بصورتِ ذرّاتِ لطیف سب لوگ جمع ہو جاتے ہیں، مگر وہ اپنے ذرّات کی اس نمائندگی سے بے خبر ہوتے ہیں، اسی طرح مقامِ عقل پر ( جو مقامِ اِنبعاث

 

۲۸

 

ہے) اوّلین و آخرین سب کی نمائندگی ہوتی ہے، بغیر اس کے کہ ان کو اس کا علم ہو، لیکن ہاں اس میں اور اُس میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ قیامت میں کثرت کا پہلو ہے اور انبِعاث میں وحدت کا پہلو نمایان ہے ، یعنی انبِعاث میں ذرّاتِ کثیرہ یا سب لوگوں کی نمائندگی صرف ایک ہی فرد سے ہوتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:  مَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَّاحِدۃٍ (۳۱: ۲۸) تم سب کا پیدا کرنا اور (روحانی موت کے بعد) زندہ کرنا ایک ہی جان کی طرح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک میں سب ہیں اور سب میں ایک ہے۔

 

ذرّاتِ لطیف:

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۹۸) میں ارشاد ہے: وَقَالُوْٓا ئَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ئَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا اور یوں کہا تھا کہ کیا جب ہم ہڈیاں اور بالکل ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہم از سرِ نو پیدا کرکے اُٹھائے جائیں گے۔ چونکہ قرآن صرف اور صرف لسانِ قدرت اور زبانِ حکمت ہے، اور اس میں جہاں جہاں دوسروں کے خیالات یا باتوں کی ترجمانی کی گئی ہے، وہ بھی اصل قرآن اور حکمت سے بھرپور ہے، کیونکہ کمالِ قدرت سے غیروں کی باتوں کے مفہومات کو مشترک المعنیٰ الفاظ میں اِس شان سے پیش کیا گیا ہے کہ اِس سے نہ صرف کلامِ حکمت نظام کا بے نظیر اُصولِ بیان اپنی جگہ قائم رہا ہے، بلکہ اس سے کافروں کی متعلقہ باتیں بھی دلیلِ کفر کے باوجود تاویلی حکمتوں سے پُر ہوگئی ہیں، چنانچہ اِس آیۂ کریمہ میں ایسی ہڈیوں کا اشارہ جو ریزہ ریزہ ہو چکی ہیں ذرّاتِ لطیف کے لئے ہے، اور خلقِ جدید سے جُثۂ ابداعیّہ مراد ہے، جس میں ہزار گونہ جدّت ہے، چنانچہ انبعاث یوں ہے کہ انہی لاتعداد لوگوں کے نمائندہ ذرّات سے جثۂ ابداعیہ کا وجود بن جاتا ہے، اور یہ عمل بلا تاخیر چشمِ زدن میں انجام پاتا ہے،

 

۲۹

 

اور اسی طرح بے شمار انسانوں (یعنی نمائندگی کرنے والے ذرّات) کا بصورتِ جسمِ لطیف ایک کامل انسان بن جاتا ہے، پس نتیجے کے طور پر شخصِ کامل کا انبِعاث تو شعوری طور پر ہوتا ہے، اور باقی سب کا انبعاث غیر شعوری اور نمائندگی میں ہوتا ہے۔

 

مقامِ محمود:

یہ ارشاد بھی سورۂ بنی اسرائیل عَسٰٓی  اَنْ  یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ  مَقَامًا  مَّحْمُوْدًا (۱۷: ۷۹)۔ شتاب ہے کہ آپ کا ربّ آپ کو مقامِ محمود میں جگہ دے گا۔ اِس آیۂ مقدّسہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے مرتبۂ عقلِ کُلّی میں انبِعاث کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، کہ مقامِ محمود ( وہ جگہ جس کی تعریف کی گئی ہے) مرتبۂ لُولُوئے عقل ہے، جہاں پروردگارِ عالم کے برگزیدہ بندوں کی عقلی اور علمی اِنبِعاث اور بیداری ہو جاتی ہے، مقام کے لفظی معنی دو ہیں: ا۔ کھڑا ہونا ۲۔ کھڑا ہونے کی جگہ

 

ابلیس یا شیطان کی مہلت:

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۴) میں فرمایا گیا ہے: قَالَ اَنظِرْ نِیٓ اِلیٰ یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ابلیس نے کہا کہ مجھ کو مہلت دے اُس دن تک کہ (مردے) اُٹھائے جائیں گے۔ یعنی ابلیس جو شیاطین کا سردار ہے، جس کی نمائندگی ہر فردِ بشر میں ایک شیطان کرتا ہے، وہ انسانِ کامل کی ذاتی  روحانیّت اور انفرادی قیامت میں مقامِ انبعاث پر جاکر شکست کھاتا ہے اور مسلمان بن جاتا ہے، جیسے مشکوٰۃ جلدِ اوّل عنوان ۳ میں آنحضرتؐ کی ایک حدیث مروی ہے حضورؐ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جس کا ایک ہمنشین (مصاحب) جِنّات (یعنی شیاطین) میں سے اور ایک ہمنشین فرشتوں میں سے مقرر نہ کیا گیا ہو، صحابہ نے یہ سن کر پوچھا: اور یا رسول اللہ آپ کے لئے؟ فرمایا ہاں میرے

 

۳۰

 

لئے بھی، لیکن اللہ نے اُس پر مجھ کو (اپنی مدد سے) غلبہ بخشا ہے، سو وہ مسلمان ہو گیا، پھر وہ سوائے بھلائی کے مجھ سے کچھ فرمائش نہیں کرتا۔

 

برزخ کے معنی:

سورۂ مومنون (۲۳: ۱۰۰) میں فرمایا گیا ہے: وَمِنْ وَّرَآئِہِمْ بَرْزَخ’‘ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْن(۲۳: ۱۰۰) اور ان لوگوں کے آگے ایک پردہ ہے انبعاث کے دن تک۔ لفظِ برزخ قرآنِ پاک میں دو بار آیا ہے، ایک یہ جس کا حوالہ آپ کے سامنے ہے، اور دوسرا سورۂ رحمان (۵۵: ۲۰) میں، جیسے ارشاد ہے: مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن(۵۵: ۱۹) بَیْنٰھُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ(۵۵: ۲۰) اسی نے دو دریاؤں کو ملایا کہ باہم ملے ہوئے ہیں (اور) ان  دونوں کے درمیان میں ایک حجاب ہے کہ دونوں بڑھ نہیں سکتے۔ اِس سے ظاہر ہے کہ لفظِ “برزخ” پردہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، چنانچہ مذکورۂ بالا آیت کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے لوگ جسمانی طور پر مر جانے کے باوجود عقلی اور عِرفانی طور پر مرتبۂ انبِعاث تک رسا نہیں ہو سکتے ہیں، کیونکہ ان کے آگے حجاب و پردہ ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ لوگ برزخ کے اندر رہتے ہوں اور برزخ کوئی دنیا ہو، بلکہ برزخ بمعنیٔ پردہ ان کے آگے ہے، جس کی وجہ سے وہ لوگ اِنبِعاث سے دور اور محروم ہیں، اور جب تک کسی وسیلے سے ان کا شعوری انبِعاث نہ ہو تو وہ اسی حالت میں پڑے رہیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

 

بصیرت یا چشمِ معرفت:

وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ  اَعْمٰی  فَھُوَ  فِی الْاٰخِرَۃِ  اَعْمٰی  وَ اَضَلُّ  سَبِیْلً (۱۷: ۷۲) اور جو شخص دنیا میں اندھا رہے گا سو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا اور زیادہ راہ گُم کردہ ہوگا۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ انسان اِس دنیا میں چشمِ معرفت حاصل کرنے کے لئے آیا

 

۳۱

 

ہے، اور چشمِ معرفت کا ایک خاص قرآنی نام “نور” ہے، کیونکہ مادّیت میں جو عالمِ کثرت ہے، چیزیں الگ الگ ہوتی ہیں، یعنی آنکھ الگ چیز ہوتی ہے اور روشنی جُداگانہ شیٔ ہوتی ہے، مگر  روحانیّت جو عالمِ وحدت ہے اس میں جو نور ہے وہی چشمِ معرفت بھی ہے چنانچہ خدا اور اس کے رسولؐ نے مستقل ہدایت کے لئے جس مقدّس ہستی کو نور قرار دیا ہے، وہی مومنین کے لئے چشم و چراغ، دیدۂ دل اور عین الیقین ہے۔

 

امام سب کی مجموعی روح:

سورۂ مائدہ کے ارشادات میں سے ایک پُرحکمت ارشاد (۰۵: ۲۰) وَاِذْقَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ ٰیقَوْمِ اذْکُرُوْانِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَمنْبِیَآئَ وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا وَّ اٰتٰکُم ْ مَّالَم یُؤتِ اَحَدًا مِّنَ العٰلَمِیْنَ (۰۵: ۲۰) اور وہ وقت بھی ذکر کے قابل ہے جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کے انعام کو جو تم پر ہوا ہے یاد کرو، جب کہ خدا نے تم میں بہت سے پیغمبر بنائے اور تم کو بادشاہ بنایا اور تم کو وہ چیزیں دیں جو دنیا جہان (یعنی اہلِ زمانہ) میں سے کسی کو نہیں دیں۔ اس آیۂ مبارکہ میں ایک انتہائی عظیم حکمت پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ دورِ موسیٰؑ کے مومنین اپنے اپنے  امامِ وقتؑ کی روحانی وحدت و سالمیّت میں سلیمانؑ کی طرح بادشاہ تھے، اور یہ سنّتِ الٰہی ایک وقت کے لئے خاص نہیں، بلکہ ہر زمانے کے لئے ہے، اگر کوئی شخص اس تاویلی حکمت سے انکار کرے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بنی اسرائیل کا ہر فرد ظاہری دنیا میں بادشاہ تھا، لیکن یہ بات درست نہیں، کیونکہ خود حضرت موسیٰؑ کے سامنے فرعون کی ہلاکت واقع ہونے تک بنی اسرائیل غلام تھے، ہاں جاننے کے لئے یہ ایک بہت بڑا سوال ہے کہ امامِ زمان علیہ السّلام کی بابرکت ہستی میں زمانے کے تمام مومنین کس طرح بادشاہ ہوسکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امام اُس کامل و مکمل انسان کا نام

 

۳۲

 

ہے، جو ارواحِ مومنین کا مجموعہ ہوا کرتا ہے، یہ مجموعہ اور اس کا ذکر بطورِ خاص ہے ورنہ امام جملہ کائنات و موجودات کا مجموعہ ہے، جیسا کہ قولِ قرآن ہے: وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْن (۳۶: ۱۲)۔

 

قرآن نے کافر بادشاہ کو “بادشاہ” نہیں  کہا:

یہ بات بڑی پختہ اور یہ دلیل بڑی روشن ہے کہ قرآنِ حکیم نے کسی بھی کافر بادشاہ کو “مَلِک” یعنی بادشاہ نہیں کہا ہے ، اور نہ آسمانوں زمین کی خدائی سلطنت کے سوا کسی دنیوی حکمرانی کو “بادشاہی” کا نام دیا ہے، جب فرمایا گیا کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہ خدا ہی کی ہے، تو پھر کسی غیر کی بادشاہی کونسی جگہ رہ گئی؟ مگر ہاں وہ اپنی یہ عظیم بادشاہی جسے چاہے عطا کر سکتا ہے، جیسا کہ اس کا فرمان ہے : فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰھِیْمَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاٰتَیْنٰھُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا (۰۴: ۵۴) سو ہم نے ابراہیمؑ کے خاندان کو کتاب اور حکمت دی ہے اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی ہے۔ پس حضرت موسیٰؑ نے جن حضرات کو مُلوک (بادشاہ) کہا وہ سب سے پہلے خاندانِ ابراہیمؑ کے أئمّہ ہیں، اور پھر ان ہی مبارک ہستیوں کے وسیلے سے مومنین بادشاہ ہیں ۔

 

خدا کی بادشاہی بصورتِ بہشت:

سوال: کوئی مومن یا کوئی امام جو مخلوق اور بشر ہے کس طرح خداوند تعالیٰ کی اُس بادشاہی کا مالک ہو سکتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں پھیلی ہوئی ہے، اور جو خدا کے لئے خاص ہے؟

جواب: اس کا جواب طویل سے طویل بھی ہے اور مختصر سے مختصر بھی، اور مختصر یہ ہے کہ قرآنِ پاک کی کئی آیات میں یہ ارشاد ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی خدا کی ہے، نیز یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ کائنات تمہارے لئے مسخر ہے (۳۱: ۲۰ ، ۴۵: ۱۳) اور قرآن

 

۳۳

 

میں یہ بھی ہے کہ بہشت کائنات کے طول و عرض کے برابر ہے، یعنی بہشت خدا کی بادشاہی کا دوسرا نام ہے، پس بہشت جس کا دوسرا نام خدا کی بادشاہی ہے ملکیت کے معنی میں خدا کی تو ہے، مگر اس کی ذاتِ اقدس اس کی حاجت سے بے نیاز و برتر ہے، اس سے ظاہر ہے کہ کائنات کی بادشاہی عطا کر دینے کے معنی میں خدا تعالیٰ کی ہے، مگر اس کی اپنی ذات کے لئے خاص نہیں۔

 

اِطاعت کے تین درجات:

سوال: مومنین کی نجات اور بہشت یا روحانی سلطنت امامِ حیّ و حاضر کی ہستی سے کیوں وابستہ ہے، اور یہ صرف پیغمبر اکرمؐ کی ذات سے کیوں متعلق نہیں؟ کیا آنحضرتؐ مرکزِ رحمت نہیں ہیں؟

جواب: اس میں عرض یوں ہے کہ اگر یہ سوال اس وجہ سے ہو کہ رسولؐ مرتبۂ اعلیٰ پر ہیں یا اِس لئے ہو کہ آنحضرتؐ کارِ دین کے لئے ہر طرح سے بذاتِ خود کافی ہیں، تو اِس سے یہ منطقی سوال پیدا ہوگا کہ خداوند تعالیٰ نے دین کا ہر کام ذاتی طور پر کیوں نہیں کیا کہ اس نے اتنے سارے پیغمبر بھیجے، حالانکہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا تھا، اور وہ ربِّ عزت ہے، پھر یہ اقرار کرنا پڑے گا، کہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی قدرت و رحمت یہی ہے کہ اُس نے لوگوں کی آسانی کی خاطر پیغمبروں کو بھیجا اور ان کے جانشین مقرر کئے چنانچہ خداوندِ عالم نے دینِ اسلام میں رسولؐ کے بعد امامؑ کو لازمی قرار دیا، اور اسے ولیٔ امر بنایا، پھر اطاعت یعنی فرمانبرداری کو اوپر سے شروع کرکے تین درجوں پر منقسم کیا، یعنی اطاعتِ خدا، اطاعتِ رسولؐ ، اور اطاعتِ امام (ولیٔ امر) اب اِس بیان سے ظاہر ہے کہ خدا و رسولؐ کی طرف سے لوگوں کو جو کچھ ملنا چاہئے، وہ درجاتِ اطاعت کے آخر میں ملے گا اور اِس سے پہلے ہرگز نہیں، اور جیسا کہ بیان ہوا اطاعت و فرمانبرداری کا آخری درجہ بحکمِ

 

۳۴

 

قرآن امامِ زمانؑ ہے، پس اِس روشن دلیل سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آئی کہ اللہ تعالیٰ اور اِس کے رسولِ برحقؐ کی طرف سے جو روحانی بادشاہی عطا ہوتی ہے وہ امامِ عالیمقامؑ کی ذاتِ عالی صفات میں پوشیدہ ہے۔

 

مر کر زندہ ہو جانا بڑا طویل کام ہے:

سورۂ بقرہ (۰۲: ۵۵ تا ۵۶) میں فرمایا گیا ہے: وَاِذْ قُلْتُمْ ٰیمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَھْرۃً فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ  تَنْظُرُون ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِّنْ م  بَعْدِ  مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن (۰۲: ۵۵ تا ۵۶) اور جب تم لوگوں نے کہا کہ اے موسیٰ ہم ہرگز نہ مانیں گے تمہارے کہنے سے یہاں تک کہ ہم (خود) دیکھ لیں اللہ کو اعلانیہ طور پر سو آپڑی کڑک بجلی اور تم دیکھ رہے تھے، پھر ہم نے تم کو زندہ کر اُٹھایا تمہارے مرجانے کے بعد اس توقع پر کہ تم احسان مانو گے۔

 

آپ دیکھتے ہیں کہ خداوندِ عالم کے اِس پُرحکمت خطاب میں بنی اسرائیل کا ہر فرد شامل ہے، مگر یہ ممکن نہیں کہ سب پر ایک جیسی نور کی سخت بجلی گری ہو اور سب نے یکسان طور پر اس کا مشاہدہ کیا ہو، لیکن ہاں یہ تصوّر بالکل درست ہے کہ ناطقؑ، اساسؑ، امامؑ اور نقیب جیسے حدودِ دین کو یہ عظیم دیدار ہوا تھا، اور وہ بھی ایک ساتھ نہیں بلکہ جُدا جُدا اوقات میں فرداً فرداً، کیونکہ بڑا دیدار اور انبِعاث فردانیت میں ہوتا ہے (۰۶: ۹۴) اس کے یہ معنی ہوئے کہ بنی اسرائیل کے عام مومنین امامِ وقت اور حدودِ دین میں بصورتِ ذرّاتِ لطیف داخل اور شامل تھے، جس طرح اوپر ذکر ہوا کہ قومِ موسیٰؑ  کا ہر فرد امام کی  روحانیّت میں بادشاہ تھا، بالکل اسی طرح جُدا جُدا وقتوں میں شعوری اور غیر شعوری حالت میں بحیثیتِ مجموعی حضرت موسیٰؑ کی قوم کا انبعاث ہوا، اور ان کو یہ رحمت پیغمبر اور امام علیھما السّلام کے وسیلے سے حاصل ہوئی۔

 

۳۵

 

۷۰ کیوں ؟ رجال کیوں ؟

سورۂ اعرف (۰۷: ۱۵۵) کے اِس فرمانِ خداوندی میں بھی خوب غور کیجئے: وَ اخْتَارَ مُوْسیٰ قَوْمَہٗ سَبْعِیْنَ رَجُلاً لّمِیِقَاتِنَا اور موسیٰ نے ستّر رجال (مرد) اپنی قوم میں سے ہماری “میقات” کے لئے منتخب کئے، سو جب ان کو زلزلہ (وغیرہ) نے آپکڑا تو موسیٰ عرض کرنے لگے کہ اے میرے پروردگار اگر آپ کو یہ منظور ہوتا تو آپ اس کے قبل ہی ان کو اور مجھ کو ہلاک کر دیتے، کیا آپ ہمیں اس لئے ہلاک کر دیں گے کہ ہم میں سے بیوقوفوں نے نافرمانی کی ہے ۔

یہاں ستّر (۷۰)  رجال اِس طرح ہیں : ۲۴  + ۲۴  + ۲۴ = ۷۲ – ۲ = ۷۰ تشریح: جب کوئی پیغمبر مرتبۂ ناطقی پر فائز ہو جاتا ہے، تو وہ بحکمِ خدا امام کو اساس کا درجہ دے کر اپنا وصی اور جانشین مقرر کرتا ہے، اور اسی حال میں اساس کا فرزند امام بن جاتا ہے، اور ان تینوں حضرات میں سے ہر ایک کے ۲۴ حجت ہوا کرتے ہیں، اسی طرح زمانۂ موسیٰ میں ۷۲ حجت ہوگئے، مگر اساس جو ناطق کا حجتِ اعظم تھا، اور امام جو اساس کا حجتِ اعظم تھا، اُن کا انتخاب اور اِنبِعاث پہلے ہی ہو چکا تھا، لہٰذا ۷۰ حجت رہ گئے، دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں صاحبان اہلِ بیت سے ہیں قوم سے نہیں، جبکہ یہ انتخاب قوم سے تھا۔

 

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا طور پر جانا بالکل سچ ہے، مگر پھر بھی یہ حقیقت کی نقاب پوشی اور مثال ہے، اصل طور حضرت موسیٰؑ کی اُس  روحانیّت میں تھا، جو پیشانی میں مرکوز ہوا کرتی ہے، چنانچہ موسیٰ پیغمبرؑ کے وہ تمام تر واقعات جو طور سے متعلق ہیں آپؑ کی مبارک پیشانی میں رُونما ہوئے ہیں۔

 

خدا کے حضور تنہا تنہا جانا ہے:

ذاتی قیامت جو شعوری ہے وہ اہلِ  روحانیّت پر جُدا جُدا اوقات میں فرداً فرداً

 

۳۶

 

واقع ہو جاتی ہے، اور اسی طرح اِنبِعاث بھی انفرادی طور پر ہوتا ہے، کیونکہ قانون یہ ہے کہ خدا کے حضور تنہا تنہا جانا ہے۔ (۰۶: ۹۴) مگر اجتماعی قیامت و بعثت جو لوگوں کی غیر شعوری کیفیت میں ان کے نمائندہ ذرّات پر واقع ہو جاتی ہے، وہ ایک ہی وقت میں ایک ساتھ ہے، اور اس کا مظاہرہ ہر انفرادی قیامت میں ہوا کرتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو انفرادی قیامت بے معنی ہو کر رہ جاتی ۔

 

یہ تو مسلّمہ ہے کہ کوئی خاتون پیغمبر یا امام نہیں ہوئی ہے اور نہیں ہو سکتی ہے، مگر کسی عورت کا درجۂ حجّتی پر فائز ہو جانا خلافِ فطرت نہیں، لہٰذا ممکن ہے کہ مذکورۂ بالا ۷۰ حجتوں میں کچھ خواتین بھی ہوں ، ہر چند کہ اِس آیۂ کریمہ میں لفظِ “رجال” آیا ہے جس کے ظاہری اور تاویلی دو معنی ہیں: ۱۔ مرد بمعنیٔ جسم ۲۔ مرد بمعنیٔ روح اور علم یا دعوت، چنانچہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں پیغمبروں کو رِجال کہا گیا ہے ، وہاں وہ حضرات دونوں معنوں میں مرد ہیں۔

 

“ایک میں سب اور سب میں ایک”:

اِنبِعاث کی حقیقت سمجھنے کے لئے سورۂ انعام کا یہ ارشاد خاص طور پر ضروری ہے:  وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّتَرَکْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰکُمْ وَرَآئَ ظُھُوْرِکُمْ (۰۶: ۹۴) اور تم ہمارے پاس تنہا تنہا آگئے جس طرح ہم نے اوّل بار پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا اس کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے ۔

 

اللہ تعالیٰ کے حضور تنہا تنہا جانے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اصل قیامت جو شعوری اور باطنی (روحانی ) کیفیت میں ہے وہ کسی کامل شخص میں انفرادی و ذاتی طور پر واقع ہوتی ہے، اور اسی ذاتی قیامت میں ایک اجتماعی قیامت بھی پوشیدہ ہوتی ہے، مگر اہلِ جہان کو اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی، ہم یہاں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر روح

 

۳۷

 

“ایک میں سب اور سب میں ایک” کا قانون رکھتی ہے، لہٰذا ایک ہی فردِ کامل اپنی طرف سے اور دوسرے تمام انسانوں کی طرف سے قیامت اور بعثت کا متحمّل ہو جاتا ہے، وہ اپنی ذات میں بحکمِ خدا تمام روحانی اور عقلی مظاہرے کرتا ہے۔

 

ہر چیز کو اپنے پیچھے چھوڑ کر ازلی کیفیت میں اصل سے واصل ہو جانا یوں ہے کہ انسان کی اصل انا یعنی انائے علوی ہمیشہ ہمیشہ عالمِ بالا میں موجود ہے، لہٰذا ایک طرح سے دیکھا جائے تو وہ اِس دنیا میں آیا ہی نہیں، مگر ہاں وہ اپنی اصل اور لطیف ہستی کے ایک سایہ اور عکس کے طور پر یہاں  آیا ہے، لہٰذا اس کے رجوع کی حالت و کیفیت یہ ہے کہ عارف کو کئی طرح کا روحانی اور نورانی دیدار ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو مُبدَع میں دیکھتا ہے۔

 

دُور رس اِشارات:

جس طرح تنزیلِ قرآن کے مراحل پہلے تھے اور تاویل رفتہ رفتہ بعد میں آئی، جیسے پہلے دَورِ نبوّت تھا اور اس کے بعد دَورِ امامت ہے، جس طرح انسانی جسم کی تخلیق پہلے ہوتی ہے، اور روح و عقل کی تکمیل بعد میں اسی طرح ذاتی قیامت و انبعاث میں روحی اور عقلی واقعات و معجزات پہلے ظہور پذیر ہوتے ہیں،  مگر ان کی تاویلی حکمتیں بتدریج دی جاتی ہیں، چنانچہ عالمِ امر کا ہر کرشمہ  انتہائی عجیب اور غور طلب ہوتا ہے، مثال کے طور پر شروع شروع میں کوئی شخص اِس بات کو کس طرح سمجھ پائے کہ وہ نورانی اور عقلی دیدار و مشاہدہ ہی رجوع تھا، وہ لطیف ابداعی ہستی اس کی اپنی انائے علوی تھی، وہ یہ تھا اور یہ وہ،  یہ برق رفتاری سے ابد کی طرف جا رہا تھا، مگر تعجب ہے کہ اس کو ایک ساتھ ابد و ازل کا مِلا جُلا نمونہ مِل گیا، جہاں سب سے بڑا خزانہ بھیدوں کی صورت میں موجود تھا،  وہ ایک اعتبار سے اصل میں واصل اب ہوگیا، مگر دوسرے اعتبار سے وہ ہمیشہ ہمیشہ واصل ہی رہا

 

۳۸

 

تھا، کہ کبھی فصل (جدائی) ہی واقع نہیں ہوئی تھی۔

 

انا کی جوڑی ( ۳۶: ۳۶، ۵۱: ۴۹):

یقینا انائے سفلی کا رجوع انائے علوی کی طرف سب سے پہلے بذریعۂ رُویت (دیدار) ہوا کرتا ہے، اور پھر بعد میں یہ رجوع عقلی، علمی، عرفانی، اور تاویلی شکل میں پختہ ہو جاتا ہے، تاکہ جسمانی موت کے بعد یہ ایک عملی حقیقت بن جائے۔

 

روحانی شہادت:

جیسا کہ سورۂ محمد (۴۷: ۰۴ تا ۰۶) میں فرمایا گیا ہے: وَالَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَھُم (۰۴: ۴۷) سَیَھْدِیْھِمْ وَیُصْلِحُ  بَالَھُمْ (۰۵: ۴۷)وَیُدْخِلُھُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّفَھَا لَھُمْ(۴۷: ۰۶) اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال کو ہر گز ضائع نہیں کرے گا اللہ ان کو مقصود تک پہنچا دے گا اور ان کی حالت درست کرے گا اور ان کو جنت میں داخل کرے گا جس کی اُن کو پہچان کرا دی ہے۔ اِس آیۂ کریمہ میں شہیدوں کی فضیلت و کرامت کا ذکر ہے، اور شہید کئی قسم کے ہوتے ہیں، ان میں سے ایک گروہ باطنی اور روحانی شُہدا کا ہے، اِس نوعیّت کی شہادت کا قبلاً ذکر ہو چکا ہے، چنانچہ یہی شہیدان ہیں جو بہشت کو صحیح معنوں میں پہچان سکتے ہیں ، ورنہ جسمانی شہیدوں کا یہ طُرّۂ امتیاز کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ حضرات بہشت کو دوسروں سے بڑھ چڑھ کر پہچانتے ہوں، اِس دلیل سے یہ حقیقت روشن ہو کر سامنے آگئی کہ  روحانیّت میں ایک اعلیٰ درجے کی شہادت بھی پوشیدہ ہے، اور قرآنِ مقدّس میں جہاں جہاں شہادت کا ذکر آیا ہے، وہاں سب سے پہلے اسی شہادت کی طرف اشارہ ہے۔

 

خانۂ حکمت/ ادارۂ عارف

فقط خادم

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۲۱۔ دسمبر ۔ ۱۹۸۳ء

 

۳۹

 

نوٹ:

عزیزوں سے پُرخلوص گزارش ہے کہ وہ ان مقالوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھائیں یہ ایک زبردست روحانی علم کا کورس ہے، جس میں درج ذیل ممالک اور مقامات کے احباب حصہ لے رہے ہیں۔ کراچی، گلگت ، اوشی کھنداس، نومل، مسگار، کریم آباد، علی آباد و حیدرآباد، مرتضیٰ آباد، لنڈن، امریکا (کینڈا میں صرف انگریزی ترجمہ جاتا ہے) اس کے علاوہ بعض خاص دوستوں کو بھی کاپیاں دی جاتی ہیں۔

 

آپ عزیزان سے مشورہ ہے کہ اِس مقالہ کو جو بڑا اہم ہے، متعلّقہ موضوعات کے ساتھ ملا کر پڑھیں، مثلاً کتاب “روح کیا ہے؟” روح ایک پیاری حقیقت،  روحانیّت اور موسیقی، قریۂ ہستی، امامِ عالیمقامؑ کی جسمانی پیدائش اور نورانی پیدائش، قیامت کے سو نام وغیرہ تاکہ اِس موضوع سے متعلق تمام سوالات حل ہو جائیں۔

 

۴۰

 

 

بہشت سے برتر ایک عظیم ترین مقام

 

اگرچہ قرآنی تعلیمات کے ابتدائی مدارج میں ہر دیندار علم جُو کو اپنی آئندہ روحانی زند گی کے  مقامِ راحت و لذّت کے متعلق صرف یہی سمجھ لینا کافی ہے کہ بہشتِ برین ہی وہ مقام ہے جس میں نیک لوگوں کے لئے ہر قسم کی لازوال نعمت اور ہر طرح کی ابدی راحت موجود ہے۔ لیکن خاصانِ دانش و دین مزید بران یہ حقیقت بھی جان چکے ہیں کہ بہشتِ برین سے برتر ایک عظیم ترین مقام  (درجہ) بھی ہے جس میں بہشت کی ان جملہ گونا گون بہترین نعمتوں کے علاوہ وہ سب کچھ عجائبات و غرائبات بھی ہیں جو عالمِ لامکان و مکان کے عرصۂ ممکنات میں ہوں، یہ عظیم ترین و بلند ترین مقام عالمِ رضوان ہے چنانچہ قرآنِ پاک کا قول ہے۔ وَ رِضْوانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکبَرُ  (۰۹: ۷۲)  اور خدا کی طرف سے خوشنودی ساری جنتوں سے بھی بہت بڑی ہے ۔ لفظ رضوان سے اور بھی معنی لئے جا سکتے ہیں۔ لیکن ہم یہاں صرف اس کے ایک ہی معنی “خوشنودی” کے باب میں کچھ نکات بیان کر دیتے ہیں۔

 

اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ عالمِ  رضوان یعنی خدا کی خوشنودی کا عالم ہی انسان کی روحانی عروج و ارتقاء کا وہ برترین مقام ہے جس میں ہر مومن صرف اِس حالت میں پہنچ سکتا ہے جب کہ اس کی روحانی پرورش علم و حکمت کی نعمتوں سے بہشت ہی میں مکمل ہو چکی ہو۔ پھر ان لا انتہا خوشیوں اور لذّتوں کی تعریف و توصیف کسی فردِ بشر سے کس طرح ادا ہو سکتی ہے جو عالمِ رضوان میں قدرتِ کاملہ کی طرف سے دی ہوئی روحانی آزادی میں مومنِ موّحِد کو غیر منقطع طور پر حاصل ہوتی رہتی ہوں۔

 

۴۱

 

خدا کی خوشنودی کی ہمہ گیر رحمت و نوازش یہی نہیں کہ ہم صرف اپنی روحانی زندگی میں بہشت کی انتہائی لذّتوں کے بعد خدا کی خوشنودی میں لازوال اور انوکھی روحانی لذّتوں کا ادراک کریں گے۔ بلکہ اس جسمانی زندگی میں بھی ہم میں سے ہر ایک اپنی اخلاقی قابلیت اور روحانی ذات کے مطابق خدا کی رحمت ریز خوشنودی کا لطف و لذّت اٹھا سکتا ہے۔ چنانچہ کسی بھی پاک باطن انسان کو اپنے ہر نیک عمل کے آغاز ہی سے ایک روح افزاء مسلسل مسرّت کا ادراک ہونے لگتا ہے پس ایسی رحمت آگین روحانی مسرت دراصل خدا کی خوشنودی کی ایک باریک ترین کرن ہے ۔

 

خدا کی خوشنودی کی معنوی جامعیّت کے باب میں ہم ایک اور حقیقت آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں، کہ اگر ایک سمجھ دار مومن ہر بڑی سے بڑی دنیاوی مصیبت کو صبر و تحمل اور توکل جیسی انسانی صفاتِ جمیلہ سے برداشت کر سکتا ہے، تو ان جملہ صفاتِ حسنہ سے اس کے متّصف ہونے کی غرض و غایت بھی محض خدا کی رضا جوئی ہی ہے ۔ پس اگر کوئی ذی علم حقیقی مومن متفرقہ صفاتِ انسانیہ کا معنوی عبور حاصل کر سکے۔ یعنی اسے ان تمام کی حقیقت معلوم ہو جائے تو اسے یہ محکم یقین آئے گا کہ ان تمام صفات میں بھی صرف خدا کی رضا ہی کار فرما ہے ۔ اندرین حال اسے چاہئے کہ وہ اپنے تمام نیک اقوال و اعمال صرف خدا ہی کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیّت سے کرے، اور اسی کے لئے ہمیشہ اس کی دعا و طلب ہو۔ کیونکہ انسانی عروج و ارتقا کا برترین نصبُ العین اور آخری مقام خدا کی خوشنودی ہی ہے ۔ اگر مومن اپنے کسی نیک قول و عمل کے ذریعہ خدا سے یہ چاہتا ہو کہ اسے دوزخ سے بچایا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے گو اس قسم کی طلب کی رخصت تو ہے مگر حقیقت میں ایسے مومن کی ارادی کوتاہی ہے کہ اس کا ارادہ اس روحانی دور و دراز سفر کی درمیانی منزلوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے اور اِس بلند ترین نصب العین اور منزلِ آخرین تک رسا ہو نہیں سکتا جس کے لئے اس اِرادہ کو پیدا کیا گیا تھا۔ مومن کا طائر ارادہ ایسا ہونا چاہئے کہ وہ منزل علیا تک پرواز کرنے

 

۴۲

 

کی بے حد خواہش مند ہو۔ مگر یہ بھی یاد رہے کہ انسان کے کسی بھی گناہ کا اثر سب سے پہلے اس کی قوّتِ ارادی پر پڑ جاتا ہے۔ اور اسے ضائع و تباہ کئے بغیر نہیں چھوڑتا، پھر اس میں وہ صلاحیت باقی نہیں رہتی جو قدرتِ الٰہی نے اسے عطا کی تھی۔ جس کے ذریعہ اسے مقامِ مقدس  و معلّٰی تک پرواز کرنا ضروری تھا۔ جو کہ اس کی پرواز کی قابلیت اور اس مقام کی رفعت، میزانِ امکانیت و قدرت میں تُل کر یہ اس عروجِ آخرین تک اڑ کر پہنچ سکنے کی قابل بنی ہوئی تھی، یہ پرندہ انسان کی ارادی قوّت ہے اور وہ اعلیٰ ترین مقام رضوان ہے۔ جس کا ذکر اس مضمون میں ہو چکا ہے ارادہ کی پست ہمّتی کی ایک اور وجہ انسان کی جہالت ہے کیونکہ انسان کی ارادی قوّت کسی چیز کی طرف  اس وقت عاشق، دیوانہ وار اپنا رخ کر لیتی ہے۔ جب اسے قوّتِ علم نے یہ آگاہی دی ہو کہ فلاں شئے جملہ خوبیوں سے متّصف ہے اس میں کسی بھی خوبی کی کمی نہیں ہے اور اس کے حصول سے اس قدر فائدے ہیں، اس میں اس قسم کی خوشی اور لذت ہے اس کا حاصل کرنا ممکن ہے۔ اور وہ طریقہ یہ ہے۔ وغیرہ ۔ پس معلوم ہوا کہ انسان کی علمی قوّت اس کی ارادی قوّت کی پرورش کرتی اور اُسے عالی ہمّتی بخشتی ہے۔

 

فقط

نصیر ہونزائی

 

۴۳

 

گوہرِ اوّل

 

ہمارے علمی اکابرین نے زمانے کے امام علیہ السّلام کے روحانی خزانوں سے علم و حکمت کا جو انمول ذخیرہ حاصل کر لیا ہے، وہ صرف انہی کا حصّہ ہے، اور اس میں دوسروں کی کوئی شرکت نہیں، اس سے میری مراد وہ کامیاب ہدایت ہے، جس کی ہمیشہ  سے زمانے کو ضرورت رہی ہے، چنانچہ ہمارے ماضی کے بزرگوں نے نورِ امامت کی روشنی میں اپنے وقت کے علمی مسائل کو حل کیا ہے، اور اِس سلسلے میں انہی اصطلاحات سے کام لیا گیا ہے جو اس وقت کے فلسفے میں مستعمل تھیں، کیونکہ حکمت کا اصول یہی ہے کہ لوگوں سے جو کچھ کہنا ہے وہ اکثر ان کی اپنی اصطلاحات میں ہونا چاہئے تاکہ وہ آسانی سے مطلب کو سمجھ سکیں۔

 

دوسری اہم بات یہ ہے کہ زمانے میں علمی عروج کی سطح شروع سے لے کر آخر تک ایک جیسی نہیں رہتی ہے، مذہب، فلسفہ، سائنس وغیرہ میں ترقی ہوتی رہتی ہے، لہٰذا اسماعیلی مذہب کا یہ تصوّر درست ہے، کہ زمانے کا امام ظاہری و باطنی ہدایت کے وسیلے سے مومنین کو جدید روحانی علم کی روشنی مہیا کر دیتا ہے، اور اس کی مثالیں بہت عام ہیں ۔

 

اِس موضوع میں یہاں یہ ذکر بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے زمانے کو انقلابی تصورات عطا کر دیئے ہیں، اِس خاکسار سے جو کچھ ہو سکے، مناسب مقام پر امامِ عالیمقام کے اُن زرّین نکات کی طرف اشارہ کرے گا، قرآنی آیت کا مفہوم بجائے خود ضروری ہے، عقل و منطق تو عام و خاص سب کے لئے چاہئے۔

 

یہاں پر پھر ایک بار اپنے خداوند سے توفیق و ہمت چاہتا ہوں کہ وہ زمانے کے حقیقی

 

۴۴

 

مومنین کے صدقے میری مدد کرے! مجھے قلمی لغزشوں سے بچائے! اپنے پاک دوستون کے مقدّس عشق کی حرمت سے میرے غافل دل و دماغ کو نورِ علم کی روشنی سے منوّر کرے! اور میرے انتہائی عزیز دوست کی اِس پیاری اور شیرین فرمائش کو عمل میں لانے کا بھرپور حوصلہ عنایت فرمائے! آمین!!

میرے نزدیک عقلِ کُلّ کتنی پیاری اصطلاح ہے، انسانی عقول کا بیکران سمندر جو مادّی تصوّر سے ماوریٰ ہے، ایک عقلی اور علمی سالمیّت و وحدت ، ایک لامکانی اور لا زمانی مجرّد کیفیت، مظہرِ مبدِع،  مرجعِ نفسِ کلّی، قلمِ الٰہی، عرشِ رحمان، آدمِ معنیٰ ، انسانِ اوّل، فرشتۂ عظیم، گنجِ حکیم، رازِ قدیم، جلوۂ کُن فکان، خلاصۂ انس و جان، عبدِ بسیط، نورِ محیط، گوہرِ خاصِ خدا، گنجینۂ کبریا، نورِ پاکِ مصطفیٰ ، علّتِ اُولیٰ وغیرہ۔

 

ظاہر ہے کہ عقلِ کُلّی دین کا سب سے اعلیٰ مرتبہ ہے، اس لئے کہ وہ عرشِ رحمان ہے، اور اِس لئے کہ وہ سب سے عظیم فرشتہ ہے، فرشتہ کی تخلیق اگرچہ بظاہر یکطرفہ ہے، لیکن حقیقت میں دو طرفہ ہے، یعنی اس کا تعلق نہ صرف عالمِ امر سے ہے بلکہ وہ عالمِ خلق سے بھی متعلق ہے کہ وہ بیک وقت کلمۂ “کن” کا ظہور بھی ہے اور تخلیق کا آخری نتیجہ بھی، جس کی تفصیل آگے آئے گی۔

 

اِس موضوع کے بارے میں سب سے بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے نزدیک تخلیق کا کون سا تصوّر درست ہے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ خدا نے تخلیق کا کام کچھ اس طرح سے کیا کہ اُس نے پہلے کبھی ایسا کام نہیں کیا تھا؟  یا یہ صحیح ہے کہ جس طرح وہ ذاتِ پاک کسی ابتداء و انتہا کے بغیر ہمیشہ ہمیشہ قائم ہے اسی طرح تخلیق ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لئے جاری ہے، حالانکہ امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام نے پہلے ہی سے اس سوال کا جواب مہیا کر دیا ہے، کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ تخلیق کرتا ہے، اور یہی تصوّر اسلام کا ہے، اور یہودی تصوّر اس سے مختلف ہے جو قدیم قصّوں میں پایا جاتا ہے۔

 

۴۵

 

اگر ہمارا تصوّرِ تخلیق اِس خط (لکیر ):           کی طرح ہے تو ہزاروں سوالات اُبھریں گے، جن میں سے ایک کا بھی درست جواب نہ بن پڑیگا، اور اگر ہمارا تصوّر اِس باب میں اِس دائرے:     کی طرح ہے تو کوئی سوال نہیں، اور اگر سوال پیدا بھی ہو جائے تو اس کے لئے تسلی بخش جواب بھی ہے۔

 

بزرگانِ دین اس بات کو جان چکے تھے، مگر اُن کا زمانہ ایسا نہیں تھا کہ اِس کی وضاحت کریں، تاہم انہوں نے اپنی کتابوں میں جگہ جگہ اِس مطلب کے اِشارے کئے ہیں، یہاں اِس سلسلے میں اتنا کچھ کہنا کافی ہے۔

 

فقط

نصیرہونزائی

 

۴۶

 

گوہرِ دوم

(درجاتِ دین)

 

دانشمندوں کے لئے اِس امر میں ذرا بھی شک نہیں کہ دین کی ہدایات اور تعلیمات ہمیشہ سے درجہ وار ہوا کرتی ہیں، اس لئے کہ اسلام دینِ فطرت ہے، اور اس کو قانونِ فطرت کے عین مطابق چلنا اور آگے بڑھنا ہے، یہی وجہ ہے کہ خداوندِ عالم نے دینِ حق کو راہِ راست (صراطِ مستقیم ) قرار دیا ہے، جس سے ظاہر ہے کہ مومنین کو انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کی پیروی میں منزلِ مقصود کی طرف جانا ہے، مگر یہ سفر ایک دن میں کیسے ختم ہو سکتا ہے، اس کی مسافت تو صرف قدم بقدم اور منزل بمنزل طے ہوسکتی ہے، چنانچہ دین کے اِس مقدّس راستے میں ہر قدم پر ایک چھوٹا درجہ ہے اور ہر منزل پر ایک بڑا درجہ۔

 

ہمارے جن بزرگانِ دین نے عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ کی عقلی و منطقی تشریحات سے جہاں دوسروں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا، وہاں انہوں نے اپنوں کو اِس سے اوپر کی حکمت پیش کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ تم خدا کے نور میں فنا ہوسکتے ہو، اور ایسے ارشادات کی ایک مثال یہ ہے:۔

زنورِ او تو ہستی ہمچو پَرتو

حجاب از پیش بردارو تو او شو

ترجمہ: تو اس کے نور کے عکس کی طرح ہے جس طرح کہ آئینہ میں سورج کا عکس ہوتا ہے، پس تو کثرت یعنی دوئی کے اِس پردے کو سامنے سے ہٹا کر اپنی حقیقت کو (جو ہمیشہ سے ایک ہے)  خدا میں دیکھ لے۔

 

۴۷

 

ہمارے عظیم المرتبت بزرگوں کے ایسے گرانمایہ اقوال قرآنی حکمت سے کیسے باہر ہوسکتے ہیں، لہٰذا حضور چلئے آپ سے میری جان فدا ہو! اور مولا کے دوسرے سب عزیزوں سے بھی! یہ ناچیز جان ان مومنین سے فدا ہو جو اپنے خداوند کے فرمانبردار اور حقیقی علم کو چاہنے والے ہیں، اور آج کی تحریر کے لئے آیۂ کریمہ یہ ہے:۔

 

اور آخر تم ہمارے پاس اسی  طرح تنہا آئے جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور جو ہم نے تم کو دیا تھا وہ سب اپنے پسِ پشت چھوڑ آئے (۰۶: ۹۴)۔

 

ظاہری تفسیر کے لحاظ سے یہ بات درست ہے کہ انسان دنیا و مافیہا کو اپنے پیچھے چھوڑ کر خدا کے حضور جاتا ہے، مگر بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی ہے، کیونکہ اِس فرمانِ خداوندی کی روشنی میں ظاہر ہے کہ انسان جس طرح انتہائی بلندی سے پیدا ہوتے ہوتے دنیا میں آیا تھا، یعنی وہ پہلے امرِ الٰہی میں تھا، جو مادیّت  وغیرہ سے برتر ہے، پھر ’’ کُن ‘‘ کے ذریعہ عقلِ کُلی میں ، پھر نفسِ کُلی میں آیا اور پھر دنیا میں ظاہر ہوا، اسی طرح پھر اسے زینہ بزینہ واپس جانا ہے، یہاں تک کہ وہ نفسِ کُل اور عقلِ کُل کو بھی اپنے پیچھے چھوڑ جائے، کیونکہ اس کی تخلیق کا آغاز کلمہ “کُنۡ” سے ہے اور اس کی نیستی کا تصوّر اس سے بھی اوپر ہے، اور “کُن” عقل کا تعیّن ہے اور نسیتی عالمِ امر ہے تو اسے عالمِ امر جانا ہے۔

 

اِس گوہر میں اصل بات درجاتِ دین سے متعلق تھی، مگر ضمناً دوسرے متعلقہ حقائق پر بات ہوئی، ہاں میرے عزیز، یہ ایک عام حقیقت ہے کہ قرآنی تعلیمات دین کے مختلف درجات سے منطبق کی گئی ہیں  اور واضح الفاظ میں فرمایا گیا ہے کہ لوگوں کے الگ الگ درجے ہیں، جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نہ صرف مذاہبِ عالم خدا سے قریب و دور ہونے کے مختلف درجات پر ہیں، بلکہ ضمنی اور ذیلی طور پر ایک ہی مذہب کے لوگ بھی جدا جدا مراتب رکھتے ہیں، یعنی ایک سے ایک آگے ہے اور ایک سے ایک پیچھے۔

 

عزیزانِ من! آپ جانتے ہیں کہ ایک آسمانی کتاب کے بعد دوسری کتاب

 

۴۸

 

کا نزول بھی زمانے کی ترقی کے مرتّب کئے ہوئے درجات کی وجہ سے ہے، تاکہ اہلِ زمانہ کو ان کی ذہنی و شعوری سطح کے مطابق سمجھا دیا جائے کہ دین اور آخرت کی اہمیت ایسی ہے۔

 

اِرشادِ خداوندی ہے: ھُم دَرَجٰتٌ عِندَاللّٰہِ وَ اللّٰہُ بَصِیرٌ بِمَا یَعمَلُون (۰۳: ۱۶۳) اس سے نہ صرف حدودِ دین کے تعیّن کا ثبوت ملتا ہے جیسا کہ زادالمسافرین میں اِس سلسلے میں اِس آیت کو پیش کیا گیا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس سے لوگوں کے اعمال کے مطابق مختلف درجے مرتب ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے، تو پھر اِس حقیقت سے کوئی کس طرح انکار کر سکتا ہے، کہ دین کی تعلیم یعنی قرآن اور معلمِ قرآن کی ہدایت تدریجی صورت میں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کی آسانی چاہتا ہے، وہ دینی تعلیم اور ہدایت کے معاملے میں لوگوں کو مشکل میں پھنسانا نہیں چاہتا ہے، وہ یہ ہے کہ اُس نے اپنی پُرحکمت کتاب اور امام کو لوگوں کے درمیان رکھا، تاکہ دنیا زمانہ اور لوگوں کی شعوری سطح کے مطابق ہدایت دی جائے، جبکہ قرآن اور امام کے ظاہر و باطن میں تدریجی ہدایت کی ایک کائنات موجود ہے۔

 

کامیاب مومنین جب امام کی  روحانیّت کی روشنی میں مطالعۂ قرآن کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں، تو اُن کی علمی زندگی قرآنی علم و حکمت کے مختلف مراحل و مراتب سے آگے گزرتی رہتی ہے۔

 

فقط

نصیر ہونزائی

 

۴۹

 

مچھلی کی تاویلی حکمت

 

اس پُرحکمت اور دلچسپ موضوع کے سلسلے میں میرے عزیزوں کو سب سے پہلے اپنے پاک مذہب کے اِس بنیادی اصول کو پیشِ نظر رکھنا بہت ہی ضروری ہے کہ زمانۂ نبوّت میں حضورِ اکرم صلّی اللّٰہ علیہ و آلہٖ وسلّم تنزیل کے مالک تھے اور مولانا علی صلوات اللہ علیہ تاویل کے، مگر آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد جناب امیرالمومنین علیؑ تفسیر و تاویل یعنی دین کی ظاہری تعلیم اور باطنی حکمت دونوں کے وارث و مالک ہوگئے، اس کے معنی یہ ہیں کہ پیغمبرِ خداؐ کے بعد ہر زمانے کا امام نہ صرف دین کی ظاہری ہدایات و تعلیمات کا ذریعہ ہواکرتا ہے بلکہ وہ اس کے ساتھ ساتھ باطنی حکمتوں (تاویلات) کا بھی سرچشمہ ہوتا ہے، سو جب ہم مانتے ہیں کہ امامِ اقدس و اطہر کی ذاتِ عالی صفات ایسی ہی ہے، تو اس کے نتیجے میں ہمیں اس حقیقت پر بھی یقین رکھنا ہوگا کہ امامِ برحق علیہ السّلام کے مقدّس اِرشادات کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں، ایک ظاہری جو واضح اور عام فہم ہے اور دوسرا باطنی جو تاویلی حکمت سے بھرپور ہے، تاکہ مریدوں کے لئے درجہ بدرجہ اور منزل بمنزل ظاہر و باطن کی ہدایت و رہنمائی ہوتی رہے اور غوروفکر جیسی اعلیٰ صلاحیت سے کام لیا جائے۔

 

آپ عزیزوں میں سے کوئی شاید یہ سوال اُٹھائے گا کہ بموجبِ فرمودۂ رسولؐ: اِنَّ مِنکُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جس کا مطلب یہ ہے کہ ) علیؑ قرآنی تاویل پر جنگ کرے گا، یعنی ہر امامِ حق جو اپنے وقت کا علیؑ ہے لوگوں کو جیسی بھی ہدایت و تعلیم پیش کرے، وہی قرآنِ پاک کی صحیح تاویل ہوگی، چنانچہ اس سے ظاہر ہے کہ امامِ عالیمقامؑ کے تمام ارشادات قرآن کی حل کردہ تاویلات

 

۵۰

 

کی حیثیت سے ہیں، تو پھر ان کی مزید تاویل کرنے کی گنجائش کہاں ہے، جبکہ یہ خود تاویل ہیں، اور ان کا باطنی پہلو کیسے بنتا ہے؟

 

جواب (الف): یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ منازلِ راہِ اسلام میں شریعت ظاہر ہے اور طریقت اس کا باطن، مگر شاید اِس بیان سے کسی کو تعجب ہو کہ طریقت کی دو حیثیتیں ہیں، یعنی یہ شریعت کے مقابلے میں باطن ہے اور حقیقت کی نسبت سے ظاہر، اسی طرح حقیقت کے بھی دو رُخ (پہلو) ہیں، ایک یہ کہ وہ طریقت کا باطن ہے اور دوسرا یہ کہ وہ معرفت کا ظاہر ہے، مگر معرفت ایسی چیز ہے کہ یہ صرف باطن ہی باطن ہے، جس طرح صراطِ مستقیم کے اُس سرے پر شریعت سب سے ظاہر ہے۔ پس اس روشن مثال سے ہر دانشمند مومن بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ہادیٔ برحق کی ہدایات و تعلیمات کیسی ہیں۔

 

ب): دوسری مثال اِس مبارک فرمان سے لیجئے، جو حضرت امام آقا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا پاکیزہ ارشاد ہے: “انسان کا درجہ بلند ہے، لیکن وہ اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں نیچے گرا دیتا ہے، تم میں سے کوئی کوشش کرے کہ ہم پیر صدرالدّینؒ، پیرشمسؒ یا منصورؒ جیسے بنیں، تو تم ایسے بن سکتے ہو، تم اِس سے بھی اوپر جا سکتے ہو۔”

 

عیان ہے کہ اِس پاک ارشاد کے ظاہری و باطنی دو پہلو ہیں، اس میں جو کچھ ظاہر ہے، اس کے ثبوت کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ تو خود ظاہر ہی ہے، مگر اس کے باطنی پہلو کو ثابت کرنے کے لئے دلیل چاہئے، اور وہ دلیل ذیل کے سوالات سے مل سکتی ہے، کیونکہ کسی ارشاد میں سوال اس وقت اٹھتا ہے جبکہ اس میں تاویل پوشیدہ ہوتی ہے، سوالات یہ ہیں:۔

سوال ۱ : انسان کا بلند ترین درجہ کیا ہے، اور اس کو حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ کونسا ہے ؟

سوال ۲: یہ انسان کونسا ہے،جو خود کو نیچے گرا دیتا ہے؟ آیا وہ حقیقی مومن ہے یا کوئی غیر؟

 

۵۱

 

سوال ۳: فرمایا ہے کہ “تم میں سے” تو کیا اس سے سب انسان مقصود ہیں یا کہ یہ خطاب صرف مومنین ہی سے کیا گیاہے؟

سوال ۴: اگر حقیقی مومنین کے لئے مذکورہ پیروں اور منصور کا سا درجہ حاصل کرنا ممکن ہے تو ہم ان کو کن کن علامات سے پہچان سکیں گے؟ آیا اس کی ضرورت ہے یا نہیں؟ کیا ایسے حضرات سے جماعت کو فائدہ ہونا چاہیے ؟

سوال ۵: اِس پاک ارشاد میں ہمارے بزرگ پیروں کے ساتھ منصورِ حلّاج کی مثال پیش کی گئی ہے، آیا وہ امام کے مرید تھے؟ نہیں تو یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایک مردِ صوفی ہمارے عظیم المرتبت پیروں کے ساتھ ساتھ چل سکتا ہو؟

سوال ۶: فرمایا گیا ہے کہ: “تم اِس سے بھی اوپر جا سکتے ہو” اس کے کیا معنی ہیں؟ پس یہ سوالات ایسے ہیں کہ اِن سے مذکورۂ بالا فرمانِ مبارک کے تاویلی پہلو کا بیّن ثبوت ملتا ہے، اور تاویلی حکمت کے بغیر ان کی تحلیل ممکن نہیں ۔

 

ج): تیسری مثال ملاحظہ ہو، ارشاد ہے کہ: “کئی ہزار سال گزر گئے، اِس (عرصے) میں کتنے افراد مقصدِ (اعلیٰ) کو پہنچ گئے؟ منصور، پیر شمس اور دنیا کے دیگر چند افراد پہنچ گئے، ان سب کا کام اور راستہ ایک ہی جیسا تھا، جو وہاں پہنچ گئے وہ اپنی روح کے عاشق تھے، روح کے دوست تھے وہ اس مقام پر پہنچ گئے۔” اس مقدّس فرمان میں بھی کئی تاویل طلب سوالات موجود ہیں، خاص کر اپنی روح پر عاشق ہونے میں سب سے عظیم سوال ہے۔

 

اب میں خداوندِ برحق کی توفیق و تائید سے “مچھلی کی تاویلی حکمت” کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، کہ مچھلی سے جسمِ لطیف مراد ہے، کیونکہ یہ اپنی لطافت کے سبب سے ہمیشہ روحانی علم کے سمندر میں رہتا ہے، جس طرح دنیا کی مچھلی ہر وقت ظاہری پانی میں تیرتی رہتی ہے، جیسے قرآنِ پاک کہتا ہے کہ: خداوندِعالم کا تخت پانی پر تھا (۱۱: ۰۷) یعنی لوگوں کی موجودہ خلقت سے قبل خدائے پاک و برتر کا تخت جُثّۂ ابداعیّہ کی صورت میں بحرِ محیطِ علم پر قائم

 

۵۲

 

تھا، اور اسی ربّانی و نورانی تخت کو آبِ علم کی مناسبت سے مچھلی بھی کہا گیا ہے۔

 

سورۂ قلم کے آغاز میں حضرتِ ربّ العزّت کا ارشاد ہے کہ: قسم ہے مچھلی کی اور قلم کی اور اُس چیز کی جو لکھتے ہیں (۶۸: ۰۱) یعنی قسم ہے مُبدعِ اوّل کی جس کا نوانی ظہور جثّۂ ابداعیّہ میں تھا اور عقلِ کُلّ کی جو قلمِ قدرت ہے اور نفسِ کُلّ کی جو کائناتی تحریر کی صورت اور لوحِ محفوظ ہے۔

 

جس طرح اجسامِ کثیف کے اچھے اور بُرے بے شمار درجات مقرر ہیں، اسی طرح اجسامِ لطیف کے بھی لاتعداد مراتب موجود ہیں، چنانچہ حضرت یونس علیہ السّلام اپنی روحانی آزمائش کے دوران اُصولاً جسمِ لطیف کی گرفت میں آگیا تھا، جیسا کہ ارشادِ قرآنی ہے کہ: پھر اگر یونسؑ (خداکی) تسبیح (اور ذکر) نہ کرتے تو روزِ قیامت تک مچھلی ہی کے پیٹ میں رہتے (۱۴۴: ۳۷) یعنی روحانی انقلاب کے سلسلے میں حضرت یونسؑ لطیف ذرّات کے گھیرے میں آگیا تھا، اور اِس حالت کی تشبیہہ ایک بڑی مچھلی سے دی گئی ہے ورنہ کسی ظاہری مچھلی کے پیٹ میں تسبیح و عبادت اور زیادہ عرصے تک زندہ رہنا محال ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے جُثّۂ اِبداعی میں ظہورِ نور اور اس کے دیدار کے لئے درخواست کی تھی، یہ ایسا پُرجلال اور بیمثال ہے کہ موسیٰؑ اس کی ایک ہی جھلک سے بیہوش ہوگیا، یعنی محوِ حیرت ہوگیا، کہ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں سمجھتا تھا۔

 

 

فقط آپ کا خادم

نصیر ہونزائی

۱۸ دسمبر ۱۹۸۰ ء

 

۵۳

 

کتاب اور حکمت

 

قرآنِ مجید میں ایسی بہت سی آیتیں ہیں، جن سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ کتاب الگ ہے اور حکمت الگ، چنانچہ پہلے کتاب کی تعلیم ہے اور اس کے بعد کتاب کی روح یعنی حکمت کی تعلیم، سو کتاب تنزیل ہے اور حکمت تاویل، جیسے حضرت ابراہیمؑ کی دعا کی صورت میں قرآن کا ارشاد ہے:۔

 

“اے ہمارے پروردگار اس جماعت کے اندر انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر مقرر کیجئے جو ان لوگوں کو آپ کی آیتیں پڑھ کر سنایا کرے اور ان کو (آسمانی) کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیا کرے اور ان کو پاک کر دے” (۰۲: ۱۲۹)۔

 

یہ ابراہیم خلیل اللہؑ کی وہ دعا ہے جو حضورِ انورؐ کی بعثت کے لئے کی گئی تھی، اس میں یہ ظاہر ہے کہ پیغمبرؐ کے چار کام ہیں: اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھ کر سنانا، یعنی قرآنی احکام لوگوں کے سامنے رکھنا، کتاب سکھانا یعنی احکامِ قرآن پر عمل کرکے دکھانا جو عملی تعلیم ہے،  روحانیّت کے دروازے کو کھول کر حکمت سکھانا جو ظاہری کتاب سے الگ ہے مگر اس کی عملی تاویل ہے، اور پھر ان کو پاک و پاکیزہ کر دینا، جو سب سے آخر میں ہے۔

 

لوگوں کو آیتیں پڑھ کر سنانا اور کتاب عملی صورت میں سکھانا یہ پیغمبرؐ کا ظاہری کام ہے، حکمت سکھانا اور پاک کر دینا یہ آنحضرتؐ کا باطنی (روحانی) کام ہے، حضورِ انورؐ نے یہ کام زمانۂ نبوّت میں ذاتی طور پر انجام دیا، اور آپؐ کے بعد یہ کام آپ کی نسل کے سلسلۂ امامت نے انجام دیا، اس تصوّر کے بغیر مذکورہ ارشادِ قرآنی کے معنی صرف زمانۂ نبوّت تک محدود ہو جاتے ہیں۔

 

۵۴

 

کتاب جسم کی طرح ہے اور حکمت روح اور  روحانیّت ہے، اِس کے معنی یہ ہوئے کہ قرآنی حکمت کا راستہ ظاہر میں نہیں باطن میں ہے، جس کی رہنمائی پیغمبرؐ کے بعد صرف زمانے کا امامؑ ہی کر سکتا ہے، اور یہ رہنمائی امام کی حقیقی تابعداری اور خدا کی خصوصی عبادت میں ہے۔

 

جب قرآن میں حکمت یا تاویل کا ذکر آتا ہے تو اس سے  روحانیّت مراد ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ کتاب (قرآن) کی عملی تعلیم الگ ہے اور حکمت یا عملی تاویل الگ، اور ایسی حکمت خیرِ کثیر ہے  یعنی جس کو  روحانیّت حاصل ہوتی ہے، اس کو حکمت ملتی ہے اور حکمت خیرِ کثیر ہے۔

 

تاویل یا حکمت دو قسم کی ہے ایک کتابی ہے اور دوسری روحانی، مگر جو حکمت کتاب (قرآن) میں ہے اس کا تعلّق زیادہ سے زیادہ  روحانیّت سے ہے، کیونکہ وہ صرف  روحانیّت کی روشنی میں معلوم ہو سکتی ہے، لہٰذا وہ روحانی حکمت کے تحت ہے، چنانچہ  روحانیّت جو نورِ امامت کی روشنی ہے، وہ قرآن کے لئے روشنی ہے۔

 

اس حکمِ خداوندی میں پیغمبرؐ اور آپؐ کے جانشین (امام) کے جن چار کاموں کا ذکر آیا ہے، اُن میں مومنین کی پاکیزگی سب سے آخری چیز ہے، اس کا مطلب یہ ہُوا کہ آیات پڑھ کر سنانا کتاب کے مقصد کے لئے ہے، کتاب سکھانے کا مقصد حکمت سے نزدیکی ہے اور حکمت کی تعلیم نفوسِ مومنین کی پاکیزگی کے لئے ہے تاکہ ابدی نجات حاصل ہو۔

 

اس بیان سے یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ نفوسِ مومنین کی پاکیزگی کے واسطے حکمت ضروری اور لازمی ہے، اس کے بغیر تزکیّۂ نفس ناممکن ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ آنحضرتؐ حکمت کا گھر ہیں اور علیؑ (یعنی امامِ زمانؑ) اس کا دروازہ پس جس کو حکمت چاہئے، وہ زمانے کے امام کے وسیلے سے مرتبۂ رسولؐ کو پہچان لے۔

 

آیۂ تطہیر (۳۳: ۳۳) میں اہلِ بیت (پنجتنِ پاک) کی پاکیزگی کا ذکر ہے ان حضرات کی یہ پاکیزگی بھی حکمت کے بغیر نہیں ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکمتِ بالغہ

 

۵۵

 

عطا کر دی تھی، اس لئے وہ بدرجۂ انتہا پاک و پاکیزہ تھے۔

 

علم نور ہے اور حکمت نور کا آخری درجہ، لہٰذا اے عزیزان علم و حکمت کے لئے ساعی رہنا اور ہر قیمت پر اس کو حاصل کرنا، دعا ہے کہ خداوند اس نیک کوشش میں آپ کا مددگار ہو! آمین!!

 

نوٹ:

۱۔ اللہ نے قرآن پر روشنی ڈالنے کے لیے جو نور مقرر کر دیا ہے وہ باطن میں اور  روحانیّت کی حیثیت میں ہے اور وہی حکمت ہے۔

۲۔ اسماعیلیّت میں جو خصوصی عبادت کا اہتمام کیا گیا ہے وہ باطنی طور پر قرآن کی روح اور  روحانیّت پانے کے لئے ہے اور یہی  روحانیّت حکمت اور عملی تاویل ہے۔

 

فقط آپ کا خادم

نصیرہونزائی

۴ اگست ۱۹۸۰ء

 

۵۶

 

ظاہری اور باطنی نعمتیں

 

بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم نعمت ہر اُس حلال چیز کا نام ہے جس سے انسان کو ظاہر میں یا باطن میں راحت اور مسرّت و شادمانی حاصل ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ایسی لاتعداد چیزیں پیدا کر دی ہیں جو جسم، جان اور عقل کے لئے نعمتوں کی حیثیت سے ہیں، چنانچہ ان نعمتوں کی تین قسمیں ہیں، جسمانی، روحانی اور عقلی نعمتیں، اِس سلسلے میں جسمانی نعمتیں ادنیٰ درجے پر ہیں، عقلی نعمتیں اعلیٰ درجے پر ہیں اور روحانی نعمتیں درمیان میں واقع ہیں۔

 

قرآنِ مقدّس کا ارشاد ہے کہ: کیا تم لوگ نہیں دیکھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں ہیں اور اس نے تم پر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی پوری کر رکھی ہیں (۳۱: ۲۰)۔

 

اِس فرمانِ خداوندی میں بزبانِ حکمت فرمایا گیا ہے کہ اِس کائنات کا ایک جسم ہے، ایک روح ہے، اور ایک عقل، اور اِن تینوں درجات میں انسان کے لئے ظاہری اور باطنی نعمتیں مکمّل اور مہیّا ہیں، ظاہری نعمتیں جسم کی خاطر ہیں اور باطنی نعمتیں جان اور عقل کے لئے، کیونکہ جسم ظاہر ہے اور جان و عقل باطن ہیں۔

 

اِس بیان سے معلوم ہُوا کہ ظاہری نعمتوں سے باطنی نعمتیں اعلیٰ و افضل ہیں، کیونکہ ظاہری چیزیں مادّی اور جسمانی ہیں، اور باطنی اشیاء روحی اور عقلی ہیں، جو بہتر اور برتر ہیں، اِس لئے کہ یہ نعمتیں بذاتِ خود قائم اور دائم ہیں۔

 

یہ ایک قرآنی (۰۵: ۰۳) حقیقت ہے کہ دینِ اسلام اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی مکمّل ترین

 

۵۷

 

اور عظیم ترین نعمت ہے کہ اس میں بے شمار نعمتیں سموئی ہوئی ہیں، اور ان میں زیادہ سے زیادہ نعمتیں باطنی ہیں، کیونکہ انسان کی ظاہری حیثیّت باعتبارِ جسم محدود ہے اور باطنی حیثیّت بلحاظِ روح اور عقل لامحدود ہے، پس یہ حقیقت روشن ہوئی کہ اصلی اور حقیقی نعمتیں دین کے باطن میں پوشیدہ ہیں، جن میں روح اور عقل کے لئے اعلیٰ درجے کی لذّتیں اور راحتیں موجود ہیں۔

 

رسولِ اکرمؐ کے وجودِ مبارک یا آپؐ کے جانشین (امامؑ) کی موجودگی کے سوا دین کے مکمّل ہو جانے کا کوئی تصوّر نہیں، اور نہ ہی ہادیٔ برحق کے بغیر اللہ کی کوئی عظیم نعمت حاصل ہو سکتی ہے، کیونکہ دین صراطِ مستقیم ہے، یعنی سیدھی راہ، لہٰذا دین رہنما کے بغیر مکمّل نہیں کہلا سکتا ہے۔

 

قرآن کے ظاہر و باطن کے درمیان کم سے کم فرق کی مثال ایسی ہے، جیسے پھل اور مغز ہیں، پس قرآن کی ہر آیت بلکہ ہر لفظ ایک نعمت (میوہ) ہے اور اس کی حکمت و تاویل مغز ہے۔

 

خداوند تعالیٰ کی صرف ظاہری نعمتوں پر اکتفاء کرنا اور باطنی نعمتوں کی جستجو نہ کرنا بہت بڑی بیقدری اور ناشکری ہے، جس کی وجہ جہالت و نادانی اور اندھاپن ہے، جس کے بارے میں قرآنِ کریم کا ارشاد ہے کہ: اور جو شخص دنیا میں اندھا رہے گا سو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا اور زیادہ راہ گُم کردہ ہوگا (۱۷: ۷۲) جاننا چاہئے کہ امامِ زمان علیہ السّلام کی معرفت کا نہ ہونا ہی اندھاپن ہے، کیونکہ سورۂ بنی اسرائیل رکوع۷ آیت ۷۱ میں امام کا ذکر ہے اور آیت ۷۲ میں مذکورۂ بالا ارشاد ہے، سو ظاہر ہے کہ بصیرت اور ہدایت امام شناسی کا نتیجہ ہے اور اِس کے برعکس اندھاپن اور گمراہی انکارِ امامت کا نتیجہ ہے۔

 

اس مطلب کی تشریح یہ ہے کہ جو نورِ ہدایت کے دیکھنے سے اندھا ہے وہ زمانۂ نبوّت اور پوری تاریخ سے بھی اندھا ہے، پھر ایسا شخص قرآن سے بھی اندھا ہے اور تمام باطنی نعمتوں سے بھی۔

 

۵۸

 

جو خوش نصیب انسان باطنی نعمتوں کو پہچانےوہ بہشت کو پہچانتا ہے اور جو شخص دنیا میں بہشت کو پہچانے ،وہ کل بروز آخرت ہمیشہ کے لئے بہشت میں داخل ہوگا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور اِن کو جنّت میں داخل کرے گا جس کی ان کو پہچان کرا دی ہے (۴۷: ۰۶)۔

 

یاد رہے کہ دینِ اسلام کامل اور مکمّل ہے، اس میں کسی چیز کی کمی نہیں، اس میں نور بھی ہے اور قرآن بھی، ظاہری نعمتیں بھی ہیں اور باطنی نعمتیں بھی، اور جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ ماضی میں جو ہدایت کا وسیلہ تھا وہ اب موجود نہیں، تو ایسا شخص نورِ ہدایت سے منکر ہے۔

 

فقط آپ کا دُعا گو

نصیرؔ ہونزائی

۶ اگست ۱۹۸۰ ء

 

۵۹

 

 

جُزوی موت کی حکمت

 

ا۔ اِس دنیا کے کئی ناموں میں سے ایک نام “عالمِ کَون و فساد” ہے، یعنی ایسی دُنیا جس کی چیزیں ایک طرف بنتی رہتی ہیں، اور دوسری جانب بگڑتی جاتی ہیں، خواہ ساری کائنات ہو، یا صرف کُرّۂ ارض، بہرحال قانونِ فطرت یہی ہے کہ اِس میں کَون و فساد (بننا اور بگڑنا) دونوں روز و شب کی طرح ایک دوسرے کے پیچھے جاری و ساری ہیں، اور ہر دانشمند کو یقین ہے کہ قدرت کے اسی نظامِ بُودنی و نابُودنی میں بڑی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں

 

۲۔ آپ ذرا لفظِ “کائِنات” کی لُغوی تحلیل کرکے دیکھئے: کَون (ہونا، بننا) کائِن (ہونے والاواقعہ) کائِنۃُ (کائِن کی مؤنث، حادثہ، واقعہ، بننے والی چیز) اور کائِنۃُ کی جمع کائِنات ہے، جس سے یہ عالمِ ظاہر مراد ہے، کیونکہ اس میں حادثات، واقعات اور موجودات کا وُجود بنتا ہے، اور ظاہر و عیان ہے کہ یہ الفاظ: کائِن،کائِنۃُ، کائِنات اور کوائِن سب فاعل کے معنی رکھتے ہیں، اور فاعل وہ ہے کہ جب تک موجود ہو، تب تک اس کا فعل جاری رہتا ہے، پس کائنات اللہ تبارک و تعالیٰ کا وہ کارخانۂ ظاہر ہے، جس میں ہر گونہ چیزیں نہ صرف بنائی جاتی ہیں، بلکہ اپنے اپنے وقت پر مٹائی بھی جاتی ہیں۔

 

۳۔ جب ہم نظامِ شمسی کی کوئی بات کرنے لگتے ہیں، تو آج کی جدید سائنس بجا طور پر ٹوکتے ہوئے حکم دیتی ہے کہ “نظامہائے شموسی” کے بارے میں کچھ جان لو، اور یہ بات بالکل درست ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم جو دفعۃً نہیں، بلکہ رفتہ رفتہ نازل ہُوا تھا (۱۷: ۱۰۶) وہ

 

۶۰

 

اپنے تدریجی نزول کی مثال سے اشارہ فرما رہا ہے کہ اس کی ہدایات و تعلیمات قانونِ فطرت کے عین مطابق بتدریج جاری و ساری ہیں، اور قانونِ فطرت وہ نظامِ تخلیق و تکمیل ہے، جس کے تحت ہر ہر چیز پیدا ہو کر درجہ بدرجہ ترقی کرتی ہے، پس اگر عصرِ حاضر میں سائنس کی بدولت ایک کائنات کی بجائے بہت سی کائناتوں کا پتا چلا ہے، تو کیا ہُوا، جبکہ قرآنِ کریم نے شروع شروع میں زیادہ سے زیادہ توجّہ دینِ حق کی طرف دلائی، اور کائنات کے بارے میں بزبانِ حکمت فرمایا گیا کہ اس کی علمی توسیع بعد میں کی جائے گی (۵۱: ۴۷) بہرکیف دنیائیں جتنی بھی ہوں، وہ سب کی سب خدائے واحد و یکتا کی پیدا کردہ ہیں، اور اُن سب کا ایک ہی قانونِ فطرت ہے، یعنی ہر مادّی دنیا کے لئے یہی قانون مقرر ہے کہ چیزیں عدم سے وجود میں آتی ہیں، اُن میں جُزوی فنا کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اور پھر وقت آنے پر معدوم ہو جاتی ہیں۔

 

۴۔ ہر ذی حیات مخلوق میں کُلی موت سے قبل جُزوی موت کا ایک سلسلہ جاتا ہے، اور ہر بے جان شیٔ میں کُلّی فنا سے پہلے ہر وقت جُزوی فنا نظر آتی ہے، مثال کے طور پر شعلۂ شمع کو غور سے دیکھئے کہ کس طرح اس میں وُجود و عدم (ہونا اور نہ ہونا) باہم مل کر کام کر رہے ہیں، یعنی سب سے پہلے موم بتّی نار و نور کے زیرِ اثر سلسلہ وار فنا ہو کر تیل بنتی رہتی ہے، تیل آگ میں، آگ شعلے میں، اور رنگین شعلہ آتشِ بے رنگ میں فنا ہو کر منتشِر ہو جاتا ہے، مگر تعجب یہ ہے کہ سطحی طور پر دیکھنے والوں کو شمع، چراغ، لالٹین، گیس لیمپ، بلب، وغیرہ کی اِس جزوی اور ذیلی بقا و فنا کا کوئی علم نہیں ہوتا، اور یوں لگتا ہے، جیسے ان میں سے ہر ایک کا شعلہ ساکن ہو، حالانکہ اس میں جُزئیاتی وُجود و عدم دونوں روان دوان ہیں، یہی مثال خورشیدِ جہان آرا کے طوفانی شعلوں کی بھی ہے کہ اگرچہ آفتابِ عالمتاب کا ذخیرۂ انوار انتہائی عظیم ہے، تاہم اس کا بے پناہ ہمہ جہتی اور گول اِخراج و صرف، جو گیس لائٹ (Gas Light) کی طرح ہر سُو پھیلتا رہتا ہے، وہ مقدار میں اتنا زیادہ اور زبردست ہے، کہ اس

 

۶۱

 

کی شعاعوں کے بحرِ محیط میں جملہ کائنات ڈوب جاتی ہے، اور اِس سلسلۂ عمل میں سورج بار بار بن بھی جاتا ہے اور بار بار ختم بھی ہو جاتا ہے۔

 

۵۔ سمندر کا وُجود اِس قانونِ فطرت سے کیسے مُستثنیٰ قرار پا سکتا تھا، چنانچہ وہ بھی ہمیشہ واقعۂ کَون و فساد، یعنی بننے اور بگڑنے کے تحت ہے، وہ اِس طرح کہ دُنیا کے عظیم دریاؤں سے ہر لمحہ اس کا وجود بنتا رہتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اس کی مجموعی سطح سے بُخارات اُٹھتے رہنے سے وہ جزوی طور پر فنا ہو جاتا ہے، یہی عالم بادلوں کا بھی ہے، کہ وہ دائم بقا و فنا کے تختۂ مشق ہوتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

 

۶۔ مذکورۂ بالا مثالیں، اور ان کی تفصیلات کیوں ضروری ہیں؟ کیا آفاق و انفُس میں خدا کی نشانیاں ایک جیسی ہیں (۴۱: ۵۳)؟ آیا عالمِ صغیر (پرسنل ورلڈ) کی معرفت کے لئے دُنیائے ظاہر کا بغور مطالعہ لازمی ہے (۵۱: ۲۱)؟ جی ہاں، بفرمودۂ حضرتِ علی علیہ السّلام عالمِ اکبر انسان کی ذات میں لپیٹا ہوا ہے، یا لپیٹ لیا جاتا ہے  (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) اور اِس فعلِ خدائی کا مقصد یہ ہے کہ کائنات بھر کی حقیقتیں اور معرفتیں انسان کے باطن میں مرکوز کر دی جائیں، تاکہ وہ اِن حقائق و معارف کا خوب سے خوب ترمطالعہ کرکے کمال حاصل کرسکے، پس مطالعۂ آیاتِ خداوندی ہر مومن کے لئے بے حد ضروری ہے، کیونکہ حکمت مومن کی گُم شدہ چیز ہے ( الحکمۃُ ضالۃُ المومن ۔ حدیث) اور اِس کھوئی ہوئی شیٔ کی تلاش کے لئے تین مقام مقرر ہیں، جو قرآنِ حکیم، آفاق، اور انفس(عوالمِ شخصی) ہیں۔

 

۷۔ آپ جس وقت باغ و چمن کی سَیر و تفریح کے لئے جاتے ہیں، تو شاید بتقاضائے طبیعت کسی عمدہ پھول کو، جو عطرِ اعلیٰ کی دولت سے مالا مال ہو، سونگھ لیتے ہیں، اب میں اس بارے میں مؤدّبانہ سوال کرنا چاہوں گا کہ یہ خوشبو کیا چیز ہے، جو آپ نے اِس گُلِ رعنا سے محسوس کی تھی؟ روحِ نباتی کے سِوا اور کیا ہو سکتی ہے، گلاب کا پھول جب سے کھِل کر زندہ ہو جاتا ہے، تب سے مسلسل اُس کی جان (یعنی خوشبو) نکلتی رہتی ہے، اور ساتھ

 

۶۲

 

ہی ساتھ متواتر اس کی تازہ ترین روح بنتی رہتی ہے، یہ روحِ نامیہ/ روحِ نباتی کی جُزوی موت کی ایک روشن دلیل ہے، جس سے یہ حقیقت نکھر نکھر کر بدرجۂ علم الیقین چشمِ بصیرت کے سامنے آجاتی ہے کہ زندگی ایک حرکت کا نام ہے، جس کی یہاں چند قابلِ فہم مثالیں درج کی گئی ہیں۔

 

۸۔ یہاں کوئی ہوشمند ضرور یہ سوال کرے گا کہ اگر گلاب کا پھول ہنستے اور مہکتے ہوئے جزوی طور پر جان دیتا رہتا ہے، تو پھر یہ بھی بتا دیجئے کہ اگربتی جو ایک بے جان چیز ہے، اس کی خوشبو میں کون سی روح ہوتی ہے؟ میں جواباً عاجزی سے عرض کروں گا کہ اگربتی جیسی چیزوں کے جلانے سے جو خوشبو آتی ہے، وہ روحِ منجمد کا کرشمہ ہے، جس کی تحلیل آگ سے ہو جاتی ہے، مگر صندل (چندن) جیسی چیزوں میں جو نباتی روح منجمد ہوتی ہے، اس کی تحلیل گِھسنے سے ہو جاتی ہے۔

 

۹۔ اب اِن پُرمایہ مثالوں کی روشنی میں انسان کی جُزوی موت کا بیان کریں گے، کہ وہ بھی بجائے خود ایک عالمِ کون و فساد ہے، یعنی وہ ایک طرف سے بنتا رہتا ہے، اور دوسری جانب سے اسی رفتار میں بگڑتا بھی ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہ وُجودِ آدمی گویا پانی کا ایک تالاب ہے، اور وہ اس طرح بھرا ہُوا ہے کہ مدخِل سے ہمیشہ پانی داخل ہو رہا ہے، اور مخرج سے ہر وقت خارج ہوتا جارہا ہے، یہ نہ صرف جسم کی بات ہے، بلکہ اس میں روح کا بھی تذکرہ ہے۔

 

۱۰۔ گلہائے خوش رنگ و خوشبو کی ارواح انکی مہک پر سوار ہو کر پھیل جاتی ہیں، اور آدمی کی خوشبو اس کا قول و فعل ہے، لہٰذا اس کی روح گفتگو اور بدنی حرکتوں سے جُزوی طور پر صَرف ہوتی رہتی ہے، وہ سانس اور خیالات و افکار میں بھی خرچ ہو جاتی ہے، اگر آدمی خاموش بیٹھا ہے، تو تب بھی روح کا جُزوی اِخراج جاری رہتا ہے، تاہم نیند کے دوران بڑے پیمانے پر ذرّاتِ روح کا تبادلہ ہو جاتا ہے، جس کا ذکر قرآنِ کریم (۳۹: ۴۲)

 

۶۳

 

میں واضح طور پر موجود ہے۔

 

۱۱۔ اسلام میں چالیس دن کی بہت بڑی اہمیّت اس وجہ سے ہے کہ اُس مدّت میں آدمی کے جسم و جان کی سراسر اور مکمّل تجدید ہو جاتی ہے، چِلّہ (چالیس دن کا عرصہ) اتنا کافی وقت ہوتا ہے کہ اس میں تمام خلّیاتِ بدن اور ذرّاتِ روح کی شِکست و ریخت کے بعد از سرِ نَو تعمیر ہو جاتی ہے، یہ بڑا عجیب واقعہ ہے کہ اُس عرصے میں انسان جُزوی موت کی قسطوں میں مرتے مرتے ایک کامل موت سے دوچار ہو جاتا ہے، ساتھ ہی ساتھ وہ زندہ بھی ہو جاتا ہے، حالانکہ اُس کو کوئی پتا ہی نہیں چلتا، یہی سبب ہے کہ چالیس دن کی کوئی خصوصی اور عاکِفانہ عبادت بڑی حد تک نتیجہ خیز اور بار آور ثابت ہو جاتی ہے، اور آپ جانتے ہوں گے کہ حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کی ایک بڑی اہم عبادت چالیس (۴۰) رات کی تھی (۰۷: ۱۴۲) ۔

 

۱۲۔ روحِ انسانی کا مسلسل اخراج اور جزوی موت کا ایک سائنسی ثبوت ہالۂ نور ہے، جس کو اورا (Aura) کہا جاتا ہے، یہ دراصل روحِ حیوانی کی خارج شُدہ کرنوں کا کُنڈل ہوتا ہے، نفسِ حیوانی آدمی کے پورے بدن میں پھیلا ہُواہے، لہٰذا روشنی کا یہ ہالہ (کُنڈل) تمام جسم سے نکلتا رہتا ہے، تاہم یہ صرف روحِ حیوانی کی روشنی ہے، اور اصل نور ہرگز نہیں، جس طرح کِرمِ شب چراغ (جُگنو = Firefly) میں اس روشنی کا ایک نمایان نمونہ ہوتا ہے، تو کوئی دانشمند کِرمکِ شب افروز کو کس طرح کسی بڑے نور کا درجہ دے سکتا ہے، بہرحال جُگنو کی مثال سے اس حقیقت کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ وجودِ آدمی کا چراغ ہمیشہ جلتا رہتا ہے، اور درجہ بدرجہ اس کی روشنی پھیلتی جاتی ہے۔

 

۱۳۔ جب انسان محنتِ شاقّہ سے تھک کر چُور چُور ہو جاتا ہے، جس وقت شدید بیماری سے لاغر و کمزور پڑتا ہے، اور جب کئی روز تک اس کی خوراک میں کمی واقع ہو جاتی ہے تو اُس وقت اس کے بہت سے خلیے (Cells) ضائع ہو کر جُزوی موت کی علامت واضح ہو جاتی ہے، مگر عام حالت میں اِس پُرحکمت موت کا پتا نہیں چلتا، جیسے ہوائی جہاز

 

۶۴

 

کی بلند پرواز کے دوران لوگ کسی نہر یا دریا کو تو دیکھ لیتے ہیں، لیکن پانی کی روانی کو نہیں دیکھ سکتے، الغرض جُزوی موت کی حکمت بڑی عجیب و غریب ہے، لہٰذایہ علمی علاج کے سلسلے میں ازحد مفید ثابت ہو سکتی ہے۔

 

فقط

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۱۹ ، جون ۱۹۸۷ء

جمعہ ۲۲، شوال ۱۴۰۷ھ

 

۶۵

 

دُہری موت اور دُہری زندگی

 

اِس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں غافل اور جاہل لوگ جیتے جی غفلت و جہالت کی موت مرتے ہیں، اور اس کے بعد وہ ابدی طور پر مرنے والے ہیں، اور جو ذکر و معرفت والے ہیں وہ آج زندہ ہیں اور کل وہ زندۂ جاوید ہو جانے والے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لِیُنذِرَ مَنْ کَانَ حَیًّا وَّ یَحِقَّ القَوْلُ عَلَی الکٰفِرِیْنَ (۳۶: ۷۰) تاکہ ایسے شخص کو ڈرائے جو زندہ ہے اور تاکہ کافروں پر (عذاب کی) حجّت ثابت ہو جائے۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ مومن اس جہان میں محدود پیمانے پر زندہ ہے اور دوسرے جہان میں وسیع پیمانے پر زندہ ہو جائے گا، مگر کافر دنیا میں جیتے جی مرچکا ہے اور آخرت میں ہمیشہ کے لئے مر جائے گا۔

 

یہی مطلب سورۂ انفال آیت ۴۲ میں بھی ہے: لِیَھلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحیٰی مَنْ حیَّ عَن بَیِّنَۃٍ (۰۸: ۴۲) تاکہ ہلاک ہو وہ شخص جو دلیلِ روشن سے ہلاک ہوگیا ہو اور زندہ ہو جو دلیلِ روشن سے زندہ ہوگیا ہو۔ یعنی جو مذہبی طور پر حقیقت کی روح رکھتا ہے وہ زندہ ہے اور جو ایسا نہیں باطل پر ہے وہ مردہ ہے، پس قانونِ قدرت یہ چاہتا ہے کہ جو آج حق پر ہے اور زندہ ہے تو اس کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا جائے، اور جو اس کے برعکس باطل پر ہے اور مردہ ہے تو اس کو ہمیشہ کے لئے ہلاک کر دیا جائے۔

 

اس سے ظاہر ہے کہ اسلام تقلید کا مذہب نہیں بلکہ عقل و منطق کا مذہب ہے، یہی وجہ ہے کہ مذکورۂ بالا آیت میں روشن دلیلوں کو مذہبی زندگی کی علامت قرار دی گئی ہیں، اور

 

۶۶

 

فرمایا گیا ہے کہ جس کا مذہب خدا کے نزدیک روشن دلائل پر مبنی ہے وہی زندہ ہے اور جس کے مذہب کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے وہ مرچکا ہے، اگرچہ بظاہر زندہ ہے، یعنی اس میں عقل و دانش والی روح نہیں ہے۔

 

جسمانی زندگی اور مُردگی کے درمیان فرق یہ ہے کہ جو زندہ ہے اس میں حس و حرکت ہوتی ہے اور جو مرچکا ہو وہ بے حس و حرکت ہو جاتا ہے، چنانچہ جو حقیقت میں بہرے، گونگے اور اندھے ہیں، وہ عقلی حرکت نہیں رکھتے ہیں، اس لئے وہ گویا مرچکے ہیں، پس وہ رجوع نہیں کر سکتے ہیں، جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ: صُمٌ بُکمٌ عُمیٌ فَھُم لاَ یَرجِعُون (۰۲: ۱۸) بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں پس وہ رجوع نہیں کرتے ہیں۔

 

فقط

نصیر ہونزائی

۲۔ستمبر۔۱۹۸۰ء

 

۶۷

 

کشتیٔ نوحؑ (وسیلۂ نجات)

 

تنزیلِ آسمانی اور تاریخِ انسانی میں یہ قصّہ مشہور و معروف ہے کہ حضرت نوح علیہ السّلام کے عہدِ نبوّت میں پانی کا ایک ایسا زبردست طوفان برپا ہُوا تھا کہ اس میں سارے کافر ڈوب کر ہلاک ہوگئے تھے، اِس پُرحکمت قصّہ میں بالواسطہ اِس بات کی نشاندہی کے لئے کہ اس میں تاویل ہے چند بڑے بڑے سوالات اُبھرتے ہیں جو ذیل کی طرح ہیں:۔

سوال ۱: آیا طوفانِ نوح تمام روئے زمین پر اُٹھا تھا یا اِس کا دائرۂ متعلّق صرف چند ملکوں یا بعض شہروں تک محدود تھا؟

سوال ۲: کیا سیّارۂ زمین کے طول و عرض میں نوح پیغمبرؐ کی براہِ راست یا بالواسطہ دعوت ہو رہی تھی؟ اُس وقت دنیا میں انسانی آبادی کا کیا اندازہ تھا؟

سوال ۳: کیا یہ صحیح ہے کہ تمام سطحِ زمین اس تباہ کُنۡ طوفان کی زد میں آگئی تھی، کیونکہ دنیا کے ہر ملک سے خدا اور اس کے رسولؑ کی نافرمانی ہوئی تھی؟

سوال ۴: آیا سائنسی لحاظ سے بھی یہ ممکن ہے کہ پوری دُنیا میں اتنے عرصے تک ایک ساتھ ایسی طوفان خیز بارش برسے؟

سوال ۵: کشتیٔ نوحؑ کا کیا سائز تھا؟ اس میں کتنے لوگوں اور جانوروں کے لئے جگہ اور گنجائش تھی؟

سوال ۶: دنیا کے کلّ جانوروں کی تمام قسموں میں سے دو دو (نر و مادّہ) کو کشتی میں بچالینے میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟

 

۶۸

 

جیسا کہ شروع ہی میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ان سوالات کا اصل مقصد تاویلی امکانیت کے پہلو کو اجاگر کرنا ہے، کیونکہ اِس قصّے میں تاویلی حکمت پوشیدہ ہے، چنانچہ جاننا چاہیے کہ طوفانِ نوحؑ مادّی اور روحانی دو قسم کا تھا، اور  روحانیّت کا طوفان تو ہر زمانے میں آیا کرتا ہے، سو نوح علیہ السّلام کا مادّی طوفان محدود اور روحانی طوفان عالمگیر نوعیّت کا تھا، اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کے جس حصّے میں حضرت نوحؑ بذاتِ خود دعوت کرتے تھے وہاں ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے طوفان بپا ہُوئے تھے، اور باقی حصّوں میں جہاں آپؑ کے حجّتوں کے توسّط سے دعوت کی جاتی تھی وہاں صرف روحانی طوفان اُٹھا تھا۔

 

حضرت نوح علیہ السّلام کی دعوتِ دین بلاواسطہ اور بالواسطہ تمام رُوئے زمین پر محیط تھی، جس طرح حضرت آدمؑ کی خلافت پوری دُنیا کے لئے تھی، کیونکہ قانونِ دین کے مطابق زمین کے بارہ جزیروں پر نوح پیغمبرؑ کے بارہ حجت اور تین سو ساٹھ داعی پھیلے ہوئے تھے، دعوت کا یہ پھیلاؤ اور ربط و نظم قدرتی اور روحانی قسم کا تھا، اُس وقت دنیا میں کافی لوگ بستے تھے، کیونکہ اِس دَور کے آدمؑ سے پہلے بھی مختلف ادوار میں لاتعداد آدم ہوتے رہے ہیں۔

 

سیّارۂ زمین کی تمام سطح پر ایک ساتھ طوفان نہیں آیا تھا، اور نہ ہی ایسا ممکن ہے، نافرمانی کی اصل اور بڑی سزا روحانی طور پر ملتی ہے، لہٰذا سب سے بڑا اور عالمگیر طوفان  روحانیّت میں تھا۔

 

اگر جنرل سائنس کی نظر سے دیکھا جائے تو دنیا کے تمام حصّوں میں ایک ساتھ مسلسل بارش اور طوفان ناممکن ہے، کیونکہ بارش کے لئے بادلوں کی ضرورت ہوتی ہے اور بادلوں کا وجود دھوپ اور سمندر سے بنتا ہے، اِس سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ دنیا کے بعض حصّوں میں دھوپ پڑے تو دوسرے حصّوں میں بارش ہو سکتی ہے ورنہ نہیں۔

 

نوحؑ کی ظاہری کشتی میں اتنی بڑی گنجائش نہیں تھی، کہ اس میں مومنین کے علاوہ

 

۶۹

 

تمام جانوروں کی قسموں میں سے ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ آجاتے، اِس کا سائز بائبل میں مذکور ہے۔

 

د نیا بھر کے تمام جانوروں کی ہر قسم سے دو دو (یعنی نر و مادہ) کو روحانی کشتی میں چڑھا کر بچا لینے میں یہ حکمت ہے کہ انسانِ کامل اِس کائنات کی اصل و اساس بھی ہے اور خلاصہ و نتیجہ بھی، بالفاظِ دیگر کامل انسان اور کائنات و موجودات کا رشتہ وہی ہے جو پھل اور درخت کے درمیان ہوتا ہے، چنانچہ جس طرح درخت کی جملہ خصوصیات پھل (یعنی بیج) میں جمع ہو جاتی ہیں، اسی طرح حضرت نوحؑ کی مبارک ہستی میں دنیا کی ساری چیزوں کی اصلیں اور طاقتیں روحانی طور پر محفوظ کی گئیں، تاکہ نافرمان دنیا کو ہلاک کر کے نوح علیہ السّلام سے ایک نئی دُنیا کو وجود دیا جائے۔

 

اِس بیان سے یہ حقیقت روشن ہُوئی کہ قرآنِ حکیم کے ارشاد (۱۱: ۴۰ ، ۲۳: ۲۷) کے مطابق نو ح علیہ السّلام نے ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ روحانی ذرّات کی شکل میں بچالیا تھا، ورنہ اتنی بڑی کشتی کہاں تھی کہ اس میں دُنیا بھر کے انواع و اقسام کے جانوروں کو جگہ ملے، اور نہ ہی یہ امر ممکن تھا کہ جسمانی طور پر حضرت نوحؑ دنیا کے گوشہ گوشہ سے ان تمام جانوروں کو جمع کرکے کشتی میں داخل کر لیں، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مطلوبہ جانوروں کے تخم (بیج) روحانی ذرّات کی صورت میں تھے، جن کے واسطے کشتیٔ نجات آپؑ کی مبارک شخصیّت ہی تھی، یعنی روحانی کشتی نوح علیہ السّلام خود تھے۔

 

یہ بات ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ “عالمِ ذرّ” دنیائے  روحانیّت کا نام ہے، جو سراسر ذرّاتِ روحانی پر مبنی ہے، جہاں چیونٹی ہو یا ہاتھی، آدمی ہو یا فرشتہ ایک انتہائی چھوٹا ذرّہ ہے، چنانچہ عالمِ روحانی یا عالمِ ذرّ کی بارش اور طوفان بھی انہی زندہ ذرّات یعنی روحوں کا تھا۔

 

حضرت نوح علیہ السّلام کا ظاہری اور مادّی طوفان اُس باطنی اور روحانی طوفان

 

۷۰

 

کے لئے حجاب اور مثال کی حیثیت سے تھا، جو ہر پیغمبر اور ہر امام کے زمانے میں آیا کرتا ہے، تاکہ اہلِ ایمان کو نجات دیکر نافرمانوں کو روحانی طور پر ہلاک کر دیا جائے، مگر یہاں یہ نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ جو لوگ  روحانیّت کے اعتبار سے ہلاک ہو جاتے ہیں، ان کے لئے یہ شرط ضروری نہیں کہ ساتھ ہی ساتھ جسمانی طور پر بھی مر کر ختم ہو جائیں، چنانچہ جب زمانۂ آدمؑ میں یہ روحانی طوفان آیا تو سجدۂ اطاعت بجا لانے والے مومنین جن کو خداوند تعالیٰ نے قرآن میں ملائک کا ٹائٹل عطا کیا ہے ناجی ہو گئے اور ابلیس بمع اپنی بے شمار ذرّیت کے ہلاک ہو گیا، مگر اِس ہلاکت کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ شیاطین کا وجود یکسر مٹ گیا۔

 

جب امامِ وقت صلوات اللہ علیہ کی ذاتِ عالی صفات میں آدمؑ کی طرح خداوند تعالیٰ کی روحِ اقدس پھونک دی جاتی ہے۔ یعنی جس وقت نورِ امامت ایک جامہ سے دوسرے جامہ میں منتقل ہو جاتا ہے تو عین اسی وقت تمام ملائکہ (یعنی ارواحِ مومنین وغیرہ کے نمائندہ ذرّات) آدمِ زمانؑ کی مبارک ہستی میں سجدہ کرتے ہوئے گِرجاتے ہیں، اور ان ذرّات کا یہی عمل کشتیٔ نجات میں مومنین کا داخل ہو جانا بھی ہے، پس یہی سبب ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے اہلِ بیت (أئمّۂ اطہار)کی تشبیہہ سفینۂ نوح سے دی ہے۔

 

فقط آپ کا علمی خادم

نصیر ہونزائی

۱۴ نومبر ۱۹۸۰ء

 

۷۱

 

امامِ عالیمقامؑ کی جسمانی پیدائش اور نورانی پیدائش

 

نورِمطلق کی نسبت جہاں زمان و مکان سے برتر ازلی و ابدی کیفیّت میں خداوند تعالیٰ سے ہے، وہاں یہ قدیم ہے، یعنی کسی کمی و بیشی اور تغیّر و تبدّل کے بغیر ہمیشہ ایک ہی حال میں قائم اور موجود ہے، اور اس کے نہ ہونے یا پیدا ہو جانے کا کوئی سوال نہیں، لیکن جہاں نور کا تعلق جسم اور مظہرِ نورِ خدا (یعنی پیغمبر اور امام علیھما السّلام) سے ہے، وہاں یہ دو طرح سے جنم لیتا ہے، انسانِ کامل میں سرچشمۂ نور اور مرکزِ ہدایت کی حیثیت سے، اور مومنین میں عکسِ نور (یعنی زندہ تصویر) کی حیثیت سے، جیسے سورج جب طلوع ہو جاتا ہے، تو کسی تاخیر کے بغیر ہر چیز پر اسکی روشنی پڑتی ہے، اور بعض چیزوں سے جو صاف شفاف ہیں، سورج کا عکس نمودار ہوتا ہے۔

 

آفتابِ عالمتاب کائنات کے وسط میں ٹھیرا ہُوا ہے، اس کی شکل گول ہے، لہٰذا حرارت و روشنی کا کوئی ایک رُخ نہیں، بلکہ یہ ہر طرف بکھر جاتی ہے، چنانچہ اس بے پناہ مادّی نور کا ایک محدود حصّہ سیّارۂ زمین کی طرف آتا ہے، مگر یہاں کی چیزیں سورج سے فیضیاب ہونے میں یکسان نہیں ہیں، ہر چند کے خورشیدِ انور ہر جگہ کسی فرق و امتیاز کے بغیر شعاعوں کی بارش برساتا ہے، پھر بھی کچھ جانور ایسے ہیں، جو سورج کی ضیاپاشی سے بھاگ کر اندھیروں میں چھپ جاتے ہیں۔

 

جو جانور سورج کی روشنی کو دیکھنا نہیں چاہتے ہیں یا دیکھ نہیں سکتے ہیں، وہ بھی

 

۷۲

 

سورج کے فائدے سے خالی نہیں، کیونکہ وہ جو کچھ کھاتے ہیں، اس میں سورج کی طاقتیں کار فرما ہوتی ہیں، دوسری طرف سے جو چیزیں سورج کی روشنی کو قبولتی ہیں، وہ مختلف مدارج پر ٹھیری ہوئی ہیں، مثال کے طور پر آئینہ اس عمل میں بہت نمایان ہے کہ وہ نہ صرف نورِ خورشید کو قبولتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنی صلاحیّت کی بدولت سورج کے عکس کو بھی دکھاتا ہے، قانونِ فطرت کی اس مثال سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ اگرچہ آفتابِ ہدایت کے فیض سے کوئی فردِ بشر خالی نہیں، تاہم اس میں لوگوں کے مختلف درجات ہیں، چنانچہ جو لوگ بہ امرِ خدا پاک باطن ہیں وہ مظہرِ نورِ خدا کے لئے آئینے کا کام دیتے ہیں، اور اسی معنیٰ میں کہا گیا کہ سرچشمۂ نور امامِ اقدس وَ اطہرؑ میں ہُوا کرتا ہے، اور اس کا ایک مکمّل عکس حقیقی مومنین میں ہوتا ہے۔

 

آپ نظامِ تخلیق اور قانونِ فطرت کا بغور مطالعہ کر سکتے ہیں،کہ نباتات کا قیام جمادات (یعنی مٹی وغیرہ) پر ہے، حیوانات کا قیام نباتات پر ہے، اور انسان حیوان پر قائم ہے، یہ حقیقت نہ صرف دنیائے ظاہر سے متعلق ہے، بلکہ عالمِ شخصی میں بھی یہی قانون کار فرما ہے، کہ انسانی جسم و جان کی تخلیق و تکمیل کے سلسلے میں سب سے پہلے بنیادی جسم بنتا ہے، پھر روحِ نباتی، پھر روحِ حیوانی، پھر روحِ انسانی (یعنی روحِ ناطقہ) اور آخر میں عقل پیدا ہو جاتی ہے، سو اِس قانونِ فطرت سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ امامِ عالیمقامؑ کی جسمانی پیدائش پہلے ہے اور نورانی پیدائش بعد میں۔

 

سورۂ مریم (۱۹: ۱۵، ۱۹: ۳۳) میں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیھم السّلام کے بارے میں اِرشاد ہُوا ہے کہ “اُن پر اُس دن سلامتی تھی جس میں وہ پیدا ہوگئے اور جس دن اُن کا انتقال ہو گیا اور جس روز وہ دوبارہ زندہ ہو گئے۔” آپ غور کرکے دیکھ سکتے ہیں کہ اِس حکم میں تاویلی حکمت پوشیدہ ہے، کیونکہ اس کے ظاہری ترجمہ کی کچھ منطق نہیں بنتی ہے، کہ انسانِ کامل پر سلامتی صرف اور صرف تین دنوں میں محدود ہو، یعنی یومِ پیدائش، یومِ وفات،

 

۷۳

 

اور یومِ بعث میں، اور باقی دنوں میں سلامتی ایسی مقدس ہستیوں سے الگ اور دور ہو، بلکہ اِس ارشادِ مبارک کے تاویلی معنی یوں ہیں کہ یہاں دن سے زمانہ مراد ہے، وہ اِس طرح کہ ہر کامل انسان کی  روحانیّت تین زمانوں پر پھیل جاتی ہے، پہلا زمانہ یا دَور ابتدائی روشنی سے لے کر انفرادی قیامت تک ہے، اور یہ تاویل کی زبان میں یومِ پیدائش کہلاتا ہے، دوسرا دَور منزلِ عزرائیلی سے شروع ہو جاتا ہے، جہاں حضرت عزرائیل علیہ السّلام کے عمل سے ایک حکمت آگین نفسانی موت واقع ہوتی ہے، اور یہ دَور جو انفرادی قیامت اور زندہ  روحانیّت کے عظیم واقعات و تجربات سے بھرپور ہے اور جسے قرآن نے پیغمبرانہ و عارفانہ موت قرار دیا ہے۱، وہ مقامِ اِنبعاث تک پھیلا ہُوا ہے، اور تیسرے مرحلے پر انبعاث کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے، جو  روحانیّت کا آخری دَور اور بلند ترین مقام ہے، اس سے یہ مطلب صاف طور پر ظاہر ہُوا کہ حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام پر تین ادوار گزرتے ہیں، جن کا ذکر ہُوا، اور ہر دَور میں اُن پر سلامتی ہے، اور سلامتی سے تائید و مکمّل  روحانیّت مراد ہے۔

 

جیسا کہ بتایا گیا کہ امامِ برحق صلوات اللہ علیہ کی جسمانی پیدائش پہلے ہوتی ہے، اور نورانی پیدائش بعد میں مکمّل ہو جاتی ہے، اور امامِ زمانؑ کے “یومِ پیدائش” کی جو سالگرہ منائی جاتی ہے، وہ دراصل امام کے نورانی جنم کا دن ہے، اگر یہ بات نہ ہوتی، تو امام کی امامت یعنی مسند نشینی سے قبل بھی جماعتی سطح پر یومِ پیدائش کی اس طرح سالگرہ منائی جاتی، جس طرح آج منائی جاتی ہے، پس ظاہر ہے کہ سالگرہ نور کی شناخت کے لئے ہے۔

 

عوام النّاس جس حال کو زندگی سمجھتے ہیں، وہ صحیح معنیٰ میں زندگی نہیں، نہ جسمانی موت تاویلی (نفسانی) موت ہے، اور نہ ہی اِنبِعاث (مرنے کے بعد زندہ ہو جانا) ایسا ہے جیسا کہ عام خیال ہے ، بلکہ ان حقائق و معارف کا نمونہ اور معیار انسانِ کامل ہے، پس مومنین پر لازم ہے کہ وہ ہادیٔ برحق کی رہنمائی میں راہِ  روحانیّت کے مراحل کو طے کریں،

 

۱؎: یہ عارفانہ موت فنا فی اللہ ہے، اور انبعاث بقا باللہ۔

 

۷۴

 

تاکہ حقیقتِ حال کا مشاہدہ ہو۔

 

اس سے قبل سلامتی کا ذکر ہُوا تھا، اور مفہوم یہ تھا کہ انسانِ کامل (پیغمبر اور امام علیھما السّلام) پر مسلسل سلامتی ہُوا کرتی ہے، اور وضاحت ہوئی تھی کہ سلامتی سے تائید و  روحانیّت مراد ہے، مگر یہ وضاحت کافی نہیں ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم میں لفظ “سلام” خاص خاص مواقع پر استعمال ہُوا ہے، اور یہ خصوصی حکمت کا حامل ہے، چنانچہ اس کی مزید صراحت کی جاتی ہےکہ سلام کے معنی ایسی تائید و  روحانیّت کے ہیں، جس میں ہر طرح کی سلامتی ہے ،یعنی جسم و جان اور عقل کی سلامتی، اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ مومن خود کو دارُالسّلام ( خانۂ سلامتی) سے ازلی و ابدی طور پر وابستہ پائے، “السّلام” اللہ تعالیٰ کا ایک زندہ نام ہے، جو بصورتِ انسانی ایک جلالی فرشتہ ہے، جو عقل و جان اور لطیف جسم کے درجۂ کمال پر ہے، اور یہی بہشتِ جاودانی ہے، اور سلامتی کا گھر یہی ہے۔

 

حدیث ہے کہ محمّد و علی (صلوات اللہ علیھما) کا مقدّس نور ایک پاک صُلب سے ایک پاک بطن میں منتقل ہوتا ہُواآیا ہے، (کوکبِ دُرّی، ص: ۱۷۸) اس میں ہر دانشمند کو خوب غورکرنا چاہئے کہ آیا یہ نُور وہی نہیں، جس کا ذکر قرآنِ کریم میں جگہ جگہ فرمایا گیاہے؟ جس کے متعلّق ارشاد ہے کہ خدا اپنے نور کو درجۂ کمال تک پہنچانے والا ہے (۶۱: ۰۸) یعنی اس کا سِلسلہ جاری ہے، تو پھر اس کا مطلب یہ ہُوا کہ شخصِ کامل کی جسمانی اور نورانی پیدائش بار بار ہوتی رہتی ہے، جیسے چاند بار بار کامل ہوتا رہتا ہے، ہر چند کہ سورج کی ہستی میں چاند ایک حال پر قائم ہے، کہ وہاں یہ نہ بڑھتا ہے اور نہ گھٹتا ہے۔

 

مولاعلیؑ کا ارشادِ گرامی ہے: اِنّ لی الکرّۃ  بعد الکرّۃ والرّجعۃ بعد الرّجعۃ و انا صاحب الرّاجعٰت والکرّات (کوکبِ دُرّی، ص: ۷۵) بے شک میرے لئے دنیا میں بار بار آنا اور رجعت کرنا ہے، میں رجعتوں والااور باریوں والا ہوں۔ یہ نُورٌ عَلیٰ نُورٌ (۲۴: ۳۵) کی تفسیر ہے، یعنی ایک امام کے بعد دوسرا امام ہونا، اور امامِ عالیمقامؑ کی ہر

 

۷۵

 

سالگرہ ایسی حقیقتوں کی نشاندہی کرتی ہے۔

 

 

آپکا ایک دینی خادم

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۱۲ دسمبر ۱۹۸۳ ء

 

۷۶

 

بہشت میں سب کچھ ہے

 

میں آج علم و حکمت کا ایک گوہر اپنے عزیزوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور یہ ایک ایسا معجزانہ گوہر ہے کہ یہ ہر متعلقہ سوال کا جواب مہیا کرے گا، ان شاء اللہ میرے عزیزوں کو اس سے بہت فائدہ ہوگا، اور وہ ہے یہ آیۂ مقدسہ: لَھُم مَّا یَشَآءُ ونَ فِیھَا وَ لَدَینَا مَزِیدٌ (۵۰: ۳۵) اِن کے لئے اُس (بہشت) میں ہر وہ چیز مہیا ہوگی جو وہ چاہتے ہیں اور ہمارے پاس اس کے علاوہ بھی ہے، یعنی مومنین کی کوئی ایسی خواہش نہیں ہے جس کی بہشت میں تکمیل نہ ہو، یا یوں کہنا چاہئے کہ بہشت ایسے مقام کا نام ہے جس میں مومن کی تمام خواہشات پوری ہو جاتی ہیں اور جنّت میں وہ چیزیں بھی ہیں جن کے متعلق انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔

 

بہشت میں سب کچھ ہے اس لئے انسانی فطرت میں طرح طرح کی خواہشات پائی جاتی ہے، کیونکہ اگر خدا تعالیٰ صرف کسی خواہش کو پیدا کرتا اور اس کی تکمیل کا کوئی ذریعہ نہ بناتا تو یہ ظلم ہوتا نہ کہ عدل، مگر خدا ظلم سے پاک و برتر ہے، اور وہ بڑا کرم والا ہے۔

 

اِس سے معلوم ہوا، کہ جنّت میں کوئی چیز ناممکن نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وہاں ہر چیز مومن کو دے رکھی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ ٰا تٰکُم مِّنْ کُلِّ مَاسَاَلتُمُوہُ(۱۴: ۳۴) اور اُس نے تم کو دے رکھا ہے جو کچھ کہ تم نے اُس سے مانگا، یعنی تم نے زبانِ حال سے جو کچھ بھی اُس سے طلب کیا تھا وہ سب تم کو دے دیا ہے۔ یا یہ کہ ازل میں تمہاری روحوں نے سوال کیا تھا وہ تمہارے لئے دے رکھا تھا۔

 

۷۷

 

اب آپ کوئی بھی نیک خواہش دل میں لائیں اور کہیں کہ کیا یہ چیز مجھے بہشت میں مل سکے گی تو اس کا جواب اثبات میں ہوگا، آپ کہیں کہ میں ہمیشہ زندہ رہنا چاہتا ہوں، بار بار دنیا میں آنا چاہتا ہوں، مرد سے عورت اور عورت سے مرد بننا چاہتا ہوں، ہزاروں دفعہ پادشاہوں کی صورت میں پیدا ہونا چاہتا ہوں، اعلیٰ سے اعلیٰ حدودِ دین بن جانا چاہتا ہوں، یہاں تک کہ خدا کے نور میں ہمیشہ کے لئے رہنا چاہتا ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی آنا چاہتا ہوں، کائنات کو نئے سرے سے بنانا چاہتا ہوں، دنیا ہی سے شروع کرکے بہشت کی نعمتوں کو دیکھنا چاہتا ہوں، وغیرہ تو یہ سب ممکن ہے۔

 

اب میں فارسی میں کہوں گا کہ: “ھیچ نا ممکنی نیست” یا “ناشدنی نیست” روزانہ پانچ سوال کرکے سوچیں کہ بہشت میں کون سی نعمت ناممکن ہے ۔

 

فقط

علامہ نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی

۲۔ستمبر۔۱۹۷۶ء

 

۷۸

 

مائدۂ عیسیٰؑ

 

قرآنِ پاک میں فرمایا گیا ہے: وہ وقت قابلِ ذکر ہے جبکہ حواریین نے عرض کیا کہ اے عیسیٰ ابنِ مریم کیا آپ کا ربّ ایسا کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے کوئی دسترخوان (یعنی کھانا) نازل فرمائے، آپ نے فرمایا کہ خدا سے ڈرو، اگر تم ایماندار ہو، وہ بولے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دلوں کو پورا اطمینان ہو جائے اور ہم یہ جان لیں کہ آپ نے ہم سے سچ بولا ہے اور ہم گواہی دینے والوں میں سے ہو جائیں عیسیٰ ابنِ مریم نے دعا کی کہ اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے دسترخوان نازل فرمائیے کہ وہ ہمارے اوّل و آخر کے واسطے اور آپ کی طرف سے ایک نشانی ہو اور آپ ہم کو رزق دیں اور آپ سب رزق دینے والوں سے اچھے ہیں۔ (۰۵: ۱۱۳ تا ۱۱۴)۔

 

خداوندِ تعالیٰ نے ایسا دسترخوان نازل فرمایا، مگر وہ روحانی قسم کا تھا اور اس پر عقل و روح کی پسندیدہ غذائیں چُنی ہوئی تھیں، یعنی وہ بطریقِ  روحانیّت روحانی نعمتیں تھیں، نہ کہ ظاہری اور مادّی نوعیت کے کچھ کھانے تھے۔

 

یہاں آسمان کا مطلب آسمانِ  روحانیّت ہے، دل کے اطمینان کے معنی مشاہدۂ روح اور باطنی معجزات ہیں، اور پیغمبر کے فرمان کی صداقت کا علم ہو جانا اور اس پر گواہ رہنا یہ ہے کہ جو کچھ آخرت کے بارے میں فرمایا جاتا ہے وہ چشمِ دل کے سامنے آ جائے اور مومن خود بخود اس کا گواہ بن جائے۔

 

۷۹

 

اگر یہ دسترخوان جسمانی غذاؤں کا ہوتا تو حضرتِ عیسیٰؑ اس کو دنیا و آخرت کی خوشی قرار نہیں دیتے، اور اس کو خدا کا نشان نہ ٹھہراتے، اور نہ ہی وہ خیر الرازقین کا رزق کہلاتا، کیونکہ حکمت میں خدا خیر الرازقین اس لئے نہیں ہے کہ اس نے جسمانی غذائیں بنائی ہیں، بلکہ اس کی یہ صفت اس وجہ سے ہے کہ وہ عقل و جان کے لئے  روحانیّت کی اعلیٰ غذائیں پیدا کرتا ہے۔ جس طرح جسمانیّت میں عمدہ غذائیں آسانی سے جزوِ بدن ہو جاتی ہیں، اسی طرح  روحانیّت میں علم کی اعلیٰ باتیں بڑی جلدی سے جزوِ روح ہو جاتی ہیں، کیونکہ روح کے لئے ذکر و عبادت کسرت یعنی ایکسرسائز ہے اور علم غذا ہے۔

 

جب بیمار آدمی کا اشتہا بند ہو جاتا ہے اور بھوک نہیں لگتی تو اس وقت آپ اگر اسے زور و زبردستی سے کچھ کھلائیں تو اس کو اس غذا سے کوئی مزہ نہیں آتا، یہ علامت ہے اس بات کی کہ ایسی حالت میں غذا جسم کا حصّہ نہیں بن سکتی ہے، اس کے برعکس جب تندرست انسان کو بھوک لگتی ہے اور وہ کھانا کھاتے ہوئے لذّت محسوس کرتا ہے تو یہ اس چیز کی نشانی ہے کہ غذا اس کو ہضم ہو کر جزوِ بدن بننے والی ہے۔

 

یہ اس حقیقت کی ایک بہترین مثال ہے کہ جن بد نصیب لوگوں کو حقیقی علم سے لذّت و خوشی محسوس نہیں ہوتی ہو تو وہ روح کے مریض ہیں، اور روح کا مرض گناہوں کی وجہ سے ہوتا ہے، ایسے آدمیوں کی روح بہت کمزور ہوتی ہے، مگر جو مومنین ایسے ہوں کہ ان کو علم و حکمت کی باتوں سے بڑا مزہ آتا ہے اور وہ شادمان و مسرور ہو جاتے ہیں، تو یہ حالت ان کے لئے مبارک ہے کہ ان کی روح میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان کے باطن کی تطہیر ہورہی ہے۔

 

ہم جسمانی خوشی پر غور کر کے روحانی خوشی کے بھیدوں کو سمجھ سکتے ہیں، اس کے لئے ہم اپنے آپ سے سوال کریں گے کہ ظاہری اور مادّی خوشی کب کب حاصل ہوتی ہے؟ جواب ہے کہ جب جسم صحت مند ہو، صاف اور آرام سے ہو، اور کوئی اچھی نعمت ملے۔

 

۸۰

 

چنانچہ جب روحانی طور پر کوئی مومن خوش ہو جاتا ہے تو وہ خوشی بھی بغیر سبب کے نہیں ہے، بلکہ اس کا بھی کوئی پس منظر ہے، وہ یہ کہ روح کو کوئی چیز مل رہی ہے، غذا، صحت، پاکیزگی، عفو، اور امیدِ فردا، اور سب سے بڑھ کر خدا کی خوشنودی، کیونکہ خداوند کی رضا کے سوا کوئی روحانی خوشی نہیں ہے، اور خداوند تعالیٰ کی رضا مندی کے تحت ساری نعمتیں ہیں۔

 

فقط آپ کا علمی خادم

نصیر ہونزائی

۱۲ اگست ۱۹۸۰ء

 

۸۱

 

خزائنِ الٰہی

 

خداوندِ علیم و حکیم کا مبارک ارشاد ہے کہ:

وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘ (۱۵: ۲۱) اور کوئی چیز نہیں مگر اس کے خزانے ہمارے پاس موجود ہیں۔یعنی ممکنات کی ہر شیٔ جو ارادۂ الٰہی میں ہےاس کے وجود و ظہور کے اسباب و اجزائے ضروریہ کے خزانے خدا کے پاس ہیں، تاکہ بحکمِ خدا اسباب وعلل اور اجزا کی فراہمی سے اشیائے ممکنہ عرصۂ وجود میں آئیں۔

 

یہاں ایک اہم سوال “عندنا” سے متعلق پیدا ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عندیت (نزدیکی) سے کیا مراد ہے؟ جبکہ اس کے قبضۂ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں؟ کیونکہ وہ اگر ایک اعتبار سے مکان و لامکان سے پاک و برتر ہے تو دوسرے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے؟

 

جواب: خدا تعالیٰ مکان و لامکان سے پاک و برتر بھی ہے اس کے باوجود وہ ہر جگہ بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کا ایک خاص مقام بھی ہے اور وہ  روحانیّت کا مقام ہے، جو اس کی عندیت و نزدیکی ہے، اور خزائنِ الٰہی  روحانیّت میں ہیں، اور  روحانیّت کا تعلق بندوں سے ہے، سو خدا کے خزانے بندے ہیں، جن میں تمام چیزیں موجود ہیں۔

 

قرآنِ پاک میں اللہ کے قرب و حضور اور عندیت کے معنی میں جتنے الفاظ آئے ہیں ان سب کی مراد  روحانیّت و نورانیت ہے اور یہ مرتبت انسانوں کے لئے مخصوص ہے، اور پروردگار کے خزانے بھی انسانوں میں سے وہی حضرات ہیں، جن کو خداوندِ عالم

 

۸۲

 

نے اپنے بندوں سے برگزیدہ فرمایا ہے، یعنی انبیاء و ائمّہ علیہم السّلام اور حقیقی مومنین، جو خزائنِ الٰہی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

 

اگر بندۂ مومن پیغمبر اور امام کے طفیل سے خزانۂ الٰہی نہ ہوتا تو اسے اپنی ذات کی معرفت کی طرف توجہ نہ دلائی جاتی اور یہ ارشاد نہ ہوتا کہ: “جس نے اپنی روح کو پہچان لیا یقیناً اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔” اس سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ حقیقی مومن خزائنِ الٰہی میں سے ہے، وہ ذرّاتِ روح خزانہ ہے، اور ان ذرّات میں سب کچھ ہے، اس لئے کہ تمام مادّی چیزوں کی روحیں ہوا کرتی ہیں، جو ذرّات کی شکل میں ہوتی ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ کی آیات (نشانیاں) اگر آفاق میں منتشر ہیں تو نفسِ انسانی میں یہ آیات یکجا ہیں (۴۱: ۵۳) اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر چیز مادی طور پر اس کائنات میں ظاہر ہے اور  روحانیّت میں انسان کے اندر پوشیدہ ہے، اسی طرح وہ اپنے باطن میں دونوں جہان خریدنے کے لئے عظیم سرمایہ اور خزانہ رکھتا ہے، یا دوسرے اعتبار سے یوں کہنا چاہئے کہ وہ خود کونین کا خلاصہ اور صورتِ روحانی ہے یا ایسا معجزاتی عالم ہے کہ اس میں بصورتِ لطیف دنیا بھی ہے عقبیٰ بھی ہے۔

 

یہ کتنا اہم ارشاد ہے جو فرمایا گیا ہے کہ شریعت کا باطن طریقت ہے، طریقت کا باطن حقیقت ہے اور حقیقت کا باطن معرفت، سو معرفت سب کچھ ہے، اس لئے کہ اس میں ہر چیز کی روح اور قیمت موجود ہے، اور معرفت نہیں ہے مگر انسان کی ذات میں، اس سے معلوم ہوا کہ آدمی خزانۂ الٰہی ہے۔

 

قرآنی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو تمام مخلوقات پر کرامت و فضیلت دی ہے (۱۷: ۷۰) اس کے معنی یہ ہوئے کہ قانونِ خدا کی نظر میں کائنات و موجودات کی جو قدر و قیمت ہے اس سے آدمی کہیں بڑھ کر ہے۔

 

مولا علی صلوات اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ: “آیاتو گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا

 

۸۳

 

جسم ہے اور حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر سمویا ہوا ہے۔” یعنی پوری کائنات لطیف روحانی شکل میں تیرے باطن میں پوشیدہ ہے، پس اس سے ظاہر ہوا کہ مومنین خزائنِ الٰہی ہیں اور یہ حقیقت ایسی ہے کہ اسے گہرائی سے سمجھنے اور عمل میں لانے کی سخت ضرورت ہے۔

 

فقط دعا گو

نصیر ہونزائی

۱۳ اکتوبر ۱۹۸۰ء

حیدرآباد، ہونزا، گلگت

 

۸۴

 

بہشت اور شجرۂ ممنوعہ

 

جب حکمت اور تاویل کی روشنی کے بغیر سوچا جاتا ہے توحیرت ہی حیرت ہوتی ہے کہ خداوندِ عالم نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ایسی بہشت بنائی کہ اس میں ہر قسم کی لازوال نعمتیں موجود ہیں، لیکن انسان وہاں بھی آزمائش سے خالی نہیں، کیونکہ وہاں پر ایک پُرکشش درخت موجود ہے جو بڑا خطرناک ہے، کہ اگر انسان اس کا پھل کھائے تو بس اس کی خیر نہیں۔

 

یہ مسئلہ بڑا مشکل ہے، جس سے بہت سے ذیلی سوالات پیدا ہوتے ہیں، مثال کے طور پر دنیا کے اتنے سارے امتحانات کے بعد مومن کا جنت میں داخل ہو جانا اور پھر وہاں بھی اس کو یہ خوف کہ کہیں بھول سے درختِ ممنوعہ کا پھل نہ کھا بیٹھے، کیونکہ جب حضرت آدم علیہ السّلام اس سے نہ بچ سکے تو ہم بے چارے کون ہوتے ہیں۔

 

جاننا چاہئے کہ خداوند تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے ایک چیز بنائی جو وحدت و کثرت کے درمیان ہے جو بڑی پُرحکمت ہے اور وہ دو کا عدد ہے، پس ذاتِ واحد نے ہر چیز کو دو کے موافق پیدا کیا، یعنی ہر چیز کے جوڑے بنائے تاکہ یہ شہادت ہو کہ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے اس میں دوئی ہے مگر خدا میں دوئی نہیں، اس میں صرف وحدت ہی وحدت ہے، چنانچہ انسان کی دو انائیں بنائیں، ایک انائے علوی اور دوسری انائے سفلی۔

 

انسانی فطرت ایسی ہے کہ جہاں انتخاب کے لئے دو عمدہ چیزیں ہیں تو اس وقت دونوں کو چاہتا ہے، جب اس کے سامنے ایک اعلیٰ چیز اور دوسرے درجے کی چیز ہوتی

 

۸۵

 

ہے تب بھی وہ دونوں کو چاہتا ہے، چنانچہ انسان جو دو اناؤں کا مرکب ہے وہ نہ صرف ہمیشہ کے لئے بہشت میں رہنا چاہتا ہے بلکہ وہ ساتھ ہی ساتھ بار بار دنیا میں بھی آنا چاہتا ہے، جبکہ وہ اپنی انائے علوی اور انائے سفلی سے دونوں جہان میں زندہ ہو سکتا ہے، تاکہ اسی طرح وہ خدا کی لاتعداد نعمتوں کو پائے۔

 

جو دانشمند ہے وہ ہر مسئلے میں امام کی طرف دیکھتا ہے، امام نور بھی ہیں اور شخصیت بھی، وہ نور میں عالمِ علوی میں ہیں اور جسم میں عالمِ سفلی میں ہیں، وہ باعتبارِ جسم بار بار دنیا میں آتے ہیں اور باعتبارِ نور ہمیشہ بہشت میں ہیں، ان کو دنیا کا کوئی خوف نہیں اور نہ ہی کوئی غم ہے، جیسا کہ قرآنِ شریف کا ارشاد ہے: اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ (۱۰: ۶۲) یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ وہ مغموم ہوتے ہیں، کیونکہ وہ خدا کے اولیاء ہیں اور خدا کے بھیدوں کو جانتے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ ہر چیز میں حکمت ہے، وہ جسم سے دنیا میں ہیں مگر نور سے بہشت میں ہیں، وہ انائے علوی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عالمِ علوی میں رہتے ہیں، اور مبادل شخصیتوں کے اعتبار سے بار بار دنیا میں آتے رہتے ہیں۔

 

فقط

نصیر ہونزائی

 

۸۶

 

آئینۂ حکمت

 

روح اور  روحانیّت سے متعلق پُرحکمت مثالوں میں آئینے کی مثال بہت ہی واضح، روشن اور بیحد مفید ثابت ہو سکتی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ آئینہ ایک مادّی شیٔ ہونے کے باوصف بعض لطیف خصوصیات رکھتا ہے، چنانچہ ذیل میں اِس سلسلے کی چند حکمتیں درج کی جاتی ہیں:۔

 

حکمت ۔ا: ایک سادہ شیشہ جو رنگین نہ ہو اور ایک آئینہ (دونوں چیزیں) سامنے رکھ کر غوروفکر کے ساتھ تجربہ کریں، شیشے میں آپ کا چہرہ نظر نہیں آتا ہے، اور آئینے میں چہرہ دکھائی دیتا ہے، اس کا کیا سبب ہے، حالانکہ دونوں اپنی اصل میں ایک ہی ہیں؟ اس کا سبب یہ ہے کہ سادہ شیشہ حجاب بن کر نگاہ کو نہیں روک سکتا، اِس لئے نظر صاف شفاف شیشے سے آگے گزر کر سامنے والی چیزوں کو دیکھتی ہے، اس کے برعکس آئینے میں یہ خاصیت ہے، کہ اس کی سطح کو چھوتے ہی نظر چہرے کی طرف لوٹ جاتی ہے، اور اسی طرح انسان اِس ردِّ عمل سے اپنے آپ کو دیکھتا ہے، اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ دیکھنے کا یہی ردِّ عمل کسی اور چیز پر کیوں نہیں ہوتا، جیسے پتھر، لکڑی وغیرہ ؟ جواب یوں عرض ہے کہ نظر کو لوٹا دینے کی خاصیت صرف ایسی چیزوں میں ہوتی ہے، جو شیشے کی طرح صاف شفاف اور آئینے کی طرح پچھلی جانب سے تاریک ہوں، ورنہ نظر کا عمل اسی چیز پر ختم ہو جاتا ہے جو سامنے ہوتی ہے۔

 

حکمت ۔ ۲: حواس کے ردِّ عمل کے اعتبار سے چیزیں مختلف ہوا کرتی ہیں،

 

۸۷

 

مثلاً لاٹھی مارنے کا ردِّ عمل صرف پتھر جیسی سخت چیزوں سے ہو سکتا ہے، کیونکہ ایسی چیزیں ضرب کو قبول نہیں کرتی ہیں، لہٰذا ہاتھ کا زور پتھر سے واپس لاٹھی پر پڑتا ہے، پھر لاٹھی سے ہاتھ پر، اگر لاٹھی کمزور ہے، جس کی وجہ سے وہ ٹوٹ جاتی ہے یا لچک دار ہے جس سے وہ لچک جاتی ہے، تو اُس صورت میں ہاتھ میں چندان درد نہیں ہوگا، اور اگر لاٹھی بڑی سخت اور مضبوط ہے تو ردِّعمل کا سارا زور بِلا کم و کاست ہاتھ پر پڑے گا، یہ تو سخت چیزوں پر لاٹھی مارنے کی بات ہوئی، مگر پانی جیسی نرم چیزوں پر لاٹھی مارنے سے نہ تو لاٹھی ٹوٹ جاتی ہے اور نہ ہی ہاتھ میں کوئی ایسی چوٹ لگ جاتی ہے، سبب ظاہر ہے کہ اِس کا ردِّعمل نہیں، اسی طرح بلند آواز سے پُکارنے کا ردِّعمل صرف گنبد یا پہاڑ جیسی جگہوں میں واقع ہوتا ہے، جہاں آواز ٹکرا کر پیچھے کی طرف لوٹ جاتی ہے، یہی مثال اُس نظر کی بھی ہے جو سطحِ آئینہ سے ٹکرا کر آدمی کی طرف لوٹ آتی ہے۔

حکمت۔ ۳: پروردگارِ عالم کا ارشاد ہے: وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلاً (۱۶: ۸۱) اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تمام مخلوق چیزوں کے سائے بنائے۔ اِس حکم (فیصلہ) سے ظاہر ہے کہ کوئی چیز بغیر سایہ کے نہیں، یہاں تک کہ سورج کا بھی سایہ ہے، اور وہ سایہ یعنی عکس چاند ہے، نیز ستارے سورج کے سائے ہیں، اور اِس فرمانِ خداوندی سے یہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ اِن سارے سایوں میں انسان کے لئے فائدے ہیں، مگر یہاں یہ بات ضرور جاننا چاہئے کہ فائدے کا اصل اشارہ عقلی اور روحانی چیزوں کی طرف ہے، کیونکہ جسم جو مکانی اور زمانی اعتبار سے محدود  ہے، وہ کائنات بھر کے سایوں سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا، مگر عقل و روح لامحدود اور غیرفانی ہیں، لہٰذا وہ غیر محدود نعمتیں حاصل کر سکتی ہیں۔

 

حکمت۔۴: اگر آپ دو آئینے ایک دوسرے کے آمنے سامنے رکھیں تو ہر ایک کا لطیف سایہ یا عکس دوسرے میں موجود ہوگا، بغیر اس کے کہ نمایان طور پر نظر آئے، آپ اس کا تجربہ اس طرح کرسکتے ہیں، کہ ایک پر سُرخ نشان لگائیں اور دوسرے پر سبز، چنانچہ اِس

 

۸۸

 

عمل کی مدد سے آپ یقین کرسکیں گے کہ مقابل کے آئینے خواہ دو ہوں یا زیادہ ایک  دوسرے پر لطیف عکس ڈالتے ہیں، یہ ہر روح میں تمام روحوں کی نمائندگی موجود ہونے کی ایک بہترین مثال ہے، اور حقیقتِ واحدہ (Monorealism) کی ایک روشن دلیل ہے۔

 

حکمت۔۵: ارشادِ نبویؐ ہے کہ: ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہوا کرتا ہے۔ اِس حقیقت کے کئی معنوی پہلو ہیں، المؤمنُ مِرأۃَ المؤمن = مومن مومن کا آئینہ ہے، یعنی انسانِ کامل مومنوں کی  روحانیّت کا آئینہ ہے۔ اور ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ ہر مومن کی روح میں نہ صرف تمام ارواح  کے روحانی سائے موجود ہوتے ہیں، بلکہ ہر ہر شیٔ کا سایہ موجود ہوتا ہے، جیسا کہ آیۂ مذکورۂ بالا کا ارشاد ہے کہ “خدا نے تمہارے لئے تمام مخلوقات کے سائے بنائے ہیں، یعنی مومن کے باطن میں ساری چیزوں کے عقلی، روحانی اور جسمانی سائے بصورتِ ذرّاتِ لطیف محدود ہیں۔

 

حکمت۔۶: جملہ ارواح کی یک حقیقتی (Monorealism) ایسی ہے جیسے آمنے سامنے کے بہت سے آئینے اپنے عکس میں ایک ہو جاتے ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ اِن لطیف سایوں کے یکجا ہونے میں کوئی تنگی واقع نہیں ہوتی ہے، حالانکہ آئینے مادّی چیزیں ہیں، اِس وحدت کی وجہ یک صفتی و یک رنگی ہے، کہ جب ایک آئینے کا عکس دوسرے پر پڑتا تو اِس سے کچھ فرق نہیں آتا، اور نہ اس میں کچھ اضافہ ہو جاتا ہے۔

 

حکمت۔۷: یاد رکھئے گا کہ لطیف چیزوں کے سائے لطیف ہوا کرتے ہیں اور کثیف چیزوں کے سائے کثیف، نیز یہ بھی یاد رہے کہ ہر سایہ جس طرح پھیل جاتا ہے اسی طرح سِمٹ جاتا ہے، چنانچہ روحِ مومن میں تمام زندہ سائے جو عقلی اور روحانی ہیں محدود کئے گئے ہیں، جیسا کہ پروردگارِ عالم کا مبارک ارشاد ہے: کیا تم نے اپنے پروردگار کی طرف نہیں دیکھا کہ اُس نے سایہ کو کیونکر پھیلا یا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اس کو ٹھہرا ہوا رکھتا پھر ہم نے آفتاب کو اُس پر دلیل بنایا (۲۵: ۴۵) یعنی عقلی اور روحانی سائے عالمِ

۸۹

 

کبیر میں پھیلے ہوئے ہیں، لیکن وہ خورشیدِ نور کے تصرّف میں ہیں، جس نے ان کو مومن کی ذاتی دنیا میں محدود و یکجا کر دیا ہے، اور بالآخر وہ دستِ قدرت کی مُٹھی میں جمع ہیں (۲۵: ۴۶)۔

 

حکمت۔۸: ماہِ کامل کی رات میں ایک بہترین آئینہ لے کر اِس میں چاند کا حسین عکس دیکھ لیجئے آپ یقیناً جانتے ہوں گے کہ یہ آپ کے سامنے آئینے میں جو روشنی ہے، وہ دراصل سورج سے ہے جو چاند کے توسط سے آئی ہے، اِس صورت میں اگر آپ نور کے مراتب کو شمار  کریں گے تو مرتبۂ اوّل سورج، مرتبۂ دوم چاند اور مرتبۂ سوُم عکسِ آئینہ تین درجے ہوں گے، چنانچہ اِس حال میں سورج کا مظہر چاند ہے اور چاند کا مظہر آئینہ ہے، اور اگر آپ اِن مراتب کی وحدت اور سرچشمۂ نور کو دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ اُس رات کو علمی اور ذہنی طور پر سیّارۂ ماہتاب پر جاکر دیکھئے، اِس بات سے آپ کو تعجب ہوگا کہ وہاں اس وقت رات نہیں دن ہے اور ہر قسم کی روشنی وہاں سے دیکھنے کے مطابق سورج میں ایک ہے۔

 

حکمت۔۹: قرآنِ مقدّس سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ دین کی بنیاد خلافتِ الٰہیہ پر قائم ہوئی ہے، یعنی دینِ حق کا آغاز اِس طرح سے ہوا کہ خداوند تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا، پھر اگر کوئی نیک بخت انسان خلیفۂ خدا کو آئینۂ خدا یا مظہرِ خدا مانتا ہے تو وہ حق بجانب ہے، کیونکہ اِس صفت کے بغیر کوئی شخص خلیفہ نہیں ہوسکتا ہے، اور اِس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ یہ خلیفہ یعنی آدم جس طرح روحِ خدا اور نورِ خدا ہے، اسی طرح وہ اُس کا آئینہ اور مظہر بھی ہے، اور جملہ انبیا و أئمّہ علیھم السّلام اپنے اپنے وقت میں ایسی صفات سے متّصف تھے، اور ہادیٔ زمان صلوات اللہ علیہ یہی مرتبہ رکھتا ہے۔

 

حکمت۔۱۰: فرشتہ شفاف شیشے کی طرح ہوتا ہے، یعنی ٹرانسپیرنٹ (Transparent) جس کی وجہ سے وہ آئینۂ خدا نہیں بن سکتا، کیونکہ اس میں نورِ خداوندی کا عکس

 

۹۰

 

نہیں بنتا اور نہ ہی انعکاس (Reflection) ہوتا ہے، چنانچہ خدائے علیم و حکیم نے حضرت آدم علیہ السّلام کی بابرکت ہستی کو پہلے شفاف شیشہ بنایا، اور پھر اس کے بعد چند امتحانات سے گزار کر اسے آئینۂ جمال و جلالِ ربّانی کے مرتبے پر فائز کر دیا، اِس پُرحکمت مثال سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ انسانِ کامل یقینا آئینۂ خدا ہے اور اس کی بشریت اِس حکمت آگین آئینے کی پُشت ہے، تاکہ نور منعکس (Reflected) ہو سکے۔

 

حکمت۔۱۱: روایت ہے، کہ سیّارۂ زمین پر حضرت آدم کے آنے سے قبل جِنّات بستے تھے، اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ دَورِ  روحانیّت تھا، جس میں لوگ کثیف جسم کو چھوڑ کر لطیف جسم میں منتقل ہوگئے تھے، کیونکہ انسان خدا کی قدیم صفات سے وابستہ ہونے کے سبب سے ہمیشہ سے ہے، وہ دائرۂ لا ابتدا  و لاانتہا پر ہمیشہ ہمیشہ سفر کرتا رہتا ہے، جس کا نصف وجودِ لطیف اور نصف وجودِ کثیف پر مبنی ہے، جس کی مثال ریشم کا کیڑا یا پروانہ ہے، چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ وہ زمین پر اپنا ایک نائب مقرر کرنے والا ہے، تو اِس سے فرشتوں کو تعجب ہوا، کیونکہ اِس سے قبل بھی ایسا کیا گیا تھا مگر اِس سے زمین پر فساد اور خونریزی ہوئی تھی، لہٰذا بطریقِ اشارہ انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی، کہ خلیفۂ خدا فرشتوں میں سے کسی کو بنایا جائے (مفہوم: ۰۲: ۳۰)۔

 

حکمت ۔۱۲: شیشہ صرف شیشہ ہی ہے، مگر آئینہ شیشہ بھی ہے اور آئینہ بھی، اسی طرح انسانِ حقیقی انسان بھی ہے اور فرشتہ بھی، اور اس کی یہ دو متضاد صفت  مَجْمَعَ الْبَحْرَیْن (۱۸: ۶۰) کی طرح ہیں، جو علمِ لَدُنّی کا مقام ہے، یعنی خیر و شر کے دو دریاؤں کا سنگم، خیر مستقل ہے اور شر عارضی، کیونکہ شر کا ذریعہ شیطان ہے اور وہ انفرادی یا اجتماعی قیامت تک محدود ہے، یا یوں سمجھ لیں کہ اس کو مسلمان (فرمانبردار) بنانا ہے یا اس کو مغلوب و مایوس بنا دینا ہے، تاکہ شر بنیاد ہی سے ختم ہو جائے اور خیر قائم رہے۔

 

نوٹ: خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کی یہ علمی خدمت بے حد ضروری ہے، آپ اسے خوب دل نشین کرلیں، اور پھر اسے اپنے ریکارڈ میں رکھ لیں، تاکہ کام آئے۔

 

فقط آپ کا علمی خادم

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۱۴۔ نومبر ۔ ۱۹۸۳ء

 

۹۱

 

حضرتِ آدم سے پہلے بھی لوگ موجو د تھے

 

دلیل نمبر ۱: ارشادِ ربّانی کا ترجمہ ہے کہ: (ایک زمانے میں) سب لوگ ایک ہی امت تھے پھر خدا تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا (۰۲: ۲۱۳) اس حکم سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ دورِ انبیاء جو حضرتِ آدمؑ سے شروع ہوا اس سے پہلے بھی لوگ موجود تھے، کیونکہ یہاں بے پایان زمانے کے جس پہلو کا بیان ہوا ہے، اس میں لوگ پہلے ہیں اور انبیاء علیہم السّلام بعد میں، اور حضرت آدم علیہ السّلام مذکورہ امتِ واحدہ کے بعد پیغمبر مقرر ہوئے ہیں۔

 

دلیل نمبر ۲: قرآنِ حکیم میں فرمایا گیا ہے کہ: یقیناً اللہ تعالیٰ نے (کارِ ہدایت کے لئے) منتخب فرمایا ہے آدم کو اور نوح کو اور آلِ ابراہیمؑ کو اور آلِ عمرانؑ کو دنیا والوں پر (۰۳: ۳۳) اس پُرحکمت اشارے سے صاف صاف ظاہر ہے کہ زمانۂ آدمؑ میں اہلِ جہان موجود تھے، جن میں سے خداوندِ عالم نے حضرت آدمؑ کو منتخب فرمایا، جس طرح دوسرے حضرات کو بعد میں دنیا والوں سے منتخب کیا تھا، اور سب جانتے ہیں کہ اگر صرف ایک ہی شخص موجود ہے تو اس صورت میں انتخاب اور برگزیدگی کا لفظ نہیں بولا جاتا ہے، جب تک کہ جمع کی حالت نہ ہو۔

 

دلیل نمبر ۳: جب ہم اس حقیقت کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السّلام اپنے وقت کے پیغمبر تھے، تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ماننا چاہئے کہ آپ کے زمانے میں لوگ تھے اور آپ لوگوں کے لئے پیغمبر تھے۔

 

۹۲

 

دلیل نمبر ۴: سب لوگ اس حقیقت کے قائل ہیں کہ آدم خلیفۂ خدا ہیں، لیکن یہ سوال شاید کسی نے نہیں کیا ہے کہ آیا آدم براہِ راست خدا کے خلیفہ ہیں یا بالواسطہ؟ براہِ راست کا مطلب یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ خود ہی روئے زمین کا دینی بادشاہ ہو، پھر کچھ زمانے کے بعد خداوندِ عالم حضرت آدمؑ کو زمین پر اپنا جانشین (خلیفہ) مقرر کرے، اور بالواسطہ کے معنی یہ ہیں کہ آدم کو یہ خلافت براہِ راست خدا سے نہیں بلکہ خلیفۂ سابق کے توسط سے ملی ہو، اور صحیح بھی یہی ہے، کہ خلافتِ الٰہیہ کا یہ پاک سلسلہ اتنا قدیم ہے جتنی کہ خدا کی سنت قدیم ہے ، اور اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں، یعنی ایسا نہیں کہ دین کا یہ کام جو خلافت میں پوشیدہ ہے کبھی خدا خود کرتا ہو اور کبھی اس کے لئے خلیفہ مقرر کرتا ہو، بلکہ سلسلۂ خلافت جو خداوند تعالیٰ کی صفات کا مکمل مظہر ہے ازل سے چلتا رہا ہے اور یہ ہمیشہ جاری رہے گا۔

 

دلیل نمبر ۵: جس ابلیس نے سجدۂ آدم سے انکار کیا تھا اس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ کافروں میں سے ہوگیا (۰۲: ۳۴) سو اگر اس وقت یا اس سے پہلے کبھی کافر لوگ موجود نہ ہوتے تو ہرگز یوں نہ فرمایا جاتا، کیونکہ کلامِ خدا اس سے پاک و برتر ہے کہ اس میں واقعیت و حقیقت کے بغیر کسی چیز کا ذکر ہو، اس سے معلوم ہوا کہ لوگ ہمیشہ سے ہیں۔

 

دلیل نمبر ۶: فرشتوں نے خلافتِ آدم پر جو اعتراض کیا تھا (۰۲: ۳۰) اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ انہوں نے لوحِ محفوظ میں آدم اور اولادِ آدم کے بارے میں کوئی پیش گوئی دیکھی تھی، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ فرشتے اگلے آدم کے دور کی ظاہری باتوں کو جانتے تھے، مگر باطنی حکمت سے بے خبر تھے، پس ظاہر ہے کہ آدم سے قبل بھی کئی آدم ہوئے ہیں۔

 

دلیل نمبر ۷: آدم انسان ہے، مگر ہر انسان آدم نہیں، لہٰذا قرآن میں انسان کے بارے میں جو کچھ ارشاد ہوا ہے اس کا اطلاق آدم پر بھی ہوگا، لیکن جو کچھ آدم کے متعلق ہے اس کا اطلاق ہر انسان پر نہیں ہوگا، چنانچہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ انسان کو

 

۹۳

 

خدا تعالیٰ نے نطفۂ مخلوط سے خلق کیا ہے (۷۶: ۰۲) اس کے یہ معنی ہوئے کہ ہر انسان کے والدین ہیں، خواہ آدم ہو یا عیسیٰ۔

 

دلیل نمبر ۸: قرآن کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ اور حضرت آدمؑ کی خلقت ایک جیسی ہے (۰۳: ۵۹) اس سلسلے میں بحث کے لئے ہم تین مثالیں درج کرتے ہیں ایک یہ کہ یہ دونوں حضرات والدین کے بغیر پیدا ہوئے تھے، مگر یہ درست نہیں کیونکہ حضرت عیسیٰؑ کی والدہ تھیں، دوسری مثال یہ کہ دونوں کی ماں تھیں، لیکن یہ بات نامکمل ہے، کیونکہ اس کی کوئی وجہ نہیں کہ آدم کی ماں ہو اور باپ نہ ہو، اور تیسری مثال یہ ہے کہ دونوں بزرگوں کے والدین تھے اور یہی صحیح ہے، کیونکہ قانونِ فطرت سب کے لئے ایک ہی ہے، مگر قرآن کا یہ ارشاد کہ عیسیٰؑ اور آدمؑ کی خلقت ایک جیسی ہے، اس معنیٰ میں ہے کہ جس طرح پیدائشِ عیسیٰؑ کو خدا نے راز میں رکھا ہے اسی طرح خلقتِ آدمؑ کو بھی راز میں رکھا ہے اور وہ یہ کہ ان دونوں کے والدین تھے۔

 

دلیل نمبر ۹: آدم و حوّا جب بہشت سے دنیا میں آئے یا ایک سیّارے سے دوسرے سیّارے پر منتقل ہوگئے یا روحانی دور سے گزر کر جسمانی دور میں داخل ہوگئے یا لطیف جسم کو چھوڑ کر کثیف بدن کو استعمال کرنے لگے تو اس وقت ان کے ساتھ لاتعداد لوگ موجود تھے، کیونکہ خدائے حکیم نے انہیں بہشت سے اتر جانے کا جو حکم دیا وہ صیغۂ جمع ہے (۰۲: ۳۸)۔

 

دلیل نمبر ۱۰: قرآنِ مقدّس میں اللہ تعالیٰ کی سنت کے بارے میں جس شان سے ارشاد ہوا ہے وہ گویا حکمتوں کا ایک آئینہ ہے، (۳۳: ۳۸، ۳۳: ۶۲، ۴۰: ۸۵) جس میں دیکھ کر اہلِ دانش کو یقین آتا ہے کہ خدا کا جو کام مستقبل میں ہونے والا ہے وہ بالکل وہی ہے جو ماضی میں بھی واقع ہو چکا تھا، اور اس میں کوئی چیز نئی نہیں ہے، سو یہی زمانہ ہے جو لوگوں کے درمیان گھومتا رہتا ہے جیسا کہ خداوندِ عالم کا فرمان ہے: وَ  تِلْكَ  الْاَیَّامُ

 

۹۴

 

نُدَاوِلُهَا  بَیْنَ  النَّاسِۚ (۰۳: ۱۴۰) ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جو وعدے فرمائے ہیں ان میں سے ایک کا مفہوم یہ ہے: تم میں سے جو لوگ (حقیقی معنوں میں) ایمان لائیں اور نیک عمل کریں خدا وعدہ فرماتا ہے کہ ان کو زمین کی خلافت عطا کرے گا، جیسا کہ اگلے لوگوں (یعنی آدموں) کو خلیفہ بنایا تھا (۲۴: ۵۵) اس سے ظاہر ہے کہ بے پایان زمانے کے بہت سے ادوار ہوتے ہیں اور ہر دور کا ایک آدم ہوا کرتا ہے۔

 

اس ارشاد کے دو معنی ہیں ایک عوام کے پاس اور ایک خواص کے پاس، عوام کے نزدیک اس کے یہ معنی ہیں کہ کافر لوگ جسمانی طور پر ہلاک ہو جائیں گے اور مومنین کو زمین کی حکومت ملے گی، مگر خواص کہتے ہیں کہ اس سے خلافتِ الٰہیہ مراد ہے نہ کہ کفار کی جانشینی، جس کی کوئی وقعت نہیں۔

 

فقط آپ کا علمی خادم

نصیر ہونزائی

۱۴ ستمبر ۱۹۸۰ء

 

۹۵

 

لفظِ “احسن” کی حکمت

 

ویسے تو قرآنِ پاک کا کوئی لفظ حکمتِ الٰہی سے خالی نہیں، تاہم بعض الفاظ اس سلسلے میں خاص اور کلیدی اہمیت کے حامل ہیں، اور لفظِ “احسن” ان ہی میں سے ایک ہے، جس کی کچھ مثالیں یہاں بیان کی جاتی ہیں۔

 

اس باب میں سب سے پہلے “احسن” کے لغوی معنی اور صرفی مطلب کو ذہن نشین کر لینا چاہئے، کہ احسن کے معنی ہیں بہترین، سب سے اچھا، سب سے عمدہ، اور سب سے بڑھ کر خوب، اور صَرف میں اس کو تفضیلِ کل کہتے ہیں۔

 

یہ بات سب جانتے ہیں کہ اس مادّی دنیا میں جتنی چیزیں ہیں وہ قدر و قیمت اور اہمیت کے اعتبار سے ایک جیسی نہیں ہیں، وہ علی الترتیب اور درجہ وار ہیں، بالکل اسی طرح عالمِ دین کی چیزیں واقع ہیں، یعنی وہ ایک سے ایک بہتر ہونے کے اصول پر ہیں، جس کو ہم یہاں اصولِ احسن کہہ سکتے ہیں۔

 

احسن کا رہنما اصول دو اشاروں کا حامل ہے، ایک یہ کہ وہ چیز جس کو احسن کہا گیا ہے دوسری چیز سے بہتر ہے، اور بعض صورتوں میں یہ ہے کہ وہ چیز سب سے بہتر ہے، احسن کے یہ دونوں اشارے آیاتِ متعلقہ میں معلوم ہو سکتے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: پھر ہم نے موسیٰ کو تمام کتاب دی جو سب سے بہترین (احسن) چیز پر تھی (یعنی اس کا موضوع تھا “سب سے بہترین چیز”) اور ہر چیز کی تفصیل تھی اور ہدایت و رحمت تھی تاکہ وہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات پر ایمان لائیں (۰۶: ۱۵۴)۔

 

۹۶

 

اس فرمانِ خداوندی کو ذرا غور سے دیکھنے سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ تورات کا اصل موضوع تھا “ملاقاتِ خداوندی” جس کو یہاں سب سے بہترین چیز فرمایا گیا ہے، کیونکہ اس حکم سے صاف طور پر ظاہر ہو جاتا ہے کہ تورات کی تفصیل، ہدایت اور رحمت کا آخری اور اعلیٰ مقصد اللہ تعالیٰ کے مقدّس نور کا دیدار ہی ہے۔

 

آسمانی کتاب خدائی علم کی ایک عجیب و غریب دنیا ہے، جس کی ہر طرف ایک زبردست کشش موجود ہے، یعنی ہر وہ چیز جس کی تعریف کی گئی ہے اس حسن و خوبی سے پیش کی گئی ہے کہ آدمی بس عمر بھر اسی میں کھو جائے، ایسی صورت میں اگر سب سے احسن چیز کا ذکر نہ ہوتا تو لوگ کتابِ الٰہی کے ذیلی مقاصد ہی میں گم ہو جاتے اور مقصدِ اعلیٰ کو نہیں پہنچ سکتے، مگر حقیقتِ حال اس کے برعکس ہے، وہ یہ کہ کتابِ سماوی ایک ایسے سمندر کی طرح ہے جس کا نہ صرف رخ (بہاؤ) ہی منزلِ مقصود کی طرف ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ روشنی والی برجیاں بھی ہر جگہ منزل کی نشاندہی کرتی ہیں۔

 

اس کے باؤجود افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے لوگ دنیائے علم ہی میں گمراہ ہو چکے ہیں، شاید آپ کو اس بات سے بڑا تعجب ہوگا، کہ علم کی روشنی میں گمراہی کیسی! سو لیجئے کہ یہ حقیقت دراصل قرآن ہی کی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا ہے: سو کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنا خدا اپنی خواہشِ نفسانی کو بنا رکھا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کو علم ہی پر گمراہ کر دیا ہے اور خدا نے اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے۔ (۴۵: ۲۳) اس سے ظاہر ہے کہ بہت سے لوگ آسمانی کتاب کا سطحی علم تو رکھتے ہیں، مگر خدا کو نہیں پہچانتے، جس کی وجہ سے وہ اسی ظاہری علم میں گمراہ ہو جاتے ہیں، پھر اس میں کتابِ سماوی کا کیا قصور، اس میں ذکر تو ہے کہ سب سے بہترین چیز کیا ہے، مگر وہ نہیں سمجھتے ہیں۔

 

نیز اصولِ احسن کے بارے میں ارشاد ہے: وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ (۱۶: ۱۲۵)

 

۹۷

 

اور ان سے اس چیز کے ذریعہ سے بحث کیجئے جو سب سے بہترین ہے۔ یعنی اُن کے نظریہ پر اپنے نظریہ کی فوقیّت کو روشن دلائل سے ثابت کیجئے، اور اسلام میں جو سب سے بہترین چیز ہے اس کا ثبوت دیجئے۔

 

اس اصول کے بارے میں یہ بھی فرمایا گیا ہے: پس آپ میرے ان بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے جو کلامِ الٰہی کو سنتے ہیں پھر اس کی بہترین باتوں پر عمل کرتے ہیں (۳۹: ۱۷ تا ۱۸) ، یعنی ظاہر کے بعد باطن اور تنزیل کے بعد تاویل پر عمل کرنا مقصود ہے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو مقصدِ اعلیٰ تک رسائی نا ممکن ہوگی۔

 

اسلام کا دوسرا نام صراطِ مستقیم (راہِ راست) ہے، اس کے معنی ہیں کہ مسلمان علم و عمل کا مسافر ہے اور خدا اس کا منزلِ مقصود ہے، اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ وہ آگے سے آگے بڑھے اور سب سے بہترین یہ ہے کہ وہ خدا سے مل جائے۔

 

دین کی تعلیم اور تعمیل دونوں بحیثیتِ مجموعی ایک یونیورسٹی کے مشابہ ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اقوال و اعمال کے مدارج بنے ہوئے ہیں، اور ان میں پچھلے درجہ سے اگلا درجہ بہتر ہے اور جو درجہ سب سے آخر میں ہے وہی سب سے اوپر ہے اور وہی سب سے احسن ہے۔

 

یہ قدرتی بات ہے کہ لوگوں کی ذہنی اور عملی صلاحیت برابر اور ایک جیسی نہیں ہوتی ہے، وہ اس اعتبار سے مختلف سطحوں پر ہوتے ہیں، لہٰذا دین کو سیدھی راہ (صراطِ مستقیم) کی صورت میں بنایا گیا، تاکہ کچھ لوگ آگے اور کچھ پیچھے چلتے رہیں اور جو سب سے آگے ہیں وہ ہدایت میں احسن قرار پائیں۔

 

جو صراطِ مستقیم ہے وہی خدا کی رسی بھی ہے اور جو خدا کی رسی ہے وہی خدا کی سیڑھی بھی ہے، یعنی سیدھی راہ، خدا کی رسی اور خدا کی سیڑھی ایک ہی چیز ہے، مگر نام الگ الگ ہیں، ان میں سے ہر مثال میں درجات کا تصوّر ہے، چنانچہ جو شخص صراطِ مستقیم پر

 

۹۸

 

جتنا آگے بڑھے اور جس قدر خدا سے نزدیک تر ہو جائے اتنا بہتر (احسن) ہے، کوئی مومن خدا کی رسی سے وابستہ ہو کر عالمِ علوی کی جانب جتنا بلند ہو سکے اتنا اچھا ہے اور خدا کی سیڑھی پر چڑھتے ہوئے جتنا بلند درجہ حاصل کیا جائےاتنا احسن ہے، یہ اس لئے کہ اسلام نے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا تصوّر دیا ہے (۵۷: ۲۱، ۳۵: ۳۲، ۰۹: ۱۰۰، ۲۳: ۶۱، ۵۶: ۱۰)۔

 

 

فقط دعا گو

نصیر ہونزائی

۲۱ جولائی ۱۹۸۰ء

 

۹۹

 

نور اور حواسِ ظاہر و باطن

 

حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن کے درمیان ایک حجاب یعنی پردہ موجود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ظاہری اور باطنی چیزوں کا احساس و مشاہدہ الگ الگ ہو سکتا ہے، اور اگر یہ پردہ کسی طرح اٹھ جائے تو پھر عجب نہیں کہ باطن کی چیزیں ظاہر میں نظر آنے لگے اور ظاہر کی چیزیں باطن میں، یہی سبب ہے کہ بعض لوگ شمع بینی، بلور بینی اور ماہتاب بینی جیسی مشقیں کر لیا کرتے ہیں، تاکہ اس نرم اور متواتر مشق سے اس پردے کی تحلیل ہو، جو چشمِ ظاہر اور چشمِ باطن کے درمیان ہے، ہمیں معلوم ہے کہ اس نوعیت کی کوشش کرنے والے افراد میں سے کچھ برائے نام کامیاب بھی ہو جاتے ہیں، مگر حقیقی ہدایت اور حقیقت اس کے برعکس ہے۔

 

ظاہر و باطن کے درمیان جو دیوار کھڑی ہے یا اسرارِ باطن پر جو نقاب ہے اس کو عبادت و ریاضت کے زور سے ہٹانا چاہئے، تاکہ محنت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے مطابق ہو اور نتیجہ بدرجۂ انتہا مفید ثابت ہوسکے، کیونکہ صراطِ مستقیم صرف ایک ہی ہے، اور اس سے ہٹ کر جو کچھ بھی ہے وہ گمراہی اور بت پرستی ہے۔

 

الحمدللہ علیٰ احسانہ۔ اس بندۂ درویش نے حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن کو ایک ہوتے ہوئے دیکھا اور اس کا مکمل تجربہ کیا، شمع، بلور اور ماہتاب کی کوئی مشق نہیں کی، مگر ان کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ کیا، یہ ہدایتِ حقہ اور رحمتِ خداوندی کا نتیجہ تھا۔

 

۱۰۰

 

جب کوئی باسعادت مومن خدا شناسی کے مقام کو پا لیتا ہے، تو اس وقت اس کے حواس ظاہراً و باطناً غیر معمولی کام کرنے لگتے ہیں، وہ ایسے معجزات کا مشاہدہ کر سکتا ہے، جن کے متعلق لوگ وہم و گمان بھی نہیں کر سکتے، وہ ایسی آوازوں کو سن سکتا ہے جو اسرارِ  روحانیّت میں سے ہیں، وہ ایسی خوشبوؤں کے سونگھنے کا تجربہ کر سکتا ہے، جن کے احساس سے لوگ قطعاً بے خبر ہیں، اور اسی طرح تمام حواسِ ظاہر و باطن کے لاتعداد عجائبات و غرائبات ہیں۔

 

نور اپنے وسیع تر معنوں میں صرف آنکھ کی روشنی اور رہنمائی تک محدود نہیں، بلکہ وہ مومن کے ہر احساس و ادراک کو بدرجۂ انتہا قوّی اور فعال بنا دیتا ہے، مثال کے طور پر نور جب بھی آئے تو وہ آنکھوں میں نہیں آتا، بلکہ وہ بندۂ صالح کے دل و دماغ کو اپنا مرکز بنا لیتا ہے اور وہیں سے تمام ظاہری اور باطنی حواس پر محیط ہو جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں عقل ہی وہ مقام ہے جہاں نور کا پاور ہاؤس بن سکتا ہے، اگر یہ نورانیّت و  روحانیّت کا پاور ہاؤس قائم ہو چکا ہے تو تمام ظاہری اور باطنی حواس اسی کی طاقت سے کام کرنے لگیں گے، کیونکہ جسم و جان کی جملہ قوّتیں دل یعنی عقل سے منسلک ہیں، جس طرح کسی شہر کا ہر گھر اور ہر کارخانہ بجلی گھر سے منسلک ہوا کرتا ہے۔

 

فقط

نصیر ہونزائی

۴ جون ۱۹۸۳ء

 

۱۰۱

 

ذوالقرنین

 

جس ذوالقَرنَین کاقرآن(۱۸: ۸۳ تا ۹۸)میں ذکرہےوہ کتاب ’’ الامامت فی الاسلام ‘‘ کے مطابق حضرت نوح علیہ السّلام کے دور کے چوتھے امام کا نام ہے، ذوالقَرنَین کا مطلب ہے دو زمانوں کا مالک، یعنی زمانۂ ظاہر اور زمانۂ باطن، جس کو عصر بھی کہا جاتا ہے، سو ایسا کامل انسان جو زمانے کے ظاہر و باطن کا بادشاہ ہو سوائے پیغمبر اور امام کے اور کوئی نہیں ہوسکتا، چنانچہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ والہ وسلّم نے مولانا علی علیہ السّلام سے فرمایا کہ: ۔

 

یا علی اِنَّ لَکَ بَیْتاً فی الجَنَّۃِ وَ اِنَّکَ لَذُوْ قَرنَینُھا۔ یعنی جنت میں تمہارے لئے ایک مخصوص مکان ہے اور تم اِس اُمّت کے ذوالقرنین ہو، یعنی یہ مرتبہ سلسلۂ امامت میں ہمیشہ امّت کے درمیان موجود ہے۔

 

چنانچہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے کہ: ۔

اور (اے رسول) آپ سے یہ لوگ ذوالقرنین کا حال پوچھتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ میں اس کا کچھ حال تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں، ہم نے اس کو زمین میں قدرت دی تھی اور ہم نے اس کو ہر چیز کا راستہ دیا تھا۔ (یعنی زمینِ ظاہر اور زمینِ  روحانیّت کی ہر چیز پر تسلط دیا تھا )۔

 

چنانچہ وہ ایک راہ پر ہو لیا ۔( یعنی اُس نے روحانی سفر کیا)۔یہاں تک کہ جب سورج ڈوبنے کی جگہ پر پہنچا تو آفتاب اس کو ایک کیچڑ کے چشمے میں ڈوبتا ہوا دکھلائی دیا ۔ ( یعنی نورِ توحید حدودِ جسمانی میں ڈوب جاتا تھا، اور یہ حدود جسمِ لطیف کے ذرّات کی صورت میں کام کرتے تھے ) اور وہاں پر اُس نے ایک قوم دیکھی ۔( یعنی دوسرے

 

۱۰۲

 

درجے کی روحیں جو اہلِ ادیان کی ہیں ) ہم نے (بطریقِ الہام) یہ کہا کہ اے ذوالقرنین خواہ عذاب دو اور خواہ ان کے بارے میں بھلائی سے کام لو ذوالقرنین نے عرض کیا کہ پس البتہ جو ظلم کرے گا سو اس کو ہم سزا دیں گے پھر وہ اپنے پروردگار کے پاس پہنچایا جائے گا پھر وہ اس کو سخت سزا دے گا اور جو شخص ایمان لے آئے گا اور نیک عمل کرے گا تو اس کے لئے بدلے میں بھلائی ملے گی اور ہم اپنے برتاؤ میں اس کو آسان بات کہیں گے ۔ (یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے خلیفۂ روئے زمین کو ہر طرح کا اختیار دیا اور خلیفۂ خدا نے ادب سے کہا کہ وہ قانونِ عدل کے مطابق لوگوں سے سلوک کرے گا  روحانیّت کے مقام پر بھی اور جسمانیت میں بھی )۔

 

پھر ایک (دوسری) راہ پر ہو لیا یہاں تک کہ جب طلوعِ آفتاب کے مقام پر پہنچا تو آفتاب کو ایک ایسی قوم پر طلوع ہوتے دیکھا جن کے لئے ہم نے آفتاب کے نیچے کوئی آڑ نہیں رکھی تھی (رازِ روحانی) اسی طرح ہے۔ (یعنی ذوالقرنین کے اِس سفرِ روحانی میں حدودِ جسمانی کے بعد حدودِ روحانی سے ملاقات ہوئی تھی جہاں اہلِ توحید کی روحیں موجود تھیں، جن پر نورِ توحید کی روشنی براہِ راست پڑتی تھی اور اُس واقعہ میں  روحانیّت کا سب سے بڑا راز پوشیدہ تھا)۔

 

اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ (علم و حکمت) تھی ہم کو اس کی پوری خبر ہے ۔ (یعنی ذوالقرنین کے تمام بھیدوں کی تفصیل سے ہم باخبر ہیں)۔

 

پھر ایک اور راہ پر ہولیا یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان میں پہنچا تو اُن دو قوموں ( یعنی اہلِ توحید اور اہلِ مذاہب ) سے کم درجے کی ایک قوم کو دیکھا جو کوئی بات سمجھنے کے قریب بھی نہیں پہنچتے ۔(یعنی اہلِ دنیا یا کہ لادینی لوگوں کی روحیں ) ۔

 

انہوں نے یعنی اہلِ ادیان نے کہا کہ اے ذوالقرنین یہ یاجوج و ماجوج زمین میں فساد مچاتے۔ ( یعنی دنیائے  روحانیّت میں فساد کرنے والے یہی یاجوج و ماجوج ہیں یعنی

 

۱۰۳

 

لامذہب والوں کی روحیں) ۔ سو کیا ہم لوگ آپ کے لئے کچھ چندہ جمع کر دیں اِس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی روک بنا دیں ۔ (یعنی کچھ علم دیں ) ذوالقرنین نے جواب دیا کہ جو قدرت و تسلط میرے پروردگار نے مجھے عنایت کیا ہے وہ بہت کچھ ہے سو البتہ ذاتی قوّت سے میری مدد کرو تو میں تمہارے اور ان کے درمیان میں ایک مضبوط دیوار بنا دوں۔ (یعنی تم صرف حرکتِ روحانی سے میری مدد کرو تاکہ میں ہیولیٰ (روحانی مادّہ) کی دیوار بناؤں )۔

 

تم لوگ میرے پاس لوہے کے ذرّات لاؤ ۔( یعنی لوہے کے ھیولیٰ کے ذرّات، کیونکہ عالمِ ذرّ میں ذرّاتِ روحانی کی صورت میں سب کچھ موجود ہے، اور قرآن کے بہت سے مقامات پر “کُل شیئٍ” کے عنوان کے تحت اس کا ذکر ہے) یہاں تک کہ جب ان دونوں سروں کے بیچ (کے خلاء) کو برابر کر دیا تو کہا کہ دھونکو یہاں تک کہ جب اس کو لال انگارا کر دیا تو (اسوقت) حکم دیا کہ اب میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ کہ اس پر ڈال دوں۔ (یعنی دو پہاڑ  روحانیّت اور جسمانیت کی مثال ہیں اور درمیان میں جو دیوار ہے وہ برزخ ہے یعنی پردہ، جس کی کیفیت نہ تو روحانی ہے اور نہ ہی جسمانی بلکہ درمیانی حالت ہے چنانچہ اسی حقیقت کی مثال سورۂ رحمٰن میں دو ایسے سمندروں سے دی گئی ہے جو ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں جن کے درمیان ایک پردہ ہے جس کی وجہ سے وہ بڑھ نہیں سکتے، تویہ درمیانی پردہ کبھی بنایا جاتا ہے اور کبھی اُٹھایا جاتا ہے، اور جب بھی یہ دیوار ہٹائی جاتی ہے تو  روحانیّت و جسمانیت ایک ہو جاتی ہے اور یاجوج و ماجوج کی روحیں جو انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات پر سوار ہیں انسانی جسم میں پھیل جاتے ہیں، یہ تمام باتیں  روحانیّت کے اسرار میں سے ہیں، پس دھونکے سے ذکر و عبادت مراد ہے جو محنت و ریاضت سے ہو اور لوہے کو گرم کرنے کے معنی ہیں اِن ذرّاتِ روحانی کو عبادت و بندگی کے زیرِ اثر لانا، اسی طرح پگھلا ہوا تانبا کا مطلب ہے ایسے دوسرے ذرّات کو سخت ذکر کے

 

۱۰۴

 

ذریعہ تحلیل کرنا)۔

 

سو نہ تو یاجوج و ماجوج اِس (دیوار) پر چڑھ سکتے ہیں اور نہ اس میں نقب دے سکتے ہیں ۔(یعنی امامِ زمان زمانے کے ذوالقرنین ہیں اور مومنین ان کے لشکر ہیں، جن کے روحانی عمل سے  روحانیّت و جسمانیت کے درمیان کی یہ دیوار یا کہ حجاب بنتا اور قائم رہتا ہے)۔

 

ذوالقرنین نے کہا کہ یہ میرے ربّ کی رحمت ہے، پر جس وقت میرے ربّ کا وعدہ آئے گا، تو اس کو ریزہ ریزہ کرے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ سچا ہے۔(یعنی دنیا والوں کے لئے یہ بھی ایک رحمت کی صورت ہے کہ اسی طرح یاجوج و ماجوج کے فساد سے محفوظ ہیں مگر جب انفرادی یا اجتماعی قیامت آئے گی تو خداوند تعالیٰ اس حجابِ روحانی کو ریزہ ریزہ کرے گا تاکہ بمع دیگر روحوں کے یاجوج و ماجوج کا ظہور ہو تاکہ  روحانیّت کا دور دورہ ہو یا ایسا کوئی نمونہ کسی فرد کو پیش کیا جائے)۔

 

اور ہم اس دن ان کو اس طرح چھوڑ دیں گے کہ وہ ایک دوسرے میں موجزن ہو جائیں گے۔( یعنی قیامت کے موقع پر تمام روحانی ذرّات کو اس طرح چھوڑ دیں گے کہ سمندر کی طرح ایک دوسرے میں موجزن ہو جائیں گے ) اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو اکٹھا کریں گے۔(پھر اُن بے پناہ روحوں پر کسی کا کوئی کنٹرول نہ ہوگا سوائے صورِ اسرافیل کی آواز اور ذکرِ الٰہی کے اور اللّٰہ تعالیٰ سب کو اپنی حکمت سے جمع کرے گا جس طرح کہ جمع کرنے کا حق ہے )۔

 

اور اسی دن جہنم کو ہم ان کافروں کے سامنے کھلم کھلا پیش کریں گے جن کی آنکھیں ہمارے ذکر سے پردے میں تھیں اور وہ سن بھی نہیں سکتے تھے ۔ (یعنی وہ حق کونہیں دیکھ سکتے تھے) ۔

 

فقط

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

 

۱۰۵

کنز المعارف – حصۂ دوم

کنز المعارف حصّۂ دوم

انتساب

مومنین و مومنات کے “سب سے بڑا مقدّس فریضہ” کے بارے میں استادِ بزرگوار آیت (۶۶: ۰۶) “اے لوگوجو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کواور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اورپتھر ہوں گے” کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ “اس آگ سے آتشِ جہالت ونادانی مراد ہے، جس نے دنیا کے لوگوں کی بہت بڑی اکثریت کو گھیر لیا ہے۔ کیا تم جانتے ہو کہ یہ کونسی جہالت ہے؟ جواب: حقیقی علم کا نہ ہونا ، معرفت سے دوری، وسیلۂ حکمت سے محرومی ، ہادیٔ برحق سے بیگانگی۔”

الحمدللہ! اس عظیم ترین فریضے کی ادائیگی میں فرشتۂ قلم آنسہ ظلِّ فاطمہ زہراء سندھرانی نے اپنی عزیز بہن ظلِ فاطمہ نسیم ویرانی صاحبہ کی طرح استادِ بزرگوار قس نے دنیائے انسانیت کی بھلائی کے لئے علمِ حقیقی کے جو خزائن چھوڑے ہیں ان کو جماعت اور دنیائے انسانیت تک پہنچانے کے لئے کنزالمعارف حصۂ دوم کی طباعت و اشاعت کے سلسلے میں عظیم خدمات انجام دی ہیں اور ان خدمات کو اپنے “سندھرانی خاندان” سے منسوب کرنا چاہتی ہیں۔ استادِ بزرگوار کے مقدّس علم کی حفاظت و اشاعت کے سلسلے میں آپ کی اور بھی بڑی بڑی خدمات ہیں بالخصوص قلمی خدمات، جن کے صلے میں استادِ بزرگوار قس نے آپ کو”فرشتۂ قلم” کے ٹائٹل سے نوازا ہے۔ آپ ظاہری علم میں فارسی میں ایم۔ اے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ علمِ دین سے

 

الف

 

آراستہ و پیراستہ ہیں۔ قدرت نے آپ کو اوربھی بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے، جن کی تفصیلات کے لئے ایک الگ دفتر کی ضرورت ہے۔ آپ کا خاندانِ محترم درج ذیل افراد پر مشتمل ہے: والدِ گرامی محترم جعفر علی صاحب، والد ہ ماجدہ ظلِ فاطمہ محترمہ زرینہ جعفر علی صاحبہ، بھائی محترم وزیر علی صاحب، محترم جاوید صاحب، محترم اکبر پیرانی صاحب، بہنیں ظلِ فاطمہ محترمہ منیرہ بصریا صاحبہ، ظلِ فاطمہ محترمہ زبیدہ نظر علی صاحبہ، ظلِ فاطمہ محترمہ نسیم احمد ویرانی صاحبہ۔

ربّ العزّت اِن ہمیشہ رہنے والی خدمات کا اجرِ عظیم دونوں جہانوں میں عطا فرمائے!آمین یا ربَّ العالمین!!

 

فقیر حقیر

مرکزِ علم و حکمت لندن

۲۹/اپریل۲۰۲۱ء

 

ب

 

گزارشِ احوال

 

یہ کتاب “کنز المعارف” حصّۂ دوم، حضرتِ استادِ بزرگوار علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی قس کے غیر مطبوعہ مقالوں کا دوسرا مجموعہ ہے، اور ان شاء اللہ موصوف کے دوسرے باقی ماندہ غیر مطبوعہ مقالوں کے اشاعت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ استادِ بزرگوار قس جب جسمانی صورت میں اس دنیا میں موجود تھے تو بنفسِ نفیس ہر کتاب کا دیباچہ یا تمہید تحریر فرماتے تھے، جس میں نہ فقط کتاب کا لبِ لباب ہوتا تھا بلکہ اور بھی حقائق و معارف ہوتے تھے۔ چونکہ استادِ بزرگوار قس کو امامِ زمانؑ کی خصوصی تائید حاصل تھی اس لئے بشمول دیباچہ ہر کتاب کا ہر جملہ اور ہر لفظ دعوتِ حق کے موازینِ حقائق پر تلا ہوا ہوتا تھا۔ اب ہم میں سے کسی کو وہ سعادت حاصل نہیں، اس صورت میں ہماری محدود دانست کے مطابق موصوف کے ان مقالات کے بارے میں کچھ لکھنے سے ان میں مشتمل حقائق و معارف کے سمجھنے میں کمی بیشی کا خدشہ ہے۔ اس لئے مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کو بعینہا قارئین کو پیش کیا جائے۔

 

اظہارِ تشکر

اس کتابِ مستطاب کو منصفۂ شہود پر لانے میں بہت سے مومنات و مومنین نے کام کیا ہے۔ بالخصوص ظلِ فاطمہ نسرین اکبر اور ظلِ قائم اکبر شمس الدین کا اس میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔ سب سے پہلے یہ مقالے جو مختلف جگہوں پر بکھرے

 

ج

 

پڑے تھے ان کو جمع کیا اور ان کو Scan کر کے محفوظ کیا اور پھر ان کی غلطیوں سے پاک ٹائپنگ کی اور آخر میں یہ انتخاب بھی ان کی محنتِ شاقہ کا نتیجہ ہے۔ اس پورے کام کو انہوں نے نہایت دقت، جانفشانی اور تندہی کے ساتھ انجام دیا ہے۔ ساتھ ساتھ ظلِ قائم نزار حبیب کی مہارت بھی اس میں کار فرما رہی ہے خصوصاً حسن و جمال سے آراستہ و پیراستہ اور پر معنی سرورق تیار کرانے میں جو مہارت آپ نے حاصل کی اس کی عالمگیر شہرت ہو رہی ہے۔ نہایت خوشی کی بات ہے کہ ظلِ قائم عظیم علی لاکھانی صاحب کی نگرانی میں، لٹل اینجل مہر انگیز لاکھانی، لٹل اینجل محمد رفیع لاکھانی اور لٹل اینجل درِّ ثمین نزار، لٹل اینجل فقیر محمد نزار نے اس کتاب کے اختتام پر شامل شدہ فہارس تیار کی ہیں۔

ادارہ ان سب کے لئے نہایت شکرگزاری کے ساتھ دعا کرتا ہے کہ خداوندِ ربّ العزّت سب کو ایسے مقاصد میں بدرجۂ اتم کامیابی عطا فرمائے اور ان کے ہر کام میں خداوند کی خوشنودی شامل ہو۔ آمین یا ربّ العالمین۔

 

فقیر حقیر

مرکزِ علم و حکمت، لندن

۲۹ اپریل ۲۰۲۱ء

 

د

 

اِمامؑ کی مُحبّت جانِ بہشت

 

۱۔ اِس امرِواقعی میں کوئی شک ہی نہیں کہ بہشتِ برین کا تصوّر نہایت ہی ارفع و اعلیٰ، عجیب و غریب، بیحد دلنواز، ازبس شیرین اور زبردست مسرّت انگیز ہے، کیوں نہ ہو جبکہ جنت نہ صرف خدائے بزرگ و برتر کی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ کی آئینہ داری کرتی ہے، بلکہ یہ پروردگارِ عالم کی صفاتِ جلال و جمال اور تجلیّات کی ظہور گاہ اور منظر بھی ہے، یہی سبب ہے کہ تمام کتبِ سماوی میں اور جملہ انبیائے کرام علیھم السّلام کی پاکیزہ زبان پر روضۂ رضوان کی تعریف و توصیف ہوتی رہی ہے، خصوصاً قرآنِ مقدس کو دیکھ لیجئے جو سراسر صداقتوں اور حکمتوں کا سرچشمہ ہے کہ یہ کس پَیرایۂ دلنشین میں جنت کی سدا بہار خوبیوں کو بیان فرماتا ہے، اور کیسی کیسی خوبصورت و حکمت آگین مثالوں میں اس کی لازوال و غیرفانی نعمتوں کا تذکرہ کرتا ہے، پس اِسی مناسبت سے یہاں یہ کہنا بالکل درست اور بجا ہے کہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ و سلامہٗ کی پاک محبت دیدۂ دانش اور قلبِ ایمانی میں بیحد شیرین اور بدرجۂ انتہا روح پرور ہے، جس کی مثال صرف اور صرف بہشتِ جاودانی کی بڑی بڑی نعمتوں سے دی جاسکتی ہے، بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ امامِ اقدس و اطہر کی پُرحکمت محبت و عشق جانِ بہشت ہے۔

۲۔ ادیانِ عالم میں کوئی ایسا دین یا مذہب نہیں، جس میں خدا کی محبت و دوستی کا تصوّر نہ ہو لیکن چونکہ دینِ اسلام اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کا ظہورِ کامل ہے، اِس لئے یہاں خدا اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت کا ایک قرآنی

 

۱

 

اور نورانی وسیلہ ہمیشہ کے لئے موجود اور حاضر ہے، اور وہ سرچشمۂ محبت، نورِ ہدایت، خزانۂ علم و حکمت، ولّیٔ زمان، ترجمانِ قرآن، ہادیٔ دوران، جان و جانانِ عاشقان، اور آقائے مومنان امامِ زمان علیہ السّلام ہیں، جن کی اطاعت خدا و رسولؐ کی اطاعت کے واسطے لازمی اور ضروری قرار دی گئی ہے (۰۴: ۵۹)۔ کیونکہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی اطاعت و محبت بواسطۂ محمد رسول اللہ و أئمّۂ آلِ محمدؐ ممکن ہے (۰۳: ۳۱)۔

۳۔ سورۂ مریم کے آخری رکوع میں ہے: اِنَّ الَّذِینَ اٰمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجعَلُ لَھُمُ الرَّحمٰنُ وُدًّا (۱۹: ۹۶) بے شک جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کئے عنقریب خدا ان کی محبت لوگوں پر فرض کر دے گا۔۱  چنانچہ اِس حکمِ خداوندی کے مطابق علی اور أئمّۂ اولادِ علی (علیھم السّلام) کی محبت لوگوں پر فرض ہوگئی، لیکن کیوں؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ اس لئے کہ لوگ نورِ ہدایت کی رسّی سے وابستہ ہو جائیں، اور گمراہی سے بچ کر چلیں۔

۴۔ سورۂ شوریٰ (۴۲: ۲۳) میں امامِ آلِ محمدؐ کی دوستی کے بارے میں یہ ارشاد ہے: قُل لَّا اَسئَلُکُم عَلَیہِ اَجرًا اِلَّا المَوَدَّۃَ فیِ القُربٰی اے رسول تم کہہ دو کہ میں اِس (تبلیغِ رسالت) کا اپنے قرابت داروں (اہلِ بیتؑ) کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا۔ اِس آیۂ کریمہ سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ امامِ آلِ نبیؐ سے مومنین کی محبت خدا اور اس کے رسولؐ کی خوشنودی کا باعث ہو جاتی ہے، اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ قرآنِ کریم کا یہ حکم ہر زمانے کے لئے ہے۔

۵۔ یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ قرآنِ حکیم اپنی بے شمار خوبیوں کے سلسلے میں ہر آیۂ کریمہ میں خدا کے ایک اسم یا ایک سے زیادہ اسموں کی تفسیر کرتا ہے، چنانچہ ہم یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذکورۂ بالا دونوں آیتیں خدائے پاک کے اسمِ وَدُود (محبت کرنے والا) کی تفیسرکرتی ہیں، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے مظہر، خلیفہ، آئینۂ جمال و

 

۲

 

جلال، وَلیٔ امر، نورِ منزّل، معلّمِ قرآن، جانشینِ رسولؐ، اور امامِ وقت کے توسط سے محبت کرتا ہے، اور لوگوں کے لئے بھی خدا سے محبت کرنے کا یہی وسیلہ مقرر ہے۔

۶۔ وہ آیۂ مبارکہ جس میں اسمِ وَدُود آیا ہے، یہ ہے: وَ استَغفِرُوا رَبَّکُم ثُمَّ تُوبُوٓا اِلَیہِ اِنَّ رَبِّی رَحِیمٌ وَّدُودٌ (۱۱: ۹۰) اور اپنے پروردگار سے اپنی مغفرت کی دعا مانگو پھر اسی کی بارگاہ میں توبہ کرو بیشک میرا پروردگار بڑا مہربان اور محبت والا ہے۔ اِس بابرکت ارشاد میں خدائے بزرگ و برتر کے پانچ اسماء کی مربوط حکمت موجود ہے، وہ اسماء یہ ہیں: غفار، ربّ، توّاب، رحیم، اور وَدُود، اور ان کی حکمت یہ ہے کہ جو لوگ بحکمِ آیۂ مَوَدّت (۴۲: ۲۳) أئمۂ آلِ نبیؐ و اولادِ علیؑ ( یعنی امامِ زمانؑ) سے محبت کرتے ہیں، ان سے خدائے وَدُود محبت کرتا ہے اور جن لوگوں کو آسمانی محبت کی سعادت نصیب ہو جاتی ہے، ان پر مذکورہ پانچ خزانوں کے دروازے کشادہ ہو جاتے ہیں۔

۷۔ ایک اور مقام جہاں اسمِ وَدُود کا ذکر ہے یہ ہے: بیشک تمہارے پروردگار کی پکڑ بہت سخت ہے (یعنی وہ ساری کائنات کو اپنے قبضۂ قدرت میں محدود کرلیتا ہے) وہ پہلی دفعہ پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرتا ہے ( یعنی مظاہرۂ نورِ عقل) اور وہی بڑا بخشنے والا محبت کرنے والا ہے ( یعنی روحانیّت کے یہ مقامات بخشش و محبت کا نتیجہ ہیں) وہ عرشِ مجید کا مالک ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے (۸۵: ۱۲ تا ۱۶) (یہ عرشِ عظیم کی معرفت کا تذکرہ ہے جس میں ازلی و ابدی حقائق و معارف جمع ہیں)۔

۸۔ قرآنِ حکیم میں نفسانی اور جسمانی دو قسم کی موت کا بیان ہے، چنانچہ قسمِ اوّل کی ایک پُرحکمت مثال ملاحظہ ہو: جن لوگوں نے (سچے دل سے) کہا کہ ہمارا پروردگار تو (بس) خدا ہے پھر وہ اسی پر قائم رہے، ان پر (بوقتِ نفسانی موت) فرشتے نازل ہوتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ کچھ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور جس بہشت کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا اس کی خوشخبری سنو ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں

 

۳

 

اور آخرت میں بھی ہیں (۴۱: ۳۰ تا ۳۱)۔ یہ فرشتے کون ہو سکتے ہیں؟ کیا یہ مجرّد فرشتے ہیں؟ ان کی دوستی کا راز کیا ہے؟ انہوں نے کہا: نحنُ اَولیائُ کُم ( ہم تمہارے دوست ہیں) ولی امام کا نام ہے اور اولیاء أئمّۂ طاہرین کو کہتے ہیں، چنانچہ جو مومنین امامِ زمانؑ کے وسیلے سے خدا کی محبت کو حاصل کرتے ہیں تو ان کے حق میں نورِ امامت دوست بن جاتا ہے، جس میں امامانِ برحق بمرتبۂ ملائکہ موجود ہیں، اور وہی حضرات علیھم السّلام مومنین کے اولیاء ہیں۔

۹۔ سورۂ مائدہ (۰۵: ۵۴) میں کافی غور سے دیکھیں: اے ایماندارو تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو (کچھ پرواہ نہیں پھر جائے) عنقریب ہی خدا ایسے لوگوں کو لائے گا جنہیں خدا دوست رکھتا ہوگا اور وہ اس کو دوست رکھتے ہوں گے، ایمانداروں کے ساتھ منکسر (اور) کافروں کے ساتھ کڑے، خدا کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کچھ پرواہ نہ کریں گے، یہ خدا کا فضل و کرم ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ یہ ربّانی تعلیم بھی اوپر کی بشارت کی طرح ہے، کیونکہ ایسے لوگ صرف نورانی وجود میں کوئی ایسا جہاد کر سکتے ہیں۔

۱۰۔ خدائے مہربان نے بنی نوع انسان کو بصورتِ امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲) سب کچھ دے رکھا ہے: وَ اٰتٰکُم مِّن کُلِّ مَا سَاَلتُمُوہُ (۱۴: ۳۴) اور جو کچھ تم نے اُس سے مانگا اس میں سے تمہیں دے دیا۔ اور اگر کسی چیز کی کمی ہے، تو اس کی وجہ علم و عمل کی کمزوری ہے (۱۵: ۲۱) یا یوں کہنا چاہئے کہ بہت بڑا امتحان سامنے ہے، جس سے کامیابی کے ساتھ گزرے بغیر خزانہ نہیں مل سکتا۔

۱۱۔ انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کے وجودِ مبارک سے متعلق اللہ تعالیٰ کی ایک ہی سنت و عادت رہی ہے، ہر چند کے بظاہر اس قانون کو سمجھ لینا بڑا مشکل ہے، بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر نبی اور ہر امام میں نور ہوتا ہے، جس کی ایک بنیادی خصوصیت

 

۴

 

آسمانی محبت ہے، جو باسعادت مومنین پر اثرانداز ہو کر اپنی اُس معجزانہ کشش سے جو ایمان پرور بھی ہے اور جانفزا بھی انسانِ کامل کی طرف متوجہ کر لیتی ہے، جیسا کہ پروردگارِ عالم نے حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام سے خطاب فرمایا ہے: وَ القَیتُ عَلَیکَ مَحَبَّۃً مِّنِّی(۲۰: ۳۹) اور میں نے تم پر اپنی محبت (کا پرتَو) ڈال دیا۔ لیکن یہ معجزہ ایسا نہیں تھا کہ سب کے لئے یکسان مرکزِ توجہ ہو، ایسا نہیں ہو سکتا تھا، چنانچہ اِس معاملے میں آسیہ (فرعون کی بیوی) کی بڑی خوش نصیبی تھی کہ اُس نے اِس خدائی محبت کی دل آویز خوشبو کو محسوس کیا، جس کے صدقوں سے وہ قرآن جیسی منفرد اور لازوال کتاب میں ہمیشہ کے لئے نیکنام رہیں، اور اُس نے بہشت کے سب سے اعلیٰ مقام کے لئے اللہ سے یوں درخواست کی: رَبِّ ابْنِ لِی عِنْدَکَ بَیْتاً فِی الجَنَّۃِ (۶۶: ۱۱) پروردگارا میرے لئے اپنے نزدیک بہشت میں ایک گھر بنا دے۔

۱۲۔ امامِ برحق علیہ السّلام کی مقدس محبت رسنِ نورانیت ہے یہ ایک پُرکیف کشش ہے، یہ غذائے روح الایمان ہے، یہ بڑی نرالی شان سے پگھلا دیتی ہے، فکرِ مردہ کو جِلاتی ہے، خیالاتِ باطل کو جَلاتی ہے، خوابیدہ صلاحیتوں کو جگاتی ہے، یہ جب بھی آتی ہے بُوئے بہشتِ برین اپنے ساتھ لاتی ہے، جس سے دماغ مُعطر اور دل منور ہو جاتا ہے، بخدا! آسمانی محبت تعریف کی اِس ادنیٰ سی کوشش سے بالا و برتر ہے، اور اس میں تمام روحانی معجزات کی کلیدیں پوشیدہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ امامِ زمانؑ خدائے احد و صمد کا زندہ و گویندہ اسمِ اعظم ہوا کرتا ہے، لہٰذا ذاتِ سبحان نے اپنے مظہر کی محبت کو ربّانی محبت کا درجہ عطا کرکے اہلِ ایمان کے لئے نورانی اور معجزاتی بنا دیا ہے۔

 

۱؎ ملاحظہ ہو فرمان علی کا ترجمہ اور حاشیہ ۔

 

نصیر الدّین نصیر ہونزائی

لنڈن ۵ نومبر ۱۹۸۷ء

 

۵

 

اہلِ بیتِ اطہارؑ

 

دینِ حق میں اہلِ بیتِ اطہار صلوات اللہ علیھم انتہائی پاکیزگی، تقدّس، روحانیّت اور نورانیت کے مالک ہیں، قرآن و حدیث میں جگہ جگہ انکی عظمت و بزرگی اور بشری کمالات کی شہادت ملتی ہے، اور یہ پاک نورانی ہستیاں حضرت محمد، حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین صلوات اللہ علیھم ہیں، جن کے پاک و پاکیزہ گھر میں قرآن نازل ہوا اور جن کی برکت سے نورِ اسلام کی روشنی پھیل گئی۔

اہلِ بیتؑ کے اِس تصوّر میں عجیب طرح کی حکمت ہے، کیونکہ اہلِ بیت کا لفظی ترجمہ “گھر والے” ہے، یعنی رسول اکرمؐ کے افرادِ خانہ، جن میں حضور کی بیبیاں وغیرہ بھی تھے، مگر قرآن و حدیث نے اہلِ بیت کی یہ اصطلاح پنجتنِ پاک یعنی محمدؐ، علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ، اور حسینؑ کے لئے خاص کر دیا ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ پیغمبرِ اکرمؐ کے دو گھر تھے، ایک ظاہری اور جسمانی اور دوسرا باطنی اور روحانی، رسولِ خداؐ کے خانۂ ظاہر میں وہ سب افراد حاضر تھے، جو ظاہری لحاظ سے اہلِ خانہ تھے، مگر خانۂ روحانیّت و نورانیّت میں صرف وہی حضرات موجود و حاضر ہوا کرتے تھے، جن کو خدائے بزرگ و برتر نے ہر طرح سے برگزیدہ فرمایا تھا، لہٰذا بحقیقت اہلِ بیت صرف پنجتنِ پاک ہی ہیں، جن کا ذکر ہوا۔

اگر آپ آیۂ اصطفا (۰۳: ۳۳) میں ہر چیز سے برتر ہو کر قانونِ خداوندی کی روشنی میں سوچیں، تو معلوم ہو جائے گا کہ آدمؑ اور نوحؑ کی برگزیدگی خاندانی، نسلی اور دائمی حیثیت میں ہے، ابراہیمؑ اور عمرانؑ کی مثال میں یہ حقیقت اور بھی زیادہ واضح و روشن ہو جاتی ہے،

 

۶

 

پس آنحضرتؐ کی برگزیدگی میں آپ کے اہلِ بیتِ اطہارؑ کی برگزیدگی کی شمولیّت ایک لازمی امر ہے اور آیۂ تطہیر کے نزول کا مقصد بھی یہی ہے (۳۳: ۳۳)۔

قرآنِ پاک نے جس حکیمانہ انداز سے اہلِ بیتؑ کا یہ پُرحکمت تصوّر دیا ہے، اور جس شان سے روحانیّت و نورانیّت کی مثال ایک گھر سے دیکر اسلام کی پانچ بزرگ ترین ہستیوں کو اس کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر دانشمند یہاں متعلّقہ حکمتوں کو سمجھے، کہ اِس بَیت (گھر ) سے وہ خانۂ روحانیّت مراد ہے، جس میں آنحضرتؐ پر قرآن نازل ہوا، جس کو اہلِ بیت چشمِ باطن سے بحسن و خوبی دیکھ لیتے تھے، کیونکہ پروردگارِ عالم نے اہلِ بیتِ کرامؑ کو ایک ساتھ بدرجۂ انتہا پاک و پاکیزہ کر دیا تھا، یعنی عقلی، روحانی اور جسمانی پاکیزگی میں حضراتِ اہلِ بیت علیھم السّلام یکسان تھے، اِس لئے کہ آیۂ تطہیر کے معنی میں اہلِ بیت برابر کے شریک ہیں، درحالیکہ نبوّت و رسالت کی فضیلت اپنی جگہ پر صحیح ہے۔

آنحضرتؐ جس مرتبۂ روحانیّت میں علم کا شہر اور حکمت کا گھر ہیں تو اُس درجے میں آپؐ بخدا قرآن کی زندہ روح اور روحانیّت ہیں، اور وہی گھر ہیں، جس کے حقائق و معارف یہاں بیان ہو رہے ہیں، اور مولاعلیؑ جس شان میں آپؐ کا باب (دروازہ) ہیں، اُس مقام پر علّیٔ مرتضیٰؑ درجۂ روحانی میں حضورؐ کے ساتھ منسلک ہیں، اور اِس دروازۂ نور سے فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ ہرگز الگ نہیں۔

رسولِ پاکؐ نے جس طرح نورِ ہدایت کی تشبیہہ ایک گھر سے دی ہے، وہ عبَث نہیں، بلکہ یہ ایک معنی خیز حقیقت ہے، لہٰذا اس میں سوچنا چاہئے، اور وہ اِس طرح کہ گھر اور “در” کے نام الگ الگ ہیں، مگر اُن کی وحدت و سالمیّت ایک ہی ہے، نیز یہ بھی جاننا چاہئے کہ در و دیوار کے اندر جو جگہ ہے وہی گھر ہے۔

جاننا چاہئے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے وقت میں روحانیّت کا گھر ہوا کرتا ہے،

 

۷

 

جیسا کہ سورۂ نور میں ارشادِ خداوندی ہے کہ: (اور مذکورہ قندیل) اُن گھروں میں (روشن ہے) جن کی نسبت خدا کا اذن ہے کہ اُن کو رفعت دی جائے، اور اُن میں نامِ خدا کا ذکر کیا جائے (۲۴: ۳۶)۔ یعنی فرشتے اور ارواح پیغمبر اور امام کی روحانیّت میں ایسا ہی کرتی ہیں، پس اہلِ بیت اُس پاک اور عالیشان گھر کے افراد ہیں، جس میں نورِ خدا کا چراغ روشن ہے، جو عظیم فرشتوں اور مقدّس روحوں کی عبادت گاہ اور خانۂ خدا ہے۔

قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں حُرمت و طہارت (پاکیزگی) کے معنی میں بیت یا بیوت کا ذکر آیا ہے وہ یہی ایک موضوع ہے، یعنی روحانیّت کا گھر، جو خدا و رسولؐ اور امامؑ کا گھر ہے، کیونکہ یہ گھر بحقیقت ایک ہی ہے۔

حدیثِ قُدسی کا یہ حکمت آگین مفہوم برحق ہے کہ بندۂ مومن کا دل عرشِ خُدا ہے یا کہ خانۂ خُدا ہے، لیکن شاید ہی کسی نے سوچا ہوگا کہ یہ حقیقت بحدِّ قوّت ہے یا بحدِّ فعل؟ ظاہر ہے کہ اہلِ بیت ہی اِس راہِ روحانیّت میں فعلاً پیش پیش ہیں، کیونکہ وہی حضرات ایمان کے درجۂ کمال پر ہیں، اور سب سے پہلے انہی کے دل یعنی روحانیّت میں خدا کا تخت اور گھر موجود ہے، چنانچہ یقین جانئے کہ مسجدِ حرام، قبلہ، کعبہ اور بیت اللہ کی تاویل اہلِ بیت کی روحانیّت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خانۂ کعبہ اللہ تعالیٰ کا ظاہری گھر ہے اور یہ خدا کے باطنی گھر کے لئے علامت اور مثال ہے، لہٰذا اس کی اس طرح تعظیم کرنی چاہئے جس طرح کہ خدا کا حکم ہے، تاکہ اشاراتی حکمت سے یہ معلوم ہو کہ خداوند تعالیٰ کا ایک حقیقی گھر بھی ہے، جو اسی طرح کی حرمت و تعظیم کا حق رکھتا ہے اور وہ خاندانِ رسولؐ کی روحانیّت ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: لوگوں کے لئے سب سے پہلے جو گھر (یعنی روحانیّت) بنایا گیا، وہ مکّہ (یعنی عاجزی) میں ہے، جو اہلِ جہان کے لئے بابرکت اور ہدایت ہے، اس میں واضح معجزات ہیں، جو ابراہیم کا مقام (روحانیّت) ہے اور جو شخص اس میں داخل ہو گیا تو

 

۸

 

اس کو امن مل گیا (۰۳: ۹۶ تا ۹۷) یعنی عالمِ ذرّ میں سب سے پہلے انسانِ کامل کا وجودِ مبارک خانۂ خدا کی حیثیت سے تھا، جہاں پر لوگ ذرّات کی شکل میں لاشعوری عبادت کیا کرتے تھے، اور اب اس دنیا میں بھی وہی مقدّس ہستی خدا کا گھر ہے، جو برکت اور ہدایت کا سرچشمہ ہے، اس میں روشن روحانی معجزات ہیں اور یہ ابراہیمؑ کی مرتبّت ہے پس جو خانۂ روحانیّت میں داخل ہوا تو وہ امن پاگیا۔

رسولِ کریمؐ کا یہ فرمان، کہ سلمان اہلِ بیت میں سے ہیں، اِس حقیقت کی دلیل ہے کہ سلمان خانۂ روحانیّت اور درجۂ نورانیّت میں داخل ہو چکے تھے، اور امامِ اقدس و اطہر کا ارشاد ہے کہ یہ مرتبہ صرف سلمان ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے، بلکہ ہر مومن کے لئے روحانیّت کا یہ دروازہ کُھلا ہے، اور قرآنی آیات کے ایسے بہت سے حکیمانہ اشارے ہیں، جن سے یہ حقیقت نکھر نکھر کر زیادہ روشن ہو جاتی ہے کہ حقیقی مومنین بھی روحانیّت اور مرتبۂ باطن میں اہلِ بیت کی معیّت کو حاصل کر سکتے ہیں، جیسا کہ ارشادِ قرآنی ہے: اور جس شخص نے خدا اور رسولؐ کی اطاعت کی تو ایسے لوگ ان (مقبول) بندوں کے ساتھ ہوں گے، جنہیں خدا نے اپنی نعمتیں دی ہیں، یعنی انبیاء اور صدّیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں (۰۴: ۶۹) ظاہر ہے کہ فرمانبردار مومنین کیلئے ناطقؐ، اساسؑ، امامؑ، اور باب کی یہ ہم نشینی اور رفاقت روحانیّت ہی میں صحیح ہے۔ قرآنِ پاک کی یہ بشارت صرف روزِ قیامت ہی سے متعلّق نہیں، بلکہ بطریقِ روحانیّت اِس دنیا میں بھی ممکن ہے اور اس حقیقت کی مثال سلمان ہیں۔

روحانیّت کی ہزاروں مثالیں ہیں، اُن میں سے ایک مثال گھر ہے، اور دوسری مثال شہر ہے، گھر اہلِ خانہ کی نزدیک ترین رشتہ داری کو ظاہر کرتا ہے، چنانچہ آلِ محمّدؐ و اولادِ علیؑ کے ہر امامؑ کو اہلِ بیتِ رسولؐ کہا جاتا ہے کیونکہ حضراتِ أئمّہؑ پیغمبرِ خدا کے انتہائی قریب ہیں، اسلئے کہ رشتۂ روحانی میں بُعد پیدا نہیں ہوتا ہے، وہ

 

۹

 

ہمیشہ ایک جیسا رہتا ہے، اسکے برعکس جسمانی قرابتداری میں پُشت بہ پُشت دُوری واقع ہوتی چلی جاتی ہے۔

 

والسّلام

نصیر ہونزائی

کراچی۔ ۱۵؍۶؍۱۹۸۲ء

 

 

۱۰

 

روح اللہ اور نور اللہ کی حکمت

 

روح اللہ کے معنی ہیں خدا کی روح اور نوراللہ کے معنی ہیں خدا کا نور، اور ان دونوں لفظوں (روح اور نور) کی اصلیّت وحقیقت ایک ہی ہے ، کیونکہ جو خداوندِ تعالیٰ کی پاک روح ہے وہی اس کا نور بھی ہے ، جیسا کہ قرآنِ حکیم کی آیت (۴۲: ۵۲) میں فرمایا گیا ہے کہ جو روح حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی طرف وحی کی گئی تھی ، اسی کو نور بنایا گیا تھا۔

قرآنِ مجید کا یہ قصّہ مشہور ہے کہ پروردگارِ عالم نے حضرت آدمؑ میں اپنی روح پھونک دی (۱۵: ۲۹ ، ۳۸: ۷۲) بی بی مریمؑ کے باب میں ارشاد ہؤا ہے کہ: “سو ہم نے ان (یعنی مریم ) میں اپنی روح پھونک دی (۶۶: ۱۲)۔”  حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ آپؑ اللہ تعالیٰ کے حضورِ خاص سے ایک روح تھے (۰۴: ۱۷۱) اور اسی حکم کے مطابق آپ روح اللہ کہلائے، جبرائیلؑ کی بابت فرمانِ خداوندی ہے کہ وہ بھی خدا کی روح ہیں (۱۹: ۱۷) قرآنِ مقدّس کے ایک ارشاد کا مفہوم یہ بھی ہے کہ نسلِ آدمؑ کے انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی (۳۲: ۰۷ تا ۰۹) وہ فرمانِ خداوندی اس طرح ہے:

 

اَلَّذِىٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَىْءٍ خَلَقَهٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلَالَةٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِيْنٍ ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَةَ(۳۲: ۰۷ تا ۰۹) وہ خدا جس نے جو چیز بنائی خوب بنائی اور انسان (یعنی آدمؑ) کی پیدائش مٹی سے شروع کی پھر اس کی نسل (یعنی اولادِ آدمؑ) کو

 

۱۱

 

خلاصۂ اخلاط یعنی حقیر پانی سے بنایا پھر اس (یعنی انسانِ کامل) کا روحانی اعتدال کیا اور اس میں اپنی روح پھونک دی اور تمہارے لئے کان آنکھیں اور دل بنائے (یعنی پیغمبر اور امام کے وسیلے سے جو انسانِ کامل ہیں تم کو حواسِ باطن دیئے) اِس سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ خداوندِ عالم ہر نبی اور ہر ولی (امام) میں اپنی عظیم روح پھونکتا ہے، اور اس وسیلے سے مومنین پر روح اور روحانیّت کا دروازہ کشادہ ہوجاتا ہے تاکہ خدا شناسی جیسی سب سے عظیم نعمت دنیا والوں کے لئے ممکن اور مہیّا رہے۔

یہاں یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ خدا کی روح اِس معنیٰ میں ہرگز نہیں کہ ذاتِ سبحان کسی قسم کی روح پر اس طرح قائم ہو، جس طرح انسان کا قیام روح پر ہوتا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو روح تمام ارواح میں برگزیدہ اور افضل و اعلیٰ ہے، اور جس میں معرفتِ الٰہی کے خزانے پوشیدہ ہیں، اس کو خداوندِ تعالیٰ نے اپنا نور قرار دیکر یہ اختصاص عنایت کیا ہے کہ وہ خدا کی روح کہلائے اور اسی سے منسوب ہو، تاکہ اہلِ دانش اللہ تعالیٰ کے امروفرمان اور خوشنودی کے لئے ہادیٔ برحق کی طرف مکمل رجوع کریں، جس میں خدا کی روح ہے۔

قرآنِ پاک کہتا ہے کہ یہ عظیم خدائی روح اصلاً باری تعالیٰ کے “امر” سے ہے، جیسا کہ ۱۶: ۰۲ ، ۱۷: ۸۵، ۴۰: ۱۵ اور ۴۲: ۵۲ میں اس کا ذکر ہے، یعنی اس کا سرچشمۂ اعلیٰ “کلمۂ کُنۡ” ہے، جس کو “عالمِ امر” بھی کہتے ہیں ، جو تمام روحانی حقیقتوں کا مخرج و منبع ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں “امر” باری کا ذکر آیا ہے، وہاں اِس روحِ عالیہ کی طرف ایک بلیغ اِشارہ موجود ہے، جیسے اِس آیۂ کریمہ میں ارشاد ہوا ہے ، جو أئمّۂ طاہرین صلوات اللہ علیھم کے بارے میں ہے: ۔

وَجَعَلْنَاهُمْ اَئِمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا (۲۱: ۷۳) اور ہم نے ان کو امام بنایا وہ (خلق کو) ہمارے امر سے ہدایت کرتے تھے۔ نیز ارشاد ہے: وَاُولِى الْاَمْرِ مِنْكُمْ

 

۱۲

 

(۰۴: ۵۹) اور امر والوں کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں ۔ یعنی خدا و رسولؐ کے بعد أئمّۂ اطہارؑ کی اطاعت کرو، جو امرِ باری کی روحانی حکمتوں سے واقف و آگاہ ہیں اور اسی کے مطابق رہنمائی کر لیا کرتے ہیں۔

روح اگرچہ نباتی قسم کی بھی ہے، حیوانی حیثیت کی بھی ہے اور انسانی درجے کی بھی ہے، لیکن جہاں روح شناسی اور خدا شناسی کا سوال ہوتا ہے ، وہاں سب سے اعلیٰ روح کا حوالہ دیا جاتا ہے اور وہ روحِ قدسی یعنی خدائی روح ہے، جیسا کہ یہ مطلب اِس فرمانِ الٰہی میں موجود ہے: وَيَسْالُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ    ۖ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّىْ (۱۷: ۸۵)اور یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ روح میرے پروردگار کے “امر” سے ہے۔ یعنی “الرّوح” جو سب سے عظیم روح ہے، جس میں خدا کی معرفت ہے، وہ سرچشمۂ “کُنۡ” اور عالمِ امر سے ہے۔

اب یہاں پر ایک بڑا اہم اور دلچسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اہلِ ایمان کو اس عظیم روح کا باطنی مشاہدہ اور تجربہ ہوتا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب اگرچہ قبلاً مہیا ہوچکا ہے، تاہم اس آیۂ مبارکہ میں بھی ایک مکمل جواب موجود ہے: وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَآئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَم (۰۷: ۱۱) اور ہم نے تم کو پیدا کیا پھر ہم نے تمہاری (روحانی) صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ یہ خطاب حقیقی مومنین سے ہے جو اہلِ معرفت ہیں، جن کی جسمانی تخلیق و تکمیل کے بعد روحانی وجود بنتا ہے، پھر ان کو ہر طرح سے روحِ قدسی کا تجربہ ہونے لگتا ہے اور وہ اسی روح کی نورانیّت میں تمام روحانی واقعات کا مشاہدہ کرتے ہیں، اور اِس سلسلے میں سب سے پہلے واقعۂ آدم اس طرح سامنے آتا ہے کہ فرشتے زمانے کے آدمؑ کو سجدہ کرتے ہوئے گرتے ہیں ۔

مولا علی صلوات اللہ علیہ کا مبارک ارشاد ہے کہ: “جس نے اپنے نفس (یعنی

 

۱۳

 

روح) کو پہچان لیا اُس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔”  سو ایسی پہچان جو خدا کی کامل معرفت ہوسکے روحِ نباتی، روحِ حیوانی اور روحِ ناطقہ کے وسیلے سے قطعاً ناممکن ہے، جب تک کہ بندۂ مومن کو روح القدس کی مکمل تائید اور روشنی حاصل نہ ہو، کیونکہ وہی تو ہے جو انسان کی اصل روح اور حقیقی “انا” ہے، اور امیر المومنین علی علیہ السّلام کا یہ فرمان اسی روحِ قدسی کی شناخت کے متعلق ہے کہ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ  یعنی جس نے اپنی روحِ قدسی کو پہچان لیا، فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ، تو بیشک اُس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔ پس روح القدس ہی ہے، جس میں پروردگارِ عالم کی صفات کا ظہور ہوتا ہے جس سے اہلِ بصیرت کو خداوندِ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔

“حِزب اللہ” یعنی حقیقی مومنین کو روحِ قدسی سے جو فیض ملتا ہے اور جیسا اس کا تجربہ حاصل ہوتا ہے اس کے بارے میں بھی ارشاد ہے کہ: اُولٰٓئِكَ كَتَبَ فِىْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ (۵۸: ۲۲) یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل میں خدا نے ایمان لکھ دیا ہے اور ایک ایسی روح سے ان کو تائید دی ہے جو اس کی اپنی ہے۔ یعنی ان کے دل میں ایمان کو عملی صورت دی ہے، پس وہ لوگ روحانی مشاہدے میں ایمان اور اس کے نتائج کو دیکھتے ہیں اور روح القدس کی تائید حاصل کرتے ہیں، جاننا چاہئے کہ روح القدس کی تائید بہت بڑی چیز ہے اور بہت بڑا عنوان ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم کی بعض آیات میں حضرت عیسیٰؑ کے روحانی معجزات کا ذکر ہے، اور بعض آیات میں صرف حوالہ اور اشارہ کے طور پر خداوندِ عالم نے فرمایا کہ: “اور ہم نے اس کو روح القدس سے تائید دی” (۰۲: ۸۷)۔ چنانچہ روح القدس کی تائید کی مثال حضرت عیسیٰؑ کی ساری روحانیّت ہے۔

ہم نے اِس مضمون کے شروع ہی میں کہا تھا کہ روح اور نور کی اصلیّت اور حقیقت ایک ہی ہے اور اس کے بارے میں قرآنی ثبوت بھی پیش کیا تھا، اب ہم اِس

 

۱۴

 

سلسلے میں دوسرا ثبوت پیش کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس پاک روح کو اپنی ذات سے منسوب کرکے فرماتا ہے کہ یہ میری روح ہے تو وہی اس کا نور بھی ہے، چنانچہ خدا تعالیٰ کا یہ فرمان کہ اُس نے اپنی روح بابا آدمؑ میں پھونک دی، اِس معنیٰ میں ہے کہ اللہ پاک نے اپنا نور آدم صفیؑ میں ڈال دیا، اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ آدمؑ سے پہلے بھی ہمیشہ سے سِلسِلۂ امامت موجود تھا، سو کسی نرالے اندازسے نہیں بلکہ ہمیشہ کی طرح قانونِ فطرت کے عین مطابق سابق امامؑ سے آدمؑ میں نورِ ہدایت مُنتقل ہُوا، اور یہی ہُوا آدم میں خدا کا روح پھونک دینا، پس اِس سے ظاہر ہے کہ عظیم روح خود نور ہے۔

جس طرح ذاتِ سبحان ایک ہے اسی طرح اس کی عادت وسُنّت یعنی قانونِ فطرت بھی ایک ہے، اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں پائی جاتی(۳۳: ۶۲، ۳۵: ۴۳)کیونکہ وہ ہمیشہ ایک ہی قانونِ پیدائش (فطرت)کے مطابق تخلیق کرتا ہے(۳۰: ۳۰)اگر اللہ تعالیٰ حضرت آدم ؑ کو جیسا کہ عا م خیال ماں باپ کے بغیر اور حضرت عیسیٰؑ کو بغیر باپ کے پیدا کرتا تو پیدائش کے امکانی طریقے تین ہوتے ، یعنی براہِ راست مٹی سے والدین کے توسّط کے بغیر پیدا کرنا، صرف ماں ہی سے پیدا کرنا جیسا کہ حضرت عیسیٰؑ کے متعلّق عام تصوّر ہے، اور والدین کے وسیلے سے پیدا کرنا جو ہمیشہ سے جاری ہے، مگر یہ بات درست نہیں ہے، چونکہ حقیقت میں پیدائش کا قانون یہی ہے جو سب لوگوں کے سامنے ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ۔

فِطْرَتَ اللّٰه الَّتِىْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۚ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّم(۳۰: ۳۰)اللہ تعالیٰ کی پیدائش (یعنی قانونِ فطرت ) یہی ہے جس کے مطابق اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے خدا کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ سو لازوال دین یہی ہے۔

اس مدلّل بیان سے کئی حقیقتیں روشن ہو گئیں، سب سے پہلی حقیقت تو یہ کہ

 

۱۵

 

دینِ قائم اور خدا کی بادشاہی ازل سے ہے، یعنی اس کی نہ تو کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی انتہا، لہٰذااِس آدم سے پہلے بے شمار آدم ہو گزرے ہیں اور اس کے بعد بھی لاتعدا د آدم ہوتے رہیں گے، دوسری حقیقت یہ کہ ہر پیغمبر اور ہر امام میں خدائی روح پھونکی جاتی ہے، تیسری یہ کہ روح اور نور کا مطلب یہاں ایک ہے، چوتھی یہ کہ جو آدم فردوسِ برین سے سیّارۂ زمین پر اُترآیا تھا اس کے بھی اپنے وقت میں والدین تھے، اور پانچویں حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں جہاں آدم کا کوئی ذکر آیا ہے وہاں درحقیقت لا تعداد آدموں کا تذکرہ موجود ہے۔

 

 

فقط آپ کا علی خادم

نصیر ہونزائی

۱۰۔ستمبر۔۱۹۸۰

 

نوٹ:

۱۔       اس کار یکارڈ ضروری ہے، کیونکہ ایسے مضامین بڑے اہم ہیں۔

۲۔       یہ مضمون کنیڈا کے عزیزوں کو بھیجا جائے۔

 

۱۶

 

حکمتِ حدیث

 

صحیح مسلم جلدِ سوُم ، باب ۲۲۴، حدیث ۱۵۰۶ میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے حضرت مولا علی علیہ السّلام سے فرمایا کہ: “اَنتَ مِنّی بِمَنْزِ لَتہِ ھٰرُوْنَ مِنْ مُوسیٰ اِلّا اَنّہٗ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ تم میرے پاس ایسے ہو، جیسےکہ حضرت ہارونؑ حضرت موسیٰؑ کے پاس تھے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔”

اس حدیثِ شریف کے ہمہ گیر معنی میں حکمت کے بہت سے اشارات محفوظ کئے ہوئے ہیں، اور اس کا عظیم مجموعی مطلب یہ ہے کہ بمنظورِ خدا پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک علیّ مرتضیٰؑ کا جو روحانی اور نورانی مرتبہ ہے اس کو سمجھنے کے لئے اُن تمام آیاتِ قرآنی کا بغور مطالعہ کیا جائے، جو فضائلِ ہارونی سے متعلق ہیں، بلکہ اِس ارشادِ مبارک کا بطورِ حوالہ یہ تقاضا ہے کہ دانشمند مومنین قصّۂ موسیٰؑ کو سرتا سر پڑھیں اور اس کی گہرائی میں اُتر کر نبوّت اور امامت کی حقیقتوں کو سمجھ لیں، کیونکہ انبیائے قرآن کے تمام قصّوں میں صرف قصّۂ موسیٰؑ ہی ایک ایسا قصّہ ہے کہ اس میں پیغمبر کے علاوہ امام کی اہمیت و ضرورت بطریقِ حکمت ظاہر کی گئی ہے، ہر چند کہ سلسلۂ امامت ہمیشہ سے جاری ہے۔

یہ پُرحکمت حدیث دُور رس معنی کی حامل ہے، اور اس میں ماضی، حال اور مستقبل میں جس طرح قانونِ دین کی صورتِ حال ہے اس کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ یہ کہ اِس فرمانِ نبوّی میں حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کا حوالہ ماضی ہے، آنحضرتؐ اور مولا علیؑ کا ذکر حال ہے اور آپؐ کے بعد کسی نبی کا نہ ہونا مستقبل کی بات ہے، چنانچہ

 

۱۷

 

اس ارشاد کا وسیع تر مفہوم یہ ہوتا ہے کہ پہلے ہمیشہ سے امام تھے، جس کی مثال زمانۂ موسیٰؑ ہے جس میں ہارونؑ امام تھے، آنحضورؐ کے ساتھ بھی امام موجود تھے، جو امیرالمؤمنین علیؑ تھے، اور آنحضرتؐ کے بعد جبکہ قیامت تک کوئی نبی نہیں ہے تو یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ کوئی امام ہو، اور وہ برحق امام اور ہارونِ زمان علی ہی ہیں، جس کی نسلِ اطہر میں مسلسل امامت تا روزِقیامت جاری و باقی ہے، کیونکہ مذکورہ حکمِ (حدیث) میں علی سے جو مماثلِ ہارون ہیں صرف کارِ نبوّت کی نفی کرتے ہوئے جملہ فضائل و مناقب کا اثبات کیا گیا ہے، اور زبانِ حکمت سے فرمایا گیا ہے کہ مرتضیٰ علیؑ نبیِّ رحمتؐ کے ساتھ اور آپؐ کے بعد بتوسّطِ اولاد تاقیامت امامِ برحقؑ ہیں، اور رسولِ خداؐ کے بعد کوئی نبی نہیں، ورنہ وہ بھی علیؑ ہی ہوتے، کیونکہ علیؑ امام، ھادی اور ولیِّ امر کے جملہ اوصاف سے موصوف ہیں۔

اِس محکم دلیل سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ مرتبۂ علیؑ بحیثیتِ سلسلۂ امامت و خلافت اِس دنیا میں قیامِ قیامت تک قائم و دائم ہے، تاکہ زمانے کے امام کی مبارک شخصیت علم و حکمت اور رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہو، اور حضورِ اقدسؐ کی ایسی نیابت و جانشینی سے جو ہر طرح سے کامل اور مکمل ہے، ختمِ نبوّت کی حقیقت ایک ٹھوس حقیقت ہی رہ سکے۔

یہاں عقل و دانش سے کام لے کر خوب سوچنے کا مقام ہے کہ اگر دینِ خدا (اسلام) میں مرتبۂ رسالت و نبوّت کے بعد امامت کا درجہ لازمی نہ ہوتا، تو پیغمبرِ خداؐ مولا علیؑ کو مماثلِ ہارونؑ قرار دیکر شانِ علیؑ کی شناخت کے لئے اُن تمام پُرحکمت آیات کی طرف اشارہ نہ فرماتے جومولانا ہارونؑ کے بارے میں ہیں، چنانچہ اِس فرمانِ رسولؐ سے دو طرفہ حکمت روشن ہو جاتی ہے، اُدھر یہ کہ مولانا ہارونؑ پیغمبر بھی تھے اور امام بھی، اور اِدھر یہ کہ مولانا علیؑ امام تھے اور پیغمبر نہیں، مگر آپؑ حضرت ہارونؑ ہی کی طرح نائب و نمائندۂ پیغمبرؐ تھے۔

 

۱۸

 

یہ بابرکت حدیث زبانِ حکمت سے کہہ رہی ہے کہ قرآنِ حکیم میں جو جو فضائل و مناقب براہِ راست حضرت ہارونؑ کے بارے میں ہیں، وہ سب بالواسطہ امیرالمومنین علیؑ سے بھی متعلق ہیں، لہٰذا دوستدارانِ علیؑ کو چاہئے کہ وہ آئینۂ اوصافِ ہارونی میں حسن و جمالِ مرتضویؑ کو دیکھا کریں، تاکہ ان کی روح اِس عرفانی غذا سے قوّی اور توانا ہوجائے۔

اگرچہ حضرت ہارونؑ نبی بھی تھے اور امام بھی، لیکن یہ بھید ہر کس و ناکس کی ذہنی رسائی سے بالاتر ہے کہ آپؑ نے زیادہ سے زیادہ کام کس پہلو سے انجام دیا؟ نبوّت کے پہلو سے یا امامت کے پہلو سے؟ حالانکہ نظریۂ امامت کی مکمّل روشنی میں دیکھنے سے یہ رازِ سربستہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ہارونؑ اپنے زمانے کے ایک عظیم امام (یعنی اساس) تھے، اس لئے آپؑ کا زیادہ تر تعلق امورِ باطن اور کارہائے روحانیّت سے تھا، اور یہی تعریف ہر امام کی ہے۔

قرآنِ حکیم (۲۵: ۳۵) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: “اور البتہ ہم نے موسیٰؑ کو کتاب (توریت) عطا کی اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ھارونؑ کو (ان کا) وزیر بنایا۔” یہاں دینی عقل کی روشنی میں سوچنے کی ضرورت ہے، کہ حضرت ہارونؑ جس طرح حضرت موسیٰؑ کے وزیر تھے، اس میں سب سے پہلے کتابِ آسمانی کی وزارت کی بات آتی ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ مولانا امام ہارون علیہ السّلام روح کتاب یعنی نورِتوریت کےحامل تھے، کیونکہ وزیر وزر سے ہے، وِزر بوجھ کو کہتے ہیں اور وزیر بوجھ اُٹھانے والے کا نام ہے، اور قرآنی الفاظ وہ ہیں جن کے لغوی معنی میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔

ارشادِ خداوندی ہے کہ: اور ہم ہی نے یقیناً موسیٰؑ اور ہارونؑ کو فرقان (حق و باطل کو فرق و جدا کرنے والا معجزہ) اور نور اور ذکر عطا کیا پرہیزگاروں کے لئے (۲۱: ۴۸) اِس حکمِ قرآنی سے یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ پیغمبرؐ اور امامؑ کی شناخت تقویٰ کے

 

۱۹

 

بغیر ناممکن ہے اور ان کے حضورِ اقدس سے فیضانِ علم و حکمت بھی پرہیز گاروں ہی کے لئے مخصوص ہے۔

جب رسول اللہؐ پر قصّۂ موسیٰؑ کے سلسلے میں یہ آیات نازل ہوئیں: وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْ هٰرُوْنَ اَخِی اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْ وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْ (۲۰: ۲۹ تا ۳۲) تو پیغمبرِ خداؐ نے حق تعالیٰ سے درخواست کی: ۔”وَ اَنَا اَقُولُ کما قالَ موسیٰ: ربِّ اجْعَلَ لّی وَزِیْراً مّنْ اَھْلِی، عَلِیّاً اَخْیِ ، اشدُدْ بہٖ اَزْرِیْ ، اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْ ۔ اے پروردگار میں بھی عرض کرتا ہوں ، جیسے موسیٰؑ نے عرض کیا: اے پروردگار! میرے واسطے میرے خاندان میں سے ایک وزیر مقرر کر دیجئے، یعنی علی کو، کہ میرے بھائی ہیں ، ان کے ذریعے سے میری قوّت مستحکم کر دیجئے اور ان کو میرے کام میں شریک کر دیجئے۔”

 

خانۂ حکمت

۷۔اپریل۔۸۱

 

نوٹ: “قرآن اور نورِ امامت” کے صفحہ ۴۳اور ۴۴ پر دیکھیں، نیز تفسیر دُرِّمنثور جلدِ چہارم ، صفحہ ۲۹۵ ملاحظہ ہو۔

 

۲۰

 

قرآنی لفظ “برکت” میں حکمت

 

برکت کا ذکر قرآنِ پاک میں ۳۲ مقامات پر آیا ہے، اور اس کی مثال اُن چیزوں سے دی گئی ہے، جو زمین اور پہاڑوں سے مسلسل پیدا ہوتی رہتی ہیں، مثلاً معدنیات، نباتات، جانور وغیرہ، یعنی وہ تمام چیزیں جو انسانی زندگی کے لئے ضروری ہیں، نیز برکت کی تشبیہہ اُن جملہ اشیاء سے دی گئی ہے جو پانی کی بدولت پیدا ہوتی ہیں، جن کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا، آپ یہ دونوں مثال (۴۱: ۱۰) اور (۵۰: ۰۹) دیکھ سکتے ہیں۔

اب یہ دیکھنا ہے کہ برکت کے معنی و مفہوم کیا ہیں، سو مذکورۂ بالا بیان سے ظاہر ہے کہ کسی مفید چیز یا نعمت کے سرچشمے کا ہمیشہ جاری رہنا برکت ہے، جیسے زمین، پہاڑ اور پانی کی پیداوار کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

یاد رہے کہ ہستی یا وُجود جس چیز کا نام ہے، وہ ہمیشہ تین درجات کو شامل (پر مشتمل) ہےـ: جسم، روح اور عقل، چنانچہ برکتیں بھی تین ہیں، یعنی مادّی، روحانی اور علمی (عقلی) تاکہ عدل و انصاف کا تقاضا پورا ہو سکے، کیونکہ پروردگارِ عالمین کی ہر ہر تعریف اس لئے ہے کہ وہ نہ صرف اِس دُنیائے جسمانی کا ربّ ہے بلکہ وہ عالمِ ارواح اور عالمِ عقول کا بھی پروردگار ہے، لہٰذا مادّی اور جسمانی برکتوں کے مقابلے میں روحانی اور عقلی برکتیں کہیں زیادہ ضروری اور لازمی ہیں۔

قرآن میں خداوندِ عالم کے بڑے بابرکت یعنی برکت والا ہونے کا ذکر آتا ہے، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اللہ پاک بذاتِ خود ہر قسم کی برکتوں کا منبع و سرچشمہ

 

۲۱

 

ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سبحان سرچشمہائے برکات کا بادشاہ ہے، جس طرح اُس نے پہاڑ کو مادّی برکتوں کا سرچشمہ بنایا۔

سورۂ رحمٰن جو اسرارِ خداوندی کی عُروس (دُلہن) ہے، جس کی تمام حکمتیں بطورِ خاتمہ و خلاصہ آخری آیت میں جمع کی گئی ہیں، اِس (۵۵: ۷۸) میں فرمایا گیا ہے کہ: (اے محمدؐ) تمہارا پروردگار جو صاحبِ جلال و عظمت ہے اس کا (بزرگ) نام بڑا بابرکت ہے۔ اس سے وہ اسمِ اعظم مراد ہے، جس کو نورِ حیُّ و حاضر کہا جاتا ہے، اور وہی تمام خدائی برکتوں کا سرچشمہ ہے۔ آیۂ بیعت (۴۸: ۱۰) سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ دستِ خدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں، اور اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ جو ذاتِ بابرکات خدا کے ہاتھ ہونے کا مرتبۂ عُظمیٰ رکھتی ہے، اسی میں خدا نے روحانی سلطنت بھی رکھی ہے، اور برکت بھی خداوندِ عالم کے اسی ہاتھ میں ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا ہے کہ: تَبٰرَکَ الَّذی بِیَدِہِ المُلکُ وَ ھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدِیر (۶۷: ۰۱)۔ وہ (خدا) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے بڑی برکت والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یعنی خدا اِس سے پاک و برتر ہے کہ اس کا اس طرح ہاتھ ہو، جس طرح انسان کا ہوتا ہے، مگر اس کے دو ہاتھ عالمِ روحانی میں عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ ہیں اور عالمِ جسمانی میں ناطق اور اساس ہیں اور سلطنتِ روحانی کی تمام برکتیں خدا کے انہی ہاتھوں میں ہیں۔

سورۂ نمل میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: فَلَمَّا جَآ ئَ ھَا نُودِیَ اَنْ بُورِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَولَھَا (۲۷: ۰۸) جب موسیٰ اُس (آگ) کے پاس آئے تو ندا آئی کہ وہ جو آگ (نور) میں ہیں بابرکت ہیں اور وہ جو آگ کے اِردگرد ہیں۔ اِس سے صاف ظاہر ہے کہ جس نور کا یہاں ذکر ہے وہ ذاتِ سبحان نہیں ہے، بلکہ یہ حقیقت مظہریت و نمائندگی کی ہے، کیونکہ اس میں کئی علامتیں ایسی ہیں، جن سے ذاتِ باری تعالیٰ برتر اور

 

۲۲

 

پاک ہے، مثلاً لفظ بُورِکَ (اُسے برکت دی گئی/ہے) خدا کے لئے نہیں آسکتا ہے، اِس لئے کہ یہ محال ہے کہ کوئی ہستی خدا کو برکت دے اور اُس پر برکت دینے کا فعل واقع ہو، پس یہاں اگر “مَنْ” کی ضمیر واحد ہے تو یہ ہادیٔ برحق کے لئے ہے اور اگر یہ جمع ہے تو اُن عالی قدر روحوں کے لئے ہے، جو اصل نور ہو چکی ہیں، وہ ایک بھی ہیں اور بے شمار بھی، اور اِس ضمیر (مَنْ) کے دونوں معنی درست ہیں، آپ قرآن میں “مَنْ” کے استعمال کو دیکھ سکتے ہیں کہ یہ واحد، تثنیہ، جمع، مذکر، مونث سب ذی عقول کے لئے آتی ہے۔

بُورِکَ میں عقل و جان کی برکتوں کی طرف اشارہ ہے، اور اگر اس میں مادّی برکت کا بھی ذکر ہو تو وہ ثانوی چیز ہے، عقل کے لئے برکات روحانی علوم اور حقائق و معارف کا سلسلہ ہے، روح کی برکتیں فرشتگانہ عبادات ہیں، اور جسمانی برکتیں ظاہری نعمتوں کی صورت میں ہیں۔

برکت کے موضوع سے متعلق جملہ آیات میں زیادہ سے زیادہ عقل و جان کی بَرکات کا ذکر ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے: (یہ) کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہلِ عقل نصیحت پکڑیں (۳۸: ۲۹)۔ ظاہر ہے کہ قرآن میں عقلی اور روحانی برکتوں کے خزانے پوشیدہ ہیں، اگر اس کی تمام برکتیں ظاہر اور کھلی مل سکتیں، تو پھر غور کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی، اور عقل والوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اس کی برکتوں کو حاصل کر سکتے مگر ایسا نہیں ہے۔

مسجدِ اقصیٰ جس کے گرداگرد برکتیں رکھی ہوئی ہیں (۱۷: ۰۱) روحانیّت کا دوسرا انقلابی اسمِ اعظم ہے، کیونکہ یہاں مسجد کی تاویل اسمِ بزرگِ خدا ہے، جو نور بھی ہے اور شخصیت بھی، یعنی درجۂ امام کے بعد درجۂ اساس، جیسے آنحضرتؐ مسجدِ اقصیٰ کی طرف تشریف لے گئے اور یہاں برکتوں سے اسرارِ روحانیّت مراد ہیں۔

 

۲۳

 

قرآن کہتا ہے کہ: اور ابراہیم اور لوط کو اُس سرزمین کی طرف بچا نکالاجس میں ہم نے اہلِ عالم کے لئے برکت رکھی ہے (۲۱: ۷۱) اِس ارض سے حدودِ دین اور روحانیّت کی زمین مراد ہے، جس میں تمام اہلِ جہان کے لئے برکتیں رکھی ہوئی ہیں۔

ارشاد ہوا ہے کہ: اور ہم نے تیز ہوا سلیمانؑ کے تابع (فرمان) کر دی تھی جو ان کے حکم سے اُس ملک میں چلتی تھی جس میں ہم نے برکت دی ہے (۲۱: ۸۱)۔ تیز ہوا کی تاویل قوّتِ اسرافیلیّہ ہے اور برکت والی زمین (ارض) زمینِ روحانیّت ہے۔

فرمانِ خداوندی کا ترجمہ ہے کہ: اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور پرہیزگار ہو جاتے تو ہم اُن پر آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے (۰۷: ۹۶) یعنی حدودِ دین کے آسمان و زمین کی برکتیں، جو عقل و جان کے لئے ضروری ہیں کیونکہ جسمانی برکتیں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی ہیں۔

لفظِ “برکت” میں تاویلی حکمت ہونے کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہ لفظ قرآن میں کافروں کی دولت کے لئے استعمال نہیں ہوا ہے، اور کبھی یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ منکرین کو کسی چیز میں برکت دی گئی تھی۔

درختِ زیتون کو مبارک (بابرکت) قرار دیا گیا ہے (۲۴: ۳۵) جس سے امامِ برحقؑ کی شخصیت مراد ہے اور روغنِ زیتون امامِ عالی مقامؑ کی پاک روح اور روحانیّت ہے۔ شخصِ امامت کے بابرکت ہونے میں کسی مومن کو کیا شک ہو سکتا ہے اور یہ کلام ایسا ہے جیسے حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا: اور میں جہاں ہوں مجھے صاحبِ برکت بنایا ہے (۱۹: ۳۱)، یعنی پیغمبرؐ اور امامؑ سے جو جو برکتیں لوگوں کو میّسر ہو جاتی ہیں وہ نہ صرف ان کے مقامِ عقل اور درجۂ روح سے متعلق ہیں بلکہ مرتبۂ جسم سے بھی حاصل ہو جاتی ہیں۔

شبِ قدر (حجتِ حضرتِ قائمؑ) اِس معنٰی میں مبارک ہے کہ اس میں نورِ قائم

 

۲۴

 

کا نزول ہوتا ہے اور فرشتوں اور روح کا نزول ہوتا ہے (۴۴: ۰۳) آپ سورۂ قدر (۹۷) کو دیکھیں۔

(خدا) بڑی برکت والا ہے جس نے آسمان میں (بارہ) بُرج بنائے اور ان میں (روشن) چراغ اور چمکتا ہوا چاند بنایا (۲۵: ۶۱) یعنی خدا تعالیٰ کی جانب سے کائناتِ دین کے لئے برکت یہ ہے کہ اُس نے ہادیٔ برحق کو نورانی سورج، ان کے باب کو ماہِ درخشان اور بارہ حجتوں کو علمِ دین کے منارہ بنایا۔

اہلِ بیتِ رسولؐ پر خدا کی رحمت اور برکتیں نازل ہوتی رہتی ہیں، جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کے اہلِ بیت کے بارے میں ارشاد ہے: فرشتوں نے کہا، کیا تم امرِ خدا سے تعجب کرتی ہو؟ اے اہلِ بیت تم پر خدا کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں (۱۱: ۷۳) اس کا اشارہ یہ ہے کہ خاندانِ رسولؐ مومنین و مسلمین کے لئے باعثِ رحمت و برکت ہے۔

طوفان تھم جانے کے بعد حضرت نوحؑ کو حکم ہوا کہ اے نوح ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ (جو) تم پر اور تمہارے ساتھ کی جماعتوں پر (نازل کی گئی ہیں) اُتر آؤ (۱۱: ۴۸) یعنی روحانی طوفان سے سلامتی (تائید) اور تاویلی بَرَکات اپنے ساتھ لیتے ہوئے زمینِ دعوت پر اُتر آؤ۔

یہاں اُمَمٍ(اُمّتیں یا جماعتیں) بصیغۂ جمع اس لئے ہیں کہ ہر زمانہ کے اہلِ نجات کشتیٔ نوح میں تھے، چنانچہ فرمایا گیا ہے: جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم (لوگوں) کو کشتی میں سوار کر لیا (۶۹: ۱۱) یعنی کشتیٔ نورِ ہدایت میں۔

 

خانۂ حکمت

کراچی

۳۔اکتوبر۔ ۱۹۸۲ء

 

۲۵

 

نورانی وقت

 

نورانی وقت سے وہ خاص وقت مراد ہے جو ہنگامِ سحر خصوصی ذکر کے لئے مقرّر ہے، قرآنِ حکیم کے کئی مقامات پر اِس نور کے وقت کی تعریف و توصیف کی گئی ہے۔

ارشاد ہوا ہے کہ: اِنَّ قراٰنَ الفَجر کَانَ مشھُوداً (۱۷: ۷۸) بے شک صبح کا پڑھنا (یعنی ذکر روحانی چیزوں کے ) حاضر ہونے کا وقت ہے۔

“قرآن الفجر” صبح کا ذکر ہے یعنی خصوصی عبادت اور مشہود کا مطلب ہے  چشمِ باطن کے سامنے چیزوں کا حاضر ہو جانا یعنی روشنی اور روحانیّت کا ظہور۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ صبح ہی وہ وقت ہے جس میں ذکر کرنے سے دل کی تاریکی دُور ہوجاتی ہے، روح کی آنکھ کھل جاتی ہے اور عالمِ روحانی سامنے حاضر ہو جاتا ہے۔

اگرچہ “مشہود”  کے لفظ میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ کیا کیا چیزیں حاضر ہو جاتی ہیں اور نہ ہی اس میں کوئی حدّ بتائی گئی ہے، مگر عقل و دانش کے لئے ظاہر ہے کہ اس میں ان تمام چیزوں کی حاضری مقصود ہے جو انسان کی ظاہری نظر سے غائب ہیں ، یعنی کامیاب ذکر کے نتیجے میں بوقتِ صبح عالمِ غیب سے پردہ اُٹھایا جاتا ہے اور روحانی طور پر ہر چیز حاضر ہو جاتی ہے لیکن یہ صرف ایک دن کی بات نہیں، اس کے لئے مسلسل کوشش چاہئے۔

سورۂ مزمّل میں نورانی وقت میں خاص عبادت کرنے کا بیان ہے اور قرآن میں جہاں جہاں رات کی عبادت کا ذکر آیا ہے اس کا مقصد بھی صبح کے وقت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا ہے، کیونکہ ظاہر ہے کہ جو مومن جس قدر صبح پہلے اُٹھے گا

 

۲۶

 

وہ اتنا زیادہ نورانی وقت سے فائدہ اُٹھائے گا۔

انبیاء و اولیاء اور مومنین کی روحانیّت درجہ وار ہے، مگر ان سب میں کچھ باتیں مشترک بھی ہیں، اور ایک بات یہ ہے کہ سب کو روحانیّت کی ابتدائی روشنی صبح کے وقت نظر آتی ہے اور بڑے بڑے معجزات بھی نورانی وقت میں پیش آتے ہیں۔

یہ حقیقت قرآن میں ہے اور عملی روحانیّت اس کی تصدیق کرتی ہے کہ نیند کے ساتھ ساتھ انسان کی روح کے پرانے ذرّات قبض کئے جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے ذرّات ڈالے جاتے ہیں، یہی وہ راز ہے جس میں نورانی وقت کی سعادت پوشیدہ ہے، پس صبح سویرے نئی تازہ روح میں جو تقصیرات سے کسی حد تک ہلکی ہوتی ہے، کامیاب ذکر ہو سکتا ہے۔

یہ بات بہت ہی عجیب ہے جو ہم نے کہا کہ روح کے ذرّات ہوتے ہیں، یعنی ایک شخص میں لاتعداد روحیں ہیں، اور یہ اُس  سے بھی زیادہ عجیب ہے، جو کہا گیا کہ آدمی ہر روز جزوی طور پر مرتا ہے اور پھر جزوی طور پر زندہ ہو جاتا ہے مگر اس میں تعجب کی کیا بات ہے جبکہ یہ روحانی علم ہے اور ہم الحمدللہ  روح شناس ہیں، سو ہم ایسی باتیں ہمیشہ کہتے رہتے ہیں، چنانچہ قرآن (۳۹: ۴۲) کو دیکھئے کہ انسان کی ایک کُلّی موت ہے اور ایک جزوی موت، کُلّی موت یہ کہ وہ ایک دن پوری طرح سے مر جاتا ہے جسے سب جانتے ہیں اور جزوی موت یہ کہ ہر نیند میں اس کی روح کے ذرّات بدلتے ہیں جس کو صرف روح شناس ہی جانتے ہیں۔

نورانی وقت کی فضیلت کے باب میں کئی حدیثیں وارد ہوئی ہیں، مثلاً ایک حدیثِ قدسی کا یہ مفہوم ہے کہ دستِ قدرت نے قالبِ آدم کے گارے کو چالیس صبحوں میں مکمل کر دیا تھا، اس کا اشارہ یہ ہے کہ مومن کی روحانی تخلیق نورانی وقت میں  ہوتی ہے اور اس کی کم سے کم مدت چالیس دن ہیں یعنی چالیس صبح، چنانچہ آدم، جو اپنے

 

۲۷

 

وقت کا انسانِ کامل تھا، نورانی وقت میں خصوصی عبادت کیا کرتا تھا، اس کی روحانی تخلیق کے لئے چالیس صبحیں لگی تھیں۔

میرے بہت ہی پیارے بچو! تم صبح وقت پر اُٹھا کرو، اور خوب تیاری کے ساتھ ذکرِ الٰہی میں مصروف ہو جاؤ اور چالیس دن تک ایسی شاندار خصوصی عبادت کرو کہ جس سے تم کامیاب ہو سکو، اگر اِس قلیل مدّت میں کامیابی حاصل نہیں ہوتی ہے تو سمجھ لو کہ تم حضرت آدم خلیفۂ خدا کی طرح تو نہیں ہو، اس لئے تمہیں مزید کورس کی ضرورت ہے، مگر یہ نہیں معلوم کہ تم کو یہ چہل روزہ (چالیس دنوں کا) کورس کتنی دفعہ دُہرانا چاہئے، بہرحال جب ذکر سے  مزہ آنے لگتا ہے تو معاملہ آسان ہو جاتا ہے۔

 

میرا ارادہ تھا کہ نورانی وقت کے بارے میں کچھ مفید باتیں بتاؤں مولا کا شکر ہے کہ عمدہ عمدہ باتیں بتائی گئیں۔

فقط آپ کا “سر”

نصیرؔ ہونزائی ۔۳۰۔جون۔ ۱۹۸۰ء

 

۲۸

 

ذکر و تسبیح کا ایک انعام

 

ویسے تو ذکر و تسبیح کے بے شمار انعامات ہیں جن کی تشریح نہیں ہو سکتی ہے مگر مثال کے طور پر کسی ایک انعامِ خداوندی کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں، چنانچہ جب ہم قرآنِ حکیم میں عبادت اور ذکر و تسبیح کے موضوع سےمتعلق آیات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں عبادت و بندگی کے گونا گون نتائج سے آگہی ہوتی ہے اور جب ہم اِس سلسلے میں سورۂ احزاب (۳۳) میں نگاہ کرتے ہیں تو اللہ کا یہ ارشاد سامنے آتا ہے:۔

اے ایماندارو! بکثرت ذکرِ الٰہی کر لیا کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو وہ وہی ہے جو خود تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جائے اور خدا ایمانداروں پر بڑا مہربان ہے(۳۳: ۴۱ تا ۴۳)

میں نے اس آیت کا انتخاب اِس لئے کیا ہے کہ اِس میں انقلابی علم و حکمت ہے، وہ یہ کہ خدا اور اس کے فرشتے مومنین پر اِس حالت میں درود بھیجا کرتے ہیں جبکہ وہ مومنین کثرت سے ذکر کرتے ہیں اور صبح و شام تسبیح کر لیا کرتے ہیں۔ تو کیا پروردگار کے حضور سے اور اس کے عظیم فرشتوں کی طرف سے بندوں پر درود کا نزول تعجّب خیز بات نہیں ہے؟ کیونکہ یہ صلوات اتنی عالی ہے کہ ہم بندے اِسے اپنی دانست اور دینی رسم کے مطابق صرف پیغمبرؐ اور آپؐ کی آل کی شان میں پڑھتے ہیں۔

اس کی تاویل ہم نے لکھی ہے جس کی نقل بعد میں بھیجیں گے فی الحال اس میں غور کیا جائے کہ یہ انعام بھی کتنا عظیم ہے کہ مومنین پر اللہ تعالیٰ اور اس کے بڑے

 

۲۹

 

بڑے فرشتے صلوات بھیجا کرتے ہیں، جبکہ مومنین ذکر و تسبیح کی شرط بجا لاتے ہیں۔

اس سے یہ راز بھی کُھلتا ہے کہ مولا کی رحمت اور بندے کی حرکت کی مثال ایسی ہے جیسے کسی انسان کو رسّی کی مدد سے کسی گہرے خزانے میں اتارا گیا ہے، اب اگر رسّی اوپر کے سرے سے ہلتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ جلدی کرو خزانہ سمیٹ کر بلندی کی طرف آ جاؤ، اور اگر نیچے سے ہلتی ہے تو اس کے معنی ہیں کہ میں خزانہ لے کر منتظر ہوں مجھے اوپر نکالاجائے، دونوں صورتیں ممکن ہیں اور دونوں میں بھلائی ہے۔

۱۔قرآن کی حکمتوں کو جاننے سے دل پر مسرّت و شادمانی کے میٹھے میٹھے دھکّے لگتے ہیں اور روحانیّت کے بھیدوں کو جاننے سے بھی ایسا ہوتا ہے۔ یہ ایمان کی اونچی سطح پر فائز ہونے کی علامت ہے۔

۲۔ قرآنِ حکیم (۲۷: ۰۸) میں ہے کہ جب حضرت موسیٰؑ نے دُور سے روشنی کو دیکھ کر آگ خیال کیا اور پھر نزدیک آیا تو نِدا ہُوئی کہ: بُورِکَ مَنْ فیِ النَّارِ ومَنْ حَوْلَھَا یعنی مبارک ہیں جو اس آگ کے اندر ہیں اور جو اس کے گردا گرد ہیں۔

۳۔ اس سے ظاہر ہے کہ حقیقت میں نور کو نار (آگ) کہا جا سکتا ہے، اس معنی میں کہ اس کی کیفیّت ایک اعتبار سے آگ کی طرح ہے، کہ نور اعلیٰ درجے کی روحوں کو جلا جلا کر نور بنا لیتا ہے اسی لئے فرمایا گیا کہ جو حقیقی عشق میں جل کر نور بن چکے ہیں اور نور کے اندر رہتے ہیں وہ بڑے بابرکت ہیں اور جو جلنے کے قریب ہیں اور روشنی و گرمی کو حاصل کر رہے ہیں وہ بھی دوسرے سے بہت آگے ہیں اور نور کی برکتوں کو حاصل کر رہے ہیں۔

۴۔ اس میں سوچنے سے بہت سی عمدہ باتیں یعنی حکمتیں سمجھ میں آسکتی ہیں، وہ اس طرح کہ علم اور عشق و عبادت کے وسیلے سے پگھلنا اور جلنا خدا کے نور میں ایک ہو جانا ہے، امام کے اِس نور میں ایندھن کی طرح جلنے کے لئے یقین اور سچّی محبّت چاہئے

 

۳۰

 

اور علم، تاکہ جس سے سمجھ آئے اور ہمّت ہو۔

۵۔ جب بندۂ مومن کسی طرح سے بھی امام کو یاد کرتے کرتے آنسوؤں کی بارش برساتا ہے، تو وہ خدائی نور میں جلنے لگتا ہے، اور اگر وہ اِس عمل میں ترقی کرے تو یقیناً ایک نہ ایک دن بڑے پیمانے پر نور بن جانے کا تجربہ حاصل کر سکتا ہے۔

۶ ۔ اِس آیت میں زبردست حکمت ہے، اور رحمت یہ کہ اس کا سمجھ لینا بہت آسان ہے، کیونکہ اس کے اندر اسماعیلی حقیقت بہت نمایان ہے، یہی حقیقی اسلام ہے یہی تصوّف اور یہی Monorealism ۔

۷۔ مونوریالزم (یک حقیقت) کتنی عظیم رحمت ہے، اسرارِ روحانیّت کا عظیم خزانہ اور ازلی و ابدی بہشت۔

آیت کی بہت کچھ تشریح چاہئے۔

 

والسّلام

آپکا “سر” اور علمی باپ

نصیرؔہونزائی

۳؍۳؍۱۹۸۰ ء

 

۳۱

 

سنہری نصیحت ۔ ۱

دائِمُ الذِّکر

 

پیر پندیاتِ جوانمردی کی مقدّس کتاب میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ حقیقی مومن وہی ہے جو “دائمُ الذّکر” ہوا کرتا ہے، اور یہاں اِس حقیقت کی وضاحت بہت ہی ضروری ہے کہ دائمُ الذّکر کا کیا مطلب ہے، چنانچہ جاننا چاہئے کہ “دائمُ الذّکر” اس باعمل بندۂ مومن کو کہا جاتا ہے جو ہر روز کثرت سے خدائے پاک کو یاد کرتا ہے، بلکہ مسلسل اور ہمیشہ یادِ الٰہی میں مصروف رہتا ہے، خواہ پروردگارِ عالم کی یہ یاد ایک ہی اسم سے ہو یا مختلف اسماء سے، ذکرخفی ہو یا جلی، ذکرِ خداوندی کی نوعیّت چاہے کچھ بھی ہو، جیسے خاص و عام عبادات، حمد و ثنا، نعمتوں کی شکرگزاری، مناجات، مذہبی کتابوں کا مطالعہ، علمی اور روحانی مجالس کی حاضری، گر یہ وزاری، شوقِ دیدار وغیرہ یہ سب ذکرِ خدا ہے، اور اسی طرح جو یادِ الٰہی میں مصروف رہے اس کو “دائمُ الذّکر” کہا جاتا ہے، اور ایسا مومن بڑا خوش نصیب اور کامیاب ہوتا ہے۔

آپ اگر کسی کو ہزار گونہ غیر منظّم نصیحتیں کرتے رہیں اور طرح طرح کی ہدایات دیتے جائیں، تو پھر بھی ان ساری دینی باتوں سے اس کو کوئی مستقل فائدہ نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اس کو ایک کامل متّقی اور پرہیزگار شخص کی طرح اپنے حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن پر مکمّل ضبط اور کنٹرول قائم نہ ہو، اور یہ زبردست اور مشکل کام کیسے ہوسکتا ہے، جب تک کہ دل پر پورا پورا کنٹرول نہ ہو، کیونکہ وہی تو ہے جو حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن کے جنکشن اور مرکز کی حیثیت رکھتا ہے، مگر دل پر سخت کنٹرول کرنا اور اس کو ہر طرح

 

۳۲

 

سے قابو میں رکھنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں، کیونکہ یہ تو بڑا معجزانہ کام ہے، لہٰذا دانشمند مومن کو چاہئے کہ وہ شب و روز کی کثرتِ ذکر سے اپنے دل کے گردا گرد ایک انتہائی مضبوط اور ناقابلِ شکست حصار قائم کرلے، تاکہ لشکرِ شیطان قلعۂ دل میں داخل نہ ہونے پائے، یعنی بندۂ مومن ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو پکارا کرے، اسی سے ہر وقت رجوع کرے، اسی کے ساتھ دل ہی دل میں مناجات جاری رکھے، اسی کے حضور میں اپنی ہر مشکل پیش کرے، اسی سے مدد اور یاری چاہے اور اسی سے دائمی طور پر محبّت رکھے، تاکہ ان تمام معنوں کے وسیلے سے وہ دائمُ الذّکرہو سکے۔

چنانچہ دائم خدا کو یاد کرنے سے دل پر صفاتِ رحمانیّت کا ضبط اور کنٹرول قائم ہوتا ہے اور جب اس ذریعے سے دل رحمان کے قبضۂ قدرت میں محفوظ رہتا ہے، تو حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن خود بخود شیطان کے شرّ سے چھٹکارا پاتے ہیں، اور جب اسی طرح مومن کی ظاہری اور باطنی قوّتیں خداوند تعالیٰ کے حفظ و امان میں محفوظ و سلامت ہو جاتی ہیں، تو اس کا نتیجہ ہزاروں نصیحتوں سے بڑھ کر نکلتا ہے، اور مومن کو معراجِ روحانیّت حاصل ہوتی ہے۔

پس حقیقی مومن کی کامیابی کا راز اِس بات میں ہے، کہ وہ اپنے خداوندِ قدّوس کو کثرت سے یاد کیا کرے، اور لمحہ بھر کے لئے بھی اس کو فراموش نہ کر بیٹھے، وہ یقیناً دنیا کے بہت سے کاموں کے باوجود “دائمُ الذّکر” ہو کر خدا کو پاسکتا ہے اور روحانیّت کی مثالی ترقی کرسکتا ہے ۔

 

خانۂ حکمت

۲۶۔مئی۔۱۹۷۹ء

 

۳۳

 

سنہری نصیحت ۔ ۲

حقیقی مسرّت و شادمانی کا راز

 

انہوں نے کہا کہ: “یہ تو بیشک ہم کو تجربہ ہو چکا ہے، کہ کثرت سے خدا کو یاد کرنے سے دل کو طمانیّت، راحت اور خوشی حاصل ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی جاننا چاہتے ہیں، کہ ذکرِ الٰہی سے جو حقیقی مسرّت و شادمانی حاصل ہوتی ہے، اس کا پس منظر اور اصل راز کیا ہے؟”

آپ دیکھتے ہیں کہ ان دانشمند عزیزوں نے کتنا اہم، مفید اور سائنسی سوال اٹھایا ہے، جس کے مکمّل اور درست جواب کے سلسلے میں ایسی گہری حکمتوں اور حقیقتوں کی طرف اشارہ ممکن ہے، جن کے جاننے سے ذاکر مومنین کو حوصلہ اور ہمّت کی ایک نئی روح مل سکتی ہے، چنانچہ یہاں مذکورہ دلچسپ سوال کا جواب کئی پہلوؤں سے پیش کیا جاتا ہے: ۔

۱۔ قانونِ الٰہی کا یہ ایک اٹل فیصلہ ہے کہ انسان جس چیز کو محبّت سے اکثر یاد کرتا رہتا ہے، وہ فکر و خیال اور تصوّر میں اس کے ساتھ لگی رہتی ہے، اسی طرح جب بندۂ مومن اللہ کو خوب یاد کرتا ہے تو وہ مومن فکری، ذہنی اور روحانی طور پر خدائے برتر و بزرگ کے مقدّس قرب کو پاتا ہے، اور خداوند تعالیٰ کا قرب وہ اعلیٰ اور معجزاتی مقام ہے، جہاں خوف و غم کی گھناؤنی ظلمتیں مٹ کر امید و مسرّت کا نور طلوع ہو جاتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ذکرِ الٰہی کی کثرت سے حقیقی خوشی حاصل ہو جاتی ہے۔

۲۔ جب حقیقی مومن کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کر لیا کرتا ہے، تو وہ اس کے

 

۳۴

 

ذریعے وسوسۂ شیطانی کے پُرخطر پھندوں سے بچ کر خدا کی پناہ میں محفوظ اور سلامت رہتا ہے، اور یہ حکمت آگین عمل شیطان کے مسلسل حملوں کے خلاف ایک ایسا زبردست اور مضبوط و مستحکم قلعہ ہے، کہ وہ ایمان کا دشمن اس کی تسخیر اور فتح سے ناکام اور مایوس ہو کر دور ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ خوش نصیب مومن نفسِ امّارہ کی غلامی سے نجات پاکر عقل و ایمان کی بادشاہی کی راحتوں اور مسرّتوں سے وابستہ ہو جاتا ہے۔

۳۔ جس طرح اِس مادّی دنیا میں اگر ایک طرف تاریکی ہے تو دوسری طرف روشنی بھی ہے، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ انسان فطری طور پر ظلمتوں سے گھبراتا اور تنگ ہو جاتا ہے اور روشنیوں سے مسرور و شادمان، سو یہی مثال اس کی روحانیّت کی بھی ہے، کہ خدا کو بھول جانا باطن کی ظلمت ہے اور مکمّل ذکر نور، چنانچہ یادِ الٰہی سے حقیقی خوشی اس لئے حاصل ہوتی ہے کہ مومنِ ذاکر کی روح اپنے طور پر نورِ خداوندی کی ضیا پاشیوں کو دیکھتی ہے، اور جب روحانیّت کی نمایان ترقّی ہونے لگتی ہے تو مومن شعوری طور پر بھی اس کیفیت و حقیقت کا مشاہدہ اور تجربہ کر سکتا ہے۔

۴۔ فرمایا گیا ہے کہ: یاد رکھو کہ ذکرِ الٰہی سے دِلوں کو تسلّی ہوا کرتی ہے (۱۳: ۲۸) اور جاننا چاہئے کہ طمانیّت و تسلّی حصولِ مقصد اور اس کی امید و یقین کے بغیر ناممکن ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ذکر سے یا تو دل کا مقصد پورا ہو جاتا ہے یا ایسا ہونے کی پوری پوری امید ہوتی ہے، جس سے دل کو تسلّی اور خوشی ہوتی ہے۔

۵۔ دل کی کیفیّت بڑی عجیب و غریب شیٔ ہے، کہ اس میں بغیر کسی ظاہری آواز و تلفظ کے ہر وقت روحانی گفتگو کا ایک سلسلۂ لامُتناہی جاری رہتا ہے، جس میں نیکی اور بدی کے دونوں مؤکّل انسان کے ضمیر کی حالت پر خوب باریکی اور بڑے شدّ و مد سے بحث کرتے رہتے ہیں، اگر آدمی یادِ خدا سے غافل اور بُرائی کی طرف مائل ہے تو اس کی وجہ سے شرّ کے فرشتے کا زور چلتا ہے اور وہ اس آدمی کی مذمّت کرتا ہے جس کی بناء

 

۳۵

 

پر اس کو اندر ہی اندر سے بوریت، مایوسی اور غمگینی پیدا ہوتی رہتی ہے، اور اگر وہ خدا تعالیٰ کی یاد میں مصروف ہے، اور اس کے دل میں بھلائی کا رجحان پایا جاتا ہے، تو اس کے سبب سے خیرکا فرشتہ غالب ہو جاتا ہے اور وہ اس بندۂ ذاکر کی تعریف و توصیف کرتا ہے، جس کے اثرات باطنی مسرّت و شادمانی کی صورت میں مرتّب ہو جاتے ہیں۔

۶۔ جس طرح انسانی جسم کی اپنی الگ غذا ہے اسی طرح روح اور عقل کی بھی اپنی اپنی مخصوص غذائیں ہوا کرتی ہیں، چنانچہ روح کی خوراک ذکر و عبادت ہے اور عقل کی غذا علم و حکمت ، پس ذکر و بندگی سے روح کو تسکین و تسلّی اور خوشی اس لئے حاصل ہوتی ہے کہ اس سے اس کو نور کی غذائیّت اور تقویّت ملتی ہے۔

۷۔ اِس دنیا میں جہاں انسان کو گونا گون جسمانی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں، وہاں اس کو طرح طرح کی روحانی اور ذہنی بیماریوں سے دوچار ہوجانا بھی ممکن ہے، مگر ان دونوں قسم کی بیماریوں میں بڑا فرق یہ ہے کہ جسمانی مرض کا تو اکثر پتہ چل سکتا ہے کہ کیا ہے اور کہاں ہے، لیکن روحانی مرض کی نشاندہی انتہائی مشکل چیز ہے، لہٰذا نہ صرف علاج کے طور پر بلکہ حفظِ ما تقدّم کے اصول پر بھی کثرتِ ذکر کی تاکید فرمائی گئی ہے، تاکہ ہر حالت میں اس کا نتیجہ روح کی صحت و سلامتی اور راحت و خوشی کی صورت میں نکلے۔

۸۔ قرآنِ حکیم کا یہ پاک ارشاد ہے کہ انسان کی نیکیاں اس کی برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ( ۱۱: ۱۱۴ ) چنانچہ کثرت سے ربّ العزّت کو یاد کرنا اللہ تعالیٰ کی بخشش کا ایک ایسا اعلیٰ وسیلہ ہے کہ اس سے مومنین کے تمام گناہ دُھل سکتے ہیں، جس کا اشارہ بندۂ ذاکر کو سکونِ قلب اور حقیقی خوشی کی صورت میں ملتا ہے۔

۹۔ پروردگارِ عالم کے بابرکت نام میں روحانیّت اور آخرت کی ساری برکتیں اور نعمتیں سمو کر پوشیدہ ہیں، لہٰذا بندۂ مومن جس کثرت سے خدا کے نام کو یاد کرتا ہے اس

 

۳۶

 

کثرت سے اس کو روحانی برکتیں اور نعمتیں حاصل ہو جاتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ وہ خوش ہو جاتا ہے۔

پس اِن مثالوں سےاس سوال کا مفصّل اور مکمّل جواب مہیّا ہوگیا، جس میں پوچھا گیا تھا کہ “ذکرِ الٰہی سے حقیقی مسرّت و شادمانی حاصل ہونے کا پس منظر اور اصل راز کیا ہے ۔”

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۱۹۷۹ء

 

۳۷

 

سُجود میں سکون

 

سُجود (سجدہ) کے اصل معنی ہیں جُھکاؤ، یعنی فروتنی اور عاجزی کرنا، اور دینی اصطلاح میں سُجود اللہ تعالیٰ کی عظمت و بزرگی کے سامنے عجز و انکساری سے جُھکنے اور اس کی غلامی و بندگی کے تصوّر سے زمین پر سر رکھنے کو کہتے ہیں، اسی لفظ سے “سجّاد” ہے جو بہت عبادت گزار کے لئے استعمال ہوتا ہے، سجّادہ (جائے نماز) مسجد (عبادت، عبادتگاہ) مَسجَد (پیشانی) وغیرہ اسی مصدر سے ہیں، اور ان تمام الفاظ کے پس منظر میں بنیادی طور پر جھکنے کے معنی پوشیدہ ہیں۔

سجود کے تاویلی معنی اطاعت و فرمانبرداری ہیں، کیونکہ حکم ماننا گویا جُھکنا اور سجدہ کرنا ہے، چنانچہ خداوندِعالم نے ذرّاتِ ارواح و ملائکہ سے فرمایا کہ: فَقَعُوا لَہٗ سٰجدین (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) پس تم گِر پڑو اس کے لئے سجدہ کرتے ہوئے، یعنی تم اے ذرّاتِ روحانی! رفعتِ روحانیّت سے وجودِ آدمؑ میں گِر پڑو اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری بجا لاؤ۔ سجود کی تین قسمیں ہیں،۱۔ سجودِ تسخیری جو جمادات، نباتات، حیوانات اور تمام انسانوں کے حق میں عام ہے، ۲۔ سجودِ اختیاری جو دائرۂ انسانیّت کے لئے مخصوص ہے ، ۳۔اور سجودِ عرفانی جو صرف اہلِ معرفت ہی کے لئے ہے۔ یہ سب سے ارفع و اعلیٰ اور خاص ترین ہے، اور نجاتِ آخرت اسی میں پوشیدہ ہے۔

آسمان و زمین کی کوئی چیز یا مخلوق ایسی نہیں جو اپنی فطرت کے مطابق خدا

 

۳۸

 

کے لئے تسخیری سجدہ نہ کرتی ہو، سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت اور جانور یہ سب شعور و اختیار کے بغیر اسی سجود میں لگے ہوئے ہیں، یہی نہیں بلکہ تمام انسان بھی ایک پہلو سے ان چیزوں کے ساتھ سجودِ تسخیری کر رہے ہیں، اس کے بعد سجودِ اختیاری کا ذکر آتا ہے جو دنیا کے مختلف ادیان میں رائج ہے، مگر جب آپ قرآنِ پاک میں موضوعِ سجود کا بغور مطالعہ کریں گے تو یہ حقیقت روشن ہو جائے گی کہ بہت سے لوگوں کے سجدے ایسے ہیں، جن میں ابدی نجات کی کوئی ضمانت نہیں اور نہ اُن میں کسی بھی درجے کا حقیقی سکون ہے، کیونکہ وہ معرفت یعنی خدا شناسی کے بغیر ہیں، اس قسم کے سجدوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ: لاَ تَسجُدُوا لِلشَّمسِ ولاَ لِلقَمَرِ وَاسجُدُوا لِلّٰہِ الَّذی خَلَقَھُنَّ اِنْ کُنتُم اِیَّاہُ (۴۱: ۳۷) تم لوگ نہ سورج کو سجدہ کرنا اور نہ چاند کو اور اگر تم کو خدا ہی کی عبادت کرنی منظور ہے تو بس اسی کو سجدہ کرو جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے۔ یہاں یہ حقیقت پوشیدہ نہیں بلکہ ظاہر اور روشن ہے کہ اس نوعیّت کے سارے سجدے ممنوع ہیں، کیونکہ یہ معبودِ برحق کے لئے نہیں ہیں، مطلب یہ کہ ان میں معرفتِ خدا نہیں، پس ربّ العزّت کی رضا و خوشنودی صرف اور صرف اسی سجدے میں مخفی ہے، جو ہر قسم کے شرک کی آلائش سے پاک و پاکیزہ اور عرفان و توحید کے نور سے منوّر ہو، بس ایسے ہی سجدے سے عبادت و معنویت کا قابلِ اعتماد سکون حاصل ہو جاتا ہے۔

سجود کا قصّہ بڑا طویل بھی ہے اور از بس عجیب و غریب بھی، یہ حکمت آگین اور پُراسرار موضوع بیحد دلکش، جانفزا اور مسرّت بخش ہے، کیونکہ یہ کلامِ الٰہی کے اہم ترین مضامین میں سے ہے، اس کا ذکر قرآنِ پاک میں سب سے پہلے قصّۂ آدمؑ میں ملتا ہے، چنانچہ ابلیس جس نافرمانی کے سبب سے بارگاہِ ایزدی سے راندہ ہو گیا ہے وہ یہ تھی کہ اُس نے آدم علیہ السّلام کے لئے سجدہ کرنے سے انکار کیا، اور یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ

 

۳۹

 

اس کو دنیا بھر کے مذاہب والے انتہائی عبرتناک اور سبق آموز ہونے کی حیثیت سے کبھی فراموش نہیں کر سکتے، عدلِ خداوندی کی ترازو میں ایک طرف ابلیس کے ہزاروں برس کی عبادات اور نیکیاں تھیں، اور دوسری طرف صرف ایک ہی سجدہ نہ کرنے کی نافرمانی پھر لوگ اس مقام پر تعجب اور غور کیوں نہیں کرتے کہ اتنی ساری عبادت و نیکی کا وزن کیونکر نہ ہونے کے برابر ہوا اور کس وجہ سے ایک اکیلی نافرمانی کا پلّہ اتنا سنگین ہو کر زمین سے لگ گیا؟ ہر چند کہ وہ ساری عبادات خدائے واحد کے لئے تھیں، اور سجدے سے سرتابی کا سبب ابلیس کے نزدیک جو کچھ تھا وہ تو ظاہر ہے، مگر کوئی ہوشمند یہ کہنے کے لئے ہرگز تیار نہیں کہ ابلیس کے معاملے میں ظلم ہوا ہے، پس سوچنا چاہئے کہ اس میں ضرور کوئی سرِّعظیم پنہان ہے ۔

ارشادِ خداوندی ہے کہ: یَومَ یُکشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّ یُدعَونَ اِلیَ السُّجُودِ فَلاَ یَسْتَطِیعُونَ(۶۸: ۴۲) جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور لوگ سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو (سجدہ) نہ کرسکیں گے۔ یہ ایک عظیم اور پُرحکمت تاویلی اشارہ ہے، جس میں سجودِ عرفانی کا ذکر پوشیدہ ہے، چنانچہ ساقِ خدائی سے نورِ امامت کی پاک شخصیت مراد ہے جو زمین پر مظہرِ عقلِ کُلّی کی حیثیت سے ہے، ساق کھول دینے کے معنی ہیں امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی عظیم الشّان اور پُرحکمت ہدایات کے کامیاب نتائج کا ظہور و اعلان، اور لوگوں کو سجدے کے لئے بُلانے کی تاویل یہ ہے کہ زبانِ قال و حال سے انہیں کہا جائے گا کہ تم کم از کم اِس وقت امامِ عالیمقامؑ کی اطاعت و پیروی کرو، مگر وہ یہ نہ کر سکیں گے، کیونکہ اِس سے قبل جب ٹھیک وقت پر ان کو دعوت دی گئی تھی، تو اس کو انہوں نے قبول نہ کیا تھا دران حالیکہ وہ سالم تھے (۶۸: ۴۳) یعنی وہ سجدۂ عرفانی کو بجا لانے سے قاصر تھے، اور اُن کا جُثۂ حقیقت جُھکا اور ٹوٹا ہی نہ تھا بلکہ وہ بالکل ہی سالم تھا۔

 

۴۰

 

اللہ تبارک و تعالیٰ کا مقدّس فرمان ہے کہ: وَ اَشْرَقَتِ الاَرضُ بِنُوْرِ رَبِّھَا(۳۹: ۶۹) اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اُٹھے گی۔ اس کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ آئندہ کسی زمانے میں نورِ خداوندی آفتاب و ماہتاب کے ساتھ مل کر مادّی صورت میں طلوع ہو جائے گا اور جمادات، نباتات اور حیوانات کو پہلے سے کہیں زیادہ تابان و درخشان بنا دے گا، یہ بات قطعاً ناممکن ہے، بلکہ اِس آسمانی پیشگوئی کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں نورِ الٰہی اوجِ کمال سے عالمِ انسانیّت پر طلوع ہو جائے گا، جس کی بدولت روئے زمین پر علم و حکمت، عدل و انصاف، اتّفاق و اتّحاد اور اخلاقی ترقی کا دَور دَورہ ہوگا، مگر اہلِ دنیا میں وہ معرفت کہاں، جس سے انہیں یہ معلوم ہو سکے کہ مرکزِ نور کہاں ہے اور کیا ہے؟ یہ وہی زمانہ ہوگا جس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ پنڈلی کھول دی جائے گی اور لوگ سجدے کے لئے بلائے جائیں گے۔

آپ ذاتی طور پر بھی قرآنِ حکیم کی اُن حکمت آگین آیات کا گہرا مطالعہ کرکے دیکھیں جو سجود کے بارے میں ہیں، یقیناً بڑی گرانقدر معلومات فراہم ہو جائیں گی، کیونکہ سجدہ کا موضوع بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے، یہ نہ صرف عبادت کا عنوان اور سرنامہ ہی ہے بلکہ یہ اس کا اہم ترین جزو بھی ہے، سجود ہی بندۂ مومن کے لئے ایک ایسا کامیاب وسیلہ ہے، جس کی برکت سے وہ ہر بار حضورِ الٰہی میں انتہائی عاجزی اور نیازمندی کا مظاہرہ کرسکتا ہے، وہ اس موقع پر خودی اور خودنمائی کی آلودگی سے صاف پاک ہو کر محویت و فنائیت اور خداوندِ عالم کے قربِ خاص کو حاصل کر سکتا ہے، جیسا کہ ارشادِ قرآنی ہے: وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِب(۹۶: ۱۹) اور سجدہ کرتے رہو اور خدا کے نزدیک ہو جاؤ۔

سجدہ، سجود اور ساجد جیسے الفاظ قرآنِ مقدّس کے مختلف مقامات پر آٹھ کم سو (۱۰۰) دفعہ آئے ہیں جن کے ساتھ لازمی طور پر بہت سی دوسری پُرحکمت تشریحی آیاتِ مقدسہ شامل ہیں اور اگر ان لفظوں کے معانی و مطالب کی مزید وضاحت کے لئے مترادفات (ہم

 

۴۱

 

معنی الفاظ) سے بھی کام لیا جائے (جبکہ سجود کے ساتھ عبادت کا ذکر منسلک ہے، ساجد کا مطلب عابد ہے اور مسجود کا دوسرا لفظ معبود ہے) تو اس صورت میں یہ پُرحکمت موضوع قرآنِ کریم کی آخری حدود تک پھیل جاتا ہے۔

حقیقی سکون اور روحانی راحت کی غیر فانی اور لازوال دولت صرف ایسے بابرکت سجدوں میں ہے جو خداشناس مومنین عشق و محبت کے پاکیزہ آنسوؤں کے ساتھ بجا لاتے ہیں، جبکہ ان کے دل و جان پر رحمت و علم کے نور کی تابش ہونے لگتی ہے اور جبکہ اُن میں دینِ حق کی عظیم نعمتوں کے لئے شکرگزاری کا ایک طوفانی جذبہ اُبھرتا ہے، اور اسی سعادتمندی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ: وَ یَخِرُّوْنَ لِلاَذْقَانِ یَبکُونَ وَیَزِیدُھُم خُشوُعاً (۱۷: ۱۰۹) اور یہ لوگ (سجدے کے لئے) ٹھوڑیوں کے بَل گر پڑتے ہیں اور روتے جاتے ہیں اور یہ عالم ان کی خاکساری کو بڑھاتا جاتا ہے۔

اِس حقیقت سے ہر دانشمند مومن باخبر ہے کہ شیطان فخر و تکبّر اور خود پسندی کی وجہ سے سجدۂ آدم اور امرِخدا سے منکر ہوا تھا اسی کا ایک مکمل نمونہ ہر انسان کے باطن میں پوشیدہ رہا کرتا ہے اور وہ نفسِ امّارہ ہے جس کو تہذیب و تربیت دے کر مسلمان بنانے کے لئے پُرزور، مؤثر اور کامیاب سجدوں کی سخت ضرورت ہے، تاکہ اِس پُرحکمت عمل سے جو شیطان اور نمائندہ شیطان (نفسِ امّارہ) کی کافرانہ عادت و مرضی کے خلاف ہے نفس کو مغلوب کیا جائے، مغلوب اس لئے ہوگا کہ ہر چیز کا اثر اس کی ضد سے زائل ہو جاتا ہے، یعنی گرمی کا علاج سردی سے اور سردی کا مُداوا گرمی سے کیا جاتا ہے، جس کو علاج بِالضّد کہتے ہیں۔

جس طرح ہر عبادت کے اختتام پر سجدہ کرنا پڑتا ہے، اسی طرح یادِ مولا کی تپش (حرارت) سے دل پگھلنے کے نتیجے پر مومنِ صادق توفیقِ خداوندی سے سجدہ ریز ہو جاتا ہے، جس سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ سجدہ بندگی کی انتہا اور معراجِ عبادت ہے، اور

 

۴۲

 

ربِّ عزت کی نزدیکی کے لئے اس سے بہتر کوئی مقام نہیں، پس یہی وجہ ہے کہ جب تائید و نصرتِ سماوی ازحد ضروری ہوتی ہے تو اس وقت بندۂ مومن سربسجود ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضورِ اقدس میں عجزو انکساری سے التجاء کرتا ہے۔

 

نصیرہونزائی

کراچی ۔۶۔دسمبر ۔۱۹۸۰ء

 

۴۳

 

علم کا عبادت سے گہرا تعلّق

 

دلیل ا ؎: حقیقی علم جس میں دین و دُنیا کی بہتری اور بھلائی ہے، وہ نورِ خدا کی روشنی ہے، اور تمام مذاہب والوں کو اِس حقیقت کا اقرار ہے کہ عبادت خدا کی طرف قربِ روحانی کا وسیلہ ہے، جس کا نتیجۂ خاص علم ہے۔ پس یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ علم کا عبادت سے گہرا تعلّق ہے۔

دلیل ۲  ؎: حضراتِ انبیاء علیھم السّلام اللہ تعالیٰ کے خصوصی عبادت گزار بندے ہُوا کرتے ہیں، ان کی انتہائی عاجزی سے عبادت کرنے کا طریقہ قرآن میں مذکور ہے، اِس بندگی کے نتیجے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر خاتم الانبیاءؐ تک جملہ پیغمبروں کو کتبِ سماوی اور روحانی علم کے خزانوں سے مالامال فرمایا، اور دینی علم کی یہ وراثت ہمیشہ سے چلتی رہی، اِس سے ظاہر ہے کہ علم عبادت کا سب سے بڑا انعام ہے۔

دلیل ۳ ؎: قرآنِ حکیم میں علم کا ایک خاص موضوع قصۂ آدمؑ ہے، جو کئی وجوہ سے بہت بڑی اہمیّت کا حامل ہے، وہ حکیمانہ بھیدوں سے بھرپور ہے، وہ اُن دو دیواروں میں سے ایک ہے، جن کا ذکر سورۂ یاسین (۳۶: ۰۹) میں ہے ، اِس پُرحکمت قصّے میں عبادتِ الٰہی کے ساتھ علم کا ربط و تعلّق یوں ہے کہ خدائے برتر نے حضرت آدمؑ کو اسمِ اعظم کی عبادت سکھا دی، جس کے نتیجے میں روحانیّت کا دروازہ کُھل گیا، اور آدم صفی اللہؑ کو اسماء کا علم سکھایا گیا۔

 

۴۴

 

دلیل ۴ ؎: اسمائِ حُسنیٰ (خدا کے خوبصورت نام = بزرگ بزرگ نام) کے بارے میں ایک ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ ربّ العزّت کی عبادت و بندگی اس کے اسمائِ عُظّام کے وسیلے سے ضروری ہے، اور جو لوگ خدا کے ایسے ناموں کو نہیں سمجھتے ہیں ان کو الگ چھوڑ دینا چاہئے۔۔۔۔۔(۰۷: ۱۸۰) ۔ اب ظاہر بات ہے کہ تمام انبیاء اِس معاملے میں حضور اکرمؐ کے ساتھ ہیں اور وہ حضرات اپنے اپنے وقت میں اسمِ اعظم پر بندگی کیا کرتے تھے، کیونکہ انبیاء ایسے زُمرے میں شامل نہیں ہو سکتے ہیں جو خدا کے بزرگ نام سے نابلد ہے، اس سے معلوم ہُوا کہ اسمِ اعظم کی بندگی سے علم ملتا ہے، اور یاد رہے کہ اسمِ اعظم کی دو قسمیں ہیں، اسمِ اعظمِ ناطق اور اسمِ اعظمِ صامت، یعنی پیغمبر اور امامِ زمانؑ تو خدا کے وہ بزرگ نام ہیں جو بولتے ہیں اور ہر وہ اسم جو ان کی ہدایت سے ہو اللہ تعالیٰ کا خاموش اسمِ اعظم ہے۔

دلیل ۵ ؎: سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) میں فرمایا گیا ہے کہ اس کائنات کے ظاہر و باطن میں خداوند تعالیٰ کے بے حساب معجزات اور نشانیاں موجود ہیں جو صرف اہلِ دانش ہی سمجھ سکتے ہیں پھر ان کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ وہ کھڑے کھڑے، بیٹھے بیٹھے، اور لیٹے لیٹے یعنی ہر حالت میں ذکرِ خدا کیا کرتے ہیں، اور اسی کے نتیجے میں نورانی غوروفکر کر سکتے ہیں تاکہ اسرارِ کائنات اُن پر منکشف ہو جائیں۔

دلیل ۶ ؎: قرآن کا ہر رکوع عام طور ہر ایک جداگانہ مضمون یا کئی مضامین پر مبنی ہوتا ہے، اسی وجہ سے سِلسِلۂ آیات میں بیانِ مضمون کا ربط موجود ہوتا ہے، چنانچہ سورۂ احزاب کے رکوع ۶ ؎کی تین ابتدائی آیات کا ربط اس طرح ہے: اے اہلِ ایمان خدا کا بہت ذکر کیا کرو، اور صبح اور شام اس کی پاکی بیان کرتے رہو، وہی تو ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تم کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے اور خدا مومنوں پر بڑا مہربان ہے (۳۳: ۴۱ تا ۴۳) اِن پاک آیتوں میں نورِ علم

 

۴۵

 

اور بندگی کے درمیان بڑی گہرائی سے تعلّق ہونے کا تذکرہ فرمایا گیا ہے۔

دلیل ۷ ؎: ارشادِ خداوندی کا ترجمہ ہے: خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحبِ علم ہیں (۳۵: ۲۸) یہاں لفظ “عِباد” میں عبادت کا تذکرہ ہے اور خدا سے ڈرنے میں سب سے خاص عبادت ہے، اور ایسی عبادت کا گہرا تعلّق جس میں تقویٰ ہو علم کے ساتھ ہے۔

دلیل ۸ ؎: قرآن کی بہت سی آیات سے اِس حقیقت کی شہادت ملتی ہے کہ فکر سے علم و حکمت کی راہیں کُھل جاتی ہیں، اور فکر پر ذکرِ خدا کا کنٹرول ہے، پس معلوم ہُوا کہ عبادت کا خاص پھل علم کی صورت میں ملتا ہے۔

دلیل ۹ ؎: فرمانِ خداوندی ہے: قُل اَفَغَیرَ اللّٰہِ تَامُرُونّی اَعبُدُاَیُّھَا الجٰھِلُون(۳۹: ۶۴) کہہ دو کہ اے نادانو! تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ میں غیرِ خدا کی پرستش کرنے لگوں۔ اِس پُرحکمت آیت میں ایک طرف تو معبودِ برحق کی عبادت سے علم و دانش ملنے کا ذکر ہے، اور دوسری طرف غیرِ خدا کی پرستش میں جہالت ہی جہالت ہونے کا۔

دلیل ۱۰ ؎: قولِ خدا ہے: و اعبُد رَبَّک حَتّیٰ یَاتِیَک الیَقِین(۱۵: ۹۹) اور اپنے پروردگار کی عبادت کئے جاؤ یہاں تک کہ تمہیں حق الیقین آجائے۔

دلیل ۱۱ ؎: صحیح بُخاری ، جلدِ سوم، حدیثِ قدسی ۱۴۲۲ میں ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ والہٖ وسلّم نے فرمایا کہ: اللہ فرماتا ہے: جس نے میرے دوست سے دُشمنی کی، میں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں، اور میرا بندہ میری فرض کی ہوئی محبوب چیزوں کے ذریعہ میرا قرب حاصل نہیں کرتا ہے، اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعہ مجھ سے قر ب حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ میں اُس سے محبّت کرنے لگتا ہوں، جب میں اُس سے محبّت کرنے لگتا ہوں، تو میں اس کے کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سُنتا ہے، اور

 

۴۶

 

اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اِس حدیثِ قدسی سے ظاہر ہے کہ عبادت سے نہ صرف قربِ خدا مل جاتا ہے بلکہ اس سے خود خدا بھی مل جاتا ہے اور خدا ہی علم و معرفت کا مخفی خزا نہ ہے۔

دلیل ۲ا ؎: حقیقت میں تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (۳۳: ۲۱) اِس آیۂ کریمہ میں دانشمند مومنوں کے لئے انتہائی بلند درجے کی خوشخبری ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ پیغمبرِ خداؐ کے نقشِ قدم پر چلنے میں علم ہی علم ہے جس کی شرط کثرت سے خدا کو یاد کرنا ہے۔

دلیل ۳ ۱ ؎: ایک ارشاد کا ترجمہ اس طرح ہے: بھلا جس شخص کا سینہ خدا نے اسلام کے لئے کھول دیا ہو اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی پر ہو ( تو کیا وہ کسی سخت دل کی طرح ہو سکتا ہے) پس اُن پر افسوس ہے جن کے دل خدا کی یاد سے سخت ہو رہے ہیں، اور یہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں (۳۹: ۲۲) اس کے یہ معنی ہیں کہ جو ذکرِ خدا میں پگھل جاتے ہیں ان کو نورِ خدا کی روشنی ملتی ہے اور جو سخت دلی کی بیماری میں مبتلا ہیں وہ اِس سے دُور ہیں۔

 

خانۂ حکمت ، کراچی

۲۔نومبر۔۱۹۸۲ء

 

 

۴۷

 

سلامتی کی راہیں

 

قرآنِ حکیم میں جہاں دینِ اسلام کی اساسی حقیقتوں کے ساتھ سلامتی کی راہوں کا ذکر ہوا ہے، وہ پُرحکمت ارشاد اس طرح شروع ہو جاتا ہے کہ: ۔

اے اہلِ کتاب تمہارے پاس ہمارا پیغمبر (محمدؐ) آچکا ہے کہ جو کچھ تم کتابِ (الٰہی) میں سے چھپاتے تھے وہ اِس میں سے بہت کچھ کھول کھول کر بتا دیتا ہے اور تمہارے بہت سے قصور معاف کر دیتا ہے۔ یقیناً تمہارے پاس خدا کی طرف سے نور اور ظاہر کتاب (قرآن) آچکی ہے ( قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتَابٌ مُّبِيْنٌ ۰۵: ۱۵) جس سے خدا اپنی رضا پر چلنے والوں کو سلامتی کی راہوں پر چلاتا ہے اور اپنے حکم سے ( بِاِذْنِہٖ) اندھیروں سے نکال کر روشنی (نور) کی طرف لاتا ہے اور (اسی طرح) ان کو سیدھے راستے پر چلاتا ہے (يَهْدِىْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَيَهْدِيْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ۰۵: ۱۶) اِس آسمانی تعلیم کے متعلق چند اہم سوالات پیدا ہو جاتے ہیں، اور وہ درجِ ذیل ہیں: ۔

سوال ۱: اس کی کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نہ صرف اسی ارشاد میں بلکہ قرآنِ کریم کے کئی اور مقامات پر بھی یہود و نصاریٰ کو “اھلِ کتاب” کے نام سے پکارتا ہے، حالانکہ آسمانی کتاب مسلمانوں کے پاس بھی ہے؟ “اھلِ کتاب” کا یہ نام کب سے شروع ہوا؟

سوال ۲: اہلِ کتاب توریت اور انجیل میں سے اکثر کس نوعیت کی

 

۴۸

 

باتوں کو چھپایا کرتے تھے؟ اِس میں ان کا خاص مقصد کیا تھا؟

سوال ۳: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُن کی چھپائی ہوئی باتوں کو کس طرح کھول کھول کر بیان فرماتے تھے؟

سوال ۴: یہاں نور سے کیا مراد ہے؟ اس کا ذکر کتاب کے ساتھ کیوں فرمایا گیا؟ نیز یہاں یہ پوچھنا ہے کہ ترتیبِ بیان میں جس طرح نور پہلے ہے اور کتاب بعد میں، اس میں کیا حکمت ہے؟

سوال۵: اِس فرمانِ خداوندی سے یہ حقیقت تو واضح ہو جاتی ہے کہ خدا اِس نور اور کتاب کے ذریعے سے صرف ان ہی لوگوں کو سلامتی کی راہوں پر چلاتا ہے، جو اس کی خوشنودی کی پیروی کرتے ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر اِس ہدایت کی اوّلین شرط اللہ کی رضامندی کا حصول ہے تو یہ شرط ہدایت سے پیشتر کس طرح پوری ہو سکتی ہے؟ اس کے بارے میں قابلِ فہم وضاحت کی جائے۔

سوال ۶: سلامتی کی راہیں کیا ہیں ؟ آیا یہ راہیں صراطِ مستقیم سے جُدا ہیں یا مل کر؟ اگر ملکر ہیں تو پھر یہ صیغۂ جمع میں (یعنی سُبُل) کیونکر ہو سکتی ہیں؟ کیا خدا کی طرف جانے کا راستہ صرف ایک ہی نہیں ہے، جو صراطِ مستقیم ہے؟

سوال ۷: یہاں اِذن (حکم) کا بھی ذکر آیا ہے، اس میں کیا حکمت ہے؟ کیونکہ اگر مان لیا جائے کہ یہ تمام ہدایات، جن کا اِس مقام پر ذکر فرمایا گیا ہے، خدا خود ہی فرماتا ہے، تو اُس صورت میں اِذن یا حکم کا کہیں اطلاق نہیں ہوسکتا ہے۔

سوال ۸: اِس میں کوئی شک نہیں کہ خدا لوگوں کو اندھیروں میں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اِس روشنی (نور) کا اُس نور سے جو کتاب کے ساتھ لوگوں کے پاس آیا ہے کوئی تعلق اور رشتہ ہے یا نہیں ؟

سوال ۹: اِس قرآنی تعلیم میں پہلے سلامتی کی راہوں کی ہدایت کا تذکرہ

 

۴۹

 

ہے، پھر صراطِ مستقیم کی ہدایت کا، اس ترتیب میں کیا حکمت ہے؟ آیا یہ درست ہے کہ سلامتی کی راہیں صراطِ مستقیم کے مختلف مراحل و مدارج یا اجزاء کی حیثیت سے ہیں ؟

 

جواب ۱: خدائے حکیم نے جس طرح یہود و نصاریٰ کو اہلِ کتاب قرار دیا ہے، اس کی وجہ پوشیدہ نہیں کہ انہوں نے ہادیٔ برحق یعنی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان نہیں لایا، اور سابقہ کتاب اور( توریت و انجیل) ہی کو کافی سمجھا اور اگر وہ پیغمبرِ آخر زمانؐ کی طرف آتے تو یہ بات نہ ہوتی، اور یہاں ان کو اصل کتاب بھی مل جاتی۔ اُن کا یہ نام (اہلِ کتاب) شروع سے نہیں، بلکہ اِس کا اطلاق یہود پر زمانۂ عیسیٰؑ سے اور نصاریٰ پر ظہورِ اسلام کے وقت سے ہوتا ہے۔

جواب ۲: اہلِ کتاب توریت و انجیل میں سے اکثر ایسی باتوں کو پوشیدہ رکھتے تھے، جو مستقبل کے نورِ ہدایت سے متعلق ہوتی تھیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ تعصّب کے مارے نور سے دشمنی کرتے تھے، اور تعصّب انسانی فطرت میں ایک ایسا زبردست عنصر ہے کہ اس سے کوئی آدمی خالی نہیں ہوسکتا، مگر یہ ہے کہ جو لوگ حق پر ہیں ان کا تعصّب حق کی حمایت میں فنا ہو جاتا ہے ۔

جواب ۳: آنحضرتؐ اہلِ کتاب کی چھُپائی ہوئی باتوں کو قرآنی علم و حکمت کی صورت میں کھول کھول کر بیان فرماتے تھے، اور آپؐ کے برحق جانشین یعنی امام علیہ السّلام بھی ایسا کرتے آئے ہیں۔

جواب ۴: یہاں نور سے پیغمبرِ اکرمؐ مراد ہیں جیسے خداوند نے ایک اور جگہ آپؐ کو سراجِ منیر (روشن چراغ ۳۳: ۴۶) کے نام سے یاد فرمایا ہے، اور چونکہ منظورِ الٰہی یہ نہیں تھا کہ نورِ خدا کا یہ درخشندہ چراغ بُجھ جائے (۰۹: ۳۲ ، ۶۱: ۰۸) لہٰذا یہ مقدس نور جو کتابِ سماوی کے ساتھ مذکور ہے آنحضرتؐ کے بعد نورِ امامت کی حیثیت سے جاری و باقی رہا، تاکہ کرّۂ ارض ہادیٔ برحقؑ کے وجودِ مبارک سے خالی نہ ہو۔ مذکورہ آیت میں نورِ

 

۵۰

 

ہدایت کا ذکر کتاب (قرآن) کے ساتھ اس لئے فرمایا گیا ہے کہ نور اور کتاب ظاہراً و باطناً ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، چنانچہ یہ ربّانی نور کتاب پر روشنی ڈالتا ہے اور کتاب صرف اسی صورت میں وسیع پیمانے پر حقیقتیں اور معرفتیں فراہم کر دیتی ہے، پس لوگوں کی ہمہ گیر ہدایت کے اسرار اسی میں پوشیدہ ہیں کہ وہ اس پاک نور کی روشنی میں قرآن کو دیکھیں جو اللہ کی طرف سے اِس مقصد کے لئے مقرر ہے۔ آیت کے ترتیبِ بیان میں نور پہلے اور کتاب بعد میں ( نُوْرٌ وَّكِتَابٌ مُّبِيْنٌ) ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم دنیا میں پہلے تشریف لائے اور قرآنِ پاک کا نزول بعد میں ہوا۔

جواب ۵: اس جواب کے دو مرحلے ہیں، مرحلۂ اوّل یہ ہے کہ اہلِ کتاب میں سے جن لوگوں نے سچے دل سے اسلام کو قبول کیا، اس کا اصل سبب یہ تھا کہ انہوں نے اپنے دینی شعور اور عقل و دانش کی مدد سے قانونِ خداوندی کو سمجھ لیا، اور وہ اپنی تمام مانوس روایات پر خدا کی مرضی کو فوقیت دے کر نورِ اسلام کی پیروی کرنے لگے، یہ ہوئی اللہ کی خوشنودی جو ہدایتِ اسلام کی اوّلین شرط ہے۔

مرحلۂ دوم جس کا تعلق صرف خواص ہی سے ہے، یہ ہے کہ ایسے نیک بخت مومنین جو ہمیشہ اپنی مذہبی زندگی میں رضائے الٰہی کے حصول کے لئے نفسِ امّارہ کی خواہشوں اور فرمائشوں کی سخت مخالفت کرتے رہتے ہیں جس کی بدولت ان کو ہر بار خداوند کی رضا و خوشنودی کا ایک حصہ دیا جاتا ہے اور نتیجے کے طور پر نورِ ہدایت ان کو سلامتی کی راہوں پر بتدریج آگے لے جاتا ہے، یہ ہے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی حقیقی پیروی اور پھر نور و کتاب کی ہدایت کی روشنی میں سلامتی کی راہوں پر آگے بڑھ جانا۔

جواب ۶: سلامتی کی راہیں راہِ اسلام کی چار منزلیں ہیں، جو شریعت ، طریقت، حقیقت اور معرفت کے نام سے مشہور ہیں، ان کے صراطِ مستقیم سے الگ ہونے کا سوال ہی نہیں ، یہ تو شاہراہِ مستقیم پر ہی واقع ہیں، کیونکہ یہ اس کے مراحل اور

 

۵۱

 

درجات یا اجزاء ہیں، جیسے کسی طویل راستے کی چند منزلیں ہؤا کرتی ہیں، اگرچہ منازل تقسیمِ مسافت کے اعتبار سے ایک سے زیادہ راہیں شمار ہوتی ہیں، لیکن مجموعی راستہ تو ایک ہی ہوتا ہے، پس خدائے واحد کی طرف جانے کا راستہ جو صراطِ مستقیم ہے وہ ایک ہی ہے جو چار منزلوں پر مشتمل ہے۔

علاوہ بران سلامتی کی راہوں سے تائیداتِ روحانی مراد ہیں جو عقلِ کُلّ ، نفسِ کُلّ، ناطقؐ اور اساسؑ کے تحت ہیں، جیسے سُبُل السّلام (سلامتی کی راہیں ) کے اس کلمے کے چار ٹکڑے ہیں اور وہ اس طرح ہیں: سبل + ا + لسلا + م = سُبُل السّلام ،ایسے یہ چار عظیم اصولِ دین ہیں، جن کی تشبیہہ بہشت کی چار نہروں سے دی گئی ہے، یعنی پانی کی نہر ( عقلِ کُلّ)، دودھ کی نہر ( نفسِ کُلّ)، شراب کی نہر (ناطقؐ) اور شہد کی نہر (اساسؑ) پس سلامتی کی راہوں پر نور اور کتاب کی رہنمائی اس طرح ہے کہ اساسؑ کی تاویل سے روحانیّت کا دروازہ کھُل جاتا ہے اور ناطقؐ کی شناخت حاصل ہو جاتی ہے، ناطقؐ کے وسیلے سے نفسِ کُلّی کا راستہ مل جاتا ہے، نفسِ کُلّی سے عقلِ کُلّی کا، اور پھر گوہرِ عقل سے توحیدِ باری تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے، جس میں کامل سلامتی اور ابدی نجات ہے۔

جواب ۷: اِس آیۂ کریمہ میں جس طرح “بِاِذْنہٖ” یعنی خدا کے حکم سے فرمایا گیا ہے، اس کا واضح اشارہ یہ ہے کہ ربّانی ہدایت و رہنمائی کا سارا کام نورِ مقدس کے سپرد ہے، جو اللہ کے حکم سے ظاہر و باطن میں لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے، اور چونکہ نورِ ہدایت خدا کی جانب سے ہے، اِس لئے ہدایت دینے کا کام خدا سے منسوب ہو جاتا ہے۔

جواب ۸: علم و حکمت کی روشنی کا تعلق اور رشتہ سرچشمۂ نورِ ہدایت کے ساتھ ایسا مربوط و منظم ہے، جیسے شعاعوں اور حرارت کا سلسلہ آفتابِ عالمتاب کے ساتھ وابستہ ہے، چنانچہ مذکورہ آیۂ کریمہ میں جس روشنی کی طرف لوگوں کو لانے کا ذکر ہؤا

 

۵۲

 

ہے وہ علم و حکمت اور رشد و ہدایت کی روشنی ہے، جس کا براہِ راست تعلق نورِ ہدایت سے ہے۔

جواب ۹: ہاں، اِس قرآنی تعلیم میں پہلے سلامتی کی راہوں کی ہدایت کا تذکرہ ہے، پھر صراطِ مستقیم کی ہدایت کا، جس کی حکمت یہ ہے کہ اوّل جُدا جُدا مراحلِ راہ کی نشاندہی کی گئی ہے، اور ان میں اہلِ ایمان کی ترقی و پیشرفت کا تصوّر پیش کیا گیا ہے، اور اس کے بعد بطریقِ خُلاصہ و نتیجہ صراطِ مستقیم کے تذکرے میں گویا یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ منازل ہیں اور یہ ان کا مجموعہ، اور مقصد یہ ہے کہ خدا کی خوشنودی اور نور کی روشنی میں قدم بقدم اور منزل بمنزل آگے چل کر دائمی سلامتی اور ابدی نجات حاصل کی جائے۔ جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے کہ: اور (خدا) تم کو ایسا نور مقرّر کر دیگا جس (کی روشنی) میں تم چلو گے (۵۷: ۲۸) اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہدایت میں چلانے اور چلنے کے معنی ہیں۔ خداوند عالم کا فرمان ہے کہ: اَفَمَنْ يَّمْشِىْ مُكِبًّا عَلٰى وَجْهِهٓ ٖ اَهْدٰٓى اَمَّنْ يَّمْشِىْ سَوِيًّا عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ(۶۷: ۲۲)۔ بھلا جو شخص اوندھا اپنے منہ کے بل چلے وہ زیادہ ہدایت یافتہ ہوگا، یا وہ شخص جو سیدھا برابر راہِ راست پر چل رہا ہو۔

 

صراطِ مستقیم

راہِ شریعت             راہِ طریقت             راہِ حقیقت              راہِ معرفت

 

سلامتی کی راہیں

اِہدنا الصّراطَ المستقیم =ہم کو سیدھے رستے چلا

 

امامِ زمان ؑکا ایک ادنیٰ غلام

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۱۴ ۔ مئی۔ ۱۹۸۱ء

 

۵۳

 

قریۂ ہستی میں سب کچھ

 

بِسمِ اللّٰہِ الرّحمٰن الرّحیم۔

میں ایک انتہائی مفلس و بیچارہ بندے کی حیثیت سے بصد عاجزی و حاجتمندی پروردگارِ عالم کی درگاہِ اقدس سے توفیق و ہمّت کی بھیک مانگتا ہوں، میرے مالک و آقا کے علم میں یہ بات ہر گز پوشیدہ نہیں، کہ میں بہت ہی کمزور اور قابلِ رحم ہوں، اس لئے اے میرے بہت ہی شفیق و مہربان دوستو! آپ سب از راہِ عنایت میرے حق میں کریمانہ دعا کریں، تاکہ خداوندِ قدوس اپنی رحمتِ خاص سے اِس بندۂ کمترین کی دستگیری و یاری فرمائے! آمین !!

میری یہ عاجزانہ کوشش اور تحریر میرے خاص احباب کے ایک قابلِ احترام حکم کی تعمیل کے لئے ہے، جو سورۂ بقرہ کی آیتِ پُرحکمت ۲۵۹ سے متعلق ہے۔ میرا سر، میرا تن، اور میری جان امامِ اقدس و اطہر صلوات اللہ علیہ و سلامہ کے ایسے پسندیدہ دوستوں سے ہزار گونہ فدا اور قربان ہو! میرے امامِ زمانؑ کے یہ برگزیدہ دوستدار میرے لئے باعثِ رحمتِ خداوندی ہیں، اور ان کی عالیشان علمی دوستی میں اِس بندۂ درویش کی سعادت کا بہت بڑا راز پوشیدہ ہے، الحمدللّٰہ علٰی اِحسانہِ۔

 

جوابِ اوّل:

ا۔        کسی کامل شخص کا ایک قریہ (گاؤں) پر گزرنا،

تاویل: اس کے اپنے باطن اور روح و روحانیّت میں سفر کرنا، کیونکہ قریہ سے شخصیت کا روحانی پہلو اور عالمِ شخصی مراد ہے، جس کو عالمِ صغیر کہتے ہیں۔

 

۲۔       گاؤں کے مکانات کا اپنی چھتوں پر گِرجانا،

تاویل: راہِ روحانیّت کے مرحلۂ عزرائیلی پر ذرّاتِ روح کا زیر و زبر ہو جانا،

 

۵۴

 

کیونکہ اُس مقام پر حضرت عزرائیلؑ کئی دن تک قبضِ روح کا مظاہرہ (Demonstration)  کرتا رہتا ہے۔

۳۔       اُس عظیم انسان کا یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ کیونکر اِس بستی کو مرنے کے بعد زندہ کرے گا،

تاویل: اس واقعۂ حکمت آگین سے اظہارِ تعجب اور تقاضائے اِنبِعاث (زندہ ہو جانا) ۔

 

۴۔       اللّٰہ تعالیٰ نے اُس شخص کو سو سال تک موت دے رکھا،

تاویل: منازلِ روحانیّت میں سے ہو کر نفسِ کلّی تک رسا ہو جانا، کیونکہ وہ روحانیّت جو منزلِ عزرائیل سے لے کر مرحلۂ انبِعاث تک واقع ہے تاویل کی زبان میں موت کہلاتی ہے، اور سو سال ایک اندازے کے مطابق روحِ اعظم (نفسِ کلّ) تک مبسوط (Detailed) روحانی سفر ہے، جس سے تاویلی طول مراد ہے، اور ظاہر ہے کہ سو کا عدد نفسِ کلّ کے لئے مقرر ہے۔

 

۵۔       پھر خدا نے اِسے زندہ کر دیا،

تاویل: خداوندِ تبارک و تعالیٰ نے اپنی بے پایان رحمت سے اس کا انبعاث۱ کیا۔ اور وہ اِس طرح کہ اس کو درجۂ عقلِ کلّی اور مرتبۂ مُبدِع اور مُبدَع کی رؤیت حاصل ہوئی، اور اُس پر یہ سرِّعظیم فاش کیا گیا کہ اس کی انائے علوی اسی کارخانۂ ابداع میں ہمیشہ ہمیشہ موجود تھی۔

 

۶۔       خداوندِ عالم نے زبانِ حکمت میں پوچھا کہ تو اِس موت میں کتنی دیر تک رہا؟

تاویل: یعنی تیرے نزدیک یہ روحانیّت کس درجے تک تھی؟

 

۷۔       اُس نے کہا کہ ایک دن رہا ہوں گا یا اُس سے بھی کم،

تاویل: چونکہ یہ اس کی روحانی زندگی کا تنزیلی دَور تھا، اور تاویل ہنوز نہیں آئی تھی، لہٰذا اُس نے روحانیّت کو محدود سمجھا۔

 

۸۔       ارشاد ہوا بلکہ تو اِس حال میں سَو برس رہا ہے،

تاویل: فرمایا گیا کہ اگرچہ بظاہر اِس روحانیّت کی منزلیں محدود وقت میں طے ہوئی ہیں، لیکن باعتبارِ تاویل یہ سو سال پر پھیلی ہوئی ہے، کیونکہ یہ نفسِ کُلّ تک جا پہنچتی ہے۔

۹۔       تو اپنے کھانے پینے کی چیزوں کی طرف دیکھ لے کہ وہ نہیں سڑی ہیں،

تاویل: تو نے جسمانی زندگی میں جن چیزوں کو کھایا پیا اور سُونگھا تھا، یہاں ویسی چیزوں

 

۵۵

 

کو دیکھ لے کہ خوشبوؤں کی صورت میں تازہ بتازہ محفوظ اور مہیّا ہیں، نیز تنزیل و تاویل کے پانی اور طعام کو دیکھ کہ یہ زمانۂ آدمؑ سے پڑا ہے اور یہ ہرگز نہیں سڑتا۔

 

۱۰۔    اور اپنے گدھے کی طرف نظر کر،

تاویل: یعنی اپنے جسمِ عُنصری کو دیکھ لے کہ یہ بھی روحِ قدسی کے زیرِ اثر ایک طرح سے مر کر زندہ ہو گیا ہے، چونکہ جُثّۂ ابداعی کے مقابلے میں جسمِ خاکی بہت فرو مایہ شیٔ ہے، لہٰذا اسے سواری کا گدھا قرار دیا گیا ہے۔

 

۱۱۔    تاکہ ہم تجھ کو لوگوں کے لئے ایک نشانی قرار دیں۔

تاویل: تیرے اِس واقعہ کو اہلِ دانش کے لئے اصولِ تاویل کا ایک اہم حصّہ بنائیں۔

 

۱۲۔    اور ہڈیوں کی طرف نظر کر کہ ہم ان کو کس طرح ترکیب دیتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں،

تاویل: ذرّاتِ لطیف جو مُنتشر ہیں، ان کو امرِ کُنۡ سے کس طرح یکجا کر دیتے ہیں اور اُن سے کس طرح گوشت کے مشابہ کام لیتے ہیں کہ یہ جسمِ مثالی (ابداعی بدن) جو تیرے سامنے ہے بالکل ایک انتہائی صحتمند اور بے حد خوبصورت انسان کی طرح ہے۔

 

۱۳۔    پھر جب یہ سب کیفیت اس شخص کو واضح ہوگئی تو کہہ اُٹھا کہ میں جانتا

ہوں کہ خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے،

تاویل: جب بتدریج اس کو اپنی روحانیّت کی تاویل کا ایک ضروری حصّہ آگیا، تو اُس نے صحیح معنوں میں قدرتِ خدا کی معرفت حاصل کرلی۔

 

وضاحت: ۔

اگر کسی مومن نے اسمِ بزرگ ترین اور بندگی کے زیرِ اثر عرصۂ دراز تک ایک روشن اور خاموش شخصی عالم کا مشاہدہ کیا ہو، تو پھر بھی یہ اس کی نفسانی (روحانی) موت نہیں، اور نہ ہی یہ اس کی انفرادی قیامت کہلا سکتی ہے، مگر ہاں یہ ابتدائی روحانیّت ضرور ہے، ذاتی قیامت اور نفسانی موت ایک ساتھ ہیں، اور یہ اس وقت واقع ہو جاتی ہیں، جبکہ صور پھونکا جاتا ہے۔

قرآنِ حکیم میں لفظ “قریہ” تاویلاً عالمِ شخصی ( Personal World) کے لئے آیا ہے، سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیۂ مقدسہ (۰۲: ۲۵۹) میں جس شخص کے روحانی واقعات کا ذکر فرمایا گیا ہے،

 

۵۶

 

وہ کامل انسانوں میں سے تھا، مگر اس کی روحانیّت کے گرانمایہ خزانے کو پوشیدہ رکھنے کی غرض سے نام نہیں بتایا گیا ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ خدائے پاک و برتر نے نہ صرف اپنی ذاتِ اقدس کے لئے حجاب (۴۲: ۵۱) سے کام لیا ہے، بلکہ اُس نے اپنے اسرارِ عظیم کو بھی طرح طرح کے پردوں میں پوشیدہ رکھا ہے، جیسے عالمِ صغیر کا حجاب یعنی مثال قریہ ہے ، روحانیّت کا حجاب موت و فنا ہے، وغیرہ۔

ایک ہی واقعہ کی تاویلات مختلف اعتبارات سے مختلف ہوا کرتی ہیں، کیونکہ قرآنِ حکیم میں ایک ہی حقیقت کی طرح طرح سے تشبیہات و تمثیلات دی گئی ہیں، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ(۱۸: ۵۴) اور ہم نے قرآن میں لوگوں کے واسطے طرح طرح کی مثالیں بیان فرمائی ہیں۲ چنانچہ سو برس تک موت کی نیند میں پڑے رہنے کی تاویل وہ روحانیّت ہے جو منزلِ عزرائیلی سے شروع ہو کر مرتبۂ نفسِ کُلّی تک پھیلی ہوئی ہے، اور یہ حکمت کی رُو سے ملفوف بھی ہے اور مبسوط بھی، ملفوف کا مطلب تنزیل کا مختصر سے مختصر وقت ہے، اور مبسوط سے تاویل کی طوالت مراد ہے۔

اس بیان میں بفضلِ خداوندِ حکمت جتنی اہم باتیں درج ہوئی ہیں، وہ آپ کے حضور میں ظاہر ہیں، مِن جُملہ ایک قابلِ توجّہ نکتہ یہ ہے کہ اِنبِعاث اور اِبداع ایک ہی حقیقت ہے، اور اس میں جو فرق ہے وہ صرف لفظی ہے معنوی نہیں، اس کی مثال ذیل کی طرح ہے: ۔

اِس دائرے میں اوپر کی طرف آپ دیکھتے ہیں کہ ایک ہی تحریر میں لفظ ابداع

 

۵۷

 

اور انبعاث کو ملا کر درج کیا گیا ہے، یہ اِس حقیقت کی مثال ہے کہ بارِ اوّل پیدا ہونا اور مرنے کے بعد زندہ ہو جانا ایک ہی بات ہے، اور یہ دونوں چیزیں امرِکُنۡ کے تحت ہیں۔

اسی طرح ازل اور ابد ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں، جس کی وجہ اِس دائرہ سے ظاہر ہے کہ سفرِ روحانیّت گول ہے، چنانچہ انسان جس نقطۂ آغاز سے اپنے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے، آخر کار اسی نقطے پر جا پہنچتا ہے، پس یہی مقام عالمِ جسمانی میں آنے کے اعتبار سے ازل اور مُبدا ہے اور لوٹ جانے کے لحاظ سے ابد اور معاد ہے، اور اگر تاویلی سفر جاری رہا تو ظاہر ہے کہ ابد ازل کی صورت اختیار کرتا ہے۔

 

جوابِ دُوم: ۔

یہاں پر مصلحت و حکمت اسی امر میں ہے کہ موضوع سے متعلق مِلی جُلی باتیں کی جائیں:

۱۔ قرآنِ حکیم میں قانونِ درجات بھی ہے اور قانونِ مُساوات بھی، آیۂ فضیلت بھی ہے اور آیۂ وحدت بھی، چونکہ درجات سیڑھیوں کی طرح ہیں (۷۰: ۰۳) اور مُساوات منزلِ مقصود میں ہے، لہٰذا اس میں کوئی منطقی تصادم نہیں۔

۲۔ اصولِ اصطفاء (برگزیدگی ۰۳: ۳۳) میں تین باتوں میں سے ایک بات مقصود ہے: خدا کا ذاتی فائدہ ؟ انبیاء کا ذاتی فائدہ ؟ لوگوں کا ذاتی فائدہ؟ اِس بارے میں یہ سوچا جا سکتا ہے کہ خداوند تعالیٰ فائدہ اور نقصان سے بالا و برتر ہے، یہ بھی درست نہیں کہ اس برگزیدگی کا مقصد صرف انبیاء علیھم السّلام کا ذاتی فائدہ ہو، اِس منطق سے ظاہر ہے کہ اگر خدائے حکیم لوگوں میں سے کسی کو منتخب فرماتا ہے، تو اس میں لوگوں کا فائدہ مقصود ہے۔

۳۔ امامؑ کے حجت ہونے کے کم از کم تین مقام ہیں: پہلا یہ کہ حدودِ دین کے سلسلے میں امامؑ مرتبۂ امامت پر فائز ہوجانے سے قبل حجت ہوتا ہے، دوسرا ہر پیغمبر کے بارہ حجت ہوا کرتے ہیں، اور اُن میں حجتِ اعظم (باب = دروازۂ روحانیّت) امام ہوتا ہے، اور تیسرا یہ ہے کہ جس طرح رسول صلی ا للہ علیہ وآلہٖ وسلم خلق پر حجتِ خدا ہیں،

 

۵۸

 

اُسی طرح امام زمانۂ خلق پر حجتِ رسولؐ ہیں اور امامِ عالیمقامؑ کا یہ مرتبہ بہت ہی عظیم ہے۔

۴۔ ہم اسلام کے دینِ فطرت ہونے کو تو مانتے ہیں، مگر اِس تصور کی حقیقت کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھ سکتے، حالانکہ مطلب بڑا آسان ہے، اور وہ یہ کہ اگر ہم باطن کے باطن میں جاکر مشاہدہ کر سکتے تو اِس امرِ واقعی کو مانتے کہ وہاں نور ہمیشہ ایک جیسا ہے، اس میں کوئی کمی بیشی نہیں، مگر حالِ ظاہر اس کے برعکس اور قانونِ فطرت کے موافق ہے، کہ نور بتدریج درجۂ کمال کی طرف جاتا ہے، ہر دانشمند آیۂ مبارکہ (۶۱: ۰۸) میں ٹھنڈے دل سے غور کر سکتا ہے کہ “وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُورِہٖ” کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ اس کے معنی ظاہر ہیں کہ خدا اپنے نور کو درجۂ تمام و کمال پر پہنچانے والا ہے، اور یہ نظامِ فطرت کے مطابق ہے، پس ہمیں ماننا چاہئے کہ اب نورِ امامت پہلے سے کہیں زیادہ کام کر رہا ہے، اور یہ امامِ اقدس و اطہرؑ کی شخصیتِ عظیم ہونے کی ایک روشن دلیل ہے۔

۵۔ نور باطن میں یا باطن کے باطن میں ایک ہی حال پر قائم ہونے کی مثال سورج ہے، کہ اس کا سرچشمہ ہمیشہ ایک جیسا رہتا ہے، اور ظاہر میں نور کے مختلف احوال ہونے کی تشبیہ و تمثیل سورج کی اس روشنی سے دی جاسکتی ہے، جس کا تعلق سیّارۂ زمین سے ہے، زمین اگر ایک رُخ کے اعتبار سے پشت پھیرے تو وہ تاریکی میں ڈوب جائے گی، اس میں سورج کا کوئی قصور نہیں، یہ مثال ہے اور زمین مجبور ہے، مگر انسان مجبور نہیں۔

۶۔ شبِ دین بڑی لمبی ہوتی ہے اور روزِ دین بڑا طویل، یہ قانونِ فطرت ہی ہے کہ رفتہ رفتہ رات گزر جائے اور آہستہ آہستہ روشنی پھیل جائے، اِس وقت صبح ہو چکی ہے، لہٰذا اب امامِ برحق علیہ السّلام ظاہراً و باطناً بڑے بڑے کام کرے گا، کیونکہ انسانیّت دورِ قیامت میں داخل ہوچکی ہے، اور امام قائم القیامت کا درجہ رکھتا ہے۔

 

۵۹

 

۷۔ خاص و عام روایات میں مولا علی صلوات اللہ علیہ کی پاک ذات سے بہت سے معجزات یا کرامات منسوب ہیں، اِس تصوّر میں جس طرح مومن کا فائدہ ہے اسی طرح نقصان کا بھی اِمکان ہے، وہ اِس معنی میں کہ کہیں کسی مومن کو یہ شک نہ ہو کہ علیؑ مظہرالعجائب تھے، وہ ایسے ایسے معجزے دکھایا کرتے تھے، اور حاضر امامؑ میں یہ بات نہیں، اگر کسی مرید کے دل میں ایسا خیال گزر گیا، تو اس کی بہت بڑی کمزوری ہوگی، حالانکہ اِس زمانے میں امام کے حقیقی معجزات پہلے سے کہیں زیادہ ہیں، اِن کو دیکھنے کے لئے بصیرت چاہئے۔

۸۔ امامِ عالیمقامؑ کی عظمت و بزرگی کی یہ شان ہے کہ وہ خداوندِ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم ہے، اِس لئے وہ اَلحیُّ القیُّوم کہلاتا ہے، جیسا کہ ربِّ کریم کا ارشاد ہے: وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا (۰۷: ۱۸۰) اور اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے نام ہیں پس اسے اُنہیں (ناموں) سے پکارا کرو۔ اِس سلسلے میں حضرت امام جعفرالصّادق علیہ السّلام کا فرمانِ مبارک ہے کہ: لِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی ہم ہیں۔

۹۔ حضرت پیر حکیم ناصرِخسرو (قدس اللہ سرہٗ) اپنی شہرۂ آفاق کتاب “وجہ دین” گفتار ۴۳ میں فرماتے ہیں: “خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانے کی تاویل یہ ہے کہ امامِ زمانؑ جو بحکمِ خدا مقرر ہے اس کی جگہ تُو کسی اور کو امام قرار دے ، اور حق کو کسی دوسرے سے وابستہ کرے، اور خداوندِ زمان کو اپنے ضد کے مانند ہونے سے فرد و یگانہ نہ مانے، اور تجھے یہ جاننا چاہئے کہ اِس گناہ کی بخشش ہرگز نہیں ہوسکتی۔” اِس سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ اسمِ “للّٰہ” کی تاویلی حکمت امامِ زمانؑ ہے۔

۱۰۔ ہر پیغمبرِ ناطق کی روحانی اور علمی پرورش امامِ مقیم کرتا ہے، جس کا درجہ سلسلۂ امامت میں بہت بڑا ہوتا ہے، چنانچہ حضرت آدمؑ کی روحانی تعلیم و تربیت امامِ مقیم مولانا ھُنیدؑ سے مکمل ہوئی تھی (ملاحظہ ہو کتاب الامامۃُ فی الاسلام ، صفحہ ۱۴۳ تا ۱۴۶)

 

۶۰

 

اور اُسی پاک امام نے آدم صفی اللہ کو اسمِ اعظم دیا تھا، اور قصّۂ آدمؑ کے تمام واقعات اسمِ اعظم ہی کی روح و روحانیّت میں پوشیدہ ہیں۔

 

جوابِ سوم:

مقالہ: “حکمتِ تسمیہ اور اسمائے اہلِ بیت” صفحہ اا سے متعلق:

ا۔ زندہ شبِ قدر (یعنی حجتِ قائمؑ) کی ذاتِ عالی صفات میں جس طرح فرشتوں اور روحوں کا نزول ہونا تھا، اُس کا تعلق ماضی سے بھی ہے اور مستقبل سے بھی، کیونکہ لفظِ “قدر” میں دو معنی پوشیدہ ہیں: گزشتہ دور کی “مقدار” کا خاتمہ، اور آئندہ دور کی “مقدار” کا آغاز، اور اس کی وضاحت یہ ہے کہ شبِ قدر ماضی کی طرف سے قیامت کی ابتدا ہے اور مستقبل کی طرف سے دورِ جدید کا خدائی پروگرام، اور قدر، تقدیر (اندازہ) اور مقدار کا مطلب ایک ہے، جیسے اِس آیۂ کریمہ سے ظاہر ہے: وَ مَا نُنَزِّلُہ اِلاَّ بِقَدَرٍ مَّعلُومٍ  (۱۵: ۲۱)  اور ہم اِس (چیز) کو ایک مُعین مقدار میں اُتارتے رہتے ہیں۔

۲۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ قرآنی آیات ایک دوسرے کی تفسیر  و توضیح ہیں، اور خاص کر ایک ہی موضوع سے متعلق آیات، چنانچہ پروردگارِ عالمین کے اِس پاک ارشاد سے نزولِ ملائکہ کا مقصد واضح ہو جاتا ہے، اور وہ فرمانِ الٰہی یہ ہے: ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا ٓ اَنْ یَّاْتِیَھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ وَقُضِیَ الْاَمْر وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْر(۰۲: ۲۱۰) کیا یہ لوگ (کسی اور واقعہ کا) انتظار کرتے ہیں سوائے اسکے کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے بادل کے سائبانوں میں ان کے پاس آئیں اور (قیامت کے) کام کا فیصلہ ہو جائے، اور تمام کام (مقدمات) خدا کی طرف رجوع کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح فرمایا گیا ہے: وَ جَآئَ رَبُّکَ وَ المَلَکُ صَفّاً صَفّاً (۸۹: ۲۲) اور آپ کا پروردگار اور جوق جوق فرشتے آئیں گے۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ  شبِ قدر (یعنی حجتِ قائمؑ) کی روحانیّت میں اور عالمِ دین میں یہ سب کچھ ہوگا، مگر عالمِ ظاہر میں نہیں اور چونکہ خدائے پاک و برتر کی ذاتِ بیچون کے لئے “آنا جانا” جیسے الفاظ مجازی ہیں، لہٰذا اس کی تاویل

 

۶۱

 

ہے، اور وہ ممثول (تاویل) ہے حضرت قائم القیامت علیہ افضل التحیۃ والسّلام کا عالمِ دین میں آنا، کیونکہ وہی حضرت اللہ تعالیٰ کا نورِ کامل اور مظہرِ کُل ہے، اِس بیان سے ظاہر ہے کہ سورۂ قدر میں بزبانِ حکمت ایک طرف قیامت کا ذکر فرمایا گیا ہے اور دوسری طرف دورِ جدید  کا، اور اسی حقیقت کی طرف اشارہ “مِن کُلِّ اَمْر (۹۷: ۰۴) ہر کام کے واسطے” میں موجود ہے، کیونکہ کُلِّ اَمْر (ہر کام) کا مطلب ماضی و مستقبل دونوں پر محیط ہے۔

 

فقط بندۂ عاجز و ناتوان

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

کراچی۔ ۲۲۔ نومبر۔ ۱۹۸۳ء

 

۱؎   اِنبِعاث کی تاویل یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو مُبدِع اور مُبدَع کے وجود میں زندہ اور موجود  ہونے کے راز کا مشاہدہ کرے، اسی طرح اُس شخص نے جیتے جی اِنبِعاث کی معرفت حاصل کرلی۔

۲؎ اِس آیۂ مقدسہ سے ظاہر ہے کہ “حقیقتِ واحدہ” ایک ہے، مگر اس کی مثالیں مختلف اور جدا جدا ہیں اور یہ حقیقت ابداع اور انبِعاث کے سنگم پر واقع ہے۔

 

۶۲

 

سب سے عظیم مسئلہ تصوّرِ تخلیق

 

سوال ۔ا:       کیا تخلیقِ کائنات کی کوئی ابتدا اور انتہا ہے یا یہ ابتدا و انتہا کے بغیر ہمیشہ جاری ہے؟

سوال ۔۲:       آیا یہ صحیح ہے کہ کُلّی طور پر کوئی ابتدا و انتہا نہیں، مگر جزوی طور پر ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی؟

سوال۔۳:         کیا قرآنِ حکیم میں یہ ارشاد نہیں کہ ہر چیز ایک دائرے پر گردش کرتی رہتی ہے (۲۱: ۳۳)؟

سوال ۔۴:        آیا یہ حقیقت نہیں کہ عالم کی بقا و فنا بھی شب و روز (۳۶: ۴۰) اور دوسری تمام چیزوں کی طرح اپنے دائرے پر گھومتی رہتی ہیں؟

 

اِس دنیا میں کوئی ایسی باکرامت اور مبارک و مقدّس ہستی نہیں جو قرآنِ پاک اور دینِ اسلام کے مشکل ترین مسائل پر روحانی اور تائیدی علم کی روشنی ڈال کر ہمیں حقیقتِ حال سے واقف و آگاہ کر سکے، مگر امامِ زمان صلوات اللہ علیہ جو روئے زمین پر خلیفۂ خدا اور نائبِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم ہیں، جن کی اطاعت و فرمانبرداری اللہ اور پیغمبرؐ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اہلِ زمانہ پر فرض کی گئی ہے، تاکہ وہ حقیقی علم سے بہرہ ور ہو سکیں۔

 

جوا ب ۔۱: امامِ اقدس و اطہر کی پُرنور ہدایت و رہنمائی اور تائید و دستگیری

 

۶۳

 

سے اِس انتہائی اہم اور بنیادی مسئلے سے بحث کی جاتی ہے کہ اگر خدا کی تخلیق میں بنظرِ حقیقت دیکھا جائے تو کُلّی طور پر اس کی کوئی ابتدا و انتہا نہیں، کیونکہ کوئی ایسا زمانہ نہ کبھی پہلے ممکن تھا اور نہ ہی بعد میں ہوگا جس میں خداوندِ عالم فعلاً خالق نہ ہو، بلکہ وہ جس طرح ہمیشہ اور ہر حال میں خدا اور بادشاہِ مطلق ہے، اسی طرح وہ کسی ابتدا کے بغیر ہمیشہ بالفعل خالق ہے، اِس لئے کہ اُس کی ہر صفت قدیم ہے، پس کوئی ایسا زمان ممکن نہیں، جس میں خالق و رازق موجود ہو اور مخلوق و مرزوق نہ ہو۔

 

جواب۔۲: ہاں، یہ بالکل صحیح ہے کہ خدا کی بادشاہی میں کُلّی طور پر تخلیق کی کوئی ابتدا و انتہا نہیں، لیکن اس میں جزوی طور پر ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی، جس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں، جیسے کائنات کی لاتعداد چیزوں کا انفرادی حالت میں پیدا ہو جانا اور پھر فنا ہو جانا، اور ایک ایک ہو کر انسانوں کا دنیا میں آنا اور مرجانا وغیرہ۔

 

جواب ۔ ۳ـ: جی ہاں، قرآنِ حکیم (۲۱: ۳۳ ،  ۳۶: ۴۰) میں ارشاد ہے کہ ہر چیز ایک دائرے میں گردش کرتی رہتی ہے، جو لا ابتدائی اور لاانتہائی کی دلیل ہے، کیونکہ دائرے کا کوئی سِرا نہیں ہوتا، جو آغاز و انجام کی علامت ہو۔

 

جواب۔۴: جی، بالکل درست ہے کہ عالم کی بقا و فنا بھی شب و روز اور دوسری تمام چیزوں کی طرح اپنے دائرے پر دائمی گردش میں ہیں، جس میں کوئی ایک آگے اور ایک پیچھے نہیں، کیونکہ جب دو چیزیں کسی دائرے پر ہر طرح سے برابر برابر گردش کرتی ہیں تو آگے اور پیچھے کا سوال ختم ہو جاتا ہے، مثال کے طور پر دانشمند نہیں کہہ سکتا ہے کہ رات آگے ہے، اور یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ دن آگے ہے، جبکہ یہ دونوں چیزیں مل کر گول شکل میں ہیں اور اپنے مدار پر برابر برابر گردش کرتی ہیں، سو اِس سے معلوم ہوا کہ فنا و بقا میں سے کوئی اوّل و آخر نہیں ہے، اگر ان میں اوّل و آخر ہوتی، تو ایک سے وقت کی ابتدا ہوتی اور دوسری پر انتہا ہوتی، مگر ایسا نہیں ہے، بلکہ بقا و فنا بغیر ابتدا

 

۶۴

 

و انتہا کے ہیں۔

 

فنا اور نیستی کا تصوّر ایسا نہیں جیسا کہ عوام کے ذہن میں ہے، یعنی یہ عدمِ محض نہیں، بلکہ نیستی عالمِ امر کا نام ہے جو عالمِ لطیف ہے، سو عالمِ امر اور عالمِ خلق ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں، یعنی ایک آگے اور ایک پیچھے نہیں، بلکہ دونوں ایک ساتھ ہیں، جیسے کسی دائرے کے دو نصف حصّے مل کر ساتھ ہوتے ہیں مثلاً ، چنانچہ عالمِ امر اور عالمِ خلق میں وقت کے لحاظ سے کوئی تقدیم و تاخیر نہیں، ہاں شرف کے لحاظ سے یہ صحیح ہے کہ ایک مقدّم ہو اور دوسرا مؤخّر، جیسے عالمِ امر کو عالمِ خلق پر باعتبارِ شرافت و فضیلت اولیّت و فوقیت حاصل ہے۔

عالمِ امر ثمر ہے اور عالمِ خلق شجر، یعنی دنیا و آخرت کے درمیان وابستگی اور رشتہ وہی ہے جو درخت اور میوہ کے درمیان ہوتا ہے وہ یہ کہ عالمِ خلق کے درخت سے عالمِ امر کا میوہ بنتا ہے اور عالمِ امر کے میوے (یعنی تخم) سے عالمِ خلق کا درخت پیدا ہوتا ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ  دونوں جہان ایک دوسرے سے پیدا ہوتے رہتے ہیں ، اور اسی طرح خدا کی بادشاہی میں ہمیشہ سے “تخلیق اندر تخلیق” کا سلسلہ جاری ہے جیسے رات سے دن اور دن سے رات کا وجود میں آنا  ایک دائمی سلسلہ ہے اور اِس کے بارے میں فرمانِ خداوندی ہے:

یہ اِس سبب سے ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے (۲۲: ۶۱) نیز ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ رات اور دن کو بدلتا رہتا ہے اِس میں اہلِ دانش کے لئے عبرت (استدلال) ہے (۲۴: ۴۴) رات کا اشارہ عالمِ باطن کی طرف ہے جو عالمِ امر ہے اور دن سے عالمِ ظاہر مراد ہے، جو عالمِ خلق ہے اور شب و روز کو ایک دوسرے میں داخل کرنے کے معنی یہ ہیں کہ عالمِ امر سے جس طرح عالمِ خلق وجود میں آتا ہے اسی طرح عالمِ خلق سے عالمِ امر بنتا ہے، اور یہ ایک سلسلۂ لامتناہی

 

۶۵

 

ہے جیسے سمندر سے بارش اور بارش سے سمندر ہے یا جس طرح مرغی سے انڈا اور انڈے سے مرغی پیدا ہوتی رہتی ہے، اور ہر چیز کا یہی گول سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

اِس بات کا ماننا ہر کسی کے لئے آسان ہے کہ یہ کائنات جو عالمِ خلق ہے عالمِ امر سے وجود میں آئی ہے لیکن عالمِ امر کے بارے میں سوچنا یقینا  بہت سے لوگوں کے لئے مشکل ہے، اور اگر پروردگار چاہے تو اس میں کوئی مشکل نہیں، کیونکہ قرآنِ کریم میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ عالمِ امر اس ظاہری کائنات سے بن جاتا ہے اور وہ ارشاد یہ ہے: ۔  وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَیَوْمَ یَقُوْلُ کُنْ فَیَکُوْن (۰۶: ۷۳) اور (خدا) وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا (یعنی عالمِ امر سے بنایا) اور جس دن خدا “کُن” کہے تو وہ ( عالمِ امر) ہو جائے گا۔

اگر کوئی ہو شمند اس آیت میں ذرا سوچے تو معلوم ہو جائے گا کہ اِس میں دونوں جہان کے ایک دوسرے سے پیدا کئے جانے کا ذکر ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں عام روایات کے برعکس پہلے دنیا کی پیدائش کا بیان ہے اور پھر آخرت یعنی عالمِ امر کا۔

سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۱۷) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو “کُن” فرما کر پیدا کیا ہے، اور یہاں اُوپر جو ارشاد درج ہے، اس کے مطابق آخرت بھی “کُن” کے امر سے پیدا ہوتی ہے، اِس کا مطلب یہ ہوا کہ “کُن” کا اطلاق دونوں جہان پر ہوتا ہے، بلکہ ہر چیز اسی کے تحت ہے جیسا کہ قولِ خدا ہے:

 

اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ(۳۶: ۸۲) جب (خدا) کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو بس اس کا معمول یہ ہے کہ اس چیز کو کہہ دیتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہو جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ دونوں جہان ایک ساتھ ہیں، لہٰذا روا ہے کہ کبھی پہلے دنیا کی تخلیق کا ذکر ہوا اور کبھی آخرت کی تخلیق کا، اور اِس میں کوئی فرق نہیں۔

 

۶۶

 

قرآنِ حکیم کہتا ہے کہ ذاتِ سبحان کے سوا جو کچھ بھی ہے اس کا جوڑا ہے (۳۶: ۳۶) نیز سورۂ ذاریات (۵۱: ۴۹) میں فرمایا گیا ہے کہ ہر چیز کا جوڑا ہے چنانچہ دنیا اور آخرت یا عالمِ ظاہر اور عالمِ باطن دونوں جوڑے ہیں، اِس معنی میں کہ دنیا جسم ہے اور آخرت اس کی روح ، اِس سے یہ حقیقیت روشن ہوگئی کہ دونوں ایک دوسرے سے وابستہ اور ایک دوسرے کے محتاج ہیں، اسی طرح کہ اگر ایک نہ ہو تو لازمی طور پر دوسرا بھی نہ ہوگا، جیسا کہ حکیم پیر ناصرِ خسرو (ق س) کا قول ہے:

تُو بکُلّ  بینا  نہ ای زانگہ  تُو  بیرا ہ  ماندای

تُو بکُلّ بینا شوی جان و جسد یکسانِ تُست

یعنی تو نصف یا جزو کو تو دیکھ سکتا ہے، مگر کُلّ کو نہیں دیکھ سکتا یہی وجہ ہے کہ تو راہِ حقیقت سے گمراہ ہو گیا ہے، اگر تُو کُلّ کو دیکھے تو اس وقت تیرے نزدیک جان اور جسم نیز آخرت اور دنیا کی اہمیت برابر ہوگی۔

موجودات کی بہت سی چیزیں اس طرح واقع ہیں کہ اگر ان کا ایک پہلو نظر آتا ہے تو دوسرا پہلو دکھائی نہیں دیتا، مثلاً سورج، چاند اور ستارے ایسے ہیں کہ آپ صرف انکے اگلے حصّے کو دیکھ سکتے ہیں اور اُن کے پس منظر کو نہیں، اور اتنے دُور سے اِن چیزوں کو جس طرح دیکھا جاتا ہے وہ بھی واقعیت اور حقیقت کے لحاظ سے ناکافی ہے، سو اِس کے لئے علم، سائنس اور تجربہ چاہئے، تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ اجرامِ سماوی بحقیقت کیا ہیں ، یہی مثال تصوّرِ تخلیق کی بھی ہے، کہ اس کے متعلق اگرچہ بعض لوگ جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن حق بات تو یہ ہے کہ وہ بہت تھوڑا علم رکھتے ہیں، لہٰذا اس کے لئے روحانی علم اور معرفت کی ضرورت ہے۔

سورۂ انبیاء کی آیت ۱۰۴ میں فرمایا گیا ہے: یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآئَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ کَمَا بَد َاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہ (۲۱: ۱۰۴) وہ دن یاد کرنے کے قابل ہے جس روز ہم آسمان کو اِس طرح لپیٹ لیں گے جس طرح لکھے ہوئے مضمون کا کاغذ

 

۶۷

 

لپیٹ لیا جاتا ہے اور جس طرح ہم نے خلقِ اوّل کی ابتدا کی تھی اسی طرح اِس کو دوبارہ پیدا کریں گے۔

اِس کا مفہوم یہ ہے کہ “تخلیق در تخلیق” کے لاابتدا و لاانتہا سلسلے میں جس طرح اِس سے پہلے عالمِ لطیف سے عالمِ کثیف پیدا ہوا تھا اسی طرح دوبارہ جہانِ کثیف سے جہانِ لطیف پیدا ہوگا، کیونکہ یہ کائنات اور اِس کی تمام چیزیں قلمِ قدرت کی تحریروں کی حیثیت سے ہیں، لہٰذا صفحۂ کائنات کے اِس لکھے ہوئے مضمون سے عالمِ امر کی صورت بنتی ہے، اور اس میں سب کچھ ہے، جس کو خداوند تعالیٰ مادّی طور پر نہیں بلکہ روحانی صورت میں لپیٹ کر طومار بنا دیتا ہے اور یہی چیز عالمِ امر ہے، اور پھر اسی کو مادّی شکل میں کھول کر اور پھیلا کر عالمِ خلق بناتا ہے، اِس آیت میں جس ابتدا کا ذکر ہوا ہے وہ جزوی قسم کی ہے، یعنی یہ وہ چیز ہے جو بار بار آتی رہتی ہے، جس کی وجہ سے ابتدا کا تصوّر ختم ہو کر لاابتدائی کا تصوّر قائم ہو جاتا ہے۔

یہی مثال سورۂ زمر (۳۹: ۶۷) میں بھی ہے، جو ارشاد ہے: اور زمین اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور تمام آسمان لپٹے ہوں گے اس کے داہنے ہاتھ میں۔ یعنی ساری کائنات خدا کی داہنی مٹھی میں ہوگی، جس کی تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ “کُن”  فرما کر عالمِ ظاہر کی روحانی شکل سے عالمِ امر بنا لے گا اور یہ ایک موتی کی صورت میں اللہ کے داہنے ہاتھ میں ہوگا، اور پھر اِس موتی سے یہی کائنات بنائی جائے گی، اور یہ ایک لا انتہا سلسلہ ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی زبان سے فرمایا گیا ہے کہ: قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی (۲۰: ۵۰) موسیٰ نے کہا کہ ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت عطا کر دی پھر رہنمائی فرمائی۔ یعنی ہر چیز عالمِ امر میں بحالتِ روحانی موجود تھی پھر اِس کو ربُّ العزّت نے عالمِ خلق میں تخلیق کا جام عطا کر دیا، اور پھر

 

۶۸

 

اس کی ہدایت شروع کی، اور چلاتا رہا، یہاں تک کہ اس کو پھر عالمِ امر میں پہنچا دیا پس ظاہر ہے کہ عالمِ امر کی ہر چیز تخلیق کی شکل میں عالمِ خلق میں آتی ہے اور پھر یہاں کی ہر شیٔ امر کی حالت میں وہاں جاتی ہے۔ اِس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا اور آخرت (خلق اور امر) دونوں میں خدا کی قدیم بادشاہی قائم ہے جس کو کوئی زوال نہیں، اور اِس میں اوصافِ خداوندی کے زیرِ اثر جو دائمی حرکت ہے اِس کا نام تخلیق ہے، لہٰذا تخلیق کی نہ تو کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی انتہا، بلکہ یہ ہمیشہ ہمیشہ جاری رہنے والا ایک سلسلہ ہے۔   والسّلام

 

فقط آپ کا علمی خادم

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۳۱۔ اگست ۔ ۱۹۸۰ء

حیدرآباد ۔ ہونزا۔ گلگت

 

۶۹

 

تین اعلیٰ سوال

 

یاعلی مدد! اشتیاق و اخلاص اور آداب و احترم سے بھرپور دست بوسی قبول کیجئے، قربانت شوم، آپ نے اپنے پیارے مکتوب میں، جو ۲۵، جنوری ۱۹۷۹ء کا ہے، روحانیّتِ عالیّہ کے تین پُرحکمت سوال فراہم کر دیئے ہیں، جن میں سے پہلے اور تیسرے کا تعلق کتاب “سو سوال” سے ہے، میں آپ کے اِس پُرخلوص اعتماد اور دینی محبت و مہربانی کے لئے ہمیشہ شکرگزار رہوں گا۔

سوال ۱: جب آخرت کا گھر زندہ ہے (۲۹: ۶۴) اور زندہ انسان اور اس کے بعد حیوان ہے، لہٰذا روح کو کسی نہ کسی جسم میں (یہاں) آنا ہے، تو اِس صورت میں مومن کی اِس زندگی کا، اُس زندگی کے ساتھ جو چھ کروڑ سال میں روحانیّت و جسمانیّت کے مکمّل دائرے کو طے کرنے میں ہے کا کیا ربط ہے، بالخصوص نصف دائرے کے ساتھ جو روحانیّت پر مبنی ہے؟

جواب: (الف) جیسا کہ یہ امرِ واقعی ہے کہ روحِ انسانی اپنے خاص مقام پر قادرِ مطلق کے تمام عجائب و غرائب کی مظہرِ کامل اور صفاتِ خداوندی کا آئینۂ صافی ہے، اور اِس حقیقت کا روشن ترین ثبوت انسانِ کامل کا مبارک و مقدّس وجود ہے، جو ہر زمانے میں موجود اور حاضر ہے کیونکہ انسان اور انسانیّت کی روحانی ترقی کا عملی نمونہ وہی ہے، چنانچہ جب ہمارا تصوّر یہ ہے کہ مومن کی زندگی ایک ایسے دائرے پر ہمیشہ سے گزرتی چلی جارہی ہے کہ جس کی نہ تو کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، اور

 

۷۰

 

وہ دائرہ روحانیّت و جسمانیّت دونوں پر محیط ہے اب اگر اِس صورتِ حال پر ذرا غور کیا جائے تو معلوم ہوگا، کہ کس طرح انسان کی جزوی زندگی دائرۂ اعظم کی کُلّی زندگی کے ساتھ مربوط اور وابستہ ہے وہ یہ کہ آدمی خواہ جسمانیّت کی طرف جی رہا ہو یا روحانیّت کی جانب، ہر حالت میں دائرۂ کُلّی سے باہر نہیں، وہ اگر آج دائرے کے جسمانی حصے میں ہے تو بالواسطہ روحانی حصّے سے بھی ربط و تعلّق رکھتا ہے۔

(ب) اگر ہم اپنے متعلق دو اناؤں کے قائل ہو جائیں، یعنی انائے عُلوی اور انائے سِفلی، تو اس وقت دَورِ اعظم کو ایک انتہائی عظیم گھڑی سے تشبیہہ دینی پڑے گی اور ہماری زندگی کی دو انائیں اِس گھڑی کی سُوئی کے دونوں سرے قرار پائیں گی، اِس مثال سے یہ حقیقت سورج کی طرح روشن اور ظاہر ہو جاتی ہے کہ ہمارا رابطہ نہ صرف انائے سِفلی کے وسیلے سے عالمِ جسمانی کے ساتھ قائم ہے، بلکہ ہم اپنی انائے عُلوی کے ذریعے سے عالمِ روحانی کے ساتھ بھی مُنسلِک ہیں، اور یہ مثال خود مونوریالزم (حقیقتِ واحدہ) سے بہت ہی قریب ہے۔

(ج) اِس میں کوئی شک نہیں کہ روح ایک اعتبار سے دنیا میں آئی ہے اور دوسرے اعتبار سے نہیں آئی ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ اگر مانا جائے کہ روح دنیا میں آگئی ہے، تو پھر اس کا آنا ایسا ہرگز نہیں جیسے کسی مادّی چیز کا آنا ہوتا ہے، جبکہ خود مادّی چیزوں کے آنے میں بھی آسمان زمین کا فرق ہے، چنانچہ جب کوئی آدمی آتا جاتا ہے تو وہ اس میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتا ہے، وہ کس قدر محدود و مجبور ہے کہ جب یہاں آتا ہے تو وہاں موجود نہیں، اور جس وقت یہ وہاں جاتا ہے تو یہاں حاضر نہیں، اِس کے برعکس جب ہَوا آتی جاتی ہے تو اِس سے کہیں کوئی خلا پیدا نہیں ہوتا، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہَوا آدمی کی طرح محدود نہیں بلکہ بسیط ہے یعنی اپنے دائرے میں ہر جگہ موجود ہے، اور روح اِس سے بہت زیادہ بسیط ہے پھر آسمان کی گردش پر ذرا غور

 

۷۱

 

کیا جائے، کہ یہ آتا جاتا تو ہے، مگر اس کی کُلیّت اپنی جگہ پرٹھہری ہوئی ہے، لہٰذا اس کا آنا نہ آنے کی طرح ہے، آنے کو تو سورج کی روشنی بھی آتی ہے، ندی بھی آتی ہے اور دریا بھی آتا رہتا ہے، لیکن یہ چیزیں ایک آدمی کی طرح کب آتی ہیں، کیونکہ ان کا یہ سِرا اگر یہاں پہنچا ہوا ہے تو وہ سِرا اصل سرچشمہ میں مربوط و مُنسلِک ہے، اِن مثالوں میں سوچنے سے عالمِ روحانیّت کے ساتھ روح کے ربط و تعلّق کا کچھ اندازہ ہو سکتا ہے۔

(د) جب ٹی وی سے کسی انسان کی آواز سنائی دیتی ہے اور صورت نظر آتی ہے تو کوئی چھوٹا سا بچّہ یہ گمان کر سکتا ہے کہ بس یہی کچھ جو سامنے ہے مکمل آدمی ہے، حالانکہ ایک باشعور انسان کے نزدیک اس کی حقیقت کچھ اور ہے اور ایک سائنس دان کی نظر میں صورتِ حال اِس سے بھی زیادہ روشن ہے، کہ جو چیز آنکھوں کے سامنے ہے وہ اصل آدمی نہیں بلکہ اس کی بولتی چالتی ایک تصویر ہے، چنانچہ ہماری یہ دُنیاوی زندگی اُس اُخروی اور روحانی زندگی کا ایک زندہ عکس ہے جو عالمِ بالا میں ازل سے قائم ہے، جس کی مثال ایک طرح سے سورج ہے کہ وہ کُلّی طور پر اپنی جگہ چھوڑ کر آئینے میں اُتر نہیں سکتا، اور نہ ہی وہ اس کے اندر سمو کر محدود ہو سکتا ہے، مگر ہاں یہ درست ہے کہ وہ اِس پر اپنا عکس ڈالتا ہے، جس کو دیکھ کر کوئی سادہ لوح آدمی یہ خیال کرتا ہے کہ سورج آئینے میں آیا، لیکن سورج خود آیا کہاں ہے یہ تو سورج کا عکس ہی ہے، اِس مثال سے ہمیں روح کے تصوّر کے سلسلے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔

(ھ) اب ہم بڑی آسانی سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری اصل روح دنیا میں آئی ہی نہیں، مگر اس کا سایہ یہاں آیا ہے، سایہ سے مراد ہماری جسمانی اور جُزوی زندگی ہے، جو روحانی اور کُلّی زندگی کے درخت سے وابستہ ہے، درخت ہمیشہ اپنی جگہ پر قائم ہے، اور سایہ اپنی حدود میں حرکت کرتا ہے، اسی طرح ہماری ایک اصل یعنی کُلّی روح ہے اور ایک جُزوی روح، اِس تفصیل سے یہ حقیقت روشن ہو کر سامنے آتی ہے

 

۷۲

 

کہ ہم اپنے شعور کی سب سے اعلیٰ سطح پر ہمیشہ ہمیشہ اصل سے واصل اور مربوط ہیں، اس کے یہ معنی ہوتے ہیں، کہ ہماری سابقہ زندگی اور اس کے وہ تمام کارنامے جو دَورِ اعظم پر محیط ہیں ہماری اصل روح میں محفوظ ہیں، اور جیسے ہی ہم شعوری طور پر اس کے ساتھ مدغم ہو جائیں گے، تو سابقہ اور موجودہ زندگی کی ہر ہر زندہ تصویر کا مشاہدہ کیا جاسکے گا۔

(و) اگر ہم عالمِ روحانیّت یعنی روحِ ارواح کی تشبیہہ ایک انتہائی عظیم کائناتی ریڈیو اسٹیشن سے دیں، اور تمام جُزوی روحوں کو اس کی ریڈیائی لہروں سے بجنے والے لاتعداد ریڈیو قرار دیں، تو اُس وقت ہمیں یہ بھی فرض کر لینا ہوگا کہ وہ اسٹیشن نہایت ہی عجیب و غریب اور بڑا معجزانہ قسم کا ہے، وہ جان، عقل، علم، ارادہ اور قدرت جیسی تمام اعلیٰ صفات رکھتا ہے، اس لئے دنیا کے اسٹیشنوں کے لئے جو کچھ ناممکن ہے اس کے نزدیک وہ ممکن ہے اور اس سے سب کچھ ہو سکتا ہے، اس مثال سے مومن کی انائے عُلوی اور انائے سفلی کا باہمی رابطہ صاف طور پر ظاہر ہوجاتا ہے۔

(ز) اِن تمام تفصیلات کا خلاصہ اور نچوڑ یہ ہے کہ روحِ انسانی نہ صرف ازل اور ابد میں اپنی اصل کے ساتھ ایک ہے بلکہ وہ موجودہ وقت میں بھی کئی رشتوں سے روح الارواح کے ساتھ مربوط و مُنسلِک ہے، اور اِس حقیقت کی ایک عام مثال یہ ہے کہ جس طرح جسم روح کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح جُزوی روح بھی کُلّی روح کے سوا زندہ اور قائم نہیں رہ سکتی ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ نہ صرف ہمارا جسم ایک جان رکھتا ہے بلکہ ہماری جان کی بھی ایک جان ہے، اور وہ عالمگیر روح ہے، یعنی کائناتی روح، جس کے اور بھی بہت سے نام ہیں، جیسے روحِ اعظم، روحُ الارواح، روحِ کُلّی، عالمِ روحانیّت، عالمِ بالا، لوحِ محفوظ، کرسیٔ الٰہی وغیرہ چنانچہ روحِ جُزوی اور عالمِ روحانیّت جسم و جان کی طرح مربوط و مُنسلک ہیں، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مومن کی طویل ترین روحانی زندگی ( جو دورِ اعظم کے نصف دائرہ سے تعبیر ہے)

 

۷۳

 

روحِ کُلّی سے الگ نہیں، لہٰذا اسی معنی میں مومن اپنی سابقہ روحانیّت سے ربط و تعلق رکھتا ہے اور اس کا تصوّر کرتا ہے، اور جن لوگوں کو بنیاد ہی سے ان ازلی و ابدی حقائق و معارف کا تصوّر نہ ہو تو ان کی مذّمت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ: ہم نے ایک دیوار ان کے آگے بنا دی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے پھر اوپر سے ان کو ڈھانک دیا ہے تو وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے (۳۶: ۰۹) اِس آیۂ کریمہ کی روشنی میں بغور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان علمی اور عملی طور پر نہ صرف ابد کے احوال تک رسائی کر سکتا ہے، بلکہ وہ اسی طرح ازل کو بھی پہنچ سکتا ہے، کیونکہ ازل اس کی روحانیّت کا ماضی ہے اور ابد مستقبل ۔

 

سوال ۲: اَفَرَئَیْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی وَمَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی (۵۳: ۱۹ تا ۲۰) (تو بھلا لوگوں نے لات و عُزیٰ اور تیسرے پچھلے منات کو دیکھا ) کی کیا تاویل ہوتی ہے؟

جواب: (الف) بزرگانِ دین نے اپنے اپنے زمانے کے مطابق اِس آیۂ کریمہ کی پُرحکمت تاویلیں کی ہوں گی، میں اپنی بساط کے مطابق اِس سلسلے میں جو کچھ گزارش کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ بُت اور بت پرستی نہ صرف دین کے ظاہر اور جسمانیّت میں موجود ہے بلکہ یہ باطن اور روحانیّت میں بھی پائی جاتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ظاہر و باطن کو مثال اور ممثول کے طور پر پیدا کیا ہے، اور مخلوق کے ظاہر میں جو کچھ جسمانی طور پر موجود ہے وہی دین کے باطن میں روحانی حیثیت میں بھی ہے، چنانچہ روحانیّت کے جتنے درجات مقرر ہیں وہ سب کے سب قانونِ توحید کی رُو سے بُت ہیں، سوائے اُس درجے کے جو سب سے اوپر ہے، تاکہ اِس تصوّر کے سہارے مومنِ مؤحّد کو مرتبۂ آخرین حاصل ہو سکے۔

(ب) جاننا چاہئے کہ روحانیّت کے تمام درجات صراطِ مستقیم ہی پر واقع ہیں،

 

۷۴

 

چنانچہ یکے بعد دیگری اِن درجات کو پہچانتے ہوئے منزلِ آخرین کی طرف قدم بڑھانا ہدایت ہے اور اِس کے برعکس منزلِ مقصود کے بغیر کسی مرحلے یا درجے میں پابند رہنا توحید کی نظر میں بُت پرستی اور گمراہی ہے، لہٰذا قرآنِ حکیم اگر ایک طرف جسمانی بُت پرستی کو ترک کرکے دینِ حق قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے تو دوسری طرف روحانی بتوں کو چھوڑ کر منزلِ توحید تک رسا ہو جانے کی ہدایت بھی کرتا ہے، کیونکہ پروردگارِ عالم کے قانونِ صدق و عدل کا تقاضا ہمیشہ یہی رہتا ہے، کہ اُس کا ہر فرمان متعلّقہ ہدایت و رہنمائی میں ہر طرح سے کامل اور مکمل ہو۔

(ج) عزیزوں کو یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ باطنی بُت بھی ظاہری اصنام کی طرح ہر قسم کے ہوا کرتے ہیں، چنانچہ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں جن تین بتوں کا ذکر ہوا ہے، وہ مثال کے طور پر روحانیّت کی ابتدائی دیویاں ہیں، جن کے اسماء کے معنوں میں اُن کے احوال پوشیدہ ہیں، اور اگر حقیقت و معرفت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ وہی فرشتے ہیں جن کو روحانیّت کے بُت پرست خدا کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں، اِس لئے کہ اگرچہ ملائک اصلاً خاصۂ رجولیّت و نسوانیّت سے بالاتر ہوتے ہیں، لیکن ان کا ظہور مرد کی صورت میں بھی ہوتا ہے اور عورت کی شکل میں بھی، جیسے قرآنِ مقدّس میں اِس مطلب کا ذکر آیا ہے کہ:

اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ (۵۳: ۲۱) کیا تمہارے لئے تو بیٹے (تجویز) ہوں اور خدا کے لئے بیٹیاں؟ یعنی جو فرشتے لڑکیوں کی صورت میں ہیں اُن کے متعلق تمہارا یہ عقیدہ باطل ہے کہ یہ خدا کی بیٹیاں ہیں، نیز ارشاد ہے کہ: اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ لَیُسَمُّوْنَ الْمَلٰٓئِکَۃَ تَسْمِیَۃَ الْاُنْثٰی (۵۳: ۲۷) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کے نام رکھتے ہیں عورتوں کے نام پر۔ اِس کے معنی ہیں کہ وہ لوگ چونکہ روحانیّت کے حقائق و معارف سے ناواقف اور انجامِ کار سے غافل ہیں لہٰذا وہ زنانہ شکل

 

۷۵

 

کے فرشتوں کو دیویاں مانتے ہیں اور یہ باطنی بُت پرستی ہے، جس کی مثال لات، عُزیٰ اور منات ہیں، کہ یہ اصل میں فرشتے ہیں مگر اہلِ باطل نے ان کو عورتوں کا نام دے کر دیویاں قرار دیا ہے۔

 

سوال ۳: ہر چند کہ حضرت یعقوبؑ نے بھائیوں کی دشمنی کی بناء پر حضرت یوسفؑ کو امامت کا اختیار منتقل کر دیا تھا، لیکن با این ہمہ ان کو امام کا دیدار نصیب نہ ہونے میں کیا حکمت تھی، جبکہ حضراتِ پنجتنِ پاک کی مثال میں اختیارِ ہدایت ایک شخص میں ہونے کے باوجود سب میں نور ہونے کا تصوّر پایا جاتا ہے؟

جواب: (الف) قانون دین کا ہو یا دنیا کا، نبوّت سے متعلّق ہو یا اِمامت کے بارے میں ہر حالت میں وہ نہ صرف اٹل قواعد و ضوابط پر مبنی ہوتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس میں خصوصی حالات اور مستثنیات کا لحاظ بھی رکھا جاتا ہے، تاکہ بوقتِ منشا اور ہنگامِ ضرورت کوئی حرج و تنگی نہ ہو، اور دینِ حق میں اِس حقیقت کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں، چنانچہ عام طور پر دیکھا جائے تو ہر پیغمبرِ ناطق کے ساتھ صرف ایک ہی اساس ہونے کا تصوّر ملتا ہے، مگر حضرت ابراہیمؑ کے اساس دو تھے، یعنی اساسِ مستقر حضرت اسماعیلؑ اور اساسِ مستودع حضرت اسحاقؑ دوسری مثال یہ کہ زمانے میں ایک ہی امام ہُوا کرتا ہے لیکن بعض دفعہ مستقر اور مستودع دو دو امام بھی ہوئے ہیں، جس طرح حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ کی پاک نسل میں اِمامت کے مذکورہ دو سلسلے چلتے آئے، یہاں تک کہ حضورِ اکرمؐ کا زمانہ آیا اور مولانا علیؑ کی ذاتِ گرامی میں دونوں قسم کی اِمامتیں ایک ہو گئیں۔

(ب) اسی طرح یہ بالکل درست ہے کہ اصولی طور پر ہمیشہ نورِ امامت باپ سے بیٹے میں منتقل ہوتا ہے، لیکن جیسا کہ ہم اوپر عرض کر چکے ہیں اس میں کچھ مستثنیات بھی ہیں، جن کا علم تاریخِ امامت اور تصوّرِ امامت کی روشنی میں حاصل ہو سکتا ہے،

 

۷۶

 

مثال کے طور پر اگر ہم مانیں کہ زمانۂ آدم کا پہلا اساس مولانا ہابیلؑ تھا اور اس کی شہادت کے بعد مولانا شیثؑ اساس ہُوا، تو اِس صورت میں ہمیں یہ بھی قبول کرنا ہوگا کہ نورِ امامت کبھی کبھار بھائی سے بھائی کو منتقل ہو سکتا ہے، اِس سلسلے میں ہمیں زمانۂ موسیٰؑ کے اساس مولانا ہارونؑ اور اِس کے جانشین مولانا یوشعؑ بن نون کے جسمانی رشتے پر بھی غور کرنا چاہئے نیز عہدِ عیسیٰؑ کے اساسِ اوّل مولانا یحییٰؑ اور اساسِ دوم مولانا شمعونؑ کے بارے میں بھی خوب سوچنا ہوگا کہ اِن مقدّس ہستیوں کے آپس میں کیا رشتہ تھا، اِس بیان سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ نورِ امامت کے اٹل قانون میں بھی دوسرے قوانین کی طرح کچھ مستثنا واقعات ہُوا کرتے ہیں، تاکہ اللہ کے دین میں لوگوں کے لئے رحمت ہی رحمت مہیا رہے اوران کو کسی قسم کی مایوسی نہ ہو۔

(ج) جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ نورِ نبوّت و امامت باطن کے باطن میں ایک ہونے کے باؤجود بمقتضائے زمان و مکان مختلف درجات اور جُدا جُدا حیثیتوں میں ظہور پذیر ہوتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ امامت کے کئی درجات ہوا کرتے ہیں، جیسے امامِ مقیم، امامِ اساس، امامِ مُتِم، امامِ مستقر اور امامِ مستودع، تاکہ اللہ تعالیٰ کی ہدایتِ کاملہ کے ظاہری اور باطنی وسائل ہمیشہ مہیا رہیں اور زمانے کو امامِ عالیمقامؑ کی جس مرتبت کی ضرورت ہو اسی مرتبت میں امامِ برحقؑ کارِ ہدایت کو انجام دے۔

(د) اِس مطلب کی دوسری وضاحت یوں ہے، کہ امام مَلَکی اور بشری دونوں صفات کا مالک ہوا کرتا ہے، یعنی وہ بیک وقت فرشتۂ عظیم بھی ہے اور انسانِ کامل بھی، تاکہ وہ عملی طور پر ناسوت سے ملکوت کی طرف لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کر سکے، اِس سلسلے میں چونکہ لوگ ایک سطح کے نہیں یعنی ان کی دینی صلاحیتیں مختلف قسم کی ہوتی ہیں، اس لئے امامِ برحقؑ اپنی عملی ہدایت و رہنمائی میں نہ صرف جسمانی مشکلات پر قابو پانے کی مثالیں پیش کرتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے نمونۂ عمل سے یہ بھی ظاہر

 

۷۷

 

کرتا ہے کہ روحانی دُشواریوں کے آنے پر مومن کو کیا کرنا چاہئے، تاکہ مومنین کی ظاہری و باطنی زندگی کا کوئی گوشہ ہدایتِ کاملہ کی روشنی کے بغیر نہ رہے۔

(ھ) مذکورۂ بالا حقائق و معارف کی روشنی میں اب یہ سمجھ لینا ہمارے لئے بالکل آسان ہو گیا کہ پنجتنِ پاک صلوات اللہ علیھم کی مثال میں حضرت محمد مصطفی ناطق تھے، علیؑ اساس، حسنؑ امامِ مستودع، حسینؑ امامِ مستقر اور فاطمۂ زہراؑ پیغمبرِ اکرمؐ کے حجتوں میں سے تھیں، کہ ناطق کے حجّت عظیم ہوا کرتے ہیں، اور خاص کر آنحضرتؐ کے حجت سب سے عظیم تھے، چنانچہ حضور کا پہلا حجت (یعنی باب) اساس تھا یعنی علیؑ، دوسرا حجت امام حسنؑ، تیسرا امام حسینؑ اور چوتھی حجت فاطمۂ زہراؑ اِس سے ظاہر ہے کہ حضراتِ پنجتن نور کے مرکز تھے۔

(و) امامِ اطہر و اقدس سراپا نورِ ہدایت ہوتا ہے، لہٰذا اُس کی روحانی اور جسمانی زندگی کی ہر مثال ہدایت و رہنمائی کی حکمتوں اور مصلحتوں سے بھرپور ہوا کرتی ہے، چنانچہ حضرت یعقوبؑ اور حضرت یوسفؑ کے قرآنی قصّے میں روحانیّت اور امام شناسی کی بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں، سو پہلی حکمت یہ ہے کہ امامِ عالی مقام کے ازلی و ابدی نور کا حقیقت میں نہ تو کوئی باپ ہے اور نہ ہی کوئی بیٹا، لیکن اِس حقیقت کے باوجود نورِ ازل کے ظہوراتِ روحانی انتہائی عجیب و غریب اور بڑے حیرت انگیز ہوا کرتے ہیں، چنانچہ یہ اس کے گوناگون جلووں میں سے ہے کہ وہ کبھی تو امام کے والدِ بزرگوار کی بے پناہ شفقتوں کی صورت میں اور کبھی اس کے فرزندِ دلبند کی مسرّت بخش محبتوں کی شکل میں جلوہ نما ہو جاتا ہے، چنانچہ شروع ہی سے حضرت یعقوبؑ کو حضرت یوسفؑ سے جو بے پناہ محبت تھی، وہ دراصل دنیاوی نہیں بلکہ نور کی وجہ سے دینی اور حقیقی محبت تھی، کیونکہ حضرت یعقوبؑ کی مبارک پیشانی میں جو امامت کا مقدس نور جلوہ گر تھا، وہ اپنی معنوی جامعیّت و ہمہ گیری کے سلسلے میں جہاں دوسری بہت سی حقیقتوں کا انکشاف و اظہار

 

۷۸

 

کرتا تھا، وہاں وہ یہ بھی فرمایا کرتا تھا کہ وہ نور جو پیشانی میں بول رہا ہے خود اِس کا بیٹا یوسف ہے، جس کے نتیجے میں یعقوب اپنے بیٹے یوسف کو ظاہر و باطن میں بیحد چاہتا تھا۔

(ز) دوسری حکمت یہ ہے کہ اگرچہ امرِ امامت (یعنی اختیار) عام طور پر امامِ سابق کی زندگی کے آخری لمحات میں منتقل ہو جاتا ہے، لیکن کبھی کبھار زمانے کا امام کسی اہم خدائی مصلحت کی بناء پر وقت سے پہلے بھی اپنے بیٹے کو عملی طور پر جانشین بنا سکتا ہے، جس کی ایک نمایان مثال حضرت یوسفؑ ہے، چنانچہ مرکزِ نور کی اِس منتقلی کے بعد اگرچہ حضرت یعقوبؑ کا باطن کاملاً منور اور روشن تھا، تاہم عرصۂ دراز تک امام کا سب سے بڑا دیدار نہیں ہو رہا تھا، لیکن مسلسل گریہ وزاری اور پُرکشش مقناطیسی یادوں کے وسیلے سے ایک دن یہ مبارک دیدار بھی حاصل ہوگیا، اور اِس عظیم واقعہ میں ایسے تمام مومنین کے لئے نمونۂ عمل اور مکمل ہدایت موجود ہے، جن کو ابھی تک امامِ زمانؑ کا روحانی دیدار نہیں ہوا ہے یا جنہیں دیدار ہو رہا ہے یا دیدار ہونے کے بعد پھر اس میں بڑی حد تک کمی واقع ہوئی ہے کہ وہ دیدارِ باطن کو کوئی معمولی اور آسان کام تصور نہ کریں، نہ دیدار کے بعد سُست اور ناشکرگزار ہو جائیں اور نہ ہی کمی واقع ہونے پر مایوس ہو بیٹھیں۔

(ح) تیسری حکمت یہ ہے کہ ہم جیسے عقل کے بیچارے اکثر یہ گمان کئے ہوئے بیٹھتے ہیں کہ بس ذرا سی کوشش سے دیدار حاصل ہوگا، لیکن حضرت یعقوب کا یہ پُرحکمت واقعہ زبانِ حال سے ہمارے اِس ناچیز گمان کی بڑی سختی کے ساتھ تردید کرتا ہے اور صورتِ حال کے رمز و کنایہ سے اِس بات کا تاکیدی حکم دیتا ہے کہ اگر تم کو واقعاً امامِ عالی صفات کے دیدارِ باطن کی لاتعداد برکتوں اور سعادتوں سے سرفراز ہو جانا مقصود ہے تو تم اپنے دل میں امامِ زمان علیہ السّلام کی وہ انتہائی شدید اور کامیاب ترین محبت پیدا کرو، جو حضرت یعقوب ؑکے سینۂ صافی میں موجزن تھی، کیونکہ اسی پاک و پاکیزہ محبت نے اخلاص و عقیدت اور احترام و ادب سے حضرت یوسفؑ کے دامنِ دل

 

۷۹

 

کو مضبوطی سے تھام لیا اور نہیں چھوڑا تا آنکہ وہ اُسے کشان کشان یعقوبِ حزین سے ملا دینے میں کامیاب ہوگئی۔

(ط) اِس مقام پر اشتیاقِ دیدار کے بھرپور جذبات رکھنے والے مومنین کو خوب سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ انسانیّت، اخلاق اور مذہب کے اِس درجۂ کمال پر عصمت، طہارت اور پاکیزگی کی اِس شان کے ساتھ اور عظمت، بزرگی، قدر اور منزلت کی اتنی رفعت و بلندی حاصل ہونے کے باوجود یہ کیوں کر ضروری ہوا کہ حضرت یعقوب جیسا ایک انسانِ کامل دیدارِ باطن کے لئے ابرِ نو بہار کی طرح زار زار رویا کرے اور بار بار خونِ جگر کے آنسو بہائے، آپ نتیجے کے طور پر یقیناً اِس حقیقت کو قبول کر لیں گے کہ پیغمبر اور امام کی مرتبت کے ایک کامل انسان کی طرف سے انتہائی سخت ریاضت تحلیلِ نفس اور شوقِ دیدار کا یہ نمونہ پیش کرنا اور وہ بھی کسی اور طریقے سے نہیں بلکہ قرآنِ کریم کے توسّط سے اِس لئے ضروری ہوا کہ سمجھنے والے دیدارِ مقدّس کی قدروقیمت کا خود بخود اندازہ کریں کہ اِس کے حصول کے لئے کیسی اور کتنی عظیم قربانیوں کی ضرورت ہے، تاکہ وہ اسی معیار کے مطابق علم و عمل کا فریضہ انجام دیں۔

 

نصیرالدّین نصیرؔہونزائی

۱۹۷۹ء

 

۸۰

 

حضرت موسیٰ ؑ کے نو (۹) معجزات

 

۱۔ عصا (لاٹھی) یعنی معجزۂ اسمِ اعظم، کہ جس طرح جسمانی طور پر لاٹھی چلنے کے لئے اور کئی دوسرے کاموں کے لئے وسیلہ ہے، اسی طرح اسمِ اعظم روحانی سفر اور ترقی کا ذریعہ ہے۔

۲۔یدِ بیضا ء (۰۷: ۱۰۸، ۲۰: ۲۲، ۲۶: ۳۳، ۲۷: ۱۲، ۲۸: ۳۲) معجزۂ فکری بصورتِ بیان، کیونکہ فکر عقل کا ہاتھ ہے اور بیضاء کا مطلب روشن ہے، یعنی ایسی کامیاب فکر جس کا نتیجہ ہر بار نورانی کلام ہو۔

۳۔ قحط سالی (سنین ۰۷: ۱۳۰) علمی قحط ، کیونکہ جسمانی قحط عام روحانی قحط کی مثال ہے، جبکہ روحانی چیزوں کی تشبیہہ مادّی اشیاء سے دی جاتی ہے۔

۴۔ ثمرات کا نقصان (۰۷: ۱۳۰) یعنی حکمت کا مفقود ہوجانا، کیونکہ حکمت کے نہ ہونے کی مثال پھلوں کے نہ ہونے سے دی گئی ہے، جبکہ علم روح کی عام غذا ہے، اور حکمت جو پھل ہے خاص غذا ہے۔

۵۔ طوفان (۰۷: ۱۳۳) یعنی روحانی اور علمی طوفان، جس میں بہت سی قومیں ہلاک ہوچکی ہیں۔

۶۔ ٹڈیاں (جراد ۰۷: ۱۳۳) یعنی ایسی بُری روحیں اور متضاد افکار، جس سے عقل کی فصل تباہ ہوجاتی ہے، جس طرح ٹڈیاں ظاہری فصل کو برباد کر دیتی ہیں۔

۷۔قُمّل (جوئیں ۰۷: ۱۳۳)ایسی بَد روحیں ، جو جسم کو اذیت پہنچاتی ہیں، یہ

 

۸۱

 

بھی عذاب کے معجزات میں سے ہے۔

۸۔ مینڈک (ضفادع ۰۷: ۱۳۳) ایسی ادنیٰ روحیں ، جن کی مسلسل آواز کے سبب سے اعلیٰ روحوں کی آواز سنائی نہیں دیتی ہے۔

۹۔ پانی کا خون بن جانا (۰۷: ۱۳۳) یعنی علم کا بگڑ جانا، اور علمی تشنگی کا باقی رہنا۔

 

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۲ جولائی ۱۹۸۲ء

 

نوٹ: ۱؎ اس سے ظاہر ہے کہ بعض معجزات اس لئے رُونما ہوتے ہیں، کہ ان سے نافرمان لوگ ہلاک ہو جائیں یا عذاب میں مبتلا ہوجائیں۔

۲؎ آیاتِ تسعہ (نو معجزات) کی تاویل بہت اہم ہے، آپ اس کو توجہ سے دیکھیں۔

 

۸۲

 

تصویر اور تصوّر

 

انسان یا کسی اور چیز کی شکل و صورت اگر کاغذ وغیرہ پر بنائی گئی ہے تو وہ تصویر کہلاتی ہے، اور اگر وہ ذہن و خیال میں لائی جاتی ہے تو اس کو تصوّر کہتے ہیں، جس طرح مختلف وجوہ کی بناء پر تصویریں خاص سے خاص اور عام سے عام ہؤا کرتی ہیں، اسی طرح اعمال کے اُتار چڑھاؤ کے سبب سے تصوّرات بھی اعلیٰ سے اعلیٰ اور ادنیٰ سے ادنیٰ ہر درجے کے ہوتے ہیں، یہ نہ صرف باطن کی روشنی اور تاریکی کی بات ہے، بلکہ اس میں خود تصوّر کی نوعیّت کا بھی ذکر ہے۔

دنیا میں کوئی تصویر اپنے آپ نہیں بنتی ہے، بلکہ اس کا کوئی مصوّر ہوتا ہے وہی اس کو اصل چیز سے یا اس کی سابقہ تصویر سے یا اگر اس کو ٹھیک طرح سے پہچان لیا ہے تو تصوّر سے بنا دیتا ہے، اسی طرح انسان ہی خود اپنے تمام تصوّرات کو وجود دیتا ہے، اور ان میں سے جو تصوّرات قدرتی کہلاتے ہیں، وہ بھی اصل میں خود انسان ہی کے افکار، اقوال اوراعمال کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں، لہٰذا دانا مومن نہ صرف دیدارِ ظاہر اور تصویر بینی کے وسیلے سے عالیشان نورانی تصوّرات کا خواہان ہوتا ہے، بلکہ وہ اسکے ساتھ ساتھ خلوصِ نیّت سے نیک کاموں کو بھی انجام دیا کرتا ہے، تاکہ دل و دماغ میں حقیقی روشنی پیدا ہواور نورانیّت کے پُرحکمت تصوّرات کی حیثیّت میں باطنی دیدار کا شرف حاصل کیا جا سکے۔

بعض لوگ دل کی آنکھ کھولنے اور باطنی روشنی دیکھنے کے شوق میں بڑی

 

۸۳

 

پابندی اور سختی کے ساتھ طرح طرح کی مشقوں میں عمرِ عزیز کا ایک حصّہ صرف کرتے ہیں، جس میں اگر وہ کوئی روشنی دیکھتے بھی ہیں تو وہ غیر حقیقی اور عارضی قسم کی ہوتی ہے، جس کی کوئی اہمیّت نہیں، با اخلاص مومن ہمیشہ حقیقی نور کی تجلّیات دیکھنےکا جذبہ رکھتا ہے، اور اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے نورِ ہدایت کے مقدّس ارشادات پر جان و دل سے عمل کرتا رہتا ہے۔

حقیقی مومنین کے نزدیک مولائے زمان کی بابرکت تصویر کی بہت بڑی اہمیّت ہے، کیونکہ یہ نور کی پاک شخصیّت اور انسانِ کامل کی شناخت کی علامت اور نشانی ہے، جو یاد آوری کا وسیلہ بن کر دل میں نرمی اور حقیقی محبّت پیدا کر دیتی ہے، نیزیہ ایک طرح سے گواہی اور ثبوت کی حیثیّت رکھتی ہے کہ امامِ برحقؑ دنیا میں حیّ و حاضر ہیں، اور اس کا ایک نہایت عالیقدر روحانی پس منظر ہے، چنانچہ بڑے خوش نصیب ہیں وہ مومنین جو مولاپاک کی مبارک تصویر کو عقیدت و محبّت کی نظر سے دیکھا کرتے ہیں اور اس کا احترام بجا لاتے ہیں۔

مورخہ ۳، اگست ؁۱۹۷۹ء  کی بات ہےکہ کسی عزیز نے بسِلسِلۂ جذبۂ دینداری مجھے مولانا حاضر امام صلوات اللہ علیہ کی دو مبارک و مقدّس تصویریں جو تقریباً پوسٹ کارڈ سائز کی تھیں بطورِتحفہ عنایت کر دیں، چونکہ یہ پاک و پاکیزہ تصویریں امامِ عالی مقام ہی کی تھیں، اِس لئے ایک عاشق کی نگاہ میں اُن تصویروں کا انتہائی خوبصورت اور بیحد دلکش ہونا ہی تھا، پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ میرے آقائے نامدارکی یہ دونوں تصویر بڑی خوبصورت اور بہت ہی پیاری تھیں، ایک تصویر پُروقارسکوت و سنجیدگی کی مظہر تھی اور دوسری کے تبسّم سے مسرّت و شادمانی کے پھول برس رہے تھے، جس میں مولا باپا کی پُرنور مبارک آنکھیں کچھ یوں لگ رہی تھیں، جیسے عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ (جو دو عظیم فرشتے ہیں) دو کائناتی دُوربین (Telescope) بن کر آسمان و زمین کی بلندی و پستی کا خوب نظّارہ کر رہے ہوں،

 

۸۴

 

اورچہرۂ مبارک کی بہارِ حسن و جمال کا یہ عالم تھا ، کہ اُس پر کُل جہان کی رعنائی و زیبائی بصد شوق قربان اور نثار ہو رہی تھی۔

چونکہ میں بچپن ہی سے امامِ برحقؑ کی مبارک تصاویر کا دلدادہ اور عاشق ہوں اور حق بات یہ ہے کہ مجھے اِن پُرحکمت تصویروں سے عقیدت و محبّت کی بہت ساری دولت میسّر ہوئی ہے، چنانچہ میں نے مذکورہ دونوں تصویروں کو عقیدتمندی اور اخلاص و ادب کے بھر پور جَذَبات سے بار بار چومتے ہُوئے چشم و سینے سے لگالیا، اور کچھ دیر تک ان کی طرف دیکھتا رہا، اتنے میں میرے دل میں ایک بہت ہی میٹھی اور خوشگوارعاجزی اور پستی پیدا ہوگئی پھر وہ ایک پُر کیف جذبہ بن کر مجھے بطرزِ شیرین رُلانے لگی، میرے رُخساروں سے گوہرِ آبدار کی طرح چمکتے ہُوئے آنسوگر رہے تھے، اب دنیائے دل میں اطمینان و سکون کا عالم تھا، اِس گرانقدر روحانی نعمت کو قدردانی اور شکر گزاری کے ساتھ قبول کرتے ہُوئے میں نے موقع کو غنیمت سمجھا اور محویّت وفنائیّت والی عبادت کے لئے بیٹھ گیا، یعنی ذکرِ قلبی کے واسطے ذرا گوشہ نشین ہوگیا، اور الحمدللہ! ہمیشہ کی طرح عاجزی کی بدولت یہ کوشش نتیجہ خیز اور کامیاب تھی۔

یہ سب کے نزدیک ایک عام تجربہ ہے کہ شروع شروع میں انسان جیسے ہی ظاہری آنکھیں بند کر کے اپنے باطن کی طرف متوجّہ ہو جاتا ہے تو وہ یکایک اپنے آپ کو شعوری طور پر گُھپ اندھیرے میں پاتا ہے، وہ اِس ظلمت و تاریکی کے عالم میں کچھ نہیں دیکھتا ہے مگر وہ بڑی مشکل سے یہ اندازہ کر سکتا ہےکہ ہم تصوّر کے چند کالے کالے کارٹون حرکت کر رہے ہیں، لیکن اس کے برعکس حقیقی مومنین جب قدم بقدم اور منزل بمنزل روحانیّت میں آگے بڑھ جاتے ہیں تو اُن کی دُنیائے تصوّرات شب و روز جگمگاتی رہتی ہے، جس کی دلبریا ضیاپاشی اور جانفزا رنگینی کی کوئی مثال نہیں ملتی، اسی طرح اہلِ حقیقت کے دل و دماغ میں ہر وقت حقائق و معارف کی ایک

 

۸۵

 

جیتی جاگتی لطیف کائنات موجود رہتی ہے۔

یہ بات سب مسلمان مانتے ہیں، کہ قرآنِ پاک میں ہر چیز کا مفصّل ذکر آیا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج ہم جس موضوع سے بحث کرتے ہیں، وہ قرآنِ حکیم میں بھی ہے، وہاں بیشک ہم تو عملی طور پر مانتے ہیں کہ قرآنِ مقدّس میں علمی صورت میں ہر چیز موجود ہے، اور تصویر و تصوّر کا نمایان تذکرہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کے قصّےکا حصّہ ہے، جس میں ارشاد ہوا ہے کہ جنّات سلیمان پیغمبرؑ کے منشاء کے مطابق طرح طرح کی تماثیل (تصویریں،۳۴: ۱۳) وغیرہ بنایا کرتے تھے، اب اگر ہم اس کو تاویل کی روشنی میں دیکھیں تو معلوم ہو جائیگا کہ زندہ اور مثالی حقائق و معارف کے مشاہدات کی خاطر سلیمانؑ کے سامنے روحانیّت کی تصویریں پیش کی جاتی تھیں، کیونکہ اس کے بغیر عین الیقین کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا ہے، اور یہی وہ راستہ ہے جس سے اعلیٰ روحانیّت میں جانے کے سلسلے میں گزرنا پڑتاہے، جو انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام کے علاوہ مومنین کے لئے بھی مُقّرر ہے، اِس بیان سے یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے، کہ دل و دماغ کے تصوّرات اور تصویریں سِلسِلۂ روحانیّت کی مختلف کڑیوں کی حیثیت سے ہیں، کیونکہ تصّورات کی علمی و روحانی ترقّی سے روحانیّت کی پُرنورمثالی تصویریں بن جاتی ہیں۔

یہ قصّہ بھی باطن، روحانیّت، اور عین الیقین کے نورانی مشاہدات میں سے ہے، جو فرمایا گیا ہے، کہ ملکۂ سبا کے تخت کو چشمِ زدن سے پہلے اپنی جگہ سے اُٹھا کر حضرت سلیمانؑ کے حضور میں پیش کیا گیا تھا (۲۷: ۴۰) اور دانشمند جانتاہے کہ ظاہری اور مادّی طور پر کسی تختِ سلطنت کو غائب کر لینےکے کچھ معنی نہیں بنتے ہیں، چنانچہ اِس مطلب کی واضح تاویل یہ ہے کہ یہاں تخت سے بلقیس ملکہ کی روحانی حیثیت مراد ہے جو ان کے مسلمان ہو کر جسمانی طور پر یہاں آنے سے پیشتر سلیمان پیغمبرؑ پر منکشف کی گئی تھی، اس کے علاوہ قصّۂ سلیمانؑ میں اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جن کا زیادہ سے زیادہ

 

۸۶

 

تعلّق روحانیّت اور تاویل سے ہے، اِس سِلسِلے میں یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام اپنے اپنے زمانے میں روحانیّت کے سلیمان شاہنشاہ ہُوا کرتے ہیں، تمام روحیں خواہ وہ زندوں کی ہوں یا مردوں کی ہوں، جنّ ، انس اور طیر کے ناموں سے اُن حضرات کی روحانی سلطنت کے مختلف امور کو انجام دیتے رہتے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر ہونزائی

 

۸۷

 

گائے اور بچھڑے کی گفتگو

 

تمام شمالی علاقہ جات کی قدیم روایت یہ تھی کہ ہر گاؤں کے باشندے سب سے پہلے کسی مناسب مقام پر اپنے لئے ایک محفوظ قلعہ بنا کر اسی کے احاطے میں اپنا اپنا گھر بنایا کرتے تھے، اور رات کے وقت کوئی شخص قلعے سے باہر نہیں رہتا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ مختلف ریاستوں کے لوگ اکثر بوقتِ شب ایک دوسرے پر حملے کر کے قتل و غارت کا بازار گرم کرتے تھے، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اِس روشن زمانے میں نہ وہ روایت زندہ ہے، اور نہ کسی ایسے حملے کا خوف و ہراس باقی ہے، تاہم وہ زمانہ جس میں یہ بندہ ایک چھوٹا سا بچّہ تھا، اگرچہ سب نہیں تو بعض احوال اگلے زمانے کی طرح تھے، چنانچہ ہم سب لوگ سردیوں میں بحکمِ حاکم اپنے گاؤں (حیدرآباد) کے برائے نام قلعے میں رہتے تھے، جو ایک ٹیکری پر واقع ہے، جس کی ہمارے وقت میں نہ تو کوئی فصیل باقی تھی، نہ کوئی دروازہ، اور نہ ہی کوئی محافظ مینار (ٹاور) قائم تھا۔

مجھے یہ بات ٹھیک طرح یاد نہیں کہ میں اُس وقت کتنے سال کا بچہ تھا، مگر بہرحال یہ عجیب واقعہ خوب یاد ہے کہ موسمِ سرما کا ایک دن تھا، جبکہ ہونزہ جیسے پہاڑی علاقوں میں بڑی شدّت کی سردی ہوتی ہے، اور اگر کسی دن مطلع ابر آلود نہ ہُوا، اور ہوا بھی نہ چلی، تو پھر بھی دھوپ کی حرارت بہت ہی کم ہوتی ہے، ایک دن ایسی کمزور دھوپ پڑ رہی تھی، میں قلعہ والے گھر سے ایک بیکار چھوٹے بچے کی حیثیت سے نکل کر کھیل کے میدان (پولو گراؤنڈ) میں آ کھڑا ہوگیا، اتنے میں ایک دُبلی سی گائےمستطیل

 

۸۸

 

میدان کی شرقی جانب سے نمودار ہوئی، اور ایک چھوٹا سا کمزور بچھڑا تقریباً دوسو گز دُور سمتِ مخالف سے نظر آیا، جو اِس گائے کا بچّہ لگتا تھا۔

دونوں بیچارے جانور باری باری ڈکرانے (بولنے) لگے، تعجب ہے کہ میں نے اُس وقت کیونکر گائے اور بچھڑے کی آواز پر توجہ دی، اور اس کی یہ ترجمانی یا تاویل کی، کہ میرے فہم کے مطابق گائے نے کہا: “اے میرے عزیز بچّہ (بچھڑا)! آؤ آؤ ، تم میرے پاس چلے آؤ، تاکہ میں تم کو کچھ دودھ پلا ؤنگی۔” اس کے جواب میں بچھڑے نے کہا: “نہیں نہیں، پیاری ماں! سردی سے میرا جسم سُکڑ گیا ہے، اس لئے مجھ سےچلا نہیں جاتا، لہٰذا مہربانی کرکے تم خود میری طرف آجاؤ۔”

گائے نے پھر کہا: “اے میرے لال! دیکھو اِس میدان میں انسان کے بچّے کس طرح دوڑتے کھیلتے نظر آتے ہیں، تم بھی ذرا دوڑو، تاکہ بدن کچھ گرم ہو، اور سردی کی شکایت دُور ہو جائے۔” اِس پر بچھڑے نے فوراً کہا: “امّاں جی! انسانی بچّوں میں سے صرف وہی دوڑ سکتے ہیں، جنہوں نے کچھ کھایا پیا ہو، میرے پیٹ میں کوئی خوراک ہےہی نہیں، پھر میں کیسے دوڑ سکتا ہوں؟” آخر کار گائے مجبور ہو کر بچھڑے کے پاس چلی گئی۔

اب میں دل ہی دل میں بڑا خوش ہوا، کہ میں نے گائے اور اس کے بچّے کی گفت و شنید کی ترجمانی سیکھ لی ہے، مجھے خیال آیا کہ کسی تاخیر کے بغیر اپنے والدِ محترم سے اِس واقعہ کا ذکر کر دینا چاہئے، تاکہ انہیں خوشی حاصل ہو، قبلہ گاہ اُس وقت ہمارے ایک معزّز رشتہ دار(اُوشم) جناب حُرمت اللہ بیگ صاحب کے گھر گئے ہوئے تھے، یہ دولتخانہ پولو گراؤنڈ کے بالکل قریب ہی ہے، میں فوراً وہاں گیا، اور اِس عجیب واقعہ کی رپورٹ طفلانہ زبان میں یوں پیش کی کہ: “نا ابو! پولو گراؤنڈ میں ایک گائے تھی نا۔” اِس قصّہ کے آغاز کرنے پر سب میری طرف متوجّہ ہوگئے، تو میں نے کہا:

 

۸۹

 

“نا ابو! وہ گائے اپنے بچّے کو بلاتی تھی کہ آؤ میرے پاس آؤ، مگر بچھڑا ۔۔ ۔۔ نا ابو! نہیں مانتا تھا، اور کہتا تھا کہ تم خود آگے بڑھکر میرے پاس آ ؤ۔” اسی طرح میں نے با تفصیل قصّہ بیان کر دیا۔

اِس بات کے سننے سے رضاعی ماموں حرمت اللہ بیگ صاحب کو بڑا تعجب ہوا اور ہنسنے لگے، اور اس کے بعد مذاق سے کہا کرتے تھے کہ پرتوِ شاہ (نصیرالدّین)! تم تو عجیب ہوشمند ہو، کہ گائے اور بچھڑے کی بولی جانتے ہو، پھر کسی نہ کسی طرح یہ افواہ بھی پھیل گئی کہ خلیفۂ شاہ آباد (حُبِّ علی) کا ایک بیٹا جانوروں کی بولی جانتا ہے۔

 

علّامہ نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی

 

۹۰

 

ایک شیرین خواب

 

آج سے تقریباً ۲۵ سال قبل کا قصّہ ہے کہ میں نے ہونزہ میں کسی رات کو ایک بہت بڑاشیرین، حکمت آگین اور پُراسرار خواب دیکھا تھا، یہ خواب کس قدر روحانیّت اور نورانیّت سے بھرپور تھا، میں اپنے ایک باغ کی ہری ہری گھاس پر بیٹھا ہوں، میری داہنی طرف ایک مبارک و مقدّس شخصیت ربّانی شان سے بیٹھی ہے، اِس فرشتہ سے، جو بشکلِ بشر ظہور فرما تھا، مجھ پر مسرّت و شادمانی کی زبردست شعاعیں پڑ رہی تھیں، میں نے ہمت و جرأت سے کام لے کر اس پاک و پاکیزہ ہستی کے اسمِ مبارک کی بابت پوچھا، تو فرمایا گیا کہ: میرا نام “شیرین سخن” ہے۔

چونکہ یہ خواب نورانی قسم کا تھا اور سلسلۂ روحانیّت سے مربوط، اِس لئے اس کے کئی تاویلی پہلو ہیں، اُن میں سے ایک خاص پہلو تو اسم (شیرین سخن ) سے متعلق ہے، اور دوسرا داہنی جانب سے تعلق رکھتا ہے، یعنی اُس فرشتۂ رحمت کا نام “شیرین سخن” کیوں تھا، اس کی تاویل ہے، اور وہ دائیں ہاتھ کی طرف کیوں تھا، اس کی بھی تاویل ہے، وغیرہ۔

اِس فرشتۂ روحانی کا نام “شیرین سخن” اس لئے ہے کہ یہ ایک تو نتیجہ تھا اور دوسرا اشارہ، اور اشارہ یہ کہ آدمی کو ہمیشہ شیرین سخن (خوش گفتار ۔ شیرین کلام) ہونا چاہئے تاکہ قول و عمل کی لذّت و شیرینی سے خداوند تعالیٰ کی رِضا حاصل ہو۔ اس کی دوسری تاویل اصحابِ یمین کی ہے۔

 

۹۱

 

“شیرین سخن” کے اِس نام کا یہ اشارہ ہرگز نہیں کہ انسان صرف زبان کی نوک ہی سے میٹھی میٹھی باتیں کیا کرے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی زبان سے بھی اور دل سے بھی میٹھا ہو۔

لذّت و شیرینی دو قسم کی ہوا کرتی ہے، ایک حقیقی ہے اور دوسری مجازی، حقیقی شیرینی وہ ہے جو عقلی اور روحی نوعیت کی ہوتی ہے، اور مجازی شیرینی وہ ہے جو جسمانی اور دنیاوی قسم کی ہوا کرتی ہے پس “شیرین سخن” کا اصل اشارہ عقلی اور روحانی لذّتوں کی طرف ہے۔

سُخن(بات) دین اور روحانیّت میں ایک ایسا وسیلہ ہے کہ اسی سے خداوند تعالیٰ کے راز ہائے سربَستہ مومنین کے دل و دماغ میں منتقل ہوسکتے ہیں، تمام آسمانی کتابیں سُخنِ خدا ہیں مکمل روحانیّت بھی، حکمت اور دینی اسرار بھی۔

امامِ عالیمقامؑ ناسوت میں بھی اور ملکوت میں بھی “شیرین سخن” ہیں، آپؑ سے بڑھ کر کوئی بشر اور کوئی فرشتہ شیرین سخن نہیں ہو سکتا، کیونکہ آپ خدا اور اس کے رسولؐ کی زبان و ترجمان ہیں، پس بڑے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو امامِ برحقؑ ملا ہے۔

نوٹ:

۱۔       ہمارے مقالوں کے پڑھنے سے نہ صرف بزرگانِ دین کے کتب کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے، بلکہ اس کے علاوہ قرآن اور روحانیّت کے اسرار سے آگاہی میں بھی معاونت ہو سکتی ہے۔

۲۔       اِس مختصر مضمون میں اصحاب الیمین کے اسرار بھی ہیں۔

۳۔       مجھے یقین ہے کہ میں اپنے نہایت ہی عزیز شاگردوں کی زبان اور قلم سے پیاری جماعت کی کچھ خدمت کر سکوں گا۔

 

۹۲

 

۴۔       ہماری علمی کوششیں نیک نیّتی پر مبنی ہیں، اس لئے امید ہے کہ خداوند کی نورانی ہدایت ہماری دست گیری کرے گی۔

 

فقط نصیر ؔہونزائی

۱۴۔ جولائی۔ ۱۹۸۱ء

 

۹۳

 

عجیب خواب

 

میں نے ۱۷ جولائی ۱۹۷۵ء کی رات کو ایک عجیب خواب دیکھا، میں ہونزا جیسے کسی مقام پر کہیں جاتا ہوں، اتنے میں یکایک میرے سامنے دریا کا ایسا کٹاؤ آگیا جو دریا سے بہت بلند تھا اور میں وہاں سے آگے نہیں جاسکتا تھا، جبکہ نیچے دریا بہتا تھا میں نے وہاں رُک کر کچھ دیر کے لئے سوچا کہ اب میں کیا کروں پھر یکایک مجھے یہ خیال آیا کہ مجھ میں اڑنے کی صلاحیت ہے اس سے کام لے کر میں دریا کے اوپر سے پار اُڑنے کی کوشش کروں تو اُڑ سکتا ہوں، یہ کہہ کر میں اس دریا کے اوپر سے اڑ گیا اور دریا کی پرلی آبادی میں پہنچ گیا، اتنے میں بہت سے غیر لوگ مجھ پر حملہ آور ہوئے، میرے ہاتھ میں شاید کوئی تلوار تھی، میں اُن سے جنگ کرتا ہوں، سخت جنگ ہوتی ہے، میں اکیلا ہوں مگر بہت دُشمنوں کو قتل کرتا جاتا ہوں، وہ ختم نہیں ہوتے، اور زیادہ حملے کرتے ہیں، مجھے تنگی کا وقت محسوس ہوتا ہے، نہ جانے یہ بات کس طرح میرے دل میں آگئی کہ میں نے انتہائی عاشقانہ انداز میں اور خوب ترنّم سے کوئی گنان یا منقبت پڑھنا شروع کیا پھر یکایک وہ سب لوگ میرے سامنے ایک میدان میں سُکڑ سُکڑ کر چھوٹی چھوٹی گڑیوں کی صورت میں مست و مدہوش ناچنے لگے، اور بے تحاشا ناچتے رہے، پھر مجھے خیال آیا کہ یہ سب جنّات ہیں اِن پر قابو اسی طرح پایا جاسکتا ہے، کہ کوئی اچھی نظم پڑھ کر ان کو مسحور کیا جائے، اسی اثناء میں، میں بیدار ہوگیا۔

اِس خواب کی تاویل پر سوچنے سے یہ نتیجہ نکلا کہ عبادت اور ذکر کے دوران

 

۹۴

 

جو جو وسوسے دل میں پیدا ہوتے ہیں وہ گویا جنّات ہیں ان پر قابو پانے کا ایک کامیاب طریقہ یہ ہے کہ گنان، مناجات اور گریہ و زاری سے ان کو پگھلایا جائے، اِس کے بغیر ذکر میں کامیابی مشکل ہے۔

والسّلام ۔

نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی

۲۸۔ جولائی۔ ۱۹۷۵ء

 

۹۵

 

قریۂ مقدّسِ مسگار اور دیگر مقامات

 

بسمِ اللہ الرَّحمٰن الرَّحیم۔

سلام ہو اُس قریۂ مقدّس پر اور ہر ایسے مقام پر، جس کے خوش قسمت باشندے پاک مذہب اور پاکیزہ روحانیّت کی لازوال اور غیر عرفانی نعمت ودولت سے مالا مال ہیں، سلام ہو ان نیک بخت اور بابرکت لوگوں پر، جن کو دین اور ایمان دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ہے۔ سلام ہو اُس “باکرامت جمعیّت” پر، جس کے نزدیک علم و حکمت کی بہت بڑی قدروقیمت ہے، سلام ہو ان برکت والے مومنین و مومنات پر، جو ہمیشہ ذکرِ الٰہی اور خصوصی عبادت سے کماحقّہٗ دلچسپی رکھتے ہیں، اور اس کا پھل ان کو روحانی خوشی کی صورت میں ملتا رہتا ہے سلام ہو ان اہلِ ایمان پر، جو عملی تصوّرات میں روحانیّت کے تقدّس کو پاتے ہیں اور سلام ہو ان پاک و پاکیزہ انسانوں پر جن کو میں جان و دل سے “روئے زمین کے فرشتے” مانتا ہوں، جن کی عقلی نظر میں یادِ الٰہی سب سے بڑی چیز ہے۔

سلام ہو ہر اُس فردِ مومن پر، جس کو ہر وقت دینی ترقی کی آرزو لگی رہتی ہے اور جو دائم اپنے مذہب کا خیر خواہ ہوتا ہے، سلام ہو ایسے دل پر، جس میں ہمیشہ حقیقی محبت کا دریا موجزن رہتا ہے، سلام ہو ہر اُس دماغ پر، جس میں ہمہ وقت امامِ عالیمقامؑ اور اس کی پیاری جماعت کی خدمت کی فکر موجود رہتی ہے، سلام ہو ہر اُس عالی ہمّت خادم کی ہمت پر، جو دین کی خدمت کو زندگی کا مقصدِ اعلیٰ سمجھتا ہے، سلام ہو حقیقی مومن کی ہر ہر قربانی پر، جو بار بار جانی، مالی اور ذہنی طور پر پیش کرتا رہتا ہے۔

 

۹۶

 

دین و دنیا کی مکمل سلامتی ایسے مومنوں کے لئے حاصل ہوتی ہے، جو حقیقی معنوں میں فرمانبردار ہیں، اور نورِ خداوندی کے دیدارِ ظاہر اور دیدارِ باطن کے اشتیاق میں آنسوؤں کا سیلاب بہاتے ہیں اور اس وسیلے سے آئینۂ دل کو خوب جِلا بخشتے ہیں، جس کا کم سے کم نتیجہ ان کو سکونِ قلب کی صورت میں نکلتا ہے۔

ایسی ہی سلامتی ان فرشتہ سیرت اور باحقیقت افراد پر ہو، جو علم و حکمت کی چاشنیوں اور لذّتوں سے باخبر اور واقف ہو چکے ہیں، اور ہر وقت اپنے ذخیرۂ علمی میں اضافہ کرتے رہتے ہیں، اور شب و روز علم و آگہی کو چاہتے ہیں۔

سلامتی کوئی چھوٹی بات ہرگز نہیں، یہ تو اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی صفت کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ “السّلام” خدا ہی کا نام ہے، چنانچہ سلامتی کے معنی ہیں ازل سے لے کر ابد تک ہر قسم کی آفت و ہلاکت سے محفوظ اور مامون رہنا اور ہر عیب و نقصان سے پاک رہنا، اس سے ظاہر ہے کہ سلامتی کی دعا سب سے بڑی دعا ہے، کیونکہ اس میں سب کچھ ہے۔

خداوند تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اگرچہ خانۂ حکمت کے افراد جغرافیائی اعتبار سے بکھرے ہوئے موتیوں کی طرح منتشر ہیں، لیکن وہ اتفاق و اتحاد کے لحاظ سے پروئے ہوئے موتیوں کی طرح یکجا ہیں، اور اگر روحانیّت و حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ سب کے سب ایک ہی روح کی صورت بن چکے ہیں۔

میں نے ہر مقام کے عزیزوں میں حقیقی محبت کا یہ عظیم کرشمہ دیکھا اور اِس سے مجھے بیحد مسرّت و شادمانی حاصل ہوئی، کہ ان کے پاک و پُرخلوص آنسوؤں میں مذہبی تقدّس جھلک رہا تھا، جس کو میں ہرگز فراموش نہیں کر سکتا ہوں، اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہب کے تقدّس و عظمت کا ظہور جہاں کہیں بھی ہو، اس کے لئے میرا سر عقیدت و محبت سے جھکتا ہے۔

 

۹۷

 

جلوۂ نورِ الٰہی کوئی محدود شیٔ نہیں، وہ مرکز کے وسیلے سے جہاں سے چاہے ظاہر ہو سکتا ہے، اس کے ظہورات کا طریقِ کار بڑا عجیب و غریب ہے، الحمدللہ! ہم سب جمعیّت والے ایک ہیں، سو ہر ایک کی خوبیاں سب کی ہیں اور سب کی خوبیاں ہر ایک کی، الحمدللہ! ہم یقیناً جان چکے کہ وہ عظیم اور پاک نمائندہ ہستی بھی اِس مقدّس تصوّر میں ہمارے ساتھ ایک ہے، اور اس بے مثال وحدت میں سب کچھ ہے، اور یہ “سب کچھ” ایسا کامل اور مکمل ہے کہ اِس سے کوئی عمدہ صفت باہر نہیں۔

قرآنِ پاک میں ہے کہ خدا تعالیٰ اور اس کے فرشتے مومنین پر درود بھیجا کرتے ہیں (۳۳: ۴۳) یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ مومنین درود کے حقدار ہوتے ہیں، لہٰذا ہم بھی اپنے عزیزوں پر جان و دل سے درود و سلام بھیجتے ہیں، اور جب ہم صلوات پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں: اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحمّدٍ وّآلِ مُحمّد تو اس میں حضورؐ کی روحانی اولاد کے اعتبار سے مومنین و مومنات کو بھی مراد لیتے ہیں ۔

 

فقط دعاگو

نصیر ہونزائی

۲۲۔مئی۔ ۱۹۷۹ء

 

۹۸

کنوز الاسرار

کنوز الاسرار

مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات

میرے بیحد عزیز ساتھیو! تم سب شرق و غرب سے روحانی طور پر آکر جمع ہو جاؤ تاکہ ہم سب یک دل اور یک جان ہوکر مناجات اور گریہ و زاری کریں کیونکہ ہم سب ایک ہیں اور جو بے شمار نعمتیں عطا ہوئی ہیں وہ بھی ہم سب کے لئے ہیں، آؤ عزیزان! ہم عاجزی اور عاشقی کے آنسوؤں کے ساتھ خداوندِ قدوس کے حضور میں سجدۂ شکرانہ بجا لائیں، اگرچہ ہم کماحقہ اس کی لاتعداد نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے تمام فرزندانِ روحانی سے میری جان قربان ہو! مولائے پاک کی پُرنور دعا اور روحانی تائید سے کنز الاسرار کے مضمون کی سو (۱۰۰) قسطیں مکمل ہوئیں، اور اب اس مجموعے کا نام کنوز الاسرار مناسب ہے، تاکہ اس نام سے قرآنِ حکیم اور روحانیّت کی طرف ایک حسین اور دلکش دعوت ہو، یعنی دعوتِ فکر بھی اور دعوتِ عمل بھی۔

امامِ آلِ محمد سلام اللہ علیہ کی غلامی اور پاک محبت میرے لئے سب سے بنیادی معجزہ اور اساسی راز تھا، میں اب علم و معرفت کی روشنی میں اس حقیقت کو جانتا ہوں اور مانتا ہوں کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم موجود اور حاضر ہے، کہتے ہیں کہ امام کے سات سو حجابات ہیں، لہٰذا امام کے معجزات سب کے سب

 

ک

 

حجابات میں ہیں، اور جو امامِ زمانؑ کا عارف ہو سکے وہی امام کے معجزات کو دیکھ سکتا ہے، حضرتِ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کے معجزات ظاہری اور حسی نہیں ہوا کرتے بلکہ یہ باطنی، روحانی، نورانی، علمی، عقلی اور عرفانی معجزات ہوتے ہیں، تاکہ امام کا عارف ایک ساتھ قرآن کے باطن کا بھی عارف ہو سکے، اسی معنیٰ میں آیتِ شریفہ (۰۵: ۱۵) کا مفہوم ہے کہ نور اور کتاب (قرآن) ایک ساتھ ہیں۔ و ما توفیقی الا باللہ (۱۱: ۸۸)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ، ۲۶ اپریل ۲۰۰۲ء

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

ل

اللہ تبارک و تعالیٰ کے زندہ اسمِ اعظم میں جملہ اسماء جمع ہیں

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) کے ارشاد میں اللہ تعالیٰ کو اس کے اسماءُ الحسنیٰ کے ذریعے سے پکارنے کا حکم آیا ہے، اور جیسا کہ عنوانِ بالا میں ہے کہ اللہ کے زندہ اسمِ اعظم (امامِ زمانؑ) میں کل اسماء جمع ہیں، پس جو شخص امامِ زمان علیہ السّلام کے عطا کردہ اسمِ اعظم پر نورانی عبادت کرتا ہے، وہ بحکمِ قرآن اسماءُ الحسنیٰ پر اللہ تعالیٰ کی مقبول ترین عبادت ہے، آپ حضرت مولا علی علیہ السّلام کی تاویلات کو ضرور پڑھیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی عاشقِ صادق علئ مرتضیٰ صلوات اللہ علیہ کے بابرکت ارشادات کو بار بار نہ پڑھے۔

کتابِ ہٰذا کا جدید انتساب: الحمدللہ اب ہمارے عزیزوں میں حقیقی علم کی ہزار گونہ قدردانی ہے، چنانچہ دانشگاہِ خانۂ حکمت ہیڈ کوارٹرز کراچی کی پریسیڈنٹ کمیٹی نے بار بار اس کتاب کے مضامین کی تعریف کی اور بالآخر اس کی سرپرستی کے لئے زبانی درخواست بھی کی گئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تجربہ کار بھی ہیں اور حقیقی علم کے قدردان بھی ہیں، انہوں نے اس اہم علمی ادارے کی گوناگون خدمات انجام دی ہیں، مشرق و مغرب کے تمام عزیزان کی گرانقدر خدمات کا کچھ اندازہ اُس وقت ہو سکے گا جبکہ اس ادارے پر کوئی مکمل تاریخ لکھی جائے گی، ان شاء اللہ ہماری یہ امید دو طرح سے پوری ہو سکتی ہے، اوّل

 

م

 

یہ کہ کتابیں اور ان کے ترجمے تاریخ کا بنیادی حصّہ ہیں،  دوم اس ادارے کے سکالرز جو درجۂ اوّل، دوم، سوم، چہارم، پنجم وغیرہ پر ہیں، یہ سب بجائے خود تاریخ ہیں، اور رسمی تاریخ بھی ضرور ہوگی، ان شاء اللہ۔

اصل بات یہ ہے کہ ہمارا ہر کام امامِ زمانؑ کے معجزے سے ہوتا رہا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
جمعہ، ۲۶ اپریل ۲۰۰۲ء

ن

کنز الاسرار ۔ قسط ۱

سوال منجانبِ عزیزانِ اٹلانٹا، امریکہ: سورۂ رحمان عروس القرآن میں جس طرح اللہ تعالیٰ کی عظیم تر نعمتوں کا ذکر آیا ہے، اس میں انسانوں اور جنّات کو ساتھ ساتھ رکھا گیا ہے اس میں کیا حکمت ہے؟ جواب: اس میں یہ عظیم حکمت ہے کہ انسان، جنّ اور فرشتہ الگ الگ بھی ہیں، اور ایک بھی ہیں۔

سوال منجانبِ عزیزانِ یوسٹن: اللہ جب کسی بشر سے کلام کرتا ہے تو حجاب کے پیچھے سے کلام کرتا ہے، لیکن قرآن اللہ ہی کا کلام ہے جس کو انسان کسی حجاب کے بغیر پڑھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے، اس میں کون سا حجاب ہے؟ جواب: قرآن کا ظاہر گویا حجاب ہے، اور تاویلِ باطن گویا خدا کا پُرحکمت کلام ہے۔

سوال از عزیزانِ ڈالاس: امامِ زمانؑ کے نورِ باطن اور عوام کے درمیان کتنے حجابات ہیں؟ جواب: سات سو حجابات ہیں۔

سوال از عزیزانِ برمنگھم: آپ نے ایک نورانی خواب میں سمندر پر ایک تخت اور اُس پر ایک مقدّس معجزانہ شخص کو دیکھا تھا، جب اس خواب کی تاویل آئی تو تب وہ پاک شخص کون تھا؟ جواب: وہ نور مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام (روحی فداہ) تھا۔

۱

سوال: یہ پانی پر تخت تھا، یا کشتی تھی؟ جواب: ایک تاویل میں عرش= تخت تھا، اور دوسری تاویل میں کشتی تھی۔ سوال: عالمِ شخصی کے سفر کے دوران پانی پر ظہورِ عرش کا معجزہ کب ہوتا ہے؟ جواب: تقریباً آخری مرحلے میں یہ معجزہ ہوتا ہے۔

عزیزانِ آسٹن کا سوال: انسان کی خیالی پرواز برق سے بھی زیادہ تیز کیوں ہے؟ کیا کبھی یہ خیال روحانی جہاز کا کام کرے گا؟ جواب: سوال میں خود بخود جواب آ رہا ہے۔

کسی عزیز نے کوئی سوال نہیں کیا، بلکہ میں نے خود ہی اسی علمی صورت میں اُن سب کو یاد کیا کیونکہ وہ سب چھوٹے بڑے میرے لئے یکسان لٹل اینجلز ہیں، اور میرے حبِّ علی اور درِ علوی ہی کی طرح بے حد عزیز، اسی طرح میرے لئے دنیا میں بھی لٹل اینجلز کی ایک اضافی جنّت ہے، الحمد للہ۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
اتوار، ۱۷، فروری ۲۰۰۲ء

۲

کنز الاسرار ۔ قسط۲

عزیزانِ لندن کا سوال: بحوالۂ سورۂ رحمٰن (۵۵: ۳۳) گروہِ جنّ و انس جو فلکِ اعظم = کائنات کے دائرے میں مکان و زمان کی قیود کے پابند ہیں، وہ یہ چاہتے تھے کہ اس قید خانۂ کائنات سے نکل کر عالمِ لامکان کا نظارہ کریں، اور اس کی معرفت حاصل کریں، اس پر قرآن نے اُن کو بتا دیا کہ یہ کام تمہارے لئے ممکن نہیں مگر سلطان کے ذریعے سے۔ یہاں سلطان کے کیا معنی ہیں، یا اس لفظ سے کیا مراد ہے؟ جواب: یہ لفظ = اسم اپنے تمام معنوں کے ساتھ حضرتِ قائم القیامت کے حجت کا اسمِ مبارک ہے، جس کی تعریف سورۂ قدر میں ہے اور اس آیۂ مبارکہ کا یہ مطلب ہے کہ حجتِ قائم اور حضرتِ قائم کے زمانے میں جو روحانی قیامت برپا ہوگی، اسی سے جملہ جنّ و انس کو نجات ملے گی۔

سوال از عزیزانِ اسلام آباد: ہمیں یقین ہوا ہے کہ قیامِ چین کے دوران امامِ مبین علیہ السّلام نے آپ کے لئے بے شمار معجزات کئے ہیں، کیا آپ ہمیں یہ بتا سکتے ہیں کہ ان میں سب سے زیادہ حیران کن معجزہ کون سا تھا؟ جواب: ان میں انتہائی زبردست معجزے دو تھے، ایک دفعہ بوقتِ شام حجتِ قائم علیہ السّلام جثّۂ ابداعیہ میں تشریف لائے اور کچھ وقت کے بعد میری

 

۳

 

قیدِ تنہائی میں حضرتِ قائم علیہ السّلام جثّۂ ابداعیہ میں تشریف فرما ہوئے یہ دیدارِ پاک چند لمحات کے لئے تھا۔

زندانہ ایم یاد جہ مو بیلٹے تل آلجم
جنت نکہ آر دین نمی زندان لو ئیڎم

عزیزانِ گلگت کا سوال: کیا جثّۂ ابداعیہ کی کوئی قابلِ فہم مثال ہو سکتی ہے؟ جواب: جی ہاں، فرض کرو کہ کوئی عظیم فرشتہ چند سیکنڈوں کے لئے آپ کے سامنے حاضر ہو کر پھر غائب ہو جاتا ہے، یا کوئی مومن جنّ جسمِ لطیف میں آپ کی کسی مدد کے لئے آتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے۔ مریم سلام اللہ علیہا کے سامنے فرشتہ ایک مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا تھا، اور یہی جثّۂ ابداعیہ کا معجزہ تھا (۱۹: ۱۷)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
کراچی
اتوار، ۱۷ ، فروری ۲۰۰۲ء

۴

 

کنز الاسرار ۔ قسط۳

سوال منجانبِ عزیزانِ کراچی: لفظِ سفینہ کے دو معنی ہیں (۱) کشتی = ناؤ = جہاز، (۲) بیاض = نوٹ بک، اب ایک قول سن لیجئے: علم در سینہ است نہ در سفینہ، یعنی خاص بھیدوں سے بھرا ہوا علم سینہ ہی میں رہتا ہے، وہ تحریر میں نہیں آ سکتا ہے، لہٰذا یہ سچ ہے کہ علم کی بعض خاص باتیں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ پھر بھی میں نے کوشش کی ہے کہ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ (ارواحنا فداہ) کے بعض معجزات کو تحریراً ریکارڈ کیا جائے، یہ صرف اُن معجزات کی بات ہے، جو میں نے بحیثیت ایک درویش ذاتی طور پر دیکھے ہیں، لیکن میں ایسا کیوں کہتا ہوں، یہ میرا گمان ہے، مجھے صرف قرآن کا حوالہ دینا چاہئے کہ حجتِ قائم اور حضرتِ قائم کا ذکرِ جمیل قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ موجود ہے۔

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے زمانۂ مبارک میں کیا کیا معجزات ہونے والے تھے، ان کے بارے میں کتابِ وجہِ دین میں بھی دیکھیں۔

ہمارے سب عزیزان کو بڑے عمدہ الفاظ میں اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ اس مجموعی علمی خدمت کے سلسلے میں ہمارے کراچی کے عزیزان نے بڑا زبردست کام کیا ہے، اور کارنامۂ عظیم انجام دیا ہے۔

۵

دورِ قیامت کے لئے اللہ تعالیٰ کے دو اسمِ اعظم حجتِ قائم اور حضرتِ قائم ہیں، جن کے قرآنی نام الحیّ القیوم (۰۲: ۲۵۵)۔ (۰۳: ۰۲)۔ (۲۰: ۱۱۱) اور ان دو اسموں کی جگہ دو پاک حرف: حٰمٓ سات بار آئے ہیں اور (ح = ۸، م = ۴۰ = ۴۸) یہ عددی تاویل، حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ کے لئے ہے، جو اڑتالیسواں امام ہیں۔ اور یہ ذکر قبلاً ہو چکا ہے کہ سورۂ قدر (۹۷) اور سورۂ دخان (۴۴: ۰۳) کے علاوہ قرآنِ حکیم کی وہ تمام آیاتِ کریمہ جن میں قیامت کا ذکر ہے، وہ سب کی سب حجتِ قائم اور حضرتِ قائم سے متعلق ہیں، یہ نکتہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ قرآنِ عزیز میں قیامت کے بہت سے نام ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پورے قرآن میں قیامت کا بیان پھیلا ہوا ہے، پھر حجتِ قائمؑ اور حضرتِ قائمؑ کا بیان کس طرح محدود ہو سکتا ہے اور روحانی قیامت کی کائنات تو بے پایان ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
پیر، ۱۸ فروری ۲۰۰۲ء

۶

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۴

یہ سوال ہمارے ادارے کے تمام انٹرنیشنل لائف گورنرز کی جانب سے ہے: یہ حقیقت تو سب کو معلوم ہے کہ ارکانِ تصوّف چار ہیں: شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت، اور بعض ان کو چار منازلِ اسلام بھی کہتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں اس حقیقت کی جانب کوئی لطیف اشارہ موجود ہے یا نہیں؟ جواب: سورۂ مائدہ (۰۵: ۴۸) میں شرعۃ و منھاجا = خاص شریعت اور خاص طریقت (ترجمۂ اشرف علی تھانوی) کو دیکھیں اس حکمِ قرآن کے مطابق اگر شریعت کے باؤجود طریقت بھی ہو سکتی ہے تو پھر حقیقت اور معرفت کے ہونے میں کیا حرج ہو سکتا ہے، دینِ اسلام جو دینِ فطرت ہے، اس میں لوگ علم و عمل کے مختلف درجات پر ہیں۔

سورۂ انعام میں ارشاد ہے: وَ لِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْاؕ  (۰۶: ۱۳۲) ترجمہ: ہر شخص کا درجہ اُس کے عمل کے لحاظ سے ہے۔ یہاں علم و حکمت کا ذکر عمل میں پوشیدہ ہے، ورنہ علم و حکمت کیونکر ضائع ہو سکتا ہے، قرآن و اسلام میں سیڑھی کی مثال کی بہت بڑی اہمیت ہے، اور سیڑھی سے درجات مراد ہیں۔

سورۂ معارج (۷۰: ۰۱ تا ۰۴) دیکھئے کہ اللہ کے ناموں میں ایک نام ذی

 

۷

 

المعارج بھی ہے، یعنی عروج کی سیڑھیوں کا مالک، یا معراجوں کا مالک، ارواح و ملائکہ کے لئے پچاس ہزار برس کا زمانہ درکار ہے تاکہ وہ درجات کی ان سیڑھیوں سے چڑھ کر اللہ کے حضور پہنچ جائیں، اس قرآنی حکمت کے بیان سے معلوم ہوا کہ شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت حق ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر، ۱۸، فروری ۲۰۰۲ء

۸

کنز الاسرار ۔ قسط۵

سوال منجانبِ ریکارڈ آفیسرز اینڈ پرسنل سیکریٹریز: کیا آپ ہمیں بنی آدم کے بارے میں کوئی مفید علمی بات بتائیں گے؟ جواب: ان شاء اللہ، بنی آدم دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک قسم میں روایتی، ظاہری، اور جسمانی بنی آدم ہیں، جن کا رشتہ تقریباً سات ہزار سال گزر جانے کی وجہ سے بے حد پرانا ہو چکا ہے، اور دوسری قسم میں بنی آدم، آدمِ زمانؑ یعنی امامِ حاضرؑ کے فرزندانِ روحانی ہیں، جن کا روحانی رشتہ تازہ بتازہ، نو بنو ہے، اور یہ بڑا عجیب و غریب رازِ حکمت ہے، کہ امامِ مبین صلوات اللہ علیہ جو آدمِ زمانؑ ہے، اُس میں نورِ امامت کی منتقلی کے موقع پر کل فرشتے اس کے لئے سجدہ کر رہے تھے، اور اس سجود میں حضرتِ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کے جملہ مریدوں کی خوش نصیب روحیں بھی جمع تھیں، وہ فرشتوں کے ساتھ مل کر آدمِ زمانؑ کے لئے سجدہ بھی کر رہی تھیں، اور اپنے روحانی باپ کی ہستی میں بھی تھیں، سورۂ اعراف (۰۷: ۱۱) میں اس عظیم راز کے لئے تلاش کریں، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس قانونِ الٰہی = سنتِ اللہ کو یاد رکھیں کہ ہر روحانی قیامت میں آپ سب کی نیک بخت روحوں کا تجدّدِ امثال ہو جاتا ہے، یہ عظیم راز آپ سب کو مبارک ہو! آمین! آمین! یا ربّ العٰلمین!

۹

قرآنِ حکیم میں آدم اور بنی آدم کا لفظ کل ۲۵ مرتبہ آیا ہے، آپ ان تمام آیاتِ کریمہ میں اسرارِ معرفت کی تلاش کریں تاکہ آپ روحانی طور پر شادمان ہو جائیں گے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر، ۱۸ فروری ۲۰۰۲ء

۱۰

کنز الاسرار ۔ قسط۶

سوال منجانبِ وزڈم سرچ: کیا آپ قرآنِ حکیم کی کوئی ایسی پُرحکمت آیت بیان کریں گے، جو آدمِ زمانؑ کے فرزندانِ روحانی کی شان میں ہو؟ جواب: ان شاء اللہ۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۰) کا ترجمہ ہے: یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں، اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایان فوقیّت بخشی۔

اگر ہم یہاں انبیاء و اولیاء اور عرفاء کے تصوّر کو ذرا چھوڑ کر دنیا بھر کے لوگوں کو یکسان بنی آدم قرار دیں تو پھر ایسے میں ان کی بزرگی، برتری اور فضیلت کس مخلوق کے مقابلے میں ہوگی؟ پس یہ امرِ واقعی ہے کہ برائے نام بنی آدم دنیا میں بڑی کثرت سے ہیں، اور جو لوگ حقیقی معنوں میں بنی آدم ہیں، وہ قلیل تعداد میں ہیں، اور یہ ترجمہ جس آیۂ کریمہ کا ہے، وہ حقیقی بنی آدم کی شان میں ہے، اور اس میں معرفت کے چند اسرارِ عظیم ہیں، اُن میں ایک بہت بڑا راز یہ بھی ہے کہ عرشِ سماوی جب پانی پر ہوتا ہے، تو یہ معرفت کا بہت بڑا امتحان ہے (۱۱: ۰۷)۔ (۳۶: ۴۱)۔ اللہ تعالیٰ کا انتہائی عجیب و غریب معجزۂ رحمت ہے کہ عرشِ اعلیٰ کی عظمت و جلالت سے لوگ لرزتے تھے، اللہ کے لطفِ عمیم نے لوگوں سے گویا فرمایا، تم سب ذرا آنکھیں بند کرو، پھر اِس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز نے عرش

 

۱۱

 

کو پانی پر کشتی کی شکل دے کر اہلِ بیتِ رسولؐ = امامِ زمانؑ کو کشتیبان بنایا اور تمام ذرّاتِ ارواح کو امامِ مبینؑ میں جمع کیا (۳۶: ۴۱)۔ الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۱۹، فروری ۲۰۰۲ء

۱۲

کنز الاسرار ۔ قسط۷

سوال منجانبِ لٹل اینجلز: کیا آپ ہمارے روشن مستقبل کی دعا کے ساتھ ساتھ کوئی نصیحت بھی کریں گے؟ جواب: ان شاء اللہ، میرے گھر میں بفضلِ خدا آپ سب کے دو نمونے اور دو نمائندے ہیں، وہ حبِّ علی ثانی اور درِ علوی ہیں، میں یک حقیقت کے اصول کے مطابق ان کو آئینہ بنا کر آپ سب کا تصوّر کرتا ہوں، لٹل اینجلز کے اس بہت پیارے نام میں یہ اور آپ سب ایک ہیں، اے کاش میری روح کے بے شمار چھوٹے چھوٹے ذرّات ہوتے تو میں اپنے بہت سے ذرّات کو سفیر بنا کر بہت سے عزیزوں کے ساتھ رابطہ کرتا۔ لیکن مومنین و مومنات کی دعا و خیر خواہی ایک ہمہ رس اور ہمہ گیر طاقت ہے۔

اگر کوئی زمین کا جسمانی فرشتہ = اینجل عبادت، یا ذکر، یا تسبیح کرتا ہے، یا خدا کی زندہ اسمِ اعظم = امامِ زمانؑ کو یاد یا اس کی کوئی تعریف نظم و نثر میں پڑھتا ہے تو ایسی پاکیزہ آواز اور لفظ صاحبِّ عرش کے حضور تک بلند ہو جاتا ہے اور نیک عمل اُس کو اٹھا کر لے جاتا ہے پھر وہاں اللہ کا کوئی حکم یا کوئی فیصلہ بن کر کائنات کی طرف آتا ہے، لہٰذا ہر عبادت، ہر ذکر، ہر مناجات، ہر سجدہ اور ہر تسبیح امید و یقین کے ساتھ کرنا، میں بڑی عاجزی سے دعا کرتا ہوں کہ آپ سب کو تمام دعاؤں کی بادشاہ دعا یعنی امامِ مبینؑ کی پاک نورانی دعا جس میں آسمانی درود ہے، وہ حاصل ہوتی رہے، آمین!

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
منگل ، ۱۹ ، فروری ۲۰۰۲ء

۱۳

کنز الاسرار ۔ قسط ۸

سوال منجانبِ جملہ ارکانِ ادارہ: آیا آدمِ اوّل میں الٰہی = خدائی روح پھونک دینے کے لئے روحانی قیامت برپا ہوئی تھی؟ جواب: جی ہاں۔ آدمِ اوّل کی روحانی قیامت کا اشارہ قرآنِ حکیم میں کہاں ہے؟ جواب: نفخت ۔۔۔ (۱۵: ۲۹) میں ، نیز (۳۸: ۷۲) میں۔

سوال: آیا ہر نفسِ واحدہ کی روحانی قیامت میں نفوسِ خلائق = ارواحِ خلائق کا تجدّد ہوتا ہے؟ جواب: جی ہاں۔ کیا ہر نفسِ واحدہ وارثِ آدم ہوتا ہے؟ جواب: جی ہاں۔

سوال: کیا ہر روحانی قیامت میں عہدِ الست کا تجدّد ہوتا ہے؟ جواب: جی ہاں۔

سوال: اللہ کی سنت میں تبدیلی ہے، یا اُس کا تجدّد ہوتا ہے؟ جواب: اللہ کی سنت میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، بلکہ وقت آنے پر اُس کا تجدّد ہوتا ہے، اور یہ صرف اللہ کے خاص بندوں کے عالمِ شخصی کا معجزہ ہے۔

سورۂ زمر (۳۹: ۰۶) کے ارشاد کا ترجمہ ہے: اُسی نے تم کو ایک جان = نفسِ واحدہ سے پیدا کیا، پھر وہی ہے جس نے اس جان سے اس کا

 

۱۴

 

جوڑا بنایا۔ یہاں خود بخود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنی آدم ماں (حوّا) کی پیدائش سے پہلے کیسے پیدا ہوگئے؟ جواب: یہ جسمانی پیدائش کی بات نہیں، بلکہ تجدّدِ ارواح کا ذکر ہے، کیونکہ ہر روحانی قیامت میں کل ارواحِ خلائق کا تجدّد ہوتا ہے۔ الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۲۰ ، فروری ۲۰۰۲ء

۱۵

کنز الاسرار ۔ قسط ۹

سوال منجانب ہائی ایجوکیٹرز اینڈ ٹریننگ آفیسرز: سورۂ رعد (۱۳: ۰۷) میں ارشاد ہے: اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ترجمہ: سوائے اس کے نہیں کہ تو ڈرانے والا ہے، اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہے۔ ہزار حکمت (ح ۹۴۰) کو بھی دیکھیں۔ اس آیۂ شریفہ کا تعلق سورۂ فاتحہ کے کس ارشاد سے ہے؟ جواب: آیتِ ششم سے۔ جس میں بالفاظِ دعا یہ اشارۂ حکمت ہے کہ ہادئ برحق = امامِ زمانؑ کی معرفت نصیب ہو! کیونکہ امامِ زمانؑ ہی صراطِ مستقیم اور سفینۂ نوح = کشتئ نجات ہے (دیکھو: جواہرِ احادیث، ص ۶۲-۶۳)۔ (۰۱: ۰۶)

کتابِ لعل و گوہر ص ۱۳۵ – ۱۴۷ پر صراطِ مستقیم کا پُرحکمت مضمون ہے۔

سوال: سورۂ ہود (۱۱: ۵۶) میں ہے: اِنَّ رَبِّیْ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ = یقیناً میرا ربّ سیدھی راہ پر ہے۔ اس کی تاویلی حکمت کیا ہے؟ جواب: حکمت اوّل ، اس پاک ارشاد سے ہادئ برحق کی پُرنور ہدایت کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے، حکمتِ دوم: اس دنیا میں ہمیشہ اللہ کا نورِ منزل موجود ہے، یہی نور اللہ کا دین، اللہ کا نمائندہ، اللہ کا راستہ، اور خدا کا نورِ ہدایت ، اور اللہ کا اسمِ اعظم ہے، اور اہلِ ایمان کے لئے روحانی مربّی ہے۔

 

۱۶

 

حکمتِ سوم: حضرتِ مولانا امام محمد باقر علیہ السّلام کے ارشادِ مبارک ما قیل فی اللہ کے مطابق صراطِ مستقیم پر حضرتِ رب کے ہونے کی تاویل یہ ہے کہ امامِ آلِ محمدؐ خود برائے اہلِ حق صراطِ مستقیم ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۲۰ ، فروری ۲۰۰۲ء

 

۱۷

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۱۰

 

سوال چراغِ نورِ امامِ زمانؑ (ارواحنا فداہ) کے پروانوں کی جانب سے:
پوچھنا یہ ہے کہ آیا حضرتِ امام علیہ السّلام کے کلامِ پاک میں تاویلی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے، یا یہ خود تاویل ہے؟ جواب: ہمیں یہ معلوم کرنا ہوگا کہ یہ دور کون سا ہے؟ اگر یہ بات درست ہے کہ یہ دور، اب دورِ قیامت = دورِ تاویل ہے تو پھر امامِ زمانؑ کی تمام تر ہدایات و تعلیمات خود تاویلات ہو سکتی ہیں، تاہم امامِ عالی مقام حکیم ہے، اور حکیم کے کلام میں ہمیشہ حکمت اور دانائی ہوا کرتی ہے۔

جیسے حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ جب میں منہ کھولتا ہوں تو جواہرات کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ اس فرمانِ عالی کا ظاہری مطلب سب جانتے ہیں، لیکن اس کی باطنی تاویل حظیرۂ قدس کے عظیم معجزات کے درمیان ہے، میں اپنے ایک شعر میں اشارہ کرتا ہوں:
اے نصیر الدین تجھ کو سرِ اعظم یاد ہے؟
عالمِ علوی میں تنہا ایک گوہر ہے کتاب

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ (روحی فداہ) کا ایک اور ارشادِ مبارک ہے:

۱۸

 

مومن کی روح ہماری روح ہے۔ (کلامِ امامِ مبین حصّۂ اوّل، راجکوٹ، ۲۰۔۲۔۱۹۱۰ء)
اگر صرف ایک مومن “ہمت والا” ہو تو ہم اس اکیلے کو ایک لاکھ مومنوں کے برابر سمجھتے ہیں۔ (کلامِ امامِ مبین حصّۂ دوم، پونا، ۲۱۔۱۔۱۹۱۲ء)
تم ہماری روحانی اولاد ہو، اور یاد رکھنا کہ “روح ایک ہی ہے۔” (اس میں بہت بڑی تاویل ہے) (کلامِ امامِ مبین حصّۂ اوّل، ممباسہ ۱۲۔۱۱۔۱۹۰۵ء)

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ، ۲۱ ، فروری ۲۰۰۲ء

۱۹

کنز الاسرار ۔ قسط ۱۱

امامِ آلِ محمد (روحی فداہ) کے علم و حکمت کی تجلّیات کے عاشقوں کا ایک عاقلانہ سوال: ہمارے مذہب میں کامیابی کا بڑا راز کیا ہے؟ جواب: اللہ تعالیٰ، رسولِ پاک اور صاحبِّ امر = امامِ زمانؑ کی حقیقی اور کلی اطاعت (۰۴: ۵۹) اس کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے، لیکن پھر بھی یہ کام بے حد مشکل ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں بار بار شکوک و شبہات کا گھنا جنگل پیدا ہوتا رہتا ہے جس کو آتشِ عشق سے جلائے بغیر کوئی چارہ نہیں، اور امامِ زمانؑ کی آتشِ عشق کوئی مومن کہاں سے لائے؟ جواب: اللہ کے فضل و کرم سے بہت آسان ہے، امام علیہ السّلام کا پاک عشق اس کی بے مثال خوبیوں، اس کے علمی کمالات اور باطنی معجزات سے پیدا ہوتا ہے، لہٰذا آپ قرآن و حدیث، اور ارشاداتِ أئمّۂ اہلِ بیت علیہم السّلام کی روشنی میں نورِ امامت کی تعریف کو پڑھیں اور پھر ذاتی طور پر اسمِ اعظم کے ذریعے خصوصی ریاضت، موت قبل از موت اور روحانی قیامت کے ذریعے سے عالمِ شخصی میں جائیں، خدا کی قسم آپ کی روح میں امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہو جائے گا، اور پھر آپ کا عالمِ شخصی معجزات ہی معجزات کا عالم ہوگا۔ اب علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین کے بعد کوئی شک کہاں سے آئے گا؟

۲۰

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے تمام ارشادات کو عشق و محبت سے پڑھیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات، ۲۱ ، فروری ۲۰۰۲ء

۲۱

کنز الاسرار ۔ قسط ۱۲

سوال منجانبِ جملہ عزیزانِ علمی جو بفضلِ مولا علم پرور اور علم گستر ہیں، قرآنِ حکیم اور نورِ امامت کے سنگم کا کوئی عظیم راز بتائیں جس کو ہم کبھی فراموش نہ کر سکیں؟ جواب: اگرچہ میں نے یہ سب سے عظیم راز قرآنِ پاک کی طرف سے بیان کیا ہوا ہے، لیکن اب میں اسے مولا کے فرمانِ اقدس کے ساتھ بیان کرتا ہوں:
سورۂ ہود (۱۱: ۰۷) میں جیسا کہ ارشاد ہے اس کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ عالمِ دین اور عالمِ شخصی کی تخلیق و تکمیل کے بعد عرشِ اعلیٰ کا ظہور علم کے سمندر پر ہوا پھر معجزانہ طور پر عرش (تختِ الٰہی) اور سفینۂ نوح کا سنگم ہوا یعنی یہ بحکمِ قرآن پانی پر عرش تھا (۱۱: ۰۷) نیز یہ پانی پر کشتئ نجات تھی (۳۶: ۴۱) اس کشتی میں امامِ آلِ محمد شاہ کریم الحسینی حاضر امام جلوہ فرما تھا، اور اس کی مبارک ہستی میں تمام ذرّاتِ ارواح جمع تھے، یہ ہوا فنا فی اللہ و بقا باللہ کے معنی میں عرش پر جا بیٹھنا، نیز بھری ہوئی کشتی میں سوار ہو جانا۔

پاک مولا کا فرمان ہے:
تم عرشِ عظیم پر پہنچو، عرشِ عظیم پر پہنچنے کے لئے پاک ہونا ضروری ہے اس لئے تم اپنا دل ہمیشہ پاک رکھو، اگر تمہارا دل پاک ہوگا تو اس دنیا میں ہی

 

۲۲

 

عرشِ عظیم دیکھ سکو گے، یہ بہت دور نہیں ہے۔ (کلامِ امامِ مبین حصّۂ اوّل، منجیوڑی ، ۳۔ ۱۱۔ ۱۹۰۳ء)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات، ۲۱، فروری ۲۰۰۲ء

۲۳

کنز الاسرار ۔ قسط ۱۳

سوال منجانبِ عزیزانِ شرقی و غربی: علم پروری اور علم گستری کے اس شاہانہ ٹائٹل کے لئے ہم اپنے مولائے پاک کے شکر گزار ہیں، اور آپ کے لئے ان شاء اللہ آنسوؤں کی زبانی دعا کریں گے۔ استادِ عزیز! ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم آپ کی بتائی ہوئی حکمتوں کو یاد کرنے کے لئے جان و دل سے کوشش کریں گے، مولا ہماری مدد فرمائے! آمین!

استادِ عزیز! آپ نے پانی پر عرش یا سفینۂ نوح کا بڑا مبارک نورانی خواب کب اور کہاں دیکھا تھا؟ جواب: تاریخ مجھے یاد نہیں ، ہاں اتنا ضرور یاد ہے کہ حاضر امام (روحی فداہٌ) ابھی تختِ امامت پر جلوہ افروز نہیں ہوئے تھے، اور میں سفرِ چین سے واپس ہونزہ آیا ہوا تھا، حاضر امام کی معرفت کچھ وقت کے بعد اس اشارۂ حکمت سے ہوئی کہ وہ صاحبِّ کشتی یا صاحبِّ عرش ایک اسمِ اعظم پڑھ رہا تھا، جس میں حاضر امام کے مبارک نام کا رازِ اعظم تھا۔ یعنی الاکرم الاکرم الاکرم الاکرم الاکرم۔۔۔

ہم آپ سے یہ پُرخلوص سوال بھی کرتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں جنّ و انس کے سنگم کا ذکر کہاں ہے؟ جواب: اس سنگم کا ذکر سورۂ رحمن میں ہے۔

۲۴

امامِ زمان علیہ السّلام اہلِ بیتِ رسول اور سفینۂ نجات = سفینۂ نوح ہے، بحوالۂ گنجینۂ جواہرِ احادیث ص ۶۲-۶۳۔

سورۂ مومن (۴۰: ۱۵) میں ارشاد ہے: رفیع الدرجٰت = بلند کرنے والا درجوں کو، عرش کا مالک، اس پُرحکمت آیت میں فنا فی اللہ و بقا باللہ کا اشارہ ہے اور یہ مرتبۂ حق الیقین ہے، جو حظیرۂ قدس کا مقام ہے۔ حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ حظیرۂ قدس میں پہنچ کر صورتِ رحمان پر پیدا کیا گیا تھا، اور یہی معجزہ اُس کا مرتبۂ فنا فی اللہ و بقا باللہ تھا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ، ۲۲، فروری ۲۰۰۲ء

۲۵

کنز الاسرار ۔ قسط ۱۴

سوال منجانبِ عاشقانِ مولائے پاک: اے کاش! ہم کچھ مزید اسرارِ عرش کو جانتے؟ جواب: لغات الحدیث جلدِ سوم ص ۶۶-۶۷ پر حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام کا قول درج ہے: اللہ تعالیٰ نے عرش چار طرح کے انوار سے بنایا: نورِ سبز، نورِ زرد، نورِ سرخ اور نورِ سفید سے، اسی سے یہ چاروں رنگ دنیا میں ہیں، عرش اٹھانے والے آٹھ ہیں چار تو ہم (اہلِ بیت) میں سے ہیں، اور چار جن میں سے اللہ چاہے، دوسری روایت میں ان کی تفسیر ہے: پہلے چار تو حضرتِ علی اور حضرتِ فاطمہ اور حسنین علیہم السّلام ہیں، اور دوسرے چار: سلمان، مقداد، ابوذر اور عمار ہیں۔ یہ بھی حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام سے مروی ہے۔

اس میں اہلِ معرفت کے لئے کوئی شک ہی نہیں کہ سلمان، مقداد ، ابوذر اور عمار اپنے وقت میں حاملانِ عرش میں شامل ہوئے تھے، حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے پاک ارشادات میں بار بار یہ اشارہ ملتا ہے کہ حقیقی مومنین کے لئے روحانی ترقی کے ابواب ہمیشہ مفتوح ہیں۔

حاملانِ عرش کی ایک تاویل یہ بھی ہے کہ وہ سات ہوتے ہیں مگر جب

 

۲۶

 

کسی عالمِ شخصی میں روحانی قیامت برپا ہوتی ہے تو اس وقت اللہ جس کو چاہے سات میں شامل کر دیتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ، ۲۲ ، فروری ۲۰۰۲ء

۲۷

کنز الاسرار ۔ قسط۱۵

سوال منجانبِ لشکرِ اسرافیلی و عاشقانِ مولا: آیا اسرافیل = جدّ، فرشتۂ عشقِ سماوی ہے؟ جواب: جی ہاں۔ کیا ناقور = صورِ اسرافیل، خود امام کا نورانی معجزہ ہے؟ جبکہ مولا نے فرمایا کہ وہ خود ناقور ہے؟ یقیناً کیونکہ وہ روحانی قیامت کو قائم کرنے والا سب سے عظیم معجزہ ہے، جس سے تمام ارواح و ملائکہ حرکت میں آتے ہیں، اور عزرائیل اپنے لشکر کے ساتھ قبضِ روح کا کام شروع کرتا ہے۔

کیا یہ راز بھی ہے کہ ہر چیز صورِ اسرافیل کی ہم نوائی میں اللہ کی حمد کے ساتھ تسبیح خوانی کرتی ہے؟ جواب: جی ہاں یہ حقیقت ہے (۱۷: ۴۴)۔

یہ حدیثِ قدسی ہم سب کے لئے ایک سدا بہار باغِ بہشت ہے: عبدی! اطعنی اجعلک مثلی حیا لا تموت و عزیزاً لا تذل و غنیاً لا تفتقر = اے بندۂ من! میری (حقیقی و کلّی) اطاعت کر، تاکہ میں تجھ کو اپنی مثال پر زندۂ جاویدِ لافانی بنا لوں گا، ایسا صاحبِّ عزت بناؤں گا کہ تو کبھی ذلیل نہ ہو، اور ایسا غنی بناؤں گا کہ مفلسی قریب بھی نہ آسکے۔ اے صاحبانِ عقل! اس حدیثِ قدسی کا خطاب کس سے ہے؟ امامِ آلِ محمدؐ (ارواحنا فداہ) کی پُرحکمت تعلیمات نے آپ کو اور ہم کو اس قابل بنا دیا ہے کہ آج ہم امید و یقین کے ساتھ ایسے اسرار کو پڑھتے ہیں اور دل چاہتا ہے کہ اسے بار بار پڑھیں۔

۲۸

الٰہی شکرِ نعمت کے لئے اب چشمِ گریان دے!

ہمارے ارضی فرشتوں کے عاشقانہ آنسوؤں کا تصوّر! عاشقانہ اشک فشانی کا تصوّر! سجودِ شکرگزاری کا تصوّر! امامِ زمانؑ کے کسی پاک دیدار کا تصوّر! نورِ مجسّم کے پاک قدموں پر گر جانے کا تصوّر!

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
سنیچر، ۲۳ ، فروری ۲۰۰۲ء

۲۹

کنز الاسرار ۔ قسط۱۶

سوال ہمارے اہلِ مناجات کی جانب سے ہے، جو ذکر و عبادت اور عشقِ سماوی کے زیرِ اثر مقدّس اور معجزانہ گریہ و زاری کا تجربہ رکھتے ہیں اور اس معجزے کے دوران وہ سعادتمند سر بسجود بھی ہو جاتے ہیں، سوالِ علمی یہ ہے: کیا عرشِ الٰہی جسمانی ہے؟ جواب: نہیں جسمانی بالکل نہیں، بلکہ روحانی اور نورانی ہے، کیونکہ وہ فرشتۂ عقلِ کلّ = نورِ محمدیؐ = قلمِ اعلیٰ، اور نور الانوار ہے، اس کے گوناگون معجزاتی تجلّیات و ظہورات ہیں، لہٰذا قرآن و حدیثِ صحیحہ میں جو جو تعریفیں عرش کے بارے میں ہیں وہ سب حقیقت ہیں، کیونکہ عرش کوئی مقرر اور محدود جسمانی چیز نہیں ہے، وہ تو کلمۂ کُنۡ کا سب سے عظیم معجزہ ہے، اس لئے وہ سب سے وسیع کائنات بھی ہو سکتا ہے، اللہ کے مبارک ہاتھ میں لپیٹی ہوئی کائنات بھی، گوہرِ عقل بھی، پانی پر تخت بھی، پانی پر بھری ہوئی کشتی بھی، کشتی میں کشتیبان بھی، نورِ اخضر بھی، نورِ اصفر بھی، نورِ احمر بھی، اور نورِ ابیض بھی اور صبغۃ اللہ (رنگِ خدا) (۰۲: ۱۳۸) بھی ہے۔

عرش حظیرۂ قدس بھی ہے، جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نفسِ واحدہ میں جمع کرکے تمام لوگوں کو اپنا پاک دیدار دیتا ہے اور پوچھتا ہے کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں، اسی طرح آنحضرتؐ میں فنا ہو کر تمام روحیں معراج پر گئی تھیں اس کا

 

۳۰

 

ثبوت سورۂ نجم (۵۳: ۰۱ تا ۰۲) کا ارشاد ہے: وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰى  مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰى = قسم ہے تارے کی جب کہ وہ غروب ہوا، تمہارا رفیق (محمد) نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے۔

میں عاجزانہ عرض کرتا ہوں کہ اس ارشاد میں اشارۂ حکمت یہ ہے کہ کل روحیں آنحضرتؐ میں فنا ہو کر حضورِ اکرمؐ کے ساتھ حظیرۂ قدس کی معراج پر گئی تھیں، یہاں اس حقیقت کی پانچ حکیمانہ شہادتیں ہیں، آپ کو کسی وقت اس کی وضاحت کریں گے، ان شاء اللہ۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
عید الاضحی سنیچر، ۲۳ ، فروری ۲۰۰۲ء

۳۱

کنز الاسرار ۔ قسط۱۷

سوال منجانبِ متعلّمینِ علم و حکمت: بحوالۂ قرآن (۱۰۱: ۱۷) اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کو جو نو معجزات عطا ہوئے تھے، کیا آپ ان کے نام بتا سکتے ہیں؟ جواب: ان شاء اللہ، وہ یہ ہیں: عصا، یدِ بیضا، سنین (قحط)، نقصِ ثمرات (پھلوں کا نقصان)، طوفان، جراد (ٹڈی دل) ، قمل (جوں)، ضفادع (مینڈک)، دم (خون)۔

کتاب قصص القرآن جلدِ اوّل ص ۴۵۱ پر ہے کہ ان ۹ (نو) آیات = ( معجزات) ، میں سے عصا اور یدِ بیضا آیاتِ کبریٰ ہیں، اور باقی سات آیاتِ (معجزاتِ) عذاب ہیں، اہلِ دانش سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ فرعون اور اُس کی قوم پر معجزاتِ عذاب کیوں نازل ہوئے تھے؟ اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ بعض معجزات عذاب کی صورت میں بھی ہوتے ہیں، وہ لوگوں کو راہِ راست پر لانے کی غرض سے ہوتے ہیں۔

پس زیادہ دانا مومن وہ ہے، جو گریہ و زاری میں اپنی دعا کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر بنا لیتا ہے آپ بار بار مناجات کرتے ہوئے بڑی کثرت سے خدا کو یاد کریں، بڑی کثرت سے ، نتیجے کے طور پر آپ میں جو فرشتہ ہے، وہ آپ کے لئے نیک توفیقات کا وسیلہ بن جائے گا اور جو جنّ ہے اس کا

 

۳۲

 

منہ وسوسوں سے اتنی دیر کے لئے بند ہو جائے گا، جتنی دیر آپ خدا کو یاد کر رہے ہیں۔

سورۂ شمس (۹۱: ۰۸) میں ہے: پھر خدا نے انسان کی جان میں اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری الہام کر دی، یعنی ایک جنّ اور ایک فرشتہ مقرر فرمایا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
اتوار ، ۲۴ ، فروری ۲۰۰۲ء

۳۳

کنز الاسرار ۔ قسط۱۸

سوال منجانبِ عاشقانِ مولائے زمان (ارواحنا فداہ) اگرچہ ہم اس تعلیم کو تو قبول کر چکے ہیں کہ ہر شخص کے دو قرین (ساتھی) ہیں، ایک جنّ اور ایک فرشتہ، اس کی شہادت کے لئے آپ نے ایک آیت (۹۱: ۰۸) کو پیش کیا ہے، آیا آپ اس باب میں کوئی اور قرآنی دلیل پیش کر سکتے ہیں؟

جواب: ان شاء اللہ ۔ سورۂ زخرف (۴۳: ۳۶) میں ارشاد ہے: وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ = اور جو شخص خدائے رحمان کے ذکر سے اندھا ہو جاتا ہے ہم اس کے لئے ایک شیطان (جنّ ) مقرر کر دیتے ہیں، پس وہی اس کا ہمنشین ہوتا ہے۔ اس آیت کی باطنی تاویل یہ ہے، کہ ہر شخص میں ایک جنّ (شیطان) اور ایک فرشتہ پہلے ہی سے مقرر ہیں، اور اس قانونِ فطرت سے جن مومنین کو آگہی نصیب ہو جاتی ہے امید ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بزرگ نام یعنی اسمِ اعظم (امامِ زمانؑ) کی نورانی رسی کو لمحہ بھر کے لئے بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے، تاکہ جن کو دل کے کان میں کچھ کہنے کے لئے ذرا بھی موقع نہ ملے، اور اس کے مقابلے میں ہر وقت اور ہمیشہ فرشتہ ہی غالب رہے، اور ان شاء اللہ یہ کام ہر دانا مومن کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تو آپ سب جانتے ہیں کہ فرشتہ

 

۳۴

 

کس قسم کے قول و فعل کو پسند کرتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
اتوار ، ۲۴ ، فروری ۲۰۰۲ء

۳۵

کنز الاسرار ۔ قسط۱۹

کتاب عشقِ سماوی : ص ۱۱۳۔ اُس نے کہا : “میں تیرا دل ہوں” = سلمان غریبم قلبِ تو۔۔۔

اس قالبِ خاکی میں دل عالمِ اکبر ہے
دل دائرۂ کلّ ہے، اور ارض و سما ہے دل
اس مرتبۂ دل کو عارف ہی سمجھتا ہے
گر پاک کرے کوئی تب عرشِ خدا ہے دل
اشعارِ نصیری میں اسرارِ نہانی ہیں
دل عقدۂ لا ینحل اور عقدہ کشا ہے دل

جن لوگوں نے اللہ اور رسول اور صاحبانِ امر کی ہدایات و تعلیمات کی اطاعتِ حقیقی کرتے ہوئے اسماءُ الحسنیٰ = اسمِ اعظم (۰۷: ۱۸۰) سے اللہ کو پکارا اور اصولی ریاضت کی تو ان کی روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، اور ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (۴۱: ۳۰) اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تمنا کرو گے تمہاری ہوگی، یہ ہے سامانِ

 

۳۶

 

ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے (۴۱: ۳۰ تا ۳۱)۔

آیۂ اطاعت (۰۴: ۵۹) اسماءُ الحسنیٰ (۰۷: ۱۸۰) انہی اسماء میں اسمِ اعظم ہے، اور وہ اللہ کا حقیقی، نورانی اور زندہ اسمِ اعظم امامِ زمانؑ ہے، جو ظاہر ہونے کے با وصف لوگوں سے سات سو حجابات میں محجوب ہے، جس شخص کی نظر سے بذریعۂ علم و معرفت رفتہ رفتہ یہ سات سو حجابات غائب ہو جاتے ہیں وہی شخص امامِ مبینؑ کے عظیم معجزات و اسرار کو دیکھ سکتا ہے، اور خزائنِ قرآن کے ابواب اس کے لئے مفتوح ہو جاتے ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر، ۲۵ ، فروری ۲۰۰۲ء

۳۷

 

کنز الاسرار ۔ قسط۲۰

سوال از جانبِ علمی لشکر: بہشت میں ہر کامیاب لطیف = نورانی شخص یہ پسند کرے گا کہ اُس کی کتابِ اعمال (Record of Deeds)  یا نورانی مووی کو سب لوگ دیکھیں، کیا قرآنِ حکیم میں کوئی ایسی آیت وارد ہوئی ہے؟ جواب: جی ہاں، سورۂ حاقہ (۶۹: ۱۹) میں ہے: اُس وقت جس کا نامۂ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا لو دیکھو، پڑھو میرا نامۂ اعمال، میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے۔

سوال: کیا بہشت میں کتابِ اعمال ہوگی یا نورانی مووی؟ جواب: دونوں چیزیں ہو سکتی ہیں، کیونکہ خزائنِ الٰہی میں دونوں کا ریکارڈ موجود ہے، اور دونوں وہیں سے اس دنیا میں آئی ہیں۔ اور تمام چیزیں خزائنِ الٰہی سے آتی ہیں (۱۵: ۲۱)۔

بحوالۂ اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلدِ دوم ص ۱۱۳۶ ، قرآنِ حکیم میں ستر ہزار علوم ہیں، کتاب الاتقان حصّۂ دوم ص ۳۱۹ پر بھی علوم القرآن کی یہی تعداد (ستر ہزار) درج ہے۔

سورۂ اعراف (۰۷: ۵۳) میں خوب غور سے دیکھنا ہوگا کہ قرآن کی تاویل روحانی قیامت کی صورت میں آنے والی تھی، اس لئے وہ حجتِ قائم اور حضرتِ قائم کے مبارک زمانے میں آچکی ہوگی، اب صرف نتیجے کے طور پر دنیا میں کوئی

 

۳۸

 

مفید تبدیلی متوقع ہے، اور مادّی سائنس کی مزید ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی سائنس یا ظہوراتِ معجزات کا یقین کیا جا سکتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۲۵ ، فروری ۲۰۰۲ء

 

۳۹

 

کنز الاسرار ۔ قسط۲۱

بحوالۂ المیزان فی تفسیر القرآن، الجزء الخامس، ص ۲۷۰: قال الصادق علیہ السّلام: لو لا ان الشیاطین یحومون حول قلوب بنی آدم لراوا ملکوت السمٰوٰت و الارض ۔ ترجمہ: حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا اگر شیاطین بنی آدم کے دلوں کے گرد نہ پھرتے ہوتے تو آدمیوں کو آسمانوں اور زمین کی روحانی سلطنت نظر آتی۔

ساتھ ہی ساتھ رسولِ اکرم صلعم کا یہ ارشاد بھی ہے: لو لا تکثیر فی کلامکم و تمریج فی قلوبکم، لرایتم ما اری و لسمعتم ما اسمع = اگر تمہاری اپنی باتوں میں کثرت نہ ہوتی اور تمہارے دل غافل اور بے قابو نہ ہوتے تو تم وہ کچھ دیکھتے اور سنتے جو میں دیکھتا ہوں، اور سنتا ہوں۔

سورۂ عنکبوت (۲۹: ۶۹) میں ارشاد ہے: وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۔ ترجمہ: جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکوکاروں ہی کے ساتھ ہے۔

بحوالۂ سورۂ احزاب (۳۳: ۴۱ تا ۴۲): یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا

 

۴۰

 

اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا  وَّ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا ۔ ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۲۵ ، فروری ۲۰۰۲ء

۴۱

کنز الاسرار ۔ قسط۲۲

علم و حکمت کا سوال، منجانبِ عزیزانِ من جن کی خدمات اور قربانیاں علم کے لئے بے شمار ہیں۔ بحوالۂ کتاب صنادیقِ جواہر ص ۳۵۰-۳۵۱۔

سوال۔ ۴۷۸: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا؟ اس سوال کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پانچ ارشادات ہیں: (الف) اوّل ما خلق اللہ نوری (ب) اوّل ما خلق اللہ القلم (ج) اوّل ما خلق اللہ العقل (د) اوّل ما خلق اللہ اللوح (ھ) اوّل ما خلق اللہ الروح ۔ آپ یہ بتائیں کہ پانچ مختلف چیزیں ایک ساتھ اوّل کس طرح ہو سکتی ہیں؟ کیا قلم اور لوح عقل و جان کے بغیر ہیں؟ ۔ جواب: (۱) یہ ایک ہی حقیقت ہے جس کے ازلی نام یہاں پانچ ہیں، اس کا تذکرہ کسی بھی نام سے ہو سکتا ہے، چنانچہ آنحضرتؐ نے موقع و محل کے مطابق اس کا ایک نام ظاہر فرمایا (۲) قلم اور لوح عقل و جان کے سوا نہیں ہیں، یہ نبیؐ اور علیؑ کے نورِ واحد کے اسمائے ازل ہیں۔

سوال۔ ۴۷۹: آپ نے تو بتایا تھا کہ نورِ محمدؐ قلم ہے اور نورِ علیؑ لوح، کیا یہ ضروری نہیں کہ یہ دونوں چیزیں الگ الگ ہوں؟ اگر نورِ نبیؐ عرش ہے اور نورِ امامِ مبین کرسی، تو کیا یہ دونوں درجے جدا جدا نہیں ہیں؟۔ جواب: (۱)

 

۴۲

 

عالمِ شخصی کے بہت سے مراحل کے بعد حظیرۃ القدس / عالمِ وحدت آتا ہے، جس کے بارے میں عرفاء یہ کہتے ہیں کہ وہاں ایک ہی عظیم فرشتہ قلم بھی ہے اور لوح بھی، یہی مَلَک محمدؐ و علیؑ کا نورِ واحد بھی ہے، اور عقلِ کلّ و نفسِ کلّ بھی یہی ہے (۲) یقیناً نورِ نبیؐ عرش ہے اور نورِ علیؑ کرسی، لیکن یہ نورِ واحد ہے اور فرشتۂ واحد، جو عرش بھی ہے اور کرسی بھی، بلکہ وہی عظیم فرشتہ روحانی آسمان بھی ہے اور زمین بھی۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل، ۲۶ ، فروری ۲۰۰۲ء

۴۳

کنز الاسرار ۔ قسط۲۳

سوال منجانبِ مرکزِ علم و حکمت (لندن): کیا آپ نے ایک بڑا عجیب و غریب نورانی خواب تاشغورغان (سریقول) میں دیکھا تھا، سال شاید ۱۹۴۹ء تھا، اس خواب میں آپ کی جسمانی قربانی ہو چکی تھی، سر ایک دیوار کے ساتھ آویزان، اور جسم زمین پر پڑا ہوا تھا، آپ کی باشعور روح یا انا فضاء میں کچھ بلندی پر تھی، یہ فضاء چمکتے ہوئے ذرّات سے پُر تھی، آپ کسی خوف کے بغیر یہ منظر دیکھ رہے تھے، کیا آپ تصدیق کرتے ہیں کہ آپ نے امامِ مبینؑ کا یہ معجزہ ہم کو بتا دیا تھا؟ جواب: جی! جناب یہ بالکل سچ اور ناقابلِ فراموش معجزہ ہے، لیکن اس کی تاویل الگ ہے، مگر یہ یاد نہیں کہ میں نے اس کی تاویل کے لئے کہیں کوشش کی ہے یا نہیں۔

استاذِ عزیز کیا یہ بات درست ہے کہ آپ نے اپنے قریبی عزیزوں کو حجتِ قائمؑ اور حضرتِ قائمؑ کے خاص اسرار سے آگاہ کر دیا ہے، تاکہ یہ گواہی جماعت کے خاص افراد میں منتقل ہو جائے؟ جواب: جی ہاں میں نے ایسا کیا ہے، کتابِ وجہِ دین سب کے سامنے ہے۔

میں عرصۂ دراز تک امام علیہ السّلام کے روحانی = باطنی = نورانی معجزات کو تحریر میں لانے سے ڈرتا رہا، آخرکار وہ وقت گزر گیا، اور ہادئ زمانؑ کی جانب سے توفیق و ہمت عطا ہوئی، پس میں نے امامِ مبینؑ کے بے شمار

 

۴۴

 

معجزات میں سے چند کو ظاہر کرنے کے لئے سعی کی ہے، قرآن اور اسلام میں شہادت (گواہی) بڑی اساسی اور اصلی چیز ہے، پس اگر میں نے امامِ آلِ محمدؐ کا کوئی معجزہ دیکھا ہے اور کسی خوف کی وجہ سے اس کی شہادت (گواہی) کو چھپاتا ہوں، تو یہ امام کے عاشقوں پر بڑا ظلم ہے، لہٰذا اب دورِ قیامت یعنی دورِ تاویل ہے تو اس میں اپنی بساط کے مطابق حضرتِ امام علیہ السّلام کے معجزات کو دوستوں پر ظاہر کرنا ہوگا، ان شاء اللہ۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل، ۲۶ ، فروری ۲۰۰۲ء

۴۵

کنز الاسرار ۔ قسط۲۴

سوال منجانبِ اہلِ دانش: آپ نے امامِ وقت علیہ السّلام کا اوّلین معجزہ کب اور کہاں دیکھا تھا؟ جواب: سال ۱۹۴۶ء شہرِ پونا میں ، اس سے متعلق میرا ایک بروشسکی مصرع ہے: جار جلوۂ اوّل غنم لو زلزلہ ئیڎم = جب مجھ کو پہلا دیدار ہوا تھا تو اس وقت میں نے معجزۂ زلزلہ دیکھا تھا۔

سوال: حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے آپ کو کب اور کہاں اسمِ اعظم کے سرِ اعظم سے آگاہ فرمایا تھا؟ جواب: ڈائمنڈ جوبلی کا زمانہ تھا، اور بندۂ ناچیز کو اسمِ اعظم کا عطیہ حسن آباد زیارت (بمبئی) میں ملا تھا۔ سوال: آپ کو نورِ باطن یا اسمِ اعظم کی پہلی روشنی کب نظر آئی تھی؟ اور کہاں؟ جواب: کھارادر پرانا جماعت خانہ میں (سال ۱۹۴۸ء)۔

آپ نے اپنے دوستوں کو درسِ محنت دینے کی غرض سے اپنی ایک مثال پیش کی ہے، وہ یہ ہے کہ شروع شروع میں آپ کا یہ خیال تھا کہ میری محنت کے بغیر اسمِ اعظم خود از خود معجزات کرے گا، حال آنکہ آپ کا یہ خیال درست نہ تھا، پھر آپ کو احساس ہوا کہ مولائے پاک (ارواحنا فداہ) کی روشن ہدایات میں محنت، محنت، محنت اور ہمیشہ محنت کا حکم ہے، پس آپ نے کہا ہے: میں

 

۴۶

 

اپنے آپ سے بڑا شرمندہ ہوگیا، اور عزمِ مصمم کر لیا کہ اب مجھے شب خیزی اور سخت ریاضت سے کام لینا ہے، میں نے رات کے وقت کمرہ اور بستر کو خیر باد کہا، جماعتخانہ کی سیڑھیوں پر بسیرا لینے لگا، پرندہ پاؤں پھیلا کر نہیں سویا کرتا، وہ کسی درخت کی نازک ٹہنی پر صرف بسیرا لیتا ہے، جماعت خانہ کی سیڑھیوں میں ایمانی جماعت کے پیروں سے میرے لئے برکت جمع ہوئی تھی، پس میں تقریباً ایک چلہ پاک جماعت خانہ کی نورانی عبادت میں ٹھیک طرح سے حاضر رہا، پھر بفضلِ مولا پہلی روشنی نظر آئی، اور اس کی مقناطیسی کشش کی کیا تعریف کر سکتا ہوں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل، ۲۶ ، فروری ۲۰۰۲ء

۴۷

کنز الاسرار ۔ قسط۲۵

سوال منجانبِ عاشقانِ نورِ امامِ زمان روحی فداہ : قرآنِ حکیم کا کوئی بھی لفظ معنوی حقیقت اور تاویلی حکمت کے بغیر نہیں ہے، پس آپ یہ بتائیں کہ بحوالۂ سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۳۸) صبغۃ اللہ (رنگِ خدا) سے کیا مراد ہے؟ جواب: اس سے نورِ عبادت = نورِ اسمِ اعظم مراد ہے، جس کا ظہور چار رنگوں میں ہوتا ہے، نورِ اخضر (سبز نور)، نورِ اصفر (زرد نور)، نورِ احمر (سرخ نور)، نورِ ابیض (سفید نور)۔ یہ چار رنگ کے انوار دراصل عرشِ عظیم ہی کے ہیں، اور وہاں سے ان کی نہریں عالمِ شخصی اور دنیا تک جاری ہیں، پس آیتِ صبغۃ اللہ (۰۲: ۱۳۸) میں اللہ کی عبادت کا بھی ذکر ہے، اور سب سے کامیاب عبادت تو اسماءُ الحسنیٰ (۰۷: ۱۸۰) اسمِ اعظم ہی سے ہوتی ہے، پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب بھی اسمِ اعظم کی ابتدائی روشنی نظر آئے گی اس میں زبردست دلکشی کیوں نہ ہو جبکہ وہ رنگِ خدا ہے۔

سوال: بحوالۂ سورۂ نمل (۲۷: ۶۰) حَدَآىٕقَ ذَاتَ بَهْجَةٍۚ = باغاتِ خوشنما = انتہائی مسرت بخش باغات، کیا یہ صرف دنیائے ظاہر کے باغ ہیں، یا عالمِ شخصی میں بھی باغات ہیں؟ جواب: اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے عالمِ شخصی میں جو باغات بنائے ہیں وہ چار رنگ کے

 

۴۸

 

انوار سے ہیں: یعنی نورِ سبز، نورِ زرد، نورِ سرخ اور نورِ سفید پر مبنی ہیں۔

الحمد للہ الاوّل بلا اوّل کان قبلہ و الاخر بلا اٰخر یکون بعدہ۔

ترجمہ: جس جس پہلو سے تعریف ممکن ہے اس کا سزاوار وہ معبود ہے جو سب سے اوّل ہے بغیر کسی اوّل کے جو اس سے پہلے ہو، اور سب سے آخر ہے بغیر کسی آخر کے جو اس کے بعد ہو۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۲۷ ، فروری ۲۰۰۲ء

۴۹

کنز الاسرار ۔ قسط۲۶

سوال منجانبِ صاحبانِ عقل: اگر عرفاء جیتے جی مر کر زندہ ہو جاتے ہیں، تو کیا وہ اس دنیا میں اپنے ربّ کو دیکھ سکتے ہیں؟ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے، تو پھر اس کا قرآنی ثبوت کیا ہے؟ جواب: سورۂ شوریٰ (۴۲: ۵۱) وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا۔ ترجمہ : کسی بشر کے لئے یہ قانون نہیں کہ جب اللہ اس کو دیدار دیتا ہے تو اسی حال میں اللہ اس سے کلام بھی کرے، مگر ہاں وحی ہوگی۔ یعنی دیدار ہی میں بہت سے اشارے ہیں، اور جب بھی کلام ہو تو وہ حجاب کے پیچھے سے ہوگا۔

اس آیہ شریفہ میں یہ روشن دلیل ہے کہ خدا کے دوستوں کو دنیا ہی میں اپنے ربّ کا پاک دیدار ہوتا ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا (۱۷: ۷۲) ۔ ترجمہ: اور جو اس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا۔ اب آپ اس قانونِ قرآن کی روشنی میں سوچ کر یہ بتائیں کہ دنیا ہی میں نورِ الٰہی کا دیدار اور معرفت ممکن ہے یا نہیں؟ جب خدا ظالم نہیں ہے تو امرِ ناممکن کی وجہ سے کسی کو آخرت میں کیسے اندھا بنائے گا؟ ہاں یہ حقیقت ہے کہ اللہ نے اپنے پاک نور کو اپنا مظہر اور نمائندہ بنا کر ہمیشہ دنیا میں رکھا ہے، اور اللہ

 

۵۰

 

ذاتِ سبحان کو نہ تو کوئی دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی اس کی معرفت ممکن ہے، پس امامِ مبین اللہ کا نور ہے، لہٰذا اسی کا دیدار اللہ کا دیدار ہے اور اسی کی معرفت حضرتِ ربّ کی معرفت ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۲۷ ، فروری ۲۰۰۲ء

۵۱

کنز الاسرار ۔ قسط۲۷

سوال منجانبِ جملہ عزیزانِ من! اب جو سوال ہو گا، وہ سب سے اہم، سب سے اساسی، سب سے عظیم، سب سے مشکل، اور سب سے مفید ہے، وہ ہے: آیا امامِ زمانؑ اللہ کی تاویل ہے؟ اگر آپ جواباً یہ کہتے ہیں کہ ہاں یہ حقیقت ہے تو اس پر بزرگانِ دین کی شہادتیں کہاں ہیں؟

جواب: کتابِ سرائر ص۲۲ پر ہے: فاللہ تعالیٰ خالق آدم بیدہ من الطین اللازب، و ھو واقع علیٰ امام الزمان اذ ھو منصوب من قبل اللہ و عامل بامر اللہ وقع علیہ اسم اللہ = اللہ تعالیٰ نے بدستِ خود آدم کو چپکنے والی مٹی سے پیدا کیا، یہ فعل امامِ زمانؑ پر واقع ہوتا ہے جبکہ وہ اللہ کی جانب سے مقرر ہے، اور وہ خدا ہی کے حکم سے کام کرتا ہے، لہٰذا اس پر اسمِ “اللہ ” کا اطلاق ہو جاتا ہے۔

ص ۲۹: فقال (اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ ۔ ۰۲: ۳۰) و ہٰذا الخطاب من امام الزمان الذی ھو القائم لاھل زمانہ مقام اللہ، اذ کان اللہ نصبہ و اقامہ فسمی باللہ اذ ھو من فعل اللہ

کتابِ وجہِ دین (ص ۱۳۹) سورۂ اخلاص کے تاویلی اسرار کو سمجھنے

 

۵۲

 

کے لئے کوشش کریں ، خصوصاً ھویت، اور لفظِ اللہ کے چار حروف = عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق ، اساس۔

کتاب زاد المسافرین ص ۱۸۳ پر جو حدیثِ قدسی ہے، اس کے تحت دیکھیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات، ۲۸ ، فروری ۲۰۰۲ء

۵۳

کنز الاسرار ۔ قسط۲۸

سوالِ کلّی منجانبِ جملہ عزیزانِ قلبی و روحی جو قسط ۲۷ کے ساتھ پیوستہ ہے:

بحوالۂ ہزار حکمت (ح: ۶۶۸) حضرتِ امام محمد باقر علیہ السّلام کا ارشادِ مبارک ہے: ما قیل فی اللہ فھو فینا = جو بات اللہ تعالیٰ کے متعلق کہی گئی ہے وہ ہم پر صادق آتی ہے۔ اس ارشادِ مبارک میں یہ حقیقت چمک رہی ہے کہ امامِ زمان یقیناً اللہ کی تاویل ہے، مذکورہ کتاب (ح: ۶۶۴) کو بھی پڑھ لیں۔

کتابِ ہزار حکمت (ح:۶۲۱) میں حدیثِ شریف ہے: النظر الیٰ وجہ علی عبادۃ = علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ یہاں اس حقیقت کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ یقیناًعلی وجہُ اللہ ہے، اور اس میں بہت سی عظیم حکمتیں ہیں، پس یہ حقیقت ہے کہ امامِ زمان علیہ السّلام اللہ کی تاویل ہے، آپ ہزار حکمت میں : ح: ۶۲۰-۶۲۴ کو دیکھیں۔

حضرتِ مولا علی صلوات اللہ علیہ کا ارشاد ہے: انا النور الذی اقتبس منہ موسی فھدیٰ یعنی میں وہ نور ہوں جس سے موسیٰ نے روشنی طلب کی ، تو ہدایت پائی۔ کوکبِ دری ، بابِ سوم، منقبت ۔ ۳۰۔

۵۴

سورۂ نمل (۲۷: ۰۸) فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِیَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَاؕ-وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ = وہاں جو پہنچا تو ندا آئی کہ مبارک ہے وہ جو آگ = نور میں ہے اور جو اس کے ماحول میں ہے (یعنی قریب ہے) پاک ہے اللہ جو عوالمِ شخصی کا پروردگار ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ،یکم مارچ ۲۰۰۲ء

۵۵

کنز الاسرار ۔ قسط۲۹

 

سوغاتی اور نمائندہ سوال: برائے عاشقانِ امامِ زمان اقدس و اطہر (ارواحنا فداہ)۔

جب مولا علی علیہ السّلام کا فرمانِ مبارک ہے : انا النور الذی اقتبس منہ موسیٰ فھدیٰ = یعنی میں وہ نور ہوں، جس سے موسیٰ نے روشنی طلب کی تو (کلی) ہدایت پائی۔

سوال: کیا اس کا واضح مطلب یہ نہیں ہے کہ یہی پاک نور حضرت موسیٰؑ کی تمام زندگی پر محیط تھا، اور اہلِ دانش جانتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں سب سے طویل قصّہ حضرتِ موسیٰؑ اور حضرتِ ہارون علیہما السّلام کا ہے، پس عاشقانِ نور کو میرا عاجزانہ مشورہ ہے، کہ وہ قرآنی آئینۂ موسیٰؑ و ہارونؑ میں محمدؐ و علیؑ کے نورِ پاک کو دیکھنے کے لئے سعئ بلیغ کریں۔

سوال: حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کو ایک آگ نظر آئی تھی (۲۰: ۱۰) (۲۷: ۰۸) (۲۸: ۲۹) کیا یہ مادّی آگ تھی؟ آیا یہ عالمِ شخصی کا مشاہدہ = معجزہ تھا؟
جواب: یہ نورِ علیؑ تھا، جس کا مشاہدہ آفاق و انفس دونوں میں ہوتا ہے۔

مولوئ معنوی جلال الدین رومی کہتے ہیں: کوکبِ دری ص ۱۳۱:

۵۶

ہم اوّل و ہم آخر و ہم ظاہر و باطن

ہم عابد و ہم معبد و معبود علی بود

موسیٰ و عصا و یدِ بیضا و نبوّت

در مصر بفرعون کہ بنمود علی بود

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ،یکم مارچ ۲۰۰۲ء

۵۷

کنز الاسرار ۔ قسط۳۰

سوغاتی اور نمائندہ سوال برائے عاشقانِ مولائے زمان علیہ السّلام (روحی فداہ)۔

بحوالۂ کتابِ کوکبِ دری بابِ دوم منقبت ۹۸ میں یہ حدیثِ شریف ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے مولا مرتضیٰ علیؑ کے چہرۂ مبارک کے نور سے ستر ہزار فرشتے پیدا کئے، آیا یہ تاویل درست ہے کہ اللہ جلّ جلالہ ہر امامِ زمانؑ کے نور سے اسی طرح اپنی رحمت کو پھیلاتا ہے؟ جواب: جی ہاں یہ تاویل درست اور حقیقت ہے۔

قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان اللہ خاطبنی لیلۃ المعراج بلغۃ علی قلت یا رب خاطبتنی ام علی قال یا محمد انا شی لست کالاشیاء اقاس بالناس و اوصف بالشبھات خلقتک من نوری و خلقت علیا من نورک فاطلعت علیٰ سریر قلبک فلم اجد فی قلبک احدا احب الیک من علی ابن ابی طالب فخا طبتک بلغتہ و لسانہ لیطمئن قلبک، ترجمہ: مناقب خطیب بحر المناقب اور خلاصۃ المناقب میں مرقوم ہے کہ رسولؐ نے فرمایا، کہ اللہ تعالیٰ نے شبِ معراج مجھ سے علی کی زبان میں

 

۵۸

 

خطاب فرمایا، میں نے عرض کی اے پروردگار تو نے مجھ سے بات کی ہے یا علیؑ نے؟ فرمایا، اے محمد، میرا وجود اشیاء کی طرح نہیں ہے، جو آدمیوں پر مجھے قیاس کیا جائے، اور تشبیہات سے میرا وصف بیان کیا جائے، میں نے تجھ کو اپنے نور سے پیدا کیا ہے اور علی کو تیرے نور سے، اور میں تیرے دل کے اسرار پر واقف ہوا، پس تیرے نزدیک علی سے بڑھ کر کسی کو دوست نہ پایا، اس لئے اس کی لغت اور زبان میں گفتگو کی، تاکہ تیرا دل تسلی پائے اور انس پکڑے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ،یکم مارچ ۲۰۰۲ء

۵۹

کنز الاسرار ۔ قسط۳۱

سوالِ سوغاتی، یعنی تحفہ بے مثل از سفرِ عالمِ شخصی برائے عزیزانِ قلبی و روحی:

حدیثِ معراج میں لفظِ سریر کا اصل ترجمہ تخت تھا، اس صورت میں یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اللہ جلّ شانہ نے آنحضرتؐ کے پاک و پاکیزہ دل کے تخت پر علیؑ کو دیکھا اسی وجہ سے خدا نے علیؑ ہی کی آواز میں اپنے محبوب رسولؐ سے کلام کیا، کیا یہ خیال درست ہے؟ جواب: جی ہاں بالکل درست ہے، اور مولای روم نے بھی یہی کہا ہے:

محمد بود قبلہ گاہِ عالم ولی بر تختِ دل سلطان علی بود
ترجمہ: محمدؐ سارے جہان کے لئے، قبلہ اور کعبہ کا درجہ رکھتے تھے، لیکن ان کے دل کے تخت پر علی بادشاہ تھا۔ کتاب سلسلۂ نورِ امامت ص ۹۶ پر بھی یہ شعر ہے۔

لفظ سریر (واحد) تخت، اور اس کی جمع سُرُرْ، قرآن (۱۵: ۴۷) میں موجود ہے، وہ ارشاد یہ ہے: اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ (۱۵: ۴۷) ترجمہ: وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔ اس میں سلاطینِ

 

۶۰

 

بہشت کا ذکر ہے، کیونکہ سریر = تخت ، بادشاہ = سلطان کے سوا نہیں ہوتا ہے، اگر ہوتا ہے، تو وہ بحقیقت سریر  = تخت نہیں ہے، آمنے سامنے کی تاویلی حکمت ہمرتبہ یا یک حقیقت ہو سکتی ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ،۲ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۶۱

کنز الاسرار ۔ قسط۳۲

سوالِ سوغاتی = تحفۂ لاثانی از سفرِ روحانی: حدیثِ معراج کی برکت سے ایک خاص الخاص اعلیٰ سطحی سوال دل میں آیا، وہ اور اس کا جواب عزیزانِ قلب و جان کے لئے تحفہ ہے، گر قبول افتد زہے عز و شرف! وہ پُرحکمت سوال یہ ہے کہ قرآنِ حکیم کے پانچ مقامات پر یہ ذکر آیا ہے کہ اہلِ جنّت مسندوں یعنی سریروں پر ہوں گے، آیا اس میں ان لوگوں کا ذکر ہے، جن کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمتِ بے پایان سے سلاطینِ بہشت بناتا ہے؟ جواب: جی ہاں، یقیناً لفظِ تاج یا تخت بادشاہی کی دلیل ہے، اور قرآنِ عزیز کے وہ پانچ مقام یہ ہیں: (۱۸: ۳۱) ۔ (۳۶: ۵۶)۔ (۷۶: ۱۳)۔ (۸۳: ۲۳)۔ (۸۳: ۳۵)، ان مقامات میں سے ایک مثال سورۂ یاسین (۳۶: ۵۵ تا ۵۶) اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰكِهُوْنَ هُمْ وَ اَزْوَاجُهُمْ فِیْ ظِلٰلٍ عَلَى الْاَرَآىٕكِ مُتَّكِــٴُـوْنَ، ترجمہ: تحقیق بہشت کے لوگ آج ایک مشغلہ میں ہیں باتیں کرتے (بہشت کے بہترین مشاغل روحانی، علمی، حکمتی، عقلی، عرفانی، کشفی، تجلیاتی، اور معجزاتی وغیرہ ہیں)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ،۲ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۶۲

کنز الاسرار ۔ قسط۳۳

سوالِ سوغاتی = تحفۂ لاثانی از سفرِ عرفانی:

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا ہے، تم نورانی بدن کے ساتھ بہشت میں جاؤ گے۔ (کلامِ امامِ مبین، حصّۂ اوّل منجیوڑی ۔ ۲۸۔۱۲۔۱۸۹۳ء)۔

کیا آپ نورانی بدن کے بارے میں کچھ وضاحت کریں گے؟ جواب: جی ان شاء اللہ، نورانی بدن کے کئی نام ہیں: جسمِ لطیف = مخلوقِ لطیف = روحانیین = جثّۂ ابداعیہ، اگر میں کہوں جنّ تو اس سے لوگ ڈرتے ہیں، حالانکہ جنّ اچھے بھی ہوتے ہیں، اور برے بھی، اور اچھے مومن جنّ فرشتے ہوتے ہیں، اور بڑی عجیب بات ہے کہ لوگ لفظِ پری کو پسند کرتے ہیں، جبکہ لفظِ جنّ کو پسند نہیں کرتے، حالانکہ یہ ایک ہی مخلوق ہے، جس کا نام عربی میں جنّ اور فارسی میں پری ہے۔ پس جو لوگ اللہ، رسول اور امامِ زمانؑ کی حقیقی اطاعت کر کے نورانی بدن کے ساتھ بہشت میں جائیں گے، وہ سلاطینِ بہشت ہوں گے، درحالے کہ نورانی بدن = جثّۂ ابداعیہ خود حضرتِ سلیمان علیہ السّلام ہی کی طرح روحانی بادشاہ اور اپنا نورانی بدن، کائنات میں پرواز کرنے والا سلیمانی تخت، اپنی ہستی، نورانی محل، اپنی بے شمار الحاقی روحیں، لشکر وغیرہ ہوں گے۔

۶۳

مادّی سائنس کی روز افزون ترقی کے تناظر میں کہ کس طرح بہت سی الگ الگ مشینیں رفتہ رفتہ مل کر ایک ہوتی جا رہی ہیں، ہم اسی دلیل سے نورانی بدن کے بارے میں یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے آپ میں سب کچھ ہے، جیسا کہ حکیمِ نامور پیر ناصر خسرو فرماتے ہیں:

ز نورِ او تو ہستی ہمچو پرتو

حجاب از پیش بردار و تو او شو
تو اس کے نور کا عکس = تصویر ہے، حجاب کو سامنے سے ہٹا کر تو وہ ہو جا۔ جیسا کہ میرا شعر ہے:

تو ھو میں فنا ہو جا تب گنجِ نہان تو ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ،۲ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۶۴

 

کنز الاسرار ۔ قسط۳۴

نمائندہ سوال برائے عزیزانِ حلقۂ حکمت:

سوال: قرآنِ حکیم یا حدیثِ قدسی، یا حدیثِ نبوّی میں یہ اشارہ کہاں ہے کہ انسان جسمِ لطیف میں پرواز کرے گا؟ جواب: خداوند تعالیٰ اپنے جن نیک بندوں کے لئے ایک نور مقرر فرماتا ہے (۵۷: ۲۸) اس کے بہت سے عظیم مقاصد میں سے ایک مقصد چلنا بھی ہے، اور چلنے میں روحانی ترقی بھی ہے اور علمی و عرفانی ارتقاء بھی ہے، اور فرشتہ بن کر پرواز کرنا بھی۔

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے ارشاداتِ عالی کو پڑھیں اور خوب غور کریں کہ مومن کی روح کس طرح فرشتہ ہو سکتی ہے؟ فرشتہ تو ہمیشہ پرواز کرتا ہے۔

عملی تصوّف کی پیاری کتاب میں معجزۂ نوافل کو پڑھیں: تو خداوند تعالیٰ فرماتا ہے، جب میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اُس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، یہاں زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے! جب خدا سالک کا روحانی پاؤں بن جائے اور عقلی پاؤں بن جائے تو کیا اس میں چلنے اور پرواز کرنے کے

 

۶۵

 

معنی ایک نہیں ہوتے؟ ہاں یہاں روحانی پرواز، جسمِ لطیف کی پرواز اور عقلی پرواز کے معانی جمع ہیں، حاضر امام (روحی فداہ) کا فرمانِ اقدس ہے: آپ کو دانا ہونا ہے اور دانائی سے سوچنا ہے مولانا حاضر امام صلوات اللہ علیہ نے بار بار ارشاد فرمایا ہے: دانا ہو جاؤ، دانائی اور حکمت سے کام لو! میں سمجھتا ہوں کہ یہ تاکیدی فرمان تھا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ، ۳ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۶۶

کنز الاسرار ۔ قسط ۳۵

نمائندہ سوال برائے عزیزان و رفیقانِ روحانی: حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام (ارواحنا فداہ) نے فرمایا: تم ہماری روحانی اولاد ہو، اور یاد رکھنا کہ “روح ایک ہی ہے۔” (کلامِ امامِ مبین حصّۂ اوّل۔ ممباسہ۔ ۱۲۔۱۱۔ ۱۹۰۵ء)۔

حجتِ قائم علیہ السّلام کا یہ بابرکت اور پُرحکمت فرمان تاکیدی، تاویلی اور کلیدی نوعیت کا ہے، لہٰذا آپ یہ بتائیں کہ اس فرمانِ مبارک کا تعلق قرآنِ حکیم کی کس آیۂ کریمہ کے ساتھ ہے؟

جواب: اس کا براہِ راست تعلق آیاتِ نفسِ واحدہ کے ساتھ ہے، اور وہ پانچ ہیں: (۰۴: ۰۱) (۰۶: ۹۸) (۰۷: ۱۸۹) (۳۱: ۲۸) (۳۹: ۰۶)۔

اگرچہ یہ آیاتِ شریفہ پانچ ہیں، لیکن ان کا پُرحکمت مضمون و بیان ایک ہی ہے، اور وہ نفسِ واحدہ ہی ہے، سب سے اوّلین نفسِ واحدہ حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام تھا، بحوالۂ کتابِ سرائر، ص:۲۲

و ان آدم فی نفس الحقیقۃ بشرح التاویل انما کان احد مستجیبی امام الزمان، متحمل الذکر و کان مجتھدا شدید الاجتھاد = آدم دراصل امامِ زمانؑ کے مستجیبان میں سے

 

۶۷

 

ایک مستجیب تھا، اور اُس کو اسمِ اعظم کا ذکر عطا ہوا تھا، اور وہ اس مبارک ذکر میں بڑی سخت کوشش کرتا رہتا تھا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ، ۳ ، مارچ ۲۰۰۲ء

 

۶۸

کنز الاسرار ۔ قسط۳۶

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ (روحی فداہ) کا پُرحکمت فرمان ہے: مومن کی روح ہماری روح ہے (کلامِ امامِ مبین ۔ حصّۂ اوّل ۔ راجکوٹ۔ ۲۰۔۲۔۱۹۱۰ء)۔

سوال: کیا آپ اس فرمانِ اقدس کی حکمت بیان کر سکتے ہیں؟ جواب: جی ہاں! ان شاء اللہ! آپ علیہ السّلام نفسِ واحدہ تھے اور حجتِ قائم بھی، نفس = جان = روح ، واحدہ بروزنِ فاعلہ، بمعنئ فاعلہ اور فاعل، یعنی وہ روح جو اپنی ذات میں ایک ہے، اور تمام ارواح کو بھی اپنے ساتھ ایک کر لیتی ہے، اس کی تاریخی مثال آدم ہے کہ آدم میں بذریعۂ حشرِ روحانی کل ارواح جمع ہوئی تھیں، اور اللہ تعالیٰ نے ان جملہ ارواح کو آدم کی ذرّیت بنا دیا تھا اس مثال سے نفسِ واحدہ کے وہ معنی درست ثابت ہوئے جو یہاں اوپر بیان ہوئے ہیں۔

مولائے پاک کا یہ فرمان کہ “مومن کی روح ہماری روح ہے۔” کئی حکمتوں کا حامل ہو سکتا ہے، منجملہ یہ اشارہ نمایان ہے کہ آپ سب میں مولا کی ایک نمائندہ روح ہے، پھر آپ کے لئے فنا فی الامام کا عظیم الشّان مرتبہ ممکن ہے اور یہ فنائے مبارکہ تاویلاً فنا فی اللہ ہی ہے لیکن اس کی شرائط کیا کیا ہیں، ان کو سمجھنے اور بجا لانے کے لئے مولائے پاک کے ارشادات کو بار بار

 

۶۹

 

پڑھیں، بار بار، کیونکہ امام کے ارشادات کا بار بار مطالعہ ایک فرشتگانہ عبادت ہے، اس سے آپ میں عالی ہمتی آئے گی، اور عشق پیدا ہوگا، علم و حکمت اور ذکر و عبادت سے اپنے آپ کو تیار کریں۔ آمین ! ثم آمین!

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۴ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۷۰

کنز الاسرار ۔ قسط۳۷

سوالِ عقیدت مندانہ و عاشقانہ، دربارۂ سلسلۂ آلِ ابراہیم آلِ محمد: تمام علمائے کرام اس تاریخی حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں کہ آلِ ابراہیمؑ کے دو سلسلے چلے آئے تھے، ایک سلسلہ حضرتِ اسماعیلؑ کی اولاد کا تھا، اور دوسرا سلسلہ حضرتِ اسحاقؑ کی اولاد کا، آپ یہاں ہمیں یہ بتائیں کہ ان دونوں سلسلوں کی رسمی وراثت آنحضرتؐ کو کن واسطوں سے مل گئی تھی؟ جواب: یہاں یہ امر ضروری ہے کہ آنحضرتؐ کا سلسلۂ نسب لکھا جائے اور وہ یہ ہے: محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لُویّ بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ ابنِ خزیمہ ابنِ مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ۔ بحوالۂ کتاب سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (جلدِ اوّل۔ ص ۱۰۸) از علامہ شبلی نعمانی و علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ۔

حضرتِ اسماعیلؑ کی اولاد سے امامانِ مستقر ہوئے، اور اسی سلسلے کا آخری امام حضرتِ ابو طالب علیہ السّلام تھا، آپ کا نام عمران تھا، خاندانی نام عبد مناف، رسولؐ کی کفالت کی وجہ سے ذوالکفل بھی کہلاتے تھے، آپ نے رسولؐ کے لئے کئی حیثیتوں میں کام کیا، آپ نے حضرتِ محمدؐ کو ذکرِ اسمِ اعظم

 

۷۱

 

کا باطنی طریقہ سکھایا ، یہ ہوا آنحضرتؐ کو خاندانِ اسماعیلؑ سے وراثت کا ملنا ، اسی طرح خاندانِ اسحاقؑ سے نبوّت و رسالت کی میراث بھی آپ کو مل گئی تھی، یہ امانت بحیرا سے ملی تھی، ایک قول یہ بھی ہے کہ آپؐ کے دادا ہاشم کو اولادِ اسحاقؑ کی نبوّت و رسالت مل چکی تھی۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۴ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۷۲

کنز الاسرار ۔ قسط۳۸

سوالِ عرفانی برائے برادران و خواہرانِ روحانی: سورۂ زخرف (۴۳: ۲۸) میں ارشاد ہے: وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ۔ مفہوم: اور ابراہیم نے امامت کو اپنی اولاد میں باقی رہنے والا کلمہ قرار دیا۔ اگرچہ کتاب سرائر ص ۷۱ پر اسی طرح سے ہے، پھر بھی ضروری سوال یہ ہے کہ یہ کون سا کلمہ ہے جس کے ساتھ امامت کا تعلق ہے؟ جواب: یہ کلمہ اسمِ اعظم ہے جس کے ذریعے سے حضرتِ ابراہیم نے بحکمِ خدا نورِ امامت کو اپنی اولاد میں منتقل کر کے باقی رہنے والا کلمہ قرار دیا تھا، تاکہ ہر زمانے میں لوگ اپنے امامِ وقت سے رجوع کریں، اور یہ سنتِ الٰہی زمانۂ آدم سے چلی آئی تھی، سورۂ نساء (۰۴: ۵۴) میں ارشاد ہے: فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا۔ یقیناً ہم نے آلِ ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں ایک بہت بڑی سلطنت دی۔

آلِ ابراہیم امامانِ مستقر از سلسلۂ اولادِ اسماعیلؑ ہیں اور امامانِ مستودع از سلسلۂ اولادِ اسحاقؑ، چونکہ أئمّۂ مستودع کو تنزیلِ ظاہر کا کام کرنا تھا، اس لئے وہ مشہور ہو گئے، لیکن امامانِ مستقر تاویلِ باطن کے لئے مقرر ہوئے تھے لہٰذا وہ مخفی رہے، پس آلِ ابراہیمؑ کے امامانِ مستقر کا سلسلہ کتابِ سرائر سے اس

 

۷۳

 

طرح مرتب ہوا ہے: حضرتِ اسماعیلؑ امامِ اساس ابنِ ابراہیمؑ کے بعد امام قیدار ابنِ اسماعیلؑ، امام الحمل ابنِ قیدار، امام سلامان ابنِ الحمل ، امام نبت ابنِ سلامان، امام الھمیسع ابن نبت، امام أدد ابنِ الھمیسع ، امام آد ابنِ أدد، امام عدنان ابنِ آد، امام معد ابنِ عدنان، امام نزار ابنِ معد، امام مضر ابنِ نزار، امام الیاس ابنِ مضر، امام مدرکۃ ابنِ الیاس، امام خزیمہ ابنِ مدرکۃ، امام کنانۃ ابنِ خزیمہ، امام نضر ابنِ کنانۃ، امام مالک ابنِ نضر، امام فھر ابنِ مالک، امام غالب ابنِ فھر، امام لویّ ابنِ غالب، امام کعب ابنِ لویّ، امام مرۃ ابنِ کعب، امام کلاب ابنِ مرۃ، امام قصی ابنِ کلاب، امام عبد مناف ابنِ قصی، امام ہاشم = عمرو = ہاشم الاکبر = العلا ابنِ عبد مناف، امام عبد المطلب = عامر = شیبۃ ابن ہاشم، امام مقیم ابو طالب = عمران = عبد مناف = ذوالکفل ابن عبد المطلب۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ،۶ ، مارچ ۲۰۰۲ء

 

۷۴

 

کنز الاسرار ۔ قسط۳۹

سوالِ معظمِ عرفانی برائے برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلہ: حضرتِ امام عبد المطلب علیہ السّلام نے جو بارہ نقیبان مقرر کئے وہ کون کون تھے؟ جواب: وہ یہ حضرات تھے: ۱۔ عمرو بن نفیل۔ ۲۔ أُ بی بن کعب ۔ ۳۔ زید بن عمر۔ ۴۔ عبداللہ بن عثمان۔ ۵۔ حارث بن عبدالمطلب۔ ۶۔ حمزۃ بن عبد المطلب۔ ۷۔ زبیر بن عبدالمطلب۔ ۸۔ ابو طالب = عمران بن عبد المطلب۔ ۹۔ عبد اللہ بن عبد المطلب۔ ۱۰۔ صہیب الرومی۔ ۱۱۔ زید بن اسامۃ۔ ۱۲۔ ورقۃ بن نوفل۔

ان بارہ نقیبوں میں سے پانچ نقیب خود امام عبد المطلب کے بیٹے تھے: حارث، حمزۃ، زبیر، عبداللہ ، ابو طالب = عمران = عبد مناف = ذوالکفل۔

رسولِ پاک صلعم کے پانچ حدودِ عالمِ روحانی: نورِ قلم = فرشتۂ عقل، نورِ لوح = فرشتۂ نفسِ کل، جد، فتح، خیال۔ ان کی مثال عالمِ جسمانی میں: حضرتِ ابو طالب (مثلِ عقلِ کلّ)، حضرتِ خدیجۃ (مثلِ نفسِ کلّ) ، زید بن عمرو (مثلِ جدّ) ، عمرو بن نفیل (مثلِ فتح)، میسرۃ (مثلِ خیال)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ،۶ ، مارچ ۲۰۰۲ء

نوٹ: بحوالۂ کتابِ سرائر، ص ۸۰-۸۱۔

۷۵

کنز الاسرار ۔ قسط۴۰

سوال و جوابِ علمی و عرفانی برائے برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: آیا یہ بات حقیقت ہے کہ حضرتِ عبد المطلب سید الوادی شیبۃ الحمد نورِ امامت کی روشنی میں یہ جانتے تھے کہ ابرھہ اور اس کے لشکر پر عذابِ الٰہی نازل ہونے والا ہے، اسی وجہ سے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ ہاتھی والوں سے دور ہو کر معجزۂ الٰہی کو دیکھیں؟ جواب: جی ہاں، یہ حقیقت ہے۔ سوال: آیا قرآنِ حکیم میں کوئی ایسا اشارہ ہے، جس سے اس حقیقت کی تصدیق ہو جاتی ہے؟ جواب: جی ہاں، سورۂ انفال (۰۸: ۳۳) میں ارشاد ہے: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ ۔۔۔ ترجمہ: اُس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا جب تک کہ تو ان کے درمیان موجود تھا۔ (اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے دے۔)

سوال: اللہ تعالیٰ کے جس ظاہری معجزے نے ہاتھی والوں کو تباہ و برباد کر دیا، آیا اس میں صرف دنیا کے کچھ پرندے اور زمین کی کنکریاں تھیں؟ جواب: یہ کلمۂ کُنۡ (ہو جا) کا ابداعی معجزہ تھا اور اللہ

 

۷۶

 

تعالیٰ جو مبدِع (ابداع کرنے والا ) ہے، وہ جس صورت میں بھی ظہورِ معجزہ چاہے اسی صورت میں معجزہ کر سکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی چڑیوں نے ہی منکرین اور ان کے ہاتھیوں کو نیست و نابود کر دیا، اس میں بہت بڑی عبرت ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ،۷ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۷۷

کنز الاسرار ۔ قسط۴۱

سوالِ معظمِ عرفانی برائے برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: پانچ اولی الۡعزم رُسُل کون ہیں؟ جواب: نوحؑ، ابراہیمؑ، موسیٰؑ ، عیسیٰؑ، اور محمد صلعم۔ (تاویل الدعائم۔ ۲، ص ۶۹)

مسئلۃ: آیا قرآنِ حکیم میں بارہ نقیبان کا ذکر آیا ہے؟ جواب: جی ہاں، قرآن (۰۵: ۱۲) میں بارہ نقیبان کا ذکر ہے۔ سوال: متعلقہ آیتِ مبارکہ (۰۵: ۱۲) کی روشنی میں نقیبان کی کیا تعریف ہو سکتی ہے؟ جواب: ان سے اسمِ اعظم کا پختہ عہد لینا، اور جیتے جی مر کر زندہ ہو جانے کی معرفت کا حصول، اور یہ روحانی قیامت ہی سے ممکن ہے، یہ کلیدی حکمت لفظِ بعث = بعثنا میں پوشیدہ ہے۔

آپ نے قصیدۂ جشنِ سیمین میں اپنے محبوبِ جان = حاضر امام سے کہا ہے کہ تو ہوائی گھوڑے پر سوار ہو کر غیبی برکت کو اپنے ساتھ لیتے ہوئے میرے پاس آ جانا۔

سوال: یہ ہوائی گھوڑا کیا ہے؟ جواب: یہ برقی بدن = جثّۂ ابداعیہ ہے۔

سوال : یہ انتہائی عظیم معجزہ کب اور کہاں ہوا کہ آپ کا نورانی

 

۷۸

 

معشوق ہوائی گھوڑے پر سوار ہو کر آپ کے پاس آیا؟ جواب: شہرِ یارقند (چین) میں یہ معجزہ ہوا تھا، مجنون سے تاریخیں نہ پوچھو۔

جب جب دیوانہ نصیر محفلِ عشق میں آتا ہے تو آتشِ عشق اچھالتا رہتا ہے تا آنکہ مجلسِ عشاق میں آگ لگ جاتی ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعۃ المبارک ،۸ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۷۹

کنز الاسرار ۔ قسط۴۲

سوالِ معظمِ عرفانی برائے عزیزانِ روحانی)

مسئلۃ: حدودِ دین میں مریم سلام اللہ علیہا کا کیا درجہ تھا؟ جواب: وہ حجت تھی۔ سوال: آیا زکریا امامِ مستودع تھا؟ اگر جواب مثبت ہے تو بتائیں کہ اس کو یہ مرتبہ کس سے ملا تھا؟ جواب: پدرِ مریم (عمران) سے (سرائر ص ۲۰۷) (ص۲۰۱)۔

اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو مبعوث کیا، ان میں سے دس صاحبانِ کتاب تھے، پانچ سریانی زبان میں: وہ آدم، شیث، ادریس، نوح اور ابراہیم تھے، اور پانچ عربی زبان میں تھے: ہود، صالح، اسماعیل، شعیب، اور محمد صلعم۔ (سرائر ص ۲۰۰)

الحجۃ من الامام، و النقیب من الحجۃ، و الجناح من النقیب ، و المستجیب من الجناح، فھولا ذریۃ بعضھا من بعض و لادۃ روحانیۃ۔ (ص ۱۶۰)۔

ایک بروشسکی شعر کا ترجمہ: نور میں معجزات ہی معجزات ہیں، میں نے صاحبِّ نور = امامِ زمان علیہ السّلام ہی سے قرآنِ حکیم کے اسرار کو سیکھ لیا۔

۸۰

ایک شعر کا ترجمہ یہ بھی ہے: کل میں نے امامِ زمانؑ کے ایک جان نثار عاشق کو دیکھا جو مولائے پاک کے مقدّس دیدار کی سرمستی اور شادمانی میں زار و قطار رویا کرتا تھا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعۃ المبارک ،۸ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۸۱

کنز الاسرار ۔ قسط۴۳

سوالِ معظمِ عرفانی برائے برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: یوشع بن نون کا سلسلۂ نسب کس کے ساتھ مل جاتا ہے؟ جواب: یوشع بن نون بن افراہیم بن یوسف علیہ السّلام، اس نے حضرتِ موسیٰ کی قابلِ قدر شاگردی اور خدمت کی تھی، بالآخر خدا کے حکم سے موسیٰؑ نے اپنے آخری وقت میں یوشع بن نون کو امامِ مستودع بنایا تا آنکہ فرزندِ ہارون بالغ ہو جانے پر یہ بہت مقدس امانت اس کو دی جائے۔ (سرائر ص ۱۷۶)۔

اس کے بعد حضرتِ موسیٰؑ ایک دن اکیلا صحرا کی طرف نکلا، وہاں دیکھا کہ ایک شخص ہے جو ایک قبر بنا رہا ہے، پس موسیٰؑ نے پوچھا کہ آیا تم چاہتے ہو کہ میں اس کام میں تمہاری مدد کروں؟ اس نے کہا: ہاں، تو موسیٰؑ نے مدد کی اور قبر تیار ہوئی، پھر وہ شخص یہ ارادہ ظاہر کرنے لگا کہ قبر میں اترے اور لیٹ کر اندازہ کرے، موسیٰؑ نے کہا یہ کام میں کرتا ہوں، اس شخص نے کہا ٹھیک ہے تم اس میں اُتر کر اندازہ کرو، کہتے ہیں کہ قبر بنانے والا جبرائیل تھا، پس جب موسیٰؑ اس قبر میں اتر کر لیٹ گیا، تو اس کی روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف قبض کر لیا، اور جبرائیلؑ نے اس کے جسم کو دفن کر دیا۔

۸۲

یہ اولیاء اللہ کے عجیب و غریب اسرار ہیں، ان میں عظیم تاویلی حکمتیں ہو سکتی ہیں۔

سورۂ فجر (۸۹: ۲۲) میں ارشاد ہے: وَّ جَآءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا۔ ترجمہ: اور تمہارا رب جلوہ فرما ہوگا اس حال میں کہ فرشتے صف در صف کھڑے ہوں گے۔ یہ صرف ترجمۂ تنزیل ہے، اور اس کی تاویل یہ ہے کہ حضرتِ قائم القیامت عالمِ شخصی میں جلوہ فرما ہو جائے گا یا جلوہ فرما ہو گیا، اسی کے نورِ واحد میں سب فرشتے جمع ہیں، صفاً صفاً میں وحدت کا اشارہ ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۹، مارچ ۲۰۰۲ء

۸۳

 

کنز الاسرار ۔ قسط۴۴

سوالِ معظمِ عرفانی برائے عزیزانِ قلبی و روحانی:

مسئلۃ: ارشاد ہے: وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِؕ-اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ (۳۶: ۶۸) تاویلی مفہوم: اور جس کو ہم بڑی لمبی عمر دیتے ہیں تو اُس کو عالمِ امر سے عالمِ خلق کی طرف سرنگون کر دیتے ہیں۔ اس میں دو عظیم حکمتیں ہیں، ایک حکمت یہ ہے کہ عالمِ امر اور عالمِ خلق کے درمیان دائرۂ اعظم ہے، جس پر جو بھی گردش کرتا ہے وہ بڑی لمبی عمر پاتا ہے، لیکن مثال کے طور پر جب آسمان کی طرف جاتا ہے تو سر آسمان کی جانب ہوتا ہے، کیونکہ منزل آسمان میں ہے، اور جب زمین کی طرف آتا ہے تو سر زمین کی طرف ہوتا ہے، اس لئے کہ منزل زمین پر ہے، جیسے شکمِ مادر سے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا سر زمین کی جانب ہوتا ہے، اسی لئے مولانا رومی کہتے ہیں:

گر ہمی پرسی زحال زندگی

نُہ صد و ہفتاد قالب دیدہ ام

ترجمہ: اگر تم میری زندگی کا حال پوچھتے ہو تو وہ یہ ہے کہ میں نو سو ستر بار پیدا ہو چکا ہوں۔

۸۴

اے پسر در آسمانِ ہفتمین با ملائک بارہا پریدہ ام
ترجمہ: اے لڑکے! میں آسمانِ ہفتم میں بارہا فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتا رہ چکا ہوں۔

قرآن فرماتا ہے کہ اگر اللہ اپنی رحمتِ بے پایان سے کسی کو نور مقرر کر دیتا ہے تو وہ سلامتی کے راستوں پر چلنے کے لئے ہوتا ہے (۰۵: ۱۵ تا ۱۶)۔ سلامتی کا گھر کسی باغ یا کسی گھر میں قید ہو جانے کا نام نہیں، بلکہ خدا کی خوشنودی سے اس کی خدائی میں سیر کرنے کو سلامتی کہتے ہیں جس طرح تصوّف میں ہے کہ سیر الی اللہ اور سیر فی اللہ، یعنی اوّل تو خدا کی طرف سفر ہے، اور پھر خدا میں سفر کرنا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۱۰ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۸۵

کنز الاسرار ۔ قسط۴۵

سوالِ معظمِ عرفانی برائے برادران و خواہرانِ روحانی

مسئلۃ: ان حکمتوں کے لئے سورۂ یوسف (۱۲: ۱۰۵ تا ۱۰۸) میں دیکھیں: یہاں حکمتِ اوّل یہ ہے کہ کائنات کی ہر ہر چیز بزبانِ حال انسان سے کہتی ہے کہ مجھ میں عقل و دانش سے خوب غور کرو، حکمتِ دوم یہ ہے کہ قیامت انسانوں کی غیر شعوری میں اچانک آ سکتی ہے، حکمتِ سوم یہ ہے کہ رسولِ اکرمؐ اور آپ کے برحق جانشین = امامِ زمانؑ کی دعوت جو اللہ کی طرف ہے، وہ بصیرت اور حقیقت پر مبنی ہے، اس لئے یہ ضروری ہے کہ تمام اہلِ ایمان بصیرت اور معرفت کے ساتھ اس دعوت کے راستے پر چلیں۔

اسی لئے حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: کہ ہمارا مذہب روحانیّت کا مذہب ہے اس لئے تمہیں اس کا پورا پورا علم ہونا چاہئے۔ (کلامِ امامِ مبین حصّۂ دوم۔ زنجبار۔ ۱۹۔۲۔۱۹۲۵ء)۔

“فنا فی اللہ” کی تاویل = “فنا فی الامام” ہے، کیونکہ یہ دینِ اسلام کا سب سے بلند ترین درجہ امامِ زمانؑ ہی کی حقیقی اطاعت اور محبت = عشق سے حاصل ہو جاتا ہے۔

حضرتِ امام باقر علیہ السّلام کے فرمانِ مبارک کو ہرگز ہرگز

 

۸۶

 

بھول نہ جانا: “ما قیل فی اللہ فھو فینا ۔۔۔۔” اسی روشن دلیل کی وجہ سے فنا فی اللہ کی تاویل، فنا فی الامام ہو جاتی ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۱۰ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۸۷

کنز الاسرار ۔ قسط۴۶

سوالِ معظمِ عرفانی برائے برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: سورۂ نمل (۲۷: ۱۷) میں ارشاد ہے: وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ وَ الطَّیْرِ فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ۔ ترجمہ: سلیمان کے لئے جنّ اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے۔ سوال: سلیمانؑ کے یہ لشکر جمع ہونے سے پہلے کہاں تھے؟ اور یہ کس طرح جمع ہو گئے؟ جواب: دراصل یہ حضرتِ سلیمانؑ کی روحانی قیامت کا بہت بڑا راز ہے، چنانچہ بحکمِ خدا اسرافیلؑ نے صور پھونکا جس سے روحانی قیامت برپا ہونے لگی اور تمام لشکرِ ارواح جمع ہو گئے۔

مسئلہ: آیا ہر روحانی قیامت میں یہی لشکر جمع ہوتے ہیں؟ جواب: جی ہاں، کیونکہ روحانی قیامت خود روحانی جنگ بھی ہے جس سے نہ صرف عالمِ شخصی فتح ہو جاتا ہے، بلکہ ساری کائنات بھی مسخر ہو جاتی ہے۔

سوال: آیا قرآنِ حکیم میں کوئی ایسی آیت ہے، جس کی روشنی میں ہم یہ یقین کریں کہ روحانی قیامت میں حضرتِ سلیمانؑ کی روحانی سلطنت ہے؟ جواب: جی ہاں، وہ آیۂ شریفہ یہ ہے: سورۂ سبا (۳۴: ۱۳) اِعْمَلُوْۤا

 

۸۸

 

اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًاؕ-وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُوْرُ۔ تاویلی مفہوم: اے داؤدِ زمان کے فرزندانِ روحانی! تم اپنی نعمتوں کی شکرگزاری پر عمل کرو کیونکہ میرے شکرگزار بندے کم ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۱۰ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۸۹

کنز الاسرار ۔ قسط۴۷

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: آدمِ سراندیبی نہ کسی نبی کا جسمانی فرزند تھا اور نہ کسی امام کا، مگر وہ امامِ زمانؑ کا ایک مستجیب تھا، جس کو اسمِ اعظم کا بابرکت ذکر عطا ہوا تھا، اس کو زمین پر خلیفۃ اللہ کا مرتبہ دیا گیا، اس میں کیا حکمت ہے؟ جواب: اس میں بے شمار حکمتیں ہیں، مگر سب کی سب ایک جیسی ہیں، یعنی بے شمار ادوار میں آدمِ سر اندیبی کی طرح بے شمار آدم ہوئے ہیں، کیونکہ اللہ کی لاتبدیل سنت کے تناظر میں یہ آدم نیا نہیں ہو سکتا ہے، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے: (۲۴: ۵۵)، ترجمہ: اللہ نے وعدہ فرمایا ہے، تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو بحقیقت ایمان لائیں اور کماحقہ نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، الخ۔

سورۂ انعام (۰۶: ۱۶۵) کو بھی پڑھ لیں، ان دونوں آیتوں میں غور کرنے سے اللہ تعالیٰ کی قدیم اور لازوال بادشاہی میں بہت سے آدموں کا تصوّر ملتا ہے۔

۹۰

سورۂ ابراہیم (۱۴: ۳۴) ترجمہ: اللہ نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا، اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے۔ (ہزار حکمت، ح : ۱ ، ص۲۵)

اللہ تعالیٰ امامِ زمانؑ کے چہرۂ مبارک کے نور سے ستر ہزار فرشتے پیدا کرتا ہے جو ستر ہزار زندہ کائناتیں ہیں، ان شاء اللہ اہلِ حقیقت کی خلافت و سلطنت انہی کائناتوں میں ہو گی۔ آمین!

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۱۱ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۹۱

کنز الاسرار ۔ قسط ۴۸

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کی والدۂ محترمہ نوابہ عالیہ شمس الملک کا دینی مرتبہ کیا تھا؟ جواب: آپ حجت تھیں، ہمارے علاقے کے دینی بزرگ ان کو حجت مانتے تھے، اور یہی یقینی حقیقت ہے۔

سوال: آیا قرآنِ حکیم میں کوئی ایسی آیت ہے جس کی حکمت سے یہ معلوم ہو جائے کہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام اور عرفاء روحانی قیامت کو خوش آمدید کہتے ہیں، کیونکہ اسی میں ان کی ملاقات فرشتوں سے ہوتی ہے، اور اسی میں ان کو حضرتِ ربّ کی رویت اور معرفت حاصل ہو جاتی ہے؟ جواب: جی ہاں، وہ ارشاد سورۂ فجر (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) ہے جس میں ان تمام حضرات کا ذکر ہے، جن کو نفسِ مطمئن (اطمینان والی روح) کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے، اور ان سے خدا فرماتا ہے کہ اب تم میرے بندوں میں داخل ہو جاؤ اور میری جنت میں داخل ہو جاؤ، یہ ایک ساتھ دو امر اس لئے ہیں کہ خدا کے خاص بندے اور حظیرۂ قدس کی جنت ایک ہیں، پس جو بھی حظیرۂ قدس میں داخل

 

۹۲

 

ہو جاتا ہے، وہ خدا کے خاص بندوں میں بھی شامل ہو جاتا ہے، الغرض نفسِ مطمئن روحانی قیامت کا میوۂ شیرین ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۱۱ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۹۳

کنز الاسرار ۔ قسط۴۹

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: بحوالۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۲۴ تا ۱۲۵) تین ہزار یا پانچ ہزار فرشتوں کی تعداد کی معرفت کس طرح ہو سکتی ہے؟ اور یہاں یہ سوال بھی ہے کہ صاحبِّ نشان فرشتوں سے کیا مراد ہے؟ جواب: بے شمار فرشتوں کا مجموعہ اور زندہ قلعہ ایک ہی فرشتہ ہوتا ہے، اور اس میں سے اللہ جتنے فرشتوں کو چاہے تو اپنی قدرت سے ظاہر کر سکتا ہے، صاحبانِ نشان فرشتوں کا یہ مطلب ہے کہ فرشتے کسی حربی علامت کے ساتھ تصوّر یا خیال یا خواب میں یا بیداری میں نظر آتے ہیں، جو بصورتِ امام یا بصورتِ قائم ایک ہی فرشتہ ہوتا ہے، مگر اس میں ہزاروں فرشتے مخفی ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ، رسولِ کریم، اور امامِ مبین کے معجزات کو چھپانا عاشقوں پر اور اپنے آپ پر بڑا ظلم بھی ہے، اور ناشکری بھی ہے۔

میں نے اب سے کافی پہلے خلیفہ اجابت شاہ ابنِ خلیفہ رضا شاہ کی ایک بیاض = نوٹ بک میں دیکھا تھا کہ حضرتِ سلطان حجتِ قائم کا ایک انقلابی فرمان تحریر تھا: “اب ہم ذوالفقارِ آہنی سے نہیں بلکہ ذوالفقارِ علمی سے

 

۹۴

 

جنگ کریں گے۔” شاید اس سے قبل یا بعد میں میں نے ایک نورانی خواب میں شمشیر بدست فرشتۂ علمی کو مرحوم حاجی قدرت اللہ بیگ کی صورت میں دیکھا تھا، یقیناً یہ ہمارے عزیز ساتھیوں کی علمی فتح کی خوشخبری تھی، کافی وقت سے یہ بات میرے پاس امانت رہی ہے، مگر اب میں اسے تحریر میں لانا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ مجھے مرحوم پروفیسر موسیٰ بیگ ابنِ لطفِ علی نے بتایا تھا کہ مولانا حاضر امامؑ نے حاجی قدرت اللہ بیگ کے حق میں فرمایا تھا ، وہ ایک دانا شخص ہے، اُس لیڈروں کی میٹنگ میں خود حاجی صاحب حاضر نہ تھے، خدا کرے کہ ہم رفتہ رفتہ امانتوں کے بوجھ کو اپنے اوپر سے کم از کم کرتے جائیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۱۲ ، مارچ ۲۰۰۲ء

 

۹۵

 

کنز الاسرار ۔ قسط۵۰

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

کتابِ کوکبِ دری ، بابِ سوم منقبت ۹۷: حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ کا ارشادِ مبارک ہے: انا الذی عندی اثنان و سبعون اسما من العظام ۔ یعنی میں وہ شخص ہوں کہ میرے پاس اسمائے اعظمِ الٰہی سے بہتر (۷۲) اسم ہیں۔

مسئلۃ: سورۂ فتح (۴۸: ۲۶) وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى۔ سوال: اس کا تاویلی مفہوم کیا ہے؟ جواب: تاویلی مفہوم یہ ہے: اور ان کے دل و دماغ میں کلمۂ تقویٰ لازم کر دیا، یعنی عزرائیلی اسمِ اعظم کو چسپان = خود گو = خود کار کر دیا۔

وضاحت: سالکینِ دینِ مبین میں سے جب کسی مومنِ سالک پر روحانی قیامت واقع ہو جاتی ہے، تو اس میں پہلے اسرافیلی معجزہ شروع ہو جاتا ہے، پھر عزرائیلی معجزہ، پس یہ دونوں معجزے ساتھ ساتھ جاری و ساری رہتے ہیں، حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام کے لئے ایک اسمِ اعظم خود گو (خود بولنے والا) ہو جاتا ہے، وہ قبضِ روح کے لئے بدن اور خلیات میں نہیں اترتا ہے، صرف

 

۹۶

 

اس کے لشکر سارے بدن میں داخل ہو کر قبضِ روح کا کام کرتے ہیں، حضرتِ اسرافیل علیہ السّلام کا معجزہ ناقور میں ہوتا ہے، اس کے بے شمار لشکر ناقوری تسبیح خوانی میں ہمنوائی کرتے ہیں، اس قیامتی طوفان کا مکمل بیان ہمارے لئے ممکن نہیں کیونکہ وہ حضرتِ قائم القیامتؑ کے طوفانی معجزات ہیں۔

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۴۴) کو غور سے پڑھو، اس میں یہ ذکر ہے کہ کائنات اور اجزائے کائنات کی کوئی چیز ایسی نہیں مگر ناقوری تسبیح کے ساتھ ہم نوائی کرتی ہے، جس میں اللہ کی حمد ہے۔ منقبت ۵۶: مولا مرتضیٰ علی نے فرمایا: انا الناقور الذی قال اللہ تعالیٰ فاذا نقر فی الناقور (۷۴: ۰۸) = جب صور میں پھونک ماری جائے گی۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ، ۱۳ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۹۷

 

کنز الاسرار ۔ قسط۵۱

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: آیا عرفاء کے عالمِ شخصی میں تمام پیغمبروں کے معجزات تازہ بتازہ ریکارڈ اور محفوظ ہیں؟ جواب: جی ہاں۔

مسئلۃ: آیا عارف کا عالمِ شخصی آیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کی عملی تفسیر و تاویل ہے؟ جواب: جی ہاں! چونکہ یہ عملی تفسیر و تاویل خود امامِ زمانؑ ہی کر رہا ہوتا ہے، لہٰذا یہ امامِ زمان علیہ السّلام ہی کا زندہ اور تابندہ معجزہ ہوا کرتا ہے۔

سوال: حضرتِ ہود علیہ السّلام کی نافرمان قوم کا نام عاد ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے برحق پیغمبر کے لئے یہ معجزہ کیا کہ ایک شدید طوفانی آندھی کا عذاب مسلسل سات رات اور آٹھ دن (۶۹: ۰۷) تک قومِ عاد کے لوگوں پر مسلط رہا اور وہ برباد ہو گئے، اس میں کیا حکمت ہے، کہ تقریباً یہی مدت معجزۂ عزرائیلی کے تسلسل کی بھی ہے؟ جواب: اس میں کئی حکمتیں ہیں جو سوچنے سے آپ کو معلوم ہو سکتی ہیں، اور خاص بات یہ ہے کہ پیغمبروں کے تمام معجزات عالمِ شخصی میں تازہ بتازہ ریکارڈ اور محفوظ ہیں۔

انہی علوم کو علوم التاویل المحض المجرّد کہتے ہیں (سرائر

 

۹۸

 

ص۲۸) قرآنِ حکیم یسیروا کے عنوان کے تحت اور سیروا کے عنوان کے تحت تقریباً چودہ = ۱۴ مقامات پر سوالاً بھی اور حکماً بھی لوگوں کو پُرزور توجہ دلاتا ہے کہ وہ زمین یعنی عالمِ شخصی میں چل پھر کر اگلے لوگوں کے انجام کو دیکھیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات، ۱۴ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۹۹

کنز الاسرار ۔ قسط ۵۲

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: خشتِ اوّل چون نہد معمار کج تا ثریا می رود دیوار کج
سوال: کیا آپ قصّۂ آدم کا بنیادی حصّہ دوبارہ بتائیں گے؟
جواب: ان شاء اللہ۔
آدم کا مخصوص نام: تخوم بن بجلاح بن قوامہ بن ورقۃ الرویادی، قبیلہ ریاقۃ، اسمِ امامِ العصر مولانا ھُنَید، آدم کے ضد (ابلیس) کا نام: حارث بن مرہ، آدم کا پہلا اساس مولانا ہابیل، دوسرا اساس مولانا شیث = ہبۃ اللہ تھا۔

آدم کی جسمانی پیدائش سراندیپ کے مضافات میں جزیرۂ بوران، شہرِ سوباط میں ہوئی تھی (سرائر ص ۲۷) سراندیپ لفظِ چرن دیپ کا معرب ہے، ڈاکٹر محمد معین پروفیسر آف تہران یونیورسٹی، فرہنگ فارسی جلدِ پنجم (اعلام) ص ۷۴۴ پر سراندیپ = سری لنکا کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: روایات میں ہے کہ آدم ابوالبشر بہشت سے سراندیپ میں اتارا گیا تھا (ہبوط

 

۱۰۰

 

ہوا تھا) اور کہتے ہیں کہ وہاں آدم کا نقشِ پا موجود ہے۔

قرآنی مینار ص ۱۹۶، اور قانونِ کل ص ۴۱ پر بھی دیکھیں۔

حضرتِ ادریس علیہ السّلام امام تھا، بعد ازان متوشالح ابنِ ادریس امام ہوا، پھر لامک بن متوشالح، پھر اخنوخ بن لامک، پھر نوح بن اخنوخ، اور نوح کے بعد سام، سام کے بعد ارفخشد۔

ہم اپنے بزرگانِ دین کی علمی جلالت و برتری کے لئے سرِ تسلیم خم کر کے سلامِ عقیدت ادا کرتے ہیں، اور اگر ان کی کوئی پُرحکمت کتاب ہے تو اس پر بوسہ کرکے سینہ سے لگا لیتے ہیں، ان کے مرتبۂ علمی کی تعریف سے ہماری زبان قاصر اور عاجز ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات، ۱۴ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۰۱

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۵۳

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: آدمؑ اور آنحضرتؐ کے درمیان چالیس حدودِ دین کون سے ہیں؟ جواب: وہ حدود یہ ہیں: آدم، اس کا وصی، اور اس کے دور کے چھ امام، نوح، اس کا وصی، اور اس کے دور کے چھ امام، ابراہیم، اس کا وصی اور اس کے دور کے چھ امام، موسیٰ اور اس کا وصی، اور اس کے دور کے چھ امام، عیسیٰ، اس کا وصی، اور اس کے دور کے چھ امام۔ یہ مجموعاً چالیس حدود ہوگئے۔ سورۂ احقاف (۴۶: ۱۵) جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو مرتبۂ نبوّت سے سرفراز فرمایا تو اُس وقت آپ کی عمر چالیس سال کی ہوئی تھی، اور تاویلاً آدم سے تب تک چالیس حدود مکمل ہوئے تھے، جن کا یہاں ذکر ہوا۔ کتابِ سرائر: ۸۳۔

یہ سلسلۂ نور کی ایک عظیم الشّان اصولی اور عددی تاریخ ہے جو قرآنی حکمت کے مطابق ہونے کی وجہ سے بے مثال اور لازوال ہے۔

قرآنِ حکیم نے سلسلۂ نور کا جو لاہوتی نظام بتا دیا ہے، وہ لاجواب اور معجزاتی ہے، وہ ہے نورٌعلیٰ نور = ایک نورِ مجسم کے بعد دوسرا نورِ مجسم۔

آیا سلسلۂ نور کا یہ قانون اظھر من الشمس نہیں ہے؟ کیا اس

 

۱۰۲

 

میں کہیں یہ اشارہ بھی ہے کہ نورِ مجسم کبھی ہوگا، اور کبھی نہیں ہوگا؟ جواب: نہیں اس میں ہمیشہ نور موجود ہونے کے معنی ہیں، الحمد للہ! اس روشن حقیقت کو ہم سب سمجھتے ہیں۔

قرآنِ حکیم، حدیثِ شریف، اور ارشاداتِ أئمّۂ آلِ محمدؐ کی برکت سے امام شناسی جو نور شناسی ہے وہ بفضلِ خدا آسان ہوگئی ہے۔ الحمدللہ علی منہ و احسانہ۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ، ۱۵ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۰۳

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۵۴

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: آیا “نورٌعلیٰ نور” (۲۴: ۳۵) ہر نبی اور ہر امام کی شان میں ہے؟ جواب: جی ہاں! یقیناً یہ ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن کرنے کی مثال پر ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم میں جتنی آیاتِ نور ہیں ان سب میں جو اعظمُ الآیات ہے، وہ روشن چراغ کی مثال میں ہے، پس تمام انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ایک ہی سلسلۂ نور کی کڑیاں ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی سلسلۂ نور سے الگ نہیں ہے، جبکہ نورِ محمدیؐ نورِ اوّل ہونے کی وجہ سے تمام انوار کا سرچشمہ ہے، جیسے حضورِ اکرمؐ کا ارشاد ہے: اوّل ما خلق اللہ نوری = اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا۔ اسی نور کی اوّلیّت کے ساتھ ساتھ کئی نام ہیں، ہم نے لکھا ہے، جیسے عقلِ اوّل = عقلِ کلّ = قلم وغیرہ۔

کتابِ کوکبِ درّی بابِ دوم منقبت ۔۱ اور ۲ میں جو دو حدیث ہیں، ان کا مفہوم ایک ہی ہے، وہ یہ ہے کہ محمدؐ و علیؑ کا نورِ واحد جو آفرینشِ آدم سے بہت پہلے تھا، اس کو اللہ نے آدم کی پشت میں رکھا، پھر یہ نور بحکمِ خدا پشت بہ پشت منتقل ہوکر عبدا لمطلب کی پشت میں آیا، پس اللہ نے اس نور کو دو حصوں

 

۱۰۴

 

میں کر دیا، پھر نور کا ایک حصّہ عبد اللہ میں آیا، اور دوسرا حصّہ ابو طالبؑ میں، چنانچہ عبد اللہ سے نور محمدؐ میں آیا اور ابو طالبؑ سے نور علیؑ میں آیا، پس رسولؐ نے فرمایا: فعلی منی و انا منہ = پس علیؑ مجھ سے ہے، اور میں علیؑ سے ہوں، بحوالۂ کوکبِ درّی بابِ دوم منقبت ۔۱ اور ۲۔ مولا علیؑ کا پاک ارشاد ہے: انا و محمد نور واحد من نور اللہ = میں اور محمدؐ ایک نور ہیں، اللہ کے نور سے۔ فآدم، و شیث و نوح و سام و ابراہیم و اسماعیل و موسیٰ و یوشع و عیسیٰ و شمعون و محمد و انا کلنا واحد = ہم سب حاملانِ نور ایک ہی ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۱۶ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۰۵

کنز الاسرار ۔ قسط ۵۵

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: کتاب العلاج کے حوالے سے بتائیں کہ عقلی بیماری کا علاج کس طرح ہو سکتا ہے؟ جواب: از کتاب العلاج ص ی بعنوان طبِ قرآنی:

۱۔ اللّٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم و علیٰ اٰل ابراہیم انک حمید مجید، اللّٰھم بارک علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم و علیٰ اٰل ابراہیم انک حمید مجید۔ (صحیح بخاری، سورۂ احزاب)۔ درور شریف کے بغیر طبِ قرآنی کا دروازہ نہ تو مفتوح ہو جاتا ہے، اور نہ ہی کوئی دعا بارگاہِ خداوندی تک جا سکتی ہے، اسی درود کا ایک عظیم راز اور ایک نہایت شیرین بہشتی میوہ ہے، جس کی معرفت کے لئے آپ سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) میں دیکھیں۔

۲۔ سب سے بڑی بیماری: خوب یاد رہے کہ اگر کسی انسان میں جہالت و نادانی ہے تو یہی سب سے بڑی بیماری ہے، کیونکہ یہ عقلی بیماری ہے، اور عقل انسان میں سب سے خاص اور سب سے عظیم چیز ہے، پس سب سے پہلے عقلی بیماریوں کا علاج سیکھنا از بس ضروری ہے اس لئے کہ عقل کے بیمار

 

۱۰۶

 

رہنے سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی عذاب ہو سکتا ہے۔

۳۔ قلبِ سلیم کے معنی؟ قلبِ سلیم سے ایسی عقل مراد ہے جو ہر طرح کی عقلی بیماریوں سے صاف پاک ہو (۲۶: ۸۹، ۳۷: ۸۴) چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام بفضلِ خدا ایسی صحیح، سلامت اور صحتمند عقل کے وسیلے سے اپنے ربّ کے قربِ خاص میں آئے تھے، اور یہ سارے لوگوں کے لئے عملی ہدایت کا بہترین نمونہ ہے، پس عقلی بیماری کو محسوس کرکے اس سے شفایاب ہونا ہر مومن کے لئے ازحد ضروری ہے۔

۴۔ اشک افشانی: خوفِ خدا یا عشقِ الٰہی سے بار بار اشکبار ہو جانا بہت بڑی عبادت بھی ہے، اور تمام ظاہری، باطنی، اخلاقی، روحانی، اور عقلی امراض کے لئے بڑا زبردست اور نہایت مفید علاج بھی ہے، کیونکہ ایسی خالص اور عاجزانہ و عاشقانہ گریہ و زاری میں روحانی طبیب کا دستِ مبارک کام کرتا ہے، جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ ہر بیماری دور ہو جاتی ہے۔

۵۔ کرب = سخت غم : سخت غم (کرب) کی دوا بھی روحانی طبیب (اللہ تعالیٰ) کے پاس موجود ہے، ارشاداتِ قرآنی کے لئے دیکھ لیں:۰۶: ۶۴، ۲۱: ۷۶، ۳۷: ۷۶، ۳۷: ۱۱۵، سورۂ مومن (۴۰: ۶۰) میں ارشاد ہے : وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ = اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ مجھے پکارو تاکہ میں (تمہاری دعا کو ) قبول کروں۔ خداوندِ قدوس کو کس طرح پکارنا چاہئے؟ ایسی دعا و درخواست کی کیا کیا شرطیں ہیں؟ یہ سب کچھ قرآنِ حکیم میں مذکور ہے۔

۶۔ اسماءُ الحسنیٰ: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) میں ارشاد ہے کہ خدائے پاک و برتر کو اس کے اسماءُ الحسنیٰ سے پکارنا بے حد ضروری ہے، جن کی حکیمانہ تعریف قرآنِ عزیز کے چار مقامات پر آئی ہے:۰۷: ۱۸۰، ۱۷: ۱۱۰، ۲۰: ۰۸، ۵۹: ۲۴،

 

۱۰۷

 

پس ہوشمند مومن وہ ہے جو ہر بیماری، ہر مشکل، ہر حاجت، اور ہر آزمائش میں گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرتا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی بے پایان رحمت سے قبول فرمائے، اگر قبولیّت کے لئے کچھ وقت لگتا ہے، تو اس میں بھی یقیناً خداوند تعالیٰ کی کوئی حکمت ہو سکتی ہے، لہٰذا مایوسی منع ہے۔

۷۔ تضرع = عاجزی اور زاری: قرآنِ حکیم نے تضرع کو بہت بڑی اہمیت دی ہے، کیونکہ یہ بہت سے ظاہری اور باطنی امراض کے لئے دوا اور شفا ہے، جس کی کئی مثالیں قرآنِ حکیم میں موجود ہیں، آپ ان حوالوں میں دیکھیں: ۰۶: ۴۲، ۰۶: ۴۳، ۲۳: ۷۶، ۰۷: ۹۴، ۰۶: ۶۳، ۰۷: ۵۵، ۰۷: ۲۰۵، آپ ان آیاتِ کریمہ کو یقین سے پڑھیں، اور غور سے دیکھیں کہ تضرع یعنی گڑگڑانے سے عذابِ الٰہی بھی ٹل جاتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۱۶ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۰۸

کنز الاسرار ۔ قسط ۵۶

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ ضروریۃ : بحوالۂ سورۂ توبہ (۰۹: ۳۲) اور سورۂ صف (۶۱: ۰۸): ترجمۂ آیت (۰۹: ۳۲) یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، مگر اللہ اپنے نور کو مکمل کئے بغیر ماننے والا نہیں ہے، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

ترجمۂ آیت (۶۱: ۰۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

یہاں بڑا اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے کس نور کو بجھانا چاہتے ہیں، نورِ ازل کو؟ جواب: نہیں۔ نورِ عرش کو؟ جواب: نہیں ۔ نورِ سمٰوات کو؟ جواب: نہیں نہیں۔ نورِ ارض = نورِ منزل = نورِ امامِ مبین؟ جواب: جی ہاں، یہ بات ہے۔

سورۂ نور (۲۴: ۳۵) میں ہے: اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، زمانۂ نبوّت کے اعتبار سے اس آیت کی کیا تاویل ہو سکتی ہے؟ جواب: اس کی تاویل یہ ہو سکتی ہے کہ زمین پر محمد رسولؐ اللہ ، اور علی امامِ مبینؑ خدا کا نورِ مجسم

 

۱۰۹

 

تھے، اور یہی حقیقت قرآنِ حکیم کی بہت سی آیات میں ہے۔

سورۂ حدید (۵۷: ۰۳) میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے چار اسمائے صفات اٹل حکمت کے ساتھ آئے ہیں، کہ کوئی بھی بڑے سے بڑا عالم ان کے معنی کو اپنی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۱۶ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۱۰

کنز الاسرار ۔ قسط ۵۷

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: بحوالۂ سورۂ حدید (۵۷: ۱۲ تا ۱۳) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) مومنین اور مومنات کے آگے اور دائیں جو نور دوڑتا ہے، وہ کون سا نور ہے؟ اور یہ معجزہ کب اور کہاں ظہور پذیر ہوتا ہے؟ جواب: جب روحانی قیامت کے ذریعے سے عالمِ شخصی کے مراحل طے ہو جاتے ہیں اور حظیرۂ قدس آتا ہے، تو وہاں امامِ زمان علیہ السّلام کا نورِ پاک مومنین اور مومنات کے آگے اور دائیں سعی کرتا ہے، یعنی دوڑتا ہے، جس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

سوال: مذکور بالا نور امامِ زمانؑ کا ہے یا مومنین و مومنات کا ہے؟

جواب: امامِ زمانؑ کا ہے اور اُس کے فرزندانِ روحانی کا ہے، جب ایک ہی مادّی سورج پورے نظامِ شمسی کے لئے کافی ہوتا ہے، تو کیا اللہ کا نورِ اعظم جو امامِ زمانؑ میں ہے، وہ روحانی باپ اور اس کے روحانی بچوں کے لئے کافی نہیں ہو سکتا ہے؟ جواب: کیوں کافی نہیں ہو سکتا۔

سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا = اے ہمارے پروردگار تو ہمارے لئے ہمارا نور کامل کر دے۔ سوال: کیا یہ نور فوری طور پر کامل نہیں ہے؟ جواب: نور ضرور کامل ہی ہے، لیکن مومنین و مومنات کو ابھی

 

۱۱۱

 

بہت سے تاویلی اسرار کو جاننا باقی ہے، جب آسمان میں ماہِ کامل یعنی چودھویں کا چاند ہوتا ہے تو پھر اس حال میں مطلع ابر آلود نہیں ہونا چاہئے، ورنہ ماہِ تمام کا نظارہ نہ ہو سکے گا۔

الغرض کسی سالک کے لئے یہ ترقی کافی نہیں ہے کہ اُس نے حظیرۂ قدس تک رسائی کی اور آفتابِ نور کے طلوع و غروب کو دیکھ لیا، حالانکہ اُس نے وہاں یہ عجیب واقعہ دیکھا کہ سورج اپنے مغرب سے طلوع ہوگیا، یہ اُس کے لئے اشارہ ہے کہ ابھی ابھی قیامت قائم ہوئی، پھر روحانی قیامت اور عالمِ شخصی کے تمام تاویلی اسرار جاننے کے لئے کئی سال لگ سکتے ہیں، اور ان جملہ اسرارِ معرفت کو قرآنی تاویل کے ساتھ ملانا بھی ہے پس ہر دم خداوندِ قدوس کی یاری چاہئے، و ھو المستعان ۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۱۷ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۱۲

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۵۸

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: قرآنِ حکیم باطن میں ایک اعلیٰ روح اور ایک نور ہے، اس کا قرآنی حوالہ کیا ہے؟ جواب: ۴۲: ۵۲۔ قرآنِ حکیم امامِ زمانؑ کے نور میں بصورتِ نورانی معجزات موجود و محفوظ ہے، اس کا ذکر کس آیت میں ہے؟ جواب: ۲۹: ۴۹۔ حکیم پیر ناصر خسرو کے نزدیک الکوثر سے کیا مراد ہے؟ جواب: اساس = علی۔
وجہِ دین میں شبِ قدر کی کیا تاویل ہے؟ جواب: حجتِ قائم علیہما السّلام۔
بہشت کی کیا تاویل ہے؟ جواب: کلمۂ باری = کلمۂ امر (کُنۡ = ہو جا)۔

مسئلۃ: بحوالۂ سورۂ ھود (۱۱: ۱۷) پس کیا وہ شخص جو اپنے ربّ کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہو (یعنی آنحضرت صلعم) اور ایک گواہ اس کے پیچھے ہی پیچھے آتا ہو جو اسی میں سے ہو (یعنی مولانا علی علیہ السّلام) ، اور اس کے پہلے سے موسیٰ کی کتاب (یعنی ہارون) امام اور رحمت ہو۔

اس آیۂ کریمہ میں اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو عظیم اور پُرنور حکمتیں ہیں۔

رسولِ پاک اپنے ربّ کی طرف سے یقیناً روشن دلیل پر تھا، علیؑ جو آپ کے

 

۱۱۳

 

نور سے ہے وہ آپ کے بعد گواہ ہے اور وہ آپ کی کتاب (قرآنِ ناطق) اور رحمت ہے، جس طرح موسیٰؑ کی کتاب امام ہارون باعثِ رحمت تھا۔ اس تاویلی حکمت کی تصدیق حدیثِ مماثلتِ ہارونی سے ہو جاتی ہے۔

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ ذُرِّیَّةًۢ بَعْضُهَا مِنْۢ بَعْضٍؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۔ ترجمہ: اللہ نے آدم اور نوح اور آلِ ابراہیم اور آلِ عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اپنی رسالت کے لئے) منتخب کیا تھا، یہ ایک سلسلے کے لوگ تھے، جو ایک دوسرے کی ذرّیت سے پیدا ہوئے تھے، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر، ۱۸ ، مارچ ۲۰۰۲ء

 

۱۱۴

 

کنز الاسرار ۔ قسط۵۹

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: درجات الائمّہ کس طرح ہیں؟ جواب: الامام المقیم، الامام الاساس ، الامام المتم، الامام المستقر، الامام المستودع۔

سوال: اللہ تعالیٰ نے آدم، نوح، آلِ ابراہیم اور آلِ عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر اپنی نبوّت، رسالت، امامت اور اساسیّت کے لئے منتخب کیا۔ اس آسمانی انتخاب میں آنحضرتؐ کا اسمِ گرامی کہاں ہے؟ جواب: یہ الٰہی انتخاب حضرت سید الانبیاء و المرسلین کے نورِ پاک کی برکت سے ہوا کیونکہ بحکمِ خدا حضورِ انورؐ کا نور آدم، نوح، ابراہیم، آلِ ابراہیم، عمران = ابو طالب، اور آلِ ابو طالب کے سلسلے میں پشت بہ پشت منتقل ہوتے ہوئے آیا ہے، پس ان تمام مقدّس ہستیوں میں محمدؐ و علیؑ کا نور تھا، خصوصاً آلِ ابراہیم اور آلِ عمران میں محمدؐ و علیؑ کا ذکر ہے، یہ بات خوب یاد رہے کہ عمران تین ہیں، اوّل موسیٰؑ کا باپ، دوم مریمؑ کا باپ، سوم ابو طالبؑ، جس کا نام عمران اور کنیت ابو طالب ہے۔ ابو طالبؑ ہی نے بمرتبۂ امامِ مقیم آنحضرتؐ کو اسمِ اعظم کی تعلیم

 

۱۱۵

 

دی تھی، اور سلسلۂ اولادِ اسماعیل کی میراث = امامت، اساسیت وغیرہ آنحضرتؐ کو پہنچا دی تھی، بحوالۂ کتابِ سرائر ص ۸۲-۸۳۔ نیز ص ۲۳۵۔

جس طرح بحیرا نے اولادِ اسحاق کی میراث = نبوّت، رسالت آنحضرتؐ کے سپرد کر دی تھی۔ پس حضورؐ کے پاس اسماعیلؑ اور اسحاقؑ دونوں کے مرتبے جمع ہوگئے، اور آپ نبی، رسول، امام ، اور اساس ہوگئے ص ۸۳۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر، ۱۸ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۱۶

کنز الاسرار ۔ قسط ۶۰

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: حضرتِ عبد المطلب میں محمدؐ و علیؑ کا نور تھا، اسی وجہ سے ابرہہ کے فیلِ اعظم نے سجدہ کیا تھا، یہ روایت کس کتاب میں ہے؟ جواب: الملل و النحل ص ۶۶۴- ۶۶۵ اور حیات القلوب ص ۳۴ پر دیکھیں۔

سوال: آیا امامِ مبین کے معجزات میں یہ معجزہ بھی ممکن ہے کہ ہوا، پانی وغیرہ جیسی بے زبان چیزوں کی آواز میں کچھ بولی ہو، پرند خصوصاً مرغا کچھ بولے، اور گھوڑا کچھ بات کرے؟ جواب: یہ معجزہ نہ صرف ممکن ہے، بلکہ امرِ واقعی اور حصّۂ معرفت ہے، اگر یہ معجزات نہ ہوں تو پھر آفاقی معجزات بہت ہی کم ہوں گے، مگر یہ بات نہیں ہے۔

مسئلۃ: سرائر ص ۱۶۸ پر ہے: ترجمہ: روایت ہے کہ یوشع بن نون اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر بحیرۂ قلزم کی سطح پر چلنے لگا تھا، کیا یہ معجزہ انسانِ کامل کے لئے ممکن ہے؟ جواب: اگر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہے تو کوئی خدا کا دوست گھوڑے پر سوار ہو کر ہوا میں بھی چل سکتا ہے، یہ جسمِ لطیف

 

۱۱۷

 

کا معجزہ ہے۔

آپ قرآنِ حکیم میں آفاق و انفس کے معجزات سے متعلق آیاتِ کریمہ کو پڑھنا، اور تفسیر و تاویل کے طور پر حجتِ قائم صلوات اللہ علیہ کے ارشادات کو بھی پڑھتے رہنا، آپ حقیقی علم اور خصوصی عبادت کے ذریعے سے امامِ زمانؑ کے نورِ اقدس کے بہت ہی قریب ہو جائیں مگر خیال رہے کہ معجزات سے پہلے امتحانات بہت زیادہ ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی، منگل ، ۱۹ ، مارچ ۲۰۰۲ء

 

۱۱۸

 

 

کنز الاسرار ۔ قسط۶۱

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: جماعت خانۂ قرانگغو توغراق ، یارقند (صین = چین) میں آپ نے حجتِ قائم علیہ السّلام کے عظیم معجزات کو بارہا دیکھا ہے، کیا آپ ان میں سے چند کا یہاں ذکر کردیں گے؟ جواب: ان شاء اللہ، ایک دفعہ جماعت خانہ نے وہی ذکرِ جلی کرکے سنایا جو ہم اکثر جماعت کے ساتھ کرتے رہتے تھے، ایک دفعہ صرف جماعت خانہ ہی میں زلزلۂ روحانی آیا، جس میں روحانی قیامت کی علامت ہوتی ہے، ایک شب یہ احساس و ادراک ہوا کہ کچھ روحانی لشکر جماعت خانہ کے گرد طواف کر رہے تھے فوجی انداز سے چلنے کی وجہ سے میں ان کے پیروں کی آواز سن رہا تھا، ان میں میرے والد صاحب بھی تھے، میں ان کے جوش و جذبے کی آواز کو نمایان طور پر سنتا تھا، اس وقت میرے والدِ محترم ہونزہ میں موجود تھے۔ یہ جماعت خانہ عجیب و غریب روحانی برکتوں سے مملو اور معجزاتی تھا اس کی تعمیر ۱۹۴۹ء میں تنہا ایک عاشقِ مولا نے ذاتی اخراجات سے کروائی تھی، جس کا پیارا نام عزیز محمد خان (بای = امیر) ابن عزیز آخوند تھا، اب وہ ان شاء اللہ بہشتِ برین میں ہے، وہ بڑا دیندار حقیقی مومن اور عاشقِ

 

۱۱۹

 

جان نثار تھا مجھے یہ اندازہ ہے کہ مولا نے اس کوحدودِ دین میں شامل کر لیا تھا، کیونکہ جماعت خانہ اور مذہب کے لئے اس کی بے شمار خدمات اور قربانیاں تھیں۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرتِ قائم القیامت علیہ افضل التحیۃ و السّلام کا حجتِ اعظم جثّۂ ابداعیہ میں ظہور فرما ہوا یہ معجزہ ظاہر میں انتہائی حیران کُن اور بڑے بڑے عجائب و غرائب کا مظہر ہوتا ہے اور اگر آپ اس معجزے کو قرآنی تاویل کی روشنی میں دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کی بلندی اور عظمت کا آپ کو بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے، میرا خیال ہے کہ میں نے رفتہ رفتہ امامِ زمانؑ کے بہت سے معجزات کو تحریری شکل میں لایا ہے اور میری بہت سی نظموں میں اکثر انہی معجزات کے اشارے ہیں، نیز میرے قریبی عزیزوں سے بھی آپ امامِ زمانؑ کے معجزات کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
منگل ، ۱۹ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۲۰

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۶۲

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: سورۂ توبہ (۰۹: ۰۳) الحجُ الاکبر = حجِ اکبر کی کیا تاویل ہے؟ جواب: جب حدودِ دین میں سے کسی کے عالمِ شخصی میں روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے تو یہ حجِ اکبر ہے، جس طرح حضرتِ ابراہیمؑ کو خدا نے حکم دیا تھا کہ حج  کے لئے لوگوں میں اعلانِ عام کرے یعنی روحانی قیامت کے لئے سب لوگوں کو جمع کر لیں (۲۲: ۲۷)۔

سورۂ نمل (۲۷: ۸۲) میں دابۃ الارض کا ذکر ہے، ترجمہ: اور جب ہماری بات (یعنی وعدۂ قیامت کی بات) پوری ہونے کا وقت اُن پر آ پہنچے گا تو ہم ان کے لئے زمین سے (یعنی زمینِ دعوت سے) ایک جانور (یعنی معجزۂ امامِ زمانؑ) ظاہر کریں گے، جو ان سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیات (یعنی امامِ زمانؑ) پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

کتابِ کوکبِ دری ، بابِ سوم، منقبت ۲۲ میں مولا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: انا دابۃ الارض ، یعنی میں ہوں دابۃ الارض، جو علاماتِ قیامت میں سے ہے۔

۱۲۱

مولا کا ارشاد ہے: انا الذی اقوم الساعۃ ۔ یعنی میں ہوں وہ شخص جو قیامت کو برپا کرتا ہوں (منقبت ۵۳) مولا وہ کتابِ ناطقِ نورانی اور لدنّی ہے، جس میں کوئی شک نہیں، بلکہ یقین ہی یقین ہے۔ مولا اسماءُ الحسنیٰ = اسمِ اعظم ہے (۰۷: ۱۸۰) ، مولا خود روحانی قیامت ہے۔ مولا ناقورِ اسرافیل ہے۔ مولا قائم القیامت ہے۔ مولا لوحِ محفوظ ہے۔ مولا حاملِ عرش ہے، مولا راسخ فی العلم ہے، یعنی علمِ الٰہی میں پختہ کار۔ مولا مؤول یعنی صاحبِّ تاویل ہے۔ آپ کتاب کوکبِ دری کے باب اوّل، دوم اور سوم کو خوب غور سے پڑھنا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
بدھ ، ۲۰ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۲۲

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۶۳

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: سورۂ مومنون (۲۳: ۱۰۱) ترجمہ: پھر جونہی کہ صور پھونک دیا گیا، ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور وہ نہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ اس کی کیا تاویلی حکمت ہے؟ جواب: ہر روحانی قیامت کے لئے ایک نفسِ واحدہ ہوا کرتا ہے، تمام ارواحِ خلائق اُسی کی ذرّیت قرار پاتی ہیں، اسی طرح سوائے رسولؐ اور امامؑ کے سب کا سابقہ رشتہ ختم ہو جاتا ہے۔

سوال: بحوالۂ سورۂ حدید (۵۷: ۲۸) ترجمہ: اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول (محمد صلعم) پر ایمان لاؤ جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے، اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دہرا حصّہ عطا فرمائے گا اور تمہیں وہ نور بخشے گا، جس کی روشنی میں تم چلو گے اور تمہارے قصور معاف کر دے گا اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔

مسئلۃ: کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ کون سا نور ہے؟ اور اس کی روشنی میں کہاں کہاں چلنا ہے؟ جواب: یہ امامِ زمانؑ کا نور ہے، اور اس کی روشنی میں خدا کی ساری خدائی میں چلنا ہے، جب خدا اپنے کسی بندۂ مقرب کا پاؤں ہو جاتا ہے

 

۱۲۳

 

تو ظاہر ہے کہ اُس کی سیرگاہ لامحدود ہو جاتی ہے، جیسے سلامتی کی راہوں میں چلنے کا تصوّر لامحدود ہے (۰۵: ۱۶)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
بدھ ، ۲۰، مارچ ۲۰۰۲ء
نوروز مبارک ہو! آمین!

۱۲۴

کنز الاسرار ۔ قسط ۶۴

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۶۱) مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ۔
ترجمہ: جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے (نیک) عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے، وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔

سوال: کیا اللہ کا یہ قانونِ افزونی ہر نیک کام کے لئے ہے؟ جواب: جی ہاں، جی ہاں۔

سوال: آیا یہ قانونِ رحمت روح کے پھیلاؤ کے لئے بھی ہے؟ جواب: جی ہاں یقیناً۔

سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۵) مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةًؕ-وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪ وَ

 

۱۲۵

 

اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۔
ترجمہ: تم میں کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ دے تاکہ اللہ اُسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟ گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی، اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعرات ، ۲۱ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۲۶

کنز الاسرار ۔ قسط۶۵

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: چار ارکانِ تصوّف کیا ہیں؟ جواب: شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت۔

جیسا کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے: الشریعۃ اقوالی، و الطریقۃ افعالی، و الحقیقۃ احوالی ، و المعرفۃ اسراری۔ یعنی شریعت میرے اقوال کا نام ہے، طریقت سے میرے افعال مراد ہیں، حقیقت میرے احوال کا نام ہے، اور معرفت سے میرے اسرار مراد ہیں۔

مسئلۃ: سابق موکھی “تولد شاہ ابنِ خلیفہ عافیت شاہ” ساکنِ مرتضیٰ آباد ہونزہ کے گھر میں امامِ زمان علیہ السّلام نے آپ کو طبِ روحانی کا ایک عظیم معجزہ دکھایا تھا اس کا ظہور کس طرح ہوا تھا؟ جواب: سابق موکھی تولد شاہ صاحب میرے چچا زاد بھائی ہیں، ایک دفعہ وہ مجھے اپنے گھر لے گئے، اور کہنے لگے دیکھیں کہ میرا بیٹا برکت علی سفر سے آیا ہے اور اس کا پاؤں اتنا سوجھا ہوا ہے، برکت علی کے پاؤں کو فیل پا کی بیماری ہوئی تھی، لہٰذا اس کا پاؤں

 

۱۲۷

 

ہاتھی کے پاؤں جیسا ہوگیا تھا، ہم دونوں بھائی تضرع اور گریہ و زاری کرنے لگے، کافی دیر تک مناجات کرنے کے بعد میرا عالمِ خیال بیداری ہی کی طرح بالکل روشن اور صاف نظر آیا اور اس میں میرے قبیلے کی ایک ماں: مم روزی جو صفِ اوّل کی ایک مومنہ اور لیڈی والنٹیئر تھی، سامنے آئی، یہ مم روزی کی صورت میں فرشتہ تھا، جس کے ہاتھ میں ایک پیاز تھی، اسی دوران ایک درختِ بادام نظر آیا جس پر بادام ہی بادام تھے، پس ہمیں گریہ و زاری اور مناجات کا معجزانہ جواب مل گیا، میں نے بھائی سے کہا مبارک ہو! مولائے پاک نے ہماری عاجزانہ مناجات سن لی، اب کچے پیاز کو کوٹ کر روغنِ بادام کے ساتھ برکت علی کے پاؤں پر لگانا، چونکہ یہ امامِ زمانؑ کا طبی معجزہ تھا، اس لئے برکت علی کا پاؤں ایک ہفتے کے اندر اندر بالکل ٹھیک ہو گیا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ، ۲۲ ، مارچ ۲۰۰۲ء

 

۱۲۸

 

کنز الاسرار ۔ قسط۶۶

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: کیا جنّات میں بھی حدودِ دین ہوتے ہیں؟ جواب: جی ہاں یقیناً ہوتے ہیں، جنّات کے بارے میں معلومات کا ایک عظیم ذخیرہ: سورۂ احقاف (۴۶: ۲۹ تا ۳۲):
وَ اِذْ صَرَفْنَاۤ اِلَیْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَۚ-فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْۤا اَنْصِتُوْاۚ-فَلَمَّا قُضِیَ وَ لَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِیْنَ قَالُوْا یٰقَوْمَنَاۤ اِنَّا سَمِعْنَا كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ یَهْدِیْۤ اِلَى الْحَقِّ وَ اِلٰى طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍ یٰقَوْمَنَاۤ اَجِیْبُوْا دَاعِیَ اللّٰهِ وَ اٰمِنُوْا بِهٖ یَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ یُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ وَ مَنْ لَّا یُجِبْ دَاعِیَ اللّٰهِ فَلَیْسَ بِمُعْجِزٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَیْسَ لَهٗ مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءُؕ-اُولٰٓىٕكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
ترجمہ: (اور وہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے) جب ہم جنّوں کے ایک گروہ کو تمہاری طرف لے آئے تھے تاکہ قرآن سنیں، جب وہ اُس جگہ پہنچے

 

۱۲۹

 

(جہاں تم قرآن پڑھ رہے تھے) تو انہوں نے آپس میں کہا خاموش ہو جاؤ، پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ خبردار کرنے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے، انہوں نے جا کر کہا، “اے ہماری قوم کے لوگو! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے، تصدیق کرنے والی ہے اپنے سے پہلے آئی ہوئی کتابوں کی، رہنمائی کرتی ہے حق اور راہِ راست کی طرف، اے ہماری قوم کے لوگو! اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول کر لو اور اس پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں عذابِ الیم سے بچا دے گا،” اور جو کوئی اللہ کے داعی کی بات نہ مانے وہ نہ زمین میں خود کوئی بل بوتا رکھتا ہے کہ اللہ کو زچ کر دے، اور نہ اس کے کوئی ایسے حامی و سرپرست ہیں کہ اللہ سے اس کو بچا لیں، ایسے لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ، ۲۴ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۳۰

کنز الاسرار ۔ قسط۶۷

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: آیا سورۂ جنّ (۷۲) میں اسرارِ جنّ کا ایک عظیم خزانہ موجود نہیں ہے؟ جواب: یقیناًعظیم خزانہ موجود ہے، ترجمۂ سورۂ جنّ:

اے نبی! کہو میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جنّوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا ، پھر ( جا کر اپنی قوم کے لوگوں سے) کہا: “ہم نے ایک بڑا عجیب و غریب قرآن سنا ہے جو راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اس لئے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔” اور یہ کہ “ہمارے ربّ کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے، اس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے۔” اور یہ کہ “ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں بہت خلافِ حق باتیں کہتے رہے ہیں۔” اور یہ کہ “ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جنّ کبھی خدا کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے۔”  اور یہ کہ “انسانوں میں سے کچھ لوگ جنّوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے، اس طرح انہوں نے جنّوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا۔” اور یہ کہ “انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمہارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو رسول بنا کر نہ بھیجے گا۔” اور یہ کہ “ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہریداروں سے پٹا پڑا ہے اور شہابوں کی

 

۱۳۱

 

بارش ہو رہی ہے۔” اور یہ کہ “پہلے ہم سن گن لینے کے لئے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پا لیتے تھے، مگر اب جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لئے گھات میں ایک شہابِ ثاقب لگا ہوا پاتا ہے۔” اور یہ کہ “ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی برا معاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کا رب انہیں راہِ راست دکھانا چاہتا ہے۔” اور یہ کہ “ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ اس سے فروتر ہیں، ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔” اور یہ کہ “ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں ہم اللہ کو عاجز کر سکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں۔” اور یہ کہ “ہم نے جب ہدایت کی تعلیم سنی تو ہم اس پر ایمان لے آئے ، اب جو کوئی بھی اپنے رب پر ایمان لے آئے گا اسے کسی حق تلفی یا ظلم کا خوف نہ ہو گا۔”  اور یہ کہ “ہم میں سے کچھ مسلم (اللہ کے اطاعت گزار ) ہیں اور کچھ حق سے منحرف، تو جنہوں نے اسلام (اطاعت کا راستہ) اختیار کر لیا انہوں نے نجات کی راہ ڈھونڈ لی، اور جو حق سے منحرف ہیں وہ جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔”

اور (اے نبی کہو، مجھ پر یہ وحی بھی کی گئی ہے کہ ) لوگ اگر راہِ راست پر ثابت قدمی سے چلتے تو ہم خوب سیراب کرتے تاکہ اس نعمت سے ان کی آزمائش کریں، اور جو اپنے ربّ کے ذکر سے منہ موڑے گا اس کا ربّ اسے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا، اور یہ کہ مسجدیں اللہ کے لئے ہیں، لہٰذا ان میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو، اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اس کو پکارنے کے لئے کھڑا ہوا تو لوگ اس پر ٹوٹ پڑنے کے لئے تیار ہو گئے، اے نبی ، کہو کہ “میں تو اپنے ربّ کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔” کہو، “میں تم لوگوں کے لئے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں نہ کسی بھلائی کا،”  کہو، “مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی بچا نہیں سکتا اور نہ میں اس کے دامن کے سوا کوئی جائے پناہ پا سکتا ہوں، میرا کام اس کے سوا

 

۱۳۲

 

کچھ نہیں ہے کہ اللہ کی بات اور اس کے پیغامات پہنچا دوں، اب جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی بات نہ مانے گا اس کے لئے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔”

(یہ لوگ اپنی اس روش سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور کس کا جتھا تعداد میں کم ہے، کہو، “میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جارہا ہے وہ قریب ہے یا میرا ربّ اس کے لئے کوئی لمبی مدت مقرر فرماتا ہے، وہ عالم الغیب ہے، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، سوائے اس رسول کے جسے اس نے (غیب کا علم دینے کے لئے ) پسند کر لیا ہے۔ تو اس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے ربّ کے پیغامات پہنچا دیئے، اور وہ ان کے پورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے۔”

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ، ۲۴ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۳۳

کنز الاسرار ۔ قسط۶۸

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: ہم سلسلۂ نورٌعلیٰ نور کے عاشقانِ صادق ہیں لہٰذا ہم قرآن، حدیث اور ارشاداتِ أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کے ساتھ ساتھ تاریخ میں بھی نور ہی کا نام و نسب پڑھنا چاہتے ہیں، تو کیا آپ ایک مستند روایت کے حوالے سے حضرتِ نوح علیہ السّلام کا نسب بتائیں گے؟

جواب: نوح بن لامک بن متوشالح بن اخنوخ یا خنوخ بن یارد بن مہلیل من قینان بن انوش بن شیث (علیہ السّلام) بن آدم (علیہ السّلام) بحوالۂ قصص القرآن، مولانا محمد حفظ الرحمن سیوھاروی۔

حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کا نسب نامہ: ابراہیم خلیل اللہ بن تارخ بن ناحور بن سروج بن رعو بن فالح بن عابر بن شالح بن ارفکشاد بن سام بن نوح (بحوالۂ کتابِ مذکورۂ بالا)۔

ابھی ابھی خواب میں بھائی تولد شاہ، نائب شاہ وغیرہ کے ساتھ ایک گھر میں خداوند قدوس کی بے شمار نعمتوں کا جوش و جذبے سے سرشار ہو کر مناجاتی شکر کر رہے تھے، بہت کم الفاظ یاد رہے، میں تھا یا کوئی اور جو زوردار ترنم سے کہہ

 

۱۳۴

 

رہا تھا: اُسی مولا نے تمہیں ہر ہر نعمت عطا کر دی، اسی نے تم کو فرشِ زمین سے عرشِ برین تک پہنچا دیا، الغرض کوئی نعمت ایسی نہیں جو تم کو نہ دی گئی ہو، اس نورانی خواب کی یہ تاویل ہے کہ یہ میرے جملہ عزیزان تھے جن کو میں آج کل برادران و خواہرانِ روحانی کہہ کر مخاطب کرتا ہوں، کیونکہ وہ جسمانی بھائی مثال ہیں اور یہ روحانی بھائی بہن ممثول، میں کوئی بھی اشارۂ حکمت ضائع کرنا نہیں چاہتا ہوں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۲۵ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۳۵

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۶۹

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے اپنی والدۂ ماجدہ کی شان میں کیا ارشاد فرمایا؟ جواب: مولا کا ارشاد یہ ہے:

“میری والدہ خود مسلم روایات کے مطابق اصلی صوفی تھیں، جس طرح ان کے بہت سے قریبی ساتھی تھے، وہ عادتاً اپنا بہت سا وقت عبادت میں صرف کرتی تھیں جو روحانی نور اور خدا سے قرب حاصل کرنے کے لئے ہوا کرتی تھی، اس قسم کی ذہنیت میں تعصب کے لئے کوئی جگہ نہ تھی، بہت سے دوسرے صوفیوں کی طرح میری والدہ کے اندر ایک گہرا شاعرانہ ذوق موجود تھا، میں نے ان کو تقریباً وجدانی حالت میں رومی اور حافظ کے بعض اشعار پڑھتے ہوئے سنا ہے جن کے اندر وہ اعلیٰ تشبیہات ہوتی تھیں جو انسان کے متبرک تصوّرِ باری تعالیٰ اور اس عارضی حسن کے درمیان پائی جاتی ہیں جو پھولوں کے رنگوں میں، رات کے راگ اور جادو میں اور ایرانی صبح کی عارضی سج دھج میں نظر آتا ہے۔” (از آپ بیتی، باب: ہندوستان میں لڑکپن کا زمانہ، ص ۶۸-۶۹)۔

“میری والدہ جنہوں نے میرے ابتدائی لڑکپن میں میری تعلیمی تربیت پر

 

۱۳۶

 

زور دیا تھا اتنی ہوشیار اور نگرانی کرنے والی تھیں جتنی کہ وہ محبت کرنے والی تھیں، وہ اور میں دونوں سب سے زیادہ قریب اور سب سے زیادہ محبت والے خلوص کے ساتھ رہتے تھے اور اسی طرح پر ہم ان کی ساری طویل زندگی میں رہے اس زمانہ میں ہر رات کو میں ان کے کمرہ میں چلا جاتا تھا اور ان کے ساتھ عبادت میں شریک ہو جاتا تھا، وہ عبادت جو اتحاد کے لئے اور ملاء اعلیٰ کی مصاحبت کے لئے (Companionship on high) ہوتی ہے، اور جو مسلم مذہب کی جان ہے، میرا خیال ہے کہ اس مشترکہ تجربہ نے ہم دونوں میں وہ قوّت پیدا کی جس سے ہم اپنی دماغی اور روحانی تھکاوٹ اور بے چینی کے بوجھ کو، جو ان مشکل سالوں میں کسی طریقہ پر ہلکا نہ تھا، آسانی سے اٹھا سکیں، مگر میری والدہ کا مذہب نہایت مستقل طریقہ پر عملی قسم کا بھی تھا، ان کے نزدیک ایمان میں بغیر عمل کے کوئی نیکی نہ تھی اور اپنی قومی زندگی کی ابتداء سے میں نے اس اصولوں کو تسلیم کر لیا اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کی۔” (از آپ بیتی، باب: میں مغربی دنیا کا سفر کرتا ہوں، ص ۸۶)

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۲۵ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۳۷

 

کنز الاسرار ۔ قسط۷۰

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: جب آنحضرتؐ معراج کی طرف تشریف لے جا رہے تھے تو اس دوران آپؐ نے آسمانِ چہارم پر جو بڑا حیران کُن معجزہ دیکھا تھا، وہ کیا ہے؟ جواب: و روی عن رسول اللہ انہ قال: لما عرج بیی الی السماء الرابعۃ رایت علیا جالسا علیٰ کرسی الکرامۃ و الملائکۃ حافین بہ یعظمونہ و یعبدونہ و یسبحونہ و یقدسونہ فقلت حبیبی جبرائیل سبقنی اخی علی الیٰ ھٰذا المقام فقال لی: یا محمد ان الملائکۃ شکت الی اللہ شدۃ شوقھا الیٰ علی لعلمھا بعلوہ و منزلتہ و سالت النظر الیہ فخلق اللہ ہٰذا الملک علیٰ صورۃ علی و الزمھم طاعتہ فکلما اشتاقوا الیٰ علی نظروا الیٰ ہٰذا فیعبدوہ و یسبحوہ و یقدسوہ و ذٰلک قولہ: وَ هُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآءِ اِلٰهٌ وَّ فِی الْاَرْضِ اِلٰهٌؕ-وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْعَلِیْمُ (۴۳: ۸۴)۔ و قد قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم): النظر الیٰ وجہ علی عبادۃ اعظم من الطاعۃ، وای طاعۃ تتم الابطاعۃ،

 

۱۳۸

 

فذٰلک توجھت العباد علیہ۔

ترجمہ: آنحضرتؐ سے روایت کی گئی ہے: آپؐ نے فرمایا: جب میں شبِ معراج آسمانِ چہارم پر پہنچ گیا تو وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ علیؑ کرسئ کرامت و عزّت پر جلوہ فرما ہے، اور فرشتے اس کو گھیرے ہوئے اس کی تعظیم و عبادت اور تسبیح و تقدیس کر رہے ہیں، پس میں نے کہا اے میرے دوست جبرائیل! کیا میرا بھائی علیؑ مجھ سے پہلے یہاں پہنچ گیا؟ تو جبرائیل نے مجھ سے کہا یا محمد اصل واقعہ یہ ہے کہ جب فرشتوں کو علیؑ کے مرتبۂ عالی کا علم ہوا تو ان میں علیؑ کے دیدار کا بڑا شدید شوق پیدا ہوا جس کی انہوں نے اللہ سے شکایت کی، پس اللہ نے علیؑ کی صورت پر اس فرشتے کو پیدا کیا اور ان پر اس کی طاعت لازم کر دی، پس جب جب ان کو علی کے دیدار کا اشتیاق ہوتا ہے تو وہ اس فرشتے کا دیدار کرتے ہیں (بحوالۂ کتاب السرائر ص ۱۱۵-۱۱۶)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۲۶ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۳۹

 

کنز الاسرار ۔ قسط۷۱

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: سلسلۂ نزولِ قرآن کی آخری آیت کون سی ہے؟ جواب: وہ آیۂ کریمہ یہ ہے: اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ (۰۵: ۰۳)۔

ترجمہ: آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔

سوال: آیا بزرگانِ دین کی کسی کتاب میں یہ ذکر یا اشارہ ہے کہ قبل از آدم روحانی ادوار تھے؟ جواب: جی ہاں، ایسا ذکر ہے، کتاب سرائر ص ۲۱، کتابِ اثبات النبوات ص ۱۸۲، کتاب دعائم الاسلام جلد ثانی (عربی) ص ۲۹۱۔ سیّارۂ زمین پر آدم سے پہلے جنّات رہتے تھے، اور جنّات کی تاویل اہلِ باطن ہیں۔

سوال: بحوالۂ سورۂ شوریٰ (۴۲: ۲۹) کیا اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات میں جاندار مخلوقات پھیلا دی ہیں؟ جواب: جی ہاں، اس آیۂ شریفہ کی

 

۱۴۰

 

مکمل تاویل کرنی ہوگی، کیونکہ اس میں بہت سے مسائل کا حل موجود ہے۔

سوال: کیا اس آیت (۴۲: ۲۹) کے مطابق ہر پہاڑ، ہر وادی، ہر دشت و صحرا، اور ہر بیابان میں مخلوقِ لطیف موجود ہو سکتی ہے؟ جواب: جی ہاں! یقیناً، اچھی بھی اور بری بھی۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ، ۲۷ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۴۱

کنز الاسرار ۔ قسط۷۲

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: کل کائناتی جاندار مخلوقات سے متعلقہ آیتِ کریمہ کون سی ہے؟ جواب: وہ آیۂ شریفہ یہ ہے: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَثَّ فِیْهِمَا مِنْ دَآبَّةٍؕ-وَ هُوَ عَلٰى جَمْعِهِمْ اِذَا یَشَآءُ قَدِیْرٌ (۴۲: ۲۹)۔ ترجمہ: اس کی آیاتِ قدرت میں سے ہے یہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور یہ جاندار مخلوقات جو اس نے دونوں جگہ پھیلا رکھی ہیں، وہ جب چاہے انہیں (بذریعۂ روحانی قیامت عالمِ شخصی میں ) جمع کر سکتا ہے۔

حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کے لئے بحکمِ خدا کل کائناتی ارواح و ملائکہ نے منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی میں وقوعی سجدہ (یعنی گرتے ہوئے سجدہ) کیا تھا، اور یہی تسخیرِ کائنات کا معجزۂ اعظم بھی تھا، اور حظیرۂ قدس میں تمام ارواح و ملائکہ نے حضرتِ آدمؑ کے لئے یک حقیقتی سجدہ کیا = سب کے سب نفسِ واحدہ میں فنا ہو گئے تھے۔

سورۂ اعراف کی (۰۷: ۱۱) وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ۔۔۔۔ اس آیۂ کریمہ کو بار

 

۱۴۲

 

بار غور سے پڑھنے کی فکری عبادت کریں، آدم کے قصّے میں آپ کا قصّہ کیوں ملا ہوا ہے؟ یہ آیۂ کریمہ اسرارِ عظیم سے پر ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ، ۲۸ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۴۳

کنز الاسرار ۔ قسط۷۳

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

تیمنا و تبرکا (برکت اور تبرک کے طور پر) شرح الاخبار سے کچھ بتائیں؟ جواب: آنحضرت کا ارشاد ہے: نادی مناد من السماء یوم احد: لا فتی الا علی ، و لا سیف الا ذوالفقار۔ ترجمہ: علی جیسا کوئی بہادر نہیں، اور ذوالفقار جیسی کوئی تلوار نہیں۔ بحوالۂ شرح الاخبار، جلدِ دوم، جز: نہم، ص ۳۸۱ جنگِ احد میں آسمان پر کوئی فرشتہ وصفِ علی کا یہ اعلان کر رہا تھا۔

کتابِ حیات القلوب، جلدِ دوم، باب ۳۲ حالاتِ جنگِ احد میں ص ۳۵۳ پر ہے: ۔۔۔ آنحضرت نے علیؑ سے فرمایا: اے علی تم نے اپنی تعریف نہیں سنی، وہ دیکھو آسمان سے فرشتۂ رضوان نعرہ لگا رہا ہے: لا سیف الا ذوالفقار و لا فتی الا علی۔ ص ۳۵۱ پر ہے کہ یہ تعریفی اعلان جبرائیل کر رہا تھا، بہرحال لا فتی میں جو علی کی آسمانی تعریف ہے وہ بہت ہی مشہور ہے، شرح الاخبارِ مذکورہ کے فٹ نوٹ میں بھی دیکھیں۔

کتاب شرح الاخبار فی فضائل الائمۃ الاطھار، جلد

 

۱۴۴

 

اوّل ، جز: ۲ میں یہ حدیثِ شریف ہے: ان اللہ عز و جل خلق حب علی شجرۃ اصلھا فی الجنۃ و اغصانھا فی الدنیا، فمن تعلق بغصن من اغصانھا فی الدنیا او ردہ الجنۃ ۔ خدائے عز و جل نے علی کی پاک محبت کو ایک درخت کی مثال پر پیدا کیا جس کی جڑ جنّت میں اور شاخیں دنیا میں ہیں، پس جو شخص دنیا میں ان شاخوں میں سے کسی شاخ کے ساتھ وابستہ ہو جائے تو وہ اس شاخ کے ذریعے سے جنت میں وارد ہو جائے گا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعۃ المبارک ، ۲۹ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۴۵

 

کنز الاسرار ۔ قسط۷۴

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: از کتابِ مستطابِ گنجینۂ جواہرِ احادیث، ص ۳۷: ارشادِ نبیؐ ہے: ذکر علی عبادۃ = علیؑ کی یاد عبادت ہے۔ النظر الی وجہ علی عبادۃ = چہرۂ علیؑ کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ ان دونوں باتوں میں کیا حکمت ہے؟ جواب: علیؑ = امامِ زمانؑ کی یاد عبادت اس لئے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم ہے، اور اسمِ اعظم کی یاد سب سے بڑی عبادت ہے، اور چہرۂ علیؑ = امامِ زمانؑ کی طرف دیکھنا اس وجہ سے عبادت ہے کہ امامِ زمان وجہ اللہ = صورتِ رحمان بھی ہے، اور قرآنِ ناطق بھی ہے، پس صورتِ رحمان کا دیدار اور قرآنِ ناطق کا مطالعہ کیونکر خصوصی عبادت نہ ہو!

یہ حدیثِ شریف شرح الاخبار جزءِ اوّل ص ۱۰۵ پر ہے: و قد خلفت فیکم ما ان تمسکتم بہ بعدی لن تضلوا، کتاب اللہ و عترتی اہلِ بیتی فانھما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض، حبل ممدود من السماء الیکم طرفہ بید اللہ

 

۱۴۶

 

و طرفہ بایدیکم۔ ترجمہ: میں نے تمہارے درمیان اُس (معجزانہ چیز ) کو اپنا خلیفہ اور نمائندہ بنا دیا ہے کہ اگر تم میرے بعد اس کو پکڑے چلو گے تو تم ہرگز گمراہ نہ ہو جاؤ گے، وہ کتاب اللہ (قرآن) اور میرے اہلِ بیت کی عترت (امام) ہیں، یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گی تا آنکہ حوضِ کوثر پر مجھ سے مل جائیں، یہ گویا آسمان سے زمین تک لگائی ہوئی ایک رسی ہے، اس کا بالائی سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور زیرین سرا تمہارے ہاتھوں میں ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۳۰ ، مارچ ۲۰۰۲ء

 

۱۴۷

 

کنز الاسرار ۔ قسط۷۵

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: عروۃ الوثقیٰ (۰۲: ۲۵۶) = مضبوط حلقہ سے کیا مراد ہے؟ جواب: ولایتِ علیؑ۔ (بحوالۂ شرح الاخبار۔ ۱، ج: ۲، ص ۲۴۰)۔ مثل قل ھو اللہ احد: عن سلمان الفارسی قدس اللہ روحہ، انہ قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ یقول لعلی علیہ السلام، یا علی فیک مثل قل ھو اللہ احد، من قراھا مرۃ کان لہ اجر من قرا ثلث القرآن، و من قرا ھا مرتین کان لہ اجر من قرا ثلثی القرآن، و من قرا ھا ثلاث مرات کان لہ ثواب من قرا القرآن کلہ، و کذٰلک انت یا علی من احبک بقلبہ، کان لہ ثواب ثلث الاسلام، و من احبک بقلبہ، و اثنی علیک بلسانہ، کان لہ ثواب ثلثی الاسلام، و من احبک بقلبہ، و اثنی علیک بلسانہ و اعانک بیدہ، کان لہ مثل ثواب الاسلام کلہ۔

ترجمہ: علی علیہ السّلام میں قل ھو اللہ احد کی مثل ہے:

 

۱۴۸

 

سلمان فارسی قدس اللہ روحہ کی روایت ہے کہ رسولِ کریمؐ نے حضرتِ علیؑ سے فرمایا: یا علیؑ تجھ میں قل ھو اللہ احد کی مثل ہے کہ جو شخص ایک بار قل ھو اللہ ، کو پڑھتا ہے، اس کو ایسے شخص کا اجر ملتا ہے جس نے ایک تہائی قرآن پڑھ لیا ہو، اور جو دو بار قل ھو اللہ کو پڑھتا ہے، اس کو دو تہائی قرآن پڑھنے والے کا اجر ملتا ہے، اور جو تین بار قل ھو اللہ کو پڑھتا ہے، اس کو کل قرآن پڑھنے والے کا اجر ملتا ہے، اور اسی طرح تو ہے اے علیؑ، کہ جو شخص قلبی طور پر تجھ سے محبت کرتا ہے اس کو اسلام کا ایک تہائی ثواب مل جاتا ہے، اور جو شخص دل میں تیری محبت رکھتا ہے، زبان سے تیری تعریف بھی کرتا ہے، اس کو دو تہائی اسلام کا ثواب مل جاتا ہے، اور جو شخص دل میں تیری محبت رکھتا ہے، زبان سے تیری تعریف کرتا ہے، اور ہاتھ سے تیری مدد کرتا ہے، تو اس کو کل اسلام کے ثواب کے برابر ثواب مل جاتا ہے۔ بحوالۂ شرح الاخبار۔ ۲، ج: ۸، ص ۲۶۵۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ، ۳۱ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۴۹

 

کنز الاسرار ۔ قسط۷۶

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: حدیثِ شریف ہے: انا مدینۃ العلم و علی بابھا۔ یعنی میں علمِ دین = علمِ الٰہی کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ کیا قرآن و حدیث کا کوئی علم اس شہر سے باہر ہو سکتا ہے؟ جواب: نہیں ہرگز نہیں، جس کا واحد دروازہ علی = امامِ مبینؑ ہے۔

سوال: آیا قرآنِ عزیز میں اس حدیث کا کوئی حکیمانہ اشارہ موجود ہے؟ جواب: جی ہاں، اللہ کا حکم ہے، وَ اْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا۪ = تم گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو (۰۲: ۱۸۹)۔ جامعِ ترمذی جلدِ دوم میں یہ حدیث ہے: ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے چار اشخاص سے محبت کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ بھی ان سے محبت کرتا ہے، آپ سے پوچھا گیا: ہمیں بتائیے کہ وہ کون ہیں؟ آپ نے تین مرتبہ فرمایا کہ علی بھی انہی میں سے ہے، اور ابوذر، مقداد اور سلمان ہیں۔

حدیث الطیر : ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک پرندے (چکور) کا گوشت تھا، آپ نے دعا کی کہ یا اللہ! اپنی مخلوق

 

۱۵۰

 

میں سے محبوب ترین شخص میرے پاس بھیج تاکہ میرے ساتھ اس پرندے کے گوشت میں سے کھائے، چنانچہ علیؑ آئے اور آپؐ کے ساتھ اس پرندے کے گوشت میں سے کھانے لگے۔ حوالۂ ترمذی، باب ۔ ۱۸۰۹، نیز شرح الاخبار، جز: ۱۔

سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۴۳) میں ارشاد ہے: وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ۔ تاویلی مفہوم: اور اسی طرح اے أئمّۂ آلِ محمدؐ ہم نے تم کو ایک عادل امت بنایا ہے، تاکہ تم ظاہراً و باطناً لوگوں پر گواہ رہو، اور نورانیّت میں رسولؐ تم پر گواہ رہے۔ امام محمد باقر علیہ السّلام کے ارشاد کو پڑھیں: دعائم الاسلام جلد اوّل مضمون ولایتِ أئمّۂ اہلِ بیت علیہم السّلام۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، یکم اپریل ۲۰۰۲ء

۱۵۱

 

کنز الاسرار ۔ قسط۷۷

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

سورۂ انبیاء (۲۱: ۰۷) کے مطابق اہلِ ذکر سے کس طرح علم و حکمت کا کوئی سوال ممکن ہے؟ جواب: دیکھو کتابِ ہزار حکمت ح: ۱۵۳-۱۵۵، آپ نے سوال موال کچھ بھی نہیں کرنا ہے، صرف امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے نورِ اقدس میں فنا ہو جانا ہے وہاں جواب ہی جواب ہے اور کوئی سوال ہے ہی نہیں۔

“سوال” علمی بھوک اور پیاس کا احساس ہے جو اس دنیا میں ہے، اور اپنی جگہ پر ہونا چاہئے، لیکن جب امامِ زمانؑ کا نور عالمِ شخصی میں طلوع ہو جاتا ہے، تو تب وہاں بہشت کا عالم ہو جاتا ہے، اور بہشت میں بھوک نہیں پیاس نہیں۔

امامِ زمانؑ کا نور صامت (خاموش) بھی ہے اور ناطق (بولنے والا) بھی ہے، عالمِ خیال میں جو نور طلوع ہو جاتا ہے، وہ صامت ہے، لیکن جب روحانی قیامت کے آغاز کے ساتھ نور طلوع ہو جاتا ہے تو وہ ناطق (بولنے والا) ہے۔

کتابِ دعائم الاسلام عربی، جلدِ اوّل ص ۱۶۷ پر دعائے نور درج

 

۱۵۲

 

ہے، یہ پاک دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کی زبانِ وحی بیان سے ہے، اس لئے یہ یقیناً کلامِ الٰہی کی طرح ہے، یہ سرِ معرفت خوب یاد رہے کہ جب روحانی قیامت میں مومنِ سالک پر امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہو جاتا ہے تو اس میں بالکل ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ دعائے نور میں اس کا بیان ہے، اب آپ کتاب العلاج ، قرآنی علاج ص ۲۱۳ – ۲۲۱ “امواجِ نور کا تصوّر” خوب غور سے پڑھیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۲، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۵۳

کنز الاسرار ۔ قسط۷۸

سوالِ معظمِ عرفانی بغرضِ اضافۂ معلوماتِ عزیزانِ روحانی سلامت باشند!

مسئلۃ: کیا دعائے نور آنحضرت کے لئے صرف ذاتی ہے یا امت کے علم و عمل کے لئے بھی ہے؟ جواب: چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ تمام لوگوں کے لئے رسول اور معلّمِ ربّانی تھے اس لئے آپ کی یہ دعا امت کے علم و عمل کے لئے بھی ہے، اور اس کی عملی صورت غیر ممکن نہیں، بلکہ عین ممکن ہے، لہٰذا اس دعا کے اسرار کی معرفت بے حد ضروری ہے، بے حد ضروری، پس جب اللہ کے فضل و کرم سے تم پر روحانی قیامت قائم ہو گی، تو اس وقت امامِ زمان علیہ السّلام کا نور تمہارے عالمِ شخصی میں طلوع ہو جائے گا، جس سے تمہارے قلب میں نور ہوگا، کان، آنکھ ، زبان میں نور ہوگا، بلکہ تمہاری پوری ہستی کے خلیہ خلیہ اور ذرّہ ذرّہ میں نور ہوگا، واللہ تم طوفانِ نور میں مستغرق ہو جاؤگے، اس مرتبۂ عالی کے لئے تم شب و روز کوشش کرو، بہت زیادہ کوشش کرو، اپنے دل میں امامِ زمانؑ کا عشق و محبت قائم کرو، زبان سے ہمیشہ اس کی تعریف اور ہاتھ سے اس کی مدد کرتے رہو، پھر ان شاء اللہ تم امامِ زمانؑ کے نور میں فنا ہو جاؤ گے۔

دعائے نور: اللّٰھم اجعل لی نوراً فی قلبی، و نوراً فی

 

۱۵۴

 

سمعی، و نوراً فی بصری، و نوراً فی لسانی، و نوراً فی شعری، و نوراً فی بشری، و نوراً فی لحمی، و نوراً فی دمی، و نوراً فی عظامی، و نوراً فی عصبی، و نوراً من بین یدی، و نوراً من خلفی، و نوراً عن یمینی، و نوراً عن یساری، و نوراً من فوقی، و نوراً من تحتی۔

ترجمہ: یا اللہ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کر دے، اور میرے کان، آنکھ، اور زبان میں بھی نور بنا دے، میرے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں، اور رگوں میں بھی نور بنا دے، اور میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر، اور نیچے بھی نور مقرر فرما! (کتابُ العلاج، قرآنی علاج ص ۲۱۳-۲۱۴)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۲، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۵۵

 

کنز الاسرار ۔ قسط۷۹

سوالِ معظمِ عرفانی بغرضِ اضافۂ معلوماتِ عزیزانِ روحانی سلامت باشند!

قرآنِ حکیم (۶۶: ۰۴) میں صالح المومنین کس کا مبارک نام ہے؟ جواب: حضرت مولانا علی علیہ السّلام کا۔ س: اس پاک نام کی تاویلی حکمت کیا ہے؟ ج: مومنین کے باطنی احوال کی اصلاح کرنے والا (۴۷: ۰۵)۔

مسئلۃ: رسولِ پاک صلعم کی رسالت کا گواہِ اوّل تو اللہ تعالیٰ ہے، اور اس نے گواہِ ثانی کس کو بنایا ہے؟ ج: اس شخص کو جس کے پاس کتاب = قرآن کا باطنی علم و حکمت ہے۔ س: وہ کون ہے؟ ج: حضرتِ علی (۱۳: ۴۳)۔

سوال: قرآنِ حکیم میں و الراسخون فی العلم (۰۳: ۰۷) = اور وہ لوگ جو علم میں پختہ کار ہیں، یہ جملہ آیا ہے، جو حضرات اللہ کے اس ارشاد کے مطابق علم میں پختہ کار ہیں وہ کون ہیں؟ جواب: وہ سب سے اوّل اور سب سے افضل حضرتِ محمد صلعم ہیں، اور آپؐ کے بعد آپؐ کے خاندان کے أئمّۂ طاہرینؑ قرآن کی تاویل میں پختہ کار ہیں۔

سوال: شاید یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ کنیڈا کی ایک مشہور یونیورسٹی کے ایک بڑے پروفیسر نے آپ سے یہ سوال کیا کہ آپ کے امام کے پاس کیا معجزہ

 

۱۵۶

 

ہے؟ اس پر آپ نے یہ جواب دیا کہ میں امامِ زمانؑ کا ایک ادنیٰ سا مرید ہوں پھر بھی میں آپ کے سامنے ایک ایسا عجیب و غریب علم پیش کروں گا جو نہ آپ کے پاس ہوگا اور نہ دنیا میں کسی اور کے پاس، پھر آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ میرے امام علیہ السّلام کے پاس کیسے کیسے بڑے عجیب و غریب علمی معجزات ہیں۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ اس وقت گواہی کے لئے جنابِ محترم ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی صاحب، بحر العلوم بھی تشریف رکھتے تھے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۳ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۵۷

 

کنز الاسرار ۔ قسط۸۰

سوالِ معظمِ عرفانی بغرضِ حقائق و معارفِ عزیزانِ روحانی سلمھم اللہ تعالیٰ!

مسئلۃ: سورۂ عنکبوت (۲۹: ۴۹) میں ارشاد ہے: بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَؕ۔

تاویلی مفہوم = بلکہ وہ (قرآن) پُرنور معجزات کی صورت میں ہے، ان لوگوں کے باطن میں جن کو علمِ لدنّی عطا کیا گیا ہے۔ یہ أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہیں جن کے باطن میں قرآن بصورتِ نورانی معجزات موجود و محفوظ ہے، اور انہی حضرات کو علمِ لدنّی عطا ہوا ہے، دعائم الاسلام عربی جلدِ اوّل کے شروع میں جو کتاب الولایۃ ہے اس کو تا آخر ضرور پڑھ لیں، تا کہ آپ کو أئمّۂ اہلِ بیت علیہم السّلام کی تفسیر و تاویل کی معرفت حاصل ہو۔

سوال: آیا امامِ زمانؑ = امامِ مبینؑ کے نورِ پاک میں قرآن بصورتِ نورانی معجزات موجود و محفوظ ہے؟ جواب: جی ہاں۔ س: ایسے نورانی معجزات کا مشاہدہ کون کر سکتے ہیں؟ ج: ہر وہ عارف جو روحانی قیامت کے ذریعے سے جیتے جی امامِ زمانؑ کے نور میں فنا ہو جاتا ہے۔

۱۵۸

سوال: یہ سوال دعائے نور کے حوالے سے ہے، کیا امامِ زمان علیہ السّلام کا نور سمعی، بصری، لسانی، قلبی وغیرہ ہوتا ہے؟ جواب: جی ہاں۔

سوال: یہ سوال از بس عجیب و غریب اور انتہائی عظیم ہے کہ جب روحانی قیامت قائم ہونے لگتی ہے، اور امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہوتا ہے، تو اس وقت انسان میں جو جنّ ہے، اس پر کیا گزرتا ہے؟ جواب: وہ اس وقت مسلمان ہو کر فرشتہ بن جاتا ہے۔ س: اس پر قرآن کی کون سی شہادت ہے؟ ج: دیکھو (۰۷: ۱۴ تا ۱۵) جنّ = شیطان کو مہلت دی گئی ہے، وہ صرف قیامت تک ہے اور بس۔ نیز دیکھو (۱۵: ۳۶ تا ۳۷) اور (۳۸: ۷۹ تا ۸۰) پس روحانی قیامت کے شروع ہی میں جنّ مسلمان ہوکر فرشتہ بن جاتا ہے، اور جو فرشتہ ہے، وہ عظیم ہو جاتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ، ۴ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۵۹

 

کنز الاسرار ۔ قسط۸۱

سوالِ معظمِ عرفانی بغرضِ حقائق و معارفِ عزیزانِ روحانی سلمھم اللہ تعالیٰ!

وہ اسرارِ عظیم جو بڑے حیران کن اور عقل سے ماورا ہیں:

حدیث کی مشہور کتاب: المستدرک ، الجزء الثالث، ص ۱۱۶ کے آخر اور ۱۱۷ کے شروع میں یہ روایت ہے کہ حضرتِ مولانا علی علیہ السّلام کی والدۂ ماجدہ کا اسمِ گرامی فاطمہ بنتِ اسد تھا، اسد حضرتِ ہاشم کا بیٹا تھا۔

جب وقت آنے پر فاطمہ بنتِ اسد زوجۂ حضرتِ ابو طالب نے داعئ اجل کو لبیک کہا، تو زہے نصیب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے بطورِ بے مثال رحمت اپنی مبارک قمیض سے ان کو کفن دیا، ان کی قبر میں اتر کر لیٹ گئے اور قبر کو بڑی بابرکت بنا دیا، اور دستِ مبارک سے فراخئ قبر کے معجزانہ اشارے کئے، حضورِ اکرم صلعم نے فاطمہ بنتِ اسد کے لئے جو نمازِ جنازہ پڑھی وہ بھی یکتا اور بے مثال تھی کہ حضورِ پاکؐ نے ستر تکبیرات کے ساتھ نمازِ جنازہ پڑھی، اصحابِ کبار میں سے بعض نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے اس خاتون کے لئے وہ کچھ کیا جو کسی کے لئے نہیں کیا تھا؟ آپؐ نے فرمایا: یہ خاتون میری ماں تھیں جس نے مجھے جنم دیا (شاید اس ارشاد میں تاویل ہے۔) پھر رسولِ پاک نے فرمایا کہ جبرائیل

 

۱۶۰

 

علیہ السّلام نے میرے ربّ سے مجھے یہ خبر دی ہے کہ یہ خاتون اہلِ جنّت میں سے ہے، اور جبرائیل نے مجھے یہ بھی بتا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ستر ہزار فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ اس خاتون کے حق میں نمازِ جنازہ پڑھیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ، ۵ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۶۱

کنز الاسرار ۔ قسط۸۲

سوالِ معظمِ عرفانی بغرضِ حقائق و معارفِ عزیزانِ روحانی سلمھم اللہ تعالیٰ!

سورۂ ضحیٰ (۹۳: ۰۶) میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَلَمْ یَجِدْكَ یَتِیْمًا فَاٰوٰى۔ ترجمہ: کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟ آنحضرت کی ولادتِ با سعادت سے پہلے ہی آپ کے والد وفات پا چکے تھے، چھ سال کی عمر تھی کہ والدہ نے رحلت کی، پھر آٹھ سال کی عمر تک اپنے دادا (عبد المطلب) کی کفالت میں رہے، آخر اس درِ یتیم اور نادرۂ روزگار کی ظاہری و باطنی تربیت و پرورش کی سعادت آپ کے بے حد شفیق چچا حضرتِ ابو طالب کے حصہ میں آئی، انہوں نے زندگی بھر آپ کی نصرت و حمایت اور تکریم و تعظیم میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا، ہجرت سے کچھ پہلے وہ بھی دنیا سے رخصت ہوئے۔

مذکورہ آیۂ شریفہ کا یہ ظاہری ترجمہ اور وضاحت اپنی جگہ پر درست ہے، ساتھ ہی ساتھ اس میں تاویلی اسرار بھی ہیں، کتابِ سرائر ص ۲۳۲ پر آنحضرتؐ کا ارشاد ہے: و اقمت مع میکائیل عشرین سنۃ = اور میں میکائیل کے ساتھ بیس سال رہ چکا ہوں۔ اس کی ایک تاویل یہ ہے کہ آنحضرتؐ اپنے چچا

 

۱۶۲

 

حضرتِ عمران = ابو طالب (امامِ مقیم) کی کفالت یعنی روحانی پرورش میں بیس سال تک رہے۔

پس اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد : “اَلَمْ یَجِدْكَ یَتِیْمًا فَاٰوٰى = کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟” میں ان حضرات کی بے مثال خدمات کا اشارہ ہے: عبدالمطلب ، عمران = ابو طالب، فاطمہ بنتِ اسد (زوجۂ ابو طالب) اور خدیجہ زوجۂ نبی، انہی ارضی فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق و ہدایت سے اس درِّ یتیم کی بے مثال خدمات سر انجام دیں جن کا ریکارڈ اللہ نے حکمتِ قرآن میں محفوظ کر لیا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ، ۶ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۶۳

کنز الاسرار ۔ قسط۸۳

سوالِ معظمِ سری برائے اضافۂ معلوماتِ عزیزانِ روحانی سلمھم اللہ تعالیٰ!

بحوالۂ کتابِ سیرۃ النبی علامہ شبلی نعمانی و علامہ سید سلیمان ندوی، جلدِ اوّل، ص ۱۱۷-۱۱۸، جناب عبدالمطلب کی کفالت: والدۂ ماجدہ کے انتقال کے بعد آپ کے دادا عبدالمطلب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کو اپنے دامنِ تربیت میں لیا، ہمیشہ آپ کو اپنے ساتھ رکھتے تھے، عبدالمطلب نے بیاسی برس کی عمر میں وفات پائی اس وقت آنحضرت صلعم کی عمر آٹھ برس کی تھی، عبدالمطلب کا جنازہ اٹھا تو آنحضرتؐ بھی ساتھ تھے اور فرطِ محبت سے روتے جاتے تھے، عبدالمطلب نے بوقتِ انتقال اپنے بیٹے ابو طالب کو آنحضرتؐ کی تربیت سپرد کی، ابو طالب نے اس مقدس فرض کو جس خوبی سے ادا کیا اس کی تفصیل آگے آتی ہے، یہ واقعہ خاص طور پر لحاظ رکھنے کے قابل ہے ۔۔۔

ابو طالب کی کفالت: عبدالمطلب کے دس بیٹے مختلف ازواج سے تھے، ان میں سے آنحضرتؐ کے والد عبداللہ اور ابو طالب ماں جائے (حقیقی = سگے) بھائی تھے، اس لئے عبدالمطلب نے آنحضرت کو ابو طالب ہی کے آغوشِ تربیت میں دیا، ابو طالب آنحضرت سے اس قدر محبت رکھتے

 

۱۶۴

 

تھے کہ آپ کے مقابلہ میں اپنے بچوں کی پرواہ نہیں کرتے تھے، سوتے تو آنحضرت کو ساتھ لے کر سوتے اور باہر جاتے تو ساتھ لے کر جاتے۔

غالباً جب آپ کی عمر دس بارہ برس کی ہوئی تو آپ نے بکریاں چرائیں، عرب میں بکریاں چرانا معیوب کام نہ تھا، بڑے بڑے شرفاء اور امراء کے بچے بکریاں چراتے تھے، خود قرآنِ مجید (۱۶: ۰۵ تا ۰۶) میں ہے: وَ لَكُمْ فِیْهَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَ حِیْنَ تَسْرَحُوْنَ = ان میں تمہارے لئے جمال ہے جب کہ صبح تم انہیں چرنے کے لئے بھیجتے ہو اور جب کہ شام انہیں واپس لاتے ہو۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ عالم کی گلہ بانی کا دیباچہ تھا، یعنی یہ اس حقیقت کی تمہید تھی کہ آپ آگے چل کر ساری کائنات کی سرداری کرنے والے تھے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ، ۷ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۶۵

 

 

 

کنز الاسرار ۔ قسط۸۴

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ عزیزانِ روحانی سلمھم اللہ تعالیٰ!

النظر الی وجہ علی عبادۃ ۔ المستدرک ، سرائر، شرح الاخبار وغیرہ۔ سوال: اس میں کیا راز ہے؟ جواب: پہلا راز یہ ہے کہ علیؑ = امامِ زمانؑ وجہ اللہ = اللہ کا نور ہے، دوسرا راز یہ ہے کہ وہ قرآنِ ناطق ہے، تیسرا راز یہ ہے کہ وہ اسمِ اعظم اور اسماء الحسنیٰ ہے، چوتھا راز یہ ہے کہ وہ آئینۂ خدا نما ہے، پانچواں راز یہ ہے کہ وہ بہشتِ مجسّم ہے، چھٹا راز یہ ہے کہ وہ اللہ کا دین ہے، اور ساتواں راز یہ ہے کہ وہ کنزِ معرفت ہے۔

علی مع القرآن و القرآن مع علی لن یتفرقا حتیٰ یردا علی الحوض۔ المستدرک۔

آئینۂ خدا نما: وہ زندہ اور معجزانہ آئینہ جس میں خدا کا دیدار ہو سکتا ہے۔

شعر: آئینۂ خدائے نما مرتضیٰ بود

در چشمِ جان تجلئ جانان کند علی
ترجمہ: مرتضیٰ علی وہ معجزانہ آئینہ ہے، جس میں دیکھنے سے خدا کا

 

۱۶۶

 

دیدار ہوتا ہے، علی ہی ہے جو چشمِ باطن میں جانان (خدا) کی تجلی کرتا ہے۔

النظر الی علی عبادۃ = النظر الی وجہ علی عبادۃ۔ یہ ایک ہی حقیقت کی دو حدیثیں ہیں، اور دونوں صحیح ہیں، المستدرک، الجزء الثالث، ص ۱۵۲۔

یہ تاویلی راز ہمیشہ یاد رہے کہ علی علیہ السّلام سے امامِ زمانؑ مراد ہے۔ حدیثِ مدینۃ العلم کونسی ہے؟ حدیثِ دارِ حکمۃ بتاؤ؟ حضرتِ امام محمد باقر علیہ السّلام کے ارشادِ ما قیل کو پڑھ کر سناؤ؟ اگر آپ کو حدیثِ قدسی کنت کنزاً یاد ہے تو سناؤ؟ حدیثِ من عرف کا زیادہ تر تعلق عارف سے ہے یا عاشق سے؟

کیا امامِ مبین (۳۶: ۱۲) اللہ تعالیٰ کا خزینۃ الخزائن ہے؟ خدا کے اس خزانۂ خزائن سے فیض حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۸ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۶۷

 

کنز الاسرار ۔ قسط۸۵

سوالِ معظمِ سری برائے اضافۂ معلوماتِ عزیزانِ روحانی سلمھم اللہ تعالیٰ!

جامعِ ترمذی جلدِ دوم باب ۱۸۱۲: جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے طائف کی لڑائی کے موقع پر علیؑ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی، لوگ کہنے لگے، آج آپ نے اپنے چچازاد بھائی کے ساتھ کافی دیر تک سرگوشی کی ، فرمایا: میں نے نہیں کی بلکہ اللہ نے خود ان سے سرگوشی کی ہے۔ مذکورہ کتاب میں مناقب علی بن ابی طالب کے عنوان کے تحت یہ حدیث بھی درج ہے: ان علیا منی و انا منہ و ھو ولی کل مومن من بعدی۔ ترجمہ: یقیناًعلی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا ولی اور سرپرست ہے۔ وہاں یہ ارشاد بھی ہے: من کنت مولاہ فعلی مولاہ = یعنی میں جس کا مولا اور آقا ہوں، علی اس کا مولا اور آقا ہے۔

ان منکم من یقاتل علیٰ تاویلہ کما قاتلت علیٰ تنزیلہ۔ ترجمہ: یقیناً وہ شخص تم میں سے ہے جو قرآن کی تاویل پر جنگ کرے گا، جس طرح میں نے اس کی تنزیل پر جنگ کی۔ جو اصحاب حاضر تھے انہوں نے پوچھا: یا حضرت وہ کون ہے؟ حضورِ پاکؐ نے مولا علیؑ کی طرف اشارہ فرمایا:

 

۱۶۸

 

ھو ذالکم خاصف النعل = یہ وہ جوتی درست کرنے والا شخص ہے۔ وہ علی تھا، شرح الاخبار۔۱ ، جز ۔ ۳، ص ۳۲۱ پر دیکھیں۔

بے حد ضروری سوال: قرآن کی تاویلی جنگ دراصل کیا چیز ہے؟ جواب: قرآن کی تاویلی جنگ روحانی قیامت ہے۔ سورۂ اعراف (۰۷: ۵۲ تا ۵۳) میں غور سے دیکھیں، یہ کتاب = قرآن کی تاویل روحانی قیامت بھی ہے اور تاویلی جنگ بھی، اور علیؑ = امامِ مبینؑ قائمِ قیامت بھی ہے اور قیامتی = تاویلی جنگ کا سردار بھی ہے، پس امامِ زمانؑ حدودِ جسمانی میں کہیں روحانی قیامت برپا کر کے تاویلی جنگ کے ذریعے سے دینِ خدا کی عالمی اور کائناتی فتح کا تجدّد کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کا انتہائی عظیم پروگرام یہ ہے کہ ہر روحانی قیامت (۱۷: ۷۱) میں اس کا دین تمام ادیان پر غالب آتا ہے، دیکھو (۰۹: ۳۳)، (۴۸: ۲۸)، (۶۱: ۰۹) اور یہ سب سے عظیم کارنامہ بحکمِ خدا امامِ آلِ محمد انجام دیتا ہے، خدا اور رسول نے جس مقصد کے لئے امامؑ کو قائم کیا ہے، وہ عظیم مقصد بھی یہی ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۹ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۶۹

 

 

کنز الاسرار ۔ قسط۸۶

سوالِ معظمِ اسراری برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلمھم اللہ تعالیٰ!

صحیح بخاری ، جلدِ دوم باب ۳۹۱ مناقبِ علی بن ابی طالب القرشی = القریشی، الھاشمی ابی الحسن (علیہ السّلام) قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: لعلی انت منی و انا منک ۔ یعنی نبئ کریم صلعم نے علی سے فرمایا تھا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔

یہ حدیثِ شریف آنحضرتؐ کا ایک عظیم الشّان عرفانی معجزہ ہے جس کی روشنی میں ہر اس حدیث کی حکمت نمایان ہو جاتی ہے، جو مولا علیؑ کی شان میں ہے، کیونکہ اس حدیث میں محمدؐ و علیؑ کے نورِ واحد کا واضح اشارہ ہے، جو عاشقان و عارفان ہیں وہ سب کے سب اس سرچشمۂ آبِ حیان سے سیراب ہو سکتے ہیں۔

صحیح بخاری ، جلدِ دوم باب ۱۰۷ میں یہ حدیثِ شریف ہے: ناس من امتی یرکبون البحر الاخضر فی سبیل اللہ مثلھم الملوک علی الاسرۃ۔ ترجمہ: میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے بحرِ اخضر پر سوار ہوں گے، ان کی مثال (دنیا اور آخرت میں) تخت پر بیٹھے

 

۱۷۰

 

ہوئے بادشاہوں کی سی ہے۔ بحرِ اخضر = سبز سمندر، تاویلاً روحانیت ہے۔

یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ (۱۷: ۷۱) اس میں کم از کم چار چیزیں ہیں: اوّل یہ روحانی قیامت ہے، جس کا ذکر تمام قرآن میں محیط ہے، دوم یہ قرآن کی تاویلی جنگ ہے، سوم یہ جہادِ روحانی ہے، اور چہارم یہ لوگوں کو خدا کی طرف آخری اور زبردستی دعوت ہے، پس اس جہادِ باطن میں شرکت کے لئے حقیقی مومنین و مومنات کی روحیں اطرافِ عالم سے بحرِ اخضر (بحرِ روحانیّت) پر سوار ہو کر آتی ہیں۔

مرکزِ علم و حکمت (لندن) کی جانب سے ایک بڑا عجیب و غریب کنز الاسرار کا انمول تحفہ آیا ہے، ان شاء اللہ العزیز جلد از جلد جملہ عزیزان کو ارسال کر دیں گے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۱۰ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۷۱

 

کنز الاسرار ۔ قسط۸۷

سوالِ معظمِ سری برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلمھم اللہ تعالیٰ!

حضرتِ جعفرِ طیار بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم کے بارے میں المستدرک سے چند احادیث کا ترجمہ:

۴۹۳۳

حضرتِ ابنِ عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: “میں گزشتہ رات جنت میں داخل ہو کر کیا دیکھتا ہوں کہ جعفر (بن ابی طالب) فرشتوں کے ساتھ پرواز کر رہا ہے اور حمزہ ایک تخت پر تکیہ لگائے بیٹھا ہے۔”

۴۹۳۵

ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: “میں نے جعفر بن ابی طالب کو دیکھا کہ وہ ایک فرشتہ ہو گیا ہے اور دو فرشتگانہ بازؤوں سے فرشتوں کے ساتھ اڑ رہا ہے۔”

۴۹۴۱

جابر سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ خیبر سے واپس آئے تو اس وقت حضرتِ جعفر طیار بھی حبشہ سے واپس آئے ، رسول اللہ نے آپ کا استقبال کیا اور آپ کی پیشانی کو چوما اور فرمایا: “خدا کی قسم! میں نہیں جانتا ہوں کہ میں فتحِ خیبر اور جعفر کے واپس آنے میں سے کس سے زیادہ خوش ہوں( دونوں میں سے کس سے زیادہ خوش ہوں فتحِ خیبر یا قدومِ جعفر سے)۔”

۱۷۲

۴۹۴۳

ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: “آج رات جعفر فرشتوں کی ایک جماعت میں میرے پاس سے گزرے اس حال میں کہ (اس کے ) دونوں بازو خون میں رنگے ہوئے اور دل سفید تھا۔”

۴۹۳۷

ابنِ عباس سے روایت ہے کہ جب کہ رسول اللہ بیٹھے ہوئے تھے اور اسماء بنتِ عمیس آپ سے قریب تھیں، تب آنحضرتؐ نے سلام کا جواب دیا، پھر فرمایا: “اے اسماء یہ جعفر بن ابی طالب ہے جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے ساتھ، انہوں نے ہمیں سلام کیا، اس لئے ان کے سلام کا جواب دو۔”

حضرتِ جعفر طیار نے اپنے بارے میں فرمایا: “میرا مشرکین سے مقابلہ ہوا اور میرے جسم کے اگلے حصوں میں تیر، نیزہ اور تلوار کے ۷۳ زخم لگے (چوٹیں لگیں) پھر میں نے علم کو اپنے دائیں ہاتھ میں لیا، اس کو کاٹا گیا، پھر ( علم کو) بائیں ہاتھ میں لیا، وہ بھی کاٹا گیا، پس خدا نے دو ہاتھوں کے عوض مجھے دو فرشتگانہ پر دیئے، ان کے ذریعے میں جبرائیل اور میکائیل کے ساتھ اڑتا ہوں، جہاں چاہوں جنت سے اترتا ہوں اور جو چاہوں جنت کے پھلوں سے کھاتا ہوں۔”

اسماء نے کہا: خدا نے جعفر کو نیکی کا جو رزق عطا فرمایا ہے وہ اس کے لئے مبارک ہو (گوارا ہو) لیکن مجھے خوف ہے کہ لوگ اس کی تصدیق نہیں کریں گے اس لئے (براہِ کرم) منبر پر چڑھیئے اور اس کے بارے میں ان کو بتائیے ، پس آنحضرت منبر پر چڑھے، خدا کی حمد و ثنا کی اور پھر فرمایا: “اے لوگو! یقیناً جعفر جبرائیل اور میکائیل کے ساتھ ہے، خدا نے اسے اس کے دو ہاتھوں کے عوض دو بازو دئے ہیں، اس نے مجھے سلام کیا۔” پھر آنحضرتؐ نے حضرت جعفر کی مشرکین کے ساتھ مڈھ بھیڑ کا ان کو بتایا اور اس لئے ان کو “الطیار فی الجنۃ” کہا گیا، یعنی جنت میں پرواز کرنے والا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۱۰ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۷۳

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۸۸

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: تم نورانی بدن (جسمِ لطیف) کے ساتھ بہشت میں جاؤگے۔ اس بابرکت فرمان میں چوٹی کی حکمتیں جمع ہیں۔

مولائے پاک نے فرمایا ہے: “مومن کی روح ہماری روح ہے۔” آپ اس پر فکری عبادت کریں اور نتیجہ نکالیں کہ اس ارشاد کا آخری راز کیا ہے؟
جواب: اس کا آخری راز “من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔” میں ہے، یعنی جس نے اپنی روحِ عُلوی کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔

جیسا کہ حدیثِ قدسی کا مفہوم ہے: اے آدمِ زمان کا روحانی فرزند حقیقی معنوں میں میری اطاعت (فرمانبرداری) کر تاکہ میں تجھے اپنی مثل بناؤں گا۔

سوال: کیا مومنات کا بھی روحانی جہاد سے تعلق ہے؟
سوال: بحرِ اخضر = سبز سمندر کی کیا تاویل ہے؟
سوال: آیا حدیثِ بحرِ اخضر میں شاہانِ بہشت کا ذکر ہے؟
سوال: حدیثِ جعفرِ طیار کی چند حکمتیں بیان کرو۔
عزیزوں میں سے ایک نے سوال کیا تھا کہ کتابِ اثبات النبوّت کس کی ہے؟
جواب: ابو یعقوب اسحاق السجستانی کی ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ، ۱۲ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۷۴

 

کنز الاسرار ۔ قسط۸۹

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

حضرتِ علی مرتضیٰ صلوات اللہ علیہ کا پاک ارشاد ہے: “انا و محمد نور واحد من نور اللہ ۔۔۔ انا صاحب الرجفۃ (چار مقاماتِ قرآن) صاحب الآیات = معجزات (قرآن کے بہت سے مقامات) ۔۔۔ و انا النباء العظیم الذی ھم فیہ مختلفون (۷۸: ۰۳) ۔۔۔ اناالکتاب ۔۔۔ انا اللوح المحفوظ (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) و انا القراٰن الحکیم ۔۔۔ انا محمد و محمد انا ۔۔۔ فآدم، و شیث، و نوح، و سام، و ابراہیم، و اسماعیل، و موسیٰ، و یوشع، و عیسیٰ ، و شمعون، و محمد و انا کلنا واحد۔”

آپ نورٌعلیٰ نور کی سب سے مستند تفسیر و تاویل کو جاننا چاہتے تھے، پس یہ ہے وہ تفسیر و تاویل اور تاریخِ سلسلۂ نور جو خود مولا علئ مرتضیٰ کے ارشادات پر مبنی ہے۔

قرآنِ عزیز کا تمام جوہر حکمت اور نور کی صورت میں جمع ہے کیونکہ اللہ نور اور حکیم ہے، رسول نور اور حکیم ہے، قرآن باطن میں نور اور حکیم ہے،

 

۱۷۵

 

نیز علی = امامِ مبین نور اور حکیم ہے، پس آپ قرآن کی بہشت میں نور اور حکمت کے دروازے سے داخل ہو جائیں، آمین!

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ، ۱۳ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۷۶

کنز الاسرار ۔ قسط۹۰

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مکنونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

روحانی قیامت کے سلسلے میں جتنے عظیم معجزات سامنے آتے ہیں ان سب کا ذکر قرآنِ عزیز میں موجود ہے، چنانچہ ان معجزات میں معجزۂ زلزلہ بھی کئی بار ہوتا ہے، جس کے قرآنی حوالہ جات یہ ہیں: (۹۹: ۰۱)، (۰۲: ۲۱۴)، (۳۳: ۱۱)، (۲۲: ۰۱) ایسے سخت گیر معجزات میں عظیم اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں، یہ ظاہری اور مادّی بھونچال ہرگز نہیں، یہ تو باطنی اور روحانی معجزۂ زلزلہ ہے، یہ معجزہ یقیناً سخت گیر ہے، مگر انجام میں زبردست حکمت آگین اور رحمتوں اور برکتوں سے مملو ہے، اور یہ مومنِ سالک کے لئے معجزانہ ریاضت ہے، اور انہی چند آزمائشوں کے بعد حظیرۂ قدس کی بہشت آتی ہے، جس کا بارہا ذکر ہوچکا ہے، آپ محولۂ بالا آیاتِ کریمہ کو ترجمہ کے ساتھ پڑھ لیں تاکہ ان شاء اللہ تاویل کے لئے تیاری ہو سکے۔

آپ واقعاتِ قیامت سے ضرور ڈرتے رہیں، ساتھ ہی ساتھ اللہ پر حسنِ ظن بھی رکھیں، یہ حسنِ ظن اللہ کا لطفِ عمیم ہے، تاہم آپ علم و حکمت کے لئے سعئ بلیغ کرتے رہیں، آمین ! ثم آمین!

۱۷۷

جار جلوۂ اوّل غنملو زلزلہ ئیڎم = یعنی مجھے دیدارِ اوّل کے موقع پر معجزۂ زلزلہ ہوا تھا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ، ۱۴ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۷۸

کنز الاسرار ۔ قسط۹۱

سوالِ معظمِ سری برائے اضافۂ علمِ مکنونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: کہ “مومن کی روح ہماری روح ہے” یعنی مومن کی حقیقی روح = روحِ علوی (کلامِ امامِ مبین حصّۂ اوّل، راجکوٹ، ۲۰۔۲۔۱۹۱۰ء) یہ سرِّ اعظم حظیرۂ قدس کی جنّت کے اسرار میں سے ہے۔

امامِ عالی مقام کا یہ فرمانِ اقدس جوہرِ قرآن میں سے ہے، لہٰذا ہم آپ کو قرآنِ حکیم کی کئی آیاتِ کریمہ میں اس فرمانِ پاک کی حقیقت دکھا سکتے ہیں، مثلاً: (۱۷: ۸۵) مفہوم: روح کا بالائی سرا ہمیشہ میرے ربّ کے کلمۂ کُنۡ (ہو جا) میں ہے۔ اور کلمۂ کُنۡ حقیقی بہشت ہے جس میں بہشت کے عام تصوّر سے بڑھ کر نعمتیں ہیں، اور وہاں کوئی نعمت غیر ممکن نہیں، اس حقیقتِ حال میں مومن کی روح امام میں فنا ہو کر امام کی ہو سکتی ہے۔

سورۂ تین (۹۵: ۰۱ تا ۰۸) میں اسرارِ روح کا ایک بھرا ہوا خزانہ موجود ہے، تاویلی مفہوم: یہاں اسرارِ عظیم ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے چار اصول کی قسم کھائی ہے، وہ اصول عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اور اساس ہیں، پھر جوابِ قسم

 

۱۷۹

 

میں انسان کی روحانی تخلیق و تکمیل اور سلامتی کی سیڑھی پر ہمیشہ عروج و نزول کا ذکر فرمایا ہے، ان بھیدوں کو سمجھنے کے لئے کامل معرفت کی ضرورت ہے۔

اللھم انی اسئلک باسمائک الحسنیٰ = اے اللہ میں تیرے اسماءُ الحسنیٰ کی حرمت سے سوال کرتا ہوں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۱۵ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۸۰

کنز الاسرار ۔ قسط ۹۲

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام، اور حظیرۂ قدس: سنتِ الٰہی کے مطابق امامِ زمان علیہ السّلام نے آدم کو اسمِ اعظم کا ذکر سکھا دیا تھا، جس میں اس نے بہت خوب سعئ بلیغ کی، جس کے نتیجے میں بذریعۂ روحانی قیامت آدم میں خدائی = الٰہی روح پھونک دی گئی، اور آدم صورتِ رحمان پر پیدا ہوا، پھر سوائے ابلیس کے کل فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے آدم اور حوّا یعنی عقل اور روح کو اسی حظیرۂ قدس کی جنّت میں ٹھہرایا، لیکن آدم و حوّا نے شجرۂ ممنوعہ سے پھل کھایا، جس کی وجہ سے وہ دونوں اور ان کے تمام ساتھی اس تجرباتی اور عرفانی جنّت سے نیچے آئے، جیسا کہ قرآنِ حکیم (۰۲: ۳۸) کا ارشاد ہے: قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًاۚ ۔ ترجمہ: ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔

حضرتِ ادریس علیہ السّلام کے حظیرۂ قدس میں داخل ہو جانے کا ذکر اس طرح ہے: (۱۹: ۵۶ تا ۵۷) وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا  وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا۔ ترجمہ: اور اپنی

 

۱۸۱

 

روحانیّت و نورانیّت کی کتاب میں ادریس کو یاد کرو کہ وہ صدیق (امام) اور نبی تھا، اور ہم نے اسے بلند مقام (حظیرۂ قدس) پر مرفوع کیا تھا۔

قصّۂ نوح کے تاویلی اشارے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرتِ نوحؑ کی روحانی قیامت کا طوفان حظیرۂ قدس میں جا کر تھم گیا تھا جہاں کوہِ جودی = کوہِ عقل (۱۱: ۴۴) موجود ہے، اسی سورہ یعنی سورۂ ھود کے ارشاد (۱۱: ۴۸) کو غور سے پڑھیں، حکم ہوا کہ: اے نوح اتر جا، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہیں تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل، ۱۶، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۸۲

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۹۳

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

حجتِ قائم صلوات اللہ علیہما کے پاک ارشادات اسرارِ معرفت سے لبریز ہیں، قرآنِ ناطق = امامِ مبین علیہ السّلام کے ان نورانی ارشادات میں اسمِ اعظم کی تعریف ہے اور بار بار یہ فرمایا گیا ہے کہ تم بذریعۂ خصوصی عبادت موت قبل از موت کا تجربہ کرو، یعنی معجزانہ موت سے مر کر بہشت کی معرفت کو حاصل کرو، تم آخرت اور بہشت کا مشاہدہ کر سکتے ہو، تم اس دنیا ہی میں عرشِ عظیم کو بھی دیکھ سکتے ہو، تم امامِ زمان علیہ السّلام کے باطنی معجزات کو دیکھ سکتے ہو، تم فنا فی اللہ ہو سکتے ہو، جو تاویلاً فنا فی الامام ہی ہے، تو پھر کون سا روحانی معجزہ ناممکن ہے؟

قرآنِ حکیم میں آنحضرتؐ کے اسوۂ حسنہ (بہترین نمونہ) کا ذکر ہے: (۳۳: ۲۱) اور حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے اسوۂ حسنہ کا بھی (۶۰: ۰۴)۔

اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السّلام کو جتنے باطنی عظیم معجزات دیئے تھے وہ سب کے سب صراطِ مستقیم پر تازہ بتازہ

 

۱۸۳

 

نو بنو محفوظ و موجود ہیں، صراطِ مستقیم اللہ کا سیدھا راستہ دراصل امامِ زمانؑ ہی ہے اور آپ خدا کے حکم سے ہمیشہ صراطِ مستقیم پر چلنے کے لئے اللہ سے توفیق و ہمت طلب کرتے رہتے ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۱۷ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۸۴

کنز الاسرار ۔ قسط ۹۴

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مکنونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے ابنِ عباس کے لئے دعا کی تھی کہ “اللھم فقھہ فی الدین و علمہ التاویل” یعنی بارِ الٰہا تو اس کو دین کی سمجھ عطا فرما اور تاویل کا علم مرحمت کر۔ الاتقان حصّۂ دوم نوع اٹھتر (۷۸)۔

اس سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ اگرچہ علمِ تاویل سخت مشکل ہے، لیکن غیر ممکن ہرگز نہیں، کیونکہ تاویل کا دوسرا نام حکمت ہے، اور تیسرا نام معرفت ہے، اور یقین بھی اسی تاویل ہی کا نام ہے جو علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین کے تین درجوں میں ہے۔

امامِ زمانؑ = مؤول = صاحبِّ تاویل یعنی تاویلی جنگ کا سردار ہے اور آپ اور ہم سب تاویلی جنگ کے لشکر میں شامل ہیں، اور اس میں نمایان طور پر کام کرنے کی شرط یہ ہے کہ تم امامِ زمانؑ سے اسمِ اعظم اور پاک دعا حاصل کر کے خصوصی عبادت اور سخت ریاضت کرو، تاکہ تم روحانی قیامت کی سختی کو برداشت کر سکو، اگر آپ نے علم و عمل کے ساتھ امامِ زمانؑ کے پاک

 

۱۸۵

 

عشق میں ترقی کی اور ہر تکلیف امامِ آلِ محمدؐ کی خوشنودی کی خاطر برداشت کی تو ممکن ہے کہ آپ پر روحانی قیامت آئے اور آپ تجرباتی اور عرفانی طور پر امام میں فنا ہو جائیں، یہ فنا صرف تجربہ اور معرفت ہی کے لئے ہے، یاد رہے کہ ہر نبی، ہر ولی، اور ہر عارف زندگی ہی میں روحانی قیامت سے گزرتا ہے، ہر عارف روحانی قیامت کے ذریعے سے امامِ زمانؑ میں فنا ہوکر معرفت = حکمت اور تاویل کے خزانوں کو حاصل کرتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ، ۱۸ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۸۶

کنز الاسرار ۔ قسط ۹۵

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

سورۂ نحل (۱۶: ۸۹) میں ارشاد ہے: و یوم نبعث فی کل امۃ شھیدا علیہم من انفسھم و جئنابک شھیدا علیٰ ھولاء و نزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیء و ھدی و رحمۃ و بشری للمسلمین۔

ترجمۂ ظاہر: (اے نبیؐ، انہیں اس دن سے خبردار کر دو) جب کہ ہم ہر امت میں خود اسی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو اس کے مقابلہ میں شہادت دے گا، اور ان لوگوں کے مقابلے میں شہادت دینے کے لئے ہم تمہیں لائیں گے۔ (اور یہ اسی شہادت کی تیاری ہے کہ) ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے (یعنی ظاہراً کتابِ صامت، اور باطناً کتابِ ناطق) (۲۳: ۶۲ / ۴۵: ۲۹) یعنی أئمّۂ آلِ محمد جو خدا اور رسول کی طرف سے ہر زمانے کے لوگوں پر گواہ ہیں، جبکہ قانونِ قرآن یہی کہتا ہے، دیکھو: (۰۲: ۱۴۳) امۃ وسطا (۲۲: ۷۸) ھو اجتبٰکم (۱۳: ۴۳) من عندہ علم الکتٰب۔

سورۂ توبہ (۰۹: ۱۰۵) ترجمہ: اور اے نبی، ان لوگوں سے کہہ دو

 

۱۸۷

 

کہ تم عمل کرو، اللہ اور اس کا رسول اور مومنین تمہارے اعمال نامہ کو دیکھیں گے۔

امام محمد باقر علیہ السّلام نے فرمایا کہ اے سائل اس آیت میں اللہ و رسول کے بعد جن مومنین کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ قیامت کے دن مومنوں کا اعمال نامہ دیکھیں گے، ان مومنین سے ہم مراد ہیں۔ بحوالۂ کتاب دعائم الاسلام۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ، ۱۹ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۸۸

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۹۶

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مکنونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۹) میں ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ۔ ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرتے رہو، اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ امام محمد باقر علیہ السّلام نے فرمایا کہ اے سائل اس آیتِ کریمہ میں صادقین سے ہم مراد ہیں۔ بحوالۂ کتابِ دعائم: کتاب الولایۃ۔

جس طرح أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کا ایک وصفی نام صادقین ہے (۰۹: ۱۱۹) اسی طرح ان کا ایک مبارک نام امۃ وسطا = عادل امت = جماعت ہے (۰۲: ۱۴۳) اسی آیت کے بموجب حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام لوگوں پر گواہ بھی ہیں، نیز اسی آیۂ کریمہ میں یہ ذکر بھی ہے کہ رسول أئمّہ پر شہید = حاضر = گواہ ہے، یعنی رسول کا نور امام کے نور کے ساتھ ہے، أئمّہ کا ایک پاک و پُرحکمت نام مومنون بھی ہے (۰۹: ۱۰۵)۔

حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام خانۂ کعبہ کی تعمیر کے دوران جو دعا کر رہے تھے اس میں یہ مبارک الفاظ بھی ہیں: و من ذریتنا

 

۱۸۹

 

امۃ مسلمۃ لک۔ اگر آپ بحقیقت عاشقِ مولا ہیں تو مولا کے قرآنی ناموں کو بھول نہ جانا کہ یہ مبارک نام (امۃ مسلمۃ) محمد و آلِ محمدؐ ہی کے لئے خاص ہے، کیونکہ ابراہیم اور اسماعیل علیہما السّلام کی ذرّیت ان کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا ہے۔ (۰۲: ۱۲۷ تا ۱۲۹) ، اولی الامر منکم = تم میں جو اللہ کے امر والے ہیں۔ (۰۴: ۵۹) امام محمد باقر علیہ السّلام سے منقول ہے کہ اس آیت سے خاص طور پر ہم مراد لئے گئے ہیں۔

اہل الذکر (۱۶: ۴۳) اور العٰلمون (۲۹: ۴۳) أئمّۂ آلِ محمدؐ ہیں، جو تمام امثالِ قرآن کو جانتے ہیں، اہل البیت = اہلِ کساء (پنجتنِ پاک) (۳۳: ۳۳) کی شان میں جو آیتِ کریمہ ہے اس کی نورانی معرفت کو سمجھنے کے لئے سعئ بلیغ کرنا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ، ۲۰ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۹۰

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۹۷

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مکنونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۲۷ تا ۱۲۹) کے ترجمۂ ظاہر کے ساتھ حکمتِ باطن کو بھی سمجھنے کے لئے کوشش کریں، حضرتِ ابراہیم ناطق اور حضرتِ اسماعیل اساس علیہما السّلام کعبۂ ظاہر اور کعبۂ باطن کی تعمیر کے دوران دعا کرتے جاتے تھے جس میں چند خاص الخاص اسرارِ معرفت ہیں: ۔۔۔۔ کہ اے ہمارے ربّ ہم دونوں کو درجۂ حظیرۂ قدس میں اپنی انا تیرے سپرد کر دینے والے بنا، تاکہ ہم تجھ میں فنا ہو جائیں۔ لفظی معنی کے لئے کوئی مستند عربی لغات دیکھئے: مثلاً لغات القرآن نعمانی۔ جلدِ سوم ، ص ۲۲۵ پر آخری سطر میں لفظِ سلم کے تحت۔

اللہ تعالیٰ ہی انسانانِ کامل کو کنزِ معرفت عطا کر دینے کے لئے حظیرۂ قدس کی بہشت میں داخل کر دیتا ہے، تاکہ وہ وہاں اپنا چہرۂ جان = انائے علوی اللہ کے سپرد کر دیں، یہ ایک انتہائی اعلیٰ اور پر اسرار مثال ہے، پھر ایسے میں اللہ جلّ جلالہ، ہر انسانِ کامل کو اس کے باپ آدم کی طرح صورتِ رحمان پر پیدا کرتا ہے، اور یہی فنا فی اللہ و بقا باللہ کا سب سے بڑا راز ہے۔

۱۹۱

جب تک کوئی مترجم اور مفسر نورِ قرآن اور نورِ اسلام سے واقف و آگاہ نہ ہو تب تک اس کو اسرارِ قرآن کے سمجھنے میں بے شمار مشکلات ہو سکتی ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ، ۲۱ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۹۲

کنز الاسرار ۔ قسط ۹۸

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

سورۂ انعام (۰۶: ۷۴ تا ۷۹) میں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے روحانی معجزات کا تذکرہ ہے اور اس کے آخر (۰۶: ۷۹) میں یہ تاویلی مفہوم ہے: یقیناً میں نے اپنا چہرۂ روح خالقِ کائنات کے لئے خاص کر دیا تاکہ میں فنا فی اللہ ہو کر خدا کا عارف اور حقیقی موحد ہو سکوں۔

مسئلۃ: آیا قرآنِ حکیم کے متعدد کلمات و الفاظ میں فنا فی اللہ کا اشارہ موجود ہے؟

جواب: جی ہاں! لقاء اللہ (خدا کی ملاقات) جیسے الفاظ میں، کیونکہ اللہ کی ملاقات یا دیدار میں فنا فی اللہ کا اشارہ ہے، اور رجوع کے معنی والے الفاظ میں بھی یہی حقیقت ہے۔

سورۂ لقمان (۳۱: ۲۲) : وَ مَنْ یُّسْلِمْ وَجْهَهٗۤ اِلَى اللّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰىؕ = تاویلی مفہوم: اور جس نے اپنا چہرۂ جان اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا اور وہ نیکوکار بھی ہو، پس یقیناً اس نے بڑی مضبوط رسی کو محکم پکڑا۔

۱۹۳

سورۂ نساء (۰۴: ۱۲۵) : وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ ۔۔۔ تاویلی مفہوم : اور دین میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا چہرۂ روح = جان کو اللہ کے سپرد کر دیا اور وہ نیکوکار بھی ہے، اور اس نے ملتِ ابراہیمی کی پیروی کی، جو مثالی موحد تھا، اور اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو دوست بنا لیا تھا۔

اسلام در حقیقت اپنے جوہر میں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی ملت ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۲۲ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۹۴

کنز الاسرار ۔ قسط ۹۹

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مکنونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۱) میں ارشاد ہے: وَ مِمَّنْ خَلَقْنَاۤ اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِهٖ یَعْدِلُوْنَ ۔ ترجمہ: اور جن کو ہم نے پیدا کیا ان میں سے ایک گروہ ایسا ہے، جو حق کے ساتھ ہدایت کرتے ہیں اور اسی کے مطابق عدل کرتے ہیں۔ یہ امت ائمۂ آلِ محمد ہیں، جیسے حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام کی دعا میں اس امت = جماعت کا ذکر ہے (۰۲: ۱۲۷ تا ۱۲۹)۔

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ (ارواحنا فداہ) نے فرمایا: اگر دینی علم کی کتابیں پڑھ کر ان پر عمل کرو گے تو عرش تک جا پہنچو گے۔ (کلامِ امامِ مبین، حصۂ اول، کچھ مندرا، ۲۸۔۱۱۔۱۹۰۳ء)

جنہیں (حقیقی) علم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا انہیں روحانی معاملات میں اپنی طرح کرنے کی کوشش کرو۔ (کلامِ امامِ مبین، حصّۂ اوّل، راجکوٹ، ۲۰۔۱۲۔۱۹۱۰ء)۔

تم پر لازم ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیم دو، اگر تمہیں قرآنِ شریف سیکھنے

 

۱۹۵

 

کی خواہش ہو تو اس کے حقیقی معنی جاننے والوں کے شاگرد بنو، اس طرح تمہیں اس کے حقیقی معنی معلوم ہوں گے، تم خوجوں کو دین کی بہت سی کتابوں کی خبر نہیں لے اسی لئے زیادہ تر لوگوں نے ایسی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا، ایسی کتب پڑھو گے تو تمہیں سمجھ آئے گی اور تم میں خرابی نہیں رہے گی، ان کتابوں کے پڑھنے سے تمہاری عقل گواہی دے گی کہ تمہارا دین سچا ہے، اس کا تمہیں پتہ چلے گا۔ (کلامِ امامِ مبین، حصۂ اول، زنجبار، ۱۴۔۹۔۱۸۹۹ء)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۲۳ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۹۶

کنز الاسرار ۔ قسط ۱۰۰

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

اے میرے عزیزانِ علمی! میں آپ سے یہ پُرخلوص سوال کرنا چاہتا ہوں جو میرے نزدیک بے حد ضروری ہے کہ سورۂ یٰسٓ جو قلبِ قرآن ہے اس کے اس نام میں اصل راز کیا ہے؟ جواب: اس کا اصل راز امامِ مبین ہے (۳۶: ۱۲) کیونکہ قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام اور قرآنِ صامت ہے، اور امامِ مبین اللہ کا پاک نور اور قرآنِ ناطق ہے، پس قرآن کا نورانی دل امامِ مبین میں ہے جبکہ قرآن اور امامِ مبین یقیناً ایک ہیں، پھر قرآن کا دھڑکنے والا دل امامِ مبینؑ میں ہے، چنانچہ اہلِ معرفت نے قرآن کے نورانی معجزات کو امامِ مبین کے نور میں دیکھا ہے، جبکہ امامِ زمانؑ کا نور روحانی قیامت کی صورت میں عالمِ شخصی پر طلوع ہو جاتا ہے۔

جس طرح ظاہر میں آفتابِ عالم تاب دنیا کی آبادی اور مادّی فیوض و برکات کا کبھی ختم نہ ہونے والا سرچشمہ ہے، اسی طرح ہر ہر عالمِ شخصی کی باطنی اور روحانی آبادی اور پرورش امامِ زمانؑ کے نور سے ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ جلّ جلالہ ہر روحانی قیامت میں ستر ہزار اعلیٰ ایمانی روحوں پر امامِ

 

۱۹۷

 

زمانؑ کا نور ڈال کر ان کو ایسے فرشتے بناتا ہے کہ ہر فرشتہ اپنے باطن میں ایک کائناتی بہشت اور ایک بہشتی خلافت و سلطنت رکھتا ہے۔

قرآنِ حکیم میں دیکھو: ۲۴: ۵۵، ۰۶: ۱۶۵۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۲۳ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۹۸

درِ مکنون ظہیر کے بہت ہی پیارے نام پر ایک نامۂ کارنامہ

ہم سب کو خصوصی دعاؤں کے ساتھ کہنا چاہئے کہ چشمِ بد دور! چشمِ بد دور!

اس چھوٹی سی عمر میں یہ حیران کن کارنامہ دراصل قرآنی برکات و معجزات میں سے ہے، میرا عقیدہ یہ ہے کہ درِ مکنون کے پیارے نام میں دو دفعہ جوہرِ قرآن = نورِ قرآن کا ذکر ہے، اور یہی امامِ زمانؑ کا نور بھی ہے، قرآنِ حکیم کے ناموں میں سے ایک نام مبارک ہے، یعنی گوناگون برکتوں والی کتاب۔

گوناگون برکتوں والی کتاب = قرآن (۰۶: ۹۲)، (۰۶: ۱۵۵)، (۲۱: ۵۰)، (۳۸: ۲۹)۔

ہم درِّ مکنون ظہیر کی اس کامیابی پر سب سے پہلے مرکزِ علم و حکمت لندن کو جان و دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں، اور ان کے نیک بخت والدین کو بھی جو ہائی ایجوکیٹرز ہیں، نیز تمام لٹل اینجلز کو بھی کہ یہاں ان کی بڑی کامیاب نمائندگی ہوئی۔

مرکزِ علم و حکمت لندن کی کیا تعریف ہو سکتی ہے کیونکہ اس کے زندہ پھول اور پھل بہت زیادہ ہیں اور امریکا میں بھی لٹل اینجلز کے باغاتِ بہشت

 

۱۹۹

 

ہیں، وہاں جو کوشش کرتے ہیں ان سب پر مولائے پاک کی نظرِ رحمت ہے اور غلام قادر بیگ کی کوششوں پر بھی۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ، ۱۳ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۲۰۰

فرمانِ مبارک اور نورانی بدن = جسمِ لطیف

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ: تم نورانی بدن کے ساتھ بہشت میں جاؤ گے۔ (کلامِ امامِ مبین، حصّۂ اوّل۔ منجیوڑی ۔ ۲۸۔۱۲۔۱۸۹۳ء)۔

اگر دینی علم کی کتابیں پڑھ کر ان پر عمل کرو گے تو عرش تک جا پہنچو گے۔ (کلامِ امامِ مبین ، حصّۂ اوّل۔ کچھ مندرا۔ ۲۸۔۱۱۔۱۹۰۳ء)۔

لغات الحدیث کتاب “ق” میں ہے: روح المومن بعد الموت فی قالب کقالبہ فی الدنیا۔ یعنی مومن کی روح مرنے کے بعد ایک قالب میں رکھی جاتی ہے جو اسی صورت کا ہوتا ہے جیسے دنیا میں اس کا قالب تھا، (صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ دنیا کا قالب کثیف تھا وہ لطیف اور نورانی ہوتا ہے) ہزار حکمت (ح ۶۷۲) میں بھی دیکھیں۔

تمہارے دل میں خداوندِ تعالیٰ کا نور ہے، اگر دین پر سچے دل سے چلو گے تو یہ نور ظاہر ہو گا۔ (کلامِ امامِ مبین، حصۂ اول۔ جامنگر۔ ۹۔۴۔۱۹۰۰ء)۔

“مومن کی روح ہماری روح ہے۔” (کلامِ امامِ مبین، حصّۂ اوّل۔ راجکوٹ۔ ۲۰۔۲۔۱۹۱۰ء)۔

اس فرمانِ عالی میں عجیب و غریب اسرارِ روحانی مخفی ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ، ۲۵ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۲۰۱

مخمس

شلگویو مرکان منݽ           عشقے فرشتان منݽ
نورہ قصیدان منݽ             ہیرچمے سجدان منݽ
میغمہ میون دوݷ سن (دو بار)

ݼن کݽے ایمان منݽ                میس شلے دنیان منݽ
رازݣہ قرآن منݽ               قائمے پہچان منݽ
میغمہ میون دوݷ سن (دو بار)

ذکرِ خدا میرشچن                حمد و ثنا میرشچن
تھلا تھلا میرشچن               عشقے فنا میرشچن
میغمہ میون دوݷ سن (دو بار)
عشقِ علی جنتن                  کھوت بہ اکھیݽ راحتن
اودکھرس دولتن                  عقلے ایم عزتن
میغمہ میون دوݷ سن (دو بار)

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ، ۲۵ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۲۰۲

بروشسکی جدید مخمس کا ترجمہ
فرمائش منجانب عزیزانِ غربی

۱۔ آرزوئے جان و دل تو یہ ہے کہ حقیقی محبت والوں کی ایک محفل قائم ہو، جس میں لشکرِ اسرافیلی کا کوئی فرشتۂ عشق ہو، اور قصیدہ امامِ زمانؑ کے نور کی تعریف میں ہو، جس کے زیرِ اثر عشاق کو خوب رونا آئے، اور روتے ہوئے عاشقانہ سجدے ہوں،
زہے خوش بختی ہم سب کا عشقِ مولا میں پگھل جانا۔

۲۔ حقیقی ایمان ہو، دل حبِّ مولا کا ایک عالم ہو، اسرارِ قرآن سے وابستگی نصیب ہو، اور سب سے بڑی آرزو تو یہ ہے کہ حضرتِ قائمؑ کی پاک معرفت حاصل ہو!
زہے نصیب ہم سب پگھل جائیں گے۔

۳۔ ذکرِ الٰہی کی شرابِ طہور سے ہم مست ہو جائیں گے، اور حمد و ثنا سے ہم مست ہو جائیں گے، ہم ضرور رفتہ رفتہ مست ہو جائیں گے۔
زہے خوشی ہم سب پگھل جائیں گے۔

۴۔ عشقِ علی ایک روحانی بہشت ہے، یہ کیسی عجیب و غریب باطنی راحت ہے، یہ دولت ایسی ہے جو کبھی کم نہیں ہوگی، یہ عقل کی سب سے

 

۲۰۳

 

بڑی عزت ہے۔
زہے نیک بختی ہم سب پگھل جائیں گے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۲۹ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۲۰۴

دورِ قیامت = دورِ تاویل = دورِ کشف

سورۂ قدر (۹۷: ۰۱) اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ۔ تاویلی مفہوم: ہم نے نورِ قائم کو اس کے باپ حجت میں نازل کیا تاکہ جس طرح رات چیزوں کو چھپا لیتی ہے، اسی طرح شبِ قدر = حجتِ قائمؑ اپنے فرزند = قائمؑ کو چھپائے، تاکہ شبِ قدر (حجتِ قائمؑ) اور حضرتِ قائمؑ کی پُرازحکمت معرفت پر لوگوں سے خوب امتحان لیا جائے، جس طرح اسمِ اعظم کی معرفت پر لوگوں سے سخت امتحان ہے، حالانکہ وہ قرآنِ پاک میں موجود ہے، اور قرآن خوان حضرات اس کو پڑھ کر گزرتے ہیں، لیکن اسمِ اعظم کے خزانہ دار کی معرفت نہ ہونے کی وجہ سے اسمِ اعظم کی معرفت ناممکن ہو جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورۂ بلد (۹۰) میں حجتِ قائمؑ اور حضرتِ قائم علیہما السّلام کی قسم کھائی ہے، کتابِ وجہِ دین کلام: ۳۳ کے آخر میں ہے: کہ قائم کو کوئی شخص نہ پہچان سکے گا، مگر پانچ حدود کے ذریعے سے، وہ یہ ہیں: اساس، امام، باب، حجت، داعی۔

وجہِ دین کے آخر میں حدودِ دین کا انڈیکس ہے اس کی مدد سے کتاب میں دیکھ لیں کہ حجتِ قائمؑ اور حضرتِ قائم سلام اللہ علیہما کے بارے میں کیا کیا اسرارِ معرفت درج ہوئے ہیں، اگر سچ مچ عصرِ حاضر دورِ قیامت = دورِ تاویل =

 

۲۰۵

 

دورِ کشف ہے تو ہمیں خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر عقل مندی سے سوچنا اور کچھ کرنا ہوگا، ایسا نہ ہو کہ حجتِ قائمؑ اور حضرتِ قائمؑ اپنے انتہائی عظیم معجزات کو ختم کرلیں اور ہمیں کچھ خبر نہ ہو، اس لئے کہ ہم کو مولا کے عشق اور معرفت کا کوئی غم نہ تھا، ہم کو حیوان کی طرح صرف کھانے پینے اور سونے کا غم تھا۔

اے دلِ نادان! اے دلِ حیوان! بیدار ہوجا! ہشیار ہوجا! حجتِ قائم اور قائم کو کم از کم علم الیقین سے پہچان لے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ، ۲۷ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۲۰۶

رفیع الشّان ارشادات

حجتِ قائم کے وہ عالی قدر ارشادات ، جن میں کنوز الاسرار کی کلیدیں مخفی ہیں:

تم نورانی بدن کے ساتھ بہشت میں جاؤگے ۔ آپ سب اس فرمانِ پاک کو حفظ کر کے اس سے عالمانہ اور حکیمانہ فائدہ اٹھائیں اور فائدہ دلائیں، اسی مقصد کے پیشِ نظر مولا کے حکمت سے لبریز ارشادات بار بار لکھے جاتے ہیں۔

تم عرشِ عظیم پر پہنچو، عرشِ عظیم پر پہنچنے کے لئے پاک ہونا ضروری ہے، اس لئے تم اپنا دل ہمیشہ پاک رکھو، اگر تمہارا دل پاک ہو گا تو اس دنیا میں ہی عرشِ عظیم دیکھ سکو گے، یہ بہت دور نہیں ہے۔ (کلامِ امامِ مبین، حصّۂ اوّل، منجیوڑی، ۳۔۱۱۔۱۹۰۳ء)۔

پاک بنو تو اس دنیا میں ہی بہشت ملے گی، اس دنیا میں بہشت حاصل کرنے میں بڑا فائدہ ہے، مگر دنیا میں رہ کر اس زندگی میں بہشت حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے۔ (کلامِ امامِ مبین، حصّۂ اوّل، کچھ مندرا، ۲۵۔۱۱۔۱۹۰۳ء)۔

وارث محمد رحیمو نے ہماری بہت خدمت کی ہے، ان کی مثال اہلِ بیت کے ممبر کی سی ہے جس طرح وزیر بصریا اور وزیر رحیم بصریا اہلِ بیت میں شامل ہیں۔ (کلامِ امامِ مبین، حصّۂ دوم، کراچی، ۲۶ جنوری ۱۹۳۸ء)۔

۲۰۷

تم ہماری روحانی اولاد ہو، اور یاد رکھنا کہ: “روح ایک ہی ہے۔”

اس پاک فرمان میں ایک انتہائی عظیم انقلابی حکمت پوشیدہ ہے، وہ البتہ یک حقیقت ہو سکتی ہے، مولا ہمیشہ فنا فی الامام ہونے کی تعلیم اور ہمت دیتے ہیں، اور مولا کا یہ فرمانا کہ “مومن کی روح ہماری روح ہے۔”  کیا یہ کوئی عام بات ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ یہ مونوریالٹی = یک حقیقت کا بڑا انقلابی تصوّر ہے، فنا فی الامام کا مرتبہ ہی فنا فی اللہ ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ، ۲۷ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۲۰۸

 

امامِ زمان صلوات اللہ علیہ و سلامہ کی جبینِ مبارک میں نور اور بہشت

سورۂ یٰسٓ (۳۶: ۱۲) میں ارشاد ہے: وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ = ہر چیز = تمام چیزوں کو ہم نے امامِ مبین میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے۔

اس آیۂ شریفہ کا ایک نام کلیۂ امامِ مبین ہے، اس کی اصل تفسیر و تاویل روحانی قیامت اور فنا فی الامام کے عظیم معجزات میں ہے، جب امامِ مبینؑ میں خدا کی خدائی = بادشاہی کا سب کچھ ہے، تو فنا فی الامام میں سب کچھ ہے، اوّل اوّل اس اسمِ اعظم میں بحدِّ قوّت سب کچھ موجود ہے، جو خود امامؑ عطا کرتا ہے، پھر آغازِ قیامت کے ساتھ ناقور (صور) میں سب کچھ ہے، کیونکہ مولا کا نور ناقور ہے، اور ناقور ہی میں آ کر ہر چیز حمد کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتی ہے (۱۷: ۴۴) اور عالمِ ذرّ میں سب کچھ ہے، کیونکہ اس وقت عالمِ ذرّ کا ظہور ہوتا ہے، اور کائنات میں سب کچھ ہے، جبکہ وہ عالمِ شخصی میں مرکوز و محدود ہو جاتی ہے۔

یہ تمام معجزات امامِ مبینؑ کے ایسے خوش نصیب مرید دیکھتے ہیں جو امامِ زمانؑ کے نور میں فنا ہو چکے ہیں، بالآخر حظیرۂ قدس کے معجزات کا آغاز

 

۲۰۹

 

ہوتا ہے، اور وہ معجزات انتہائی عالی شان اور سب سے عظیم ہیں، یہ عالمِ شخصی کا آسمان ہے، عرش = بہشت، اور اس کے بہت سے نام ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۲۹ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۲۱۰

فنا فی الامام کے اسرارِ عظیم

سورۂ شوریٰ (۴۲: ۱۱) میں ارشاد ہے: لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔

تاویلی مفہوم: اس کے مثل (امامِ مبین ) کے مشابہ کوئی چیز نہیں ہے، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔

یہ حدیثِ قدسی شاید آپ سب کو معلوم ہے، جو اس طرح شروع ہوتی ہے: کہ اے ابنِ آدم میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی مثل بناؤں گا۔ یہ حدیثِ قدسی حکیم پیر ناصر خسرو کی شہرۂ آفاق کتاب زاد المسافرین ص ۱۸۳ پر ہے اور اربعہ رسائل اسماعیلیہ کے ص ۱۵ پر ہے۔

اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنی سنتِ قدیم کے مطابق (جس میں کوئی تبدیلی نہیں) ہر زمانے کے لوگوں کے لئے اپنی مثل (امامِ زمانؑ) مقرر کرتا ہے، جو آیۂ مذکورۂ بالا کے مطابق اپنے وقت میں یگانہ اور بے مثال ہوتا ہے، اور یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ اس حدیثِ قدسی کا خطاب آدمِ زمانؑ = امامِ زمانؑ کے ہر روحانی فرزند سے ہے تاکہ وہ حقیقی اور کلی اطاعت سے فنا فی الامام ہو جائے، تاکہ اس حدیثِ قدسی میں جو کچھ وعدۂ الٰہی ہے، وہ اس کے حق میں پورا ہوگا۔

۲۱۱

فنا فی الامام کے اسرارِ عظیم بے شمار اور بے پایان ہیں، مختصر یہ کہ فنا فی الامام فنا فی الاسمِ اعظم بھی ہے، فنا فی القرآن بھی، فنا فی الرسول بھی ہے، اور فنا فی اللہ بھی ہے۔

فنا فی اللہ کا نتیجہ بقاء باللہ ہے، چنانچہ صوفیوں کی ساری اصطلاحیں ان دو جامع اصطلاحوں میں جمع ہو جاتی ہیں، پہلی اصطلاح ہے: سیر الی اللہ یعنی خدا کی طرف چلنا، اس میں اسلام کے سارے اعمال آجاتے ہیں اور دوسری اصطلاح ہے: سیر فی اللہ یعنی خدا میں چلنا، اور اس کا ایک اشارہ امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے فرمان میں ملتا ہے، کہتے ہیں کہ ہم خدا میں حرکت کرتے ہیں یعنی خدا میں چلتے ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۳۰ ، اپریل ۲۰۰۲ء

 

۲۱۲

 

اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (۳۵:۲۴) کی آخری تاویل عالمِ شخصی میں ہے

اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (۲۴: ۳۵) کی آخری تاویل عالمِ شخصی میں ہے، کیونکہ جب امامِ زمانؑ کا نور (جو خدا کا نور ہے) عالمِ شخصی میں طلوع ہو جاتا ہے، تو حقیقتِ حال بالکل وہی ہوتی ہے جیسی اس آیۂ کریمہ میں ہے۔

اللہ (ہمیشہ) آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں روشن چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو، جو نہ شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ روشن ہوتا ہو، چاہے آگ اس کو نہ لگے۔

اے عزیزان ہمیں ناشکری سے بار بار ڈر کر گریہ و زاری کا سہارا لینا ہے کیونکہ اس رفیع الشان آیت کی پُراز اسرار تاویل ایک محتاط طریقے سے آپ کو بتائی ہوئی ہے، کیا آپ نے گوہرِعقل اور کتابِ مکنون کے کچھ اسرار کو نہیں سنا ہے؟ اگر چراغِ روشن سے گوہرِعقل مراد ہے یا کتابِ مکنون، تو طاق کیا ہے؟ کیا درختِ زیتون نفسِ کلّی ہے؟ کیا ایک نہایت اعلیٰ چیز کی چند مثالیں ہو سکتی

 

۲۱۳

 

ہیں؟ جیسے گوہرِعقل = روشن چراغ = فانوس = کوکبِ درّی = کتابِ مکنون = نور = سورج = چاند = نجم = نجوم وغیرہ وغیرہ، طاق کی تاویل کے بارے میں آپ سے عہد لیا ہے کہ اس کو عام نہیں کرنا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، یکم ، مئی ۲۰۰۲ء

۲۱۴

فنا فی الامام کے عظیم معجزات و اسرار

سورۂ عنکبوت (۲۹: ۶۹) میں ارشادِ خداوندی ہے: وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۔ ترجمہ: جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے (نورانی) راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکوکاروں ہی کے ساتھ ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ کا ارشاد ہے: المجاہد من جاہد نفسہ فی اللہ۔ یعنی مجاہد وہ شخص ہے جس نے اللہ کی راہ میں اپنے نفس سے جہاد کیا۔

ایک دوسری جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے: رجعنا من الجھاد الاصغر الی الجہاد الاکبر = ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ صحابۂ کبار نے پوچھا: حضور! جہادِ اکبر کیا چیز ہے؟ فرمایا: الا و ھی مجاھدۃ النفس = اچھی طرح سن لو! جہادِ اکبر مجاہدۂ نفس ہے ۔ (بحوالۂ کشف المحجوب ص ۳۹۷)۔

جہادِ اکبر میں کامیابی کے لئے اسمِ اعظم کا وسیلہ بے حد ضروری ہے اور وہ پاک و پاکیزہ اور عظیم معجزاتی اسم صرف امامِ زمانؑ ہی عطا کر سکتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم خود امامِ آلِ محمدؐ ہی ہے، اللہ تعالیٰ کے زندہ اسمِ اعظم کے اصولی ذکر سے روحانی قیامت برپا ہوتی ہے، جس میں بے شمار

 

۲۱۵

 

معجزات اور اسرارِ معرفت ہیں۔

آپ سب آدمِ زمانؑ کے فرزندانِ روحانی ہیں، لہٰذا حدیثِ قدسی میں اللہ آپ ہی سے فرماتا ہے کہ میری حقیقی اور کلی اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی مثل بناؤں گا۔ کیا یہ امر (کام) ممکن ہے یا ناممکن؟

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ۲ ، مئی ۲۰۰۲ء

۲۱۶

حدیثِ قدسی میں عاشقانِ نور کے لئے فنا فی الامام کی اشارت و بشارت

یابن آدم اطعنی اجعلک مثلی حیا لا تموت و عزیزا لا تذل و غنیا لا تفتقر۔ یعنی اے آدمِ زمان کا فرزندِ روحانی! میری حقیقی اور کلّی اطاعت کر، تاکہ میں تجھ کو اپنی مثل بنا دوں گا، ایسا زندہ کہ تو کبھی نہ مرے، اور ایسا عزت والا کہ کبھی ذلیل نہ ہو، اور ایسا غنی کہ کبھی مفلس نہ ہو۔ اور عاشقانِ نور کے لئے یہ ازلی و ابدی سعادت، صرف فنا فی الامام ہی کے ذریعے سے ممکن ہے، اس حدیثِ قدسی کا حوالہ ہے: کتاب زاد المسافرین ص ۱۸۳۔ نیز اربع رسائل اسماعیلیۃ ص ۱۵۔

یقیناً میرا کوئی بھی مقالہ کسی سے بحث و مناظرہ کی غرض سے ہرگز نہیں نہ اپنی جماعت میں اور نہ جماعت سے باہر، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ائمّۂ آلِ محمد (صلوات اللہ علیہ و علیہم) نے جس طرح مجھ پر روحانی قیامت برپا کر دی، اور جیسے بے شمار معجزات دکھائے ان کا تذکرہ بقدرِ امکان صرف اپنے شاگردوں ہی کے لئے کرتا ہوں، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ (روحی فداہ) کے عہدِ امامت میں ایک بہت بڑی روحانی قیامت برپا ہوئی ہو، جس کی وجہ سے یہ زمانہ دورِ قیامت = دورِ تاویل = دورِ روحانی اور دورِ

 

۲۱۷

 

کشف ہو۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ۳ ، مئی ۲۰۰۲ء

۲۱۸

فنا فی الامام میں کنزِ کل ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

تمام اصل اور اعلیٰ چیزیں خزائنِ الٰہی میں ہیں (۱۵: ۲۱) ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے جملہ خزانوں کو امامِ مبین میں جمع کیا ہے (۳۶: ۱۲) ۔ اب جو شخص فنا فی الامام ہو جائے گا وہ یقیناً ازلی و ابدی نیک بخت ہوگا، اس کو وہ سب سے بڑی نعمت حاصل ہوگی جو جنت سے بھی عالی ہے، وہ اللہ پاک کی خوشنودی ہے، جس کا قرآنی نام رضوان (۰۹: ۷۲) ہے۔

اے عزیزان! آیا یہ بات ممکن ہے کہ امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲) میں اللہ کے خزانوں میں سے کوئی خزانہ غیر موجود ہو، نہیں نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کے وہ سب خزانے (۱۵: ۲۱) جو کبھی ختم نہیں ہوتے، وہ سب کے سب امامِ مبینؑ میں بلا کم و کاست ہمیشہ موجود ہیں۔

الحمدللہ علیٰ منہ و احسانہ۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اسلام آباد
اتوار ۵ ، مئی ۲۰۰۲ء

 

۲۱۹

 

کوزۂ کوثر – (مقالاتِ نصیری)

کوزۂ کوثر

(مقالاتِ نصیری)

خدمتِ قرآن اور حکمتِ قرآن

اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت عطا کی گئی اسے خوبیوں کی بڑی دولت ہاتھ لگی، اور عقلمندوں کے سوا کوئی نصیحت مانتا ہی نہیں (۰۲: ۲۶۹) يُّؤْتِي الْحِكْمَةَ = وہ حکمت دیتا ہے۔ دینے کا تعلق ید اللہ سے ہے، اور اس کا مشاہدہ مرتبۂ عقل پر، جہاں بے شمار حقائق و معارف مرکوز ہیں، وہاں الْمَثَلُ الْاَعْلٰى  (۱۶: ۶۰) بھی ہے، جس میں وہ تمام مثالیں جمع ہیں جو قرآنِ حکیم میں بیان کی گئی ہیں۔

 

اب خدمتِ قرآن کی بات کرتے ہیں اور یہ شروع سے لے کر اب تک ایک وسیع کائنات ہے جس میں ہر گونہ خدمت کی گنجائش ہے، اور اس میں ہمیں اور ہمارے عزیز ساتھیوں کو “حکمتِ قرآن” کی خدمت سونپی گئی ہے، زہے نصیب!

 

سدا بہار پھولوں کا یہ گلدستہ میں صدر فتح علی حبِّیب، صدر محمد عبدالعزیز، صدر بابر خان، دیگر عملداران اور تمام ارکان کی جانب سے عزیزم نوشاد پنجوانی کو پیش کرتا ہوں، قبول ہو! میرے بہت ہی عزیز جانی دوست، میرے دل کے مکین اور میرے بہت پیارے سٹوڈنٹ نوشاد کی (ان شاء اللہ تعالیٰ) بہت ترقی ہوگی، ان کا پہلا انتساب “مفتاح الحکمت” میں دیکھیں۔

 

ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی ۹۴/۲/۲۴

 

 

دیباچۂ طبعِ دوم

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اللہ تعالےٰ کا پاک ارشاد ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا  (۰۴: ۵۹)

ترجمہ: اے ایمان دارو!اللہ کی اطاعت کرو، اور رسولؐ کی، اور جو تم میں سے صاحبِّانِ امر ہیں ان کی اطاعت کرو، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیردو، اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے، اور تاویل کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔

 

حکمتِ اوّل:

اللہ تبارک و تعالےٰ کا یہ ہمہ گیر و ہمہ رس حکم انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس میں خدائے بزرگ و برتر کی اطاعت و فرمانبرداری کا وہ اٹل قانون مذکور ہے، جو شروع سے لے کر آخر تک تمام مسلمانوں کیلئے بیحد ضروری اور لازمی ہے۔

 

حکمتِ دوم:

خدائےعلیم و حکیم نے کبھی اہلِ ایمان کو کسی ایسے شخص

۷

کی اطاعت کا حکم نہیں دیا، جس کو اُس نے نورِ علم و ہدایت کی لازوال دولت سے مالا مال نہ فرمایا ہو۔

 

حکمتِ سوم:

مسلمانوں کی وحدت و سالمیت کا سب سے بہترین اور مثالی زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا عہدِ مبارک تھا، جس میں سوائے اہلِ بیتِ اطہار کے کوئی ایسا مسلمان بادشاہ یا حاکم نظر نہیں آتا کہ رسولؐ کی اطاعت کے بعد اس کی اطاعت کی گئی ہو۔

 

حکمتِ چہارم:

یہ بات صرف اہلِ حقیقت ہی کے لئے خاص ہے کہ اولی الامر منکم (صاحبِّانِ امر جو تم میں سے ہیں) کے ایک انتہائی معنی بھی ہیں، وہ یہ کہ جب عالمِ شخصی کے اسرار منکشف ہوجاتے ہیں، تو اُس وقت یہ حقیقتِ حال روشن ہوجاتی ہے کہ زمانے کے ولیٔ امر کا نور ظاہراً و باطناً  مِنکُمْ کا مصداق ہے۔

 

حکمتِ پنجم:

امر کے بغیر کوئی اطاعت نہیں، لیکن امر دراصل خدا ہی کا ہے، لہٰذا رسولِ اکرمؐ کے بعد صرف وہی حضرات امرِ الٰہی کے حامل ہوسکتے ہیں، جو نورِ خدا کے حامل ہیں، اور وہ أئمّۂ آلِ محمدؐ ہی ہیں، جن کا پاک سلسلہ حبِّل اللہ (خدا کی رسی) کا مرتبہ رکھتا ہے۔

 

حکمتِ ششم:

یہاں یہ بڑا اہم سوال سامنے ہے کہ حضورِ انورؐ کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے آپس میں جو اوّلین نظریاتی تنازع پیدا ہوا، وہ کس چیز کے بارے میں تھا؟ اس کا جواب آیۂ اطاعت کے اشارے کے مطابق یہ ہے کہ نزاع کسی اور شے میں نہیں، صرف اولو الامر کے تعیّن و تقرّر کے بارے

۸

میں تھا، حالانکہ قرآن و حدیث میں اس حقیقت کی بہت سی روشن دلیلیں موجود ہیں، پس فرمایا گیا کہ تم تمام چیزوں کو چھوڑ کر نئے  سرے سے قرآن و حدیث میں دیکھو کہ اولوالامر کون ہیں؟

 

کتاب کا نام

بہ نتیجۂ غور و فکر اس کتاب کا موجودہ نام “کوزۂ کوثر” رکھا گیا، جبکہ پہلے اس کا نام مقالاتِ نصیری تھا، یقیناً کوثر مولا علیؑ کا لقب بھی ہے، اور حضرت قائم القیامتؑ کے علمِ تاویل کا پانی بھی، یہ مقدّس پانی ایسا اور اتنا بابرکت ہے کہ اس کا صرف ایک ہی کوزہ دریائے روان سے بہت زیادہ ہے، آبِ حیات بحقیقت یہی ہے، جس کے پینے سے مومنین و مومنات اپنے آپ کو ازل و ابد میں زندہ اور پُرنور پاتے ہیں۔

 

حقیقی علم اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک نور ہے، جس کی روشنی میں ہر چیز کی حقیقت کا پتہ چلتا ہے، یہ دیدۂ دل، گوشِ ہوش، اور لسانِ ناطق ہے، روحانی علم سچ مچ بہشتِ برین ہے، جس میں ہر لطیف نعمت موجود ہے، اور کوئی بڑی یا چھوٹی شیٔ ایسی نہیں جو اس میں نہ ملے، علم و حکمت بہت بڑی دولت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی، آپ اس سے عالمِ اسلام کی خاموش خدمت کرسکتے ہیں، کیونکہ آپ علیٔ زمان صلوات اللہ علیہ و سلامہٗ کے علمی لشکر میں شامل ہیں۔

 

اگر آپ امامِ برحق علیہ السّلام کے جان نثار عاشقوں میں سے ہیں، تو

۹

آئیے! ہم سب مل کر ایک بیحد ضروری اور ہمہ رس کام کریں، جس کا فائدہ نہ صرف جماعت تک محدود ہو، بلکہ یہ تمام اسلام کی بھی ایک اہم خدمت قرار پائے، اور کچھ آگے چل کر یہی عمل انسانیّت کے لئے بھی مفید ثابت ہوجائے، جی ہاں! یہ سچ ہے، ایسا عظیم کارنامہ علمی خدمت کی شکل میں ہوسکتا ہے۔

 

قرآنِ عظیم نے واشگاف الفاظ میں اعلان فرمایا کہ حکمت ہی میں خیرِ کثیر کی لازوال دولت موجود ہے، ایسے میں اگر ہم قرآنی حکمت کی خدمت سے پیچھے ہٹیں تو بہت بڑی ناشکری ہوگی، اور قیامت کے دن بڑی سختی کے ساتھ ہم سے پوچھا جائےگا۔

 

لفظِ معراج کی حکمت

قرآنِ عزیز اور دینِ اسلام میں لفظ “معراج” کے معنی اور مثال میں عظیم حکمتیں پنہاں ہیں، کیونکہ حضرت محمد مصطفےٰ سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا پاک روحانی سفر اسی (معراج) کے عنوان سے ہے، معراج کا لفظی ترجمہ “سیڑھی” ہے، اور یہ بات پوشیدہ نہیں بلکہ ظاہر ہے کہ سیڑھی جتنی اونچی ہوگی، اُتنے اُس کے زینے زیادہ ہوں گے، اس مثال سے دین اور روحانیّت کے درجات مراد ہیں، جن کا کئی طرح سے قرآنِ پاک میں ذکر موجود ہے (درجات، معارج)۔

 

عزیزانِ من! میں آپ سے ایک بہت ہی مفید علمی سوال کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ جب آپ سورۂ فاتحہ میں ربّانی تعلیم کے مطابق تمام انبیاء علیہم السّلام کے لئے مقرر شدہ راستے پر چلنے کی توفیق و ہدایت کی

۱۰

دعا کرتے ہیں، تو بتائے کہ اس مقدّس راستے کی منزلِ مقصود کہاں ہے؟ اس کا کیا نام ہے؟ ویسے تو سب کو معلوم ہے کہ آنحضرتؐ نے معراج تک رہنمائی فرمائی ہے۔

 

سوئی کے ناکہ سے اونٹ کا گزرنا

سورۂ اعراف (۰۷: ۴۰) میں اللہ تعالےٰ کا یہ ارشاد ہے: (ترجمہ) یقین جانو! جن لوگوں نے ہماری آیات (نورِ مُنَزَّل) کو جھٹلایا ہے، اور ان کے مقابلے میں سرکشی کی ہے، ان کے لئے آسمان کے دروازے ہر گز نہ کھولے جائیں گے، ان کا جنّت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکہ سے اونٹ کا گزرنا (۰۷: ۴۰) سوئی کا ناکہ دعوتِ حق کا انتہائی چھوٹا سا دروازہ ہے، اور اونٹ سے وہ شخص مراد ہے جو اپنے آپ کو بہت بڑا اور داعی کو بہت حقیر سمجھ کر دعوتِ حق کو قبول نہیں کرتا، جیسا کہ مذکورہ آیت میں تکبر (وَاسْتَکْبِرُوْا) کا ذکر ہے، پس اگر یہ شخص فخر و غرور سے باز آئے، اور عاجزی سے معلّم کی تعلیم قبول کرے تو اس حال میں سوئی کے ناکہ سے اونٹ گزر جائے گا، کیونکہ ایسے میں گویا اونٹ بہت چھوٹا ہوگیا، اور سوئی کا ناکہ بہت کشادہ ہوگیا۔

مضبوط اور مشکل حجابات

جس طرح خدا پردے کے پیچھے سے کلام کرتا ہے (۴۲: ۵۱) اسی طرح قرآنِ حکیم کے بڑے بڑے اسرار مضبوط اور مشکل حجابات میں ہیں، چنانچہ قصۂ

۱۱

ذوالقرنین کا ایک ایسا حجاب عَيْنٍ حَمِئَةٍ (کیچڑ والا چشمہ ۱۸: ۸۶) ہے، جس سے عالمِ علوی میں نفسِ کلّی اور عالمِ سفلی میں اساس اور امام مراد ہیں، جن میں آفتابِ نور غروب ہوجاتا ہے، اس تاویلی حکمت کے برعکس سیّارۂ زمین پر کیچڑ کا کوئی ایسا  چشمہ موجود نہیں، جس میں ظاہری سورج ڈوب جاتا ہو۔

 

یاد رہے کہ مٹی مومن کی مثال ہے، اور پانی علم کی مثال، مٹی کی خوبی یہ ہے کہ وہ پانی کو قبولتی ہے، جس سے وہ بصورتِ نباتات زندہ ہوجاتی ہے اور مومن کی خوبی یہ ہے کہ وہ علم کو قبول کرتا ہے، جس میں اس کی اصل زندگی ہے، پس مرطوب مٹی ایسا مومن ہے، جس کے پاس تھوڑا سا علم ہو، گارا وہ مومن ہے، جس نے زیادہ علم جذب کرلیا ہو، اور کیچڑ جس میں بہت زیادہ پانی ہوتا ہے، اعلیٰ حدود کی مثال ہے، کیونکہ ان کا علم بڑا وسیع ہوتا ہے، لہٰذا وہ آفتابِ نور عقل کے لئے مغرب ہیں۔

مشارق و مغارب کی حکمت

قرآنِ پاک میں کئی مشرقوں اور مغربوں کا ذکر آیا ہے(۰۷: ۱۳۷، ۳۷: ۰۵، ۷۰: ۴۰) جس کی ایک تاویلی حکمت اس طرح ہے: عقلِ کلّ و نفسِ کلّ = مشرق و مغرب، نفسِ کلّ و ناطق = مشرق و مغرب، ناطق و اساس = مشرق و مغرب،  اساس و امام = مشرق و مغرب، امام و باب = مشرق و مغرب، باب و حجت  = مشرق و مغرب، حجت و داعی  = مشرق و مغرب، داعی و ماذون  = مشرق و مغرب، ماذون و مستجیب  = مشرق و مغرب، پس عالمِ دین اور عالمِ شخصی کے مشارق و مغارب

۱۲

یہی ہیں، جہاں نورِ علم طلوع و غروب ہوتا رہتا ہے۔

 

اے عزیزان و دوستان! اسے جماعتِ باسعادت! اس بے مثال خوش بختی کا کیا کہنا، کہ آپ سب اپنے زمانے کے امامِ ھمام علیہ السلام کو پہچانتے ہیں، اور یقیناً اسی معنی میں آپ حضرات اللہ تعالیٰ کو اسماء الحسنیٰ سے پکارتے ہیں، خدا کا یہ پسندیدہ عمل آپ کو مبارک ہو! اب اس انتہائی عظیم نعمت کی شکر گزاری کے طورپر خلقِ خدا کی خیر خواہی لازمی ہے۔

 

آخراً یہ امر میرے لئے ازبس ضروری ہے کہ میں اپنے ان تمام ساتھیوں کا قلبی گہرائیوں سے شکریہ ادا کروں، جن کے شب و روز کی انتھک کوشش و محنت کی وجہ سے ہمارے تینوں ادارے نیک نام ہوگئے، وہ ھیں: خانۂ حکمت، عارف، اور بی۔آر۔اے۔ نیز میں بہت بہت بہت شکر گزار اور ممنون ہوں، ان تمام جان نثار عزیزوں کا، جو “جشنِ خدمتِ علمی” کو دور رس فوائد کی شان کے ساتھ منانے کے لئے کمر بستہ ہوچکے ہیں، خداوندِ عالم سب پر بے نہایت مہربان ہو!

 

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل ۳۰، شوال ۱۴۱۴ھ / ۱۲، اپریل ۱۹۹۴ء

 

۱۳

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

پیش لفظ

 

بارگاہِ الہٰی میں دعا:

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ (۵۹: ۱۰)

اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو جنہوں نے ایمان لانے میں ہم سے سبقت کی ہے، بخش دے، اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لئے جو ہمارے پروردگار پر ایمان لائے ہیں، کوئی کینہ نہ رہنے دے، بے شک تو بڑا شفیق نہایت رحم والا ہے۔

 

آنحضرتؐ کی تعریف و توصیف:

لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ(۰۹: ۱۲۸) (اے لوگو) تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس (بشر) سے ہیں، جن کو تمہاری

۱۴

مضّرت کی بات نہایت گران گزرتی ہے جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہشمند ہوتے ہیں، ایمانداروں پر تو بڑے شفیق و مہربان ہیں۔

 

محمد و آلِ محمد پر صلوٰۃ:

صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَصَلَوَاتَ مَلَا ئِکَتِہٖ وَاَنْبِیَائِہٖ وَرُسُلِہٖ وَجَمِیْعِ خَلْقِہٖ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ السَّلَامُ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَ کَاتُہٗ۔

اللہ تعالیٰ کی صلوٰت ہو اور اس کے ملائکہ، انبیاء و رسل اور تمام خلق کی صلوات ہو محمد و آلِ محمد پر! اور آنحضرتؐ اور آپ کے آلِ پاک پر سلام ہو، اور ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں!

 

اسماعیلی مذہب کی خوبیاں:

میرے دینی بھائیوں اور عزیزوں کو اس میں ذرا بھی شک نہ ہوگا کہ اسماعیلی مذہب علم و حکمت کے بے بہا جواہر کے گنجینوں اور رشد و ہدایت کے انمول موتیوں کے خزانوں سے دائم الوقت مالا مال ہے، یہ لافانی و لاثانی علمی مال و دولت کتابی دفینوں میں بھی رہی ہے، اور پاک و صاف سینوں میں بھی، اسماعیلیوں کا یہ عقیدہ درست اور یہ دعویٰ حق بجانب ہے، اور تاریخِ امامت سے بھی یہی ثبوت ملتا ہے کہ اسماعیلی علم و حکمت کے چراغ کی ضوفشانیوں سے دنیا کی آنکھیں اُس وقت خیرہ ہونے لگی تھیں جبکہ مولانا ھنید علیہ السّلام حضرت آدمؑ کو روئے زمین پر خلافت و نیابتِ الٰہیہ کی روحانی و معجزاتی تعلیم دے

۱۵

رہے تھے، اور یہ امامِ عالی صفاتؑ ہی کا نور تھا، جس کو یہاں ایک روشن چراغ سے تشبیہہ دی گئی ہے۔

 

نظامِ ہدایت:

چنانچہ ہم یہاں اسماعیلی حدودِ دعوت کی رہنمائی اور علم و حکمت کی سرپرستی کے دائمی نظام کا ایک مختصر سا نقشہ پیش کرتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ اس عظیم دور کے رسولانِ ناطق علیہم السّلام چھ ہوئے ہیں: یعنی حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ، اور حضرت محمد مصطفےٰ صلوات اللہِ علیہم اجمعین اور ان کا ساتواں حضرت قائم ہیں، اِن ناطقوں میں سے ہر ایک کا ایک امامِ مقیم نے روحانیّت کی معجزانہ تعلیم دی ہے، اس کے بعد ہر ناطق یعنی صاحبِّ شریعت کا ایک اساس ہوا ہے، پھر اساسؑ کے بعد أئمّہ اطہار علیہم السّلام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، اور ہر ناطق کے دور کے یہ امام اکثر دفعہ سات ہوا کرتے ہیں، یا دو دفعہ ساتھ یا چند دفعہ سات ہوتے ہیں، اور ان کا ساتواں امام چھوٹے دور کے قائم ہوتے ہیں، جس کی تاویل کے کئی پہلو ہیں جن کی ایک مثال یہ ہے:

 

خدا کے چھ دن

قرآنِ حکیم کی چند آیتوں میں یہ ارشاد۱  ہےکہ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں کائنات کی تخلیق مکمل کردی اور وہ ساتویں دن عرش پر متمکن ہوا، اس کی

 

۱؎:  ۰۷: ۵۴، ۱۰: ۰۳، ۱۱: ۰۷، ۲۵: ۵۹، ۳۲: ۰۴، ۵۰: ۳۸، ۵۷: ۰۴

۱۶

تاویل یہ ہے کہ چھ پیغمبروں (جن کا اوپر ذکر ہوا) کی شریعتیں اور ان کی تاویلات آنے کے بعد یعنی چھ ادوار میں دنیائے انسانیت اور عالمِ دین مکمل ہوا، اور حضرت قائم الزمان علیہ افضل التحیتہ والسلام کے دور میں اللہ تعالیٰ اپنے اس کام سے فارغ ہو کر عرش پر متمکن ہوا، عرش پر اللہ کے متمکن ہونے کا مطلب ہے مظہرِ الہٰی سے مکمل طور پر نور کا ظہور ہونا۔

جب یہ معلوم ہوا کہ بڑے دور کے چھ ناطق اللہ تعالیٰ کے وہ چھ دن ہیں، جن میں اُس نے عالمِ دین کو پیدا کیا، اور حضرت قائم اللہ کے وہ ساتویں دن (سنیچر) ہیں، جس میں وہ سب کچھ مکمل کر کے دین کے زندہ عرش پر متمکن ہوا ہے، تو پھر یہ بھی جاننا چاہئے کہ ہر ناطق کے دور میں سات ائمّہ ہونے کا جو اصول مقرر ہے اس میں بھی یہی حکمت ہے کہ چھ امام خدا کے چھ دن ہیں، اور ساتواں امام خدا کے ساتویں دن (سنیچر) ہیں، چنانچہ ہر ناطق کے انفرادی عالمِ دین کی تخلیق و تکمیل کے لئے بھی سات اماموں کا ہونا ضروری ہے۔

 

نمونۂ قیامت:

یہاں پر قرآنِ پاک سے ایک ایسی دلیل پیش کی جاتی ہے کہ جس سے یہ حقیقت بالکل صاف روشن ہو کہ ان بڑے پیغمبروں کے دینی عالم دو قسم کے ہیں:

۱۔ اجتماعی

۲۔ انفرادی

۱۷

چنانچہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰؑ کی آخری عمر میں یوں ارشاد فرماتا ہے کہ

وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ   اور جن لوگوں نے تمہاری پیروی کی اُن کو قیامت تک کافروں پر غالب رکھوں گا۔ (۰۳: ۵۵)

اس ارشادِ الہٰی کی حکمت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کے تابعین اللہ تعالیٰ کے مذکورہ وعدہ کے مطابق اپنے مخالفین پر دینی لحاظ سے (یعنی دلیل و حجت کے اعتبار سے) غالب و فاتح رہے، تاآنکہ دورِ عیسیٰؑ کے چھ اماموں کا زمانہ گزر گیا، اور جب دورِ عیسیٰؑ کے ساتویں امام کا ظہور ہوا تو اُس وقت نصرانیت کی قیامت برپا ہوئی، کیونکہ پیغمبرِ اسلامؑ ایک نئی کتاب اور تازہ شریعت لے کر دنیا میں تشریف فرما ہوئے، اب حضرت عیسیٰؑ کے دین کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو کچھ وعدہ فرمایا تھا، وہ پورا ہوچکا، اگر ہم اس آیۂ مبارکہ کے ایسے ہی معنی نہ لیں، بلکہ یوں کہیں کہ دنیائے عیسائیت میں ابھی تک کوئی قیامت واقع نہیں ہوئی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر نصاریٰ ظہورِ اسلام کے بعد مسلمان نہ بنیں، تو ان پر کوئی جرم نہیں، اور جو غیر عیسائی اسلام کو قبول کریں، تو وہ پھر بھی مسلمان نہیں ہوسکے، کیونکہ بموجبِ وعدۂ الہٰی عیسائیوں کو قیامت تک اپنے مخالفین پر غالب و فاتح ہونے کا حق حاصل ہے، تو کیا کوئی دانشمند مسلمان اس بات کو قبول کرے گا؟ نہیں نہیں، ہرگز نہیں۔

جاننا چاہئےکہ مذکورہ دلیل سے نہ صرف یہی حقیقت واضح و روشن ہوئی، کہ ہر ناطق پیغمبر کی دنیائے شریعت میں ساتویں امام کے آنے پر قیامت برپا ہو

۱۸

جاتی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ اصول بھی معلوم ہوا کہ قیامت خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، اختیاری ہو یا اضطراری، انفرادی ہو یا اجتماعی، جب بھی آجائے تو وہ غیر شعوری طور پر آتی ہے، چیختی چلاتی ہوئی نہیں آتی۔

 

بات دراصل اس بارے میں تھی، کہ پیغمبر اور امام علیہما السلام حدودِ دین کی سرپرستی کس طرح فرماتے ہیں، اور اسماعیلی دعوت و ہدایت کا نظام کس طرح قائم ہے، اور یہ کہنا تھا کہ اسماعیلی نظامِ دعوت کس عظیم الشّان طریق سے پورے دور کے ظاہر و باطن پر محیط و حاوی ہے، اور امامِ برحق کی ہمہ رس معجزانہ ہدایت کس قدر حیرت انگیز ہے، کہ دنیا کے بارہ جزیروں میں سے ہر ایک میں ایک ظاہر حجت اور ایک باطن حجت کے تحت تیس ۳۰ داعی ہوا کرتے ہیں۔

 

ایک مثال:

یہ بات سب جانتے ہیں کہ، سمندر کا پانی اس کرۂ ارض کے آباد اور غیر آباد دونوں حصوں کی ضرورت سے بھی بہت زیادہ ہے، مگر دنیا بھر کے پہاڑوں، جنگلوں، صحراؤں، باغوں اور کھیتوں کو پانی پہنچانے کا دارو مدارسورج پر ہے، کیونکہ سورج ہی ہے جو سطح سمندر کے پانی کو بخارات کی صورت دے کر فضا میں بلند کرتا ہے، پھر انہیں بادلوں کی شکل میں تبدیل کرکے تیز ہواؤں کے کندھوں پر مختلف اطراف میں بھیج دیتا ہے، ان بادلوں سے برف و بارش برساتا ہے اور برف ویخ کے بے پناہ ذخیروں سے ندیاں،

۱۹

نالے، اور دریا جاری کردیتا ہے، یہی چشمۂ نور و حرارت ہے، جو سال بھر کے موسموں پر کنٹرول رکھتا ہے، نباتات اگاتا ہے، اور انہیں نشوونما دیتا ہے ہر قسم کی فصل اور پھل اسی سورج کی روشنی اور گرمی کی بدولت پک کر تیار ہو جاتے ہیں، اور تمام ذی حیات مخلوقات اسی نور کے طفیل سے زندہ اور قائم ہیں۔ الغرض اگریہ نور نہ ہوتا تو کچھ بھی پیدا نہ ہوتا، پس یہی مثال امامِؑ عالیمقام کے علم اور نور کی بھی ہے، کہ امام کا علم عالمِ دین کا سمندر ہے، اور آپ کا نور دنیائے روحانیّت کا سورج ہے اور یہ امام علیہ السّلام کے علم کا صاف و شفاف پانی حدودِ دین کی نہروں کے توسط سے آیا کرتا ہے۔

 

آفاق و انفس کی آیات:

جب صاحبِّ امر کی بے مثال ہدایت و رہنمائی سے مومن میں دین شناسی اور امام شناسی کی آنکھ پیدا ہوجاتی ہے تو وہ آفاق وانفس کی آیات اور کائنات و حیات کے معجزات کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے، پھر اُسے امامِ حیّ و حاضرکی ظاہری و باطنی ہدایت کی اہمیت اور نفوسِ خلائق میں اس کی واقعیت کے بارے میں یقینِ کامل حاصل ہوتا ہے۔

 

امام دنیا میں ہمیشہ کے لئے حاضر ہیں:

مثال کے طور پر بتایا جاتا ہے، کہ اس آفاق (کائنات) میں آسمان، سورج، چاند، ستارے، کہکشاں، بجلی، رعد، دن، رات، آگ، ہوا، پانی، مٹی، پہاڑ،

۲۰

نباتات، حیوانات اور انسان کے علاوہ دوسری بہت سی چیزیں اس طرح سے ہیں، کہ وہ جب سے پیدا کی گئی ہیں، تب سے حاضر اور موجود ہیں، اور ان میں سے کسی ایک چیز کا ختم ہوجانا یا غائب ہو جانا قطعی ناممکن ہے، خواہ وہ کتنی چھوٹی اور کس قدر معمولی کیوں نہ ہو، چہ جائیکہ سورج کا غائب ہوجانا، کیونکہ خدائے احکم الحاکمین نے دین اور اس مادّی عالم کے اندر جو کچھ بھی پیدا کیا ہے اس کی ایک خاص ضرورت تھی، اسی لئے پیدا کیا ہے، اب بھی اس کی ضرورت ہے، اور آئندہ بھی اس کی ضرورت رہے گی۔ پس اگر یہ کہاجائے، کہ اس دور میں عالم دین کا سورج لوگوں سے غائب ہوچکا ہے، تو یہ امر محالات میں سے ہوگا۔

 

دینی علم اور کتابوں کی اہمیّت:

الغرض اس دور میں دینی علم کی طرف توجہ دینا ازحد ضروری ہے، خصوصاً نئی نسل کے لئے تو اس کے بغیر ایمانی روح اور مذہبی زندگی کی کوئی توقع ہی نہیں، لہٰذا جنرل قسم کے دینی کتب کے علاوہ مذہبی نصاب کی کتابیں انتہائی ضروری اور لازمی ہیں، ان دونوں قسم کی کتابوں کے بغیر ہر وہ منصوبہ، جو مذہبی ترقی اور روحانی تعلیم کے لئے بنایا جاتا ہے، ناتمام بلکہ ناکام ہے۔

 

اسی سلسلے میں بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اردو جیسی قومی زبان میں جو ہمارے عزیز وطن پاکستان اور ہماری خداداد مملکت کی زبان ہے، چند کتابوں کے سوا کچھ نہیں، حالانکہ اس ملک میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے

۲۱

اسماعیلی بستے ہیں کہ ان کا تعلق مختلف علاقوں اور جدا جدا زبانوں سے ہے، جیسے گجراتی، سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتو، چترالی، شینا (گلگتی) بروشسکی اور وخی، مگر ان علاقائی زبانوں اور مقامی بولیوں میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جو ان بے شمار اسماعیلی افراد کی دینی وحدت کے سلسلے میں کوئی خاص مدد کرسکے، نہ وہ ان کی مشترکہ زبان کا کردار ادا کرسکتی ہے، اور نہ ہی پاکستان کے کروڑوں مسلمان بھائیوں کو ان کی اپنی خواہش پر اسماعیلیت کا تعارف کراسکتی ہے، سوائے موجودہ قومی اور سرکاری زبان کے جو اردو ہے۔

 

یہ حقیقت تو مسلّمہ ہی ہے، کہ عربی (جو دنیا بھر کے مسلمانوں کی دینی لسان ہے) اور فارسی میں اسماعیلی اماموں اور بزرگوں کے ایسے ایسے علمی و ادبی شاہکار موجود ہیں کہ جنکی عالمگیر شہرت اور بے پایان معنویت کی بالادستی کے سامنے زمانۂ قدیم و جدید کے نامور حکماء اور فلسفیوں نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں، اور ایسی ہی اہم کتابوں میں سے بعض کے انگریزی، فرانسیسی، جرمنی وغیرہ زبانوں میں ترجمے بھی ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف سے دنیائے علم و ادب کے بڑے بڑے اداروں میں اسماعیلی مذہب کی مشہور و معروف شخصیتوں پر ریسرچ (تحقیق) کا کام ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں اسماعیلیت سے متعلق کتابیں چھپ کر شائع ہورہی ہیں، لیکن تعجب اور حیرت کا مقام ہے کہ اردو میں اب تک جو کچھ ترجمہ و تخلیق کا کام ہونا ضروری تھا اُس کا عشرِ عشیر (دسواں حصہ) بھی نہیں ہوا ہے۔

۲۲

کتابِ ہٰذا:

کتابِ زیرِ نظر اور دوسری چند تصنیفات و ترجمے مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے سلسلے میں اس بندۂ عاجز و ناتوان کی ایک ناچیز سی کوشش ہے، آپ کو شاید معلوم ہو کہ کچھ عرصہ قبل میرے بعض مقالے “اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کراچی” کی وساطت سے شائع ہوئے تھے، یہ کتاب ان مقالات میں سے چند کو لے کر مرتب کی گئی ہے، سوائے چند کے باقی سب مضامین شائع تو ہوچکے تھے، تاہم مصلحت یہ قرار پائی کہ یہ مقالات جو مختلف ضروری موضوعات سے متعلق ہیں، کتاب کی صورت میں یکجا اور مستقل طور پر شائع کئے جائیں۔

 

علم و عمل کے دو مرحلے:

اسماعیلی نظریات کے لحاظ  سے علم و عمل کے دو مرحلے ہیں، چنانچہ مرحلۂ اوّل پر تنزیل و شریعت کے احکام سامنے آتے ہیں، اور مرحلۂ دوم پر تاویل اور حقیقت کے امور سے واسطہ پڑتا ہے، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ آنحضرتؐ کی نبوّت و رسالت کے آغاز سے لے کر قیامتِ کبریٰ تک جو دور گزرنے والا ہے اس کے دو۲ حصّے کئے گئے ہیں: پہلے حصّے کا زیادہ تر تعلق تنزیل و شریعت سے ہے، اور دوسرے حصّے کا واسطہ تاویل و حقیقت سے، تاکہ دور کے دونوں حصّوں کے جملہ مومنین اپنے اپنے وقت کے

۲۳

مطابق اللہ تعالیٰ، رسولؐ اور اولی الامر کی علمی و عملی اطاعت کو جیسا کہ چاہئے بجا لاسکیں۔

 

شکریہ:

اب میں بالآخر ان تمام عزیز روحانی بھائیوں، بہنوں، دوستوں اور تلامذہ کا دل و جان اور صدق و ایقان سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ ہربار مختلف صورتوں میں علم کی قدردانی اور علمی خادم کی ہمت افزائی کرتے ہوئے آئے ہیں، اور دینی علم کے پھیلانے کے سلسلے میں جو کچھ بھی ضروری خدمات انجام دیتے ہیں، ان سے ان کا مقصدِ اعلیٰ صرف یہی ہے کہ انہیں امام عالیمقام کی خوشنودی حاصل ہو۔

میرا اعتقاد اور ایمان ہمیشہ مجھ سے یہ تقاضا کرتا رہا ہے کہ بموجبِ حدیث شریف “اَلْحبِّ لِلّٰہِ وَالْبُغْضُ لِلّٰہِ” حقیقی مومنوں کی اخوت و دوستی سے مجھے جو روحانی مسرّت و شادمانی حاصل ہوتی ہے، میں اس کی قدر دانی کے طور پر کچھ تذکرہ کروں، عربی کا ایک مشہور مقولہ ہے: “ذکرالعیش نصف العیش” یعنی خوشی و راحت کا تذکرہ اس کے نصف کے برابر لذّت بخش ہوتا ہے، اس سے یہاں میری مراد روحانی خوشی اور دینی راحت ہے، اور میں صرف اسی کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔

 

میں پھر ایک بار ان تمام تعلیم یافتہ اسماعیلیوں، ترقی پسند بھائیوں، اور عزیز تلامذہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو اپنے ہر علمی خادم کی خدمت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتے ہیں، اور دینی تعلیمات کو فروغ دینے کے سلسلے میں جو کچھ

۲۴

بھی ہو سکے، تو تعاون کر لیا کرتے ہیں، اور وہ چاہتے ہیں کہ امام شناسی کی تعلیمات کی روشنی سے دنیائے اسماعیلیت کا کوئی گوشہ خالی نہ رہے۔

 

میں اسی ضمن میں اپنے عزیز و محترم دینی دوست جناب ممتاز علی صاحبِّ (بی کام) ابنِ صدرالدین محمد جعفر کا بھی ممنون ہوں کہ انہوں نے ازراہِ کرم کراچی جیسے گنجان شہر میں میری رہائش کے لئے بہترین بندوبست اور اعلیٰ انتظام کر دیا، خداوند تبارک و تعالیٰ جملہ نیکوکار اور خدمت گزار مومنین پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نظرِ رحمت اور سایۂ عاطفت رکھے! آمین یا رب العالمین!!

 

فقط آپ کا ایک دینی خادم

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

کراچی

 

بموقع عیدِ میلادالنبیؐ بروز جمعرات

۱۲، ربیع الاول ۱۳۹۲ھ / ۲۷ اپریل ۱۹۷۲ء

۲۵

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ذکرِ الہٰی میں شفا

 

ذکرِ الہٰی نتیجۃً صحت و سلامتی کا ذریعہ، اطمینانِ قلب کا باعث اور علم و حکمت کی کلید ہونے کے علاوہ لفظی طور پر بھی خدا شناسی و معرفت کی ایک روشن دلیل ہے۔

 

لفظِ ذکر کے اشارے:

لفظِ “ذکر” کے معنی میں خدا کی شناخت اور پہچان کے اشارات اس طرح سے ہیں کہ ذکر کے معنی ہیں کسی جانی پہچانی ہوئی چیز کے تصوّر کو شکل و صورت، اور الفاظ و معنی کے ذریعہ دل و دماغ میں لانا، مگر کسی چیز کو دیکھے، جانے اور پہچانے بغیر یاد کرنا محال ہے، اب اس بیان سے صاف طور پر یہ نتیجہ نکلا کہ خدا کی حقیقی یاد وہ ہے جو معرفت (یعنی پہچان) کی روشنی میں کی جاتی ہے۔

 

ذکرِ الہٰی کی مثال:

حقیقی ذکر کی ایک خاص شرط خدا شناسی اور معرفت ہونے کی دلیل یہ ہے

۲۶

جو خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے “فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَاۗءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا (۰۲: ۲۰۰) پس تم اللہ تعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے آباء کو یاد کرتے ہو، یا اس سے بھی زیادہ یاد کرو۔” اس ارشادِ الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنے آباء کو دیکھے، پہچانے اور مانوس ہوئے بغیر اس کثرت و شدّت سے یاد نہیں کرسکتے، جس کو اللہ تعالیٰ اپنے ذکر کی مثال اور نمونہ قرار دے، اور اگر وہ چار و ناچار اپنے آباء کو یاد کرنے میں کوئی معیاری نمونہ پیش کرتے ہیں، تو اس کی وجہ پہچان، مانوسیّت اور محبّت ہے، چنانچہ اس مثال سے یہ امر لازمی ہوا کہ خدا کو معرفت اور عشق سے یاد کیا جائے۔

 

ذکرِ الہٰی کی اس مثال میں ان تمام حقائق کے اشارے سموئے ہوئے موجود ہیں، کہ ایک صاف دل اور خیر خواہ باپ اپنے چھوٹے سے بچے کو کسقدر عزیز رکھتا ہے، اس کے حق میں کتنا شفیق و مہربان ہوتا ہے، اور کس طرح اس کی بہتری و کامیابی کا طلب گار رہتا ہے، اور اس کا وہ چھوٹا سا معصوم اور سادہ لوح بچہ، جب اپنے پیارے باپ سے دور رہنے لگتا ہے تو کس قدر بے تاب و مضطرب ہو کر اور کیسے اشتیاق کے عالم میں باپ کو یاد کرتا رہتا ہے، ہر چند کہ اس کی ماں، بہنیں، اور گھر کے دوسرے عزیز افراد اسے بہلا پھسلا کر باپ کی یاد سے باز رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، مگر یہ اپنے باپ کو اور اس کی شفقتوں اور نوازشوں کو ہر گز فراموش نہیں کرسکتا، اور جب کوئی شخص بھول سے اس کے باپ کا کوئی تذکرہ کرتا ہے، تو اس کے نازک اور پاکیزہ دل میں باپ کی محبِّت کی آگ شعلہ زن ہونے لگتی ہے، اور وہ بہانہ جوئی کرتے ہوئے رونے

۲۷

لگتا ہے، محبِّت اس کے اشتہا کو اپنے قبضے میں کرلیتی ہے، اس لئے وہ کچھ کھا پی نہیں سکتا، جب بہت سی کوشش کے بعد اس کو سلا دیا جاتا ہے تو وقفہ وقفہ پر جھٹکوں کے ساتھ چونک اٹھتا ہے، کیونکہ ہر بار وہ خواب و خیال میں اپنے باپ ہی کو دیکھتا ہے، اور اس کے ساتھ چمٹ جانے کی کوشش میں ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے جاگ اٹھتا ہے، یہاں تک کہ بعض دفعہ شدّتِ یاد کے بخار سے اس کا جسم تپتا رہتا ہے۔

 

خدا کی یاد اور باپ کی یاد میں فرق:

جیسا کہ بیان ہوچکا ہے کہ، معصوم اور سادہ لوح بچہ مانوسیت کے بعد جب باپ سے جدا اور دور رہنے لگتا ہے تو وہ بعض دفعہ شدّتِ اشتیاق کی بیماری میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے، لیکن ذکرِ الہٰی کے بارے میں عقل و دانش یہ کہتی ہے، کہ اگرچہ خدا کی یاد کی مثال باپ کی یاد سے دی جاسکتی ہے، تاہم انسانی یاد کے آثار و نتائج کے برعکس ذکرِ الہٰی سے حقیقی مومنین کے لئے جسم و جان کی صحت و سلامتی اور سکون و اطمینان حاصل ہونا چاہئے، اور قرآنی ارشادات کا اشارہ بھی یہی ہے، چنانچہ قولِ قرآن ہے کہ:

اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ  (۱۳: ۲۸)

خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے۔

پس مطلب صاف طور پر ظاہر ہے کہ کسی انسان کے دل کو اطمینان اُس وقت ہوجاتا ہے جب کہ وہ ذہنی اور جسمانی تکلیفوں اور بیماریوں سے بالکل

۲۸

محفوظ ہو، یا پھر اس کو برداشت کی معجزانہ قوّت ملے، اس کے بغیر اطمینانِ قلب کے کچھ معنی نہیں۔

 

ذکر کا تعلق پاک دل اور پاک زبان سے:

جب تک انسان اپنی زبان اور دل کو ناشائستہ اقوال و افعال کے زنگ و کدورت سے پاک نہ رکھے تو وہ مذکورہ بالا مثال کے مطابق خدا کو یاد نہیں کر سکتا، اور جب حقیقی معنوں میں خدا کو یاد نہیں کرسکتا تو ذکرِ الہٰی کے ظاہری و باطنی فوائد سے محروم رہ جاتا ہے، اور اس محرومیّت میں ہر قسم کی ناکامی پوشیدہ ہے۔

 

ذکر میں شفا ہونے کی دلیل:

اگر پوچھا جائے کہ یادِ الہٰی کس طرح باعثِ شفا ہوسکتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اکثر دفعہ انسان اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے کسی بیماری یا تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے، غلط کاری نفسِ امّارہ کے حکمران ہونے سے صادر ہوتی ہے، نفسِ امّارہ کی حکمرانی نہیں ہوسکتی، جب تک کہ عقل اور روح الایمان کمزور نہ ہوں، یہ دونوں کمزور اسوقت ہوتی ہیں، جب کہ ان کو اصلی اور پُرقوّت غذا نہ ملے، اور ایسی غذا کا واحد ذریعہ ذکرِ الہٰی ہے، جس میں عقل اور روح الایمان کے لئے سب کچھ موجود ہے، پس معلوم ہوا کہ جب اللہ کے بندوں کو ذکر سے عقل اور روح کی لذّتیں اور راحتیں میسر ہونے لگتی ہیں، تو اس وقت ان کی نفسانی خواہشات روحانی قوّتوں کے نیچے دبی ہوئی رہتی ہیں، پھر

۲۹

اس وقت ایسی بیماریاں اور تکالیف نہیں آتیں، جو غلط کاریوں کی پاداش کے طور پر پہنچتی ہیں۔

 

ذکر میں جسمانی مدد:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ  (۰۸: ۴۵) اے ایمان والو! جب تم (جہاد میں) کسی گروہ کے مقابل ہوتے ہو، تو ثابت قدم رہو، اور اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو، پس ظاہر ہے کہ ذکرِ الہٰی سے نہ صرف عقل و روح ہی کو نورانی قوّت ملتی ہے، بلکہ اس سے جسم کو بھی معجزانہ قسم کی مدد ملتی رہتی ہے۔

 

مادّی خوف:

ذکرِ الہٰی اور خوفِ خدا کے ذریعہ بیماریوں سے شفایابی کی ایک اور مثال یہ ہے کہ جب انسان پر یکایک ظاہری قسم کا کوئی خوف طاری ہوجاتا ہے تو اُس وقت اس کے دل کے مرکز سے عجیب قسم کی ہیجانی لہر اس کے تمام جسم میں پھیل جاتی ہے، نہ معلوم کہ کچھ لوگوں کے علم میں یہ بات کس طرح آگئی کہ خوف کی ایسی کیفیت کے دوران روحِ حیوانی کے ذرّات خون کی نالیوں وغیرہ میں دوڑنے لگتے ہیں، چنانچہ انہوں نے بعض بیماریوں کا نفسیاتی علاج خوف کے اصول سے شروع کردیا، مثلاً بخار کے مریض کے پاس جبکہ اسے خبر نہ ہو، بندوق چلائی،

۳۰

اور یہ طریقہ بعض دفعہ باعثِ شفا ثابت ہوا کہ خوف کے ایک ہی جھٹکے کے ساتھ اس کی بیماری کے سارے جراثیم نکل گئے، اور وہ صحت یاب ہوگیا، اس کا سبب شاید یہی ہو، کہ روحِ حیوانی کا کچھ حصہ مدافعہ کے لئے یا گریز کی صورت میں جسم سے خارج ہوجاتا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ بیماری کے اکثر جراثیم بھی نکل جاتے ہیں۔

 

روحانی خوف:

مثالِ مذکورۂ بالا ظاہری اور مادّی خوف کی تھی، اب اس عجیب و غریب اور معجزانہ خوف کا حال سنئے، جو کثرتِ ذکر کے بعد حق پرست بندوں پر طاری ہوجاتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:

اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ڰ تَــقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ  (۳۹: ۲۳)

اللہ تعالیٰ نے بڑا عمدہ کلام نازل فرمایا ہے، جو ایسی کتاب ہے کہ باہم ملتی جلتی ہے، بار بار دہرائی گئی ہے، جس سے ان لوگوں کے جو اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں، بدن کانپ اٹھتے ہیں، پھر ان کے بدن اور دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔

 

آیۂ مذکورۂ بالا اگرچہ ظاہراً قرآنِ پاک کی تعریف میں ہے تاہم اس میں حکمت کا پہلو بھی بجائے خود موجود ہے، وہ یہ ہے کہ ہر مومن کے لئے عبادت و بندگی کے وہ الفاظ، وظائف، اور ادا اور اسماء “احسن الحدیث” کی

۳۱

حیثیت سے ہیں جو امامِ زمان علیہ السّلام مقرر فرماتے ہیں، اور یہی خاص عبادت و ذکر وہ عظیم معجزہ ہے جو کئی طرح کے معنوں سے دہرائی جانیوالی کتاب کی صورت اختیار کرتا ہے، اور اسی سے مومنین کے بدن کانپ اٹھتے ہیں، پھر ان کے بدن اور دل نرم ہوکر ذکر کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں، پس اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس طرح انسان کا دل ذکرِ الہٰی کے فیضان کو قبول کرسکتا ہے، اسی طرح اس کا جسم بھی یادِ الہٰی کے فیوض و برکات سے بہرہ ور ہوسکتا ہے، چنانچہ باور کیا جاسکتا ہے کہ اس قسم کے ذکر کے معجزے سے انسانی جسم کے خلیات و ذرّات کی تجدید ہوجاتی ہے، جس سے بہت سی روحانی و جسمانی بیماریوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

 

علاج و معالجہ کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا مجموعی اصول یہ ہوتا ہے کہ کسی تدبیر سے جراثیم کو مریض کے اندر ہی ہلاک و تباہ کردیا جائے یا ان کو بدر کردیا جائے، اب اگر جراثیم میں زندگی پائی جاتی ہے، اور ان میں ایک قسم کی روح موجود ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جرثومہ روح اور جسم دونوں میں مشترک ہے، یعنی روحانی اور جسمانی دونوں طریقوں سے اس پر تصرف کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ پروردگارِ عالم کا قول ہے کہ:

مَا مِنْ دَاۗبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِهَا  ۭ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ   (۱۱: ۵۶) زمین پر چلنے والا کوئی بھی ایسا نہیں، مگر یہ کہ (خدا) اس کی پیشانی کے بال پکڑنے والا ہے، یقیناً میرا پروردگار سیدھی راہ پر ہے۔ پس اس آیت کی حکمت کے بموجب یہ ضروری نہیں کہ ہر جاندار مخلوق کی پیشانی کے بال

۳۲

ہوں، مگر یہ ضرور ہے کہ، ہر ذی روح مخلوق میں اپنی نوعیت کا احساس ہے اور قادرِ مطلق ہر جانور کے اسی احساس کو پکڑ کر راہِ راست کی طرف کھینچ سکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر قسم کا جرثومہ بھی اپنی نوعیت کا احساس رکھتا ہے، پس اگر خدا چاہے تو اس کے احساس پر تصرف کرسکتا ہے، اور اس میں خوف و گریز کی خواہش ڈال سکتا ہے۔

 

ذکر میں قوّتِ برداشت:

ذکرِ الہٰی کے اس قدر شفابخش اور معجز نما ہونے کے باوجود بھی اگر کوئی مومن خدا کی مصلحت و حکمت سے بیمار رہتا ہو، تو پھر بھی خدا کی یاد سے مایوسی کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوسکتی، کیونکہ ایسے موقع پر عبادت اور ذکر مومن کو صبر و تحمل اور تسلیم و رضا کی ایسی بے مثال طاقت بخشتا ہے کہ جس سے وہ اپنی بیماری کی تکلیف کو محسوس ہی نہیں کرتا، جیسا کہ انبیاء، اولیاء اور حقیقی مومنین کے تذکروں سے یہ مثال ظاہر ہے۔

 

ذکر کا سب سے بڑا مقصد:

حقیقی مومن اپنے پروردگار کو صرف اس لئے یاد نہیں کرتا، کہ اس کے جسم کی صحت و سلامتی قائم رہے اور بس، بلکہ اس کا سب سے بڑا مقصد خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہے، جس میں مومن کے لئے سعادتِ دارین کے راز سربستہ ہیں۔ تاہم یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ خدا کی خوشنودی کے طلب گار رہنے سے تمام روحانی و جسمانی فیوض و برکات حاصل ہوتی ہیں، تاکہ مومن شکر گزاری کے طریق پر بھی خدا کو زیادہ سے زیادہ یاد کرتا رہے۔

۳۳

نعتِ نبیٔ اکرم صلعم

 

کلامِ خدا دان کلامِ محمدؐ

سخن گفتہ یزدان زکام محمدؐ

ترجمہ: حضرت محمدؐ کے کلام کو اللہ تعالیٰ کا کلام سمجھ لینا (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدؐ کی زبانِ مبارک سے خطاب فرمایا ہے۔

 

کتابِ خدا معجزِ بے مثالی

گواہِ کمالِ کلامِ محمدؐ

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی کتاب (یعنی قرآن) جو ایک بے نظیر معجزہ ہے، حضرت محمدؐ کے کلام کی کمالیت کی گواہ ہے۔

 

خداوندِ برتر نوازش نمود

بتکریمِ لَولَاک بکامِ محمؐد

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے محمدؐ کے حصولِ مقصد کے لئے لَولَاکَ (لَمَا خلقت الافلاک) کی تعظیم و تکریم سے نوازش فرمائی۔

۳۴

خدا یش نشانید برعرشِ عزت

مقامیست محمود مقامِ محمدؐ

ترجمہ: حق تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو (بموقعِ معراج) تختِ عزت یعنی عرشِ اعظم پر بٹھایا (پس محمد کا مقام وہ مقام ہے جس کی تعریف کی گئی ہے۔

 

گہرہائے حق اوصیا و رسل

خدا سفتہ اندر نظامِ محمدؐ

ترجمہ: حق تبارک و تعالیٰ نے حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے ربّانی موتیوں کو حضرت محمدؐ کی لڑی (سلسلہ) میں پروئے ہیں۔

 

برون ازحساب و فَزون ازشمار

درودِ الہٰی بنامِ محمدؐ

ترجمہ: حضرت محمد صلعم کے اسمِ گرامی پر اللہ تعالیٰ کی بے حساب اور لاتعداد رحمت نازل ہو۔

 

در آمَد بدینِ خدا عالمے

باحکامِ شرع و حسامِ محمدؐ

ترجمہ: حضرت محمدؐ کے احکامِ شرعی اور تیز تلوار سے (جو حضرت علیؑ کے ہاتھ میں تھی) دینِ خدا میں ایک پوری دنیا داخل ہوگئی۔

۳۵

کشد بوئے رحمٰن رَسویِ یمن

غذائی جلالی مشامِ محمدؐ

ترجمہ: حضرت محمدؐ کا شامہ (یعنی سونگھنے کی قوّت) یمن کی جانب سے جلالی غذا کے طور پر رحمٰن کی خوشبوئیں سونگھ لیا کرتا ہے۔

 

کسی راکہ بختش کندیارمندی

فتداز عقیدت بگامِ محمدؐ

ترجمہ جس شخص کو اپنا بخت مدد کرتا ہے، وہ خلوص و عقیدت سے حضرت محمدؐ کے مبارک قدموں پر جا گرتا ہے۔

 

نبی و علی ہست مولائے حاضر

بوَد در دو عالم دوامِ محمدؐ

ترجمہ: مولائے حاضرؑ حضرت نبیؐ اور حضرت علیؑ (کا نور) ہیں، کیونکہ دونوں عالم میں حضرت محمدؐ کی دائمیّت برقرار ہے۔

 

پیامِ محمدؐ پیامِ امامت

پیامِ امامت پیامِ محمدؐ

ترجمہ: حضرت محمدؐ کا پیغام نورِ امامت کا پیغام ہے، نورِ امامت کا پیغام حضرت محمدؐ کا پیغام ہے۔

۳۶

کنون شہ کریم آلِ پاک نبی دان

برو میکنم احترامِ محمدؐ

ترجمہ: موجودہ وقت میں مولانا شاہ کریمؑ (حاضر امام) کو حضرت نبیؐ کی پاک اولاد سمجھ لے میں تو انہی کے واسطہ سے حضرت محمدؐ کا احترام بجا لاتا ہوں۔

 

شدہ کشفِ اسرارِ حق بردلم

چوشد جانِ من مستِ جامِ محمدؐ

ترجمہ: جب سے میری جان (روح) حضرت محمد صلعم کے (عشق کے) پیالے سے مست و مخمور ہوئی، تو میرے دل پر حق تعالیٰ کے اسرار منکشف ہوئے۔

 

فدای امامی کہ از آلِ اوست

تن و جانِ زارِ غلامِ محمدؐ

ترجمہ: حضرت محمدؐ کے اس غلام کا جسم و جان اس امام پر فدا ہو جو آنحضرتؐ کی آلؑ سے ہیں۔

 

چہ خوش خو اند نورش بگوشِ نصیرؔ

کلامِ خدا ہم کلام محمدؐ

ترجمہ: (سبحان اللہ) اُس (امامِ زمانؑ) کے نور نے نصیرؔ کے کان میں خدا کے کلام (یعنی حکمتِ قرآن) کو نیز آنحضرتؐ کے کلام (یعنی حکمتِ حدیث) کو کس خوش اسلوبی سے پڑھا۔

۳۷

سردارِ رسلؐ کے وزیر

 

وزیرکے لغوی معنی ہیں بوجھ اٹھانے والا اور اصطلاح میں وزیر اُس شخص کو کہتے ہیں جو کسی بادشاہِ مطلق العنان یا صدرِ جمہور کے امورِ مملکت اور نظامِ حکومت کی ذمہ داریوں کے بارِ گران کا متحمل ہوتا ہے، یہی مثال اور مفہوم خلافتِ الہٰیہ یعنی دینی حکومت کا بھی ہے، کہ اس میں ہر دَور کا پیغمبر دینی بادشاہ اور اس کا وصی (یعنی وہ امام جس کو پیغمبر وصیت کرکے اپنا جانشین مقرر کرے) دینی وزیر ہوا کرتا ہے۔

 

چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام جب پہلی بار کوہِ طور پر اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہمکلام ہوئے تو حق تعالیٰ نے ان کو پیغمبری کے درجہ پر مامور فرمایا اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے اس موقع پر پروردگارِ عالم سے جو کچھ عرض و التجا کی، اس میں یہ بھی ہے کہ: وَاجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَهْلِيْ هٰرُوْنَ اَخِي اشْدُدْ بِهٖٓ اَزْرِيْ  وَاَشْرِكْهُ فِيْٓ اَمْرِيْ   (۲۰: ۲۹ تا ۳۲) اور میرے لئے میرے اہل میں سے ایک وزیر بنادے (یعنی) میرا بھائی ہارونؑ، اس کے ذریعے سے میری کمر مضبوط کردے، اور اسے میرے کام میں میرا شریک کردے۔

 

اسماعیلی اور اثنا عشری کتابوں کے علاوہ، سنی مکتبۂ فکر کے مآخذ (Source

۳۸

Books) میں بھی یہ روایت مذکور ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے سلسلۂ قصّہ میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر مذکورۂ بالا آیت نازل ہوئی، تو آنحضرتؐ نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی کہ: اے بارِ خدا! میں بھی اسی طرح التجا کرتا ہوں، جس طرح موسیٰؑ نے التجا کی تھی: وَاجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَهْلِيْ ۙهٰرُوْنَ اَخِي اشْدُدْ بِهٖٓ اَزْرِيْ وَاَشْرِكْهُ فِيْٓ اَمْرِيْ  (۲۰: ۲۹ تا ۳۲) اور میرے اہلِ میں سے ایک وزیر بنادے (یعنی) میرا بھائی (علیؑ)، اور اس کے ذریعہ سے میری کمر مضبوط کردے، اور اسے میرے کام میں شریک کردے۔

 

حضرت امیر المومنین علی ابنِ ابی طالب علیہ السّلام سے یہ روایت منقول ہے، آپؑ فرماتے ہیں کہ، جب آیت کریمہ: “وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ (۲۶: ۲۱۴) اور آپ اپنے نزدیک ترین کنبہ والوں کو ڈرائیے۔” نازل ہوئی تو آنحضرت صلعم نے ایک پیالہ دودھ اور بکری کی ایک ران دسترخوان پر رکھ کر خاندانِ بنی عبدالمطلب کو مدعو کیا، جو چالیس مردوں پر مشتمل تھا، مگر دس نوجوان تو ایسے تھے کہ ان میں سے ہر فرد ایک بکری اکیلا ہی کھا سکتا تھا، اور ایک مشک دودھ پی سکتا تھا، پھر بھی ان لوگوں نے پیٹ بھر کر کھایا پیا۔ اس روز ابو الہب بھی ان کے ساتھ تھا۔

 

جب خوردنوش سے فارغ ہوچکے تو رسولِ اکرم صلعم نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اے بنی عبدالمطلب! میری اطاعت کرو تو تم سب زمین کے بادشاہ اور حکمران بن جاؤگے، اور میں تم سے پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اب تک پروردگارِ عالم نے دنیا میں جتنے پیغمبر بھیجے ہیں، ان

۳۹

میں سے ہر ایک کے لئے ایک وصی، وزیر، بھائی، وارث اور ولی مقرر فرمایا تھا، تو آج تم میں سے کون ایسا جوانمرد ہے جو میرا وصی، میرا وارث، میرا ولی، میرا بھائی اور میرا وزیر بنے گا؟ اتنا سننا تھا کہ سب پر خاموشی طاری ہوئی، مگر آنحضرت صلعم نے اتمامِ حجت کے طور پر ان میں سے ایک ایک کے سامنے فرداً فرداً یہ دعوت پیش کی، لیکن کسی نے آپ کی دعوت کو قبول نہ کیا، بجزآنکہ میں باقی رہ گیا تھا، اُس وقت میں سب سے کم سِن تھا، مگر جب رسول اللہ صلعم نے میرےسامنے اپنی یہ دعوت پیش کی تو میں نے مؤدبانہ عرض کیا کہ اے پیغمبرِ خدا صلعم! میں آپ کا وصی، وزیر، بھائی، وارث، اور ولی بنوں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ، ہاں، اے علی! تم ہی میرے وصی، میرے وزیر، میرے وارث، میرے بھائی اور میرے ولی ہو۔

 

جب بنی عبدالمطلب مجلس سے باہر نکلے تو ابولہب نے ان سے کہا کہ تم نے آج جو کچھ دیکھا ہے، کیا اس سے تم کو اپنے صاحبِّ محمد کی جادوگری کا ثبوت نہیں ملتا کہ، اس نے تمہارے سامنے دسترخوان پر بکری کی ران رکھی اور دودھ کا پیالہ جس سے تم لوگ خوب سیر شکم ہوگئے، پھر کیا تھا وہ سب کے سب ابولہب کی اس بات کو سن کر ٹھٹھا کرنے لگے، اور حضرت ابوطالب سے کہنے لگے: کہ تمہارا بیٹا تم پر مقدم ہوگیا۔ (ازدعائم الاسلام حصّہ اوّل، ص ۳۱۔۳۲)۔

 

مذکورۂ بالا حدیث مظہر ہے کہ پرور دگارِ عالم نے دنیا میں جتنے پیغمبر بھیجے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک وزیر مقرر فرمایا تھا، چنانچہ حضرت آدمؑ کے وزیر مولانا امام شیث علیہ السّلام تھے، حضرت نوحؑ کے وزیر مولانا سام علیہ السّلام،
۴۰

حضرت ابراہیمؑ کے وزیر مولانا امام اسمٰعیل
علیہ السّلام تھے، حضرت موسیٰؑ کے وزیر مولانا امام ہارون علیہ السّلام تھے، حضرت عیسیٰؑ کے وزیر مولانا امام شمعون علیہ السّلام تھے، اور حضرت محمد مصطفےٰ صلعم کے وزیر مولانا امام علی علیہ السلام تھے۔

 

یہاں پر ایک اور حدیث کی وضاحت کی جاتی ہے، جو “حدیثِ مماثلتِ ہارونی” کے نام سے مشہور ہے، کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: یَا عَلِیٌّ اّنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزَلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْسیٰ اِلاّ انَّہ لَا نَبّی بَعْدِیْ۔ اے علی! تیرا درجہ مجھ سے ایسا ہے جیسے ہارون کا درجہ موسیٰ سے تھا، مگر یہ کہ میرے بعد (کوئی) پیغمبر نہیں ہے۔

مذکورہ حدیث زبانِ حکمت سے ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ بے شک مولانا علیؑ پیغمبرؐ نہیں ہیں، اس لئے وہ ذاتی طور پر ظاہری پیغام پہنچانے کے ذمہ دار نہیں، لیکن جہاں تک خدا و رسولؐ سے ان کی قربت و نزدیکی اور امرِ نبوّت میں شریک ہونے کا تعلق ہے، اس کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے تو اُن آیات پر غور کیا جائے جو حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کے بارے میں ہیں، اس کے بعد ان تمام آیات کا دقتِ نظر سے مطالعہ کیا جائے، جو آنحضرتؐ کے ظاہری و باطنی فضائل و کمالات اور مومنین کے اوصاف کی آئینہ دار ہیں، پھر آپ کو اس حقیقت میں ذرہ بھر بھی شک نہ رہے گا، کہ علیؑ جو عجائب و غرائبِ الہٰیہ کے مظہر ہیں، وزیر کی مرتبت میں حضورِ اقدس صلعم کے ساتھ ساتھ وحیٔ آسمانی اور علمِ لدنی سے آراستہ و پیراستہ ہوکر سر چشمۂ رشد و ہدایت بھی ہیں، اور امیر المومنین کی حیثیت سے اسلام، ایمان، عبادت، ریاضت، حیا، تقویٰ،

۴۱

صبر، شجاعت، احسان، سخاوت، علم، حلم، حکمت، فضیلت، کرامت وغیرہ جیسی صفاتِ حسنہ میں اہلِ ایمان کے آگے آگے بھی ہیں، کیوں نہ ہو، جب کہ آپ ہی سردارِ رسل اور شاہِ سبل کے وزیر ہیں، اور وزیر کا فرضِ منصبی ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ نہ صرف سلطنت کے نظم و نسق میں بادشاہ کا اوّلین رازدار، معاون اور مددگار ہوا کرتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ قوانینِ سلطنت کی پیروی میں رعایا سے سبقت وفوقیت لیجا کر عملی مثال بھی پیش کرتا ہے۔

 

جب ہم شروع شروع میں قرآنِ مجید کی اِن پُرحکمت آیتوں کو سطحی نظر سے دیکھتے ہیں، جو حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کے قصّے میں آئی ہے، تو ہمیں صرف اسقدر معلومات فراہم ہوتی ہیں کہ موسیٰؑ کی طرح ہارونؑ پر بھی وحی نازل ہوا کرتی تھی، اور وہ موسیٰؑ کے وزیر اور خلیفہ تھے، لیکن اس طائرانہ نظر سے یہ ہرگز معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ وزارت کے اس منصبِ اعلیٰ پر مامور ہونے کے بعد کن کن موقعوں پر اور کیسے کیسے حالات میں اپنے بھائی موسیٰؑ کی حمایت و یاری کرتے رہے؟ یہ سوال بظاہر نہایت ہی پیچیدہ اور سخت دکھائی دیتا ہے، کیونکہ موسیٰؑ خود ہر موقع پر تبلیغِ رسالت میں مصروف نظر آتے ہیں، اور ہارونؑ اکثر ان کے ساتھ ہوتے تو ہیں، مگر خاموش۔

 

لیکن جب ہم بعد میں ان آیات کی معنوی گہرائیوں میں اتر کر حکمت سے خوب استفادہ کرتے ہیں تو ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف و آگاہ ہوجاتے ہیں کہ تمام امورِ دین کے دو دو پہلو ہوا کرتے ہیں: ظاہر و باطن، یا تنزیل اور تاویل، تنزیل آسمانی کتاب کی ظاہریت کا نام ہے، جس میں احکامِ الہٰی کے

۴۲

ظاہری پہلو نظر آتے ہیں، تاویل کتاب کی باطنیت کو کہتے ہیں، جس میں ان احکام کے باطنی پہلو پوشیدہ ہوتے ہیں، چنانچہ حضرت موسیٰؑ کا تعلق تنزیل سے تھا اور حضرت ہارونؑ کا تعلق تاویل سے، اور یہ ایک لازمی بات ہے کہ جس شخص کا تعلق پوشیدہ کاموں سے ہو، تو اس کی حیثیت بھی پوشیدہ ہوا کرتی ہے۔

 

اب اس حقیقت کی دلیل پیش کیجاتی ہے کہ موسیٰؑ کا تعلق تنزیل سے تھا اور ہارونؑ کا تعلق تاویل سے، وہ اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ:

وَاَخِيْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّيْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْاً يُّصَدِّقُنِيْٓ  ۡ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ (۲۸: ۳۴) اور (موسیٰؑ نے کہا) میرا بھائی ہارون جو میری نسبت زبان میں زیادہ فصیح ہے، پس اسے میرے ساتھ مددگار بناکر بھیجۓ (تاکہ) وہ میری تصدیق کرے، یقیناً میں ڈرتا ہوں کہ وہ کہیں مجھے نہ جھٹلائیں۔

یہاں موسیٰؑ نے اپنے بھائی ہارونؑ کی جس فصاحت کا ذکر کیا ہے، اس سے تاویل مراد ہے، کیونکہ جہاں لوگ تنزیلی امور کے نہ سمجھنے سے نبوّت کی تکذیب کرتے ہیں، وہاں تاویل کی روشنی میں ان پر حقیقت ظاہر کر کے نبوّت کی تصدیق کی جاتی ہے، ورنہ یہ بات کیسے ممکن ہے کہ جب موسیٰؑ کہتے ہیں کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں، اور ساتھ ہی ساتھ زبردست معجزات کی صورت میں اس کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں، تو لوگ ان کی تکذیب کرتے ہیں، مگر جب ہارونؑ صرف اپنی ظاہری فصاحت و بلاغت ہی سے ان کو سمجھاتے ہیں، تو وہ جھٹلانے سے باز آکر موسیٰ علیہ السّلام کی نبوّت کے قائل ہوجاتے ہیں، بلکہ اس واقعہ کی حقیقت تو یہ ہے کہ ہارونؑ نے تاویل کی روشنی میں نہ صرف اپنی

۴۳

جسمانی زندگی کے دوران موسیٰؑ کی نبوّت کی تصدیق کی بلکہ وہ پورے دور میں جو حضرت عیسیٰؑ کے زمانے تک ہے، اپنے سلسلۂ اولاد کی حیثیت میں بھی یہی کام انجام دیتے رہے، کیونکہ یہ تو ہر گز نہیں ہوسکتا کہ نبوّت کی تکذیب و تصدیق نبی کی زندگی تک محدود رہے، اور بعدِ وفات یہ بحث بالکل ختم ہوجائے چنانچہ امرِ واقعہ اس کے برعکس ہے، اور وہ یہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جاتا ہے، تو عوام الناس بھی پیغمبر سے دور تر ہوتے جاتے ہیں۔ اس صورت میں لوگوں پر اتمامِ حجت اور فرمانبرداروں کی رہنمائی کے لئے پیغمبر کے وزیر اپنی اولاد کی حیثیت میں موجود ہوتےہیں، تاکہ پورے دور میں یکسان اور مسلسل طور پر تصدیقِ نبوّت کا کام جاری و ساری رہ سکے۔

 

اس بیان میں سردارِ رسل صلعم کے وزیر مولانا علیؑ کے بارے میں، جو امامِ زمان علیہ السّلام کی نورانی حیثیت میں ہیں، بہت سے روشن حقائق موجود ہیں، جن کا بلاواسطہ اور بالواسطہ دو طرح سے ذکر کیا گیا ہے، اس موقع پر اہلِ دانش کے لئے علم و عرفان کے یہی تذکرے اور اشارے کافی ہیں۔

 

بموقع عید میلاد النبیؐ

سہ شنبہ ۱۲، ربیع الاوّل ۱۳۹۰ھ

مطابق ۱۹، مئی ۱۹۷۰ء

۴۴

قرآن کی تنزیل اور تاویل

 

ظاہر اور باطن:

شیعی امامی اسماعیلیوں کے عقائد میں سے ایک یہ بھی ہے، جو کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی ہر آیت بلکہ ہر لفظ کے دومعنی ہوا کرتے ہیں، معنیٔ ظاہر اور معنیٔ باطن، ظاہر کو تنزیل کہتے ہیں، اور باطن کو تاویل، جیسا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس مشہور و معروف حدیث سے واضح ہے:

“ومانزلت علیَّ من القراٰن اٰیَۃٌ اِلاّ و لَھَاظھروبطن” مجھ پر قرآن کی (آیات میں سے) کوئی آیت ایسی نہیں اتری ہے، مگر اس کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے۔

 

تمام باتوں میں تاویل:

چنانچہ خود قرآنِ مجید کی تعلیمات سے بھی یہی حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ خدا، انبیاء، اور أئمّہ برحق علیہم السّلام کی مقدّس باتوں کے علاوہ ہر طبقے کے لوگوں کی باتوں میں بھی شعوری یا غیر شعوری طور پر کچھ نہ کچھ تاویل کا دخل ہوتا ہے، خواہ لوگوں کی یہ باتیں حالتِ بیداری میں ہوں یا عالمِ خواب میں۔

۴۵

حضرت یوسفؑ تمام باتوں کی تاویل جانتے تھے:

حق تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السّلام کو خاص و عام ہر قسم کی باتوں کی تاویل سکھائی تھی، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: رَبِّ قَدْ اٰتَيْتَنِيْ مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِيْ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ(۱۲: ۱۰۱) (یوسفؑ نے کہا) اے میرے پروردگار! یقیناً تونے مجھے (روحانی)سلطنت عطا کی ہے، اور مجھے تمام باتوں کی تاویل سکھائی ہے۔

 

خواب کی تاویل:

اگر یہاں یہ خیال کیا جائے کہ خدا نے حضرت یوسفؑ کو صرف خوابوں کی تعبیر سکھائی تھی تو درست نہ ہوگا، کیونکہ احادیث کے معنی ہیں باتیں، جن میں خواب کی باتیں بھی شامل ہیں، اور خواب کی تعبیر و تاویل اس وقت ہوسکتی ہے جبکہ اس میں کچھ باتیں پائی جائیں، ورنہ خاموش و بے حِس نیند کی کوئی تاویل نہیں۔

 

پیغمبر اور امام ہر قسم کی تاویل جانتے ہیں:

جب یہ معلوم ہوا کہ اعلیٰ و ادنیٰ ہر قسم کی باتوں میں درجہ بدرجہ تاویل ہوا کرتی ہے، اور اللہ تعالیٰ نے یہ تمام تاویل حضرت یوسفؑ کو سکھائی تھی، تو اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلتا ہے، کہ قرآنِ پاک کی ہر آیت بلکہ ہر لفظ میں تاویل پوشیدہ ہے، دوسرا نتیجہ یہ کہ پیغمبر اور امام علیہما السّلام قرآن کی تاویل جانتے ہیں، اور

۴۶

تیسرا یہ کہ پیغمبرؐ اور امامِؑ زمان سے یہ تاویل صرف ان لوگوں کو مل سکتی ہے جو اس کو حاصل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، اور پوچھتے ہیں جیسا کہ پوچھنے کا اصول مقرر ہے۔

 

تاویل اہلِ یقین کو بتائی جاتی ہے:

حضرت یوسفؑ نے خواب وغیرہ کی تاویل صرف ان لوگوں کو بتائی جنہوں نے ان کی سچائی پر اعتماد کیا، اور یقینِ کامل سے پوچھا، چنانچہ جو دو۲ جوان حضرت یوسفؑ کے ساتھ قید خانے میں داخل کئے گئے تھے، انہوں نے حضرت یوسفؑ کی علمیت سے متاثر ہو کر اپنے اپنے خواب کی تاویل پوچھی، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے: “ہمیں اس کی تاویل بتا دیجئے، یقیناً ہم آپ کو نیکو کاروں میں سے دیکھتے ہیں (۱۲: ۳۶)۔” پھر اس کے بعد اُن دونوں میں سے جس کو حضرت یوسفؑ کی تاویلی پیشن گوئی کے مطابق نجات ملی تھی اُس نے بادشاہِ مصر کے خواب کی تاویل پوچھتے ہوئے کہا۔ “یوسفؑ! اے بڑے سچے! ہمیں اس کی تعبیر دیجئے کہ ……۔”

 

حصولِ تاویل کا طریقِ کار:

ان تذکروں سے بخوبی ظاہر ہوا کہ تاویل کا کوئی حصہ حاصل کرنے کی واحد شرط یہ ہے کہ صاحبِّ تاویل کی پہچان کے بعد اس کی علمی مرتبت کے لئے اقرار اور اس کی ہدایت پر پورا پورا عمل کیا جائے، اور یہ سمجھ لیا جائے کہ ہر زمانے کا

۴۷

امامؑ ہی اپنے وقت کا صاحبِّ تاویل ہوا کرتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا: انا صاحبِّ التّنزیل وَعلیٌّ صاحبِّ التّاویل۔ میں تنزیل کا مالک ہوں اور علی تاویل کا مالک ہے۔

 

عملی تاویل:

جاننا چاہئے کہ خدا، پیغمبرؐ، اور امامؑ کی باتوں کے علاوہ ان حضرات کے کاموں میں بھی تاویل (یعنی حکمت) ہوتی ہے، چنانچہ سورۂ کہف (۱۸) کے رکوع ۹ اور ۱۰ کو ذرا غور سے پڑھئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام مزید علم و حکمت حاصل کرنے کے لئے ایک معجزانہ شخصیت کے پاس گیا، تو اس بزرگ نے کچھ ایسے کام کرکے دکھائے جو حضرت موسیٰؑ کے نزدیک قابلِ اعتراض تھے، مگر جب اس بزرگ نے اپنے ان کاموں کی تاویل (یعنی حکمت) بتائی تو موسیٰ علیہ السّلام اپنے روحانی معلّم کے ہر قول و فعل کے متعلق مطمئن ہوئے۔

 

تاویل ہی حکمت ہے:

تاویل کا دوسرا نام حکمت ہے، اور اس کے مقابلے میں تنزیل کو کتاب کہا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “فَقَدْ اٰتَيْنَآ اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاٰتَيْنٰھُمْ مُّلْكًا عَظِيْمًا (۰۴: ۵۴) یقیناً ہم نے آلِ ابراہیم کو کتاب اور حکمت دی اور انہیں ایک بہت بڑی سلطنت دی۔”

۴۸

اس ارشادِ الہٰی کی وضاحت یہ ہے کہ، آلِ ابراہیمؑ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ذریت کے انبیاء اور أئمّہ علیہم السّلام ہیں، کتاب تنزیل ہے، جو پیغمبروں کا حصّہ ہیں، حکمت تاویل ہے، جو اماموں کا حصّہ ہیں، اور ملکِ عظیم روحانی سلطنت ہے، جو پیغمبروں کو نبوّت کے مرتبے میں اور اماموں کو امامت کے درجے میں حاصل ہوتی ہے۔

 

محکمات و متشابہات:

اگرچہ ہر قرآنی آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، تاہم بعض آیتیں محکمات کہلاتی ہیں، اور بعض متشابہات، آیۂ محکم وہ ہے جو بظاہر اپنی صراحت کے سبب سے محتاجِ تاویل نہ ہو، اس کے برعکس آیۂ متشابہ وہ ہے، جس کے لئے تاویل کی ضرورت ہو، محکمات کی مثال یہ ہے کہ: وَاقمُواالصَّلوٰۃ و اٰتُو الزّکوٰۃ = اور نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ دو۔ اگرچہ اس کا بھی ایک باطن یعنی تاویل ہے، اور وہ یہ ہے: “دینِ حق کی دعوت قائم کرو، اور اہلِ مذہب کو علمِ حقیقت سکھاؤ۔” تاہم یہ آیت تاویل کی محتاج نہیں، اور متشابہات کی مثال یہ ہے کہ: وَاعْتصمُوا بحبِّل اللّٰہِ جَمِیْعاً وَّ لَا تفرَّقُوا۔ اور سب مل کر خدا کی رسی مضبوطی سے تھامے رہو اور متفرق نہ ہوجاؤ۔ ظاہر ہے کہ خدا کی رسی سے کوئی ایسی چیز مراد ہے جو اپنے معنی کے لحاظ سے کسی قدر رسی سے ملتی جلتی ہے، اب خدا کی رسی سے جو چیز مراد لی گئی ہے، وہی چیز اس لفظ کی تاویل کہلائے گی، اور خدا کی رسی سے سلسلۂ ولایت مراد

۴۹

ہے، پس اس آیت کی تاویل یہ ہے کہ “تم سب مل کر یقینِ محکم کے ساتھ سلسلۂ ولایت کی حقیقی اطاعت کرو، اور اس بارے میں جدا جدا عقیدہ نہ رکھا کرو۔”

 

راسِخوْن فِی الْعِلْمِ:

حق تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ  ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا (۰۳: ۰۷) اور قرآن کی تاویل سوائے اللہ اور ان لوگوں کے جو علمِ دین میں پختہ کار ہیں، اور کوئی نہیں جانتا، وہ کہتے ہیں کہ ہم (بصیرت سے) اس پر ایمان لائے، یہ سب (محکم اور متشابہ آیات اور تنزیل و تاویل) ہمارے ربّ کی طرف سے ہیں۔

 

تمام شیعہ مکاتبِ فکر اس بات پر متفق ہیں کہ “راسخون فی العلم” میں سب سے پہلے آنحضرتؐ کا ذکر ہے، کیونکہ آنحضرتؐ علمِ دین میں پختہ کار تھے، اور قرآن کی تاویل جانتے تھے، اور اس کے بعد جملہ أئمّۂ طاہرینؑ کا ذکر ہے کہ یہ حضرات آپؐ کے بعد علمِ دین میں پختہ کار ہیں، اور قرآن کی تاویل جانتے ہیں، اور انہوں نے چشمِ بصیرت سے مشاہدہ کرتے ہوئے باور کرلیا ہے، کہ جس طرح آسمانی کتاب خدا ہی کی طرف سے پیغمبرؑ کو دی گئی ہے، اسی طرح اس کی حکمت بھی خدا ہی کی طرف سے رسولؐ اور أئمّۂ برحق کو دی گئی ہے۔

۵۰

میلاد الامام الحاضر

 

کسی پیغمبرؐ یا امامِ برحقؑ کی جسمانی ولادت میں عموماً اہل زمانہ کے لئے اور خصوصاً مومنین کے لئے جو کچھ سعادت مندی پوشیدہ ہوتی ہے، اس کے متعلق اعتقاد کی بنیاد صرف روایت اور قیاس ہی پر نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی استوار اور روشن حقیقت ہے کہ اس کے ثبوت کے دلائل سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہ کرسکے گا۔

 

چنانچہ قرآنِ پاک کی روشنی میں اس حقیقت کی توضیح کی جاتی ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور أئمّۂ برحق علیہم السّلام کی ظاہری ولادت کی سعادتمندی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت کی مثال میں بیان فرمائی ہے، کیونکہ حکمتِ الہٰیہ کا تقاضا یہ تھا کہ انبیاء اور أئمّۂ برحق علیہم السّلام کی جسمانی ولادت اور ان کی بشریت کی سعادتوں اور برکتوں کا ذکر ایک ایسے پیغمبر کی پیدائش کی مثال میں کردیا جائے جس کی ولادت اور بشریت کے متعلق بے معرفت لوگوں کو زیادہ سے زیادہ شک اور اعتراض ممکن تھا، وہ پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام تھے، کیونکہ ان کی پیدائش اور بشریت اس مطلب کے لئے ایک بہترین مثال ہوسکتی تھی، اس لئے کہ مختلف زمانے کے منکرین نے دوسرے انبیاء اور اولیاء کی جسمانیّت پر جو کچھ اعتراض اٹھایا، وہ تو اکثر یہی ہوا کرتا تھا، کہ

۵۱

انہوں نے انبیاء و اولیاء کو اپنی طرح کے انسان قرار دیا، جس کی ترجمانی قرآنِ پاک اس طرح کررہا ہے:

قَالُوْا مَآ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا (۳۶: ۱۵) ان لوگوں نے کہا کہ تم تو کچھ بھی نہیں، مگر ہماری طرح (محض) معمولی آدمی ہو۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش و بشریت پر منکرین نے جو کچھ اعتراض اٹھایا، اس کے متعلق قرآنِ حکیم کا ارشاد یہ ہے: قَالُوْا يٰمَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَـيْـــــًٔـا فَرِيًّا (۱۹: ۲۷) لوگوں نے کہا کہ اے مریم! تم نے بڑے غضب کا کام کیا۔ یعنی انہوں نے کہا کہ ہماری طرح کا انسان تو درکنار یہ مولود سِرے سے حلال زادہ ہی نہیں، پس معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش اور بشریت انبیاء و اولیاء کی مجموعی زندگی کی ایک ایسی جامع مثال ہے کہ جس میں اگر ایک طرف سے منکرین کے سخت سے سخت اعتراض کا ذکر موجود ہے، تو دوسری طرف سے اس میں اس اعتراض کی تردید کرکے انبیاء و اولیاء کی پیدائش و بشریت کے فیوض و برکات کا بھی انتہائی جامع الفاظ میں ذکر کردیا گیا ہے، اور ا س سلسلے میں قرآنِ پاک کا ایک ارشاد یہ ہے: وَّجَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ (۱۹: ۳۱) اور خدا نے مجھے برکت والا بنایا، میں جہاں کہیں بھی ہوں۔ اس مطلب کی تشریح یہ ہے، کہ حضرت عیسیٰؑ مذکورہ اعتراض کی تردید میں اپنی پیدائش اور جسمانیّت کے فیوض و برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے برکت والا بنایا، پس میں جہاں جاؤں، جن لوگوں کے درمیان رہوں، اور جن اشخاص کی طرف روحانی توجہ کروں، تو وہاں پر اور اُن لوگوں کو برکت مل سکتی ہے، پھر ظاہر ہے کہ پیغمبرؐ اور امامِ برحقؑ کے ظاہری

۵۲

وجود ہی امت و جماعت کے لئے باعثِ فیض و برکت ہے، اس لئے کہ اَیْنَ مَا کُنْتُ کا اشارہ سب سے پہلے روحانی پیشواء کے مبارک وجود اور جائے سکونت کی طرف ہے، چنانچہ مذکورہ آیت سے یہ ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰؑ جہاں رہتے تھے، ان کے ساتھ برکت تھی، تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ وہ برکت حضرت عیسیٰؑ سے جدا نہ تھی، اور صرف انہی کی خوشنودی سے کسی کو مِل سکتی تھی، پھر اس جسمانی وسیلے کے بعد حضرت عیسیٰؑ کی روحانی توجہ اور نظر ممکن تھی۔

 

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ برکت کی حقیقت و کیفیت کیا ہے؟جس کا جواب یہ ہے کہ برکت ایمان، جان، اولاد، اور مال کی لازوالی اور زیادتی کا نام ہے، پس انسان کو جن چیزوں میں برکت کی ضرورت ہے، وہ بس یہی چیزیں ہیں، اور انسان کی ان چیزوں میں ہر ممکن برکت حاصل ہونے کا جو ذریعہ ہے، وہ پیغمبرؐ اور امامِ برحقؑ کی ظاہری ہدایت ہے، یہی وجہ تھی جو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنے اس قول میں یہ منطق پوشیدہ رکھی، کہ اپنے زمانے کی ساری برکات مجھ میں ہیں، یعنی فیوض و برکات شروع شروع میں ہدایت کی صورت میں ہوتی ہیں، تو معلوم ہوا کہ پیغمبرؐ اور امامِ برحقؑ کا ظاہری وجود ہی سرچشمۂ ہدایت اور ذریعۂ برکت ہے۔

 

مزید بر آن برکت کی ایک خاص حقیقت اور بھی ہے، وہ ہے ایمان، جان، اولاد اور مال کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ دینی اور روحانی فوائد کا حاصل ہونا، پس یہی لازوال اور ابدی برکت ہے، اور یہ برکت تمام دنیاوی برکتوں سے برتر ہے، پس انبیاء اور أئمّۂ برحق اپنی ہدایت کے ذریعہ مومنین کو یہی

۵۳

برکت دیا کرتے ہیں، اور اسی برکت کو حاصل کرنے کے لئے انہیں تاکید فرماتے ہیں۔

 

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش کے بارے میں ایک اور قرآنی جامع حقیقت یہ ہے، کہ انسانِ کامل (یعنی نبی اور ولی) پر تین موقعوں میں ملائکہ اور روحانیین کا زیادہ سے زیادہ نزول ہوا کرتا ہے، وہ مواقع ان کے یومِ پیدائش، یومِ وفات اور یوم بعث ہیں۔ چنانچہ قولِ قرآن ہے: “وَالسَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَيَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا (۱۹: ۳۳) اور تائید (یعنی نزولِ ملائکہ کا موقع) ہے، میرے لئے جس دن میں پیدا ہوا، اور جس روز رحلت کروں گا، اور جس روز زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا۔” سلام کے خاص معنی تائید یعنی نزولِ ملائکہ و ارواح کے ہوتے ہیں، جس طرح خدا تعالیٰ کے اس فرمان سے ظاہر ہے:

 

تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ  سَلٰمٌ ڕهِيَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ(۹۷: ۴ تا ۵) وہ رات (یعنی شبِ قدر) ایسی ہے، کہ اس میں ملائکہ اور ارواح اپنے پروردگار کے اذن پر پورے عالمِ امر سے نازل ہوتے رہتے ہیں (اس لئے) وہ رات طلوعِ فجر تک موقعِ تائید ہے، یہاں پر ثبوت ہوا کہ نزولِ ملائکہ و ارواح کا نتیجہ ہی سلام یعنی تائید ہے۔

 

پس امامِ زمانؑ کے یومِ پیدائش کی سعادت و برکت مذکورہ آیات کی روشنی میں معلوم کی جاسکتی ہے، کیونکہ پیغمبرؐ اور امامِ برحقؑ کا نور فی الاصل ایک ہی زندہ روح کی حیثیت سے ہے۔

 

والسلام

۵۴

امامِ برحقؑ کا دیدارِ فیض آثار

 

امامِ حیّ وحاضر کے دیدارِ فیض آثار کی اہمیت و افادیت اور قدر و منزلت کے بارے میں کچھ حقائق پیش کرنے سے قبل یہ لازمی امر ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں بطریقِ اختصار یہ ذکر کردیا جائے کہ دینِ اسلام میں اللہ تعالیٰ کے نورانی دیدار اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے ظاہری دیدار کا کیا تصوّر و عقیدہ ہے، تاکہ مومنین اس واضح بیان سے امامِ زمانہ کے دیدارِ اقدس کی حقیقت و حکمت کو بخوبی سمجھ سکیں۔

 

دیدار کا تذکرہ:

چنانچہ اگر کوئی ذی علم اور صاحبِّ بصیرت انسان قرآنِ حکیم کی معنوی گہرائیوں تک رسا ہوکر غور و فکر کرے، تو یقیناً اس پر یہ حقیقت منکشف ہوگی، کہ قرآنِ حکیم کی تمام آیاتِ مقدسہ حکمت کے انداز میں نورانی دیدار کے تذکروں سے بھری ہوئی ہیں، اور ان میں کوئی بھی آیت ایسی نظر نہیں آتی جو اس تذکرہ سے بالکل خالی ہو، چنانچہ ذیل میں قرآن شریف کا ایک ایسا کلّیہ درج کیا جاتا ہے، کہ جس سے یہ مطلب صاف طور پر ظاہر ہوگا کہ کائنات و موجودات اور قرآن کا

 

۵۵

 

کوئی ایسا جز نہیں، جو اپنے کسی نہ کسی پہلو سے حق تعالیٰ کے جمال و جلال کی آئینہ داری نہ کرتا ہو اور وہ کلّیہ یہ ہے:

“فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ (۰۲: ۱۱۵) پس تم جس طرف بھی متوجہ ہوجاؤ، وہیں خدا کا چہرہ موجود ہے۔” خدا کے چہرے سے نورانی دیدار، اور معرفت مراد ہے، اور “اَیْنَ” کا لفظ تمام عرصۂ زمان و مکان اور جملہ حالات کی طرف اشارہ کرتا ہے، پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ اوّل، آخر، ظاہر اور باطن کے تمام مقامات و حالات میں نورِ الہٰی کی کوئی نہ کوئی جلوہ نمائی موجود ہے، اور اہلِ بصیرت ہر وقت، ہر جگہ اور ہر حالت میں دیدارِ خداوندی کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوسکتے ہیں، پس معلوم ہوا کہ جس طرح عین الیقین کے درجے میں کائنات کی ہرچیز کے باطن میں دیدارِ الہٰی کا جلوہ نظر آتا ہے، اسی طرح علم الیقین کے مقام پر قرآنِ حکیم کی ہر آیت، ہر جملہ، اور ہر لفظ کی حکمت میں اس پاک دیدار کے متعلق کوئی نہ کوئی تذکرہ پایا جاتا ہے۔

مذکورۂ بالا تاویلی حقیقتوں کے علاوہ قرآنِ پاک میں ایسی بہت سی آیتیں ہیں، جن میں دیدارِ ربّانی کا واضح طور پر بیان آیا ہے، ہم یہاں اُن تمام آیات میں سے صرف چار آیتوں کی وضاحت پر اکتفا کرتے ہیں، کیونکہ وجود و ہستی کے چار حالات کے اعتبار سے دیدارِ الہٰی کے مقامات چار ہیں، جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے: هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ (۵۷: ۰۳)۔ وہی سب سے پہلے ہے، اور وہی سب سے پیچھے ہے، اور وہی

۵۶

سب سے آشکار ہے اور وہی سب سے مخفی ہے۔

 

“ھُوَالَاوّل” کا اشارہ:

پہلی آیت جو مقامِ اوّل کے دیدار کے بارے میں ہے، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابتداء میں ارواح کو مخاطب کرکے فرمایا “اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ   (۰۷: ۱۷۲) کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ قَالُوْا بَلٰىۚ شَهِدْنَاۚ  (۰۷: ۱۷۲) انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم (سب اس واقعہ کے ) گواہ بنتے ہیں۔” ظاہر ہے، کہ اس وقت ارواح سے خدا تعالیٰ کی ہستی اور ربوبیّت کی عینی گواہی لی گئی تھی، اور اُن تمام روحوں کو ربّ العزّت کے نورانی دیدار کا شرف حاصل ہوا تھا، کیونکہ حکیمِ مطلق کے حقیقی عدل کی رو سے یہ ہرگز مناسب نہیں کہ کچھ لوگوں سے کسی ایسے واقعے کی شہادت پوچھ لی جائے، اور اُن کو گواہ بنالیا جائے، جب کہ وہ واقعہ اُن پر تاریک اور چھپا ہوا ہے، اور وہ لوگ اُس سے بالکل نابلد اور قطعاً ناواقف ہیں۔ پس یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ روحوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیّت کی یہ گواہی دیدار اور جملہ صفاتِ کمالیہ کی روشنی میں تھی۔

 

“وَالْاٰ خِرُ”  کا اشارہ:

دوسری آیت جو مقامِ آخر کے دیدار کے بارے میں ہے، یہ ہے: “مَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍ  (۲۹: ۰۵) جو شخص

۵۷

خدا کے دیدار کی امید رکھتا ہو، تو خدا کے وعدے کا دن ضرور آنے والا ہے۔” اس ارشادِ ربّانی میں اُس دیدار کا ذکر آیا ہے جو مستقبل اور آخرت میں مومنین کے لئے میسر ہونے والا ہے۔

 

“وَالظَّاھِرُ”  کا اشارہ:

تیسری آیت جو مقامِ ظاہر کے دیدار کے باب میں ہے، یہ ہے جو فرمایا گیا کہ : اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (۲۴: ۳۵) اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اور نور کی تعریف یہ ہے کہ وہ بذاتِ خود روشن اور ظاہر ہے، اور کائنات کی تمام چیزوں کو بھی منور و آشکار کردیتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص آفتابِ عالم تاب کو دیکھنا چاہے تو خود اسی کی روشنی میں دیکھ سکتا ہے، نہ کسی اور چیز کی روشنی میں، اس کا مطلب یہ ہے کہ حق تعالیٰ کا نورانی دیدار حالتِ ظہور میں بھی ہے، مگر یہ دیدار خود نور ہی کے وسیلے سے حاصل کیا جاسکتا ہے، نہ کسی اور ذریعہ سے، جیسا کہ ارشاد ہے:يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ (۲۴: ۳۵) اللہ تعالیٰ اپنے نور تک جس کو چاہتا ہے، راہ دے دیتا ہے۔

 

“وَالْبَاطِن”  کا اشارہ:

چوتھی آیت جو مقامِ باطن کے دیدار کے سلسلے میں ہے، یہ ہے: جو حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: “فَاَرْسَلْنَآ اِلَيْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا

۵۸

بَشَرًا سَوِيًّا (۱۹: ۱۷) پس ہم نے مریمؑ کے پاس اپنی روح یعنی نور بھیجا، اور وہ ایک (ہر طرح سے) صحیح انسان کے روپ میں اس کے سامنے ظاہر ہوا۔” اس مقام پر یہ بات قابلِ ذکر ہے، کہ اگر روح القدس حضرت مریمؑ کے سامنے انسانی صورت میں ظاہر ہوئی، تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں، کہ پھر وہ اس وقت روح نہ رہی، اور جسم بن گئی، بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ روح القدس مقامِ روحانیّت پر روح ہی تھی، ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے جسمانی مظہر کے ذریعہ ظہور پذیر بھی تھی، پس اس بیان سے یہ ثابت ہوا کہ اس آیت کی حکمت میں دیدارِ ظاہر اور دیدارِ باطن دونوں کی دلیل موجود ہے، چنانچہ یہاں ایک مناسب مثال بیان کردی جاتی ہے، کہ سورج اگرچہ ظاہر ہے، تاہم وہ باطن بھی ہے، کیونکہ اس کا اندرونی اور عقبی حصّہ حجابِ نور میں پوشیدہ ہونے کی وجہ سے ظاہر نہیں، اس کے یہ معنی ہوئے کہ سورج نے اپنے آپ کو بیک وقت ظاہر بھی کردیا ہے اور چھپا بھی لیا ہے، یہی مثال دیدارِ ظاہر اور دیدارِ باطن کی بھی ہے۔

 

رسولِ اکرمؐ کا دیدار:

اب ہم حضرت محمد مصطفےٰ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مبارک دیدار کے بارے میں ایک مشہور حدیث اور کچھ فکر انگیز الفاظ درج کرتے ہیں، کہ آنحضرتؐ کا ارشادِ گرامی ہے: “مَنْ رَّاٰنِیْ فَقَدْ رَایَ اللّٰہ” جس شخص نے میرا دیدار کیا پس اُس نے خدا کا دیدار کیا۔” اس حدیثِ

۵۹

شریف میں دو باتوں کا خصوصیت کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے پاک دیدار کا حصول حقیقی مومن کے لئے ایک انتہائی ضروری امر ہے، دوسری یہ کہ اُس مقدس دیدار کے لئے واسطہ اور وسیلہ صرف انسانِ کامل ہی ہے، کیونکہ اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اس دنیا میں ہمیشہ کیلئے روح القدس یعنی خدا کے نور کا نزول ہوا ہے، تو لازمی طور پر یہ بھی ماننا ہی پڑے گا، کہ انسانِ کامل یعنی پیغمبرؐ اور امامؑ کے سوا اور کوئی مخلوق اس مقدس اور عظیم نور کے لئے نہ تو حامل بن سکتی ہے، اور نہ ہی (اس سے دوسروں کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔

 

جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یعنی نور حضرت مریمؑ کے پاس بھیجا تو وہ انسانِ کامل ہی کی صورت میں ظاہر ہوا، اور قانونِ الہٰی کی رو سے یہی ممکن اور مناسب تھا، کہ جو روح یا نور عالمِ ملکوت سے عالمِ ناسوت میں نازل ہو آئے، تو اُسے سب سے پہلے بشریت کے بلند ترین درجے میں آنا چاہئے اور وہ بلند ترین درجہ اور عظیم ترین مرتبہ نبوّت اور امامت کے نام سے ہے۔

 

قرآنِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ صاحبِّ امرؑ کی اطاعت رسولؐ کی اطاعت ہے اور رسولؐ کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے، اور ارشاد ہوا ہے کہ اگر رسول اللہ کو کچھ دے کر ان کی خوشنودی حاصل کرنی ہے، تو بس یہی کہ تم رسولؐ کے قرابت داروں سے دوستی اور محبِّت رکھا کرو، نیز ارشاد ہے کہ خدا کی خاص دوستی حاصل کرنے کے لئے رسولؐ کی فرمانبرداری کی جائے۔ اس نوع کی آیتوں کی تعلیمات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے، کہ جس طرح پیغمبرؐ اور امامِ زمانؑ کی فرمانبرداری خدا کی

۶۰

فرمانبرداری ہے، ان حضرات کی محبِّت خدا کی محبِّت ہے، اور ان کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے، بالکل اسی طرح ان کا دیدار بھی خدا کا دیدار ہے۔

 

امامِ زمانؑ کا دیدار:

سیدنا قاضی نعمان کی ایک مشہور تصنیف “کتاب الھمہ فی آدابِ اتباع الآئمہ” کے صفحہ ۴۶۔ پر اِس حدیثِ مرفوع کا ذکر کیا گیا ہے: “انّ النّظر الیٰ الامام عبادۃٌ والنّظر اِلی المصلف العبادۃٌ۔ تحقیق امام کی طرف دیکھنا ایک قسم کی عبادت ہے، اور قرآن کی طرف دیکھنا بھی ایک طرح کی عبادت ہے۔” قاضی نعمان صاحب پھر اپنے الفاظ میں فرماتے ہیں کہ بھول اور غفلت کی نگاہ سے امام کی طرف دیکھنے میں کوئی عبادت نہیں بلکہ غور و فکر کی نظر سے دیکھنے میں عبادت ہے، جس طرح سوچے سمجھے بغیرقرآن کی طرف دیکھنے والے کو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، جیسے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

“اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا (۴۷: ۲۴) پس کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل ہیں۔” پس اس بیان سے جو امامؑ اور قرآن کی طرف دیکھنے اور غور و فکر کرنے کے بارے میں ہے، یہ ظاہر ہوا کہ امامِ حیّ و حاضرؑ کے مبارک اور پُرحکمت دیدار کے فیوض و برکات حاصل کرنے میں تمام مومنین و مومنات ایک جیسے نہیں، بلکہ وہ سب اپنی اپنی عقیدت، محبِّت، معرفت اور فرمانبرداری کے لحاظ سے مختلف درجات پر ہیں، کیونکہ جس طرح قرآن فہمی کے اعتبار سے لوگوں کے بے شمار درجے ہوتے

۶۱

ہیں، اسی طرح امام شناسی کے لحاظ سے بھی ان کے لاتعداد مراتب ہیں۔

 

اخیر میں جو کچھ مناسب اور موزون بات کہی جاسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ امامِ زمانؑ کی تشریف آوری اور دیدارِ اقدس کی رحمتوں اور برکتوں سے دینی اور دنیاوی طور پر صرف وہی حقیقی مرید پورا پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو اس مبارک موقع پر اپنے تمام اعمال کا باریک بینی سے احتساب کریں، اپنی ناپسندیدہ عادتوں، اور نافرمانیوں سے دست بردار ہوجائیں، اور اپنے دل میں امامِ زمانؑ سے یہ وعدہ کریں کہ وہ آئندہ کسی بھی قسم کی نافرمانی کے مرتکب نہ ہوں گے، عبادت میں کوئی کوتاہی نہ کریں گے، اور امام کے کسی بھی مرید کی دل آزاری نہ کریں گے، پس اسی صورت میں اہلِ ایمان کو امامِ عالیمقامؑ کے پاک دیدار کا لازوال ثمرہ حاصل ہو سکتا ہے، اور اپنے مریدوں کے پاس امامِ زمانؑ کے تشریف لانے اور ان کو دیدار کرانے کا اصل مقصد بھی یہی ہوتا ہے۔

 

(پاکستان میں امامِ زمانؑ کی تشریف آوری کے موقع پر)

تحریر: ۱۵، جنوری ۱۹۷۰ء

۶۲

ایک نایاب، گران مایہ اور قدیم علمی خزانے کا ایران میں انکشاف

 

اسماعیلی دنیا کے علمی مراکز میں سے ایک عظیم مرکز ایران رہا ہے، اور یہ سب کچھ ایران میں أئمّۂ برحق کی تشریف آوری اور زمانۂ دراز تک وہاں ان کے قیام پذیر ہونے کی بدولت ہے، چنانچہ حال ہی میں بعض اہلِ علم ایرانی اسماعیلیوں نے “دیوانِ قائمیات” کے نام سے ایک منظومہ کتاب کے قلمی نسخے کا انکشاف کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ دیوان مولاناعلیٰ ذکرہٖ السّلام کے عہدِ مبارک کے نامور شعراء کی چیدہ چیدہ نظموں کا ایک بہترین مجموعہ ہے، جنابِ محترم سید جلال الحسینی بدخشانی صاحب نے درج ذیل قصیدہ اُسی دیوان سے ہدیتہً و نمونتہً اسماعیلیہ ایسوسی ایشن پاکستان کو بھیجا ہے، جسے ادارۂ ہذا نے اردو ترجمے کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کیا تھا۔

 

 

 

قصیدہ منتخب ازدیوانِ قائمیات

 

ہر دل کہ بارضایِ امامِ آشنا شود

بے ہیچ شک نشانۂ امرِ خدا شود

ترجمہ: ہر دل جو امامِ زمان علیہ السّلام کی خوشنودی سے واقف ہوجائے اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ وہ خدا کے امر کا نشانہ یعنی توفیق و ہدایت نازل ہونے کا مقام بن جاتا ہے۔

۶۳

آن بندہ باشد آنکہ بمعنیٔ منزلت

ہر ساکنانِ عالمِ جان بادشاہ شود

ترجمہ: وہ بندہ (اس خوشنودی کی بدولت) اس قابل ہوجاتا ہے، کہ وہ حقیقت اور مرتبت میں روحانی عالم کے باشندوں پر بادشاہ ہوگا۔

 

جائے رسد بقوۂ روح القدس کہ خاک

در زیرِ نعلِ مرکب اوکیمیا شود

ترجمہ: وہ شخص روح القدس کی قوّت و تائید سے ایک ایسے (بلند) مقام پر پہنچتا ہے کہ اس کے گھوڑے کے نعل کے نیچے مٹی کیمیا (یعنی سونا) بن جاتی ہے۔

 

نقشِ شریف اوبمعانی درار تقاء

زین عشوۂ شواغلِ حس مرتقا شود

ترجمہ: اُس کا شریف نقش (یعنی روحانی مشاہدہ) حقائق کے ذریعہ ارتقاء و عروج کے سلسلے میں حسی مشغلوں کے اس فریب سے (گزرکر) بلند ہوجاتا ہے۔

 

نورِ ضمیر اوبکرامات و معجزات

خورشیدِ اوجِ کنگرۂ کبریا شود

ترجمہ: اُس کے ضمیر کا نور (روحانی) کرامات و معجزات (کے سلسلے) میں بزرگی کی چوٹی کی بلندی کا سورج بن جاتا ہے۔

۶۴

انصارِ دین و دعوتِ حق را دراعتقاد

ہم پیشوایٔ مطلق و ہم مقتدا شود

ترجمہ: وہ شخص اعتقادی طور پر دین کے مددگاروں اور دعوتِ حق کرنے والوں کے لئے حقیقی پیشواء اور رہنما ہوجاتا ہے، یعنی اس کی روح کی اصلیت امامِ زمانؑ کی ہستی میں موجود نظر آنے لگتی ہے۔

 

ہان اے حسن نہ موسمِ آن است کز ہوس

جان و دلِ تو جعبۂ تیرِ ہوا شود

ترجمہ: خبردار اے حسن (اب) وہ وقت نہیں کہ حرص و ہوس کی وجہ سے تیری جان اور دل نفسانی خواہشات کے تیروں کا ترکش ہوجایا کریں۔

یا بازِ فِکرو وہمِ تو درکسبِ جاہ ومال

موقوف این نشیمنِ خوف و رجاشود

ترجمہ: یا (یہ کہ) تیری فکر اور وہم کا باز (دنیوی) عزت اور مال کمانے کے لئے اس خوف اور امید کے ٹھکانے میں ٹھہرا دیئے۔

 

یا ہمتِ تو ازرہِ  آزو نیاز و حرض

مشتاقِ این سرایِ مجاز و فنا شود

ترجمہ: یا (یہ کہ) طمع، احتیاج اور حرص کے طریقے پر تیری ہمت اس مجاز و فنا کے گھر (یعنی دنیا) ہی کی مشتاق ہو جایا کرے۔

۶۵

می دان کہ حبِّ جاہ بلائی بوَد عظیم

کا بلیس باشد آنکہ بآن مبتلا شود

ترجمہ: جان لے کہ (دنیوی) عزت کی محبِّت ایک عظیم بلا ہے، کیونکہ جو شخص اس میں گرفتار ہوجائے تو وہ ابلیس بن جاتا ہے۔

 

موراست حبِّ مال مروارا امان مدہ

کان مور مار گرود و مار اژدہا شود

ترجمہ: دولت کی محبِّت گویا حریص چیونٹی ہے تو (اپنے اندر) اس کو نہ رہنے دے، کیونکہ وہ چیونٹی تو سانپ بن جاتی ہے، اور وہ سانپ اژدہا بن جاتا ہے۔

 

وقت است گردلِ تو بتوفیقِ ذوالجلال

زین کائناتِ عالمِ خاکی جدا شود

ترجمہ: اگر خدائے بزرگ کی توفیق سے تیرا دل اس عالمِ خاکی کی موجودات سے یکسو ہوجائے توعین موقع ہے۔

 

ذاتِ تو در جماعتِ قائم باختیار

شائستۂ متابعتِ اولیاء شود

ترجمہ: دران حال تیری ذات جماعتِ قائمہ کے ساتھ منتخب ہوکر اولیاء اللہ یعنی أئمّۂ برحق کی پیروی کے قابل ہوگی۔

۶۶

تائیدِ نور بخش خداوندِ حق ترا

بخشندۂ سعادتِ بے منتہا شود

ترجمہ: (پھر اس وقت) امامِ برحق کی وہ تائید جو نور عطا کردینے والی ہے، تجھے کبھی ختم نہ ہونے والی سعادت بخشے گی۔

 

صاحبِّ زمان کہ بہرِ سجودِ جنابِ او

ہر لحظہ پشتِ عالمِ اعلیٰ دوتاشود

ترجمہ: صاحبِّ زمان (کی یہ شان ہے) کہ ان کے حضور میں سجدے کے لئے عالمِ بالا کی پشت ہمیشہ جھکی ہوئی ہوتی ہے۔

 

مولا محمدؐ آنکہ اثر خاک پائی او

درچشمِ عقلِ سرمۂ کشف الغِطاشود

ترجمہ: مولانا محمد علیہ السّلام وہ ہیں جن کی خاکِ پا کا اثر عقل کی آنکھ سے (روحانی تاریکی کا) پردہ ہٹا دینے والا سرمہ بن جاتا ہے۔

 

ای آنکہ بے اجابتِ تونیست دروجود

کز ہیچ باب حاجتِ عالم روا شود

ترجمہ: اے وہ ہستی جو آپ کی قبولیت کے سوا یہ امر ممکن اور موجود نہیں کہ دنیا والوں کی حاجت کسی اور سبب سے روا ہوجائے۔

۶۷

گر سایہ سحظ فگنی پر فرشتہ

دیو زمانہ گرد دو کارش ہبا شود

ترجمہ: اگر آپ کسی فرشتہ پر ناخوشنودی کا سایہ ڈالیں تو وہ زمانے کا شیطان بن جاتا ہے، اور اس کا (تمام سابقہ نیک) عمل ناچیز ہوجاتا ہے۔

 

ور دیو را بچشمِ عنایت کنی نگاہ

ہمچون فرشتہ معدن صدق و صفا شود

ترجمہ: اور اگر آپ شیطان کو مہربانی کی نظر سے دیکھیں، تو وہ فرشتہ ہی کی طرح صدق و صفا کی کان بن جاتا ہے۔

 

زندان سرائے حادثہ بر بندگانِ تو

ازرحمتِ تو روضہ دار البقا شود

ترجمہ: (اگرآپ چاہیں تو) حادثات کا قید خانہ (یعنی یہ دنیا ) آپ کے بندوں کیلئے آپ کی رحمت سے عالمِ بقا کی بہشت بن جاتا ہے۔

 

این بندۂ ضعیف کہ از ترسِ فعل خویش

رنگ رخش ہمی بصفت کہر باشود

ترجمہ: (آپ کا) یہ عاجز بندہ ایسا ہے کہ اپنے عمل کے خوف سے اس کے چہرے کے رنگ کہربا کے رنگ کی طرح ہوجاتا ہے۔

۶۸

از غایتِ فسادِ خیالات، ہر زمان

بروئ ہمی صواب دوگیتی خطا شود

ترجمہ: ہمیشہ خیالات کی انتہائی خرابی کی وجہ سے اس کے دونوں جہان کا درست کام غلط ہوجاتا ہے۔

 

لیکن بعِز و قدرِ مطیعان عہد تو

گیر دامید باسرورد و دعا شود

ترجمہ: لیکن وہ آپ کے زمانے کے حقیقی فرمانبرداروں کی عزت و قدر کے وسیلے سے توقع رکھتا ہے اور وِرد و دعا کے خیال میں رہتا ہے۔

 

تابو کہ از شفاعتِ ایشان در آن نفس

کین مرغِ جان ازین قفسِ تن جدا شود

ترجمہ: تاکہ ان کی سفارش حاصل ہو، اُس وقت جبکہ روح کا پرندہ جسم کے اس قفس سے نکل جاتا ہے۔

۶۹

جشنِ نوروز کا ایک اور پہلو

 

اِس سیّارۂ زمین کی پیدائش سے لے کر اب تک نوروز کے موقع پر جتنے بھی عجیب و غریب اور انتہائی عظیم واقعات رونما ہوئے ہیں، اتنے واقعات کسی اور موقع پر نہیں ہوئے ہوں گے، چنانچہ علامہ مجلسیؔ کی کتاب “زادالمعاد” کے حوالے سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے، کہ حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام نے فرمایا کہ نوروز وہ مبارک دن ہے، جس میں خداوندِ عالم نے بندوں کی روحوں سے یہ اقرار لیا کہ وہ اس کو خدائے واحد سمجھیں، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے:

“اور (وہ وقت یاد کرو) جب کہ تمہارے پروردگار نے اولادِ آدمؑ کی پشتوں سے اُن کی اولاد کو لیا، اور انہیں ان کی اپنی اپنی ذات پر گواہ قرار دیا (اور ان سے پوچھا) کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں، انہوں نے کہا، ہاں ہم گواہی دیتے ہیں (آپ ہمارے پروردگار ہیں، یہ اقرار اس لئے لیا) تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہو کہ یقیناً ہم اس سے بالکل بے خبر تھے۔” (الاعراف ۰۷: ۱۷۲)

مذکورہ روایت کے مطابق نوروز ہی تھا، جس میں حضرت نوحؑ کی کشتی طوفان تھم جانے کے بعد کوہِ جودی پر ٹھہری، حضرت ابراہیمؑ نے اسی روز ملک عراق کے شاہی بتوں کو توڑ ڈالا تھا، حضرت موسیٰؑ نے اپنے زمانے میں اسی

۷۰

دن فرعونِ مصر کے جادوگروں کو شکستِ فاش دے دی تھی، اور آنحضرتؐ نے بھی اسی نوروز کے موقع پر مولانا علیؑ کو اپنے مبارک کندھوں پر چڑھا کر خانہ کعبہ کے تین سو ساٹھ بتوں کو توڑوایا تھا، نوروز کے متعلق ایسی قسم کی بہت سی روایات مشہور ہیں، لیکن پھر بھی اس یومِ سعید کی بہت سی حقیقتیں ہوسکتی ہیں، جو اب تک پردۂ راز میں پوشیدہ رہی ہوں۔

 

اس امرِ واقع میں کوئی شک ہی نہیں، کہ پیغمبرِ خدا، اور آپ کے حقیقی جانشین کے نور کے بغیر اگر اس دنیا اور اس کے باشندوں کے ماضی و مستقبل کی طرف دیکھا جائے، تو ایک انتہائی تاریک تصوّر کے سوا وہاں کچھ بھی نظر نہیں آئے گا، جیسا کہ قرآنِ پاک کے اس ارشاد میں یہی مثال مذکور ہے:

“اور ہم نے ان کے سامنے ایک دیوار کردی، اور ان کے پیچھے ایک دیوار کردی، پھر ہم نے انہیں ڈھانپ لیا، پس وہ دیکھ نہیں سکتے۔”( یٰسین ۳۶: ۰۹) سامنے سے مستقبل اور ابد مراد ہے، اور پیچھے سے ماضی اور ازل مراد ہے، پس ظاہر ہے، کہ جولوگ خدا اور رسولؐ کے حقیقی فرمانبردار ہیں، ان کے دل و دماغ میں یہ صلاحیت موجود ہے، کہ اگر وہ ازل اور ابد کی حقیقتوں کو دیکھنا چاہیں تو نورِ محمد و علی صلوات اللہ علیہما کی روشنی میں یہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ ان کے سامنے اور پیچھے تقلید و جہالت کی کوئی دیوار نہیں، اور وہ پردۂ غفلت میں ڈھانپے نہیں گئے ہیں۔

 

اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو جشنِ نوروز کے متعلق ہے، چنانچہ اگر ہم یہ عقیدہ رکھیں، کہ لاکھوں یا کروڑوں سال قبل یا

۷۱

اس سے بھی بہت پہلے ایک زمانہ ایسا تھا، جس میں ہمارا یہ سیّارۂ زمین موجود نہیں ہوا تھا، پھر خدا کی قدرت سے یہ سیّارہ پیدا ہوا تو لازماً ہمیں یہ بھی ماننا ہی پڑے گا کہ ہماری زمین کا کوئی آغاز و انجام ہے، پس جس روز سیّارۂ زمین پیدا ہوا ہو، وہ اس کا “نوروز” تھا، یعنی اس کرۂ ارض کی تخلیق و تکمیل کا پہلا دن ہی اس کی طویل عمر کا ابتدائی اور نیا دن تھا، کیونکہ نوروز دراصل وہی ہے، جس میں زمین کی تخلیق مکمل ہوکر اس کی مدتِ عمر کا پہلا دن شروع ہوا، جس میں پہلی دفعہ سورج روئے زمین پر چمکنے لگا، پہلی بار سائے نمودار ہوئے، اور وہیں سے دن رات کا آغاز ہوا، وہ اس طرح کہ کرۂ ارض کے پیدا ہوتے ہی سورج کی جانب کے نصف کرہ پر دھوپ پڑی اور دوسری جانب زمین کا اپنا سایہ پڑا، پس دھوپ کا نام دن اور سائے کا نام رات مقرر ہوا، اسی طرح بیک وقت دن اور رات کا آغاز ہوا۔

 

اسی نوروز کے دن زمین اپنے مدار پر مغرب سے مشرق کی طرف گردش کرنے لگی، اور وہیں سے شمسی اور قمری سال شروع ہوئے، اس اصول کے مطابق وہ ابتدائی نوروز اتوار کے دن ہونا چاہئے، کیونکہ دنوں کی گنتی کا آغاز تو اتوار ہی سے صحیح ہے، اور انبیاء و اولیاء کی تعلیمات سے بھی یہی ظاہر ہے کہ اتوار کے دن دنیا پیدا ہوئی ہے، نیز یہ کہ دونوں کے تعین اور ترتیب کے متعلق مذاہبِ عالم میں بھی کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ہے، اور یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ یقیناً شروع سے لے کر اب تک سات دنوں کے سلسلۂ شمار میں کوئی غلطی اور فراموشی واقع نہیں ہوئی ہے، اور

۷۲

شروع ہی سے ہفتے کے دنوں کی صحیح گنتی اور یادداشت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ جس روز سیّارہ زمین پیدا ہوا، تو اسی روز انسان بھی زمین پر اترآیا ہو، تاکہ یہ کہا جاسکے، کہ تمام باتیں انسانوں کی تواریخی یاد داشت کے طور پر یہاں پہنچی ہیں، بلکہ اس بارے میں یہ باور کرنا لازمی ہے کہ حقائق کا براہِ راست تعلق وحی والہام سے ہے، جو انبیاء و اولیاء (أئمّہ) علیہم السّلام کے لئے مخصوص ہے۔

نیز بتادیا جاتا ہے کہ جس وقت سیّارۂ زمین پیدا ہوا، تو وہ یہی نوروز کا دن تھا، جس میں سورج اور چاند دونوں بیک وقت برجِ حمل کے مقابل ہونے لگے تھے، اور اُسی روز سب سے پہلی چاند رات گزری تھی، یہی سبب ہے کہ دورِ حقیقت کے آغاز ہی سے چاند رات اور آبِ شفاء کی اہمیت و افادیت کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دلائی جاتی ہے، کیونکہ قمری اور اسلامی حساب کے مطابق چاند رات وہ تاریخ ہے جس میں خداوندِ عالم نے روحوں سے توحید اور معرفت کا اقرار لیا، اور جس میں اکثر معجزات ظاہر ہوئے، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْـبَانٍ  (الرحمٰن ۵۵: ۰۵)

“یعنی سورج اور چاند ایک ہی حساب رکھتے ہیں۔”

اسکا مطلب یہ ہوا کہ شمسی اور قمری سالوں کا حساب ایک ہی نقطے اور ایک ہی درجے (Degree) سے شروع ہوا ہے، یعنی جس روز سیّارۂ زمین پیدا ہوا، وہ نہ صرف سورج ہی کے حساب سے نوروز (یعنی نیا دن) تھا

۷۳

بلکہ چاند کے حساب سے بھی نوروز ہی تھا، کیونکہ مذکورۂ بالا آیت کے مطابق سورج اور چاند کا ایک ہی حساب ہونے کے یہی معنی ہیں، کہ اس کرۂ ارض کے شمسی اور قمری دونوں سال اسی طرح بیک وقت شروع ہوئے، جس طرح گھڑی کی گھنٹے والی سوئی اور منٹ والی سوئی دونوں بارہ کے ہندسے سے بیک وقت چلنے لگتی ہیں، اور ہر بارہ گھنٹے کے اختتام پر یہ دونوں اسی بارہ کے ہندسے پر یکجا ہوتی جاتی ہیں، اُس وقت ان دونوں سوئیوں کا جس طرح حساب ایک ہوتا ہے، اسی طرح اُن کا نقطۂ روانگی (Starting point) بھی ایک ہوتا ہے۔

 

اس مطلب کے بیان پر مزید روشنی ڈالنے کے لئے اس آیۂ کریمہ کی حقیقتوں کو واضح کردی جاتی ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا ۭذٰلِكَ تَــقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ (۳۶: ۳۸) اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے، یہ اندازہ باندھا ہوا ہے اُس (خدا) کا جو زبردست علم والا ہے۔ سورج کی گردش سے زمین کی گردش مراد ہے، اور سورج خود دراصل اپنے مقام پر ساکن ہی ہے، پس ظاہر ہے، کہ زمین ہی اپنے ٹھکانے کی طرف چلتی رہتی ہے، اور اس کا ٹھکانہ یہ ہے کہ جب زمین کے تمام باشندے مادّی اور روحانی ترقی کے نتیجے پر نوری اجسام (نوری پیکرAstral Body ) حاصل کئے ہوئے ہوں گے، یعنی جب ان کی حیات و بقا فلکی قسم کے جسموں میں منتقل ہوگی تو اُس وقت یہ زمین اپنے مدار سے ہٹ کر سورج سے دور ان بے شمار ستاروں میں شامل

۷۴

ہوگی جو حاشیۂ عالم کے قریب واقع ہیں، پھر یہ عجب نہیں کہ وہ سب سے عظیم واقعہ بھی نوروز اور چاند رات ہی کے موقع پر واقع ہو، چنانچہ پیر ناصرؔ خسرو (قدس اللہ سرہٗ) کی مشہور کتاب وجہِ دین اور زادالمسافرین نیز سید سہراب کی کتاب صحیفتہ الناظرین میں سیّارۂ زمین کے اٹھائے جانے کا ذکر موجود ہے۔

 

جب یہ معلوم ہوا کہ نوروز وہ دن ہے، جس میں پرور دگارِ عالم نے روحوں سے اپنی یکتائی کا اقرار لیا ہے، جس میں حضرت نوحؑ اور کے تابعین کو آخری نجات ملی ہے، جس میں حضرت ابراہیمؑ نے شاہی بتوں کو توڑا ہے، جس میں حضرت موسیٰؑ کو جادوگروں پر فتح دی گئی ہے، جس میں آنحضرتٌ پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی، جس میں آنحضرتؐ اور اُن کے وصی مولانا علیؑ نے خانۂ خدا کو بتوں کے وجود کی ناپاکی سے پاک کردیا، اور جس میں بمقامِ غدیر خم مولانا علیؑ کی ولایت و امامت کا اعلان ہوا، تو آئیے اس مبارک اور مقدس عید نور روز کے موقع پر ہم بھی اقرارِ الست کو تازہ کرتے ہوئے خدا کی معرفت کی طرف توجہ کریں، اپنے دلوں میں خود بینی اور دنیا پرستی کے جو بت پائے جاتے ہیں، ان کو توڑ ڈالیں، نفسانی خواہشات کے جادؤں پر فتح حاصل کریں، اور کعبۂ دل کو باطل خیالات کے بتوں سے پاک و صاف کرلیں، نیز یہ دیکھ لیا کریں، کہ امام حیّ و حاضر کے مبارک فرمان کے مطابق گزشتہ نو روز سے لے کر اس نوروز تک ہم نے کون کون سی قومی اور جماعتی خدمات انجام دی ہیں، اور آئندہ زیادہ سے زیادہ خدمات کس طرح کیجا سکتی ہیں، کیونکہ جشنِ نوروز عزم و عمل کا پیغام لاتا ہے۔

۷۵

اتحادالمسلمین

 

مورخہ ۲۸۔اکتوبر ۱۹۶۹ء کو سرکار مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شادی مبارک کے پُرمسرت موقع پر “شاہ کریم الحسینی ھوسٹل، گلگت میں جناب فضیلت مآب موکھی سید کرم علی شاہ صاحب نائب صدر ہزرائل ہائنس پرنس آغا خان سپریم کونسل برائے ہونزہ، گلگت، چترال، اور وسطی ایشیا کے زیرِ سرکردگی ایک جشنِ منعقد ہوا، جس کی صدارت گلگت و بلتستان کے ریزیڈنٹ راجہ حبِّیب الرحمٰن خان صاحب تمغۂ پاکستان نے کی۔ اس موقع پر اس بندہ نے اتحاد المسلمین کے موضوع پر جو تقریر کی تھی اس کا اصل مضمون درج ذیل ہے:

 

دِینِ اسلام کے مختلف فرقوں کی مجموعی حیثیت ایک ایسے ثمردار درخت کی طرح ہے جس کی بہت سی شاخیں ہوں، ہر چند کہ درخت کی شاخیں فضا کے مختلف اطراف و جوانب میں ایک دوسرے سے جدا جدا ہوتی ہیں، تاہم وہ تنے کی صورت میں باہم ملی ہوئی ہوتی ہیں، بالکل اسی طرح اسلام کے تمام فرقے خدائے واحد کے عقیدۂ وحدانیّت، حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوّت اور اس کے ضمنی عقائد میں ایک دوسرے کے ساتھ متحد اور متفق ہیں، مگر یہ

۷۶

فرقے اشخاصِ امامت و خلافت کے تعین کے بارے میں ایک دوسرے سے مختلف اور جدا جدا ہیں۔

 

اب متذکرہ بالا بیان سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ دینِ اسلام کی مجموعی حیثیت کے اندر اگرچہ ایک طرف سے فروعی طور پر اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم دوسری طرف سے اصولی طور پر اس کے اندر قوّتِ اتحاد بھی کار فرما ہے، جس طرح ایک عظیم مشین کے اجزاء اپنی اپنی شکل و صورت میں مختلف اور جدا جدا ہوتے ہیں، مگر مشین اپنی مجموعی حیثیت میں ایک ہی ہوتی ہے، اور اس کے ایسے ہونے میں یہ حکمت مضمر ہے، کہ بہت سے ذیلی مقاصد کے حصول کے نتیجے پر ایک مقصدِ اعلیٰ حاصل کیا جاسکے، یہی مثال اسلام کے مختلف فرقوں کی بھی ہے، تاکہ اس فروعی اختلاف کی محرکات کے باعث علمِ و عمل کے میدان میں تقابلی جذبے سے کام لیتے ہوئے توحیدِ باری تعالیٰ کے عظیم اسرار کے نایاب خزانوں کا انکشاف کیا جاسکے، اور جس کے سلسلے میں اسلامی علم و ادب کے بے پایان اور گرانمایہ ذخائر ادیانِ عالم کے مقابلے میں پیش کئے جاسکیں۔

اب اس مقام پر پہنچ کر یہ امر ضروری معلوم ہوتا ہے، کہ نظریۂ امامت کی بھی کچھ وضاحت کی جائے، کیونکہ آج کی اس تقریبِ مسعود کا تعلق براہِ راست اسی نظریئے سے ہے، چنانچہ قبلاً یہ بیان ہوچکا ہے، کہ اسلام کے تمام فرقے اشخاصِ امامت و خلافت کے تعین کے بارے میں ایک دوسرے سے مختلف اور جدا جدا ہیں، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ اسلام کا ہر فرقہ رسول اللہ صلی اللہ

۷۷

علیہ و آلہٖ وسلم کے بعد کسی نہ کسی صورت میں ایک امام یا خلیفہ کے ہونے کا قائل ہے، چنانچہ اسماعیلی فرقہ حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی کو اپنا امامِ وقت مانتا ہے، اور اس سلسلے میں اس فرقے کا عقیدۂ راسخ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السّلام سے، بلکہ ازل سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تک نورِ امامت پوشیدہ طور پر موجود تھا، اور آنحضرت صلعم کے زمانے میں یہ نور حضرت مولانا مرتضیٰ علی علیہ السّلام کے جامۂ بشریت میں ظاہر ہوا، پھر جناب مرتضیٰ شیرِ خدا اور حضرت فاطمۃ الزہرا علیہا السّلام کی آلِ اطہار کے سلسلے میں یہ نور جامہ بجامہ منتقل ہوتا چلا آیا ہے، کیونکہ خدائے واحد اور اس کے رسولِ برحق کی مرضی اسی میں تھی کہ دنیا اور زمانہ نورِ امامت کی مقدس ہدایت سے کبھی خالی نہ رہ جائے۔

اسماعیلی فرقے کے اعتقاد کے مطابق زمانے کا امام ہمیشہ دنیا میں حاضر اور موجود ہے، کیونکہ انسانی ہدایت کی ضرورت کے پیشِ نظر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کے زمانے میں اپنے اور مخلوق کے درمیان جو کچھ واسطہ اور وسیلہ مقرر فرمایا تھا، وہ ہمیشہ کے لئے موجود ہونا چاہئے، چنانچہ حق تعالیٰ نے ابتداء ہی میں فرشتوں سے فرمایا تھا کہ “اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃ =میں روئے زمین پر ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں۔” پس انسانی ہدایت کی ضرورت و اہمیت اس وقت بھی اُسی طرح ہے، جس طرح کہ حضرت آدمؑ کے زمانے میں تھی، یہی وجہ ہے کہ اسماعیلی اپنے امامِ زمانؑ کو خلیفۂ خدا، اور خلیفۂ رسولؐ مانتے ہیں، اور وہ امامِ عالیمقامؑ کے ہر فرمان پر اسی لئے عمل پیرا ہوتے ہیں۔

۷۸

اسماعیلی فرقے کا کلیدی عقیدہ یہ ہے، کہ خدا کی فرمانبرداری، رسولؐ کی ہدایت کے مطابق کیجائے، اور رسولؐ کی فرمانبرداری امامِ زمانہؑ کی ہدایت کے مطابق کی جائے، وہ اپنے اس نظریئے کی تصدیق میں اس آیتِ قرآنی کو پیش کرتے ہیں:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اور رسولؐ کی اطاعت کرو، اور اولوالامر کی اطاعت کرو، جو تم میں سے (یعنی تمہارے درمیان) ہیں، پس اسماعیلی اولوالامر سے اپنے سلسلے کے تمام أئمّۂ طاہرین مراد لیتے ہیں، اور امامِ وقت کو صاحبِّ امر مانتے ہیں۔

 

چنانچہ حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی اسماعیلی جماعت کے امامِ زمانؑ اور صاحبِ امر ہیں، جن کی عروسیٔ مبارک کا جشنِ سعید آج کے دن اسماعیلی عالم میں انتہائی عقیدت و محبِّت سے منایا جارہا ہے۔

 

اسماعیلیوں کے مذکورۂ بالا عقائد کا سب سے آخری نتیجہ یہ نکلا، کہ وہ امامِ زمانؑ کو رشد و ہدایت کا ایک ایسا عظیم مرکز مانتے ہیں، جس کو خدا اور رسولؐ نے اس غرض سے قائم کردیا ہے، کہ اس کے ذریعے سے اسلامی اخوت کے باہمی اختلافات ختم کئے جائیں، اور مسلمانانِ عالم کے درمیان صحیح معنوں میں اتفاق و اتحاد قائم رہے۔

۷۹

آبِ شِفاء

 

آب شفاء کے معنی ہیں تندرستی اور صحت یابی کا پانی، اور اس سے وہ متبرک پانی مراد ہے، جو امامِ زمانؑ کے فرمانِ مبارک کے مطابق جماعت خانے میں بعض خاص موقعوں پر روح اور جسم کی صحت کی نیت سے پی لیا جاتا ہے، یا چہرے پر چھڑکایا جاتا ہے۔

 

لفظِ شفاء کی حکمت:

قرآنِ مجید کی حکمت میں شفاء کی تین قسمیں بتائی گئی ہیں، پہلی قسم کی شفاء عقلانی ہے، جو حق تعالیٰ سے وحی و الہام کی صورت میں انبیاء اور أئمّۂ علیہم السّلام کو حاصل ہے، دوسری قسم کی شفاء روحانی ہے، جو روحانی طبیبوں یعنی پیغمبروں اور اماموں کے وسیلے سے ہدایت کی حیثیت میں مومنین کو حاصل ہوتی رہتی ہیں اور تیسری قسمِ کی شفاء جسمانی طبیبوں کے ذریعہ سے مختلف دواؤں کی حیثیت میں عوام الناس کو ملتی ہے، چنانچہ قرآن کی وہ حکمت ذیل کی طرح ہے:

 

عقلانی شِفاء:

حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے (جو نبوّت اور امامت دونوں کی بہترین مثال تھے) فرمایا، اور جب میں بیمار ہوجاؤں، تو وہی (یعنی خدا) مجھے شفا دیتا

۸۰

ہے (۲۶: ۸۰) انسانی وجود تیں چیزوں کا مجموعہ ہے، عقل، روح، اور جسم، اورتینوں میں عقل اعلیٰ وافضل ہے، اس کے بعد روح کا درجہ ہے، اور اس کے بعد جسم کا مقام، ان تینوں میں سے ہر ایک کو اپنی نوعیت کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں، پس معلوم ہوا کہ جو شفا حق تعالیٰ سے بلاواسطہ حضرت ابراہیمؑ کو حاصل تھی، وہ عقلانی قسم کی شفاء تھی، کیونکہ انسانِ کامل پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل واحسان یہ ہے، کہ خدا اسے عقلی نعمتوں سے نوازتا ہے۔

 

روحانی شفاء:

دوسری قسمِ کی شفاء روحانی ہے، جو پیغمبرؑ یا آنحضرتؐ کے جانشینؑ (یعنی امامِ زمانؑ) کے وسیلے سے ہمیشہ نصیحت و ہدایت کی صورت میں مومنین کو ملتی ہے، چنانچہ مومنین کی روحانی تاریکیاں اور تکلیفیں بیماریوں کی مثال ہیں، ان سے چھٹکارا پانے کی ہدایات دواؤں کی طرح ہیں، اور زمانے کا ہادی طبیب کی مانند ہیں، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے: “اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنین کے لئے شفاء اور رحمت ہے (مگر) نافرمانوں کو تو گھاٹے کے سوا کچھ بڑھاتا ہی نہیں (۱۷: ۸۲)۔”

 

اب معلوم ہوا کہ قرآن میں وہ شفا بخش چیزیں ہیں جن کے ذریعہ صرف مومنین ہی کو روحانی بیماریوں سے شفا مل سکتی ہے، پس ظاہر ہوا کہ قرآن روحانی دوا خانہ اور شفا خانہ ہے، انسانِ کامل یعنی پیغمبرؐ اور امامِ زمانؑ روحانی طبیب ہیں، تاکہ ہر زمانہ اور ہر جگہ کے مومنین کے ہر درد و رنج کی دوا اور شفا میسر ہوسکے۔

۸۲

جسمانی شفاء:

حق تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی حکمت میں نہ صرف عقلانی و روحانی شفاء کا بیان فرمایا ہے، بلکہ ایک بہترین مثال میں جسمانی شفاء کا بھی ذکر فرمایا ہے، تاکہ ہر دانش مند کو یہ معلوم ہو کہ لفظ شفاء کی مثال اور حکمت میں شفاء سے متعلق تمام چیزوں کا بیان ہے، یعنی شفاء کے لفظ میں دوا کی طرف بھی اشارہ ہے، اور طبیب کی طرف بھی، کیونکہ دوا تشخیص کے بعد تجویز کی جاسکتی ہے، اور کسی بیماری کی تشخیص صرف طبیب ہی کرسکتا ہے، پس روحانی اور عقلانی شفاء کا بھی یہی حال ہے، چنانچہ جسمانی شفاء کے متعلق ارشاد ہے “شہد کی مکھیوں کے پیٹوں سے ایک مشروبہ تن کر نکلتا ہے، جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں، اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے، یقیناً اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے ایک نشانی ہے ۱۶: ۶۹)” اور اس نشانی کا ایک پہلو یہ ہے، کہ اگرچہ شہد کو کھالینا سب جانتے ہیں، لیکن صرف طبیب ہی کسی مریض کو اس کا صحیح نسخہ بتا سکتا ہے، اسی طرح جہاں قرآنِ پاک کے ساتھ ساتھ روحانی شفاء نازل ہوئی ہے اس کا تعلق روحانی طبیب سے ہے۔

 

آبِ شفاء کی برکات:

امامِ زمانؑ آبِ شفاء کے کسی ایک جزو پر بطورِ خاص مذکورہ تین قسم کی شفاؤں کے لئے دعائے برکات فرماتے ہیں، اس کے علاوہ جماعت خانہ کے فیوض بھی اس

۸۲

میں شامل ہیں، نیز موکھی کامڑیا اور تمام مومنین اس تبرک سے فیض و برکت حاصل کرنےکے لئے یکجا طور پر نیت کرتے اور دعا مانگتے ہیں،اور ہر مومن انتہائی عاجزی، خلوص، اور یقین کے ساتھ آبِ شفا پیتا ہے، پس ان تمام دعاؤں کے بعد آبِ شفاء پُراثر اور معجزنما ہوجاتا ہے۔

 

روحانی طبیب کی شان:

جسمانی طبیب کی صرف یہی خوبی ہے، کہ وہ بہت سی بیماریوں کے لئے بہت سے نسخے تیار کرسکتا ہے، مگر روحانی طبیب یعنی امامِ زمانؑ کی یہ شان ہے، کہ وہ ایک ایسا جامع ترین اور کامل ترین نسخہ بتاتا ہے جو تمام بیماریوں کے لئے کافی اور شافی ہوتا ہے، اور وہ نسخہ یہ ہےکہ مومنین مقررہ اوقات پر جماعت خانہ میں حاضر ہو کر مقررہ عبادت بجالائیں اور آبِ شفاء سے استفادہ کریں، کیونکہ جسمانی بیماریاں درحقیقت روحانی بیماریوں سے پیدا ہوتی ہیں، اور روحانی بیماریوں کی جڑ غفلت ہے، یعنی خدا کی یاد بھول جانا، جیسا کہ قرآنِ مجید کا ارشاد ہے:

“اور اس کا کہنا نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل پایا ہے، اور اس نے اپنی ہی خواہش کی پیروی کی ہوئی ہے، اور اس کا معاملہ حد سے گزر گیا ہے، (۱۸: ۲۸)” یعنی راہِ راست کی ہدایت خدا کی یاد ہی میں تھی، جب اُس نے ذکر چھوڑا تو اسی وقت راہِ راست سے بھٹک گیا، اور اپنی خواہش ہی کے پیچھے غلط راستے پر چلنے لگا، اب اس غلط راستے پر پہلے روحانی بیماریاں

۸۳

اور پھر جسمانی بیماریاں ستانے لگتی ہیں۔

 

آبِ شفا کا معجزہ:

معجزہ دو۲ طرح سے ظاہر ہوجاتا ہے، ایک معجزہ وہ ہے جو خدا کی مرضی سے عوام و خواص سب پر واقع ہوتا ہے، دوسرا معجزہ وہ ہے جس کا تعلق صرف خواص ہی سے ہے، جس کی شرط یقین اور عمل ہے، پس آبِ شفاء کا اثر ایک ایسا معجزہ ہے، جس کی شرط یقینِ کامل اور عملِ صالح ہے، چنانچہ آبِ شفاء شروع شروع میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضراتِ اہلبیت کے لئے استعمال فرمایا، جو معجزانہ طور پر اثر انداز ہوتا تھا، جس کی ایک مثال یہ ہے، کہ جب حضرت امام حسین علیہ السّلام بچپن کے زمانہ میں سخت بیمار ہوئے تو رسول اللہ صلعم نے ان پر آبِ شفا چھڑک دیا، اور امام حسین علیہ السّلام فوراً صحت یاب ہوگئے۔

 

عقیدت و محبِّت کا تقاضا:

مومنین امامِ زمان علیہ السّلام سے جو عقیدت و محبِّت رکھتے ہیں اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ امامِ عالیمقامؑ ان پر باطنی طور سے دستِ رحمت رکھیں اس کے علاوہ ظاہر میں بھی ان کو بار بار اپنے پاک دیدار سے نوازا کریں، ان کے سر اور کندھوں پر دستِ شفقت رکھیں، انہیں اپنے مبارک ہاتھ سے تبرکات عطا فرمائیں، اور ساتھ ہی ساتھ کچھ ایسے تحائف بھی عنایت کریں کہ ان تحفوں اور مہربانیوں کی وجہ سے خداوندِ عالمین کی یہ نعمتِ عظمیٰ بار بار

۸۴

یاد آئے، اور وہ ہر وقت شکر گزار رہیں کہ راہِ راست کی ہدایت کرنے کے لئے امامِ حیّ و حاضرؑ ان کے درمیان موجود ہیں، پس ان تمام مقاصد کے حصول کے لئے جماعت خانہ کے آداب و تبرکات مقرر ہوئے اور آبِ شفا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

۸۵

 

۸۶

 

اسماعیلی تاج وطغرا

 

ہم یہاں (ان شاء اللہ تعالیٰ) اسماعیلی تاج و طغرا کے متعلق چند اصولی حقیقتوں کا انکشاف کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اِسماعیلی تاج و طغرا سامنے دیئے ہوئے نقشے کی طرح ہے۔

 

تاج

اس کرۂ ارض کی سطح پر صرف اسماعیلی تاج ہی ایک ایسا تاج ہے، جو حقیقی اسلام اور روحانی نظام کے دائمی وجود کی نشاندہی کرتا ہے، اور یہ اُس دینی اور روحانی سلطنت کا تاج ہے، جس کے متعلق قرآنِ مجید کا یہ ارشاد ہے:

فَقَدْ اٰتَيْنَآ اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاٰتَيْنٰھُمْ مُّلْكًا عَظِيْمًا (۰۴: ۵۴) بے شک ہم نے ابراہیمؑ کی اولاد کو (قیامت تک) کتاب اور حکمت (اور اس کی وراثت) دی ہے، اور ان کو ایک عظیم سلطنت دی ہے۔

 

اس آیۂ مقدّس کی ترتیب میں کتاب کے بعد حکمت کا ذکر آیا ہے، اور اس کے بعد ملک عظیم یعنی روحانی سلطنت کا ذکر آیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک

۸۷

دنیا میں آسمانی کتاب موجود ہے، تب تک اس کے باطن میں حکمت کے پوشیدہ خزانے بھی موجود ہیں، اور جب تک اس کتاب سے حکمت کے پوشیدہ خزانے پائے جاسکتے ہیں تب تک آلِ ابراہیمؑ یعنی آلِ محمدؐ کا سلسلہ بھی جاری اور باقی ہے، تاکہ اسی سلسلے کے ذریعے سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اس کی حقداری کے مطابق کتاب و حکمت سے ہدایت دی جاسکے، اور یہی خصوصیت اس سلسلے کی آسمانی سلطنت کی دلیل ہے۔

 

اس بیان سے جب یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ روحانی سلطنت آلِ ابراہیمؑ یعنی آلِ محمدؐ ہی کو حاصل ہے، تو اب ہم اسماعیلی تاج و طغرا کا بیان کرتے ہیں، چنانچہ اسماعیلی تاج کا دایاں چشمہ درجۂ نبوّت کی علامت ہے، اور بایاں چشمہ درجۂ امامت کی نشانی ہے، اور یہ تاویل دورِ نبوّت کی نسبت سے ہے، جس میں آنحضرتؐ جسمانی طور پر موجود تھے، مگر دورِ امامت کے اعتبار سے، جو رسولِؐ خدا کی رحلت کے بعد سے شروع ہوا، دایاں چشمہ مرتبۂ امامت کی علامت ہے، اور بایاں چشمہ مرتبۂ حجتی، یعنی پیری کی نشانی ہے، نیز دایاں چشمہ قرآن کے ظاہری علم کی طرف اشارہ ہے جو پیغمبرؐ کا حصّہ ہے، اور بایاں چشمہ قرآن کی حکمت کی طرف اشارہ ہے، جو امامؑ کا حصّہ ہے ۔۱

 

تاج کے دائیں چشمہ کا دامن بہت مختصر اور تاج کے نچلے کنارے سے بلند

 

۱؎: دائیں اور بائیں کی تاویل کے لئے دیکھئے: کتاب “وجہِ دین حصّۂ اوّل” ص: ۱۹۰، ۱۹۱، ۱۹۲۔ نیز “وجہِ دین حصّۂ دوم” ص ۲۳۔

۸۸

دور ہے، اس کے برعکس بائیں چشمے کا دامن تقریباً تاج کے نچلے کنارے تک پہنچا ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہے، کہ زمانۂ نبوّت ۲۳ سال کا ایک مختصر وقت تھا، مگر دورِ امامت قیامت تک چل رہا ہے، پس اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں، کہ پیغمبرؐ تک رسا ہوجانے کے لئے امامِ وقت کی فرمانبرداری کی جائے۔

 

تاج کا طرّہ دونوں چشموں کے درمیان سے نکل کر بائیں جانب کو مائل ہوتے ہوئے بلند ہوا ہے، یہ نورِ ہدایت کا نشان ہے، جو حضرت محمدؐ (پیغمبرؐ) اور حضرت مولانا علیؑ (امام) کا واحد نور ہے، اور اس طرّہ کے بائیں جانب مائل ہونے کے یہ معنی ہیں، کہ نورِ ہدایت سے مستفیض ہونے کے لئے پہلے امامؑ کی معرفت حاصل کی جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

“اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ” ۱۳: ۰۷ (اے رسول) سوائے اس کے کچھ نہیں، کہ آپ صرف ڈرانے کے ذمہ دار ہیں، اور ہر قوم (یعنی ہر زمانہ کے لوگوں) کے لئے ایک ہادی ہوا کرتا ہے۔

 

اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر چہ نورِ ہدایت پیغمبرؐ اور امامؑ کے درمیان مشترک ہے، تاہم اس کا زیادہ تر تعلق امامؑ کی شخصیت کے ساتھ ہے، کیونکہ امامؑ سرچشمۂ ہدایت کی حیثیت سے ہر وقت حاضر اور موجود ہیں۔

 

نیز اس طرّہ کے بائیں جانب مائل ہونے کے یہ معنی ہیں، کہ ہادیٔ برحق (یعنی امامِ زمانؑ) کی تفصیلی معرفت کے لئے حجت (پیر) کی طرف رجوع کیا جائے، کیونکہ پیر اور معلّم کی تعلیم کے بغیر امامِ زمانؑ کی معرفت انتہائی مشکل ہے، اس سے قبل بتایا گیا ہے، کہ دورِ نبوّت میں دائیں طرف کا درجہ پیغمبرؐ

۸۹

کے لئے ہے، اور بائیں جانب کا درجہ امامِ زمانؑ کے لئے ہے، اس کے برعکس دورِ امامت میں امامؑ کا مرتبہ دائیں جانب ہے، اور پیر کا رتبہ بائیں طرف ہے۔

 

طغرا:

اسماعیلی طغرا میں سب سے پہلے ہلال آتا ہے، ہلال ترقی و تکمیل کا اشارہ ہے، چنانچہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے وقت میں عالمِ دین کے سورج تھے، اور امام علیہ السّلام اس زمانے میں آنحضرتؐ کے وزیر کی حیثیت سے دین کے چاند تھے، مگر امامؑ اپنے زمانے میں عالمِ دین کے سورج ہیں اور پیر (یعنی حجتِ اعظم) دین کے چاند ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبرِ اسلامؐ کی رحلت کے بعد امامِ زمانؑ نور کے مرکز یعنی عالمِ دین کے سورج ہیں، جس کے نور میں کوئی کمی و بیشی نہیں ہوتی، مگر حجتِ اعظم کے نور میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، کیونکہ وہ چاند کی طرح ہیں۔

 

نیز اس ہلال کی تاویل یہ بتاتی ہے کہ اسماعیلی مذہب میں روحانی ترقی و تکمیل ازبس ممکن ہے، اور وہ دو طرح سے ہے: ایک روحانی ترقی انفرادی طور پر ہے، جو ہر زمانے میں کی جاسکتی ہے، اور اس کا دارو مدار ہر مومن کی اپنی کوشش پر ہے، دوسری روحانی ترقی اجتماعی حیثیت میں ہے، جس کے لئے ایک خاص وقت آنیوالاہے۔

چنانچہ ہلال میں انفرادی ترقی کی مثال یہ ہے، کہ ہر حقیقی مومن کو پیر کا علم اور امامؑ کی معرفت ایک دن میں نہیں آتی، بلکہ آہستہ آہستہ حاصل ہو

۹۰

سکتی ہے، یعنی جب کوئی مخلص مومن امامِ زمانؑ کی فرمانبرداری کرتے کرتے روحانی طور پر نور دیکھنے کے قابل ہوجاتا ہے تو شروع شروع میں اس کو صرف اتنا ہی نور دکھایا جاتا ہے جتنا کہ نئے چاند سے حاصل ہوسکتا ہے، اسی طرح مومن کے روحانی مشاہدہ میں نور دن بدن بڑھتا چلاجاتا ہے، یہاں تک کہ چودھویں کے چاند کی مانند اور اس کے بعد سورج کی طرح ہوکر نور مکمل ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن کے اس ارشاد سے یہی حقیقت ظاہر ہے:

رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۚ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (۶۶: ۰۸)، اے ہمارے پروردگار! تو ہمارے لئے، ہمارا نور کامل کردے، اور ہمیں بخش دے، تو ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھنے والا ہے۔

اس طغرا کے ہلال پر دائیں طرف پانچ اور بائیں طرف پانچ کل دس موتی ہیں، جن کی مراد دین کے دس مرتبے ہیں جو پانچ روحانی اور پانچ جسمانی ہیں، پانچ روحانی مرتبے: عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، اسرافیل، میکائیل اور جبرائیل ہیں، اور پانچ جسمانی مرتبے: ناطقؐ (محمدؐ) اساس (علیؑ) امام، حجت اور داعی ہیں۔

اس طغرا کے نیچے ایک ستون ہے، جس پر پانچ موتی دکھائی دے رہے ہیں، جس کا اشارہ ولایت کی طرف ہے، جو شیعیت کا مرکزی ستون ہے۔ اور وہ پانچ موتی پنجتن پاک کی نشاندہی کرتے ہیں، جن سے دوستی و محبِّت رکھنا ولایت کی اصل و بنیاد ہے، یعنی ولایت کا عقیدہ انہی حضرات کی عصمت و نورانیّت کے اقرار سے شروع ہوتا ہے، چنانچہ خداوند تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:

۹۱

قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى  ۴۲: ۲۳ (اے رسول!) کہہ دیجئے، کہ میں اِس (تبلیغ رسالت) پر کچھ نہیں مانگتا، سوائے اس کے، کہ میرے اقرباء سے محبت کرو۔

 

طغرا کے اوپر کا حصّہ موتیوں کے ایک ہار کی طرح ہے، جس میں ایک سہ پہلو لعل کا نقشہ دیا ہوا ہے، یہ موتیوں کا ہار سلسلۂ امامت کی مثال ہے، جو ظاہراً حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانے سے لے کر قیامت تک چل رہا ہے، اور وہ سہ پہلو لعل ایک ایسے روحانی خزانے کی نشانی ہے، جو امامِ زمانؑ کی نورانی معرفت کے بعد حاصل ہوسکتا ہے، جس میں عقل، روح، اور جسم کی تمام حقیقتیں اور قیامت کی ساری معرفتیں موجود پائی جاتی ہیں، چنانچہ ارشاد ہے:

وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ(۳۶: ۱۲) اور ہم نے ہر چیز (یعنی عقلانی، روحانی، اور جسمانی حقیقتوں اور معرفتوں کو) امامِ ظاہر (یعنی امامِ ناطق) کی ذات میں مجموع و ملفوف کررکھا ہے۔

 

جس طرح اس ہار کے موتیوں میں کثرت اور اس کے رشتے (دھاگے) میں وحدت ہے، یعنی موتی تو بہت سے ہیں، مگر اس کا رشتہ اپنی ذات میں ایک ہی ہے، جس نے تمام موتیوں کو متحد کرلیا ہے، اسی طرح نورِ امامت کی شخصیتوں میں کثرت پائی جاتی ہے، لیکن نور اپنی ذات میں ایک ہی ہے، اور اس میں کوئی کثرت نہیں، اور کثیر چیزوں کو ایک کرلینا اس کی خاصیت ہے، اس لئے اُس نے امامت کی تمام شخصیتوں کو ایک کرلیا ہے۔

۹۲

اس ہار کا رشتہ یعنی دھاگہ خدا کی رسی کی مثال ہے، جو نورِ امامت کی صورت میں ہے، اور اس کے موتی جیسا کہ ذکر ہوا، اشخاصِ امامت کی مثال ہیں جو سِلکِ نور یعنی نور کے دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں، اور یہ خدا کی رسی ہر وقت عالمِ علوی اور عالمِ سفلی کے درمیان اپنی گولائی میں گردش کرتی رہتی ہیں، جس میں نور کے مختلف جامے دنیا میں آتے اور دنیا سے گزرتے رہتے ہیں، تاکہ اپنے وقت کے جامۂ نور (یعنی امامؑ) سے وابستہ ہوکر بہت سی ارواح دنیا میں آسکیں، اور آخرت کی منزلِ نجات میں پہنچ سکیں، چنانچہ اسی معنی میں یہ ارشاد ہے:

وَاعْتَصِمُوْا بِحبِّلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا (۰۳: ۱۰۳) اورتم سب لوگ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو۔

 

اسماعیلی تاج و طغرا کی شکل اور بناوٹ میں دین کی بہت سی اصولی حقیقتیں سمودی گئی ہیں، امامِ زمانؑ کی رحمت و مہربانی سے یہاں چند ضروری حقیقتوں کی وضاحت کی گئی ۔

 

والسلام۔

۹۳

اسماعیلی پرچم

 

پرچم کو عربی زبان میں “عَلَم” کہتے ہیں، اور عَلَم کے لغوی معنی ہیں نشان، جھنڈے (علم) کو نشان کے معنی دینا اس لئے صحیح اور درست سمجھا گیا ہے، کہ یہ اپنے ایک خاص رنگ یا جدا گانہ علامتوں سے جو اس پر بنائی ہوئی ہوتی ہیں، کچھ مخصوصی معنی و مطالب کو ظاہر کرتا ہے، مثلاً ظاہری اور عام رواج کے مطابق سرخ رنگ کا جھنڈا خطرہ، انقلاب اور جنگ جیسے حالات کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور سفید رنگ کا جھنڈا صلح، امن اور سلامتی کی نشاندہی کرتا ہے۔

 

چنانچہ ہر مذہب، ہر قوم اور ہر حکومت نے اپنے جھنڈے کے تعیّن کے سلسلے میں اپنے نظریئے کے مطابق ایک جدا گانہ رنگ اور کچھ مخصوص علامتوں کا انتخاب کیا ہے، تاکہ اس رنگ اور ان علامتوں سے اس مذہب یا قوم یا حکومت کے خاص مقصد اور نصب العین کی ترجمانی ہوسکے، اب ہم ذیل میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقدّس جھنڈوں کے متعلق کچھ روایات درج کرتے ہیں:

جابرؔ کہتا ہے کہ رسول اللہ صلعم ایک سفید جھنڈے کے ساتھ مکۂ مکرمہ میں داخل ہوئے۱، اس کے معنی ظاہر ہیں، کہ آنحضرت صلعم مکہ والوں کے لئے ہر طرح کی صلح و صلاح، اور ہر قسم کا امن و سلامتی لے کر تشریف لائے تھے۔

۹۴

ابنِؔ عباس کہتا ہے، کہ حضورِ اکرم صلعم کے دو جھنڈے تھے، ایک بڑا جھنڈا جو سیاہ رنگ کا تھا، اور دوسرا چھوٹا جھنڈا جو سفید رنگ کا تھا۲، جس کا واضح اشارہ یہ ہے کہ اس مادّی دنیا میں مومنین کے لئے دکھ زیادہ اور سکھ کم ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ یہاں غمگینی کے مقابلے میں خوشی برائے نام ہے۔

 

البراءؔ ابنِ عازب سے روایت ہے کہ رسول اللہ کا ایک سیاہ چوکور جھنڈا تھا، جس پر مختلف رنگ کے دھبے بنائے ہوئے تھے۳، اس کے معنی یہ ہیں کہ دینِ اسلام کی رواداری اور رسولِ برحقؐ کے اخلاقِ حسنہ نے امت کے جملہ افراد کو اس صورتِ حال کے باؤجود ایک کرلیا تھا، کہ وہ رنگ، نسل، زبان اور رسم و رواج کے لحاظ سے جدا جدا اور مختلف تھے۔

 

نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ استنبول کی قدیم مقدّس یادگار چیزوں میں جنابِ رسالت مآبؐ کا ایک خاص جھنڈا اب تک محفوظ ہے، یہ مقدّس و متبرک جھنڈا صرف خاص خاص موقعوں پر دکھایا کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ کا قدیم ترین جھنڈا ہے۔۴

 

اس متبرک جھنڈے کی کیفیت کے بارے میں موجودہ دور کے ایک صاحبِّ قلم کا کہنا ہے، کہ یہ پرچم چار مختلف رنگوں پر مشتمل ہے، سب سے اوپر کے  حصّے کا رنگ سبز ہے۵، اس کا مطلب یہ ہوا، کہ حضورِ اکرم صلعم نے اس جھنڈے کا تعیّن کرتے وقت تمام رنگوں میں سے بلحاظِ معنی چار کو منتخب فرمایا، اور پھر سبز رنگ کو ان منتخب شدہ رنگوں پر باعتبارِ حکمت فوقیت و ترجیح دی۔

۹۵

حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے ایک ارشادِ گرامی سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورۂ بالا جھنڈے کے چار رنگوں کی ترتیب و ترکیب میں سبز رنگ کو فوقیت دینے کے علاوہ پیغمبرِ اسلامؐ ایک خالص سبز رنگ کا جھنڈا بھی رکھتے تھے، پس یہی سبب ہے کہ خاندانِ بنی فاطمہؑ نے شروع ہی سے اپنے جھنڈے کے لئے اسی سبز رنگ کا انتخاب کیا، جو حضورِ انورؐ کے نزدیک معنی خیز اور پُرحکمت تھا، مگر یاد رہے کہ حضرت امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کے عظیم واقعہ کے بعد پیغمبرؐ کے سب رنگ کے ساتھ سرخ رنگ کو بھی یادگار اور تاویل کے طور پر تسلیم کیا گیا، پس اس صورت میں سبز رنگ کا اشارہ پیر کی شناخت ہے، اور سرخ رنگ کا ایماء شاہ کی معرفت ہے۔۶

 

اب یہ سوال خود بخود سامنے آتا ہے کہ اگر تمام خاص و عام جھنڈوں کے رنگوں اور علامتوں کے کچھ مخصوص معنی ہوتے ہیں، تو پھر اسماعیلی جھنڈے کے اس سبز اور سرخ رنگ میں کیا کیا اشارے پوشیدہ ہیں؟ نیز سبز اور سرخ رنگ کی فضیلت کی کیا دلیل ہے؟ اس کا جواب پیر حکیم ناصر خسرو قدس اللہ سرّہٗ کے قول کے مطابق یہ ہے کہ سبز رنگ کے معنی ہیں پیغمبرؐ اور امامِ زمانؑ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے دین اور دنیا کو آباد کرنا، اور یقیناً دونوں جہان کا آباد ہونا، اور محمدؐ و علیؑ کے نور سے جو امامِ زمانؑ کی حیثیت سے حاضر ہے، حقیقی روح حاصل کرکے زندۂ جاوید ہوجانا، اور سرخ رنگ کے معنی ہیں، ظاہری اور باطنی خطروں سے بچاؤ کرتے

۹۶

ہوئے روحانی اور جسمانی ترقی کے لئے جدوجہد کرنا، یا کہ اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا، اور اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے قربانیاں پیش کرنا وغیرہ۔۷

 

سبز اور سرخ رنگ کی برتری وافضیلت پر قرآنی دلیل یہ ہے کہ سورۂ رحمٰن میں بطریقِ حکمت ان دونوں رنگوں کی خاص تعریف کی گئی ہے، اور سورۃ رحمٰن کا دوسرا نام “عروس القرآن” ہے، کیونکہ حق تعالیٰ نے اس سورہ کو ظاہری و باطنی حسن و جمال سے آراستہ و پیراستہ فرمایا ہے، چنانچہ اس سورۃ میں یَاقُوْتْ اور مَرْجَانۡ کےلفظوں میں سرخ رنگ کی تعریف کی گئی ہے اور مُدْھَا مَّتَا نٍ اور خضْرٍ میں سبز رنگ کی تعریف ہے، پس ظاہر ہے کہ الفاظ و معانی کی اس عروسِ زیبا کو سجانے میں خدائے حکیم نے بھی رنگوں سے کام لیا ہے، وہی رنگ دوسرے تمام رنگوں سے احسن و افضل ہیں۔۸

 

ان دونوں رنگوں کی افضلیت پر عقلی دلیل یہ ہے کہ اس عظیم کائنات میں جو کچھ ہے، اس کے تین درجے ہیں، سب سے نیچے درجۂ جمادات ہے جس میں بے جان چیزیں ہیں، اس سے اوپر درجۂ نباتات ہے، جس میں اگنے اور نشوونما پانے والی اشیاء ہیں، اور اس کے اوپر درجۂ حیوانات ہے جس میں تمام جاندار مخلوق شامل ہیں، چنانچہ مذکورۂ بالا تین درجوں کی چیزوں کی ترقی و عروج کے سلسلے میں قانونِ فطرت کا اٹل فیصلہ یہی ہے، کہ جب بے جان چیزیں روحِ نباتی قبول کرلیتی ہیں، تو قانونِ قدرت ان کو سبز رنگ کی خلعت سے نوازتا ہے، اور جب نباتات روحِ حیوانی کی غذا بن جاتی ہے، تو ان کو قانونِ الہٰی جانوروں یا انسانوں کی ہستی میں سرخ

۹۷

رنگ (یعنی خون) سے مزین کرکے حِس و حرکت اور فہم و شعور کی زندگی عطا کر دیتا ہے۔

 

بیانِ بالا سے صاف طور پر ظاہر ہوا کہ اسماعیلی جھنڈا اپنے تاریخی پس منظر میں بھی اور اپنی موجودہ صورت میں بھی قانونِ فطرت کے عین مطابق ہے، یعنی یہ شروع میں سبز تھا، پھر اس میں سرخ رنگ کا بھی اضافہ ہوا، جیسے شاہراہِ زندگی کی پہلی منزل پر سبز رنگ کی نباتات واقع ہیں، اور دوسری منزل پر سرخ خون والے حیوانات، جن کی بہترین صورت انسان ہیں، پس اسماعیلی جھنڈا یہ مثال پیش کرتے ہوئے، کہ کس طرح مادّی زندگی منزل بمنزل آگے بڑھتی جاتی ہے، روحانی زندگی اور اس میں ترقی حاصل کرنے کی تعلیم دیتا ہے، اور یہی تعلیم اس آیۂ کریمہ میں ہے کہ:

“يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ (۰۸: ۲۴)۔ اے وہ لوگو! جو ایمان لاچکے ہو! جس وقت رسولؐ تمہیں ایسی بات کی طرف بلائے، جو تم کو زندہ کرے تو اللہ اور اس کے رسولؐ کا کہا مانو۔” اس آیۂ مقدّسہ کی حکمت کا اشارہ یہ ہے کہ عوام النّاس عالمِ دین کے جمادات ہیں جن کو اُس خاص قول و عمل کی طرف دعوت دیجاتی ہے، جس میں ان کے لئے حقیقی روح اور ابدی حیات پوشیدہ ہے، پس اگر وہ اس دعوت کو قبول کریں تو روحانی طور پر ان کو سب سے پہلے نباتات کے درجے میں زندہ کیا جائے گا، پھر ان کو مقامِ حیوانیّت سے آگے گزارتے ہوئے عالمِ دین کے انسانی رتبے تک پہنچا دیا جائے گا، جس کے لئے دو چیزیں ضروری اور لازمی ہیں، پہلی

۹۸

چیز فرمانبرداری ہے، اور دوسری قربانی، فرمانبرداری اور قربانی میں یہ فرق ہے، کہ ہر فرمانبرداری قربانی نہیں، مگر ہر قربانی فرمانبرداری ہے، چنانچہ اسماعیلی جھنڈے کے سبز رنگ سے فرمانبرداری مطلوب ہے۹، اور سرخ رنگ سے قربانی مراد ہے۔۱۰

 

فرمانبرداری تین قسم کی ہوا کرتی ہے:

۱۔ عقلی اور روحانی طور پر۔

۲۔ جسمانی اعتبار سے۔

۳۔ مالی لحاظ سے۔

اسی طرح قربانی بھی تین قسم کی ہے:

۱۔ عقل و نفس کی قربانی۔

۲۔ جسم کی قربانی۔

۳۔ مال کی قربانی۔

 

دین حقیقی مومنین سے بحیثیتِ مجموعی یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اکثر اوقات کو امامِ حیّ و حاضر کی فرمانبرداری میں گزاریں، اور قربانی صرف بوقتِ ضرورت دیا کریں، یہی سبب ہے کہ ہمارے مقدّس پرچم کا سبز حصّہ زیادہ اور سرخ حصّہ کم ہے۔

 

نیز اس مبارک پرچم کے سرخ رنگ کا اشارہ یہ بھی ہے کہ مومن کو حقیقی زندگی شاہراہِ صراط المستقیم پر چلنے ہی سے مِل سکتی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اس کا دین بھی آباد ہوجاتا ہے، اور دنیا بھی، جیسے سرخ رنگ حقیقی

۹۹

زندگی کی نشاندہی کرتا ہے، کیونکہ یہاں سرخ رنگ کا ایک راستے کی شکل میں ہونا صراطِ مستقیم اور اس پر چلنے کی مثال یہ ہے، اور اس کے دونوں طرف کا سبز رنگ حقیقی مومنین کے دونوں جہان آباد ہونے کی علامت ہے۔

پرچم کا یہ سرخ راستہ (یعنی پٹی) پھریرے کے اس نچلے کونے سے شروع ہوجاتا ہے، جو کھمبے سے دور ہے، پھر یہ راستہ بتدریج ڈنڈے کی طرف قریب سے قریب تر ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اخیر میں ستون سے جا ملتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ حقیقی مومنین صراطِ مستقیم پر جتنے آگے بڑھ سکیں، اتنے امامِ حیّ و حاضر کے نور سے قریب تر ہوتے جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ نورِ امامت سے واصل ہوجاتے ہیں، اور یہی وہ نور ہے، جس پر دین و دنیا کا قیام ہے، جیسے پرچم کا قیام و اقرار اس کے ستون پر ہے۔

 

توضیحات و حوالہ جات

۱؎ ۲؎ ۳؎ ۴؎ ۵؎  ڈکشنری آف اسلام۔

۶؎ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام کا ایک پاک خط

۷؎ کتاب “وجہِ دین” اردو حصّہ اوّل ص ۱۴۰۔ ۱۴۲

۸؎ سورۂ رحمان آیت ۵۸، ۶۴، ۷۶۔

۹؎ سبز رنگ کی تاویل فرمانبرداری اس طرح سے ہے، کہ سورۂ تحریم کی آیت ۱۲ میں

۱۰۰

حضرت مریم کی فرمانبرداری کا ذکر آیا ہے، اور آلِ عمران کی آیت ۳۷ میں اس کے سرسبز ہونے کا اشارہ ہے جو اس کی روحانی زندگی کی مثال ہے۔

۱۰؎ سرخ رنگ قربانی اور حقیقی زندگی کی علامت اس طرح سے ہے، کہ شہادت اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے بموجب وہ اصل زندگی ہے جس میں حق تعالیٰ کی قربت و نزدیکی بدرجۂ اتم میسر ہو جاتی ہے، جس کا ذکر آلِ عمران آیت ۱۶۹ ۔ ۱۷۱ میں ہے۔

 

۱۰۱

 

صراطِ مستقیم

 

تعریف:

صراطِ مستقیم میں دو لفظ ہیں، صراط اور مستقیم، صراط کے معنی راستہ اور مستقیم کے معنی ہیں سیدھا، پس صراطِ مستقیم کے معنی ہوئے سیدھا راستہ، یعنی ایسا راستہ جو ٹیڑھا نہ ہو، جس میں کوئی اونچ نیچ اور اتار چڑھاؤ نہ ہو، جو بالکل منزلِ مقصود کی سیدھ میں ہو، اور جس پر چلنے والے کے لئے ہر طرح کی سہولت مہیا ہو۔

 

مختلف صورتیں:

صراطِ مستقیم = سیدھا راستہ قرآنِ پاک کی بے پایان حقیقت و حکمت کی مثالوں میں سے ہے، یہ مثال سب سے پہلے ام الکتاب یعنی سورۃ الفاتحہ میں سامنے آتی ہے، اور دوسری بہت سی سورتوں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے، جس کی لفظی صورتیں مختلف ہیں، مثلاً صراط اللّٰہ ۴۲: ۵۳ (خدا کا راستہ) الصراطِ السوی ۲۰: ۱۳۵ (راہِ راست یا سیدھاراستہ) صراط  الحمید ۲۲: ۲۴ (خدا کے لائقِ حمد کی راہ) سواء الصراط ۳۸: ۲۲ (سیدھی راہ)  صِراطاً سَوِیاً ۱۹: ۴۳ (سیدھا راستہ ) سَواء السبیل ۲: ۱۰۸ (سیدھا راستہ ) سبیل اللّٰہ ۰۲: ۱۵۴ (اللہ کی راہ) سبیل المومنین ۰۴: ۱۱۵ (مومنوں کا راستہ) سبیل الرشدِ ۰۷: ۱۴۶ (ہدایت کا راستہ) قصدالسبیل ۱۶: ۰۹ (سیدھا راستہ ) سبیل الرشاد (۴۰: ۳۸) (ہدایت کا راستہ) سبیلی ۱۲: ۱۰۸ (میری راہ یعنی پیغمبرؐ کی راہ) سبل السلام

۱۰۲

۰۵: ۱۶ (سلامتی کی راہیں یعنی تائیدِ الہٰی کی راہیں)۔

 

صراطِ مستقیم کا مقصد:

قرآنِ پاک کے مذکورہ حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ صراط اور سبیل دونوں لفظوں کا ایک ہی مطلب ہے، اور یہاں یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ یہ صراطِ مستقیم یا سبیلِ رشد و ہدایت اللہ تعالیٰ کی ہے کہ اس نے سچے دین کا یہ راستہ بنایا، اور لوگوں کو اس پر چلانے کے لئے پیغمبرؐ بھیجے تاکہ ان کو خدا تعالیٰ کی قربت و نزدیکی حاصل ہو، نورانیّت کا عظیم ترین دیدار حاصل ہو، اور خدا کی ملاقات و معرفت کے ذریعہ ابدی نجات اور دائمی سکون ملے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ  (۱۱: ۵۶) یقیناً میرا پروردگار صراطِ مستقیم پر ہے۔” یعنی صراطِ مستقیم پر چلنے سے خدا ملتا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہی اپنا راستہ نبیّین، صدّیقین، شہداء اور صالحین کے علاوہ تابعین کو بھی عنایت فرمایا ہے۔

 

چنانچہ جب ہم قرآنِ حکیم کی اس پُرحکمت تعلیم پر غور کرتے ہیں: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ، صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (ہمیں راہِ راست پر چلا لیجئے، ان لوگوں کی راہ (پر) جن پر تو نے انعام فرمایا ہے) توہمیں لازمی طور پر یہ شوق پیدا ہوتا ہے، کہ معلوم کرلیں، کہ یہ حضرت کون ہیں جن پر خدا کا انعام و اکرام ہوا ہے، جن کے نقشِ قدم پر چلنے کے لئے ہمیں یہ

۱۰۳

تعلیم مل رہی ہے، پھر جب ہم قرآنِ مجید میں اللہ کے انعام یا نعمت سے متعلق عنوانات کی تلاش کرتے ہیں، تو ہمیں ایک آیۂ کریمہ ملتی ہے، جس میں ان حضرات کا ذکر ہے جن پر خدا کا انعام و اکرام ہوا ہے، جو اپنے وقت میں صراطِ مستقیم پر چل کر خدا سے واصل ہوچکے ہیں، اور وہ آیۂ مقدسہ یہ ہے:

وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ  (۰۴: ۶۹)

اور جو شخص اللہ اور رسول کا کہا مان لے گا، تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاء اور صدّیقین اور شہداء اور صلحاء۔

 

حبِّل اللہ:

حبِّل اللہ کے معنی ہیں خدا کی رسی، جس سے ایک ایسی بے مثال اور زندۂ جاوید رسی مراد ہے، جو معجزانہ قسم اور مافوق الفطری درجے کی ہے، کہ وہ نہ کبھی ٹوٹ جاتی ہے، اور نہ ہی کوئی ایسا زمانہ یا جگہ ہے جس میں یہ نہ پہنچ سکے، کیونکہ “خدا کی رسی” کے لفظی معنی میں جو مثال اور تصوّر پوشیدہ ہے، اس کی وضاحت اس طرح سے ہوتی ہے، کہ تمام بنی نوع انسان فی الوقت جس دنیا یا جس حالت میں رہتے ہیں، اس کا نام حکمائے دین کے نزدیک عالمِ سفلی ہے اور حقیقی مسرّتوں کا عالم اس سے بالا و برتر ہے، جس کو عالمِ علوی کہا جاتا ہے پس یہی سبب ہے کہ خدائے حکیم نے اپنی بے پایان رحمت و عنایت سے

۱۰۴

عالمِ علوی اور عالمِ سفلی کے درمیان ہمیشہ کے لئے پاک نور کی رسی قائم کر دی ہے تاکہ بندگانِ خدا فرمانبرداری، عبادت اور معرفت کے وسیلے سے اس کمندِ الہٰی سے وابستہ ہوکر عالمِ علوی یا عالمِ بالا پہنچ سکیں۔

 

صراطِ مستقیم کا ممثول:

بیانِ مذکورۂ بالا سے جب ہمیں یہ حقیقت صاف طور پر ظاہر ہوئی کہ صراطِ مستقیم یعنی سیدھا راستہ خدائے واحد کے بعد انبیاء، اولیاء، شہداء اور صلحاء کے علاوہ تمام تابعداروں سے بھی منسوب ہوسکتا ہے، یعنی اُسے مومنین کا راستہ بھی کہا جاسکتا ہے، تو پھر ہم اس کے متعلق یہ اقرار کیوں نہ کریں کہ خدائے علیم و حکیم کی سیدھی راہ اور اس کی مضبوط رسی اپنے وقت میں حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھے، اور آنحضرتؐ کے بعد آپؐ کے وصی حضرت مولانا علی علیہ السّلام تھے، اور ان کے سلسلۂ اولاد کے أئمّہ طاہرین قیامت تک اسی حیثیت سے ہیں، کیونکہ خدا کی سیدھی راہ اور خدا کی مضبوط رسی کا ممثول نورِ نبوّت و امامت ہے، جیسا کہ بزرگانِ دین کی کتب سے ظاہر ہے۔

 

فا النّبی فی عَصرہٖ ھُوا الصّراط المُستقیم وَالوصی بعدہ کذٰلک، ثُمّ ینتظم فی امَامٍ بَعد امامٍ کلّ منھم یسند الیٰ من تقدّمہ وَیشیرا الیٰ من تَا خّر عنہ، فالشی ء متسلسل وحبِّلٌ مّن اللّٰہ مَمدود، احد طرفیُہ بید اللّٰہ تعالیٰ والآخر بایدینا۔

۱۰۵

یقوُل اللّٰہ تعالیٰ، وانَّ ھٰذا صراطیْ مُستقیماٍ فا تَّبعُوہ وَلا تتَّبعُوا السّبیل قتفرَّق بکُم عنْ سَبیلہٖ، فا حقّ من یَّتو جّہ الاشارۃ الیہ فی ھٰذا الباب ھُو امیرُالمُومنین عَلی ابن ابی طالب، وھُو صراط اللّٰہ المُستقیم الّذی یقول بظاھرا لتّنزیل وَینفخ فیہ بالبیَان رُوح التّاویُل نَمن سلکہ اٰمنٔ مِنَ الضّلال والتّضلیل وکانّ نعم القُدوۃ لدار مَعادۃ وَالدّلیل۔

ترجمہ: پس پیغمبر (صلعم) خود ہی اپنے عصر میں “صراطِ مستقیم” ہیں، آپؐ کے بعد وصی ایسے ہی ہیں، پھر ایک امام کے بعد دوسرے امام میں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، اور ان میں سے ہر امام اگلے امام کی تصدیق و تائید کرتا ہے، اور اپنے بعد آنیوالے امام کے متعلق اشارہ کرتا ہے، پس یہ چیز اسی طرح مسلسل ہے، اور وہ رسی جو خدا کی طرف سے ہے بہت لمبی ہے جس کا ایک سِرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا سِرا ہم بندوں کے ہاتھ میں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے “اور یہ کہ یہ میرا راستہ ہے جو کہ سیدھا ہے، پس تم اسی راہ پر چلو، اور دوسری راہوں پر مت چلو، کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی (۰۶: ۱۵۳)” پس اس بارے میں جس شخص کی طرف اشارے کا رخ ہے، وہ زیادہ حقدار شخص علی بن ابی طالبؑ ہی ہیں، اور وہی خدا کا سیدھا راستہ ہیں، جو کہ نہ صرف تنزیل کے ظاہری معنی کے لئے قائم ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس میں اپنے بیان سے تاویل کی روح بھی پھونک دیتے ہیں، پس جو کوئی اس راستے پر چلے تو اسے خود گمراہ ہوجانے اور کسی کے گمراہ کردینے کا کوئی

۱۰۶

ڈر نہیں، اور اس کے آخری گھر (یعنی منزلِ مقصود) تک رہنمائی کے لئے مولانا علیؑ بہترین رہنما و پیشواء ہیں۔ (المجالس المستنصر یہ ص ۱۶۹، ۱۷۰)۔

 

ہم کیسے خدا کو پکڑ لیں:

صراطِ مستقیم اور خدا کی رسی نورِ امامت کی حیثیت و صورت میں ہونے کی ایک اور قرآنی دلیل اس آیۂ کریمہ میں ہے کہ: “وَمَنْ يَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ھُدِيَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ  (۰۳: ۱۰۱)” اور جس شخص نے خدا کو مضبوط پکڑلیا وہ سیدھے راستے لگ گیا، آپ کسی تعصب کے بغیر صاف دلی سے سوچ کر بتائیے کہ کس طریقے سے ہم خدائے بزرگ و برتر کو مضبوطی سے پکڑ سکتے ہیں، کیونکہ اگر یہ امر ممکن ہوتا کہ ہم اللہ کے پاک دامن کو مضبوطی سے پکڑے رہیں تو یہ شروع ہی سے ممکن ہوتا، اور اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے انبیاء علیہم السّلام لوگوں کی رہنمائی کے لئے نہ آتے، آسمانی کتابیں بھی نازل نہ ہوتیں، اور أئمۂّ ہدا علیہم السّلام بھی مقرر نہ ہوتے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے انسانی ہدایت و رہنمائی کے یہ تمام وسائل و ذرائع موجود ہیں، پھر آپ ہی بتائے کہ مذکورہ ارشاد کی حکمت کیا ہے؟ معلوم ہے کہ آپ بھی یہی بتائیں گے کہ خدا کو مضبوطی سے پکڑ لینا یہ ہے کہ ہم خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہیں، اور اللہ کی مضبوط رسی سلسلۂ نبوّت و امامت کا نور ہی ہے، جوازل سے ابد تک قائم و دائم ہے، اور یہی نور خود خدا کا سیدھا راستہ ہے، جیسا کہ مذکورہ آیت کے قریب ہی اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ:

۱۰۷

وَاعْتَصِمُوْا بِحبِّلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا  (۰۳: ۱۰۳) اور تم سب کے سب مل کر خدا کی رسی مضبوطی سے تھامے رہو، اور فرقہ فرقہ نہ ہوجاؤ، تاکہ تمہیں ضلالت و گمراہی کی پستیوں سے رشد و ہدایت کی بلندیوں پر اٹھا لیا جائے۔

 

کیا آپ نظامِ کائنات پر غور و فکر نہیں کرتے کہ سمندر کی رسی یا کہ راستہ دریا ہے، اور سورج کی رسی اور راستہ روشنی ہے، چنانچہ پانی کے قطرے دریا سے وابستہ ہو کر سمندر میں داخل ہوسکتے ہیں، یہ ہوا ان قطروں کا سمندر کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر ہدایت پا جانا، یا کہ سمندر کے مقرر کردہ راستے پر چل کر سمندر سے جا ملنا، اسی طرح انسانوں کی نگاہیں نور کی رسی، روشنی کے راستے اور شعاعوں کے پل سے سورج تک پہنچ سکتی ہیں۔

مذکورہ بالا تفصیلات کا خلاصہ و نتیجہ یہ ہے کہ، ہمیں امامِ حیّ و حاضر کے مقدّس دامن کو مضبوطی سے پکڑنا چاہئے، اور وہ یہ ہے کہ ہم اس کے امروفرمان پر جان و دل سے عمل کریں، تاکہ جس سے ہم امامِ زمانؑ کے نور کی رسی سے وابستہ ہوسکیں، کیونکہ یہی نور اللہ کی وہ رسی ہے جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا سرا ہم بندوں کے ہاتھ میں ہے، جیسے کہ سورج کی روشنی کا ابتدائی سرا خود سورج میں ہے، اور انتہائی سرا زمین کی سطح کو چھوتا ہے، اور دوسری مثال میں امام کا نور خدا کا وہ راستہ ہے کہ جس پر چلنے والوں کو خدا مِل جاتا ہے، اور جن کو خدا مِلتا ہے، ان کو کیا نہیں ملتا!

 

سوال:

قرآنِ مجید میں منزلِ مقصود کی طرف جانے یا اللہ کی نزدیکی و قربت حاصل

۱۰۸

کرنے سے متعلق جتنی مثالیں آئی ہیں وہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں، چنانچہ ایک مثال کا تصوّر یہ ہے جیسے کوئی انسان ایک سیدھے راستے پر خدا کی طرف چل رہا ہو، دوسری مثال یہ تصوّر پیش کرتی ہے، کہ جیسے عرشِ اعلیٰ سے زمین تک ایک رسی قائم ہو، اور بندگانِ خدا اسی کے ذریعہ خدا کے حضور تک پہنچتے ہوں، تیسری مثال سیڑھی کا تصوّر دیتی ہے، جسے عربی میں معراج کہتے ہیں، جیسے قرآنِ حکیم میں ہے کہ فرشتے اور روح پچاس ہزار برس کی مدت میں سیڑھیوں سے چڑھ کر خدا کے پاس جاتے ہیں، اور چوتھی مثال ایک پل کا نقشہ انسانی ذہن کے سامنے لاتی ہے، جسے پلِ صراط کہتے ہیں، تو آپ بتائیے کہ ہم ان مختلف مثالوں میں سے کس کے تصوّر کو قائم کریں۔

 

جواب:

جاننا چاہئے کہ قرآن کی مذکورہ مثالیں اور ان کے علاوہ جتنی بھی مختلف مثالیں ہیں، وہ سب کی سب ایک ہی حقیقت رکھتی ہیں اور وہ حقیقت نور ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَقَدْ صَرَّفْــنَا فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ (۱۸: ۵۴) اور یقیناً ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے ایک مثال پھیر پھیر کر بیان کردی ہے، اس ارشادِ الہٰی کا مطلب صاف ظاہر ہے، کہ روحانی حقیقت کی ہر مثال قرآن میں طرح طرح سے بیان کی گئی ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ ایک حقیقت کو سمجھانے کے لئے کئی مثالوں سے کام لیا گیا ہے، اس کا سبب یہ

۱۰۹

ہے کہ مادّیت محدود ہے، اور روحانیّت یا روحانی حقیقت لا محدود، اس لئے یہ ممکن نہیں کہ ایک مادّی چیز کی مثال کسی روحانی حقیقت کی پوری پوری ترجمانی کرسکے، پس نور کی حقیقت سمجھانےکے لئے جسمانیّت کی بے شمار مثالیں درکار ہیں، کیونکہ قرآن زبانِ حکمت سے کہہ رہا ہے کہ کائنات کے ظاہر و باطن کا سب کام نور ہی کر رہا ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ اگرچہ نور صرف ایک لفظ ہے یا ایک اسم ہے، لیکن یہ اپنی وسعتِ معنوی کے لحاظ سے تمام الفاظ اور سارے اسماء پر محیط و حاوی ہے۔

 

نور کی مختلف مثالیں:

چنانچہ اگر مانا جائے کہ منزلِ مقصود انسانوں سے دور واقع ہے، تو اس صورت میں نور کی مثالیں اس قسم کی ہوں گی، سیدھی راہ، رہنما، ہدایت، روشنی، وغیرہ۔

 

اگر عقیدہ رکھا جائے کہ انسانوں کو ایک انتہائی بلند مقام پر پہنچ جانا ضروری ہے، تو اس حالت میں نور کا تصور ایک ایسی مضبوط رسی کی طرح ہوگا جو عرشِ برین سے فرشِ زمین تک پہنچی ہوئی ہو، یا ایک ایسی سیڑھی کا تصوّر ہوگا جو زمین سے فلک الافلاک کی چھت پر چڑھنے کے لئے قائم کی گئی ہو، یا ایک ایسی مثالی براق کو فرض کرنا ہوگا جو چشمِ زدن میں زمین سے آسمان پر پہنچتا ہو۔

 

اگر کہا جائے، کہ دنیا ایک طوفان خیز سمندر ہے تو اسی نسبت سے ماننا

۱۱۰

پڑے گا کہ سچا مذہب اس طوفان میں سمندری جہاز کی طرح ہے، اور ہادئ برحق اس جہاز کا چلانے والا ہے۔

 

اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ روحانیّت کا ایک روشن عالم موجود ہے، تو یقین کرنا ہوگا کہ نور ہی اس روحانی عالم کے آسمان کا سورج ہے۔

 

اگر یہ مثال مان لی جائے، کہ دنیا کے ایک تاریک گوشے میں آبِ حیات کا سرچشمہ موجود ہے، لیکن خضرؑ کی رہنمائی کے بغیر وہاں تک کوئی شخص نہیں جاسکتا، اور جو شخص آبِ حیات کو حاصل کر کے پی سکے تو وہ کبھی نہیں مرے گا، تو اِس مثال کا ممثول بھی نور کی معرفت ہوگا۔ وہ اس طرح کہ تاریک گوشے سے ایک ایسی ذہنیت مراد ہے جس میں غفلت و جہالت کے سوا کچھ نہ ہو، خضرؑ سے نور کی شخصیت مراد ہے، اور آبِ حیات کے معنی نور کی معرفت ہے، پس جو شخص امامِ زمان (جو نور کی شخصیّت ہیں) کی رہنمائی میں نور کی معرفت حاصل کرسکے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ اس نے خضرؑ کی رہبری میں آبِ حیات پیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لافانی و پائندہ رہا۔

 

خلاصہ یہ ہے، کہ نور کی بے شمار مثالیں ہیں، اور وہ سب اپنی اپنی جگہ پر درست اور صحیح ہیں اور ہمیں ان تمام تصورات پر یقین رکھنا ہے، لیکن ایک ضروری بات یاد رہے، اور وہ یہ ہے کہ ان تمام مثالوں کے باوجود نور کو بے مثال بھی ماننا ہے، ورنہ نور کے متعلق ہمارا نظریہ محدود ہو کر رہ جائے گا۔

۱۱۱

منقبت

(باب الحکمت)

 

مظہرِکرد گار امامِ زمان

رہبرِ کامگارِ امامِ زمان

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے (اسمِ الظاہر ۵۷: ۰۳ کے) مظہر امامِ زمانؑ ہیں، بامقصد اور کامیاب رہنما امامِ زمانؑ ہیں۔

 

وارث و عترتِ نبیؐ و علیؑ

صاحبِّ ذوالفقارامامِ زمانؑ

ترجمہ: حضرت نبی محمد اور حضرت مولانا علی علیہما السّلام کے وارث و جانشین اور اولاد، اور ذولفقار کے مالک امامِ زمانؑ ہیں۔

وضاحت: ذوالفقار مولانا علی علیہ السّلام کی مشہور و معروف تلوار کا نام ہے، لیکن یہاں ذوالفقار سے مراد علم و حکمت کی تلوار ہے، جیسا کہ مثنوی کا قول ہے:

۱۱۲

نکہتا چون تیغِ فولاد است تیز

چون مذاری تو سپر واپس گریز

 

نیز بروشسکی میں ہے:

عقلہ غتنڅ اِریݣ نکن روہ ہغرٹہ سوار نمن

جیہ کھننڎ ایون نین مین بی جا امام جون

(عقل کی تلوار ہاتھ میں لے کر روح کے گھوڑے پر سوار ہو کر نفسِ انسانی کے تمام قلعوں کو مسخر کرکے میرے امام کا ہمثل کون ہے؟)

حضرت مولانا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے ایک پاک فرمان میں بھی ہے کہ امامِ زمانؑ اس دور میں شمشیرِ علم و حکمت سے کام لے رہے ہیں۔

 

قبلۂ دین و کعبۂ ایمان

مقصدِ کردگار امامِ زمان

ترجمہ: دین کا قبلہ اور ایمان کا کعبہ یعنی نورِ الہٰی کا گھر، اور اللہ تعالیٰ کا مقصد و منشاء امامِ زمانؑ ہیں۔

 

معدنِ علم و مخزنِ عرفان

مایۂ افتخار امامِ زمان

ترجمہ: ظاہری اور باطنی علم کی کان، ربّانی معرفت کا خزانہ اور بزرگی و عزّت کا سرمایہ امامِ زمانؑ ہیں۔

۱۱۳

مصحفِ ناطق و کتابِ مبین

ہادئ نامدار امامِ زمان

ترجمہ: بولنے والا قرآن اور بیان کرنے والی آسمانی و الہامی کتاب اور نامور ہادی و پیشوا امامِ زمانؑ ہیں۔

 

دوست دارانِ با حقیقت را

مونس و غمگسار امامِ زمان

ترجمہ: با خبر اور حقیقت شناس دوست داروں کے واسطے، راحت رسان اور غمخوار امامِ زمانؑ ہیں۔

 

نورِ خلاقِ کائنات بوَد

دائماً آشکار امامِ زمانؑ

ترجمہ: کائنات بنانے والے کا نور ہیں، ہمیشہ ظاہر اور آشکار ہو کر امامِ زمانؑ۔

 

زمرۂ مومنانِ عالم را

ذکرِ لیل و نہار امامِ زمانؑ

ترجمہ: اس دنیا کے گروہِ مومنین کے لئے، امامِ زمانؑ شب و روز کا ذکرِ الہٰی ہیں۔

وضاحت: (ا) جیسا کہ بیت نمبر۱ سے یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ امامِ زمانؑ، خدا کے اس اسم کے مظہر ہیں، جس کو “اَلظَّاھِر” کہا جاتا ہے، پس اگر کوئی بندۂ مومن شب و روز یا ظاہر، یا ظاہر، یاظاہر، یا ظاہر، یا ظاہر کا ذکر کرتا رہتا ہے تو آپ ہی بتائیے کہ وہ کس کے وسیلے سے کس کو یاد

۱۱۴

کرتا ہے؟ امامِ زمانؑ کے وسیلے سے خدا کو یاد کرتا ہے، اگر اس بات میں آپ کو شک ہے تو وسیلہ کی تحقیق کے لئے قرآنِ حکیم کی آیت (۰۵: ۲۵) اور (۱۷: ۵۷) میں دیکھئے، پھر آپ خود یہ فیصلہ دیجئے کہ خدا، اور بندے کے درمیان اگر کوئی وسیلہ ڈھونڈا جاسکتا ہے تو یہ وسیلہ کن کن باتوں میں جائز اور کن کن امور میں ناجائز ہوتا ہے۔

(ب) قرآن و سنت دونوں گواہ ہیں، اور مختلف روایات کی تفصیل سے ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ اور آنحضرتؐ کے درمیان کئی وسائل تھے، مثلاً اخلاقِ حسنہ اور عبادت، جس نے حضورؐ کو مقامِ وحی کے قریب لایا، پھر الفاظِ وحی، جو کہ آنحضرتؐ اور جبرئیل کے درمیان وسیلہ تھے، یا خود جبرائیل، میکائیل، اسرافیلؑ، لوح اور قلم، پھر واقعۂ معراج کے متعلق روایت ہے کہ حضورؐ براق پر سوار ہو کر خدا کے انتہائی قریب گئے، پھر حجاب کے پیچھے سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے بطورِ وحی آنحضرتؐ سے کلام کیا۔ اب اس مقامِ “اَوْاَدْنیٰ” پر بھی ہم کو وسیلہ ہی نظر آتا ہے، چنانچہ اگر مان لیا جائے کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کا کلام ایسا ہی تھا جیسے قرآن میں ہے، تو اس سے ثابت ہوگا کہ خدا اور پیغمبر کے درمیان اس وقت حروف وسیلہ تھے یا آواز کو لیجئے، اور کہتے ہیں کہ شبِ معراج میں حضورِ اکرمؐ جو خدا کی پاک آواز سن رہے تھے، وہ حضرت امیر المومنین علیؑ کی آواز سے مشابہ تھی، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدائے لا شریک اور اس کے محبِّوب کے درمیان ایک تیسری شخصیّت کا تصوّر اور وسیلہ کیوں ضروری ہوا؟

۱۱۵


(ج) قرآنِ حکیم کی آیت (۰۳: ۳۱) میں جو ارشاد ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص خدا سے محبِّت رکھنے کا دعویدار ہو، اسے آنحضرتؐ کی تابعداری کرنی چاہئے، تاکہ خدا فی الواقع ایسے شخص سے محبِّت رکھے، اور اس کے گناہ معاف کردے، اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی محبِّت کا وسیلہ بس یہی ہے کہ رسول کی تابعداری کیجائے، اور حضورؐ سے محبِّت ہو، جب خدا کی فرمانبرداری، محبِّت اور مغفرت براہِ راست ممکن نہیں تو لازماً دوسرے تمام امور کے لئے بھی خدا اور بندے کے درمیان وسیلہ ہونا چاہئے۔

 

خانۂ حکمت محمد را

باب عالی وقار امامِ زمان

ترجمہ: حضرت محمد کے خانۂ حکمت کے واسطے، عالی قدر دروازہ امامِ زمانؑ ہیں۔

 

عاشقانِ جمالِ معنی را

دلبرِ گلغدار امامِ زمان

ترجمہ: باطنی حسن و جمال کے عاشقوں کے لئے، یکتا حسین و جمیل معشوق امامِ زمانؑ ہیں۔

 

در ظہوراتِ نورمی بینم

واحد و صد ہزار امامِ زمان

ترجمہ: میں نور کی تجلیوں اور جلوہ نمائیوں میں مشاہدہ کر رہا ہوں کہ امامِ زمانؑ ایک بھی ہیں، اور لاکھ بھی۔

وضاحت: (ا) امامؑ دراصل نور کا نام ہے، اور نورِ کامل ہمیشہ

۱۱۶

کے لئے ایک ہوتا ہے، یہی ایک نور ہے جس نے تمام پیغمبروں اور اماموں کے جسمانی لباس میں ملبوس ہوکر دنیا والوں کی ہدایت و رہنمائی کی، اور اس نور کے جسمانی ظہورات یہ ہوئے اور اسی معنی میں وہ ایک بھی ہوا اور لاکھ بھی ہوا۔

(ب) دینی اور دنیاوی طور پر اس عظیم دور میں جو واقعات ہوگزرے ہیں، اور جوواقعات مستقبل میں آنیوالے ہیں، ان سب کے زندہ اور لطیف نمونے روحانی مشاہدات و تجربات میں پیش آتے ہیں، پھر یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ نور ایک مردِ صوفی کے عالمِ تصوّر میں تجلیاتی طور پر ایک بھی ہواور لاکھ بھی۔

(ج) ہم عالمِ روحانیّت کی مثال اس مادّی دنیا سے لے سکتے ہیں، چنانچہ عالمِ ظاہر کا نور ایک ہے، لیکن یہ ایک لاکھ بھی بن سکتا ہے، وہ اس طرح کہ آپ ایک لاکھ آئینے سورج کی طرف رخ کراکے رکھ دیجئے، ان میں ایک لاکھ سورج نظر آئیں گے، لیکن پھر بھی سورج اپنی اصلیت میں ایک ہی رہے گا، برشسکی قول ہے:

تھہ لکن شیل دیودنڎِرݳ سہ اُیونُلو بیہ بے؟

عالمݣ سݣ نہ ہمیش نورہ اکھیݽ سان ئیڎم

(ترجمہ: ایک کروڑ سنگ بِلور پھیلا کر دیکھو کیا سورج ان سب میں ہے یا نہیں؟۔ میں نے ایک عجیب و غریب نورانی سورج دیکھا جو ساری دنیاؤں کو منور کررہا ہے)۔

۱۱۷

من چو بلبل زجان و دل شیدا

گلشنِ خود بہار امامِ زمان

ترجمہ: میں بلبل کی طرح حقیقی پھولوں پر جان و دل سے عاشق ہوں، اور امامِ زمانؑ ایسے پھولوں کا سدا بہار گلشن ہیں۔

 

ازچہ تر سیم تا ابد بودہ

شہر مارا حِصار امامِ زمان

ترجمہ: ہمیں کِس چیز کا ڈر ہے! کیونکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہمارے دینی شہر کی فصیل اور شہر پناہ امامِ زمانؑ ہیں۔

 

من گدائی کریم دور انم

شاہِ عالی تبار امامِؑ زمانؑ

ترجمہ: میں ( یعنی نصیرؔ) زمانے کے کریم یعنی سخی کا گدا ہو ں اور امامِ زمانؑ ہمارے عالی نسب بادشاہ ہیں۔۱؎

۱؎۔ یہ منقبت اور ایک دوسری نظم جس میں مولانا حاضر امام کی تشریف آوری کی تعریف و توصیف ہے، احمد آباد جماعت خانہ کے کمپاونڈ گیٹ کی دونوں جانب کے کتبوں کے لئے تیار کی گئی تھیں، گیٹ کا نام “باب الحکمت” یعنی حکمت کا دروازہ رکھا گیا تھا، اس مناسبت سے کہ نورِ علیٔ زمان آنحضرت کے خانۂ حکمت کا گیٹ ہے۔

۱۱۸

اصول و فروعِ دین

 

حق تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں عالمِ دین اور اس کی حقیقتوں کی مثالیں اس ظاہری دنیا کی چیزوں سے دی ہیں، مگر چونکہ دین کی حقیقتیں نہایت ہی وسیع اور مادی چیزیں بہت ہی محدود ہوا کرتی ہیں، اس لئے یہ امر ضروری تھا کہ دین کی کسی حقیقت کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لئے ایک نہیں بلکہ بہت سی ایسی مادّی مثالیں دی جائیں کہ جن کی مشابہت و مطابقت کی مدد سے انسان اس حقیقت کو بخوبی سمجھ سکے۔

 

درختِ دین:

چنانچہ قرآنِ مجید میں دینِ حق کی ایک مثال ایک ایسے سدا بہار اور پاک درخت سے دی گئی ہے کہ جس کی جڑیں زمین میں ہمیشہ کے لئے مضبوط و مستحکم اور شاخیں آسمان میں جا لگی ہوں، جو اپنے پروردگار کے اذن سے ہر وقت اور ہر موسم میں پھل دیتا رہتا ہو،  جو اس طرح ہر وقت فائدہ پہنچانے کے اعتبار سے ایک ایسے معجزانہ کلمے کی مانند ہوکہ اس کلمے سے ہمیشہ علم و

۱۱۹

حکمت کے سرچشمے جاری و ساری ہوں، دین کے پاک درخت کی وہ قرآنی مثال درج ذیل ہے:

اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُهَا فِي السَّمَاۗءِ تُؤْتِيْٓ اُكُلَهَا كُلَّ حِيْنٍۢ بِاِذْنِ رَبِّهَا  ۭ وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ (۱۴: ۲۴ تا ۲۵)

(اے رسول!) کیا آپؐ نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاک کلمے کی مثال کیسے دی ہے، کہ وہ ایک پاک درخت کے مانند ہے، اس کی جڑ مضبوط ہے، اور اس کی شاخ آسمان میں پہنچی ہے، وہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

 

جب معلوم ہوا کہ دینِ حق کی مثالوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دین گویا ایک سدا بہار اور ہمیشہ ہمیشہ پھل دینے والا پاک درخت ہے، تو تمام دین داروں کے لئے یہ امر ضروری و لازمی ہوا کہ وہ اپنے درختِ دین کی جڑوں اور شاخوں کی کیفیت و حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا کریں، تاکہ ان پر اس کی تمام خوبیاں ظاہر ہونے کے سبب سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جاسکے۔

 

اصولِ دین:

“اصل” درخت کی جڑ کو کہتے ہیں، اور اصل کی جمع “اصول” ہے، جس

۱۲۰

کے معنی ہوئے جڑیں، چنانچہ اصولِ دین چار ہیں:

۱۔ عقلِ کل۔

۲۔نفسِ کل۔

۳۔ناطقؐ۔

۴۔اساسؑ۔

ان میں سے پہلی دو اصلیں روحانی ہیں اور دوسری دو اصلیں جسمانی۔

 

پہلی اصل =عقلِ کلّ:

عقلِ کلّ علمِ الہٰی کا انتہائی عظیم فرشتہ اور عقولِ جزوی کا سرچشمہ ہے، اس عالیشان فرشتے کے اور بھی بہت سے نام ہیں، جیسے عرشِ الہٰی، آدمِ اوّل، قلمِ قدرت، نورِ محمدیؐ یا کہ نورِ نبوّت وغیرہ، اور ان تمام ناموں کی حقیقت ایک ہے، چنانچہ ان مشہور احادیث کی شہادت سےاس بات کی تصدیق و توثیق ہوجاتی ہے کہ:  اَوَّلَ مَاخَلَقَ اللّٰہ الْعَقل، یعنی سب سے پہلی چیز جو اللہ نے پیدا کی وہ عقل ہے۔اَوَّلَ مَاخَلَقَ اللّٰہ نُوْرِیْ، سب سے پہلی چیز جو اللہ نے پیدا کی وہ میرا نور ہے۔ اَوَّلَ مَاخَلَقَ اللّٰہ الْقَلَم، سب سے پہلی چیز جو اللہ نے پیدا کی وہ قلم ہے۔

 

یہاں پہلی حدیث میں ہے، کہ خلقت کے لحاظ سے عقل پہلی چیز ہے، دوسری میں ہے، کہ نورِ محمدیؐ سب سے پہلے پیدا ہوا، اور تیسری میں ہے کہ ہر چیز سے قبل قلم وجود میں آیا، اگر یہاں یہ سمجھا جائے کہ ان حدیثوں میں تین الگ الگ چیزوں کے سب سے پہلے پیدا کئے جانے کا

۱۲۱

ذکر ہے، تو ان میں سے کسی کی بھی اوّلیّت ثابت نہ ہوسکے گی، کیونکہ اس صورت میں یہ حدیثیں ایک دوسرے کی تردید و نفی کرتی ہیں، پس سوائے اس کے کوئی اور نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ عقلِ کلّ، نورِ محمدیؐ اور قلمِ الہٰی جیسے ناموں کی حقیقت ایک ہی ہے۔

 

دوسری اصل = نفسِ کلّ:

نفسِ کلّ دوسرے درجے کا وہ عظیم فرشتہ ہے، جسے ہم مثال کے طور پر نفوسِ خلائق کا سب سے بڑا سمندر کہہ سکتے ہیں، اور اس مقام پر یہ بات بھی خوب یاد رہے کہ جہاں عقلِ کلّ کو عرش کہا جائے وہاں نفسِ کلّ کرسی کہلائے گا، جب عقل کو آدم کا نام دیا جائے تو تب نفس حوّا کے اسم سے موسوم ہوگا، اگر اُسے قلم کی مثال دی گئی تو اس کو لوح سے تشبیہہ دینی پڑے گی، اور ہاں اگر عقلِ کلّ نورِ محمدیؐ کا نام ہے تو نفسِ کلّ نورِ علیؑ کو کہتے ہیں، جیسا کہ رسولِ اکرمؐ کا ارشاد ہے:

اَنَا وَاَنْتَ یَا عَلِیُّ اَبُوا الْمُؤمِنِیْنَ  اے علی! میں اور آپ تمام مومنین کے (روحانی) ماں باپ ہیں۔

جاننا چاہئے، کہ مومنین کے یہ روحانی ماں باپ ازل سے موجود ہیں، کیونکہ یہ حقیقت سب کے نزدیک مسلّمہ ہے، کہ جملہ ارواح ازل میں پیدا ہوئی تھی، پس لازم آتا ہے، کہ روحوں کے ماں باپ پہلے سے موجود ہوں۔

۱۲۲

نیز جاننا چاہئے کہ مذکورہ حدیث میں جن مومنین کا ذکر آیا ہے وہ تمام انبیاء،  أئمّۂ طاہرین اور ہر زمانے کے تابعدار بندے ہیں، چنانچہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ “اَنَا مِنَ اللّٰہِ وَالْمُؤُمِنُوْنَ مِنِّیْ۔ یعنی میں خدا سے ہوں، اور جملہ مومنین مجھ سے ہیں۔” اس کا صاف و صریح مطلب یہ ہے، کہ یہ مومنین نہ صرف امتِ مسلّمہ میں سے ہیں، بلکہ یہ دوسرے تمام پیغمبروں کی امتوں میں سے بھی ہیں، کیونکہ مذکورۂ بالا حدیث کی روشنی میں یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ ابتداء میں خدا کے نور سے بعنوانِ عقلِ کلّ و نفسِ کلّ محمدؐ و علیؑ کا نورانی ظہور ہوا، اور ان دونوں حضرات کے نور سے سارے ابنیاء، أئمّہ اور ہر امت کے مومنین کی ارواح پیدا ہوئیں۔

 

تیسری اصل = ناطق:

ناطق کے لغوی معنی بولنے والا ہیں، اور اصطلاح میں اِس سے ایسا پیغمبرؐ مراد ہے، جو صاحبِّ کتاب و شریعت ہونے کی حیثیت سے لوگوں کو اپنے دین کی طرف دعوت کرے، اور ایسے ناطق پورے دور میں چھ ۶ آئے ہیں، یعنی حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد علیہم السّلام اور آخری ناطق آنحضرتؐ ہیں۔

۱۲۳

چوتھی اصل = اساس:

اساس کے لفظی معنی بنیاد کے ہیں، اور اصطلاحاً اس سے وہ امام مراد ہے جو ناطق کے ساتھ بحیثیت وزیر کے رہتا ہے، جس کو ناطق اپنے بعد وصی اور جانشین مقرر کرتا ہے، اساس ناطق کے دور میں آنے والے تمام اماموں کے لئے بنیاد کا درجہ رکھتا ہے، ایسے اساس بھی ناطقوں کے برابر چھ ہوئے ہیں، یعنی مولانا شیث، مولانا سام، مولانا اسماعیل، مولانا ہارون، مولانا شمعون اور مولانا مرتضیٰ علی علیہم السّلام، اور آخری اساس مولانا مرتضیٰ علی علیہ السّلام ہیں۔

 

واضح ہو کہ جس طرح ہر ناطق اپنے تابعداروں کو آسمانی کتاب کے ظاہری علوم کی تعلیمات دیتا ہے اس طرح اس کا اساس اپنے پیروؤں کو اسی آسمانی کتاب کے باطنی علوم سے واقف و آگاہ کردیتا ہے، چنانچہ آخری دور کے ناطق یعنی حضرت محمدؐ نے اپنے وقت کے لوگوں کو قرآن کی تنزیل سے روشناس کردیا، اور مولانا علیؑ نے اپنے عصر کے مومنین کو قرآن کی تاویل سے فیضیاب فرمایا، یعنی انہوں نے اپنے سلسلۂ اولاد کے توسط سے ہر زمانے کے مومنین پر تاویل و حکمت کے دروازے کھول دیئے۔

 

فروعِ دین:

“فرع” درخت کی شاخ کو کہتے ہیں،اور فرع کی جمع “فروع” ہے، جس سے درختِ دین کی شاخیں مراد ہیں، چنانچہ فروعِ دین چھ ہیں: جد، فتح، خیال، امام، حجت اور داعی۔ ان میں پہلی تین فرعیں روحانی اور دوسری تین فرعیں جسمانی ہیں۔

۱۲۴

پہلی فرع =جد:

جدّ حضرت اسرافیل علیہ السّلام کا نام ہے، یہ فرشتہ صاحبِّ صور کہلاتا ہے، یعنی نرسنگھا پھونکنے والا، چونکہ تمام تر ترجموں میں صور کے لئے “نرسنگھا” لکھا گیا ہے، لہٰذا میں نے بھی ایسا ہی لکھ دیا، ورنہ صورِ اسرافیل کے لئے یہ لفظ مناسب اور موزون نہیں، کیونکہ نرسنگھا دنیا کے سب باجوں اور سازوں سے نچلے درجے پر ہے، اور صورِ اسرافیل روحانیّت کے اسرارِ عظیم کے سلسلے میں ایک ایسا معجزانہ ساز ہے جو یقیناً ساکنانِ آسمان و زمین کو آن واحد میں مست و مدہوش کردیتا ہے، تمام خلائق کی روحوں کو اپنی طرف مرکوز کرلیتا ہے، اور کشتگانِ عشقِ الہٰی کے لئے ابدی طور پر حیاتِ نو کا پیغام لاتا ہے۔

 

جدّ روحانی فروع میں سب سے اونچی فرع ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: “وَّاَنَّهٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحبِّةً وَّلَا وَلَدًا  ۷۲: ۰۳) اور یہ کہ ہمارے پروردگار کی شان (یعنی جدّ) بہت بلند ہے، اس نے نہ کسی کو بیوی بنایا اور نہ اولاد۔” یہاں جدّ، جس کا لفظی ترجمہ “شان” بھی ہوسکتا ہے، اسرافیل کے بارے میں آیا ہے۱، اور اس میں تعجب کی کیا بات ہے، کہ خدا

 

۱؎: وجہِ دین حصّہ دوم ص ۲۸ پر یہ عبارت درج ہے: “و تعالی جدک، کہتا ہے کہ برتر ہے تیرا جدّ (فرشتہ) کہ اس کے مقام تک ناطقوں کے سوا اور کوئی شخص پہنچ نہیں سکتا۔” نیز “اعلامِ اسماعیلیہ” کے صفحہ ۴۲ پر ہے کہ “جد” کا یہ نام مذکورہ آیت سے لیا گیا ہے۔

۱۲۵

کی شان ایک فرشتہ ہو، جب کہ خدا کا تخت (عرش) کرسی، قلم، لوح وغیرہ زندہ موجودات ہیں۔

 

دوسری فرع = فتح:

فتح حضرت میکائیل علیہ السّلام کا دوسرا نام ہے، فتح کے معنی کھولنے کے ہیں، جس سے علم و حکمت اور تاویل کی کشائش مراد ہے، اور یہ تمام باتیں میکائیل سے متعلق ہیں، اسی وجہ سے اس کو فتح کہتے ہیں، قرآنِ حکیم کے ارشادات کا یہ اشارہ ہے کہ فرشتوں کی ہستی پر اقرار کرکے ان کی حقیقت کو سمجھ لیا جائے ان کی دوستی سے فائدہ حاصل کیا جائے، چنانچہ اس آیۂ کریمہ میں کافروں کی مذمت کی گئی ہے کہ وہ خدا، انبیاء، ملائکہ، جبرائیل اور میکائیل سے بغض و عداوت رکھتے ہیں، وہ ارشاد یہ ہے:

“مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَرُسُلِهٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ (۰۲: ۹۸) جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو تو بیشک اللہ (بھی ان) کافروں کا دشمن ہے۔” سوال ہے کہ کس طرح کوئی شخص خدا اور اس کے فرشتوں کا دشمن ہوسکتا ہے؟ یہ تو قطعاً ناممکن بات ہے۔ ہاں یہ بات بالکل صحیح ہے کہ، خلیفۂ خدا یعنی امامِ زمانؑ سے دشمنی رکھنا خدا سے دشمنی رکھنا ہے، اور اس کے مقرر کردہ حجت (پیر) داعی وغیرہ سے دشمنی فرشتوں سے دشمنی ہے، جس کا نتیجہ علمِ حقیقت سے محرومی ہے۔

۱۲۶

تیسری فرع = خیال:

خیال حضرت جبرائیل علیہ السّلام کا نام ہے، جو امورِ وحی کا ابتدائی فرشتہ ہے، جیسا کہ آنحضرتؐ کے اس ارشادِ گرامی سے ظاہر ہے کہ: “بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اللّٰہِ خَمْسَ وَسَائِطْ: جبرائیل و میکائیل و اسرافیل و اللوح و القلم  = میرے اور خدا کے درمیان پانچ واسطے ہیں:  جبرائیل ، میکائیل، اسرافیل، لوح (نفسِ کلّ) اور قلم (عقلِ کلّ)۔

 

چوتھی فرع = امام:

امام حاضر و موجود جسمانی فروع میں سب سے بالا و برتر فرع ہیں، اور امامِ عالیمقامؑ کی برتری و بالادستی کے یہ معنی ہیں کہ وہ اپنے مرتبۂ امامت میں روحانیّت کے آسمان تک پہنچے ہوئے ہیں، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: “اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُهَا فِي السَّمَاۗءِ ۔ یعنی درختِ دین کی جڑ زمین میں مضبوط و مستحکم ہے، اور اس کی شاخ آسمان میں جا پہنچی ہے۔”

 

اگر چہ درخت کی شاخوں کے میوے بلندی میں پک کر تیار ہوجاتے ہیں، لیکن بالآخر وہ زمین پر آ گرتے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ امامِ زمانؑ کے مراتبِ عالیہ کی بلندی پر علم و حکمت کے جو پھل پائے جاتے ہیں، وہ زمینِ دین پر گرتے رہتے ہیں، اور زمینِ دین مومنین و مستجیبین ہیں۔

 

درخت کا میوہ تین طرح سے حاصل کیا جاتا ہے، وہ یہ کہ درخت خود بخود پھل گرا دیتا ہے، کوئی شخص درخت پر چڑھ جاتا ہے، اور پتھر

۱۲۷

لاٹھی وغیرہ مار کر گرایا جاتا ہے، اسی طرح درختِ دین کے پھل بھی تین طریقوں سے حاصل ہوسکتے ہیں، کہ امامِ زمانؑ خود بخود اپنے مریدوں کی ہدایت فرماتے ہیں، مومنین میں سے کوئی عبادت و اطاعت کے وسیلہ سے روحانیّت حاصل کرکے درختِ دین پر چڑھ جاتا ہے، اور ظاہری طور پر امامؑ سے ضروری مسائل پوچھے جاتے ہیں۔ چنانچہ پیر ناصر خسرو ق س فرماتے ہیں:

دانش ثمر درختِ دین است

برشو بدرختِ مصطفائی

ترجمہ:علم و حکمت اور عقل و دانش دینی درخت کا پھل ہے، تم اسے حاصل کرنے کے لئے حضرت محمد مصطفےٰؐ کے درخت پر چڑھ جاؤ۔

 

تا میوہ جانفزائی یابی

در سایۂ برگِ مرتضائی

ترجمہ: تا کہ تمہیں روح بڑھانے والا پھل حاصل ہو (جسے تم) مرتضیٰ علیؑ کی شاخوں کے پتوں کے سائے میں دکھاؤ گے۔

 

چیز عجبی نشانت دادم

زیرا کہ تو آشنائی مائی

ترجمہ: میں نے تمہیں ایک عجیب و غریب چیز کی نشاندہی کی، کیونکہ تم ہمارے دوست ہو۔

 

زان میوہ قوی شوی و باقی

گربررہ جتن بقائی

۱۲۸

ترجمہ:اس (درختِ حیات کے) پھل سے تم روحانی طور پر طاقت ور اور زندہ ہوجاؤگے، اگر تم دائمی بقاء و حیات کی جستجو کرتے ہو۔

 

درخت کی جڑیں اپنی تمام قوّتیں شاخوں کی طرف بھیجتی رہتی ہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطقؐ اور اساسؑ (جو درختِ دین کی جڑیں ہیں) ہمیشہ اپنے انوارِ امامِ زمانؑ کی طرف بھیجتے رہتے ہیں۔

 

پھل اگرچہ بظاہر درخت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے، لیکن بحقیقت پھل میں درخت اپنے تمام اجزاء کے ساتھ سمایا ہوا ہے، یہ بات اوّل تو اس اعتبار سے درست ہے کہ پھل میں پورے درخت کا خلاصہ اور جوہر موجود ہوتا ہے، نیز پھل درخت کے تمام افعال کا نتیجہ و ماحصل ہوتا ہے، دوم اس اعتبار سے کہ پھل کے دانہ (گٹھلی) میں درخت بحدِّ قوّت موجود ہے، چنانچہ اگر گٹھلی کو زمین میں بودیا جائے تو اس سے وہی درخت پیدا ہوکر حدِّ فعل میں آجاتا ہے، اس کی تاویل یہ ہے کہ امامِ زمانؑ کا نور درختِ دین کی جڑوں اور شاخوں کا ماحصل اور نتیجہ ہیں، پس اگر کوئی حقیقی مومن اپنے دل کی زمین میں امامِ زمانؑ کی محبِّت و فرمانبرداری کے بیج کو جیسا کہ چاہئے بوکر پرورش کرے، تو یقیناً روحانی کیفیت میں اس کے دل سے پھر یہی پاک درخت بلند ہوکر ہمیشہ کے لئے علمِ و حکمت کا پھل دینے لگتا ہے، جس کے بارے میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ(۳۶: ۱۲)۔ اور ہم نے تمام

۱۲۹

چیزوں (کے علم و حکمت) کو امامِ ناطق (کے نور) میں گھیر کر رکھا ہے۔” مطلب یہ کہ امامِ حاضرؑ کی پاک محبِّت اور تابعداری کے نتیجے پر یہ سب کچھ چشمِ باطن سے دیکھا جاتا ہے، اور اسی معنی میں مولوی معنوی اپنی مثنوی میں فرماتے ہیں:

عقلِ کلّ و نفسِ کلّ مردِ خداست

عرش و کرسی رامدان کزوی جداست

یعنی انسانِ کامل ہی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ہے، تم ایسا نہ سمجھنا کہ عرش و کرسی اس انسانِ کامل سے جدا کہیں اور جگہ ہے۔

 

پانچویں فرع = حجت:

لفظِ حجت کے کئی معنی ہیں، مگر یہاں حجت سے جو معنی ہیں، وہ اس آیۂ مقدسہ سے ظاہر ہیں:

لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللّٰهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا (۰۴: ۱۶۵) تاکہ رسولوں کے (آنے کے) بعد اللہ تعالیٰ پر لوگوں کی کوئی حجت نہ رہ جائے، اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔” اس آیتِ کریمہ کا مطلب یہ ہے، کہ اگر اللہ تعالیٰ پورے دور کے لوگوں کے لئے پیغمبروں کے ذریعہ سے ہدایت کا کوئی مستقل نظام مقرر نہ فرماتا، تو خدائے تعالیٰ پر لوگوں کی حجت ہوتی، یعنی (نعوذ باللہ) لوگ دلیل میں خدا پر غالب آتے، کیونکہ حجت کا مطلب ہے دلیل میں غالب

۱۳۰

آنا، یعنی قیامت کے روز جب خدا بندوں سے پوچھے گا، کہ تم نے دنیا میں کیوں میری مرضی کے مطابق عمل نہیں کیا؟ تو لوگ یہ دلیل پیش کریں گے کہ پروردگار! آپ کی جانب سے کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو ہمیں آپ کی مرضی سمجھنے کی ہدایت دے سکے، تو یہ ہوئی خدا پر لوگوں کی حجت یا کہ دلیل میں خدا پر لوگوں کا غالب آنا، مگر مذکورہ ارشاد سے صاف ظاہر ہے، کہ اللہ پر لوگوں کی کوئی حجت نہیں، بلکہ لوگوں پر خدا کی حجت ہے، اور وہ حجت یہ ہے کہ اس نے پیغمبر بھیجے ہیں، پس اسی معنی میں انبیاء علیہم السّلام لوگوں پر خدا کی حجتیں ٹھہرے۔

 

چنانچہ اس دور میں لوگوں پر خدا کی حجت حضرت محمد مصطفےٰ صلعم ہیں، آنحضرتؐ کی حجت اساسؑ ہیں، یعنی مولانا علیؑ، اساسؑ کی حجت زمانے کا امامؑ ہے، اور امامؑ کی حجت وہ بزرگ ہے جسے صاحبِّ جزیرہ یا پیر کہا جاتا ہے، اور اسماعیلی عقائد میں حجت کا یہ لقب اسی درجے کیلئے زیادہ مستعمل ہے۔

 

چھٹی فرع = داعی:

داعی کے معنی ہیں دعوت کرنے والا، چنانچہ مرکزِ دعوت کی طرف سے جو شخص امرِ دعوت کے لئے مامور ہوجائے وہ داعی کہلاتا ہے، اور داعی حجت کے تحت ہوتا ہے، دعوت کے متعلق قرآن میں بہت سی آیات موجود ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے:

اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ

۱۳۱

جَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ (۱۶: ۱۲۵) (اے رسول!) آپ اپنے پروردگار کے راستہ کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحتوں کے ساتھ بلالیجئے، اور اس طریقے سے بحث کیجئے جو بہت ہی اچھا ہے۔

اس ارشادِ الہٰی سے ظاہر ہے کہ دینِ حق کی طرف دعوت کرنے کی بڑی شرط حکمت ہے، اور حکمت صرف پیغمبرؐ اور امامؑ ہی کے ذریعے سے کسی کوملِ سکتی ہے، پس اسی وسیلے سے حکمت حجت کو مِل سکتی ہے، اور حجت سے داعی کو حاصل ہوسکتی ہے۔

والسّلام

۱۳۲

امام کے معجزانہ نشانات

 

شہ کریم نورِ حق امامِ زمان

رہبرِ کا ملانِ کون و مکان

سِبطِ ختم رسلؐ وہ آلِ علیؑ

نائبِ مرتضیٰ ولئ زمان

حیّ و حاضر ہے اِس جہان میں مدام

چونکہ ہے عقلِ عقل و مایۂ جان

فائض النّوردونوں عالم کا

مثلِ خورشید ہے عیان و نہان

مجھ سے گر پوچھے کوئی اس کا نِشان

بے مثل ہے کہ ہے خدا کا نِشان

بے نِشان بھی ہے با نِشان بھی ہے

مظہرِ حق کی ذاتِ عالی شان

اِک نِشان یہ کہ ہے وہ آلِ نبیؐ

ہادئ دین قسیمِ نارو جنان

۱۳۳

اِک نِشان یہ کہ حیّ و قائم ہے

از ازل تا ابد شہِ دوران

حسنِ سیرت ہے اِک نِشان اس کا

جس کا ثانی نہیں چہ انس وچہ جان

اِک نِشان یہ کہ جہد کرتا ہے

تاکہ ہو اِس جہاں میں صلح و امان

کشفِ باطن ہے اِک نِشان اس کا

تاکہ ظاہر ہو ہم پہ گنجِ نہان

اِک نِشان یہ ہے کہ وہ دنیا میں

مثلِ کشتیٔ نوح و کشتی بان

بے نیازی ہے اِک نِشان اس کا

کہ نہیں مدعی چنین و چنان

اِس کے صدہا نِشان ہیں ایسے

جن کا مجھ سے نہ ہوسکا ہے بیان

حقِ توصیفِ شہ ادا نہ ہوا

معترف ہے نصیرؔ بے سامان

۱۳۴

توضیحِ الفاظ

شہ =مخفف ہے شاہ کا۔

سبطِ =بیٹے کی یا بیٹی کی اولاد۔

عقلِ عقل=عقل کی عقل، یعنی عقلِ کلّ

مایۂ جان =روح کا سرمایہ، یعنی نفسِ کلّ

فائض النور=روشنی بخشنے والا۔

عیان و نہان = ظاہر و باطن۔

قسیم =تقسیم کرنے والا۔

نار و جنان=دوزخ اور بہشت۔

چہ انس و چہ جان =کیا انسان اور کیا جنّات۔

کشفِ باطن =پوشیدہ حقیقتوں کا انکشاف کرنا۔

گنج نہان =چھپا ہوا خزانہ، یہ اشارہ حدیثِ قدسی: کُنْتُ کَنْزاً کی طرف ہے۔

کشتی بان =کشتی چلانے والا۔

امام کا ایک نشانِ بے نیازی ہے، یعنی اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ میں ہی امام ہوں، تو حقیقی امامؑ اس کے خلاف مقدمہ بازی نہیں کرتے، دیکھئے “وجہِ دین” حصّہ دوم ص ۱۴۲۔

صدہا = سینکڑوں۔

معترف = اعتراف کرنیوالا، یعنی قائل۔

۱۳۵

آیاتِ دعا کے بنیادی حقائق

 

حضور مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہٗ کے ارشاداتِ گرامی میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ ہم اسماعیلی اپنی مروجہ دعا کے معانی و مطالب اور بنیادی حقائق کو بخوبی سمجھ لیا کریں، کیونکہ اس مبارک و مقدّس دعا کے الفاظ، اسماء، کلمات اور آیات نہ صرف حقیقی عبادت کے لحاظ سے پُرمغز اور پُرحکمت ہیں، بلکہ یہ اسماعیلی عقیدہ اور نظریہ کے اعتبار سے بھی بنیادی اہمیت کے حامل ہیں، چنانچہ ہم دعا کے اُن اجزاء کی کچھ اساسی حقیقتیں بیان کرتے ہیں، جو آیاتِ قرآن کی صورت میں ہیں۔

 

حصّۂ اوّل

 

سورۂ فاتحہ

سورۂ فاتحہ  مکہ میں نازل ہوئی اور بعض روایتوں کے مطابق مدینہ میں بھی نازل ہوئی، اسی وجہ سے اس کو سبع المثانی کہتے ہیں، چنانچہ سبع کے معنی ہیں سات اور مثانی کے معنی ہیں دہرائی ہوئی، جس سے یہی سورۂ فاتحہ مراد ہے، کہ اس کی سات آیتیں ہیں، اور یہ دو دفعہ نازل ہوئی ہے، مکہ میں بھی اور مدینہ میں بھی۔

۱۳۶

اس سورت کے بہت سے نام ہیں، جیسے سورۃ الحمد، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی گئی ہے، سورۃ الفاتحہ، کیونکہ اسی سے قرآن شریف کا آغاز ہوتا ہے، اساس القرآن، کہ یہی کتابِ الہٰی کی بنیاد ہے، سورۂ شفاء، اس کی تاثیر سے روحانی اور جسمانی شفاء حاصل ہوتی ہے، سورۃ الکنز، چونکہ یہی سورۃ قرآنِ پاک کے سارے علوم کا خزانہ ہے، اور امُ الکتاب یا امُ القرآن، چونکہ قرآن شریف کے تمام مضامین اجمالی طور پر اس میں سمودیئے گئے ہیں، سورۃ فاتحہ کے نام ان کے علاوہ اور بھی ہیں، جن سے اس سورت کی عظمت و فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔

 

سورۂ فاتحہ میں خداوندِ عالم نے اپنے بندوں کو بطریقِ جامع ضروری امور کی تعلیم دی ہے، بالفاظِ دیگر یہ سورت قرآنِ پاک کی تمام حقیقتوں کا سرچشمہ اور ساری حکمتوں کا خزانہ ہے، یہی سبب ہے، کہ اس کے ناموں میں سے ایک خاص نام امُ الکتاب یا کہ امُ القرآن ہے، جس کے معنی ہیں کتاب کی اصل یا کہ قرآن کی اصل۔

 

حصّۂ دوم

 

۱۔آیۂ اطاعت

حضرت  امام محمد باقر علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا، کہ پروردگارِ عالم نے “يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا” (اے ایمان والو!) فرما کر قیامت تک کے مومنین سے یعنی ہر زمانہ کے مومنین سے خطاب کر کے فرمادیا ہے کہ: “اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ

۱۳۷

اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ (۰۴: ۵۹) یعنی اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو صاحبِّانِ امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔

امام باقر علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ، اس آیتِ کریمہ میں اللہ و رسولؐ کی اطاعت کے بعد جن صاحبِّانِ امر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، وہ ہم أئمّۂ اہلِ بیت ہی ہیں۔

 

(ب) امامِ مبین

حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ “وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبین میں جمع کر رکھا ہے۔

 

جناب امام محمد باقر علیہ السّلام سے بروایتِ اپنے والدِ ماجد و جدِ امجد کے منقول ہے، کہ جب جناب رسولِ خدا پر یہ آیت نازل ہوئی تو اصحاب میں سے چند حضرات اپنی اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور عرض کرنے لگے، یا رسول اللہ آیا امامِ مبین سے مراد توریت ہے؟ فرمایا نہیں، انہوں نے عرض کی، پھر انجیل ہے؟ فرمایا نہیں، پھر انہوں نے عرض کی، آیا قرآن ہے؟ فرمایا نہیں، اتنے میں جناب امیرالمومنین مولانا علیؑ تشریف لے آئے، آنحضرتؐ نے فرمایا: دیکھو وہ امام جس میں خدائے تعالیٰ نے ہر چیز کے علم کا احصا فرما دیا یہ ہے:

جناب امیر المومنین علیؑ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا، کہ خدا کی قسم وہ امامِ مبین میں ہوں، میں حق و باطل کو صاف صاف بیان کردیتا ہوں،

۱۳۸

اور میں نے یہ عہدہ جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے وراثتاً پایا ہے۔

(بحوالہ تفسیر صافی و تفسیرِ عمدۃ البیان وحاشیۂ ترجمۂ قرآن از مقبول احمد صاحبِّ)۔

 

حصّۂ سوم

 

امرِ ولایت

جب مذکورۂ بالا آیۂ اطاعت کے ذریعہ خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے بعد صاحبِّ امرؑ یعنی امامِ وقت کی اطاعت فرض کی گئی تو لوگ نہ سمجھ سکے، کہ ولایت کیا ہے، ہر چند کہ رسول اللہ مختلف موقعوں پر مولانا علی علیہ السّلام کی ولایت کے متعلق لوگوں کو سمجھا دیا کرتے تھے اور یہ کام نزولِ وحی کے آغاز ہی سے جاری تھا، جیسے آنحضرتؐ نے فرمایا کہ مجھ سے علیؑ کو وہی درجہ ہے جو موسیٰ سے ہارون کو تھا، پھر بھی لوگ علیؑ کی ولایت سمجھنے سے قاصر رہے، اس وقت پروردگارِ عالم نے آنحضرتؐ کو یہ حکم دیا کہ آپ امت کو ولایت کا مفہوم بھی اس طرح سمجھا دیں، جس طرح کہ آپؐ نے دوسرے امور کی صورت و کیفیت سے واقف کیا، تو اس وقت آپؐ کا دل بیٹھ گیا، اور آپؐ کے دل میں یہ خوف پیدا ہوا، کہ کہیں خدانخواستہ لوگ آپ کے دین سے مرتد نہ ہوجائیں، اور آپؐ کی نبوّت کی تکذیب نہ کر بیٹھیں، اس اندیشہ کی وجہ سے آپ امرِ ولایت کے متعلق دوبارہ ربّ العزّت سے مخاطب ہوئے، تو خداوندِ تعالیٰ نے یہ وحی نازل کہ:

۱۳۹

يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭوَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ  ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ(۰۵: ۶۷) ترجمہ: اے رسول جو کچھ (امرِ ولایت کے بارے میں) آپ کے رب کی جانب سے آپ پر نازل کیا گیا ہے، آپ اس کو پہنچا دیجئے، اور اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کا ایک پیغام بھی نہیں پہنچایا، اور اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔

 

چنانچہ آنحضرت صلعم نے امرِ الہٰی کو ظاہر کردیا، اور مقامِ غدیرِ خم میں امیرالمومنین علی ابنِ ابی طالب علیہ السّلام کی ولایت و امامت کا اعلان کردیا، آپ نےپہلے تو اس پیغام کو پہنچانے کے لئے “الصلوٰۃ جامعہ” کی ندا کروائی، اور آپ نے یہ حکم جاری فرمایا کہ جو حاضر ہے وہ اس پیغام کو غائب تک پہنچادے۔

 

حصّۂ چہارم

 

بیعتِ رضوان

ہجرت کے چھٹے سال میں صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیک وقت چودہ سو اصحاب سے، جو اس وقت حاضر تھے، بیعت لی، اس کے بعد سورۂ فتح نازل ہوئی جس میں بعض دوسرے امور کے ساتھ بیعت کی حقیقت و حکمت کے بارے میں بھی ارشاد ہے:

۱۴۰

(اے رسول!) جو لوگ آپ سے بیعت کررہے ہیں، تو وہ (واقع میں) اللہ تعالیٰ سے بیعت کررہے ہیں، خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے، پھر (بیعت کے بعد) جو شخص عہد توڑے گا، تو اس کے عہد توڑنے کا وبال اسی پر پڑے گا، اور جو شخص اس بات کو پورا کرے گا جس پر (بیعت میں) خدا سے عہد کیا ہے سو عنقریب خدا اس کو بڑا اجر دے گا۔ (۴۸: ۱۰)۔

اس بیعت کے متعلق حق تعالیٰ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا، اسی لئے اس کو بیعتِ رضوان کہتے ہیں، چنانچہ ارشاد ہے کہ: “لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ (۴۸: ۱۸) یقیناً اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے راضی ہوگیا، جس وقت کہ انہوں نے درخت کے نیچے آپ سے بیعت کی۔

 

آیۂ بیعت کی مذکورہ تعلیم سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوئی کہ مومنین دینِ اسلام کی حفاظت کے لئے اپنے آپ اتفاق و اتحاد کے رشتے میں منسلک ہر گز نہیں ہوسکتے، بجز آنکہ وہ ایک ایسی مقدّس ہستی کے مبارک ہاتھ پر بیعت کریں، اور اس سے ہمیشہ وابستہ رہیں، جس کو حق تعالیٰ نے اپنی رحمت سے مومنین کے لئے حقیقی اتحاد کا مرکز قرار دیا ہے، جس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے، جس سے بیعت کرنا خدا سے بیعت کرنا ہے، اور جس کا فرمان ماننا خدا کا فرمان ماننا ہے، اور ایسی پاک ہستی صرف پیغمبر اور امام علیہما السّلام ہی کی ہے۔

چنانچہ اسماعیلی مذہب کا یہ عقیدہ ایک زندہ حقیقت کی حیثیت سے

۱۴۱

ہے کہ مومنین کی ہدایت کرنے اور ان سے فرمانبرداری اور اتحاد کی بیعت لینے کے لئے آنحضرتؐ کی وصی ہمیشہ دنیا میں حاضر اور موجود ہیں، جو محمدؐ و علیؑ کے نور کے حامل اور امامِ زمانہ کا درجہ رکھتے ہیں۔

 

حصۂ پنجم

 

امانات

حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ “اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ اور (اس کے) رسول کی (امانتوں میں) خیانت نہ کرو، اور نہ اپنی امانتوں کی خیانت کرو، حالانکہ تم جانتے ہو (۰۸: ۲۷)۔”

اس ارشادِ الہٰی کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ قرآن کے علم و حکمت اور رتبۂ آلِ محمدؐ (یعنی امامت) خدا اور اس کے رسول کی امانتیں ہیں، پس ایمان والوں کو چاہئے کہ وہ ان امانتوں میں خیانت نہ کریں، یعنی وہ ان مقدّس امانتوں کے مالک ہونے کا دعویٰ نہ کریں، بلکہ ان کو خدا اور رسولؐ کی ملکیت سمجھیں، چنانچہ قرآن کے متعلق یہ عقیدہ رکھیں، کہ قرآن کے علم و حکمت کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے، اور اس کے رسولؐ جانتے ہیں، اور وصیٔ رسولؐ جانتے ہیں، اور رتبۂ امامت کے بارے میں یہ عقیدہ رکھیں کہ امامت حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہے، اور آنحضرتؐ کے بعد یہ امانت ان کی آلِ پاک کی ہے، اور ایمان والوں کو ان امانتوں میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں، پس اس عقیدہ اور تصوّر کی مثال ایسی ہے،

۱۴۲

جیسے خدا اور رسول کی امانتیں ادا کردی گئیں، اس کے برعکس اگر وہ ان امانتوں میں خیانت کریں، تو گویا وہ خود اپنی ان امانتوں میں خیانت کرتے ہیں جو قرآن اور امامت کے ذریعہ روح الامین کے فیوض و برکات کی صورت میں ان کو مِل سکتی تھیں۔

 

چنانچہ خدا اور رسولؐ کی یہی مقدّس امانتیں تھیں جن کے بارے میں آنحضرتؐ نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ: “میں اپنے بعد تمہارے درمیان دو گرانمایہ چیزیں چھوڑ دیتا ہوں، خدا کی کتاب (یعنی قرآنِ مجید) اور میری عترت و اہلِ بیتؑ اگر تم ان دونوں کو پکڑے رہو گے، تو تم میرے بعد ہر گز ہرگز گمراہ نہ ہوجاؤ گے، کیونکہ یقیناً یہ دونوں ایک دوسرے سے ہر گز جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ یہ دونوں حوضِ کوثر پر مجھ سے آن ملیں۔

 

اب معلوم ہوا کہ یہ دونوں گران مایہ چیزیں وہی ہیں جن کو مذکورۂ بالا آیت میں خدا اور رسول کی امانتیں کہا گیا ہے، اور یہ دونوں مقدّس چیزیں امانت اس معنی میں ہیں کہ ملکیت جس کی ہو اس کو اختیار ہے کہ وہ جیسا چاہے استعمال کرے، مگر امانت جس کے پاس ہو اس کا فریضہ ہے کہ صاحبِّ امانت سے یہ بات پوچھ لیا کرے کہ، اس امانت کا مقصد و منشاء کیا ہے، اس سے کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، اور اس کی کیا کیا شرطیں ہیں۔

 

حصّۂ ششم

 

سورۂ اخلاص

سورۂ اخلاص مکہ یا مدینہ میں نازل ہوئی اور اسکی چار آیتیں ہیں، اخلاص

۱۴۳

کے معنی کسی چیز کو آمیزش اور ملاوٹ سے خالص اور پاکیزہ کرنے کے ہیں، چنانچہ اس سورہ میں توحید کو شرک اور دہریت کی آمیزش سے خالص اور پاکیزہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، اس لئے اس کو سورۂ اخلاص کہتے ہیں، اس اہمیت کی بناء پر اس کو قرآنِ پاک کی تمام تعلیمات کا خلاصہ اور نتیجہ کہا گیا ہے۔

 

حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے کہ یہودیوں نے رسولِؐ خدا سے پوچھا، کہ تم اپنے پروردگار کا نسب بیان کرو، اور انہوں نے تین بار یہی پوچھا، لیکن حضرتؐ جواب نہیں دیتے تھے، یہاں تک کہ جبرئیلؑ یہ سورہ لے کرآئے۔

 

سورۂ اخلاص کا مقصد اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت (یکتائی) کا مفہوم سمجھانا ہے، اور وہ نظریہ وحدت الوجود کے مطابق درست ہے، یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ ساری موجودات و مخلوقات کی حقیقی ذات ایک ہے جو خدا کے نور اور رحمت میں مستغرق ہے، اور اس تصوّر کی مدد سے یہ حقیقت سمجھ لینے کی کوشش کرنا، کہ کوئی چیز خدا کی قدرت و حکمت سے خالی نہیں، اب اگر یہ معلوم ہو جائے کہ ہر چیز میں خدا کی قدرت و حکمت موجود ہے تو لازمی ہے کہ تمام مظاہرِ قدرت کو ایک مان لیا جائے، اور قدرت کو قادرِ مطلق سے جدا نہ سمجھا جائے، چنانچہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوٰۃ اللہ علیہ کا ارشادِ گرامی ہے: “کہا جاتا ہے کہ ہم سب خدا میں رہتے ہیں، خدا میں حرکت کرتے ہیں، ہمارا وجود خدا میں ہے۔” نیز فرماتے ہیں کہ “خدا کے ارادہ اور اس کے منشاء کے باہر کوئی شے اور کوئی وجود نہیں۔”

۱۴۴

تاویلِ استِرجاع

یعنی

قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ کی تاویل

(از وجہِ دین کلام ۴۹)

 

ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے کہ لوگوں کو جسمانی حالت میں مصیبت اور مشکلات آتے وقت اس قول کا کہنا واجب ہے، جیسا کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے: الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ  ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ  (۰۲: ۱۵۶) وہ لوگ جن پر جب کوئی مصیبت آ پڑتی ہے، تو کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کے ہیں اور اسی کی طرف واپس ہوجانے والے ہیں۔ عرب والے مشکل کاموں کو رات کی تاریکی سے تشبیہہ دیتے ہیں، اس لئے کہ اس کام سے بڑھ کر اور کوئی مشکل نہیں، جس کے گھیرے سے نکل جانے کا راستہ ہی لوگوں کو نظر نہ آئے، یہی تو تاریکی ہے، تاریکی دو طرح کی ہے، جسمانی تاریکی اور روحانی تاریکی، جسمانی تاریکی کی وجہ رات ہے، جسے سورج ہی روشن کرسکتا ہے، کیونکہ جسمانی تاریکی تو اسی سے روشن

۱۴۵

ہو سکتی ہے، اور وہ (سورج) جسمانی رکاوٹوں کو ختم کر ڈالتا ہے،لیکن روحانی تاریکی نادانی اور معقولات کے مشکل مسئلے ہیں، اس قسم کی تاریکی کے لئے روشنی خدا سے ہے، جو اساس (یعنی علیؑ) کی وساطت سے آتی ہے، اس کے بعد روحانی ظلمت میں چشمِ باطن (بصیرت) کا سورج امام الزمانؑ ہیں، جن کے سہارے ایسے سخت عقدے کھل جاتے ہیں، جب کوئی جسمانی ظلمت (مصیبت) اور سختی کسی کے سامنے آئے تو اُسے واجب ہے کہ مشیت ایزدی کے لئے راضی ہوجائے، اور جو کچھ اس کے لئے حکم ہوا ہو اسے قبول کرے، اور کہے: “اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ” یعنی ہم خدا کے ہیں، اور ہم نے قبول کرلیا، جو کچھ اس نے حکم کیا ہو۔ اگر ان مشکلات سے ہمیں کوئی ایسی جسمانی تکلیف پہنچے جس کی وجہ سے ہم جسمانی طور پر مرجائیں، تو اس صورت میں ہم اس کی طرف واپس ہونے والے ہیں، اور تاویل میں مومن کو واجب ہے کہ جب معقولات کا کوئی ایسا مسئلہ اس کے سامنے آجائے جس کو وہ حل نہیں کرسکتا ہو، تو پھر اسی قول کو دہرائے، اس طریقہ پر (یعنی اس معنی میں) کہ “ہماری جانیں صاحبِّ العصر کی ہیں، کیونکہ ہمیں روحانی زندگی اسی سے ملی ہے، اور مشکلات میں ہم اس کی طرف رجوع کرنے والے ہیں،” نیز وہ مومن یہ سمجھے کہ “ہم اس مشکل مسئلے کو حل نہیں کرسکتے ہیں، اس کا علم امامِ زمانؑ کے پاس ہے،” تاکہ اس کیلئے روحانی فیض کا دروازہ کھلے، اور ان مشکلات کو سمجھ سکے، اور وہ غیب اس پر کھلے گا، اور اگر کھل نہ جائے تو یہ اپنی ہی کمزوری سمجھے، اور اقرار کرے، کہ جو شخص ایسی مشکلات کا چارہ جانتا ہو، اسے یہ

۱۴۶

زیب دیتا ہے کہ روحانی مشکلات میں لوگ اسی کی طرف رجوع کریں، اور یہ صرف مومن ہی کے لئے ایک شفا بخش بیان ہے۔

والسلام

 

مذکورۂ بالا آیت کی تاویل کی تحقیق:

تاویل کا دوسرا نام حکمت ہے، اور حکمت کا سمجھ لینا عوام کے لئے کوئی آسان بات نہیں، چنانچہ پیر حکیم ناصر خسرو قدّس اللہ سرّہٗ نے مذکورہ بالا آیت کی جو تاویل بیان فرمائی ہے، ہم ذیل میں اس کے اصولات کو ظاہر کرکے دکھاتے ہیں:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ  ۙالَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ  ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ  ۭاُولٰۗىِٕكَ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ   ۣوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُهْتَدُوْنَ  (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷)

ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے ضرور آزمائیں گے، اور (اے رسول) ایسے صبر کرنے والوں کو کہ جب ان پر (ان مصیبتوں میں سے) کوئی مصیبت آ پڑی تو وہ (بے ساختہ) بول اٹھے کہ ہم تو خدا ہی کے ہیں، اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، خوشخبری دے دو کہ انہیں لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے صلوات اور رحمت ہیں، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

 

مذکورہ ارشادِ الہٰی کی تعلیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں سے ضرور امتحان لینے والا ہے، فرمایا گیا ہے کہ اس امتحان و آزمائش کی پانچ قسمیں

۱۴۷

ہیں، جن میں سے ہر ایک قسم کے روحانی و جسمانی دو دو پہلو ہیں، چنانچہ پہلا امتحان خوف کا ہے جس میں جسمانی اور روحانی قِسم کے تمام خوف و ہراس شامل ہیں، دوسرا امتحان بھوک کا ہے جس میں روحانی اور جسمانی غذاؤں کی کمی کا ذکر ہے، تیسرا امتحان مالوں کی کمی کے متعلق ہے، جس میں روحانی اور جسمانی دونوں قِسم کے مالوں کا ذکر ہے، چوتھا امتحان نفوس کی کمی کے بارے میں ہے، جس میں نفوسِ قدسیہ اور نفوسِ بشریہ دونوں قِسم کا بیان ہے، اور پانچواں امتحان پھلوں کی کمی کے باب میں ہے، جس میں روحانی اور جسمانی دونوں قسم کے پھلوں کا تذکرہ ہے۔

 

اب ان پانچ قسم کے امتحاناتِ الہٰیہ کے روحانی پہلوؤں کے بارے میں سنئے کہ جس طرح مومن اپنے جسم کو تکلیف پہنچ جانے، اس کے ذلیل و خوار ہوجانے اور ہلاک ہوجانےکا خوف رکھتا ہے، اسی طرح وہ اپنی روح کو ایذا پہنچنے، اس کے خوار و رسوا ہوجانے اور فنا ہوجانے سے بھی ڈرتا ہے، پس ثابت ہوا، کہ خوف روحانی و جسمانی دو قسم کا ہے، اس کے بعد بھوک کا ذکر ہے، چنانچہ جسمانی بھوک جسم کے لئے غذا کی ضرورت محسوس ہونے کا نام ہے، اور روحانی بھوک روح کے لئے غذا کی ضرورت محسوس ہونے کا نام ہے، اور روحانی غذا عبادت و معرفت ہے، اس کے بعد مال کا ذکر ہے، ظاہری مال کی کمی یہ ہے کہ اس میں جسمانی ضروریات فراہم نہیں ہوتیں، اور باطنی مال کی کمی یہ ہے کہ اس میں روحانی ضروریات پوری نہیں ہوتیں، اور روحانی ضروریات علمِ حقیقت سے پوری ہوجاتی ہیں، اس کے بعد پھلوں کا ذکر ہے، ظاہری پھل یہی ہیں، جو

۱۴۸

درختوں سے حاصل ہوتے ہیں، اور باطنی پھل وہ ہیں، جو علم و دانش کے درختوں سے حاصل ہوتے ہیں، علم و دانش کے درخت امامِ زمانؑ اور اس کے حدود ہیں، جو کلماتِ تامّہ اور اسماء الحسنیٰ کی صورت میں مومنین کے قلب و روح میں موجود ہیں، اور ان روحانی درختوں کے پھل تاویل اور حکمت کی صورت میں پائے جاتے ہیں۔

 

پس جس مومن کو ان پانچ قسم کی جسمانی مصیبتوں ہی کی طرح اُن پانچ قسم کی روحانی مصیبتوں کا بھی احساس ہوجائے، یعنی جب وہ روحانی قسم کا خوف محسوس کرنے لگے، جب روحانی بھوک یعنی عبادت و معرفت کی کمی محسوس کرے، جب اپنے آپ میں روحانی مال یعنی علمِ حقیقت کی کمی محسوس کرے، جب نفوسِ قدسیہ تک رسا نہ ہوسکنے سے سخت پشیمان ہوجائے، اور جب تاویل و حکمت سے قاصر رہ جانے کا احساس کرے، تو اسے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ عزم و ارادہ اور صبر سے کام لیتے ہوئے یہ قول کہنا چاہئے:

“اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ” : ہم خدا ہی کے ہیں، اور ہم اسی کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔” اس قول کی ایک حکمت یہ ہے کہ مومنین خدا کے ہیں، اور خدا مومنین کا ہے، چنانچہ ارشاد نبوّی ہے: “مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَاَن اللّٰہ لَہٗ =جو شخص خصوصیت کے ساتھ خدا کا ہوجائے، تو خدا بھی خصوصیت کے ساتھ اسی کا ہوجاتا ہے۔”

 

پس ایسا مومن نہ صرف جسمانی موت کےبعد خدا کی طرف رجوع کرتا ہے، بلکہ وہ اس زندگی میں بھی خدا کی طرف رجوع کرسکتا ہے، وہ اس طرح کہ جب

۱۴۹

مومن پر کوئی جسمانی یا روحانی مصیبت آ پڑتی ہے تو اس کی نفسانی خواہشات اور حیوانی صفات کچھ وقت کے لئے یکسر خاموش ہو بیٹھتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ مومن اُس وقت اس قابل ہوجاتا ہے، کہ امامِ زمان علیہ السّلام اور ان کے حدود کے ذریعہ خدائے تعالیٰ سے صلوات، رحمت اور ہدایت حاصل کرسکے، پس حقیقی مومن کو چاہئے کہ روحانی یا جسمانی مصیبت کے پیش آتے وقت یہ قول کہا کرے، اور اس کے معنی و تاویل کو اسی طرح ہی سمجھے اور اس پر عمل کرے۔

 

جب حقیقی مومن یہ قول کہتا ہے، اور اس کے حقائق کو سمجھ لیتا ہے، اور ان پر عمل کرتا ہے، تو وہ ان صبر کرنیوالوں میں سے ہوجاتا ہے، جن کو حضرت رسول علیہ السّلام عملی طور پر خوشخبری سناتے ہیں کہ انہیں لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے صلوات اور رحمت ہیں، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

 

تفسیر عمدۃ البیان میں حضرت امام جعفر الصادقؑ سے روایت ہے کہ فرمایا رسولِ خدا صلعم نے کہ جو کوئی چار چیزوں پر عمل کرے، وہ شخص البتہ بہشتیوں میں سے ہو، اوّل کہنا لا اِلہ اللّٰہ، اور دوسری یہ کہ اگر کوئی نعمت حاصل ہو توکہے کہ الحمدُللّٰہ، اور تیسری یہ کہ اگر کوئی گناہ کرے، تو کہے کہ استغفراللّٰہ اور چوتھی یہ کہ جس وقت کوئی مصیبت پہنچے تو کہے، کہ اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ، اس جیسی روایات تفسیرِ صافی اور کتاب دعائم الاسلام جلد اوّل ص ۲۲۳، ۲۲۴ میں بھی پائی جاتی ہیں۔

۱۵۰

ہمتِ مردان مددِ خدا

 

تائیدِ الہٰی ہے سدا ہمتِ مردان

ہے باعثِ انعامِ خدا ہمتِ مردان

مشکل ہی سہی منزلِ مقصود کی راہیں

ہے سہل جو ہو راہ نما ہمتِ مردان

آسان ہے ظلماتِ حوادث سے گزرنا

ہوجائے اگر نورِ ھدیٰ ہمتِ مردان

اقوام کے اِ س معرکۂ علمِ و عمل میں

دیکھو گے سدا قلعہ کشا ہمتِ مردان

گنجینۂ اقبال و سعادت تو یہی ہے

اللہ کا ہے جود وعطا ہمتِ مردان

کب جاگتی تعمیر جہان خوابِ عدم سے

دیتی نہ اگر اس کو جگا ہمتِ مردان

یہ رونقِ تہذیب و تمدن بھی نہ ہوتی

ہوتی نہ اگر جلوہ فزا ہمتِ مردان

معشوقِ ہنر بزمِ ثقافت میں نہ آتا

دیتی نہ اگر بانگِ درا  ہمتِ مردان

ہمت سے گئے اہلِ ہنر سوئے کمالات

تم بھی تو بڑھو کرکے ذرا ہمتِ مردان

سمجھو گے اگر معجزۂ ہمتِ مردان

کرلو گے طلب کرکے دعا ہمتِ مردان

اے ہمتِ مردان کہ تو ہے دمِ عیسیٰ

ہر دور کی ہے تو ہی دوا ہمتِ مردان

اِس گلشنِ امید میں تو موسمِ گل ہے

جو غنچہ کِھلا تجھ سے کِھلا ہمتِ مردان

سرمایۂ ایجاد ہے تو روئے زمین پر

تجھ ہی سے گئے سوئی سما ہمتِ مردان

ہر عارفِ کامل جو ہوا واصلِ یزدان

لاریب کہ وہ تجھ سے ہوا ہمتِ مردان

۱۵۱

ہمت سے ہوئے جو بھی ہوئے زِندۂ جاوید

مانا کہ تو ہے آبِ بقا ہمتِ مردان

وہ عقدۂ مشکل کہ نہ کھلتا تھا کسی سے

فی الفور وہ تجھ ہی سے کھلا ہمتِ مردان

ہمت کے ترانے ہیں یہ اشعارِ نصیری

خود آ کے ہوئی نغمہ سرا ہمتِ مردان

مرقوم ہے بس صفحۂ عالم پہ یہی قول

“تائیدِ الہٰی ہے سدا ہمتِ مردان”

۱۵۲

توحید

 

“توحید” ایک عربی لفظ ہے، جس کے معنی ہیں ایک ہونا، ایک بنانا، ایک ماننا اور ایک تصور کرنا اور اس کے اصطلاحی معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے وحدانیّت و یکتائی کا اقرار و اعتقاد، یعنی خدائے واحد پر ایمان لانا، اور اس کی وحدت کا قائل ہونا، یہ تو صرف توحید کی لفظی تحلیل ہوئی، اب یہ دیکھنا ہے کہ اس لفظ کے معنی سے خدا کی جو یکتائی مراد ہے، وہ آپ کو کس طرح سمجھائی جا سکتی ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں اہلِ تصوّف کے نظریئے سے کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں:

 

توحیدِ مطلب:

صوفیائے کرام کے نزدیک “توحیدِ مطلب” یہ ہے کہ مرید پوری تابعداری اور سچی محبت کے وسیلے سے اپنے پیر و مرشد کے ساتھ وابستہ ہوجائے، رشد و ہدایت حاصل کرنے کے لئے کسی دوسرے شخص کی طرف ہر گز توجہ نہ کرے، اور رفتہ رفتہ اپنی تمام خواہشات کو اپنے مرشد کی خوشنودی میں فنا کردے، یہ ہوئی “توحیدِ مطلب” یعنی ذریعۂ ہدایت کے ساتھ اپنے آپ کو ایک کر دینا۔

۱۵۳

توحیدِ وجودی:

توحیدِ وجودی یا وحدت الوجود کے معنی ہیں تمام ہستی کوایک ماننا، یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ ساری موجودات و مخلوقات کی حقیقی ذات ایک ہے، جو خدا کے نور اور رحمت میں مستغرق ہے، اور اس تصوّر کی مدد سے یہ حقیقت سمجھ لینے کی کوشش کرنا کہ کوئی چیز خدا کی قدرت و حکمت سے خالی نہیں، اب اگر یہ معلوم ہوجائے، کہ ہر چیز میں خدا کی قدرت و حکمت موجود ہے تو لازمی ہے کہ تمام مظاہرِ قدرت کو ایک مان لیا جائے، اور قدرت کو قادرِ مطلق سے جدا نہ سمجھا جائے، چنانچہ جامی صاحب کی یہ رباعی اسی مطلب کی ترجمانی کرتی ہے:

مجموعۂ کونین بقا نونِ سبق

کردیم تفحصّ ورقاً بعد ورق

حقا کہ ندیدیم و نخوا ندیم درو

جز ذاتِ حق و شیون ذاتیۂ حق

ترجمہ : ہم نے درس کے اصول پر دونوں جہان کی کتاب کے اوراق کو تحقیق و تجسس سے پڑھ لیا، خدا کی قسم ہم نے اس میں حق تعالیٰ کی ذات اور (علمی مراتب کے مطابق) اس کے مختلف ظہورات کے سوِا اور کوئی شے کو نہیں دیکھا۔

۱۵۴

توحیدِ عیانی:

جب کوئی خاص بندہ خدا کے نور کی قربت حاصل کرکے اپنی صفات کو خدا کی صفات میں فنا کردیتا ہے تو اس کی خودی خدا کی تجلیوں میں گم ہوجاتی ہے ایسے میں بعض عارف انا الحق (میں خدا ہوں) جیسا کوئی نعرہ بلند کرنے لگتے ہیں، یہ مقام فنا فی اللہ و بقا باللہ کہلاتا ہے، یعنی اپنی صفات سے فنا ہو کر خدا کی صفات میں زندہ ہوجانا۔

 

توحید کی مذکورہ مثالوں سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ جس طرح کثرت وحدت ہی سے پیدا ہوئی تھی، اسی طرح یہ رفتہ رفتہ وحدت ہی میں فنا ہونے والی ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے: كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ  وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ  فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ  (۵۵: ۲۶ تا ۲۸) یعنی سب جو اس زمین پر ہیں فنا ہونے والے ہیں، اور باقی رہے گی آپ کے پروردگار صاحبِّ جلالت و احسان کی ذات، پس تم دونوں (جنّ و انس) اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ ظاہر ہے کہ یہ فنا وہی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا، یعنی فنا فی اللہ و بقا باللہ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فنا بھی حق تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ہے۔

 

رسولؐ اللہ کا ارشادِ گرامی ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے دین کو اپنے خلق کی طرح بنایا، تاکہ اس کی خلق سے اس کے دین کا استدلال کیا جاسکے، اور اس کے دین سے اس کی وحدانیّت کا استدلال کیا جاسکے۔

۱۵۵

خلق سے دینِ حق کی دلیل:

کائنات و مخلوقات سے دینِ حق کی دلیل یہ ہے کہ آسمانوں اور ستاروں کے اثرات عناصر میں تحلیل ہوجاتے ہیں، عناصر سے نباتات اگتی ہیں، نباتات سے حیوانات کی پرورش ہوتی ہے، حیوانات کے فائدے انسانوں کو ملتے ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ اس ترتیب میں ہر مخلوق اپنے سے برتر مخلوق میں فنا ہوکر ایک اعلیٰ قسم کی ہستی میں بدل جاتی ہے۔

 

دین حق سے خدا کی وحدانیت کی دلیل:

حق تعالیٰ کا ارشاد ہے “اور تم سب مل کر اللہ تعالیٰ کی رسی (ولایت) کو مضبوطی سے پکڑے رہو، اور متفرق نہ ہو، اور یاد کرو اللہ تعالیٰ کی نعمت کوجو تم پر ہے، جبکہ تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے پس اسی نے تمہارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی، پھر تم اس کی نعمت کے طفیل بھائی بھائی ہوگئے۔”

 

اس ارشادِ الہٰی میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ لوگ قبولِ اسلام سے قبل ایک دوسرے کے دشمن تھے، خدا اور رسولؐ نے دینِ حق کی نعمت سے (جو ایک ہی ماں کے دودھ کا درجہ رکھتی تھی) ان کو بھائی بھائی بنایا۔ اب اس نعمت کے بعد اُن کو ایک ایسی عظیم اور بے مثال نعمت کی طرف بلایا جاتا ہے، کہ جس سے وہ ایک جان کے مانند ہوسکتے ہیں،

۱۵۶

کیونکہ وحدت کے سلسلے میں بھائی بھائی ہونے کے بعد ایک جان کے مانند ہوجانا ضروری ہے، چنانچہ رسول اللہ کا ارشاد ہے:

“اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ وَالْاَنْبِیَائِ کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ = یعنی مومنین بھائی بھائی ہیں، اور انبیاء (واولیاء) ایک جان کے مانند ہیں،” پس جاننا چاہئے کہ سب سے بڑی قیامت برپا نہیں ہوگی، جب تک کہ مومنین ایک جان کے مانند ہوکر یک دلی اختیار نہ کریں، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

“مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ (۳۱: ۲۸)۔ اور نہیں تمہاری (ازلی) پیدائش اور بعث (یعنی مرکر پھر زندہ ہوجانا) مگر ایک جان کے مانند۔” یعنی جس طرح تم ازل میں ایک جان کی طرح پیدا کئے گئے تھے، اسی طرح وحدت کے مقام پر بھی تم آخر کار ایک ہوجاؤ گے۔

 

پس دین حق میں خدا کی وحدانیت کی دلیل و مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمام انبیاء، اولیاء، اور مومنین کی وحدت کا مرکز ہیں، اور آنحضرتؐ کا نور امامِ حیّ و حاضرؑ کے لباس میں تا قیامت جلوہ گر ہے۔

۱۵۷

شاہ! سلام علیک

 

نام ہے تیرا کریمؑ شاہ سلامٌ علیک

شان ہے تیری عظیم شاہ سلامٌ علیک

تیرے سِوا کون ہے آلِ نبیؐ و علیؑ

نورِ خدائے حکیم شاہ سلامٌ علیک

ذکرِ خفی بن کے آ دیدہ و دِل فرشِ راہ

مالکِ ملکِ قدیم شاہ سلامٌ علیک

باغ و چمن کی بہار سرو و سمن کا نکھار

تو ہے گلوں کی شمیم شاہ سلامٌ علیک

برقِ تجلیٰءِ طور حسنِ خدا کا ظہور

نور بچشمِ کلیم شاہ سلامٌ علیک

مصحفِ ناطق ہے تو علمِ لدن تجھ سے ہے

تو ہی الف لام میم شاہ سلام علیک

تابشِ دیدار سے ظلمتِ غم ڈھل گئی

تیرے کرم سے کریم شاہ سلامٌ علیک

۱۵۸

مظہرِ نورِ خدا آئینۂ حق نما

مصدرِ لطفِ عمیم شاہ سلامٌ علیک

تیری محبِّت سے میں دیکھ کے پامال ہوں

رحم کر اے بورحیم شاہ سلامٌ علیک

عشق کا ہوں میں قتیل نفخۂ جان بخش بھیج

ہمرہِ بادِ نسیم شاہ سلامٌ علیک

تجھ سے شفا پاگئے دردِ جہالت سے ہاں

ہم جو ہوئے تھے سقیم شاہ سلامٌ علیک

پیکرِ نورِ خدا تو ہی تو ہے رہنما

سوئے رہِ مستقیم شاہ سلامٌ علیک

مطلعِ رحمت ہے تو گوہرِ حکمت ہے تو

تو ہے صبور و حلیم شاہ سلامٌ علیک

کون ہے تجھ سا شفیق، ہم پہ یہاں اور وہاں

حامی و یارِ حمیم شاہ سلام علیک

اِس دلِ ویران میں آ کہ وہ آباد ہو

چونکہ ہے تیرا حریم شاہ سلامٌ علیک

۱۵۹

وصل ہے گویا بہشت راحتِ جان سے بھری

ہجر عذاب الیم شاہ سلامٌ علیک

نقطۂ بسمل میں ہے عارفِ حق کے لئے

ایک کتابِ ضخیم شاہ سلامٌ علیک

معجزۂ عشق سے مردہ دِلوں کو جِلا

کون ہے تجھ سا حکیم شاہ سلامٌ علیک

جب سے کہ آیا نصیرؔ تیری غلامی میں بس

ہے ترے در پر مقیم شاہ سلامٌ علیک

۱۶۰

توضیح الفاظ

شاہ! سلامٌ علیک=اے بادشاہ! تجھ پر سلام ہو

حکیم کے معنی ہیں حکمت والا۔

ذکرِ خفی وہ ذکر ہے جو نہایت ہی پوشیدگی اور آہستگی سے دل میں کیا جاتا ہے۔

دیدہ و دل فرشِ راہ کا مطلب ہے = میری آنکھیں اور دل تیری راہ کا فرش بن جائیں۔

مالک ملکِ قدیم =قدیم سلطنت کا مالک۔

شمیم کے معنی ہیں خوشبودار ہوا، خوشبو اور مہک۔

تجلّائے طور سے اللہ تعالیٰ کی وہ جلوہ نمائی مراد ہے، جو اس نے سیناء کے پہاڑ پر ظاہر فرمائی تھی۔

کلیم کے معنی ہیں کلام کرنے والا، یعنی حضرت موسیٰؑ جو خدا سے کلام کرتے تھے۔

مصحفِ ناطق=بولنے والا قرآن۔

علمِ لدن =وہ علم جو بغیر اکتساب کے خدا کے حضور سے ملتا ہے۔

الف لام میم (المٓ) حروفِ مقطعات جو سورۂ بقرہ کے شروع میں ہیں، جن میں اسرارِ الہٰی پوشیدہ ہیں۔

ظلمت = تاریکی۔

۱۶۱

آئینۂ حق نما = وہ آئینہ جو خدا کا دیدار کرائے۔

مصدرِ لطفِ عمیم =کثرت اور عمومیت سے مہربانیاں نکلنے کی جگہ۔

پامال = روندا ہوا۔

بو رحیم = ابو رحیم کا مخفف ہے، مولانا حاضر امام کی کنیت، یعنی رحیم کا باپ۔

قتیل =قتل کیا گیا، مردہ۔

نفحۂ جان بخش = زندگی بخشنے والی خوشبو۔

ھمرہِ بادِ نسیم = پچھلی رات یا صبح کی نرم اور معطر ہوا کے ساتھ۔

سقیم = بیمار۔

پیکرِ نورِ ھدا = ہدایت کے نور کی صورت یا ہدایت کا مجسّم نور۔

مطلع = طلوع ہونے کی جگہ۔

صبور و حلیم = صبر والا اور رحم والا۔

شفیق =شفقت والا۔

یہاں اور وہاں = مراد ہے دنیا اور آخرت۔

یارِ حمیم =جانی دوست۔

ویرانہ = اجڑا ہوا۔

حریم = گھر، مکان۔

وصل = دیدار

ھجر = جدائی۔

عذاب الیم = درد ناک عذاب۔

۱۶۲

نقطۂ بسمل = بسم اللہ کا نقطہ۔

عارفِ حق = خدا کا عارف، یعنی خدا کو پہچاننے والا۔

مردہ دلِ = سست، کاہل، اور بے ذوق آدمی۔

جِلا = زندہ کردے۔

حکیم =طبیب۔

۱۶۳

مشاہدۂ نور

 

اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ آیا خدائے تعالیٰ کے نور کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب غیر محدود طریق پر دیا جائے گا، یعنی جواب نفی میں بھی ہوگا، اور اثبات میں بھی، اور اس سوال کا مناسب جواب بس اس طرح سے ہے جیسے سورج کے متعلق یہ کہنا حقیقت ہے، کہ ٹکٹکی باندھ کر زیادہ دیر تک سورج کو نہیں دیکھا جاسکتا، مگر بے شک ایک اچٹتی ہوئی نگاہ سے اسے دیکھا جا سکتا ہے، کیونکہ اگر نظر جما کر زیادہ دیر تک سورج کا مشاہدہ کیا جائے، تو آنکھوں کی بینائی زائل ہوجاتی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ ہر قسم کی تیز روشنی سے جو کرنیں پھوٹتی ہیں، وہ اصل میں روشنی کے انتہائی چھوٹے اور باریک ذرات کی مسلسل لہریں ہیں، جن سے آنکھوں کے نازک پردوں کو چوٹ لگتی رہتی ہے، پس اس مادّی روشنی کی مثال سے ہر دانش مند اندازہ کرسکتا ہے، کہ جب سورج وغیرہ کی تیز روشنی کا یہ حال ہے، تو خدا کے نورِ قاہرہ سے حجاب اٹھا لینے کا کیا عالم ہوگا۔

 

چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام جیسے اولوالعزم پیغمبرؑ نے اللہ تعالیٰ کے پاک نور کی تجلیوں کے سلسلے میں جب سب سے بڑی تجلّی کے لئے درخواست کی، تو پروردگارِ عالم نے فرمایا، کہ اے موسیٰ! تم میری تجلّی کے لئے متحمل

۱۶۴

نہ ہوسکو گے، لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھو، کہ اگر یہ پہاڑ میرے نور کی تجلّیوں کو سہار سکے تو تم بھی البتہ مجھے دیکھ سکو گے، پھر جب پروردگارِ عالم نے پہاڑ پر اپنا جلوہ ظاہر فرمایا تو پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوا، اور موسیٰؑ بے ہوش ہوکر گر گئے، اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ نے خدائے جمال و جلال کے آسمان کی چمکتی ہوئی بجلی کا ذرا سا مشاہدہ کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ بے ہوش ہوکر گِر گئے، ورنہ بے ہوش کیوں ہوتے، اور یہاں پہاڑ سے موسیٰ علیہ السّلام کی روحانی ہستی مراد ہے، کیونکہ اس ظاہری پہاڑ پر اللہ تعالیٰ کا جلوہ فگن ہوجانا مناسب نہیں ہے۔

 

اس کے علاوہ جب بنی اسرائیل نے احتجاجاً موسیٰؑ سے یہ کہہ دیا، کہ اے موسیٰ! ہم تیرے لئے ہر گز باور نہیں کریں گے جب تک کہ ہم خدا کو ظاہر نہ دیکھیں، تو موسیٰ علیہ السّلام نے ان میں سے ستر مردوں کو چن لیا، اور یہ سب دیدارِ الہٰی کی غرض سے کوہِ طور پر گئے، اور وہاں حضرت موسیٰؑ کے ساتھ ان سب نے گریہ و زاری شروع کی، جس کے نتیجے میں ان کے نفوس پر اللہ تعالیٰ کی نورانیّت کی بجلی چمک گئی، جس سے یہ لوگ جسمانی طور پر نہیں بلکہ نفسانی طور پر مرگئے، پھر ایمانی طور پر زندہ ہوگئے، اگر ان لوگوں نے کچھ بھی نہ دیکھا ہوتا تو مرجانے اور زندہ ہوجانے کا سوال نہ ہوتا۔

۱۶۵

جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے نور کے دیدار کے درجات ہوا کرتے ہیں، چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے، کہ حضرت موسیٰؑ نے شروع شروع میں دور سے ایک آگ جیسی روشنی دیکھی تھی، وہ جب اس روشنی کے قریب گئے، تو روشنی نے جو درخت پر تھی، فرمایا کہ میں یقیناً اللہ ربّ العالمین ہوں، پھر اس حال میں حضرت موسیٰؑ بے ہوش نہیں ہوئے تھے، کیونکہ ابتدائی درجے کا ایک دیدار تھا، اسی لئے اس کی مثال ایک ایسی آگ سے دی گئی ہے جو کسی دور گاؤں سے یا کسی دور پہاڑ سے نظر آتی ہے، اور آگے چل کر جو سب سے بڑا دیدار ہے، اس کی مثال بجلی کے کوندنے اور چمکنے سے دی گئی ہے، کیونکہ نور کا آخری دیدار بجلی کے چمکنے سے مشابہ ہے، زیادہ دیر تک مشاہدہ نہ کرسکنے کے لحاظ سے بھی اور جمال و جلال اور ہیبت کے اعتبار سے بھی۔

ہم جس سوال کی تحلیل کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ، آیا خدائے تعالیٰ کے نور کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ جس کا جواب نفی میں بھی اور اثبات میں بھی دیا گیا تھا، اب وضاحت سے یہ حقیقت صاف طور پر روشن ہوئی، کہ بیشک خدا کا نور کسی ایک عالم میں محدود نہیں، وہ سب سے اوّل بھی ہے اور سب سے آخر بھی، اور سب سے ظاہر بھی ہے، اور سب سے باطن بھی، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے:

“هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ (۵۷: ۰۳)۔” چنانچہ ظاہر کے معنی دکھائی دینے اور نظر آنے کے ہیں، اور باطن کے معنی دکھائی نہ دینے اور نظر نہ آنے کے، اور یہ حقیقت کئی اعتبارات سے درست ہے، اوّل یہ کہ دنیا بھر کے لوگ دو حصّوں پر منقسم ہیں، پہلے حصِّے کے لوگوں کے اعتقاد کے مطابق خدا حاضر و ناظر ہے، دوسرے حصّے کے لوگوں کے بقول کوئی خدا نہیں، پس جو لوگ خدا کی ہستی کے قائل ہیں، ان کے لئے گویا

۱۶۶

خدا ظاہر ہے، اور جو قائل نہیں، ان کے لئے باطن ہے، دوم یہ کہ جو لوگ خدا کی ہستی کے قائل ہیں، ان کے بھی دو گروہ ہیں، ایک گروہ کہتا ہے کہ خدا کے دیدار کا مشاہدہ ممکن ہے، دوسرا گروہ کہتا ہے کہ خدا کا دیدار ناممکن ہے، پھر یہاں پر بھی خدا کے ظاہر و باطن ہونے کا ثبوت مِل گیا، تیسری مثال یہ ہے کہ جو لوگ دیدار کے قائل ہیں، ان کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک قسم دیدار تک پہنچ سکتی ہے، اور دوسری قسم نہیں پہنچ سکتی، پھر جو لوگ دیدارِ الہٰی تک رسا ہوجاتے ہیں ان کے بھی دو درجے ہیں: درجۂ اوّل کے لوگ آخری دیدار کا تجربہ کر پاتے ہیں، اور درجۂ دوم کے لوگ نچلے درجات ہی میں رہ جاتے ہیں، اور جو خوش نصیب اعلیٰ ترین دیدار تک پہنچتے ہیں، ان کے بھی دو حال ہوتے ہیں: ایک حال یہ ہے کہ انہیں سب سے بڑے درجے کا دیدار ہوتا ہے، جو خدا کے ظاہر ہونے کی دلیل ہے، دوسرا حال یہ ہے کہ خدا کے نور کی جو کچھ حقیقت ہے، ا س کا پورا پورا مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا، جو خدا کے باطن ہونے کی دلیل ہے، پس ان تمام مثالوں میں اس حقیقت کے دلائل موجود ہیں کہ خدا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔

 

اگر یہاں پر کوئی یہ سوال کرے کہ خدا کو بیک وقت ظاہر اور باطن ماننا ایسا ہے، جیسے کوئی شخص کہتا ہے کہ پانی جب گرم ہے تو اِسی وقت سرد بھی ہے، حالانکہ یہ بات ناممکن ہے، کیونکہ جب ہم کسی موجود میں دو متضاد صفتوں کا تصوّر کرتے ہیں تو منطقی طور پر ان دونوں صفتوں کی خود بخود نفی ہوجاتی ہے، چنانچہ اگر کہا جائے کہ یہ لوہا آگ کی طرح گرم ہے تو لوہے سے سردی کی صفت کی نفی ہو

۱۶۷

جاتی ہے، اور اگر اسی وقت یہ بھی کہا جائے کہ یہ لوہا برف و یخ کی طرح ٹھنڈا ہے، تو اس کی گرمی کی صفت کی نفی ہوجاتی ہے، اور ان دونوں متضاد باتوں کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے، کہ وہ لوہا نہ تو آگ کے مانند گرم ہے، اور نہ یخ کی طرح سرد، پس یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا ایک ہی وقت میں ظاہر بھی ہو اور باطن بھی؟۔

اس کے لئے میرا جواب یہ ہے، کہ منطق اور فلسفہ جیسے ظاہری علوم گلاس بھر پانی اور ایک لوہے کے ٹکڑے پر حکم کرسکتے ہیں، کیونکہ ایسی محدود چیزیں بیک وقت کئی صفات کی حامل نہیں ہوسکتیں، مگر ایک سمندر اور ایک لوہے کے پہاڑ کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، چنانچہ دنیا بھر کے پانیوں کی وحدت کو ہم پانی ہی کہیں گے، اب یہ فرض کرو، کہ سمندر کہہ رہا ہے، یا کہ سارے پانیوں کی مرکزیت و وحدت کہہ رہی ہے، کہ میں گرم بھی ہوں اور سرد بھی، میں سمندر بھی ہوں اور بخارات، بادل، برف و بارش اور چشمہ بھی، میں ندی، نالہ اور دریا کی صورت میں بھی ہوں، اور گھاس پات، فصل، پھل، حیوان اور انسان کی شکل میں بھی، تو کیا پانیوں کی مرکزیت و وحدت کا یہ دعویٰ باطل ہوگا، جبکہ مذکورہ تمام چیزوں میں پانی موجود ہے؟

 

پس پانی کے مجموعی وجود یا کہ وحدت کے بارے میں یہ تعریف، کہ دنیائے تری کے علاوہ عالمِ نباتات اور عالمِ حیوانات میں سب کچھ پانی ہے، ہر گز غلط نہیں، اور اگر دنیا بھر کے پانی کی وحدت سے قطع نظر صرف ایک گلاس پانی کی نسبت، “ہمہ اوست” کی یہ تعریف کیجائے تو قطعی طور پر غلط اور سرا سر جھوٹ ثابت ہوگی۔

 

پھر یہ مطلب صاف طور پر ظاہر ہوا، کہ کوئی جزو اپنے کل کی مثال نہیں بن سکتا، نہ ہی کوئی محدود چیز کسی وسیع چیز کا ہو

۱۶۸

بہو نمونہ بن سکتی ہے، اس کے برعکس ایک وسیع چیز کی مثال، دوسری وسیع چیز سے پیش کی جاسکتی ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ صرف وسیع چیزیں ہی بیک وقت مخالف و متضاد صفات کی حامل ہوسکتی ہیں، چنانچہ دنیا بھر کے پانی کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ٹھنڈا بھی ہے اور گرم بھی، میٹھا بھی ہے، اور کھارا بھی۔

 

ہماری بحث خدا کے بیک وقت ظاہر و باطن ہونے سے متعلق تھی، جس میں اس حقیقت کی تصدیق و توثیق ہوئی کہ کسی شک کے بغیر خدا ظاہر بھی ہے، اور باطن بھی، اگرچہ کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں جو خدا تعالیٰ کی صحیح مثال پیش کرسکے، کیونکہ اس کی کوئی مثال نہیں، اور وہ خود اپنی مثال آپ ہے، تاہم خدا شناسی کے سلسلے میں نظامِ کائنات اور اصولِ حیات میں غور و فکر کرکے خدا کی معرفت میں آگے سے آگے بڑھتے جانا ہر مومن کا لازمی فرض ہے۔

 

جاننا چاہئے کہ خدا کی قدرت (توانائی) میں کوئی چیز ناممکن نہیں، اور ہر ممکن و ناممکن امر کو پرکھنے کے لئے جو معیار مقرر کیا گیا ہے، اس کی بنیاد زمانۂ ماضی کے لوگوں کی محدود معلومات پر ہے، نہ کہ قانونِ قدرت اور حکمتِ قرآن کے عین مطابق، جس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ اب سے کوئی ہزار برس قبل کے لوگ جن چیزوں کو ناممکن قرار دیتے تھے، اب اس ایٹمی دور میں ان میں سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں، جو ناممکنات کی فہرست سے نکل کر ممکنات کی لسٹ میں مندرج ہوچکی ہیں، اور انسان علمی و فنی میدان میں جس برق رفتاری سے ترقی کررہا ہے، اس کے پیشِ نظر یہ امر تعجب نہیں، کہ ایک زمانے کے بعد ناممکنات کی

۱۶۹

فہرست بالکل ہی ختم ہوجائے۔

 

اللہ تعالیٰ کے نور کے لئے یہ کوئی مشکل نہیں، کہ وہ ظاہر اور باطن دونوں حال میں حاضر و ناظر رہے، جبکہ اس کی مخلوق میں بھی یہ مثال پائی جاتی ہے، چنانچہ ہم سورج کے متعلق یہ کہہ سکتے ہیں، کہ اس میں ظاہر اور باطن کی دونوں صفتیں موجود ہیں، اور وہ اس طرح کہ سورج دن میں ظاہر اور رات میں باطن ہے، پھر صاف آسمان پر ظاہر اور بادلوں کے پیچھے باطن ہے، نیز آنکھ والوں کیلئے ظاہر، اور نابیناؤں کے لئے باطن ہے، اس کے علاوہ موصول شدہ روشنی و حرارت اور سامنے کے نصف قرص نظر آنے کے اعتبار سے ظاہر ہے مگر اصلی روشنی، بنیادی حرارت، اندرونی کیفیت، صحیح جسامت اور عقبی سطح نظر نہ آنے کے لحاظ سے باطن ہے۔

 

اسی طرح انسان ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، اس کا ظاہر ہونا جسم کی نسبت سے اور باطن ہونا روح کے سبب سے ہے، نیز انسان جب گفتگو کرتا ہے تو ظاہر ہوجاتا ہے کہ وہ دانا ہے یا نادان، اور اگر وہ نہ بولے تو باطن رہ جاتا ہے، اسی معنی میں مولانا علی علیہ السّلام کا ایک ارشادِ گرامی ہے، کہ آدمی اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے۔

 

اس حقیقت کی ایک اور دلیل، کہ خدائے تعالیٰ کے پاک نور کا مشاہدہ ممکن بھی ہے، اور ناممکن بھی، یہ ہے کہ وہ خود جل جلالہٗ فرماتا ہے کہ، لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ  (۰۶: ۱۰۳) آنکھیں اس کی ذات تک نہیں پہنچ سکتی ہیں، اور وہ خود اپنی صفات سے آنکھوں کو پہنچ سکتا

۱۷۰

ہے، اس ارشادِ عالی سے یہ حقیقت ظاہر ہے، کہ کسی انسان کے دیدۂ دل میں یہ طاقت نہیں کہ خدا کے نور کے آسمانِ رفعت تک پہنچ سکے، مگر ہاں نور خود بخود چشمِ بصیرت کے سامنے آجاتا ہے، جس طرح کہ معلوم ہے، کہ ہماری ظاہری نگاہیں سورج تک نہیں پہنچ سکتی ہیں، بلکہ وہ اپنی ہی روشنی کی وساطت سے ہماری نظروں میں سمو آتا ہے۔

 

پس گویا یہ جسمانی سورج بھی ہم سے یہی کہا کرتا ہے، کہ اے ابنِ آدم! دراصل تمہاری نظریں مجھ تک نہیں پہنچ سکتیں، اور نہ ہی تمہاری آنکھیں اپنے اندر مجھے سموسکتی ہیں، کیونکہ میں ان سے نہایت ہی دور اور انتہائی عظیم ہوں، مگر امرِ واقع یہ ہے کہ میں خود ہی تمہاری آنکھوں تک پہنچ سکتا اور ان میں اپنے آپ کو سموسکتا ہوں، تاکہ یہ ایک قریبی مثال ہو کہ خدا کا نور کس طرح حقیقی مومن کے مشاہدے میں آسکتا ہے۔

 

والسلام

۱۷۱

مصنف کے متعلق پاکستان کے بعض سربلند دانشوروں کی آراء

 

جناب محمود بریلوی صاحب (ڈاکٹر پروفیسر):

“مفتاح الحکمت” کے مصنف جناب نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی صاحب محتاجِ تعارف نہیں ہیں، موصوف نے اس نوع کی متعدد کتابیں لکھ کر صوفی حلقوں سے خراجِ تحسین وصول کیا ہے، “میزان الحقائق”  ان کی دوسری معروف و مقبول کتاب ہے۔

 

ہونزائی صاحب اسماعیلی واعظ و مبلغ کی حیثیت سے اپنی جماعت میں معزز و موقر ہیں، وہ شاعر بھی ہیں، اور انشاء پرواز بھی، روحانیّت و نفسیات ممدوح کے خاص موضوع ہیں، میزان الحقائق اور مفتاح الحکمت کی اشاعت سے اسماعیلی نظریات کی جو توجیہہ موصوف نے کی ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں، ان کی تحریر شائستہ اور اندازِ بیان دلپذیر ہے، جو ان مضامین کے دلدادہ ہیں، وہ یقیناً مطالعہ سے محظوظ و مسرور ہوں گے۔

محمود بریلوی (ڈاکٹر پروفیسر)

مصنف “افریقہ میں اسلام” انگریزی و دیگر کتب۔ جولائی ۱۹۶۶ء

۱۷۲

جناب جون ایلیا صاحب:

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

میزان الحقائق:

مصنف الواعظ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی۔

کتاب کے مصنف جناب نصیر الدین نصیرؔ ایک عالم و فاضل بزرگ ہیں، ان کا تعلق ریاستِ ہونزہ سے ہے، موصوف بروشسکی زبان کے پہلے شاعر ہیں، بروشسکی کے علاوہ اردو اور فارسی میں بھی شعر کہتے ہیں، ان کی شاعری بیان کے حسن، احساس کے خلوص اور فکر کی متانت کا بہترین امتزاج ہے، وہ بروشسکی زبان کے ایک منفرد شاعر ہیں، انہوں نے خالص علمی اور فلسفیانہ موضوعات پر اردو اور فارسی میں متعدد کتابیں لکھی ہیں، خاص طور پر اردو ان کا پسندیدہ اور محبِّوب ذریعۂ اظہار ہے، وہ صلے اور ستائش سے بے نیاز ہوکر اردو زبان کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ریاستِ ہونزہ میں تصنیف و تالیف کی روایت انہیں نے شروع کی ہے، ان کی یہ مساعی اردو دوست حلقوں کی طرف سے خاص حوصلہ افزائی کی مستحق ہیں، نصیر صاحب کی زیرِ تبصرہ تصنیف “میزان الحقائق” ان کے مفکرانہ اندازِ فکر کی پوری نمائندگی کرتی ہے، وہ اردو زبان میں باطنی علم اور فکر کے پہلے ترجمان ہیں۔

 

اس کتاب میں حقائقِ تنزیل اور اصولِ تاویل کی روشنی میں حیات اور کائنات کے مختلف پہلووں پر بحث کی گئی ہے، اور اس بحث میں قدیم و

۱۷۳

جدید افکار اور ان کے نتائج کو پوری طرح سامنے رکھا گیا ہے، کتاب کے چند عنوانات یہ ہیں: دائمی قیامت، عالمگیر روح کی عملی طاقت قیامت خیز ہے، الف میں نقطہ پوشیدہ اور صفر ایک سے آگے، مردہ ایٹم اور زندہ ایٹم، وغیرہ، ان عنوانات کے سلسلے میں موضوع سے متعلق مختلف اور گوناگون مسائل زیرِ بحث لائے گئے ہیں۔

جون ایلیا

 

 

جناب وزیر غلام علی الانا صاحب:

میں نے فاضلِ محترم جناب نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کی گرانقدر تصنیف “مفتاح الحکمت” دیکھی، اور اس کے فکر انگیز مباحث سے استفادہ کیا، میں فاضل موصوف کے علمی اور فکری خلوص کا قائل رہا ہوں، اور ان سے مختلف مسائل پر گفتگو کی ہے، نصیرؔ صاحب کی علمی اور فکری تحریریں باطنی فلسفے کا بیش بہا پس منظر رکھتی ہیں، باطنی فلسفے نے مسلم ثقافت کو ایک گہری معنویت دینے میں جو کردار ادا کیا ہے، اسکا ابھی پوری طرح جائزہ نہیں لیا گیا۔ اس مکتبۂ فکر نے دنیائے اسلام کے عظیم ترین ذہنوں کی تربیت کی ہے، اور اسلامی مشرق کے دوسرے فلسفیانہ مکاتیب کو مختلف سطحوں پر متاثر کیا ہے۔ حمید الدین کرمانی، المؤید فی الدین شیرازی اور ناصر خسرو ایسے زعمائے فکر اسی عظیم الشّان مکتبۂ فکر کے پروردہ ہیں، دنیائے اسلام کی شہرۂ آفاق تنظیم “اخوان الصفا” مکتبۂ باطنیّت ہی سے تعلق رکھتی ہے۔

۱۷۴

فاضلِ محترم جناب نصیرؔ ہونزائی نے اپنے گرانقدر تصنیفات میں اس نظامِ فکر کی نمائندگی کی ہے، اور ان حقائق کو زیرِ بحث لائے ہیں جو آج تک دقیق فکر کا موضوع بنے ہوئے ہیں، ان کی زیر نظر تصنیف “مفتاح الحکمت” بھی اسی ذیل میں آتی ہے، انہوں نے اس کتاب میں براہِ راست قرآنِ کریم کے حوالے سے بعض مسائل پر اظہارِ خیال کیا ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کی یہ کوشش علمی اور مذہبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔

غلام علی الانا

۲۰۔ جنوری ۱۹۶۷ء

 

جناب غلام سرور صاحب

ایم۔اے، پی۔ایچ۔ڈی (علیگ):

“میزان الحقائق”: میں نے اس کتاب کا مطالعہ غائر نظر سے کیا ہے، کتاب کے مصنف اور کتاب کے متعلق میری رائے حسبِ ذیل ہے:

مصنف علومِ دینیہ سے کامل واقفیت رکھتے ہیں، قرآن مجید کے حقائق و معارف پر ان کو عبور حاصل ہے، احادیثِ نبوّیؐ کے سمجھنے پر بھی قدرت رکھتے ہیں، علمِ فلسفہ اور علمِ منطق میں ان کو دسترس حاصل ہے، اردو زبان اچھی جانتے ہیں، اور اپنے مانی الضمیر کو آسانی کے ساتھ پیش کرسکتے ہیں۔

کتاب کے موضوعات، کتاب کے نام سے ظاہر ہیں، یہ کتاب ایسے حقائق اور ان کی توضیحات پر مشتمل ہے جن کا جاننا موجودہ دور کے انسانوں کے لئے

۱۷۵

ازبس ضروری ہے، البتہ یہ بات بلا خوف و خطر کہی جاسکتی ہے، کہ اس کتاب کے موضوعات معنی اور مطالب کے اعتبار سے ادق اور مشکل ہیں، اور ان کا سمجھنا ایک عامی کے بس کی بات نہیں، خواص ہی انہیں سمجھ سکتے ہیں، اور ان سے مستفید ہوسکتے ہیں۔

 

ایک چیز ضرور کھٹکتی ہے، اور وہ ہے ان مشکل مباحث کی توضیحات کا اختصار، قاری مطالعہ کے بعد تشنگی محسوس کرتا ہے، اور حقائق کی مزید وضاحت کا طالب ہوتا ہے، جو اسے موجودہ کتاب میں نہیں ملتی۔

 

بہتر ہوتا، اگر صاحب تصنیف ان موضوعات کی مزید توضیح فرماتے، اور تشنگانِ وادیٔ حقائق کی پیاس بجھاتے، یہ ایک دینی خدمت ہے، خداوندِ تعالیٰ فاضل مصنف کو اس سے زیادہ خدمت کی توفیق بخشے!

غلام سرور، ایم۔اے، پی۔ایچ۔ڈی (علیگ)

پروفیسر اینڈ ہیڈ، ڈیپارٹمنٹ آف پرشین، یونیورسٹی آف کراچی

۱۹۶۷/۴/۱۸

 

جناب جون ایلیا صاحب:

وجہِ دین،       مصنف: حکیم ناصر خسروؔ

مترجم: الواعظ نصیرؔ ہونزائی

چوتھی صدی ہجری کا فلسفی شاعر، حکیم اور فلسفی ناصر خسرو ایک ہمہ گیر شخصیت

۱۷۶

کا مالک تھا، فلسفہ و حکمت کی کئی گران مایہ کتابیں ان کی یادگار ہیں، جن میں ذادالمسافرین، جامع الحکمتین اور خوان الاخوان کو نمایان حیثیت حاصل ہے، ان کے علاوہ ایک ضخیم دیوانِ اشعار ہے، جو فارسی ادب میں ایک بیش قیمت ذخیرے کی حیثیت رکھتا ہے، ناصر خسرو غالباً وہ پہلا شاعر ہے جسے حکیم کے لقب سے یاد کیا گیا۔ “وجہِ دین” ناصر کی مشہور و معروف تصنیف ہے جو امورِ دینیہ اور مسائلِ شرعیہ سے بحث کرتی ہے، ناصر ان امور اور مسائل میں بھی علم و حکمت کو ملحوظ رکھتا ہے۔

باطنی فلسفے کے دقیق النظر عالم اور بروشسکی اور فارسی زبان کے شاعر جناب الواعظ نصیرؔ ہونزائی نے وجہِ دین کا اردو ترجمہ کیا ہے، جو اِس وقت ہمارے پیشِ نظر ہے، موصوف قابلِ داد ہیں کہ انہوں نے ناصر کے علمی و استدلالی لہجے اور قدیم ترین فارسی طرزِ نگارش کو، جس کا ترجمہ سخت ریاضت چاہتا ہے، بڑی خوش اسلوبی اور روانی کے ساتھ اردو میں منتقل کیا ہے، مجھے بھی ناصر خسروؔ کی دو فلسفیانہ کتابوں کو اردو میں منتقل کرنے کا موقع ملا، اور مجھے پوری طرح اندازہ ہے کہ ناصر کو شگفتگی اور روانی کے ساتھ منتقل کرنا کس قدر دشوار ہے، ناصرؔ عام طور پر فلسفے کی مانوس عربی اصطلاحات کے بدلے فارسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں، جن کے باعث مفاہم و معانی میں کافی دشواری پیش آتی ہے، یوں بھی ناصر کی فارسی سعدی —— کی فارسی ہے اور علمی فارسی، لیکن ان تمام حقائق کے وصف نصیر صاحب نے ایسی سلاست کے ساتھ ترجمہ کیا ہے کہ ترجمے میں خود اصل اشکال بھی رفع ہوگیا ہے، اور یہ محض اس لئے

۱۷۷

ممکن ہوگیا کہ فاضل مترجم خود بھی ایک جامع اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں، وہ اسلامی فلسفے پر گہری نظررکھتے ہیں، عالمِ دین ہیں، اور پھر ایک شعلہ بیان شاعر، اور پھر یہ کہ حکیم ناصر خسروؔ کی فکر کے پاکستان میں سب سے بڑے محرم ہیں، یہ ترجمہ “دارالحکمۃ الاسماعیلیہ ہونزہ، گلگت” نے شائع کیا ہے، کراچی میں ملنے کا پتہ “عباسی  کتب خانہ جونا مارکیٹ” ہے۔

 

جون ایلیا

(عالمی ڈائجسٹ۔ شمارہ اگست ۱۹۶۸ء)

۱۷۸

پہلا دیدار اور پہلی کرامت

 

یہ ماہِ دسمبر ۱۹۴۵ء کا زمانہ تھا، جب کہ میں آرمی سے ریلیز (Release) ہو کر جبل پور سے بمبئی پہنچ گیا، جس کا واحد مقصد یہ تھا کہ میں امام عالیمقام علیہ السّلام کے دیدارِ اقدس کی سعادت حاصل کروں، اور نظارۂ جشنِ جواہر (ڈائمنڈ جوبلی) سے آنکھیں پُرنور ہوجائیں، چنانچہ بمبئی پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کی تشریفِ مبارک پونا گئی ہے، اشتیاقِ دیدار شدید اور عروج پر تھا، لہٰذا کسی انتظار کے بغیر میں بطرفِ پونا روانہ ہوگیا، اس انتہائی سعید سفر میں بڑی عجیب بات ہوئی کہ ہم چار بھی تھے اور پانچ بھی، یعنی چار قبیلوں کے پانچ افراد:

۱۔ کاکوزبر خان، جو میرے عزیز دوست موکھی عرب خان کے بھائی ہیں، جن کا تعلق دِرا مِتِک سے ہے۔

۱۷۹

۲۔ کاکو نگاہ شاہ (براتِلک) اور ان کی والدہ مم فیروزہ۔

۳۔ نن گلاب شاہ، شاہ علی کڎ، خرو کڎ۔

۴۔ اور یہ بندۂ ناچیز بروݣ۔

ہم بذریعۂ ریل گاڑی تقریباً شام کے وقت پونا پہنچ گئے، رات انتظارِ دیدار کی بے قراری اور طرح طرح کی نیک دعاؤں میں بسر ہوگئی، اور صبح صادقِ نویدِ دیدارِ معشوق لیکر نمودار ہوئی، شاید آٹھ یا نو بجے کے درمیان کا کوئی وقت تھا، ہم اپنے دل کی عاجزانہ کیفیات و خواہشات کے ساتھ دیدار گاہ میں حاضر ہوئے، کچھ دیر سے آنے کی بنا پر صفِ آخرین میں کہیں جگہ ملی، دل شاہِ ولایت کے بادۂ عشق سے مخمور اور جان اس کی لِقاء کے شوق سے معمور ہورہی تھی، اب زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ امامِ زمان علیہ السّلام کی تشریف آوری کی علامت ظاہر ہوئی، اور مقدّس اجتماع نے ہم آہنگ و یک زبان ہو کر صلوات بابرکات کا ورد شروع کرلیا، اتنے میں ہمارے مولائے نامدار کی کار (Car)نظر آئی، تمام تر مشتاق نگاہیں اسی برگزیدہ محبوب کی جانب جا رہی تھیں، حضور پُرنور درخشان و تابان موٹر سے باہر

۱۸۰

نکلتے ہوئے قدمِ مبارک زمین پر رکھ رہے تھے کہ زمین کشتیٔ بر آب کی طرح دائیں بائیں ہلنے لگی، مجھ سے بے اختیار صدائے “یا علی یاعلی” بلند ہوئی، میرا گمان تھا کہ نورِ امامت کی یہ کرامت تمام حاضرین نے محسوس کی ہوگی، لہٰذا میں نے کچھ اضطراب کے عالم میں نن گلاب شاہ اور کاکو نگاہ شاہ (جو میرے پاس تھے) سے کہا کہ زلزلہ یعنی بھونچال آیا، انہوں نے کہا کہ نہیں، حالانکہ اس زلزلۂ قیامت سے میں دائیں بائیں گرنے پر تلا تھا اور دونوں ہاتھوں کا سہارا لیکر بچ گیا تھا، اس عجیب و غریب واقعہ سے مجھے انتہائی حیرت ہوئی اور میں خاموش ہوا۔

 

اُس زمانے میں یہ عاجز بندہ علم اور روحانیّت کا طفلِ شیر خوار تھا، لہٰذا اِس واقعہ کو امامِ برحقؑ کی کرامت قرار دینے کے باؤجود اس کی پُرحکمت اشارتوں کو سمجھنے سے قاصر تھا، مگر جب بفضلِ خداوندِ قدوس یہ حقیر آگے چل کر روحانی انقلابات و تجربات سے گزر گیا، تو اس میں ہر طرح کی علمی پختگی آگئی، چنانچہ اسرارِ روحانیّت کی روشنی میں عرض کی جاتی ہے کہ قرآنِ پاک میں جہاں جہاں زلزلہ کا ذکر ہے (۰۲: ۲۱۴، ۲۲: ۰۱، ۳۳: ۱۱، ۹۹: ۰۱) وہاں چار قسم کے بھونچال کا بیان فرمایا گیا ہے:

۱۸۱

۱۔ زمین کے جسمِ کثیف کا زلزلہ۔

۲۔ زمین کے جسمِ لطیف کا زلزلہ۔

۳۔ انسان کا ظاہری بخار / لرزہ (زلزلہ) یا کپکپی، اور

۴۔ آدمی کا باطنی بخار، جو جسمِ لطیف سے تعلق رکھتا ہے، جس کے کئی مراتب ہیں۔

 

اس موقع پر میں بصد خلوص یہ بھی عرض کروں کہ درویشی اور روحانیّت کے اعلیٰ مراحل میں لطیف زلزلوں کا تجربہ لازمی ہے، کیوں کہ یہ ان روحانی وسائل میں سے ہیں، جن سے نفس کا تزکیہ ہوجاتا ہے، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے:

 

جب زمین اس کے بھونچال سے ہلا ڈالی جائے، اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے، اور انسان کہے گا کہ یہ اس کو کیا ہورہا ہے؟ اس دن وہ اپنے حالات بیان کرے گی کیونکہ تیرے ربّ نے اُسے حکم دیا (۹۹: ۰۱ تا ۰۵)۔

 

یہاں ارض سے عالمِ شخصی کی زمین (نفس) مراد ہے، اور اسی کی صلاحیتوں میں سے ایک خاص صلاحیت کپکپی یعنی زلزلہ ہے، انسان کے باطن میں بہت سے بوجھ (اثقال) ہیں، جو غفلت، جہالت، نافرمانی وغیرہ کے نام سے ہیں،

۱۸۲

جب کوئی خوش نصیب درویش بوسیلۂ زلزلہ نفسانی کدورتوں کے بارِ گران سے سبک دوش ہوجاتا ہے، تو تب ہی وہ معجزانہ خطاب سننے کے لئے آگے جاسکتا ہے۔

 

سوال: اگر عزیزوں میں سے کوئی مجھ سے یہ پوچھے کہ شروع ہی میں معجزۂ زلزلہ دکھایا گیا، اس کی تخصیص میں کیا حکمت پوشیدہ ہے، جب کہ کوئی دوسرا معجزہ بھی ممکن تھا؟ میں اس کا جواب عرض کروں گا کہ یہ معجزہ جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے قیامت کی علامتوں میں سے ہے، چونکہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام بلاواسطہ یا بالواسطہ زمانۂ قیامت کے امام تھے، لہٰذامعجزۂ زلزلہ سے ذاتی یا اجتماعی قیامت کا اشارہ فرمایا گیا۔

 

جس طرح ہر چیز کی حقیقی پہچان (معرفت) روحانیّت میں ہوسکتی ہے، اسی طرح قیامت کی شناخت بھی روحانیّت ہی میں ہوتی ہے، مگر اس کے نتائج کے طور پر بڑے بڑے انقلابات دنیائے ظاہر میں آتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ

۱۸۳

عصرِ حاضر کے باطن میں بہت بڑی قیامت برپا ہوئی ہے، اسی لئے بڑی تیزی سے ظاہری حالات بدل رہے ہیں۔

 

N.N.H

21-11-92 (Karachi)

۱۸۴

گلدستہ ای از گلزارِ مولویٔ معنوی

گلدستہ ای از گلزارِ مولویٔ معنوی

کلماتِ جامع

)انتساب(

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا ارشادِ مبارک ہے: بعثت بجوامع الکلم۔ مجھے جوامع الکلم (مختصر الفاظ میں بہت سے معانی کو سمو دینا) کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ دوسری حدیثِ شریف میں ہے: اوتیت جوامع الکلم۔ مجھے وہ باتیں ملیں جن میں لفظ کم ہیں لیکن معانی بہت ہیں (یعنی قرآن جس کے الفاظ تھوڑے اور معانی و مطالب بے شمار ہیں)۔

 

کان یتکلم بجوامع الکلم۔ آنحضرتؐ ایسے کلمے ارشاد فرمایا کرتے جو بہت ہی جامع ہوتے (یعنی الفاظ تھوڑے اور معانی بہت ہوتے) اس سے معلوم ہوا کہ “جوامع الکلمُ” قرآن اور حدیث دونوں کا نام ہے، کیونکہ حضورِ اکرمؐ کے جملہ اقوال و افعال قوانینِ قرآن کے مطابق تھے، جبکہ محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام اہلِ ایمان کو خود حکم دیتے ہیں کہ: تخلقوا باخلاق اللہ (تم اوصافِ خداوندی سے آراستہ ہو جاؤ)۔

 

قرآن و حدیث کی مذکورۂ بالا جامعیّت میں بطورِ خاص تاویلی حکمت کا اشارہ ہے، کیونکہ جوامع الکلم کے معانی سے تاویل الگ

 

۳

 

نہیں ہو سکتی، جبکہ قرآنِ حکیم میں تاویل کا مضمون زبردست اہمیت کا حامل ہے، آپ اُن تمام آیاتِ کریمہ کا بغور مطالعہ کر کے دیکھیں جو تاویل سے متعلق ہیں، آیا قرآنِ پاک کے تاویلی اسرار غیر ضروری ہو سکتے ہیں؟ نہیں، قرآنِ کریم کی تمام ظاہری و باطنی نعمتیں بے حد ضروری ہیں۔

 

لغات الحدیث، کتاب “الف” ص ۸۵ پر یہ حدیث درج ہے: اللھم فقھہ فی الدین و علمہ التاویل  یا اللہ! ابنِ عباس کو دین کی سمجھ عطا فرما اور اس کو تاویل سکھلا دے۔ مولانا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: ما من اٰیٰۃ الا و علمنی تاویلھا۔ قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں جس کی تاویل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو نہیں سکھلائی ہو۔

 

یہ حدیثِ شریف مثنوی کے دفترِ سوم میں بھی ہے: ان للقرآن ظھرا و بطنا و لبطنہ بطن الیٰ سبعۃ ابطن۔ یقیناً قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے اور اس کے باطن کا بھی باطن ہے سات باطنوں تک (اور دوسری روایت میں ستر باطنوں کا ذکر ہے)۔

 

یہاں تک اس جدید انتساب کا خاص علمی حصّہ ہے، اب میں اپنے بہت ہی عزیز و شفیق دوست الامین (ابنِ صدر الدین ابنِ رجب علی خاکوانی) جنرل سیکریٹری آف خانۂ حکمت کا ذکرِ جمیل کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ہمارے کراچی کے سینئر ساتھیوں میں سے ہیں،

 

۴

 

علمی خدمت کی مقدّس راہ میں ثابت قدم، حقیقی مومن، امام شناسی کا شیدائی، مولا کا جان نثار، وفادار، محبِ اہلِ بیتِ اطہار (علیہم السّلام) ، علم و حکمت کے قدردان، کم گو، صابر، پاک باطن، متّقی، عابد، ہوشمند، خیرخواہِ خلق، اور علیٔ زمان (علیہ السّلام) کے راسخ العقیدت دامن گیر، الحمد للہ، میرے یہ عزیز ایسے بہت سے اوصاف کے مالک ہیں۔

 

آپ کی خوش اخلاق بیگم محترمہ نسیم بڑی ایماندار اور سلیقہ مند خاتون ہیں، تاریخِ پیدائش: ۲۶جون ۱۹۵۳ء، تعلیم: ایم۔ اے (پولیٹیکل سائنس)، سماجی خدمات: کونسلر برائے یونین کونسل “کونکر” ضلع ملیر سندھ، (۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۳ء)، پیشہ: بینک میں ملازمت، عہدہ: پرسنل سیکریٹری برائے مینیجنگ ڈائریکٹر، علم کی مقدّس خدمت کی نسبت سے ٹو اِن وَن (TWO IN ONE) یعنی خانۂ حکمت کی بے مثال خدمات کے عظیم ثواب میں یہ دونوں فرشتے (الامین اور نسیم) ایک ہیں، کیونکہ یہ علمی ادارہ دونوں عزیزوں کو بے حد عزیز ہے۔

 

ان کی بہت ہی پیارے بیٹی نورین (۱۱ سالہ) اور بہت ہی عزیز بیٹا شاہ نواز (۷ سالہ) ان کے لئے محبتوں اور خوشیوں کے دو زندہ خزانے ہیں، ان شاء اللہ، علم وہنر کے اس روشن زمانے میں یہ دونوں نیک بخت بچے غیر معمولی ترقی کریں گے، اور پیاری جماعت کی اعلیٰ خدمت اور پاک مولا کی مبارک دعا سے دونوں جہان میں سرفراز ہو جائیں گے، آمین!

 

ن۔ن۔ (ح۔ع) ھ۔ کراچی

پیر ۸ ذی الحجہ ۱۴۱۵ھ، ۸ مئی ۱۹۹۵ء

 

۵

 

دیباچہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ قرآنِ حکیم نے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان فرمایا کہ کائنات و موجودات کی کوئی چیز (مخلوق) ایسی نہیں جو لسانِ قال یا زبانِ حال یا نمائندۂ مثال سے اللہ جلّ جلالہ کے لئے صلاۃ (نماز) نہ پڑھ رہی ہو (۲۴: ۴۱) اس کی بارگاہِ عالی میں سجدہ ریز نہ ہو رہی ہو (۱۳: ۱۵، ۱۶: ۴۹، ۲۲: ۱۸) اور حق تعالیٰ کی تسبیح خوانی نہ کر رہی ہو، لہٰذا میرے دلِ مضطرب کی پُرسوز آرزو یہ ہے کہ:

 

اے کاش میرا ناتوان قلم بطرزِ عاشقانِ وارفتہ مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات کرتے کرتے بار بار غلبۂ عشق سے سجدۂ شکرگزاری میں سرنگون ہو جاتا! خامۂ حقیر قطرہ ہائے خونِ شہیدان جیسے انمول آنسوؤں کے موتیوں کی بارش برساتا! کاش ہم خود بھی قلم ہی کی طرح سجدۂ عشق میں بار بار اشک ریزی کر سکتے! تا کہ اس کی برکتوں سے قلب و جان میں اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کی محبت و مودت کا ایک بہشت آسا عالم آباد ہو جاتا!

 

کتابچۂ ہٰذا کا نام:

اس کتابچہ کا نام ہے: “گلدستہ ای از گلزارِ مولویٔ معنوی۔” کتاب چھوٹی سی مگر نام بہت بڑا

 

۷

 

ہونے میں بھی حکمت ہو سکتی ہے، یہ تشریح کی غرض سے ہے، آپ اسے “گلدستہ” کہہ سکتے ہیں، میرے نزدیک مولای رومی صوفیٔ اعظم ہیں، اس لئے ان کی تعلیمات طریقت کا بہترین نمونہ ہیں، چونکہ اسلام دینِ فطرت یعنی آفاقی دین ہونے کی وجہ سے درجات کی سیڑھی پر مبنی ہے، تاہم اس کے بڑے درجات چار ہیں: شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت۔

 

حکمتِ فرد= بے مثال حکمت:

آپ خوب یاد رکھیں اور بھول نہ جائیں کہ قرآنِ عزیز کے پانچ مقامات پر حکمتِ فردانیت کا ذکر آیا ہے: سورۂ مریم (۱۹: ۸۰)، سورۂ مریم (۱۹: ۹۵)، سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۹)، سورۂ انعام (۰۶: ۹۴)، سورۂ سبا (۳۴: ۴۶)۔ یہ حکمت بڑی عظیم الشّان اور اعجوبۂ دو جہان ہے، اس میں ایسے اعلیٰ عرفانی سوالات کے لئے حکمتی جوابات ہیں:

 

۱۔ انسان کی ازلی اور ابدی حقیقت کیا ہے؟

۲۔ کیا یہی نظریہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو فردِ واحد بنا کر پیدا کیا، اور سب کو فردِ واحد بنا کر واپس کر لے گا؟

۳۔ آیا ہم یہ مانیں کہ جو ازل ہے وہی ابد بھی ہے اور جو ابداع ہے وہی انبعاث بھی ہے؟

۴۔ یہ حقیقت کس طرح ممکن ہے کہ انسان ایک طرف ہمیشہ بہشت میں بھی ہو، اور دوسری طرف دنیا میں بھی آئے؟

۵۔ یہ

 

۸

 

تاویلی مفہوم قرآنِ عظیم کی کس سورہ اور کس آیہ میں ہے؟: “روحانی ترقی یا انفرادی قیامت کے سلسلے میں لوگوں کو یہ حکم ملا ہے کہ وہ منشائے الٰہی کے مطابق کثرت کو پیچھے چھوڑ کر صرف دو ہو جائیں، اور اس کے بعد دوئی کو بھی پسِ پشت ڈال کر ایک ہو جائیں، پھر علمِ توحید میں غور و فکر کریں۔”

 

شریعت اور طریقت:

سورۂ مائدہ (۵) کی آیتِ کریمہ ۴۸ کے کئی ترجموں کو غور سے پڑھ لیں، اس میں شریعت اور طریقت (شرعۃ و منہاجا، ۰۵: ۴۸) کا ذکر آیا ہے، اور اسی آیۂ شریفہ میں ایک دوسرے سے نیکیوں میں سبقت لے جانے کا حکم بھی ہے، پس اگر اسلام میں شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت کے درجات نہ ہوتے تو دینِ فطرت میں ترقی اور سبقت کا کوئی حکم نہ ہوتا، حالانکہ حکم ہے:

سابقوا ۔ آگے بڑھو، سبقت کرو (۵۷: ۲۱)، سابقون۔ سبقت کرنے والے (۲۳: ۶۱)، وَ السّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ اُولٰٓىٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَ۔ اور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں، وہی تو مقرب لوگ ہیں (۵۶: ۱۰ تا ۱۱)،  فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ۔ پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو (۰۲: ۱۴۸)۔

 

علم و عمل کے درجات:

قرآنِ عزیز میں جہاں جہاں کسی بھی لفظ میں راہِ اسلام کا ذکر آیا ہے، لازماً اس کی

 

۹

 

منزلیں بھی ہیں جو شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت سے عبارت ہیں، یہی منازل دوسرے الفاظ میں اسلام کے چار بڑے درجات کہلاتے ہیں، جن کے بہت سے ذیلی درجے ہیں، کثیر درجوں کا مجموعی نام سیڑھی ہے، آسمانی سیڑھی کا دوسرا نام اللہ کی رسی ہے، کیونکہ یہ کوئی مادّی چیز نہیں بلکہ روح اور عقل ہے، اس لئے اس سے شخصِ کامل کا نور مراد ہے، پس علم و عمل کے درجات اسی معیار کے مطابق مرتب ہو جاتے ہیں، آپ قرآنِ حکیم میں درجات کے موضوع کو غور سے پڑھ لیں۔

 

شریعت کی تعریف:

حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شریعتِ مقدّسہ تمام سابقہ شریعتوں کا خلاصہ و جوہر ہے، یہ پاک شریعت مناسب ترمیمات کے ساتھ زمانۂ نوح سے چلی آئی ہے (۴۲: ۱۳) مسلمانانِ عالم کے لئے دینِ اسلام کا دروازہ شریعت ہی سے کھل گیا ہے، دینِ فطرت (اسلام) کی عالیشان عمارت جو چار منزلہ ہے وہ شریعت ہی کی بنیاد پر قائم ہوئی ہے، اگر شریعت نہ ہوتی تو نہ دین ہوتا اور نہ اس کی کوئی چیز ہوتی، شریعت کے ظاہر و باطن کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے حضرتِ حکیم پیر ناصر خسرو ق س کی عدیم المثال کتاب وجہِ دین کا مطالعہ کریں۔

 

۱۰

 

طریقت کی تعریف:

جیسا کہ ذکر ہوا کہ قرآنِ پاک میں طریقت کا ایک خاص نام منہاج (۰۵: ۴۸) ہے، جس کے معنی ہیں: کشادہ راستہ یعنی شریعت کا باطن، کیونکہ شریعت بہشت کا میوۂ شیرین ہے، طریقت اس کا مغز، حقیقت روغنِ مغز یعنی تیل اور معرفت اس تیل سے پیدا ہونے والی روشنی (یعنی نور) ہے، حق بات تو یہ ہے کہ ایسی انتہائی خوبصورت مثال قرآنِ حکیم سے باہر کہاں ہو سکتی ہے، چنانچہ شریعت میوۂ زیتون ہے، طریقت مغزِ زیتون، حقیقت روغنِ زیتون، اور معرفت وہ روشنی ہے جو اس تیل کے جلنے سے پیدا ہو جاتی ہے (۲۴: ۳۵)۔

 

لفظِ زیتون زیت سے نکلا ہے، یہ درختِ زیتون اور اس کے پھل کا نام ہے، یعنی ایسا درخت اور پھل، جس کے مغز اور تیل کی بڑی کثرت و فراوانی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دینِ اسلام اور اس کی شریعت کی ہر چیز مغزِ باطن اور زیتِ حکمت سے لبریز ہے، یہی وجہ ہے کہ وجہِ دین میں شریعتِ اسلامیہ کے تمام اہم امور کی بڑی شاندار تاویل بیان کی گئی ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

صوفیٔ اعظم:

مولویٔ معنوی نے تصوّف کی دنیا میں بڑا انقلابی کام انجام دیا ہے، اس لئے وہ صوفیٔ اعظم کہلانے کے قابل ہیں، شاید دنیا میں کوئی ایسا علمی و ادبی ادارہ نہیں، جس میں مولای رومی کے آثارِ علمی میں سے کچھ بھی نہ ہو، حضرتِ مولانا

 

۱۱

 

امام سلطان محمد شاہ صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہ نے ان کے تصوّف کو اہمیت دی ہے، اور امامِ عالی مقامؑ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: ناصر خسرو کا فلسفہ مولانا رومی کی “مثنوی” کے فلسفے سے زیادہ گہرا ہے (ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی کی ایک کتاب: سیدنا حکیم ناصر خسرو ق س ، ص ۴۵ بحوالۂ مشن کانفرنس دار السّلام ، یکم مئی ۱۹۴۵ء)۔

 

حضورِ انور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنفسِ نفیس مسلمانوں کو شرعِ شریف کی عملی تعلیم دی، مگر طریقت، حقیقت اور معرفت کی ہدایات و تعلیمات اپنے وصی یعنی حضرت علی علیہ السّلام کے سپرد کر دیں، اور اسی معنیٰ میں فرمایا کہ: میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ نیز فرمایا کہ: میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ پس اب جو اہلِ طریقت ہیں وہ اپنے اپنے سلاسلِ بزرگان کو حضرت امیر المومنین علیؑ سے ملاتے ہوئے یہ اقرار کر لیتے ہیں کہ علمِ تصوف کا سرچشمہ مولا علیؑ ہی تھے، اہلِ حقیقت کہتے ہیں کہ: علیؑ بلباسِ دیگرے اب بھی موجود ہے کیونکہ قرآنِ حکیم کا فرمانا ہے کہ اللہ کا نور کبھی بجھتا نہیں، اور ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کو اسی سرچشمۂ علم و ہدایت سے حقیقت کا فیضان حاصل ہے۔

 

اب رہا مسئلہ اہلِ معرفت کے بارے میں کہ وہ نیک بخت لوگ کون ہو سکتے ہیں؟ اس کا مفصل جواب یہ ہے کہ وہ لوگ اہلِ حقیقت

 

۱۲

 

میں سے ہیں، جو راہِ روحانیّت پر چلنے میں کامیاب ہو گئے، ان پر قیامتِ صغریٰ اپنی تمام شدتوں کے ساتھ گزر گئی، ان کو سب سے اعلیٰ دیدار کی سعادت نصیب ہوئی، اس لئے انہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے ربّ کو پہچان لیا، اور اہلِ معرفت میں سے ہو گئے، انہوں نے اسرارِ ازل و اسرارِ ابد کو یکجا دیکھا جو لوگوں کے وہم و گمان کے برعکس ہیں، مثال کے طور پر عام تصوّر یہی ہے کہ ازل پہلے ہے اور ابد بعد میں، لیکن جو عالم مکان و زمان سے بالاتر ہے اس کی حقیقت کچھ اور طرح سے ہیں

 

بے مثال کامیابی:

ہم سب رفقائے کار مل کر بھی اور فرداً فرداً بھی بارگاہِ الٰہی میں بصد عاجزی شکرگزاری اور گریہ و زاری کرنا چاہتے ہیں کہ سال بسال اس کی رحمتوں اور برکتوں کی طوفانی بارش میں اضافہ ہو رہا ہے، کیونکہ ہر وقت ہمیں ڈرتے رہنا ہے کہ کہیں اُس کی بےشمار نعمتوں کی ناشکری اور ناقدری نہ ہو جائے، پس اے دوستانِ عزیز! ہمیں اس بے مثال کامیابی پر فخر و ناز نہیں کرنا ہے، بلکہ بار بار سجدۂ عبودیت و شکر گزاری بجا لانے کے لئے ہمیشہ کوشان رہنا ہے۔

 

یا اللہ ہم شکر گزاری کی ہمت و توفیق کے لئے تیری بارگاہِ عالی کی طرف رجوع کرتے ہیں، کیونکہ ہمیں اپنے آپ پر کوئی بھروسہ نہیں،

 

۱۳

 

یا ربّ العزّت! ہمیں اپنے سچے عاشقوں کے نقشِ قدم پر چلا لیا کر، تو خود رہنمائی اور دستگیری فرما! ورنہ ہم گر جائیں گے، اور کوئی نہ ملے گا جو ہم کو اٹھا سکے، اے خداوندِ دانا و بینا! تو ہی ہمیشہ ہمارا وکیل و کارساز ہو جا، ورنہ ہم غلط کاموں سے شرمندہ ہو جائیں گے، اے معبودِ برحق! ہم پر دائم الوقت اپنی عبادت کا شوق مسلط رکھ تاکہ ہم تیری بندگی کی سعادت سے کبھی محروم نہ رہیں، بحرمتِ حضرتِ محمد خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔

 

فقط بندۂ عاجز

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعہ ۲۳ جمادی الثانی ۱۴۱۶ھجری ، ۱۷ نومبر ۱۹۹۵ عیسوی

 

۱۴

 

دل کا آسمان

 

۱۔ نقش بندِ جان کہ جانہا جانبِ او مائلست

عاقلان را بر زبان و عاشقان را در دلست

 

ترجمہ: نقاشِ جان (یعنی خالق) جس کی طرف جانیں متوجہ اور راغب ہو جاتی ہیں۔ دانشمندوں کی زبان پر اور عاشقوں کے دل میں موجود ہے۔

 

۲۔ آنکہ باشد بر زبانہا لا احب الآفلین

باقیات الصالحات است آنکہ در دل حاصلست

 

ترجمہ: جو ظہور زبان پر ہے (اس کے بارے میں یہ ہے کہ) میں غروب اور غائب ہو جانے والوں سے دوستی نہیں رکھتا۔ اور جو ظہور دل میں ہے، وہی ہمیشہ باقی رہنے والی نیکیوں کی حقیقت ہے۔

 

۳۔ دل مثالِ آسمان آمد زبان ہمچون زمین

از زمین تا آسمانہا منزلِ بس مشکلست

 

ترجمہ: دل آسمان کی مثال ہے اور زبان زمین کی مثال ہے۔ اور زمین سے آسمانوں تک (اتنی مسافت اور بلندی طے کر کے پہنچ جانا)

 

۱۵

 

ایک انتہائی مشکل منزل ہے۔

 

۴۔ دل مثالِ ابر آمد سینہا چون بامہا

وین زبان چون ناودان باران ازینجا نازلست

 

ترجمہ: دل بادل کی مثال ہے اور سینے چھتوں کی طرح ہیں۔ اور یہ زبان پر نالے کی طرح ہے، اور یہیں سے (یعنی زبان کے پرنالے سے) بارش کا پانی گرتا ہے۔

 

مطلب: دل آسمان اور بادل ہونے کی تاویل یہ ہے کہ دل کی اصلیت ہی روحانیت کی بلندی ہے، اور یہیں سے روحانی علم کی بارش برستی ہے، جسے وحی و الہام کہئے یا علمِ لدّنی یا ہدایتِ خاص وغیرہ، علمِ حقیقت کے خاص الفاظ زبان پر آنے کے لئے سینے میں جمع ہو جاتے ہیں، جس طرح بارش کے قطرات یا تو پہاڑ پر پانی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں یا چھت پر، پھر یہ علم زبان کے ذریعے ظاہر ہونے لگتا ہے، جس طرح پہاڑ کا پانی نہر سے آتا ہے اور چھت کا پانی پرنالے سے گرتا ہے۔

 

۵۔ آب از دلِ پاک آمد تا ببامِ سینہا

سینہ چون آلودہ باشد این سخنہا باطلست

 

ترجمہ: علم کا یہ پانی دل کی بلندی سے لے کر سینوں کی چھتوں تک پاک اور صاف ہی آیا۔ مگر جب سینہ (گناہوں کی غلاظت سے) آلودہ ہوا، تو (علم کا یہ پانی بھی پینے اور نہانے دھونے کے قابل نہ رہا، یعنی) ایسے علم کی باتیں باطل ہیں۔

 

۱۶

 

۶۔ این خود آنکس را بود کز ابراو باران چکد

بام کو از ابر گیرد ناو دانش قائلست

 

ترجمہ: (ہر شخص کی روحانیّت کے بادلوں سے علم کی بارش نہیں برستی، لہٰذا) یہ مثال صرف اُس شخص کی ہے، جس کے بادل بارش برسا دیتے ہیں، اور جو چھت بادل سے پانی حاصل کرتی ہے، اُس کا حال پرنالہ ہی بتا سکتا ہے۔

 

۱۷

 

عشقِ حقیقی

 

۱۔ آن روح را کہ عشقِ حقیقی شعار نیست

نابودہ بہ کہ بودنِ او غیرِ عار نیست

 

ترجمہ: جو روح عشقِ حقیقی کی عادی نہیں۔ اُس کا موجود نہ ہونا بہتر ہے، کیونکہ اُس کا موجود ہونا شرم کے سوا کچھ بھی نہیں۔

 

۲۔ در عشق باش مست کہ عشق است ہر چہ ہست

بی کاروبار عشق برِ دوست بار نیست

 

ترجمہ: عشق میں مست رہا کر کیونکہ جو کچھ ہے تو عشق ہی ہے۔ (اس لئے کہ) عشق کے کاروبار کے بغیر دوست کے حضور میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔

 

۳۔ گویند: عشق چیست؟ بگو: ترکِ اختیار

ہر کو ز اختیار نرست اختیار نیست

 

ترجمہ: کہتے ہیں کہ عشق کیا ہے؟ کہو کہ اختیار ترک کر دینا ہی عشق ہے کیونکہ جو کوئی اختیار سے چھٹکارا حاصل نہ کرے تو وہ (بحقیقت)

 

۱۸

 

مختار ہی نہیں (یعنی اختیار ملنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہونا چاہئے کہ اس کو ترک کر کے بے اختیار ہو جایا جائے)۔

 

۴۔ عاشق شہنشہیست دو عالم بر و نثار

ہیچ التفاتِ شاہ بسوی نثار نیست

 

ترجمہ: عاشق ایک ایسا شاہنشاہ ہے، جس پر دونوں عالم نثار ہو جاتے ہیں (اور کمال استغنا سے) بادشاہ نثار کی طرف توجہ بھی نہیں دیتا۔

 

۵۔ عشقست و عاشقست کہ باقیست تا ابد

دل بر جزین منہ کہ بجز مستعار نیست

 

ترجمہ: صرف عشق اور عاشق ہی ابد تک باقی ہے (اور بس) ان دونوں کے سوا جو کچھ بھی ہو، وہ چند روزہ ہے۔

 

۶۔ تا کی کنار گیری معشوقِ مردہ را

جان را کنار گیر کہ او را کنار نیست

 

ترجمہ: تو کب تک اپنی آغوش میں مردہ معشوق (یعنی دنیا) لئے بیٹھے گا؟ روح کو آغوش میں لیا کر کیونکہ (اُس کی بقا و حیات) لامحدود ہے۔

 

۷۔ آن کز بہار زاد بمیرد گہ خزان

گلزارِ عشق را مدد از نو بہار نیست

 

ترجمہ: جو کچھ (پھول وغیرہ) بہار سے پیدا ہو جاتا ہے، وہ خزان کے وقت مر جاتا ہے۔ مگر عشق کے گلشن کو نو بہار کی مدد (کی کوئی

 

۱۹

 

ضرورت ہی) نہیں۔

 

۸۔ آن گل کہ از بہار بود خار یارِ اوست

وان می کہ از عصیر بود بی خمار نیست

 

ترجمہ: وہ پھول جو بہار سے پیدا ہو جاتا ہے، کانٹا اس کا ساتھی ہے۔ وہ شراب جو انگور کے رس سے بنتی ہے، دردِ سر کے بغیر نہیں۔

 

۹۔ نظارہ گو مباش درین راہ و منتظر

واللہ کہ ہیچ مرگ بترز انتظار نیست

 

ترجمہ: گو کہ اس طریقِ روحانیّت میں نظارہ اور جس کے لئے انتظار کیا جاتا ہے، دونوں نہ ہوں۔ خدا کی قسم انتظار سے بدتر کوئی موت نہیں۔

 

۱۰۔ بر نقدِ قلب زن تو اگر قلب نیستی

این نکتہ گوش کن اگرت گوشوار نیست

 

ترجمہ: اگر تو کھوٹا نہیں، تو اپنے دل کو (حقیقت کے معیار پر) پرکھ لے۔ یہ نکتہ سن لے اور (اسے اپنے کان کا آویزہ بنا لے) اگر تجھے کوئی آویزہ نہیں۔

 

۱۱۔ بر اسپِ تن ملرز سبکتر پیادہ شو

پرشِ دہد خدای کہ بر تن سوار نیست

 

ترجمہ: جسم کے گھوڑے پر لرزتا ہوا سوار مت ہو جا۔ جو شخص جسم پر سوار نہ ہو (یعنی جسم پر دارومدار نہ رکھے) تو خدا تعالیٰ ایسے شخص

 

۲۰

 

کو اڑ جانے کی طاقت بخشتا ہے۔

 

۱۲۔ اندیشہ را رہا کن و دل سادہ شو تمام

چون روی آئنہ کہ بنقش و نگار نیست

 

ترجمہ: فکر و اندیشہ کو چھوڑ دے اور پوری طرح سے صاف دل ہو جا۔ آئینے کی سطح کی طرح، کہ اُس پر کوئی نقش و نگار نہیں۔

 

۱۳۔ چون سادہ شد ز نقش ہمہ نقشہا در وست

آن سادہ رو ز روی کسی شرمسار نیست

 

ترجمہ: جب آئینہ نقش و نگار سے صاف ہوا، تو اُس میں تمام نقشے نظر آنے لگے۔ اور وہ پاک و صاف آئینہ کسی کے چہرے کے مقابل ہونے سے نہیں شرماتا ہے۔

 

۱۴۔ از عیب سادہ خواہی خود را؟ در و نگر

کو راز راست گوئی شرم و حذار نیست

 

ترجمہ: کیا تو اپنے آپ کو عیب سے پاک و صاف کر دینا چاہتا ہے؟ تو پھر آئینے میں دیکھ۔ کیونکہ وہ سچ بتانے میں کوئی شرم اور خوف نہیں رکھتا ہے۔

 

۱۵۔ چون روئی آہنین نہ صفا این ہنر بیافت

تا روئی دل چہ یابد کو را غبار نیست

 

ترجمہ: جب لوہے کی سطح کو صفائی کی بدولت یہ ہنر ملا (کہ ریتی سے صاف کرنے سے یہ آئینہ بن گیا اور اس میں مادّی قسم کی تمام چیزیں

 

۲۱

 

نظر آنے لگیں) تو پھر اُس دل (کے آئینے) کی سطح پر کیا کیا چیزیں نظر آئیں گی، جس میں کوئی کدورت ہی نہ ہو۔

 

۱۶۔ گویم: چہ یابد او؟ نہ، نگویم خمش بہ است

تا دلستان نگوید کو: راز دار نیست

 

ترجمہ: کیا میں یہ بتاؤں کہ ایسے دل کے آئینے میں کون سی چیز نظر آتی ہے؟ نہیں، میں نہیں بتاؤں گا خاموشی بہتر ہے۔ تا کہ میرا حقیقی معشوق یہ نہ کہے کہ وہ رازدار نہیں (یعنی بھید کی نگہداشت کرنے کے قابل نہیں)۔

 

۲۲

 

مقامِ فنا فی اللہ

 

۱۔ ہر کہ را اسرارِ عشق اظہار شد

رفت یاری زانکہ محوِ یار شد

 

ترجمہ: جس شخص کو عشق کے اسرار پوری طرح سے ظاہر ہو گئے، تو اُس کی دوستی چلی گئی، اس لئے کہ وہ تو دوست میں فنا ہی ہو گیا۔

 

۲۔ شمعِ افروزان بنہ در آفتاب

بنگرش، چون محوِ آن انوار شد

 

ترجمہ: (فنا کی حقیقت سمجھنے کے لئے) ایک جلتی ہوئی شمع دھوپ میں رکھ لے، اور دیکھ لے کہ وہ کس طرح (سورج کے) اُن انوار میں محو اور فنا ہوا۔

 

۳۔ نیست نورِ شمع، ہست آن نورِ شمع

ہم نشد آثار ہم آثار شد

 

ترجمہ: ایک اعتبار سے اُس شمع کی روشنی موجود ہے، اور دوسرے

 

۲۳

 

 

اعتبار سے اُس شمع کی روشنی موجود نہیں۔ اُس کے نشان ایک طرف سے باقی رہے اور دوسری طرف سے باقی نہ رہے۔

 

۴۔ ہمچنان در نورِ روح این نارِ تن

ہم نشد این نار و ہم این نار شد

 

ترجمہ: بالکل اسی طرح روح کے نور میں اس جسم کی آگ۔ آگ نہ بھی رہتی ہے اور آگ رہتی بھی ہے۔

 

۵۔ جوی جویان است و پویان سوی بحر

گم شود چون غرقِ دریا بار شد

 

ترجمہ: نہر جستجو کرتی ہوئی دریا کی طرف دوڑتی چلی جاتی ہے۔ جب وہ دریا گرنے کی جگہ (یعنی سمندر) میں غرق ہوئی، تو اس کی ہستی گم ہو جاتی ہے۔

 

۶۔ تا طلب جنبان بود مطلوب نیست

مطلب آمد، آن طلب بیکار شد

 

ترجمہ: جب تک طلب حرکت میں ہے، تو مطلوب نہیں۔ جب مطلب حاصل ہوا، تو وہ طلب بے کار ہوئی۔

 

۷۔ پس طلب تا ہست ناقص بد طلب

چون نماند آنگہی سالار شد

 

ترجمہ: پس جب تک طلب موجود ہے، تو وہ ناتمام ہی رہتی ہے۔ جب یہ نہ رہی تو اس وقت یہ مکمل اور سردار ہو گئی۔

 

۲۴

 

۸۔ ہر تنِ بے عشق کو جوید کلہ

سرندار و جملگی دستار شد

 

ترجمہ: ہر بے عشق جسم، جو کہ اپنے سر پر پگڑی باندھتا ہے، وہ حقیقت میں سر نہیں رکھتا ہے بلکہ وہ سب پگڑی ہے۔

 

۹۔ ہمچو من شد در ہوای شمس دین

آنکہ او را در سر این اسرار شد

 

ترجمہ: شمسِ دین کے عشق میں میری طرح ہوا۔ وہ شخص جس کے سر میں یہ اسرار داخل ہوئے۔

 

۲۵

 

اسرارِ خودی

 

۱۔ ازان بادہ ندانم، چون فنایم

ازان بیجا نمی دانم کجایم

 

ترجمہ: اُس حقیقی شراب کے کیف و سرور کے متعلق میں کچھ بھی نہیں سمجھتا، جب کہ میں فنا ہوں۔ اُس لامکان کے بارے میں (جس میں میں رہتا ہوں) میں نہیں جانتا کہ کہاں ہوں۔

 

۲۔ زمانی قصرِ دریایی در افتم

دمی دیگر چو خورشیدی برایم

 

ترجمہ: کبھی تو میں ایک گہرے دریا کی تہ میں جا گرتا ہوں۔ اور کبھی ایک سورج کی طرح (آسمان کی بلندی سے) طلوع ہو جاتا ہوں۔

 

۳۔ زمانی از من آبستن جہانی

زمانی چون جہان خلقی بزایم

 

ترجمہ: کبھی تو مجھ سے (یعنی میری روحانیّت اور تصورات سے) ایک بھرپور دنیا حاملہ ہو جاتی ہے۔ کبھی اس دنیا کی طرح (اپنے

 

۲۶

 

وجود سے بے شمار) مخلوقات کو جنم دیتا ہوں۔

 

۴۔ چو طوطی جان شکر خاید بنا گہ

شوم سرمست و طوطی را بخایم

 

ترجمہ: طوطے کی طرح میری جان شکر کھاتی ہے (اور) یکایک میں مست ہو کر (اس جان کے) طوطے کو بھی کھا جاتا ہوں۔

 

۵۔ بجایی در نگنجیدم بعالم

بجز آن یارِ بی جا را نشایم

 

ترجمہ: میں اس عالم کے کسی مقام میں سمو نہ سکا۔ پس میں اُس لامکانی دوست کے سوا کسی چیز کے قابل نہیں ہوں۔

 

۶۔ منم آن رندِ مستِ سخت شیدا

میانِ جملہ رندان ہای ہایم

 

ترجمہ: میں وہ انتہائی مست لا ابالی عاشق ہوں (کہ) میں تمام لا ابالی عاشقوں کے درمیان درد و غم کا ایک غوغا ہوں۔

 

۷۔ مرا گوئی چرا با خود نیائی

تو بنما خود کہ تا با خود بیایم

 

ترجمہ: آپ مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ تو کیوں ہوش میں نہیں آتا ہے؟ آپ اپنے آپ کو مجھے دکھادیجئے تاکہ میں ہوش میں آ سکوں۔

 

۸۔ مرا سایۂ ہما چندان نوازد

کہ گوئی سایہ او شد من ہمایم

 

۲۷

 

ترجمہ: مجھے ہما کا سایہ اس قدر نوازتا ہے، کہ گویا ہما خود سایہ بن جاتا ہے اور میں ہما بن جاتا ہوں۔

 

۹۔ بدیدم حسن را سرمست می گفت

بلایم من، بلایم من، بلایم

 

ترجمہ: میں نے حسن کو دیکھا جو مستی میں کہتا تھا (کہ) بلا ہوں میں، بلا ہوں میں، بلا ہوں۔

 

۱۰۔ جوابش آمد از ہر سوز صد جان

ترایم من، ترایم من، ترایم

 

ترجمہ: ہر طرف سے سیکڑوں نفوس نے حسن کو یہ جواب دیا۔ کہ میں تیرا ہوں، میں تیرا ہوں، تیرا ہوں۔

 

۱۱۔ تو آن نوری کہ با موسیٰ ہمی گفت

خدایم من، خدایم من، خدایم

 

ترجمہ: آپ وہ نور ہیں، جس نے موسیٰ سے کہا۔ کہ خدا ہوں میں، خدا ہوں میں، خدا ہوں۔

 

۱۲۔ بگفتم شمس تبریزی کی؟ گفت

شمایم من، شمایم من، شمایم

 

ترجمہ: میں نے کہا کہ ای شمس تبریز! آپ کون ہیں؟ تو کہا کہ تم ہوں میں، تم ہوں میں، تم ہوں۔

 

۲۸

 

طلبِ حقیقت کے لئے ترغیب

 

۱۔ اگر تو یار نداری چرا طلب نکنی؟

و گر بیار رسیدی چرا طرب نکنی؟

 

ترجمہ: اگر تیرا کوئی حقیقی دوست نہیں، تو تو طلب کیوں نہیں کرتا؟ اور اگر تو دوست تک پہنچا ہوا ہے، تو پھر کیوں تو خوش نہیں رہتا؟

 

۲۔ و گر رفیق نسازد چرا تو او نشوی؟

و گر رباب ننالد چراش ادب نکنی؟

 

ترجمہ: اگر حقیقی دوست (اپنی صفاتِ عالیہ کی بنا پر) تیرے ساتھ موافقت نہیں کرتا، تو تو (اپنی صفات کو بلند کر کے) اپنے دوست کا روپ کیوں نہیں دھارتا؟ اور اگر (تیرے دل کا) رباب نہیں روتا، تو اس کو ادب کیوں نہیں سکھاتا؟

 

۳۔ و گر حجاب شود مر ترا ابو جہلی

چرا غزای ابو جہل و بو لہب نکنی؟

 

ترجمہ: اور اگر تیری نورانیّت کے لئے کوئی ابو جہل (یعنی نفسِ امّارہ) پردہ بن جائے، تو تو ابو جہل اور ابو لہب سے غزا کیوں نہیں کرتا؟

 

۲۹

 

 

۴۔ بکاہلی بنشینی کہ این عجب کاریست

عجب توی کہ ہو ای چنان عجب نکنی

 

ترجمہ: تو سستی سے یہ کہہ کر بیٹھ جاتا ہے کہ یہ عجیب کام ہے۔ عجیب تو خود ہی ہے کہ تو (روحانیّت جیسی) عجیب چیز کی خواہش نہیں کرتا۔

 

۵۔ تو آفتابِ جہانی، چرا سیاہ دلی

کہ تا دگر ہوسِ عقدۂ ذنب نکنی

 

ترجمہ: تو دنیا کا سورج ہے، کیوں تو نے اپنے دل کو تاریک کر رکھا ہے؟ (میں نے یہ راز اس لئے ظاہر کیا) تاکہ تو دوبارہ ستارۂ ذنب کی گانٹھ کی خواہش ہی نہ کرے۔

 

۶۔ مثال زر تو بکورہ ازان گرفتاری

کہ تا دگر طمع کیسۂ ذہب نکنی

 

ترجمہ: سونے کی طرح کوئلے میں تو اس لئے گرفتار ہے۔ تا کہ تو دوبارہ سونے کے کیسے میں رہنے کی طمع نہ کرے۔

 

۷۔ چو وحدت است غرب خانۂ یکی گویان

تو روح را ز جز حق چرا غرب نکنی؟

 

ترجمہ: جب وحدت ہی خدا کو ایک ماننے والوں کی تجرید گاہ ہے۔ پھر تو اپنی روح کو خدا کے ماسوا سے کیوں مجرّد نہیں کرتا؟

 

۸۔ تو ہیچ مجنون دیدی کہ با دو لیلیٰ ساخت؟

چرا ہوای یکی روی و یک غبب نکنی؟

 

۳۰

 

ترجمہ: تو نے کوئی مجنون دیکھا ہے، جو کہ دو لیلیٰ کا عاشق رہا ہو؟ پھر تو کیوں صرف ایک ہی چہرہ اور ایک ہی طوقِ گلو سے محبت نہیں کرتا؟

 

۹۔ شبِ وجودِ ترا در کمین چنان ماہیت

چرا دعا و مناجاتِ نیم شب نکنی؟

 

ترجمہ: تیری ہستی کی رات میں ایک ایسا حسین چاند پوشیدہ ہے، (اس کے دیدار کی غرض سے) تو آدھی رات کی دعا اور مناجات کیوں نہیں کرتا؟

 

۱۰۔ اگرچہ مست قدیمی و نو شراب نۂ

شرابِ حق نگذارد کہ تو شغب نکنی

 

ترجمہ: اگرچہ تو (دنیاوی قسم کی) پرانی اور نئی شراب سے مست نہیں ہے۔ لیکن حق تعالیٰ کی شراب تجھے شور کرائے بغیر نہیں چھوڑے گی۔

 

۱۱۔ شرابم آتشِ عشق ست و خاصہ از کفِ حق

حرام بار حیاتت کہ جان حطب نکنی

 

ترجمہ: عشق کی آگ ہی میری شراب ہے (اور وہ بھی) خصوصاً حق تعالیٰ کے ہاتھ سے۔ (اے عاشق!) اس موقع پر اگر تو اپنی جان (اس آگ کے لئے) ایندھن نہیں بناتا، تو تیری زندگی حرام ہو!

 

۱۲۔ اگرچہ موجِ سخن میزند و لیک آن بہ

کہ شرحِ آن بدل و جان کنی بلب نکنی

 

ترجمہ: اگرچہ روحانی باتوں کا سمندر موج زن ہو رہا ہے، لیکن

 

۳۱

 

بہتر یہ ہے کہ تو حقیقت کی تشریح دل اور جان ہی میں کرے زبان اور ہونٹوں سے کچھ نہ کہے۔

 

۳۲

 

دعوتِ حقائق

 

۱۔ بے جا شود در وحدت، در عینِ فنا جا کن

ہر سر کہ دوئی دارد در گردنِ ترسا کن

 

ترجمہ: (جگہ سے بے نیاز ہو کر) درجۂ وحدت میں لامکان ہو جا، اور فنا کی عینیت (یعنی حقیقت) میں جگہ حاصل کر۔ جو سر دوئی کا خیال رکھتا ہو (اُسے کاٹ کر) ترسا کے گلے میں لٹکا دے۔

 

۲۔ اندر قفسِ ہستی این طوطیٔ قدسی را

زان پیش کہ بر پرد شکرانہ شکر خا کن

 

ترجمہ: وجود کے اس قفس میں عالمِ قدس کے اس طوطے کو۔ اس سے پیشتر کہ یہ یہاں سے اڑ کر عالمِ بالا چلا جائے، قدردانی کے طور پر شکر کھانے کے قابل بنا دے (یعنی اپنی روح کے طوطے کو جو عالمِ بالا سے یہاں لایا گیا ہے، اس دنیا سے پرواز کر جانے سے پیشتر ہی بہشت کی نعمتیں کھانے کے قابل بنا دے)۔

 

۳۔ چون مستِ ازل گشتی شمشیر ابد بستان

ہندو بک ہستی را ترکانہ تو یغما کن

 

۳۳

 

ترجمہ: جب تو ازل (کے بعد بھیدوں کی شراب) سے مست ہوا، تو ابد (کے ہاتھ سے خوفِ مستقبل) کی تلوار چھین لے، اور اپنی ہستی کے اس ہندو امیر کو ترکوں کے انداز پر لوٹ لیا کر۔

 

۴۔ دُردیٔ وجودت را صافی کن و پا لودہ

وان شیشۂ معنی را پر صافیٔ صہبا کن

 

ترجمہ: اپنی ہستی کی تلچھٹ کو نتھار کر اور نچوڑ کر صاف و پاک کر لے۔ اور حقیقت کے اُس پیالے کو سفید انگوروں کی صاف شراب سے بھر دے۔

 

۵۔ تامارِ زمین باشی کیٔ ماہیٔ دین باشی

مارا چو شدی ماہی پس حملہ بدریا کن

 

ترجمہ: جب تک تو زمین پر رینگنے والا سانپ ہی رہے، تو تو دین (کے سمندر) کی مچھلی کس طرح بن سکے گا۔ اے سانپ! جب تو مچھلی بن گیا، تو حملہ کر کے دریا میں داخل ہو جا۔

 

۶۔ اندر حیوان بنگر سر سوی زمین دارد

گر آدمیٔ آخر سر جانبِ بالا کن

 

ترجمہ: حیوان کی وضع دیکھ کہ سر زمین کی طرف رکھتا ہے۔ اگر تو آدمی ہے تو آخر سر کو اوپر کی طرف رکھ (یعنی حیوان و انسان کی وضع سے ظاہر ہے، کہ کس کو نفسانی پستی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور کس کو روحانی بلندی کے لئے پیدا کیا ہے، پس اپنے سر کو اونچا کر یعنی کہ اخلاقی بلندی کی طرف مائل ہو جا)۔

 

۳۴

 

۷۔ در مدرسۂ آدم با حق چو شدی محرم

بر صدرِ ملک بنشین تدریس ز اسما کن

 

ترجمہ: آدمؑ کے مدرسے میں جب تو خدا کے ساتھ محرم (یعنی رازدار) ہوا۔ تو فرشتوں کے مرتبۂ صدارت پر بیٹھ جا اور انہیں “علم الاسماء” کی تعلیم دیا کر۔

 

۸۔ چون سلطنتِ الا خواہی برلا ، لا شو

جا روب ز لا بستان فراشیٔ اشیا کن

 

ترجمہ: جب تو حقیقتِ الا اللہ کی لازوال سلطنت چاہتا ہے، تو کلمۂ لا پر پہنچتے ہی فنا ہو جا۔ اور لا (یعنی نیستی اور فنا) کا جھاڑو لے کر (کائنات و موجودات کو شرک  و شبہت کے گرد و غبار سے صاف کر اور نئے سرے سے) اشیا کو بچھا دے۔

 

۹۔ گر عزمِ سفر داری بر مرکبِ معنی رو

ور زانکہ کنی مسکن بر طارمِ خضرا کن

 

ترجمہ: اگر تو سفر کا ارادہ رکھتا ہے، تو (کسی اور ذریعے سے نہیں، بلکہ) حقیقت ہی کے گھوڑے پر جا۔ اور اگر تو اپنا کوئی مسکن بنانا چاہے، تو آسمان ہی پر مسکن بنا۔

 

۱۰۔ می باش چو مستسقی کو را نبود سیری

ہر چند شوی عالی، توجہد با علا کن

 

ترجمہ: (حصولِ حقیقت و روحانیّت کے سلسلے میں) تو استسقاء کے

 

۳۵

 

مریض کی طرح ہو جا، کہ وہ بار بار پانی پیتا جاتا ہے (مگر) سیراب نہیں ہوتا۔ تو جس قدر بھی سربلند ہو جائے، پھر بھی انتہائی بلندی کے لئے کوشان رہ۔

 

۱۱۔ ہر روح کہ سر دارد، او روی بدر دارد

داری سرِ این سودا سر در سرِ سودا کن

 

ترجمہ: جس روح کا سر ہو، وہ آپ کے دروازے کی طرف متوجہ رہتی ہے۔ یہی جنون رکھنے والا سر تیرا بھی ہے، پس اسی جنون کے لئے انتہائی کوشش کر۔

 

۱۲۔ بے سایہ نباشد تن، سایہ نبود روشن

بر پر تو سوی روزن پرواز تو تنہا کن

 

ترجمہ: جسم سائے کے بغیر نہیں، اور سایہ نور نہیں ہوتا (اس لئے تو ریاضت و معرفت کے) روشن دان سے اوپر کی طرف اڑ جا، مگر تنہا ہی پرواز کرنا۔

 

۱۳۔ بر قاعدۂ مجنون سر فتنۂ غوغا شو

کین عشق ہمی گوید کز عقل تبرا کن

 

ترجمہ: دیوانے کے اصول کے مطابق شور و غوغا برپا کرنے والا ہو جا۔ کیونکہ عشق ہی یہی کہتا ہے کہ عقل سے بیزاری ظاہر کر۔

 

۱۴۔ ہم آتشِ سوزان شو، ہم پختہ و بریان شو

ہم مست شو و ہم می بے ہر دو تو گیرا شو

 

ترجمہ: تو خود ہی جلنے والی آگ بھی ہو جا، اور خود ہی پکی ہوئی اور بھتی

 

۳۶

 

ہوئی غذا بھی۔ خود ہی مست بھی ہو جا اور خود ہی شراب بھی، اور مست و شراب کے بغیر خود ہی اثر انداز ہو جا۔

 

۱۵۔ ہم سر شو و محرم شو ہم دم زن و ہمدم شو

ہم ما شو و مارا شو، ہم بندگیٔ ما کن

 

ترجمہ: تو خود ہی راز بھی ہو جا اور راز دار بھی، تو خود ہی معشوق گری کا دعویٰ بھی کر اور رفیق (یعنی عاشق) ہونے کا دعویٰ بھی، تو ہم بھی ہو جا اور ہمارا بھی (یعنی تو ہم سے مل کر ایک بھی ہو جا اور ہم سے جدا رہ کر ہمارا عاشق بھی ہو جا) اور ہماری بندگی بھی کر۔

 

۱۶۔ تا دہ نبرد ترسا دُزدیدہ بدیرِ تو

گہ عاشقِ زناری گہ قصد چلیپا کن

 

ترجمہ: تا کہ وہ عیسائی شخص (موقع پا کر) چوری سے تیرے بت خانے (یعنی خانۂ حقیقت) میں داخل نہ ہونے پائے۔ (اس لئے) تو کبھی تو جنیو (جو برہمن کی علامت ہے) کا عاشق ہو جایا کر، اور کبھی نشانِ صلیب کی طرف مائل ہو جایا کر (تا کہ جس سے اُس عیسائی کو تیرا مسلک ہی معلوم نہ ہو)۔

 

۱۷۔ دانا شدۂ لیکن از دانش ہستانہ

بی دیدۂ ہستانہ دو دیدہ تو بینا کن

 

ترجمہ: تو دانا ہوا ہے لیکن یہ اصولِ ہستی کی دانش کا نتیجہ ہے۔ اصولِ ہستی کی آنکھ کے بغیر تو اپنی (روح کی) دونوں آنکھوں کو تعلیم دے کر بینا بنا دے۔

 

۳۷

 

۱۸۔ موسای خضر سیرت شمس الحق تبریزی

از سر تو قدم سازش قصدِ یدِ بیضا کن

 

ترجمہ: شمس الحق تبریز ایک ایسا موسیٰ ہیں، جو خضر کی سیرت رکھتا ہو۔ تو ان کے معجزۂ “یدِ بیضا” دیکھنے کے لئے اپنے سر کے بل چلتے جا۔

 

۲۹۔۵۔۶۷

 

۳۸

 

مرکزِ توحید

 

۱۔ عاشقان را جستجو از خویش نیست

در جہان جوئندہ جز او بیش نیست

 

ترجمہ: عاشقوں کی یہ جستجو ان کی اپنی طرف سے نہیں ۔ (کیونکہ دراصل) اس عالم میں جستجو کرنے والا اُس (انسانِ کامل) کے سوا کوئی بھی نہیں۔

 

۲۔ این جہان و آن جہان یک گوہر است

در حقیقت کفر و دین و کیش نیست

 

ترجمہ: دنیا و آخرت (فی الاصل) ایک ہی جوہر ہے۔ حقیقت (یعنی مقامِ وحدت) میں کفر، دین اور مذہب کا کوئی وجود ہی نہیں۔

 

۳۔ ای دمت عیسیٰ، دم از دوری مزن

من غلامِ آنکہ دور اندیش نیست

 

ترجمہ: ای (طالبِ حقیقت!) تیرا نَفَس خود ہی عیسیٰ (یعنی شفا بخش) ہے، دوری کی بات نہ کر، میں اُس شخص کا غلام ہوں جو دور اندیش نہیں۔

 

۳۹

 

۴۔ گر بگوی پس روم نے پس مرو

ور بگوئی پیش، نے رہ پیش نیست

 

ترجمہ: (اے طالبِ حقیقت!) اگر تو یہ کہتا ہے، کہ میں (تصوراتی طور پر تلاشِ حقیقت کے سلسلے میں) ابد کی طرف جاؤں (تو میں کہتا ہوں کہ) نہیں ابد کی طرف مت جا اور اگر تو یہ کہتا ہے کہ میں ازل کی طرف جاؤں (تو میں کہتا ہوں کہ) نہیں ازل کی طرف خود کوئی راستہ ہی نہیں۔

 

۵۔ دست بکشاد امنِ خود را بگیر

مرہمِ این ریش جز این ریش نیست

 

ترجمہ: اپنا ہاتھ کھول کر اپنا ہی دامن پکڑ لے۔ اس زخم کا مرہم سوائے اس زخم کے اور کوئی چیز ہی نہیں۔ (یعنی حقیقتِ کلیہ اپنی ذات ہی سے حاصل کر)۔

 

جزو درویشند جملہ نیک و بد

ہر کہ نبود او چنین، درویش نیست

 

ترجمہ: تمام اچھے اور برے لوگ مردِ درویش کے اجزا ہیں۔ جو شخص (قولاً و فعلاً) ایسا نہ ہو، تو وہ درویش ہی نہیں۔

 

۷۔ ہر کہ از جا رفت جائے او دلست

ہمچو دل اندر جہان جائیش نیست

 

ترجمہ: جو شخص اس مکان (یعنی دنیا) سے گزر گیا، تو اس کا ٹھکانہ دل میں ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کو اس جہان میں دل سے بہتر جگہ کہیں بھی نہیں۔

 

۳۰۔۵۔۶۷۔

 

۴۰

 

شرائط و حقائقِ عشق

 

۱۔ ہر کہ نے سرِ تو از لوحِ درون مے خواند

از درِ خویش شہِ عشق تو اس مے راند

 

ترجمہ: (اے حقیقی معشوق!) جو شخص اپنی لوحِ باطن سے آپ کے بھید کو نہ پڑھ سکے، تو اس کو آپ کے عشق کا بادشاہ اپنے دروازے سے دور کر دیتاہے۔

 

۲۔ وانکہ چون ذرہ بخورشیدِ درخشان نہ رسید

جان ہمی کا ہدو در ظلمتِ بن مے ماند

 

ترجمہ: اور جو شخص ذرّے کی طرح (کہ وہ اس ظاہری سورج کو پہنچ کر روشن اور نمایان ہو جاتا ہے اُس باطنی) چمکتے ہوئے سورج کو نہ پہنچے، تو اس کی جان کم ہوتی جاتی ہے اور وہ جسم کی تاریکی میں پڑا رہتا ہے۔

 

۳۔ ہر دلی کو چو دلم لذتِ دردِ تو چشید

بجز از دردِ تو دیگر نَفَسے نتواند!

 

۴۱

 

ترجمہ: جس دل نے میرے دل کی طرح آپ کے عشق کے درد (کا مزہ ایک بار) چکھ لیا، تو آپ کے درد کے سوا اور کوئی سانس لے نہیں سکتا۔

 

۴۔ دل بغواصی ازان بحر دُرر می گیرد

از رہِ ناطقہ بر خلق، ہمی افشاند

 

ترجمہ: (عارف کا) دل معرفت کے سمندر میں غوطہ لگا کر معرفت کے موتیوں کو حاصل کرتا رہتا ہے، اور وہ اپنے نطق و بیان کے ذریعے یہ موتی لوگوں کےلئے بکھیرتا جاتا ہے۔

 

۵۔ عرضِ حاجت برِ او نیست طریقِ دلِ من

زانکہ او حالِ دلم بہ ز دلم میداند

 

ترجمہ: میرے دل کا اصول نہیں اُس (حقیقی محبوب) کے سامنے حاجت پیش کرنا۔ کیونکہ وہ تو میرے دل کی حالت کو میرے دل سے بہتر جانتے ہیں۔

 

۶۔ آنکہ پایٔ رہِ او دارد و سودائے غمش

سر بسر ملکِ جہان را بجوی نستاند

 

ترجمہ: جس شخص میں اُس (حقیقی مطلوب) کے راستے پر چلنے والا پاؤں اور اس کے عشق کا غم ہو، تو وہ (اس دنیا کو اس قدر حقیر سمجھتا ہے کہ اگر دنیا جو کے ایک دانے کی قیمت میں مل سکے تو پھر بھی) وہ پوری دنیا کی سلطنت کو جو کے ایک دانے میں نہیں خریدتا ہے۔

 

۴۲

 

۷۔ لوحِ محفوظِ دلِ شمس کتابیست مبین

کہ از و سرِ دو عالم ہمہ بر مے خواند

 

ترجمہ: شمس تبریزی کے دل کی لوحِ محفوظ ایک ایسی واضح کتاب ہے، کہ وہ اُس سے دونوں عالم کے اسرار (بخوبی) معلوم کر سکتے ہیں۔

 

۴۳

 

فلسفۂ توحید

 

۱۔ عشق بین، با عاشقان آمیختہ

روح بین، با خاکدان آمیختہ

 

ترجمہ: عشق کو دیکھ لے کہ عاشقوں کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ روح کو دیکھ لے کہ دنیا (یعنی ہر بری اور بھلی چیز) کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔

 

۲۔ چند بینی این و آن و نیک و بد؟

بنگر آخر این و آن آمیختہ

 

ترجمہ: تو کتنا یہ ، وہ اچھی اور بری (چیزیں جدا جدا) دکھتا رہے گا؟ آخر یہ اور وہ (سب چیزیں) ملی ہوئیں دیکھ لے۔

 

۳۔ چند گوئی بے نشان و با نشان؟

بے نشان بین، نشان آمیختہ

 

ترجمہ: (خدا اور مخلوق کے بارے میں) تو کتنا کہا کرے گا کہ وہ بے نشان ہے اور یہ بانشان ہے؟ بے نشان کو دیکھ کہ نشان کے ساتھ ملا ہوا ہے (یعنی بے نشان والا خدا بانشان والے انسان کے ساتھ ملا ہوا ہے)۔

 

۴۴

 

۴۔ چند گوئی این جہان و آن جہان؟

آن جہان بین وین جہان آمیختہ

 

ترجمہ: تو کتنا کہتا جائے گا کہ یہ جہان (اور ہے) اور وہ جہان (اور ہے)؟ وہ جہان اور یہ جہان آپس میں ملے ہوئے دیکھ لے۔

 

۵۔ دل چو شاہ آمد زبان چون ترجمان

شاہ بین با ترجمان آمیختہ

 

ترجمہ: دل (انسانی وجود میں) بادشاہ کی طرح ہے، اور زبان ترجمان کی طرح ہے (یعنی ارادہ اور اختیار دل میں پایا جاتا ہے، اور دل کی کیفیات و صفات کی نمائندگی اور ترجمانی زبان ہی کرتی ہے)۔ بادشاہ کو دیکھ لے کہ ترجمان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔

 

۶۔ اندر آمیزید، زیرا بہر ماست

این زمین با آسمان آمیختہ

 

ترجمہ: تم سب آپس میں گھل مل جاؤ (یعنی روحانی طور پر آپس میں یکجان ہو جاؤ) کیونکہ یہ زمین اور آسمان ہمارے ہی لئے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔

 

۷۔ آب و آتش بین و خاک و باد را

دشمنان چون دوستان آمیختہ

 

ترجمہ: پانی، آگ، مٹی اور ہوا کو دیکھ لے (کہ یہ ایک دوسرے کے) دشمن عناصر دوستوں کی طرح آپس میں ملے ہوئے ہیں۔

 

۴۵

 

۸۔ گرگ و میش و شیر و آہو چار ضد

از نہیبِ قہرمان آمیختہ

 

ترجمہ: (فرض کرو کہ) بھیڑیا، بھیڑ، شیر اور ہرن یہ چاروں ضد (یعنی مخالف) کسی بادشاہِ قاہر کے خوف سے آپس میں گھل مل کر ہیں۔

 

۹۔ آنچنان شاہی نگر کز لطفِ او

خار و گل در گلستان آمیختہ

 

ترجمہ: ایک ایسے بادشاہ کو دیکھ کہ اُس کی مہربانی سے گلستان میں پھول اور کانٹا مل کر ہیں۔

 

۱۰۔ آنچنان ابری نگر کز فیض او

آبِ چندین ناؤ دان آمیختہ

 

ترجمہ: ایک ایسے بادل کو دیکھ کہ اُس کے فیض سے اتنے مختلف پرنالوں کا پانی ملا ہوا ہے۔

 

۱۱۔ اتحاد اندر اثر بین و بدان

نو بہار و مہر گان آمیختہ

 

ترجمہ: (یہ حقیقی) اتحاد (مختلف فاعلوں کے) اثر ہی میں دیکھ لے، جس کے ذریعہ سے، نو بہار اور مہرگان (یعنی ماہِ مہر کی سولہویں تاریخ، مراد خزان) کے موسم ملے ہوئے ہیں (مثلاً موسمِ بہار کے آغاز سے لے کر موسمِ خزان کے اختتام تک جو پھل، اناج وغیرہ پک جاتے ہیں، اُن میں بہار و خزان کے اثرات کچھ اس طرح ملے ہوئے ہوتے ہیں، کہ اُن کو ایک دوسرے

 

۴۶

 

سے ہرگز جدا نہیں کیا جا سکتا)۔

 

۱۲۔ گرچہ کژ بازند و ضدانند لیک

ہمچو تیرند و کمان آمیختہ

 

ترجمہ: اگرچہ (بہت سی چیزیں) ٹیڑھے اور الٹے کام کرتی ہیں اور باہم ضد ہیں۔ لیکن (یہ سب) تیر و کمان کی طرح باہم ملی ہوئی ہیں (چنانچہ تیر سیدھا ہے اور کمان ٹیڑھی ہے، مگر اثر یعنی تیر مارنے میں ان کی وحدت ہے)۔

 

۱۳۔ قندخا، خاموش باش و حیف دان

قند و پند اندر دھان آمیختہ

 

ترجمہ: (اے) شکر کھانے والا، تو خاموش رہ اور دریغ و مضائقہ سمجھ لے، اس بات کو کہ قند و پند (یعنی شکر اور نصیحت) تیرے منہ میں ملی ہوئی ہیں (یعنی جس عارف پر ابھی ابھی روحانی قسم کے علمی واقعات گزرتے ہیں، اُس کو چاہئے کہ فی الحال علم بیان نہ کرے، بلکہ یہ روحانی خوراک پہلے خود ہی کھائے اور اس کو ہضم کر کے تجربہ کرے، اس کے بعد رموز و مثالات کے ذریعے اس علم سے کچھ دوسروں کو بھی دیا جا سکتا ہے)۔

 

۱۴۔ شمس تبریزی ہمی روید ز دل

کس نباشد آنچنان آمیختہ

 

ترجمہ: شمس تبریزی (اپنے عاشق کے) دل سے اگتا رہتا ہے۔ ایسا گھلا ملا ہوا کوئی شخص ہو نہیں سکتا (یعنی جس طرح سورج کے اثرات

 

۴۷

 

عناصر کے ساتھ یکجان ہو کر نباتات وغیرہ کی صورت میں زمین سے اگتی ہیں، اسی طرح شمس تبریزی بھی اپنے عاشق کے دل کی زمین سے نورانی علم کی صورت میں اگتا ہے۔

 

۱۔۵۔۶۷۔

 

۴۸

 

گلشنِ خودی

گلشنِ خودی

تینوں اسماء بڑے پیارے

ادارۂ عارف امریکا کے سعادتمند نائب الصدر حسن (سابق کامڑیا) ان کی نیک بخت بیگم محترمہ کریمہ (سابقہ کامڑیانی) جو علامہ نصیر ہونزائی کی پرسنل سیکریٹری برائے امریکا ہیں اور ان کے قرۃ العین لٹل اینجل سلمان تینوں کے اسماء بڑے پیارے ہیں، کیونکہ یہ نام اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کے مبارک اسماء میں سے بطورِ تبرک لئے گئے ہیں، پس مونوریالٹی کی خاص دعا ہے کہ یہ عزیزان، ان کے خاندان، آبا و اجداد، اور آئندہ نسلیں امامِ برحقؑ کی لازوال علمی دولت سے مالامال ہو جائیں! آمین!!

 

نصیر الدین نصیر ہونزائی

کراچی

۱۰ جنوری ۱۹۹۴ء

 

۱

 

پیش لفظ

 

عالمِ اسلام اور دنیائے علم و ادب کا کوئی گوشہ ایسا نہ ہو گا کہ جہاں تک مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمۃ کے نامِ گرامی اور مرتبۂ علمی کی شہرت نہ پہنچی ہو، آپ زمانے کے با عمل اور کامیاب صوفیٔ اعظم اور جلیل القدر شخصیت تھے، اُن کا روحانی عروج و ارتقاء اس وقت شروع ہوا جبکہ انہوں نے خوش نصیبی سے مرشدِ کامل پیرِ روشن ضمیر حضرت شمس تبریزی (قدس اللہ سرہ) سے طریقت اور حقیقت کی تعلیم حاصل کی، جس کے نتیجے میں آپ روحانیت کے سیر و سلوک کے سلسلے میں درجۂ اعلیٰ پر فائز ہوگئے۔

 

مولائے رومی کو مرشدِ موصوف سے انتہائی عقیدت و محبت تھی، چنانچہ مولانا نے اپنے تمام منظوم کلام میں نہ صرف اشارہ اور کنایہ کی زبان میں شمس تبریز کی روحانی عظمت و مرتبت کا ذکر کیا ہے، بلکہ واضح الفاظ میں بھی اُن کی بے حد تعریف و توصیف کی ہے، خصوصاً اپنے کلیات میں جو کلیاتِ شمس کے نام سے مشہور ہے، غیر معمولی انداز میں پیر و مرشد حضرت شمس قدّس اللہ سرّہ کی مدح سرائی کی ہے، یہاں تک کہ ہر نظم کے آخر میں بجائے اس

 

الف

 

کے کہ اپنا تخلص لکھے عاشقانہ انداز میں حضرت شمس کا پیارا نام لیا ہے، جس سے بعض قارئین کو یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ اشعار سب کے سب شمس تبریز ہی کے ہیں، مگر ایسا نہیں ہے، بلکہ رومی نے اپنے عظیم مرشد اور بزرگ محسن کی تعظیم و تکریم کی وجہ سے یہ طریقہ اختیار کیا ہے، نیز اس کا سبب یہ بھی ہے کہ مولانا کے عقیدے میں گویا شمس خود مولائے روم کی زبان سے شعر کہتے تھے، پس ان وجوہ سے کلیاتِ مولائے رومی کلیاتِ شمس تبریزی کہلاتا ہے۔

 

بہر کیف اس بابرکت پیری اور مریدی نے دنیا والوں کو عام طور پر اور اہلِ تصوف کو خاص طور پر بہت کچھ سکھایا اور بہت کچھ عطا کیا ہے، چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ آج کے علمی و فنی ترقی کے زمانے میں اقوامِ عالم کے بڑے بڑے علمی و ادبی ادارے مولوی معنوی کی کتابوں سے بے نیاز نہیں ہیں، رومی کی گرانقدر تصنیفات میں مثنوی اور مذکورۂ بالا کلیات زیادہ مشہور اور بڑی ضخیم کتابیں ہیں، مثنوی کے چھ دفتروں کے کل اشعار کی تعداد ۲۵۶۳۱ (پچیس ہزار چھ سو اکتیس) اور کلیاتِ شمس کے شعروں کا مجموعہ ۴۷۴۹۷ (سینتالیس ہزار چار سو ستانوے) ہے، جس میں اشعار، ملمعات، غزل، قصیدہ، مقطعات، ترجیعات اور رباعی شامل ہیں، ان دو عظیم اور گرانمایہ کتابوں میں سے مثنوی شریف

 

ب

 

کے کئی ترجمے اور شرحیں چھپ کر شائع ہو چکی ہیں، اور ان سے شائقینِ علم و ادب خاطر خواہ فائدے حاصل کرتے ہیں مگر افسوس اور حسرت ہے کہ اب تک کلیات جیسے بے مثال علمی ذخیرے کا کوئی ترجمہ نہیں ہوا ہے، ممکن ہے کہ اس کی بہت بڑی ضخامت کی وجہ سے فی الحال کچھ دشواریاں اور مجبوریاں ہوں۔

 

کلیاتِ شمس میں اسلام کی گہری حقیقتوں کی وضاحت کر کے تصوف اور روحانیّت کے بہت سے خزانوں کی نشاندہی کی گئی ہے، اور انسان کو عالمِ لاہوت سے جو اٹوٹ ازلی رشتہ قائم ہے، اس کو دنیاوی اور نفسانی ہوا و ہوس کے دھندلا پن سے پاک صاف کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے، الغرض ایسی لاتعداد خصوصیات و خوبیاں ہیں، جن کی بناء پر میں عرصۂ دراز سے اس گنجینۂ گوہر کا دلدادہ تھا، لہٰذا بطورِ نمونہ میں نے ایک بہت ہی معمولی بلکہ حقیر سا کام کیا ہے، وہ یہی چھوٹی سی کتاب ہے، جو “گلشنِ خودی” کے اسم سے موسوم ہے۔ جس کو کلیاتِ شمس کی ۲۵ منتخب رباعیوں کے ترجمہ اور تشریح سے ترتیب دی گئی ہے، اور یہ رباعیات مختلف موضوعات پر مبنی ہیں۔

 

اگر میں کہوں کہ میں نے مولائے روم کے سدا بہار علمی باغ کے بے پناہ میوؤں میں سے، جو عقل و دانش کی غذائیت سے

 

ج

 

بھرپور ہیں، اہلِ زمانہ کے سامنے بطورِ نمونہ صرف ایک میوہ پیش کیا ہے، یا یہ ان کی روحانیّت و خودی کے چمن سے ایک گلِ رعنا تقدیم کیا ہے، تو یہ دعویٰ بھی میرے لئے بہت بڑا اور مشکل ہے، کیونکہ نہ معلوم باغ و گلشن سے پھل چننے اور پھول توڑنے کے سلسلے میں جو جو احتیاطی نزاکتیں اور نفاستیں مشروط ہیں، ان سے کام لیا گیا کہ نہیں۔

 

“گلشنِ خودی” کا مطلب انائے روحانی ہے، جو انسان کی موجودہ خودی کی نفسانی فنا سے حاصل آتی ہے، جس طرح کسی تنگ و تاریک پرانے مکان کی اصلاح و ترقی اس کے بغیر ناممکن ہے، کہ اس کو گرا کر ازسرِ نو ایک عالی شان عمارت تعمیر کی جائے، اسی طرح اس فرسودہ خودی کو فنا کر کے انائے علوی کی غیر فانی حیات حاصل کرنا مقصود ہے، جس کے لئے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر خدا و رسول کے پاک فرمان کے تحت مرشدِ کامل کی رہنمائی اور علم و عمل کا وسیلہ چاہئے۔

 

مولای رومی اپنی ان فکر انگیز اور نتیجہ خیز رباعیات میں، جو روحانی مشاہدات و تجربات پر مبنی ہیں، فنا کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں، تا کہ اہلِ دانش پر یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ مومن کی حقیقی اور کامیاب زندگی فنا ہی میں پوشیدہ ہے، آپ

 

د

 

جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی اصلی خودی نہیں ہے مگر بے خودی اور خود فراموشی میں، جیسے اس کتاب کے آخر میں ان کے اپنے الفاظ ہیں کہ:

 

“میں نے طبیبِ عشق کے پاس جا کر پوچھا کہ آپ اپنی بصیرت و دانائی سے عشق کے اس مریض کے لئے کیا تجویز فرماتے ہیں؟ انہوں نے مجھے اپنی تمام صفات کو چھوڑ دینے اور اپنی ہستی کو یکسر مٹا دینے کے لئے فرمایا، یعنی (فرمایا) کہ تیرا جو کچھ بھی ہے اس (کی قیدِ تعلق) سے قطعاً آزاد ہو جا۔”

 

رومی نہ صرف ذاتی طور پر اس دنیا میں مرشدِ کامل کی دائمی موجودگی کے قائل ہیں، بلکہ اس نظریئے کے مخالفین کے خیالات کی بڑی سختی کے ساتھ تردید بھی کرتے ہیں، چنانچہ آپ نے فرمایا:

 

” (خدا نے) کب فرمایا کہ وہ زندۂ جاوید (یعنی نور) مر گیا؟ اُس نے کب فرمایا کہ امید کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا؟ وہ سورج کا دشمن چھت پر نکل آیا اور دونوں آنکھیں بند کر کے کہنے لگا کہ سورج مر چکا ہے۔”

 

میں اپنے طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ مولانا جلال الدین رومی کی ہر رباعی حقائق و معارف کا ایک خزانہ ہے، جو خود شناسی اور خدا شناسی کی دولت سے بھرپور ہے، اور اسی لازوال عرفانی

 

ہ

 

دولت میں انسان کی سعادتِ دارین پوشیدہ ہے، بزرگانِ دین اُس وقت کے لوگوں کے لئے اور آنے والی نسل کے لئے یہی جواہر اور یہی موتی فراہم کر سکتے تھے، تا کہ وہ اس انمول ذخیرے کو اپنا مذہبی سرمایہ قرار دے کر قدردانی اور شکر گزاری کے ساتھ استعمال کرے۔

 

اتوار

۴ رمضان  ۱۳۹۹ھ

۲۹ جولائی ۱۹۷۹ء

 

فقط بندۂ عاجز

نصیر الدین نصیر ہونزائی

 

و

 

انوارِ الٰہی

 

رباعی

 

آن دل کہ شد قابلِ انوارِ خدا

پر باشد جانِ او ز اسرارِ خدا

زنہار تنِ مرا چو تنہا مشمر

کو نمک شد بنمک زارِ خدا

 

ترجمہ: جس شخص کا دل انوارِ خداوندی کو قبولنے کے لائق ہوا، تو اُس کی جان معرفتِ الٰہی کے بھیدوں سے بھر جاتی ہے (کیونکہ نور کا خاصہ یہ ہے کہ اس میں عقل و دانش، علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے بھید پوشیدہ ہوا کرتے ہیں) میرے جسم کو ہرگز ہرگز دوسرے اجسام کی طرح نہ سمجھ لے، کیونکہ یہ تو خدا کے نمک کی کان میں رہ کر سراپا نمک بن چکا ہے (یعنی میری ہستی اور شخصیت مرشدِ کامل کے مبارک وجود میں فنا ہو چکی ہے)۔

 

تشریح: مثل مشہور ہے کہ: “ہر چہ در کانِ نمک رفت نمک شد۔” یعنی جو چیز نمک کی کان میں جا کر دب جاتی ہے تو وہ کچھ مدت کے بعد نمک بن جاتی ہے، بالکل اسی طرح صحبت و ہم نشینی اور تعلیم و تربیت کے نتیجے میں سعادتمند اور ہوشیار مرید اپنے مرشدِ کامل میں فنا ہو جاتا

 

۴

 

ہے، یہ حکمت آگین صوفیانہ تعلیم کتنی خوبصورت، کیسی عالی شان اور کس قدر پُرمغز و پُرمایہ ہے! قربِ الٰہی اور حصولِ نور کا یہ عمدہ تصور، صراطِ مستقیم اور منزلِ طریقت و حقیقت کا یہ بہترین اور کامیاب نظریہ کتنا دلنشین اور مفید ہے! کیوں نہ ہو جبکہ اس میں انوارِ الٰہی کے جلال و جمال کا ذکرِ شیرین آیا ہے، اور وہ بھی خداوندِ عالم کے نورِ اقدس کی شانِ کریمی کے پہلو سے متعلق، کہ جب کسی بندۂ خاص کے پاک و پاکیزہ دل پر انوارِ خداوندی کا آفتابِ تجلّیات طلوع ہو جاتا ہے، تو اس کی لاتعداد کرنیں اپنے اندر اسرارِ ربّانی کے انمول جواہر لے کر آتی ہیں، سو یہی وجہ ہے کہ ایسے باسعادت انسان کی جان خدائے علیم و حکیم کے اسرارِ روحانیّت سے بھرپور ہو جاتی ہے۔

 

جب سالکِ صادق اور مومنِ عاشق کا قلب تزکیۂ نفس، تطہیرِ باطن، نتیجۂ تقویٰ اور مرشدِ حقانی کی خصوصی تعلیمات سے آراستہ و پیراستہ ہو کر خلوت خانۂ روح اغیار و باطل کی آلائش، نافرمانی کی کدورت اور جہالت کی تاریکی سے بالکل پاک صاف ہو جاتا ہے، اور جب صیقلِ ذکر سے آئینۂ ذات خوب چمکنے لگتا ہے، تو تب ہی انوارِ الٰہی کا فیضان شروع ہو جاتا ہے، یعنی نورِ خداوندی کے تدریجی ظہورات و تجلّیات کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔

 

۵

 

اس مقام پر نورِ اقدس کے روحانی ظہورات کے سلسلے میں کچھ نکات بیان کرنا مناسب ہے کہ نور اگرچہ اپنی اصل اور آخری حقیقت میں ایک ہی ہے اور اس کا مقصدِ اعلیٰ بھی ایک ہے، لیکن اس کی گوناگون تجلّیات لاتعداد ہیں، پھر بھی انوار و تجلّیات کی بڑی قسموں کا تعیّن کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آثار اور نتائج کے اعتبار سے نور کی تین بنیادی قسمیں ہوا کرتی ہیں، چنانچہ سب سے اعلیٰ درجے کا نور وہ ہے جس سے انسان کو عقلی، علمی اور عرفانی روشنی مہیا ہو جاتی ہے، دوسرے درجے کے نور سے روح اور روحانیّت کی روشنی حاصل ہوتی ہے اور تیسرا نور وہ ہے جس سے جسم کو طرح طرح کی معجزاتی تائیدات ملنے سے طبیعت روشن ہو جاتی ہے، یا مختصراً یوں کہنا چاہئے کہ کامیاب مومنین کی عقل، روح اور شخصیّت پر تین درجوں کے انوار اثر انداز ہوتے ہیں۔

 

آپ اگر چاہیں تو اس مطلب کے لئے سورہ ۳۹ آیہ ۶ (۳۹: ۰۶) میں دیکھ سکتے ہیں جہاں یقیناً انسان کی عقلی، روحانی اور جسمانی حیثیت کے نور کی عدمِ موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اس کی تخلیق ماں کے پیٹ میں تین قسم کی تاریکیوں کے اندر مکمل ہوئی ہے، اس ارشاد سے یہ یقینی حقیقت اجاگر ہو جاتی ہے کہ ان تین اندھیروں

 

۶

 

کے مقابلے میں تین انوار بھی ہیں جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے، یعنی عقلی، روحانی اور جسمانی روشنی، کیونکہ انسان تین چیزوں کا مجموعہ ہے، اور وہ تین چیزیں عقل، روح اور جسم ہیں۔

 

نور کے وسیع تر مفہومات کو سمجھنے کے لئے ہم ظاہری اور مادّی روشنی کے سرچشمے کی مثال پر غور کر سکتے ہیں، چنانچہ سورج ہی ہے کہ جس کی بے پناہ طاقت پر یہ عظیم کائنات قائم ہے جس کی بے شمار دنیاؤں میں سے ایک دنیا سیّارۂ زمین ہے، اب ہم کائنات بھر میں سورج کی قوّت سے جو کچھ ہو رہا ہے اس کو چھوڑ کر صرف اِس زمین کی بات کرتے ہیں، کہ سورج کی تکوینی اور تخلیقی قوّتوں سے عالمِ جمادات کی ہر چیز پیدا ہوئی، جیسے مٹی، پانی، ہوا، پہاڑ اور طرح طرح کی معدنیات، نیز عالمِ نباتات کی چیزیں پیدا ہوتی رہتی ہیں، مثلاً درخت، جھاڑیاں، فصلیں، پھول اور ہر قسم کی گھاس، اور اسی طرح عالمِ حیوانات کی تمام مخلوقات سورج کی بدولت زندہ اور قائم ہیں، یعنی سارے جانور اور بنی نوع انسان جسمانی طور پر سورج کی قوّتوں کے وسیلے سے زندہ رہتے ہیں، کیونکہ ان کی ضروریاتِ زندگی کی ہر شے سورج کے ذریعے پیدا ہوتی ہے اور ایسی چیزیں اس قدر زیادہ ہیں کہ ہم ان کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔

 

۷

 

اب اس مثال میں خوب غور و فکر کر کے کچھ نتائج اخذ کئے جائیں کہ جب ظاہری اور مادّی روشنی کا سرچشمہ اتنا زبردست، ایسا عالمگیر اور اس قدر ہمہ رس ہے، اور اس میں ایسے گوناگون فائدے پوشیدہ ہیں، تو اُس نورِ خداوندی کی بے پناہ طاقت و توانائی اور بے انتہا رحمت و برکت کا کیا عالم ہو گا، جس کی روشنی کے سمندر میں دونوں جہان مستغرق ہیں، جس کے ایک ادنیٰ کرشمے سے دنیا بھر کے لوگوں کی عقلی، روحانی اور اخلاقی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں، ہر چند کہ ان کے عقائد و نظریات ایک جیسے نہیں ہوتے۔

 

۸

 

انائے عُلوی

 

رباعی

 

نُہ چرخ غلامِ طبعِ خود رایۂ ماست

ہستی ز برای نیستی مایۂ ماست

اندر پسِ پردہا یکی دایۂ ماست

ما آمدہ نیستیم این سایۂ ماست

 

ترجمہ: تو آسمان ہماری خود سر طبیعت کے غلام ہیں (یعنی کائنات اپنے ظاہر و باطن میں ہماری غلامی کر رہی ہے تا کہ جس سے ہماری خود سر طبیعت کے سارے تقاضے پورے ہو جائیں) ہستی ہماری نیستی کے لئے سرمائے کی حیثیت سے ہے (یعنی نیستی ہمارے لئے ایک ایسی اہم دنیا ہے کہ ہستی اُس پر قربان ہو جاتی ہے) پردوں کے پیچھے ہماری ایک دایہ ہے ) یعنی نادیدنی طور پر ہماری روحانی پرورش ہوتی رہتی ہے) ہم آئے ہوئے نہیں ہیں (بلکہ) یہ ہمارا سایہ ہے (یعنی ہماری اصلی خودی یا کہ انائے عُلوی عالمِ بالا میں ہے اور ہماری یہ شخصیّت اس کا سایہ ہے، اس لئے ہم اصلاً دنیا میں نہیں آئے ہیں)۔

 

تشریح: آسمان، سورج، چاند اور ستارے اس بات پر مامور ہیں کہ وہ شب و روز مسلسل کام کرتے رہیں، تا کہ کل کے لئے

 

۹

 

ہماری روحانی بادشاہت قائم ہو جائے، ان معنوں میں نو آسمان ہماری مرضی کے غلام ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ اصل لذّت و راحت فنا و نیستی میں پوشیدہ ہے، اور نیستی حاصل نہیں ہو سکتی ہے مگر ہستی کے ذریعے سے، لہٰذا یہ کہنا صحیح ہے کہ نیستی ہستی کا ماحصل ہے۔

 

باطن اور روحانیّت کے حجاب کے پیچھے ہماری ایک انتہائی مہر و شفقت والی دایہ ہے جو ہماری اخلاقی، علمی اور روحانی پرورش کے لئے متعین ہے، وہ ایک لحاظ سے مرشدِ کامل ہے اور دوسرے لحاظ سے ہماری اپنی روح، کیونکہ ہماری زندگی دوہری ہے، اس لئے کہ ہم کلی طر پر دنیا میں نہیں آئے ہیں بلکہ جزوی طور پر آئے ہیں،یعنی ہماری اصل خودی یا کہ انائے عُلوی ازلی مقام پر قائم ہے، مگر ہاں اس کا سایہ یعنی یہ جسم دنیا میں ایک طرح سے اس کی نمائندگی کر رہا ہے، جیسے سورج خود تو آسمانوں کی بلندیوں پر ہے لیکن آئینے میں جو عکس ہے وہ زمین پر سورج کی نمائندگی کرتا ہے، یہی حال ہمارے وجود کا بھی ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے تو عالمِ روحانی میں ہے مگر اس کا سایہ ہنگامی طور پر دنیا میں آیا ہے، بے شک مومن بیک وقت دونوں جہان میں زندہ ہے، اور یہ ارشاد حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہے۔

 

۱۰

 

حسنِ جانان

 

رباعی

 

خورشیدِ رُخَت ز آسمان بیرون است

چون حسنِ تو کز شرح و بیان بیرون است

عشقِ تو درونِ جانِ من جا دارد

و این طُرفہ کہ از جان و جہان بیرون است

 

ترجمہ: تیرے حسین چہرے کا سورج آسمان کی بلندیوں سے بالاتر اور باہر ہے، تیرے حسن و جمال ہی کی طرح جو تعریف و توصیف کی حد سے باہر ہے، تیرا پاک و پاکیزہ عشق میری جان کے اندر بستا ہے، اور اس کا یوں ہونا عجیب بات ہے، جبکہ یہ اصل مقام کے اعتبار سے جان اور کائنات سے بھی باہر اور برتر ہے۔

 

تشریح: مولای رومی صاحب ایسی انتہائی پیاری، پُرمغز، دلکش اور دلاویز رباعی کے مسرّت بخش اور روح افزا الفاظ میں حسنِ جانان کا ذکرِ جمیل چھیڑتے ہیں، اور فرماتے ہیں کہ اے جانانِ حقیقی! تیرے چہرۂ انور اور دیدارِ پُربہار کے معجزاتی خورشید کا کیا کہنا کہ وہ اپنے لامکانی

 

۱۱

 

اوصاف، جلالت، بزرگی، عظمت اور برتری کی وجہ سے کائنات کی حدود سے باہر اور ارفع و اعلیٰ ہے، جس کی رعنائی، خوبی، تابانی اور درخشانی کے سامنے اس مادّی آسمان کا سورج بہت ہی حقیر لگ رہا ہے، اے محبوبِ روحانی! اگر تیرے چہرۂ زیبا کے لاہوتی نور کا سورج آسمان کی وسعتوں کی گنجائش سے باہر ہے، تو یہ تیری ہی شان ہے اور یہ صفت تیری دوسری صفات ہی کی طرح ہے، کہ وہ بھی احاطۂ تعریف و توصیف سے باہر اور گنجائشِ تشریح و توضیح سے برتر ہیں، کیونکہ تیرے حسن و کمال اور جمال و جلال کے ظہورات و تجلّیات کو تقریر و تحریر کی حد بندیوں میں محدود کرنا محال ہے۔

 

اے ظہورِ نورِ ازل! تیرا مبارک و مقدّس نورِ عشق میری حقیر سی جان کے اندر رہتا ہے، حالانکہ تعجب ہے کہ وہ اصلاً جان و جہان سے باہر و برتر ہے، یعنی وہ ایک ایسی حقیقت ہے، جو نہ صرف زمان و مکان سے ماوراء ہے، بلکہ وہ نفوسِ جزوی سے بھی بالاتر ہے، چنانچہ حیرت پر حیرت ہے، کہ یہ مقدّس لامکانی اور ربّانی عشق شرف و عزت اور جلالت و بزرگی کی اتنی بلندی سے کیونکر اس مادّی دنیا میں ظہور پذیر ہوا اور کس مناسبت سے مجھ ایسی کمزور مخلوق کے دلِ مجروح میں جاگزین ہوا، حالانکہ میں کجا اور عشقِ لاہوتی کجا! جیسا کہ قول ہے:

 

“چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک”

 

۱۲

 

ہمہ اوست

 

رباعی

 

عشق آمد و شد چو خونم اندر رگ و پوست

تا کرد مرا تہی و پُر کرد از دوست

اجزای وجودِ من ہمہ دوست گرفت

نامیست زمن برمن باقی ہمہ اوست

 

ترجمہ: نظامِ دورانِ خون کی طرح میرے وجود میں عشقِ حقیقی کی آمدورفت ہوتی رہی، یہاں تک کہ عشق نے مجھے (یعنی میری خودی کو اپنی ہستی سے) خالی کر دیا اور دوست کی ہستی کو مجھ میں بھر دیا (اسی طرح) میرے وجود کے تمام اجزاء و ذرّات کو دوست نے لے لیا (اب میرے پاس کچھ بھی نہ رہا صرف) میرا ایک نام ہی ہے، باقی سب کچھ وہ خود ہے۔

 

تشریح: مولانا رومی علیہ الرحمۃ نے حقیقی عشق کے آنے جانے کی ایک خوبصورت اور دلکش مثال جسمِ انسانی کے دورانِ خون سے دی ہے کہ جس طرح بدن میں خون کا سلسلہ آتا جاتا رہتا ہے، یعنی یہ ایک طرف سے پیدا ہوتا ہے اور دوسری طرف جا کر جزوِ بدن بنتا رہتا ہے، یہ ہوا

 

۱۳

 

خون کا آنا جانا، یہی حال حقیقی عشق کا بھی ہے، کہ وہ بھی حقیقت میں ایک سلسلہ وار شے ہے، جبکہ عشق روحانی اور ذہنی طور پر رفتہ رفتہ عاشق کو یکسر تبدیل کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی خودی ایسی نہیں رہ سکتی جیسی وہ پہلے تھی، بلکہ وہ ایک ایسی فنا کا شکار ہو جاتی ہے کہ وہ یکبارگی طور پر نہیں بلکہ تدریجی حالت میں یعنی رفتہ رفتہ کام کرتی ہے، جس کے سبب سے عاشق اپنی جگہ پر ہی معشوق میں فنا ہو جاتا ہے۔

 

اس حقیقت کی دوسری مثال یہ ہے کہ اگرچہ شروع شروع میں معلّم اور متعلّم کے دو الگ الگ ذہنی وجود ہوا کرتے ہیں، لیکن جب ہوشمند شاگرد استاد سے تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھتا ہے تو بتدریج اس کی ذہنیت استاد کی ذہنیت میں فنا ہو جاتی ہے، اس معنیٰ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ استاد ایک طرح سے علمی اور ذہنی طور پر شاگرد میں سمو گیا ہے یا یہ کہ متعلّم معلّم کے علم میں فنا ہو چکا ہے اور یہ بات کلّی طور پر اُس وقت درست ہو سکتی ہے جبکہ شاگرد کے باطن میں جہالت کی جگہ پر علم، سوال کی جگہ پر جواب اور ظلمت کی جگہ روشنی پیدا ہو چکی ہو۔

 

مولای رومی نے اپنی خوبصورت اور دلکش رباعی میں ہمہ اوست کے جملے کو استعمال کیا ہے تا کہ یہ “ہمہ اوست” کے نظریئے کی طرف ایک لطیف اشارہ بھی ہو سکے، اور جو مثال یہی پیش کی گئی ہے وہ بھی اس

 

۱۴

 

مقصد کے پیشِ نظر ہے، کیونکہ مولوی معنوی کے نزدیک “ہمہ اوست” کا نظریہ حقیقت ہے، وہ اسی نظریئے کی حقیقت کو سمجھانے کے لئے مختلف مثالیں بیان کرتے ہیں، چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ “اس عالمِ خاکی میں گنجِ مخفی ہم ہی ہیں” وہ کہتے ہیں کہ “ہم دنیا میں آئے کہاں ہیں یہ شخصیّت تو ہمارا سایہ ہے۔” ان کا قول ہے کہ “دوئی را چون بدر کردم یکی دیدم دو عالم را” یعنی جب میں نے عرفانی طور پر دوئی کو اپنی ذات سے نکال باہر کر دی تو اس وقت میں نے دونوں جہان کو ایک دیکھا، ان اقوال سے مولانا رومی سامعین و قارئین کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ ہمہ اوست میں سب سے پہلے یہ بات آتی ہے کہ انسان کی انائے عُلوی خدا سے جدا نہیں ہے اور نہ کبھی جدا ہو سکتی ہے۔

 

جب انسان کا نام لیا جاتا ہے تو اس وقت اس لفظ کے ذریعے انسانیّت کے اُن تمام مقامات کی طرف اشارہ ممکن ہوتا ہے جہاں سے انسان گزرا ہے یا جہاں پر وہ موجود ہے، مثلاً تخلیق کی ساری منزلیں جیسے جسم، روح، عقل وغیرہ، لیکن یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ جہاں پر انسان کا جیسا تذکرہ ہوا ہے اس سے اس کی کون سی حیثیت مقصود ہے، چنانچہ جب قرآن صبر و ثبات والے مومنوں کی طرف سے کہتا ہے کہ “انا الیہ راجعون (یعنی بے شک ہم خدا کی طرف لوٹ جانے والے ہیں) تو اس کا مطلب یہ

 

۱۵

 

ہرگز نہیں ہوتا کہ جسم خدا تک پہنچ جاتا ہے یا روح یا عقل اُس تک رسا ہو جاتی ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر شے اور ہر اضافت علمی اور عرفانی طور پر فنا ہو جاتی ہے اور اسی طرح یکے بعد دیگرے تمام پردے ہٹ جاتے ہیں تا آنکہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ انسان کی انائے عُلوی ازلی و ابدی طور پر خدا کے نور میں موجود ہے۔

 

۱۶

 

مطمئن

 

رباعی

 

آسودہ کسی کہ در کم و بیشی نیست

در بندِ توانگری و درویشی نیست

فارغ ز غمِ جہان و از خلقِ جہان

با خویشتنش بہ ذرۂ خویشی نیست

 

ترجمہ: (صحیح معنوں میں) مطمئن وہ شخص ہے جو دنیا کی کمی بیشی کی فکر میں نہیں، جو امیری اور غریبی کی قید میں نہیں، جو دنیا اور اہلِ دنیا کے غم سے فارغ ہے (اور) جو اپنے آپ سے بھی ذرہ بھر دوستی نہیں رکھتا۔

 

تشریح: آسودہ کے ترجمے کے لئے کئی الفاظ ہیں، مثلاً آرام کرنے والا، خوش حال، مطمئن، دولت مند، خوش، باآرام، فارغ البال، سویا ہوا وغیرہ، لیکن میں نے لفظِ “مطمئن” کو منتخب کیا ہے اور یہی ان تمام الفاظ میں بہترین اور سب سے زیادہ مناسب ہے، کیونکہ اس لفظ کا قرآنی حکمت سے براہِ راست تعلق ہے، اور ان مترادفات میں سے ایک قرآنی لفظ کو ترجیح دینے کا خاص مقصد یہ ہے، کہ جس حقیقی آسودگی کا اس رباعی میں ذکر کیا گیا ہے، اُس پر حکمتِ قرآن کی روشنی ڈال کر دیکھا جائے کہ اصل میں آسودہ شخص یعنی مطمئن کون ہے اور اطمینان سے

 

۱۷

 

کیا مراد ہے، نیز یہ تحقیق اس لئے بھی بڑی ضروری ہے، کہ دنیا میں کوئی ایسا آدمی نہیں ملے گا جو مذہبی اور روحانی وسائل کے بغیر اطمینان و آسودگی کی یہ صفت رکھتا ہو جس کا مولای روم نے اوپر نقشہ کھینچا ہے لہٰذا ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ حقیقی معنی میں اطمینان کس طرح حاصل ہوتا ہے، چنانچہ ارشادِ ربّانی ہے کہ:

 

آپ کہہ دیجئے کہ واقعی اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گمراہ کر دیتا ہے اور جو شخص اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کو اپنی طرف ہدایت کر دیتا ہے مراد اس سے وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ کے ذکر سے ان کے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے (۱۳: ۲۸)

 

اس فرمانِ خداوندی سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ دنیا میں بندگانِ حق پرست ہی ہیں جو حقیقی معنوں میں آسودہ اور مطمئن ہیں، اس لئے کہ وہ واقعی مومن ہیں، اس لئے کہ وہ اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جس سے ان کو الٰہی ہدایت ملتی رہتی ہے اور اطمینان کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ایسے مومنین خدا کو کثرت سے یاد کیا کرتے ہیں، کیونکہ ذکرِ الٰہی سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے۔

 

چنانچہ جس خوش نصیب انسان کی نظر ہمیشہ دولتِ دین پر رہتی ہو اس کے نزدیک دولتِ دنیا کی کوئی اہمیت ہی نہیں، لہٰذا وہ نہ تو

 

۱۸

 

مادّی دولت کی کمی سے غمگین ہو جاتا ہے اور نہ ہی اس کے زیادہ ہونے سے شادمان، وہ تو ایمان و ایقان کی نعمتوں سے اور ذکرِ خفی و جلّی کی لذّتوں سے محفوظ و مسرور ہے، اور وہ کثرتِ ذکر کے وسیلے سے دنیا و ما فیہا سے الگ تھلگ ہو چکا ہے ہر چند کہ وہ بظاہر اسی دنیا میں رہتا ہے۔

 

تسکین و تسلی اور دل جمعی کی عظیم نعمت اس وقت حاصل ہوتی ہے، جبکہ بندۂ مومن امیری اور غریبی دونوں کی ذہنی اور فکری قید و بند سے آزاد اور فارغ رہے، کیونکہ قانونِ حکمت کی نظر میں نہ صرف غربت کو مصیبت اور عذاب قرار دینے سے ذہنی پریشانی لاحق ہو جاتی ہے بلکہ دولت کی محبت میں شب و روز مبتلا رہنے اور اس کا پرستار بن جانے سے بھی دل کا سکون چھن جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں مولانا رومی دولت اور غربت دونوں کے افکار و خیالات سے آزاد رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔

 

یہ بات صحیح ہے کہ مردِ مومن دنیا اور اس کے باشندوں کے غم سے فارغ ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی ایسی فکر لاحق ہوگئی تو یادِ الٰہی کا سہارا لے کر اطمینانِ قلب حاصل کر لیتا ہے، کیونکہ ذکر میں یہ قدرت رکھی ہوئی ہے کہ وہ اپنی معجزاتی تاثیر سے ذاکر کو تسکین و تسلی کی دولت سے مالامال کر دیتا ہے، اس لئے کہ ذکر میں بہت سی رحمتیں اور برکتیں پوشیدہ ہیں۔

 

۱۹

 

قرآنِ حکیم میں اطمینان کے موضوع کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے معانی و مطالب بہت ہی اعلیٰ و ارفع ہیں، سو یہی سبب ہے کہ مولوی معنوی نے ان حقائق و معارف کو ملحوظِ نظر رکھتے ہوئے یہاں اس موضوع سے بحث کی ہے۔

 

رومی صاحب کا فرمانا ہے کہ جو کامل صوفی ہے وہ اپنے آپ سے ذرا بھی دوستی نہیں رکھتا، یعنی وہ خودی اور خودنمائی کی فکر سے آزاد ہوتا ہے، کیونکہ جو فنا کی قدر و قیمت جانتا ہے اور جس کو اپنے سامنے سے پردوں کو ہٹانے کا شوق ہے تو وہ مزید ایک دیوار کیوں کھڑی کرے، وہ ہمیشہ یہی کوشش جاری رکھتا ہے کہ شعوری طور پر تجرید اور توحید کی طرف نزدیک سے نزدیک تر ہو جائے۔

 

۲۰

 

انا الحق

 

رباعی

 

منصورِ حلاجی کہ انا الحق میگفت

خاکِ ہمہ رہ بنوکِ مژگان می رُفت

در قلزم نیستیٔ خود غوطہ بخورد

آنگہ پس ازان درِ انا الحق می سُفت

 

ترجمہ: منصورِ حلاجی نے جو انا الحق (یعنی میں صداقت و حقیقت ہوں، میں خدا ہوں) کہا، اُس نے (پہلے) اپنی پلکوں کی نوک سے (عبادت و ریاضت اور علم و عمل کے) سارے راستے کی مٹی جھاڑ دی، اپنی فنائیت و نیستی کے قلزم (یعنی سمندر) میں غوطہ لگایا، پھر اس کے بعد اُس نے انا الحق کے موتی پروئے۔

 

تشریح: رومی کا ارشاد ہے کہ بعض لوگ البتہ یہ خیال کرتے ہوں گے، کہ منصور حلاج نے نعرۂ انا الحق یونہی سوچے سمجھے بغیر ہنگامی جذبہ یا جنون جیسی کیفیت کے زیرِ اثر بلند کیا تھا، حالانکہ اس کی حقیقت کچھ اور ہے، وہ یہ کہ اس کا انا الحق کہنا دراصل تزکیۂ نفس، صفائی باطن، فنا فی اللہ

 

۲۱

 

اور بقا باللہ کا نتیجہ تھا، اور اِس اعلیٰ مقام تک پہنچ جانے کے لئے منصور نے بہت کچھ کیا تھا، جو کچھ کہ ایک کامیاب سالک کو کرنا چاہئے۔

 

مولای روم منصورِ حلاج کے نعرۂ “انا الحق” کی قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، اپنے کلام میں جگہ جگہ ان کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے اس تصوّر کی تبلیغ کرتے ہیں اور طرح طرح کی مثالیں بیان کر کے اپنے قارئین کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ انسان کی ازلی و ابدی “انا” حقیقتوں کی وحدت میں ہے، جس کو حقیقتِ حقائق کہا جاتا ہے۔

 

۲۲

 

زندۂ جاوید

 

رباعی

 

کی گفت کہ آن زندۂ جاوید بمرد

کی گفت کہ آفتابِ امید بمرد

آن دشمنِ خورشید درآمد بر بام

دودیدہ ببست و گفت خورشید بمرد

 

ترجمہ: (خدا نے) کب فرمایا کہ وہ زندۂ جاوید (یعنی نور) مر گیا؟ اُس نے کب فرمایا کہ امید کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا؟ وہ سورج کا دشمن چھت پر نکل آیا اور دونوں آنکھیں بند کرکے کہنے لگا کہ سورج مر چکا ہے۔

 

تشریح: یہاں “گفت = کہا” کا اشارہ کلامِ خداوندی کی طرف ہے جو قرآنِ مقدّس ہے، اور زندۂ جاوید سے نورِ ہدایت مراد ہے، جو انسانِ کامل کے لباسِ بشریت میں ملبوس ہے، چنانچہ یہ رباعی قرآنِ حکیم کی اُن آیات کی طرف ایک جامع اشارہ ہے جن میں نورِ خداوندی کے ہمیشہ حیّ و حاضر ہونے کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

 

۲۳

 

مولای روم یہاں پر جس “زندۂ جاوید” کا تذکرہ کرتے ہیں، اس کی مثال ان کے نزدیک آفتابِ عالم تاب ہے، اس سے ظاہر ہے کہ یہ زندۂ جاوید نورِ ہدایت ہی ہے، جس کی اہمیت عالمِ دین میں ایسی ہے، جیسی سورج کی اہمیت اس مادّی کائنات میں۔

 

جب ہم جان و دل سے یہ مانتے ہیں کہ اسلام دینِ فطرت ہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ آفاق و انفس اور عالمِ دین کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک ہی قانون ہے اور وہی قانون خدا کی عادت و سنت بھی ہے، اور ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ قانونِ دین الگ، نظامِ کائنات الگ اور نفوسِ خلائق کے قیام و بقا کا آئین اس سے مختلف ہو، کیونکہ اگر ان مقامات پر مختلف قوانین ہوتے تو پروردگارِ عالم کی طرف سے اس بات کی پُرزور دعوت نہ دی جاتی کہ تم قرآن کے علاوہ آفاق و انفس میں بھی خوب غور و فکر کرو، اس سے یہ حقیقت واضح اور روشن ہو جاتی ہے کہ قرآنِ پاک میں دین سے متعلق جو مثالیں اور حکمتیں موجود ہیں وہی اس کائناتِ ظاہر اور نفوسِ انسانی میں بھی ہیں، سو یہی وجہ ہے کہ آفاق و انفس میں غور و فکر کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:

 

اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں (قدرتِ خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تم میں بھی ہیں تو تم کیا دیکھتے نہیں (۵۱: ۲۰ تا ۲۱)

 

۲۴

 

یہاں تک کہ قرآن کے ایک مقام پر یہ اشارہ بھی فرمایا گیا ہے کہ انسان اپنے نفس یعنی باطن میں آسمان اور زمین کی ساری نشانیوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے وہ ارشاد یہ ہے: “یہ تو دنیا کی ظاہری زندگی کو جانتے ہیں اور آخرت (یعنی باطن) سے غافل ہیں کیا انہوں نے اپنی جانوں (یعنی مشاہدۂ روحانیّت) میں غور نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اس کو حکمت سے اور ایک وقتِ مقرر تک کے لئے پیدا کیا ہے اور بہت سے لوگ اپنے پروردگار سے ملنے کے قائل ہی نہیں (۳۰: ۰۷ تا ۰۸)۔

 

ان حقائق و معارف کو پیشِ نظر رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ مولوی معنوی کی یہ ربّاعی صداقت اور حکمت کے مغز سے بھرپور ہے، کیونکہ جب دینِ فطرت اور آفاق و انفس کے لئے بنیادی قانون ایک ہی ہے، تو جس طرح کائناتِ ظاہر میں سورج اور نفسِ انسانی میں عقل کے بغیر چارہ نہیں ہے اسی طرح دینِ حق یعنی اسلام میں نورِ ہدایت کا موجود ہونا لازمی امر ہے اور مولای روم کے اس قول کی وضاحت یہی ہے۔

 

۲۵

 

تائیدِ مجسم

 

رباعی

 

ہان ای دلِ خستہ وقتِ مرہم آمد

خوش خوش نَفَسی بزن کہ آندم آمد

یاری کہ از و کار شود یاران را

در صورتِ آدمی بعالم آمد

 

ترجمہ: خبردار ہو، اے میرے زخم خوردہ دل! کہ اب تیری مرہم پٹی کا وقت آیا، آرام اور خوشی کا سانس لے، کیونکہ اب وہی (مسرت و شادمانی کا) وقت آیا، خدا کی مدد کہ جس سے اس کے دوستوں کے مقاصد حاصل ہوتے ہیں، انسانی صورت اختیار کر کے اس دنیا میں آئی۔

 

تشریح: مولای رومی اشارہ و کنایہ کی مخصوص زبان میں فرماتے ہیں، کہ اگر بندۂ مومن کے دل میں دینی درد جیسا کہ چاہئے پیدا ہوا اور عرصۂ ابتلا و آزمائش کو صبر و ثبات سے گزارا گیا، تو یقیناً نتیجے کے طور پر اس کے لئے دوا مہیا کی جائے گی، وہ یہ کہ خداوندِ عالمین اس کو توفیقاتِ غیبی اور فیوضاتِ لاریبی سے سرفراز فرمائے گا، اور جاننا چاہئے کہ

 

۲۶

 

پروردگارِ عالم کی یہ نصرت و تائید ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مرشدِ کامل کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی رہتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی یاری ایک ایسی نصرت و تائید ہے، جو انسانِ کامل کی حیثیت میں مجسم اور زندہ ہو کر موجود رہتی ہے تا کہ دینِ اسلام میں مسلمین و مومنین کے لئے ہدایت اور رہنمائی کی جو عظیم ترین نعمت باقی و برقرار ہے اس میں ذرا بھی کمی واقع نہ ہو، اور خدا کے انعام و اکرام کا حق پورا ہو جائے۔

 

۲۷

 

سب کچھ میرا ہے

 

رباعی

 

ہر جا بجہان تخمِ وفا برکارند

آن تخم ز خرمنگہِ ما می آرند

ہر جا ز طرب ساز و نئی بردارند

آن شادیٔ ماست آنِ خود پندارند

 

ترجمہ: اس دنیا میں جہاں کہیں بھی لوگ مہر و وفا کے بیج بو دیا کرتے ہیں، تو وہ لوگ ان بیجوں کو (حقیقت میں) ہماری ہی خرمن گاہ (کھلیاں) سے حاصل کر لیا کرتے ہیں، اور جہاں کہیں بھی لوگ خوشی منانے کے لئے باجا بانسری ہاتھ میں لیتے (یعنی بجاتے) ہیں، تو وہ اصل میں ہماری ہی خوشی ہوتی ہے جسے سادہ لوح انسان اپنی خوشی سمجھ بیٹھے ہیں۔

 

تشریح: جناب رومی یہاں پر روحانیّت کا ایک اور اعلیٰ اور مفید تصوّر پیش کرتے ہیں، کہ جب کوئی مومنِ سالک شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے وسائل سے قربِ خدا کے اس

 

۲۸

 

بلند ترین مرتبے پر فائز ہو جاتا ہے، جہاں پر کہ روحانیّت و نورانیّت کے تمام خزانے حاصل ہوتے ہیں، تو اس وقت بموجبِ حدیثِ شریف (من کان للہ کان اللہ لہ۔ یعنی جو شخص خالصاً خدا کا ہو جاتا ہے تو خدا بھی بطورِ خاص اسی کا ہو جاتا ہے) ایسا بندۂ مخلص اللہ تعالیٰ کی انتہائی قربت و نزدیکی اور خصوصی نسبت کے اعلیٰ ترین شعور کی بدولت بجا طور پر یہ سمجھنے لگتا ہے کہ خدائے پاک اور ظاہر و باطن کا سب کچھ اسی کا ہے، یقین و عرفان کے درجۂ کمال کا یہ عالی شان اور بابرکت شعور ہر طرح سے قرآن و حدیث کے مقدس ارشادات کے عین مطابق ہے۔

 

اگرچہ انا للہ (یقیناً ہم خدا کے ہیں) کا حکم ظاہراً سب انسانوں کے لئے یکسانیت اور برابری کا تصوّر پیش کرتا ہے، لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ اللہ کی طرف رجوع ہو جانے اور قرب حاصل کرنے کے درجات نہیں ہیں اور نہ اس میں کوئی تعمیم و تخصیص پائی جاتی ہے، اور اگر مانا گیا کہ دین کے معاملے میں علم و عمل کی بنیاد پر عوام و خواص کے تعین کا تصور صحیح ہے، تو خداوند تعالیٰ صحیح معنوں میں اسی کامل اور اشرف و افضل انسان کا ہوگا جو خدائی رشتے کے سب سے اونچے درجے پر فائز ہو چکا ہے اور وہی بندۂ خاص دوسروں سے بڑھ کر خدا کا برگزیدہ کہلائے گا، یہی مرتبہ فنا فی اللہ اور بقا باللہ بھی ہے، لہٰذا مردِ درویش کا یہ کہنا درست ہے کہ خدا تعالیٰ جب خصوصاً میرا ہے تو سب کچھ میرا ہے۔

 

۲۹

 

لوحِ وجود

 

رباعی

 

من بندۂ آن قوم کہ خود را دانند

ہر دم دلِ خود را ز غلط ہا برہانند

از ذات و صفات خویش خالی گردند

و ز لوحِ وجود انا الحق خوانند

 

ترجمہ: میں ان لوگوں کا غلام ہوں جو اپنے آپ کو پہچانتے ہیں، ہمیشہ اپنے دل کو باطل قول و فعل سے چھڑاتے رہتے ہیں، اپنی ذات و صفات سے خالی ہو جاتے ہیں، اور ہستیٔ مطلق کی لوح سے انا الحق کا راز پڑھتے ہیں۔

 

تشریح: حضرت رومی فرماتے ہیں کہ میں حرمت و تعظیم کے طور پر اُن مبارک ہستیوں کا غلام ہوں جو اپنی اونچی حقیقت کو پوری طرح سے جانتے ہیں، یعنی بحکمِ من عرف اپنی ذاتِ حقیقی کی شناخت حاصل کر لیتے ہیں، اپنے دل کو باطل خیالات، اقوال اور افعال کے بندھنوں سے چھڑاتے رہتے ہیں، اپنی بشری ذات و صفات سے خالی اور آزاد ہو جاتے ہیں، اور تخلقوا باخلاق اللہ (تم اپنے آپ میں اللہ تعالیٰ کی عادتیں پیدا کرو) کے بموجب عمل کر کے ہستیٔ مطلق

 

۳۰

 

کی لوحِ روحانیّت سے اسرارِ انا الحق کو پڑھ لیتے ہیں، ایسے حضرات سب سے پہلے انبیاء و اولیاء ہیں، اور اُن کے بعد حقیقی مومنین ہو سکتے ہیں، کیونکہ انبیاء و اولیاء کا وجودِ مبارک انسان کی روحانی عظمت و بزرگی اور فوقیت و برتری کا نمونہ ہوا کرتا ہے، یعنی وہ حضرات انسانیّت کی دینی اور روحانی ترقی اور حصولِ کمال کی زندہ مثال ہیں، اور ان کے نقشِ قدم پر چل کر کسی کے نجات پانے کے یہی معنی ہیں۔

 

۳۱

 

عجیب واقعہ

 

رباعی

 

مردانِ رہت کہ سرِ معنی دانند

از دیدۂ کوتاہ نظران پنہانند

این طرفہ تر ہر انکہ حق را بشناخت

مومن شد و خلق کافرش خوانند

 

ترجمہ: (اے خداوندِ عالم!) تیرے رستے کے عالی ہمت لوگ جو حقیقت کے اسرار جانتے ہیں (تعجب ہے کہ) وہ بے بصیرت لوگوں کو نظر نہیں آتے ہیں (یعنی یہ عجیب بات ہے کہ جاہل لوگ اہلِ حقیقت کو دیکھ اور پہچان نہیں سکتے) اور یہ واقعہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے کہ جس شخص نے خدا تعالیٰ کو پہچان لیا تو وہ حقیقی معنوں میں مومن ہو گیا مگر عوام الناس اسے کافر گردانتے ہیں۔

 

تشریح: حدیثِ شریف میں ہے کہ: آگاہ رہو کہ خدا کے اولیاء پوشیدہ ہوا کرتے ہیں، یعنی بہت سے لوگ جہالت و نااہلی کی وجہ سے ان کو نہیں پہچان سکتے، حالانکہ یہی اولیاء ہیں جو حقیقت کے بھیدوں سے واقف و آگاہ ہیں، اور یہی حضرات ہیں جو معرفت کے درجۂ کمال

 

۳۲

 

پر فائز ہو چکے ہیں، لیکن نادان لوگ ان کو بے دین اور کافر قرار دیتے ہیں، اس لئے کہ صاحبِ اسرار کو اسرار والا ہی جانتا ہے اور جس کے پاس ایسا کوئی بھید نہ ہو، تو وہ محرمِ راز کو کیا جانے، اسی طرح عارف کو عارف ہی پہچان سکتا ہے اور جو شخص دین شناس اور خدا شناس نہ ہو وہ البتہ خدا شناسی کو غلط قرار دیتا ہے۔

 

۳۳

 

لازم و ملزوم

 

رباعی

 

نی آبِ روان ز ماہیان سیر شود

نی ماہی ازان آبِ روان سیر شود

نی جانِ جہان ز عاشقان تنگ آید

نی عاشق ازان جانِ جہان سیر شود

 

ترجمہ: نہ کبھی بہتا پانی مچھلیوں سے رنجیدہ ہو جاتا ہے، نہ کسی وقت مچھلیوں کا جی اس آبِ روان سے بھر جاتا ہے، نہ تو حقیقی معشوق عاشقوں سے بیزار ہو جاتا ہے، اور نہ ہی عاشقوں کو کسی حال میں محبوب (کے دیدار سے) سیر چشمی ہو جاتی ہے۔

 

تشریح: عارفِ رومی فرماتے ہیں کہ موجودات و مخلوقات کی تمام چیزوں کے باہمی تعلق کا قانون یہ ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرۂ لزومیت میں ایک دوسرے سے منسلک و متعلق ہوتی ہیں، باہمی وابستگی اور لگاؤ رکھتی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم رہتی ہیں اور یہ سلسلہ بلا کسی تنگی و بیزاری کے اس کائنات میں ہمیشہ سے جاری و ساری ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے، جیسے پانی اور مچھلی کا ربط و تعلق کہ پانی کبھی

 

۳۴

 

مچھلیوں سے بیزار نہیں ہوتا اور نہ کبھی پانی سے مچھلیوں کا جی بھر جاتا ہے، اسی طرح معشوقِ حقیقی جو کائنات کی جان ہے عاشقوں سے بیزار نہیں ہوتا، اور نہ ہی کوئی عاشق اس جانِ جہان کے دیدارِ مقدّس سے سیر ہو جاتا ہے۔

 

۳۵

 

حقیقتِ توحید

 

رباعی

 

تابندہ ز خود فانیٔ مطلق نشود

توحید بنزدِ او محقق نشود

توحید حلول نیست نابودنِ تُست

ورنہ بگزاف باطلی حق نشود

 

ترجمہ: جب تک بندہ اپنے آپ سے فنا نہ ہو، تو اس کے نزدیک توحید صحیح معنوں میں ثابت نہیں ہوتی ہے، توحید حلول نہیں (بلکہ) تیرا نہ ہونا (یعنی فنا ہو جانا) ہی توحید ہے، ورنہ ڈینگ مارنے سے کوئی باطل حق نہیں بن سکتا ہے۔

 

تشریح: اس ربّاعی سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ کس طرح ایک باسعادت اور کامیاب سالک ذکر و بندگی اور تزکیۂ نفس کے وسیلے سے جیتے جی فنا ہو کر حقیقتِ توحید کا روحانی اور عرفانی مشاہدہ کر سکتا ہے، مولوی معنوی فرماتے ہیں کہ توحید یہ ہرگز نہیں کہ خدائے پاک و برتر تیرے اندر حلول کرتا ہو، بلکہ یہ اس طرح سے ہے کہ تیری ہستی اور خودی کی وجہ سے جو دوئی اور کثرت کا پردہ بنا ہوا ہے، اس کو بوسیلۂ فنا سامنے سے ہٹانے سے حقیقتِ توحید کے جلوۂ جمال کا مشاہدہ ہو جاتا ہے۔

 

۳۶

 

تصوّف میں فنا کی بہت بڑی اہمیت ہوا کرتی ہے، اس لئے مولای رومی نے اپنے کلام میں بار بار اس کا تذکرہ کیا ہے، چنانچہ مناسب ہے کہ یہاں فنا کی کوئی مثال پیش کی جائے، اور وہ یہ کہ جس وقت آدمی سکون کی نیند سو جاتا ہے، تو اُس وقت وہ ایک طرح سے فنا ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنے آپ کو اور دنیا و مافیہا کو بھول چکا، اس کی انائیت و خودی وہ نہ رہی جو عالمِ بیداری میں تھی، اور نہ ہی اب اس کا کوئی اختیار باقی ہے، وہ اگر دیکھتا اور سنتا ہے تو اپنے آپ سے نہیں، اس کے بولنے اور چلنے میں بھی کوئی اور طاقت کارفرما ہے، اب وہ مجبور ہے مختار نہیں، اسی طرح جب خدا کا کوئی خاص بندہ عبادت و ریاضت اور علم و عمل کے وسیلے سے اپنے نفس کے اژدہے کو قتل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو یقیناً وہ خدائی نور میں فنا ہو جاتا ہے، اب اس کا کوئی اختیار نہیں اور نہ اس کی اپنی کوئی خودی ہے، اور اگر نورِ معرفت کی روشنی میں دیکھا جائے تو کسی شک کے بغیر معلوم ہو جائے گا کہ اولیاء اللہ فنا کے ایسے ہی مقام پر ہیں، اور وہی حضرات توحید کی حقیقت سے بخوبی واقف و آگاہ ہیں۔

 

۳۷

 

مستعد ہو جا

 

رباعی

 

ہشدار کہ فضلِ حق بنا گاہ آید

نا گاہ آید بر دلِ آگاہ آید

خرگاہِ وجودِ خود ز خود خالی کن

چون خالی شد شاہ بخرگاہ آید

 

ترجمہ: ہوشیار رہنا کہ رحمتِ خداوندی اچانک نازل ہو جاتی ہے، یکایک آ جاتی ہے مگر اُس دل پر جو حقیقت سے واقف و آگاہ ہے، اس لئے اپنی ہستی کے خیمۂ شاہی کو اپنی خودی و انائیّت سے خالی کر دے، جب یہ خالی ہوا تو تبھی اس شاہی خیمہ میں بادشاہ تشریف فرما ہوگا۔

 

تشریح: رومی صاحب کا ارشاد ہے کہ فضلِ ربّانی کے حصول کے لئے تجھے ہر وقت اور ہر لحظہ مستعد اور آمادہ رہنا چاہئے، کیونکہ جب بھی نزولِ رحمت ہوتا ہے تو وہ ناگاہ ہوتا ہے، لہٰذا ایسا نہ ہو کہ خدا کی کوئی رحمت آئےاور بندے کو آمادہ نہ پا کر یوں ہی گزر جائے، سو یہ ضرور جاننا چاہئے کہ فضلِ ایزدی جو پوشیدگی سے نازل ہوتا ہے، وہ صرف ایک ایسے صاف اور پاک دل پر ہوتا ہے جو علم و آگہی سے معمور اور ذکر و عبادت سے مسرور ہے، پس تم اپنے خانۂ ہستی کو انائیّت و خودی سے بالکل خالی کر کے رکھنا تا کہ اس میں بادشاہِ حقیقی جلوہ گر ہو جائے، اور حصولِ فضل و رحمت کے لئے دائمی مستعدی اور آمادگی یہی ہے۔

 

۳۸

 

ایک ہی حقیقت کے بہت سے نام

 

رباعی

 

گہ بادہ لقب نہادم و گہ جامش

گاہی زرِ پختہ گاہ سیمِ خامش

گہ دانہ و گاہ صید و گاہی دامش

این جملہ چراست تا نگویم نامش

 

ترجمہ: میں نے اس (محبوبِ روحانی) کو کبھی تو شراب کا لقب دیا اور کبھی پیالے کا، کبھی اس کو کھرا سونا کہا اور کبھی کچی چاندی، کبھی تو اس کا نام دانہ رکھا کبھی شکار اور کبھی جال، یہ سب (القاب، اسماء اور امثال جانتے ہو) کیوں ہیں؟ (یہ اس لئے ہیں) تاکہ میں اس کا اصل نام ظاہر نہ کروں۔

 

تشریح: قدرت و فطرت اور دین و دنیا کا قانون ہمیشہ کے لئے یہی رہا ہے کہ اعلیٰ اور عظیم چیزیں اکثر پوشیدہ رہتی ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ مذہب کی بنیادی حقیقتیں پردۂ راز میں محفوظ ہوا کرتی ہیں، اسی میں ربّ العزّت کی حکمت و مصلحت ہے، تاکہ کافروں، جاہلوں اور نااہلوں کو خدا و رسول کی اطاعت کے بغیر ان بھیدوں کا علم نہ ہو، چنانچہ مولوی معنوی اپنی صورتِ حال سے اسی امرِ واقعی کی ترجمانی کرتے

 

۳۹

 

ہیں، اور وہ یہ نکتہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کا سب سےبزرگ نام (اسمِ اعظم) خود خدا ہی کے بہت سے ناموں کے درمیان پوشیدہ رکھا گیا ہے، اسی طرح معرفت کا عظیم ترین بھید اسرارِ الٰہی کے کثیر پردوں کے اندر محفوظ ہے، یا یوں کہا جائے کہ حقیقتوں کی مرکزی اور جامع حقیقت کی شناخت اس لئے بہت مشکل ہے کہ وہ حقائق و معارف کے بہت سے حجابوں کے پیچھے ہے۔

 

ہاں، یہ بات بالکل درست اور صحیح ہے کہ ایک بھید کے جاننے سے دوسرا بھید آسان ہو جاتا ہے اور ایک حقیقت کی روشنی میں دوسری حقیقت کا کھوج لگایا جا سکتا ہے، اور اُس کے لئے مردِ مسلم کو ایسے کامل اور مکمل مرشد کی ہدایت و رہنمائی چاہئے، جس کو ہر وقت اللہ کی نصرت و تائید حاصل ہو، تاکہ سالک منزلِ مقصود تک پہنچ سکے۔

 

قرآنِ پاک کا ارشاد ہے کہ: اور ہم نے تو لوگوں (کے سمجھانے) کے واسطے اس قرآن میں ہر قسم کے مثالیں ادل بدل کے بیان کر دیں (۱۷: ۸۹) اس سے ظاہر ہے کہ سب سے اعلیٰ اور عظیم ترین حقیقت صرف ایک ہی ہے، مگر اس کی مختلف مثالیں بہت زیادہ ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر مثال اپنے اندر ایک حقیقت لئے ہوئے ہے اور ہر حقیقت اپنے انداز میں سب سے اونچی حقیقت

 

۴۰

 

کی ترجمانی اور نشاندہی کرتی ہے، چنانچہ قرآن کی ساری مثالیں اور ان کی تمام حقیقتیں زبانِ حکمت سے حقیقتِ عالیہ کی تعریف و توصیف کرتی رہتی ہیں۔

 

۴۱

 

عاشق خود ہی معشوق

 

رباعی

 

ز اوّل کہ حدیثِ عاشقی بشنودم

جان و دل و دیدہ در رہش فرسودم

گفتم کہ مگر عاشق و معشوق دو اند

خود ہر دو یکی بود من احول بودم

 

ترجمہ: پہلے پہل جب میں نے عشق و عاشقی کا تذکرہ سنا، تو میں نے اُس (حقیقی معشوق کی محبت) کی راہ میں جان و دل اور آنکھیں گھلائیں، میرا خیال تھا کہ شاید عاشق اور معشوق دو ہیں (لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ) ایک ہی اپنے آپ میں یہ دونوں تھا (اور قبلاً) میں خود بھینگا (یعنی نقصِ نظر سے ایک کو دو دیکھنے والا) تھا۔

 

تشریح: یہاں مولانا حسبِ معمول اپنے احوال کی مثال پیش کر کے انتہائی دلکش انداز میں روح اور روحانیّت کے سرِ عظیم کی نقاب کشائی کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ طلب و جستجو کے ابتدائی مراحل میں ظاہری اور روایتی علوم سے جو کچھ مجھے پڑھایا اور سکھایا جاتا تھا، اس میں بس سب کی سب دوئی کی باتیں ہوا کرتی تھیں، لہٰذا میں لازمی طور پر دوئی اور

 

۴۲

 

کثرت کو مانتے ہوئے عاشق اور معشوق کو دو الگ الگ حقیقتیں سمجھتا تھا، اور یہ میری غلطی تھی، یہ غلطی اس لئے مجھ سے سرزد ہوئی کہ میں اُس وقت نظریاتی طور پر ایک کو دو دیکھنے والا تھا، جس کو احول اور بھینگا کہا جاتا ہے، لیکن جب میں علم و عمل کی راہ میں آگے سے آگے بڑھ گیا اور نورِ عشق کی روشنی میں دیکھنے لگا تو حقیقت میں دوئی اور کثرت کی کوئی بات ہی نہ تھی، وہاں تو ایک ہی تھا دو نہ تھے، یعنی “عاشق خود ہی معشوق”  تھا، یا یوں کہہ لیجئے کہ معشوق خود ہی سب کچھ تھا۔

 

حق بات تو یہ ہے کہ مولای روم نے نہ صرف یہاں بلکہ ہر رباعی کے کوزے میں علمِ تصوّف کے دریائے فراوان کو سمو دیا ہے، آپ کی دی ہوئی مثالیں زندگی کی عملی صورت میں ہونے کی بدولت بڑی خوبصورت، دلکش اور مفید ترین ہوتی ہیں، ذرا یہ اندازہ کیا جائے کہ انہوں نے اپنے ماضی کی مقلدانہ نظر کو کس صفائی اور فراخدلی سے بھینگا پن قرار دیا ہے، اور کس خوبصورتی سے انسانی کمزوری کے مغزِ معنی سے روغنِ زیتون کا کام لیا ہے، تاکہ یہ مثال گم گشتگانِ وادیٔ حیرت کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہو سکے۔

 

یہ کتنی بڑی خوشی کی بات ہے کہ عاشق حقیقت میں خود ہی معشوق ہے، اس کے معنی ہیں کہ معشوق خود اپنے آپ کا عاشق اور

 

۴۳

 

فریفتہ ہے، اس نے اپنے بے پناہ حسن و جمال کا نظارہ کرنے کے لئے یہاں شخصیّت کا ایک آئینہ بنا لیا ہے، اور آئینہ بھی ہے تو بڑا عجیب و غریب، یہ احساس و شعور کی دولت سے مالامال ہے، جب یہ شخصیّت و شعور جیسی دو چیزوں سے مرکب ہے، تو لازمی طور پر اس کے دو تصوّر پیدا ہو سکتے ہیں، ایک تصوّر کثرت کا ہے جو شخصیّت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے اور دوسرا تصوّر وحدت سے متعلق ہے، جو شعور کی وجہ سے ہے، اور اسی سے انسان کی اخلاقی، مذہبی اور روحانی ترقی ہوتی ہے، چنانچہ یہ وحدت ہی کا تصوّر ہے، جو یہاں فرمایا گیا ہے کہ عاشق اور معشوق ایک ہی مسمّا کے دو اسم ہیں، یا ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں، نکتہ اگرچہ بہت ہی مختصر ہے، لیکن اس میں اہلِ دانش کے لئے علم کی ہر سطح سے ابھرنے والے سارے سوالات کے مکمل اور اطمینان بخش جوابات موجود و مہیا ہیں۔

 

آپ کم از کم وقتی طور پر رسم و رواج اور روایت و تقلید سے آزاد اور بالاتر ہو کر صوفیانہ نظر سے دیکھیں اور سوچیں، کہ عاشق و معشوق اور طالب و مطلوب کے ایک ہونے کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ آیا یہ صرف ایک ہی شخص کا قصّہ ہے یا اس میں سب کی نمائندگی ہے؟ کیا ہم اس تصوّر کی تصدیق فنا فی اللہ کی مثال سے نہیں کر سکتے ہیں کہ وہ بات زیادہ مشہور ہے؟ یہ سوالات اس لئے کئے گئے کہ ان سے اہلِ

 

۴۴

 

سعادت کے اذہان اس حقیقت کی طرف زیادہ سے زیادہ متوجہ ہو سکتے ہیں اور مولای رومی کی تعلیمات سے کماحقہ فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

 

۴۵

 

خدا کی آنکھ سے دیکھنا

 

رباعی

 

چندانکہ بکارِ خود فرو می بینم

بی دیدگیٔ خویش نکومی بینم

با زحمتِ چشمِ خود چہ خواہم کردن

اکنون کہ جہان بچشمِ او می بینم

 

ترجمہ: میں جس قدر بھی اپنے متعلقہ کام (یعنی حقائق و معارف) پر نظر ڈالتا ہوں (اپنی آنکھوں سے) خود دیکھے بغیر اچھی طرح سے دیکھتا ہوں، اپنی آنکھ سے (دیکھنے کی) تکلیف گوارا کر کے کیا کروں گا، جبکہ کائنات (کے ظاہر و باطن) کو اُس (یعنی خدا) کی آنکھ سے دیکھتا ہوں۔

 

تشریح: مولای روم کی تمام فکر انگیز تعلیمات کے دو بڑے مقصد ہیں، ایک یہ کہ انسانِ کامل کو جیسا کہ چاہئے پہچان لیا جائے اور دوسرا یہ کہ انسان خود کو روحانی ترقی کا اہل قرار دے اور مرشدِ کامل کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرے، وہ مایوسی کو قریب نہ آنے دے اور رحمتِ خداوندی کی امید پر علم و عمل کا راستہ اختیار کرے تاکہ عارضی خودی کا سیاہ پردہ سامنے سے ہٹ کر انائے عُلوی کا جلوہ نمودار ہو جائے

 

۴۶

 

اور پھر معرفتِ ذات کی منزلیں رفتہ رفتہ طے ہوتی چلی جائیں۔

 

اس عالی شان ربّاعی میں مومنِ پاک باطن کے خدا کی آنکھ سے دیکھنے کا ذکر ہے جیسے حدیثِ نبوّی کا ارشادِ مبارک ہے کہ: “مومن کی فراست سے بچ کر رہنا کیونکہ وہ خدا کے نور کی روشنی میں دیکھتا ہے۔” اور حدیثِ قدسی میں اس سے زیادہ تفصیل سے حقیقی مومن کی صفات پر روشنی ڈالی گئی ہے، وہ یہ کہ: “میرا بندہ ہمیشہ زائد عبادات کے وسیلے سے میری نزدیکی حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس کو اپنا محبوب قرار دیتا ہوں اور جب میں اس کو اپنا محبوب بناتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کی زبان جس سے وہ بولتا ہے اور اس کے پاؤں جن سے وہ چلتا ہے، پس وہ میرے ہی ذریعے سے سنتا ہے اور میرے ہی ذریعے سے دیکھتا ہے اور میرے ہی ذریعے سے پکڑتا ہے اور میرے ہی ذریعے سے بولتا ہے اور میرے ہی ذریعے سے چلتا ہے۔”

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس صفات کا اطلاق سب سے پہلے انسانِ کامل پر ہوتا ہے کیونکہ تمام بندوں میں سے اللہ تعالیٰ کا بہترین بندہ وہی ہے اور پھر اس کے بعد اسی کے وسیلے سے دوسرے ہیں۔

 

اُس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز کی بے پایان رحمت اور

 

۴۷

 

بے دریغ نوازش کا کیا کہنا کہ وہ ایک خاص مقام پر اپنے پیارے دوستوں کی ایسی پُرشفقت دستگیری اور شاندار مدد فرماتا ہے کہ عقل دنگ ہو جاتی ہے، کیا ایک عام انسان اس حقیقت کا تصوّر کر سکتا ہے کہ معرفت اور عبادت کے اعلیٰ درجے پر بندۂ مومن کا قول و فعل خدا کا قول و فعل ہو جاتا ہے، اور جب یہ بات حقیقت ہے کہ ایسی فضیلت عبادت و ریاضت کے بعد ہر مومن کے لئے ممکن ہے تو پھر یقین رکھنا چاہئے کہ ہادیٔ برحق کامل طور پر اس کا مصداق ہوا کرتا ہے۔

 

۴۸

 

گنجِ مخفی

 

رباعی

 

در عالمِ گل گنجِ نہانی مائیم

دارندۂ ملکِ جاودانی مائیم

چون از ظلماتِ آب و گل بگذشتیم

ہم خضر و ہم آبِ زندگانی مائیم

 

ترجمہ: اس عالمِ خاکی میں (وہ) مخفی خزانہ (جس کا ذکر حدیثِ قدسی “کنت کنزاً” میں ہے) ہم ہی ہیں، لازوال روحانی سلطنت کے مالک ہم ہی ہیں، جب ہم قالبِ عنصری کی تاریکیوں سے گزر چکے تو (معلوم ہوا کہ) خضر بھی اور آبِ حیات بھی ہم ہی ہیں۔

 

تشریح: مولوی معنوی کہتے ہیں کہ جسمِ خاکی اور نفسِ امّارہ کی پیدا کردہ ظلمتوں کو چھوڑ کر معرفت کے اصل مقام پر پہنچ جانے کے بعد ہم نے بصیرت اور خود شناسی کی آنکھ سے دیکھا اور معلوم ہوا کہ ہم ہی اس دنیا میں وہ پوشیدہ خزانہ ہیں، جس کے متعلق حدیثِ قدسی میں فرمایا گیا ہے کہ:

 

کنت کنزاً مخفیاً فاحببت ان اعرف

 

۴۹

 

فخلقت الخلق، یعنی میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا سو میں نے یہ چاہا کہ پہچانا جاؤں پس میں نے خلقت کو پیدا کیا۔ کوئی بھی عاقل اس حقیقت سے انکار نہ کر سکے گا کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت و شناخت کے لئے جس پیدائش کی ضرورت تھی وہ صرف جسمانی تخلیق نہیں بلکہ روحانی تکمیل بھی ہے، کیونکہ اگر ربّ العزّت کی پہچان کے لئے لوگوں کا بدنی طور پر پیدا کیا جانا کافی ہوتا تو آج سب دنیا والے خدا کے عارف بن جاتے اور نتیجے کے طور پر آسمانی بھیدوں کے مخفی خزانے کی حیثیت سے ان کو خدا مل جاتا، مگر حق بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے، لہٰذا ہمارا یہ کہنا حقیقت ہے کہ صحیح معنوں میں پیدا صرف وہی حضرات ہوئے ہیں جن کی جسمانیّت اور روحانیّت دونوں کامل اور مکمل ہوئی تھیں، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ لوگ اپنی جسمانی پیدائش کے سلسلے میں تو کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں، لیکن روحانی تخلیق و تکمیل کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

 

آپ نے سورج کے عکس کو آئینے میں دیکھ تو لیا ہے، لیکن شاید آپ نے کبھی یہ نہیں سوچا ہے کہ سورج کی یہ نورانی شکل آئینہ جیسی صاف و شفاف چیز میں کس طرح آتی ہے اور آئینے کو الٹانے یا ہٹانے سے یہ شکل کہاں جاتی ہے، حالانکہ اس عجیب و غریب مثال کے جاننے میں انتہائی عظیم فائدہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسان کی اصل خودی یا کہ

 

۵۰

 

انائے حقیقی جسے انائے علوی کہنا چاہئے ازل سے ابد تک خدا کے نور میں یعنی حقیقتِ کل میں موجود ہے اور وہ ایک ہی ہے مگر جب ظاہری شخصیّت کے آئینے میں اُس اونچی انا کا عکس پڑتا ہے تو ایک انا کی دو انائیں ہو جاتی ہیں، جیسے اصل سورج آسمان پر اور اس کا عکس آئینے میں نظر آتا ہے، چنانچہ اگر آپ اپنی عارضی انا کو دائمی انا سے ملانا اور درمیان سے دوئی کو ختم کر دینا چاہتے ہیں، تو درست اور قدرتی اصول کے مطابق فنا سے کام لیا کریں، اور اپنی ہستی کی ظلمتوں کو نورِ معرفت کے ذریعے سے دور کر دیں، تاکہ جو انا ازلی و ابدی طور پر قائم و دائم ہے اسی میں عقل و شعور منتقل ہو جائے۔

 

حقیقتِ کل نور کا سورج ہے، جس سے ہماری دائمی انا کی کرن ہرگز ہرگز الگ نہیں ہو سکتی ہے، لہٰذا اصل میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ہماری حقیقی خودی یا کہ انائے عُلوی جسم میں آئی ہے، مگر ہاں شخصیت کے آئینے میں اس کا جو عکس پڑ رہا ہے اور اس کی وجہ سے جس طرح ہماری انائے سفلی بنی ہے، اس کے اعتبار سے یہ کہنا درست ہے کہ ہم دنیا میں آئے ہیں، سو اگر وہ انا یہاں نہیں آ سکتی ہے تو یہ انا بھی وہاں نہیں جا سکتی ہے اور نہ ایسا ہونے کی ضرورت ہے کہ وہ آئے اور یہ جائے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں انائیں جس معنیٰ میں دو ہیں اسی

 

۵۱

 

معنی میں یہ ایک دوسرے کی نمائندگی کرتی ہیں اور اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ انا حقیقی طور پر یہاں نہیں آتی ہے مگر مجازی یا اعتباری طور پر۔

 

اس بیان کا خلاصۂ مطالب یہ ہے کہ نیک بندوں کا اصل سے واصل ہو جانا، فنا فی اللہ کا درجہ پانا، گنجِ مخفی حاصل کرنا اور خدا کے حضور لوٹ کر جانا برحق ہے، مگر ان تمام مثالوں کی حقیقت ایسی نہیں جیسا کہ عوام سمجھ رہے ہیں، بلکہ وہ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی انائے علوی میں ہمیشہ اصل سے واصل رہا ہے، وہ کبھی اصل سے جدا نہیں ہوا، وہ ازل سے فنا فی اللہ و بقا باللہ جیسے درجے میں ہے، اس لئے کہ وہ اللہ کا بھید ہے اور اللہ اس کا بھید ہے اور اس لئے کہ وہ خود گنجِ مخفی ہے۔

 

۵۲

 

بھیدوں کا خزانہ

 

رباعی

 

گنجینۂ اسرارِ الٰہی مائیم

بحرِ گہرِ نا متناہی مائیم

بگرفتہ ز ماہ تا بماہی مائیم

بہ نشستہ بہ تختِ پادشاہی مائیم

 

ترجمہ: ہم ہی خداوندِ عالم کے بھیدوں کا خزانہ ہیں، ہم ہی موتیوں کا بے پایان سمندر ہیں، ہم ہی نے آسمان و زمین کو مسخر کر لیا ہے، (اور) ہم ہی دائمی سلطنت کے تخت پر بیٹھے ہوئے ہیں۔

 

تشریح: سب سے پہلے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ “مائیم = ہم ہیں” سے مولای روم کیا مراد لینا چاہتے ہیں؟ آیا اس کا مطلب صرف رومی ہی ہیں؟ یا اس میں سب انسانوں کا ذکر ہے؟ کیا اس میں پیر و مرشد اور انسانِ کامل کی عظمت و بزرگی کی ترجمانی بھی ہے؟ یا اس میں صرف دوسرے درجے کے انسانوں کا تذکرہ ہے؟ اس کا جواب ذیل کی تفصیل میں موجود ہے:

 

مولای رومی کی اس حکمت آگین رباعی کے دو معنوی پہلو ہیں، ایک

 

۵۳

 

تو یہ ہے کہ اس میں ساری موجودات و مخلوقات سے بنی نوع انسان کے اشرف و اعلیٰ ہونے کا ذکر ہے، اور دوسرا یہ کہ عالمِ انسانیّت میں انسانِ کامل کے سب سے مخصوص، ممتاز اور اشرف ہونے کا بیان ہے، چنانچہ جہاں تک انسانِ کامل کی افضلیّت کا تعلق ہے، اس کی ترجمانی کرتے ہوئے مولای روم گویا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آفاق و انفس کے ظاہر و باطن میں کامل انسان کو اللہ تعالیٰ کی خلافت و نیابت عطا ہوئی ہے، اور وہ اسی معنیٰ میں خدا کے بھیدوں کا خزانہ ہے، جیسے حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: انسان میرا بھید ہے اور میں اس کا بھید ہوں۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ارشاد کے بموجب ساری انسانیّت کو خدائے علیم و حکیم کے علم و حکمت کے اسرار کا خزانہ ہونے کا شرف حاصل ہے، لیکن جن آدمیوں پر یہ بھید ہمیشہ کے لئے بھید ہی رہے اور وہ کسی وقت بھی منکشف نہ ہو جائے تو اس سے اُن کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے، یہ تو ان کی ناکامی اور نامرادی ہے، لہٰذا ہم یہ کیوں نہ مانیں کہ خدا کا سرِ عظیم (بڑا بھید) سب سے پہلے اور سب سے اعلیٰ درجے پر نبی اور ولی ہیں اور انسانِ کامل کا اعلیٰ نمونہ بھی یہی حضرات ہیں، ہاں یقیناً انہی کی رہنمائی و پیروی میں کوئی خوش نصیب انسان منازلِ معرفت کو طے کر سکتا ہے اور عملی طور پر سرِ الٰہی ہونے کا درجۂ عالی حاصل کر سکتا ہے۔

 

خدائی بھیدوں کا یہ خزانہ کون سا ہے؟ وہی تو نہیں جن کو “گنجِ مخفی”

 

۵۴

 

کہا جاتا ہے؟ یا یہ کوئی اور گنجینہ ہے؟ اس کا جواب بھی مولای رومی خود ہی دیتے ہیں جیسا کہ انہوں نے کلیات میں فرمایا ہے کہ:

 

گنجِ نہانی طلب از دل و از جان خویش

تا نہ شوی بے نوا بر درِ دوکانِ خویش

 

ترجمہ: اپنے دل اور جان یعنی روح سے “گنجِ مخفی” کو حاصل کر، تاکہ تو اپنی دوکان کے دروازے پر سوالی نہ بن جائے، یعنی ایسا نہ ہو جیسے تیری دوکان میں تو سب کچھ موجود ہے اور اس میں دولت و نعمت کی کوئی کمی نہیں مگر تجھ سے دکان کا دروازہ کھولا نہیں جاتا کہ تو نے اس کی چابی گما دی ہے، اس لئے تو اس کے دروازے کے سامنے سائل بن کر بیٹھا ہے۔

 

موتیوں کے بے پایان سمندر سے کیا چیز مراد ہو سکتی ہے؟ آیا اس کا مطلب روحِ اعظم ہے، یعنی نفسِ کلّی؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیا موتیوں کا اشارہ نفوسِ خلائق کی طرف ہے، جو نفسِ کلّ کے سمندر سے پیدا ہوتے ہیں؟ بہرکیف اس رباعی میں روحانیّت کی بلندیوں کی باتیں کی گئی ہیں، اور اس میں بحیثیتِ مجموعی انسان کی عظمت و بزرگی کے بھیدوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

 

تیسرے مصرع میں انسان کے لئے کائنات کے مسخر ہونے کا ذکر ہے، جس کے بارے میں قرآنِ مجید کا ارشاد ہے کہ: اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے (۴۵: ۱۳)۔

 

۵۵

 

حق بات تو یہ ہے کہ انسان کی “انائے علوی” انتہائی بلندی پر ہے، وہ اُس عالم میں ہے جو مکانی اور زمانی کیفیت سے برتر ہے، جس کو لامکان اور لازمان کہا جاتا ہے، وہ عالمِ روحانی اور بہشت ہے، وہ خود تو مادّی جگہ نہیں مگر ہر جگہ ہے، وہ دنیاوی قسم کا زمانہ نہیں مگر اس میں تمام زمانے مل کر ہیں، یعنی وہاں ماضی و مستقبل نہیں بس حال ہی حال ہے جس کو دہر کہتے ہیں، جہاں ازل اور ابد باہم ملے ہوئے ہیں، چنانچہ جب کوئی کامل انسان اپنی ذات کی معرفت کے درجۂ کمال پر پہنچتا ہے تو وہ اپنی حقیقی انا کی بلندی کو دیکھ لیتا ہے، وہ گویا خدا کے نور کی روشنی میں روحوں کی اُس وحدت کو دیکھتا ہے جس میں سب انسان نفسِ واحدہ کی حیثیت سے ایک ہیں جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:

 

تم سب کا پیدا کرنا اور پھر (مرنے کے بعد) جِلا اٹھانا ایک جان کی طرح ہے (۳۱:۲۸) اس کا اشارہ یہ ہے کہ انسانیّت ازل میں ایک تھی اور ابد میں بھی یہ ایک ہو جانے والی ہے، مگر جیسا کہ بتایا گیا اگر حقیقت کے سامنے سے پردہ اٹھا لیا جائے تو اب بھی کوئی مردِ کامل یہ دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح سب انسان ایک اعلیٰ مقام پر ہمیشہ سے ایک ہیں اور وہ کس طرح عالمگیر روح یعنی نفسِ کلّی کی صورت میں کائنات پر محیط ہیں۔

 

آخری مصرع میں انسان کی روحانی سلطنت کا ذکر کیا گیا ہے، کہ

 

۵۶

 

حضراتِ عارفین دیدۂ باطن سے یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ خود دائمی اور لازوال سلطنت کے تخت پر ہیں، اور یہ ایک قابلِ فہم حقیقت ہے کہ انسان کی روح کلّی طور پر دنیا میں نہیں آئی ہے کیونکہ وہ ایک مادّی چیز کی طرح محدود اور مرکب نہیں ہے وہ تو بسیط اور غیر مرکب ہے، وہ دنیا میں جسم اور شخصیّت کے اعتبار سے سورج کے عکس کی طرح آئی ہے، اور کسی چیز کے سائے کی طرح آئی ہے، لہٰذا عظیم صوفی کا کہنا صحیح ہے کہ انسان کی روحِ بسیط و محیط کلّی طور پر دنیا میں کیسے آ سکتی تھی، وہ تو انائے عُلوی کے اعتبار سے روحانی بادشاہت کے تخت پر متمکن ہے۔

 

۵۷

 

دل اور عشق

 

رباعی

 

شمعی است دل مراد افروختنی

چاکیست ز ہجرِ دوست بر دوختنی

ای بی خبر از ساختن و سوختنی

عشق آمدنی بود نہ آموختنی

 

ترجمہ: (پہلی مثال میں) دل ایک موم بتی کی طرح ہے جس کا مقصد جلانا اور روشن کر دینا ہے (دوسری مثال میں) دل ایک ایسا چاک (یعنی چیر اور زخم) ہے جسے دوست کی جدائی ہی سے سی لیا جاسکتا ہے، اے وہ شخص جو (آتشِ عشق میں) جلنے اور صبر و سازگاری کرنے (کی حکمت) سے بے خبر ہے، عشق ایک عطائی چیز ہے وہ اکتسابی شیٔ نہیں۔

 

تشریح: مولوی معنوی صاحب کا ارشاد ہے کہ انسانی دل و دماغ کی فطری حالت بہت ہی عجیب و غریب ہے، چنانچہ آدمی کا دل گویا ایک موم بتی ہے، اور اس کے یوں ہونے کا مقصد یہ ہے کہ اس کو ہمیشہ فروزان اور روشن کر کے رکھا جائے، تاکہ اس سے حقیقی عشق کا شعلہ بلند ہوتا رہے، کہ اس سے عاشقِ صادق کا باطن منور اور تابان ہو، اگر موم بتی کا یہ مقصد

 

۵۸

 

فوت ہو جائے اور اُس سے روشنی حاصل نہ کی جائے تو اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔

 

آپ فرماتے ہیں کہ عاشق کی صلاح و فلاح دراصل وصالِ یار میں نہیں بلکہ ہجر و فراق میں ہے، کیونکہ اسی سے اس کو آتشِ عشق میں جلتے رہنے اور صبر و سازگاری کے نتیجے میں اپنی خودی کو نور بنانے کا موقع فراہم ہوتا ہے، اور اسی سے عشقِ حقیقی کے ظہور کی صورت بنتی ہے۔

 

اُن کا کہنا ہے کہ حصولِ مقصد کی راہ میں جتنی تکالیف سامنے آتی ہیں اُن میں بندۂ مومن کے لئے عمدہ مصلحت اور بڑی حکمت ہے، کہ خلوص و محبت سے ایسی مسلسل مشقتوں کو برداشت کرنے کی صورت میں طرح طرح کی قربانیاں پیش ہوتی ہیں، اور ایسی عملی عبادت و ریاضت کے انجام پر اور ان قربانیوں کے نتیجے میں حقیقی عشق کا عطیہ ملتا ہے، کیونکہ وہ کسب و ہنر کی طرح سیکھنے کی چیز نہیں کہ اس کو اکتسابی سمجھ لیا جائے، بلکہ وہ قدرتی اور عطائی ہے۔

 

اس رباعی میں شمع کی مثال دے کرکیا خوب تصور پیش کیا گیا ہے کہ ایک دین شناس انسان رہنمائے راہِ حق کی ہدایت کے مطابق اپنے دل کو جس سے روح مراد ہے، منور اور روشن کر سکتا ہے، اور جو حضرات اس اعلیٰ مقام پر پہنچ گئے ہیں وہ مرتبۂ انسانِ کامل میں فنا ہو چکے ہیں اور فنا

 

۵۹

 

ہو جانے کے معنی بھی یہی ہیں کہ طالبِ حقیقت کی تاریک ہستی روشنی میں بدل جاتی ہے۔

 

۶۰

 

معشوق کی ملامت

 

رباعی

 

گفتم صنمی شدی کہ جان را وطنی

گفتا کہ حدیثِ جان مکن گر زمنی

گفتم کہ بہ تیغِ حجتم چند زنی

گفتا کہ ہنوز عاشقِ خویشتنی

 

ترجمہ: میں نے کہا کہ تو مجھے ایک ایسا محبوب ملا ہے جو کہ میری جان کے لئے جائے قرار ہے، اُس نے کہا کہ اگر تو میرا بن چکا ہے تو اپنی جان کی بات ہی نہ کر، میں نے کہا کہ تو مجھے (اس طرح ہر بات میں) کب تک دلیل کی تلوار سے مارتا رہے گا؟ اُس نے کہا کیونکہ ابھی تک تو اپنا ہی عاشق ہے۔

 

تشریح: حقیقی عشق کا قانون اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ معشوق کی تعریف و توصیف کے دوران ہمیشہ انائیت، خودی اور خودنمائی سے قطعاً گریز اختیار کیا جائے، ورنہ عاشق منزلِ فنا اور وصلِ نورانیّت سے دور رہے گا، اور اگر ترکِ خودی میں بار بار کی ناکامی ہوتی رہتی ہے،

 

۶۱

 

تو پھر محبوب کی تند و تیز ملامتوں کو خوشی خوشی برداشت کیا جائے، یہ ملامتیں مختلف صورتوں میں ہوسکتی ہیں، مثلاً معشوق کے قول و فعل کے سخت رویہ کے علاوہ اپنے طور پر اندر ہی اندر سے روحانی تلخیوں کا احساس ہو جانا اور طرح طرح کی قدرتی مشکلات کا پیش آنا۔

 

۶۲

 

جان و جانان

 

رباعی

 

گفتم صنما مگر تو جانانِ منی

اکنون کہ ہمی نظر کنم جانِ منی

مرتد گردم گر ز تو من برگردم

ای جانِ جہان تو کفر و ایمانِ منی

 

ترجمہ: میں نے کہا کہ اے بُت (یعنی محبوب) شاید تو میرا معشوق ہے، اب جو دیکھ رہا ہوں (تو ایسا لگتا ہے کہ) تو میری اپنی ہی جان ہے، اگر میں تجھ سے برگشتہ ہوا تو مرتد ہوجاؤں، اے ساری کائنات کی جان! تو ہی بس میرا کفر ہے اور تو ہی میرا ایمان (یعنی تو ہی میرا سب کچھ ہے)۔

 

تشریح: اگر یقین کیا جائے کہ نظریۂ “یک حقیقت” مونوریالزم درست اور صحیح ہے تو نتیجے کے طور پر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اصل میں جان اور جانان ایک ہی ذات اور ایک ہی حقیقت ہے، ہر چند کہ شروع شروع میں اس وحدت کے ظاہر میں دوئی اور کثرت نظر آتی ہے، لیکن کمالِ معرفت کے بعد دیکھا جائے تو یقینِ کامل حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ خود سب کچھ ہے اور دوسرا کوئی نہیں، کیونکہ کثرت و دوئی کا ہر

 

۶۳

 

تصوّر ہنگامی، وقتی، اعتباری اور مجازی قسم کا ہوا کرتا ہے، اور آخرکار ایسے تمام تصوّرات ختم ہو کر وحدت ہی وحدت رہ جاتی ہے، کیونکہ ازل میں جو حقیقتِ حال تھی، وہی ابد میں بھی ہوتی ہے، اس سلسلے میں قرآن مقدّس کے متعدد مقامات پر بہت سے لطیف و بلیغ اشارے موجود ہیں، جیسا کہ حقیقتِ انسانی کے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ جانے کا ذکر آیا ہے (۰۲: ۱۵۶) اور انسان کی ایسی انا جو خدا کی وحدت کی طرف رجوع کر سکے صرف اور صرف وحدت ہی ہے جو فنائے مطلق سے حاصل آتی ہے۔

 

۶۴

 

آئینۂ حق نما

 

رباعی

 

ای نسخۂ نامۂ الٰہی کہ توی

وی آئینۂ جمالِ شاہی کہ توی

بیرون ز تو نیست ہر چہ در عالم ہست

در خود بطلب ہر آنچہ خواہی کہ توی

 

ترجمہ: اے کتابِ الٰہی کا نسخہ! (یعنی خدائی کتاب کی اصل) کہ یہ تو خود ہی ہے، اور اے حقیقی بادشاہ کے جلال و جمال کا آئینہ! کہ یہ تو خود ہی ہے، کائنات میں جو کچھ ہے وہ (اپنی باطنی اور روحانی صورت میں) تجھ سے باہر نہیں (پس) تو جو کچھ چاہتا ہے وہ اپنے باطن (یعنی اپنی ذات) ہی میں طلب کر لے (کیونکہ سب کچھ) تو خود ہی ہے۔

 

تشریح: انسان کی ازلی و ابدی حقیقت کیا ہے؟ اس کے روحانی اور عقلی مراتب کی بلندی کہاں تک ہے؟ اور صفاتِ انسانیہ کا درجۂ کمال کیا ہے؟ یہ سب کچھ جاننے کے لئے انسانِ کامل کی معرفت و شناخت لازمی قرار دی گئی ہے، کیونکہ وہی مکمل فرد انسانیّت کے درجۂ منتہا کا نمونہ ہے اور وہی شخصیّت آدمیّت کے اُس اعلیٰ ترین مقام پر کھڑا

 

۶۵

 

ہے جو بشریت کے عروج و ارتقاء کا آخری زینہ ہے، چنانچہ انسان ایسے ہی مرتبے پر پہنچ کر کتابِ مبین یعنی بولنے والی کتاب کا مرتبہ حاصل کر سکتا ہے، وہ یقیناً ربِّ عزّت کے جمال و جلال کا آئینہ بن جاتا ہے، اور فعلاً عالمِ صغیر کی صورت اختیار کر لیتا ہے، جس کی بہترین عکاسی مولای رومی کی مذکورہ رباعی میں موجود ہے، اُس وقت ایسے روشن ضمیر مومن میں کیا کیا نہیں ہوتا، سب کچھ ہوتا ہے سب کچھ، وہ اپنے آپ میں کلّی بہشت بن چکا ہوتا ہے اور بہشت میں تمام نعمتیں موجود اور مہیا ہوتی ہیں۔

 

اس سلسلے میں قرآنِ حکیم کا ایک انتہائی لطیف اشارہ یاد آ رہا ہے اور وہ یہ ہے جو خداوند تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ: (یہ) وہ دن ہوگا جب ہم آسمان (کی وسعتوں) کو اس طرح لپیٹیں گے جس طرح کتابیں لکھنے کے لئے روشنائی کا خشک مادّہ لپٹا ہوا ہوتا ہے، جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا (اسی طرح) دوبارہ پیدا کریں گے (۲۱: ۱۰۴)۔

 

اس ارشادِ ربّانی کا واضح مفہوم یہ ہے کہ خداوندِ عالم اپنی قدرتِ کاملہ سے اس وسیع و عظیم کائنات کو ملفوف و محدود کر کے گوہرِ عقل کی صورت میں تبدیل کر لے گا، جس طرح کہ قبلاً یہ کائنات اسی موتی سے بنائی گئی تھی، مگر اس کے معنی صرف یہی نہیں کہ اجتماعی قیامت کے دن کائنات کی یہ حالت ہوگی، بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسانیّت کی روح اس

 

۶۶

 

وقت بھی خود وہ گوہر ہے جو اس کائنات کو نچوڑ کر بنایا گیا ہے، جس میں بصورتِ جوہر دونوں جہان کی ہر چیز سما گئی ہے، اور ان عظیم حقیقتوں کا مشاہدہ صرف نورِ معرفت ہی کی روشنی میں ممکن ہے، اور اس امرِ واقعی کی ایک ظاہری مثال یہ ہے کہ عالم اپنے تمام اجزاء کے ساتھ ایک حیرت انگیز عظیم درخت ہے اور انسان اس کا پھل ہے، اور پھل وہ ہے جو پورے درخت کو اپنے اندر سما لیتا ہے، یہ حقیقت اس وقت واضح اور روشن ہو جاتی ہے جبکہ پھل کی گٹھلی سے ایک عظیم درخت پیدا ہو جاتا ہے۔

 

۶۷

 

انائے علوی عرش پر

 

رباعی

 

اندر رہِ حق چو چست و چالاک شوی

نورِ فلکی باز بر افلاک شوی

عرش است نشیمنِ تو شرمت ناید

چون سایہ مقیمِ خطۂ خاک شوی

 

ترجمہ: جب تو خدا (کی فرمانبردای) کی راہ میں چست اور ہوشیار ہو جائے، تب ہی تو آسمان پر چڑھ سکے گا، کیونکہ تو آسمانی نور ہے، تیرا محلِ سکونت عرشِ اعلیٰ ہے، کیا تجھے شرم محسوس نہیں ہوتی، کہ تو سائے کی طرح خطۂ زمین پر پڑا رہتا ہے۔

 

تشریح: قرآنِ عزیز (۲۹: ۶۹  یعنی سورۂ عنکبوت کی آخری آیت) کے ارشادِ اقدس کے بموجب احکامِ خداوندی کی اطاعت اور مجاہدہ و ریاضت ہی کے نتیجے میں بندۂ مومن کو صلاح و فلاح اور نورانیّت کا راستہ مل جاتا ہے، خدا کی راہ میں چست اور ہوشیار ہونے کا مطلب یہی ہے، چنانچہ حصولِ کمال کے بعد آسمان اور عرشِ عظیم کی طرف انسان کے رجوع کر جانے کا ذکر بھی قرآنِ حکیم کی آیتِ استرجاع (۰۲: ۱۵۶) اور سورۂ اعراف

 

۶۸

 

کی آیت ۴۰ (یعنی ۰۷: ۴۰) میں موجود ہے، صرف یہی نہیں بلکہ قرآنِ پاک کی متعدد آیات میں اس حقیقت کا واضح بیان آیا ہے۔

 

انسان جوں جوں اللہ تعالیٰ کے امر و فرمان کی بجا آوری کرتا ہے توں توں خدا کی خوشنودی اور نزدیکی کے مراحل طے ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ ایک دن اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں اس کے نفسِ مطمئنہ سے رب العزت یوں خطاب فرماتا ہے کہ:

 

اے اطمینان پانے والی جان! تو اپنے پروردگار کی طرف رجوع کر (درحالیکہ) تو اُس سے خوش اور وہ تجھ سے راضی ہے (اب) تو میرے خاص بندوں میں شامل ہو جا اور میرے بہشت میں داخل ہو جا (۸۹: ۲۷ تا ۳۰)

 

۶۹

 

روحانی طبیب

 

رباعی

 

رفتم بطبیب گفتم از بینائی

افتادۂ عشق را چہ می فرمائی

ترکِ صفت و محوِ وجودم فرمود

یعنی کہ ز ہر چہ ہست بیرون آئی

 

ترجمہ: میں نے طبیبِ عشق کے پاس جا کر پوچھا کہ آپ اپنی بصیرت و دانائی سے عشق کے اس مریض کے لئے کیا تجویز فرماتے ہیں؟ انہوں نے مجھے اپنی تمام صفات کو چھوڑ دینے اور اپنی ہستی کو یکسر مٹا دینے کے لیے فرمایا، یعنی (فرمایا) کہ تیرا جو کچھ بھی ہے اُس کی (قیدِ تعلق) سے قطعاً آزاد ہو جا۔

 

تشریح: یہاں طبیب یا طبیبِ عشق سے روحانی طبیب مراد ہے اور وہ مرشدِ کامل ہے، جس سے مخلص اور کامیاب مرید محبت و دوستی کرتا ہے، مریضِ عشق (افتادۂ عشق) کا اشارہ نامراد مرید کی طرف ہے، جس کے چارۂ کار کے بارے میں پوچھنے پر جواب ملتا ہے کہ اپنی تمام صفات، جو کچھ بھی ہیں، چھوڑ دی جائیں، اور اپنی ہستی کو مٹا دیا جائے،

 

۷۰

 

یعنی محویّت و فنائیّت کے بغیر روحانی ترقی ناممکن ہے۔

 

مولوی معنوی کی اس تعلیم کا مرکز بھی دوسری تمام تعلیمات کی طرح فنا فی اللہ و بقا باللہ کا تصوّر ہی ہے، جس کے برحق ہونے کی بہت سی شہادتیں قرآنِ مقدّس اور آفاق و انفس سے مل سکتی ہیں، جیسے کلامِ پاک کا ارشادِ گرامی ہے کہ:

 

اور تم ہمارے پاس تنہا تنہا آ گئے جس طرح ہم نے اوّل بار تم کو پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا اس کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے (۰۶: ۹۴) اس آیۂ کریمہ کی حکمت یہ ہے کہ انسان کے ظاہری اور باطنی عروج و ارتقا کے لئے بس یہی قانون ہے کہ وہ اپنی موجودہ حالت سے چھٹکارا نہیں پا سکتا جب تک کہ اپنے اوپر کے درجے میں فنا نہ ہو جائے، جیسے وہ پہلے جمادات کے درجے سے نباتات میں فنا ہوا تھا، وہاں سے حیوانات کے درجے میں فنا ہوا اور پھر وہ انسان میں فنا ہوکر انسان بنا، اور اب بھی اسی طرح اس کو ایک فنا کے بعد دوسری فنا اختیار کرتے ہوئے چند عظیم فرشتوں کے درجات سے اوپر جانا ہے، یہاں تک کہ وہ ہر چیز کو اپنے پیچھے چھوڑ جائے، یعنی تمام بشری اور ملکی صفات سے خالی اور مجرّد ہو جائے تاکہ وہ کلمۂ “کن” میں فنا ہو سکے، جیسا کہ وہ پہلی بار جب “کن” یعنی امر میں تھا تو وہ کسی چیز کے بغیر تھا۔

 

۷۱

 

قرآنِ پاک کے مختلف مقامات پر انسان کے اس حال کا ذکر آیا ہے کہ وہ ازل میں عالمِ نیستی کے اندر پایا جاتا تھا مگر کسی چیز کے بغیر، کیونکہ اس کا نہ تو کوئی نام تھا اور نہ ہی کوئی نشان، جیسے ارشاد ہوا ہے کہ:

 

کیا انسان پر دہر میں سے وہ وقت (دوبارہ) آیا ہے (جس میں) کہ وہ کوئی چیز قابلِ ذکر نہ تھا؟ (۷۶: ۰۱) یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ انسان پر وہ پہلا وقت دوبارہ آنے والا ہے جس میں کہ یہ کسی نام و نشان کے بغیر تھا، جس سے انسان کی وہ حقیقت مراد ہے جو بے مثال اور بیان سے باہر ہے جس کی تعریف و توصیف انتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہے، کیونکہ یہ انسان کا وہ بلند ترین مرتبہ ہے، جس میں کہ وہ ہمیشہ سے “فنا فی اللہ” ہے۔

 

اگر فنا فی اللہ کا مرتبہ برحق ہے تو خواہ الفاظ کچھ بھی ہوں لیکن یہ مرتبہ ازل میں بھی ہونا چاہئے اور اگر مانا جائے کہ ازل میں انسان کو یہ درجہ حاصل تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بے مثال صفت میں رہتا تھا، اور اسی وجہ سے اس کا کوئی نام و نشان نہ تھا، تو پھر نتیجے کے طور پر ماننا پڑے گا کہ انسان کی سب سے اونچی حقیقت یعنی انائے عُلوی اب بھی ایسی ہی ہے، کیونکہ لازم نہیں آتا ہے کہ خدا کی رحمت سے کوئی حقیقت ہمیشہ کے لئے گِر جائے اور محروم ہو جائے، اور حقیقت سے یہاں میری مراد انسان کی

 

۷۲

 

اصل خودی ہے۔

 

یہی وجہ ہے کہ اس رباعی میں ترکِ صفت، محوِ وجود اور ہستی سے باہر نکل جانے کا تصوّر پیش کیا گیا ہے، تاکہ ان تمام چیزوں کے سامنے سے ہٹ جانے سے انسان اپنے آپ کو پہچان سکے کہ اس کی حقیقت کیا ہے۔

 

۷۳

 

گلہائے بہشت

گلہائے بہشت
آغازِ کتاب

۱۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللّٰھم صل علی محمد و اٰل محمد۔ یا اللہ! اپنے خزانۂ غیب کے اُن عالیقدر بھیدوں کی حرمت سے، جو درود سے متعلق محفوظ ہیں، اس بندۂ مسکین و محتاج کی دستگیری اور مدد فرما! خداوندا! یہ غلامِ کمترین بے حد عاجزی و حاجت مندی سے مناجات کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن تیری رحمت کے بغیر زبان کی گرہ کھل نہیں سکتی، پروردگارا! ابرِ کرم، ابرِ کرم، کہ اس غریب کے دل کا بوستان سوکھ رہا ہے، اے دانا و بینا! تیرے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں کہ درویشوں کی اصل زندگی گریہ و زاری میں پوشیدہ ہے، ورنہ وہ پتھر کی طرح بے جان چیزوں میں شمار ہو جاتے ہیں۔

۲۔ اما بعد الحمد للہ، یہ ایک کتاب پیشِ خدمت ہے، جو چند مقالوں سے مرتب ہوئی ہے، میرا خیال ہے کہ ہر

۴

مقالہ بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے، اس کی وجہ مختلف ذرائع سے آپ خود معلوم کریں، تو زیادہ سود مند ثابت ہوگا، علم سے متعلق کھری اور کھوٹی باتوں کو جانچنے کے لئے آپ کے پاس کوئی کسوٹی ہونی چاہئے، گو کہ یہ کسوٹی شروع شروع میں بہت معمولی سی ہوگی، لیکن علم میں ترقی ہونے سے خود بخود اس کی بھی ترقی ہوگی، اور اگر خدا کے فضل و کرم سے دروازۂ روحانیّت کھل گیا، اور خاطر خواہ پیش رفت ہوئی تو پھر ایک فیصلہ کُنۡ معجزہ (فرقان، ۰۸: ۲۹) مقرر ہوگا۔

۳۔ اس کتاب کا نام خصوصی غور و فکر کے نتیجے میں “گل ہائے بہشت” مقرر ہوا، جس کی چند وجوہ ہیں، پہلی وجہ تو یہ ہے کہ میں بہت سے دوسرے انسانوں کی طرح پھولوں کا شیدائی ہوں، دوسری وجہ: اس کتاب میں کئی مرتبہ پھولوں کا تذکرہ ہوا ہے، تیسری وجہ: دنیا میں سب سے خوبصورت شے گل ہے، جو باغِ بہشت کے حسن و جمال کی ایک چھوٹی سی مثال ہے، چوتھی وجہ: روحانیّت میں دیگر تمام لطیف چیزوں کے ساتھ ساتھ پھول بھی ظہورپذیر ہو جاتے ہیں، پانچویں وجہ: جنت میں جو تجلّیات ہیں، ان میں پھولوں کی بھی تجلی ہے (۴۳: ۷۱)، چھٹی وجہ: گل ہائے علم کے رس سے

۵

حکمت کا شہد تیار ہوتا ہے، اور ساتویں وجہ یہ ہے کہ میری ایک بہت پسندیدہ کتاب ’’بہشتے اسقرک‘‘ (جنت کے پھول) بھی ہے، جس کی مناسبت ملحوظِ خاطر رہی۔

۴۔ اس کتاب کی جمع آوری میں اکثر و بیشتر علمی مضامین کو ترجیح دی گئی ہے، تاہم کچھ کچھ تاریخی جھلکیاں بھی ہیں، یعنی بعض ایسے اشخاص کا ذرا سا تذکرہ، جو میرے ساتھ مل کر علمی خدمت انجام دے رہے ہیں، تا کہ آنے والی نسل پر یہ حقیقت روشن ہو جائے کہ یہاں جو کچھ علم کا کام ہوا ہے، اسے ادارے کی شکل میں کیا گیا ہے۔

۵۔ اگر ہم قلمی طور پر ان تمام حضرات کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں جو علمی خدمت کرتے آئے ہیں، تو حال اور مستقبل میں کتنی اچھی بات ہوتی، یقیناً یہ صاحبان اپنے کارنامۂ عظیم سے مسرور و شادمان ہو جاتے، اور ان کی آئندہ نسلیں بھی علم سے وابستگی کو اپنے لئے فخر سمجھتیں، اور اسی طرح یہ علم و حکمت کی ایک عملی اور دائمی دعوت قرار پاتی، خدا کرے کہ اگر زیادہ نہیں تو ذرا سا یہ نیک کام ہم سے انجام پائے! تاکہ دل کو تسکین ہو کہ ہماری نیّت تو صاف تھی، مگر کام حسبِ دلخواہ نہ ہو سکا۔

۶

۶۔ اگر آپ اسمِ “اللہ” کے بارے میں کوئی رازِ معرفت جانتے ہیں، تو یہ راز نہ صرف قرآنِ حکیم کے ۹۸۰ مقامات پر کلیدی کام کرے گا، بلکہ اس سے ہر آیت کی حکمت کا دروازہ کھل جائے گا، کیونکہ لفظِ اللہ اگرچہ خود اسمِ ذات نہیں ہے، لیکن اسمِ ذات کے طور پر آیا ہے، اور باقی جتنے اسماء ہیں، وہ اس نام کی نمائندگی کرتے ہیں، چنانچہ آپ جو بھید خدا کے اس پاک نام میں جانتے ہیں وہ ہر آیت اور ہر اسم میں پوشیدہ ہے، جبکہ آیت کسی ایک اسم کی یا دو اسموں کی تفسیر ہوا کرتی ہے۔

۷۔ آپ قرآنِ پاک (۰۷: ۱۸۰) میں اسماءُ الحسنیٰ کا حکم دیکھ لیں، اللہ تعالیٰ کے یہ بزرگ نام آنحضرتؐ اور أئمّۂ طاہرینؑ ہی ہیں، اگر آپ کو کوئی حوالہ چاہئے، تو نوٹ کر لیں: کتابِ کوکبِ دری: ص ۶۷۔۷۴، ص۲۲۶، کتابِ وجہ دین: گفتار (کلام) نمبر :۱۴، نیز دیوانِ ناصر خسرو ق س کے یہ دو شعر
بر جانِ من چو نورِ امامِ زمان بتافت
لیل السرار بودم و شمس الضحیٰ شدم
نامِ بزرگ امامِ زمانست ازین قبل
من از زمین چو زہرہ بدو بر سما شدم

۷

ترجمہ: جب میری جان پر امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہوا، تو میں جو اندھیری رات تھا روزِ روشن بن گیا، پس اسی وجہ سے امامِ زمان (حق تعالیٰ کا) اسمِ اعظم ہیں، میں تو انہی کی بدولت زہرہ کی طرح (پرواز کر کے) آسمان پر جا پہنچا۔

۸۔ ہدایت نامۂ سماوی کا ایک خاص نام “قرآنِ حکیم” ہے، اس لئے اس کی حکمتوں کو سمجھنا چاہئے، آپ اپنے قلب میں قرآنی علم و حکمت کے لئے عشق پیدا کریں، یہاں ایسا عشق خدا و رسول اور امام کی خاطر ہوگا کہ آپ قرآن اور نورِ امامت کی رہنمائی میں فنا اور ابدی نجات چاہتے ہیں، یعنی فنا فی الامام، فنا فی الرّسول، اور فنا فی اللہ و بقا باللہ۔
۹۔ آج آپ کے سامنے ایک جدید ترین حکمت پیش کی جاتی ہے، مگر وہ خود ہے قدیم ترین، وہ یہ ہے کہ بہشت میں وہی لوگ بادشاہ ہوں گے، جن کو فنا فی اللہ و بقا با للہ کا مرتبہ حاصل ہو چکا ہو، مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مومن سالک امامؑ کے توسط سے واصل باللہ ہو جائے، اور امامِ عالی مقام اس درجے کو نہ پائے، اس سے ظاہر ہوا کہ نورِ امامت میں سب کچھ ہے، آپ سورۂ ہل اتیٰ (۷۶: ۰۱ تا ۳۱) کو غور سے پڑھیں، جو امام کے بارے میں ہے، اور ان سب کے بارے

۸

میں بھی، جو مرتبۂ فنا کو حاصل کرتے ہیں، دیکھئے بہشت کی بہت بڑی سلطنت کا تذکرہ (۷۶: ۲۰) اور یہاں یہ سوال ہوگا کہ حضرت سلیمانؑ (جو امام تھے) نے یہ دعا کیوں کی کہ: اے میرے ربّ مجھے معاف کر اور مجھ کو ایسی سلطنت دے کہ میرے بعد کسی کو میسر نہ ہو (۳۸: ۳۵)؟ جواب سن لیں کہ اس کی حکمت کی کلید لفظِ “بَعْدِیْ” میں پوشیدہ ہے، وہ اس طرح کہ بعد کے اصل معنی ہیں بعید (دور) یعنی عرض کی کہ اہلِ زمانہ میں سے جس کو یہ بادشاہی مل سکتی ہو، وہ مجھ میں فنا ہو کر میرے ساتھ ایک ہو جائے، تب ہی وحدت میں وہ بادشاہ ہو، مگر دوری اور دوئی میں نہیں۔

۱۰۔ خدا نے آلِ ابراہیم (آلِ محمدؐ کے أئمّۂ طاہرین) کو بہت بڑی سلطنت دی ہے، (۰۴: ۵۴) یہی بہشت کی بادشاہی ہے (۷۶: ۲۰) اور جو لوگ خدا و رسول اور اولوالامر کی اطاعت کے سلسلے میں امامِ زمانؑ میں فنا ہو جاتے ہیں، تو وہ بھی سلاطین ہوں گے، جیسا کہ مومنینِ موسیٰؑ کے بارے میں ارشاد ہوا۔۔۔ و جعلکم ملوکا (اور اس نے تم کو بادشاہ بنایا ، ۰۵: ۲۰) یقیناً وہ لوگ امامؑ میں فنا ہو کر پادشاہ ہو گئے تھے۔

۹

۱۱۔ عرفانی تحقیق کی روشنی میں معلوم ہوا ہے کہ انسان اپنی اصل سے الگ اور جدا ہو کر دنیا میں نہیں آیا ہے، بلکہ سورج کے عکس کی طرح یہاں آیا ہے، اور اس عظیم واقعہ پر فراموشی کا عجیب سا حجاب ہوگیا ہے، جس کو علم (معرفت) اور عمل سے اٹھایا جا سکتا ہے، شاید منصور کی نگاہِ حقیقت بین کے سامنے سے یہ پردہ ہٹ گیا ہو گا، یعنی سایۂ دوئی ختم ہوا، اور منصور نے نہیں، بلکہ حق نے کہا: ’’انا الحق۔۔۔

۱۲۔ مذکورہ حقائق و معارف کی تصدیق و توثیق کے لئے اس حدیثِ قدسی کو پیشِ نظر رکھیں، ترجمہ: اے ابنِ آدم! میری فرمانبرداری کر، تاکہ میں تجھ کو اپنی طرح کا زندہ اور اَمَر (غیر فانی) بناؤں گا، اور ایسا معزز بناؤں گا کہ تو کبھی ذلیل نہ ہوگا اور ایسا امیر بناؤں گا کہ تو کبھی مفلس و نادار نہ ہوگا (کتاب: المجالس المؤیدیہ، الماءۃ الاولیٰ، ص ۵۵) یہ ایک انتہائی عظیم راز ہے کہ روحِ انسانی کا بالائی سرا ہمیشہ اصل سے واصل ہے وہاں سے روح کبھی جدا ہی نہیں ہوئی، مگر دوسرا سرا سایۂ بدن میں یہاں آیا۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی، جمعہ ۵ ذوالحجہ، ۱۴۱۰ھ
۲۹ جون ۱۹۹۰ء

۱۰

پھول ہی پھول

پھول قدرت کا ایک پُرکشش شہکار ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس جاذبیّت و دلکشی کے پس منظر میں صناعِ ازل کے کچھ بھید پوشیدہ ہیں، اور ان بھیدوں میں سے ایک بات یہ بھی ہے، کہ ظاہری پھول باطنی پھولوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں، توجہ اس معنیٰ میں کہ باغ کے گل فانی ہیں، مگر روح کے گل غیر فانی۔

ویسے تو شمالی علاقہ جات میں موسمِ گرما کے آخر تک مختلف قسم کے پھول کھلتے رہتے ہیں، تاہم یہاں اصل موسمِ گل، بہار ہی میں ہے، جس میں سب سے پہلے درختِ بادام کے غنچے کھلتے ہیں، پھر خوبانی، سیب، آڑو وغیرہ کی کلیاں مسکراتی ہیں، کہیں کہیں گلِ انار بھی اپنی رنگینی سے آنکھوں کو خیرہ کر دیتا ہے، گلِ سرخ کی بات کیجئے، جو پھولوں کا بادشاہ اور سرتاج ہے، جس کے رنگ و بو سے انسان کو بے حد مسرّت و شادمانی حاصل ہوتی ہے، خصوصاً کسی ایسے موقع پر

۱۱

جبکہ احباب و اعزہ اعترافِ خدمت، قدردانی اور شکر گزاری کے طور پر کسی کو ایسے پھولوں کا گلدستہ یا ہار پیش کرتے ہیں۔

خانۂ حکمت برانچ گلگت، تعمیراتی کمیٹی، بروشسکی ریسرچ کمیٹی، اوشی کھنداس اور نومل کے عزیزوں نے پھول ہی پھول کا ایک حسین ترین منظر پیش کیا، یعنی ظاہر میں بھی پھول نچھاور کر دیئے اور دلوں میں بھی حقیقی محبت و علم کے پھول کھل گئے تھے۔

میں نے کراچی، لنڈن، امریکا وغیرہ کے عزیزوں کو نہ صرف ہر اجلاس اور محفلِ ذکر میں شدت سے یاد کیا، بلکہ وہ اُس وقت بھی سختی سے یاد آگئے، جبکہ پھولوں کی بارش برسائی جاتی تھی اور جبکہ گلدستوں کی تقدیم کی جاتی تھی، کاش کراچی اور مغرب کے جملہ عزیزان میرے ساتھ زیرِ تعمیر دفتر کا معائنہ کرتے! وہ یقیناً خوشی سے پھولے نہ سماتے یہاں کے ہر عملدار اور ہر سرگرم رکن کی حسنِ کارکردگی کی داد دئے بغیر نہ رہتے۔

کاش میرے سب عزیزان اُس وقت میرے ساتھ ہوتے، جبکہ ہم صوبیدار میجر (ریٹائرڈ) عبدالحکیم کے باغیچہ میں پھولوں کے درمیان باتیں کر رہے تھے، قربان علی خان

۱۲

کے دولت خانہ میں سب ساتھ ہوتے، جبکہ ہر طرح کا شاہانہ انتظام تھا! صوبیدار (ریٹائرڈ) یوسف علی کے ہال میں یکجا ہوتے، جبکہ محویت و فنائیت کا عالم تھا، علی گوہر کے مکان میں اکٹھے ہوتے، جبکہ علمی محفل خوب گرم ہو گئی تھی! اور بلبل جان کے مکان (نومل) میں ساتھ ہوتے، جہاں سوال و جواب اور خدا شناسی کی باتیں انتہائی بلندی پر پہنچ گئی تھیں! میرے خیال میں اُس بروشسکی کیسیٹ کا ترجمہ ضروری ہے، نہ معلوم اُس شب کیا ہوا تھا، کتنی روحیں حاضر تھیں! کن کن عاشقوں نے جادو جگایا! مجھے بلبل جان پر بھی گمان ہے وہ دریائے عاجزی میں ڈوبے ہوئے غیر معمولی کوشش کر رہے تھے۔

صوبیدار (ریٹائرڈ) علی داد کا ایک اعلیٰ سوال اِس خصوصی علمی گفتگو کا محرک تھا اور وہ :انتہائی مفید باتیں کچھ اس نوعیت کی تھیں

ا۔ خدا تعالیٰ یقیناً ایک ہے، مگر اس کے بہت سے نام ہیں، اسمائے صفاتی سو ہیں، لیکن ذاتِ خدا ایک ہی ہے، اللہ تعالیٰ کے ایک ہزار ایک نام بھی ہیں اور بے شمار نام بھی ہیں اور اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو ایک خدا کا صرف ایک نام بھی ہے جو اسمِ اعظم ہے اور وہ امامِ زمانؑ ہے۔

۱۳

۲۔ خدا کے لئے کوئی حد نہیں کہ عقل اس کو اسی حد میں محدود کر سکے، وہ ہر حد اور ہر محدود سے برتر ہے، الفاظ میں یہ گنجائش کہاں کہ وہ خداوند تعالیٰ کی حقیقت کو کما حقہ بیان کر سکیں۔ حقیقتِ حقائق گویا ایک تراشا ہوا لعل ہے، جس کے بہت سے پہلو ہیں، ہر اعلیٰ مثال صرف ایک پہلو پر روشنی ڈال سکتی ہے اور باقی پہلوؤں کے لئے دوسری مثالیں چاہئیں۔

۳۔ پیر ناصر خسرو ق س نے “رسالۂ حکمتی” میں خدا شناسی کی بابت سب سے عمدہ اور آسان بات یہ بتائی ہے: “اگر پوچھا جائے کہ خدا کیا ہے؟ تو میں کہوں گا کہ خدا وہ ہے جو سب کچھ ہے” اگر ہم اس کلّیہ پر یقین رکھتے ہیں، تو اللہ کے بارے میں پیدا ہونے والے تمام سوالات تقریباً ختم ہو جاتے ہیں، کیونکہ “ہمہ اوست” (یعنی خدا سب کچھ ہے) میں حقائق کا ذکر ہے، چنانچہ اس کا مطلب ہے کہ ہر حقیقت خدا کا ایک جلوہ ہے۔

۴۔ سورۂ رحمان بفرمودۂ مولا علی صلوات اللہ علیہ قرآن کی دلہن ہے، جس میں قرآنِ حکیم کی ساری علمی خوبصورتی مرکوز کی گئی ہے، چنانچہ اسی سورہ میں ارشاد ہے: كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ (۵۵: ۲۹) خدا ہر روز ایک (نئی شان) میں ہے۔ یوم

۱۴

کی تفسیر دن کے علاوہ دور بھی ہے، زمانہ بھی اور لمحہ بھی، چنانچہ ہر پیغمبر اور ہر امام اللہ پاک کی ایک شان ہوا کرتا ہے اور خدا کا ہر نام اس کی ایک شان ہے اس کا ہر جلوۂ روحانی ایک شان ہے اور اس کا ہر ظہور ایک شان ہے۔

۵۔ جب حقیقتِ حقائق کے مختلف پہلوؤں پر الگ الگ روشنی ڈالی جاتی ہے تو ایک سادہ لوح انسان کو یہ شک گزرنے لگتا ہے کہ کبھی کچھ اور کبھی کچھ کہہ کر تضاد پیدا کیا جاتا ہے، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں، بلکہ وہ ممثول ایسا ہے کہ اس کے لئے بہت سی مثالیں درکار ہیں، جس طرح قرآنِ حکیم میں ایک ہی حقیقت کی گوناگون مثالیں بیان کی گئی ہیں (۳۰: ۵۸،  ۳۹: ۲۷)۔

۶۔ انسان کی حقیقت اصل سے منقطع ہو کر اس دنیا میں نہیں آئی ہے، وہ ہمیشہ ہمیشہ اصل سے واصل اور ازلی و ابدی طور پر نور کی بہشت میں ہے، مگر ہاں انسانی حقیقت کا ایک سایہ یہاں بھیجا گیا ہے، یہ اس کی شخصیت ہے، اسی معنیٰ میں روحِ انسانی ایک پل کی طرح ہے، کہ اس کا وہ سرا بہشت میں ہے اور یہ سرا اس دنیا میں ، جب حقیقتِ حال یہ ہے تو پھر حضرتِ آدم علیہ السّلام کے بارے میں سوچنا ہوگا

۱۵

کہ وہ نورِ ازل سے جدا ہو کر کیسے دنیا میں اتر آئے؟ ہم تو یہی کہیں گے کہ آدمؑ کی حقیقت یعنی انائے علوی بہشت سے باہر نہیں آئی، بلکہ اس حقیقت کا ایک سایہ (انائے سفلی) یہاں آیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آدمؑ ایک اعتبار سے جنت سے باہر آئے، اور دوسرے اعتبار سے باہر نہیں آئے، اور یہی ایک ٹھوس حقیقت ہے۔

۷۔ حضرت آدمؑ جس پہلو یا جس اعتبار سے جنت سے نکالے گئے۔ اس کی چند تاویلیں ہیں، اُن میں سے ایک تاویل یہ ہے کہ وہ جیتے جی روحانیّت کے عروج و ارتقاء کی چوٹی پر پہنچ گئے، اور پھر خدا کی حکمت و مصلحت سے اس پہاڑ کی چوٹی سے نیچے آگئے، کیونکہ روحانیّت کی معراج پر پہنچ جانا اور وہاں کی ہر چیز کا مشاہدہ کرنا ضروری ہے، مگر وہاں ہمیشہ کے لئے ٹھہر جانا ضروری نہیں، اور یہ ایک آزمائشی راز ہے کہ ہر پیغمبر روحانیّت کے آسمان پر جا کر بہت ساری عرفانی دولت کے ساتھ زمین پر واپس آتا ہے۔

۸۔ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہر طرح سے معصوم ہوا کرتے ہیں، ان سے کوئی ایسی نافرمانی سرزد نہیں ہوتی، جو عام انسانوں سے سرزد ہوتی ہے، کیونکہ وہ خدا کے برگزیدہ اور

۱۶

اقرب ہونے کی وجہ سے مقامِ توکل پر ہوتے ہیں، یعنی وہ با اختیار نہیں، بلکہ بے اختیار ہو جاتے ہیں، ان کا حقیقی وکیل اللہ تعالیٰ ہوتا ہے، چنانچہ حضرت آدمؑ سے جو نافرمانی سرزد ہوئی تھی، وہ مصلحتی اور برائے نام تھی، جیسا کہ قرآن میں ہے:
وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا (۲۰: ۱۱۵) اور ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ (اسے) بھول گئے اور ہم نے ان میں (اس عہد کو توڑنے کا) پختہ ارادہ نہ دیکھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنے ارادہ و اختیار سے اللہ تعالیٰ کی عہد شکنی نہیں کی تھی، کیونکہ وہ عہد ان کے خیال میں ان کے سامنے نہیں تھا، اس لئے کہ وہ فراموش ہو چکا تھا، اور نہ ان کا اختیار پہلے کی طرح تھا۔

۹۔ جس طرح خدا کی خدائی اور بادشاہی کا نہ کوئی ابتدائی سرا ہے اور نہ کوئی انتہائی سرا، اسی طرح اس کی صفتِ خالقیت ہے، جو فعلاً قدیم اور ہمیشہ ہے، پس اللہ تعالیٰ کسی قطعی ابتداء و انتہا کے بغیر ہمیشہ تخلیق کا کام کرتا رہتا ہے، مگر ہاں زمانہ چھوٹے بڑے بہت سے ادوار میں تقسیم ہو جاتا

۱۷

ہے، ہر دور کے شروع میں جو انسانِ کامل ہوتا ہے، وہ آدمِ دور کہلاتا ہے، اور دنیا بھر کی انسانی روحیں اسی کی روحانی اولاد قرار پاتی ہیں۔

۱۰۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا : جو لوگ تم میں سے (کما حقہ) ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو خلیفۂ زمین بنا دے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں (یعنی آدموں) کو خلیفہ بنایا تھا (۲۴: ۵۵)۔ آپ اس میں خوب سوچیں اور مناسب ہو تو سوالات بھی کریں۔

۱۱۔ انسان کے حقائق سے انکار کی فکری و عقلی سزا یہ ہے کہ اس کو خدا تعالیٰ کی لامحدود بادشاہی میں سوچنے کا موقع نہ دیا جائے، چنانچہ اس بارے میں جو ارشاد ہوا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے:
اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنا دی اور ان کے پیچھے بھی پھر ان پر پردہ ڈال دیا تو یہ دیکھ نہیں سکتے (۳۶: ۰۹)۔ آگے کی دیوار مستقبل کی ظلمت ہے، اور پیچھے کی دیوار ماضی کی تاریکی، اور پردہ سے جہالت مراد ہے، ظاہر ہے کہ یہ سزا ہے، مگر جو لوگ نور کی روشنی میں ہیں، وہ اس میں نہیں۔

۱۸

۱۲۔ اگر عددِ واحد کی شکل پر دو یا تین کو لکھا جائے ( ۲ٰ ۳ٰ) تو اسی طرح اتحاد نہیں ہوگا، بجائے اس کے اگر دو میں سے دو دفعہ ایک کو اور تین میں سے تین دفعہ ایک کو عددِ واحد پر رکھا جائے (۲=۱+۱، ۳=۱+۱+۱) تو ان میں یقیناًوحدت ہوگی، پس جس طرح ہر عدد میں عددِ واحد اور اس کی وحدت پوشیدہ ہے، اسی طرح ہر شخص میں خواہ مومن ہو یا کافر خدائے واحد کا پَرتَو (عکس = صورت) پوشیدہ ہے، اب اس کا انحصار ہر آدمی پر ہے کہ وہ علم و عمل کے ذریعہ پردۂ ظلمت کو ہٹا کر اپنے آپ میں صورتِ رحمان کو دیکھ سکتا ہے یا نہیں۔

اس مضمون کا سرنامہ “پھول ہی پھول” ہے، جس کا اشارہ یہ ہے کہ یہاں نہ صرف ظاہری اور مادّی پھولوں کی رنگینی اور خوشبو پھیل رہی تھی بلکہ اس سے بڑھ کر روحانی اور علمی پھولوں کا بھی موسم تھا، روحانی بہار اور گلوں کے یہ معنی ہیں کہ مومنین عبادت و بندگی اور گریہ و زاری کے وسیلے سے آفتابِ امامت کے قریب ہو جائیں، تاکہ وہ اپنی ذات میں سبزہ زار اور باغ و گلشن کے خوشنما مناظر کو دیکھ سکیں۔

اوشی کھنداس (گلگت) میں درختِ سنجد (گنڈاور) کے پھولوں کی بہار تھی، ہم نے ان درختوں کے نیچے کچھ دیر بیٹھ

۱۹

کر خدا تعالیٰ کی خصوصی نعمتوں کا شکر ادا کیا، گلِ سنجد کی عطر افشانی بڑی دلفریب تھی، اس کی مسرّت و شادمانی نے صدر فتح علی حبیب، صدر محمد عبد العزیز، دیگر عملداران اور عزیز ارکان کی محبتِ روحانی کی خوشبوؤں کو جگایا، انسانی تصوّر کا کرشمہ دیکھئے کہ اس وقت شرق و غرب کے بہت سے عزیزوں کو فرداً فرداً یاد کیا، اور اس وقت بھی یاد کرتا ہوں۔

خانۂ حکمت             ادارۂ عارف
نصیر الدین نصیر ہونزائی
کیمپ ، ہونزہ، ۸۵۔۴۔۲۵

۲۰

مومن مومن کا آئینہ ہے

عزیز ترینِ من صدر غلام قادر، عملدارانِ جملہ شاخہائے خانۂ حکمت و ارکان سلامت !باشند
میرا دل جو اس وقت مسرّت و شادمانی کے سمندر میں ڈوب گیا ہے، وہ اسی خوشی کے دباؤ اور فرمائش سے آپ تمام حضرات کو “یا علی مدد” لکھاتا ہے، آپ جانتے ہیں کہ یہ بے پناہ سرور مجھے کیسے حاصل ہوا، اور اس کی کیا وجہ ہے، اس کے وجوہ و اسباب مشرق و مغرب کے جملہ عزیزان ہیں، چنانچہ یہاں سے ہمارے دونوں عزیز و مہربان صدر صاحبان اور سیکریٹری صاحب آپ کی طرف آئے اور آپ عزیزوں نے ہر موقع پر اور ہر جگہ ایسا بے مثال اثر بخشا کہ اس کا بیان احاطۂ تحریر میں نہیں آسکتا، محترم صدر فتح علی حبیب، محترم صدر محمد عبد العزیز، اور محترم سیکریٹری رفیق جنت علی آپ کو خط لکھنے والے ہیں۔

میرے یہ حقیقی دوست جو اللہ کی رحمت سے چشمِ بصیرت سے سرفراز ہیں، صدر غلام قادر کے ہر قول و عمل کو

۲۱

سراہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ چشمِ بد دور! غلام قادر صاحب میں کچھ پاکیزہ روحیں اپنا مسکن بنا رہی ہیں، خدا کرے کہ موصوف آگے چل کر ایک عظیم الشّان لیڈر بن جائیں۔

میرے یہ ہوشمند ساتھی نائب صدر غلام رسول کے جذبۂ ایمانی اور گرانقدر خدمات سے بہت متاثر ہوگئے ہیں، اور ان کی دینداری اور عاجزی کی بہت تعریف کرتے ہیں، صوبیدار میجر عبدالحکیم سے مل کر ان کو بے حد خوشی ہوئی، یہ عزیزان قربان علی خان کی خدمت میں کوئی نمائندگی پیش کرنا چاہتے ہیں، میں نے صوبیدار علی داد کی مزید خصوصیات سے انہیں آگاہ کیا، بلبل جان کی شرافت و سنجیدگی نے مقناطیسیت کا کام کیا ہے، اسی طرح اور بھی مومنین ہیں، جو ان کے دل میں جم کر بیٹھ گئے، جس سے ان کو بے حد مزہ آرہا ہے، مگر ہر ایک کا نام نہیں جانتے ہیں۔

اوشی کھنداس کے عزیزوں کو یاد کر رہے ہیں، چیئرمین محمد جابر سے واقف ہوکر خوش ہوگئے اور صغیر الدین کو اب قریب سے دیکھا پہلے صرف سنا جاتا تھا، صوبیدار یوسف علی کو شاید دوسرے چند کے ساتھ خط لکھا جائے گا وہ امامِ عالی مقام کا ایک سچا خادم ہے، دراصل یہ خط بہشت کا نہیں ہے

۲۲

اس لئے اس میں بہت سے عالی ہمت مومنین کے نام نہیں ہوں گے، مگر جس وقت بہشت سے ایک خط ملے گا، وہ تو بہشت ہی کا خط ہوگا، اس میں کوئی فروگزاشت نہیں ہو گی، بہرحال گلگت، اوشی کھنداس، اور ہونزہ سے یہ  حضرات بہت خوش ہو گئے ہیں، آپ سب کو مبارک ہو!

موکھی علی حرمت تو سریلی آواز کا خزانہ ہیں، خزانے سے کون خوش نہیں ہوتا۔ محفلِ ذکر ہر جگہ عجائب و غرائب سے بھرپور تھی، تاہم جہاں سریلی آواز کا گنجینہ موجود تھا، وہاں ان کے لئے بہت سی نئی نئی چیزیں تھیں، ہمارے یہ عزیزان، جن میں لنڈن، کنیڈا، امریکا، افریقہ، ہندوستان، اور پاکستان کے سب عزیزوں کے ذرّاتِ روح آپ کی طرف آئے ہوئے تھے، اپنے دورہ سے بہت شادمان نظر آتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا باطن پاک ہے، اور یہ حقیقی معنوں میں دینی شعور رکھتے ہیں۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہم امامِ اقدس و اطہر کے لشکرِ علمی کا ایک چھوٹا سا دستہ ہیں، مگر بفضلِ خدا اس دستے کی بہت بڑی اہمیت ہے، تاریخ ہمارے ساتھ انصاف سے سلوک کرے یا نہ کرے، درحقیقت ہماری نظر خدا تعالیٰ کی

۲۳

خوشنودی پر ہے، اور ہماری ساری امیدیں اسی ذاتِ عالی صفات کے درِ اقدس سے وابستہ ہیں، پس دانا مومن وہی ہے جو آخرت کو دنیا پر ترجیح دے، دنیا میں کبھی خوشی ہو سکتی ہے اور کبھی نہیں ہو سکتی ہے، مگر آخرت سے متعلق جو اللہ کا وعدہ ہے وہ برحق ہے۔

کل کچھ عزیزان میرے پاس بیٹھے علمی باتیں سن رہے تھے، میں کہہ رہا تھا کہ: “مومن مومن کا آئینہ ہوا کرتا ہے۔” اس ارشاد کے کئی معنی ہیں، ایک تو یہ ہیں کہ جب کوئی مشفق و خیر خواہ استاد با صلاحیت شاگردوں کو یقینی علم دیتا ہے، اس کا ایک روحانی عکس معلم کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے آئینہ آدمی کی صورت کو اس کی (یعنی اسی آدمی کی) طرف لوٹا دیتا ہے، اور جب استاد ایسے ردِ عمل (جوابی عمل) میں علم کو پاتا ہے، تو وہ علم بہت ہی اعلیٰ ہوتا ہے۔

مذہب کی تاریخ میں شروع ہی سے تکبر کی برائی سب کو معلوم ہے، چنانچہ تکبر مثال کے طور پر زہرِ قاتل ہے، اب جو دوا اس زہر کو مار کر ختم کر سکتی ہو، اس کے گران بہا اور مفید ہونے کی کیا تعریف ہو سکتی ہے، وہ تو بہت سی جانوں کو مرگِ مفاجات سے بچانے والی دوا ہو گی، ہاں یقیناً وہ دوا ایسی ہی

۲۴

ہے، اور وہ “عاجزی” ہے، کیونکہ یہ حکمت “علاج بالضد” کے اصول پر ہے، اور عاجزی جیسی سب سے اہم اور مفید ترین صفت اپنے آپ نہیں آسکتی ہے، جب تک کہ علم نہ ہو۔

اگرچہ اس مادّی دنیا میں سامانِ زینت و آرائش یعنی زیورات کی کوئی کمی نہیں، لیکن جہاں بہشت کے حقائق و معارف کی تشبیہہ و تمثیل زیورات سے دینی تھی، اس میں مدور (گول) چیزوں کو منتخب فرمایا گیا ہے، اور اس مقصد کے لئے بطورِ خاص کنگن کو لیا گیا ہے، جو کلائی کا ایک زیور ہے تاکہ اس مثال سے گوہرِ نور کے مظاہرۂ مستدیر (گول حرکت) کو سمجھ لیا جائے، جس کا تعلق ہاتھ سے ہے۔

خدا اُس قادرِ مطلق کا نام ہے جو محدود کو غیر محدود (یعنی لا محدود) بناتا ہے، اور لامحدود کو محدود کر لیتا ہے، کیونکہ وہ ہر چیز کو اس کی ضد سے پیدا کرتا ہے، اور ہر شے کو اس کی ضد میں سما دیتا ہے، جیسے دن میں رات کو داخل کر دیتا ہے اور رات میں دن کو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ علم محدود بھی ہے اور لا محدود بھی، اور علم کا محدود ہونا وہاں درست ہے، جہاں خدا تعالیٰ نے تمام چیزوں کو گھیر کر محدود کر لیا ہے (۳۶: ۱۲) کوئی بھی ہوشمند ہرگز یہ پسند نہیں کرے گا کہ وہ

۲۵

علم کے بے پایان بیابانوں میں کھو جائے بلکہ وہ اُس مرکزِ نور کی طرف جانا چاہے گا، جہاں سے علم و ہدایت کی روشنی نکل کر ساری کائنات میں پھیل جاتی ہے (۲۴: ۳۵) جس طرح آپ باور کر سکتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں تمام علم جمع ہے، اسی طرح آپ یہ یقین بھی کر سکتے ہیں کہ نورِ قرآن یعنی امام میں ہر علمی چیز سرچشمے کے طور پر موجود ہے۔

فقط آپ کا مخلص
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۸۵۔۷۔۳۱

۲۶

ایک پیارا سا تعارف

 

بحوالۂ مکتوبِ خانۂ حکمت برانچ، گلگت۔ بابتِ جنرل اجلاس ۳۰ اگست ۱۹۸۵ء، بمقامِ رہائش گاہِ جناب نیاز علی، اوشی کھنداس۔

میرے بہت ہی بہت ہی عزیز، میری میٹھی روح، میری شیرین جان صدر غلام قادر، قوّتِ بازو نائب صدر غلام رسول، عزیز فرشتہ صفت سیکریٹری شیر اللہ بیگ اور عزیز ممبران کے حق میں بصد خلوص دعائے یاعلی مدد قبول ہو! آپ کے کارہائے نمایان جو تاریخِ خانۂ حکمت کا اہم حصّہ ہیں مبارک ہوں! اور یہ بنیادی کام بھی بہت بہت بابرکت ثابت ہو! جو آپ نے بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کے سلسلے میں انجام دیا، صدر فتح علی حبیب اور صدر محمد عبد العزیز آپ سے بے حد خوش ہیں اور آپ کو اس موقع پر “مبارک باد!” کہتے ہیں۔

محترم صوبیدار (ریٹائرڈ) علی داد بہت سی صلاحیتوں اور خوبیوں کا خزانہ ہیں، آپ خاندانی اور موروثی طور پر دینی علم اور امامِ عالی مقام کی مقدّس خدمت سے منسلک رہے ہیں آپ کا

۲۷

گھرانا تین پشتوں سے قلم اور کتاب کے تقدس کا نمونہ رہا ہے آپ کے دادا جان اور والدِ بزرگوار اپنے اپنے وقت میں عالی مرتبت حضرت پیر کے نمائندوں میں سے تھے، اور اب بھی یہ اعزاز زمانے کی ترقی کے ساتھ ان کے خاندان میں باقی و جاری ہے، زہے قسمت کہ چاروں برادران بمع جملہ فرزندان علم کی لازوال دولت سے مالا مال ہیں۔

 

ہمارے بہت ہی عزیز صوبیدار علی داد بڑے علم دوست اور نکتہ شناس ہیں، ان کے دل و دماغ میں نورِ ایمان کی روشنی کام کرتی ہے، جن کی گفتگو سے کستوری کی سی خوشبو آتی ہے، جو علم و حکمت کی گیرائی اور پذیرائی میں مقناطیسی قوّت رکھتے ہیں، وہ اگر محفل میں موجود ہیں، تو احباب کا دل مسرّت و شادمانی سے مسکرائے، وہ اگر بولیں تو دانش و سنجیدگی اور نزاکت و نفاست کی ایک نرالی شان ہو، یہ ہیں صوبیدار علی داد، جو بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کے چیئرمین مقرر ہوئے ہیں۔

بروشسکی زبان کی یہ اساسی خدمت بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے، وہ حضرات بڑے نیک بخت ہیں، جو عملدار اور ارکان کے طور پر منتخب ہوگئے ہیں، ان شاء اللہ کچھ عرصے کے

۲۸

بعد ان کا ایک عظیم اور بے مثال کارنامہ قائم ہوگا اور اسی بنیاد پر بروشسکی لٹریچر اور اس کی تاریخ کا آغاز ہوگا، یہ نہ صرف زبان اور قوم کی خدمت ہے بلکہ یہی خدمت علاقہ اور مذہب کے لئے بھی ہے، جس میں امامِ اقدس و اطہرؑ کی رضا و خوشنودی ہے، دیکھتے رہنا اور خدمت کرتے جانا کہ وہ امامِ برحقؑ ہیں، دین و دنیا میں نورانی برکتوں اور نوازشوں کی امید رکھتے ہوئے نیک کاموں کو انجام دینا۔

خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کی علمی خوشبو جو لاثانی اور غیر فانی ہے بڑی تیزی اور مؤثر انداز سے مشرق و مغرب میں پھیل رہی ہے اور ہمیں کامل یقین ہے کہ یہ نورِ امامت کا ایک باطنی منصوبہ ہے، کیونکہ امامؑ صرف کارِ ظاہر تک محدود رہے یہ کبھی نہیں ہوا، اور نہ کبھی ایسا ہوگا، اسی طرح بروشسکی زبان میں ایک علمی اور ادبی انقلاب آیا ہے، اور جاری ہے، اس میں جو حضرات آگے بڑھ کر حصّہ لیں وہ بڑے خوش نصیب ہوں گے، ہم سے جو کچھ ہو سکے، ان کی مخلصانہ خدمت کریں گے، خدا کرے کہ ہم ان کو بامِ عروج پر پہنچانے کی خاطر سیڑھی کا کام کر سکیں! وہ اس طرح کہ ہم اپنے گھٹنے سے پہلا زینہ بنائیں، کندھے سے دوسرا زینہ، سر سے تیسرا زینہ،

۲۹

اور ہاتھ کو اونچا کر کے چوتھا زینہ بنائیں اور اپنے ہر عزیز کو ترقی کی چھت پر چڑھائیں، آمین! یہ ہماری دعا ہے، مگر ہر کامیابی کی روح خدا کے ہاتھ میں ہوتی ہے، اس کے مبارک ہاتھ میں کیا نہیں ہے۔
اگر لوگ جانتے کہ “دستِ راستِ خدا کیا ہے؟” یہ بابرکت ہاتھ کس طرح کائنات بھر کی علمی اور عرفانی برکتوں کو لئے ہوئے ہے، تو اس وقت وہ خوشی اور عشق سے لرزہ براندام ہوتے ہوئے قرآنِ حکیم میں یہ دیکھنے کی کوشش کر لیتے کہ خدا کے ہاتھ کے بارے میں کیا کیا اشارے اور کیسے کیسے بھید موجود ہیں، ایسے سچے عاشق اس جستجو سے کبھی نہیں تھکتے، اور کبھی نہیں رکتے۔

جس شخص کو حقیقی علم سے عشق ہو وہ بڑا سعادت مند ہے، کیونکہ علم نور ہے، لہٰذا یہی عشق نورِ خداوندی سے بھی متعلق ہے، قرآنِ حکیم کے ظاہر میں اگرچہ لفظِ “عشق” موجود نہیں، لیکن مترادفات میں اس کی اہمیت و افادیت کا تذکرہ موجود ہے، اس کے علاوہ سورۂ شوریٰ کے آغاز (یعنی ۴۲: ۰۲) میں جہاں عٓسٓقٓ ہے، وہاں اس کی دوسری قرأت “عشق” ہو سکتی ہے اور یہ مناسب ہے جبکہ قرآن سات حرفوں

۳۰

پر نازل ہوا ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ لہجۂ وحی اکثر یا خاص خاص کلمات میں “پہلودار” ہوا کرتا تھا تاکہ قرآنِ حکیم زیادہ سے زیادہ جامعیّت کا حامل ہوکر ہر چیز کو بیان کر سکے (۱۶: ۸۹)۔
عشقِ حقیقی اولیاء اللہ کی خصوصی غذائے روح ہے، اور حضرت موسیٰؑ نے عشق ہی سے دیدارِ خداوندی کے لئے درخواست کی تھی، پھر جسمانی طور پر ہرگز نہیں، بلکہ عشق کے معنی میں گر کر مدہوش اور فنا فی اللہ ہوگئے تھے (۰۷: ۱۴۳)۔ یعنی  وَّخَرَّ مُوْسٰى صَعِقًاۚ  (اور موسیٰؑ بے ہوش ہو کر گر پڑے) کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ آپؑ دیدار اور عشق کے زیرِ اثر خودی کی بلندی سے عاجزی اور بے خودی کی پستی میں گر کر چہرۂ خدا میں فنا ہوگئے، آپ اس آیۂ کریمہ میں غور کر سکتے ہیں کہ کلام یعنی علم سے عشق میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس سے دیدار کا اشتیاق شدید تر ہو جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ علم الیقین کی ہر بات سے شک و جہالت کا ایک پردہ ہٹ جاتا ہے، اور جیسے جیسے حجابات اٹھتے جاتے ہیں، تجلّیاتِ صفات کی معنویت اور محبت قوی سے قوی تر ہوتی جاتی ہے۔ ان شاء اللہ ہر مقام پر علم کی طرف بھرپور توجہ دی جائے گی۔

۳۱

صدر فتح علی حبیب           صدر محمد عبد العزیز
خانۂ حکمت             ادارۂ عارف
خادم نصیر الدین نصیر ہونزائی
۸۵۔۹۔۲۶

۳۲

ایک اہم فرمان کے چند مفہومات

حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ و سلامہ شمالی علاقہ جات کی جماعت کی ہدایت کے لئے جو کچھ ارشاد فرماتے تھے، اس کی اکثر تحریر فارسی میں ہوتی تھی، چنانچہ آج سے تقریباً ۶۲ سال قبل کا ایک فرمانِ مقدّس پیشِ نظر ہے، یہ فرمانِ پاک تاریخی اعتبار سے بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے، یہ مبارک ارشاد قریۂ حیدرآباد (ہونزہ) :کے عملداروں کے نام پر ہے، اور وہ نام یہ ہیں

قلندر (ی) ولد محمد ضمیر، رحمت۔۔۔ (چھمرکھن) گل اکبر ولد بختی، عصمت اللہ بیگ ولد محمد رضا بیگ، خلیفہ قدیر شاہ ولد حیدر محمد، خلیفہ تیہان ولد تیو، خلیفہ حب علی ولد محمد رفیع، خلیفہ نوجوان ولد حسن شاہ۔ ان حضرات میں سے شروع کے چار اوّلین کونسل کے ارکان تھے، جس کو عالی مرتبت پیر

۳۳

سبز علی نے بفرمودۂ امامِ اقدس و اطہرؑ پہلی بار قائم کی تھی، جو اس زمانے کی مقامی سیاست کی وجہ سے زیادہ عرصے تک نہ چل سکی، مگر خلفاء کا دستور بہت پہلے سے چلا آرہا تھا، اور وہ صرف مذہبی رسومات ہی میں محدود ہو کر کام کرتے تھے، اس پاک فرمان میں ان عملداروں کے علاوہ اکابرین اور جماعت کے تمام رجال اور خواتین نیز خُرد و کلان کے حق میں انتہائی مشفقانہ دعائیں فرمائی گئی ہیں۔

نفسِ مضمون کا خاص تعلق حضرتِ امامِ عالی مقامؑ کے ان احکام سے ہے، جو وہاں کی جماعتوں کی دینی اور دنیوی ترقی کے لئے بزرگوار پیر سبز علی صاحب کے توسط سے شمالی علاقہ جات میں نافذ ہوئے تھے، اُن میں سے ایک اہم فرمان ہر گاؤں میں جماعتی مکتب کے قیام سے متعلق تھا اور دوسرا حکم کونسل کی تشکیل کے بارے میں، لیکن بد قسمتی سے یہ دونوں چھوٹے چھوٹے ادارے اپنے قیام کے کچھ عرصہ بعد ختم ہوگئے، جس کی وجہ وہاں کی شخصی حکومت کی عدم دلچسپی کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے۔

اس فرمانِ مبارک میں مولائے پاک کی اُن تمام ہدایات و ارشادات کو جو پیرِ موصوف نے پہنچا دیئے تھے

۳۴

“قوانین و قواعدِ جدیدہ” کے نام سے یاد فرمایا گیا ہے، اور بڑی بلیغ نصیحتوں کے ساتھ تاکید کی گئی ہے کہ ان پر عمل کرکے رائج کریں تاکہ دین و دنیا کی برکتوں اور فضیلتوں سے بہرہ ور ہو جائیں۔

۳۵

عزیز و محترم صوبیدار مالک اشدر کی خدمت میں

میں بہت سی توجہ، خلوص، محبت اور یگانگت سے آپ اور خاندان کے ہر فرد کو یاعلی مدد کہتا ہوں، اور بہت سی مزید دعائیں کرتا ہوں، خداوند عالم قبول فرمائے!

مجھے یہ سن کر زبردست صدمہ اور بڑا افسوس ہوا کہ ہمارے باغِ زندگانی کا وہ پھول طبعی خزاں سے بہت پہلے یکایک جھڑ گیا ہے، جس کا پیارا نام “شاہ فقیر” تھا۔ کوئی خوبصورت نوجوان فرزند جن معنوں میں اپنے والدین اور خاندان کے حق میں پھول ہوتا ہے، وہ معانی اُس پھول میں کہاں ہوتے ہیں، جو گلشن میں کھلتا ہے۔ اے فرزند! تم اپنے ماں باپ کے پارۂ جگر کیوں ہو! ان کے دل کا پیوند کس لئے ہو! اے اولاد! تو اتنی شیرین کس وجہ سے ہے! تجھ میں یہ

۳۶

زبردست دلکشی کس نے بنائی ہے؟ یہ کیوں ایسا ہے کہ والدین محبت سے بے تاب ہوکر تجھ پر اپنی جان چھڑک دینا چاہتے ہیں؟ یہ تیرا کیا جادو ہے کہ عظیم سے عظیم تر باپ بھی تیری قدم بوسی کے لئے جھک جاتا ہے۔
عزیزِ من! اگر آپ ایک مردِ مومن نہ ہوتے، تعلیم سے آشنا نہ ہوتے، ایک تجربہ کار فوجی افسر نہ ہوتے، اور ہمارے خاندان کا ایک معزز فرد نہ ہوتے، تو پھر یہ بارِ غم آپ کے لئے ناقابلِ برداشت ہو جاتا، شکر ہے کہ آپ ہر لحاظ سے مردِ مجاہد ہیں اور آپ کو اس امر کا بھی یقین ہے کہ عزیزم شاہ فقیر کی موت ایک طرح کی شہادت ہے۔ پس مجھے امیدِ واثق ہے کہ آپ ہر حال میں صبر کا مظاہرہ کریں گے۔

میری تصنیف کردہ کتاب “ایثار نامہ” اس موقع پر مطالعہ کے لئے بہت مناسب ہے، اسے غور و فکر سے دیکھ لیجئے، تاکہ کسی قسم کی مایوسی نزدیک نہ آسکے، جبکہ مومن کی اصل شہادت ایمان کی وجہ سے ہے، اور شہید مرتا نہیں، وہ تو زندہ ہے، پس بہشت میں انتہائی شاندار ملاقات ہوتی ہے، اور اس پر یقین رکھنا ضروری ہے، بہت ہی ضروری۔

میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص روح شناس ہو، اس کو نہ

۳۷

کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ غم، کیونکہ خدا تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے، اس میں بڑی حکمت ہے، دعا ہے کہ پروردگارِ عالم آپ سب کو صبرِ جمیل عنایت فرمائے! اور مرحوم کو ظہوراتِ جنّت میں نورانی دیدار حاصل ہو! آمین !!

فقط آپ کا اپنا
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۸۵۔۱۱۔۱۶

۳۸

چودہ سوالات

میرے بہت ہی عزیز جانی اور علمی دوست، نوجوان سکالر جناب عبد الرحمان نے لنڈن سے ایک زبردست، پُرخلوص اور دلکش مکتوب بھیجا ہے، جو انگریزی میں ہے، اس بے حد پیارے خط میں انہوں نے جس نکتہ شناسی اور فہم و فراست سے علمی سوالات کئے ہیں، اس کو دیکھ کر مجھے بڑی حیرت اور انتہائی خوشی ہو رہی ہے کہ ان کے مطالعے میں کتنی عمدگی، گہرائی اور گیرائی ہے، اور وہ حقیقی علم کے کیسے قدردان اور دلدادہ ہیں، خداوندِ برحق ان کے پاکیزہ باطن کو علم و حکمت کا ایک عظیم الشّان خزانہ بنا دے! :آمین!! ان شاء اللہ العزیز۔ یہ بندۂ ناچیز ذیل میں جوابات کے لئے کوشش کرے گا۔

ا۔ بحوالۂ “علم کے موتی” حصّۂ دوم، بنیادی اور آخری حقائق: جی ہاں، عرشِ عظیم دائرۂ عالمِ خلق سے باعتبارِ شرافت و فضیلت باہر اور بالاتر ہے، جس کی مثال عالمِ شخصی ہے کہ انسانی عقل، جو عقلِ جزوی اور نمونۂ عرش ہے، وہ

۳۹

دل و دماغ میں ہونے کے باؤجود جسم پر محیط اور برتر ہوتی ہے، جبکہ آدمی کی عقل روح کی نگہداشت کرتی ہے، اور روح بدن کی، اسی طرح عرش سے کرسی کا قیام ہے اور کرسی سے آسمان و زمین قائم ہے (۰۲: ۲۵۵) اور آپ یہ تو جانتے ہیں کہ یہ دونوں عقلِ کلّی اور نفسِ کلّی ہیں اور یہی عالمِ امر ہیں جس میں تخلیق نہیں بلکہ ابداع ہے۔

 

اگر جسدِ ابداعی کا ظہور اس مادّی دنیا میں ہو جاتا ہے، تو پھر بھی وہ ایک طرح کا عرش ہے، لہٰذا وہ شرف و فضل میں تمام آسمانوں سے برتر ہے، کیونکہ وہ عرشِ اعظم کے ظہورات میں سے ہے۔

۲۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امامِ مستقر کے خاندان سے ہیں جس کی وجہ سے آپؐ کی آلِ پاک میں سلسلۂ امامت جاری و باقی ہے، اس کے برعکس حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام امامِ مستودع کے خاندان سے تھے، یہی سبب ہے کہ آنحضرت کی بعثت کے ساتھ ساتھ عیسائی مذہب میں جو امامت تھی، وہ بھی اسلام کی طرف لوٹ آئی، کیونکہ حضرت ابراہیمؑ کے فرزند حضرت اسماعیل ؑ کی امامت ہمیشہ کے لئے تھی، مگر آپؑ کے بھائی حضرت اسحاقؑ کی امامت چند

۴۰

پشتوں کے لئے۔

 

۳۔ حضرتِ خدیجہ الکبریٰ، ام المومنین، طاہرہ لقب نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے، اور یہ سبقت و اوّلیت کوئی معمولی چیز نہیں، جبکہ یہ علم الیقین کی روشنی میں تھی، کیونکہ حضرت بی بی خدیجہ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے توسط سے اس حقیقت کا علم ہو گیا تھا، کہ آنحضرتؐ پر وحی نازل ہو رہی ہے، چنانچہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ خدیجۃ الکبریٰ بطورِ خاص ان خوش نصیب لوگوں میں سے تھیں، جن کو قرآنِ حکیم نے سابقون اور مقربون (۵۶: ۱۰ تا ۱۱) کا عظیم درجہ دیا ہے۔ پس بی بی خدیجہ اپنے وقت میں حضورِ انورؐ کی ایک حجت کا مرتبہ رکھتی تھیں۔

۴۔ جی ہاں، اس میں زبردست نورانی حکمت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے شہد کی مکھی کی مثال میں اہلِ تاویل کو حکم دیا کہ تم کوہِ عقل پر اپنے چھتے بنا لو، اور وہاں سے واپس کائنات و موجودات کے پھولوں اور پھلوں کی طرف آکر حقائق و معارف کے رس کو بار بار کارخانۂ تاویل میں لے جاتے رہو تاکہ اس میں تمہارے لئے تاویلی شہد تیار ہو سکے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب سے پہلے ضروری طور پر عقلی پہاڑ تک

۴۱

رسائی حاصل کرکے چھتہ بنانا ہے، اور اس کے بعد رس کی جمع آوری کی غرض سے مسلسل آتے جاتے رہنا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں نہ صرف صراطِ مستقیم کا ذکر ہے جو صیغۂ واحد میں ہے بلکہ سلامتی کے راستوں کا بھی تذکرہ ہے کہ وہ جمع کے صیغے میں ہے، پس صراطِ مستقیم معراجِ یقین تک جا کر ایک بار طے ہو جاتی ہے، اور پھر سلامتی یعنی تائید کے راستوں کا آغاز ہوتا ہے (۰۵: ۱۶) جیسے شہد کی مکھی کے بارے میں ارشاد ہے (۱۶: ۶۸ تا ۶۹) اور جس طرح واقعۂ معراج سے ثابت ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اگرچہ معراج سے اس مادّی دنیا میں تشریف فرما ہوئے، لیکن حقائق و معارف کو تولنے یا پرکھنے کے لئے عقلی طور پر بار بار معراج سے رجوع کرتے تھے۔

۵۔ سورۂ حجر (۱۵: ۷۵ تا ۷۶) میں جس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے، اس کا تاویلی مفہوم یہ ہے: قریۂ قومِ لوطؑ کی تباہی و بربادی میں، جس کی مثال مقامِ روحانیّت پر موجود ہے، متوسمین (انسانانِ کامل) کے لئے تو بہت سے خاص اور روشن معجزات ہیں، اور مومنین کے لئے کم از کم ایک معجزہ ضرور ہے، کیونکہ جس طرح کسی واقعے کو انسانِ کامل جانتا ہے

۴۲

اُسی طرح ایک مومن نہیں جانتا، چنانچہ یہ فرق اس حکم میں “آیات” اور “آیت” کے دو لفظوں سے ظاہر کیا گیا ہے۔

۶۔ بے شک تمام چیزیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے خزائن میں ہیں اور کوئی چیز ان سے باہر نہیں، یہ خزانے خدا کے پاس ہیں (۱۵: ۲۱) اب اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ گنجہائے سماوی زندہ اور بولنے والے ہیں، تو پھر یہ بھی قبول کرنا ہوگا کہ یہ خزانے عقل و روح کی کیفیت میں ایک دوسرے میں سما سکتے ہیں اسی طرح ان کی ایک وحدت بھی ہے جو ایک طرف یک حقیقت ہے اور دوسری طرف ذاتِ وحدت کا پَرتو یعنی “صورتِ رحمان” پس ہم ذاتِ حق تعالیٰ کی شناخت کے لئے اسی میں سوچ سکتے ہیں کیونکہ قرآنِ حکیم میں ایک ایسا پُرحکمت لفظ بھی موجود ہے کہ جس نے ذات اور صورت کو ایک کرکے بتایا ہے، اور وہ “وجہ اللہ” ہے، یعنی “ذاتِ خدا / چہرۂ خدا۔” پس جہاں ہر شخص عقلی اور عرفانی کیفیت میں فنا ہو جاتا ہے، وہاں چہرۂ خدا یعنی اس کی ذات کا ظہور ہے۔

۷۔ ہاں، عزیزِ من! یقیناًغذائے لطیفِ جسمانی دو قسم کی ہوا کرتی ہے (۲۳: ۵۱) جو بصورتِ روحِ نباتی اور بشکلِ روحِ حیوانی ہوتی ہے، جب یہ دونوں روحیں انسانِ کامل کی طرف آتی

۴۳

ہیں، تو یہ ان کی ترقی اور بہتری کا موقع ہوتا ہے، محولۂ بالا آیۂ کریمہ میں روحانی اور عقلانی خوراک کا بھی تذکرہ ہے، جو عارفانہ ذکر و عبادت کی کیفیت میں اور حقیقی علم و حکمت کی صورت میں ہوتی ہے مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ غذائے لطیف زندہ ہو اور غذائے عقل و جان زندہ نہ ہو، اس سے ظاہر ہے کہ مقامِ روحانیّت پر تینوں یعنی جسمانی، روحانی اور عقلانی غذائیں زندہ روحوں کی حیثیت سے ہیں۔

۸۔ دستِ خدا اور چہرۂ خدا سے اُس کا مظہر مراد ہے، اگر حقیقت یوں نہ ہوتی اور ذاتِ سبحان کے اپنے اعضاء و جوارح ہوتے، تو سورۂ قصص کی آخری آیت (یعنی ۲۸: ۸۸) کے مطابق جہاں چہرۂ خدا یا ذاتِ الٰہی کے سوا تمام چیزیں ہلاک ہو جاتی ہیں، وہاں (نعوذ باللہ منھا) اللہ کی ایک چیز کو چھوڑ کر باقی ساری چیزیں ہلاک ہو جاتیں، مگر یہ بات ہرگز درست نہیں اور حق تو یہ ہے کہ مظہرِ خدا چہرۂ خدا ہے، چنانچہ جملہ اشیاء کی ہلاکت و فنائیت اسی مظہر میں ہو جاتی ہے اور مظہر کو چہرۂ خدا قرار دینے کے کئی اسباب ہیں، ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ اسی کے وسیلے سے لوگوں کو خدا کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے، جس طرح ہر شخص کی پہچان اس کے چہرے ہی

۴۴

سے ہو سکتی ہے، اور دین میں خدا کی شناخت انتہائی ضروری چیز ہے۔

۹۔ سورۂ عنکبوت کی آخری آیت (یعنی ۲۹: ۶۹) میں اللہ تعالیٰ کی راہوں کے بارے میں ارشاد ہوا ہے، جیسا کہ جواب نمبر ۴ میں بتایا گیا کہ سب سے پہلے راہِ مستقیم پر چل کر منزلِ مقصود میں پہنچ جانا ضروری ہے، اور اس کے بعد اسرارِ خداوندی کے بہت سے راستے ہیں، جن کو قرآن نے سبل السّلام (۰۵: ۱۶) یعنی سلامتی کی راہیں کہا ہے، جن کی ہدایت نورِ امامت کی روشنی میں مل سکتی ہے۔

۱۰۔ جی ہاں سائنسدانوں کی یہ تحقیق اور دریافت حقیقت پر مبنی ہو سکتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی ایسی طاقت، جیسی آسمانی بجلی کی ہے، مٹی کی ایک اینٹ کو حیات بنا سکتی ہے، کیونکہ بعض مادّی چیزیں اپنے روحی پس منظر کی وجہ سے کرشمۂ ابداع کے بہت ہی قریب ہیں، اور ایک ایسی چیز بجلی ہے، چنانچہ جب کوئی اینٹ آسمانی بجلی کی زد میں آ جاتی ہے تو اُس سے اینٹ کی ایک خاص تحلیل ہوتی ہوگی اور اس میں جو روحِ منجمد ہے، وہ آزاد ہوتی ہوگی، ویسے بھی مادّہ اور روح کے درمیان کوئی حدِ فاصل ہے نہیں، لہٰذا جب مادّہ لطیف

۴۵

سے لطیف تر ہو جاتا ہے تو یہ روح میں بدل جاتا ہے، اور جس وقت روح بدرجۂ انتہا کثیف ہو جاتی ہے تو مادّہ بن جاتی ہے۔

قرآنِ کریم (۱۶: ۸۱) میں جن دو زندہ کرتوں کا ذکر ہوا ہے، ان میں سے ایک وہ ہے جو ہر قسم کی گرمی سے بچاتا ہے اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ یہی کہ وہ خود جوہرِ آتش یعنی برق سے ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ قمیص ایک مسلمان جنّ ہے، جو بڑا نیک اور فرمانبردار ہے، جس میں کوئی انسان ملبوس ہو کر برق رفتاری سے کرۂ ارض کیا جملہ ستاروں کی بھی سیاحت کر سکتا ہے، ایسے کرتے یعنی جنّات حضرت سلیمان علیہ السّلام کے لئے کام کرتے تھے، یاد رہے کہ ہر عظیم بھید ایک حجاب کے اندر پوشیدہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ آج اکثر لوگوں کے لئے جنّات کا مثبت پہلو پردۂ ظلمت میں پوشیدہ ہے اور ان کو معلوم نہیں کہ جنّ کی حقیقت کیا ہے۔

۱۱۔ بہشت بدرجۂ انتہا پاک و پاکیزہ مقام ہے، لہٰذا اس میں فردائے قیامت صرف وہی لوگ داخل ہو سکیں گے، جو آج دنیا میں خوشی سے عقلی، روحانی اور جسمانی طور پر پاک ہو جاتے ہیں، اور جو لوگ عقل، روح اور بدن کی اس پاکیزگی کو نہیں جانتے ہیں، وہ جنّت سے دور رہیں گے، تاہم اس فتح

۴۶

و شکست کے بعد ان کو زبردستی سے پاک و پاکیزہ کیا جائے گا، اور پھر وہ روحانی سلطنت کے ماتحت لوگ بن کر بہشت میں داخل ہو جانا غنیمت سمجھیں گے، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جنّت کی غلامی دنیا کی بادشاہی سے بدرجہ ہا اعلیٰ ہے، جس کی دلیل حوروغلمان ہیں، جو شاہانِ بہشت کے ماتحت لوگ ہیں جن کی تعریف و توصیف اللہ تعالیٰ کی عزیز کتاب (قرآن) میں موجود ہے۔

دنیا میں لوگوں کی عقلی پاکیزگی اس طرح ہو سکتی ہے کہ وہ اخلاص و محبت سے خدا، رسول اور امر کے مالک کی ظاہری و باطنی تعلیمات کو اپناتے رہیں، روحانی پاکیزگی یہ ہے کہ وہی عبادات بجا لائیں، جو وہ حضرات فرماتے ہیں، اور جسمانی طہارت (پاکیزگی) کے لئے بھی ان کے احکام کی تعمیل کرتے رہیں، پس اسی فرمانبرداری کے اجر و صلہ کے سلسلے میں ان کو جسمِ لطیف میں زندہ کر دیا جائے گا، اور رفتہ رفتہ سب اس لطیف جسم میں داخل ہو جائیں گے جس میں بدرجۂ کمال ہر قسم کی پاکیزگی ہے۔

۱۲۔ تاویلی حکمت کی گوناگونی ہوا کرتی ہے، لہٰذا آپ نے جو تاویل پڑھی ہے، وہ بالکل درست ہی ہے، کہ امامِ اقدس

۴۷

و اطہرؑ کی شخصیّت میں تمام چیزیں محدود ہیں، اس میں عقلِ کلّی بھی ہے اور نفسِ کلّی بھی، اور زیرِ بحث آیۂ کریمہ (۱۵: ۷۹) میں یہ دونوں قریۂ عقل اور قریۂ روح کے معنی میں ہیں، چنانچہ امامِ مبینؑ کے عالمِ شخصی ہی میں مذکورہ دو بستیوں کے باشندوں کی اصلاح کی جاتی ہے۔

۱۳۔ جب ہم چشمِ بینا سے قانونِ فطرت کا مشاہدہ کرتے ہیں تو صاف طور پر یہ حقیقت عیان ہو جاتی ہے کہ مٹی جیسے جمادات کا رخ نباتات کی طرف ہے، نباتات کا ارتقاء حیوانات کی جانب، حیوانات انسانوں میں فنا ہو جاتے ہیں، اور انسان کا عروج یہ ہے کہ وہ فرشتہ بن جائے۔ پس روحوں کی ترقی کی سیڑھی یہی ہے۔

۱۴۔ جی ہاں، حضرت ابراہیمؑ کو جو کلماتِ تامّات عطا ہوئے تھے، وہ اسمائے بزرگ تھے، جو حدودِ دین ہوا کرتے ہیں، ایک پیغمبر کی روح دوسرے پیغمبر کی روح سے مختلف نہیں، وہ بھی درست ہے، اور مختلف ہے، یہ بھی درست ہے، مختلف اس معنیٰ میں ہے کہ اس میں اپنے زمانے کے واقعات و احوال درج ہوتے ہیں۔ والسلام۔

نوٹ: ان صفحات میں سوالات درج نہیں ہوئے ہیں

۴۸

صرف نمبرات پر اکتفاء کیا گیا ہے اور صرف چار صفحوں کا مضمون لکھنا تھا لہٰذا یہاں اختصار سے کام لیا گیا ہے۔

صدر فتح علی حبیب           صدر محمد عبد العزیز
خانۂ حکمت             ادارۂ عارف
خادمِ مسؤل: نصیر الدین نصیر ہونزائی
۲ جنوری ۱۹۸۶ء

۴۹

موسمِ گل

گلگت اور ہونزہ میں اگرچہ کچھ نہ کچھ پھول موسمِ بہار سے لے کر خزان تک پائے جاتے ہیں، تاہم یہاں اصل موسمِ گل وہ ہوتا ہے جس میں گلاب کے پھول کھلتے ہیں۔ گلاب یقیناً سارے پھولوں کا بادشاہ ہے، جس کے ظہور اور جلوہ نمائی سے پہلے اور بعد میں گویا رعیت اور لشکر کے طور پر بہت سے دوسرے حسین پھول کھل جاتے ہیں، غرض اس موسم کے رنگ برنگ پھولوں اور گوناگون خوشبوؤں سے بہشتِ برین کا تصوّر ہونے لگتا ہے، اگرچہ پھولوں کو ہر وہ آدمی فطری طور پر چاہتا ہے، جو ذوقِ سلیم رکھتا ہے، لیکن اہلِ بصیرت کی نگاہ میں گلوں کی اہمیت و دلکشی اور بھی زیادہ ہوا کرتی ہے، کیونکہ گلہائے باغ و چمن نظارۂ جنّت کا ایک دلفریب نمونہ پیش کرتے ہیں اور کسی شک کے بغیر وہ دنیا میں مطالعۂ قدرت کے بہترین ذرائع میں سے ہیں۔

اس دفعہ اتفاقاً ہمارا دورہ ایسے وقت میں ہوا، جبکہ

۵۰

موسمِ گل کا خوبصورت ترین حصّہ گزر چکا تھا، لہٰذا گلِ سوسن غائب اور گلابِ زرد ناپید تھا، گلِ سنجد کے لئے نگاہ اور قوّتِ شامّہ ترس رہی تھی، بنفشہ اور سجوپونر (مقدس پھول) یا تو پہاڑوں کی بلندیوں پر تھے یا عظیم پہاڑوں کے پیچھے، اس موقع پر کہساروں اور دور دور کی وادیوں کی سیاحت یاد آرہی تھی وادئ مچوبر (مچور) اور بلدیر (سریقول) کی چراگاہوں کے بنفشہ زار کا تصوّر ہو رہا تھا، ہاں مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت نے فرمایا، کیا تم جانتے ہو کہ فلان جشن کے موقع پر میں نے ایک بنفشی رنگ کی پگڑی کیوں باندھ لی تھی؟ میں نے عرض کیا، نہیں حضور، میں نہیں جانتا ہوں، تو فرمانے لگے: کیونکہ تم بنفشہ کے پھولوں کو بہت چاہتے ہو۔

 

کوئی شک نہیں کہ طائرانِ باغ و چمن کی نغمہ سرائی بامِ عروج پر پہنچ گئی تھی، خصوصاً مایون  (زاغِ زرین = Oriole) یعنی سنہرے کوے کی نغمہ سنجی، جو جانِ بہار کا درجہ رکھتی ہے، ہر چند کہ کالی چڑیا (دیو) بھی خوب گاتی ہے اور بھی کئی خوش الحان پرندے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ مایون کو جو اس علاقے کے تمام خوش نوا طیور کا سرتاج ہے، میری طرح سب لوگ چاہتے ہوں گے، کیونکہ یہ زرد رنگ کا

۵۱

انتہائی خوبصورت پرندہ جہاں کسی بلند درخت پر ہنگامِ سحر نغمہ سرا ہو جاتا ہے، وہاں اہلِ ذوق لازماً مست و مسحور ہو جاتے ہیں۔ زمانۂ قدیم کے لوگ مایون کو محبوب رکھتے تھے، وہ اپنے عشقیہ گیتوں میں اس پرندے سے تشبیہات کا کام لیتے تھے۔ انہوں نے بطورِ دلچسپی یہ مفروضہ قائم کیا جیسا کہ مایون ان کی گفتگو سمجھ رہا ہو اور کہنے لگے: دادا مایون! کیا آپ کی بیوی زچہ ہو گئی ہے؟ شہزادی پیدا ہوئی ہے یا شہزادہ؟ پھر آپ نے ہمیں چھمرکی  (ایک غذا) کیوں نہیں بھیجا؟ وغیرہ۔

مجھے مطالعۂ قدرت سے بے حد دلچسپی ہے، لہٰذا میں ٹیرو  (Tiiro= چنڈول = Lark ) کے بارے میں فکرمند ہوں کہ وہ چند سالوں سے مجھے نظر نہیں آ رہی ہے، خدا نہ کرے کہ وہ یہاں سے ختم ہو جائے، ہر چیز ذاتِ سبحان کی تسبیح کرتی ہے، خواہ وہ جاندار ہو یا بے جان، چنانچہ چنڈول (ٹیرو) مرغانِ سحر خیز یعنی زود خیز پرندوں میں سے ہے، جو نمازِ فجر کے وقت عمودی شکل میں پرواز کر کے حمدِ باری تعالیٰ کی تسبیح کا گیت گایا کرتی ہے جس کی نوائے جانفزا میں دعوتِ ذکر و فکر ہے۔

ظاہری موسمِ بہار جیسا بھی ہو اس کا اپنا مقام ہے،

۵۲

مگر قلبی اور روحانی موسمِ بہار اس سے الگ ہے، جو اصل بھی ہے، اور خاص بھی، جس کی ایک مثال عزیز دوستوں کی ملاقات ہے، جس میں دین و دنیا کی مسرّتیں اور لذّتیں جمع ہو جاتی ہیں، ہر قابلِ قدر دوست کا دیدار اتنا انمول ہے کہ اس سے درحقیقت ایک عالمِ شخصی مل جاتا ہے، کیونکہ دینی اخوت و دوستی میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے، جبکہ یہ دیدار جذبۂ لِلّٰہیت سے بھرپور ہو اور اس وسیلے سے اسلام کی ایک گونہ خدمت کی جائے۔

جب گلِ سرخ کا غنچہ مسکراتا (کھلتا) ہے اور جب بندۂ مومن ایمانی محرکات کے زیرِ اثر تبسم کرتا ہے، تو دونوں میں بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے، اس لئے کہ پہلی مسکراہٹ بے جان اور خاموش ہے، اور دوسری مسکراہٹ زندہ اور معنی خیز ہے، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ نورِ ایمان کی ایک نورانی لہر ہے، پس ایمانی احباب کا مسکرانا بہارِ فردوسِ برین کی علامت ہے اور یہی دنیوی مرضِ غم کا علاج ہے۔

مورخہ ۸ جولائی ۱۹۸۶ء کو جب یہ درویش گلگت کے ہوائی اڈے پر وارد ہوا تو سب سے پہلے میرے بہت ہی عزیز دوست اے۔ رحمان سے ملاقات ہوئی، آپ کا چہرۂ فرخندہ نورِ

۵۳

ایمان سے منور تھا، ان سے مل کر میرے دل میں مسرّت و شادمانی کی کلیاں چٹخنے لگیں، کیوں نہ ہو، اے۔ رحمان صاحب میرے جگری دوست ہیں، اور یہ دوستی محض ترقی پسند کی بنیاد پر مستحکم ہے، آپ بیک وقت کئی عہدوں پر فائز ہیں، ان میں سے ایک خاص عہدہ الناصر ملٹی پرپز کواوپریٹو سوسائٹی کی صدارت ہے۔
اسی روز خانۂ حکمت شاخِ گلگت کے کئی احباب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، اور میرے لئے وہ دن کتنا بڑا مبارک تھا، جس میں یہ بندۂ خاکسار یارانِ قدیم اور دوستانِ حمیم سے بصد شادمانی و شکرگزاری مل رہا تھا، دلوں میں خلوص و محبت کا ایک دریائے متلاطم لئے ہوئے، بعض مسکراہٹ کے جیتے جاگتے پھولوں سے مزین تھے، چشمِ بد دور! چشمِ بد دور! شمالی علاقہ جات میں خانۂ حکمت نے کتنی ترقی و پیشرفت کر لی ہے! یا اللہ! تو اپنی رحمتِ بے پایان سے ہمارے مشرق و مغرب کے تمام عزیزوں کو ہر قسم کی ترقی عنایت فرما! تاکہ وہ جان و دل سے قرآن، اسلام، اور انسانیت کی خدمت کر سکیں۔

۵۴

جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو وجود میں لانا چاہتا ہے تو اس کے اسباب و ذرائع کو مہیا کرتا ہے، چنانچہ خانۂ حکمت برانچ گلگت میں صدر غلام قادر ہم پر خداوندِ عالم کا بہت بڑا احسان ہیں، اس احسانِ عظیم کے لئے اگر ہزار آدمی مل کر ہزار برس تک شکر کرتے رہیں تو پھر بھی کم ہے، مجھے یہ کہتے ہوئے بے حد مسرّت و شادمانی ہو رہی ہے کہ صدرِ موصوف نے ہماری گلگت برانچ کو جتنی ترقی دی ہے، اور جیسی فعالیت بخشی ہے، اس میں نائب صدر غلام رسول اور سیکریٹری شیر اللہ بیگ نہ صرف رسمی طور پر بلکہ جذبۂ ایمان سے بھی ممد و معاون رہے ہیں، اور ہر ممبر نے جان و دل سے تعاون کیا ہے۔

آج سے تقریباً پچاس برس پہلے صوبیداری اور صوبیدار میجری یہاں کے کسی شہزادے کو نصیب ہوا کرتی تھی لیکن بعد میں بفضلِ خدا یہ اعلیٰ فوجی منصب قابلیت کی بنیاد پر ملنے لگا، اس کے معنی یہ ہوئے کہ کبھی خاندانی شہزادے فوج کے افسرِ اعلیٰ ہوا کرتے تھے، اور کبھی قابلیت و بہادری کے شہزادے، الحمد للہ، آج ہمارے درمیان صوبیدار میجر (ریٹائرڈ) جناب عبدالحکیم شجاعت و دانشمندی کا ایک

۵۵

شہزادہ ہیں یہ ہماری کتنی بڑی سعادت مندی ہے کہ آپ نے ازراہِ کرم تعمیراتی کمیٹی کی صدارت قبول کر لی اور اپنے گرانمایہ اوقات میں سے صرف کر کے برائے دفتر ایک عالی شان عمارت تعمیر کروائی۔

سابق موکھی جناب قربان علی خان نہ صرف تعمیراتی کمیٹی کے سینئر معاون ہیں بلکہ آپ میرے ذاتی مشیروں میں بھی پیش پیش ہیں، آپ اکابرینِ جماعت کے ممتاز افراد میں سے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ مقامی حکومت بھی ہمیشہ ان کی عزت کرتی رہتی ہے، چین سے مجھے جیسے درویشی کے خزانے ملے، اور قریۂ مسگر میں جتنے میرے شاگردِ رشید پیدا ہوئے وہ سب کچھ آپ کے خاندان کی وجہ سے میسر ہوا۔

بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کے صدر سابق صوبیدار علی داد اخلاص و محبت کا آئینہ اور عقل و دانش کا ایک خزانہ ہیں۔ آپ میرے اُن خاص عزیزوں میں سے ہیں جن کو میں اپنی روح کی طرح اپنا لیتا ہوں، کیونکہ وہ قرآنِ پاک اور امامِ عالی مقام کے سچے عاشق ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ حقیقی علم کے شیدائی ہیں اور روز بروز اپنے ذخیرۂ معلومات میں اضافہ کرتے رہتے ہیں، مجھے وہ زمانہ یاد ہے جبکہ آپ کے والدِ بزرگوار اور

۵۶

میرے والدِ محترم قریۂ حیدرآباد (ہونزہ) میں مل کر دینی خدمات انجام دیا کرتے تھے، وہ دونوں بزرگ روحانی اور جسمانی برادری کا ایک عملی نمونہ تھے۔

بی۔آر۔ اے میں امیر الرحمان (اے۔ رحمان) بطورِ نائب صدر کام کر رہے ہیں، جن کا ذکرِ جمیل ہو چکا ہے، عزیزم بلبل جان اعزازی سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں، آپ کی قابلیت، تجربہ، جذبۂ خدمت اور گرانمایہ وقت کی قربانی کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ آپ بیک وقت بہت سے جماعتی اداروں میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ کی گفتگو اور اخلاق کی ایک نرالی شان ہے، آپ کے قلم میں کمالِ سرعت بھی ہے اور جمالِ صنعت بھی، خدا نے ان کو ایک صاف اور رقت خیز دل عنایت کر دیا ہے، آپ علمِ امامت کے پروانوں میں سے ہیں، جب بلبل جان جیسے چند دوستوں پر مشتمل ذکر و علم کی محفل ہوتی ہے تو اس میں پاکیزہ روحوں کی مجموعی برکت سے بڑا لطف آتا ہے۔

مجھے سلطان اسحاق صاحب کے اوصافِ کمال سن کر اور دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی، آپ کی ایک خاص صفت ترقی پسندی اور علم دوستی ہے، آپ کو نہ صرف حلقۂ احباب میں بلکہ

۵۷

پورے علاقے میں بھی عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، آپ خلوص اور دینی محبت کے عمل سے آہستہ آہستہ اس بندۂ درویش کے دل کی گہرائی میں اتر چکے ہیں، لہٰذا اب فراموشی محال ہے، ایسے عالی ہمت حضرات کی دوستی پر مجھے فخر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا ہے۔

میرے فرشتۂ ارضی صدر غلام قادر کی خواہش ہے کہ میں صوبیدار (ریٹائرڈ) یوسف علی کی خدمات کا بھی اعتراف کروں، بے شک عزیزم یوسف علی عشاقِ مولا میں سے ہیں اسی لئے وہ عشق و محبت سے علمی خدمت میں شرکت کر رہے ہیں، مجھے یقینِ کامل ہے کہ میرے عزیز بھائی صوبیدار یوسف علی کے نیک کاموں کی مسرّت و شادمانی سے میرے بزرگوار چچا کی روح جنت میں مسکراتی ہے، میری تجویز ہے کہ ہم اوشی کھنداس میں “خانۂ حکمت کیمپ” بنائیں گے، اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہم کبھی کبھار وہاں کسی گھر میں میٹنگ کریں گے، جس طرح سابق موکھی نیاز علی اور صوبیدار یوسف علی کے گھروں سے یہ کام لیتے آئے ہیں، اب صرف یہ تاریخی نام مقرر کرنا ہے، اوشی کھنداس کو “خانۂ حکمت کیمپ” کا درجہ دینے کی وجہ وہ تمام عزیزان ہیں جو خانۂ حکمت سے تعاون

۵۸

کرتے آئے ہیں۔ بعد میں یہ کیمپ دوسری جگہوں میں بھی ہو سکتا ہے۔

یہ ایک تاریخی نوعیت کا مقالہ ہے، جس میں صرف گلگت کے عزیزوں کا سپاس ہے، ان شاء اللہ کسی دوسرے مقالے میں ہونزہ کے عزیزوں کا ذکرِ جمیل ہوگا، تاہم ہر دانشمند مومن رحمتِ خداوندی پر یقین رکھتے ہوئے نیک اعمال کرتا ہے، اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اچھے کاموں کی اصل تعریف و توصیف بہشت میں ہے جہاں حور و غلمان مل کر مومنین و مومنات کے عظیم کارناموں کے توصیفی گیت گائیں گے۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
حیدرآباد۔ ہونزہ۔ ۸۶۔۷۔۲۱

۵۹

قریۂ مسگار

۱۔ اس وقت قریۂ مسگار کے بارے میں کچھ افکار بصورتِ الفاظ تحریرکرنے کا باعث یہ ہوا کہ ہم نہ تو چین جاتے ہوئے اُس پاکیزہ اور پیارے گاؤں کا مختصر سا دورہ کر سکے اور نہ ہی واپسی پر، حالانکہ عزیزم شریف اللہ خان صدرِ خانۂ حکمت برانچ مسگار نے بڑے اشتیاق اور امید و یقین سے بتوسطِ عزیزم محمد ایوب خان پوسٹ ماسٹر ہمیں بر وقت دعوت دی تھی اور ہمارا اپنا ارادہ و پروگرام بھی تھا پھر بھی ہم وقتی طور پر مسگار کی بے پناہ خوشیوں سے قاصر رہے، تاہم کوئی ایسی مایوسی نہیں۔ آئندہ موسمِ بہار یا گرما میں (ان شاء اللہ) مسگار اور امریکا کے عزیزوں سے ملاقات کی باری ہے۔

۲۔ ہونزہ جہاں سرزمینِ پاکستان کو عظیم ملکِ چین کی ایک سرحد سے ملا کر رشتۂ ہمسائگی عطا کرتا ہے وہاں اس کے بالائی حصے کے چار سرے ہیں۔ چپورسن، مسگار، سوست اور شمشال، یہ چاروں دیہات گویا ہونزہ کے چار بیرونی دروازے

۶۰

ہیں، لہٰذا ان کی بہت بڑی اہمیت ہے، تاہم ہماری گفتگو کا عنوان “قریۂ مسگار” ہے۔ لہٰذا ہم یہاں مسگار سے متعلق کچھ عرض کریں گے وہ یہ کہ جب عزیزم محی الدین (۱) اور خود میں نے کراچی پہنچ کر یہ ذکر کر دیا کہ ہم کچھ مجبوریوں کی وجہ سے مسگار نہیں جا سکے تو یہ سن کر صدر فتح علی حبیب اور صدر محمد عبد العزیز کو فکر ہوئی اور انہوں نے فرمایا کہ اب طریقہ یہ ہے کہ یہاں سے ایک خط لکھنا چاہئے۔

۳۔ قریۂ مسگار کی روحانی تاریخ یا یوں کہنا چاہئے کہ اس خوش نصیب گاؤں کے زندہ، انمٹ اور بولتا نامۂ اعمال کا تصور بڑا عجیب و غریب ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس میں روحانیّت کے عظیم بھید پوشیدہ ہیں، ہم نے اس سے پہلے بھی مسگار کے بارے میں ایسی بہت سی باتیں کہی اور لکھی ہیں، آپ معلوم کر سکتے ہیں، کیونکہ اس تعریف و توصیف کے لئے ایک سبب نہیں بلکہ بہت سے اسباب ہیں، مثال کے طور پر اسی گاؤں کے ایک معزز خاندان کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے کہ یہ بندۂ کمترین پہلی بار چین جا سکا، جس کے روحانی خزائن احاطۂ بیان سے باہر ہیں، اسی گاؤں میں سب سے پہلے روحانیّت کی مشقیں کی گئیں، اسی مقام پر اوّلین بار پاک و پاکیزہ روحوں کی

۶۱

زوردار عبادت کے ثمرات سامنے آئے، یہیں سے ایک روحانی سیلاب ابلنے لگا اور شرق و غرب میں پھیل گیا اور یہی مسگار برانچ ہے، جو چینی اسماعیلیوں کو نہ صرف جغرافیائی اعتبار سے قریب ہے بلکہ زبان اور ثقافت کے بعض پہلوؤں کے لحاظ سے بھی نزدیک ہے اور یہ بات قابلِ رشک ہو سکتی ہے۔

۴۔ ہر فردِ اسماعیلی کی ایک بہت بڑی سعادت اور فضیلت یہ ہے کہ وہ اپنے امامِ عالی مقام کے پیارے مریدوں کی دینی اور دنیوی فلاح و بہبود کے لئے اپنی دماغی، جسمانی اور مالی طاقت میں سے کچھ خرچ کرے، چنانچہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے جشنِ الماس (ڈائمنڈ جوبلی ۱۹۴۶ء) کے زمانے میں یہ بندہ بڑی شدت سے رو رہا تھا، کیونکہ اپنی تنگدستی اور تہی دامانی کے احساس سے غم زدہ تھا، جبکہ جماعت کے ثروت مند حضرات کی جانب سے لاکھوں کے حساب سے چندے کا اعلان ہو رہا تھا، لیکن خداوندِ عالم نے اُس گریہ و زاری کو سن لیا اور اپنی عنایتِ بے نہایت سے اسے ایک دعائے مستجاب کی صورت دی اور اس ذرۂ بے مقدار کو عزیز شاگردوں اور دوستوں میں پھیلا کر علمی دولت سے پیاری جماعت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔

۶۲

۵۔ مقصد فخر و مباہات نہیں بلکہ تمام عزیزوں کو جو اپنے پیارے استاد سے وابستہ ہیں جماعت کی علمی خدمت کا پرزور احساس دلانا ہے، ایسا نہ ہو کہ ہم میں سے کوئی فرد خانۂ حکمت اور عارف کے مقصد کو فراموش کر بیٹھے، حالانکہ ہمارا مقصدِ اصلی جماعت میں امامِ اقدس و اطہر کا روشن علم پھیلانا ہے۔

۶۔ قریۂ مسگار کی عبادات میں سے کیوں کرامات کا ظہور ہوتا رہا ہے؟ وہاں کے اسماعیلی عقیدے کو خداوند تعالیٰ نے کیوں اتنا راسخ بنایا؟ اس کی وجہ البتہ پہلے نہیں تو اب سمجھ میں آ رہی ہے، وہ یہ کہ وہ عزیزان مستقبل میں بڑی اہم خدمات انجام دینے والے ہیں۔

۷۔ ہم نے قبلاً لکھا ہے جس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ ترکی زبان کا جو کورس شروع ہو رہا ہے، اس میں موقع ایسا ہے کہ مسگار کے عزیزوں کو پیش پیش ہونا ہے، وہ سوست میں بھی ہیں اور گلگت میں بھی، وہ سب اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر امامِ زمان کی پیاری جماعت کی اعلیٰ علمی خدمت کر سکتے ہیں، جس میں امام علیہ السّلام کی عالی شان خوشنودی پوشیدہ ہے۔

۶۳

۸۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے (حدیث) یعنی اگر کوئی نیک کام نیک نیت اور اچھے ارادے کے تحت کیا جاتا ہے تو ایسا کام نیک اعمال میں درج ہو جاتا ہے، پس زبانِ ترکی کے کورس کے سلسلے میں جو بھی مشقت و تکلیف اٹھانی پڑے، وہ سب ایک افضل عبادت ہوگی، کیونکہ یہ قابلِ تعریف جذبہ محض دینی خدمت کی وجہ سے ابھرا ہے اور ہر ایسی خدمت بموجبِ فرمان ہزار سالہ عبادت کے برابر ہے، یا کہ بڑھ کر ہے۔

۹۔ جس مومن پر اللہ تعالیٰ مہربان ہوتا ہے، اس کے دل و دماغ میں مومنین کی خدمت کی توفیق پیدا کرتا ہے، پھر وہ ظاہری و باطنی ہدایت کی روشنی میں بڑی عمدگی سے غور و فکر کرتا ہے، کہ جماعت کی کونسی خدمت ضروری ہے اور کونسی خدمت ہے، جس کی انجام دہی ممکن ہے، اور اگر کسی بندۂ عاشق کو مولا کا کوئی کام کرنا پڑتا ہے، خواہ وہ کام ظاہری حضور کا ہو یا دور کا، لیکن بحالتِ باطن ہر جگہ حضور ہی حضور ہے، تو ایسے میں مومن صادق اور بندۂ عاشق بڑا شادمان ہوتا ہے، اس لئے کہ اس کو جماعتی خدمت کی اعلیٰ توفیق عنایت کی گئی ہے، وہ ہر عبادت کے بعد بھی اور اس کے علاوہ بھی
۶۴

سربسجود ہو کر انتہائی عاجزی و انکساری سے دعا مانگتا ہے: اے پروردگار! تیرا یہ بندۂ مفلس ازبس ناتوان اور بے حد محتاج ہے، اے خدائے مہربان! رحم کیجئے اور مدد دیجئے تاکہ یہ ناچیز تیرے بندوں کی کچھ خدمت کر سکے۔

۱۰۔ قومی اور جماعتی خدمت اگر خلوصِ نیت اور جذبۂ خیر خواہی سے سرشار ہو کر کی جاتی ہے، تو اس سے بیشمار اخلاقی اور روحانی برکتیں ملتی رہتی ہیں، کیونکہ خدمت کا مفہوم ہے رضا کارانہ طور پر خادم ہو جانا، اور اگر ایسا کوئی خدمت گزار عاشقِ مولا ہے، تو وہ خود کو جماعت کا غلام سمجھتا ہے، پھر اس میں فخر و تکبر کیوں کر پیدا ہو سکتا ہے، ظاہر ہے کہ ایسے خدام بدرجۂ انتہا خیر خواہ اور ترقی پسند ہوں گے، ان کے دل میں کسی کی عداوت نہ ہو گی، نہ ہی وہ کسی سے نفرت کریں گے، ان کے لئے مومنین کی نیک دعائیں شب و روز کام کریں گی، ایسے خوش نصیب انسان راہِ روحانیّت میں ترقی کر سکتے ہیں۔

۱۱۔ قرآنِ حکیم اور دینِ فطرت یعنی اسلام کا اوّلین درسِ عبرت حضرت آدم علیہ السّلام کا قصّہ ہے، جس میں حضرت آدمؑ عاجزی کا نمونہ ہیں، اور ابلیس تکبر کی مثال ہے، یہ سبق ایسا ہے کہ اگر کوئی دانشمند اسے ہزار بار دہرائے تو پھر بھی

۶۵

اس کی حکمتوں کا سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا، کیونکہ خلیفۂ خدا کی کسرِ نفسی میں عالمِ دین کی ساری خوبیاں پوشیدہ ہیں، اور ابلیس کے کبر و نخوت میں دنیا بھر کی برائیاں جمع ہیں، پس دانا مومن وہ ہے جو حقیقی معنوں میں خدمت کرتا ہے، تاکہ وہ اس وسیلے سے جو ایک عاجزانہ عملی بندگی ہے، عاجزی کی بنیادی اور اصلی دولت حاصل کر سکے۔

۱۲۔ اگر آپ کسی ادارے کے عملدار ہیں تو زہے نصیب کہ آپ اس قابل ہیں اور جماعتی مفاد بھی اسی میں ہے کہ، آپ اس وقت اسی فریضۂ منصبی کو انجام دیتے رہیں، تاہم جب تک شوز کمپنی کی سروس جیسی خدمت کو رشک کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے، اور پیارے مولا کے عزیز روحانی فرزندوں کی کفش برداری کو ایک بہت بڑی سعادت نہ مانا جائے اور ہر ایسی خدمت کو اہمیت نہ دی جائے، جس میں ظاہری عزّت کی قربانی دی جاتی ہے تو پھر آپ کے نزدیک خادم اور خدمت کا مفہوم کس طرح مکمل ہو سکتا ہے۔

۱۳۔ میں نے مشرق و مغرب میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا، جو دینی طور پر یا دنیوی اعتبار سے بڑے معزز تھے، لیکن مجھے یہ جان کر نہ صرف تعجب ہوا بلکہ خوشی بھی ہوئی

۶۶

کہ وہ صاحبان چھوٹے بڑے سب کام کر رہے تھے اور ان میں مجھے کوئی فخر نظر نہیں آیا، یقیناً انسانیت کا کمال اسی میں ہے کہ غرور کو قریب نہ آنے دیا جائے۔

۱۴۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے عزیزوں کے درمیان بہت سے عاشقانِ مولا موجود ہیں اور جو شخص امامِ برحق کا حقیقی عاشق ہوتا ہے، اس میں انسانیّت اور دینداری کی جملہ صفات خود بخود آجاتی ہیں اور نورانی عشق کا یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے، سب جانتے ہیں کہ عشق حسن و جمال کے سوا وجود میں نہیں آسکتا اور جہاں کسی کی خوبیوں کو دیکھے بغیر دعوائے عشق ہو وہ دراصل عشق نہیں، پھر مولا کا عشق کس مشاہدے کا نتیجہ ہوگا؟ مولا کے جلوہ ہائے جلال و جمال نوع بنوع اور گوناگون ہیں، مگر سب سے اعلیٰ مشاہدہ و دیدار عقلی اور علمی ، پھر روحانی ہے، پس جو مومنین علم کی روشنی میں امام علیہ السّلام کو دیکھتے اور پہچانتے ہیں اور اس کی علمی کمالات کا یقین کر لیتے ہیں تو وہی حضرات مولائے پاک کے حقیقی عاشق ہیں اور ہمارے عزیزوں کی علمی خدمت کا مقصدِ اعلیٰ بھی یہی ہے کہ علمی حجابات کو اٹھا اٹھا کر لوگوں کو نورِ خدا کا عاشق بنا دیا جائے۔

۶۷

۱۵۔ روئے زمین پر ہمیشہ خلیفۂ خدا کا موجود ہونا سنتِ الٰہی کا اوّلین اعلان ہے اور اللہ تعالیٰ کی سنت جس میں تمام صفات کے مجموعی فعل کا ذکر ہے، ماضی میں ہو گزری ہے اور کسی تبدیلی کے بغیر ہر زمانے میں جاری و ساری ہے (۱۷: ۷۷،  ۳۳: ۶۲،  ۴۳: ۳۵) پروردگارِ عالم کی یہ پاک و پاکیزہ عادت یا قانون انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے عالمِ شخصی میں رہ کر اپنا کام کرتا ہے، کیونکہ فی عبادہ (۴۰: ۸۵) کا مطلب یہی ہے اور انہی آیاتِ مقدّسہ میں یہ معنی بھی ہیں کہ انسانِ کامل اپنے وجودِ باطن میں ایک ایسا آئینۂ مصفا یعنی مظہر ہے کہ اس میں سے ہر وقت صفاتِ خداوندی بدرجۂ کمال منعکس ہوتی رہتی ہیں، آپ یہ حقیقت آیاتِ نور میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آپ “سنتِ الٰہی” کے موضوع کو بہ اندازِ دل نشین پڑھ لیجئے، کیونکہ یہ بہت ہی عالی اور عظیم حکمتوں سے پُر ہے۔

۱۶۔ ظاہر میں دیکھا جائے تو زمانہ گزرتا جاتا ہے اور احوالِ عالم بدلتے رہتے ہیں، لیکن باطن میں جو کچھ ہے  وہ خداوند تعالیٰ کی بے بدل اور اٹل سنت کے مطابق ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک جیسا رہتا ہے، مثال کے طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اور حضورِ انور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درمیان جو چھ

۶۸

سو (۶۰۰) سال کا زمانہ ہے وہ زمانۂ فترت کہلاتا ہے (۰۵: ۱۹) جس میں بظاہر کوئی پیغمبر مبعوث نہیں ہوا، لیکن اسی زمانے سے متعلق یہ بھی ایک ارشاد ہے کہ نورِ خدا نہ تو کبھی بجھتا ہے اور نہ ہی کوئی اسے بجھا سکتا ہے (مفہوم:  ۶۱: ۰۶ تا ۰۸) پس اس کے یقینی معنی یہ ہوئے کہ زمانۂ فترت میں بھی نورِ الٰہی بلباسِ شخصیت موجود تھا کہ ایسا ہونا سنتِ خدائی میں سے ہے۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
ہفتہ ۶ صفر المظفر، ۱۴۰۷ھ / ۱۱ اکتوبر ۱۹۸۶ء

(۱)۔ نصر اللہ خانۂ حکمت کے نائب صدر اور محی الدین ادارۂ عارف کے نائب صدر ہیں۔

۶۹

علیؑ علیؑ

۱۔ ہمارے وطنِ عزیز میں ۲۳ مارچ کو جس شان سے یومِ پاکستان کا عظیم جشن منایا جاتا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اس موقع پر کچھ وقت کے لئے میں ٹی۔ وی دیکھ رہا تھا، افواجِ پاکستان کے پریڈ کا مظاہرہ بے حد شاندار اور بے مثال تھا، تاہم میرا دل آتشِ جذبات کے شعلوں کے تحت مثلِ شمع اس وقت پگھلنے لگا جبکہ گوریلا دستہ علی علی کہتے ہوئے ڈبل مارچ کر رہا تھا اور جبکہ فوج کے مختلف گروپوں کی بہادری کے سلسلے میں درجہ وار تمغوں کا ذکر ہو رہا تھا اور سب سے بڑا فخریہ تاثر اس وقت دیا جاتا تھا، جبکہ “نشانِ حیدر” کا ذکر کرنا ہو، اس صورتِ حال نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا میرے دل نے کہا کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں، بلکہ یہ لافتیٰ الا علی ۔۔۔ کی وہ عملی تفسیر و تشریح ہے جو آج اسلام، پاکستان، قوم اور حکومت کی جانب سے ہو رہی ہے۔

۲۔ آپ نے دیکھا ہوگا یا سنا ہوگا کہ “المستدرک”

۷۰

بصورتِ کتاب حدیثوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے، جس کی چار بڑی بڑی جلدیں ہیں اور صفحات مجموعاً ۲۴۶۲ (دو ہزار چار سو باسٹھ) ہیں اس کی جلدِ سوم میں اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل بیان کئے گئے ہیں، لیکن سب سے اعلیٰ فضائل حضرت امیر المومنین علی علیہ السّلام کے ہیں، مثال کے طور پر ملاحظہ ہو:

۳۔ دوسرے بہت سے حوالوں کو فی الوقت چھوڑ کر مذکورہ کتاب کی اسی جلد کے صفحہ ۴ پر دیکھئے کہ ہجرت کی رات مولا علیؑ کس درجے کے جذبۂ قربانی اور کس بلندی کے عشقِ رسول سے سرشار ہوکر آنحضرتؐ کے بسترِ مبارک پر لیٹ جاتے ہیں، اور قرآنِ کریم کس شان سے اس بے مثال عمل کر سراہتا ہے (ترجمہ:) اور لوگوں میں سے (خدا کے بندے) کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور خدا ایسے بندوں پر بڑا ہی شفقت والا ہے (۰۲: ۲۰۷)۔

۴۔ صفحہ ۳۲ پر یہ ارشادِ نبوّیؐ درج ہے۔ لمُبارزۃ علی بن ابی طالب لعمرو بن عبد ود یوم الخندق افضل من اعمال امتی الیٰ یوم القیامۃ = روزِ خندق علی

۷۱

ابنِ ابی طالب کا عمرو بن عبدود سے جنگ کرنا میری امت کے تا قیامت اعمال سے افضل و بہتر ہے۔ ان امور سے ظاہر ہوا کہ حضرت مولا علی صلوات اللہ علیہ شجاعت و مردانگی میں منفرد و یکتا تھے، اور فرشتہ رضوان کی زبان سے لا فتیٰ الا علی و لا سیف الا ذوالفقار کہنا بجا ہے (۱)، پس یہی سبب ہے کہ آج اسلامی اور قومی نعرہ “علی علی” ہے اور دلاوری کا سب سے بڑا تمغہ “نشانِ حیدر” ہے، یہ کوئی معمولی بات ہرگز نہیں بلکہ یہ ایک ایسا اٹل فیصلہ ہے کہ اس میں پوری قوم کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

۵۔ صفحہ ۱۰۷ پر جو روایت ہے ، اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو فضائل مولا علیؑ کے ہیں ایسے فضائل کسی کے بھی نہیں۔

۶۔ صفحہ ۱۰۹ پر تحریر ہے: لما رجع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم من حجۃ الوداع و نزل غدیر خم۔۔۔ انی قد ترکت فیکم الثقلین احد ہما اکبر من الآخر کتاب اللّٰہ تعالیٰ و عترتی فانظروا کیف تخلفونی فیھما فانھما لن یتفرقا حتیٰ یردا علی الحوض۔۔۔ ثم اخذ بید علی رضی اللّٰہ عنہ فقال من کنت مولاہ فھذا ولیہ، اللّٰھم وال من والاہ و عاد من

۷۲

عاداہ = جب آنحضرتؐ اپنے آخری حج سے واپس ہوئے اور غدیرِ خم کے مقام پر ٹھہر گئے۔۔۔ تو ارشاد فرمایا: تحقیق میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ ایک سے ایک بڑھ کر ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن اور میری عترت ہے، دیکھو کہ تم میرے بعد ان سے کیسا سلوک کرتے ہو، وہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں یہاں تک کہ دونوں حوضِ کوثر پر اتر جائیں۔۔۔ پھر حضورِ اکرمؐ نے مولا علیؑ کے ہاتھ کو پکڑ لیا اور فرمایا کہ میں جس کا سرپرست ہوں تو یہ (علیؑ) اس کا سرپرست ہے۔ یا اللہ تو اس شخص کو دوست رکھ جو اس کو دوست رکھے اور ایسے آدمی کو اپنا دشمن قرار دے جو علیؑ سے دشمنی کرے۔

۷۔ صفحہ ۱۱۰ پر مرقوم ہے۔ ایُھا الناس انی تارک فیکم امرین لن تضلوا ان اتبعتموھما و ھما کتاب اللّٰہ و اہل بیتی عترتی = لوگو! میں تمہارے درمیان دو امر چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم ان دونوں کی پیروی کروگے تو ہرگز راہِ راست سے گمراہ نہ ہو جاؤگے اور وہ دونوں خدا کی کتاب اور میرے اہلِ بیتؑ ہیں۔ ثم قال ایقلمون انی اولی بالمومنین من انفسھم ثلاث مرات قالوا نعم، فقال

۷۳

رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم: من کنت مولاہ فعلی مولاہ = پھر ارشاد فرمایا کہ آیا تم یہ بات جانتے ہو کہ میں مومنین پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتا ہوں؟ یہ تین بار پوچھا، انہوں نے عرض کیا کہ ہاں، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میں جس کا سرپرست ہوں پس علیؑ اس کا سرپرست ہے۔

۸۔ صفحہ ۱۱۱ پر مذکور ہے: ان علیا منی و انا منہ = بے شک علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ مذکورہ احادیث میں سے ہر ایک اپنی جگہ جامعیّت و حکمت کی ایک دنیا ہے، اور اسی طرح یہ فرمانِ رسول بے حد اہمیت رکھتا ہے اور اس میں عقل کے لئے بے شمار نعمتیں موجود ہیں۔

۹۔ صفحہ ۱۲۱ پر فرمایا گیا ہے: من اطاعنی فقد اطاع اللّٰہ، و من عصانی فقد عصی اللّٰہ، و من اطاع علیا فقد اطاعنی، و من عصی علیا فقد عصانی = جس نے میری فرمانبرداری کی بے شک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے علی کے فرمان کو مانا یقیناً اس نے میرے حکم کو قبول کیا اور جس نے علی کے حکم سے انکار کیا

۷۴

تو اس نے میرے حکم سے انکار کیا۔ آپ ان ارشادات میں سوچ کر یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ بحکمِ خدا آنحضرتؐ کا مقصد نبوّت کے بعد امامت کو اجاگر کرنا تھا۔

۱۰۔ صفحہ ۱۲۲ پر یہ ارشاد درج ہے: قال لعلی: انت تبین لامتی ما اختلفوا فیھا بعدی = یعنی رسولِ خدا نے مولا علی سے فرمایا کہ: تم میرے بعد میری امت کے اختلافات کا تصفیہ و فیصلہ کرو گے۔ ظاہر ہے کہ امت اور اس کے اختلافی مسائل صرف حضرت علی علیہ السّلام کی شخصیت کے زمانے تک محدود نہیں، بلکہ قیامِ قیامت تک ہیں، لہٰذا یہ ماننا حقیقت ہے کہ علیؑ سے سلسلۂ امامت مراد ہے جو ہمیشہ جاری ہے۔

۱۱۔ صفحہ ۱۲۳ پر یہ حدیثِ شریف ہے۔ ان منکم من یقاتل علی تاویل القرآن کما قاتلت علی تنزیلہ = بے شک تمہارے درمیان وہ شخص بھی ہے جو قرآن کی تاویل پر جنگ کرے گا، جس طرح کہ میں نے اس کی تنزیل پر جنگ کی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اسلام میں ایک دعوت کے بعد دوسری دعوت ہے، اس لئے کہ اس میں ہدایاتِ نبوّت کے بعد تعلیماتِ امامت ہیں یعنی ظاہر کے بعد باطن۔

۷۵

۱۲۔ صفحہ ۱۲۴ پر یہ اہم حدیث مذکور ہے: انا السید ولد آدم و علی سید العرب = آنحضرتؐ نے فرمایا: میں تمام اولادِ آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کا سردار ہے۔ جو کامل و مکمل شخص حضورِ اکرمؐ کے زمانے میں عرب کا سردار ہو وہ آپ کے جانشین کی حیثیت سے سارے جہان کا سردار ہو سکتا ہے۔

۱۳۔ صفحہ ۱۲۶ اور ۱۲۷ پر یہ حدیث منقول ہے: انا مدینۃ العلم و علی بابھا فمن اراد العلم فلیاتھا من بابھا = میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے پس جو شخص علم کو چاہتا ہو تو اس کو چاہئے کہ اس شہر کے دروازے سے داخل ہو جائے۔ کوئی شک نہیں کہ یہ حدیثِ شریف سورۂ یاسین (۳۶) آیت ۱۲ کی ایک تشریح ہے۔

۱۴۔ صفحہ ۱۲۸ پر یہ ارشادِ نبوّیؐ درج ہے: من یرید ان یحیی حیاتی و یموت موتی و یسکن جنۃ الخلد التی وعدنی ربی فلیتول علی بن ابی طالب = حضورِ اقدسؐ نے فرمایا کہ: جو شخص میری طرح زندگی گزارنا، میری طرح مر جانا اور اس دائمی بہشت میں رہنا چاہے، جس کا وعدہ میرے پروردگار نے مجھ سے فرمایا ہے تو ایسے آدمی کو چاہئے

۷۶

کہ علی بنِ ابی طالبؑ سے دوستی کرے۔ یہاں یہ نکتہ خوب دلنشین کر لیں کہ امامِ وقتؑ ہی مولا علیؑ کا نور ہے، جس کے بغیر نہ تو علیؑ کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی دوستی ممکن ہے۔

۱۵۔ کتبِ احادیث میں سے کوئی کتاب علی مرتضیٰؑ کے فضائل و مناقب سے خالی نہیں، اگرچہ یہ بات ضرور ہے کہ کسی کتاب میں مولا علی علیہ السّلام کا ذکرِ جمیل کم ہے اور کسی میں زیادہ، تاہم المستدرک کا مختصر سا تعارف بے حد ضروری تھا، لہٰذا یہاں اس کی ایسی بہت سی حدیثوں میں سے جو حضرت علیؑ کے بارے میں ہیں ، بطورِ نمونہ چند پیش کی گئیں۔

۱۶۔ جو شخص حدیثِ شریف کی جامعیّت اور حکمت کو نہیں سمجھتا ہو وہ اس کے جواہر کو نہیں چھو سکتا، حالانکہ اس کی جامعیّت کا یہ عالم ہے کہ صرف ایک ہی حدیثِ صحیحہ اپنے اندر بے شمار مطالب پنہان رکھتی ہے، اس کی وجہِ خاص یہ ہے کہ حدیثِ نبوّی آسمانی وحی کے زیرِ تعلیم اور اسی کی پیداوار ہوتی ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جو صحیح حدیث ہے، وہ ایک قسم کی وحی کا درجہ رکھتی ہے، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے:

۱۷۔ خداوندِ تعالیٰ کی خدائی میں ایک انتہائی عظیم واقعہ

۷۷

ستارۂ عقل کا اپنے مقام پر گر جانا ہے جس کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ما ضل صاحبکم و ما غوای، و ما ینطق عن الھوای، ان ھو الا وحی یوحی (۵۳: ۰۲ تا ۰۴) آپ ان آیاتِ کریمہ کا ترجمہ جانتے ہیں اس لئے میں صرف ایک مفہوم بیان کرتا ہوں اور وہ یہ کہ رحمتِ عالم کا ہر قول و فعل غلطی اور خطا سے پاک، خواہشِ نفسانی سے بالاتر اور ربّانی وحی کے عین مطابق ہوا کرتا تھا، اسی لئے یہ کہنا حق بجانب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نورِ مجسّم اور قرآنِ ناطق تھے، پس آپ کا کلام دراصل خدا کا کلام ہے اور حضورِ انورؐ کے بعد یہ سب سے اعلیٰ درجہ امامِ عالی مقام کو حاصل ہے، جو ہر زمانے میں موجود اور حاضر ہے۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
بدھ یکم شعبان المعظم ۱۴۰۷ھ
یکم اپریل ۱۹۸۷ء

(۱)۔ جنگ احد کی فتح پر آنحضرتؐ نے مولا علیؑ سے فرمایا: اے بھائی، سنتے ہو کہ ایک فرشتہ رضوان نام جو خازنِ بہشت ہے آسمان پر کہہ رہا ہے: لا فتیٰ۔۔۔ کوکبِ دری صفحہ ۴۳۔

۷۸

عارف خان (۱)

میرے بے حد عزیز عارف خان! میری ہستی تم سے قربان!
میں خاص و عام عبادت کی شادمانیوں اور حقیقی علم کی روشنیوں میں یا علی مدد کہتا ہوں، خداوندِ برحق قبول فرمائے! الحمد للہ! مجھے ان چند ایام میں گلگت اور ہونزہ کے بہت سے دوستوں اور عزیزوں کے دیدار کی سعادت حاصل ہوئی، جس سے میں کئی معنوں میں بے حد شادمان ہوں اور واجب ہے کہ میں خدائے بزرگ و برتر کا شکر ادا کروں۔

سب سے پہلے پیارے دفتر کی بات ہو، کیونکہ یہ بفضلِ خدا بڑا عالی شان بنا ہے، اور کسی شک کے بغیر یہ ہمارے مشرق و مغرب کے تمام عزیز شاگردوں اور دوستوں کا عظیم تاریخی کارنامہ ہے، جس کو نسلِ آئندہ ہرگز فراموش نہیں کرے گی، اور اس سے (ان شاء اللہ) امامِ عالی مقام کے حقیقی علم کی روشنی پھیلتی رہے گی، لہٰذا ہر فردِ اسماعیلی کے حق میں یہ دفتر مبارک ہو! آمین!!

۷۹

یہاں کے ان حضرات کے اسمائے گرامی کو صفحاتِ تاریخ پر آبِ زر سے لکھنا چاہئے۔ جنہوں نے اس دفتر کی تعمیر کے سلسلے میں کارہائے نمایان انجام دیئے ہیں، امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی اس خاموش خدمت میں بڑی بڑی سعادتیں پوشیدہ ہیں جبکہ مولا خصوصی طور پر شمالی علاقہ جات کی ترقی چاہتے ہیں۔

جو فردِ اسماعیلی اپنے امامِ وقت کو صحیح معنوں میں نہیں پہچانتا اس کے سامنے دینی اور روحانی مشکلات آ سکتی ہیں، اس کے برعکس جو مومن اپنے امام کو علم و معرفت کی روشنی میں جانتا پہچانتا ہو، یا عقیدۂ راسخ رکھتا ہو، تو وہ بہت بڑا دانا ہے۔

خدا تعالیٰ نے آلِ ابراہیمؑ، اور آلِ محمدؐ کے أئمّۂ طاہرینؑ کو عظیم روحانی سلطنت عطا کر دی ہے، اور یہ ایک قرآنی حکمت ہے جس کا جاننا ہر شخص کے لئے ضروری ہے، یہ بادشاہی بہت سے معنوں میں دنیا کی حاکمیت و حکومت سے مختلف ہے، مثال کے طور پر دنیا کا کوئی بادشاہ یہ قدرت ہرگز نہیں رکھتا کہ وہ بیک وقت اپنے بہت سے بیٹوں اور عوام کے لائق افراد کو اپنی ذات میں ایک کر کے یکتا بادشاہ بنائے اور

۸۰

اس کے لئے یہ بھی ناممکن ہے کہ وہ اپنی سلطنت کو تقسیم کرکے سب کو جدا جدا سلطان بنا سکے، کیونکہ ظاہری بادشاہی محدود ہوا کرتی ہے مگر روحانی سلطنت غیر محدود ہے۔
ہمارے علمی دوستوں کے لئے یہ امر بے حد ضروری ہے کہ وہ امامِ اقدس و اطہر کی بادشاہی کے عظیم بھیدوں کی تلاش کریں، یہ اسرارِ عظیم گنجِ مخفی کی طرح پوشیدہ ہیں، پس جس کو توفیق و ہمت عطا ہوئی ہو وہ قرآنِ حکیم میں بنظرِ حکمت دیکھے، اگر نورِ ہدایت کی روشنی میں کلیدیں مل جاتی ہیں اور خزائنِ علم و حکمت کے ابواب کھل جاتے ہیں تو زہے نصیب!

آپ کو میرا پُرخلوص مشورہ یہ ہے کہ آپ قرآنِ پاک میں م۔ل۔ک مادّہ سے بنے ہوئے الفاظ خصوصاً مُلک اور مَلِک کو دیکھیں اور اُس آیۂ کریمہ میں خوب غور کریں، نیز اسی طرح لفظِ سلطان میں غور و فکر کریں اور اس سلسلے میں ہماری کتابوں، مقالوں اور کیسیٹوں سے بھی فائدہ حاصل کریں، کیونکہ امامِ زمان علیہ السّلام کی روحانی سلطنت کے بھید بدرجۂ انتہا مفید ہیں اور یہ موضوع بے حد نافع اور مسرّت انگیز ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

دنیا میں اگر کسی چیز کو بڑھانا ہے تو اس کے کئی طریقے

۸۱

ہیں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اُس چیز کی بہت سی بلکہ بے شمار کاغذی تصویریں بن سکتی ہیں اور اس طریقِ کار کی سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ کسی شیٔ کی بے حساب فلمیں بنائی جاتی ہیں، پھر بھی اس میں اصل اور نقل کے مابین آسمان زمین کا فرق رہتا ہے، مگر قدرتِ خدا دیکھئے کہ روح اور روحانی سلطنت جہاں مساواتِ رحمانی (یک حقیقت) میں اپنی اصل کی کاپی(Copy)  ہو جاتی ہے، وہاں اس میں اور اُس میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا، کیونکہ نفوسِ انسانی عروج و کمال کے بعد اپنی جگہ پر نفسِ واحدہ کے ساتھ ایک ہو جاتے ہیں، جبکہ ہر روح مقامِ ازل پر نفسِ واحدہ کی ایک کاپی ہے اس لئے کہ بحکمِ خدا تمام روحیں آدم کے سانچے میں ڈھل کر پیدا ہوئی ہیں نہ کہ طریقِ تولید پر، پس ہر شخص بحدِّ قوّت حضرت آدمؑ (نفسِ واحدہ) کی ایک کاپی ہے۔ (مفہومِ قرآن ۰۴: ۰۱،  ۳۱: ۲۸)۔

آپ ضرور مانیں گے کہ یہ بہت بڑا انقلابی تصوّر ہے، اگر یہ کہنا درست ہے تو آپ سوچیں اور اس کا علمی فائدہ اٹھا لیں چونکہ یہ دورِ قیامت ہے لہٰذا اس میں انقلابی علم کی ضرورت ہے۔ والسّلام۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

۸۲

حیدرآباد، ہونزہ
۸۷۔۴۔۲۲

(۱) ۔ عارف = ادارۂ عارف، خان = فارسی میں خانہ ہے، جس سے خانۂ حکمت مراد ہے، پس “عارف خان” مخفف ہے ادارۂ عارف اور خانۂ حکمت کا۔

۸۳

سایۂ قرآن

۱۔ سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں دیکھئے کہ ہر چیز کا سایہ ہوا کرتا ہے، خواہ وہ شیٔ جسمانی ہو یا روحانی یا عقلانی، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ہر مخلوق کا سایہ ہے تو اس کا یہ مقدّس فرمان ایک ایسا قانونِ کل کا درجہ رکھتا ہے کہ اس میں کوئی استثناء نہیں، پس جاننا چاہئے کہ نورانی چیزوں کے سائے روشن، اور ظلمانی اشیاء کے سائے تاریک ہوا کرتے ہیں، جیسے سورج کا عکس یعنی سایہ آئینہ جیسی چیزوں میں درخشان و تابان ہو جاتا ہے، مگر کسی چٹان کا سایہ ایسا نہیں ہو سکتا۔

۲۔ خود قرآنِ حکیم اور احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآنِ پاک نہ صرف بصورتِ روح لوحِ محفوظ میں موجود ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) بلکہ اس کا عقلی وجود قلمِ الٰہی میں بھی ہے (۰۴: ۹۶) پس جس طرح وجودِ قرآن کے تین درجے ہیں، اسی طرح اس کے تین سائے ہیں: ظاہری، روحانی

۸۴

اور عقلی، جو علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین ہیں۔

۳۔ سورۂ نحل میں جہاں (۱۶: ۸۱) تمام سایوں کا یکجا ذکر فرمایا گیا ہے وہاں اس آیۂ کریمہ کے آخر میں ایسی نعمتوں کے اتمام کا تذکرہ ہے کہ ان کی مدد سے خداوندِ عالم کی فرمانبرداری ہو سکتی ہے، اس سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ یہ سائے بطورِ خاص علمی نوعیت کے ہیں، کیونکہ حقیقی نعمت علم ہی ہے، اور علم کے ذریعے دو ہیں: نور اور کتابِ مبین (۰۵: ۱۵) جس طرح کسی چیز کے سائے کا تعین صرف اس وقت ہو سکتا ہے، جبکہ سورج طلوع ہو جاتا ہے اس کے معنی یہ ہوئے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے برحق جانشین کے وسیلے سے قرآنِ مقدّس کے تینوں سائے حاصل ہو سکتے ہیں۔

۴۔ آپ نے شاید یہ دیکھا ہوگا کہ بعض عقیدت مند مسلمان دلہا، دلہن اور گھر سے سفر جیسے اہم کام کے لئے نکل جانے والے کے سر پر قرآنِ کریم کا سایہ کر دیتے ہیں، یہ روایت کتنی اچھی ہے اور کس قدر پُرحکمت ہے کہ اس میں یہ دعا مطلوب ہے: “تم قرآنِ عظیم کے زیرِ سایہ محفوظ و سلامت رہو!” اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم میں سے ہر شخص

۸۵

سایۂ قرآن کے علم و حکمت کو جانتا تو اس سے بہت ساری بھلائی وابستہ ہو جاتی، جبکہ خیرِ کثیر کسی دوسری چیز میں نہیں، صرف حکمت ہی میں ہے (۰۲: ۲۶۹)۔
۵۔ پرانے زمانے میں ظاہری اور دنیاوی بادشاہ کو بعض لوگ ظلِ الٰہی (خدا کا سایہ) کہتے تھے، مگر یہ بات کیسے درست ہو سکتی ہے، کیونکہ “سایۂ خدا” صرف حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہوا کرتے ہیں، چنانچہ اللہ جل شانہ کائنات کا نور ہے (۲۴: ۳۵) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نورِ منزل ہیں (۰۵: ۱۵،  ۳۳: ۴۶) یعنی اس کائناتی نور کا نورانی اور روشن سایہ یا عکسِ درخشان، جیسے بدرِ منیر (ماہِ تابان) ایک نورانی سایہ ہے سورج کا، مگر یہاں یہ نکتہ بھی خوب یاد رہے کہ جس طرح سایہ اور سایہ فگن کے درمیان ربط و رشتہ ہوتا ہے اسی طرح چاند اور سورج کے مابین وصل ہے فصل نہیں، ہر چند کہ زمین سے نور کا یہ وسیع پل ہمیں نظر نہیں آتا اور اگر ہم رات کے وقت فوراً ہی چاند پر جا کر دیکھیں تو کسی شک کے بغیر یہ حقیقت روشن ہو جائے گی کہ چاند کی روشنی دراصل سورج سے آتی رہتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی سالک رسولؐ میں فنا ہو جائے تو وہ سرچشمۂ نور، یا نورالانوار کا مشاہدہ

۸۶

کر سکتا ہے، جی ہاں! سایۂ خدا ایسے وسیلے کو کہتے ہیں، پس یہی ظلِ الٰہی اسی شان میں حضورِ اکرمؐ کے بعد امامِ اطہرؑ ہیں (۵۷: ۲۸)۔

۶۔ نورِ علم و حکمت کے سب سے عظیم مرتبے دو ہیں، ایک مرتبہ یہ کہ نور وہ بحرِ محیط ہے، جس میں ساری کائنات ڈوبی ہوئی ہے، دوسرا یہ کہ نور کا سرچشمہ بھی اور مجموعہ بھی گوہرِ یکدانہ ہے، جیسا کہ سورۂ نور (۲۴: ۳۵) کا ارشاد ہے، نیز یہ نورِ علم و عرفان بشکلِ بہشت آسمان و زمین کے طول و عرض میں پھیلا ہوا بھی ہے اور عالمِ شخصی میں یکجا و نزدیک بھی (۵۰: ۳۱) کیونکہ خدائے بزرگ و برتر اپنے سایۂ نور کو نہ صرف پھیلا ہی دیتا ہے بلکہ اسے اپنے دستِ قدرت میں لپیٹ بھی لیتا ہے (۲۵: ۴۵ تا ۴۶)۔

۷۔ سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵ تا ۴۶) میں خوب غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سایۂ خداوندی کی معرفت آسان ہو جس کا مفہوم یہ ہے: اے رسولؐ! کیا تم نے مقامِ معراج پر اپنے پروردگار کی طرف نہیں دیکھا کہ اس نے اپنے نورِ ازل کے روشن سائے کو کہاں کہاں اور کس طرح پھیلایا ہے؟ اور اگر وہ چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا رکھتا پھر ہم نے اس پر نورِ ازل

۸۷

ہی کو رہنما بنا دیا، پھر ہم نے سایۂ نورانیّت کو نورِ عقل (یعنی نورِ ازل) میں فنا کر کے بڑی آسانی سے اپنے قبضۂ قدرت (مٹھی) میں لے لیا۔

۸۔ اس دور میں کرۂ ارض پر وہ ظلِ الٰہی جو ٹھہرا ہوا ہے قرآنِ حکیم اور امامِ عالی مقام ہیں، خداوندِ تعالیٰ کے یہ دونوں نورانی سائے، جو علم و حکمت کے دو سرچشمے ہیں، اجتماعی قیامت تک باقی اور ضوفگن رہیں گے، کیونکہ اللہ کی یہ کتاب اور ہادئ برحق ظلِ ممدود (۵۶: ۳۰، سایۂ دراز) ہیں اور ظلِ ممدود کی درازی کا یہ عالم ہے کہ یہ بہشت سے لے کر اس دنیا تک اور عرشِ برین سے فرشِ زمین تک پھیلا ہوا ہے۔

۹۔ سورۂ مراسلات کے ایک ارشاد (۷۷: ۳۰) سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ سایۂ عذاب ایک ہے، جس کی تین شاخیں ہیں یعنی دوزخ کا وجود جہالت و نادانی کا گھپ اندھیرا سایہ ہے، جس میں عقلی، روحانی اور جسمانی عذاب موجود ہے اور اس کے مقابلے میں سایۂ ثواب بھی ایک ہے، اور اس کی بھی تین شاخیں ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہشتِ برین نورِ عقل کا روشن سایہ ہے جہاں انسانی عقول، نفوس اور اجسامِ ابداعی

۸۸

کے لئے ثواب و رحمت کی کوئی کمی نہیں، ثواب و عذاب کی تین تین شاخیں کیوں مقرر کی گئی ہیں؟ اس لئے کہ انسان تین درجوں سے مکمل ہوا ہے: عقلِ جزوی، روحِ ناطقہ اور جسم۔

۱۰۔ قرآنِ کریم میں بہشت کی نعمتہائے عظمیٰ کے سلسلے میں اگر سایوں کا بھی تذکرہ فرمایا گیا ہے تو یہ سائے کیا ہیں؟ یہ اہلِ جنت کے لئے وہاں کے سب سے بڑے معجزات ہیں کہ وہ اس وقت انائے علوی میں ہوں گے جس کے گوناگون ظہورات ہیں، بہشت کے تمام اشجار زندہ، گویندہ اور تابندہ انسان ہوتے ہیں۔ پس جو آدمی جس درخت کے سائے میں رہنا چاہے، اس کا ظہور و جلوہ اسی مخصوص انسانی شکل میں ہوگا اسی طرح وہ ہر پسندیدہ درخت یعنی انسان کو اپناتا جائے گا جس میں بے حد لذّت و شادمانی ہے۔

۱۱۔ اس میں زیادہ سے زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں ایک کا دوسرے میں فنا ہو جانے کا تصوّر کیوں ہے؟ جیسے امام میں فنا ہو جانا، یا فنا فی الشیخ ، یا فنا فی المرشد اور پھر فنا فی الرسول؟ یہ مومن کی اُس لاانتہا زندگی کے لئے جو بہشت میں اسے عطا ہو گی، ایک مثال، دلیل اور نمونہ ہے، اس حقیقت کے علاوہ آپ براہِ راست

۸۹

بہشت کے اُس قانون میں بھی سوچ سکتے ہیں، جس میں مجموعی طور پر تمام ممکنات کا ذکر فرمایا گیا ہے اور وہ حکم یہ ہے: لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِیْهَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ (۵۰: ۳۵) ان کو بہشت میں سب کچھ ملے گا جو چاہیں گے اور ہمارے پاس اور بھی زیادہ (نعمت) ہے۔ نیز ان آیاتِ کریمہ کو بھی دیکھیں: ۱۶: ۳۱،  ۲۵: ۱۶،  ۳۹: ۳۴،  ۴۲: ۲۲۔ پس اللہ تعالیٰ کی مصلحت و حکمت یہی ہے کہ دنیا میں مومن کی محدود خواہشیں پوری ہوں اور جنت میں غیر محدود۔
۱۲۔ انسان کی دو انائیں، یا اس کی روح کے دو  (۲) سرے کیوں ہیں؟ یعنی آدمی کی جزوی حقیقت عالمِ سفلی میں اور کلی حقیقت عالمِ علوی (روحِ اعظم) میں کس لئے ہے؟ اور اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ اس میں یہ عظیم حکمت پنہان ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا اور خداوند تعالیٰ انسان کو احسنِ تقویم (۹۵: ۰۴، نمونۂ بہترین) پر پیدا نہ کرتا تو اس کے لئے جنت کسی غیر کا باغ جیسی لگتی، اسے اپنائیّت اور وحدت کی لذّت نصیب نہ ہوتی، جیسے کوئی خاندانی غلام اگر بادشاہ بن جائے تو پھر بھی اسے احساسِ کمتری سے چھٹکارا نہیں مل سکے گا، پس یہ حقیقت ہے کہ انسان بوسیلۂ انائے علوی ہمیشہ

۹۰

اپنی اصل سے واصل رہا ہے، جیسے آدمی ہو یا درخت، اس کا سایہ اپنی اصل سے منقطع نہیں ہو سکتا اور جو سائے بظاہر اصل چیزوں سے الگ نظر آتے ہیں مثلاً کاغذی تصویر، فلم وغیرہ، وہ بھی درحقیقت جدا نہیں بلکہ وہ کئی معنوں میں اصل سے وابستہ ، مربوط اور متحد ہیں۔

۱۳۔ آپ جس وقت عالمِ خواب میں جاتے ہیں اور اس میں مختلف قسم کے لوگوں کو دیکھتے ہیں تو وہ دنیائے ظاہر کے لوگ نہیں ہوتے بلکہ ان کے روحانی سائے ہوا کرتے ہیں، اسی دلیل کی روشنی میں آپ یقین کریں کہ بہشت میں آپ کو سب لوگوں کے نورانی سائے ملیں گے، مگر اس کے ادراک و شعور کی حقیقت سب سے زیادہ روشن ہو گی۔ اس مثال سے یہ علم ہو جاتا ہے کہ سائے کا تصوّر نہ صرف باطن سے ظاہر کی طرف ہے بلکہ ظاہر سے باطن کی طرف بھی ہے، یعنی یہ درست ہے کہ عقل کا سایہ روح ہے اور روح کا سایہ جسم ، جس میں سایہ لطیف سے کثیف ہوگیا اور یہ بھی صحیح ہے کہ جسم کا سایہ روح ہے اور روح کا سایہ عقل، اس میں سایہ کثیف سے لطیف ہوگیا، کیونکہ اللہ آسمان و زمین (بلندی و پستی) کا نور ہے، چنانچہ اس نور کی وجہ سے جو عالمِ بالا میں ہے، انسان کا

۹۱

سایہ زمین کی طرف آیا ہے اور اس نور کے سبب سے، جو عالمِ سفلی میں ہے، آدمی کا سایہ عالمِ علوی میں جا چکا ہے۔

۱۴۔ اگر آپ صوفی ہیں، یا درویش یا حقیقی مومن، اور ترقی پسند مسلمان، تو کوئی شک نہیں کہ آپ پر نور کے وسیلے سے قرآنِ مجید کا روحانی سایہ پڑ سکتا ہے، کیونکہ ہر چیز کا سایہ ہوا کرتا ہے اور قرآن کا سایہ بے حد ضروری ہے مگر یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ نور یعنی نائبِ رسول کے سوا اور کوئی آپ کو قرآنِ حکیم کے ظلِ روحانی میں بٹھا نہیں سکتا، جیسے آفتابِ عالم تاب یا ماہِ تابان کے بغیر آدمی اور درخت کا سایہ نہیں پڑ سکتا ہے۔

۱۵۔ اب آخر میں میرا پُر زور مشورہ یہ ہے کہ آپ اس جیسے ہر اہم مضمون کو متعلقہ آیاتِ کریمہ کے ساتھ ملا کر پڑھیں، تا کہ قرآنی حکمتوں کے سمجھنے میں مدد مل سکے، پروردگارِ عالم ہم سب کو اس مقصد کے لئے اعلیٰ توفیق عنایت فرمائے! آمین!!

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
بدھ، ۱۵ رمضان المبارک ۱۴۰۷ھ / ۱۳ مئی ۱۹۸۷ء

۹۲

روشن چہرے اور نورانی یادیں

۱۔ سورۂ حجرات (۴۹: ۰۷) کے حوالے سے عرض کرتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایمان کو مومنین کے لئے بدرجۂ انتہا محبوب بنا دیا ہے، کیونکہ جب یہ قلبِ انسانی میں جاگزین ہو جاتا ہے تو یہ وہاں اپنی صورتِ اصلی میں ظہور پذیر ہو جاتا ہے، وہ صورت ایک تابندہ نور ہے، جس کو قرآن نے “زینتِ قلبی” قرار دیا، اس لئے کہ قادرِ مطلق کے نزدیک آدمی کے دل، دماغ اور روح کے واسطے جس آبادی، سرسبزی، ترقی، جمال کمال اور زینت کی ضرورت ہے، وہ سب ایمان میں موجود ہے، جبکہ ایمانِ کامل ایک نور ہے اور نور سرچشمۂ تجلیات ہے، کیونکہ تجلیات کے بغیر نور نہیں اور نور کے سوا باطنی زینت کے کچھ معنی نہیں ہوتے۔

۹۳

۲۔ بے شک تجلیات کا تعلق باطن سے ہے، تاہم ہر مومن صادق کے چہرے پر ایمان کی ایک بھرپور رونق ضرور ہوتی ہے۔ مگر ہاں، ہمیں اس کا درست مشاہدہ اس وقت ممکن ہے جبکہ ہمارا دل ہر قسم کی رنجش اور بد گمانی سے برتر ہو، اگر ہم کسی مومن سے ناراض ہیں تو یہ کتنی بڑی شومی ہے کہ ہمیں اس کا چہرۂ روشن اچھا نہیں لگتا ہے، یہ سب کچھ عداوت کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے، ورنہ ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہوا کرتا ہے (المومن مرآۃ المومن) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک شخص معاشرے سے الگ تھلگ ہو کر تنِ تنہا کسی جنگل میں ساری عمر گزارتا ہے تو وہ نہ آئینہ بن سکتا ہے، اور نہ آئینہ دیکھ سکتا ہے۔

۳۔ مسلک ہر کسی، سکول کی طرح ہے، یہی سبب ہے کہ دانشمندوں نے اسے مکتبۂ فکر کہا اور دینِ اسلام اپنی مجموعی حیثیت میں ایک انتہائی عظیم ملک جیسا ہے، اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ ہمیں شروع شروع میں مکتب ہی میں درسِ اخوّت و محبت حاصل کرنا ہے، اور اس کے بعد اسے اسلام کی سطح پر عملی جامہ پہنانا ہے، قائدِ اعظم محمد علی جناح ابتداءً کسی ایک مکتبۂ فکر میں محدود سوچتے تھے، مگر اللہ تعالیٰ

۹۴

نے نورِ اسلام سے ان کے دل و دماغ کو منور کر دیا، اور ان کے ساتھ ایسے روشن دماغ حضرات بہت تھے، جن کی عالی ہمتی اور وسیع القلبی کی بدولت پاکستان معرضِ وجود میں آیا، اگر بانیانِ پاکستان سب کے سب اسلام اور نظریۂ پاکستان کے حق میں مخلص نہ ہوتے، اور فروعی اختلافات کو نظر انداز نہ کرتے، تو وہ اپنے اس عظیم الشّان مقصد کو کبھی حاصل نہ کر سکتے، اور نہ کوئی شخص آج اسی طرح ان کو یاد کرتا۔
۴۔ اسلام اور ایمان کے اوصافِ کمال کی ایک برکت یہ ہے کہ جو لوگ اس کو جان و دل سے اپنا چکے ہیں، وہ اہلِ بصیرت کی نگاہ میں بڑے پسندیدہ اور پیارے لگتے ہیں، جس کی وجہ دونوں طرف کا ایمان ہے، جو بقولِ قرآن ایک بے حد محبوب شیٔ ہے، پس روشن چہرے مومنین ہی کے چہرے ہیں اور نورانی یادیں بھی انہی کی یادیں ہیں، اور اگر ہم آئینۂ ایمانی کی اس نعمتِ عظمیٰ کی شکرگزاری اور قدر دانی نہ کریں تو پھر کیا ہوگا، بس یہی کہ ناشکری ہو گی۔

۵۔ آپ میرے بارے میں یہ فیصلہ نہیں دے سکتے ہیں کہ میں صرف اپنے شاگردوں ہی کو چاہتا ہوں اور بس، حالانکہ میں حسبِ مراتب سب کو عزیز رکھتا ہوں اور اس
۹۵

حقیقت کا گواہ خداوندِ تعالیٰ ہے کہ اہلِ اسلام تو مسلمان ہی ہیں، میں تو ساری انسانیّت کو بھی بہشت کی ایک عظیم حکمت کے پیشِ نظر دوست رکھتا ہوں، اگر آپ ازل اور ابد کا تصوّر کر سکتے ہیں تو کر کے دیکھیں کہ اس میں سب انسان ایک ہی حقیقت ہیں، حضرت آدم علیہ السّلام یا نفسِ واحدہ (۳۹: ۰۶) میں بھی سارے آدمی ایک ہیں، اس کے علاوہ بعثتِ انبیاء علیہم السّلام سے قبل بھی تمام لوگ ایک ہی امت تھے (۰۲: ۲۱۳) پس آپ یہ گمان نہ کیجئے کہ میں اپنے شاگردوں کے سوا کسی دوسرے کو نہیں چاہتا ہوں۔
۶۔ میں نمونۂ ہدایت کے لئے ہمیشہ امامِ وقت صلوات اللہ علیہ کی طرف دیکھتا ہوں، امامِ اقدس و اطہر کی نگاہِ محبت اور نظرِ کرم ظاہراً و باطناً کس پر نہیں، آپ سب پر مہربان ہیں، تاہم یک طرفہ دوستی اور جانبین کی دوستی میں بڑا فرق ہوا کرتا ہے اور اس بیان میں ذرہ بھر شک نہیں۔

۷۔ اب میں اس وضاحت کے بعد اپنے دورۂ شمالی علاقہ جات کا کچھ تذکرہ کر سکتا ہوں، تا کہ عظیم باغ و گلشن کے بے حساب پھلوں اور پھولوں سے کوئی مثال اور نمونہ پیش ہو، چنانچہ یہ میرے لئے ایک بہت ہی خاص اور بہت ہی بڑی

۹۶

سعادت تھی کہ ہمیشہ کی طرح میں چند جماعت خانوں میں گیا اور چند علمی محفلوں میں شرکت کی، لیکن میں حیرت زدہ ہوں کہ ان لاتعداد دینی نعمتوں میں سے کس نعمت کا ذکر کروں، اور کس روشن چہرے کا نام لوں، حالانکہ ہر ہر مومن میرے لئے ایک روشن چہرہ بھی ہے اور ایک صاف آئینہ بھی، بہر حال حق یہ ہے کہ اس دفعہ سب سے پہلے ایک بڑے دیندار خاندان کے چشم و چراغ کا ذکرِ جمیل کریں، وہ ہیں جناب دلدار خان صاحب، جنہوں نے مجلسِ علم و ادب کے لئے بصد شوق اہتمام کیا تھا، ان کی پاکیزہ نیت اور دعائے مخفی کی وجہ سے گویا ہم سب یارانِ محفل عشقِ حقیقی کی آگ سے پگھل کر مساواتِ رحمانی کے سانچے میں ڈھل کر ایک ہو گئے تھے، ہم ایسی تمام مجالس کو ہرگز فراموش نہیں کر سکتے ہیں جو کئی مقامات پر منعقد ہوئیں۔

۸۔ برادرِ بزرگ و محترم سابق موکھی مہربان شاہ صاحب اور ان کے جملہ عزیزان کی مہمان نوازی اور پر خلوص آداب و حرمت کو دیکھ کر چینی ترکستان کی جماعت یاد آ گئی، بڑا اشتیاق تھا اچھا ہوا کہ وہیں پر قربان علی صاحب اور رحمت علی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی اور کچھ اعلیٰ سطح کے سوالات

۹۷

و جوابات بھی ہوئے۔

۹۔ ہمارے بہت ہی عزیز صدر غلام قادر جو ارضی فرشتوں میں سے ہیں، بہت ہی عزیز نائب صدر غلام رسول جو ایک عظیم مجاہد ہیں اور اعزازی سیکریٹری شیر اللہ بیگ جو میرے بہت ہی عزیز با سعادت شاگردوں میں سے ہیں، ان تینوں معزز عملداروں کی ہمیشہ یہ خواہش اور فرمائش ہوتی ہے کہ میں ان کی نہیں بلکہ ان کے ان احباب اور ساتھیوں کی تعریف و توصیف کروں جو شب و روز قومی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ حالانکہ یہ حضرات بے شمار خدمات انجام دیتے آئے ہیں، تاہم کسی کامیاب لیڈر کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے رفقائے کار کی خیرخواہی اور عزت کرتا ہے۔
۱۰۔ گلگت، نومل، دنیور اور اوشی کھنداس کے روشن چہروں کی اس یاد کے بعد ہم تصوراتی طور پر ہونزہ جاتے ہیں، وہاں بھی مرتضیٰ آباد، علی آباد، ڈورکھن، حیدرآباد، کریم آباد، اور التت کے بہت سے عزیزان تابناک چہروں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ جیسے موکھی علی حرمت صاحب، موکھی عرب خان صاحب، میر امان صاحب، موکھی امان اللہ صاحب، مجیب صاحب، غلام مرتضیٰ صاحب، نصیر الدین القطوشی صاحب،

۹۸

شریف اللہ خان صاحب اور دیگر تمام عزیزان۔

۱۱۔ جو حضرات حضرتِ اسرافیل علیہ السّلام کے لشکر میں شامل ہیں، ان کی یادِ دلنشین کیسے دل سے مٹ سکتی ہے، جیسے عزیزانم موکھی غلام قادر صاحب، عبد اللہ شاہ صاحب، امیر حیات صاحب، موکھی محمد ایوب صاحب، کامڑیا محمد صادق صاحب اور دوسرے عزیزان، ان کی منقبت خوانی سے دلوں کی پاکیزگی ہو جاتی ہے اور روحوں کو پُرقوّت غذا ملتی ہے۔

۱۲۔ اگر مومنین ایک دوسرے کے آئینے ہیں تو کس طرح؟ وہ اس طرح کہ ایک مومن دوسرے مومن کی خوبیوں کو اجاگر کرتا ہے، نیز خیرخواہی اور شائستگی کے ساتھ اصلاح بھی کرتا ہے، یعنی اہلِ ایمان آپس میں دوست ہوا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد سے اخلاقی، روحانی اور عقلی طور پر سنورتے جاتے ہیں۔ جیسے انسان جب اپنے آپ کو سنوارتا ہے تو آئینے کو سامنے رکھ لیتا ہے اس سے کہیں زیادہ کام وہ آئینے کرتے ہیں جو زندہ، گویندہ اور عاقل ہیں، جو ایک دوسرے کی ذات میں اتر جاتے ہیں اور وہ مومنین ہی ہیں۔

۱۳۔ قرآنِ حکیم کی متعدد آیاتِ کریمہ میں خدا، رسول اور امام کی دوستی کے بعد مومنین کے آپس کی دوستی کا ذکر
۹۹

موجود ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہر اُس نیّت، قول اور فعل کی مذمت فرمائی گئی ہے، جس سے اس دوستی میں خلل پڑتا ہو، اس کا سبب ظاہر ہے کہ دین کی سلامتی، مضبوطی اور ترقی اسی میں ہے کہ تمام اہلِ ایمان آپس میں متحد ہو جائیں۔ جیسے زمانۂ نبوّت میں ہم سب مل کر ایک تھے اسی لئے اسلام کو کوئی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔ مگر افسوس کہ آج ہم فرقہ فرقہ ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے دین کو طرح طرح کے نقصانات پہنچ رہے ہیں۔

۱۴۔ مومن کی غیبت کی تشبیہہ و تمثیل اس کی لاش میں سے گوشت کھانے سے دی گئی ہے (۴۹: ۱۲) اس میں کیا حکمت ہے؟ اس کی کئی حکمتیں ہیں، اور ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ ہر آدمی کے اعمال میں نیکیاں بھی ہوتی ہیں اور برائیاں بھی، جن کا محاسبہ قیامت میں ہونے والا ہے، چنانچہ وہ اپنی نیکیوں میں زندہ ہے اور برائیوں میں مردہ، اب جبکہ ایک مومن دوسرے مومن کی غیبت کرتا ہے یعنی پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرتا ہے تو یہ شخص گویا اپنے مومن بھائی کی لاش میں سے گوشت کو کھاتا ہے، اس مثال میں کہ اُس کا گناہ اِس کی ہستی میں داخل ہو جاتا ہے۔

۱۰۰

۱۵۔ اگر غیبت کرنا ایسا فضول اور بہت بڑا گناہ ہے کہ اس سے دوسرے کے گناہ کا بوجھ بھی ہم ہی پر آ پڑتا ہے تو پھر اس کا کوئی خاص علاج کیا ہو سکتا ہے؟ اس روگ سے بچ کر رہنے کے لئے قرآنِ کریم میں بہت سے نسخے موجود ہیں، مگر مختصر یہ کہ ہم اسلامی اخوّت و محبت کے بھیدوں کو سمجھیں، وہ یہ ہے کہ ہم سب بحقیقت بھائی بھائی ہیں، دوسری مثال میں سارے انسان فی الاصل ایک ہیں جبکہ سب کو خدائے واحد نے نفسِ واحدہ سے پیدا کیا ہے، یہ مقامِ ازل ہے جہاں دنیا بھر کے لوگ۔۔۔ اوّلین و آخرین اپنی اصل کی ایک جیسی کاپیاں ہیں اور اسی معنیٰ میں ارشاد ہوا: مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍؕ (۶۷: ۰۳) مفہوم: اے رسول تم مرتبۂ عقل اور مقامِ ازل پر جس خلق کا مشاہدہ کر رہے ہو اس میں اور اس کی ظہوری کاپیوں میں دراصل کوئی فرق نہیں۔

۱۶۔ مومنین بھائی بھائی ہیں، یہ قرآن کا پہلا درس ہے کیونکہ بھائیوں کے آپس میں رشتہ تو ہے ہی، مگر وہ ہر لحاظ سے ایک جیسے نہیں ہوتے، جہاں لوگوں کی کاپیوں کا ذکر ہے (۰۴: ۰۱) وہ دوسرا سبق ہے اور جس مقام پر انبعاث کا تذکرہ فرمایا گیا ہے وہ آخری تعلیم ہے اور اس میں وحدانیت

۱۰۱

کا راز پوشیدہ ہے (۳۱: ۲۸)۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۸۷۔۵۔۲۱

۱۰۲

گلدستے ہی گلدستے

۱۔ پھول عالمِ نباتات میں دستِ قدرت کے شہکار ہیں، پھولوں کے گلدستے زبردست دلکش اور بے حد پیارے ہوا کرتے ہیں، بعض گلدستے وہ ہیں، جو قدرتی طور پر تیار ہوتے ہیں جبکہ وہ گچھوں کی صورت میں یکجا کھلتے ہیں اور بعض گلدستوں کو لوگ بناتے ہیں، اسی چیز کی مناسبت سے بعض انسانوں کا نام گلدستہ یا دستہ گل (دستۂ گل) ہوتا ہے، اور ہر ایسا نام پھولوں کی نسبت اور تصوّر کی وجہ سے بڑا خوبصورت اور بہت ہی عزیز لگتا ہے اس میں البتہ یہ راز پوشیدہ ہے کہ کائنات کے کلی حسن و جمال سے انسان کا انتہائی قریبی رشتہ ہے، بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ کائنات انسان کی بکھری ہوئی خوبیوں کو پیش کرتی ہے اور انسان وہ نمونۂ قدرت ہے جس میں خدائے علیم و حکیم آسمان اور زمین کی جملہ رعنائی و زیبائی کو لپیٹ لیتا ہے (۲۱: ۱۰۴،  ۳۹: ۶۷)

۲۔ خدائے بزرگ و برتر کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ شدید

۱۰۳

مشتاقانہ انتظار کے بعد اب زبردست انقلابی کتاب “قرآنی علاج” اور اس کا انگریزی ترجمہ “قرآنک ہیلنگ” چھپ کر شائع ہو رہی ہے، جس کی بدولت بے شمار علم دوست حضرات کے دلوں میں مسرّتوں اور شادمانیوں کا طوفان برپا ہوا ہے، اسی خوشی کے عالم میں یہ بندۂ درویش ۲۱ جولائی ۱۹۸۷ء کو کراچی سے راولپنڈی بذریعۂ طیارہ پہنچ گیا، وہاں سے ۲۳ جولائی کو ویگن سے گلگت وارد ہوا، اگرچہ یہ سفر طویل مسافت اور شدید گرمی کے سبب سے بہت تکلیف دہ تھا، تاہم گلگت پہنچتے ہی سفر کی ساری زحمتیں احباب و اقارب کی ملاقات کی وجہ سے فراموش ہوگئیں۔

۳۔ میں عارضی طور پر ہونزہ اِن  (Hunza Inn)  میں ٹھہرا تھا، مگر عزیزم غلام رسول نائب صدر نے ازراہِ کرم اپنے گھر بلا لیا، جن کی علم دوستی اور مہمان نوازی مسلمہ ہے، چنانچہ راقم ۲۴ تاریخ کو ان کے خوبصورت باغ میں رہائش پذیر تھا، یہ باغ بھی ہے اور گلشن بھی، لہٰذا وہ مقام دلکش پھولوں اور پسندیدہ پھلوں کے حسین امتزاج سے بڑا دلفریب و دلاویز منظر پیش کر رہا تھا۔

۴۔ گلزار (پھولوں کی جگہ) مناظرِ قدرت میں سب سے

۱۰۴

حسین اور سب سے رعنا منظر ہوا کرتا ہے۔ میں نے ریٹائرڈ صوبیدار میجر عبد الحکیم کے باغ و گلشن کو بھی دیکھا ہے، بہت پسندیدہ اور مسرّت انگیز ہے، ان کی باوقار شخصیت بھی ظاہراً و باطناً ایک زندہ باغ و گلشن ہے، یہی وجہ ہے کہ بوقتِ ملاقات ہمیں بے حد مسرّت و شادمانی حاصل ہو جاتی ہے۔

۵۔ میرے بہت ہی عزیز غلام قادر صدر امامِ برحق کا ایک زندہ اخلاقی اور علمی معجزہ ہیں، آپ ہمیشہ اپنی گفتگو میں انسانیّت، آدمیّت، اخلاص، عقل اور دانشمندی کے گلدستے پیش کرتے ہیں، جن سے عطر افشانی ہوتی ہے، مجھے یقین ہے کہ ان کے اور دوسرے بہت سے عزیزوں کے پاکیزہ دلوں میں علمِ حقیقی کا باغ و گلشن معمور ہو رہا ہے، جس کے اشجارِ پُرثمر ہمیشہ سر سبز اور گلہائے خوشرنگ سدا بہار ہیں، جب میں عزیز القدرم شیر اللہ بیگ اعزازی سیکریٹری کو دیکھتا ہوں، تو مجھے انتہائی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے اور اس واقعہ کو وحدتِ ایمانی کا ایک کرشمہ سمجھتا ہوں۔

۶۔ بی۔ آر۔ اے۔ بہشتِ برین کے منتخب پھولوں کا ایک مسرّت بخش گلدستہ ہے، جس میں چند زندہ و تابندہ پھول اکٹھے ہیں اور ہر گلِ رعنا اپنی ذات میں ایک لطیف اور

۱۰۵

پائندہ گلستان ہے، بالکل اسی طرح الناصر دوسرا گلدستہ ہے اور عارف بھی انہی صفات کے ساتھ تیسرا گلدستہ ہے، غرض یہاں نہ صرف شمالی علاقہ جات کے پیارے دوستوں کی بات ہے، بلکہ اس ذکرِ جمیل کے پسِ منظر میں دنیا بھر کے عزیزوں اور مومنوں کی ایک عجیب و غریب اور معجزاتی وحدت ہے اور اس کی شان یہ ہے کہ وہ ہر عزیز میں مجسّم ہو سکتی ہے، میری جان اس وحدت و سالمیّت سے بار بار قربان! اس وحدت و سالمیّت میں بے حد لذّت و شادمانی ہے۔

۷۔ کوئی شک نہیں کہ جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی ایک ایسی دنیائے شخصی ہیں، جس میں تمام اعزہ و احبا کی وحدتِ ذرّات پائی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر جگہ جملہ احباب پروانہ وار ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں، اس حقیقت کی ایک روشن دلیل موصوف کا دورۂ شمالی علاقہ جات ہے، جو حال ہی میں ختم ہوا، اس دورے میں آپ کے ساتھ آپ کی رفیقۂ حیات محترمہ رشیدہ (صمصام) بھی تشریف فرما تھیں، جو ایک زبردست اسکالر ہیں ، وہ بہت سے خصائلِ محمودہ کی مالک ہیں، من جملہ ایک یہ کہ آپ بحالتِ گریہ و زاری انتہائی عمدہ خطابت فرماتی ہیں، جو سب سے مشکل ترین کام ہے۔

۱۰۶

۸۔ موضعِ جٹیال کی اُس مجلسِ مبارکہ سے ہم سب کو بے قیاس روحانی خوشی حاصل ہو رہی تھی، جس کے میزبان برادرِ بزرگ سابق موکھی مہربان شاہ صاحب اور جناب رحمت علی تھے، یہ مقدّس محفل ہمیشہ ہمارے تصوّرات میں بلکہ نامۂ اعمال میں ان شاء اللہ تابان و درخشان رہے گی، جس کی کئی وجوہ ہیں اور ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اس پاکیزہ انجمن میں امامِ اقدس و اطہر صلوات اللہ علیہ کے علمی لشکر کے دو عظیم سینئر جرنیل موجود تھے، یعنی ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی اور رشیدہ صمصام۔

۹۔ قریۂ اوشی کھنداس مجھے بے حد عزیز ہے، جس کی خاص وجہ وہاں کے علمی قدردان ہیں، وہ ایک شاداب اور سرسبز مقام بھی ہے، جہاں موسمِ بہار اور گرما بے حد خوشگوار ہوتا ہے، پھولوں کی مہک اور پرندوں کی چہک بڑی دلفریب ہوتی ہے، اگر ایسے میں وہاں دوستانِ حمیم کی کوئی علمی محفل بھی سجائی جائے تو پھر یقیناً خمرِ بہشت کی سی خوشبو اور لذّت و شادمانی دینے لگتی ہے۔ جی ہاں، اوشی کھنداس میں شروع ہی سے ایسی پگھلا دینے والی کامیاب مجالس ہوتی رہی ہیں اور میرے بھائیوں کے گھروں میں کثرت سے یہ علمی

۱۰۷

خدمت ہوتی آئی ہے، برادرِ عزیزم ایکس صوبیدار یوسف علی اور ان کی اہلیہ محترمہ بلقیس اس معاملے میں بڑے خوش نصیب ہیں، جو دینی علم کے جذبۂ قدردانی سے سرشار ہو کر ہر بار پھولوں کو نچھاور کر دیتے ہیں، اس دفعہ وہ دونوں عزیز، نیز عزیزانم نیاز علی، سید علی اور فدا علی سب دن بھر بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے کہ جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی، ہماری بہت ہی عزیز بیٹی رشیدہ صمصام اور دیگر معزز مہمانان کب تشریف لاتے ہیں، آخر کار ان کی دعا قبول ہوئی اور وہ تمام حضرات تشریف فرما ہو گئے۔

۱۰۔ یارانِ محفل کی جتنی بھی خوب سے خوب تر تعریف کی جائے کم ہے، کیونکہ ہر فرد نور کا ایک پَرتَو (عکس) تھا، جیسا کہ پیر ناصر خسرو ق س فرماتے ہیں: زنورِ او تو ہستی ہمچو پرتو۔۔۔ حجاب از پیش بردار و تو او شو۔ ترجمہ: تو اُس (یعنی خدا) کے نور کا عکس (صورت = تصویر) ہے، سامنے سے پردہ ہٹا لے اور تو وہ ہو جا، یعنی فنا فی اللہ اور بقا با للہ کا مرتبہ حاصل کرلے۔ غرض مجلس غیر معمولی اور معجزاتی قسم کی تھی، جس کی اجتماعی حکمتوں کی بدولت ہر فرد کا دل و دماغ منور و تابان ہو رہا تھا۔

۱۱۔ اب یہاں ایک خاص علمی نکتہ بیان کرنا ہے، وہ یہ کہ
۱۰۸

جس طرح رحمان اور رحیم دونوں اسم ہم معنی ہیں، اسی وزن پر سلمان و سلیم (۲۶: ۸۹،  ۳۷: ۸۴) بھی ہم معنی ہیں، اور لفظِ سلیمان بھی یہی معنی رکھتا ہے، کیونکہ وہ سلمان کا اسمِ مصغر ہے، پس “سلمان غریبم قلبِ تو۔۔۔ ” کا مطلب قلبِ سلیم ہے، جس کی حکمت “قرآنی علاج” میں بیان ہوئی ہے، آپ بغور مطالعہ فرمائیں۔

۱۲۔ سلمان فارسی کے نام کے بارے میں “میوۂ بہشت” صفحہ ۱۴۸ پر دیکھئے کہ آپ کا پہلا نام کچھ اور تھا، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اُن کا نام سلمان رکھا اور ظاہر ہے کہ ایسے نام میں بہت بڑی حکمت ہوتی ہے جو رسولِ خدا نے مقرر فرمایا ہو، چنانچہ سلمان یقیناً قلبِ سلیم کا مرتبہ رکھتے تھے، اور ان کی روحانیّت میں ایک سلیمانی سلطنت پوشیدہ تھی۔

۱۳۔ جب کوئی مومن علم و عمل کے ذریعہ امامِ عالی وقار میں فنا ہو جاتا ہے تو اس وقت حضرت امامؑ ہی اس کا قلب ہو جاتا ہے کیونکہ دراصل یعنی روحانیّت میں حدودِ دین ہی مومنین کے حواسِ ظاہر و باطن کا کام کرتے ہیں، اور قرآنِ حکیم میں اس کا ذکرِ جمیل اس طرح فرمایا گیا ہے:

۱۰۹

وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـٕدَةَؕ-قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ (۲۳: ۷۸) اور وہ (اللہ) ایسا ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تم لوگ بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔ یہی ارشاد  ۱۶: ۷۸  اور ۳۲: ۰۹ میں بھی ہے، یاد رہے اس میں روحانی ترقی اور نشاۃِ ثانیہ (۵۶: ۳۵،  ۲۹: ۲۰) کا ذکر ہے، پس اس کا مطلب یہ ہوا کہ حدیثِ نوافل کے بموجب جہاں نورِ خدا بندۂ صالح کے کان، آنکھ، ہاتھ اور پاؤں ہو جاتا ہے، وہاں ذاتِ سبحان نہیں بلکہ حدودِ دین یہ کام کرتے ہوئے خدا کی نمائندگی کرتے ہیں۔

۱۴۔ قرآنِ حکیم کی ہر آیۂ کریمہ دوسری کئی آیتوں کی تفسیر ہوا کرتی ہے، مثلاً سورۂ نور (۲۴: ۳۵) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات کا نور ہے۔ یہ خود بھی بہت سی آیات کی تفسیر کرتی ہے جس کی تفسیر وہ آیۂ مبارکہ ہے، جس میں سراجِ منیر (روشن چراغ، ۳۳: ۴۶) یعنی آنحضرتؐ کا ذکر ہے اور اس کی وضاحت اُس آیۂ مقدّسہ میں ہے جس میں نورِ امامت کا تذکرہ ہے (۵۷: ۲۸)۔
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۱۷، اگست ۱۹۸۷ء

۱۱۰

چند خزائن

۱۔ دینِ فطرت (۳۰: ۳۰) اسلام
۲۔ سنتِ الٰہی اور سنتِ رسول (۱۷: ۷۷)
۳۔ اولوالامر (۰۴: ۵۹)
۴۔ مَلک یعنی روحانی سلطنت (۰۴: ۵۴)
۵۔ راسخون فی العلم (۰۳: ۰۷)
۶۔ استنباط (۰۴: ۸۳)
۷۔ تفکر و تدبر اور اجتہاد (۴۷: ۲۴)
۸۔ حکمت (۰۲: ۲۶۹)
۹۔ کتابِ مکنون (۵۶: ۷۸)
۱۰۔ امامِ مبین (۳۶: ۱۲)
۱۱۔ نور علیٰ نور (۲۴: ۳۵)
۱۲۔ بابِ علم و حکمتِ رسول (حدیث)
۱۳۔ جوامع الکلم (حدیث)
۱۴۔ فقۂ قدیم اور فقۂ جدید

۱۱۱

۱۵۔ تدریجی ہدایت (۱۷: ۱۰۶)
۱۶۔ ناسخ اور منسوخ (۰۲: ۱۰۶)
۱۷۔ وارث اور وزیر (۲۵: ۳۵) کون ہے؟
۱۸۔ رسول کے دو گواہ (۱۳: ۴۳)؟
۱۹۔ قرآنِ ناطق، یا نور (۲۳: ۶۲،  ۰۵: ۱۵)؟
۲۰۔ دورِ شریعت اور دورِ قیامت (۰۷: ۵۳)
۲۱۔ قرآن مہجور کیوں (۲۵: ۳۰)؟
۲۲۔ اہلِ ذکر (۱۶: ۴۳)؟
۲۳۔ اہلِ بیت (۳۳: ۳۳)
۲۴۔ اسمِ اعظم / اسماء الحسنیٰ (۰۷: ۱۸۰)
۲۵۔ جنگِ تنزیل اور جنگِ تاویل (حدیث)
۲۶۔ تاویل کی پیشین گوئی (۰۷: ۵۳)
۲۷۔ شریعتِ نوح (۴۲: ۱۳)
۲۸۔ شریعت و منہاج (۰۵: ۴۸)
۲۹۔ خدا، رسول اور نور پر ایمان (۶۴: ۰۸)
۳۰۔ ایمان کے بعد اور ایمان لانا (۰۴: ۱۳۶)
۳۱۔ الکوثر (۱۰۸: ۰۱ تا ۰۳) مردِ کثیر الذریت یعنی علیؑ
۳۲۔ شاہد (۱۱: ۱۷) گواہ (علیؑ)

۱۱۲

۳۳۔ صادقین۔۔۔ أئمّہ (۰۹: ۱۱۹)
۳۴۔ أئمہ اور امر (۲۱: ۷۳)
۳۵۔ أئمّۂ وارثین (۲۸: ۰۵)
۳۶۔ امام المتقین (۲۵: ۷۴)
۳۷۔ امامِ زمان (۱۷: ۷۱)
۳۸۔ ہادئ زمان (۱۳: ۰۷)
۳۹۔ اسلام دینِ ترجیہات (۳۹: ۵۵،  ۱۷: ۵۳)
۴۰۔ امام خانۂ خدا (۰۲: ۱۲۵)
۴۱۔ امام صراطِ مستقیم (۰۵: ۱۵ تا ۱۶)
۴۲۔ قیامت سے اندھے (۲۷: ۶۶)
۴۳۔ امام اسم و ذکرِ خدا (۲۰: ۱۲۴)
۴۴۔ ملوک کون ہیں (۰۵: ۲۰)؟
۴۵۔ شبِ قدر (۹۷: ۰۱ تا ۰۵) حجتِ قائم
۴۶۔ امام لوحِ محفوظ (۸۵: ۲۱ تا ۲۲)
۴۷۔ امام نامۂ اعمال (۴۵: ۲۹)
۴۸۔ امام کتاب (۱۱: ۱۷)
۴۹۔ قرآنِ کریم کتابِ مکنون میں (۵۶: ۷۷ تا ۷۸)
۵۰۔ مطہرون کون ہیں (۵۶: ۷۹)؟

۱۱۳

۵۱۔ امام اہلِ بیت (۳۳: ۳۳)
۵۲۔ صراطِ مستقیم (۱۵: ۴۱) امام
۵۳۔ سابقوا، سارعوا (۵۷: ۲۱،  ۰۳: ۱۳۳)
۵۴۔ یسعیٰ نورھم (۵۷: ۱۲ تا ۱۳،  ۶۶: ۰۸)
۵۵۔ نور کا درجۂ کمال پر پہنچ جانا(۶۶: ۰۸)
۵۶۔ نور کا درجۂ کمال پر پہنچ جانا (۰۹: ۳۲،  ۶۱: ۰۸)
۵۷۔ توراۃ، ہدایت، اور نور (۰۵: ۴۴)
۵۸۔ انجیل، ہدایت، اور نور (۰۵: ۴۶)
۵۹۔ قرآن، ہدایت، اور نور (۰۵: ۴۸)
۶۰۔ صالح المومنین امام ہے (۶۶: ۰۴)
۶۱۔ اوتوا العلم کون ہیں (۲۹: ۴۹)؟
۶۲۔ قرآن حضراتِ أئمّہ کے سینوں میں (۲۹: ۴۹)
۶۳۔ اوتوا العلم من قبلہ (۱۷: ۱۰۷) أئمہ
۶۴۔ امامِ مبین کا احاطۂ علمی و جسمی (۰۲: ۲۴۷)
۶۵۔ امام کا قرطۂ ابداعی (۱۶: ۸۱)
۶۶۔ خدا کی رسی زمانۂ نبوت میں آنحضرتؐ تھے (۰۳: ۱۰۳)
۶۷۔ رسول اللہ کے بعد حبل اللہ کون ہے (۰۳: ۱۰۳)؟
۶۸۔ فرقہ فرقہ ہو جانا بہت بڑی نافرمانی ہے (۰۳: ۱۰۳)

۱۱۴

۶۹۔ (۰۳: ۱۰۲،  ۰۳: ۱۰۳) کس کو مضبوط پکڑے رہیں؟
۷۰۔ تمام چیزیں دو دو ہیں (۳۶: ۳۶،  ۵۱: ۴۹،  ۵۵: ۵۲)
۷۱۔ پیغمبر اور امام مومنین کے روحانی ماں باپ (حدیث)
۷۲۔ متوسم / متوسمین أئمّہ (۱۵: ۷۵)
۷۳۔ اعراف پر رجال (۰۷: ۴۶) أئمّہ ہیں
۷۴۔ امۃ وسطا أئمّہ ہیں (۰۲: ۱۴۳)
۷۵۔ المومنون (۰۹: ۱۰۵) أئمہ

۱۱۵

۷۶۔ ولی / امام (۰۵: ۵۵)
۷۷۔ للناس اماما ۔۔۔ سب لوگوں کے لئے امام (۰۲: ۱۲۴)
۷۸۔ لسان صدق (۱۹: ۵۰،  ۲۶: ۸۴) امام ہے
۷۹۔ کلمۂ باقیہ۔۔۔ امامت (۴۳: ۲۸)
۸۰۔ دابۃ الارض امام (۲۷: ۸۲)
۸۱۔ عالمون أئمہ اطہار (۲۹: ۴۳)
۸۲۔ من عندہ علم الکتاب امام ہے (۱۳: ۴۳)
۸۳۔ وجہ اللہ امام ہے (۵۵: ۲۷)
۸۴۔ اذن واعیۃ امام ہے (۶۹: ۱۲)
۸۵۔ کلمۂ تقویٰ امام کا ایک پوشیدہ نام (۴۸: ۲۶)
۸۶۔ ذالک الکتاب لا ریب فیہ امام ہے (۰۲: ۰۲)
۸۷۔ دعوتِ روحانی (۰۸: ۲۴)
۸۸۔ شجرۂ طیبہ اور اس کی شاخ؟ (۱۴: ۲۴ تا ۲۵)
۸۹۔ سات أئمہ (۸۰: ۲۴ تا ۳۱)
۹۰۔ حضرتِ قائم کی معرفت کے ذرائع: اساس، امام، باب، حجت، اور داعی
۹۱۔ مشاہدۂ ابداع و انبعاث (۴۲: ۵۱)
۹۲۔ عقلی زندگی اور عقلی ہلاکت (۰۸: ۴۲)
۹۳۔ مردگانِ زندہ نما(۱۶: ۲۱)
۹۴۔ کالانعام (۰۷: ۱۷۹،  ۲۵: ۴۴)

۱۱۶

سوالنامہ
چہل سوال

۱۔ آپ تسمیہ (بسم اللہ) کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں، اس میں سے پانچ حکمت بیان کریں، نیز یہ بتائیں کہ اس میں کل ۱۹ حروف ہونے کے کیا معنی ہیں؟
۲۔ قرآنِ کریم اور امامِ مبین کے آپس میں کیا رشتہ ہے؟ یہ رشتہ کب سے قائم ہے؟ اور اس باب میں قرآن و حدیث کا کیا ارشاد ہے؟
۳۔ آپ کم از کم پانچ آیاتِ قرآنی کا حوالہ بتائیں، جن میں واضح طور پر نورِ امامت کا ذکر فرمایا گیا ہو، اور ایسی پانچ حدیثیں بھی۔
۴۔ آپ نے دعائم الاسلام جلدِ اوّل کے شروع کا حصّہ (کتاب الولایۃ) پڑھا ہوگا، جو از حد ضروری ہے، وہیں سے آپ مولا علی علیہ السّلام کے کچھ فضائل بیان کریں۔

۱۱۷

۵۔ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے ارشادات کے حوالے سے یہ ثبوت فراہم کریں کہ روحانی ترقی کا دروازہ ہر زمانے میں کھلا ہے۔
۶۔ یہ فرمانِ مبارک کس امام کا ہے؟ اور کون سی کتاب میں درج ہوا ہے؟ “ہم علی اور نبی دونوں کے نور ہیں۔” نیز یہ بتائیں کہ نورِ ازل کا ذکر کس فرمان میں ہے؟
۷۔ حاضر امام صلوات اللہ علیہ و سلامہ نے کس مقام پر نفسِ واحدہ کا ذکر فرمایا؟ اور اُس آیۂ شریفہ کا کیا مطلب ہے؟
۸۔ یہ فرمان کس کتابچے میں درج ہوا ہے؟ “اس دنیا میں دو قسم کے مومن ہیں، جس میں ایک جسم کے مومن ہیں، اور دوسرے روح کے۔”
۹۔ کیا آپ نے یہ فرمان پڑھا ہے؟ “جب تک اصل کا علم نہ ہو، تو کیا فائدہ؟” اس ارشاد کی وضاحت کریں۔
۱۰۔ تم جب سجدہ کرو اس وقت مانگو کہ خدایا! ہمیں اصل مقام پر پہنچاؤ، جس طرح بچہ (جب) اپنی ماں سے بچھڑ جاتا ہے یا گم ہو جاتا ہے، اس وقت وہ روتا ہے، کہ کب ماں کے پاس پہنچے، تم بھی ایسے بنو (روحانی روشنی، صفحہ ۷۳) اس کی وضاحت کیجئے۔

۱۱۸

۱۱۔ اپنے کسی پیر کے قول کی روشنی میں امامِ وقت کی فرمانبرداری اور محبت کا مختصر بیان کریں، نیز قرآن و حدیث سے دلیل پیش کریں۔
۱۲۔ یہ ارشاد کس کا ہے؟ “سلونی قبل ان تفقدونی” اس کے کیا معنی ہیں؟ اور اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ وضاحت کریں۔
۱۳۔ جب کسی مومن کی علمی ترقی ہوتی ہے، تو وہ ایک ہی مثال میں بہت سی حقیقتوں کو سمجھ سکتا ہے، چنانچہ “عالمِ ذر” آپ کے لئے ایک انقلابی تصوّر ہے، پس آپ عالمِ ذرّ کے بارے میں کچھ حقائق بیان کریں۔
۱۴۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ آسمان و زمین میں نہیں سماتا ( اور نہ کسی دوسرے انسان میں سماتا ہے) مگر صرف بندۂ مومن کے قلب میں سما جاتا ہے؟ اس کی وجہ اور حکمت بیان کریں۔
۱۵۔ جب قیامِ قیامت انتہائی قریب ہوگا، تو اس وقت اللہ تبارک و تعالیٰ زمین سے ایک جانور نکالے گا (۲۷: ۸۲) یہ زمین کون سی ہے؟ اور وہ جانور کیا ہوگا؟
۱۶۔ قرآنِ کریم میں امامِ عالی مقام کے بہت سے

۱۱۹

اسمائے گرامی ہیں، ان میں سے ایک اسم مَلِک (بادشاہ) ہے کیونکہ خداوند تعالیٰ نے روحانیّت کی عظیم سلطنت آلِ ابراہیم کو عطا کر دی ہے (۰۴: ۵۴) اور آلِ ابراہیم انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہیں، پس آپ یہ بتائیں کہ مومنین اپنے وقت کے امام کی روحانی سلطنت سے کس حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ اور کس طرح؟
۱۷۔ آپ نے اب تک جو انقلابی حکمتوں اور علمِ حقیقت کا کورس کیا ہے، اس کی روشنی میں حضرتِ آدم علیہ السّلام سے متعلق پانچ ایسی حکمتیں بیان کریں جو عجیب و غریب ہوں۔
۱۸۔ خدا کی چیزیں دراصل بدرجۂ اکمل عقل و جان کی صفات سے آراستہ ہوا کرتی ہیں، وہ بے شمار ہونے کے باوصف ایک ہوگئی ہیں، اور اہلِ مذاہب کے واسطے یہ امر بہت بڑا امتحان ہے، پس آپ بتائیں کہ اللہ کی چیزیں کہاں اور کس طرح ایک ہیں؟
۱۹۔ آپ نے دنیا کی جمع دیکھی ہے، مگر خدا کی جمع اس سے مختلف ہے، مثلاً ۱+۱+۱+۱+۱+۱+۱+۱+۱=۹=۱، یہ نو مختلف چیزوں کا مجموعہ اور پھر اس کا واحد (۱) ہے، ایسی وحدت سے متعلق قرآنِ حکیم میں کئی اشارے موجود ہیں،

۱۲۰

جیسے لپیٹنا (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) متراکب (۰۶: ۹۹)، لفیف (۱۷: ۱۰۴) رکام (۲۴: ۴۳) عدداً (۷۲: ۲۸) وغیرہ، آپ نے اس کورس میں یہ نکتہ کس طرح سمجھا ہے؟
۲۰۔ رفعِ زمان کا تصوّر کس طرح ہے؟ آپ وضاحت کر کے بتائیں، آیا یہ درست ہے کہ خدا کے نزدیک کوئی وقت ماضی اور مستقبل کی طرح نہیں؟ بلکہ ہمارا ماضی و مستقبل اس کے حضور میں حال ہی حال ہے؟ بتائیں کہ وہ کس طرح اور کیوں کر ایسا ہے؟
۲۱۔ آپ ازل و ابد کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں، وہ بیان کریں، عالمِ شخصی کا ازل سے کیا رشتہ ہے؟
۲۲۔ کتابِ وجہِ دین گفتار نمبر ۳۳ کے آخر میں دیکھ کر بتائیں: وہ پانچ حضرات کون ہیں، جن کے توسط سے ایک کو پہچانا جاتا ہے؟ اور لاحقِ قائم کون ہے؟
۲۳۔ کہتے ہیں کہ ہر تاویل مرتبۂ عقل پر جا کر جمع ہو جاتی ہے، آیا آپ اس کی کوئی مثال دے کر سمجھا سکتے ہیں؟
۲۴۔ آپ نے قرآنی علاج کا بغور مطالعہ کیا ہوگا، اس میں کون سا مضمون بہترین لگتا ہے؟ اور کون سا نقشہ سب سے اچھا ہے؟

۱۲۱

۲۵۔ آج کل اڑن طشتریوں کا قصّہ بڑا عجیب و غریب ہے کیا ان کا قرآن میں کوئی ذکر موجود ہے؟ اگر ہے تو کس سورہ میں؟
۲۶۔ اصحابِ کہف کا معجزہ عالمِ شخصی میں واقع ہوتا ہے، سو آپ بتائیں کہ سگِ اصحابِ کہف کی کیا تاویل ہو سکتی ہے؟
۲۷۔ “ام الکتاب ظاہراً الحمد للہ ہے، اور باطناً مرتضیٰ علی علیہ السلام”۔۔۔ یہ ارشادِ نبوّی آپ نے کس کتاب میں پڑھا ہے؟
۲۸۔ کلمۂ باری کا دوسرا نام کیا ہے؟ جدّ کس فرشتے کو کہتے ہیں؟ تائید سے کیا مراد ہے؟ تاویل کی تشبیہ شہد سے دی گئی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟
۲۹۔ کہا جاتا ہے کہ عالمِ صغیر / عالمِ شخصی میں سب کچھ ہے، اگر ایسا ہے تو شہرِ بابل اور ہاروت و ماروت کی مثال کیا ہو سکتی ہے؟
۳۰۔ ایک مشہور حدیثِ قدسی کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک گنجِ مخفی ہے اب سوال اٹھتا ہے کہ یہ خزانہ کس کے لئے ہے؟ کیونکہ خزانہ اپنے آپ کے لئے تو نہیں ہوتا۔

۱۲۲

۳۱۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے، وہ بس خیر ہی خیر ہے (۰۳: ۲۶) مگر شر نہیں، پھر یہ شر کہاں سے اور کس طرح پیدا ہوا؟ آپ اس کی حقیقت بیان کریں۔
۳۲۔ قارون کون تھا؟ آیا وہ ایسے شخص کی مثال نہیں جو روحانی طور پر بہت آگے جاتا ہے مگر علمی زکات دینے سے کنجوسی کرتا ہے؟
۳۳۔ آپ کے نزدیک تصوّرِ آفرینش کیسا ہے؟ آیا خط (لکیر) کی طرح ہے؟ یا دائرہ جیسا ہے؟ کیا آپ تخلیق در تخلیق کو مانتے ہیں؟ وضاحت کریں۔
۳۴۔ آپ نے خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کی کتنی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے؟ آپ کو کونسی کتاب زیادہ پسند ہے؟ آپ نے کتنے کیسٹوں کو سنا ہے، جبکہ کیسیٹ ایک ہزار سے زیادہ ہیں؟ یہ تو ماسٹرز کی بات ہے، اور کاپیوں کا اندازہ نہیں۔
۳۵۔ آیا آپ ہماری کتابوں کے پھیلاؤ کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟ جب کوئی کتاب چھپ جاتی ہے، تو وہ کم از کم ایک یا دو ہزار کی تعداد میں چھپتی ہے، اس حساب سے تقریباً ایک لاکھ کتابیں دنیائے اسماعیلیّت میں پھیل رہی ہیں، خداوندِ پاک کا بہت بڑا احسان ہے، جس کے لئے ہمیں بہت

۱۲۳

زیادہ شکر گزار ہونا ہے۔
۳۶۔ افاداتِ کتب کن وسائل و ذرائع سے پھیل سکتے ہیں؟ علماء، فضلاء، مبلغین، واعظین، معلّمین، معلّمات، طلبہ، طالبات، اور خواندہ حضرات کے توسط سے۔
۳۷۔ اسلام، ملک، جماعت اور انسانیّت کی بہتر خدمت قلم ہی سے ہو سکتی ہے، کیا آپ اس بات کو مانتے ہیں؟ یا اس سے کوئی بہترین خدمت تجویز کر سکتے ہیں؟
۳۸۔ آپ یہ بتائیں کہ امامِ عالی مقام کے دروازے ظاہراً و باطناً دو ہیں، یا صرف ایک ہے؟ اگر آپ مانتے ہیں کہ دو ہیں، تو پھر آپ کس کو ترجیح دیں گے؟
۳۹۔ کیا آپ ہر صبح اپنے مخالفین کے حق میں نیک دعا کرتے ہیں؟ اگر نہیں کرتے ہیں، تو یہ آپ کی روحانی اور علمی ترقی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
۴۰۔ آیا آپ جملہ حکمتوں کی کلید (ذکرِ الٰہی) کو جانتے ہیں؟ اگر جانتے ہیں اور اس سے بطریقِ احسن کام لیتے ہیں تو یہ آپ کی بہت بڑی سعادت ہے۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی، ۸۸/۲/۱۰

۱۲۴

قرآنی حکمتیں
عددی تاویل

جملِ کبیر

ی ط ح ز و ھ د ج ب ا
۱۰ ۹ ۸ ۷ ۶ ۵ ۴ ۳ ۲ ۱
ر ق ص ف ع س ن م ل ک
۲۰۰ ۱۰۰ ۹۰ ۸۰ ۷۰ ۶۰ ۵۰ ۴۰ ۳۰ ۲۰
غ ظ ض ذ خ ث ت ش
۱۰۰۰ ۹۰۰ ۸۰۰ ۷۰۰ ۶۰۰ ۵۰۰ ۴۰۰ ۳۰۰

جملِ ایقغ

ھ ن ث د م ت ج ل ش ب ک ر ا ی ق غ
۵ ۴ ۳ ۲ ۱
ط ص ظ ح ف ض ز ع ذ و س خ
۹ ۸ ۷ ۶

۱۲۵

مقطعاتِ اساسی

ع ط ص س ر ح الف حروفِ مقطعات
۷ ۹ ۹ ۶ ۲ ۸ ۱ جملِ ایقغ
ی ھ ن ق م ل ک حروفِ مقطعات
۱ ۵ ۵ ۱ ۴ ۳ ۲ جملِ ایقغ

یہ حروف چودہ ہیں

ب ۲ پ
ت ۴۰۰ ٹ
ج ۳ چ
د ۴ ڈ
ز ۷ ژ
ر ۲۰۰ ڑ
ک ۲۰ گ

 

۱۲۶

پیغمبر اور امام

وَ اَحْصٰى كُلَّ شَیْءٍ عَدَدًا (۷۲: ۲۸)

اسمِ امام اسمِ پیغمبر حسابِ جمل مقطعات کتنے حروف کا شمار
علی محمد ۹۰ ص یک حرفی ۱
۱۰۰ ق یک حرفی ۲
ع=۷۰ م=۴۰ ۵۰ ن یک حرفی ۳
ل=۳۰ ح=۸ ۴۸ حم دو حرفی ۴
ی=۱۰ م=۴۰ ۶۹ طس دو حرفی ۵
۱۱۰ د=۴ ۱۴ طہ دو حرفی ۶
۰ ۹۲ ۷۰ یس دو حرفی ۷
۱ ۲ ۲۳۱ الر سہ حرفی ۸
۱ ۹ ۷۱ الم سہ حرفی ۹
۲ ۱۱ ۱۰۹ طسم سہ حرفی ۱۰
جملِ اصغر ۱ ۲۷۱ المر چہار حرفی ۱۱
۱ ۱۶۱ المص چہار حرفی ۱۲
۲ ۲۷۸ حم۔عسق پنج حرفی ۱۳
جملِ اصغر ۱۹۵ کھیعص پنج حرفی ۱۴

۱۲۷

اسمِ امام اسمِ پیغمبر حسابِ جمل مقطعات کتنے حروف کا شمار
۱۷۵۷
۷
۵
۷
۱
۲۰
۰
۲
۲
جملِ اصغر

 

 

نزولِ قرآن سے قبل عبرانی لوگ حروف سے تحریر کے علاوہ گنتی کا کام بھی لیتے تھے، اُس زمانے تک اعداد کی شکلیں ایجاد نہیں ہوئی تھیں، لہٰذا انہوں نے ہر حرف کا ایک عدد متعین کر لیا تھا، عبرانی حروف جب عرب میں منتقل ہوئے، تو یہ روایت بھی عربوں میں منتقل ہوگئی۔

سورۂ جنّ کی آخری آیۂ کریمہ (۷۲: ۲۸) میں بنظرِ حکمت دیکھئے، اس کی دیگر حکمتوں کے ساتھ یہ بھی ہے کہ ہر چیز ایک عدد کے تحت ہے یا عدد میں محدود و معدود ہے، اور اہلِ دانش کو اس حقیقت کا علم ہے کہ خدا کے اعداد زندہ ہیں، جس طرح خدا کے ایام زندہ ہیں، اور اللہ کی ہر چیز زندہ ہوا کرتی ہے۔

(بحوالۂ کتاب اردو رسم الخط، سید محمد سلیم مقتدرہ قومی زبان)

۱۲۸

حسابِ جمل علیا ولی اللہ حسابِ جمل محمد رسول اللہ جملِ اصغر حسابِ جمل مقطعات شمار
۷۰ ع ۴۰ م ۹ ۹۰ ص ۱
۳۰ ل ۸ ح ۱ ۱۰۰ ق ۲
۱۰ ی ۴۰ م ۵ ۵۰ ن ۳
حسابِ جمل علیا ولی اللہ حسابِ جمل محمد رسول اللہ جملِ اصغر حسابِ جمل مقطعات شمار
۱ ا ۴ د ۳ ۴۸ حم ۴
۶ و ۲۰۰ ر ۶ ۶۹ طس ۵
۳۰ ل ۶۰ س ۵ ۱۴ طہ ۶
۱۰ ی ۶ و ۷ ۷۰ یس ۷
۱ ا ۳۰ ل ۶ ۲۳۱ الر ۸
۳۰ ل ۱ ا ۸ ۷۱ الم ۹
۳۰ ل ۳۰ ل ۱ ۱۰۹ طسم ۱۰
۵ ھ ۳۰ ل ۱ ۲۷۱ المر ۱۱
۲۲۳ ۵ ھ ۸ ۱۶۱ المص ۱۲
۳ ۴۵۴ ۸ ۲۷۸ حم۔عسق ۱۳
۲ ۴ ۶ ۱۹۵ کھیعص ۱۴
۲ ۵ ۷۴
۷ ۴ ۴
۱۳ ۷
۱۱

 

۱۲۹

حسابِ جمل علیا ولی اللہ حسابِ جمل محمد رسول اللہ جملِ اصغر حسابِ جمل مقطعات شمار
۷ ۳ ۱
۴       ۱ ۱
۱۱ ۴ ۲
۱ نور علیٰ نور جملِ اصغر
۱
۲ نور علیٰ نور کےمعنی

اگرچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآنِ پاک میں ظاہر ہیں پوشیدہ ہرگز نہیں، لیکن آپ ہی کے ارشادِ مبارک کے حوالے سے مولا علیؑ آنحضرتؐ کے علم و حکمت کا دروازہ ہیں، لہٰذا حروفِ مقطعات نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ نبی اور علی نورٌعلیٰ نور کی عملی تفسیر و تاویل ہیں۔

نورٌعلیٰ نور (روشنی پر روشنی ہے) ان تین الفاظ میں بطریقِ حکمت دو قسم کے تجدّدِ امثال کا ذکر فرمایا گیا ہے: شعلۂ چراغ کا تجدّد، اور ایک چراغ سے دوسرے چراغ کو روشن کرنے کا تجدّد، یعنی اشخاصِ نبوّت کے بعد اشخاصِ امامت میں سلسلۂ نور کا ہمیشہ جاری رہنا۔

۱۳۰

عددی تاویل حدودِ دین سے متعلق

ترتیبِ عددی حدودِ دین جملِ کبیر حروفِ نورانی شمار
۱ مستجیب ۱ الف ۱
۲ ماذونِ اصغر ۸ ح ۲
۳ ماذونِ اکبر ۲۰۰ ر ۳
۴ داعئ مکفوف ۶۰ س ۴
۵ داعئ مطلق ۹۰ ص ۵
۶ حجتِ جزیرہ ۹ ط ۶
۷ حجتِ اعظم ۷۰ ع ۷
۸ امامِ زمان ۲۰ ک ۸
۹ اساس / علی ۳۰ ل ۹
۱۰ ناطق / محمد ۴۰ م ۱۰
۱۰۰ نفسِ کل ۱۰۰ ق ۱۱
۱۰۰۰ عقلِ کل ۵۰ ن ۱۲
۵ ھ ۱۳
۱۰ ی ۱۴
۶۹۳

 

۱۳۱

جملِ کبیر
۳
۹
۶
۱۸
۸
۱
۹
جملِ اصغر

 

قرآنِ حکیم میں جو حروفِ مقطعات ہیں وہ اساسی طور پر چودہ ہیں جن کے حسابِ جمل کا مجموعہ ۶۹۳ بنتا ہے، اور اس کا جملِ اصغر ۹ نکلتا ہے، جو اساس یعنی علی کے مرتبے کی طرف اشارہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ حروفِ مقطعات جیسے قرآنی اسرار حضرتِ علی علیہ السّلام کے نور سے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

علمِ الٰہی کا دروازہ آنحضرت ہیں، علمِ نبوّت کا باب اساس ، اور علمِ اساس کا واحد گیٹ امامِ زمانؑ ہیں، اور یہ حکمت آیۂ اطاعت (۰۴: ۵۹) کی گہرائی میں موجود ہے، ملاحظہ ہو:

۱۳۲

منگل ۲۱ رجب المرجب ۱۴۰۹ھ / ۲۸ فروری ۱۹۸۹ء

۱۳۳

 

علمی فکر کے کرشمے

۱۔ کائنات ظاہراً و باطناً تین انتہائی عظیم چیزوں پر مبنی ہے: جسمِ کلّی، عالمگیر روح، اور عالمگیر عقل، اسی قانون کے مطابق انسانی وجود بھی تین اشیاء کا مجموعہ ہے : جسم، روح، اور عقل، سب کو معلوم ہے کہ جسم سے روح افضل و برتر ہے اور روح سے عقل ارفع و اعلیٰ ہے، اور عقلی قوّتوں میں سے قوّتِ فکر کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے، چنانچہ اگر اسے نورِ ہدایت کی روشنی سے فیض مل رہا ہو، تو وہ اپنے دائرۂ اختیار میں بہت کچھ کام کر سکتی ہے، مسائل کے بہت سے عقدے کھول سکتی ہے، اور علم و حکمت کی بے پناہ اور لازوال دولت حاصل کر سکتی ہے، یہی سبب ہے کہ قرآنِ پاک نے بنی نوع انسان کو بار بار تفکر و تدبّر کی طرف توجہ دلائی ہے، اور مختلف طریقوں سے اس کی تاکید کی گئی ہے، فکر کی تشویق و ترغیب اور پُرزور دعوت صرف یہاں تک محدود نہیں، بلکہ اس سلسلے میں ان لوگوں کی بڑی سخت مذمت کی گئی ہے، جو

۱۳۴

اس عظیم خداداد صلاحیت سے کام نہیں لیتے، تاکہ اس سے اہلِ دانش کو عبرت حاصل ہو۔

۲۔ مقاماتِ فکر: علمی غور و فکر کے لئے کوئی خاص مقام ہونا چاہئے، ہاں وہ مقامِ مخصوص قرآنِ حکیم ہے اور آفاق و انفس بھی (۳۸: ۲۹،  ۴۱: ۵۳) کیوں کہ تفکر و تدبر کا گہرا تعلق آیاتِ قدرت و حکمت سے ہے، اور ان آیات کے یہی تین مقامات ہیں: قرآن، عالمِ ظاہر، اور عالمِ شخصی، یعنی انسان کا باطن یا روح۔

جب خداوندِ عالم بکلامِ حکمت یہ حکم دیتا ہے کہ تم قرآن، کائنات اور اپنی ذات میں بار بار سنجیدگی سے غور و فکر کرتے رہو تو اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ ان کی آیات یعنی نشانیوں کو نگاہِ ظاہر سے دیکھنا کافی نہیں، جبکہ “فکر” کسی چیز کی معنوی یا باطنی گہرائی میں عقلی طور پر جا کر تحقیق کرنے کا نام ہے، چنانچہ جب قرآنی آیات میں تفکر و تدبر لازمی ہے (۱۶: ۴۴) تو اس کا مقصد یہ ہوا کہ اس کے ذریعے باطنی حکمتوں کا راستہ ملے اور تنزیل کے ساتھ ساتھ تاویل سے بھی آگہی ہو، اور اگر قرآنِ پاک کے صرف ظاہری معنی ہی پر اکتفا کرنا مقصود ہوتا، تو اس میں غور و فکر کا کوئی حکم نہ ملتا (۴۷: ۲۴)۔

۱۳۵

۳۔ علمی غور و فکر کا خاص وقت: ویسے تو علم و حکمت سے متعلق غور و فکر جیسا عقلی عمل ہر وقت ممکن ہے، تاہم جولانئ فکر کے لئے ایک خاص وقت مقرر ہے، اور وہ ہے ہر مکمل اور بھرپور عبادت و بندگی علی الخصوص گریہ و زاری کے فوراً بعد کا وقت، جس میں نورِ خداوندی کی نورانی تائید فکرِ مومن کی رہنمائی کرتی ہے (۰۳: ۱۹۱) کیونکہ ذکرِ خدا ایک ایسا ذہنی انقلاب اور باطنی تطہیر و تزکیہ ہے کہ اس کی بدولت نہ صرف فکر ہی پاک صاف ہو جاتی ہے بلکہ اس کی برکتوں سے جملہ حواسِ ظاہری و باطنی کی بخوبی پاکیزگی ہو جاتی ہے، پس عبادت اور یادِ الٰہی کی نورانیّت میں علمی غور و فکر اور خصوصی مطالعہ ضروری ہے۔

۴۔ فکر اور آیات و امثال: فکر دراصل آیات و امثال کے باطن میں جانے کے لئے کلیدی اہمیت رکھتی ہے، جس سے علم و عرفان کے ابواب مفتوح ہو جاتے ہیں، اور قرآنِ کریم (۱۰: ۲۴،  ۱۳: ۰۳،  ۱۶: ۱۱،  ۱۶: ۶۹،  ۳۰: ۲۱،  ۳۹: ۴۲،  ۴۵: ۱۳) میں جس شان سے اہلِ فکر کی تعریف کی گئی ہے، اس سے یہ حقیقت صاف عیان و ظاہر ہو جاتی ہے کہ آیاتِ قرآنی کی تمام تر حکمتوں کا رخ سوچنے والوں کی طرف ہے

۱۳۶

اور حکمت و مصلحتِ خداوندی کا قانون یہی ہے۔

قرآنِ حکیم دو قسم کی مثالوں سے مملو ہے: ایک طرح کی مثالیں وہ ہیں جن کو لوگ جانتے ہیں کہ یہ مثالیں ہیں، کیونکہ وہ ظاہر ہیں، مگر دوسری مثالیں ایسی صورت میں پوشیدہ ہیں کہ صرف خواص ہی ان کی شناخت کر سکتے ہیں، جیسی جنّت کی چار نہریں اور دوسری بہت سی نعمتیں، جو دنیوی اور مادّی چیزوں کے نام سے مذکور ہیں، حالانکہ وہ مثالیں ہیں اور ان کے ممثولات عقلی اور روحانی نعمتیں ہیں، تاکہ اسی طرح اہلِ فکر ہی بطورِ خصوصی ان کی معرفت حاصل کریں۔ (۵۹: ۲۱)۔

۵۔ فکر تائید میں فنا ہو جاتی ہے: اگر تائید خفیف ہے تو فکر کا وجود قائم رہتا ہے اور وہ خوب کام کرتی رہتی ہے، اور جہاں مکمل تائید کا ظہور ہونے لگتا ہے، وہاں فکر فنا ہو کر خوب سے خوب تر تائیدی عمل ہو جاتا ہے، جیسے برف اور یخ کا منجمد وجود پانی کی شکل میں فنا ہو جاتا ہے، یا جس طرح پانی فنا ہو کر بھاپ کی صورت اختیار کر لیتا ہے، یا جیسے تیل جل جل کر روشنی بن جاتا ہے۔

۶۔ عدمِ فکر اور مسلسل ذکر: اگر یہاں یہ سوال کیا جائے کہ

۱۳۷

جب کوئی حقیقی مومن فکرِ علمی سے بے نیاز ہو کر دائمی ذکر ہی میں مصروف و مستغرق رہتا ہے، تو اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ جواب ہے کہ اگر ایسے ذاکر کا ذکر ہر طرح سے درست اور کامیاب ہے، تو اس حال میں خود بخود تائیدی اور لدنی علم کے لمحات سامنے آتے رہیں گے، کیونکہ فکر اگرچہ اس وقت فنا یا غائب ہو چکی ہے، لیکن اس کا مقصد موجود ہو جاتا ہے۔

۷۔ علمی فکر ایک خاص عبادت: عبادت و بندگی کے بہت سے مدارج اور اقسام ہیں، چنانچہ وہ خاص بھی ہے، اور عام بھی، ظاہری بھی ہے، اور باطنی بھی، علمی بھی ہے اور عملی بھی، جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی، پس وہ فکر جو علم سے متعلق ہوتی ہے، ایک خاص ترین عبادت ہے کیونکہ وہ باطنی، علمی اور عقلی عبادت ہے۔

۸۔ فکر اور علم الیقین: فکر کی اصلاح، درستی اور ترقی کا انحصار بندگی کے علاوہ علم الیقین پر بھی ہے، جس کے بغیر فکری کوشش رائگان جاتی ہے، لہٰذا علم الیقین اپنی جگہ بے حد ضروری ہے، جس کی روشنی اور مدد کے بغیر انسانی فکر دینی میدان میں کوئی مفید کام نہیں کر سکتی ہے۔

۹۔ فکر اور تقویٰ: جس دل میں خوفِ خدا اور عاجزی

۱۳۸

و انکساری نہ ہو، وہاں علمی فکر کچھ بھی کام نہیں کر سکتی ، لہٰذا کامیاب ذکر و عبادت کے واسطے جن ظاہری و باطنی کیفیات و صفات کی ضرورت ہوتی ہے، وہی اوصاف علمی فکر کے لئے بھی ضروری ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ علمی فکر کے لئے دل و دماغ کی مثالی حالت و کیفیت وہ ہے جو کسی بہترین اور کامیاب ترین عبادت اور گریہ و زاری کے دوران پائی جاتی ہے کہ اس میں خودی اور انا خاموش یا کسی حد تک فنا ہو جاتی ہے یعنی اس وقت بدرجۂ انتہا عجز و انکساری پائی جاتی ہے، اور بے حد سنجیدگی کا عالم ہوتا ہے پس فکر ایسے ہی حال میں نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے۔

۱۰۔ فکر اور عقلی لذّت: شاید آپ یہ حقیقت جانتے ہیں کہ بنی نوعِ انسان کی لذّتیں اور مسرّتیں تین درجات پر منقسم ہیں: ادنیٰ لذّتیں جو مادّی نعمتوں سے حاصل ہوتی ہیں، اعلیٰ لذّتیں جو روحانی نعمتوں یعنی عبادات کی پیداوار ہیں، اور اعلیٰ ترین لذّتیں، جو عقلی نعمتوں سے ملتی ہیں اور یہ بلند ترین آلاء (نعمتیں) علمی صورت میں ہیں، پس نتیجہ خیز اور مفید فکر سے جو لذّت و شادمانی حاصل ہوتی ہے، وہ عقلی قسم کی ہوا کرتی ہے، اور ایسی لذّت و مسرّت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے عقل کو تقویت

۱۳۹

ملتی ہے، جیسے ایک تندرست آدمی کو جسمانی غذا کھانے سے مزہ اس لئے آتا ہے کہ یہ خوراک اس میں جزوِ بدن بن جانے والی ہے، اور کسی بیمار شخص کو مزہ اس سبب سے نہیں ملتا کہ طعام اسے فائدہ نہیں دے سکتا۔

۱۱۔ کامیاب فکر کی مثالیں: کامیاب علمی فکر کی مثال ایسی ہے، جیسے کوئی خوش نصیب آدمی کنجی (کلید) سے اپنے خزانے کے مقفل دروازے کو کھول رہا ہو، یا جیسے کوئی غواص سمندر کی گہرائی میں غوطہ لگا کر گوہرِ یکدانہ نکالتا ہو، یا جس طرح کوئی عطار مہکتے ہوئے پھولوں سے عطر کشید کر رہا ہو، یا مثلاً بامراد تاجر ریشمی رومال کی پوٹلی سے سونا، چاندی، اور موتی نکالتا ہو، یا کوئی سائنسدان اس مادّی کائنات کا کوئی بھید ظاہر کرتا ہو۔

۱۲۔ علمی فکر کے درجات: علمی فکر کے مختلف درجات مقرر ہیں ظاہر ہے کہ مومنین کے فکری عمل میں سب سے زیادہ آسانی اُس وقت پیدا ہو جاتی ہے جبکہ وہ روحانیّت کے مراتبِ عالیہ پر فائز ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ صرف اسی حال میں بحقیقت “اہلِ فکر” قرار پاتے ہیں۔

انتہائی عاجزانہ دعا ہے کہ پروردگارِ عالم بحرمتِ رسولِ

۱۴۰

اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جملہ اہلِ ایمان کو تمام آیات میں خواہ وہ قرآنِ پاک کی ہوں یا آفاق و انفس کی، فکری ہدایت و تائید اور فتح و کشائش عنایت فرمائے! آمین!!

نصیر الدین نصیر ہونزائی
۶ رمضان المبارک ۱۴۰۹ھ
۱۳ اپریل ۱۹۸۹ء

نوٹ: مقالوں اور کتابوں کا عظیم ترین مقصد یہ ہے کہ قارئین کو قرآنی حکمت سے آگاہ کیا جائے، جس کے لئے جا بجا حوالہ جات دیئے ہوئے ہیں، تا کہ متعلقہ آیاتِ کریمہ کا بغور مطالعہ کیا جائے، پس عزیزوں کے لئے یہ امر از حد ضروری ہے کہ محولہ آیتوں کو قرآنِ کریم میں دیکھیں اور پڑھیں، تاکہ ان کے ذخیرۂ قرآن فہمی میں خوب اضافہ ہو۔

کوئی تحریر کتنی مفید اور اعلیٰ کیوں نہ ہو لیکن قرآنی علم کے بغیر ہر بیان بے جان ہے کیونکہ علم و حکمت کا سرچشمہ قرآن ہی ہے۔ لہٰذا آپ کنوزِ آیات کے در و گوہر سے دامنِ مقصود کو بھرتے رہنا، تا کہ رفتہ رفتہ آپ کو خزائنِ حکمت حاصل ہوں، آمین
خانۂ حکمت برانچ

ذوالفقار آباد، گلگت

۱۴۱

امریکا سے چار سوال

ہمارے بہت ہی عزیز روحانی بھائی اور علمی دوست شمس الدین جمعہ مومن مخلص اور عاشقِ علم و حکمت ہیں، محترم نور الدین راجپاری نے قبلاً جیسی اُن کی تعریف کی تھی، واقعاً شمس الدین ایسے ہی قابلِ توصیف ہیں، آپ امریکا جیسے عظیم ملک کی مادّی ترقی کے طوفان میں رہتے ہوئے بھی روحانی علم کے لئے بے قرار ہیں، اور خلوص و محبت کے جذبات سے سرشار ہو کر علمی سوالات کرتے ہیں:
سوال نمبر ۱: کتابِ مفتاح الحکمت صفحہ ۱۰۶ اور ۱۰۷ پر جو سولہ مدارج کا ذکر ہے: سات آسمان + سات زمین + عقلِ کل + نفسِ کل = ۱۶، اس کی مختصر تشریح ڈایاگرام کی مدد سے فرمائیں۔

جواب: الف: اس ڈایاگرام (Diagram)  کے لئے ایک پیاز کو گولائی کے درمیان سے کاٹ لیں، اور فرض کریں کہ وہ تہ در تہ یا پوست در پوست سولہ حصوں پر مبنی ہے، اور یہی

۱۴۲

مثال حکمائے قدیم کے نزدیک کائناتِ ظاہر کی ہے، مگر اس میں یہ بات ضرور یاد رہے کہ عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ یعنی عرش و کرسی جسمانی نہیں ہیں، بلکہ یہ عقلی اور روحانی مرتبت میں عالمِ جسمانی پر محیط ہیں۔۔ جواب: ب: آپ کاغذ پر پرکار سے ایک کامل دائرہ بنا لیں، پھر اسی دائرے پر پندرہ دائرے اس طرح بنائیں کہ کہیں علٰحیدگی اور دوئی ہی نظر نہ آئے، اب صرف آپ ہی کو علم ہے کہ دائرہ ایک بھی ہے اور سولہ بھی، اور دوسرا کوئی جو اس راز سے واقف نہ ہو، وہ سمجھے گا کہ یہ ایک ہی دائرہ ہے۔ جواب: ج: چھ عظیم حضراتِ رسل اور حضرتِ قائم علیہم السّلام سات آسمان ہیں، ان کے حجج (حجتان) سات زمین ہیں، نفسِ کلّی کرسی اور عقلِ کلّی عرش ہے، یہ سولہ مدارج ہوئے۔

سوال نمبر ۲: رسولِ اکرمؐ کی ایک حدیثِ شریف ہے: “علم کو طلب کرتے رہو اگرچہ اس کی خاطر تمہیں چین جانا پڑے۔” اس حکم میں ملکِ چین کی کیا خصوصیت ہے؟ اس حدیث کی تاویلی حکمت بیان کریں۔ جواب: یہ ارشادِ نبوّی ظاہر میں ایک تاکیدی حکم اور ایک مثال ہے، اور باطن میں ایک حقیقتِ واقعی ہے، چنانچہ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ

۱۴۳

صلوات اللہ علیہ کی امامتِ عالیہ کے زمانے میں ملکِ چین میں قیامتِ صغریٰ برپا ہوئی، جس سے علم و معرفت حاصل کرنے کے لئے بے شمار روحیں چین چلی گئیں۔
یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشین ہو کہ جس طرح پرسنل ورلڈ (عالمِ شخصی) میں عالمِ کبیر سما جاتا ہے، اسی طرح قیامتِ صغریٰ میں قیامتِ کبریٰ پوشیدہ ہوتی ہے، اور اس قانون کی بدولت ہر عارف کی معرفت کامل و مکمل ہو جاتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا و رسول کا ہر حکم انتہائی جامعیّت رکھتا ہے۔

سوال نمبر ۳: اگر یہ مان لیا جائے کہ یو۔ایف۔اوز (UFOs = اڑن طشتریاں ) روحانی مخلوق ہیں تو ایک عام آدمی کے لئے یہ کیوں کر ممکن ہوا کہ انہیں دیکھ سکتا ہے، جبکہ اس کے پاس روحانی علم نہیں؟ جواب: الف: جس طرح لوگ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معرفت کے بغیر بھی دیکھ سکتے تھے اور امامِ عالی مقام کو بھی چشمِ ظاہر سے دیکھا جا سکتا ہے، اسی طرح اڑن طشتری کو دو طرح سے دیکھا جا سکتا ہے معرفت کے بغیر، اور معرفت کے ساتھ۔ جواب: ب: حضرت ابراہیم علیہ السّلام اور حضرت لوط علیہ السّلام کا قصّۂ قرآن پیشِ نظر ہو کہ

۱۴۴

جب فرشتوں کا ظہور ہوتا ہے، اس میں بعض دفعہ فرشتے پیغمبروں کو بھی انجان لگتے ہیں، مگر ایسے میں خدا کے حکم سے ملائک خود اپنا تعارف کرا دیتے ہیں، یہ عجیب پُرحکمت اشارہ ہے(۱) ، لیکن حضرتِ لوطؑ  کے منکرین نے فرشتوں کو قطعاً نہیں پہچانا، وہ ان کو بشر اور خوبرو نوجوان سمجھ رہے تھے۔
سوال نمبر ۴: اگر آپ جماعت کے موکھی صاحب ہوتے تو آپ جماعت کو امامِ عالی مقام کے قریب لانے کے لئے کون سا طریقہ اختیار کر لیتے؟ آپ کا علمی طریقِ کار کیا ہوتا؟ جواب: یہ سوال ایک اعتبار سے مجھے مشکل لگتا ہے، حالانکہ ہے سب سے آسان، تاہم عرض کرنا ہی پڑے گا کہ اگر میں موکھی ہوتا تو ہر ہوشمند اور علم دوست موکھی کی طرح جماعت میں حقیقی علم کو پھیلانے کے لئے ہر ذریعہ سے کام لیتا، ایسے واعظین حضرات کی حوصلہ افزائی کرتا، جو مفید علم کو بیان کرتے ہوں، ان کو پیار سے کچھ مشورے بھی دیتا، متعلقہ ادارے سے رابطہ بھی رکھتا، بصورتِ ممکن ادارے سے بصد عاجزی گذارش کرتا کہ جماعت کو فلان فلان علم کی شدید ضرورت ہے مخیر حضرات سے درخواست کرتا کہ فروغِ علم کے لئے ادارے سے تعاون کریں، کبھی کبھی خود بھی علم کی باتیں کرتا،

۱۴۵

نئی نسل کی علمی اور دینی پرورش کے لئے سعی کرتا، وغیرہ وغیرہ، لیکن موکھی صاحب کا دائرۂ اختیار محدود ہوتا ہے جبکہ اس سلسلے کے تمام پروگرامز طریقہ بورڈ میں بنتے ہیں۔ والسلام۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
خانۂ حکمت برانچ، ذوالفقار آباد ، گلگت
۱۵ رمضان المبارک، ۱۴۰۹ھ
۲۲ اپریل، ۱۹۸۹ء

(۱)۔ اشارہ یہ ہے کہ امام کی معرفت امام ہی کے وسیلے سے حاصل ہوتی ہے۔

۱۴۶

عزیزانِ کراچی، لنڈن اور امریکا

میری اپنی جان جیسے پیارے بچے۔۔ میری عزیز روح کے پسندیدہ اجزاء۔۔ میری شخصی دنیا کے عظیم خزانے۔۔ میرے کمزور ہاتھ اور قلم کے محرکین۔۔ میری پیاری پیاری کتابوں کی بولتی روحیں۔ میرے امامِ برحقؑ کے علمی لشکر اور میری بہشت کے پُرثمر باغات۔۔ میں گریہ و زاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں سجدہ کر کے شرق و غرب اور شمال و جنوب کے عزیزان کے حق میں یا علیؑ مدد کی خصوصی دعا کرنا چاہتا ہوں۔

کراچی، لنڈن اور امریکا سے میرے عزیزان کے ایسے خطوط موصول ہوئے ہیں کہ ان کو پڑھ پڑھ کر میں احسان مندی اور شکر گزاری کے آنسو بہا بہا کر عاجزی کا مزہ لیتا ہوں،

۱۴۷

کسی عزیز کا خط زیادہ سے زیادہ شیرین اُس وقت ہوتا ہے جبکہ اس میں کارکردگی اور خدمات کا ذکر ہو، پروردگارِ عالم ہمارے علمی ساتھیوں پر کتنا شفیق و مہربان ہے کہ اس نے ان کو خدمت کے گوناگون مواقع فراہم کر دیئے ہیں، تا کہ قیامت کے دن عزت کی کمی کا کوئی افسوس نہ ہو، اور ہر خادم وہاں مخدوم (پادشاہ  ۰۵: ۲۰) ہو جائے۔
ہر کہ خدمت کرد اُو مخدوم شد + ہر کہ خود را دید اُو محروم شد۔ (ترجمہ) جس نے خدمات انجام دیں، وہ سردار ہو گیا اور جس نے خود بینی کی وہ عزت سے محروم ہو گیا، قرآنِ کریم میں دیگر عظیم موضوعات کی طرح عزت کا موضوع بھی بڑا پُرحکمت ہے آپ بغور اس کا مطالعہ کریں، شاید حکمت کا کوئی دروازہ کھل جائے اور البتہ یہ راز معلوم ہو جائے کہ خداوندِ عالم مومنین کی عزت کی روحانی اور عقلی پرورش کرتا ہے، اور اسے درجہ بدرجہ آگے بڑھاتا ہے، یہاں تک کہ مرتبۂ فنا فی اللہ حاصل ہو جاتا ہے، اور ساری عزت مل جاتی ہے۔ (۳۷: ۱۸۰،  ۳۵: ۱۰)۔

سورۂ صافات کے اخیر (۳۷: ۱۸۰) میں ارشاد ہے: سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ ۔ تمہارا پروردگار جو

۱۴۸

عزت کا پالنے والا ہے پاک ہے اس سے جو وصف وہ بیان کرتے ہیں۔ عزت خدا و رسول، امیر المومنین اور اہلِ ایمان کے لئے ہے (۶۳: ۰۸) اور ظاہر ہے کہ عزت کے درجات ہیں۔ پس خدائے بزرگ و برتر ہی جس کو چاہے علم و حکمت کی پرورش سے اس کی عزت کو درجۂ اعلیٰ تک بلند کر دیتا ہے، جیسا کہ حدیثِ قدسی کا ترجمہ ہے: اے ابنِ آدم! میری فرمانبرداری کر تاکہ میں تجھ کو اپنی طرح کا زندہ اور امر بناؤں گا، اور ایسا معزز بناؤں گا کہ تو کبھی ذلیل نہ ہوگا، اور ایسا امیر بناؤں گا کہ تو کبھی مفلس نہ ہو گا (المجالس المؤیدیہ، الماءۃ الاولیٰ، ص ۵۵)۔

سوال: جب یہ بات درست اور حقیقت ہے کہ مومن سالک رسولِ اکرمؐ اور امامِ برحقؑ کے وسیلے سے فنا فی اللہ اور بقا باللہ کی انتہائی بلند ترین مرتبت حاصل کرتا ہے اور وہ اس مقام پر خدا سے واصل ہو جاتا ہے، تو کیا پیغمبر اور امام خود واصل باللہ ہیں یا نہیں؟ اگر آپ دونوں کی ذاتِ عالی صفات مرتبۂ بقا باللہ پر خدا سے واصل ہے، تو پھر مومن سالک کے لئے تین فنائیں کیوں کر ہو سکتی ہیں؟

جواب: کسی شک و شبہ کے بغیر پہلے رسول پھر امام بقا باللہ

۱۴۹

کا مرتبہ رکھتے ہیں، یعنی واصل باللہ ہو چکے ہیں، لہٰذا فنا کی سیڑھی دراصل مل کر ایک ہی ہے لیکن ظاہراً تین فناؤں کی تعلیم دی گئی ہے، جس طرح اطاعت ایک بھی ہے اور تین درجوں میں بھی (۰۴: ۵۹) فنا کی تشبیہ و تمثیل سیڑھی سے اس لئے دی گئی کہ یہ کوئی ایک دن کا واقعہ نہیں، بلکہ یہ فنائیت کے چھوٹے بڑے معجزات کا ایک طویل سلسلہ ہے، پس سلسلہ (زنجیر) ایک ہوتا ہے لیکن کڑیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
انائے عُلوی اور انائے سفلی کے نام سے ہر شخص کی دو انائیں ہیں، چنانچہ صوفیانہ فنا کا اطلاق صرف انائے سفلی ہی پر ہوتا ہے، کیونکہ انائے علوی ازلی اور ابدی طور پر اصل سے واصل ہے، یعنی وہ کبھی یک حقیقت (Monoreality) سے الگ ہو کر نیچے نہیں آتی جیسے آفتابِ عالم تاب آسمان سے بذاتِ خود نازل نہیں ہوتا لیکن اس کی روشنی، حرارت اور کرنیں زمین پر اترتی ہیں اور آئینہ وغیرہ میں اس کا عکس نظر آتا ہے۔

فارسی میں یہ ایک عام مثال ہے، مگر خوب ہے: آب آمد، تیمم برخاست (پانی آیا اور تیمم کا حکم اٹھ گیا، یعنی ختم ہو گیا) اسی طرح آپ کے معمولی اور چھوٹے چھوٹے نظریات اس وقت ختم یا متاثر ہو سکتے ہیں، جبکہ اعلیٰ نظریات آپ کے

۱۵۰

سامنے پیش کئے جاتے ہیں، جیسا کہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗؕ ۔ (۲۸: ۸۸) سب چیزیں فنا ہونے والی ہیں بجز اس کے چہرہ کے۔ یعنی جب روحانی ترقی کے سلسلے میں سب سے بڑے دیدار (وجہ = چہرہ) کا مقام آتا ہے تو اس وقت تمام نظریات یکسر ختم ہو جاتے ہیں، مگر چہرۂ خدا کا نظریہ اپنے بہت سے علم و حکمت کے ساتھ باقی رہتا ہے، پس حقیقی علم کا سلسلہ انقلاب در انقلاب ہے، یہاں تک کہ آخری انقلاب آئے، جس کا ذکر ہوا، یہ تمام عزیزوں کے لئے ایک علمی خط ہے، بہت ساری یقینی دعائیں آپ بھی کریں اور ہم بھی کریں، آمین! اور یقینی دعا یہ ہے کہ ہر مومن کی دعا مرفوع ہو کر کلمۂ کُنۡ سے واصل ہو جاتی ہے (۳۵: ۱۰) آپ یقین سے دعا کریں، یقین سے، کہ یہ دعا حکمِ الٰہی میں فنا ہو کر حکم بن جاتی ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۱۷ رمضان المبارک، ۱۴۰۹ھ
۲۴ اپریل، ۱۹۸۹ء

۱۵۱

عزیزانِ شرق و غرب

عزیزانِ شرق و غرب کو خداوندِ قدوس ہر طرح سے سلامت رکھے!

میں اپنے تمام عزیزوں کو اس طرح یاعلیؑ مدد کہنا چاہتا ہوں، جس طرح کبھی کچھ روحوں نے زبانِ روحانی سے کہا تھا، میں نے حلقۂ احباب میں امامِ عالی مقام کے روحانی معجزات کا تفصیل سے ذکر کر دیا ہے، جس میں یقین کرنے والوں کے لئے بے شمار فائدے ہیں، راز گوئی کا یہ طریقہ مطالعۂ کتبِ حقیقی اور خصوصی تقریروں سے بھی بلند تر ہے، امام کے روایتی معجزات اور حقیقی معجزات میں بڑا فرق ہے، وہ نقل در نقل ہیں اور یہ اصل ہیں، ان سے یقینِ کامل حاصل ہو جاتا ہے، بہت سے شکوک و شبہات دور ہو جاتے ہیں اور بنیادی سوالات کے لئے جوابات مہیا ہو جاتے ہیں، خوش بختی سے کئی ساتھیوں کے لئے ایسا ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔

میرے بہت ہی عزیز دوستوں نے ہمیشہ کی طرح لنڈن

۱۵۲

سے خط لکھا ہے کہ میں وہاں جا کر ان سے ملاقات کروں اور اس دفعہ ایسا خط امریکا کے عزیزوں نے بھی تحریر کیا ہے، میرا خیال ہے کہ اگر مولا نے چاہا تو میں دونوں جگہ جاؤں گا اور ضروری طور پر کراچی بھی جاؤں گا اور سفر کا پروگرام بھی وہیں سے بناؤں گا، فی الحال صرف اس خط کی کاپی بطورِ اطلاع دونوں ملک کے جملہ عزیزوں کے پاس جائے گی۔ ان شاء اللہ تاکہ ویزا کے لئے خط بھیجیں اور باقی باتیں میں خود کراچی سے فون پر کروں گا، میرا خیال ہے کہ سفر کراچی سے لنڈن پھر امریکا کی طرف ہو، اور واپسی کے لئے پھر لنڈن اور کراچی ہو، تاکہ یک لخت دور سفر کی زحمت نہ ہو۔

قیامت کے بہت سے پہلو ہیں، ان میں ایک علمی پہلو بھی ہے، چنانچہ قیامتِ صغریٰ جس میں بڑی قیامت پوشیدہ ہے، ہر پہلو سے برپا ہوئی اور حضرتِ قائمؑ نے اپنا کام انجام دیا، پس دانشمندی اسی میں ہے کہ ہم دورِ قیامت کے علم کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کو حاصل کریں، ورنہ مر جانے کے بعد افسوس کرنا پڑے گا، بہت ہی افسوس، اللہ ہمیں نیک توفیق دے!

میں بڑی سنجیدگی سے اس مبارک معجزہ کو بھی دیکھ رہا
۱۵۳

ہوں، علم کے لئے گریہ و زاری، تڑپ، بے قراری، کپکپی، شوق، علمی مجلس کی طرف لپکنا، دن رات انتھک کوشش، اور کتب بینی، ان شاء اللہ جماعت کی علمی خدمت کا شرف حاصل ہو گا۔

آپ کا خادم
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۸۹/۵/۵

۱۵۴

اشارۂ عید

۱۔ عید کی لفظی تحلیل:
مادہ ع و د، العود (ن) کسی کام کو ابتداءً کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہا جاتا ہے، خواہ وہ پلٹنا بذاتہٖ ہو، یا قول و عزم سے ہو (مفردات القرآن) العید وہ ہے جو بار بار لوٹ کر آئے، اصطلاحِ شریعت میں یہ لفظ یوم الفطر اور یوم الاضحی پر بولا جاتا ہے، یہ دن شرعی طور پر خوشی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔

۲۔ روحانی عید:
باطنی ترقی کی ہر منزل ایک حقیقی عیدِ سعید ہے، جن کا ذکر قرآنِ حکیم میں مجموعاً فرمایا گیا ہے، جیسے سب انسانوں کو ملا کر بصیغۂ واحد انسان کہا جاتا ہے، اسی طرح روحانیّت کی تمام عیدیں ایک ہی عید میں جمع ہیں (۰۵: ۱۱۴) جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے: عیسیٰؑ نے عرض کیا: اے خدا! اے پروردگار! ہم پر آسمان سے مائدہ (خوانِ نعمت) نازل فرما تاکہ وہ ہمارے اوّل و آخر کے لئے عید قرار پائے اور تیری طرف سے نشانی (یعنی معجزہ) ہو اور ہمیں روزی عطا فرما تو بہترین روزی دینے والا ہے (۰۵: ۱۱۴)۔
حواری کون تھے؟ حضرتِ عیسیٰؑ کے بارہ حجت

۱۵۵

(۰۵: ۱۱۲) آسمان سے کیا مراد ہے؟ روحانیّت کی بلندی، مائدہ کا کیا مطلب ہے؟ تمام روحانی نعمتوں کا مجموعہ، اوّل و آخر کے لئے عید ہونے کے کیا معنی ہیں؟ روحانیّت و معرفت حدودِ جسمانی کے اوّل سے شروع ہوکر آخر تک پہنچ جائے، یہ روزی کون سی ہے؟ عقلی روزی ہے، یعنی تاویلی حکمت، آیا حکمت سکھائی جاتی ہے یا دی جاتی ہے؟ مرتبۂ علم الیقین پُرحکمت سکھائی جاتی ہے، عین الیقین کے مقام پر اس کا مشاہدہ ہے، اور حق الیقین کی بلندی پر آخری حکمت دی جاتی ہے (۰۲: ۲۶۹)۔

۳۔ حضرتِ آدم کی عید:
روحانی عید سب سے پہلے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے عالمِ شخصی میں بصد خوشی و شکر گزاری منائی گئی، پھر اللہ تعالیٰ کی غیر متبدل سنت کے مطابق سلسلۂ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام میں یہ عیدِ سعید بار بار لوٹ کر آتی رہی، اور حجج و دعاۃ میں بھی، کیونکہ عید تجدّد امثال ہے، لہٰذا یہ پلٹ کر آتی رہتی ہے، اور سب سے بڑی عید مظاہرۂ ازل ہے، جس میں آسمان و زمین کے خزانے مل جاتے ہیں، اور قرآنِ عزیز (۰۵: ۱۱۴) میں ایسی ہی عیدِ سعید کا ذکر ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۱۴ مئی ۱۹۸۹ء

۱۵۶

یہ سوالات ہوئے

 

سوال نمبر ۱: روح اور عذابِ قبر کے بارے میں بنیادی باتیں بتائیں۔
جواب: اسلام میں عذابِ قبر کی روایت اور حکایت موجود ضرور ہے، مگر یہ مسئلہ تاویل طلب ہے، کیونکہ جب انسان کی جسمانی موت کا وقت آتا ہے، تب عزرائیلؑ اس کی روح کو قبض کر لیتا ہے، اسی کے ساتھ جسم روح سے خالی ہو جاتا ہے، پس خاکی قبر میں جو جسد رکھا جاتا ہے، اس میں روح نہیں، وہ تو وہاں پہنچائی جاتی ہے، جہاں اس کا نامۂ اعمال ہے یعنی علیّین یا سجین میں (۸۳: ۱۸،  ۸۳: ۰۷)۔

سوال نمبر ۲: سورۂ یاسین (۳۶: ۵۱) میں ارشاد ہے کہ صورِ قیامت سن کر قبروں کے مردے اٹھ کر اپنے ربّ کی طرف دوڑیں گے۔ اس کی وضاحت کریں۔
جواب: یہ قبریں (اجداث) بظاہر زندہ اور چلتی پھرتی ہیں، یعنی عوام الناس کے اجسام، جن میں ارواح بصورتِ ذراتِ لطیف سوئی ہوئی ہیں،

۱۵۷

اور جب انفرادی قیامت برپا ہو جاتی ہے، تو اس میں صورِ اسرافیل کی آواز کے زیرِ اثر تمام روحیں جاگ اٹھ کر اسمِ اعظم اور مرکزِ قیامت کی طرف دوڑتی ہیں۔

سوال نمبر ۳: جب صاحبِ تاویل صرف وصئ رسول (علیؑ) اور أئمّۂ اولادِ علیؑ ہی ہیں، تو پھر کوئی اور شخص کس طرح تاویل کر سکتا ہے؟
جواب: بموجبِ حدیثِ شریف جس طرح تنزیلِ قرآن پر جنگ کی گئی تھی، اسی طرح اس کی تاویل پر جنگ کی جاتی ہے، پس تاویل ایک قسم کی جنگ ہے، اور جنگ نہ تو سردار کے بغیر ہوسکتی ہے، اور نہ لشکر کے سوا، لہٰذا یہ کہنا درست ہے کہ اس میدان کے تمام سپاہی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کارنامے انجام دے سکتے ہیں، نیز تاویل کی مثال شہد ہے، جس کو بہت سی شہد کی مکھیاں مل کر بناتی ہیں۔

سوال نمبر ۴: خدا قادرِ مطلق ہے، پھر فرشتوں کا تصوّر کہاں تک حق بجانب ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انتہائی کمال یہ ہے کہ اس نے فرشتوں اور دیگر مخلوقات کو پیدا کر کے بہت سے کاموں کی قدرت دی، پس خدا قادرِ مطلق ہے، کیونکہ نہ صرف وہ خود قدرت رکھتا ہے بلکہ وہ دوسروں کو بھی مناسب قدرت دے

۱۵۸

سکتا ہے، جس کی مثال فرشتے ہیں۔

سوال نمبر ۵: ہندوؤں کا نظریۂ تناسخ (آواگون) کہاں تک درست ہے؟ اگر غلط ہے تو کیسے؟
جواب: روح عالمِ امر سے ہے (۱۷: ۸۵) اور جو چیز عالمِ امر سے ہو وہ بذاتِ خود عالمِ خلق میں نہیں آتی، بلکہ یہاں اس کا مادّی سایہ بنتا ہے، اور یہی اسلامی نظریۂ روح ہے، جو تناسخ سے پاک ہے، جس میں روح کو عالمِ عُلوی سے منقطع اور محدود بہ جسم جانا جاتا ہے، اور یہ غلط ہے۔

سوال نمبر ۶: چونکہ خدا کُل ہے، اور مخلوقات اس کی اکائیاں ہیں، ہر اکائی کا کُل سے وہی رشتہ ہے جو کُل کو اکائی سے ہے، تو پھر دنیا میں کوئی کافر، کوئی یہود، کوئی نصاریٰ اور کوئی ہندو کیسے؟
جواب: خدا کُل سے برتر ہے، کیونکہ وہ خالقِ کُل ہے، کُل عقلِ کلّی اور نفسِ کلّی کا نام ہے، انسان انہی کے اجزاء ہیں، خدا کے اجزاء نہیں، رشتہ بھی انہی سے ہے، اور یہ بھی یاد رہے کہ رشتہ فرمانبرداری سے جڑ جاتا ہے، اور نافرمانی سے ٹوٹ جاتا ہے، پس مومن اور کافر وغیرہ میں فرق لازمی ہے۔

سوال نمبر ۷: حقائقِ ربّانی کو عیان کرنا ہر انسان کے

۱۵۹

بس کی بات نہیں، تو اس آدمی کے عقیدے کے متعلق آپ کا کیا نظریہ ہے، جو ان حقائق کو کھول کھول کر بنی آدم کے سامنے رکھ دیتا ہے (میرا مطلب سائنسدانوں سے ہے)؟
جواب: اگر کوئی سائنسدان خدا و رسول پر ایمان رکھتا ہے اور رضائے الٰہی کی نیت سے کام کرتا ہے تو یہ اس کا عملِ صالح ہے، ورنہ بنیاد ہی سے اس کا عقیدہ نا درست ہے، اور سائنسی ایجادات مومن کی چشمِ بصیرت میں معجزات ہیں، لیکن کافر کے نزدیک یہ سامانِ تعیش سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔

سوال نمبر ۸: دنیا میں کوئی چیز حتمی طور پر بری نہیں ہے، اور نہ ہی حتمی طور پر اچھی ہے، اس نظریے کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: یہ نظریہ قرآنی تعلیم کے خلاف ہے کیونکہ خداوندِ عالم نے خیر و شر کو الگ الگ پیدا کیا ہے، مثال کے طور پر اسلام خیر ہے، اور کفر شر ہے، اور یہ دونوں کیسے برابر ہو سکتے ہیں۔

سوال نمبر ۹ : خدا کی ذات سے دنیا کا کوئی فرد بھی انکار نہیں کر سکتا ہے، کیا یہ تصوّر درست ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟
جواب: خدا کی ہستی سے بعض لوگ منکر ہیں، بعض مقر ہیں، مگر مقلدانہ اقرار کافی نہیں، بلکہ معرفت ضروری ہے۔

۱۶۰

سوال نمبر ۱۰: آپ کے ایک مقالے میں ہے: ایک وقت ایسا آئے گا، جس میں ناممکن کا تصوّر ختم ہوگا، اگر یہ سچ ہے تو میرے خیال میں اُس وقت کوئی ممکن بھی باقی نہیں رہے گا، یہ بات وضاحت طلب ہے، ایسی صورت ہوئی تو انسان کا رخ کس نہج پر ہوگا؟ مادّہ کی طرف یا روح کی طرف؟
جواب: جی ہاں یہ بات سچ ہے، یہ انسان کے علم و معرفت میں ترقی کی بات ہے، اس سے عالمِ امکان کے وجود کو کیوں کر کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟ خلاصہ یہ ہے کہ بندگانِ حق شناس کے لئے کائنات ظاہراً و باطناً (مادّہ، روح، عقل) مسخر ہو جائے گی (۴۵: ۱۳)۔

سوال نمبر ۱۱: (سورۂ قدر کی چند حکمتیں اور کیسیٹ لیلۃ القدر کے حوالے سے) کیا امامت کے یہ ایک ہزار ایک جامے ظاہری زمان و مکان کے لحاظ سے ہیں یا پھر مرتبے اور فضیلت کے اعتبار سے؟ اگر زمان و مکان کے لحاظ سے ہیں، تو یہ گنتی کب سے کب تک ہے؟ اور کس طرح؟
جواب: اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدیم بادشاہی ( جس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہا) میں بیشمار آدموں کا سلسلہ جاری رہا ہے، چنانچہ نورِ امامت کے ایک ہزار ایک جاموں کا دورِ اعظم بنتا ہے، جو

۱۶۱

پچاس ہزار (۵۰،۰۰۰) سال کا ہے (۷۰: ۰۴) یہی ایک ہزار ایک امام خدا تعالیٰ کے ایک ہزار ایک نام بھی ہیں۔

سوال نمبر ۱۲: اساس کا مرتبہ قائم کے پیدا ہوتے وقت کس طرح ظاہر ہو گا؟ اس کی وضاحت کریں۔
جواب: اساس (علیؑ ) کا مرتبہ کتنا بلند تھا؟ اور آپ کی ذاتِ عالی صفات میں کیسے کیسے خزائنِ علم و حکمت پوشیدہ تھے؟ اس سے کسی کو علم و آگہی اس وقت ہو سکتی ہے، جبکہ اس پر ذاتی قیامت گزرتی ہے، اور عالمِ شخصی میں حضرتِ قائم کا ظہور ہوتا ہے۔

سوال نمبر ۱۳: (بحوالۂ حدیث) رسول کی قبر آپؐ کے وصی یعنی مولا علی تھے اور منبر قائم القیامت ہیں، اور آنحضرت کے ان دونوں فرزند کے درمیان بہشت کے باغات میں سے ایک باغ ہے، سوال یہ ہے کہ یہاں منبر یعنی قائم القیامت سے ظاہری طور پر کونسی شخصیت مراد ہے؟ کیا زمانۂ نبوّت سے سینکڑوں برس بعد یعنی اس دور کے خاتمہ پر حضرتِ قائم کے ظہور کے بارے میں اشارہ ہے؟
جواب: جی ہاں، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی قبرِ مبارک مولا علی ہیں، پھر امامِ زمان اور بہشت کے باغات میں سے ایک باغ ظاہراً دعوتِ حق ہے، اور باطناً روحانیّت ، ہاں یہ اشارہ ظہورِ قائم کی

۱۶۲

طرف ہے، یہ وہی پاک شخصیت ہے جس کا ذکرِ جمیل ہو چکا ہے۔

سوال نمبر ۱۴: (بحوالۂ وجہِ دین) قائمِ قیامت دو روحانیوں (عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ) سے ایسے ملے ہوئے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی جدائی نہیں، اور قائم ہی کی وجہ سے نفسِ کلّ مکمل ہوگا، یعنی وہ عقلِ کلّ کے درجے پر پہنچے گا اور یہ واقعہ عالمی حرکات رک جانے اور عالمِ جسمانی فنا ہو جانے کا سبب بنے گا۔
اس میں پہلا سوال یہ ہے کہ اگر قائمِ قیامہ عقلِ کلّی اور نفسِ کلّی سے ملے ہوئے ہیں تو پھر کس طرح قائم ہی کی وجہ سے نفسِ کلّ مکمل ہوگا؟ اس کی وضاحت کریں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا دورِ قائم القیامت کے مکمل ہونے کے بعد نفسِ کلّ مکمل ہوگا؟ اور یہ واقعہ عالمی حرکات رک جانے اور عالمِ جسمانی فنا ہونے کا سبب بنے گا؟ اور کیا اس کے بعد دورِ لطیف کا آغاز ہوگا؟ اور دورِ لطیف دورِ کثیف کے برعکس یعنی عالمی حرکات کے برعکس ہو گا؟ ان تمام باتوں کی مختصر وضاحت کی ضرورت ہے۔
جواب: عالمِ دین کا نمونہ یقیناًعالمِ شخصی ہے، لہٰذا ان شاء

۱۶۳

اللہ ہم اس کا جواب عالمِ نفسی کے مشاہدات سے دیں گے، چنانچہ حضرتِ حکیم پیر ناصر خسرو ق س نے اپنی روحانیّت میں قیامت کے تجدّد امثال کو یوں دیکھا: ظہوراتِ روحانی میں سے عظیم انقلابی ظہور قائم القیامۃ کہلاتا ہے، دوسرا ظہور نفسِ کلّی ہے اور تیسرا ظہور عقلِ کلّی، یہ ظہورات الگ الگ بھی ہیں، اور ایک بھی، پس ان میں انقلابی طاقت کا مالک حضرت قائمؑ ہی ہے۔ جس کی بدولت نفسِ کلّی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے، یعنی وہ عقلِ کلّی کے مرتبے پر پہنچ جاتا ہے، اور انفرادی لحاظ سے عالمی حرکات رک جاتے ہیں اور عالمِ شخصی منزلِ فنا سے گزرتا ہے، یعنی عارف کو مرتبۂ فنا فی اللہ حاصل ہو جاتا ہے۔
جب ذاتی قیامت کے مشاہدے میں کائنات لپیٹ لی جاتی ہے (۲۱: ۱۰۴،  ۳۹: ۶۷) تو اسی وقت اس عالمِ شخصی کے حق میں عالمی حرکات رک جاتے ہیں، مگر دوسروں کے لئے یہ بات نہیں، کیونکہ جو مومنِ عالی ہمت فنا بحق ہو جاتا ہے، اسی کے نزدیک ہر چیز (۲۸: ۸۸) یعنی کائنات ہلاک و فنا ہو جاتی ہے، جبکہ اس کا نامۂ اعمال مکمل اور عالمی پروگرام ختم ہو جاتا ہے، اور اب وہ دوسروں کے لئے جینے لگتا ہے۔

نوٹ: آپ ان سوالات و جوابات کو غور سے پڑھیں یہ امر

۱۶۴

ضروری ہے، اور ان پر مذاکرہ کریں، کیونکہ یہ نایاب جواہرِ گرانمایہ صرف امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام ہی کے خزائن سے مل سکتے ہیں، اور بس۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
گلگت
۱۸ شوال ۱۴۰۹ھ
۲۴ مئی ۱۹۸۹ء

۱۶۵

تحفۂ احباب

:ا۔ یقطین (۳۷: ۱۴۶، کدو کی بیل، بیلدار درخت)
ظہورِ عقل کی مثال ہے، جس کی تشبیہ یقطین سے دی گئی ہے اگرچہ اس کی تشبیہات و تمثیلات بہت زیادہ ہیں، تاہم اس کا عملی اشارہ کھڑے درخت کی طرح نہیں بلکہ بیل کی طرح ہے، جس کی شاخیں زمین پر پھیلتی ہیں، یا کسی سہارے سے اوپر چڑھتی ہیں۔

۲۔ من اور سلویٰ (۰۲: ۵۷، ایک آسمانی غذا اور ایک پرندہ):
یعنی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کے غذائی معجزات، جو عقلی، روحانی، اور لطیف جسمانی غذائیں ہیں۔

۳۔ بیکار کنواں اور (بیکار) قصرِ بلند (۲۲: ۴۵): عالمِ شخصی میں ایک انتہائی پاک و پاکیزہ کنواں ہے، جو ہمیشہ آبِ شیرین سے بھرا ہوا رہتا ہے، اور اس کے پاس ایک بلند ترین محل بھی ہے، مگر افسوس کہ یہ دونوں بیکار پڑے ہیں، اور آدمی ان کے استعمال اور استفادے سے محروم ہے، کنواں

۱۶۶

دہنِ مبارکِ نفسِ کلّی ہے، اور قصرِ بلند نورِ عقلِ کلّی ۔

۴۔ عروش: (۰۲: ۲۵۹،  ۱۸: ۴۲،  ۲۲: ۴۵) عرش کی جمع، چھتیں
جب قریہ ہائے ہستی ہلاک و فنا ہو جاتے ہیں، جیسا کہ قانونِ فنا ہے، تو اس وقت وہ اپنی چھتوں پر گر جاتے ہیں، یعنی روح بدن سے نکالی جاتی ہے، مگر اس کا آخری سرا دماغ میں باقی رہتا ہے، پھر اس پر باہر سے تازہ روح ڈالی جاتی ہے، جس کے دباؤ سے روح کا وہ حصہ جو دماغ میں چھت کی طرح تھا پاؤں کی طرف گر جاتا ہے، اور یہی عمل بار بار ہوتا ہے، یہ ہوا قریات کا اپنی چھتوں پر گر جانا۔

۵۔ باغات: جو ٹٹیوں پر چڑھائے جاتے ہیں (جیسے انگور)، باغات جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے، کھجور کا درخت ، کھیتی، زیتون اور انار (۰۶: ۱۴۱):
یہ عالمِ شخصی میں عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اساس، امام اور حجت ہیں، ان میں سے ہر مثال کی ایک خاص توجیہہ ہے، جو ممثول کے مطابق ہے، چنانچہ عقل کی بیل درختِ نفس کے سہارے پر قائم ہے، مگر نفس بذاتِ خود برپا ہے، کھجور تمام درختوں سے افضل ہے، اس لئے یہ ناطق کی مثال ہے، کھیتی کی تمثیل اساس کے لئے ہے جس میں ہر قسم کی روحانی فصلیں تیار ہوتی ہیں، شجرۂ مبارکۂ

۱۶۷

زیتون امام کی مثال ہے، جس کے نور سے چراغِ ہدایت روشن ہوتا ہے، اور درختِ انار جس کا پھل مضبوط چھلکے میں کثیر بیجوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے، باب کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کے پردۂ روحانیّت کے پیچھے بہت سی روحیں جمع ہو جاتی ہیں۔

۶۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم: (ب س م ا ل ل ہ ا ل ر ح م ن ا ل ر ح ی م) کے ۱۹ حروف
یہ سات صاحبانِ دورِ بزرگ اور ان کے بارہ حجتوں پر دلیل ہیں، نیز سات صاحبانِ دورِ صغیر یعنی ہفت أئمّہ اور ان کے مامور حجتانِ جزائر پر دلیل ہیں، اس کی تفصیل کے لئے دیکھو کتابِ وجہِ دین، گفتارِ چہاردہم۔

۷۔ کتابِ مکنون (۵۶: ۷۸) کیا ہے؟
کتابِ مکنون یعنی پوشیدہ کتاب عالمِ روحانی میں قلمِ الٰہی ہے، جو نورِ ازل اور گوہرِ عقل ہے، اور اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں، اور عالمِ دین میں مظہرِ قلم حضرتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں، پھر آپ کے جانشین یعنی مولا علیؑ، اور پھر امامِ زمانؑ ہیں۔

۸۔ مراتبِ روح:
جمادات کی نگاہ داشتہ روح نباتات میں ہے، نباتات کے لئے ترقی کی روح حیوانات میں ہے، حیوانات کا ارتقائی رخ انسانوں کی طرف ہے، اور انسان کی روحانی

۱۶۸

پیش رفت یہ ہے کہ وہ انسانِ کامل میں فنا ہو جائے اور یہی طریقہ فرشتہ بن جانے کا بھی ہے، پس امامِ زمان صلواۃ اللہ علیہ مومن (بلکہ ہر آدمی) کی اصلی اور ازلی روح ہیں، جس کی پہچان بندۂ مومن کی اپنی پہچان اور حضرتِ ربّ کی پہچان ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ۔

۹۔ روح کے دو (۲)  سرے:
جب یہ حقیقت روشن ہوئی کہ امامِ عالی مقام ہی انسان کی حقیقی روح ہے تو نتیجے کے طور پر یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ روح کے دو سرے ہیں، کیونکہ امامِ اقدس و اطہر جو ہماری اعلیٰ روح ہیں، وہ خدا کی رسی ہیں، جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا لوگوں کے درمیان، اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ روح کا بالائی سرا عالمِ امر میں ہمیشہ خداوند تعالیٰ سے واصل ہے، جس طرح کرنیں ہر وقت سورج سے وابستہ رہتی ہیں اور روشنی کا پل کبھی سورج کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔

۱۰۔ جمع میں واحد کا راز:
و سخر لکم ۔۔۔ (۴۵: ۱۳) اور اُس نے آسمانوں اور زمین کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے (یعنی تم میں سے ہر ایک کے) لئے مسخر کر دیا، سب کچھ اپنے پاس سے (۴۵: ۱۳) اس حکم میں جو اجتماعی

۱۶۹

ہے ہر فردِ مومن کے لئے روحانی سلطنت کی بشارت ہے، کیونکہ ہر آدمی میں ایک ذاتی عالم اس لئے ہے کہ وہ عبادت اور معرفت کے نتیجے میں بادشاہ ہو، پس ہر شخص کے عالمِ شخصی میں تمام چیزیں اور ساری انسانیت رام و مسخر کی گئی ہیں، اور یہ مساواتِ رحمانی کا سب سے بڑا راز ہے (۶۷: ۰۳)۔

۱۱۔ آسمانِ دنیا (قریب کا آسمان  ۶۷: ۰۵):
عالمِ شخصی میں قریب کے آسمان سے مراد سرہائے انگشت (انگلیوں کی پہلی پوریں) ہیں جہاں سے بہ نتیجۂ ذکر و عبادت ہالۂ نور کے شعلے نکلتے ہیں، اور ان کی مار سے شیاطین دفع ہو جاتے ہیں، ایسا ہالہ(Aura) جراثیم کُش اور شفا بخش بھی ہے، اور اسی ہالۂ نور کی وجہ سے نہ صرف حضرتِ عیسیٰؑ بلکہ ہر پیغمبر اور ہر امام کے دستِ حق پرست میں ہر قسم کی شفا ہوا کرتی ہے۔

۱۲۔ برے جراثیم بھی شیاطین ہیں:
ایک جدید تفسیر (تفسیرِ نمونہ) میں ہے کہ جراثیم لشکرِ شیطان میں شامل ہیں، اور یہ بات عقل کے نزدیک قابلِ قبول ہے، پس اگر بیماریاں پانچ قسم کی ہیں (جیسا کہ قرآنی علاج میں ہے) تو جراثیم بھی پانچ نوع کے ہیں، اور ان سب کا دافع قرآن اور نور ہے۔

۱۳۔ سامری نے کیوں کہا ہاتھ نہ لگانا: (لا مساس ۲۰: ۹۷):

۱۷۰

اس کا ظاہر یہ ہے کہ بطورِ سزا اُس پر ایک بیماری ڈالی گئی تھی، اس لئے اگر کوئی اس کو چھو لیتا تو ایسے شخص کو سامری کے جراثیم لگ جاتے، اور باطن یہ ہے کہ وہ عقلی مریض یعنی جاہل تھا، اور چھونے کے معنی ہیں تعلیم لینا، پس اگر کوئی شخص سامری سے تعلیم لیتا، تو اس کو عقلی جراثیم لگ جاتے، اور وہ مرضِ جہالت میں مبتلا ہو جاتا۔

۱۴۔ گوسالۂ باطل پرستی:
ایسا ہرگز نہ کہا جائے کہ اب کوئی سامری نہیں، چونکہ سامری اب بھی ہے، وہ شخص کون ہے جو ظاہراً زیورات جیسے خوبصورت مگر اندر سے بے حقیقت الفاظ سے باطل کا بچھڑا بنا کر لوگوں کو راہِ حق سے دور کر دیتا ہے؟ یقیناً ایسی کھوکھلی لفاظی سے کام لینے والا جادوگر سامری ہی ہوگا، پس یقین جانیں کہ کوئی بھی قرآنی قصّہ اور مثال حکمت کے اشاروں سے خالی نہیں۔

۱۵۔ چشمۂ سلسبیل (۷۶: ۱۸) :
یہ بہشت کے ایک چشمے کا نام ہے، مگر یہاں یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ مادّی چیزیں الگ الگ ہوا کرتی ہیں، جبکہ روحانیّت اور جنت کی چیزیں مل کر ایک ہوتی ہیں، چنانچہ فردوسِ برین کا یہ چشمہ زندہ، گویندہ، علم و حکمت سے بھرپور اور سب کچھ ہے، جیسا کہ اس

۱۷۱

کا نام ہے۔ سل (سوال کر) + سبیل (راستہ یعنی ہادی سے) = سلسبیل، دیکھو: مفردات القرآن، ص ۴۸۸۔

:۱۶۔ اسماءُ الحسنیٰ (۰۷: ۱۸۰)
خدا کے اچھے اچھے نام، اسمائے بزرگ، یعنی رسولِ اکرمؐ اور أئمّۂ طاہرین، جیسا کہ مولا علیؑ کا ارشاد ہے: انا اسماءُ الحسنٰی، میں اسمائے حسنائے الٰہیہ ہوں، اور حضرتِ امام جعفر الصادقؑ نے فرمایا: و اللّٰہ نحن اسماءُ الحسنٰی، خدا کی قسم ہم ہی خدا کے اسمائے حسنیٰ ہیں۔ لا یقبل اللّٰہ عملا الا بمعرفتنا، کوئی عمل بحضورِ خدا ہماری معرفت کے بغیر مقبول نہیں ہوتا، پس امامِ حیّ و حاضر اسمِ اعظمِ زمان ہیں، لہٰذا آپ کی معرفت بے حد ضروری ہے۔

۱۷۔ ایک پُرحکمت حدیث:
ارشادِ نبوّی ہے: یا عجبا لقوم یقادون الی الجنۃ بالسلاسل ۔ اس قوم پر تعجب ہے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے جنت کی طرف کھینچے جا رہے ہیں۔ جس طرح جہادِ جسمانی میں لوگوں کو زور و زبردستی سے اور قید و بند کے ذریعہ بحدِّ قوّت بہشت (یعنی اسلام) میں لایا جاتا تھا، اسی طرح جہادِ روحانی میں انہیں زنجیروں میں جکڑ کر فعلاً جنت میں داخل کیا جائے گا، تاکہ وہاں ان پر مومنین کی

۱۷۲

سلطنت قائم ہو۔

۱۸۔ مناجات کی فضیلت:
دوستانِ خدا کے سامنے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات اور گریہ و زاری سے قلب و روح کی خوب پاکیزگی ہو جاتی ہے، کیونکہ اس میں جو کچھ کہا جاتا ہے، وہ صورتِ حال کی حقیقی ترجمانی ہوتی ہے، نیز اس میں خوش نصیب مومن بتوفیقِ الٰہی دریائے عاجزی میں ڈوب جاتا ہے اور عاجزی وہ کیفیت ہے، جس میں روحانی صلاحیتیں اجاگر ہونے لگتی ہیں۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
۷ ذیقعد ۱۴۰۹ھ
۱۲ جون ۱۹۸۹ء

۱۷۳

جانِ عالم کے سوالات

ا۔ عزیزم جانِ عالم ولایت شاہ کا تعلق بروکشل، بلتت (ہونزہ) سے ہے، آپ دینی اور دنیوی علم کے قدر شناس اور دلدادہ ہیں، شریف النفس اور ہوشمند ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی کتب کا مطالعہ باریک بینی سے کرتے ہیں، ان کی بہت بڑی خواہش ہے کہ قرآنی اسرار سے آگہی ہو، کاش نوجوانوں کی اکثریت کے دل میں یہی شوق و جذبہ موجزن ہوتا! محترم جانِ عالم نے کچھ عرصہ پہلے امید و اعتماد کے ساتھ تین صفحات پر مبنی ایک سوالنامہ پیش کیا تھا، جس کا جواب بڑی تاخیر سے معذرت کے ساتھ دے رہا ہوں، سوالات کی کاپی آپ کو اس تحریر سے الگ ملے گی، ذیل میں صرف جوابات درج کئے جاتے ہیں:

۲۔ جواب نمبر ۱:
اصحابِ کہف (غار والے،  ۱۸: ۰۹ تا ۲۵) عالمِ شخصی کی بڑی بڑی روحیں ہیں، امامِ زمان صلوات اللہ علیہ عظمت و بزرگی کا پہاڑ اور پناہ و امن کا غار ہیں، ان کی پاک و پاکیزہ

۱۷۴

شخصیت میں مومنین کے ذراتِ روح خوابیدہ ہیں، جو ایک خاص وقت میں جاگ اٹھتے ہیں، روح اپنی ازلی وحدت میں ایک بھی ہے اور اس سے نچلے درجات میں کثیر بھی، چنانچہ منازلِ معرفت میں جب کسی مومن پر امامِ حاضرؑ کی نورانیّت کا عکس پڑتا ہے تو اس وقت تمام قرآنی مثالیں فعلاً پیش آتی ہیں اور اسی سلسلے میں واقعۂ اصحابِ کہف بھی شامل ہے، کہ عارف کی روحانیّت میں بڑی بڑی روحیں اصحابِ کہف ہیں، اور اصلاح و پاکیزگی سے آراستہ نفس سگِ اصحابِ کہف ہے، یعنی وہ مومن جس نے عظیم روحوں کے معجزات و کمالات کا مشاہدہ کر لیا ہے جسم و نفس کے ساتھ ہونے کے باؤجود وفادار کتے کی طرح روح و روحانیّت کے پیچھے پیچھے غارِ عقل و حکمت تک پہنچ جاتا ہے۔

۳۔ جواب نمبر ۲:
سورۂ رعد (۱۳: ۰۴) کے اس ارشادِ مبارک میں بہ اعتبارِ میوہ درختوں کی فوقیّت و فضیلت کا تذکرہ ہے، جس کا اشارہ یہ ہے کہ لوگ مختلف قسم کے درخت ہیں جن میں سے بعض جنگلی ہوتے ہیں، بعض آبادی میں اگائے جاتے ہیں، کچھ بے ثمر، کچھ ثمردار، اور کچھ اعلیٰ ثمر والے درخت ہوا کرتے ہیں، اور یہی سب سے افضل درخت پیغمبر

۱۷۵

اور امام علیہما السّلام کی مثال ہیں، جیسے سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۴) میں شجرۂ طیبہ (پاک درخت) کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس درخت کا پھل علم و حکمت ہے، جو اپنی مثال خود ہے۔

۴۔ جواب نمبر ۳:
خدائے واحد و یکتا نے قرآنِ حکیم میں اپنے متعلق کبھی صیغۂ واحد “انا” (میں ۲۰: ۱۵) کو استعمال فرمایا ہے، اور کبھی صیغۂ جمع “نحن” (ہم  ۱۵: ۲۰) کو، جس کی وجہ یہ ہے کہ انا ذاتِ وحدت کا اشارہ ہے، اور نحن کثرتِ صفات و افعال کی دلیل، کیونکہ ذات ایک ہے اور اسمائے صفات و افعال کے مظاہر (جیسے عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اساس وغیرہ) کثیر، جیسے آفتابِ عالم تاب ایک ہے، مگر اس کے مظاہر یعنی چاند اور ستارے بے شمار ہیں۔

۵۔ جواب نمبر ۴:
قصّۂ یوسف (۱۲: ۴۳) میں ہے: “اور بادشاہ نے کہا کہ میں (خواب میں کیا) دیکھتا ہوں کہ سات گائیں موٹی ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا گئیں اور سات بالیں سبز ہیں اور ان کے علاوہ سات اور ہیں جو کہ خشک ہیں۔ اس کی دہری تاویل ہے، پہلی تاویل کے لئے خود سورۂ یوسف کی آیت ۴۷ تا ۴۹ ملاحظہ ہو، اور دوسری تاویل یہ ہے: عالمِ شخصی میں چھ ناطقوں اور قائم کی کلی معرفت موجود ہے، چنانچہ یہ

۱۷۶

حضرات علیہم السّلام ایک مثال کے مطابق سات دن ہیں، اور دوسری مثال کے مطابق سات سال ہیں، یعنی تنزیلی معجزات کے سات مرحلے گویا ایسے سات سال ہیں، جن میں خوب محنت سے فصل اگا کر کثرت سے حاصل کی جاتی ہے اور تاویلی معجزات کے سات مرحلے وہ ہیں جن میں صرف اگلا ذخیرہ کام آتا ہے، پھر اس کے بعد مرتبۂ عقل تک رسائی ہو جاتی ہے، جہاں خوب بارش ہوتی رہتی ہے اور ہر چیز کو نچوڑ کر رس اور جوہر نکالنے کا کام شروع ہو جاتا ہے (۱۲: ۴۹) پس سات کا عدد جہاں بھی ہو اس کا اشارہ سات صاحبانِ ادوار کی طرف ہے۔

۶۔ جواب نمبر ۵:حضرتِ خضر علیہ السّلام کا یہ نام قرآنِ کریم میں مذکور نہیں، حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کا دو دریاؤں کے سنگم کی طرف جانا روحانی سفر تھا اس لئے یہ ان کی روحانیّت کے واقعات ہیں، معلّمِ تاویل بھی روحانیّت ہی میں تھا، کیونکہ ظاہر میں کسی بچے کو اس بناء پر قتل کرنا کہ وہ آگے چل کر نافرمانی کرنے والا ہے، کسی بھی شریعت میں جائز نہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بشر جسمِ عنصری میں ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتا اور یہ بھی درست ہے کہ ہادئ زمانؑ ہی

۱۷۷

علم و حکمت کا سرچشمہ ہے۔

۷۔ جواب نمبر ۶:
سورۂ رحمان (۵۵: ۴۶) میں جن دو باغوں کا ذکر ہوا ہے وہ عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ہیں، یہ دونوں باغ کثیر شاخوں والے ہیں (۵۵: ۴۸) یعنی ہر عالمِ شخصی میں ان کا ظہور ہے ان دونوں باغوں یعنی عقل و نفس میں علم و حکمت کے دو چشمے جاری ہیں (۵۵: ۵۰) ان کے نیچے دو باغ اور ہیں (۵۵: ۶۲) یعنی ناطق اور اساس (ملاحظہ ہو: کتابِ وجہِ دین، گفتار نمبر ۱۱)۔

۸۔ جواب نمبر ۷:
بحوالۂ سورۂ حاقہ (۶۹: ۳۲) دوزخی کی زنجیر جس کی پیمائش ستر ہاتھ ہے، زنجیرِ تقلید ہے، جس میں ہر مقلّد ستر پشتوں تک جکڑا ہوا رہے گا، اور اس کے بعد بڑی قیامت برپا ہوگی، تب اہلِ دوزخ کو نجات ملے گی۔

۹۔ جواب نمبر ۸:
اسی سورہ کے حوالے سے داہنے ہاتھ کو بطورِ سزا پکڑنا مظاہرۂ گوہرِ عقل سے محروم کر دینا ہے، اور شہ رگ کاٹنا تائید کے راستے کو منقطع کرنا ہے (۶۹: ۴۴ تا ۴۶) اور دستِ راست میں نامۂ اعمال دینا یہی گوہر اسی ہاتھ میں تھما دینا ہے (۶۹: ۱۹)۔

۱۰۔ جواب نمبر ۹:
سورۂ دہر (۷۶: ۱۸) میں چشمۂ

۱۷۸

سلسبیل کی تعریف و توصیف بیان ہوئی ہے، یہ انتہائی اعلیٰ پانی بھی ہے، شراب بھی، دوا بھی، اور غذا بھی ہے، اور یہ چشمہ نورِ امامت سے متعلق ایک کلمۂ تامّہ ہے، آپ لفظِ سل سبیل کے اشارے کو دیکھ سکتے ہیں: سل (پوچھ) سبیل (راستے یعنی امام سے) کیونکہ امامِ عالی مقام نہ صرف ہادئ برحق ہے، بلکہ خود راہِ حق (سبیل اللہ) بھی ہے، اور امام سے پوچھنے کے معنی ہیں ظاہر و باطن میں امام علیہ السّلام کی اطاعت کرنا۔

۱۱۔ جواب نمبر ۱۰:
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآنِ حکیم رسولِ عربی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر عربی زبان میں عرب کے باشندوں کے فطری مزاج کے مطابق نازل ہوا ہے، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ تمام انسانوں کے فطری مزاج ایک جیسے ہوتے ہیں، یعنی جو چیزیں عرب والے چاہتے ہیں، ان جیسی چیزیں دنیا کے دوسرے لوگ بھی چاہتے ہیں، اس میں در حقیقت کوئی فرق نہیں، جیسا کہ سورۂ ابراہیم (۱۴: ۰۴) میں ارشاد ہے:
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِیُبَیِّنَ لَهُمْؕ (۱۴: ۰۴) اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں تا کہ ان کو بیان کرے۔ اس آیۂ پُرحکمت کی

۱۷۹

تاویل یہ ہے کہ قرآنِ عظیم جو سب سے بڑا معجزہ ہے، وہ ظاہراً عربی میں ہے، اور باطناً دنیا کی تمام زبانوں میں، کیونکہ آنحضرتؐ سب لوگوں کے لئے بھیجے گئے ہیں (۰۷: ۱۵۸) اور سارے جہانوں کے لئے رحمت ہیں، (۲۱: ۱۰۷) اور یہ رحمت قرآن کریم تک ظاہری و باطنی رسائی ہے، غرض حضورِ اکرمؐ مدینۂ علم اور دارِ حکمت ہیں، اور علیؑ دروازہ اور علیؑ سے نورِ امامت مراد ہے، جو ہمیشہ حیّ و حاضر ہے، پس اگر دنیا بھر کے لوگ اسی دروازے سے اس شہر اور اس گھر میں داخل ہو جائیں، تو اس حال میں قرآنِ عزیز کا یہ معجزہ ہوگا کہ وہ ہر شخص کو اس کی اپنی زبان میں بیان کرنے لگے گا، پھر ایسے میں قرآن کا بیان دائرۂ عرب سے بڑھ کر عالمگیر اور سب کے مزاج کے مطابق ہو جاتا ہے۔

۱۸۰

سوال در جواب

۱۔ عالمِ شخصی کی بڑی بڑی روحیں کیا ہیں؟
۲۔ پناہ اور امان کے غار سے کیا مراد ہے؟
۳۔ خوابیدہ روحیں کب جاگ اٹھتی ہیں؟
۴۔ روح ایک بھی ہے اور کثیر بھی، وہ کس طرح؟
۵۔ مومن پر امامِ زمانؑ کا عکسِ نورانیّت کیسے پڑتا ہے؟
۶۔ سگِ اصحابِ کہف کا ممثول؟
۷۔ غارِ عقل و حکمت سے کیا مراد ہے؟
۸۔ درخت میں پیوند لگانے کی کوئی حکمت بیان کریں۔
۹۔ “انا” اور “نحن” کی وضاحت کریں۔
۱۰۔ فراوان فصلی؟ اور قحط سالی؟
۱۱۔ دو دریاؤں کا سنگم؟ معلّمِ روحانی؟
۱۲۔ عالمِ شخصی میں دو اور دو چار باغ کس طرح ہیں؟
۱۳۔ ستر ہاتھ = ستر پشت کس طرح؟
۱۴۔ ہر چیز کو کس طرح نچوڑ لیا جاتا ہے؟
۱۵۔ روحانیّت کے چودہ مرحلے کون سے ہیں؟

۱۸۱

۱۶۔ حقیقت میں دستِ راست اور دستِ چپ کے درمیان کیا فرق ہے؟
۱۷۔ پاک درخت کون سا ہے؟
۱۸۔ امامِ عالی مقام سے پوچھنے کے لئے کونسا طریقہ مقرر ہے؟
۱۹۔ کلمۂ تامّہ کی تعریف کریں۔
۲۰۔ آیا کوئی جسمِ عنصری ہمیشہ کے لئے زندہ رہ سکتا ہے؟
۲۱۔ علم و حکمت کی خوب ترین بارش کس منزل میں ہوتی ہے؟
۲۲۔ تنزیلی معجزہ اور تاویلی معجزہ کی وضاحت کریں۔
۲۳۔ شہ رگ کاٹنے کے لئے داہنے ہاتھ کو پکڑنا کیوں ضروری ہے؟
۲۴۔ قرآن ظاہراً عربی میں ہے اور باطناً کس زبان میں ہے؟
۲۵۔ نامۂ اعمال داہنے ہاتھ میں دینے کی حکمت بیان کریں۔
۲۶۔ فعلِ خدا کے مظاہر کی کوئی مثال بیان کریں۔
۲۷۔ کیا قرآن کی روحانیّت دنیا کی ہر زبان میں ہے؟
۲۸۔ گائے کس چیز کی مظہر ہے؟
۲۹۔ سات خشک بالیں کس چیز کا اشارہ ہیں؟

۱۸۲

۳۰۔ چھوٹی قیامت آتی رہتی ہے، بڑی قیامت کب برپا ہو گی؟

نصیر الدین نصیر ہونزائی
ذوالفقارآباد، گلگت
۲ صفر ۱۴۱۰ھ / ۳ ستمبر ۱۹۸۹ء

۱۸۳

خدا شناسی

۱۔ میری عزیز روح کے پسندیدہ اور بہت ہی پیارے بچے! میں محبتِ سماوی، کامل روح شناسی، اور امام شناسی کی روشنی میں شرق و غرب کے جملہ عزیزوں کو قلبی و روحی یاعلی مدد کہتا ہوں، اس میں یہ واضح اشارہ پاک و اعلیٰ معرفت کی طرف ہے، جو ہر مومن کی اس زندگی اور بقا کا سب سے بڑا مقصد ہے اور یقیناً یہی مقصودِ آفرینش بھی ہے۔

۲۔ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں دیدارِ الٰہی اور ملاقاتِ ربّانی کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہاں خدا تعالیٰ کی پہچان یعنی معرفت مقصود ہے، اور جس شان سے چہرۂ خدا (۲۸: ۸۸، ۵۵: ۲۷) کا بیان ہوا ہے، وہ بھی معرفت ہی کا کلیدی موضوع ہے، کیونکہ چہرہ کا ثمرہ دیدار و مشاہدہ ہے اور اس کا نتیجہ معرفت۔

۳۔ قرآنِ پاک میں نورِ خدا کا موضوع سب سے روشن ترین موضوع ہے، جس کا مطلب ہے حقیقتوں اور معرفتوں

۱۸۴

پر مکمل روشنی ڈالنا، چنانچہ نور اور ہدایت سے متعلق تمام آیاتِ کریمہ معرفت کی حکمتوں سے بھرپور ہیں، کیونکہ نور کے معنی ظہور کے ہیں اور ہر پوشیدہ چیز کو ظاہر کر کے شناخت کرانے کے، اور اگر دراصل دیکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ کوئی آیۂ کریمہ منزلِ معرفت کے معنئ نشاندہی کے بغیر نہیں ہے۔

۴۔ قرآنِ کریم کی جملہ ہدایات و تعلیمات سے صراطِ مستقیم پر روشنی پڑتی ہے اور یہ راہِ راست منزلِ معرفت ہی کی طرف جاتی ہے جو مومن کی منزلِ آخرین ہے، اور معرفت کا آخری نتیجہ و ثمرہ وہ گنجِ مخفی ہے، جس میں خداوندِ تعالیٰ کا انتہائی راز اور ساری خدائی کے بھید پوشیدہ ہیں، اور یہی عارفِ کامل کی ازلی و ابدی دولت ہے۔

۵۔ قرآنِ مقدّس کی جملہ حکمتوں کا رخ اور رجحان خدا شناسی کی جانب رہتا ہے، تاکہ معرفتِ الٰہی کا عظیم مقصد پورا ہو جائے، بالفاظِ دیگر یوں کہنا چاہئے کہ آئینۂ قرآنِ نورِ معرفت کے سامنے رکھا ہوا ہے، تاکہ ہر ہر آیت سے خدا شناسی کی حکمتیں منعکس ہو جائیں۔

۶۔ دین کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر قائم ہے،

۱۸۵

کیونکہ جو کچھ توحید کے سوا ہے، وہ بت پرستی اور شرک ہے، چنانچہ معرفت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کی روشنی میں توحید باری تعالیٰ کا مکمل یقین حاصل ہو جاتا ہے، کیونکہ نورِ عرفان وہ ہے جس کی بدولت اہلِ بصیرت کے سامنے حقیقتِ توحید کے تمام تر پہلو روشن ہو جاتے ہیں، پس ظاہر ہے کہ جہاں آفتابِ معرفت طلوع ہو جاتا ہے، وہاں وحدانیت کی بادشاہی ہوتی ہے، اور ظلمتِ شرک کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا۔

۷۔ قرآنِ مجید (۵۱: ۵۶) سے ظاہر ہے کہ جنّ و انس کی تخلیق کا مقصدِ عظیم خدا کی عبادت ہے، جو خدا شناسی (معرفت) کی روشنی میں ہونی چاہئے، اور اس کے سوا جو بھی عبادت ہو، وہ بے معنیٰ اور بے فائدہ ہے، چنانچہ شرک سے پاک اور نورِ معرفت سے منور عبادت کا اوّلین اشارہ سورۂ فاتحہ میں ملتا ہے، جو “ایاک نعبد” میں پوشیدہ ہے، جس کا مفہوم ہے کہ: ہم نورِ معرفت کی روشنی میں تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تیری یکتائی کا یقینِ کامل رکھتے ہیں، یہ کلامِ حکمت نظام سب سے پہلے اور سب سے بلندی پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر صادق آتا ہے، کیونکہ حضورؐ ہی نے

۱۸۶

ایسی ہی عبادت بجا لائی۔

۸۔ قرآنِ حکیم کچھ لوگوں کو بہرے، گونگے، اور اندھے (۰۲: ۱۸) قرار دیتا ہے، جس کی حکمت ترتیب وار ہے، وہ اس طرح کہ وہ لوگ پہلے خدا شناسی کی باتوں کے سننے سے بہرے ہیں، اسی وجہ سے وہ زبانِ معرفت سے گونگے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ چشمِ دل سے نابینا ہی رہ گئے ہیں، اور عرفانی مشاہدات سے محروم ہو چکے ہیں۔

۹۔ حدیثِ شریف : اعرفکم بنفسہ اعرفکم بربہ (جو شخص تم میں سب سے زیادہ اپنے آپ کو پہچانتا ہے وہی تم میں سب سے زیادہ اپنے پروردگار کو پہچانتا ہے) سے ظاہر ہے کہ مومنین خدا شناسی یعنی معرفت کے مختلف درجات پر ٹھہرے ہوئے ہیں اور ان میں سب سے آگے وہ عارفِ ربّانی ہے، جو روح کی حقیقتوں کو سب سے زیادہ جانتا ہے

۱۰۔ کتابِ عزیز (قرآن) کے بموجب معرفت کا ایک اور نام “یقین” بھی ہے لہٰذا علم الیقین سے معرفت کا آغاز ہوتا ہے، اور عین الیقین سے ہوتے ہوئے حق الیقین پر جا کر اس کی تکمیل ہو جاتی ہے، اور یہ درجۂ کمال پر پہنچ جاتی ہے۔

۱۱۔ حقیقت تو یہ ہے کہ لفظِ “معرفت” میں اہلِ ایمان

۱۸۷

کے لئے بے حد معنوی جاذبیّت و دلکشی پائی جاتی ہے، اور اس کی گہرائیوں سے ہمیشہ امید و یقین اور حقیقی محبت کی سدا بہار خوشبوئیں آتی رہتی ہیں، معرفت ایک ایسی پُرحکمت اور با اثر اصطلاح ہے جو ہر وقت اہلِ ایمان کو دعوتِ فکر و عمل اور خدا شناسی کی ترغیب و تشویق دیتی رہتی ہے، اور کہتی ہے کہ اپنی روح کو پہچانتے ہوئے اپنے ربّ کو پہچان لو، اور تاجِ معرفت سے سرفراز ہو جاؤ۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
۸۹/۹/۹ = ۸۱/۴/۱۰

۱۸۸

چند قرآنی سوالات

س نمبر ۱: حضرتِ آدم علیہ السّلام کا نام قرآنِ پاک میں کتنی دفعہ آیا ہے؟ اور بی بی حوّا علیہا السّلام کا نام کتنی بار؟
س نمبر ۲: قرآنِ کریم کی ۳۳: ۳۳ میں کیا تذکرہ ہے؟ اور اس کی وضاحت ہماری کس کتاب میں کی گئی ہے؟
س نمبر ۳: انبیائے کرام علیہم السّلام میں وہ نامور ہستی کون سی ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے خدا پرستی اور توحید شناسی کا نمونہ قرار دیا ہے؟
س نمبر ۴: قرآنِ مقدّس کو “سی پارہ” کیوں کہا جاتا ہے؟ ہر پارہ کی پہلی چوتھائی کو کیا کہتے ہیں؟ ۲/۱ پارہ کا کیا نام ہے؟ اور ۴/۳ پارہ کا کیا نام؟
س نمبر ۵: قرآنِ کریم میں لفظِ “خلیفہ” کن کن پیغمبروں کے لئے استعمال ہوا ہے؟ اور لفظِ “امام” کن کن کے لئے؟
س نمبر ۶: رحمتِ عالم کس پیغمبر کا لقب ہے؟ اور

۱۸۹

اس کا ذکر قرآنِ پاک میں کہاں ہے؟
س نمبر ۷: کتنی ایسی سورتیں ہیں، جو حروفِ مقطعات سے شروع ہو جاتی ہیں؟
س نمبر ۸: قرآنِ عظیم کی سب سے طویل سورت کون سی ہے؟ اور سب سے مختصر سورہ کونسی ہے؟
س نمبر ۹: دو ایسی آیتیں دکھا دو، جو پنجتنِ پاک کے بارے میں نازل ہوئی ہوں؟
س نمبر ۱۰: قرآنِ حکیم کی کسی ایسی سورت کا نام بتا دو، جس میں ایک آیت کئی دفعہ دہرائی گئی ہے۔
س نمبر ۱۱: “خوشی سے بھی اور مجبوری سے بھی خدا کی طرف رجوع کر جانا ہے” یہ مفہوم قرآنِ پاک میں کہاں مذکور ہے؟
س نمبر ۱۲: قرآنِ حکیم میں حکمت کی تعریف و توصیف کس مقام پر کی گئی ہے؟ وہ چیز کون سی ہے، جس میں بہت ساری بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے؟
س نمبر ۱۳: قرآنِ مجید میں نفسِ مطمئنہ کا تذکرہ کہاں ہے؟ اور اطمینان کی تشریح کہاں کہاں ہے؟
س نمبر ۱۴: ظاہر ہے کہ قرآن میں لفظِ “معجزہ”

۱۹۰

موجود نہیں، لیکن اس کے مترادفات ضرور ہیں، آپ اس کا کوئی مترادف (ہم معنی لفظ) بتائیں۔
س نمبر ۱۵۔ آیا قرآنِ حکیم میں حقیقی عشق کا تذکرہ موجود نہیں؟ اگر ہے تو کس لفظ میں؟ کیونکہ لفظِ “عشق” قرآن میں مذکور نہیں۔
س نمبر ۱۶۔ قرآنِ پاک میں وجہ اللہ کا جو تذکرہ ہوا ہے، اس کے کیا معنی ہیں؟ کچھ وضاحت کر کے بتائیں۔
س نمبر ۱۷۔ قرآنِ کریم میں “بسم اللہ” کل کتنی دفعہ آئی ہے؟ کس سورہ کے آغاز میں بسم اللہ موجود نہیں؟ قرآن کی کتنی سورتیں ہیں؟ نزولِ قرآن سے قبل کس پیغمبر نے اپنے خط کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم تحریر کیا تھا؟ اور اس کا تذکرہ قرآنِ مجید کی کس سورہ میں موجود ہے؟
س نمبر ۱۸: اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیا اور ایک کتابِ مبین آئی (۰۵: ۱۵) یعنی قرآنِ کریم، قرآن موجود ہے، اور نور کہاں ہے؟

۸۹/۹/۱۰ = ۸۱/۷/۱۴

نصیحت: ہوشمند مومنین ہمیشہ علم کے باتوں کو سیم و زر پر فوقیت دیتے ہیں، کیونکہ علم مالِ روحانیّت اور متاعِ

۱۹۱

آخرت ہے، اس کا ہر ذرّہ خورشیدِ جلال اور ہر قطرہ دریائے زلال ہے، یہ دوائے جان بھی ہے اور غذائے عقل بھی، اس کی خوشبو کستوری اور گلاب کی خوشبو سے زیادہ لطیف، پائندہ، دلنواز اور روح افزا ہے، علم کی باتیں اشرفیوں اور موتیوں سے بڑھ کر گرانمایہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ اہلِ دانش ہر وقت مادّی جواہر کے مقابلے میں گوہر ہائے علم کو بہت زیادہ چاہتے ہیں۔
علمِ حقیقی انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی میراث ہے، اس سے قربِ خداوندی کی سعادت نصیب ہو جاتی ہے یہ چشمِ جان کے لئے نور اور دل کے لئے سرور ہے، بہشت کی بے حد تعریف اس لئے کی جاتی ہے کہ وہاں تمام نعمتیں عقلی، علمی، روحانی، اور لطیف جسمانی ہیں اور اس میں علم و حکمت کے بغیر کوئی چیز نہیں، جن نیک بخت لوگوں کو علم و حکمت سے عشق ہو، اُن پر پروردگارِ عالم کا بہت بڑا احسان ہے، لہٰذا اُن پر واجب ہے کہ بار بار خدا کا سجدۂ شکرانہ بجا لائیں، تاکہ اس عمل سے علمی نعمتوں کی لذّت و چاشنی میں اضافہ اور میوہ ہائے علم میں روز افزون ترقی ہو۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
۸۹/۹/۱۰

 

۱۹۲

عبادت اور جماعتی خدمت

عبادت کے لغوی اور اصطلاحی دو معنی ہیں، اس لفظ کے پہلے معنی غلامی کے ہیں اور دوسرے معنی پرستش کے، چنانچہ ظاہر ہے کہ اسلامی عبادت کے دو پہلو ہیں، ایک یہ کہ نیت کی پاکیزگی سے اللہ تعالیٰ کی غلامی اختیار کی جائے، جس سے ہر قسم کی دینی خدمت مراد ہے، دوسرا یہ کہ معبودِ برحق کی خالص اور با معرفت پرستش کا فریضہ انجام دیا جائے، سو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کامل اور مکمل عبادت وہ ہے، جس میں خدا تعالیٰ کی پرستش کے ساتھ ساتھ جماعتی خدمت کا بھی کوئی حصہ ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ (۳۵: ۱۰)۔
پاک و پاکیزہ بات خدا تک پہنچتی ہے اور نیک کام اس کو

۱۹۳

(بلند کر کے) پہنچاتا ہے، یعنی بندۂ مومن کی نیکیوں میں ایک تو پاک اقوال ہوا کرتے ہیں جن میں خدا کی پرستش بطورِ خاص شامل ہے اور دوسرے نیک اعمال ہوتے ہیں، اور اس میں حکمتِ الٰہی یہ ہے کہ اچھے اعمال ہی پاکیزہ باتوں کو بلند کر کے بارگاہِ ایزدی تک پہنچاتے ہیں پس اگر صرف پرستش ہو اور کوئی خدمت نہ ہو تو یہ عمل کے بغیر ایک قول ہوگا، اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضورِ عالی تک نہیں پہنچ سکتا۔

جب ہم صحیح معنوں میں اللہ الصمد (خدا بے نیاز ہے) کا تصوّر کرتے ہیں، اور ذاتِ سبحان کو ہر قسم کی احتیاج و ضرورت سے پاک و برتر مانتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نہ صرف خدا تعالیٰ کی غلامی کا پورا پورا فائدہ بندوں ہی کو حاصل ہوتا ہے بلکہ اس کی پرستش کے تمام نتائج و ثمرات میں بھی اس کی دنیوی اور اخروی صلاح و فلاح پوشیدہ ہے، اس حقیقت کی روشنی میں دیکھنے سے مذہبی خدمت کی اہمیت و افادیت زیادہ سے زیادہ نمایان ہو جاتی ہے۔

اس بیان سے صاف صاف یہ معلوم ہوا کہ پروردگارِ عالم کی غلامی اور پرستش کے سارے فائدے ظاہر و باطن میں خود انسان ہی کے لئے مقرر کئے گئے ہیں تو اس میں بندۂ مومن

۱۹۴

کی دانائی اور دور اندیشی یہ ہے کہ وہ ذکر و عبادت کو ذوق و شوق سے عمل میں لائے، جماعت کی بہتری اور ترقی کے لئے مناسب خدمات انجام دے، اور اپنے آپ میں جماعتی روح میں زندہ ہو جانے کا بھرپور جذبہ پیدا کرے تا کہ اس نیک عمل کا نتیجہ امامِ زمانؑ کی خوشی اور خوشنودی کی صورت میں نکلے، جس میں حقیقی مومن کے لئے سب کچھ موجود ہے۔

امامِ عالی مقام کی پیاری جماعت کی خدمت کا میدان بڑا وسیع اور دور دور تک پھیلا ہوا ہے، جس میں تمام خوش نصیب خدمت گزاروں کے لئے بڑی وسعت کے ساتھ گنجائش موجود ہے، اور وہ سب مل کر جتنی بھی عمدہ خدمات انجام دیں پھر بھی کم ہیں، لہٰذا جو دینی خادم دانا، مخلص اور خیر خواہ ہو، وہ ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اُس نے جماعت کی بہت کچھ خدمت کی ہے، جبکہ یہ خدمت ایک طرف سے خدا کی عبادت ہے، اور ہوشمند عابد کسی پر احسان نہیں رکھتا ہے کہ اس نے خدا کی بہت عبادت کی ہے۔

حقیقی مومن کی ہر خدمت اور ہر نیکی خداوند تعالیٰ کے حضور میں مقبول ہوتی ہے، اور اس کو پورا پورا اجر و صلہ ملتا ہے، کیونکہ وہ اپنے اس نیک عمل کا احسان نہیں جتلاتا، کسی کو

۱۹۵

نیکی کر کے پھر اذیت نہیں دیتا، اور نہ ہی اس میں کسی قسم کے دکھاوے سے کام لیتا ہے اس لئے کہ کسی کو ایک روپیہ کے برابر راحت پہنچانے پھر اس کے بعد اس کو ایک روپیہ کے برابر تکلیف دینے کے کچھ معنی نہیں ہوتے، مگر ہاں اس کے معنی یہ ضرور ہوتے ہیں کہ اس نے ایک کام کیا اور پھر بگاڑ دیا۔

حق بات تو یہ ہے کہ باعزت خدمت بہت آسان ہے، جس کی خواہش ہر شخص کو ہو سکتی ہے، مگر ہر وہ خدمت جس میں عزت کی قربانی شرط ہو، بڑی مشکل ہے، تاہم ہمارے یہاں امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی مقدّس محبت نے یہ مشکل بھی آسان کر دی ہے، چنانچہ اس سلسلے میں “شوز کمپنی” کی بے لوث خدمات کو ذرا غور سے دیکھا جائے، تو یہ حقیقت روشن ہو جائے گی کہ اس ادارے سے منسلک حضرات کا جذبۂ قربانی اور نمونۂ خدمت بے مثال ہے، جس سے ہمیشہ باہوش مومنین کو مذہب اور جماعت کے مفاد کی خاطر ننگ و ناموس کی قربانی پیش کرنے کا درس ملتا رہتا ہے۔
شوز کمپنی کی مقدّس خدمت کئی معنوں میں ایک اعلیٰ عبادت ہے۔

۱۹۶

اوّل: یہ کہ ہر مذہبی خدمت خدا کی غلامی اور عبادت ہے۔ دوم: یہ کہ اس کمپنی کی ایسی پُرخلوص خدمت سے مولا بہت راضی ہیں، لہٰذا ان کو امامِ زمان علیہ السّلام کی دعائے برکات حاصل ہے، سوم: ان کو جماعت کی طرف سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ نیک دعائیں حاصل ہیں، چہارم: ان کی خدمت کسرِ نفس کا ذریعہ اور اخلاص و محبت کا وسیلہ ہے، پنجم: جملہ جماعت کے صلۂ عبادت کے برابر ان کو اجر و ثواب ملتا ہے۔ ششم: انہوں نے بڑے شوق سے اپنی پیاری عزت و برتری مومنین کے لئے قربان کر دی ہے، ہفتم: ان کی یہ مخلصانہ خدمت صحیح معنوں میں خدمت ہے اور امامِ عالی مقام کی سچی غلامی کی منہ بولتی تصویر اور مثال ہے، جس سے گروہِ مومنین کو ہمیشہ ایثار و قربانی کا بہترین سبق ملتا ہے، ہشتم: یہ سعادت مند افراد شہیدوں کی طرح فضیلت رکھتے ہیں، کیونکہ شہید جان کی قربانی دیتے ہیں اور یہ صاحبان عزت کی قربانی پیش کرتے ہیں اور عقل و دانش کی نظر میں انسان کی عزت جان سے کچھ کم نہیں۔

شوز کمپنی گویا جماعت کی ایک ایسی تربیت گاہ اور ٹریننگ سنٹر ہے، جہاں جماعت کے پاک فطرت بچوں، بچیوں اور

۱۹۷

نوجوانوں کو مذہب اور جماعت کی بنیادی خدمت، احترام، ادب، تواضع، کسرِ نفسی، فروتنی اور جذبۂ قربانی کی عملی تعلیم دی جاتی ہے، تاکہ امامِ برحق کے یہ حقیقی مرید دین و دنیا کی ترقی میں آگے چل کر بڑے سے بڑے عہدے پر فائز ہو جانے کے باؤجود اپنی عزیز جماعت کے ایسے ہی خیر خواہ، خادم اور پاک امام کے جان نثار غلام رہ سکیں، اور نتیجے کے طور پر ان کو دونوں جہان کی سعادت و سرخروئی حاصل ہو۔

یہ قدرتی امر ہے کہ حقیقی مومنین کا دل کئی مذہبی مواقع پر موم کی طرح بڑی آسانی سے پگھل جاتا ہے، مثلاً اس وقت جبکہ خدا کے گھر میں اجتماعی طور پر عبادت کا مقدّس فریضہ انجام دیا جاتا ہے، جس وقت ساری جماعت یکدل و یک زبان ہو کر بآوازِ بلند تسبیح پڑھتی ہے، یا ذکرِ جلی کرتی ہے، جس گھڑی سب مل کر گنان پڑھتے ہیں، جہاں کہیں مذہبی تقدّس کا تصوّر اپنا کوئی جلوہ دکھاتا ہے، جس وقت بارگاہِ عزت میں نورِ امامت کا مقدّس دیدار حاصل ہوتا ہے، جہاں شانِ امامت کی تعظیم و تکریم کا مظاہرہ ہوتا ہے، جب کسی سالگرہ کے سلسلے میں اہلِ ایمان جذبۂ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں جیسے ہی سبز پرچم کو بلند کر کے فضا میں لہرایا جاتا ہے، جب

۱۹۸

والنٹیرز کور اور پانی کمپنی جیسی تنظیمیں جوش و جذبے کے ساتھ حرکت میں آتی ہیں، اور جہاں جہاں جماعتی بینڈ یا آرکسٹرا کے پُرکیف نغمات سے فضا گونجنے لگتی ہے۔

چنانچہ جب میں نے پہلی بار شوز کمپنی کی اس بے مثال خدمت کے مظاہرے کو دیکھا تو میں مذہبی مسرّت و شادمانی سے یا عجز و انکساری سے پگھل گیا اور یکایک میری آنکھوں سے آنسو ابھرنے لگے میرے دل نے رشک و حسرت سے کہا کہ کاش! مجھے بھی یہ سعادت حاصل ہوتی، اگرچہ میں اپنے علاقے میں والنٹیئرز کی تنظیم کا فاؤنڈر ہوں، لیکن خادمیّت، خدمت اور عاجزی کا جتنا مزہ جماعت کی کفش برداری میں ہے اتنا مزہ کسی اور خدمت میں مشکل ہے۔

 

امامِ حیّ و حاضر صلوات اللہ علیہ کی نورانی ہدایت و رہنمائی کی بدولت ہماری منظم جماعت دوسری بہت سی خوبیوں کے علاوہ حسنِ انتظام میں بھی مثالی حیثیت رکھتی ہے، جس کے نتیجے میں یہاں دینی اور دنیاوی طور پر بہت سی سہولتیں مہیا ہیں اور ان میں سے ایک اساسی راحت “شوز کمپنی” کی وجہ سے حاصل ہے، وہ یہ کہ خوش قسمت مومنین و مومنات جوتوں کی فکر سے بالا و برتر ہو کر سکون اور دلجمعی سے ذکر و عبادت میں

۱۹۹

مصروف اور محو ہو جاتے ہیں۔

سورۂ محمد (۴۷: ۰۷) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدمی عطا کرے گا۔ یعنی اگر تم نے دین کی خاطر ضروری خدمات انجام دیں، اور مطلوبہ قربانیاں پیش کیں، تو یہ خدا کے کام میں مدد کرنے کے برابر ہیں، لہٰذا تم کو اس کا ثواب و صلہ بھی اتنا ہی عظیم ملے گا، اور تمہیں صراطِ مستقیم پر بغیر لغزشوں کے آگے بڑھا دیا جائے گا، تاکہ تم منزلِ مقصود کو پہنچ سکو۔

نوٹ: یہ مضمون درخانہ شوز کمپنی کی سلور جوبلی ۱۹۵۴ء تا ۱۹۷۹ء سے متعلق نمبر میں شائع ہوا ہے، اپنی تحریروں میں محفوظ کر لینے کی غرض سے اسے دوبارہ لکھا گیا۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
ذوالفقارآباد، گلگت
۱۵ صفر ۱۴۱۰ھ
۱۶ ستمبر ۱۹۸۹ء

۲۰۰

ہماری ایک شاندار روایت

ایک ایسی باسعادت روحانی مجلس، اور ایسی مبارک شب، جس میں ہمارے کئی فرخندہ بخت ایمانی احباب بغرضِ علم و عبادت حاضر ہوئے تھے، یہ ہمارے مذہب کی پاک و پسندیدہ محفل، جو ناقابلِ فراموش اور تاریخی اہمیت کی حامل تھی۔ ۲۳ ستمبر ۱۹۸۹ء کی شام سے شروع ہو کر تقریباً چار گھنٹے جاری رہی، خانۂ حکمت گلگت کے دفتر کا ہال حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، شمالی علاقہ جات کے نامور خوش الحان منقبت خوان حضرات جمع ہوئے تھے، یقیناً ناردرن ایریاز میں یہ پہلا موقع تھا، جس میں اسماعیلی مذہب کی مرکزی ریسرچ (تحقیق) کی غرض سے اس مقدس روایتی محفل کی باقاعدہ متحرک اور بولتی تصویر (فلم) ریکارڈ کی گئی، اس یادگار مجلس میں میرے لئے یہ حکم ہوا کہ میں قصیدہ خوانی کی مقدس روایت پر کچھ روشنی ڈالوں، چنانچہ میں نے درجِ ذیل تقریر (جس کے بعض الفاظ میں فرق و تفاوت ہے) میں اس
۲۰۱

عمل کے لئے کوشش کی:
ہم سب جو یہاں جمع ہیں، آج اور اس وقت اپنے اس علاقے کی مقدس روایات میں سے کچھ کو سائنس کی روشنی میں تازہ کر رہے ہیں، جیسا کہ محترم سیکریٹری غلام قادر صاحب نے اپنی تمہیدی تقریر میں آپ کو بتایا، اور ان کی خواہش و فرمائش سے میں بھی استادہ ہوں، تاکہ اس مقدس روایت کے بارے میں کچھ عرض کروں، آج کی یہ مبارک محفل گنان یعنی منقبت کی ہے، یا یوں کہیے کہ قصیدہ خوانی کی ہے، کیونکہ ان تینوں الفاظ کا ایک ہی مطلب ہے۔

میں آپ سے یہ پُرخلوص عرض کرنا چاہوں گا کہ اس پاک روایت کا ہماری تاریخ میں کیسا شاندار کردار رہا ہے، میں تو کسی جھجھک اور تاخیر کے بغیر یہ کہنا پسند کروں گا کہ ہماری اس گنان خوانی یا قصیدہ خوانی کی مقدس روایت نے ہمارے آباواجداد کو اور ہمیں روح الایمان کی نورانی دولت سے نوازا ہے، یعنی ان تمام اسماعیلیوں کو، جو پیر ناصر خسروق س کے حلقۂ دعوت میں داخل ہیں، مذہبی زندگی کا بہت بڑا حصہ اسی پُرحکمت روایت سے ملا ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے اس علاقے میں زمانہائے دراز کے بعد علم کی

۲۰۲

روشنی آئی ہے، لہٰذا سوال اٹھتا ہے کہ ان زمانوں میں جبکہ یہاں نورِ علم نہ تھا، تو پھر یہ بہت بڑا خلا کس طرح پُر کیا گیا؟ اور کس چیز نے علم کا سا کام کیا؟ اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ اسی قصیدہ خوانی کی روایت نے دعوت و تبلیغ اور علم و حکمت کا ابتدائی اور ضروری کام انجام دیا، اور یہ اس روایت کی کم سے کم تعریف ہے۔

 

یقیناً اسی روایت نے ہم سب کو مذہبی روح میں زندہ اور قائم رکھا، اگر منقبت خوان حضرات نہ ہوتے، اور منقبت خوانی نہ ہوتی، تو شاید ہم روح الایمان سے زندہ ہی نہ ہو سکتے، اور اگر زندہ ہو جانے کے بعد یہ کمی واقع ہوتی، تو ہم ہلاک ہو جاتے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ جسمانی طور پر مر جاتے، نہیں نہیں، ہم ایمانی طور پر مر جاتے، لہٰذا ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہمارے اندر قصیدہ خوانی ہی سے روح الایمان پھونکی ہوئی ہے، یہی روح کچھ ترقی سے روح العشق بھی ہو سکتی ہے، آپ صاحبان کو علم ہے کہ منقبت خوانی میں امامِ عالی مقام علیہ السّلام کی ہرگونہ تعریف و توصیف ہے، پاک امام کے مقدّس عشق کا بہترین وسیلہ ہے، پس یہ مقدّس روایت کسی شک کے بغیر تمام تر دینی قوّتوں کا سرچشمہ ہے، جس سے مومنین

۲۰۳

کی روح الایمان اور روح العشق کو دائم الوقت، غذا، طاقت، اور روشنی حاصل ہوتی رہی ہے، لہٰذا ہمیں ہر وقت اور ہمیشہ اس روایت کو سلام کرنا چاہئے، اور اس کو موجودہ سائنسی آلہ جات کی مدد سے ہمیشہ کے لئے ریکارڈ اور محفوظ کر لینا چاہئے۔

یہ ایک ایسی مذہبی پرورش گاہ ہے کہ ہر درجے کے مومنین کے لئے اس میں سے ایمانی اور روحانی قوّت ملتی رہتی ہے، میں مزید آپ سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہر حقیقی مومن میں تین عظیم چیزیں ہیں: روح الایمان، عشقِ مولا، اور عقل، یہ تینوں اشیاء جسم سے بالاتر ہیں، چنانچہ روح الایمان کی بنیاد عقیدے پر قائم ہے، اور تمام ایمانی چیزوں پر استوار ہے، روح العشق کا قیام و بقاء ان تعلیمات پر ہے، جو ان توصیفی نظموں کے ظاہر و باطن میں بھری ہوئی ہیں، یعنی وہ ان عملی قصائد، مناقب اور گنانوں پر ٹھہری ہوئی ہے، امام کی تعریف ایسا اہم اور اتنا بڑا موضوع ہے کہ اس میں تمام حقائق و معارف زیرِ بحث آسکتے ہیں، اور یہ سب عقلی کائنات کی نعمتیں ہیں۔

امامِ زمان صلوات اللہ علیہ خداوندِ تعالیٰ کا اسمِ اعظم ہیں یہی وجہ ہے کہ جب کوئی عاشقِ صادق مولائے پاک کی منقبت

۲۰۴

کو پڑھتا ہے، یا سنتا ہے تو اس کی نیک بخت روح میں تھرتھراہٹ اور کپکپی شروع ہو جاتی ہے، جو نورِ عشق کی شعاعوں سے اثر قبولنے کی علامت ہے، کیونکہ اللہ کے زندہ اسمِ اکبر کی خوبیوں کے انتہائی قریب ہو جانا اور تجلیاتِ نورِ عشق کے بارِ گران کو برداشت کرنا انفرادی قیامت کو جزوی طور پر اٹھانا ہے، یہ بڑی عجیب بات ہے کہ قیامت چھوٹی بڑی قسطوں میں بھی ہے، آپ نے سنا ہوگا کہ قیامِ قیامت میں صورِ اسرافیل کا بہت بڑا کردار ہے، بلکہ قیامت کا دارومدار صور کے بجنے پر ہے، اسی طرح جب مضراب کی ضربِ عشق سے مقدس رباب کے تار نغمۂ داؤدی الاپنے لگتے ہیں، اور ڈفلی اپنی دل آویز آواز میں پوری طرح سے ہم آہنگی کرتی ہے، جب اسی کے ساتھ ساتھ مدحِ امامت کی کوئی پُرمغز نظم خوش الحانی سے پڑھی جائے، تو پھر وہ کونسا عاشق ہوگا، جس کا دل مثلِ شمع نہ جلتا ہو یا کم سے کم حرارت قبول نہ کرتا ہو، ان جیسے معنوں میں منقبت خوانی کی پاک روایت نے بہت بڑا تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔

الغرض بہت سے ممالک میں اور مختلف زبانوں میں اسماعیلی گنان خوانوں نے اسرافیلی لشکر کا کام انجام دیا ہے،

۲۰۵

یعنی انہوں نے ناقورِ عشق سے عشاق کو منزلِ فنا تک پہنچا دیا، اور مردہ دلوں کو جلا اٹھایا ، یقیناً گنان خوان کی آوازِ حزین و شیرین صورِ اسرافیل کی طرح کام کرتی ہے، اور اس سے اہلِ محبت کی خوش نصیب روحوں میں ایک قابلِ برداشت جزوی قیامت برپا ہوتی رہتی ہے، اسرافیل ایک بہت بڑا فرشتہ ہے جو موسیقی اور عشق کا مؤکل ہے، اور اس میں بہت بڑا حکیمانہ راز پوشیدہ ہے کہ قبروں کے مردے کسی اور وجہ سے نہیں صرف اور صرف صورِ اسرافیل ہی کی آواز سے زندہ ہو کر اٹھتے ہیں، یہ عقل والوں کے لئے اشارۂ بلیغ ہے کہ جب تک کوئی مومن ساز و سوزِ عشق کا سہارا نہ لے تب تک اس کی اصل روح (یعنی عارفانہ روح) جسم کی قبر میں مدفون ہی رہتی ہے، اب اگر اس کو ذاتی اور اختیاری قیامت کے وسیلے سے زندہ کرنا ہے، تو اس کی دو صورتیں ہیں: مسلسل اور شدید قیامت سے گزرنا ہوگا، اگر وہ مشکل ہے، تو پھر چھوٹی چھوٹی قسطوں میں اس کو برداشت کرے، یہ گنان اور دوسری عبادات کی ریاضت کا تذکرہ ہے، خوب غور کریں اور سمجھ لیں۔

موسیقی کے بارے میں علمائے اسلام کے درمیان اختلاف ہے، میں اس معاملے میں ذاتی طور پر ان حضرات کا

۲۰۶

ہم خیال ہوں، جو اس کو نیک اور بامقصد کاموں کی ترغیب و تشویق کے لئے جائز سمجھتے ہیں، مثال کے طور پر مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی کی ایک جامع کتاب “اسلام اور موسیقی” کو دیکھئے، نیز غزالی کی “کیمیائے سعادت” کی آٹھویں اصل ملاحظہ ہو، حضرتِ داؤد علیہ السّلام کی زبور میں اس کی تائید کے لئے بہت سی مثالیں تھیں، اور اب بھی موجود ہیں، یہ جاننا ضروری ہے کہ اصل زبور آسمانی کتاب ہے (۰۴: ۱۶۳) جو پیغمبرانہ دعا، گریہ و زاری، مناجات، نظم، لاہوتی گیت، نغمہ، محو و فنا، رازِ اسرافیلی، سازِ محبت، سوزِ عشق، علاج روحانی، غذائے جان، ستار اور بانسری کی روح، اور موسیقی کا جوہر ہے۔

ہر چیز کا ایک مؤکل (وکیل فرشتہ) ہوتا ہے، چنانچہ عشق

۲۰۷

حقیقی کا مؤکل اسرافیل (جدّ) ہے، جس کو موسیقی بے حد پسند ہے، کیونکہ خدائے علیم و حکیم نے اسے ایک ایسا ساز عطا کر دیا ہے، جو روحوں کو منزلِ فنا میں داخل کر کے از سرِ نو زندہ کرنے میں بے مثال ہے، اگرچہ اس ساز کا نام ناقور یا صور، یعنی ترئی، بگل، نفیری، قرنا ہے، لیکن جنہوں نے اس کو سنا ہے وہی جانتے ہیں کہ وہ دراصل دنیا کے تمام سازوں کا جوہر اور سرچشمہ ہے، اور کوئی شک نہیں کہ یہ اللہ کا ایک ایسا عظیم معجزہ ہے جو صرف عاشقانِ الٰہی کے لئے خاص ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے۔ وَّ اَنَّهٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا۔ اور یہ کہ ہمارے پروردگار کا فیضان بہت بلند ہے (۷۲: ۰۳) یعنی فرشتۂ عشق کے توسط سے فیضِ ربانی حاصل کرنے کے لئے علم و عمل کی پابندی چاہئے۔

حق بات تو یہ ہے کہ میں شروع شروع میں ایک نوجوان چوپان سے زیادہ کچھ نہ تھا، مگر مادری زبان (بروشسکی) ہی میں مجھے شعر کہنے کی توفیق عنایت ہوئی، حالانکہ قبلاً کوئی ایسا رواج قائم نہیں ہوا تھا، اس شاعری کی سب سے بڑی سعادت امام وقت صلوات اللہ علیہ کی تعریف و توصیف میں پوشیدہ تھی، چنانچہ نہ صرف اس بندۂ ناچیز ہی کو بلکہ رفتہ رفتہ

۲۰۸

دوسرے کئی حضرات کو بھی مذہبی شاعری کی نورانی ہدایت نصیب ہوئی، اور اسی طرح ان تمام مومنین پر بھی نورِ ولایت طلوع ہوا، جو بھرپور عشق سے امامِ زمان علیہ السّلام کی مدحیہ نظموں کو مقدّس رباب و دف کے ساتھ پڑھتے ہیں اور ان عاشقوں کے کانوں سے بھی روح القدّس کے نورانی ذرّات داخل ہوتے رہتے ہیں، جو اس زبورِ قیامت کو دل و جان سے سن رہے ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی، کراچی
جمعرات، ۱۰ شعبان المعظم، ۱۴۱۰ھ / ۸ مارچ ۱۹۹۰ء

۲۰۹

سورۂ جنّ میں سے سوالات

س نمبر ۱: آپ ہر بار کہا کرتے ہیں کہ جنّ جسمِ لطیف رکھتا ہے، اگر ایسا ہے، تو بتائیے کہ جنّات کے احساس کا انحصار صرف حواسِ ظاہر پر ہے، یا ان کو حواسِ باطن کا فائدہ بھی حاصل ہے؟ ج۔ جنّوں کے ظاہری حواس کے ساتھ ساتھ باطنی حواس بھی کام کرتے ہیں، تاہم جنّ و انس کے لئے بصیرت و معرفت خاص ہے، اور وہ صرف کاملین ہی کو حاصل ہو جاتی ہے۔

س نمبر ۲: سورۂ جنّ (۷۲: ۰۱ تا ۲۸) کے حوالے سے یہ پوچھنا ہے کہ یہاں آیت نمبر ۱ میں جنّات کی جس جماعت کا تذکرہ شروع ہوا ہے، وہ کلامِ خداوندی کی روشنی میں ایمان کے لحاظ سے کیسی جماعت ہے؟ کیا اعلیٰ ہے؟ یا ادنیٰ؟ یا

۲۱۰

متوسط؟

ج۔ ایمان کے درجۂ اعلیٰ پر ہے، کیونکہ اسی گروہِ جنّ کی زبانی قرآن کی خوبیاں بیان ہو رہی ہیں، اور اسی وسیلے سے باقی تمام جنّات کو دعوتِ اسلام و ایمان دی گئی ہے، اس معنیٰ میں یہ جماعت گویا پیغام رسان ہے۔

س نمبر ۳: ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ: جنّوں کی ایک جماعت نے قرآن ( کے عجائب و غرائب) کو سنا (۷۲: ۰۱) لیکن اہلِ معرفت کے لئے یہ تحقیق بے حد ضروری ہے کہ کس طرح سنا؟ آیا تلاوتِ قرآن کی سماعت ان کے ظاہر میں ہوئی؟ یا باطن میں؟ ج: ہمہ رس اور ہمہ گیر حقیقت یہ ہے کہ تلاوتِ آیات کا تجدّدِ امثال ہوا کرتا ہے، چنانچہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں فرمایا گیا ہے: جیسے ہم نے تم میں ایک رسول تمہیں میں سے بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں پڑھتا ہے۔۔۔ (۰۲: ۱۵۱) یہ پیغمبرِ خدا کی تلاوت کا تجدّد ہے جو زمان و مکان کی حدود و قیود سے بالاتر ہے، یعنی یہ تلاوت روحانیّت میں ہے۔

س نمبر ۴: ان جنّوں نے ایسا کیوں کہا؟ “ہم نے ایک عجیب قرآن سنا؟” حالانکہ لفظِ “عجیب” قرآن کے غیر معمولی

۲۱۱

ہونے کا تصوّر پیش کرتا ہے؟ کیا انہوں نے اگلی آسمانی
کتابوں کو بھی سنا تھا؟ ج۔ یقیناً جنّات کا ایمان لانا اور مومن ہونا بہت پہلے سے ہے، اور کوئی شک نہیں کہ قرآن ہر اعتبار سے حیرت انگیز اور تعجب خیز ہے، نیز اس کے ظاہری پہلو سے روحانی پہلو بڑا عجیب و غریب ہے، پس “قراٰنا عجباً” میں یہ سارے اشارے موجود ہیں۔

س نمبر ۵: کیا جنّوں کے مذکورہ گروہ نے قرآن کو روحانی طور پر صرف سن ہی لیا؟ یا اس کا مشاہدہ بھی کیا؟ ج۔ ایمان کے کئی درجات ہیں، انہوں نے نورِ قرآن کو دیکھا کہ عجیب طرح سے بھلائی کا راستہ بتاتا ہے، پس وہ بدرجۂ یقین ایمان لے آئے، اور خدا شناس موّحدین میں سے ہو گئے (۷۲: ۰۲)۔

 

س نمبر ۶: لفظِ جنّ قرآنِ حکیم کا ایک خاص خفیہ لغت (کوڈ ورڈ =Codeword  ) ہے، اس لئے جنّ کے بہت سے معنی ہیں، جیسے: فرشتہ، شیطان، نیک روح، بد روح، جسمِ مثالی، ہمزاد، اڑن طشتری، اہلِ باطن، وغیرہ، اب انہی معنوں کی مدد سے جنّات سے متعلق سوالات و جوابات کو سمجھنا ہوگا، سوال ہے کہ جنّوں کو کیسے علم ہوا کہ جدّ یعنی اسرافیل

۲۱۲

فرشتہ روحانیّت کی بلندی پر ہوتا ہے؟ ج: جب جنّات سے اہلِ باطن مراد ہیں، تو مطلب واضح ہوا کہ اہلِ باطن منازلِ روحانیّت سے خوب واقف و آگاہ ہوا کرتے ہیں، یقیناً صورِ اسرافیل کی معجزاتی آواز وہ وسیلہ ہے، جس کی بدولت مومنِ سالک منزلِ فنا اور مرتبۂ علمِ توحید میں داخل ہو جاتا ہے۔

س نمبر ۷: آیت نمبر ۴ اور نمبر ۵ کا حکمتی مفہوم بیان کریں۔ ج۔ جنّ و انس کا ہر بیوقوف فرد خدا کے بارے میں جو کچھ بھی کہے وہ جھوٹ ہے، جنّوں کو یہ گمان تھا کہ جو خدائے تعالیٰ کو مانتے ہیں، وہ اللہ کی نسبت جھوٹ نہیں بولتے، حالانکہ جو بات حقیقی علم کی روشنی میں نہ کہی گئی ہو، وہ دروغِ بے فروغ ہے، خواہ ظاہری اعتبار سے درست ہی کیوں نہ ہو۔

س نمبر ۸: جنّات اگر نیک اور مومن ہیں، تو وہ فرشتے ہو سکتے ہیں، اور فرشتے جب منتخب ہو جاتے ہیں، تو پیغام رسان فرشتے قرار پاتے ہیں (۲۲: ۷۵) اب اگر یہ انکشاف ہو جائے کہ مذکورہ جنّات دراصل پیغام رسان فرشتے ہیں، تو اس کا کیا فائدہ ہوگا؟ ج۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب کوئی ایک کلیدی راز کھل جاتا ہے، تو اس سے بہت سے خزائنِ اسرار کے اقفال (تالے) کھل جاتے ہیں، اور اسی طرح بہت

۲۱۳

سے قرآنی جواہر حاصل ہو جاتے ہیں۔

س نمبر ۹: آیت نمبر ۶ کی حکمت بیان کریں، اور یہ بتائیں کہ رجالِ انسی رجالِ جنّی میں کس طرح پناہ لیا کرتے ہیں؟ ج: یہاں لفظِ رجال حدودِ اعلیٰ کے معنی میں ہے، یعنی وہ مومنین جو علم و عمل میں مردوں کی طرح ہیں، انہیں اعلیٰ درجے کے جنّات زندہ کرتوں (۱۶: ۸۱) اور زندہ قلعوں (۳۴: ۱۳) کی حیثیت سے عطا ہو جاتے ہیں، یہ ہوا انسی مردوں کا جنی مردوں میں پناہ لینا، اور باقی باتیں اس راز پر حجاب کی خاطر ہیں، کیونکہ ظاہر و باطن کا کوئی خزانہ در و دیوار اور قفل و کلید کے سوا نہیں ہو سکتا۔

س نمبر ۱۰۔ کیا وہ دونوں زندہ اور معجزاتی کرتے جنّ کہلاتے ہیں، جو قادرِ مطلق نے اہلِ ایمان کو گرمی اور جنگ کے اثر سے بچانے کی خاطر بنا دئے ہیں (۱۶: ۸۱)؟ ج۔ جی ہاں، جامۂ جنّی اس معنیٰ میں خدائے بزرگ و برتر کا بہت بڑا انعام ہے، اور یہ سلطنتِ سلیمانی (روحانی) کا عظیم راز ہے، جب یہ کرتے ابداعی ہونے کے ساتھ ساتھ حیات و شعور کے بھی حامل ہیں تو واللہ!ان میں دین و دنیا کے بے شمار فائدے ہیں۔

۲۱۴

س نمبر ۱۱۔ آیت نمبر ۷ میں انبعاث کے بارے میں کونسی حکمت پوشیدہ ہے؟ اس کی وضاحت کریں۔ ج: زمانے میں جب شخصِ کامل کا ذاتی انبعاث ہوتا ہے، تو اسی کے ساتھ اہلِ زمانہ کا ذراتی انبعاث ہو جاتا ہے، جیسا کہ اہلِ معرفت کے مشاہدے میں آیا ہے کہ عوام النّاس پر غیر شعوری قیامت عالمِ ذرّ میں واقع ہوتی ہے، اور وہ بہت سی قرآنی آیات میں اس حقیقت کی نشاندہی کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر سورۂ یاسین ، رکوعِ چہارم کے شروع (۳۶: ۵۱ تا ۵۳) میں دیکھ لیں: اور صور پھونکا گیا پھر یکایک وہ (زندہ جسدانی) قبروں سے (بشکلِ ذرّات نکل کر) اپنے ربّ کی طرف دوڑتے ہیں (ینسلون میں ایک خاص حکمت بھی پوشیدہ ہے) الغرض یہ گمان کرنا درست نہیں کہ: زمانے میں کسی ایک (یعنی انسانِ کامل) کا انبعاث نہیں ہوتا ہے، حالانکہ مردِ حقیقت کی شعوری اور دوسرے سب لوگوں کی غیر شعوری قیامت قائم ہو جاتی ہے۔

س نمبر ۱۲: آیت نمبر ۸ کے مطابق یہ نمائندہ جنّات کس طرح آسمان کو چھو لیتے ہیں؟ اور آسمان کیوں مضبوط چوکیداروں اور چمکدار شعلوں کے ذریعے محفوظ کیا گیا ہے؟ ج:

۲۱۵

آسمانِ ظاہر سے بالاتر آسمانِ روحانی ہے، اس کی انتہائی بلندی پر سمائے عقلانی ہے، اور معلوم ہے کہ مادّی، روحانی اور عقلی آسمان میں سے ہر آسمان سات درجوں پر مبنی ہے، چنانچہ اس آیۂ کریمہ کا تعلق مرتبۂ عقل سے ہے، جو ایک لولوئے مکنون کی طرح ہے، جس کو اہلِ باطن میں سے صرف وہی حضرات چھو سکتے ہیں، جو پاک کئے گئے ہیں (۵۶: ۷۹) اور یہی آسمانِ عقلی ہے، جس کے سات مراتب ہیں، اور ہر نچلا آسمان اپنے اوپر کے آسمان کے لئے حجاب، چوکیدار، اور حفاظتی شعلوں کا کام کر رہا ہے، تاہم یہاں ہر چیز علم و حکمت سے بھرپور ہے، حفظ و نگہبانی کا یہ سارا بندوبست اس مقصد کے پیشِ نظر ہے کہ شیاطین کو اسرارِ الٰہی سے روکا جائے، تاکہ یہ تمام خزائن بلا شرکتِ غیرے صرف اہلِ معرفت ہی کے لئے مخصوص رہیں۔

س نمبر ۱۳۔ آج جس طرح سائنسی بھید ظاہر ہو رہے ہیں اور جیسے روحانی اسرار منکشف ہونے والے ہیں، ان کی مناسبت سے اس دور کو قرآنِ حکیم نے کیا نام دیا ہے؟ ج: اس کا نام ہے: وہ زمانہ جس میں پوشیدہ اسرار کی جانچ پڑتال ہوگی ( یوم تبلی السرآئر ۸۶: ۰۹) دیکھ لیں: ۴۱: ۵۳،

۲۱۶

۷: ۵۳، ان آیاتِ کریمہ کا مجموعی مطلب یہ ہے کہ آج کا زمانہ سائنسی اور روحانی بھیدوں کا زمانہ ہے۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
ذوالفقارآباد، گلگت
۳ شوال ۱۴۱۰ھ
۲۹ اپریل ۱۹۹۰ء

۲۱۷

مومن اور روح

۱۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حقیقی مومنین کے لئے کونسا مرتبۂ عالی مقرر فرمایا ہے؟ روح شناسی اور خدا شناسی کا وسیلہ کیا ہے؟ امامِ عالی مقام سے روحِ مومن کا کیا رشتہ اور تعلق ہے؟ آیا مومن فرشتہ ہو سکتا ہے؟ اگر یہ امر ممکن ہے تو کس طرح؟ اس راہ میں کونسا علم ضروری ہے؟ اور عمل کس قسم کا ہونا چاہئے؟ ان جیسے بے شمار علمی و عرفانی سوالات کے جامع الجوامع جوابات کے لئے ظاہراً و باطناً نورِ امامت سے رجوع کرنا ہو گا، چنانچہ ذیل میں حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے چند بابرکت و پُرحکمت ارشادت بطورِ نمونہ درج کئے جاتے ہیں:

۲۔ مومن کے منہ سے لعنت یا (دوسرے) بُرے الفاظ نہیں نکلنے چاہئیں، مومن کا منہ باغیچے کی مثل ہے (دارالسّلام، ۲۸۔۹۔۱۸۹۹) امامِ برحقؑ کے اس فرمانِ مبارک میں لعن طعن اور ہر قسم کی گالی گلوچ، خواہ کافر اور

۲۱۸

شیطان کے حق میں کیوں نہ ہو، بڑی حکمت سے منع کی گئی ہے، اس پر شاید کوئی یہ کہے کہ قرآنِ پاک میں شیطان کے بارے میں ہے: قَالَ فَاخْرُ جْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌ  وَّ اِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ (۳۸: ۷۷ تا ۷۸) ارشاد ہوا پس نکل آسمانِ روحانیّت سے کیونکہ بیشک تو رجیم ہے، اور بے شک تجھ پر میری لعنت رہے گی قیامت کے دن تک۔ رجیم کے معنی ہیں سنگسار کرنے والا، اور سنگسار کیا گیا، اور لعنت سے یہ مراد ہے کہ شیطان خدا کی رحمت سے دور ہوگیا، اور دوسروں کو بھی اس رحمت سے دور کر دینے کا ذریعہ بن گیا، چنانچہ آیت میں جیسے ارشاد ہوا ہے، وہ صرف واقعۂ شیطان کا تذکرہ ہے، اور اس میں ایسا کوئی حکم نہیں کہ ہر شخص شیطان پر لعنت بھیجا کرے، اور نہ ہی دوسری کسی آیۂ کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ تم لعنت اور دعائے بد کرو، بلکہ قانون یہ ہے کہ سفارش (نیک یا بد دعا) کا ایک حصہ صاحبِ سفارش کو مل جاتا ہے (۰۴: ۸۵)۔

۳۔ مومن کی نگاہ ہمیشہ بلندی کی طرف ہوتی ہے، مومن ایسا خیال رکھتا ہے کہ میں فرشتہ بن جاؤں (راجکوٹ ۲۱۔۱۰۔۱۹۰۳) یعنی مومن روحانیّت اور عقلانیّت کی بلندی کو

۲۱۹

پیشِ نظر رکھتا ہے، اور علم و عمل کے وسیلے سے فرشتہ بن جانے کے لئے جہدِ مسلسل کرتا رہتا ہے، جیسے قرآنِ حکیم زبانِ حکمت سے فرما رہا ہے کہ حقیقی مومنین مقامِ روح اور مرتبۂ عقل پر فرشتے ہو جاتے ہیں، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ یہ امرِ عظیم نورِ ہدایت کی روشنی میں ممکن ہے، میں نے اپنی تحریروں میں بار بار اس حقیقت کا ذکر کیا ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں۔

۴۔ ایک گھنٹہ خیال کرو کہ روح کیا ہے؟ اس قسم کی عادت ہو، تب ہی مومن بنا جا سکتا ہے، اسی طرح سوچو گے تو تب ہی مومن کی صفات اور مذہب کا تمہیں علم ہو گا۔ (دارالسّلام ۲۷۔۹۔۱۸۹۹)ایک گھنٹہ خیال کرنے سے بیت الخیال (کارِ بزرگ) مراد ہے، مذکورہ فرمانِ مبارک میں اسی بے مثال عمل کا ذکر ہے، اور اسی میں روحانی ترقی اور انتہائی بڑی کامیابی کا راز مضمر ہے۔

۵۔ تم مومن روحانی لشکر ہو، جو مومن شخص ہو، اس کی صحبت میں بیٹھنا۔ حقیقی مومن کی دوستی کرو گے تو فائدہ ہوگا۔ (راجکوٹ ۲۳۔۱۰۔۱۹۰۳) اس ارشادِ عالی سے معلوم ہوتا ہے کہ جہادِ روحانی ہمیشہ جاری ہے، کیونکہ “لشکر” کا لفظ یہی

۲۲۰

خبر دے رہا ہے، اس فرمانِ مبارک میں دوسری حکمت حقیقی مومن کی ہم نشینی اور دوستی ہے، جس سے علم و عمل اور دینداری کے تمام اوصاف مقصود ہیں۔

۶۔ جو مومن ہے، وہ فرشتے سے بھی بلند مقام پر جا سکتا ہے۔ (زنجبار۔ ۱۷۔۹۔۱۹۰۵)۔ یہ مرتبۂ فنا فی اللہ ہے، جو فنا فی الامام اور فنا فی الرسول کے بعد حاصل ہو جاتا ہے۔

۷۔ مومن دوزخ کے خوف یا جنت کی امید سے بندگی نہیں کرتا ، بلکہ خدا کی محبت اور عشق سے کرتا ہے، مومن جوں جوں خداوندِ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ محبت رکھتا ہے توں توں خداوند تعالیٰ کے زیادہ سے زیادہ نزدیک ہوتا جاتا ہے، اس وقت وہ خداوند تعالیٰ کو حاضر و ناظر دیکھتا ہے۔ (زنجبار ۷۔۹۔۱۸۹۹) ارشادِ قرآنی ہے: و الذین اٰمنوا اشد حبا للّٰہ (۲: ۱۶۵) اور جو (حقیقی) مومن ہیں ان کو (صرف) اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہایت قوی محبّت (عشق) ہے۔ اور جس کو خدا سے کامل عشق ہو، وہ ہر بندگی اور ہر نیکی عشق ہی سے کرتا ہے، ایسا مومن بہت جلد منزلِ دیدار میں پہنچ جاتا ہے، جس کے عجائب و غرائب بیان میں نہیں آسکتے۔

۸۔ تمہارے دل میں یہ خیال ہونا چاہئے کہ روح کہاں

۲۲۱

سے آئی اور واپس کہاں جائے گی، اس خیال کو دل سے جدا نہیں کرنا، یہ تمام عشق تمہارے خیال اور محبت کے لئے ہے، ہم تمہارے حق میں عشق چاہتے ہیں، اس لئے تمہیں اچھا راستہ دکھاتے ہیں (زنجبار ۱۶۔۹۔۱۸۹۹) جو مومن کارِ بزرگ میں شامل ہو، وہ تو روح کی شناخت کی کوشش بیت الخیال ہی سے کرے گا، کیونکہ معرفت کا اصل وسیلہ یہی ہے، اور جس کو ہنوز یہ کام نہ ملا ہو، وہ عام فکر و خیال کی مدد سے روح کی پہچان کا شوق پیدا کرے، اور امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کا عشق ہی ہے، جس سے روحانی ترقی کی ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔

۹۔ روح قید خانے میں کبھی بھی خوش نہیں ہے، تم رفتہ رفتہ اڑنے لگو گے علم والی روح زینہ بزینہ اوپر چڑھے گی، وہ ایک زینہ مکمل کر کے دوسرے زینے پر چڑھ سکے گی، لیکن جس کے پاس علم نہیں، وہ کہتا ہے کہ میں تو کہیں بھی نہیں جاتا، یہیں بیٹھا ہوں (دارالسّلام ۲۹۔۹۔۱۸۹۹) معلوم ہوا کہ روحانی زندگی میں پرواز ہے، اور اس میں تمام درجات سے بالاتر ہو جانا ہے، اور یہ سب کچھ علم کی بدولت ہے۔

۱۰۔ تمہارا دین ایسا ہے کہ اس پر عمل کرو گے، تو فرشتہ

۲۲۲

اور ملائک جیسے بن جاؤ گے، اور تمہاری روح پاک ہو جائے گی (جام نگر ۱۴۔۴۔۱۹۰۰) امامِ برحق کے اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ یہی مذہب صراطِ مستقیم ہے، اور قرآنی علم و حکمت اور رشد و ہدایت کا رخ اسی کی طرف ہے۔ الحمدللہ۔

۱۱۔ جس طرح بڑی ندی کا پانی سمندر میں پہنچتا ہے، اسی طرح انسان کی روح بھی بڑے سمندر (یعنی روحِ کل) میں پہنچتی ہے۔ روح کا بھی سمندر ہے، روح بھی وہیں جائے گی، وہ امید رکھے کہ اصل مکان کو پہنچوں۔ تمہیں خیال کرنا چاہئے کہ روح کہاں سے آئی؟ روح واپس کہاں جائے گی؟ جنہوں نے فلسفے کی کتابیں پڑھی ہیں، وہ سب جانتے ہیں (زنجبار ۱۴۔۹۔۱۸۹۹) اس پاک فرمان میں انسانی روح کی تمثیل ایک بڑی ندی سے دی گئی ہے، اور نفسِ واحدہ کو سمندر کہا گیا ہے، اور روح سے متعلق حقائق و معارف کی کتابوں کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے۔

۱۲۔ استاد ہوشیار ہونا چاہئے اور روحانی علم سے بھی واقف ہونا چاہئے (کچھ ناگپور ۲۹۔۱۱۔۱۹۰۳) ۔
ہمارے مومن کی جو خدمت کرتا ہے، وہ ہماری

۲۲۳

خدمت کرتا ہے، مومن کی روح ہماری روح ہے۔۔۔ (راجکوٹ ۲۰۔۲۔۱۹۱۰) ۔ اس فرمانِ مبارک میں روحانی علم کی اہمیت و ضرورت کا ذکر ہے، اور یہ ارشاد عجیب و غریب حکمتوں سے مملو ہے کہ مومن کی روح امامِ عالی وقار کی روح ہے، اس خصوصی ہدایت سے علم و حکمت کا ایک خاص دروازہ کھل جاتا ہے، جس سے جو مومن داخل ہو جائے، وہ بڑا خوش نصیب ہے۔

۱۳۔ جو علم سے ناواقف ہیں، انہیں روحانی معاملات میں اپنے جیسے بناؤ (راجکوٹ ۲۰۔۲۔۱۹۱۰)۔
جو اپنی روح کی حفاظت کرتا ہے، اس نے تو ایک ہی روح کی حفاظت کی، جماعت کی خدمت کرنے میں عبادت سے بھی زیادہ فائدہ ہے، اور بہت سی روحوں کی حفاظت کرنے کے برابر ہے (احمد آباد ۱۳۔۱۰۔۱۹۰۳)۔ اس مبارک ارشاد میں روحانی علم سے جماعت کی خدمت کرنے کا حکم ہے، اور امام علیہ السّلام کی نظر میں یہی جماعت کی حفاظت ہے۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
ذوالفقارآباد، گلگت
۲۱ شوال ۱۴۱۰ھ / ۱۷ مئی ۱۹۹۰ء

۲۲۴

قرآن اور اڑن طشتریاں

۱۔ یہ ہمارا ایمان اور پختہ یقین ہے کہ قرآنِ حکیم میں ہر ہر چیز کا بیان فرمایا گیا ہے (۱۶: ۸۹) اور کوئی شک ہی نہیں کہ اللہ جلّ جلالہ کی اس آخری کتاب میں واضح طور پر اڑن طشتریوں کا تذکرہ بھی ہے، جن کا قرآنی نام سرابیل ہے (۱۶: ۸۱) یعنی معجزاتی کرتے، جو ہر قسم کی گرمی اور تمام جنگوں میں اہلِ ایمان کی حفاظت کی خاطر پیدا کئے گئے ہیں (۱۶: ۸۱) یہ کرتہ ہائے ابداعی ہیں تو قدیم ہی، لیکن خدا نے نزولِ قرآن کے وقت یہ وعدہ فرمایا تھا کہ آئندہ زمانے (یعنی دورِ روحانیّت) میں لوگوں کو آفاق و انفس میں اپنے معجزات دکھائے گا، اور یہ سلسلہ ظاہراً و باطناً جاری رہے گا، تا آنکہ عیان ہو جائے کہ وہ حق ہے (۴۱: ۵۳) پس اڑن طشتریوں کا واقعہ انہی معجزات میں سے ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔

۲۔ بندۂ ناتوان جو کہن سال بھی ہے، ۲۷ مئی ۱۹۹۰ء کو گلگت سے بذریعۂ طیارہ اسلام آباد آیا، پھر اسی روز کراچی پہنچا

۲۲۵

تھا، ۳۰ تاریخ تھی کہ میرا عزیز پوتا امین الدین ہاتھ میں ۲۹ مئی ۱۹۹۰ء کا روزنامہ جنگ کراچی لے کر میرے پاس آیا، اور کہنے لگا: “دادا ! اس میں اڑن طشتریوں کا ایک واقعہ درج ہے” میں نے غور سے پڑھا، اچھا خاصا معلوماتی مضمون تھا، اور اس میں بہت سے اسرار تھے، جن کا تعلق علمِ روحانی سے ہے، لہٰذا یہاں کچھ وضاحت کرنے کی جسارت کرتا ہوں، تا کہ مغرب کے دوستوں کی جو فرمائش ہے، وہ بھی پوری ہو جائے یعنی لنڈن، امریکا اور فرانس کے عزیزان یہ چاہتے ہیں کہ اس قسم کے مسائل پر روشنی ڈالی جائے، تا کہ ان کے یقین میں اضافہ ہو جائے کہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ سے ہر چیز کا علم حاصل ہو سکتا ہے۔

۳۔ اس سلسلے میں مسئلۂ اوّلین یہ پیش آتا ہے کہ یو۔ایف۔اوز۔ ہر بار روس اور امریکا جیسے طاقتور ممالک میں منڈلاتی نظر آتی ہیں، اس کا کیا سبب ہو سکتا ہے؟ یہ مخلوق کسی غریب یا مسلمان ملک میں کیوں ظہور پذیر نہیں ہوتی؟ چونکہ یہ قدرتِ خدا کا بہت بڑا معجزہ ہے، لہٰذا اس کا مظاہرہ ان لوگوں کے سامنے ہو رہا ہے، جو دین اور خدا کو بھول چکے ہیں، اور جن کو صرف سائنس ہی پر فخر ہے، حالانکہ صحیح سائنس اللہ کی

۲۲۶

طرف سے ہے، اس لئے پروردگار کو ماننا چاہئے، چنانچہ غور سے دیکھ لیں کہ سنریھم (ہم عنقریب انہیں دکھائیں گے  ۴۱: ۵۳) کا قرآنی خطاب ان لوگوں کے بارے میں ہے، جو ربّ العزت سے روگردان ہو چکے ہیں، اور اب ایسے لوگوں کو خالقِ کائنات کے لئے قائل کر دینا ہے۔

۴۔ دوسرا سوال ہے کہ اڑن طشتری کی مخلوق سر کے بغیر کیوں نظر آئی؟ آیا ممکن ہے کہ اس کا سر ہی نہ ہو؟ جواب یوں عرض کرتا ہوں کہ جسمِ لطیف کے سر کا نہ ہونا ممکن ہی نہیں، مگر باور کیا جاتا ہے کہ وہ لطیف انسان جو اڑن طشتریوں سے ظاہر ہو جاتے ہیں، سر کو غائب اور دھڑ کو ظاہر کر سکتے ہیں، تا کہ ان کی شناخت نہ ہو سکے، جس طرح افرادِ پری (جنّات) اکثر بڑے بڑے رومال سر پر ڈال کر محجوب ہو جاتے ہیں، تا کہ دیکھنے والا یہ سمجھ سکے کہ اس مشاہدے کے باوجود بھی وہ جن (پوشیدہ مخلوق) ہی ہے۔

۵۔ گولہ یعنی اڑن طشتری ہوا میں تحلیل ہو گئی، مگر کیوں؟ اس لئے کہ یہ ابداعی چیز ہے، مختلف کیفیات میں تبدیل ہو سکتی ہے، کیونکہ اس کا تعلق عالمِ خلق سے نہیں، بلکہ عالمِ امر سے ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ یو۔ ایف۔ اوز (UFOs)

۲۲۷

بلا تاخیر وہ سب کچھ کر سکتی ہیں، جو اس دنیا کی کوئی مخلوق نہیں کر سکتی۔

۶۔ اڑن طشتریوں کے عجیب و غریب مظاہر نے انسانی سرگرمیوں میں دخل اندازی شروع کر دی ہے، جس کی متعدد مثالیں ہیں، وہ کیوں؟ کیا وہ اس تمام مادّی سائنس پر کنٹرول کرنا چاہتے ہیں؟ جی ہاں، یہی اشارہ ہے، اور ضروری بھی ہے، کیونکہ ان سے رابطہ رکھے بغیر آدمی روحانی سائنس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا، اس لئے یو۔ایف۔اوز کے بارے میں عالمی طور پر حسنِ ظن اور تحقیق کی اشد ضرورت ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا وہ عظیم وعدہ پورا ہو جائے، جو بہت بڑا روحانی انقلاب آنے سے متعلق ہے۔

۷۔ جیسا کہ بتایا گیا کہ یہ کرتہ ہائے ابداعی ہیں تو قدیم ہی سے، لیکن عوام سے بالکل پوشیدہ تھے، اب روحانی دور کے آغاز پر ظاہر ہونے لگے، آپ ان کو اچھے اور برے دو قسم کے جنّات بھی کہہ سکتے ہیں، جو حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی سلطنت کے لئے کام کرتے رہتے تھے، اب اُس زمانے سے بھی زیادہ حیرت انگیز کام ہو سکتا ہے، کیونکہ اس وقت مادّی ترقی آسمان کو چھو رہی ہے، اور جنّاتی (روحانی) طاقت وہ ہے،

۲۲۸

جو چاہے تو ظاہری کام کو مزید تقویت دے کر آگے لے جاتی ہے، اور چاہے تو اسے درہم برہم بھی کر سکتی ہے، تاہم یہ خدا کی مرضی و مصلحت سے ہے۔

۸۔ قرآنِ حکیم میں ایک ہی عظیم شیٔ کے بہت سے نام ہوا کرتے ہیں چنانچہ آپ جب روحانی علم کا خوب مطالعہ کریں گے، تو اس وقت معلوم ہوگا کہ قرآن میں جگہ جگہ اڑن طشتریوں کا ذکر موجود ہے، مثال کے طور پر اس چیز کا ایک نام قلعہ ہے (قرآنی لفظ محراب، جس کی جمع محاریب ہے ۳۴: ۱۳) یعنی روحانیّت کی زندہ لشکر گاہ، جس میں روحانی فوج رہتی ہے، اور اس میں یاجوج و ماجوج کا لشکر بھی ہے، جو ذرّاتِ لطیف کی شکل میں ہے۔

۹۔ یہ بات قرآنی حکمت پر مبنی ہے کہ خدا شناس مومن کے عالمِ شخصی میں جب حضرتِ ربّ العزّت جملہ کائنات کو لپیٹ لیتا ہے، تو اس وقت نہ تو فرشتہ باہر رہتا ہے، نہ جنّ، اور نہ ہی اڑن طشتری کی مخلوق، بلکہ ہر چیز مومن عارف کے ساتھ ایک ہو جاتی ہے، اور یہ بہت بڑا تجربہ امامِ مبین علیہ السّلام کے نور میں داخل ہو جانے کے بعد ہی حاصل ہو جاتا ہے، پس اڑن طشتری کا سوار دورِ روحانیّت کے بھیدوں کا

۲۲۹

خزانہ ہے۔

۱۰۔ اڑن طشتری لوگوں کے لئے امتحان اور معمّہ ہے، ورنہ اس میں سے ظاہر ہونے والی مخلوق وہی جسمِ فلکی (Astral Body) ہے، جس کو بعض لوگوں نے اڑن طشتری کے بغیر دیکھ لیا ہے، اور اس سے رابطہ ہوا ہے، وہ جسمِ لطیف دنیا کی ہر زبان کو خوب جانتا ہے، آپ اپنی زبان کی باریکیوں کو اسی طرح نہیں سمجھتے، جس طرح اس کو مہارتِ تامّہ حاصل ہے، غرض اس کے عجائب و غرائب بے شمار ہیں جن سے واقف و آگاہ ہو جانے کے لئے لوگوں کو ایک طویل وقت درکار ہے، اور کم سے کم یہاں یہ اشارہ تو جاننا چاہئے کہ بلندی سے آنے والوں کا جہاز (اڑن طشتری) ہوا میں کیوں تحلیل ہوا؟ یقیناً اس لئے کہ وہ جب چاہتے تو آنِ واحد میں اسے بنا سکتے تھے، اور اس کے بغیر بھی وہ ہر جگہ پرواز کر سکتے ہیں۔

۱۱۔ بعض دفعہ اڑن طشتریوں کے نمودار ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کے انجن بند ہو جاتے ہیں، یہ اشارہ ہے کہ روحانی لشکر کے مکمل ظہور کے ساتھ ساتھ مادّی سائنس خاموش ہو جانے والی ہے، تاکہ اس کی جگہ پر روحانی سائنس انتہائی عمدگی

۲۳۰

سے کام کرے، مثال کے طور پر جب اڑن طشتری جیسی طاقت مسخر ہو جائے، تو اس وقت نہ صرف ہر قسم کا جہاز بے کار ہو جائے گا، بلکہ ہر مہلک ہتھیار اور ہر آلہ بھی ختم ہو جائے گا، جو آج لوگوں کے لئے مہیا ہوگیا ہے، پس خدائے واحد و قہار کی خاص بادشاہی اسی طرح ہوگی (۴۰: ۱۶)۔

۱۲۔ جب روحانی انقلاب برپا ہو، اور روحانیّت کا دور دورہ ہو جائے تو اس وقت جنّت اس قدر نزدیک لائی جائے گی کہ وہ آدمی کے دل و دماغ اور حواسِ باطن کے ساتھ ایک ہو جائے گی (۲۶: ۹۰، ۵۰: ۳۱) پھر کوئی نعمت آنکھ، کان، وغیرہ سے کس طرح دور رہ سکتی ہے، اور اگر ہر چیز اتنی نزدیک آگئی، تو پھر ان ظاہری آلہ جات کی کیا ضرورت ہے۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی
۱۴۱۰۔۱۱۔۸ / ۱۹۹۰۔۶۔۲

۲۳۱

ناصر ق س کیسیٹ لائبریری

۱۔ الحمد للہ کہ عنقریب “شاخِ خانۂ حکمت و ادارۂ عارف، ذوالفقارآباد، گلگت” میں “ناصر کیسیٹ لائبریری” کا قیام عمل میں آنے والا ہے، جس میں ایک ہزار (۱۰۰۰) سے زیادہ اعلیٰ علمی کیسیٹ ہوں گے۔ جن میں علم و حکمت کی اتنی بڑی گنجائش اور مواد کی ایسی فراوانی ہے کہ آئندہ تحقیق کے زمانے میں اگر کسی یونیورسٹی کو ریسرچ (Research) کی توفیق ملی، تو کم سے کم ایک سو کتابیں تحریر کی جائیں گی، انہی کیسیٹوں میں “زبورِ قیامت” بھی موجود ہے، میں یہاں آپ کو یہ بھی بتا کے چلوں کہ مجموعۂ گریہ و زاری کا یہ نام جناب ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی نے رکھا ہے۔

۲۔ شاید آپ یہ بات جانتے ہوں گے کہ میری ایک کتاب “رموزِ روحانی” میری ایک بروشسکی نظم کے ترجمہ و تشریح پر مبنی ہے، جس میں صرف ۲۱ اشعار ہیں، اور یہ ایک مثال ہے کہ جس نظم و نثر میں روحانی علم ہو، اس کی تشریح و توضیح بڑی

۲۳۲

طویل ہوا کرتی ہے، کیونکہ یہ علم جامعیّت سے بھرپور ہوتا ہے۔

۳۔ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کی دعائے ظاہر و باطن کی برکت سے ہمارے بے حد عزیز رفقا اور شاگرد جو شرق و غرب میں پھیلے ہوئے ہیں، انتہائی گرانمایہ خدمات انجام دے رہے ہیں، اور میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی علم کے ان عاشقوں نے خدا کے فضل سے ایک روحانی یونیورسٹی پیاری جماعت کے سامنے پیش کر دی ہے، جس کا دائمی سرمایہ نہ صرف کتابوں اور کیسیٹوں ہی کے خزائن ہیں، بلکہ بہت سے سکالرز اور دانشور کے قیمتی جواہر بھی پیدا ہو رہے ہیں، پس خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے، کہ اس نے مومنین کو دریائے نعمت میں غرق کر دیا۔

۴۔ ہماری سب سے بڑی خوشی اس بات سے ہے کہ حضرتِ مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام صلوات اللہ علیہ اس علمی خدمت سے بے حد راضی ہیں، اور ہمیں اس کا یقین ہو چکا ہے کہ مولائے زمان ہماری ناچیز کوشش سے خاص طور پر خوش ہیں، اور مولا جانتے ہیں کہ اظہارِ خوشی کے معاملے میں انسان کتنا بے صبر ہوتا ہے، چنانچہ اگر امامِ برحقؑ کوئی ایسا

۲۳۳

فرمان صادر فرماتے تو نہ معلوم فخر و خوشی سے ہمارا کیا حشر ہوتا، اس لئے جن معتبر ذرائع نے بتایا ہے کہ مولائے پاک اس کام سے بے حد راضی ہیں، اسی پر یقین کرتے ہوئے مزید خدمت کے واسطے کمر بستہ ہونا چاہئے اور بس۔

۵۔ بروزِ ہفتہ ۲ جون ۱۹۹۰ء کو محترم ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی صاحب سے (لنڈن۔ کراچی) فون پر گفتگو ہوئی، جس میں انہوں نے میرے لنڈن کے پروگرام کے باب میں دریافت فرمایا، تو میں نے اسے آئندہ سال پر چھوڑدینے کے لئے گزارش کی، انہوں نے تو میری خواہش پر مجبور ہو کر منظوری دے دی، مگر ہماری نیک بخت بیٹی صمصام (رشیدہ) اپنے استاد باپ کی ایسی بات سے رونے پر تلی ہوئی تھی، اور فرما رہی تھیں کہ یہاں سب عزیزان انتظار کر رہے ہیں، پھر ٹیلیفون ڈاکٹر صاحب کو دیا گیا۔

۶۔ لنڈن کے سفر کا ایسا التوا کیوں؟ بہت سے اساسی کام تو وہیں پر انجام دیئے جاتے ہیں، تو پھر کیوں نہیں گیا؟ کیا کروں! اس دفعہ بہت سی مجبوریاں جمع ہوئی ہیں، سب سے خاص بات یہ ہے کہ ابھی اسی موسم میں مسگار جانا ہے، کتنے سال ہوئے ملاقات نہیں ہوئی ہے، ہونزہ میں بھی عزیزوں

۲۳۴

سے ملاقات باقی ہے، گلگت میں عزیز دوستوں نے کہا کہ آپ کی موجودگی کے بغیر کتابوں کی نمائش، کیسیٹوں کا افتتاح، وغیرہ نہیں ہو سکتا، اور سچ بات ہے کہ میری صحت بھی احتیاط اور پرہیز کی متقاضی ہے۔

۷۔ لنڈن میں کتنا کام ہوا ہے؟ اور کنیڈا میں؟ ایسے سوالات کے جوابات بعد کے مؤرخ مہیا کر دیں گے، فی الحال ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ لنڈن میں ہر سال کئی کتابوں کا نہایت ہی عمدہ اور اعلیٰ ترجمہ ہوتا ہے، تاہم اس سال جو کام ہوا ہے، وہ بے مثال ہے، اور وہ ہے: “بہشتے اسقرک” کا انگریزی ترجمہ، جو ڈیووشنل لٹریچر کا ایک بہترین نمونہ ہے، یہ ترجمہ بصورتِ کتاب مولا کے حضورِ پاک میں پیش ہوگا، جس طرح دیگر تمام کتابیں جاتی ہیں، آپ سب خلوص و عاجزی سے دعا کرتے رہیں۔

۸۔ کراچی میں شروع ہی سے قابلِ تعریف کام ہو رہا ہے، صدر فتح علی حبیب، صدر محمد عبد العزیز، چیف ایڈوائزر خان محمد، نائب صدر نصر اللہ، نائب صدر محیّ الدین، ڈاکٹر رفیق ، جائنٹ سیکریٹری الامین، اور دیگر عملداران و ارکان دن رات بڑی جانفشانی اور زبردست محنت سے مختلف کاموں کو

۲۳۵

انجام دے رہے ہیں، جن کے ایسے جذبۂ خدمت کی بدولت مزید کتابیں چھپ کر شائع ہو رہی ہیں، کراچی میں ایک اور قابلِ ذکر ترقی “خزائن کیسیٹ لائبریری، کریم آباد” بھی ہے، جس کے ممبران بدرجۂ انتہا علم دوست، ازحد ترقی پسند، اور دل و جان سے جماعت کے خادم ہیں، لہٰذا ان کو علم، عبادت اور خدمت کے بغیر کوئی آرام و سکون نہیں۔

۹۔ عالمِ شخصی میں ساری کائنات موجود ہوا کرتی ہے، اس میں سب سے پہلے سیّارۂ زمین کی صورتِ لطیف پنہان ہے، جس میں لازماً تمام چھوٹے بڑے ممالک اور اقوامِ عالم ہیں، اور ان میں فرانس کیوں کر نہ ہو، فرانس میں ایک بلند ترین پہاڑ اپنا کام کر رہا ہے، یہ میرا ایک عجیب نورانی خواب تھا، جو تقریباً تین سال قبل لنڈن میں دیکھا تھا، جس کے اصل الفاظ یہ ہیں “The Highest Mountain in France” (فرانس کا بلند ترین پہاڑ) جس کی تعبیر عزیز و محترم امام داد کریم ہیں۔

۱۰۔ مجھے فخر سے نہیں بلکہ شکرگزاری سے کہنا چاہئے کہ ہمارے بعض عزیزان (یعنی شاگرد) امریکا جیسے عظیم ملک میں بھی قیام پذیر ہیں، وہ فرخندہ بخت افراد ہمارے ساتھ

۲۳۶

مل کر حقیقی علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں، ان کو یقین ہے کہ روحانی علم خزینۂ امامت ہی سے حاصل ہوتا ہے، اس لئے وہ جان و دل سے اس علم کے عاشق ہیں، وہ ہمارے ہر مقالے اور ہر نئی کتاب کا بڑی شدت سے انتظار کرتے رہتے ہیں۔

۱۱۔ شمالی علاقہ جات کے عزیزان بھی انتہائی مخلص، مولا کے عاشق، علم دوست، اور ترقی پسند مومن ہیں، انہوں نے تمام عزیزوں کی مدد سے ایک عالی شان دفتر بنایا ہے، جس میں بڑی گنجائش ہے، اس دفتر میں خانۂ حکمت، ادارۂ عارف، اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کے لئے الگ الگ کمرے ہیں، نیز کتابوں کی لائبریری اور کیسیٹ لائبریری کی جگہ بھی ہے، ہال میں میٹنگ، مجلس، اور اجتماع ہوتا ہے، اور خاص مہمانوں کی رہائش کے لئے بھی ایک روم ہے۔

۱۲۔ جب یہ بندۂ حقیر یارقند (چین) میں تھا، تو اُس وقت ایک روشن خواب میں کوئی مقدّس آواز کہہ رہی تھی کہ: “گلگت میں بہت ترقی ہو رہی ہے۔”  ناچیز کے دل میں خیال آیا کہ وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہوں گے، جو ایسی ترقی کے لئے کام کرتے ہوں، اب اگر ہم پھیلی ہوئی حقیقی علم کی روشنی کو اصل ترقی مانیں، تو یہ بات حقیقت ہو گی، ورنہ ہماری کون سی

۲۳۷

مادّی ترقی ہے، اور ہم کس شمار و قطار میں ہیں۔

۱۳۔ اب میرے دل میں ایک ہی شدید ارمان ہے، جو بعض دفعہ درد کی صورت اختیار کرتا ہے، وہ یہ کہ میرے شاگردوں میں سے جو عزیزان ہر وقت بادۂ علم سے مخمور رہتے ہیں، وہ تو مست ہی ہیں، لیکن جن عزیزوں کے دل و دماغ میں ہنوز علمی جنون پیدا نہ ہو سکا ہے، ان کے لئے کیا کروں؟ کیسے پُرکشش الفاظ میں علم و حکمت کی اہمیت کا ذکر کروں؟ یا ربّ العالمین! یا خیر الناصرین! یا مسبب الاسباب! یا مفتح الابواب! یا اللہ تو ہی کوئی وسیلہ بنا دے، تاکہ ہر عزیز دلدادۂ علمِ روحانی ہو جائے! تاکہ اب سے شروع کرکے اسلام اور انسانیّت کی کوئی خدمت انجام دی جائے۔

۱۴۔ دوستانِ عزیز! آپ میں سے کوئی شاید یہ خیال کرے کہ استاد ہمیشہ اور ہر وقت علم ہی کی رٹ لگاتا ہے، نہیں نہیں، کہاں؟ کب؟ علم کی اہمیت کا یہ تذکرہ تو نہ ہونے کے برابر ہے، اگر قدرتِ خدا سے آپ کے قرب و جوار میں علم کا کوئی کارخانہ ہوتا، تو اس میں شب و روز علمی اشیاء بنتی جاتیں، ساتھ ہی ساتھ لازمی طور پر اس کی کوئی مسلسل آواز بھی ہوتی، اور اُس لگا تار آواز کا ترجمہ ہوتا: علم، علم، علم، علم،

۲۳۸

علم، علم، جس طرح نہر پر پن چکی گویا کہتی رہتی ہے: آٹا، آٹا، آٹا، آٹا، آٹا، آٹا۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
جمعرات ۱۳ ذیقعدہ ۱۴۱۰ھ
۷ جون ۱۹۹۰ء

۲۳۹

چہار ارکانِ تصوّف

۱۔ تصوف کے چار ارکان یہ ہیں: شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت، بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ اصطلاحات بعد میں بنائی گئی ہیں، جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ یہ شروع ہی سے ہیں، جیسا کہ وہ اس حدیث کو بیان کرتے ہیں الشریعۃ اقوالی، والطریقۃ افعالی، والحقیقۃ احوالی، والمعرفۃ سری  (شریعت میرے اقوال کا نام ہے، طریقت میرے افعال کا مجموعہ ہے، حقیقت میرے روحانی کوائف میں ہے، اور معرفت میرا راز ہے)۔

۲۔ اسلام کے دینِ فطرت ہونے میں کس کو شک ہو سکتا ہے، لیکن آپ یہ نکتہ ضرور جانتے ہیں کہ فطرت ہمیشہ عروج و ارتقاء کی متقاضی ہوتی ہے، اسی لئے ارشاد ہوا: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًاؕ (۰۵: ۴۸) تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے شریعت اور طریقت مقرر کر دی ہے “لکل= ہر ایک کے لئے،” میں اہلِ کتاب کا بھی ذکر ہے کہ

۲۴۰

قبلاً ان کے لئے بھی یہ نعمت عطا ہوئی تھی، مگر اب نہیں۔

۳۔ اگر دینِ اسلام دینِ فطرت نہ ہوتا، اور اس میں قدم بقدم اور منزل بمنزل ترقی و پیشرفت کی کوئی گنجائش نہ ہوتی، تو صراطِ مستقیم اور سبیل جیسے نام اس کے لئے استعمال ہی نہ ہوتے، اور قرآنِ حکیم میں بار بار لفظِ ہدایت اور اس کے ہم معنی الفاظ نہ آتے، نہ خدا کی کوئی رسی ہوتی، اور نہ ہی اسوۂ حسنہ میں سیڑھی (معراج) کیونکہ یہ تمام معانی حرکت، ترقی، اور عروج کا حکم دیتے ہیں، غرض قرآن اور حدیث کی ہر بات ہدایت ہے، یعنی مسلمین و مومنین کو راہِ راست پر چلا کر خدا سے واصل کر دینا، اور یہ ہدایت اتنی ضروری اور ایسی خاص ہے، کہ بہت کچھ کرنے کے بعد ہی خصوصی ہدایت کے لئے درخواست کی جا سکتی ہے، سورۂ فاتحہ میں ذرا غور کیجئے، سب سے پہلے عام ہدایت کی روشنی میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا اور تعریف و توصیف ضروری ہے، پھر عبادت، جیسا کہ حق ہے، پھر استعانت کا حکم ہے، اور پھر اس ساری تیاری کے بعد ہی خصوصی ہدایت کے لئے بارگاہِ ایزدی سے درخواست ہونی چاہئے، تاکہ نورِ ہدایت طلوع ہو کر مومن سالک کی رہنمائی اور دستگیری کرے، اور درجہ بدرجہ آگے لے چلے۔

۲۴۱

۴۔ آیا قرآنِ عزیز میں درجات کا ثبوت نہیں ہے (۰۳: ۱۶۳)؟ یقیناً اٹھارہ مقامات پر موجود ہے، کیا یہ درجے جتنے بھی ہوں صراطِ مستقیم پر نہیں ہیں؟ کیوں نہیں، جبکہ راہِ راست سے باہر سوائے گمراہی کے کچھ بھی نہیں، اگر ایسا ہے تو یہ بھی سچ ہے کہ دینِ اسلام جو خدا کی طرف جانے کا واحد راستہ ہے، اس کے بڑے بڑے درجے یا بڑی بڑی منزلیں چار ہیں، جو شریعت، طریقت، حقیقت ، اور معرفت ہیں، مگر اس راہ کی چھوٹی چھوٹی منزلیں بہت زیادہ ہیں۔

۵۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ خداوند تعالیٰ درحالے کہ آدمی کی رگِ جان سے بھی قریب تر ہے (۵۰: ۱۶) انسان قولاً و فعلاً اس ذاتِ اقدس سے بہت دور پڑا ہے، اسی دوری کو قدم بقدم اور منزل بمنزل ختم کر کے قربِ خاص حاصل کرنے کے لئے حکم ہوا: ۔۔۔ وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِبْ (اور سجدہ کرتے رہو اور نزدیک ہوتے جاؤ  ۹۶: ۱۹) یعنی ہر کامیاب بندگی اور سجدے سے راہِ حق کی کچھ مسافت طے ہوتی رہتی ہے تا آنکہ فنا فی اللہ کی آخری منزل نمودار ہو جائے۔

۶۔ صراطِ مستقیم پر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی روحانی ترقی کس طرح ہوئی، اس کے لئے سورۂ انعام

۲۴۲

(۰۶: ۷۵ تا ۷۹) میں دیکھ لیں، مختصر یہ کہ آپ نے سب سے پہلے رات دیکھی، پھر ستارے کی چمک نظر آئی، پھر چاند کی روشنی، پھر سورج کی ضو فشانی، اور آخر میں معرفت حاصل آئی آپ کو شاید اعتراض ہو کہ رات تاریک کیوں؟ میں کہوں گا کہ اگر شبِ تاریک نہ ہوتی، تو ستاروں اور چاند کا مشاہدہ ہی نہ ہوتا، اور رات ہی تو ہے، جو دن کو جنم دیتی ہے، جس میں آفتاب کی ضیا پاشی ہوتی ہے، یعنی شریعت پر درست عمل کرنے سے سب کچھ ہو جاتا ہے۔

۷۔ اگرچہ منزلِ مقصود سب کی ایک ہی ہے، اور وہ ہے “فنا فی اللہ و بقا باللہ” تاہم صراطِ مستقیم پر خاصانِ الٰہی کے چار درجات ہیں: درجۂ انبیاء، درجۂ اولیاء (صدیقین)، درجۂ شہداء، اور درجۂ صلحا، (۰۴: ۶۹) اس کا واضح اشارہ یہ ہوا کہ راہِ دین کی بڑی منزلیں چار ہیں: شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت، اور اس کا نقشہ حسبِ ذیل ہے:

صراطِ مستقیم

معرفت

انبیاء

حقیقت

اولیاء

طریقت

شہداء

شریعت

صلحاء

۲۴۳

۸۔ ارشادِ باری تعالیٰ کا ترجمہ ہے: اور جو شخص اللہ اور رسول کا کہنا مان لے گا تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صلحاء اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں (۰۴: ۶۹) یہ قرآنِ حکیم کی روشن ترین دلیلوں میں سے ہے اور اس میں ہر ہر مومن کی روحانی ترقی کی انتہاء کا ذکر فرمایا گیا ہے، ظاہر ہے کہ راہِ روحانیّت میں بھی اور منزلِ مقصود میں بھی نورِ ہدایت مومنین کے ساتھ ہوتا ہے، کیونکہ یہی نورِ نبوّت اور نورِ ولایت ہے، اور اسی نور میں شہداء اور صالحین بھی جمع ہیں، اور یہی حضرات رفاقت کے لئے سب سے بہترین ہیں، مومنین کے اس نور کا تذکرہ دیکھیں، ۰۵: ۱۵ تا ۱۶،  ۵۷: ۱۲،  ۵۷: ۱۹،  ۵۷: ۲۸،  ۶۶: ۰۸۔

۹۔ جب شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس جمع کر لیتی ہیں، تو اس حال میں ایک پھول کا رس دوسرے پھول کے رس کے ساتھ بلا فرق و امتیاز بڑی آسانی سے مل جاتا ہے، بالکل اسی طرح قرآنی آیات اگرچہ ظاہری موضوعات کے اعتبار سے الگ الگ اور مختلف ہیں، لیکن وہ اپنے جوہرِ حکمت میں مل کر ایک ہو جانے کا خاصہ رکھتی ہیں، چنانچہ یہاں روحانی اور نورانی

۲۴۴

رفیق و رفاقت (ہمراہ اور ہمراہی) کے تذکرے سے نورِ ہدایت کی نوازشات کا اشارہ ملتا ہے، کیونکہ رہنماؤں کو مومنین کے لئے رفقاء قرار دینا، اور وہی باطنی نعمتیں عطا فرمانا، جو ان حضرات کو عنایت کی گئی ہیں، خدا کا بہت ہی بڑا احسان ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ مومنین روحانیّت اور معرفت کے بڑے سے بڑے اسرار میں بھی انبیاء و اولیاء کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔

۱۰۔ جاننا چاہئے کہ بے شمار شکوک و شبہات کا ازالہ اور تمام تر مشکل مسائل کا حل نظریۂ تجدّدِ امثال سے کام لینے میں ہے، اور فنا فی اللہ و بقا باللہ کا تصوّر علم کی بازگشت (لوٹ جانے کی جگہ) بھی ہے، اور معرفت کا سرچشمہ بھی، اس کا یہ مطلب ہوا کہ آپ نورِ ہدایت کی روشنی میں پیغمبروں کا ہر معجزہ دیکھ سکتے ہیں، یہی روحانیّت کا تجدّد ہے، اور اسی میں سب کچھ ہے، الحمدللہ۔

۱۱۔ آپ اپنے زمانے کے امام میں فنا ہو جائیں، تاکہ اس مبارک عمل سے فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کا دروازہ کھل جائے، اور آپ کو بعون و عنایتِ الٰہی یہ سب سے بلند ترین مرتبہ حاصل ہو، اور گنجِ مخفی آپ ہی کا ہو جائے، جس

۲۴۵

میں آپ دیکھیں گے کہ وہاں کس طرح اسرارِ ازل و ابد سب کے سب یکجا ہیں۔

۱۲۔ امامِ وقت میں فنا ہو جانا کوئی بازیچۂ اطفال تو نہیں، اس راہ میں ہزاروں مشکلات اور رکاوٹیں ہیں، اور وہ بھی انتہائی شدید، تاہم کوئی غم نہیں، نورِ عشق کا بھرپور سہارا لیں نورِ عشق، نورِ عشق، نورِ عشق۔۔۔ وہ خود، وہ خود، وہ خود آپ کو بتائے گا کہ کیا کیا کرنا ہے۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
پیر ۲۴ ذیقعدہ ۱۴۱۰ھ
۱۸ جون ۱۹۹۰ء

۲۴۶

گل ہائے بہشت

۱۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ اس خاکسار کی اوّلین باقاعدہ بروشسکی نظم ۱۳۵۹ھ /۱۹۴۰ء میں منظرِ عام پر آگئی، لیکن بتوفیقِ الٰہی ابتدائی نوعیت کی شاعری کچھ پہلے سے شروع ہوئی تھی، اللہ تبارک و تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس کریمِ کارساز نے اپنے فضل و کرم سے اس بندۂ ناچیز کو نصف صدی تک بروشسکی زبان کی خصوصی خدمت کا نہ صرف بہترین موقع ہی عنایت فرمایا، بلکہ اس قومی اور مذہبی کام میں تائیداتِ لاریبی سے بھی نوازا، جس کی برکتوں سے آج ان نظموں کو یہ مقام حاصل ہوا ہے۔

۲۔ بروشسکی ریسرچ اکیڈمی (Academy)  کا قیام اگرچہ ۱۹۸۲ء میں عمل میں آیا، لیکن جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، استادِ ازل نے اپنی حکمت سے ایک چوپان (گڈریا) کے دل و دماغ میں اس ادارے کا سنگِ بنیاد بہت پہلے ہی رکھا تھا، یقیناً اسی وجہ سے وہ خادم (یعنی یہ بندہ) ظاہراً میدان بنانے

۲۴۷

میں مصروف تھا، اور اب خدا کی رحمت و مہربانی سے یہ درویش اس میدانِ عمل میں تنہا نہیں ہے، اس کے ساتھ بہت سے رفقائے کار بھی ہیں، جو بڑے دانشمند اور مہربان ہیں، جن کو میں اپنی جانِ شیرین ہی کی طرح بے حد عزیز رکھتا ہوں، بے حد عزیز۔

۳۔ “خانۂ حکمت(۱)” جبکہ اس کا پہلا نام “دار الحکمت” تھا سب سے پہلے میرے خوش نصیب گاؤں حیدرآباد (ہونزہ) میں قائم ہوا، یہ اتوار ۹ محرم ۱۳۸۳ھ / ۲ جون ۱۹۶۳ء کی بات ہے، اس ادارے کے اوّلین صدر جناب غلام محمد بیگ صاحب تھے، لیکن اُن دنوں میں یہ ادارہ صرف ایک چھوٹا سا مذہبی مکتب تھا، تاہم اس کی ترقی کی خاطر ہماری کوششیں جاری تھیں، جی۔ایم۔بیگ میرے نوجوان دوست اور شاگرد تھے، وہ میری تقریروں کو شوق و غور سے سنتے، اور فارسی کتابِ وجہِ دین کی تعلیم لیتے تھے، میں خود ان کے گھر جا کر پڑھایا کرتا تھا، انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے کام لے کر ہر میدان میں ترقی کی۔

۴۔ پھر جب خانۂ حکمت کا اصلی و اساسی کام کراچی میں شروع کیا گیا، اور تصنیف و اشاعت کی طرف بھرپور توجہ دی

۲۴۸

گئی، تو اس کی ترقی کے آثار نمایان ہونے لگے، اسی دوران ادارے کی تنظیمِ نو بھی عمل میں آئی، جس میں ہم نے جناب فتح علی حبیب کو صدر بنایا، پھر چند سالوں کے بعد ان کی انمول خدمات کی بناء پر تاحیات صدر ہونے کا اعلان ہوا، اور ان کی بیگم محترمہ گل شکر کو ایڈوائزر کا اعزاز دیا، محترمہ شاہ بی بی کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے، جناب خان محمد چیف ایڈوائزر کا درجہ رکھتے ہیں، جناب غلام قادر (سابق صدر گلگت برانچ) ناردرن ایریاز کے لئے مشیر (ایڈوائزر) ہیں، جناب ڈاکٹر رفیق جنت علی خانۂ حکمت کے آنریری سیکریٹری /میڈیکل ایڈوائزر ہیں، اور ان کی بیگم محترمہ شاہ سلطان بھی میڈیکل ایڈوائزر ہیں،  ہمارے ادارے سے اور بھی قابل ڈاکٹرز منسلک ہیں، ہم ان شاء اللہ تعالیٰ ان کے اسمائے گرامی کو بھی اپنی تاریخ میں ثبت کرلیں گے۔

۵۔ ادارۂ عارف کو پہلے پہل کنیڈا میں جناب شیراز شریف نے میری تجویز سے اُس وقت قائم کیا تھا، جبکہ میں پہلی بار شرقی کنیڈا کے دورے پر گیا تھا (یعنی ۷ دسمبر ۱۹۷۷ء تا ۲۷ مارچ ۱۹۷۸ء) لازمی طور پر اس ادارے کے اوّلین چیئرمین شیراز صاحب ہی ہوئے، جن کا ذکرِ جمیل

۲۴۹

کتابِ “مطالعۂ روحانیت و خواب” میں موجود ہے، اور اب چند سال ہوئے “عارف” کا مرکز کراچی (پاکستان) منتقل ہو چکا ہے جس کے صدر جناب محمد عبد العزیز اور سیکریٹری ان کی بیگم محترمہ یاسمین ہیں، ہم نے بارہا اپنے عملداروں کی گرانقدر خدمات کا ذکر کیا ہے، اگر میں کراچی، شمالی علاقہ جاتِ پاکستان، کنیڈا، لنڈن، فرانس، اور امریکا کے عزیزان کی تمام تر خدمات کو تفصیل سے قلمبند کر سکتا، تو اس سے ایک بے حد دلکش اور بڑی ضخیم کتاب بن جاتی، لیکن نامۂ اعمال سے بڑھ کر کوئی کتاب نہیں۔

۶۔ آج جمعۂ مبارک ۲۸ ذیقعدہ ۱۴۱۰ھ / ۲۲ جون ۱۹۹۰ء ہے، اس موقع پر یہاں ہمارے عزیز و محترم صدر فتح علی حبیب کے بابرکت گھر میں یہ پُر وقار اجتماع کیوں ہے؟ اور اس میں کلاس کے عزیزوں کے علاوہ بعض عالی قدر دوستوں کو کیوں مدعو کیا گیا ہے؟ ایک بڑی عجیب جامع قسم کی سالگرہ کے لئے اہتمام ہے، کہ اس میں بیک وقت تینوں اداروں کی یکجا سالگرہ یعنی یومِ تاسیس منایا جا رہا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ درپردہ اپنے پیارے استاد کی پیدائش کا دن بھی ملحوظِ نظر ہے گویا سالگرہ اس دفعہ چار تہوں میں لپٹی ہوئی ہے، شاید یہی

۲۵۰

وجہ ہے کہ ہمارے ساتھیوں اور دوستوں کے چہرے فرطِ مسرّت و شادمانی سے مثلِ ماہِ کامل چمک رہے ہیں، کیونکہ ان کی خوشی چار چند (چوگنی) ہو گئی ہے۔

۷۔ اس انتہائی خوشی کے موقع پر ہمارے احباب نے بڑے جوش و جذبے کے ساتھ گل فروش کی دکان سے ترو تازہ گلاب کے پھولوں کو مہیا کر رکھا ہے، اور سچ تو یہ ہے کہ پھول ہی قانونِ فطرت کا ایک شہکار، سب سے حسین اور دلکش ترین تحفہ ہے، جس کے رنگ و بو کی لطیف اور مسحور کن گدگداہٹ سے ہر شخص کا دل مسکرانے لگتا ہے، اور شاید اس دنیا میں کوئی ایسا شاعر نہیں آیا ہو گا، جس نے گل اور گلستان جیسے فطرت کے جانفزا نظاروں کی تشبیہات کا سہارا نہ لیا ہو۔

۸۔ کاش، اے کاش! اس خاص موقع کی خاطر میں بھی کچھ عمدہ پھولوں کو یہاں حاضر کر سکتا، یہ میرے منتخب پھول کوہِ ہمالیہ کی درمیانی بلندیوں کے ہوتے! یا یہ گل ہائے رعنا و دلفریب میر غزن خان (مرحوم) کے “شمال باغ” سے لائے ہوئے اب تک تازہ رہتے! کاش، کوئی باکرامت جن میرا دوست ہوتا! اور وہ گوناگون پھولوں کو اس مقدّس محفل میں

۲۵۱

بکھیر دیتا! گلِ سرخ، گلِ سوری، گلِ داؤدی، گلِ شبو، گلِ شب افروز، گلِ صد برگ، گلِ بنفشہ، گلِ لالہ، گلِ خیرو (خطمی) وغیرہ وغیرہ! یا میں خود باغبان ہوتا! اور ایک بہت بڑے باغ میں پھول ہی پھول اگاتا!

۹۔ کاش، میں بحرِ گوہر زا (موتیوں کو جنم دینے والا سمندر) کا غواص ہوتا! تاکہ اس سمندر کی گہرائیوں میں اتر کر انمول موتیوں کو حاصل کرتا! اور انہیں ان لوگوں میں بے دریغ تقسیم کر دیتا، جو ایسے جواہر کے طلبگار اور قدر دان ہیں! کاش، میرے پاس عقیقِ یمن، درِ عدن اور لعلِ بدخشان کا کوئی بڑا خزانہ ہوتا! تاکہ میں اس کے ذریعہ اسلام اور انسانیّت کی خاطر خواہ خدمت کرتا! (یہ بڑے معنی خیز اشارے ہیں)۔

۱۰۔ پھولوں کے اس تذکرے سے ایک بہت بڑی مسرّت انگیز خوش خبری یاد آگئی، وہ یہ ہے کہ عنقریب لنڈن سے ایک انتہائی عجیب گشتی گلشن آنے والا ہے، جس کے سدا بہار پھول کبھی مرجھاتے نہیں، اسی لئے ان گلوں کا بروشسکی نام “بہشتے اسقرک” (گل ہائے بہشت) ہے، جی ہاں، اگر جنت کے پھولوں کو قبل از روحانیّت و آخرت ظاہر میں دیکھنا ہے، تو کسی ایسی کتاب میں ممکن ہے، جو حقیقی علم پر مبنی ہو،

۲۵۲

جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی صاحب اور ان کی نیک نام بیگم محترمہ سکالر رشیدہ (صمصام) نے از راہِ علم گستری اس دفعہ “بہشتے اسقرک” کا عالمی (Global) زبان یعنی انگریزی میں ترجمہ کیا ہے، اس بندۂ ناتوان پر ان دونوں ارضی فرشتوں کے ایسے بہت سے احسانات ہیں، میری دعا ہے کہ ان کے حق میں میری طرف سے اصل دعا اُس بلندی پر ہو، جہاں ارواحِ مومنین کی ایک بے مثال وحدت موجود ہے، اور وہ کائناتی کام کر رہی ہے! آمین یا رب العالمین!

۱۱۔ ظاہری پھول مثال ہیں، باطنی پھول ممثول، مادّی موتی دلیل ہیں، روحانی اور عقلانی موتی مدلول، جبکہ عالمِ ظاہر عالمِ شخصی میں ملفوف و مجموع ہے، پس میں نے اسی وجہ سے کتاب کو “گشتی گلشن” کا نام دیا، کیونکہ یہ عالمِ دل کی زندہ بہشت کی ایک خاموش تصویر ہے۔

۱۲۔ یہ سورۂ نمل کی ایک آیۂ کریمہ کا حصّہ ہے، ترجمہ: اور اس نے تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس (پانی) کے ذریعہ سے ہم نے رونق دار باغ اگائے (حدآئق ذات بھجۃ ، ۲۷: ۶۰) اس حکم کا ایک ظاہر بھی ہے اور ایک باطن بھی، ظاہراً خدا کی قدرت عجیب ہے کہ بارش کے پانی

۲۵۳

سے طرح طرح کے درختوں اور رنگ برنگ پھولوں کے پُررونق باغ بنے، اور باطناً عالمِ شخصی میں علم و عبادت کے پانی سے باغ و چمن پیدا ہوئے، جو انتہائی عجیب و غریب ہیں، جیسا کہ حضرتِ مریم علیہا السّلام کے بارے میں ارشاد ہے: اور اگایا اس کو احسن طریقے سے (۰۳: ۳۷) یہ روحانیّت کی وہ ابتدائی منزل ہے، جس میں صرف عالمِ شخصی کی بہاروں کے مناظر کا مشاہدہ ہوتا ہے، مثلاً سبزہ زار، گل ہائے رنگ برنگ، ہرے بھرے درخت وغیرہ۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی، کراچی
سنیچر ۲۹ ذیقعدہ ۱۴۱۰ھ
۲۳ جون ۱۹۹۰ء

(۱)۔ لفظِ “حکمت” کی تجویز برادرِ عزیزم بلبل جان نے گلگت میں کی تھی۔

۲۵۴

گنجینۂ جواہرِ احادث

گنجِ گرانمایہ

گنجِ گرانمایہ

(پس منظر)

درجِ گوہر

یہ گویا انمول موتیوں کا صندوقچہ ہے جو ادارۂ عارف امریکا کی “یاسمین نور علی برانچ” کے توسط سے گوہر شناسوں کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے، نور علی مامجی اور ان کے خاندان کی بے شمار خدمات ہیں۔

 

د

 

تعارف

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ کے انتہائی عظیم احسانات و انعامات ہوا کرتے ہیں، وہاں ہزار گونہ لاہوتی مسرّت و شادمانی اور جذبۂ شکر گزاری کیوں نہ ہو، دینِ اسلام کی یہ سب سے اعلیٰ عقلی اور عرفانی نعمتیں اس لئے میّسر ہیں کہ خدائے مہربان نے اپنی بے پایان رحمت سے بوسیلۂ رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم امامِ عالی مقام علیہ السّلام کی دامنگیری اور پیروی عنایت کردی، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی فضل و رحمت کا مالک اور دونوں جہان کا حقیقی بادشاہ ہے۔

یہ بندۂ احقرراقم جو خود کو بڑے شوق سے خاکِ پائے اہلِ ایمان قراردیتا ہے، جس کے نزدیک ہر شخص کی اصل سعادت اور کامیابی کا سب سے بڑا راز اس زرّین اصول میں پوشیدہ ہے کہ وہ عاجزی، انکساری، اور خیر خواہی کو اپنا شیوہ بنالے، اس خاکسار کا کہنا ہے کہ یہ عمل جتنا مشکل ہے اتنا مفید بھی ہے، مشکل اس معنیٰ میں کہ جب تک ایثار، قربانی، محویّت، اور فنا کی عظیم حکمت سمجھ میں نہ آئے، اور یقین نہ ہوکہ کس طرح ارواحِ مومنین خدا کے امر سے جنودِ ملائکہ کا کام انجام دے رہی ہیں، تو کوئی آدمی اپنی خودی کو ریزہ ریزہ کرکے راہِ مومنین میں نچھاور کردینے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔ مگر ہاں امامِ زمان صلوات اللہ علیہ و

 

۱

 

سلامہ‘ کی کامل اور پُرحکمت محبت ہی وہ واحد معجزہ ہے، جس کی بدولت ایسی ہزار ہا مشکلات آسان ہوجاتی ہیں، اور مومنین ہمیشہ اس سرچشمۂ فیض سے مستفیض ہوتے آئے ہیں۔

ایمان والوں کی عزّت و خیر خواہی بطورِ خاص کیوں ضروری ہے، اس کا ایک راز اللہ پاک کے اس مبارک فرمان سے ظاہر ہے: اے رسول یاد کرو جب تم مومنوں سے کہہ رہے تھے: “کیا تمہارے لئے یہ بات کافی نہیں کہ اللہ تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کرے؟” بے شک، اگر تم صبر کرو اور خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو تو جس آن دشمن تمہارے اوپر چڑھ کر آئیں گے اسی آن تمہارا ربّ (تین ہزار نہیں) پانچ ہزار صاحبِ نشان فرشتوں سے تمہاری مدد کریگا (۰۳: ۱۲۴ تا ۱۲۵) اس نورانی تعلیم سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوجاتا ہے، کہ خداوندِعالم کی نصرت و تائید فرشتوں کے توسط سے ہوا کرتی ہے اور فرشتے ارواحِ مومنین ہی ہیں، اور دوسری طرف یہ اشارہ ملتا ہے کہ جس طرح جہادِ ظاہر میں سماوی تائید ممکن ہوجاتی ہے، اسی طرح جہادِ باطن میں بھی بحکمِ خدا ارواحِ مومنین کی صورت میں آسمانی مدد کا امکان ہے، اور باطنی جہاد سے علمی جہاد مراد ہے، جو جہالت و نادانی کے خلاف شدید جنگ ہے۔

آپ قرآنِ پاک میں یہ بھی دیکھ لیں کہ مومنوں سے فرشتوں کی کیسی دوستی ہوتی ہے، ارشاد ہے: جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ: “نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجاؤ اس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی،

 

۲

 

یہ ہے سامانِ ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے (۴۱: ۳۰ تا ۳۲)” اس مقام پر خدائے مہربان کی بے پناہ رحمتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور مومنوں کو اس میں کوئی شک نہیں۔

فرشتوں کی آخری تاویل امامِ حیّ و حاضر علیہ السّلام ہے، کیونکہ وہ جسم، روح، اور عقل کے مقام پر ایک ایسا انتہائی عظیم فرشتہ ہے کہ اس میں سب فرشتے جمع ہیں، اور ایک ایسی نہایت بڑی روح ہے کہ اس میں جملہ ارواح موجود ہیں، اس لئے کہ خدا نے اس میں ہر چیز کو گھیر رکھا ہے (۳۶: ۱۲) چونکہ وہ نور ہے، اور نور عقلِ کامل، فرشتۂ اعظم، اور انسانِ اکبر ہوا کرتا ہے، تاکہ عالمِ جبروت، عالمِ ملکوت، اور عالمِ ناسوت ہمیشہ نورِ خداوندی سے روشن رہیں۔

قرآن کہتا ہے کہ قیامت کے دن ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی مٹّھی میں لپٹی ہوئی ہوگی، اور قرآن کی حکمت کہتی ہے کہ قیامت پوشیدگی میں ہمیشہ جاری ہے، لہٰذا اگر کسی کے لئے پردہ اٹھ جائے تو اس کے سامنے یہ حقیقت روشن ہوجائے گی کہ ہر وقت سارے آسمان اور زمین خدا کے دستِ راست میں محدود ہیں (۲۱: ۱۰۴؛ ۳۹: ۶۷) مگر یاد رہے کہ خداوندِ تعالیٰ کا یہ کام ظاہری اور مادّی طور پر نہیں، بلکہ باطنی اور روحانی، اور عقلی صورت میں ہے، یعنی آسمان زمین اپنی اپنی جگہ پر موجود اور قائم ہیں، مگر ان کا جوہر ہر وقت خدا کھینچ لیتا ہے، جس طرح عالمِ ظاہر کو کرسیٔ خدا (عالمگیر روح) نے قاہرانہ طاقت سے گھیر لیا ہے، اور اس عمل کا نتیجہ قرصِ خورشید کی شکل میں سب کے سامنے ہے، چنانچہ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ سورج اس کائنات کا مادّی جوہر ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ کائنات اپنی جگہ پر قائم رہنے کے باوصف سورج میں بصورتِ جوہر یا بحالتِ نور مرکوز اور محدود ہے، اور اس کا ثبوت سورج کا ردِّعمل

 

۳

 

ہے جو فضائے محیط میں مسلسل روشنی کے ذرّات بکھیر دینے اور شمسی توانائی کی لہریں دوڑانے کی کیفیت میں جاری ہے۱؎، اسی طرح امامِ وقت صلوات اللہ کا وجودِ مبارک ہے، جو عالمِ انسانیّت کا خورشیدِ انور ہے، پس یہاں بھی عمل اور ردِّعمل کا قانون کار فرما ہے، اور سرچشمۂ نور کا ردِّعمل (Reaction) یہ ہے کہ وہ ہمیشہ آفتابِ عالم تاب کی طرح نوربکھیرتا رہتا ہے۔

زیتون کے شجرۂ مبارکہ کی تاویلات میں سے ایک تاویل عالمِ انسانیّت ہے، جس میں رنگ و نسل اور مشرق و مغرب کا کوئی فرق و امتیاز نہیں، جس کے پھل انسان ہیں، مغز اور تیل ان کی مجموعی روح اور روحانیّت ہے، یہ تیل لمحہ بہ لمحہ چراغِ امامت میں گرتا رہتا ہے، یعنی تمام انسانوں سے ذرّاتِ ارواح کھنچ کھنچ کر امامِ مبینؑ کی ذاتِ اقدس میں داخل ہوتے رہتے ہیں، جہاں بحکمِ خدا کارخانۂ نوران ذرّات کونور بنا لیتا ہے، مگر جب تک کسی شخص کو اس کا یقین نہ ہو، تو وہ اس نور میں زندہ نہیں ہوسکتا ہے، جیسے ریشم کا کیڑا پروانہ (پتنگا) تو بن جاتا ہے، لیکن اس کیڑے کو اس معجزے سے ذرا بھی لذّت و خوشی نہیں مل سکتی، کیونکہ اس کی کوئی عقل و دانش نہیں، اس لئے وہ نہ پہلی زندگی کی اہمیت کو جانتا ہے اور نہ دوسری زندگی کی حقیقت کو، جس کی وجہ سے کیڑا الگ اور پروانہ الگ ہوچکا ہے، اس مثال سے علم و معرفت کی اہمیّت و افادیت ظاہر ہوجاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ کائنات کی سطحِ مدوّر پر کرسیٔ خدا کی گرفت سے جو زبردست دباؤ پڑ رہا ہے، اس کی وجہ سے کائنات کے وسط میں مسلسل سورج بصورتِ روشن گیس بنتا رہتا ہے، کیونکہ یہ گرفت اور دباؤ روحانی ہے، جو کائناتی سطح کی گولائی سے مرکز کی طرف پڑتا ہے، جس کے ساتھ ساتھ سورج کی بھٹی میں ہمیشہ اثیری ایندھن پڑتا رہتا ہے اور اثیری ایندھن (ETHERIEL FUEL) کی تحلیل سے شۂ خورشید پیدا ہوتا رہتا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ سورج کرسیٔ خدا سے کائنات پر دباؤ ڈالنے کا نتیجہ ہے۔

 

۴

 

اب اس کتاب کا ذکر ہونا چاہئے، جو “گنجِ گرانمایہ” کے اسم سے موسوم ہے، یہ کتاب ان مقالات پر مبنی ہے، جو لندن کے دورۂ دوم کے دوران لکھے گئے تھے، اس بات کی وضاحت اس تعارف کے آغاز ہی میں کی گئی ہے کہ ارواحِ مومنین کے ذریعے خداوندِ تعالیٰ کی کیسی کیسی رحمتیں اور برکتیں حاصل ہوسکتی ہیں، یہ غریب بندہ علم کے میدان میں اتنا کمزور ہے کہ کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا، لہٰذا اسے ہمیشہ مومنوں کی حقیقی دعاؤں اور نورِ الٰہی کی تائیدات کی ضرورت رہتی ہے، چنانچہ خداوندِ قدّوس کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ شرق و غرب کے بہت سے پاک و پاکیزہ دلوں نے عارفانہ یا درویشانہ دعائیں کیں، اور بہت سے شفیق و مہربان دوستوں کی صاف ستھری روحوں نے تائیدی فرشتوں کا کام انجام دیا، جس کا نتیجہ بفضلِ خدا آپ کے سامنے ہے۔

“گر قبول اُفتد زہے عزّ وشرف”

میرے بعض عزیز دوستوں نے بڑے شوق سے اس خاکسار کو کتابِ “ذکرِ الٰہی حصّہ ٔدوم” لکھنے کے لئے فرمایا تھا، لیکن میرا کامل یقین ہے کہ اب ایک طرح سے وہ کتاب بھی (درحالیکہ بکھری ہوئی ہے) چند مقالوں میں اور خاص کر “گنجِ گرانمایہ” میں آگئی، جس طرح کتابِ “ہزار حکمت” خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کی تحریروں میں منتشر ہے، اسی حالت میں آپ اس کا مطالعہ کرسکتے ہیں، اور کسی وقت کوئی محقق اسے الگ منظم اور مرتب بھی کرسکتا ہے، مگر یہ کام ادارے کی اجازت سے ہوگا۔

قرآنِ حکیم جو خدائے واحد و یکتا کی بے نظیر کتاب ہے، اس کی پُرحکمت نصیحتوں میں سے ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اگر کسی مومن کی کوئی ترقی ہوئی ہے تو وہ بار بار اپنے ابتدائی حالات کو سامنے لائے، تاکہ اس فرق و تفاوت کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی شکر گزاری ہوسکے، چنانچہ میری ابتدائی

۵

 

زندگی سے متعلق ایسے بہت سے واقعات ہیں، جن کو ذہن و خاطر میں لاتے ہوئے مجھے پروردگارِ عالم کی موجودہ علمی نعمتوں کا بہت زیادہ شکر ادا کرنا چاہئے، لیکن یہ سچ ہے کہ انسان بڑا ناشکرا ہے۔

میرے ایک عزیز دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کے وہ تمام مقالات جو گزشتہ سال اور اِمسال لندن میں لکھے گئے ہیں، وہ علم و حکمت کے مغز و چاشنی سے بھر پور اور بے حد مفید ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا آپ کو وہاں کا ٹھنڈا موسم بہت اچھا لگتا ہے یا فراغت و تنہائی میّسر آتی ہے؟ آخر اس میں کیا راز ہے؟ میں نے بڑی عاجزی سے یوں جواب دیا کہ اگرچہ لندن کی آب و ہوا اور تنہائی میرے لئے مفید رہی، تاہم یہ کوئی خاص بات نہیں، کیونکہ میرے ملک پاکستان میں اس سے بڑھ کر ہے، یعنی اگر سرد جگہ چاہئے تو شمالی علاقہ حاضر ہے، جہاں میرا غریب خانہ بھی ہے، اور اگر سردی سے گریز مقصود ہے تو پھر کراچی ہے، سو لندن میں عمدہ سے عمدہ کام کرنے کی اصل وجہ میرے کچھ ایسے دوست ہیں کہ اگر وہ ازراہِ عنایت میرے ساتھ کسی بیابان میں تشریف فرما ہوجائیں، تو ان کے مبارک آنسوؤں کی بارش سے یہ بیابان رشکِ لندن ہوجائے گا، اور ان شاء اللہ تعالیٰ میں یہ عملی ثبوت پیش کروں گا، کہ مجھ کو خاص علمی کام کی روح میرے دوستوں اور عزیزوں سے آتی رہتی ہے، اور قانونِ روح یہی ہے۔

ادارۂ عارف برانچ لندن کے صدرِ محترم امین کوٹا ڈیا اور ان کی اہلیۂ محترمہ سیکریٹری مریم کوٹا ڈیا ہمارے ایسے دوعملدار ہیں کہ ان کے زبردست تعاون اور مفید منصوبہ کے بغیر اس درویش کا دورۂ لندن کامیاب نہیں ہوسکتا تھا، امامِ برحقؑ کے یہ دونوں جان نثار مرید بڑے سعادت مند ہیں، کہ ان کو عبادت

 

۶

 

اور علم کا شوق ورثے میں ملا ہے، اور یہ مومنی کے تمام تر اوصاف سے آراستہ ہیں، انھوں نے مذکورہ برانچ کی طرف سے اور اپنی جانب سے فروغِ علم کے سلسلے میں توقع سے بہت زیادہ خدمات انجام دی ہیں، جن کا میں جان و دل سے شکر گزار اور ممنون ہوں، نیز پاکستان میں جتنے ہمارے عملدار اور ارکان ہیں، وہ سب کے سب صدر امین اور سیکریٹری مریم کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

میں اس مقام پر خانۂ حکمت کے مرکز اور شاخوں کے جملہ عملدار وارکان کو قانونِ وحدت کے مطابق جناب صدر فتح علی حبیب کی مبارک ہستی میں مجموع قرار دے کر موصوف کا ذکرِ جمیل کرنا چاہتا ہوں کہ صدر صاحب کو یہ بہت بڑا اعزاز حاصل ہے اور یہ ان کی بہت بڑی سعادت ہے کہ وہ خانۂ حکمت جیسے ایک اہم تاریخ ساز علمی ادارے کے پریذیڈنٹ اور سینئر سرپرست ہیں، وہ خانۂ حکمت کی بنیاد اور روحِ روان ہیں، ان کی ذات میں نیکی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، آپ کی گنان خوانی صورِ اسرافیلؑ کا ایک نمونہ ہے، وہ میرے بیحد عزیز برادرِ روحانی بھی ہیں اور انتہائی عزیز شاگرد بھی، مہربان دوست بھی ہیں، اور شفیق ہمکار بھی، وہ باپ کی طرح معزز و محترم بھی ہیں، اور بیٹے کی طرح خدمت گار بھی، خداوندِ عالم پریذیڈنٹ فتح علی حبیب اور ان کے خاندان کو دونوں عالم کی کامیابی اور سرفرازی عنایت فرمائے!

ہمارا دوسرا فرشتۂ ارضی جو تمام مذکورہ صفات کا حامل ہے، وہ ادارۂ عارف کے صدرعالی قدر جناب محمد عبدالعزیز ہیں، جن کی پیاری ہستی میں ادارۂ عارف سے منسلک تمام حضرات جمع ہیں، خدا کی بہت بڑی رحمت ہے کہ ہمارے دونوں صدر ذاتی طور پر بہت محنت سے کام کرتے ہیں، جس کو دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ میں ان کو اور ہر ایسے عملدار ممبر کو سرپر بٹھالوں یا آنکھوں میں بسالوں یا دل میں

 

۷

 

سمالوں، کیونکہ تعمیری محنت مجھے بیحد پیاری ہے، بلکہ وہ میری جان کی طرح عزیز و شیرین ہے، چنانچہ میں صدر محمد اور ہر ایسے عزیز عملدار و رُکن کو اپنی جان سمجھتا ہوں جو علمی خدمت کے سلسلے میں سخت محنت سے کام کرتا ہو، ہمارے انتہائی عزیز صدر محمد دیگر امور کے علاوہ کیسیٹ لائبریری کی ترقی کیلئے بہت زیادہ محنت کرتے ہیں، وہ ہمارے ادارے کے سرپرستوں میں بھی ہیں، ان کو علم سے عشق ہے، آپ علم و حکمت کی باتوں کو قبولتے ہوئے کبھی تو فرطِ مسرّت سے مسکراتے نظر آتے ہیں، اور کبھی شکر گزاری سے آنسو بہاتے ہیں، الحمدللہ کہ میں نے صدر فتح علی حبیب اور صدر محمد عبدالعزیز کے آئینۂ مثال میں خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کے بہت سے درخشان اور تابناک چہرے دکھائے، کیونکہ سب عزیزوں کا فرداً فرداً تذکرہ ممکن نہیں۔

آپ سب دعا کریں کہ خداوندِ تعالیٰ تمام مسلمین و مومنین کو حبل اللہ کے مرکز پر یکدل و یکجہت بنادے! مشکلات کو آسان فرمائے! بلاؤں اور آفتوں کو دفع کرے! اور ہر دیندار کو علم و عمل کی روشنی میں منزلِ مقصود تک پہنچائے!

 

خاکپائے جماعت

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی۔ کراچی

سنیچر ۲۷؍ذیقعدہ ۱۴۰۴ھ سالِ موش

۲۵؍ اگست ؁۱۹۸۴ ء

 

 

۸

 

 

تین عظیم سوال

 

میرے ایک بہت ہی عزیز روحانی اور علمی دوست ہیں، وہ بفضلِ ربِّ عزّت بڑے دانشمند اور اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ہیں، آپ فی الوقت مغرب کی ایک مشہور یونیورسٹی میں دینی اور دنیوی علم کے بلند مدارج طے کررہے ہیں، انھوں نے بطریقِ علم پروری و حوصلہ افزائی اپنے ایک بیحد پیارے خط میں تین عظیم سوال بھیجے ہیں، جو علم دین اور فلسفہ دونوں کی روشنی میں بڑی دانشمندی سے بنائے گئے ہیں، لہٰذا یہ عظیم الشّان ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ ایسے پُرمایہ اور مفید سوالات اور ان کے جوابات سے اوّل اوّل ریسرچ اور تخلیقی کام میں مدد ملے گی، اور پھر اگر خدا چاہے تو علمی ذخیرے میں اضافہ ہوجائے گا، وہ سوالات یہ ہیں:۔

۱۔ حقیقی علم کے حصول میں حواسِ خمسہ کا کتنا حصہ ہے؟

۲۔ ذہن اور روح کے مابین کیا رشتہ ہے، حصولِ علم میں ان دونوں کا کیا وظیفہ ہے؟

 

۳۔ عبادت یا ذکر کے دوران لامکانی حدّ میں داخل ہونا اور پھر واپس زمانی و مکانی حدّ میں داخل ہونے کا عمل کس طرح بیان ہوسکتا ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اَللّٰھُمَّ صلّ علٰی مُحمّدٍ وَّاٰلِ مُحمّد۔ میں بندۂ درویش

 

۹

 

پروردگارِ عالم کی رحمتِ بے پایان کی امید پر اپنی پیاری روح کو جملہ دوستوں اور مومنوں سے فدا اور قربان کردیتا ہوں، اے میرے دوستو! آپ اس بندۂ ناچیز کو اتنی بڑی عزّت و فضیلت کیوں دے رہے ہیں، ایسا نہ ہو کہ یہ فخر کی موت مرجائے، پھر آپ حضرات کو اچھا نہیں لگے گا، لہٰذا دوستو! آؤ مجھے پامال کردو، مجھے روندو، مجھے خاکپائے مومنان کہو، مجھے اسی نام سے لذّت ملتی ہے اور اسی میں بڑی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

جواب نمبر۱: ہزار گونہ عاجزی، محبت، اخلاص اور ادب کے ساتھ حضراتِ احباب کی خدمت میں عرض کی جاتی ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ حقیقی علم کیا ہے یا اس کی تعریف کیا ہے، کیا اس سے روحانی علم مراد ہے؟ ہاں، شاید اس سے روحانی اور دینی علم مراد ہے، اور یقیناً اسی کی بابت سوال ہے، چنانچہ علم کے لغوی معنی ہیں جاننا، اور مرادی معنی ہیں چیزوں کی حقیقت جاننا، پس ایسا علم جس سے اشیاء کی حقیقت جانی اور پہچانی جاتی ہے روحانی علم ہے، جس کا دوسرا نام حقیقی علم ہے، کیونکہ یہ بحقیقت اور صحیح معنوں میں علم ہے۔

حواس کے ذکر سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم علم کے درجات کو معلوم کریں، جس کے لئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ موجوداتِ ظاہر و باطن کی چیزیں کتنی قسم کی ہیں، آپ بخوبی جانتے ہیں کہ چیزیں تین قسموں میں ہیں: جسمانی، روحانی، اور عقلی، سو اسی طرح علم کے بھی تین درجات ہیں: علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین، چونکہ علم کا تعلق چیزوں کی حقیقت جاننے سے ہے، اس لئے علم کے تین مقامات مقرر ہوگئے: مقامِ جسم علم الیقین کے لئے، مقامِ روح عین الیقین کے لئے اور مقامِ عقل حق الیقین کے لئے۔

اگر پوچھا جائے کہ علم کا نام یقین کیسے ہوسکتا ہے؟ تو اس کے لئے عاجزانہ

 

۱۰

 

گزارش یہ ہے کہ علم عام سے عام بھی ہے اور خاص سے خاص بھی، چنانچہ ایک ایسے خاص علم کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے جو ہر قسم کے شکوک و شبہات سے پاک و پاکیزہ ہے قرآنِ حکیم میں فرمایا گیا ہے: علم الیقین۱؎ یعنی علم بصورتِ یقین، یقین کی بہت بڑی اہمیت اس لئے ہے کہ حقیقی علم کا اصل سرچشمہ مرتبۂ حق الیقین ہے، یعنی چشمۂ نورِ عقل، وہاں سے درجۂ عین الیقین یعنی مقامِ روحانیت میں علم کا نزول ہوتا ہے،حق الیقین کے مقام سے علم کا جو ذخیرہ بوسیلۂ رسولؐ دنیا میں ظاہر ہوا ہے اور اس کی تعلیم عالمِ ظاہر میں جس طرح امامِ زمان ؑ دیتے ہیں وہی علم الیقین ہے۔

اب یہ کمزور بندہ حواسِ ظاہر۲؎ کے بارے میں کچھ عرض کردینا چاہتا ہے کہ حقیقی علم کے حصول میں حواسِ ظاہر کا کتنا حصہ ہے، سو اس سلسلے میں حواسِ ظاہر کی تین حالتیں ہیں، پہلی حالت یہ ہے کہ جہاں تک علم الیقین کا تعلقہے، تو اس میں حواسِ ظاہر کو بھر پور اور مکمل حصہ لینا ضروری ہے، کیونکہ حقیقی علم کا یہ درجہ ظاہر اور جسمانیّت میں ہے، دوسری حالت یہ کہ حواسِ باطن کو جگانے کے لئے یا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ قرآنی ارشاد یہ ہے: ایسا نہیں، اگر تم علم الیقین جانتے ہوتے تو دوزخ کو دیکھ سکتے، پھر اس کو عین الیقین سے دیکھ سکتے (۱۰۲: ۰۵ تا ۰۷) اس میں علی الترتیب علم الیقین اور عین الیقین کا ذکر ہے، اور حق الیقین کے بارے میں فرمایا: ان ہٰذا الھو حق الیقین (۵۶: ۹۵) یقیناً یہ وہی حق الیقین (یعنی مرتبۂ گوہرِ عقل) ہے۔

۲۔ حواسِ ظاہر کے تین درجے ہیں: ۱۔ جانورں کے حواس، ۲۔ جانور جیسے انسانوں کے حواس، کیونکہ قرآن ہی کہتا ہے کہ وہ چوپایوں کی طرح ہیں (۷: ۱۷۹، ۲۵: ۴۴)، ۳۔ اور وہ حواس جو مومن میں کام کرتے ہیں، اس مثال سے ایک مومن کے حواسِ ظاہر کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے، بس جو مومن علم الیقین کی لازوال دولت کمانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو یہ حواسِ ظاہر کی دولت ہے۔

 

۱۱

 

فعلاً ان سے مقامِ عین الیقین پر علم حاصل کرنے کے لئے حواسِ ظاہر کو خاموش، خفتہ یا مردہ جیسا ہوجانا پڑتا ہے، کیونکہ جب تک ظاہری حواس کو معطّل نہ کردیا جائے، تب تک باطنی حواس مرے یا سوئے ہی رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ خصوصی بندگی میں حواسِ ظاہر پر سکوت و خاموشی مسلّط کردی جاتی ہے، اور تیسری حالت یہ ہے کہ اگر عین الیقین کے مراحل طے ہوگئے اور انفرادی قیامت برپا ہوگئی، یاجوج وماجوج نے سدِ ذوالقرنین کو چاٹ کر ختم کردیا (۱۸: ۹۴ تا ۹۹) اور باطنی حواس زندہ ہوکر ظاہری حواس کے ساتھ ایک ہوگئے تو اس وقت دونوں قسم کے حواس کو لازماً مل کر کام کرنا ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عام حالت میں حواسِ ظاہرہی کے مقامات میں حواسِ باطن مرے ہوئے پڑے رہتے ہیں، یعنی باطنی آنکھ ظاہری آنکھ میں پوشیدہ ہے، باطنی کان ظاہری کان کے اندر سویا ہوا ہے، وغیرہ۔ یہ خاکسار سمجھتا ہے کہ یہاں تک پہلے سوال کا جواب مکمل ہوگیا۔

اس سلسلے کی مزید معلومات کے بارے میں خاکپائے مومنان یہ عرض کرتا ہے کہ علم الیقین ظاہر ہے، اس لئے اس کا تعلق حواسِ ظاہر سے ہے، عین الیقین باطن ہے، جس کا تعلق حواسِ باطن سے ہے، اور حق الیقین باطن کا باطن ہے، لہٰذا وہ عقلی مُدرّکات کو چاہتا ہے۔

امامِ اقدس و اطہرؑ کا یہ ادنیٰ غلام یوں عرض کرتا ہے کہ حصولِ حقیقی علم کے سلسلے میں حواسِ ظاہر کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ ان میں بتدریج روحِ قدسی بصورتِ علم پھونک دی جاتی ہے، یعنی تابعدار اور مخلص مومنین جوں جوں علم حقیقت کو حاصل کرتے جاتے ہیں، توں توں روحِ مقدس کے لطیف ذرّات ان کے باطن میں داخل ہوتے رہتے ہیں، کیونکہ بحدِّ قوّت اور بحدِّ فعل اس پاک روح کو دوبار پھونک دینا ہے، پہلی نفخ مرحلۂ علم الیقین کے شروع سے آخرتک جاری

 

۱۲

 

رہتی ہے، اور دوسری نفخ نفخۂ صور کے ساتھ ہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ راہِ روحانیّت کی یہ ترقی، یہ منزل، اور یہ نعمت توصرف حضراتِ انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام کے حصے میں آئی ہے، سو ایسے روحانی مقامات کا مشاہدہ اور تجربہ مومنین کو کیسے ہوسکتا ہے؟ اس کے جواب میں یہ نا چیز بندہ عرض کرتا ہے کہ اس حقیقت کے ثبوت میں سینکڑوں دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں، تاہم اہلِ دانش کے لئے قرآنِ حکیم سے یہی ایک دلیل کافی ہے، اور وہ یہ ہے کہ خداوندِ عالم نے ازراہِ رحمت و نوازش یہ چاہا کہ سب مومنین اس کے ان برگزیدہ بندوں کے راستے پر چلیں، جن کو اس نے اپنی عقلی، علمی، اور روحانی نعمتوں سے نوازا ہے، تو اس نے خود اہلِ ایمان کو بڑی تاکیدی ہدایت دی کہ کہو: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ، صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔ ہمیں راہِ راست پر آگے سے آگے لے جایئے ان لوگوں کی راہ جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے، یعنی ہمیں ایسی عالی ہمتی اور روشن ہدایت عنایت کردیجئے کہ جس سے ہم شکر گزاری کے ساتھ انبیاء، صِدیقین، شہداء، اور صالحین کے پیچھے پیچھے راہِ روحانیّت پر چل سکیں، ملاحظہ ہو قرآنِ پاک (۰۴: ۶۹)۔

اللہ تعالیٰ کی عظیم اور خاص نعمتیں تو عقلی اور روحانی صورت میں ہوا کرتی ہیں، جن کے لئے سنتِ الٰہی صرف ایک ہی ہے، وہ یہ کہ ہر اس خوش نصیب شخص میں روحِ قدسی پھونک دی جائے، جس کو خداوندِ قدوس نوازنا چاہتا ہے، اس کے بغیر روحانیّت کی نعمتیں ممکن نہیں، اور اگر وہ نعمتیں نہیں تو پھر تابعدار مومنین کس معنیٰ میں انبیاء و أئمّہؑ کی رفاقت میں ہوسکتے ہیں، حالانکہ اطاعت کرنے والوں کے حق میں اس رفاقت کی تعریف کی گئی ہے (۰۴: ۶۹) پس یہاں یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ حقیقی مومنین میں بھی روحِ خداوندی یعنی روح القدس

 

۱۳

 

پھونک دینے کا امکان ہے، جس کی شرط خدا و رسولؐ اور ولیّٔ امرؑ کی مکمل اطاعت ہے، اور حصولِ علم کا فریضہ بھی اسی اطاعت کے تحت آتا ہے، نیز اسی سلسلے میں امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی طرف سے اسمِ اعظم کا عطیّہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے، یہ سب کچھ پہلے مرحلے میں بحدِّ قوّت روحِ خداوندی پھونک دینے کے معنی میں ہے، اور یہ منزل حواسِ ظاہر اور جسمانیّت سے متعلق ہے۔

روحِ خداوندی یاروحِ قدسی دراصل نورِ امامِ زمانؑ ہے، جو بقولِ قرآنِ حکیم (۳۶: ۱۲) اپنے ساتھ کُل چیزیں لے کر آتا ہے، نور میں ایک بڑی اہم چیز انفرادی قیامت بھی ہے، یہیں سے مکمل روحانیّت کا دروازہ کھل جاتا ہے، اور یہیں مکمل طور پرحواسِ باطن جاگ اٹھتے ہیں، ہر چند کہ باطنی آنکھ بہت پہلے سے کھلی ہوئی ہوتی ہے، مگر اس کے سامنے جو رنگین روشنیوں کی دنیا ہے، وہ خاموش اور بغیر کسی بات چیت کے ہوتی ہے۔

خدا کی سنت اور قانونِ فطرت (۳۰: ۳۰) ایک ہی ہے، جس کا نمونہ انسان میں پایا جاتا ہے، مثال کے طور پر: جب ضرورت ہو تو مادرِ مہربان اپنے شیر خوار بچے کو دودھ کی طرف راغب کردینے کے لئے کہتی ہے کہ: “میرے لعل، یہ پستان خوبصورت ہے، اور دودھ بڑا میٹھا۔” مگر جب اسے دودھ چھڑاتی ہے تو وہ مثلاً اپنے پستانوں پر کالک لگا کر کہنے لگتی ہے کہ: “آخ آخ برا ہوا، نہ معلوم کیا ہوا۔” وغیرہ، یہ مثال اہلِ دانش کے لئے بڑی فکر انگیز ہے، چنانچہ وہ باور کرسکتے ہیں، کہ روحانی اور علمی تربیت و پرورش کے سلسلے میں دایۂ قدرت و رحمت کی بھی یہی عادت ہے، جیسے قرآنِ پاک میں اصولِ ناسخ و منسوخ (۰۲: ۱۰۲) اور کسی چیز کو مٹا کر کسی شیٔ کو برقرار رکھنے کا ذکر موجود ہے (۱۳: ۳۹) یہ قانون نہ صرف عالمِ دین میں ہے، بلکہ عالمِ شخصی میں بھی ہے، تاکہ علمی اور عرفانی ارتقاء میں کوئی تنگی نہ ہو (۲۲: ۷۸)۔

 

۱۴

 

جواب نمبر۲: ذہن کا مطلب ہے سمجھنے کی دماغی قوّت، اس کی کیفیت و حقیقت واضح کردینے کے لئے ایک عمدہ مثال یہ ہے کہ دماغ اپنی مادّی ساخت میں گویا ایک صاف شفاف آئینہ ہے، روح بوسیلۂ عقل ایک سورج ہے، اور ذہن اس سورج کی وہ روشنی ہے جو اس آئینے سے منعکس ہوجاتی ہے، اسی معنیٰ میں ذہن نورِ روح کا عکس اور زندہ تصویر ہے، سو ذہن اور روح کے مابین یہی رشتہ قائم ہے۔

یہاں ذہن اور روح کے سوال میں عقل کا ذکر اس لئے آیا کہ انسانی روح میں ایک اساسی عقل پوشیدہ ہوا کرتی ہے، جس کو “عقلِ غریزی” یعنی طبعی، فطری، اور اصلی عقل کہتے ہیں، جوترقی پذیر ہونے کی وجہ سے حقیقی تعلیم کی محتاج رہتی ہے، اور دوسری طرف سے عقل کے تصوّر کے بغیر ذہن کے کچھ معنی نہیں ہوتے ہیں۔

اب روح اور ذہن کے درمیان جیسی وابستگی، جو تعلق، اور جیسا رشتہ ہے، اس کی مزید مثالیں عرض کی جاتی ہیں: ۔

۱۔ ذہن روح کی پیداوار ہے، کیونکہ روح سے عقل ہے اور عقل سے ذہنیت بنتی ہے۔

۲۔ ذہن روح کا آلہ ہے، جس سے یہ (روح) احساس و ادراک کا کام لیتی ہے۔

۳۔ روح گویا چراغ کا تیل ہے، عقل جلتا ہوا شعلہ ہے، اور ذہن بکھر جانے والی روشنی ہے جو مکان میں ہر چیز کو چھوتی ہوئی منوّر کردیتی ہے۔

۴۔ روح ایک عمدہ درخت ہے، عقل اس کی بلند شاخ، اور ذہن اس کا پھل ہے۔

۵۔ روح ایک صاف شفاف اور میٹھے پانی کا سرچشمہ ہے، عقل ایک خوبصورت نہر ہے، اور ذہن ایک زرخیز آبادی ہے۔

۶۔ روح ایک سلیقہ مند خاتون ہے، عقل ایک دانا مرد ہے، اور ذہن ایک ہونہار بچہ ہے۔

۷۔ روح دوات ہے، عقل قلم ہے، اور ذہنیّت تحریر ہے، پس ان تمام مثالوں سے روح اور ذہن کے مابین جو رشتہ اور تعلق ہے، اس کی حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے۔

 

۱۵

 

روح اور ذہن کا تعلق و رشتہ عقل کے توسط سے قائم ہے، لہٰذا یہاں روح اور عقل کی باہمی وابستگی کی کچھ اور مثالیں بیان کی جاتی ہیں: پہلی مثال: انسان کی ہستی عالمِ صغیر ہے، جس میں روح کو حوّا کا اور عقل کو آدم کا مقام دیا گیا ہے، دوسری مثال: روح اور عقل ایک طرح سے انسان کی خودی کے ماں باپ ہیں، یعنی روح ماں اور عقل باپ ہے، کیونکہ روح نمائندۂ اساسؑ اور عقل نمائندۂ ناطقؐ ہے، تیسری مثال: روح دلیلِ نفسِ کلّی ہے، اور عقل دلیلِ عقلِ کلّی ہے، چوتھی مثال: روح عالمِ شخصی (PERSONAL WORLD) کا چاند ہے، اور عقل اس کا سورج، پانچویں مثال: روح

حجت کی دلیل ہے، اور عقل امامؑ کی دلیل ہے، چھٹی مثال: روح عالمِ شخصی کی ملکہ یا سلطانہ (خاتون بادشاہ) ہے، اور عقل اس کی وزیرِ باتدبیر ہے، ساتویں مثال: روح ایک حکیم شخص ہے، اور عقل اس کا خوبصورت و پُروقار چہرہ ہے، پس ان جملہ مثالوں سے روح اور عقل کے درمیان جیسا رشتہ ہے، اس کی وضاحت ہوگئی، تاکہ اس سے ذہن کو سمجھنے میں مدد مل سکے، کہ وہ کس طرح روح اور عقل کی منعکس (REFLECTED) روشنی ہے۔

اب سوال کا یہ حصہ سامنے آتا ہے کہ حصولِ علم کے سلسلے میں ذہن اور روح دونوں کا کیا وظیفہ یا عمل ہے؟ اس کا جواب یوں عرض کرنا ہے کہ روح گویا ایک لطیف و ہوشمند رانی ہے، عقل ایک دانا بادشاہ کی طرح ہے، دماغ دارالسلطنت ہے، دل پاور ہاؤس اور برقی نظام ہے، یہاں دماغی قوّتوں پر مشتمل ایک وزارت ہے، اور ذہن اس کی وزیرِاعظم ہے، اور حواسِ ظاہر محکمۂ خبر رسانی کے ملازم ہیں، جن کو خبر رسانی کے عجیب و غریب آلات سے لیس کیا گیا ہے، تاکہ یہ لوگ خارجی دنیا کا علم اور معلومات دماغ کے مرکزی دفتر (ذہن) تک پہنچاتے رہیں، اس مثال میں اس امر کی پوری طرح سے عکاسی ہوگئی، کہ روح اور عقل حصولِ علم کا عمل کس طرح ذہن و حواس

 

۱۶

 

کے توسط سے انجام دیتی ہیں۔

اگر سوال روحانی علم سے متعلق ہے، تو بڑی عاجزی سے عرض کروں گا کہ روحانی علم کے لئے ذہن و حواسِ ظاہر کا ہنگامی تعطّل اور خود فراموشی ضروری ہے، اور یہ بابرکت کیفیت جسے فنا بھی کہا جاتا ہے خصوصی عبادت کے وسیلے سے اپنے اوپر مسلّط کرلی جاتی ہے تاکہ پاک روح (قدسی روح) معجزاتی علم کے لئے کام کرسکے۔

حقیقت یہ ہے کہ عام انسانی روح اور ذہن کو حقیقی اطاعت، عبادت اور علم سے نفسِ مطمئنّہ۱؎  کے درجے پر پہنچانا ہوتا ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہنا ہے کہ تیسری روح (انسانی روح) کو چوتھی روح (روحِ قدسی) میں فنا کردینا پڑتا ہے، یہاں پر یہ عمدہ سوال بھی لازمی ہے کہ روحِ قدسی (پاک روح) میں پاکیزگی کا تصوّر کیوں ہے؟ اس کے جواب میں عرض کی جاتی ہے کہ اس تصوّرکا سبب یہ ہے کہ دینِ اسلام میں پاکیزگی کی بہت بڑی اہمیّت ہے، اور وہ تین قسم کی ہے: عقلی پاکیزگی، جو حقیقی علم سے ہوتی ہے، روحانی پاکیزگی، جو عبادت سے ہوتی ہے، اور جسمانی پاکیزگی، جواطاعت (فرمانبرداری) سے ہوتی ہے، اوراطاعت کا مطلب ہرطرح کی فرمانبرداری ہے، جس کے بغیر جسم پاک نہیں ہوسکتا ہے۔

جواب نمبر۳: یہاں سب سے پہلے یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ لا مکان کیا ہے، اور لا زمان کا کیا مطلب ہے، تاکہ متعلقہ سوال کا جواب واضح ہوسکے،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ نفسِ مطمئنہ کا ذکر قرآنِ پاک میں اس طرح ہے: اے اطمینان یافتہ نفس (روح) اپنے پروردگار کی طرف رجوع کر، درحالیکہ تو اس سے راضی ہے (اور) وہ تجھ سے راضی ہے، سو میرے (خاص) بندوں میں داخل ہو جا اور میری بہشت میں داخل ہو جا (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) روح کو اطمینان کب ملتا ہے؟ جب اطاعت، عبادت اور علم کے فرائض ادا ہو جاتے ہیں، رجوع کہاں کہاں ہوتا ہے؟ دنیا میں اطمینان کی وجہ سے، اور آخرت میں موت کے سبب سے۔

 

۱۷

 

چنانچہ لامکان کے معنی ہیں بے جا، بے مکان (فارسی) وہ عالم (حالت) جو مکانی نہیں، جو جگہ اور اطراف سے مبراہے، یعنی روحانی اور عقلی عالم، جو مادّی دنیا کے برعکس ہے، اور لا زمان کے معنی ہیں غیر زمانی حالت، جو کائناتی یعنی عالمِ جسمانی کے زمان سے برتر ہے، یعنی نہ گزرنے والا اور ٹھہرا ہوا زمان، جسے دہر کہا جاتا ہے (۷۶: ۰۱)۔

اگر ہم تھوڑی دیر کے لئے اس مادّی عالم کو بھول جائیں یا ایسا تصوّرکریں کہ ہم اس سے باہر جا چکے ہیں یا فرض کریں کہ یہ نیست و نابود ہوچکا ہے، تو اس حال میں یہ لامکان اور لازمان کا ایک تصوّر ہوگا، کیونکہ جب مکان (جگہ) ختم ہوگیا، تو منطقی طور پر نہ صرف لامکان ہوگیا، بلکہ اسی کے ساتھ ساتھ یہ لا زمان بھی ہوگیا، جبکہ زمان نام ہے مکان (کائنات) کی گردش کا یعنی اگر آسمان، سورج، اور زمین نہیں تو زمان بھی نہیں، ہاں اس حال میں نہ ٹلنے والا زمان ہوگا، جس کا نام دہر ہے۔

عالمِ باطن یا لامکان کے دو درجے ہیں، وہ درجۂ روح اور درجۂ عقل ہیں، اسی طرح اس دنیا میں لامکان کی دو مثالیں ہیں: عالمِ خیال اور عالمِ خواب، یہ دونوں مثالیں ایسی کافی وافی ہیں کہ اگر ہم ان میں خوب غور کریں تو لا مکان و لا زمان کے بارے میں بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ سفرِ لا مکان کی تشبیہہ یا تو خیال سے دی جاتی ہے یا خواب سے، مثال کے طور پر ایک آدمی آنکھیں بند کرکے گم صم دنیائے خیال میں داخل ہوگیا، اس کا خیال گویا لذّت و دلکشی کا ایک سمندر تھا، اس لئے وہ اس میں ڈوب کر گہرائی میں چلاگیا، وہ اب جسم سے اس مادّی دنیا میں موجود ہونے کے باوصف شعوری طور پر لامکان میں پہنچ گیا ہے، کیونکہ ظاہری دنیا کو بھول جانا ہی لامکان کو جانا ہے، اب وہ خیال ہی خیال میں ایک ایک کرکے زمانۂ ماضی کے واقعات کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے ان پرکوئی وقت ہی

 

۱۸

 

نہیں گزرا ہو ہرچند کہ غیرترقی یافتہ خیال صبحِ کاذب کی طرح دھندلاسا ہوتا ہے، تاہم اس میں ایک طرح سے آسمان اور زمین کی تمام چیزیں دکھائی دیتی ہیں، یہ مثال ایک عام خیال سے متعلق ہے، اور اگر خیال کو اخلاقی، مذہبی اور روحانی تربیت دی جائے تو یہ صرف مثال نہیں بلکہ خود لامکان بھی بن سکتا ہے، پس سفرِ لامکان اور واپسی کی مثال یوں ہے جیسے کسی کا ایک پُرکشش اور گہرا خیال ہوتا ہے، جس میں وہ شخص چپ چاپ رفتہ رفتہ ڈوب جاتا ہے اور کچھ وقت کے بعد چونک جاتا ہے۔

لامکان کی دوسری مثال عالمِ خواب ہے، انسان کے نیند بھر کر سو جانے کے ساتھ ساتھ حواسِ ظاہر کا چراغ کم سے کم تر ہوتا ہوا بجھ جاتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ روح کی توجہات اس طرف آنے کی بجائے کسی اور جانب مرکوز ہوجاتی ہیں، یہی عالمِ خواب کا سفر ہے، لیکن بہت ہی مختصر ہے، اور لامکان کا سفر بھی اسی کے مشابہ ہے، مگر یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ انسان کے نہ صرف خیال کی ترقی ہوسکتی ہے بلکہ خواب کی بھی بہت کچھ اصلاح ہوسکتی ہے تاآنکہ خیال اور خواب دونوں روحانیت میں مدغم ہو جاتے ہیں، اور عام حالت میں عالمِ خواب کے لامکان کی مثال ہونے کی دلیل یہ ہے کہ خواب میں جو چیزیں دکھائی دیتی ہیں، وہ غیر مادّی، لامکانی اور لازمانی ہوا کرتی ہیں، جیسے اگر کوئی شخص خواب میں کچھ کھاتا ہے تو اس کا پیٹ نہیں بھرتا، وجہ ظاہر ہے کہ وہاں مادّی اشیاء نہیں، وہ عالم اس بات کا بھی پابند نہیں کہ اگر دنیائے ظاہر میں موسمِ خزاں ہے تو اس میں بھی خزاں ہو، ہر گز ایسا نہیں، کیونکہ عالمِ خواب اپنی ذات اور خاصیت میں لامکان اور گوناگون چیزوں کے ظہورات کا سرچشمہ ہے، اور اس کا ایسا ہونا معجزاتِ خدا وندی میں سے ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں فرمایا گیا ہے: ۔

وَمِنْ ٰ ایٰتِہٖ مَنَا مُکُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَابْتِغَآؤُکُمْ مِّنْ

 

۱۹

 

فَضْلِہٖ  اِنَّ فِیْ ذٰ لِکَ لَاٰ یٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ (۳۰: ۲۳)۔ اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارے دن کا اور رات کا خواب ہے اور اس کے فضل سے تمہارا (روحانی رزق) چاہنا ہے، یقیناً اس میں (گوشِ ہوش سے) سننے والوں کے لئے نشانیاں (معجزات) ہیں۔ اس آیۂ کریمہ کی تاویل بعد میں بیان کریں گے، اور یہاں بمقامِ تنزیل منام کے معنی خواب بالکل درست ہیں، کہ وہ (خواب) عجائب و غرائبِ قدرت میں سے ہیں۔

آیۂ مذکورۂ بالا میں لفظِ “منام” بڑا پُرحکمت ہے، اس کے معنی سونے اور خواب کے ہیں، اور اس کی تاویل بذریعۂ ذکر و عبادت عالمِ روحانیّت یا لامکان میں داخل ہونے کی ہے، کیونکہ دروازۂ روحانیّت کی ایک کیفیت سوجانے یعنی نیند طاری ہوجانے کی طرح ہے، جیسا کہ اس سے پہلے حواسِ ظاہر کو سلا کر حواسِ باطن کو جگانے کے ضمن میں ذکر ہوچکا ہے، چنانچہ آیت کی پوری تاویل یہ ہے:۔

اور تمہاری دن رات کی روحانیّت (منام) جو نیند آنے اور خواب دیکھنے کی طرح ہے، اور اس میں تمہاری علم و حکمت کی تلاش اور اس کے نتائج، بالیقین اس میں گوشِ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ روحانیّت یعنی لامکانی اور لازمانی حدّ میں داخل ہوجانے کی کیفیت نیند کی طرح ہے، اور پھر اس سے واپس آنے کی حالت خواب سے جاگنے کی طرح ہے۔

یہ ارشادِ مبارک بھی اسی سلسلے کا ہے:۔

ثُمَّ اَنْزِلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ م بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاساً یَّغْشٰی طَائِفَۃً مِّنْکُمْ (۰۳: ۱۵۴)۔ پھر خدا نے تم پر اس کے بعد کہ تم غمگین ہوئے تھے اطمینان کی حالت طاری کردی

 

۲۰

 

یہ ایک نیند میں تھی جو تم میں سے ایک گروہ کو ڈھانپ لیتی تھی۔ یہ جنگِ اُحد کی شکست تھی، جس میں خاص مومنین نے خوف و ہراس اور غم کے درمیان رہتے ہوئے کثرت سے خدا کو یاد کیا تھا، لہٰذا نتیجہ روحانیّت کی صورت میں سامنے آیا، یعنی ان پر معجزاتی نیند مسلّط کردی گئی، جو روحانیّت کو اپنے ساتھ لاتی ہے، ورنہ خوابِ غفلت کی کوئی ایسی تعریف نہیں ہوسکتی ہے۔

فرمانِ خداوندی ہے:۔

اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنْہُ وَیُنْزِلُ عَلَیْکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَآئً لِّیُطَھِّرَکُمْ بِہٖ وَیُذْھِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَلِیَرْ بِطَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ وَیُثَبِّتَ بِہٖ الْاَقْدَامَ (۰۸: ۱۱) اور وہ وقت جب کہ خدا اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کررہا تھا، اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسارہا تھا تاکہ تمھیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمہارے قدم جمادے۔ یہاں بھی “نعاس” خوابِ پُرحکمت ہے، یعنی روحانیّت، پانی علم ہے، نجاست شک اور وسوسہ ہے، ربط اسمِ اعظم کا دِل میں جم جانا ہے، اور ثابت قدمی لغزش کے بغیر ذکر میں آگے بڑھ جانا ہے، یاد رہے کہ حقیقی مومنین کی یہ روحانیّت جنگِ بدر سے متعلق ہے، اس کا مقصد ایک تو یہ بتانا ہے کہ جہاد جیسے پُرخطردینی امور کی انجام دہی سے روحانی ترقی ہوتی ہے، دوسرا یہ کہ قرآنِ حکیم میں روحانیّت کی تشبیہہ نیند سے دی گئی ہے، اور تیسرا یہ کہ نیند حواسِ ظاہر کو معطّل کردیتی ہے جس سے لامکان کے ساتھ رابطہ قائم ہوجاتا ہے۔

جب انفرادی قیامت اور روحانیت گنجِ گوہرِ مکنون تک پہنچ جاتی

 

۲۱

 

ہے، تو اس وقت مرتبۂ عقل کا “لامکان”  سامنے ہوتا ہے، کیونکہ اس حال میں عقلی طور پر مکان و زمان کا تصوّر ختم ہوکر ازلی و ابدی حقائق و معارف کے ظہورات کا آغاز ہوجاتا ہے، جبکہ ساری کائنات قبضۂ قدرت میں لپیٹی ہوئی ہوتی ہے، جیسا کہ ترجمۂ آیۂ کریمہ ہے:۔

وہ دن جب کہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ لیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ لیے جاتے ہیں۔ جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتداء کی تھی اسی طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذِمّے، اور یہ کام ہمیں بہر حال کرنا ہے (۲۱: ۱۰۴) اسی موضوع کا دوسرا ارشاد یہ ہے: قیامت کے روز پوری زمین اس کی مٹھّی میں ہوگی اور آسمان اس کے دستِ راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے (۳۹: ۶۷)۔

۱۔ یہ دونوں بابرکت اور پُرحکمت آیتیں بنیادی اور آخری حقائق کے تصوّرکے لئے خاص ہیں، جیسے ازل، ابد، امر، خلق، بقا، فنا، لامکان، مکان، لازمان، زمان، نور، عرش، قلم، گنجِ مخفی، علّیّین ،امامت، وغیرہ۔

۲۔ ایک اعتبار سے یہ مادّی کائنات کا ذکر ہے اور دوسرے اعتبار سے علمی کائنات کا۔

۳۔ قرآنِ حکیم میں عرشِ رحمان کا تصوّراس کائنات سے اوّل بھی ہے اور آخر بھی، اور وہ تصوّر یہی ہے۔

۴۔ یہ قلم الٰہی کا تصوّرہے، علم سماوی کا سر چشمہ ہے۔

۵۔ گنجِ مخفی یعنی اسرارِ معرفت کا خزانہ یہی ہے۔

۶۔ انسان کا روحانی اور علمی سفر ایک دائرے پر واقع ہے، جس پر وہ ازل سے چلنے لگا تھا، پھر وہ گھوم کر ازل ہی میں جا پہنچتا ہے، اور ابد اسی مقام

 

۲۲

 

کا دوسرانام ہے۔

۷۔ یہ تصوّرکتابِ مکنون کا ہے، جس میں قرآنِ کریم ہے۔

۸۔ اس تصوّر میں اس عظیم فرشتے کا ذکر ہے، جو حاملِ عرش ہے، جس کے ہاتھ میں نگینۂ حکمت ہے۔

۹۔ نورِ توحید کا مشرق و مغرب ایک ہی جگہ ہے۔

۱۰۔ یہ تصوّر خدا کی بادشاہی کو ظاہر کرتا ہے۔

۱۱۔ ایک بلند ترین مثال ہے، جو تمام مثالوں پر محیط ہے، اس کا تصوّر یہ ہے۔

۱۲۔ وہ پہاڑ جس پر اگر قرآن نازل ہوتا تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا، یہ ہے۔

۱۳۔ وہ حجرِ ابیض جس کی مثال حجرِ اسود ہے، یہ ہے۔

۱۴۔ وہ پہاڑ جو جلوۂ خداوندی سے ریزہ ریزہ ہوگیا تھا، یہ ہے۔

۱۵۔ یہ وہ لُؤلُو اور مرجان ہے، جس کا قرآنِ پاک میں ذکر فرمایا گیا ہے۔

۱۶۔ یہ وہ پتھر ہے جس کے گرنے سے علم کا پانی نکلتا ہے۔

۱۷۔ اسی مقام پر چشمۂ سلسبیل ہے۔

۱۸۔ اسی میں یدِ بیضا کا معجزہ ہے۔

۱۹۔ عقلی اور علمی فنا کا مقام یہیں ہے۔

۲۰۔ یہی نور، مِشکات، مِصْباح، زُجاجہ اور کوکبِ دُرّی ہے۔

۲۱۔ یہیں زیتون کا مبارک درخت ہے، جو شرقی بھی نہیں اور غربی بھی نہیں، کیونکہ وہ لامکانی ہے۔

۲۲۔ نور سامنے کی طرف اور دستِ راست کی طرف اسی مقام پر ہے۔

۲۳۔ نورِ تمام کا تصوّر یہی ہے۔

۲۴۔ کتابِ منیریہی ہے۔

 

۲۳

 

۲۵۔ کوہِ قافِ علم یہی ہے۔

۲۶۔ عِلّیّین یہی ہے۔

۲۷۔ تسبیح و تقدیس کا اصل مقام یہی ہے۔

۲۸۔ اور کشتیٔ علم و حکمت یہی ہے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

مورخہ ۲۴؍ اگست ؁۱۹۸۴ ء

خانۂ حکمت کراچی ادارۂ عارف کراچی

 

۲۴

 

صمصامِ علمی

(بیس ۲۰ حکمت)

 

“صمصام” ایک عربی لفظ ہے، جس کے معنی ہیں شمشیرِ برّان، تیز تلوار، نہ مڑنے والی تلوار، اور یہ بعض روایات کے مطابق حضرت مولا علی صلوات اللہ علیہ کی ایک تلوار کا نام ہے۔

“صام صام” آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے اسمائے مبارک میں سے ایک اسم ہے، جو حضرتِ شیث علیہ السّلام کے صحف میں مذکورتھا، اور صام صام کے معنی یہاں تلوار کی مثال پر”قَطّاع بالُحجّۃ”  ہیں، یعنی دلیل و برہان کی تلوار سے کاٹنے والا، بمعنی فیصلہ کرنے والا، جس سے صمصامِ علمی (علم کی تیز تلوار) مراد ہے، یعنی علمِ حقیقت کی شمشیر، جس طرح حدیثِ شریف میں حق و حقیقت کی تشبیہہ تیز تلوار سے دی گئی ہے، اس ارشاد کا ترجمہ یہ ہے: “حق خدا کی تلوارہے، جب بھی کسی چیز پر ماری جاتی ہے تو اس کو کاٹے بغیر نہیں چھوڑتی۔” اب یہاں اسی مناسبت سےعلم و حکمت کی کچھ باتیں بتائی جاتی ہیں:۔

۱۔ پیغمبرِ اسلامؐ نے حدیثِ خاصف النّعل میں جس طرح جہاد کا تصوّرپیش کیا ہے، اس سے صاف طور پر یہ ظاہر ہے کہ اسلام میں جہاد دُہرا ہے، یعنی جہادِ

 

۲۵

 

تنزیل اور جہادِ تاویل، تنزیلی جہاد کے مالک و سردار حضورِ اکرمؐ تھے، اور تاویلی جہاد کے لئے خدا و رسولؐ نے امیرالمومنین علیؑ کو مقرّر فرمایا تھا، کہ آپؑ ولیّٔ امر تھے، اور یہاں مولاعلیؑ سے پورا سلسلۂ امامت مراد ہے، کیونکہ تاویلی جنگ ظاہراً و باطناً پورے دور پر پھیلی ہوئی ہے۔

۲۔ مذکورۂ بالاحدیثِ شریف کی روشنی میں دیکھنے سے کئی حقیقتیں سامنے آتی ہیں، مثال کے طور پر یہ کہ اسلام میں ایک دعوت کے بعد دوسری دعوت ہے، کیونکہ اسلام صراطِ مستقیم ہے اور صراطِ مستقیم قدم بہ قدم اور منزل بہ منزل آگے بڑھنے کے لئے ہے، نیز یہ کہ لوہے کی ذوالفقار ظاہری جنگ کے لئے تھی، اور علم کی ذوالفقار یا صمصام باطنی اور علمی جہاد کے لئے مقرّر ہے، جس میں امامِ عالی مقامؑ خدائی لشکر کے سردار ہیں، اور مومنین اس علمی جہاد میں لشکر کے مختلف فرائض انجام دے رہے ہیں، اس جنگ کے دو میدان ہیں: مقامِ روحانیّت اور مقامِ جسمانیّت، جس کے لئے خدائی لشکر کے دو حصّے ہیں: آسمانی لشکر، جس سے ارواحِ مومنین مراد ہیں، اور زمینی لشکر، جس کا مطلب ہے مومنین کی شخصیتیں (۴۸: ۰۴، ۴۸: ۰۷ )۔

۳۔ دینِ اسلام کے حقیقی علم میں کیا اثر ہے اور دلائل کی شمشیریں کس حد تک کام کرسکتی ہیں، اس کا درست اندازہ اس آیۂ کریمہ سے ہوسکتا ہے، ارشاد ہے کہ: “لِیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃٍط (۰۸: ۴۲) تاکہ وہ شخص ہلاک ہو جو دلیل سے ہلاک ہوچکا ہے اور وہ شخص زندہ ہوجائے جو دلیل سے زندہ ہوچکا ہے۔”  یعنی جو آدمی قانونِ عقل کے نزدیک بحدِّ قوّت مرچکا ہو تو اس کی جسمانی زندگی بیکار ہے، لہٰذا اسے فعلاً ہلاک ہوجانا چاہئے، اور جواس قانون کے مطابق بحدِّ قوّت زندہ ہوچکا ہوتو اسے فعلاً زندہ ہوجانا چاہئے۔ اور

 

۲۶

 

 

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ دلائلِ اسلام کی جان ہادیٔ برحق ہوا کرتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ بموجبِ قرآن رسولِ خداؐ کا ایک نام “البیّنۃ” بھی ہے، یعنی دلیل جس سے پیغمبرؐ اور امامؑ مراد ہیں۔

۴۔ قرآنِ حکیم کے پُرحکمت الفاظ میں سے ایک بہت پیارا لفظ “سلطان” ہے، جو قرآنِ پاک میں ۳۷ دفعہ مذکور ہے، جس کے معنی ہیں دلیل، حجت ، اقتدار، غلبہ، زور اور بادشاہ، اور اس کی تاویل ہے امامِ زمان علیہ السّلام، کیونکہ آپؑ ہی جانشینِ رسولؐ ہیں، جو زمانۂ نبوّت میں دلیلِ روشن (البیّنۃ ۹۸: ۰۱) تھے، جیسا کہ خداوندِ عالم کا ارشاد ہے:۔

“اے گروہِ جِن واِنس اگر تم سے ہوسکے کہ آسمانوں اورزمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ، تم نہ نکل سکو گے، مگر دلیل (سلطان) سے (۵۵: ۳۳)”  یعنی روحانی اور علمی طور پر عالمِ مادّیت سے نجات حاصل کرکے عالمِ عُلوی اور لامکان میں پہنچ جانا جنات اور انسانوں کے بس کی بات نہیں، مگر ہاں، امامِ وقتؑ کے وسیلے سے یہ بات ممکن ہے، کیونکہ آپؑ ہی تمام معنوں میں سلطان ہیں۔

۵۔ اس آیۂ کریمہ میں خوب غور کیجئے: “اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰن” اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغٰوِیْنَ (۱۵: ۴۲) جو ہمارے بندے ہیں ان پر تو تیرا زور نہیں چلے گا، ہاں گمراہوں میں سے جو کوئی تیرے پیچھے ہولے (تو ہولے)”  اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مومنین کے پاس اللہ تعالیٰ کی قوّت (سلطان یعنی امامِ زمانؑ) موجود ہے، تو شیطان ان کو گمراہ نہیں کرسکتا ہے، لیکن شیطان ایسے لوگوں میں سے کسی کو اپنا پیرو بنا سکتا ہے، جو صراطِ مستقیم، ہادیٔ برحق اور ہدایت سے الگ ہوچکا ہو، کیونکہ اب اس کے پاس

 

۲۷

 

حقیقی سلطان نہیں، تو ظاہر ہے کہ شیطان اس پر غلبہ پائے گا۔

۶۔ جملہ باطل پیشواؤں کو قرآنِ حکیم نے اصنام قرار دیا ہے، کیونکہ جس طرح

بت کو لوگ ہی تراشتے ہیں، اسی طرح یہ پیشوا لوگوں کی طرف سے مقرر ہیں، خدا کی جانب سے نہیں، اور ایسے باطل پیشواؤں کے نام بھی لوگوں نے رکھے ہیں، جیسے پیر، مرشد، امام وغیرہ، حالانکہ اس کے بارے میں خداوندِ عالم نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ہے، اور اس کے برعکس أئمّۂ ہدا کی حمایت میں خداوندِ تعالیٰ نے دلیل نازل کی ہے اور یہ دلیل یعنی سلطان أئمّۂ طاہرین صلوات اللہ علیہم کے حق میں اپنے تمام اعلیٰ معنوں کے ساتھ ہے۔

۷۔ اس سے بڑھ کر تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت کی کوئی دلیل ہی نہیں کہ پیغمبرِ برحقؐ کے بعد امامِ عالی صفات کی مبارک ہستی ہمیشہ دنیا میں موجود و حاضر ہو، جیسے حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارون ؑکے بارے میں فرمایاگیاہے: “پھرہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور دلیلِ ظاہر کے ساتھ فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا (۲۳: ۴۵ تا ۴۶)” قرآنِ حکیم کی کئی آیاتِ کریمہ میں حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کی نظیر پیش کرنے کا خاص مقصد نبوّت و امامت کی باہمی وابستگی کو ظاہر کرنا ہے، اور یہاں دلیل سے علم و حکمت مراد ہے اور تنزیل کے بعد تاویل، جو حسی معجزات سے بڑھ کر ہے۔

۸۔ عرض کی گئی ہے کہ جہاد دوقسم کا ہے: جسمانی اور علمی، تلوار کی بھی دو قسمیں ہیں: آہنی اور علمی، ہجرت بھی دو طرح سے ہے: ظاہری اور باطنی، ظاہری ہجرت یہ ہے کہ بوقتِ ضرورت اپنے گھر اور وطنِ مالوف کو دین کی خاطر چھوڑ دیا جائے، اور باطنی ہجرت یہ ہے کہ دین کو تقویت دینے کے لئے جسمانیّت سے روحانیّت کی طرف سفر کیا جائے، چنانچہ اس تعلیمِ ربّانی میں ایسی دو دو صورتوں کا ذکر موجود

 

۲۸

 

ہے: “جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے (ظاہری یا باطنی) ہجرت کی اور اپنے (مادّی یا علمی) مال اور جان کے ساتھ راہِ خدا میں جہاد کیا اور جب لوگوں نے جگہ دی اور مدد کی، تو یہی لوگ ایک دوسرے کے وارث (اور دوست) ہیں۔”

۹۔ یہ سورۂ عنکبوت (۲۹) کی آخری آیت (۲۹: ۶۹) کا مفہوم ہے: “جو لوگ دینِ خدا کے کام میں جہاد جیسے کارنامے انجام دیتے ہیں تو خدا بھی ان کو اپنے علم و عرفان کے رستے دکھائے گا، اور کچھ شک نہیں کہ خدا نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔”

۱۰۔ قرآنِ کریم میں حقیقی علم کی اہمیّت و ضرورت اور اس کی فضیلت و مرتبت کا ذکر کثرت سے فرمایا گیا ہے، اور اعلیٰ سے اعلیٰ حقائق کو جاننے کا حکم دے کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ علم کی انتہائی بلندی تک پہنچ جانا ممکن ہے، مثال کے لئے ملاحظہ ہو: “وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَقَلْبِہٖ وَاَنَّہ‘ٓاِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ (۰۸: ۲۴) اور (یہ راز) جان لو کہ اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے قلب کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور یہ بھی جان لو کہ تم سب اسی کے پاس حاضر کئے جاؤگے۔” اس پُرحکمت تصوّر نے آدمی کے اس دل کو نہیں جو گوشت کا لوتھڑا ہے بلکہ حقیقی دل کو جسم سے الگ دکھایا ہے، اور وہ قلب یقیناً امامِ اقدس و اطہر ہیں، جو مومن کا حقیقی دل اور انائے علوی ہیں، جسے آج نہیں تو کل حاصل کرنا ہی ہے۔

۱۱۔ آیۂ مذکورۂ بالا میں لفظِ “قلب” جو امام کے لئے آیا ہے، اس کے کئی معنی ہیں، جیسے القلب: دل، عقل، روح، لشکر کا وسط، ہر چیز کا خلاصہ یا جوہر، خالص نسب والا یعنی اصیل آدمی، وَقِیْل سُمِّیَ الْقَلْب قَلْباً لِتَقلَبِہٖ: کہا جاتا ہے کہ دل کو قلب کا نام پلٹنے کے معنی میں دیا گیا ہے، چنانچہ یہ تمام معانی امامِ پاک

 

۲۹

 

کے لئے درست ہیں، کیونکہ امامؑ ساری کائنات کی عقل و جان ہیں، آپؑ ہر مومن کی حقیقی عقل اور روح ہیں، خدائی لشکر کا وسط اور ہر چیز کا خلاصہ ہیں، ہر طرح سے اصیل ہیں اور آپؑ ساری کائنات میں بذریعۂ جثّۂ ابداع سیر کرتے ہیں،اس لئے آپؑ کے تاویلی ناموں میں سے ایک قلب ہے۔

۱۲۔ قرآنِ مقدّس میں جتنی مثالیں بیان ہوئی ہیں، ان سب کا ایک ہی اصول اور ایک ہی مقصد ہے، آپ اس مطلب کو اس آیۂ کریمہ میں سمجھ سکتے ہیں: “وَتِلْکَ الْاَمْثَالُنَ ضْرِبُھَالِلنَّاسِ  وَمَا یَعْقِلُھَااِلَّاالْعٰلِمُوْنَ (۲۹: ۴۳) اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے بیا ن فرماتے ہیں اور علماء ہی ان کو سمجھتے ہیں۔” اس آیت میں آپ واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ جو مثالیں لوگوں کے سمجھانے کی غرض سے بیان کی گئی ہیں، ان کو لوگ اپنے آپ نہیں سمجھ رہے ہیں، کیونکہ مثالیں تو متشابہات میں سے ہوا کرتی ہیں، لہٰذا اس میں ایسے علماء سے رجوع کرنے کا اشارہ ہے، جو مثال کے ممثول یعنی تاویل کو جانتے ہیں، اور وہ علماء صرف أئمّۂ طاہرین صلوات اللہ علیہم ہیں، اس سے کئی حکمتوں پر روشنی پڑتی ہے، پہلی حکمت یہ کہ تمام اونچی حقیقتیں جو لوگوں کی عقل سے بالاتر ہیں مثالوں میں بیان ہوئی ہیں، دوسری یہ کہ مثالوں کو سمجھنے کے لئے امامِ وقتؑ سے رجوع لازمی ہے، تیسری یہ کہ قرآن کی ساری مثالیں اسی قانون کے تحت آتی ہیں، چوتھی یہ کہ جب تک قرآن دنیا میں باقی ہے اور جب تک لوگوں کو اس کے تاویلی اسرار سمجھنے کی ضرورت ہے، تب تک سلسلۂ امامت قائم اور جاری ہے، اور پانچویں یہ کہ یہ علماء وہی حضرات ہیں جن کو خدا نے مقامِ تاویل پر راسخون فی العلم (۰۳: ۰۷) کے لقب سے نوازا ہے۔

 

۳۰

 

۱۳۔ عرش کی سب سے خاص تاویل نورِ عقل ہے، چنانچہ حاملِ نور یعنی امامِ زمانؑ اپنے وقت میں وہ اکیلا عظیم فرشتہ ہیں، جو عرشِ الٰہی کو اٹھا رہے ہیں، مگر آیۂ کریمہ میں بظاہر ایسا لگتا ہے، جیسے کئی عظیم فرشتے مل کر عرش کو اٹھا رہے ہوں، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جو صیغۂ جمع (اور اس دن تمہارے پروردگار کے تخت کو آٹھ (فرشتے) اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے (۶۹: ۱۷) آیا ہے، وہ ترتیب اور سلسلے سے متعلق ہے، یعنی ہر سات امام اپنے اپنے وقت میں عرشِ نور کو اٹھاتے ہیں، اور ہر امامِ ہفتم کے بعد ایک خلیفہ ہوا کرتا ہے، اسی طرح آٹھ فرشتے ہوتے ہیں۔

۱۴۔ حضرت موسیٰؑ نے التجا کی کہ: “اے ربّ! مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں۔”  فرمایا “تو مجھے نہیں دیکھ سکتا، ہاں ذرا سامنے کے پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو البتہ تو مجھے دیکھ سکے گا۔” چنانچہ اس کے ربّ نے جب پہاڑ پر تجلّی کی تو اسے گرا کر ریزہ ریزہ کردیا اور مو سیٰ غش کھا کر گر پڑا (۰۷: ۱۴۳)۔

اس آیۂ کریمہ کی عظیم تاویلی حکمت کی غرض سے یہ سوال کرنا مناسب ہے کہ اگر یہ پہاڑ ظاہری اور مادّی قسم کا تھا تو بے جان اور بے عقل پہاڑ نے نورِ تجلّی کے اثر کو کیسے قبول کیا، اور کس معنیٰ میں یا کس طرح گر کر ریزہ ریزہ ہوگیا؟ اس کے بارے میں گزارش یہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ کے سامنے ظاہراً و باطناً دو پہاڑ تھے، ایک مادّی اور دوسرا روحانی اور عقلی، اور پروردگار نے اپنی تجلّی کوہِ عقل پر عقلی اور علمی صورت میں ڈالی تھی، اور کسی دوسری طرح سے نہیں، کیونکہ قرآنِ حکیم میں جہاں ربّ (پروردگار) کا اسم آتا ہے، وہاں لازماً عقلی اور علمی پرورش کی کوئی بات ہوتی ہے، چنانچہ حضرت مو سیٰ علیہ السّلام کی روحانیّت کے اس

 

۳۱

 

بلند ترین درجے میں ربِّ کریم نے اپنے حکمت آگین نورانی ظہور سے عقل کے پہاڑ کا عقلی اور علمی تجزیہ فرمایا،اور اسرارِ عظیم کے جواہر بکھیر دیئے، حضرت موسیٰؑ کے بیہوش ہو کر گرجانے کی تاویل یہ ہے کہ آپؑ کو اس انتہائی عظیم، بیمثال اور جامع الجوامع مظاہرۂ علم و حکمت سے سخت حیرت ہوئی، اور ہوش میں آنے کی یہ تاویل ہے کہ پھر آپؑ رفتہ رفتہ سرچشمۂ نورِ عقل کی حکمتوں کو اخذ کرنے لگے۔

۱۵۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ سورۂ فاتحہ بمقامِ ظاہر اُمّ الکتاب (کتاب کی ماں) ہے، اور اساس یعنی مرتضیٰ علیؑ بمقامِ باطن اُمّ الکتاب ہیں (۴۳: ۰۴) ، کیونکہ آپؑ چہرۂ خدا اور “بحرِ گوہرزا”  (۵۵: ۲۷) ہیں، ہاں یہ دُرِّ مکنون ہی کتابِ مکنون ہے اور یہ پاک سمندر موتیوں کی ماں (۵۶: ۷۸)۔

۱۶۔ ظاہری اور باطنی جہاد پیغمبرؐ اور امامؑ کے ذریعے سے انجام پاتا ہے، آپ اس کی مثال قصّۂ طالوتؑ (۰۲: ۲۴۶ تا ۲۵۱) میں دیکھ سکتے ہیں، طالوت علیہ السّلام امام تھے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے: “قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىهُ عَلَیْكُمْ وَ زَادَهٗ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِؕ-وَ اللّٰهُ یُؤْتِیْ مُلْكَهٗ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (۰۲: ۲۴۷) پیغمبر نے کہا کہ اللہ نے تم پر (حکم رانی کے لئے) اسی کو برگزیدہ کیا ہے اور علم اور جسم میں اس کو (بڑی) فراخی دی ہے اور اللہ اپنی بادشاہی جس کو چاہے عطا کرتا ہے اور اللہ (بڑی) گنجائش والا اور جاننے والا ہے۔”  یہاں لفظِ “زَادَہ‘” میں دُہری حکمت پوشیدہ ہے، ایک تویہ کہ امامِ برحقؑ دنیا بھر کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں، کیونکہ آپؑ کے پاس روحانی علم اور ابداعی جسم ہے، اور دوسری حکمت یہ کہ آپؑ پہلی حالت کے مقابلے میں دوسری حالت میں زیادہ ہوا کرتے ہیں،

 

۳۲

 

جبکہ ان کو خدا کی طرف سے ظاہری علم کے ساتھ باطنی علم اور کثیف جسم کے ساتھ لطیف جسم ملتا ہے۔

۱۷۔ اس قصّہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ خدا نے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا (۰۲: ۲۴۷) اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ طالوتؑ امام تھے، کیونکہ خدا کے دین میں دنیوی قسم کی بادشاہی کا کوئی تصوّرنہیں، مگر دینی بادشاہی ضرور ہے، جو نبوّت کی صورت میں یا امامت کی شکل میں ہوا کرتی ہے، اور یہ بادشاہی دراصل اللہ تعالیٰ کی ہے، وہ جسے چاہے عطا کردیتا ہے، اور بقولِ قرآن (۰۴: ۵۴) یہی اس کی مرضی تھی کہ یہ دینی اور روحانی بادشاہی آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ میں جاری و باقی رہے۔

۱۸۔ اہلِ دانش کے نزدیک یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ خدا کی ساری خدائی اس شخص کی حمایت میں کام کرتی ہے، جس کو خدا و رسولؐ نے مسندِ دین پر بٹھایا ہے، اور ایسا بادشاہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ ہیں، جن کے لئے بحکمِ خدا آسمان و زمین کی ہر چیز غلامی کرتی ہے، اس سلطنت کے بارے میں جو اقرار کیا جاتا ہے وہ تو اقرار ہی ہے، اور جو انکار ہے وہ بھی خالی ازحکمت نہیں، آخر طاقت و حرکت پیدا کرنے کیلئے مثبت (Positive) کے ساتھ ساتھ منفی (Negative) بھی چاہئے، اور قدرت و فطرت کا قانون یہی ہے۔

۱۹۔ کوئی شخص کسی بھی معیار سے امام کو نہیں پرکھ سکتا، اور آزما نہیں سکتا، کیونکہ امامؑ بادشاہ ہیں، لہٰذا قانونِ معیار سازی انہی کے ہاتھ میں ہے، تاکہ جگہ اور وقت کے مطابق کوئی کسوٹی بنا کر لوگوں کو آزمایا کریں، جس میں لوگوں کا فائدہ ہے، چنانچہ بطورِ آزمائش امام سے معجزہ یا کرامت طلب کرنا خطا ہے، ہر چند کہ امامِ زمانؑ کے عجائب و غرائب کا کوئی حساب و شمار نہیں مگر ہاں یہ بات

 

۳۳

 

ضروری ہے کہ خدا و رسولؐ اور صاحبِ امرؑ کی اطاعت کے وسیلے سے چشمِ بصیرت طلب کی جائے، تاکہ ظاہر و باطن میں ہمیشہ معجزاتِ خداوندی کا مشاہدہ ہوتا رہے۔

اگرچہ یہ بات درست ہے کہ حضرت سلیمانؑ، جن کی سلطنت انبیاء و أئمّہ کی روحانی مملکت کی مثال تھی، ظاہری اور باطنی دونوں اعتبار سے بادشاہ تھے، تاہم علم و آگہی کا فائدہ اسی میں ہے کہ ہم حقیقتِ حال کو صحیح معنوں میں سمجھیں، وہ یہ ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ روحانی بادشاہ تھے، آپؑ کا اصل لشکر جس میں جِنّ، اِنس، اور پرندے کام کرتے تھے (۲۷: ۱۷) روحانی صورت میں تھا، اور ہر وہ طاقت یا معجزہ جس کا ذکر آپؑ سے متعلق قصّے میں آیا ہے روحانی قسم کا تھا، اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر پیغمبرؑ اور ہر امامؑ اپنے زمانے میں سلیمانؑ کی طرح روحانی سلطنت کا مالک ہوا کرتا ہے۔

۲۰۔ ہر مومن کا زبردست فائدہ اسی میں ہے کہ وہ اپنے امامِ وقتؑ کو دینی اور روحانی بادشاہ کے طور پر تسلیم کرے، وہ امامؑ کے عشق و محبت کی لازوال دولت سے اپنے دل و جان کو مالا مال بنائے، کیونکہ امامؑ کی محبت رسولؐ کی محبت ہے اور رسولؐ کی محبت خدا کی محبت ہے، اور اسی طرح جب بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کا دوست ہوگا تو خدا بھی اس سے دوستی کرے گا، اور یہ آسمانی دوستی دین کی گونا گون نعمتوں اور طرح طرح کی نوازشوں کی شکل میں ہوگی۔ اَلْحَمدُ لِلّٰہ عَلٰی اِحسَانہٖ۔

 

آپ کا علمی خادم

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی۔ کراچی

۲۹؍اگست؁۱۹۸۳ء

کراچی

 

۳۴

 

ایک عمدہ سوال

 

میرے بہت ہی عزیز الواعظ صغیر الدّین جو علیّٔ زمان صلوات اللہ علیہ کے جان نثار عاشقوں میں سے ہیں، جو شمعِ علم کے پروانہ اور بادۂ عرفان کے مستانہ ہیں، اور جن کو خداوندِ عالم کی طرف سے بہت سی فطری صلاحیتیں عطا ہوئی ہیں، وہ کبھی کبھار اس کمترین خادم کو خلوص و محبّت کی خوشبوؤں سے بھر پور خط لکھتے ہیں، ایسے دلکش و پسندیدہ خطوط میں بعض دفعہ علمی سوالات بھی ہوا کرتے ہیں، چنانچہ انھوں نے اس دفعہ ایک بے حد پیارے خط میں ایک عمدہ سوال بھیجا ہے، جو درجِ ذیل ہے:۔

“ٓآخر میں ایک سوال کرنے کی جسارت کررہا ہوں، امید ہے کہ جواب سے نوازیں گے۔

سوال: جمادات (یعنی مٹی) سے نباتات اُگتے ہی اپنے سر کو سیدھا اوپر کی طرف کرتی ہیں، جبکہ حیوانات کا سر سیدھا آگے یعنی سامنے کی طرف ہوا کرتا ہے، اور جبکہ انسان کا سر سیدھا اوپر کی جانب ہے، ان تین مختلف حالتوں میں کیا رازِ حکمت پوشیدہ ہے؟”

آپ دیکھتے ہیں کہ سوال عقل و دانش کی کس گہرائی اور گیرائی سے کیا

 

۳۵

 

گیا ہے، اور ان کی قوّتِ جستجو میں کتنی صفائی اور وسعت آگئی ہے!

جواب: آپ کا یہ کہنا بالکل درست اور بجا ہے کہ ہر نبات خواہ وہ درختِ سرو کی طرح سرفراز ہو یا خربوزے کی بیل کی طرح زمین پر پھیلنے والی، بہرکیف اس کا سر اُگنے کے ساتھ ساتھ آسمان کی طرف ہو جاتا ہے، یہ اس کی فطری ہدایت اور رجوع ہے اس نظامِ ربوبیت کی طرف، جو مادّی آسمان اور سورج کے وسیلے سے مہیّا ہے، تاکہ حرارت، روشنی، بارش، اور ہوا سے اس کی تربیت و پرورش ہو، اور تمام نباتات کی یہ پرورش نہ صرف جڑوں کی راہ سے ہوتی ہے، بلکہ شاخوں کے طریق سے بھی ہوا کرتی ہے، اس میں خدائے حکیم کا یہ حکیمانہ اشارہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی اَنا کو زمینِ دین سے اُگا کر آسمانِ علم اور آفتابِ ہدایت کی طرف متوجہ ہوجانا چاہتا ہے تو وہ بصد خوشی ایسا ہوسکتا ہے، تاکہ وہ دینِ خدا کے باغ کا ایک نونہال (نوخیز پودا) قرار پائے، جس کی روحانی اور علمی پرورش کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے:۔

اور اگر وہ لوگ توریت کی اور انجیل کی اور جو کتاب ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی اس کی پابندی کرتے تو وہ لوگ اپنے (سرکے) اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے خوب فراغت سے کھاتے (۰۵: ۶۶) یعنی راہِ روحانیّت کی ایک منزل ایسی بھی ہے، جہاں سالک کے سر کی جانب سے ذرّاتِ عُلوی نازل اور پاؤں کی طرف سے ذرّاتِ سفلی داخل ہوجاتے ہیں، تاکہ وہ خوش نصیب بندہ ایک سدا بہار درخت کی طرح نشوونما پائے، جیسے بی بی مریمؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:۔

وَاَنْبَتَھَا نَبَاتاً حَسَناً (۰۳: ۳۷) اور اس (یعنی مریمؑ ) کو بڑی عمدگی سے اُگایا۔ اگر نباتات اور درختوں میں کامل و مکمل انسانوں کی مثالیں نہ ہوتیں، تو

 

۳۶

 

قرآنِ حکیم میں ایسا کوئی تذکرہ نہ ملتا۔

چونکہ حیوان کو جو مقام ملا ہے وہ نبات اور انسان کے درمیان واقع ہے، اس لئے اس میں آدمی کے عروج و نزول دونوں کی مثالیں موجود ہیں، اس کے یہ معنی ہوئے کہ حیوان کی مثال میں تاویل کا ایک اچھا اور ایک برا دو پہلو ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں اَنعام یعنی چوپایوں سے کبھی تو بعض حدودِ دین کی تشبیہہ دی گئی ہے اور کبھی جاہل و نادان انسانوں کی تمثیل، سو اس سوال کا جواب کہ “حیوان کا سر کیوں آگے کی طرف بڑھا ہوا ہے اور کیوں زمین پر بار بار جھکتا ہے؟” دوطرح سے دیا جائے گا:۔

الف: نبات کا سر آسمان کی جانب ہے، اور اسی حالت میں وہ حیوان کی طرف متوجہ ہے، کیونکہ اس کے سر پر حیوان ہے، اس کی تاویل یہ ہے کہ ماتحت روحوں پر حدودِ دین کی بادشاہی ہے، جس میں حکمرانی اور فیضِ تعلیم کا رُخ ان ارواح کی طرف ہے، تاکہ ایسی روحیں حدود کی معراج (سیڑھی) سے عروج کرجائیں، اور ساتھ ہی ساتھ حدود کو درجۂ کمال حاصل ہو، جس طرح نبات اور حیوان کے باہم روبرو ہونے سے دو طرفہ فائدہ ہوتا ہے، کہ نبات بصورتِ حیوان زندہ ہوجاتی ہے، اور حیوان زندگی کے مراحل میں آگے بڑھتا ہے۔

ب: حیوان کے جس پہلو سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ بعض لوگ حیوانوں کی طرح نفس کی پستیوں میں گرے ہوئے ہیں، وہ یوں ہے کہ حیوان سرنگون ہے، جبکہ اس نے آسمان کی طرف پشت پھیر دیا ہے، یعنی مثال کے طور پر وہ انسان سے روگردان ہے جو اس کا آسمان ہے، اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ جو لوگ مرتبۂ انبیاء (جوعلم و معرفت کا آسمان ہے) کی طرف پیٹھ پھیرتے ہیں، ان کا سرہمیشہ ذلت و خواری کی پستی میں جھکا رہتا ہے، جس طرح حیوان کا سر گھاس کی خاطر جھکتا رہتا ہے۔

 

۳۷

 

اب اس سوال کا جواب ہونا چاہئے کہ انسان کا سرسیدھا اوپر کی طرف کیوں ہے؟ اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ صحیح معنوں میں انسان ہیں، وہ اپنے سر کو روحانی آسمان کی طرف کرلیتے ہیں، سر میں حواسِ ظاہر و باطن ہیں جن کو یہ لوگ نورِ ہدایت کی طرف مبذول و مرکوز کرلیتے ہیں، تاکہ ان کو رفعت و برتری ملے۔

سلسلۂ ترقی و تنزّل میں ایک حیوان انسان سے پہلے آتا ہے اور دوسرا بعد میں، جو جانور پہلے آتا ہے، وہ اچھا بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی، مگر جو حیوان انسانی درجے کے بعد آتا ہے، وہ بہت ہی برا ہے، چنانچہ ماضیٔ بعید کے وہ بندر اور سُور انتہائی خبیث اور ذلیل حیوان تھے، جو بعض نافرمان آدمیوں کے مسخ ہوجانے سے بن گئے تھے، خواہ یہ مسخ ظاہری ہو یا باطنی، کیونکہ قرآنی حکمت کا کہنا یہ ہے کہ بعض لوگ انسانی شکل میں ہوتے ہوئے حیوان بن جاتے ہیں، جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے:۔

جنّات اور آدمیوں میں سے بہت سے ہیں جن کو ہم نے دوزخ کے لئے پیدا کیا ہے ان کے دل ہیں جن سے وہ نہیں سمجھتے اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ نہیں دیکھتے اور ان کے کان ہیں جن سے وہ نہیں سنتے وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ زیادہ گمراہ ہیں (اور) وہی لوگ غافل ہیں (۰۷: ۱۷۹) اس سے ظاہر ہے کہ جو شخص نافرمان ہے وہ نادان ہے، اور جو اس قسم کا نادان ہے، وہ بحقیقت حیوان ہے، اگرچہ بظاہر انسان ہے۔

سورۂ یٰسین (۳۶: ۶۷) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: اور اگر ہم چاہتے تو ان کو اپنی جگہ پر ہی مسخ کردیتے پھر وہ چل ہی نہیں سکتے اور نہ ہی لوٹ سکتے۔ اپنی جگہ سے انسانی جسم اور شکل و صورت مراد ہے، مسخ کے معنی روحِ انسانی کا حیوان بن جانا ہیں، چل نہ سکنا ترقی نہ کر

 

۳۸

 

سکنا ہے، اور رجوع نہ کرسکنا، توبہ نہ کرسکنا ہے، پس کسی کے مسخ ہوجانے سے اس کی روح بلندیٔ انسانیّت سے پستیٔ حیوانیّت میں گر گئی ہے، اس لئے وہ شخص نہ تو اخلاقی اور روحانی پیش رفت کرسکتا ہے اور نہ خداوند کے حضور میں رجوع۔

عاجزانہ دعا ہے کہ خداوندِ عالم جملہ مسلمین و مومنین کو جیسا کہ چاہئے توفیقِ اطاعت عنایت فرمائے! بحقِّ محمدؐ و آلہٖ الطّاہرینؑ۔

 

خاکپائے مومنین

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی۔ لندن

لندن، ۲۰؍جون ؁۱۹۸۴ء

 

۳۹

 

سفر اور مشاہدات

 

خانۂ حکمت و ادارۂ عارف کے معزّزعملدار و ارکانِ کراچی اور شمالی علاقہ جات جو میرے قلب و روح کے انتہائی عزیز اور جان و جگر کے ٹکڑے ہیں، ان سب کو خدائے برحق دنیا و عقبیٰ کی سلامتی، ترقی اور کامیابی سے نوازے اور سرفراز فرمائے! آمین یا ربّ العالمین!!

میں نعمت شناسی، قدردانی، اور شکر گزاری کی قلبی کیفیت میں شرق و غرب کے تمام عزیزان کو یاعلی مدد کی مقدّس دعا و سلام کرتا ہوں، اور ان سے ہمیشہ ایسی دعا کی توقع رکھتا ہوں، کیونکہ یہ عالی شان دعا ربّانی رحمتوں اور برکتوں سے لبریز ہے۔

الحمد للہ، میں ۱۸؍جون بوقتِ شب گیارہ بجے کراچی سے بذریعۂ طیارہ پرواز کرکے براہِ تاشقند اور ماسکو دوسرے دن لندن پہنچ گیا، تقریباً ۲۰ گھنٹے کا یہ ہوائی سفر جس میں پرواز اور وقفہ دونوں شامل ہیں، اور جس کی مسافت شاید بارہ ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے میرے لئے بڑا عجیب و غریب تھا، کراچی سے میری روانگی کے دوران اور لندن میں آمد کے موقع پرعزیزوں نے میری مدد کرتے ہوئے جس خلوص و محبت کا مظاہرہ کیا، وہ مجھے ہمیشہ ہمیشہ یاد رہے گا۔

 

۴۰

 

کوئی شک نہیں کہ روحانی سفر اس ظاہری اور جسمانی سفر سے کہیں زیادہ حیرت انگیز اور بڑا اہم ہوا کرتا ہے، جس میں روح اور ذرّاتِ روح پر گونا گون عجائب و غرائب گزرتے ہیں، اور اگر یہ حقیقت مان لی جائے کہ ہم بحیثیتِ ذرّاتِ روح ایک دوسرے میں آتے جاتے رہتے ہیں، تو پھر روح کے اس قانونِ بسیط و ہمہ جائی سے یہ امر لازمی ہوجاتا ہے کہ نہ صرف اسی سفر میں بلکہ ملکِ چین کے عظیم سفر میں بھی ہم سب طلبِ علم کی خاطر ساتھ تھے، تاکہ فردائے قیامت ہم سب اپنا کوئی مشترکہ کارنامہ دیکھ پائیں (ان شاء اللہ تعالیٰ)۔

مولائے رُوم جیسے منزلِ طریقت میں کامیاب اور عظیم صوفیوں کے منظوم کلام میں روحانیّت کے عجیب و غریب تصوّرات ہوتے ہیں، لیکن غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ اسماعیلی روحانیّت و حقیقت کی باتیں سب سے زیادہ تعجب خیز ہوا کرتی ہیں، جس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہاں کا انتہائی دور دراز روحانی سفر مظہرِ نورِ خدا کی رہنمائی میں کامیاب ہوجاتا ہے، اور ہر مشاہدہ رفتہ رفتہ علم و عرفان کا ایک خزانہ بن جاتا ہے۔

دنیائے ظاہر کے تینوں زمانے یعنی ماضی، حال، اور مستقبل انسان سے یا تو دور ہی رہتے ہیں یا بھاگ جاتے ہیں، اس کی وضاحت یوں ہے کہ ماضی گزر چکا ہوتا ہے، حال بڑی سرعت سے گزر جاتا ہے، مستقبلِ قریب تیزی سے آکر نکل جاتا ہے، اور مستقبلِ بعید دور ہی رہتا ہے، جس کے سبب سے آدمی کل زمانوں کے واقعات و حالات سے نا آشنا ہو کر حسرت و یاس میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس کے برعکس روحانیّت اور بہشت میں زمانۂ ساکن یعنی ٹھہرا ہوا زمانہ ہے، جو حال ہی حال ہے، اور اس کا کوئی ماضی و مستقبل نہیں، چنانچہ بہشت کا جو نہ گزرجانے والا زمان ہے، وہ دہر کہلاتا ہے، جس میں دنیا کے سارے زمانے مرکوز ہوکر لازوال بن جاتے ہیں۔

 

۴۱

 

جب قرآنِ حکیم کہتا ہے کہ قیامت کے دن کائنات خداوندِ تعالیٰ کے دستِ راست میں لپٹی ہوئی ہوگی ( ۳۹: ۶۷) تو اس ارشاد سے ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ اس آیۂ حکمت آگین میں جس طرح پھیلا ہوا مکان (کائنات) کے مرکوز ہوجانے کا ذکر ہے، اسی طرح پھیلا ہوا زمان کے یکجا ہوکر سامنے ٹھہر جانے کا بھی تذکرہ ہے، کیونکہ زمان آسمانوں کی حرکت کا نام ہے، لہٰذا زمان مکان (یعنی کائنات) سے الگ نہیں ہوسکتا، چنانچہ جب بہ امرِ خدا مکان وسیع و بعید ہونے کے بعد مرکوز و قریب ہوجاتا ہے، تو اسی کے ساتھ زمان بھی ماضی و مستقبل کی دوری کو چھوڑ کر مرکزِ حال میں سمٹ جاتا ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ روحانیّت اور بہشت کی ہر چیز مکانی اور زمانی مسافتوں کے بغیر نزدیک اور سامنے ہوتی ہے، جیسا کہ ربِّ حکیم کا ارشاد ہے:۔

وَاُزْ لِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ (۵۰: ۳۱) اور بہشت پرہیز گاروں کے لئے بالکل قریب کردی جائے گی۔ یعنی جنت، جو طول و عرض میں آسمانوں اور زمین کے برابر ہے (۰۳: ۱۳۳؛ ۵۷: ۲۱) ایک گوہر کی مقدار میں محدود ومرکوز ہوکر سامنے آئیگی۔

دراصل مجموعۂ کائنات، یعنی آسمانوں، زمین، اور ان میں جوکچھ ہے، اس کی چار صورتیں ہیں، جسمِ کثیف، جسمِ لطیف، روح، اور عقل، ان میں سے کثیف جسم آسمان و زمین یعنی کائنات ہے، لطیف جسم اور کائناتی روح وہ بہشت ہے جو کائنات کے برابر ہے، اور عقل وہ بہشت ہے جو پرہیز گاروں کے لئے نزدیک لائی گئی ہے، جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔

اگر مانا جائے کہ قیامت روحانی ترقی اور اللہ کی نزدیکی کا نام ہے، جو

 

۴۲

 

فرداً فرداً ممکن ہے (۰۶: ۶۴) پھراس کا مطلب یہ ہوگا کہ اصل قیامت انفرادی حالت میں پیش آتی ہے، جس میں ایک اجتماعی قیامت بھی پوشیدہ ہوا کرتی ہے، اور اگر حقیقت یہی ہے تو پھر کوئی زمانہ اس روحانی قیامت کے سلسلے سے خالی نہیں ہے، مگر یہ بات الگ ہے کہ کوئی قیامت چھوٹی ہو اور کوئی بڑی، اس تصوّرسے یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ اگر حقیقت ایسی ہے تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں وقوعِ قیامت کا بیان اکثر صیغۂ مستقبل میں فرمایا گیا ہے؟ جیسے فرمانا کہ قیامت آنے والی ہے؟

اس کے جواب میں یوں عرض ہے کہ سوائے کامل انسانوں کے لوگوں پر شعوری قیامت نہیں گزری ہے، لہٰذا انہی عوام کی نسبت سے قیامت کا تذکرہ صیغۂ مستقبل میں فرمایا گیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی فعل میں بحقیقت ماضی اور مستقبل نہیں ہے، اس لئے کہ ماضی اس کا ہوتا ہے جس کے ہاتھ سے وقت کا ایک حصّہ گزر چکا ہو، اور مستقبل اس کا ہوتا ہے جس کی رسائی آنے والے وقت تک نہ ہوتی ہو، مگر خدا وہ ذاتِ پاک ہے، جس کے قبضۂ قدرت میں زمان و مکان کی تمام چیزیں محدود ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مقامِ عقل پر سارا زمانہ ایک محدود اور ٹھہرا ہوا زمانۂ حال بن کر اللہ کے حضور میں سجدہ کررہا ہے، جس طرح زمان ومکان کی سب چیزیں سجدہ کرتی ہیں (۱۶: ۴۹)۔

 

امامِ زمانؑ کے غلاموں کا غلام

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی۔ لندن

لندن، ۲۲؍جون ؁۱۹۸۴ء

 

۴۳

 

خزائنِ خدا

 

یہ قرآنِ حکیم اور دینِ اسلام کی ایک تابندہ حقیقت ہے کہ خداوندِ تعالیٰ کے حضورِ اقدس میں اس کی خدائی اور بادشاہی کی موجود ہونے والی تمام چیزوں کے خزائن ہیں، جیسا کہ اس کا حکمت آگین فرمان ہے:۔

وَاِنْ مِّنْ شَیْ ئٍ اِلَّا عِنْدَ نَا خَزآئِنُہ‘ وَمَانُنَزِّلُہٓ‘ اِلَّا بِقَدَر ٍمَّعْلُوْمٍ (۱۵: ۲۱) اور کوئی چیز (اس قانون کے سوا) موجود نہیں مگر اس کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم اس کو (بحیثیتِ مجموعی) نازل نہیں کرتے مگر ایک دانستہ مقدار میں۔

اس آیۂ مقدسہ سے جو انتہائی عظیم حکمتوں سے مملو ہے ایک ایک ہوکر کئی روشن حقیقتیں سامنے آتی ہیں، مثال کے طور پر (ا) اللہ کے خزانے ایسے ہیں کہ ان سے باہر کسی چیز کا حقیقی وجود ہی نہیں (۲) خدا تعالیٰ کی ذاتِ پاک ایسی نہیں کہ اس سے کوئی چیز خارج اور نازل ہو، جبکہ یہ صفت اس کے خزانوں کی ہے کہ ان سے ہر چیز نازل ہوجاتی ہے، (۳) اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ خدائے سبحان و برتر بذاتِ خود کوئی خزانہ نہیں، بلکہ وہ جملہ خزانوں کا حقیقی مالک اور بادشاہِ مطلق ہے (۴) اس بنیادی قانون کے مطابق انسانی روح بھی

 

۴۴

 

خزائنِ الٰہی میں موجود ہے، اور وہ دوسری تمام چیزوں کی طرح جزوی طور پر اس دنیا میں آئی ہے، کلّی طور پر نہیں، یعنی اس کا اکثر حصّہ خزائنِ خدا میں موجود ہے (۵) اس آیۂ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی “عندیت” کا تصوّر ہے، اور خدا کی عندیت (نزدیکی) صرف عقلی، روحانی، اور دینی حیثیت میں ہے، مکانی حالت میں ممکن نہیں، چنانچہ خداوندِ پاک و برتر کے سب سے اساسی اور انتہائی عظیم خزانے پانچ ہیں: کلمۂ باری، قلم، لوح، ناطقؐ، اور اساسؑ، جیسے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ “عندنا خزائنہ”  کے پانچ منفصل اجزاء ہیں جیسے: عند+نا+خز+ا+ ئنہ=۵۔

امامِ مبین (یعنی امامِ زمان) صلوات اللہ علیہ و سلامہ ہر زمانے میں خزائنِ خدا کا مظہر اور نمائندہ ہوا کرتا ہے، تاکہ اسلام جو دینِ خدا بھی ہے اور دینِ فطرت بھی، اس میں کسی قسم کی کمی اور تنگی نہ ہو، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے: وَکُلَّ شَیْ ئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے ہر چیز کو ایک صریح و روشن پیشوا میں گھیر دیا ہے۔ دوسرا ترجمہ اور تشریح: اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبینؑ میں گن رکھا ہے، یعنی تمام ارواح کے ذرّات کو ۳۶۰ داعیوں میں سما دیا ہے، ان داعیوں کو ۱۲ حجتوں میں محدود کردیا ہے، پھر ان حجتانِ جزائر کو حجتانِ حضور(مقرّب) میں جمع کردیا ہے، جو چار ہیں، اور آخرمیں ان چاروں کو حضرت ابراہیمؑ کے چار پرندوں کی طرح امامؑ کی ذاتِ عالی صفات میں زندہ کردیا ہے، یہ ہوا خدا کا تمام چیزوں کو حضرت امامؑ میں گن کر رکھنا، اور اللہ تعالیٰ جب بھی چیزوں کو گننا چاہتا ہے تو اسی طرح فعلاً گن کر عددِ واحد میں سما دیتا ہے۔

اس پُرحکمت آیت کا تیسرا ترجمہ اور تشریح اس طرح ہے: اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبینؑ کی ذات میں گوہر بنا دیا ہے، حصی عربی زبان میں کنکر کا نام ہے،

 

۴۵

 

اور اس کی تاویل گوہرِ عقل ہے،کیونکہ گوہر قیمتی پتھر ہوا کرتا ہے، چنانچہ یہ اپنی ذات میں عالمِ عقل ہے، اور اس میں ہر چیز کا عقلی صورت میں ہونا لازمی ہے، نورِ عقل کی تشبیہہ و تمثیل جس طرح ایک گوہر سے دی گئی ہے، اس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں، اور ان میں سے ایک عظیم حکمت یہ ہے کہ ظاہری مخلوقات کی ترتیب جمادات یعنی پتھر وغیرہ سے شروع ہوجاتی ہے، اور باطنی موجودات کی مثال بہت سے مراحل سے گزر جانے کے بعد پتھر (یعنی گوہر) پر آکر تمام و کامل ہوجاتی ہے، تاکہ تصورِآفرینش میں دائرے کی جو اہمیت ہے، وہ ظاہر ہوجائے۔

خزائنِ خدا کا موضوع قرآنِ حکیم میں بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے، آپ جانتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں بحکمِ اَلْکِتٰبَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْئٍ (۱۶: ۸۹) ہرچیز کا بیان ہے، وہ اس طرح کہ بعض چیزوں کا موضوع براہِ راست اور بالواسطہ دونوں صورت میں ہے، اور بعض اشیاء کا تذکرہ براہِ راست نہیں، صرف بالواسطہ بیان فرمایا گیا ہے، اور “خزائنِ خدا” کا موضوع قرآنِ مقدّس میں دونوں طرح سے آیا ہے۔

کسی مادّی خزانے کو محفوظ رکھنے کے کئی طریقے ہیں، مثلاً روایت ہے کہ زمانۂ قدیم میں بعض بادشاہ اپنے خزانوں اور دفینوں کی حفاظت طلسمات (جادو) سے کرتے تھے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ خزانے کو کسی پہاڑ کے جوف میں چھپایا جائے یا کسی ویرانے میں زیرِ زمین پوشیدہ رکھا جائے، تاکہ لوگوں کو گمان ہی نہ ہوکہ اس خرابہ (کھنڈر) میں کوئی دفینہ موجود ہے، اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ بیشک خزانے کی عمارت لوگوں کے سامنے ہو، مگر اس پر سخت قسم کے محافظ بٹھا دئے جائیں اور اس کی کنجی خزانچی کی تحویل میں دے دی جائے، اور اپنے خزانوں سے متعلق اللہ تعالیٰ کی عادت بھی ایسی ہی ہے۔

 

۴۶

 

قرآنِ حکیم علم و حکمت کی سب سے عظیم دنیا (عالم) ہے، اس میں اگلے لوگوں کی ایمانی اور روحانی آبادی اور بربادی کے تمام نقوش موجود ہیں، سو آئیے ہم قارون کی ہلاکت کے کھنڈر کو دیکھتے ہیں، جس پر قرآنِ پاک اس طرح روشنی ڈال رہا ہے: اور ہم نے قارون کو اس قدر خزانے عطا کئے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک سکتدار جماعت کو اٹھانا دوبھر ہوجاتا تھا (۲۸: ۷۶) قارون حضرت مو سیٰ علیہ السّلام کی قوم کا ایک فرد تھا، اس پر روحانی دولت کا انکشاف ہوا تھا، جس کے خزانوں کی کنجیاں لے کر روحوں کی ایک زبردست جماعت سامنے آئی تھی، مگر قارون نے علمی زکات دینے کی حکمت کو نہیں سمجھا، جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوگیا، یہ قانونِ خدا کی ایک مثال ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ اور ذیلی خزانوں کو کہاں کہاں اور کس طرح پنہان رکھتا ہے۔

خزائنِ خداکے سلسلے میں اس اصول کا جاننا ضروری ہے کہ کنزِ کلمۂ باری کا باب (دروازہ) قلم ہے، خزانۂ قلم کا باب لوحِ محفوظ ہے، گنجِ لوح کا باب ناطقؐ، خزینۂ ناطقؐ کا باب اساسؑ ، گنجینۂ اساسؑ کا باب امامِ زمانؑ، اور امامِ زمانؑ کے خزائنِ انوار کا دروازہ آپؑ کا اس دنیا میں حاضر رہنا ہے۔۱؎

 

خاکپائے جماعت

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی۔ لندن

۲۵؍جون ؁۱۹۸۴ء

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ امامِ زمانؑ کا باب (دروازہ) حجتِ اعظم ہوا کرتا تھا، مگر اب امامِ برحقؑ یہ ٹائٹل بظاہر کسی کو نہیں دیتے، اور نہ ہی وارثِ امامؑ کے سوا ظاہراً کوئی حجت ہے۔

 

۴۷

 

چند سوالات و جوابات

 

سوال نمبر۱: قرآنِ کریم کی جن آیاتِ مقدّسہ کا تعلق حکمت کے موضوع سے ہے، ان میں سے بعض ارشادات سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ حکمت سکھائی جاتی ہے، جبکہ دوسری آیات سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ حکمت دی جاتی ہے، آیا حکمت کے سکھانے اور دینے میں کوئی فرق ہے یا دونوں لفظوں کا مطلب ایک ہی ہے؟

جواب: سکھانے اور دینے کے معنی میں بڑا فرق ہے، کیونکہ سکھانا یا تعلیم دینا زبان کا قول ہے، اور دینا یا عطا کرنا ہاتھ کا فعل، چنانچہ ظاہر میں اور مقامِ روح پر حکمت سکھائی جاتی ہے، مگر مرتبۂ عقل پر دستِ خدا خود ہی نورِ حکمت عطا کردیتا ہے، جب آپ قرآنِ پاک میں غور سے دیکھیں گے تو یہ حقیقت روشن ہوجائیگی کہ حکمت سکھانے کا تعلق انبیائے کرام علیہم السّلام سے ہے، جبکہ حکمت عطا کردینے کا ذکر اللہ تعالیٰ کے باب میں ہے۔

سوال نمبر۲: وَاٰ تَیْنٰہُ الْحِکْمَۃَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ (۳۸: ۲۰) براہِ کرم آپ اس آیۂ کریمہ کی وضاحت کرکے بتائیں کہ حضرت داؤد علیہ السّلام کو حکمت کے علاوہ فصل الخطاب کے نام سے اور کیا چیز عطا ہوئی تھی؟

 

۴۸

 

جواب: اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السّلام کو حکمت کے عنوان سے نورِ عقل عطا کیا تھا، اور “فَصْلَ الخِطاب” کے نام سے کلمۂ باری کا سب سے عظیم خزانہ، فصل الخطاب کلمۂ باری کے ناموں میں سے ہے، جس سے تمام بحثوں کا فیصلہ ہوجاتا ہے، اور اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ اس کے اوپر کوئی کلام نہیں۔

سوال نمبر۳: سورۂ ابراہیم کے ایک فرمانِ خداوندی (یعنی ۱۴: ۳۴) کا مطلب یہ ہے کہ “خداوندِ عالم نے بنی نوعِ انسان کو یا صرف اہلِ ایمان ہی کو وہ سب کچھ دے رکھا ہے، جس کے لئے درخواست کی گئی تھی۔” اس میں کل بروزِ آخرت ہر چیز دینے کی بات نہیں، بلکہ آج اسی دنیا میں سب کچھ دیا گیا ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بڑا مفلس ہے، پھر اس آیۂ مقدّسہ میں کیا راز پوشیدہ ہے؟

جواب: انسان اپنی روحِ عُلوی کی اصلیت کے ساتھ بہشت میں ہے، مگر اس کی شخصیّت بطورِ سایہ اس دنیا میں ہے، لہٰذا اس قرآنی حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ انسان کو جنّت کی زندگی میں آج بھی اور کل بھی سب کچھ حاصل ہے۔

سوال نمبر۴: قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے کہ بہشت میں اہلِ بہشت کو ان کی خواہش کے مطابق ہر چیز اور ہر نعمت ملے گی، اس میں پوچھنا یہ ہے کہ اگر ایک شخص جنت میں رہتے ہوئے دنیا کی بادشاہت کو بھی چاہتا ہو تویہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ اس کو آخرت کے اندر دنیا مل جائے؟

جواب: دنیا میں آخرت پوشیدہ ہے اور آخرت میں دنیا موجود و عیان ہے، کیونکہ وہ ایک زندہ اور باشعور آئینہ ہے، جس میں دنیا کا عکس زندۂ جاوید ہوجاتا ہے، چنانچہ جنت کی نعمتوں میں اس دنیا کا لطیف پہلو بھی شامل ہے، کیونکہ اگر

۴۹

 

سائنسدان عاجز انسان ہونے کے باؤجود فلم کی ایک دنیا اور پھر اس کی بہت سی کاپیاں بنا سکتے ہیں، تو جو بزرگ فرشتے قادرِ مطلق کی طرف سے انسانوں کے انفرادی اور اجتماعی اعمال ریکارڈ کرنے کے لئے مقرر ہیں، وہ ان سے کہیں زیادہ باشعور اور باحقیقت دنیائیں بنا سکتے ہیں (۸۲: ۱۰ تا ۱۲)۔

سوال نمبر۵: سورۂ معارج میں فرمایا گیا ہے: تو میں مشرقوں اور مغربوں کے پروردگار کی قسم کھاتا ہوں کہ ہم ضرور اس بات کی قدرت رکھتے ہیں کہ ہم ان کواس سے بہتر حالت میں تبدیل کریں اور ہم عاجز نہیں ہیں (۷۰: ۴۰ تا ۴۱) ایک ایک سے زیادہ مشرق و مغرب کہاں ہیں؟ مشرق و مغرب کو پروردگار کس طرح پالتا ہے؟ لوگوں کو خدا کس معنیٰ میں بہتر حالت میں تبدیل کرے گا؟

جواب: یہ عالمِ عقل کی بات ہے جہاں ایک ہی مقام مشرق و مغرب دونوں کا کام انجام دیتا ہے، مگر وہاں خورشیدِ نوراپنے طلوع و غروب سے ہر بار علم کے ایک نئے دن اور حکمت کی ایک نئی شب کا مظاہرہ کرتا ہے، لہٰذا اس کے بہت سے مشرقوں اور مغربوں کا ذکر فرمایا گیا، پروردگار کی جانب سے عالمِ عقل کی تربیت و پرورش یہ ہے کہ اسے کلمۂ باری سے فیضانِ تائید حاصل ہوتی رہتی ہے، خداوندِ تعالیٰ لوگوں کو موجودہ جسم سے بہتر حالت میں تبدیل اس طرح کرسکتا ہے کہ وہ ان کو جسمِ لطیف میں تبدیل کرنے والا ہے۔

سوال نمبر۶: آپ کی تحریروں میں بار بار جسمِ لطیف کا ذکر آتا ہے، مگر میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے اس سلسلے میں قرآنِ کریم کا کوئی حوالہ نہیں دیا ہے، تو کیا آپ اس باب میں ہمیں قرآنِ پاک سے کچھ بتائیں گے؟

جواب: وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْ قِیْنَ، عَلٰٓی اَنْ نُّبَدِّلَ اَمْثَالَکُمْ وَنُنْشِئَکُمْ فِیْ مَا لَاتَعْلَمُوْنَ (۵۶: ۶۰ تا ۶۱) اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں

 

۵۰

 

کہ تمہاری مثال (شخصیت) بدل ڈالیں اور تم لوگوں کو اس صورت میں پیدا کریں جسے تم مطلق نہیں جانتے۔ یہ قرآنی حکم جسمِ لطیف کے بارے میں ہے، جس کو لوگ اس وقت نہیں جانتے ہیں، نیز ارشاد ہے: اِنَّآ اَنْشَاْنٰھُنَّ اِنْشَآئً۔ فَجَعَلْنٰھُنَّ اَبْکَاراً (۵۶: ۳۵ تا ۳۶) ہم نے ان (روحوں) کو پیدا کیا ہے جیسا کہ پیدا کرنے کا حق ہے، یعنی دنیوی اور جسمانی زندگی کے جملہ مراحل سے گزاردیا ہے، پھر ان کو کنواریاں بنایا ہے، یعنی مرجانے کے بعد ان کو اجسامِ لطیف میں زندہ کردیا ہے، جیسے مولا علیؑ کاارشاد ہے کہ ہر مومنہ عورت حوراء بن جاتی ہے، یعنی اس کو بہشت میں لطیف شخصیت مل جاتی ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ جسمِ لطیف کی بات حقیقت ہے۔

سوال نمبر۷: قرآنِ پاک کے کئی نام ہیں، جن میں سے ایک نام “روح” ہے (۴۲: ۵۲) آپ یہ بتائیں کہ قرآن کس طرح روح ہے؟ کہاں ہے؟ اور ہماری روح کا اس سے کیا رشتہ ہے؟

جواب: قرآنِ مقدس آنحضرتؐ کے قلبِ مبارک پر ایک عظیم روح کی صورت میں بتدریج نازل ہوا ہے، حضورِ انورؐ نے اسے دو طرح سے محفوظ کردیا، ایک یہ کہ اسے تحریری شکل میں لایا گیا، اور دوسرا یہ کہ اس کی روح آؐپؐ کے جانشین میں منتقل کردی گئی، اسی طرح قرآنِ پاک امامِ زمانؑ (جووارثِ رسولؐ ہے) میں ایک پاک روح ہے، اور یہی روح امامؑ کا نور بھی ہے، اور ہماری روح کا اس سے رشتہ یہ ہے کہ یہ اسی سے ہے، یعنی یہ اس کا جزو ہے۔

 

بندۂ کمترین

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی۔ لندن

لندن، ۲۶؍جون ؁۱۹۸۴ء

 

۵۱

 

دستِ خدا کی حکمتیں

 

حکمت نمبر۱: اللہ تعالیٰ نے کائناتِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کو نورِ عقل سے بنایا، جیسا کہ اس کا پاک ارشاد ہے: اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ (۱۴: ۱۹) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ خدا ہی نے سارے آسمان و زمین حق (یعنی نورِ عقل) سے پیدا کیا۔

حکمت نمبر۲: خداوندِ حکیم نے دستِ راست سے نورِ عقل کو سات مرتبہ حرکت میں لایا، جس سے سات عقلی آسمان موجود ہوگئے، اور ہر آسمان سےمتعلق امر ہوا (۴۱: ۱۲) اور نیچے والے آسمان کو چراغوں سے مزین کیا، اور اس کو تمام آسمانی بھیدوں پر محافظ بنایا۔

حکمت نمبر۳: سات آسمان ایک دوسرے کے مطابق و موافق ایک جیسے تھے، اس لئے ان کی تخلیق کی نوعیت طِبَاقاً کہلائی (۶۷: ۰۳) قرآنِ پاک میں عقلی آسمان کا ذکر کبھی صیغۂ واحد (سماء) میں فرمایا گیا ہے، اور کبھی صیغۂ جمع (سمٰوٰت) میں، جس کی وجہ یہ ہے کہ نورِ عقل اصلاً ایک ہی ہے، مگر اس کے وہ ظہورات جو آسمان سے متعلق ہیں سات مراتب میں ہیں۔

 

۵۲

 

حکمت نمبر۴: اسی نور سے عالمِ صغیر کی زمین پیدا کی گئی، وہ بھی اصل میں ایک ہی ہے، مگر اس کے درجات آسمان کی مثال پر سات ہیں (۶۵: ۱۲) یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ جس طرح عددِ واحد (ایک=۱) سے اعداد کی ایک دنیا اور اس کی ہر شے بن جاتی ہے، اسی طرح نورِ عقل (گوہرِ عقل) سے عالمِ شخصی کے آسمان و زمین اور ان کی ہر چیز پیدا کی گئی، اور یہ سب کچھ دستِ قدرت سے ہوا۔

حکمت نمبر۵: ایک آیۂ کریمہ (۳۸: ۷۵) کا مفہوم یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا تھا، اس کی تاویل یہ ہے کہ خداوندِ عالم نے آدمؑ کی تخلیق و تکمیل کے سلسلے میں حدودِ ظاہر اور حدودِ باطن دونوں سے کام لیا تھا، کہ خدا کے بائیں ہاتھ سے ظاہری حدود مراد ہیں، اور دائیں ہاتھ کے معنی ہیں باطنی حدود۔

حکمت نمبر۶: قرآنِ پاک میں کل۱۰۴ بار “فضل” کا ذکر آیا ہے، اور فضل زبانِ حکمت میں گوہرِ عقل کو کہتے ہیں، جو نورِ عقل ہے، چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ “فضل” اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے (۰۳: ۷۳؛ ۵۷: ۲۹)۔

حکمت نمبر۷: قرآنِ عزیز کی بعض سورتوں کے آخر میں کوئی انتہائی پُرحکمت آیت ہوا کرتی ہے، چنانچہ سورۂ یاسین کے اختتام پر ارشاد ہے: فسُبْحٰنَ الَّذِیْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ وَّاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ (۳۶: ۸۳) تو وہ خدا (صفات سے) پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی سلطنت ہے اور تم لوگ اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔ یعنی خدا ہر چیز اور ہر صفت سے پاک ہے، لہٰذا دستِ خداتعالیٰ سے دین کے اعلیٰ درجات مراد ہیں، جن کے پاس ذاتِ سبحان کی طرف سے ہر چیز کی عقلی اور روحانی سلطنت ہے، پس ملکوت یعنی سلطنت بھی

 

۵۳

 

اسی نورِ عقل ( لؤ لو ئے عقل) میں ہے۔

حکمت نمبر۸: حضرت مو سیٰ علیہ السّلام یدِ بیضا (نورانی ہاتھ) دکھانے کا معجزہ کرتے تھے، جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ بدرجۂ دستِ خدا عقلی اور علمی معجزات کرلیا کرتے تھے (۰۷: ۱۰۸؛ ۲۰: ۲۲؛ ۲۶: ۳۳؛ ۲۷: ۱۲؛ ۲۸: ۳۲)۔

حکمت نمبر۹: صدقہ کا لفظ  صدق سے ہے، اور صدق عقل کا نام ہے، چنانچہ صدقہ ظاہر میں مالی زکات ہے، اور باطن میں عقلی و علمی زکات، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوا ہے: اے ایماندارو! جب پیغمبر سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو (۵۸: ۱۲) صدقہ کہیں یا زکات، اس کا دینا اور لینا ہاتھ کا فعل ہے، لہٰذا فرمایا کہ تم مقامِ عقل حاصل کرو تاکہ وہاں اس سے پیشتر کہ تم کلمۂ باری سے کوئی راز کی بات حاصل کرو، عقل کا صدقہ دے سکو گے۔

حکمت نمبر۱۰: سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۱) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے اموال اس بات پر خرید کرلیے ہیں کہ (اس سودے کی قیمت) ان کے لئے بہشت ہے، چنانچہ یہ جو خرید و فروخت خدا اور بندۂ مومن کے درمیان ہوچکی ہے، اس کی عملی تاویل بھی عالمِ عقل میں موجود ہے، مگر چونکہ وہ مقامِ وحدانیت ہے، اس لئے وہاں صرف ایک ہی ہستی دوطرفہ عمل کا نمونہ پیش کرتی ہے۔

حکمت نمبر۱۱: بیعت کے معنی خرید و فروخت کے ہیں، لہٰذا ظاہر میں باربار بیعت کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مومنین کہیں اس بات کو بھول نہ جائیں کہ خداوندِ تعالیٰ نے ان کی جان و مال کو خرید لیا ہے، پس بیعت کی رسم جس طرح ظاہر میں ہے، اسی طرح اس کا نمونۂ عمل مقامِ عقل پر ہے، کہ وہاں لینا دینا ہوتا ہے۔

حکمت نمبر۱۲: ارشادِ خدا وندی ہے:

 

۵۴

 

وَاذْ کُرْ عِبَادَنَآ اِبْرَاھِیْمَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ اُولِی الْاَیْدِیْ وَالْاَ بْصَارِ (۳۸: ۴۵) اور (اے رسولؐ) ہمارے بندوں میں ابراہیمؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ کو یاد کرو جو ہاتھوں والے اور آنکھوں والے تھے۔ اس آیۂ مقدسہ میں حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے نورانی ہاتھوں کا ذکر ہے جن میں گوہرِعقل کا مظاہرہ ہوتا ہے، اور باطنی آنکھوں کا ذکر ہے، جن سے اس مظاہرے کو دیکھا جاتا ہے، ورنہ ظاہری ہاتھ اور آنکھیں تو سب کی ہوتی ہیں۔

حکمت نمبر۱۳: اللہ تعالیٰ کا مقدّس فرمان ہے: فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَھَّرَۃٍ بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ کرَامٍ بَرَرَۃٍ (۸۰: ۱۳ تا ۱۶) قرآن بہت معزّز اوراق میں ہے جو بلند رتبہ اور پاک ہیں (ایسے) لکھنے والوں کے ہاتھ میں ہے جو بزرگ نیکو کار ہیں۔ یہ عقل کے اوراق ہیں جو بڑے باعزّت، عالی مرتبت اور پاک ہیں، اور لکھنے والے انبیاء و اولیاء ہیں، اور ان کا لکھنا یہ ہے کہ وہ قلمِ عقل کو حرکت دیتے ہیں، جیسا کہ حرکت دینا چاہئے، تاکہ قرآن کی عملی تاویل ہو۔

حکمت نمبر۱۴: سورۂ عنکبوت کے ایک ارشاد (۲۹: ۴۸) کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضر تؐ نزولِ قرآن سے قبل نہ کسی آسمانی کتاب کو پڑھتے تھے اور نہ ہی دستِ راست میں قلمِ عقل لے کر اپنی ذات میں اس کی تاویل لکھتے تھے، مگر جب سے قرآن نازل ہوا تو تب سے آؐپ ایسا کرنے لگے۔

حکمت نمبر۱۵: حضرت ابراہیمؑ نے داہنے ہاتھ سے بتوں کو توڑا تھا (۳۷: ۹۳) اس کے یہ معنی ہیں کہ آپؑ نے غلط اور باطل باتوں کے بتوں کے خلاف نورِ عقل کی طاقت کو استعمال کیا تھا، اور اس میں آپؑ کا داہنا ہاتھ تھا۔

 

۵۵

 

 

حکمت نمبر۱۶: حضرت موسیٰؑ کی لاٹھی داہنے ہاتھ میں ہوا کرتی تھی (۲۰: ۶۹) اس کی تاویل یہ ہے کہ یہ لاٹھی سب سے پہلے اسمِ اعظم اور ذکر کی صورت میں دائیں کان سے تعلق رکھتی تھی، پھر اس کے بعد عقل و علم کا نور بن کر باطن کے داہنے ہاتھ میں آگئی۔

حکمت نمبر۱۷: فرمایا گیا ہے کہ ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہوگیا (۱۱۱: ۰۱) اس میں سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیوں اس مثال کے مطابق پہلے کافر کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جاتے ہیں، اور اس کی وجہ سے وہ خود بھی مرجاتا ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کی ظاہری عقل اور باطنی عقل اس کے دوہاتھ کی طرح ہیں، جب یہ دونوں ہاتھ دین کا کام نہیں کرتے ہیں تو نتیجے کے طور پر ٹوٹ جاتے ہیں، جس سے وہ نافرمان انسان بھی روحانی طور پر ہلاک ہوجاتا ہے۔

حکمت نمبر۱۸: سورۂ واقعہ (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) میں ارشاد ہے: بیشک یہ بڑے رتبہ کا قرآن ہے (جہاں) کتابِ مکنون میں ہے، اس کوبس وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک ہیں۔ یعنی روحِ قرآن جو نورِ عقل میں ہے، اس کو باطنی ہاتھ سے کوئی نہیں چھوسکتا ہے، مگر وہ حضرات جو پاک کئے گئے ہیں۔

حکمت نمبر۱۹: سورۂ توبہ کے اس فرمانِ خداوندی کی کئی تاویلیں ہیں، اور اس کی ایک عظیم تاویل یہ ہے: (اے رسولؐ) تم ان کے اموال سے ایک صدقہ (یعنی باطنی مال سے ایک گوہر) لو اور اس کے ذریعہ ان کو (بدرجۂ اُتم) پاک صاف کرو اور ان کو صلوات دو کیونکہ تمہاری صلوات میں ان کے لئے تسکین ہے یعنی اس مقام پر کلمۂ باری سے ان کو فیض پہنچا دو۔

 

حکمت نمبر۲۰: خداوندِ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی سے مومنین پر دُرود نازل ہونے کے بارے میں ارشاد ہے: خدا وہی ہے جو خود تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جائے۔ خدائے سبحان کی یہ درود کلمۂ باری

 

۵۶

 

 

کے خزانے سے نازل ہوجاتی ہے جو تائیدی علم و حکمت کی بنیاد ہوا کرتی ہے۔

حکمت نمبر۲۱: علم سکھایا بھی جاتا ہے اور دیا بھی جاتا ہے، مگر سکھانے کے مقابلے میں علم کا دیا جانا اعلیٰ ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَط (۲۹: ۴۹) بلکہ جن لوگوں کو خدا کی طرف سے علم عطا ہوا ہے ان کے دل میں یہ قرآن روشن آیات (یعنی زندہ معجزات کی صورت میں) ہے۔ یہ آیۂ مبارکہ أئمّۂ طاہرین صلوات اللہ علیہم کے بارے میں ہے، اس سے یہ حقیقت صاف طور پر ظاہر ہوجاتی ہے کہ ان حضرات کو علم نورِ عقل کی صورت میں دیا جاتا ہے۔

حکمت نمبر۲۲: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۱) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: اس دن (کو یاد کرو) جب ہم (ہرزمانہ کے) لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے تو جس کا نامۂ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو ایسے لوگ (خوش خوش) اپنا اعمال نامہ پڑھنے لگیں گے اور انھیں ریشہ برابر کمی نہیں کی جائے گی۔ سوال ہے کہ آیا یہ کتاب یعنی نامۂ عمل کسی ظاہری تحریر میں ہوگی؟ عربی؟ فارسی؟ اردو؟ انگریزی وغیرہ؟ نہیں نہیں، یہ روح اور عقل کی کتاب ہوگی، جسے ہر خواندہ و ناخواندہ بَاسانی پڑھ سکے گا، کیونکہ وہ کتابِ ناطق ہوگی، یعنی امامِ زمانؑ کا نور ہوگا۔

حکمت نمبر۲۳: ہاں یہ حقیقت ہے کہ ہر شخص کو اس کا نامۂ اعمال صرف مرجانے کے بعد ہی مل جاتا ہے، لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ اس دنیا میں کچھ لوگ جیتے جی مرجائیں؟ میرا عقیدہ ہے کہ ہر پیغمبر، ہر امام، اور ہر پیر کے بعد بہت سے عالی ہمت مومنین بھی اس جسم میں زندہ رہتے ہوئے نفسانی موت سے مرجاتے ہیں، اور کتابِ عمل کو حاصل کرکے پڑھتے ہیں۔

حکمت نمبر۲۴: سورۂ بقرہ کی آیت (۰۲: ۹۴) کا ارشاد ہے: (اے رسولؐ!) ان

 

۵۷

 

لوگوں سے کہدو کہ اگر خدا کے نزدیک آخرت کا گھر (یعنی بہشت) خاص تمہارے واسطے ہے اور لوگوں کے واسطے نہیں ہے، پس اگر تم سچے ہو توموت کی آرزو کرو (۰۲: ۹۴) اس آیۂ کریمہ میں پیغمبرانہ اور اولیائی موت کا ذکر فرمایا گیا ہے، جس میں جیتے جی نفسانی موت واقع ہوجاتی ہے، اور نتیجے کے طور پر وہ حضرات اپنے اپنے زمانے کی بہشت بن جاتے ہیں، کیونکہ بہشت کے تصوّرکا سب سے عظیم مقصد یہ ہے کہ کوئی بڑی فرمانبردار روح بہشت بن جائے، اور جس کو یہ بلند ترین درجہ حاصل ہوا تو بہشت گویا بطورِ خاص اسی کی ہوئی، دوسرے لفظوں میں اس مطلب کی وضاحت یوں ہے کہ بہشت کا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ کوئی متّقی شخص بحکمِ خدا بہشت کا وجود بن جائے، اور دوسرے درجات ایسے ہیں کہ لوگ ان میں داخلِ جنّت قرار پاتے ہیں۔

حکمت نمبر۲۵: حصولِ جنّت کے لئے جس طرح سَارِعُوْا (۰۳: ۱۳۳ جلدی کرو) اور سَابِقُواْ (۵۷: ۲۱سبقت کرو) کا حکم دیا گیا ہے، اس سے ایک ہوشمند شخص یہ نتیجہ اخذ کرسکتا ہے کہ بہشت کی شروعات میں مدارج مقرر ہیں، اور ان میں سب سے اعلیٰ درجہ انسان کا اپنی ذات میں خود زندہ بہشت بن جانا ہے، جس کی مثال انبیاء و أئمّہ صلوات اللہ علیہم کی ذواتِ مقدّسہ ہیں۔

حکمت نمبر۲۶: نور پوشیدہ نہیں ظاہر ہے، لیکن کثرتِ انوار کے حجاب میں ہے، جیسے سورج ظاہر تو ہے، مگر ہم اس سے بہت ہی دور ہیں، لہٰذا وہ ہمیں اپنی اصل جسامت و مقدار سے بہت ہی چھوٹا نظر آتا ہے، ہم اس کے باطن کو نہیں دیکھ سکتے، اور نہ پس منظر کو کیونکہ وہ نورٌعلیٰ نورٍ (روشنی پر روشنی ہے) کی مثال ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کا نورِ عقل نورِ روح کے پردے میں ہے، اور نورِ روح نورِ شخصیّت کے حجاب میں ہے۔

 

۵۸

 

حکمت نمبر۲۷: قرآنِ حکیم میں جہاں کہیں بھی خدا کے بابرکت ہاتھ کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس سے وہی مبارک ہاتھ مراد ہے، جس کا تذکرہ آیۂ بیعت (۴۸: ۱۰) میں موجود ہے، اور کوئی بھی مومن اس قانونِ خدائی کو بھول نہ جائے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی عظیم الشّان چیز کو اپنی ذاتِ اقدس سے خصوصی نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ چیز میری ہے، تو وہ شے لازوال اور غیر فانی ہوجاتی ہے، اور کبھی دنیا سے غائب نہیں ہوسکتی، جیسے خدا کی کتاب (قرآن)، خدا کی رسّی، اس کا نور، اس کا گھر (خانۂ کعبہ) خدا کا دین (اسلام) شعائرُاللہ (خدا کی نشانیاں) آفاق و انفس میں اس کی آیات، وغیرہ، پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ یداللہ کبھی موجود ہو اور کبھی غیر موجود، اس روشن دلیل سے ہمارے یقین کو بیش ازبیش تقویت مل جاتی ہے کہ رسولِ کریمؐ کے برحق جانشین (یعنی امامِ زمانؑ) کو دستِ خدا ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

خاکپائے جماعت

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

لندن

۲۹؍جون ؁۱۹۸۴ء

 

۵۹

 

نامۂ اعمال

 

قرآنِ حکیم کے انتہائی اہم اور عظیم الشّان موضوعات میں سے ایک موضوع “نامۂ اعمال” ہے، اس کی ا ہمیت کے کئی اسباب ہیں، اور ان میں سے ایک خاص سبب یہ ہے، کہ اس میں روحانیّت کا بیان بطریقِ حکمت عام و خاص جملہ انسانوں کی سطح پر فرمایا گیا ہے، جس کی وجہ سے روحانی حقیقتوں کا تصوّر بہت آسان ہوگیا ہے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:۔

وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طَائِرَہ‘ فِیْ عُنُقِہٖط وَنُخْرِجُ لَہ‘ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰباً یَّلْقٰہُ مَنْشُوْراً۔ اِقْرَاْ کِتَابَکَ ط کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْباًط (۱۷: ۱۳ تا ۱۴) اور ہم نے ہر انسان کے نامۂ اعمال کو اس کی گردن میں لگا رکھا ہے اور قیامت کے دن ہم اسے یہ اعمال نامہ نکال دیں گے جو اس کو ایک بکھری ہوئی کتاب (کی صورت میں) ملے گا، اپنا نامہ ٔ اعمال پڑھ لے اور اپنا حساب لینے کے لئے تو خود ہی کافی ہے۔

انسان کی گردن سے اس کا مذہبی پیشوا مراد ہے، خواہ حق ہو یا باطل، اعمال نامہ کو “طائر” کہنے کی خاص وجہ یہ ہے کہ وہ اُڑ کر آتا ہے، کیونکہ وہ اُڑتے ہوئے ذرّاتِ لطیف پر مبنی ہے، اور اسی سبب سے اس کا نام کتابِ منشور

 

۶۰

 

(بکھری ہوئی کتاب) ہے، جس کا ہر ذرّہ بولتا ہے۔

فرمانِ خداوندی ہے: فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہ‘ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَّرَہ‘ (۹۹: ۰۷ تا ۰۸) سو جس شخص نے ذرّہ برابر نیکی کی تو وہ اسے دیکھ لے گا، اور جس شخص نے ذرّہ برابر بدی کی ہے تو اسے دیکھ لے گا۔ یعنی آدمی کے اعمالِ نیک و بد ذرّات کی صورت میں ہونگے، اور قیامت اگرچہ اسی دنیا میں برپا ہوگی، لیکن دیکھنے والے کے سامنے عالمِ ذرّ ہوگا، اس معنیٰ میں کہ وہ اپنے ظاہر و باطن میں روح کے ذرّات ہی ذرّات کو دیکھے گا۔

سورۂ کہف (۱۸: ۴۹) کا ارشاد ہے: وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًاط (۱۸: ۴۹) اور جو کچھ (اچھا یا برا ) ان لوگوں نے کیا تھا وہ سب (زندہ فلم ریکارڈ کی صورت میں) موجود و حاضرپائیں گے۔ اس آیۂ کریمہ کے لفظِ “حاضر” میں روحانیّت کی اس زندہ اور شعوری عکاسی (تصویر کشی) کا ذکر پوشیدہ ہے، جس سے انسان کے اعمال کسی کمی کے بغیر ریکارڈ کئے جاتے ہیں، جس کی ایک چھوٹی سی مثال اس مادّی دنیا میں فلم ریکارڈ ہے، کیونکہ اس کے بغیر کسی بھی عمل کا محض تحریری لفظوں میں حاضر ہونا ممکن نہیں، چنانچہ جس نے جو کچھ عمل کیا ہے، اس کی زندہ اور بولنے والی تصویر سامنے آئے گی، یہاں تک کہ اس میں زمان و مکان اور ماحول کی ہر چیز بھی ہوگی، اور اگر اس کے اچھے یا برے عمل کا تعلق کسی علاقے یا کسی ملک سے ہے، تو وہ بھی مکانی طور پر نتائج کی جیتی جاگتی اور بولتی تصویروں میں سامنے آئے گا۔

نتیجۂ عمل کا تعلق نہ صرف جسم اور ظاہری دنیا سے ہے، بلکہ یہ روح اور عقل سے

۶۱

 

بھی متعلق ہے، لہٰذا کتابِ اعمال میں تین قسم کے مشاہدے ہوں گے، یعنی جسمانی، روحانی، اور عقلی اعمال کا مشاہدہ کرنا، اور اگر یہ حقیقت نہ ہوتی تو قرآنِ کریم یہ ترجمانی نہ کرتا کہ: مَالِ ھٰذَاالْکِتٰبِ لَا یُغاَدِرُصَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً اِلَّااَحْصٰہَا (۱۸: ۴۹) یہ کیسی کتاب ہے نہ کوئی چھوٹی چیز فروگذاشت کرتی ہے اور نہ بڑی چیز مگر اس نے ہر چیز کو محدود کرلیا ہے۔

اعمال ناموں کا بنیادی تعلق دین، مذہب، اور مسلک کے افراد سے ہے، لہٰذا سب سے بڑے مجموعی اعمال نامے اُمتوں سے متعلق ہوں گے، جیسا کہ قولِ قرآن ہے: کُلُّ اُمَّۃٍ تُدْعٰیٓ اِلٰی کِتٰبِھَاًط (۴۵: ۲۸) ہراُمت اپنے نامۂ اعمال کی طرف بلائی جائے گی۔ یعنی ہر عظیم پیغمبر کا نوری وجود اپنے جانشینوں کے توسط سے پورے دور کے لوگوں پر چھایا ہوا ہوتا ہے، لہٰذا کتابِ اعمال کے معنی میں اسی مبارک ہستی کی طرف اُ مت کو بلایا جائے گا، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ھٰذَا کِتَابُنَا یَنْطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّط اِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (۴۵: ۲۹) یہ ہماری کتاب (جس میں تم سب کے اعمال درج ہیں) تمہارے مقابلہ میں سچ سچ بول رہی ہے جو کچھ بھی تم کرتے تھے ہم لکھواتے جاتے تھے۔ بولنے والی کتاب سے نور مراد ہے، جو نبوّت و امامت کی مرتبت میں بولنے کا حقدار ہے، یہاں بطورِ اعمال نامہ کے بولنا گواہی کے معنی میں ہے، اور انسان کے احوال و اعمال ایسے ہیں کہ وہ جسمانی، روحانی، اور عقلی حدود میں پھیلے ہوئے ہیں، اس لئے ان پر محیط ہوکر کوئی چیز شہادت (گواہی) نہیں دے سکتی ہے، مگر نورِ ہدایت جو جسم، روح، اور عقل پر مبنی ہے، اور وہ خدا کی جانب سے اہلِ زمانہ پر فرشتۂ نگران کے معنوں میں مقرر ہے۔

 

۶۲

 

اسی کتابِ نورانیّت کے بارے میں یہ بھی ارشاد ہے: وَلَدَیْنَا کِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَھُمْ لَایُظْلَمُوْنَ (۲۳: ۶۲) اور ہمارے پاس تو (لوگوں کے اعمال کی) کتاب ہے جو بالکل ٹھیک حال بتاتی ہے اور ان لوگوں کی (ذرّہ برابر) حق تلفی نہیں کی جائے گی۔ یَنْطِقُ بالْحَقّ کی تاویل ہے: نورِ عقل کی زبان سے بولتی ہے، کیونکہ “حق” نورِ عقل کے ناموں میں سے ہے۔

سورۂ تطفیف (۸۳: ۰۷ تا ۰۹) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: کَلَّا ٓ اِنَّ کِتٰبَ الْفُجَّارِ لَفِیْ سِجِّیْنٍط۔ وَمَااَدْرٰ کَ مَاسِجِّیْنٌ ط۔ کِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ ط (۸۳: ۰۷ تا ۰۹) سن رکھو بدکاروں کا نامۂ عمل سِجّین میں ہے اور تم کو کیا معلوم کہ سِجّین کیا چیز ہے، ایک لکھی ہوئی کتاب ہے۔ سِجّین پیشوائے باطل ہے، اور وہ ایک باطل کتاب کی صورت میں ہے، چنانچہ فُجّار کا اجتماعی نامۂ اعمال سِجّین کی تنگیوں میں مقید و محبوس ہے۔

اسی سورہ میں یہ ارشاد ہوا ہے: کَلَّا ٓاِنَّ کِتٰبَ الْاَ بْرَارِ لَفِیْ عِلِّیِّیْنَ۔ وَمَااَدْرٰ کَ مَا عِلِّیُّوْنَ۔ کِتَابٌ  مَّرْقُوْمٌ۔ یَّشْھَدُہُ الْمُقَرَّبُوْنَ (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) سن رکھو کہ نیکوں کا (اجتماعی) نامۂ عمل عِلّیّین میں ہے، اور تم کو کیا معلوم کہ علِّیّون کیا ہے وہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے، اس کے پاس مقربین حاضر ہوتے ہیں۔ علِّیّین پیشوائے برحق ہے، جس کا مرتبہ بہشتِ برین کی انتہائی بلندی پر ہے، اور اسی کے نورِ اقدس میں نیکوکاروں کا اجتماعی نامۂ اعمال موجود ہے، وہ حق و صدق کی زندہ اور بولنے والی کتاب ہے، جس کے باطنی پہلو کا مشاہدہ نہ صرف آخرت میں ہوجاتا ہے، بلکہ اس دنیا میں بھی ممکن ہے۔

 

۶۳

 

کتابِ اعمال یا نامۂ اعمال کے دیئے جانے کے اعتبار سے لوگ تین قسم کے ہوں گے، اصحابِ یمین، جو داہنے ہاتھ میں نامۂ عمل لیں گے، اصحابِ شمال، جن کے بائیں ہاتھ میں یہ نامہ ہوگا، اور سابقون، جن کے سامنے سے یہ کتاب آئے گی، یہ لوگ سب سے آگے اور سب سے اعلیٰ درجے پر فائز ہو جائیں گے، ان کے نامۂ اعمال کا خاص تعلق نورِعقل سے ہوگا، لہٰذا وہ حضرات مقربین کہلائیں گے، ان کے بعد اصحابِ یمین ہوں گے، جو اہلِ نجات ہیں، ان کی کتابِ عمل کی رسائی روح تک ہوگی، اور وہ بتدریج منازلِ روح کو طے کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے، اور سب سے آخر میں اصحابِ شمال ہوں گے، جن کا نامۂ اعمال صرف ظاہر اور جسم تک محدود ہوگا، جبکہ اصحابِ یمین باطن اور روح تک اور سابقون باطن کے باطن اور نورِ عقل تک رسائی کرچکے ہوں گے، پس بائیں ہاتھ کی تاویل ظاہر ہے، جہاں جسم ہے، داہنے ہاتھ کی تاویل باطن ہے جہاں روح ہے، اور آگے کی تاویل باطن کا باطن ہے، جہاں نورِ عقل کی جلوہ گاہ موجود ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے:۔

یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰی نُوْرُھُمْ بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَ یْمَا نِھِمْ (۵۷: ۱۲) جس دن تم مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور داہنی طرف دوڑرہا ہوگا۔ یہ نور حقیقی نور ہی ہے اور سابقین و مقربین کا نامۂ اعمال بھی، اس کا عقلی سفر گول ہے، اس کے دوڑنے کی تاویل ہے، اور وہ یہ کہ یہاں کا ایک نوری دن جو صرف چند سیکنڈوں کا ہوتا ہے، وہ دنیا کے ہزار سالہ واقعات کو اپنے اندر سما لیتا ہے۔

دوسری آیۂ کریمہ کا ترجمہ ہے کہ: اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمانداروں

 

۶۴

 

سے کہیں گے ذرا ٹھہرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے چنگاری لیں (اور اپنے اندر اسے نور بنائیں) تو کہا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے (سلسلۂ ماضی میں) لوٹ جاؤ اور (وہیں) ایک نور کی تلاش کرو، پھر ان (مومنین اور منافقین) کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا (اور) اس کے اندر کی جانب تو رحمت ہے اور باہر کی طرف عذاب (۵۷: ۱۳) یہ تذکرہ انفرادی قیامت کا ہے، جو ہر زمانے میں انسانِ کامل کے روحانی عروج کے ساتھ ساتھ برپا ہوجاتی ہے، جس میں عالمِ ذرّ سامنے ہوتا ہے اور بصورتِ ذرّات سب لوگ حاضر ہوتے ہیں، اور ان کا سارا قصّہ بطریقِ حکمت زبانِ حال میں ہوتا ہے، یعنی یہ ان کی شعوری قیامت نہیں ہوتی، جس طرح واقعۂ “اَلستُ” اپنی جگہ ایک روحانی حقیقت ہے، لیکن یہ عالمِ ذرّ کی بات ہے، اس لئے یہ کسی کو یاد نہیں، چنانچہ مومنوں اور منافقوں کے درمیان دیوار قائم کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ایک مقررہ وقت کے بعد ذرّاتِ روح کو مقامِ قیامت سے ہٹا دیا جاتا ہے، اور دونوں کے درمیان مثال کی دیوار بنائی جاتی ہے۔

قرآنِ حکیم میں طرح طرح کی لاتعداد حکمتیں پوشیدہ ہیں، ان میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ قرآنی الفاظ کے آپس میں معنوی اور تاویلی رشتے ہوتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کی اس پُرحکمت کتاب میں اکثر ضَرَبَ ضُرِبَ مثال بنانے یا بیان کرنے کے لئے آتا ہے، لہٰذا فَضُرِبَ بَیْنَھُمْ بِسُوْرٍکے معنی ہیں ان کے درمیان مثال کی دیوار بنائی گئی، جس کے اندر کی طرف تو رحمت ہے اور باہر کی طرف عقل کی مشقتیں ہیں، اور اس دیوار میں ایک دروازہ ہے، جس سے اصولِ تاویل مراد ہے تاکہ جن سے ہوسکے تو وہ اس کے ذریعے سے ظاہر سے باطن میں اور مثال سے ممثول میں داخل ہوجائیں۔

ضَرْب”  (مارنا) سے ضَرَبَ (مارا) ہے، لیکن کوئی لغات آپ کو

 

۶۵

 

اس کی وجہ نہیں بتاسکے گی کہ قرآنِ حکیم ایسی حکمت کی کتاب میں مثال بیان کرنے کے لئے کیوں ضَرَبَ کا لفظ استعمال ہوا ہے، حالانکہ اس کے اصل معنی مارنے کے ہیں، مگر اس کی وجہ تاویل ہی کی روشنی میں معلوم ہوگی، اور وہ یہ ہے کہ ضَرَبَ چونکہ ہاتھ کا فعل ہے اس لئے اس میں دستِ خدا کی طرف اشارہ ہے کیونکہ وہی ہاتھ گوہرِ عقل کے ضرب سے گونا گون مثالیں بناتا ہے۔

خاکپائے عزیزان

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

لندن

۲؍جولائی ؁۱۹۸۴ء

 

۶۶

 

عقلی بہشت کی نعمتیں

 

سب سے پہلے وجودِ بہشت کے بارے میں جاننا چاہئے کہ وہ جسمانی، روحانی، اور عقلی تین حیثیتوں میں موجود ہے، اور اس تصور کی ایک روشن دلیل انسان کی ہستی سے پیش کی جاسکتی ہے کہ وہ جسم، روح، اور عقل کا مجموعہ ہے، جبکہ انسان نمونۂ تخلیق اور خلاصۂ موجودات ہے، انسان کی ہستی سے بہشت کی مثال دینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ بہشت انسان کے جسمانی، روحانی، اور عقلی تقاضوں کے مطابق بنائی گئی ہے، اس لئے وہ جسم و جان اور عقل کے اعلیٰ اور حقیقی اوصاف میں زندہ، گوئندہ اور دانا ہے، جیسا کہ خداوندِ عالم کا ارشاد ہے:۔

وَمَا ھٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَھو’‘ وَّلَعِب’‘طوَاِنَّ الدّارَالْاٰخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ لَوْکَانُوْایَعْلَمُوْنَ (۲۹: ۶۴) اور یہ دنیاوی زندگی تو کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں، اور اگر یہ لوگ علم کی روشنی میں دیکھیں تو اس میں شک نہیں کہ آخرت کا گھر ہی حقیقی حیات (اور زندہ) ہے۔ اگرچہ لفظِ حَیَوَانُ اور حَیْوانُ میں فرق ہے، تاہم جس طرح قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے اس کے اصول کے مطابق یہاں اس حقیقت کی طرف ایک بلیغ اشارہ فرمایا گیا ہے کہ آخرت کا گھر زندہ ہے اوروہ انسانی صورت میں ہے، کیونکہ

 

۶۷

 

اس آیۂ کریمہ میں جس طرح انسان کی دنیوی زندگی پراُخروی زندگی کو بدرجۂ انتہا ترجیح دی گئی ہے، اور اس سلسلے میں جس اندازِ حکمت سے لفظِ “حیوان” میں بہشت کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ بہشت ایک انتہائی عظیم اور کامل و مکمل شخصیت کی طرح ہے۔

ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمانِ اقدس میں خوب غور کرنا چاہئے، جو سورۂ تکویر (۸۱: ۱۱) میں ہے: وَاِذَاالسَّمآئُ کُشِطَتْ (۸۱: ۱۱) اور جس وقت آسمان کا چھلکا اتارا جائے گا۔ آسمان سے کائنات و موجودات کی ہر ہر چیز مراد ہے، چنانچہ قیامت کے دن آسمانوں، زمین اور ان کی تمام چیزوں کو چھیل کر کثیف سے لطیف بنایا جائے گا، پھر اس وقت یہ کائنات اپنی ساری چیزوں کے ساتھ جسمانی بہشت کی صورت میں سامنے ہوگی، اس حال میں عالمِ انسانیّت لازمی طور پر جسمِ لطیف میں ہوگا، اور آپ کو یاد ہوگا کہ فرمودۂ قرآن کے بموجب جسمانی بہشت اس کائنات کے طول و عرض کے برابر ہے (۰۳: ۱۳۳؛ ۵۷: ۲۱) پس یہ جسمِ مثالی کی جنت ہے، جو ابداعی جسم ہے، جس میں ارادۂ کُنۡ کے تحت سب کچھ موجود ہے، اور اس کائنات کی روح (عالمگیر روح) روحانی بہشت ہے۔

کائناتی روح کے بہت سے نام ہیں، اور اس کا ایک قرآنی نام کرسیٔ خدا ہے، جس میں بہشتِ روحانی ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے:۔

وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ (۰۲: ۲۵۵) اس کی کرسی سب آسمانوں اور زمینوں کو گھیرے ہوئے ہے۔ پس روحِ اعظم خدا تعالیٰ کی کرسی بھی ہے اور روحوں کی جنت بھی، جس میں ہر طرح کی روحانی نعمتیں مہیّا ہیں۔

 

۶۸

 

روحِ اعظم جہاں کرسی اور روحانی بہشت ہے، وہاں عقلِ کامل عرش اور عقلی بہشت ہے، مگر اس جگہ یہ نکتہ یاد رہے کہ عقل کا قرآنی تصوّر ایسا ہے کہ وہ زمان و مکان کی تمام مسافتوں کو ختم کرکے جملہ اشیاء کو ازلی و ابدی وحدت میں سما دیتا ہے، چنانچہ کائنات جس طرح اپنی ظاہری صورت میں پھیلی ہوئی ہے، اسی طرح باطنی صورت میں مقامِ عقل پر محدود و مرکوز ہوجاتی ہے، جیسے قرآنِ حکیم میں ہے: یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآئَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ ط کَمَا بَدَاْنَآاَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہ‘ط (۲۱: ۱۰۴) اس دن ہم آسمان (یعنی جملہ کائنات) کو اس طرح لپیٹیں گے جس طرح خطوں کا طورمار لپیٹا جاتا ہے، جس طرح ہم نے (مخلوقات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا ( اسی طرح) دوبارہ (پیدا) کریں گے۔ سِجِل کے معنی میں اختلاف ہے، ہمارے نزدیک یہ لفظِ سجِّیل کی طرح ہے جو سنگِ گِل کا مُعرَّبْ ہے، یعنی ایسی مٹی کی سخت گولی جس سے لکھنے کا کام لیا جاتا تھا، اس کا مفہوم روشنائی کا قرص ہے، یاد رہے کہ قرآنی مثالوں میں جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ان کی ایک خاص وجہ تاویلی حکمت ہے، بہرحال اس آیۂ کریمہ میں تصورِ عقل کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، جو عقلی بہشت کا تصوّر ہے، جس میں علم و حکمت کی ہر چیز اور ہر نعمت موجود ہے، جیسا کہ فرمودۂ قرآن ہے:۔

نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ (۶۸: ۰۱) قَسم ہے دوات کی اور قلم کی اور اس چیز کی جولکھتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ تصورِ عقل کی قسم کھاتا ہے، جو کائنات کا جوہر ہے، جس میں عقل کی دوات، قلم اور تحریر کی ہر چیز موجود ہے، کیونکہ اسی سے بہشت کی عملی تحریر بنتی ہے اور اسی سے کائناتِ

 

۶۹

 

ظاہر و باطن کا وجود بن جاتا ہے۔ اس آیۂ کریمہ کی ایک بنیادی تاویل بھی ہے، اور وہ یہ ہے: قَسم ہے دہنِ مبارک کی جو مثلِ اعلیٰ کے مطابق حکمت کی دوات ہے، اور قَسم ہے نورِ عقل کی جو قلمِ الٰہی ہے، اور قسم ہے اس چیز کی جو اس دوات و قلم سے بزرگ فرشتے لکھتے ہیں، یعنی کلمۂ باری۔

مٹی کی تاویل مومن ہے، اور ایسی خاص قسم کی مٹی جو پتھر کی طرح ٹھوس ہوچکی ہے اور جو سنگِ گِل یا سجِّیل کہلاتی ہے وہ راسخ العقیدت مومن ہے، کیونکہ ایسے مومن کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں، یعنی وہ عقیدے کے اعتبار سے بڑا سخت ہوتا ہے، مگر حقیقی علم کے معاملے میں حد سے زیادہ نرم دل ہوتا ہے، جیسے سنگِ گِل کہ وہ سخت بھی ہے اور دوات میں ڈال کر اس پر پانی ڈالنے سے حل ہوکر لکھنے کے قابل بھی ہو جاتا ہے۔

سورۂ فیل (۱۰۵: ۰۱ تا ۰۵) میں غور کرنا چاہئے، کہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھی والوں کو کسی اور پتھر سے نہیں بلکہ سجِّیل (سنگِ گِل) کی کنکریوں سے ہلاک کردیا، اس میں بہت بڑا راز ہے، اور وہ یہ ہے کہ خانۂ کعبہ جس طرح ظاہر میں مادّی طور پر موجود ہے، اسی طرح باطن میں روحانی حیثیت میں اس کا وجود ہے، اور جیسے اہلِ باطل نے بحالتِ جسمانی ایک بار خدا کے ظاہری گھر کو مٹانے کے لئے کوشش کی تھی ایسے وہ بہ کیفیتِ روحانی ہر بار اللہ کے باطنی گھر کو مٹانے کی سعی کرتے ہیں، یعنی وہ بشکلِ ذرّات ایک خاص وقت میں انسانِ کامل پر حملہ آور ہوجاتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ اپنے پاک نورانی گھر کی حفاظت کے لئے فرشتوں کا ایک لشکر بھیجتا ہے، جس کے ذریعے سے راسخ العقیدہ اور جان نثار مومنین و مومنات کے ذرّاتِ ارواح کی کنکریاں برسا کر خانۂ خدا کے دشمنوں کو تباہ کیا جاتا ہے۔

سورۂ ہود (۱۱: ۸۲) اور سورۂ حجر (۱۵: ۷۴) میں فرمایا گیا ہے کہ حضرتِ لوط علیہ

 

۷۰

 

السّلام کی نافرمان قوم کی بستی کو زیر و زبر کرکے اس پر سجِّیل کی تہ بر تہ کنکریاں برسائی گئی تھیں، اس کا تاویلی پہلو یہ ہے کہ انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں بھی ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا، یعنی وہ نافرمان لوگ روحانی طور پر ہلاک کئے گئے تھے، اور اس خدائی طاقت میں ارواحِ مومنین کو شرکت دی گئی تھی، اوراس میں لفظِ سجِّیل سے متعلق ایک خاص بات “تہ بر تہ” ہے، جس کی تاویل ہے ایک مومن کی روح میں بہت سی ارواح کا ساتھ ہونا۔

ارشاد ہے: اِنَّ فِیْ ذَالِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَ سِّمِّیْنَ۔ وَاِنَّھَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ (۱۵: ۷۵ تا ۷۶) اس میں شک نہیں کہ اس واقعہ میں (اصلی بات کے) تاڑ جانے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ یعنی حضرتِ پیغمبراور حضراتِ أئمّہ صلوات اللہ علیہم جانتے ہیں کہ اس میں روحانی معجزات کا ذکر ہے۔ اور وہ اُلٹی ہوئی بستی ہمیشہ کے راستہ پر ہے۔ یعنی راہِ روحانیت پر اس معجزے کا مشاہدہ ہوجاتا ہے۔ اِنَّ فِیْ ذَالِکَ لَاٰ یَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَط (۱۵: ۷۷) بیشک اس میں مومنین کے لئے معجزہ ہے۔ مُتوسّمین کے لئے اس میں بہت سی آیات ہیں اور مومنین کے لئے ایک آیت ہے، اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ یہاں جن مومنین کا ذکر ہے ان سے متوسمین ممتاز اور اعلیٰ ہیں، جن کا اوپر ذکر ہوچکا ہے۔

دنیا کی نعمتیں ایسی ہیں کہ ان کی تلاش میں بہت سی مسافتیں طے کرنا پڑتی ہیں، اس کے برعکس عقلی اور روحانی نعمتیں بشرطِ علم و عمل مومنین کے سامنے آتی ہیں، اور یہ سب کچھ عقلی بہشت کی بدولت ہے، جو بہت سے عظیم ناموں اور اعلیٰ مثالوں کے ساتھ قبضۂ قدرت میں ہر وقت موجود ہے، مثال کے طور پر خداوندِ تعالیٰ کا یہ فرمانِ اقدس کہ: جس (خدا) کے قبضہ میں بادشاہت ہے

 

۷۱

 

وہ بڑی برکت والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے (۶۷: ۰۱) اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ حقیقی بادشاہی کی تمام برکتیں جو وسیع و عریض کائنات اور سارے زمانوں میں پھیلی ہوئی ہیں وہ نورِ عقل میں مرکوز اور مجموع ہیں، اوریہ وہ بہشت ہے جو دور دراز ہونے کے باؤجود نزدیک لائی گئی ہے،جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے:۔

وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ (۵۰: ۳۱) اور بہشت پرہیز گاروں کے بالکل قریب کردی جائے گی۔ یعنی کائنات کے طول و عرض میں جس طرح بہشت اور باطنی سلطنت مبسوط ہے، اس کوعقلِ کل کے جوہر میں پیش کیا جائے گا، جس میں ہر زمانے کے عقلی اور علمی جواہر موجود ہیں، اسی معنیٰ میں قرآن کا یہ ارشاد ہے:

اَوَلَمْ نُمَکَنْ لَّھُمْ حَرَماً اٰمِناً یُّجْبٰٓی اِلَیْہِ ثَمَرَاتُ کُلِّ شَیْ ئٍ رِّزْقاً مِّنْ لَّدُنَّاوَٰلکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَایَعْلَمُوْنَ (۲۸: ۵۷) کیا ہم نے انھیں حرمِ مکہ میں جہاں ہر طرح کا امن ہے جگہ نہیں دی جہاں ہر قسم کے پھل روزی کے واسطے ہماری بارگاہ سے کھنچے چلے جاتے ہیں مگر ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔ یہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ و سلامہ کا نور ہے، جو حرمت اور امن کا مقام ہے، جس میں خدا وندِ تعالیٰ کا سب سے اصلی اور اساسی معجزہ یہ ہے کہ اوّل و آخر اور ظاہر و باطن کی تمام چیزوں کے عقلی، علمی اور روحانی پھل ہر جگہ اور ہر زمانے سے کھنچ کھنچ کر اس میں سما جاتے ہیں، تاکہ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی سے یہ رزق اہلِ معرفت کو ملتا رہے، یہ سوچنے کہ بات ہے کہ اس عالمِ ظاہر میں ثَمَرَاتُ کُلِّ شَیْئٍ (تمام چیزوں کے پھل) کہاں ہوتے ہیں؟ اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آسمان و زمین کی ہر ہر چیز میں پھل لگے؟ مگر ہاں ہر چیز میں اپنی نوعیت کی ایک روح پوشیدہ ہے اور ایک علم پنہان، جیسے حاملانِ عرش نے کامل معرفت کی روشنی میں کہا:

 

۷۲

 

رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْماً (۴۰: ۰۷) پروردگار! تونے ہر چیز کو ایک رحمت اور ایک علم میں سما رکھا ہے۔ چنانچہ ہر چیز سے متعلق دو تصوّرقائم ہوگئے، ایک رحمت کا اور دوسرا علم کا، یا یوں سمجھ لیں کہ اس مقام پر ہر چیز گویا ایک درخت ہے، اور اس کے وجود کے مطابق جو رحمت (مہربانی) ہے وہ اس کا پھل (روح) ہے، اور جو اس کی علمی کیفیت و صورت ہے، وہ اس پھل کا مغز ہے، پس بحکمِ خدا ہر چیز کا پھل روحانی اور علمی طور پر خانۂ خدا میں پہنچ جاتا ہے۔

قرآنِ حکیم میں جن نعمتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ سب سے پہلے اور سب سے اعلیٰ مقام پر عقلی بہشت کی نعمتیں ہیں، پھر روحانی ہیں، اور اس کے بعد جسمِ لطیف کی نعمتیں ہیں، اور جسمِ لطیف کی غذاؤں کی ایک قرآنی مثال یہ ہے کہ حضراتِ انبیاء و اولیاء کو اور بوقتِ ضرورت بعض مومنین کو بھی لطیف جسمانی کھانوں کا تجربہ ہوجاتا ہے، جس کا عنوان قرآنِ پاک میں منّ وسَلوٰی، طَیِّبٰت وغیرہ ہے، جیسا کہ سورۂ مومنون (۲۳: ۵۱) میں ارشاد ہے:۔

یٰٓاَیُّھَاالرُّسُلُ کُلُوْامِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحاً (۲۳: ۵۱) اے پیغمبرو! پاک و پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھے اچھے کام کرو۔ اور اگر یہ طیبات ان چیزوں میں سے ہوتیں جنھیں عوام بھی کھا سکتے ہیں تو اس صورت میں پیغمبروں کو باندازِ احسان یہ مخصوص حکم نہ ہوتا، اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ یہ جسمِ لطیف کی غذائیں ہیں، چنانچہ یہ غذا دوقسموں میں ہوتی ہے: روحِ نباتی، اور روحِ حیوانی، ہر نبات کی روح ایسی خوشبو میں آتی ہے، جو کم و بیش اس نبات میں پائی جاتی ہے، جیسی کسی پھول کی یا کسی جڑی بوٹی کی یا کسی پھل کی خوشبو، ان میں کچھ مانوس اور کچھ غیر مانوس خوشبوئیں ہوا کرتی ہیں، اور روحِ حیوانی البتہ حلال پرندوں کی ہوتی ہے۔

 

۷۳

 

انسانی ذات کی معرفت اتنی اہم اور عظیم ہے کہ یہ آگے چل کر ربِّ کریم کی معرفت ہوجاتی ہے، ایسے حال میں خزائنِ الٰہی کی معرفت الگ نہیں ہوسکتی، جیسے قلم، لوح، فرشتہ، رسولؐ، امامؑ، اور دوسرے حقائق، مگر یہاں کوئی شخص شاید یہ سوال کرے گا کہ قرآنِ مقدّس میں ہزاروں اہم چیزوں کا ذکر ہے، ان سب کی جدا جدا معرفتیں کیسے ممکن ہوسکتی ہیں؟ اس کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں دراصل بہت سی چیزوں کا ذکر نہیں ہے، بلکہ ہر مثال میں صرف ایک ہی حقیقت و وحدانیّت کا بیان ہے، اور اس سلسلے کی سب سے بڑی اور اہم ترین مثال یہ ہے کہ کائنات و موجودات کی لاتعداد چیزیں خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ازلی و ابدی طور پر ایک ہیں، جیسے کتابِ حکیم میں فرمایا گیا ہے:۔

وَالْاَرْضُ جَمِیْعاً قَبْضَتُہ‘ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌ بِیَمِیْنِہ ط (۳۹: ۶۷) اور قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور سارے آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہونگے۔ یہاں یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ یہ امرِ واقعی ازل ہی سے ایسا ہے، اور خدا تعالیٰ نے درحقیقت اپنا کوئی ناکردہ کام مستقبل پر نہیں چھوڑا ہے، اور نہ اس کا ماضی اور مستقبل ہے، اس لئے آپ یقین کریں کہ یہ نورِ عقل کا ذکر ہے، جو دستِ خدا میں ہے، جس میں آسمان و زمین ایک ہی روشنی ہے، جیسے سورۂ انبیاء (۲۱: ۳۰) میں ارشاد ہوا ہے:۔

اَوَلَمْ یَرَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓ ا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقاً فَفَتَقْنٰھُمَا طوَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّط اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ (۲۱: ۳۰) جو لوگ کافر ہو بیٹھے کیا انھوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین دونوں

۷۴

 

ملے ہوئے تھے تو ہم نے دونوں کو شگافتہ کیا، اور ہم ہی نے ہر چیز کو پانی سے زندہ کیا۔ یہ عالمِ شخصی کا تذکرہ ہے کہ وہاں صرف ایک ہی نور ہوتا ہے، جس کے ہزاروں نام ہیں، جس میں آسمان و زمین یعنی کل کائنات ایک ہے، چنانچہ خداوندِ تعالیٰ نے اس گوہرِ نور کو حرکت میں لایا، جس سے آسمان و زمین الگ الگ پیدا ہوگئے، اگرچہ اصل نور میں کوئی کمی یا کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، یعنی کائنات اب بھی نور میں آسمان و زمین کے فرق کے بغیر ایک ہی ہے، اور پانی سے ہر چیز زندہ کرنے کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ خدا نے اسی نورِ عقل کے علم سے عالمِ شخصی کی ہر ہر چیز میں عرفانی روح ڈالی۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی بعض سورتوں کے آخر میں بڑے بڑے بھیدوں کی طرف اشارہ ہوتا ہے، چنانچہ سورۂ قصص (۲۸: ۸۸) کے آخر میں فرمایا گیا ہے: کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہ‘لَہُ الْحُکْمُ واِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ (۲۸: ۸۸) چہرۂ خدا کے سوا ہر چیز فنا ہوجانے والی ہے، حکم (امر) اسی کا ہے اور تم لوگ اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ یعنی جہاں کائنات و موجودات قبضۂ خدا میں ایک نور ہیں (۳۹: ۶۷) وہاں ہر چیز ہلاک ہوچکی ہے، اور اسی مقام پر دیدارِ خداوندی ہے، اور کسی شخص کی انفرادی فنا یہ ہے کہ وہ اس باطنی حقیقت کا مشاہدہ کرے، مگر جیتے جی نفسانی موت کا مزہ چکھنے کے بغیر یہ مشاہدہ کیسے ہوسکتا ہے۔

دنیا کی چیزیں اعلیٰ اور ادنیٰ دو قسم کی ہوا کرتی ہیں، جب اعلیٰ چیزیں فنا ہو جاتی ہیں تو وہ اعلیٰ سے اعلیٰ تر ہوجاتی ہیں، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ان میں سے بعض کے جلانے سے یا تو روشنی بن جاتی ہے یا خوشبو یا طاقت وغیرہ، اور بعض چیزیں ایسی ہیں جو نباتات، حیوانات اور انسانوں کی غذا بن جاتی ہے، اور

 

۷۵

 

دونوں صورتوں میں ان چیزوں کی ترقی و بہتری ہے، یہ تو عالمِ ظاہر کی مثال ہے اور عالمِ باطن کی فنا کا نتیجہ انتہائی عظیم ہے، جہاں ہر چیز قبضۂ قدرت میں جاکر عقل و علم کی روشنی بن جاتی ہے، جس طرح اوپر اس کا ذکر ہوچکا، اور اس کے ساتھ ساتھ آپ سورۂ رحمان (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) میں بھی دیکھیں، جیسا کہ فرمایا گیا ہے:۔

کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَاٍن۔ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) تاویلی مفہوم: عالمِ شخصی میں جو مخلوقات و موجودات ہیں، وہ سب مقامِ عقل پر فنا ہوکر نورِ عقل سے واصل ہوجاتی ہیں، اور چہرۂ خدا جو صاحبِ جلالت و کرامت ہے وہ باقی رہتا ہے، جس کے ہاتھ میں یہ نور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہمیشہ سے وقوع میں آتا رہا ہے، آپ اس کے اس پاک فرمان میں غور کیجئے، جو سورۂ مومن کے آخر میں ہے۔

سُنَّتَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْخَلَتْ فِیْ عِبَادِہٖج وَخَسِرَھُنَا لِکَ الْکٰفِرُوْنَ (۴۰: ۸۵) تاویلی مفہوم: خدا کی عادت (قانون) ہمیشہ سے اس کے خاص بندوں (انبیاء و اولیاء) کی روحانیّت میں گزرتی رہی ہے، اور کافرلوگ بس اسی مقام پر گھاٹے میں رہے، کیونکہ انھوں نے انسانِ کامل کو نہیں پہچانا، جس کی ذات میں قانونِ خدا پوشیدہ ہوا کرتا ہے۔

اس قانون کے مطابق اگر مانا جائے کہ ہر چیز پہلے ہی سے نورِ عقل میں فنا ہوچکی ہے، تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پتھر کا عقلی وجود بھی اس عالم یعنی اس نور میں موجود ہے، اور ہاں یہ حقیقت ہے، لہٰذا آپ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر۷۴ (۰۲: ۷۴) میں خوب غور کریں کہ اس میں کس طرح ایک عقلی پتھر سے علم و حکمت کی نہریں جاری ہوجانے کا ذکر فرمایا گیا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں کسی پتھر یا پہاڑ کا ذکر آیا ہے، وہاں حکمت کے حسن و جمال کے ساتھ عقلی جواہر پیش کئے گئے ہیں،

 

۷۶

 

ان چند مثالوں کو دیکھئے:۔

۱۔ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے شخصی عوالم (دنیائیں) ایک ہی قانونِ روحانیّت کے تحت ہوا کرتے ہیں، اگر ہم اس حقیقت کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے اپنی تجلّی ڈال کر حضرت موسیٰؑ کے عقلی پہاڑ کو ریزہ ریزہ کردیا تھا، تو پھر لازمی طور پر اس بات کو بھی قبول کرنا ہوگا کہ خدائی عادت ( سنت) کا یہی معجزہ ہر کامل انسان پر گزرتا ہے، تاکہ ان بیشمار ٹکڑوں سے علم و حکمت کی ایک دنیا تعمیر کی جائے (۰۷: ۱۴۳)۔

۲۔ مثال کے طور پر عقل کے کوہِ طور کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ہیں، لہٰذا قرآنِ پاک میں جہاں جہاں پہاڑ کا نام آتا ہے، اس سے یہی ٹکڑے مراد ہوا کرتے ہیں، چنانچہ شہد کی مکھی سے فرمایا گیا ہے کہ وہ پہاڑوں میں اپنے چھتے بنائے (۱۶: ۶۸) اس کے یہ معنی ہیں کہ عقل کے ان پہاڑوں (ٹکڑوں) سے تاویل کا شہد حاصل ہوجاتا ہے۔

۳۔ ارشاد ہوا ہے: اور پہاڑوں میں قطعات ہیں جن کے رنگ مختلف ہیں کچھ تو سفید اور کچھ لال ہیں اور کچھ بالکل کالے (۳۵: ۲۷) اس میں یہ اشارہ ہے کہ عقلی پہاڑ (یعنی گوہرِ عقل) ہر قسم اور ہررنگ کے جواہر وغیرہ کی نمائندگی کرتا ہے۔

۴۔ فرمایا گیا ہے: اور خدا ہی نے تمہارے آرام کے لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے اور اسی نے تمہارے (چھپ کے بیٹھنے کے) واسطے پہاڑوں میں گھروندے (غار وغیرہ) بنائے (۱۶: ۸۱) اس سے ظاہر ہے کہ کوہِ عقل میں ہر آدمی کا ایک پوشیدہ مکان ہے۔

۵۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اور اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم اس کو دیکھتے کہ خدا کے ڈر سے جھکا اور پھٹا جاتا ہے (۵۹: ۲۱) عقل کے طُور (پہاڑ) پر خدا تعالیٰ نے جو اپنی تجلّی ڈالی تھی، وہ علم و حکمت کی حیثیت میں تھی، اسی لئے اس پہاڑ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے تھے، چنانچہ قرآن اپنی روحی اور عقلی کیفیت میں

 

۷۷

 

اللہ تعالیٰ کی وہی تجلّی ہے، جو عالمِ شخصی کے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کردیتی ہے۔

۶۔ سورۂ رعد (۱۳: ۳۱) میں دیکھئے: اور اگر کوئی ایسا قرآن ہوتا جس کی برکت سے پہاڑ چل کھڑے ہوتے یا اس کی وجہ سے زمین (کی مسافت) طے کی جاتی اوراس کی برکت سے مردے بول اٹھتے (۱۳: ۳۱) یقیناً قرآنِ مجید کا یہ باطنی معجزہ عالمِ مثال (عالمِ شخصی) میں پیش آتا ہے، جس میں عقلی پہاڑ بدستِ خدا چلتا رہتا ہے۔

۷۔ خداوندِ عالم کا حکمت آگین قول ہے: وَشَجَرَۃً تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِسَیْنَآئَ تَنْبُتُ بِالدُّھْنِوَصِبْغٍ لِّلاْٰ کِلِیْنَ (۲۳: ۲۰) اور (ہم ہی نے زیتون کا) درخت (پیدا کیا) جو طورِ سینا (پہاڑ) میں پیدا ہوتا ہے جس سے تیل بھی نکلتا ہے اور کھانے والوں کے لئے سالن بھی ہے۔ درختِ زیتون سے وہ شخصِ کامل مراد ہے جو چہرۂ خدا کا قائم مقام (جانشین) ہے، طورِ سینا کا مطلب کوہِ عقل ہے، زیتون کا تیل کلمۂ باری ہے، اور سالن کلمۂ باری کی ترجمانی و تشریح ہے، صِبْغٍ (سالن) کے اس لفظ میں روٹی کو ڈبونے اور رنگین کردینے کے معنی موجود ہیں، جس کا اشارہ ہے: کلمۂ باری کی گہرائی میں جانا اور کوئی نتیجہ حاصل کرلینا۔

 

خاکپائے جماعت

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی۔ لندن

لندن، ۸؍جولائی ؁۱۹۸۴ء

 

۷۸

 

مربوط حکمتیں

 

سورۂ نحل (۱۶: ۶۸ تا ۶۹) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: وَاْوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتاً وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوْنَ۔ ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُکِی سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلاً ط (۱۶: ۶۸ تا ۶۹) اور (اے رسولؐ) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو اونچے مکان بناتے ہیں ان میں اپنے چھتے بنا، پھر ہر طرح کے پھلوں سے چوس، پھر اپنے پروردگار کی مسخرکردہ راہوں میں چلی جا۔ اس فرمانِ خداوندی میں مربوط حکمت اور منظم تاویل کا اصول بیان فرمایا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ تاویل کی کلیدیں امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے مبارک ہاتھ میں ہوا کرتی ہیں، وہی حضرت جو مظہرِ نورِ کبریا اور جانشینِ رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم ہیں کسی کو تاویل کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں، چنانچہ ایسی صورت میں تاویل یعنی مربوط حکمت کی اصل واساس روحانیّت اور معرفت پرقائم ہوتی ہے، اور معرفت کاآخری سرچشمہ وہاں ہے جہاں خداوندِ تعالیٰ کے تین انتہائی عظیم خزانے ایک ساتھ کام کرتے ہیں، جن کے بہت سے نام اور مثالیں ہیں، اور مذکورۂ بالا ارشاد

 

۷۹

 

میں ان کی تشبیہہ پہاڑ، درخت، اور اونچی عمارت سے دی گئی ہے، اور وہ نورِ عقل، درختِ زیتون اورکلمۂ باری ہے، شجرۂ زیتون انسانی صورت میں ہے۔

شہد کی مکھیوں کو لوگ پالتے بھی ہیں، جس میں ان کے رکھنے کا طریقہ البتہ الگ ہوتا ہے، جس کے ساتھ نظامِ تاویل کا کوئی تعلق نہیں، جبکہ یہ نظام قانونِ فطرت کے مطابق ہے، چنانچہ شہد دوقسم کا ہوتا ہے: ظاہری اور باطنی، کیونکہ خدا کی بنائی ہوئی نعمتیں نہ صرف ظاہر میں ہیں، بلکہ باطن میں ان سے کہیں بہتر نعمتیں موجود ہیں (۳۱: ۲۰) یہی سبب ہے کہ خداوندِ عالم نے عقلی اور روحانی شہد یعنی تاویل کی مثال ظاہری شہد سے دی ہے، اور اس انتہائی شیرین، پُرقوّت، شفا بخش، جانفزا اور عقل پرور شہد کے سر چشموں کی طرف توجہ دلائی، اور اس شہد کی مکھیوں سے بہ اشارۂ حکمت فرمایا کہ دیکھو تم سب سے پہلے کوہِ عقل، پاک درخت اور بلند ترین عمارت پر اپنے چھتے بناؤ، اور اس کے بعد میرے سدا بہار باغوں میں چلی جاؤ، جو قرآنِ حکیم اور آفاق و انفس میں موجود ہیں، تمہارے لئے شہد بنانے سےمتعلق ساری راہیں مسخر کی گئی ہیں۔

مثال نمبر۱: قرآنِ حکیم بار بار کائنات و موجودات کی ہر چیزمیں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، اور اس سلسلے میں بعض چیزوں کی طرف تو بڑی خصوصیت کے ساتھ توجہ دلائی گئی ہے، جیسی شہد کی مکھیوں کی مثال ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے باطن (یعنی پیٹ) کو اپنی قدرتِ کاملہ سے انتہائی عجیب و غریب قسم کا بنایا ہے، جو دوسرے تمام جانوروں کے پیٹ کے برعکس کام کرتا ہے، کہ اس میں جو چیز جاتی ہے وہ شہدِ شیرین بن جاتی ہے، جبکہ کسی اور جانور کے باطن میں ایسی چیزوں سے غلاظت بن جاتی ہے، ان دونوں باتوں کے درمیان جو بہت بڑا فرق ہے، اس میں قدرت کا ایک عظیم راز پنہان ہے۔

 

۸۰

 

مثال نمبر۲: اس بات میں بھی بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے کہ شہد کی مکھیوں کی ایک بادشاہ ہوا کرتی ہے، جو کسی وقت بھی خود کام نہیں کرتی، بلکہ دوسروں سے کام لیتی رہتی ہے، جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ قدرت نے اس میں کچھ مزید خوبیاں بنائی ہیں تاکہ دوسری سب شہد کی مکھیاں اس کی طرف کھنچے ہوئے تابعداری کریں، اور اسی طرح ان کی مرکزیت کی ایک مثال قائم رہے۔

مثال نمبر۳: اگر جانوروں کی دنیا میں دیکھا جائے تو اتفاق، اتحاد، اور مونوریالزم کی بہترین مثال شہد کی مکھیوں سے مل سکتی ہے، کیونکہ شہد بنانا ایک یا چند مکھیوں کا کام ہر گز نہیں، یہ کام ایسا مشکل ہے کہ اسے صرف ان کی ایک بہت بڑی تعداد ہی بحسن و خوبی انجام دے سکتی ہے، اس کا اشارہ یقیناً یہی ہے کہ تاویلی حکمت کو ٹھوس شکل میں تیار کرکے لوگوں تک پہنچا دینا سخت مشکل بلکہ ناممکن کام ہے، پس شہد کی مکھیوں کی طرح نہ صرف ظاہر میں بلکہ باطن میں بھی ایک زبردست علمی لشکر کی ضرورت ہوتی ہے۔

مثال نمبر۴: ہر دانشمند کو عظیم فرشتوں کی مرکزیت اور وحدت کے بارے میں خوب سوچنا چاہئے کہ جبرائیل، میکائیل، اسرافیل، اور عزرائیل علیہم السّلام کیلئے ایک طرح سے الگ الگ اُمور مقررہونے کے باوجود، اورپھر ہر ایک کے ساتھ اپنا ایک زبردست لشکر موجود ہونے کے باوصف کیوں ایسا ہے کہ وہ سب مل کر کام کرتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ نہیں، جوکہا کہ ایک فرشتہ اپنا متعلقہ کام نہیں کرسکتا، اس لئے دوسروں کی مدد ضروری ہوتی ہے، بلکہ اس کا اصل سبب رازِ وحدانیت ہے لہٰذا فرشتے قانونِ وحدت کے مطابق مل کر کام کرتے رہتے ہیں۔

مثال نمبر۵: قرآنِ مقدّس میں یہ ارشاد ہے کہ پروردگارِ عالم کے عرش کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں مگر ہم سب انسانوں کی علمی اور عرفانی آزمائش اور

 

۸۱

 

مرکزِ ہدایت سے رجوع کی غرض سے وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ یہ حقیقت کس طرح ہے، کیونکہ یہ بات قطعاً ناممکن ہے کہ تختِ خداوندی (یعنی عرش) کسی مادّی چیز کے مشابہ ہو، اور فرشتے اسے ایک بھاری چیز کے معنی میں اٹھاتے ہوں، پس جاننا چاہئے کہ نورِمطلق عرشِ رحمان ہے اور حضراتِ أئمّہ صلوات اللہ علیہم یکے بعد دیگرے حاملانِ عرش ہیں، اور اس تصوّرمیں بھی مرکزیت کی مثال ہے، کہ عظیم فرشتے باری باری سے عرش کو اٹھاتے ہیں، اور دوسرے لاتعداد فرشتے قرب و وصال کی غرض سے اس کا طواف کررہے ہیں۔

مثال نمبر۶: تمام مومنین کی ارواح شہد کی مکھیوں کی طرح کام کرتی ہیں، اور امامِ زمانؑ کی مثال امیر النّحل کی سی ہے، روحوں کا کام اس وقت دکھائی دیتا ہے، جبکہ انسان میں چشمِ بصیرت پیدا ہوجاتی ہے، جسم کے آنے جانے میں دیر لگتی ہے، مگر روح کے حاضر ہوجانے میں کوئی وقت نہیں لگتا، اور نہ ہمیشہ روح کی سواری کے واسطے ذرّۂ لطیف کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ اس کے بغیر بھی آسکتی ہے۔

مثال نمبر۷: آپ روحِ قدسی یا ایسی کسی عظیم روح کی تمثیل شہد کی مکھیوں سے دے سکتے ہیں، کہ وہ واحد بھی ہے، کثرت بھی ہے اور وحدت بھی، واحد کا مطلب سردار ہے، کثرت سے لشکر مراد ہے، اور وحدت کے یہ معنی ہیں کہ ان تمام افراد کی ذات ایک ہے، جس طرح اعداد کی مثال میں شروع سے لے کر ہزار تک اور اس سے اوپر بھی تمام عددوں کی ذات ایک ہی ہے، اور وہ عددِ واحد کی وحدت ہے، جوہر عدد میں پنہان ہے۔

مثال نمبر۸: شہد کی مکھیاں مونوریالزم (MONOREALISM) کا نمونہ اس لئے بھی ہیں، کہ وہ ہزاروں پھلوں اور پھولوں کے رنگ و بو اور ذائقہ کے بہت سے اختلافات اور ہر قسم کی کثرت کو مٹا کر ان کو ایک ہی رنگ و بو اور ایک ہی لذّت

 

۸۲

 

کے رشتۂ وحدت سے منسلک کردیتی ہیں۔

مثال نمبر۹: خداوندِ تعالیٰ نے شہد کی مکھیوں کے بطن میں ایسا معجزہ رکھا ہے کہ جس کی بدولت وہ تلخ و شیرین ہر قسم کے پھلوں اور پھولوں سے شہد تیار کرسکتی ہیں، اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ان باغوں میں بھی، جو تاویل کے شہد سے متعلق ہیں، کڑوے پھل پھول ہیں، لیکن ان کے رس سے ایک جیسا تاویلی شہد بن جاتا ہے۔

مثال نمبر۱۰: پہاڑ کی کئی تاویلیں ہیں، چنانچہ اس کا ایک ممثول نورِ عقل ہے، دوسرا حجت ہے، تیسرا ممثول روحِ منجمد، اور چوتھا ممثول انسان کا سر ہے، جیسے حضرت داؤد علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلاً ط یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہ‘ وَالطَّیْرَ (۳۴: ۱۰) اور ہم نے یقیناً داؤد کواپنی بارگاہ سے فضیلت عنایت کی تھی (اور پہاڑوں کو حکم دیا کہ) اے پہاڑو تسبیح کرنے میں ان کا ساتھ دو اور پرندوں کو بھی (یہ حکم دیا)۔ یعنی حضرت داؤدؑ جب ذکرِخفی و جلی کیا کرتے تھے تو اس میں آپؑ کے سرِ مبارک کے تمام اُستخوان اور ذرّاتِ روح ہم آہنگ ہوجاتے تھے۔

مثال نمبر۱۱: روحِ منجمد کے باب میں ایک فرمانِ خداوندی یہ ہے: وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُھَا جَامِدَۃً وَّھِیَ تَمُرُّ مَرَّالسَّحَابِ ط (۲۷: ۸۸) اور تم پہاڑوں کو دیکھ کر انھیں جمے ہوئے سمجھتے ہو حالانکہ یہ (قیامت کے دن) بادل کی طرح اُڑے اُڑے پھریں گے۔ یہ ارواحِ منجمد کی اس کیفیت کا ذکر ہے، جو انفرادی قیامت میں ان پر گزرتی ہے، کہ روحیں بادلوں کی طرح بکھری ہوئیں ہیں، مگر کوہِ عقل کی سیر اس سے الگ ہے۔

 

۸۳

 

مثال نمبر۱۲: حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بحکمِ خدا (۰۲: ۲۶۰) چار پرندوں کو ذبح کیا، اور ان کو کاٹ کر باہم خوب کوٹا پیسا، پھر اس گوشت کے بارہ حصے دنیا کے بارہ پہاڑوں پر رکھ دیئے، اس کے بعد ان چار پرندوں کو بلایا گیا، اور وہ زندہ ہوکر حضرت ابراہیمؑ کے پاس حاضر ہوگئے، یہ دراصل حضرت ابراہیمؑ کے چار مقرّب حجت تھے، جن کو اسمِ اعظم کی اوکھلی میں کوٹا گیا تھا، پھر ان کو بارہ جزائرکےحجتوں کے پاس بھیجا گیا تھا، چنانچہ جب یہ واپس آئے تو اپنے ساتھ بارہ حجت بھی ساتھ لائے، بارہ حجتوں کے ساتھ ۳۶۰ داعی تھے، اور داعیوں کے ساتھ دنیا بھر کے لوگ، پس معلوم ہوا کہ یہاں پہاڑوں کی تاویل حجتان ہیں۔

مثال نمبر۱۳: روحانیّت اور علمِ تاویل پانی کی طرح ہے، اور قرآنی قصّے یا مثالیں مختلف شکل کے ظروف (برتن) کی طرح ہیں، چنانچہ قصّۂ آدم کے برتن کو ایسا بنایا گیا ہے جیسا کہ قانونِ حکمت کے بموجب بنانا چاہئے، اسی طرح ہر پیغمبر کو مثال کا ایک مختلف اور جدا گانہ ظرف ملا ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ تمام انبیاء علیہم السّلام کی روحانیّت صراطِ مستقیم کی متعیّن صورت ہے، اس لئے وہ ایک ہی ہے، اور اس میں کوئی فرق نہیں۔

مثال نمبر۱۴: سورۂ حج (۲۲: ۲۶ تا ۳۰) کے تاویلی اشارات کے مطابق حضرت ابراہیمؑ اپنے وقت میں بیت اللہ کا ممثول تھے، وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ (اور لوگوں کو حج کیلئے پکارو) اگر نگاہِ حقیقت سے دیکھا جائے تو یہ قصّہ وہی ہے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے چار پرندوں کے ذریعہ دنیا بھر کے لوگوں کو اپنے پاس بلالیا تھا، جس کا اوپر ذکر ہوچکا ہے، ورنہ اس زمانے میں مادّی طور پر کونسی سہولت تھی کہ جس سے دنیا کے سب لوگوں کو پکارا جاتا، جبکہ ناس سے سب لوگ مراد ہیں، یہاں تک کہ

 

۸۴

 

اس لفظ میں اوّلین و آخرین بھی ہیں، کیونکہ یہ حضرت ابراہیمؑ کی انفرادی قیامت کا تذکرہ ہے۔

مثال نمبر۱۵: جب طور، جبل، جبال، رواسی اور اعلام جیسے الفاظ میں پہاڑ سے نورِ عقل مراد ہے تو پہاڑ سے نکلنے والی بہت سی چیزوں کی بھی یہی تاویل ہے، جیسے جواہر، معدنیات، پتھر، چشمے وغیرہ، مٹی کی تاویل مومن ہے، آدم کی خلقت مٹی سے ہوئی، یعنی آدم کی روحانی تخلیق درجۂ مومنی سے شروع ہوئی، یا یوں کہیں کہ آدم شروع شروع میں صرف ایک مومن کا درجہ رکھتے تھے، پھر ان کو رفتہ رفتہ بلند مرتبہ دیا گیا۔

مثال نمبر۱۶: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَہً ط (۰۲: ۳۰) یقیناً میں (اپنا) ایک نائب زمین میں بنانے والا ہوں۔ آپ اس آیۂ کریمہ کو بھی غور سے دیکھیں: اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَیْھَا وَاِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ (۱۹: ۴۰) اس میں شک نہیں کہ (ایک دن) زمین اور جو کچھ اس پر ہے (اس کے) ہم ہی وارث ہونگے اور سب کے سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ پہلی آیت میں فی الارض ہے مگر علی الارض نہیں، اور دوسری آیت میں علیہا ہے لیکن فیہا نہیں، اس میں کیا راز ہے؟ اس کا تاویلی راز یہ ہے کہ پہلی آیت زمینِ دین سے متعلق ہے، اور مومنین دین کی زمین ہیں، کیونکہ جب مٹی کی تاویل مومن ہے تو پھر اہلِ ایمان ہی تاویلی زمین ہیں، چنانچہ خلیفۂ خدا مومنین کے درمیان بھی ہے اور ان کے باطن میں بھی ہے، لہٰذا “فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً” کے معنی بدرجۂ انتہا درست ہیں، مگر دوسری آیت زمینِ دنیا کے بارے میں ہے جس کی سطح یا پشت پر لوگ

۸۵

 

رہتے ہیں، اور وہ اس کے اندر نہیں رہتے، لہٰذا لوگوں کی جسمانی حیثیت جس طرح سیّارۂ زمین کی سطح پر ہے اس کے لئے “من علیہا” فرمانا حق و صدق سے بھر پور ہے۔

مثال نمبر۱۷: اس پر شاید کوئی عزیز یہ سوال اٹھائے تو عجب نہیں کہ قرآنِ کریم میں بہت سی آیات ایسی ہیں جن میں انسان کے اس مادّی زمین سےتعلق کو “فی الارض” (زمین میں) یا “فیہا” (اس میں ) فرماکر ظاہر کیا گیا ہے، جیسے ارشاد ہے: مِنْھَاخَلَقْنَاکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُ کُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃًاُخْرٰی (۲۰: ۵۵) ہم نے اسی (زمین) سے تم کو پیدا کیا اور اس میں لوٹا کر لائیں گے اور اسی سے دوسری بار تم کو نکالیں گے۔ آپ اس کی تاویلی وضاحت کرکے سمجھائیں۔ میں یوں عرض کروں گا کہ مومنین کی روحانی حیثیت خدا کی زمین ہے، اسی سے سب لوگ پیدا ہوجاتے ہیں، اور اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں، اور وہیں سب کو زندہ ہوجانا ہے۔

مثال نمبر۱۸: خشکی کی تاویل مادّیت ہے اور سمندر کی تاویل روحانیّت، قولہ تعالیٰ: وَھُوَالَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَلِتَاکُلُوْا مِنْہُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْہُ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَھَا (۱۶: ۱۴) اور وہی وہ خدا ہے جس نے سمندر کو مسخر کردیا تاکہ تم اس میں سے تازہ تازہ گوشت کھاؤ اور زیور (کی چیزیں موتی وغیرہ) نکالو جن کو تم پہنا کرتے ہو۔ یعنی خداتعالیٰ نے روحانیّت کو تمہارے لئے امامِ زمانؑ کے وسیلے سے مسخر کردیا ہے، تاکہ تم اس سے روحانی علم کو حاصل کرو،اور اس سمندر کی گہرائی سے گوہرِ عقل کونکالو۔

مثال نمبر۱۹: اس ارشاد میں قرآنِ حکیم حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اس قول کی ترجمانی کرتا ہے جس میں حقیقتِ واحدہ کا سب سے عظیم راز پوشیدہ ہے: رَبِّ ھَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ وَاجْعَلْ

 

 

۸۶

 

لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ (۲۶: ۸۳ تا ۸۴) تاویلی مفہوم: پروردگار مجھے کلمۂ کُنۡ کا ایک خزانہ عطا فرما اور صالحین سے ملادے، یعنی مجھے سلسلۂ نور میں ہمیشہ کے لئے زندہ رکھ اور کامل انسانوں کی زبانِ صدق کو میری زبان بنا دے، یعنی حضرت خاتم الانبیاؐ تک پیغمبروں کی زبان، اور آپؐ کے بعد اماموں کی زبان۔

مثال نمبر۲۰: سورۂ مریم (۱۹: ۵۰) میں ہے: وَجَعَلْنَا لَھُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیّاً (۱۹: ۵۰) اور ہم نے ان کے لئے (ہمیشہ دنیا میں) بدرجۂ اعلیٰ زبانِ صدق بنایا۔ یعنی ان کو ہمیشہ نورِ عقل میں زندہ رکھا، تاکہ وہ اپنے جانشینوں کو اعلیٰ درجے کے حقائق بیان کریں، جیسے پیغمبرِ اکرمؐ بحکمِ خدا عادل اُمت یعنی أئمّہ (۰۲: ۱۴۳) پر گواہ ہیں، اور گواہ جس کو عربی میں شاہد یا شہید کہا جاتا ہے غائب ہونے کی صورت میں نہیں، بلکہ حاضر رہنے کے معنی میں درست ہے، اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرتؐ اماموں پر گواہ ہیں، اور أئمّہ لوگوں پر گواہ ہیں یعنی ہر امامؑ اپنے زمانے کے لوگوں کا گواہ ہے، اور اسی سبب سے قیامت کے دن خدا تعالیٰ اہلِ زمانہ کو ان کے امام کے ساتھ بلاتا ہے (۱۷: ۷۱)۔

مثال نمبر۲۱: امامِ زمان صلوات اللہ علیہ ہر مومن کو نور کی چنگاری دے سکتے ہیں اور دیتے بھی ہیں، اور ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کی یہی سنت و عادت چلی آئی ہے، بہرحال یہ چنگاری کسی ذیلی اور ضمنی روشنی سے نہیں بلکہ سرچشمۂ نورِ عقل سے ہوا کرتی ہے، جیساکہ کتابِ عزیز کا ارشاد ہے: قَالَ لِاَھْلِہِ امْکُثُوْآاِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْٓ اٰتِیْکُمْ مِّنْھَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَۃٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُوْنَ (۲۸: ۲۹)

 

۸۷

 

(موسیٰؑ نے) اپنے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ (یہاں) ٹھہرو میں نے یقیناً آگ دیکھی ہے شاید میں اس سے تم کو کوئی خبر یا کوئی چنگاری لاؤں تاکہ تم لوگ آگ تاپو۔ اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ جب ہادیٔ برحق مرتبۂ نور پر فائز ہوجاتا ہے تو اس سے اہلِ ایمان کو دو بہت بڑے بنیادی فائدے حاصل ہوسکتے ہیں، ایک خبر ہے اور دوسرا جذوہ (چنگاری)، خبر سے علم و ہدایت مراد ہے، اور جذوہ سے اسمِ اعظم مقصود ہے، اور آگ تاپنے کی تاویل ہے اسمِ بزرگ سے فائدہ اٹھانا۔

مثال نمبر۲۲: سورۂ مائدہ (۰۵: ۵۴) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسی قوم کو (عالمِ شخصی میں) پیدا کرے گا جنھیں خدا دوست رکھے گا، اور وہ خدا کو دوست رکھیں گے، وہ مومنین کے حق میں منکسر اور کافروں پر بہت سخت ہوں گے وہ راہِ خدا میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کچھ پرواہ نہیں کریں گے (۰۵: ۵۴) یہ خدا و رسولؐ اور امامؑ کے روحانی لشکر کا تذکرہ ہے، جن کی بدولت عوالمِ شخصی کو فتوحات حاصل ہوتی رہتی ہیں۔

مثال نمبر۲۳: ایک اعتبار سے اس نورِ ہدایت کا سفر جو عالمِ دین میں ہے ماضی سے مستقبل کی طرف ہے، جبکہ زمانۂ ظاہر کا سفر اس کے برعکس مستقبل سے ماضی کی طرف ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نور ماضی کے جملہ واقعات و حالات ریکارڈ کرتے ہوئے آتا ہے، جیسے خزائنِ خدا کا تصوّرہے کہ ان میں تمام چیزیں موجود ہوتی ہیں، اور کوئی شے ایسی نہیں جو وہاں نہ ہو (۱۵: ۲۱)۔ مثال نمبر۲۴: عالمِ روحانیّت اور دنیائے قرآن کے بہت سے درختوں پر تاویلی شہد کی مکھیوں کے چھتے موجود ہیں، جیسے شجرۂ طیبہ (۱۴: ۲۴) پر، درختِ طورِ سینا (۲۳: ۲۰) پر، شجرۂ مبارکۂ زیتون (۲۴: ۳۵) پر، بقعۂ مبارکہ کے درخت (۲۸: ۳۰) پر اور اس درخت (۴۸: ۱۸) پر، جس کے نیچے زمانۂ نبوّت کے مومنین نے حضورِ انورؐ کے دستِ مبارک پر بیعت کی تھی، اور بھی ایسے درخت ہیں، مگر وہ سب ایک ہی درخت ہے۔

مثال نمبر۲۵: خداوندِ عالم نے فرعون کی بیوی آسیہ کے اس واقعے کو قرآنِ حکیم میں مثال کا درجہ دے کر بیان فرمایا ہے کہ اس نے یہ دعا کی: اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتَاً فِی الْجَنَّۃِ۔ ۔ ۔ (۶۶: ۱۱) جب اس نے دعا کی پروردگارا میرے لئے اپنے پڑوس ہی میں بہشت میں ایک گھر بنا۔ ۔ ۔ یہ تصوّر بڑا فکر انگیز ہے کہ جنت میں بعض لوگ یا سب خدا تعالیٰ کے پڑوسی ہوں گے اور ربِّ عزّت ان کا پڑوسی ہوگا، اور یہ بات کسی بھی صورت میں حقیقت ہے، ورنہ آسیہ کا یہ قول قانونِ قرآن کے اجزاء میں داخل نہ ہوسکتا، تاہم کوئی ہوشمند اس کو قبول کرتے ہوئے بھی یہ سوال کرسکتا ہے کہ اللہ سب کا ہمسایہ ہو، یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب یوں ہے کہ یہ جسمانی تصوّر نہیں، بلکہ عقلی بات ہے، اور عقل کی شخصی بہشت میں ہر بڑی سے بڑی نعمت حاصل ہوسکتی ہے، اور یہ تصوّربیحد مفید ہے کہ ہر انسان جس طرح یہاں اپنے باطن میں ایک ذاتی عالم رکھتا ہے، اسی طرح بہشت میں بھی ہوگا۔

مثال نمبر۲۶: قرآنِ مجید میں لفظِ لؤلو کو خاص ا ہمیت دی گئی ہے، یہ مثال درمثال کے طور پر استعمال ہوا ہے، یہ اسم چھ مرتبہ مذکور ہے، ایک بار لفظِ دُرّ+ی (۲۴: ۳۵) بھی ہے، اور حِلْیَۃً (زیورات) کے نو صیغے ہیں، لؤلو اور دُرّ دونوں موتی کے نام ہیں، موتی کا مطلب گوہر بھی ہے اور جوہر بھی، اگرچہ موتی سمندر کی گہرائیوں میں پیدا ہوتے ہیں، اور مختلف قسم کے جواہر پہاڑوں کے سینوں میں، تاہم کئی معنوں میں یہ سب ایک ہی شے اور ایک جوہر (ذات) کی مختلف شکلیں ہیں۔

 

۸۸

 

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ خدا تعالیٰ نے دینِ حق کو دنیائے ظاہر کی مثال پر بنایا ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ کے خزانے ہیں، اور ان میں اپنی نوعیت کے انتہائی گرانقدر خدائی جواہر پوشیدہ ہیں، وہ گوہر نورِ عقل اور علم و حکمت کے ہیں، اور روح و روحانیّت کے ہیں۔

مثال نمبر۲۷: موتی صدف (سیپ) میں پوشیدہ ہوتا ہے، اور صدف سمندر کی تھاہ میں پنہان رہتی ہے، اور جب اس کو وہاں سے نکالا جاتا ہے، تو پھر بھی اسے کسی طرح چھپا کے رکھنا پڑتا ہے، جیسے جوہری کی حفاظت میں، یا کسی شاہی خزانے میں، یا کسی امیر کے گھرانے میں محفوظ ہوتا ہے، اسی طرح خداوندِ تعالیٰ کے بھیدوں کے موتی اس کے خزائن میں پوشیدہ ہوا کرتے ہیں، اور اسی معنیٰ میں جواہرِ عقل کو لؤلوئے مکنون (پوشیدہ موتی) کہا گیا ہے، اور یہ اہم نکتہ فراموش نہ ہوکہ لؤلوئے مکنون کتابِ مکنون کے ساتھ مربوط ہے۔

مثال نمبر۲۸: خدائے علیم و حکیم نے قرآنِ پاک میں جہاں انتہائی اعلیٰ حقائق کی مثال دنیا کے انمول جواہر سے دی ہے، وہاں ان گرانمایہ گوہروں کے ظاہری حسن و جمال کے ساتھ ساتھ باطنی عجائب و غرائب بھی پیشِ نظر ہیں، مثلاً قیمتی پتھروں سے لاتعداد برس پہلے پہاڑوں کا وجود میں آنا، پہاڑ کے خاص خاص حصّے میں جواہر کا پیدا ہوجانا، اور معدنی روح کا تصوّر، وغیرہ۔

مثال نمبر۲۹: ہر چیز کی روح ہوتی ہے، اسی طرح تمام جواہر کی بھی روح ہے، مثلاً ایک قسم کے سفید پتھر میں سُرخ یا قوت بنتا ہے، ظاہر ہے کہ پہاڑ کے باطن تک کوئی مادّی قسم کا بیج نہیں جاسکتا، مگر ہاں روح جاسکتی ہے، اور صرف روحِ معدنی ہی رفتہ رفتہ سنگِ سفید کویاقوتِ احمر میں تبدیل کردیتی ہے،اور یہ بحقیقت روح کا بہت بڑا معجزہ ہے کہ پتھر کو گوہر بنا دیتی ہے، اسی طرح

 

۸۹

 

مرجان (۵۵: ۵۸ مونگا) میں فطرت کا ایک معجزہ یہ ہے کہ وہ روحِ حیوانی سے نبات بن جانے کا نمونہ ہے، جبکہ موتی روحِ حیوانی سے جماد پیدا ہوجانے کی مثال ہے۔

مثال نمبر۳۰: نورِ عقل بیشک عالمِ ممثول ہے، لہٰذا دنیا کی تمام چیزیں اپنی اپنی تمثیلات میں اسی کی طرف اشارہ کرتی رہتی ہیں، خصوصاً جواہر جو اس مادّی عالَم کی اشیاء میں بیش بہا اور اعلیٰ ہیں، وہ اپنی ظاہری، مادّی، محدود، اور فنا پذیر خوبیوں سے اس نور کے باطنی، روحانی، عقلی، غیر محدود، اور لازوال اوصاف و کمالات کی دلالت کرتی ہیں، تاکہ اہلِ جہان نور کے خزانوں اور جواہر کو پہچان سکیں، پھر ان کے حصول کیلئے صحیح معنوں میں سعیٔ پیہم کریں۔

 

خاکِ راہِ جماعت

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

لندن

۱۳؍جولائی ؁۱۹۸۴ء

 

۹۰

 

سلامتی کی حکمتیں

 

۱۔ سلامتی کے عام معنی ہیں خیریت، عافیت، حفاظت، بچاؤ، محفوظ ہونا، صحت، تندرستی، زندگی، حیات، موجودگی، وغیرہ، اور اس کے خاص معنی ہیں روحانی تائید و مکالمہ، سپردگی، خدا کی حفاظت میں ہونا، حیاتِ جاودانی، اور یک حقیقت کے راز کوجاننا۔

۲۔ قرآنِ حکیم میں سلامتی کا اصل لفظ “سلام” ہے، جس کا مادّہ س ل م (سلم) ہے، اس لئے قرآنِ پاک کے ایسے بہت سے الفاظ جو اس مادّہ سے بنے ہیں سلامتی کے موضوع سے متعلق ہیں، اور ان سے اس سلسلے کے بہت سے مفاہیم مل سکتے ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ، ہم یہاں اس مطلب کی چند مثالیں پیش کریں گے، جیسے سورۂ بقرہ (۰۲: ۷۱) میں لفظِ مُسَلَّمَۃٌ کے معنی سالم کے ہیں، اور سورۂ نساء (۰۴: ۹۲) میں اس کا ترجمہ “سپرد کی گئی” ہوتا ہے، اس سے یقیناً یہ معلوم ہوا کہ سلام اور سلامتی کے معنوں میں سالمیّت اور سپردگی دونوں شامل ہیں۔

۳۔ لفظِ اسلام کے اصل معنی ہیں حوالہ (سپرد) کردینا، چنانچہ دینِ اسلام کا مطلب یہی ہے کہ کوئی اپنے آپ کو خدا کے حوالہ کردے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:

 

۹۱

 

اِذْقَالَ لَہٗ رَبُّہٗ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (۰۲: ۱۳۱) جب ان سے ان کے پروردگار نے کہا (خود کو) سپرد کردے، تو عرض کی میں نے (خود کو) سارے جہان کے پروردگار کے سپرد کردیا۔ اور اس میں علم و عمل کا ذکر ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے: وَمَنْ یُّسْلِمْ وَجْھَہٗ اِلَی اللّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ط (۳۱: ۲۲) اور جو شخص چہرۂ باطن خدا کے سپرد کرے اور وہ نیکو کار (بھی) ہو تو بیشک اس نے مضبوط حلقہ پکڑ لیا۔ اس حکم میں نظریۂ اسلام قبول کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا بیان ہے۔

۴۔ جب رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے تصوّرِ اسلام کو عملی جامہ پہنایا، اور اپنے چہرۂ باطن کو علم و معرفت کی روشنی میں چہرۂ خدا کا قائم مقام بنایا، تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ آپؐ اپنے نمونۂ عمل کو بطریقِ حکمت بیان کریں، خداوندِ عالم کا وہ فرمان یہ ہے: فَاِنْ حَآجُّوْکَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْھَیَ لِلّٰہِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ط (۰۳: ۲۰، اے رسولؐ) پھر اگر یہ لوگ تم سے حجت کریں تو کہدو کہ میں نے اپنا چہرۂ باطن خدا کے سپرد کردیا اور جو میرے تابع ہیں (یعنی أئمّۂ ہدیٰ نے بھی) اور اگر رحمتِ عالمؐ کے اسوۂ حسنہ میں یہ اشارہ نہ ہوتا، تو اس مقام پر کسی مسلم کو ابدی زندگی کی کوئی امید ہی نہ ہوتی، جہاں چہرۂ خدا کے سوا ہر چیز اور ہر شخص ہلاک و فنا ہوجاتا ہے (۲۸: ۸۸؛ ۵۵: ۲۷) کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا زبردست قانون ہے کہ اس کے چہرۂ پاک کی بہشت سے باہر کوئی چیز زندہ اور سلامت نہیں رہ سکتی ہے،

 

۹۲

 

اس سے یہ اعلیٰ حقیقت روشن ہوکر سامنے آگئی کہ ہر مومن کی سلامتی اس بات میں ہے کہ وہ چہرۂ خدا کو پہچانے اور اس میں فنا ہوجائے۔

۵۔ اس ارشادِ مبارک میں سلامتی کی اساسی حکمتیں پوشیدہ ہیں: قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ۔ یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ و َیُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّورِ بِاِذْنِہٖ وَیَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) تمہارے پاس تو خدا کی طرف سے ایک نور اور کتابِ مبین آچکی ہے، جو لوگ خدا کی خوشنودی کے پابند ہیں ان کی تو اس کے ذریعہ سے سلامتی (تائید) کی راہوں کی ہدایت کرتا ہے اور اپنے اذن سے تاریکی سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے اور انھیں راہِ راست پر چلاتا ہے۔ اس فرمانِ خداوندی کے مطابق نور سے آنحضرتؐ مراد ہیں، کیونکہ اسلام کی ہر چیز کی ترتیب میں آپ سب سے پہلے تشریف لائے ہیں، پھر قرآنِ پاک کا ذکر ہے، ظاہر ہے کہ ان دونوں کا مقصد سلامتی یعنی تائید کی راہیں دکھانا ہے، اور ان راہوں سے حضراتِ أئمّہ مراد ہیں کہ ہر امامؑ اپنے وقت میں تائیداتِ روحانی کی سبیل ہے، اذن کی تاویل حجت، پیر وغیرہ ہیں، جو آج کے دورِ قیامت ہونے کی وجہ سے جسمِ ظاہر میں نہیں ہیں، اور اذن کی دوسری تاویل اسمِ اعظم ہے، کہ وہ امامِ زمانؑ کے وسیلے سے خدا تعالیٰ کا اذن ہے، اور اس فرمانِ خداوندی کے مطابق صراطِ مستقیم سے حضرت قائم علینا سلامہٗ مراد ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ ربّانی ہدایت کے تمام تر وسائل اسی پاک ہستی کی طرف رُخ کئے ہوئے ہیں، اور اگر تاویل سے قطعِ نظر عام طور سے سوچنا ہے تو یہاں یا تو سبیل کا ذکر کافی ہوتا یا صراطِ مستقیم کا، لیکن ایسا نہیں ہے، اور اس کی وجہ

 

۹۳

 

تاویلی حکمت ہے، جس کا ذکر ہوچکا۔

۶۔ اسی سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا ہے: وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓا اِلٰی دَارِالسَّلٰمِ ط وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (۱۰: ۲۵) اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے راہِ راست پر چلاتا ہے۔ دارالسّلام کے چار معنی ہیں۔ (الف ) سلامتی کا گھر یا تائید کا گھر۔(ب) بہشت کا گھر، کیونکہ دارالسّلام ایک بہشت کا نام ہے۔ (ج) خدا کا گھر، اس لئے کہ السّلام خدا کا نام ہے۔ (د) اور ایک اعتبار سے خدا خود، کیونکہ وہ السّلام ہے، جس کے معنی ہیں سلامتی، یعنی نور جو سلامتی کا گھر ہے، جبکہ سلامتی نور سے الگ نہیں۔

۷۔ خدا میں فنا ہوجانے سے اس کا انتہائی قرب حاصل ہوجاتا ہے، یہی سلامتی بھی ہے اور سلامتی کا گھر بھی، جیسے قرآن میں ہے: لَھُمْدَارُالسَّلٰمِ عِنْدَرَبِّھِمْ وَھُوَوَلِیُّھُمْ بِمَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (۰۶: ۱۲۷) ان کے واسطے ان کے پروردگار کے قرب میں سلامتی کا گھر ہے اور دنیا میں انھوں نے جو عمل کیا تھا اس کی وجہ سے خدا ان کا دوست ہوگا۔ خدا کی دوستی مومنین کے لئے سب سے بڑی سعادت ہے، جیسے سورۂ یونس (۱۰: ۶۲) میں ارشاد ہوا ہے: آگاہ رہو اس میں شک نہیں کہ دوستانِ خدا پر (قیامت میں) نہ تو کوئی خوف ہوگا، اور نہ وہ غمگین ہوں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کرتے تھے، انہی لوگوں کے واسطے دنیوی زندگی میں (بھی) اور آخرت میں (بھی) خوشخبری ہے، خدا کی باتوں میں ادل بدل نہیں ہواکرتا، یہی تو بڑی کامیابی ہے (۱۰: ۶۲) یہاں یہ بات یاد رہے کہ خوف کا تعلق مستقبل سے ہے، اور غم کی نسبت ماضی سے، چنانچہ اگر کوئی شخص آنے والے کسی بھی زمانے میں ختم ہو

 

۹۴

 

جانے کا اندیشہ رکھتا ہے یا یوں خیال کرتا ہے کہ یہ زمانہائے دراز تک خوابِ عدم میں سورہا تھا، جس کی وجہ سے وہ اس دوران خدا کی نعمتوں سے محروم رہا، تو یہ دونوں باتیں خوف و غم کو ظاہر کرتی ہیں، حالانکہ خداوندِ تعالیٰ نے اپنے اولیاء یعنی دوستوں کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں ان کی ازلی اور ابدی سلامتی کی ضمانت ہے، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسی ہے کہ ہر شخص اپنی اس دائمی بقاء اور سلامتی کی معرفت کو حاصل کرسکتا ہے، جو کسی ابتداء و انتہا کے بغیر خانۂ سلامتی سے وابستہ ہے۔

۸۔ خدا کے دوستوں کے سردار امامِ زمان علیہ السّلام ہیں ، اور یہ بات ایسی ہے جیسے مومنین اور امیر المومنین، اسی مظہرِ خدا کے نور میں سلامتی کے بھید پوشیدہ ہیں، اسی پاک ہستی کے دوست خدا کے دوست ہیں، اور اسرارِ سلامتی انہی کے لئے خاص ہیں، چنانچہ جب خداوندِ عالم کے پاک حضور میں دعا کی جاتی ہے کہ اِھْدِنَاالصِّراطَ الْمُسْتَقِیْم، تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ مومن راہِ راست کو کھوبیٹھا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس پر آگے سے آگے چل کر منزلِ مقصود میں پہنچ جانا چاہتا ہے، بالکل اسی طرح مومنین سلامتی کے گھر میں رہتے ہوئے دعا مانگتے ہیں کہ خدایا ہم کو سلامتی کے گھر میں داخل کردے، اس میں ایسا علم و عرفان مطلوب ہے کہ اس سے اسرارِ سربستہ کھل جائیں، اور نتیجے کے طور پر مومنین اپنے آپ کو پہلے ہی سے دارالسّلام میں موجود پائیں۔

۹۔ سورۂ یاسین (۳۶: ۵۷ تا ۵۸) میں دیکھئے: لَھُمْ فِیْھَا فَاکِھَۃ’‘ وَّلَھُمْ مَّایَدَّعُوْنَ۔ سَلٰمٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ (۳۶: ۵۷ تا ۵۸) بہشت میں ان کے لئے میوے ہیں اور جو وہ چاہیں ان کے لئے (حاضر) ہے،

 

۹۵

 

مہربان پروردگار کا ایک قول (یعنی کلمۂ باری) نورِتائید ہے۔ یعنی کلمۂ باری نورِ تائید ہے، چنانچہ جنّت میں عقل و روح اور لطیف جسم کے واسطے طرح طرح کے میوے مہیّا ہیں، اس کے علاوہ وہاں ہر چیز ایسی مل سکتی ہے، جس کی اہلِ بہشت آرزو کرتے ہوں، مثال کے طور پر وہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ بہشت میں جو روح کے بھیدوں کا علم ہے، اس کی روشنی میں وہ اپنے آپ کو کسی ابتداء و انتہاء کے بغیر سلامتی کے گھر میں پائیں، اور دنیا میں وہ جس طرح اپنی زندگی کو محدود اور غلط سمجھتے تھے، وہ ایک تکلیف دہ خواب کی طرح بے بنیاد قرار پائے، کہ آدمی جب ایسے خواب سے بیدار ہوجاتا ہے تو شکر کرتا ہے کہ اس تکلیف کا کوئی مستقل وجود نہیں سو بہشت میں ایسا ہی ہوگا کہ جنت والے خود کو پہلے ہی سے وہاں موجود و سلامت پائیں گے، اس کی وجہ یہ ہوگی کہ ان کی انائے عُلوی کبھی دنیا میں آئی ہی نہ تھی، مگر ہاں انائے سفلی دنیا میں اتری تھی، اور اس حقیقت کی مثال سورج ہے کہ وہ اپنی جگہ پر قائم ہے، اور اس کی شعاعیں جگہ جگہ رسائی کرتی رہتی ہیں۔

۱۰۔ ربِّ رحیم کے ایک قول (کلمۂ باری) میں سب سے بلند درجے کی تائید اور سب سے اعلیٰ سلامتی کے اسرار پوشیدہ ہیں، جیسے حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا کہ: اے ابنِ آدمؑ میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنے مانند ایسا زندہ قرار دوں گا کہ تو کبھی نہ مرے گا، ایسا معزز کہ کبھی ذلیل نہ ہوگا، اور ایسا غنی (دولت دار) کہ تو کبھی محتاج نہ ہوگا۔ یابنِ اٰدم أطعنی أجعلک مثلی حیّاً لا تموت أبداً، وعزیزاً لا تزل، وغنیاً لا تفتقر (المجالس المؤیّدیّہ ص۵۵) کیا یہ ایک نئی تخلیق ہوگی جو پہلے نہ ہو؟ نہیں اس میں تخلیق کی بات نہیں، کیونکہ

 

۹۶

 

اس میں أجعلک ہے، أخلقک نہیں، یعنی قرار دینا ہے بنانا نہیں، پس اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا وندِ تعالیٰ اپنے فرمانبردار بندوں کو ایسے ایسے بھیدوں سے آگاہ کرے گا کہ ان کی روشنی میں وہ اپنے آپ کو پہچان لیں گے، اور وہ اپنی روحِ علوی کو کسی ابتداء و انتہاء کے بغیر دارالسّلام میں دیکھ پائیں گے۔

۱۱۔ اس میں سوال یہ ہوگا کہ اگر مومنین اپنی روحِ عُلوی سے ہمیشہ دارالسّلام ہی میں رہتے ہیں تو پھر یہ دعا بار بار کیوں کی جاتی ہے؟ “۔ ۔ ۔ اور تجھ ہی سے سلامتی ہے اور تیری ہی طرف سلامتی لوٹتی ہے، اے پروردگار! ہمیں سلامتی یعنی تائید کے ذریعہ زندہ کردے اور سلامتی (تائید) کے گھر میں داخل فرما۔” اس کا جواب یہ ہے کہ یقیناً ہر مومن کی روحِ عُلوی سلامتی کے گھرمیں ہے، مگر وہ انائے سفلی سے اس دنیا میں آکر اپنی حقیقت کو یکسر فراموش کر بیٹھا ہے، اور اس کا ازالہ صرف علم و معرفت ہی سے ہوسکتا ہے، لہٰذا اسے یہ دعا سکھائی گئی ہے جس میں حقیقی علم مطلوب ہے کہ: “تو نورِ تائید اور تائید کی روشنی تجھ سے ہے اور یہ تائید کی روشنی ہماری انا کو لے کر تیری ہی طرف لوٹتی ہے، یا ربّ! ہمیں اسی تائید سے زندہ کردے اور سلامتی کے گھر میں اپنی انائے علوی سے ملا دے۔”

“َنْتَ السَّلامُ وَمِنْکَ السَّلامُ وَاِلَیْکَ یَرْجِعُ السَّلام” کے بارے میں بعض احباب نے خواہش ظاہر کی تھی کہ یہ بندۂ کمترین اس کی وضاحت کرے، چنانچہ یہ مضمون خصوصاً اسی وجہ سے لکھا گیا ہے، پس یہاں عرض یہ ہے کہ اس دعا کے ان مقدّس الفاظ میں سوال کا پیدا ہوجانا بظاہر ایک منطقی حقیقت ہے، کیونکہ ظاہری عقل کے نزدیک خدا کے لئے “اَنْتَ السَّلام” کہنے کے بعد “وَمِنْکَ السَّلام” کہنا ایسا ہے جیسے کوئی کہتا ہو کہ: “تو خدا ہے اور تجھ سے خدا ہے۔”  مگر ہم سب کو پورا پورا یقین ہے کہ اس کی تاویلی حکمت کچھ اور ہے، اور وہ

 

۹۷

 

یہ ہے کہ ذاتِ سبحان بحقیقت کسی صفت سے موصوف نہیں، مگر مجازاً، چنانچہ اَلسّلام سے النورمراد ہے جو اللہ تعالیٰ کا مجازی نام ہے، حقیقی نہیں، کیونکہ نور اور ظلمت ایک دوسرے کے متضاد ہیں، اور ذاتِ خدا کی کوئی ضد نہیں، اس کے سوا ہر چیز کی ایک ضد ہے، اور اضداد کے جوڑوں کو خدا ہی نے بنایا ہے، جیسے سورۂ یاسین (۳۶: ۳۶) میں اس کا ذکر فرمایا گیا ہے، یہاں یہ کلّیہ یاد رہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ کسی صفت سے موصوف نہیں، تاہم چند اسماء اس کی ذاتِ اقدس کے لئے منتخب ہیں، جیسے اللہ، سبحان، رحمان وغیرہ، اس قسم کے اسماء مخلوق کے لئے استعمال نہیں ہوتے، جبکہ دوسرے بہت سے نام جو خدا کے لئے حقیقی نہیں بلکہ مجازی ہیں، وہ مخلوق کے لئے بھی مستعمل ہیں، چنانچہ نور اور سلام ایسے نام ہیں کہ خدا اور مخلوقِ خدا دونوں کے لئے آتے ہیں، اس کی مثال بھی قرآن ہی سے مل سکتی ہے، جیسے نور کا اسم سورۂ نور (۲۴: ۳۵) میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ ہدایت کو ظاہر کرتا ہے اور سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) میں آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کو نور کے اسم سے موسوم کیا جاتا ہے۔

۱۲۔ سلام نورِ تائید کا نام ہے، اور یہ سب سے پہلے کلمۂ امر کی صورت میں طلوع ہوجاتا ہے، چونکہ اس مقام پر جملہ ازلی و ابدی حقائق و معارف ایک ہیں، لہٰذا کلمۂ باری کے بہت سے ناموں میں سے ایک نام “سلام” ہے جیسا کہ سورۂ یاسین (۳۶: ۵۸) میں ہے: سَلٰمٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ ( ۳۶: ۵۸) پروردگارِ مہربان کا ایک قول (یعنی کلمۂ باری) نورِ تائید ہے۔ یہی نور انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کو حاصل ہوتا رہا ہے، اور اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: سُبْحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۔ وَسَلٰمٌ

 

۹۸

 

عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ (۳۷: ۱۸۰ تا ۱۸۱) یہ لوگ جس طرح خدا کے بارے میں وصف بیان کرتے ہیں تمہارا ربّ جو عزّت کا پروردگار ہے وہ اس سے پاک و برتر ہے، اور پیغمبروں کونورِ تائید حاصل ہوتا رہا ہے۔ اس میں تین عظیم حکمتوں کا ذکر ہے:۔ (الف) لوگ معرفت کے بغیر خدا کے جو اوصاف بیان کرتے ہیں، ان سے خدا پاک و برتر ہے۔     (ب) وہ دینی، روحانی، اور عقلی عزّت کی پرورش کرتا ہے اور اسے بلند کردیتا ہے۔           (ج) نورِ تائید انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کو حاصل ہوتا ہے، اور وہی حضرات خدا کو پہچانتے ہیں۔

۱۳۔ قرآنِ حکیم میں خدا تعالیٰ اور فرشتوں کی جانب سے اہلِ ایمان پر دُرود کا ذکر موجود ہے (۳۳: ۴۳) مگر عام حالت میں ان کو آسمانی سلام نہیں، ہاں یہ سلام ہدایت کی پیروی سے وابستہ اور مشروط ہے (۲۰: ۴۷) اور پھر بہشت میں مومنین کو ایسا سلام حاصل ہوگا (۳۶: ۵۸؛ ۱۳: ۲۴) یہی وجہ ہے کہ ہر مومن کے حق میں علیہ السّلام نہیں کہا جاتا، مگر پیغمبر، امام، فرشتہ، مقرّب، اور اہلِ بیت کو، یہ سب کچھ اس لئے ایسا ہے کہ سلام نورِ تائید کو کہتے ہیں۔

۱۴۔ اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ جب بندۂ مومن کو موجودہ حالت میں خدا اور ملائکہ کی طرف سے کوئی سلام نہیں، اور کسی مومن کے حق میں علیہ السّلام بھی نہیں کہنا چاہئے تو پھر مسلمین و مومنین ایک دوسرے کو ’’السّلام علیکم و علیکم السّلام‘‘ کیوں کہا کرتے ہیں؟ ا س کا جواب یہ ہوگا کہ خدا کا سلام فرمانا ایک عملی سلامتی کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے ہے، جیسے کسی پیغمبر کے بارے میں سَلٰمٌ عَلَی۔ ۔ ۔ فرمانا، اور ایسی صورت میں ہمیں بھی خدا کی اس رحمت کو اور کسی پیغمبر یا امام کی مرتبت کو سمجھنے کے لئے علیہ السّلام کہنا چاہئے، مگر جہاں یہ فضیلت کسی دوسرے انسان کو حاصل نہیں، تو وہاں ہمیں اس کے حق میں علیہ السّلام نہیں کہنا ہے،

 

۹۹

 

لیکن جہاں عام طور پر ایک دوسرے کو سلام کیا جاتا ہے، اس میں دعا کے معنی ہیں، اور یہ دعا ضرور کرنا ہے۔

۱۵۔ سورۂ مریم (۱۹: ۱۵، ۱۹: ۳۳) میں حضرت یحییٰؑ اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے روحانی جنم، نفسانی موت اور انبعاث کا جس شان سے ذکر فرمایا گیا ہے، اس سے لفظِ “سلام” کے معنی اور حکمت پر پوری طرح سے روشنی پڑتی ہے، کہ اس مثال میں جسمِ خاکی کی سلامتی سے متعلق کوئی بات نہیں ہے، بلکہ یہ روح اور عقل کی سلامتی ہے، جو نورانی تائید کی شکل میں ہے، اور یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ اس مثال میں حضرت یحییٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ تمام کامل انسانوں کی روحانیّت کی نمائندگی کررہے ہیں، کیونکہ سب کے لئے سلامتی کی راہ ایک ہی ہے، اس کے برعکس اگر ہر پیغمبر کا طریقِ روحانیّت الگ ہوتا، تو اس کے ساتھ ساتھ (نعوذ باللہ) خدا کی سنتیں بھی جدا جدا ہوتیں، مگر اللہ کی سنت ایک جیسی چلی آرہی ہے، اور وہ یہ ہے کہ لوگوں کی روحانی پیدائش، نفسانی موت، اور انبعاث سب کچھ ہادیٔ زمان سے وابستہ ہے، کیونکہ وہی نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) اور سلامتی کا گھر ہے، اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خداوندِ عالم لوگوں کو سلامتی کے گھر کی طرف بلائے (۱۰: ۲۵) اور وہ موجود نہ ہو، اور یہ بھی ناممکن ہے کہ کوئی شخص وسیلہ کے بغیر براہِ راست خدا تک پہنچ جائے۔

۱۶۔ حضرت نوح علیہ السّلام ظاہری طوفان کے علاوہ ایک روحانی طوفان سے بھی گزر رہے تھے۔ ۔ ۔ جب وہ روحانیّت کا طوفان تھم گیا، تو ارشادِ خداوندی ہوا: قِیْلَ یٰنُوْحُ اھْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا َوبَرَکٰتٍ عَلَیْکَ وَعَلٰٓی اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَکَ ط (۱۱: ۴۸) حکم دیا گیا اے نوحؑ ہماری طرف سے سلامتی (تائید) اور ان برکتوں کے ساتھ

 

۱۰۰

 

اُترو جو تم پر اور ان لوگوں پر ہیں جو تمہارے ساتھ ہیں۔ سلام یعنی تائید بہت بڑی چیز ہوتی ہے، اس لئے کامل انسانوں کو بڑی سختی سے آزمالیا جاتا ہے، پھر اس کے بعد نورانی تائید کی دولت سے نوازا جاتا ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حضرت نوحؑ بڑے بڑے امتحانات سے گزرجانے کے بعد ربِّ کریم کے سلام (تائید) کو حاصل کرسکتے ہیں، اور اسی طرح حضرت ابراہیمؑ بھی (۲۱: ۶۹)۔

۱۷۔ اس سلسلے میں کسی بھی ہوشمند کی طرف سے یہ سوال ہوسکتا ہے کہ اس آیۂ کریمہ میں حضرت نوحؑ کے بارے میں جیسا ارشاد ہوا ہے، اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ۔ سَلٰمٌ عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ۔ اِنَّا کَذَالِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ (۳۷: ۷۸ تا ۸۰) اس کا جواب اس وضاحت میں ہے: اور ہم نے آنے والے کامل انسانوں میں مرتبۂ نوحؑ کی پہچان باقی رکھی، اس لئے کہ ہرعالمِ شخصی میں یہ طوفان برپا ہوتا رہے گا، اور ان عوالم میں ہمیشہ نوحؑ کو سلامتی اور تائید حاصل ہوتی رہے گی، اور ہم کامل انسانوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔

۱۸۔ عالمِ شخصی میں ہرعظیم پیغمبر کے روحانی معجزات وقوع پذیر ہوا کرتے ہیں، اور اسی طرح ہراس پیغمبر کے مرتبۂ روحانی کی شناخت ہوجاتی ہے، جس کا قرآن میں کوئی ذکر موجود ہو، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے: وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ۔ سَلٰمٌ عَلٰٓی اِبْرَاہِیْمَ۔ کَذَالِکَ نَجْزَی الْمُحْسِنِیْنَ (۳۷: ۱۰۸ تا ۱۱۰) اور ہم نے آنے والے کامل انسانوں میں مرتبۂ ابراہیم کی پہچان باقی رکھی، یعنی ہرشخصی عالم میں ابراہیمؑ کے معجزات ہوتے رہیں گے، یعنی حضرت ابراہیمؑ ہر پیغمبر اور امام میں اپنی مذہبی اور روحانی زندگی کا اعادہ کریں گے، اسی معنیٰ میں ان پر

 

۱۰۱

 

سلامتی اور تائید ہے، اور ہرپیغمبر کو یہی درجہ حاصل ہے۔

۱۹۔ ایک عام انسان اس بات کو تو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ عالمِ کثرت میں کس طرح چیزیں الگ الگ موجود ہوا کرتی ہیں، مگر اسے اس حقیقت کو سمجھ لینا بہت ہی مشکل ہے کہ عالمِ وحدت میں کس طرح انبیاء و اولیاء (یعنی أئمّہ) علیہم السّلام ایک ساتھ موجود ہیں، اس سلسلے میں اسے یہ جاننا چاہئے کہ عالمِ وحدت بڑا عجیب وغریب اور پہچان کے لئے بہت ہی مشکل اس لئے ہے کہ وہ ایک شخص کی شکل میں ہے، جس میں سب سے پہلے صالحین جمع ہیں، اور یہی سلامتی کا گھر ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّھُمْ فِی الصّٰلِحِیْنَ (۲۹: ۰۹) اور جن لوگوں نے ایمان لایا (جیسا کہ اس کا حق ہے) اور اچھے اچھے کام کئے (جیسا کہ کرنا چاہئے) ہم انھیں ضرور نیکوکاروں میں داخل کردیں گے۔ یعنی وہ ہادیٔ برحق علیہ السّلام کے عالمِ شخصی میں داخل ہوسکیں گے، کیونکہ یہی دارالسّلام ہے، اور اسی مقام پر زمانۂ ماضی کے جملہ صالحین (نیکوکار) جمع ہیں، اگر یہاں اس مثال کو قبول کرلیا جائے کہ جس طرح قرآنی حکمت کی زبان میں “فی الکتاب” کا ترجمہ “اوراق کی سطح پر” نہیں ہوسکتا، بلکہ اس سے الفاظ کی معنویّت اور اس کی گہرائی مراد ہے، اسی طرح “فِی الصّٰلِحِیْن” سے کامل انسانوں کی ظاہری قربت و ہم نشینی مراد نہیں، بلکہ ان کے عالمِ شخصی میں داخل کردینا مقصود ہے۔

۲۰۔ قرآنِ حکیم میں لازوال اور اٹل قوانین ہیں، ان میں سے ایک عالی شان قانون یہ بھی ہے کہ اللہ کی چیزیں دراصل منتشر اور تتر بتر نہیں، بلکہ خدائی خزانوں میں منظم ہیں، اس دنیا کی تمام اشیاء خزائنِ خدا سے آئی ہیں (۱۵: ۲۱) اس قانون

 

۱۰۲

 

کے مطابق بہشت بھی خزانے کے طور پر ہے، اور اس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے خزانچی مقرّرہیں، خزانچی کو عربی میں خازن کہتے ہیں، اور اس کی جمع خَزَنَۃِ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا پاک ارشاد ہے: وَقَال لَھُمْ خَزَنَتُھَا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَا خٰلِدِیْنَ (۳۹: ۷۳) اور اس (بہشت) کے خزانچی ان سے کہیں گے تم پاک و پاکیزہ ہوئے تم بہشت میں ہمیشہ کے لئے داخل ہوجاؤ۔ بہشت کے خزانچی أئمّۂ آلِ محمدؐ ہیں، اور بہشت ان کے عوالمِ شخصی ہیں، یعنی ہر امام کا عالمِ شخصی اپنے وقت کے لوگوں کے لئے جنت ہے، پس اسی معنیٰ میں امامِ زمانؑ دارالسّلام یعنی سلامتی اور تائید کا گھر ہے۔

یہاں یہ قانونِ خداوندی بھی یاد رہے کہ ممثول یعنی حقیقت ایک ہی ہے، مگر اس کی مثالیں بہت ہیں، جیسے ارشاد ہے کہ:

کائنات و موجودات کی تمام چیزوں کو خدا کی کرسی نے گھیر لیا ہے (۰۲: ۲۵۵)

ہر چیز ایک کتاب میں محدود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۷۸: ۲۹)

نامۂ اعمال میں تمام چیزیں درج ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱۸: ۴۹)

کل چیزیں امامِ مبین میں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۳۶: ۱۲)

اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو گن کر عددِ واحد میں سما لیا ہے (۷۲: ۲۸؛۱۹: ۹۴)

ہر چیز لوحِ محفوظ میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۰۶: ۵۹)

آسمان و زمین یعنی کل کائنات و موجودات دستِ خدا میں ہیں (۲۱: ۱۰۴؛ ۳۹: ۶۷)

تمام ممکن اشیاء خدا کے خزانوں میں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱۵: ۲۱)

 

 

۱۰۳

 

سب لوگ خدا کے حضور میں حاضر ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۳۶: ۳۲)

اور اس نے دے دیا سب کچھ جو کچھ تم نے مانگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱۴: ۳۴)

یہ بڑی بڑی مثالوں کے نمونے ہیں، اور ان سب کی حقیقت امامِ عالی مقام صلوات اللہ علیہ کی ذاتِ اقدس ہے، جو خانۂ خدا کی مرتبت میں سلامتی اور نورانی تائید کا گھر ہے، کیونکہ اللہ و رسولؐ کی اطاعت انھیں کے وسیلے سے انجام پاتی ہے، اور یہی اس دنیا میں خلیفۂ خدا اور نمائندۂ پیغمبرِ اکرمؐ ہیں، الحمدللہ ربّ العالمین۔

نوٹ: ۔ ہر آیت کے ماقبل اور مابعد کو قرآنِ پاک میں دیکھا کریں، اور ہر مضمون میں ایسا کریں، تاکہ قرآن فہمی میں مدد ملے، اور معلومات میں اضافہ ہو۔

 

خاکِ راہِ جماعت

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی۔ لندن

لندن، ۲۰؍جولائی ؁۱۹۸۴ء

 

۱۰۴

 

مقاماتِ نور

 

۱۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ: اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵) لیکن یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ ہم اس سرِّعظیم کے بارے میں خوب سوچیں اور اپنے آپ سے سوال کریں کہ وہ کون سا عالَم ہے، جس کے آسمان و زمین کو خدا کا نور براہِ راست جگمگا رہا ہے؟ کیا یہ دنیائے ظاہر ہے یا عالَمِ باطن؟ آیا یہ عالَمِ دین ہے یا عالَمِ شخصی؟

اس کلیدی سوال کا درست جواب یہ ہے کہ اس مادّی کائنات میں عالَمِ دین ہے، عالَمِ دین میں عالَمِ شخصی ہے اورعالَمِ شخصی میں خداوندِ تبارک و تعالیٰ کا پاک نور جلوہ افروز ہے، اور یہاں عالمِ شخصی سے ہادیٔ برحق کی مبارک ہستی مراد ہے، جو مظہر و مطلعِ نورِخدا ہے، جس سے عالَمِ دین کے آسمان و زمین روشن ہوجاتے ہیں، اور ظاہری دنیا کو درجہ بدرجہ روشنی ملتی ہے۔

۲۔ ربِّ عزّت نے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام کو نورِ مطلق کا مظہر قرار دیا، وہاں یہ نور روحِ خداوندی کے نام سے تھا، جیسے سورۂ حجر (۱۵: ۲۹) اور سورۂ صٓ (۳۸: ۷۲) میں ارشاد فرمایا گیا ہے:

فَاِذَاسَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْالَہٗ

 

۱۰۵

 

 

سٰجِدِیْنَ (۳۸: ۷۲) تو جب میں اس کو (مقامِ روح اور مقامِ عقل پر) درست کرلوں اور اس میں اپنی روح (کلمۂ کُنۡ) پھونک دوں تو تم سب کے سب اس کے سجدہ کے لئے گر پڑنا۔ اس تعلیمِ ربّانی میں لفظِ “سوّیتہٗ” کا خدائی فعل منازلِ روحانیّت سے بلند ہوکر نورِ عقل (عرش) پر پہنچا ہوا ہے، اس لئے کہ خدا کی روح جو کلمۂ باری میں ہے اسی مقام پر پھونک دی جاتی ہے۔

۳۔ سوال: قرآنِ حکیم میں دوقسم کی روشنی کا ذکر ہے، ایک کا نام ضیاء ہے اور دوسرے کو نور کہا گیا ہے (۱۰: ۰۵) آپ وضاحت کے ساتھ بتائیں کہ حضرت آدمؑ میں کونسی روشنی تھی؟ اور دو الگ الگ روشنیا ں کیوں ہیں؟

جواب: روشنی بحقیقت ایک ہی ہے، تاہم یہ کلمۂ باری کی نسبت سے ضیاء کہلاتی ہے، اور جب یہ عقل میں منتقل ہوجاتی ہے، تو اس کو نور کہا جاتا ہے، جیسے اس حقیقت کو سمجھانے کیلئے قرآنِ حکیم میں سورج کو ضیاء اور چاند کو نور کہا گیا ہے (۱۰: ۰۵) جس کی وجہ ظاہر ہے کہ سورج کی روشنی ذاتی ہے، مگر چاند کی روشنی ذاتی نہیں بلکہ سورج سے آرہی ہے، اور حضرت آدمؑ کے عالمِ شخصی میں ایک طرف کلمۂ باری کا آفتاب ضیاء پاشی کررہا تھا، اور دوسری طرف عقل کا ماہتاب نور بکھیر رہا تھا۔

۴۔ حضرت نوح علیہ السّلام کو بھی پروردگارِ عالم نے خدائی روح و نور کا مرتبہ عنایت کردیا تھا، چنانچہ آپؑ کی ذات میں نورانیت کی کشتی کا تذکرہ قرآنِ پاک میں اس طرح فرمایا گیا ہے: واَصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا (۱۱: ۳۷) اور کشتی ہمارے جوہر اور ہماری وحی سے بناؤ۔ عین کے بہت سے معنی ہیں، اور

 

۱۰۶

 

ان میں سے ایک معنی جوہر کے ہیں، پس اَعین کے معنی جواہر ہیں یعنی ذواتِ اشیاء جو مقامِ عقل کے حقائق ہیں اور وحی سے کلمۂ باری مراد ہے، اسی سلسلے کا دوسرا ارشاد یہ ہے: وَحَمَلْنٰہُ عَلٰی ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ۔ تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَا جَزَآئً لِّمَنْ کَانَ کُفِرَ (۵۴: ۱۳ تا ۱۴) اور ہم نے نوحؑ کو ایک کشتی پر جو تختوں اور کیلوں سے تیار کی گئی تھی سوار کیا۔ تختوں سے کلمۂ باری کے ظہورات اور کیلوں سے نورِ عقل کے مظاہرے مراد ہیں اور وہ کشتی حقائقِ اشیاء کے مطابق چلتی تھی تاکہ نافرمان لوگ جو اس سے باہر تھے طوفانِ جہالت سے ہلاک ہوجائیں۔

۵۔ اسی سلسلے میں یہ بھی ارشاد ہے: وَقِیْلَ یٰٓاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآئَ کِ وَیٰسَمَآئُ اَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآئُ وَقُضِیَ الْاَمْرُواسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْداً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ (۱۱: ۴۴) اور جب (خدا کی طرف سے) حکم دیا گیا کہ اے زمین اپنا پانی جذب کرلے اور اے آسمان (برسنے سے) تھم جا اور پانی گھٹ گیا اور امر پورا کیا گیا اور کشتی کوہِ جودی پر جا ٹھہری اور کہا گیا کہ ظالم لوگوں کو (خدا کی رحمت سے ) دوری ہے۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ شخصیت کی روحیں بحکمِ خدا بدن میں جذب ہوگئیں اور باہر کی ارواح واپس پرواز کرگئیں اور اسی طرح طوفانِ روحانیّت کا پانی گھٹ گیا اور کلمۂ امر کا ظہور ہوا، جس کے ساتھ ساتھ روحانیّت انتہا کو پہنچ گئی اور کشتی اب کوہِ عقل پر جاکر ہمیشہ کیلئے ٹھہر گئی، اب ایسی حالت میں حضرت نوحؑ اور مومنین اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کررہے تھے، جبکہ دوسرے لوگ اس سے بہت ہی دور تھے، اس سے معلوم ہوا کہ حضرت نوحؑ میں وہی نور تھا جو قبلاً حضرت آدمؑ میں تھا، ہر چند کہ

 

۱۰۷

 

دونوں عظیم المرتبت ہستیوں سے متعلق تذکرہ کے الفاظ الگ الگ ہیں، مگر حقیقت اور نور ایک ہی ہے۔

۶۔ وہ نورِ ہدایت جو روحِ خداوندی کے نام سے حضرت آدمؑ کی پیشانی میں داخل ہوا تھا، اور جس کو آیۂ اصطفاء (۰۳: ۳۳) کے مطابق اولادِ آدمؑ کے سلسلۂ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام میں ہمیشہ جاری و باقی رہنا تھا، وہ نسلاً بعد نسلٍ حضرت ابراہیم علیہ السّلام میں جلوہ افروز ہوا، جس طرح قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: جب ابراہیم کو ان کے ربّ نے چند کلمات میں آزمایا اور انھوں نے پورا کردیا تو خدا نے فرمایا میں تم کو لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں (حضرت ابراہیمؑ نے) عرض کی اور میری ذرّیت میں سے بھی، فرمایا (ہاں مگر) میرے اس عہد پر ظالموں میں سے کوئی شخص فائز نہیں ہوسکتا (۰۲: ۱۲۴) اس فرمانِ الٰہی میں ہمیں فی الوقت جس حقیقت کی تلاش ہے وہ “کلمات” سے متعلق ہے، کہ ان میں اسماء بھی تھے اور کلمات بھی، جن کو حضرت ابراہیمؑ نے یکے بعد دیگرے مکمل کرلیا، اور ان کلمات کے آخر میں لازماً کلمۂ باری بھی تھا، جو روشنی کا اصل سرچشمہ ہے، جہاں سفر کی منزلِ مقصود ہے، اور جس میں سب کچھ ہے۔

۷۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا مقامِ نورانیّت بھی وہی تھا، جس پر پہلے حضرت آدم، حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہم السّلام فائز ہو چکے تھے، جیسا کہ ارشادِ ربّانی کا ترجمہ ہے: اور جب موسیٰ ہمارا مقرر وقت پورا کرنے کے لئے (کوہِ طور) آئے اور ان کا پروردگار ان سے ہمکلام ہوا تو موسیٰ نے عرض کی کہ خدایا تو مجھے اپنا دیدار دے کہ میں تجھے دیکھوں خدا نے فرمایا تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے مگر ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھو (میں اس پرتجلّی ڈالتا ہوں) پس اگر پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رہے تو البتّہ مجھے دیکھ لوگے پھر جب ان کے پروردگار

 

۱۰۸

 

نے پہاڑ پرتجلّی ڈالی تو اس کو ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ بے ہوش ہوکر گر پڑے پھر جب ہوش میں آئے (یعنی تاویل آئی) تو کہنے لگے خدایا تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری طرف لوٹ آیا اور میں سب سے پہلے (ان حقائق کا) یقین کرتا ہوں (۰۷: ۱۴۳)۔

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو ایک اعتبار سے رؤیت ہوئی تھی، اور دوسرے اعتبار سے نہیں ہوئی تھی، اس میں اشارہ یہ تھا کہ ہمیشہ خداوندِ عالم کی عقلی و علمی تجلّیوں کا نظارہ کیا جائے، یہی سبب تھا کہ پروردگار نے نورِ علم و حکمت کی تجلّی کوہِ عقل پر ڈالی اور اس کے لاتعداد جواہر بنا دیئے، اور حضرت موسیٰؑ کو اس دائمی دیدار کی طرف متوجہ فرمایا، اور ہر گوہر کو ایسی جِلادی گئی کہ اگر علم و عرفان کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس میں جلوۂ طور کا عکس نظر آئے۔

عقلی اور علمی دیدار ایک قرآنی حقیقت ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ، اس آیۂ پُرحکمت میں ذرا غور کرنے سے آپ حضرات کو بیحد خوشی ہوگی، اور وہ ارشادِ خداوندی یہ ہے: وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (۲: ۱۱۵) مشرق و مغرب دونوں خدا ہی کے ہیں پس تم جہاں کہیں رُخ کرلو وہیں خدا کا چہرہ موجود ہے بیشک خدا بڑا کشائش والا خوب دانا ہے۔ اس کی تاویل یوں ہے کہ دنیائے قرآن سب کی سب خدا ہی کی ہے، لہٰذا تم جس آیۂ کریمہ کے باطن کو چاہو دیکھ لو، اسی مقام پر چہرۂ خدا کا ایک عقلی جلوہ اور علمی دیدار ہوگا، کیونکہ خدائے حکیم نے اپنی کتابِ عزیز کو علمی معجزات سے آراستہ فرمایا ہے، یقیناً وہ وسیع علم کا مالک ہے۔

۸۔ یہ بات حقائق میں سے ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام میں وہی خدائی روح

 

۱۰۹

 

جلوہ فگن تھی، جو پہلے پہل حضرت آدم علیہ السّلام میں پھونک دی گئی تھی، جس کا ظہور کلمۂ باری سے ہوتا ہے، چنانچہ آپ اس قرآنی تعلیم سے بخوبی اندازہ کرسکیں گے کہ جب کامل انسانوں میں روح القدس آتی ہے، ان سے کیسے کیسے معجزات ظہور پذیر ہوسکتے ہیں، ملاحظہ ہو: جب خدا فرمائے گا کہ اے مریم کے بیٹے عیسیٰ ہم نے جو احسانات تم پر اور تمہاری ماں پر کئے انھیں یاد کرو جب ہم نے روح القدس سے تمہاری تائید کی کہ تم مہد (گہوارہ) میں اور اُدھیڑ ہوکر لوگوں سے باتیں کرنے لگے اور جب ہم نے تمھیں الکتاب اور حکمت اور توریت و انجیل سکھائیں، اور جب تم میرے اذن سے مٹی سے پرندے کی مورت بناتے پھر اس میں پھونک دیتے تو وہ میرے اذن سے پرندہ بن جاتا تھا، اور تم میرے اذن سے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کردیتے تھے اور جب تم میرے اذن سے مردوں کو (زندہ کرکے قبروں سے) نکال کھڑا کردیتے تھے (۰۵: ۱۱۰)۔

حضرت عیسیٰؑ کے مذکورہ معجزات کی تاویل اس طرح سے ہے کہ جن حدودِ دین کے عالمِ شخصی میں آپؑ کا نورانی جنم ہوا تھا، ان کے ہاں آپؑ پیدا ہوتے ہی بولنے لگے تھے، یہ سلسلہ جاری تھا، پھر حضرت عیسیٰؑ اُدھیڑ ہو کر ان حضرات کے باطن میں روحانی معجزات دکھانے لگے، الکتاب وہ زندہ نور ہے، جس کی آیات قلم، لوح، اور رقیم ہیں، اسی میں حکمتِ بالغہ اور جملہ آسمانی کتابیں یکجا ہیں۔

حضرتِ عیسیٰؑ حدودِ دین کواسمِ اعظم عنایت کرتے تھے، اسمِ اعظم کا ایک قرآنی نام اذن اللہ ہے، جس کی بدولت مقامِ عزرائیلؑ پر شخصیّت سے مورت اور سانچے کا کام لے کر اس میں روحِ قدسی ڈھالی جاتی تھی، جس سے اس شخص جیسا ایک فرشتہ پیدا ہوکر پرواز کرجاتا تھا۔

مادرزاد اندھے کو بصارت دینا یہ ہے کہ کسی گم گشتہ انسان کو راہِ راست

 

۱۱۰

 

پر لایا جاتا تھا، صرف یہی نہیں بلکہ اسے خدا کے اذن سے چشمِ باطن بھی عطا ہوجاتی تھی، کوڑھی یعنی وہ شخص جس میں کوڑھ کی بیماری ہو، اس سے ایسا آدمی مراد ہے، جو روحانیّت کی ابتدائی روشنی میں عرصۂ دراز سے پڑا ہو، اور جس کو احساس ہی نہ ہوکہ اصل روحانیّت کی منزلیں تو اس سے آگے ہیں، اور خاص کر وہ شخص، جس نے یہ روشنی ہادیٔ برحق کی ہدایت کے بغیر دیکھی ہو۱؎ ، ایسے لوگوں کو حضرت عیسٰیؑ منازلِ روحانیّت کی طرف آگے بڑھا دیتے تھے، اور یہ ہوا کوڑھی کو اچھا کردینا، اور مردوں کو زندہ کرکے قبروں سے نکالنا یہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ پر جب انفرادی قیامت گزر رہی تھی، تو اس میں شخصیّت کی زندہ قبرستانوں سے ذرّاتِ روح زندہ ہوکر آپؑ کی طرف آتے تھے۔

۹۔ سرورِ انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے مِن اللہ نور (۰۵: ۱۵) اور سراجِ منیر (۳۳: ۴۶) ہونے میں کسی فردِ مسلم کو کیا شک ہوسکتا ہے، اور اہلِ دانش کے نزدیک یہ حقیقت اظہر من الشّمس ہے کہ حضورِ انورؐ جمیع انبیاء و مرسلین میں اشرف و افضل تھے، اور اس فضیلت و مرتبت کی کئی وجوہ ہیں، تاہم صراطِ مستقیم (راہِ روحانیّت) اور منزلِ مقصود سب پیغمبروں اور ساری اُمتوں کے لئے یکسان ہے، جیسا کہ اس فرمانِ الٰہی سے یہ قانون ظاہر ہوجاتا ہے: اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّبِیِّنَ مِنْ بَعْدِہٖ (۰۴: ۱۶۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ اگر کوئی شخص ہادیٔ برحق کے لئے اقرار اور اُس کی رہنمائی کے بغیر کوئی سخت ریاضت کرتا ہے،جسے انگریزی میں MYSTIC EXERCISE کہتے ہیں، تو بے شک وہ روحِ حیوانی کی تحلیل کی روشنی کو دیکھ سکتا ہے، مگر یہ وہ مقام ہے جہاں گمراہی کی انتہا ہو جاتی ہے کہ اکثر لوگ اس کو خدا کا نور سمجھ بیٹھتے ہیں۔

 

۱۱۱

 

(اے رسولؐ) ہم نے تمہارے پاس (بھی) تو اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوحؑ اور ان کے بعد والے پیغمبروں پر بھیجی تھی۔ پس معلوم ہوا کہ حضراتِ انبیاء علیہم السّلام کے لئے طریقِ وحی اور اس کے مراحل ایک جیسے ہوا کرتے ہیں، آپ اس فرمانِ خداوندی میں بھی غور کرسکتے ہیں:۔

وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا۔ اور کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں کہ خدا اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ سے۔ وحی کے خاص معنی اشارہ کے ہیں، چنانچہ اس اشارہ کی تین بنیادی قسمیں ہیں، اوّل رؤیت (دیدار) جو سب سے بڑا اشارہ ہے، دوم قولی اشارہ، جیسے کلمۂ باری، جس میں لاتعداد معنوی اشارات پوشیدہ ہیں، اور سوم عملی اشارہ، جس طرح مظاہرۂ قلم ہے، جس میں بیشمار مثالیں موجود ہیں، اَوْمِنْ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ۔ یا پردہ کے پیچھے سے۔ پردہ کا مطلب یہ ہے کہ اس دوسرے درجہ کے کلام میں رؤیت نہیں صرف نورِ خدا کی آواز ہے۔ اَوْیُرْسِلَ رَسُوْلاً فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَایَشَآئُ ط اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ (۴۲: ۵۱) یا کوئی فرشتہ بھیج دے پس وہ فرشتہ خدا کے اذن و منشاء کے مطابق وحی کرتا ہے، بیشک وہ عالیشان حکمت والا ہے۔ یہ کلام کرنے کا تیسرا درجہ ہے، اور یہاں یہ بات یاد رہے کہ لفظِ وحی کا اطلاق تنزیل کے تمام مدارج پر ہوتا ہے، کیونکہ ہر ہر آیت میں معنوی اور تاویلی اشارہ موجود ہوتا ہے، اگرچہ وحی کا اطلاق مقامِ اعلیٰ پر انتہائی خصوصیت کے ساتھ ہوا ہے۔

وحی اور کلامِ خداوندی کا مذکورہ قانون جملہ انبیاء علیہم السّلام کے لئے مشترک تھا، لہٰذا اسی کے مطابق آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی طرف امرِ باری تعالیٰ (کلمۂ

 

۱۱۲

 

کُنۡ) سے روحِ قرآن وحی کی گئی، حقیقت میں یہ وہی روح ہے، جو شروع شروع میں حضرت آدم علیہ السّلام میں پھونک دی گئی تھی، اور آپ قرآنِ حکیم (۴۲: ۵۲) میں دیکھ سکتے ہیں کہ یہی پاک روح زندہ روشنی (نور) بھی ہے، یہ سوچنے کی بات ہے کہ قرآنِ کریم کی نورانیّت ایک زندہ شخصیّت سے کیوں وابستہ رہی، اس میں عظیم حکمت پوشیدہ ہے، اگر اللہ چاہتا تو قرآنِ پاک کو بصورتِ روح و روحانیّت آنحضرتؐ کے قلبِ مبارک پر نازل نہ فرماتا (۲۶: ۱۹۴) بلکہ یہ روح کے بغیر ایک ظاہری بنی بنائی کتاب کی شکل میں آپؐ  کے دستِ مبارک پر دیا جاتا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا، بلکہ قرآن ایک ایسے نور کے ساتھ نازل ہوا کہ وہ اپنی قدسی زبان سے بولتا تھا، پھر قرآنِ عزیز تحریری صورت میں لایا گیا، اور نور پیغمبرِؐ خدا کی پاک ذات میں قائم رہا، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ آیا رحمتِ عالمؐ کی جسمانی رحلت کے ساتھ ساتھ قرآن کے نور کو بھی بجھ جانا چاہئے؟ نہیں نہیں، ہرگز نہیں، یہ بات خدا کے منشاء کے خلاف ہے، پس حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے نورِ قرآن کو ہمیشہ کے لئے سلسلۂ أئمّۂ آلِ محمدؐ میں منتقل کردیا، تاکہ اس کی عزیز کتاب (قرآن) کے ساتھ ساتھ نور بھی اس دنیا میں جاری و باقی رہے، اور دینِ فطرت کا اصول یہی ہے۔

۱۰۔ حضورِ اکرمؐ کی روحانی اور عرفانی مرتبت کی ایک مثال پیش کرنے کیلئے سورۂ نجم (۵۳) کی کچھ حکمتیں بیان کی جاتی ہیں، یہاں سب سے پہلے ظہورِ حضرتِ مبدِع کی تشبیہہ ستارے کے گرنے سے دی گئی ہے، اور اللہ نے اسی عظیم الشّان معجزے کی قسم کھائی ہے، کہ مبدِع بطریقِ ابداع آنحضرتؐ کے سامنے جلوہ نما ہوگیا، اور “مَاضَلَّ صَاحِبُکُمْ”  میں جس طرح رحمتِ عالمؐ کے عروج و ارتقاء

 

۱۱۳

 

کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، اس میں مذکورہ مقام تک آپؐ کی ہدایت و رہنمائی اور مومنین کی رسائی کا اشارہ بھی ہے، کیونکہ انبعاث مومنین کی منزلِ آخرین ہے۔

“عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی” میں کسی زبردست طاقت سے پیشتر خدا کے علمِ قاہرہ کا ذکر ہے، اور ذُوْمِرَّۃٍ کا مطلب صاحبِ مرات ہے، (یعنی کسی کام کا بار بار کرنے والا) فَاسْتَوٰی میں فعلِ ابداع کا ذکر ہے، یعنی مبدِع وہ ہے جو ابداع کا کام بار بار کرسکتا ہے، وہ نورانیّت میں ظاہر ہوا، اس کے بعد نزدیک ہوگیا، اور انائے عُلوی انائے سفلی میں اُتر گئی، اور اس کا نظریہ یہ ہوا کہ یہ دونوں دوکمان کی طرح بھی ہیں اور دائرے کی طرح بھی، جیسے اس مثال سے یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے:۔

اس واقعہ میں بہت سے دُور رس اشارے تھے، پیغمبرِ اسلامؐ کو یہی رؤیّت پھر بچشمِ باطن دوسری دفعہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ہوئی، جس کے پاس جنت الماوٰی ہے، جبکہ وہ درختِ سدرہ بار بار ایک خزانے کو دکھا رہا تھا اور چھپا رہا تھا، یہ جلوہ ایسا نہ تھا کہ اس کو چھوڑ کے نظر کسی اور طرف مائل ہوجائے، اور نہ حد سے آگے بڑھنے کے لئے کوئی حد تھی، آپؐ نے اپنے پروردگار کے انتہائی عظیم معجزات کا مشاہدہ کیا (۵۳: ۰۱ تا ۱۸)۔

۱۱۔ قرآنِ حکیم میں سب سے روشن اور درخشان حقیقتیں نور سے متعلق ہیں،

 

۱۱۴

 

اور سب سے زیادہ قابلِ فہم مثالیں نور کے بارے میں ہیں، جس کا سبب خود نور کا وجود اور اس کی ا ہمیّت و افادیت ہے، اس کی وضاحت یہ ہے کہ جس طرح آفتابِ عالم تاب کائنات کی تمام مادّی فیوضات کا منبع ہے، اسی طرح نور عالمِ دین کی جملہ برکتوں کا سرچشمہ ہے، پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ نور کبھی موجود ہو اور کبھی نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ کائنات کی بلندی و پستی کا نور ہے، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اس کے نور کی مثل ایک طاق کی طرح ہے جس میں ایک چراغ روشن ہو، ہمیں اس پُرحکمت ربّانی تعلیم کے سلسلے میں طاق اور چراغ کے اشارات کو سمجھے بغیر آگے نہیں چلنا چاہئے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس مثال میں نورِ خدا کی اوّلین نسبت طاق کو حاصل ہے، پھر اس طاق میں ہونے کی وجہ سے چراغ کو بھی یہ نسبت مل جاتی ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ  کے خانۂ باطن کا طاق سب سے بلند ترین درجہ ہے جو خدا کے تصوّر اور بادشاہی کی طرح قدیم ہے، اور اس درجے پر بحکمِ خدا انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام یکے بعد دیگرے فائز ہوتے آئے ہیں، جیسے آنحضرتؐ کے وجودِ مبارک سے اس حقیقت کا ایک درخشان ثبوت مل جاتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ آنحضرتؐ اپنے وقت میں ایک روشن چراغ (۳۳: ۴۶) تھے، تو کیا کوئی دانشمند یہ کہہ سکتا ہے کہ اس وقت خانۂ خدا کے طاق میں جوچراغ نور بکھیر رہا تھا، وہ چراغِ مصطفوی سے الگ تھا؟ ہر گز نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبرِ خداؐ جس طرح سارے جہانوں کے لئے رحمت تھے (۲۱: ۱۰۷) اسی طرح بمرتبۂ نورِ خدا آپ علیہ السّلام آسمانوں اور زمین کی روشنی تھے، کیونکہ جہاں اؐپؐ کے وسیلے سے خدائی  رحمت سب کو پہنچتی ہے، وہاں آپؐ کے توسط سے تمام عوالم کو نور بھی پہنچ سکتا ہے، اس حقیقت کے برعکس قرآنِ پاک میں کوئی ایسا تصوّر

 

۱۱۵

 

نہیں کہ جس سے ہم ذاتِ خدا کو نور مانیں، اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ یہ آیت مثال ہے، ممثول نہیں، اور ممثول (حقیقت یا تاویل) یہی ہے جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ اس دنیا میں جو کامل انسان خدا کی جانب سے ہادیٔ برحق، خلیفۂ خدا یا خلیفۂ رسولؐ، مظہرِ خدا، قرآنِ ناطق، وارثِ کتاب اور زندہ اسمِ اعظم ہے، اسی کی عقل کو اللہ تعالیٰ نے چراغِ ہدایت بنا کر طاقِ عزّت و برتری میں رکھا ہے، اور خدا کا نور قرار دیا ہے۔

آئیے اب ہم آیۂ نور کے پورے الفاظ میں دیکھتے ہیں، اس حکمت آگین ارشاد کا ترجمہ یہ ہے: خدا آسمانوں اور زمین کا نور (روشنی) ہے اس کے نور کی مثل ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے جس میں ایک روشن چراغ ہو ( اور) چراغ ایک شیشے کی قندیل میں ہو (اور) قندیل گویا موتی کا ایک ستارہ ہے (وہ چراغ) زیتون کے ایسے مبارک درخت (کے تیل) سے روشن کیا جائے جو نہ مشرق کی طرف ہواور نہ مغرب کی طرف، اس کا تیل ایسا ہے کہ اگرچہ آگ اسے چھوئے بھی نہیں، تاہم وہ خود بخود روشن ہو جاتا ہے، یہ نور پر نور ہے، خدا اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور خدا لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور خدا تو ہر چیز کو جانتا ہے (۲۴: ۳۵)۔

۱۲۔ سورۂ نمل میں ارشادِ خداوندی ہے: فَلَمَّا جَآئَ ھَا نُوْدِیَ اَنْ بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَھَاط سُبْحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (۲۷: ۰۸) غرض جب موسیٰ اس آگ کے پاس آئے تو ان کو ندا کی گئی کہ برکت دیا گیا ہے وہ جو آگ میں ہے اور جو اس کے گرد ہے، نیز یہ ترجمہ بھی درست ہے: برکت دیئے گئے ہیں وہ جو آگ میں ہیں اور جو اس کے گرد ہیں۔ کیونکہ “مَنْ” واحد اور جمع

 

۱۱۶

 

دونوں کے لئے آتا ہے، یہ کوئی مادّی قسم کی آگ نہیں تھی، بلکہ نور تھا، آپ اس سلسلے میں سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۰ تا ۱۲) اور سورۂ قصص (۲۸: ۲۹ تا ۳۰) میں بھی دیکھیں، لیکن پھر وہی سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ آیا یہ نور خود سبحان تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں، کیونکہ اس کو برکت دی گئی تھی، اور خدا وہ ہے جو برکت دیتا ہے، مگر وہ برکت لینے سے پاک و بے نیاز ہے، پس وہ نور مظہرِ خدا تھا، جس کی نمائندگی کے پیشِ نظر خدا ہر وقت کہہ سکتا ہے کہ “یہ نور میں ہوں” اور آیاتِ نور جو قرآنی خزانوں کی کلیدیں ہیں، ان کا سب سے بڑا راز یہی ہے۔

۱۳۔ سورۂ انعام (۰۶: ۱۲۲) میں فرمایا گیا ہے: کیا جو شخص پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور بنایا جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا ہے اس شخص کا سا ہوسکتا ہے جو اندھیروں میں پھنسا ہوا ہے کہ وہاں سے نکل ہی نہیں سکتا (۰۶: ۱۲۲) اس آیۂ کریمہ کی حکمت کو سمجھنا اس وقت ممکن ہے جبکہ کوئی ہوشمند موت اور زندگی کو سمجھ سکتا ہو، چنانچہ یہ عام ظاہری زندگی ایک طرح کی موت ہے، لہٰذا مومن کو روحانی جنم لینا چاہئے، تاکہ وہ عالمِ شخصی میں آنکھ کھولے اور روشنی کو دیکھے، پھر اسے جیتے جی ذائقۃ الموت کا تجربہ کرنا ہوگا، اور آخر کار اس کا انبعاث بھی ہوگیا تو تب وہ بحقیقت زندہ کہلائے گا، اسی طرح قرآنِ پاک میں دوموت اور دو حیات کا ذکر ہے (۴۰: ۱۱)۔

۱۴۔ خدا، رسولؐ اور امامؑ کے بعد نور کا رشتہ مومنین سے جڑا ہوا ہے، مگر یہ راز امامؑ کی معرفت میں پوشیدہ ہے کیونکہ امامِ زمانؑ تمام علمی اور عرفانی جواہر کا خزانہ ہے، انہی معنوں میں وہ نور کا بھی خزانہ ہے، جب مومن کو اس بات کا اقرار ہے تو سوچنا چاہئے کہ کس طرح اس نور کا مشاہدہ ہوسکتا ہے، اور کس طریقے سے روشنی حاصل ہوسکتی ہے، اس کے لئے امامِ عالی مقامؑ کے مقدّس ارشادات موجود ہیں، اور ان

 

۱۱۷

 

سے ہر قسم کی ہدایت ملتی رہتی ہے۔

اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا نور کو مومن کے پاس آنا چاہئے یا مومن کو نور کے حضور جانا ہے؟ آیا خانۂ خدا حج کرانے کی غرض سے کسی دیندار کے پاس آسکتا ہے؟ کیا امام ؑگھر گھر جا کر سب کو دیدار دے سکتا ہے؟ یاد رہے کہ ہر ناممکن چیز روحانیّت میں ممکن ہوجاتی ہے، پس نور ہی ہے جس سے تمام اسرارِ معرفت پر روشنی پڑتی ہے، اور نورہی ازل و ابد کے بھیدوں تک چلنے چلانے کے معنی میں ہے، چنانچہ قرآن میں جہاں نور کا ذکر آتا ہے، وہاں بہت سی حکمتیں جمع ہوجاتی ہیں، جیسے قرآن مقدّس کا ارشاد ہے: اور جو لوگ خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں (جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے) یہی لوگ اپنے پروردگار کے نزدیک صدیقوں اور شہیدوں کے درجے میں ہیں ان کے لئے ان کا اپنا اجر اور نور ہے (۵۷: ۱۹) اس پُرحکمت سماوی تعلیم میں اللہ اور اس کے پیغمبروں پر ظاہراً و باطناً کامل ایمان لانے اور معرفت کی روشنی میں تصدیق کرنے کا ذکر ہے، نیز شہید و شہادت کے معنی میں دو دفعہ راہِ خدا میں قربان ہوجانے اور دو دفعہ زندہ ہو جانے کے علاوہ مشاہدات کا تذکرہ بھی ہے، اور گواہی کا اشارہ بھی، اور اجر کے بعد یعنی سب سے آخر میں لفظِ نور مذکور ہے، اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ نور کا درجۂ کمال یہ سب کچھ کرنے کے بعد آتا ہے، اور پھر اسی نور کی روشنی میں یہ سب سے بڑا بھید کھل جاتا ہے کہ نورِ خدا، نورِ پیغمبرؐ، نورِ امامؑ اور نورِ مومنین کے درمیان رشتۂ ازل و ابد کیا ہے، اور”نُورھم” میں یہ اشارہ موجود ہے کہ اس اعلیٰ مقام پر مومنین کو بطورِ انائے عُلوی امام مل جاتا ہے اور امامِ اقدس و اطہرؑ کے نور میں سب کچھ حاصل ہوجاتا ہے۔

۱۵۔ انفرادی قیامت (یعنی مقامِ روحانیّت) میں مومنین و مومنات کا نور

 

۱۱۸

 

ان کے آگے اور داہنی طرف دوڑتا ہے (۵۷: ۱۲) نور کو کیوں دوڑنا چاہئے؟ کیونکہ یہ عملی مثال ہے اور اس میں بہت سے ادوار کا احاطہ کرنا ہے، یہ عقلی، علمی اور روحانی سفر ہے، اور ان کو دیکھ کر منافق مرد اور منافق عورتیں کہیں گے کہ ذرا ٹھہرو ہم بھی تمہارے نور سے چنگاری لیں (اور اپنے اندر اسے ایک کامل نور بنائیں) تو کہا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے ( سلسلۂ ماضی میں) لوٹ جاؤ اور (وہیں) ایک نور کی تلاش کرو (۵۷: ۱۳) اگر یہ واقعہ جسمانی طور پر سب کے مرجانے کے بعد پیش آتا تو قرآنِ حکیم کی ترجمانی میں نہ فرمایا جاتا کہ تم دنیا میں لوٹ جاؤ، کیونکہ قرآن کے ظاہر میں اس کی نفی کی گئی ہے، بلکہ یہ ذاتی قیامت ہے، جس میں اجتماعی قیامت کی نمائندگی ہوتی ہے، یعنی یہ سب کچھ عالمِ مثال میں پیش آتا ہے، اور وہاں یہ کہنا درست ہے کہ نور جس کو ملتا ہے، اس کو زمانۂ آدمؑ سے ملتا ہے، اور زمانۂ خاتَمِ انبیاؐ سے ملتا ہے، پس جاننا چاہئے کہ آیاتِ نور میں سے ہر ایک آیت اپنے خاص مطلب کا ایک موضوع ہے، اور اس نوعیت کی باقی آیتیں اس میں شامل ہوجاتی ہیں، مثال کے طور پر اگر ہم “نورِ مومنین و مومنات” کو لیں، جیسا کہ مذکورہ آیت میں یہی موضوع ہے، تو تمام آیاتِ نور اپنی اپنی حکمتوں کے مطابق اس پر روشنی ڈالنے لگتی ہیں، اور اسی طرح قرآن میں ہر چیز کا بیان فرمایا گیا ہے۔

۱۶۔ سورۂ حدید (۵۷: ۰۹؛۵۷: ۱۲ تا ۱۳؛۵۷: ۱۹؛۵۷: ۲۸) میں جس شانِ رحمت سے نور کا ذکر فرمایا گیا ہے اس سے ہر مومن کو پختہ یقین ہوسکتا ہے کہ یہ مقدّس نور امامِ زمان صلوات اللہ علیہ ہے، جو مومنین و مومنات کی روحِ عُلوی ہے، جیسے مذکورہ سورہ کے علاوہ سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) میں بھی واضح طور پر نور اور اہلِ ایمان کا ازلی و ابدی رشتہ بطریقِ حکمت بیان فرمایا گیا ہے، خدائے پاک کا وہ فرمان ملاحظہ ہو:

 

۱۱۹

 

یَوْمَ لَایُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْامَعَہ‘ نُوْرُ ھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَا اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (۶۶: ۰۸) اس دن جب خدا رسول کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں رُسوا نہیں کرے گا (بلکہ) ان کا نور ان کے آگے اور داہنی طرف چل رہا ہوگا اور یہ لوگ یہ دعا کرتے ہوں گے پروردگارا ہمارے لئے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش دے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے (۶۶: ۰۸)۔

اس نورانی تعلیم میں رسولِ پاکؐ أئمّۂ طاہرینؑ اور مومنینِ بایقین کا ایک ساتھ ذکر ہے، چنانچہ زمانۂ نبوّت سے اس طرف عالمِ شخصی کی ہر انفرادی قیامت میں یہ واقعہ ہوتے آیا ہے، کیونکہ انفرادی اور اجتماعی اعتبار سے نور کا اتمام یعنی خدا کا اپنے نور کو پورا کردینا اسی دنیا میں ہے (۰۹: ۳۲؛۶۱: ۰۸) اور نور علم و عمل کے ظاہری و باطنی کارناموں سے درجۂ کمال پر پہنچ جاتا ہے۔

آیا یہ ممکن ہے کہ اللہ کا نور دوسرا ہو اور پیغمبرؐ کا نور اس سے الگ ہو، یہ بات محال ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نور کی تاویل رسولِ اکرمؐ اور امامِ برحقؑ کا نور ہے اور یہی نور مومنین کا بھی ہے، بلکہ کچھ آگے چل کر دیکھا جائے تو ساری انسانیّت کے لئے خدا کی رحمت میں جگہ ہے، جیسے سورۂ رحمان (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) میں اس قانونِ فنا و رحمت کا ذکر ہے کہ سب لوگ چہرۂ خدا میں فنا ہوجانے والے ہیں، مگر یاد رہے کہ یہ فنا دوطرح سے ہے، ایک شعوری طور پر یعنی معرفت کی روشنی میں، اور دوسری غیر شعوری حالت میں۔

 

۱۲۰

 

نور کی ایک خاص مثال آگ ہے، چنانچہ جن چیزوں کو آگ فنا کر ڈالتی ہے، وہ دوقسم کی ہوتی ہیں، ایک قسم وہ ہے جس میں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے جلنے سے روشنی، حرارت، طاقت، خوشبو وغیرہ بنتی ہے، اور دوسری قسم کی چیزیں وہ ہیں، جو جل کر فنا تو ہوجاتی ہیں، مگر ان سے کوئی مفید کام نہیں بنتا، اس مثال میں بہت بڑی کمی یہ ہے کہ آگ اور اس میں جلنے والی چیزیں محدود وقت میں ختم ہوجاتی ہیں، لیکن نور اور اس میں فنا ہوجانے والے لوگ شعوری اور غیر شعوری طور پر ہمیشہ باقی رہتے ہیں، خداوندِ عالم سب کو اپنے نورِ پاک کی شناخت کے لئے توفیق عنایت فرمائے! اور قانونِ شفاعت تمام انسانوں کے لئے ازبس مفید ثابت ہو!

 

خاکپائے جماعت

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی۔ لندن

لندن، ۲۹؍جولائی؁۱۹۸۴ء

 

۱۲۱

 

ایک عظیم علمی تحفہ

 

میں خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کی جانب سے یہ تحفۂ علمی بصد خلوص و خوشی جناب پریذیڈنٹ امین کوٹاڈیا اور ان کی بیگم محترمہ سیکریٹری مریم کوٹاڈیا کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، جن کی کریمانہ سرپرستی میں ادارۂ عارف کی شاخِ لندن سرسبز و شاداب ہے، چراغِ امامت کے ان دونوں جان نثار پروانوں کی علم دوستی اور گوناگون خدمات کی جتنی بھی تعریف و توصیف کی جائے کم ہے، لہٰذا ان کے بے مثال قربانیوں کے حقیقی اجر و صلہ کے لئے ہم سب علمی لشکر دعا کریں گے کہ کائناتی خزانوں کا مالک انہیں دین و دنیا کی صلاح و فلاح عنایت کرے! اور تاجِ معرفت سے سرفراز فرمائے! آمین یا ربّ العالمین!!

 

۱۔ سورۂ نباء (۷۸: ۳۸) میں خدائے پاک کا ارشاد ہے: جس دن روح اور فرشتے قطار باندھ کر کھڑے ہوں گے (اس دن) کوئی بات نہ کرسکے گا مگر جسے خدا اجازت دے (اور جس کو اجازت ہو) وہ درست بات کرے گا (۷۸: ۳۸) تاویل: اس آیۂ مقدسہ میں مقامِ عقل کا ذکر ہے جو مقامِ وحدت ہے، جہاں قطار باندھنے سے مراد ایک ہوجانا ہے، یعنی یہ پیکرِ نورانی کا ظہور ہے، جس میں سب جمع ہوجاتے ہیں، سو اسی پاک و پاکیزہ صورت میں جو بھی ہو صرف ایک بولے گا،

 

۱۲۲

 

اور اس کی بات حقیقت ہوگی۔

۲۔ سورۂ فجر (۸۹: ۲۲) میں فرمایا گیا ہے: اور تمہارا پروردگار اور فرشتے قطار باندھ کر آجائیں گے جیسا کہ قطار باندھنا چاہئے (۸۹: ۲۲) تاویل: ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا جسم کا فعل ہے، مگر ذاتِ سبحان جسم سے پاک و برتر ہے، لہٰذا یہ آیت متشابہات میں سے ہے، جس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ قائمِ قیامت اور عظیم فرشتے قطار کی قطار عالمِ دین میں آئیں گے، اور ان کا قطار باندھنا یہ ہے کہ سب کے لئے صرف ایک ہی مشترکہ شخصیّت ہوگی۔

۳۔ قرآنِ حکیم میں جہاں کہیں بھی “صف” کا ذکر ہو، تو اس کا مطلب مقامِ اعلیٰ پر صرف ایک شخص ہوگا، جیسے ارشاد ہے: خدا تو ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف باندھ کے لڑتے ہیں کہ گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں (۶۱: ۰۴) یعنی مومنین شخصِ واحد میں ایک ہیں اور وہ وحدت و مضبوطی کی یہ صفت رکھتے ہیں، اور روحانی جہاد کرتے ہیں۔

۴۔ مذکورہ بیان قرآنی حکمت کے مطابق قطار باندھنے کے بارے میں تھا، اب یہ بھی دیکھ لیں کہ خداوندِ تعالیٰ کا شمار کرنا کس طرح ہوتا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: لَقَدْاَحْصٰھُمْ وَعَدَّھُمْ عَدّاًط (۱۹: ۹۴) اس نے یقیناً ان سب کا احاطہ کرلیا ہے اور ان کو گن لیا ہے جیسا کہ گننا چاہئے (۱۹: ۹۴) یعنی اس نے ان کو قانونِ وحدت کے مطابق گھیر کر اور گن کر ایک کرلیا ہے۔

۵۔ سورۂ جِنّ کے آخر (۷۲: ۲۸) میں ارشاد ہوا ہے: وَاَحَاطَ بمَالَدَیْھِمْ وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْئٍ عَدَدًا (۷۲: ۲۸) اور اس نے پیغمبروں کے علم کو احاطہ کرلیا ہے اور تمام چیزوں کو عددِ (واحد)

 

۱۲۳

 

میں گھیر لیا ہے، یعنی رسولوں کی روحانیّت بھی جملہ اشیاء کے ساتھ امامِ مبینؑ میں گھیری ہوئی ہے، اور عددِ واحد سے امامِ زمان صلوات اللہ کی ذاتِ اقدس مراد ہے، یاد رہے کہ خدا جب چیزوں کا احاطہ کرتا ہے تو ان کی مرکزیت ہوجاتی ہے، اور جس وقت ان کو گن لیتا ہے تو ان کی وحدت بن جاتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے قول و فعل کے معنی انتہا کی طرف جاتے ہیں۔

۶۔ سورۂ انعام (۰۶: ۱۱۵) وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقاً وَّعَدْلاً ط لَامُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ (۰۶: ۱۱۵) تیرے پروردگار کا کلمہ (یعنی کلمۂ باری) صدق و عدل میں پورا ہے، کوئی اس کے کلمات کا بدلنے والا نہیں۔ یعنی صدق اور عدل کا سرچشمہ کلمۂ باری ہے، اللہ تعالیٰ کے کلماتِ تامّات بے بدل اور اٹل ہیں، وہ علم و حکمت کے خزانے ہیں۔

۷۔ قرآنِ حکیم میں الٓمّٓ (ال م) کے حروفِ مقطّعات چھ سورتوں (۰۲: ۰۱؛ ۰۳: ۰۱؛ ۲۹: ۰۱؛ ۳۰: ۰۱؛ ۳۱: ۰۱؛ ۳۲: ۰۱) کے آغاز میں آئے ہیں، اورالٓرٓ (ا ل ر) کے حروف پانچ سورتوں (۱۰: ۰۱؛ ۱۱: ۰۱؛ ۱۲: ۰۱؛ ۱۴: ۰۱؛ ۱۵: ۰۱) کے شروع میں مذکورہیں، ان دونوں شکلوں کی ایک خاص تاویل یہ ہے:۔

الف: قَسم ہے اوّل (یعنی قلم) کی، لام: اور قَسم ہے لوح کی، میم/ را: اور قَسم ہے مرقوم / رقیم کی، یعنی عقلِ کلّی، نفسِ کلّی، اور کلمۂ کُنۡ، جو آیاتِ کبریٰ بھی ہیں اور الکتاب بھی۔

۸۔ پیکرِ نور میں بہشت کے سارے باغ یکجا کئے گئے ہیں، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَجَنّٰتٍ اَلْفَافاً (۷۸: ۱۶) اور گنجان باغات (پیدا کردیں) نیز فرمانِ خدا وندی ہے: وَحَدَآئِقَ غُلْباً (۸۰: ۳۰) اور گھنے گھنے باغ۔ کیونکہ تمام عقلی اور عرفانی میوے اسی مقام پر یکجا حاصل ہوجاتے ہیں، جیسے سورۂ

 

۱۲۴

 

دہر (۷۶: ۱۴) میں فرمایا گیا ہے: اور بہشت کے درختوں کے سائے ان کے نزدیک ہونگے اور ان کے میوے ہر طرح سے تابعِ فرمان ہونگے (۷۶: ۱۴) یعنی اہلِ بہشت کا کسی نعمت کو چاہنا حکم کی طرح ہوگا، چنانچہ وہ جب کسی چیز کو چاہیں گے تو وہ چشمِ زدن میں ظاہر ہوجائے گی۔

۹۔ اس آیۂ کریمہ میں بحقیقت نفسانی موت کا ذکر ہے، جس کا تجربہ جیتے جی ہو جانا چاہئے ، وہ ارشاد یہ ہے: کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ (۲۹: ۵۷) ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے پھر تم ہماری طرف لوٹائے جاؤگے۔ اس سماوی حکمت کی تعلیم میں خصوصاً اس معجزاتی موت کا تذکرہ ہے جو روحانی جنم کے کچھ عرصہ بعد آسکتی ہے، جو عجائب و غرائب سے مملو ہے، جس کا نتیجہ خدا سے رجوع ہے۔

۱۰۔ اللہ تعالیٰ کا حکمت آگین ارشاد ہے: سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰ فَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیِّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ ط (۴۱: ۵۳) ہم عنقریب ہی اپنی نشانیاں (معجزات) اطرافِ (عالم) میں اور خود ان میں بھی دکھا دیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ وہی یقیناً حق ہے۔ اس آسمانی پیش گوئی میں جو زمانۂ نبوّت میں فرمائی گئی تھی پہلے تو موجودہ سائنسی عجائب و غرائب کی نشاندہی کی گئی ہے، اور اس کے بعد دورِ روحانیّت کا ذکر ہے، اور ان دونوں قسم کے معجزات کا مقصد ظاہر ہے کہ ان کی روشنی میں روح کو جیسا کہ چاہئے پہچان لینا ہے تاکہ نتیجے کے طور پر ربّ کی معرفت حاصل ہو، جبکہ یہ روشنی حقّ الیقین تک پہنچ جاتی ہے۔

۱۱۔ ساق (پنڈلی) کی تاویل عقل ہے، جیسے اللہ پاک کا فرمان ہے: جس

 

۱۲۵

 

دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور (کافر) لوگ سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو (سجدہ) نہ کرسکیں گے (۶۸: ۴۲) یعنی جہاں اور جب نورِ عقل کا ظہور ہوگا، اور منکر لوگوں کو اطاعت کی دعوت دی جائے گی، تو اس وقت وہ اطاعت نہ کرسکیں گے۔ ساق کا دوسرا ذکر ملکۂ سبا کے بارے میں ہے، چنانچہ ارشاد ہے: اس سے کہا گیا کہ آپ اب محل میں چلئے تو جب اس نے محل کو دیکھا تو اس کو گہرا پانی سمجھی اور اپنی دونوں پنڈلیاں کھولدیں (۲۷: ۴۴) یعنی جب اس نے نورِ عقل کو دیکھا تو اپنی عقلِ جزوی کے ظاہری اور باطنی پہلو سے اس کو یکبارگی سمجھنے کی تیاری کی، اور دفعۃً اس کی گہرائی سے عبور کرنے کا اندازہ کیا، مگر اس کا یہ گمان غلط تھا۔ ساق کا تیسرا ذکر سورۂ قیامت (۷۵: ۲۹ تا ۳۰) میں ہے، جس میں نفسانی موت کا ذکر ہے، اور وہ یہ ہے: اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی اس دن تجھ کو اپنے پروردگار کی طرف چلنا ہے (۷۵: ۲۹ تا ۳۰) اس میں بطورِ تنزیل جسمانی موت کا ذکر ہے، مگر تاویلا ًروحانی موت کا تذکرہ ہے، جس میں ظاہری عقل باطنی عقل سے لپٹ جاتی ہے۔

۱۲۔ حضرت سلیمان علیہ السّلام امامِ مستودع تھے،آپؑ کے قصّۂ قرآن میں عظیم روحوں کی روحانی سلطنت کی مثال موجود ہے، ملکۂ بلقیس حجتانِ شب کی نمائندگی کرتی ہے، کیونکہ یہ ایک بہت بڑا راز ہے کہ ہادیٔ برحق علیہ السّلام لیلی و نہاری (یعنی دن رات کے) حجتوں کے توسط سے دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی ذات سے وابستہ رکھتے ہیں، اور اس قانون میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

۱۳۔ خداوندِ تعالیٰ ہر پیغمبر اور امام کو وہی روحانی سلطنت عطا کردیتا ہے، جو اس نے حضرت سلیمانؑ کو عطا کردیا تھا، چنانچہ یہ انتہائی عظیم شے شروع ہی سے اس طرف وراثت کے طور پر چلی آئی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:

 

۱۲۶

 

وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاؤدَ (۲۷: ۱۶) اور سلیمانؑ داؤدؑ کے وارث ہوئے۔ اس حکیمانہ اشارت سے عقل و دانش کے سامنے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے، کہ حضرت سلیمانؑ کی یہ روحانی بادشاہی پہلے ان کے باپ حضرت داؤدؑ کے پاس تھی، اس سے شاید یہ سوال پیدا ہوگا کہ اگر ایسا ہوتا تو قرآنِ پاک میں اس کا ذکر ہوتا، میں بڑی عاجزی سے عرض کروں گا کہ قرآنِ حکیم میں بزبانِ حکمت ہر چیز کا بیان موجود ہے، اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی اس پاک کتاب کا نام قرآنِ حکیم رکھا گیا ہے۔

۱۴۔ قرآنی حکمت کا ایک خاص نام “حکمتِ بالغہ” ہے (۵۴: ۰۵) کیونکہ اس بے مثال و بے نظیر سماوی کتاب کی ہر مثال، ہر بات، ہر اشارہ اور ہر حکمت ہدایتِ حقہ کی روشنی سے بھر پور ہونے کی وجہ سے مرتبۂ اعلیٰ تک رہنمائی کرتی ہے، اور بڑی خوبی سے نورِ عرش تک اس کی معنوی رسائی کی سیڑھی بنائی گئی ہے، اسی طرح قرآنِ حکیم میں نہ صرف ہر چیز کا بیان ہے، بلکہ یہ سمجھنے والوں کے لئے آسان بھی ہے، جیسے اللہ تبارک تعالیٰ نے سورۂ قمر (۵۴) میں قرآن کے “نظریۂ آسانی” کی طرف باربار توجہ دلائی ہے، اور وہ مبارک ارشادیہ ہے: وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (۵۴: ۱۷) اور ہم نے قرآن کو نصیحت (اور ذکر) کے لئے آسان کردیا تو کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن ایک پہلو سے مشکل ہے اور دوسرے پہلو سے آسان کیا گیا ہے، اور یہ بھی معلوم ہے کہ خداوندِ تعالیٰ سب کے لئے آسانی چاہتا ہے (۰۲: ۱۸۵) لہٰذا اس مہربان نے قرآنِ حکیم کی حکمتوں اور بھیدوں پر روشنی ڈالنے کے لئے پیغمبرِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کو نور بنایا (۰۵: ۱۵؛۴۲: ۵۲) اور دورِ امامت میں بحکمِ خدا و رسولؐ امامِ برحق علیہ السّلام نورِ قرآن اور چراغِ ہدایت

 

۱۲۷

 

ہیں (۵۷: ۲۸) پس سورۂ قمر میں قرآنِ پاک کے اسی آسان پہلو کی طرف بار بار توجہ دلائی گئی ہے۔

۱۵۔ زمان ہو یا مکان، جسم ہو یا جان غرض ہر چیز خدا کے نزدیک ایک مقرر مقدار میں ہے (۱۳: ۰۸) اس سے تصورِ آفرینش کی لا ابتدائی اور لا انتہائی حیثیت ختم یا متا ٔثر نہیں ہوتی، بلکہ اس کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ خدائے حکیم اپنے قانونِ قدرت و فطرت کے مطابق ہر چیز کو اس کی ضد سے پیدا کرتا ہے، مثال کے طور پر دن رات کا وقت ایک محدود مقدار ہے، مگر اللہ اسے بصورتِ دائرہ گھما گھما کر ماہ و سال اور غیر محدود زمانے کو پیدا کرتا ہے، اسی طرح اگرچہ ہر چیز ایک مقرر مقدار اور ایک محدود دائرے میں ہے، لیکن چیزوں کی بقا و فنا کی تکرار و گردش کی کوئی ابتدا و انتہا نہیں، اور یہ حقیقت قرآنی حکمت کی روشنی میں ہے (۲۱: ۳۳؛ ۳۶: ۴۰)۔

۱۶۔ ایک آدمی میں کم و بیش اتنی روحیں ہوتی ہیں، جتنے کہ سیّارۂ زمین پر لوگ بستے ہیں، یقیناً یہی وجہ تھی جو قرآنِ حکیم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی انسان کو ناحق قتل کیا تو اس نے گویا سب لوگوں کو قتل کیا، اور جس نے ایک آدمی کو زندہ کیا تو اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا (۰۵: ۳۲) اس کی حکمت یہ ہے کہ ہر انسان بحدِّ قوّت ایک عالمِ شخصی ہے، اور اس میں بحدِّ قوّت دنیا بھر کے لوگ رہتے ہیں، پس اگر کوئی ہدایت یافتہ شخص باذنِ خدا کسی فردِ بشر کو ایمان اور حقیقی حیات کے معنی میں زندہ کردیتا ہے، تو وہ اس کے عالمِ شخصی میں گویا سب لوگوں کو زندہ کرتا ہے، اور ایسا باکرامت شخص صرف امامِ زمان علیہ السّلام ہی ہے، کہ وہی اسی طرح مردوں کو زندہ کرسکتا ہے۔

۱۷۔ ہر چیز کا سایہ یا عکس ہوا کرتا ہے، اسی طرح نور کا بھی سایہ ہوتا ہے،

 

۱۲۸

 

مگر سایۂ نور کو عکس کہنا زیادہ صحیح ہے، کیونکہ یہ دوسرے سایوں سے قطعاً مختلف اور منوّر و روشن ہوتا ہے، جیسے سورج کا عکس آئینے میں چمکتا ہے، چنانچہ خدائے رحمان نے عرشِ اعلیٰ سے اپنے نور کا ایک عکس تمام انسانی قلوب پر ڈالا، جس کو سب لوگوں نے فطری یا غریزی عقل کے معنی میں قبول کرلیا، ساتھ ہی ساتھ خدا کے حکم سے آفتابِ ہدایت بھی طلوع ہوگیا، تاکہ عقلِ جزوی کے اس عکس کی تربیت و ترقی اور مرتبت کا تعیّن ہو، پھر اللہ تعالیٰ نے ان سب عکسوں کو بڑی آسانی سے اپنے قبضۂ قدرت میں لے لیا، اور اگر وہ چاہتا تو ان کو یہاں سے نہ اٹھاتا، وہ ارشاد درجِ ذیل ہے:۔

اَلَمْ تَرَاِلٰی رَبِّکَ کَیْفَ مَدَّالظِّلَّ وَلَوْشَآئَ لَجَعَلَہٗ سَاکِناً ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْہِ دَلِیْلاً ثُمَّ قَبَضْنٰہُ اِلَیْنَا قَبْضاً یَّسِیْراً (۲۵: ۴۵ تا ۴۶) (اے رسولؐ) کیا تم نے اپنے پروردگار کی طرف نہیں دیکھا کہ اس نے کیونکر سایہ کو پھیلا دیا اگر وہ چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا کر دیتا پھر ہم نے آفتاب کو اس کا رہنما بنادیا پھر ہم نے اس کو ایک طرح سے اپنی مٹھّی میں بآسانی اٹھا لیا۔ اس بابرکت ارشاد میں زبردست نورانی حکمتیں ہیں، اور تجلّیوں سے مملو علمی دیدار بھی ہے۔

۱۸۔ ایک انتہائی عظیم حکمت جو ہم سب کو اچنبھے میں ڈال سکتی ہے یہ ہے کہ جب انسان دائرۂ روحانیّت پر چلتے چلتے مقامِ ابد میں پہنچ جاتا ہے تو وہیں پر ازل بھی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کے انبعاث اور ابداع کا عظیم معجزہ صرف ایک ہی ہوتا ہے، یعنی انبعاث اور ابداع ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔

 

 

۱۲۹

 

وَلَقَدْ جِئْتُمُوْ نَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقْنَاکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ تَرَکْتُمْ مَّاخَوَّلْنَاکُمْ وَرَآئَ ظُھُوْرِکُمْ (۰۶: ۹۴) اور تم ہمارے پاس ایک ایک ہوکے آئے جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا وہ سب اپنے پسِ پشت چھوڑ آئے۔

 

خاکپائے مومنین

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی۔ لندن

لندن، ۳؍اگست ؁۱۹۸۴ء

 

۱۳۰

 

اِبداع اور اِنبعاث

 

۱۔ ابداع کے لغوی معنی ہیں ایجاد، اختراع، نئی چیز پیدا کرنا، بغیر سابقہ نمونہ کے کوئی شے بنانا، اور انبعاث کا لفظی ترجمہ ہے بھیجا جانا، جگانا، جاگنا، اٹھانا، اٹھنا، سرعت سے ظاہر ہونا، جلدی سے چلنا، دوبارہ زندہ کرنا، اور ان دونوں لفظوں کی تاویل ان شاء اللہ تعالیٰ اس مضمون میں بار بار آئے گی۔

۲۔ ابداع کے بارے میں خداوندِ عالم کا ایک مبارک فرمان یہ ہے: بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِذَاقَضٰٓی اَمْراً فِانَّمَا یَقُوْلُ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْن (۰۲: ۱۱۷) وہی آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اور جب کوئی امر پورا ہوتا ہے تو سوائے اس کے نہیں کہ اسے کُنۡ (ہوجا) فرماتا ہے اور وہ ہوجاتا ہے۔ چونکہ بموجبِ ارشادِ “مَنْ عَرَف” حصولِ معرفت کی اصل درسگاہ روحِ انسانی ہے، لہٰذا ہمیں جاننا چاہئے کہ اس آیۂ کریمہ میں جو کچھ ارشاد ہے، اس کا اوّلین تعلق عالمِ شخصی سے ہے، چنانچہ یہ بندۂ ناچیز جو خاکپائے مومنین سے بھی کمتر ہے انتہائی عاجزی کے ساتھ خداوندِ قدوس کے حضورِ پُرنور سے توفیق و تائید طلب کرتا ہے، اور اسی کی مہربانی کی دستگیری و یاری کی امید پر اس حکمت آگین آیت کی وضاحت

 

۱۳۱

 

کی جاتی ہے کہ: اللہ تبارک و تعالیٰ ہر پیغمبر اور ہر امام کے عالمِ شخصی کو مذکورہ آیۂ مقدّسہ کے مطابق ابداع کرتا ہے، جیسا کہ ابداع کرنا چاہئے یعنی خدائے علیم و حکیم انسانِ کامل کی ذاتِ بابرکات میں ایک امری عالم کو پیدا کرتا ہے، جو خلقی عالم سے قطعاً مختلف ہوا کرتا ہے، اور اس کا ظہور اس طرح ہوتا ہے کہ پہلے پہل قانونِ فطرت کے مطابق اس مبارک ہستی کی جسمانی تخلیق مکمل ہوجاتی ہے، پھر اس کے بعد خصوصی ذکر و عبادت، اور علم و عمل کے نتیجے میں اس شخصِ کامل کا روحانی جنم ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے کہ حضرت عیسٰے علیہ السّلام نے تمام کامل انسانوں کی نمائندگی اور ترجمانی کرتے ہوئے کہا:۔

اور سلامتی ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں اور جس دن اٹھ کھڑا ہوں زندہ ہرکر (۱۹: ۳۳) یعنی روشنی اور تائید حاصل ہے جبکہ میرا روحانی جنم ہوا، اور جب روحانی موت (ذاتی قیامت ) آئے گی اس میں زیادہ عجائب و غرائب کا مشاہدہ ہوگا، اور جب انبعاث کا وقت آئے گا تو اس میں بدرجۂ اعلیٰ معجزات کی تائید حاصل ہوگی، اس سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ ہر نبی اور ہر ولی (امام) کے عالمِ شخصی یا عالمِ امری کا آغاز اس دن ہوتا ہے، جبکہ اس شخصِ کامل کی روحانی پیدائش ہوتی ہے، اور جوں جوں علم و عمل سے امور پورے ہوتے جاتے ہیں، تو ں توں ان پر کلمۂ کُنۡ کا اشارتی اطلاق ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ روحانی انقلاب (قیامت) کا باب کھل جاتا ہے، اور بڑی تیزی سے مراحلِ روحانیت طے ہوتے جاتے ہیں تاآنکہ ایک دن انبعاث کا ایک انتہائی عظیم معجزہ سامنے آتا ہے، چنانچہ انسانِ کامل پر پانچ ادوار گزرتے ہیں: ۔

الف: جسمانی تکمیل کادور۔

ب: روحانی پیدائش کا دور۔

 

۱۳۲

 

ج: نفسانی موت یا قیامت۔

د: انبعاث کا وقت۔

اور دورِ تمامیت، جیسے قرآنِ پاک میں نور کے تمام و کامل ہونے کا ذکر فرمایا گیا ہے (۰۹: ۳۲؛ ۶۱: ۰۸؛۶۶: ۰۸)۔

یاد رہے کہ نور نہ صرف عالمِ شخصی میں رفتہ رفتہ مکمل ہوجاتا ہے، بلکہ یہ عالمِ دین میں بھی بتدریج درجۂ کمال پر پہنچتا ہے، پس خدا تعالیٰ کے بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض ہونے کی تاویل یہ ہے کہ اس نے ہر کامل انسان کی ذاتِ بابرکات میں ایک عالمِ امر کو پیدا کیا ہے، جس کا ہر کام اور ہر چیز قانونِ کُنۡ کے تحت ہے، اگرچہ کلمۂ کُنۡ کا مکمل ظہور مقامِ عقل پر ہوتا ہے۔

۳۔ سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں ارشاد ہوا ہے: اور خدا ہی نے تمہارے لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے اسی نے تمہارے واسطے پہاڑوں میں گھروندے بنائے اور اسی نے تمہارے لئے کُرتے بنائے جو تمھیں گرمی سے محفوظ رکھیں اور کُرتے جو تمھیں ہتھیاروں کی زد سے بچائیں یوں خدا اپنی نعمت تم پر پوری کرتا ہے تاکہ اپنی انا اس کے سپرد کرو (۱۶: ۸۱)۔

اس فرمانِ خداوندی میں ربّانی رحمتوں کا ایک بے پایان خزانہ پوشیدہ ہے، وہ یہ ہے کہ خدا نے اپنی تمام مخلوقات کے تین تین سائے بنائے، یعنی عقلی، روحانی، اور جسمانی سائے، چنانچہ جب آپ مرتبتِ عقل کی بہشت کی معرفت حاصل کریں گے، تو معلوم ہوجائے گا کہ وہاں عقلی راحت کے لئے ہر شخص اور ہر چیز کا عقلی عکس بصورتِ علم و حکمت موجود ہے، اور اسی طرح درجۂ روحانیّت میں ہر آدمی اور ہر شے کا سایۂ روحانی مختلف حیثیتوں میں کام کرتا ہے نیز جسمِ لطیف جو تیسرا سایہ ہے ایک بہت بڑی نعمت ہے، اس کی معنوی گہرائی یہ ہے کہ ہر

 

۱۳۳

 

مومن اپنے شخصی عالم کی بہشت میں ارواح و عقول اور اجسامِ لطیف پر بادشاہ ہوا کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کے لئے کوہِ عقل میں گھروندے بنائے ہیں، کیونکہ رحمتِ ایزدی میں کوئی فرق و امتیاز نہیں، مگر ہاں تفاوت ہے اقرار و فرمان برداری اور شناخت کی وجہ سے، تاہم قانونِ رحمت رفتہ رفتہ اپنا کام کرے گا، جس کے نتیجے میں ساری انسانیّت کچھ آگے چل کر ایک ہوجائے گی، پھر عقل و دانش اور علم و فن کی روشنی سے سیّارۂ زمین منورہونے لگے گا (۳۹: ۶۹)۔

اب سرابیل (کُرتوں) کی بات ہونی چاہئے کہ وہ کیا ہیں؟ یہ سماوی کُرتے حضرت مُبدِع کے ابداعی معجزات ہیں، پہلے کُرتے میں ہر قسم کی ظاہری و باطنی گرمی (دوزخ) سے نجات ہے، اور دوسرے میں ہر نوع کی جنگ سے مخلصی اور بچاؤ ہے، یہ کُرتے جو خیاطِ ازل کے تیار کردہ ہیں عقل و جان کی فضیلتوں سے کیونکر عاری ہوسکتے تھے، لہٰذا ایک لحاظ سے یہ کامل انسانوں کی طرح ہیں، اور دوسرے لحاظ سے عظیم فرشتوں کی مثال پر ہیں، چنانچہ قرآنِ حکیم میں کئی مثالوں میں ان کا ذکر فرمایا گیا ہے، بہرحال جو ربّانی معجزہ گرمی سے بچانے کے لئے مقرر ہے، اس میں برق کا پہلو نمایان ہے، (۱۳: ۱۲؛۳۰: ۲۴) بہ این وجہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ ایک ایسی مکمل ابداع ہے، جس کا تعلق روح سے ہوتا ہے، اور دینِ اسلام کا دوسرا عظیم ابداعی معجزہ جو روحانی جہاد کی غرض سے ہے، اور جو دنیا کی معاندانہ جنگ کا خاتمہ کرنے کے لئے ہے، اس کا تعلق فلکی جسم سے ہے، جو جسمِ لطیف کی آخری ابداع ہے۔

میرا یقین ہے کہ اُڑن طشتریاں (یو۔ ایف۔ اوز) بھی یہی کُرتے ہیں، جن میں بنی نوع انسان کے لئے خدائی رحمت رکھی ہوئی ہے، اس کا نہ صرف قرآنی ثبوت موجود ہے، بلکہ عقلی دلیل بھی مہیّا ہوسکتی ہے، اور قرآن کا ثبوت یہ ہے کہ

 

۱۳۴

 

 

جو چھوٹے بڑے معجزات آفاق (دنیائے ظاہر) میں رونما ہوتے ہیں، ان جیسے معجزات انفس (عوالمِ شخصی) میں بھی وقوع پذیر ہوتے ہیں (۴۱: ۵۳) اس پر شاید کوئی عزیز سوال کرے گا کہ اگر ایسا ہے تو پھر کیا آدمی کے باطن میں کسی وقت سائنس کی پیداوار جیسی بہت سی چیزیں ہوسکتی ہیں؟ مثلاً ٹیلیفون، وائرلیس، دوربین، ریڈیو، ریکارڈ، کیمرہ، فلم، ٹی وی وغیرہ؟ میں عرض کروں گا کہ ہاں سوال بالکل درست ہے، سب چیزیں ہوسکتی ہیں، مگر دونوں کی نوعیت اور مقصد میں فرق ہے، کہ وہ آلات جس طرح مادّی ہیں اور حصولِ دنیا کی غرض سے ہیں، اسی طرح یہ آلے روحانی اور دینی ہیں، اور ان کا مقصد دین اور معرفت کا حاصل کرنا ہے، لہٰذا یہ روحانی آلے ریڈیو، فلم وغیرہ نہیں کہلائیں گے، بلکہ ان کا نام حواسِ باطن یا روحانیّت وغیرہ ہوگا۔

اب اُڑن طشتریوں کے بارے میں عقلی طور پر یہ ثابت کردینا ہے کہ کس طرح انسان ان کو لباس کے طور پر استعمال کرسکے گا، اور کن معنوں میں اس دنیا کی جنگ، جہالت، بیماری، اور مفلسی ختم ہوجائے گی، وہ یہ ہے کہ اس انقلابی سائنس کے دور میں ایسی حیرت انگیز اُڑن طشتریوں کا کثرت سے اس طرف آنے کا آخر کار کوئی مفید نتیجہ اور کوئی صالح مقصد ہے، سائنس کی ریسرچ (تحقیق) کا راستہ اگرچہ فی الحال عرفانی روح کا راستہ نہیں، لیکن اس طریق پر عام روح سامنے آرہی ہے، کیونکہ روح کے ادنیٰ اور اعلیٰ درجات مقرر ہیں، چنانچہ جب درجۂ ادنیٰ میں انسان کو روح کے فوائد کا پتاچلے گا تو وہ کم ازکم دنیاوی فائدہ اور شہرت کی خاطر روح کی دریافت میں آگے بڑھے گا، اس مقام پر میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دراصل روح اور مادّہ کے درمیان کوئی حدِّ فاصل نہیں، کہ سائنس دان مادّہ کی ریسرچ کرتے کرتے اس کی آخری حد پر رُک جائیں، اور وہاں سے آگے

 

۱۳۵

 

نہ بڑھ سکیں، بلکہ مادّہ اور روح ایک شے اور ایک ہی ہستی ہے، مگر یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ یہ چیز جہاں مردہ اور کثیف ہے تو اس کو جسم کہا گیا، اور جہاں زندہ اور لطیف ہے تو وہ روح کہلائی۔

اس سلسلے میں دوسری طرف سے یہ ممکن ہے کہ فلائنگ ساسرز (FLYING SAUCERS) آسمانی پروگرام کے مطابق انسانوں کی رہنمائی اور مدد کریں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اقوامِ عالم کو ایک کرلینے کی خاطر کوئی اصلاحی انقلاب برپا کریں، بہرحال انسانیّت کے لئے کوئی مایوسی نہیں، کہ وہ مخلوق دراصل طشتری نہیں، حضرت مبدِع یعنی قائم القیامت کا ابداعی معجزہ ہے، اور اہلِ بہشت کے لئے ایسی ہی چیزیں مسخر کردی جاتی ہیں، زمانۂ قدیم میں جنت یا دوسرے سیّارہ سے جو حضرات آدم کے نام سے یہاں آئے، وہ یہی ابداعی جسم میں آئے تھے، اور زمین کے مختلف حصوں پر رہنے لگے، پھر رفتہ رفتہ لطیف سے کثیف ہوگئے۔

۴۔ سورۂ مومنون (۲۳: ۱۲) میں ہے کہ خدا نے انسان کو گیلی مٹی کے جوہر سے پیدا کیا (۲۳: ۱۲) یعنی روح کو پہلے پہل مومنین سے پیدا کیا کہ وہی گیلی مٹی ہیں، یہ روح ایک زندہ اور لطیف انسانی تصویر تھی، چونکہ دنیا کی ہر چیز اللہ کے خزانوں سے آتی ہے (۱۵: ۲۱) لہٰذا ضروری ہے کہ روح بھی ان خزانوں سے آئے، “خزائنِ خدا” کے مضمون میں اس کا ذکر ہوچکا ہے، کہ روح ان بڑے خزانوں سے ہوکر مومنین میں آجاتی ہے، اور یہاں سے عالمِ انسانیّت میں پھیل جاتی ہے، پس ارشاد ہے: پھر ہم نے اس کو ایک جگہ (یعنی عورت کے رحم) میں نطفہ بنا کر رکھا، پھر ہم ہی نے نطفہ کو جما ہوا خون بنایا، پھر ہم ہی نے منجمد خون کو گوشت کا لوتھڑا بنایا، پھر ہم ہی نے لوتھڑے کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہم ہی نے ہڈیوں پر

 

۱۳۶

 

گوشت چڑھایا، پھر ہم ہی نے اس کو ایک دوسری صورت میں پیدا کیا، تو خدا بڑا بابرکت ہے جو سب بنانے والوں سے بہتر ہے (۲۳: ۱۳ تا ۱۴) اس حکیمانہ ارشاد میں بہت سی حکمتیں موجود ہیں، مختصر یہ کہ یہاں خدا نے اپنی صفتِ خالقیّت کے بہترین اور بلند ترین ہونے کا ذکر فرمایا ہے، ظاہر ہے کہ یہ اشارہ بہترین مخلوق کی طرف ہے، اور وہ ابداعی مخلوق ہے، پس ہر شخص سے خواہ مومن ہو یا کافر بمعجزۂ ابداع تین چیزیں پیدا کی جاتی ہیں، ایک عقلی سایہ، ایک روحانی صورت، اور ایک لطیف جسم، اس معجزے کی خبر سوائے اہلِ معرفت کے اور کسی کو نہیں ہوسکتی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ بہشت کی نعمتوں کو نہیں پہچانتے ہیں۔

سورۂ رعد (۱۳: ۱۲) میں ارشاد ہے: (خدا) وہی تو ہے جو تمھیں ڈرانے اور لالچ دلانے کے واسطے بجلی کی چمک دکھاتا ہے اور بوجھل بادلوں کو پیدا کرتا ہے۔ یہ وہی ابداعی معجزہ ہے جو روشنیوں کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے، جس کے ناموں میں سے ایک نام قصۂ سلیمانؑ میں “جنّات کا رئیس” ہے، اس عظیم الشّان معجزے کی عظمت، ہیبت، اور جلال کی وجہ سے زبردست ڈر بھی لگتا ہے، اور اس کے عجائب و غرائب کے سبب سے بار بار دیکھنے اور اس میں فنا ہوجانے کا بہت بڑا اشتیاق بھی پیدا ہوتا ہے، اور بوجھل بادلوں سے نتائجِ علمی مراد ہیں جو اس مقام سے متعلق ہیں، برق کا مطلب نورِ عیان اور ابداعی سرعت ہے، آپ سورۂ روم (۳۰: ۲۴) میں بھی دیکھیں۔

۶۔ جب حضرت مُبدِع کا دیدار ہوتا ہے تو نفسِ مطمئنّہ سے فرمایا جاتا ہے کہ: اے اطمینان پانے والی جان! (اب) اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جا (درحالیکہ) تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے راضی ہے، تو میرے (خاص) بندوں میں داخل ہوجا اور بہشت میں داخل ہوجا (۸۹: ۲۷ تا ۳۰)۔

 

۱۳۷

 

آخری رجوع رؤیت کی کیفیت میں ہوتا ہے، جس کا مقام انبعاث و ابداع ہے، یعنی وہ منزلِ آخرین، جہاں انبعاث کا نتیجہ ابداع کی صورت میں نکلتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سفرِ روحانیّت ایک دائرے کی شکل میں ہے،لہٰذا اس کا انجام اصولاً آغاز سے جا ملتا ہے، چنانچہ جو اصل ابداع ہے، وہ انبعاث کا نتیجہ ہے۔

۷۔ سورۂ حدید (۵۷: ۲۵) میں ہے: ہم نے یقیناً اپنے پیغمبروں کو واضح و روشن معجزے دیکر بھیجا اور ان کے ساتھ ساتھ کتاب اور ترازو نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں، اور ہم ہی نے لوہے کو نازل کیا جس میں سخت لڑائی ہے اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں اور تاکہ خدا دیکھ لے کہ خدا اور اس کے رسولوں کی کون مدد کرتا ہے (درحالیکہ خدا اور رسولان اس کے) سامنے نہیں، بیشک خدا بڑا زبردست غالب ہے (۵۷: ۲۵)۔

اس قرآنی ہدایت و تعلیم میں، جو حکمتوں سے بھر پور ہے، کتاب سے مرتبۂ امامت مراد ہے، یعنی امامؑ جو روحِ تنزیل ہے، اور ترازوکی تاویل اساسؑ ہے، جس کی تاویل سے لوگوں کے درمیان یہ بنیادی انصاف قائم ہوسکتا ہے، کہ جن آیاتِ متشابہات میں تدریجی ہدایت موجود ہے، ان کا دروازہ بند نہ ہو، اور لوہے کی تاویل حضرت قائمِ قیامت ہے، جو باطنی اور روحانی طور پر زبردست جہاد کرنے والا ہے، جس کے نتیجے میں سب لوگ ایک ہوجائیں گے، اور اس بین الاقوامی وحدت وسالمیّت سے لوگوں کو طرح طرح کے فائدے حاصل ہوتے رہیں گے، جو مومنین بحقیقت فرمانبردار ہوں، ان کی روح اس روحانی جہاد میں شامل ہوسکے گی، مسلمین و مومنین کی طرف سے خدا اور اس کے رسولوں کی مدد اسی معنیٰ میں ہوسکتی ہے۔

۸۔ کائنات کے لپیٹنے کا ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ عالمِ دین اور حدود

 

۱۳۸

 

حضرتِ قائم میں سمٹ جاتے ہیں، اور اس کے ساتھ یہ فرمانا کہ: کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ ط (۲۱: ۱۰۴، جس طرح ہم نے مخلوق کو پہلی بار پیدا کیا تھا اسی طرح اس کو دوبارہ پیدا کرتے ہیں) اس معنیٰمیں ہے کہ انبعاث کا نتیجہ ابداع کی صورت میں نکلتا ہے اور قائم کا آخری ظہور مبدِع کی مرتبت میں ہوتا ہے، پس اسی طرح قائمِ قیامت میں عالمِ دین سمٹ جاتا ہے۔

دوسری تاویل: نُعیدُہ‘،ہم اس کا اعادہ کرتے ہیں، یعنی بار بار کرتے ہیں، پس یہ (ابداع و انبعاث) ایک سلسلہ ہے، مثال: انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام میں سے ہر ایک کا انبعاث اور ابداع ہوتی ہے، چونکہ یہ حضرات قانونِ فطرت کا نمونہ ہیں، لہٰذا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ابداع و انبعاث ہمیشہ جاری ہے، اب اس مقام پر مذکورہ آیۂ مبارکہ کا تاویلی مفہوم یہ ہوگا: جس طرح ہم نے سابقہ انسانِ کامل کا انبعاث و ابداع کیا تھا، اسی طرح اس کا اعادہ کرتے ہیں، یعنی اس حکم کا اطلاق جیسے حضرت آدمؑ پر ہوتا ہے، ویسے حضرت عیسٰیؑ پر بھی ہوتا ہے (۰۳: ۵۹) حالانکہ بظاہر ایسا لگتا ہے، جیسے انسانیت آدمؑ سے شروع ہوئی ہو۔

۹۔ انسان کی آخری نجات اور دائمی بقا اس میں ہے کہ وہ چہرۂ نورِ خدا میں فنا ہو جائے، یہ فنا دنیاوی اور مادّی چیزوں کی فنا سے قطعاً مختلف، انتہائی نرالی، اور بڑی معجزاتی ہے، اس لئے کہ وہ ایک اعلیٰ اور عظیم لقاء (دیدار) اور اشاراتی علم و عرفان سے حاصل آتی ہے، جیسے سورۂ دہر کے آغاز میں ارشاد فرمایا گیا ہے: ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِ نْسَانِ حِیْن’‘ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیًٔا مَّذْکُوْراً (۷۶: ۰۱) کیا انسان پر دہر سے ایک ایسا وقت آچکا ہے کہ وہ (اس میں) کوئی چیز قابلِ

 

۱۳۹

 

ذکر نہ تھا۔ دہر سے وہ مرتبہ مراد ہے، جس میں مبدِع اور قائم ایک ہے، “دہر سے ایک وقت” کے معنی ہیں انبعاث و ابداع کا وقت، جس میں انسان چہرۂ خدا کے دیدار سے فنا ہوجاتا ہے، لیکن وہ اپنے بارے میں کچھ بیان نہیں کرسکتا ہے کہ وہ کہاں ہے اور کیا ہے، کیونکہ اس انتہائی عظیم معجزہ کی تاویلی حکمتیں بتدریج آتی ہیں، اس مقام پر یہ حقیقت بھی یاد رہے کہ اشارۂ آیت کے مطابق انسان پر یہ انتہائی عظیم معجزہ پہلے بھی گزر چکا تھا۔

۱۰۔ آلِ عمران کی دوحکمت آگین آیتوں (۰۳: ۷۶ تا ۷۷) کا واضح اشارہ یہ ہے کہ خداوندِ مہربان قیامت کے دن متّقین سے کلام کرے گا، ان پر نظرِ رحمت ڈالے گا، اور ان کو پاک و پاکیزہ کرے گا، اور آپ قرآنِ حکیم کی روشنی میں جانتے ہیں کہ کلامِ الٰہی کا ایک بڑا درجہ وہ ہے جس میں خاموش دیدار ہوتا ہے (۴۲: ۵۱) اور ایسا دیدار انبعاث و ابداع کے مقام پر حاصل ہوتا ہے۔

۱۱۔ امامِ عالیمقام علیہ السّلام جس معنیٰ میں صراطِ مستقیم ہے، وہ اسی معنیٰ میں جسمانیّت اور روحانیّت کے درمیان ایک انتہائی کشادہ اور مضبوط پل بھی ہے، پل کے دو سِروں کی طرح امامِ زمانؑ کے بشری اور مَلکی یا ناسوتی اور ملکوتی دو پہلو ہوتے ہیں، وہ اس پہلو سے بشر ہوتا ہے اور اس پہلو سے فرشتہ، خداوندِ رحمان نے امامت کا یہ پل اس لئے بنایا ہے کہ لوگ اس پر چل کر فرشتہ بن جائیں، جیسا کہ سورۂ واقعہ (۵۶: ۶۰ تا ۶۱) میں ارشاد ہے: ہم نے تم لوگوں میں موت کو مقرر کردیا ہے،اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری مثالیں بدل ڈالیں اور تم لوگوں کو ایک ایسی صورت میں پیدا کریں جسے تم نہیں جانتے (۵۶: ۶۰ تا ۶۱) یہاں نفسانی موت اور انبعاث و ابداع کی طرف اشارہ ہے، جس کے نتیجے میں آدمی امامت کے پل پر چل کر فرشتہ بن جاتا ہے۔

 

۱۴۰

 

۱۲۔ قرآنِ حکیم میں ملکۂ سبا حجتانِ لیلی کا حجاب ہے اور مریمؑ حجتانِ نہاری کا حجاب، دونوں مثالوں میں انبعاث و ابداع کا معجزہ اپنا کام کررہا ہے، مگر اس میں بہت بڑا فرق یہ ہے کہ ادھر بلقیس کی غیر شعوری حالت میں یہ واقعہ ہوا اور ادھر مریمؑ کے سامنے عملی روحانیّت و معرفت کی روشنی میں، چنانچہ روحِ خداوندی کے عنوان سے امامؑ کا نورانی ظہور ہوا، جس کو مریمؑ نے دیکھا، کیونکہ قانونِ خدا ایسا نہیں کہ جبرائیل یا اور کوئی فرشتہ پیغمبر اور امام کے بغیر لوگوں کے پاس آیا کرے، اور خاص بات یہ ہے کہ امامِ عالیمقامؑ خدا کا امر ہے، اس معنی میں وہ صاحبِ امر ہے، یعنی ایسے معجزات امام کی ذاتِ اقدس سے متعلق ہیں، جو “کُنۡ” سے واقع ہوتے ہیں، اور”کُنۡ” امام ہے، جو خداوندِ تعالیٰ کا زندہ امر ہے۔

۱۳۔ قرآنِ پاک میں “امر” سب سے بڑا موضوع ہے، چنانچہ “ا م ر” کے مادّہ سے بنے ہوئے الفاظ جتنے بھی قرآن میں آئے ہیں، وہ سب براہِ راست اور بالواسطہ اسی مضمون سے وابستہ ہیں اور یہ مضمون خود صاحبِ امر سے متعلق ہے، اس سے بڑھ کریہ کہ خود قرآن خداوندِ عالم کا امرِ صامت ہے (۶۵: ۰۵) اور امام اللہ تعالیٰ کا امرِ ناطق ہے (۰۴: ۵۹) اور دونوں معنوں میں صاحبِ امر امامِ عالیمقام علیہ السّلام ہے، کیونکہ جو بولتا امر ہوتا ہے وہ صاحبِ امر بھی ہوتا ہے، اور جو صاحبِ امر ہوتا ہے، وہ بذاتِ خود امر بھی ہوتا ہے۔

۱۴۔ خدا تعالیٰ کی خدائی میں کلمۂ امر کی ابداعی قوت انتہائی عظیم قوت ہوا کرتی ہے، اس طاقت کا اصل سرچشمہ اللہ پاک کیکرسی ہے، جو روح الارواح اور نفسِ کلی ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، اور ان دونوں کی حفاظت اس کو نہیں تھکا سکتی (۲: ۲۵۵) انبیاء علیہم السّلام کے

 

۱۴۱

 

بڑے بڑے معجزات اسی قوّت سے رونما ہوئے، انفرادی قیامت اسی ابداعی قوّت سے برپا ہوجاتی ہے، اور بہشت کی تمام نعمتیں اسی سے مہیّا ہوتی رہتی ہیں۔

۱۵۔ قولہ تعالیٰ: کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ۔ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) جو (مخلوق) زمین پر ہے سب فنا ہونے والی ہے اور صرف تمہارے پروردگار کا چہرہ جو صاحبِ جلالت و کرامت ہے باقی رہے گا۔ اس کے بعد ارشاد ہے: فَبِاَیِّ اٰ لَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (۵۵: ۲۸) تو تم دونوں (یعنی گروہِ جِنّ و اِنس) اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤگے۔ یہاں پر یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ساری مخلوق کی یہ فنا کس نوعیت کی ہے؟ کیا یہ جسمانی فنا ہے یا روحانی؟ یا دونوں ہیں؟ کیا چہرۂ خدا زمرۂ خلائق میں آسکتا ہے؟ نہیں تو اس کا ذکر یہاں “کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا” کے ساتھ آکر پھر مستثنا کیسے ہوا؟ آیا یہ فنا برائے فنا ہے یا برائے بقا؟ یہ سوالات اس لئے ضروری ہوئے، تاکہ ہر ہوشمند مذکورہ ارشاد میں خوب سوچے ، کیونکہ اس میں قانونِ فنا اور اس کے نتیجے کا ذکر ہے، چنانچہ ان کے جوابات یوں ہیں: اس فنا میں ہر ہر قسم کی فنا شامل ہے مگر سب سے مفید فنا وہی ہے جو صرف جیتے جی حاصل ہوسکتی ہے، کیونکہ یہ انبعاث اور ابداع کا نتیجہ ہے، خدا کا چہرہ امامِ زمانؑ ہے، امامؑ کے ناسوتی اور ملکوتی دو پہلو ہوا کرتے ہیں، چنانچہ وہ ایک پہلو سے انسانوں کے ساتھ اور دوسرے پہلو سے فرشتوں کے ساتھ، یہی سبب ہے کہ امامِ زمانؑ کو جو وجہ اللہ کا قائم مقام ہے جسم کے اعتبار سے مخلوق میں شمار کیا گیا ہے، مگر نور کے لحاظ سے غیر فانی قراردیا گیا ہے، اور اس حکیمانہ ارشاد کا اشارہ یہ ہے کہ اہلِ زمین

 

۱۴۲

 

میں سے بہت تھوڑے لوگ عرفانی طور پر اور باقی سب غیر عرفانی حالت میں فنا ہوکر امام کی ذاتِ عالی صفات میں جمع اور محدود ہوجاتے ہیں، جیسے سورۂ یاسین (۳۶: ۱۲) کا ارشاد ہے کہ خدا نے سب چیزوں کو امامِ مبینؑ کی ذات میں گھیر رکھا ہے، تاہم سب لوگ امام میں ہوتے ہوئے بھی فی الحال یکسان اور برابر نہیں ہو سکتے ہیں، جس طرح انسانی جسم میں بے شمار ذرّاتِ روح (خلیّات CELLS ) موجود ہوتے ہیں، مگر احساس کے لحاظ سے یہ تمام ذرّات ایک جیسے نہیں ہوسکتے، کیونکہ ان میں سے جتنے ذرّات حواسِ ظاہر و باطن کے مراکز پر ہیں، وہ تو زیادہ حساس ہیں۔

۱۶۔ قرآنِ حکیم کسی شک اور الجھن کے بغیر بڑی صفائی کے ساتھ یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہر چیز خداوندِ تعالیٰ کے خزانوں سے آتی ہے (۱۵: ۲۱) اب قرآنِ پاک میں رجوع جیسے الفاظ کی حکمت کو جاننا ضروری ہے، کہ اگر انسان خداوندِ تعالیٰ کے کسی خزانے سے یہاں آیا ہے، تو کیا اس کو واپس اسی خزانے میں نہیں جانا چاہئے؟ کیا آدمی کے اس دنیا میں آنے کی نسبت سے وہی خزانہ مبداء اور لوٹ جانے کی وجہ سے وہی معاد نہیں ہوگا؟ آیا اللہ تعالیٰ کے خزائن کے سوا کوئی اور جگہ ہوسکتی ہے جو بارگاہِ ایزدی اور اس کی “عندیت” کا درجہ رکھتی ہو، جبکہ ربّانی خزانوں میں قرب و عندیت کا مرتبہ بھی شامل ہے؟ اس کا جواب ہے کہ ہاں، انسان کو لوٹ کر وہاں جانا چاہئے، جہاں سے یہ اس طرف آیا ہے، کیونکہ مبداء اور معاد ایک ہی ہے، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اور عندیت اس کے خزائن سے الگ نہیں۔

۱۷۔ انسان کی ذات میں عالمِ خیال اور عالمِ خواب دو ایسی شہادتیں (گواہیاں) ہیں کہ ان کی مدد سے ہر شخص انبعاث و ابداع کی واقعیت کو سمجھ سکتا ہے، اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی خیال ہی خیال میں چاند پر کیا سیارۂ مریخ پر

 

۱۴۳

 

 

جا کر واپس آسکتا ہے، بغیر اس کے کہ اس جانے اور آنے میں کوئی وقت لگے، وہ آسمان زمین کی کوئی بھی چیزتصوّرمیں لاسکتا ہے ، کسی قصّے یا تذکرے کی روشنی میں ماضیٔ بعید میں جاپہنچتا ہے، مستقبل کی طرف جاکر قیامت کا خیال کرتا ہے، وہ اگر چاہے تو ہر اس شخص کو جو کبھی دیکھا گیا تھا آئینۂ خیال میں دیکھ سکتا ہے، اور جس کو ابھی نہیں دیکھا ہو صرف اس کے بارے میں سنا ہو اس کی ایک خیالی شبیہہ بنالیتا ہے، ان میں سے ہر کام معجزۂ کُنۡ (ہوجا) کی طرح بڑی سرعت سے انجام پاتا ہے، لیکن یہ چیزیں حدِّ قوّت میں ہیں، اور حدِّ فعل ابھی دور ہے اس لئے ان میں نورِ روحانیّت نہیں، جب نور نہیں، تو سُرورکیسے ملے، تاہم ان مثالوں کے ذریعے سے معجزۂ ابداع کو سمجھنا بیحد ضروری ہے، نیز اس قانونِ فطرت کو جاننا ہے کہ خدا کی بادشاہی میں ہر چیز پہلے تو حدِّ قوّت میں ہوا کرتی ہے، پھر اس کے بعد حدِّ فعل میں آجاتی ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ انسان بہشت میں ہر وہ کام کرسکے گا، جس کی وہ دنیا میں خواہش رکھتا تھا، اور جس کے لئے خواب و خیال میں مشقیں کیا کرتا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: لَھُمْ مَّایَشَآئُ وْنَ فِیْھَا وَلَدَیْنَا مَذِیْدٌ (۵۰: ۳۵) اس میں یہ لوگ جوچاہیں گے ان کے لئے حاضر ہے اور ہمارے ہاں تو (اس سے بھی) زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ قرآنِ مقدس میں اس نوعیت کے بہت سے ارشادات موجود ہیں۔

اسی طرح عالمِ خواب کی ہر ہر چیز سے انبعاث و ابداع کی مثال ملتی ہے، چنانچہ اس میں خوشخبری بھی ہے اور انذار (ڈرانا) بھی، بہشت کا نمونہ بھی ہے اور دوزخ کی مثال بھی، روشنی بھی ہے اور تاریکی بھی، بلندیوں میں پرواز بھی ہے، اور پستیوں میں سقوط بھی، غرض خواب ایک ایسی دنیا ہے کہ اس میں مسرّت و

 

۱۴۴

 

شادمانی بھی ممکن ہے اور غم و اندوہ بھی، سو یہ روحانی موت، قیامت، انبعاث اور ابداع کی طرح ہے، لہٰذا اپنے آپ سے سوال کرنا چاہئے کہ آدمی کس طرح عالمِ خواب میں منتقل ہو جاتا ہے؟ کیا وہ وہاں اس جسم کے ساتھ جاتا ہے یا اس کے بغیر؟ خواب کی دنیا یکایک کہاں سے پیدا ہوئی؟ جب آدمی بیدار ہوجاتا ہے تو اس وقت عالمِ خواب کہاں جاتا ہے یا کدھر پوشیدہ ہو جاتا ہے؟ کیا یہ عالمِ شخصی کی طرح ہے؟ اگر بہشت میں نیند نہیں ہے تو کیا عالمِ خواب کا خاتمہ ہوجائے گا یا یہ اور عالمِ خیال دونوں شخصی عالم (PERSONAL WORLD) میں بدل جائیں گے؟ اس قسم کے سوالات کرکے دنیائے خواب کے بارے میں سوچنا ضروری ہے، کیونکہ خواب جسمانی موت اور روحانی موت (قیامت) کی ایک مثال ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: خدا ہی لوگوں کے (روحانی اور جسمانی طور پر) مرنے کے وقت ان کی روحیں لیتا ہے اور جو لوگ نہیں مرے (ان کی روحیں) نیند میں اٹھائی جاتی ہیں، پھر جن روحوں پر موت کا امر پورا ہوچکا ہو ان کو روک رکھتا ہے اور باقی (یعنی سونے والوں کی روحوں) کو پھر ایک مقرر وقت تک کے واسطے بھیج دیتا ہے، بیشک اس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں (۳۹: ۴۲) اس آسمانی تعلیم میں تین بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں:۔

الف: سوکر عالمِ خواب سے جاگ اٹھنا آخرت کو دیکھ کر دنیا میں واپس آنے کے مشابہ ہے۔

ب: روحانی طور پر مرنے والے انسانِ کامل کی روح ایک اعتبار سے آخرت میں پہنچی ہوئی ہوتی ہے۔

ج: دوسرے اعتبار سے یہ عظیم روح قیامت و آخرت کو دیکھ کر دنیا میں آئی ہوئی ہوتی ہے۔

 

۱۴۵

 

۱۸۔ آخری بار فنا ہوجانے کے باؤجود اہلِ بہشت کی اپنی اپنی انفرادیت کا قائم و باقی رہنا ضروری ہے، کیونکہ مصلحت و حکمت اسی میں ہے، تاہم فنا فی اللہ اور بقا باللہ کی وجہ سے بندۂ مومن کی خواہش خدا کی مشیت کے ساتھ ایک ہوجائے گی، جس کی بابت قرآنِ پاک میں کئی روشن دلیلیں موجود ہیں۔

(۱) سورۂ دہر (۷۶: ۳۰) اور سورۂ تکویر (۸۱: ۲۹) میں دیکھئے کہ ربِّ کریم کا خطاب ایمان کے مدارجِ اعلیٰ کی طرف ہے، اور فرمایا گیا ہے: اور تم کچھ چاہتے ہی نہیں مگر وہی جو اللہ چاہتا ہے (۷۶: ۳۰؛ ۸۱: ۲۹) یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو ایمان کے درجۂ کمال پر ہیں۔

(۲) خدا کی طرف سے اختیار دیا جاتا ہے، پھر وقت آنے پر واپس لیا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آخرکار خدا ہی کا ارادہ بندۂ مومن کا ارادہ بن جاتا ہے، ملاحظہ ہو سورۂ احزاب (۳۳: ۳۶) جس کا ترجمہ یہ ہے: کسی مومن اور کسی مومنہ کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اپنے معاملے میں اختیار باقی رہے۔ یہاں یہ اشارہ ہے کہ مقامِ امر پر جب خدا و رسولؐ کے اختیار کا ظہور ہوتا ہے تو اس حال میں بندۂ مومن اسی اختیار کو اپناتا ہے اور اپنے اختیار کو چھوڑ دیتا ہے۔

(۳) ایمان کے درجۂ کمال پر اختیار کے بارِ گران سے سبکدوش ہوجانے کا نام توکّل ہے، دیکھئے سورۂ یونس (۱۰: ۸۴) میں، جیسا کہ ارشاد ہے: اور موسیٰ نے کہا اے میری قوم اگر تم (حقیقی معنیٰ میں) خدا پر ایمان لاچکے تو اسی پر توکّل کرو (یعنی خدا کو اپنا وکیل بناؤ) اگر تم اپنی انا کو اس کے سپرد کرنے والے ہو (۱۰: ۸۴) پس معلوم ہوا کہ متّقین کو جنت میں خدا تعالیٰ کی مشیت حاصل ہوگی، اور یہ مشیت ان کے ذاتی عالم میں کلمۂ کن کی طرح کام کرے گی۔

 

۱۴۶

 

۱۹۔ انبیائے قرآن علیہم السّلام نے قادرِ برحق کے اذن سے جو جو معجزات کردکھائے، وہ سب کے سب ابداعی قوّت کی وجہ سے تھے، اگرچہ ابداع کا خاص تعلق عالمِ امر سے ہے، اور یہ وہاں ہمیشہ کے لئے کام کرتی ہے، تاہم بطورِ معجزہ اس کے فعل کا ظہورعالمِ خلق میں بھی ہوسکتا ہے، یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ عالمِ خلق اور عالمِ امر کے درمیان صرف ایک ہی دیوار ہے، اور یہ دیوار وہی ہے جو حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن کے درمیان قائم کی گئی ہے، جسے تاویلی حکمت میں سدِّ ذُوالقرنین کہاجاتا ہے، چنانچہ جب شخصِ کامل کی ذاتی قیامت برپا ہونے لگتی ہے، تو اس وقت ذرّاتِ یاجوج و ماجوج اس دیوار کو جو روحِ حیوانی سے بنائی گئی ہے چاٹ چاٹ کر نہ ہونے کے برابر کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں دونوں جہان ایک ہوجاتے ہیں، اور حواسِ ظاہر و باطن بھی ایک ہوجاتے ہیں،پس امام ایک ایسے کامل اور مکمل شخص کا نام ہے، جوانسانی عروج و ارتقاء کے لئے حضرت رسولؐ کے اُسوۂ حسنہ کا عملی نمونہ ہے، جس کی ذاتِ اقدس سے وہ دیوار اٹھائی گئی ہے، جو عالمِ ظاہر اور عالمِ باطن کے درمیان حائل ہوتی ہے، اور ان تمام معنوں میں امامِ مبینؑ کی ذاتِ اقدس ہر چیز پر محیط ہے۔

 

خاکِ راہِ اہلِ ایمان

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی۔ لندن

لندن، ۱۰؍اگست ؁۱۹۸۴ء

 

۱۴۷

 

اظہارِ قدردانی و احسانمندی

 

بخدمتِ عالی جناب علاّ مہ نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی صاحب

 

عزّت وفضیلت مآب جناب علاّمہ صاحب

آپ نے ہمارے اس روحانی آسمان کو اپنے ساتھ لایا ہے، جو محبّت و شفقت کی موسلادھار بارش برساتا ہے، آپ نے ہمیں ہادیٔ برحق مولانا حاضر امامؑ کے گوہرِ معرفت کے بحرِ بے پایان اور اس کے اسرار کے گنجِ گرانمایہ سے متعارف کرایا ہے۔

صاحب! ہم نہیں جانتے ہیں کہ کس طرح آپ سے خطاب کیا جائے! آپ کا وسیع اور بے پایان علم بار بار ہمیں اسماعیلی تاریخ کے عظیم داعیوں کی یاد دلاتا ہے، ہماری تاریخ کی ان جلیل القدر شخصیّتوں کے کام اور کارناموں کے بارے میں اکثر ہمیں حیرت ہوتی تھی، لیکن آپ سے ملاقات کے بعد ہمیں اس حقیقت کا یقین آیا کہ اسماعیلی مذہب حقیقی معنوں میں ایک زندہ اورمحرّک مذہب ہے، جس میں ایک حقیقی مومن کے لئے اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ عشق، عبادت، اور سعیٔ پیہم کے ذریعے امامِ زمانؑ کے علم تک براہِ راست رسائی حاصل کرسکے، آپ کے

 

۱۴۸

 

علم کی وسعت اور آپ کا کامل و بالغ اندازِ تعلیم اسماعیلی مذہب کے عظیم معجزات کی ایک زندہ مثال ہے۔

صاحب! آپ نے عصرِ حاضر کی سائنسی ترقی کی روشنی میں ہمارے مذہب اور قرآنِ مقدّس کی جس انداز میں صراحت فرمائی ہے، اس کے لئے ہم خصوصی طور پر آپ کے ممنونِ احسان ہیں، مثال کے طور پر آپ کے مقالے “کراماًکا تبین” سے اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے کہ کس طرح اسلام دینِ فطرت ہے، ہمیں قرآنِ پاک کی جو تاویلات آپ نے فرمائی ہیں اس سے ہم سراپا مجذوب و متحیر ہوگئے ہیں، آپ نے بمصداقِ فرمانِ حضرت مولانا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کہ: “قرآنِ پاک کے حسن و جمال کی یہ شان ہے کہ اس کا تصورِ حقیقت خود بخود اپنے آپ کو ایک طرف اعلیٰ ترین اور جدید ترین فکر کے ساتھ اور دوسری طرف نہایت ہی ابتدائی اور سادہ فکر کے ساتھ ساز گار کرلیتا ہے۔” صحیح معنوں میں دکھایا ہے کہ کس طرح ہر چیز قرآنِ مقدّس میں سمائی ہوئی ہے۔

صاحب! بالخصوص ہم آپ کے اس احسان کی کبھی بھی کما حقہٗ شکر گزاری نہیں کرسکتے ہیں، جس میں آپ نے ہمیں یہ حقیقت دکھائی کہ ایک مومن کو اس دنیا میں ایک بامقصد زندگی گزارنے اور نورانی دیدار، وحدت، اور یک حقیقت کی غرض سے ہمہ وقت کام کرنے کے لئے اعتماد و ایمان عطا کرنے کی خاطر قرآنِ مجید کی ہر آیت سے نورِ امامت کس طرح جلوہ نمائی کرتا ہے۔

صاحب! جس انداز میں آپ نے ازل و ابداورابداع و انبعاث کے مشکل تصوّرات کو بیان فرمایا ہے، اس سے آپ کے علم کی گہرائی اور روحانی تجربے کی شہادت ملتی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ آپ

 

۱۴۹

 

کا مقصدِ زندگی ( MISSION IN LIFE) اسماعیلی مذہب کے حقیقی علم کو پھیلانا ہے، علاوہ ازین صاحب! آپ جس طرح اپنی تعلیمات پر خود عمل کرتے ہیں، اس سے ان تمام حضرات پر جن کو آپ کے حلقۂ درس یا مجلسِ وعظ و نصیحت میں شرکت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے، ایک لازوال اثر باقی رہ جاتا ہے۔

آپ کا منطقی اور واضح انداز میں مشکل تصوّرات کا طریقِ ابلاغ، مخالفت کے مقابلے میں آپ کا صبر و تحمل، شاگردوں کے لئے آپ کی محبت و شفقت، اور آپ کی انتہائی فروتنی، یہ آپ کی وہ صفات ہیں، جو آئندہ دنوں میں آپ کی جسمانی دُوری کے وقت ہمیں تسلی دیں گی۔

صاحب! آپ کے ساتھ گریہ و زاری کی مجالس میں شرکت ہم سب کے لئے ایک ناقابلِ فراموش تجربہ ہے، ان مجالس سے ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم دل کے اس زنگ و سختی سے پاک ہوگئے ہیں، جس کے ہونے سے عبادت میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے، ہمیں یقین ہوتا ہے کہ ہمارے آقا مولانا حاضر امام کے لئے پُرسُوز محبت وہ طاقت ہے، جو سفرِ روحانیّت کے دوران ہمیں اپنے نفسِ امّارہ کو مغلوب کرنے کے سلسلے میں پیش آنے والے ہر گونہ موانع و مزاحمات پر غالب آسکتی ہے۔

صاحب! آپ لندن کے گزشتہ دو دوروں کے دوران یعنی ہمارے درمیان آپ کی ذاتی حضوری کے وقت، اپنی کتابوں، مضامین، اور خط و کتابت کے ذریعے امامِ زمان (صلوات اللہ علیہ) کی پا ک و پاکیزہ تعلیمات اس فیاضی اور بے دریغ انداز میں ہمیں عنایت فرمائی ہیں کہ اس کی شکر گزاری کے جو احساسات ہمارے دل میں ہیں، ان کی کما حقہٗ ترجمانی کچھ الفاظ نہیں کرسکتے۔ صاحب! آپ ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ جو علم آپ نے ہمیں عنایت

 

۱۵۰

 

فرمایا ہے، اس کو جماعت کے مفاد اور ترقی کی خاطر زیادہ سے زیادہ اور نہایت ہی موزوں اور وسیع پیمانے پر استعمال کرسکیں۔

یہاں پر آپ کے دورانِ اقامت جبکہ آپ باقاعدگی سے درس دیتے اور بلا توقف لکھتے رہے ہیں ہم آپ کے خاکسار شاگرد اتنا وقت اور توجہ نہ دے سکے ہیں، جتنا کہ ہم کو دینا چاہئے تھا، اس کے لئے آپ ازراہِ کرم ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرمائیے، اور ہمیں اپنے علم سے مستفید فرمانے کے لئے اتنے دور سے تشریف لانے میں جو زبردست زحمت آپ نے اٹھائی ہے، اس کے لئے ہماری مخلصانہ شکر گزاری قبول فرمائیے۔

 

آپ کے خاکسار شاگرد۔

لندن، ۱۱؍اگست ؁۱۹۸۴ء

 

۱۵۱

لُبِّ لُباب – یعنی عقلِ خالص

لبِ لباب

یعنی عقلِ خالص

۱

سرِ آغاز

۱- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (۳۳: ۵۶) ۔ اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلَی محَمَّدٍ وَّعَلَی آلِ محَمَّدٍ ۔

پروردگارِ عالم کی عنایتِ بے نہایت، نورِ منزل کی بابرکت تائید و ہدایت اور مومنینِ با یقین کی خالص دعا و مناجات سے یہ ایک اور بے حد لذیذ نعمت حاصل ہوئی، آپ باور کریں گے کہ جتنی علمی نعمتیں میسر ہوئی ہیں، وہ سب کی سب اسی نورِ مجسم کی نورانی ہدایت کی کرامات ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں فخر و ناشکری کی  بیماری سے محفوظ رکھے!  آمین!

۲- قرآنِ حکیم ہدایتِ سماوی کا بے مثال سرچشمہ اور حقائق و معارف کا بے پایان خزانہ ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی امراض کے لئے ربّانی شفا خانہ بھی ہے، اس کے لاہوتی نسخے بدرجۂ انتہا مؤثر اور زبردست شفا بخش ہیں، مثلاً قرآنِ پاک کایہ نرالا طریقِ علاج کتنا عالی شان اور حیران کُنۡ ہے کہ وہ بار بار آدمی کو اپنی زندگی

۳

کے ابتدائی مراحل یاد دلا کر اس کی بنیادی کمزوریوں کو من و عن بیان کرتا ہے، تاکہ کوئی بھی مومن موجودہ کسی ترقی کی وجہ سے فخر کی بیماری میں مبتلا نہ ہو جائے، اور ربّ العزّت کے ہر احسان و انعام کا دل و جان سے شکر کر لیا کرے، پس ہم سب پر واجب ہے کہ اپنے اس ماضی کو بھول نہ جائیں، جس میں ہم ہر اعتبار سے حقیر، مفلس، خام اور ناتمام تھے، تا کہ حسبِ منشائے قرآن ہم عاجزی، رقتِ قلبی اور محویّت و فنائیّت سے فائدہ اٹھا سکیں۔

۳- یہ مقالہ یا کتابچہ عقل و دانش کی خاص اہمیّت کے بارے میں تحریر ہوا ہے، کیونکہ عقل و خرد اور علم و معرفت ایسی بے مثال شے ہے کہ اس کے نہ ہونے کی صورت میں کوئی بھی دوسری بہتر سے بہتر چیز اس خلا کو پُر نہیں کر سکتی ہے، خواہ وہ سجدہ، نماز اور تسبیح کیوں نہ ہو، یہ بات خیالی اور فرضی ہرگز نہیں بلکہ یہ قرآنِ پاک کی روشن ترین حقیقتوں میں سے ہے، وہ اس طرح کہ آسمانوں اور زمین کی ان بے شمار مخلوقات کے لئے بہشت کا کوئی وعدہ ہی نہیں جو بے جان اور بے عقل ہیں، اور چوپائے جیسے انسان بھی ان میں داخل اور شامل ہیں (۰۷: ۱۷۹) حالانکہ ہر مخلوق اور ہر چیز معبودِ برحق کے لئے سر بسجود ہوتی رہتی ہے (۱۳: ۱۵،  ۱۶: ۴۹، ۲۲: ۱۸) تمام مخلوقات اور انس و جنّ اس کی تسبیح کر لیا کرتے ہیں، اور سبھی اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتے ہیں (۲۴: ۴۱) پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں

۴

پر عذاب لازم ہو چکا ہے (۲۲: ۱۸)؟ اس کا تسلی بخش جواب بھی قرآن ہی میں موجود ہے، ارشاد ہے: وَ قَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِیْۤ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ (۶۷: ۱۰) اور وہ کہیں گے کہ اگر ہم سنتے یا سمجھتے تب تو (آج) دوزخیوں میں نہ ہوتے۔ اس حکمِ الٰہی سے صاف ظاہر ہے کہ حقیقی عقل کا نہ ہونا ہی سب سے بڑا عذاب ہے، اور یہی آتشِ جہالت و نادانی ہے، یعنی عقلی عذاب۔

۴- جاننا چاہیے کہ عقل و دانش کا ربّانی سانچا قرآنی حکمت ہے، اور دانائی کی کسوٹی بھی یہی ہے اور یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ قرآنِ حکیم کی تمام تر حکمتیں اس کے باطن میں پوشیدہ ہیں، جیسا کہ حدیثِ شریف میں ہے: ان للقرآن ظھرا و بطنا و لبطنہ بطنا الیٰ سبعۃ ابطن او الی سبعین بطنا (الحدیث، بحوالۂ المیزان فی تفسیر القرآن، جلدِ اوّل، ص ۷)۔ اس میں شک نہیں کہ قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے اور اس کے باطن کا بھی باطن ہے (یہ سلسلہ) سات بواطن تک یا ستر بواطن تک (چلتا ہے) پس اللہ اور اس کے رسولِ اکرمؐ نے امامِ عالی مقام کو مقرر فرمایا، تاکہ وہ اہلِ ایمان کو قرآنی حکمت اور روحانیّت کا فیض پہنچاتا رہے۔

۵- حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کا مبارک ارشاد ہے:  لیس بین اللہ و بین حجتہ حجاب و لا للہ دون حجتہ ستر نحن ابواب اللہ و نحن الصراط المستقیم و نحن عیبۃ علمہ و نحن ترجمۃ و حیہ و نحن ارکان توحیدہ و نحن موضع

۵

سرّہ = خدا اور اس کے حجت کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں، اور نہ اپنے حجت کے سوا اللہ کا کوئی پردہ ہے، ہم (ائمّہ) ہی خدا کے دروازے ہیں اور ہم ہی راہِ راست ہیں اور ہم اس کے علم کا صندوق ہیں اور ہم ہی اس کی وحی (اشارات) کا ترجمہ ہیں اور ہم اس کی توحید کے ارکان ہیں اور ہم ہی اس کے بھید رکھنے کی جگہ (یعنی گنجِ اسرار) ہیں۔ (المیزان فی تفسیر القرآن، جلد اوّل، ص ۴۱) امامِ اقدس و اطہر کے اس بابرکت ارشاد سے یہ حقیقت مثلِ آفتابِ عالمتاب روشن ہو جاتی ہے کہ امامِ زمانؑ ایسے ہی مرتبے میں معلّمِ قرآن اور مربیٔ عقل و خرد ہیں۔

۶- خداوندِ قدوس کی رحمت، مہربانی، دستگیری اور توفیق سے یہ مقالہ لکھا گیا، اور اس کا نام “لبِّ لباب” مقرر ہوا، کیونکہ اس کتابچے میں جس حقیقت کا ذکر ہوا ہے، وہ لبِّ لباب ہے یعنی خلاصے کا خلاصہ، عطر کا عطر، ست کا ست، بمعنیٔ عقلِ خالص اور عقلِ کامل یا عقلِ کلّ، کیونکہ جوہرِ محض وہی ہے، چنانچہ اس بندۂ خاکسار کا خیال ہے کہ تذکرۂ عقل اور متعلقہ اسرارِ قرآن و روحانیّت کے انکشاف کی وجہ سے اس کتابچے کی بڑی اہمیت ہو سکتی ہے (ان شاء اللہ )۔

۷- ہمارے جلیل القدر بزرگانِ دین نے اپنی پُرمغز و گرانمایہ کتابوں میں جس حیرت انگیز تبحرِ علمی سے موضوعِ عقل کو زیرِ بحث

۶

لایا ہے، اور اس پر جس بصیرت سے آفاق و انفس کے مستحکم دلائل و براہین کی روشنی ڈالی ہے، اس کی مثال و نظیر دنیائے علم و ادب میں نہیں ملتی، لیکن بڑی حسرت کی بات تو یہ ہے کہ ان خزائنِ علمی میں سے بعض مفقود ہیں، بعض نایاب اور اگر کوئی ایسی انمول کتاب مل بھی جائے، تو عربی یا فارسی میں ہونے کی وجہ سے اکثر شائقین اس کے فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں، لہٰذا ایسے موضوعات پر لکھنے کی شدید ضرورت ہے۔

۸- سوال: آج سے تقریباً بیس سال قبل ایک مومنِ مخلص نے بغرضِ معلومات یہ پوچھا کہ آیا روحانی مشاہدات و تجربات کی بعض باتیں دوسروں کے فائدے کی خاطر ظاہر کی جا سکتی ہیں یا نہیں؟ میں نے بڑی عاجزی سے گزارش کی کہ اس کی دو مختلف صورتیں ہیں، اوّل یہ کہ جب تک کسی کے پاس ظاہری اور روحانی علم نہ ہو، تو اسے کچی کچی روحانیّت کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں، اس پر سخت پابندی ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ اگر کسی مومن نے خدا و رسول اور امامِ وقتؑ کی اطاعت و فرمانبرداری کی بدولت اتنی روحانی اور علمی ترقی کی ہو کہ اب اس کا نہ بولنا اور خاموش رہنا قرآنِ پاک کی نظر (۰۲: ۱۴۰) میں بڑا ظلم قرار پا رہا ہے، تو وہ ایک ایسی بڑی گواہی کو کیسے چھپا سکتا ہے، جو خدا کی طرف سے ہے، اور قرآن و حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر تمہارے پاس حق بات ہے تو اسے بیان کرو، مت

۷

چھپایا کرو (۰۲: ۴۲،  ۰۳: ۷۱،  ۰۴: ۳۷ )  قولوا الحق و لو علیٰ انفسکم۔ الحدیث

۹- ہر مومن کو یہ جاننا ازبس ضروری ہے کہ علم الیقین کیا ہے؟ اور اس کے ہونے سے کیا کیا فائدے حاصل ہو سکتے ہیں؟ اس بارے میں عرض ہے کہ جس علم میں یقین کی روشنی موجود ہو، اور جس سے شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہو، وہ علم الیقین ہی ہے، جو مرتبۂ عین الیقین سے منتقل ہو کر یہاں آتا رہتا ہے، یعنی روحانی علم، یا علمِ لدنّی، دوسرے الفاظ میں حکمت، یا معرفت یا تاویل اور حقیقی علم، اس باب میں قرآنِ حکیم کا ایک مفہوم یہ ہے: اگر تمہارے پاس یقینی علم ہوتا تو تم (دنیا ہی میں) دوزخ کو دیکھ سکتے (۱۰۲: ۰۵ تا ۰۶) علم الیقین کی روشنی میں دوزخ کا مشاہدہ اس لئے ہو سکتا ہے کہ علم دنیا میں بحدِّ قوّت بہشت ہے، اور جہل (جہالت) بحدِّ قوّت جہنم، پس علم کی نظر میں جہالت جہاں بھی ہو، پوشیدہ نہیں بلکہ ظاہر ہے، پھر عین الیقین سے بحدِّ فعل دوزخِ نادانی کو دیکھنا اس سے الگ ہے (۱۰۲: ۰۷)۔

۱۰- حقیقی زندگی اور عقل کی فوقیت و فضیلت کے بارے میں آفاق کی روشن دلیل یہ ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں بمقتضائے عقل و حکمت ایک خاص ترتیب اور ایک حکیمانہ درجہ بندی کے مطابق رکھی ہوئی ہیں، جس میں سب سے نیچے جمادات اس لئے ہیں کہ وہ بے جان ہیں، ان پر نباتات کو برتری حاصل ہے، کیونکہ

۸

ان میں روحِ نامیہ (روحِ نباتی) کارفرما ہے، نبات سے حیوان برتر ہے، کیونکہ اس میں اگرچہ عقل تو نہیں، لیکن وہ روحِ حیوانی کی وجہ سے حس و حرکت کے قابل ہوگیا ہے، حیوانات پر انسان عقلِ جزوی کے سبب سے بادشاہ ہوگیا ہے، تاہم یہ آخری بات نہیں، کیونکہ انسانوں کے بھی بہت سے طبقات ہیں، جن میں ہر اوپر کا طبقہ عقل و دانش کی بناء پر اپنے ماتحت طبقے پر بادشاہ ہوا کرتا ہے، اور یہ دنیوی عقل کی مثال ہے، پس وہ جملہ مومنین جو دینی عقل کی تکمیل کے لئے علم و عمل سے سعی کر رہے ہیں، وہ ان شاء اللہ عوالمِ شخصی میں بادشاہ ہوں گے، کیونکہ بہشت کی خاص نعمتیں جو غیر فانی ہیں، وہ وہاں کی لازوال سلطنت میں ہیں (۷۶: ۲۰،  ۰۵: ۲۰،  ۰۴: ۵۴،  ۶۷: ۰۱)۔

۱۱- اے برادرانِ دینی! آپ سب حقیقی علم کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں، کیونکہ علم ہی عقل کی روشنی اور اس کا فعل ہے، جیسے سورج اور اس کی روشنی، یعنی عقل سرچشمہ اور نورِ مجتمع ہے، اور علم نورِ منتشر، یا یوں سمجھ لیں کہ عقل خزانۂ دُرَر (دُرّ کی جمع) ہے اور علم اس میں سے بکھرے ہوئے موتیوں (درِ منشور) کی صورت ہے، یا علم ایک بے حد حسین گلشن ہے، اور عقل ایسے ہی پھولوں کا عطر، یا علم انسانی زندگی جیسا ہے، جو خون کے ساتھ سارے بدن میں دوڑ رہی ہے، اور عقل مرکزِ حیات

۹

یعنی دل کی طرح ہے، ایک اور مثال کے مطابق عقل صاف و شفاف پانی کا چشمہ ہے اور علم اس کی نہروں کا پانی ہے، جس سے ایک بڑی بستی آباد و سرسبز ہو گئی ہے، پس عقل اور علم کی بہت سی مثالیں اور بہت سے نام ہیں، جن کے جاننے سے بڑی بڑی حکمتوں کی کلیدیں حاصل ہو جاتی ہیں۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی

کراچی

ہفتہ، ۷ شعبان المعظم ۱۴۱۱ھ

۲۳ فروری ۱۹۹۱ء

۱۰

اسمائے عقل کی حکمتیں

قسط:۱

عقل کے کثیر ناموں اور بہت سی مثالوں میں خزائنِ حکمت پوشیدہ ہیں، لہٰذا یہ امر ازبس ضروری ہے کہ اس کے بعض قرآنی اسماء کا انکشاف کیا جائے، اس بارے میں سب سے پہلے اُس حدیثِ شریف کا بغور مطالعہ کرنا لازمی اور لابُدی ہے، جو ابداعِ عقل کے باب میں مروی ہے، چنانچہ حضرتِ امام باقر علیہ السّلام سے روایت ہے کہ: جب اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا تو وہ بحکمِ خدا بولنے لگی، پھر خدا نے اسے فرمایا : آگے آ، تو وہ آگے آئی، پھر اسے فرمایا: پیچھے جا، تو وہ پیچھے گئی، پھر ارشاد ہوا: میری عزّت و جلالت کی قسم! کہ میں نے کوئی ایسی خلق پیدا نہیں کیا ہے، جو تیرے مقابلے میں مجھ کو زیادہ محبوب ہو، اور بات یہ ہے کہ میں تجھ کو صرف ایسے شخص میں کامل اور مکمل کر دیتا ہوں، جس سے میں محبت کرتا ہوں، ہاں میرے امر و نہی کا خطاب ہمیشہ تجھ ہی سے ہوتا رہے گا، اور عذاب و ثواب کا تعلق بھی تجھ ہی سے ہوگا (ارشادِ نبوّیؐ کے عربی الفاظ “میوۂ بہشت” ص ۱۴ پر درج ہیں)۔

۱۱

اس پُرحکمت اور بابرکت ارشاد میں کنوزِ حقائق و معارف کی کلیدیں مخفی ہیں، مثال کے طور پر، پہلی کلید: خوب غور سے دیکھیں کہ اس میں صرف اور صرف عالمِ شخصی ہی میں عقل کے ظہور و کمال کا تذکرہ ہے، اور یہاں ایسا کوئی اشارہ نہیں کہ انسانِ کامل سے باہر عقل پیدا کی گئی ہو، اور عالمِ صغیر کے بغیر مکمل ہوئی ہو۔ دوسری کلید: خدا کی طرف کسی مخلوق کا آگے آنا عروج ہے، اور پیچھے جانا نزول، جیسے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اسوۂ حسنہ میں معراج پر جانے اور واپس تشریف لانے کی مثال موجود ہے۔ تیسری کلید: خدا نہ صرف عقل ہی کو محبوب رکھتا ہے، بلکہ ہر صاحبِ عقل بھی اس کو محبوب ہے، پس یقیناً عقل اور محبت دونوں لازم و ملزوم ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ اللہ کی طرف سے محبت ایک نور ہے، اور عقل بھی نور ہے، لہٰذا ان دونوں کی وحدت ہے۔ چوتھی کلید: پروردگارِ عالم کے امر نہی پر عمل عقل و دانش کے ساتھ ہونا چاہئے۔ پانچویں کلید: عذاب و ثواب کا تعلق عقل سے ہونا اس طرح ہے کہ جہالت و نادانی ہی عذابِ دوزخ ہے، اور علم و معرفت ہی نعیمِ بہشت۔

خوب یاد رہے کہ حقیقی محبت یک طرفہ نہیں ہوا کرتی، بلکہ جانبَین میں ہو جاتی ہے، یعنی ربّ العزّت اپنے جن خاص بندوں کو محبوب رکھتا ہے، ان میں عشقِ الٰہی پیدا ہوتا ہے (۰۵: ۵۴) اور اسی میں وہ عقل بھی ہے، جس کا بیان ہو رہا ہے، اب اس کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہوا کہ

۱۲

قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں علم و حکمت اور رشد و ہدایت کا ذکر آیا ہے، وہاں لازماً مخفی مخفی آسمانی محبت کا تذکرہ بھی موجود ہے، کیونکہ یہاں مذکورہ حدیثِ شریف کی روشنی میں یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ حقیقی محبت کے بغیر عقل و دانش کی کوئی تمامیّت و کمالیّت نہیں ہو سکتی، اب ذیل میں خداوندِ قدوس کی یاری اور دستگیری سے اسمائے عقل کی بعض حکمتیں اجاگر کرنے کے لئے سعی کی جاتی ہے۔

حمد، مقامِ محمود:

حمد اور مقامِ محمود عقل کے ناموں میں سے ہیں، یعنی عقلِ کلّ، جو خداوندِ تعالیٰ کی تعریف کا وسیلہ ہے، عقل کے اسی پُرحکمت نام سے ام الکتاب کا آغاز ہوتا ہے، اور ارشادِ ربّانی ہے: الحمد للہ ربّ العالمین، یعنی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی تعریف ہے کہ وہ عقلِ کلّ کی حکیمانہ غذاؤں اور پاک محبتوں سے عوالمِ شخصی کی تربیت و پرورش کرتا ہے، تاکہ مومنین فنا فی الامام ، فنا فی الرسول، اور فنا فی اللہ ہو کر مقامِ محمود کے عقلی معجزات کا مشاہدہ کر سکیں، اور وہ عالمِ شخصی میں ہے، جس کی تعریف خود ذاتِ سبحان نے کی ہے (۱۷: ۷۹)۔

شجرۂ طیبہ:

پاک درخت (۱۴: ۲۴) یعنی سلسلۂ امامت، جو مظہرِ عقلِ کلّ ہے، اس پاک و پاکیزہ درخت کی جڑ حضورِ اکرم صلعم کی ذاتِ عالی صفات ہے، جو زمینِ دین میں مضبوط ہے اور شاخ امامِ وقت کا نورِ اقدس ہے، جو آسمانِ روحانیّت کی بلندی پر گوہرِ عقل کا

۱۳

کام کر رہا ہے، اور ربّ کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے (۱۴: ۲۵) پس ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہ نکتہ یاد رہے کہ عقل کے دو مقام ہیں: عالمِ ظاہر اور عالمِ باطن۔

نورِ ازل:

جب عرفاء کے عالمِ شخصی میں نورِ عقل طلوع ہو جاتا ہے تو یہی نورِ ازل ہے، ازل کو انتہائی بعید کا ماضی سمجھنا درست نہیں، کیونکہ وہ لامکان کا “دہر” ہے، یعنی عالمِ روحانی کا نہ گزرنے والا زمان، چنانچہ وہ ازل بھی ہے اور ابد بھی۔

قلم:

قلم عقل کا نام ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (۹۶: ۰۴) جس نے قلم (یعنی عقل) کے ذریعہ سے تعلیم دی۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ (۹۶: ۰۵) اسی نے انسان کو وہ علم سکھایا جس کو وہ کچھ جانتا ہی نہ تھا۔ اب اگر اس قلم کو مذکورہ تاویل کے بغیر کِلکِ ظاہر مان لیا جائے تو اس حال میں ربّانی اور روحانی تعلیم کا رخ ہمہ وقت اقوامِ عالم کی اُس اکثریت کی طرف ہو کر رہے گا، جس کے ہاتھ میں بسا اوقات قلم ہوتا ہے، اور ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر جو اکثر ان پڑھ تھے، تعلیمِ خداوندی سے بے نصیب رہ جائیں گے، مگر یہ بات درست نہیں، لہٰذا حقیقت یہی ہے کہ قلمِ الٰہی عقلِ کلّ ہے، جس سے خدا نے ہر انسانِ کامل کو “علم الاسرار” کی تعلیم دی۔

عرش:

عرش سے نورِ عقل مراد ہے، حاملانِ عرش (۴۰: ۰۷) أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہیں اور قیامت کے دن حملۃ العرش آٹھ ہوں گے (۶۹: ۱۷)

۱۴

یعنی سلسلۂ نور کے ہرامامِ ہفتم کے عالمِ شخصی میں قیامت برپا ہوتی ہے، پھر امامِ ہشتم نورِ عقل کا حامل ہوتا ہے، اسی طرح یکے بعد دیگرے عرش اٹھانے والے آٹھ ہوگئے۔

آدمِ معنیٰ:

بہت سے آدموں میں سے ایک آدم عقلِ کلّ ہے اور نفسِ کلّ حوّا ہے ان کا بہشت سے دنیا میں اتر آنا مظاہر کے معنی میں ہے، جس طرح آپ کہتے ہیں کہ سورج نکل آیا، یعنی طلوع ہوگیا، اور کہتے ہیں کہ سورج ڈوب گیا، آپ کا یہ کہنا غلط نہیں، جبکہ اس کے برعکس یہ بات زیادہ صحیح ہے کہ آفتاب اپنی جگہ پر قائم ہی ہے، وہ نہ طلوع ہوا، اور نہ غروب، چنانچہ بہشت ایسا مقام نہیں، جس کے درمیان سے کوئی باہر نکل آتا ہو، مگر یہ ہے کہ انتہائی ارتقاء کے بعد کسی عظیم روح کے لئے دنیا میں کوئی مظہر قرار پاتا ہے۔

حجرِ مکرم:

یعنی بزرگ پتھر، جس سے بارہ چشمے جاری ہوئے (۰۲: ۶۰) جس سے گوہرِ عقل مراد ہے، جس کا علم بارہ درجات میں روان ہے، اس کا مظہر عالمِ جسمانی میں امامِ زمان علیہ السّلام ہے جو ہر وقت بارہ حجتوں کو علم دیتا رہتا ہے، لیکن یہ ضروری بات یاد رہے کہ امامِ عالی مقام کسی کو روحانی علم کے پانی پینے پر مجبور تو نہیں کرتا، جب تک کوئی مومن اپنے آپ میں شدید پیاس پیدا نہ کرے،

۱۵

اور استسقا یعنی پانی طلب نہ کرے، کیونکہ حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کی مثال میں یہ ہے کہ خدا اور اس کے نبی کو یہ حال روشن تھا کہ بنی اسرائیل کو پانی کی شدید ضرورت ہے لیکن پانی کا معجزہ صرف اس وقت ظہور پذیر ہوا، جبکہ پیاسوں نے اپنے پیغمبر سے پانی مانگا اور پیغمبر نے اللہ کے حضور دعا کی (۰۷: ۱۶۰)۔

طور، جبل:

طور اور جبل کوہِ عقل ہے، قرآنِ حکیم میں پہاڑوں سے متعلق جو کچھ ارشاد ہوا ہے، اس میں کوہِ عقل کے اسرار پنہان ہیں، جیسے ربِّ جلیل نے حضرتِ موسیٰؑ کے سامنے مجموعۂ اسرارِ ازل کے پہاڑ پر جب اپنی تجلّی ڈالی، تو اس کے لاتعداد بھیدوں کے موتی بتدریج ایک ایک ہو کر کلیم اللہ کے ذہن و خاطر میں آنے لگے، یہ تجلّیٔ کوہِ عقل کی آفاقی اور ہمہ رس برکت اور لقائے علمی کی مثال ہے۔

مولودِ نورانی:

عقل اپنی بہت سی مثالوں کے سلسلے میں مولودِ نورانی (پُرنور فرزند) بھی ہے، اس لئے کہ وہ جامع الامثال بھی ہے، اور مجموعۂ حقائق و معارف بھی، چنانچہ عارفین کے عالمِ شخصی میں نورانی فرزند اس وقت پیدا ہو جاتا ہے، جبکہ نورِ عقل طلوع ہو جاتا ہے، جیسا کہ سورۂ رعد (۱۳: ۳۸) میں یہ کلّیہ موجود ہے کہ ہر پیغمبر کی بیوی اور ذریّت تھی، لیکن ظاہر میں دیکھا جائے تو حضرتِ یحییٰ (۰۳: ۳۹) اور حضرتِ عیسیٰؑ کی اولاد کہاں ہو سکتی،

۱۶

جبکہ انہوں نے شادی کرنے سے ہی گریز فرمایا تھا، اس سے ظاہر ہوا کہ مذکورہ کلّیہ میں حضراتِ انبیاء کی جن بیویوں اور ذریّات کا ذکر ہوا ہے، وہ روحانی ہیں، اگر آپ اس کے ساتھ ساتھ کتابِ وجہِ دین میں گفتار یا کلام ۴۶ (نکاح و سفاح) کو بھی پڑھیں ، تو بہتر ہوگا۔

قبض و بسط:

یہ سرِ اعظم بڑا عجیب و غریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کائناتِ عقل کو ہمیشہ لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے، اور اس فعلِ خدائی کی نہ تو کوئی ابتداء ہی ہے، اور نہ ہی کوئی انتہا، یہ بہت بڑا راز بیانِ رزق و روزی کے حجاب میں پوشیدہ ہے، آیۂ کریمہ کا وہ پُرازحکمت ٹکڑا یہ ہے: وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪ (اور خدا اپنی مٹھی میں لیتا ہے اور پھیلاتا ہے،  ۰۲: ۲۴۵) پس یہاں سے “قبض و بسط ” عقل کے دو نام ہوئے۔

مطویات:

مطویات کے معنی ہیں لپیٹی ہوئیں، یعنی روزِ قیامت خداوندِ عالم سارے آسمانوں کودستِ قدرت میں لپیٹ کر وہی لولوئے مکنون بنا دیتا ہے، اعنی دُرِّعقل ، جس کو وہ (عَزَّ اِسۡمَہٗ) پھیلا کر کائنات بناتا ہے، پس لپیٹی ہوئی کائنات سے عقل مراد ہے (۳۹: ۶۷) کیونکہ اس میں جملہ عقلی نعمتیں یکجا اور جمع ہیں۔

وادیٔ طوٰی:

وادٍ : پانی بہنے کی جگہ، یعنی سرچشمۂ عقل

۱۷

جہاں سے آبِ علم جاری ہوتا ہے، دو پہاڑوں کے درمیان کی گھاٹی، عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کے اتصال کا مقام، طوٰی: لپیٹی ہوئی چیز، کیونکہ مرتبۂ عقل وہ منزلِ مقصود ہے، جس میں پہنچ جانے سے روحانی سفر کی ساری دوریاں اور مسافتیں سمٹ جاتی ہیں (۲۰: ۱۲)۔

وادیٔ ایمن:

اس کے معنی ہیں: بہت برکت والی وادی، نیز داہنی طرف کی وادی، کیونکہ کوہِ عقل میں بے شمار برکتیں ہیں، اور اس کی سعی یعنی دوڑ (۵۷: ۱۲) آگے اور داہنی طرف کو ہے، یہاں یہ نکتۂ دل پذیر بھی یاد رہے کہ عالمِ عُلوی میں خدا کے دستِ راست عقلِ کلّ اور دستِ چپ نفسِ کلّ ہیں، اور عالمِ ظاہر میں ناطق و اساس کو یہی درجہ حاصل ہے، وادیٔ مقدّسِ طوٰی: (۲۰: ۱۲، ۷۹: ۱۶)، وادیٔ ایمن: (۲۸: ۳۰)۔

سراجِ منیر:

یعنی چراغِ روشن، جو سرورِ انبیاء و رسل صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نورِ اقدس ہے اور یہی خود نورِ عقل بھی ہے اور قلمِ الٰہی بھی، اگرچہ مظاہر میں نور کی کثرت نظر آتی ہے، لیکن جوہرِ عین میں نورِ مطلق ایک ہی ہے، چنانچہ حضورِ اقدس و اطہر صلعم عالمِ بالا میں نورِ مجرّد ہیں، اور عالمِ ظاہر میں نورِ مجسم، اور تمام انبیاء و ائمّہ علیہم السّلام آپ کے نمائندے ہیں، پروردگار کی طرف سے جو عظیم الشّان اور رفیع المرتبت ہستی تمام جہانوں کے لئے رحمتِ کلّ بنائی گئی ہے، اس کے معنی ہی یہی ہیں کہ آنحضرتؐ

۱۸

سب سے پہلے حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے عوالمِ شخصی کے لئے رحمت ہیں، اور ان کے توسط سے یہ رحمتِ خداوندی ہر زمانے میں پائی جاتی ہے۔

ملک و ملکوت:

حقیقی بادشاہی (۶۷: ۰۱) اور عالمِ روحانی (۳۶: ۸۳) جو سرچشمۂ عقل کے القاب میں سے ہیں، ہر عالمِ شخصی میں خدا کی ایک سلطنت موجود ہے، وہی آسمان و زمین اور ہر چیز کا ملکوت بھی ہے (۰۲: ۲۴۷،  ۰۷: ۱۸۵) اور خدا یہ سب کچھ انسان کو عطا کر دینا چاہتا ہے، مگر اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ مظہرِ نورِعقل کی اطاعت کی جائے، وہ آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کے سلسلے سے امامِ زمانؑ ہیں۔

علّیّین، علّیّون:

یہ راز قرآنِ حکیم کے انتہائی عظیم بھیدوں میں سے ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اور اساس کو علّیّین یا علّیّون کا نام دے کر عالمِ عُلوی کی بلندی پر رکھا ہے، وہ چار انتہائی عظیم فرشتے ہیں، جو عالمِ وحدت میں ہونے کی وجہ سے ایک ہی میں چاروں ہیں، صرف یہی معجزہ نہیں بلکہ وہ بذاتِ خود ایک زندہ کتاب بھی ہیں، جس میں نیک لوگوں کا نامۂ اعمال بول رہا ہے اور اللہ نے اپنی رحمت سے یہ امر مقربین کے لئے ممکن بنا دیا ہے، کہ وہ اس کتاب کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ کریں (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) ان محولہ آیات کا حکیمانہ اشارہ یہ ہے کہ جو مومنین

۱۹

زندگی ہی میں فنا ہو جاتے ہیں جیسا کہ اس کا حق ہے، وہ نہ صرف اپنے نامۂ اعمال ہی کو کتابِ مرقوم (۸۳: ۲۰) میں دیکھ سکتے ہیں بلکہ اپنی انائے عُلوی کو بھی اس بولتی کتاب کی وحدت و سالمیّت میں پاتے ہیں۔

مثالِ برترین:

خدائے علیم و حکیم نے اپنے خاص بندوں کو علم وحکمت سکھانے کے لئے ایک انتہائی جامع الجوامع مثال بنا دی ہے، جو آسمانوں میں بھی ہے، اور زمین پر بھی، وہ وہاں عقل ہے اور یہاں مظہرِ عقل (۳۰: ۲۷) اور یہ بات ایک یقینی حقیقت ہے کہ تمام کائنات و موجودات کی تمثیلات و تشبیہات اور رموز و اشارات پر وہ بادشاہ ہے، اور وہی نورِ قرآن ہے، یعنی قلمِ عقل، پس ہر مثال کے باطن میں اسی کی علمی تجلّیات میں سے ایک تجلّی ہے، خواہ یہ مثال کتابِ سماوی میں ہو، یا آفاق و انفس میں، اسی کی حکمت ہر چیز میں پوشیدہ ہے اور اسی کی طرف ہر شے رجوع کر جاتی ہے۔

صندوقِ سکینہ:

یعنی ایسا صندوق، جس میں اطمینان بخش چیزیں ہیں، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تسکین کس نوعیت کی ہو سکتی ہے؟ کیا یہ صندوق صرف بنی اسرائیل کے لئے محدود تھا؟ یا یہ ایک دائمی اور عقلی معجزہ ہے؟ آیا کوئی عام مادّی چیز امام طالوت کی روحانی سلطنت کی نشانی اور دلیل ہو سکتی تھی؟ اس

۲۰

کا جواب یوں ہے: صندوقِ سکینہ پہلے مراحلِ روحانیّت میں ہے، اور اس کے بعد منازلِ عقلانیّت میں، لہٰذا یہ اطمینان جسمانی نہیں، بلکہ روحانی اور عقلانی ہے، یہ صندوقِ جواہرِ عقل ہے (۰۲: ۲۴۸) اس لئے یہ نورِ امامت کا دائمی معجزہ ہے، یہ بات خوب دلنشین ہو کہ مجموعی طور پر پیغمبروں کے معجزات ظاہر میں ہوتے ہیں، اور اماموں کے معجزات باطن میں، جو چیز پروردگار کی جانب سے باعثِ تسکین ہو، جس کو فرشتے اٹھاتے ہوں اور جس میں آلِ موسیٰؑ اور آلِ ہارونؑ کی (روحانی اور عقلی) میراث ہو، وہ کوئی عام اور مادّی شے کس طرح ہو سکتی ہے؟

نیک لوگ تختوں پر:

بہشت میں نیک لوگ تختوں پر بیٹھے نظارے کریں گے (۸۳: ۲۳) تختوں کا قرآنی لفظ ارائک ہے، جو جمع ہے، اور اریکہ واحد ہے، جو عرش کا ہم معنی ہے، پس ارائک یا اریکہ سے نورِ عقل مراد ہے، چنانچہ اہلِ جنّت عقل کے تختوں پر بیٹھے ہوئے ہوں گے، اور ان کی ہستی ایک عقلی روشنی ہوگی، اس کی ایک مادّی مثال جلتی ہوئی شمع (موم بتی) سے دی جا سکتی ہے کہ موم گویا بہشت میں روحِ مومن ہے، شعلہ تختِ عقل اور اس پر جو لطیف روشنی ہے کہ وہ وابستۂ شعلہ بھی ہے اور پھیل بھی رہی ہے، وہ اہلِ جنّت کی لطیف ہستی ہے جو بسیط اور ہر جا حاضر ہونے کی صفت رکھتی ہے، لہٰذا مومن کی عقلی انا تختِ بہشت پر بیٹھ کر ہی مکان و لا مکان کا

۲۱

نظارہ کر سکتی ہے۔

ذریتِ بنی آدم:

اس میں کیا شک کہ الفاظِ قرآن انتہائی اور زبردست جامع ہوا کرتے ہیں، مثال کے طور پر سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲) میں جس طرح عہدِ الست کا ذکر آیا ہے، اس میں غور و فکر سے دیکھ لیجئے، اس آیۂ کریمہ کا آغاز اس طرح ہے: وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ ۔۔۔ یعنی جب تمہارے پروردگار نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی ذریت کو لیا (اور سب کو منازلِ روحانیّت میں بلند کرتے کرتے عالمِ عقل میں پہنچا دیا، جہاں ان کی دیدۂ عقل روشن ہوئی ) اور ان کو اپنی روح کا بالائی سرا دکھایا گیا۔۔۔ خوب یاد رہے کہ اخذ (اُس نے لیا، پکڑا) دستِ قدرت کا فعل ہے، جس کا ظہور و کمال مقامِ عقل پر ہے، پس وہاں اس کی مٹھی میں جو کچھ ہے، وہ سب کچھ ہے اور عقل و ذریتِ بنی آدم بھی ہے۔

کُلُّ شیٔ:

ہر چیز، یعنی تمام چیزیں، قرآنِ مجید میں جب جب کُلُّ شیٍٔ کا عنوان آتا ہے تو اس کے معنی سے باہر کوئی چیز نہیں ہوتی ہے، کیونکہ کُلُّ شیٍٔ سے تمام عقلی، روحی، اور جسمی چیزیں مراد ہیں، اور ان میں سب سے خاص اور سب سے اعلیٰ عقلی چیز بھی ہے، وہ رویّت یعنی دیدارِ الٰہی ہے، جس کے بغیر بے شمار نعمتوں اور کرامتوں کی سیڑھی کا کوئی مقصد ہی نہیں، اور نہ ہی معرفت ممکن ہے، پس اللہ جلّ جلالہ نے امامِ مبینؑ کی ذاتِ اقدس میں تمام

۲۲

چیزوں کو گھیر کر شمار کر لیا ہے، اور انہیں گوہرِعقل کی صورت دی ہے (۳۶: ۱۲) اس سے معلوم ہوا کہ کُلُّ شیٍٔ دراصل لولوئے عقل ہی ہے، خالقِ اکبر نے بارِ اوّل اسی سے کائنات و موجودات کو پیدا کیا تھا، جیسا کہ ارشاد ہے: کیا وہ لوگ (چشمِ باطن سے) نہیں دیکھتے ہیں کہ خدا کس طرح مخلوقات کو پہلے پہل پیدا کرتا ہے اور پھر اس کو (دستِ قدرت میں گوہرِ ازل بناکر) دوبارہ پیدا کرتا ہے (۲۹: ۱۹)۔

صحفِ مکرمۃ:

بہت معزز اوراق (۸۰: ۱۳) یعنی نورِ عقل کے ظہورات جن میں قرآنِ کریم اپنی بے مثال ازلی نورانیّت کے ساتھ درخشان و تابان ہے، جیسے لوحِ محفوظ میں اس پاک آسمانی کتاب کی روحانی صورت ہمیشہ کے لئے موجود ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) یہاں ایک بڑا اہم سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ قرآنِ عظیم خدا تعالیٰ کا کلامِ حکمت نظام ہے، لہٰذا یہ انتہائی پاک و برتر ہے، پھر ایسی لاہوتی کتاب میں نصیحت و عبرت کی خاطر اہلِ زمین کے بعض قصّے بھی ضروری ہوئے، جن میں بظاہر کچھ باتیں مخلوق کی زبان سے ہیں، اس کے بارے میں ہمارا کیا عقیدہ ہونا چاہئے؟

جواب: یقیناً قرآن میں بہت سے احکام کے ساتھ ساتھ حکایات بھی ہیں لیکن ان کی ترجمانی خدائے پاک و برتر کی طرف سے ہوئی ہے، یعنی ایسی تمام باتوں کو نورِ عقل (قلمِ الٰہی) کے سانچے میں ڈھل کر نازل ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے، اسی مناسبت سے

۲۳

قرآن کے بہت سے ناموں میں یہ دو مبارک نام بھی ہیں: مرفوعہ، مطھرہ (۸۰: ۱۴) بلند کیا گیا، پاک کیا گیا، پس قرآنِ حکیم کی ہر آیت میں علم و حکمت کا ایک خزانہ پنہان ہے، کیونکہ وہ ہر حالت میں من عند اللہ (خدا کی طرف سے) ہے۔

محبت اور عقل:

حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد ہے: وَ اَلْقَیْتُ عَلَیْكَ مَحَبَّةً مِّنِّیْ (۲۰: ۳۹) اور میں نے تم پر اپنی محبت کا پَرتَو ڈال دیا۔ یہاں یہ حقیقت روشن ہے کہ انسانِ کامل (پیغمبر اور امام) میں خدا اپنی محبت رکھ دیتا ہے، تاکہ لوگ اس سے محبت کریں، نیز کسی میں خدائی محبت ہونے کی غرض یہ بھی ہے کہ اس ہستی میں عقل درجۂ کمال پر پہنچ جائے، جیسا کہ شروع ہی میں حدیثِ شریف کے حوالے سے اس کا ذکرہوا۔

کنزِ مخفی:

ایک حدیثِ قدسی کا مفہوم یہ ہے کہ پروردگارِ عالم پوشیدہ خزانہ تھا (یعنی خزانۂ اسرارِ عقل) پس اس نے چاہا کہ اس کو پہچانا جائے سو اس نے خلق کو پیدا کیا۔ یہ عالمِ شخصی ہی کی بات ہے کہ خداوندِ علیم و حکیم نے اپنی قدرتِ کاملہ سے عارفین کو جسماً، روحاً، اور عقلاً پیدا کر کے اپنی معرفت کے قابل بنا دیا، اور اس بات میں اس کے لاتعداد احسانات کا اشارہ ہے کہ اس بے مثال مہربان نے اپنی ذاتِ پاک کو گنجِ مخفی قرار دیا، تاکہ جو شخص اپنے آپ کو سب سے زیادہ پہچانتا ہو، وہی معرفتِ الٰہی میں سب سے آگے ہو، اور

۲۴

یہ خزانہ اسی کا ہو جائے، جیسا کہ حدیثِ نبوّی کا ارشاد ہے: من کان للہ کان اللہ لہ (جو بحقیقت خدا کا ہو تو خدا بھی اسی کا ہو جاتا ہے)۔

آفتابِ عقل:

قرآنِ حکیم میں نورِ عقل کا ایک نام “شمس” بھی ہے، مثال کے طور پر قصّۂ ذوالقرنین (۱۸: ۸۳ تا ۹۸) میں دیکھ لیں، یعنی عقل ہی عالمِ شخصی کا سورج ہے، اور یہ بھی یاد ہو کہ جہاں کوئی سورج ہوتا ہے، وہاں ایک کائنات بھی ہوا کرتی ہے، چنانچہ اس مادّی دنیا میں ظاہری سورج کی جیسی ضرورت ہے، عالمِ شخصی میں آفتابِ عقل کی بھی ویسی ہی اہمیت ہے، سورۂ تکویر (۸۱: ۰۱) میں ارشاد ہوا ہے: جس وقت آفتاب لپیٹ لیا جائے گا۔ یعنی ہر عارف کی ذاتی قیامت میں نہ صرف منزلِ عزرائیلی ہی میں بلکہ مرتبۂ عقل پر بھی یہ مشاہدہ ہو جاتا ہے کہ بارہا کائناتِ جان و عقل لپیٹی اور پھیلائی جاتی ہے، اور اس فعلِ قدرت میں بے شمار اسرار مخفی ہیں۔

نفسِ واحدہ:

آپ کو یہ جاننا ضروری ہے کہ حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام میں سے ہر ایک اپنے وقت کا نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) ہوا کرتا ہے، یعنی ایسا فردِ واحد اور ایسا شخصِ کامل کہ اس کی ذات میں تمام نفوسِ خلائق کی قیامت برپا ہو جاتی ہے، درحالے کہ کچھ پاکیزہ روحوں کے سوا اس واقعۂ عظیم کو کوئی نہیں جان سکتا،

۲۵

جس کی وجہیں دو ہیں، پہلی وجہ: وہ مومن تھا، مگر علم و عبادت میں کمزور، لہٰذا اس پر ناقابلِ برداشت بوجھ نہیں رکھا گیا (۰۳: ۲۷،  ۲۷: ۸۷) ، دوسری وجہ: وہ مومن نہیں تھا، اس لئے وہ قیامت سے اندھا رہا (۱۷: ۷۲،  ۲۷: ۶۶) کاش وہ عقلِ کامل یعنی نفسِ واحدہ کو پہچان لیتا!

نورِ عقل کا فیضِ عام:

یقین کے تین بڑے درجات کے بارے میں آپ جانتے ہوں گے، ان میں سے ہر درجہ گویا بہت اونچی سیڑھی ہے، جس کے بہت سے زینے ہیں، چنانچہ سب سے پہلے علم الیقین کی سیڑھی بے حد ضروری ہے، کیونکہ راہِ مستقیم یہی ہے اور اسی سیڑھی پر نورِ عقل کا فیضِ عمیم حاصل ہوتا رہتا ہے، ایک مثال: جو بیماری انسانی جسم میں درد کے بغیر آگے بڑھتی رہتی ہو، وہ زیادہ خطرناک ہوا کرتی ہے، اسی طرح اگر کوئی آدمی شک و شبہ اور جہالت و نادانی کا مریض ہے، تو اکثر وہ کسی ایسے درد کو محسوس ہی نہیں کرتا ، پس مومن کی بہت بڑی سعادت اسی میں ہے کہ وہ ہر وقت حصولِ علم الیقین میں مصروف رہتا ہے، تاکہ وہ شکوک و شبہات کے جراثیم سے محفوظ رہے۔

عروۃ الوثقیٰ:

اس کے معنی ہیں: دستاویزِ محکم، دستگیرۂ محکم (۰۲: ۲۵۶) یعنی دین کا وہ مضبوط ترین وسیلہ، جس کو پکڑنے سے پائے عقیدت میں کوئی لغزش نہ آئے، اس سے عقل اور اس کا مظہر

۲۶

مراد ہے، جو اللہ کی رسی ہے، جس کا بالائی سرا خدا کے ہاتھ میں ہے، اور زیرین سرا مومنین کے ہاتھ میں، تاکہ اہلِ ایمان اس ذریعے سے عالمِ بالا میں پہنچ جائیں۔

حبل اللہ:

خدا کی رسی (۰۳: ۱۰۳) نورِ عقل ہے، جو قرآن اور نورِ امامت کی صورت میں سرچشمۂ علم و ہدایت ہے، حدیثِ شریف میں ارشاد ہے کہ خدا کی کتاب (قرآن) آسمان سے زمین تک کھچی ہوئی رسی ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے، کہ منازلِ روحانیّت و عقلانیّت میں سے کوئی منزل ایسی نہیں جہاں قرآن اور نورِ امامت کی یہ رسی نہ ہو، کیونکہ آیۂ کریمہ (۰۵: ۱۵) سے یہ حقیقت درجۂ یقین روشن ہو جاتی ہے کہ یہ دونوں گرانقدر چیزیں اللہ کی طرف سے آئی ہیں، اور ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔

عقلی معجزات:

قرآنِ پاک میں معجزہ کا نام اٰیہ ہے (۱۳: ۳۸) جس کی جمع آیات ہے، اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو قرآنِ حکیم کی ہر آیت فعلاً ایک دائمی عقلی معجزہ ہے، اسی طرح قرآنِ عظیم سر تا سر معجزاتِ علمی کا عالم ہے، اور بڑی عجیب بات یہ ہے کہ فرقانِ حمید میں انبیاء علیہم السّلام کے جن حسی معجزات کا ذکر آیا ہے، وہ بھی حجابِ روحانیّت کے پیچھے روحانی اور عقلی معجزات ہیں، اب رہا سوال آیاتِ آفاق و انفس کا (۴۱: ۵۳) تو وہ بھی کسی شک کے بغیر معجزاتِ الٰہی ہیں، لیکن لوگوں کے لئے وضاحت چاہیے کہ سائنسی

۲۷

عجائب و غرائب (معجزات) میں عقل و روح کے کیا کیا اشارے ہو سکتے ہیں؟ اس کے لئے دیکھئے: قرآنی مینار، سائنس اور روحانیّت۔

بحرِ علم پر عرش:

ارشادِ خداوندی کا ترجمہ: اور وہ تو وہی (قادرِ مطلق) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا (کان،  ۱۱: ۰۷) تاویلی حکمت: خدا نے عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کو روحانیّت کے چھ چھوٹے چھوٹے ادوار میں پیدا کیا اور نورِ عقل جواس کا تخت ہے اس کا ظہور علم کے سمندر پر ہوا، یعنی کتابِ معرفت کا کہنا یہ ہے کہ روحانیّت وہ عالم ہے، جس کے شروع کے چھ مراحل پیغمبروں خصوصاً چھ ناطقوں کی شناخت سے متعلق ہیں، اور ساتواں مرحلہ جو بڑا طویل ہے، وہ امام، امامت، قائم اور قیامت کی پہچان کے بارے میں ہے، اور یہاں انتہائی عظیم خزائن رکھے ہوئے ہیں۔

کوہِ قاف:

اس سے کوہِ عقل مراد ہے، جو ہر چیز پر محیط ہونے کے ساتھ اپنی نوعیت کا ایک عالم بھی ہے، جس میں سب کچھ ہے مگر متحد یعنی ایک ہو کر، شروع شروع میں آپ کو بڑا تعجب ہوگا کہ ایک میں سب کیسے ہو سکتے ہیں! اور کس طرح سما سکتے ہیں! لیکن آگے چل کر آپ یقین کریں گے کہ یہ بات حقیقت ہے، اس کی ایک ظاہری مثال عددِ واحد (۱) ہے، جس سے اربوں کھربوں سے بھی زیادہ شمار کا ایک علم وجود میں آیا ہے، اور وہ “علم الحساب” کہلاتا ہے، اب آپ دنیائے علمِ حساب

۲۸

کا وہ اصل ظرف بتائیں، جس میں عددی کائنات کا سارا پھیلاؤ سمٹ سمٹ کر سما سکتا ہے؟ وہ وہی عددِ واحد ہے جس سے اعداد و شمار کی دنیا پھیلائی گئی تھی، اس سے نورِ عقل یا طورِ عقل کی وضاحت ہوئی کہ جب پروردگار اس پر اپنی تجلّی ڈالتا ہے، تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے، اور یہ بے شمار ذرے جو تجلّیٔ حق کے زیرِ اثر پیدا ہوگئے، وہ عبث اور بے معنی کیسے ہو سکتے ہیں؟ لہٰذا یہ کہنا حقیقت ہے کہ اس مثال میں بے شمار عقلی اور روحانی نعمتوں کا ذکر ہے۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی ، کراچی

بدھ ، ۶ رجب المرجب ۱۴۱۱ھ

۲۳ جنوری ۱۹۹۱ء

۲۹

اسمائے عقل کی حکمتیں

قسط: ۲

چشمۂ سلسبیل:

قرآنِ کریم میں جہاں جہاں آبِ پاک کا ذکر آیا ہے، وہ حقیقی علم کی مثال ہے، جو سرچشمۂ عقل سے جاری ہے، چنانچہ سورۂ رحمان (۵۵: ۵۰،  ۵۵: ۶۶) اور سورۂ دہر (۷۶: ۰۶،  ۷۶: ۱۸) میں عقلی اور علمی چشموں کا بیان ہے، کیونکہ جس طرح دنیائے ظاہر کی ساری نعمتیں اور برکتیں پانی کے بغیر ناممکن ہیں، اسی طرح روحانیّت اور بہشت کی کوئی نعمت و لذّت سرچشمۂ عقل و علم کے سوا ہو نہیں سکتی، پس چشمۂ سلسبیل عقل کا ایک نام ہے۔

مقامِ ابراہیم:

مقام کے پہلے معنی ہیں کھڑا ہونے کی جگہ، دوسرے معنی ہیں انبعاث کی جگہ، اور وہ مرتبۂ عقل ہے، جس میں معجزۂ ابداع و انبعاث کا ظہور ہوتا ہے، کہتے ہیں کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام ایک پتھر پر کھڑے ہوئے تھے ، تاکہ خانۂ کعبہ کی دیواریں اونچی کریں، اس سے گوہرِ عقل مراد ہے، جس کے ذریعے سے ذاتی دنیا میں تعمیرِ بیت اللہ کا تجدّدِ امثال

۳۰

ہوتا ہے، اسی امکانی ارتقاء کے پیشِ نظر حکمِ خداوندی ہے: وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ (۰۲: ۱۲۵) اور ابراہیم کی جگہ کو نماز کی جگہ بناؤ۔ یعنی تم روحانیّت میں اتنی ترقی کرو کہ امامِ زمانؑ کا نور تمہارے قلب میں طلوع ہو جائے، جس کی روشنی میں تم یقیناً کعبۂ حقیقت کی تعمیر کا مشاہدہ کرو گے اور اسی طرح بیتِ عتیق (۲۲: ۲۹،  ۲۲: ۳۳) اور مقامِ ابراہیم تک رسائی ہو سکتی ہے، البیت العتیق کے معنی ہیں قدیم گھر، نیز عتیق بروزنِ فعیل بمعنیٔ فاعل آزاد کرنے والا، یعنی وہ گھر جس میں داخل ہو جانے سے لوگوں کو تقلید و جہالت کی زنجیروں سے آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔

حدید۔ لوہا:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ (۵۷: ۲۵) اور ہم نے ہی لوہے کو نازل کیا جس کے ذریعے سے سخت لڑائی اور لوگوں کے بہت سے نفع (کی چیزیں) ہیں۔ یعنی علمِ امامت جو سرچشمۂ عقل سے نازل کیا گیا ہے، جس کا کردار روحانی اور علمی جہاد میں بڑا زبردست ہے، مزید برآن اس میں لوگوں کے لئے اور بھی فائدے ہیں، جس طرح مادّی لوہے سے اسلحہ اور سامانِ جنگ بنائے جاتے ہیں، اسی طرح امام کے علم سے روحانی ہتھیار تیار ہوتے ہیں، جو تاویلی حرب کے لئے انتہائی شدید ہیں، ان میں ابداعی کرتے خاص ہیں، جو منزلِ عزرائیلی اور کارخانۂ عقل میں بنتے ہیں۔

 

۳۱

 

دلیلِ روشن:

بینۃ (۰۸: ۴۲) یعنی عقلی دلیل، آیۂ شریفہ کا مفہوم اس طرح ہے کہ: جو شخص دلیلِ روشن کی رو سے مر چکا ہو، اس کی جسمانی زندگی سے موت بہتر ہے، اور جو عقلی طور پر زندہ ہو تو اسے جسماً بھی زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔

سقفِ مرفوع:

وہ چھت جو بلند کی گئی ہے، یعنی آسمانِ عقل جو زمینِ نفس (جان) سے بلند کر کے بنایا گیا ہے، یہاں یہ سرِ اعظم پوشیدہ ہے کہ عالمِ شخصی کا عرش روح کے ارتقاء سے بنتا ہے، کیونکہ سقفِ مرفوع سے عرش (عقل) مراد ہے اور لفظِ مرفوع اسمِ مفعول ہے، یعنی مذکورہ چھت کو فاعل نے پستی سے اٹھا کر بلندی پر رکھ دیا ہے، متعلقہ آیۂ مبارکہ یہ ہے: و السقف المرفوع (۵۲: ۰۵) اور قسم ہے اونچی چھت کی۔

رفعِ طور:

قرآنِ حکیم میں تین بار یہ ذکر ہے کہ بنی اسرائیل کے اوپر کوہِ طور معلق کر کے دکھایا گیا، تا کہ وہ ڈر کر توریت کے احکام پر عمل کریں (۰۲: ۶۳) اس کی تاویلی حکمت عالمِ شخصی میں یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے روحانی افراد کے مشاہدے میں کوہِ عقل ان کے اوپر گردش کر رہا تھا۔

حجرِ انہار:

وہ پتھر جس سے (علم و حکمت کی ) نہریں جاری ہوتی ہیں، وہ سنگ جس کے شق ہو جانے سے

 

۳۲

 

(عقل و دانش کا) پانی نکلتا ہے، اور وہ حجر جو خدا کے خوف سے گر جاتا ہے (۰۳: ۷۴) گوہرِعقل ہی ہے، کیونکہ اللہ سے ڈرنے کا وصف جمادات، نباتات اور حیوانات میں کجا، وہ تو عام انسانوں کو بھی چھوڑ کر علمائے ربّانی (ائمّۂ طاہرین)  میں ہوتا ہے (۳۵: ۲۸) اور گوہرِعقل انہی حضرات میں ہے۔

جنّات معروشات:

ایسے باغ جو ٹٹیوں پر چڑھائے جاتے ہیں، جیسے انگور وغیرہ، یہ باغہائے عقل ہیں ، (۰۶: ۱۴۱) جو روح و روحانیّت کی بلندیوں پر ہیں اور ان کے نیچے روحانی باغات ہیں، جو غیر معروشات (۰۶: ۱۴۱) کے نام سے ہیں، غرض عقلی میوے روحانی پھلوں سے برتر اور افضل ہیں۔

مکاناً علیاً:

اونچی جگہ (۱۹: ۵۷) یعنی عالمِ شخصی میں مرتبۂ عقل، جہاں عرش اور اس کے متعلقات کی معرفت کا خزانۂ مخفی موجود ہے اور ازل و ابد کا تجدّد بھی اسی مقام پر ہے، چنانچہ خداوندِ بزرگ و برتر نے حضرتِ ادریس علیہ السّلام کو نورِعقل عطا کر کے بلند فرمایا، آپ علیہ السّلام اپنے وقت کے امام تھے۔

میزان:

اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقلِ کلّ کے آسمان کو نفسِ کلّ کی زمین سے الگ کر کے (۲۱: ۳۰) بلند کیا اور (اس میں) ترازو رکھ دی (۵۵: ۰۷) یعنی عقلی آسمان میں میزانِ عقل مقرر ہوئی، پھر خدا نے اپنے پیغمبروں کو واضح و روشن معجزات دے کر بھیجا

 

۳۳

 

اور ان کے ساتھ کتاب اور ترازوئے عقل نازل کی (۵۷: ۲۵) یہاں یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ جو ترازو ہر آسمانی کتاب کے ساتھ نازل ہوتی رہی ہے، اس کا خاص تعلق قرآنِ پاک سے کیوں نہ ہو، پس یقیناً یہ میزانِ نورِ عقل اور نورِ علم ہے، جو آنحضرت کے بعد امامِ عالی مقام میں موجود ہے، اور یہ وہی نور ہے، جس کا ذکر سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) میں فرمایا گیا ہے۔

خیرِ کل:

بیدک الخیر۔ ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے (۰۳: ۲۶) جب اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ سے ساری کائنات کو لپیٹ کر قبضۂ قدرت میں لیتا ہے، تو اس وقت شر کا خاتمہ ہو جاتا ہے، اور خدا کی مٹھی میں خیر کے ساتھ دوسری تمام چیزیں بھی خیر ہو جاتی ہیں، اسی طرح اب یہ جوہر اور لبِّ لباب ہے کائنات کا، جس سے بارِ اوّل کائنات پیدا کی گئی تھی، اور درِ عقل یہی ہے ، جو خیرِ کل ہے۔

عصائے موسیٰ:

حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کی لاٹھی کا ذکر قرآنِ کریم کے دس مقامات پر موجود ہے، یہ عصا عالمِ شخصی میں اسمِ اعظم اور معجزۂ عقل ہے، یہ دونوں انتہائی عظیم معجزے جو ایک ہی لاٹھی کے دونوں سروں کی طرح کام کرتے ہیں، وہ باطل اور شر کی تمام قوّتوں پر غالب آنے کے لئے کافی ہیں، دینِ حق کا معجزہ حضرتِ موسیٰؑ کی لاٹھی کی طرح اگرچہ خاموش، ساکن اور بے جان لگتا ہے۔

 

۳۴

 

لیکن یہ اپنے طور پر سحرِ زمانہ کے سارے طوفانوں کو نگل لینے والا اژدہا ہے۔

کتابِ مکنون:

پوشیدہ کتاب، چھپائی ہوئی کتاب (۵۶: ۷۸) جو قلمِ الٰہی (عقلِ کل) میں بھی ہے، لوحِ محفوظ (نفسِ کلّ) میں بھی، نورِ امامت میں بھی ہے، اور خود قرآن کے باطن میں بھی ، اس کو بس وہی لوگ چھوتے ہیں ، جو جہالت و نادانی کی آلائش سے پاک کئے گئے ہیں، اور چھونے کا سب سے عظیم راز یہ ہے کہ مرتبۂ عقل پر اسرارِ حقائق و معارف کا تجدّد چھونے کی مثال میں ہوتا ہے جس میں بے شمار بھیدوں کی وحدت و یکجائی ہے۔

عقلی نعمتیں:

جسم ظاہر ہے، مگر روح باطن، اور عقل اس سے بھی باطن ہے، پس قرآنِ حکیم کو لازمی طور پر اسی قانونِ فطرت کے مطابق ہونا ہی تھا، اور ایسا ہی ہوا کہ اس کی بے مثال اور لازوال نعمتیں نہ صرف ظاہر میں پھیلی ہوئی ہیں، بلکہ بے پایان نعمتوں کا تعلق باطن سے ہے، جیسا کہ سورۂ لقمان کا یہ ارشاد ہے (ترجمہ): کیا تم لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے یقیناً خدا ہی نے تمہارے لئے تابع کر دیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دیں (۳۱: ۲۰) اس قرآنی بیان سے یہ حقیقت روزِ روشن سے بھی زیادہ عیان اور تابندہ ہوگئی کہ قرآن کے باطن اور روحانیّت میں روح اور

۳۵

عقل کے لئے بے حساب نعمتیں موجود ہیں۔

عالم یا عاقل:

قرآنِ عزیز میں جا بجا براہِ راست اور بالواسطہ عقل کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، بلکہ یوں سمجھ لیں کہ کلامِ الٰہی کے شروع سے لے کر آخر تک عقل ہی کا موضوع پھیلا ہوا ہے، کیونکہ عقل خلقِ اوّل بھی ہے، اور خلقِ آخر بھی، اس لئے اس کے ظاہری اور باطنی بہت سے اسماء ہیں، کثیر مترادفات اور اضداد ہیں، اور جملہ مثالیں بھی اسی سے متعلق ہیں، اگرچہ علم ہر چیز پر محیط ہے، لیکن اس کا سرچشمہ عقل ہے، لہٰذا علم کی تعریف بھی حقیقت میں عقل ہی کی تعریف ہے، پس قرآن میں علماء سے عقلا مراد ہیں (۲۹: ۴۳) اور ائمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہیں، جو قرآنِ حکیم اور اس کی مثالوں کی حکمت کو جانتے ہیں (۲۹: ۴۳)۔

عقل اور علم کی یکجائی:

اگرچہ اہلِ دانش اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ نورِ عقل کی روشنیوں کا نام علم ہے، تاہم بعض تلامیذ کے لئے اس آیۂ شریفہ کی نشاندہی ضروری ہے، جس میں لفظِ عقل اور علم ایک ہی معنی میں استعمال ہوئے ہیں، وہ ارشاد یہ ہے: وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِۚ-وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ (۲۹: ۴۳) اور ہم یہ مثالیں لوگوں (کے سمجھانے) کے واسطے بیان کرتے ہیں اور ان کو تو بس علماء ہی سمجھتے ہیں (سورۂ عنکبوت،  ۲۹: ۴۳) یہ علماء أئمّۂ اہلِ بیت علیہم السّلام ہیں۔

 

۳۶

 

عقل اور اشارہ:

عقل کا ظہور عالمِ علوی میں اشارات پر مبنی ہے، اور قرآنِ پاک بھی اپنی نورانیّت میں اشارہ ہے، کیونکہ وہ وحی ہے، یعنی اشارۂ خفی، لفظ کے اس معنیٰ کے لئے سورۂ مریم (۱۹: ۱۱) میں دیکھئے: فاوحی الیھم (پس ان کی طرف اشارہ کیا) اب آپ یقیناً یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں لاتعداد حکیمانہ اشارے ہیں، جن کا تعلق صاحبانِ عقل (اولواالالباب) سے ہے اور وہی حضرات اسرار و رموزِ قرآن کو جانتے ہیں۔

صاحبانِ عقل اور نصیحت:

اسمائے قرآن میں سے ایک اسم ذکر (۲۱: ۵۰) ہے، اس کے معنوں میں سے ایک معنی ہیں نصیحت، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ قرآنِ عظیم سراسر نصیحت ہے، اور نصیحت کا فائدہ عقلمندوں کے لئے ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ (۰۲: ۲۶۹) اور عقل والوں کے سوا کوئی نصیحت مانتا ہی نہیں۔

آیاتِ قرآن میں تدبر:

سورۂ محمد (۴۷: ۲۴) میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو قرآن میں غور نہیں کرتے ہیں، اس کے برعکس سورۂ ص (۳۸: ۲۹) میں عقل والوں کی توصیف فرمائی گئی ہے کہ وہ حضرات آیاتِ قرآن میں تدبر و تفکر کر کے نصیحت حاصل کرتے ہیں۔

ہدایت کا تعلق عقل سے:

جملہ قرآنِ مقدّس ہدایت

 

۳۷

 

ہے، جس کا تعلق عقل سے ہے، جیسا کہ خداوند تعالیٰ کا ارشاد ہے: جو لوگ بات کو جی لگا کر سنتے ہیں اور پھر اس میں سے اچھی بات (احسنہ) پر عمل کرتے ہیں یہی لوگ وہ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی اور یہی لوگ عقلمند ہیں (۳۹: ۱۸)۔

صاحبانِ عقل اور آیاتِ قدرت:

آیاتِ قرآن، آیاتِ کائنات اور آیاتِ عالمِ شخصی میں غور و فکر کے نتائج ایک جیسے ہیں، جیسا کہ سورۂ آلِ عمران میں ہے: اس میں تو شک ہی نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور شب و روز کے پھیر بدل میں عقلمندوں کے لئے (قدرتِ خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں (عقل والے وہ ہیں) جو اٹھتے بیٹھتے کروٹ لیتے (غرض ہر حال میں ) خدا کا ذکر کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میں غور و فکر کرتے ہیں (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) پس یہاں یہ حقیقت روشن ہے کہ صحیفۂ کائنات کا مطالعہ صرف عقل والے ہی کر سکتے ہیں۔

حکمت (۰۲: ۲۶۹):

عقل کا ایک خاص اور مشہور نام حکمت ہے، حکمت دنیوی بھی ہے اور دینی بھی، اس لئے آپ جب کتبِ لغت میں اس لفظ کی تحقیق کریں گے، تو یہ نہ سمجھنا کہ دینی حکمت اور فلسفہ ایک ہی چیز ہے، جبکہ حکمتِ الٰہیہ اور چیز ہے، جس کے لئے قرآن میں غور سے دیکھنا ہو گا، کہ حکمت وہ عقل و دانائی ہے، جو خدا کی طرف سے عطا ہوتی ہے، جیسا کہ ارشادِ ربّانی ہے: وَ مَنْ یُّؤْتَ

 

۳۸

 

الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًاؕ (۰۲: ۲۶۹) اور جس کو حکمت عطا کی گئی تو یقیناً اسے خوبیوں کی بڑی دولت ہاتھ لگی۔

حکمتِ بالغہ:

درجۂ انتہا کی دانائی، آسمانی حکمت کی یہ تعریف سورۂ قمر (۵۴: ۰۵) میں ہے، اگر کوئی ہوشمند مومن اس معنیٰ میں بجا طور پر غور کرے تو اسے بہت کچھ علمی فائدہ ہو سکتا ہے، مثلاً حکمتِ بالغہ کے لفظی معنی ہیں پہنچنے والی حکمت، عقلِ رسا، عقلِ کامل، ایسی دانائی کی بات کہ اس کی گہرائی میں سرِ ازل کا کوئی اشارہ موجود ہو، ایسی ہدایت جو ادھوری نہیں، بلکہ معنوی لحاظ سے منزلِ مقصود تک جا پہنچتی ہے، ایسا علم جس کا تذکرہ بظاہر درمیانی منزلوں کے بارے میں لگتا ہے، لیکن حقیقت میں اس کا تعلق گنجِ معرفت سے ہے، جو نورِ عقل کے ساتھ ہے، اور حکمتِ بالغہ وہ ہے، جو عالمِ عُلوی سے سیڑھی بن کر دنیا میں اتر آئی ہے، تاکہ خوش بخت مومنین اس سے زینہ بزینہ چڑھ کر عالمِ بالا میں پہنچ جائیں۔

لفظِ تاویل:

طالبانِ دانش کے لئے یہ ایک بڑا اہم سوال ہے کہ لفظِ تاویل کے اصل معنی کیا ہیں؟ اور اس کا مقصد و منشا کیا ہے؟ میں عرض کرتا ہوں کہ تاویل لفظِ اوّل سے ماخوذ ہے، اور تاویل بروزنِ تفعیل مصدر ہے، جس کے معنی ہیں: اول کی طرف پھیرنا، اور مراد ہے کسی بات کے معنی کو باطن، روحانیّت اور عقلانیّت کی طرف پھیرنا یا لے جانا ، مثال کے حجاب میں سے

 

۳۹

 

حقیقت کو ظاہر کرنا، جیسے سورۂ یوسف (۱۲: ۴۳) میں سات گائیں حقیقت نہیں مثال ہیں، پس تاویل کا دوسرا نام ہے، جو خدا کی طرف سے ہے۔

ایک بنیادی سوال:

خوب غور سے سن لیں یہ سوال سورۂ یوسف کے حوالے سے ہے کہ آیا وہ حکمت جس سے خیرِ کثیر وابستہ ہے (۰۲: ۲۶۹) حضرت یوسف علیہ السّلام کو عطا ہوئی تھی یا نہیں؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ ہاں، توپھر تاویل وہی حکمت قرار پائے گی، جس میں خوبیوں کی بڑی دولت موجود ہے، اور حقیقت یہی ہے کیونکہ خدائے پاک و برتر ہی نے حضرتِ یوسفؑ کو علمِ تاویل سکھایا اور اللہ جس کو علم دیتا ہے، وہ کوئی ثانوی قسم کا علم ہرگز نہیں ہوتا، بلکہ وہ تمام ذیلی علوم کا اصل سرچشمہ ہوتا ہے، پس یہی کہنا بالکل درست اور حقیقت ہے، کہ جو اصل تاویل ہے، وہی حکمتِ بالغہ ہے، اور اسی میں خیرِ کثیر ہے۔

حضرتِ یوسفؑ اور تاویل:

حضرت یوسفؑ پیغمبر تھے اور امامؑ بھی، آپ کو خدا نے علمِ تاویل اس طرح سکھایا کہ شروع شروع میں رفتہ رفتہ منازلِ روحانی کا سلوک مکمل ہو گیا، پھر ذاتی دنیا ہی میں ارض اللہ (زمینِ نفسِ کلی) کی خلافت عنایت ہوئی، تا کہ اس عالمِ بالا کے پُرنور و پُرحکمت مشاہدات کی روشنی میں ظاہری باتوں کی تاویل کر سکیں (۱۲: ۲۱) پس جس شخص نے اپنے آپ کو نہیں پہچانا

 

۴۰

 

ہو جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے، وہ تاویل نہیں کر سکتا، اور جن کو امامِ زمانؑ نے تاویلی جنگ کے لئے اپنے سپاہی بنا لیا ہو، وہ اپنی حیثیت کے مطابق تاویل کر سکتے ہیں، کیونکہ تاویل ایک عقلی جنگ ہے، جس کے لئے علمی لشکر کا ہونا ازبس ضروری ہے۔

یک حقیقت کی مثالیں: حقیقتِ حقائق ایک ہی ہے، اور وہ “یک حقیقت” کہلاتی ہے، جس کی بے شمار مثالیں ہیں، یہ نورِ عقل ہی کا تذکرہ ہے، اسی کی حرکت اور طلوع و غروب کی اتنی ساری تعبیریں کی گئی ہیں، ہر تعبیر اور ہر مثال باکمال اور لاجواب ہے، آپ سورۂ اسراء (۱۷: ۸۹) سورۂ کہف (۱۸: ۵۴) سورۂ روم (۳۰: ۵۸) اور سورۂ زمر (۳۹: ۲۷) میں دیکھ لیجئے، عقلِ کلّی کی مثالوں کی یہ کثرت اس وجہ سے ہے کہ اس کو خدائے بزرگ و برتر نے تمام ممثولات (حقائق) کا کنزِ مخفی بنا دیا ہے، سبحان اللہ!

عرش ہر چیز پر محیط:

عرش سے عقلِ کلّ مراد ہے، جو نورانی اور علمی اعتبار سے کائنات و موجودات پر محیط ہے، اسی وجہ سے مولا علی علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا کہ: “مجھ سے ہر اس چیز کے بارے میں پوچھ لو جو عرش (یعنی عقل) کے نیچے ہے۔” کیونکہ نورِ نبوّت قلم، عرش اور عقلِ کلّ ہے، جبکہ نورِ امامت، لوح، کرسی اور نفسِ کلّ کا درجہ رکھتا ہے لیکن اس کے باؤجود یہ ایک ہی نور ہے، جو نورِ عقل ہے، لہٰذا امیر المومنین نے بزبانِ حکمت یہ فرمایا کہ: مجھ سے پوچھو

 

۴۱

 

تمام چیزوں کے بارے میں، کیونکہ ہر چیز میرے نور کے تحت ہے۔

عقل کی اوّلیّت:

انسان اشرف المخلوقات سہی، لیکن وہ شکمِ مادر سے پیدا ہوتے ہی کبھی عاقل و دانا نہیں کہلا سکتا، بلکہ حکمت اس امر میں ہے کہ وہ فطرت کے تمام ارتقائی مراحل میں شروع سے آخر تک سفر کرتا ہے، چنانچہ وہ سب سے پہلے جماد کی طرح بے جان ہوتا ہے، پھر نبات کی مختلف منزلیں طے کرتا ہے، پھر روحِ حیوانی کے مقامات سے گزرتا ہے، پھر اس میں روحِ انسانی آتی ہے، اور سب سے آخر میں عقلِ جزوی آتی ہے، اب اس کی تکمیل کی ضرورت ہے، اگر عقل حقیقی معنوں میں مکمل ہوئی، تو ایسا شخص انسانِ کامل میں فنا ہو کر از سرِ نو زندہ ہو جاتا ہے، اور اس کی جدید زندگی کے پیشِ نظر عقل ہی کو ہر اعتبار سے اوّلیّت حاصل ہوتی ہے، پس اسی معنی میں ارشادِ نبوّی ہے کہ: خدا نے (عالمِ شخصی میں) سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا۔

عقلی لذّتیں:

لذّتوں کی تقسیم جسم، روح ، اور عقل پر ہوئی ہے، جمادات اور نباتات البتہ لذّت و حلاوت سے محروم ہیں، جانوروں کو جسمانی لذّتوں سے ایک ادنیٰ سا حصہ ملا ہے، انسان میں جسمانی لذّتیں مکمل اور بھرپور ہیں، جس کی وجہ انسانی روح کی شرکت اور عقل کی ہمسایگی ہے، اگر یہ بات سچ ہے، تو پھر روحانی لذّتوں کا کیا عالم ہوگا، اور اس سے بھی بڑھ کر عقلی حلاوتوں کی کیا شان ہوگی، اس میں کوئی

 

۴۲

 

شک ہی نہیں کہ مادّی لذّتیں بیک وقت کئی کام انجام دیتی ہیں: وہ روحانی اور عقلی نعمتوں کی برتری کی طرف اشارہ کرتی ہیں، وہ زبانِ حال سے کہتی ہیں کہ ہم آزمائش ہیں، اور کہہ رہی ہیں کہ ہم ان کے لئے سزا بھی ہیں، جو روحانی اور علمی (عقلی) نعمتوں کا مزہ نہیں لے رہے ہیں۔

باقاعدہ عبادت اور کثرتِ ذکر میں اعلیٰ قسم کی روحانی لذّت موجود ہے، اگر کسی کو ایسا کوئی تجربہ نہیں ہوتا ہو تو یقیناً یہ اس آدمی کا قصور ہو سکتا ہے، ورنہ جسمانی لذّت سے روحانی لذّت برتر نہ ہونے کی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے، اسی طرح کچھ شرائط عقلی لذّت کے لئے بھی ہیں اور پہلی شرط یہ ہے کہ عقلِ جزوی بیمار نہ ہو، ورنہ اس کے سامنے ہزار گونہ عقلی نعمتیں رکھیں، پھر بھی اس کو کوئی مزہ نہیں آئے گا، جیسے بیمار آدمی کھانے سے بے رغبت ہو جاتا ہے اگر مجبوراً ذرا سا کھا بھی لے تو وہ غذا اس کے منہ میں بے ذائقہ ہو جاتی ہے۔

عقلی پرورش:

خالقِ اکبر نے انسان کو عقلِ غریزی (فطری) عنایت کر کے دوسری بہت سی مخلوقات پر بادشاہ بنادیا، ساتھ ہی ساتھ اس پیدائشی عقل کی پرورش کی غرض سے انبیاء و اوصیا علیہم السّلام کو مبعوث و مامور فرمایا، تاکہ دنیائے انسانیّت علم و حکمت اور نظامِ تربیت سے خالی نہ ہو، اور عقل جیسی خدا کی پسندیدہ و محبوب مخلوق کے

 

۴۳

 

لئے ذریعۂ اتمام و تکمیل مہیا رہے، پس روحانی اور عقلی تربیت و پرورش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خداوندِ جلّ جلالہ نے ارشاد فرمایا: الحمد للہ ربّ العالمین۔ خدا کی بہت بڑی تعریف ہے کہ وہ عوالمِ شخصی کا پروردگار ہے، یعنی اس بے حد مہربان کی طرف سے عقل و جان کی ہرگونہ پرورش کے تمام وسائل موجود و مہیا ہیں۔

کوکبِ درّی:

ستارۂ درّی، ستارۂ گوہرین (۲۴: ۳۵) عقلِ کلّ ہے، کیونکہ وہ عقل و دانش ، اور علم و حکمت کے انمول موتیوں کا عالم ہے، اور نجمِ ہدا ہے (۱۶: ۱۶) یہ وہ ستارہ ہے جو پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معراج کی شہادت دے رہا ہے (۵۳: ۰۱) اس کی شانِ تقدس دیکھئے کہ خدا نے اس کی قسم کھائی، نیز عقلِ کلّی وہ نجم ہے اور نفسِ کلّی وہ درخت، جو مخلوقات کی چوٹی پر اللہ جلّ شانہ کے لئے سجدہ کرتے رہتے ہیں (۵۵: ۰۶) غرض قرآنِ پاک میں جہاں  جہاں جہاں سورج، چاند، نجم، نجوم، چراغ اور چراغوں کے تذکرے آئے ہیں، وہ عقل کی تعریفی مثالیں ہیں، اسی طرح نور عالمِ بالا میں عقلِ کلّ ہے، اور دنیائے ظاہر میں امامِ زمان صلوات اللہ علیہ و سلامہٗ۔

واحد اور جمع:

عالمِ کثرت کے ماحول کی وجہ سے ہر شخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ایک میں سب کا وجود کیسے ہو سکتا ہے؟ یا ایک ہی چیز ہر چیز کس طرح ہو سکتی ہے؟ حالانکہ یہ کوئی مشکل مسئلہ ہے نہیں، کیونکہ جب اشیاء یا مخلوقات کی کثرت ہے،

 

۴۴

 

تو لازماً کہیں نہ کہیں ان کی وحدت بھی ہو سکتی ہے، جی ہاں اس وحدت کا مشاہدہ وہاں ہوتا ہے، جہاں خالقِ اکبر کائنات و موجودات کو اپنے قدرت والے ہاتھ میں لپیٹ کر (۳۹: ۶۷) ملکوت بناتا ہے (۳۶: ۸۳) جس میں ہر چیز کی یکجائی اور وحدت ہے۔

کتابِ عقل ۔ مجموعۂ کتب:

قرآنِ کریم کی ہر آیت حکیمانہ اشارات سے بھری ہوئی ہے، یہ صفت آیاتِ کریمہ کے ظاہری معنوں کے علاوہ ہوتی ہے، جیسا کہ سورۂ انبیاء کے ایک ارشاد کا ترجمہ ہے: جب ہم آسمان کواس طرح لپیٹیں گے جس طرح نوشتے کو کتابیں بنانے کے لئے لپیٹا جاتا ہے۔۔ (۲۱: ۱۰۴) اس سے یہ حقیقت مستنبط ہو جاتی ہے کہ اگرچہ آسمان یعنی کائنات اور اس میں جو کچھ ہے وہ سب قدرت کی ایک انتہائی وسیع کتاب ہے، لیکن اس کو باطنی طور پر لیپٹ کر عوالمِ شخصی میں عقل کی کتابیں بنا دی جاتی ہیں، یہی وہ کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، کیونکہ یہ مرتبۂ حق الیقین پر ہے (۰۲: ۰۲،  ۱۰: ۳۷) اور قرآنِ پاک اس کی حکیمانہ تفصیل ہے (۱۰: ۳۷)۔

ہزار سوال، ایک جواب:

قرآنِ حکیم کے کلّیات کی جامعیّت کا یہ معجزۂ کمال ہے کہ ان میں سے ہر ایک کلّیہ میں ہزار ہا سوالات کے لئے جوابِ شافی و کافی موجود ہوتا ہے، لیکن اس کی شرط غور و فکر اور عقل و دانش ہے، مثال کے طور پر سورۂ روم (۳۰: ۳۰) میں

 

۴۵

 

غور سے دیکھنے کی ریاضت کیجیے، جس کا مفہوم ہے کہ: تم حنیف ہو کر (مقامِ معرفت پر) اپنا چہرۂ جان دین کے لئے قائم کرو خدا کی پیدائش (کا کمال) یہی ہے جس پر اس نے لوگوں کو (اہلیت دے کر) پیدا کیا ہے۔۔۔ یعنی جملہ احکامِ دین کی بجا آوری سے عالمِ شخصی میں اتنی ترقی کرو کہ تمہارا روحانی چہرہ نفسِ کلّی کی نمائندگی کرنے لگے، تب تم اسرارِ عقل کے خزانے کو حاصل کر سکو گے، جہاں کوئی بھی سوال ٹھہر ہی نہیں سکتا۔

قلب۔ دل:

قرآنِ عظیم میں قلب کا مضمون بہت زیادہ توجہ طلب ہے، کیوں نہ ہو، جبکہ بموجبِ حدیثِ شریف ہر چیز کا قلب /دل ہوتا ہے اور قرآن کا قلب سورۂ یس ہے (لکل شیءٍ قلبا و قلب القرآن یس) چنانچہ انسانی قلب سے عقل مراد ہے، کیونکہ جاننے (۲۲: ۴۶) یا نہ جاننے (۰۷: ۱۷۹) کا تعلق قلب سے ہے، اور یہاں ایک بہت بڑا رازِ سربستہ یہ ہے کہ تاویلاً امامِ زمان علیہ السّلام مومن کا قلبِ سلیم ہے (۲۶: ۸۹)۔

عطیۂ الٰہی:

اللہ تبارک و تعالیٰ کا سب سے عظیم عطیہ اور سب سے بڑا انعام عقل ہی ہے، جس کے وسیلے سے تمام ذیلی نعمتیں حاصل ہو سکتی ہیں، کیونکہ دین و دنیا کی جملہ سعادتیں اور برکتیں نورِ عقل کی کرنیں ہیں، یہ کلیدی نکتہ خوب ذہن نشین کر لیں کہ خدا کے ہاتھ میں جو کچھ ہے، وہ اپنے نیک بندوں کو

 

۴۶

 

عطا کر دینے کی غرض سے ہے، جیسے فضل (۰۳: ۷۳)، خیر (۰۳: ۲۶)، ملکوت (۲۳: ۸۸) ، ملک (۶۷: ۰۱) وغیرہ، ان میں سے ہر معنی میں سب کچھ ہے۔

قدیم اور جدید:

ہر آدمی کی خواہشات اور تمناؤں کے دو رُخ ہوا کرتے ہیں، ایک رُخ ہمیشہ ماضی کی جانب رہتا ہے اور دوسرا مستقبل کی طرف، وہ نہ صرف جدید انکشافات کو دیکھنا چاہتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قدیم واقعات کو بھی جاننے کا خواہشمند ہے، یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ نورِ عقل کی حرکت دائرہ نما ہے، وہ جہاں سے طلوع ہوتا ہے گھوم کر وہاں غروب ہو جاتا ہے، پس مومنین بہشت کی نعمتوں کے سلسلے میں  اقوامِ عالم کی زندہ تاریخ کا بہت ہی قریب سے نظارہ کر سکیں گے (۰۹: ۱۰۵،  ۳۹: ۲۰،  ۵۰: ۳۵) کیونکہ جنت کے محلات کے مختلف جھروکے اس غرض سے ہیں کہ ان سے عالمِ عقل اور عالمِ روح کا مشاہدہ اور عالمِ جسم کے ماضی اور مستقبل کا نظارہ کیا جائے (۲۵: ۷۵،  ۲۹:۵۸)۔

وسیلۂ عقل:

شروع سے لے کر آخر تک جس عقلِ کامل کی تعریف و توصیف ہوئی، اس سے خاطر خواہ فیض حاصل کرنے کا وسیلہ یہ ہے کہ مومن اطاعت و فرمانبرداری کی راہ پر گامزن ہوتے ہوئے خدا، رسول اور امامِ زمانؑ کی نورانی محبت کو حاصل کرے، تا کہ وہ خدا کے

۴۷

دوستوں میں شامل ہو جائے، اور اس پر نورِ عقل کی کرنیں برستی رہیں، کیونکہ عقل کا تعلق ایسی ہی محبت سے ہے۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی، کراچی

اتوار، یکم شعبان المعظم ۱۴۱۱ھ

۱۷ فروری ۱۹۹۱ء

 

۴۸

 

تجلیٔ طور

۱۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵) یعنی کائناتِ شخصی کے آسمانوں اور زمینوں کا، جیسے فرشتۂ عقلِ کلّ آسمان ہے اور فرشتۂ نفسِ کلّ زمین، پھر نفسِ کلّ آسمان ہے، اور ناطق زمین، پھر ناطق آسمان ہے اور اساس زمین، پھر اساس آسمان ہے اور امام زمین، پھر امام آسمان ہے اور حجت زمین۔ چنانچہ یہ آسمان و زمین اور ان میں جتنی چیزیں ہیں، وہ سب اللہ کے نور سے منوّر ہیں، لہٰذا یہاں کی ہر شیٔ بحقیقت نور کہلاتی ہے، جبکہ ظاہراً و باطناً نورِ الٰہی سے روشن اور رنگِ خدا (۰۲: ۱۳۸) سے رنگین ہو چکی ہے۔

۲۔ کائناتِ شخصی سے عالمِ دین اور عالمِ وحدت مراد ہے، جو امامِ مبین کی ذاتِ عالی صفات میں موجود ہے، اور اسی پاک و پاکیزہ ہستی میں تمام عقلی اور روحی چیزیں گھیری ہوئی ہیں، اور یہیں ہر شیٔ پر نورِ خداوندی کی بارش برستی ہے، پس ہر مومن کا یہ ایک علمی فریضہ ہے کہ وہ عقل و دانش سے ان لطیف چیزوں کے بارے میں خوب سوچے، جو امامِ اقدس و اطہر کے احاطۂ نور میں محاط ہیں، (۳۶: ۱۲)۔

 

۴۹

 

وہ اس ظاہری اور مادّی مثال میں بھی اچھی طرح سے غور کرے کہ لوہے کی تمام تر چیزیں آگ میں سرخ کر کے بنائی جاتی ہیں، اب اگر ان کو آگ میں دوبارہ سرخ کیا جائے تو یقیناً وہ آگ کہلا سکتی ہیں، اسی طرح علمی اور عرفانی چیزیں امامِ عالی مقام میں انوار ہیں، اگرچہ بہت سے لوگ اس راز سے بے خبر ہیں، مثال کے طور پر ایمان کے بہت سے درجات ہیں، اور یہ اوپر اوپر کے درجوں میں نور ہے، سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) میں دیکھ لیں کہ کچھ مومنین کو نور حاصل ہوا ہے، مگر اس کو تمامیّت و کمالیّت چاہئے، اس لئے وہ دعا کر رہے ہیں: پروردگارا ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش دے (۶۶: ۰۸)۔

۳۔ نور میں حقیقتوں اور معرفتوں کی وحدت و یکجائی ہوا کرتی ہے، اس لئے آپ یقیناً کہہ سکتے ہیں کہ یہ نورِ عقل ہے، نورِ علم بھی، نورِ ہدایت بھی، نورِ ایمان بھی، نورِ یقین بھی، نورِ بصیرت بھی، نورِ معرفت بھی، نورِ عشق بھی، نورِ تائید بھی، نورِ باطن بھی، وغیرہ، کیونکہ نور کے بہت سے کام ہیں، اس لئے اس کے بہت سے نام ہیں، یہی وجہ ہے کہ لفظِ نور قرآنِ حکیم میں محدود معنی کے ساتھ استعمال نہیں ہوا ہے، ان شاء اللہ آپ نور کی ہر بات کو جان سے بھی زیادہ عزیز رکھیں گے۔

۴۔ اللہ (جلّ جلالہ) نے جب اپنی پاک تجلّی جبلِ روح

 

۵۰

پر ڈالی، تو وہ ذرّہ ذرّہ ہوگیا، اور اس سے عالمِ ذرّ پیدا ہوا، اور جب یہی تجلّی طورِ عقل پر ڈالی تو اس کے ریزہ ریزہ ہونے سے عالمِ عقل وجود میں آیا، پس عقل و روح کا ہر ذرّہ تجلّیٔ حق کی آئینہ داری کرنے لگا، تاکہ عارفین کی چشمِ بصیرت تجلّیاتِ علم و حکمت سے روشن ہو، کیونکہ خداوندِ قدوس کی جلوہ نمائی کا اثر لازوال اور انمٹ ہوتا ہے، لہٰذا خدا کے دوستوں کے دل میں اس کا عرفانی پَرتَو ہمیشہ جھلکتا رہتا ہے۔

۵۔ قرآنِ پاک اس امر کی طرف پُرزور توجہ دلاتا ہے کہ ذاتِ سبحان کے سوا کوئی یکتا نہیں، تمام چیزیں جفت جفت ہیں، چنانچہ عالمِ شخصی میں بھی قانونِ فطرت کے مطابق دو بنیادی چیزیں جفت ہیں، یعنی روح اور عقل، پس روحِ منجمد کے پہاڑ پر جس طرح ملکوتی بجلی گرتی ہے، کوہِ عقل پر بھی آخر کار ایسی جبروتی بجلی گرجاتی ہے لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ برقِ تجلّی میں ہلاکت ہے، یہ تو حیاتِ سرمدی لے کر آتی ہے، لہٰذا ہمیں برقِ طور کے لئے زار و قطار رونا چاہئے۔

۶۔ عاشقانِ الٰہی حسرت سے کہتے ہیں: آہ! وہ صبحِ ازل اور شامِ ابد، وہ طلوع و غروبِ آفتابِ نور، وہ کتابِ مکنون اور اس کے اسرارِ حقائق، وہ علمِ لاہوت اور اس کے وقائق، وہ گنجِ مخفی اور اس کے انمول جواہر، وہ خزانۂ عقل اور اس کی بے پایان

 

۵۱

 

دولت، وہ عجائب و غرائبِ کوہِ قاف، وہ انتہائی حیرت انگیز نامۂ اعمال، وہ تجلّیات در تجلّیات، اور ظہورات در ظہورات۔

۷۔ قرآنِ عزیز کے بے مثال اعجاز کا یہ عالم ہے کہ آپ اس کے موضوعات میں سے جس موضوع سے بحث کریں، وہی موضوع سارے قرآن میں پھیلا ہوا نظر آئے گا۔ اس باب میں آتشِ طور (۲۰: ۱۰) کی مثال لیجئے کہ وہ نار صرف حضرتِ موسیٰؑ ہی کے لیے مخصوص نہیں، بلکہ یہ وہی نورِ قدیم اور گنجِ حکیم ہے، جس میں فنا ہوئے بغیر نہ تو کوئی نبی ہوا ہے اور نہ کوئی ولی، یہی مطلب سورۂ نمل (۲۷: ۰۸) کے اس پُرحکمت ارشاد میں ہے بورک من فی النار۔۔۔ برکت دیا گیا ہے جو (اس ) آگ میں ہے۔ خوب غور سے دیکھئے کہ یہاں ایک تو آگ یعنی نور ہے، اور دوسری کوئی ہستی ہے جو اس نور میں فنا ہو کر زندۂ جاوید ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے اسے برکت دی گئی ہے۔ اور ان کو بھی نورانی برکتیں عطا ہوئی ہیں، جو نور کے گرد رہتے ہیں، مگر ذاتِ سبحان برتر و بے نیاز ہے۔ پس ظاہر ہوا کہ یہ وہی کلّیہ ہے اور منزلِ فنا اور انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی معرفت کے لئے دعوت ہے، جس کی مثالیں تمام قرآنِ حکیم میں موجود ہیں۔

۸۔ مذکورہ آیۂ شریفہ میں نور کی تشبیہہ و تمثیل آگ سے دی گئی ہے، تا کہ مرتبۂ فنا کی توضیح ہو، وہ اس طرح کہ دنیا میں کوئی

 

۵۲

 

آگ ایندھن کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی ہے، چنانچہ نورِ ایمان، نورِ عشق، نورِ علم، نورِ معرفت، اور نورِ عقل اپنے کثیر ناموں کے ساتھ پیغمبروں، اماموں، اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والوں میں اس لئے پیدا ہو جاتا ہے کہ تائیدِ الٰہی سے وہ دائم الذکر ہوا کرتے ہیں، ان کی عبادت خالص اور دل سوز ہوتی ہے، اور وہ ہمہ وقت تحلیلِ نفسی اور محویّت و فنائیّت کے حال میں ہوتے ہیں، کیونکہ خالقِ اکبر اپنی خداوندی کی چیزیں عالمِ شخصی ہی میں پیدا کرتا رہتا ہے، آپ آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) میں بھی درست غور کر کے دیکھیں کہ شعلۂ چراغ کس چیز سے بنتا ہے؟

۹۔ قرآنِ کریم کا فرماناہے کہ: آتشِ دوزخ کے ایندھن لوگ اور پتھر ہیں اور (پہلے ہی سے یہ آگ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے (۰۲: ۲۴) یہاں ایک بڑا اہم سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ لوگ بے شک مجرم ہو سکتے ہیں، لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ پتھروں سے کیا گناہ سرزد ہوا، جس کی وجہ سے یہ جہنم کے ایندھن ہو گئے؟

جواب: قرآنِ حکیم میں جس طرح قیمتی پتھروں اور بیش بہا معدنیات کا اشارہ گوہرِ عقل کی طرف جاتا ہے، جو کاملین کا نورِ عقل ہے، اسی طرح عام، بے قیمت اور ناکارہ پتھروں سے جاہلوں اور نادانوں کی منجمد عقل مراد ہے، پس بحکمِ حدیثِ شریف:

 

۵۳

 

الجاہل فی النار (نادان آتشِ دوزخ میں ہے۔ یعنی جہالت کی آگ میں) اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ جُہّال (نادان لوگ) اور ان کی برائے نام عقلیں آتشِ نادانی میں گرفتار ہیں، کیونکہ حقیقی بہشت علم ہے، اور اصلی دوزخ جہالت۔

۱۰۔ قرآنی علم کے لئے جس طریقِ کار کو اپنانے کی سخت ضرورت ہے، اس میں سب سے کلیدی کلیہ یہ ہے کہ پروردگارِ عالم نے آفاق و انفس اور قرآنِ کریم کی ہر ہر چیز کے ظاہر و باطن میں علم کے موتیوں کو رکھا ہے (۰۶: ۸۰،  ۴۰: ۰۷) لہٰذا یہ مومنین کا فریضۂ علمی ہے کہ وہ قرآنِ مجید کی ہر شیٔ سے جواہرِ علم و حکمت کو حاصل کریں اور جہاں خداوندِ قدوس کی تجلّی سے طور ریزہ ریزہ ہوا ہے (۰۷: ۱۴۳) وہاں اس کے ہر ریزے سے بھی لولوہائے مکنون کو چن لیں، کیونکہ یہ ریزے بہت بڑی خصوصیت کے حامل ہیں، جبکہ یہ تجلیٔ حق سے متجلی ہوگئے ہیں، جس طرح خورشیدِ انور سے ہر ذرہ چمک اٹھتا ہے، اسی طرح کوہِ گوہر (کوہِ طور) کے تراشے ہوئے نگینے پُرنور ہو گئے ہیں، کیونکہ کوئی بھی جلوہ یا دیدار ارادۂ الٰہی کے سوا نہیں، جب ارادۂ حق ہوتا ہے، تو وہ کلمۂ کن کہلاتا ہے، اور جہاں اللہ نے کُنۡ فرمایا، تو وہاں ایک انتہائی

 

۵۴

 

مکمل چیز پیدا ہوتی ہے، یعنی ایک عقلی کائنات۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی، کراچی

۱۶ رجب ۱۴۱۱ھ

۲ فروری ۱۹۹۱ء

۵۵

 

لعل و گوہر

لعل و گوہر

انتساب

محترم قاسم علی وزیر مومن اور لاڈچی بائی قاسم علی مومن کے خاندان نے امام الوقت اور جماعت کے لئے طویل اور مخلصانہ خدمات بجا لائی ہیں۔ وہ مختلف مجالس کے موکھی کامڑیا بھی رہے ہیں۔ خوش بختانہ انکی نیک نام اولاد بھی محبت اور قربانی کی اس روایت میں انہی کے قابل تقلید نمونے پر عمل پیرا ہے۔

یوں تو ان بزرگوں کے سارے ہی بچے دیندار، علم دوست اور جانثار ہیں تاہم ان کے فرزندان میں سے خصوصاً غلام مصطفیٰ مومن، ظاہر علی مومن اور نورالدین مومن نے حقیقی علم کے فروغ کے لئے قابلِ ذکر کارنامے سرانجام دیئے ہیں۔

محترم نورالدین مومن (تاریخ پیدائش: ۵ جون ۱۹۶۲ء) جواسی جذبۂ قربانی سے سرشار اور بااخلاص مذہبی خاندان کے چشم و چراغ ہیں، گونا گون طریقوں سے امام زمانؑ اور جماعت کی خدمت کر رہے ہیں، آپ دس سال تک جماعت میں والنٹیربھی رہے ہیں۔

آپ کی زوجہ محترمہ الماس (ناہید) مومن (تاریخ پیدائش: ۱۲ دسمبر ۱۹۶۷ء) نے بھی ۵ سال تک بحیثیت والنٹیر خدمات انجام دی ہیں۔ نور الدین

 

ج

 

اور الماس کا سات سالہ نورِ نظر فرزند زین العابدین (تاریخ پیدائش: ۷ اپریل ۱۹۹۱ء) اس وقت امریکہ میں ایک فعال لٹل اینجل کی حیثیت سے اپنی روحانی و علمی ترقی کے لئے سرگرمِ عمل ہے کتاب لعل و گوہر کی اشاعت اس نیک بخت خاندان کی طرف سے جماعت میں باطنی اور حقیقی علم پھیلانے کے لئے ایک اور اہم خدمت ہے۔ دعا ہے کہ یہ خدمت نور الدین مومن، الماس مومن اور ان کے سارے خاندان کے لئے برکات کا سرچشمہ ثابت ہو۔ آمین!

 

د

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

کلماتِ ابتدائیہ

 

۱۔ خداوندِ سبوح و قدوس کا حکمت آگین ارشاد ہے (ترجمہ): کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں اورزمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں اور تم پر اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں پوری کر دی ہیں؟ اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی علم ہو، یا ہدایت، یا روشن کتاب (۳۱: ۲۰) ۔

 

۲۔ قرآنی حکمت کی بیمثال خوبی اور سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ جس آیۂ کریمہ میں بھی چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے، اسی کے آئینۂ معنی میں تمام آیات تجلی ریز ہونے لگتی ہیں، جیسے افرادِ بشر کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر شخص میں سب پوشیدہ ہیں، اور یہ بھی مانتے ہیں کہ عالمِ شخصی میں عالمِ اکبر پنہان ہے، اسی طرح ہم اس حقیقت کو بھی کیوں تسلیم نہ کریں کہ ہر آیۂ کریمہ میں تمام آیات کی معنوی اور حکمتی نمائندگی موجود ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا ہے کہ: قرآن میں (بہت سی) مستقل کتابیں ہیں (۹۸: ۰۳) ۔

 

۳۔ جب بیانِ بالا سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ ہر آیۂ مبارکہ جواہرِ قرآن سے مملو ایک کتاب ہے، کیونکہ آیت معجزے کو کہتے ہیں، اور یہاں یہ معجزہ عقلی اور علمی حیثیت میں ہے، یعنی ہر آیۂ مقدسہ اہلِ بصیرت کے سامنے

 

۱

 

گونا گون معنوی تجلّیات سے ایک جامع الجوامع کتاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے، پھر ایسے میں یہاں شروع میں جو آیۂ شریفہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں سے متعلق درج ہوئی، اس کی عالم گیر معنوں کی کیا  شان ہو گی! مادّی اور روحانی کائنات کی ہر گونہ تسخیر، ظاہری اور باطنی نعمتوں کی فراوانی، نیز علم، ہدایت، اور روشن کتاب، یعنی داعی و حجت کا علم و ہدایت اور امامِ زمانؑ کی معرفت کا گنجِ اسرار، یہ احسانات پروردگارِ عالم کی طرف سے ایسے عالی قدر اور اتنے عظیم ہیں کہ کوئی بندہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس نے حقِ شکر گزاری ادا کیا، یا ادا کر سکے گا۔

 

۴۔ ہر آیۂ کریمہ میں تمام قرآنِ حکیم کس طرح سمایا ہوا ہے، اس کی مثال زیرِ بحث آیت سے پیش کی جاتی ہے کہ اس ارشاد میں پانچ بڑے اہم موضوعات آئے ہیں: اوّل تسخیرِ کائنات، دوم ظاہری اور باطنی نعمتیں، سوم علم، چہارم ہدایت، اور پنجم روشن کتاب، اب آپ کو یہ سوچنا اور جاننا ہوگا کہ ان میں سے کوئی موضوع ایسا نہیں، جس کے مختلف پہلوؤں پر جملہ آیاتِ قرآنی روشنی نہ ڈالتی ہوں، اور یہ امر اس صورت میں ممکن ہے، جبکہ ہر قرآنی موضوع میں ساری آیتوں کا مجموعی خلاصہ اور اشارہ موجود ہو، یقیناً ایسا ہی ہے، اور دوسری طرف سے ہر آیۂ شریفہ کی روح المعانی میں عالمِ قرآن سمایا ہو، جی ہاں، یہی حقیقت ہے، تاکہ قرآنِ حکیم اپنے معجزۂ علمی سے ہر آیت میں سمٹ بھی جائے، اور اپنے دائرۂ محیط میں پھیل بھی جائے، جس طرح ام الکتاب (سورۂ فاتحہ) کا مضمون سارے قرآن میں پھیلا ہوا ہے، اور پورا قرآن ام الکتاب میں سمٹا ہوا ہے۔

 

۵۔ یہاں ہم اس موقع پر مثلاً یہ تذکرہ بھی کر سکتے ہیں کہ نہ صرف عالمِ اکبر

 

۲

 

ہی بطورِ خلاصہ و جوہر عالمِ شخصی میں محدود و مجموع ہو جاتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ عالمِ شخصی بھی اپنی روحانی لہروں سے عالمِ اکبر کی آخری حدود تک پھیلتا رہتا ہے، ایسی قدرتِ خداوندی کا پُرحکمت اشارہ اس وقت ملتا ہے، جبکہ حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام مسلسل سات رات آٹھ دن (تقریباً ایک سو اسی گھنٹے۱۸۰) (۶۹: ۰۷) تک عالمِ شخصی کی رو ح کو قبض کر کے کائنات میں پھیلا دیتا ہے، اور کائناتی روح کو عالمِ شخصی میں ڈالتا ہے، اور یہ عمل مذکورہ مدت میں لگاتاردہراتا رہتا ہے، جس میں بے شمار حکمتیں پنہان ہیں، من جملہ ایک حکمت یہ ہے کہ اس عملِ عظیم سے عالمِ شخصی کی ایسی ستر ہزار زندہ کاپیاں تیار ہو جاتی ہیں، جن میں سے ہر ایک میں بیرونی کائنات بھی مسخر ہے، پس آفاق و انفس کے اسی انتہائی عظیم مشترکہ عمل میں نہ صرف ارض و سما کی روحانی تسخیر اور ہر گونہ ظاہری و باطنی نعمتیں مہیا ہو جاتی ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ روحانی علم اور نورانی ہدایت بھی حاصل ہو جاتی ہے، اور اسرارِ معرفت کا سب سے بڑا خزانہ امامِ زمانؑ کا نورِ اقدس ہے، جس کا ایک نام کتابِ منیر ہے۔

 

۶۔ قرآنِ حکیم میں جس طرح جگہ جگہ حقیقی علم و حکمت کی تعریف و توصیف فرمائی گئی ہے، اس کی شان بڑی نرالی ہے، آپ قرآنِ مجید کی ان تمام آیاتِ مقدّسہ کا بغور مطالعہ کریں، جو علم کے موضوع سے متعلق ہیں، میرا پُرخلوص مشورہ ہے کہ آپ کم از کم ان آیاتِ کریمہ کو بار بار پڑھا کریں، جن میں علم و حکمت کی تعریف نمایان ہے، تاکہ آپ کی ایسی قابلِ قدر کوشش اور مشقت خدا کے فضل و کرم سے علمی عبادت قرار پائے، جس سے بطورِ اجرو صلہ آپ کو حقیقی علم سے زبردست دلچسپی ہو، یا بڑا شوق یا شدید عشق پیدا ہو جائے، اگر ایسا ہو سکا، تو آپ کو مبارک باد! کہ یہ آپ کی علم و دانش سے شدید محبت یا عشق دراصل (یعنی مقامِ

 

۳

 

روحانیّت پر) ایک فرشتۂ موّکل ہے، جو اللہ کی طرف سے مقرر ہوا، تاکہ وہ شب و روز بذریعۂ الہام آپ کو علم کی طرف متوّجہ اور مائل کرتا رہے۔

 

۷۔ کائنات و موجودات میں کوئی ایسی شیٔ نہیں، جو خزائنِ الٰہی سے نازل نہ ہوئی ہو (۱۵: ۲۱) لیکن خدا کے خزانوں کا تصوّر کس مثال پر ہو؟ آیا یہ ممکن نہیں کہ اللہ کا ہر خزینہ دنیا کی مثال کے برعکس کوئی عظیم فرشتہ ہو؟ یا کوئی بڑی روح؟ یا نورِ تابندہ؟ یا پیغمبر؟ یا امام؟ یہ تمام معانی آپس میں ملے ہوئے ہیں، یہاں ایک اور ضروری سوال ہے کہ آیا ربّ العزّت کے خزانوں سے ہمیشہ اعلیٰ اور عمدہ چیزیں برآمد نہیں ہوتیں؟ آیا اس میں کوئی شک ہو سکتا ہے کہ خدا کے دو بڑے خزانے دو عظیم فرشتے ہیں؟ یعنی عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ، جو بحرِ علم اور بحرِ رحمت ہیں؟ کیا ان دونوں سمندروں سے موتی اور مونگے نہیں نکلتے ہیں؟ (۵۵: ۱۹ تا ۲۳) ۔

 

۸۔ دریائے علم اور دریائے رحمت سے درّ و مرجان یعنی عقل و جان؟ جی ہاں، ایسا ہی ہے، کیونکہ ان دونوں سمندروں سے جو موتی اور مونگے نکلتے ہیں، ان میں ساری چیزوں کی نمائندگی ہے، لہٰذا وہ ہر عالم میں اس کی ضرورت، صلاحیت، اور مرتبت کے مطابق نازل ہوتے ہیں، جیسے عالمِ ملکوت، عالمِ ناسوت، عالمِ حیوان، عالمِ نبات، اور عالمِ جماد میں سے ہر ایک کے مختلف درجات ہیں، ایسے ہی ان دو دریاؤں کے موتیوں اور مونگوں سے فیوض و برکات حاصل ہوتی رہتی ہیں، یعنی ہر ہر چیز پر ایک گونہ علم و رحمت ثبت (تحریر) ہے، جیسا کہ سورۂ مومن میں ارشاد ہے: رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّ عِلْمًا (۴۰: ۰۷) پس کوئی ایسی چیز نہیں، جو

 

۴

 

رحمت و علم کی آئینہ داری نہ کرتی ہو، پھر علم و حکمت کی خصوصی نمائندگی میں عالمِ قرآن کی چیزوں کی کیا شان ہوگی۔

 

۹۔ عقلِ کلّی اور نفسِ کلّی ہی وہ دو دریا ہیں، جو باہم ملے ہوئے بھی ہیں، اور الگ الگ بھی، یہی عقل و نفس قلم اور لوحِ محفوظ بھی ہیں، جن کی تحریروں سے لؤلؤ اور مرجان پیدا ہو جاتے ہیں، اور سورۂ رحمان (۵۵: ۱۹ تا ۲۳) میں انہی کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، سب کو معلوم ہے کہ دورانِ تحریر ایک جسمانی قلم تختی یا کاغذ کو بار بار چھوتا بھی ہے اور چھوڑتا بھی ہے، اور وصل و فصل کا یہ عمل نہ صرف ظاہری قلم اور کاغذ کے مابین لازمی ہے، بلکہ قلمِ الٰہی اور لوحِ محفوظ کے دودریاؤں کے درمیان بھی وصل وفصل کا برزخ (حدِ فاصل) موجود ہے، اور اسی نظام کی بدولت ان سے لؤلؤ اور مرجان پیدا ہو جاتے ہیں، اس کے برعکس نہ تو قلم و لوح کے قطعاً الگ ہو جانے سے کوئی تحریر بن سکتی ہے، اور نہ ہی ہمیشہ کے لئے ایک ہو جانے سے، اور اس میں بڑے دوررس اشارے پوشیدہ ہیں۔

 

۱۰۔ کتابِ “لعل و گوہر” خدا کے فضل و کرم سے ہم سب کو قرآنِ عزیز، روحانیّت، اور عقلانیّت کے خزائنِ اسرار سے بیحد محبت اور عشق ہے، اس لئے ہم نے ان خزانوں کے پُرنور جواہرات کا تصوّر کرتے ہوئے اپنی اس پیاری کتاب کو “لعل و گوہر” کے اسمِ گرامی سے موسوم کیا، دوسری وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ میں علم و ادب میں بہت ہی مفلس اور غریب ہوں، اور یہ بات ان حضرات سے ہر گز پوشیدہ نہیں، جو شروع ہی سے اس ناچار کو جانتے ہیں، چنانچہ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس گدا کو ہمیشہ بادشاہِ روحانیّت انمول جواہر کا صدقہ دیا کرتا ہے، پس اگر ان تمام ہیروں اور موتیوں کو، جو شروع سے لیکر اب

 

۵

 

تک ملتے رہے ہیں، کسی ایک کتاب میں بھی لعل و گوہر کے نام سے یاد نہ کیا جاتا، تو بہت بڑی ناشکری اور ناقدری ہو جاتی، لہٰذا اس کتاب کا نام لعل و گوہر مقرر ہوا۔

 

۱۱۔ چونکہ ہمارے عزیزان اس کتاب کے اکثر مضامین قسط وار پڑھ چکے تھے، لہٰذا  جب اس کے پیارے نام “لعل و گوہر” کا اعلان ہوا، تو جتنےعزیزان یہاں حاضر تھے، ان میں زبردست مسرّت و شادمانی کی لہر دوڑنے لگی، پھر انہوں نے منگل ۲۳ مارچ کو ایک خاص پروگرام بنا کر اس کتاب کی خوبیوں کے بارے میں بڑی شاندار تقریریں کیں۔

 

ن۔ ن۔ ہونزائی، کراچی

منگل ۱۷ شوال المکرم۱۴۱۲ء

۲۱ اپریل ۱۹۹۲ء

سال ہمدونہ (بندر)

 

۶

 

 

شجرۂ کار

 

۱۔ شجرۂ کار سے یہاں خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف مراد ہیں، یہ دونوں بہت ہی پیارے اور بہت ہی نیک نام ادارے (جن کو حضرتِ امامِ اقدس علیہ اسلام کی باطنی دعا حاصل ہے) باہم شیرو شکر ہو گئے ہیں کہ ان کا الگ نقشہ بنانا بیحد مشکل ہو گیا ہے، چلئے ٹھیک ہے، جب دنیا وحدت و سالمیت کے لئے مرتی ہے، تو پھر ہم اس نعمتِ خداوندی کا شکر کیوں نہ کریں، کہ ہمارے یہ ادارے دو بھی ہیں، اور یہی ایک بھی ہے، جس طرح آدمی کی آنکھیں دو ہیں، لیکن بصارت ایک ہو کر اپنا کام کرتی ہے، کان دو، مگر دونوں کی سماعت مل کر ایک ہو جاتی ہے، ناک بھی اسی قانونِ دوئی کے تحت ہے، اسی طرح ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضا بھی دو دو ہیں۔

 

۲۔ ہم نے اس شجرۂ کار میں صدر فتح علی حبیب خانۂ حکمت، اور صدر محمد عبد العزیز ادارۂ عارف کو نیز ان کے تمام عملداروں اور ممبروں کو درخت کا تنا قرار دیا ہے، اور کراچی کو درخت کا باغ، اور اس شجرِ پُرثمر کی عالی شان شاخیں جو شرق و غرب میں پھیل کر ہر موسم میں میوۂ علم دے رہی ہیں، ان کی تعداد فی الحال پندرہ ہے، ہر شاخ کی اہمیت اور قدروقیمت کا اندازہ کام اور مقام کی وجہ سے ہو سکتا ہے، سب جانتے ہیں کہ مہکتے ہوئے خوبصورت

 

۷

 

پھول اور خوشبودار شیرین پھل جھاڑ اور درخت کی شاخوں ہی سے حاصل ہوتے ہیں۔

 

۳۔ ہمارے خداداد دوستوں میں کوئی ایسا منفرد اور معجزانہ شخص بھی ہو سکتا ہے، جو توفیق و تائیدِ خداوندی سے لاکھوں کے برابر علمی خدمات انجام دے رہا ہو، ان میں سے بعض خوش نصیب حضرات ایسے بھی ہیں کہ ان کا ہر فرد ہزاروں کی طرح کام کر رہا ہے، چنانچہ ہم نے اپنے عزیزوں کی اہلیت اور ضرورت کے مطابق کم افراد یا ایک فرد کو بھی برانچ کا درجہ دیا ہے، اسی طرح آج ۱۸ فروری ۱۹۹۲ء کو عزیزم “امام داد کریم برانچ” (فرانس) کا تقرر کیا جاتا ہے، کیونکہ امام داد کریم کی زرّین خدمات اس معنٰی میں بے مثال ہیں کہ وہ مرکزِ نورِ مجسم سے ظاہراً و باطناً بہت  ہی قریب ہیں، خداوندِ قدوس ان کو اور زیادہ ترقی اور نزدیکی  عنایت فرمائے! آمین!!

 

۴۔ کتاب “گل ہائے بہشت” ص۲۳۶ پر دیکھیں، وہاں آپ کو امام داد صاحب کے بارے میں ایک نورانی خواب کا تذکرہ ملے گا، جس کی تاویل میں نہ صرف ان کی ذات ہی کے لئے خوشخبری ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ حلقۂ احباب کو بھی نویدِ جانفزا مل رہی ہے، وہ عجیب و غریب پُرازحکمت خواب تھا، اس سے مکمل یقین آیا کہ محترم امام داد ہمارے دوسرے عزیزان، جو خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف سے وابستہ ہیں، وہ سب کے سب بے حد خوش قسمت ہیں، کہ ان کی پاکیزہ روحیں حضرتِ قائم القیامت علیہ افضل التحیۃ والسلام کے روحانی لشکر میں شامل ہیں۔

 

۵۔ ہمارا شجرۂ کاریعنی عملی کام کا درخت یا نقشہ اس طرح ہے: سب سے

 

۸

 

پہلے کراچی مرکز ہے، جس کی آٹھ بڑی برانچوں میں سے چار مشرق میں اور چار مغرب میں ہیں، مشرق کی شاخوں میں اوّل گلگت برانچ کا نام آتا ہے، جس کی ذیلی شاخیں یہ ہیں: مسگار برانچ، التت۔ کریم آباد برانچ، حیدرآباد۔ علی آباد برانچ، مرتضیٰ آباد برانچ، اور اوشی کھنداس برانچ، اس کا نام پہلے حلقۂ ذکر تھا، اب اس کو ترقی دی گئی، یہ تو گلگت برانچ کا تذکرہ ہوا، اس کے بعد ہم شمالی علاقوں سے جب راولپنڈی آتے ہیں، تو وہاں اسلام آباد برانچ ہے، کراچی میں شاہ بی بی برانچ، اورکریم آباد برانچ ہیں، مغرب میں سب سے پیشتر لنڈن برانچ ہے، اس کے بعد امریکہ برانچ، جس کے تحت یاسین نور علی (Y-N) برانچ، اور ماہِ محل بدرالدین (M-B) برانچ ہیں، اب مغرب کی تیسری بڑی شاخ کا نام آتا ہے، جو ایڈمنٹن برانچ (کنیڈا) ہے، اورچوتھی بڑی شاخ امام داد برانچ ہے، جو فرانس جیسے اہم ملک میں ہے، خدا کرے کہ عزیزم امام داد کریم کے مبارک عالمِ شخصی میں ہمیشہ فرشتوں اور پاکیزہ روحوں کا ایک زبردست لشکر موجود ہو، تاکہ رفتہ رفتہ سب پر یہ حقیقت روشن ہو جائے کہ ہم کیوں تنہا ایک فرد کو برانچ یا ادارہ قرار دیتےہیں۔

 

۶۔ محترم احمد جامی سخی نہ صرف ایک مایۂ ناز نوجوان سکالر ہیں، بلکہ وہ ہمیشہ پیرِ خردمند کی طرح بڑی موثر اور دلنشین گفتگو بھی کرتے ہیں، ایک دفعہ انہوں نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: “وہ تنہا اپنی ذات ہی میں ایک بہت بڑا ادارہ ہیں۔” یہ حقیقت ہے، کیونکہ خدائے بزرگ و برتر نے انسان خصوصاً مومن کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے، اس لئے وہ بہت کچھ کر سکتا ہے، اب ذیل میں علم کی کچھ خاص اور بنیادی باتیں آتی ہیں:۔

۷۔ پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا ارشاد ہے: من اخلص العبادۃ

 

۹

 

للہ اربعین یومافتح اللہ قلبہ، و شرح صدرہ، واطلق لسانہ بالحکمۃ ولوکان اعجمیاً غلفاً۔ جو (مومن) شخص چالیس (۴۰) دن اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرے (جیسا کہ حق ہے) خدا اس کے دل کو کھول دیتا ہے، اور اس کے سینے کو کشادہ کر دیتا ہے، اور اس کی زبان کو حکمت بیان کرنے کی قوّت عطا کرتا ہے، اگرچہ وہ بولنے اور سمجھنے میں سخت کمزور ہو (اخوان الصفا، جامعۃ الجامعہ، ص۲۷۔ ۲۹) اس میں ہر مومنِ صادق و عاشق کے لئے بہت بڑا خزانہ پوشیدہ ہے، ہر دیندار شخص اپنے علم و عمل کے مطابق اس معیار سے فائدہ اٹھا سکتا ہے (ان شاء اللہ تعالیٰ)

 

۸۔ کتابِ دعائم الاسلام، جلدِ اوّل، کتاب الولایۃ (۱) ایمان، ص۴ پر دیکھیں: بروایتِ حضرتِ امام جعفر الصادقؑ ایمان کی تعریف یہ ہے: الایمان اقرار بالسان تصدیق بالقلبِ وعمل بالارکان۔ یعنی زبان سے اقرار کرنا دل سے تصدیق کرنا اور اعضاء سے عمل کرنا ایمان ہے۔ اس میں قلبی تصدیق وضاحت کی مقتضی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ایمان کے بہت سے درجات ہیں، جن کا آغاز زبانی اقرار سے ہوتا ہے، اور قلبی تصدیق جو معرفت ہے، اس سے ایمان درجۂ کمال کی طرف آگے بڑھتا جاتا ہے، اور ایمان کے بارے میں ایک اور حدیثِ نبوّی اس طرح ہے: الایمان معرفۃ بالقلب واقرار باللسانِ وعمل بالا رکان۔ (دیدۂ) دل سے پہچاننا زبان سے اقرار کرنا اور اعضاء سے عمل کرنا ایمان ہے (المیزان فی تفسیر القرآن، جلد ۱۸، ص۳۳۵) ۔

 

۹۔ مذکورہ حدیثِ شریف سے یہ حقیقت سب کے سامنے روشن ہو جاتی ہے کہ معرفت کے سوا ایمان کا کامل اور مکمل ہو جانا محال ہے، اور

 

۱۰

 

معرفت کا براہِ راست تعلق نور سےہے، جس کی روشنی میں دل کی آنکھ سے دیکھا اور پہچانا جاتا ہے کہ ایمان اور اس کے متعلقات کیا ہیں، اسی لئے قرآنِ حکیم نے خدا، رسولؐ، اور نور پر ایمان لانے کا حکم دیا (۶۴: ۰۸) فامنو اباللہ ورسولہ والنور الذی انزلنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (۶۴: ۰۸)

 

ن۔ ن۔ ہونزائی، کراچی

جمعرات ۱۵، شعبان المعظم ۱۴۱۲

۲۰، فروری ۱۹۹۲ء

 

۱۱

 

شجرۂ کارِ “خانۂ حکمت” و “ادارۂ عارف”

 

۱۲

 

باقی رہنے والی نیکیاں

 

۱۔ سورۂ کھف (۱۸: ۴۶) او رسورۂ مریم (۱۹: ۷۶) میں باقیاتُ الصالحات یعنی باقی رہنے والی نیکیوں کی تعریف فرمائی گئی ہے، ان سے ایسے نیک کام مراد ہیں، جن کا ثواب ہمیشہ ملتا رہے، مثال کے طور پر ایک مومن شخص نے سکول تعمیر کرنے کے لئے اراضی (زمین) دیدی، تو یہ صدقۂ جاریہ باقیاتُ الصالحات میں سے ہے۔

 

۲۔ اگرچہ یہ ایک سوال رہا ہے کہ باقیاتُ الصالحات میں کون کون سے نیک اعمال شامل ہو سکتے ہیں؟ تاہم اس حقیقتِ حال کے سمجھنے میں کوئی خاص مشکل نہیں، کیونکہ ان کا تعین زمان و مکان کی ضرورت کے مطابق ہو سکتا ہے، جیسے ہمارے علاقے کا تجربہ ہے کہ وہاں زمانۂ ماضی میں باقیاتُ الصالحات کی مثالیں یہ تھیں (الف: ) کسی نہر پر کوئی بہت معمولی پُل بنا دینا۔ (ب: ) ضروری راستے کے کنارے پر ایک چھوٹا سا چبوترا قائم کرنا (ج: ) آب نوشی کے لئے کنواں بنانا (د: ) خانۂ ثواب تعمیر کرنا، جو صرف ایک ہی کمرہ ہوتا تھا (ھ: ) زمین پر جہاں ضروری ہو برآمدہ (سائبان) بنانا (و: ) آبادی میں یا پہاڑ پر کوئی پگ ڈنڈی بنانا (ز: ) کسی میوہ دار درخت کو خدائی (خدا کے نام پر) مقرر کرنا، وغیرہ۔

 

۱۳

 

۳۔ یہ تمام اعمالِ صالحہ، جن کا اوپر ذکر ہوا، اگلے زمانے کے ضرورت کے مطابق صدقۂ جاریہ اور باقیاتُ الصالحات میں سے تھے، لہٰذا (ان شاء اللہ) ان کا ثواب ہمیشہ ملتا رہا ہوگا، لیکن آج زمانہ یکسر بدل چکا ہے، اس لئے دیکھنا اور سوچنا پڑے گا کہ عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق کونسا نیک کام زیادہ سے زیادہ باعثِ ثواب ہو سکتا ہے؟

 

۴۔ ہمارے عظیم المرتبت پیروں نے دعوتِ حق کے سلسلے میں جیسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، جتنے باسعادت نفوس کو امامِ برحقؑ کے دامنِ اقدس سے وابستہ کیا، اور جو علم و حکمت کا انمول ورثہ (بصورتِ کتب اور گنان) چھوڑا ہے، یہ سب کچھ حقیقی معنوں میں صدقۂ جاریہ اور باقیات الصالحات میں سے ہے، اسی طرح اب بھی امامِ عالی مقامؑ کی نورانی تائید اور پیروں کے علمی صدقۂ جاریہ سے کچھ پُرحکمت کتابیں ہو سکتی ہیں، مگر اس انتہائی مشکل کام کو آگے بڑھانے کے لئے ہر گونہ ہمت افزائی اور ہر طرح کی مدد کی ضرورت ہے۔

 

۵۔ ہر وہ کتاب جس میں خدا، رسولؐ، اور امامؑ کی معرفت کی روشنی ہو، یقیناً صدقۂ جاریہ اور ہمیشہ باقی رہ جانے والی نیکی ہے، کیونکہ یہ مثلاً ہمہ رس گشتی سکول اور دنیا میں گھر گھر پہنچنے والی مفید لائبریری ہے، اس میں رحمانی علاج کے نسخے  ہیں، لہٰذا یہ شفا خانہ روحانی بھی ہے، ایک کامیاب کتاب گویا معاونِ جواہر کا پہاڑ ہے، یہ بہشت کے باغ و گلشن کی طرح ہے، جس پر خزان نہیں گزرتی، اور اس کے نظاروں سے دیکھنے والوں کا جی نہیں بھر جاتا۔

 

۶۔ اگر کوئی کتاب قرآن، حدیث، اور علمِ امامت سے مربوط ہے،

 

۱۴

 

تو سمجھ لیجئے کہ یہ سمندر ہے، آپ اس کی گہرائیوں سے انمول موتیوں کو حاصل کرنے کے لئے سعی کریں، کتاب کی ایک اور پسندیدہ مثال جوہری کی دکان ہے، جس میں گونا گون جواہر موجود ہوں، آپ کسی قیمت کے بغیر لعلِ شب چراغ کو یا گوہرِ شب تاب کو لے سکتے ہیں، یہاں کے یاقوتِ احمر کا نگینہ بیحد خوبصورت ہوا کرتا ہے، زبرجد کی رعنائی اور دلکشی کا کیا کہنا، اس دکان کے عقیق کی آب و تاب سے عقیقِ یمنی شرما رہا ہے، لاجوردبڑا حسین اور خوشنما ہے، یہاں گوہرہائے سفتہ (بندھے ہوئے موتی) بھی ہیں، اور دُردِ ناسفتہ (ان بندھے موتی) بھی، اور بادشاہوں کو کیا معلوم کہ اصل اور حقیقی دُرِ شہوار کہاں سے دستیاب ہو سکتا ہے۔

 

۷۔ کتاب کی تعریف دراصل علم کی تعریف ہے، اور علم ایسی عزت کی بلندی پر ہے کہ اس سے صرف ذاتِ سبحان برتر ہے، اور تمام چیزیں علم کے تحت ہیں، ایسے میں علم اور کتاب کی جتنی بھی توصیف کریں کم ہے، پس بڑے خوش نصیب ہیں وہ حضرات، جو علمی خدمت میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔

۸۔ میں بڑی مسرّت و شادمانی سے یہ تاریخی جملے تحریر کر رہا ہوں کہ جناب نذیر صابر نامور کوہ پیما خانۂ حکمت برانچ اسلام آباد کے صدر مقرر ہوئے، آپ خاندانی طور پر ایک مثالی مومن اور بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں، جس سنجیدگی، سلیقہ مندی، اور خوش خلقی سے گفتگو کرتے ہیں، اس کو دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ اللہ کا نور کس طرح خاموشی سے اپنا کام کر رہا ہے، نذیرصاحب نے اپنے والد بزرگوار سعادت شاہ ابنِ رجب علی کو خانۂ حکمت کا تاحیات رکن بنا دیا، اور کتابِ “لعلِ گوہر” کی اشاعت میں بھر پور مدد دی،

 

۱۵

 

چونکہ سعادت شاہ صاحب صفِ اوّل کے مومنوں اور علیٔ زمانؑ کے جان نثار عاشقوں میں سے ہیں، لہٰذا ان کو بارہ سال خاموش خدمت کا اعزاز دے کر رکنیت۱۹۸۰ء سے درج کی گئی، سعادت شاہ صاحب قبیلۂ درِ امتگ سے تعلق رکھتے ہیں، اور علاقۂ ہونزا کے علی آباد جیسے پیارے گاؤں میں مقیم ہیں۔

 

۹۔ محترم سعادت شاہ کو میں اگرچہ ۱۹۳۹ء سے جانتا ہوں، جبکہ میں ابھی ابھی گلگت سکوٹس میں بھرتی ہوا تھا، اور آپ پہلے ہی بھرتی ہوئے تھے، لیکن عرصۂ دراز کے بعد ان کو بہت قریب سے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا، کہ میں وادیٔ چپورسان کے دورہ کے سلسلے میں ایک دن ان کے دولت خانۂ رامنجی میں مہمان تھا، اعلیٰ قسم کی مہمان نوازی تو وہاں کی روایتی شان ہے، بات دراصل خوش اخلاقی کی ہے، یہ سچ ہے کہ میں جناب سعادت شاہ کے جملہ اوصافِ مومنی سے بیحد متاثر ہوا، اور پھر ہماری قلبی دوستی ہوگئی یہ شعر ان جیسے نیک بخت انسانوں کے بارے میں ہے:۔

این سعادت بزورِ بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

ترجمہ: یہ نیک بختی قوّتِ بازو سے حاصل نہیں ہوتی ہے، جب تک خداوندِ مہربان خود مہربانی نہ دے۔

 

۱۰۔ عزیز و محترم سعادت شاہ ہر چند کہ عمر میں مجھ سے بھی بڑے ہیں، لیکن جب وہ مذہبی یا اخلاقی طور پر کسی سے ملاقات کرتے ہیں، تو اس وقت ان کا چہرہ حقیقی خوشی سے گلاب اور گُلِ سوری کی طرح شگفتہ ہوجاتا ہے، الحمد للہ، اگرچہ دنیا میں سیرو تفریح کے لئے حسین سے حسین تر باغات بھی ہیں، اور گلشن بھی، لیکن جہاں جہاں مومنانِ باصفا اور دوستانِ خدا کی بابرکت

 

۱۶

 

ملاقا ت نصیب ہوتی ہے، وہاں کی شادمانی سے ایمان کو تقویت ملتی ہے، اور یوں لگتا ہے کہ ذرا سا بہشت کا تجربہ ہو رہا ہے۔

 

ن۔ ن۔ ہونزائی، کراچی

ہفتہ ۲۱، شوال المکرم۱۴۱۲ھ

۲۵ اپریل ۱۹۹۲ء

 

۱۷

 

عقل اور علم کی اہمیت

 

۱۔ سورۂ زمر میں ارشاد ہے: قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ (۳۹: ۰۹) (اے رسولؐ) تم پوچھو تو کہ بھلا کہیں جاننے والے اور نہ جاننے والے لوگ برابر ہو سکتے ہیں؟ (مگر) نصیحت عبرت تو بس عقلمند ہی لوگ مانتے ہیں (۳۹: ۰۹) اس ربّانی اور قرآنی تعلیم میں جن علم والوں کی افضلیت و برتری کا ذکر ہوا ہے، وہ دراصل حضراتِ أئمّہ علھیم السّلام ہی ہیں، کیونکہ جملہ قرآن میں جس علم کی تعریف کی گئی ہے، وہ کسی شک کے بغیر روحانی علم ہی ہے، جو امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے پاس مخزون ہوا کرتا ہے، تاکہ لوگ اطاعت و فرمانبرداری کے راستے سے آکر امامِ وقتؑ کے علمی خزانوں میں داخل ہو جائیں، اور ان پر بھی اس آیۂ کریمہ کا اطلاق ہو جائے۔

 

۲۔ اَخۡبَر ناعن ابی جعفر علیہ السّلام قال: لما خلق اللہ العقل استنطقہ ثمہ قال لہ: اقبل فاقبل ثمہ لہ: ادبر فادبر ثم قال: وعزتی و جلالی ماخلقت خلقاً ھواحب الی منک ولا اکملتک الا فی من احب، اما ایاک امر وایاک انھی و ایاک اعاقب، وایا اثیب۔ حضرتِ امام محمد باقرؑ سے روایت کی گئی ہے کہ

 

۱۸

 

آپؑ نے فرمایا: جب خدا نے عقل کو پیدا کیا تو اسے قوتِ گویائی دے کر فرمایا، آگے آ، وہ آگے آئی، پھر کہا، پیچھے ہٹ، وہ پیچھے ہٹی، پھر فرمایا، اپنے عزّت و جلال کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں پیدا کی، اور میں نے تجھ کو صرف ایسے شخص میں مکمل کر دیا جس کو میں محبوب رکھتا ہوں، دیکھ میرے اوامر و نواہی تیرے لئے ہیں، اور عذاب و ثوات کا تعلق بھی تجھ ہی سے ہے۔

 

۳۔ آیا یہی تذکرہ عقلِ کامل اور عقلِ کُلّ کا نہیں ہے، جس کا ظہور انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام میں ہوتا ہے؟ کیا یہ عالمِ شخصی سے باہر کا کوئی قصّہ ہو سکتا ہے؟ کیا اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی ممکن ہے کہ اس نے عقلِ اوّل کو اور بعد کی عقول کو مختلف طریقوں سے پیدا کیا؟ یوں ماننا چاہئے کہ بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو تخلیق کا سلسلہ کسی ابتدا و انتہاء کے بغیر جاری ہے، مگر ہاں، عالمِ شخصی پر آغاز کا اطلاق ہو سکتا ہے؟

۴۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم: من سلک طریقاً یطلب فیہ علما سلک اللہ بی طریقاً الی الجنتہ وان الملائکتہ لتضع اجتھا لطالب العلمِ رضا بہ وانہ یستغفر لطالبِ العلم من فی السماءِ ومن فی الارضِ حتی الحوت فی البحر۔ حضرتِ رسولِ خداؐ نے فرمایا: جو شخص طلبِ علم کی خاطر راستہ طے کرتا ہے اللہ اس کو جنّت کی طرف لے جاتا ہے، اور فرشتے خوش ہو کر اپنے پروں کو طالب علم کے لئے بچھاتے ہیں اور آسمان و زمین کے رہنے والے حتی کہ دریا کی مچھلیاں طالبِ علم کے لئے طلبِ بخشش کرتی ہیں۔

 

۵۔ عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال: الناسُ ثلاثۃ: عالم ومتعلم وغثاء۔ حضرتِ امام جعفر الصادق علیہ السّلام نے فرمایا:

 

۱۹

 

لوگ تین قسم کے ہوا کرتے ہیں: عالم، متعلم، اور بیہودہ شخص۔

 

۶۔ موصوف امامؑ نے فرمایا: اغد عالما اومتعلما اواحب اھل العلم ولا تکن  رابعا فتھلک ببغضھم۔ تین اشخاص میں سے ایک ہو جاؤ، یا عالم یا متعلم یا اہلِ علم کے دوست، چوتھا شخص مت ہو جاؤ ورنہ تم اہلِ علم سے دشمنی میں ہلاک ہو جاؤ گے۔

 

۷۔ قرآنِ حکیم بار بار اس حقیقت کو دہراتا ہے کہ علم کا اصل سرچشمہ ایک ہی ہے، اور وہ وہی ہے، جس کو خدا و رسولؐ نے نورِ علم اور معلّمِ کتاب و حکمت بنایا ہے، یعنی امامِ برحقؑ، وہی بحقیقت عالمِ علمِ لدنّی ہے، جس کے تذکروں، اشاروں، اور مثالوں سے قرآن بھرا ہوا ہے، کیونکہ وہی ہے: نورِ منزّل، خدا کی رسی، کتابِ ناطق، صراطِ مستقیم، دختِ علم (شجرۂ طیبہ) کوثر، آلِ ابراہیمؑ (آلِ محمدؐ) راسخون فی العلم، امامِ مبین، شاہد، مؤولِ قرآن، ہادی، وارثِ رسولؐ، بابِ علم و حکمت، اسمِ اعظم، نورِ علیؑ، ولیٔ امر، عروۃ الوثقیٰ، شاہِ ولایت، عالمِ لطیف، جثۂ ابداعیہ، کتابِ مکنون، انسانِ کامل، بہشتِ مجسم، وسیلۂ نجات، کشتیٔ نوح، جانِ جہان، نفسِ واحدہ، یوم الاآخر، وجہ اللہ، کوہِ قاف، حجرِ مکرم، قلبِ سلیم، خورشیدِ ازل، آسمان کی سیڑھی، صورِ عشق و فنا، چراغِ معرفت، کنزِ اسرار، وغیرہ۔

ن۔ ن۔ ھ، کراچی،

جمعہ ۲۷ شوال۱۴۱۲ء،

یکم مئی ۱۹۹۲ء

 

۲۰

 

بھیدوں کی بہشت

 

۱۔  سورۂ مائدہ کے رکوعِ ہفتم میں جس طرح تورات (۰۵: ۴۴) انجیل (۰۵: ۴۶) اور قرآنِ حکیم (۰۵: ۴۸) کا اساسی ذکر فرمایا گیا ہے، اس میں ہوشمند مومنین کو خوب غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اصل تورات کے ظاہر میں ہدایت اور باطن میں روشنی (نور) تھی، یہاں باطن سے روح و روحانیّت مراد ہے، اور انجیل میں بھی تحریفات سے پہلے ایسی ہی ہدایت اور روشنی تھی، یہ کلیدی حکمت ہمیشہ یاد رہے کہ ہر آسمانی کتاب کی روح، روشنی، اور باطنی حقیقت (تاویل) معلّمِ ربّانی میں پوشیدہ ہوتی ہے، مثال کے طور پر حضرتِ موسیٰؑ کی کتاب (تورات) تاویلی اعتبار سے حضرتِ ہارونؑ کی ذاتِ بابرکات میں تھی، پس اس معنیٰ میں ارشاد ہوا ہے کہ کتابِ موسیٰؑ امام اور رحمت تھی (۱۱: ۱۷) ۔

 

۲۔ جیسا کہ سورۂ فرقان کا یہ ارشاد ہے (ترجمہ): اور البتہ ہم نے موسیٰؑ کو کتاب (تورات) عطا کی اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارونؑ کو (ان کا) وزیر بنایا (۲۵: ۳۵) وزیر کے اصل معنی ہیں: بوجھ اٹھانے والا، چنانچہ مذکورہ حکم کے مطابق حضرتِ موسیٰؑ کے ساتھ بھی اور ان کے بعد بھی تورات کی روح و روحانیّت اور نور و نورانیّت کا بارِ گران حضرتِ امام ہارونؑ اٹھا رہے تھے، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ناطق کے لئے ایک ایسا وزیر مقرر

 

۲۱

 

فرمایا ہے، جو ولایت اور وصایت کے مرتبے پر آسمانی کتاب کے نور کا حامل ہوتا ہے۔

 

۳۔ قرآنِ پاک اگلی آسمانی کتابوں کی نہ صرف تصدیق ہی کرتا ہے، بلکہ یہ ان کا محافظ (مھیمن) بھی ہے (۰۵: ۴۸) کیونکہ جس طرح قرآن روحانیّت میں کتبِ اوّلین میں تھا (۲۶: ۱۹۶) اسی طرح سابقہ کتبِ سماوی بھی روحِ قرآن کے خزانے میں ہیں، جبکہ درحقیقت تمام پیغمبروں کی کتابیں مل کر “الکتاب” (۰۲: ۲۱۳) کہلاتی ہیں، اس لئے کہ نورِ نبوّت باطن میں ایک ہی ہے، اگرچہ ظاہر میں انبیاء علیھم السّلام الگ الگ ہیں۔

 

۴۔ ہر چند کہ جنت آسمان و  زمین کے طول و عرض کے برابر ہے (۵۷: ۲۱،  ۰۳: ۱۳۳) اور وہ ایسے وسیع پھیلاؤ کی وجہ سے دور ہے، لیکن روحانیّت اور علم و حکمت کے بھیدوں میں بہشت نزدیک لائی گئی ہے (۲۶: ۹۰، ۵۰: ۳۱، ۸۱: ۱۳) کیا نور اور کتاب (قرآن) بھیدوں کی بہشت نہیں ہے (۰۵: ۱۵)؟ آیا عارفین و کاملین کے عالمِ شخصی میں یہ بہشت نہیں ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ نور اور قرآن وہ بہشت ہے، جس میں ہرگونہ عقلی اور روحی نعمتیں موجود ہیں، اور اس کی شناخت سے کل آخرت میں مومنین و مومنات کو ابدی جنت مل سکتی ہے (۴۷: ۰۶) ۔

 

۵۔ بھیدوں (اسرار) کا مقام کتنا بلند اور کیسا مشکل ہے، اس کا اندازہ اس حدیث سے ہو سکتا ہے: الشریعۃ اقوالی، والطریقۃ افعالی، والحقیقۃ احوالی، والمعرفۃ سری۔ شریعت میرے اقوال کا نام ہے، طریقت میرے اعمال کا، حقیقت میری کیفیتِ باطن ہے، اور معرفت میرا راز (بھید) ہے۔ یہی راہِ اسلام کی چار منزلیں ہیں:۔

 

۲۲

 

اخلاق۔ شریعت۔ طریقت۔ حقیقت۔ معرفت۔

۶۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ذاتِ اقدس سے شروع شروع میں اخلاقِ حسنہ کا ظہور ہونے لگا، پھر پروردگارِ عالم نے آپؐ کو مرتبۂ نبوّت و رسالت سے سرفراز فرمایا، آپؐ نے خدا کے حکم سے لوگوں کے سامنے ایک ایسے کامل ومکمل دین کو پیش کیا، جو شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت کا مجموعہ تھا، یہی دینِ فطرت اور اسلام ہے، اور اس کے یہ مدارج اس لئے مقرر ہیں کہ مومنین خدا کے حضور درجہ بدرجہ پہنچ سکتے ہیں، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے: هُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللّٰهِؕ (۰۳: ۱۶۳) وہ لوگ خدا کے نزدیک مختلف درجوں کے ہیں۔

 

۷۔ شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت میں سے ہر ایک کے بہت سے ذیلی درجات ہیں، لہٰذاعجب نہیں کہ یہ وہی سیڑھیاں ہوں، جن سے چڑھنے میں فرشتوں اور روحوں کو پچاس ہزار برس کا زمانہ لگتا ہے (۷۰: ۰۳ تا ۰۴) لیکن خدا اپنی قدرتِ کاملہ سے زمان و مکان کی بے پناہ وسعتوں کو لپیٹتا بھی ہے۔

 

۸۔ معرفت کا ایک بہت بڑا راز”دائرۂ درود” ہے، جس کی گردش خدا کے حکم سے جاری ہو سکتی ہے، ورنہ نہیں، وہ اس طرح ہے کہ: خدا اور اس

 

۲۳

 

کے فرشتے پیغمبر (اور ان کی آل) پر درود بھیجتے ہیں (۳۳: ۵۶) تاکہ یہ آسمانی درود اسی پاک و پاکیزہ وسیلے سے مومنین ومومنات کو حاصل ہو، اور اہلِ ایمان کو یہ حکم ہے کہ وہ ہمیشہ کامل تابعداری کے ساتھ درود کے لئے اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ درخواست کرتے رہیں، یعنی “اللھم صلی علیٰ محمدٍ و آلِ محمد” کہا کریں، تاکہ پروردگارِ عالم اور اس کے فرشتے نورِ نبوّت اور نورِ امامت کے توسط و طفیل سے ایمانداروں پر درود نازل فرمائے (۳۳: ۵۶) ۔

 

۹۔ درود کا مذکورۂ بالا قانون اس ارشاد میں بھی ہے: (خدا) وہی تو ہے جو خود اور اس کے فرشتے (محمدؐ و آلِ محمدؐ کے وسیلے سے) تم پر درود بھیجتے ہیں، تاکہ تم کو (جہالت کی) تاریکیوں سے نکال کر (علم کی) روشنی میں لے جائیں (۳۳: ۴۳) یہی حقیقت اس ارشاد میں بھی روشن ہے: (اے رسولؐ!) تم ان کے اموال سے صدقہ لو تاکہ تم ان کو پاک صاف کردو گے اور ان کے حق میں دعائے خاص کرو (یعنی آسمانی تحفہ بھیجو) بیشک تمہاری یہ صلوٰۃ (جس میں خدا اور فرشتوں کا درود ہے۳۳: ۴۳) ان کے حق میں باعثِ اطمینان ہے (۰۹: ۱۰۳) ۔

 

۱۰۔ لفظِ صلاۃ یا صلوٰ ۃ (جس کی جمع صلوات ہے) درود، رحمت، دعا، اورنماز کے لئے آتا ہے، تاہم مذکورۂ بالا آیاتِ کریمہ کے علاوہ اس ارشاد میں بھی بلفظِ صلوٰۃ اہلِ ایمان کے حق میں درود کا ذکر ہے، وہ آیۂ مبارکہ یہ ہے: أُولَـئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُون (۰۲: ۱۵۷) ۔ ۔ ۔ انہیں لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے بہت سے دورد ہیں اور رحمت، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

 

۱۱۔ اہلِ لغت کے نزدیک صلٰوۃ کے اور بھی معنی ہیں، جیسے استغفار، بزرگی بیان کرنا، پاکی بیان کرنا، پاک کرنا، عبادت گاہ، پیچھے چلنا، وغیرہ، مگر یہاں

 

۲۴

 

جس معنی و مفہوم کو دورد کہا گیا ہے، وہ ایک آسمانی تعریف ہے، کہ ایمانداروں کی انائے علوی علّیّین میں ہے، جہاں سرچشمۂ عقل و جان اور کلمۂ تامّۂ امر میں بھیدوں کی سب سے بڑی بہشت موجود ہے، اور یہی تو خداوندِ قدّوس کی بیمثال قدرت ہے کہ اس بادشاہِ لایزال نے گنجِ ازل میں سب کچھ سما دیا ہے، کیونکہ وہی سرمایۂ دوجہان ہے، جس کی توصیف کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔

۱۲۔ قرآنِ حکیم کی تمام مثالیں  اور سارے الفاظ مغزِ حکمت سے مملو ہیں، چنانچہ بنی اسرائیل سے یہ فرمانا کہ: تم اس گاؤں میں داخل ہو جاؤ (۰۲: ۵۸) یہ تاویلی معنی رکھتا ہےکہ تم قریۂ ہستی یعنی عالمِ شخصی میں داخل ہو جاؤ، اور فرمایا گیا: اس گاؤں میں سے جہاں چاہو فراغت سے کھاؤ (۰۲: ۵۸) ظاہر ہے کہ یہ باطنی اور روحانی نعمتوں کی بات ہے، اسی طرح سجدہ کرتے ہوئے دروازے سے داخل ہوجانے کے لئے فرمایا گیا ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ صاحبِ امر کی اطاعت ہی سے کوئی شخص روحانیّت میں جا سکتا ہے، اورحطۃٌ کی جگہ حنطۃ کہنے کہ مثال یہ ہے کہ اگر کوئی کمزور اور کم علم مومن وسوسے کے زیرِ اثر مخصوص وقت میں اسمِ اکبر کا صحیح تلفظ ادا نہیں کر سکتا ہے، تو وہ اس انتہائی عظیم عمل میں کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ حطہ اور حنطہ میں لفظی لحاظ سے کم مگر معنوی اعتبار سے بہت زیادہ فرق ہے، کہاں مغفرت چاہنا، اور کہاں گندم طلب کرنا، آپ سورۂ نسا (۰۴: ۱۴) اور سورۂ اعراف (۰۷: ۱۶۱) میں بھی دیکھیں۔

 

۱۳۔ سورۂ مائدہ کے رکوعِ چہارم کی حکمتوں میں خوب غور و فکر کریں: اس

 

۲۵

 

نے تم (میں سے ہر ایک) میں (بحدِّ قوّت) انبیاء بنائے (۰۵: ۲۰) یعنی ہر مومن کے لئے یہ امر ممکن بنا یا گیا ہے کہ وہ علم و عمل کے ذریعے سے اپنے عالمِ شخصی میں ظہورِ پیغمبران کے تجدّدِ امثال کا مشاہدہ کرے، اور حقائق ومعارف کی لازوال دولت سے مالا مال ہو جائے، نیز ارشاد ہے: اسی نے تم میں سے ہر ایک کو (عالمِ صغیرمیں) بادشاہ بنایا (۰۵: ۲۰) پھر حکم دیا جاتا ہے کہ: مقدّس زمین (عالمِ شخصی) میں داخل ہو جاؤ (۰۵: ۲۱) سے مخالف روحیں مراد ہیں، اور یہاں دو مرد تاویلاً قوّتِ جبرائیلہ اور قوّتِ میکائیلہ ہیں، جن کا کہنا ہے کہ: اس مقدّس زمین کو دروازے ہی سے داخل ہو کر فتح کر لو (۰۵: ۲۳) ، یعنی روحانیّت اور علم و حکمت کا دروازہ امامِ زمانؑ ہی ہے، لہٰذا سی کے وسیلے سے عالمِ شخصی کی عظیم سلطنت حاصل ہو سکتی ہے۔ والسلام۔

 

نصیر ہونزائی۔ کراچی

پیر۱۰ ربیع الثانی ۱۴۱۲ھ

۲۸ اکتوبر ۱۹۹۱ء

 

۲۶

 

ستاروں کا گرنا

 

۱۔ انسان کی روح اگرچہ وحدت و سالمیت کے اعتبار سے ایک ہی ہے، لیکن وہ لاتعداد لطیف و زندہ ذرّات یعنی اجزاء پر مشتمل ہے، اسی طرح نفسِ کلّی یا عالمگیر روح ایک ہے، مگر اس کے بے شمار اجزاء ہیں، اور ان میں بڑے بڑے اجزاء ستاروں کی روحیں ہیں، کیونکہ ہر ستارہ ایک دنیا ہے، لہٰذا اس کی بڑی روح میں بے حساب جزوی روحوں کا ایک عالم پوشیدہ ہے، مثال کے طور پر سیّارۂ زمین کی ایک جداگانہ روح ہے، جس میں شروع سے لیکر آخر تک باشندگانِ زمین کی روحانی تصویریں (ارواح) موجود ہیں۔

 

۲۔ جب کسی مومنِ سالک کی انفرادی اور روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، اور اسرافیل صور پھونکتا ہے، تو اس وقت اس کی ہستی پر لطیف ذرّات کی شکل میں ستاروں کی روحیں گر جاتی ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کائنات کو عارف میں لپیٹنا چاہتا ہے، (۲۱: ۱۰۴) نیز یہ اس واقعہ کا تجدّد بھی ہے کہ فرشتوں نے حضرتِ آدمؑ کو کس طرح سجدہ کیا، جبکہ ارواحِ ستارگان فرشتے ہیں، چنانچہ یہ ہوا ستاروں کا گرجانا، مگر یاد رہے کہ یہ تجدّد مقامِ عقل پر بھی پیش آتا ہے، تاکہ آدمِ زمانؑ کی کامل معرفت حاصل ہو، جو سب سے عظیم واقعہ ہے، جس کے بارے میں خداوندِ عالم کا ارشاد ہے:۔

 

۲۷

 

فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ، وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ، فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ، لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (۵۶: ۷۵ تا ۷۹) میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے گرنے کی اگر تم جانوتو یہ بہت بڑی قسم ہے کہ وہ باکرامت قرآن ہے جو ایک پوشیدہ کتاب میں ہے، جس کو بجز پاکان (یعنی ائمّہ) کے کوئی چھو نہیں سکتا۔

 

۳۔ پروردگارِ عالم نے جس واقعہ کی قسم کھائی ہے، وہ بہت ہی بڑا ہے، اسی لئے یہ قسم بھی ازبس عظیم ہے، ساتھ ہی ساتھ وہ راز بھی نہایت عظیم ہے، جس کی طرف توجہ دلانے کی خاطر اللہ پاک نے قسم کھائی ہے، اور وہ سب سے بڑا بھید یہ ہے کہ قرآن جہاں کتابِ مکنون (نورِ امامت) میں ہے، وہاں وہ بڑا باکرامت اور زندہ معجزات کا سرچشمہ ہے، جس کو أئمّۂ مطہرین علیھم السّلام کے سوا کوئی ہاتھ میں لے نہیں سکتا، اس کے یہ معنی ہوئے کہ قرآن کی روح و روحانیّت امامِ زمان صلوات اللہ علیہ وسلامہ کے باطنِ اقدس میں موجود اور پوشیدہ ہے، درحالے کہ نورِ قرآن اور نورِ امامت بحکمِ “نورٌ علیٰ نور” ایک ہی ہے، اسی معنیٰ میں امامِ برحقؑ قرآنِ ناطق یا کتابِ ناطق  (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) کہلاتا ہے۔

 

۴۔ خدائے بزرگ و برتر نے جس عظیم واقعہ کی قسم کھائی ہے، اس کا دوسرا پہلو جیسا کہ ذکر ہوا ہے یہ ہے کہ ستاروں کی روحیں فرشتوں کی حیثیت سے ہیں، اور مومنِ سالک کی ذاتی قیامت میں ان روحوں کا سالک کی ہستی پر گرجانا ایک طرف سے ستاروں کا گر جانا ہے، اور دوسری طرف سے حضرتِ آدمؑ کیلئے فرشتوں کے سجدے میں گرنے کی مثال ہے، یا تجدّدِ امثال ہے، چنانچہ فرمانِ خداوندی ہے:

فاِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَ

 

۲۸

 

(۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) سو میں جب اس کو مکمل کر چکوں اور اس میں اپنی روح ڈال دوں تو تم سب اس کے لئے سجدہ کرتے ہوئے گرجانا۔

 

۵۔ اصل معرفت اس کے سوا ممکن ہی نہیں کہ انبیاء علیھم السّلام کا ہر روحانی واقعہ عارفوں کے مشاہدے میں آئے، جیسا کہ اس قرآنی ارشاد سے ظاہر ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآئِكَةِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ (۰۷: ۱۱) اور ہم نے تم کو (جسمانی طور پر) پیدا کیا پھر ہم نے تمہاری (روحانی) صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو (۰۷: ۱۱) اس حقیقت سے کوئی دانشمند انکار نہیں کریگا کہ سب سے پہلے مومنِ سالک کی جسمانی تخلیق مکمل ہو جاتی ہے، پھر ذکر و عبادت اور علم و عمل سے روح کی خاص صورت بنتی ہے، اور یہی روحانیّت، قیامت، اور واقعاتِ انبیاء علیھم السّلام کا آغاز ہوا۔

 

۶۔ خلاصۂ مطلب کے طور پر یہ کہنا چاہئے کہ مقامِ روحانیّت پر بھی اور مرتبۂ عقلانیّت پر بھی ستاروں کا گرجانا، اور فرشتوں کا سجدۂ آدمؑ کے لئے گرجانا تاویل میں ایک ہی بات ہے، جو انتہائی عظیم واقعہ ہے، خدائے پاک نے جس کی قسم کھائی ہے، اور سجدے کی تاویل اطاعت و فرمانبرداری ہے، جس سے تسخیرِ کائنات مراد ہے، یعنی ستاروں کی عظیم روحیں (جو کائناتی فرشتے ہیں) اپنی ذات میں روحانیّت کی ایک ایک دنیا لے کر عارفوں میں سما جاتی ہیں، اسی باب میں ارشاد ہے: تم اپنے پروردگار کی ایک خاص مغفرت میں سبقت لے جاؤ اور ایسی جنت کے لینے میں بھی جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کے برابر ہے (۵۷: ۲۱) پس جاننا چاہئے کہ آسمان اور زمین سے ستارے مراد ہیں، اور بہشت ستاروں کی روح و روحانیّت میں ہے، کیونکہ ہر ستارہ کی روح میں ایک روحانی

 

۲۹

 

سلطنت موجود ہے۔

 

نصیر ہونزائی،

۱۴ اگست۱۹۸۰ء

۲۶جنوری۱۹۹۲ء

 

۳۰

 

عبد الاحد کا اشارہ

 

۱۔ یہ اس عجیب و غریب وقت کا قصّہ ہے، جبکہ یہ عاجز بندہ ذاتی طور پر یارقند (چین) میں روحانی انقلاب سے گزر رہا تھا، انقلاب ظاہر میں ہو یا باطن میں، یا دونوں میں، بہ ہرحال اس کا مادّہ ق۔ ل۔ ب (یعنی قلب) ہے، قلب دل اور مرکز کا نام ہے، چنانچہ ہر چیز کاایک قلب ہوا کرتا ہے، سو قرآنِ پاک کا قلب سورۂ یاسین ہے، اور کائنات کا قلب انسانِ کامل، ملاحظہ ہو ڈایاگرام: قرآنی علاج ۱۴۲، لیکن آپ کو یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ سورۂ یاسین اور انسانِ کامل (امامؑ) کا خصوصی رشتہ کیا ہے؟ اس کا جواب آپ کو اسی سورہ (۳۶: ۱۲) میں ملے گا۔

 

۲۔ انسانی دل کا نام کس وجہ سے “قلب” مقرر ہوا، اس کی وضاحت بھی کتابُ العلاج (قرآنی علاج) ۱۴۲ سے شروع کر کے دیکھ لیں، تاکہ ظاہری اور باطنی قلب و انقلاب کے بھیدوں سے واقفیت و آگہی ہو سکے، چنانچہ مادّی انقلاب مومنین کے لئے اللہ پاک کا وہی امتحان تھا اور ہے، جس کا ذکر سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۵۵۔ ۔ ۔) میں فرمایا گیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ نہ صرف عبد الاحد ہی بلکہ بہت سارے اہلِ ایمان قبل از عبادت، بعد از عبادت اور بعض دفعہ بندگی کے ساتھ ساتھ گریہ وزاری کر لیا کرتے تھے، اس حال میں روحانی

 

۳۱

 

اعتبار سے خداوندِ قدوس کی کتنی بڑی رحمت تھی، ایک دن میں نے نورانی خیال اور نورانی خواب کے درمیان عبد الاحد کو دیکھا، وہ بڑا شادمان، خرسند، اور راضی مگر خاموش کھڑا تھا، وہ ہاتھ سے آسمان اور ستاروں کی طرف کچھ ایسے اشارے کرنے لگا کہ ان کے مفہومات خودبخود میرے دل میں اترتے رہے، و ہ اشاراتی زبان میں کہہ رہا تھا کہ ہم سیّارۂ زمین پر اراضی اور اموال کے چھن جانے سے کیوں روئیں، جبکہ ہمارے خداوند نے عظیم کائنات کی وسعتوں میں بے شمار ستاروں کی دنیائیں اور ان میں بہشت کی بڑی بڑی سلطنتیں بنائی ہیں۔

 

۳۔ عبد الاحد ایک مومن شخص تھا، جو دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح زمین اور جائداد سے محرومی پر آنسو بہارہا تھا، لیکن بارگاہِ الٰہی میں اور مناجات کے طرز پر روتا تھا، اس سے یقیناً پروردگارِ عالم نے اپنی رحمتِ بے پایان سے اسے فرشتہ بنا دیا، اور ایسی ہی رحمت دوسرے مومنین کے لئے بھی ہے، کیونکہ یہ ایسا موقع ہے کہ اس میں ایک ہی شخص سے سب کی یا بعض کی نمائندگی ہو سکتی ہے، اور نمونے کے لئے ایک ہی فرد کافی ہوتا ہے۔

 

۴۔ عبد الاحد کا تذکرہ قرآنی مینار، ص۹۱ پر بھی ہے، اور ایک خط میں بھی، جو جانِ عزیز کی خدمت میں لکھا گیا ہے، اس کے علاوہ حلقۂ احباب میں بھی اس کا یہ بعض دوسرے روحانی عجائب و غرائب کا ذکر ہوتا رہتا ہے، تاکہ روحانی علم و حکمت کے انمول جواہر سینوں اور سفینوں (بیاض، مجلد اوراق) میں محفوظ رہیں، ساتھ ہی ساتھ اس بیان سے تحدیثِ نعمت بھی مقصود ہے، تاکہ قرآن اور معلّمِ قرآن کے انعامات و احسانات کی شکر گزاری اور قدردانی کے لئے سعی جاری رہے۔

 

۵۔ “یارقند” کی وجہِ تسمیہ لوگوں کے نزدیک کچھ بھی ہو، اس سے

 

۳۲

 

کوئی بحث نہیں، لیکن میرے لئے اس نام کا یہ انتہائی مفہوم درست ثابت ہوا: یارقند = دوستِ شیرین، معشوقِ حقیقی، یعنی امامِ برحقؑ، جس کے پاک و پاکیزہ عشق و محبت اور دیدارِ باطن کی لذّتوں اور حلاوتوں کا اعلیٰ تجربہ مجھے اسی بابرکت شہر میں حاصل ہوا، اور میرے لئے ملکِ چین تھا، جہاں سے بفرمودۂ حدیث، روحانی علم ملنے کا امکان ہے، وہ حدیثِ شریف یہ ہے: اطلبواالعلم ولو بالصین۔ تم علم کی تلاش میں لگے رہو اگرچہ تمہیں (اس کی خاطر) چین جانا پڑے۔

 

۶۔ برادرِ محترم عزیز محمد خان بای (مرحوم) کے بارے میں قبلاً ایک مقالے میں کچھ ذکر ہو چکا ہے، وہ صفِ اوّل کے مومنین اور علیٔ زمانؑ کے جان نثار دوستوں میں سے تھے، آپ اس بات سے ان کی ایمانی اور روحانی ترقی کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ اتفاقاً میں ایک شب تھوڑی دیر کے لئے یکپا استادہ ذکر کر رہا تھا، جب صبح ملاقات ہوئی، تو انہوں نے ٹھیک ٹھیک بتا دیا کہ آپ رات کے وقت اس حال میں ذکر کر رہے تھے، اس زمانے میں ان پر ابتدائی روشنی کا کشف ہوا تھا، وہ علم کے بڑے قدردان اور عالمِ شخص تھے، آپ رات کا اکثر حصہ ذکر و عبادت اور گریہ وزاری میں گزارتے تھے۔

 

۷۔ وہاں کے راسخ العقیدت اور جان نثار مومنین میں سے ایک قبول آخون تھا، اگر میں ایسے سرفروش مومن کو قلمی طور پر یاد نہ کروں، تو البتہ ناشکری ہوگی، جس وقت کچھ لوگوں نے مجھے خدا کے گھر (جماعت خانہ) سے نکال کر بڑی سختی سے گرفتار کر لیا، اس وقت مرحوم قبول آخون جان کو جان نہ سمجھتے ہوئے میری حمایت کا مظاہر کر رہا تھا، میں کبھی آپ کو تفصیل سے بتاؤں گا کہ اصل قصّہ اور اس کا پس منظر کیا ہے، ہاں، صرف قبول آخون

 

۳۳

 

کی بات ہو۔

 

۸۔ ہمیشہ کی طرح ایک شب محفلِ ذکر و تضرع کا اہتمام ہوا، ایسی ہر مجلس جماعت خانہ ہی میں ہوا کرتی تھی، جماعت کا ہر فرد مٹ مٹ کر خداوندِ تعالیٰ کو یاد کر رہا تھا، اور اگر گریہ وزاری کا اب تصوّر کروں تو عالمِ خیال میں یوں لگتا ہے جس طرح ابرِ نسیان سے موتیوں کی بارش برس رہی ہو، کیونکہ زبردست انقلاب کا زمانہ تھا، چنانچہ اس محفلِ گریہ وزاری میں عزیزم قبول آخون کے بدن خصوصاً سر اور گردن کی حرکت شدید تھی، چونکہ میں ہی ذکر کرا رہا تھا، اس لئے اس کے آداب سے متعلق تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی مجھ پر عائد ہو جاتی تھی، سو میں نے دورانِ ذکر قبول آخون کی اپنے آپ پر حد سے زیادہ سختی اور تکلیف کا اندازہ کر لیا، لیکن کچھ سمجھانے کے لئے موقع نہیں ملا۔

۹۔ جب صبحِ صادق ہوئی اور میں گھر گیا، تو میری تنہائی میں حسبِ معمول موکل آیا اور قبول آخون کی حمایت کرتے ہوئے مجھ سے گلا کیا، اور کہا کہ تم نے قبول آخون کو ذکر کے قواعد و آداب سکھائے بغیر شدید مشقت میں ڈالا ہے، لہٰذا تم سے اس کا فدیہ لیا جاتا ہے، وہ یہ کہ تمہارے گھر میں چند نئی رضائیاں ہیں، ان میں سے ایک قبول آخون کو دو، پس میں نے کسی تاخیر کے بغیر اس حکم کی تعمیل کی، اور اس کے ساتھ قند کا ایک پیکٹ بھی دیا۔

 

۱۰۔ میرے نزدیک یہ بات اور اس جیسی دوسری تمام باتیں، جن کا تعلق روحانیّت سے ہے، غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں، پس عزیزم قبول آخون کی مثال سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ سب سے مفید ترین ذکر وہ ہے، جو سنجیدگی، عاجزی، اور اندرونی پُرسوز عشق کی اساس پر ہو، کیونکہ آدمی اگر کسی طرح

 

۳۴

 

سے اپنے بدن کو تکلیف دیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ رونے لگتا ہے، تو یہ خالص عشقِ الٰہی کیسے ہو سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کی پاک و پاکیزہ محبت و عشق کی روشنی اور روح انتہائی مشکل اور نازک چیز ہے، سو اس سلسلے میں میرے تمام مشورے آپ کو کتابِ “ذکرِ الٰہی” میں ملیں گے۔

 

ن۔ ن۔ ہونزائی، کراچی

۶فروری ۱۹۹۲ء

 

۳۵

 

قانونِ خزائن

(بجوابِ سوالےچند)

 

۱۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے خزانوں کا قانون یہ ہے: اور کوئی چیز نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور ہم نہیں اتارتے مگر (انسان کی) جانی ہوئی مقدار (۱۵: ۲۱) اس کی بروشسکی روحانی حکمت (تاویل) اس طرح ہے: اݹ منݳسن اپݵ (یعنی کوئی چیز ناممکن نہیں) ہر شیٔ ممکن ہے اور وہ خزائنِ خداوندی میں موجود ہے، مثال کے طور پر انسان ہی کو لیں، کہ اس کی عقل خزانۂ عقل میں ہے، جان خزانۂ روح میں، جسمِ کثیف خزانۂ عناصر میں، اور جسمِ لطیف خزانۂ دارالابداع میں ہے، پس جو چیزیں عقل و شعور سے تعلق رکھتی ہیں، ان کے حصول کے لئے علم شرط ہے، اور علم جتنا اعلیٰ ہوگا، اتنی عالیشان چیزیں نازل ہوں گی، پس اگر کسی شخص کے پاس حقیقی علم ہے، تو اس کی نظر میں ہر چیز ممکن ہے، اݹ منݳسن اپݵ۔

 

۲۔ حکیم پیر ناصرِ خسرو (ق۔ س) کی تعلیمات میں ایک بڑی اہم بات یہ بھی ہے کہ ہم چشمِ بصیرت سے ہر “کل” کو دیکھا کریں، اور خوب پہچانیں، اور اسی قانونِ کلّ کی روشنی میں علمی مسائل کو حل کریں، جیسے آسمان عام طور پر دیکھنے سے نصف سے بھی کم نظر آتا ہے، اور اسی طرح زمین بھی، سو یہ جُز ہے، کُل نہیں، اگر کُل کو دیکھنا ہے تو ہم علم کی روشنی میں دیکھیں گے، یا مشاہدہ اور تجربہ کی خاطر

 

۳۶

 

ہوائی جہاز پر سیّارۂ زمین کے گردا گرد چکر لگائیں گے، یہ علم الیقین اور عین الیقین کی مثال ہے۔

 

۳۔ اب اسی قانونِ کُل اورقانونِ خزائن کی روشنی میں یہ سوچنا ہے کہ آیا: وَ  تِلْكَ  الْاَیَّامُ  نُدَاوِلُهَا  بَیْنَ  النَّاسِۚ (اور وہ دن ہیں، ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں (۰۳: ۱۴۰) کا قانون صرف ہمارے ہی سیّارے کے لوگوں کےلئے ہے یا اس کا اطلاق کائنات بھر کے ستاروں پر ہوتا ہے؟ اس کا درست جواب یقیناً یہی ہوگا کہ یہ قانونِ کُل ہے، لہٰذا اس کا تعلق کثیف و لطیف تمام لوگوں سے ہے، جو کائنات کے ہر ستارے پر موجود ہیں، چاہے وہ ارواح کہلائیں، یا فرشتے، یا جنّات، لیکن دراصل وہ لوگ ہی ہیں، جن کے درمیان ایام یعنی ادوارِ اعظم کی تبدیلی لازمی ہے، تاکہ ہمیشہ ایک طرف درجات کا دائمی سلسلہ جاری رہے، اور دوسری طرف مساوات کا عرش قائم ہو۔

 

۴۔ قدیم ترین زمانے میں سیّارۂ زمین پر جنّات یعنی لطیف انسان بستے تھے، اگر یہ بات اکثریت اور غالبیت کے اعتبار سے کہی گئی ہو، تو کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت بعض لوگ یہاں جسمِ کثیف میں بھی تھے، مگر قلیل تعدا د میں، کیونکہ اب جبکہ زمین پر آدمیوں کا قبضہ ہے، تو پھر بھی یہ کہنا غلط ہوگا کہ آج ہماری دنیا میں جنّوں کا نام و نشان نہیں، درحالے کہ بحوالۂ قرآن جنّات دنیا میں موجود ہیں (۴۶: ۲۹) نیز یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ سب کے سب کثیف سے لطیف میں فنا یعنی تبدیل ہو جائیں (۵۵: ۲۶) ایسے میں اجسامِ کثیف کے نمونے کسی دوسرے سیّارے پر رہے ہوں گے، کیونکہ مادّی چیزوں کے لئے ستارے ہی خزائنِ الٰہی ہیں، پس ان میں سے کسی پر اجسامِ کثیف کا ہونا ضروری ہے، اس کی بڑی روشن دلیل یہ ہے کہ خداوندِ علیم وحکیم کسی چیز کو کبھی ختم نہیں کرتا، بلکہ اس کو ہمیشہ لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے، جیسا کہ بارہا اس کا ذکر ہو چکا ہے۔

 

۳۷

 

۵۔ ھبوطِ آدم و آدمی کی چار مثالیں: (۱) عالمِ غیب یا فردوسِ برین سے بطریقِ ابداع انسان کا زمین یا کسی اور سیّارے پر ظاہر ہونا، (۲) کسی آباد و ترقی یافتہ سیّارے سے نئے سیّارے پر اترنا۔ (۳) ہر ناطق اور ہر امام جو اپنے وقت کا آدم ہے (عالمِ شخصی میں) اس کا وہ نزول، جو روحانی اور عقلانی عروج کی لاتعداد برکتوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ (۴) حضرتِ امامؑ بہشتِ برین اور سب سے معمور سیّارہ جیسا ہے، جب اس کی نورانی کاپی کسی عاشقِ صادق میں آئے، تو یوں کہنا تاویلاً درست ہوگا کہ آدم اور اس کے بہت سے ساتھی جنت الفردوس یا ستارۂ پُرنور سے اس دنیا میں نازل ہوگئے، کیونکہ امامِ مبین کی پُرحکمت کاپی اپنے ساتھ ایک بھر پور کائنات کو لیکر آتی ہے۔

 

۶۔ جیسا کہ مثال۲ میں یہ ذکر ہوا کہ آدم و آدمی ایک سیّارے سے دوسرے پر منتقل ہو سکتے ہیں، جس کے لئے ظاہری سائنس کا بہانہ ہو سکتا ہے، یا روحانی سائنس عام ہو سکتی ہے، مثلاً اڑن طشتریوں یا پرواز والے کُرتوں کا استعمال وغیرہ، اگر کسی سیّارے پر سائنس کی مدد سے کچھ ایسے لوگ اتر جائیں، جو خدا سے بیگانہ ہوں، تو پھر بھی اللہ اپنی حکمت سے ان کے ساتھ ایسے شخص کو بھیجے گا، جو ان سب سے بہتر ہوگا،  پھر خدائے غالب اصلاح کے بعد اس کے عالمِ شخصی میں امامِ عالی مقامؑ کی نورانی کاپی نازل فرمائے گا، جیسا کہ اوپر مثال ۴ میں اس کا ذکر ہوا، پس وہ بڑا نیک بخت انسان نورِ امامت کے طفیل سے وہاں کا آدم ہوگا۔

 

۷۔ جثّۂ ابداعیہ کا تعلق دارالسّلام سے ہے، لہٰذا وہ ہمیشہ زندہ اور سلامت ہے، اس کا ظاہری موت سے کوئی واسطہ نہیں، کیونکہ وہ عالمِ غیب سے ہے جو عالمِ امر ہے، اسی لئے وہ حاضر بھی اورغائب بھی ہو سکتا ہے،

 

۳۸

 

جس طرح آسمانی بجلی کوندتی ہےاورغائب ہو جاتی ہے، جیسے آفتابِ جہان تاب طلوع و غروب کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اپنا کام کر رہا ہے، لیکن برق و شمس کو کسی مخلوق سے کوئی خطرہ نہیں، اسی طرح قرطۂ ابداعیہ ہے، جس میں “کُن فیکون” کے معجزات ہیں، یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ دنیا میں کوئی آدمی جسمانی لحاظ سے یا تو کسی بیماری سے مر جاتا ہے، یا حادثہ، ہتھیار، وغیرہ سے، لیکن جامۂ جنّت (جسمِ لطیف) کو نہ کوئی بیماری لاحق ہو جاتی ہے، نہ حادثہ پیش آتا ہے، اور نہ کوئی ہتھیار اس کا کچھ بگاڑسکتا ہے، کیونکہ وہ تو ہر قسم کے ضرر اور گزند سے بچانے کیلئے ہے (۱۶: ۸۱) ۔

 

۸۔ جسمِ لطیف کی کم سے کم قسمیں دو ہیں، ایک کا تعلق خیر سے اور دوسرے کا شر سے ہے، پہلا ہادیٔ برحق کا ہے، اور دوسرا مضل یعنی گمراہ کُنۡ (شیطان، شیاطین) کا، پس عدلِ خداوندی کا تقاضا یہ ہے کہ جس طرح شیاطین جسمِ لطیف کی وجہ سے دنیا کے ہر ایسے شخص کے دل تک پہنچ سکتے ہیں، جو گمراہی پر تُلا ہو، تاکہ اسے گمراہ کردیں، اسی طرح ہادیٔ زمان (امامِ وقتؑ) کے حدودِ جسمانی (حجج، دعاۃ، وغیرہ) کو بھی جسمِ لطیف حاصل ہونا چاہئے، تاکہ یہ حدودِ دین اقوامِ عالم میں پھیل جائیں، اور جو شخص ہدایت کے قابل ہو، اس کے دل کے کان میں ہدایت کی باتیں کریں، اور یہی حقیقت ہے۔

 

۹۔ خیر و شر کے دو بڑے درجوں اور ذیلی درجات کے مذکورۂ بالا بیان سے بخوبی اندازہ ہوا کہ اجسامِ لطیف سب ایک جیسے نہیں ہیں، ان کے مابین بہت بڑا فرق ہے، چنانچہ حضرت قائم القیامت علیہ افضل التحیۃ والسّلام کا بابرکت جسمِ لطیف کائنات کی وسعتوں پر محیط ہے، جس کو جسمِ کلّی لطیف کہا جاتا ہے، وہی وہ زندہ بہشت ہے جو وسعت میں آسمان و زمین کے برابر

 

۳۹

 

ہے (۵۷: ۲۱، ۰۳: ۱۳۳) اسی کی جان نفسِ کُلّی اور اسی کی دانش عقلِ کلّی ہے، اور اس کے بعد حسبِ مراتب امامِ عالی مقامؑ، باب، حجت، اور داعی کے اجسامِ لطیف ہیں، اب ہر مومن کی ہمت، محنت اور علم و عمل پر منحصر ہے کہ وہ کس درجہ کے جسمِ لطیف تک رسا ہو جاتا ہے، جب تک آدمی جسمِ کثیف کی قید میں مقید ہے، تب تک جسمِ لطیف سے بھر پور فائدہ اٹھانا انتہائی مشکل کام ہے، تاہم دیکھیں کہ دورِ روحانیّت میں کیا انقلاب رونما ہوتا ہے، پھر بھی جسمانی موت کے بعد ہی اڑن طشتریوں کی مکمل تسخیر کا یقین ہے، اس حال میں اڑن طشتری کوئی بھی ہو، لیکن اس کے استعمال کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔

 

۱۰۔ سورۂ مومنون (۲۳: ۱۷) کے مطابق سات رستے جو تمام انسانوں کے اوپر ہیں، وہ چھ ناطقوں اور قائم کے اجسامِ لطیف ہیں، مگر یہ سب حضرات نورٌعلیٰ نور کے حکم سے ایک ہوچکے ہیں، اور وہ ایک حضرتِ قائم القیامتؑ کا جثّۂ ابداعیہ ہے، دوسرے اعتبار سے سات بالائی راستوں کی تاویل ہر چھوٹے دور کے چھ اماموں اور قائم کے اجسامِ لطیف ہیں، اور یہ حضرات بھی حضرتِ قائم میں ایک ہیں، یہی تاویل۔  سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۔ کی بھی ہے (۶۷: ۰۳) اور۔ سَبْعًا شِدَادًا۔ کی بھی ہے (۷۸: ۱۲) ۔ پس مراحلِ روحانیّت کے آخر میں جب حضرتِ قائمؑ کا بدنِ کوکبی میں ظہور ہوتا ہے، تو اس میں سب ہوتے ہیں۔

۱۱۔ قرآنِ حکیم فرماتا ہے کہ اہلِ بہشت کے لئے وہاں کوئی موت نہیں، اس میں تجربہ تو دنیا ہی میں ہوچکا ہوتا ہے (۴۴: ۵۶) شاید یہاں یہ سوال بھی ہو کہ جنت میں شیطان نے آدم و حوّا کے کونسے کپڑے اتروائے (۰۷: ۲۷)؟ کیا وہ اسی دنیا کے ظاہری لباس تھے؟ یا جامہ ہائے جنّت (کوکبی بدن)؟ اگر جواباً یہ کہا جائے

 

۴۰

 

کہ وہ بہشت کے زندہ کپڑے (ابداعی جثّے) تھے، تو پھر بڑا عجیب و غریب اور انتہائی کلیدی سوال یہ پیدا ہوگا کہ آیا یہی وہ سرِ عظیم ہے، جس میں انسان کے اپنی انائے عُلوی سے ملنے اور پھر الگ ہو جانے کی حکمت پوشیدہ ہے؟ جی ہاں، یہی راز ہے، لیکن یہاں کوئی یہ خیال نہ کرے کہ شاید جامۂ جان لباسِ ظاہر کی طرح جسم کی سطح پر ہوگا، ایسا نہیں، بلکہ اس کا تعلق باطن سے ہے، لہٰذا وہ روح کے ساتھ شیر و شکر ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ جسمِ لطیف بھی ہے، اور اعلیٰ روح بھی، اگر پھر بھی کسی مثا ل کا تقاضا ہو، تو جثّۂ ابداعیہ کی تشبیہہ و تمثیل جنّ و پری سے دی جا سکتی ہے، جو انسان کے دل و دماغ پر حاوی بھی ہو سکتے ہیں، اور چھوڑ کر جا بھی سکتے ہیں۔

 

۱۲۔ لنڈن سے، ۱۱ جنوری ۱۹۹۲ء کا ایک معزز و موقّر خط جن مبارک ہاتھوں نے تحریر کیا ہے، ان سے اور ان کے قلمِ مقتدر سے قربان ہو جاؤں! اس میں ضمناً اعلیٰ سطح کے چند عالمانہ سوالات درج کر کے پُرخلوص فرمائش کی گئی تھی کہ یہ بندۂ ناچیز ان سوالوں کو حل کرے، خاکسار نے ان ارضی فرشتوں کے روحانی صدقے کے لئے درخواست کر کے کوشش کی ہے، گر قبول افتد زہےعزوشرف۔

 

پیاری پیاری کتابوں کے انتہائی حسین و دل آویز تراجم خزائنِ لعل و گوہر سے زیادہ گرانقدر اور عالی ہیں، ان شاء اللہ، میری عاجز روح کے لاتعداد ذرّات ان تمام عزیزوں کے حق میں ہمیشہ پُرخلوص دعائیں کرتے رہیں گے، جو علمی خدمت کے مختلف شعبوں میں جان و دل سے کام کر رہے ہیں۔

 

ن۔ ن۔ ہونزائی۔

کراچی،

منگل ۲۹رجب المرجب۱۴۱۲ھ، ۴فروری ۱۹۹۲ء

 

۴۱

 

اسرارِ موت

 

۱۔ اس موضوع میں سب سے پہلے یہ بھید بڑا عجیب و غریب کیوں نہ ہو کہ موت ایک مخلوق ہے، جس طرح حیات (زندگی) ایک مخلوق ہے، اور یہ حقیقت ایسی نہیں، جس کی کوئی رد کر سکے، جبکہ یہ ایک قرآنی حقیقت ہے، جیسے سورۂ مُلک (۶۷: ۰۲) میں ارشاد ہے: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ۔ (وہ ہر چیز پر قادر ہے) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل (کام) میں سب سے اچھا کون ہے (۶۷: ۰۲) ۔

 

۲۔ یہاں اس روشن حقیقت کو اچھی طرح سے دیکھ لینا ہے کہ “خلق الموت” کے صاف وصریح معنی ہیں: اس نے موت کو پیدا کیا، دوسرے الفاظ میں اس (یعنی خدا) نے موت کو مخلوق کیا، تو پھر موت کسی شک کے بغیر مخلوقات میں سے ایک “مخلوق؍ موجود معدوم (نیست کیا گیا) کے برعکس ہے، مذکورہ آیۂ شریفہ میں دوسری بڑی حکمت اس بات کے جاننے میں ہے کہ ترتیب کے لحاظ سے موت پہلے اور حیات بعد میں کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ موت پہلے پیدا کی گئی ہے، اور زندگی بعد میں، اس کی چند مثالیں

 

۴۲

 

ذیل میں درج کی جاتی ہیں:۔

 

۳۔  الف: زمانۂ نبوّت میں جتنے کافر مسلمان ہوگئے، سمجھ لو کہ وہ پہلے مردہ تھے، بعد میں انہیں زندگی دی گئی، اس سے ظاہر ہوا کہ موت پہلے ہے، اور حیات بعد میں، ب: اگر کوئی جاہل و نادان شخص ہے، تو اس کی جہالت و نادانی مردگی ہے، جب حقیقی علم کی روح اس میں پھونک دی جاتی ہے، تو وہ زندہ ہو جاتا ہے، ج: مومنِ سالک شروع شروع میں جسمانی زندگی کی منزلوں سے گزرتا ہے، یہ موت کی طرح ہے، اس کے بعد حیاتِ روحانیہ کے مراحل کو طے کرنے لگتا ہے، جو حقیقی زندگی ہے، د: جمادات سب سے پہلے ہیں مگر مردہ، نباتات کو زندہ کہہ سکتے ہیں، کیونکہ ان میں روحِ نباتی ہے، لیکن یہ حیوان کے سامنے مردہ ہیں، حیوان زندہ ہے، مگر انسان کے مقابلے میں بے بس اور مرا ہوا جیسا ہے، یہی فرق انسانوں کے بہت سے درجات میں بھی پایا جاتا ہے، تا آنکہ انسانِ کامل کا مرتبہ آتا ہے، جس کو خداوندِ تعالیٰ نے حقیقی معنوں میں زندہ کرکے ایک نور عنایت کر دیا ہے، جس سے وہ لوگوں کے باطن میں چل سکتا ہے (۰۶: ۱۲۲)

۴۔ ہم ایسی زندگی کو، جو ظاہراً زندگی اور باطناً مردگی ہو، زندگی نما موت کہہ سکتے ہیں، جیسا کہ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۹) میں ہے: اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جنّات اور انسان ایسے ہیں، جن کو ہم نے جہنم ہی کے لئے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں (۰۷: ۱۷۹) پس ایسے بے شمار لوگ انسان نما حیوان

 

۴۳

 

اور زندہ نما مردے ہیں۔

 

۵۔ چونکہ “خلق الموت” میں ہر قسم کی موت کا ذکر ہوا ہے، لہٰذا لازمی طور پر ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہر طرح کی موت مخلوق ہے، اور ہر مخلوق عالمِ خلق میں ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موت صرف عالمِ خلق ہی میں ہے، عالمِ امر میں نہیں، پس عالمِ امر میں کوئی موت نہیں کیونکہ وہ ہمیشہ زندہ ہے۔

 

۶۔ سورۂ بقرہ کی اس سماوی تعلیم میں تقلید سے نہیں تحقیق سے سوچنا چاہئے، وہ ارشاد یہ ہے: کیونکہ تم خدا کا انکار کر سکتے ہو، حالانکہ تم مردے تھے تو اسی نے تم کو زندہ کیا، پھر وہی تم کو موت دے گا، پھر وہی تم کو (دوبارہ) زندہ کرے گا، پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے (۰۲: ۲۷) یہاں کنتم امواتا (تم مردے تھے) میں بہت بڑا راز ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان کچھ بھی نہ تھا، وہ تھا تو سہی، لیکن اس کی حالت موجودہ زندگی کے مقابلے میں مردگی جیسی تھی، جس کی بہت سی مثالیں ہیں، جیسے زمانۂ آدمؑ سے اس طرف ذرۂ ہستی کا پشت بہ پشت چلتے رہنا، وغیرہ۔

 

۷۔ لفظِ امواتا کوقرآنِ کریم (۰۲: ۲۸، ۰۳: ۱۶۹، ۷۷: ۲۶) میں دیکھ لیں، جو مردوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سورۂ آلِ عمران میں شہیدوں کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: وَ  لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  قُتِلُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  اَمْوَاتًاؕ-بَلْ  اَحْیَآءٌ  عِنْدَ  رَبِّهِمْ  یُرْزَقُوْنَ (۰۳: ۱۶۹) اور جو لوگ زندہ ہیں اپنے پروردگار کے ہاں سے (طرح طرح کی) روزی پاتے ہیں، چونکہ امواتٌ اور امواتا ایک ہی لفظ کی دو صورتیں ہیں، اس لئے قرآنِ حکیم (۰۲: ۱۵۴، ۱۶: ۲۱، ۳۵: ۲۲) میں امواتٌ کو بھی دیکھ لیں۔

 

۴۴

 

۸۔ راہِ خدا میں شہادت دو طرح سے ہے: شہادتِ ظاہر اور شہادتِ باطنی، جس میں شہدائے ظاہر جسمانی طورپر قتل کئے جاتے ہیں، اور شہدائے باطن نفسانی طور پر، لیکن جسم یا نفسِ حیوانی کے قتل وموت سے مومن کی اصل روح نہیں مرتی، کیونکہ وہ عالمِ امر کے خورشیدِ انور میں موجود ہے، اور یہاں آئینۂ جسم میں صرف اس کا  عکس آیا ہے (۱۷: ۸۵) جیسے آئینہ میں سورج کی روشن تصویر ہوتی ہے، پس اگر کوئی شخص اس چھوٹے سے آفتاب کو، جو شیشہ میں نظر آتا ہے، ختم کرنا چاہے تو ختم نہیں کر سکتا، لیکن ہاں، یہ بات ہے کہ وہ آئینے کو توڑ سکتا ہے، یہ اس سوال کا بہترین جواب ہے کہ آیا موت کا اطلاق جسم پر ہوتا ہے، یا روح پر؟

 

۹۔ ارشادِ نبوی ہے کہ: ہر مومن شہید ہے اور ہر مومنہ حوراء، قرآن و حدیث کے الفاظ و جملے معنوی جامعیّت اور حکمت کے عوجِ کمال پر ہوا کرتے ہیں، چنانچہ “شھید” کے معنوں میں سے ایک معنی ہیں: “حاضر ہے۔” اب سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ ہر مومن کہاں حاضر ہے؟ تو اس حدیثِ شریف کے آخری حصّے سے بہ اشارۂ حکمت جواب ملتا ہے کہ ہر مومن آج بھی اور کل بھی (یعنی ہمیشہ) بہشت میں حاضر ہے، کیونکہ اس حدیث کا خاص موضوع بہشت سے متعلق ہے، جبکہ اس میں حوراء کا ذکر نمایان ہے، اور لفظِ شہید کے دوسرے معنی بھی اسی مقصد کے پیشِ نظر ہیں، جب اس بحث سے یہ انکشاف ہوا کہ مومنین و مومنات جو اس وقت دنیا میں موجود ہیں، وہ اپنی موت سے بہت پہلے ہی بہشت میں بھی حاضر ہیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر موت کیا ہے؟ اس کا جوابی خلاصہ مضمون کے آخر میں ہوگا۔

 

۱۰۔ سورۂ عنکبوت (۲۹: ۵۷) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: کل نفس ذائقۃ الموت

 

۴۵

 

ثم الینا ترجعون (ہر نفس موت کا مزا چکھنے والا ہے پھر تم سب آخر ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے (۲۹: ۵۷) اس آیۂ شریفہ کا اشارۂ حکمت اس طرح ہے کہ جسمانی موت نہیں، بلکہ صرف نفسانی موت ہی ایک انتہائی عجیب و غریب مزہ، اور ایک جامع الجوامع تجربہ ہے، اور خدا کی طرف لوٹ جانا بھی اسی موت کا نتیجہ ہے، یہ واقعہ دراصل نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) پر گزرتا ہے، درحالے کہ سب لوگ بصورتِ ذرّات اسی کے عالمِ شخصی میں ہوتے ہیں، تاکہ وہ روحانیّت اور قیامت کی تمام تر مثالوں میں عالمِ ذرّ کی نمائندگی کرے، پس نفسانی موت عارفِ کامل کے نزدیک معجزات، مشاہدات، حقائق، اور معارف کی ایک عملی کتاب کی طرح ہے۔

۱۱۔ جیسا کہ قبلاً اس بات کا ذکر ہوچکا کہ جہالت و نادانی مردگی ہے، اب یہاں یہ بھی بتا دینا ہے کہ بے حسی اور خود فراموشی بھی موت یا فنا میں شامل ہے، جس کی مثال آدمی کی اس حالت سے دی جا سکتی ہے، جبکہ وہ پشتِ پدر میں جرثومۂ حیات، شکمِ مادر میں جنین، اور ماں کی گود میں طفلِ شیر خوار ہوتا ہے، دوسری مثال انسان کی نیند ہے، جس میں وہ اپنی بیداری کے احوال کو فراموش کر دیتا ہے، اور تیسری مثال بندۂ مومن کی وہ کامیاب ذکر و عبادت ہے، جس میں وہ کچھ دیر کے لئے مٹ کر فنا ہو جاتا ہے، یعنی وہ اپنی ذات و ہستی کو یکسر بھول جاتا ہے، ان مثالوں سے یہ دلیل ملتی ہے کہ بھول جانے کی صورت میں بھی کوئی موت و فنا پیدا کی گئی ہے، کیونکہ جب بھول جانے کے یہ اجزاء ہیں، جن کا ذکر ہوا، تو یقیناً ان کا کُل بھی کہیں موجود ہوگا۔

 

۱۲۔ اگرچہ انسان موت و فنا کی کئی قسموں سے گزرتا رہتا ہے، لیکن پھر بھی ان میں سے کوئی موت یا فنا ایسی نہیں، جس کو عدمِ محض (قطعی نیستی) کہا جائے،

 

۴۶

 

اور جس حالت کو نیستی کہا جاتا ہے، وہ بھی نیستیٔ محض نہیں، بلکہ یہ عالمِ غیب (عالمِ امر) کا ایک نام ہے، لہٰذا کبھی انسان کے موجود نہ ہونے یا مر کر ختم ہو جانے کا کوئی سوال ہی نہیں، لیکن یہ نکتہ دل و دماغ میں رہے کہ انسان کی کُلی زندگی کا دائرہ انتہائی عظیم ہے، جس پر وہ ہمیشہ کسی ابتدا و انتہاء کے بغیر روان دوان ہے، اس پُرحکمت دائرے پر کہیں علم و ذکر (یاد) کے مقامات آتے ہیں، اور کہیں لاعلمی ونسیان (فراموشی) کے مراحل، چنانچہ جب لاعلمی کا دور آتا ہے، تو انسان موصوف و مسمّا نہیں رہتا، پھر کوئی فرشتہ یا بشر اس کو کس نام سے اور کونسی صفت سے یاد کرے؟ اور وہ خود جب علم و معرفت نہیں رکھتا، اپنے آپ کو کیسے پہچانے اور کس طرح یاد کرے؟ پس وہ بھولی بسری ہوئی چیز کی طرح ہو جاتا ہے، جیسا کہ سورۂ دھر کے آغاز میں ارشاد ہے:۔

 

۱۳۔ کیا انسان پر دھر کے تحت وہ وقت (دوبارہ) آیا ہے جس میں وہ کوئی یاد کردہ چیز (شیئاً مذکوراً) نہ تھا (۷۶: ۰۱)؟ ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا (۷۶: ۰۲) پہلی آیت کی حکمت اوپر بیان ہو چکی، دوسری آیت کی حکمت اس طرح ہے: ہر انسان خواہ آدمؑ ہو یا عیسیٰؑ اپنے جسمانی ماں باپ کے نطفۂ مخلوط سے پیدا ہوا ہے، اور مومنین کی بہت بڑی سعادت ہے کہ جسمانی تخلیق و تکمیل کے بعد وہ روحانی ماں باپ یعنی ناطق اور اساس سے پیدا ہوئے ہیں، جن کی تنزیل و تاویل کی مثال مرد عورت کا مخلوط نطفہ ہے، اس کے بعد راہِ روحانیّت میں بہت آگے چل کر بلکہ آخری منزل میں عقلانی ماں باپ سے مومنِ صادق کی عقلانی (نورانی) ولادت ہوتی ہے، وہ والدین عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ہیں، ان کی تائید و ترکیب (تخلیق) گویا مخلوط نطفہ ہے، پس جو شخص اس آخری مقام پر پیدا ہو جائے، وہ نورِ ازل و ابد میں خود کو زندۂ جاوید پاتا ہے۔

 

۴۷

 

۱۴۔ سورۂ مریم (۱۹: ۲۳) میں فرمایا گیا ہے: مریم کہنے لگی: کاش میں اس سے پہلے ہی مرجاتی اور بالکل بھولی بسری ہو جاتی (۱۹: ۲۳) تب جبرائیلؑ نے مریمؑ کے پائیں کی طرف سے پکار کر کہا کہ غم نہ کر تیرے ربّ نے تیرے نیچے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے (۱۹: ۲۴) عالمِ شخصی کے اعتبار سے اس پُرحکمت قرآنی تعلیم کی ایک خاص تاویل یہ ہے: قصّۂ قرآن میں حضرتِ مریمؑ حجت، عارف، اور مومنِ سالک کی مثال ہے، کیونکہ ان حضرات میں سے ہر ایک اپنے عالمِ شخصی میں مریم کی طرح ہے، اس لئے وہ گویا ایک نورانی فرزند کو جنم دیتا ہے، دراصل یہ ایک زندہ اور بولتا کلمہ ہے (۰۴: ۱۷۱) جو نورِ اسمِ اعظم ہے، سو جب اس عقلی بچے کی ولادتِ نورانی کا وقت آتا ہے، تو قانونِ فطرت کے مطابق عارف کی مریمِ روح پر بڑی سختی گزرنے لگتی ہے، جو زلزلۂ شدید کی وجہ سے ہے (۰۲: ۲۱۴) اس وقت وہ فنائے کلّی کی آرزو کرتے ہوئے کہتا ہے کہ کاش میں اس سے بہت پہلے “فنا فی اللہ” ہو جاتا، تاکہ میں خود کو یاد نہ کرتا، نہ دوسرے مجھ کو یاد کرتے۔

 

۱۵۔ جب ہم دنیا کے لوگوں کو بحیثیتِ مجموعی دیکھتے ہیں، تو ان میں حیات و ممات دونوں کے سلسلے بیک وقت یوں جاری نظر آتے ہیں، جیسے کسی عظیم پُل پر شب و روز بڑی کثرت سے لوگوں کی آمدورفت جاری رہتی ہو، اس جزوی یا تدریجی موت سے دنیا کی آبادی کم نہیں ہوتی، بلکہ بڑھتی جا رہی ہے، مسلسل پیدا ہونے اور بار بار مرجانے کا یہی عمل ایک فرد کی ہستی میں بھی جاری و ساری ہے، وہ اس طرح کہ انسانی جسم بے شمار زندہ خلیات کا مجموعہ ہے، اس میں نہ صرف تخلیق و تعمیر ہی ہوتی رہتی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ شکست و ریخت کا قانون بھی چلتا رہتا ہے، کہتے ہیں کہ اس عمل سے آدمی کا پورا بدن چالیس دن میں ایک

 

۴۸

 

بار مر کر از سرِ نور زندہ ہو جاتا ہے، اس کو آپ نظامِ تجدید یا تجدّدِ امثال کہہ سکتے ہیں۔

 

۱۶۔ مولاعلیؑ نے ارشاد فرمایا: انا وجہ اللہ فی السموات والارض۔ کل شیءٍ ھالک الا وجھہ۔ میں آسمانوں اور زمین میں وجہ اللہ ہوں، چہرۂ خدا کے سوا ہر چیز ہلاک ہو جانے والی ہے (۲۸: ۸۸) دیکھئے: کتابِ کوکبِ دری، ص۲۳۲، منقبت ۶۹۔ اس آیۂ کریمہ کا دوسرا حصّہ یہ ہے: لہ الحکم ولیہ ترجعون۔ اسی کی حکومت ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے (۲۸: ۸۸) خدا نے کائنات اور اس کی تمام چیزوں کو کسی انتہائی عظیم مقصد کی خاطر بنایا ہے، لہٰذا اشیاء کا ہلاک ہو جانا معنی و مقصد کے بغیر ممکن نہیں، چنانچہ ظاہر میں یہ بات سب جانتے ہیں کہ جمادات رفتہ رفتہ نباتات کے وجود میں ہلاک و فنا ہو جاتے ہیں، نباتات بتدریج حیوانات میں ہلاک ہوتی رہتی ہیں، حیوان کا ارتقاء اسی میں ہے کہ وہ انسان ہی کے واسطے ہلاک و فنا ہوجائے، اور عالمِ انسانیّت کے تمام طبقات و درجات بالآخر طوعاً وکرھاً (چار و ناچار) اس ہادیٔ برحق کی ذاتِ عالی صفات میں فنا ہوجاتے ہیں، جس کو خدا اور رسولؐ نے مرکزِ ہدایت اور مرجعِ خلائق بنایا ہے، یہاں تک آ کر مذکورہ آیۂ شریفہ کی ایک تفسیر و تاویل مکمل ہوئی کہ ہر چیز ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہو جانے کے معنی میں ہلاک و فنا ہو جاتی ہے، مگر جس نورِ مجسم کا اسمِ اقدس “وجہ اللہ” ہے، وہ اپنے نورِ ازل میں غیر فانی، اور  لازوال ہے۔

۱۷۔ “اسرارِ موت” بڑا اہم موضوع ہے، میں سمجھتا  ہوں کہ یہ مضمون بڑی حد تک میری کتابوں میں پھیلا ہوا ہے، نہ جانے یہاں “موت” سے اتنی طویل

 

۴۹

 

بحث کیوں کی گئی ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ موت نے اپنی گوناگون صورتو ں میں اس عاجز درویش پر زبردست اثر ڈالا ہے، درحقیقت موت کی قسموں میں سے سوائے ایک کے (جو عنقریب آنے والی ہے) کوئی ایسی موت نہ تھی، جو اس غریب پر بڑی شدت سے حملہ آور نہ ہوئی ہو، سچ کہتا ہوں کہ میں موت کی ہر چکی میں پِس گیا، لیکن اب خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری ہر موت اس کی رحمت سے ایک حیات بن گئی، لہٰذا مجھے بطورِ شکرانہ موت کے تجربات ومعلومات کو بیان کرنا چاہئے، تاکہ اس سے قارئینِ کرام کو (ان شاء اللہ) علمی وعرفانی فوائد حاصل ہوں۔

 

۱۸۔ سوال: موت کیا ہے؟ یہ کہاں سے آتی ہے؟ اور اس کی کتنی قسمیں ہیں؟ جواب: موت کسی بھی وجہ سے روح کے جسم سے الگ ہوجانے کا نام ہے، موت آدمی کے ساتھ ہے، کیونکہ اس کا فرشتہ (عزرائیلؑ) بحیثیتِ مؤکل ساتھ رہتا ہے (۳۲: ۱۱) موت کی بڑی قسمیں تین ہیں، جسمانی، روحانی، عقلانی، کیونکہ موت کا تعلق مخلوقات سے ہے، اور وہ تین درجوں میں ہیں، تاہم موت کا خاص تعلق جسم سے ہے، اس لئے روحانی موت ہم روح کے اس عمل کو کہیں گے، جس میں وہ سوائے سر کے باقی بدن کو چھوڑ کر بار بار مردہ بناتی رہتی ہے، عقلی موت ایک زندہ انسان کی فراموشی، غفلت، بے حسی، اور جہالت کو کہتے ہیں، اور جسمانی موت کا اوپر ذکر ہو چکا، جس کی کئی ذیلی قسمیں ہیں، موت سے متعلق مزید معلومات کے لئے دیکھیں: موت کی عظیم حکمتیں (میوۂ بہشت) ابداع وانبعاث (گنج گرانمایہ) متفرق سوالات (روح کیا ہے؟ ) جراثیم اور قوّتِ عزرائیلی کتابُ العلاج (قرآنی علاج) ص۲۰۱، موت قبل ازموت، تجدّدِ امثال کتابُ العلاج (علمی علاج) ص۳۶۹ حکمتِ عزرائیلیہ، تجدّدِ امثال کے اشارات، قیامتِ صغرٰی

 

۵۰

 

کتابُ العلاج (روحانی علاج) ص۵۴۹ رجوع الی اللہ (حقائقِ عالیہ) وغیرہ۔

 

ن۔ ن۔ ہونزائی۔ کراچی

اتوار۱۱، شعبان المعظم ۱۴۱۲ھ

۱۶فروری ۱۹۹۲ء

 

۵۱

 

اشاراتی زبان

(SYMBOLICAL LANGUAGE)

 

قرآنِ حکیم اور دینِ فطرت (اسلام) میں رمزو اشارہ کی جو بنیادی اور سب سے بڑی اہمیت ہے، وہ اس بات سے ظاہر ہو جاتی ہے کہ “وحی” جو سب سے اعلیٰ اور عظیم الشّان آسمانی حقیقت ہے، جس پر دینِ حق کی اساس قائم و استوار کی گئی ہے، اس کے معنی ہیں: “اشارہ۔” جیسا کہ قرآنِ عزیز میں فرمایا گیا ہے: فاوحی الیھم (۱۹: ۱۱) پھر زکریاؑ نے ان سے اشارہ کیا۔

 

ہر دانشمند اس حقیقت کو قبول کرے گا کہ حکیمانہ اشارہ حکمتی زبان کا درجہ رکھتا ہے، اور زبانِ حکمت جو اشاراتی لسان ہے، اس کا نمایان ذکر سورۂ مریم میں ہے، جیسے ارشاد ہوا ہے: پھر اگر تم کسی آدمی کو دیکھو (اور وہ تم سے کچھ پوچھے) تو تم (اشارہ سے) کہہ دینا کہ میں نے خدا کے واسطے (خاموشی کے) روزہ کی نذر کی تھی تو میں آج کسی سے ہر گز بات نہیں کر سکتی (۱۹: ۲۶) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فاشارت الیہ (۱۹: ۲۹) پھر مریمؑ نے اس لڑکے (یعنی عیسیٰؑ) کی طرف اشارہ کیا۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی سنتِ مطہرہ سے ثابت ہے کہ حضورِ پُرنور نے بحالتِ نماز جب ضرورت ہوئی تو لوگوں سے اشارہ فرمایا ہے، صرف یہی نہیں، بلکہ آنحضرتؐ پر جو کامل ترین کتاب (قرآن) نازل کی گئی ہے، وہ

 

۵۲

 

بھی اور آپؐ کا ذاتی قول و فعل بھی علم و حکمت کے معنوی اشاروں سے معمور و مملو ہیں، اسی حقیقت کے پیشِ نظر پیغمبرِ خداؐ نے ارشاد فرمایا: بعثت بجوامع الکلم۔ میں “جوامع الکلم” کے ساتھ بھیجا گیا ہوں۔ یعنی رحمتِ  عالمؐ یوں ہی نہیں بھیجے گئے ہیں، بلکہ ایک ایسی بے مثال ولاثانی کتابِ سماوی اور ایسا انتہائی پسندیدہ قول و فعل کے ساتھ مبعوث ہوئے کہ یہ کتابِ سماوی اور اسکی یہ قولی و فعلی ترجمانی دونوں چیزیں بدرجۂ انتہا جامعیّت رکھتی ہیں، اس کا خلاصہ اور مطلب یہ ہوا کہ نہ صرف قرآنِ حکیم بلکہ تمام احادیثِ صحیحہ بھی اشاراتِ حکمت سے مملو ہیں۔

 

اشارہ صرف آنکھ یا کان کے لئے مخصوص نہیں، بلکہ حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن میں سے ہر ایک کے لئے بہت سے اشارے مقرر ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو خداوندِ تعالیٰ لوگوں کو ان آیات میں غور و فکر کی دعوت ہی نہ دیتا، جو قرآن اور آفاق و انفس کے ظاہر و باطن میں ہیں (۳۸: ۲۹، ۴۱: ۵۳، ۵۱: ۲۰ تا ۲۱) چنانچہ جب بہت سے قرآنی ارشادات سے تفکر و تدبر کی خاص اہمیت پر روشنی پڑتی ہے، تو اس سے بطورِ نتیجہ یہ حقیقت نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ کائنات و موجودات کی ہر چیز کو اپنی مخصوص اشاراتی زبان میں انسان سے کچھ کہنا ہے، پس اشاراتی زبان ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے، جس سے کوئی بھی ہوشمند آدمی انکار نہیں کر سکتا۔

 

اب ہم اشاراتی زبان سے متعلق کائناتِ ظاہر کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں، تاکہ اس سے مومنین کو قانونِ دین کے سمجھنے میں مدد مل سکے، اور صحیفۂ عالم میں غور و فکر کا اصول معلوم ہو۔

 

۵۳

 

سورج کیا کہتا ہے؟

اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ سوال کہ: “سورج کیا کہتا ہے؟” بڑا دلچسپ بھی ہے اور بے حد مفید بھی، چونکہ اس جہان میں آفتابِ عالمتاب کو مادّی اہمیت و افادیّت کے لحاظ سے وہ اعلیٰ اور منفرد مقام حاصل ہے، جو انسانی جسم میں دل کو اور عالمِ دین میں ہادیٔ برحق کو حاصل ہے، لہٰذا اس پُرحکمت سوال کا جواب یوں شروع ہوتا ہے کہ نیّرِاعظم (سورج) اپنی گوناگون اشارتوں کی زبان سے بہت سی حکمت آگین باتیں کرتا رہتا ہے، جن کا احاطہ تو اس چھوٹے سے مقالے میں کجا، اگر خورشیدِ انور کی حکمتوں پر ایک بڑی ضخیم کتاب تصنیف کی جائے، تو پھر بھی ناکافی ہوگی، تاہم بطورِ مثال یہاں سورج کے چند اشارات درج کئے جاتے ہیں:۔

 

مثال نمبر۱: سورج اپنے دائمی وجود اور فعلِ مسلسل کے اشارہ و کنایہ سے ہر وقت کہتا رہتا ہے کہ جس طرح دنیائے ظاہر کی تمام چیزیں سورج کی مادّی برکتوں سے موجود اور قائم ہیں، اسی طرح عالمِ دین کی جملہ اشیا آفتابِ نورِ ہدایت کے فیوض و برکات سے بحقیقت وجود میں آسکتی ہیں، اور اس امرِ واقعی کی تصدیق و تائید قرآنِ حکیم کی بہت سی آیات سے ہو جاتی ہے، خصوصاً ان آیاتِ کریمہ سے، جو نور کے بارے میں ہیں، پس اگر وہ نورِ مجسّم نہ ہوتا، تو عالمِ دین کلّی طور پر تاریکی میں ڈوب جاتا۔

 

مثال ۲: جب کوئی شخص سرچشمۂ  آفتابِ جہانتاب کو ذرا دیر تک دیکھ لینے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ تجزیہ کرے کہ وہ کیا ہے اور کیسا ہے؟ تو سورج کی تیز شعاعیں اس کی آنکھوں کو خیرہ (چکاچوند) کر دیتی ہیں، اور اس عمل سے اس کی بصارت ضائع ہو جانے کا اندیشہ و خطرہ ہوتا ہے، مگر اس کے برعکس

 

۵۴

 

سورج سے خارج شدہ کرنوں کی روشنی میں دیکھنے سے بے شمار فائدے حاصل ہوتے ہیں، جبکہ بینائی کو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچتا، چنانچہ اس اشارہ کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ زمانۂ ماضی کے جن لوگوں نے انبیاءؑ کی جسمانیّت و بشریّت کو ظاہری نظر سے دیکھا تو وہ ایک طرح سے نابینا ہوگئے، اگر وہ ہادیٔ برحق کی مبارک شخصیّت کو عقیدت و محبت کی نگاہ سے دیکھ لیتے، تو وہ ہرگز اندھے نہ ہوجاتے، نہ ہی ان کا یہ انجام ہوتا، جس کا ذکر قرآنِ پاک میں موجود ہے۔

 

مثال۳: سورج ہمیشہ سے کائنات کے وسط میں ایک ہی حال پر قائم ہے، اور ہر وقت ایک ہی شان سے جملہ اطرافِ عالم میں بیدریغ ضیا پاشی کرتا رہتا ہے، مگر یہ زمین ہی کی اپنی حرکت اور سورج سے کچھ نزدیکی و دوری کی وجہ سے ہے کہ اس کے مختلف حصوں پر کبھی تو روشنی پڑتی ہے، اور کبھی ظلمت چھا جاتی ہے، کبھی تازہ بہار اور گل و گلزار کا سماں ہوتا ہے، اور کبھی موسمِ خزان و باغ و گلشن کو لوٹ کر بے برگ و نوا اور قلاش و کنگال بنا دیتا ہے، اس مثال میں سورج کا یہ کہنا ہے کہ نورِ ہدایت کی طرف توجہ دینا اور قریب ہو جانا لاتعداد رحمتوں اور برکتوں کا باعث ہے، اور اس کی طرف پشت پھیرنا ظلمتِ نادانی اور روحانی مفلسی کا باعث ہے۔

 

مثال۴: رات کے وقت اگر مطع ابر آلود نہ ہو، صاف ہو، تو چاند یا ستارے سورج کی نمائندگی کرتے ہیں، جس کی بدولت آفتاب کی ایک محدود روشنی اہلِ زمین کی جانب منعکس ہوتی رہتی ہے، اس صورتِ حال کا یہ اشارہ ہے کہ جس زمانے میں یا جس ملک میں مسلمین و مومنین کو نورِ ہدایت کے مرتبۂ  اعلیٰ تک رسائی نہ ہو سکے، تو ان پر واجب ہے کہ حدودِ دین سے رجوع کریں، تاکہ وہ دینی علم کے نور سے مستنیر و مستفیض ہو جائیں، اور اگر آسمان پر کالے کالے

 

۵۵

 

بادل ہونے کے سبب سے کوئی بھی روشی نظر نہ آتی ہو، تو یہ ایک ایسی مشکل حالت کی مثال ہے، جو حکمِ خداوندی کو نظر انداز کر دینے کے نتیجے میں سامنے آتی ہے، جس میں لوگ وسائلِ ہدایت کو نہیں دیکھ سکتے ہیں۔

 

بادل کیا کہتے ہیں؟

 

مثال ۵: جیسا کہ اہلِ علم اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ جب سطحِ سمندر پر سورج کی گرم کرنیں پڑتی رہتی ہیں، تو اس سے پانی کا کچھ حصہ پہلے تو بخارات کی صورت میں، پھر بادلوں کی شکل میں تبدیل ہو کر فضا میں بلند ہو جاتا ہے، اگر ہم اس واقعہ کو دوسرے لفظوں میں بیان کریں تو بھی غلط نہ ہوگا، اور وہ یہ کہ نورِ آفتاب کی بدولت پانی میں لطافت و پاکیزگی کے پر لگ جاتے ہیں، جن سے وہ فضا کی بلندیوں کی طرف پرواز کر جاتا ہے، چنانچہ بادل بزبانِ اشارت و حکمت کہتےجاتے ہیں کہ جو لوگ نورِ ہدایت کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں، ان کی نیک بخت روحیں جسمانی اور نفسانی کثافتوں سے پاک و آزاد ہو کر عالمِ عُلوی کی رفعتوں میں پرواز کرنے لگتی ہیں۔

مثال ۶: پانی جہاں جہاں سطحِ زمین پر ہے، وہ کہیں صاف و پاک بھی ہو سکتا ہے، اور کہیں گدلا اور گندہ بھی، مگر یہ جس وقت بادلوں سے برس رہا ہو، اس وقت بموجبِ حکیمِ قرآن (۲۵: ۴۸) پاک و پاکیزہ ہوا کرتا ہے، اس مثال میں زبانِ حکمت سے یہ کہا گیا ہے کہ دین کی وہ ساری باتیں، جو سلسلۂ روایات سے چل کر آئی ہیں، ان میں سے بعض صحیح بھی ہو سکتی ہیں، اور کچھ بناوٹی بھی، مگر جو علم قرآن اور اس کے معلم کے سرچشمہ ہدایت سے جاری ہے، وہ انتہائی پاک و پاکیزہ ہوتا ہے۔

 

۵۶

 

مثال ۷: برسنے اور برسانے والے بادلوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی صلاحیت بڑے اور اونچے پہاڑوں کو عطا ہوتی ہے، کہ ان پرہمیشہ برف و باران کی کثرت کے سبب سے آبی ذخائر جمع اور موجود رہتے ہیں، جن کی بدولت ہر وقت بستیوں کو پانی مہیا رہتا ہے، اس عمل کے رمز و کنایہ میں بادلوں کا کہنا یہ ہے کہ عظیم روحیں عالمِ روحانیّت کے سربفلک پہاڑ ہیں، جن کے ذخائرِ علمی سے لوگوں کو ہمیشہ فیض ملتا رہتا ہے۔

 

پانی کیا کہتا ہے؟

 

مثال۸: پانی بھی اس دنیا کی دوسری بڑی بڑی چیزوں کی طرح حکمتی اشاروں سے آراستہ اور بھر پور ہے، یہ گویا روح کے موضوع پر ایک عظیم متحرک اور پُرحکمت کتاب ہے، نیز یہ علم کا بھی ایک عمدہ نمونہ اور نمائندہ ہے، کیونکہ دراصل روح اور نورِ علم، جو زندہ ہے، ایک ہی حقیقت ہے، جس کی ایک قرآنی شہادت یہ ہے:

وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّؕ (۲۱: ۳۰) اس کے ظاہری معنی یہ ہیں: اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ اور تاویلی معنی یہ ہیں :۔ اور ہم نے (مقامِ روحانیّت پر علم کے) پانی سے ہر چیز کو زندہ کر دیا (۲۱: ۳۰) اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ پانی مثال ہے اور روحانی علم ممثول، جو حقیقی زندگی کا باعث ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ اس آیۂ مبارکہ میں کل چیزوں کو زندہ کر دینے کا ذکر ہے، لہٰذا اس کی واقعیّت و حقیقت تاویل ہی میں پوشیدہ ہے، اور وہ یہاں درج ہوئی، الغرض پانی روحانی علم کی مثال ہے، اور اس کی جملہ حرکات وخصوصیات میں اسی علم کی طر ف اشارے ہیں۔

 

۵۷

 

مثال ۹: پانی اپنے مرکز (سمندر) اور مرکزیّت کی مثال سے یہ اشارہ کرتا ہے کہ روح یا علم کا ایک عظیم مرکز ہے، اور روحانی علم کی بارش کا اصل سرمایہ و سرچشمہ وہی ہے، چنانچہ قرآنِ کریم (۴۹: ۱۰) میں ہے کہ (تمام پیغمبروں کے) مومنین بھائی بھائی ہیں (اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ، ۴۹: ۱۰) اور انبیاءؑ کا اتحاد اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ وہ حضرات یقیناً نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) اور نورٌعلیٰ نور کا مصداق ہیں اور اولیاء یعنی أئمّۂ طاہرینؑ ان سے الگ نہیں، پھر مومنین سلکِ اطاعت سے ان سے وابستہ ہیں، اور مخالفین وجہِ مخالفت سے ان کے حضور پیش کئے گئے ہیں، اسی طرح روحوں کا مرکز اور سمندر ہوتا ہے، پھر اس سمندر پر نورِ مطلق کی روشنی و تابش پڑتی رہتی ہے، جس کے نتیجے میں گویا روحانی بادل بن کر بارانِ علم و حکمت کے باعث ہو جاتےہیں، یعنی مذکورہ نور کے زیرِ اثر، جس کے بہت سے نام ہیں، مرکزِ ارواح سے ہر وقت عبادات، اذکار، دعاؤں، مناجاتوں، اور آہوں کے بادل عالمِ بالا کی طرف امنڈ جاتے ہیں، پھر وہاں سے رحمت و علم کی بارش برستی ہے۔

 

مثال ۱۰: دراصل سردار فرشتوں کے پاس ذکر و تسبیح اور امر کی بجا آوری کے سوا کوئی ذاتی شغل نہیں، مگر ہاں خداوندِ عالم کے حکم سے وہ اہلِ دنیا کے اقوال و اعمال پر نورانی علم کی روشنی ڈالتے ہوئے گفتگو کرتے ہیں، نورانی علم میں خداوندِ عالم کے ارشادات ہوتے ہیں، اور اس سے ایک حقیقی علم کا ظہور ہونے لگتا ہے، یہ واقعہ ایسا ہے جیسے بادل پستی سے بلندی پر جاکر پانی برساتے ہیں، اور اس کی مثال خود قرآن میں موجود ہے، کہ بہت سی آیاتِ شریفہ ایسی ہیں، جو سوال کے جواب کے طور پر یا قبولِ دعا کی صورت میں یا کسی قضیہ کے فیصلہ کے انداز میں نازل ہوئی ہیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ جب تک بحکمِ خدا زمین یعنی سمندر

 

۵۸

 

سے کچھ بادل نہ ہوں، تو آسمان سے کوئی بارش نہیں برستی۔

 

مثال۱۱: پانی ہر وقت بزبانِ حکمت لوگوں سے کہا کرتا ہے کہ تم اپنی روحوں کو حقیقی علم کے پاک پانی میں غسل دے کر اس طرح پاک و پاکیزہ کر لیا کرو، جس طرح تم اپنے جسموں کو ظاہری پانی میں دھو لیتے ہو، اور یہ بالکل سچ ہے، کیونکہ قانونِ رحمت کی رو سے یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ جسمِ خاکی کی صفائی کے لئے تو تمام ذرائع موجود و مہیّا ہوں، مگر روحِ عُلوی جو بدن میں ہے، اس کی پاکیزگی کے واسطے کچھ بھی نہ ہو۔

 

ہر چیز کیا کہتی ہے؟

 

مثال۱۲: اس باب میں اوّل تو یہ جاننا چاہئے کہ ہر چیز سے عقل، جان، اور جسم یا مادّہ مراد ہے، اور “ہر چیز= کل شیٔ” کا موضوع قرآنِ حکیم کے اعلیٰ ترین اور انتہائی پُرحکمت موضوعات میں سے ہے، ہم اس جامع الجوامع مضمون کو “قانونِ کل۔” بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ اس عنوان (کل) کے تحت جو کچھ فرمایا گیا ہے، وہ ایک ایسا کائناتی اور ہمہ گیر و ہمہ رس قانون ہے کہ اس کا اطلاق تمام چیزوں پر ہوتا ہے، سو اگر آپ مطالعۂ قرآن اور مشاہدۂ کائنات سے “قانونِ کل۔” کی کچھ حکمتوں کو سمجھ لیں تو کیا ہی اچھا ہوگا۔

 

سوال تھا کہ ہر چیز کیا کہتی ہے؟ اب اس کا جواب اگر قرآنِ پاک سے دینا ہے تو مذکورہ موضوع یعنی قانونِ کُل کو سامنے رکھنا ہوگا، اور اگر جواب برائے تجربہ کائنات سے چاہئے تو اس صورت میں کچھ ایسی مثالوں سے کام لینا پڑے گا، جو تمام چیزوں کے درمیان قدرِ مشترک کی حیثیت سے ہوں، تاہم بہتر یہ ہوگا کہ دونوں طرح سے جواب مہیا کر دیا جائے، تاکہ اس کا علمی

 

۵۹

 

فائدہ وسیع تر ہو سکے، چنانچہ قرآنِ حکیم کی کتابِ کُل (یعنی موضوعِ کُلۡ) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: کل فی فلک یسبحون (۲۱: ۳۳) یعنی وہ تمام اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ ہر چیز ایک دائرے پر واقع ہے، اور وہ ہمیشہ اس پر گردش کر رہی ہے، یہ حکم صرف سورج، چاند، ستاروں، دن رات اور موسموں کی تبدیلی تک محدود نہیں، بلکہ اس کا اطلاق ہر چیز پر ہوتا ہے۔

 

مثال ۱۳: جب ہم کائنات و موجودات کی ہر چیز میں غوروفکر کرتے ہیں، تو کوئی چیز اپنی نوعیت کے دائرے پر گردش کے بغیر نظر نہیں آتی، آسمان اور اس کی ساری چیزیں، زمین، پانی، ہوا، دن رات، سرما، گرما، وغیرہ ہمیشہ اپنے اپنے دائرے پر چکر کاٹ رہے ہیں، اور بعض ایسی چیزیں بھی ہیں، جو بظاہر اپنی جگہ پر قائم ہیں، مگر بحقیقت وہ ایک طرح کی گردش میں ہیں، مثلاً درخت کو دیکھئے کہ وہ اپنی جگہ ساکن ہے، لیکن ذرا سوچئے تو سہی کہ وہ بھی سدا اپنے دائرۂ وجود پر گھوم رہا ہے، وہ اس طرح کہ درخت یوں تو اپنی قسم میں ایک دائرہ ہے، اور دائرے کا کوئی سرا نہیں ہوتا، تاہم برائے تفہیم ہم یہ کہیں گے کہ درخت پہلے پہل پھل کے مغز میں پوشیدہ ہوتا ہے، پھر یہ بیج زمین میں بویا جاتا ہے، اور وہاں سے شجر اپنے گول سفر میں بتدریج آگے بڑھ کر درخت، پھل، اور بیج کی صورت اختیار کر لیتا ہے، اسی طرح اس کا ایک چکر مکمل ہو جاتا ہے، اور اگر اس کے ماضی و مستقبل پر نگاہ ڈالی جائے، تو درخت ہمیشہ اسی دائرے پر گردش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

 

مثال ۱۴: ہر انسان قانونِ فطرت کے مطابق ماں باپ ہی سے پیدا ہوتا ہے، اور اپنی ذات وحیات کے مراحل میں سے ایک مرحلے میں اس کی

 

۶۰

 

اولاد ہوتی ہے، اولاد والدین کی نمائندہ ہوا کرتی ہے، اسی معنیٰ میں اگر مجموعی طور پر انسانوں کو دیکھا جائے، تو وہ بھی اپنے دائرے پر روان دوان دکھائی دیتے ہیں، یہ کسی ایک فرد کی بات نہیں، عالمِ انسانیّت کی اجتماعی صورتِ حال کا تذکرہ ہے، کیونکہ ہمیں جزوی چیزوں کی معرفت کے بعد کلّی چیزوں کو پہچاننا بیحد ضروری ہے، تاکہ اس سے ہم اصل معرفت کو حاصل کر سکیں۔

 

مثال۱۵: آیا خدا کی خدائی یا بادشاہی کا جو زمانہ ہے، اس کی کوئی ابتداء یا انتہاء ہے؟ نہیں نہیں، ہرگز نہیں، اگر نہیں تو اس کی کیا دلیل ہے؟ دلیل تو بہت سے ہیں، مگر سب سے روشن اور سب سے زیادہ قابلِ فہم دلیل یہ ہے کہ قلمِ قدرت سے ہر چیز کے صفحۂ ہستی پر دائرۂ پُرحکمت کھینچا ہوا ہے، کیونکہ دائرہ: ، اور خط؍ لکیر:       میں آسمان زمین کا فرق ہے، وہ یہ کہ دائرہ اپنی شکل سے لاابتدائی اور لا انتہائی کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ خط ایک سرے سے شروع ہو کر دوسرے سرے پر ختم ہو جاتا ہے، جو آغاز و انجام کی علامت ہے، پس ہر چیز اپنے دائرے پر گردش کرتی ہوئی اللہ کی تسبیح کرتی ہے (۱۷: ۴۴) اور کہتی ہے کہ خدا مخلوق کی صفات سے پاک ہے، جو دائمی سلطنت کا مالک ہے، اور “ہر چیز کیا کہتی ہے؟” کا جواب یہی ہے۔

 

مثال ۱۶: قرآنِ حکیم (۱۸: ۳۱، ۲۲: ۲۳، ۳۵: ۳۳، ۷۶: ۲۱، ۴۳: ۵۳) میں اہلِ جنّت کو سونے چاندی کے کنگن پہنانےکا ذکر آیا ہے، اور یہ اس کلمۂ تامّہ کے بھیدوں کو جاننے کا اشارہ ہے، جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ دنیا و آخرت پر مبنی ایک انتہائی عظیم دائرہ ہے، جس کی نہ تو کوئی ابتدا ہے، اور نہ ہی کوئی انتہا، مگر بات جہاں سے شروع کی جائے، وہیں سے ابتدا کا تعیّن بھی ہو سکتا ہے، اور قصّہ جہاں ختم ہوجائے، وہاں حدِ

 

۶۱

 

انتہا بھی مقرر ہو سکتی ہے، یعنی انسان کی زندگی دو طرح سے ہے: لامحدود جو کلّی ہے، اور محدود جو جزوی ہے، پس کلّی زندگی دھر ہے، اور جزوی زندگی حین (۷۶: ۰۱)

 

ن۔ ن۔ ہونزائی

تحریر، کراچی ۸۲۔ ۱۲۔ ۵

تحقیق، کراچی۹۲۔ ۲۔ ۲۵

 

۶۲

 

 

زندہ شہید

 

رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم  کا ارشادِ گرامی ہے:

کل مومنِ شھید و کل مومنۃ حورا = ہر مومن شہید کا درجہ رکھتا ہے اور ہر مومنہ حورا ہے (دعائم الاسلام ؍ رسالۂ تجہیز و تکفین) یہ حدیثِ شریف اس آیۂ کریمہ کی تفسیر و توضیح ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ ﳓ وَ الشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْؕ-لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَ نُوْرُهُمْؕ (۵۷: ۱۹) اور جو لوگ خدا اور اس کے رسولوں پر (حقیقی معنوں میں) ایمان لائے ہیں یہی لوگ اپنے پروردگار کے نزدیک صدیقوں اور شہیدوں کے درجے میں ہیں، ان کے لئے ان ہی (صدیقوں اور شہیدوں) کا اجر اور انہیں کا نور ہے (۵۷: ۱۹) یہاں یہ کلیدی حکمت بھی خوب یاد رہے کہ صدیق (تصدیق کرنے والا) ہر ناطق کا اساس ہے، اور شہید یا شاہد (گواہ) ہر زمانے کا امام۔

 

ایک تاریخی اور علمی خط: میرے عزیز نور علی مامجی، یاسمین نور علی، اور صدر الدین مامجی کے نام پر:۔ یاعلی مدد! خداوندِ قدوس آپ میری روح کے عزیزوں کو دونوں جہان کی سلامتیوں سے نوازے! سُرخروئی اور سرفرازی عنایت کرے!

 

 

۶۳

 

اور پروردگار کی ایسی عنایات میں آپ کے خاندان کے جملہ افراد بھی شامل ہوں! آمین یا ربّ العالمین!!

 

عزیزانِ من! آپ کو دیکھ کر، آپ سے مل کر، آپ کو پہچان کر، اور آپ کی تمام خدمات و احسانات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں جس قدر خوشی وشادمانی ہو رہی ہے، اس کی مکمل وضاحت اگرچہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، آپ سب کو خداوندِ تعالٰی نے جس طرح انسانیّت، شرافت، اور ایمان کی لازوال دولت سے مالا مال فرمایا ہے، اس کو دیکھ کر بڑی شدّت کے ساتھ جی چاہتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کی شکر گزاری کرتے رہیں کہ آپ عزیزان جیسے فرشتہ سیرت مومنین ہمارے خاص شاگردوں میں سے ہیں، اور آپ نے ہمارے بیحد پیارے ادارے کی پُرخلوص خدمات انجام دی ہیں۔

عزیزم صدرالدین مامجی کا یہ ایک منفرد کارنامہ ہےکہ انہوں نے ۱۸، ستمبر۱۹۸۱ء کو خانۂ حکمت کے تقریباً پچاس ممبران کو کراچی سے حیدرآباد مدعو کر کے نہ صرف دولتخانہ میں بلکہ ایک عالیشان ہوٹل میں بھی عدیم المثال مہمان نوازی کی، اس پُرمسرت دن کو، جس میں ایمان افروز مجلس بھی تھی، اور نشاط آور تفریح بھی، ہمارے دوسرے عزیزان بہت یاد کرتے ہیں، میرا کامل یقین ہے کہ ایسی پیاری پیاری یادوں کی گہرائیوں میں خود بخود آپ کے احسانات کے عوض میں نیک دعائیں بھی ہوتی رہتی ہیں، کیونکہ اس  روز ہمارے بیحد پیارے ساتھی جس طرح اور جتنے خوش و خرسند تھے، اس کا اصل وسیلہ آپ ہی تھے، حقیقت میں یہ ایک ایسا پُرحکمت معجزہ دیکھنے میں آیا، جو آسمانی اشاروں پر مبنی تھا کہ: “دیکھو خدا مومنین کی نیکی میں کیسی کیسی کثیر برکتیں پیدا

 

۶۴

 

کرتا ہے، ایک ہی خیر خواہانہ پروگرام کی بدولت کس قدر نیکی پھیل گئی، اور جسم و روح دونوں کے لحاظ سے کتنے مومنین کو مسرّت و شادمانی حاصل ہوئی۔”

 

میں یہاں جو کچھ تحریر کر رہا ہوں، اس میں تنہا میں نہیں ہوں، بلکہ ہمارے بہت ہی عزیز صدرفتح علی حبیب، بہت ہی عزیز صدر محمد عبد العزیز، دیگر عملداران، اور جملہ ممبران بھی ہیں، یقیناً ہم سب کی مشترکہ خواہش یہی تھی کہ آپ تینوں عزیزان کے نام پر شکر گزاری کا ایک عمدہ خط لکھا جائے، الحمد للہ! کہ یہ کام کچھ وقت کے بعد مکمل ہوگیا، اور یہ واقعہ اس حقیقت کا ایک عملی ثبوت ہے کہ وقت خواہ کتنا طویل کیوں نہ ہو ہماری یاد داشت سے آپ کی مفید خدمات کو نہیں مٹا سکتا، خانۂ حکمت گویا ایک پہاڑ ہے، اس پہاڑ کے باطن میں جو جو خدمات روح کی طرح داخل ہو جاتی ہیں، وہ بحکمِ خدا انمول جواہرات کی شکل اختیار کرتی ہیں۔

 

عزیزانِ من! جیسا کہ شروع میں اس کا ذکر ہوا کہ قرآنِ حکیم نے حقیقی مومنین کو جیتے جی شہیدوں کا سا درجہ دیا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب خداوندِ قدوس کے حکم سے مومنین سے بیعت لی جاتی ہے (۴۸: ۱۰) اس معنیٰ میں کہ خدا نے ان کی جانوں اور مالوں کو جنت کے عوض میں خرید لیا (۰۹: ۱۱۱) اور وہ اس معاہدہ پر راضی ہونے کے ساتھ جذبۂ جان نثاری بھی رکھتے ہیں، تو اسی وقت سے ان کو شہیدوں کا درجہ دیا جاتا ہے، پس ہر مومن کو یہ جاننا چاہئے کہ دینی خدمت میں زندگی اور مال صَرف کرنے کی فضیلت بھی وہی ہوتی ہے، جو شہدا کی شہادت کی ہوتی ہے، اور شہید کا جو مرتبہ ہے، وہ قرآنِ پاک میں ظاہر اور نمایان ہے۔

جب ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ صاحبِ تاویل (مولاعلی) علیہ السّلام

 

۶۵

 

کے زمانے سے لیکر اب تک تاویلی جہاد جاری ہے، اور قیامۃ القیامات تک جاری رہے گا، پھر بطورِ نتیجہ یہ بھی قبول کیا جائے کہ زندہ شہیدوں کا عظیم مرتبہ سب سے پہلے ان حقیقی دینداروں کو حاصل ہو سکتا ہے، جو روحانی علم کی جنگ میں شریک ہیں، جبکہ حضرتِ امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ: “میں اب (لوہے کی ذوالفقار سے نہیں، بلکہ) علم کی ذوالفقار سے لڑرہا ہوں۔”

 

اہلِ ایمان کے لئے اس بات کے سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں کہ دعوتِ حق دو مرحلوں سے گزر کر ہی مکمل ہو جاتی ہے، مرحلۂ اوّل پر تنزیلی جنگ ہے، جس کی سرپرستی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمائی، مرحلۂ دوم پر تاویلی جنگ ہے، جو امامِ اقدس و اطہرؑ کی ظاہری و باطنی ہدایت کی روشنی میں ہوتی رہتی ہے، چنانچہ امامِ حیّ وحاضرؑ کے ایسے تمام مرید جو یقینی علم کی تلوار سے جہالت کے خلاف جنگ کرتے ہیں، یا علمی اسلحہ وغیرہ بناتے ہیں، یا اس سلسلے میں کوئی مدد کرتے ہیں، تو وہ سب کے سب زندہ شہیدوں کا مرتبہ رکھتے ہیں۔

خداوندِ عالم کی بے پناہ رحمت کو دیکھا جائے تو اس میں کوئی تعجب نہیں کہ مومنین کو مرجانے سے پہلے ہی مرتبۂ شہادت حاصل ہو، اس حقیقت کی ایک انتہائی خوبصورت او ر دل نشین مثال حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام کے فرزندِ ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی پاکیزہ زندگی سے مل سکتی ہے کہ آپ کو ذبیح اللہ (راہِ خدا میں ذبح کیا ہوا) کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے، ہر چند کہ آپؑ بظاہر فعلاً ذبح نہیں ہوئے تھے، لیکن آپؑ ہر وقت جذبۂ جان نثاری، عزمِ قربانی، اورشوقِ شہادت رکھتے

 

۶۶

 

تھے، لہٰذا آج آپؑ کو عالمِ اسلام کا ہر فرد ذبیح اللہ کے مبارک نام سے یاد کر رہا ہے، سو اس  عظیم الشّان واقعہ کی روشنی میں زندہ شہیدوں کی شہادت اور اس کی حکمت روشن ہو جاتی ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی، کراچی

تحریر: ۸۲؍۱؍۲۵

تحقیق: ۹۲؍۳؍۴

 

۶۷

 

قرآن اور اسلام میں سائنس کے اشارے

 

خداوندِ عالم کے بابرکت ناموں میں سے ایک نام “فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ   ( ۰۶: ۱۴،  ۱۲: ۱۰۱،  ۱۴: ۱۰،  ۳۵: ۱۰۰،  ۳۹: ۴۶،  ۴۲: ۱۱) ہے، یعنی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا، اسی خالق کی تخلیق “فطرت” کہلاتی ہے، اس کا مطلب یہ ہُوا کہ فاطِر خدا ہے، اور فطرت کائنات، اور دینِ اسلام کا نام بھی “فطرت” ہے، جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے: کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ اوینصرانہ ویمجسانہ=ہر بچہ فطرت (یعنی اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر والدین اس کو یہود یا نصاریٰ یا مجوسی بناتے ہیں۔ اس حدیثِ شریف سے یہ حقیقت کسی شک کے بغیر روشن ہو جاتی ہے کہ اسلام کا ایک پُرحکمت نام “فطرت” ہے، اور یہ ایک مکمل نام ہے، اور “دینِ فطرت” کہنا وضاحت کے طور پر ہے، جیسے “اسلام” اگرچہ دین کا مکمل نام ہے، تاہم “دینِ اسلام” بھی کہا جاتا ہے۔

 

۱۔ قرآن اور فطرت: قرآن اور فطرت (یعنی کائنات و دین) کا ربط و رشتہ یہ ہے کہ قرآن قولِ خدا ہےاور فطرت فعلِ خدا، اس لئے قرآنِ پاک، کائنات اور اسلام کے جملہ قوانین میں فی الاصل مکمل ہم آہنگی، کلی موافقت، اور قطعی مطابقت پائی

 

۶۸

 

جاتی ہے، پھر یہ بات کس طرح درست ہو سکتی ہے کہ سائنس بعنوانِ “مطالعۂ فطرت” صرف کائنات ہی میں محدود ہو، اور قرآن و اسلام میں نہ ہو، حالانکہ قرآنِ کریم اللہ پاک کا قول ہے، اور کائنات و اسلام اس کا فعل، اور خدا کے قول و فعل میں کبھی کوئی تضاد نہیں ہو سکتا، پس جو اصل سائنس اسرارِ کائنات میں پوشیدہ ہے، وہی قرآن و اسلام کی حکمت میں بھی پنہان ہے۔

 

۲۔ فطرت اور انسان: خالقِ اکبر نے لوگوں کو کائنات اور اسلام کے اصل قانون کے مطابق پیدا کیا ہے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی کا ترجمہ ہے: تم حقیقی مؤحد بن کر چہرۂ جان کو دین کے لئے قائم کرو، خدا کی آفرنیش (کائنات اور دین) وہ ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا، خدا کی آفرنیش میں کوئی تبدیلی نہیں (۳۰: ۳۰) یہ تعلیمِ سماوی بڑی صراحت سے بتاتی ہے کہ فطرت کے معنی میں عالمِ ظاہر، عالمِ دین، اور عالمِ شخصی سب ایک ہیں، اور سائنس کے اسرار ان سب میں ہیں۔

۳۔ قرآن میں ہر چیز کا بیان: قرآنِ حکیم اللہ تبارک و تعالیٰ کی وہ سب سے کامل ترین اور بے مثال کتاب ہے، جس کے احاطۂ بیان سے کوئی بھی ضروری چیز باہر نہیں (۱۶: ۸۹) اس حوالے سے قرآنِ کریم کے ظاہر و باطن دونوں میں غوروفکر کرنے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، کیونکہ اس لاہوتی سرچشمۂ علم و حکمت سے بمقتضائے زمان و مکان ہمیشہ تدریجی ہدایت کا سلسلہ جاری وساری رہا ہے، پس ایسے میں یہ مفروضہ قطعاً ناممکن ہے کہ قرآنِ حکیم جیسی آفاقی، ہمہ گیر، اور انتہائی جامع کتاب میں ان بے شمار مسائل کا کوئی اساسی حل موجود نہ ہو، جو سائنسی انقلاب سے پیدا ہوئے ہیں، جن کے سخت گھیرے سے ہم کیسے نکل سکتے ہیں، جب

 

۶۹

 

تک ہم سائنسی ایجادات و مصنوعات میں خود کفیل نہ ہو جائیں۔

 

۴۔ خزائنِ الٰہی کی برکتیں: سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) کی اس آیۂ کریمہ کو ہمیشہ قانونِ خزائن کے نام سے یاد کرنا چاہیے، کیونکہ اس میں پروردگارِ عالم کے جملہ خزانوں کا قانون موجود ہے، وہ ارشادِ مبارک یہ ہے: وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘-وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ = اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں (لوگوں کی) دانستہ مقدار میں نازل کرتے ہیں (۱۵: ۲۱) اس آیۂ مبارکہ میں حکمت کی کلید لفظِ “معلوم” میں ہے، جو علم سے اسمِ مفعول ہے، یعنی جانا ہوا یا دانستہ، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ عقلی، روحانی، اور مادّی نعمتیں اللہ کے خزانوں سے آسکتی ہیں، لیکن اس کی شرط علم و عمل ہے، چنانچہ عصرِ حاضر میں جو قومیں سائنس اور ٹیکنالوجی (علمِ فنون صنعت) میں آگے ہیں، اس کی وجہ ان کی علمی کوشش اور خدا کی منظوری ہے، اور اس کے بغیر خدائی خزانوں کی کوئی برکت نازل نہیں ہو سکتی ہے۔

 

۵۔ ظاہری اور باطنی نعمتیں: سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں دیکھ لیں، تاکہ معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح انسان کے لئے کائنات کی ہر چیز کی مادّی اور روحانی تسخیر ممکن بنا دی ہے، جس کی شرط وہی علم و عمل ہے، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، اور اسی نوعیت کی تسخیر میں خداوندِ جہان کی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کی گئی ہیں: وَ اَسْبَغَ عَلَیْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّ بَاطِنَةًؕ۔ کیا یہ مشروط نعمتیں جو دنیاوی بھی ہیں اور اخروی بھی، مسلمانوں کے لئے نہیں ہیں، جبکہ قرآنِ پاک انہی سے خطاب

 

۷۰

 

فرما رہا ہے؟ لیکن جہالت و کسالت کو ختم کر کے علم و عمل کا شیوہ اختیار کرنا ہو گا۔

۶۔ علمِ کائنات یا علمِ سائنس: کہتے ہیں کہ قرآن میں متعلقاتِ سائنس پر ۷۵۰ آیات ہیں، لیکن میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ تعداد ان آیاتِ کریمہ کی ہوسکتی ہے، جن میں سائنس کا واضح اشارہ ملتا ہے، ورنہ کوئی آیت ایسی نہیں، جس کی معنوی گہرائی اور باطنی حکمت میں سائنس کا کوئی پہلو پوشیدہ نہ ہو، کیونکہ آیاتِ قرآنی کی مربوط حکمت اور مضامین کی موافقت و ہم آہنگی کے اعجاز کی یہ شان ہے کہ سات سو پچاس آیات جو کچھ کہہ رہی ہیں، باقی تمام آیتوں میں بھی اسی کی تصدیق و شہادت اور دلیل وبیان موجود ہے، اس لئے کہ دینِ فطرت (اسلام) اور سائنس کے درمیان کوئی تضاد نہیں، بلکہ ان میں کلی طور پر مطابقت ومماثلت پائی جاتی ہے، جبکہ دونوں کی اصل و اساس فطرت ہی پر قائم ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ یہ دونوں چیزیں فطرت کے معنی میں ایک ہیں، یعنی اسلام دینِ فطرت ہے بمعنیٔ قانونِ فطرت (پیدائش) اور سائنس اسی فطرت کا مطالعہ اور تجربہ ہے۔

 

۷۔ دینِ حق اور خلق کی مماثلت: اگر اس حدیثِ شریف میں خوب غور سے دیکھا جائے توا س موضوع سے متعلق بہت سے سوالات کا جواب مل سکتا ہے، وہ یہ ہے: ان اللہ اسس دینہ علیٰ مثال خلقہ لیستدل بخلقہٖ علیٰ دینہ و بدینہ علیٰ وحدانیۃ = یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی بنیاد اپنی آفرنیش کی مثال پر قائم کی تاکہ اسکی آفرنیش ہی سے اس کے دین کی دلیل ہو اور اس کے دین سے اس کی یکتائی کی دلیل ملے۔

 

۷۱

 

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اس ارشادِ مبارک سے یہ حقیقت سب کے سامنے روشن ہو جاتی ہے کہ خلق (یعنی کائنات و موجودات) جو سائنس کا ظاہری سرچشمہ ہے، اور دین کے درمیان کلی مماثلت و ہم آہنگی بنائی گئی ہے، اور ان دونوں میں دراصل ذرہ بھر ناموافقت نہیں، پس اسی معنیٰ میں اسلام کا نام دینِ فطرت ہوا، بلکہ لفظِ “فطرت” ہی دینِ اسلام کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جس کا ذکر قبلاً اس حدیثِ شریف کے حوالے سے ہو چکا: کل مولود یولد علی الفطرۃ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر بچہ اسلام میں پیدا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

۸۔ آفاق و انفس اور سائنس:

جس زمانے میں آنحضرتؐ پر قرآن نازل ہورہا تھا، اس وقت بہت ساری قرآنی پیش گوئیوں کے ساتھ ایک بڑی اہم اور واضح پیش گوئی یہ بھی تھی جو آج حقیقت بن گئی ہے، اور وہ ارشادِ ربّانی یہ ہے: سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّؕ (۴۱: ۵۳) عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفوس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ حقیقت روشن ہو جائے کہ وہ (خدا) برحق ہے (۴۱: ۵۳) اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا کی آفاقی آیات (نشانیاں، معجزات) سائنسی ایجادات کی صورت میں ظاہر ہو گئیں، اب نفسی (روحی) آیات و معجزات کا ظہور باقی ہے، آپ توجہ فرمائیں کہ اگر یہ آیاتِ قدرت جو آچکی ہیں سائنسی کہلاتی ہیں، تو لازماً ان نشانیوں (آیات) کو بھی سائنس کیوں نہ کہیں، جو نفسِ انسانی میں ظہور پذیر ہونے والی ہیں، مگر ہاں اس میں یہ فرق ضرور ہےکہ پہلی مادّی سائنس ہے، اور دوسری روحانی سائنس۔

 

۷۲

 

۹۔ روحانی سائنس کے عجائب و غرائب:

آپ نے ظاہری اور مادّی سائنس کے مختلف شعبوں میں دیکھا ہو گا کہ ایک ہی مشین یا آلہ سے ہر کام نہیں ہو سکتا، بلکہ کاموں کی نوعیت کے مطابق طرح طرح کی مشینیں اور گونا گون آلہ جات استعمال کئے جاتے ہیں، تب ہی مادّی سائنس کا کام چل سکتا ہے، اس کے برعکس روحانی سائنس کا معجزۂ کمال یہ ہے کہ وہ صرف انسانی دل و دماغ ہی سے ہر قسم کا کام کر سکتی ہے، کیونکہ وہ روح و روحانیّت بھی ہے اور روحانی سائنس بھی، جس کا عمل ہر لحظہ کن فیکون کا ایک نتیجہ ہے، جس کے عجائب و غرائب کا کوئی حساب و شمار ہی نہیں ہو سکتا، اور اس کا سب سے آخری اور سب سے عظیم مقصد یہ ہے کہ اس وسیلے سے لوگ خدا کو برحق مانیں گے۔

 

سوال: روحانیّت کو سائنس کا نام دینا کیونکر درست ہو سکتا ہے؟ کوئی بھی سائنس پروردگار کی معرفت کا ذریعہ کس طرح ہو سکتی ہے؟ اکثر لوگ سائنس کی بنا پر باری تعالیٰ کی ہستی سے کیوں منکر ہوجاتے ہیں؟

 

جواب: آفاق و انفس میں اللہ کی جن آیتوں یا نشانیوں کے ظہور کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ سب کی سب خدا کی آیات ہونے میں یکسان ہیں، اور اس میں کوئی فرق نہیں، اگر اس چیز کا نام مادّیت میں سائنس (علم و حکمت بر بنائے مشاہدہ و تجربہ) ہے تو پھر روحانیت میں بھی اس کا یہ اضافی نام ہو سکتا ہے، اور اس میں کوئی قباحت نہیں، اس مثال کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مجرّد حقیقتیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں، اور لوگ ان کو طرح طرح سے الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں، اور تیسری وجہ یہ ہے کہ سائنس کی روح خدا کی طرف سے ہے، ہر چند کہ یہ آج دوسروں کے پاس ہے، لیکن جب یہ روحانیّت

 

۷۳

 

کی شکل میں ظہور پذیر ہو جائے، تو اس سے دینِ حق کے معجزات ظاہر ہونے لگیں گے، اور سیّارۂ زمین اسکی روشنی سے منوّر ہو جائے گا۔

 

کوئی بھی سائنس پروردگار کی معرفت کا ذریعہ کس طرح ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اہلِ دنیا سائنس سے نہ صرف بے حد متاثر ہو چکے ہیں، بلکہ وہ اس کو بہت زیادہ چاہتے بھی ہیں، اور کسی دوسرے علم کے مقابلے میں اس کی عملی مثالوں کو بڑی آسانی سے سمجھتے بھی ہیں، لہٰذا یہ امر ضروری ہوا کہ سائنس ہی کے وسیلے سے انہیں اللہ کی باتیں سکھا دی جائیں، اور یہ کام خدا خود کرے گا، اب سوال کا آخری حصّہ آتا ہے کہ اکثر لوگ سائنس کی بنا پر باری تعالیٰ کی ہستی سے کیوں منکر ہو جاتے ہیں؟ اس کا جواب یوں ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ شروع ہی سے اکثر لوگ جاہل اور خدا سے منکر ہوتے آئے ہیں، چنانچہ جو لوگ عقیدۂ الوہیت میں کمزور ہیں وہ سائنس جیسی بہت بڑی طاقت کو ایک آزاد چیز سمجھتے ہیں، جس سے ان کا انکار اور زیادہ قوّی ہو جاتا ہے، حالانکہ سائنس کے تمام معجزے خدا کی طرف سے ہیں، جس کا ذکر ہو چکا۔

 

۱۰۔ جنّ و انس اور سائنس:

سورۂ رحمان (۵۵: ۳۳) میں ارشاد ہے:  یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ (۵۵: ۳۳) اے گروہِ جنّ و انس اگر تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ، مگر تم بغیر زور وغلبہ کے نکل ہی نہیں سکتے۔

 

ان شاءَ اللہ، آپ یقین کریں گے کہ اس آیۂ شریفہ میں انتہائی زبردست کلیدی حکمتیں پوشیدہ ہیں، وہ اس طرح کہ شروع شروع میں جنّات

 

۷۴

 

(اہلِ باطن) عالمِ شخصی کی زمین پر اور انسان (اہلِ ظاہر) کرۂ ارض پر محدود ہوتے ہیں، پھر خداوندِ عالمِ جنّ و انس دونوں کو ایک ساتھ حکم دیتا ہے کہ دیکھو میری بے پایان نعمتوں کے سلسلے میں آگے بڑھنے کے لئے روحانی اور مادّی سائنس (سلطان =غلبہ، زور، طاقت) سے کام لو اور کائناتِ ظاہر و باطن کو فعلاً اپنے لئے مسخر کر لو کہ خدا نے بحدِّ قوّت (بحدِّ امکان) ہر چیز تمہارے لئے مسخر کر دی ہے، پس سب سے پہلے اہلِ باطن اس حکم پر عمل پیرا ہونے کےلئے سعیٔ بلیغ کرتے ہیں، اور روحانی سائنس کی زبردست طاقت (یعنی ذکرِ سریع، انقلابی علم، شدید آسمانی محبت، وغیرہ) کو استعمال کر کے زمینِ حیوانیّت کی کشش سے ایکبار آزاد و بالاتر ہوکر عالمِ عُلوی کا پُرحکمت نظارہ کرتے رہتے ہیں۔

 

۱۱۔ سلطان کےمعنی:

اس مبارک لفظ کے معنی ہیں: تسلّط، بادشاہ، آپ کتابچۂ “حکمتِ تسمیہ” ۳۹، اور کتاب علمی خزانہ (پنج مقالہ ۵) ۲۵۳ پر بھی دیکھ لیں، نیز اس مضمون سے متعلق مزید معلومات کی خاطر قرآنی مینار میں “شبِ قدر کے معجزات” کو اور گل ہائے بہشت میں “قرآن اور اڑن طشتریاں” کو بھی پڑھیں، الغرض سورۂ رحمان (۵۵: ۳۳) میں جس حکیمانہ انداز سے لفظِ “سلطان” آیا ہے، اس میں وہ اپنے تمام معنوں کا مظہر ہے، چنانچہ یہ پُرحکمت لفظ دلیل و حکمت کے معنی میں علومِ جدید کو ظاہر کر رہا ہے، اور زور و طاقت کے معنی میں جوہری توانائی کو، اور انہی معنوں میں “سلطان”  کا اشارہ علومِ مخفی اور عملِ فنائیّت کی طرف  ہے۔

 

۷۵

 

۱۲۔ “عملِ فنائیّت” سب سے عظیم طاقت:

کائنات و موجودات میں سب سے بڑی طاقت “عملِ فنائیت” ہے، جس کی مثال مٹی سے شروع ہو جاتی ہے، جو جماد ہے، مٹی کے عملِ فنائیّت سے عالمِ نباتات وجود میں آتا ہے، جس میں نہ صرف مٹی کی بہت بڑی ترقی ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اوپر کے درجات کیلئے بھی اس میں لاتعداد فائدے ہیں، عروج و ارتقاء اور ہر طرف فائدہ ہی فائدہ کے انہی معنوں میں عالمِ نباتات عالمِ حیوانات میں اور عالمِ حیوانات عالمِ انسان میں مسلسل فنا ہوتا رہتا ہے، پھر اخلاقی اور مذہبی اعتبار سے انسانوں کے بیشمار درجات ہیں، اس ترتیب میں ہر نچلے درجے کو اپنے اوپر کے درجے میں فنا ہو جانا چاہئے، تاکہ بشریت کے آخری مقام (انسانِ کامل) پر پہنچ جانے کے بعد ہر شخص ملکوت میں فنا ہو سکے۔

 

۱۳۔ فنا کی چند واضح مثالیں:

گھر کا چراغ کس طرح ضیا پاشی کرتا ہے؟ تیل اور فتیلہ (بتی) کے بتدریج فنا ہو جانے سے، یاد رہے کہ جل جانا فنائیّت کی مثال ہے، ریل گاڑی کس قوّت سے چلتی رہتی ہے؟ ایندھن کی قوّتِ فنا سے، کوئی موٹر کس بناء پر دوڑتی ہےاور ہوائی جہاز کس طاقت سے پرواز کر سکتا ہے؟ پیٹرول کے لگا تار فنا ہو جانے سے، آتشین اسلحہ (FIREARM) یعنی بندوق، توپ، وغیرہ کی مار کی اصل طاقت کس چیز سے پیدا ہوتی ہے؟ بارود کے جلنے اور فنا ہو جانے سے، اور اسی طرح سورج ہے، جو ہماری کائنات کی مادّی طاقت کا سب سے عظیم سرچشمہ ہے، جس میں مسلسل فلکی ایندھن (ایتھرETHER = ) کے گرتے رہنے سے ایک ساتھ بے شمار قیامت خیز دھماکوں

 

۷۶

 

کا سلسلہ جاری رہتا ہے، یہ قدرتِ خدا کا عظیم ترین کرشمہ و معجزہ ہے کہ جس طرح اکثر یہ ذکر ہوتا رہتا ہے کہ سفرِ روح کے آخر میں منزلِ فنا آتی ہے، جس میں وجہ اللہ کا نور ہے، اسی طرح مادّہ  کا سفر سورج میں جا کر ایک بار ختم ہو جاتا ہے، اور یہ وہ مقام ہے، جہاں مادّہ فنا ہو کر نور کی کائناتی طاقت بن جاتا ہے، جیسے کوئی مومنِ سالک خدا میں فنا ہو کر سب کچھ ہو سکتا ہے۔

 

۱۴۔ کائنات سے باہر نکلنے کی حکمت:

رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری اور پیروی اگر حقیقی معنوں میں کی جائے، تو یہ عشق و محبت اور فنائیّت (۰۳: ۳۱) کی ایک ایسی کامیاب طاقت ہے، جو ہر مومن کو آنحضرتؐ کے نقشِ قدم پر آسمانوں سے باہر لے جاتی ہے، جہاں لامکانی اور لازمانی اسرار کے خزائن موجود ہیں، یہ تسخیرِ کائنات کا باطنی پہلو اور روحانی سائنس (علم و حکمت) ہے۔

 

خدا نے کوئی زمانہ ایسا نہیں چھوڑا، جس میں اس نے فرشتوں اور روح کے لئے فرش سے عرش تک ایک روحانی سیڑھی نہ لگائی ہو (۵۲: ۳۸، ۷۰: ۰۴) نہ کبھی وہ اپنے نورِ ہدایت کی رسی عرش سے فرش تک لٹکائے بغیر رہا (۰۳: ۱۰۳) یہ سب کچھ اس لئے ہے تاکہ صاحبِ عرش جن کو چاہے اپنی طرف درجہ بدرجہ بلند کر لے (۱۲: ۷۶، ۴۰: ۱۵) ۔

 

یہ تو آپ جانتے ہیں کہ خداوندِ تعالیٰ کے چھ دن چھ ناطق ہیں، اورساتواں دن یعنی سنیچر حضرتِ قائم ہے، آپ نے عالمِ دین کی نسبت سے اس قرآنی تعلیم کی تاویل سن لی ہے، لہٰذا یہاں صرف عالمِ شخصی کے تعلق سے بات کی جاتی ہے کہ ہر عارف کی ذاتی کائنات (پرسنل ورلڈ) چھ روحانی

 

۷۷

 

منزلوں یا چھ چھوٹے ادوار میں مکمل ہو جاتی ہے، ان تمام منزلوں یا ادوار میں علی التّرتیب چھ عظیم پیغمبروں کی کامل روحانیّت ونورانیّت موجود ہے، چنانچہ ان چھ روحانی دنوں میں عارف کائنات کے اندر رہتا ہے، اور ساتوین دن (جس کو منزلِ ہفتم یا دورِ ہفتم بھی کہا جا سکتا ہے) عارف کو قید خانۂ کائنات سے باہر اور آسمانوں سے برتر ایک عالم میں لے جاتے ہیں، وہ عالمِ ابداع ہے۔

 

۱۵۔ عالمِ ابداع کی چند مثالیں:

عالم دو ہیں، ایک کا نام عالمِ خلق ہے، جو یہ جہان ہے، اور دوسرا عالمِ امر کہلاتا ہے (۰۷: ۵۴) جو مکان و زمان سے ماوراء ہونے کی وجہ سے عالمِ عُلوی یا عالمِ بالا کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، اور یہی خود عالمِ ابداع بھی ہےجس میں خدا کے امرِ کُنۡ یعنی “ہوجا” سے ہر چیز ہر نعمت اور ہر علم کا ظہور ہو جاتا ہے، دنیا میں ہر پسندیدہ شیٔ حاصل نہیں ہوتی، اگر کوئی چیز ممکن الحصول بھی ہو، تو اس کے لئے عمرِ گرانمایہ کا ایک حصّہ صرف ہو جاتا ہے، اور مشقت اس کے علاوہ ہے، اس کے برعکس عالمِ امر میں کوئی چیز ناممکن نہیں، نہ اس کے حاضر ہونے میں ذرہ بھر تاخیر ہوتی ہے، وہاں ماضی و مستقبل نہیں، صرف حال ہی حال ہے، کیونکہ اس میں زمانِ ناگزرندہ یعنی ٹھہرا ہوا زمانہ ہے، جس کو دھر (۷۶: ۰۱) کہا جاتا ہے، اس لئے وہاں ازل و ابد یکجا ہیں، پس ان مثالوں سے پتا چلا کہ مادّی سائنس کے مقابلے میں روحانی سائنس بڑی زبردست اور انتہائی عجیب و غریب ہے۔

 

۱۶۔ طبِ نبوّیؐ۔ دودریاؤں کا سنگم:

خداوندِ بزرگ و برتر نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو اسمِ اعظم کی نورانیّت میں جو علم الاسماء سکھایا تھا، وہ دراصل “علمِ

 

۷۸

 

حقائقِ اشیاء” تھا، جس کا ذکر قرآنِ حکیم (۰۲: ۳۱) میں موجود ہے، کیونکہ ہر چیز کا معنوی نام وہ ہے جو خدا نے اس کو دیا ہے، اور وہ اس چیز کی خاصیّت و حقیقت ہے، جس کی خاطر وہ دوسری چیزوں سے الگ پیدا کی گئی ہے، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ خلیفۃ اللہ کا یہ علم جملہ اشیائے کائنات پر محیط ہونے کی وجہ سے دوسرے تمام علوم کا سرچشمہ ہے، جس سے لازماً سائنس کی شاخ بھی پیدا ہوئی، اس حقیقت کی سب سے روشن دلیل طبِ نبوّیؐ ہے، کہ وہ پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے”علمِ کلّ” کی ایک برانچ کی حیثیت سے میڈیکل سائنس ہے، جس میں ظاہراً بدن کا علاج ہے، اور باطناً روح و عقل کا علاج، اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ طبِ نبوّیؐ ۔ دو دریاؤں کے سنگم کی طرح ہے۔

حلال و حرام کا موضوع بڑا وسیع اور اسلام کے ہمہ گیر موضوعات میں سے ہے، اس سلسلے میں شارعِ اسلامؐ کے حکم کے مطابق جو چیزیں حلال ہیں، اور جو اشیاء حرام، ان کے درمیان فرق و امتیاز طبّی تجزیہ و تحقیق کے بغیر کیسے ممکن ہو سکتا ہے، چنانچہ روحانی طبیبؐ نے چشمِ بصیرت سے ہر چیز کی خاصیّت و تاثیر کو دیکھ لیا، اور ظاہری و باطنی صحت کے پیشِ نظر مفید چیزوں کو حلال اور مضر چیزوں کو حرام قرار دیا، جیسے سورۂ اعراف (۰۷: ۱۵۷) میں ہے: اور (رسولؐ) جو پاک چیزیں ہیں وہ ان پر حلال اور ناپاک چیزیں ان پرحرام کر دیتا ہے (۰۷: ۱۵۷) چیزوں کی یہ پاکیزگی اور ناپاکی زیادہ سے زیادہ باطن میں ہے۔

 

ن۔ ن۔ ہونزائی۔ کراچی

منگل ۱۲ رمضان المبارک ۱۴۱۲ھ؍۱۷مارچ ۱۹۹۲ء

 

۷۹

 

 

عالمِ شخصی اور حدودِ دین

 

۱۔ اس حقیقت میں نہ تو کوئی شک ہے اور نہ ہی کوئی اختلاف کہ ہر کامیاب مومن اپنے باطن (عالمِ شخصی) ہی میں پروردگار کو پہچانتا ہے، کیونکہ بحکمِ من عرف۔ ۔ ۔ ۔ عارف کی اپنی روح کی معرفت میں حضرتِ ربّ کی معرفت پوشیدہ ہے، لیکن اس انتہائی عظیم سر الاسرار پر نہ صرف فرداً فرداً بہت زیادہ غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اہلِ دانش کی محفل میں بھی یہی گفتگو سوالاً وجواباً بیحد ضروری ہے، مثال کے طور پر سب سے پہلے یہ سوال ہو: یہ خدا شناسی یا معرفت جو خود شناسی سے حاصل ہوتی ہے، کس طرح کی ہے؟ علمی یا عملی؟ یا دونوں طرح سے ہے؟ کلی ہے یا جزوی؟ کیا اس شناخت کی خاطر بلاواسطہ یا بالواسطہ خداوندِ تعالیٰ کا دیدارِ اقدس ممکن ہے؟ اگر نہیں تو پھر معرفت کس معنیٰ میں ہوتی ہے؟ آیا معرفت کا تعلق اللہ کے قول و فعل سے بھی ہو سکتا ہے یا نہیں؟

 

۲۔ اس حدیثِ قدسی میں اگر ہم واجبی طور پر غور و فکر نہیں کرتے ہیں، تو بہت بڑی ناشکری ہوگی، وہ ارشاد یہ ہے: کنت کنزاً مخفیاً فاجبت ان اعرف فخلقت الخلق = میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، پس میں نے چاہا کہ میری معرفت ہو تو میں نے خلق کو پیدا کیا۔ اس کی

 

۸۰

 

تشریح عالمِ شخصی کے مطابق یہ ہے: پروردگار ہمیشہ عالمِ شخصی کا گنجِ مخفی ہے، لیکن جب کوئی مومن حقیقی معنوں میں اس کو پہچاننا چاہے تو خدا بھی اس کے حق میں یہی چاہتا ہے، پھر اس کی روحانی اور عقلانی تخلیق مکمل کر دیتا ہے، اور اسی کے ساتھ ساتھ عارف کو ربّ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔

 

سوال: اس حدیثِ قدسی کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے، کیونکہ اس میں بڑا عجیب و غریب راز ہے، اور وہ ہے خدائے بزرگ و برتر کا اپنے آپ کو عارفین کی خاطر خزانۂ مخفی قرار دینا، اس مثال میں زبردست حکمتیں پوشیدہ ہیں، جن میں عارفوں کے لئے سب سے بڑی بشارت ہے، لیکن ہم اس کی گہرائی سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہاں “الخلق” سے کیا مراد ہے؟ اس کے معنی خاص ہیں یا عام؟ معرفت کے لئے جس مخلوق کی ضرورت تھی، اگر وہ یہی کائنات و موجودات کی ہر چیز اور ہر شخص ہے، تو پھر ہر شیٔ اور ہر آدمی کو خدا کی معرفت کیوں حاصل نہیں؟ جواب: الخلق سے درجۂ کمالیّت کی مخلوق مراد ہے، کیونکہ یہ لفظ یہاں خاص معنی میں آیا ہے، اور معرفتِ الٰہی کے بارِ گران کی متحمل صرف ایسی ہی مخلوق ہو سکتی تھی، جو تخلیق در تخلیق کے سلسلے میں بتائیدِ خداوندی روحانی اور عقلی منزلوں سے آگے گئی ہو، پس ایسی ہستی عارفوں ہی کی ہے۔

 

۳۔ حدودِ دین:

جب خدا شناسی عالمِ شخصی سے باہر غیر ممکن ہے، تو پھر حدودِ دین کی معرفت بھی اسی طرح مومن کی ذات ہی میں پوشیدہ ہو سکتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ سَیُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ فَتَعْرِفُوْنَهَاؕ (۲۷: ۹۳) اور تم کہہ دو کہ الحمد للہ وہ عنقریب تمہیں اپنی آیات دکھا دے گا تو تم انہیں پہچان لوگے (۲۷: ۹۳) اس

 

۸۱

 

بابرکت ارشاد میں آیات سے حدودِ دین مراد ہیں، اور “الحمد” عقلِ کلّ کا نام ہے، اس کا مختصر مطلب یہ ہوا کہ تم اپنی روح کی پہچان کے ساتھ ساتھ عقل کی روشنی میں حدودِ دین کو بھی دیکھو گے اور پہچان لو گے۔

 

۴۔ حدودِ دین کی اہمیت:

حدودِ جسمانی کا مرکز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ذاتِ عالی صفات ہی ہے، آپؐ اپنے جملہ حدود کے ساتھ لوگوں پر خداوندِ تعالیٰ کی کامل و مکمل اور منظم حجت ہیں، جیسے ارشاد ہے: لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ (۰۴: ۱۶۵) تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کو خدا پر کوئی حجت باقی نہ رہ جائے (۰۴: ۱۶۵) یعنی جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اپنے تمام نمائندوں (اساس، أئمّہ، ابواب، حجج، دعاۃ، وغیرہ) کے توسط سے پورے دور پر محیط ہیں، تو پھر قیامت کے دن کسی شخص کی یہ بات خدا کے سامنے کیونکر درست دلیل ہو سکتی ہے کہ اس کے زمانے میں ربّانی ہدایت کے لئے کوئی نہ تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی حجت کا نظام عالمگیر اور ہمہ رس ہے۔ (قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُۚ، ۰۶: ۱۴۹) ۔

 

۵۔ حدودِ دین کی ایک نمایان مثال:

یہ پرحکمت ارشاد سورۂ یوسف میں ہے: وَ كَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْهَا وَ هُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ (۱۲: ۱۰۵) آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں  جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجّہ نہیں کرتے (۱۲: ۱۰۵) اس کا مقصد یہ ہے کہ قرآنِ پاک میں جن حقائق و معارف کا ذکر ہوا ہے، ان کی مثالی شہادتیں صحیفۂ کائنات میں موجود ہیں، چنانچہ حدودِ دین کی روشن مثال عالمِ جسمانی میں

 

۸۲

 

سورج، چاند، اور ستارے ہیں، اور قرآنِ کریم میں حضرتِ موسیٰؑ، حضرتِ ہارونؑ، بارہ نقیب (۰۵: ۱۲) وغیرہ ہیں، یعنی ہر ناطق کو اپنے وقت میں عالمِ دین کے سورج کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے، جبکہ اساس چاند اور تحتانی حدود ستارے کہلاتے ہیں، پھر ناطق کے بعد اساس سورج اور امام چاند ہوتا ہے، پھر اساس کے بعد امامِ وقت سورج اور باب چاند قرار پاتا ہے، یہی سنت بے بدل چلی آئی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو سکھائی تھی (۱۷: ۷۷)  ان شاء اللہ، اب ہم حدودِ دین کا ذکر ترتیب سے کرتے ہوئے بتائیں گے کہ عالمِ شخصی سے ان کا کیا تعلق ہے، اور اس میں ان کے کیسے کیسے علمی و عرفانی عجائب و غرائب ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔

 

۶۔ مستجیب:

یہ لفظ ج۔ و۔ ب کے مادّہ سے ہے، اس کے لفظی معنی ہیں: جواب دینے والا، قبول کرنے والا، اور مراد ہے اسماعیلی دعوت قبول کرنے والا، یعنی اس مذہب کی ابتدائی منزل سے تعلق رکھنے والا، خواہ پیدائشی ہو یا باہر سے آیا ہو، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ (۰۸: ۲۴) اے لوگوجو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسولؐ  کی دعوت کو قبول کرو جب کہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں (روحانی) زندگی بخشنے والی ہے (۰۸: ۲۴) ۔

 

۷۔ ماذون:

لفظ  ا۔ ذ۔ ن کے مادّہ سے ہے، لغوی معنی ہیں اذن یافتہ، یعنی وہ شخص جس کو داعی کے تحت دعوت کرنے کی اجازت دی گئی ہو، ماذون دو ہوتے ہیں: ماذونِ اصغر (ماذونِ مکفوف) اور ماذونِ اکبر (ماذونِ مطلق) یہ اصطلاح آیۂ مبارکۂ سراج سے ہے،

 

۸۳

 

وہ ارشاد یہ ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا، وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا (۳۳: ۴۵ تا ۴۶) اے نبیؐ، ہم نے تم کو بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر، اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر (۳۳: ۴۵ تا ۴۶) ماذونِ اصغر  کو مکاسر بھی کہتے ہیں، کیونکہ وہ باطل کے بت کو توڑتا ہے۔

۸۔ داعی:

داعی کا لفظ د۔ ع۔ و کے مادّہ سے ہے، اس کے اصطلاحی معنی ہیں: دینِ حق کی طرف دعوت کرنے والا، جیسا کہ آیۂ سراج میں اس کا ذکر ہوا کہ داعی دراصل حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ہی ہیں، تاہم اس کا اطلاق آپؐ کے نمائندوں پر بھی ہوجاتا ہے، داعی کو جناح بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ عالمِ شخصی میں قوّتِ جبریلیہ ہے، جس میں پرواز کی طاقت ہے، یا واضح طور پر یوں کہا جائے کہ داعی کی روح عالمِ شخصی میں خیال یعنی جبرائیل ہے، داعی دو قسم کے ہوا کرتے ہیں: داعیٔ محدود، اور داعیٔ مطلق، اسی طرح ہر جزیرے میں تیس ۳۰ دعاۃ دعوت کا فریضہ انجام دیتے ہیں، اور زمین کے بارہ جزیروں میں ۳۶۰ داعی کارِ دعوت کے لئے مقرر ہیں۔

 

۹۔ حجت:

لفظِ حجت کا مادّہ ح۔ ج۔ ج۔ ہے، حجت دلیل کو کہتے ہیں، اس سے وہ بہترین شخص مراد ہے، جس کو امامِ عالی مقامؑ مقرر فرماتا ہے، تاکہ علم و حکمت کا ذریعہ مہیا رہے، اور اس کی موجودگی سے لوگوں پر خدا، رسولؐ، اور امامؑ کی حجت قائم ہو جائے، جیسا کہ عنوان۴ کے تحت اس کا ذکر ہو چکا، حجت کا دوسرا نام نقیب (قوم کا سردار، گواہ، اور حالات کا جاننے والا) ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم (۰۵: ۱۲) میں ۱۲ مثالی نقباء کا

 

۸۴

ذکر آیا ہے، یہی حضرات بارہ جزائر کے حجج ہیں، ان کے علاوہ بارہ باطنی حجج اور چار حضوری حجتان بھی ہیں، الغرض ہرجزیرہ میں ایک حجتِ روز ہے اور ایک حجتِ شب، نیز دو حجتِ روز اوردو حجتِ شب امام علیہ السّلام کے حضور میں کام کرتے ہیں، اسی طرح عالمِ دین میں کل حجتوں کی تعداد ۲۸ ہے، اور منازلِ قمر بھی ۲۸ ہیں۔

 

۱۰۔ بارہ جزائر:

زمانۂ نبوّت کے بارہ جزیرے یہ ہیں: عرب، حبش، چین، دیلم، اور بربر (تاویلِ دعائم، ۲، ص۷۴) ۔

 

جزیرہ کے معنی ہیں: وہ قطعۂ زمین جس کے چاروں طرف پانی ہو، یہ اس امر کی تاویلی مثال ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں ہادیٔ برحق علیہ السّلام کے حجج یا نقباء یا روحانی علم کے ادارے موجود ہوتے ہیں، اور ان تمام روحانی سمندروں کا اعلیٰ اور اصل سرچشمہ امامِ زمانؑ ہے، جیسا کہ یہ مشہور شعر ہے:

؎    از دلِ حجت بحضرت رہ بود

اوبتائیدِ دلش آگہ بود

ترجمہ: حجت کے دل سے حضرتِ امامؑ تک راستہ ہوتا ہے، اور وہ (یعنی امامؑ) اس کی قلبی تائید کے لئے باخبر ہے۔

 

۱۱۔ صاحبِ جثّۂ ابداعیہ: یہ اصطلاح آپ کو بزرگانِ دین کی  بعض کتابوں میں ملے گی، سب سے عظیم حکمت اور سب سے بڑی خوشی اسی میں ہے، کیونکہ یہ امامِ اقدس و اطہرؑ کا کوکبی بدن (ASTRAL BODY) ہے، اور قرآنِ عزیز میں اس کے کئی نام آئے

 

۸۵

 

ہیں، جیسے: طیر (۰۳: ۴۹) لباسِ تقویٰ (۰۷: ۲۶) سرابیل (۱۶: ۸۱) لبوس (۲۱: ۸۰) محاریب (۳۴: ۱۳) حدید (۵۷: ۲۵) وغیرہ، اور ہر حجت کے عالمِ شخصی میں سلیمانِ زمانؑ کی اجازت سے ستر ہزار سرابیل (ابداعی کرتے) بنتے ہیں، تاکہ ذیلی حدود کو عطا کئے جائیں۔

۱۲۔ محراب،عالمِ شخصی: بندۂ مومن کا اپنا عالمِ شخصی مدرسۂ معرفت ہے، لہٰذا وہ اگر کامیاب ہو جائے تو اسی میں نہ صرف اپنے آپ کو اور اپنے ربّ کو پہچانتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ حدودِ دین کی شناخت بھی حاصل کر لیتا ہے یہی سبب ہے کہ یہاں عالمِ شخصی اور حدودِ دین کا ایک ساتھ بیان ہو رہا ہے، چنانچہ یہاں اس سلسلے کا ایک اور تاویلی راز منکشف ہو رہا ہے، وہ یہ کہ جسمِ لطیف جس طرح روحانی قلعہ (محراب) ہے، اسی طرح وہ عالمِ شخصی بھی ہے، آئیے ہم آپ کو یہی انتہائی مفید راز قرآنِ حکیم میں بتاتے ہیں، آلِ عمران (۰۳: ۳۷) میں ارشاد ہے:۔

كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَۙ-وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًاۚ (۰۳: ۳۷) جب کبھی زکریاؑ اس (مریمؑ) کے پاس محراب میں جاتا تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان پاتا۔

 

تاویلی حکمت: حضرتِ امام زکریا علیہ السّلام جب بھی مریمؑ کے عالمِ شخصی (محراب) میں داخل ہوتا اور سوالاً وجواباً علمِ امامت کا نور برساتا، اور یہی نور لازماً غیر معمولی طور پر مریمؑ کے قلب سے منعکس ہو رہا تھا، ایسے میں یہ امر بھی ضروری ہے کہ استاد اپنے شاگرد سے پوچھے کہ یہ جو تم نے بڑی عمدہ بات کہی، کہاں سے ہے؟ یہاں یہ بتانا از بس ضروری ہے کہ حضرتِ مریمؑ ہر حجت کی مثال ہے، اس لئے یہ انمول راز معلوم ہوا کہ امامِ عالی مقامؑ بہ لباسِ نورانی کس طرح اپنے حجتانِ جزائر کے عوالمِ شخصی (محاریب) میں تشریف فرما

 

۸۶

 

ہو جاتا ہے۔

۱۳۔ حجتانِ باطن یا جنّات: اللہ تعالیٰ نے آلِ ابراہیمؑ کو تین انتہائی بزرگ چیزیں عطا فرما کر نوازا ہے، وہ ہیں: کتاب، حکمت، اور روحانی سلطنت (۰۴: ۵۴) اس کا حکیمانہ اشارہ یہ ہے کہ تینوں چیزیں باہم وابستہ ہیں، اس لئے جب تک دنیا میں کتابِ سماوی یعنی قرآن موجود ہو، تب تک سرچشمۂ حکمت اور روحانی سلطنت بھی ہو گی، پھر لازماً روحانی سلطان بھی موجود ہوگا، اور وہ أئمّۂ آلِ محمدؐ کے سلسلے سے امامِ زمانؑ ہے، جس کے باطنی حجج پوشیدہ ہونے کی وجہ سے جنّات کہلاتے ہیں، مگر ان جنّوں کو فرشتوں کی طرح ماننا درست ہے، ورنہ حدودِ دین کی شناخت میں بہت بڑی غلطی ہوگی، کیونکہ صالحین جنّات فرشتے ہوا کرتے ہیں، اور شریر جنّات شیاطین۔

 

اگر حضرتِ سلیمانؑ کے قصّۂ قرآن کو نورِ معرفت کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس سے حدودِ دین کی روحانی طاقت اور علمی قدرومنزلت کا بخوبی پتا چلتا ہے، اور قوانینِ دین کے بہت سے اسرار منکشف ہو جاتے ہیں، اس سلسلے میں ہماری بعض کتابوں میں کافی معلومات درج ہیں، یہاں یہ بڑا اہم نکتہ ضرور بتاؤں گا کہ خداوندِ جہان جس پاک و پاکیزہ ہستی کو روحانی پادشاہ بناتا ہے، اس کے لئے نہ صرف حدودِ روحانی اور حدودِ جسمانی ہی اپنی بیمثال قوّتوں سے دن رات خدمت کرتے رہتے ہیں، بلکہ آسمان زمین کی جملہ ارواح وملائکہ بھی عملی اور روحانی تسخیر کے معنی میں اس کے کام پر مامور ہوتے ہیں، کیونکہ بادشاہ وہ شخص ہے، جس کے منشا یا حکم کے مطابق کام کیا جاتا ہے، اور وہ خود کام نہیں کرتا۔

 

۸۷

 

۱۴۔ جنّات یا فرشتے: حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے جنّی حجج کے بارے میں ارشاد ہے: يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاء مِن مَّحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِیٰت (۳۴: ۱۳) وہ اس کے لئے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا، مضبوط قلعے، تصویریں، بڑے بڑے تالاب جیسے لگن اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں (۳۴: ۱۳) ۔

 

تاویلی حکمت: اس عظیم الشّان ربّانی تعلیم میں سب سے پہلے منزلِ عزرائیلی کی طرف اشارہ ہے، جس میں پرواز کرنے والے زندہ قلعے (محاریب) بنائے جاتے ہیں، پھر عالمِ شخصی کے روشن خیالات، تصوّرات، خاموش اور بولنے والی تصویروں کا ذکر ہے، جن میں مثال اور تصویری علم و حکمت کی خاطر ہر چیز پیش کی جاتی ہے، بعد ازان ایسی بڑی بڑی لگنوں کا تذکرہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک ظرفیت و گنجائش میں بڑے تالاب کی طرح ہے، ایسی لگنیں کلماتِ تامّات ہیں، اگر ان میں روحانی غذا ڈالی جائے تو دنیا بھر کے لوگوں کو کافی ہو سکتی ہے، اور آخر میں ایسی دیگوں کی مثال آئی ہے، جو ایک جگہ جمی رہنے والی ہیں، ان سے مرتبۂ عقل کے علمی وعرفانی سرچشمے مراد ہیں، جو ہمیشہ اسی جگہ قائم اور اٹل ہیں، جبکہ روحانی مسافر کے لئے وہی منزلِ آخرین ہے۔

 

۱۵۔ حضورِ اکرمؐ کے جنّی نمائندے: مومن جنّ کے قرآنی تذکروں میں روحانیّت اور معرفت کے بڑے بڑے اسرار پوشیدہ ہیں، اس لئے آپ تمام متعلقہ آیاتِ کریمہ کو غور سے پڑھ لیں، اور اس عنوان کی مناسبت سے خصوصاً سورۂ احقاف

 

۸۸

 

(۴۶: ۲۹ تا ۳۲) اور سورۂ جنّ (۷۲: ۰۱ تا ۱۵) میں بھر پور توجہ سے دیکھ لیں، نیز میری ایک تصنیف “قرۃ العین”  کا ضمیمہ بھی پیشِ نظر ہو، تاکہ آپ یقین کر سکیں کہ جنّ ایسا ہر گز نہیں، جیسا کہ عوام الناس سمجھ رہے ہیں، بلکہ وہ انسان کی بدنی اور روحانی عروج و ارتقاء کا نتیجہ ہے، جبکہ وہ مومن اور صالح جنّ ہو، وہ مخلوقِ لطیف ہونے کی وجہ سے روحانی علم کا خزانہ ہو سکتا ہے، دراصل یہی فرشتہ ہے۔

 

جیسا کہ ارشاد ہے: وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ (۴۶: ۲۹) اور (وہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے) جب ہم نے جنّوں کے ایک گروہ کو تمہاری طرف متوجہ کیا، وہ کان لگا کر قرآن کو سننے لگے، پھر جب وہ اس کے پاس (یعنی قرآن کی روحانیّت میں) حاضر ہوئے تو کہنے لگے خاموش بیٹھے سنتے رہو، پھر جب (روحانی تلاوت اور مشاہدہ) تمام ہوا تو اپنی قوم کی طرف واپس گئے کہ (ان کو عذاب سے) ڈرائیں (۴۶: ۲۹) )

تاویلی حکمت: ظاہر ہے کہ یہ جنّات کسی وجہ سے بھی ازخود آنحضرتؐ کے پاس نہیں آئے تھے، بلکہ پروردگارِ عالم کی ہدایت کے مطابق یہاں آگئے، اورخدا کی جانب سے آفتابِ ہدایت حدودِ دین سے طلوع ہوتا رہتا ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ یہ حضرات حدود ہی کی سیٹرھی پر درجہ بدرجہ بلند کئے گئے تھے، تا آنکہ وہ رسول اللہؐ سے روحانی تلاوت سننے اور قرآن کے باطنی معجزات دیکھنے کے قابل ہوگئے، اور ایک عرصہ تک ان علمی و عرفانی مشاہدات و تعلیمات سے بہرہ ور ہو جانے کے بعد ہی یہ جنّات اپنی قوم کی طرف واپس گئے، تاکہ ان میں پیغمبر

 

۸۹

 

اکرمؐ کے لیلی (باطنی) حجتوں کا فریضہ انجام دیں، اس حقیقت کا ایک روشن ثبوت ان کا قرآن کی روح و روحانیّت میں حاضر ہو جانا ہے (حضروہ) جس میں قرآنِ کریم کے روحانی اور عقلی معجزات کے تجدّدِ امثال کا تفصیلی مشاہدہ ہوتا ہے۔

 

۱۶۔ باب یا حجتِ اعظم: لفظِ باب کا مادّہ ب۔ و۔ ب ہے، الباب ہر چیز میں داخل ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں، یعنی دروازہ، اس کی جمع ابواب ہے اور اسماعیلی اصطلاح میں باب وہ شخص ہے جس کے علم کے بغیر کوئی آدمی امامِ زمانؑ کی روحانیّت و نورانیّت میں داخل نہیں ہو سکتا، اور ایسا شخص حجتِ اعظم ہے، نیز امامؑ باب ہے، اساس کی معرفت میں جانے کے لئے، اور اساس باب (دروازہ) ہے ناطق کے علم و حکمت میں داخل ہو جانے کے لئے، جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: وَ اْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا۪ (۰۲: ۱۸۹) اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو۔

جیسے حضورِ اقدس و اطہرؐ نے ارشاد فرمایا: انا مدینۃ العلم و علیٌ بابھا۔ میں علمِ ربّانی کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا یہ ارشاد بھی از بس قابلِ توجہ ہے: انا دارالحکمۃ وعلیٌ بابھا۔ میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ نورِ نبوّت اور نورِ امامت کے باہمی ربط و رشتہ اور وحدت کی یہ دونوں عالیشان مثالیں اہلِ بصیرت کی نظر میں بدرجۂ انتہا حسن و جمالِ معنوی سے آراستہ، بیحد دلکش اور عجائب و غرائبِ اسرار سے مملو ہیں، کیونکہ یہ دونوں پُرحکمت حدیثیں اس آیۂ مبارکہ کی تفسیر و توضیح ہیں، جو کلیۂ امامت کی شان سے قلبِ قرآن (سورۂ یاسین۳۶: ۱۲)

 

۹۰

 

میں موجود ہے۔

 

۱۷۔ امامِ عالی مقام: اس لفظ کا مادّہ ا۔ م۔ م۔ ہے، امام کے لغوی معنی ہیں: پیشوا، یعنی ایسا شخص جس کی پیروی کی جائے، لیکن یہاں وہ خاص شخص مراد ہے، جس کی اطاعت و پیروی کا حکم خدا و رسولؐ نے دیا ہو، ایسے امام سے کوئی زمانہ نہ پہلے کبھی خالی تھا، نہ آئندہ کبھی خالی ہوگا، کیونکہ امام کی ذاتِ عالی صفات بہ مرتبۂ لوحِ محفوظ ازل سے موجود ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید کا ارشاد ہے: وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے ہر چیز کو بیان (تاویل) کرنے والا پیشوا میں گھیر دیا ہے (۳۶: ۱۲) مبین کے ایک معنی ہیں: بولنے والا، بیان کرنے والا (۴۳: ۱۸) اور بیان تاویل کا دوسرا نام ہے (۷۵: ۱۹) جیسے سورۂ رحمان میں اشارہ ہے کہ حضرتِ رحمان انسانِ کامل کو درجاتِ روحانی میں بلند کرتے ہوئے قرآن سکھاتا ہے، اور اسی سے اس کی روحانی تخلیق بھی کرتا ہے، اور آخر میں مرتبۂ ازل پر تاویل (بیان) سکھاتا ہے، وہ آیاتِ کریمہ درج ذیل ہیں:

اَلرَّحْمٰنُ، عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ، خَلَقَ الْاِنْسَانَ، عَلَّمَهُ الْبَیَانَ، (۵۵: ۰۱ تا ۰۴) چنانچہ امامِ مبینؑ ایک ایسی عالی مرتبت ہستی ہے کہ اس کی معرفت خود اسی کے نور کی روشنی کے بغیر ناممکن ہے۔

 

۱۸۔ نورِ امامت کے مراتب: اگرچہ نورِ امامت فی الاصل یعنی مرتبۂ ازل پر ایک جیسا ہے، اور اس میں کوئی فرق و تفاوت نہیں، لیکن خدائی پروگرام اور مختلف زمانوں کے الگ الگ تقاضوں کے مطابق یہ نور مختلف مراتب میں اپنا کام کرتا ہے، چنانچہ جب نورِ امامت کسی ناطق کا استاد ہوتا ہے، تو اس وقت وہ امامِ مقیم

 

۹۱

 

کہلاتا ہے، جیسے ہی یہ ناطق کا شاگرد ہوا تو پھر اس کا نام اساس ہوتا ہے، چونکہ امام کی امامت نسل درنسل برقرار برجا رہتی ہے، اس معنیٰ میں وہ امامِ مستقر ہے، اس کے علاوہ کبھی کبھار ایسا امام بھی ہوتا ہے، جس کی امامت ایک پشت یا چند پشتوں کے بعد مستقر کی طرف لوٹتی ہے، تو وہ امامِ مستودع کے نام سے پہچانا جاتا ہے (۰۶: ۹۸) اور سلسلۂ امامت کا ہر امامِ ہفتم امامِ متم کہلاتا ہے (۶۱: ۰۸) ۔

 

۱۹۔ اساس: اس لفظ کا مادّہ ا۔ س۔ س ہے، اساس کے اصل معنی ہیں، بنیاد، کسی چیز کی ابتداء اصطلاحاً وہ امام، جس سے ناطقِ دور کے أئمّہ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اور ایسا امام ناطق کا وصی، وارث، اور جانشین ہوا کرتا ہے، نیز وہ ناطق کی کتاب و شریعت کا مؤول (تاویل کرنے والا) ہوتا ہے، اسی مناسبت سے ہر امام “صاحبِ تاویل” کا مرتبہ رکھتا ہے، یہ بات حدیثِ خاصف النعل کی روشنی میں ایک حقیقت ہے کہ آنحضرتؐ نے جب قرآن کی تنزیل پر جہاد کیا، تو اس میں آپؐ نے اپنے عسکر سے کام لیا، اسی طرح ہر زمانے کا امام قرآن کی تاویل پر جہاد کرنے کے لئے اپنے علمی لشکر کو استعمال کرتا ہے۔

 

۲۰۔ ناطق: یہ لفظ ن۔ ط ۔ ق کے مادّہ سے ہے، ناطق کا لفظی ترجمہ ہے: بولنے والا، اور اصطلاح میں ناطق ہر ایسے پیغمبر کو کہتے ہیں، جو صاحبِ کتاب وشریعت ہونے کی وجہ سے بولتا ہو، اور جس کی ہر بات آسمانی وحی کے زیرِ اثر ہو، جیسا کہ آنحضرتؐ کے بارے میں خداوندِ عالم کا ارشاد ہے: وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى  اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى (۵۳: ۰۳ تا ۰۴) وہ اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتا، یہ تو ایک وحی ہے

 

۹۲

 

جو اس پر نازل کی جاتی ہے۔ ناطق کی زندگی میں اساس بحیثیتِ مجموعی خاموش رہتا ہے، اس لئے اسے صامت کہا جاتا ہے، وہ اس معنیٰ میں بھی ظاہراً صامت (خاموش) نظر آتا ہے کہ وہ اپنی دعوت کا اکثر کام باطن اور روحانیّت میں کرتا ہے۔

 

۲۱۔ امامِ مقیم یا مربّی: ہر ناطق کی روحانی پرورش ایک امامِ مقیم نے کی ہے، اس لئے ہم امامِ مقیم کو مربّی کہیں گے، چنانچہ مولانا ھنیدؑ حضرتِ آدمؑ کا مربّی تھا، مولانا ھودؑ حضرتِ نوحؑ کا، مولانا صالحؑ حضرتِ ابراہیمؑ کا، مولانا ادؑ حضرتِ موسیٰؑ کا، مولانا خزیمہؑ حضرتِ عیسیٰؑ کا، اور مولانا عمرانؑ (ابوطالبؑ) آنحضرتؐ کا مربّی تھا۔

 

۲۲۔ حدودِ دین اور انفرادی قیامت: ہماری تحریروں میں انفرادی اور ذاتی قیامت سے متعلق کافی معلومات موجود ہیں، اس لئے یہاں بطورِ تبرک صرف ایک ہی شعر پر اکتفاء کیا جاتا ہے، جو حکیم پیر ناصرخسرو ق۔ س کے دیوان سے ہے، جس میں ایک قرآنی آیت کے الفاظ کے ساتھ خداوندِ عالم کی تعریف اس معنیٰ میں کی گئی ہے کہ اس کی خدائی اور بادشاہی میں کوئی ایک قیامت نہیں، بلکہ لاتعداد اور بے پایان قیامتیں ہیں، وہ شعر درج ذیل ہے:۔

ھو الاوّل ھوالآخر، ھو الظّاہر ھو الباطن

منزّہ مالک الملکی کہ بی پایان حشر دارد

ترجمہ: وہی (خدا) سب سے اوّل ہے وہی سب سے آخر، وہی سب سے آشکار اور وہی سب سے پوشیدہ ہے، وہ ایسا پاک و پاکیزہ (اور بے نیاز و غنی) بادشاہ ہے کہ اس کی لاتعداد و بے پایان قیامات

 

۹۳

 

ہیں، یعنی حدودِ جسمانی کے مراتبِ عالیہ میں ہمیشہ قیامتوں کا سلسلہ جاری ہے، یہ کبھی ختم ہونے والا نہیں، اور ختم کیوں کر ہو سکتا ہے، جبکہ وہ روح و روحانیّت، آخرت اور عالمِ لطیف ہے۔

 

۲۳۔ حجتِ قائمؑ: اگرچہ قبلاً حجت کا ذکر ہو چکا ہے، لیکن حجتِ قائمؑ خاص ہیں، کیونکہ وہ لیلۃ القدر کا ممثول ہے، یعنی اس کی ذات شبِ قدر کی تاویل ہے، اور ظاہراً قرآن و حدیث میں جس طرح شبِ قدر کی تعریف کی گئی ہے، وہ سب کی سب اسی عظیم المرتبت ہستی کی شان میں ہے، اسلئے کہ وہ حضرتِ قائم القیامت علیہ افضل التحیۃ والسّلام کا لاحق (حجت) ہے، اسی کے عالمِ شخصی میں نورِ قائمؑ کا نزول ہوا (۹۷: ۰۱) آپ کتابِ وجہ دین، کلام ۳۳ خصوصاً آخری حصّہ کو دیکھیں۔

 

۲۴۔ اسمِ اعظم شخصی اور اسمِ اعظم لفظی: خداوندِ عالمین کا سب سے بزرگ نام اسمِ اعظم کہلاتا ہے، جو دراصل شخصی (یعنی انسانی شکل میں) ہے، لفظی نہیں، اور ہاں اسمِ اعظم لفظی بھی ہے اس وقت، جبکہ خدا کا زندہ نام (امامِ زمانؑ) اس کو اپنا نمائندہ بناتا ہے، یعنی امامِ برحق صلوات اللہ علیہ (جو اسمِ اعظمِ شخصی ہے) جب کسی نیک بخت مومن کو خدا کا کوئی ظاہری نام عطا کرتا ہے، تو یہ اللہ کے اس اذن سے جو ولیٔ امر میں ہے اسمِ اعظمِ لفظی قرار پاتا ہے، اور اپنا معجزانہ کام کرنے لگتا ہے، چنانچہ مومنِ سالک روحانی سفر کے سلسلے میں جب دو دریاؤں کے سنگم (۱۸: ۶۱) پر پہنچ جاتا ہے، تو وہاں ذکر کی مچھلی زندہ ہو کر بحرِ روحانیّت میں داخل ہو جاتی ہے، اور اسی مقام پر خضرؑ بھی ہے،

 

۹۴

 

لفظ “خضر” خضر (سبز ہونا) سے ہے، جس سے روح الحیات (حقیقی زندگی والی روح) یعنی امامِ زمانؑ مراد ہے، جو معلّمِ روحانی ہے۔

۲۵۔ قبر اور منکر و نکیر: حدیثِ شریف میں ہے: اذا وضع المیت فی القبر اتاہ ملکان منکرٌ ونکیر۔ جب میّت قبر میں اتاردی جاتی ہے، تو اس کے پاس منکر و نکیر دو فرشتے آتے ہیں۔ آپ نے بہت پہلے ہی اس حقیقت کو قبول کر لیا ہے کہ عالمِ شخصی میں سب کچھ ہے، پھر یقیناً اس میں اپنی نوعیّت کی قبرستان بھی ہے، چنانچہ اہلِ معرفت کو منزلِ عزرائیلی میں یہ مشاہدہ ہوا ہے، کہ روح بار بارقبض کی جاتی ہے، اور بار بار واپس بدن میں ڈالی جاتی ہے، اس کا اشارہ یہ ہے کہ سالک مرگیا یا شہید ہو گیا، اور اس کو اپنی ہستی کی قبر میں اتارا گیا، اس وقت آواز کی کیفیت میں منکر اور نکیر آتے ہیں، جن کے کئی نام ہیں۔

 

منکر نکیر خداوندِ تعالیٰ کی وہ زندہ میزانِ عدل ہیں، جس میں لوگوں کے اعمال تولے جاتے ہیں، چنانچہ منکر بدی کا پلہ ہے اور نکیر نیکی کا پلہ، یہ دونوں فرشتے یا زندہ اور بولنے والے پلے ہر وقت آدمی کے تازہ عمل پر بحث کرتے رہتے ہیں، یعنی شر اور خیر کی ٹھیک ٹھیک نمائندگی کرتے ہیں، جیسا کہ اللہ کا قانون ہے، پس اگر بدی کا وزن زیادہ ہے تو منکر کو مایوس کُنۡ باتیں کرنے کا موقع مل جاتا ہے، اور وہ سخت اعتراض کرنے لگتا ہے، جس سے انسان کے دل و دماغ میں غم چھا جاتا ہے، اس کے برعکس اگر نیکی کا پلہ بھاری ہوا، تو نکیر امید افزا باتوں کے ساتھ خوشخبری دیتا ہے، جس سے ذہن و خاطر میں خوشی کی لہر دوڑتی ہے۔

 

۹۵

 

۲۶۔ نفسِ واحدہ: قانونِ فطرت یہ ہے کہ ہر شخص میں بحدِّ قوّت عالمِ ذرّ موجود ہے، اور عالمِ ذرّ میں سب لوگوں کے ذرّات پائے جاتے ہیں، پس انسانِ کامل کی روحانی تخلیق اور ذاتی قیامت میں سب کی روحانی تخلیق اور اجتماعی قیامت پوشیدہ ہے، جیسا کہ سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) میں ہے: مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍؕ۔ تم سب کا پیدا کرنا اور پھر (مرنے کے بعد) جِلا اٹھانا ایک شخص کی طرح ہے (۳۱: ۲۸) لیکن علم و معرفت کے سوا کوئی آدمی انسانِ کامل کی ذاتِ عالی صفات سے پورا پورا فائدہ حاصل نہیں کر سکتا۔

 

۲۷۔ سنتِ الٰہی کے اسرار: قرآنِ حکیم میں جتنی آیاتِ کریمہ سنۃ اللہ (خدا کی عادت) کے بارے میں آئی ہیں، ان کی گہرائی میں حکمت کے عظیم اسرار پنہان ہیں، اس لئے یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ ہم سب ان آیتوں میں بار بار خوب غور و فکر سے دیکھا کریں، اللہ کی سنّت سے قانونِ دین مراد ہے، جو قانونِ فطرت ہے، جس میں اصولی اور بنیادی طور پر کوئی تبدیلی ممکن نہیں، مگر فروعی اور اوپری چیزوں میں گونا گونی ضروری ہے، جیسے آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، دن، رات اور موسم جیسی مستقل چیزیں ہمیشہ ایک طرح سے ہیں، اور ان کے بعد دنیا میں جتنی اشیاء عارضی ہیں، ان میں تبدیلی اور اختلاف کا ہونا لازمی ہے، پس کائنات وموجودات کی اسی مجموعی صورتِ حال سے سنتِ الٰہی کی تفسیر و تعبیر ہو سکتی ہے۔

 

۲۸۔ روحانیّت و عقلانیّت کا تجدّد: اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور کتابِ مبین کا نزول آنحضرتؐ

 

۹۶

 

کے مبارک باطن میں ہوا (۰۵: ۱۵) دراصل نور اور کتاب ایک ہی چیز ہے (۴۲: ۵۲) جس کی ظاہری اور تحریری صورت کتاب (قرآن) کے نام سے مشہور ہوگئی، لیکن جس طرح نور پیغمبرِ اکرمؐ سے امامِ عالی مقامؑ میں منتقل ہوا، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا اس میں کتاب بصورتِ اصل موجود تھی؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ ہاں، تو اس کی کیا دلیل ہے؟ جواب: کیونکہ نور سے قرآنِ حکیم کی ایک ظاہری کتابت تو ہو سکتی تھی، جو ہوگئی، لیکن یہ بات غیر ممکن ہے کہ نور سے قرآن کی روح و روحانیّت اور نورانیّت الگ کی جائے، پس یہ کہنا حقیقت ہے کہ نور اب جس طرح معلّمِ قرآن کی ذات میں ہے، اس میں کاملاً قرآن کی نورانی صورت بھی ہے، الغرض یہاں یہ پُرحکمت نکتہ ہمیشہ یاد رہے کہ عالمِ شخصی میں سب کچھ ہے، کیونکہ اس میں قرآن اور امامؑ کی روحانیّت و عقلانیّت کا تجدّدِ امثال ہوتا ہے، جس میں امامِ عالی مقامؑ بادشاہ ہے، اور حدودِ دین ارکانِ مملکت کی حیثیت سے کام کرتے ہیں، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

ن۔ ن۔ ہونزائی، کراچی

۳ شوال۱۴۱۲ھ

۷اپریل ۱۹۹۲ء

 

۹۷

 

صراطِ مستقیم

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ارشادِ باری تعالیٰ کا ترجمہ ہے: تم فرماؤ اگر آدمی اور جنّ سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن  کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لا سکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو (۱۷: ۸۸) یہ روشن ترین دلیل ہے کہ قرآنِ حکیم عقل و دانش اور علم و حکمت کا دائمی معجزہ ہے، اور معجزہ کی مختصر تعریف یہ ہے کہ دوسرے سب ایسا کر ہی نہیں سکتے، وہ عاجز و قاصر ہو جاتے ہیں۔

 

ام الکتاب۔ کلید ہائے معجزات: آیت کے معنوں میں سے ایک معنی ہیں معجزہ، چنانچہ قرآنِ کریم کی ہر آیۂ شریفہ اہلِ بصیرت کی نظر میں علم و حکمت کے عجائب و غرائب سے بھر پور ایک آسمانی معجزہ ہے، اور ام الکتاب یعنی سورۂ فاتحہ اور نورِ منزل کلید ہائے معجزات کا خزانہ ہے، اس میں “صراطِ مستقیم” ایک اصولی، اساسی، اور نورانی کلید ہے، کیونکہ ظاہری و باطنی ہر گونہ ہدایت کا انحصار اسی پر ہے۔

عقلِ جزوی کو حیرت: عقلِ جزوی کے لئے یہ ربّانی تعلیم بڑی حیرت انگیز ہے، جس میں ارشاد

 

۹۸

 

ہوا کہ: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (۰۱: ۰۵) کیونکہ جب ایک مومن کو یہ توفیق عنایت ہوئی کہ جس سے وہ اللہ ربّ العالمین کی حمد و ثنا کرتا ہے، اس کو رحمان و رحیم اور روزِ جزا کا مالک و حقیقی بادشاہ مانتا ہے، اور صرف اسی خدائے واحد کی عبادت کرتا ہے، اور اسی سے مدد چاہتا ہے، تو کیا یہ راہِ راست یعنی دینِ خدا کی ہدایت نہیں ہے؟ اور مزید برآن کیا چاہئے؟

 

جواب: سورۂ فاتحہ کی بہت سی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہےکہ اس کے تمام الفاظ خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے بندوں کو تعلیم دینے، سکھانے، اور پھر علم و عمل سے بہرہ ور کر دینے کی غرض سے ہیں، اور یہیں سے قرآنی تعلیم کی بنیاد شروع ہو جاتی ہے، اور سب جانتے ہیں کہ کسی چیز کی صرف بنیاد کافی نہیں ہوا کرتی، بلکہ اس کے بعد بہت کچھ کیا جاتا ہے۔

 

“اھدنا” کا اصل مطلب: یہ دعا ایسے لوگوں کے لئے نہیں جو دینِ اسلام سے باہر رہتے ہیں، بلکہ ان خوش نصیب انسانوں کے لئے ہے، جو اسلام میں داخل ہو چکے ہیں، لہٰذا اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کا اصل مطلب ہے: (یا ربّ) ہمیں سیدھی راہ پر چلا، کیونکہ اس میں دینِ حق کی تشبیہہ و تمثیل ایک ہموار اور سیدھی راہ سے دی گئی ہے، جس پر ہر فردِ مسلّم کو سفر کرنا ہے، اور ہر ایسے مسافر کا توشہ (زادِ راہ) صرف تقویٰ ہی ہو سکتا ہے (۰۲: ۱۹۷) انبیاء و اولیاء علیھم السّلام نے زندگی ہی میں اس راستے کی منزلوں کو طے کر کے اللہ تعالیٰ کے قربِ خاص کو حاصل کر لیا ہے (۰۴: ۶۹) اور مذکورہ دعا کا مقصد ظاہر ہے کہ اہلِ ایمان کو انہیں حضرات کی راہ پر چل کر کامیاب ہو جانا ہے۔

 

۹۹

 

نورِ ہدایت کا مقصد: سورۂ حدید (۵۷) کی آیتِ مقدسہ ۲۸  (۵۷: ۲۸) میں خوب غور سے دیکھ لیجئے، آیا یہی وہ نورِ ہدایت نہیں ہے، جو مستقل اور دائمی ہے؟ جس کی روشنی میں صراطِ مستقیم پر اجتماع کو بھی اور افراد کو بھی چلنا اور آگے بڑھ جانا مقصود تھا؟ یقیناً اسلام وہ راہِ راست ہے، جس کی شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کی منزلوں میں ہر مومنِ سالک بدرجۂ انتہا ترقی کر سکتا ہے۔

 

سبقت کا حکم: خداوندِ عالم کا ارشاد ہے: اور ہر کسی کے واسطے ایک جانب ہے یعنی قبلہ کہ وہ منہ کرتا ہے اس طرف سو تم سبقت کرو نیکیوں میں (۰۲: ۱۴۸) یعنی تم اہلِ کتاب سے قبلہ کی بحث کو چھوڑ کر نیک کاموں میں ان سے آگے بڑھ جاؤ) ظاہر ہے کہ علم و عمل کی یہ دوڑ اور سبقت صراطِ مستقیم ہی پر ممکن ہے، اس کے علاوہ سارعوا (۰۳: ۱۳۳) اور سابقوا (۵۷: ۲۱) میں بھی دیکھ لیں کہ کس طرح مسلمانوں کو راہِ مستقیم پر دوڑنے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا حکم ہوا ہے۔

 

سابقون۔ سبقت کرنے والے: قرآنِ عظیم کی متعدد آیاتِ کریمہ میں ان خوش نصیب مومنین کی عالیشان تعریف فرمائی گئی ہے، جو نیکیوں میں سبقت کرتے ہیں، یعنی صراطِ مستقیم پر دوسروں سے آگے نکل جاتے ہیں، کیونکہ یہ راہ ایسی ہے کہ اس کی منزلیں صرف علم و عمل ہی سے طے ہو سکتی ہیں، پس آج دنیا میں جو لوگ راہِ راست پر سابقون ہیں، وہی کل قیامت میں بھی سب سے آگے اور خدا کے مقرّب ہوں گے (۵۶: ۱۰ تا ۱۱) ۔

 

۱۰۰

 

سبقت کا سب سے عظیم ذریعہ: جیسا کہ کتابچۂ لبِّ لباب میں اس حقیقت کا ذکر ہوا ہے کہ عقل ہی نیکیوں کا سرچشمہ ہے، اور جس کی عقل و دانش نہیں، اس کی کوئی بھلائی نہیں، کیونکہ خیرِ کثیر (بہت سی نیکیاں) حکمت سے وابستہ ہیں (۰۲: ۲۶۹) جبکہ حکمت عقل ہی کے ناموں میں سے ہے، پس دوسروں سے آگے بڑھ جانے کا سب سے عظیم ذریعہ حکمت ہے، جس میں بے شمار خوبیوں کا خزانہ پوشیدہ ہے۔

 

انبیاءؑ کی پیروی: اس عنوان میں بھی بہت بڑی حکمت ہے، کیونکہ انبیاء وأئمّہؑ کا اتباع یعنی ان مقدّس ہستیوں کے پیچھے پیچھے چلنا کوئی عام بات ہرگز نہیں، جبکہ ان حضرات کی راہ (صراطِ مستقیم) اور اس کی منزلیں روحانیّت و نورانیّت اور علم و معرفت کے موتیوں اور ہیروں سے بھری ہوئی ہیں، اور ہادیٔ برحق کا فریضۂ منصبی ادا نہیں ہو سکتا جب تک اپنے پیروؤں کو منزلِ مقصود یعنی خدا سے واصل نہ کر دے، اور اگر اس کے پیچھے چلنے والے کہیں ہمت ہار بیٹھتے ہیں، تو پھر اسکی حجّت خود ان پر ہوگی۔

 

صراطِ مستقیم اورحدیثِ تقرب: روحانیّت کی جو بھی ترقی ممکن ہے، وہ صرف اور صرف صراطِ مستقیم ہی پر ہوسکتی ہے، اور اس سے باہر سراسر گمراہی ہے، چنانچہ مومنِ سالک بحکمِ حدیثِ قدسی (جو تقرّب کے بارے میں ہے) راہِ راست پر بذریعۂ نوافل آگے بڑھتے اور ترقی کرتے ہوئے قربِ خداوندی کو اس حد تک حاصل کرتا ہے کہ خدا اس سے محبت کرنے لگتا ہے، یہاں تک کہ خدا اس

 

۱۰۱

 

کے کان، آنکھ، ہاتھ اور پاؤں ہو جاتا ہے، اب وہ بندہ خدائی نور سے سنتا، دیکھتا، پکڑتا، اور چلتا ہے۔ اور یہ درجۂ فنا فی اللہ کی ایک گونہ تشریح ہے۔

 

سلامتی کی راہیں: سورۂ مائدہ (۵) کی آیۂ شریفہ۱۵ (۰۵: ۱۵) میں نور اور کتاب (قرآن) کا جس شان سے ذکر فرمایا گیا ہے، وہ ہزاروں سوالات کے لئے واحد جواب کافی و شافی ہے، اور اس کے بعد آیت ۱۶ (۰۵: ۱۶) کی حکمتیں بھی بڑی عجیب و غریب شان رکھتی ہیں، جس میں پہلے تو سلامتی کی راہوں کی ہدایت کا تذکرہ ہوا ہے، اور آخر میں صراطِ مستقیم کی ہدایت کا بیان، پس یہاں سوال اٹھتا ہےکہ آیا اللہ کے راستے ایک سے زیادہ ہو سکتے ہیں؟ نہیں تو سبل السّلام (سلامتی کی راہیں) کیونکر ہوئیں؟

پہلا جواب: سلامتی کی راہوں سے شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت مراد ہیں، جو صراطِ مستقیم کی چار منزلیں اور چار ارکان ہیں، اس سے ظاہر ہوا کہ خدا کا راستہ ایک ہی ہے۔ دوسرا جواب: سلامتی کی راہیں تاویلی حکمت کے اعتبار سے چار مقرّب حجت ہیں، اور صراطِ مستقیم امامِ زمان علیہ السّلام ہے۔

 

ربّ سیدھی راہ پر:

سورۂ ہود میں یہ ارشاد بھی ہے: اِنَّ رَبِّیْ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (۱۱: ۵۶) اس میں کوئی شک نہیں کہ میرا پروردگار سیدھی راہ پر ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ راہِ راست کی ہدایت کا کام ہمیشہ جاری ہے، جس میں رسولؐ نمائندۂ خدا، اور امامِ زمانؑ  نمائندۂ پیغمبرؐ ہیں۔

 

منذر اور ھادی:

سورۂ رعد (۱۳: ۰۷) میں ارشاد ہے: اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۔

 

۱۰۲

 

(اے رسولؐ) تم تو صرف (خوفِ خدا سے) ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لئے ایک ہدایت کرنے والا ہے۔ یعنی ہر زمانے میں ایک امام ہوتا ہے، اور یہ امام علیہ السّلام جس طرح خدا کی کتابِ ناطق ہے، اسی طرح سے اس کی صراطِ ناطق بھی ہے، یعنی اللہ کی وہ سیدھی راہ جو زندہ ہے اور بولتی ہے، جیسا کہ ارشادِ ربّانی ہے: وَ  مَنْ  یَّعْتَصِمْ  بِاللّٰهِ  فَقَدْ  هُدِیَ  اِلٰى  صِرَاطٍ  مُّسْتَقِیْمٍ (۰۳: ۱۰۱) اور جو کوئی اللہ کو مضبوط پکڑے تو اس کی ہدایت ہوگئی۔ یہ آیۂ کریمہ متشابہات میں سے ہے، کیونکہ خدا کو پکڑنے کے ظاہری معنی نہیں ہو سکتے، لہٰذا اس کی تاویل ہے، وہ یہ کہ ہادیٔ برحق یعنی امامِ زمانؑ کے امر و فرمان پر بڑی مضبوطی اور سختی سے عمل کرنا گویا اللہ کو مضبوط پکڑنا ہے، کیونکہ یہی خدا کی رسی ہے۔

 

امامؑ صراطِ گوئندہ: حضرتِ امام جعفر الصادقؑ سے روایت ہے، آپؑ نے فرمایا: الصراط المستقیم امیر المومنین علی علیہ السّلام ہے، اور حضرتِ امام زین العابدینؑ سے روایت کی گئی ہے، آپؑ نے فرمایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نحن ابواب اللہ و نحن الصراط المستقیم، ہم أئمّہ خدا کے دروازے ہیں اور ہم ہی راہِ مستقیم ہیں (تاکہ اہلِ ایمان کو خدا تک پہنچائیں) ۔

 

نورِ ہدایت کی مثالیں:

نورِ منزل جو نورِ ہدایت ہے، اگرچہ اس کی بے شمار مثالیں ہیں، لیکن بنیادی مثالیں تین ہیں: راہِ راست، خدا کی رسی، اور سیٹرھی، اس میں صاحبانِ عقل کے لئے بہت بڑی حکمت ہے، کہ حبل اللہ کی جو تاویل ہے، وہی

 

۱۰۳

 

تاویل سیدھی راہ اور سیٹرھی کے لئے بھی ہے، کیونکہ خدائے واحد کی طرف جانے کا وسیلہ حقیقت میں ایک ہی ہے، ہر چند کہ مثالیں الگ الگ ہیں، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم زمانۂ نبوّت میں سیدھی راہ، خدا کی رسی، اورآسمانی سیڑھی تھے۔

 

انسانِ کامل۔ عالمِ شخصی: سورۂ احزاب کے اس بابرکت اور پُرحکمت ارشاد میں، جس میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا ذکر فرمایا گیا ہے، جہاں نیک بندوں کو زندگی ہی میں دیدارِ الٰہی اور  فنا فی اللہ کی قوّی امید اس شرط پر دلائی گئی ہے کہ وہ علم و عمل اور یادِ خدا کی کثرت سے رسول اللہؐ کی کامل پیروی کریں (۳۳: ۲۱) اسی آیۂ کریمہ میں اہلِ دانش کیلئے یہ دعوتِ فکر بھی ہے کہ نزولِ قرآن اور ظہورِ اسلام سے پیشتر ہی آنحضرتؐ کا قلبِ مبارک بحکمِ خدا ہدایت کی روشنی سے منور ہوگیا، آپ کی ذاتِ منبع البرکات میں یہی روشنی صراطِ مستقیم اور آسمانی رسی تھی، اورکچھ آگے چل کر اسی سے عرشِ معلیٰ کی سیڑھی (معراج) قائم ہونے والی تھی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہادیٔ برحق کے نورِ پاک میں بصورتِ نورانی ہر چیز موجود ہے، پس صراطِ مستقیم کے شروع سے لیکر آخر (منزلِ مقصود) تک حضورِ اقدسؐ کے اسوۂ حسنہ کی منزلیں ہیں، لہٰذا دعا ہے کہ ہر مومن کو ظاہراً و باطناً نور کی کلّی پیروی نصیب ہو!

 

صراطِ مستقیم اور قیامت: روحانیّت اور انفرادی قیامت کی منزلیں اس صراطِ مستقیم پر واقع ہیں، جو عالمِ شخصی میں پائی جاتی ہے، اور یہ راستہ پروردگار تک جاتا ہے (۵۳: ۴۲) کیونکہ سب کو اسی کے حضور حاضر ہوجانا ہے۔

 

۱۰۴

 

دینِ حق ہی صراطِ مستقیم ہے:

ارشاد ہے: اور یہ کہ دین میرا راستہ ہے، جو کہ مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ (راہیں) تم کو اس کی (یعنی اللہ کی) راہ سے جدا کر دیں گی (۰۶: ۱۵۳) اس حکمِ عالی سے ظاہر ہوا کہ اسلام فطری اور حرکی

دین ہے، اس میں ظاہری اور باطنی ترقی اور کامیابی کی صلاحیت موجود ہے، کیونکہ یہ آفاقی دین ہے۔

 

دعوتِ بابصیرت: سورۂ یوسف (۱۲) کی آیۂ کریمہ ۱۰۸ (۱۲: ۱۰۸) ہمارے اس موضوع پر بھر پور روشنی ڈال سکتی ہے کہ دینِ اسلام آنحضرتؐ کا وہ راستہ ہے، جس کی روحانی منزلوں کو آپؐ نے طے کر لیا، تب قالبِ اسلام وجود میں آیا، پھر ان بے شمار باطنی رحمتوں اور برکتوں کے پیشِ نظر رسولِ خداؐ اور آپؐ کے پیرو (یعنی امام علیؑ) نے دیدۂ دل کے مشاہدات کے مطابق راہِ اسلام کی دعوت کی، یعنی لوگوں کو دین کے ظاہر و باطن کی طرف بلایا، کیونکہ دعوتِ حق کا اصل مرکز باطن و روحانیّت ہی میں ہے۔

 

شریعت اور طریقت: قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًاؕ (۰۵: ۴۸) ہم نے تم میں سے ہر ایک کے واسطے ایک شریعت اور ایک طریقت مقرر کی ہے۔ ادیانِ عالم میں سے ہر الہامی دین کی ایک شریعت اور ایک طریقت رہی ہے، تاکہ لوگ شریعت کے ظاہر کے ساتھ ساتھ اس کے باطن یعنی طریقت پر بھی عمل کریں، شرعہ یا شریعت کے معنی ہیں شروعات، جیسے کہتے ہیں: شرع الامر (اس نے کام شروع کیا) طریقت راستہ ہے،

 

۱۰۵

 

حقیقت نورِ ہدایت، اور معرفت عارف کی منزلِ مقصود ہے۔

 

ایک سوال اور اس کا جواب: اگر کوئی یہ پوچھے کہ: حقیقت اور معرفت کا ذکر قرآنِ مجید میں کہاں ہے؟ اور کس طرح ہے؟ اس کا جواب یہ ہے: جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ طریقت راستہ ہے، اور اس پر چلنے کیلئے جس قسم کی روشنی ضروری ہے، وہ نورِ ہدایت ہے، جس کا دوسرا نام حقیقت ہے، اور یہ بات نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ (ایک نور جسکی روشنی میں تم چلو گے، (۵۷: ۲۸) کے حوالے سے ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ اس تذکرہ میں ایک تو راستہ ہے، جو چلنے کے لئے ہے، اور دوسرا نور، جس کا کام ہے روشنی ڈالنا، یعنی طریقت نورِ حقیقت کے بغیر آگے نہیں جاتی ہے، یہ تو معنوی لحاظ سے حقیقت کا ذکر ہوا، اور اب لفظی اعتبار سے سن لیں، کہ قرآنِ کریم میں لفظِ “حق” کثرت سے وارد ہوا ہے، جس کے معنی اکثر مقامات پر حقیقت کے ہیں، اور قرآنِ حکیم میں معرفت کا تذکرہ نمایان ہے، لہٰذا اس کے بارے میں چند حوالہ جات ہی کافی ہیں:۔ ۲۷: ۹۳،  ۰۲: ۲۴۶، ۰۶: ۲۰،   ۰۷: ۴۶، ۴۷: ۰۶۔

حدیثِ شریف اور معرفت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: اعرفکم بنفسہ اعرفکم بربہ (تم میں جو اپنے آپ کو سب سے زیاددہ پہچانتا ہے، وہی شخص تم میں اپنے پروردگار کو سب سے زیادہ پہچانتا ہے) نیز مولا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ۔ (جس نے اپنے آپ یعنی اپنی روح کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا) پیغمبرِ اکرمؐ اور امامِ برحقؑ کی اس تعلیم سے یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ

 

۱۰۶

 

شریعت جڑ ہے، طریقت درخت، حقیقت سورج کہ موسمِ بہار و تابستان اسی کی برکت سے ہے، اور معرفت پھول اور پھل ہے۔

 

طریقِ معرفت: حضرتِ امام جعفر الصادق  علیہ السّلام کا ارشاد ہے: ھی الطریق الی معرفتہ اللہ، وھما صراطان صراط فی الدنیا  وصراط فی الآخرۃ، فاما الصراط فی الدنیا فھو الامامہ المفترض الطاعۃ، من عرفہ فی الدنیا واقتدٰی بھدٰہ مرعلی الصراط الذی ھو جسرجھنم فی الاخرہ۔ ۔ ۔ ۔ (المیزان فی تفسیر القراٰن، المجلداوّل۴۱) وہ یعنی صراطِ مستقیم خدا کی معرفت کی طرف راستہ ہے، اور وہ دو راستے ہیں ایک راستہ دنیا میں اور دوسرا آخرت میں، جو راستہ دنیا میں ہے وہ امام ہی ہے جس کی اطاعت فرض کی گئی ہے، جس نے اس کو دنیا میں پہچان لیا اور اس کی ہدایت کی پیروی کی تو وہ اس صراط سے گزر گیا جو آخرت میں دوزخ پر پُل ہے۔ ۔ ۔ ۔

 

عبادت کے ذکر میں معرفت کا اشارہ:

قرآنِ کریم میں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے، وہاں معرفت کا اشارہ بھی ہے، کیونکہ معرفت ہی صراطِ مستقیم کی غرض و غایت ہے، جیسا کہ سورۂ یاسین (۳۶: ۶۰ تا ۶۱) کا مفہوم ہے: خداوندِ عالم کی عبادت معرفت کی روشنی میں ہو تو یہی صراطِ مستقیم ہے، اس کے برعکس جہالت ونادانی سے شیطان کی عبادت ہو سکتی ہے۔

 

ن۔ ن۔ ہونزائی کراچی،

ہفتہ، ۲۷، رمضان المبارک ۱۴۱۱ھ،  ۱۳  اپریل ۱۹۹۱ء

 

۱۰۷

 

بعض کلیدی الفاظ و اصطلاحات

 

۱۔ کلمۂ باری: اس سے اللہ تعالیٰ کا وہ امر مراد ہے، جو کلمۂ کُنۡ (ہو جا) سے عبارت ہے، امرِ باری کی تین صورتیں ہیں: ارادہ، قول (کلمہ) اور فعل (مظہر) دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہیں گے: امرِ ارادی، امرِقولی، اور امرِ فعلی، پس امرِ ارادی عالمِ ابداع میں ہے، امر قولی قرآن میں ہے، اور امرِ فعلی امامِ زمان علیہ السّلام میں ہے، اسی معنیٰ میں امامِ اقدس و اطہرؑ کو ولیٔ امر یا صاحبِ امر کہا جاتا ہے (۰۴: ۵۹) جیسا کہ ارشاد ہے: وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا (۳۳: ۳۷) اور خدا کا امر (پہلے ہی) عمل میں لایا گیا ہے، یعنی امامِ مبین کے عالمِ شخصی میں امرِ کلّ  کا مظاہرۂ تجدّد اپنے تمام تر نتائج کے ساتھ موجود ہے، اسی لئے وہ مظہرِ امرکلّ کا مظاہرۂ تجدّد اپنے تمام تر نتائج کے ساتھ موجود ہے، اسی لئے وہ مظہرِ امر، یا امرِ فعلی، یا ولیٔ امر کہلاتا ہے، آپ اس کو امرِ مجسّم بھی کہہ سکتے ہیں، یاد رہے کہ جہاں امر ایک کلمہ ہے، وہاں وہ اس زبان میں ہوتا ہے، جو عالمِ شخصی میں بولی جاتی ہو، کیونکہ روحانیّت  اور نامۂ اعمال کی گفتگو ہر شخص کی اپنی زبان میں ہوتی ہے۔

 

۲۔ ابداع و انبعاث:

اگر آپ ابداع و انبعاث کے بارے میں عالمِ شخصی سے باہر سوچیں گے، تو غلط تصوّرات کا سلسلۂ لاانتہا  شروع ہو جائے گا، اس لئے آئیے ہم سب

 

۱۰۸

 

مل کر جذبۂ شکر گزاری سے گریہ کنان خدا کے حضور بار بار سجدہ کریں کہ اس نےاپنے نورِ ارضی (نورِ منزل۰۵: ۱۵) کے توسط سے ہم پر عالمِ شخصی کے اسرار منکشف کر دیئے، چنانچہ آپ باور کریں گے کہ ابداع و انبعاث ایک ہی مقام پر ایک ساتھ ہے، یعنی جب انائے عُلوی کا ظہور ہوتا ہے تو یہی ظہور ازل کے اعتبار سے ابداع ہے، اور ابد کے اعتبار سے انبعاث، اور یہ بات بھی خوب یاد رہے کہ ازل و ابد عالمِ شخصی میں ایک ہی مقام پر ہے، جس کے یہ دونام مقرر ہیں، جس کی تمثیل گھڑی سے دی جا سکتی ہے کہ اس پر جہاں بارہ بجتے ہیں، وہیں نقطۂ آغاز بھی ہے، اب سوال ہے کہ ایسے میں مبدِع اور مبدَع کا کیا تصوّر ہوگا؟ اس کا جواب دو طرح سے دیا جا سکتا ہے: (الف) ایک لحاظ سے یہ ظہورِ مبدَع ہے، بغیر اس کے کہ مبدِع دکھائی دے (ب) دوسرے لحاظ سے یہی مبدِع بھی ہے اور مبدَع بھی، کیونکہ یہ یک حقیقت اور عالمِ وحدت کا مقام ہے۔

۳۔ عقلِ کُلّ: عقلِ کُلّ  جو ایک عظیم فرشتہ ہے، اس کے چند نام یہ ہیں: اوّل، سابق، قلم، عرش، آدمِ معنیٰ، مبدَع، وغیرہ، آپ میری ایک چھوٹی سی کتاب “لبِ لباب” کو بھی دیکھیں، اس کے جیسے کثیر نام ہیں، ایسے زیادہ کام بھی ہیں۔

 

۴۔ نفسِ کُلّ: یہ دوسرا عظیم فرشتہ ہے، اس کے مشہور اسماء یہ ہیں: ثانی، تالی، لوح، کرسی، حوّائے معنیٰ وغیرہ۔

 

۵۔ پانچ حدودِ روحانی: عقلِ کُلّ، نفسِ کُلّ، جدّ، فتح، خیال، یہ پانچ حدودِ روحانی ہیں، جو شریعت کی زبان میں قلم، لوح، اسرافیل، میکائیل، اور جبرائیل کہلاتے ہیں، یہ وہ پانچ وسائط

 

۱۰۹

 

فرشتے ہیں، جن کے توسط سے آنحضرتؐ پر وحی نازل ہوتی تھی، جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے: حدثنی جبرائیل عن میکائیل عن اسرافیل عن اللوح عن القلم۔

 

۶۔ پانچ حدودِ جسمانی: ناطق، اساس، امام، حجت، اور داعی، یہ پانچ حدودِ جسمانی ہیں، جو پانچ حدودِ روحانی کے مقابل ہیں۔

 

۷۔ پانچ اولوالعزّم: حضرتِ نوح، حضرتِ ابراہیم، حضرتِ موسیٰ، حضرتِ عیسیٰ، اور حضرتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پانچ اولو العزم پیغمبر ہیں۔ مگر حضرتِ آدمؑ اولوالعزّم میں شامل نہیں، قرآنِ پاک (۴۶: ۳۵،  ۲۰: ۱۱۵) میں دیکھ لیں۔

 

۸۔ راہِ دین کی چار منزلیں: تصوّف کی بعض کتابوں میں یہ حدیث درج ہے: الشریعۃ اقوالی، والطریقۃ افعالی، والحقیقۃ احوالی، والمعرفۃ سری۔ شریعت میرے اقوال کا نام ہے، طریقت میرے اعمال کا، حقیقت میری باطنی کیفیت کا، اور معرفت میرا راز ہے۔

 

۹۔ یقین کے تین درجات: علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین، سب سے پہلے علم الیقین کا مرحلہ ہے، جس میں حقیقی اور یقینی علم کی سخت ضرورت ہے، اگر ایسا علم حاصل ہوا اور اس پر عمل بھی کیا گیا تو پھر عین الیقین کی منزل تک رسائی ہو سکتی ہے، جس میں چشمِ باطن کھل جاتی ہے، اور عالمِ شخصی ہی میں حقیقتوں کا مشاہدہ ہونے لگتا ہے، اگر ان منازل میں بھی کامیابی ہوتی تو بالآخر حق الیقین کا مقام آتا

 

۱۱۰

 

ہے، جہاں سب سے اعلیٰ درجے کے اسرار ہیں۔

 

۱۰۔ چالیس۴۰ سال کی حکمت: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو چالیس ۴۰ برس کی عمر میں نبوّت عطا ہوئی، اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ آپؐ سے پہلے عالمِ دین میں چالیس حدود نے کام کیا تھا، وہ پانچ ادوار میں سے ہر دور کا ناطق، اساس، اور چھ ائمّہ ہیں، اور اسی طرح (۸x۵=۴۰) کل چالیس۴۰ حدود کا زمانہ گزر گیا تھا، جیسے قرآنِ حکیم میں ہے: حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ بَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَةًۙ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (۴۶: ۱۵) ۔

 

۱۱۔ تاویلِ محضِ مجرد: وہ خالص اور آزاد تاویل یا وہ باطنی علم جو کسی کو عالمِ شخصی میں عطا ہو جاتا ہے، جس میں روحانیّت و عقلانیّت کے اصل ظہورات و معجزات کا تذکرہ جامۂ تمثیل اور حجابِ تشبیہہ کے بغیر ہوتا ہے، یہ علم سب سے پہلے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو دیا گیا تھا۔

 

۱۲۔ حارث بن مرّہ: جس شیطانِ جنّی نے حضرتِ آدمِ سراندیبی کےلئے سجدۂ اطاعت کرنے سے انکار کیا، اس کا نام حارث بن مُرّہ مشہور ہے، وہ حدودِ دین اور اہلِ باطن میں سے تھا، اس لئے جنّ کہلایا، اہلِ باطن کی باطنی مرتبت عام لوگوں سے پوشیدہ ہے، اس لئے قرآن نے ان کو جنّ کہا۔

 

۱۳۔ لفظِ شیطان اور ابلیس: شیطان کا لفظ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونے کے ہیں، کیونکہ شیطان خود بھی حقیقت سے دور ہو چکا ہے اور دوسروں کو بھی دور کر دیتا ہے، لہٰذا اس کا نام شیطان ہوا، بعض اہلِ لغت

 

۱۱۱

 

نے کہا کہ لفظِ شیطان میں نون زائدہ ہے، اور دراصل یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں: غصہ سے سختہ ہو جانا، لیکن یہاں یہ کہنا ہے کہ شیطان میں ایسے بہت سے برے معنی جمع ہیں، اس لئے دونوں معنی درست ہو سکتے ہیں، اب ہم لفظِ ابلیس کا تجزیہ کرتےہیں کہ یہ اَبلس من رحمۃ اللہ (خدا کی رحمت سے مایوس ہونا) کے معنی میں ہے۔

 

۱۴۔ لفظِ عزازیل: کلمۂ عِبری (عبرانی) ہے، جس کے معنی ہیں: خدا کا عزیز (معزز، گرامی) یہ ابلیس کے راندہ ہونے سے قبل کا لقب ہے، کہ وہ مقربین میں سے تھا، یہ نام فارسی ادبیات میں شیطان کے لئے باقی رہا ہے (فرہنگِ فارسی، عمید) ۔

 

۱۵۔ حظیرۃُ القدس: اس کے لفظی معنی ہیں: احاطۂ مقدّس، اور مرادی معنی ہیں: دائرۂ عقلِ اوّل، دارالابداع، مقامِ اسرارِ ازل وابد، گنجِ حقائق و معارف، سرچشمۂ نور الانوار، بہشتِ عالمِ شخصی، اور مرتبۂ حق الیقین۔

 

۱۶۔ مکان و لامکان کا باہمی تعلق: مکان عالمِ جسمانی کو کہتے ہیں، اور لامکان (جس میں مکانیّت کی تخصیص نہیں) عالمِ روحانی کا نام ہے، ان دونوں کی جائے تعلق یا سنگم بندۂ مومن کا دل و دماغ ہے، جس میں عالمِ لامکان کا تصوّر اور مشاہدہ ہو سکتا ہے، جب مولا علی علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا کہ: “آیا تیرا یہ گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر سمایا ہوا موجود ہے۔” تو پھر حصولِ علم کی غرض سے پوچھنا چاہئے کہ عالمِ شخصی کا کوہِ طور کونسا ہے، اورعرش کہاں ہے؟ تاکہ بتا دیا جائے کہ پیشانی میں ہے، جو نہ صرف

 

۱۱۲

 

کوہِ طور اور غارِ حرا ہی ہے، بلکہ وہ عرش بھی ہے، اگرچہ قلب کی بہت بڑی اہمیت ہے، تاہم کئی طرح سے قلب کے اعلیٰ معنی جبین (پیشانی) میں مرکوز ہو جاتے ہیں، مثال کے طور پر روحانی سفر کے دوران جب معجزۂ عزرائیلی کا مرحلہ آتا ہے، تو اس وقت قبضِ روح کے عمل سے وہ دل جو (بشکلِ صنوبری) گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، وہ بیچارہ بار بار بیجان اور مردہ ہو جاتا ہے، مگر پیشانی جو روحِ انسانی اور عقل کا مرکز ہے، وہ اس قیامتِ صغریٰ میں زندہ رہ کر تمام واقعات وحالات کا مشاہدہ کرتی رہتی ہے۔

 

۱۷۔ قلب کی تاویل: قلب کی اہمیت کی خاص وجہ اس کی تاویل  ہے کہ قلب سے امام علیہ السّلام مراد ہے، کیونکہ مومن کے جس پاک و پاکیزہ دل کو عرشِ رحمان ہونے کا انتہائی عظیم مرتبہ حاصل ہے، وہ امامِ زمانؑ کا نورِ اقدس ہی ہے، جو بحدِّ فعل نہیں تو بحدِّ قوّت مومن کی پیشانی میں ہے، جس کا ثبوت جیسا کہ اوپرذکر ہوا یہ ہے کہ تاویلی موت کے دوران عالمِ شخصی کی زمین (جس میں قلبِ صنوبری بھی ہے) کئی کئی مرتبہ فنا ہو جاتی ہے، مگر سر جو آسمان ہے، اور جبین جو مقامِ عرش ہے، جس پر وجہ اللہ یعنی امامِ زمانؑ جلوہ گر ہے، اس کو کچھ نہیں ہوتا، اور یہ بہت بڑا راز اسرارِ مخزون یعنی خزینۂ خاص کے بھیدوں میں سے ہے (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

ن۔ ن ہونزائی، کراچی

منگل ۱۰ شوال المکرم ۱۴۱۲ھ

۱۴ اپریل ۱۹۹۲ء

 

۱۱۳

 

 

اولجی سان ئیذم

 

۱۱۴

 

تجاہلِ عارفانہ: یعنی جان بوجھ کر انجان بننا، اس نظم میں ادبی، علمی، اور عرفانی جتنی خوبیاں مجتمع ہوئی ہیں، ان میں ایک تازہ ترین خوبی بار بار یہ بھی جھلک رہی ہے کہ اس کی ردیف (بما؟ بییم) میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا گیا ہے، جس کی بدولت نظم میں ایک نرالی ادبی جدّت پائی جاتی ہے، یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ بروشسکی میں “بم” (وہ (مرد) تھا) سے سوالیہ کیلئے: بما (کیا وہ (مرد) تھا؟ ) ہوتا ہے، اور “بییم” مخفف ہے “بہ ہییم” (میں کیاجانوں؟ ) کا، چنانچہ بما

سوال ہے، اور بییم جواب، مگر یہاں یہ جواب ہر بار تجاہل کو ظاہر کر رہا ہے۔

 

۱۔ میں نے خواب میں ایک عجیب آفتابِ عالمتاب کو دیکھا، کیا یہ نورِ خداوندی کا کوئی جلوہ تھا؟ میں اس بھید کو کیا جانوں، اس سورج کے ظاہر و باطن میں بے شمار آیاتِ قرآنی درج تھیں، تو کیا وہ ہمارے قرآنِ نورانیّت کا کوئی ظہور ہی تھا؟ میں اس راز کو کیا جانوں۔

۲۔ کل لشکرِ غیبِ سماوی کے ساتھ ایک بادشاہ کا درودِ مسعود ہوا تھا،

 

۱۱۶

 

اسکی شان و شوکت بڑی عجیب وغریب تھی، آیا یہ ممکن ہے کہ ایسی تشریف حضرتِ شاہِ مردان کی ہو؟ مجھے معلوم نہیں۔

 

۳۔ دنیائے عشق کے تمام باشندے بس اسی محبوبِ جان کی طرف قلب کو متوجہ کئے ہوئے تھے، آیا جہان بھر کے عاشقوں کا ایسا قبلہ دراصل ہمارا ہی جانان تھا؟ میں کہاں اور یہ سرِ عظیم کہاں۔

 

۴۔ اس کے دوستدار عشق و محبت کی سیڑھیوں سے چڑھتے ہوئے عالمِ علوی میں پہنچ رہے تھے، تو کیا اس ارتقاء کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ چراغِ ہدایت اپنے دوستوں کے دلوں میں جاگزین وضوفگن تھا؟ یہ معرفت میری رسائی سے بالا تر ہے۔

۵۔ نورانی محفل میں محبانِ مولا جتنے بھی تھے، وہ سب کے سب مست و مدہوش ہو گئے تھے، آیا اس کا سبب یہ تھا کہ وہاں (ان کی نگاہ میں) آبِ کوثر یعنی نورانیت کے پانی کا ساقی جو ماہِ خوبان ہے، وہ جلوہ گر تھا؟ میں ناچیز کیا جانتا ہوں۔

 

۶۔ میں اس کے جلوؤں کے عجائب و غرائب کو دیکھ کر دریائے حیرت و مدہوشی میں ڈوب رہا ہوں، یہ صاحبِ کمالات وکرامات کون تھا؟ اللہ تعالیٰ کے نورِ اقدس کا مظہر اور اس کے سرِ عظیم؟ یہ مجھے معلوم نہیں۔

 

۷۔ تم نے میرے محبوبِ جان، کانِ جواہر، اوربحرِ گوہر زا (موتیوں کو پیدا کرنے والا سمندر) کو دیکھ لیا نا؟ کیا سچ مچ ہمارا خزانۂ علم، سرچشمۂ نور، اور گنجِ مخفی یہاں آیا تھا؟ مجھ خاکسار کو علم نہیں۔

 

۸۔ طلوعِ فجر سے قبل میں نے دل کی روشنی اور بے پناہ شادمانی کے عالم میں ایک سرِ باطن کو دیکھا، کیا ایسے میں وہ تاجدارِ ملکِ ولایت میرے

 

۱۱۷

 

دل میں مہمان تھا؟ اس بندۂ حقیر سے کیا پوچھنا۔

 

۹۔ میں نے اپنے دل کی معموریت و آباد ی کا نظارہ کیا، یہاں کا ہر درخت اور ہر پھول بدرجۂ انتہا جاذبِ نظر اور دلکش ہوا کرتا ہے، کیا اس کا پس منظر یہ نہیں کہ باغاتِ روح کو آراستہ و پیراستہ کرنے والا باغبان ہی میرے دل کو معمور کرتا رہا ہے؟ اس خام و ناتمام سے کیا پوچھتے ہو۔

 

۱۰۔ اس کا دیدارِ شیرین میرے دردِ دل کے لئے دوائے کلّی ہے، اور اس کا ہجر علتِ قلب کا باعث، اگر ایسا ہے تو کیا وہ طبیب جو میرے لئے آسمان سے نازل ہوا بذاتِ خود ہر درد کے واسطے دوا تھا میں اس بات سے لاعلم ہوں۔

۱۱۔ روح میں ایک لطیف کائنات تھی، اوراس کا ایک علمی آسمان تھا، کیا یہ درست ہے کہ دین کا عظیم المرتبت بادشاہ بہ نفسِ نفیس وہ عقلی آسمان تھا؟ مجھے یہ راز کیسے معلوم ہو سکتا ہے۔

 

۱۲۔ علم کے پانی کی فراوانی اور ہمہ رسی کی بدولت احباب کی روحانی جاگیریں آباد ہو رہی ہیں، آیا  اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہمارا علیٔ زمانؑ خود ہی دریائے علم ہے؟ مجھ ناچیز قطرے کو دریائے علم کی کیا خبر۔

 

۱۳۔ آئینۂ روح میں قرآنِ مجید کا ایک مکمل عکس جلوہ افروز تھا، جو حیّ و گویا تھا، تو کیا ہمارے زمانے کا بادشاہ خود ہی وہ نورانی فرقان نہ تھا؟ یہ بندۂ کمترین کیا جانے۔

 

۱۴۔ ایک نورانی شہسوار نے غیب و نادیدہ راہوں سے آ کر تمام روئے زمین کا دورہ کر لیا ہے، کیا وہ بہادر اور کامل شخص حضرت علیؑ تھا، جو حیدرِ صفدر ہے؟ یہ راز میرے بس کی بات نہیں۔

 

۱۱۸

 

۱۵۔ اس کی تشریف آوری سے عاشقوں کا دین اور ایمان کامل اور منور ہو رہا ہے، خداوندا! یہ تیرا کتنا بڑا کریمانہ معجزہ ہے! اے دل کیا وہ (معشوقِ حقیقی) بذاتِ خود نورِ ایمان تھا؟ اس عقلِ جزوی سے کیا پوچھنا ہے۔

 

۱۶۔ کل وہ (محبوب) عوالمِ روحانیّت کی سلطنتوں کو اپنے ساتھ لیکر وارد ہوا تھا، وہ ایک انتہائی سخی بادشاہ تھا، اسی مناسبت سے یہ سوال  ہے کہ آیا وہی حضرت ہمارا اپنا دینی سلطان تھا؟ بادشاہ کا راز اس ناچار غلام کو کیامعلوم۔

 

۱۷۔ جس طرح طلوعِ آفتاب سے پیشتر اس کی بالواسطہ روشنی پھیلنے لگتی ہے، اسی طرح اس کی تشریف آوری سے قبل ہی دوستوں نے اپنے دل میں باغِ بہشت کا دل آویز منظر دیکھا، اگر ایسا ہے تو اس کو دیدۂ عقل سے دیکھنا ضروری ہے کہ شاید وہ رضوان فرشتہ ہو؟ واللہ اعلم

۱۸۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ میرے قلب کی رحل پر ایک نورانی قرآن رکھا ہوا تھا، تو کیا اے جانِ جان! اے یارِ جانی! تو خود ہی قرآنِ پاک کا یہ معجزۂ پُرحکمت اور نورِ معرفت تھا؟ یہ راز سربستہ ہے۔

 

۱۹۔ کیا یہ امرِ واقعی ہے کہ ایک عظیم فرشتۂ ارضی تمہارے لئے لاتعداد رحمتیں لیکر آیا تھا؟ جس کو حاضرینِ مجلس نے دیکھا، آیا وہ ہمارا عظیم الشّان بادشاہ نہ تھا؟ بہ ھییم یعنی میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔

 

۲۰۔ اے نصیرؔ! توجو دین کے محلِ شاہنشاہی کا غلام ہے، لیکن تیری یہ نظم بڑی عجیب و غریب حکمتوں سے مملو ہے، اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ آیا ملکِ چین میں کہیں تجھے دین کے لقمانِ حکیم نے بطریقِ راز اور رمزوکنایہ حکمت کی تعلیم دی تھی؟ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔

 

۱۱۹

 

نوٹ: مذکورۂ بالا نظم ۴جمادی الاوّل۱۴۰۹ھ؍ ۱۵دسمبر ۱۹۸۸ء میں تیار کی گئی تھی، جبکہ جمعرات کا دن تھا، اور شبِ جمعہ ٹیکری پر شمالی علاقہ جات کے اسماعیلیوں کی ایک عظیم الشّان محفلِ روحانی منعقد ہوئی تھی، میرے عقیدے میں صرف ایسی مجالس ہی مومنین کو دنیوی افکار کی الجھنوں سے نجات دلا سکتی ہیں، پس خوش نصیب مومن وہی ہے، جو مذہبی محفلوں کو بہت بڑی اہمیت دیتا ہے، کیونکہ یہ بہت بڑا امتحان ہے کہ ہم میں سے ہر شخص دین کی کسی چیز کو عظیم سمجھتا ہے یا حقیر؟ اگر دین کی بعض چیزیں عظیم حکمتوں کی حامل ہونے کے باوصف چھوٹی چھوٹی لگتی ہیں، تو یہ حضرتِ موسیٰؑ کے بابِ صغیر (چھوٹا دروازہ، ۰۲: ۵۸)  کی طرح ہیں جس سے جھکتے ہوئے داخل ہو جانے کا حکم تھا، اس کا اشارہ یہ ہے کہ خدا کے لئے عشق یا عقیدہ کے کسی درجے میں جھکنا  ضروری ہے، اور جو شخص نہ جھکے تو اس کو جھکایا جائیگا۔ والسلام۔

 

نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی

کراچی، ۹جمادی الاول ۱۴۰۹ھ

۲۰ دسمبر ۱۹۸۸ء

 

۱۲۰

 

توصیفِ حضرتِ حکیم پیر ناصرِ خسرو (ق۔ س)

کتب میر بِرکرک اوسای

 

۱۲۱

 

ترجمہ:

۱۔ (حکیم ناصرِ خسرو) اپنے وقت کا پیرِ کامل تھا (اسی مرتبت میں) اس نے ہمارے لئے کتابیں بطورِ خزائن چھوڑ دی ہیں، وہ (حضرتِ امامؑ کے) نور سے واصل تھا (اس حیثیت میں) اس نے ہمیں کتابوں کے خزانے رکھ دیئے ہیں۔

 

۲۔ وہ علم و دانش کی ایک کائنات تھا، ایک عظیم فرشتہ اور ایک نورانی ہستی تھا، ہر مرید کی روح کے لئے ایک چشمۂ آبِ حیات تھا، جس نے ہمارے لئے خزائنِ کتب چھوڑ دیئے ہیں۔

۳۔ وہ بہت سے علوم سے آراستہ تھا، اس حکیم نے بے پایان حکمت حاصل کر لی تھی، اسی وجہ سے اس نے کیا خوب کتابیں تصنیف کی ہیں جو ہمارے لئے بطورِ خزائن چھوڑ دی ہیں۔

 

۱۲۳

 

۴۔ وہ امامِ عالی مقامؑ کی طرف سے علم کا ایک سرچشمہ تھا، وہ حقیقت کا ایک آسمان تھا، وہ بہت سے لوگوں (یعنی اپنے تمام مریدوں) کی جانوں کی جان تھا، جس نے ہمارے لئے گنجینہ ہائے کتب چھوڑ دیئے ہیں۔

 

۵۔ اس کی گرانمایہ کتابیں گویا بازارِ لعل و گوہر ہیں، جن کی روشنی سے نورانی مسرّتیں حاصل ہوتی ہیں، جو ہمارے قلب کے لئے عقلی زیب و زینت کا باعث ہیں، اس نے (اسی درجہ کی) کتابیں ہمارے واسطے بطورِ خزائن چھوڑ دی ہیں۔

 

۶۔ (یہ انتہائی عظیم کارنامہ ازخود نہیں ہو سکتا، بلکہ) اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت، رسولِ اکرمؐ کے نورِ اقدس کی برکت، اور امامِ زمانؑ کے امرِ پاک کی حکمت سے اس نے ہمیں کتابیں بمرتبۂ کنوز رکھ دی ہیں۔

 

۷۔ مریدوں کے لئے پیرِ روشن ضمیر ہی دریائے علم ہے، کوئی شک نہیں کہ پیر علمِ اسما یعنی علمِ آدم کے بغیر نہیں ہوتا، اور جس علم و دانش کی زمانے کو ضرورت ہوتی ہے، اس میں پیرمنفرد ہوتا ہے، (ایسی تمام صفات سے متصف ہوکر) اس نے ہمیں کتابوں کے خزینے دیئے ہیں۔

 

۸۔ وہ جوانی میں بھی اور کہن سالی میں بھی مرتبۂ پیری پر فائز تھا (جبکہ وہ حجت تھا) وہ دین کے کام میں بڑا سخت اور زبردست دلیر تھا، وہ راہِ خدا کا ایک شیر تھا، جس نے ہمیں خزائنِ کتب سے مالا مال کر دیا ہے۔

۹۔ (ان کتابوں میں) خزینۂ قرآن کے درّ و گوہر بھرے ہوئے ہیں (یہ کتابیں) نورِ معرفت سے منور ہیں، اور ان میں اللہ کے سرِاعظم (اور دیگر بھیدوں) کا بیان ہے (انہی معنوں میں) اس نے ہمیں کتبِ گرانقدر کے خزانے دیئے ہیں۔

 

۱۲۴

 

۱۰۔ حق بات تو یہ ہے کہ وہ امامِ اقدسؑ کے نور کی روشنی تھا، قرآنی علم و حکمت سے واقف و آگاہ، اور دینِ قائم کی عقل کی مرتبہ رکھتا تھا، جس نے ہمارے لئے خزائنِ کتب کا قیمتی ورثہ چھوڑا ہے۔

 

۱۱۔ اس نے ایسے پہاڑ کے نیچے سے اوپر تک راستے بنا دیئے ہیں، جو بالکل سیدھا اور ناگزار تھا، اس نے شبِ تاریک میں ہمیں بہت سے چراغ روشن کر دیئے ہیں، اس نے دشت و بیابان کو باغ و گلشن بنا دیا ہے، اس نے ہمیں کتابیں بصورتِ خزائن چھوڑ دی ہیں۔

 

۱۲۔ سن لے اے شخص!ہم تو غافل تھے اسی نے ہم کو حقیقت سے آگاہ کر دیا، ہماری مردہ روحوں کے حق میں اسی نے صورِ قیامت پھونک دیا ہے، اور وہی ہے جس نے ہم پر ثمراتِ بہشت برسا دیئے ہیں، اور اسی نے ہمیں ذخائرِ کتب کے کنوز دیئے ہیں۔

 

۱۳۔ بہت سی محنت و مشقت سے گزر جانے کے بعد نامدار حجت کو سرمایۂ حکمت حاصل ہوا تھا، مگر اس مہربان نے اس ساری روحانی دولت کو جمع کر کے کتابوں کے خزانے ہمارے لئے رکھ دیئے ہیں۔

 

۱۴۔ وہ کبھی خانۂ کعبہ کے طواف میں مصروف رہتا تھا، کبھی عبادت و اعتکاف میں مشغول، اور کبھی خود کو روحانی کوہِ قاف تک رسا کر دیتا تھا، اسی موصوف و ممدوح نے کتابوں کے یہ انمول خزانے ہمیں دیئے ہیں۔

 

۱۵۔ اس کے دہنِ مبارک سے لعل و گوہر جیسی باتوں کا آبشار ایک طرف، اور دوسری طرف اس کے بابرکت قلم میں علم و حکمت کی ایسی غالب طاقت، دوستو! آؤ ہم اس باکرامت غارِ ظاہر و باطن کو دیکھیں (جس میں ہمارے پیرِ نامور پر کرامات گزرتی تھیں) حضرتِ پیر نے اپنی گرانقدر کتابوں کے

 

۱۲۵

 

خزانے ہمیں چھوڑ دیئے ہیں۔

 

۱۶۔ وہ اپنے وقت میں نورِ امامت کا دروازہ تھا، وہ یقیناً دینِ حق کا ایک اہم حصہ تھا، اور شمشیرِ جہاد کی تیز دھار تھا، جس نے ہمیں کتابوں کا بطورِ خزائن ورثہ چھوڑا ہے۔

 

۱۷۔ اگرچہ پیر گزر گیا ہے لیکن اپنے علمی کارناموں میں زندۂ جاوید ہے، کیونکہ پیر اب بھی حکیموں کا بادشاہ ہے، اب یہ راز ہم کیوں چھپائیں کہ پیر حضرتِ آدمؑ کی طر ح ہے، جس نے ہمارے لئے ذخائرِ کتب کے خزانے رکھ دیئے ہیں۔

۱۸۔ اے شخص! ہم سب کنکریاں اور وہ ایک عظیم پہاڑ ہے، وہ دریائے حقیقت (کی تیراکی اور غوطہ زنی) کا مرغابی ہے، ہمارے لئے پیر گنجِ علم و حکمت ہے، جس نے ہمیں خزائنِ کتب کا ورثہ چھوڑا ہے۔

 

۱۹۔ دیکھ لے کہ وہ ایک عجیب عقلی کوہِ طور ہے! دیکھ لے کہ وہ نورِ امامت کا ایک ذیلی نور ہے! دیکھ لے کہ وہ روحِ کلی کے ظہورات میں سے ایک عجیب ظہور ہے! جس نے ہمارے لئے کتابوں کے گنجینے چھوڑ دیئے ہیں۔

 

۲۰۔ ہم سب کی طرف سے اس سردارِ علم وحکمت پر سلام ہو! اس (روحانی اور عرفانی) بھیدوں کے خزانے پر سلام ہو! ہمارے (شفیق و مہربان اور) غمخوار پیر پر سلام ہو! جس نے ایسی پُر مغز کتابوں کے خزانے ہمارے لئے چھوڑدیئے ہیں۔

 

۲۱۔ یہ حقیقت ہے کہ نصیرؔ الدین ہمارے پیرِ نامدار کا (بالواسطہ) شاگرد ہے،  اسی وجہ سے یہ اس کے علم وحکمت کے درِ دولت پر ہمیشہ حاضر رہتا ہے، اور وہ اس نعمت کے لئے ہزار بار شکر گزار ہے کہ پیر نے

 

۱۲۶

 

ہمارے لئے اپنی گرانمایہ کتابوں کے عظیم خزانے رکھ دیئے ہیں۔

 

نوٹ: مذکورۂ بالا نظم بہت بڑی تاریخی اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ یہ نامدار طریقہ بورڈ کے اس عظیم الشّان سیمینار میں پڑھی گئی تھی، جو منگل ۱۷؍ ستمبر۱۹۹۱ء کو قریۂ حیدرآباد (ہونزہ) میں حکیم پیر ناصر خسرو (ق۔ س) پر منعقد ہوا تھا۔

 

۱۲۷

 

شکرو منش یا خدا

(بموقعِ تشریف آوریٔ امامِ زمانؑ)

 

۱۲۸

 

ترجمہ:

۱۔ امن و سلامتی کا بادشاہ آرہا ہے، یااللہ تیرا شکر ہے، وہ محبوب، محبت اور عشق کی قیامت بن کر آرہا ہے، خدایا تیرا شکر ہے۔

 

۲۔ ہم سب کو حضرت (امامؑ) کا دیدارحاصل ہونے والا ہے، انوار کی مسرت و شادمانی میسر ہونے والی ہے، رحمتوں اور برکتوں کا دربار منعقد ہونے والا ہے، یا اللہ تیرا شکر ہے۔

 

۳۔ ایک نورانی بہار آ رہی ہے، کوئی یارِ جانی بہشت سے آرہا ہے، ایک شہسوار عالمِ غیب سے ظاہر ہو رہا ہے، یا اللہ تیرا شکر ہے۔

 

۱۳۰

 

۴۔ دیکھ لے کہ وہ میرے دل میں ایک (سدا بہار) گلاب ہے، دیکھ لے کہ وہ شرابِ عشق (بن کر میری ہستی پر محیط) ہے، دیکھ لے کہ وہی (میرے دماغ میں) کتابِ عقل بھی ہے، یا اللہ (ان عظیم نعمتوں پر) تیرا شکر ہے۔

 

۵۔ (وہ ہمارے) نورانی باغوں کا باغبان ہے، عاشقوں کی جان کی جان ہے، وہ ایسا آسمان ہے کہ اس میں آفتابِ عقل طلوع ہو جاتا ہے، یا اللہ تیرا شکر ہے۔

 

۶۔ اب (موسمِ سرما کے بعد) سورج شمال کی طرف حرکت کر رہا ہے (جس کی وجہ سے) بیدِ مُشک سبز پوش ہو رہا ہے، اور درختوں پر پرندے نغمہ سرا ہیں، یا خدا تیرا شکر ہے۔

 

۷۔ اب آلِ نبیؐ (یعنی امامِ زمانؑ) کی تشریف آرہی ہے، جو ہماری آنکھوں کی روشنی اور علیؑ کا نور ہے، جو وقت اور زمانے کا سخی ہے، خدایا تیرا شکر ہے۔

۸۔ میرے محبوب کی محبت ازبس لذیذ ہے، اس کی خوشبو کا عطربہت ہی شیرین ہے، اس کی عظمت کے پہاڑ کا چشمہ (یعنی علم) نہایت میٹھا ہے، خداوند تیرا شکر ہے۔

 

۹۔ علم کا سمندر آرہا ہے، روحانی لشکر کا افسر تشریف لا رہا ہے، ساقیٔ کوثر (آبِ کوثر پلانے والا) آرہا ہے، یا خداوند تیرا شکر ہے۔

 

۱۰۔ اہلِ محبت (دیدار کیلئے) بیقرارتھے، ان کو بہت پہلے سے انتظار تھا، اب ہمارا جانی محبوب آرہا ہے، یا اللہ تیرا شکر ہے۔

 

۱۱۔ اب ہمارے دل کے (روحانی) باغ شاداب ہو جائیں گے، جان

 

۱۳۱

 

کی کیاریاں تروتازہ ہو جائیں گی، اور چراغ ہائے عقل تابان و درخشان ہوں گے، پروردگار تیرا شکر ہے۔

۱۲۔ ابوابِ نور کو ہمارے روحانی باپ نے ہمیشہ ہمیں کھول کے رکھا ہے، تو میں ایسے سخی کو کس طرح بھول سکتا ہوں، اے اللہ تیرا شکر ہے۔

 

۱۳۔ وہ وہ مقدّس کوہِ طور ہے، جو میرے دل میں نظر آیا تھا، وہ آیاتِ نور کا مصداق ہے، وہ عشق کی بانسری والی زبور ہے، یا خداوند تیرا شکر ہے۔

 

۱۴۔ اب میرے قلب میں (خوشخبری کا) کوئی تار آئیگا، عالمِ دل سے ستار جیسا کوئی ذکر سنائی دیگا، اور محبوبِ روحانی تشریف فرما ہو رہا ہے، خدایا تیرا شکر ہے۔

 

۱۵۔ (اے عاشق!) اب تو روٹھ نہ جا کیونکہ معشوق آرہا ہے، اب ہماری ہی عزت کی نوبت آرہی ہے، اور عشق و محبت کی بارش (یعنی گریہ و زاری) ہونے والی ہے، یا خداوند تیرا شکر ہے۔

۱۶۔ میں (اس کے دربار کا) پا انداز اور فرشِ راہ ہوا ہوں، اس کے مقدس عشق میں جل جل کر سرخ آنگارا ہو چکا ہوں (اور تعجب ہے کہ اسی سے) میں اس کے پہاڑ کا باز ہو گیا ہوں، اے اللہ تیرا شکر ہے۔

 

۱۷۔ اس نے مجھے (اپنے دستِ مبارک سے) نورانی غذا کھلا دی ہے، اس نے مجھے آبِ حیات پلا دیا ہے، اور اس نے مجھے خلعتِ علمی پہنایا ہے، خدایا (ایسی بیشمار نعمتوں پر) تیرا شکر ہے۔

 

۱۸۔ اس نے مجھے عالمِ روحانی کا مشاہدہ کرایا ہے، خزینۂ قرآن سے واقف کر دیا، اور اسی نے مجھ پر اسرارِ سر بستہ منکشف کر دیئے ہیں، یا اللہ تیرا شکر ہے۔

 

۱۳۲

 

۱۹۔ امامؑ امرکا مالک ہے، امامؑ کمندِ نورانی (خدا کی رسی) ہے، اور امامؑ نورِ پنجتنِ پاک ہے، یا اللہ تیرا شکر ہے۔

۲۰۔ آیا میرے دل میں کوئی شاہنشاہ موجود ہے؟ کیا  وہی میری جان ہے اور میرا معشوق ہے؟ کیا وہ میرا محبوب ہے، جو حسینوں کا بادشاہ ہے؟ اے اللہ تیرا شکر ہے۔

 

۲۱۔ دوستو! اب ہم کثرتِ ذکر کا سہارا لیں گے، گریہ وزاری سے مناجات کریں گے، تاکہ ہم دل میں ملاقات کر سکیں، خدایا تیرا شکر ہے۔

 

۲۲۔ کیا وہ ماہِ کامل یہاں آگیا؟ جو”پیرشاہ” کے نام سے دستگیر ہے؟ جس کو دیکھ کر نصیرؔ فدا ہو جاتا ہے، خدایا تیر ا شکر ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

۹۱؍۱۰؍۳۱

 

۱۳۳

مُطالعۂ روحانیت و خواب

مطالعۂ روحانیّت و خواب

آفاق و انفس کے معجزات

(انتساب)

۱۔ اے نورعین من! کامل توجہ سے سن لو اور خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے جو جو معجزات مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے ہیں، وہ زمانۂ آدم سے اس طرف انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کے عالم شخصی میں ظاہر ہوتے آئے ہیں، کیونکہ ایسا کوئی معجزہ کبھی ہونے والا ہی نہیں جو سنت الٰہی کے مطابق خدا کے خاص بندوں میں رونما نہ ہوا ہو (بحوالہ آیاتِ قرآنی متعلقہ سنتِ الٰہی )۔

۲۔ اے نورعین من! قرآن حکیم میں ہر سوال کا جواب اور ہر چیز کا بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹) بشرطے کہ اس کو نور معلم (۰۵: ۱۵) کی روشنی میں پڑھا جائے، یقیناً ربّ العزّت کی سنت بے بدل یہی رہی ہے کہ اس تعالیٰ شانہ نے جب بھی کوئی آسمانی کتاب نازل فرمائی تو اس کے ساتھ ساتھ نور بھی بھیجا، یعنی ناطق اور اساس، پھر امام، کیونکہ خدائے سبحان واحد اور احد ہے، اور اس کے بعد تمام اعلیٰ و ادنیٰ چیزیں دو دو ہیں (دیکھو قرآن، ۵۵: ۵۲، ۱۱: ۴۰، ۱۳: ۰۳، ۵۱: ۴۹، ۳۶: ۳۶)۔

 

۳۔ اے نور عین من! تم اللہ، رسولؐ، اور صاحبِ امرؑ کی حقیقی اطاعت کرکے اپنے عالم شخصی میں روحانی انقلاب برپا کرو اور معجزات

 

۱

 

کو دیکھو، کون سے معجزات؟ سیرالی اللہ و سیر فی اللہ کے معجزات تاکہ خزانہ معرفت حاصل ہو۔

 

۴۔ اے نور عین من! سائنس کے عجائب و غرائب اللہ تعالیٰ کے وہ معجزے ہیں جو آفاق میں دکھا رہا ہے تاہم ان کی وجہ سے منکرین خدا کی ہستی کے قائل نہیں ہوں گے جب تک کہ خود ان کےنفوس میں معجزات کا ظہور نہ ہو، اس سے معلوم ہوا کہ عالم شخصی کے معجزات زبردست موثر ہوا کرتے ہیں۔

 

۵۔ اے نور عین من! خداوند تعالیٰ کا ایک دن ہماری گنتی کے مطابق ہزار سال کا ہوتا ہے (۲۲: ۴۷) چنانچہ چھ ناطق اللہ کے چھ دن ہوگئے، جن کا زمانہ چھ ہزار برس کا ہوا، اب حضرت قائمؑ یعنی خدا کا ساتواں دن شروع ہوچکا ہے، جو ہزار برس تک چلے گا، جس میں اجتماعی روحانی انقلاب آنے والا ہے، پس ان لوگوں کی بہت بڑی سعادت مندی ہے جو اس دن کو پہلے ہی سے پہچانتے آئے ہیں۔

 

۶۔ اے نور عین من! امامِ زمانہ صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہ مظہرِ نور خدا اور اسم اعظم اس معنیٰ میں ہے کہ تم حقیقی معنوں میں اس کی فرمانبرداری کرتے روحانی ترقی کا فائدہ حاصل کرو، روحانی علم میں بہت زیادہ آگے بڑھو، حضرت امام اقدسؑ کے نیک نام اداروں کی مدد کرو اور خاموش خدمت کرتے ہوئے جاؤ تاکہ اسی وسیلے سے خدا کی

 

۲

 

خوشنودی حاصل ہو جائے، جس میں سب کچھ ہے۔

 

۷۔ انتساب: میرے عم زادہ برادر کلان ماسٹر موکھی تولد شاہ صاحب (ابنِ خلیفہ عافیت شاہ ابنِ خلیفہ محمد رفیع) بڑے دیندار، پرہیز گار، شب خیز، عبادت گزار، علم دوست، درویش صفت، پاک باطن، محبِّ اہل بیّت اطہار (علیہم السّلام) اور جماعت با سعادت کے حقیقی خادم ہیں، انہوں نے زندگی بھر تعلیمات، مذہبی رسومات، جماعت خانہ اور مولائے پاک کے مریدوں کی پُرخلوص خدمات انجام دی ہیں۔

۸۔ میرے برادر بزرگ تولد شاہ اور ان کی اہلیہ نوران کو خداوند قدّوس نے اولاد و احفاد اور خاندان کے افراد کے خزانوں سے مالا مال فرمایا ہے، جیسے محمد سلیم ہونزائی ابنِ تولد شاہ، نامور سکالر شہناز سلیم ہونزائی، جو علم و حکمت کے آسمان پر ایک درخشان ستارہ ہیں، مصباح سلیم (دس سالہ) صائمہ سلیم (آٹھ سالہ)اور مکے تاج سلیم (پانچ سالہ) ان شاء اللہ العزیز، یہ نیک بخت بچیاں اپنے اپنے وقت میں عظیم شخصیّات میں سے ہوں گی، کیونکہ یہ روشن زمانے میں اور ایک اچھے خاندان میں پیدا ہوئی ہیں، الحمد للہ علی منّہٖ و احسانہٖ۔

 

نصیر الدین نصیر (حب علی) ہونزائی

کراچی ہیڈ آفس

مولانا شنبہ ۱۸ محرم الحرام ۱۴۱۶ھ / ۱۷ جون ۱۹۹۵ء

 

۳

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تمہید

 

علامہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اینڈ فاؤنڈیشن (عارف)کا قیام مشرقی کینیڈا میں علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی صاحب کے روح پرور اور ایمان افروز دورے، جس میں موصوف کی تبحر علمی اور منطقی استدلال سے جماعت میں بالعموم اور طلبہ میں بالخصوص ایک روح پھونکی گئی تھی، کے نتیجے میں مارچ ۱۹۷۸ء میں یونیورسٹیوں، مثلاً واٹرلو (کچنر) گویلف، مکگیل کے طلبہ اور جماعتی ممبروں پر مشتمل ایک گروپ، جن کو ہمارے مقدّس مذہب کے روحانی اور باطنی پہلو کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے کا شوق ہے، کی کوششوں سے وجود میں آیا ہے۔ علامہ موصوف کو اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائےکینیڈا کی ریجنل کمیٹی برائے مشرقی کینیڈا نے تاویل قرآن کریم اور اسماعیلی روحانیّت پر لیکچروں کی خاطر دعوت دی تھی۔

 

چنانچہ ہمارے لئے یہ ایک بڑی سعادت ہے کہ عارف کے وسیلے سے علم کی خدمت کا موقع ملا ہے، کیونکہ یہ بات سب پر ظاہر ہے کہ امام

 

۵

 

عالی مقام جماعت میں علم عام کردینا چاہتے ہیں، جس کے لئے آپ نہ صرف ہر وقت فرمان کرتے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس مقصد کے حصول کے لئے جماعت کے دائرے میں اور اس کے باہر ایسے بڑے بڑے عطیات بھی دیتے ہیں کہ ان کی مثال نہیں ملتی، اس سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ امامؑ کی نظر میں علم کی کتنی بڑی اہمیت ہے۔

 

آپ نے تواریخ کا یہ المناک حادثہ سنا ہوگا، کہ بہت سی گرانقدر اسماعیلی کتابیں ضائع ہوچکی ہیں، جن کی تیاری میں دانشوروں کی عمریں صرف ہوئی تھیں، اور ہم اپنوں کو کچھ گلہ بھی نہیں کرسکتے ہیں ، کہ یہ حادثہ کیوں پیش آنے دیا، اس کے برعکس اگر ہم اپنے وقت کے دانشوروں کے علمی آثار کو محفوظ نہ کریں تو آنے والی نسلیں ہم کو سخت گلہ کریں گی، کیونکہ ہمیں ایسی کچھ مجبوریاں نہیں ہیں، جیسی ماضی میں تھیں، ہمارا زمانہ تو خدا کے فضل و کرم سے آزادی اور ترقی کا زمانہ ہے اور اس میں احیائے علم کے سارے سامان موجود ہیں۔

 

ہم نے ادارۂ “عارف” کے تحت اپنے اوپر جو ذمہ داری رکھی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ ہم علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کی ان کتابوں اور مقالوں، جو بروشسکی، فارسی اور اردو میں ہیں اور جو اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان، دارالحکمتہ الاسماعیلیہ ہونزہ (گلگت) اور خانہ حکمت کراچی (پاکستان) سے چھپ گئے ہیں، کا انگریزی، فرانسیسی، گجراتی

 

۶

 

اور بوقت ضرورت دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ کریں۔

 

علامہ موصوف نے مشرق و مغرب کی کئی روحوں کو اپنے علم اور امام زمانؑ کے لئے جذبۂ جان نثاری سے مستنیر فرمایا ہے۔ آپ امام زمانؑ کے ایک وفادار غلام اور جماعت کے خیر سگال خادم ہیں، انہوں نے اب تک پاک اسماعیلی مذہب پر تقریباً ایک سو کتابیں لکھی ہیں، ہمیں کچھ ایسا تجربہ بھی ہوا ہے کہ موصوف کو امام زمانؑ کی باطنی تائید حاصل ہے۔

 

میں اس موقع پر خانۂ حکمت کے پریذیڈنٹ فتح علی حبیب، عملداران اور اراکین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان حقیقی اسماعیلیوں نے اب تک علامہ نصیر کے ساتھ مل کر بہت سی خدمات انجام دی ہیں، اور اگر ہم کچھ کرسکتے ہیں تو یہ انہی کی قربانیوں کی بنیاد پر ہے، وہ ہم سے تقریباً دس ہزار میل دور ہونے کے باؤجود ہمارے مددگار ہیں، میں آخر میں عارف کے ممبروں کا بھی قلبی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہر طرح سے اس ادارے سے تعاون کیا اور دور دور ہونے کے باؤجود اپنے فرائض کو خود بخود انجام دیتے رہے، ہر چند کہ اس ملک میں ذاتی کام بہت زیادہ ہوتا ہے ، پروردگار ان تمام معزز اسماعیلیوں کو ہر طرح سے خوش رکھے اور ان کی تمام نیک امیدیں پوری کرے! آمین!!

 

شیراز شریف

چیئرمین ادارۂ عارف

 

۷

 

شکر گزاری

 

میری ہستی کے ہر ذرّے کو چاہئے کہ وہ پروردگار عالم کے اس عظیم احسان کی شکر گزاری اور قدر دانی کرے، کہ اس رحمان و رحیم نے اپنی رحمت خاص سے ہمیں اور ہمارے دوستوں کو علم کے میدان میں ہر بار توقع سے زیادہ فتح مندی اور کامیابی عنایت فرمائی ہے، چنانچہ ملک کینیڈا کے ہمارے عزیزان پاک خداوند کی توفیق و یاری سے ایک بہت پیاری کتاب بنام “مطالعہ روحانیّت و خواب” شائع کررہے ہیں، اگر ہم اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی شکر گزاری ہزار برس تک کرتے رہیں، تو پھر بھی کم ہے۔

 

ہر چند کہ شمالی امریکہ (کینیڈا) میں ہمارے قابل قدر دوستوں نے شروع سے لے کر اب تک گونا گون علمی خدمات انجام دی ہیں، اور یہ سب کچھ ادارۂ “عارف” کی طرف سے کیا گیا ہے، تاہم ایک اعتبار سے یہ پہلا موقع ہے کہ اس عزیز ادارے کے نام سے اصولی طور پر ایک پُرحکمت کتاب شائع ہو رہی ہے، جس سے نہ صرف “عارف” ہی کے ارکان کو بے پناہ خوشی ہورہی ہے، بلکہ یقیناً اس تاریخ ساز کارنامے سے

 

۸

 

“خانہ حکمت” کے ممبروں کو بھی بدرجہ انتہا مسرّت و شادمانی ہوگی۔

 

ادارۂ “عارف” کے ہوشمند اور علم پرور اراکین نے ہر ممکن خدمت انجام دی ہے، لہٰذا مجھے ان سب کا پُرخلوص الفاظ میں شکریہ ادا کرنا چاہئے، اس سلسلے میں سب سے پہلے معزز اور مؤسس چیئرمین کا ذکر جمیل آتا ہے، ہمارے قابل قدر چیئرمین شیراز شریف بہت سی انسانی اور ایمانی صلاحیتوں کے مالک ہیں، وہ گویلف یونیورسٹی کے اسماعیلی سٹوڈنز کے چیئرمین بھی ہیں اور جماعت کے عملدار بھی، لیکن ان تمام صفات اور خوبیوں کے باؤجود ان کو فخر اور بڑائی ذرا بھی پسند نہیں، آپ کے مزاج میں ہمیشہ سنجیدگی اور تواضع کا عنصر غالب رہتا ہے، وہ حقیقی علم کے شیدائی اور مولا کے عاشق ہیں، ان کو علم کی روشنی پھیلانے کا زبردست شوق ہے، آپ حق کی حمایت میں شیر جیسے لگتے ہیں، مگر مقام بندگی پر ایک معصوم بچے کی طرح آنسو بہاتے ہیں، ان کی شخصیّت کو معاشرے میں جیسا مقام ملا ہے اس لحاظ سے وہ بادشاہ جیسے ہیں، لیکن ان کے دل میں جیسی دینی محبت اور عشق الٰہی ہے اس کے اعتبار سے وہ درویش کی طرح ہیں۔

شیراز نے حقیقی علم کی روشنی پھیلانے کے لئے بہت سی قربانیاں دی ہیں، وہ “عارف” کے توسط سے مستقبل میں بھی کوئی بڑا علمی کارنامہ انجام دینا چاہتے ہیں، انہوں نے اپنے پروگرام اور کارکردگی ایک مختصر

 

۹

 

رپورٹ اور درخواست کے ذریعہ مولانا حاضر امامؑ کے پاک حضور سے “عارف” کے نام کی تصدیق اور پُرحکمت خوشنودی حاصل کی ہے۔

 

عارف کے چیئرمین اپنے اراکین کی بڑی عزت کرتے ہیں، وہ علم کی روشنی پھیلانے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ جہالت کی تاریکی ختم ہوجائے۔

 

مجھے یقین ہے کہ عارف کے چیئرمین اور ممبران کی یہ دلی تمنا ہے کہ میں اس موقع پر مسٹر جمی جناح کی ان لاتعداد خدمات کو بھی سراہوں، جو آپ نے عارف کے عظیم مقصد کے حصول کے لئے انجام دی ہیں، جمی جناح، جن کا پورا نام جمی محمد علی نور محمد جناح ہے، ایک عالی ہمت اور فرشتہ سیرت مومن ہیں، جن کو “اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے نیروبی” جیسے پاک اور اعلیٰ ادارےمیں آنریری سیکریٹری کے فرائض انجام دینے کا تجربہ حاصل ہے، آپ نے جس طرح “خانہ حکمت” اور “عارف” کی علمی چیزیں جگہ جگہ پھیلادی ہیں، اس کی کہیں مثال نہیں ملتی ہے۔ آپ ان دونوں اداروں کے پشت پناہوں میں سے ہیں، آپ کو دینی علم سے بے حد دلچسپی ہے۔

 

جمی جناح نے دینی علم کے فروغ کی خاطر اب تک جتنی قربانیاں دی ہیں، ان کی تفصیل ان صفحات کی گنجائش سے باہر ہے، آپ علمی خدمت کی ضرورت و اہمیت کو اچھی طرح سے جانتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ

 

۱۰

 

اپنے دفتر کی زبردست مصروفیتوں کے باؤجود ہمیشہ دینی علم کی مقدّس خدمات انجام دیتے رہتے ہیں اور وہ کبھی اس سے نہیں تھکتے ہیں، قول ہے کہ:

این سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

 

خداوند عالم کے فضل و کرم سے ہمارے یہاں علم و ادب کا ایک اور درخشان ستارا روشنی بکھیر رہا ہے جس کا نمایان ذکر کرنے کا وقت آچکا ہے، وہ ہیں محترمہ زین رحیم قاسم، آپ انگریزی ادب میں مہارت تامّہ رکھتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بڑی خوبی کی بات یہ ہے کہ آپ دینی حکمت کی اعلیٰ کتابوں سے بھی اچھی طرح سے باخبر ہیں۔ فی الحال آپ سیدنا پیر ناصر خسرو قدس اللہ سرہ کے فلسفے پر ایم-اے کے لئے معہد دراسات اسلامیہ مکگیل میں کام کررہی ہیں۔ آپ ایک اعلیٰ درجے کی شاعرہ اور پُرنویس نثر نگار ہیں اور ان کی جنبش قلم میں ایسی سحرکاری ہے کہ اس سے علم و حکمت کی کلیاں ہمیشہ کے لئے مسکراہٹوں کی دولت سے مالا مال ہوجاتی ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی کی سب سے بڑی مسرّت و شادمانی قلم کی خدمت میں پوشیدہ ہے۔ آپ ایسی بے لوث ہیں کہ ہمیشہ دوسروں کے کام کی خاطر اپنے مقصد کو قربان کردیتی ہیں۔ منثور و منظوم ترجموں کے سلسلے میں ان کی بے لوث اور فدا کارانہ خدمات کو مشرق اور مغرب

 

۱۱

 

دونوں میں جماعتیں احترام و محبت کے ساتھ یاد کریں گی۔ آپ مستقبل قریب کی ایک بڑی روشن دماغ اور علم پرور شخصیّت ہیں۔

 

میں ان تینوں حضرات کا جان و دل سے شکر گزار اور ممنون ہوں، اور دوسرے تمام عزیزوں کا بھی، جو مشرق و مغرب میں ہیں، جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور قربانیوں سے کام لے کر خانۂ حکمت اور عارف کو قائم کیا اور ترقی دی، پس میری عاجزانہ دعا ہے کہ خداوند اپنی بے پایان رحمت سے ان سب عزیزوں کو دین و دنیا کی کامیابی اور سرفرازی عطا فرمائے! آمین!!

 

فقط علمی خادم

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

یکم مئی ۱۹۸۰ء

 

۱۲

 

کتابِ ہذا کی اہمیّت

 

عقل و دانش کا تقاضا یہ ہے کہ اس کتابچہ کی ضرورت و اہمیّت اور افادیّت کے بارے میں بھی کچھ بیان کیاجائے، چنانچہ یہاں جو مضامین مُندرج ہیں، ان کی مناسبت سے یہ نام درست ہے کہ اس کتابچہ میں روحانیّت اور خواب کا پُرمغز مطالعہ ہے، جس سے ایک ہوشیار مومن بتوفیق خداوند بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتا ہے، مجھے فخر سے نہیں بلکہ عاجزی اور شکر گزاری کے آنسو بہاتے ہوئے یہ بتا دینا چاہئے کہ یہ مضامین اس عملی روحانیّت کی روشنی میں بنائے گئے ہیں جو ہمیشہ حقیقی اطاعت کی شرط پر امام عالی مقام سے حاصل ہوتی رہتی ہے، جیسا کہ باخبر مومنین دین حق کے اس معجزے پر یقین رکھتے ہیں، اب ہم بطریق اختصار ہر موضوع کے روحانی پہلو کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔

 

صلوات:

صلوات ایک پُرحکمت موضوع ہے، جس کا خاص تعلق روحانیّت سے ہے، کیونکہ بموجب آیۂ قرآن یہ ایک ایسی باطنی چیز ہے کہ جس کے ذریعہ خدا، ملائیکہ اور رسولؐ مومنین کو تاریکی سے نکال کر نور میں داخل

 

۱۳

 

کردینا چاہتے ہیں، اس سے مشاہدۂ عین الیقین اور نورِ معرفت مراد ہے، پس صلوات لفظ عبادت کے اعتبار سے بھی اور معنی و حکمت کے لحاظ سے بھی بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

 

جب اللہ مومنین پر صلوات بھیجتا ہے، تو کیا یہ محض ایک قول ہوسکتا ہے، یا یہ ایک خدائی فعل ہے؟ آپ خوب غور کریں، اگر آپ مانتے ہیں کہ یہ فعل ہے، تو ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہ باطنی چیز ہے یعنی روحانیّت، خداوندِ عالم کی صلوات قول کے بجائے فعل اس لئے ہے کہ ہم اپنی صلوات میں اس سے درخواست کرتے ہیں کہ یا اللہ صلوات (درود) نازل فرما، تو اسی کے ساتھ قول ختم ہوجاتا ہے، اب فعل کی نوبت آتی ہے جو ارادۂ خداوندی پر منحصر ہے، لیکن جہاں اللہ خود فرماتا ہے کہ خدا اور اس کے فرشتے درود نازل کرتے ہیں، تو ظاہر ہے کہ یہ پُرحکمت چیز ایک روحانی فعل ہے، ہماری صلوات کی طرح دعا کی شکل میں نہیں۔

 

اسی طرح جب فرمایا گیا کہ اے رسولؐ مومنین پر صلوات بھیج دیں، تو اس حکم کا نمایان پہلو ہماری تعلیم کی غرض سے ہے تاکہ ہم پیغمبرؐ کے مرتبے کو جانیں اور رجوع کریں، ورنہ وہاں خدا ہی کی طرف سے خود کار ہدایت موجود تھی، بہرحال جب اللہ نے حکم دیا ہوا ہے اور قانون دین بن چکا ہے تو رسولؐ کے لئے اس سلسلے میں کوئی قول نہیں، صرف عملاً

 

۱۴

 

مومنین پر صلوات بھیجنا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبرؐ اور امامؑ کی جانب سے مومنین کو جو صلوات حاصل ہوتی ہے وہ ایک روحانی عمل ہے۔

 

صبر:

صبر کا موضوع بہت بڑا ہے، کیونکہ راہ دین کے ظاہر و باطن اور جسمانیّت و روحانیّت کے اکثر مقامات پر صبر سے کام لینا پڑتا ہے، چنانچہ صبر اتنا وسیع موضوع ہے کہ دین کی ساری باتیں پانچ ذیلی موضوعات میں تقسیم ہو کر اس میں سمو جاتی ہیں، وہ پانچ مضامین خوف، جوع، نقصانِ مال، نقصانِ جان اور نقصانِ ثمرات ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کی کئی کئی شاخیں ہیں، قرآن (۰۲: ۱۵۵) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ صبر کے ان تمام مواقع پر اللہ تعالیٰ مومنین کو آزمانا چاہتا ہے، اور حکم ہوا کہ رسول اکرمؐ صبر کرنے والوں کو اس بات کی خوشخبری دیں کہ پروردگار کی طرف سے ان پر صلوات، رحمت اور ہدایت نازل ہوتی ہے۔

 

جاننا چاہئے کہ خوشخبری دینے کے لئے جو حکم کیا گیا ہے اس میں ایک زبردست حکمت پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ خوشخبری دینے کے لئے پیغمبر کے بعد امام کی موجودگی ضروری ہے، کیونکہ صابرین نہ صرف زمانہ نبوّت ہی میں تھے جن کو رسولِؐ خدا نے دوسروں کی شرکت کے بغیر خاص طور پر خوشخبری سنائی، بلکہ صبر کرنے والے بعد کے زمانے میں بھی ہوتے ہیں، جن کو امامؑ برحق ظاہر میں یا باطن میں خوشخبری سناتا ہے، اور باطن کا

 

۱۵

 

مطلب روحانیّت ہے، یعنی روحانیّت کے دروازے کا کھل جانا ہی بجائے خود خوشخبری ہے۔

 

اس سے معلوم ہوا کہ صبر کے نتیجے پر روحانیّت کا سورج طلوع ہوجاتا ہے، اور اس کے بعد بھی روحانیّت کی سختیوں کو اٹھانے کے لئے صبر چاہئے، تاکہ خدا تعالیٰ کی نصرت و تائید آکر بندۂ مومن کی دستگیری کرے، اور صبر کی مناسبت روحانیّت کے ساتھ یہی ہے۔

 

گریہ وزاری:

جس طرح شرعی نماز ظاہری طہارت کے سوا درست نہیں، اسی طرح حقیقی بندگی جو حصول روحانیّت کے لئے مقرر ہے باطنی پاکیزگی کے بغیر روا نہیں، اور باطنی پاکیزگی توبہ میں ہے، اور عملی توبہ گریہ و زاری ہے، تاکہ روحانیّت کا دروازہ کھل سکے۔

 

کیا آپ نے خیال نہیں کیا ہے کہ خداوند حکیم نے کس شان سے توبہ اور ظاہری صفائی کو یکجا بیان فرمایا ہے، جیسے ارشاد ہے کہ:

بے شک خدا توبہ کرنے والوں کو اور ستھرے لوگوں کو دوست رکھتا ہے، توبہ باطنی پاکیزگی ہے، جس کا ذکر ظاہری پاکیزگی کے ساتھ کیا گیا تاکہ عقل والوں پر یہ حقیقت روشن ہوکہ جس طرح ظاہری نجاست سے پاک و پاکیزہ ہوجانے کے لئے پانی ضروری ہے، اسی طرح باطنی آلودگی سے چھٹکارا پانے کے لئے توبہ چاہئے، اور وہ گریہ وزاری کی شکل میں ہے،

 

۱۶

 

اس کے بغیر روحانیّت کا فیض حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔

 

نیند:

حصول روحانیّت کے سلسلے میں نیند کا مطالعہ اس لئے ضروری ہے کہ اگر اس میں اصلاح و درستی نہ کی گئی تو یہ راہ روحانیّت میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے، لہٰذا انتہائی گہرائی سے نیند کی حقیقت جاننے کی ضرورت ہے تاکہ نیند کا مسئلہ بہ آسانی حل ہوسکے۔

 

جب آپ نیند کی روحانی سائنس جان چکے ہوں گے تو آپ باور کریں گے، کہ بندۂ مومن کی نیند معجزانہ طور پر کم سے کم ہوسکتی ہے، اور وہ کثیف سے لطیف بھی ہوسکتی ہے، قرآن حکیم (۳۹: ۴۲) کے مطابق نیند اس لئے ہے کہ وہ روح جو دن کے کام کاج اور غم و غصہ سے فرسودہ ہوجاتی ہے قبض کرلی جائے اور اس کی جگہ ایک تازہ ترین روح ڈالی جائے جس کے لئے صرف تھوڑا سا وقت چاہئے اور اگر مومن دیر تک سوئے پڑے تو وہ تازہ روح بھی نکل جاتی ہے اور اس کی جگہ غافل اور سست روح آتی ہے، اس حقیقت کا تجربہ کثرت سے عبادت کرنے والے مومنین کو حاصل ہوسکتا ہے، اور جن کی روح غافل ہی غافل ہو ان کو احساس نہیں ہوسکتا ہے کہ کون سی روح گئی اور کون سی آئی۔

 

خواب:

روحانیّت کے سلسلے میں خواب کی اہمیت یہ ہے کہ خواب نا پختہ

 

۱۷

 

روحانیّت ہے، جب یہ ذکر و عبادت کے نتیجے میں پختہ ہوجاتا ہے تو یہ مکمل روحانیّت کی شکل اختیار کرکے معجزانہ بن جاتا ہے، اور روحانیّت کے ساتھ ایک ہوجاتا ہے، خواب کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف عالم روحانیّت کا نمونہ ہے بلکہ یہ عالم آخرت کی مثال بھی ہے اور دانشمند کے لئے اس میں اللہ تعالیٰ کی لاتعداد حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

 

جو مومنین کارِ بزرگ میں داخل ہیں ان کی کامیابی کا نتیجہ خواب و خیال دونوں میں نکلتا ہے، پس مومن کو چاہئے کہ وہ اپنی روحانی ترقی کو ان دونوں معیاروں پر پرکھ لے، چنانچہ اگر اچھے اچھے خواب آتے ہیں تو شکر گزاری کی عبادت کرے اور اگر بُرے خواب ہیں تو توبہ کرے جیسا کہ اس کا حق ہے۔

 

فقط بندۂ عاجز

نصیر ہونزائی

۲ مئی ۱۹۸۰ ء

 

۱۸

 

صلوات کی حکمت

 

یاد رہے کہ حکمتِ دین کے عظیم خزانوں کی کلیدیں عجیب و غریب قسم کی ہوا کرتی ہیں،  کہ وہ بھی حکمت ہی کی ہوتی ہیں، چنانچہ قرآن حکیم میں صلوات (درود) کا موضوع حکمت کا ایک عظیم خزانہ ہے، جس کی حکیمانہ کلید اس امر میں ہے کہ محمدؐ و آل محمدؐ پر صلوات پڑھنے کے لئے فرمایا جاتا ہے (۳۳: ۵۶) تاکہ دانشمند مومنین اس مقام پر سوچیں جیسا کہ سوچنا چاہئے اور پوچھیں جیسا کہ پوچھنے کا حق ہے تاکہ وہ دین کی خاص خاص حکمتوں سے باخبر ہوجائیں، جس میں روحانی عظمت و بزرگی پوشیدہ ہے۔

 

اس پُرحکمت موضوع کی تفصیلات میں جانے سے قبل بہتر ہے کہ ہم اس کے اہم سوالات کو سامنے لائیں تاکہ جس سے ایک طرف اس بحث کی اہمیت ظاہر ہو اور دوسری طرف مشکل حکمتیں آسان ہوجائیں، چنانچہ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ محمدؐ و آل محمدؐ پر صلوات کا پڑھنا کیوں ضروری ہوا، اس معنی میں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اور آپ کی آل پر رحمت نازل فرمائے، جبکہ آنحضورؐ خود بحکم خدا پہلے ہی سے سارے جہانوں کے

 

۱۹

 

لئے رحمت ہیں (۲۱: ۱۰۷)؟

 

دوسرا سوال ہے کہ جہاں خداوندِ عالم اور اس کے فرشتے مومنین پر درود بھیجتے ہیں وہاں یہ درود براہِ راست آتی ہے یا آنحضرتؐ اور آپؐ کی آلؑ کے توسط سے؟ اگر براہ راست آتی ہے تو پھر رسول اکرمؐ کس معنیٰ میں رحمت عالم ہوئے؟ اور اگر یہ صلوات سرچشمہ رحمت یعنی آنحضرتؐ اور آپؐ کی آلؑ کی راہ سے آتی ہے تو پھر سوال ہے کہ آیا خدا اور اس کے فرشتوں کی صلوات سرچشمۂ رحمت یعنی نور محمدیؐ میں پہلے ہی سے موجود نہیں ہے؟

 

تیسرا سوال یہ ہے کہ قرآن حکیم میں جن خزائن الٰہی کا ذکر آیا ہے اور جن میں تمام چیزیں موجود ہیں (۱۵: ۲۱) وہ کس حیثیت سے ہیں اور کہاں ہیں؟

چوتھا سوال ہے کہ خداوند تعالیٰ کس طرح مومنین پر صلوات بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے کس معنیٰ میں صلوات بھیجتے ہیں؟ کیا یہ ایک ہی صلوات کی بات ہے یا یہ دو ہیں؟

 

پانچواں سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں سے صلوات حاصل کرنے کے لئے کوئی شرط بھی ہے یا یہ کسی شرط کے بغیر ہے؟ اور اگر کوئی شرط ہے تو وہ کیا ہے؟

 

چھٹا سوال: اللہ تعالیٰ اپنے رسولؐ سے فرماتا ہے کہ:

 

۲۰

 

وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۭ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّھُمْ  (۰۹: ۱۰۳)

کیا خدا کے اس فرمان میں پیغمبرؐ کی جانب سے مومنین پر درود بھیجنا مقصود ہے یا کوئی عام سی دعا؟ اگر یہ درود ہے تو اس کا ثبوت چاہئے۔

 

ساتواں سوال: اگر یہاں لفظ صلوات عام دعا کے معنی میں نہیں بلکہ ایک خاص اصطلاح کے طور پر ہے تو اس کی کیا دلیل ہوسکتی ہے؟ اس کی دلیل قرآن سے ہو۔

 

اب خداوند کی توفیق و یاری سے مذکورہ سوالات کے لئے جوابات مہیا کئے جاتے ہیں:

 

سوال نمبر ۱کا جواب: جب قرآنی ارشاد کے مطابق خداوند عالم اور اس کے فرشتے مومنین پر صلوات بھیجتے ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ صلوات محمدؐ و آل محمدؐ ہی کے وسیلے سے بھیجتے ہیں (۳۳: ۴۳) چنانچہ اسی آسمانی اور ربّانی صلوات کے حصول کے لئے خدا اور رسولؐ نے اسی طرح صلوات پڑھنے کی تعلیم دی کہ مومنین کہا کریں:

اللھم صل علی محمد و آل محمد

اے اللہ! محمدؐ و آل محمدؐ پر (وہ) صلوات نازل فرما (جو مومنین کے لئے تو بھیجتا ہے، ۳۳: ۵۶) نیز اس حکم میں پیغمبر اکرمؐ اور أئمّہ طاہرینؑ کے پیچھے پیچھے چلنا مقصود ہے، جس کا بیان دوسری تحریروں میں آچکا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ لاہوتی اور ملکوتی درود مومنین پر اس وقت نازل ہوسکتی

 

۲۱

 

ہے جب کہ یہ محمدؐ و آل محمدؐ کی تعظیم بجا لائیں اور ان کی پیروی کریں۔

 

سوال نمبر ۲ کا جواب:اگر اللہ اور فرشتوں کا مومنین پر صلوات نازل کردینا آنحضرت کے توسط کے بغیر ممکن ہوتا تو قرآن اور اسلام کی کچھ چیزیں بھی مومنین پر براہ راست نازل ہوجاتیں، لیکن یہ بات محال ہے، سو یہ حقیقت ہے کہ نہ صرف درود الٰہی بلکہ خداوند تعالیٰ کی ہر روحانی نعمت خزائن خدا یعنی رحمت عالمؐ اور آپؐ کے برحق جانشینؑ کے وسیلے سے حاصل ہوسکتی ہے، نیز یہ نکتہ یہاں یاد رہے کہ خدا اور فرشتوں کی صلوات مومنوں کے لئے پہلے ہی سرچشمہ رحمت (نور محمدؐ) میں موجود ہے، اس لئے جب بھی نور ہدایت سے درود مومنین کو ملتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ خدا کی طرف سے نازل ہوئی اور یہ بات درست ہے، کیونکہ حقیقت میں خدا کا کام پہلے ہی سے ہوچکا ہوتا ہے ( وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَۨا ۳۳: ۳۷) مگر محض انسان کی نارسائی کی وجہ سے پردۂ انتظار میں ہے، لہٰذا جو کام ہوچکا ہے اس کے متعلق کہنا پڑتا ہے کہ ہوتا ہے یا ہوگا اور یہ بات قرآنی حکمت کے سلسلے میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔

 

سوال نمبر ۳ کا جواب: خدا تعالیٰ کے خزانے، جن کا ذکر قرآن پاک (۱۵: ۲۱) میں فرمایا گیا ہے، عقل کلّ، نفس کلّ، ناطقؐ اور اساسؑ ہیں، اور ان سب کا نور امامِ زمانؑ ہیں، جیسا کہ سورۂ یاسین میں فرمایا گیا

 

۲۲

 

ہے کہ ہر ہر چیز امامِ مبینؑ کی ذاتِ اقدس میں سموئی ہوئی ہے، چنانچہ اس معنی میں امام مبین اللہ تعالیٰ کے خزانوں کا جامع خزانہ ہے، یعنی وہ تمام خزانوں پر محیط اور حاوی ہے، اور اہل ایمان کے لئے سب کچھ امامؑ کے پاک نور میں ہے، جیسا کہ ارشاد قرآنی ہے کہ : اور اللہ نے تم کو سب کچھ دے رکھا ہے جو تم نے مانگا (۱۴: ۳۴) یعنی ازل میں جو کچھ تم نے خدا سے مانگا تھا، وہ سب کچھ اس نے تمھارے لئے خزانہ بنا کر امام مبین میں رکھا ہے۔

 

سوال نمبر ۴ کا جواب: اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کا مومنوں پر درود بھیجنا اس طرح سے ہے کہ خداوند صرف امر فرماتا ہے جیسا کہ امر کرنا چاہئے (اور یہ سوال الگ ہے کہ باری تعالیٰ کے امر کی حقیقت کیا ہے؟ یا کلمہ “کُنۡ” کی تاویل کیا ہے؟) اور فرشتے خزائن الٰہی سے یہ صلوات مومنین کو پہنچا دیتے ہیں، اور اس میں جو کچھ فرق ہے وہ صاف صاف ظاہر ہے۔

 

سوال نمبر ۵ کا جواب: خزائن رحمت سے اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائیکہ کی صلوات حاصل کرنے کی اوّلین شرط محمدؐ و آل محمدؐ کی پیروی (فرمانبرداری) ہے، کیونکہ خدا اور رسولؐ کے حکم کے مطابق جس طرح صلوات پڑھی جاتی ہے، اس کی حکمت میں محمدؐ و آل محمدؐ کے پیچھے پیچھے چلنے کے لئے فرمایا گیا ہے، یعنی قرآن کی اس آیہ کریمہ میں جو آنحضرتؐ پر

 

۲۳

 

صلوات بھیجنے سے متعلق ہے اور صلوات کے الفاظ میں جو خود حضورؐ نے مقرر کئے، تاویلی زبان میں محمدؐ و آل محمدؐ کی تابعداری لازمی کی گئی ہے، جس کے بغیر مومنین کو خدا اور ملائکہ کی صلوات حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔

 

دوسری شرط مالی قربانی ہے، تاکہ جس کے وسیلے سے ہادیٔ برحق مومن کو پاک و پاکیزہ کردے، اور اسی طرح مومن خدا کے قریب ہو، تاکہ وہ اللہ اور اس کے فرشتوں کی صلوات کو حاصل کرسکے، اور اس کی تفصیل سورۂ توبہ کی آیت نمبر ۹۹ اور آیت نمبر ۱۰۳ میں ملتی ہے۔

تیسری شرط کثرت ذکر اور صبح و شام کی تسبیح و عبادت ہے، جس کے لئے آپ سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۴۱ اور ۴۲ کو دیکھ سکتے ہیں، جہاں اس صلوات کا ذکر بھی ہے جو پروردگار عالم اور اس کے ملائیکہ کی جانب سے مومنین پر نازل ہوتی ہے۔

 

چوتھی شرط کی تفصیل کے لئے آپ سورۂ بقرہ کی آیات نمبر ۱۵۵، ۱۵۶، ۱۵۷ کو ذرا غور سے دیکھیں (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷)، جس کا خلاصہ صبر ہے، صبر کے وسیلے سے خدا کی طرف رجوع ہے اور رجوع کے بعد صلوات حاصل ہوتی ہے۔

 

سوال نمبر ۶ کا جواب: اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیبؐ سے یہ فرمانا کہ : وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۭ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّھُمْ (۰۹: ۱۰۳) بہت بڑے معنی رکھتا ہے، یہ کوئی عام دعا نہیں، بلکہ صلوات ہی ہے، اور یہ وہی صلوات ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ خدا اور اس کے

 

۲۴

 

فرشتے مومنین پر صلوات بھیجتے ہیں، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ سے فرمایا کہ مومنین کو صلوات دیجئے، تو یہی صلوات امرِ خداوندی کی بنیاد پر دراصل خدا ہی کی صلوات قرار پائی ہے اور ملائیکہ کی صلوات بھی اسی میں ہے، اس سے یہ حقیقت کلّی طور پر روشن ہوجاتی ہے کہ خدا، ملائیکہ اور رسول اکرمؐ کی ایک ہی صلوات ہے۔

 

مذکورہ بالا آیت میں رسول خداؐ کی صلوات باعث تسکین قرار دی گئی ہے اور جس وقت ہم قرآن میں اس لفظ کے معنی اور حکمت دیکھتے ہیں تو صلواتِ رسولؐ کی عظمت و بزرگی ظاہر ہوجاتی ہے، کیونکہ اس مطلب کی وضاحت یا اس سوال کا جواب کہ “سکن” کے کیا معنی ہیں؟ کئی آیات میں موجود ہے، اور وہ ہیں ۰۲: ۲۴۸، ۴۸: ۰۴، ۴۸: ۱۸، ۰۹: ۲۶، ۰۹: ۴۰، ۴۸: ۲۶ ان آیات کریمہ میں “سکینہ” کے تحت روحانی تسکین کا ذکر فرمایا گیا ہے، جس میں ہر درجے کی روحانیّت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، آپ خود بھی ان آیتوں میں غور کریں۔

 

اسی کے ساتھ صلوات رسولؐ کی اہمیت کا بیان ختم نہیں ہوتا ہے، بلکہ یہ ضروری ہے کہ ہر اس آیت میں جو صلوات سے متعلق ہے بغور دیکھا جائے کہ صلوات کا ثمرہ، میوہ اور مقصد کیا ہے تاکہ اس سے صلوات کی ضرورت و اہمیت ظاہر ہوسکے، مثال کے طور پر (۳۳: ۳۴) سے ظاہر ہے کہ خدا اور فرشتوں کے صلوات بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ مومنوں

 

۲۵

 

کو تاریکیوں سے نور کی طرف لایا جائے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ صلوات اصل مقام پر روحانیّت اور علم و حکمت کی شکل میں ہے۔

 

سوال نمبر ۷ کا جواب: (الف) جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں فرمایا کہ:

“ھو الذی یصلی علیکم” تو اصطلاح ہوگئی کیونکہ یہاں “یصلی” کے لغوی معنی نہیں بنتے ہیں، کہ اس کا مطلب نماز کا ہو یا دعا کا، جبکہ خداوند پاک خود معبود برحق ہے عابد نہیں، سو اس کے معنی درود بھیجنے کے ہیں، اور یہ اصطلاح ہے۔

 

(ب) جہاں “یصلی” کے اصطلاحی معنی کے مطابق خداوند عالم اور ملائک بندگان خاص پر درود نازل کرتے ہیں، وہاں یہ درود رسول برحقؐ کے نور کے وسیلے سے بندوں کو ملتی ہے، اور بالکل اسی معنی میں رسول پاکؐ سے فرمایا جاتا ہے کہ:

وصل علیھم (اور ان پر درود بھیج دیجئے) اس سے یہ حقیقت دانشمندوں پر ظاہر ہوجاتی ہے کہ یہ لفظ درود کے معنی میں ہے اور اصطلاح کے طور پر ہے۔

(ج) پیغمبرؐ اور أئمّہ طاہرینؑ کی ہر دعا خاص ہوا کرتی ہے، اور ان حضرات کی کوئی دعا عام نہیں ہوتی، لیکن اس پاک دعا کے عام و خاص ہونے کی وجہ خود مومنین ہی ہیں کہ اگر وہ اعمال میں کمزور ہیں تو ان کے

 

۲۶

 

لئے عفو و درگزر کی دعا چاہئے اور یہ عام دعا ہوگئی، اور اگر وہ پاک ہیں تو پھر ان کو صلوات (درود) ملنی چاہئے۔

 

۲۷

 

صبر کی حکمت

 

صبر دراصل ایک خاص قرآنی اور عرفانی موضوع ہے، جو اسرار روحانیّت اور تاویل و حکمت کے جواہر سے پُر اور دین شناسی و خدادانی کی لازوال نعمتوں سے مالا مال ہے، اس لئے کہ صبر کا وصف انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کے اخلاق حسنہ کا ایک اہم عنصر ہے اور اس لئے کہ یہ حقیقی مومنین کی روحانی ترقی کے لئے ایک آسمانی لائحہ عمل (پروگرام) پیش کرتا ہے، جس کے مطابق کام کرنے میں کامیابی کی ضمانت ہے۔

 

صبر کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ یہ خود اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے، کیونکہ “الصبور” خدائے پاک کے ناموں میں سے ہے، اور اس سلسلے میں سب سے عظیم حکمت یہ ہے کہ پروردگار عالم کا اسم (الصبور) دوسرے اسماء کی طرح قرآن حکیم میں مذکور نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خداوند قدوس اپنے اس مبارک نام سے متعلق بھیدوں کو عوام پر ظاہر کردینا نہیں چاہتاہے، کیونکہ یہ ایسے اہم اور بنیادی قسم کے بھید ہیں کہ ان کی روشنی میں دوسرے بہت سے ربّانی اسرار کا بھی علم ہوسکتا ہے، مثال کے طور پر اگر مال لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ نام (الصبور) زمانہ

 

۲۸

 

نبوّت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے اور آپؐ کے بعد ہر زمانے میں امام وقت صلوات اللہ علیہ الصبور ہیں، تو پھر خدائی اسرار کے منشکف ہوجانے کا سلسلہ لا انتہا شروع ہوجاتا ہے۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ خدائے قدّوس کے نام “صبور” کا مکمل مظہر امام برحقؑ ہیں اور اسی طرح دوسرے تمام اسماء کا بھی، مگر اس نام میں سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہاں خدا کے افعال کا انسان کامل کی ذات عالی صفات سے ظہور پذیر ہوجانا زیادہ قابل فہم ہے، کیونکہ صبر قرآن ہی کی روشنی میں ایک ایسا فعل اور ایک ایسا عمل ہے کہ اس کا تعلق ناسوت اور بشریت سے ہے نہ کہ ذات سبحان سے، اور ویسے بھی دیکھا جائے تو یہ اساسی قانون ہے کہ اللہ وہ ذات ہے جو ہر ہر چیز سے بے نیاز اور پاک و برتر ہے، وہ موصوف نہیں اور بے صفت بھی نہیں، بلکہ دونوں صورتوں سے برتر ہے یعنی دونوں پربادشاہ ہے، کوئی چیز اس کی ذات میں نہیں، اس لئے صفات اور دوسری تمام چیزیں اس کے خزانوں میں موجود ہیں، اور کوئی شے ایسی نہیں جو خدا کے خزانوں سے باہر ہو، چنانچہ اس باب میں یہ آیہ کریمہ بہت کچھ روشنی مہیا کردیتا ہے:

وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُهٗ = اور (ممکنات میں سے) کوئی چیز ایسی نہیں مگر اس کے خزانے ہمارے پاس ہیں (یعنی خدا کی تمام چیزیں اس کی ذات میں نہیں اس کے خزانوں میں ہیں)۔

 

۲۹

 

وَمَا نُنَزِّلُهٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (۱۵: ۲۱) اور ہم کسی چیز کو نازل نہیں کرتے ہیں مگر دانستہ مقدار میں۔

 

اللہ تعالیٰ کے اس مقدّس ارشاد سے اہل ایمان کے لئے علم توحید کا خصوصی دروازہ کھل جاتا ہے، وہ خزائن الٰہی کی طرف بصد شوق متوجہ ہوسکتے ہیں، کیونکہ اس حکم میں بڑی بڑی بشارتیں ہیں، بہت سی غیر متوقع دولت کی نشاندہی کی گئی ہے، بہت سے مشکل مسائل کا حل موجود ہے اور بہت سی روح پرور باتیں ہیں۔

قرآن میں صبر کے تین درجے مقرر کئے گئے ہیں، اور صبر کی کیفیّت و حقیقت یا کہ صبر کی تعریف بھی انہی سطحوں پر محدود ہے، وہ ہیں درجہ انبیاء، مرتبہ أئمّہ اور مقام مومنین، اور ان کے سوا جو بھی ہیں، ان کے بارے میں صبر کا لفظ اپنے اصل معنوں کے ساتھ استعمال نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کبھی ہوسکتا ہے، کیونکہ دین سب سے بڑا قانون ہے، اور اس میں حکمت کے علاوہ عقل و منطق بھی بدرجہ اتم موجود ہے، سو دائرۂ اسلام کے باہر کہیں بھی صبر کا وجود نہیں ہے، جو حقیقی معنوں میں صبر کہلا سکے۔

 

صبر کا اطلاق فرشتے پر بھی نہیں ہوسکتا ہے، کیونکہ صبر وہ صفت ہے جو عقل و نفس کی فطری کشمکش اور پھر عقل کی حمایت اور نفس کی مخالفت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے، جبکہ فرشتہ صرف عقل رکھتا ہے اور نفس

 

۳۰

 

نہیں، اور حیوان میں بھی صبر کی صلاحیت اس لئے نہیں ہے کہ وہ صرف نفس کا مالک ہے اور اس کی کوئی عقل نہیں، چنانچہ صبر جیسی عالی شان صفت وہاں پیدا ہوجاتی ہے جہاں عقل و نفس دونوں کی قوّتیں موجود ہوتی ہیں، اور ایسا مقام انسانیّت و بشریّت ہی کا ہے، جس سے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اور ان کی تابعداری کرنے والے افراد مراد ہیں، اور یہی صحیح معنوں میں انسان ہیں، اور جو لوگ حقیقت میں انسان نہیں صرف شکل سے انسان لگتے ہیں تو ان کے بارے میں قرآن کا حکم آپ خود سن لیں اور دیکھیں کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ڮ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا  ۡ وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا  ۭاُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ  ۭاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ(۰۷: ۱۷۹)

اور گویا ہم نے (خود) بہتیرے جنّات اور آدمیوں کو جہنم کے واسطے پیدا کیا اور ان کے دل تو ہیں (مگر) ان سے سمجھتے ہی نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے سننے کا کام ہی نہیں لیتے یہ لوگ گویا جانور ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ بے خبر ہیں۔

 

اس ارشاد الٰہی سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ بہت سے لوگ انسانی

 

۳۱

 

شکل میں ہونے کے باؤجود حیوان ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ وہ انسان نما حیوان ہے، جس کی وجہ آیت کی تفصیل سے ظاہر ہے کہ نہ تو کوئی ظلم اور زیادتی ہے اور نہ ہی کوئی ہدایت کی کمی، بلکہ انہوں نے دل، آنکھ اور کان سے وہ کام نہیں لیا، جس کے لئے یہ قوّتیں ان کو عطا کردی گئی تھیں، اور پھر نتیجے کے طور پر یہ لوگ درجہ آدمیّت سے نیچے گرگئے اور حیوان سے بھی زیادہ گمراہ ہوگئے ہیں، اس لئے کہ حیوان کو جو مقام ملا ہے وہ اسی پر ٹھہرا ہوا ہے، مگر وہ لوگ اصل مقام سے بہت دور پڑگئے ہیں اور ان کی تمام غلط کاریوں کی بنیادی وجہ غفلت ہے، اور لفظ غفلت کے اندر بہت سے قابل فہم اشارات موجود ہیں کہ انہوں نے زمانے کے سرچشمہ ہدایت کو نظر انداز کردیا، لہٰذا ان کو وہ علم نہیں ملا جس کے ہوتے ہوئے انسانی دل و دماغ اور چشم و گوش پر غفلت کا پردہ نہیں پڑ سکتا ہے۔

 

اس بیان سے یہ سارے مسائل حل ہوگئے کہ صبر کی اہمیت اور قدر ومنزلت کیا ہے؟ صبر کا تعلق لوگوں کے کن مراتب سے ہے؟ خدا کے صبر کا ذکر قرآن میں کیوں موجود نہیں؟ کیا خدا کی صفات بھی خدا کے خزانوں میں ہیں، جس طرح اس کی ہر ہر چیز اس کے خزانوں میں ہے؟ فرشتہ اور حیوان میں صبر کا وجود نہیں تو اس کا کیا سبب ہوسکتا ہے؟ وغیرہ۔

 

جب ہم صبر کو خدا کی ذات اقدس سے منسوب کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس کے ایسے معنی نہیں ہوتے جیسے بندوں کے صبر کے ہوتے ہیں، بلکہ

 

۳۲

 

صبر اور دوسری تمام صفات اللہ کے اس معنی میں ہیں کہ یہ چیزیں اس کے خزانوں میں اس کی ملکیت کے طور پر ہیں، کیونکہ مالک حقیقت وہی ہے، اور دوسری خاص بات یہ ہے کہ ویسے تو سب چیزیں خدا کی ہیں، مگر کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو خدا سے خصوصی نسبت رکھتی ہیں، جیسے قلم الہٰی، لوح محفوظ، عرش، کرسی، خدا کی روح (روح اللہ)، خدا کی رسی، خدا کا چہرہ، خدا کا ہاتھ، خدا کی کتاب، اور خدا کا دین، جس کا سبب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی حکمت کے قانون کے مطابق اعلیٰ اعلیٰ درجات کو اپنانے کی مثال میں لوگوں کو یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ خلیفہ روئے زمین (امام زمانؑ) کی فرمانبرداری کے وسیلے سے قربِ خداوندی کے ان درجات کو حاصل کریں۔

 

جب ہم مذکورہ حقیقتوں کی روشنی میں یہ مانتے ہیں کہ صبر کا دائرہ پیغمبرؐ، امامؑ اور مومنین تک محدود ہے، تو یہ قرآن حکیم کے دوسرے لفظوں میں حزب اللہ (۰۵: ۵۶) کی بات ہوئی، جس سے خدا کا لشکر مراد ہے، چنانچہ اللہ کا صبر اس کے لشکر میں ہے، اور یہیں پر اس کی کار فرمائی ہوتی رہتی ہے، یہ خدائی فوج (گروہ مومنین) اپنے علم و عمل کی تمام تر قوّتوں کے ساتھ ہمیشہ حزبِ شیطان کے خلاف نبرد آزما ہے، اس مسلسل جنگ کا زبردست پہلو روحانیّت میں ہے، اور گمسان کی لڑائی نورانی عبادت کے دوران، اور روزانہ زندگی میں ہے جس خوبی کے ساتھ صبر کا درس لینا

 

۳۳

 

چاہئے وہ بھی اس جنگ عظیم کی تیاری کے طور پر ہے، تاکہ صبر و عبادت کی بدولت اللہ تعالیٰ کی معجزانہ مدد حاصل ہو، کہ قرآن حکیم نے آسمانی تائید اور فتح مبین کی یہی دو شرط بتائی ہیں، مختصر یہ کہ صبر کا خاص مظاہرہ جہاد اصغر اور جہاد اکبر میں کیا جاتا ہے، مگر آج کل صرف جہاد اکبر ہی میں سب کچھ رکھا گیا ہے۔

 

قرآن پاک میں تقریباً سو مقامات پر صبر کی حکمتیں بیان کی گئی ہیں، اور ہر عظیم حکمت ایک بڑے مضمون کی شکل میں پھیلائی جاسکتی ہے، کیونکہ روحانی اور قرآنی حکمتوں کی تاویلی ہم آہنگی اور معنوی وحدت کی مثال ایک بڑے تالاب کے پانی کی طرح ہے، کہ جہاں کہیں سے بھی بالٹی بھر بھر کر پانی اٹھالیا جائے، تو بجائے اس کے کہ وہاں ذرا جگہ خالی ہو اور اردگرد کا پانی اپنے مقام پر ٹھہرا رہے، سارے پانی کا رخ بالٹی کی طرف ہوجاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حقیقی مومنین امام اطہرؑ کی یاری سے علم و حکمت کے میدان میں آگے بڑھتے ہیں اور جس وقت دینی صداقت و حقیقت کی کوئی بات کرتے ہیں تو اس میں ان کی سچائی کی شہادت دینے کے لئے قرآن مقدّس کی ہر ہر آیت تیار نظر آتی ہے۔

کوئی فرد مومن ذاتی اعتبار سے ایسا کبھی نہ سوچےکہ صبر اس کو ایک بنی بنائی ہوئی چیز کی شکل میں ملے گا، ایسا ممکن نہیں، بلکہ خداوندِ عالم کی زبردست حکمت اسی میں ہے کہ ہوشمند مومن اپنی ذات میں یہ عالیشان

 

۳۴

 

صفت پیدا کرے، جس کے لئے ہر قسم کی صلاحیت عطا کی گئی ہے، تاکہ بندۂ حق پرست میں اللہ کی عادتیں پیدا ہوں، کہ اس کی کئی عادتوں کو بندوں ہی سے ظاہر ہونا ہے، کیونکہ اللہ کی عادتوں کو اپنائے بغیر اس کا قرب حاصل نہیں ہوسکتا ہے، مثال کے طور پر گیلی لکڑی آگ سے دور ہے، سوکھی لکڑی قریب، اور جلتی ہوئی لکڑی آگ سے مل رہی ہے، چنانچہ جب ہم یہ مانتے ہیں کہ فنا فی اللہ کا درجہ حق اور اس کا نظریہ صحیح ہے تو پھر ہمیں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اس فنا سے پہلے اللہ کی ان عادات کو قبولنا پڑتا ہے جو عالم ناسوت سے خاص تعلق رکھتی ہیں، جیسے صبر، حلم، رحم عفو وغیرہ کیونکہ بندے کی مکمل تیاریوں کے بغیر منزل فنا خود بخود سامنے نہیں آسکتی ہے، وہاں تک پہنچ جانے کے لئے علم و عمل کا ایک دشوار سفر ہے، مگر اس میں خداوند کی رحمت دستگیری کرسکتی ہے۔

 

۳۵

 

گریہ و زاری اور خصوصی دعا

 

گریہ و زاری فارسی کا ایک مرکب لفظ ہے، جس میں “گریہ” کے لغوی معنی ہیں: رونا، آنسو بہانا، اور زاری کا مطلب ہے خود کو عاجز و ناتوان قرار دینا، اور اصطلاحاً اس سے وہ تسبیح و عبادت مراد ہے، جو بحدِّ امکان عجز و انکساری، رقت قلبی اور بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، اور خصوصی دعا وہ ہے جو گریہ و زاری کی ایسی ہی حالت میں اپنے لئے یا دوسروں کے حق میں مانگی جاتی ہے، تاکہ پاک خداوند کی رحمت و یاری مومنین کی دستگیری کے لئے آجائے، خصوصی دعا کا ذکر یہاں اس لئے آیا ہے کہ اس کا وجود قیام گریہ و زاری پر ہے، یا یوں کہا جائے کہ یہ گریہ و زاری کا دوسرا نام ہے۔

 

ہر ہوشمند مومن کو یہ حقیقت ضروری طور پر جاننا چاہئے کہ دین حق کی اساسی اور ضروری باتیں ہمیشہ سے ایک ہی حال پر قائم رہتی ہیں اور ان میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، چنانچہ آپ قرآن مقدّس میں یقین کی حد تک اس حقیقت کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ دین کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو شروع سے لے کر آخر تک تمام پیغمبروں میں مشترکہ طور پر پائی

 

۳۶

 

جاتی ہیں، اس لئے وہ ضروری اور بنیادی قسم کی ہیں، انہی اہمیت والے امور میں سے ایک گریہ و زاری بھی ہے، جو کل انبیاء و اولیاء کی پاکیزہ عادت کی حیثیت سے چلی آئی ہے، اور دنیا میں کوئی ایسا رسول، ولی، عارف اور عاشق نہیں آیا ہے، جس نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے گریہ و زاری نہ کی ہو۔

 

قرآن حکیم میں حضرت آدمؑ سے شروع کرکے جہاں جہاں توبہ کا ذکر ہے، تو وہاں آپ ہر گز یہ خیال نہیں کرنا کہ برستے ہوئے آنسوؤں کے بغیر خشک خشک لفظوں کی کوئی توبہ قبول ہوسکتی ہے، جبکہ توبہ کی روح سخت ندامت و پشیمانی ہے اور پشیمانی کا عمل گریہ و زاری۔

 

آئینہ قرآن میں انبیاء و اولیاء (علیھم السّلام) کے نمونہ عمل کے تابناک چہرے کو دیکھنے سے یہ حقیقیت واضح ہوجاتی ہے کہ وجود بشریّت میں آنسوؤں کے بیش بہا موتیوں کا خزانہ اس عظیم مقصد ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ یہ گوہر آبدار صرف اور صرف راہ مولا میں نچھاور کئے جائیں، جس کے لئے بہت سے مواقع ہیں مگر اس سلسلے کی سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ آیات خداوندی سے متاثر ہوکر مومنین اشک ریز ہو جائیں، اور عجز و انکساری، اور قدردانی و شکرگزاری کے ان اشکوں کے ساتھ ساتھ سجدۂ عبودیّت میں جاکر ٹھہریں، یعنی آنسوؤں سے کام لینے کی سب سے بڑی فضیلت اس بات میں ہے کہ قرآن اور امام دونوں کے

 

۳۷

 

زیر اثر بہا دیئے جائیں، کیونکہ خدا کی نشانیوں (یعنی معجزات) کے وہ سرچشمے جو مومنین کے سامنے ہیں یہی دو ہیں، اور میں یہاں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ قرآن پاک کی (۱۷: ۱۰۹) اور (۱۹: ۵۸) کی روشنی میں ہے۔

 

قرآن پاک خاموش آیات کا سرچشمہ ہے اور امام اطہرؑ بولنے والی آیتوں کا اور آیات کے اصل معنی معجزات ہیں، چنانچہ مرتبۂ امامت کے ظاہر و باطن کا کوئی مقام ایسا نہیں ہے جو بصیرت والے مومنین کے لئے ظہور معجزات کے بغیر ہو، کیونکہ امام زمانؑ خدائے واحد کا نور مطلق ہے، اس لئے نورانیّت میں اس کے ساتھ معجزات (آیات) کی وابستگی ایسی ہے جیسے سورج کے ساتھ شعاعوں کی، مگر ہمیشہ کے لئے یہ بات یاد رہے کہ ہر چیز کی ترتیب ہوا کرتی ہے اسی طرح معجزات کی بھی ترتیب ہے یعنی معجزات زینہ بزینہ واقع ہیں، مثال کے طور پر زمین سے لے کر عرش اعلیٰ تک عجائب و غرائب (معجزات) کی سیڑھی لگی ہے، جس کا سفر قرآن کے ظاہر کے مطابق ۵۰۰۰۰ (پچاس ہزار) برس کا ہے، دیکھیں المعارج (۷۰: ۰۴)۔

 

اس کے معنی یہ ہوئے کہ انبیاء و أئمّہ کے نقش قدم پر چلنے والے مومنین میں سے جن حضرات کو معراج معرفت کے آخری درجے تک پہنچ جانے کی سعادت حاصل ہوتی ہے، ان کے مشاہدہ کئے ہوئے معجزات کی تفصیل پچاس ہزار برس کی انسانی زندگی پر پھیلائی جاسکتی ہے، یہ

 

۳۸

 

معجزوں کی ترتیب اور فراوانی کی بات ہے، مگر افسوس ہے کہ لوگ معجزہ کے اصول اور ترتیب کو نہیں سمجھتے ہیں اور اس کی کلیدوں کو قبول نہیں کرتے ہیں اور پھر یکایک درمیانی یا اونچے درجے کے معجزات کا تقاضا کرتے ہیں جو بڑا خطرناک کام ہے۔

 

اس سوال کا جواب کہ اصول اور ترتیب کے بغیر کوئی معجزہ کیونکر تباہی و بربادی کا باعث ہوسکتا ہے؟ اور کیا اگلے زمانے کے کافروں نے اپنے اپنے پیغمبروں سے ایسے ہی خطرناک معجزے طلب کئے تھے؟ یہ ہے کہ ہاں، وہ بڑی غلطی اور گمراہی پر تھے، کیونکہ مومنین نے ہادیٔ وقت کی اطاعت و محبت کو اپنا شیوہ بنالیا، تو ان کو سب سے پہلے ذکر و عبادت سے زبردست مزہ پانے کا معجزہ اور گریہ و زاری کا معجزہ ہونے لگا، جس سے رفتہ رفتہ ان کی روحانی پاکیزگی ہوئی اور باطنی آنکھ روشن ہوگئی، پھر وہ علی الترتیب معجزات دیکھنے اور ان کے بوجھ کو سہارنے کے قابل ہوگئے، مگر منکروں نے اپنی جہالت و نادانی سے ایسے بڑے معجزے کی شرط لگائی، جس کے برداشت کرنے کے وہ قابل ہی نہ تھے، پھر اس معجزے نے ان کو یا تو اپنی مادّی طاقت سے یا علمی قوّت سے ہلاک کردیا، اور اس میں قانون قدرت کا کیا قصور ہوسکتا ہے۔

 

اس بیان سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ دین میں گریہ وزاری کی بہت بڑی اہمیت ہے، کیونکہ وہ نہ صرف خصوصی دعا کے معنی میں ہے، بلکہ

 

۳۹

 

وہ توبہ کی بنیادی شرط کی حیثیت سے بھی ہے، یہ زمزمہ عشق بھی ہے اور اولیائی عبادت بھی، یہ خود خوف الٰہی رکھنے کا ثبوت بھی ہے اور شکر گزاری کی دلیل بھی، یہ حقیقی محبّت کا وسیلہ بھی ہے اور نورانی دیدار کا ذریعہ بھی، اس میں دل کی پاکیزگی بھی ہے اور روح کی تازگی بھی، یہ ایک میٹھا میٹھا سا پُرحکمت درد بھی ہے اور ایک لذیذ دوا بھی، پس ان تمام اعلیٰ درجے کی خوبیوں کی وجہ سے گریہ و زاری سب سے اونچی عبادت ہے، لہٰذا وہ ان سارے معنوں کے ساتھ بارگاہ ربّ العزّت میں قبول ہوجاتی ہے۔

گریہ و زاری اور عجز و انکساری کے عمل سے لاتعداد روحانی فائدے حاصل ہونے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان اگرچہ اپنے باطن کو اس طرح پاک نہیں کرسکتا ہے، جس طرح کہ کسی مشینری کے بیرونی حصے کو صاف کرتا ہے یا اس کے اندرونی پرزوں کو کھول کھول کر صاف کیا جاتا ہے، لیکن وہ جب بھی چاہے تو اپنے بہترین قول و عمل کے زوردار اثر سے دل و جان کو پاک و پاکیزہ کرسکتا ہے، کیونکہ وہ خدا کی بے پناہ رحمت سے ایسی ایسی قوّتوں اور صلاحیتوں کا مالک ہے کہ جن کی بدولت وہ تزکیۂ نفس اور تطہیرِقلب کا کام بحسن و خوبی انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ ظاہر و باطن میں پاک و پاکیزہ ہوسکتا ہے۔

 

گریہ وزاری، جیسا کہ بیان ہوا، ایک انتہائی طاقتور اور پُراثر قول

 

۴۰

 

و عمل ہے، جو دل سے ہر قسم کی آلائش کو دھو کر صاف کرتا ہے، چنانچہ حقیقی مومنین گریہ و زاری اور مناجات کے لئے جو جو الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ رفتہ رفتہ قدرتی طور پر دل کی گہرائی سے نکلنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ ان میں روحانی تائید کی جھلکیاں نظر آتی ہیں، یعنی فرشتے اس میں مدد کرتے ہیں، اور اس وقت مومن توفیق، روحانی ہدایت، القاء، الہام اوراولیائی وحی کے مقامات میں سے کسی مقام پر ہوتا ہے۔

عوام وحی کے متعلق جو کچھ معلومات رکھتے ہیں وہ بہت ہی محدود ہیں، جبکہ خواص اس کے بہت سے بھیدوں کو جانتے ہیں، چنانچہ وحی کی ایک قسم وہ بھی ہے جو انتہائی پاکیزہ عاشقانہ گریہ و زاری کی سطح پر نازل ہوتی ہے، اور انہی الفاظ کے ظاہر و باطن میں قائم رہتی ہے، جو گریہ و زاری میں مناجات کے طور پر استعمال کئے گئے تھے، اور یہ پیغمبرانہ درجے کی بات ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ وحی کبھی تو زبان الوہیّت سے واقع ہوتی ہے اور کبھی زبان عبودیّت کو استعمال کرتی ہے، جس کی مثال ہم قرآن اور زبور سے لے سکتے ہیں، کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ بندوں سے مخاطب ہے اور زبور میں بندہ خداوندِ تعالیٰ سے مناجات کررہا ہے، مگریہ کتاب بھی آسمانی وحی کی حیثیت سے ہے، ہر چند کہ بظاہر حضرت داؤدؑ کی زبان سے ہے۔

 

یہ کیوں ایسا ہے کہ گریہ و زاری بتدریج اتنی ترقی کرتی ہے کہ بعض

 

۴۱

 

مثالوں میں آسمانی وحی کی شکل اختیار کرلیتی ہے یا اسکے قریب قریب جاتی ہے؟ یا یوں پوچھنا چاہئے کہ کیوں اللہ تعالیٰ یا فرشتہ بندۂ عاجز کی زبان سے بولنا پسند کرتا ہے؟ جواب ہے کہ بندۂ مومن کی خودی (انا) یا تو خاص ذکر سے فنا ہوجاتی ہے یا گریہ وزاری سے، اس وسیلے سے جب خدائی نورانیّت دل میں آتی ہے تو خودی کی ظلمت چلی جاتی ہے۔

یہ سب گریہ و زاری کی تعریف اور فضیلت ہے، جو قلب انسانی کو دھوکر اور نچوڑ کر رکھ دیتی ہے، تاکہ روح قدسی اس کو استعمال کرسکے، اور قدسی روح ہی میں روحانیّت کے سارے معجزات پوشیدہ ہیں، اور یہاں “قدس” کے لفظ میں انتہائی پاکیزگی کا تصوّر پیش کیا گیا ہے، جس کا واضح اشارہ یہ ہے کہ مومنین خود کو ہر قسم کی کدورتوں اور آلائشوں سے پاک و صاف رکھیں، اور یہ بھی جان رکھیں کہ روح قدسی امام کے مخالفین سے قلبی دوستی رکھنے والوں سے گریز کرتی ہے۔ (قرآن میں روحانی تائید سے متعلق ذکر میں دیکھیں)۔

 

گریہ و زاری شیطان اور نفسِ امّارہ کے خلاف جہاد اکبر ہے، جس سے شیطان ایک بار دور ہوجاتا اور نفس نیم مردہ ہوکر رہ جاتا ہے، پس گریہ و زاری کی بار بار ضرورت رہتی ہے، تا آنکہ مومن کو نجات ملے، کوئی شک نہیں کہ آنسوؤں کی قربانی سے اخلاقی قوّتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے، فرشتوں اور پاک روحوں کو آکر باطن کی صفائی کرنے کا موقع ملتا ہے،

 

۴۲

 

آسمانی رحمت و درود نازل ہوجاتی ہے، چہرے پر ایک پروقار روشنی چمکتی ہے، باہمی اخوّت و محبت کا دور دورہ ہوتا ہے اور آئینہ دل میں روحانی تجلّیات کی بشارت ملتی ہے۔

ایک شیر خوار بچہ جو بول نہیں سکتا ہے، وہ گریہ سے کام لے کر مادر مہربان کی تمامتر محبتوں اور مہربانیوں کو حاصل کرسکتا ہے، اور اس کے رونے میں اتنا زبردست اثر ہے کہ اس سے ماں کے دل کو سینے کے اندر محفوظ ہونے کے باؤجود بڑا دھکا لگتا ہے، جس سے مادر مشفقہ کو بہت کچھ رحم آتا ہے اور افسوس ہوتا ہے کہ اس کا محبوب بچہ دیر تک روتا رہا۔

 

اگر مان لیا جائے کہ دل زمین کی طرح اپنی قسم کی پیداوار کا سرچشمہ ہے، تو پھر اس میں روحانیّت کے باغ و چمن پیدا کرنے کے لئے ہمیشہ عقیدت مندی اور اخلاص و محبت کے آنسوؤں کا پانی چاہئے، اگر آپ کا کہنا یہ ہے کہ دل لوہے کی طرح سخت ہے، تو اس کو پگھلا کر کوئی مفید اور عمدہ چیز بنانے کے لئے گریہ و زاری اور حقیقی عشق کی آگ چاہئے، اگر دل کسی ایسی چیز کی طرح ہے جس کو بار بار دھونے کی ضرورت پڑتی ہے، تو اس میں بھی وہی آنسوؤں کا پانی چاہئے، اور اگر دل حیات و بقاء کا سمندر ہے اور آنسو اس کے موتی ہیں، تو اس صورت میں بھی یہی عمل چاہئے، تاکہ گوہر درخشندہ سے شاہنشاہ کی شایان شان مہمانی کی جائے۔

جب ہواؤں کے دوش پر اٹھائے ہوئے بوجھل بوجھل بادل فضاؤں

 

۴۳

 

پر محیط ہو کر موسم بہار کی بارش برساتے ہیں، تو اس میں ایک طرف باغ و بوستان کی سیرابی اور تروتازگی کا دلکش منظر ہوتا ہے، اور دوسری طرف درختوں کے پتوں اور پھولوں کی پنکھڑیوں پر آبی قطرات کے جھلکتے ہوئے موتیوں کی حسین بہار، یہ بندۂ مومن کے ان پاک و پاکیزہ آنسوؤں کی ایک بہترین مثال ہے جو امامِ برحقؑ کے مقدّس عشق میں برس پڑتے ہیں۔

 

آپ نے مطالعہ قدرت کے سلسلے میں ضرور یہ سوچا ہوگا کہ بارش کا سرچشمہ کہاں ہے اور یہ وہاں سے کس طرح آتی ہے، جی ہاں! اس کا سرچشمہ تو سمندر ہے، مگر بارش کے سلسلے میں سورج کا کرشمہ بہت ہی عجیب اور عظیم ہے، کہ وہ سطح سمندر پر گرم شعاعیں برساتا ہے، اور پانی کے بہت بڑے ذخیرے کو کثیف سے لطیف بنا کر بخارات اور پھر بادلوں کی شکل میں بلند کردیتا ہے، اور فضا میں پھیلا دیتا ہے، جس میں بظاہر ہوا کی مدد ہوتی ہے مگر حقیقت میں خود ہوا کی حرکت سورج کی وجہ سے ہے، پس سورج ہی ہے جو یہ سب کام کرتا ہے، جس کے نتیجے میں بارش برستی ہے، یہی حال مومن کی روحانی بارش کا بھی ہے، کہ جس کے تمام ذرائع نور ہی کی بدولت ہیں، جو عالم روحانیّت کا سورج ہے، چنانچہ نور امامت کا خیال و تصوّر، ذکر و فکر اور عشق و محبت کی مثال ایسی ہے، جیسے باطنی سورج کی ضیاپاش کِرنیں وجود مومن کے سمندر پر پڑرہی ہیں، جس سے دل

 

۴۴

 

و دماغ کے آسمان میں نورانی دیدار کے احساسات و جذبات کے کالے کالے بادل چھا جاتے ہیں، اور پھر آنکھوں کی راہ سے جواہر کی مینہ برسنے لگتی ہے، جس میں روح اور روحانیّت کی آبادی ہے۔

 

یہاں پر ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن باسعادت مومنین کا باطن مذکورہ وسیلے سے دھل کر پاک ہوجاتا ہے تو ذاتی اور خصوصی ذکر و عبادت کے علاوہ ان کو اور کیا کیا کرنا چاہئے؟ جواب ہے کہ چونکہ وہ وقت رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا ہے اور دعائیں قبول ہونے کا موقع ہے اس لئے وہ دنیا کے تمام مومنین کے حق میں نیک دعائیں مانگا کریں، پھر بھی یہ ایک عام بات ہے اور اس میں کوئی دقت نہیں، سو ایسے مواقع پر ان حقیقی مومنین کی عظیم قربانی یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنے عزیزوں ہی کے لئے خاص خاص دعائیں کرلیا کریں بلکہ ساتھ ہی ساتھ ایسے دینداروں کے لئے بھی خیر خواہی کریں اور نیک دعائیں مانگیں، جن سے یہ ظاہر میں یا باطن میں ناراض ہیں، تاکہ اس نعمت عظمیٰ کا حق شکر گزاری ہر طرح سے ادا ہو، اور خداوند قدوس راضی ہو کر مزید نعمتیں عطا فرمائے۔

 

۴۵

 

نیند کے بارے میں ضروری نکات عبادت کی مناسبت سے

 

عبادت و بندگی کے سلسلے میں نیند ایک بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے، اس لئے یہ ضروری ہے کہ دانشمند مومن نیند کی حقیقتوں کو اچھی طرح سے سمجھ لے۔

 

نیند پر طبی اور سائنسی نقطہ نظر سے غور کرنے اور مذہبی و روحانی نقطہ نظر سے غور کرنے کے درمیان بڑا فرق پایا جاتا ہے، سب سے پہلے مختلف قسم کے جانوروں میں نیند کا تجزیہ کرنا چاہئے، تاکہ اس سے یہ بات ظاہر ہو کہ نیند کا معاملہ اتنا ضروری نہیں جتنا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے، کیونکہ بعض جانور ایسے ہیں جو گہری نیند سوتے ہیں، جیسے خرگوش، جو اس بارے میں مشہور ہے، اور کچھ جانور ایسے بھی ہیں جو جاگے رہتے ہیں، جس طرح گھوڑا، اب اس سے یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ اس حقیقت کے باؤجود کہ گھوڑا جو کچھ سخت کام کرتا ہے اس کے مقابلے میں خرگوش کچھ بھی نہیں کرتا ہے، تو پھر خرگوش کے لئے نیند کیوں اتنی ضروری ہے، جبکہ گھوڑے کے لئے اتنی ضروری نہیں؟ اس میں اللہ

 

۴۶

 

تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لئے ایک اشارہ ہے کہ اگر آدمی چاہے تو خرگوش کی سی نیند میں سوسکتا ہے یا چاہے تو گھوڑے کی طرح بیدار رہ سکتا ہے، کیونکہ انسان میں دنیا بھر کے جانوروں کے عناصر موجود ہیں، خاص زبان میں کہنا چاہئے کہ اس کی عادت بدل سکتی ہے اور خاص ترین زبان میں کہنا چاہئے کہ اس کی روح بدل سکتی ہے، کیونکہ انسانی روح کے ارتقاء و بلندی کے لئے کئی درجات مقرر ہیں، جو روح نباتی، روح حیوانی، روح ناطقہ اور روح قدسی ہیں۔

 

اب ہم صرف حیوانی روح کے بارے میں بات کرتے ہیں، کیونکہ نیند اسی سے متعلق ہے، لفظ “حیوان” تمام جانوروں میں مشترک ہے، اس صورتحال میں آدمی کی روح حیوانی سے کیا مراد ہوسکتی ہے؟ کیا اس کی مراد خرگوش جیسے جانور کی سی روح ہے جو اکثر گہری نیند میں رہتا ہے، یا (اس کا مطلب) گھوڑے کی سی روح ہے جو سوئے بغیر رہتا ہے؟ یہ صرف آدمی کی عادت اور فعل کو دیکھنے سے معلوم ہوجائے گا۔

 

یہ بہت ہی عجیب بات ہے کہ اگرچہ دماغی یا جسمانی کام کرکے سب ہی لوگ تھک جاتے ہیں، تاہم نیند کی بابت ان سب کی عادتیں مختلف ہوا کرتی ہیں، ہر چند کہ ان کے اجسام ایک جیسے ہوتے ہیں، یعنی کہنا یوں ہے کہ کچھ لوگ بہت کم سوتے ہیں اور کچھ لوگ زیادہ، اس کے بعد چلئے اب ہم صرف ایک ہی شخص کی مثال لیتے ہیں، کہ وہ بعض حالات میں بہت ہی

 

۴۷

 

کم سوتا ہے، بعض دفعہ بہت زیادہ سوتا ہے اور بعض اوقات وہ بالکل سو ہی نہیں سکتا، مثلاً جبکہ ایک بہت بڑی رقم ساتھ لے کر کہیں سفر پر جارہا ہو، ایسی حالت میں جب وہ غیر مانوس جگہوں پر رات گزارتا ہے تو اس کو اس خوف سے نیند ہی نہیں آتی کہ کہیں چور اس کے روپوں کو نہ چرا لے جائے۔

 

کامل انسانوں کے علاوہ کچھ مومنین ہوا کرتے ہیں، جو بہت ہی کم سوتے ہیں، اس کے باؤجود بھی ان کو آرام کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے، کیونکہ ان کی روح ایک غافل شخص کی روح سے مختلف ہوتی ہے، اور اسی وجہ سے ایسی روح نیند اور سکون کے مقصد کو بہت ہی کم وقت میں حاصل کرسکتی ہے، کیا یہ خداوند قادر مطلق کے لئے ناممکن ہے کہ اپنے برگزیدہ بندوں کو نیند سے آزاد کردے؟ یا ان سے خواب غفلت کو دور کرکے ان کو اعتدال کی نیند سوجانے کے عادی بنائے؟ اس میں زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں ایک عظیم بھید پوشیدہ ہے۔

 

پیغمبرِ اکرمؐ اور امامِ عالی مقامؑ کے اخلاق حسنہ میں ایسے تمام سوالات کے لئے جوابات موجود ہیں، جو جسمانیّت و بشریّت کے بارے میں پیدا ہوجاتے ہیں، ان مقدّس ہستیوں کا نمونہ عمل قرآن اور روحانیّت دونوں میں موجود ہے، قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ رسول اطہرؐ کے خصائل محمودہ کا ذکر فرماتا ہے، جس سے یہ ظاہر ہے کہ حضور انورمومنین و متقین کے

 

۴۸

 

سردار تھے، چنانچہ آنحضرتؐ جسمانی زندگی کے اعتبار سے ایک ایسے مقام پر کھڑے تھے، جہاں پر انسانی فطرت کا آخری سرا ہوتا ہے اور جہاں سے ملکوتی (فرشتوں کی) فطرت شروع ہوجاتی ہے، یہ بات اس اعتبار سے ہے کہ آنحضرتؐ فرشتوں سے بھی آگے تھے، اور آپ کے برحق جانشین (یعنی امامؑ) بھی ایسے ہیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ انسانِ کامل کے نقش قدم پر چل کر بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے، چنانچہ نیند کوئی ایسی چیز نہیں جس پر مومن غالب نہ آسکے، نیند بموجب قرآن (۷۸: ۰۹) سبات ہے (یعنی سکون) لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کا اشارہ خوابِ غفلت کی طرف نہیں، بلکہ اس سے معجزانہ نیند مراد ہے، جس کا ذکر قرآن کے ایک اور مقام پر “نعاس” کے لفظ میں ہوا ہے (۰۸: ۱۱) جو ذاکر پر کامیاب ذکر کے دوران طاری ہوجاتی ہے، اسی قسم کی نیند سے محویّت و فنائیّت حاصل آتی ہے، جس کے نتیجے میں مومن دنیا و مافیہا کو بھول جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کی خودی بھی فراموش ہوجاتی ہے اور صرف خدا ہی کی یاد جاری و باقی رہتی ہے، جبکہ دل و دماغ سے سب کچھ مٹ جاتا ہے۔

انسان میں جو قدرتی صلاحیتیں موجود ہیں، ان کے دو دو سرے ہوا کرتے ہیں ایک سرا خدا کی جانب ہوتا ہے اور دوسرا سرا انسان کی طرف، صلاحیّت و قوّت کا جو سرّا اللہ کے حضور کی طرف ہے، وہ بدرجہ

 

۴۹

 

انتہاء پُرحکمت، عالی شان، پاک و پاکیزہ اور مسرّت بخش ہوتا ہے، لیکن آدمی کے ہاتھ میں جو سرا ہے، وہ بہت ہی آلودہ اور تاریک ہے، جس کی اصلاح و پاکیزگی بے حد ضروری ہے اور یہ اصلاح ممکن ہے۔

 

دوسرے الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ تمام انسانی صلاحیتوں اور قوّتوں کے دو دو پہلو ہوا کرتے ہیں ایک پہلو خیر کا ہے اور دوسرا شر کا، اسی طرح نیند کے بھی دو پہلے ہیں، چنانچہ دانا مومن نیک پہلو کو اچھی طرح سے پہچانتا ہے اور برے پہلو سے خود کو بچالیتا ہے تاکہ ہر کام بتقاضائے حکمت انجام پائے۔

 

یاد رہے کہ نیند کا موضوع دراصل خوابوں کے موضوع کے ساتھ مربوط و منسلک ہے۔

 

۵۰

 

عالمِ خواب

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ نیند اور خواب اللہ تعالیٰ کے عجائب و غرائب میں سے ہیں، اگر آپ چاہیں تو قرآن حکیم کی متعلقہ آیات کریمہ میں دیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ عالمِ خواب عام حالت میں روحانیّت اور جسمانیّت کے درمیان واقع ہے، یہی وجہ ہے کہ اس میں انوکھی اور نرالی حالتیں بھی ہوا کرتی ہیں اور جانی پہچانی چیزیں بھی، اگر خواب کو علم و عمل سے کافی حد تک ترقی دی گئی ہے تو یقیناً یہ انسانی روح اور عالم باطن کی شناخت کا ایک وسیلہ بن جاتا ہے، بالفاظ دیگر خواب آگے چل کر روحانیّت کے ساتھ ایک ہوجاتے ہے، اور اس میں وہی واقعات رونما ہوتے ہیں جو مکمل روحانیّت میں پیش آتے ہیں۔

 

خواب کی کیفیت و حقیقت یہ ہے کہ اس میں انسان کے ظاہری حواس کام نہیں کرتے ہیں، جس کی وجہ سے روح کا تعلق ظاہری دنیا سے وقتی طور پر منقطع ہوجاتا ہے، اور اب روح خودبخود اپنے باطن کی طرف متوّجہ ہوجاتی ہے، اور چونکہ وہ اپنی ذات میں ایک مکمل دنیا کی حیثیت سے ہے، لہٰذا وہ بحالت خواب ہر چیز اپنے اندر دیکھتی ہے، یعنی بیداری

 

۵۱

 

اس حالت کا نام ہے جس میں آنکھ، کان، ناک، زبان اور ہاتھ پاؤں کے توسط سے روح اس مادّی دنیا کے کاموں میں مصروف رہتی ہے، اور خواب اس کیفیت کو کہتے ہیں جس میں کہ یہ ظاہری اعضاء ہنگامی طور پر خاموش اور معطل ہوجاتے ہیں اور جس کے سبب سے روح فراغت و آزادی کے ساتھ اپنے اعمال و احوال کا جائزہ لیتی ہے۔ وہ اس وقت حواسِ باطن سے کام کرتی ہے، یعنی آدمی خواب میں روحانی آنکھ سے دیکھتا ہے، روحانیّت کے کان سے سنتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے وہ صرف روح کی پوشیدہ قوّتوں سے کرتا ہے۔

 

یاد رہے کہ نیند کے دوران روح جسم سے کلی طور پر الگ نہیں ہوتی، بلکہ ایک طرح سے دونوں کے مابین رابطہ قائم رہتا ہے، مگر جسم اور حواس ظاہر کو اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی، نیند کی حالت میں جسم کس طرح غیر شعوری طور پر روح کے ساتھ وابستہ رہتی ہے، اس کے بارے میں چند روشن مثالیں پیش کی جاتی ہیں، پہلی مثال یہ ہے کہ جب آدمی خواب میں ڈر جاتا ہے، تو اس کے آثار بعض دفعہ چیخنے، پکارنے، حرکت کرنے یا پسینہ آنے سے ظاہر ہوجاتے ہیں، اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ جسم لاشعوری حالت میں روح کے ساتھ مربوط ہے، دوسری مثال یہ کہ انسان ادھر عالم خواب میں کسی سے گفتگو کرتا ہے اور ادھر شخصیّت میں بڑبڑانے لگتا ہے، تیسری مثال یہ ہے کہ وہ کبھی کبھار اپنے خواب کے زیر اثر اٹھ

 

۵۲

 

کھڑا ہوجاتا ہے اور چلنے لگتا ہے، اور اس سلسلے میں اور بھی کئی باتیں ہیں مگر ان کا ذکر یہاں ضروری نہیں۔

 

امیر المومنین حضرت مولاعلی علیہ السّلام کا ارشاد گرامی ہے کہ تین شخص ایسے ہیں جن کے اعمال کرام کاتبین درج نہیں کرتے ہیں، نابالغ، دیوانہ اور سویا ہوا آدمی، جس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں اختیار نہیں ہے، اس سے ظاہر ہے کہ انسان عالمِ خواب میں جو کچھ کہتا اور کرتا ہے، وہ اس کے اپنے اختیار سے نہیں، کیونکہ اب اس کا کوئی اختیار نہیں رہا۔

 

انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کو حق تعالیٰ نے بہت سے اوصاف کمالات عطا کردیا ہے اور بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے، اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کے خواب سچے اور نورانی قسم کے ہوا کرتے ہیں، یعنی وہ حضرات علم و حکمت اور رشد و ہدایت والے خواب دیکھتے ہیں، اور حقیقی مومنین کو بھی ایسے خوابوں سے حصّہ دیا جاتا ہے، تاکہ اہل ایمان کے لئے وسیلہ ہدایت استوار اور ہمہ رس ہو۔

 

الزمر (۳۹) آیت نمبر ۴۲ (۳۹: ۴۲) سے ظاہر ہے کہ نیند کی کیفیت ایک طرح کی موت ہے، اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ نیند موت کی بہن ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ جس طرح مرنے کے بعد اعمال کا حساب کتاب کلی طور پر لیا جاتا ہے اسی طرح خواب میں یہ جانچ پڑتال جزوی طور پر ہوتی ہے، اس میں نیک و بد کا بدلہ دائمی طور پر دیا جاتا ہے اوراس میں عارضی طور

 

۵۳

 

پر، تاکہ عقل و دانش والے اس مثال سے موت، روز آخرت، بہشت اور دوزخ پر یقین رکھیں۔

 

ہم پہلے ہی بتاچکے ہیں کہ خواب کی دنیا روحانیّت اور جسمانیّت کے درمیان واقع ہے، اور یہاں یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ ایک اعتبار سے انسان کے لئے چار دنیائیں مقرر ہیں: دنیائے ظاہر، دنیائے خیال، عالم خواب اور عالم روحانیّت اور ان کی ترتیب بھی یہی ہے کہ سب سے پہلے یہ مادّی دنیا ہے، اور سب سے آخر میں روحانیّت، اور روحانیّت کا دوسرا نام آخرت ہے۔

یہاں پر یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ انسان کی بیداری زمان و مکان میں محدود ہے، یعنی آدمی بیداری میں جو کام کرتا ہے یا جو وقت گزارتا ہے وہ ماضی، حال اور مستقبل سے باہر نہیں اور یہ کسی ایک جگہ میں ممکن ہے، مگر خیال، خواب اور روحانیّت زمان و مکان میں محدود نہیں، بلکہ یہ تینوں حالتیں وقت اور جگہ سے برتر اور غیر محدود ہیں، یعنی خیال و تصوّر میں جو کچھ دیکھا اور پایا جاتا ہے وہ مادّی چیزوں کی طرح نہیں، وہ تو لازمی اور لامکانی کیفیت میں ہے، یہی مثال خواب اور روحانیّت کی بھی ہے کہ وہ لازمان اور لامکان ہیں، کیونکہ وہ کثیف نہیں لطیف ہیں، مثلاً جب ہم اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے کسی دور کے شناختہ انسان کا تصوّر کرتے ہیں، اور خیال کی روشنی میں اس کو دیکھ پاتے ہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم مادّی

 

۵۴

 

طریق پر سفر کر کے اس شخص کے پاس پہنچ گئے ہیں، اور نہ ہی وہ اپنے مقام سے اٹھ کر ہمارے پاس آگیا، بلکہ یہ ہمارے تصوّر اور خیال کا ایک روحانی کرشمہ ہے کہ اس کی پہچان کی تصویر حافظہ کے ریکارڈ سے نکال کر پیش کیا، اس مثال سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوئی کہ خیال، خواب اور روح جیسی باطنی چیزیں وقت اور جگہ سے بالا و برتر ہیں۔

 

اس بیان سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ سوتے میں روح کہیں نہیں جاتی ہے، وہ صرف اپنی ذات کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے، اور اپنے باطن ہی میں سب کچھ دیکھ سکتی ہے، کیونکہ اس میں دیکھی اور اَن دیکھی سب چیزیں موجود ہیں،  دیکھی ہوئی اشیاء اس معنی میں ہیں کہ ہر چیز کا ایک ذہنی یا روحانی نقشہ موجود ہے، اور ان دیکھی چیزیں اس صورت میں ہیں کہ روح لوح محفوظ سے متصل ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ وہ ایک آئینہ قدرت نما ہے۔

 

حقیقی مومنین جادۂ مستقیم پر چلتے ہوئے جب روحانیّت کے پہلے دروازے سے داخل ہوجاتے ہیں تو ان کے لئے یہ امر بالکل آسان ہوجاتا ہے کہ وہ خصوصی عبادت کے دوران ایک پُرسکون نیند جیسی کیفیت اپنے آپ پر طاری کرکے حواس ظاہر کی مداخلت کو بند کریں، تاکہ وہ ذکر الٰہی کے سوا ہر چیز کو بھول جائیں یہاں تک کہ اپنی خودی بھی فراموش کر بیٹھیں، ایسی پُرحکمت نیند خدا کی ایک رحمت ہوتی ہے، اس کا

 

۵۵

 

تذکرہ نعاس (۰۳: ۱۵۴، ۰۸: ۱۱) اور سبات (۲۵: ۴۷، ۷۸: ۰۹) جیسے قرآنی لفظوں میں موجود ہے۔

 

ایک عام انسان کی روح صرف خواب ہی کی بدولت ظاہری اور دنیاوی خیالات و افکار سے آزاد فارغ ہوسکتی ہے تاکہ وہ ٹھیک طرح سے اپنے باطن کی طرف متوجہ ہوجائے، اگرچہ اس میں بھی اعمال کے نتائج کا دخل ہوتا ہے، تاہم وہ بیداری کی نسبت روحانیّت سے قریب تر ہوسکتی ہے، اس لئے کہ اس کے وہ حواس جو بیداری میں کام کرتے تھے اور روح کو اپنی ذات کے سمندر میں مستغرق رہنے سے روک لیتے تھے وہ اب محو خواب ہوچکے ہیں۔

 

دراصل خواب کی دنیا اللہ تعالیٰ کے عجائب و غرائب سے بھرپور ہے، اس میں جنت کے ثواب کے نمونے بھی ہیں اور دوزخ کے عذاب کی مثالیں بھی تاکہ مومنین روز آخرت کی زندگی اور مکافات عمل پر ایمان اور یقین رکھیں، کہ جسمانی طور پر مرجانے کے بعد روحانی زندگی برحق ہے جس میں یہ جسم نہ ہوگا، جیسے ہم خواب میں اپنے آپ کو اس جسم کے بغیر زندہ پاتے ہیں، ہم اگر اس میں دیکھتے، سنتے، بولتے، چلتے اور بہت کچھ کرتے ہیں تو وہ ہمارے جسمانی اعضاء سے نہیں،اگرچہ ہمارے شعور کی سطح بعض دفعہ بلند ہوتی ہے اور بعض دفعہ پست، کبھی روشنی ہوتی ہے اور کبھی تاریکی، لیکن بہرحال یہ احساس و شعور ضرور ہوتا ہے کہ ہم ایک

 

۵۶

 

زندگی رکھتے ہیں جو ظاہری زندگی سے بہت مختلف اور عجیب ہے۔ نیند اور خواب کے جسمانی اور روحانی طور پر بہت سے مقاصد ہیں، اور ان میں ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے روحانیّت اور آخرت کے مختلف احوال اور الگ الگ درجات کی مثالیں پیش کی جائیں، اور یہ بات ان لوگوں سے متعلق ہے جن کے خوابوں میں اعلیٰ سے اعلیٰ نمونے بھی ہو اور ادنیٰ سے ادنیٰ مثالیں بھی۔

 

جیسا کہ بتایا گیا کہ دنیائے خواب لازمان بھی ہے اور لامکان بھی، یعنی اس میں جو وقت اور جگہ کا تصوّر ہے وہ مادیّت سے مبرا اور بالا ہے، وہ اس جسمانی کائنات کے تحت نہیں بلکہ زمان و مکان پر محیط ہے، اس لئے کہ وہ بیک وقت ماضی و حال بھی ہے اور مستقبل بھی، اور اس لئے کہ وہ اپنی ذات میں آسمان بھی ہے اور زمین بھی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ ان تمام زمانوں پر کنٹرول کرتی ہے، کہ اس میں کبھی تو ماضی کی جھلکیاں نظر آتی ہیں، کبھی حال کے نظارے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی مستقبل کے نقوش سامنے آتے ہیں، اسی طرح آسمان و زمین کا ہر مقام عالمِ خواب کے ایک ہی نقطے سے ظاہر ہوجاتا ہے اور اس میں عظیم حکمت ہے تاکہ لازمان اور لامکان کی شناخت حاصل ہو۔

 

جو لوگ روحانیّت اور معرفت سے دور ہیں ان کے نزدیک خوابوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں، وہ خواب کے گونا گون فائدے نہیں جانتے

 

۵۷

 

ہیں اور نہ ہی وہ اس کے اشارے سمجھتے ہیں جن میں اعمال کی اچھائی اور برائی کی نشاندہی ہوتی ہے، اس کے برعکس اہل ایمان کو یقین ہے کہ خواب اللہ تعالیٰ کی آیات یعنی معجزات میں سے ہے، لہٰذا وہ حصولِ معرفت کے سلسلے میں ایک عملی کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔

 

شروع شروع میں اگرچہ بیداری، خیال، خواب اور روحانیّت الگ الگ ہوتی ہیں، لیکن روحانی ترقی کے بعد انسان کی یہ چاروں حالتیں تقریباً تقریباً ایک ہوجاتی ہیں، وہ اس طرح کہ روحانیّت نہ صرف خواب و خیال ہی پر مسلّط ہوجاتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بیداری پر بھی ہر وقت محیط رہتی ہے، خیالات میں رنگا رنگ روشنیوں کا طوفان، خواب میں روحانیّت کا انقلاب اور بیداری میں لشکر ارواح کی معجزانہ گفتگو، یہ ساری علامتیں اس حقیقت کی شہادت دیتی ہیں کہ مذکورہ چار دنیائیں اگرچہ ایک اعتبار سے الگ الگ ہیں، تاہم دوسرے اعتبار سے ایک ہیں۔

 

قرآن حکیم کی حکیمانہ ہدایت سے ظاہر ہے کہ خوابوں کی عملی تاویل انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے، مگر وہی لوگ جو حقیقی معنوں میں ان حضرات کی اطاعت و پیروی کرتے ہیں کیونکہ یہ معرفت کا ایک حصّہ ہے اور عملی معرفت جو مشاہدات روحانیّت کا نتیجہ ہے، کتابوں میں نہیں آسکتی ہے، اس لئے کہ وہ زندہ اور حرکت کرنے

 

۵۸

 

والی روشنی ہے، اس لئے کہ وہ محرک روح اور بولتی حقیقت ہے اور اس لئے کہ وہ حقیقی زندگی کا روان دوان سرچشمہ ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس نے حضرت یوسف علیہ السّلام کو خوابوں کے علاوہ تمام باتوں کی تاویل سکھا کر عظیم احسان فرمایا تھا، پس اگر خواب کی تاویل کوئی ایسی عام چیز ہوتی جو سب کو دی جاتی ہے تو خداوند تعالیٰ حضرت یوسفؑ کے بارے میں احسان نہ جتاتا، کیونکہ پروردگارِعالم اس مثال سے بہت پاک و برتر ہے کہ وہ اپنے کسی پیغمبر کو ایک عام اور معمولی چیز دے کر احسان جتلائے۔

 

حضرت یوسفؑ کی مثال سے خوابوں کی اہمیت اور ان کی تاویل کی عظمت و رفعت کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ خدائے پاک نے یوسف علیہ السّلام کو جو تاویل سکھائی تھی اس کا ایک ذریعہ دوسرے ذرائع کے ساتھ خواب تھا، یعنی آپؑ دوسروں کے خواب کی تاویل اس بنیادی اصول کی روشنی میں کرتے تھے، کہ اس سے پیشتر آپؑ کے اپنے مبارک خواب میں آپ کو عملی اور تجرباتی تاویل سکھائی گئی تھی، اسکے سوا اور کوئی بہتر صورت نہیں تھی۔

 

خداوند تعالیٰ نے قرآن پاک میں آسمانی علم کے تصوّر کو دو حصوں میں پیش کیا ہے، اس علمی تصوّر کے حصّہ اوّل کا نام کتاب ہے اور حصّہ دوم کو حکمت کہا گیا ہے جو عظیم ہے، اور یہ بھی یاد رہے کہ جہاں کتاب کا

 

۵۹

 

دوسرا نام تنزیل ہے وہاں حکمت کا دوسرا نام تاویل ہے، اور اہل دانش پر یہ حقیقت روشن ہے کہ قرآن مجید میں جس طرح حکمت کی تعریف و توصیف کی گئی ہے بالکل اسی طرح تاویل کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، پس ظاہر ہے کہ حکمت تاویل ہے اور تاویل حکمت، اور اس کا ایک اور نتیجہ یہ نکلا کہ حکمت کا ایک حصّہ خوابوں میں پوشیدہ ہے، کیونکہ تاویل حکمت ہے۔

 

یہ ایک بشارت ہے خدا کی خوشنودی کی، کہ عظیم الشّان نورانی خوابوں سے مومنین کو ہمت ملتی ہے اور خوشگوار اثرات مرتب ہوجاتے ہیں، اور یہ ایک دھمکی ہے اللہ کی ناراضگی کی ، کہ برے خوابوں سے آدمی کا حوصلہ پست ہوجاتا ہے اور وہ کئی دن تک اداس رہتا ہے، یہ قدرتی اشارے ایسے نہیں ہیں کہ ان کو یونہی نظر انداز کردیا جائے، بلکہ انتہائی ضروری ہے کہ اچھے خوابوں کی نعمت پر اللہ تعالیٰ کا واجبی طور پر شکریہ ادا کیا جائے اور خوفناک خوابوں کے نتیجے میں گناہوں سے توبہ کرکے خدا سے لَو لگایا جائے، تاکہ خواب کی اس براہ راست خدائی ہدایت سے فائدہ حاصل ہو۔

 

اگر خواب کی علمی و عرفانی ترقی مکمل روحانیّت تک ہوچکی ہے تو وہ غیر معمولی مشاہدات کا وسیلہ بن جاتا ہے، کیونکہ علم و عمل سے اس میں ترقی کی بڑی گنجائش ہے یہاں تک کہ اس میں بڑے عجیب و غریب

 

۶۰

 

واقعات پیش آتے ہیں، مثال کے طور پر بعض دفعہ اس میں سے ازل اور ابد کے دریچے کھل جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اگرچہ ہم ازل سے اپنے سفر کے لئے نکل چکے ہیں، لیکن جب ہم ابد میں جا پہنچیں گے تو حیرت ہے کہ پھر ہم ازل میں ہوں گے، یہ بڑی توجہ طلب بات ہے۔

 

یہ امر بھی عالمِ خواب کے عجائب و غرائب میں سے ہے کہ کبھی کبھار آدمی اپنے خواب کے اندر ایک اور خواب دیکھتا ہے، اور ایسا “خواب در خواب” انتہائی حیرت انگیز قسم کا ہوتا ہے، جس کے پُرحکمت اشاروں میں روح کے بے پناہ ماضی و مستقبل کے معنی پوشیدہ ہوتےہیں، اور یہ تعجب خیز واقعہ اس لئے پیش آتا ہے کہ روح خواب میں عالم امر سے واصل ہوجاتی ہے بلکہ وہ عالم خود روح کی ذات میں پنہان ہے، جس میں “کُنۡ فیکون” کی حکمرانی اور کار فرمائی چلتی ہے، یہی وجہ ہے کہ خواب کے تمامتر واقعات کسی تاخیر کے بغیر ظہور پذیر ہوتے ہیں۔

 

فٹ نوٹ:

۱۔ ۷۸: ۰۹، ۰۷: ۹۷، ۳۷: ۱۰۲، ۰۸: ۴۳، ۳۰: ۲۳، ۳۹: ۴۲، ۱۲: ۴۳، ۱۷: ۶۰، ۳۷: ۱۵، ۴۸: ۲۷، ۱۲: ۰۵، ۱۲: ۴۳، ۱۲: ۱۰۰۔

۲۔ آیت کا ترجمہ: بلکہ انسان خود اپنی حالت کو خوب دیکھتا ہے (۵۷: ۱۴)۔

 

۶۱

 

خزائن الہٰی

 

خداوندِ علیم و حکیم کا مبارک ارشاد ہے کہ:وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُهٗ (۱۵: ۲۱) “اور کوئی چیز نہیں مگر اس کے خزانے ہمارے پاس موجود ہیں۔” یعنی ممکنات کی ہر شیٔ جو ارادۂ الٰہی میں ہے اس کے وجود و ظہور کے اسباب و اجزائے ضروریہ کے خزانے خدا کے پاس ہیں، تاکہ بحکم خدا اسباب و علل اور اجزاء کی فراہمی سے اشیائے ممکنہ عرصہ وجود میں آئیں۔

 

یہاں ایک اہم سوال “عندنا” سے متعلق پیدا ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عندیت (نزدیکی) سے کیا مراد ہے؟ جبکہ اس کے قبضہ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں؟ کیونکہ وہ اگر ایک اعتبار سے مکان و لامکان سے پاک و برتر ہے تو دوسرے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے؟

 

جواب: خدا تعالیٰ مکان و لامکان سے پاک و برتر بھی ہے اس کے باؤجود وہ ہر جگہ بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کا ایک خاص مقام بھی ہے اور وہ روحانیّت کا مقام ہے، جو اس کی عندیت و نزدیکی ہے، اور

 

۶۲

 

خزائن الٰہی روحانیّت میں ہیں، اور روحانیّت کا تعلق بندوں سے ہے، سو خدا کے خزانے بندے ہیں، جن میں تمام چیزیں موجود ہیں۔

 

قرآن پاک میں اللہ کے قرب و حضور اور عندیت کے معنی میں جتنے الفاظ آئے ہیں ان سب کی مراد روحانیّت و نورانیّت ہے اور یہ مرتبت انسانوں کے لئے مخصوص ہے، اور پروردگار کے خزانے بھی انسانوں میں سے وہی حضرات ہیں، جن کو خداوندِعالم نے اپنے بندوں سے برگزیدہ فرمایا ہے، یعنی ابنیاء و أئمّہ علیھم السّلام اور حقیقی مومنین، جو خزائن الٰہی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

 

اگر بندۂ مومن پیغمبرؐ اور امامؑ کے طفیل سے خزانہ الٰہی نہ ہوتا تو اسے اپنی ذات کی معرفت کی طرف توجہ نہ دلائی جاتی اور یہ ارشاد نہ ہوتا کہ: “جس نے اپنی روح کو پہچان لیا یقیناً اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔” اس سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ حقیقی مومن خزائن الٰہی میں سے ہے، وہ ذرات روح کا خزانہ ہے، اور ان ذرّات میں سب کچھ ہے، اس لئے کہ تمام مادّی چیزوں کی روحیں ہوا کرتی ہیں، جو ذرّات کی شکل میں ہوتی ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ کی آیات (نشانیاں) اگر آفاق میں منتشر ہیں تو نفس انسانی میں آیات یکجا ہیں (۴۱: ۵۳) اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر چیز مادّی طور پر اس کائنات میں ظاہر ہے اور روحانیّت میں انسان کے اندر پوشیدہ ہے، اسی طرح وہ اپنے باطن میں دونوں جہان خریدنے کے لئے عظیم سرمایہ اور

 

۶۳

 

خزانہ رکھتا ہے، یا دوسرے اعتبار سے یوں کہنا چاہئے کہ وہ خود کونین کا خلاصہ اور صورت روحانی ہے یا ایسا معجزاتی عالم ہے کہ اس میں بصورت لطیف دنیا بھی ہے اور عقبیٰ بھی ہے۔

 

یہ کتنا اہم ارشاد ہے جو فرمایا گیا ہے کہ شریعت کا باطن طریقت ہے، طریقت کا باطن حقیقت ہے اور حقیقت کا باطن معرفت، سو معرفت سب کچھ ہے، اس لئے کہ اس میں ہر چیز کی روح اور قیمت موجود ہے، اور معرفت نہیں ہے مگر انسان کی ذات میں، اس سے معلوم ہوا کہ آدمی خزانہ الٰہی ہے۔

قرآنی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو تمام مخلوقات پر کرامت و فضیلت دی ہے (۱۷: ۷۰) اس کے معنی یہ ہوئے کہ قانون خدا کی نظر میں کائنات و موجودات کی جو قدر و قیمت ہے اس سے آدمی کہیں بڑھ کر ہے۔

 

مولا علی صلوات اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ: “آیا تو گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے اور حالانکہ تجھ میں عالم اکبر سمویا ہوا ہے۔” یعنی پوری کائنات لطیف روحانی شکل میں تیرے باطن میں پوشیدہ ہے، پس اس سے ظاہر ہوا کہ مومنین خزائن الٰہی ہیں اور یہ حقیقت ایسی ہے کہ اسے گہرائی سے سمجھنے اور عمل میں لانے کی سخت ضرورت ہے۔

 

۶۴

مطلوب المؤمنین

مطلوب المومنین

مصنف: حکیم خواجہ نصیر الدین طوسی

مترجم: نصیر الدین نصیر ہونزائی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوب المومنین

الحمد للہ الذی عرفنا بنفسہ۱ و علمنا من شکرہ۔ و فتح لنا بابا من ابواب العلم بربوبیتہ۲ و دلنا لاخلاص فی توحیدہ۔

تعریف و ستائش ہے اللہ تعالیٰ کی، کہ جس نے خود ہی ہم کو اپنی

۱۔  یہ اشارہ حدیثِ قدسی کے اس ارشاد کی طرف ہے کہ “کنت کنزاً مخفیاً فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق و تعرفت الیہم فبی عرفونی و عرفت بہم” میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا۔ پس میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں، تو میں نے خلق کو پیدا کیا اور میں نے خود ہی ان کو اپنا تعارف کرایا، پس انہوں نے میرے ذریعے سے مجھے پہچان لیا اور میں نے ان سے پہچانا گیا (از تکملہ معراج النبوت محدث دہلوی)

۲۔  ربوبیّت ربّ کی صفت ہے، یہ نظامِ پرورش کا عنوان ہے، جس کے تحت عقل، روح اور جسم کی پرورش ہوتی رہتی ہے اس مطلب کی تفصیل کے لئے کتاب فلسفۂ دعا، صفحات از ۳۸ تا ۴۳ ملاحظہ ہو!  (مترجم)

۱

 

ذاتِ اقدس کی شناخت کرائی اور اس نے ہمیں (اس نعمتِ عظمیٰ کی) قدردانی سکھائی، اور یہ دیکھنے سے کہ وہ جسم و جان کی پرورش کس طرح فرماتا ہے؟ اُس نے ہمارے لئے خصوصی علم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھول دیا اور اپنی توحید کے اخلاص و پاکیزگی کی نشاندہی فرمائی۔

 

نصیر الدین محمد طوسی، جو دعوتِ برحق کے غلاموں میں سے ایک کمترین غلام ہے، ہر چند کہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں دیکھتا، کہ علم کے بارے میں بات کرے، لیکن چونکہ حضرتِ سرکار نامدار (یعنی امامِ عالی وقار) نے خود ہی اس غلام کو ارشاد فرمایا کہ “تم نے پاک “فصولِ مبارک” اور دینی پیشواؤں کے کتب میں سے جو کچھ علمی معاملات کے متعلق سنا ہے، وہ (حقائق) علم طلب کرنے والے مومنین کے لئے بیان کرو۔”

 

پس مذکورہ غلام نے اس فرمان کے بموجب ان چند مطالب کو منتخب کیا، تاکہ جو لوگ دینِ حق کی طلب کریں، تو ان کو ان حقائق کا سمجھ لینا مشکل نہ ہو، چونکہ انسانی وجوہ کی ترکیب چار عناصر سے بنی ہے اس لئے یہ کتابچہ بھی چار عناصر کے برابر چار فصلوں میں مختصر لکھا گیا تاکہ جو لوگ سچے دین کے خواہان و جویا ہوں، تو وہ بآسانی اس کی پیروی کر سکیں، اور اس رسالے کا نام “مطلوب المومنین” رکھا، پس بزرگوں، عزیزوں اور رفیقوں (اللہ تعالیٰ ان کی نیک توفیق میں اضافہ کرے) کی بے دریغ مہربانی سے اس بندے کی توقع یہ ہے، کہ

 

۲

 

جب وہ اس رسالے کا مطالعہ و ملاحظہ فرمائیں اور اس میں کوئی غیر موزون لفظ یا بے موقع معنی یا کسی قسم کی بھول چوک دیکھ پائیں، تو اس کو اس عام و ناتمام بندے ہی سے منسوب کرتے ہوئے اس کی اصلاح فرمائیں اور بزرگانہ طریق پر شفقت کے دامن میں اس کو چھپا لیا کریں، اور اگر اس میں کچھ ناپسندیدہ باتیں اور موافق و مناسب حقیقتیں پائی جائیں، تو سمجھ لیں کہ یہ تو امامِ زمان علیہ السّلام کی مبارک ہستی ہی کی جانب سے ہیں اور ایسی باتوں کو رضا و رغبت کے کان سے سن لیا کریں اور اس ضعیف و ناتوان بندے کو اپنی نیک دعاؤں میں یاد فرمائیں۔

 

“مطلوب المومنین” کی ان فصلوں کی فہرست، جن میں اس مطلب کی تفصیل بتائی گئی ہے، مندرجہ ذیل ہے:

پہلی فصل: مبداء۱ اور معاد۲ کے بیان میں۔

دوسری فصل: اسماعیلی مومن کے بیان میں۔

تیسری فصل: توّلا اور تبرّا کے بیان میں۔

چوتھی فصل: شریعت کے سات ستون کے بیان میں۔

 

۔۔۔۔۔۔

۱۔  مبداء کے معنی ہیں: اصل، سبب، شروع، اور اصطلاحاً وہ ازلی مقام جہاں سے انسان کی روحانی تخلیق شروع ہوئی۔

۲۔  معاد کے معنی ہیں: لوٹ کر جانے کی جگہ، جائے بازگشت، اصطلاحاً وہ ابدی مقام جہاں تک پہنچ جانا انسان کے لئے لازمی اور ضروری ہے۔

 

۳

 

پہلی فصل

 

مبداء اور معاد کے بیان میں

 

ہر دانشمند آدمی کو یہ جاننا چاہئے، کہ انسانی وجود کا جو مبداء موجود ہو جاتا ہے وہ باری تعالیٰ کے اثر سے اور عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، آسمانوں، ستاروں اور طبائع۱ کی تاثیرات کی وساطت سے ہو جاتا ہے اور عالمِ سفلی عالمِ عُلوی کا ایک اثر۲ ہے (یعنی یہ زمین سورج اور آسمان کے عمل سے پید ا ہوئی ہے) چنانچہ حکمتِ الٰہی کے مشاہدات اور عقلی دلائل کے نتائج سے ہمیں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق سے باری سبحانہ و تعالیٰ کا جو مقصد تھا وہ دراصل انسان ہی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے کہ: “لو لاک لما خلقت الافلاک۔ (یعنی اے انسانِ کامل!) اگر آپ نہ ہوتے، تو میں البتہ

 

۔۔۔۔۔

۱۔  طبائع: چار عناصر کی طبیعتیں ہیں، یعنی مٹی کی خشکی و سردی، پانی کی تری و سردی، ہوا کی تری و گرمی اور آگ کی گرمی و خشکی۔

۲۔  سات یا نو آسمان کی واقعیت کیا ہے؟ اور ان سے زمین کو کیسے کیسے آثار حاصل ہوتے ہیں؟ اس قسم کے بہت سے سوالات کے جوابات کتاب “مفتاح الحکمت” ص ۹۷ تا ص ۱۱۴ مندرج ہیں۔  (مترجم)۔

 

۴

 

آسمانوں کو پیدا ہی نہ کرتا۔” کیونکہ جو علم و معرفت انسان میں موجود ہے، وہ آسمانوں، ستاروں، جمادات اور حیوانات میں موجود ہو نہیں سکتی، اس لئے تمام موجودات میں سے صرف انسان ہی پسندیدہ اور منتخب ہے، اس قرآنی دلیل سے کہ: “و لقد کرمنا بنی آدم و حملنا ھم فی البر و البحر (۱۷: ۷۲) اور ہم نے یقیناً آدم کی اولاد کو عزت دی اور خشکی و تری میں (مختلف ذرائع سے) لئے لئے پھرے۔”

 

جب یہ معلوم ہوا کہ انسانی وجود کا مبداء خدائے تعالیٰ کے امر۱ سے موجود ہوا ہے، اور آفرینشِ عالم کا مقصود بس وہی ہے اور وہی سب (مخلوقات) سے زیادہ اصیل و شریف جوہر ہے تو ہر دانشمند انسان پر یہ واجب ہوتا ہے، کہ اپنے مبداء اور معاد کو جیسا کہ چاہئے، پہچان لیا کرے، اور اپنے متعلق تحقیق کر لیا کرے، کہ وہ کہاں سے آیا ہوا ہے؟ اور کس کام کے لئے آیا ہے؟ اور بالآخر اُسے لوٹ کر کہاں جانا ہے؟ تاکہ وہ اپنے آپ کو اور آفرینشِ عالم کو بحقیقت پہچان سکے گا، اور وہ آفاق و انفس کو باطل قرار دینے والا نہ ہوگا، مگر یہ تمام حقائق پروردگار کی پہچان کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے، اور پروردگار کی پہچان رسول علیہ السّلام اور آنحضرت کے

 

۔۔۔۔۔

۱۔  انسان کا مبداء اور معاد فی الاصل ایک ہی ہے، یعنی وہ آغاز میں جہاں سے آیا ہے، اسے لوٹ کر بالآخر وہیں جانا ہے، انسان کا وہ مقام اوّلین و آخرین خدائے تعالیٰ کا امر ہے، تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب “وجہِ دین اردو” کلام ۳۔   (مترجم)۔

 

۵

 

برحق فرزندوں کی پہچان کے بغیر حاصل نہیں ہوتی، کیونکہ فرزندانِ رسول ہی امامِ زمان ہیں، اور آنحضرتؐ کے خلیفہ، وصی اور قائم مقام ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

 

” اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ (۰۲: ۳۰) میں یقیناً (ہمیشہ کے لئے اپنا) ایک نائب روئے زمین پر بنانے والا ہوں۔”  اور وہ حضرت رسولؐ کی حدیث ہے کہ: “لو خلت الارض من امام ساعۃ لما دت باھلہا”۱ اگر زمین ایک گھنٹے کے لئے امام سے خالی رہ گئی، تو وہ اپنے باشندوں کے ساتھ متزلزل ہو کر ہلاک ہو جائے گی، نیز رسول اللہ نے فرمایا کہ: “من مات و لم یعرف امام زمانہ فمات میتۃ جاہلیہ و الجاہل فی النار”۲  جو شخص اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مر جائے تو وہ دراصل جاہلانہ موت ہی میں مرا اور جاہل آتشِ دوزخ میں ہے۔”

 

۔۔۔۔۔

۱۔  یہ حدیث سیریا کے اسماعیلیوں میں اس طرح مشہور ہے۔

لو خلا الکون من الامام فرد ساعۃ لما دباہلہ۔ نیز: لو خلت الارض من الامام ساعۃ لما دت باھلہا۔

۲۔  یہ حدیث دعائم الاسلام (عربی) جلدِ اوّل ص ۲۵ پر اس طرح ہے: من مات لا یعرف امام دہرہ حیا مات میتۃ جاہلیۃ ، مگر “وجہِ دین” کلام ۳۶ میں بالکل اسی طرح ہے، جس طرح متنِ بالا میں ہے۔  (مترجم)۔

 

۶

 

جب اس دانا آدمی نے اپنے خالق و پروردگار کو پہچان لیا، اور رسول و امامِ زمان کی معرفت حاصل کرلی تو وہ اپنے مبداء اور معاد کو (پوری طرح سے) سمجھ لیا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس پر یہ واجب ہوتا ہے کہ عبادت اور فرمانبرداری کی شرائط بجا لائیں، چنانچہ خدائے تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (۵۱: ۵۶) اور میں نے جنّات اور آدمیوں کو اسی غرض سے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔” یعنی پہلے مجھے پہچانیں پھر عبادت کریں۔ پس عبادت کا دارومدار معرفت پر ہے۔ مگر حق تعالیٰ کی معرفت عقلِ جزوی سے میسر نہیں ہو سکتی، کیونکہ ایک عام انسان جو کچھ بھی خدا کی شناخت اور صفات (اپنے تصوّر میں) رکھتا ہو، وہ بھی تعلیم کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہے۔ پس حق تعالیٰ کی شناخت سب سے بڑی مشکل ہے، اور (جو چیزیں صرف تعلیم ہی سے حاصل ہوتی ہیں، ان میں معرفت ہی وہ) اوّلین فرض ہے جس کے تعلیم کی ضرورت ہے اور یہ تعلیم (قدرتی اور معجزانہ طور پر) ایک ایسے معلّم کو پہنچتی ہے، جس کو اکتسابی۱ معرفت (یعنی ظاہری تعلیم)

 

۔۔۔۔۔

۱۔  حصولِ علم کے بنیادی ذرائع دو ہیں، ایک باطنی ہے اور دوسرا ظاہری۔ باطنی اور قدرتی ذریعے سے انسان کو جو علم عطا کیا جاتا ہے، اُسے “علمِ عطائی” کہتے ہیں، اور ظاہری و انسانی ذریعے سے وہ خود جدوجہد کر کے جو علم کما لیتا ہے اُسے “علمِ اکتسابی”  کہتے ہیں، تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب “وجہِ دین اردو”  کلام ۱۔   (مترجم)۔

 

۷

 

سے حاصل کی جانے والی معرفت کی کوئی ضرورت نہیں۔

 

پس جو اصل و جوہر اس کائنات کی آفرینش کا مطلوب و مقصود ہے، اس کے لئے یہ ہرگز مناسب نہیں، کہ بس حیوان ہی کی طرح کھائے اور سوئے، اور نفسانی لذّتوں میں مشغول ہو جایا کرے، اور (خدا، رسول اور صاحبِ امر کی) فرمانبرداری میں کوتاہی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ حیوان کے درجے سے بھی نیچے چلا جائے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا قول ہے:

 

” اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا (۲۵: ۴۴)۔ وہ تو بس بالکل جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی زیادہ طریقِ فطرت سے بھٹکے ہوئے ہیں۔”

 

پس جب بھی دانشمند مومن امامِ زمان کے امر و فرمان کے مطابق معلّمِ صادق کی طرف سے کسی کام کے لئے مامور ہو جائے تو اسے اپنا مال، عیال، جان اور جسم عزیز نہ رکھنا چاہئے کہ یہ سب کچھ اُسے صرف چند روز کے لئے دیا گیا ہے۔ اس کو چاہئے کہ یہ سب کچھ خدا کے راستے میں قربان کر دے، اور اپنے وجود کو سامنے سے ہٹا دے (یعنی عبادت اور اعمالِ صالحہ کے ذریعہ اپنی روحانی حقیقت کے سامنے سے نفسانی خواہشات کی کدورت کو ہٹا دے) تاکہ جس طرح وہ واجب الوجود کے امر سے موجود ہوا ہے، اسی طرح امر و فرمان ہی کے ذریعہ اس مجازی عالم سے بھی اس حقیقی عالم میں واپس جا سکے گا۔ اسی معنی میں کہا گیا ہے

 

۸

 

کہ: “کل شیءٍ یرجع الی اصلہ۔” ہر چیز اپنی اصل ہی کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ اسی طرح سے وہ اپنے معاد میں پہنچا ہوا ہوتا ہے، بیت:

باز گردد باصلِ خود ہمہ چیز

زرِ صافی و نقرہ و ارزیز

یعنی ہر چیز اپنی اصل ہی کی طرف لوٹ جاتی ہے، کھرا سونا بھی چاندی بھی اور قلعی بھی۔

 

۹

 

دوسری فصل

 

اسماعیلی مومن کے بیان میں

 

جو لوگ دینِ حق کے طلبگار ہیں، اور اپنے آپ کو اسماعیلی سمجھتے ہیں، تو چاہئے کہ مومنی کی شرائط اور اسماعیلیت کے معنی سمجھ لیں۔ اسماعیلیت کے معنی یہ ہیں، کہ جو شخص مومنی کا دعویٰ کرے، تو اس میں تین نشان ہونا چاہئیں،

پہلا نشان: اُس کو حجتِ اعظم۱ کے اثبات کے ذریعہ امامِ زمان کی معرفت حاصل ہونی چاہئے، اور اسے معلّمِ صادق کے امر و فرمان کا تابع ہونا چاہئے، اور ایک لمحے کے لئے بھی حق

 

۔۔۔۔۔

۱۔  حجتِ اعظم یعنی باب ہر ناطق پیغمبر، ہر اساس، اور ہر امام کے باطنی اور نورانی علم کے دروازے کی حیثیت سے ہوتا ہے، پس امامِ زمان کی خاص معرفت حجتِ اعظم کی خاص تعلیم ہی سے شروع ہو جاتی ہے، مگر جب دورِ قیامت کا آغاز ہوتا ہے، تو اس میں امامِ زمان خود ہی اپنی معرفت کی روشنی بخشتے ہیں۔ کتاب ’’سلسلۂ نورِ امامت‘‘ میں از ص ۲۴ تا ص ۵۲ عقلِ کل، نفسِ کل، ناطق، اساس، امام، حجت، داعی اور دوسرے تمام حدود کا بیان موجود ہے۔   (مترجم)۔

 

۱۰

 

تعالیٰ کی یاد اور فکر سے خالی نہ ہو۔

 

دوسرا نشان: رضا ہے، یعنی خیر و شر اور نفع و ضرر کی وجہ سے اس پر جو کچھ بھی گزرے تو وہ اُس سے متغیر نہ ہو۔

 

تیسرا نشان: تسلیم ہے، یعنی واپس حوالہ کرنا اور حوالہ کرنا یہ ہے، کہ انسان کی جو چیز ایسی ہو، کہ وہ انسان کے ساتھ دوسرے جہان میں نہیں جا سکتی ہے تو مومن ایسی چیزوں کو عارضی و عاریت سمجھے، اور ان کو واپس حوالہ کرے، جیسے جاہ، مال اور عیال کہ یہ سب چند روزہ چیزیں ہیں۔ اسی طرح کی سب دنیاوی چیزیں خدا کے راستے میں صرف کرے، تاکہ وہ مومنی کے درجے میں پہنچا ہوا ہوگا، چنانچہ ارشادِ ربّانی ہے:

 

“فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (۰۴: ۶۵)، پس اے رسول! آپ کے پروردگار کی قسم یہ لوگ سچے مومن نہ ہوں گے، تا وقتیکہ اپنے باہمی جھگڑوں میں آپ کو اپنا حاکم (نہ) بنائیں، پھر (یہی نہیں بلکہ) جو کچھ آپ فیصلہ کریں اُس سے کسی طرح تنگ دل بھی نہ ہوں بلکہ خوش خوش اس کو مان لیں‘‘۔

 

اس کے بعد موقن (یعنی یقین دار) ہونا چاہئے جیسا کہ ارشاد ہے کہ: “یومنون بالغیب (۰۲: ۰۳) ۔۔۔

 

۱۱

 

و ھم بالآخرۃ ھم یوقنون (۰۲: ۰۴)۔ یعنی وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں ۔۔۔ اور وہی لوگ آخرت کا بھی یقین کرتے ہیں۔”

 

موقن کے بھی تین نشان ہوتے ہیں۔

 

پہلا نشان: علم الیقین۱ ہے، یعنی یقین کا جان لینا۔

دوسرا نشان: عین الیقین ہے، یعنی ذات اور حقیقت کو یقین (کی آنکھ) سے پہچان لینا۔

تیسرا نشان: حق الیقین ہے، یعنی یقین کا ہر طرح سے مکمل ہو جانا، علم الیقین اُن مومنین کا درجہ ہے، جو دنیا سے آخرت کی طرف متوجہ ہوئے ہیں، اور عین الیقین اُن مومنین کا درجہ ہے، جو آخرت کے درجۂ کمال پر پہنچے ہوئے ہیں، اور حق الیقین ان مومنوں کا درجہ ہے جو دنیا اور آخرت دونوں سے آگے بڑھ چکے ہیں اور وہ اہلِ وحدت ہی ہیں اور وحدت کے درجے میں کوئی شخص اس وقت پہنچ سکتا ہے، جب کہ وہ ہر اعتبار سے اور قطعی طور پر اپنی ہستی کو چھوڑ دے، اور بہشت

 

۔۔۔۔۔

۱۔  جس فارسی “مطلوب المومنین” سے یہ ترجمہ کیا گیا ہے، اس میں کس نساخ یا کاتب کی کم علمی یا بھول کی وجہ سے یقین کے تین درجات اس طرح غلط ترتیب سے لکھے گئے ہیں۔ حق الیقین، علم الیقین، عین الیقین۔ حالانکہ سورۂ التکاثر یعنی ۱۰۲: ۰۴  تا ۰۷ میں اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ یقین کے درجات کی صحیح ترتیب یہ ہے: ’’علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین۔”   (مترجم)۔

 

۱۲

 

ثواب اور اپنے کمال کو طلب ہی نہ کرے اور دنیا و آخرت سے بالکل ہاتھ اٹھا لے۔ چنانچہ رسول علیہ السّلام نے فرمایا کہ: الدنیا حرام علیٰ اہل الآخرۃ و الآخرۃ حرام علیٰ اہل الدنیا و ھما حرامان علیٰ اہل اللہ تعالیٰ۱۔ آخرت چاہنے والوں پر دنیا حرام ہے، دنیا چاہنے والوں پر آخرت حرام ہے، اور اللہ چاہنے والوں پر دنیا و آخرت دونوں حرام ہیں، حقیقی اسماعیلی مومن کی شرائط یہی ہیں جن کا ذکر ولیٔ زمان کی مہربانی سے کیا گیا۔

 

۔۔۔۔۔

۱۔  یہ حدیث بالخصوص سورۂ بنی اسرائیل کی ان پانچ آیتوں کی تفسیر ہےجو ص ۱۷ اور ص ۲۱ کے درمیان ہیں۔

 

۱۳

 

تیسری فصل

 

تولا اور تبرا کے بیان میں

 

جو شخص دینداری کا دعویٰ کرتا ہو، تو اُسے دو چیزوںکے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں، وہ تولا اور تبرا ہیں، اس معنی سے کہ: الذین لھم حب للہ و بغض للہ۱ یعنی جن لوگوں کو خدا ہی کی وجہ سے کسی کے ساتھ دوستی ہوتی ہے اور خدا ہی کے سبب سے کسی کے ساتھ دشمنی ہوتی ہے۔” پس تولا کے معنی ہیں کسی شخص کی طرف توجہ کرنا (یعنی دوستی کرنا) اور تبرّا کے معنی ہیں اس کے ماسوا سے بیزار ہو جانا۔

 

تولا اور تبرا میں سے ہر ایک کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے ظاہری تولا یہ ہے کہ نیک لوگوں کے ساتھ دوستی رکھی جائے اور باطنی تولا یہ ہے کہ خدا کے امر یعنی امامِ زمان کی طرف منہ کر لیا جائے (یعنی

 

۔۔۔۔۔۔

۱۔  بعض تصوّف کی کتابوں میں یہ حدیث اس صورت میں بھی پائی جاتی ہے: الحب للہ و البغض للہ ۔ یہ حدیث بطورِ خاص ان آیتوں کی وضاحت کرتی ہے، جو سورۂ مائدہ کی آیت ۵۴ سے ۵۷ تک ہیں یعنی انما ولیکم اللہ ، ان کنتم مومنین۔

 

۱۴

 

صحیح معنوں میں امامِ زمان کی فرمانبرداری کی جائے) ظاہری تبرا یہ ہے، کہ اس میں برے لوگوں سے قطع تعلق کیا جاتا ہے اور ان سے بیزار ہو جاتا ہے، اور باطنی تبرا یہ ہے کہ جو کچھ اس (خدا کے امر یعنی امامِ زمان) کے سوا ہے، اس سے دینی طور پر قطع تعلق کیا جاتا ہے، اور بیزار ہوا جاتا ہے اور تولا و تبرا چار چیزوں سے مکمل ہو جاتے ہیں علی الترتیب: معرفت، محبت، ہجرت اور جہاد ہیں۔ ان چار چیزوں میں سے ہر ایک کا بھی ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، معرفت کا ظاہر یہ ہے کہ اس میں خدا کو مردِ خدا یعنی امامِ زمان ہی کے ذریعہ پہچان لیا جاتا ہے، کیونکہ امامِ زمان ہی خدا کے خلیفہ (یعنی قائم مقام) ہیں اور تولا کا باطن یہ ہے کہ خدا کے ماسوا کو نہ پہچانا جائے اور محبت کا ظاہر یہ ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کی دوستی اختیار کر لی جائے اور محبت کا باطن یہ ہے کہ اس کے سوا جو کچھ بھی ہو، اس سے دوستی نہ کی جائے۔ ہجرت کا ظاہر یہ ہے کہ اس کے دشمنوں سے قطع تعلق کر لیا جائے اور ان سے بیزار ہو جایا کرے۔ اور ہجرت کا باطن یہ ہے کہ جو کچھ اس کے سوا ہو، جیسے عیال، جان اور جسم کہ یہ سب کچھ چند روزہ ہیں، اس لئے ان چیزوں سے قطع تعلق کر لیا کرے اور ان چیزوں سے بیزار ہو جایا کرے اور جہاد کا ظاہر یہ ہے کہ خدا کے دشمنوں سے دشمنی رکھی جاتی ہے اور جہاد کا باطن یہ ہے کہ نفسانی لذّتوں اور خواہشوں کو ترک کرنے کی کوشش میں اپنے نفس کے خلاف جہاد

 

۱۵

 

کیا جاتا ہے اور اُن تمام لذّتوں اور خواہشوں کو خدا کی راہ میں نیست و نابود کر دیا جاتا ہے۔

 

جب مذکورۂ بالا حقائق بجا لائے جائیں تو اس وقت حقیقی تولا و تبرا درست ہو سکتے ہیں، یہی ہیں حقیقی تولا اور تبرا کی شرائط، جو ولیٔ زمان کی مہربانی سے بتا دی گئیں۔

 

۱۶

 

چوتھی فصل

 

شریعت کے سات ارکان اور ان کی تاویل

 

یہ حقیقت تمام فرقوں پر روشن ہے، کہ کسی چیز کے ظاہر سے پیشتر اُس کے باطن تک رسائی ناممکن ہے، اور جو چیز موجود ہے، اس کا ایک ظاہر اور ایک باطن۱ ہے، مثلاً عالمِ ظاہر جو عالمِ سفلی ہے، اور عالمِ باطن جو عالمِ عُلوی ہے۔ اور جو کچھ اس عالمِ ظاہر میں موجود ہے، وہی عالمِ باطن میں بھی موجود ہوگا۔

 

شریعت کے ظاہر (کے بارے میں ایک مثال) یہ ہے کہ پہلے تو (ہر پھل کا) چھلکا پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد مغز، دانہ اور پھل، جو وہی مقصود ہے، پک کر تیار اور مکمل ہو جاتا ہے، پس جو شخص خدا پرستی کا دعویٰ کرتا ہو تو اُسے چاہئے کہ شریعت پر دانش سے عمل کرے کہ شریعت پوست ہے، اور اس کے اوامر۲ و نواہی کو، جو شریعت کے

 

۔۔۔۔۔

۱۔  ہر چیز کے ظاہر و باطن کے اثبات کے متعلق حکیمانہ بحث کا ملاحظہ ہو، کتاب “وجہِ دین اردو” کلام ۱۰۔

۲۔  اوامر: امر کی جمع اور نواہی: نہی کی جمع ہیں، امر کا دوسرا لفظ حکم اور نہی کا دوسرا لفظ منبع ہے۔

 

۱۷

 

سات ستون۱ کے عنوان سے ہیں، شرعی قانون کے مطابق بجا لائے اور ان ظاہری ارکان کو بجا لانے کے بعد وہ جب یہ چاہتا ہے، کہ ان کے معنی یعنی باطن کو سمجھ لے اور عقلی و تصوراتی طور پر اس عالم سے اس عالمِ عُلوی کو لوٹ جائے، اور اپنے اصلی مقام میں پہنچ جائے تو وہ حقیقت کے ساتھ ارکان کو طریقِ ذیل کے مطابق قائم کرے، تاکہ وہ مردِ حقیقت بن سکے۔

 

۱۔ پہلا رکن شہادت ہے، اور شہادت (یعنی گواہی) یہ ہے کہ تو خدا کو امامِ زمان ہی کے ذریعے سے پہچان لیا کرے۔ اس معنی میں کہ: اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ (۰۲: ۳۰) میں یقیناً (ہمیشہ کے لئے اپنا) ایک نائب روئے زمین پر بنانے والا ہوں۔”

 

۲۔ دوسرا رکن طہارت ہے، اور طہارت یہ ہے کہ گزشتہ آئین سے تو دست بردار ہو جائے اور جو کچھ امامِ زمان ارشاد فرماتا ہے، اسی کو تو حق سمجھے، اور امامِ زمان ہی کے امر کی اطاعت کرے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ (۰۴: ۵۹) اے ایماندارو! خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی جو

 

۔۔۔۔۔

۱۔  شریعت کے سات ارکان یا اسلام کے سات ستون کی مزید تفصیل کے لئے دیکھو کتاب “دعائم الاسلام” جلدِ اوّل ص ۳ نیز کتاب “وجہِ دین،” کلام ۳۳۔

 

۱۸

 

تم میں سے ہیں۱

 

۳۔ تیسرا رکن نماز ہے، اور نماز یہ ہے کہ تو دم بھر کے لئے بھی خدا، رسول اور خلیفۂ خدا کی فرمانبرداری سے غافل نہ ہو تاکہ تو اس دائمی نماز میں لگا رہے، اس معنی میں کہ: الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ دَآىٕمُوْنَ (۷۰: ۲۳) یعنی ایسے لوگ جو صرف وہی “صلوٰۃ دائم” یعنی مسلسل نماز میں ہوتے ہیں۔”

 

۴۔ چوتھا رکن روزہ ہے، اور روزہ یہ ہوتا ہے کہ تو اپنے سات (۲) اعضاء کو ظاہر اور باطن (کے تمام گناہوں) سے خدائے تعالیٰ کے فرمان کے مطابق روک لیا کرے، چنانچہ حق تعالیٰ حضرت مریم کے قصّے میں فرماتا ہے کہ: اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا۳ (فَلَنْ اُكَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا، ۱۹: ۲۶) یعنی مریم نے کہا

 

۔۔۔۔۔

۱۔  اس آیۂ مبارکہ کی مزید حقیقتوں اور تاویل کے لئے دیکھو، کتاب: “مفتاح الحکمت” از ص ۲۲ تا ۳۵ نیز کتاب “وجہِ دین” کلام ۲ اور ۳۶۔

۲۔  اس مقام پر سات اعضاء کا اشارہ: دل، دماغ، آنکھ، کان، ناک، منہ اور اعضای لامعہ (یعنی ہاتھ، پاؤں اور جلد) کی طرف ہے، کیونکہ حقیقی پرہیزگاری کا روزہ انہیں سے متعلق ہے اور نفسانی خواہشات کے یہی سات دروازے ہیں۔ جس طرح دوزخ کے سات دروازے ہیں۔

۳۔  روزہ کا قرآنی لفظ صوم ہے، جس کے معنی ہیں، باز رہنا، رکنا، چنانچہ عرب والے کہتے ہیں: صامت الریح، ہوا ٹھہر گئی یا رک گئی، پس جس طرح کھانے پینے سے رک جانے کا نام صوم (یعنی روزہ) ہے اسی طرح برے اقوال و افعال سے رک جانے کو بھی “معصوم” کہتے ہیں جس کی ایک قرآنی مثال “روزۂ مریم” ہے۔   (مترجم)۔

 

۱۹

 

کہ میں نے خدا کے واسطے روزہ کی نذر کی تھی، پس میں آج ہرگز کسی انسان سے بات نہیں کر سکتی۔”

 

۵۔ پانچواں رکن زکوٰۃ ہے، اور زکوٰۃ یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تجھے عطا فرمایا ہے، اس کا دسواں حصّہ امامِ زمان کے بیت المال میں پہنچا دیا کرے، یا یہ کہ مولا کے فرمانے پر اپنے مومن بھائی کو دیا کرے، اور تو فقرا و مساکین کے اس حق کو نہ روک لیا کرے، جیسا کہ خدا کا قول ہے کہ، وَ یُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَ ذٰلِكَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِ (۹۸: ۰۵) (اور انہیں یہ امر ہوا ہے کہ) وہ زکوٰۃ ادا کرتے رہیں اور یہی دینِ قائم ہے۔”

 

۶۔ چھٹا رکن جہاد ہے، اور جہاد یہ ہوتا ہے کہ تو اپنے نفس اور اپنی خواہشات سے جنگ کرتا رہے اور اس کو قتل کرے، فرد:

 

نفس مردود است اورا رد کنید

پس مکان بر عالمِ سرمد کنید

 

یعنی نفس ہی (وہ شیطان ہے جس کو) نکال دیا گیا ہے، تو تم بھی اُسے نکال باہر کر دو، پھر ابدی عالم میں اپنے لئے خاص مقام حاصل کرو۔” نیز (جہاد کی تاویل یہ ہے کہ) خدا کے سوا جو کچھ بھی ہو، اس کے ساتھ تعلق نہ رکھا کرو، اور اپنے جسم و جان کو خدا کے راستے میں قربان کر دو، جیسا کہ ارشاد ہے کہ: وَ الْمُجٰهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْؕ (۰۴: ۹۵) اور خدا کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرنے والے۔

 

۲۰

 

۷۔ ساتواں رکن حج ہے، اور حج یہ ہے کہ تو اس سرائے فانی سے ہاتھ اٹھائے اور سرائے باقی کی طلب کرتا رہے۔ اس معنی کی دلیل پر کہ: وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌؕ-وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ (۲۹: ۶۴) اور یہ دنیاوی زندگی تو کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں، اور اگر یہ لوگ سمجھیں بوجھیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بس آخرت کا گھر ہی حقیقت میں زندہ۱ ہے۔” اور باطنی حج والوں کا طریق یہی ہے۔

 

مومنوں کو چاہئے کہ شریعت کے سات ارکان کی تاویل مذکورۂ بالا معنی کے مطابق بجا لائیں، تاکہ مردِ حقیقت بن سکیں، کیونکہ حقیقت کی تکالیف کے مقابلے میں شریعت کے اوامر و نواہی کی تکالیف بہت آسان ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ اگر مردِ شریعت ہر اس طاعت کو جو شریعت میں اس پر واجب ہے، دن رات کے تقریباً دو گھنٹوں میں بجا لا سکے، اور اس کے ساتھ مشغول ہو جائے تو بقول شریعت وہ خدا پرست اور رستگار ہے، لیکن حقیقت

 

۔۔۔۔۔۔

۱۔  اگر آخرت کا گھر زندہ ہے، تو اس کا کیا ثبوت ہے؟ یہ سوال اور اس قسم کے بہت سوالات حضرت حکیم پیر سید شاہ ناصر خسرو قدس اللہ سرہ نے اپنی مشہور کتاب وجہِ دین کے کلام ۴ میں حل کر دیئے ہیں۔

 

۲۱

 

کے اوامر و نواہی اس سے زیادہ مشکل ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ اگر مردِ حقیقت باطنی اوامر و نواہی سے متعلق نماز، روزہ (جیسا کہ اسی فصل میں مذکور ہے) اور طاعت سے چشمِ زدن کے لئے رک جائے اور غافل ہو جائے، تو اسی غفلت کے وقت جو کچھ کہے، جو کچھ دیکھے اور جو کچھ کرے، وہ سب کچھ خدا کی طرف نزدیک تر جانے کا ذریعہ بننا تو درکنار، بلکہ اگر وہ خدا کی یاد کے بغیر پانی کا ایک پیالہ یا روٹی کا ایک نوالہ پیاس اور بھوک رفع کرنے کے لئے پئے یا کھائے، تو وہ پانی اور روٹی اس پر حرام ہو جاتی ہے۔ حقیقت کا قول بس یہی ہے اور وہ شخص مردِ حقیقت اور اہلِ باطن نہ رہے گا، بلکہ اس نے جو کچھ طاعت کی ہے، وہ سب ضائع ہو جاتی ہے اور خدا پرست اور رستگار نہیں ہے۔ پس جو گروہ اپنے آپ میں یہ قوّت و صلاحیت نہ دیکھ پا رہا ہو، وہ حقیقت کے اوامر و نواہی پر ٹھہر نہیں سکتا، مگر یہ ہے کہ (ایسا گروہ) شرعی طاعت سے دست بردار نہ ہو جائے (کیونکہ ایسا نہ ہو کہ وہ کہیں کا بھی نہ رہے) کہ خسر الدنیا و الآخرۃ (۲۲: ۱۱) اس نے دنیا اور آخرت دونوں کا گھاٹا اٹھایا۔” اور جو شخص اس کے برعکس عمل کرے، تو نہ مردِ شریعت رہ سکے گا اور نہ مردِ حقیقت بن سکے گا، بلکہ ملحد اور بے دین ہوگا۔

 

حق تعالیٰ سب کو طاعتِ ظاہر اور طاعتِ باطن کی توفیق

 

۲۲

 

عطا فرمائے۱ اور حق تعالیٰ کے امر، امام زمانی کے فرمان قرآن اور حضرتِ رسول علیہ السّلام کی احادیث پر ثابت قدم رکھے! اور شیطان کے وسوسوں، ظالموں کے ظلم و ستم، ناگہانی بلاؤں اور زمانۂ آخر کے فتنوں سے سب کو بچائے رکھے! یا صاحب العصر و الزمان! آمین یا ربّ العالمین!! برحمتک یا ارحم الراحمین!!!۲

 

۔۔۔۔۔۔

۱۔  یہ حصّہ کسی کم علم شخص کی دست اندازی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے، کیونکہ عبارت میں کوئی درست ربط و ترتیب نظر نہیں آتی۔

 

۲۳

 

کلامِ مولانا علی علیہ السّلام

 

انسانی حقیقت کی جامعیّت اور اس کے مادّی اور روحانی حقیقتوں پر حاوی اور شامل ہونے کا بیان

 

(ترجمہ و شرح از نصیر الدین نصیر ہونزائی)

 

وَرَاءُکَ فِیۡکَ وَمَا تَشۡعُرۡ

وَرَاءُکَ مِنۡکَ وَمَا تُبۡصِرُ

تیری دوا تجھ ہی میں ہے اور تو سمجھتا نہیں

اور تیری بیماری تجھ ہی سے پیدا ہوئی ہے اور تو دیکھتا نہیں

 

وَ تَحۡسَبُ اَنَّکَ جِرۡمٌ صَغِیۡر

وَفَیۡکَ انۡطَوَی الۡعَالَمُ الۡاَکۡبَرُ

اور تو گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے

حالانکہ تجھ میں عالم الکبیر لپٹا ہوا ہے۔

 

وَاَنۡتَ الۡکِتَابُ الۡمُبِیۡنُ الَّذِیۡ

بِاَحۡرُفِہٖ یَظۡہُرُ الۡمُضۡمَرُ

اور تو ہی وہ بولنے والی کتاب ہے کہ جس کے

حروف سے پوشیدہ راز ظاہر ہو جاتے ہیں

 

فَلَا حَاجَۃَ لَکَ فِیۡ خَارِجٍ

یُخَبِّرُ عَنۡکَ بِمَا سُطِّرُ

تجھ کو ظاہر میں کسی شخص کی ضرورت نہیں

کہ وہ تیری ذات میں لکھی ہوئی باتوں کی خبر دے

 

۲۵

 

شرح

 

۱۔ ای وہ انسان! جو روحانی یا جسمانی قسم کی کسی بڑی یا چھوٹی تکلیف میں مبتلا ہے، یہ حقیقت سن لے کہ تیری اس بیماری اور تکلیف کی سو فیصد موثر اور شفا بخش دوا تیری ہی ذات میں پوشیدہ ہے۔ حالانکہ تو اس حقیقت سے بے خبر ہے۔ نیز تیری یہ بیماری بھی دراصل تجھ ہی سے پیدا ہوئی ہے، ہر چند کہ تیری نظر اس واقعہ تک نہیں پہنچ سکتی۔

 

عقلی دلیل: یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ انسان اشرف المخلوقات کا درجہ رکھتا ہے، اور چند چیزوں میں سے کوئی چیز اشرف و افضل اس وقت کہلا سکتی ہے جب کہ وہ اپنی خوبیوں کی جامعیّت کی بناء پر ان باقی تمام چیزوں سے بڑھ کر ہو۔ چنانچہ انسان اپنی ادنیٰ و اعلیٰ ہر قسم کی صلاحیتوں کی جامعیّت ہی میں تمام مخلوقات سے بڑھ کر ہے کیوں کہ وہ اپنی ذات میں ایک ایسا جوہر ہے جسے کائنات و موجودات کا نچوڑ اور خلاصہ کہنا بجا ہے اور اس کی جملہ صلاحیتوں میں سب سے پہلی قوّت عقل ہے، جس میں ارادہ اختیار اور معرفتِ ذواتِ موجودات

 

۲۶

 

کی انتہائی قابلیّت موجود ہے اور اس کو عقل اور اس کی جملہ قوّتیں (مثلاً ارادہ، اختیار وغیرہ) اس وقت عنایت کی گئی ہیں، جب کہ وہ نہ رنج میں تھا نہ راحت میں، پس اس حقیقتِ ثانیہ کی وضاحت کا یہ نتیجہ نکلا، کہ انسان خود ہی اپنے لئے رنج یا راحت پیدا کرتا ہے۔

 

۲۔ اے انسان! کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ تو اس انتہائی عظیم اور وسیع کائنات کے بے شمار اجسام میں سے ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے، یعنی تیری روحانی ہستی میں یہ وسیع کائنات اور اس کی تمام چیزیں ملفوف اور محدود ہیں، بالفاظِ دیگر تیرے روحانی وجود میں کائنات و موجودات کی تمام حقیقتیں سموئی ہوئی ہیں، اس لئے دراصل تو ہی عالمِ اکبر ہے اور یہ کائنات عالمِ اصغر ہے۔

 

عقلی دلیل: اگرچہ ہر عام انسان اس قابل نہیں کہ وہ اپنی روحانیّت و حقیقت کی ہمہ گیر وسعت کے بارے میں پورا پورا یقین کر سکے تاہم اگر وہ اس حقیقت پر خوب غور کرے تو وہ اپنی روحانی جامعیّت اور ہمہ گیر وسعت کے متعلق کسی حد تک باور کر سکے گا، وہ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان بحالتِ خواب اپنے آپ کو ایک وسیع عالم میں دیکھتا ہے، جو اس مادّی دنیا سے الگ تھلگ اور بالکل نرالا ہے، جس میں

 

۲۷

 

آسمان اور زمین کی تمام چیزیں موجود ہیں اور کوئی ایسی چیز نہیں، جو امکانی طور پر اُس میں نہ پائی جائے، پس عالمِ خواب انسان کی روحانی جامعیّت و کیفیّت کی ایک معمولی سی مثال ہے، جس سے باور کیا جا سکتا ہے، کہ درحقیقت انسان ہی عالمِ اکبر ہے، اور کائنات بحقیقت عالمِ اصغر ہے۔

 

۳۔ تو اپنی روحانی تمامیّت و کمالیّت کے اعلیٰ درجے پر خدا کی وہ بولنے والی معجزاتی کتاب ہے کہ جس کے زندہ، خودگو اور پُرحکمت حروف سے دونوں جہاں کے پوشیدہ اسرار ظاہر ہو جاتے ہیں۔

 

عقلی دلیل: سارے انبیاء و اولیاء، جو خدا تعالیٰ کی طرف سے تمام بنی آدم کی ہدایت کرنے اور انہیں کمالِ انسانی کے اعلیٰ ترین درجے تک پہنچا دینے کے لئے آئے ہیں وہ بلاشبہ سب کے سب بشر ہی ہوتے ہیں، مگر ایسے بشر کہ جن کی ذات و صفات میں انسانی فضل و کمال کے کرشمے بدرجۂ اتم موجود ہوں اور وہ بامرِ الٰہی لوگوں کو جو کچھ ہدایت کرتے ہیں اس میں یہ معنی پوشیدہ ہوتے ہیں کہ وہ تمام انسانوں کو نبوّت اور ولایت سے قریب تر تعلیم دیتے ہیں تاکہ لوگ انبیاء و اولیاء کی طرح خدا کے قرب و حضور سے مشرف ہو جائیں اور خدا کا قرب و حضور

 

۲۸

 

وہ اعلیٰ ترین مقام ہے جس کو صفاتِ انسانیہ کی تمامیّت و کمالیّت کا آخری درجہ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ کتبِ سماویہ اور تواریخِ عالم شاہد ہیں کہ جن لوگوں نے صحیح معنوں میں انبیاء و اولیاء کی ہدایت کی پیروی کی تو وہ درجۂ انسانیّت کے کمال کو پہنچ گئے۔ پس اس بیان کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسانِ کامل تمام انسانوں کے امکانی فضل و کمال کی زندہ مثال اور ان کی اُخروی عظمت و جلالت کا عملی نمونہ ہیں، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ انسانِ کامل یعنی امامِ زمان کی ظاہری اور باطنی ہدایت پر کماحقہٗ عمل کرنے کے بعد ہر حقیقی مومن خدا کی وہ معجزاتی کتاب بن سکتا ہے، جس کا ذکر ہوا۔

 

۴۔ ظاہری اور باطنی ہدایت پر عمل پیرا ہونے کے بعد جب تو روحانیّت کی معجزاتی کتاب بن جائے تو تجھے کوئی ضرورت ہی نہیں، کہ تو خارج اور ظاہر میں کسی سے رجوع کرے تاکہ وہ تیری روحانی کتاب پڑھ کر تجھ کو اس کے حقائق و معارف سے روشناس کر دے بلکہ امرِ واقع یہ ہے کہ وہ معجزاتی زندہ اور خود گو کتاب جو دراصل تیری حقیقی روح ہے، اپنی پُر اسرار حکمتوں کو خود از خود پڑھ کر سناتی اور سمجھاتی رہتی ہے۔

 

عقلی دلیل: کوئی باشعور شخص اپنی حقیقت سے ہرگز

 

۲۹

 

انکار نہیں کرے گا کہ ایک عام انسان جب ظاہری طور پر بالکل خاموش ہو کر اپنے دل و دماغ کی طرف متوّجہ ہو جاتا ہے، تو وہ اپنے باطن میں غیر ارادی اور بے ترتیب قسم کی ایک گفتگو کا احساس کرتا ہے، جس کی آواز نہ ہونے کے برابر ہے اور انسان کے ضمیر کی اس بے آواز گفتگو کو صوفیائے کرام حدیثِ نفسی کہتے ہیں، اور قرآنی اصطلاح میں اس کیفیت کا نام وسوسۂ نفس ہے، بہرحال اخلاقی اور روحانی ترقی کے بعد انسان کے ضمیر کی یہ آواز یا کہ یہ حدیثِ نفسی بتدریج مذکورۂ بالا معجزاتی کتاب کی صورت اختیار کرلیتی ہے، جس طرح ایک شیرخوار بچہ شروع شروع میں معنی دار الفاظ کے بغیر ہر وقت یونہی منہ سے آواز نکالتا اور ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے اور اس کی یہ طفلانہ حرکات ایک ناسمجھ آدمی کے نزدیک فضول ہوں، تو ممکن ہے، مگر ایک دانشمند شخص کی نظر میں بچے کی یہ حرکتیں اس امر کی دلیل ہیں کہ وہ آگے چل کر علم و دانش کی باتیں کرنے لگے گا اور اس کے ہاتھ پاؤں مارنے کی وہ بے ترتیب سی حرکت باقاعدہ کام کرنے اور ٹھیک طرح سے چلنے کی صورت اختیار کرے گی، اسی طرح بلا شک انسان کے ضمیر کی وہ بے کیف اور بے ترتیب آواز روحانی ترقی کے بعد خدا کی قدرتِ کاملہ سے کتابِ مبین (یعنی کتابِ ناطق یا کہ خود گو کتاب) بن جاتی ہے۔

 

۳۰

معراجِ روح

معراجِ روح

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ابتدائیہ

“معراج” کی اہمیّت:

چونکہ “معراج” حضرت محمد مصطفیٰ رسولِ خدا سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عالیشان روحانیّت و نورانیّت اور اللہ تعالیٰ سے قربت و نزدیکی کو ظاہر کرتی ہے، لہٰذا دینِ اسلام میں اس سلسلے کے حقائق و معارف جاننے کی بڑ ی اہمیّت و ضرورت ہے، کیوں نہ ہو، جبکہ حضورِ اکرمؐ  کی پاک و پاکیزہ اور بابرکت روحانیّت ایسی کامل ومکمل اور جامع معرفت ہے کہ اسی معرفتِ کلی میں کون و مکان کی تمام حقیقتیں اور معرفتیں داخل اور شامل ہیں اور جبکہ یہی معرفت دینِ حق کا سب سے بڑا سرمایہ اورانمول خزانہ ہے، یعنی یہ وہی گنجِ مخفی ہے، جس کا پُرحکمت ذکر حدیثِ قدسی میں فرمایا گیا ہے ۔

 

۲

 

معراج قربِ خداوندی :

جو حضرات قرآنی حکمتوں کی روشنی میں ہر چیز کی تحقیق کر سکتے ہیں، وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ معراج کا مقصد و منشا خدا تعالیٰ سے روحانی طور پر قریب ہو جانا ہے اور یہ فضل و شرف درجہ بدرجہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کو حاصل ہے، اور ظاہر ہے کہ روحانیّت، معرفت اور خدا کی نزدیکی کئی درجات میں ہے، لہٰذا معراج بھی روحانیّت و نورانیّت کے کئی مقامات پر محیط ہے، چنانچہ ہر کامل انسان کا روحانی عروج و ارتقاء اپنی منزلت کی ایک معراج ہے۔

 

حکمتِ قرآن کی ایک خصوصیت:

یہ بات قرآنی حکمت کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ ایک ہی حقیقت کو طرح طرح کی مثالوں میں اور قسم قسم کے الفاظ میں بیان کرتا ہے، جیسے اگر حضرت موسیٰؑ کو کلیم اللہ (خدا سے کلام کرنے والا ) کہا گیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہو سکتا کہ خداوندِ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے کا مرتبہ صرف اور صرف جناب موسیٰؑ کی ذات تک محدود تھا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسی طرح دوسرے کئی انبیائے عظامؑ  کی بھی تعریف کی گئی ہے، مگر جیسا کہ کہا گیا ظاہری طور پر مثالوں اور لفظوں میں فرق ہونے کی وجہ سے عوام اس مطلب کو نہیں سمجھتے ہیں۔

 

۳

 

اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ اگرچہ معراج بدرجۂ اتم رحمتِ عالم فخرِ نبی آدم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو حاصل ہے، تاہم معراج ذیلی درجات میں بحیثیتِ روحانیّت تمام انبیاء و اولیاء کو بھی شامل کرلیتی ہے، بلکہ ان کے پیچھے پیچھے یہ فضیلت ہر اس حقیقی مومن کے لیے بھی ممکن ہے، جو حضورِ اکرمؐ کی سیرتِ طیبہ اور اسوۂ حسنہ کے مطابق دین پر عمل کرتا ہے، آپ اس حقیقت کی شہادت کو قرآن کی (۳۳: ۲۱) میں دیکھ سکتے ہیں۔

 

معراج اور معرفت:

اگر یہ اصول مانا جائے کہ معراج دائرہ معرفت کے اندر ہے اور یہ بھی قبول ہو کہ معرفت یعنی پہچان روحانیّت کے مشاہدات میں ہے، تو پھر اس کے معنی یوں ہوں گے کہ معراج کے تمام تر واقعات اہلِ معرفت کے روحانی مشاہدات میں سے ہیں ۔

 

اللہ تعالیٰ کی سنت:

اللہ پاک کی سنت و عادت یعنی قانونِ الہٰی ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے (۳۳: ۶۲) اور اس میں بنیادی طور پر کبھی تبدیلی نہیں آئی ہے (۳۳: ۶۲) اور خدا سے واصل ہو جانے کا راستہ بھی صرف ایک ہی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دینِ اسلام قدیم ہے اور اس کی کوئی چیز اساسی طور پر نئی نہیں، چنانچہ معراج انبیائے سلف کے روحانی واقعات میں پوشیدہ

 

۴

 

تھی، اور حضرت خاتم الانبیاءؐ پر آکر پوری طرح سے اس کا روحانی ظہور ہوا  اس کے یہ معنی ہوئے کہ انبیائے قرآن کے تذکروں سے بھی واقعۂ معراج کی وضاحت ہوسکتی ہے، چنانچہ قرآنِ مقدس کا ارشاد ہے کہ:

وقال اِنّی ذاھِبٌ اِلیٰ ربّی سیھدینِ (۳۷: ۹۹)

اور ابراہیم کہنے لگے کہ میں تو اپنے ربّ کی طرف چلا جاتا ہوں وہ مجھ کو ہدایت کردے گا۔ اس آیۂ کریمہ کی حکمت سے یہ حقیقت صاف صاف روشن ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا اپنے پروردگار کی طرف چلا جانا روحانی اعتبار سے درست ہے جسمانی لحاظ سے نہیں، اسی روحانی سفر کو ہم ابراہیم خلیل اللہ کی “معراجِ روح” قرار دے سکتے ہیں، اور یہیں سے آنحضورؐ کے سفرِ روحانیّت اور معراجِ نورانیّت کا ایک روشن ثبوت بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔

اسماعیلیّت کی روشنی میں:

حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے مبارک ارشادات کا ایک خاص حصّہ روح اور روحانیّت کی حقیقتوں کے بارے میں ہے، جس کے بغور مطالعے سے مومنین پر یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ معراج روحانی طور پر پیش آئی ہے، حکیم پیر ناصر خسرو قدس سِرہٗ کی شہرۂ آفاق کتاب ــ “وجہِ دین” میں بھی اس امر واقعی کے کئی واضح اشارے ملتے ہیں، خصوصاً کلام نمبر ۱۵ کی فصل نمبر ۴ میں فرمایا گیا ہے کہ رسولِ اکرمؐ روحانی معراج

 

۵

 

کے سلسلے میں نفسِ کلّ کے آسمان پر تشریف لے گئے تھے۔

 

تصوّف کی روشنی میں:

صوفیوں کے نزدیک بھی یہ تصوردرست اور حقیقت ہے کہ رسولِ خداؐ کو واقعۂ معراج کشفِ باطن اور عروجِ روحانیّت کے سلسلے میں پیش آیا ہے، چنانچہ سرمدؔ کہتے ہیں:۔

آن راکہ سِرِ حقیقتش باورشد

خود پہن تر از سپہر پہناورشد

ملا گوید کہ برشد احمدؐ بفلک

سرمدؔ  گوید فلک بہ احمدؐ درشد

ترجمہ :۔ جس کو اپنی حقیقت (یعنی انائیّت و خودی یا ذات کی معرفت ) کے بھید کا یقین آگیا تو وہ خود (باطن میں ) اس وسیع کائنات سے بھی زیادہ وسیع ہوگیا، مُلّا کہتا ہے کہ احمدؐ (معراج کی رات ) جسمانیّت میں آسمان پر گئے، لیکن سرمدؔ کا کہنا ہے کہ فلک (روحانی طور پر ) احمدؐ میں داخل اور شامل ہوگیا۔

 

یہ کتابچہ:

جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ یہ کتابچہ تین مقالوں کا مجموعہ ہے (الف) معراجِ روج (ب) روح اور روحانیّت (ج) نور کی کیفیت و حقیقت،

 

۶

 

ہر چند کہ یہ مقالے مربوط کتابی منصوبے کے بغیر مختلف موقعوں پر الگ الگ لکھے گئے تھے، اس لئے ان کے آپس میں نمایاں طور پر ربط و تعلق نہیں ہے، لیکن اس کے باؤجود ذرا غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ ان تینوں مقالوں کا ایک ہی موضوع ہے اور وہ روحانیّت ہے، چنانچہ ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ان میں معنویّت و حقیقت کے اعتبار سے مکمل ربط و رشتہ موجود ہے اور یہ ایک دوسرے کی تفسیر وتشریح کرتے ہیں۔

 

خانۂ حکمت اورعارف:

“خانۂ حکمت” اور “عارف” ہمارے عزیزوں کے دوعلمی ادارے ہیں، اور اگر حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو یہ دو نہیں بلکہ ایک ہی جمعیّت ہے، پس زہے سعادت اور زہے مسرّت و شادمانی! کہ ہمارے عزیزان جذبۂ خدمت اور اتفاق واتحاد کی روح میں ایک ہوکر فردِ واحد کی طرح کام کررہے ہیں، وہ اس راز کو بخوبی جانتے ہیں کہ دینی خدمت کی شیرینی اور خوشی یکدلی اور یک جہتی کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے سوا خدا کی خوشنودی ممکن ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں اداروں کے معزز اراکین کی یہ دینی اور روحانی اخوت و یگانگت رحمتِ خداوندی کی ایک صورت ہے، پس شکر ہے پروردگارِ عالم کی اس عظیم نعمت کا کہ اس قادرِ مطلق نے اپنی خصوصی رحمت سے ہمارے عزیزوں پر نوازشوں کی بارش برسادی ہے، جس کی بدولت وہ خود نمائی اور خود غرضی

 

۷

 

جیسی آلائشوں سے پاک و پاکیزہ ہو چکے ہیں۔

 

قرآنِ حکیم کا ایک مفہوم یہ ہے کہ حقیقی مومنین خدا کی نظر میں صدیقوں اورشہیدوں کی طرح ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ دین و دنیا میں اجر اور نور عطا کرتا ہے (۵۷: ۱۹) اس مطلب کی وضاحت یہ ہے کہ شہید دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو دین کی حفاظت و سلامتی اور سربلندی و ترقی کی خاطر اپنی جانِ عزیز کو بیدریغ قربان کردیتا ہے،  دوسرا وہ جو بالکل یہی جذبہ رکھتا ہے مگر مذہب اس کی جانی قربانی کا تقاضا نہیں کرتا، لہٰذا وہ دوسری عظیم قربانیوں سے دینی مقاصد کی تکمیل میں مصروف رہتا ہے، اس بیان سے ہمارے عزیزوں کی علمی خدمت کی فضیلت ظاہر ہے۔

 

پروردگارا! تو اپنی رحمتِ بے نہایت سے جملہ جماعت کو دین و دنیا کی عافیت و سلامتی عطا فرما! تومومنین کی ہر مشکل آسان کردے! ان کو تمام نیک کوششوں میں کامیابی نصیب ہو!

 

یا خداوندِ برحق! تیری بے پناہ رحمت سے بعید نہیں کہ تو ہمارے عزیزوں پر اور زیادہ مہربان ہوجائے، ان کی جان، اولاد، مال اور کسب میں طرح طرح کی برکتیں پیداکرے، ان کے علم میں اضافہ اور عبادت میں ترقی ہو، ان کو عالی ہمتی اور اولوالعزمی کا درجہ ملے، اور یہ دنیا و آخرت کی رحمتوں اور برکتوں سے مالا مال ہو جائیں۔

 

فقط علمی خادم

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

جمعہ    ۳ شعبان   ۱۳۹۹ھ

۲۹ جون   ۱۹۷۹  ء

 

۸

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

معراجِ روح

 

معراج کے لغوی معنی ہیں آلۂ عروج (اوپر چڑھنے کا آلہ) یعنی سیڑھی اور زینہ، اور اصطلاحاً اس کے معنی ہیں آنحضرت صلعم کی معراج جو آپؐ  کو بقولے نبوّت کے بارہویں سال میں ہوئی تھی، جس میں حضور اکرمؐ روحِ کلّی کے آسمان پر تشریف لے گئے تھے۔

 

اس عظیم واقعہ کے متعلق دو قسم کے نظریئے قائم کئے گئے ہیں، یعنی علمائے دین کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ خاتم انبیاء صلعم کی معراج جسمانی طور پر ہوئی تھی، اور آپؐ اپنے جسمِ اطہر کے ساتھ اس جسمانی اور ظاہری آسمان پر تشریف لے گئے تھے، دوسرے گروہ کا عقیدہ ہے کہ آنحضرتؐ کی یہ معراج جسمانی نہیں بلکہ روحانی تھی، اور اس بارے میں میرا ذاتی عقیدہ بھی یہی ہے، لہٰذا ذیل میں معراجِ روح کی بابت چند روشن دلائل و براہین درج کئے جاتے ہیں:

 

دلیل ۱:  آپ سورۂ معارج (۷۰) کے شروع کی چار آیتوں کا بغور مطالعہ کریں (۷۰: ۰۱ تا ۰۴) ، آپ ان آیات کی روشنی میں اس متعلقہ حقیقت کا بخوبی مشاہدہ

 

۹

 

کریں گے کہ خدائے بزرگ و برتر جو سیڑھیوں (یعنی درجات ) کا مالک ہے، اس کے حضور کی بلندی کی طرف صرف فرشتے اور روحیں چڑھتی ہیں، ان آیتوں میں ایک طرف لفظ معراج کی جمع معارج کا ذکر کیا گیا ہے اور دوسری طرف یہ اشارہ فرمایا گیا ہے کہ ان معراجوں یعنی روحانیّت کے درجات پر سے صرف فرشتے اور روحیں چڑھ سکتی ہیں۔

 

دلیل ۲ : سورۂ سجدہ (۳۲) آیت ۵ میں ارشا د ہے (۳۲: ۰۵)، کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین کی طرف امر (روح ) کی تدبیر کرتا ہے پھر ہرامر (روح) اسی کے حضور کی طرف چڑھ جاتا ہے، جس کی مراد یہ ہے کہ روح ہی آسمان سے زمین پر اترتی ہے اور روح ہی آسمان پر چڑھتی ہے، اور اس آسمان سے آسمانِ روحانیّت مراد ہے۔

دلیل۳: قرآن حکیم (۱۵: ۱۴ تا ۱۵) میں ارشاد ہے کہ: اور اگر ہم آسمان کا ایک دروازہ بھی کھول دیں اور یہ لوگ دن دہاڑے اس دروازے سے (آسمان پر ) چڑھ بھی جائیں تب بھی یہی کہیں گے کہ ہو نہ ہو ہمارے آنکھیں (نظر بندی سے ) متوالی کردی گئیں (یا نہیں تو) ہم لوگوں پر جادو کیا گیا ہے۔ اس آیۂ مقدسہ سے اہلِ دانش کے لئے ظاہر ہے کہ لوگوں کا روحانی طور پرآسمانِ روحانیّت پر چڑھنا ممکنات میں سے ہے، مگر صرف اس صورت میں جبکہ اللہ تعالیٰ روحانیّت کا دروازہ کھول دے، کیونکہ اگر یہ بات اس ظاہری اور مادّی آسمان سے متعلق ہوتی تو دروازہ اور اس کے کھولنے کا ذکر ہی نہ ہوتا، جبکہ جسمانی آسمان کا کوئی دروازہ نہیں، اس پر تو لوگ خود بخود جانے لگے ہیں۔

 

۱۰

 

اس آیۂ کریمہ میں روحانی قسم کا وہ امکانی حال بیان ہوا ہے جس میں کچھ آدمیوں پر کسی تیاری کے بغیر یعنی ریاضت کئے بغیر روحانیّت کا یکایک کشف ہوتا ہے، جس کے مشاہدات ان کی آنکھیں برداشت نہیں کر سکتی ہیں، وہ حیران وپریشان یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کسی نے ان پر جادو کیا ہے۔

 

دلیل۴:  یہ ارشاد سورۂ فاطر (۳۵) کی آیۂ دہم کا ہے کہ: پاکیزہ قول اس (خدا ) کی بارگاہ تک عروج کرجاتا ہے اورنیک عمل اس (قول) کو (وہاں تک) اٹھاتا ہے (۳۵: ۱۰)۔ اس فرمانِ الہٰی سے معلوم ہوا کہ انسان کا نیک قول اور نیک عمل ہی خدا کے حضور تک پہنچ سکتا ہے، جس کی مراد  روح ہے، نہ کہ جسم ۔

 

دلیل ۵: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) کے آغاز ہی میں فرمایا گیا ہے کہ:  وہ خدا پاک وپاکیزہ ہے جو اپنے بندہ کو شب کے وقت مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصا کی طرف لے گیا جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں مہیا کررکھی ہیں تاکہ اس کو اپنی نشانیاں دکھائیں (۱۸: ۰۱) اس آیۂ مبارکہ میں آنحضرتؐ کی معراج کا ذکر ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ ذکر وعبادت اور کشفِ روحانیّت کا بہترین وقت رات اور خضوصاً رات کا دوسراحصّہ ہے، چنانچہ آنحضورؐحسبِ معمول رات کے وقت ذکر الہٰی میں محو تھے، کہ بڑے پیمانے پر روحانیّت کا کشف ہوا اور عالمِ غیب کا پردہ سامنے سے ہٹ گیا اور یہ واقعہ آنحضرتؐ کو اس وقت پیش آیا، جبکہ آپؐ کو ابتدائی اسمِ اعظم (مسجدِ حرام)

 

۱۱

 

سے اٹھا کر دوسرے دور کے ایک اسمِ اعظم (مسجدِ اقصا) تک پہنچایا گیا، جس میں اعلیٰ درجے کی برکتیں اور قدرت کی نشانیاں موجود تھیں، یہ سب کچھ حضورؐ کے قلبِ منوّر اور روحِ اقدس میں ہوا، جس کا چشمِ ظاہر سے کوئی تعلق نہیں۔

 

دلیل ۶: قرآن حکیم (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں ہے کہ: اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں (قدرتِ خدا کی ) نشانیاں ہیں اور خود تمہارے نفوس میں بھی ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں، جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں زمین میں مادّی طور پر بکھری ہوئی حالت میں ہیں اور نفوسِ انسانی میں روحانی طور پر یکجا ہیں، اب جو کامل انسان دیدۂ باطن سے خدا کی ان نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہو، جو اس کی ذات میں پوشیدہ اورمجموع ہیں تو اسے کہیں جانے کی ضرورت نہیں پڑتی، چنانچہ آنحضرتؐ نے اپنی معراج روحانیّت کے موقع پر کائنات وموجودات کی نشانیوں کا مشاہدہ اپنی ذاتِ با برکات ہی میں کیا۔

 

دلیل ۷: سورہ نور (۲۴) کی آیت ۳۵ میں ارشاد ہوا ہے کہ : اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا نورہے (۲۴: ۳۵)، چنانچہ رسولِ خداؐ کو معراج کی شب حق تعالیٰ کے اس مقدّس نور کی انتہائی قربت حاصل ہوئی، جس کی روشنی میں حضورؐ نے چشمِ باطن سے آسمان و زمین کے عجائبات کا مشاہدہ کیا، اور اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوئے، اور جو کچھ آیا ت و احادیثِ صحیحہ میں ہے اسی کے مطابق واقعات پیش آئے مگر روح اور روحانیّت میں۔

 

دلیل ۸: سورہ شوریٰ (۴۲) کی آیت ۵۱ اور ۵۲ میں اس حقیقت

 

۱۲

 

کی شہادت موجود ہے کہ کسی آدمی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ خدا اس سے بات کرے مگر وحی کے ذریعہ سے (جس میں خدا کا نور خود وحی یعنی اشارہ فرماتا ہے ) یا پردہ کے پیچھے سے (خدا بات کرے ) یا کوئی فرشتہ بھیج دے پھر وہ فرشتہ خدا کے اذن و  ارادہ کے مطابق وحی کرتا ہے  (۴۲: ۵۱ تا ۵۲)۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السّلام کے خدا سے ہمکلام ہونے یا وحی حاصل کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ اسی دنیا ہی میں سب کچھ ہوا ہے جس میں معراج بھی شامل ہے، اور خدا کی قربت و نزدیکی  کے الگ الگ درجات بھی ہیں۔

 

یہ جاننا نہایت ہی ضروری ہے کہ آیۂ کریمہ بالا کا ارشاد روح اور روحانیّت کا ایک ایسا جامع اصول ہے، جو وحی خاص، مخاطبۂ حجاب اور وحیٔ عام کے علاوہ الہام والقاء وغیرہ جیسے ہدایتِ الٰہیہ کے تمام درجات پر حاوی اور محیط ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ اصول جس میں روحانیّت کے تمام درجات شامل ہیں جملہ ابنیاء علیہم السّلام کے درمیان مشترک ہے، چنانچہ اگر ہماری نظر حقیقت کی تہ تک نہیں پہنچ سکتی ہو تو وہ اور بات ہے ورنہ ماننا پڑے گا کہ اس آیۂ پُرحکمت کے بموجب انبیائے کرام علیہم السّلام کی روحانیّت کا سب سے بلند ترین درجہ وہ ہے جس میں نورِ الٰہی ان کو بے حجاب وحی فرماتا ہے، دوسرا درجہ وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ حجاب کے پیچھے سے کلام کرتا ہے اور تیسرا  درجہ کوئی فرشتہ بھیج کر وحی کرنے کا ہے، اور یہ سارے درجات آنحضرتؐ کی معراج روحانیّت میں داخل ہیں، اورانہیں درجات سے متعلق حضورؐ  کوایک نہیں کئی معراجیں

 

۱۳

 

ہوئی ہیں ۔

 

دلیل۹:  مذکورۂ بالا آیت یعنی سورۂ شوریٰ کی آیت ۵۱ کے بعد اسی مطلب سے مربوط آیہ کریمہ ۵۲ کا یہ ارشاد ہے:۔

وَ كَذٰلِكَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَاؕ (۴۲: ۵۲)

اوراسی طرح ہم نے اپنے امر (یعنی عالمِ امر ) سے آپ کی طرف ایک روح وحی کردی۔ اس کا واضح اور روشن مطلب یہ ہے کہ جس روح القدّس کی روحانیّت میں نبوّت و رسالت کے متذکرۂ بالا تین بڑے درجات مضمر تھے وہ روح حضورؐ کی طرف بطور وحی بھیج دی گئی، یہ روح دوسرے الفاظ میں ایک نورتھا، جس کی زندہ اوربولتی روحانیّت و نورانیّت میں حضور اکرمؐ نے معراجِ روح کے جملہ مدارج کو طے کرلیا تھا۔

دلیل۱۰: سورۂ نجم کی ابتداء ہی میں ہے کہ: قسم ہے ستارہ کی جبکہ وہ اترا (یعنی قسم ہے روحِ قدسی کی جبکہ وہ آنحضرتؐ کی ذاتِ اقدس میں اور آپ کے وصی برحقؑ کے باطن میں نازل ہوئی ) تمہارا ساتھی (محمدؐ) نہ گمراہ ہوا اور نہ بہک گیا (یعنی جب آنحضرتؐ پر ایک عظیم روح نازل ہوئی اورآپ روحانیّت کے رستے پر ہولئے تو حضورؐ اس راہ میں ایسی ثابت قدمی سے چلے کہ آپ کا کوئی قدم غلط نہیں پڑا ) اور وہ اپنی خواہش نفسانی سے نہیں بولتا(یعنی منازلِ روحانیّت طے کرنے کے بعد آپؐ نے تبلیغِ رسالت کا کام شروع کردیا) یہ نہیں ہے مگر وحی جو اس کی طرف

 

۱۴

 

بھیجی جاتی ہے (یعنی حضورؐ اس رسالت کے کام میں جو کچھ بولتے ہیں وہ وحی سے ہے اور وحی اسی عظیم روح کے ذریعہ سے ہے جو ان میں بھیجی گئی تھی) اسے بڑی سخت قوّتوں والے (خدا) اور بڑی عقل والے نے سکھایا ہے، پھروہ (روحانیّت پر) غالب ہوگیا اور آسمان (روحانیّت)  کے سب سے اونچے کنارہ پرتھا (یعنی آپؐ اس کے بعد روحِ کلّ یاکہ نفسِ کلّی کے آسمان پر پہنچ گئے) پھر وہ نزدیک ہوا (یعنی اللہ تعالیٰ کے نور کی طرف) پھرذریعہ بنایا گیا (یعنی آپؐ کو گوہرِ علم وحکمت دکھایا گیا) پھر دوکمانوں کا فاصلہ رہا  یا زیادہ نزدیک، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی طرف (حجاب کے بغیر ) وحی کی جو کچھ کہ وحی کرنا تھا، نہیں جھوٹ کہا دل نے جوکچھ کہ اس نے(معراج میں) دیکھا (یعنی آنحضرتؐ کی معراج کے تمام واقعات و معجزات حضورؐ کے باطن میں پیش آئے تھے لہٰذا آپؐ کے قلبِ مبارک نے جوکچھ دیکھا تھا اس کے متعلق تصدیق اوریقین کیا)۔

پس معلوم ہوا کہ آنحضرتؐ کی معراج بدنی نہیں روحی تھی، جیسا کہ آیات مذکورۂ بالا سے ظاہر ہے اور خاص کر یہ جو ارشاد ہوا کہ آپؐ کے دل نے جوکچھ دیکھا تھا اس کے متعلق جھوٹ نہیں بولا۔

 

دلیل۱۱: قرآن حکیم کی متعدد آیات سے ظاہر ہے کہ خدا انسان کے نہایت قریب ہے، اور یہ بات مکانی قربت کی نہیں بلکہ قدرت کی رسائی اورانسانی شرف سے متعلق ہے، چنانچہ اس حکم کا اطلاق سب سے

 

۱۵

 

پہلے انسانِ کامل پرہوتا ہے، یعنی پیغمبرؐ اپنے قلب مبارک ہی میں نور الہٰی کی تجلّیات کا مشاہدہ کرتا ہے، اورمعراج ایسے مشاہدے سے الگ نہیں۔

 

دلیل۱۲: حدیث قدسی میں ہے کہ بندۂ مومن کا دل اللہ تعالیٰ کا عرش ہے، پس اگر حقیقت یہی ہے تو سب سے پہلے اور سب سے بہتر طریق پرآنحضرتؐ کا مبارک قلب عرشِ الہٰی یعنی خدا کا تخت تھا، اور ظاہر ہے کہ جہاں عرش پر خدا ہے وہاں معراج بھی ہوتی ہے۔

 

دلیل۱۳: یہ قول قرآنی حکمت کی بنیاد پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مقدّس نور دنیا میں ہمیشہ ظاہر ہے اور اس کی ظہور گاہ انبیاء و اوصیاء علیہم السّلام کا پاک سلسلہ ہے، چنانچہ آنحضرت صلعم اپنے وقت میں نورِخداوندی کے مظہر تھے، اس معنی میں جب یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح صاف عیان ہے کہ آپؐ کو روئے زمین پر ہی خدا کے نورسے انتہائی قربت و نزدیکی حاصل تھی، تویہ امر یقینی ہے کہ آنحضرتؐ کی نبوّت اور معراج کے جملہ اسرار اس نورِ خداوندی سے جدا نہیں تھے، جو نور حضورؐ کی مبارک و مقدّس پیشانی میں تھا۔

 

دلیل۱۴: قرآنِ حکیم سے یہ مطلب ظاہر ہوتا ہے کہ خدائے بزرگ وبرتر نے اپنی روح حضرت آدم علیہ السّلام میں پھونک دی تھی، جس سے وہ نورِ الٰہی مراد ہے، جو رشد وہدایت، علم و حکمت اور نبوّت وامامت کا سرچشمہ ہے، جس میں اسرارِ روحانیّت اور عجائبات و معجزاتِ نورانیّت پوشیدہ ہیں، اور یہی روحِ الٰہی یعنی نورِ خداوندی اپنے تمام اوصاف اور خوبیوں کے ساتھ آنحضرتؐ میں موجود تھا، پس معلوم ہوا کہ معراج کے تمام واقعات

 

۱۶

 

روحانی قسم کے تھے جو سرورِ انبیاء صلعم کے اپنے مقدس باطن ہی میں پیش آئے۔

 

دلیل ۱۵: ہراس انسان کی، جس کے حواس صحیح ہیں، چارذاتی دنیائیں ہیں، عالمِ بیداری، عالمِ خیال، عالمِ خواب اورعالمِ روحانیّت، ایک عام انسان عالمِ بیداری کے علاوہ عالمِ خیال اورعالمِ خواب کے وجود کوبھی تسلیم کرسکتا ہے مگر عالمِ روحانیّت، جوسخت عبادت و ریاضت کرنے کے بعد کسی بندۂ خاص کے مشاہدے میں آسکتا ہے، ان تینوں عوالم سے بالاتر ہے، کیونکہ وہ ان تینوں پر محیط اور ان کا جامع ہے، وہ اس ظاہری دنیا کی طرح زندہ اور بیدار بھی ہے، بلکہ وہ اس سے کئی درجہ زیادہ روشن اور نہایت ہی حسین و دلکش ہے، دنیائے فکروخیال کی طرح اس میں سوچنے کی آزادی بھی ہے اور عالمِ خواب کی طرح بے اخیتاری بھی، پس انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا عالمِ روحانیّت اپنی اصلی حالت میں ان پر مکشوف اور ظاہر ہوتا ہے اور اسی میں وہ تمام واقعات پیش آتے ہیں، جن کا ذکر قرآنِ حکیم میں کیا گیا ہے۔

 

دلیل ۱۶:انسان کی ہستی اور وجود جسم کے لحاظ سے مکان ہے اور روح کے اعتبار سے لامکان ہے، اور اگرچہ اللہ تعالیٰ مکان و لامکان دونوں سے برتر ہے، لیکن اس کی قربت و نزدیکی جسمانی طور سے نہیں بلکہ روحانی طور پر ممکن ہے، یعنی خدا کے حضور پہنچنے کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا نہیں پڑتا بلکہ دل (روح ) ہی میں لامکانی طور پر خدا کا انتہائی تقرب حاصل ہو سکتاہے، چنانچہ آنحضرتؐ کو جو انسانِ

 

۱۷

 

کامل تھے یہی ہوا تھا کہ آپؐ کے قلب مبارک میں نبوّت و رسالت اور معراج سے متعلق تمام باتیں وحی کردی گئیں۔

 

اس موضوع کا خاص مقصد یہی تھا کہ معراجِ روح کی حقیقت کے بارے میں چند روشن دلیلیں بیان کردی جائیں، تاکہ مومنین کویہ یقین ہو کہ حضور انورؐ رحمتہ للعٰلمین کی حیثیت سے روحانیّت و نورانیّت کے ایک عظیم عالَم تھے، ایک ایساعالَم کہ اس میں سب کچھ موجود تھا اور اس سے کوئی شے خارج نہیں تھی۔

 

والسلام

 

۱۸

 

روح اور روحانیّت

 

بہتر یہ ہے کہ ہم آج کی مجلس میں روح اور روحانیّت کے بارے میں کچھ بنیادی اور خاص قسم کی باتیں بتائیں، کیونکہ روح اور روحانیّت دینِ اسلام میں سب سے بڑا اور اہم ترین موضوع ہے، اس لئے کہ معرفتِ ذات یعنی انسان کی اپنی شناخت ہی سے معرفتِ خدا حاصل ہوتی ہے، جو علم وعمل کا کامیاب نتیجہ اور دین کا سب سے آخری مقصد ہے۔

 

جامع الجوامع:۔

جب یہ امر واقعی ہے کہ ربّ العزّت کی معرفت کا انمول خزانہ اوراس کی بے پناہ، لازوال اورغیر فانی دولت انسان کی اپنی معرفت میں پوشیدہ ہے، اور اصلیت میں معرفت روح کو دیدۂ دل سے دیکھنے اورکلّی طور پر پہچاننے کا نام ہے، تو پھر روح اور روحانیّت کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ کیوں نہ دی جائے، جبکہ یہ امر عظیم ایک ایسا وسیع اور جامع الجوامع موضوع ہے کہ اس میں دین کے تمام موضوعات خود بخود محدود ہو جاتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفتِ عالیہ میں تمام چیزیں سموئی ہوئی ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ ربّ العزّت کی معرفت ایسا موضوع ہے جو کہ تمام موضوعات پر حاوی

 

۱۹

 

اور بسیط ہے، اسی لئے میرا کہنا ہے کہ روح اور روحانیّت کے موضوع کی طرف توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔

 

حضرت مولانا امیر المومنین علی علیہ السّلام کا ارشادِ گرامی ہے کہ: جس نے اپنی روح کی معرفت حاصل کرلی یقیناً اس نے اپنے پروردگار کی معرفت حاصل کرلی، نیز فرمایا گیا ہے کہ: تم میں سے جو شخص اپنی روح کو سب سے زیادہ پہچانتا ہے وہی اپنے پروردگار کو سب سے زیادہ پہچانتا ہے، لیکن چونکہ معرفت روحانیّت کے بہت سے مراحل سے آگے گزر کر اصل سے واصل ہوجانے کے بعد مکمل ہوجاتی ہے، لہٰذا خدا شناسی کا یہ انتہائی بلند مرتبہ کسی کی ذاتی کوششوں سے حاصل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اس نازک اور مشکل راہ میں ہادیٔ برحق کی دستگیری اور ہدایت و رہنمائی نہ ہو، کیونکہ معرفت مومن کی مذہبی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے، جو خدا اور رسولؐ اورامامِ زمانؐ کی مقدّس ہدایت کی روشنی میں انجام پاسکتا ہے۔

 

صراطِ مستقیم اور معرفت:۔

جس طرح یہ ایک روشن اورمسلّمہ حقیقت ہے کہ اسلام کا دوسرا نام صراط مستقیم ہے، اور اس صراطِ مستقیم کے تصوّر کے سلسلے میں منزل معرفت سب سے آخر میں آتی ہے، یعنی شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت، اسی طرح انسان کی خودشناسی (جس میں خدا شناسی کا گنج مخفی موجود ہے) راہِ دین کے مرحلۂ آخرین میں ہے، جو مقامِ معرفت ہے،

 

۲۰

 

اور اس منزلِ مقصود تک بندۂ مومن حقیقی علم اور نیک عمل کے ذریعے سے پہنچ سکتا ہے، یا یوں کہنا چاہیے کہ راہِ مستقیم جو مسلمین و مومنین کے لئے اطاعت و فرمانبرداری ہی کا رستہ ہے، اس پر اہلِ ایمان علم و عمل کے وسیلے سے منزل بمنزل آگے بڑھ سکتے ہیں، یہاں تک کہ ان کا باطن نورِ معرفت کی ضیا پاشیوں سے کلّی طور پر منور ہو۔

 

مشاہدہ اور معرفت:۔

اسی طرح جب کوئی حقیقی مومن مقاماتِ معرفت تک پہنچے تو اس وقت وہ چشمِ باطن کے مشاہدات کے نتیجے پر نہ صرف اپنی ذات کی حقیقت کو پہچانتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے ربّ کو بھی پہچان لیتا ہے۔

 

معرفت اگرچہ ظاہراً صرف ایک ہی لفظ ہے جس کے لغوی معنی پہچان کے ہیں، لیکن یہ اپنے حقیقی معنوں اور حکمتوں کے اعتبار سے ایسی عالی قدر اور اتنی عظیم الشّان ہے کہ اس کے معنوی جامعیّت میں حیات و کائنات کی تمام حقیقتیں اور معرفتیں محدود ہوجاتی ہیں، لیکن یہ افسوس کا مقام ہے کہ بہت ہی کم لوگ دائرہ معرفت اوراس کے معانی و مطالب کو سمجھتے ہیں، حالانکہ معرفت میں سب کچھ ہے۔

 

نورِمعرفت:۔

معرفت ایک نور کی حیثیت سے ہے، اور یہ وہی نورِ ازل ہے

 

۲۱

 

جو ہمیشہ سے موجود ہے، جس کے بہت سے نام ہیں، جیسے نورِالٰہی، نورقرآن، نور اسلام، نورنبوّت، نورِ امامت، نورِایمان، نورِ ایقان، نور مومنین وغیرہ، پھر آپ ذرا غور و فکر کرکے دیکھیں کہ نورِ معرفت کیا کچھ نہیں، وہ تو سب کچھ ہے، کیونکہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا نور ہے اور اسی لئے وہ کل کلّیات کا نور ہے، جس کی روشنی میں خدا اور خدائی کے بھید عارفوں پر ظاہر ہوجاتے ہیں، ازل اور ابد دونوں کی حقیقتوں کے زندہ اور روشن نقوش بلا کم و کاست سامنے آتے ہیں، لوح و قلم کی معرفت حاصل ہوتی ہے، ملائکہ کی شناخت ہو جاتی ہے، تخلیقِ کائنات کے اسرار سے واقفیت و آگہی ہوتی ہے، انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام کے معجزات اور کرامات کا عملی طور پر پتہ چلتا ہے، وحی جیسی اعلیٰ سے اعلیٰ حقیقت کی کیفیات کا مشاہدہ ہوتا ہے، جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل علیہم السّلام کی پہچان حاصل ہوجاتی ہے۔

 

قیامت جو قرآنِ حکیم کا سب سے مخفی موضوع ہے، اس کا عملی تجربہ ہوتا ہے، حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ نے جوفرمایا ہے کہ وہ ایک مخفی خزانہ ہے، چنانچہ سفر روحانیّت کی اس تلاشِ حقیقت کے نتیجے میں خدا اور خدائی کا گنجِ مخفی ملتا ہے، جس میں سب کچھ ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔

 

نورِعرفان کی روشنی نہ صرف عارف کی زندگی ہی پر پڑتی ہے، بلکہ وہ جیتے جی موت اور عالم آخرت کی حقیقتوں سے بھی براہِ راست واقف و

 

۲۲

 

آگاہ ہوجاتا ہے، روح جو خدا تعالیٰ کی ایک عظیم نورانی مخلوق ہے یا کہنا چاہئے کہ “رو ح” نورِ خداوندی کا ایک زندہ تابندہ اور معجزانہ عکس ہے، اس کا حیرت انگیز مشاہدہ اور دیدار ہوتا ہے۔

عالمِ روحانیّت جو اس دنیا کے برعکس ہے کشفِ باطن کی حیثیت سے سامنے آتا ہے، دوزخ اور بہشت سے پوشیدگی کا پردہ اٹھ جاتا ہے اور دیدۂ باطن سے ان کے مناظر کو دیکھ لیا جاتاہے، خدا کے اوصاف اور اس کی وحدانیّت کا مکمل یقین آتا ہے۔

 

معرفت کی روشنی میں:۔

جاننا چاہیے کہ معرفت نورانیّت کی ایک ایسی زندہ کائنات ہے کہ اس سے کوئی شے باہر نہیں، جس کے اندر جوکچھ ہے اس کی روح ہے، بالفاظِ دیگر معرفت کی روشنی میں دیکھنے سے ہر چیز کی روح نمایان اور مخاطب ہو جاتی ہے، خواہ وہ پتھر کی طرح بے جان چیزیں کیوں نہ ہوں، جیسا کہ ارشادِ ربّانی ہے کہ:۔

قَالُوْۤا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِیْۤ اَنْطَقَ كُلَّ شَیْءٍ (وہ اعضاء جواب دیں گے کہ جس خدانے ہرچیز کو گویا کیا اس نے ہم کو گویا کیا) (۴۱: ۲۱) قرآنِ پاک کا یہ پُرحکمت ارشاد دنیائے معرفت ہی کی طرف ہے، جس کی ہرچیز میں روح ہے اور وہ بول سکتی ہے، چنانچہ نورِ معرفت کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھر، مٹی

 

۲۳

 

اور ہوا جیسے جمادات میں بھی روح ہوا کرتی ہے، نباتات کی روح تو نشوونما کی صلاحیت سے ظاہر ہے، جانوروں کی روح ہونے سے کسی کوذرا بھی شک نہیں، انسانی روح تو ایک روشن حقیقت کی طرح مسلّمہ ہے،  چنانچہ معرفت کی نظر میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کی روح نہ ہو، سو یہ حقیقت ہے کہ حصولِ معرفت کے دوران تمام چیزوں کی روحوں سے ملاقات اور گفتگو ہوتی ہے اور نتیجے کے طور پر ان کی شناخت کے بھیدوں سے نقاب اٹھا لیا جاتا ہے اور ان کی حقیقتیں روشن ہوجاتی ہیں۔

 

مذکورہ حقائق و معارف کی شہادتیں قرآنِ مقدّس میں بھی موجود ہیں، چنانچہ ارشاد ہوا ہے کہ:  اور ہم اگر ان کے پاس فرشتے بھی نازل کرتے اور ان سے مردے بھی باتیں کرنے لگتے اور تمام (روحانی ) چیزیں گروہ گروہ ان کے سامنے لاکھڑے کرتے تو بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے (۰۶: ۱۱۱)۔

 

ظاہری طور پر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیۂ کریمہ ایک مثال کی حیثیت سے ہے، لیکن جاننے والے ہی جانتے ہیں کہ یہ پُرحکمت ارشاد صرف مثال کی حد تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک زندہ حقیقت اور ایک امر واقعی بھی ہے، چنانچہ یہ بڑا عجیب و غریب واقعہ ہے کہ عالمِ روحانیّت سے براہِ راست رابطہ رکھنے والوں کونہ صرف مردوں کی روحیں، فرشتے، جنّات وغیرہ دکھائی دیتے ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ تمام زندہ انسانوں اور ساری چیزوں کی روحوں سے بھی ملاقات اور گفتگو ہوتی ہے، اور اس سلسلے کا سب سے عظیم واقعہ نورِ الٰہی کا دیدارہے۔

 

۲۴

 

معرفت کی ہمہ رسی:۔

جب اس حقیقت کو تقریباً سب تسلیم کرلیتے ہیں کہ دیدارِ نورانی اور لقائے الہٰی کے وسیلے سے خدا کی کامل معرفت حاصل ہوتی ہے، خواہ وہ مقدّس دیدار، جو جلال وجمال کی تجلّیوں سے بھر پور ہے، خدا کا ہو یا نورِ خدا کا جو اس کا خلیفہ اورنمائندہ ہے یا انسان کی اپنی روح میں یہ عظیم الشّان صلاحیت پنہان ہو کہ وقت آنے پر یہ ہراعتبار سے اور ہر صورت میں خدائے پاک کی خلافت ونیابت اورنمائندگی کرتی ہے، ہر حالت میں خدا کا دیدار برحق ہے، جس کا ماحصل معرفت ہے، جو مشاہداتِ روحانیّت کا سب سے بڑا ثبوت اورسب سے عظیم مقصد ہے۔

 

کیا اس حقیقتِ حال کے باؤجود کوئی دانشمند یہ گمان کر سکتا ہے کہ کچھ ضروری حقیقتیں اہلِ معرفت کی نگاہوں سے ہمیشہ کے لئے پردۂ اخفا میں رہتی ہیں؟  یہ گمان کس طرح درست ہو سکتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کی مبارک ملاقات اور پاک معرفت ثابت ہے، حالانکہ خداوندِ برحق سب سے باطن اور باطن سے بھی باطن ہے، پھر بھی وہ بادشاہِ مطلق اپنے برگزیدہ بندوں کی روحانیّت و نورانیّت میں ظاہر اور جلوہ نما ہوکر اپنی شناخت کی لازوال دولت عطا فرماتا ہے، کیا ایسے میں معرفت کی نظر اور رسائی سے کوئی چیز مخفی اور پوشیدہ رہ سکتی ہے، جبکہ سب سے مخفی خزانے کا انکشاف ہو جاتا ہے، یعنی خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے، درحالیکہ وہ تبارک و

 

۲۵

 

تعالیٰ سب سے برتر، عظیم اور وریٰ ہے؟

 

سب سے بڑا بھید:۔

جاننا چاہیے کہ پروردگارِ عالم کی معرفت کے سامنے کسی چیز کی کوئی اہمیت نہیں، سب سے بڑا بھید خدا کی حقیقت ہے، چنانچہ ایک دینداراور ہوشیار آدمی آسانی سے یہ تصوّر کرسکتا ہے کہ بھیدوں میں سب سے بڑا بھید خود اللہ ہے، یعنی خدا کی معرفت کی کیفیت  بڑی دشوار شے ہے، اورسب سے مشکل چیز اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت (UNITY OF GOD) ہے، لیکن اس کے باؤجود جب باور کیا جاتا ہے کہ اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس کی یکتائی کی شناخت ہوتی ہے، تو کیا اس صورت میں کوئی ہوشمند انسان یہ تصوّر کر سکتا ہے کہ کچھ بھید اس کے سوا ایسے بھی ہیں کہ ان تک اہلِ معرفت نہیں پہنچ سکتے، یہ تصوّر درست نہیں، کیونکہ یہ “اللہ اکبر” کے معنی کے خلاف ہے، یعنی خدا ہی سب سے بڑا ہے اور وہی سب سے برتر اور ہر چیز سے وریٰ ہے جس کی تشریح یہ ہوئی کہ تمام چیز یں رحمتِ خدائی میں محدود ہیں اور اس کی رحمت پر اس کا علم محیط ہے، اور وہ خود علم پر محیط اور بادشاہ ہے۔

 

اس تشریح سے ایک طرف تو معرفتِ خدا کی عظمت و بزرگی اور رفعت و برتری کا مکمل یقین ہو جاتا ہے اور دوسری طرف یہ پتہ چلتا ہے کہ کوئی چیز خداوند کی رحمت اور علم سے باہر نہیں، اور اس کا لازمی

 

۲۶

 

نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جن سعادت مند انسانوں کو خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے ان کو سب کچھ ملتا ہے، جس کے اسباب اور وجوہ ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:۔

 

۱۔اللہ تعالیٰ حقیقی بادشاہ ہے، جب وہ کسی کو چاہتا ہے تو اپنا تعارف کراتا ہے، اور اس کو اپنا شناسا کرلیتا ہے، پھر خداوند تعالیٰ کی دوستی کے نتیجے پر ایسے بندے کو سب کچھ مل جاتا ہے۔

 

۲۔ جس کو خدا کی معرفت حاصل ہو، تو اس کومعرفت اپنے تحت خدائی علم لے کر آئی ہے اور یہ علم ہر چیز لے کر آتا ہے، کیونکہ ہم اوپر بتا چکے ہیں کہ خدا کی خدائی اور معرفت ہر چیز سے برتر ہے، اورسب چیزیں علم و رحمت کے تحت ہیں۔

 

۳۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ خدا ہر قسم کی مثال سے پاک و برتر ہے، تاہم اس کی بے پناہ رحمت و مہربانی کا یہ تقاضا تھا کہ تصورِ الوہیّت کے ابتدائی مراحل کے لئے کچھ عام فہم مثالیں پیش کی جائیں، چنانچہ خدائے علیم و حکیم نے اپنی ذاتِ اقدس  کے متعلق کئی حکمت آگین اور پُرمغز مثالیں دیں، جن میں ایک ایسی جانفزا اور روح پرور مثال بھی ہے کہ وہ ہمیشہ سے خداوند قدوس کی بے پایان رحمت کی سب سے عظیم نوازشات کی آئینہ داری اور نمائندگی کرتی چلی آئی ہے، اور وہ یہ کہ ربِّ کریم نے اپنی ذات پاک کی مثال ایک نہایت عظیم اور انتہائی گرانقدر”مخفی خزانہ” سے دی ہے،

 

۲۷

 

پس اگر مانا کہ خدا تعالیٰ اہِل معرفت کو مالک و مولا اور آقا و بادشاہ کی طرح نہیں بلکہ خزانے کی طرح مل جاتا ہے، تو اس میں کافی توجہ دے کر سوچنا چاہئے کہ یہ خدا کی کتنی بڑی نوازش ہے کہ وہ سب سے بڑا مہربان خود کو اور اپنی خداوندی کے تمام باکمال اوصاف کو نتیجۂ معرفت کا انعامی خزانہ قرار دے کر عارف کوعطا کردیتا ہے، اس راز کو اس سے زیادہ افشا نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ اس خدائی رحمت و مہربانی میں بڑی عجیب و غریب حکمتیں پوشیدہ ہیں، پس اس سے معلوم ہوا کہ نورِ معرفت سب کچھ ہے۔

 

وحدتِ کثرت نما:۔

اس مقام پر ایک ایسی وحدت کا ذکر کرنا فائدے سے خالی نہیں جو اصل میں وحدت ہی ہے مگر ظاہر میں کثرت سمجھی جاتی ہے، اس لئے اس کو وحدتِ کثرت نما کہنا چاہئے، جس کی مثال سورج اور اس کے لاتعداد عکس ہیں، کہ ان تمام عکسوں کی حقیقی وحدت سورج میں ہمیشہ سے موجود ہے، اور سورج کی مجازی کثرت ان ساری صاف وشفاف چیزوں میں ہے، جن میں سورج کا عکس نظر آتا ہے، جیسے آئینہ، صاف پانی وغیرہ ۔

 

اسی طرح روحوں کا بھی ایک سرچشمہ ہے، جس کو عالمِ روحانیّت کا سورج یا نورکہا جاتاہے، جہاں پر تمام روحوں کی حقیقی وحدت ہے، اور ارواحِ جزوی میں مجازی کثرت ہے، اور اگر ہم اس سلسلے میں ایک کلی بات کرنا چاہیں تو اسے وحدتِ کثرت نما بھی کہہ سکتے ہیں، جس کے

 

۲۸

 

معنی یہ ہوئے کہ نورِ ازل میں ہمیشہ کے لئے تمام روحوں کی جو وحدت قائم ہے، وہ افراد و اشخاص میں ہنگامی طور پر کثرت کی صورت میں ظاہر ہے، جس طرح سورج اور اس کی روشنی کے ذرّات یعنی کرنوں کے درمیان ایک طرف حقیقی وحدت ہے اور دوسری طرف مجازی کثرت یعنی وحدتِ کثرت نما ہے۔

 

نفسِ واحدہ:۔

قرآنِ پاک میں بطریق حکمت نفسِ واحدہ کا ذکر آیا ہے، یہ نفسِ واحدہ نفسِ کلّی ہے، جو تمام روحوں کا سرچشمہ اور نورِ ازل کی حیثیت سے ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہواہے کہ:۔

مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍؕ (۳۱: ۲۸)

تم سب کا پیدا کرنا اور (دوبارہ) زندہ کرنا بس ایسا ہی ہے جیسا ایک شخص کا۔ یعنی نفوس خلائق ازل میں نفسِ کلّی کے ساتھ ساتھ پیدا ہوئے ہیں، اس لئے وہاں ان کی وحدت ایک جان کی وحدت کی طرح ہے، جو ہمیشہ کے لئے نفسِ کلّی میں قائم ہے، یا اس حقیقت کو یوں سمجھنا چاہئے کہ ہم میں سے ہر ایک کی ایک انائے عُلوی یعنی روح کی اعلیٰ حقیقت اب بھی نفسِ کلّی سے اسی طرح وابستہ ہے جس طرح کہ یہ ازل میں تھی، اس کے علاوہ ہماری ایک انائے سفلی بھی ہے، یعنی ذیلی اور عارضی زندگی جو ہماری شخصیّت پر قائم ہے، جس کی مثال سورج کے عکس سے دی جا سکتی ہے جو آئینے میں نظر آتا ہے۔

 

۲۹

 

جب کسی مومن کی روحانیّت کے سلسلے میں انفرادی قیامت برپا ہو جاتی ہے، تو اس وقت وہ کائنات بھر کی روحوں کے ساتھ، جو  ذرّات کی شکل میں اس میں آئے ہوئے ہوتے ہیں، خود کو کبھی کبھی یکایک نفسِ کلّی کے ساتھ مربوط پاتا ہے، پس یہ ہوا شخصی روحانیّت میں اجتماعی قیامت کا نمونہ، جس میں سب لوگ اپنے آپ کو اچانک شعوری طور پر نفسِ کلّی میں زندہ پائیں گے، جیسا کہ اس کا اشارہ آیۂ مذکورۂ بالا میں موجود ہے۔

قرآنِ مقدّس میں ہے کہ:۔

مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں (۴۹: ۱۰)۔

 

اور ایک حد یثِ شریف میں اسی مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا گیاہے کہ: مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں اور انبیاء (علیہم السّلام ) ایک جان کی طرح ہیں، اس سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیان ہو جاتی ہے کہ انسانیّت اگرچہ نچلے درجات پر منتشر ہوجاتی ہے لیکن وحدت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ اوپر سے اوپر متحد نظر آتی ہے، اور نفسِ کلّی کی بلندی پر تو یہ ازل سے لے کر ابد تک ایک ہی جان کی طرح ہے، ان حقائق ومعارف سے حقیقتِ واحدہ (MONOREALISM) کے سمجھنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔

 

معرفت اور قرآن:۔

اس سلسلے میں یہ سوال کسی نہ کسی طرح ضرور پیدا ہو سکتا ہے کہ قرآن

 

۳۰

 

میں معرفت کی بابت کیا ارشاد ہوا ہے؟ سواس کا جواب یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں جگہ جگہ مخصوص حکمت کی زبان میں معرفتِ الہٰی کا ذکر کیا گیا ہے، جس کی چند روشن مثالیں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:۔

۱۔سورۂ نور میں ارشاد ہوا ہے کہ: “اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے” (۲۴: ۳۵)  اس کا اشارہ سب سے پہلے اور سب سے اعلیٰ درجے پر ایک ایسی ربّانی روشنی کی طرف ہے، جو اہل بصیرت کو روحانی عل، نورانی ہدایت اور خداوندی معرفت عطا کرتی ہے، کیونکہ جب اللہ نور ہے تو اس کے معنی یقیناً خدائے علیم و حکیم کے ظہورات وتجلّیات کے ہیں اور عارف کے مشاہدات اور حصولِ معرفت کے ہیں، اس لئے کہ نورنہ صرف تاریکیوں کومٹا کرچھپی ہوئی چیزوں کو ظاہر کردیتا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ وہ خود بھی ظاہر ہوجاتا ہے، جیسے سورج کہ وہ جہاں اندھیروں کو ختم کرکے روشنی پھیلاتا ہے اور آسمان و زمین کونمایان کردیتا ہے تو وہاں وہ خود بھی عیان و آشکار ہوجاتا ہے، چنانچہ اس معنیٰ کے مطابق یہ حقیقت مسلّمہ ہے کہ دیدۂ دل سے اہلِ معرفت کو نورِ خداوندی کی تجلّیوں کا مشاہدہ ہوتا ہے، تو پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن حکیم میں جہاں جہاں نور کا ذکر ہے وہاں معرفتِ الٰہی کا تذکرہ ہے۔

 

۲۔ قرآنِ پاک (۳۳: ۴۵ تا ۴۶) میں ہے کہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدائے  برتر نے نبی، رسول، شاہد، مبشر، نذیر، داعی الی اللہ اور سراجِ منیر بناکر بھیجا تھا، چنانچہ حضورِ اکرمؐ کے ان

 

۳۱

 

مبارک ناموں میں معرفت کے معنی موجود ہیں، کہ نبی اس کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دیتا ہے، اور حقیقت میں اس کی بنیاد  روحانیّت اور تجلّیاتِ نور کے مشاہدات پر ہے، اسی طرح رسول وہ ہے جس کو خدا نے اپنی انتہائی قربت و نزدیکی سے بھیجا ہے، اور شاہد کے معنی وہ شخص ہیں جس نے اصل واقعہ اور حقیقتِ حال کا مشاہدہ کیا ہے اور جو اس معاملے کا گواہ ہے، اس میں نبیٔ رحمت کی روحانیّت و معرفت کا نمایان ذکر ہے، کہ اگر جنّت اور دیدارِ الٰہی کا مشاہدہ نہ کیا ہوتا تو حقیقت میں حضور شاہد (گواہ ) نہ کہلاتے اور نہ ہی خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے ہوتے، کیونکہ ان تمام ناموں کا اطلاق عالمِ روحانیّت کے مشاہدے کے بعد ہی صحیح ہے، اور داعی الی اللہ کا مطلب خدا سے واصل کردینے والا ہے، اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ حضورؐ خود اللہ سے واصل تھے، لہٰذا آپؐ خدا کے حکم سے دوسروں کو بھی صراطِ مستقیم پر گامزن ہو کر واصل باللہ ہو جانے کے لئے بلایا کرتے تھے، اور حضورِ انو رؐ  تبلیغ و دعوت کا یہ عظیم الشّان کام نورِ معرفت ہی کی روشنی میں انجام دیا کرتے تھے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نورِ ہدایت کے روشن چراغ کی حیثیت سے تھے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ ہی نور معرفت تھے، پس اس مثال سے صاف صاف یہ معلوم ہوا کہ قرآنِ حکیم کی حکمت میں معرفتِ الہٰی کا تذکرہ موجود ہے، خصوصاً ان آیاتِ کریمہ میں جو انسانِ کامل کے اوصافِ حمیدہ سے متعلق ہیں ۔

 

۳۲

 

۳۔ قرآنِ مقدّس (۱۳: ۴۳) میں فرمایا گیا ہے کہ: اور (اے رسولؐ) کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم پیغمبر نہیں ہو تو تم (ان سے ) کہدو کہ میرے اور تمہارے درمیان ( میری رسالت کی ) گواہی کے واسطے خدا اور وہ شخص جس کے پاس (آسمانی ) کتاب کا علم ہے کافی ہیں ۔

 

آپ چاہیں تو کسی بھی شیعی تفیسر میں اس آیۂ کریمہ کے متعلق یہ بات معلوم کرسکتے ہیں (جہاں کئی سنی مستند حوالے بھی ملیں گے ) کہ کارِ رسالت کی اس عالی شان گواہی میں خدا کے بعد جس انسانِ کامل کا ذکر کیا گیا ہے، وہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السّلام ہی ہیں، چنانچہ خواہ کافر کچھ بھی کہیں، لیکن خداوند تعالیٰ اور علی امامِ مبین اس امرِ واقعی کے شاہدین عدل (دو عادل گواہ ) ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برحق رسول ہیں ۔

 

اب آپ کو یہاں بطریقِ عاقلانہ یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ حضرت علیؑ کی اس گواہی کا معیار کیا ہے؟ آپ یقیناً اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ سب سے بلند ترین معیار اللہ تبارک و تعالیٰ کی پاک وپاکیزہ شہادت (گواہی) ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ تصدیقِ رسالت کے بارے میں جناب مرتضیٰ علیؑ کی گواہی بھی ربّانی شہادت کی طرح بلیغ، ہمہ گیراور مضبوط ہے، اور یہ شہادت قیاسی، سطحی اور محدود قسم کی ہرگز نہیں، بلکہ سراسر عینی مشاہدات پر مبنی ہے، کیونکہ غارِ حرا سے لے کر شبِ معراج کے تمام روحانی عجائب و غرائب کی کیفیت و حقیقت کو دیکھے بغیر حضورِ اکرمؐ کی رسالت کے گواہ بن جانے کے کچھ معنی نہیں ہوتے، جبکہ آنحضرتؐ

 

۳۳

 

کی نبوّت و رسالت روح اور روحانیّت کے تمام مدارج پر محیط ہے اور جبکہ اس انتہائی عظیم امر کے ثبوت کے لئے پہلا گواہ پروردگارِ عالم خود ہے۔

 

اس فرمانِ خداوندی میں علی کے گواہِ رسالت ہونے کے علاوہ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ آپؑ کے پاس آسمانی کتاب کاعلم ہے، حالانکہ آسمانی کتاب کا علم نہ صرف قرآن کے ظاہر و باطن میں ہے، بلکہ یہ روح اور روحانیّت کی لوحِ محفوظ میں بھی موجود ہے، جو ام الکتاب ہے، کیونکہ دائرہ علم میں کتاب اور ام الکتاب دونوں ایک ہیں، ان حقیقتوں کی روشنی میں یہ بات نکھر کرسامنے آتی ہے کہ باطن اور روحانیّت کی کسی بھی منزل میں نور ولایت  نورِ نبوّت سے الگ نہیں تھا، اس کے معنی یہ ہیں کہ جب بھی نورِ نبوّت نے خدا کی تجلّیوں کو دیکھا تو نورِ ولایت نے بھی دیکھا،  اس صفت کے بغیر کوئی شخص خدا کے ساتھ ساتھ رسالتِ محمدیؐ کے گواہ ہو جانے کے معیار پر پورا نہیں اتر سکتا ہے، اس سے اندازہ ہوگیا کہ قرآنی حکمت میں کس طرح معرفت کا تذکرہ فرمایا گیا ہے۔

 

معرفت اور جنّت:۔

جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ جہاں نورِمعرفت کے وسیلے سے پروردگار کو پہچان لیا جاتا ہے وہاں معرفت سے کوئی چیز باہر نہیں رہ سکتی، کیونکہ نورِ معرفت ہر چیز پر محیط اور حاوی ہے، چنانچہ اس وسیع احاطے میں جنّت بھی شامل ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ کامیاب ذکر اور نورانی عبادت کے نتیجے میں روح اور روحانیّت کے جو

 

۳۴

 

مشاہدات سامنے آتے ہیں انہیں مشاہدات میں جنت بھی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ:۔

وَیُدْخِلُھُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّ فَھَا لَھُمْ  (۴۷: ۰۶) اور ان کو اس بہشت میں داخل کرے گا جس کا انہیں (پہلے سے ) شناسا کررکھا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بہشت کی شناخت دنیا کی زندگی ہی میں ہونی چاہئے تاکہ مرنے کے بعد یہ ہمیشہ کے لئے حاصل ہو سکے، اوراگر یہاں کسی کو جنّت کی معرفت حاصل نہ ہوئی توپھر آخرت میں ناممکن ہے، اسی معنی میں فرمانِ خداوندی ہے کہ:۔

اورجو شخص دنیا میں اندھا رہے گا  سو  وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا اورزیادہ راہ گم کردہ ہوگا  (۱۷: ۷۲) اس ارشاد سے چشمِ بصیرت اور مشاہدۂ روحانیّت کی اہمیت صاف طور پر ظاہر ہو جاتی ہے، لہذا مومن کو چاہئے کہ خود کو امامِ زمان کے امر و فرمان سے وابستہ کرے، کیونکہ خدا اور اس کے برگزیدہ رسولؐ کی جانب سے صرف امامِ وقت ہی اس مرتبۂ اعلیٰ پر مقرر ہیں، کہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری سے علم الیقین اور نورِ معرفت حاصل ہوجاتا ہے۔

 

علم الیقین:۔

اگر کوئی مومن دنیاوی زندگی ہی میں دل کی آنکھ سے روح اور روحانیّت کی جنت کا مشاہدہ نہیں کر سکتا ہے اور اس کی باطنی آنکھ

 

۳۵

 

ابھی نہیں کھلی ہے، تو پھر بھی اسے مایوس نہیں ہونا چاہئے، جبکہ وہ ایمان اور امام کی محبت میں پختہ اور مضبوط ہے، وہ ایسی صورت میں علم الیقین سے کام لے کر آخرت اور بہشت کی حقیقتوں کا تصوّر کر سکتا ہے، کیونکہ جہاں دیدۂ دل اور نورباطن نہ ہو وہاں یقینی علم کی روشنی آنکھ کا کام دیتی ہے، جس کے بارے میں قرآنِ کریم کا یہ ارشاد ہے کہ:۔

 

ہرگز نہیں اگر تم علم الیقین جان لو البتہ  تم دوزخ کو ضرور دیکھو گے۔ (۱۰۲: ۰۴ تا ۰۵) ۔ اس فرمانِ خداوندی میں علم الیقین کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، اور اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جن سعادت مند مومنین کے پاس علم الیقین ہو تو وہ نہ صرف دوزخ کو دیکھ سکتے ہیں بلکہ وہ اس کی روشنی میں جنّت کے حقائق کو بھی دیکھ کر پہچان سکتے ہیں، اور یہ سب کچھ مرجانے سے قبل اسی دنیا میں مکمل ہو جانا چاہئے، تاکہ علم الیقین کے بعد عین الیقین کا درجہ حاصل ہو۔

 

عین الیقین:۔

عین الیقین کے معنی ہیں یقین کی آنکھ ، جس سے دیدۂ دل اور چشمِ باطن مراد ہے، انسان اسی باطنی آنکھ سے اپنی روح اور روحانیّت کو دیکھتا اور پہچانتا ہے، عالمِ روحانیّت اور جنت کی ہر چیز کا مشاہدہ کر سکتا ہے، اور معرفت اسی مقام پر مکمل ہو جاتی ہے۔

 

۳۶

 

اگر کسی مومن کو ابھی یہ مقام حاصل نہ ہو سکا ہے تو جاننا چاہئے کہ اس کے علم القین میں کمی ہے یا عبادت و ریاضت اور حقیقی محبت میں کوتاہی ہے، لہٰذا مومنین کوچاہئے کہ وہ اخلاص و محبت سے امامِ زمان کی مکمل تابعداری کرتے ہوئے ذکر وعبادت اور حقیقی علم کے لئے جدوجہد کریں، تاکہ خدا اور رسولؐ کی خوشنودی سے امام کی دستگیری اور نورانی ہدایت حاصل ہوتی رہے جس سے بڑی آسانی کے ساتھ علم الیقین اور عین الیقین کا درجہ حاصل ہو۔

 

۳۷

 

نور کی کیفیت و حقیقت

 

نور کے لفظی اور لغوی معنی روشنی کے ہیں، اور دینی اصطلاح میں اس سے نورِ ہدایت مراد ہے، جو علم و حکمت اور یقین و معرفت کا سرچشمہ اور دین و دنیا کی رہنمائی کا وسیلہ ہے، وہ پروردگارِ عالم کا نور ہے، جو انسانِ کامل کے لباسِ بشریت میں ملبوس ہوکر ہادیٔ برحق صلوات اللہ علیہ کی حیثیت سے دنیا میں موجود اور حاضر ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ اس نورِ خداوندی کا ذکر آیا ہے، وہ ہر لحاظ سے کامل و مکمل اور زندہ نور ہے، جس کی تمام ہدایات شکوک وشبہات سے پاک و پاکیزہ ہیں، اس کی روشنی میں نہ صرف آسمان و زمین کی حقیقتیں روشن اور محدود ہوکر سامنے آتی ہیں، بلکہ وہ اوّل و آخر اور ظاہر و باطن کے جملہ احوال پر بھی روشنی ڈالتا ہے، کیونکہ وہ ہر اعتبار سے خدائے قادرِ مطلق کا نورہے۔

 

نور کی تعریف:۔

اگر کوئی شخص سوال کرے کہ نور کی تعریف کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نور جہاں طلوع ہوتا ہے وہاں وہ ظاہرہو جاتا ہے اور اس کے ظہور کی ضیا پاشیوں سے ظلمتیں مٹ جاتی ہیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ نور کی ایک خاص صفت ظہور ہے، لہٰذا وہ نہ صرف خود ظاہر ہو جاتاہے،

 

۳۸

 

بلکہ ساتھ ہی ساتھ اندھیروں میں چھپی ہوئی چیزوں کو بھی آشکار اور اجاگر کر دیتا ہے۔

 

نور کی قسمیں:۔

جیسا کہ اس موضوع کی تمہید سے ظاہر ہے، کہ ہم یہاں جس نور کے بارے میں کچھ تذکرہ کرنا چاہتے ہیں وہ صرف روحانی نور ہے مادّی قسم کی روشنی نہیں، اور نہ ظاہری اور دنیاوی روشنی سے یہاں کوئی بحث مقصود ہے، مگر ہاں اس سے مثال لی جا سکتی ہے، چنانچہ جاننا چاہئے کہ روحانی یا دینی نور کی تین قسمیں ہیں، یا یوں کہا جائے کہ نورِ ہدایت حقیقت میں تو ایک ہی ہے مگر اس کے تین پہلو ہیں، جو اخلاقی، روحانی اورعقلی پہلو ہیں، اسی معنیٰ میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسانی ہدایت کے لئے تین انوار مقرر ہیں، کیونکہ ظاہر و باطن میں جو وجود  و ہستی ہے وہ تین قسم کی ہے، وہ  عقلِ کلّ، نفسِ کلّ  اور جسمِ کلّ (کائنات) ہے، نیز انسان کا قیام و قرار بھی تین چیزوں پر ہے، یعنی عقل، نفس اور جسم، پھر اس کی ذاتی دنیائیں بھی تین ہیں، جو دنیائے عقل و دانش، دنیائے روح و روحانیّت اور دنیائے جسم و بشریّت ہیں، اور عالمِ لاہوت یعنی ذاتِ وحدت کے تحت عوالم بھی تین ہیں، جبروت، ملکوت اور ناسوت، پس ان تمام مثالوں سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ نورِ ہدایت کے مدارج تین ہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو جسم،  روح اور عقل کے مقام پر برابر برابر ہدایت دی جائے۔

 

۳۹

 

نورِ ہدایت کے تین قسموں میں ہونے یا اس کے تین پہلو ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ہادیٔ برحق نہ صرف عقل اور روح کے اعتبار سے نورِ خداوندی ہیں بلکہ آپ کے جسمِ پاک کو بھی یہ فضیلت حاصل ہے، کیونکہ اگر جسم کے بغیر عقل و روح کے لئے دنیا والوں کی ہدایت و رہنمائی ممکن ہوتی، تو اس صورت میں فرشتوں کو روئے زمین کے پیغمبر اور امام بنا کر بھیج دیا جاتا، مگر امرِ واقعی ایسا نہیں ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ عالمِ بشریت اور دنیائے جسمانیّت میں صرف جسم ہی کے وسیلے سے عملی ہدایت کا نمونہ پیش کیا جاسکتا ہے، اس لئے عالمِ ظاہر میں جسم ہی نور کا کام انجام دے سکتا ہے، پس اس معنٰی میں ہادیٔ زمان کا مقدّس جسم نور ہدایت کا ابتدائی پہلو ہے یا کہ یہ ظاہری نور ہے۔

 

اخلاقی نور:۔

دنیائے انسانیّت میں جہاں جہاں بری عادتوں کے سائے پائے جاتے ہیں وہ بد اخلاقی کی تاریکیاں ہیں، جن کا ازالہ صرف اور صرف اخلاقِ حسنہ ہی کے نور سے ممکن ہے، یہی وجہ ہے کہ پروردگارِ بزرگ و برتر نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسانی سیرت و کردار کا اعلیٰ ترین نمونہ بناکر بھیجا، جیسا کہ ارشادِ ربّانی ہے کہ:۔

وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ  (۶۸: ۰۴)

اوربے شک آپ اخلاق (حسنہ ) کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں۔ یعنی

 

۴۰

 

آپؐ نیک عادتوں کے درجۂ کمال پر فائز ہیں، تاکہ آپؐ کے ہر قول و فعل کے وسیلے سے لوگوں کونورِہدایت کی روشنی ظاہر ہو، اور اسی اسوۂ حسنہ کی روشنی کے پیچھے پیچھے جادۂ مستقیم پر چلا جائے۔

 

قرآنِ پاک نے آنحضرتؐ کو سراجِ منیر (روشن چراغ) قرار دیا ہے (۳۳: ۴۶) اور اس صفت کا اطلاق سب سے پہلے حضورِ انورؐ کی مبارک و مقدّس شخصیّت پر ہوتا ہے، کیونکہ جن باسعادت انسانوں نے رسولِ خداؐ سے دین کی ابتدائی روشنی حاصل کرلی، وہ آپؐ کی شخصیّت کے وسیلے سے تھی، یا یوں کہا جائے کہ جس روشن چراغ کو دنیا میں بھیجا گیا تھا، اس کا کام یہ تھا کہ عقل و روح کے نور سے پیشتر انسانیّت و اخلاق کی روشنی پھیلائے، پھر روح اور عقل کی طرف رہنمائی کرے، کیونکہ انسان کی تخلیق میں بھی یہی ترتیب ہے، کہ سب سے پہلے جسم بنتا ہے، اس کے بعد روح آتی ہے اور آخر میں عقل کی تکمیل ہوتی ہے۔

 

اگر کوئی شخص مذکورۂ بالا وضاحت کے باؤجود یہ سوال کرے کہ ہادیٔ برحق کی شخصیّت نورِ ہدایت میں شامل ہے یا کہ اس سے الگ ہے؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ انسانِ کامل کی جسمانیّت و شخصیّت نور میں شامل ہے، کیونکہ اخلاق، روح اور عقل کی روشنی جسم کے سہارے کے بغیر ناممکن ہے، یہی سبب ہے کہ قرآنِ حکیم (۲۴: ۳۵) میں جس طرح نورِ ہدایت کی تشبیہہ ایک روشن چراغ سے دی گئی ہے، اس میں نہ صرف شعلہ اور  روشنی کو نور کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے بلکہ اس کے ساتھ

 

۴۱

 

ساتھ ظرفِ چراغ اور طاق کو بھی نور قرار دیا گیا، جیسے ارشاد ہواہے کہ:۔

 

اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثل ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے جس میں ایک روشن چراغ ہو (۲۴: ۳۵) آپ دیکھتے ہیں کہ نورِ خداوندی کی اس پُرحکمت مثال میں نہ صر ف شعلہ اور روشنی ہی کا ذکر ہے بلکہ اس میں ظرفِ چراغ اور طاق کو بھی شامل کیا گیا ہے، اس سے یہ ثبوت ملا کہ پیغمبرِ اسلامؐ اور امامِ اطہرؑ کے اخلاق،  روح اور عقل کے ساتھ شخصیّت اور خاندان بھی نور کا حصہ ہے، جبکہ شخصیّت خدائی نور کے ظرفِ چراغ کی حیثیت سے اور خاندان طاق کی طرح ہے جس میں چراغ ہوتا ہے۔

 

اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرتؐ کے “رحمتہ للعٰلمین” ہونے کے جو جومعانی ہیں، ان میں ایک بنیادی اور اہم بات یہ بھی ہے کہ شروع سے لے کر آخر تک دنیائے انسانیّت میں جو کچھ انسانی اور اخلاقی خوبیاں پائی جاتی ہیں، وہ سب کی سب حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقی نور کے طفیل سے ہیں، ورنہ تمام جہانوں کے لئے سرورِ انبیاء  کو رحمت بنا کر مبعوث کردینے کے معنی ادھورے رہ جاتے ہیں، لیکن یہ بات الگ ہے کہ کوئی شخص حضورؐ کی انسانیّت و اخلاق کی روشنی کے بعد آپؐ کے روحانی اور عقلی نور کے فیض کو بھی قبول کرتا ہے یا نہیں ۔

 

۴۲

 

روحانی نور:۔

اس دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں، جو ہمیشہ سے روح اور روحانیّت کی تاریکی میں مبتلا اور اخروی حقیقتوں سے منکر ہیں، کیونکہ وہ عقیدہ اور مذہب سے کوئی تعلق اور دلچسپی نہیں رکھتے ہیں، ان کے نزدیک یہی ظاہری اور دنیاوی زندگی سب کچھ ہے، حالانکہ مذہب کی نظر میں روحانیّت اور آخرت بدرجہا بہتر اور برتر ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے روح اور روحانیّت کے اندھیروں کو دور کر دینے کے لئے روحانی نور کو مقرر فرمایا، یعنی ہر زمانے میں ایک ہادیٔ برحق کی مبارک و مقدّس روح کو روحانی روشنی کا سرچشمہ قرار دیا، تاکہ اہلِ بصیرت کے لئے دنیائے روحانیّت دنیائے مادیّت سے کہیں زیادہ تابان و درخشان ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: اور (اے محمدؐ)  ہم نے تم کو سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے  (۲۱: ۱۰۷)  اس کے یہ معنی ہیں کہ نورِ محمدیؐ مشیتِ الہٰی کے مطابق عالمِ لاہوت سے طلوع ہوا، اور ہمیشہ کے لئے یہ پاک نور علم وحکمت اور رشد و ہدایت کی شکل میں جبروت، ملکوت اور ناسوت میں جاری اور باقی رہا، جاننا چاہیے کہ مثال کے طور پر ناسوت جو انسانوں کی دنیا ہے سب سے نیچے ہے، ملکوت جو  ارواح و ملائکہ کی دنیا ہے اس سے اوپر ہے، جبروت جو جلالی فرشتوں

 

۴۳

 

اور صفاتِ خداوندی کا عالم ہے اس سے بھی اوپر ہے، اور لاہوت جو عالمِ وحدت یا عالمِ ذات ہے سب سے اوپر ہے، اور اصل میں بلندی کی یہ ترتیب مکانی نہیں بلکہ شرفی ہے۔

 

خدائے رحمان و رحیم نے تینوں عالم میں ہدایت و رحمت کے نور کو اس لئے مقرر فرمایا کہ انسان جو ذاتِ احد کے حضور سے اس دنیا میں آیا ہے، اور جس کو بحکمِ “اِنّا اِلیہِ راجعون” خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے، اس کی اس ہدایت و رحمت سے دستگیری اور مدد کی جائے کیونکہ خداوند خوب جانتا تھا کہ انسان جو ہر طرح سے کمزور ہے وہ خدائی نصرت و یاری کے بغیر اس دور  و دراز سلسلۂ سفر میں کامیاب نہیں ہو سکتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کو یہ امر منظور ہوا کہ وسیلۂ نورِ ہدایت سے اس کی دستگیری اور یاری کی جائے، اور قدم بقدم، منزل بمنزل اور عالم بعالم رہنمائی کرتے ہوئے اس کو اصل مرتبہ پر پہنچا دیا جائے۔

 

یہ اہلِ طریقت کا سب سے بڑا پسندیدہ تصوّر ہے کہ سالکِ صادق کو سب سے پہلے مرشد کامل میں فنا ہو جانا چاہئے، تاکہ وہ اس وسیلے سے رسولؐ میں فنا ہو سکے، اور پھر رسولؐ کے ذریعے سے فنا فی اللہ اور بقا باللہ کا درجہ حاصل کرسکے، اس بیان سے ایک طرف تو یہ حقیقت واضح اور روشن ہوئی کہ نورِ ہدایت کی ضرورت و اہمیت نہ صرف عالمِ ناسوت ہی میں ہے بلکہ ہمیشہ سے بحکمِ خدا عالمِ ملکوت اور عالمِ جبروت میں بھی اسی کی کار فرمائی جاری وساری ہے دوسری طرف یہ ظاہر ہوا کہ سالک کی

 

۴۴

 

منزلِ مقصود فنا فی اللہ ہے، یعنی اسے مرتبہ آخرین میں جاکر اپنی ہستی اور انائیّت کو خدا کی حقیقت میں ختم اور فنا کردینا ہے اور خدا کی ازلی و ابدی وحدت میں زندہ ہو جانا ہے۔

 

روحانیّت کی تدریجی روشنی:۔

انسان فطری طور پر ایسا ہے کہ وہ ہر میدان میں پہلے پہل کمزور ہو تا ہے، پھر رفتہ رفتہ ترقی کرتا ہے، اسی قانونِ فطرت کے مطابق روحانی روشنی شروع شروع میں بہت ہی کم اور مدھم دکھائی دیتی ہے، اور پھر بتدریج اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، تا آنکہ ایک دن یہ انتہائی تیز روشنیوں کی ایک طوفانی دنیا بن کر سامنے آتی ہے، اور یہ سب سے بڑے امتحان کا مرحلہ ہوتا ہے۔

 

روحانیّت کی ابتدائی روشنی ایک اعتبار سے مادّی روشنی کے مشابہ ہوتی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ کئی اعتبار سے اس سے مختلف بھی ہے، کیونکہ روحانی نور ایک ایسی غیر مادّی حقیقت ہے جو جسم کی کیفیات و صفات سے پاک و برتر اور زمان و مکان کی قید سے باہر ہے، وہ ظاہری روشنی سے بدرجۂ انتہا اعلیٰ، افضل اور اکمل ہے، نہایت ہی خوبصورت، بیحد دلکش اور از بس جاذبِ نظر ہے، اس کی روح پرور  رنگینیاں، دلفریب ضیا پاشیاں اور مسرّت بخش  درخشانیاں بیمثال ہیں اور وہ معجزاتِ روحانیّت اور تجلّیاتِ نورانیت کی ایک رنگین پُربہار دنیا ہے،

 

۴۵

 

جو زمین و آسمان کی تمام اشیاء کے روحانی حسن و جمال کی مظہر کاملہ ہے، لہٰذا لمحہ بہ لمحہ اس کے ظہورات و تجلّیات کی گوناگون شکلیں بدلتی رہتی ہیں، اس کی ہر ہر چیز شہکارِ قدرت اور نمونۂ حکمت ہونے کے باعث اپنی جانفزا تجلّیوں سے دیدۂ دل کو بہت کچھ ٹھنڈک عطا کر دیتی ہے۔

 

روحانی نور خدا کا ہے جو رسول میں تھا اور رسول کا ہے جو امام میں ہے، یہ روشنی خود دل کی دنیا بھی ہے اور دل کی آنکھ بھی، وہ روح بھی ہے اور روحانیّت  بھی، آخرت بھی ہے اور جنّت بھی، یہ غذائے جان بھی ہے اور دل و دماغ کی راحت بھی، کیونکہ دراصل روح خود ہی سب کچھ ہے، اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے امر سے ہے (۱۷: ۸۵) بلکہ ظہورِ روح اور مشاہدۂ روحانیّت کے اس اعلیٰ مقام پر یہ خود ہی عالمِ امر ہے، لہٰذا یہاں روح ہر وقت ــ “کن فیکون” کے ظہورات و تجلّیات کی آئینہ داری کرتی رہتی ہے، یعنی مشاہدات روح اور روحانیّت سے معلوم ہوتا ہے کہ ربّ العزّت “کُنۡ” کے امر سے کس طرح ہر چیز کو وجودِ  نورانی عطا کردیتا ہے اور کس طرح اس کلمہ کے تحت عالمِ روحانیّت میں ہر وقت چیزیں ظہور پذیر ہوتی رہتی ہیں۔

 

رنگِ روحانیّت:۔

ویسے ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو باغِ کائنات اور گلشنِ موجودات کے ظاہر کی تمام چیزوں کے حسن و جمال کی لطافت و رنگینی بھی خدا کی طرف سے ہے، تاہم دوسرے اعتبار سے اس قادر مطلق اور حکیمِ برحق کا خصوصی اور امتیازی رنگ روح و عالمِ روحانیّت ہی میں پوشیدہ ہے، جو نورِ ہدایت

 

۴۶

 

اور اسلام و ایمان کا رنگ ہے، جیسا کہ خداوند تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:۔

 

صِبْغَةَ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً٘-وَّ نَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ (۰۲: ۱۳۸) اللہ کے رنگ کی بات کرو اور خدائی رنگ سے بہتر کون سا رنگ ہو سکتا ہے اورہم تو اسی کی عبادت کرتے ہیں، یعنی نصاریٰ سے کہو کہ ظاہری رنگ چھڑکنے (بچوں کو بپتسمہ دینے ) سے معرفت اور نجات حاصل نہیں ہوتی، یہ تو ایمان اور روح و روحانیّت کے رنگ میں رنگ جانے سے حاصل ہوتی ہے، یہی اللہ کا رنگ ہے اور رنگینی عطا کرنے میں خدا سے بہتر کون ہوسکتا ہے۔

 

رنگِ روحانیّت کا تذکرہ قرآنِ حکیم کی ان آیاتِ کریمہ میں کثرت سے ملتا ہے جو نور، قیامت اور جنّت کے موضوعات سے متعلق ہیں، اور اس کے علاوہ قرآنِ کریم میں جہاں کہیں کسی رنگینی کا ذکر آیا ہو، اس میں بھی اکثر رنگ روحانیّت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، مثال کے طور پر سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۶۹ میں (۰۲: ۶۹) نبی اسرائیل کے جس بیل کے مسرّت بخش زرد  رنگ کا بیان آیا ہے، اس کی تاویلی مراد روحانی رنگ ہے، جس کوبندۂ مومن ہادیٔ برحق کے وسیلے سے اپنے باطن میں دیکھتا ہے، یہ زبردست خوشی اس رنگ روحانیّت کے اوّلین مشاہدہ سے بھی ہے اور دل کی آنکھ کے پہلی بار کھل جانے سے بھی، ورنہ محض زرد رنگ کے ایک ظاہری اور دنیاوی بیل کو دیکھنے سے کسی کو کیونکر

 

۴۷

 

اتنی ساری مسرّت وشادمانی ہو سکتی ہے کہ جس کا ذکر بڑے اہتمام سے خدا خود کرے۔

 

روحانی قوّتیں:۔

جس طرح رات کی تاریکی دنیا کی چیزوں کو چھپا لیتی ہے اور دن کی روشنی ان کو ظاہر کردیتی ہے، اس طرح نورِ ہدایت روح اور روحانیّت کی ان تمام چیزوں کو ظاہر اور نمایان کردیتا ہے، جو غفلت وجہالت کی ظلمت میں پوشیدہ ہیں، اسی سلسلے میں روحانیّت کی گوناگون قوّتیں اور طرح طرح کی صلاحیتیں اجاگر ہو جاتی ہیں، جن میں روحانی طور پر دیکھنا، سننا، سونگھنا، بولنا اور چھونا خاص ہیں، ان پانچ قوّتوں کو حواسِ خمسۂ باطنی کہتے ہیں، جن کے توسط سے نورِ ہدایت مومنین کے باطن میں طلوع ہو جاتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ نور ہدایت نہ صرف روحانی روشنی کی کیفیت میں رہبری و رہنمانی کرتا ہے، بلکہ یہ روحانی اور نورانی طور پرسننے، سونگھنے، بولنے اور چھونے کی صورت میں بھی ہر قسم کی ہدایات دیتا ہے۔

 

نورِ ہدایت کن کن کیفیات میں اور کیسے کیسے طریقوں سے مومنین کی مدد، دستگیری اور رہنمائی کرتا ہے، اس کے لئے اس حدیث قدسی میں ذرا غور کیا جائے، اور وہ ارشاد یہ ہے کہ: میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعہ مجھ سے قرب حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت

 

۴۸

 

کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، تو میں اس کے کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑ تا ہے، اور اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے (بحوالۂ صحیح بخاری جلد سوم، باب ۸۴۴، حدیث نمبر ۱۴۲۲)

 

اہلِ دانش کو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اوصاف ہادیٔ برحق کے ہیں، جو نورِ ہدایت ہے، جس کو انسانیّت کے ظاہر و باطن میں ذاتِ سبحان کی خلافت و نیابت اور نمائندگی کا عظیم شرف حاصل ہے۔

 

چنانچہ اس کی ہدایت و رہنمائی کا عمل خدا کا فعل قرار پاتا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ اس بات سے پاک و برتر ہے کہ وہ بذاتِ خود اپنے بندے کا کان، آنکھ ہاتھ اور پاؤں بن جائے۔

 

مذکورۂ بالا تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ نورجسمانی، روحانی اور عقلی قوّتوں کا سرچشمہ اور ہر قسم کے احساس و ادراک کا ذریعہ ہے، لہٰذا نور کے بہت سے معانی ہیں اور وہ سب کچھ ہے، مثال کے طور پر جب نور سے ہدایت و رہنمائی مراد ہے تو یہ صاف ظاہر ہے کہ آنکھوں کی ہدایت روشنی کی صورت میں ہوسکتی ہے، کانوں کی ہدایت کلام کے بغیر ناممکن ہے، اس سے معلوم ہوا کہ نور  آواز و ندا  کی کیفیت میں بھی ہے، اگر ناک کوبھی ہدایت کا کوئی حصّہ ہے تو وہ خوشبوؤں کی شکل میں مناسب ہے، اور یہ حقیقت ہے، چنانچہ ثابت ہوا کہ نور

 

۴۹

 

کی ایک کیفیت جنّت کی خوشبو کی طرح بھی ہے، زبان کی ہدایت قدرتی او رمعجزاتی گفتگو کی حیثیت میں ہے، کہ جس سے وہ خود بخود بولنے لگے اور اسی طرح نور چھونے کی قوّت بن کر بھی آتا ہے۔

 

نور عالمِ دین کا سورج ہے یا یوں سمجھ لینا کہ نور خدا کا بجلی گھر ہے، اب آپ مادّی اور سائنسی طور پر خوب سوچیں کہ سورج اور پاور ہاؤس سے کیا کیا چیزیں بنتی ہیں اور کیسی کیسی طاقتیں وجود میں آتی ہیں، ظاہر ہے کہ آفتاب عالمتاب سے صرف روشنی مراد نہیں اور نہ ہی بجلی گھر سے صرف روشنی کا کام لیا جاتا ہے، بلکہ مادّی طاقت کے ان دو سرچشموں میں لاتعداد چیزیں اور بے شمار قوّتیں پنہان ہیں جن کو صر ف سائنسدان ہی جانتے ہیں، پھر اسی مثال کی مدد سے آپ عقل و جان کے نور کے بارے میں سوچیں اور درمیان میں جو فرق و تفاوت ہے اس کو بھی پیش نظر رکھیں، کہ مادّی نورِ عقل و جان کی صفت سے عاری اور دین و دانش کی دولت سے خالی ہے، اور روحانی نور عقل و جان کے اوصافِ کمال کے اس مرتبۂ اعلیٰ پر ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اسے روئے زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ہے۔

 

عقلی نور:۔

یہ جاننا ازبس ضروری ہے کہ نور کا سب سے اونچا مرتبۂ عقلی کیفیت میں ہے، درمیانی درجہ روحانی صورت میں ہے، اور سب سے نچلا مقام

 

۵۰

 

جسمانی شکل میں ہے، ہر چند کہ عقل، روح اور انسانی جسم ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں، دوسرے الفاظ میں اس مطلب کو یوں ادا کرنا چاہئے کہ ہادیٔ برحق صلوات اللہ علیہ کی شخصیّت کا نور ظاہر ہے، اس کی روح کا نور باطن ہے اور اس کی عقل کا نور باطن سے بھی باطن ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ نورِ عقل کا ادراک روحانیّت کے آخری مراحل میں ہوتا ہے، اور وہ اکثر روحانیّت کی اعلیٰ مثالوں میں متشکل ہوکر سامنے آتا ہے، ورنہ وہ اپنی مجرّد صورت میں نظر آنے والی چیز نہیں، یہی سبب ہے کہ میں نے اس کو باطن سے بھی باطن قراردیا ہے۔

 

نورِ ہدایت اپنے جسم کے توسط سے علم الیقین کی روشنی پھیلا تا ہے، روح کے ذریعے سے عین الیقین کی روشنی مہیا کرتا ہے اورعقل کے وسیلے سے حق الیقین کی روشنی پہنچاتا ہے، اور مومنین ہدایت کے ان فیوض و برکات کو اس طرح حاصل کرتے ہیں کہ حواسِ ظاہر سے علم الیقین کے ساتھ وابستہ ہو جاتے ہیں، حواس باطن سے عین الیقین کے ساتھ اور مدرکاتِ عقل کے ذریعہ حق الیقین کا ادراک کر لیتے ہیں۔

 

ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو کائنات پر کرسی قائم ہے اور کرسی پر عرش کا قیام ہے اور دوسرے اعتبار سے یہ کہنا بھی درست ہے کہ عرش (عقلِ کل) نے کرسی (نفسِ کلّ) کو گھیر رکھا ہے اور کرسی میں کائنات محدود ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ عقلی نور نے روحانی نور کو اپنے احاطۂ علمی میں لے لیا ہے، اور روحانی نور جسمِ کلّی پر محیط

 

۵۱

 

ہے، اس وضاحت سے یہ حقیقت روشن ہو کر سامنے آتی ہے کہ نورِ عقل اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کا تخت ہے، جس پر خدائے پاک و برتر کی حقیقی توحید اور کامل معرفت قائم ہے، اس سے عقلی نور کا مرتبہ ظاہر ہوا۔

 

کہتے ہیں کہ یہ کائنات ایک عظیم انسان کی طرح ہے کہ اس کی جان بھی ہے اورعقل بھی، یعنی نفسِ کلّ اور عقل کلّ، اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ انسانِ کامل اس معنیٰ میں کامل اور مکمل کہلاتا ہے کہ عقلِ کلّ اسی کی عقل برتر کا نام ہے، نفسِ کلّ اسی کی عظیم روح کو کہتے ہیں اورجسمِ کلّ سے اسی کا لطیف جسم مراد ہے جو ساری کائنات پر حاوی اور محیط ہے، پس یہی ہادیٔ برحق عقلِ کلّ بھی ہے اور نفسِ کلّ بھی عرش بھی ہے اور کرسی بھی، جیسا کہ مولائے روم کا قول ہے:۔

عقلِ کلّ و نفسِ کلّ مردِ خداست

عرش و کرسی رامدان کزوی جداست

ترجمہ: انسانِ کامل خود ہی بیک وقت عقل کلّ بھی ہے اور نفس کلّ بھی اور عرش و کرسی کے بارے میں بھی یہ نہ سمجھنا کہ وہ اس سے الگ ہیں، یعنی اس کی عقل عرشِ الہٰی بھی ہے اورعقلِ کلّی بھی، اور اس کی روح کرسی بھی ہے اور نفس کلّی بھی۔

 

مظہرِ نورِ عقل:۔

چونکہ عقلی نور ایک ایسی حقیقت ہے جو غیر مرئی ہے یعنی

 

۵۲

 

وہ دکھائی دینے والی شے نہیں،  لہٰذا پہلے مقام پر اس کی مظہر روح ہے اور دوسرے مقام پر شخصیّت، جیسا کہ ہم اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ اگر شخصیّت کا نور ظاہر ہے تو روحانیّت کا نور باطن ہے اورعقل کا نور باطن سے بھی باطن ہے، جس کی یہاں یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ نورِ عقل اگرچہ ازخود نظر نہیں آتا ہے اور صرف ذہنی و فکری طور پر اس کے فیض کا ادراک ہو سکتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ روحانیّت کی مختلف مثالوں میں متشکل بھی ہوسکتا ہے، اور اس حالت میں حواسِ باطن سے عقل کے اس روحانی ظہور کا فیضان حاصل کیا جاسکتا ہے۔

 

نورِ عقل کا ظہور نہ صر ف مظہرِ روحانیّت ہی سے ہوتا ہے بلکہ وہ مظہرِ شخصیّت کے وسیلے سے بھی ظاہر ہوتا ہے، جس کی روشنی سے اہلِ ایمان حواس ظاہر کے توسط سے استفادہ کرسکتے ہیں، اور اگر دنیا میں نورِ عقل کا یہ ظہور نہ ہوتا، تو دنیا والے سب کے سب گمراہ ہوجاتے۔

 

نور کی اصل کیفیت:۔

نور کا اصل سرچشمہ عقل ہے، اور عقل کی روشنی، ہمیشہ علمی صورت میں نکلتی رہتی ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ نور جہالت و نادانی کی تاریکی کو دور کرنے کے لئے مقرر ہے، چنانچہ نورِ عقل ایک ایسے گوہر کی طرح ہے جس سے ہر وقت علم و حکمت کی روشنی پھیلتی رہتی ہے، جیسے

 

۵۳

 

سرچشمۂ آفتاب کہ وہ کائنات میں مسلسل ضوفشانی کررہا ہے، مگر چونکہ نورِ عقل کی روشنی جو علمی کیفیت میں ہے وہ غیر مادّی ہے، اس لئے وہ دکھائی نہیں دیتی، اور نہ ہی لاعلمی اور جہالت کوئی ایسی چیز ہے جو ظاہری آنکھوں کے سامنے ہو، پس یہی وجہ ہے کہ ظاہر پرست لوگ دنیا کی روشینوں اور تاریکیوں کو تو خوب جانتے ہیں، مگر عالمِ دین کی روشنی اور تاریکی کے درمیان فرق و امیتاز نہیں کر سکتے ہیں۔

 

عقلی نور یا عقلی روشنی اگر ایک طرف سے علم ہے تو دوسری طرف  سے وہ ہدایت ہے، کیونکہ علم وہدایت انجامِ کار میں ایک ہی چیز ہے، یعنی ان دونوں چیزوں کا مطلب اور مقصد ایک ہی ہے، اس لئے کہ علم جاننے  کو کہتے ہیں اور حقیقت میں اس کی مراد خدا ہے اور ہدایت کے معنی ہیں راہِ راست پر چل کر منزلِ مقصود کو پہنچ جانا، اور منزلِ مقصود اللہ تعالیٰ ہے، اسی طرح نورِ عقل کی روشنی یقین و معرفت بھی ہے، جس سے شکوک و شبہات کی ظلمتیں اور کفر وانکار کی تاریکیاں دور ہو جاتی ہیں اور حق الیقین کے مقام پر معرفتِ الہٰی مکمل ہو جاتی ہے۔

 

جب یہ حقیقت واضح ہوئی کہ عقلی نور علم و حکمت، رشد و ہدایت اور یقین و معرفت کی شکل میں ہوا کرتا ہے، تو یہاں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ وہ وحی والہام بھی ہے اور تائید و توفیق بھی، کیونکہ ایسے تمام معانی علم کے معنی میں ایک ہو جاتے ہیں اور ان سارے الفاظ و اصطلاحات کی بنیادی اور آخری حقیقت ایک ہی ہے۔

 

۵۴

معرفت کے موتی – حصّۂ اوّل

معرفت کے موتی –  حصّۂ اوّل

رابعۂ زمان

ہماری محفلِ ذکر و مناجات کی نظر میں رابعۂ وقت (رابعہ امین) بےحد عزیز اور قابلِ تعظیم ہیں، اہلِ مجلس کے تصوّر میں ایک فرشتہ بصورتِ انسان، ان کے خاندان کا ہر فرد اوصافِ دینداری سے آراستہ، رابعہ کی خاموش گریہ و زاری کے یہ برستے ہوئے گوہرِ آبدار عشقِ الٰہی کے بحرِ گوہرزا کی بشارت دے رہے ہیں، سبحان اللہ! معجزۂ محویّت کی کیا شان ہے! عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ خدا کی خدائی میں شرافت و ایمان کے کیسے کیسے نمونے پائے جاتے ہیں!

 

۲

 

تعارف

 

اس موقعِ عبودیّت پر ہمیں سب سے پہلے دل کی گہرائی میں یہ سوچنا ہے کہ پروردگارِ عالمین کی ہمہ گونہ روحانی نعمتوں اور تائید و توفیق کی شکر گزاری کس طرح ادا کی جائے، مگر ہماری ناچیز عقل و فکر اس خاص اور مشکل امر میں خداوندِ قدّوس کی یاری و دستگیری کے بغیر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرسکتی ہے، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہر وقت اور ہر مقام پر اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کریں تاکہ وہ ذاتِ واحد اپنے نورِ ہدایت سے، جو ظاہر و باطن میں موجود و حاضر ہے، ہماری رہنمائی فرمائے آمین! یاربّ العٰلمین!!

یہ بندۂ خاکسار جان و دل کی صداقت سے اپنے تمام عزیزوں اور دوستوں کو اس عظیم شکر گزاری میں مکمل شرکت کی دعوت دیتا ہے، کہ ہم سب بہت سے معنوں میں ایک جان کی طرح ہیں اور اس گرانقدر نعمت کے حصول کے لئے سب نے نیک دعائیں اور کوششیں کی ہیں، کیونکہ الحمدللہ! خدا و رسولؐ اور صاحبِ امرؑ کی اطاعت کے دوران ہم یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ سب

 

۴

 

لوگ بحدّ ِقوّت ایک ہیں مگر مومنین بحدِّ فعل ایک ہیں۔

کتابِ ہٰذا جو “معرفت کے موتی” کے نام سے ہے، چند اعلیٰ اور گرانقدر مضامین پر مشتمل ہے، ہم جہاں اپنی ہستی کو خاکسار اور ناچیز وغیرہ کہتے ہیں پھر بھی اس میں اظہارِ عاجزی کم ہے، اور دوسری طرف جہاں علم و معرفت کی تعریف کرتے ہیں اور اس کو گوہرِ گرانمایہ سے تشبیہہ دیتے ہیں وہاں بھی بڑی کمی ہے، کیونکہ علم و عرفان کسی شخص کی ملکیت نہیں، وہ صرف اور صرف امامِ اقدس و اطہر صلوات اللہ علیہ ہی کی ملکیت ہے، جو کائنات بھر کے مادّی خزانوں سے بیش بہا ہے۔

اس کتاب میں جتنے بھی بظاہر غیر مربوط مضامین ہیں، ان میں معرفت کا رنگ نمایان ہے اور وہ معرفت ہی کی سطح پر منظم و مربوط ہیں، لہٰذا اس مجموعے کو “معرفت کے موتی” کہنا بالکل صحیح ہے، کیونکہ روحانیّت اور معرفت ایک ایسی حکمت آگین روشنی کا نام ہے، جس میں تمام حقیقتیں باہم ملی ہوئی نظر آتی ہیں، جیسے قرآنِ مقدّس کی کئی آیات میں یہ مفہوم رکھا ہوا ہے کہ قرآن کی جدا جدا اور مختلف مثالیں سب کی سب ایک ہی حقیقت کی طرف لوٹ جاتی ہیں، جیسے اشارۂ قرآن کے مطابق شہد کی مکھّی کو بحکمِ خدا ہر طرف راستہ ہی راستہ ہے کہ وہ جس طرح بھی چاہے اور جہاں

 

۵

 

سے چاہے اپنی پرواز سے ہر پھول کا راستہ دوسرے پھول سے ملا دے، اور اسی طرح مختلف رنگ کے جدا جدا پھولوں کے رس سے ایک ہی رنگ کا شہد بنائے، پس ظاہری شہد کی یہ مثال باطنی شہد کے لئے ہے، اور وہ علم و حکمت ہے، جس کا رنگ اور ذائقہ ایک ہے۔

روحانی شہد بہت سی روحوں کے جمع ہوکر کام کرنے سے بن سکتا ہے، قانونِ فطرت میں یہ ممکن نہیں کہ جو سردار مکھی ہے وہی اکیلی شہد بنائے، بلکہ اس کے لئے کام کرنے والی بہت سی مکھیاں ہوا کرتی ہیں، چنانچہ کوئی شک نہیں کہ ہم سب روحانی احباب جو اس علمی خدمت میں شریک ہیں، ورکرز ہیں اور اس کام کا بادشاہ امامِ زمانؑ ہیں، سو جو مومنین جسمانی طور پر اپنے امامؑ کی پُرخلوص علمی غلامی کرتے ہیں، ان کی ارواح روحانیّت کے باغ و چمن میں امیرالنّحل (امام) کی ورکرز کی حیثیت سے روحانی شہد کے کام میں مصروف ہیں۔

بندۂ ناتوان و غریب اپنے تیسرے دورۂ کنیڈا سے بھی بڑا مطمئن اور شکر گزار ہے، اور اس عاجز درویش کی ناتوانی اور غریبی اس معنیٰ میں ہے کہ ناچاری کی وجہ سے اس کا سارا علمی کام ظاہراً و باطناً مولا اور اس کے لشکر کردیتے ہیں، ورنہ خدا کی قَسم یہ خود علم میں بڑا غریب شخص ہے، بہر کیف خاکسار کے اس سفر کے دوران

 

۶

 

علمی خدمت کے سلسلے میں ایک ساتھ کئی اہم کام انجام پائے ہیں، مثلاً مونٹریال یونیورسٹی کے ادارۂ لسّانیات میں بُروشسکی زبان پر ریسرچ ایسوسی ایٹ کی حیثیت میں کام کرنا، پروفیسروں  کے ساتھ بُروشسکی کہاوتوں کی کتاب میں شرکت کرنا، ایک ساتھ بُروشسکی گریمر اور لغات کے کام کو آگے بڑھانا، بُروشسکی کورس کو آگے لے جانا اور ان جوانوں کو تربیت دینا، جو بُروشسکی لٹریچر بنانے کی تیاری کررہے ہیں، سابقہ معمول کے مطابق علمی طور پر خط و کتابت جاری رکھنا، اور مقامی طور پر علمی مجالس کو قائم رکھنا۔

اس عاجز درویش کے لئے لشکرِ مولا سب سے پہلے “خانۂ حکمت” اور ادارۂ “عارف” کے عملداران و ممبران ہیں، انھوں نے توفیقِ خداوندی سے مجھے ہر طرح سے ہمت دی، اور بڑی حوصلہ مندی سے کام کو آگے بڑھایا، کوئی شک نہیں کہ وہ میرے لئے فرشتگانِ رحمت ہیں، اور یہ اللہ تعالیٰ کی  پُرحکمت عادت ہے کہ وہ جس کو نیک کاموں میں کامیاب بنانا چاہتا ہے، اس کو اچھے اچھے دوست عنایت کردیتا ہے، اور  جس کو ناکام و نامراد بنا دینا چاہتا ہے، اس کو  بُرے دوستوں سے وابستہ کردیتا ہے، یہ قدرت کا ایک عجیب و غریب تماشا ہے۔

 

۷

 

جو حضرات اس کتاب کا مطالعہ کریں گے، ان کو میرا مخلصانہ مشورہ یہ ہے، کہ وہ نہ صرف اسی کتاب کو پڑھیں، بلکہ بقدرِامکان میری دوسری کتابوں کو بھی پیشِ نظر رکھیں، تاکہ حقیقتیں زیادہ سے زیادہ روشن ہوسکیں، کیونکہ اکثر کسی مصنّف کے خیالات کو یا کہ اس کے پیش کردہ علم کو سمجھنے کے لئے اس کی تمام تصانیف کو پیشِ نظررکھنا پڑتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ آج کی علمی اور سائنسی ترقی کی دنیا میں جب کسی مصنّف کی ایک کتاب پر ریسرچ کی جاتی ہے، تو اس کام کو زیادہ آسان، واضح اور مضبوط بنانے کے لئے اس مصنّف کی دوسری تمام کتابوں کا بھی محققانہ مطالعہ کیا جاتا ہے۔

اس کتاب میں اکثر ایسی علمی یا روحانی باتیں ہیں، جن کو انقلابی علم کا درجہ دیا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ باتیں خاندانِ رسولؐ، یعنی امامِ زمانؑ کے روحانی خزانے سے ہیں،  اور دنیا میں امام کے موجود و حاضر ہونے کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ ان لوگوں کو جو اہلیت رکھتے ہیں ایک ایسا علم عنایت کرے، جو زمانے میں کسی کے پاس نہیں ہے، چنانچہ یہی علمِ روحانی ہے، جو امامِ عالیمقام ؑکا علمی معجزہ کہلاتا ہے، جس کی وجہ سے امام دوسروں سے منفرد و ممتاز ہوجاتا ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

 

۸

 

اور ایسی کوئی چیز نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس موجود نہ ہوں (۱۵: ۲۱)۔

ان خزانوں سے درجاتِ امامتِ عالیہ مراد ہیں، جیسا کہ دوسری مثال میں فرمایا گیا ہے کہ: اور ہم نے ہر چیز (بصورتِ علمِ لطیف) امامِ مبین میں گھیر کر رکھی ہے (۳۶: ۱۲)۔

اس فرمانِ خداوندی میں بھی غور کرنا ہے:

بَلْ ھُوَقُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَحْفُوْظٍ (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) بلکہ وہ قرآنِ مجید  (بزرگ) ہے جو لوحِ محفوظ پر (روحانی تحریر میں) موجود ہے۔

اس مقام پر سوچنے کے لئے تین مختلف طریقے ہیں، پہلا یہ سوچنا کہ امامِ مبین  سے امامِ ظاہر مراد نہیں بلکہ یہ لوحِ محفوظ کا نام ہے جو مادّی آسمان پر ہے، جس کے ساتھ امامِ ظاہر کا کوئی تعلق نہیں، دوسرا یہ ماننا کہ لوحِ محفوظ بیشک ایک الگ حقیقت ہے، مگر روحانی ہے، لہٰذا جس طرح قرآن ظاہراً دنیا میں ہے اور باطناً لوحِ محفوظ پر ہے، اسی طرح نورِ امامت کا روحانی پہلو لوحِ محفوظ سے متصل ہے اور جسمانی پہلو اس دنیا میں ظاہر ہے، اور تیسرا طریقہ یہ ہے جو کہا جائے کہ امامِ مبین کا مطلب امامِ زمان ہے جو ظاہر اور موجود

 

۹

 

ہے، اور لوحِ محفوظ بھی نورانیّت میں امام ہے، جس میں قرآن بکیفیّتِ روحانی محفوظ اور مجید (بزرگ) ہے۔

ان تین تصوّرات میں سے پہلے تصوّر میں کوئی حقیقت نہیں، کیونکہ خدا کی تمام چیزیں اس جہان سے الگ تھلگ اور لوگوں کی رسائی سے بالاتر ممکن نہیں، جبکہ نورِ نبیؐ کو خدا نے رحمتِ عالم قرار دیا، اور آپؐ کے جانشین میں وہی نور قائم ہے، یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ خداوندِ مہربان اپنے ان خزانوں کی تعریف و توصیف کرتا ہو، جن کے دروازے اہلِ جہان پر کبھی کھل نہیں سکتے ہوں، اور ایسی لوحِ محفوظ کہ اس میں روحانیّت اور علم کی تمام چیزیں محدود ہیں اور قرآن بھی اپنے روحانی جمال و جلال کے ساتھ اس میں درج ہے، درحالیکہ اس وقت تک لوگوں کو کوئی راستہ نہیں، اس سے ظاہر ہے کہ خدا کی ایک ایسی چیز ہے کہ وہی سب کچھ ہے، اور وہ نورِ امامت ہے، جس طرح عالمِ مادّیت کے لئے خدا نے مادّی نور کا ایک ایسا سرچشمہ بنا دیا ہے، جودنیائے ظاہر کے لئے وہی سب کچھ ہے، یعنی سورج، اسی طرح دنیائے انسانیّت اور عالم ِدین کا سورج امام ہے، جس میں روحانی اور علمی طور پر سب کچھ موجود ہے۔

 

فقط

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۸۲/۶/ ۳

 

۱۰

 

مجھ سے پوچھا گیا

 

سوال نمبر۱: میرے خیال میں اسماعیلی حضرات فقہی امور پر کلّی طور سے عمل نہیں کرتے ہیں۔

جواب: یہ آپ کا اپنا خیال درست نہیں، حقیقت یہ ہے کہ فقہ کا جو ذریعہ اور مقصد تھا وہ صرف اسماعیلیوں کے پاس مہیّا ہے اور کسی کے پاس نہیں، یعنی فقہ اصل میں امام کا کام ہے جو قرآن اور حدیث کی روشنی میں کیا گیا ہے، اچھا اب اس بارے میں خود میں پوچھتا ہوں کہ آیا فقہ کی تکمیل نزولِ قرآن کے وقت اللہ تعالیٰ نے کی تھی؟ نہیں۔ آیا یہ کام زمانۂ نبوّت میں پورا ہوچکا تھا؟ نہیں نہیں۔ پھر فقہ کا کام کس نے انجام دیا؟ اماموں نے۔ بالکل درست ہے، اور اسی وجہ سے شیعہ مذہب میں فقہ کو  فقۂ جعفریہ کہا جاتا ہے، اب اسماعیلیوں میں یہ فقہ بھی ہے اور خود امام جعفر الصّادقؑ کی نسل سے آپؑ کے وارث اور جانشین امام بھی ہے، لہٰذا جس طرح اسماعیلی فقہ پر عمل کرتے ہیں، وہی حقیقت میں بجا اور درست ہے، کیونکہ ان کے پاس گویا امام جعفر الصّا دقؑ

 

۱۱

 

بانیٔ فقہ موجود ہیں۔

سوال نمبر۲: آپ کی کتابوں میں شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کی اصطلاحیں زیادہ استعمال ہوئی ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب: اس کی وجہ اسلام ہے، جو صراطِ مستقیم (راہِ راست) کہلاتا ہے، دین کا یہ راستہ خدا تک جاتا ہے، جس کی مذکورہ چار منزلیں ہیں، اور ہر لمبے راستے کی تولازماً منزلیں ہوا کرتی ہیں، صوفیوں کے نزدیک بھی یہ اصطلاحیں مسلّمہ ہیں، آپ ڈکشنری آف اسلام میں دیکھیں، اس میںFOUR STAGES OF ISLAM (اسلام کی چار منزلیں ) کہا گیا ہے۔

سوال نمبر۳: آپ کو جو باطنی کہا جاتا ہے، اس کی آپ کے پاس کیا توجیہہ ہے؟

جواب: اس کی توجیہہ یہ ہے، کہ ہم دینِ اسلام کے ظاہر کے علاوہ باطن کے بھی قائل ہیں، کیونکہ فرمانِ رسولؐ ہے کہ: “قرآن کی کوئی آیت اس کے سوا نہیں کہ اس کا ایک تو ظاہر ہے اور ایک باطن اور ہر باطن کا بھی باطن ہے اسی طرح سات باطن ہوتے ہیں۔” اور دوسری روایت کے مطابق یہ سلسلہ ستّر باطن تک چلتا ہے۔ اب آپ خود ذرا سوچ کر یہ بتائیں، کہ خداوندِ حکیم نے جو کتاب ہدایت نامہ

 

۱۲

 

بناکر اس حالت میں نازل فرمائی ہے کہ اس کے ظاہر سے باطن کئی گنا زیادہ ہے، تو کیا (نعوذباللہ) قرآن کا باطنی حصّہ جو سراسر حکمت ہے فضول اور دُور ازکار ہوسکتا ہے؟ یا یہ کہ اس میں بھی ہدایت ہے؟ اگر مان لیا جائے کہ قرآن کے باطن میں بھی ہدایت ہے جس طرح اس کے ظاہر میں ہدایت ہے، تو لازمی طور پر ظاہر و باطن دونوں پر عمل کرنا ہوگا، مگر یہ ناممکن ہے کہ پہلے باطن پر عمل ہو اور پھر ظاہر پر، اور نہ ہی یہ درست ہے کہ زمانۂ رسولؐ میں ایک ساتھ ظاہر و باطن پر عمل کیا جائے، بلکہ صحیح یہی ہے کہ پہلے یعنی زمانۂ شریعت میں زیادہ سے زیادہ ظاہر (تنزیل) پر عمل ہواور زمانۂ حقیقت میں زیادہ سے زیادہ باطن (تاویل) پر عمل کیا جائے، یہی سبب ہے کہ ایک دن رسولِ اکرمؐ نے یوں ارشاد فرمایا:

“یقیناً تم میں سے وہ شخص بھی ہے جو قرآن کی تاویل پر لڑے گا، جیسے میں نے اس کی تنزیل پر جنگ کی تھی۔” اور یہ واقعہ مشہور ہے کہ پیغمبرِ خداؐ کے نزدیک تاویلی جنگ کرنے والے مولانا علیؑ تھے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسولؐ نے تو تنزیل پر جنگ کی جس کا مقصد قرآن کے ظاہر پر عمل کرانا تھا، مگر امام علیؑ کو یہ ذمّہ داری کیوں سونپی گئی کہ آپ تاویل پر جنگ کریں، یعنی قرآن کے باطنی احکام کو لوگوں کے سامنے لائیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کے ظاہر کے بعد باطن

 

۱۳

 

پر عمل ضروری ہے، اس لئے کہ اسلام دینِ فطرت ہے، اور فطرت میں ترقی ہے، پودے کا درخت بن جانا فطرت ہے اور بچے کا ایک بڑا آدمی بن جانا فطرت ہے، چنا نچہ زمانۂ رسولؐ میں اسلام پودے کی طرح تھا، اسے نشوونما پاکر پھلنا پھولنا تھا، سواسماعیلیّت اسلام کا درست نمونہ ہے کہ اس میں ظاہر کے  بعد باطن پر عمل کیا جاتا ہے۔

سوال نمبر۴: یہ کیوں ایسا ہے کہ امام مغرب میں قیام پذیر ہیں؟ وہ مشرق میں کیوں نہیں رہتے ہیں؟

جواب: امامِ عالیمقام کے مغرب میں رہنے میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں، ایک  تو یہ کہ امام کو موجودہ وقت میں کسی ایسے ملک میں رہنا چاہئے جہاں سے بین الاقوامی سطح پر اُبھر کر اسلام اور اسماعیلیّت کے لئے مفید کام کرسکے، چنانچہ اس حقیقت کی بہت سی شہادتیں موجود ہیں کہ خاندانِ امامت نے اپنے قیامِ مغرب کے دوران مسلمانوں کے مفاد میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ پیغمبرِ آخرزمانؐ جس شہر میں مبعوث ہوئے وہ مکۂ مکرّمہ ہے جس کو قرآن نے اُمّ القرای (بستیوں کی ماں) کا ٹائٹل دیا ہے (۰۶: ۹۲) جس کے معنی یہ ہیں کہ ہادیٔ برحق کو بہت بڑے ملک میں اور زبردست قوم کے درمیان رہ کر پوری دنیا پر اثر انداز ہونا ہے، وغیرہ۔

 

۱۴

 

سوال نمبر۵: قبلہ کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟

جواب: قبلہ کے باب میں میرا نظریہّ وہی ہے جو قرآنِ مجید میں ہے، کہ قبلہ شریعت کی تمام نمازوں میں ضروری شرط ہے، اور اگر ان سے الگ کوئی تسبیح یا دعا اور ذکرِ خدا جیسی عبادت ہو تو اس میں قبلہ شرط نہیں، کیونکہ شریعت کے مقام پر قبلہ ایک خاص تاویل رکھتا ہے، مگر جوچیزیں بجائے خود تاویل ہیں، ان میں قبلہ نہیں۔

سوال نمبر۶: شراب کے بارے میں امام کا کیا حکم ہے؟

جواب: جو چیز شریعت نے حرام قرار دی ہے وہ چیز امام کے نزدیک حرام ہی ہے، خاص کر شراب جو بُرائیوں کی جڑ ہے، شراب تو شراب ہی ہے، امام تمباکو نوشی سے بھی منع فرماتے ہیں، جبکہ بہت سے لوگ اس (SLOW POISON)کا استعمال جائز سمجھتے ہیں، حالانکہ اسلام میں ہر ایسی مضرِ صحت چیز حرام ہے۔

سوال نمبر۷: کہا جاتا ہے کہ آپ کی اپنی تقریباً سوکتابیں ہیں، تو کیا یہ بات سچ ہے؟

جواب: جی ہاں یہ بات درست ہے۔

سوال نمبر۸: آپ کی ظاہری تعلیم کیا ہے؟

جواب: تیسری اور چوتھی جماعت، یعنی ایک ہی سال میں یہی

 

۱۵

 

دو جماعتیں پڑھی ہیں اور بس، اس پر انھوں نے کہا کہ یہی تو تعجب کی بات ہے۔

سوال نمبر۹: یہ بھی کہتے ہیں کہ جب آپ چین میں قیدی تھے تو اس وقت آپ پر روحانیّت کے بڑے بڑے معجزات گزرتے رہتے تھے، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب: جی ہاں بالکل صحیح ہے۔

سوال نمبر۱۰: آپ حضرت علیؑ کو کیا مانتے ہیں؟

جواب: ولیّ ٔ خدا، وصیّٔ رسولؐ اور امامِ برحقؑ۔

سوال نمبر۱۱: کوئی ایسی آیت بتایئے، جس سے یہ ظاہر ہوکہ اسماعیلیت کا نظریہ درست ہے۔

جواب: اس سلسلے میں آیات تو بہت ہیں، مثال کے طور پر لیجئے یہ آیت:

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعاً وَّلَا تَفَرَّقُوْا(۰۳: ۱۰۳) اور اللہ کی رسّی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رہو اور فرقہ فرقہ نہ ہوجاؤ۔ اس فرمانِ الٰہی میں ایک طرف تفرقہ بازی کی بیماری کا ذکر ہے اور دوسری طرف اس کا علاج بتایا گیا ہے، اور تفرقہ سے بچنے کا علاج یہ ہے کہ خدا کی رسّی کو سب مل کر پکڑے رہیں، ہمارے نزدیک اللہ کی رسّی سب سے پہلے رسولؐ تھے اور پھر سلسلۂ امامت

 

۱۶

 

ہے، پس اگر لوگ اسماعیلیوں کی طرح پیغمبرؐ کے بعد امام کے دامن کو پکڑلیتے تو فرقہ فرقہ ہو کر خدا کے اس حکم کے نافرمان نہ ہوجاتے، اگر اس کے برعکس کسی کے نزدیک صرف قرآن یا اسلام ہی خدا کی رسّی ہے تو پھر قرآن اور اسلام کو پکڑنے کے باؤجود مسلمان کیوں فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، حالانکہ خدا کی رسّی ایسی ہے کہ اگر لوگ اس کو پکڑیں تو وہ متفق اور متحد ہوجاتے ہیں۔

اس سلسلے کی دوسری آیت یہ ہے:

وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ھُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۰۳: ۱۰۱) اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو مضبوط پکڑتا ہے تو ضرور اس کو راہِ راست کی ہدایت مل جاتی ہے۔

یہاں یہ جاننا ہے کہ اگر کسی وسیلے کے بغیر خدا کو پکڑنا ممکن ہوتا تو پھر خدا کو چھوڑ کر خدا کی رسّی کو پکڑنے کی ضرورت نہ ہوتی اس سے ظاہر ہے کہ خدا کو پکڑنے کے معنی ہیں خدا کی رسّی کو پکڑنا، اور یہی سبب ہے کہ اس سورہ کی آیت نمبر ۱۰۱ میں جوکچھ سوال پیدا ہوجاتا ہے اس کا جواب آیت نمبر ۱۰۳ میں موجود ہے، وہ یہ کہ اللہ کی رسّی اللہ کی نمائندہ ہے اور وہ سلسلۂ امامت ہے، جس کے ساتھ خدا کی ہدایت وابستہ ہے۔

تیسری آیت کا ترجمہ یہ ہے:

اے ایمان والو! خدا کی اطاعت کرواور رسول کی اطاعت

 

۱۷

 

کرو اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں (۰۴: ۵۹) اس حکم میں تین قسم کی اطاعتیں فرض کی گئی ہیں، خدا کی اطاعت، رسولؐ کی اطاعت اور اولواالامرؑ کی اطاعت، تیسری اطاعت جو أئمّۂ ہُدیٰ کی ہے وہ ایک طویل سلسلے میں پھیلی ہوئی ہے، جس میں ہر زمانے کے امام کو بحیثیتِ صاحبِ امر کے یہ حق پہنچتا ہے، کہ جدید مسائل سے متعلق اس کا بھی کوئی ذاتی فرمان ہوتا کہ مومنین اپنے وقت کے امام کی اطاعت کرکے اس حکمِ خداوندی کو بجا لاسکیں، جس میں خدا و رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ امامِ زمانؑ کی اطاعت فرض کی گئی ہے۔ یہ ہے بطریقِ اختصار اسماعیلیّت کا نظریہ۔

 

نوٹ

جو مخلص اسماعیلی اس سوال و جواب کو غور سے پڑھے گا یا سنے گا، اس سے یقیناً مولا راضی ہوگا کہ اس نے امامِ زمانؑ کے مرتبے کو سمجھ لیا ہے، کیونکہ یہاں بڑی عالیشان باتیں ہیں، اور بہت سے سوالات کو ایک ہی جواب نے گھیر لیا ہے۔

 

تحریر

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۸۰/۸/۹

 

۱۸

 

عبادت میں کامیابی کا عظیم ترین راز

سوال ہے کہ عبادت میں وسوسۂ شیطانی کس طرح ختم یا کم ہو سکتا ہے، اور اس سے چھٹکارا پانے کا وسیلہ کیا ہے؟ وغیرہ۔

 

 

 

 

 

سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ وسوسہ کیا ہے، اور اس کا وجودِ ذہنی کن کیفیات کے زیرِ اثر بنتا ہے، کیونکہ کسی بیماری کو گہرائی سے دیکھنے سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ اس کو جڑپیڑ سے اُکھاڑ دیا جائے، چنانچہ جب ہم قرآنِ مقدّس میں دیکھتے ہیں تو پانچ الگ الگ مقامات پر “وسوسہ” کا ذکر ملتا ہے، اور وہ آیاتِ حکمت آگین یہ ہیں: (۰۷: ۲۰؛ ۲۰: ۱۲۰؛ ۵۰: ۱۶؛ ۱۱۴: ۰۴؛ ۱۱۴: ۰۵)۔

لفظِ “وسوسہ” کے کئی ترجمے ہیں اور بھی ہوسکتے ہیں، مگر یہاں اس کا قابلِ فہم مطلب “پریشان کن خیالات” درست ہے، یہ پُرخطرخیالات جن میں توجہ کی پریشانی کے تمام تر سامان مہیّا ہیں، اور جو شیطان کے سبب سے کسی دِل میں پیدا ہوجاتے ہیں، وہ لفظ و معنی کی گونا گون

 

۱۹

 

صورتوں میں پیدا ہوتے ہیں، یعنی وسوسہ کچھ ایسی ناپسندیدہ باطنی کیفیتوں کا نام ہے جو دل و دماغ اور حواسِ باطن کے مختلف مدارج پر مسلّط ہو جاتی ہیں، جن کی ظلمت و  تاریکی سے کوئی شخص خارج نہیں ہوسکتا ہے، مگر یہ ہے کہ نورِ ہدایت اس کی دست گیری کرے۔

وسوسہ کو وسواس بھی کہتے ہیں، جس کی جمع وساوِس ہے، وسواس ایک نمایان بیماری کی شکل میں بھی ہے، جس میں مبتلا مریض کو طرح طرح کے غیر مفید خیالات ستاتے رہتے ہیں، اور ایسا آدمی ذہنی طور پر بہت کمزور ہوجاتا ہے، اس مثال میں، جو بصورتِ بیماری لوگوں کے سامنے ہے، قانونِ قدرت زبانِ حکمت سے یہ کہتا ہے کہ دیکھو تم میں جو وسوسہ پوشیدہ ہے، جس کو تم اپنی نادانی سے بُرا نہیں مانتے ہو، اس کی ظاہری شکل اور نمونہ یہ ہے، جسے تم بآسانی دیکھ سکتے ہو، پس عقل والوں کو چاہئے کہ وہ وسوسہ کو شیطان کا پھندا اور تیرِزہر آلودہ قرار دیں اور اس سے خود کو محفوظ کرلینے کی سعی و کوشش کریں۔

اس مضمون میں دیوانہ کی مثال بھی ضروری ہے، کہ دیوانہ کو عربی میں مجنون کہتے ہیں اور دیوانگی کو جنون، جنون کا لفظ جنّ سے ہے، یعنی اہلِ دانش کے نزدیک جنّ (شیطان) ہی دیوانگی کا باعث ہے، جیسے قرآنِ حکیم کی (۰۷: ۱۸۴؛۲۳: ۲۵؛ ۲۳: ۷۰؛ ۳۴: ۳۶) میں لفظِ جِنّۃ جنون

 

۲۰

 

یعنی دیوانگی کے لئے آیا ہے، اور فارسی میں بھی لفظوں کی یہ مثال درست ہے کہ جنّ کو دیو اور جنون کو دیوانگی کہتے ہیں، یعنی جو شخص دیو (شیطان)  کے زیرِاثر ہو، اس کو دیوانہ کہا گیا ہے، پس لفظ مجنون ہو یا دیوانہ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جنّ یعنی شیطان ہی دیوانگی کا سبب ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم کا پاک و پاکیزہ ارشاد ہے کہ:

مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ(۱۱۴: ۰۶) یعنی خناس (شیطان، جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے، وہ) جنّات میں سے بھی ہے اور آدمیوں میں سے بھی۔

اب اس وضاحت کی روشنی میں یہ کہنا مقصود ہے کہ اگر کسی شخص کو وسوسۂ شیطانی کا کھلا مظاہرہ مادّی شکل میں دیکھنا ہے تو وہ ذرا غور سے کسی دیوانے کو دیکھے کہ وہ مجبوراً ان تمام وسوسوں کو جو شیطان اس کے دل و دماغ میں پھیلاتا جاتا ہے کس طرح دیوانگی اور بیہودگی کی صورت میں ظاہر کرتا ہے، کوئی شک نہیں کہ اس کی ہر ناپسندیدہ بات اور ہر بیہودہ حرکت ایک جدا گانہ وسوسے کے تحت ہے۔

اس مقام پر اللہ تعالیٰ کے قانونِ حکمت کا یہ مختصر سا تذکرہ بیحد ضروری ہے کہ اس زبردست دانا حکیم نے اہلِ سعادت کو

 

۲۱

 

سمجھانے کی خاطر دنیائے ظاہر میں ایسی بہت  سی مثالیں بنائی ہیں اور ایسے بہت سے مظاہر پیدا کئے ہیں، جو انسان کی پوشیدہ چیزوں کی نمائندگی کرتے ہیں، مثلاً نیند کا مظہر خرگوش ہے، کھانے پینے کے شوقین نفس کی مثال گائے ہے، کینہ وری کی ظاہری صورت سانپ ہے، اور اونٹ بھی اسی زمرے میں آتا ہے، مردم آزاری کتے میں مجسّم ہے، حرام خوری کا نمونہ کوّا ہے، فخر و ناز کا پیکر طاؤس (مور) ہے، اور اسی طرح ایک دیوانہ شخص ایسے شدید وسوسوں کا مظہر ہے، جو کسی شیطان کے دوست کے دل و دماغ میں ہوتے ہیں۔

اس سلسلے کی ایک اور کلیدی حکمت اس آیۂ کریمہ میں پوشیدہ ہے، اور اس ارشاد کا ترجمہ یہ ہے: جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) کھڑے نہ ہوسکیں گے مگر اس شخص کی طرح کھڑے ہونگے جس کو شیطان نے لپٹ کر مخبوط الحواس بنادیا ہو، یہ اس وجہ سے کہ وہ اس کے قائل ہوگئے کہ جیسا بِکری کا معاملہ ویسا ہی سود کا معاملہ، حالانکہ بِکری کو تو خدا نے حلال اور سود کو حرام کردیا (۰۲: ۲۷۵) اس فرمانِ الٰہی کا ایک تاویلی خلاصہ یہ ہے کہ تمام قرآنی مثالیں بالٓاخر مشیّتِ ایزدی کے مرکز پر جمع ہوجاتی ہیں، چنانچہ جو حقیقی علم نورِ ہدایت کی اطاعت و فرمانبرداری سے ملتا ہے، وہ تجارت ہے جس کو خدا نے حلال کردیا ہے،

 

۲۲

 

اور جو لوگ اس کے بغیرعلم کو حاصل کرتے ہیں، وہ سود ہے، جس کو خدا نے حرام ٹھہرایا ہے، اور یہ علم وہ ہے جس کی وجہ سے قیامت میں ان کے حواس کام نہیں کرسکیں گے، جس کی مثال ایسا شخص ہے جو شیطان کے چھونے سے مجنون یا مخبوط الحواس ہوگیا ہو، سو یاد رہے کہ شیطان اگرچہ آزاد ہے، تاہم یہ آزادی بھی ایک قانون کے تحت ہے، اور وہ یہ ہے کہ خداوندِ تعالیٰ کے خاص بندے اس کے شرّ سے محفوظ ہیں۔

وسوسہ زیادہ سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے اور کم سے کم بھی، اس کا انحصار آدمی کے اخلاق اور دینداری پر ہے، کیونکہ جس دل میں دین، ایمان اور تقویٰ ہے، اس میں شیطان ہربار ناکام و نامراد ہوجاتا ہے، جیسے روزِ اوّل کے متعلق قرآنی ارشاد ہے کہ:

(شیطان نے کہا)۔۔۔ ان سب کو ضرور بہکادوں گا مگر ان میں سے تیرے مخلص بندے (کہ وہ میرے بہکانے میں نہ آئیں گے ۱۵: ۳۹ تا ۴۰)

آپ یہ بات بھول نہ جائیں کہ شیاطین جنّات میں سے بھی ہیں اور انسانوں میں سے بھی، اور ہم نے دونوں قسم کے شیطانوں سے آپ کو باخبر کردینا ہے، چنانچہ عبادت کے دوران کسی کو گمراہ کردینے، یعنی توجہ ہٹانے کیلئے شیطان کے پاس صرف ایک ہی حربہ ہوا کرتا ہے اور وہ وسوسہ ہے، جو ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ بہت ہی کمزور چیز ہے، کیونکہ بموجبِ حکمتِ قرآن (بصَوْتِکَ۱۷: ۶۴)

 

۲۳

 

شیطان کا حملہ صرف ایک آواز سے ہے، جو وسوسہ  بھی ہے اور باتیں بھی۔

شیطان کی آواز خواہ ظاہر میں ہو یا باطن میں، خدا کے دوستوں کے سامنے بڑی کمزور اور بے معنی ہے، لیکن خود شیطان کے دوستوں کے لئے اس میں بڑی کشش اور لذّت پائی جاتی ہے، اور یہی سبب ہے کہ دنیا کے بہت سے لوگ دیو کی پیروی کرتے ہیں۔

خدا کے سچے دوست آواز کا مقابلہ آواز سے اس دانشمندی سے کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ دل کی زبان سے (یعنی روح کی زبان سے) ربِّ کریم کے بابرکت نام کا کامیاب اور مسلسل ذکر کرتے رہتے ہیں، وہ ظاہر و باطن میں امامِ وقت صلوات اللہ علیہ  کی طرف دیکھتے ہیں اور اسی نورِ ہدایت کے احکامات کے مطابق عمل کرتے ہیں، جس کی بدولت خداوندِ قدّوس ان کو سلامتی کی راہوں پر چلاتا ہے (۰۵: ۱۵ تا ۱۶)۔

بعض لوگوں کے لئے مشکل یہ ہے کہ وہ شیطان اور اس کے لشکر کے حملوں کو نہیں جانتے ہیں، اور نہ ہی دل کی آواز کی اہمیت اور قوّتِ ارادی کو سمجھتے ہیں، اگر وہ اس کی اہمیت و کیفیت کو جانتے تو وہ ہر طرح سے محفوظ و سلامت رہتے۔

جب اللہ تعالیٰ نے اپنی سب سے عالی قدر اور عزیز ترین

 

۲۴

 

کتاب (قرآنِ پاک) میں شیطان کا ذکر کرتے ہوئے  بِصَوْتِکَ (۱۷: ۶۴) فرمایا، تو اہلِ توفیق خداوندِ مہربان کے اس پُرحکمت اشارے کو سمجھنے لگے، کہ شیطان اپنے لشکر کی مدد سے، جو انسی اور جنّی شیاطین پر مشتمل ہے، کیا کیا کرتا ہے، کیونکہ “صَوْت” کا مطلب صرف وسوسۂ باطن نہیں ہے، بلکہ صَوْتِ شیطان کا دائرہ دنیائے ظاہر میں بھی بہت ہی وسیع ہے، جس سے محفوظ رہنے کے لئے ہمیں دوچیزوں کی سخت ضرورت ہے، اور وہ ہیں بندگی اور حقیقی علم، کیونکہ بندگی بھی اور علم بھی درحقیقت ایک نورانی آواز ہے، جو صوتِ شیطانی کو نیست و نابود کرسکتی ہے۔

جیسا کہ اس سے پیشتر قرآنِ مقدّس کے حوالے سے یہ بات بتائی گئی ہے کہ خدا کے مخلص بندوں پر شیطان غلبہ نہیں پاسکتا ہے، چنانچہ یہاں لفظِ “مخلص” کی حکمت بیان کی جاتی ہے، کہ مخلص بندۂ مومن ہے، جس کی صفت اخلاص ہے، اور اخلاص کے دومقام یا کہ دوپہلوہیں، ایک علم ہے اور دوسرا عمل، اور جملہ عمل بندگی ہے، پس اس میں اشارہ یہ ہے کہ علم حقیقی ہو اور ہر قسم کی آمیزش و آلائش سے پاک اور “خالص” جب حقیقی مومن کا علم غلط حکایات و روایات اور باطل نظریات سے پاک و پاکیزہ اور خالص ہوگا، تو لازمی طور پر عمل یعنی جملہ بندگی بھی خالص ہوگی، اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق شیطان کو

 

۲۵

 

ایسے بندۂ مخلص پر کوئی غلبہ حاصل نہ ہوسکے گا۔

یاد رہے کہ اخلاص قرآنِ حکیم کے درجۂ اعلیٰ مضامین میں سے ہے، اور اس پُرحکمت موضوع کے پیارے پیارے الفاظ جو خ ل ص کے مادّہ سے ہیں، وہ بارہ مشتقات ہیں، جو قرآنِ پاک کے ۳۱ مقامات پر مذکور ہیں، جب ہم اس مادّہ کی تحقیق کیلئے مستند لغات کو دیکھتے ہیں، تو سب سے پہلے خَلَصَ (خلوص) کا لفظ آتا ہے، اور جس کے سامنے یہ ترجمہ ملتا ہے: “TO BE PURE, UNMIXED,  UNADULTERATED”   یعنی پاک و پاکیزہ ہونا، آمیزش اور آلائش کے بغیر، آلودگی سے پاک وغیرہ۔

اس حقیقت میں کسی مومن کو کیا شک ہو سکتا ہے کہ قرآنِ حکیم کے جملہ حکیمانہ اصولات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کا طرزِ بیان “موضوع اندرموضوع” ہے، یعنی ہر موضوع میں بہت سے دوسرے موضوعات بھی سموئے ہوئے ہیں، چنانچہ آپ کو اخلاص کے اس حکمت آگین موضوع میں، جو متعلقہ اور بلاواسطہ الفاظ کے اعتبار سے صرف ۳۱ مقامات پر ملتا ہے، بہت سے دوسرے اعلیٰ موضوعات بھی ملیں گے، ان میں سے ایک ضروری مضمون یہ بھی دیکھنا ہے، کہ خداوندِ عالم نے اس میں اپنے دینِ خالص کا کس شان سے ذکر فرما دیا ہے۔

 

۲۶

 

بندۂ مخلص جس کا عقیدہ (مذہب) ہر قسم کے غلط نظریات سے پاک و پاکیزہ ہے، جس کا علم باطل روایات سے پاک ہے اور جس کی عبادت خدایانِ باطل کی پرستش کی آلائش سے پاک ہے، وہ خداوندِعالم کا خالص دین رکھتا ہے، اور جو خدا کے دین میں ہے وہ ربّانی قلعے میں ہے، یعنی وہ خدا کی پناہ میں ہے، لہٰذا شیطانِ رجیم کچھ نہیں کرسکتا ہے۔

اس موضوع کا خلاصہ یہ ہے کہ وسوسۂ شیطانی کے دو مرحلے ہیں پہلا مرحلہ بڑا سخت اور بہت مشکل ہے، جس میں شیطان زبردست کوشش کرتا ہے کہ کسی مومن کے ہاتھ کو امامِ زمانؑ کے مقدّس دامن سے چھڑا دیا جائے، جب مومن بتوفیقِ الٰہی وہاں سے صحیح و سلامت آگے بڑھتا ہے، تو دوسرا مرحلہ آتا ہے، جس میں اتنی مشکلات نہیں، اور نہ ہی ایسا کوئی بڑا خطرہ ہے، جیسے پہلے مرحلے میں صراطِ مستقیم سے گمراہ ہو جانے کا خطرہ  ہوتا ہے، دوسرے مرحلے میں اگر کوئی تکلیف ہو تو اس کا علاج کثرتِ ذکر سے ہوسکتا ہے، کیونکہ حقیقی مومن اگر کثرت سے خدا کو یاد کرتا ہے تو وہ مرحلۂ دوم کے وساوِس سے فلاح پاسکتا ہے، آپ قرآنِ پاک میں یہ موضوع بھی دیکھیں کہ کثرتِ ذکر کی کیا اہمیت ہے، اس سلسلے میں آپ کو بہت سی آیات ملیں گی، خاص کر “کثیراً” میں دیکھنا، جیسے (۶۲: ۱۰) میں ہے کہ اس ارشاد میں ظاہراً و باطناً فضلِ خدا

 

۲۷

 

اور فلاح کا راستہ ذکرِ کثیر بتایا گیا ہے۔

اس آخری مقام پر یہ تفصیل ضروری ہے کہ وسوسہ کے مذکورہ دو مرحلے کس طرح سے ہیں، چنانچہ جاننا چاہئے کہ بموجبِ علمِ قرآن مرحلۂ اوّل کے خطرناک وسوسے شیطان سے ہیں اور مرحلۂ دوم کے کمزور وسوسے نفس سے ہیں، جیسا کہ ارشادِ باری ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہ‘۔ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (۵۰: ۱۶) اور بیشک ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کا نفس جو اس میں وسوسہ  ڈالتا ہے وہ ہم جانتے ہیں، اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔

اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ جس خدا نے انسان کو جسمانی طور پر پیدا کیا ہے وہی اس کو روحانی طور بھی وجود دینے والا ہے، مگر خدا کے علم میں ہے کہ کس وجہ سے روحانی تخلیق میں تاخیر ہوئی ہے، اس کی وجہ وسوسۂ نفس ہے، جس کا علاج یہ ہے کہ خدا کے علم سے استفادہ کیا جائے، یعنی حقیقت سے، جس کی روشنی میں یہ ضرور پتا چلے گا کہ نفس کیونکر وسوسہ ڈالتا ہے اور اس کا مداوا کیا ہے، اور اس سلسلے میں خدا سے کیا کیا مدد مل سکتی ہے کہ وہ رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے۔

 

۲۸

 

اس تفصیل کی روشنی میں یہ معلوم ہوا کہ وسوسۂ شیطانی اور وسوسۂ نفسانی میں نمایان فرق ہے، ہر چند کہ بعض مثالوں میں نفس کو شیطان کا درجہ دیا جاتا ہے، خیر یہ تو اصلاح و ترقی کی بات ہے، مگر حقیقت میں نفس امام کا دشمن کیسے ہوسکتا ہے، جبکہ شیطان امام کا دشمن ہے اور شیاطینِ انسی و جنّی کی تمام باتیں باؤجود اس کے کہ وہ ظاہر میں بہت خوبصورت ہیں، جس کی وجہ سے قرآن نے  زُخْرُف (۰۶: ۱۱۲) کہا ہے، قانونِ خدائی کی رُو سے وسوسہ کہلاتی ہیں، پس جو مومن امام کے دشمنوں کی باتوں سے پرہیز کرتا ہے وہ شیطان کے وسوسے سے محفوظ ہے، اور اگر وہ حقیقی علم کی روشنی میں بندگی میں آگے بڑھے اور کثرت سے خدا کو یاد کرنے کا طریقہ اپنائے تو وسوسۂ نفس سے بھی فارغ ہو سکتا ہے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۲۰؍اپریل ؁۱۹۸۲ء

 

۲۹

 

اصل میں واصل اور فنا ہوجانے کی حقیقت

 

اس اہم موضوع میں اصل سے روحِ انسانی کا وہ عظیم الشّان سرچشمہ مراد ہے، جس سے یہ روح عکسِ آفتاب کی طرح اس مادّی دنیا میں نازل ہوئی ہے، اصل عربی لفظ ہے، جس کے معنی جڑ کے ہیں ، اصل کی جمع اصول ہے، اور اصولِ دین اسی معنیٰ میں ہیں (یعنی دین کی جڑیں) اصل کے دوسرے معنی کو سمجھنے کے لئے لفظ اوریجنل (Original)کو لینا چاہئے، اور اصل حقیقت کا نام بھی ہے، بہرکیف اس میں دو چیزوں کی طرف اشارہ موجود ہے، یعنی ایک تو اصل اور دوسری نقل، یعنی اوریجنل (Original)  اور کاپی  (Copy)اور یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بعض چیزوں کی اصل اور نقل میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے، جبکہ کچھ چیزوں کی اوریجنل اور کاپی میں آسمان زمین کا فرق ہے، جیسے نسخۂ کتاب اور کتاب کے درمیان چندان فرق نہیں ہے، مگر سورج اور عکسِ آفتاب (جو آئینے میں ہے) کے درمیان بے انتہا فرق ہے، اسی طرح آدمی اور اس کی تصویر (خواہ

 

۳۰

 

محرّک فلم ہو یا کاغذی تصویر) کے درمیان بھی بہت کچھ فرق و تفاوت پایا جاتا ہے، اگر ہم اصل کو پانی کا ایک صاف چشمہ اور روح کو اس طرف بہنے والی نہر فرض کریں تو پھر بھی بڑا فرق ہوگا۔

واصل کا لفظ وصل سے ہے اور اس کا مطلب ہے مل جانا، اور فنا کے حقیقی معنی ہیں نفس کی مکمل اصلاح، تزکیہ اور تحلیل، اب ہم اس موضوع میں آگے بڑھتے ہیں۔

ہماری اصل اور ہم ظاہری اعتبار سے نسخہ (اوریجنل) اور کاپی یا کتاب کی طرح نہیں ہیں، کیونکہ یہ تو مادّی چیز سے مادّی کاپی ہے، لہٰذا ان دونوں چیزوں میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے، جبکہ انسان کی اصل حقیقت برترین ہے، اور انسان اس کا ایک جسمانی سایہ ہے، اب سورج کی مثال لیتے ہیں کہ سورج بیشک مادّی ہے، اور اس کا عکس بھی مادّی ہے، لیکن عکس سورج سے بہت ہی دور ہے، لہٰذا یہ سورج سے بہت ہی کمتر اور حقیر چیز ہے، یہی مثال ہماری روح کی بھی ہے، کہ یہ اپنی اصل سے (جو نور کا سورج ہے) بہت دور آئی ہے۔ اگر آئینے کو بدرجۂ انتہا صاف پاک اور مضبوط بناکر زیادہ سے زیادہ بلندی پر رکھا جائے، تو اس میں سورج زیادہ نور دکھا سکتا ہے۔

اس وضاحت سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ انسان جب تک نفس

 

۳۱

 

کی آلائشوں سے پاک نہ ہوجائے، انائے سفلی کو ترک نہ کرے اور انائے عُلوی کو نہ پہچانے تو اصل میں واصل نہیں ہوسکتا، کیونکہ کوئی بھی تصوّر عمل کے بغیر کافی نہیں۔

اصل میں واصل اور فنا ہوجانے کے لئے علم اور عمل دونوں کی ضرورت ہے، چنانچہ جاننا چاہئے کہ کوئی چیز اپنی اصل میں واپس نہیں جاسکتی ہے، مگر وسیلہ سے، آپ نے چشمہ یا ندی سے پانی کو آتے ہوئے دیکھا ہوگا، مگر واپس جاتے ہوئے کب دیکھا ہے؟ ہاں، یہ درست ہے کہ اسے سمندر سے جا ملنا چاہئے، پھر اس کے لئے تمام راستے آسان ہیں، سورج کا عکس جو کسی صاف و شفاف چیز میں چمکتا ہے وہ دوبارہ آسمان پر جا نہیں سکتا، مگر یہ ہے کہ وہ باور کرے بلکہ یقین جانے کہ وہ ہمیشہ کے لئے سورج میں موجود ہے اور یہ ایک فریبِ نظر تھا کہ وہ اس دنیا میں آیا ہے، کیونکہ آئینے میں ٹھہری ہوئی کوئی چیز ہر گز نہیں تھی، مگر مسلسل گزرنے اور بکھرنے والی کرنیں تھیں، اور جو سورج کی صورت نظر آتی تھی، وہ بحقیقت آئینے میں نہ تھی، جبکہ آئینہ کی خاصیت یہ ہے کہ انسان کی نظر کو آسمان کی طرف پھینکتا ہے، یعنی ہم سورج کو آئینے میں صرف اس وقت دیکھ سکتے ہیں جبکہ آئینہ سورج کے مقابل ہو، تاکہ ہماری نگاہ اس سے ٹکرا کر سورج کی طرف جائے۔

 

۳۲

 

ہم جب آئینے کی مدد سے اپنے چہرے کو دیکھتے ہیں، تو اس میں دو باتیں ممکن ہیں، ہوسکتا ہے کہ ہماری شکل آئینے میں اتر آئے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ آئینے میں ہماری صورت نہ ہو صرف آئینے کی سطح سے ٹکرا ٹکرا کر ہماری نگاہیں واپس اپنے چہرے پر پڑتی ہوں، تو یہی دوسری بات درست اور حقیقت ہے، اس صورتِ حال میں بہت بڑا راز یہ ہے کہ انسان کی انائے علوی ہمیشہ سے اصل میں واصل ہے، اور علم و عمل سے اس کے یقین کو حاصل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

ہم میں سے ہر ایک کی مثال ایک آدمی اور اس کی تصویر ہے، یعنی انسان عالمِ بالا پر ایک مکمل آدمی ہے مگر اس دنیا میں وہ ایک کاغذی تصویر یا ایک فلمی تصویر ہے، اس مثال میں یہ کہاں ممکن ہے کہ آدمی کی تصویر جو ایک بارلی گئی تھی واپس اس شخص کے چہرے پر چسپان کردیا جائے، اور ایسا کرنے کی ضرورت بھی کیوں ہو، جبکہ تصویر لینے سے آدمی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تھی اور اس میں کوئی خلا پیدا نہیں ہوا تھا، کہ اس کو دوبارہ  پُرکرنے کی ضرورت ہوتی، ایسا نہیں ہے۔

یاد رہے کہ اس جسمانی ہستی کے پیشِ نظر اصل سے واصل اور فنا ہوجانے کا مطلب روحانی ترقی ہے، جس میں ربّ العزّت کی قربت

 

۳۳

 

و نزدیکی ہے، ایسی فنا نہ صرف مرجانے کے بعد حاصل ہوسکتی ہے، بلکہ جیتے جی بھی یہ مرتبہ مل سکتا ہے، چنانچہ انبیاء و اولیاء کے علاوہ بہت سے حقیقی مومنین بھی اس منزلت کو پاسکتے ہیں، اور اسی معنی میں قرآن میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ سرورِ انبیاءؐ کے نمونۂ عمل میں سب کچھ ہے (۳۳: ۲۱) یعنی اس آیۂ کریمہ کا تاویلی خلاصہ یہ کہ جو شخص خدا سے اپنی اُمید کو وابستہ کرتا ہے (یرجوا اللّٰہ) اور امام سے اُمید رکھتا ہے (والیوم الاٰخر) کہ یومِ آخر امام ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ کثرت سے خدا کی یاد کرتا ہے، تو اس کو روحانیّت میں رسولؐ کی پیروی نصیب ہوگی، وہ اپنی اصل میں واصل ہوجائے گا۔

دنیائے تصوّف میں منصورِ حلاّج بہت مشہور ہیں، ان کا اسماعیلی بزرگوں کے ساتھ رابطہ ہوا تھا، وہ زندگی ہی میں اپنی اصل سے واصل اور فنا ہوئے تھے، اسی طرح بہت سے خوش نصیب لوگ گزرے ہیں، جن کو زندگی ہی میں اصل سے واصل ہو جانے کا تجربہ ہوا تھا، لیکن ہمیشہ یہ ضروری نہیں کہ اس واقعہ کا اعلان کردیا جائے، کیونکہ یہ ایک عظیم راز ہے، جس کو صرف خواص ہی جانتے ہیں۔

قصّۂ قرآن کے مطابق جب حضرت موسیٰؑ نے پہلی بار آتشِ طور (طور کی آگ = جلوۂ نورِ خداوندی) کو دیکھا اور وحی کو سنا تو معلوم

 

۳۴

 

ہوا کہ اس انتہائی مقدّس آگ کے اندر اور اس کے گردا گرد یعنی قربِ خاص میں بہت سی خوش نصیب ارواح فنا ہوچکی تھیں اور فنا ہورہی تھیں (۲۷: ۰۸) اگر سعادت مندی سے یہ مان لیا جائے کہ وہ مرتبۂ ذاتِ سبحان نہ تھا، بلکہ مرتبۂ نورِ ہدایت تھا، یعنی ہادیٔ برحق کا نور، جیسا کہ اس ارشاد سے ظاہر ہے، تو پھر حقائق و معارف کا راستہ صاف ہوگا، اور اس روشن تصوّر کی روشنی میں ہمیں بولنا اور سمجھنا آسان ہوجائے گا کہ خدائے پاک کی طرف سے جو پاک نور اس دنیا میں مقرّر ہے، اس سے مومنین کی روحیں درجہ بدرجہ منسلک ہوتی ہیں، چونکہ نور کی ایک قابلِ فہم اور نمایان مثال آگ ہے، اور عاشقان اپنی روح میں گویا لوہے کے ٹکڑے ہیں، چنانچہ ان میں سے کچھ تو اس نوری آگ کے اندر سرخ انگارے بن چکے ہیں، کچھ درجہ بدرجہ آگ کے قریب ہیں، اور اس قربت کی وجہ سے جو کچھ ہونا چاہئے وہ ان کو حاصل ہے، مثلاً روشنی اور گرمی، جس کے ہزاروں معانی ہیں، کیونکہ وہ مادّی چیز کی طرح محدود نہیں، اس میں لاتعداد خوبیاں ہیں۔

اس پُرحکمت قصّے میں نور کو آگ اس لئے کہا گیا ہے کہ آگ ہمارے سامنے ہے، جس کے فعل کو ہم دیکھتے ہیں، یعنی ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ آگ لوہے کے ٹکڑوں کو کس طرح اپنا ہمرنگ اور ہمصفت

 

۳۵

 

بنا لیتی ہے، پہلے تو آگ کا فعل اور اثر لوہے پر پڑتا ہے، پھر لوہا بھی وہی کام کرنے لگتا ہے جو آگ کرتی ہے، خلاصہ یہ ہے کہ لوہے کے ٹکڑے (جن سے ارواحِ مومنین مراد ہیں) آسمانی آگ میں مل کر ایک بھی ہیں اور ان کی جدا گانہ انفرادیت بھی ہے، یعنی وہ جس طرح آگ کے ہم صفت ہوگئے اس میں ان کی اور آگ کی ایک ہی وحدت ہے، اور جیسے وہ انگاروں کی طرح الگ الگ ہیں اس میں ان کی انفرادیت مٹی ہوئی نہیں ہے، اور زبردست حکمت اسی میں ہے کہ وحدت بھی ہو اور دوئی وکثرت بھی ہو، ورنہ قصۂ عاشق و معشوق ختم ہوجائے گا، اور پھر وہی تنہائی ہوگی جو کسی مثال کے مطابق نہ معلوم شاید پہلے کبھی تھی، نیز یہ بھی ہے کہ اگر خدا چاہتا تو اس حقیقتِ حال کے برعکس اشارہ فرماتا کہ اس آگ سے جو بھی واصل ہوگیا وہ ایسا واصل ہوگیا کہ اب اس کی اپنی کوئی انفرادیت باقی نہیں رہی کہ اس کا کوئی ذکر کیا جائے۔

قرآن کہتا ہے کہ خداوندِ تعالیٰ مومنین کو اپنی نورانی صفات کی رنگینیوں میں رنگتا ہے (۰۲: ۱۳۸) پس ہم اس حقیقت کو بھی آگ اور لوہے کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں، چنانچہ ہم ان دونوں آیتوں کو ایک دوسرے کی تفسیر قرار دے سکتے ہیں، اور وہ یوں کہ ہم کہیں: جو آتشِ طور کے اندر ہیں و ہ صفاتِ خداوندی کی رنگینیوں سے پُر ہیں، اور جن کو اللہ تعالیٰ نے “صِبغۃ اللّٰہ  ۰۲: ۱۳۸” کی نورانیّت سے رنگین بنایا ہے وہ بڑے بابرکت ہیں، کیونکہ ان دونوں

 

۳۶

 

میں سے ایک آیت میں برکت کا ذکر ہے اور دوسری میں رنگینی کا۔

مجھے یقین ہے کہ آپ حکمت کے ان خاکوں کو اچھی طرح سے سمجھ کر ان میں رنگ بھردیں گے، تاکہ ایک بہت ہی خوبصورت نقشہ تیار ہوجائے، امید ہے کہ آپ میرے تمام علمی خطوط کا مطالعہ کریں گے۔

 

فقط بہت سی دعاؤں کے ساتھ

عزیزوں کا علمی خادم

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۱۶؍اپریل ؁۱۹۸۲ء

 

۳۷

 

یک حقیقت

 

“یک حقیقت” ایک فارسی مرکب لفظ ہے، جو مونوریالزم کا ترجمہ ہے، اور یہ اُلوہیت (Divinity) کے تاویلی تصوّر کی اصطلاح ہے، یہ تصوّر دراصل دورِ قیامت کے سب سے عظیم علمی اور عرفانی انقلاب کا حامل ہے، کیونکہ قیامت کے ظاہراً و باطناً بہت سے انقلابی پہلو ہوا کرتے ہیں، اور منجملہ (Out of all) ایک یہ بھی ہے کہ امامِ اقدس و اطہر صلوات اللہ علیہ نے اپنے علمی معجزات میں سے اہلِ جہان کے سامنے ایک ایسا قیامت خیز تصوّر پیش کیا، جو کسی اور سے اس کا امکان ہی نہ تھا۔

آپ اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں کہ بربنائے مصلحت و حکمت امامِ عالیمقامؑ کے پاک ارشادات نہ صرف زمان و مکان کے تقاضوں کے مطابق ہوا کرتے ہیں، بلکہ ان میں انسانی ذہن و شعور کے مختلف درجات اور لوگوں کی عقلی رسائی کی جدا جدا سطحیں بھی پیشِ نظر رہتی ہیں، چنانچہ امامتِ عالیہ کی بعض ہدایات کا خاص تعلق جماعت سے ہوتا ہے، اور کچھ تعلیمات کا رخ اعلانیہ طور پر دنیا بھر کے لوگوں کی طرف ہوتا ہے،

 

۳۸

 

مگر یہ بحث اس موضوع سے الگ ہی ہے کہ کوئی کتنا سنتا ہے یا کیا کہتا ہے، سو یک حقیقت  (Monorealism) کے باب میں جیسا کہ امامِ برحقؑ نے ارشاد فرمایا ہے وہ دنیا والوں کے سامنے اظہر من الشمس ہے، جبکہ یہ فرمانِ عظیم امام کے ایسے فرمودات میں سے ہے، جس کا تعلق بین الاقوامی سطح سے ہوتا ہے۔

یہ نظریہ اور تصوّر ہی کی بات ہے کہ لادینیّت سے  بُت پرستی اچھی ہے، کیونکہ بت پرستی میں کسی برتر ہستی کا تصوّر ضرور ہوتا ہے، بت پرستی کو ترک کرکے کسی پیغمبر کی پیروی کرنا بڑی سعادت اور عقلمندی کی بات ہے، جب حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پاک و پاکیزہ نبوّت و رسالت کا زمانہ آیا، تو اہلِ ادیان پر یہ واجب تھا، کہ وہ سرورِ انبیاء صلعم کے دستِ مبارک پر دینِ مبینِ اسلام کو قبول کریں، کیونکہ اسلام نے خدا کے آخری دین کی حیثیت سے تمام سابقہ ادیان میں بڑے پیمانے پر ترمیمات و اصلاحات کیں، اور اس کی تعلیمات میں ترقی ہوتی رہی، اور یہ ایک روشن حقیقت ہے، کہ جس طرح مثال کے طور پر لادینیّت اور دہریّت سے تصوّرِ دین الگ ہوکر نشوونما پانے لگا، سابقہ انبیاءعلیہم السّلام کے زمانوں میں بُت پرستی اور حق پرستی کے درمیان بحث سے جو آسمانی وحی کی روشنی میں ہوتی تھی اس

 

۳۹

 

تصوّر کو بھرپور قوّت ملی، اسی طرح اسلام میں اس کو کمال حاصل ہوا، أئمّۂ اہلِ بیت کی ظاہری و باطنی تعلیمات کے زیرِ اثر تصوّف کے عروج کے زمانے میں تصوّرِ اُلوہیت کے لئے خاص خاص اصطلاحیں مقرّر ہوئیں، جیسے حقیقتِ حقائق، ہمہ اوست وغیرہ، اور آج اسی طرح “یک حقیقت” کا تصوّر تو اس عروج وارتقاء کی چوٹی پر ہے۔

یہ حقیقت مانی ہوئی ہے کہ اسلام دینِ فطرت ہے، اور فطرت کی ایک عمدہ اور قابلِ فہم مثال یہ ہے کہ کسی میوہ دار درخت میں سب سے پہلے غنچہ پیدا ہوتا ہے، پھر تازہ پھول، پھر کچا پھل، پھر پکا پھل، اور بالآخر اس میں مغز پک کر تیار ہوجاتا ہے، جو باطن کی مثال ہے، جو لذّت و طاقت کے لحاظ سے بے مثال ہے، اور مغز میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ اپنی نوعیت کا ایک درخت اگائے۔

اس بیان سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ سیّارۂ زمین پر بسنے والوں کے دینی تصوّرات کی ایک بہت بڑی تاریخ ہے، جس میں رفتہ رفتہ اس تصوّر کی ترقی ہوتی آئی ہے، اور یہ عصرِ حاضر میں “یک حقیقت” کے نام سے ترقی و عروج کی معراج پر پہنچا ہوا ہے۔

 

۴۰

 

یک حقیقت کے حکمت آگین تصوّر میں اہلِ دانش کے لئے حقائق و معارف کی نقاب کشائی کی گئی ہے، اور خدائی اسرار کی تمامتر کلیدیں پردۂ غیب سے باہر لائی گئی ہیں، توحید کے خزائن سے جوکچھ بحدِّ قوّت عطا ہونا چاہئے وہ عطا فرمایا گیا ہے، اب اس اُمید و یقین کو آگے بڑھانے کا کام بندوں کے ذمّہ ہے کہ وہ علمی روشنی کے کس درجے میں اس تصوّر پر نظر رکھتے ہیں۔

ظاہر میں ایسا لگتا ہے کہ ہر ماننے والا گروہ چشمۂ پاکِ قرآن سے اپنی نظریاتی زمین کی طرف تعلیمات (تفسیرات) کی ایک نہر تعمیر کرسکتا ہے، مگر کوئی حقیقی مہندس ہی یہ بتا سکتا ہے کہ سب سے پائیدار نہر کون سی ہے۔

ہمیں یک حقیقت کی کوئی مثال بھی تو چاہئے، تاکہ اس کی مدد سے اصل مطلب کے سمجھنے میں آسانی ہو، چنانچہ جاننا چاہئے کہ انسان خود بھی ایک بے مثال حقیقت ہے، وہ حقیقت آدمی کی خودی اور “انا” ہے، جو ایک وحدت کی صورت میں ہے، جس نے جسم و جان اور عقل کو ایک کرلیا ہے، وہ انائے عُلوی بھی ہے اور انائے سفلی بھی، جسم کے تمام ذرّات کی یگانگت بھی ہے، اجزائے روح کی وحدت بھی اور عقل کے بکھرے ہوئے موتیوں کی سالمیّت

 

۴۱

 

بھی، اور چیزوں کو ایک کردینا اس کی صفت اور شان ہے۔

اس سلسلے میں قرآنِ حکیم کا ایک پُرحکمت مفہوم زبردست ممدّ ومعاون ہوسکتا ہے کہ خداوندِ عالم نے انسانِ اوّل کی تخلیق کے ساتھ ساتھ سب انسانوں کو پیدا کیا تھا، یہ بڑی عجیب بات ہے کہ اس وقت تمام لوگ نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸ یعنی انسانِ کامل) کے وجودِ روحانی کے ذرّات تھے، اور سارے کے سارے ایک ہی “انا” کی وحدت سے منسلک تھے، وہاں پر کثرت کا نام و نشان ناموجود اور وحدت ہی وحدت تھی، مگر بعد میں یہ سب بشکلِ کثرت ظہور پذیر ہوگئے، اور آخر کار پروردگارِ عالم جملہ نفوسِ خلائق کو بارِ اوّل کی طرح نفسِ واحدہ کی “انا” کے تحت دوبارہ زندہ کردینے والا ہے، یہ مونوریالزم کی ایک شاندار قرآنی حقیقت ہے۔

اس مقام پر عددی منطق کی ایک مثال بھی پیش کی جاتی ہے، کہ ایک ہزار (۱۰۰۰) کے عدد پر تین صفر ہیں اور ایک واحد کی شکل ہے، اس کی حکمت یہ ہے کہ ہزار تک تمام اعداد اپنی شکلوں سے فنا ہوکر ہزار کے ساتھ ایک ہوگئے ہیں کیونکہ صفر کے معنی ہیں فنا، یعنی دنیائے اعداد دس (۱۰) پر جاکر فنا ہوجاتی ہے، پھر یہ سب کچھ سو (۱۰۰)  پر پہنچ کر فنا ہوجاتا ہے، پھر ایک ہزار(۱۰۰۰) پر، علیٰ ہٰذا القیاس، اور

 

۴۲

 

ہر بار ایک کی ذات باقی رہتی ہے، یہ کُلُّ شَیْئٍ ہَالِکٌ اِلَّاوَجْہَہٗ ط (۲۸: ۸۸) کی تاویل ہے، اور یہی مونوریالزم ہے، کہ سب کی وحدت ایک کی وحدت ہے اور ایک کی وحدت سب کی، صفر کو ایک کا سہارا ہے، اور صفر تنہا کچھ نہیں، یعنی الگ ہو تو اس کی کوئی قیمت نہیں، جیسا کہ حضرت بابا سیّدنا کا قول ہے:

زہر کم کمترم گربی تو باشم

زگردُون برترم گربا تو  باشم

یعنی اگر میں تیرے بغیر رہا تو ہر چیز سے کمتر ہوں، اور اگر میں تیرے ساتھ ہوں تو آسمان سے بھی بالاتر ہوں، مطلب یہ ہے کہ مونوریالزم کی مثال قوانینِ اعداد سے بھی روشن ہوجاتی ہے، جبکہ دس (۱۰)، سو(۱۰۰)، اور ہزار (۱۰۰۰) جیسے اعشاریہ ہندسوں میں باقی سب اعداد فنا اور گُم ہوجاتے ہیں، جس کی بدولت ان کی وحدت ایک کی وحدت ہوجاتی ہے اور ایک کی وحدت ان کی وحدت بن جاتی ہے۔

ہمارا جسمانی وجود ۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، اور ۹ میں سے کسی درجہ کا عدد ہے، اور ہماری روح صفر ہے، مگر یہ معلوم نہیں کہ روح کا یہ صفر کہاں ہے، اگریہ ایک کے قرب و حضور میں ہے تو اس سے زیادہ اور کیا چاہئے، اور اگر یہ اس سے الگ کہیں دور ہے تو نہ ہونے کے برابر ہے، لہٰذا ہمیں ۲ سے ترقی کرکے ۸ اور

 

۴۳

 

۹ میں جانا چاہئے، اور وہاں سے ایک میں فنا ہوجانا چاہئے، تاکہ ہم نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) میں زندہ ہوجائیں گے، کہ سب کو اسی میں دوبارہ زندہ ہوجانا ہے۔

اس بیان سے جو کچھ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے، اس کی دوامکانی صورتیں قابلِ غور ہیں، چنانچہ اوّل یہ کہ آیا یہ ممکن ہے کہ وحدت سے ایک مستقل کثرت پیدا ہو، اور ایسی کثرت اپنے وجود سے فنا ہوکر وحدت میں مدغم بھی ہوجائے؟ یا یہ ہوسکتا ہے کہ وحدت سے کسی طرح کی بھی کثرت پیدا نہ ہو، مگر اس سے وحدتِ کثرت نما کا ظہور ہو؟ اور یہی دوسری صورت بالکل درست اور صحیح ہے، کیونکہ جہاں اعداد کے سلسلے میں ایک کے بعد دو ہے، وہاں دو کا اپنا کوئی مستقل وجود ہی نہیں اور نہ ہی اس کی دوئی کوئی مستقل شیٔ ہے اس حقیقت کا یقین اس وقت ہوسکتا ہے، جبکہ آپ دو کا تجزیہ کریں گے، ظاہر ہے کہ دو سے ایک کو دو دفعہ اٹھا لینے سے نہ تو دو کا وجود باقی رہتا ہے اور نہ ہی کوئی دوئی رہتی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ دومیں ایک پوشیدہ تھا اور یہ وحدتِ کثرت نما کی ایک بہترین دلیل ہے۔

یہ ہے “یک حقیقت” کی ایک تشریح اور انائے انسانی

 

۴۴

 

کی وحدت کی مثال، کہ وہ اپنی روح کے لاتعداد ذرّات کے باؤجود ایک ہی ہے، پس جاننا چاہئے کہ مونوریالزم کا ایک مکمل نمونہ انسان میں موجود ہے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۱۲؍مئی ؁۱۹۸۲ء

 

۴۵

 

ذرّۂ خدا ہماری کائنات

 

معلوم نہیں یہ دل کبھی تو گُلِ بے آب کی طرح مرجھا جاتا ہے، اور کبھی غنچۂ سیراب کی طرح خندان و شادمان ہوجاتا ہے، مولا اپنے خزائنِ نوازشات سے میرے عزیزوں کو دائم نوازا کرے، جنھوں نے مجھے آج ایک خط کے ذریعہ یہ حوصلہ دیا کہ میں کچھ علمی باتیں لکھوں۔

“ذرّۂ خدا ہماری کائنات” کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی چھوٹی سے چھوٹی رحمت بھی ہمارے لئے ایک کائنات کے برابر ہے، اللہ اکبر کے معنی یہ ہیں کہ اس کی ہر صفت بیحد عظیم ہے، اسی طرح اس کی رحمت و مہربانی بہت عظیم ہے، سو ہوشمند مومن کو چاہئے کہ وہ ہر آن پروردگار کی ایک رحمت کو حاصل کرے، یہ رحمت بظاہر بہت ہی چھوٹی سہی، مگر باطن میں بے اتنہا عظیم ہوگی، کیونکہ رحمتِ خداوندی آسمانی سیڑھی جیسی ہے، کہ ایک زینہ کے بعد دوسرا زینہ آتا ہے تا آنکہ یہ سیڑھی زینہ بزینہ آسمانِ معرفت تک جاتی ہے۔

“ذرّۂ خدا” حقیقی اور روحانی علم کی ایک چھوٹی سی بات ہے،

 

۴۶

 

یہ چھوٹی اس معنیٰ میں ہے کہ بہت ہی مختصر ہے، عام لفظوں میں ہے، اور بشر کے چھوٹے سے منہ سے ہے، مگر یہ اپنی جامعیّت اور قدر و قیمت میں عظیم ہی ہے، اور عجیب ہے کہ بعض دفعہ یہی ایک نکتہ بہت سے سوالات کے لئے جوابات مہیّا کردیتا ہے، یہ گویا سو بیماریوں کی واحد دوا تھی، بلکہ سو خزانوں کی ایک ہی کلید، اے کاش! مجھ سے ذرّۂ خدا کی کوئی تعریف ہوسکتی، میں نے تو اپنے کم مایہ لفظوں سے اس کی مرتبت کم کردی۔

ذرّۂ خدا نیک توفیق ہے، سو ہر وقت نیک توفیق طلب کی جائے، اگر حق تعالیٰ سے ذرّہ برابر توفیقِ نیکی عطا ہوتی ہے، تو اس کو ہر گز نظر انداز نہ کیا جائے، کیونکہ یہ توفیق بندۂ مومن کو دوسری توفیق تک پہنچا دینے والی ہوتی ہے، اور یہ ایک نورانی زنجیر ہے جس کی لاتعداد کڑیاں ہیں اور یہ سلسلہ یعنی زنجیر حلقہ بہ حلقہ (کڑی کڑی) خدا تک پہنچتی ہے۔

ذرّۂ خدا بہ ارشادِ امامِ اقدس و اطہر نور کی چنگاری ہے، جو ہر بندۂ مومن کے دِل میں موجود ہے، یہ ہے تو ذرّہ، مگر اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ صحیح پرورش کے بعد یہ ایک مکمل نور بن جاتا ہے، اشاراتِ قرآن میں ہے کہ شروع شروع میں روشنی بہت ہی معمولی اور کم دکھائی دیتی ہے، مگر یہ رفتہ رفتہ نورِ خدا

 

۴۷

 

بن کر سامنے آتا ہے، قصّۂ قرآن میں نورِ طور کا واقعہ پڑھاجائے۔

ذرّۂ خدا آسمانِ علمِ الٰہی کے نورانی بادلوں کا ایک قطرہ ہے، وہ بیشک ایک بوند ٹپکتی ہے، مگر اس سے دل میں ایک دریا موجزن ہوجاتا ہے، ایک ایسا لفظ جو تمام الفاظ کا بادشاہ بن کر جملہ مطالب کا مرکز بنے، ایک ایسی مثال جس کی تمام مثالیں غلامی اختیار کریں، ایک ایسا کلمہ جو عالمِ امر کی بلندیوں کو چھوجائے، اور ایک ایسا خزانہ کہ بس علم کا آخری سرچشمہ وہی ہو۔

جان رکھنا کہ علم جہاں اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے تو وہ وہاں پھیلتے پھیلتے آتا ہے، اور جس طرح یہ نیچے سے اوپر کی طرف بلند ہوجاتا ہے تو یہ سمٹتے سمٹتے چلاجاتا ہے تا آنکہ یہ ایک موتی اور ایک کلمہ میں یکجا ہوجاتا ہے، موتی گوہرِ عقل ہے اور کلمہ ہے کلمۂ باری۔

جس طرح علم کی بلندی کی طرف جانے میں فائدہ ہے اسی طرح علم کی پستی کی طرف جانے میں نقصان بلکہ بڑا نقصان اور باعثِ گمراہی ہے، اور علم کی پستی مقامِ اختلافات ہے، جہاں سے لوگ کبھی چھٹکارا نہیں پا سکتے ہیں، اور خداوندِ عالم کے ارشادات میں سے ایک کا مفہوم یہ ہے کہ خدا جس کو چاہے تو علم میں گمراہ کردیتا ہے، اس کا اشارہ علم کی سب سے نچلی سطح کی طرف ہے، جہاں اختلافاتِ روایات کا طوفان موجود ہے۔

 

۴۸

 

پائیناب ترکی میں اس پانی کا نام ہے جو کسی باغ یا کھیت کو سیراب کرکے نکلتا ہے، یہ لفظ اصل میں “پائین آب” ہے جو فارسی ہے، بروشسکی میں اس کا ترجمہ “ھُرْݼِل” ہے جو یَن چل کے برعکس ہے، لوگ ہر جگہ پائین آب یعنی ھُرْݼِل کووہ اہمیت نہیں دیتے ہیں جوصاف نہر کے پانی کو دی جاتی ہے، اس دنیا میں حضرت مولانا مرتضیٰ علی صلوات اللہ علیہ کا ایک پسندیدہ کھیت اور ایک خوبصورت باغ ہے، جس کی آبیاری بحکمِ خدا پیغمبرؐ اور امامؑ کرتے ہیں، اور مذہبِ حقّہ کی زمین سے “پائین آب” یعنی ھُرْݼِل دنیا والوں کی طرف جاتا ہے، اب یہ پائین آب ہماری اس زمین کو نہیں چاہئے۔

عزیزانِ من! روحی فداکم! اس ناچاردرویش کو لفظِ ذرّہ بہت ہی پیارا ہے، وجہ ظاہر ہے کہ اس نے ذرّہ اور ذرّات میں بہت کچھ دیکھا، اور وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کے عزیزان ذرّہ کی حکمت کو سمجھیں، وہ ذرّہ ذرّہ عبادت میں ترقی کریں اور ذرّہ ذرّہ علم میں آگے بڑھیں، وہ ذرّہ بھر غفلت کو گناہ سمجھیں تاکہ کامیابی ہو۔

یاد رکھوکہ دین کے اعلیٰ کتب میں جو علم کی خاص خاص باتیں ہیں وہ امامِ اقدس کے ارشاد کی توضیحات ہیں، اسی لئے کہتا ہوں کہ یہ باتیں

 

۴۹

 

نورِ منتشر کی طرح ہیں، پس جو مومن دینی علم کے نور کو کثرت سے جذب کرے، وہ ان شاء اللہ ایک دن اپنے اندر عملی نور کو پائے گا اور وہ بیحد مسرور و شادمان ہوگا۔

عزیزانِ من! اگر دنیاوی طور پر کوئی دکھ ہو تو اس کی پروا نہ کرنا، کیونکہ آج دنیا میں جو جو لوگ مادّی اور جسمانی طور پر بڑے سکھی ہیں مگر ان کو ایمان کی سعادت حاصل نہیں تو حقیقت میں وہی لوگ بڑے دکھی اور بدقسمت ترین ہیں، اور آپ کے ایمان اور حقیقت کی جو دولت ہے وہ ایسی گرانقدر اور لازوال ہے کہ پوری دنیا کی بادشاہت اس دولت کے ایک ذرّے کے برابر نہیں، پس جب بھی ہم دنیا کی کسی تکلیف سے جزع فزع کرتے ہیں تو یہ ہماری نادانی ہے۔

میرے بہت ہی پیارے بچو! امامِ عالیمقامؑ کے ہر ہر فرمان کا مطالعہ کرنا، اور روحانی ترقی سے متعلق ارشادات کو جن سے حوصلہ ملتا ہے خاص طور پر پڑھنا، یاد رہے کہ مومن ہمیشہ عالی ہمت ہوا کرتا ہے، وہ ہر روز صبح نورانی وقت میں جاگا کرتا ہے، انسان جو اپنے درجے سے آگاہ نہیں اور جو سست و غافل ہے، وہ حیوانیت کی پستی میں گر کر تباہ ہوجاتا ہے، خداوندِ عالم جملہ مومنین و مومنات کو اس حالت سے بچائے اور نورِ ہدایت کی روشنی میں آگے بڑھائے۔

 

۵۰

 

خداوندا! خداوند! ہمارے عزیزان ہر وقت اس درویش کی دستگیری کرتے ہیں، وہ اس چھوٹی سی علمی خدمت کو آگے بڑھاتے ہیں، وہ ہمیشہ تیری رضا چاہتے ہیں، سو ان کو نوازنا! آمین یا ربّ العٰلمین!!

 

فقط دعاگو

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۲۳؍مارچ ؁۱۹۸۲ء

 

۵۱

 

قصّۂ آدمؑ کے جامع الجوامع اور پُرحکمت الفاظ

 

قرآنِ مقدّس میں حضرت آدم علیہ السّلام کا قصّہ عظیم حکمتوں سے بھر پور اور بہت سے اعتبارات سے کلیدی اہمیت کا حامل ہے، اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو یہ قصّہ جو اسرارِ ربّانی سے مملو ہے نہ صرف دین کے آغاز کی نمائندگی کرتا ہے، بلکہ یہ اس کے انجام کا بھی آئینہ دار ہے، لہٰذا ہر دانشمند مومن پر واجب ہے کہ وہ اس میں زیادہ سے زیادہ غور و فکر کرے، تاکہ وہ اصولی اور بنیادی نوعیت کے اسرارِ خداوندی سے باخبر ہوسکے۔

آج ہم یہاں اس سلسلے میں بتوفیقِ خداوندِ برحق اور پنچتنِ پاک کے صدقے سے حقیرانہ سعی کرتے ہیں، کہ شاید یک حقیقت کی پیاری پیاری روحیں ہمارے لئے تائیدی فرشتوں کا کام کریں، اور اس بحرِ عمیق سے کچھ گوہرِ گرانمایہ ہاتھ آئیں۔

 

رَبّ: قصۂ آدم و آدمیّت کے جملہ الفاظ میں نورِ مبین اور آفتابِ یقین اسمِ “ربّ” ہے، جو خدائے واحد و یکتا کا بابرکت نام

 

۵۲

 

ہے، جس کا مطلب پروردگارِ عالمین ہے، یہ پاکیزہ نام اپنے ظاہری اور باطنی معنوں میں ہرگونہ پرورش کی ضمانت رکھتا ہے، اور اس میں آسمانی رحمتوں اور محبتوں کا تصوّر پوشیدہ ہے، کیونکہ جسمانی مثال میں جہاں والدین اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں وہاں پدرانہ و مادرانہ شفقت و محبت لازمی ہوتی ہے، اور خداوندِ عالم اپنی مخلوق پر نہایت ہی مہربان اور انتہائی پاک و اعلیٰ محبتوں کا سرچشمہ ہے، چنانچہ ربّ کے مختلف معنوں کے تحت کائنات و موجودات کی پرورش ہوتی رہتی ہے، یعنی پروردگار سب کو مختلف مدارج پر پالتا ہے، اور اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ ربِّ کریم مخلوق کو جسمانی، روحانی اور عقلی پرورش کے طویل سلسلے میں درجۂ انتہا تک پہنچا سکتا ہے۔

قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں آیاتِ کریمہ دعائیہ انداز میں وارد ہوئی ہیں وہاں وہ اکثر “ربّ” کے مبارک نام سے شروع ہوجاتی ہیں، خدا شناسی جو دینِ حق میں مقصدِ جمیعِ مقاصد کا درجہ رکھتی ہے، وہ جملۂ اسماء اللہ میں سے اسمِ “ربّ” کے عنوان کے تحت ہے، یعنی ارشاد ہے کہ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہ‘ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ‘۔

اس موضوع کے سلسلے میں قرآنی تفصیلات میں جانے سے قبل سورۂ فاتحہ پر نظر ڈالی جائے کہ یہ اُمّ الکتاب ہے، اس لئے یہاں

 

۵۳

 

جو کچھ ہوگا وہ بڑا جامع اور سمجھنے کے لئے آسان ہوگا، چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس پاک سورہ میں صرف چند اسماء اللہ نمایان ہیں، باقی پوشیدہ ہیں، اور جو ظاہر ہیں ان میں سب سے پہلے “اللہ” ہے، اور اس کے بعد “ربّ” ہے، مگر اللہ ایسا نام ہے کہ اسمِ صفت ہونے کے باوجود اسمِ ذات  کی جگہ استعمال ہوتا ہے اس لئے خواص کے سوا دوسرے درجے پر اس سے کچھ بھید نہیں کھل سکتے ہیں، اور ربّ ایسا نام ہے کہ یہ عام سے عام اور خاص سے خاص ہوکر اپنے بہت سے مفہومات کو واضح کردیتا ہے، نیز آپ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اللہ کی ساری تعریف ربّ کے اسم میں ظاہر ہوجاتی ہے، اور الحمد میں دوسرے جتنے بھی خدا کے نام ہیں وہ “ربّ” کے اسم کی تشریح ہیں، مثلاً یہاں اس ربطِ کلام میں رحمان اور رحیم کا یہ مطلب ہے کہ اللہ جو ہر ہر عالم کا پروردگار (یعنی پرورش کرنے والا) ہے وہ بڑا مہربان اور رحم والا ہے، اس لئے انسان کی روحانی اور عقلی پرورش کے وسیلے کو ہر وقت مہیّا رکھنا چاہتا ہے اور اس کو درمیان سے اٹھا لینا اس کے قانونِ رحمت کے خلاف ہے۔

نیز رحمان و رحیم کا ایک اہم اشارہ یہ بھی ہے، کہ اسمِ ربّ کے مظہر یعنی خلیفۂ زمانؑ سے محبت ہو تو روحانی اور عقلی پرورش

 

۵۴

 

حاصل ہوسکتی ہے، کیونکہ رحمان و رحیم کے دونوں نام ـ “رحم” کے مادّہ سے ہیں اور رحم کے معنی مہر (محبت) کے ہیں، آپ اس مطلب کی تحقیق کرسکتے ہیں، مثلاً (۳۰: ۲۱) کو دیکھیں کہ رحمت کے معنی محبت ہیں۔

مزید کہنا یوں ہے کہ الحمد میں جس طرح رحمان و رحیم کے دونوں اسم ہیں وہ اپنے معنوں میں روحانی اور عقلی پرورش سے متعلق جتنی بھی مایوسی ہے اس کو ختم کردیتے ہیں اور زبانِ حکمت سے کہتے ہیں کہ اللہ رحمان و رحیم یعنی نہایت ہی مہربان (مہروالا) اور رحم والا اس معنیٰ میں ہے کہ اس نے اسی زمین پر ہی اپنا خلیفہ جو صفتِ ربّ کا مظہر ہے مقرّر فرمایا ہے تو تم بھی انسانی حد کی صفتِ مہر سے (جس کا رحمان و رحیم سے ایک گونہ رشتہ ہے) مظہرِ خدا کے ساتھ رابطہ قائم کرو، تاکہ تمہاری دینی اور دنیاوی ہدایت کا سلسلہ قائم رہے۔

اے عزیزانِ من! آپ خود انڈیکس کی مدد سے یہ ضرور دیکھیں کہ ربّ کا مبارک اسم قرآنِ پاک میں کُلّ کتنی دفعہ آیا ہے، تاکہ اس سے آپ کو بخوبی یہ اندازہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے اس عظیم نام میں اسرارِ ربوبیّت کا ایک بہت بڑا خزانہ پوشیدہ ہے، اس کے علاوہ دینی کتب میں جہاں جہاں ربّ اور ربوبیّت کی تشریح کی گئی ہے اس کو بھی دیکھنا، تاکہ علمِ دین کی روشنی میں اضافہ ہو۔

 

۵۵

 

آپ میرے اس اہم موضوع کو بنیاد سے سمجھنے کے لئے قرآنِ پاک کی سورتِ بقرہ آیت ۳۰ کو سامنے رکھیں، کیونکہ قصّۂ حضرت آدمؑ یہیں سے شروع ہوجاتا ہے، چنانچہ آپ اس ارشادِ گرامی کو دیکھتے ہیں کہ:

وَاِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِل’‘ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃًط (۰۲: ۳۰) پس اس آیۂ مبارکہ کی عالیشان حکمتوں کی کلیدِ مقدّس لفظِ “رَبُّکَ” میں پوشیدہ ہے، وہ اس طرح کہ خداوندِ عالم جس شخصِ کامل کو زمین پر اپنا خلیفہ بنانے کا ارادہ فرماتا ہے اس کو زیادہ سے زیادہ اسمِ “ربّ” کی نمائندگی دینا چاہتا ہے، تاکہ اس دنیا میں جہاں مادّی طور پر کسی چیز کی کمی نہیں وہاں دینی اور روحانی پرورش کا سرچشمہ بھی ہمیشہ کے لئے مہیّا رہے، تاکہ قیامت کی سب سے بڑی عدالت گاہ میں کوئی فردِ بشر یہ کہہ نہ سکے کہ خدا نے دنیا میں جسمانی پرورش کے ہر گونہ وسائل مہیّا کردیئے تھے، مگر روحانی تربیت کا کوئی وسیلہ موجود اور حاضر نہ تھا۔

رَبُّکَ میں “کَ” کی ضمیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ ربِّ کریم کی عطا کردہ خلافت و نیابت جس کا سب سے بڑا مقصد روحانی اور عقلی پرورش ہے زمانۂ آدم سے چلی آئی ہے اور قیامت القیامات تک اس کو جاری

 

۵۶

 

رہنا ہے، اور یہ حضورِ اکرمؐ اور آپ کے جانشینوں کے پاک سلسلے میں قائم رہے گی۔

یہاں یہ بتا دینا مقصود ہے کہ حضرت آدمؑ کو روئے زمین پر جو خلافتِ الہٰیہ عطا ہوئی تھی وہ سب سے پہلے اور سب سے نمایان طور پر اسمِ “ربّ” کی خلافت و  نیابت تھی، اور اس کے یہ معنی ہیں کہ آپ اہلِ ایمان کی روحانی اور عقلی پرورش کرتے تھے، اور آپ نے جس طرح فرشتوں کو علمِ اسماء کی تعلیم دی یہ روحانی اور عقلی پرورش ہے، اور یہ کام یعنی فرشتوں کو تعلیم دینا خلیفۂ خدا کے سوا کوئی نہیں کرسکتا ہے۔

 

ملائکہ: اس آیۂ مقدّسہ میں، جو قصّۂ آدم علیہ السّلام سے متعلق ہے، ترتیب کے لحاظ سے دوسرا لفظ “ملائکہ” ہے، جو مَلک کی جمع ہے، جس کا مطلب ہے فرشتے، جن میں عزازئیل بھی تھا، جن کے سامنے خدا تعالیٰ نے اس امرِ عظیم کا اعلان فرمایا کہ وہ پاک و برتر روئے زمین پر اپنا ایک خلیفہ (نائب = جانشین) مقرّر کردینے والا ہے، اب یہاں ان فرشتوں کے بارے میں انتہائی گہرے سوالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ وہ فرشتے کون سے تھے جمالی یا جلالی؟ یعنی آیا ان میں عقلِ کلّی، نفسِ کلّی اور حاملانِ عرش جیسے عظیم فرشتے بھی تھے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ان فرشتوں سے ایسے لوگوں کی روحیں مراد ہوں جو زمانۂ

 

۵۷

 

آدم سے تعلق رکھتے تھے؟ اور اگر جواب یہی ہوا تو بیشک ہم اس موضوع میں آگے چل سکتے ہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:

وَکَذَالِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّ ا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ۔۔۔(۰۶: ۱۱۲)۔

اور اسی طرح ہم نے انسی اور جنّی شیاطین کو ہر نبی کا دشمن بنایا وہ لوگ ایک دوسرے کو چکنی چپڑی باتوں کی سرگوشی کرتے ہیں تاکہ اس سے فریب دینے کا کام چلے۔

اس پُرحکمت آیت سے اوّل تو یہ ظاہر ہے کہ ہر دور اور ہر زمانہ کے شیاطین الگ ہوتے ہیں، یعنی ہر نبی اور ہادی کے دشمن ہی شیاطینِ انسی کہلاتے ہیں، اور ان کی بدبخت روحیں شیاطینِ جنّی ہوتی ہیں، دوسرا یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اسی اٹل قانونِ خدائی کے مطابق زمانۂ آدم میں بھی کچھ نافرمان اور شریر لوگ تھے، وہ جسمانی طور پر حضرت آدمؑ کے لئے انسی شیاطین تھے اور روحانی طور پر جنّی شیاطین، روحانی شیطان اور جسمانی شیطان کے آپس میں سرگوشی ظاہر ہے، مگر ذرا باریک نکتہ اس حقیقت کے جاننے میں ہے کہ کس طرح روحانی شیطان اور جسمانی شیطان ایک دوسرے کو سرگوشی کرتے ہیں، وہ یہ ہے

 

۵۸

 

کہ شیطان شخص کی شخصیت اپنی بدنصیب روح یعنی نفس کے وسوسے کے تحت ہے، بالکل اسی طرح شخصیت کے قول و فعل سے اشارہ (یُوْحِیْ ۰۶: ۱۱۲) نفس کو ملتا رہتا ہے۔

جب یہ مطلب صاف اور روشن ہوا کہ زمانۂ آدم کے منکر لوگ جو انکار میں پیش پیش تھے اور جن کی حضرت آدم سے دشمنی تھی، وہ جسمانیّت میں شیاطینِ انسی کہلاتے تھے نفسِ شوم کی طرف شیاطینِ جنّی، تو اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت کے مومنین جسم میں جسمانی فرشتے اور روح میں روحانی فرشتے تھے، اور قصّۂ آدم کی ساری حقیقتیں اسی تصوّر کے مطابق ہیں، اور متعلقہ سوالات اسی روشن تصوّر کی بدولت حل ہوجاتے ہیں۔

قصّۂ آدم کے ظاہری اور باطنی دو پہلو ہیں، اس لئے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام کے دو عظیم مرتبے ہوتے ہیں، مرتبۂ ظاہر اور مرتبۂ باطن، چنانچہ آدم صفی اللہ پر باطن اور روحانیّت میں جو عظیم عظیم واقعات گزرے تھے وہ ظاہری حالات سے کہیں زیادہ عجیب و غریب، پُرحکمت اور اسرارِ معرفت سے بھر پور تھے، لہٰذا یقین رکھنا چاہئے کہ قصۂ آدم کا زیادہ سے زیادہ تعلق تاویلِ باطن کے ساتھ ہے۔

 

۵۹

 

یہاں پر ایک مثال درج کی جاتی ہے تاکہ جس سے ہر ہوشمند کو یہ اندازہ ہو کہ کس طرح حضرت آدم کے قصّے میں تاویل کا زیادہ رجحان ہے، اور وہ مثال یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں لفظِ “سجدہ” اپنے معنی کے لحاظ سے جو جھکنے اور اصطلاحاً سربسجود ہوجانے سے متعلق ہیں، کامل اور مکمل ہے اور قرآن کے بہت سے مقامات پر جہاں کسی قسم کے سجود کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں لفظِ سجدہ اپنے کسی بھی صیغے کی شکل میں اکیلا ہی استعمال کیا گیا ہے، لیکن جہاں آدم کے لئے فرشتوں کے روحانی سجدے کا ذکر ہے وہاں پر اللہ کے حضور سے سجدے کا صیغۂ امر مخصوص انداز سے اور دو لفظوں میں فرمایا گیا ہے، اور وہ ہے:

فَقَعُوْالَہ‘ سَاجِدِیْنَ (۱۵: ۲۹؛  ۳۸: ۷۲) اس میں غور طلب اور تاویلی لفظ قَعُوْا ہے جو وَقَعَ کے مادّہ سے ہے، جس میں گرجانے کے لئے حکم ہے اور ساجدین میں سجدہ کرنے کا حکم ہے جو تنہا  اُسْجُدُوْا کی صورت میں کافی ہے، مگر یہاں جس طرح یہ دونوں لفظ مل کر آئے ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ عالمِ ذرّ (روحانی عالم) میں ارواحِ مومنین کے ذرّات نے خلیفۂ خدا کے لئے جس طرح سے سجدۂ تعظیم واطاعت بجالایا، اس کی کیفیت یہ تھی کہ یہ ذرّی فرشتے جو کوکبی جسم اور روح سے مرکب تھے آدم کے پاک جسم میں

 

۶۰

 

گر پڑے۔

اس سلسلے میں سب سے اہم اصولی بات یہ ہے کہ ہم ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی آئینۂ اُسوۂ رسولؐ کو سامنے رکھیں، کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کسی شک کے بغیر جملہ انبیائے کرام کے روحانی فضائل کا مجموعہ تھے، کیونکہ پاک حدیث میں انبیاء علیہم السّلام کو نفسِ واحدہ کہا گیا ہے اور نبوّت کا کامل و مکمل ظہور آنحضرتؐ کی پاکیزہ شخصیت میں ہوا ہے، اور انہی معنوں میں قرآنی ارشاد ہے کہ:

لَانُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہِ (اور کہتے ہیں کہ) ہم خدا کے پیغمبروں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے(۰۲: ۲۸۵) مطلب یہ ہے کہ اگر عظیم پیغمبروں کے روحانی مشاہدات اور روحانیت الگ الگ ہوتی تو معرفت کے جدا جدا حصے بخرے ہوتے تو کسی ایک میں بھی کامل ہدایت و  معرفت نہ ہوتی، مگر یہ بات نہیں ہے، اور مختصر بات یہ ہے کہ سرورِ انبیاءؐ ہر صورت میں آدم کے فضائلِ معنوی رکھتے تھے، اور آخرمیں کہنا یہ ہے کہ آنحضرتؐ بھی روحانیّت میں آدمؑ کی طرح مسجودِ ملائک تھے، کیونکہ آپؐ کی ذات میں خدا نے اپنی پاک روح پھونک دی تھی۔

اب اس تصوّر سے قصّۂ آدمؑ ، شیطان، ملائکہ وغیرہ

 

۶۱

 

پر کافی روشنی پڑتی ہے، کہ زمانۂ رسولؐ کے انسی شیاطین کب اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ پیغمبرِ اکرمؐ سے دشمنی کرنے کی وجہ سے بحکمِ قرآن (۰۶: ۱۱۲) وہ لوگ جسم میں انسی شیاطین اور روح میں جنّی شیاطین قرار پائے ہیں، اور عام مومنین کب یہ کہتے تھے کہ وہ اپنی روحانیّت میں فرشتے ہیں، ان پر یہ راز کہاں ظاہر تھا کہ ان کی روحوں پر زمانۂ آدم کے فرشتوں کے واقعات گزر رہے ہیں، اس دلیل سے یہ معلوم ہوا کہ قصّۂ آدم کا بیشتر حصّہ پردۂ تاویل میں پوشیدہ ہے، اسی لئے کہا گیا ہے کہ اگرچہ بظاہر یہ قصّہ ایک ہی آدم سے متعلق نظر آتا ہے، لیکن از روئے حقیقت یہ بہت سے آدموں کے سلسلۂ غیر متناہی کا قصّہ ہے، جس طرح قرآن میں اسمِ “انسان” واحد کو جمع کے لئے استعمال فرمایا گیا ہے، تو یہ اہلِ دانش کے لئے ایک قابلِ فہم اشارہ ہے کہ بالکل اسی طرح اسمِ “آدم” ہے جو واحد ہے، مگر اس کا مقصد جمع کے لئے ہے۔

 

آپ کا خادم

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

کنیڈا، ۶؍اپریل ؁۱۹۸۲ء

 

۶۲

 

مومن اور اس کے اہل و عیال

 

سورۂ تحریم (۶۶: ۰۶) میں خداوندِ قدوس مومنین اور اُن کے اہل و عیال کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ:

“اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے  لڑکے بالوں کو (جہنم کی) آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہونگے۔‘‘

اس آیۂ مبارکہ میں غور کرنے سے کئی بنیادی حقیقتیں واضح ہوجاتی ہیں، اور سب سے پہلے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ پروردگارِ عالم نے اپنے مومن بندوں کے لئے نجات کے جملہ وسائل مہیّا کردیئے ہیں، اور اگر خدا کی طرف سے کسی چیز کی کمی ہوتی تو ایسا نہ فرمایا جاتا، مطلب یہ ہے کہ بندۂ مومن نہ صرف اپنی جان کی فلاح و نجات کی ذمّہ داری رکھتا ہے بلکہ وہ اس کے علاوہ ایک طرح سے اپنی اولاد کا بھی ذمّہ دار ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ اولاد مومن کی زندگی کا حصہ ہے، اس زندگی میں بھی اور دوسری زندگی میں بھی علاحدگی اور جدائی نہیں، بلکہ اولاد مومن کی جدید اور تازہ تر بشریت و جسمانیت کا درجہ رکھتی ہے، اور

 

۶۳

 

اس میں ہر قسم کی اولاد کی بات آگئی، یعنی جن جن حقیقی معنوں میں والدین اور ان کی اولاد ہوا کرتی ہے، ان سب کے لئے یہ اشارہ کافی ہوگیا کہ بچے والدین کے لئے نئی زندگی اور جدید خوبصورت لباس ہیں۔

چنانچہ مومنین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی دینی اور روحانی پرورش بہتر سے بہتر طریقے سے کریں، اور اس مقدّس فریضہ کی انجام دہی میں ذرا بھی کوتاہی نہ کریں، آپ کو معلوم ہے کہ نورِ امامت کے پاک حضور سے کتنی ایسی روشن ہدایات ہیں، جن میں اولادِ مومن کی دینی اور دنیوی تعلیم و تربیت پر زور دیا گیا ہے۔

اس بندۂ درویش نے بعض مومنوں کو اپنی اولاد کی روحانی تعلیم کے سلسلے میں جس حال میں دیکھا ہے، اس کی ایک مثال یہاں پیش کی جاتی ہے، چنانچہ میرے عزیزِ عزیزان محمد علی نور محمد جناح جو صفِ اوّل کے اسماعیلی جان نثاروں میں سے ہیں جن کی جماعتی خدمات کا قصّہ کافی طویل ہے، جو ادارۂ عارف کی جان ہیں انھوں نے امامِ عالیمقامؑ کے پاک ارشادات کی روشنی میں اپنے فرزندِ دلبند لیاقت علی میں ایمان کی ایسی روح پھونک دی ہے، کہ نوسالہ لیاقت علی جو ایک  خُوبرو اور صحت مند لڑکا ہے، اپنی روزانہ عبادات میں باقاعدہ ہونے کے علاوہ بہت سی دینی باتوں کو جانتا ہے، وہ کلاس فورتھ گروپ A

 

۶۴

 

کا سٹوڈنٹ ہے، جس میں انگریزی اور فرینچ میں تعلیم حاصل کررہا ہے، اور وہ ان دونوں دنیا کی سب سے وسیع زبانوں میں خوب گفتگو کرسکتا ہے۔

میرے چھوٹے دوست لیاقت علی میں بے شمار صلاحیتیں پوشیدہ ہیں، مگر ایک بہت بڑی خوبی جو اس وقت نمایان ہے، جس کو دیکھ کر میں بیحد مسرور و شادمان ہوجاتا ہوں، یہ ہے کہ یہ عزیز ہر صبح بلاناغہ ایک مختصر فرمانِ اقدس کو پڑھ کر سناتا ہے، اس نے اپنے دور اندیش والدِ محترم کی بدولت یہ فریضہ اپنی پیاری عادت میں داخل و شامل کرلیا ہے، اور اب یہ مبارک کام اس کو اور دیکھنے والوں کو بڑا مزہ دیتا ہے۔

اس پیارے گھر میں مذہبی اور روحانی سکون کے بہت سے سامان موجود ہیں، یعنی سب سے پہلے امامِ برحق صلوات اللہ علیہ کے مبارک ارشادات کا ایک بہت عظیم خزانہ، گنانوں کا ذخیرہ، دینی کتب کی لازوال دولت اور مذہبی کیسٹوں کی ایک دنیا، چنانچہ عزیزم لیاقت علی کے لئے خاص کیسٹ بنے ہوئے ہیں، اور پاک دعا کے صحیح تلفظ کیلئے جناب فقیر محمد صاحب ہونزائی کی روح پرورقرأت ریکارڈ کی گئی ہے، جس کو ریکارڈر کے ذریعہ لیاقت علی بار بار سنتا

 

۶۵

 

رہتا ہے، تاکہ تلفّظ درست ہو۔

اس نیک بخت بچے نے ابھی سے مذہبی باتیں نوٹ کرنا شروع کیا ہے، اس مقصد کے لئے اس نے الگ نوٹ بک رکھی ہے، جس میں اس نے کئی باتیں درج کرلی ہیں اور اس میں کہیں کہیں ڈایا گرامز کے خاکے بھی ملتے ہیں، وہ بعض دفعہ سوالات بھی کرتا ہے، جو بڑے گہرے ہوتے ہیں۔

لیاقت علی عرصۂ دوسال تک نائٹ سکول جاتا رہا ہے، حالانکہ مذہبی نائٹ سکول ان کے دولت خانہ سے بہت دور ہے، وہ اپنے والد صاحب کے ساتھ جماعتخانے  جاتا ہے، خداوندِ رحمان و رحیم لیاقت علی اور تمام عزیزوں کو اس سے کہیں زیادہ عالی ہمتی اور ہر طرح کی کامیابی عطا فرمائے! اسی طرح تمام اسماعیلیوں اور ان کی اولادوں کو دین و دنیا کی سعادت حاصل ہو! آمین یاربّ العٰلمین!!

 

فقط دعا گو خادم

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۲۶؍مارچ۱۹۸۲ء

 

۶۶

 

تحفۂ تقدیر و تشکر

 

بخدمتِ جناب علّامہ نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی صاحب

 

محترم و گرامی قدر علّامہ صاحب!

ہر چند کہ ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ محض الفاظ ہمارے احساسات کی ترجمانی نہیں کرسکتے، پھر بھی ہم چاہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں میں آپ نے اپنے قیامِ مونٹریال کے دوران علمی میدان میں ہماری جو تربیت فرمائی ہے، اور اس کے لئے ہمارے اندر جو عمیق احساسات پائے جاتے ہیں، ان کو انتہائی قدر دانی و شکر گزاری کے تحفۂ حقیر کے طور پر الفاظ کی صورت میں قلمبند کرکے پیشِ خدمت کریں۔

جب ہم آپ سے پہلی ملاقات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بلا تذبذب و تردّد یقین ہوتا ہے کہ مولانا حاضر امام علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے اپنی نوازش سے ہمیں اسماعیلی مذہب کے عظیم علمی

 

۶۷

 

خزانے میں بصیرت عطا کرنے کے لئے آپ کو یونیورسٹی آف مونٹریال کے ایک رفیقِ تحقیق (Research Associate) کے بہانے ہماری طرف بھیجا تھا، آپ کو ہماری طرف بھیجنے کی اس مہربانی پر ہم تا ابد اپنے خداوند کے شکر گزار رہیں گے۔

علّامہ صاحب! ماہِ فروری (۱۹۸۲ء) میں آپ کی مونٹریال تشریف آوری کے بعد آپ کے ساتھ مجالس کی خوشگوار اور حیرت انگیز یادوں سے بھر پور ایام اور ہفتے نہایت ہی سرعت و تیزی سے گزر گئے، آپ نے ہمیں گریہ و زاری (کرنے) کی حقیقی خوبی کی تعلیم دی، آپ نے ہمیں ہمارے مقدّس اسماعیلی مذہب کے لاانتہا معجزات سے شنا سا کردیا، اور ہمارے اندر مولانا حاضر امام علیہ افضل التّحیتّہ والسّلام کے لئے والہانہ اور عمیق شوق اور اس ذاتِ بابرکات سے حصولِ علم کے لئے پُرخلوص عالی ہمتی کو بیدار کردیا۔

بزرگوار! ہمارے سوالوں کے جواب دینے میں آپ کی تواضع و تحمل سے ہم صحیح معنوں میں متأثر ہوئے ہیں، آپ کا بے پایان علم، آپ کی دینی موضوعات و مطالب کو منطق کی روشنی میں بیان کرنے کی قابلیت، آپ کا سائنسی طریقِ استدلال اور آپ کی دائمی

 

۶۸

 

فروتنی و  انکساری ہمارے لئے نفخۂ روح کے سر چشمے اور ان شاء اللہ قابلِ تقلید نمونے کا کام دیں گی۔

بزرگوار! ہم نے اسماعیلی مذہب کی گزشتہ تاریخ میں پڑھا ہے کہ اسماعیلی مذہب کی روشنی پھیلانے کے لئے بہت سے داعی عرب اور ایران سے مشرقِ بعید کی طرف جاتے تھے، لیکن مولانا حاضر امامؑ نے ہمارے خصوصی فائدے کی خاطر آپ جیسے داعی کو مشرق سے مغرب کی طرف بھیجا ہے تاکہ آپ اس شرارے کو روشن کریں جو ہم سب میں موجود ہے۔

آپ کی اہم موضوعات پر تقاریر: یک حقیقت، اصل میں واصل، شرارۂ الٰہی وغیرہ ہمیشہ کے لئے ہمارے ساتھ رہیں گی، اور ان شاء اللہ علم کی اسی مضبوط و مستحکم بنیاد پر ہم اپنی علمی عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کریں گے۔

صاحب! ہمارا قرآنی علم افسوسناک حد تک ناکافی رہا ہے، علمِ تاویل پر آپ کی تقاریر نے ہمارے لئے مکمل طور پر علم کے نئے راستے کھول دیئے ہیں۔

اِن احسانات کے لئے اور اُن سے کہیں زیادہ ان احسانات کے لئے جن کو ہم بصورتِ تحریر ظاہر نہیں کرسکتے ہم ابدی طور پر

 

۶۹

 

آپ کے ممنونِ احسان رہیں گے، ہم خداوند کے پاک حضور میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ذاتِ بابرکات آپ کو دونوں جہان میں اس کارِ نیک کا بدلہ عنایت فرمائے! آمین!!

ساتھ ہی ہم یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ پروردگار ہمیں اسی زندگی ہی میں دوبارہ ملنے کے قابل بنا دے! اور اس کی رحمت سے ہم نے آپ سے جو علم حاصل کیا ہے، اس کو نہ صرف اپنے لئے بلکہ “یک حقیقت” کے صحیح جذبے کے ساتھ پوری جماعت کے مفاد کے لئے صحیح طور پر استعمال کرائے! آمین!!

 

آپ کے شکر گزار طالبانِ علم

مونٹریال

۶؍جون ؁۱۹۸۲ء

 

۷۰

معرفت کے موتی – حصّۂ دوم

معرفت کے موتی –  حصّۂ دوم

پس منظر

امامِ عالی مقام کے علمی اور عرفانی معجزات

حرفِ آغاز

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اللّٰھم صل علیٰ محمد و آل محمد۔

بندۂ عاجز و ناتوان، خاکپائے مومنان، صدقۂ روحِ دوستان، یعنی نصیرِ حقیر یوں عرض پرداز ہے کہ کاش اس حصولِ نعمت اور شکر گزاری کے موقع پر یہ ناچیز غلام طوفانی گریہ و زاری کے عالم میں بحضورِ خداوندِ قدّوس ہمہ وقت سر بسجود ہوسکتا، جبکہ وہ منعم و محسن دائماً احسان ہی احسان فرما رہا ہے، اور خاص کر آج کی نعمت بڑی عجیب و غریب اور عظیم ہے، یہ روحانی نعمت اس کتاب کی شکل میں ہے، جو آپ کے سامنے ہے، جس کا نام “معرفت کے موتی” حصّۂ دوم ہے، صرف یہ نہیں بلکہ اس کا انگریزی ترجمہ بھی بنام “پرلز آف معرفت” پارٹ سیکنڈ، میرے روحانی دوستوں نے بڑی عمدگی سے تیار کیا ہے، اُن کے لئے میری روح بطریقِ حکمت فدا اور قربان ہو!

امامِ اقدس و اکرم صلوات اللہ علیہ کے جشنِ سیمین کا سال سراسر

۴

 

رحمتوں اور برکتوں سے مملو تھا، اس میں جماعتی اور انفرادی پیش رفت و ترقی لازمی تھی، اس لئے ہر جماعتی ادارے نے اس ہمہ گیر و ہمہ رس پروگرام میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا، اور ہر فرد نے دل کھول کر خدمت کی، اور نتیجے کے طور پر سب کے سب دینی دولت سے مالامال ہوگئے، اگر یہ خاکسار یہاں اپنی بات بھی کرے تو شاید بیجا نہ ہو گا، چنانچہ مومنین کی دعا اور تائیدِ ایزدی کی دستگیری سے اس بندۂ کمترین کو کراچی، ہونزہ اور لندن میں امامِ زمان ہادیٔ برحق صلوات اللہ علیہ و سلامہٗ کا حکمت آگین دیدار حاصل ہوا، جس کے نتیجے میں دورۂ لندن کے چالیس دنوں میں نورِ امامت نے آسمانِ بارندہ (۱۱: ۵۲) کی مرتبت میں علم و حکمت کی ایک زبردست بارش برسا دی، جس کی شدت سے بعض دفعہ اس غریب اور چند خاص احباب پر کپکپی کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی، امامِ زمانؑ کا یہ عقلی اور علمی معجزہ ہمارے عالی قدر دوستوں نے بھی دیکھا اور ہم سب نے شکرگزاری کے آنسو بہائے، الحمد للہ ربّ العالمین

 

یہاں ایک بڑا اہم سوال ہے کہ اس مادّی ترقی کے طوفان خیز دور میں جبکہ چشمِ اہلِ جہان ظاہری رنگینیوں سے خیرہ ہو رہی ہے، ہم کس درجہ یا کس نوعیت کے علم کے سہارے اپنے مقدّس عقیدے کو محفوظ و سلامت رکھ سکتے ہیں؟ آیا نورِ خداوندی کے خزائن میں کوئی ایسا علم نہیں ہے، جو انقلابی طاقت کا حامل ہو، جس کی پُرکشش نورانیت میں ہم دینِ اسلام کی روح و روحانیّت کو بخوبی سمجھ سکیں، اور عقیدے کی

 

۵

 

حفاظت کریں؟ اس کا جواب نفی میں نہیں بلکہ اثبات میں ہے۔

 

حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے ایک ارشاد میں ذوالفقار کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ امامِ عالی مقام ایک دور کے بعد آہنی ذوالفقار کی بجائے علمی ذوالفقار کے استعمال کو پسند فرماتے ہیں، اور یہ سچ ہے کہ اس زمانے میں نورِ امامت نے بطورِ خاص ایک علمی قیامت برپا کر دی ہے، جو ظاہراً و باطناً اثر انداز ہو رہی ہے، جس کی ایک مثال وہ تصوّرِ آفرینش ہے، جو حضرت امامِ عالی مقامؑ نے پیش کیا ہے، دوسری مثال حقیقتِ واحدہ (Monorealism) ہے، اس نوعیت کے تصوّرات میں علمی قیامت کا انقلابی اثر پنہان ہے اور ان تمام چیزوں کا تعلق روحانی قیامت سے ہے۔

 

ہاں یہ درست ہے کہ ہر انسانی روح لاتعداد ذرّات پر مبنی ہے، کیونکہ ساری حکمت اسی میں ہے کہ روح اپنے اجزاء کا مجموعہ ہو، تاکہ یہ نفسِ کلّی کی مثال قرار پائے، ساتھ ہی ساتھ اس کی کثرت سے عالمِ صغیر کی تکمیل ہو جائے، اور ان تمام ذرّات کی باہمی وحدت نہ صرف انسان کی “انا” کہلائے، بلکہ توحیدِ باری تعالیٰ یا یک حقیقت کی مثال بھی بن سکے، چنانچہ میری روح کا ہر ذرّہ کسی خارجی وجود کا نمائندہ ہے، سو کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں، جس کی نمائندگی ان ذرّاتِ روح میں نہ ہو، تاہم قانونِ اختصاص کے بموجب میری

 

۶

 

روحانی ہستی میں وہی ذرّات زیادہ سے زیادہ مثبت کام کرتے ہیں، جو میرے عزیزوں سے مربوط ہیں۔

 

خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف سے منسلک حضرات مجھے بے حد عزیز ہیں، کیوں نہ ہوں جبکہ وہ سرچشمۂ (حقیقی) محبت یعنی امامِ زمان اور پیاری جماعت کی ایک ایسی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، کہ اگر وہ صحیح معنوں میں عمل میں آئی تو وہ ہمہ رس بھی ہے اور ہمہ گیر بھی، وہ حال کے لئے بھی ضروری ہے اور مستقبل کے لئے بھی، اور یہ تمام خدمات میں سے بہترین خدمت علمی صورت میں ہے۔

 

انسان کی دینی اور دنیوی زندگی سے تعلق رکھنے والی تمام چیزیں سب کی سب اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں، ان میں کوئی شے غیر ضروری نہیں، لیکن دینی علم سب سے بڑھ کر ضروری ہے، کیونکہ دنیا و مافیہا دین کی خاطر بنائی گئی ہے، اور دین کا مقصد علم کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا ہے، اس سے یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ اگرچہ دین میں طرح طرح کی خدمات ضروری ہیں، تاہم علمی خدمت بدرجۂ انتہا ضروری ہے۔

 

دل چاہتا ہے کہ میں اس کتاب کی خوب تعریف و توصیف بیان کروں، لیکن اس میں ایک بات کا خوف دامن گیر ہوتا ہے، وہ یہ کہ کہیں کوئی یہ گمان نہ کرے کہ یہ بندہ اسی صورت میں خود ستائی کرنا چاہتا ہے، مگر عقل والے جانتے ہیں کہ کوئی بھی حقیقی درویش اصولاً اپنی تعریف نہیں کر سکتا، کیونکہ اس کی کوئی منطق نہیں بنتی ہے کہ کوئی سائل درویش

 

۷

 

بادشاہِ غنی کے درِ دولت پر “شیئاً للہ” کی صدا لگاتے ہوئے خود کو امیر ظاہر کرے، یا لوگوں کے پاس صاحبِ دولت ہونے کا دعویٰ کرے، لوگ کیسے باور کر سکتے ہیں کہ ہر وقت دریوزہ کرنے والا بھکاری بحقیقت امیر ہے، سو اس مثال سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ اس کتاب میں جو معجزاتی درجے کا علم و حکمت ہے وہ درحقیقت آلِ محمد و اولادِ علی اعنی امامِ زمانؑ کے زندہ معجزات میں سے ہے۔

 

کتابِ ہٰذا کے اس تعارف میں اگر لندن کے احباب و اعزہ کا ذکرِ جمیل نہ کیا جائے تو یقیناً بڑی ناشکری ہوگی، جبکہ وہی حضرات اس کتاب کی تصنیف کے اصل سبب اور قوّی محرّک ہیں، انہی ارضی فرشتوں نے میری تھکی ہوئی ذہنی صلاحیتوں کو پھر سے تازہ اور آمادہ کر دیا، اور میری ہستی کے اندر اور باہر علم کی تشکیل کی خاطر شب و روز کام کیا، وہ ان کی یادِ الٰہی انتہائی شیرین ہے، وہ ان کی بےحد میٹھی مناجات نغماتِ داؤدی کی مثال ہے، وہ اُن کی پُرسوز دعا عبادت کا مغز ہے، وہ ان کے عاشقانہ آنسوؤں کے موتی انمول ہیں، وہ ان کا عشقِ مولا شرابِ جنّت کی طرح مسرّت انگیز ہے، وہ ان کا دریائے بےخودی میں ڈوب جانا بڑا عجیب و غریب ہے، وہ ان کی علم دوستی بڑی دلکش ہے، وہ ان کی عاجزی سب کے لئے قابلِ تقلید ہے، وہ ان کی سخت محنت و جانفشانی کامیابی کا زرّین اصول ہے، وہ ان کی وفاداری برائے امام سرمایۂ ایمان ہے، وہ ان کی عملی اخوت و یگانگت نمونۂ یک حقیقت (مونوریالزم) ہے، وہ ان کا

 

۸

 

جذبۂ خدمت اور اس کا عمل بڑا سبق آموز ہے، اور وہ ان کی قلمی خدمت یقیناً ہمہ رس ہے۔ یہ ساری چیزیں ایک ایک ہوکر میرے دل و دماغ کو چھوتی رہتی ہیں، اور میرے چہرۂ خیال کو اُن عزیزوں کی طرف متوجہ کر دیتی ہیں۔

 

بالآخر یہ خادم جناب فتح علی حبیب صدرِ خانۂ حکمت مرکزِ کراچی اور جناب محمد عبدالعزیز صدرِ ادارۂ عارف مرکزِ کراچی کا شکرگزار اور ممنون ہے، نیز دونوں پریذیڈنٹ کے نائب صدر صاحبان، سیکریٹری صاحبان، دیگر عملداران اور ارکان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہے کہ لندن کا ہو یا کسی اور مقام کا، کوئی بھی کامیاب دورہ ان کے مشورہ اور پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں، اسی خلوص و جذبے سے میں مشرق و مغرب کی اپنی تمام شاخوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ اعتماد و یقین کے ساتھ اس علمی خدمت کے منصوبے میں شریک ہیں، اور کئی طرح کی قربانیاں دے رہے ہیں، بحکمِ حدیث شریف: “الدین نصیحۃ = دین کا مفہوم خیر خواہی ہے۔” ہر مومن کے دل میں نیک نیتی، خیر خواہی اور اخلاص ہونا چاہئے اور اسی کے مطابق عملی حرکت بھی ضروری ہے، مگر اس کی کامیابی اور اجر و صلہ خداوند تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے، لہٰذا انتہائی عاجزی سے دعا ہے کہ پروردگارا! ہم سب کو ایسی اعلیٰ توفیق عنایت فرما کہ اس کی بدولت ہم عالمِ اسلام اور جماعت کی کچھ علمی خدمت کر سکیں، خداوندا ہم اس کے

 

۹

 

قابل نہیں ہیں، اس لئے تو ہی اپنی عنایتِ بے نہایت سے ہمیں مدد دے! بحقِ محمد و آلِ محمد۔

 

سوموار ۶ ذی القعد ۱۴۰۳ھ

۱۵ اگست ۱۹۸۳ء، سالِ خوک

 

نصیر الدین نصیر ہونزائی

کراچی

 

۱۰

 

صورتِ رحمان

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ حضرتِ انسان جہاں انسانِ کامل کی مرتبت میں بحقیقت بنی آدم کہلاتا ہے، اور جہاں وہ اُن پُرحکمت قرآنی اشارات کا مصداق ہے، جو اولادِ آدم کی کرامت و فضیلت کے بارے میں فرمائے گئے ہیں، وہاں وہ ظاہراً و باطناً رحمانی صورت رکھتا ہے، کیونکہ خدائے رحمان نے حضرت آدم علیہ السّلام کو اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا تھا، اور اگر یہ بنیادی حقیقت نہ ہوتی، تو بموجبِ قانونِ فطرت وجودِ آدم کے ساتھ روحِ خداوندی کا کوئی رشتہ نہ بنتا، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے: فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ (۱۵: ۲۹) تو جس وقت میں اس کو ہر طرح سے درست کر چکوں اور اس میں اپنی روح (نور) پھونک دوں تو تم سب کے سب اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا۔ اس سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے، کہ حضرت آدم کی صورت ایک وجہ سے رحمان کی صورت ہے، اگرچہ دوسری وجہ سے خدا ہر چیز سے پاک و برتر ہے۔

 

۱۱

 

ارشادِ نبوّیؐ ہے کہ: خلق اللہ آدم علیٰ صورتہ الرحمٰن= اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا۔ صورت کے معنی یہاں بظاہر چہرۂ جسم و جان ہیں اور بباطن اس کا مطلب وسیلۂ معرفت ہے، جس میں سب کچھ ہے، اور ابنِ آدم میں یہ مقدّس فطری میراث یا خصوصیت اس طرح ہے کہ بشری شکل و صورت کے حسن و جمال کا آغازِ ارتقاء جسم سے ہو کر روح کی درجۂ کمال تک پہنچ جاتا ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں فرمایا گیا ہے: هُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُكُمْ فِی الْاَرْحَامِ كَیْفَ یَشَآءُؕ (۰۳: ۰۶) وہی تو وہ (خدا) ہے جو ارحام (بچہ دانیوں) میں تمہاری صورت جیسی چاہتا ہے بناتا ہے۔ یعنی انسانی شکل و صورت کی تخلیق و تکمیل کا سلسلہ ماں کے پیٹ سے شروع ہو جاتا ہے، پھر نوجوانی ہی میں ہر آدمی کی ایک پُرحکمت زندہ (روحانی) تصویر بنا لی جاتی ہے، اگر شخص حقیقی معنوں میں فرمانبردار ہے تو اس کی یہ باطنی صورت بحکم: صبغۃ اللہ (۰۲: ۱۳۸) بشری تجمل سے گزر کر خدائی حسن و جمال کے مقدّس رنگ میں رنگین ہو جاتی ہے، اور یہی وجہ ہےکہ قرآنِ پاک نے انسانی خوبصورتی کے عکسِ روحانی ہونے کا اور اس میں اضافہ و ترقی ہونے کا تصوّر پیش کیا ہے، اور وہ فرمانِ الٰہی یہ ہے: و صورکم = اور خدا نے تمہاری صورتیں بنائیں، اس میں جسمانی صورت کا ذکر ہے جو ماں کے پیٹ سے شروع ہو جاتی ہے، فاحسن صورکم = پھر اس نے تمہاری صورت کو

 

۱۲

 

بہترین بنا دیا، یعنی اسے مقامِ روحانیّت پر جلوۂ نورانیّت سے مستفیض کر دیا، وَ اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ (۶۴: ۰۳) اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، اس کے معنی ہیں کہ یہ ساری ترقی جو ظاہر سے لے کر باطن تک ہوتی ہے خدا کے حضور جانے کے لئے ہے۔

 

باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ (۰۷: ۱۱) اس میں شک ہی نہیں کہ ہم نے تم کو پیدا کیا (یعنی جسمانی تخلیق مکمل کر دی) پھر تمہاری روحانی صورتیں بنائیں، پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم سب کے سب آدم کو سجدہ کرو۔ اس آیۂ کریمہ میں بطریقِ حکمت تمام آدموں یا انسانوں کی جسمانی تخلیق اور روحانی صورت کی تکمیل کا یکجا ذکر فرمایا گیا ہے، اور اس میں سب پر یکسان احسان ہونے کا اشارہ ہے، اور ہر حالت میں روحانی صورت کی تکمیل کے بعد خدا فرشتوں سے فرماتا ہے کہ آدم کو سجدہ کرو، جس سے روحانی صورت کی معنویّت و اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

 

آپ قصّۂ مریم میں اس نقطۂ نظر سے دیکھ سکتے ہیں کہ روح القدس یعنی جبرائیل جس کو روحِ خدا کے عظیم ٹائٹل سے نوازا گیا ہے وہ ایک کامل اور مکمل انسان کی صورت میں حضرت مریم کے سامنے ظاہر ہو جاتا ہے (۱۹: ۱۷) پس اگر ہم روحِ خداوندی یا نورِ خداوندی کی اُس مثال کو ایک اعتبار سے صورتِ رحمان اور دوسرے اعتبار سے صورتِ انسان قرار دیں تو اس میں کون سی منطق خلافِ قرآن اور غلط ہوسکتی ہے،

 

۱۳

 

اور اگر اس قصّہ کے مطابق روحِ خدا کا انسانی شکل اختیار کر لینا ایک قرآنی حقیقت ہے تو یہ بھی بالکل درست ہے کہ حضرت آدم اپنے زمانے میں صورتِ رحمان تھے، کیونکہ آپ میں بھی خدا کی وہی روح تھی، جس نے مستقل طور پر آپ میں انسانی صورت اختیار کر لی تھی، وہی روحِ قدسی جو بعد میں مریم کے سامنے آئی، اور ان کے کانوں سے داخل ہوئی، اور وہی جو حضرتِ عیسیٰ کی ظاہری اور باطنی صورت میں تھی۔

 

اس ربطِ حکمت سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیان ہو جاتی ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام یقیناً صورتِ رحمان ہوا کرتا ہے، کیونکہ جو خدائی روح حضرتِ آدم کی پیشانی میں جلوہ گر تھی، اسے ہم روحِ خدا کہیں یا نورِ خدا، اس میں کوئی فرق نہیں، مگر امرِ واقعی یہ ہے کہ اس کا سب سے اہم مقصد بنی نوعِ انسان کی ہدایت کرنا تھا، لہٰذا خداوندِ عالم نے اپنی پاک روح کو ہمیشہ کے لئے سلسلۂ ہدایت سے وابستہ کر دیا ہے، پس زمانے کا ہادیٔ برحق خدا کی روح اور صورتِ رحمان کا درجہ رکھتا ہے۔

 

سوال: صورتِ رحمان کی اس مثال میں لفظِ “صورت” کو اتنی بڑی اہمیت کیوں دی گئی ہے؟

 

جواب: کیونکہ یہ چہرۂ خدا کے معنی میں آیا ہے، جس کا دوسرا لفظ قرآن میں “وجہ اللہ” ہے، جو روحانیّت کا انتہائی عظیم مرتبہ اور قرآنِ حکیم کا سب سے آخری موضوع ہے، اور اس حقیقت کی دلیل یہ ہے کہ عقلی یا روحانی طور پر فنا ہو جانے کے لئے کوئی درجہ نہیں، مگر

 

۱۴

 

وجہ اللہ ہے، جیسا کہ خدا کا کلام ہے: كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗؕ-لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ (۲۸: ۸۸) چہرۂ خدا کے سوا ہر چیز ہلاک ہو جانے والی ہے، حکم اسی کا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

 

اس حقیقت کی دوسری دلیل یہ ہے: كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ  وَّ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) جو مخلوق اُس (زمینِ ظاہر اور زمینِ روحانیّت) پر ہے وہ سب فنا ہو جانے والی ہے مگر تمہارے پروردگار کا چہرہ جو جلالت و کرامت والا ہے باقی رہے گا۔ اس کی ایک ظاہری مثال قصّۂ حضرتِ نوح علیہ السّلام سے مل سکتی ہے، کہ آپ اپنے زمانے میں چہرۂ خدا تھے، لہٰذا اُس وقت کے فرمانبردار مومنین آپ سے وابستہ ہو کر جلالت و کرامت کے ساتھ زندۂ جاوید ہو گئے، اور جو لوگ نافرمان تھے، وہ روحانی موت سے ہمیشہ کے لئے مر گئے، اور عقل والے جانتے ہیں کہ طوفان اور ہلاکت صرف زمانۂ نوح کے لئے خاص نہیں، یہ تو پوشیدہ پوشیدہ ہر زمانے میں آتا رہتا ہے۔

 

انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے عالمِ شخصی کو عالمِ ذرّ بھی کہا جاتا ہے، جس میں ازل سے لے کر ابد تک جملہ واقعات و حالات فعلاً موجود ہیں، تاکہ اہلِ روحانیّت کے لئے عملی تاویل اور کامل معرفت کے وسائل مہیا ہوں، منجملہ اس میں لازمی طور پر انفرادی قیامت بھی برپا ہو جاتی ہے، جس میں اجتماعی قیامت کا مکمل نمونہ پایا جاتا ہے، وہ قیامت ہو بہو

 

۱۵

 

واقعۂ آدم بھی ہے اور طوفانِ نوح بھی، غرض وہ ایک ایسی جامع الجوامع مثال ہے کہ اس کے احاطے سے کوئی علمی اور عرفانی شے باہر نہیں، چنانچہ وہاں بحکمِ خداوند تعالیٰ جب اسرافیل صور پھونکتا ہے، تو اس کی معجزاتی آواز سے تمام لوگ خواہ مردہ یا زندہ بصورتِ ذرّاتِ لطیف آن حاضر ہو جاتے ہیں، پھر اس سلسلے کے ایک مرحلے میں جا کر چہرۂ خدا (ہادیٔ زمان) کے سوا سب فنا ہو جاتے ہیں، اور یہ فنا دو طرح کی ہوتی ہے: فنا برائے فنا، اور فنا برائے بقا، اس کی مثال کسی پرانی عمارت کو گرا دینے کی طرح ہے، کہ اس کے گرا دینے کا مقصد یا تو ختم ہی کر دینا ہوتا ہے یا از سرِ نو تعمیر کرنا۔

 

سوال: اس میں کیا حکمت اور کیا راز ہے کہ قرآنِ حکیم میں جہاں سب لوگوں کے فنا یا ہلاک ہو جانے کا ذکر فرمایا گیا ہے وہاں چہرۂ خدا کا تذکرہ بھی موجود ہے؟

 

جواب: فنائے مخلوق اور چہرۂ خدا کا یکجا ذکر اس لئے ہے کہ جس طرح کسی شخص کی پہچان اس کے چہرے سے ہوتی ہے، اسی طرح خداوند کریم کی معرفت (پہچان) بھی اس کے چہرے سے حاصل ہو سکتی ہے، چنانچہ ذاتِ سبحان نے ہر پیغمبر اور ہر امام کو اپنا پاک چہرہ قرار دے دیا، کیونکہ معرفتِ توحید انہی پاکیزہ ہستیوں کے وسیلۂ ہدایت کے بغیر کسی کو کہیں سے مل نہیں سکتی تھی، سو یہی سبب ہے کہ لوگوں کو قیامت میں چہرۂ خدا کے حضور میں حاضر کیا جاتا ہے، تاکہ اُن سے متعلقہ سوالات

 

۱۶

 

کئے جائیں اور فیصلہ اس حقیقت کی روشنی میں ہو۔

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک ناموں میں سے ایک “البینۃ ۹۸: ۰۱” بھی ہے، جس کے مطابق آپ ہی معجزہ اور دلیلِ روشن ہیں، اور ہر زمانے کا امام انہی معنوں میں خلیفۂ رسول ہے، اب قرآنِ حکیم (۰۸: ۴۲) میں ذرا غور سے دیکھ لیجئے، کہ زمانۂ نبوّت کے بعض لوگ جسمانی طور پر مرنے سے قبل کس طرح دلیل سے یعنی عقل کی نظر میں مر چکے ہوتے تھے، اور بعض دوسرے لوگ کس طرح اسی قانونِ عقل کے مطابق صحیح معنیٰ میں زندہ ہو چکے ہوتے تھے، پس یہی مثال قیامت کے لئے بھی ہے کہ جو شخص دنیا میں چہرۂ خدا کی نافرمانی سے بحدِّ قوّت مر گیا ہو اس کو دائمی فنا کی غرض سے فنا کر دیا جائے، اور جو بندہ چہرۂ خدا کی فرمانبرداری سے بحدِّ قوّت حیاتِ روحانی پا چکا ہوا سے ابدی بقا کے لئے فنا کر دیا جائے، اور ان دو حالتوں کی بنیاد چہرۂ خدا سے لوگوں کی دشمنی اور دوستی ہے۔

 

سوال: مسلمین اور مومنین یا اہلِ نجات کو چہرۂ خدا میں کس طرح فنا فی اللہ و بقا باللہ کا انتہائی عظیم درجہ حاصل ہو جاتا ہے؟

 

جواب: یہ سب سے بلند ترین مرتبہ صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی سے حاصل ہو سکتا ہے، چنانچہ حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: یا بنی اٰدم اطعنی اجعلک مثلی حیا لا تموت ۔۔۔۔ اے ابنِ آدم میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی مثال پر ہمیشہ زندہ

 

۱۷

 

رہنے والا (اور) کبھی نہ مرنے والا بناؤں گا۔ اس پاک و پاکیزہ حدیث سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ شرطِ فنا برائے ابدی بقا اطاعت ہے، جو تین درجات پر مبنی ہے، خدا کی اطاعت، رسول کی اطاعت اور صاحبانِ امر کی اطاعت (۰۴: ۵۹) اس حکم کے مطابق فنا کے بھی تین درجے ہیں: فنا فی اللہ، فنا فی الرسول اور فنا فی الامام، اس ترتیب سے ظاہر ہے کہ نیچے سے اوپر جانے کے لئے سب سے پہلے امام میں فنا ہو جانا ہے۔

 

روحانی ارتقاء کے چار بڑے مراتب یا چار عالَم مشہور ہیں، جو ناسوت، ملکوت، جبروت اور لاہوت ہیں، اگر ہم بندۂ مومن کی عام ناسوتیت کی فنا کو بھی تسلیم کریں، تو ہر عالَم میں ایک فنا کا ہونا ضروری قرار پائے گا، اور امرِ واقعی بھی یہی ہے، پس مقامِ مومن ناسوت ہے، منصبِ امام ملکوت، درجۂ پیغمبر جبروت، اور مرتبۂ خدا لاہوت ہے، جن میں سے ہر ایک عالَم میں مومن فنا ہو جاتا ہے۔

 

اب کیفیتِ فنا کا ذکر کرنا ضروری ہے:

 

۱۔ خدا و رسول اور ولیٔ امر (امامِ زمان) کی اطاعت و فرمانبرداری میں آگے سے آگے بڑھ جانا، اپنے باطن میں اللہ، پیغمبر اور امامِ وقت کی حقیقی محبت اور کامل عشق پیدا کرنا، اور دینِ حق کے لئے اپنے دل میں ایک مکمل جذبۂ جانثاری رکھنا، ایسا ہے، جیسے مومنین بقولِ قرآن (۵۷: ۱۹) جیتے جی راہِ خدا میں شہید ہو چکنے کا درجہ رکھتے ہیں، یہ بحدِّ قوّت “فنا فی الامام”

 

۱۸

 

کا درجہ ہے۔

 

۲۔ آپ عالمِ شخصی یا عالمِ ذرّ کے بارے میں بہت سی عجیب و غریب باتیں جانتے ہوں گے، چنانچہ نورِ امامت میں بحکم: وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) ہر عقل، ہر روح اور ہر ذروی جسم (ذرۂ لطیف) موجود ہے، کیونکہ امامِ زمانؑ میں ہر چیز اُس وقت فنا ہو جاتی ہے (۲۸: ۸۸) جبکہ آپ کی انفرادی قیامت قائم ہو جاتی ہے، مگر یہ تسلیم و فنا طوعاً و کرہاً ہے (۰۳: ۸۳) یعنی یہ معاملہ خوشی کا بھی ہے اور زبردستی کا بھی۔

 

۳۔ حکمتِ قرآن کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ “فنا” خاص ہے اور “ہلاک” عام، ہر چند کہ دونوں حالت میں چہرۂ خدا کا ذکر آیا ہے، مگر دونوں کے درمیان بڑا فرق پایا جاتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ فنا جنّ و انس (مخلوقِ لطیف و کثیف) کے لئے مقرر ہے، جس کے نتیجے میں ان کو ربّانی جلالت و کرامت کی صفات میں زندہ ہو جانے کی بے مثال نعمتیں حاصل ہو جاتی ہیں، اور ہلاک ہر چیز یعنی مخلوقِ عام کے لئے ہے، جس کا مقصد فیصلہ کرنا اور رجوع ہو جانا ہے۔

 

۴۔ فرمایا گیا ہے: مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍؕ (۳۱: ۲۸) تم سب کا پیدا کرنا اور پھر (فنا کے بعد) جلا اٹھانا ایک روح کی طرح ہے۔ یاد رہے کہ اس آیۂ مقدّسہ میں انتہائی بلندی کی حکمتیں پوشیدہ ہیں، کیونکہ اس فرمانِ الٰہی میں لوگوں کی جسمانی تخلیق اور عام تصوّرِ قیامت کا ذکر نہیں، بلکہ یہاں ان کی اس مجموعی روحانی تخلیق کا بیان

 

۱۹

 

ہے، جو عالمِ ذرّ کے ذرّات میں ایک ساتھ مکمل ہو جاتی ہے، جس کی وضاحت یوں ہے کہ جب انسانِ کامل کی انفرادی قیامت میں جملہ ارواح کی اجتماعی قیامت برپا ہوتی ہے، تو اُس وقت تمام لوگ بشکلِ ذرّات عالمِ ذرّ میں حاضر ہو جاتے ہیں، اور یہ اُن کی روحانی خلق ہے، عالمِ ذرّ امامِ زمان (انسانِ کامل) کا شخصی عالم ہے، نفسِ واحدہ کا مطلب نفسِ کلّی ہے، جو امام کی عظیم روح ہے، نفسِ واحدہ کے معنی ایسی روح ہیں، جو فی ذاتہٖ ایک ہے اور دوسری تمام جزوی روحوں کو اپنے وجود میں ایک کر لیتی ہے، جبکہ واحدہ بروزنِ فاعلہ کے یہی معنی ہیں۔

 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں قسم کی مخلوق شعوری اور غیر شعوری طور پر صورتِ رحمان یعنی چہرۂ خدا میں فنا ہو کر اصل میں واصل ہو جاتی ہیں، مگر اس درجۂ اعلیٰ میں خود کو بیدار پانے کے لئے کامل معرفت لازمی ہے۔

 

۵۔ جو مومنین امامِ زمانؑ کو اپنی سب سے عظیم روح مانتے ہیں، تو عالمِ ذرّ ان کے نام پر ہو جاتا ہے، جس میں سب کچھ ہے، کیونکہ امام کی عقل ہی عقلِ کلّی ہے، اس کی روح ہی نفسِ کلّی ہے اور اُس کا جثّۂ ابداعیہ جسمِ کلّی ہے، لہٰذا کائنات و موجودات کی جملہ اشیاء امامِ برحق کی ذاتِ اقدس میں فنا اور محدود ہیں، پس لوگوں کی خلق و بعث امام میں ہے۔

 

۲۰

 

سوال: ویسے تو ہر پیغمبر اور ہر امام بحکمِ خداوند تعالیٰ اپنے وقت میں سلیمان کی طرح روحانی سلطنت کا بادشاہ ہوا کرتا ہے، کیونکہ ان سب حضرات کی روحانیّت ایک جیسی ہے، پھر اس کا سبب کیا ہے کہ صرف سلیمان ابنِ داؤد کی باطنی اور روحانی بادشاہی کا ذکر نمایان طور پر فرمایا گیا ہے؟

 

جواب: جی ہاں، ان سب حضرات کی ضروری روحانیّت ایک اور مشترک ہے، اور ہر ایک اپنے زمانے کا نفسِ واحدہ ہوا کرتا ہے، مگر اس کی مثالیں زمان و مکان کی حکمت و مصلحت کے مطابق پیش کی گئی ہیں، اور اس میں لوگوں کو آزمانا بھی مقصود ہے، لہٰذا اس قانون کے مطابق روحانی سلطنت کی مثال پیش کرنے کا فریضہ حضرت سلیمان کو سونپا گیا، اور نتیجے کے طور پر جنّ و انس وغیرہ آپ میں عقلاً و روحاً فنا ہو گئے۔

 

فقط علمی خادم:

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

لندن: ۳۰ جولائی ۱۹۸۳ء

 

۲۱

 

بنیادی اور آخری حقائق

 

۱۔ اگر کہا جائے کہ سب سے پہلے عرش تھا، تو یہ بات بالکل صحیح ہوگی، کیونکہ قرآنِ حکیم میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا ذکر فرمایا گیا ہے، مگر تخلیقِ عرش کا کوئی تذکرہ نہیں، اس لئے کہ عرشِ عظیم دائرۂ عالمِ خلق سے باہر اور بالاتر ہے، اور اس لئے کہ وہ عالمِ امر ہے، جس میں ابداع ہے، مگر تخلیق نہیں۔

 

۲۔ اگر مان لیا جائے کہ عرشِ رحمان کا ظہورِ خاص انسانی صورت میں ہے جو اصل میں رحمان ہی کی صورت ہے، تو اس سے عظیم اور پاک جثّۂ ابداعیہ مراد ہوگا جو آئینۂ مبدِع اور مبدَع ہے، اور یہی نہ صرف مرتبۂ اوّل و آخر ہے، بلکہ ظاہر و باطن بھی ہے۔

 

۳۔ اگر ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیں، کہ بحدِّ قوّت ہر انسان کی ایک ذاتی اور انفرادی کائنات بھی ہے، تو اُس صورت میں یقیناً قرآنِ حکیم کا وہ تذکرہ جو تنزیلی معنیٰ میں اس ظاہری اور مادّی کائنات کے بارے میں ہے، وہ آدم اور آدمی کے شخصی عالم سے متعلق قرار پائے گا، اور

 

۲۲

 

آفرینش کا درست تصوّر یہی ہے۔

 

۴۔ آفاق اور انفس کے آپس میں حقیقی رشتہ یہ ہے کہ ظاہری کائنات کو روحانی شکل دے کر انسان کے باطن میں سما دی گئی ہے، اور انسان کی عظمت و بزرگی کی حقیقت بصورتِ کتابِ کائنات ظاہر میں پھیلائی ہوئی ہے، پس یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ جس طرح عالمِ صغیر (انسان کی ذاتی دنیا) انسانی صورت میں محدود ہے، اسی طرح عالمِ کبیر رحمانی صورت میں محدود ہے، جو عرشِ عظیم اور پیکرِ نور ہے۔

 

۵۔ سورۂ رحمان کے ایک پُرحکمت ارشاد کا یہ مفہوم ہے کہ سیّارۂ زمین پر بسنے والے تمام انسان جو طرح طرح کی اموات سے فنا ہو جانے والے ہیں، وہ چہرۂ خدا یعنی پیکرِ نور (جثّۂ ابداع) میں واصل ہو جائیں گے، اور اُن پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ سب سے بڑا احسان اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ وہ جلالت و کرامت اور نعمت کا مالک ہے (۵۵: ۲۶ تا ۲۸)۔

 

۶۔ قرآن اپنی خاص تاویلی زبان میں بتا دیتا ہے کہ ذاتی اور انفرادی روحانیّت کی کائنات ہمیشہ چھ دن میں مکمل ہو جاتی ہے، یعنی دو دن میں روحانیّت کی زمین، دو + دو = چار دن میں روحانیّت کے پہاڑ، اور دو دن میں آسمان بن جاتے ہیں، ابتدائی دو دن سے حضرت آدم اور حضرت نوح کی روحانیّت مراد ہے، چار دن کے معنی ہیں حضرت آدم ، حضرت نوح، حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ،

 

۲۳

 

جن کی روحانیّت کے دوران روحانی پہاڑ پیدا کئے جاتے ہیں اور دو دن حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفیٰ ہیں، جن کی روحانیّت کی مدت میں ذاتی دنیا کے آسمان بنائے جاتے ہیں (۴۱: ۰۹ تا ۱۲)۔

 

۷۔ خداوند تعالیٰ نے نہ صرف انسان کی ذاتی دنیا ہی کو چھ دن میں مکمل کر دیا بلکہ اُس نے عالمِ دین کو بھی چھ بڑے دنوں (ادوار) میں بنایا، یعنی آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسی اور حضرت محمد صلوات اللہ علیہم کے چھ ادوار میں عالمِ دین کلّی طور پر مکمل ہو گیا۔

 

۸۔ اگر قرآنی حکمت میں بنظرِ غائر دیکھا جائے، تو اس حقیقت سے آگہی ہوگی کہ وجودِ عرش کا ذکر زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے بھی آتا ہے اور بعد میں بھی، اس کی وجہ یہ ہے کہ شخصی روحانیّت اور عالمِ دین کا سفر ایک دائرے پر واقع ہے، جس کے نقطۂ آغاز کا تعلق عرش سے ہے اور منزلِ مقصود بھی عرش ہی سے متعلق ہے، چنانچہ روحانی سفر کے درجۂ آخر میں پیکرِ نور کی رویت کا تجربہ ہوتا ہے کہ وہ مبدِع بھی ہے اور مبدَع (عرش) بھی۔

 

۹۔ قانونِ “کن” کے مطابق بلا تاخیر جسمِ لطیف اور روح کو کوئی شکل دینے کا نام ابداع ہے، اور یہ فعل مبدِع یعنی پیکرِ نور کا ہے، مگر اس کا تصوّر ہرگز ایسا نہیں کہ یہ صرف ایک بار واقع ہو چکا ہو، بلکہ یہ ہمیشہ کے لئے ہے، اگر ابداع کا فعل صرف ایک بار ہو گزرا ہوتا، تو اُس صورت میں خدا تعالیٰ کی قدرت میں زبردست تنگی و کمی واقع ہو چکی ہوتی، لیکن یہ بات غیر ممکن ہے۔

 

۲۴

 

۱۰۔ قصۂ مریم میں بطریقِ احسن غور کیا جائے: مریم نے لوگوں سے در پردہ (بطریقِ تقیہ) خصوصی عبادت کا راستہ اختیار کر لیا، تو خدا تعالیٰ نے اس کی طرف اپنی روح القدس یعنی جبرائیل کو بھیجا، جو فعلِ ابداع سے ایک کامل و مکمل انسان کی صورت (یعنی جثّۂ ابداعیہ) میں مریم کے سامنے ظاہر ہوا (مفہوم: ۱۹: ۱۷) پس اگر ابداع کا تعلق صرف ایک بار کے لئے ازل سے ہوتا یا یہ صرف عالمِ امر میں محدود ہوتا تو بی بی مریم پر ابداع کا یہ معجزہ نہیں گزرتا۔

 

۱۱۔ حضرت سلیمان نے اپنے حدودِ دین کے سرداروں سے کہا کہ تم میں سے کون ایسا ہے جو ملکۂ سبا کے فرمانبردار ہو کر یہاں آنے سے قبل ہی انتہائی جلدی سے اس کے تخت (یعنی جثّۂ ابداعیہ) کو میرے پاس لا سکتا ہے؟ تو جنّات میں سے ایک عفریت (یعنی لطیف حدود میں سے ایک طاقتور شخص) نے کہا کہ میں اسے آپ کے اپنی جگہ سے کھڑے ہو جانے سے پہلے ہی لا حاضر کر دوں گا (اور اُس نے ایسا ہی کر دکھایا) اس کے اوپر کے درجہ میں ایک اور ابداع تھا، جس کے متعلق حدودِ لطیف کے اس شخص نے کہا، جس کے پاس کتابِ روحانیّت کا ایک خاص علم تھا کہ میں اس کے تخت (جثّۂ ابداعیہ) کو چشمِ زدن میں حاضر کر دوں گا، چنانچہ اس نے ایسا کر دیا، جب حضرت سلیمانؑ نے مبدِع کا یہ کمال دیکھا کہ ایک مبدَعِ مستقر اس کے سامنے تھا، تو کہا کہ یہ میرے پروردگار کے فضل سے ہے (مفہوم: ۲۷: ۳۸ تا ۴۰) اس سے ظاہر ہے کہ روحانیّت کا آخری درجہ ابداع ہے۔

 

۲۵

 

۱۲۔ پیکرِ نورانی ایک ایسا مقام ہے کہ وہاں تمام اعلیٰ حقیقتیں ازلی و ابدی طور پر جمع ہیں، چنانچہ یہی نفسِ واحدہ ہے، جہاں پر انسان ایک مستقل وجود رکھتا ہے، جس کے بارے میں حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے کہ: یا بنی آدم اطعنی اجعلک مثلی حیا لا تموت ۔۔۔۔ الخ = اے ابنِ آدم میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو میری اپنی ذات کی طرح لازوال اور غیر فانی بنا دوں گا۔ ربِّ کریم کے اس احسانِ عظیم کے یہ معنی ہیں کہ انسان کی اساسی اور آخری حقیقت ہمیشہ پیکرِ نور میں موجود ہے، بدین سبب حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے مونوریالزم (حقیقتِ واحدہ) کا تصوّر پیش کیا ہے۔

 

۱۳۔ خدائے پاک کا پُرحکمت ارشاد ہے: وَ مَاۤ اَمْرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۭ بِالْبَصَرِ (۵۴: ۵۰) اور ہمارا امر (یعنی کلمۂ کُنۡ حقیقت میں) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ایک ہے۔ یعنی اگرچہ انفرادی روحانیّت کے درجاتِ عالیہ پر ظہورِ حقائق و معارف کے لئے کلمۂ امر کا وقوع بار بار ہوتا رہتا ہے، لیکن وہ مثال زمان و مکان سے بالاتر مقامِ وحدت پر ہے، لہٰذا وہ ہر اعتبار سے ایک ہی ہے، اور گوہرِ عقل میں حقائقِ اشیاء کی وحدت کو ظاہر کرتا ہے۔

 

۱۴۔ اللہ تعالیٰ کا برحق فرمان ہے: وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا (۳۳: ۳۷) اور خدا کا امر (کلمۂ کن) کیا کرایا ہوا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے مستقبل اور موت کے بعد جتنی چھوٹی بڑی چیزیں

 

۲۶

 

امرِ کُنۡ سے ظہور پذیر ہو جانے والی ہیں، اُن میں سے کوئی شے نئی نہیں، کیونکہ ہر چیز وہی ہے جو پہلے سامنے آئی تھی، نہ تو قیامت کوئی جدید واقعہ ہے اور نہ ہی بہشت کوئی نیا مقام، مگر ہاں، ہر چیز میں جدّت پیدا ہو جانے کے لئے یہی قانونِ فطرت بنا ہوا ہے کہ وہ چیز زمان و مکان کے اُس دائرۂ وسیع پر جس کی ابتدا و انتہا نہیں گھوم گھوم کر سامنے آجاتی ہے۔

 

۱۵۔ آیۂ مذکورہ بالا کے بموجب خدا کی بادشاہی میں جہاں ہو جا (کُنۡ) کا مقدّس فرمان ازل سے محیط ہے، وہاں عدمِ محض (یعنی کسی چیز کی قطعی نیستی) کا تصوّر غیر ممکن ہے، مگر یہ درست ہے کہ ایک اعتبار سے عالمِ امر کی تشبیہہ نیستی سے دی گئی ہے، کیونکہ وہ ایک پوشیدہ جہان ہے، جس کی کسی شے کا ظہور “کُنۡ” سے ہو جاتا ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ کلمۂ کُن کا اصل مقصد پوشیدگی سے کسی چیز کا ظاہر ہو جانا ہے، اور ایسے ظہور کا تعلق نہ صرف دیدۂ دل سے ہے، بلکہ چشمِ ظاہر سے بھی ہے۔

 

۱۶۔ قرآنِ حکیم کا اصولِ حکمت بڑا عجیب و غریب اور بدرجۂ کامل جامع ہے، یہاں مثال کے طور پر غور کیا جائے: اور ہم نے انسان کو گیلی مٹی کے جوہر سے “خلق” کیا (یعنی انسان پہلے پہل ذراتِ لطیف میں اپنا روحانی وجود رکھتا ہے) پھر ہم نے اس کو نطفہ بنا کر ایک جگہ (عورت کے رحم) میں رکھا، پھر ہم ہی نے نطفہ کو جما ہوا خون بنایا، پھر ہم ہی نے منجمد خون کو گوشت کا لوتھڑا بنایا، پھر

 

۲۷

 

ہم ہی نے لوتھڑے کی ہڈیاں بنائیں پھر ہم ہی نے ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر ہم ہی نے اس کو خلقِ آخر کی صورت میں انشا کیا، تو (سبحان اللہ) خدا بڑا بابرکت ہے جو سب بنانے والوں سے بہترین ہے (۲۳: ۱۲ تا ۱۴) اس ربّانی تعلیم میں کئی توجہ طلب نکات ہیں، چنانچہ: “وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍ” سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کو تخلیق کے مرحلۂ اوّل پر جوہرِ خاکی کے صرف ایک ہی عنصر سے پیدا کیا گیا ہے، جس طرح جن کو جوہرِ آتشی کے عنصرِ واحد سے بنایا گیا ہے،تخلیقِ انسانی کے اس مقام کا ایک خاص نام عالمِ ذرّ ہے، جس میں تمام انسان بصورتِ ذرّاتِ لطیف رہتے ہیں، آفرینشِ انسان کی منزلِ ہفتم پر خلقِ آخر کا ذکر آیا ہے اور اس سے جثّۂ ابداعی مراد ہے، اور اسی کی طرف خداوند کی صفتِ “احسن الخالقین” کا اشارہ ہے۔

 

۱۷۔ آسمان سات ہیں، زمین بھی سات ہیں (۶۵: ۱۲) ایامِ ہفتہ سات ہیں، صاحبانِ ادوارِ مہین (حضرتِ آدم، حضرتِ نوح، حضرتِ ابراہیم، حضرتِ موسیٰ، حضرت عیسیٰ، حضرت محمد مصطفیٰ اور حضرتِ قائم صلوات اللہ علیہم اجمعین) سات ہیں، اور صاحبانِ ادوارِ کہین بھی سات سات ہیں، یعنی ہر چھوٹے دور کے ائمّۂ طاہرین علیہم السّلام، اسی طرح جسمانی اور روحانی تعمیر و تکمیل کے مراحل بھی سات سات ہیں، اور وہ یہ ہیں:

 

۱۔ سلالہ / جوہرِ خاک

۲۔ نطفہ

 

۲۸

 

۳۔ علقہ / منجمد خون

۴۔ مضغہ / گوشت کا لوتھڑا

۵۔ عظام / ہڈیاں

۶۔ لحم / گوشت

۷۔ خلقِ آخر / مکمل تخلیق

 

۱۸۔ مذکورہ بیان میں جو جو چیزیں سات نمبر پر واقع ہیں، ان کے آپس میں مناسبت پائی جاتی ہے، یعنی آسمانِ ہفتم، زمینِ ہفتم، سنیچر کا دن، حضرتِ قائم، ہر ساتواں امام، اور خلقِ آخر، جو جسمِ لطیف ہے، اُس مناسبت کے یہ معنی ہیں کہ آسمانِ ہفتم حضرت قائم ہے، زمینِ ہفتم آپ کا حجت ہے، سنیچر کی تاویل بھی قائم ہے، ہر ساتواں امام ایک طرح سے قائم ہے اور وہ قائم کے ایک اہم کام کو انجام دیتا ہے، اور خلقِ آخر کے مقام پر حضرت قائم کی شناخت حاصل ہو جاتی ہے۔

 

۱۹۔ چونکہ تمام چیزیں اپنے اپنے دائرے پر واقع ہیں، اس لئے حضرت قائم حضرت آدم سے اس طرح ملا ہوا ہے جس طرح سنیچر اتوار سے جا ملتا ہے، جیسے ہر ساتواں امام پہلے امام سے ملتا ہے، اور جیسے خلقِ آخر یعنی جثّۂ ابداعی عالمِ ذرّ سے متعلق ہے۔

 

۲۰۔ اس بات سے شاید آپ کو تعجب ہوگا کہ قرآنِ حکیم میں اگرچہ بظاہر صرف ایک ہی آدم کا ذکر ملتا ہے، لیکن بباطن اس میں لاتعداد آدموں کا تذکرہ موجود ہے، اس کی مثال اسمِ “انسان” ہے، جو قرآنِ پاک میں بصیغۂ واحد مذکور ہے، مگر یہ اپنے معنی میں تمام انسانوں

 

۲۹

 

کی نمائندگی کر رہا ہے۔

 

۲۱۔ آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، دن رات، پانی، ہوا، درخت، حیوان اور انسان سب اپنے اپنے دائرے پر گردش کر رہے ہیں، ہاں سورج کائنات کے وسط میں ساکن تو ہے، مگر وہ ایک طرف سے بڑی سرعت کے ساتھ تحلیل شدہ مواد کی صورت میں خارج ہوتا رہتا ہے اور دوسری طرف سے ایندھن کی شکل میں اپنی بھٹی میں داخل ہو جانے کا سلسلہ جاری رکھتا ہے، اسی طرح وہ بھی گردش میں ہے، درخت بیج سے ہے اور بیج درخت سے، حیوان اور انسان نطفہ سے ہیں اور نطفہ اُن سے، اسی نہج پر ہر چیز گردش کرتی رہتی ہے، پس اس قانونِ فطرت سے ظاہر ہے کہ خدا کی پادشاہی میں ہر طرف لا ابتدائی اور لاانتہائی ہے۔

 

نصیر الدین نصیر

لندن۔ مورخہ ۱۲ جولائی ۱۹۸۳ء

 

۳۰

 

عالمِ شخصی

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ خداوندا! خداوندا! تیرے حضورِ اقدس اور تیری بارگاہِ عزت سے تائید و دستگیری مطلوب ہے، پروردگارا! اپنی عنایتِ بے نہایت سے اس بندۂ مسکین و خاکسار کو توفیق عطا فرما کہ یہ ناچیز ہمیشہ خود کو خاکپائے مومنان سمجھ رکھے، آمین یا ربّ العالمین!

 

عالمِ شخصی ایک انتہائی دلچسپ اور بےحد مفید موضوع ہے، کیونکہ یہ فرمانِ مبارک “من عرف نفسہ فقد عرف ربہ” کے تحت آتا ہے، مگر یہ معلوم نہیں کہ مجھ ایسے بے مایہ درویش کے الفاظ کیسے ہوں گے، تاہم رحمتِ خداوندی پر امید رکھنا بھی ضروری ہے، بہر کیف “عالمِ شخصی” خداوند تعالیٰ کے نیک بندوں کے لئے ایک امید افزا تصوّر ہے، اس ذاتی دنیا (Personal World) کے کئی دوسرے نام بھی ہیں، جیسے عالمِ صغیر، عالمِ نفسی، ذاتی دنیا، عالمِ روحانیّت، عالمِ باطن وغیرہ، ہر عظیم حقیقت کے

 

۳۱

 

بہت سے نام ہوا کرتے ہیں، مگر اس کا کام ہمیشہ ایک جیسا رہتا ہے۔

 

تصوّرِ آفرینش کی حقیقت کیا ہے؟ خدا نے عالمِ دین کو کس طرح پیدا کیا؟ پیغمبر اور امام کی حقیقی شناخت کا وسیلہ کیا ہے؟ انسان کی حدودِ رسائی کہاں کہاں تک ممکن ہیں؟ روحِ مومن اور روحِ قرآن کے آپس میں کیا رشتہ ہے؟ انسان کی ذاتی دنیا کا ذکر قرآن میں کہاں کہاں یا کس طرح ہے؟ اس جیسے بہت سے سوالات کے جوابات عالمِ شخصی کے اس موضوع میں داخل و شامل ہیں۔

 

حضرت مولانا مرتضیٰ علی صلوات اللہ علیہ کے پُرحکمت ارشاد “من عرف نفسہ فقد عرف ربہ” میں دو باتیں بنیادی اہمیت کی حامل اور قابلِ توّجہ ہیں، ایک یہ فرمانا کہ خدا کی معرفت خود انسان کی ذات میں پوشیدہ ہے، دوسرا یہ حکم کہ معرفت کا لگاؤ اسمِ “رب” سے ہے، ربّ (یعنی پرورش کرنے والا) تو ساری کائنات و موجودات کا ہے، مگر معرفت صرف یہ دیکھنے اور معلوم کر لینے سے حاصل ہوگی کہ اشارۂ “ربّہ” کے مطابق خدا انسان کی عقلی، علمی اور روحانی پرورش کس طرح کرتا ہے، جس کے لئے عالمِ شخصی کے مقاماتِ روحانی اور درجاتِ عقلی کا مطالعہ و مشاہدہ کرنا ہوگا، کیونکہ وہاں ربّ العزت کی جملہ صفات کے علمی و عرفانی ظہورات ہوتے رہتے ہیں۔

 

جی ہاں، معرفت کا تعلق اسمِ ربّ سے ہے، اور ربّ کی

 

۳۲

 

ربوبیّت وہ صفت ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنی ذات کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے: الحمد للہ ربّ العالمین، یعنی سب تعریف اللہ کی ہے جو کائنات، عالمِ دین اور عالمِ شخصی کا پروردگار ہے، اگر مولا علیؑ کے نزدیک عالمِ شخصی میں کائناتِ ظاہر اور عالمِ دین کی تمام مثالیں جمع نہ ہوتیں اور اس میں صفتِ ربوبیّت کا ہر گونہ ظہور نہ ہوتا تو آپ انسانی روح کو درسگاہِ معرفت کا درجہ نہ دیتے، اس سے یہ حقیقت ظاہر اور روشن ہو جاتی ہے کہ عوالم یا دنیائیں خواہ اٹھارہ ہزار یا لاتعداد کیوں نہ ہوں لیکن عقل، روح اور جسم کی گوناگون تربیت و پرورش کون کرتا ہے اور کس طرح، اس کا ثبوت اور کامل معرفت عالمِ شخصی میں ہے۔

 

قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں اور جتنی بار تخلیقِ کائنات کا ذکر آیا ہے، اس میں بزبانِ حکمت ضروری طور پر شخصی دنیا کا تذکرہ بھی موجود ہے، اور عالمِ دین کا تذکرہ بھی، کیونکہ یہ ظاہری کائنات اور اس کی حدود میں جو کچھ ہے وہ انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اور یہ کیسے مناسب و ممکن ہو سکتا تھا کہ ظاہری اور مادّی دنیا جو انسان کی خاطر ہے اس کی آفرینش کا ذکر فرمایا جائے، مگر باطنی اور روحانی عالم جو خود انسان ہے اس کا تذکرہ نہ کرے، ایسا نہیں ہے، بلکہ اس ہدایت نامۂ سماوی میں جو بنی نوع انسان کی ظاہری و باطنی ترقی کی غرض سے نازل ہوا ہے دنیا و آخرت کے بارے میں جو کچھ ارشاد

 

۳۳

 

ہوا ہے اس کا براہِ راست تعلق عالمِ انسان سے ہے کیونکہ خود انسان باعتبارِ جسم دنیا ہے اور باعتبارِ روح آخرت۔

 

قرآنِ پاک میں لفظ “عالمین” جو عالم کی جمع ہے جس کا لفظی ترجمہ “دنیائیں” ہے، اس سے بقول حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام عالمِ انسان مراد ہے اور یہ بصورتِ جمع اس لئے ہے کہ ہر انسان بحدِّ قوّت یا بحدِّ فعل ایک دنیا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (۲۱: ۱۰۷) اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت عوالمِ انسانیّت کے لئے رحمتِ خداوندی ہیں، مگر حصولِ رحمت کی استطاعت میں سب انسان ایک جیسے نہیں ہو سکتے، لہٰذا صیغۂ جمع لایا گیا ہے، یعنی عالمین (انسانیت کی دنیائیں)۔

 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ (۲۱: ۱۰۵) ۔ تاویل: اور ہم نے تکمیلِ ذکر کے بعد کتابِ روحانیّت میں لکھ دیا کہ روئے زمین کے وارث ہمارے صالح بندے ہوں گے۔ زبور کتاب کو کہتے ہیں، اور یہاں کتابِ روحانیّت مراد ہے جو روحانی ترقی کے بعد وجود میں آ سکتی ہے، اور اس کتاب میں لکھنا یہ ہے کہ بطورِ عملی نمونہ ایسے بندوں کو انفرادی عالم کی زمین کے وارث بنا دیا جاتا ہے تاکہ عظیم روحانی سلطنت کا یقین ہو سکے، اس سے ظاہر ہے کہ ذاتی دنیا میں سب کچھ ہے اس میں آسمان و زمین اور ان کی ساری چیزیں موجود ہیں۔

 

۳۴

 

قرآنِ کریم (۳۱: ۲۰) میں ارشاد ہے: کیا تم لوگوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) خدا ہی نے تم کو مسخر کر دیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دیں اور لوگ ایسے بھی ہیں جو خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں (حالانکہ ان کے پاس) نہ علم ہے اور نہ ہدایت ہے اور نہ کوئی روشن کتاب ہے (۳۱: ۲۰) اس ربّانی تعلیم سے یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے کہ جملۂ کائنات انسان کے لئے مسخر کی گئی ہے، اور اس تسخیر کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ عالمِ ظاہر اور اس کی چیزیں مجموعاً انسان کے کام میں لگی ہوئی ہیں، اور دوسری صورت یہ ہے کہ کائنات اپنے اندر کی تمام اشیاء کے ساتھ بشکلِ لطیف انسان کے باطن میں سما گئی ہے اور اسی طرح تعجب ہے کہ عالمِ کبیر عالمِ صغیر میں محدود ہو گیا ہے، تاکہ خدا کی ظاہری اور باطنی نعمتیں پایۂ تکمیل کو پہنچ جائیں، یہ تسخیر علم، ہدایت اور کتابِ منیر سے ممکن ہے، روشن کتاب امامِ زمانؑ کا نور ہے، روحانی ہدایت حجت کا درجہ ہے اور علمِ یقین داعی کا مرتبہ ہے، پس اس آیۂ مبارکہ کے بموجب اللہ تعالیٰ کی تمام ظاہری نعمتیں انسانوں کو عالمِ جسمانی کے مسخر ہونے سے حاصل ہیں، اور باطنی نعمتیں اس کی صورتِ باطن سے ملی ہیں جو انسان کے باطن میں ہے، اور یہ سب کچھ کتابِ منیر کی بدولت ہے جو مومنین میں امام کی روحانیّت و نورانیّت اور عملی تاویل ہے، جس میں کائنات کی ایک مکمل علمی صورت موجود ہے۔

 

۳۵

 

علم (جاننا) ع ل م کے مادّہ سے مصدر ہے، عالم اسمِ فاعل ہے اور عالَم اسمِ آلہ ہے، یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ چیزیں جانی پہچانی جاتی ہیں، چنانچہ خدا نے عالمِ کبیر کو عالمِ صغیر میں سما دیا، یعنی اُس نے اپنی رحمت سے علم کے آلۂ ظاہر کو آلۂ باطن کے ساتھ ایک کر دیا، اور اسی طرح نہ صرف “عالمین” کے معنی کا اطلاق براہِ راست انسانوں پر ہوا، بلکہ اس سے یہ حقیقت بھی روشن ہوگئی کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور اس معنیٰ میں ہے کہ وہ ساری کائنات کی روحانی صورت کو چشمِ حقیقت بین کے سامنے رکھ دیتا ہے۔

 

قرآن کہتا ہے کہ بہشت کا طول و عرض اس مادّی کائنات کے برابر ہے (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) اور اہلِ دانش اس حقیقت پر یقین رکھ سکتے ہیں کہ جو چیز اس ظاہری کائنات کے بالکل برابر ہے، وہ اس کا جثّۂ ابداعیہ ہے، جو جنّت بھی ہے اور کائنات کا لطیف جسم بھی ہے، اور آسمان و زمین کے ابداعی صورت میں موجود ہونے کا ثبوت اس فرمانِ الٰہی میں ہے: بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ (۰۲: ۱۱۷) وہی آسمانوں اور زمین کا بدیع اور مبدِع ہے اور جب کوئی امر پورا ہوتا ہے تو اسے کُنۡ فرماتا ہے اور وہ ہو جاتا ہے، پس معلوم ہوا کہ کائنات کے لطیف و کثیف دو جسم ہیں، جس طرح قرآن اس حقیقت کی طرف بار بار توجہ دلاتا ہے اور اس بات پر زور دیتا

 

۳۶

 

ہے کہ کوئی چیز جفت یعنی جوڑے کے بغیر نہیں، سو کائنات کے ہوں یا انسان کے جسمِ لطیف و کثیف بطریقِ ضد جفت ہیں۔

 

اس بیان کے بعد کہنا یوں ہے کہ کائنات جہاں جسمِ لطیف کے اعتبار سے ابداعی شکل میں موجود ہے، وہاں اس میں ہمیشہ کُنۡ فیکون کے گوناگون ظہورات ہوتے رہتے ہیں، لہٰذا اس کا سب سے عظیم ظہور انسانِ کامل کی صورت میں ہوتا ہے، جو خدا کی خدائی کے عظیم بھیدوں کا خزانہ ہے، اور یہ وہ مقام ہے جس میں جملۂ کائنات بوجہِ ابداع ظاہر موجود ہوتی ہے، جس طرح پیشانی میں ہمۂ جہان بوجہِ ابداعِ باطن موجود ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ابداع ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی۔

 

مذکورہ حقیقت دوسرے لفظوں میں پیش کی جاتی ہے کہ جس طرح عالمِ صغیر ایک ایسے انسان میں محدود ہے کہ وہ ابھی انسانِ کامل نہیں ہوا ہے، اسی اصول کے مطابق عالمِ کبیر کا جسمِ لطیف ایک ایسے انسان کی ہستی میں سمایا ہوا ہے کہ وہ کامل اور مکمل ہے، جیسا کہ فرمودۂ خدا ہے: وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ (۰۲: ۲۵۵) اس کی کرسی سب آسمانوں اور زمینوں کو گھیرے ہوئے ہے، یعنی انسانِ کامل کا جثّۂ نورانی جو نفسِ کلّی سے مل گیا ہے، اللہ کی کرسی ہے، جس میں کائنات کی ابداعی صورت بطریقِ جسمِ لطیف سما گئی ہے۔

 

ایک حدیث کے مطابق انسان خدا کا راز ہے اور خدا انسان کا

 

۳۷

 

راز ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے عوام سے یہ حقیقت پوشیدہ رکھی ہے کہ انسان اوّل و آخر میں کیا رتبہ رکھتا ہے اور ربِّ کریم کا اُس سے کیا رشتہ ہے، یہ بات عوام النّاس کے اعتبار سے فرمائی گئی ہے، مگر انبیاء و اولیاء کے توسط سے خدا کے بعض بندے یہ جان چکے ہیں کہ یہ راز کیا ہے، کیونکہ تفاوتِ عمل اور ترقی و پسماندگی کے سبب سے لوگوں کے مختلف درجات ہوا کرتے ہیں۔

 

انسان روحانی اعتبار سے اس دنیا میں کیسے آیا؟ کیوں آیا؟ کہاں سے آیا؟ اگر مانا جائے کہ یہ اللہ کے حضور سے یہاں آیا ہے، تو بہت بڑا سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کے قرب کو چھوڑ کر اس دنیا میں کیوں آنا چاہئے؟ ان جیسے بڑے بڑے سوالات اور بھی ہیں، مگر یہ جاننا ضروری ہے کہ روح کیا ہے، تاکہ بوقتِ ضرورت سوال صحیح ہو، اور بہت سے سوالات وہیں پر ختم ہو جائیں، چنانچہ اگر کہا جائے کہ روح بسیط ہے یعنی ایک ہمہ گیر اور ہمہ رس حقیقت، تو بہت سے سوال ختم ہو جاتے ہیں، اور اگر یہ قبول کر لیا جائے کہ روح صورتِ رحمان ہے، جیسے حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آدم و بنی آدم رحمان کی زندہ تصویریں ہیں، اور حقیقتِ روح کے متعلق یہی تصوّر سب سے بہتر اور قابلِ فہم ہے۔

 

سورج کی روشنی کائنات میں پھیلتی رہتی ہے مگر یہ ایک طرف

 

۳۸

 

سے سرچشمۂ خورشید سے وابستہ رہتی ہے، اسی طرح روح اپنی اصل کے ساتھ اتصال رکھتی ہے، جیسے درخت سے اس کا سایہ مربوط رہتا ہے، جس طرح کسی دور ملک سے آپ کو فون آتا ہے، آپ اس مثال میں بھی سوچ سکتے ہیں کہ کس طرح ایک ہی بجلی گھر سے کسی شہر کے لاکھوں بلب روشن ہو جاتے ہیں، وائرلیس، ریڈیو، فلم اور ٹی وی میں روح کے عجائب و غرائب کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، مگر یہ معلوم نہیں کہ کوئی کس طرح سوچتا ہے۔

 

شخصی عالم ایک ایسا جہان ہے، جس میں تصورِ آفرینش کی روشن حقیقتیں موجود ہیں، اور اس میں خدا نے یہ علم بھی رکھا ہوا ہے کہ عالمِ دین کس طرح مکمل ہوا، پیغمبر اور امام کی معرفت نور کی شناخت سے الگ نہیں، انسان کی رسائی معرفت تک ہے اور پھر کیا چاہئے، روحِ مومن اور روحِ قرآن ازل اور ابد میں ایک ہے، انسان کی ذاتی دنیا کا ذکر قرآنِ پاک کی ہر آیت میں موجود ہے، جبکہ عالمِ کبیر اور عالمِ دین دونوں عالمِ شخصی میں سمائے ہوئے ہیں۔

 

فقط آپ کا علمی خادم

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

لندن ۲۴ جولائی ۱۹۸۳ء

 

۳۹

 

قرآنِ حکیم میں لفظِ “نعمت”

 

“نعمت” قرآنِ پاک کے خاص اور پُرحکمت الفاظ میں سے ہے، کیونکہ یہ اپنے معنی میں بڑا جامع ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ لفظ امُ الکتاب (سورۂ فاتحہ) میں بمقامِ “انعمت علیہم” استعمال فرمایا گیا ہے، جس کے بموجب “صراطِ مستقیم” اس لئے قابلِ تعریف ہے کہ وہ ان حضرات کا راستہ ہے، جن کو خداوندِ عالم نے اپنی تمام نعمتوں سے نوازا ہے (۰۴: ۶۹)۔

 

نعمت کے معنی ہیں عنایت، احسان، خوش حالی اور ہر وہ چیز جس میں لذت و راحت ہو، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے تین قسم کی نعمتیں بنائی ہیں، اُن میں سب سے اعلیٰ درجہ کی نعمتیں عقلی اور علمی صورت میں ہوا کرتی ہیں، دوسری قسم کی نعمتیں روحانی شکل میں پائی جاتی ہیں اور تیسری قسم کی نعمتیں وہ ہیں، جن کا تعلق جسم سے ہے، یعنی مادّی اور جسمانی نعمتیں، جو اس دنیائے ظاہر میں نظر آتی ہیں۔

 

۴۰

 

نعمتوں کی ایک اور تقسیم بھی ہے، جس کے مطابق وہ ظاہری نعمتیں اور باطنی نعمتیں کہلاتی ہیں، جیسے قرآنِ مقدّس کا ارشاد ہے: و اسبغ علیکم نعمہ ظاہرۃ و باطنۃ (۳۱: ۲۰) اور (خدا نے) تم پر اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں پوری کر دیں۔ اس سے یہ مطلب صاف طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ جس طرح جسم ظاہر ہے اسی طرح جسمانی نعمتیں بھی ظاہر ہیں، اورجس طرح عقل و روح پوشیدہ ہیں، اسی طرح عقلی اور روحانی نعمتیں بھی باطن ہیں، اور اس کی منطق یہ بنتی ہے کہ قرآن اور اسلام کی تمام تر عقلی اور روحانی نعمتیں تاویلی حکمت میں پنہان ہیں، جس کی مثال آپ دنیائے ظاہر ہی میں دیکھ سکتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو جسم کی غذا اور نعمتِ جسمانی کہلاتی ہے، وہ پوشیدگی سے نکلتی ہے یا نکالی جاتی ہے، چنانچہ درخت یعنی پودا زمین سے سر ابھارتا ہے، پھل درخت کے باطن سے پیدا ہو جاتا ہے، پھل کا وہ حصہ جو کھایا جاتا ہے، چھلکے سے برآمد ہو جاتا ہے، گٹھلی اس کے باطن میں ہوتی ہے، مغز گٹھلی میں سے نکالا جاتا ہے اور تیل مغز کے باطن سے نکالا جاتا ہے، جو اس سلسلے میں سب سے باطنی چیز ہے، اسی طرح دودھ گائے کے باطن سے پیدا ہوتا ہے، مکھن دودھ کے باطن سے، تیل مکھن کے باطن سے اور انرجی (Energy) تیل کے باطن سے، ان مثالوں سے معلوم ہوا کہ اگرچہ جسمانی نعمتیں ظاہر ہیں، تاہم وہ اہلِ دانش کے سامنے بڑی عمدگی سے یہ مثال پیش کرتی ہیں کہ عقل اور

 

۴۱

 

روح کی نعمتیں کس طرح باطن ہیں۔

 

آیۂ کریمۂ قرآن (۰۵: ۰۳) کے مطابق اسلام کی تکمیل اور نعمتِ خداوندی کا اتمام اُس روز ہوا تھا جبکہ مولا مرتضیٰ علیؑ آنحضرتؐ کے جانشین مقرر ہوئے تھے، اس سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ سلسلۂ نزولِ قرآن کا مکمل ہو جانا اور ولیٔ امر کے تقرر کا عمل میں آنا اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، جس سے بڑھ کر اس دنیا میں کوئی نعمت نہیں۔

 

اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا شدہ نعمتوں کو یاد کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے، یہ عمل اگر ایک طرف سے شکرگزاری اور قدر دانی ہے تو دوسری طرف سے اس میں یادِ الٰہی اور مسرّت و شادمانی کا ایک عظیم فلسفہ بھی ہے، یقیناً ربِّ کریم کے احسانات کا تذکرہ اپنے دامنِ مقدّس میں خوشیوں کے پھول لا دیتا ہے۔

 

خداوند تعالیٰ بنی اسرائیل سے فرماتا ہے کہ: اے بنی اسرائیل (یعقوب کی اولاد) میری عطا کردہ نعمت کو یاد کرو (۰۲: ۴۰) اس میں پروردگارِ عالم کے ان تمام احسانات کے معانی لفظِ “نعمت” میں سمو گئے ہیں، جو طرح طرح کے معجزات اور علم و حکمت کی صورت میں تھے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نعمت خدا کے ہر اُس احسان کا نام ہے، کہ اس کے بغیر دین میں اللہ کی رحمت کا کوئی ثبوت نہیں مل سکتا ہے۔

 

دنیا میں کہیں ماں باپ کے بغیر بھائیوں کا تصوّر نہیں، چنانچہ پیغمبرِ خدا اور آپ کے وصی مولا علی مومنین کے حق میں نہ صرف خدا

 

۴۲

 

کی رسی تھے بلکہ روحانی ماں باپ بھی تھے، پس یہی سبب ہے کہ قرآن میں جہاں اللہ کی رسی کا ذکر ہے، وہاں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی ہو گئے (۰۳: ۱۰۳) یہاں نعمت سے روحانی ماں کا دودھ مراد ہے، یعنی تعلیم و ہدایت، جس کی بدولت مومنین رشتۂ اخوت سے وابستہ ہو گئے۔

 

قرآنِ حکیم میں ارشاد فرمایا گیا ہے: بے شک نیک لوگ نعمتوں میں ہوں گے تختوں پر بیٹھے نظارے کریں گے (۸۳: ۲۲) یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہشت کا تخت کیسا ہے، اور جنّت والوں کے نظارے کی کیا حدود ہوں گی؟ جواب عرض ہے کہ وہ تخت بے جان نہیں بلکہ زندہ ہے، جس کی مثال یو۔ ایف۔ او یا جسمِ لطیف ہے، جس کے ذریعہ وہ پوری کائنات کی سیاحت اور نظارہ کریں گے۔

 

سورۂ نمل کی آیت نمبر ۱۳ تا نمبر ۱۹ کا مطالعہ کرکے ہر دانشمند مومن یہ یقین کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کو جو علم و فضل اور جو روحانی سلطنت عطا فرمائی تھی، وہ خداوندِ مہربان کی عظیم ترین نعمت تھی۔

 

بہشت کی اُن تمام چیزوں کا نام نعمت ہے، جن میں عقل اور نفسِ مطمئنہ کے لئے گوناگون اعلیٰ لذّتیں اور راحتیں رکھی ہوئی ہیں، جیسے ارشاد ہے: وَ اِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا

 

۴۳

 

وَّ مُلْكًا كَبِیْرًا (۷۶: ۲۰) اور جب تم وہاں نگاہ اٹھاؤگے تو ہر طرح کی نعمت اور عظیم الشّان سلطنت دیکھو گے۔ یہ سلطنت جو سب سے عظیم اور لازوال ہے کس کی ہوگی؟ خداوند کی اور اس کے برگزیدہ بندوں کی۔

 

خدائے بزرگ و برتر نے جس جس درجہ کے کامل اور برگزیدہ انسانوں کو اپنی نعمتیں عطا فرمائی ہیں، وہ نبیّین، صدّیقین، شہدا اور صالحین کے علاوہ فرمانبردار مومنین ہیں، اور موضوعِ نعمت کے اس ربط کو پیشِ نظر رکھا جائے تو یہ مضمون تمام قرآن میں پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس طرح لفظِ نعمت قرآنِ حکیم کے دوسرے بہت سے جامع الفاظ کے ساتھ ملا ہوا نظر آتا ہے۔

 

اللہ تعالیٰ کی پیاری کتاب (قرآنِ عزیز) عقلی، علمی اور روحانی نعمتوں کے تذکروں سے بھرپور ہے، اور خاص کر سورۂ رحمان جو مولا علی صلوات اللہ علیہ کے مبارک ارشاد کے مطابق عروس القرآن ہے، اس میں عالمِ دین کی اُن جملہ نعمتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، جو مخلوقِ لطیف و کثیف کے لئے بنائی گئی ہیں، جہاں نعمتوں کا تذکرہ  اٰلاء کے نام سے فرمایا گیا ہے۔

 

سورۂ رحمان میں سب سے پہلے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ خداوندِ مہربان نے جو کچھ سکھایا ہے، اور جو کچھ بنایا ہے وہ نعمت ہی نعمت ہے، اور اللہ کی ان تمام نعمتوں میں جنّ و انس دونوں

 

۴۴

 

برابر کے شریک ہیں، اور اس سے لازمی طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ جنّ و انس کے درمیان وہ رشتہ کیا ہے جس کی وجہ سے یہاں یہ دونوں ہر عظیم نعمت پر ایک دوسرے کے ساتھ ہیں؟ اس کے جواب کے لئے یوں عرض کیا جاتا ہے کہ جنّ درحقیقت انسان کا ایک لطیف روپ ہے اور انسان اُس کا ایک کثیف روپ، چنانچہ یہ اُس کے بغیر اور وہ اس کے سوا مکمل نہیں، اور اگر یہاں یہ سوال بھی ہو کہ جب جنّ جوہرِ آتش سے اور انسان جوہرِ خاک سے پیدا کیا گیا ہےتو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں مخلوق ایک ہوں؟ اس کے لئے جواب عرض کرتا ہوں کہ وہ بات عالمِ ذرّ سے متعلق ہے، کہ وہاں عناصر کے الگ الگ اجزاء اور ذرّات تک زندہ ہیں، مگر اُس میں کوئی مخلوق اس دنیا میں آئے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ہے، چنانچہ انسانی جسم اگرچہ بظاہر صرف انسان ہی کے لئے مخصوص لگتا ہے، تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ انسانی صورت میں سب کچھ جمع ہے، جبکہ یہ ایک کائنات ہے، تو اس میں جمادات و نباتات تو ترقی اور فنا کی شکل میں ہیں، لیکن اخلاقی اور مذہبی طور پر گرا ہوا آدمی بموجبِ قانونِ خداوندی حیوان ہے (۰۷: ۱۷۹، ۲۵: ۴۴) اگر کوئی آدمی لوگوں کو گمراہ کر دینے والا ہے تو وہ شیطان ہے (۰۲: ۱۴) اور اگر کوئی خدا کا برگزیدہ ہے تو وہ فرشتہ ہے (۰۶: ۰۹، ۱۷: ۹۵)۔

 

سورۂ رحمان میں جنّ و انس سے یہ سوال: فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا

 

۴۵

 

تُكَذِّبٰنِ (اے گروہِ جنّ وانس تم دونوں اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاتے ہو؟) کل ۳۱ مرتبہ کیا گیا ہے، اور ۳۱ حدودِ دین کا عدد ہے، یعنی پانچ حدودِ روحانی، سات صاحبانِ ادوارِ مہین، سات صاحبانِ ادوارِ کہین، اور بارہ حجت (۵ + ۷ + ۷ + ۱۲ = ۳۱)  پس یہ تمام نعمتیں جن کا پُرحکمت ذکر اس سورہ میں فرمایا گیا ہے عقلی، علمی، عرفانی اور روحانی ہیں، جو حدودِ دین سے متعلق ہیں، یعنی عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، جدّ، فتح، خیال، چھ ناطق، حضرتِ قائم، سات أئمّہ (ہر چھوٹے دور کے) اور بارہ حجت۔

 

انسان خواہ جسمِ خاکی کی نسبت سے بشر کہلائے یا جسمِ لطیف کے سبب سے جنّ، ہر حالت میں حدودِ دین کی اُن نعمتوں کا محتاج ہے، جن کا ذکر عروس القرآن (سورۂ رحمان) میں فرمایا گیا ہے، پس ہر مومن پر فرض ہے کہ وہ نورِ علم کی روشنی میں خود کو پہچان لے اور ان نعمتوں کو بھی پہچان لے، جو قرآن خاص کر سورۂ رحمان میں مذکور ہیں۔

 

کسی دیندار کو جنّ کے متعلق بڑے سے بڑے شک میں مبتلا رہنا زبردست عرفانی نقصان کا باعث ہے، لہٰذا اسے یہ جاننا ضروری ہے کہ جس طرح سب انسان ایک جیسے نہیں ہو سکتے، کیونکہ کچھ تو اچھے ہیں اور کچھ برے، بالکل یہی بات جنّات میں بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایتِ بے نہایت سے قرآنِ حکیم میں ہر ضروری بات بتا رکھی ہے،

 

۴۶

 

چنانچہ سورۂ جنّ میں فرمانِ خداوندی ہے:

وَّ اَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوْنَ وَ مِنَّا دُوْنَ ذٰلِكَؕ-كُنَّا طَرَآىٕقَ قِدَدًا (۷۲: ۱۱) اور یہ کہ ہم میں سے کچھ لوگ نیکوکار ہیں اور کچھ لوگ اور طرح کے ہیں ہم لوگوں کے بھی کئی طرح کے فرقے ہیں۔ پس لفظِ جنّ فی ذاتہٖ (یعنی لُغوی لحاظ سے) کوئی برا لفظ نہیں، جس طرح شیطان کا لفظ برا اور فرشتہ کا نام اچھا ہے، مگر جنّ و انس لفظی معنی میں اس کے برعکس ہیں، کہ اس معنیٰ میں اعمالِ نیک و بد کا کوئی ذکر موجود نہیں، جیسے خداوندِ عالم کا پاک ارشاد ہے:

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (۵۱: ۵۶) اور میں نے جنّ و انس کو اس غرض سے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔ ظاہر ہے کہ جنّ و انس کے دونوں لفظ ایک جیسے ہیں کہ اُن میں ابھی اچھے یا برے اعمال کا کوئی فیصلہ نہیں ہے، لیکن عوام النّاس کے قصّہ کہانی کی طاقت کو دیکھو تو سہی کہ اس سے جنّ کلّی طور پر بدنام ہو چکا ہے، حالانکہ سورۂ جنّ کی مذکورۂ بالا آیت کے مطابق نیکوکار یعنی مومنین جنّات کے لئے “صالحون” کا لفظ استعمال ہوا ہے، اور اس لفظ کی معنوی بلندی اس قدر پُرحکمت اور قابلِ تعریف ہے کہ یہ انبیائے کرامؑ کے لئے استعمال ہوا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ۔۔۔۔ كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ (۰۶: ۸۵) ۔۔۔ یہ تمام پیغمبر صالحین میں سے ہیں۔

 

۴۷

 

اس دنیا میں کچھ کیڑے ایسے بھی ہیں، جو آگے چل کر پروانے پتنگے بن جاتے ہیں، پروانے تو لاتعداد ہوا کرتے ہیں، مگر سب کی کوئی اہمیت نہیں، اہمیت اور قدر و قیمت صرف ان پروانوں کی ہوتی ہے جو ریشم کے کیڑوں سے بن جاتے ہیں، قرآنِ حکیم میں دیکھئے: یَوْمَ یَكُوْنُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ (۱۰۱: ۰۴) جس دن لوگ پروانوں کی طرح پھیلے ہوں گے۔ یعنی سب لوگ ذرّاتِ لطیف میں ہوں گے، اس آیت میں انسانوں کے کثیف سے لطیف بن جانے کا ذکر ہے، جو پروانے ریشم کے کیڑوں سے ہیں ان کو بچا لیا جائے گا، یہ صالحین کی مثال ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

لندن: ۱۶ جولائی ۱۹۸۳ء

 

۴۸

 

قرآنِ حکیم میں لفظِ “امین”

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ لفظِ “امین” قرآنِ حکیم کے اُن پیارے پیارے الفاظ میں سے ہے، جو مغزِ معنی و حکمت سے بھرپور ہیں، امین کا مادّہ ا م ن ہے، اور یہی مادّہ ایمان کا بھی ہے، امین کے معنی امانتدار، معتبر اور امن والا ہیں۔

 

کل ۱۴ (چودہ) بار:

امین کا لفظ قرآنِ پاک میں کل ۱۴  بار استعمال فرمایا گیا ہے، لفظ اپنے معنی ہر بار ایک پاکیزہ وجود کو پیش کرتا ہے، جیسے جبرائیل، رسل، شہرِ مکہ، وغیرہ، الف میم نون کے اور بھی مشتقات قرآن میں موجود ہیں، سو یہاں ( ان شاء اللہ تعالیٰ) سعی کی جاتی ہے کہ ان آیاتِ کریمہ کی پوشیدہ حکمتوں کی طرف توجہ دلائی جائے جو لفظ امین سے متعلق ہیں۔

 

۴۹

 

بارِ امانت:

ترجمۂ آیۂ کریمہ ہے کہ: یقیناً ہم نے امانت کو سارے آسمان اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اس (بار) کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک؛ انسان (اپنے حق میں) بڑا ظالم (اور) نادان ہے (۳۳: ۷۲) اب سوال اٹھتا ہے کہ یہ امانت کیا تھی؟ آیا یہ اختیار تھا؟ کیا یہ عبادت و معرفت تھی؟ وہ کون سا بارِ گران تھا جس کے اٹھانے سے کائنات نے انکار کیا اور ڈر گئی؟ اور پھر جب انسان نے اسے اٹھا لیا تو وہ ظلوم و جہول کس سبب سے کہلایا؟ ان شاء اللہ یہ سوالات اس مضمون میں حل ہو سکتے ہیں۔

 

حضرت نوحؑ امین تھے:

آیۂ مقدّسہ کا ترجمہ ہے کہ: نوحؑ کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا، جب ان سے ان کے بھائی نوحؑ نے کہا کہ تم لوگ (خدا سے) کیوں نہیں ڈرتے، میں یقیناً تمہارا امانتدار پیغمبر ہوں، تم خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو (۲۶: ۱۰۵ تا ۱۰۸) اس ربّانی تعلیم کے مطابق حضرت نوح علیہ السّلام پہلے رسولِ امین ہیں، یعنی آپ کے پاس لوگوں کی روحانی امانتیں تھیں کہ اگر خوفِ خدا اور تقویٰ اختیار کر کے اپنے پیغمبر کی اطاعت کرتے تو ان کو روحانیّت کے سارے خزانے مل جاتے۔

 

۵۰

 

رسولوں کے پاس لوگوں کی امانتیں محفوظ ہونے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ عالمِ بالا کے ساتھ انسانیّت کا کوئی نہ کوئی تعلق رہا ہے، ورنہ امانت کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا، جیسے آنحضرتؐ کا ارشاد ہے کہ: الحکمۃ ضالۃ المومن (حکمت مومن کی گم گشتہ چیز ہے) امانت ہو یا متاعِ گم شدہ، دونوں میں تعلقِ پیشین کا تصوّر ملتا ہے۔

 

حضرتِ موسیٰؑ امین تھے:

سورۂ قصص (۲۸) رکوع نمبر ۳ میں دیکھئے: یہاں حضرت موسیٰؑ حضرت شعیبؑ کی دو بیٹیوں کی بکریوں کو پانی پلاتے ہیں، جن کی مراد دو روحانی اور ذرّاتِ لطیف ہیں، اس مقام پر آپ کی ذرّاتی ہستی کی تشبیہہ مدین کے پانی سے دی گئی ہے، ذرّاتی ہستی کا مطلب روحِ حیوانی ہے، اور قرآنِ حکیم میں اس کی قربانی کی مختلف مثالیں بیان ہوئی ہیں، چنانچہ حضرتِ ہابیل کی قربانی میں اسی کی طرف اشارہ ہے (۰۵: ۲۷) قربانیٔ سوختنی کے ذکر میں اسی کی حکمت پوشیدہ ہے (۰۳: ۱۸۳) چار پرندوں کی قربانی میں یہی چیز ہے (۰۲: ۲۶۰) حضرت اسماعیل کا دنبہ بھی یہی ہے (۲۷: ۱۰۷) وغیرہ۔

 

حضرت موسیٰؑ کو قوّی اور امین (۲۸: ۲۶) کہنے کا مطلب صرف یہی نہیں کہ آپ نے ان دو صاحبزادیوں کی بھیڑ بکریوں کو پانی پلایا، بلکہ ان کی اصل قربانی اور عظیم نمونۂ عمل یہ ہے کہ آپ نے آٹھ یا دس

 

۵۱

 

برس تک ذرّاتِ ارواح کی چوپانی کی، جس کی مثال قرآن میں موجود ہے۔

 

حضرت موسیٰ علیہ السّلام رسولِ امین تھے، جس طرح قرآن میں ہے: اور ان سے پہلے ہم نے قومِ فرعون کی آزمائش کی اور ان کے پاس ایک عالی قدر پیغمبر (موسیٰ) آئے (اور کہا) کہ خدا کے بندوں (بنی اسرائیل) کو میرے حوالے کر دو میں (خدا کی طرف سے ) تمہارا ایک امانتدار پیغمبر ہوں اور خدا کے سامنے سرکشی نہ کرو میں تمہارے پاس ایک واضح و روشن دلیل لے کر آیا ہوں (۴۴: ۱۷ تا ۱۹)۔

 

تمام پیغمبر امین تھے:

 

قرآن مجید کا کہنا ہے کہ جس طرح حضرت نوحؑ اپنے زمانے میں امین تھے، اسی طرح حضرت ہودؑ (۲۶: ۱۲۵)، حضرت صالحؑ (۲۶: ۱۴۳)، حضرت لوطؑ (۲۶: ۱۶۲)، حضرت یوسفؑ (۱۲: ۵۴) اور حضرت شعیبؑ بھی (۲۶: ۱۷۸) اپنے اپنے وقت میں امانتدار تھے، یعنی ان حضرات کے پاس بشرطِ تقویٰ و اطاعت علم و حکمت اور روحانی دولت کے خزانے امانت رکھے ہوئے تھے۔

 

روح الامین:

ترجمۂ فرمانِ خداوندی: قرآن کو روح الامین (جبرائیل) لے کر آپ کے دل پر نازل ہوا ہے تاکہ آپ ڈرانے والوں کی طرح ڈرائیں، یہ صاف عربی زبان میں ہے، اور یہ اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں بھی

 

۵۲

 

ہے (۲۶: ۱۹۳ تا ۱۹۶) جس طرح انبیائے کرامؑ لوگوں کے حق میں امانتدار اور امانت گزار ہوا کرتے تھے، اسی طرح روح الامین پیغمبروں کا امانت گزار تھا، ہاں اس میں بڑا فرق یہ تھا کہ رسولوں نے تقویٰ اور خدا کی اطاعت سے اپنی تمام تر امانتیں حاصل کر لیں، مگر لوگوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔

 

قرآن کسی بھی ظاہری اور مادّی صورت میں نازل نہیں ہوا، بلکہ اسے امانت گزار روح لے کر آپؐ کے قلبِ مبارک پر نازل ہوئی، اس روح الامین کو جبرائیل (۰۲: ۹۷) روح القدّس (۱۶: ۱۰۲) روحاً (۴۲: ۵۲) اور نوراً (۴۲: ۵۲) بھی کہا گیا ہے۔

 

جنّات میں بھی امین ہیں:

قرآنِ حکیم میں ہے کہ: جنّات میں سے ایک عفریت (قوّی) نے کہا کہ قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں تخت آپ کے پاس لے آؤں گا اور میں اس پر قابو رکھتا ہوں اور امین بھی ہوں (۲۷: ۳۹) آپ باور کریں گے کہ قرآنِ حکیم کی زبانِ خاص زبانِ حکمت ہوا کرتی ہے، لہٰذا یہاں جنّ سے مخلوقِ لطیف مراد ہے، اور وہ حدودِ دین کی ایک عظیم ہستی تھی، چنانچہ حکمتِ قرآن کے مطابق ملکۂ سبا کا تخت (جثّۂ ابداع) دو دفعہ حاضر کیا گیا تھا۔

 

۵۳

 

جنّت امین ہے:

ارشاد فرمایا گیا ہے: بے شک متّقی لوگ امن کی جگہ (یعنی) باغوں اور چشموں میں ہوں گے، ریشم کی (کبھی) باریک اور (کبھی) دبیز پوشاکیں پہنے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے ایسا ہی ہوگا (کذالک،۴۴: ۵۱ تا ۵۴ ) مقامِ امین کے معنی امن کی جگہ بھی ہیں اور امانتدار جگہ بھی، کیونکہ بہشت دنیا کے باغ کی طرح بے جان اور بے عقل نہیں، اس کی تو اعلیٰ روح اور اعلیٰ عقل ہے، یعنی وہ بصورتِ شخصیت ہے، لہٰذا جنّت امن کی جگہ بھی ہے اور امانتدار و امانت گزار بھی ہے۔

 

باغ کا انحصار پانی پر ہوتا ہے، اسی طرح بہشت کے باغوں کا دارومدار چشموں پر ہے، وہ چشمے وہی ہیں جو بہشت کی چار نہریں ہیں، یعنی عقلِ کلّی، نفسِ کلّی، ناطق، اور اساس، اصل انسان روح ہے اور اس کا جسم بدرجۂ لباس ہے، ریشمی لباس کا ذکر صرف اس لئے نہیں کہ وہ عمدہ اور نرم ہے، بلکہ وہ خلقِ جدید (خلقِ جدید کا تذکرہ قرآن میں دس جگہ ہے) یعنی جثّۂ ابداعیہ کی علامت (Symbol) ہے، کیونکہ ریشم ایک ایسی مخلوق کی پیداوار ہے کہ اس میں ابداع کی مثال موجود ہے، اور یہ بھی یاد رہے کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں “کذالک” کا لفظ آیا ہے وہاں کوئی بڑا راز موجود ہوتا ہے۔

 

۵۴

 

قلمِ الٰہی امین ہے:

سورۂ تکویر (۸۱) میں ہے: بے شک یہ (قرآن) ایک معزز رسول (فرشتہ) کا قول (لایا ہوا پیغام) ہے جو بڑا قوّی عرش کے مالک کی بارگاہ میں بلند رتبہ ہے، اس کی اطاعت کی جاتی ہے (اور) پھر امانتدار ہے اور تمہارے ساتھی (یعنی آنحضرت) مجنون نہیں ہیں، اور انہوں نے “اس کو” افقِ مبین پر دیکھا ہے اور وہ غیب کی باتوں کے ظاہر کرنے میں بخیل نہیں (۸۱: ۱۹ تا ۲۴)۔

 

یہاں ظاہری روایت کے مطابق رسول سے مراد جبرائیل کو لیا گیا ہے، لیکن ہمیں فراخدلی سے سوچنا چاہئے کہ یہاں جبرائیل کا نام نہیں ہے، اگر ہم قلمِ الٰہی کو ایک زندہ حقیقت اور سب سے بڑا فرشتہ مانتے ہیں تو یہاں جو صفات بیان کی گئی ہیں، ان کا صحیح اطلاق اُس عظیم فرشتے پر ہو سکتا ہے، چنانچہ ہم قبول کرتے ہیں کہ قرآن قلمِ الٰہی کا قول ہے وہ بڑا معزز فرشتہ ہے، جو بڑا طاقتور ہے اور صاحبِ عرش کا انتہائی مقرب ہے، بحکمِ خدا سب اس کی اطاعت کرتے ہیں، اور یقیناً آنحضرتؐ نے “افقِ مبین” (افقِ مبین ایک خاص اشارہ ہے) کے مقام پر اُس کو دیکھا ہے، اور قرآن کے نزول کا آغاز قلمِ قدرت سے ہونے کے باب میں یہ ارشادِ نبوّی ہے:

انی اخذ الوحی عن جبریل، و جبریل یاخذہ عن میکائیل، و میکائیل

 

۵۵

 

یاخذہ عن اسرافیل، و اسرافیل یاخذہ عن اللوح، و اللوح یاخذہ عن القلم۱

میں وحی جبرائیل سے حاصل کرتا ہوں، جبرائیل اسے میکائیل سے لیتا ہے، میکائیل اسے اسرافیل سے لیتا ہے، اسرافیل اسے لوح سے لیتا ہے، اور لوح قلم سے لیتی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ جس طرح جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل فرشتے ہیں اسی طرح لوح و قلم بھی فرشتے ہیں، بلکہ لوح تو روحِ ارواح یعنی نفسِ کلّ ہے اور قلم عقلِ عقول یعنی عقلِ کلّ۔

 

شہرِ امن (بلدِ امین:(

اللہ تبارک و تعالیٰ کا پاک فرمان ہے: وَ هٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ (۹۵: ۰۳) اور اس امن والے شہر کی قسم۔ اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ شہرِ امن اساس یعنی مولا علی صلوات اللہ علیہ و سلامہ ہیں، کہ خدا تعالیٰ نے سورۂ تین کے آغاز میں عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اور اساس کی جس طرح قسم کھائی ہے، اس میں اساس شہرِ امن ہیں، اور یہ حکمت اس معنیٰ میں ہے کہ جو شخص مشاہدۂ روحانیّت کے سلسلے میں مرتبۂ اساس کی شناخت کو حاصل کر لیتا ہے، وہ گویا امن

 

۱؎  بحوالۂ اساس التاویل، فصلِ اوّل

 

۵۶

 

والے شہر میں داخل ہو جاتا ہے، جہاں بحقیقت خانۂ خدا موجود ہے، لہٰذا اس کو امن ملتا ہے اور اس کو عالمِ بالا کی امانتیں بھی ملتی ہیں، کیونکہ لفظ امین کے جتنے معنی ہیں وہ اپنی جگہ پر قائم ہیں۔

 

امن جنگ نہ ہونے یعنی صلح کی صورت کا بھی نام ہے اور امن حصولِ فتح کا نتیجہ بھی ہے، چنانچہ یہاں جس امن کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ فتح کے نتیجے میں ہے، وہ اس طرح کہ ہادیٔ برحق کے عالمِ شخصی میں دنیا بھر کے لوگ بشکلِ ذرّاتِ لطیف داخل ہو جاتے ہیں، یہ دینِ خدا کی فتح ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ  وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا  فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ-اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۳) (اے رسول) جب خدا کی مدد آ پہنچے گی اور (روحانی) فتح ہو جائے گی اور آپ لوگوں کو دیکھیں گے کہ سب لوگ خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو آپ اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرنا اور اسی سے مغفرت کی دعا مانگنا، بے شک وہ تواب ہے۔

 

نصر یعنی جبرائیل خدا کی طرف سے زندہ اور عملی مدد ہے، اور فتح یعنی میکائیل عملی فتحمندی ہے، اس سے پوری دنیا کی روحانی فتح مراد ہے، دینِ خدا انسانِ کامل ہے، جس کی شخصیّت میں تمام اہلِ جہان کی روحیں قبولِ اسلام کے طور پر داخل ہو جاتی ہیں، پروردگار کی حمد میں تسبیح کرنا یہ ہے کہ بقدرتِ خدا انسانِ کامل کی جملہ ہستی جو

 

۵۷

 

ذاتی اور بیرونی ذراتِ ارواح سے مملو ہے ربِّ عزت کی حمدیہ تسبیح سے گونج اٹھتی ہے، استغفار یہ ہے کہ ایسی فتح تک خود کو پہنچا کر بخشش حاصل کی جاتی ہے اس لئے یہ آخری عملی استغفار ہے، تواب کے معنی یہ ہیں کہ اس روز عابد و معبود ایک دوسرے کے انتہائی قریب ہو جاتے ہیں۔

 

خلاصۂ بارِ امانت:

اس مضمون کے آغاز میں بارِ امانت کا تذکرہ کرتے وقت چند سوالات پیدا ہوئے تھے، اور سب سے پہلے یہ کہ وہ امانت کیا چیز ہے جس کا ذکر قرآن (۳۳: ۷۲) میں فرمایا گیا ہے؟ اس بارے میں عرض یہ ہے کہ وہ امانت جس کے اٹھانے سے کائنات ڈر گئی، اور جس کو آخرکار انسان نے اٹھایا، وہ “اختیار” ہے، کیونکہ انسان میں صرف اختیار ہی ایک ایسی صلاحیت ہے، جسے ایک معیّن وقت کے بعد لوٹا دیا جاتا ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں “توکل” کا ذکر آیا ہے، وہاں اختیار کی امانت رفتہ رفتہ اپنے حقیقی وکیل کو واپس کرنے کی بات ہے، ہاں یہ بات درست ہے کہ ایمان کے درجۂ کمال پر اختیار کی امانت کا بوجھ بالکل ہلکا ہو جاتا ہے۔

 

اگر سماوات، ارض اور جبال سے یہ ظاہری کائنات مراد لیں، تو اسے اختیار کا یہ بوجھ اس لئے نہیں اٹھانا چاہئے کہ

 

۵۸

 

اس میں دیگر صلاحیتیں نہیں ہیں، جیسی عقل، جان وغیرہ، اور اگر سات آسمان سے ناطقان، سات زمین سے اساسان، اور پہاڑوں سے ائمّہ مراد لیں، تو انہیں بھی یہ بارِ امانت ذاتی اعتبار سے نہیں اٹھانا چاہئے کیونکہ وہ حضرات مقامِ توکّل پر ہیں، یعنی وہ یہ بوجھ اٹھا کر اس سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔

 

اب رہا یہ سوال کہ وہ انسان جس نے یہ امانت اپنے ذمہ اٹھا لی تھی کیونکر ظلوم و جہول کہلاتا ہے؟ جواب عرض ہے کہ اگرچہ انسان بحیثیتِ مجموعی انسان کہلاتے ہیں، تاہم اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ انبیاء و اولیاء اور عوام النّاس ایک جیسے ہیں، کیونکہ خداوند تعالیٰ نے اپنے دوستوں کو ظلم و جہالت سے دور رکھا ہے، اور ان کو دنیائے انسانیّت کے لئے “امین” بنایا ہے، تاکہ لوگ اس بارِ امانت کے اٹھانے میں ان حضرات کی مکمل مدد حاصل کریں، وہ اس طرح کہ تمام دینی امور کے اختیار کو انہیں کے سپرد کر دیں، تاکہ وہ حضرات نورِ ہدایت کے وسیلے سے کمزور انسانوں کے اس بوجھ کو بٹائیں، لیکن لوگوں کی اکثریت نے کامل انسانوں کو نہیں پہچانا، جو خدا کی طرف سے امین تھے، یہی وجہ ہے کہ کچھ انسان اپنے حق میں ظلم کرنے والے اور جاہل قرار پائے۔

 

آپ کا علمی خادم

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

لندن ۳ اگست ۱۹۸۳ء

 

۵۹

 

قصّۂ مریم سے متعلق ۲۰ سوالات

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ حضرت بی بی مریم علیہا السّلام قرآنِ حکیم کی اُن عظیم المرتبت، بابرکت، نورانی اور پاکیزہ ہستیوں میں سے ہیں، جن کی حیاتِ طیبہ کا تذکرہ بڑے تقدّس سے فرمایا گیا ہے، یہاں ان کی مثالی زندگی کی کچھ حکمتیں بذریعۂ سوال و جواب واضح کر دینے کے لئے کوشش کی جاتی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

سوال نمبر ۱: حضرت مریمؑ کے والدِ بزرگوار کا کیا نام تھا؟ ان کی والدۂ محترمہ کی کیا خصوصیات تھیں؟ مریمؑ کا نام کس نے رکھا؟ آپ کے حق میں آپ کی مادرِ مشفقہ نے ربِّ عزّت کے حضور سے کیا دعا مانگی؟

 

جواب: بی بی مریمؑ کے والدِ محترم کا اسمِ گرامی عمران تھا، ان کی والدۂ محترمہ کا نام حنہ بنتِ فاقوذ، آپ کے والدین خدا پرست اور خدا رسیدہ تھے، مریم کا نام ان کی والدہ نے رکھا، اور انہوں

 

۶۰

 

نے نہ صرف بی بی مریم کو بلکہ ان کی ذریّت کو بھی شیطانِ رجیم کی برائی سے محفوظ رکھنے کے لئے پروردگارسے دعا مانگی۔

 

سوال نمبر ۲: شیطانِ رجیم کے لفظی اور تاویلی معنی بتائیے، اعیذھا بک سے کیا مراد ہے؟ انبتھا نباتا حسنا میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟

 

جواب: شیطانِ رجیم کے لغوی معنی ہیں پتھراؤ کرنے والا شیطان اور اس کی تاویل ہے وہ شخص جو مومن کی طرف پتھر جیسے بے جان مسائل پھینک کر اس کی روح الایمان کو ہلاک کرنے کی کوشش کرتا ہے، اعیذھا بک کے معنی ہیں: میں اس بچی کو تیری پناہ میں دیتی ہوں، یعنی حدودِ دین کی حفاظت میں رکھتی ہوں تا کہ شیطان کی باتیں اس پر اثر انداز نہ ہو سکیں، انبتھا نباتا حسنا (۰۳: ۳۷) میں یہ اشارۂ حکمت مقصود ہے کہ جس طرح دنیا کی نباتات گوناگون ہوا کرتی ہیں، یعنی وہ اچھی سے اچھی بھی ہیں اور بری سے بری بھی، چنانچہ خداوندِ پاک نے مریم کی شخصیت بڑی پاکیزہ بنائی، جس طرح کامل انسانوں کی شخصیتیں ہر طرح سے پاک و پاکیزہ بنائی جاتی ہیں۔

 

سوال نمبر ۳: مریم کی کفالت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کس نے مریم کی کفالت کی اور اس کفالت سے کیا مراد ہے؟

 

جواب: چونکہ مریم بنامِ خدا مذہبی خدمت کی خاطر نذرانہ تھیں، ہر چند کہ لڑکی کی یہ نذر خلافِ رواج تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے

 

۶۱

 

اسے قبول فرمایا، اور حضرتِ ذکریا علیہ السّلام امامِ مستودع نے اس بچی کو اپنی کفالت میں لے لیا، جس سے اخلاقی، دینی اور روحانی پرورش مراد ہے، پس بی بی مریم بحکمِ خدا ایک ایسی پاک ہستی کی تعلیم و تربیت کی پیداوار ہیں کہ وہ پیغمبر بھی تھےاور امام بھی، یعنی حضرت ذکریا علیہ السّلام۔

 

سوال نمبر ۴: محراب کے کیا معنی ہوتے ہیں اور قرآنِ حکیم میں اس کی کیا حکمت ہے؟ رزق کی کیا تاویل ہے؟

 

جواب: محراب کا لفظ حرب سے ہے، حرب جنگ اور لڑائی کو کہتے ہیں، اور محراب وہ جگہ ہے جہاں بیٹھ کر دشمن کے خلاف لڑائی کی جاتی ہے، اور قرآنِ پاک میں اس کی تاویل مقامِ پیشانی ہے کہ انبیائے کرام اور اولیائے عظام کی عملی روحانیّت اور ذکر و بندگی اسی میں ہوتی ہے اور یہی وہ قلعۂ خداوندی ہے، جہاں بحقیقت ہر مومن کو نہ صرف مکمل پناہ ملتی ہے بلکہ وہ شیطان کے خلاف جنگ بھی کر سکتا ہے، رزق کی تاویل روحانی علم ہے۔

 

سوال نمبر ۵: قرآنِ مقدّس (۰۳: ۴۲) میں فرمایا گیا ہے کہ خدا نے مریم کو برگزیدہ کیا تھا، وہ پاک و پاکیزہ کی گئی تھیں، اور دنیا بھر کی عورتوں سے منتخب ہوئی تھیں، سو مریم کی برگزیدگی، پاکیزگی اور انتخاب کی حکمت بیان کیجئے۔

 

جواب: آیۂ کریمہ میں سب سے پہلے برگزیدگی کا ذکر ہے، جس کی مراد یہ ہے کہ مریمؑ کو لوگوں پر فوقیت دے کر روحانی تعلیم و

 

۶۲

 

تربیت اور اسمِ اعظم عنایت کیا گیا، پھر ان کی روحانی اور عقلی پاکیزگی ہوئی، اور پھر اسی عمل کے نتیجے میں زمانہ بھر کی عورتوں سے اس مقصد کے لئے منتخب ہوئیں کہ ان سے ایک عظیم پیغمبر پیدا ہوں، اس میں خاندانِ نبوّت و امامت کی برگزیدگی اور پاکیزگی سے متعلق مثالی بیان موجود ہے۔

 

سوال نمبر ۶: جب بیت المقدّس کے عابدوں کے آپس میں جھگڑا سا ہوا، کیونکہ ہر ایک کی یہ تمنا تھی کہ حضرت مریمؑ کی کفالت کرے، تو یہ طے ہوا کہ وہ لوگ اپنے قلموں کو پانی میں ڈالیں، جس کا قلم پانی کی سطح پر تیرتا رہ جائے، وہی مریم کی کفالت کرے گا، یہاں قلم کے ایسے معجزے کی کیا تاویل ہے؟

 

جواب: تاویلی زبان میں قلم عقل کو کہا جاتا ہے، چنانچہ مریم کی کفالت کے بارے میں ان عابدوں نے جیسی جیسی دلیلیں پیش کیں، اس میں ان کی عقلیں علم کے پانی میں ڈوب کر رہ گئیں، مگر حضرتِ ذکریا ہی کی عقل تھی جو علم کی بلندی پر نمایان ہو گئی۔

 

سوال نمبر ۷: سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۴۵) کے مطابق: “جب فرشتوں نے (مریم سے) کہا اے مریم خدا تم کو اپنے ایک خاص کلمہ کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابنِ مریم ہوگا (اور) دنیا و آخرت میں وجیہہ اور مقربین میں سے ہو گا۔” یہاں یہ پوچھنا ہے کہ حضرتِ عیسیٰؑ کس معنیٰ میں کلمہ ہیں؟ مسیح کی کیا تاویل ہے؟ لفظ

 

۶۳

 

وجیھا میں کیا اشارہ ہے؟ اور مقربین کی کیا حد ہے؟

 

جواب: حضرت عیسیٰ اللہ پاک کے حضورِ خاص سے ایک کلمہ اس معنیٰ میں تھے کہ نورِ نبوّت و امامت نہ صرف درخت کی طرح شخصیّت ہی میں ہوتا ہے، بلکہ یہ پھل کی طرح اسمائے عظام اور کلماتِ تامّات میں بھی موجود ہوا کرتا ہے، مسیح کے لفظی معنی ہیں مسح کرنے والا، یعنی ہاتھ پھیرنے والا، جس کی تاویل جثّۂ ابداعیہ اور اس کا ہمہ رس معجزہ ہے، وجیھا کے مرادی معنی ہیں وسیلۂ معرفت، مقرب بدرجۂ انتہا قریب اور واصل باللہ کے معنی میں ہے۔

 

سوال نمبر ۸: حضرت عیسیٰؑ نے مہد یعنی بچھونے میں سے کس طرح لوگوں سے باتیں کیں، اور بڑی عمر کا ہو کر کس طرح؟

 

جواب: انسانِ کامل دو مقام پر لوگوں سے باتیں کرتا ہے: عالمِ ذرّ میں، اور دنیائے ظاہر میں، چنانچہ جب حضرت عیسیٰؑ اپنی ماں کے عالمِ شخصی میں تھے، تو اس وقت آپ عالمِ ذرّ میں تھے، جہاں وہ لوگوں سے باتیں کیا کرتے تھے، جس کی مثال جھولے میں سے باتیں کرنے سے دی گئی ہے، جیسے آنحضرتؐ کا ارشاد ہے کہ: “تم بچھونے سے لے کر قبر تک علم کو حاصل کرتے رہو۔” بچھونا عالمِ ذرّ ہے اور قبر حدودِ دین میں سے کوئی ہوتا ہے، اور بڑی عمر کا ہو کر حضرت عیسیٰؑ کا لوگوں سے باتیں کرنا یہ ہے، کہ آپ نے اس دنیا میں لوگوں سے باتیں کیں۔

 

۶۴

 

سوال نمبر ۹: مطالعۂ قرآن سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ انبیائے کرام کی پاکیزہ زندگی سے متعلق جو جو صفات بیان کی گئی ہیں، ان کی پُرحکمت ترتیب میں بعض دفعہ لفظِ صالحین آخر میں آتا ہے، اس میں کیا راز پوشیدہ ہے؟ جیسا کہ قرآن (۰۳: ۴۵) میں ہے۔

 

جواب: اس دنیا میں شروع سے لے کر اب تک لشکرِ شیطان اور لشکرِ رحمان کے درمیان جنگ کا سلسلہ جاری ہے، شیطان کے لشکر میں جتنے لوگ داخل ہیں، ان میں بعض جسمِ لطیف رکھتے ہیں اور بعض جسمِ کثیف، قرآنِ حکیم نے لطیف کو سوار اور کثیف کو پیادہ کہا ہے (۱۷: ۶۴) اب خدائی لشکر کے بارے میں سنیے کہ اس میں بھی لطیف و کثیف دونوں قسم کے جسم میں لاتعداد سپاہی موجود ہیں، یہاں لطیف کا نام آسمانی فوج ہے اور کثیف کا نام ارضی فوج (۴۸: ۰۷) پس قرآن میں جہاں لفظِ “صالحین” مذکورہ انداز میں آیا ہے، تو اس کا اشارہ جسمِ لطیف کی طرف ہے، وہ یہ کہ انبیاء و اولیاء جسمِ لطیف میں صالحین کہلاتے ہیں، اور وہ رحمانی لشکر میں شریک ہیں (۵۸: ۲۱)۔

 

سوال نمبر ۱۰: کبھی ظاہر و باطن دونوں میں اور کبھی صرف باطن میں امامِ زمانؑ کے علاوہ حدودِ دین یعنی درجات ہوا کرتے ہیں، اس اعتبار سے حضرت مریمؑ کا کیا درجہ تھا؟ کیا وہ پیغمبرانہ مرتبہ رکھتی تھیں، شاید اس لئے کہ فرشتوں نے اُن سے کلام کیا؟ آیا آپ

 

۶۵

 

درجۂ امامت پر فائز ہو چکی تھیں؟ اور اگر نہیں تو پھر اُن کا کیا درجہ تھا؟

 

جواب: حضرت مریم علیہا السّلام نہ تو کوئی پیغمبر تھیں اور نہ ہی امام، کیونکہ قانونِ حکمت یہی رہا ہے کہ انبیاء و ائمّہ رجال میں سے ہوں، لہٰذا بی بی مریم حجت کا مرتبہ رکھتی تھیں، جبکہ آپ بقولِ قرآن (۰۵: ۷۵) صدّیقہ تھیں، صدّیقہ کا کیا مطلب ہوتا ہے وہ بھی قرآنِ حکیم میں موجود ہے، آپ سورۂ تحریم (۶۶) کی آخری آیت میں دیکھ سکتے ہیں، کہ مریم کے باطن میں روح القدس روحانیّت اور علم و حکمت کا کام کرتی تھی، اس لئے انہوں نے اپنے عالمِ شخصی میں اسمائے عظام اور کلماتِ تامّات کی شناخت اور تصدیق کی، اور ظاہراً و باطناً آسمانی کتب کی بھی علمی اور عرفانی تصدیق کی۔

 

سوال نمبر ۱۱: اگر یہ کلّیہ مان لیا جائے کہ بی بی مریمؑ اپنے وقت میں ایک مقرّب حجت تھیں، تو پھر اس صورت میں زمانۂ ماضی کے ہمارے حجتوں یا پیروں کی روحانی اور علمی مرتبت کو سمجھنے کے لئے حضرت مریمؑ سے کیا کیا مثالیں مل سکتی ہیں؟

 

جواب: ہماری زرّین تاریخ کے عظیم حجتوں اور پیروں کی اعلیٰ روحانیّت اور علم و معرفت کی تمام تر مثالیں اُس قصّۂ قرآن سے مل سکتی ہیں، جو مریم علیہا السّلام سے متعلق ہیں، اور اس قصّے کا خاص مقصد بھی یہی ہے، کیونکہ قرآن میں ماضی کی جتنی مثالیں بیان کی گئی ہیں، ان کا رخ مستقبل کی طرف ہے، جیسی کوئی صاف و

 

۶۶

 

شفاف اور شیرین ندی اہلِ زمانہ کی طرف بہتی ہو، چنانچہ مریمؑ کے آئینۂ مثال میں ہم اپنے بزرگانِ دین کی روحانیّت کو سمجھ سکتے ہیں، یہ قصّہ اس اعتبار سے عظیم حکمتوں کا خزانہ ہے۔

 

سوال نمبر ۱۲: یہ تو مان لیا کہ مریمؑ عظیم حجتوں اور پیروں کی مثال ہیں، لیکن جس طرح بی بی مریمؑ نے ایک عظیم پیغمبر کو جنم دیا ہے، اس کی مثال ہمارے بزرگوں میں کیا ہے؟

 

جوا‎ب: حضرت مریم جس حیثیت میں ایک خاتون تھیں، اس کا یہاں ذکر نہیں ہے، مگر آپ جس معنیٰ میں حجت اور امام کی روحانی بیوی تھیں، اسی کی بات ہے، اور یہی مثال بزرگانِ دین کی بھی ہے، جنہوں نے بی بی مریم کی طرح زمانے کے نور کو عالمِ شخصی میں اور دنیائے دعوت میں جنم دیا، ہاں یہ سچ ہے کہ نور کا ایک پہلو نہیں بلکہ بہت سے پہلو ہیں، اس کا ایک رشتہ نہیں بلکہ بہت سے رشتے ہیں، اور قرآنِ پاک میں یہی حقیقت مذکور ہے: “جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اسی طرح پیغمبر کو پہچانتے ہیں” (۰۲: ۱۴۶)۔

 

سوال نمبر ۱۳: ترجمۂ آیۂ کریمہ ہے: “اور ہم نے مریم کے بیٹے (عیسیٰ) اور ان کی ماں کو (اپنی قدرت کی) نشانی بنائی تھی اور ان دونوں کو ہم نے ایک اونچی ہموار ٹھہرنے کے قابل چشمہ والی زمین پر جگہ دی” (۲۳: ۵۰) یہ بلند جگہ (ربوۃ) ٹھہرنے کے قابل (ذاتِ قرار)

 

۶۷

 

اور چشمہ (معین) کیا ہیں؟

 

جواب: ربوۃ ذات قرار و معین (۲۳: ۵۰) ایسی بلند جگہ جہاں بندۂ مومن کے لئے قرار اور علم کا سرچشمہ ہے، وہ عالمِ شخصیّت میں مرتبۂ پیشانی ہے، جس میں روحِ انسانی کا مرکز ہے، اور جہاں روحِ قدسی جلوہ افروز ہو جاتی ہے اور جسے نور کہا جاتا ہے۔

 

سوال نمبر ۱۴: قرآنِ حکیم کا کہنا ہے کہ انسان کی جسمانی تخلیق کے سات مراحل ہیں: سلالہ، نطفہ، علقہ، مضغہ، عظام، لحم اور خلقِ آخر (۲۳: ۱۲ تا ۱۴) اس لحاظ سے آدمی گویا سات مرتبہ پیدا ہوتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ اسی قانونِ فطرت کے مطابق روحانی تخلیق و تکمیل کے بھی سات مراحل ہیں، لہٰذا حضرت مریم نے روحانیّت کی سات منزلوں پر حضرت عیسیٰؑ کو گویا سات بار جنم دیا، تو کیا یہ مثال درست ہے؟

 

جواب: جی ہاں، یہ مثال بالکل درست ہے، کیونکہ عالمِ دین جس طرح چھ عظیم المرتبت پیغمبروں اور حضرت قائم (۶ + ۱  = ۷) سے مکمل ہوا ہے، اسی طرح شخصی عالم کی روحانیّت بھی سات منزلوں سے گزر جانے کے ‎بعد مکمل ہو جاتی ہے، اعنی روحانیّت حضرت آدم کی مثال سے شروع ہو کر قائم القیامت تک پہنچ جاتی ہے، پس یہ بات صرف حضرت عیسیٰؑ کے لئے خاص نہیں بلکہ

 

۶۸

 

تکمیلِ نور کا قاعدہ ہی یہی ہے۔

 

سوال نمبر ۱۵: حضرت مریمؑ اگر ایک طرف پیر و حجت کی مثال ہیں تو دوسری طرف آپ دنیا بھر کی عورتوں کے لئے مذہبی اور روحانی عظمت و بزرگی کا اعلیٰ نمونہ بھی ہیں، کیا آپ اس سلسلے میں کچھ وضاحت کریں گے؟

 

جواب: جی ہاں، حضرت مریم علیہا السّلام کی پُرحکمت مثال میں اللہ تعالیٰ نے تمام مردوں اور عورتوں کو روحانی ترقی کی یکسان دعوت دی ہے، کیونکہ آپ روحانیّت کے اُس مقام پر کھڑی ہیں، جو پیغمبر اور امام کے بعد کا درجہ ہے، جس سب کے لئے مشترک اور ممکن ہے، اور اس نمونۂ عمل میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے، کہ کامیاب مومنین و مومنات باطن اور روحانیّت میں کس طرح نورِ امامت کے ساتھ مل جاتے ہیں۔

 

سوال نمبر ۱۶: قرآنِ حکیم میں فرعون کی بیوی کے نہ صرف مومنہ ہونے کا ذکر ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان کو بی بی مریم کی قطار میں بھی لایا گیا ہے (۶۶: ۱۱) تو کیا آپ متعلقہ آیۂ مقدّسہ کی کوئی تاویلی حکمت بیان کر سکیں گے؟

 

جواب: فرعون کی بیوی کے بارے میں قرآنی ارشاد ہے: “اذ قالت رب ابن لی عندک بیتا فی الجنۃ (۶۶: ۱۱) جب اُس نے دعا کی پروردگارا! میرے لئے بہشت میں اپنے نزدیک ہی

 

۶۹

 

ایک گھر بنا دے۔” یہ دعا کئی اعلیٰ حکمتوں پر مبنی ہے، ایک تو یہ ہے کہ اس میں دیدارِ خداوندی اور انتہائی قرب و حضور کا تصوّر ہے اور دوسری حکمت یہ ہے کہ یہاں بہشت کی تخلیق و تعمیر کا ذکر ہے، اس سے ظاہر ہے کہ وہ خاتون خداوند تعالیٰ اور جنّت کو پہچان چکی ہیں، اس لئے ایسی دعا کرتی ہیں، اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو وہ ایسی دعا نہ کر سکتیں، اگر کوئی ایسی بات کہی جاتی، جو حکمتِ قرآن کے خلاف ہو، تو وہ حصّۂ آیت نہ بن سکتی، یا وہ بات نمونۂ باطل کے طور پر پیش ہو جاتی، مگر ایسا نہیں ہے، پس معلوم ہوا کہ فرعون کی بیوی اہلِ معرفت میں سے تھیں۔

 

سوال نمبر ۱۷: سورہ اور آیہ (۶۲: ۱۲) کے ظاہری معنی کے پیشِ نظر ایسا لگتا ہے کہ بی بی مریمؑ کی جسمانی عفت و پاکدامنی کی بدولت آپ میں خدا کی روح پھونک دی گئی تھی، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

 

جواب: جسمانی عفت و پاکدامنی اگرچہ اپنی جگہ ضروری ہے، کیونکہ یہ خواتین کی ایک عام صفت ہے، تاہم اس کے نتیجے میں روحِ قدسی حاصل نہیں ہو سکتی ہے، روح القدس یعنی خدا کی روح صرف اور صرف علم و حکمت کی پاکیزہ باتوں میں پوشیدہ ہو کر کانوں کی راہ سے کسی مومن میں داخل ہو سکتی ہے، لہٰذا کانوں کو غیروں کی آلودہ باتوں سے پاک و محفوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے، اور متعلقہ آیۂ کریمہ میں جو مثال دی گئی ہے اس کا ممثول یہی ہے۔

 

۷۰

 

سوال نمبر ۱۸: آپ نے کہا تھا کہ حضرتِ عیسیٰؑ کا نورانی جنم روحانیّت کے سات مقامات پر ہوا تھا، کیا آپ اس کی کوئی مثال سمجھا سکتے ہیں؟

 

جواب: جی ہاں، ان شاء اللہ، مثال کے طور پر: ” لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا (۱۹: ۱۹) تا کہ تم کو پاک و پاکیزہ لڑکا عطا کروں۔” غلامِ زکی کا یہ اشارہ نورِ عیسیٰ کے درجۂ کمال کی طرف جاتا ہے، نور کو تاویلاً غلام (لڑکا = بچہ) کہنا اس معنی میں بالکل درست ہے کہ مقامِ روحانیّت پر نور کے جتنے ظہورات ہیں، ان میں سے ایک ظہور صوتی بھی ہے، جس میں کئی آوازیں کام کرتی ہیں، اور ان میں ایک خاص آواز ایک بچے کی سی ہے، لفظِ زکی میں جسم اور روح سے بڑھ کر عقل کی پاکیزگی کا ذکر پوشیدہ ہے، یعنی نور کی سب سےبڑی خاصیت یہ ہے کہ وہ عقلی اور علمی طور پر لوگوں کو پاک کرتا ہے، پس اسی بشارت کے مطابق آگے چل کر حضرت عیسیٰؑ کا آخری روحانی جنم ہوتا ہے، اور روحانی منزل کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ” فَكُلِیْ وَ اشْرَبِیْ وَ قَرِّیْ عَیْنًاۚ (۱۹: ۲۶) یعنی تازہ خرمے کھاؤ اور چشمہ کا پانی پیو اور نور کے دیدار سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاؤ۔” یہاں خرما سے حکمت اور پانی سے علم مراد ہے، اور قَرِّیْ عَیْنًاۚ کا مطلب قرۃ العین (آنکھ کی ٹھنڈک) ہے، جو نور اور فرزند ہے، جس کا بمرتبۂ اعلیٰ دیدار ہوتا ہے۔

 

سوال نمبر ۱۹: قرآنِ پاک میں ہے کہ: “مریم کے بیٹے

 

۷۱

 

عیسیٰ مسیح خدا کے رسول اور اس کے کلمہ تھے جسے خدا نے مریم کی طرف القاء کیا تھا، اور خدا کی طرف سے ایک روح تھے (۰۴: ۱۷۱)” آپ اس کی وضاحت کیجئے کہ کلمہ کیا ہے؟ روح کلمہ سے الگ کیوں ہے؟ آیا کلمہ سے کلمات مراد ہو سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہوا تو روح کا مطلب ارواح بھی ہو سکتا ہے۔

 

جواب: کلمہ اسمِ اعظم ہے، جو شروع شروع میں ایک ہوا کرتا ہے، جو مریم کو عطا کیا گیا تھا، روح سے روحِ قدسی مراد ہے، یہاں اس کا ذکر الگ اس لئے ہے کہ یہ نتیجۂ خصوصی عبادت کے طور پر بعد میں آتی ہے، آگے چل کر یہی ایک کلمہ کلماتِ تامّات اور اسمائے عظام کی صورت اختیار کر لیتا ہے، اور یہ روح بھی اگرچہ واحد ہے تاہم جمع بھی ہے۔

 

سوال نمبر ۲۰: بی بی مریمؑ اور حضرت عیسیٰؑ کس روحانیّت کی راہ پر چل رہے تھے؟ اس راہ کا کیا نام تھا؟ اس کا آغاز کب سے ہوا؟ حضرت عیسیٰؑ اور حضرت آدمؑ کی روحانیّت میں کیا فرق تھا؟

 

جواب: بی بی مریمؑ اور حضرت عیسیٰؑ دینِ خدا کی راہِ روحانیّت پر گامزن تھے، اس راہ کا نام صراطِ مستقیم ہے، اس کا آغاز ازل سے ہے، حضرتِ عیسیٰؑ اور حضرتِ آدمؑ کی روحانیّت ایک ہی ہے، اس میں کوئی فرق نہیں، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تمام انبیاء و ائمّہ علیہم السّلام روحانیّت میں ایک ہیں، اور تمام مومنین سورۂ فاتحہ کی ربّانی تعلیم کے مطابق انہی حضرات کی راہِ روحانیّت پر آگے سے آگے

 

۷۲

 

چلنے کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں، مگر یہ سوال اس بحث سے الگ ہے کہ آیا ہر مومن یہ جانتا ہے کہ وہ :

 

” اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ  صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ” کی اس دعا میں کہاں تک جانا چاہتا ہے؟ صراطِ مستقیم کی منزلِ مقصود کیا ہے، وغیرہ۔

 

آپ کا علمی خادم

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

لندن: ۸ اگست ۱۹۸۳ء

 

۷۳

 

روحانیّت اور موسیقی

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اللھم صل علیٰ محمد و آل محمد۔ اے خالقِ کون و مکان! اے پروردگارِ انس و جان! یہ ناچار اور انتہائی مفلس بندہ تیری درگاہِ عالیہ سے ہمیشہ کی طرح تائید و نصرت کے لئے عاجزانہ دعا کرتا ہے، کیونکہ تیری نظرِ رحمت، دستگیری اور مدد کے بغیر حقیقی اور روحانی علم کا کوئی کام انجام نہیں پا سکتا، خداوندا تو دانا و بینا ہے اور تجھ سے کوئی حال پوشیدہ نہیں کہ یہ ذرّۂ کم مقدار اور ناچیز بدرجۂ انتہا عاجز و ناتوان ہے، یا ربّ اپنی رحمتِ بے نہایت سے اس بندۂ کمترین کو توفیق اور ہمت عنایت فرما! آمین!!

 

سببِ تحریرِ ہٰذا یہ ہے کہ کنیڈا کے ہمارے ہوشمند و معزز شاگردوں میں سے ایک عزیز نے بذریعۂ مکتوب اس عاجز درویش سے روحانیّت و موسیقی کے متعلق دو بڑے اہم سوالوں کا حل طلب کیا ہے، اور انہوں نے پُرامید ہو کر کہا ہے کہ یہ کام ضرور کر کے ان کو بھیج دیا جائے، وہ دو سوال درجِ ذیل ہیں:

 

۷۴

 

۱۔ انسانی روح پر موسیقی کا کیا اثر پڑتا ہے؟

۲۔ آیا اعلیٰ روحانی تجربات کے سلسلے میں موسیقی کا کوئی کارِ منصبی یا کسی طرح کی اہمیّت ہوا کرتی ہے؟

 

آپ دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں سوال بڑی عقل و دانش سے کئے گئے ہیں کہ ان کی گرفت کا پھیلاؤ عام سطح سے لے کر روحانیّت کی بلندیوں تک پایا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے وہ عزیز خود بھی سکالر ہیں اور موسیقی سے ان کو نہ صرف دلچسپی ہے بلکہ عملی تعلق بھی ہے، اب بہتر یہ ہوگا کہ عنوانِ بالا یعنی “روحانیّت اور موسیقی” کے موضوع پر ایک مفصل مقالہ لکھا جائے اور بالآخر اسی کی روشنی میں خلاصے کی صورت میں جواب مہیا کر دیا جائے، ان شاء اللہ تعالیٰ ۔

 

اس بات کو جان لینا ضروری ہے کہ قرآنِ پاک اور دینِ اسلام کی رو سے اس دنیا کی بعض چیزیں حلال ہیں اور بعض حرام، اور کچھ اشیا ایسی بھی ہیں کہ وہ ایک پہلو سے حلال اور دوسرے پہلو سے حرام ہیں، مثلاً قرآنِ حکیم میں گمان کی بابت دیکھئے کہ گمان جس کو عربی میں ظن کہا جاتا ہے، یہ اپنے معنی سے متعلق ایک لفظ ہے اور معنوی طور پر نہیں بدلتا، لیکن اس کے موقع استعمال اور دو مختلف رخ (حلال و حرام) کو دیکھئے تو سہی، کہ یہ کبھی تو باعثِ ثواب ہو جاتا ہے اور کبھی سببِ گناہ بن جاتا ہے، اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ بس یہی کہ گمان سے جس طرح نیکی ہو سکتی ہے اسی طرح بدی بھی ہو سکتی

 

۷۵

 

ہے، چنانچہ حسنِ ظنۡ (نیک گمان) حلال ہے، اور سوءِ ظنۡ (بد گمان) حرام ہے، اور یہی حال بس موسیقی کا بھی ہے، یعنی اگر یہ نیک نیتی سے نیک مقاصد کے حصول کے لئے ہے تو یقیناً حلال ہے، اور اگر اس کے برعکس ہے تو یہ حرام ہے۔

 

ہم نے اس موسیقی کی بات بتائی جو لوگوں تک پہنچی ہوئی ہے اور ان کے درمیان مستعمل ہے، مگر اُس موسیقی کا ابھی کوئی ذکر ہی نہ ہوا، جو اپنے سرچشمۂ اصل و حقیقت میں موجود ہے، ہاں! ان شاء اللہ ہم کچھ آگے چل کر کسی قدر تفصیل سے بتائیں گے کہ موسیقی دراصل عجائبِ قدرت اور اسرارِ حکمت میں سے ہے، اور یہ ایک زبردست طاقت ہے جو اصلاً روحانی ارتقاء کی غرض سے بنائی گئی ہے، مگر اس دنیائے ظاہر میں شیطان نے اپنے لشکر کے ذریعے اس کے اکثر حصّے پر قبضہ جما رکھا ہے، تاہم یہ دانشمندی نہیں کہ جو رہا سہا مقدّس حصّہ ہے اس کو بھی شیطان سے منسوب کر کے چھوڑ دیا جائے، بلکہ مصلحت و حکمت اسی میں ہے کہ ہر حلال و پاک چیز کو شیطان سے چھین کر اسے محروم و مایوس کر دیا جائے۔

 

قرآنِ عزیز کی کئی حکمت آگین آیات میں ملکوتی اور مقدّس موسیقی سے متعلق بہت سے لطیف حکیمانہ اشارات موجود ہیں، مگر اس کا نمایان تذکرہ ان آیاتِ مبارکہ میں ملتا ہے، جو صورِ اسرافیل اور تسبیحِ داؤدی کے بارے میں ہیں، چنانچہ ہمیں اوّل حضرت اسرافیل علیہ السّلام اور اس

 

۷۶

 

کے صور کے متعلق کچھ عرض کرنا ہے، وہ اس طرح ہے کہ خالقِ حکیم اور ربِّ کریم نے موسیقی کو یہ بڑی عزّت کیوں عطا کی کہ وہ آج روحانیّت میں بھی اور کل قیامت میں بھی اسی سے اپنی قدیم اور لازوال سلطنت کا اعلان کرواتا ہے؟ (۰۶: ۷۳) صورِ اسرافیل کی اتنی زیادہ اہمیّت کس وجہ سے ہے کہ جبرائیل اور میکائیل سے بھی ایک عظیم تر فرشتہ اس کے لئے مقرر اور منتظر ہے؟ اس میں کیا راز ہے، اور کون سی ایسی قیامت خیز قوّت پوشیدہ ہے، کہ جس سے وہ تمام لوگ موت کی نیند سے فوراً جاگ اٹھیں گے، جنہیں دنیوی زندگی میں خوابِ غفلت سے دین کی کوئی طاقت نہیں جگا سکتی تھی؟ نیز یہ سوال ہے کہ نظامِ الٰہی میں قلم اور لوح کے بعد چار مقرب فرشتے ہیں، ان میں سے ایک عظیم فرشتے کو موسیقی کا موکل قرار دیا گیا، اور چار مشہور آسمانی کتا‎بوں میں سے ایک کتابِ مقدّس نغموں کی صورت میں پیش کی گئی، آخر اس میں کیا حکمت پنہان ہے؟

 

جہاں تک لفظِ صور یا ناقور کے لغوی اور ظاہری معنی کا تعلق ہے، یہ تو صرف ایک اشارہ ہے، نیز یہ اصل حقیقت پر حجاب کا کام کر رہا ہے، کیونکہ ہر حقیقت کا ایک حجاب ہوا کرتا ہے، یہاں تک کہ خدا خود بھی اپنی ذاتِ اقدس کے لئے حجاب اختیار فرماتا ہے، چنانچہ اس حکمت والے نے نغماتِ ملکوتی کا نام صور یا ناقور رکھا، جس کے لفظی معنی ہیں نرسنگھا، بگل (Trumpet) لیکن یہاں اسم

 

۷۷

 

اور مسما میں آسمان زمین کا فرق ہے، اور ایسا ہونا ضروری ہے۔

 

اہلِ دانش اس نکتہ کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ حضرت اسرافیل جس کا ایک قرآنی اور اصطلاحی ٹائٹل جد (خدا کی شان، ۷۲: ۰۳) ہے، اس کو یہ ہرگز زیب نہیں دیتا کہ ایک عام اور معمولی نوعیت کا نرسنگھا بجایا کرے، مگر ہاں یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ وہ لاہوتی عشق کا فرشتہ ہے، لہٰذا وہ عشقِ الٰہی کا ناقور بجاتا ہے، آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ خدائی عشق کی طاقت ظاہر و باطن کی جملہ طاقتوں پر بادشاہ ہے، یہی وہ قدرتِ خدا ہے، جو نہ صرف قیامت کے دن مردوں کو زندہ کر سکتی ہے، بلکہ آج بھی ایسے بہت سے مردوں کو حقیقی حیات عطا کر سکتی ہے، کہ وہ بظاہر زندہ چلتے پھرتے ہیں، مگر اُن میں اصل روح نہیں۔

 

فرمایا گیا ہے کہ: العشق نار یحرق ما سواء اللہ ، یعنی حقیقی عشق ایک ایسی معجزاتی آگ ہے کہ وہ اگر حاصل ہو تو یادِ خدا کو چھوڑ کر باقی تمام چیزوں کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے، سو ہر دیندار شخص کے لئے ضروری ہے، کہ وہ اسرافیل سے متعلق دینی حکمتوں کو سمجھے اور ٹھنڈے دل سے غور کرے کہ آیا دین کی مقدّس روایات میں کچھ ایسی پاکیزہ چیزیں بھی ہیں کہ وہ ذرا ذرا صورِ قیامت کی طرح ہوں اور اُن میں خداوندِ برحق کی انتہائی شیرین محبت کا کوئی کرشمہ جھلکتا ہو؟

 

اس مادّی دنیا میں جو لوگ دعوتِ حق سے انکار کرنے کی آخری

 

۷۸

 

حد میں پہنچ جاتے ہیں تو خداوندِ عالم ان کے بارے میں فرماتا ہے کہ: صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ (۰۲: ۱۸) یہ لوگ بہرے، گونگے، اندھے ہیں سو یہ اپنی گمراہی سے باز نہیں آ سکتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ جب ایسے بے شمار لوگ مر جاتے ہیں تو اور زیادہ بے حس اور بدتر ہو جاتے ہیں، لیکن اس راز میں حیرت ہی حیرت ہے، کہ خدا کے پاس ایک ایسی انتہائی عظیم اور آخری درجے کی طاقت بھی ہے، جس سے نہ صرف بہروں کو سنانے، گونگوں کو گویا کرنے اور اندھوں کو دکھانے کا کام لیا جا سکتا ہے، بلکہ مردوں کو بھی زندہ کیا جا سکتا ہے، اور یہ طاقت صورِ اسرافیل میں نغمۂ عشقِ الٰہی ہے۔

 

ناقور کا نام قرآنِ پاک میں صرف ایک مرتبہ آیا ہے، صور کا تذکرہ دس (۱۰) بار فرمایا گیا ہے، اس کے لئے صیحۃ کا لفظ بھی ہے، جو اکثر دفعہ تباہ کن تصوّر پیش کرتا ہے، یعنی ماضیٔ بعید میں جو نافرمان قومیں بڑی سخت آواز سے ہلاک کی گئی ہیں، اس میں صورِ اسرافیل کا زبردست معجزہ تھا۔

 

قرآنِ مقدّس کی جن جن آیاتِ مبارکہ میں صورِ روحانیّت و قیامت کی معجز نمائی کا ذکر آیا ہے، ان میں دانشمندوں کو غور و فکر کر کے اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے کہ موت کی نیند سوئے ہوئے نفوس میں حیاتِ نو پھونک کر ان کو جگا دینے والی سماوی بانسری واقعی حقیقی عشق کی جان ہے، یہ بات یقیناً نورِ معرفت کی روشنی میں ہے

 

۷۹

 

کہ ناقور بحقیقت ملکوتی بانسری ہے جس کی آوازِ جان بخش آفاق و انفس پر مسلط و محیط ہو جاتی ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے:

 

اور جب صور پھونکا جائے گا تو جو لوگ آسمان میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے مگر وہ جس کو اللہ چاہے پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا تو فوراً سب کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے (۳۹: ۶۸)۔

 

اب مناسب یہ ہے کہ اس سلسلے میں حضرت داؤد علیہ السّلام کا بھی ذکر کر دیا جائے، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ صورِ اسرافیل سے الگ نہ تھے، اس لئے کہ یہ انسانِ کامل کے باطن میں مسلسل بجتا رہتا ہے، چنانچہ یہ باور کرنا حقیقت ہے کہ جناب داؤدؑ حضرت اسرافیل کے مظہر تھے، یعنی ایک طرف سے تو اسرافیل کے زیرِ اثر اور دوسری طرف سے لوگوں پر اثر انداز تھے، دوسرے الفاظ میں یوں کہنا بھی صحیح ہے کہ آپ لوگوں کے لئے اسرافیل کی ترجمانی کر دیتے تھے، کیونکہ عوام النّاس صورِ عشق کے لاہوتی نغمات تو براہِ راست سن ہی نہیں سکتے، وہ اس کان میں روحانی کان از خود پیدا نہیں کر سکتے، اور وہ اس آنکھ میں عین الیقین حاصل نہیں کر سکتے، لہٰذا ربِّ کریم نے حضرت داؤدؑ کی مثال میں اہلِ جہان کو یہ حکم دیا کہ دیکھو اگر کوئی شخص خدا کی یاد و محبت سے غافل ہو جانے کے نتیجے پر مردہ

 

۸۰

 

یا نیم مردہ بن چکا ہو، تو اس کے لئے بھی ایک کامیاب علاج ہمیشہ اس دنیا میں موجود ہے، جس کی بدولت اس کو حیاتِ تازہ عطا ہو سکتی ہے۔

 

خیال رہے کہ جبرائیل فرشتۂ تنزیل، میکائیل فرشتۂ تاویل اور اسرافیل فرشتۂ عشق ہیں، چنانچہ خداوندِ عالم نے اپنے پاک عشق کے نور سے انبیاء و اولیاء کے قلوب کو منوّر فرمایا، اور جس طرح ہر معروف پیغمبر میں بموجبِ حکمت ایک مثالی صفت نمایان ہوا کرتی ہے، اسی طرح حضرت داؤد علیہ السّلام میں ربّانی عشق کی صفت نمایان تھی، چونکہ خدائی عشق اصلاً عالمِ لاہوت کی بلندی پر ہے، لہٰذا بطورِ کامل اس کو چھونا انتہائی مشکل کام ہے، یہی سبب تھا کہ حضرت داؤد ہمیشہ مناجات اور گریہ و زاری میں ڈوبے رہتے تھے۔

 

ویسے تو انسان اپنی ہستی میں بے شمار چیزوں کا مجموعہ ہے، مگر اساسی طور پر اس میں چار بڑی چیزیں ہیں، جن کی ترتیب یہ ہے: جسم، روح، عقل اور عشق، اور ان کی غذائیں بھی مختلف اور الگ الگ ہیں، چنانچہ جسم کی خوراک جسمانی اور مادّی ہے، روح کی غذا روحانی یعنی ذکر و عبادت سے حاصل ہے، عقل کی خوراک عقلی یعنی علم و حکمت سے ہے، عشق کی غذا نورِ ہدایت کے عشق و محبت سے حاصل ہوتی ہے۔

 

یہ ایک روشن دلیل ہے کہ جملہ انبیاء علیہم السّلام کی راہِ روحانیّت

 

۸۱

 

اور طریقِ حقیقت ایک ہی ہے اور وہ صراطِ مستقیم ہے، اور اُن حضرات پر جو جو روحانی عجائب و غرائب اور معجزات گزر گئے ہیں، وہ ان کی ہدایت اور مثالی پیروی سے پوشیدہ اور ہٹ کر نہیں ہو سکتے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضور کے برحق جانشینوں کی کامل اور حقیقی پیروی میں ہر درجہ کی معرفت کا حصول ہو سکتا ہے اور اسی طرح انبیائے قرآن کے تمام روحانی معجزات کا مشاہدہ ممکن ہے، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو خداوندِ مہربان تمام اہلِ ایمان کو قرآنِ حکیم میں ایک ایسی شاندار اور پُرمغز دعا کی تعلیم نہ دیتا، جس کا مفہوم و منشا یہ ہے کہ مومنین کو راہِ روحانیّت میں نہ صرف پیغمبروں کے نقشِ قدم پر چلنا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان پر عطا کی گئی نعمتوں کا مشاہدہ کر کے خدا کی وسیع تر رحمت کا یقین بھی کر لینا ہے، اور وہ بابرکت دعا یہ ہے: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ  صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ (۰۱: ۰۵ تا ۰۶)۔

 

آپ شاید باور کریں گے کہ حضرت داؤدؑ پیغمبر ظاہر کی نسبت باطن میں کہیں زیادہ خوش الحان تھے، آپ نہ صرف جسمانی زبان سے پروردگار کی حمد و ثنا کے گیت گایا کرتے تھے، بلکہ اپنی روح کی انتہائی شیرین اور سریلی آواز میں بھی لاہوتی ترانے الاپتے تھے، جیسا کہ باری تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:

 

اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو تابع کر دیا کہ وہ داؤد

 

۸۲

 

کے ساتھ تسبیح کرتے تھے اور ہم ہی میں ایسا کرنے کی قدرت ہے (۲۱: ۷۹) پہاڑوں کی تاویل ہے بڑی بڑی روحیں، اور پرندوں سے عام روحیں مراد ہیں، چنانچہ قیامت خیز معجزاتی بانسری بجنے پر بڑی اور چھوٹی ارواح سب کی سب لطیف ذرّات کی شکل میں حضرت داؤدؑ میں جمع ہو گئیں، اور پھر زبانِ قدسی سے نغمۂ داؤدی کی ہمنوائی کرتی رہیں، جس کے ساتھ جبرائیل، میکائیل، اور عزرائیل بھی ہم آہنگ ہو جاتے تھے، اور ناقور کی مبارک آواز برسوں تک جاری رہتی ہے، مگر عام نیند سے اس میں خلل پڑتا ہے۔

 

حضرت داؤد علیہ السّلام ناقور کے بہشتی نغمات اور عشقِ الٰہی سے محو ہو جاتے تھے، تو انہیں ایک طرف سے یہ احساس ہو جاتا تھا کہ پوری کائنات اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ ان کی ذات میں سمٹ کر محدود ہو گئی ہے، اور دوسری طرف سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپؑ ناقور کی ہم آہنگی میں ارض و سما میں پھیل رہے ہیں، اور یہ دونوں باتیں حقیقت ہیں، کیونکہ کائنات کی روحانی تسخیر اسی طرح ہوا کرتی ہے، جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے:

 

کیا تم لوگوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) خدا ہی نے یقیناً تمہارا تابع کر دیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دیں (۳۱: ۲۰) اس مبارک ارشاد کی وضاحت یوں ہے کہ پروردگارِ عالم نے ہر

 

۸۳

 

پیغمبر اور ہر امام کی ذاتِ با برکات میں روحانی طور پر آسمان و زمین کی تمام چیزوں کو جمع کر رکھا ہے، اور یہ تسخیرِکائنات ہے، تا کہ ہر شخص ہادیٔ زمانؑ کی حقیقی فرمانبرداری سے اس دولتِ لازوال کو حاصل کر سکے، ورنہ خدا تعالیٰ کے اس احسان جتانے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔

 

افسوس ہے کہ بعض لوگ عملی معرفت تو درکنار اس کے لفظی معنی کو بھی نہیں سمجھ سکتے ہیں، ورنہ وہ بہت کچھ باور کر سکتے، کہ معرفت شناخت ہے ربِّ عزت کی، اور اس کی بادشاہی کی ہر چیز کی، اس پر کوئی شخص یہ سوال ضرور کر ے گا کہ: یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ خدا اور جملہ خدائی کی معرفت پر علمی احاطہ کرلیاجائے؟ اس کا جواب مشکل نہیں، بڑا سادہ ہے کہ یہ عظیم الشّان کام خود خدا ہی کی رحمت سے انجام پا سکتا ہے، جیسا کہ حدیثِ شریف میں ہے کہ: المومن ینظر بنور اللہ ۔ اس کی وضاحت ہے کہ مومن خدا کو اور اس کی بادشاہی کی ہر چیز کو نورِ الٰہی کی آنکھ سے دیکھ کر پہچان لیتا ہے۔

 

یہ نکتہ ہمیشہ کے لئے یاد رکھو کہ دنیا کی بادشاہی پراگندہ (منتشر) ہوا کرتی ہے، مگر خدا کی پاک خدائی اس کے برعکس یگانہ ہوتی ہے، یعنی وہاں تو صرف اور صرف ایک اکیلی حقیقت ہے، جس میں تمام حقیقتوں کی یکجائی اور وحدت ہے، بس اسی “یک حقیقت” کی معرفت (پہچان) کل معرفتوں کا سرچشمہ ہے۔

 

۸۴

 

مذکورۂ بالا اصلِ اصول کی روشنی میں آپ یقین کر سکیں گے، کہ قرآنِ کریم میں جن جن حقائق و معارف کا الگ الگ ذکر فرمایا گیا ہے، وہ سب روحانیّت کے مرکزِ اعلیٰ پر یکجا اور جمع ہیں، چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ جو صفت ایک پیغمبر میں نمایان نظر آتی تھی، وہ دوسرے سب انبیاء میں پوشیدہ تھی، لہٰذا کسی کو ہرگز یہ خیال نہ ہو کہ اسرافیل کے لاہوتی نغمات صرف جناب داؤدؑ سن لیا کرتے تھے، فرشتوں نے صرف حضرت آدمؑ کو سجدہ کیا، اور اللہ نے صرف حضرت موسیٰؑ سے کلام فرمایا، آپ اس میں اچھی طرح سے سوچ سکتے ہیں، کہ حقیقتِ حال کیا ہے۔

 

بہشت کئی درجات پر مبنی ہے، جس کی اصل و اساس جثّۂ ابداعیہ ہے، سو جنّت کی لاتعداد نعمتیں چار قسموں میں ہیں، یعنی جسمِ لطیف کے لئے لطیف جسمانی نعمتیں، روح کے لئے ہر قسم کی روحانی نعمتیں، عقل کے لئے عقل و دانش اور علم و عرفان کی بے شمار نعمتیں، اور عشق کے لئے ربّ العزّت کی مبارک لقاء اور اس کی پاک محبت و عشق کی نعمتیں، چنانچہ بہشت میں خداوندِ برحق کی تحمید و تمجید کے نغموں کا ہونا لازمی ہے، اور یہ نغمے ہزار گونہ تجلّیات و ظہورات کے مطابق بھی ہوں گے۔

 

علمائے ظاہر میں سے بعض حضرات بہشت کے نغمات کی دلیل اس آیۂ کریمہ سے لیتے ہیں: اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ اَنْتُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُوْنَ (۴۳: ۷۰) تم اور تمہارے جوڑے جنت میں داخل ہو جاؤجہاں تمہیں نغمے سنائے جائیں گے، ان علما کا یہ ترجمہ بالکل درست

 

۸۵

 

ہے، اس کے علاوہ اور بھی آیاتِ مبارکہ ہیں، جن کے اندر یہ مطلب پوشیدہ ہے، مثال کے طور پر آپ اس ارشادِ قرآنی میں ذرا غور کریں:

 

وَ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْهِ الْاَنْفُسُ وَ تَلَذُّ الْاَعْیُنُۚ (۴۳: ۷۱) اور وہاں جس چیز کو جی چاہے اور جس سے آنکھیں لذّت اٹھائیں (سب) موجود ہیں۔ حقیقت ظاہر ہے کہ جنت میں ہر وہ چیز موجود ہے جس کو انسان چاہتا ہے، پس اسی سلسلے میں موسیقی اور راگ بھی ہو گا، کیونکہ نفوسِ انسانی ایسی چیزوں کو بھی چاہتے ہیں۔

 

روحانیّت اور موسیقی کی اس بحث میں جہاں سیدنا داؤدؑ کا ذکرِ جمیل آیا ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کی آسمانی کتاب زبور سے بھی کوئی مثال پیش کی جائے، چنانچہ زبور کے آخری باب کی چند آیتیں یہ ہیں: نرسنگے کی آواز کے ساتھ اس کی حمد کرو۔ بربط اور ستار پر اس کی حمد کرو۔ دف بجاتے اور ناچتے ہوئے اس کی حمد کرو۔ تاردار سازوں اور بانسلی کے ساتھ اس کی حمد کرو۔ زور سے جھنجھناتی جھانجھ کے ساتھ اس کی حمد کرو (زبور۔ باب۔ ۱۵) ۔

 

اب آخر میں ایک بڑا اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیغمبرِ آخر زمان صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم موسیقی اور راگ کو کس نظر سے دیکھتے تھے؟ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ اس میں حضورِ اکرمؐ کی پسند و ناپسند منشائے قرآن کے مطابق ہی ہو سکتی ہے، تاہم اگر کسی عزیز کو اس مسئلہ کی تفصیلات درکار ہوں، تو کتاب “اسلام اور

 

۸۶

 

موسیقی” کا مطالعہ کیا جائے، جو مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی کی ایک عمدہ تصنیف ہے، جسے “ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ، کلب روڈ لاہور” نے شائع کیا ہے۔

 

مذکورہ کتاب (طبعِ دوم) کے صفحہ ۴۰ پر یوں درج ہے: “اور یہ روایت سب ہی جانتے ہیں کہ ہجرتِ مدینہ کے دن عورتیں دف پر یہ گا رہی تھیں:

 

طلع البدر علینا ، من ثنیات الوداع

ہم پر چاند نکلا ہے، وداع کے ٹیلوں سے

وجب الشکر علینا، ما داعا للہ داع

ہم پر شکر واجب ہے، جب تک کہ دعا کرنے والا دعا کرتا رہے

ایھا المبعوث فینا، جئت بالامر المطاع

اے وہ جو ہمارے اندر بھیجے گئے ہیں، آپ تو وہ دین لائے ہیں جو واجب الاطاعت ہے۔”

 

میرے خیال میں یہاں تک جو حقائق و معارف بیان ہوئے، یہ ان دونوں سوالوں پر روشنی ڈالنے کے لئے کافی ہیں، جو اس مقالہ کے شروع میں درج ہیں، اور خلاصہ یہ ہے کہ انسانی روح جہاں نقشِ ازل میں ایک زندہ نورانیّت رکھتی ہے، وہاں پر یہ بدرجۂ اعلیٰ لطیف اور ہر گونہ جمال و کمال کی دولت سے مالامال ہے، لیکن جہاں اس کی وابستگی جسمِ کثیف سے ہے، وہاں یہ اپنی تمام تر خوبیاں اور لطافتیں کھو بیٹھی ہے، اور اس کی وجہ قرآنی

 

۸۷

 

اشارات کے مطابق قساوتِ قلبی (دل کی سختی) ہے، جو اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے بنیادی رکاوٹ ہے، اور اس کا علاج ایسی موسیقی اور نغمے میں ہے جو خدا تعالیٰ اور آخرت کی طرف توجہ دلا سکے، تاکہ اس کے نتیجے میں دل میں رحمتِ خداوندی کا معجزہ اپنا کام شروع کرے، اور وہاں جو روح کے مردہ، نیم مردہ اور خوابیدہ ذرّات ہیں، وہ اس اسرافیلی اور داؤدی اثر سے جاگ اٹھیں۔

 

اس سے صاف صاف ظاہر ہے کہ انسانی روح پر موسیقی کا تعمیری اثر پڑتا ہے، اور اس کی مثال نہ صرف ظاہر میں بلکہ اعلیٰ روحانیّت میں بھی سورج کی طرح ہے، کہ آفتاب اپنی حرارت سے پانی کو کثیف سے لطیف بنا دیتا ہے، جس کی بدولت پانی بلندیوں کی طرف پرواز کر سکتا ہے، یہاں نورِ عشق سورج ہے اور روح یخ بستہ پانی۔ و باللہ التوفیق۔

 

خانۂ حکمت، کراچی

۲۰ نومبر ۱۹۸۲ء

 

۸۸

 

مذہب اور سائنس نمبر ۱

کراماً کاتبین

 

مجھے کامل یقین ہے کہ “مذہب اور سائنس” کا موضوع عصرِ حاضر میں ازبس ضروری ہے، اس لئے میں پُرامید ہوں کہ عنوانِ بالا کے تحت یہاں جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ ہمارے قارئینِ کرام کو مفید ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ سائنس جو قانونِ فطرت کے بھیدوں میں سے ہے اسے کوئی دانشمند دیندار نظر انداز نہیں کر سکتا ہے، بلکہ حقیقت میں ہمیشہ اس بات کی ضرورت رہی ہے کہ مذہب کو سائنس کی روشنی میں دیکھا اور سمجھ لیا جائے، تاکہ اسلام جو دینِ فطرت ہے اس کے باطنی پہلو کو سمجھنے میں مدد ملے۔

 

مذہب اور سائنس کے متعلق بہت سے موضوعات زیرِ بحث آ سکتے ہیں، آج ہم یہاں اس سلسلے میں “کراماً کاتبین” کے عنوان سے کچھ حقائق و معارف بیان کرنا چاہتے ہیں، جن کے بارے

 

۸۹

 

میں قرآنِ پاک کا ارشاد ہے کہ:

 

وَ اِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰفِظِیْنَ  كِرَامًا كَاتِبِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ (۸۲: ۱۰ تا ۱۲) اور تم پر (تمہارے سب اعمال) یاد کرنے والے معزز لکھنے والے (فرشتے) مقرر ہیں جو تمہارے سب اعمال کو جانتے ہیں۔

 

یہ اصول ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ آسمانی کتاب کے ظاہری معنی اُس زمانے کے مطابق ہوتے ہیں جس میں کہ کتاب نازل ہوئی تھی، مگر اس کی باطنی حکمت (تاویل) آنے والے تمام زمانوں پر محیط ہوتی ہے، تاکہ مستقبل کی نئی نسلیں جدید علوم و فنون کی روشنی میں دین کی حقیقتوں کو سمجھ سکیں، چنانچہ جو معزز فرشتے انسانی اعمال کے لئے حافظین اور کاتبین کا کام کرتے ہیں، ان کی وضاحت موجودہ سائنسی روشنی میں درست ہے، کہ یہ فرشتے معزز اس معنیٰ میں ہیں کہ ان کو قادرِ مطلق نے زبردست روحانی طاقتیں عطا کر دی ہیں، اس لئے وہ ہمارے اعمال کے زندہ ریکارڈر ہیں، یعنی وہ ہماری پوری زندگی کی روحانی فلم اتارتے رہتے ہیں جس میں اعمالِ نیک و بد کا ذرّہ ذرّہ سامنے آتا ہے اور کوئی چیز اس سے باہر نہیں رہ سکتی، یہ سب کچھ ان فرشتوں کے تحت آٹومیٹک سسٹم سے ہوتا رہتا ہے، اور یہ عظیم باکرامت فرشتے جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل علیہم السّلام ہیں، جن کے زیرِ فرمان اتنے زیادہ فرشتے اور ارواح کام میں مصروف

 

۹۰

 

ہیں کہ ان کی تعداد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

 

انہی ریکارڈ کرنے والے فرشتوں کو رسل یعنی ایلچی یا بھیجے ہوئے بھی کہا گیا ہے (۱۰: ۲۱، ۴۳: ۸۰) کیونکہ جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل علیہم السّلام فرشتوں میں سے رسول ہیں، جبکہ خداوند تعالیٰ فرشتوں سے اور انسانوں سے رسل منتخب کرتا ہے (۲۲: ۷۵) کیونکہ انسان کی ہستی کے دو پہلو ہیں ایک ظاہر ہے اور دوسرا باطن، بنا برین آدمی ناسوت اور ملکوت کے درمیان رہتا ہے اور یہی سبب ہے کہ خدا نے ناسوت سے بھی اور ملکوت سے بھی رسول مقرر کئے ہیں۔

 

پروردگارِ عالم نے کراماً کاتبین کے کام کو اپنی ذاتِ پاک سے منسوب کر کے فرمایا ہے: سَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا (ہم ان کے کہے ہوئے کو لکھ رہے ہیں، ۰۳: ۱۸۱) كَلَّاؕ-سَنَكْتُبُ مَا یَقُوْلُ (ہرگز نہیں، ہم اس کا کہا ہوا لکھ لیتے ہیں، ۱۹: ۷۹) وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْۣؕ (اور ہم لکھتے جاتے ہیں وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجے جاتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں، ۳۶: ۱۲) اس سے یہ حقیقت عیان ہے کہ جو کام یہ عظیم فرشتے کرتے ہیں وہ گویا خدا بذاتِ خود کرتا ہے۔

 

کراماً کاتبین کی نگرانی میں جو کچھ خود بخود ریکارڈ ہوتا رہتا ہے اس کا نام اعمال نامہ ہے جو ایک زندہ اور بولنے والی کتاب ہے،

 

۹۱

 

جس سے انسان کی تمام زندگی کی روحانی فلم مراد ہے، کیونکہ نامۂ اعمال وہ ہے جس میں مکمل گواہی کے طور پر ہر چیز جیسی تھی ویسی درج ہوتی ہے، یعنی انسان اور اس کے قول و فعل کی زندہ اور محرک تصویر، ساتھ ہی ساتھ زمان و مکان اور پورے ماحول کا روحانی عکس موجود ہوتا ہے، جس کو زمانے کی زبان میں روحانی فلم کہنا مناسب ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے:

 

اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْۣؕ-وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) بے شک ہم مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم لکھتے جاتے ہیں وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے جاتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبین (کے نور) میں گھیر کر رکھا ہے۔ یہاں اعمال نامہ کے باب میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اس میں نہ صرف وہ اعمال و احوال درج ہوتے ہیں جو مرنے سے پہلے آگے بھیجے گئے ہیں بلکہ اس میں وہ آثار بھی ضبط ہیں جو دنیا میں چھوڑ جاتے ہیں اور یہ سب کچھ امامِ مبین کے نور میں محدود اور موجود ہے۔ اس سے کئی حکمتیں واضح ہو جاتی ہیں، ایک تو یہ کہ آئینۂ اعمال (یعنی اعمال نامہ) میں دو قسم کے احوال نظر آئیں گے، وہ اعمال بھی جو مرنے سے پہلے انجام دیئے گئے تھے، اور وہ آثار بھی جو دنیا میں چھوڑ گئے ہیں، دوسری حکمت یہ ہے کہ

 

۹۲

 

کراماً کاتبین نورِ امامت کی کرنوں کی حیثیت سے ہیں، یہی وجہ ہے جو یہاں فرمایا گیا ہے کہ انسانوں کے اعمال و آثار اور ہر چیز امامِ مبین کے نور میں مندرج ہوتی ہے، تیسری حکمت یہ ہے کہ اعمال نامہ، بولنے والی کتاب اور امامِ مبین ایک ہی حقیقت کے مختلف نام ہیں اور وہ حقیقت امامِ زمانؑ ہی ہیں۔

 

قرآن کہتا ہے کہ: وَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ (۲۳: ۶۲) اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو سچ سچ بولتی ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔ یہ بولنے والی کتاب جو خدا کے پاس ہے نورِ امامت ہے جو انسانوں کے لئے نامۂ اعمال کی حیثیت بھی رکھتا ہے، وہ عزت و برتری کے معنی میں خدا کے پاس ہے مگر لوگوں کی ہدایت کے لئے دنیا میں ظاہر ہے تا کہ عدلِ خداوندی کا جو قانون ہے اس کا تقاضا پورا ہو، ورنہ یہ بات رحمتِ ایزدی سے بعید ہے کہ بولنے والی کتاب صرف خدا ہی کے پاس رہے اور وہ فقط قیامت کے دن انسان پر ظاہر اس لئے ہو جائے تاکہ شہادت اور حساب میں کوئی شے فروگزاشت نہ ہو، یہ تصوّر درست نہیں، کیونکہ مذکورۂ بالا آیت میں “لا یظلمون” فرما کر اس حقیقت کی وضاحت کی گئی ہے کہ بولنے والی کتاب نہ صرف قیامت میں ظاہر ہوگی بلکہ وہ دنیا میں بھی موجود ہے، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو (نعوذ باللہ ) خدا کی طرف سے لوگوں پر ظلم ہوتا۔

 

اعمال نامہ جسے عظیم فرشتے ریکارڈ کرتے ہیں، جس کو

 

۹۳

 

نورِ امامت سے روح ملتی ہے، وہ ذرّاتِ روح پر مشتمل ہے، چنانچہ انفرادی قیامت یا روحانیّت میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ یہ اعمال نامہ اڑتے ہوئے روحانی ذرّات کی شکل میں آتا ہے، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:

 

اور ہم نے ہر انسان کا اعمال نامہ اس کے گلے میں لگا رکھا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کے لئے نکال دیں گے جو اس کو بکھری ہوئی کتاب کی شکل میں ملے گا (۱۷: ۱۳) یعنی ہر شخص کا اعمال نامہ اس کے امام سے وابستہ ہے جو روحانی گردن کی حیثیت رکھتا ہے اور قیامت کے دن یہ اعمال نامہ منتشر روحانی ذرّات پر مبنی ملے گا، اس بارے میں عوام کا خیال ہے کہ اعمال نامہ دنیا کی ایک کتاب کی طرح ہے اور وہ ورق ورق ہو کر انسان کے پاس آئے گا، حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے، اور درست یہ ہے کہ وہ ذرّاتِ روح پر مبنی ہے، لہٰذا وہ (اعمال نامہ) بولتا ہے۔

 

جو بندۂ مومن جسمانی طور پر مرنے سے پہلے نفسانی طور پر مر کر احوالِ قیامت کا مشاہدہ کرتا ہے، وہ اس حقیقت پر یقین کرتا ہے کہ ذاتی روحانیّت ہی اس کا اعمال نامہ ہے، کیونکہ اعمال کی کتاب کا مقصد اچھے اور برے کاموں کے نتائج کو سامنے رکھنا ہے اور روحانی مشاہدے یا روحانیّت کا مطلب باطنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر نتائجِ اعمال کے متعلق مطمئن ہو جانا ہے۔

 

ہم اس سے قبل یہ بیان کر چکے ہیں کہ بزرگ فرشتوں کا نامۂ اعمال

 

۹۴

 

تیار کرنا دنیاوی فلم سے نہیں ہے بلکہ وہ روحانی قوّتوں کے ذریعہ ہے، جس کو ہم آج کل کی سائنسی ترقی سے فائدہ اٹھا کر فلمانے سے تشبیہہ دے سکتے ہیں، جس طرح ہم سوتے سوتے خواب کی دنیا کو دیکھتے ہیں، جس میں اچھے اور بُرے بہت سے احوال ہوتے ہیں، جو اعمال نامہ اور روحانیّت کے ادنیٰ سے نمونے ہوتے ہیں، خواب اور خیال کو ہم فرشتوں کی تحریر تو کہہ سکتے ہیں، مگر یہ مادّی قلم کی تحریر نہیں ہے۔

 

خواب و خیال ہو یا نامۂ اعمال و روحانیّت اس میں اقوال و افعال کو جبرائیل فرشتہ شکل و صورت دیتا ہے، میکائیل رنگ و روشنی بھرتا ہے، اسرافیل ان روحانی تصویروں میں روحِ ناطقہ ڈالتا ہے اور عزرائیل ان میں تصرف کرتا ہے، یہ ہوا کراماً کاتبین کا نامۂ اعمال کو لکھنا اور یہی ہے روحانیّت کی تحریر۔

 

یہی روحانی تحریر خدائی تحریر ہے، جس میں آسمانی کتاب نازل ہوتی ہے اور تاویلی حکمت بھی اسی صورت میں پوشیدہ رہتی ہے چنانچہ مومنین کے لئے یہ امر ممکن ہے کہ پیغمبر کی تنزیل اور امام کی تاویل کا روحانی مشاہدہ کر کے ان کے مرتبۂ عالی کی معرفت حاصل کریں۔

 

جاننے کی ضرورت ہے کہ کراماً کاتبین اعمال کے فرشتے ہونے کے علاوہ رحمت کے فرشتے بھی ہیں، وہ یہ کہ عزرائیل انسان کو سلاتا ہے، اسرافیل جگاتا ہے، میکائیل فہم و فراست دیتا ہے

 

۹۵

 

اور جبرائیل فکر و خیال کوپیدا کرتا ہے۔ پس “کراماً” کے معنی میں یہ فرشتے معزز بھی ہیں اور کرم والے بھی ہیں۔

 

فقط آپ کا علمی خادم

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

۱۵ اکتوبر ۱۹۸۰ء

 

۹۶

 

روح – ایک انتہائی پیاری حقیقت

 

قرآنِ پاک اور دینِ اسلام کا مقصدِ عالی یہ ہے کہ مسلمین و مومنین پیغمبرِ خدا اور امامِ برحق کی تعلیمات و ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ میں چشمِ بصیرت پیدا کرلیں، تا کہ وہ بطریقِ مشاہدۂ روح و روحانیّت ربّ العزّت کی معرفت حاصل کر سکیں، اور ان کا ہر قول و عمل دیدہ و دانستہ طور پر انجام پائے، کیونکہ انسان کو حیوان پر تفوق و برتری اس لئے حاصل ہے کہ یہ ہر بات اور ہر کام عقل و دانش کی روشنی میں کرتا ہے، مگر حیوان اس سے محروم ہے۔

 

چشمِ بصیرت، دیدۂ دل اور چشمِ باطن کا مطلب ایک ہی ہے، اور اس کی اہمیّت و ضرورت کے بارے میں قرآنِ عزیزکا یہ ارشاد ہے: قُلْ هٰذِهٖ سَبِیْلِیْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ ﱘ عَلٰى بَصِیْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْؕ (۱۲: ۱۰۸) (اے رسول) اُن سے کہہ دو کہ میرا طریقہ تو یہ ہے کہ میں (لوگوں کو) خدا کی طرف بلاتا ہوں، میں اور میرا پیرو (یعنی برحق جانشین) بصیرت پر ہیں یعنی ہم

 

۹۷

 

حقائق و معارف کو چشمِ باطن سے دیکھتے ہوئے دعوت کرتے ہیں، اس آیۂ کریمہ میں “مَن” کی ضمیر واحد کے لئے بھی ہے اور جمع کے لئے بھی، سو جہاں واحد ہے وہاں یہ مولا علیؑ کے لئے ہے اور جس طرح جمع بھی ہے اس طرح یہ ائمّۂ اولادِ علیؑ کے لئے بھی ہے کہ رسولِ پاک کی حقیقی پیروی کا وسیلہ یہی حضرات ہیں اور بصیرت و نور بھی اسی سلسلۂ مقدّس سے وابستہ ہے۔

 

ہر مسلمان اور ہر مومن میں چشمِ بصیرت کا پیدا ہو جانا انتہائی ضروری ہے، کیونکہ خداوندِ عالم اپنی کتابِ عزیز کے بہت سے ارشادات میں یہ چاہتا ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ آیاتِ قدرت کا مطالعہ کرے، ایسے تمام مقامات پر سب سے اوّل دیدۂ دل کی اہمیت و افادیت کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ آیاتِ قدرت میں غور و فکر کا بنیادی تعلق چشمِ بصیرت سے ہے، اور اس کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں۔

 

آیاتِ خداوندی (قدرت کی نشانیاں) تین مختلف مقامات پر ہونے کے باؤجود باہم مربوط و منظم ہیں، سب سے پہلے اور سب سے اعلیٰ کتابِ سماوی یعنی قرآنِ کریم ہے جو اللہ تعالیٰ کی بے مثال کتاب ہے، جس کی قدرتی تشریح ایک تو کائنات ہے اور دوسری روح، اور روح سے انسان کی پاک اور حقیقی روح مراد ہے۔

 

قرآنی غور و فکر اور چشمِ بصیرت کی جیسی اہمیت ہے، اس

 

۹۸

 

سے کوئی دانشمند انکار نہیں کر سکتا، لہٰذا اس کے ثبوت میں منجملہ ایک آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں (۴۷: ۲۴)۔

 

کائنات میں جو قرآن کی تشریحی آیات ہیں، ان کے مطالعے کے لئے بصیرت کی جیسی ضرورت ہے، وہ اس قرآنی ہدایت سے ظاہر ہے: یقیناً رات دن کے الٹ پھیر میں اور جو کچھ خدا نے آسمانوں اور زمین میں بنایا ہے (اس میں) پرہیزگاروں کے واسطے بہت سی آیات (نشانیاں) ہیں (۱۰: ۰۶)۔

 

انسان کی روح و روحانیّت میں جس طرح آیاتِ قدرت یعنی عجائب و غرائب یا کہ عظیم معجزات ہیں، ان کے مشاہدے کے لئے دیدۂ دل کی جس قدر ضرورت ہے، اس کی بابت فرمانِ الٰہی کا ترجمہ یہ ہے: اور اہلِ یقین کے لئے زمین میں (قدرتِ خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تم میں بھی ہیں تو تم کیا دیکھتے نہیں (۵۱: ۲۰ تا ۲۱)۔

 

مندرجۂ بالا حقائق سے انسانی غور و فکر اور بصیرت کی بڑی حد تک کمی اور دوسری طرف دائرۂ فرائض کی بے پناہ وسعتوں کا اندازہ ہو جاتا ہے، اس لئے ظاہری طور پر انسان کی کمزوری اور سستی کی یوں ترجمانی ہو سکتی ہے: “انسان ضعیف البنیان کی کیا مجال ہے کہ وہ بیک وقت تین سمندروں میں کود کر موتیوں

 

۹۹

 

کے لئے غواصی کرے، یعنی ایک ہی وقت میں قرآن جیسے علم و حکمت کے بحرِ عمیق کی گہرائیوں میں بھی اتر جائے، ساتھ ہی ساتھ کائنات و موجودات کی چیزوں میں بھی فکر دوڑائے، اور اُسی وقت اپنی روح یا ذات کے اسرار کی نقاب کشائی بھی کرے، اور اگر یہ لا انتہا کام اُسے باری باری اور جدا جدا اوقات میں کرنا ہے، تو پھر بھی اس کی ایک عمر کیا چیز ہو سکتی ہے ہزاروں عمریں بھی ناکافی ہیں۔” لیکن کسی آدمی کا یہ خیال بالکل غلط ہے، کیونکہ خدا جو رحمان و رحیم ہے، وہ کسی بھی ناممکن کام کا حکم ہرگز نہیں دیتا، جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے: لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ (۰۲: ۲۸۶) خدا کسی کو (کسی فریضہ میں) اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔

 

اس مختصر اور پُرحکمت آیۂ کریمہ سے صاف ظاہر ہے کہ خدائے مہربان نے انسان کے لئے جن جن فرائض کی انجام دہی کا لائحۂ عمل بنا رکھا ہے، ان میں کوئی چیز کسی طرح سے بھی غیر ممکن نہیں، چنانچہ اہلِ دانش کے نزدیک یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ انسان کے دائرۂ اختیار اور احاطۂ فرائض میں جو کچھ داخل ہے، وہ نہ تو ناممکن ہے اور نہ ہی مشکل، کیونکہ یہ بات خدا تعالیٰ کے علم سے ہرگز ہرگز پوشیدہ نہیں کہ انسان بہت ہی کمزور و ناتوان ہے، اور خدا نے خود ہی بر بنائے مصلحت و حکمت انسان کو ضعیف (کمزور) بنایا ہے، جیسا کہ قرآن (۰۴: ۲۸) میں ہے، اور یہی

 

۱۰۰

 

وجہ ہے کہ پروردگارِ عالم نے روئے زمین پر ہمیشہ کے لئے اپنے مقدّس نور کا وسیلہ مقرر فرمایا ہے، تاکہ ہر شخص نورِ الٰہی کی طرف رجوع کرکے اپنی کمزوری کا مداوا کرے۔

 

اب رہا سوال یہ کہ آیا علم و حکمت یعنی آیاتِ قدرت کے تین سمندر قطعاً الگ الگ ہیں، جیسا کہ یہ بظاہر جدا جدا ہیں، یا ان کا کوئی مرکز اور سنگم بھی ہے؟ اس کا جواب یوں دیا جائے گا کہ یقیناً ان کا مرکز اور سنگم ہے، اور وہ انسان کی پاکیزہ روح میں پوشیدہ ہے، اور حقیقت میں یہ سنگم وہی ہے، جہاں پر حضرت موسیٰؑ نے سفرِ روحانیّت میں خضرِ زمانؑ سے ملاقات کی تھی، جو تنزیل و تاویل اور ظاہر و باطن کے اعتبار سے مجمع البحرین (۱۸: ۶۰، دونوں دریاؤں کا سنگم) کہلاتا ہے، جو علمِ لدّنی کا مقام ہے۔

 

اس حقیقت کے ثبوت میں کہ انسان کی ذات میں مذکورہ سمندروں کا سنگم پوشیدہ ہے زیادہ کچھ کہنے کی بجائے صرف مولا علیؑ کے ایک ارشاد کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے: “کیا تو گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے؟ حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر (بمع اپنی تمام چیزوں کے) سما گیا ہے۔” اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ انسان کی روح اور روحانیّت میں ساری کائنات کی حقیقتیں جمع کی گئی ہیں، اور یہ روح اپنے درجۂ کمال پر کتابِ مبین (بولنے والی کتاب) ہے۔

 

بلاشبہ ہر شخص خواہ مومن ہو یا کافر بحدِّ قوّت کتابِ مبین ضرور

 

۱۰۱

 

ہے مگر اللہ تعالیٰ کے حضور سے جو نور اور کتابِ مبین (قرآن) آئی ہے (۰۵: ۱۵) اس میں ہر آدمی کا فنا ہو جانا شرطِ لازمی ہے، تاکہ ایسا خوش نصیب شخص حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں آکر کتابِ ناطق بن سکے، یاد رہے کہ فنا کی کئی قسمیں ہیں، اور مومن کو جس فنا کی ضرورت ہے وہ مکمل فرمانبرداری کی صورت میں ہے، یعنی ایسی فرمانبرداری جو عقیدت، محبت اور علم کی روشنی میں بجا لائی جاتی ہے۔

 

اس بیان سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوا ہوگا کہ روح کے موضوع پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے، کیونکہ روح میں جملہ حقیقتوں اور معرفتوں کے انمول خزانے رکھے ہوئے ہیں، ان خزائن میں خدا کی خدائی اور بادشاہی کے عظیم بھید پوشیدہ ہیں، اور ان میں یہ اسرار بھی ہیں کہ انسان کا خدا سے حقیقی رشتہ کیا ہے، بندوں پر رحمان کی جیسی نوازشات ہیں، ان کی آخری حد کیا ہے، معرفت روح کی ہے یا ربّ کی، یا دونوں کی، اور کس طرح، وغیرہ، پس روح کا موضوع سب سے اہم بھی ہے اور انتہائی پیارا بھی۔

 

روح کی ذات و اصل پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ آغاز میں بھی اور انجام میں بھی ایک ہی ہے، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اجسام، ارواح اور عقولِ جزوی کی مجرّد حقیقتیں سرچشمۂ عقل میں ایک ہیں، کیونکہ کائنات و موجودات کی جملہ اشیاء ایک ہی لولوئے مکنون (پوشیدہ موتی) سے پیدا کی گئی ہے، یعنی گوہرِ عقل سے، جیسا کہ حکیم پیر ناصر خسرو ق س

 

۱۰۲

 

فرماتے ہیں:

 

چہ گوئی از چہ او عالم پدید آورد؟ از لو لو

کہ نہ مادت بد و صورت، نہ بالا بود و نہ پہنا

 

ترجمہ: تیرا کیا خیال ہے؟ خدا نے اس کائنات کو کس چیز سے پیدا کیا؟ گوہر (عقل) سے، کہ نہ تو مادّہ و صورت تھا، اور نہ ہی ابعادِ ثلاثہ (طول، عرض، عمق)۔

 

اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عالم اور اس کی ہر ہر چیز کو گوہرِ عقل سے پیدا کیا، اور وہ گوہر زمان و مکان سے ماؤرا ہمیشہ اسی تخلیقی صلاحیّت کے ساتھ موجود ہے، کیونکہ یہ قلمِ قدرت یا خامۂ تخلیق کا بلند ترین درجہ رکھتا ہے، لہٰذا مالکِ قلم (یعنی خدا) اس سے ہمیشہ خلقت کو رقم کرتا رہتا ہے۔

 

قرآنِ حکیم کے ایک پُرحکمت ارشاد (۰۶: ۹۴) کا مفہوم یہ ہے: جب کوئی بندہ معبودِ برحق کی طرف رجوع کر جاتا ہے، تو وہ قانونِ وحدانیّت کے مطابق نہ صرف تنِ تنہا جاتا ہے، بلکہ اپنے جسم، روح

 

۱۰۳

 

اور عقلِ جزوی کی ہر چیز کو بھی پیچھے چھوڑ کر جاتا ہے، اور شروع میں جیسا تھا ویسا منفرد و مجرّد ہو کر جاتا ہے، اس میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ وہ گوہر میں فنا ہو جاتا ہے، یعنی وہ اپنے آپ کو پہلے ہی سے وہاں موجود پاتا ہے، اس مقام کا ایک اور نام علّیّین ہے، جہاں حقیقی مومنین کی انائے عُلوی ایک زندہ کتاب یعنی نامۂ اعمال کی صورت میں پہلے ہی سے موجود ہوتی ہے (۸۳: ۱۸)۔

 

نیز ارشاد فرمایا گیا ہے: اور قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور سارے آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے (۳۹: ۶۷) اس ربّانی تعلیم سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ جملہ کائنات یعنی تمام چیزیں ایک ہی گوہر سے پیدا کی گئی ہیں اور آخرکار ہر چیز اسی گوہر میں فنا ہو جانے والی ہے، جیسا کہ فنا ہو جانے کا حق ہے، یاد رہے کہ کائنات کی چیزیں درجہ وار ہیں، اور اس حقیقت کی مثال قرآنِ حکیم میں سیڑھیوں سے دی گئی ہے (۷۰: ۰۳) چنانچہ کوئی مخلوق خدا تعالیٰ کی سیڑھیوں کے بغیر رجوع کر کے مرتبۂ اعلیٰ میں فنا نہیں ہو سکتی ہے، لہٰذا وہ سیڑھی سیڑھی چڑھتی ہے اور انسانی صورت اختیار کر کے گوہرِ عقل میں جیسا کہ ذکر ہوا فنا ہو جاتی ہے۔

 

ظاہری مخلوقات کے مدارج کی چار سیڑھیاں ہیں: جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان، جو اسی ترتیب سے ایک دوسرے

 

۱۰۴

 

سے پیوستہ ہیں، یہ قانونِ بحیثیتِ مجموعی بالکل درست ہے، تاہم اس سے چند مثالیں مستثنا بھی ہیں، جیسے جمادات سے نمک وغیرہ اور نباتات سے پھل جیسی چیزوں کا براہِ راست انسان تک پہنچ جانا۔

 

سوال نمبر ۱: جب ہم ساگ پات اور پھل کو توڑ لیتے ہیں، اور جب حلال جانور کو ذبح کیا جاتا ہے، تو اس وقت ان سے روحِ نباتی اور روحِ حیوانی نکل ہی جاتی ہے، پھر ہم ان میں سے جو کچھ کھاتے ہیں، اس میں کونسی روح ہوتی ہے؟ گوشت کے ایک ٹکڑے میں حیوانی روح ہے یا معدنی روح؟ سوال اس لئے ہے کہ اس میں اب نہ تو نباتی روح کی نشونما (Growth) ہے، اور نہ ہی حیوانی روح کی طرح کوئی حس، سو ان چیزوں کے کھانے سے ہمارے اندر کون سی روح بنتی ہے؟

 

سوال نمبر ۲: روح کے مختلف درجات حقیقتاً کس طرح ایک ہیں؟ اس کی بھی کچھ وضاحت فرمائیں۔

 

مذکورہ دونوں دلچسپ اور مفید سوالوں کو ہمارے بعض خاص احباب نے اپنے ایک گرامی نامہ کے ضمن میں بھیجا ہے، اور اصل میں یہ مضمون جو آپ کے سامنے ہے انہی سوالوں کے متعلق لکھا گیا ہے، اب یہاں خداوندِ قدوس کی توفیق و یاری سے جواباً عرض کرتا ہوں:

 

جواب نمبر ۱: عروج و ارتقا کے لئے قانونِ فطرت یہ ہے کہ

 

۱۰۵

 

ہر مخلوق اور ہر چیز اپنے اوپر کے درجے میں پہنچنے کے لئے فنا ہو جاتی ہے، چنانچہ نبات اور حیوان بحکمِ خدا قربان اور فنا ہو جاتے ہیں، تاکہ ان کی مردہ حیثیت یعنی مواد سے ایک نئی عمدہ زندگی بنائی جائے، جب حلال جانور کو ذبح کیا جاتا ہے تو یہ اس کی پہلی فنا ہے، اور جب گوشت پکایا جاتا ہے تو یہ اس کی دوسری فنا ہوگئی، اب قدرتِ خدا کو دیکھئے کہ یہی چیز جو فنا در فنا ہو چکی ہے، جب اُس کارخانۂ حیات میں داخل ہو جائے گی، جو انسان کے باطن میں پوشیدہ ہے، تو اس میں سے اوّل روحِ نباتی پیدا ہوگی، پھر روحِ حیوانی، اور پہلے سے بہت ہی عمدہ حالت میں ہوگی، اس کے بعد رفتہ رفتہ نباتی روح حیوانی روح میں اور حیوانی روح انسانی روح میں فنا ہوتی رہے گی۔

 

پکا ہوا گوشت کے ٹکڑے میں نہ تو حیوانی روح ہے اور نہ ہی نباتی روح، بلکہ وہ جمادات کی طرح ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اس کی مثال میں دانشمندوں پر یہ حقیقت ظاہر کر دینا چاہتا ہے کہ وہ اپنی قدرتِ کاملہ سے کس طرح سے مردوں کو زندہ کر سکتا ہے، چنانچہ جب گوشت کا یہ مادّہ کارخانۂ جگر اور کارخانۂ دل میں اتر جاتا ہے، تو اس میں سے روحِ نباتی اور روحِ حیوانی دوبارہ زندہ ہو جاتی ہیں، یہ واقعہ ایسا ہے جیسے انسان کا مر کردوبارہ زندہ ہو جانا۔

 

جواب نمبر ۲: ازل اور ابد میں جملہ ارواح ایک جیسی ہیں، جس کی مثال مادّی کائنات میں سورج سے مل سکتی ہے کہ اس کے

 

۱۰۶

 

تمام ذرّات میں انفرادیت، مساوات، یکرنگی اور وحدت ہے، اور عالمِ دین میں اس کا نمونہ انبیا علیہم السّلام ہیں، کہ وہ حضرات نفسِ واحدہ کی طرح ایک ہیں، یہ سوچنے کا مقام ہےکہ قانونِ تفضیل۱ کے باؤجود سب انبیاء کیونکر ایک ہو سکتے ہیں، اور اگر عالَم صرف دو ہی ہیں: ایک عالَمِ کثرت اور دوسرا عالَمِ وحدت، تو پھر حقیقت سمجھ میں آگئی کہ ایک کو دوسرے پر فضیلت اپنی جگہ پر درست ہے اور باہمی مساوات اور وحدت اپنے مقام پر صحیح ہے، چنانچہ اس دلیل سے ارواح کی مساوات اور ایک ہو جانے کی حقیقت روشن ہوگئی۔

 

تعصب چھوٹے سے چھوٹا بھی ہوتا ہے اور بڑے سے بڑا بھی، اور اگر کوئی شخص سب سے بڑے تعصب سے خود کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے تو اسے اس آیۂ کریمہ میں غور کرنا چاہئے: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ (۲۳: ۱۱۵) تو کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو (یوں ہی) بے کار پیدا کیا اور یہ کہ تم ہمارے حضور میں لوٹا کر نہ لائے جاؤ گے۔ اس میں بہشت اور دوزخ کے بعد کی حکمت بیان کی گئی ہے، کیونکہ اگر اہلِ جہنم کا معاملہ

 

۱؎: اشارہ ہے اس آیۂ کریمہ کی طرف: تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض (۰۲: ۲۵۳) یہ سب رسول (جو) ہم نے (بھیجے) ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔

 

۱۰۷

 

وہیں پر ختم ہو جاتا تو اس صورت میں ان کی تخلیق عبث (بے کار) ہو جاتی اور خدا کے حضور میں سب کے جانے کا ذکر ہی نہ ہوتا، اس سے ظاہر ہے کہ دوزخ کی سزا کے بعد بھی خدا کی طرف رجوع کرنا ہے۔

 

کوئی ہوشمند جو قرآن میں غور کرتا ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکے گا کہ خیر بہشت کے اسماء میں سے ہے اور شر دوزخ کے ناموں میں سے (۳۲: ۷۲) چنانچہ ارشاد فرمایا گیا ہے:

 

كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةًؕ-وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ (۲۱: ۳۵) ہر نفس (جان) موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور ہم تمہیں شر اور خیر میں امتحان کی غرض سے آزماتے ہیں اور (آخرکار) ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ دنیا میں جزوی طور پر خیر و شر ہے اور آخرت میں کلّی طور پر، چونکہ خیر و شر بہشت اور دوزخ ہیں اور ان کی وجہ سے لوگوں کی عملی آزمائش یہ ہے کہ جنت میں علم و حکمت سے لوگوں کی پاکیزگی ہوتی ہے اور دوزخ میں لوگ جل جل کر بہشت کے قابل ہو جاتے ہیں، تاکہ وہ وہاں پاک و پاکیزہ ہو کر خداوندِ عالم کے حضورِ مقدس جانے کے لائق ہو سکیں۔

 

یاد رہے کہ بہشت میں دو قسم کے لوگ ہوں گے: تمام انبیاء کی امتوں میں سے مومنین اور مومنات، اور حور و غلمان، یہ حور و غلمان کون سے لوگ ہیں؟ روحانی سلطنت کی کنیزیں اور غلام، جو

 

۱۰۸

 

دوزخ (یعنی آتشِ جہالت) کی سزا کے بعد بہشت میں منتقل کئے گئے ہیں، تا کہ وہ یہاں علم و حکمت کے ذریعہ جہالت و نادانی سے پاک و پاکیزہ ہو جائیں، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے:

 

وَ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَّ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِؕ (۰۳: ۱۵) اور (بہشت میں پرہیزگاروں کے لئے) پاک کی ہوئی بیبیاں ہیں اور (سب سے بڑھ کر تو) خدا کی خوشنودی ہے۔ آپ ذرا غور کریں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ مطہرۃ ایک ایسا لفظ ہے جو مفعول ہونے کی وجہ سے اس پر تطہیر کا فعل واقع ہوا ہے، مراد یہ کہ جنّت کی بیبیاں پہلے پہل تو پاک نہیں تھیں، لیکن بعد میں وہ پاک کی گئی ہیں، اور خدا کے نزدیک پاکیزگی تین قسم کی ہوتی ہے، سب سے نچلے درجے پر جسمانی، درمیان میں روحانی اور اعلیٰ درجے پر عقلی و علمی، سو اس سے یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ حور و غلمان ایک ہی قانون کے تحت ہیں، اور وہ یہ کہ انہیں اوّل تو جسمِ کثیف سے جسمِ لطیف میں لایا گیا ہے، جس میں نہ تو خون ہے اور نہ کسی قسم کی رطوبت و آلائش، اور ان کی روح کو خدا کے بزرگ نام سے واقف و آگاہ کیا ہے اور ان کی عقل کو علم و حکمت سے مانوس کر دیا ہے، اور تین قسم کی پاکیزگی انہی تین چیزوں میں ہے موجودہ جسم سے نورانی جسم میں منتقل کر دینا، عبادت کے لئے اسمِ بزرگ کا عطیہ اور خصوصی علم و حکمت، یہ جسمانی، روحانی اور عقلی پاکیزگی ہے۔

 

۱۰۹

 

شروع سے لے کر یہاں تک جو کچھ حقائق و معارف بیان ہوئے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ روح یقیناً ایک انتہائی پیاری حقیقت ہے، یہ کسی شک کے بغیر آیاتِ قدرت کا سنگم ہے، اس کے اندر جا کر دیکھنے کے لئے چشمِ بصیرت کی انتہائی ضرورت ہے، اجسام، ارواح اور عقولِ جزوی کی مجرّد حقیقتیں سرچشمۂ عقل میں ایک ہیں، خدا نے کائنات کو گوہرِ عقل سے بنایا، یعنی گوہرِ عقل میں جس طرح اشیاء کی علمی صورتیں تھیں، ان کو روحانیّت اور مادّیت کا ایک لباس پہنا دیا، دوزخ بھی اور بہشت بھی منزلِ مقصود کے راستے میں حائل ہیں، انسان کی سب سے آخری منزل گوہرِعقل اور کلمۂ باری یعنی مقامِ “کن” ہے، اور خدا کی خوشنودی اسی مقامِ اعلیٰ پر ہے۔

 

خانۂ حکمت، کراچی

۳۰ اکتوبر ۱۹۸۲ء

 

۱۱۰

 

“روح – ایک انتہائی پیاری حقیقت” کے مضمون سے متعلق سوالات

 

۱۔ سوال: اسلام میں چشمِ بصیرت (دل کی آنکھ) کا ہونا کیوں ضروری ہے؟ کیا تقلید سے کام نہیں لیا جا سکتا؟ بصیرت کی اہمیت کے بارے میں کوئی مثال دیں۔

 

۲۔ سوال: آیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آیۂ مبارکہ: قل ہٰذہ ۔۔۔ (۱۲: ۱۰۸) میں جس بصیرت کا ذکر ہوا ہے، اس سے نبوّت و امامت کا نور مراد ہے؟ اگر یہ حقیقت ہے تو اس کی کوئی دلیل پیش کرو۔

 

۳۔ سوال: قرآن کہتا ہے کہ: جو شخص اس دنیا میں چشمِ بصیرت حاصل نہ کر سکے تو وہ قیامت میں بھی اندھا ہی رہے گا اور یہ دور کی گمراہی کی وجہ سے ایسا ہو گا (۱۷: ۷۲) آپ بتائیں کہ اس میں مرکزی اشارہ کس چیز کی طرف ہے اور گمراہی کا سبب کیا ہے؟

 

۱۱۱

 

۴۔ سوال: قرآن کی دو سب سے روشن آیتیں: اللہ نور السماوات (۲۴: ۳۵) اور و داعیا ۔۔ تا ۔۔ سراجا منیرا (۳۳: ۴۶) ہیں، کائنات کی دو سب سے تابان آیتیں سورج اور چاند، اور عالمِ شخصی کی دو ایسی آیتیں عقل اور روح ہیں، تو کیا یہ بھی درست ہے کہ عالمِ دین کی دو سب سے عظیم آیتیں رسول اور امام ہیں؟

 

۵۔ یہ ارشاد کس کا ہے: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ اور اس کے معنی و مقصد کیا ہے؟

 

۶۔ کتابِ سماوی کی آیات خاموش و ساکن ہیں، کائنات کی آیات خاموش ہیں مگر ساکن نہیں، یعنی حرکت میں ہیں، اب آپ ہی بتائیں کہ اس کے بعد آیات کی کونسی قسم باقی رہ گئی یعنی انسانی روح میں جو آیات ہیں وہ کس نوعیت کی ہو سکتی ہیں؟ کیا اس میں زندہ اور گویندہ آیات ہیں؟ زندہ اور گویندہ (بولنے والی) آیات، یعنی معجزاتِ ناطقہ، جو قرآن کی زبان میں آیاتِ بینات ہیں (۲۹: ۴۹)۔

 

۷۔ انسان کو کمزور کیوں بنایا گیا؟ اس میں کیا مصلحت و حکمت ہے؟

 

۸۔ دو دریاؤں کے سنگم سے کیا مراد ہے؟ حضرت موسیٰ کا سفر جو مجمع البحرین کی طرف تھا، وہ روحانی سفر تھا یا جسمانی؟ خضرِ زمان سے کون سی شخصیت مراد ہے؟

 

۱۱۲

 

۹۔ حدِّ قوّت اور حدِّ فعل کی الگ الگ تعریف کرو اور یہ بتاؤ کہ کوئی کافر کس طرح بحدِّ قوّت کتابِ مبین ہو سکتا ہے؟ اس کی مثال کسی ایسے صحابی سے دو، جو پہلے غیر مسلم ہو، پھر اس نے اسلام اور ایمان میں درجۂ کمال حاصل کر لیا ہو۔

 

۱۰۔ سوال: کوئی مومن نورِ ہدایت اور قرآن میں کس طرح فنا ہو سکتا ہے؟ اس فنا کا طریقِ کار کیا ہے؟

 

۱۱۔ سوال: روح کی مثال اس ظاہری دنیا کی کسی چیز سے دے کر سمجھائیں کہ روح ایک بھی ہے اور لاتعداد بھی، کیا آپ پانی سے روح کی بعض حقیقتیں سمجھا سکتے ہیں؟ یعنی دنیا بھر کے پانی سے۔

 

۱۲۔ سوال: دراصل معرفت روح کی ہے یا پروردگار کی؟ یا دونوں کی؟ آیا روح (جبکہ اس سے روحِ اعظم مراد ہے) اور ربّ میں کوئی خاص رشتہ ہے یا کوئی وحدت ہے؟

 

۱۳۔ سارے بنی آدم خواہ مومن ہوں یا کافر بابا آدم کی ہستی میں ایک تھے، اب اس حقیقت کا رخ اس طرح ہے کہ پھر آخر میں جا کر تمام بنی نوع انسان آدم جیسی ایک عظیم ہستی میں جمع ہو جائیں گے، تو کیا یہ وحدتِ ارواح کی ایک واضح مثال ہے؟

 

۱۴۔ اگر تسلیم کر لیا جائے کہ گوہرِ عقل قلمِ الٰہی ہے جو ملک بھی اور ملکوت بھی کہ وہ عقلی دنیا ہے اور عقلی صورت میں اُس میں ہر ہر چیز موجود ہے، اور وہاں آپ اور ہم یعنی ہر شخص ازلی و ابدی طور

 

۱۱۳

 

پر موجود ہے، تو پھر یہ آنے اور جانے کا چکر کیا ہے؟

 

۱۵۔ کیا یہ درست ہے یا نہیں کہ خدا کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ ایک نہیں بلکہ دو پر مبنی ہے؟ چنانچہ ہر انسان کی دو انائیں ہیں، ایک انائے علوی جو ہمیشہ سے ہے اور دوسری انائے سفلی جو کبھی ہے اور کبھی نہیں؟

 

۱۶۔ جسم، روح اور عقلِ جزوی یہ چیزیں خدا کے حضور تک پہنچ نہیں سکتی ہیں، مگر عین الیقین کا آخری مرتبہ وہاں تک رسا ہو سکتا ہے، کیا یہ صحیح ہے؟ یا آپ کو کچھ کہنا ہے؟

 

۱۷۔ قیامت کے دن کائنات خدا کی مٹھی میں ہو گی، آیا یہ بات تصوّرِ جسمانی ہے یا تصوّرِ روحانی یا تصوّرِ علمی و عقلی ہے؟ کیونکہ بہت سے لوگوں پر زندگی میں یا مر کر قیامت گزر چکی ہے، مگر اس کائنات کو مادّی طور پر اب تک کچھ نہیں ہوا، یہ ایسی ہی قائم ہے جیسی شروع میں تھی۔

 

۱۸۔ مدارجِ مخلوق کی چار سیڑھیاں کون کون سی ہیں؟ کیا ان میں سے ہر سیڑھی کے بہت سے زینے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو مثال دے کر سمجھا دیں۔

 

۱۹۔ سوال: حلال جانور کی روح بوقتِ ذبح نکل کر کہاں جاتی ہے؟ کیا یہ درست ہے کہ یہی روح جو بہت سے ذرات پر مشتمل ہے متعلقہ لوگوں سے منسلک ہو جاتی ہے؟ کیونکہ اس کا رخ عالمِ

 

۱۱۴

 

انسان کی طرف ہے، جس طرح روحِ نباتی کا رخ عالمِ حیوان کی جانب ہے۔

 

۲۰۔ سوال: جمادات، نباتات اور حیوانات کے لئے جبری فنا مقرر ہے، اور انسان کے لئے کون سی فنا ہے؟ جبری ہے یا اختیاری یا دونوں؟ اگرچہ دوسری مخلوق کو جبری فنا میں فائدہ ہی فائدہ ہے، لیکن انسان کو اختیار دیا گیا ہے، لہٰذا اسے علم و عمل اور حقیقی فرمانبرداری سے اختیاری فنا کی سخت ضرورت ہے۔

 

۲۱۔ کارخانۂ جگر اور کارگاہِ دل کی یہ اہمیت کیوں ہے؟ انسان میں تیسرا اور چوتھا کارخانۂ حیات کہاں کہاں واقع ہیں؟ اور ان چاروں کا ربط و سلسلہ کس طرح ہے؟

 

۲۲۔ کیا آپ سورج کی مثال پیش کر کے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ مونوریالزم (یک حقیقت) کا درجہ یعنی نورِ امامت روحوں کا سورج ہے، جس میں جتنی روحیں داخل ہیں، ان سب کی اپنی اپنی انفرادیت بھی ہے، وہ مساوی بھی ہیں اور ان میں بے مثال یک رنگی اور وحدت بھی ہے؟

 

۲۳۔ انما المومنون اخوۃ و الانبیا کنفس واحدۃ۔ یہ ایک حدیث شریف ہے، اور اس میں دو قرآنی ٹکڑے ہیں تو بتائیے کہ وہ دو ٹکڑے کون کون سے ہیں؟ اور اصل حدیث کا ٹکڑا کیا ہے؟ اور اس حدیث کے معنی و تشریح کیا ہے؟

 

۱۱۵

 

۲۴۔ اگر ہمارا تصوّر یہ ہو کہ آخر کار خدا کی بے پناہ رحمت سے سب لوگ بہشت میں ملنے والے ہیں، ہر چند کہ بعض لوگ بہت پہلے وہاں پہنچ چکے ہوں گے اور کچھ لوگ دیر سے جائیں گے، یا جیسا بھی فرق ہو، وہ ضروری ہے، تو کیا یہ ہماری نظریاتی اور علمی وسیع القلبی ہو سکتی ہے؟

 

۲۵۔ حور و غلمان اگر جنتیوں کے ملازم ہیں، یعنی کنیزیں اور غلام، تو قانونِ رحمت کا دوسرا مرحلہ یوں ہونا چاہئے کہ ان کو آزادی ملے، اور آزادی نہیں مل سکتی جب تک کہ یہ لوگ اس علم کو حاصل نہ کریں جو اہلِ ایمان کے پاس ہے، اور اگر مان لیا جائے کہ حور و غلمان کو اہلِ ایمان سے علم مل جاتا ہے اور وہ آزاد ہو کر درجات پر فائز بھی ہو جاتے ہیں، تو پھر کیا اس سے مومنین کی رونق میں کمی واقع ہو گی؟

 

خانۂ حکمت، کراچی

۵ نومبر ۱۹۸۲ء

 

۱۱۶

مفتاح الحکمت

علم دوستی

علم دوستی کا یہ نمونہ اور نشانہ لائقِ تحسین اور ناقابلِ فراموش ہے، جو ادارۂ عارف برانچ امریکا کے رکن نوشاد پنجوانی کی وساطت سے حلقۂ علم و حکمت کو پیش ہوا، آپ بہت ایمانی اور شیرین گفتار ہیں۔

۳

از غلام علی الانہ

میں نے فاضلِ مُحترم جناب نصیر ہونزائی کی گرانقدر تصنیف ’’مفتاح الحکمت‘‘ دیکھی اور اس کے فکر انگیز مباحث سے استفادہ کیا، میں فاضل موصوف کے علمی اور فکری خلوص کا قائل رہا ہوں، اور اُن سے مختلف مسائل پر گفتگو کی ہے، نصیر صاحب کی علمی اور فکری تحریریں باطنی فلسفے کا بیش بہا منظر رکھتی ہیں۔ باطنی فلسفے نے مسلم ثقافت کو ایک گہری معنویّت دینے میں جو کردار ادا کیا ہے، اس کا ابھی پوری طرح جائزہ نہیں لیا گیا، اس مکتبۂ فکر نے دنیائے اسلام کے عظیم ترین ذہنوں کی تربیت کی ہے، اور اسلامی مشرق کے دوسرے فلسفیانہ مکاتب کو مختلف سطحوں پر متاثر کیا ہے، حمید الدّین کرمانی، المؤیّدنی الدّین شیرازی اور ناصر خسرو ایسے زعمائے فکر اسی عظیم الشّان مکتبۂ فکر کے پروردہ ہیں، دنیائے اسلام کی شہرۂ آفاق تنظیم ’’ اخوان الصّفا ‘‘ مکتبۂ باطنیت ہی سے تعلق رکھتی ہے۔

فاضلِ محترم جناب نصیر ہونزائی نے اپنی گرانقدر تصنیفات میں

۵

اِس نظامِ فکر کی نمائندگی کی ہے، اور اُن حقائق کو زیرِ بحث لائے ہیں، جو آج تک دقیق فکر کا موضوع بنے ہوئے ہیں، ان کی زیرِ نظر تصنیف ’’ مفتاح الحکمت‘‘ بھی اِسی ذیل میں آتی ہے، انہوں نے اس کتاب میں براہِ راست قرآن کریم کے حوالے سے بعض مسائل پر اظہارِ خیال کیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اُن کی یہ کوشش علمی اور مذہبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائیں گی۔

غلام علی الانا

۲۰ جنوری ۱۹۶۷ء

۶

سرنامۂ آغاز

بنام اوکہ اونامے نہ دارد

(رئیس امروہوی)

الواعظ نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ایک شیوا زبان شاعر، حقیقت شناس دانشور اورصاحبِ نظر اہلِ قلم ہیں، مجھے ان کی قربت و ہم نشینی کی سعادت نصیب ہوئی، حال ہی میں موصوف کی عالمانہ اور حکیمانہ تصنیف ’’ میزان الحقائق ‘‘ کے مطالعے کا موقع ملا۔ میزان الحقائق میں برادرِ موصوف نے ایسی فکر خیز اور بصیرت انگیز حقیقت پر روشنی ڈالی ہے کہ ’’ایٹمی دور روحانی دور کا پیش خیمہ ہے ‘‘ یہ ایک انقلاب انگیز تصوّر ہے اور الواعظ نصیرؔ ہونزائی نے اس انقلاب انگیز تصوّر کو ایسے دلائل و براہین کے ساتھ پیش کیا ہے کہ دل و دماغ شاداب اور فکر و نظر تروتازہ ہوجاتے ہیں۔ میزان الحقائق کے مندرجات و حقائق سے مستفید ہونے کے بعد مجھے برادرِ موصوف کی دوسری زیرِ نظر تصنیف ’’ مفتاح الحکمت ‘‘ کے مطالعے کی سعادت نصیب ہوئی، جو مختلف فکر انگیز ابواب پر مشتمل ہے۔ نصیرؔ ہونزائی کے نقطۂ نظر کو پوری طرح سمجھنے کے لئے یہ حقیقت

۹

پیشِ نظر رہنی چاہئے کہ کائنات کی اشیاء ، اجسام اور آیات کے ظہور و بطون اور پیدا و پنہان میں زمین و آسمان کا فرق ہے، جب تک ہم ظاہر اشیاء و آیات کی نقاب ہٹا کر حقیقت الحقائق کا مطالعہ نہ کریں گے نہ اسرارِ حیات کو سمجھ سکتے ہیں نہ رموزِ کائنات کو۔ کتاب مفتاح الحکمت کی تحریر و انشاء کا مفہوم و مقصد سمجھنے سے قبل مصنّف ممدوح کے علمی نقطۂ نظر کو سمجھ لیا جائے تاکہ ادراکِ حقائق میں التباس واقع نہ ہو۔ میزان الحقائق کے دیباچے میں نصیر ہونزائی نے لکھا ہے کہ:

’’خدا کی مقدس کتاب خدا ہی کی روشنی میں پڑھی اور سمجھی جاسکتی ہے، یہی ہے وہ اوّلین شرط جو خود قرآنِ حکیم نے واضح کردی ہے، اگر ہم سے ایسا نہ ہوسکا تو زمانۂ حاضرہ کا کوئی مسئلہ بھی ہم سے حل نہ ہوسکے گا، جس کی حجّت ہم پر ہی رہے گی نہ خدا پر، کیونکہ اس کا فرمان ہے کہ اس کی نعمت ہم پر پوری ہوچکی ہے اور دینِ اسلام میں اللہ نے کوئی حرج نہیں رکھا ہے۔‘‘

مسودۂ کتاب مفتاح الحکمت حسبِ ذیل ابواب پر مشتمل ہے:

(۱)شرح دیباچۂ وجہ دین (۲) تاویلِ استر جاع (۳) آیۂ اطاعت (۴)تحقیقاتِ معجزات (۵) انسانِ کامل کی جسمانی معرفت (۶) جشنِ نوروز (۷)آسمان سے باہر کیا ہے؟ (۸) روحانی مجلس

۱۰

(۹) تاویلِ سورۂ کوثر (۱۰) طریقِ استعانت (۱۱) سیاروں میں انسان کی سیاحت (۱۲) کیا آسمان و زمین سات اور سات چودہ ہیں؟ کتاب کے ساتویں باب (آسمان سے باہر کیا ہے؟) میں مصنّف نے ترکیبِ عالم پر اِن الفاظ میں روشنی ڈالی ہے کہ: ’’پھر اگر کوئی پوچھے کہ اس فلکِ اعظم (فلکِ محیط) سے باہر کیا ہے، تو جواب دو کہ جسمِ کُلّی (فلکِ اعظم یا فلکِ محیط) کے بعد اور کوئی جسم نہیں یعنی نہ فضا ہے اور نہ خلا، بلکہ خلائے موہوم (وہمی خلا) ہے اور حقیقت میں وہ حدِّ لا مکان ہے، یعنی وہ کوئی جسمانی جگہ نہیں، کیونکہ وہ دائرۂ روح کی حد ہے یعنی روحِ کُلّی کا حصار، جس پر کل کائنات کا قیام ہے۔‘‘

ترکیبِ عالم کی یہ تشریح مصنّف کے فلسفیانہ شعور اور اندازِ نظر کی مظہر ہے۔ جناب نصیرؔ ہونزائی ’’بروشسکی ‘‘ زبان کے قادر الکلام شاعر ہیں اور لطف یہ کہ اردو میں بھی نہایت حسن و رعنائی کے ساتھ شعر کہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اردو نثر و نظم، دونوں ان کی تحقیقی کاوشوں اور تخلیقی کوششوں سے بہرہ مند ہوتی رہے گی۔ وہ سرزمینِ ہونزہ کے گلِ سر سَبد ہیں اور میں انہیں کے الفاظ میں ان سے مخاطب ہوکر کہتا ہوں کہ:

۱۱

ہمّت و عزمِ امورِ شان زخارا سخت تر

صلحِ کل رامعنیٔ شِیر و شکر ہونزائیان

دل کشانِ اہلِ دانش از رہِ مہر و وفا

با کمالِ حسنِ سیرت جلوہ گر ہونزائیان

شعرِ دل خواہِ نصیرؔ آئینۂ آئندۂ

کاندران باکامِ دل باکرّو فر ہونزائیان

فقیر

(سید محمد مہدی الحسینی) رئیس امروہوی

۲۱ مئی ۱۹۶۵ء ، جمعۃ المبارک ۱۹ محرم ۱۳۸۵ھ

۱۲

تعارف

کیا ہم واقعات و حادثات کی مخلوق ہیں یا ہمارا کوئی ازلی خالق بھی ہے؟ اس زندگی کی حقیقت کیا ہے (جو ہمارے دائرۂ عقل و شعور میں مروج ہے) کیا لامحدود عرصے تک یہ حیاتِ انسانی قائم رہ سکتی ہے، یا یہ سب کچھ واہمہ ہے سراب ہے؟ کیا ہم چند ارب خلیوں اور کیمیاوی طبعی توانائیوں کا مجموعہ ہیں یا یہ امرِ واقعی ہے کہ ہم یہ سب کچھ سمجھنے اور جاننے کے باوجود اپنے وجود اور انانیت کی نفی نہیں کرسکتے، اور اسی دلیل سے اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ یہ شعورِ انانیت اور شعورِ مکان و زمان کسی محرکِ اوّل اور عقلِ اوّل کی نشاندہی کرتا ہے۔

یہ کہنا کتنا صحیح ہے کہ انا اور وجود کو جب اپنی ہستی پر اصرارِ قطعی ہے اور جب کہ اس کی نفی موت ہے اور اس کا اثبات ہی حیات ہے تو پھر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ زمان و مکان کا محرکِ اوّل خود کو اثبات و اظہار سے بے نیاز کرکے اعدامیت میں چھپالے گا۔ کیا

۱۳

اثباتِ ہستی کا دوسرا نام مذہب نہیں ہوسکتا؟ کیا تحریک و اظہار اس کی عبادت نہیں ہوسکتی اور اس کے تمام اضداد و منفیات کفر و الحاد نہیں ہیں؟ اگر ہم اس نظر سے مذاہبِ عالم کا مطالعہ کریں تو شاید عقل کو خبر کا ماحصل صحیح انداز سے میسر ہوسکے گا، اور یہ عقدۂ حیات ہم پر شعوری طور پر وا ہوجائے گا۔

مذاہبِ عالم میں اسلام بابِ آخر کی حیثیت رکھتا ہے، مختلف مذاہب میں انبیائے کرام اور خصوصاً مسلمان صوفی حضرات نے اپنی جس حدِ نظر کا اظہار کیا ہے اس کی وسعت انتہائی عظیم اور تابناک ہے۔ ’’اُن دانا یانِ راز ‘‘انسانوں میں ایک طبقہ ان اہلِ نظر کا بھی ہے جو اپنے فہم و فراست سے ان علمی خزانوں کی نشاندہی کرتا آیا ہے جو مذہبِ اسلام نے ہر دور کے انسانوں کے لئے لٹائے ہیں، حضرت امیر ناصر خسروؒ، اپنے وقت کے چند بلند پایہ حکماء اور صوفیاء میں سے تھے، جنہوں نے فکر و نظر کی نئی راہوں پر حقائقِ ابدی کی تلاش میں بے پایان منزلیں طے کیں اور اپنے علم کے ذریعہ اُن منازل کی نشاندہی کی۔

مصنّف کی موجودہ کاوشِ فکری میں حضرت حکیم ناصر خسروؒ کے عظیم فلسفۂ امامت اور حقیقت کا بڑا گہرا اثر ہے، اس کے ساتھ

۱۴

ساتھ مصنّف کا وہ ذریعۂ استدلال بھی ہمرکاب ہے، جس کی بنیاد پرموجودہ دور کی سائنسی تحقیقات کی اساس ہے، روح اور مادہ کی ہم آہنگی کی جو کوشش مصنّف نے ’’جوہری توانائی‘‘ کے ضمن میں کی ہے وہ کسی حد تک اہلِ نظر و فکر کو اپیل کرتی ہے، اس کے ماورا بھی ایک اور مذہبی، اسلامی اور قرآنی رنگ نمایان ہے، جس نے مصنّف کی اپنی شخصیت کو ابھارا ہے اور ایک ایسا مقام پیدا کیا ہے، جو دوسرے اہلِ فکر کو آگے چل کر مذہب اور مادیت کو ایک ہی وحدت میں مُر تسم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

شیر علی اختر ایم۔اے

۱۵

اظہارِ تشکر

میں اپنی اس تصنیف کے سلسلے میں جناب فاضل رئیس امروہوی صاحب اور جناب شیر علی اختر صاحب ایم۔ اے کا تہِ دل سے ممنون ہوں کہ اِن دونوں حضرات نے اپنی گونا گون مصروفیات کے باوجود اپنے بیش بہا وقت کا ایک حصّہ وقف فرما کر نہ صرف اس کا سرنامہ اور تعارف تحریر فرما کر علم گستری اور دانش پروری کا ثبوت دیا بلکہ اپنے عالمانہ و فاضلانہ آراء سے بھی مستفید فرماتے ہوئے اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں ہمّت افزائی اور تعاون فرمایا۔

اس کے علاوہ میں اراکین ’’ دارالحکمۃ الاسماعیلیہ ہونزہ گلگت ‘‘ اور ان دیگر تمام معاونین کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے دینی اور علمی ترقی کی خاطر مالی قربانی دے کر اس کی طبع و اشاعت کے وسائل فراہم کئے۔

نصیرؔ ہونزائی

۱۶

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شرح دیباچۂ وجہِ دین

اسی خالقِ برتر و توانا کی تعریف و توصیف ہے جس نے عالمِ باطن سے عالمِ ظاہر پیدا کرتے ہوئے اس میں اس کے آثار دکھائے تاکہ لوگوں کو اِن آثار کی مشاہداتی دلائل سے خدائے تعالیٰ کی حقّانیّت و یگانگت کی معرفت کا راستہ پیدا ہوکر انہیں یقینِ کامل حاصل ہوجائے اور وہ یہ کہہ سکے کہ ہمارا خدا وند حق ہے، چنانچہ کلامِ پاک کی ایک آیت سے یہی حقیقت ظاہر ہے کہ:

سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ (۴۱: ۵۳) ہم ان کو اس عالم میں اور ان کی جانوں میں اپنے آثار دکھاتے رہیں گے یہاں تک کہ انہیں ظاہر ہوجائے کہ وہ حق ہے۔

پھر حکیمِ مطلق نے انسانی عقل کو یہ نایاب موقع عطا فرمایا کہ وہ انہی نشانیوں کی تحقیق و تدقیق میں اپنا جلوہ و جوہر کا مظاہرہ کرے تاکہ عقل اپنی اس فضیلت و مرتبت کی بناء پر دوسری تمام چیزوں سے ممتاز ہوسکے۔

۱۷

خدائے قدّوس نے اپنی قدرتِ کاملہ سے بذاتِ خود قائم رہنے والی چیز (جوہر) کو بذاتِ غیر قائم رہنے والی شے (عرض) میںچھپائے رکھا، چنانچہ عناصرِ اربعہ یعنی مٹی، پانی، ہوا اور آگ کی گرمی، سردی، خشکی اور تری میں ایک جوہر کو سموئے رکھا، جس کو بفرضِ محال اگر ان سے جُدا کیا جائے تو عناصر ختم ہوں گے، لیکن یہ جوہر ان کے بغیر بھی قائم رہ سکے گا، جو ہر و عرض کی یہی مثال ہے۔

صانعِ حکیم نے انسانی اجسام کو روحِ ناطقہ کے قابل بنایا، جو اجرامِ فلکی، عناصر، معدنیات، نباتات، حیوانات وغیرہ کے بعد پیدا ہوئے، کیونکہ ان نامبردہ چیزوں کے ترتیبی عمل کے نتیجے سے انسانی اجسام بنتے ہیں، اور جسم کو روح سے متّصل کرنے کی غرض یہ ہے، کہ ہر دانشمند چشمِ بصیرت سے یہ مشاہدہ کرے، کہ روح ایک جوہر توانا ہوتے ہوئے بھی ناتوان جسم (عرض) کی محتاج ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ جسم کے بغیر روح کا مقصدِ حیات حاصل ہونہیں سکتا، بنا برین کوئی دانا انسان لطیف شی کو کثیف سے بے نیاز نہ سمجھے، جس طرح کثیف کی حاجتمندی لطیف سے وابستہ ہے، یعنی جو چیز اپنا کوئی جسم نہیں رکھتی ہو وہ کسی جسم والی شیٔ کی محتاج رہتی ہے۔

۱۸

باری سُبحانہ جو متضاد (اضداد) چیزوں کی جوڑی (جفت) بنانے والا ہے، ایک وجہ سے ان صفات سے بھی پاک ہے، جو بدلیل عقل کسی دوسری شیٔ کی متضاد یا جُفت تصور کی جاسکتی ہوں، کیونکہ جفت ضدَّین کا نام ہے، یعنی دو برعکس چیزیں جفت یا جوڑی کہلاتی ہیں، جس طرح دن رات، نزدیک و دور، زیادہ وکم، سفید و سیاہ، خیر و شر، عادل و ظالم وغیرہ، پس بحقیقت خدا کی کوئی ایسی صفت نہیں جس میں کوئی ضدّیت پائی جائے، اس کی دلیل یہ ہے کہ مخلوقات میں سے ہر ایک چیز پہچانی جانے کے لئے اپنی ضد کی محتاج ہے، لیکن خدائے پاک نہ کسی چیز کا محتاج ہے نہ اس کی صفات میں کوئی ضدّیت پائی جاتی ہے، چنانچہ تختۂ سیاہ پر سفیدی سے اور سفید کاغذ پر سیاہی سے لکھا جاسکتا ہے اور تمام اضداد کی بھی یہی مثال ہے جن کے بارے میں آنحضرت نے فرمایا ہے: تُعْرِفُ اْلاَشْیاء بِاَضْدَادِھا، چیزیں اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں۔

اب ہر دانشمند انسان چشمِ بصیرت سے دیکھ سکتا ہے کہ قرآنی حقیقت کے ساتھ اس بیان کی موافقت و مطابقت کس حد تک ہے، فرمانِ ایزدی:

۱۹

سُبْحٰنَ الَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُوْنَ  (۳۶: ۳۶)

پاک ہے وہ ذات جس نے ساری چیزوں کو جفت صفت پیدا کیا، نباتات سے، ان کی جانوں سے اور ان چیزوں سے جنہیں وہ نہیں جانتے ہیں۔

قرآنِ حکیم کے لاتعداد کمالات و معجزات میں ایک یہ بھی ہے کہ جس آیت میں خدا کا کوئی نام آئے وہی آیت اسی نام کے باب میں متعلقہ تشریح کی حیثیت رکھتی ہے، مگر اس کے باوجود آیت کا ظاہری موضوع نہیں بدلتا، اسی طرح اسی آیۂ مبارکہ میں عقلانی، روحانی اور جسمانی ساری چیزوں کو جفت جفت پیدا کرنے کے ذکر کے ساتھ ساتھ اسم ’’ سبحان‘‘ کی تشریح بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ اسم ’’سبحان‘‘ ذاتِ یگانہ کے اسمائے حسناء میں سے ہے، جس کے مرادی معنی یہ ہیں کہ خُدا اپنی ان عقلانی، روحانی اور جسمانی مخلوق کی مانندیت اور صفت سے پاک ہے جن کو اس نے جفت جفت پیدا کیا ، کیونکہ ان چیزوں کی صفات میں ضدّیت ہے اور اسی ضدّیت کی وجہ سے وہ جفت جفت پیدا ہوئی ہیں، مثلاً دن اور رات جُفت ہیں، اب دن جتنا بڑھے گا، رات اتنی گھٹے گی، اور رات

۲۰

جتنی بڑھے گی دن اتنا گھٹے گا، خیر جس قدر زیادہ ہوگی، شر اس قدر کم ہوگا اور جب شر میں اضافہ ہوجائے تو خیر میں کمی آئے گی۔ اس دلیل سے ظاہر ہے کہ خدا کی کوئی متضاد صفت نہیں۔

درود ہو خدا کے اس برگزیدہ رسول پر، جو عرب وغیر عرب کے سارے لوگوں میں سے حد درجہ کی فصاحت و بلاغت رکھتا ہے جس پر وحی نازل ہوئی، یعنی نفی و اثبات جس کی ہمہ رس ہدایت تفصیلی وسعت اور معنوی جامعیت اس امرِ واقعی سے عیان ہے کہ وہ ایک مقدس کتاب کی صورت میں آئی، جسے قرآنِ حکیم کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، بعینہٖ یہی نفی و اثبات ایک کلمہ میں بھی نازل ہوا، اسی طرح اپنی صوری و معنوی شمار و مقدار کی کمالیت و تمامیت کے ساتھ ایک بزرگ ترین اسم یا حرف میں بھی، اور تمام پیغمبران اورا مامانِ حق کی زبانِ مبارک پر بھی یہی مقدس چیز جاری رہی۔ پس انیباء و اولیاء نے لوگوں کو جو پیغام سنایا اور جو حقائق بیان کئے یا اب جو سلسلۂ ہدایت جاری ہے وہ گویا آنحضرت کا پیغام ہی ہے، جسے خدائے تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ اس بیان کا واضح خلاصہ یہ ہوا کہ نفی و اثبات یا قرآنِ پاک، کلمہ یا اسمِ اعظم وغیرہ کے نام سے آنحضرت کو جو حقیقت ملی تھی، بحیثیتِ مجموعی ایک زندہ نور ہے، اور یہ

۲۱

نام جن کا ذکر ہوا اس نور کے کارنامے ہیں، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:

وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِيْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا ۭ وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ  (۴۲: ۵۲) اور اسی طرح ہم نے اپنے امر سے تیری طرف ایک روح بحیثیتِ وحی بھیجی ہے تو اس سے پہلے نہیں سمجھتا تھا کہ کتاب (کائنات) اور ایمان کیا ہے، لیکن ہم نے اس روح کو نُور بنایا ہے ہم اپنے بندوں میں سے جن کو چاہیں اسی نُور کے ذریعہ راستہ دکھاتے ہیں۔

درود ہو حضرت محمد مصطفےٰ کے مبارک نام پر، جو خدا کی کائناتی کتاب اور اس کے دین کا ترجمان، قرآن پاک کی زبان اور شرائع انبیاء کا اوّلین بانی ہے، اس کے نورانی، جوہری (ذرّوی) جسم پر رحمتِ الہٰی نازل ہو، جو خاکی جسم کا خلاصہ مگر اس سے آزاد ہے، اور گرمی، سردی ، خشکی اور تری کی ترکیب سے مبرّا ہے، وہ بیک وقت مرئی بھی ہے اور مغیب بھی، اس لئے کہ وہ جثّۂ لطیف و فلکی ہے۔

امام علی المرتضیٰ سِرِّ خدا کی جانِ پاک پر رحمتِ ایزدی نازل ہو جس کی ذاتِ شریف علوم و معارف کا ایک ایسا بے پایان خزانۂ امانت

۲۲

ہے کہ اگر کوئی فردِ بشر اپنے علم و معرفت کا حصہ اپنی سعی و کوشش سے حاصل کرنا چاہے تو ناممکن نہیں ہے بلکہ بالکل اسی حالت میں حاصل کر سکتا ہے جس حالت میں خدا و رسول نے ہر شخص کے لئے اس کی دوری اور مقامی ضروریات کے پیشِ نظر اس کا علمی حصّہ اس گنجِ علم و حکمت میں بطورِ امانت رکھا ہے اور رحمتِ خداوندی ہو نبی و علی کی آل پر جو دنیا و آخرت کے فرشتگانِ جلالی ہیں اور یہ اس حقیقی راستے کے رہنما ہیں جس کو صراط المستقیم کہا جاتا ہے جس کی منزلِ مقصود وہی گنجِ علم و حکمت یعنی علی المرتضیٰ ہے، جن کے بارے میں رسول اکرم فرماتے ہیں کہ یا عَلی الصّراطُ صراطک والموقف موقفک۔ یعنی اے علی صراط المستقیم تیرے راستے کا نام ہے، اور منزلِ آخرین بھی تیری ہی منزل ہے جہاں لوگوں کو روحانی آسائش و امن میسر ہوتا ہے۔

و السّلام

۲۳

تاویلِ اِستِر جاع

قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ (۲: ۱۵۶)

حضرت حکیم ناصر خسرو کتاب وَجْہ الدّین میں فرماتے ہیں کہ لوگوں کو جسمانی حالت میں مصیبت اور مشکلات آتے وقت اس قول کا کہنا واجب ہے، جیسا کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے: الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ  ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ(۲: ۱۵۶) وہ لوگ جن پر جب کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف واپس ہونے والے ہیں۔ عرب والے مشکل کاموں کو رات کی تاریکی سے تشبیہ دیتے ہیں، اس لئے کہ اس کام سے بڑھ کر اور کوئی مشکل نہیں، جس کے گھیرے سے نکل جانے کا راستہ ہی لوگوں کو نظر نہ آئے، یہی تو تاریکی ہے، تاریکی دو طرح کی ہے، جسمانی اور روحانی، جسمانی تاریکی کی وجہ رات ہے جسے سورج ہی روشن کرسکتا ہے، کیونکہ جسمانی تاریکی اسی سے روشن ہوسکتی ہے اور وہ جسمانی رکاوٹوں کو ختم کرڈالتا ہے، لیکن روحانی تاریکی نادانی اور معقولات کے مشکل مسئلے ہیں، اس قسم کی تاریکی کے لئے

۲۴

روشنی خدا سے ہے، جو اساس کی وساطت سے آتی ہے، اس کے بعد روحانی ظلمت میں چشمِ باطن (بصیرت) کا سُورج امامِ زمان ہے جس کے سہارے ایسے سخت عقدے کھل جاتے ہیں، جب کوئی جسمانی ظلمت (مصیبت) اور سختی کسی کے سامنے آئے تو اُسے واجب ہے کہ مشیتِ ایزدی کے لئے راضی ہوجائے اور جو کچھ اس کے لئے حکم ہوا ہو اُسے قبول کرے، اور کہے:  اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ۔ یعنی ہم خدا کے ہیں اور ہم نے قبول کیا جو کچھ اس نے حکم کیا ہو، اگر ان مشکلات سے ہمیں کوئی ایسی جسمانی تکلیف پہنچے جس کی وجہ سے ہم جسمانی طور پر مرجائیں تو اس صورت میں ہم اس کی طرف واپس ہونے والے ہیں اور تاویل میں مومن کو واجب ہے کہ جب معقولات کا کوئی ایسا مسئلہ اسکے سامنے آجائے جس کو وہ حل نہ کرسکتا ہو، تو پھر اسی قول کو دہرائے اس طریقہ پر کہ ’’ہماری جانیں صاحب العصر کی ہیں کیونکہ ہمیں روحانی زندگی اسی سے ملی ہے اور مشکلات میں ہم اس کی طرف رجوع کرنے والے ہیں ‘‘ اور وہ مومن یہ سمجھے کہ ’’ہم اس مشکل مسئلہ کو حل نہیں کرسکتے ہیں، اس کا علم صاحب العصر کے پاس ہے‘‘ تاکہ اس کو روحانی فیض کا دروازہ کھلے، اور ان مشکلات کو سمجھ سکے، تاکہ حدودِ دین میں سے ایک حد اُس دروازے کو اِس کے لئے کھول دے گا اگر ایسی مشکلات حدودِ دین

۲۵

کے کسی ایک حد کے سامنےآئیں تو اُسے چاہئے کہ تائید (روحانی امداد) کامادہ (وہ روح جو ایٹم یعنی ذرہ پر سوار ہے) خدا وندِزمان علیہ السّلام سے طلب کرے تاکہ اپنے اس قول کے کہنے سے کوشش کرسکے گا، اور وہ غیب اس پر کھلے گا، اور اگر کھل نہ جائے تو یہ اپنی ہی کمزوری سمجھے اور اقرار کرے کہ جو شخص ایسی مشکلات کا چارہ جانتا ہو اسے یہ زیب دیتا ہے کہ روحانی مشکلات میں لوگ اسی کی طرف رجوع کریں اور یہ صرف مومن کے لئے ایک شفا بخش بیان ہے۔

والسّلام

۲۶

آیۂ اطاعَت کی تفسیر

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا  (۴: ۵۹)۔

اے ایمان والو! تم اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور اولو الامر کی فرمانبرداری کرو جو تم میں سے ہیں، پھر اگر کسی مسئلےمیں باہم اختلاف کرنے لگو، تو اُسے اللہ تعالیٰ اور رسول کی طرف دوبارہ لے جاؤ، اگر تم اللہ اور یومِ قیامت پر ایمان رکھتے ہو، یہ (طریقہ) اچھا ہے اور تاویل کی جہت سے بہترین ہے۔ آیتِ مذکورہ میں خدا کی اطاعت یعنی عمل بالقرآن کے بنیادی اصول کے متعلق ایک مختصر مگر جامع تعلیم دی گئی ہے اور اس میں حقیقی فرمانبرداری کا وہ واحد وسیلہ بتایا گیا ہے جس کی صحیح تفہیم و تعمیل کے بغیر اطاعت کا حق صحیح معنوں میں کسی سے ادا ہو نہیں سکتا اور اس میں وہ وجوہ بھی مرموز ہیں، جن کی بنا پر بمقتضائے زمانہ اطاعت

۲۷

کو تین مراتب میں بیان کیا گیا ہو یعنی اطاعتِ خدا، اطاعتِ رسول اور اطاعتِ اولو الامر، یہ وجوہ ازروئے حکمت بالترتیب قرآن کی تین قسم کی آیات ہیں یعنی آیاتِ مفصلات، آیاتِ مجملات اور آیاتِ متشابہات، اب اطاعت کے تین مراتب کی ذیل میں تشریح کی جاتی ہے۔

اطاعتِ اللہ سے مراد اُن آیات کی فرمانبرداری ہے جو مفصل ہیں اور جن میں سنّتِ الہٰی سے لوگوں پر گزرے ہوئے واقعات کی عبرت، نظامِ کائنات پر غور فکر کرنے کی دعوت اور مخلوق کے فطری حقوق کے تحفظ کے اٹل قوانین ہیں، اطاعتِ رسول سے مراد اُن آیات کی فرمانبرداری ہے، جو مجمل ہیں اور جن کی رسول نے اپنے قول و فعل کے ذریعے تفصیل کی اور امت کو دکھایا، یہ آیات اگر چہ لفظی لحاظ سے مختصر ہیں، لیکن ازروئے حکمت ان میں کئی رموز سربستہ ہیں اور یہ زمانے کے تقاضے کے مطابق تشریح طلب ہوتے ہیں، چنانچہ رسول نے جو کچھ اپنے قول و فعل کے ذریعے تشریح فرمائی ہے، وہ زمانے کے تقاضے کے موافق تھی، اطاعتِ اولوالامر سے مراد اُن آیات کی فرمانبرداری ہے، جو متشابہ ہیں اور جن کی تاویل اولوالامر ہمیشہ اپنے اقوال و اعمال سے کرتے رہتے

۲۸

ہیں، ان حکمت آگین آیات کی معنوی وسعت کا یہ عالم ہے کہ عالم روحانی و جسمانی کے متعلق ماکان وَمَا یَکُون (جو کچھ تھا اور جو کچھ ہوگا) کے تمام علوم ان میں سموئے ہوئے موجود ہیں، بالفاظِ دیگر ان میں خلق اللہ کی لا انتہا عروج و ارتقاء کی کُلّی اور تدریجی ہدایت موجود ہے۔

اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ لفظ ’’ منْکم ‘‘ سے کونسی نسبت مراد ہے جو اولوالامر اور اہلِ زمانہ کے مابین پائی جاتی ہے؟ تو اس کے جواب کے لئے ہمیں مذکورہ آیت پر غور کرنا پڑے گا، پس آیتِ مذکورہ میں اللہ اور رسول کے ذکر کے ربط سے ظاہر ہے کہ یہ نسبت اہلِ زمانہ اور اولوالامر کے درمیان سلسلۂ اولوالامر کی دائمی ہمعصریت کی ہے گویا خداوند برتر اُمّتِ محمدی کے جملہ معاصرین سے بیک وقت فرمارہا ہے، کہ سلسلۂ اولوالامر ظہور اور زمانہ کے اعتبار سے تمہارے درمیان قیامت تک قائم و دائم چلا آرہاہے، تم اس سلسلۂ اولو الامر کی اطاعت کرو، جس کا مطلب یہ ہے، کہ ہر عصر والے صرف اپنے ہی صاحب الامر و العصر کی فرمانبرداری کریں۔

بعد ازین ’’فان تناز عتم فی شیٍٔ ‘‘ کی تحقیق ضروری ہے یعنی یہ

۲۹

معلوم کرنا ہے، کہ یہ تنازع حقیقی صاحبِ امر کی پہچان سے متعلق کسی مسئلے میں ممکن ہے؟ یا اس کی فرمانبرداری کرتے ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تنازع حقیقی صاحبِ امر کی پہچان کے مسائل میں ممکن ہے اور اس کی حقیقی فرمانبرداری میں یہ تنازع ناممکن ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ اگرچہ خدائے واحد کی اطاعت رسائی کے اعتبار سے تین درجات میں تقسیم کی گئی ہے، جن کا ذکر ہوچکا ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک ہی اطاعت ہے، وہ اس طرح کہ اولو الامر کی اطاعت رسول کی اطاعت ہےاور رسول کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے، بدین دلیل ہر زمانے کے صاحب الامر کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے، اور خدائی اطاعت کے معنی خدائی ہدایت پر عمل کرنے کے ہیں اور خدائی ہدایت پر عمل کرنے کا حاصل نورِ علم ہی ہے، پس خدائی ہدایت یعنی نورِ علم میں جو خدائے تعالیٰ کی اس بالواسطہ اطاعت (صاحبِ امر کی فرمانبرداری) سے بالیقین حاصل ہوسکتا ہے، ایسا کوئی تنازع ناممکن ہے نیز اگر ہم یہ فرض کریں، کہ یہ تنازع اولوالامر کی فرمانبرداری کی صورت میں ہوسکتا ہے تو گویا اس کی مثال ایسی ہو گی، کہ ہمارے دینی اور دنیوی مسائل کے اولو الامر جو حل یا فیصلہ فرما دیں، اس کو ہم اپنی عقلِ ناقص کے معیار پر پرکھنے کے مجاز ہیں

۳۰

بالفاظِ دیگر گویا خدا سے ہمیں اس امر کی اجازت ملی ہے، کہ اگر اولو الامر کا کیا ہوا فیصلہ یا حل ہماری عقولِ ناقصہ کے لئے قابلِ قبول نہ ہوا تو ہم خود ہی خدا و رسول کی طرف رجوع کریں یعنی اپنی عقلِ جزوی ہی کی سعی و کوشش کے ذریعے قرآن و حدیث سے ان مسائل کا حل ڈھونڈیں، پس ظاہر ہے کہ یہ امر ناممکن ہے۔

مذکورۂ بالا مدلّل بیان سے جب یہ حقیقت عیان ہوگئی، کہ تنازع اولوالامر کی فرمانبرداری کی صورت میں ناممکن ہے تو اس کے برعکس یہ تنازع اولوالامر کی پہچان کے متعلق پیدا ہوتا ہے اور مسلسل تاریخی واقعات بھی اس دعوے کی حقانیت کی تصدیق کرتے ہیں۔

چنانچہ مقدماتِ مذکورۂ بالا کی روشنی میں آیتِ اطاعت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اے ایمان والو! تم آیاتِ مفصلات میں اللہ کی فرمانبرداری کرو، آیاتِ مجملات میں رسول کی فرمانبرداری کرو اور آیاتِ متشابہات میں اولوالامر کی فرمانبرداری کرو، جو تم معاصرین میں سے ہیں، پھر اگر ہمارے مقرر کردہ اولوالامر کی پہچان کے متعلق کسی مسئلے میں تمہارے درمیان اختلاف ہوجائے تو اُسے اللہ تعالیٰ اور رسول یعنی قرآن و حدیث کی طرف دوبارہ لے جاؤ، اگر تم اللہ اور یومِ قیامت پر ایمان رکھتے ہو، یہ طریقہ اچھا ہے، بہ نسبت اس کے کہ تم اس تحقیق

۳۱

سے باز رہو، اور تاویل یعنی امرِ متشابہ کو حالِ اوّل کی طرف لے جانے کے لحاظ سے بھی یہ بہترین ہے، بہ نسبت اس کے کہ تم کسی دوسرے شخص کی کتاب و روایت کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرو۔

حکیم مطلق یہ سب کچھ جانتا تھا، کہ ’’ اولوالامر‘‘ کے نام سے بادشاہِ وقت یا حکاّمِ زمانہ وغیرہ بھی مراد لئے جاسکتے ہیں، پس تکمیلِ ہدایت اور اتمامِ حجت کی غرض سے علیم و حکیم نے مذکورہ آیۂ اطاعت سے پیشتر ہی اسلامی حکومت کی دو بھاری شرائط کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے نہ صرف سلاطین و حکامِ اسلام کو اولوالامر سے علیحدہ ثابت کرکے دکھایا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے، کہ دینی امور میں مسلمِ سلاطین و حکام کو اولوالامر کی اطاعت کرنی چاہئے، چنانچہ خدائے قدّوس فرماتا ہے:

اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا  ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهٖ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا  (۴: ۵۸)

یقیناً اللہ تعالیٰ تم کو امر کرتا ہے کہ تمہارے پاس جن کی امانتیں

۳۲

ہیں انہیں دے دیا کرو اور جب لوگوں کے درمیان حکم کرو تو عدل سے حکم کیا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کو نصیحت کرتا ہے، وہ اچھی ہے، بلا شک اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔

اب ہمیں اس حقیقت کا انکشاف کرلینا چاہئے کہ مذکورۂ بالا آیت کا اصلی موضوع کیا ہے؟ اور امانت و عدل کے ان دونوں امور کا خاص تعلق کن لوگوں کے ساتھ ہے؟ پس اگر کوئی دانشمند چشمِ بصیرت سے اس آیت میں دیکھے تو یقینی طور پر اُسے یہ حقیقت معلوم ہوگی، کہ اس آیۂ کریمہ کا اصلی موضوع دینِ اسلام کے سلاطین، حکام اور صاحبانِ اقتدار کی ضروری اور بروقت تعلیم ہے، جس میں ہر اسلامی حکومت کے لئے خدا کی طرف سے مقرر کردہ دوایسے بنیادی اصول بتائے گئے ہیں جن پر عمل پیرا ہونے میں حکومت کی ترقی، کامیابی اور لازوالی مضمر ہےاور جن کی خلاف ورزی کرنے میں خدا و رسول کی ناراضگی اور اس کے نتیجے میں ابدی نامرادی پوشیدہ ہے۔اسلامی حکومت کے یہی دو بنیادی اصول خدا کی طرف سے حکومت کی مجاز ہونے کی دو بھاری شرائط بھی ہیں اور بعد ازان بحیثیتِ اسلامی حکومت کے دو عظیم دینی فرائض بھی، غرض آنکہ ان دونوں میں اسلام کی عالم گیر ترقی کے لئے سب سے ضروری اور بنیادی ہدایات موجود

۳۳

ہیں۔

پس آپ ذرا تامّل اور دقّت سے دیکھئے کہ اس آیۂ امانت و عدالت میں کیسے جامع حقائق پوشیدہ ہیں! اور تحفظِ حقوق کے متعلق اس میں کیسے عظیم اسرار موجود ہیں! پس اس حقیقت کے انکشاف کا طریقہ یہ ہے، کہ مذکورہ آیۂ مبارکہ میں امت کے تین بڑے گروہوں کا ذکر موجود ہے، اور یہ گروہ علی الترتیب آلِ محمّد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم، حکّام دینِ اسلام اور امّتِ محمّدی کے عوام ہیں، گروہِ اوّل کا اثبات ’’ ان کی امانتیں انہیں حوالہ کرنے ‘‘ کے امر سے ظاہر ہے، کیونکہ وہ گروہ اس امر سے مستثنیٰ صرف اس لئے ہے کہ اس کے پاس کسی کی کوئی امانت نہیں، اور اگر اس کے پاس بھی کسی کی کوئی امانت ہوتی، تو اندرین حال حکیمِ مطلق یوں فرمادیتا کہ ’’تم آپس کی امانتیں ایک دوسرے کے حوالے کیا کرو‘‘ جس طرح تبارک و تعالیٰ سورۃ الانفال کی ۲۶ تا ۲۷ آیت میں بطریقِ نہی یہ ارشاد فرماتا ہے کہ: ’’تم آپس کی امانتوں میں خیانت نہ کرو۔‘‘

اس حقیقت کی دوسری دلیل (کہ جن کی امانات کا یہاں ذکر ہے، وہ نہ تو حکام ہیں اور نہ عوام، بلکہ وہ آلِ رسول ہیں) یہ ہے کہ وہ ان عوام میں سے نہیں، جن کے حقوق کا ذکر عدل کے عنوان کے تحت

۳۴

آیا ہے، کیونکہ وہ آلِ رسول یعنی امامانِ حق ہیں اور ان کے حقوق کا ذکر بحیثیت عدل کے عنوان کے تحت نہیں آتا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ اولوالامریعنی خدا کے امرِ مجسم ہیں، اور امرِ خدا حاکم کے حکم اور اس کے عدل سے بالا تر ہے، پس ان کے حقوق میں ظلم و عدل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ خدائے برتر نے اولوالامر کے حقوقِ اطاعت کا نام امانت رکھا، کیونکہ امانت ان کی اطاعت کی مثال ہے اور خیانت ان کی نافرمانی کی مثال ہے، اب یہ معلوم کرنا ہے، کہ کیا ! اولوالامر اور حکام دونوں گروہ کو یکجا طور پر یہ ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ جب تم لوگوں کے درمیان حکم کرو تو عدل سے حکم کرو، اس کا جواب یہ ہے کہ ’’عدل سے حکم کرو‘‘ ایک جامع ہدایت ہے جس میں حقوق دینے اور دلانے کی تمام باتیں آتی ہیں، اندرین صورت امانات کا ذکر کس طرح ممکن ہے؟ کیونکہ اس مثال میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ لوگوں کے دو گروہ ہیں، ایک گروہ اس قابل ہے، کہ عدل کرسکتا ہے، دوسرا گروہ ایسا ہے کہ اس کے حقوق عدل ہی سے مِل سکتے ہیں، پس ظاہر ہے، کہ امانات سے مراد اولوالامر کی اطاعت ہے۔

یہاں پر یہ بات قابلِ ذکر ہے، کہ قرآنی ہدایات کی ترتیب میں بھی بہت سی حکمت موجود ہے، پس اس موضوع کی ترتیب سے جو

۳۵

حکمت اخذ کی جاسکتی ہے، وہ یہ ہے ، کہ عوام کی خوشحالی و ترقی کا انحصار عدالت پر ہے، عدالت کا دارو مدار حکام کی اہلیت پر ہے، حکام کی اہلیّت کا معجزانہ عمل خدا کی تائید میں ہے، خدا کی تائید اس کی فرمانبرداری میں ہے، اور اس کی فرمانبرداری یہ ہے کہ امانات جن کی ہیں، انہیں دے دی جائیں۔

اس حقیقت کی تیسری دلیل یہ ہے کہ دلائلِ مذکورۂ بالا سے یہ حقیقت عیان ہوئی کہ یہ ربّانی خطاب صرف طبقۂ حکام ہی سے ہے، اندرین حال یہ سوچنا ہے کہ ان حکام کے پاس کس نوعیت کی امانات ہوسکتی ہیں؟ اور ان امانات میں ان سے کس طرح خیانت ہوسکتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے، کہ یہ مقدس امانات قرآن، حدیث اور فقہ (علمِ دین) کی صورت میں ہیں جو علی الترتیب، خدا، رسول اور اولوالامر کی مقدس امانات ہیں اور ان امانات میں خیانت کرنے کے معنی بعض حکام کا ان مقدس امانات کو خلط ملط کر کے اپنے سیاسی اغراض کے لئے استعمال کرنا ہے اور یہ مقدس امانات خدا، رسول اور اولوالامر کے حوالے کرنے کا مطلب ان کی اطاعت کرنا ہے، جس کی تشریح آیۂ اطاعت میں آچکی ہے، پس معلوم ہوا کہ مذکورۂ بالا آیۂ مقدسہ میں ربّانی خطاب حکمران طبقہ سے ہے، جس کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ حکاّم کے لئے خدا

۳۶

کی طرف سے دو قسم کی ایسی نصیحتیں ہونی چاہئیں، جن کی پہلی قسم میں حقوق اللہ کے بارے میں اور دوسری قسم میں حقوق العباد کے متعلق بنیادی اور اصولی ہدایت ہو، پس اہلِ بصیرت کے لئے یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ اس آیۂ مقدسہ میں بالکل اسی طرح کی ہدایت ہے، یعنی اس میں حکام کو سب سے پہلے حقوق اللہ کے بارے میں ہدایت دی گئی ہے، جو مقدس امانات ہیں، پھر انہیں حقوق العباد کے متعلق آگا ہ کیا گیا ہے، جو عدل کے عنوان سے ہے، بعد ازان فرمایا گیا ہے، کہ اللہ تعالےٰ جو کچھ تم کو نصیحت کرتا ہے، وہ اچھی ہے، یعنی جس قسم کی نصیحت ضروری تھی وہ کردی گئی۔

چوتھی دلیل یہ ہے،کہ اگرچہ خدا، رسول اور اولوالامر کی مقدس امانات میں دوسرے تمام انسانوں سے بھی کم و بیش خیانت ہونے کا امکان ہے، جس سے بچنے کے لئے انہیں ایک مجموعی حیثیت کی ہدایت دے دی گئی ہے اور وہ یہ ہے، جو خدائے حکیم فرماتا ہے کہ:

یاایھا الذین اٰمنوا لا تخونوا اللہ و الرسول و تخونوا اماناتکم و انتم تعلمون (۸: ۲۶ تا ۲۷)

 ’’اے ایمان والو! نہ تو اللہ کی خیانت کرو اور نہ رسول کی خیانت کرو اور نہ آپس کی امانتوں میں خیانت کرو۔ در آنحالیکہ تم جانتے ہو۔‘‘

۳۷

لیکن اس کا تمام تر تعلق دینی اور دنیوی قسم کے اہلِ اقتدار سے ہے، اس لئے بمقتضائے حکمت ایک موزون ترین مقام پر اس طبقہ کو اس قسم کی خیانت سے بچنے کی ایک جدا گانہ ہدایت بھی دی گئی ہے، پس وہ موزون ترین مقام وہی ہے، جہاں پر خدا، رسول اور اولوالامر کی اطاعت اور اس کے متعلق ضروری مسائل کی ہدایت کا ذکر کیا گیا ہے، تاکہ آیۂ امانت اور آیۂ اطاعت کی باہمی تشریح و تحقیق ہوسکے۔

اب اس سلسلے میں ایک اور دلیل پیش کی جاتی ہے کہ کس طرح مذکورہ مقدس امانات میں خیانت کا زیادہ تر تعلق اہلِ اقتدار سے ہے، پس وہ دلیل یہ ہے کہ قرآنِ پاک انسان کے اقوال و اعمال کی اصلاح کے لئے دو قسم کی تعلیم دیتا ہے جس میں سے ایک قسم کی تعلیم بطریقِ امر ہے اور دوسری قسم کی تعلیم بطورِ نہی، اسی طرح امانت کے متعلق بھی قرآنِ پاک نے دونوں طریقوں سے تعلیم دی ہے جس میں سے ایک میں تو یہ بتایا، کہ تم امانات ادا کرو، اور دوسری میں یہ ارشاد ہوا کہ تم خیانت نہ کرو، اب اگر ان تعلیمات میں غور کیا جائے، تو مقدّم الذّکر میں لفظ ’’حکم‘‘ سے حکام کا نام زیادہ نمایان ہے، اور مؤخر الذّکر میں لفظ ’’علم‘‘ سے علماء کا نام زیادہ نمایان ہے، اگر چہ یہ دونوں گروہ ایک دوسرے سے جُدا نہیں، پس دانشمند کے لئے اس

۳۸

میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ قسم کی خیانت کا خاص تعلق دینی اور دنیوی اہلِ اقتدار سے ہے۔

پانچویں دلیل یہ ہے کہ اولوالامر کے دینی فیصلے کا نام ’’ امر‘‘ اور حکام کے دنیوی فیصلے کا نام ’’ حکم‘‘ ہے، چونکہ دینی فیصلہ دنیوی فیصلے کی نسبت برتر ہے اس بنا پر ’’امر ‘‘ ’’حکم ‘‘ سے ارفع و اعلیٰ ہے، چنانچہ آیۂ مذکورہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے لفظ حکم پر امر کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے فیصلے کا نام ’’امر‘‘ اور حکام کے فیصلے کا نام ’’حکم‘‘ رکھا ہے، جیسا کہ فرمایا ہے کہ (یقیناً اللہ تعالیٰ تم کو ’’امر‘‘ کرتا ہے، کہ تمہارے پاس جن کی امانتیں ہیں، انہیں دے دیا کرو اور جب لوگوں کے درمیان ’’حکم‘‘ کرو تو عدل سے ’’حکم‘‘ کیا کرو۔) لیکن اس کے برعکس جب امامانِ حق کا ذکر آیا تو اس نے ان کو نہ لفظ ’’ اطاعت‘‘ میں اپنے سے جُدا رکھا اور نہ لفظ ’’ امر‘‘ میں، بلکہ امر کو ان ہی سے مختص کرتے ہوئے ان کا نام ’’اولو الامر‘‘ رکھا، اب لفظ امر کی انتہائی معنوی برتری کے بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے یعنی ہمیں یہ دیکھنا ہے، کہ وہ کونسی وجہ ہے جس کی بنا پر امامانِ حق کو ’’اولوالامر‘‘ کہا گیا ہے، حالانکہ ’’ امر‘‘ بالواسطہ و بلاواسطہ تماماً خدا ہی کا ہے، پھر اس کی اضافت سے رسول اور

۳۹

اولوالامر کا ہے، پس ہم لفظ ’’امر‘‘ کی اس معنوی اہمیت اور اولوالامر کی اطاعت کی ضرورت کے پیشِ نظر ذیل میںچند ایسے کلمات لکھ دیتے ہیں، جن کی بناء دراصل قرآنی مفہومات ہی پر ہے:

قرآنی رموز و اسرار جوئی کی نشاندہی کے طور پر یہاں لفظ ’’امر‘‘ کی صرف یہی تعریف کافی ہے، کہ لفظ ’’امر‘‘ بحیثیت ’’قولِ کل‘‘ یا بصورت ’’امرِ کُن‘‘ عالمِ الفاظ و اصطلاحات اور جہانِ اشارات و تمثیلات کا وہ انتہائی بیرونی آسمان ہے، جس میں بحیثیت ’’امرِکل‘‘ حالاتِ موجودات کے ازلی و ابدی تصورات پائے جاتے ہیں، اب ان تصورات سے مستفیض ہونے کا تعلق براہِ راست نُورِ خدا کی معرفت سے ہے، اور انہی میں علم و حکمت کے کلیدی اصول کے اسرار سربستہ ہیں، کیونکہ ’’ امر‘‘ ایک ایسا قرآنی لفظ اور ایک ایسی دینی اصطلاح ہے، جس کے ہمہ گیر مفہوم میں ’’عالمِ امر‘‘ بھی ہے اور ایک بزرگ ترین روح بھی، یہ قانونِ قدرت کے ہر بڑے واقعاتی قصّے کا عنوان بھی ہے اور اس کے اتمام و تکمیل کا انتہائی کامیاب خاتمہ بھی، اس میں عقلِ اوّل کا ابداعی مایہ بھی ہے اور مخلوقات کی اجتماعی زندگی کا خلاصہ بھی، یہ کائنات کی نورانی صُورتِ مجرد بھی ہے اور اجزائی عالم کا جسمِ متحد بھی، یہ خدائے واحد کا ’’ امرِ واحدہ‘‘ بھی ہے اور وحدت الوجود

۴۰

کا عظیم ترین کائناتی عمل بھی،غرضیکہ لفظ ’’امر‘‘ کے معنی و مفہوم میں سب کچھ ہے، یہی وجہ ہے کہ حکمائے دین نے ’’امرِ کُل‘‘ کی تعبیر خدا کی خاص بادشاہت سے کی ہیں، پس اسم ’’اولوالامر‘‘ ان کلیات کے معنوں سے ہر گز خالی نہیں، کیونکہ ان تمام معنوی وجوہ کی بناء پر خود خدائے برترنے انہیں ’’اولوالامر‘‘ کے اسم سے موسوم فرمایا ہے، تاکہ اس حقیقی اسم اور اس دائمی صفت سے مسمّاو موصوف کی پہچان ہوسکے اور پھر یقین کے ساتھ ان کی اطاعت کی جاسکے۔

۴۱

تحقیقاتِ معجزات

لفظ ’’معجزہ‘‘ عجز یعنی ناتوانی سے بنا ہے اور اس کے لغوی معنی ہیں وہ کام جس کے کرنے سے کوئی انسان عاجز رہ جائے، بالفاظِ دیگر عاجز کرنے والا کام، مگر دینی اصطلاح میں معجزہ سے وہ کام مراد ہے جو کسی کامل انسان نے کردکھایا ہو اور دوسرے تمام انسان اس قسم کے کام کرنے سے عاجز رہتے ہوں جس کا مقصد یہ ہو کہ اس انسانِ کامل یعنی نبی کی نبوّت کے متعلق لوگوں کو یہ یقین آجائے کہ یہ نبی خدا کے حکم سے آیا ہے اور اس کی ہدایت و نصیحت پر عمل کرنا ضروری ہے۔

ہم اس مضمون میں خدائے برتر کی توفیق اور اس کے نور کی یاری سے معجزات کے اقسام، ان کے مواقع اور وجوہ کے متعلق کچھ تفصیل لکھتے ہیں تاکہ قارئینِ کرام معجزات کے متعلق ضروری معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو ایک ایسے معجزے کی جلوہ نمائی دیکھنے کے لئے تیار کریں جس میں دین و دنیا کے لا انتہا فوائد مضمر ہیں، چنانچہ اہلِ علم

۴۲

جانتے ہیں کہ معجزات کئی قسم کے ہوتے ہیں، اگر ان کو بلحاظِ زمان تقسیم کیا جائے تو ہنگامی معجزات اور دائمی معجزات کے نام سے موسوم کئے جاسکتے ہیں، اگر با اعتبارِ مکان ان کو تقسیم کیا جائے، تو حسّی اور عقلی معجزات کہلاتے ہیں اور اگر زمان و مکان دونوں کی ترکیب سے ان کو تقسیم کیا جائے، تو ہنگامی حسّی معجزہ، ہنگامی عقلی معجزہ، دائمی حسّی معجزہ اور دائمی عقلی معجزہ کہلاتے ہیں، پس معجزات کی اصلی اور بڑی تقسیم یہی ہے یعنی کل چار قسم کے معجزے ہیں جن کی بہت سی شاخیں ہیں، اگر دینی مراتب کی رو سے معجزات کے نام معلوم کرنا مقصود ہو، تو نبی کا مافوق الفطرت کام کا نام معجزہ اور ولی کے ایسے کام کا نام کرامت ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہاں یہ کہنا خالی ازدلچسپی نہ ہوگا، کہ اگر امکانیت کے لحاظ سے ان عجائبات کو تقسیم کیا جائے تو یہ حق و باطل کے دوناموں میں بٹ جاتے ہیں یعنی معجزہ کے جملہ اقسام حق کہلاتے ہیں اور سحر و جادو کی ساری شاخیں باطل قرار دی جاتی ہیں، مگر اس کے باوجود بسا اوقات عوام النّاس سے ایک بڑی غلطی سرزد ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ معجزہ کو جادو سمجھ کر گمراہ ہوگئے ہیں۔

۴۳

ہنگامی حسّی معجزہ

وہ امر اعجوبہ ہے جو قادرِ مطلق اپنے کسی نبی کو اس وقت عطا کرتا ہے جبکہ منکرین نے اس نبی سے بشرطِ ایمان آوری کوئی معجزہ طلب کر لیا ہو، چونکہ اکثر منکرین اور خلقِ عامّہ علمِ حقیقت کی تربیت سے محروم اور دلائلِ عقلی سے ناآشنا ہوتے ہیں اور ان کے ادراک کا سارا دارو مدار محض حواس پر ہوتا ہے، اس لئے ان کو قائل کرانے کے لئے ایسے معجزے کے وقوع میں آنے کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں، لیکن بسا اوقات ان معجزات کے باوجود اکثر لوگ اپنی نامعقول اور کورا نہ تقلید سے باز نہیں آتے اور صرف چند گنے چُنے خوش نصیب انسانوں کے سوا باقی سب ان معجزات کو سحر و جادو قرار دے کر ان سے قطعی انکار کرتے ہیں، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ وہ انبیاء علیہم السّلام کا تمسخر اڑاتے اور انہیں مختلف اذیتیں دیتے ہیں اور نتیجہ اِس کا یہ نکلتا ہے، کہ وہ خداوندی قہر کی زد میں آتے ہیں اور ہلاکت انہیں آگھیرتی ہے۔

انبیاء علیہم السّلام کی دعوت اور ان کے معجزات سے انکار کرکے ان پر ظلم و ستم کرنے والوں پر حکمِ خداوندی سے ہلاکت کے آنےکی کئی ایک وجوہ ہیں، جن میں سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ

۴۴

اوّل تو وہ بذاتِ خود راہِ راست پر نہیں آئے، پھر جب پروردگارِ عالم نے اپنی رحمت سے ان کے لئے ایک ہادی بھیجا تاکہ انہیں راہِ حق پر لائے تو انہوں نے پھر نہیں مانا اور بشرطِ ایمان آوری معجزہ طلب کیا، جب انہیں معجزہ دکھایا گیا تب بھی انہوں نے ایمان نہیں لایا بلکہ معجزے سے انکار کے علاوہ انبیاءؑ اور ان کے پیرووں کو ہر قسم کی اذیتیں دینے پر اتر آئے اس طرح جب ان کے راہِ راست پر آنے کی کوئی صورت باقی نہ رہی، تو قہرِ خداوندی ان پر ٹوٹ پڑا اور وہ اپنے کفر و انکار کی پاداش میں صفحۂ روزگار سے مٹ گئے۔

پس یہی وجہ ہے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلعم نے دینِ اسلام کی تبلیغ کے لئے ایسے معجزات سے کام نہیں لیا، جو وقتی اور حسّی ہوں اور نہ ایسے فیصلہ کن معجزات سے کہ اگر کسی انسان نے خوف کے مارے ایمان لایا تو اس کی جان بچ گئی نہیں تو اُسے تباہ کردیا گیا۔ آنحضرت نے خداوندی حکم سے دعوتِ دین کا یہ راستہ اختیار نہیں کیا اِس لئے کہ آپ رحمت للعالمین تھے، نہیں تو رسولِ اکرم سے بھی مخالفین نے انبیاء ماسلف کے مخالفین کی طرح فیصلہ کن معجزات کا مطالبہ کیا تھا، جیسا کہ قرآنِ پاک میں آیا ہے، قولہٗ تعالیٰ:  وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا- اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ

۴۵

مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِيْرًا   – اَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِيَ بِاللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِيْلًا –  اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِي السَّمَاۗءِ ۭ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ  ۭ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا(۱۷: ۹۰ تا ۹۳) اور (مخالفین نے) کہا ہم تیرا کہنا نہ مانیں گے، جب تک تو ہمارے لئے زمین سے ایک چشمہ نہ نکالےیا تیرے لئے کھجور اور انگور کا ایک باغ ہوجائے پھر تو اس کے بیچ نہریں چلا کر بہالے یا ہم پر آسمان ٹکڑے ٹکڑے کرکے گرا دے جیسا کہ تیرا کہنا ہے، یا تیرے لئے ایک سنہری گھر ہوجائے یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور ہم تیرے چڑھنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے جب تک تو ہم پر ایک کتاب نہ اتار لائے جو ہم پڑھ لیں۔ تو کہہ سبحان اللہ! میں کون ہوں مگر ایک بھیجا ہوا آدمی ہوں۔‘‘

آیۂ مذکورۂ بالا سے یہ حقیقت عیان ہوتی ہے کہ منکرین پیغمبرِ آخر زمان سے بار بار معجزات طلب کرتے رہتے تھے، مگر خدا و رسول کو ان کا یہ مطالبہ اس لئے منظور نہ تھا کہ منکرین ان معجزات کے نتائج پر ایمان لانے والے نہ تھے جیسا کہ مذکورہ آیت سے ان کے منکرانہ خیالات کی ترجمانی ظاہر ہوتی ہے کہ ان کے خیالات کے مطابق چھ عظیم معجزات کر دکھانے کے باوجود بھی وہ یقین نہیں

۴۶

کرتے، جب تک انفرادی طور پر ایک ایک کتاب اتارنہ دی جاتی، جو ان کے کہنے کے مطابق ساتواں معجزہ تھا، تاکہ وہ کتاب کو بہ غور پڑھ کر اپنی عقل سے کوئی فیصلہ کرتے کہ ’’کیا! جس محمدؐ نے آسمان سے یہ کتاب لاکر انہیں دے رکھی ہے، وہ خدائے واحد کا سچا نبی ہے یا نہیں؟‘‘ انکار کی حددیکھ لیجئے کہ حقیقت سے کس قدر دور ہے، اِن کے اُن فطری ہم خیالوں کی عادت میں بھی یہی جاہلانہ انکار انتہائی حد تک مضبوط ہوچکا تھا جو اِن سے آگے گزرے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انبیاء کہ ہنگامی ضرورت کے مطابق حِسّی معجزات کا ایک ایک نمونہ دنیا والوں کو دکھانے کے بعد حضرت محمدؐ کے دورِ نبوت میں خدائے حکیم نے تا قیامت ان کو روکے رکھا، یہی حقیقت کلامِ پاک میں ہے کہ:

“وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ   ۭ وَاٰتَيْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَا  ۭ وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰيٰتِ اِلَّا تَخْوِيْفًا” (۱۷: ۵۹)۔

اور ہم کو نشانیاں (معجزات) بھیجنے سے صرف اس (خیال) نے باز رکھا ہے، کہ اگلوں نے اس جھٹلایا تھا، اور ہم نے ثمود کو اونٹنی دی تھی (ان کی) آنکھیں کھولنے کو، مگر انہوں نے اس پر

۴۷

ظلم کیا اور نشانیاں (معجزات) تو ہم صرف خوف دلانے کے لئے بھیجا کرتے ہیں۔

اس تفصیل کے بعد ان نکات کا بیان کیا جاتا ہے جو ہنگامی حسی معجزہ کے باب میں ضروری ہیں اور وہ یہ ہیں کہ حسّی معجزہ کے جملہ اقسام کی واقعیّت حواسِ خمسہ پر ہوتی ہے، یعنی ظاہری غیر معمولی عجائبات کا ادراک انسان اپنی آنکھ، کان، ناک، منہ (دہن) اور جلد کے ذریعے کرتا ہے، پس ہم ان معجزات کو ان حواس کی نسبت سے بصری، سمعی، شامّی، ذوقی اور لمسی معجزات کہہ سکتے ہیں، پھر ان میں سے ہر ایک حسّ پر تین قسم کے معجزات گزرتے ہیں جن کو تنزیلی، تمثیلی اور تسخیری معجزات کہیں گے، لہٰذا حسّی معجزہ کی کل پندرہ قسمیں ہوتی ہیں۔ ان شاء اللہ ہم ان جملہ اقسام کے متعلق ان حقائق و معارف کو بیان کریں گے جن سے ہر خوش نصیب علم جُو اور صاحبِ ذوق انسان عقلی طور پر مطمئن ہوسکے گا، اور اگر کوئی ذی حکمت انسان کسی تجرباتی معیار پر ان کو پرکھنا چاہے، تو ان کی قدر و منزلت بلند سے بلند تر نظر آئے گی، پھر وہ یقین کرسکے گا کہ علم و حکمت کے ایسے بیش بہانایاب جواہر صرف امامِ حیّ و حاضر کے روحانی خزانے کے سوا پیدا ہو نہیں سکتے۔

۴۸

حسی معجزات کی قرآنی مثالیں

قرآنی حوالہ جات دلیل مختصر حسی معجزات کے اقسام مثالیں

 

نمبر شمار
۵۱: ۲۳ تا ۲۷

۱۹: ۱۰

 

۵۴: ۱۵ تا ۲۰

۵: ۱۱۱ تا ۱۱۵

۹۱: ۱۳ تا ۱۴

چونکہ فرشتے تھے اسلئے کھانے سے انکار کیا، خیال میں نہیں بلکہ ظاہری طور پر۔

زور کا جھکڑ تھا جس میں بوبھی تھی۔

آیت میں’’آسمانی دسترخوان‘‘کہنا ہی ان چیزوں کے آسمانی ہونے کی دلیل ہے۔

اگر غیب کی چیز ٹھوس نہ ہوتی تو پھر اونٹنی کے پیر کاٹنے کا سوال ہی نہیں ہوتا۔

تنزیلی

 

معجزہ

بصری

سمعی

 

شامی

 

ذوقی

 

لمسی

حضرتِ ابراہیم کے گھر مجسم فرشتے آئے

حضرت مریم نے مجسم روح القدس کی بات سنی۔

قوم عاد نے عذاب کی بو سونگھی۔

حواریوں نے غیبی کھانا کھایا

چند شریروں نے صالح کی اونٹنی کے پیر کاٹ ڈالے۔

 

۱

 

۲

 

۳

 

۴

 

۵

۲: ۶۲ تا ۶۶

 

۱۹: ۲۸ تا ۳۰

 

۱۲: ۹۵

 

۷: ۱۳۳

 

۲۸: ۸۱

 

مٹی کو آدم کی شکل دینے والے کیلئے انسانوں کو بندر کی شکل میں تبدیل کرنا کوئی مشکل نہیں۔

اگر روح القدس جسم کے بغیر بات کر سکتی ہے تو کسی بچے کی زبان سے کرنا کوئی تعجب نہیں

روحانی قوت تمام چیزوں پر حاوی ہونے کی وجہ سے نہ صرف بو بلکہ ہرچیز کو نزدیک لا سکتی ہے۔

پانی حیوان کے ذریعہ خون بنتا ہے تو قدرت کیلئے بلا ذریعہ خون بنانا کوئی مشکل نہیں۔

جس کا اثر جلد سے شروع ہوا۔

 

 

تمثیلی معجزہ

بصری

 

سمعی

 

شامی

 

 

ذوقی

 

 

لمسی

نافرمان ماہی گیروں کا بندر بننا دیکھا گیا۔

حضرتِ عیسیٰ نے پیدا ہوتے ہی لوگوں سے کلام کیا۔

یعقوب نے غیر معمولی مسافت سے یوسف کی بومحسوس کی۔

فرعون اور اس کی قوم کے لئے پینے کا پانی خون بن گیا۔

قارون زمین میں دھنس گیا۔

۶

 

۷

 

۸

 

 

۹

 

 

۱۰

 

 

 

 

۲۱: ۷۹

 

 

 

۲: ۵۷

 

۲: ۵۷

یہ مسلمہ روایت ہے کہ ہوا، پرندے اور جنات اس کے تابع تھے۔

انسان کے علاوہ پہاڑ اور پرندے تک ان کی آواز سے محظوظ ہوتے تھے۔

یمن کے معنی یمین کے بھی ہیں۔

(انی لاجد۔۔۔۔۔۔)

جب یہ مسلمہ ہے کہ ’’ہر چیز بہشت سے آئی ہےتو کسی پیغمبر کی دعا پر کوئی کھانے کی چیز کا آنا تعجب نہیں۔

سایہ کا اثر اولاً جلد پر ہوتا ہے۔

تسخیری معجزہ بصری

 

سمعی

 

شامی

 

 

ذوقی

 

لمسی

سلیمان کی بادشاہت لوگوں نے دیکھی

داؤد کی خوش الحانی سمعی معجزہ تھا۔

آنحضرت دائیں طرف غیبی خوشبو محسوس کر رہے تھے۔

بنی اسرائیل پر ایک وقت تک من و سلویٰ اترتاتھا۔

بنی اسرائیل پرابر کا سایہ ہوتا تھا۔

۱۱

 

۱۲

 

۱۳

 

 

۱۴

 

۱۵

نوٹ:۔

۱۔  ان اقسام میں سے بعض میں ایک سے زیادہ خصوصیات بھی پائی جاسکتی ہیں، مثلاً مائدۂ عیسیٰ کی چیزوں میں ذوقی خاصیت کے ساتھ ساتھ بصری، شامی اور لمسی معجزہ کی خصوصیات بھی تھیں، مگر چونکہ کھانے کی چیزیں تھیں اس لئے اسے ذوقی معجزہ میں رکھا۔

۲۔ قرآن پاک میں بے شمارمعجزاتی واقعات کا ذکر موجود ہے لیکن ہم نے بغرض اختصار ہر نوع سے صرف ایک ایک معجزہ کی مختصر مثال یہاں پر درج کی ہے۔

۳۔ تنزیلی سے مراد یہاں پر وہ چیزیں ہیں جو پردۂ غیب سے ظہور پذیر ہوئی ہوں، تمثیلی سے مراد وہ چیزیں ہیں جو معجزانہ طور پرغیرمعمولی حالت اختیار کر چکی ہوں اور تسخیری سے مراد کسی چیز کا غیر معمولی طور پر کسی کا تابع فرمان ہونا ہے۔

اب ہم جملہ حسّی معجزات کے اقسام کی ایک ایک مثال بشکلِ گوشوارہ پیش کرتے ہیں، تاکہ قارئینِ کرام کو اس موضوع کی حقیقت بآسانی ظاہر ہوسکے۔ ۱؎

ہنگامی عقلی معجزہ

نبی و ولی کا وہ علمِ لدُنّی یا حکمتِ بالغہ ہے جو خدائے حکیم ان کو عطا کرتا ہے، جس کو عالمی دور کی نسبت سے ہنگامی معجزہ کہا جاسکتا ہے۔ اس حکمتِ بالغہ کی غرض لوگوں کو عقلی طور پر یہ یقین دلانا ہے کہ وہ نبی یا ولی خدا کی طرف سے ان کی رہنمائی کے لئے آیا ہے تاکہ وہ ان کی ہدایت سے بہرہ یاب ہوسکیں، اگرچہ لفظ حکمت ظاہری طور پر کوئی معجزاتی اصطلاح تو نہیں اور نہ اب تک عوام کو اس حقیقت کا کوئی انکشاف ہوچکا ہے کہ انسانِ کامل کے بعض معجزات ایسے بھی ہیں جن کا تعلق علم و عقل سے ہے، لیکن عقلِ سلیم کے لئے یہ ایک قابلِ تسلیم حقیقت ہے کہ جیسے ہمارے حواسِ ظاہری پر انسانِ کامل کے غیر معمولی حسی عجائبات اثر انداز ہوتے ہیں ویسے ہی ہمارے مدرکاتِ باطنی پر اس کے عقلی معجزات بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔

۱؎۔ صفحہ ۴۸ اور ۴۹ کے درمیان ملاحظہ ہو۔

۴۹

بنا برین یہ ماننا حقیقت پسندی کا ثبوت ہے کہ نبی یا ولی خدا کی دی ہوئی روحانی طاقت کے ذریعہ صرف حسّی معجزات کر دکھا سکتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عقلی معجزات بھی عقولِ انسانی کے سامنے لاسکتے ہیں، خواہ ایسے معجزات سے کوئی ہدایت پائے یا اس سے چشم پوشی کرے، جس طرح حسّی معجزہ کلی حیثیت سے مخالفین کو راہِ حق پر گامزن ہونے کے لئے مجبور نہیں کرتا بلکہ اس کے اثرات سے ان کے دلوں میں یقین کے ساتھ ساتھ مزید شکوک بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ اندریں صورت ان کے اختیار کا توازن بحال رہتا ہے اور یہ حسّی معجزہ ان کے لئے ہدایت کی جہت سے صرف ایک معمولی آگاہی کی حیثیت رکھتا ہے، اسی طرح عقلی معجزہ بھی عوام الناس کو ہر حالت میں بجبروا کراہ صراط المستقیم پر لا نہیں چلاتا، بلکہ اس میں ان کو حسّی معجزہ سے کہیں زیادہ شبہات پیدا ہو جاتے ہیں، جن کی ایک نمایان وجہ عقلی معجزہ میں ظاہری خوف کا نہ ہونا ہے، اس لئے کہ یہ معجزہ انبیاء علیہم السّلام کے قاہرانہ حسّی معجزات میں سے نہیں۔

اب حکمتِ بالغہ کی معجزاتی واقعیت کو قرآنی روشنی میں بھی واضح کردکھائی جاتی ہے۔ جیسا کہ علیم و حکیم کا یہ ارشاد ہے کہ:

۵۰

اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ -وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ -وَكَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْٓا اَهْوَاۗءَهُمْ وَكُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ -وَلَقَدْ جَاۗءَهُمْ مِّنَ الْاَنْۢبَاۗءِ مَا فِيْهِ مُزْدَجَرٌ -حِكْمَةٌۢ بَالِغَةٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ -فَتَوَلَّ عَنْهُمْ  (۵۴: ۱ تا ۶)

قیامت نزدیک آپہنچی اور چاند (روحانی طور پر) شق ہوگیا، اور یہ لوگ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جاد و ہے جو ابھی ختم ہوا جاتا ہے، ان لوگوں نے جھٹلایا اور اپنی نفسانی خواہشوں کی پیروی کی اور ہر امر کی قرار گاہ ہے اور ان لوگوں کے پاس (گزشتہ امتوں) کی خبریں اتنی پہنچ چکی ہیں کہ ان میں (کافی) عبرت ہو، حکمتِ بالغہ یعنی اعلیٰ درجے کی دانشمندی حاصل ہوسکتی ہے، سو ان کی حقیقت یہ ہے کہ خوف دلانے والی چیزیں ان کو کچھ فائدہ ہی نہیں دیتیں، تو آپ ان کی طرف سے کچھ خیال نہ کیجئے۔

آیۂ مذکورۂ بالا کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ نبیٔ آخر الزمان سے جو حسّی معجزات طلب کئے تھے وہ قیامت کی مختلف اشکال میں واقع ہوں گے، اس لئے کہ پیغمبرانِ گذشتہ اور آنحضرت میں ایک نمایان امتیاز یہ بھی ہے کہ آپ بمرتبۂ خاتم الانبیاء دورِ قیامت کے پیغمبر ہیں، لہٰذا آپ کے پورے دور کے اولیاء کے عقلی معجزات اور

۵۱

عالمی ہنگامۂ عظیم کے آخری معجزات سب کے سب آپ ہی کے ہیں، نیز اس آیت کا ایک واضح مطلب یہ بھی ہے کہ ظاہری طور پر جن حسّی معجزات کے دکھانے کی ضرورت تھی، وہ عالمی دور کے پیشِ نظر مناسب اوقات میں دکھائے جاچکے ہیں، ان کی خبریں متاخرین تک پہنچائی جا چکی ہیں اور ان معجزاتی خبروں کی تاویل من حیث المجموع حکمتِ بالغہ میں موجود پائی جاسکتی ہے، اسی حکمتِ بالغہ کا دوسرا نام خیرِ کثیر ہے، چنانچہ کلامِ پاک میں ہے کہ:

يُّؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاۗءُ  ۚ وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا ۭوَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ  (۲: ۲۶۹)

اللہ جس کو چاہے حکمت دے دیتا ہے، اور (سچ تو یہ ہے کہ) جس کو حکمت مل جائے، اس کو خیرِ کثیر مل گئی، اور نصیحت وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔ پس اگر ان مذکورۂ بالا دونوں آیتوں پر عقل و دانش سے غور کیا جائے تو یہ نکتۂ جامع حاصل آتا ہے کہ جس طرح حسی عجائبات کی چوٹی پر معجزہ کا مقام ہے، بالکل اسی طرح عقلی غرائبات کی چوٹی پر حکمت کا مقام ہے، پھر اسی حسّی و عقلی بلندی کی سنگم پر یہ دونوں امور ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہیں جس طرح انسانی جسم و روح وابستہ ہوا کرتے ہیں، یعنی حکمت

۵۲

کے ظاہری عمل کا نام معجزہ ہے اور معجزہ کے باطنی علم کا نام حکمت اور وہ نام جس میں لفظ معجزہ اور حکمت دونوں کے کلّی اور حقیقی مفہومات پائے جاسکیں آیت کہلاتا ہے جس کی جمع آیات ہے، چنانچہ قرآنِ شریف کا ارشاد ہے کہ:

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْــــَٔـلْ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِذْ جَاۗءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا (۱۷: ۱۰۱)

اور ہم نے موسیٰ کو کھلے ہوئے نو معجزے دئے، آپ بنی اسرائیل سے پوچھ دیکھئے، تو فرعون نے اس کو کہا کہ اے موسیٰ میرے خیال میں تو ضرور تجھ پر کسی نے جادو کردیا ہے۔ قرآن کے اس ارشاد سے حقیقت صاف عیان ہے کہ جن چیزوں کو اصطلاحِ عام میں معجزات کہتے ہیں ان کو اصطلاحِ خاص میں آیات کہا گیا ہے یعنی موسیٰ علیہ السّلام نے جو عجائبات فرعون اور اس کی قوم کو تخویف کے لئے کردکھائے تھے ان میں یہ چیزیں تھیں عصا، قحط، دریا، ٹڈی، یدِبیضا، جوئیں، خون، مینڈک اور طوفان، پس ان حسّی آزمائشی چیزوں کو آیات یعنی معجزات نہ صرف اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ غیر معمولی طور پر ظاہر ہوئی تھیں بلکہ اس لئے بھی کہ ان کے ظاہر ہونے میں تاویل یعنی حکمت تھی اور وہ حکمت اب بھی باقی ہے، چنانچہ قرآن شریف کے کلمات کے مجموعے کو بھی آیت

۵۳

یا معجزہ کہنا حقیقت ہے، مگر صرف اس لئے نہیں کہ وہ حروف و کلمات کا ایک مجموعہ ہے، بلکہ اس لئے بھی کہ وہ خدا کا کلام ہے اور اس میں حکمت ہے، پس ہنگامی عقلی معجزہ یعنی حکمت کے اثبات کے لئے یہی دلائل کافی ہیں۔

دائمی حِسّی معجزہ

وہ امر اعجوبہ ہے جو کسی پیغمبر کی حیاتِ طیبّہ کے بعد بھی اپنی اصلی شان و جلالت کے ساتھ انسانی حواس کے سامنے ہمیشہ موجود و حاضر پایا جاسکے، اور اسکی خصوصیات میں ذرہ بھر بھی کمی واقع نہ ہونے پائے۔

چنانچہ سردارِ رسل کے دوعظیم دائمی حسّی و عقلی معجزات کے سوا جملہ انبیاء کے معجزات ان کی جسمانی حیاتِ طیبہ کے ساتھ ساتھ ختم ہوچکے ہیں، اب ان کی روایات کے سوا عوام الناس کو کوئی نشان نہیں مل سکتا، پس ازروئے قانونِ عقل ان کو ہنگامی معجزات کہنا بالکل درست ہے، اس قسم کے معجزات کی واقعیت کے بارے میں اگرچہ ہر دیندار اعتقادی قوت سے اپنے آپ کو مجبور کرتے ہوئے سطحی طور پر یہ کہتا ہو کہ ’’قادرِ مطلق جو چاہے کرسکتا ہے اور امرِ ابداعی (یعنی موجودہ طریقۂ پیدائش کے برعکس کسی چیز کا پیدا کرنا) اس کے لئے کوئی مشکل کام ہرگزنہیں‘‘ تاہم اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے دل کی گہرائیوں

۵۴

میں ان روایات سے متعلق بہت سے پیچیدہ سوالات بھی رکھتا ہوگا اور اس کے تحقیقاتی جذبے کا ہمیشہ یہ تقاضا رہے گا کہ معلوم کرلیا جائے کہ حضرت صالح نبی کی اونٹنی پتھر سے کس طرح پیدا ہوئی؟ حضرت داؤدؑ لوہے کو گرم کئے بغیر کس طرح بکتر بناتا تھا؟ کیا یہ حقیقت ہے کہ حضرت موسیٰ کی لاٹھی اژدہا بن جاتی تھی؟ جناب مسیح عیسیٰ کن مردوں کو زندہ کرتا تھا؟ جب کہ مردے دو قسم کے ہوتے ہیں یعنی ایک زندہ نما مردہ دوسرا مردہ نما زندہ، کیا یہ اور اس قسم کی دوسری روایات حقیقی واقعات ہیں یا تاویلی تمثیلات؟ اب ہم زیرِ نظر بیان کے سلسلے میں اس مبحث پر آگئے، جس میں ہمیں اس ممکن سوال کا مدلّل جواب دینا ہوگا کہ ’’حضرت محمد صلعم کے دو دائمی حسّی معجزے کون کونسے ہیں؟ ‘‘ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جناب سیّد الثقلین کے دو دائمی حسّی معجزے قرآن پاک اور امامِ حیّ و حاضر ہیں، جو خدا کی کتاب اور اس کے نُور کی حیثیت سے ایک دوسرے کے ساتھ ہر دور میں پائے جاتے ہیں اور ان کو حقیقت میں ایک دوسرے سے جُدا نہیں کیا جاسکتا اور ان دونوں کی باہمی وابستگی بھی ظاہراً و باطناً معجزانہ قسم کی ہے یعنی جب ہم کسی آیت، حدیث یا عقلی دلیل سے یہ ثابت کرنے لگیں کہ قرآن بجائے خود ایک معجزہ ہے تو ساتھ ساتھ اور خود بخود امامِ زمان کے دائمی

۵۵

ظہور اور اس کی قرآن سے وابستگی کی دلیل بھی چشمِ بصیرت کے سامنے آنے لگے گی اور اگر اس کے برعکس صرف امام کے ذکر سے شروع کیا جائے تو اس میں بھی یہی ہوگا کہ ایک کتاب یعنی قرآن ظاہر یا باطن میں ہمارے سامنے آئے گا۔

اب ہم اس ذاتِ یگانہ کی درگاہِ رحمت سے قوتِ بیان طلب کرتے ہیں جس نے اسلام میں کسی چیز کی کمی، کوئی علمی رکاوٹ اور کوئی عقدۂ ناکشا نہیں رکھاہے، جیسا کہ قرآنِ شریف میں آیا ہے کہ:

هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ (۲۲: ۷۸) یعنی اس نے تم کو (اور امتوں سے) ممتاز فرمایا اور (اس نے) تم پر دین (کے احکام) میں کسی قسم کی تنگی نہیں کی۔ اب متعلقہ جواب کی تفصیل یوں ہے کہ قرآنِ پاک نہ صرف باطنی طور پر بلکہ علومِ ظاہری کے اوصاف و کمالات کی جامعیت کے لحاظ سے بھی اپنی کوئی مثال نہیں رکھتا، چنانچہ آیۂ درجِ ذیل میں نہ صرف قرآنِ پاک کو علم و حکمت کی بے نظیر کتاب مانا گیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس میں قرآن کو ’’معجزۂ محمدی‘‘ تسلیم کرنے کی دلیل بھی موجود ہے آیۂ کریمہ یہ ہے کہ:

قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا(۱۷: ۸۸)

۵۶

آپ فرما دیجئے کہ اگر تمام انسان اور جنّات اس بات کے لئے جمع ہو جائیں، کہ ایسا قرآن بنالائیں تب بھی ایسا نہ لاسکیں گے، اور اگرچہ ایک دوسرے کا مدد گار بھی بن جائے۔ اب یہاں ایک بہت اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدائے برتر کے فرمان پر ہمارا ایمان تو ضرور ہے اور وہ جس کام کا کرنا ناممکن قرار دے تو بلاشبہ وہ ناممکن ہی ہوتا ہے، لیکن کیا ہم یہ بھی معلوم کرسکتے ہیں یا نہیں؟ کہ وہ کونسی وجہ ہےجس سے تمام انسان اور جنّات باہم یار و مددگار ہونے کے باوجود بھی قرآن کی مانند کوئی کتاب بنانہیں سکتے، اور کیوں ان کی متحدہ علمی قدرت اس فعل کے سامنے آکر عجز و ناتوانی کی ایک خاموش صورت بن جاتی ہے؟

پس اس کا واحد جواب یہ ہے کہ قرآن حکیم سرتا سرحکمت ہے یعنی جس جامع المعانی اصول پر قرآن کی حقیقت الفاظ و کلمات میں سمو دی گئی ہے اور جس اندازِ بیان سے دور رس مثالیں اس میں بیان کی گئی ہیں، وہ اصول اور وہ انداز انس و جن کے کسی فرد کو معلوم نہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص باوجود آنکہ قرآنِ پاک اس کے حواسِ ظاہری کے سامنے موجود ہے اس کا معنوی تجزیہ نہیں کرسکتا، کیونکہ اگر یہ امر ممکن ہوتا کہ انسان اپنی عقلِ جزوی سے قرآن پاک کا معنوی

۵۷

تجزیہ کرسکے یعنی اس کے حروف، کلمات اور آیات کے معنی کچھ اس طرح کھولے اور ان میں چشمِ بصیرت سے دیکھے جس طرح کوئی کاریگر کسی مشین کو کھول کھول کر دقّت سے معائنہ کرتا ہو، اندرین صورت انس یا جن کے ایسے شخص کو پتہ لگ سکتا کہ یہ آسمانی کتاب کن کن معنوی اصولوں پر مبنی ہے، پھر یہ علم عام ہوجاتا اور سب اس پر قادر ہوتے جاتے۔ اور انس و جن کوئی ایسی کتاب لکھ سکتے، کیونکہ کسی کاریگر کو جب کسی چیز کے ظاہر و باطن کا پورا پورا علم ہوجاتا ہے، تو وہ اس کی مانند ایک جُدا چیز بناسکتا ہے۔ مذکورہ بیان سے یہ حقیقت پایۂ ثبوت پر آگئی کہ انس و جن نہ صرف قرآن جیسی کتاب بنانے سے قاصر ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس آسمانی کتاب کی حکمت سمجھنے سے بھی عاجز ہیں، پھر جس مقدس کتاب کو حواس کے سامنے موجود پاتے ہوئے بھی انسان و جنّات اس کے سمجھنے اور بنانے سے عاجز ہوجاتے ہوں، اس کو ایک عظیم حسّی معجزہ کیوں نہ مانا جائے۔

اب ہمیں مذکورۂ بالا آیت ہی سے یہ حقیقت ظاہر کرکے دکھانا ہے کہ امامِ زمان کو کن دلائل سے ’’معجزۂ محمدی‘‘ مان لیا جا سکتا ہے اور اسی آیت میں قرآنِ پاک اور امامِ حاضر کی کونسی وابستگی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انسان کی ظاہری و باطنی ہدایت

۵۸

کے لئے قرآنِ پاک کا نازل کئے جانا، پھر انسانی عقل کی رسائی سے قرآنی حقائق کا برتر واقع ہونا اس امر کی ایک مستحکم دلیل ہے، کہ اس ظاہری دنیا میں قرآنِ پاک کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ایک ایسے معلم القرآن کا ہونا ضروری ہے جس کو بباطن خدائے برتر نے اپنے نور کی حیثیت سے بھیجا ہو اور بظاہر آنحضرت نے اپنا جانشین مقرر کیا ہو، تاکہ قرآنی مشکلات اور حالاتِ حاضرہ کے مطابق ہدایت کے بارے میں خدائے حکیم پر لوگوں کی کوئی حجت نہ ہوسکے۔

پس امرِ واقع یہ ہے کہ نورالقرآن بہ لباسِ جسمِ انسان ہمیشہ دُنیا میں حاضر و ناظر موجود ہے جس کو امامِ زمان یا انسانِ کامل کہا جاتا ہے پھر اگر اس نور کو اس لئے پہچانا نہیں جاتا کہ بتقاضائے حکمت اس کا ظاہری تعلق بشری جسم اور اس کے لوازمات سے ہے، تو اس کی مثال بالکل ایسی ہوگی جیسا کہ کوئی نا سمجھ انسان قرآن پاک کو خدا کا کلام محض اس لئے نہیں مانتا ہو، کہ وہ کاغذ، سیاہی، حروف اور الفاظ جیسے مادّی چیزوں کا بنا ہوا ہے، اور یہ بات کبھی اس کے گمان و خیال سے بھی نہ گزری ہو کہ یہ آسمانی کتاب ہے، لہٰذا ہوسکتا ہے کہ ان مادّی چیزوں کے پسِ پردہ علمِ الہٰی کا ایک کمیاب خزانہ موجود ہو، پھر ان حالات کے پیشِ نظر آیۂ مذکورہ کا خدائی اعلان نہ صرف قرآنِ پاک کی بے مثالی

۵۹

کے بیان تک محدود ہے بلکہ اس میں امامِ زمان کی بے نظیری کا بیان بھی مضمر ہے اس لئے کہ قرآن اور امام حقیقت میں ایک ہی نور ہے، لہٰذا اس اعلانِ حق میں تمام انسان اور جنات کو یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ اگر امامِ حق کے من عند اللہ ہونے پر تمہیں یقین نہیں اور مرتبۂ امامت کو محض انفرادی یا اجتماعی جدوجہد کا ایک عام نتیجہ سمجھتے ہو، تو تم بھی آپس کے اتفاق و اتحاد سے ایک ایسے کامل انسان کا انتخاب کرو جو اپنے ظاہری و باطنی اوصاف سے حقیقی امام کا ہم صفت ہو سکے اور اس کی اپنی ہی ذریّت میں اس کا منصبی سلسلہ تا قیامت اسی طرح باقی رہ سکے، جس طرح حقیقی امام کے یہ اوصاف انسانی حواس کے سامنے موجود پائے جاتے ہیں، ظاہر ہے کہ سارے انسان اور جنّات کے لئے امامِ زمان کا ایک ایسا نظیر قائم کرنا ناممکن رہا ہے اور ناممکن رہے گا، پس ہمارا یہ کہنا ایک روشن حقیقت ہے کہ امامِ زمان کی ظاہری دائمی موجودیت حضرت محمد صلعم کا دوسرا دائمی حسّی معجزہ ہے۔

دائمی عقلی معجزے

کے بیان سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ اس میں وہ تمام معجزاتی خصوصیات بھی شامل ہیں جن کا ذکر ہنگامی عقلی معجزے کے بارے میں ہوچکا ہے۔ اب یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آنحضرت کے دو دائمی عقلی معجزے

۶۰

بھی قرآن اور امام ہی ہیں، اس سے قبل ان کو دو دائمی حسّی معجزوں کی حیثیت سے ثابت کیا گیا ہے اب یہاں پر یہ واضح کرنا ہے کہ قرآن اور امام دو دائمی عقلی معجزے بھی کس طرح ہوسکتے ہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ خدائے برتر کی جانب سے حکمتِ بالغہ کے نام سے جو خیرِ کثیر جنابِ محمدؐ کو دی گئی تھی وہ حکمتِ قرآن اور معلم القرآن کی حیثیت سے اب بھی موجود ہے، یہ دونوں عقلی معجزات ساری مخلوق کی مادّی اور روحانی لا انتہا عروج کی وسیع ہدایت اور حکمت سے اس قدر مملو اور بھاری ہیں، کہ سارے انسان اور جنّات اپنی متحدہ عقلی طاقت کے باوجود بھی ان کو بیک وقت اٹھانے سے عاجز ہیں، یہی وجہ تھی کہ آنحضرت نے ان دونوں معجزات کا نام ’’ثقلین‘‘ یعنی بھاری چیزیں رکھا اور اپنی امت سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں اب تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑ جانے والا ہوں۔

یہ بات قبلاً احاطۂ تحریر میں آچکی ہے کہ معجزہ دکھانے کی اصلی غرض یہی ہے کہ لوگ صاحبِ معجزہ کو خدا کا نبی یا ولی مانیں اور اس پر یقین کریں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ معجزہ درحقیقت کسی کی نبوت یا ولایت کے اثبات کے لئے ایک عملی گواہ کی حیثیت رکھتا ہے پس ہم معجزہ کے اس پہلو سے بھی یہ حقیقت ظاہر کرکے دکھاتے ہیں کہ سیّدِ کونین

۶۱

کے یہی دو دائمی عقلی معجزات یعنی قرآن اور نور القرآن آنحضرت کی نبوت کے ایسے دو گواہ ہیں جو حسّی اور عقلی وجود میں ہمیشہ موجود ہیں، جو شہادت کی جملہ شرائط میں موجودات سے بڑھ کر ہیں، جن کی تردید حقیقت میں ہونہیں سکتی، نہ ان گواہوں کو مٹایا بجھایا جاسکتا ہے، چنانچہ خداوند فرماتا ہے کہ:

وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا  ۭ قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا  بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ۙ وَمَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ(۱۳: ۴۳)

یعنی اور یہ کافر لوگ یوں کہہ رہے ہیں کہ آپ پیغمبر نہیں، آپ فرمادیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان (میری نبوت پر) اللہ اور وہ شخص جس کے پاس کتاب (آسمانی) کا علم ہے گواہ کافی ہیں یعنی بباطن خدا اور نورِ امامت اور بظاہر قرآن اور شخصِ امامت ایسے واقفِ کل (کافی) گواہ ہیں کہ اِن کی ذات میں حضرت محمدؐ کی نبوت کے اسرار کا پورا پورا علم موجود ہے اور لوگ ان سے اس بارے میں جس قسم کی بھی شہادت پوچھیں تو وہ ان کو ہر وقت بلاکم و کاست بتاسکتے ہیں۔

اب اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ کس دلیل کی بنا پر یہ کہا اور مانا جاسکتا ہے کہ نورِ امامت علوم القرآن کا یکتا معلّم، اسرارِ

۶۲

نبوت کا واقفِ کُل اور نبوتِ محمدی کا گواہِ مطلق ہے؟ تو اس کے جواب میں دلیلِ اوّل یہ ہے کہ خدا کے کلام میں سچائی اور عدل بدرجۂ اتم موجود ہے، وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا  (۶: ۱۱۵) اس لئےیہ ناممکن ہے کہ حق تعالیٰ نبوّتِ محمدی کی شہادت کے لئے لوگوں میں سے ایک شخص کا انتخاب کرے اور اسے گواہِ کافی (پورا) کے خطاب سے نوازے، جو ماضی، حال اور مستقبل میں یکسان طور پر نبوّتَ محمّدی کی گواہی نہ دے سکتا ہو جو بیک وقت حسّی اور عقلی دونوں صورتوں میں اس کا گواہ نہ بن سکتا ہو جس کو بعض اسرارِ نبوت کا علم ہو اور بعض کا نہ ہو، اور جو قرآنی تاویل کسی حد تک جانے اور مابقی سے ناواقف ہو، ایسا کبھی ہونہیں سکتا، بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے یعنی جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے یہاں گواہِ کافی اور حاملِ علمِ آسمانی قرار دیا ہے، وہ نبوتِ محمدیؐ کی شہادت کے متعلق سب کچھ جانتا ہے اور سب کچھ کرسکتا ہے، پس ایسا گواہ نورِ امامت ہی ہے اور اس کے سوا اور کوئی نہیں۔

دلیلِ دوم: اسی طرح یہی حکمت لفظ شہید (حاضر) میں بھی ہے کہ گواہ کا نام عربی میں شہید ہے جس کے معنی حاضر کے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی معاملے کا گواہ اس صورت میں بن سکتا ہے جب کہ وہ اس معاملے میں حاضر رہ کر اُسے دیکھ چکا ہو، پس ایسا شخص

۶۳

نورِ امامت ہی ہے جس نے خدائی نور کی حیثیت سے سب کچھ دیکھا ہے۔

دلیلِ سوم: جیسا کہ ہم نے دلیلِ اوّل میں ظاہر کیا کہ کلماتِ قرآنی سچائی اور عدل سے بھرپور ہیں، چنانچہ ذیل کی قرآنی مثال پر بھی اسی صدق و عدل کے نظرئیے سے غور کیجئے مثال یہ ہے کہ من کان عالم القرآن  (جو کوئی قرآن کا جاننے والا ہے) اور من عندہ علم الکتاب (جس کے پاس کتاب کا علم ہے) دونوں کلمات کے معنوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔مقدم الذکر کلمے کا مطلب ایک ایسے شخص سے ہے جو قرآنِ پاک کو دیکھے اور اس کے علم کا عالم ہو، لیکن اس کے برعکس موخرالذکر کلمے سے وہ شخص مراد ہے جس کے پاس ہی خود کتاب کا علم ہو، اس کے علاوہ اس کلمے میں یہ حقیقت بھی ہے کہ قرآن کے بجائے کتاب کا لفظ استعمال کئے جانا اس امر کی دلیل ہے کہ یہ کتابِ کُل یعنی امّ الکتاب کے معنی میں آیا ہے، کیونکہ جملہ کتب کا ایک مجموعی کتاب بھی ہے جس کا نام اُمّ الکتاب ہے، پس امّ الکتاب بقولِ قرآن، بدلیلِ حدیث اور ببرہانِ عقلی علی المرتضیٰ علیہ الصلوٰۃ والسّلام ہے جس کا نور امامِ زمان میں ہے اور اسی نور میں علمِ اولین و آخرین سمویا ہوا موجود ہے۔

۶۴

انسانِ کامل کی جسمانی معرفت

بعض لوگوں کے عقیدے کے مطابق انبیاء و اولیاء کے خاکی اجسام اور ان کے لوازمات ایسے نہیں ہوتے، جیسے دوسرے انسانوں کے ہوتے ہیں، وہ اس سلسلے میں کچھ غیر فطری جسمانی خصوصیات بیان کرتے ہیں، چونکہ یہ موضوع ہمارے اگلے مضمون (تحقیقاتِ معجزات) سے تعلق رکھتا ہے، اس لئے ہم اس بارے میں ان مفروضہ جسمانی خصوصیات کی تفصیل سے قطع نظر صرف ان حقائق کا ذکر کرتے ہیں، جو ہمیں انبیاء و امامانِ حق کی جسمانی معرفت حاصل کرنے کے لئے ازبس ضروری ہیں۔

نبی اور امامِ حق کی جسمانی معرفت دراصل دین کا ایک ایسا بنیادی اور کلیدی مسئلہ ہے، جس کو اگر کوئی خوش نصیب انسان عقیدت، محبّت اور علم کے ذریعے اچھی طرح سے سمجھ سکے تو وہ امن و سلامتی کے ساتھ راہِ حق پر گامزن ہوسکتا ہے ورنہ نبی و ولی کی معرفت کی ضد ان کے سامنے آتی ہے جسے ناشناسی کہتے ہیں، اور وہ بیگانوں کے خلاف ایک ایسا طلسماتی عمل ہے، جس نے ابتدائے دور سے لے کر اب تک بہت

۶۵

سے لوگوں کو نہ صرف گنجِ حقیقت میں داخل ہونے سے روکا، بلکہ اس نے ان کے وہم و گمان میں اس شدت کا خوف و ہراس ڈالا کہ وہ اس گنجینۂ حقائق کے راستے سے واپس بے تحاشا فرار ہوگئے، اور اب ان کا اس طرف رُخ کرنا ناممکن ہے۔

اگر آپ ہر دور کے منکرینِ نبوت کا تذکرہ قرآن پاک میں بغور پڑھ چکے ہیں، تو آپ بلادقّت یہ حقیقت سمجھ سکتے ہیں کہ مختلف ادوار کے ایسے منکرین سب یک زبان ہوکر انبیاء علیہم السّلام کے خلاف سب سے پہلے یہی اعتراض کر رہے ہیں کہ انبیاء انہی کی طرح انسان ہیں، اور اس کے سوا وہ کچھ بھی نہیں، جس سے ان کا مطلب یہ ہے کہ انسانِ کامل کا جسم غیر معمولی قسم کا ہونا چاہئے۔ اب غور و فکر سے ان کے اس اعتراض کی وجہ معلوم کرلینا چاہئے، کہ یہ لوگ علی الاتصال انسانِ کامل کی جسمانیت پر کیوں معترض ہوتے آئے ہیں؟کیا ان کے پاس کوئی ایسا میزانِ معرفت یا معیارِ شناخت ہے؟ جس کے ذریعے وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں، کہ سچّے نبی یا انسانِ کامل کی جسمانی خصوصیات فلان قسم کی ہونی چاہئیں، یا ان کی فطرت ہی اس امر کی مقتضی ہے؟کہ وہ دائرۂ جسمانیت میں محدود رہتے ہوئے صرف انسانِ کامل کی بشریت اور اس کے لوازمات ہی

۶۶

پر بحث کرتے رہیں، آپ کو تفصیلِ ذیل سے اس اعتراض کی وجوہ اور اس مضمون سے متعلق سوالات کے تسلّی بخش جوابات مل سکتے ہیں۔

جسدِ نورانی کے ذکر سے قطع نظرانسان کے جسمِ خاکی اور بشریت کے متعلق ضروری تحقیق یہ ہے کہ انبیاء، اولیاء، اتقیاء اور سارے عوام النّاس فطری تعلقاتِ جسمانیت اور قدرتی لوازماتِ بشریت میں عام طور پر برابر کے شریک ہیں، اور کسی بھی انسان کی جسمانیت درحقیقت نہ اس کی اصالت کی کوئی دلیل بن سکتی ہے، اور نہ اس کی رذالت کی کوئی علامت کیونکہ خدائے برتر اپنی ذات و صفات کی حقیقت میں ایک ہے، اس کا قانون یعنی سنّت اور فطرت (طریقۂ پیدائش) بھی ایک ہی ہے، پس اس نے اپنی فطرتِ واحدہ کے مطابق انبیاء، اولیاء اور عوام الناس کے اجسام کو امتزاجِ عناصر اور لوازماتِ تولید کے ایک ہی طریقے پر پیدا کیا، پھر ان اجسام کی فطری ضروریات اور ان کے نتائج میں بھی کوئی فرق نہیں رکھا۔ نیز اگر انسان کی اس امتحانی تخلیق کے بہت سے طریقے ممکن ہوتے، تو قانونِ قدرت کو وہ طریقۂ پیدائش منظور ہوتا، جس میں علم و عمل کی زیادہ سے زیادہ امکانیت موجود ہو، پس حقیقتِ حال بھی یہی ہے، کہ فی الواقع

۶۷

انسان کو ایک موزون ترین فطرت پر پیدا کیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآنِ حکیم کے اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ(۹۵: ۴) اور یقیناً ہم نے انسان کو ایک بہترین تعدیل (ترتیب) میں پیدا کیا ہے۔ پس اگر انسانوں کی جسمانی تخلیق ایک بہترین تعدیل میں ہوئی ہے، تو اس تخلیقی بہتری کی واقعیت سب سے پہلے انسانِ کامل پر ہونی چاہئے، کیونکہ جس کامیاب نتیجے کے پیشِ نظر انسانی خلقت کو بہترین قرار دی گئی ہو، وہ سب سے پہلے نبی و ولی کے جسمانی علم و عمل سے برآمد ہوسکتا ہے۔

پس ظاہرہے کہ پیغمبر اور امام کی یہی جسمانیت اور بشریت اس دنیا میں انسانی آزمائش اور ہدایت کے لئے انتہائی موزون ہے، کیونکہ اگر وہ اپنے جسدِ نورانی (جسمِ مثالی) میں عام لوگوں کے سامنے ظاہر ہوجاتے تو درین صورت ان کا یہ عمل بحقیقت نہ ذریعۂ آزمائش ہوسکتا ہے اور نہ وسیلۂ ہدایت، اس لئے کہ ذریعۂ آزمائش وہ نہیں، جس کی وجہ سے علم و عمل کے لاتعداد مراتب اور معرفت کے بے شمار درجات کا یکایک خاتمہ ہوجائے، اور ہدایت تو آزمائش کے نتیجے کی صورت میں مل سکتی ہے، پھر جب آزمائش نہ رہی تو اس کے نتیجے کا سوال ہی نہ رہا، اس کے علاوہ ہدایت اس رہنمائی کا نام ہے جو انسان کو

۶۸

معرفت کے درجاتِ عالیہ تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے پھر اگر معرفت کے مختلف درجات نہ ہوں، تو ہدایت اور آگے بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا، پس ظاہر ہوا کہ معرفت ہدایت کا نتیجہ ہے، ہدایت آزمائش کی حامل ہے، اور حقیقی آزمائش کا ذریعہ صرف انسانِ کامل کی جسمانیت و بشریت ہی ہے۔

اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ کس طرح انسانِ کامل کا جسمِ عنصری امّت کے لئے ذریعۂ آزمائش ثابت ہوسکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو ہمیشہ دنیاوی معاملات اور دینی امور میں آزمانا منظور ہے اور انسان کی دیناوی آزمائش کے اسباب دنیاوی قسم کے اور دینی قسم کی آزمائش کے ذرائع دینی قسم کے ہوتے ہیں، اب دین کی ابتداء و انتہا اور مذہب کی جامعیت و مرکزیت انبیاء اور ان کے جانشین علیہم السّلام کے سوا اور کوئی ہو نہیں سکتا، پس انسان کی دینی و روحانی آزمائش کا سب سے بڑا ذریعہ انسانِ کامل کا جسم اور اس کی بشریت ہے، اور انسان کی دینی آزمائش انسانِ کامل کا فرمان ہے، جو اپنے قول، عمل اور اپنے جسم سے متعلق کس واقعہ کی صورت میں انسان کے سامنے لاتا ہے۔

آپ اس تاریخی واقعہ پر غور کیجئے کہ حضرت محمد مصطفےٰ صلّی اللہ

۶۹

علیہ و آلہٖ وسلم باوجود آنکہ تمام انبیاء و اولیاء میں سے اشرف تھے، لیکن آنحضرت بھی وہی جسمِ عنصری رکھتے تھے، جو جسم دوسرے تمام انسان رکھتے ہیں، اگر پیغمبرِ اسلام کا وہ جسمِ مبارک معجزاتی قسم کا ہوتا، تو رسولِ خدا دشمنانِ اسلام کے ہاتھوں سے وہ تکالیف نہ اٹھاتے، جو غزوۂ احد میں ان کو اٹھانی پڑیں، چنانچہ اس واقعہ کا ایک مختصر مطلب درج ذیل ہے:

جب غزوۂ اُحد میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کا دندانِ مبارک شہید ہوا، اور سر مبارک زخمی ہوکر بہت سا خون بہہ نکلا، تو آنحضرت ایک غار میں جا گرے اندرین حال کافی دیر تک آنحضرت مسلمانوں کو نظر نہ آئے، پھر مسلمان ان کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے، یہاں تک کہ دشمن کی افواہ اور ان کی غیر موجودگی کی بنا پر آنحضرتؐ کو انہوں نے شہید سمجھا، پھر چند خاص بہادروں کے سوا باقیوں کے ظاہر و باطن پر جو حالت گزری، اس کی ترجمانی آیۂ درج ذیل سے ہورہی ہے جو اسی وقت نازل ہوئی تھی:

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَـيْـــًٔـا  ۭ وَسَيَجْزِي اللّٰهُ الشّٰكِرِيْنَ  (۳: ۱۴۴)

۷۰

اور محمّد (جسمانیت میں کچھ اور قسم کا)نہیں، مگر ایک رسول ہے، اس سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں، پھر اگر وہ انتقال کرجائے، یا شہید ہوجائے، تو کیا تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھر بھی جائے گا، تو وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا، اور اللہ شکر گزاروں کو جزائے خیر عطا کرے گا۔ اس مقام پر یہ جاننا ضروری ہے کہ رسول اللہ کی حیاتِ طیّبہ قولاً و عملاً اُمّت کے لئے ایک مکمل ہدایت اور ایک بہترین مثال تھی، اور ان کی عملی زندگی کے اسوۂ حسنہ ہونے میں کسی بھی مسلمان کو شک نہیں، پس ایک مکمل عملی ہدایت اور ایک بہترین نمونۂ زندگی پیش کرنے کے لئے یہ امر ضروری تھا کہ انبیاء اور امامان علیہم السّلام کے بھی وہی اجسامِ عنصری ہوں جو دوسرے تمام انسانوں کے ہوتے ہیں تاکہ امّت کو صحیح معنوں میں عملی ہدایت دی جاسکے، اور اس جسمانی ہمجنسیت کے ذریعے انسان ان تک رسا ہوسکیں، مثال کے طور پر اگر کوئی روحانی فرشتہ لوگوں سے یہ کہہ دیتا کہ اے لوگو! تم بُرے کاموں سے بچو اور نیک کاموں کو انجام دو، تو یہ اس کی نامکمل ہدایت ہوجاتی، کیونکہ اس نے ان کو صرف ایک قولی ہدایت دی اور اس سے انہیں عمل کی امکانی صورت ظاہر نہ ہوسکی، اگر یہی فرشتہ انسانی فطرت پر دنیا میں پیدا ہوجاتا

۷۱

اور جسمانی مصائب و آلام سے گزرتے ہوئے خدا کی طرف سے انسان کی ہدایت کرتا، تو حقیقت میں یہی ہدایت ایک عملی اور مکمل ہدایت کہلاتی اور انسانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید ثابت ہوسکتی، پس پیغمبر اور امام اپنے قول و عمل سے لوگوں کے لئے ایک مکمل ہدایت پیش کرتے ہیں جس سے لوگوں کے لئے عمل کی امکانی صورت ظاہر ہوسکتی ہے، اور یہ امر صرف پیغمبر اور امام کے جسمِ عنصری ہی سے ہوسکتا ہے۔

پیغمبر اور امامِ حق کی جسمانیت و بشریت کے متعلق جتنے بھی سوال پیدا ہوسکتے ہیں، ان سب کے لئے قرآنِ پاک کا یہی ایک مختصر اور جامع جواب کافی ہے، اور ہم نے اس سلسلے میں جو کچھ یہاں تک لکھ چکا اور جو کچھ لکھنے والے ہیں، وہ سب اسی ایک ہی جوابِ کلّیہ کی تشریح میں شامل ہے، اور وہ جوابِ کلّیہ اس آیۂ کریمہ میں موجود ہے کہ:

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰـــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ  ۚ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا (۱۸: ۱۱۰)

(اے محمّد) آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم ہی جیسا بشر ہوں، میرے

۷۲

پاس بس یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود (برحق) ایک ہی معبود ہے، سو جو شخص اپنے رب سے ملنے کی آرزو رکھے تو نیک کام کرتا رہے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ پس معلوم ہوا کہ حضرت محمّدؐ صرف جسمِ عنصری اور اس کے فطری لوازمات ہی کی نسبت سے اوروں کی طرح بشر تھا، مگر جو وحی خداتعالیٰ کی طرف سے اس پر نازل ہوئی تھی اس کی نسبت سے آنحضرت اُن سے ممتاز و مخصوص تھا پھر جب اشرفِ انبیاء و اولیاء کا بشر ہی ہونا ثابت ہے، تو ان کے وصی یعنی امامِ حق کا بھی بشر ہونا لازمی ہے، مگر جس طرح نبی صلعم تنزیلِ وحی میں دوسرے تمام لوگوں سے ممتاز و مخصوص ہے اسی طرح امامِ حق تاویلِ وحی میں دوسرے تمام انسانوں سے ممتاز و مخصوص ہے۔

۷۳

جشنِ نوروز

نوروز کے معنی نئے دن کے ہیں، لیکن اس سے مراد وہ یومِ جشن ہے، جو سالِ نو کی آمد پر موسمِ بہار کے آغاز ہی میں منایا جاتا ہے جس میں برج حمل سورج کے مقابل ہونے لگتا ہے اور جہاں سے مصریوں اور ایرانیوں کے شمسی سال کا نیا دن گنا جاتا ہے ۔ جشنِ نوروز دنیا کے قدیم تہواروں میں سے ہے، اور بعض معتبر روایات کے مطابق یہ جشن چند تاریخی واقعات اور دینی فتوحات کا بھی حامل ہے، چنانچہ کہتے ہیں کہ یہی جشنِ نوروز تھا، جس میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اب سے تقریباً چار ہزار دو سو سال پہلے ملکِ عراق کے شاہی بتوں کو توڑ ڈالاتھا اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے بھی اپنے زمانے میں اسی روز فرعونِ مصر کے جادو گروں کو شکستِ فاش دے دی تھی، چنانچہ ہم آیۂ درجِ ذیل کی روشنی میں تحقیقات کر کے اس امر کی واقعیت کو دکھاتے ہیں۔

قرآن کے اس ارشاد میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور فرعون کے

۷۴

ساحروں کے مقابلے کا ذکر ہورہا ہے:

قَالَ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يٰمُوْسٰى- فَلَنَاْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهٖ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهٗ نَحْنُ وَلَآ اَنْتَ مَكَانًا سُوًى – قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّيْنَةِ وَاَنْ يُّحْشَرَ النَّاسُ ضُـحًي  (۲۰: ۵۷ تا ۵۹) یعنی فرعون نے کہا اے موسیٰ تو ہمارے پاس اس لئے آیا ہے کہ ہم کو اپنے جادو کے بل سے ہمارے ملک سے نکال دے؟ تو ضرور ہے کہ ہم بھی تیرے پاس اس کا مثل جادو لائیں، پس ہمارے اور اپنے درمیان ایک وعدے کا دن ٹھہرالے، جس کی خلاف ورزی نہ ہم کریں نہ تو، ایک ہموار جگہ میں جمع ہوجائیں، موسیٰؑ نے کہا تمہارے وعدے کا دن آرائش کا دن ہے اور یہ کہ لوگ دن چڑھے جمع کئے جائیں۔

اب اگر قرآنی حکمت کی ہمہ گیر معنویت پر غور کیا جائے تو یقینی بات ہے کہ ’’یوم الزینۃ‘‘ سے مراد جشنِ نوروز ہے، کیونکہ قرآن شریف میں کسی نہ کسی صورت میں ہر چیز کا ذکر موجود ہے، ساتھ ہی جشنِ نو روز مصر میں قدیم سے چلا آرہا تھا، نیز لغوی جہت سے بھی آرائش کا دن آغازِ بہار ہی میں ہونا درست تر ہے اور دن چڑھنے پر اجتماع کی مناسبت کا اشارہ بھی یہی ظاہر کرتا

۷۵

ہے، کہ یہ جشنِ نوروز ہی ہے، کیونکہ آغازِ بہار تک مصر میں سردی رہتی ہے، اس لئے کہا گیا ہے کہ لوگ دن چڑھے جمع ہوجائیں، اس کاثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السّلام مدین سے واپس آرہے تھے تو دورانِ سفر میں ان کی بیوی صفورا کے لئے سردی کی وجہ سے آگ جلانے کی ضرورت محسوس ہوئی جس کا ذکر (۲۰: ۹ تا ۱۰) میں موجود ہے، حضرت موسیٰ نے مصر پہنچتے ہی فرعون اور اس کی قوم کو پیغامِ الہٰی سنانا شروع کیا اور کچھ دنوں بعد آیۂ مذکورہ کے مطابق نوبت یہ آئی کہ معجزہ اور جادو کا مقابلہ کرایا جائے اور اس وقت موسم کچھ اعتدال پر آیا تھا اور وہ یومِ موعود جس میں مقابلہ کرا گیا جشنِ نوروز ہی تھا۔

آیت مذکورۂ بالا سے یہ حقیقت بھی ثابت ہوتی ہے کہ جشنِ نوروز کے ساتھ ابتداء ہی سے کچھ دینی سعادتمندی بھی پوشیدہ طور پر چلی آئی ہے جیسا کہ فرعون سے حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا کہ ’’ یوم الزینۃ‘‘ اس سے مراد وہ جشن کا دن تھا جو دینی فتحمندی کے لحاظ سے حضرت موسیٰ اور ان کے پیرؤں کا تھا اور دینوی خوشی کے لحاظ سے فرعون اور آلِ فرعون کا، پس یہ جشن کا دن باہم مشترک ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ کوئی اضافت استعمال نہیں کیا یعنی نہیں کہا کہ ’’ یوم زینتکم‘‘

۷۶

(تمہارے جشن کا دن) اس سے معلوم ہوا کہ جشنِ نوروز میں شروع ہی سے دینی فیوضات موجود ہیں۔ اندرین صورت اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ جشن تو فرعون وغیرہ منارہے تھے، تو اس اعتراض کی کوئی وقعت ہی نہیں، کیونکہ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسا کہ کسی زمانے میں ’’خانۂ کعبہ‘‘ میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ درین صورت معاذ اللہ خانۂ خدا بت پرستوں کی ملکیت تھا، یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں۔

جشنِ نوروز کی اہمیت ہر پیغمبر کے زمانے میں کسی نہ کسی صورت میں پائی جاتی ہے، لیکن اس کی پوری اہمیت خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے زمانے میں ظاہر ہوئی، جس طرح ان کی ذاتِ مطہرہ پر نبوت پایۂ تکمیل کو پہنچی تھی، چنانچہ اس مبارک دن حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیرِ خم کے مقام پر آنحضرت نے بامرِ خدا حضرت مولانا مرتضیٰ علی علیہ الصلوٰۃ و السّلام کو درجۂ وصایت پر مامور فرمایا، بروایات معتبرہ یہ یوم سعید ۱۸، ذی الحجہ  ۱۰ھ ؁ مطابق ۲۱، مارچ ۶۳۲ء؁ کا تھا، مقامِ غدیر کی نسبت سے یہ جشن اسلامی تاریخ میں عیدِ غدیر کے نام سے بھی مشہور ہے، رسول اللہ صلعم پہلے سے ہی جان چکے تھے کہ یہ ان کا آخری حج ہے، اس لئے انہوں نے اس حج کو قبلاً ہی حجۃ الوداع کے نام سے موسوم کیا اور اعلان کیا گیا کہ یہ رسول اللہ کا آخری حج ہے، اس لئے تقریباً ایک لاکھ

۷۷

بیس ہزار نفوس رسول اللہ کے ہمراہ حج کے لئے روانہ ہوگئے۔ جناب رسولِ خدا عرفات کے راستے میں تھے کہ سورہ الم نشرح نازل ہوئی جس میں ان کے لئے خدا کا ایک عظیم امر یہ تھا: فاذا فرغت فانصب والیٰ ربک فارغب (۹۴: ۷ تا ۸) یعنی پس اے رسول جب تو (اعمال حج سے) فارغ ہو تو (اپنے وصی) کو مقرر کر اور اپنے رب کی طرف راغب ہو یعنی دنیا سے کوچ کر۔ پس معلوم ہوا کہ جشنِ نوروز بھی وہاں آکر ظاہر ہوا جہاں مولانا علی کا مرتبہ ظاہر ہوا تھا۔

سلسلۂ بیان کا مذکورۂ بالا حصّہ رسمی اور ظاہری جشنِ نوروز سے تعلق رکھتا ہے۔ اب ہمیں چشمِ بصیرت سے یہ دیکھنا ہے کہ جشنِ نوروز کی اس مثال کی حقیقت کیا ہے؟ اور حقیقی مومنوں کے لئے روحانی قسم کا جشنِ نوروز کونسا ہے؟ اور یہ سوال اس لئے پیدا ہوسکتا ہے کہ ہر وہ جشن خواہ دینی قسم کا ہو یا دینوی نوعیت کا، جب یہ زیادہ سے زیادہ جسمانی خوشی کے اسباب فراہم کرتا ہے تو وہ حقیقی اور روحانی جشن ثابت ہو نہیں سکتا، بنا برین ہر ظاہری عید کے مقابلے میں ایک خالص روحانی عید کا ہونا بھی لازم آتا ہے کیونکہ ایک مشہور حدیث میں آیا ہے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی بنیاد اپنی خلق (ظاہری دنیا) کی طرح رکھی، تاکہ اس کی مخلوق سے اس کے دین کی دلیل لی جاسکے اور

۷۸

اس کے دین سے اس کی وحدانیت پر دلیل لی جاسکے۔

اب دینی بہار اور حقیقی جشنِ نوروز کا ذکر یہ ہے کہ جس طرح سورج کائنات کے وسط میں واقع ہے اور وہ اپنی جگہ سے نہیں ٹلتا، اسی طرح امامِ زمان کا ازلی نور ہمیشہ ایک ہی حال پر قائم ہے اور وہ کسی طرح بھی بدلتا نہیں، جس طرح کرّۂ ارض کے مختلف حصے اس کی روزانہ اور سالانہ گردش میں روشنی اور تاریکی سے گزرتے ہیں اور سورج سے نزدیک و دور ہوتے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے زمین کے ان مختلف حصوں پر دن، رات، بہار، تابستان، خزان اور زمستان کے موسم گزرتے رہتے ہیں، اور جس طرح کرّۂ زمین کے قطب شمالی، قطب جنوبی اور دوسرے بہت سے بیابانوں میں فی الحال کوئی آبادی اور موسمِ بہار یا جشنِ نوروز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا، اسی طرح بعض نفوسِ انسانی پر نورِ امامت طلوع ہونے کے لئے ابھی کافی وقت باقی ہے اور جس طرح کرّۂ زمین کے بعض علاقے خطِ استوا یا اس کے قریب ہونے کی وجہ سے اس کی نباتات نہیں مرتیں اسی طرح بعض مومنین ایسے ہیں جن کے دل میں ہمیشہ امامِ زمان کی عقیدت و محبّت کی گرمی قائم رہتی ہے اور ان میں روحانی مسرت کے پھول کھلتے رہتے ہیں۔ آفتابِ امامت کی فیض بخشی کی یہ مثال خواص و عوام کی اپنی ہی جسمانی و روحانی حیثیت سے ہے۔

۷۹

اب اس سلسلے میں امامِ زمان کی جسمانی اہمیت و افادیت کی مثال سنئے! کہ سورج اور کرّۂ زمین کے ذریعے نورِ امامت اور نفوسِ انسان کی جو مثال دی گئی ہے وہ حقیقت ہے، لیکن سورج میں اختیار نہیں اور امامِ زمان مختار کل ہے، اس لئے ہم اس مثال کی مزید توضیح اسی طرح کرتے ہیں کہ فرض کیجئے روئے زمین پر ایک بہت ہی عجیب اور عظیم آئینہ نصب کیا گیا ہے، اب یہ عجیب آئینہ آفتابِ عالمتاب کا پُر نُور عکس لئے ہوئے جس طرف کو رُخ کرلیتا ہے وہیں پر جشنِ نوروز کی خوشی اور موسمِ بہار کی خرّمی و شادمانی ہونے لگتی ہے، یہی مثال امامِ زمان کی ہے کیونکہ وہ جسمانیت کے اعتبار سے فیوضات و برکاتِ خداوندی کا مظہر اور نورِ ازل کا آئینہ ہے۔اندرین حال عوالمِ اسماعیلیّت کا روحانی موسم ہمیشہ معتدل اور انتہائی خوشگوار رہتا ہے، اور ان عوالم میں ہمیشہ کے لئے بہار ہی بہار ہے، پس حقیقی جشنِ نوروز مومنوں کی انفرادی روحانیت میں پایا جاتا ہے، یعنی ہر مومنِ مخلص کی ابتدائی روحانی ترقی ہی اس کا جشنِ نوروز ہے، اور وہ اسی طرح کہ جب مومن بحقیقت نورِ امامت کا مطیع و فرما نبردار بن جاتا ہے، تو اس کی شخصی دنیائے دل روحانی روئیدگی اور آبادی سے باغِ بہشت کی مثال ہونے لگتی ہے۔

۸۰

آسمان سے باہر کیا ہے؟

اگر کوئی پوچھے کہ جسمِ کلّی یا فلکِ محیط (سب سے بیرونی آسمان) کی بیرونی سطحی شکل کیسی ہے؟ تو جواب دو کہ گول ہے، پھر اگر پوچھے کہ اس کی کیا دلیل ہے؟ تو جواب دو کہ کہ سُورج، چاند، ہماری زمین (جو ایک سیارہ ہے)، سیارات اور ثوابت وغیرہ، سب کی شکل گول ہے اور ان کی گول شکل ہی اس کی دلیل ہے، کیونکہ فلکِ محیط کی گول شکل کے زیرِ اثر ان سب کی شکل گول بنی ہے۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ ساری شکلوں میں سے صرف گول شکل ہی میں بدرجۂ اتم اعتدال پایا جاتا ہے، اگر فلکِ محیط کی بناوٹ اور شکل میں اعتدال نہ ہوتا تو کائنات کی بنیاد میں ظلم (بے اعتدالی) پایا جاتا اور اس بے اعتدالی کی وجہ سے یہ جہان ٹھہر نہ سکتا اور معدوم ہوجاتا۔

پھر اگر کوئی پوچھے کہ اس فلکِ اعظم (فلکِ محیط) سے باہر کیا ہے؟ تو جواب دو کہ فلکِ اعظم یا فلکِ محیط کے بعد اور کوئی جسم نہیں یعنی نہ فضا ہے اور نہ خلا، بلکہ خلائے موہوم (وہمی خلا)

۸۱

ہے اور حقیقت میں وہ حدِّ لامکان ہے یعنی وہ کوئی جسمانی جگہ نہیں کیونکہ وہ دائرۂ روح کی حد ہے، یعنی روحِ کلّی کا حصار جس پر کل کائنات کا قیام ہے۔

اگر پھر پوچھا جائے، کہ دائرۂ روحِ کلی سے بالا ترکیا شی ہے؟ تو جواب دو، کہ دائرۂ روحِ کلی پر دائرۂ عقلِ کلی محیط (گھیرا ہوا) ہے، کیونکہ جزوی مثال میں انسانی نفس پر اس کی عقل محیط ہے، اگر پھر سوال کرے، کہ عقلِ کلی سے برتر کیا شی ہے؟ تو اس کا سوال آکر یہاں پر ختم ہوجاتا ہے اس لئے کہ عقلِ کل سے برتر کوئی شی ہونہیں سکتی، نہ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ عقلِ کل سے برتر خدا ہے، اس لئے کہ اگر ہم یہ تصور کریں کہ عقلِ کلی کے بعد یا اس سے ایک درجہ اوپر خدا کا مقام آتا ہے، تو ہمارے ایسے تصوّرات کے یہ معنی ہوں گے، کہ خدا کا ایک محدود مقام ہے، اور وہ ہمارے علم میں ہے، کہ ہم نے اس کی حد سمجھ لی وغیرہ، ایسے تصوّرات درست نہیں۔

ترکیبِ عالم کی حقیقت یہی ہے کہ جسمِ کُلی کی بیرونی سطح پر ہر طرف سے نورِ نفسِ کلّی چھایا ہوا ہے، گویا جملہ کائنات اور اسکے عظیم ترین خولی شکل کا آسمان یا فلکِ محیط نفسِ کلّی کے بحرِ نور میں مستغرق

۸۲

ہے، پھر نفسِ کُل کے اس بحرِ نور پر عقلِ کل کا نوری سمندر چھایا ہوا ہے، چنانچہ اس آیتِ کریمہ سے واضح ہے کہ:

رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا  (۴۰: ۷)

یعنی اے ہمارے پروردگار تو نے ہر چیز (کائنات) کو رحمت اور علم میں سمو رکھا ہے، یہاں پر رحمت سے مراد نفسِ کلی اور علم سے مراد عقلِ کلی ہے، کہ رحمت صفتِ نفس اور علم صفتِ عقل ہے، پس جس رحمت اور علم میں کائنات سموئی ہوئی ہے، وہ نفسِ کلی اور عقلِ کلی ہی ہیں، پس معلوم ہوا کہ عقلِ کل (علم) مدارج و مراتبِ کائنات کا وہ برترین مقام ہے، جس سے کوئی شی نہ برتر ہے نہ باہر، پھر ہر دانشمند کے لئے یہ ایک ضروری امر ہے، کہ جہاں تک ہوسکے ہر قیمت پر علم حاصل کرے، خصوصاً علمِ دین تاکہ خداوند متعال ہر ذی علم کو وہ بلند ترین مرتبہ عطا کرے جو اُس نے عقلِ کل کو عطا فرمایا ہے۔

والسّلام

۸۳

روحانی مجلس

انسان کی فطرت میں اثر پذیری اور اثر اندازی کی دونوں خصوصیات موجود ہیں جن کی وساطت سے بداخلاقی اور خوش اخلاقی کی جملہ صفات ایک انسان سے دوسرے انسان میں داخل ہوسکتی ہیں اور اس قسم کے جسمانی اثرات کی آمدورفت کا پُل محض حواسِ خمسہ ہی کا بنا ہوا ہوتا ہے یعنی مؤثّر کے قولی یا فعلی اثرات کو متاثر اپنی باصرہ، سامعہ، شامہ، ذائقہ اور لامسہ کو قوتوں کے ذریعے قبول کر سکتا ہے، پس ہر دانش شعار دیندار کے لئے یہ ایک نہایت ہی ضروری امر ہے کہ وہ اپنے مقدس دینی عقائد کو کسی بھی غیر کی بے حقیقت لفاظی اور تحریر و تقریر کی ملمع کاری سے بچائے رکھے۔ ایسی اعلیٰ قسم کی روحانی مجالس جن میں عبادت، ذکرِ خاص، منقبت خوانی،علم اور معرفت کی روح افزا مسرتوں سے لطف اندوز ہونے کے بہترین ذرائع مہیا ہوں تو نہ صرف ہمارے نو خیز اور نوجوان طبقہ کے مقدّس عقائد کو بیرونی اثرات کی ٹھیس لگنے سے محفوظ رکھنے

۸۴

کی ضمانت لیتی ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں صراط المستقیم پر چلاتے ہوئے منازلِ یقین سے گزار دینے کی پوری امکانیت بھی رکھتی ہیں اور ہر عارف کو مقامِ وحدت یعنی ھوالکُلّ (ہمہ اوست) کی آخری منزل راحت گاہ تک پہنچا سکتی ہیں۔

روحانی مجلس ہی وہ واحد ذریعہ ہے، جس کی بدولت ہر حقیقی اسماعیلی اعتقادی خوبیوں کو اپنانے کے بعد امامِ حیّ و حاضر کی حقیقی محبت کے نورانی نتائج سے محظوظ اور مسرور ہوسکتا ہے اور وہ اپنے اعلیٰ و اقدس دین کے روحانی جوہر کا پتہ لگا سکتا ہے جو عجائباتِ نورانی اور معجزاتِ روحانی سے بھرپور ہے، جن کے مشاہدات سے تجرباتی علم اور یقینِ کامل حاصل ہوکر اس حقیقی اسماعیلی کا دل پکار اٹھتا ہے کہ میرا عقیدہ اور میرا مذہب سچا ہے۔ روحانی مجلس میں مخلص عقیدت مندوں کی ہم خیالی، یک جہتی، کثرتِ ذکر اور سب سے بڑھ کر غیبی مدد کی برکات سے حقیقی مومنوں کے روحانی عروج و ارتقا کی جو رفتار ہوتی ہے وہ ایک ایسی سریع العمل مشین کے کام سے مشابہت رکھتی ہے جو اپنی رفتار کی سرعت اور اپنے پرزہ جات و آلات کی کثرت کے ذریعے کم عرصے میں بہت سا کام کرسکتی ہو۔ مزید بر آن یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اگر یہ

۸۵

حقیقت مسلّمہ ہوکہ ہر دنیاوی مشکل کام جو کسی اکیلے فرد سے ہو نہیں سکتا وہ کسی جمعیت سے بآسانی انجام پاسکتا ہے، تو یہ بھی ایک حقیقی امر ہے کہ مومنوں کی اجتماعی دعا، عبادت، ذکر اور دوسرے تمام جماعتی روحانی امور ہر مومن کی انفرادی اور جداگانہ سعی روحانیت کے مقابلے میں بہت ہی آسان اور دور رَس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔

عبادت خانہ اورروحانی مجلس سے وہ حقیقی مومن خاطر خواہ اور پورا فائدہ حاصل کرسکتا ہے، جس کا دل نورِ ایمان سے روشن ہوا ہو، جس کو عبادت سے خوشی اور لذت ملتی ہو، جو امامِ زمان کی فرمانبرداری میں اپنی بہتری دیکھے، جس کے خیال اور دل میں مولا کی یاد ہمیشہ لگی رہے جو اپنے روحانی بھائیوں اور بہنوں کا خیر خواہ ہوسکے، جس کو دینی علم کی باتیں سننے کا شوق ہو اور جو پرہیز گار اور نور کا عاشق ہو۔

انسان میں اثر پذیری اور اثر اندازی کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہے کہ وہ خدا کی مدد سے اور علم و عبادت کے ذرائع سے اپنے آپ پر معقول اور پسندیدہ اثرات ڈالنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ بنابرین ہر ذاکر نہ صرف دوسرے ذاکروں کے اخلاقی و روحانی

۸۶

اثرات سے مستفید ہوسکتا ہے، بلکہ اس کے علاوہ عاجزانہ عبادت، دعا اور ذکر کی بدولت اس کو اپنے آپ پر روحانی اثرات ڈالنے کا بہترین موقع بھی میسر آتا ہے۔

انسانی روح اپنی ازلی حالت میں خدا کے نور سے بنی ہوئی تھی اور اس میں غیب بینی، غیب دانی اور ہمہ توانی کی جملہ صفات موجود تھیں، لیکن جب سے اس نے جامۂ خاکی اختیار کیا تو دنیوی اور جسمانی آلایشوں سے یہ زنگ آلود ہوئی اور اس کے آئینۂ غیب نما پر تاریکیٔ نفسانیت چھا گئی، پھر اس میں وہ خصوصیات باقی نہ رہیں، جن کی بدولت یہ لوحِ محفوظ کی مانند تھی، پھر ستم پر ستم ہے کہ اگر اس گنجِ گرانمایہ سے غفلت برتی جارہی ہو جو دونوں جہان کے علم و عمل کی لذّتوں کا خلاصہ ہے، ایسی روح کی پاکیزگی اور صفائی کے بارے میں اور اس سے غافل رہنے کے نتیجے کے متعلق خدائے پاک فرماتا ہے کہ:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰهَا  -وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰـهَا (۹۱: ۹ تا ۱۰) یعنی بے شک رستگار ہوا، وہ شخص جس نے اُسے پاک کیا اور نامراد ہوا وہ شخص جس نے اُسے دفنایا، پس روح کی پاکیزگی کا بہترین طریقہ روحانی مجلس ہے جس میں ہر ایک حقیقی مؤمن

۸۷

اپنے آئینۂ روح کو پاک و صاف کرکے اُسے از سرِ نو غیب نما حالت پر لاسکتا ہے، جس طرح یہ ازل میں تھا، اس کے برعکس وہ انمول آئینہ جہالت کی ظلمتوں اور بدعملی کی گرد و غبار میں دفنایا ہوا پڑا ہے اور یہ صورت ابدی نامرادی کا پیش خیمہ ہے، پھر حقیقی مومن کا اوّلین فرض ہے کہ خدا کی اس مقدّس امانت کو جو اس کے عالم گیر نور سے بنی ہوئی ہے اسی طرح دبی اور دفنی ہوئی حالت میں نہ رکھے، بلکہ اُسے چاہئے کہ اپنی دنیاوی زندگی کے روزانہ اوقات کا بیشتر حصّہ خدا کی اس مبارک امانت کی پرورش و نگہداشت اور اسکی پاکیزگی میں صرف کرے۔

والسّلام

۸۸

تاویل سُورۂ کوثر

اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ -فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ -اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ (۱۰۸: ۱ تا ۳)

یعنی اے محمّدؐ ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا ہے، پس تو نماز پڑھ اور اونٹ کو نحر کر، یقیناً تیرا دشمن خود ہی دم بریدہ ہے۔

الکوثر: الکوثر کے معنی ہیں خیرِ کثیر، بہشت کا ایک چشمہ، وہ مرد جس کی بہت سی اولاد داحفاد ہوں، یعنی کثیر الذّریّت، اور وہ سردار جو بہت کچھ خیر و عطا کرتا ہو، لیکن یہاں لفظ ’’الکوثر‘‘ سے مراد مرد کثیر الذریت ہے، کیونکہ کلام کے موضوع سے صاف ظاہر ہے کہ یہاںبااولاد اور بے اولاد کا ذکر مقصود ہے۔

الصّلوٰۃ: الصّلوٰۃ کے معنی ہیں نماز، دُعا، ثناء، تسبیح، رحمت، درود، ملنا، پیروی اور خدا کی طرف عقل کی بلندی، مگر یہاں پر ’’صل‘‘ سے مراد دینِ حق کی دعوت ہے، یعنی سچّے دین کی طرف بلانا۔ چنانچہ ناصر خسرو کتاب وجہِ دین میں فرماتے ہیں کہ ’’تاویلِ نماز دعوت

۸۹

است‘‘  یعنی نماز کی تاویل دعوت ہے (ص ۱۳۰ مطبوعۂ برلین)۔

اونٹ: اونٹ کئی وجوہ سے درجۂ ناطق کی مثال ہے، جن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ جس طرح جملہ حیوانات میں سے صرف اونٹ ہی ایک ایسا کار آمد جانور ہے، جو تعجّب خیز صبر و تحمّل اور سخت جانی سے ایک بہت بھاری بوجھ اٹھاتے ہوئے دور و دراز سفر طے کرتا ہے، اسی طرح سارے انسانوں میں سے تنہا ناطق ہی وہ انسانِ کامل ہے جو اپنی اولوالعزمی اور صبر و استقلال کے ساتھ حکمِ خداوندی کے بارِ گران کو دنیا سے آخرت تک پہنچاتا ہے۔

نحر کرنا: نحر کرنے کے معنی ہیں اونٹ کو ذبح کرنے سے پہلے اس کے سینہ اور دِل کو چاک کرنا تاکہ اس کے دل سے خون نکل جائے جس کی تاویل سے درجۂ ناطقیت کی تمامی کے بعد ناطق کی طرف سے اساس کا تقرر کرنا۔

جس وقت آنحضرتؐ کے دشمنوں میں سے ایک نے اپنی جہالت، عداوت اور کفر کی بنا پر یہ طعنہ دیا کہ ’’محمدؐ دم بریدہ ہے یعنی اس کا کوئی نرینہ فرزند نہیں اور نبوت کے اس دعویدار شخص کا کوئی وصی یا جانشین نہیں ہوگا‘‘ تو اسی وقت خدائے تبارک و تعالےٰ نے سورۂ مذکورہ کے نزول سے اس کافرانہ طعنے کی تردید فرماتے ہوئے

۹۰

آنحضرت کو اس طرح مطمئن کردیا کہ ’’ اے محمد ہم نے تجھ کو ایک ایسا کثیر الذریت مرد عطا کیا ہے جو ہر نسبت سے تیرا ہی ہے اور وہ علیٔ المرتضیٰؑ ہے، یہی تیرا وصی اور جانشین ہوگا جس کے غیر منقطع سلسلۂ ذریّت سے ہونے والے أئمّہ تیری اولاد کہلائیں گے اور وہ یومِ قیامت تک تیرے پیارے دین کو ظاہر اً و باطناً علم و حکمت کے چراغوں سے فروغ دیتے رہیں گے، پس تو دشمنوں کی باتوں کی کوئی پرواہ نہ کر اور دینِ حق کی دعوت جاری رکھتے ہوئے درجۂ اساسیت پر علی کا تقرر کر، اور یقین کر تو نہیں بلکہ تیرا دشمن خود ہی دم بریدہ ہے یعنی اس کی کوئی اولاد باقی نہ رہے گی۔

والسّلام

۹۱

طریقِ استعانت

انسان اپنی فطرت اور خودی کی طرف سے ایک ضعیف مخلوق ہے، اور اس کے عاجز و ناتوان پیدا کئے جانے میں کسی کو کوئی شک ہی نہیں، جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ: وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا(۴: ۲۸) (اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے) جس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ انسان خدا کی مدد طلب کرنے کے انداز پر پیدا کیا گیا ہے تاکہ وہ ان تمام نیک اقوال و اعمال کے ذریعہ ہمیشہ کے لئے خدا کی یاد کے ساتھ وابستہ ہوسکے، جن کے بغیر خدا کی مدد حاصل کی نہیں جاسکتی ہے، پس انسان کی فطری ناتوانی خود اس امر کی دلیل ثابت ہوئی، کہ وہ ہمیشہ کے لئے خدا کی مدد کا محتاج ہے، پھر ہر مومن کے لئے یہ ایک لازمی امر ہے، کہ وہ لمحہ لمحہ خدا سے مدد طلب کرتے رہے اور اپنی اس احتیاج کے عاجزانہ احساس کو کسی وقت بھی ختم نہ ہونے دے۔

اس مقام پر اگر کوئی یہ سوال کرے، کہ دُنیا میں بہت سے

۹۲

لوگ ایسے ہیں، جو نہ تو خدا کی عبادت کرتے ہیں اور نہ خدا سے کوئی مدد چاہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی وہ نسبتاً کامیاب ہوتے جاتے ہیں، اس کا جواب یہ ہے، کہ ان کی یہ کامیابی جسمانی قسم کی ہے، اور اس کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں: ایک وہ نام نہاد کامیابی ہے، جس کے فائدے ان لوگوں کی اپنی ذات یا ان کے چاہنے والوں تک محدود ہوتے ہیں تو یہ ان کی نام نہاد کامیابی دراصل خدا کی طرف سے دی ہوئی ایک اچھی مہلت ہے (وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا ،۷۳: ۱۰) دوسری وہ کامیابی ہے جس کے فائدے خلقِ خدا کو پہنچتے ہیں، تو یہ دنیاوی بہتری ہے، اور اس میں ایک حد تک خدا کی خوشنودی ہے، پس یہ دنیا بھر کے دینداروں کی اس دُعا کا ایک پھل ہے، جس میں وہ دنیا و آخرت کی بہتری طلب کرتے رہتے ہیں، نیز وہ لوگ جو ہمہ رَس مفید کاموں میں کامیاب ہوئے ہیں، دل و زبان اور سوچ سمجھ سے نہیں بلکہ عملی اور لاعلمی طور پر خدا سے ایک قسم کی دنیاوی مدد طلب کرتے ہیں۔

اب استعانت کی اہمیت کے بارے میں یہ ہے، کہ قرآن حکیم میں جہاں کہیں بھی خدا کی مدد کا ذکر آیا ہے۔ وہاں پر ہی اس مطلب کی ایک تفصیل بھی پائی جاتی ہے، اور ان تفصیلات کی تحقیق کے

۹۳

آخری نتیجے میں ہمیں یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے، کہ جس طرح انسان کی تخلیق کے تذکرے میں اس کی فطری کمزوری سب سے پہلی چیز ہے، اور جس طرح اس کی احتیاجات میں سے خدا کی مدد سب سے زیادہ ضروری اور سب سے مقدم ہے، بالکل اسی طرح قرآنی تعلیمات میں طلبِ تائید کی تعلیم اور اس کا اصول سب سے پہلے آیا ہے، پھر اس سے ہر دانشمند یہ یقین کرسکتا ہے، کہ طلبِ تائید ہر مومن کے لئے ایک ضروری امر ہے، اس لئے کہ اس کا ذکر قرآنِ پاک کی ایک ایسی سورت میں آیا ہے۔جو نہ صرف امّ الکتاب اور سبع المثانی کی حیثیت سے ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک ایسی پسندیدہ سورت ہے، جو دُعا و عبادت کے طور پر کثرت سے پڑھی جاتی ہے۔

اب طریقِ استعانت کے بارےمیں یہ ہے، کہ سورۃ الفاتحہ کی جس آیت میں خدا سے مدد طلب کرنے کا ذکر آیا ہے، وہ اس سورہ کی چوتھی آیت ہے اگر ہم اصولاًشروع کی تین آیات کے اعداد و شمار نکالیں، تو وہ یہی ہوں گے: آیات =۳، الفاظ=۹، مقطع=۱۹، اور حروف=۴۰، آیات اور الفاظ کے اعداد کے بارے میں آپ میں سے کسی کو شک نہیں ہوگا، اس لئے ہم یہاں صرف مقطعوں اور حروف کے اعداد کو واضح کردیتے ہیں:

۹۴

اب ۳، ۹، ۱۹ اور ۴۰ کی علی الترتیب تاویل یہ ہے کہ استعانت کے ذکر سے پہلے آیات کے شمار میں تین (۳) کا ہونا اس حکمت کا اشارہ ہے، کہ مومن سب سے پہلے اس ذریعۂ استعانت کی طرف متوجہ ہوجائے، جس کا عدوی نشان تین ہے، تو ہر دانشمند جانتا ہے، کہ وہ مومن کی قوتِ اطاعت ہے، جو تین حصّوں میں منقسم ہے، یعنی نیت، قول اور عمل، کیونکہ مومن اپنے دین و ایمان کی تکمیل انہی تین قوتوں کے ذریعہ کرسکتا ہے، پس ظاہر ہوا کہ استعانت کی پہلی شرط مومن کی نیت، قول اور عمل کی درستی ہے جو ابتدائی اطاعت کے عنوان کے تحت آتی ہے، پھر ان تین آیات میں نو (۹) الفاظ آنے کا اشارہ یہ بتاتا ہے، کہ مومن کی نیت، قول اور عمل کی اصلاح بحقیقت اس وقت ہوسکتی ہے جب کہ وہ ایک ایسا ذریعہ کو پہچانے جس کا عددی نشان نو ہے، تو وہ اساس یعنی مرتضیٰ علیؑ ہے، جو خدا و رسول کے علوم و معارف کا باب ہے، پس استعانت کی دوسری شرط اساس کی پہچان ہے، پھر ان نو الفاظ کے انیس (۱۹) مقطع یہ ظاہر کرتے ہیں، کہ مومن اساس کے علوم و معارف سے بحقیقت اس

۹۵

وقت مستفیض ہوسکتا ہے، جب کہ وہ ایک ایسا وسیلہ کو پہچانے جس کا عددی نشان انیس ہے تو وہ دَورِ کہین (ذیلی دَور) کے سات امام اور ان کے بارہ حجّت ہیں، اور امامِ زمان ان کا مظہر ہے، پس استعانت کی تیسری شرط امامِ زمان کی پہچان اور اس کی فرمانبرداری ہے، بعد ازان انیس مقطع کے چالیس (۴۰) حروف کا ایما یہ بتاتا ہے کہ امامِ زمان کی معرفت اور فرمانبرداری کا حق مومن سے اس وقت ادا ہوسکتا ہے جب کہ وہ ایک ایسا ذریعہ کو پہچانے جس کا عددی نشان چالیس ہے، وہ ناطق یعنی حضرت محمّد ہے، جو صرف امامِ زمان کے ذریعہ سے پہچانا جاتا ہے، پس معلوم ہوا کہ استعانت کی چوتھی شرط ناطق کی پہچان ہے، جو علم و حکمت کا شہر ہے۔

اب مذکورہ بالا شرائط کی تکمیل کے بعد تائیدِ ایزدی کا دروازہ مومنین کے لئے کھلتا رہے گا۔ اور وہ اپنی دعا میں جب یہ کلمہ پڑھیں کہ: ’’اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ‘‘ تو ان کے یوں کہنے میں علم و عمل (نیّت، قول اور عمل کی درستی) کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ سچائی ہوگی، کیونکہ مومنین اس کلمہ میں اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہیں، اور وہ علیم و حکیم سے یوں گذارش کررہے ہیں، کہ: (اے ربُّ العزّت) ہم (کسی اور کی نہیں صرف) آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں، اور (کسی

۹۶

دوسرے سے نہیں صرف) آپ ہی سے درخواستِ اعانت کرتے ہیں۔پس یہ کلمہ خدا کے بارے میں کئے ہوئے وہم وگمان اور مقلّدانہ عبادت کے تعلق سے بالا تر رہ کر حقیقی مومنوں کے علم و عمل یعنی معرفت کی ترجمانی کرتا ہے، اور اس استحقاق کی بناء پر ان کی طرف سے ربّ العزّت کے حضور میں درخواستِ اعانت کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیز یہ کلمہ اپنے ربط و ترتیب کے ذریعہ یہ حقیقت ظاہر کرتا ہے، کہ اعلیٰ قسم کی روحانی تائید عبادت و معرفت کا لازمی پھل ہے اور عبادت و معرفت علم و عمل کا مجموعی نام ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کا ذکر عبادت کے ذکر کے بعد آیا ہے اور عبادت کے ذکر سے پہلے علم، معرفت اور عمل کا ذکر آیا ہے، چنانچہ ارشادِ خداوندی کا ترجمہ یہ ہے کہ: (ہم نے ترجمانِ اسلام کے ذریعہ یہ سمجھا کہ) خاص ستائش اللہ کو ہے، جو (آفاق و انفس کے بے شمار) عالموں کا پروردگار ہے، جو بڑا مہربان ہے (دُنیا میں سب کے لئے) نہایت رحم والا ہے ( آخرت میں مومنوں کے لئے) جو مالک ہے روزِ جزا کا، پس یہی ہے طریقِ استعانت جس کی بقدرِ ضرورت تفصیل ہوئی، بفضلہٖ و منّہٖ۔

۹۷

سیّاروں میں انسان کی سَیاحت

انسانی زندگی کا قیام و دوام اُس سلسلۂ حرکات پر ہے جو ہمیشہ غیر منقطع حالت میں انسان کے مدرکات و حواس میں جاری و ساری ہے اور اس سلسلہ کے کلّی طور پر انقطاع ہونے کا نتیجہ اس کی جسمانی موت ہے۔ فی المثل اگر ہم بطورِ تجربہ اپنے قول و عمل کے سِلسلۂ حرکات چند لمحات کے لئے منقطع کرکے خاموشی اختیار کر بیٹھیں، تو ہمارا یہ سکوت و سکون قطعی اور حقیقی ہو نہیں سکتا کیونکہ ہمارے جوف میں حرکتِ تنفس تو دھونکتی جارہی ہے، پھر اگر ہم چند سیکنڈ کے لئے اپنی حرکتِ تنفس کو روکنے پر قادر بھی ہوجائیں، تو ہماری قلبی حرکت خود ہمارے قابو کی شیٔ نہیں، جسے ہم کسی اعلیٰ ترین تجربے کے بغیر روک ہی نہیں سکتے، اس کے علاوہ ہم اپنے دل و دماغ کے سلسلۂ فکر و خیال اور غیر منظم ذہنی قیل و قال کو بھی آخری حد تک منقطع نہیں کرسکتے ہیں، بجز آنکہ تزکیۂ نفس کے ذریعہ اس ذہنی قیل و قال یا حدیثِ نفسی کو نورانی ہدایت اور الہامی روح کے تصرف

۹۸

میں سونپ دیں۔ نیز اگر ہم اس تجربۂ سکوت کی غرض سے اپنے آپ کو نیند کے حوالے کردیں، تو پھر بھی ہم اپنے بعض مخصوص مدرکات کو خاموش اور ساکن نہیں پاسکیں گے، بالخاصہ ہماری قوتِ واہمہ تو عالمِ خواب میں بیداری سے کہیں زیادہ اپنے طور کا سِلسلۂ قول و عمل جاری رکھے گی۔

اب ہمارے اس تجربے سے یہ ثبوت ہوا، کہ ہم اپنے مدرکات و حواس کے سلسلۂ عمل (حرکت) کو کُلیتہً منقطع نہیں کرسکتے ہیں، کیونکہ ہماری زندگی کا چراغ ہماری ذہنی و خارجی مسلسل حرکات کے ذریعہ روشن ہے، جس طرح کوئی مادّی قسم کا چراغ اپنی غیر منقطع بتّی اور اس پر تیل کی مسلسل دوڑ کے ذریعہ روشن ہوجاتا ہے، اور اگر اس چراغ کی بتّی منقطع ہوجائے، یا اس کے شعلے تک تیل کی ایک ضروری مقدار مسلسل بہتی یا ابھرتی نہ رہی، تو یہ چراغ فوراً ہی خاموش ہو جاتا ہے اسی طرح ہماری زندگی کا چراغ تسلسل عمل کی بتی اور تواتر قول کے تیل سے روشن ہے، خواہ یہ سلسلہ ہمارے مدرکاتِ باطنی کا ہو یا حواسِ ظاہری کا، اگر یہ سلسلہ ایک سیکنڈ کے لئے بھی منقطع ہوجائے تو فوراً ہی ہماری شمعِ حیات بجھ جائے گی۔ اس صورتحال کا مطلب یہ ہوا، کہ انسانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کو لحظہ بہ لحظہ

۹۹

بہتر سے بہتر بنانے کے لئے دین و دنیا میں مفید معلومات اور پسندیدہ اعمال کے ایک لا انتہا سلسلے کا جاری ہونا از بس ضروری اور ایک ناگزیر فطری تقاضا ہے۔

پس یہی وجہ ہے، کہ خدائے حکیم نے کتبِ سماوی اور انبیاء و اولیاء کے ذریعہ اسرارِ کائنات کو دفعۃً ظاہر کرکے نہیں رکھا، بلکہ انسان اس امر کے لئے مکلّف ہوا، کہ وہ ان مقدس ذرائع سے بمقتضائے زمانہ اسرارِ کائنات کو بتدریج معلوم کرتا جائے، تاکہ انسانی فکر و عمل کے اس تسلسل سے چراغِ حیاتِ بشری اپنے علم و ہنر کے عروج و ارتقاء میں کچھ اس طرح روشن ہوسکے، کہ نہ تو وہ بجھنے پائے اور نہ ویسے کا ویسا رہے، اور نہ یکایک اتنا روشن ہو، کہ چشمِ گیتی اس کے نورانی تموّج سے خیرہ ہوجائے، بلکہ اس کی روشنی میں بتدریج اضافہ ہوتا جائے، بس حیاتِ انسانی کا یہی بہترین طریقہ ہے جو قانونِ قدرت کے منشاء کے عین مطابق ہے۔

پس اگر اس حقیقت کو مان لیا جائے کہ دورِ حاضر کے موجودہ مادّی ارتقاء کا یہ لاانتہا سلسلہ قانونِ قدرت کے منشاء کے عین مطابق ہے تو درین صورت ہم کس دلیل کی بناء پر یہ کہہ سکتے ہیں، کہ روحانی عروج ناممکن ہے، جب کہ یہ امر یقینی ہے، کہ روحانیت

۱۰۰

کی بہت سی مثالیں سائنسی ایجاد و انکشاف کی صورت میں ظہور پذیر ہوچکی ہیں، جن کے ذریعہ عالم گیر روحانی طاقت کے قول و عمل کا سمجھنا نسبۃً زیادہ آسان ہونے لگا ہے، مثلاً: اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ ہم کس طرح اس حقیقت کو ذہن نشین کرسکیں، کہ ہماری موجودہ زندگی کا مکمّل کارنامہ روحانیت میں مکتوب و محفوظ ہوتا جارہا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے، کہ زندہ تصویر کشی کے طریقے پر مکتوب ہوتا جارہا ہے، آپ نے دیکھا کہ اس فقرہ کے ذریعہ تفہیمِ روحانیت کے لئے آپ کے خیال کو کس چیز کی طرف متوجہ کیا جارہا ہے، وہ وہی چیزیں ہیں جن کا نام ٹیلیویژن وغیرہ ہے، جو یہ سب سائنس کی بدولت پیدا ہوئی ہیں، پھر آپ اس کلیدی اصول کے ذریعہ اپنی ذات کے ایسے بہت سے عقدے کھول سکتے ہیں، چنانچہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں، کہ درست اور بجا ہے، کہ وہ باعزت فرشتے جن کانام ’’کِرَامٌ کَاتِبِیْن‘‘ ہے، جن کے بارے میں یہ بات سمجھ میں آئی تھی، کہ کاتب ہی کی طرح وہ بھی لکھتے رہتے ہیں اب معلوم ہوا، کہ ان کا کام ہماری تاریخِ زندگی کوروحانی طرز کا ٹیلیوائژ کرنا ہے، آگے چل کر آپ کہہ سکتے ہیں، کہ دانشمندی تو یہی ہے، کہ انسان کے تمام ظاہری و باطنی احوال روحانی قوتوں کے ذریعہ خود بخود ٹیلیوائژ ہوتے جاتے ہیں، اور ان قوتوں کا نام ’’کِرَامٌ کَاتِبِیْن‘‘

۱۰۱

ہے، اور اس نام میں خود یہی مطلب پوشیدہ ہے، یعنی (کاسبانہ محنت کے طور پر نہیں بلکہ) حاکمانہ عزت و دانش کے طور پر لکھنے والے۔

اب ہم قرآنِ حکیم کی حکمت اور اسلامی روح کے سہارے ایک ایسی حقیقت کا انکشاف کرنا چاہتے ہیں، جس سے یقیناً یہ ثابت ہوگا کہ مذہب میں سائنس اور سائنس میں مذہب پوشیدہ ہے، وہ یہ ہے کہ قانونِ قدرت نے اپنی بے پناہ فیاضی سے ذاتِ انسانی کے لئے لامحدود قوتیں اور بے پناہ نعمتیں وقف کر رکھی ہیں، اور ان قوتوں کو اپنا کر ان نعمتوں سےبہرہ ور ہونے کے لئے انسان کو من حیث المجموع ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، نیز اس سلسلے میں اسے یہ بھی سوچنا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ کہ انسان اشرف المخلوقات اور عجیب و غریب آلات (ریڈیو، ٹیلیویژن، راکٹ وغیرہ) کے موجد و صانع ہونے کے باوجود اس کی اپنی ذات وہ کام نہیں کرسکتی ہے، جو کچھ اس کا بنایا ہوا ایک آلہ کرسکتا ہے، پھر رفتہ رفتہ ایک دن اس کے خیال میں یہ بات پیدا ہوگی کہ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ انسان نے اپنی ذات کی طرف کبھی کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟

پس اس مقام پر یہ کہنا حقیقت پسندی ہوگی کہ انسان کا

۱۰۲

موجودہ جسم و دماغ ہر لحاظ سے ہنوز خام و ناتمام ہے اور اسے ایک نہ ایک دن ’’خَلْقُ الْآخرُ‘‘ کا کمال حاصل کرنا ہے۔ خلق الآخر جسمِ لطیف (جسمِ مثالی) کا نام ہے، جو گرمی، سردی، خشکی اور تری کے اثرات سے بالا تر ہے، اس لئے کہ وہ جسم جوہری (ایٹمی) ہے، جسدِ عنصری نہیں، جس کو اپنانے کے بعد ہی انسان ان تمام بیرونی مادّی آلات سے بے نیاز ہوسکتا ہے، جس کی تخلیق کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ کی تعریف آپ ہی کرتا ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’پس بہت برکت والا ہے اللہ تعالیٰ، جو تمام صناعوں سے بڑھ کر ہے۔‘‘ اس ارشاد سے یہ مطلب ظاہر ہے، کہ جسمِ لطیف ہی قدرتِ کاملہ کے تخلیقی اوصاف و کمالات کا مظہر ہے، اور دیگر صناعوں نے جو کچھ بھی اب تک ایجاد کیا ہے، یا جو کچھ بھی ان سے ایجاد ہونے والا ہے، وہ سب کے سب جسمِ لطیف کے مقابلے میں ہیچ ہے اس لئے کہ جسمِ لطیف روحانی عجائبات و غرائبات کا ایک لا انتہا خزانہ ہے۔

اس سلسلے میں ہم ان ابتدائی انسانوں کے اجسام کے متعلق کچھ حقائق بیان کرنا مناسب سمجھتے ہیں جو حضرت آدم و حضرت حوّا علیہما السلام و غیرہ کے نام سے سیّارۂ زمین پر اتر آئے تھے، وہ صرف

۱۰۳

تین یا پانچ نفر نہ تھے، بلکہ وہ ایک دنیا بھر کی مخلوق تھی، جب ان پر وہاں (بہشت) یعنی ایک انتہائی معمور سیارے میں ایک دَورِ عظیم گذر چکا، تو انہیں طوعاً و کرھاًسیّارۂ زمین پر منتقل ہونا پڑا، جیسا کہ اس کا ذکر قرآنِ پاک میں موجود ہے کہ ’’ہم نے کہا تم سب اس (سیّارۂ بہشت) سے نیچے اترو‘‘ اب اس ارشاد کا خلاصہ ’’تم سب اترو‘‘ کو لیتے ہیں، جس سے اوّل تو یہ مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس سیارے کی ساری خلقت زمین پر اتر آئی تھی، دوسرا یہ کہ کسی اور طاقت نے ان سب کو سیارۂ بہشت سے اٹھا کر سیارۂ زمین پر منتقل نہیں کیا، بلکہ وہ خود اپنے جسمِ لطیف کے جوہری پرواز سے اس زمین پر وارد ہوئے کیونکہ ارشادِ الٰہی اتر جانے کے لئے ہے اتار دینے کے لئے نہیں، نیز یہ کہ اگر ان میں جوہری لرزش کی پرواز کی صلاحیت موجود نہ ہوتی، تو خدائے حکیم یہ نہ فرماتا کہ ’’تم سب اترو‘‘ کیونکہ بموجبِ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا یعنی اللہ تعالیٰ ہر ذی حیات کو اس کی توانائی سے زیادہ عمل کی تکلیف نہیں دیتا ہے، اگر ایسے جسمِ لطیف کا ترجمہ دَورِ حاضر کی ایک سائنسی اصطلاح سے کرلیا جائے تو ’’ایٹمی جسم ‘‘ اس کا ترجمہ ہوسکتا ہے، پس حضرت آدم علیہ السّلام اور اس کے تمام ساتھی وغیرہ اپنےایٹمی اجسام میں سیّارۂ زمین پر نازل

۱۰۴

ہوئے تھے، لیکن اس زمین کی ہوا میں تحلیلی لطافت کی کمی، خوردونوش اور کام کاج وغیرہ کے نتیجے میں ان میں جسمِ طبیعی پیدا ہوا، اور ایٹمی جسم ان سے جدا رہنے لگا، حضرت آدم، حضرت حوّا اور چند دیگر خواص اس صدمۂ جانکاہ سے بہت دلگیر ہوئے اور وہ اس فکر میں تھے کہ ایک روز حضرت آدم علیہ السّلام کی لئے ہدایت آئی کہ ان کلمات کو عجز و نیاز کے اس طریقے پر پڑھ لیا کرو کچھ عرصے کے بعد اس عبادتِ خاص کی برکت سے جسمِ لطیف کی ملاقات ان کو میسر ہوتی رہی۔

اس واقعہ کے بعد نئی نسل کے ہر مرد و زن کے ایٹمی جسم کی تکمیل اس کے سنین معصومیت کے اختتام تک ہوتی رہی، پھر عنفوانِ شباب کےپہلے خواب کے نتیجے پر اس سے علیحدہ رہنا قرار پایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے بار بار واپس بلالانے کے لئے تزکیۂ نفس وغیرہ کے خاص و عام طریقے بھی مقرر ہوئے جن کے ذریعہ صفِ اوّل کے انسانوں نے نہ صرف یہی کچھ کیا، کہ اپنے ابتدائی جسمِ مثالی پر قابو پایا، بلکہ اس کے علاوہ ان کے جسمانی سانچوں میں، جو ضروری حد تک پاک و صاف تھے قدرتی زندہ ہیولیٰ (جوہری مادہ) ڈھل کر جسمِ مثالی کی صورت میں متعدد بار برآمد ہوتا رہا۔

آتشِ نمرودی کے تباہ کن اثر سے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے

۱۰۵

معجزانہ طور پر بچ نکلنے کی حقیقت بھی یہی ہے، کہ جب ان کو آگ کی طرف پھینک دیا گیا، تو پہلے جھٹکے ہی میں ان کے مرکزِ دل سے جسم کی سطح کی طرف برق تخوّف کی ایک لہر سی دوڑ نکلی، یہ ان کیلئے فوری اور قدرتی قسم کا تزکیۂ نفس تھا، جس میں نفسِ حیوانیہ نے بمجبوریٔ خوفِ فنا اپنی جگہ جسمِ لطیف کے لئے چھوڑ نکلی، اور اپنی قسم کی سرعت سے ایٹمی جسم نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی نفسِ حیوانیہ کی جگہ ہوا ہی میں لے لی، اب چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام ایٹمی جسم میں مستغرق تھا، جس کے ذریعہ وہ نہ صرف اس دہشت خیز آگ کے اثر سے محفوظ رہا، بلکہ اس کے علاوہ ایٹمی جسم کی نورانیت میں اس کے دل و دماغ روشن سے روشن تر ہوئے، یہاں تک کہ اس کے خیال کی تصریفی قوّت نے اُس طوفانِ آتشین کو ایک عجیب شاداب و خرّم اور پُر رنگ و بو گلشن کی صورت میں دکھایا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے سولی پر چڑھائے جانے میں خدائے برتر کے اذن سے جسمِ مثالی نے جو کچھ اس کی امداد کی ہے، وہ بھی اسی طرح کی ہے، مگر اس میں فرق صرف اتنا ہے، کہ خدائے حکیم نے حضرت مسیح کو سولی کی کوئی تکلیف پہنچنے سے پہلے ہی اس کی کمال یافتہ روح کو اُن سات سیّاروں میں سے چوتھے پر پہنچایا، جن سے ہماری زمین اور

۱۰۶

دیگر چھ سیّارے مستفیض ہوتے ہیں، اندران حال چشمِ زدن میں اسکے جسدِ عنصری میں جسمِ مثالی نے حلول کرلیا اور منکرین نے محض حضرت عیسیٰ کے جسدِ عنصری ہی کو پھانسی دے دی مگر اس میں جسمِ مثالی ان کا مذاق اڑاتا تھا، کیونکہ وہ لوگ اپنی اس جاہلانہ حرکت سے نہ تو حضرت عیسیٰ کو کوئی تکلیف پہنچا سکتے تھے اور نہ جسمِ مثالی کا کچھ بگاڑ سکتے تھے۔

حضرت یوسف علیہ السّلام نے جو مصر میں مقیم تھے، اپنے جسمِ مثالی (نورانی قمیص) کو اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السّلام کی طرف روانہ کردیا، جو کنعان میں تھے، الغرض انبیاء و اولیاء کے تمام تر معجزات و کرامات کا سِرّ عظیم جسمِ مثالی یعنی ایٹمی جسم کی تسخیر میں پوشیدہ ہے اور ان میں سے ایسا کوئی نبی یا ولی نہیں گزرا ہے، جس کو مصلحتِ وقت اور اس کی ضرورت کے مطابق جثۂ ذُرّوی (ایٹمی جسم) سے خاطر خواہ مدد نہ ملی ہو۔

جناب سرورِ کائنات و فخرِ موجودات اور انکے بعض پیارے حضرات تو خود ہمیشہ اس مرکبِ برق رو کے راکب اور اس میدانِ روحانیت کے شہسوار تھے، چنانچہ معجزۂ معراجِ نبوی کے مرکب کا نام بُراق ہے، اور لفظ بُراق کا مادّہ برق ہے، جس کے معنی بجلی کے ہیں، پس بجلی اور ایٹم ایک ہی جوہر کے دو نام ہیں، پھر ظاہر ہوا کہ

۱۰۷

مرکبِ معراجِ نبوی ایٹمی جسم تھا، خواہ اس نے ایک مخصوص جانور کی شکل اختیار کرلیا ہو، یا فرش رف رف بناہو، کیونکہ وہ معجزۂ بوقلمونی ہے، پیکرِ رحمتِ کُل اور ہادیٔ سُبل یعنی حضرت محمّد مصطفیٰ صلعم اس عالمگیر معجزاتی طاقت کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال نہیں فرماتے تھے، اس لئے کہ انہیں اپنی سنّتِ مطہرہ کے ذریعہ ساری دینا اور عالمِ اسلام کے لئے ایک اسوۂ حسنہ کا قائم کرنا تھا۔

مذکورہ بالا بیان سے ان مسائل کا بھی خاص تعلق ہے، کہ کیا اس اشرف المخلوقات یعنی حضرت انسان نے اپنی لاانتہا ماضی میں کبھی ان بے شمار سیّاروں پر کوئی سیاحت بھی کی ہے؟ یا لا انتہا مستقبل میں ان پر کوئی سیاحت کرسکے گا؟ اگر جواب اثبات میں ہے، تو اس کی دلیل کیا ہے؟تو اس کے لئے جواب یہ ہے، کہ ہاں! انسان نے من حیث المجموع ان بے شمار سیاروں کی سیاحت کی ہے، اور اب بھی ان میں سے اکثر سیّاروں پر موجود ہے، مگر سُورج نہ سیّارہ ہے، اور نہ تو اس کا یہاں ذکر کہ وہ کیا ہے اور انسان کی اس کائناتی سیر و سیاحت کا اثبات اس بیان کے خلاصے میں ہے کہ انسان کے مدرکات و حواس کے اعتبار سے اس کائنات کی دو صورتیں ہیں، ایک رنج کی اور دوسری راحت کی، مگر اس باب میں دو ضروری باتیں قابلِ ذکر ہیں،

۱۰۸

اور وہ یہ کہ ایک راحت نمارنج بھی ہے اور ایک رنج نماراحت بھی، لیکن ان دونوں صورتوں میں نمود کی کوئی حقیقت نہیں پس راحت نمارنج بحقیقت رنج ہی ہے، اسی طرح رنج نما راحت فی الاصل راحت ہی ہے، مثلاً: ایک شخص بظاہر راحت میں ہے، مگر اس کے بُرے کاموں کی وجہ سے اس کا ضمیر ہمیشہ بڑی سختی کے ساتھ اسے ملامت کرتا رہتا ہے، اگر اس کا ایسا احساس بھی رفتہ رفتہ ختم ہو چکاہو، تو اس کی روح قانونِ قدرت کے عذاب میں مبتلا ہونے والی ہے، پس وہ شخص ایک راحت نمارنج میں مقید و محبوس ہے، اس کے برعکس ایک شخص بظاہر کسی رنج میں ہے، مگر اس کے نیک اعمال کی وجہ سے اس کا ضمیر ہر وقت اسے تحسین و آفرین کرتا ہے، وہ خود شاکر ہے اور اس کی روح خدا کی ابدی رحمت میں داخل ہونے والی ہے، تو وہ شخص ایک رنج نماراحت میں رہتا ہے، پس معلوم ہوا کہ رنج و راحت کی منطقی تقسیم دراصل انسان کے مدر کات و حواس کی رُو سے کی گئی ہے۔

اب یہ حقیقت ظاہر کی جاسکتی ہے کہ بہشت اس کائنات کے ظاہر و باطن میں چھائی ہوئی موجود ہے، یعنی وہ روحانی صورت میں بھی ہے، اور مادّی صورت میں بھی، اس زندگی میں بھی ہے، اور

۱۰۹

مرنے کے بعد بھی، اس میں درجات بھی ہیں، اور مساوات بھی، اب ان نکات کی ایک ایک دلیل ملاحظہ ہو: قرآنِ پاک کا ارشاد ہے، کہ بہشت کائنات جیسی وسیع ہے، اور دوسری ایک آیت کا اشارہ ہے، کہ بہشت کی وسعت (خود) کائنات کی وسعت ہے، تو مسافت و مقدار کی دلیل سے بہشت کی مادّیت ثابت ہوئی، نیز اگر بہشت کی وسعت کائنات کی وسعت ہے، تو کائنات کی وسعت بہشت کی وسعت ہوئی۔ درین حال ایک چیز کے دو نام ہوئے، جو درست ہے کہ کائنات کی دو صورتیں ہیں، پس کائنات کی وہ راحت جو خدا کی مرضی کے مطابق ہو، بہشت کی راحت ہے، اور یہ راحت جسمانی و روحانی دونوں صورتوں میں لازمی ہے، اس بہشت کے جسمانی درجات یہ ہیں، کہ کائنات کے یہ بے شمار سیّارے عروج و ارتقاء کے اعتبار سے بے شمار درجات کے حامِل ہیں، پھر روحانی درجات کی بھی وہی ترتیب ہے، اب رہا مساوات، تو وہ یہ ہے، کہ علمِ وحدت کے زیرِ اثر اہلِ بہشت کا نظریۂ فرق و امتیاز ختم ہوگا، مثلاً اگر یہ مانا جائے کہ موجودات ایک عظیم دائرے پر روان ہیں، اور روحانی و جسمانی درجات بھی اسی پر متعیّن ہیں، تو درین صورت جس شخص کو نصف دائرے کا علم ہے، اور نصف آخر کا علم نہیں، تو وہ کبھی اگلوں کی نسبت سے اپنے آپ کو

۱۱۰

کمتر سمجھے گا، اور کبھی پچھلوں کی نسبت سے اپنے آپ کو برتر قرار دے گا، اور جس شخص کو پورے دائرے کا علم ہے، وہ اس احساسِ کمتری و برتری سے آزاد اور ہر چیز میں برابر کی حکمت ہونے کا قائل ہے، اس کے علاوہ اہلِ بہشت ایک آخری درجے پر عملاً یکجا ہوں گے۔

تفصیلِ بالا سے ظاہر ہے، کہ اگر طریقِ علم و حکمت سے یہ حکمت سمجھ لیا جائے کہ کائنات ہی بہشت ہے، اور انسان کائنات میں ہے، تو بہشت میں داخل ہے، کیونکہ جہنّم (رنجِ) عارضی ہے، اور بہشت (راحتِ) حقیقی ہے یعنی اگر عارضی رنج کو اپنی عملی اور روحانی منطق سے کالعدم قرار دیا جائے، تو ایسے مردِ حکیم کے لئے ہر جگہ بہشت ہی بہشت ہے، کیونکہ رنج و راحت کی تقسیم ہر شخص کے اپنے ادراک و احسان کی منطق پر ہے، اور اگر ہر شخص کیلئے احساس و ادراک کا یہ مقام ممکن نہیں، تو وہ کم از کم یہ سمجھ لے، کہ وہ حضرت آدم اور اس کے ساتھیوں کی طرح ایک مقررہ مدّت کے لئے بہشت سے باہر آیا ہے، جو ابھی پھر اس کو بہشت کی نعمت ملنے والی ہے، اور جہنّم کی عارضیّت کی دلیل یہ ہے، کہ جہنّم ایک عملی عبرت گاہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا والے بُرے اعمال نہ کریں،

۱۱۱

ورنہ ان کا یہی حال ہوگا، پھر وہ بہشت سے محروم ہوں گے لیکن اس کے برعکس بہشت یہ کہتی ہے کہ انسان نیک کام کرے اور بہشت میں داخل ہوجائے، پس معلوم ہوا کہ جہنّم قانونِ قدرت کا ایک اصلاحی قید خانہ ہے جس طرح کسی انصاف پسند حکومت کا قید خانہ ہوتا ہے جس کی غرض اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہ بُرے کاموں کو ختم یا کم کیا جائے، پھر اس میں کیا تعجب کہ ایسی کسی باصلاح حکومت میں بُرے کاموں کا خاتمہ ہوجائے، پس ظاہر ہے، کہ ایسی انتہائی ترقی یافتہ حکومت کا قید خانہ بھی نہ رہے گا۔

اس سلسلے میں ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ فرض کیجئے کہ ایک ناز و نعمت والا شخص چند بڑے گناہوں کا مرتکب ہے، اور اس کے دل میں ہر وقت قید و بند کا خوف چھائے رہتا ہے، تو سمجھ لیجئے کہ وہ ہنوز جیل سے دور رہتے ہوئے بھی بحقیقت جیل ہی میں ہے، اور اس کے برعکس ایک نیک شخص کسی نہ کسی طرح جیل میں ہے، مگر چونکہ وہ خدا کا ایک دوست ہے، اس لئے اس کو نہ غمِ ماضی ہے اور نہ خوفِ مستقبل، کیونکہ خدا کے دوستوں کی یہی قرآنی تعریف ہے، پس اس تفصیل کا یہ نتیجہ نکلا کہ رنج و راحت کی تقسیم ہر شخص کے اپنے ادراک و احساس کی منطق پر واقع ہوسکتی ہے، لہٰذا عارضی رنج کو کالعدم

۱۱۲

قرار دینے کی صورت میں انسان ہمیشہ بہشت میں ہے، اندران صورت بہشت کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت تو سیاحت ہے، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ انسان نے سیاروں کی سیاحت کبھی کا کرچکا ہے، اور کرتا رہے گا۔

اگر یہ سوال پیدا ہوجائے کہ کس دلیل کی بنا پر کہا جاسکتا ہے ، کہ انسان اتنا قدیم ہے کہ اس نے مجموعی طور پر اس عظیم ووسیع کائنات کی سیاحت کرچکا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ملاحظہ ہو قولِ حکیمِ مطلق:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ ….. سٰفِلِيْنَ  (۹۵: ۴ تا ۵)

بے شک ہم نے انسان کو ایک بہترین ترتیب میں پیدا کیا ہے۔ پھر ہم نے اُسے پست ترین مقام میں واپس کردیا ہے، بہترین ترتیب میں پیدا کرنے کے معنی انسان کے انتہائی عروج تک پہنچ جانے کے ہیں، پس قرآن پاک کی اس حکمت سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کمالِ عروج و ارتقاء کے بعد اس سیّارہ پر آیا ہے (دیکھ لیجئے ’’میزان الحقائق‘‘ جو میری ایک تصنیف ہے)اگر آپ نظریۂ حکمت سے قرآن حکیم کا مطالعہ کریں تو جگہ جگہ پر ایسے مفہومات ملیں گے، کہ اللہ پاک کی سنّت کائنات اور اس میں رہنے والوں پر لاانتہا بار

۱۱۳

گذرچکی ہے، اور اس کے لئے کوئی کام ہرگز نیا نہیں، اور اس کا امر کسی نئے موقعے کامنتظر نہیں اور اللہ کی یہ عادت ازل وابد میں ہمیشہ ایسی ہی ہے، اور کسی چیز کی تخلیق کے لئے نہیں بلکہ اس کی انتہائی تکمیل پر ’’کُن‘‘ فرمانے کے دقیق معنی ہیں۔

والسّلام

۱۱۴

کیا آسمان و زمین سات اور سات چودہ ہیں؟

سات آسمان اور سات زمین کی واقعیت اور محل وقوع کے متعلق جو کچھ قدیم عقائد و نظریات عام طور پر پائے جاتے ہیں، وہ اہلِ فکر و نظر سے پوشیدہ نہیں، اس لئے ان کی تفصیل کی طرف جانا ایک غیر ضروری طوالت ہوگی، میں اس موضوع پر جو کچھ کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے، کہ قدیم غیر الہامی اور پس ماندہ انسان کی ذہنیت کے دائرۂ فکر و عمل کے گرد اگر دلاعلمی اور ناتجربہ کاری کی جوتاریکیاں چھائی ہوئی نظر آتی تھیں، وہ اب روحانی و مادّی عروج و ارتقاء کے عملی علوم کی روشنی کی بدولت تقریباً ختم ہوچکی ہیں، آج کا انسان اپنے حیرت انگیز ایجادات و انکشافات کی عظیم الشان کامیابی کی بناپر کسی مستقل مایوسی کا خوف و ہراس نہیں رکھتا، وہ ان بہت سی عملی قوتوں پر قابض ہوتا جارہا ہے، جن کے اختیار و استعمال کا تصوّر محض اپنی نارسائی کے قیاس پر کفر و شرک سمجھتا تھا، وہ اپنی ذات کی ان پوشیدہ ترقی

۱۱۵

پذیر اور آفاق گیر صلاحیتوں سے بالکل ناواقف تھا، جو قدرت کی طرف سے اُسے عطا کی گئی تھیں۔

بنابرین کیا ہمیں اور آپ کو ان بدلے ہوئے حالات کے پیشِ نظر کچھ صلاحی غور و فکر اور اظہارِ خیال کرنے کا کوئی جواز مل سکتا ہے یا نہیں؟ یقیناً جواز مل سکتا ہے صرف یہی نہیں کہ ہم اس بارے میں فکر و نظر سے کام لینے کے مجاز ہیں، بلکہ فی الحقیقت ہم بڑی ذمّہ داری کے ساتھ اس امرِ ضروری کے لئے مامور و مکلّف ہیں۔ اگر حقیقتِ حال یہی ہے، توآئیے! ہم اس ایٹمی دور کی روحانی و مادی معلومات کی روشنی میں زیرِ بحث نظریہ کی تحقیق کریں، اس لئے کہ حقائقِ کائنات اور عالمی اوضاع پر غور و فکر کرکے صحیح نتائج کا نکالنا اور ان کے ذریعہ عقائد و نظریات کی تصدیق یا اصلاح کرنا انسان کا وہ اہم ترین فرض ہے، جو اسے عقل و دانش جیسی بڑی نعمت عطا کرنے کے بعد تاکیداً عائد کیا گیا ہے۔

فنّی انکشافات اور ان کے پس منظر میں روحانی قوّتوں کی کارفرمائی کے عظیم انقلاب سے جو قدیم نظریات متاثر ہوچکے ہیں، انہی میں سے ایک نظریہ سات آسمان اور سات زمین کی واقعیت اور محل و قوع کے متعلق ہے، جس کے بارے میں یہاں جو حقیقت آپ

۱۱۶

کے سامنے لائی جارہی ہے، وہ قرآن پاک کی روشنی میں ہوگی، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا (۶۵: ۱۲)

ترجمہ: اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے (جو پہلے سات زمین تھیں) اور (موجودہ سات) زمین کو بھی انہی کی طرح (کمالِ ارتقاء کے بعد سات آسمان بنادے گا) امران کے درمیان نازل ہوتا رہتا ہے، تاکہ تم کو یہ معلوم ہوسکے، کہ اللہ ہر شی (فعل) پر قدرت رکھتا ہے، اور یہ کہ اللہ نے ہر شی پر علم محیط کیا ہے۔

مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ علم و حکمت کے جواہر کے ایک بے پایان خزانے کی حیثیت سے ہے، جس میں سب سے پہلے وحدانیت کا ذکر آیا ہے، اس کے بعد سات آسمانوں کی تخلیق کا تذکرہ ہورہا ہے جس کی مثال قریب تر لاتے ہوئے یہ حقیقت سمجھائی جاری ہے کہ سات زمین بھی دائرۂ دائرات کی لا انتہا گردش میں ہر اعتبار سے سات آسمان ہی کی طرح ہیں، یعنی اجزائے عالم کے متبادل عروج و نزول یا کمال و زوال کے کائناتی اصول کے مطابق زمین و

۱۱۷

آسمان ہی نہیں بلکہ تمام سیّاروں اور دیگر موجودات کی ایک ہی حقیقت ہے، وحدانیت کے بعد آسمان و زمین کی تخلیق اور ان کی مماثلت کے بیان کا یہ مقصد ہے کہ علمِ وحدانیت کی تلاش حقائقِ کائنات کے عنوان سے کی جائے جن میں وحدانیت کا علم پوشیدہ ہے، پس حقائقِ کائنات کا خاطر خواہ مطالعہ ہم سیارۂ زمین کے علم اور اپنی ذات کی معرفت کے ذریعہ کرسکتے ہیں، کیونکہ اگر مقدم الذکر نمونۂ عالمِ خلق ہے تو موخر الذکر نسخۂ عالمِ امر ہے آسمان و زمین کے بعد امر کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے، اور اس ربط سے مراد یہ ہے کہ جس طرح علمِ وحدت کے پہلے مرحلے میں ’’عالمِ خلق‘‘ کی تخلیقی کیفیت کا سمجھنا لازمی ہے، اسی طرح اس علم کے دوسرے مرحلے میں ’’عالمِ امر‘‘ کی ابداعی حقیقت کا سمجھنا ضروری ہے۔ عالمِ امر کی تعریف تجرباتی حقائق کی روشنی میں ’’قیاسِ ضد‘‘ کے اصول پر کی جاسکتی ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ عالمِ امر اور عالمِ خلق ایک دوسرے کے متضاد ہیں، اس لئے عالمِ خلق پر عالمِ امر کا مفصّل قیاس کیا جاسکتا ہے، چنانچہ عالمِ خلق کائنات کا جسمِ کثیف ہے اور عالمِ امر کائنات کا جسمِ لطیف ہے، اسی طرح اگر عالمِ خلق میں روحِ کثیف پائی جاتی ہے، تو عالمِ امر میں روحِ لطیف موجود ہے، اگر عالمِ خلق کی مخلوقات علل و اسباب سے اور ایک خاص مدّت کے بعد پیدا ہوتی ہیں تو اس کے برعکس

۱۱۸

عالمِ امر کے مامورات عِلّت و مدّت کے بغیر موجود ہوسکتے ہیں، اور اگر عالمِ خلق عالمِ جسمانی ہے، تو اس کے مقابل میں عالمِ امر عالمِ روحانی ہے، مگر یہ خیال رہے کہ عالمِ روحانی سے وہ جہان مراد ہے، جس میں جسم اور روح دونوں موجود ہیں لیکن اس میں روحانی طاقت انتہائی عروج پر ہے، جس طرح ’’جسمانی عالم‘‘ کہنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس میں صرف جسم ہی تھے اور اس کے سوا کچھ نہیں، بلکہ جسمانی عالم کے یہ معنی ہیں کہ اس میں روح تو کسی حد تک موجود ہے، مگر روحانیت کا ہنوز دور دورہ نہیں ہوا۔

مذکورہ اصول کے علاوہ عالمِ لطیف اور اس کی مخلوقات کی مثال ہم ان چیزوں سے بھی لے سکتے ہیں، جو یقیناً عالمِ لطیف یعنی عالمِ امر کے نمونے ہیں۔ مثلاً نورانی، فلکی، ایٹمی اور برقی اجسام یا ذرات اور ان کی قوتوں کے حیرت انگیز کرشمے وغیرہ، پھر ہم کس دلیل سے اشرف الحیات یعنی انسانی زندگی کو صرف عناصرِ اربعہ کے اس فرسودہ قمیص میں محدود کرسکتے ہیں، جب کہ نور ہیولیٰ، ایٹم اور برق جیسی لطیف چیزیں بھی جسم ہیں، اور یہ چیزیں اپنی تمامتر خصوصیات میں روح کے قریب قریب نظر آتی ہیں، پس ظاہر ہے کہ یہ چیزیں عالمِ امر کے عناصر کی حیثیت سے ہیں، جو یہاں آتی ہیں، اب اس قسم

۱۱۹

کے عناصر کی مخلوق بھی پیدا ہوگئی، یا آسمان سے ایسی کوئی مخلوق اترے گی، کیونکہ عناصر اپنی قسم کی مخلوق کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔

اس قسم کی مخلوقات قدیم یا جدید ناموں سے پہچانی جاتی ہیں، مثلاً: فرشتہ، روحانی، اہلِ بہشت، اہلِ سماوات، ترقی یافتہ سیّاروں کے انسان، ایٹمی مخلوق، ایٹمی انسان، اڑن طشتری کا سوار وغیرہ اس کے علاوہ تقریباً ہر مذہب میں ایک ایسی اصطلاح بھی پائی جاتی ہے، جو روحانی دور میں کسی آسمانی یا غیبی ہستی کے نزول و ظہور کے متعلق ہے، جس کی آخری حقیقت بھی وہی ہے، کہ انسان روحانی دور کی آمد کے بارے میں باور کرسکے، اس مقام پر اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ اگر فی الواقع اس قسم کی مخلوقات آسمان سے نازل ہوجائیں یا پردۂ غیب سے ظاہر ہوجائیں، تو دنیا والوں پر کس قسم کی حالت گزرے گی اور وہ ان مخلوقات کو کیا سمجھیں گے؟ تو میرا جواب یہی ہوگا، کہ اس واقعۂ عظیم کے اثرات کا تعلق ہر شخص کے ذاتی عقیدہ، نظریہ، علم اور سب سے بڑھ کر تجربہ سے ہے، اگر چہ علم و تجربہ ہر مشکل کام کے لئے ضروری ہے، لیکن اس مقام پر اس کی سب سے زیادہ اہمیت اس لئے ہے، کہ روحانی مخلوقات کا ایک بڑا گروہ ایسا بھی ہوتا ہے جس کے متعلق انسان کا جیسا عقیدہ، جس قسم کا نظریہ اور جو علم و تجربہ

۱۲۰

ہو، وہ گروہ ویسا کچھ نظر آتا ہے اور وہ اسی کے مطابق اثر انداز ہوتا ہے، مثلاً: ایک شخص کا علم صرف شیاطین، جنّات وغیرہ کے وجود تک محدود ہے، تو روحانین اسی قسم کی مخلوق کے بھیس میں اس شخص پر اثر انداز ہوں گے، ایسے شخص کو یہ حقیقت جاننا ضروری ہے کہ جس طرح دنیا میں’’ابلیس‘‘ وغیرہ کے ناموں سے شر و فساد کے کانٹے موجود ہیں، اسی طرح ’’فرشتے ‘‘ وغیرہ کے ناموں سے خیر و صلاح کے پُھول بھی موجود ہوسکتے ہیں، نیز اسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر انسان چشمِ بصیرت سے کام لے، تو بُرائی کے ان کانٹوں سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے، اور نیکی کے پھولوں سے اپنی روح کو تازہ دم کرسکتا ہے اور ان کانٹوں کا یہ مقصد ہرگز نہیں، کہ بلاوجہ کسی انسان کے ہاتھ پاؤں چبھتے رہیں، بلکہ فی الاصل یہ کانٹے گلاب کے جھاڑ اور اس کی شاخوں، کلیوں اور پُھولوں کی حفاظت کے لئے ہیں، تاکہ حیوانات وغیرہ گستاخانہ انداز میں انہیں نہ توڑ سکیں، تیسری حقیقت یہ ہے، کہ پھول اور کانٹے ایک ہی جھاڑ نے اگائے ہیں، پس وہی ایک جھاڑ ہے جس میں رنگ و بُو کے پُر مسرت پُھول بھی ہیں، اور درد ناک چُبھن والے کانٹے بھی، اس کے معنی یہ ہوئے کہ خیر و شر کی علّت ایک ہی ہے۔

۱۲۱

اگر عالمِ امر کے فیوض و آثار ہمیشہ آسمان و زمین کے درمیان نازل ہوتے رہتے ہیں، تو یہ ضروری ہے کہ ہم ان کی مکانی واقعیت کی مزید وضاحت کریں وہ یہ ہے کہ قرآن پاک میں حقائقِ کائنات کے کئی موازین ہیں، جن میں سے ایک ’’میزانِ عددی‘‘ ہے، جس کے ذریعہ کائنات کے بڑے بڑے اجزاء، سیاروں کے مراتب وغیرہ کی تعداد معلوم کی جاسکتی ہے، چنانچہ قولِ قرآن ہے: ثَمٰنِيَةَ اَزْوَاجٍ  (۶: ۱۴۳)آٹھ نر مادہ (پیدا کئے) ہیں، آیت کا یہ حصہ بظاہر حلال جانوروں کے آٹھ جوڑوں کے ذکر کے سلسلے میں آیا ہے، لیکن اس کے معنی صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتے، بلکہ اس کا اطلاق کائنات پر بھی ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ مراتبِ عالم کے آٹھ جوڑے ہیں، عرش، کرسی سات آسمان اور سات زمین کُل سولہ ہیں اور سولہ کے آٹھ جوڑے ہوئے نیز ارشاد ہوتا ہے:

وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ(۱۵: ۸۷)

اور ہم نے آپ کو سات دہرائی ہوئیں آیاتِ دین اور قرآنِ عظیم دیا، مذکورہ آیت اپنے دوسرے تمام معنوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس عالم کے سولہ مراتب ہیں، یعنی قلم و لوح (عرش و کرسی) قرآنِ عظیم ہیں، سات آسمان اور سات زمین دہرائی ہوئیں

۱۲۲

سات آیات ہیں، نیز یہ حقیقت تقریباً سب مانتے ہیں، کہ دوزخ سات ہیں، بہشت آٹھ ہیں اور رضوان (داروغۂ بہشت) ایک ہے، جو سولہ مقامات ہوئے جن کے آٹھ جوڑے ہوتے ہیں، وہ اسی طرح کہ سُورج عالمی اسفل یعنی مرکزی دوزخ ہے، یہ اور اس سے متصل چھ فضائی دائرے یا طبقات سات طبقاتی زمین بھی ہیں اور سات دوزخ بھی، ان سے باہر کے سات طبقات سات کائناتی آسمان بھی ہیں اور سات بہشت بھی، ان سے اوپر کا مرتبہ کرسی بھی ہے اور آٹھویں بہشت بھی، اس سے اوپر کا مرتبہ عرشِ اعظم بھی ہے اور رضوان بھی، پس یہ حقیقت واضح ہوئی، کہ نہ صرف آسمان و زمین کی مکانی واقعیت ثابت ہے، بلکہ عرش، کرسی بہشت اور دوزخ کے ظاہری مقامات بھی چشمِ بصیرت کے سامنے موجود ہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے، کہ فضائے عالم، سیّارات اور ثوابت کے مذکورہ مراتب کا تعین کس حقیقت کی بنا پر کیا گیا ہے؟ جس کی جوابی تشریح یہ ہے، کہ یہ کائنات اپنی سالمیت میں ایک انتہائی عظیم گول شکل کا جسم ہے، جس کے عین وسط میں سُورج واقع ہے، جو کائناتی جہنم اور عالمی مصنوعات کے کارخانۂ آتشین کی حیثیت سے ہے، اور اس کائنات کی سطحِ محیط پر عقلِ کل (عرش) اور نفسِ کل

۱۲۳

(کرسی) کے عملی مراکز ہیں، لہٰذا سورج سے لے کر سطحِ محیط تک طبعی عمل کی کثافت کم سے کم اور عقلانی و روحانی عمل کی لطافت زیادہ سے زیادہ ہوتی جاتی ہے، پس اسی حقیقت کی بنا پر کائنات کے چودہ جسمانی اور دو روحانی کُل سولہ دائرے یا طبقات مانے گئے ہیں، جن کے خطوط فرضی ہیں، جس طرح زمین طولِ بلد اور عرضِ بلد کے فرضی خطوط میں تقسیم کی گئی ہے، پس سُورج اور اس کے گرد اگرد کے چھ فضائے طبقات، سات کائناتی اراضی (زمینیں) ہیں، ان کے گراداگرد کے دوسرے سات طبقات سات کائناتی سماوات (آسمان) ہیں، اور ان کے گرداگرد خولی شکل میں نفسِ کل کا نُور ہے، جو کرسی کے نام سے موسوم ہے، اور اس کے گرداگرد خولی تصورمیں عقلِ کل کا نُور ہے جو عرش کہلاتا ہے، اب سمجھ لیجئے کہ کائناتی اراضی، عالمی سماوات، ہمہ گیر کرسی اور عظیم عرش کے ظاہری وجود کے مراتب مذکورہ حقیقت کی بنیاد پر ہیں۔

اسی طرح تمام ثوابت و سیارے تخلیق، تعمیر، عروج اور نزول کے اعتبار سے سولہ مدارج میں ہیں، اور ہر درجے میں بہت سے ثوابت و سیّارے ہوسکتے ہیں، چنانچہ عالمی مرکز (سُورج) سے شروع کرکے وہ سات قسم کے سیّارات جو تخلیق اور اپنے باشندوں کی مادّی و روحانی تعمیر و ترقی کے مختلف مراحل سے گزررہے ہیں، سات سیّاراتی

۱۲۴

اراضی ہیں، ان سے باہر کے سات مدارج کے وہ تمام ستارے جن سے ان اراضی پر روحانی و مادّی فیوضات نازل ہوتے رہتے ہیں، سات کو کبی سمٰوٰت ہیں، ان کے گرد اگرد کے ایک درجہ کے وہ تمام ستارے جو گوہرِ نفس کے ہیں، کوکبی کرسی ہیں اور ان کی وحدت ہمہ گیر کرسی میں ہے، ان سے باہر کے وہ اشرف ترین ستارے جو گوہرِ عقل کے ہیں کوکبی عرش ہیں، اور ان کی وحدت عرشِ اعظم میں ہے۔

اب عالمِ امر اور اس کے مدارج کے بارے میں سنیے! چنانچہ اس سے قبل یہ بتایا جاچکا ہے، کہ عالمِ خلق کائنات کا جسمِ کثیف ہے اور عالمِ امر کائنات کا جسمِ لطیف ہے، پس عالمِ امر یعنی کائنات کے جسمِ لطیف کے بھی بالکل ویسے ہی مدارج ہیں، جیسے عالمِ خلق کے ہیں، مگر ان میں اور اُن میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ عالمِ امر کے تمام مدارج زندہ ہیں، کیونکہ عالمِ امر زندہ ہے اور وہ عالمِ خلق کی روح کی حیثیت سے ہے، جس طرح انسان کی روح جسم میں ہوتی ہے، اور ایک اعتبار سے جسم روح کی گرفت میں ہوتی ہے، بالکل اسی طرح عالمِ امر اور عالمِ خلق ایک دوسرے میں داخل ہیں، بہر حال عالمِ امر اول کلّی طور پر سولہ مدارج میں ہے، پھر اس کے تمام ستارے سولہ مدارج

۱۲۵

میں ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ عالمِ لطیف کائنات کی زندہ تصویر ہے جس میں بیرونی کائنات کی ساری چیزیں موجود ہیں، پس ان دونوں عالموں میں دو دو قسم کے آسمان و زمین وغیرہ ہیں۔ مگر ان دونوں عالموں کے مدارج کے بارے میں یہ اصول بھی ضرور یاد رہے، کہ ایک اعتبار سے یہ تمام مدارج سب سے اوپر کے درجے (عرش) میں ایک ہیں، کیونکہ وہ موجودات و مخلوقات کی وحدت کا مقام ہے۔ ہر چیز کی غرض غایت، نورانی صورت، آخری خاصیّت اور قدر و قیمت عرشِ اعظم (عقلِ کل) میں موجود ہے، اس لئے وہ ذاتی اعتبار سے کائنات کے ماحصل کے لئے منتظر نہیں۔

سب سے آخر میں انسان کا ذکر آتا ہے، جو اپنے ظاہری و باطنی وجود کے اعتبار سے عالمِ تالیف کہلاتا ہے، یعنی لطیف و کثیف کا امتزاج یا مجموعہ ، یعنی انسان دراصل ان دو مختلف شخصیتوں کا نام ہے، جو وجودِ کثیف اور وجودِ لطیف کی ہیں، وجودِ کثیف کو جسم اور وجودِ لطیف کو روح مانیے، پس عالمِ انسان، عالمِ صغیر یا عالمِ تالیف کے بھی سولہ مدارج ہیں، جن کی ترتیب علم و معرفت کے اعتبار سے ہے، یہ درجات عالمِ انسانیت کے عرش، کرسی، سات آسمان اور سات زمین کی حیثیت سے ہیں، چنانچہ خدائے برتر کا قول ہے:

۱۲۶

رَفِيْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِ (۴۰: ۱۵) وہ درجات کا بلند کرنے والا ہے ، وہ صاحبِ عرش ہے، ظاہر ہے کہ ان تمام مذکورہ درجات کا سلسلہ عرش تک ہے، یعنی اس سلسلہ کا آخری درجہ عرش ہے، اس حقیقت کی تصدیق کے لئے ایک اور قرآنی شہادت ملاحظہ ہو:

نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاۗءُ  ۭ وَفَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ(۱۲: ۷۶)

ہم جس کو چاہتے ہیں (علم میں) خاص درجوں تک بڑھا دیتے ہیں اور ہر ذی علم سے بڑھ کر ایک اور ذی علم ہے، اس آیۂ مبارکہ کے سولہ مقطع ہیں، چنانچہ: نر- فع- د – ر- جٰت – من- نشا- ء- و- فو- ق- کل- ذ- ی- علم- علیم، پس ظاہر ہے کہ عالمِ انسانیت سولہ درجاتِ ظاہری اور سولہ درجاتِ باطنی پر مشتمل ہے، جن میں سے ہر ایک درجہ میں وہی بقائے انسانی مختلف ناموں میں موجود ہے، مثلاً فرشتہ، روحانی، نبی، ولی وغیرہ، پھر انسان مذکورہ درجات کے مطابق ظاہراً و باطناً سولہ گروہوں میں ہیں، اب عالمِ امر، عالمِ خلق اور عالمِ تالیف میں سے ہر ایک میں سولہ درجات ہوئے، اور تین دفعہ سولہ کا مجموعہ اڑتالیس ہوا جس میں ان تینوں عوالم کی مجموعی تکمیل کی نشاندہی ہے، جس کی دلیل قرآن

۱۲۷

پاک کے ان حروفِ مقطّعات سے مل سکتی ہے: حٰمٓ: ح +م (۸ + ۴۰ = ۴۸) کا مجموعہ اڑتالیس ہوتا ہے، جو مذکورہ تین عوالم کے مجموعی درجات کے برابر ہے۔ اب اڑتالیس کو اکائی درجات کے ہندسوں میں تحویل کیجئے، اسی طرح کہ: ۸ + ۴۰ = ۱۲: ۲ + ۱ = ۳ یہاں تین حاصل آیا جو اشارہ ہے کہ ان اڑتالیس درجات کی تین اکائیاں مذکورہ تین عوالم ہیں، اور اس قاعدہ کے پہلے مرحلے میں آٹھ اور چار کے مجموعے سے جو بارہ کا عدد حاصل آیا تھا، وہ اس حقیقت کی دلیل ہے، کہ مذکورۂ بالا تینوں عوالم کی متحدہ حیثیت بارہ بروج، بارہ جزائر اور بارہ حجتوں پر منقسم ہے، نیز غور سے ملاحظہ کیجئے کہ حرفِ ’’ح‘‘ اور ’’م‘‘ کی ملی ہوئی شکل (حٰمٓ) اور اس کے مذکورہ اعداد (۴۸، ۱۲، ۳) کا یہ اشارہ ہے کہ روح (ح) اور جسم (م) کا امتزاج اڑتالیس درجات، بارہ بروج اور تین عوالم میں پایا جاتا ہے، ان مقطّعات کا ایک اور ضروری اشارہ یہ ہے، کہ حٰمٓ نے حرفِ اوّل اور حرفِ آخر کی حیثیت سے ’’حیّ قیّوم‘‘ کی معنویت کو اپنے اندر سمولیا ہے، جو روح اور جسم کے مذکورۂ بالا اشارہ سے زیادہ مختلف نہیں، وہ یہ ہے کہ ’’حی‘‘ (ہمیشہ زندہ رہنے والے) کی معرفت کا انحصار روحِ انسانی پر ہے، اور قیوم (ہمیشہ قائم رہنے

۱۲۸

والے) کی پہچان کا دارومدار جسمِ انسانی پر ہے۔

ایک اور اعتبار سے مذکورہ تینوں عوالم کی تقسیم اٹھارہ ہزار میں ہوتی ہے، اور اسی تقسیم کی بنا پر کائنات و موجودات کے اٹھارہ ہزار ذیلی عوالم ہوتے ہیں، چنانچہ موجودات کے سولہ درجات کا ذکر ہوچکا، مگر دو گروہ اور ہیں، جن کا ذکر درجات میں اس لئے نہیں ہوا ہے کہ وہ دراصل درجات میں شامل نہیں، بلکہ وہ مساوات میں ہیں، پس موجودات کے سولہ درجات اور دو مساوات کا مجموعہ اٹھارہ ہوا، اب اٹھارہ کو ایک ہزار سے ضرب دیجئے (کیونکہ ایک ہزار تکمیلِ خلقت کا اصول ہے یعنی عقلِ کل کا عددی فارمولا ہے) حاصلِ ضرب اٹھارہ ہزار آئے گا۔ پس درست ہے کہ تینوں عوالم کی وحدت میں اٹھارہ ہزار ذیلی عوالم ہیں۔

انسانوں کے دوگروہوں کے نظریات سے دوہزار مساواتی عوالم کی نمائندگی و ترجمانی ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ان میں سے پہلے گروہ کا مقولہ ’’ھوالکل‘‘ ہے، جس کے معنی یہ ہیں، کہ خدا سب کچھ ہے اور اس فقرے کا فارسی ترجمہ ’’ہمہ اوست‘‘ ہے لہٰذا وہ لوگ ہر چیز کی نقاب میں جلوۂ ذات و صفات پوشیدہ ہونے کے قائل ہیں، چنانچہ قرآن پاک سے یہ حقیقت ظاہر ہے: فاینما تولّوا فثمّ وجہ اللہ۔ پس تم جس طرف بھی منہ کرو، وہاں

۱۲۹

ہی خدا کا چہرہ موجود ہے، یعنی ممکن الوجود واجب الوجود کے علم و قدرت کا مظہر ہے، اس لئے زمان، مکان، مخلوق اور موجود میں سے جس چیز کی ذات کی طرف متوجہ ہوجاؤ گے وہاں ہی خدا کا چہرہ (جلوۂ جمال و جلال) نظر آئے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب خدا آسمان و زمین کا نور ہے اور کائنات اس بے پناہ نور میں ڈوبی ہوئی ہے، تو موجودات میں بحقیقت فرق و امتیاز یا درجہ و مرتبہ کا سوال پیدا نہیں ہوسکتا، بجز آنکہ یہ کہا جائے کہ امتیاز و اختلاف صرف مجازی اور سطحی قسم کا ہے نیز وہ یہ کہتے ہیں کہ خدا کی جس روشنی میں کائنات و مخلوقات مستغرق ہوئی ہیں، اس نور کا دوسرا نام ہدایت ہے، پس اگر موجودات میں خدا کی عقلانی، روحانی اور مادی ہدایت جاری و ساری ہے، تو سمجھ لیجئے کہ یہ حقیقت ہے، جس کے ذریعہ ہم یہ سمجھ سکتے ہیں، کہ کائنات و موجودات خدا کی ہدایت میں ارتقاء کے راستے پر گامزن ہیں، اور یہ راستہ دائرۂ امکانیت پر چکر کاٹنے کا ہے، اور اسی گردش کا نام عروج و نزول یا ارتقاء ہے، کیونکہ خدا کی یہ روشنی جس میں ہدایت کے تمام معنی موجود ہیں، حقیقی عدل سے ہر گز خالی نہیں، پس اگر ہم یہ سمجھ سکیں کہ کائنات و موجودات کا ہر ذرہ خدائی عدل و ہدایت کے نور سے منور ہے، تو ہمیں اس

۱۳۰

حقیقت کا اعتراف کیوں نہ ہو، کہ اس نورِ وحدت نے ذواتِ اشیاء کو اپنی اپنی جگہ پر ہونے کے باوجود ایک ہی وحدت میں منظم کرکے رکھا ہے، اس لئے ہمارا کہنا ہے کہ موجودات کے درجات کی نسبت ان کی شرفی مساوات خدا کی وحدت کی طرف زیادہ نزدیک ہیں اور اس نظریہ میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے سلسلے میں ہونی چاہئیں وغیرہ۔

مساوات کا دوسراگروہ وہ ہے، جس کے دانشمندوں کے اقوال کا مفہوم یہ ہے، کہ کائنات و موجودات کی ابتدائی و انتہائی حقیقت ایک ہے جسے وجودِ مطلق کہنا چاہئے، جو ہمیشہ بذاتِ خود موجود اور قائم ہے، اور کسی وقت میں اس کے نہ ہونے کا تصوّر غلط ہے، کیونکہ ’’عدم محض‘‘ کا تصوّر صحیح نہیں، اس لئے کہ اس قسم کی نیستی کی کوئی عقلی دلیل موجود نہیں اس کے برعکس ہمیں اس حقیقت کی دلیل مل سکتی ہے، کہ کسی چیز کے عدم یا نیستی کے یہ معنی ہیں، کہ اس چیز کے مختلف اجزاء اپنی اپنی کلیات میں منتشر موجود ہوتے ہیں، مگر یہ اجزاء عالم سے قطعی غائب ہونہیں سکتے، نہ یہ جزوی مثال کائناتی عدم کی دلیل ہوسکتی ہے، کیونکہ ایک چیز سے دوسری چیز کی مثال اس وقت لی جاسکتی ہے، جب کہ دونوں چیزیں حقیقی معنوں میں ایک جیسی

۱۳۱

ہوں، مثلاً: اگر کوئی چیز اس دنیا میں ہزاروں سال بعد پیدا ہوکر پھر کچھ عرصہ کے بعد ختم ہوجاتی ہے، تو اس سے ہم کائنات کی پیدائش اور فنا کی مثال لے نہیں سکتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ چیز ہزاروں سال بعد پیدا ہوئی، تو یہ ’’موجود سے موجود کو رکاوٹ‘‘ کا جزئیاتی قانون ہے، نیز اگر یہ چیز کچھ عرصہ کے بعد ختم ہوئی تو اس کی وجہ بھی وہی ہے، کہ دوسری چیزوں نے اس پر کچھ ایسا اثر ڈالا کہ وہ فرسودہ ہوکر ختم ہوئی، اب یہ مثال کائنات پر کس طرح صادق آسکتی ہے؟ چنانچہ اگر ہم یہ فرض کریں کہ کائنات کھربوں سال تک موجود نہ تھی، پھر پیدا ہوئی یا پیدا کی گئی، اور ایک وقت کے بعد کائنات نیستی میں چلی جائے گی۔

اب یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کائنات پیدا ہونے کے خلاف وہ کونسی طاقت یا کون سی رکاوٹ موجود تھی جس کی وجہ سے کائنات پیدا ہونے میں اس قدر تاخیر ہوئی؟ نیز یہ کہ مدّت اور سالوں وغیرہ کا حساب کس پیمانے کے مطابق ہوا، جب کہ سورج، آسمان وغیرہ نہ تھا، جن کے ذریعہ وقت کا تعیّن ہوتا ہے؟ نیز اگر کائنات فنا ہونے والی ہے تو وہ کونسی بڑی طاقت ہے، جس کے زیرِ اثر یہ عالم نیست ہوجائے؟

۱۳۲

یہ لوگ ہر چیز کو مادّی نقطۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ وجودِ مطلق (کائنات) ایک خود کار مشین کی طرح ہے جو اپنی جوہری حرکت کے بل بوتے پر ہمیشہ چلتی رہتی ہے، جس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں نہ اس کائناتی مشین کی طرح اور کوئی مشین ہے وغیرہ۔

بہر حال ہمیں صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ کائنات کے اٹھارہ ہزار عوالم کس طرح ہوسکتے ہیں، جس کا مفصل ذکر ہوچکا ، اب ہمیں اس آیۂ مبارکہ کا بقایا خلاصہ بیان کرنا ہے، جس میں آسمان و زمین کی تخلیق اور مماثلت کا بیان تھا، وہ یہ ہے کہ عالمِ خلق اور عالمِ امر کے حقائق میں علمِ وحدانیت پوشیدہ ہے، جیسا کہ قبلاً ذکر ہوا، علمِ وحدانیت کے بعد قدرت کا ذکر آتا ہے۔ جس کا مقصد و مفہوم یہ ہے کہ قدرت (توانائی) کی تحقیق بھی فی الاصل اس وقت ہوسکتی ہے، جب کہ علمِ وحدانیت حاصل ہوجائے، اور علمِ وحدت کی ایک مثال یہ ہے کہ، ہمیں قرآن اور حقائقِ کائنات کی روشنی میں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ’’باری سبحان‘‘ خود کائنات کے چھوٹے بڑے کاموں کو انجام دیتا ہے یا وہ بادشاہِ مطلق ہے اور صرف امر کرتا ہے؟ اگر جواب یہ ہو کہ وہ صرف امر کرتا ہے، تو پھر ہمیں امر کی تحقیق کرنا ہوگی، اور اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ باری سبحان کا امر ایسا نہیں،

۱۳۳

جیسے کسی بادشاہ کا حکم ہوتا ہے، بلکہ وہ اس مثال سے بالا تر ہے، وہ اس طرح کہ عالمِ خلق کی کسی شی پر ۱؎ امر(کُن) واقع نہیں ہوتا ہے، جب تک اس کی تخلیق فطری صلاحیتوں کے ذریعہ مکمل نہ ہوجائے، جب ایسی چیزاسی طریقے کے مطابق مکمل ہوجائے، تو اس کی ایک روحانی زندہ تصویر بھی تیار ہوجاتی ہے۔ اب اس تکمیل پر بالآخر باری سبحان کا امر واقع ہوتا ہے وہ بھی تفہیم و تعلیم کے طور پر نہیں، صرف ’’کُن‘‘ فرماتا ہےجس کے معنی ہیں ’’ہوجا‘‘ اور وہ بھی لفظ و آواز میں نہیں، صرف ایسا ارادہ فرماتا ہے، اور وہ ارادہ بھی ایسا نہیں، کہ انسانوں کی طرح خارجی یا ذہنی واقعات و حادثات کا کوئی نتیجہ ہو، بلکہ اس چیز کی تخلیق و تکمیل اور روحانی صورت کے بارے میں اللہ پاک کے ’’ارادی امر‘‘ کے یہ معنی ہیں کہ وہ چیز ’’قانونِ فطرت‘‘ کے عین مطابق بنتی ہے۔ پس قانونِ فطرت ہی اللہ کا ارادہ اور امر ہے، جوکائنات و موجودات میں پایا جاتا ہے۔

مذکورہ حقائق کی روشنی میں اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں، کہ

۱؎: امرِ ’’کن‘‘ کے متعلق آیات اور ان کی تشریح کے لئے ملاحظہ ہو: کتاب ’’میزان الحقائق‘‘ ص ۷۸ تا ۸۱۔

۱۳۴

فطرت کا دوسرا نام قدرت (توانائی) ہے، جو ہر چیز میں اس کی ماہیت کے مطابق پائی جاتی ہے، پس ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کے قادر ہونے کے یہ معنی ہوئے کہ ہر چیز اپنی فطرت کے مطابق عمل کرتی رہتی ہے، لیکن ہر چیز کا فعل علی الترتیب دوسری تمام موجودات کے زیرِ اثر وجود میں آسکتا ہے، لہٰذا بعض دفعہ اس فعل کو قانونِ فطرت کے ساتھ منسوب کرتے ہوئے کہا جاتا ہے، کہ یہ کام خدا نے کیا اور بعض دفعہ فعل کو اس کے آخری فاعل کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے، جو دونوں نسبتیں صحیح ہیں، اب اگر قرآن پاک کا یہ ارشاد ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے‘‘ یا یہ کہ ’’اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے‘‘ تو ہمیں اس کے بارے میں کیا سمجھنا چاہئے؟ کیا یہ محض امکانیت کا ذکر ہے؟ یا امرواقع ہے؟ اس کا مفصل جواب سطورِ بالا میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے جو ارشاد ہوا ہے، کہ اللہ وہ ہے، جس نے سات آسمان بنائے (جو پہلے سات زمین تھیں) اور (موجودہ سات) زمین کو بھی انہی کی طرح (کمالِ ارتقاء کے بعد سات آسمان بنادے گا)۔ امر ان کے درمیان نازل ہوتا رہتا ہے، تاکہ تم کو یہ معلوم ہوسکے کہ اللہ

۱۳۵

ہر شی (فعل) پر قدرت رکھتا ہے اور یہ کہ اللہ نے ہر شی پر علم محیط کیا ہے، تاکہ ہم نمونۂ عالمِ خلق اور نسخۂ عالمِ امر (سیارۂ زمین اور اپنی ذات) کے ذریعہ اُن دونوں عوالم کے بارے میں غور و فکر کریں، اور سمجھ سکیں کہ کس طرح اللہ ہر کام کرسکتا ہے، اور کس طرح اس نے ہر چیز کو علم کی لپیٹ میں رکھا ہے۔

۱۳۶

مفید انٹرویو

جشنِ خدمتِ علمی

محترمہ ڈاکٹر زرینہ حسین علی (مرحوم) جشنِ خدمتِ علمی کے عجیب و غریب اور بے مثال پروگرام سے بے حد خوش اور شادمان ہیں، اور اس میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں، اور اس بارے میں مشرق و مغرب کے تمام عزیزان کو صمیمیتِ قلب سے ’’مبارکباد‘‘ پیش کرتی ہیں، یہاں جو یقینی اور حقیقی علم ہے، اس کو ڈاکٹر صاحبہ حضرتِ امامِ زمان صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہ کا زندہ عقلی معجزہ قرار دیتی ہیں۔

خوش خصال ڈاکٹر زرینہ نے ہمارے ادارے کی بڑی مشکل خدمات بھی انجام دی ہیں، یہ سچ ہے کہ دور سے آئے ہوئے بڑے بڑے مہمانوں کے طعام و قیام کا حسنِ انتظام بڑا مشکل کام ہے، لیکن زہے نصیب کہ آپ بڑی خندہ پیشانی سے ایسی ضروری خدمات انجام دیتی ہیں، ڈاکٹر زرینہ کے پاکیزہ دل میں رحم و ہمدردی جیسے بنیادی اوصاف موجود ہیں، آپ کو علم باتوں اور مناجات و گریہ و زاری سے قلبی سکون حاصل ہو جاتا ہے۔

میرے بہت ہی عزیز پوتا امین الدین ہونزائی (ابنِ ایثار علی مرحوم) جو اس وقت ایم۔ بی۔ اے کی ڈگری کر رہا ہے، وہ محترمہ

۳

ڈاکٹر زرینہ کا پسرِ خواندہ (منہ بولا بیٹا) ہے، اور اسی وجہ سے ڈاکٹر بمع اہلِ خانہ ہماری فیملی کے زمرے میں شامل ہو گئی ہیں، ڈاکٹر صاحبہ کے فرزندِ دلبند جناب غلام مرتضیٰ (ایم۔ ایس۔ سی) ہمارے نامور والنٹیئرز کے کرنل ہیں، واضح رہے کہ دنیا بھر میں جتنے لوگ (خواتین و حضرات) ہمارے حلقۂ شاگردی میں داخل ہیں، وہ سب کے سب مولائے پاک کے بے وردی رضاکار (والنٹیئرز) ہیں۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی
۱۴ نومبر ۱۹۹۳ء

۴

دیباچہ

۱۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اگر کوئی کتاب نیکی و خیر خواہی پر مبنی ہے، قلمی اور علمی خدمت کی غرض سے ہے، اور اس میں کسی کی دل آزاری نہیں، تو ایسی کتاب درحقیقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی خاص نعمتوں میں سے ہے۔
میں یہاں صرف شمالی علاقہ جات کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں جناب شیر باز علی خان برچہ صاحب نے کتاب ’’ تذکرۂ اہلِ قلم و شعرائے گلگت ‘‘ کی تصنیف و تالیف اور طباعت و اشاعت کی زحمتوں کو اٹھا کر یہ ثابت کر دیا کہ اہلِ قلم نہ صرف اتحاد بین المسلمین کے میدان میں نمایان کردار انجام دے سکتے ہیں، بلکہ ملک و ملت کی ہرگونہ ترقی کے لئے بھی اپنی کارآمد اور مفید خدمات پیش کر سکتے ہیں، میری نظر میں محترم شیر باز علی خان برچہ اسم بامسمیٰ ہیں، یعنی آپ علی کے شیر بھی ہیں، اور باز بھی، اور اپنے جدِ اعلیٰ برچہ کی طرح معزز و محترم بھی، اور یہ سارے اوصاف ان کی عقل و دانش، فہم و فراست اور پین پاور میں ہیں۔

۲۔ اگر برچہ صاحب انٹرویو کے لئے ایسے عمدہ اور جامع سوالات نہ بناتے تو آج یہ کتاب نہ ہوتی، جو آپ کے سامنے ہے، پس میں جان و دل

۷

سے شیر باز علی خان برچہ صاحب کا شکر گزار اور ممنون ہوں، اور مجھے ان کی ادبی خوبیوں سے بڑی حیرت بھی ہے۔
اس کتاب کا نام ’’مفید انٹرویو‘‘ مقرر ہوا، کیونکہ اس میں کئی اعتبار سے مفید باتیں ہیں، اس کے آخر میں بندۂ ناچیز کا شجرہ وغیرہ بھی ہے، اور جدید طریقِ انتساب کے تحت لکھے ہوئے الفاظ و تاریخی کلمات بھی، تا کہ ’’جشنِ خدمتِ علمی‘‘ کا جس طرح پروگرام ہوا ہے، وہ نئی اور پرانی کتابوں کی طباعت اور عزیزوں کی حوصلہ افزائی کی صورت میں سال بھر منایا جائے۔

۳۔ حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کی ایک قرآنی دعا میں جس عیدِ سعید (۵: ۱۱۴) کا ذکر آیا ہے، وہ بڑی انوکھی اور نرالی عید ہے، کیونکہ وہ دنیا کی ہر عید سے قطعاً مختلف ہے، یقیناًوہ روحانی اور علمی غذائیں کھا کر شادمان ہو جانے کا دن ہے، ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ ’’ جشنِ خدمتِ علمی ‘‘ کا انحصار پلاؤ، حلوہ، وغیرہ پر نہ ہو، بلکہ اس میں ایسا دسترخوان بچھایا جائے کہ وہ مشرق سے لے کر مغرب تک پھیل جائے، اور اس پر عقل و روح کی گوناگون نعمتیں موجود ہوں، پس ایسا معجزانہ دسترخوان صرف روحانی علم ہی کا ہو سکتا ہے، اور ان شاء اللہ ایسا ہی ہو گا۔

۴۔ جو عزیزان ہمارے ساتھ جان و دل سے علمی خدمت کرتے

۸

آئے ہیں اور جو ابھی ابھی اس خدمت میں شریک و شامل ہوئے ہیں، ہم ان سب کو پروردگار کی یاری سے نیک نام بنائیں گے، ہم بجا طور پر ان کی حوصلہ افزائی اور تعریف کریں گے، اور ان کے کارناموں کو تاریخ کا حصہ بنائیں گے، تا کہ آج ان کو اور کل ان کی نسل کو فخر حاصل ہو، اور یقیناًبہت پہلے سے یہ کام ہو رہا ہے۔
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے یہاں جس طرح ایک منظم علمی خدمت ہو رہی ہے، وہ ایک آسمانی معجزہ ہے، دراصل یہ ہم ایسے حقیر انسانوں کا کام ہے نہیں، گمانِ غالب یہ ہے کہ یہاں مونوریالٹی (یک حقیقت) کے تحت بڑی بڑی اور پاکیزہ پاکیزہ روحیں آ کر کام کر رہی ہیں۔

۵۔ جس طرح ظاہری شہد بنانا کسی ایک شہد کی مکھی کے بس کی بات نہیں، اسی طرح کوئی بھی استادِ کامل پیارے پیارے شاگردوں کی روحوں کی تائید کے سوا خود تنہا روحانی علم (یعنی تاویلی حکمت) پیش نہیں کر سکتا ہے، پس دینِ فطرت کا یہی قانون ہے، اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں، اور یہ بھی عالمِ شخصی کی ایک روشن حقیقت ہے کہ ایسی تائیدی روحوں کا دائرہ بڑا وسیع ہے، یاد رہے کہ روح کا دوسرا نام فرشتہ ہے۔

۶۔ قرآنِ کریم فرماتا ہے کہ ہر روز خدا کی ایک نئی شان اور ایک

۹

نئی تجلی ہوا کرتی ہے، اس پر ہمارا ایمان ہے، لیکن ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اللہ کی شان یا تجلی جو کوہِ طور پر ہوئی، وہ خداوند تعالیٰ کے لئے نئی تھی یا حضرتِ موسیٰ کے لئے؟ اس کا جواب خود بخود روشن ہو کر سامنے آتا ہے کہ نئی نئی تجلیات نئے نئے عارفوں کی نسبت سے ہوتی رہتی ہیں، جبکہ ذاتِ خدا کے سامنے کوئی شے جدید نہیں، کیونکہ اس کی صفات میں کوئی تغیر نہیں، پس کل یوم ھو فی شان (۵۵: ۲۹) کا مطلب ہے کہ ہر زمانے میں خدا کا ایک مظہر موجود ہے، اور اسی کی ذات میں ہر روز اللہ کی ایک نئی شانِ تجلی ہوتی رہتی ہے۔
ہاں، یہ درست اور حقیقت ہے کہ مظہر کے بھی مظاہر ہوا کرتے ہیں، تا کہ رحمت و علم کی فراوانی ہو، اور اگر مظہر کے مظاہر نہ ہوتے تو معرفت ناممکن ہوتی، اور دین میں کوئی عارف نہ ہوتا، اور نہ ہی حق الیقین کا مرتبہ ہوتا، کیا فنا فی اللہ و بقا با للہ سب سے بڑا اور آخری درجہ نہیں ہے؟ کیا اسی کا دوسرا نام مونوریالٹی نہیں؟ کیوں نہیں۔

۷۔ یہ انٹرویو جو آج سے تقریباً چھ سال قبل مجھ سے لیا گیا تھا، اپنی جگہ درست ہے، الا آنکہ میں نے اپنے خاندانی پس منظر پر مزید ریسرچ کر کے ایک مختصر سی تاریخ کا اضافہ کیا ہے؟ آپ انٹرویو کے بعد ضمیمہ میں اسے دیکھ سکتے ہیں، دوسری بات سفرِ مغرب کے بارے میں ہے کہ میں قبلاً امریکا اور فرانس نہ جا سکا تھا، لیکن اب یہ

۱۰

بات بھی نہ رہی، کیونکہ خدا کے فضل و کرم سے اور تمام عزیزوں کی خواہش و کوشش سے اب تک میں تین بار امریکا جا چکا، ایک دفعہ فرانس گیا، اور کل چھ بار کنیڈا کا دورہ کیا، لیکن لنڈن کے دورے کتنے ہوئے؟ یہ ایک دلچسپ مسئلہ ہے، کیونکہ میں وہاں خداوندِ قدوس کی رحمت و مہربانی اور عظیم دوستوں کی پرخلوص دعوت سے بار بار جاتا رہا۔

۸۔ کتابِ روحانیت کہتی ہے: فردوسِ برین کے مرتبۂ عقل پر ایک نہایت پرنور و پر کشش شخصیت ہے، جس کے بہت سے اسماء و امثال ہیں، جیسے وجہ اللہ، صورتِ رحمان، نفسِ واحدہ، روحِ اعظم، نفسِ کلی، عالمِ وحدت، ید اللہ، لسان اللہ، لوحِ محفوظ، قلمِ الٰہی، کرسی، عرش، جنت، رضوان، حور، غلمان، واحد، جمع، اول، آخر، ظاہر، باطن، درختِ زیتون، سدرۃ المنتہیٰ، بیت العتیق، وغیرہ، اور یہی عالمِ وحدت خود یک حقیقت ہے۔

۹۔ عالمِ روحانی کی تجلیات: عارف کے مشاہدۂ باطن میں مثال کے طور پر ایک خوبصورت پہاڑ تھا، وہ چشمِ زدن میں دریا بن گیا، پھر دریا ایک انتہائی حسین باغ کی شکل میں نظر آیا، اب پھر منظر بدل گیا، اور سامنے زرق برق لباس پہنے ہوئے لوگ نظر آ رہے ہیں، پھر یکایک وہ سب غائب ہو گئے، صرف ایک نورانی شخص ہے، پھر آنکھ کی جھپک میں اس کا ظہور ایک تابناک کتاب کی صورت میں ہوا، قس علیٰ ہٰذا القیاس۔

۱۱

یاد رہے کہ مقاماتِ روح پر تجلیاتِ صوری ہیں، اور منازلِ عقل میں تجلیاتِ معنوی، یعنی یہاں بار بار چیزوں کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں، اور وہاں جو کچھ ہے وہ ایک جیسا ہے، تاہم اس کے معنی میں تجلیاتی گوناگونی ہے، کیونکہ وہ کل اسماء کا مسمیٰ تمام معنوں کا حامل، اور ساری مثالوں کا ممثول ہے۔

۱۰۔ آخر میں تمام دوستانِ عزیز کی خدمت میں جھک جھک کر مؤدبانہ و مخلصانہ سلام و احترام بجا لاتا ہوں، اور مشرق و مغرب کے جملہ عملداران و ارکان کی گرانقدر خدمات کو جان و دل سے سراہتا ہوں، کیونکہ آج ہماری جیسی ترقی ہوئی ہے، وہ ان حضرات کی پاکیزہ دعاؤں اور کوششوں کی وجہ سے ہے، ورنہ یہ خاکسار کیا کر سکتا ، ان شاء اللہ ہر عزیز نامۂ اعمال کو دیکھ کر بے حد شادمان ہو گا، آمین! !جشنِ خدمتِ علمی کا سلسلہ تمام ساتھیوں کو مبارک ہو! اس میں ہزار بلکہ بے شمار برکتیں ہوں

نصیر الدین نصیر ہونزائی (کراچی(
ہفتہ ۲۷ جمادی الاول ۱۴۱۴ھ
بمطابق ۱۳ نومبر ۱۹۹۳ء

۱۲

بابائے بروشسکی
علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی

علامہ نصیر الدین نصیر صاحب کی مشکبار شخصیت محتاجِ تعارف تو نہیں، لیکن آپ کی زندگی کا ’’سفر نامہ‘‘ جو کہ تحیر خیز واقعات سے پر ہے، کا علم بہت کم لوگوں کو ہے، آپ ایک طویل عرصے سے کراچی میں مقیم علم و ادب کی خدمت میں مصروف ہیں، گلگت کبھی کبھار ہی تشریف لاتے ہیں، ۱۹۸۶ء کے موسمِ گرما میں آپ جب گلگت تشریف لائے تو قراقرم رائٹرز فورم نے آپ کے اعزاز میں ایک پارٹی دی، اس دوران آپ سے گفتگو کا شرف حاصل رہا، ڈیڑھ سو کتابوں کا مصنف اتنی انکساری سے ملا کہ ایک بے نام جذبے کے تحت آنسو چھلک پڑے۔

دوسری مرتبہ بنفسِ نفیس آپ پبلک لائبریری تشریف لائے، وہیں آپ سے انٹرویو کے لئے وقت مانگا، آپ چونکہ قلیل عرصے کے لئے آئے تھے، اس لئے فیصلہ ہوا کہ بالمشافہ انٹرویو کی بجائے راقم کی طرف سے کئے گئے سوالات کی روشنی میں آپ کراچی سے فاصلاتی انٹرویو کا مسودہ ارسال کریں گے، اس پر راقم نے صاد کیا۔

۱۳

ایک مناسب وقفے کے بعد علامہ صاحب نے مسودہ ارسال کیا، جو کہ من و عن قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

)شیر باز علی خان برچہ(

۱۴

سوال و جوابِ اول

برچہ: محترم علامہ صاحب! اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ بتائیے؟

نصیر صاحب:

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اس بندۂ عاجز، ناتوان، اور کمترین اعنی نصیر الدین نصیر ہونزائی کا پہلا نام پرتوِ شاہ (Partaw-i Shah) ہے، جو برکت حاصل کرنے کی نیت سے عالیجناب شہزادہ لیث کے جدِ امجد پیر شاہ پرتوِ شاہ کے اسم سے اخذ کیا گیا ہے، یہی نام (پرتوِ شاہ) اس خاکسار کے والدِ محترم کے استادِ معظم خلیفہ شاہ آفرین نے بھی اپنے ایک فردِ خاندان کے لئے پسند فرمایا تھا، خلیفہ شاہ آفرین صاحب اپنے وقت میں ایک بڑے عالم شخص تھے، اگر یہاں اس نام کا اصل مطلب بیان کیا جائے تو شاید بے جا نہ ہو گا، چنانچہ ’’پرتو‘‘ کی مثال وہ عکسِ خورشید ہے، جو آئینے سے منعکس ہو جاتا ہے، جیسا کہ کسی شاعر نے کہا
پرتو افگن ہو اگر روشنئ طبع تری
برق آئینہ ہو اور سنگِ سیہ ہوا برق

۱۵

شاہ  اسماعیلی اصطلاح میں امامِ عالی مقام کو کہا جاتا ہے، پس پرتوِ شاہ کا مفہوم ان بزرگوں کے نزدیک ’’عکسِ نورِ امام‘‘ جیسا رہا ہو گا، تاہم اس میں تعریف کی کوئی بات نہیں، کیونکہ ہر مسلمان اپنی عقیدت اور نیت میں یہ سعی ضرور کرتا ہے کہ اس کی اولاد کا نام بہت ہی خوب اور اعلیٰ ہو، صرف یہی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہمیشہ یہ دعا بھی کرتا رہتا ہے کہ اس کا فرزند اسم بامسمیٰ ہو، یعنی وہ اپنے نام کا مصداق بنے۔
میں فطری طور پر فلسفۂ وحدتِ انسانی کا شیدائی ہوں، اور اس سلسلے میں درسِ اول صلۂ رحمی کا فلسفہ ہے، لہٰذا میں اپنے آبائی خاندان کے تذکرے سے قبل امہات کے خاندانوں کا مختصر ذکر کروں گا، جنہوں نے میری ہستی کے درخت کے لئے دور رس اور وسیع جڑوں کی حیثیت سے کام کیا ہے، چنانچہ میری مادرِ مہربان روزی بای بنتِ حیدر محمد کے توسط سے میری ایک جڑ خاندانِ بختہ کد میں استوار ہے، دوسری جڑ محترمہ نانی فضہ بنتِ سلطان محمد کی جانب سے ہکل کد کے خاندان میں ہے، تیسری جڑ محترمہ روزی بای دخترِ درس علی (ابنِ خان لسکری) سے قلی کد میں پیدا ہوئی ہے، اور چوتھی جڑ میری پر دادی گل بی بی کی طرف سے خروٹک میں اگی ہے، تاہم مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس شجرہ کی یہ دلچسپ ریسرچ دوسری کئی جڑوں کے بارے میں اب تک نامکمل ہے۔

۱۶

اس حقیر کے آبائی خاندان کا سلسلہ اس طرح ہے: نصیر الدین (پرتوِ شاہ) ابنِ خلیفہ حبِ علی، ابنِ خلیفہ محمد رفیع، ابنِ ترنگفہ فولاد بیگ (جو شہزادہ ریحان شاہ ابنِ میر غضنفر خان کے پدرِ رضاعی تھے) ابنِ ترنگفہ شمشیر بیگ، ابنِ ترنگفہ غریب، ابنِ حاجی، ابنِ منو، ابنِ فقیر، ابنِ پونو، ابنِ سرل، ابنِ فقو، ابنِ شاہ بہرام ثانی، ابنِ شاہ روپ، ابنِ بہرام اول، ابنِ برگل اول، ابنِ سفر / صفر، جو بروک ہرای کے خاندان سے تھا، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ چین سے آیا تھا۔
آپ ایک آیۂ کریمہ کی اس تفسیر میں خوب غور کریں: اور اللہ تعالیٰ کی بے مثال قدرت ایسی ہے کہ اس نے آدمی کو پانی (یعنی نطفہ) سے پیدا کیا، پھر اسے بیٹوں کی جانب سے سلسلہ ہائے خاندان اور بیٹیوں کی طرف سے شاخ در شاخ سسرال بنا کر پوری دنیائے انسانیت میں پھیلا دیا، اور خدا قادرِ مطلق ہے (۲۵: ۵۴) اس حکمت سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح ظاہر اور واضح ہو جاتی ہے کہ انسان نہ صرف اپنے پھیلاؤ کی تاریخ سازی میں ماضی سے زمانۂ حال میں داخل ہو گیا ہے، بلکہ اپنے آپ کو سمیٹنے کی تاریخ دانی میں حال سے ماضی کی طرف بھی ذہنی سفر کر سکتا ہے، شاید عنقریب ایسے فلاسفر بھی پیدا ہو جائیں گے، جو زبردست شوق اور بے حد انہماک سے انسانی وحدت و سالمیت کے اسرارِ عظیم کے انکشاف کے لئے تحقیق (ریسرچ) کریں گے ان شاء اللہ، اس وقت بیگانگی کا تصور رفتہ رفتہ ختم ہو جائے گا۔

۱۷

میرے مرحوم قبلہ گاہ (حبِ علی) اسماعیلی پیروں کے نمائندوں میں سے تھے۔ نمائندۂ پیر کو خلیفہ (نائب یا جانشین) کہتے ہیں، لفظِ پیر اور خلیفہ دونوں دراصل اصطلاحاتِ تصوف میں سے ہیں، اس زمانے میں حضراتِ پیران امام علیہ السلام کے نمائندے ہوا کرتے تھے، اور مختلف علاقوں میں خلفاء اپنے اپنے پیروں کی نیابت و نمائندگی کیا کرتے تھے، جس میں ہر خلیفہ اپنے حلقۂ جماعت میں تمام مذہبی امور کی سرپرستی کرتا تھا، اور اس دینی منصب کے لئے یہ لازمی شرط تھی کہ وہ مسائلِ ضروریہ کا علم، معلومات، اور تجربات رکھے، اور علم کے ذرائع نہ ہونے کی مجبوریاں بھی تھیں، بہ ہر کیف میرے جدِ بزرگوار محمد رفیع بھی اپنے وقت میں خلیفہ تھے، اور ان کے والدِ محترم فولاد بیگ ہی نے ہمارے خاندان میں سب سے پہلے علم کی شجر کاری شروع کی تھی۔
اگر قدیم ہونزہ کے کسی خاندان یا فرد کے بارے میں کوئی تاریخی کارنامہ بیان کرنا ہے، تو ہم چاہیں یا نہ چاہیں، بہ ہر حال لازمی طور پر اس عہد کے تھم (راجہ) کا تذکرہ کرنا پڑتا ہے، کیونکہ بتقاضائے زمان و مکان ان لوگوں کی معاشرتی زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہوتا تھا کہ انہیں حاکمِ وقت کی کوئی قربت و نزدیکی حاصل ہو، یہی وجہ ہے کہ اس دور میں اگر خدمت، قربانی، جان نثاری، وفاداری اور بہادری کا کوئی معیار تھا، تو وہ راجہ ہی کا مقرر کردہ معیار ہوا کرتا تھا۔

۱۸

مجھے فکر ہے کہ کوئی سادہ دل ہونزائی شاید یہ خیال کرے گا کہ میں نے صرف اپنے ہی خاندان کے بارے میں لکھا ہے، اور بس، حالانکہ میں کوئی مکمل تاریخ نہیں لکھ رہا ہوں، نہ میرے پاس وقت ہے، نہ اتنی وسیع معلومات ہیں، اور نہ یہ میرا موضوع رہا ہے، لیکن نوجوان سکالر نے جس دانشمندی سے سوالات کئے ہیں، میں ان کے جوابات کے لئے پابند ہوں، چنانچہ عرض ہے کہ گرکس تھم کے زمانے میں وزیرِ چوسنگھ تھے، جو راجہ کے پدرِ شیر بھی تھے، نور بیگم اور ایشو (میوری تھم) کے عہدِ حکومت میں وزیر بوٹو ابنِ چوسنگھ تھے، جن کو چوشای بوٹو کہا جاتا ہے، شاہ ملک تھم کے وقت میں وزیرِ ممو ابنِ ھنو تھے، جن کو بروشسکی میں ھنوی ممو کہتے ہیں (بحوالۂ انگریزی کتاب: ’’ہونزہ‘‘ صفحہ ۳۰۲) اسی طرح شروع کے چار حکمرانوں کی وزارت قبیلۂ برونگ کے پاس تھی، یہ ہمارا قبیلہ ہے (اس انٹرویو کے آخر میں جو ضمیمہ ہے، وہ اس کے ساتھ ملا کر پڑھیں)۔

۱۹

سوال و جوابِ دوم

برچہ: اب کتابِ زندگی کا ایک اور ورق پلٹئے اور بچپن کے حالات کے بارے میں کچھ بتائیے؟

نصیر صاحب: یہ ناچیز بندہ اپنے والدین کی سب سے آخری اور چھوٹی اولاد ہے، تاریخِ ولادت ۱۳۳۵ھ / ۱۹۱۷ء شاید مئی کا مہینہ تھا، مقام ہے قریۂ حیدرآباد (ہونزہ)۔ میری والدۂ محترمہ کہا کرتی تھیں کہ میری پیدائش سے قبل میرا ایک بھائی بنامِ حاصل خان تقریباً ۹ ماہ کی عمر میں گزر گیا تھا، جو مادرِ مہربان کی چشمِ محبت میں بڑا شکیل اور بہت ہی عزیز تھا، چنانچہ ماں زار و قطار مثلِ نو بہار روتی ہوئی پروردگارِ عالم کی بارگاہ میں سر بسجود دعا کرتی تھیں، کہ اے دونوں جہان کے مالک! اے آسمانی طبیب! میرے دلِ مجروح کا علاج فرما! اور مجھے حاصل خان جیسا ایک شیرین فرزند عطا کر دے! حالانکہ اللہ پاک نے اولاد کے خزانوں سے جس طرح میرے والدین کو نوازا تھا، ان میں سے تین لڑکے اور تین لڑکیاں موجود تھیں، بہر حال مجھ پر ماں باپ کے علاوہ میرے بھائیوں اور بہنوں کے بھی بہت سے احسانات ہیں، کہ سب نے بڑی محبت و شفقت سے میری پرورش اور مدد کی ہے، پس میں اپنے کسی بڑے سے کیسے بڑا ہو سکتا ہوں،

۲۰

اور جس نے مجھ پر احسان کیا ہو، وہ مجھ سے چھوٹا کس طرح ہو سکتا ہے۔
دراصل مجھے اس بات سے بڑا تعجب ہے کہ میری والدہ کو یہ خیال کیسے پیدا ہوا کہ اگر کسی مؤمن یا مؤمنہ کو بوقتِ مصیبت رونا اور اشک بہانا ہے، تو وہ بحضورِ خدا دعا کی صورت میں ہو؟ یقیناًاللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے، اور قلبی ہدایت و توفیق بھی وہی عنایت کر دیتا ہے۔
بیرونی لوگ کہا کرتے ہیں کہ باشندگانِ ہونزہ بڑے محنتی اور جفاکش ہوا کرتے ہیں، لیکن اب یہ تعریف تقریباً ختم ہونے کو ہے، محنت و مشقت پہلے زمانے میں تھی، تاہم خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں نے زمانۂ پسماندگی کے بعد زمانۂ ترقی کو بھی دیکھا، میرے نزدیک دونوں زمانوں میں برابر کی عظیم حکمتیں پوشیدہ ہیں، مثال کے طور پر کتنی اچھی اور سچی کہانی اور مثال ہے میرے بچپن، نوجوانی، اور بھرپور جوانی کی، جس میں گوناگون مشقتوں کو میں اپنے لئے سعادت اور راحت سمجھتا تھا، بھیڑ بکریوں کو چراتے ہوئے شاید یہ خیال کیا کہ یہ سب میری تابعدار رعایا ہیں، اور میں بے تاج بادشاہ ہوں، عصائے چوپانی کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی جیسی اہمیت دی ہو گی، جلانے کے لئے لکڑی اور دیگر قسم کے بھاری بوجھ کو پشت پر اٹھاتے ہوئے فخر محسوس کیا کہ میں فلان فلان جوانوں سے زیادہ وزنی اور سنگین بوجھ اٹھا سکتا ہوں، بیل کی جگہ ہل کھینچتے وقت کہا کہ میرے مقابلے میں بیچارہ بیل کیا چیز ہوتا ہے، عام سے عام تر غذاؤں کو کھاتے ہوئے مسکرایا اور کہا کہ

۲۱

اس بہادری میں شیر کا بچہ فلان شہزادہ صاحب ہیں یا میں ہوں؟ درحالیکہ میں ایسی خوراک کھا رہا ہوں جو وہ نہیں کھا سکتے، اور ایسی بے شمار مثالیں ہیں، جن میں خندہ پیشانی اور فخر کے ساتھ سختی اور مشقت برداشت کی جاتی تھی۔
ہمارے گھر کی مالی حالت اگرچہ علاقہ اور گاؤں کے اچھے گھرانوں کی طرح تھی، لیکن زمانے کی وجہ سے پوری ریاست میں جو رسم و رواج اور مجبوریاں تھیں، ان کے لئے کیا ہو سکتا تھا، مثال کے طور پر جس آدمی کی کافی بکریاں ہوں، تو اسی گھر کا کوئی فرد چرواہے کا کام کرتا تھا، وہ دامنِ کوہ یا پہاڑ پر بکریاں چرایا کرتا تھا، اس کے ساتھ سب سے کم قیمت غلہ برو کی تھوٹی (Buck weat cake) ہوتی تھی، یا جو، باجرہ وغیرہ کی مکس روٹی ہوا کرتی تھی، اور چوپانوں کے لئے خوراک کی سب سے شدید تکلیف اس وقت ہوتی تھی، جبکہ وہ اپنی اور دوسروں کی بھیڑ بکریوں کو موسمِ گرما میں تقریباً ایک منزل دور ییلاق (تیر) یا چراگاہوں میں منتقل کر لیتے تھے، اس وقت اچت (آبادی) میں جو کی فصل پک کر آٹا حاصل آنے تک بس خالص برو ہی برو کا آٹا استعمال ہوتا رہتا تھا، جس سے بیچارہ گڈرئے کو اکثر قبض کی شکایت رہتی تھی، اور اگر چراگاہ ایسی ہے کہ اس میں دن بھر ریوڑ کے پیچھے بھاگم بھاگ کی ضرورت پڑتی ہے، تو پھر اس کے نتیجے میں بھوک بے حد ستاتی تھی، جس کی تکلیف بیان سے باہر ہے، لیکن عرصۂ دراز کے بعد میں یہ راز سمجھنے کے قابل ہو گیا، کہ مؤمن کی ہر تکلیف میں

۲۲

ایک رحمت پنہان ہوا کرتی ہے۔
اس وقت کے بچوں کا ایک پسندیدہ کھیل چوگان بازی (پولو) تھا، جو پیدل دوڑتے ہوئے کھیلتے تھے، میں اپنے دوستوں کے ساتھ اس میں شوق سے شرکت کرتا تھا، میں تیراکی میں بہت ہی پیچھے رہا، رسہ کشی قابلِ دید کھیل ہے، غلیل سے صرف ایک چڑیے کو مارا، اور بندوق سے صرف ایک کبوتر کو، مجھ میں شرم کا عنصر ضرورت سے زیادہ تھا، اور یہ عادت آدمی کو معاشرے میں آگے بڑھنے سے روک سکتی ہے، گھوڑے کی سواری سفر کرنے کی حد تک سیکھ لی، مجھ میں پہاڑی دوڑ اور میدانی دوڑ کی صلاحیت موجود تھی، لیکن ہائی جمپ اور لانگ جمپ میں اکثر ناکامی ہوتی تھی۔

۱۳۴۱ھ / ۱۹۲۳ء میں حضرتِ امام کی طرف سے ہر گاؤں میں ایک مکتب قائم ہوا تھا، جس میں مجھے بھیجا گیا، لیکن افسوس کہ تھم کی عدم دلچسپی کے سبب سے وہ سارے مکاتب ختم ہو گئے، اور عمرِ گرانمایہ کے کئی سال حصولِ تعلیم کے بغیر ضائع ہو گئے، اس مکتب کے اردو قاعدے میں میرے لئے کتنی مقناطیسیت و دلکشی کے سامان موجود تھے، میں اس عزیز قاعدے کو اپنے پاس رکھتا تھا، اور اگر چند مہینوں کے بعد کوئی خواندہ شخص آتا تو اس سے کچھ الفاظ کا درس لیتا تھا، کافی سالوں کے بعد میں خود درخواست کر کے والد صاحب سے قاعدۂ بغدادیہ کا درس لینے لگا، ہر سبق کے چند

۲۳

ابتدائی الفاظ بتا دیتے تھے، اور باقی بڑی آسانی سے میں خود پڑھ لیتا تھا، یہ دیکھ کر پدرِ بزرگوار بے حد خوش ہو جاتے، اسی طرح میں نے ان سے قرآنِ پاک کا ایک حصہ پڑھ لیا، اور علم کی بہت سی ابتدائی باتیں زبانی طور پر سیکھ لیں، میرے قبلہ گاہ حضراتِ انبیاء علیہم السلام کے پرحکمت قصوں میں سے پیارے پیارے جواہر پارے سنایا کرتے تھے، وہ مذہبی قسم کی فارسی نظمیں بھی ترنم سے پڑھا کرتے تھے، جس میں میرے لئے ایک ساتھ تین خزانے موجود ہوتے تھے: زبان، علم، اور دینی محبت۔
اس زمانے میں حصولِ علم کا کام کتنا شدید مشکل تھا، اس کی دو مثالیں ملاحظہ ہوں: ہم قریۂ حیدرآباد کے چند طلباء قرآنی درس لینے کے لئے ایک قابل استاد کے پاس جانے لگے، وہ بہت ہی شریف اور بڑے نرم گو، اور بزم خو انسان تھے، ان کا اصولِ تعلیم تھا: ’’کم بگیر محکم بگیر‘‘ ۔ ہم تقریباً پندرہ دن تک ان کے وہاں پڑھ چکے تھے، اس کے بعد انہوں نے بڑے پیار سے فرمایا کہ عزیزو! آج تم میری مدد کرو، وہ یہ کہ مویشی خانہ سے پستی ٹوکرے بھر بھر کر فلان کھیت تک کھاد اٹھاتے جاؤ۔ اس بات سے ہم سب کو تعجب اور صدمہ ہوا، اور ہم میں جو سب سے بڑا تھا، اس نے کہا: استاد جی! جو کام مناسب ہو، وہ بسر و چشم، لیکن کھاد ڈھونے کا ذلت آمیز کام ہم نہیں کر سکتے ہیں، یہ کہہ کر ہم وہاں سے اٹھ گئے، اور پھر

۲۴

ان کے پاس نہیں گئے۔
دوسری مثال: گاؤں ہی میں ایک استاد تھے، میں بوقتِ فرصت ان کے پاس قرآنِ مجید کے علاوہ پہلے پنج گنج، پھر گلستان، بوستان وغیرہ پڑھنے کے لئے جایا کرتا تھا، ان دنوں میں کوئی معلمِ کامل نہیں مل سکتا تھا، اس لئے وہ جو کچھ علم رکھتے تھے، اس میں سے پڑھاتے اور سمجھاتے تھے، میں ان کا بڑا شکرگزار تھا، اور میرے والدین وقتاً فوقتاً ان کی خدمت میں شکرگزاری، قدردانی، اور حوصلہ افزائی کے حقیر تحفے بھیجتے تھے، ایک دن ہمارے غریب خانے میں ایک چھوٹی سی، حقیر سی نیاز تھی، جس میں صرف ایک قسم کے ڈاوڈو کا اہتمام کیا گیا تھا، چنانچہ والد صاحب نے دعا و فاتحہ کی غرض سے اپنے متبادل خلیفہ صاحب کو بلایا، یہ سن کر ہمارے محترم استاد رنجیدہ خاطر ہو گئے، اور جب میں دوسرے دن ان کی خدمت میں حاضر ہوا، تو فرمانے لگے، کہ تمہارے پاس اس وقت تین کتابیں موجود ہیں، لہٰذا میری تجویز یہ ہے کہ ان کتابوں میں سے ایک تمہارا والد تم کو پڑھائے، دوسری کتاب فلان خلیفہ پڑھائے گا، جس کو تم نے دعوت دی تھی، اور بے شک تیسری کتاب کو لے کر میرے پاس آتے رہنا، میں بڑا غمگین ہو گیا، مگر لب کشائی کی ہمت نہ ہوئی، اب میں کیا کر سکتا تھا؟ بس یہی کہ جانا ہی چھوڑ دیا، ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد انہوں نے میرے والد سے کہا کہ اپنے بیٹے کو غیاث اللغات کے ساتھ بھیج دیں، میرے شفیق و مہربان باپ نے یہ پیغام

۲۵

مجھے سنا دیا، لیکن فیصلہ مجھ پر چھوڑ دیا، میں نے بڑی عاجزی سے گزارش کی کہ قبلۂ محترم! میں اپنی لغات کو استاد کی جگہ پر استاد بنا لوں گا، اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ جو مسبب الاسباب ہے، میری راہنمائی اور دستگیری فرمائے گا۔
میرے ایک جانی اور جگری دوست ہیں، حبِ علی ابنِ کلبِ علی، جو بعد میں پنیال میں مقیم ہوئے ہیں، اور پروردگارِ عالم نے ان کو اعلیٰ معنوں میں نوازا ہے، انہوں نے مجھے یہ نیک مشورہ دیا کہ آپ گورنمنٹ پرائمری اسکول، بلتت، جایا کریں، میں نے کہا: ارے یار! آپ کا کہنا بجا تو ہے، لیکن میں اب نوجوان ہو چکا ہوں، مجھے کس جماعت میں داخلہ ملے گا، اگر مجھے کسی چھوٹی کلاس میں بٹھایا گیا، تو لڑکے میرے قد و قامت اور کلاس کا موازنہ کر کے مذاق اڑائیں گے، جس سے مجھے بری طرح شرمانا پڑے گا، انہوں نے فرمایا: نہیں دوست، ہرگز ایسا نہیں ہو گا، میں خود بھی آپ کے ساتھ آتا ہوں، ماسٹر محمد نجات صاحب ابنِ ترنگفہ زوارہ بڑے قابل اور بے حد شریف انسان ہیں، ان کی نگرانی میں آپ کو ذرا بھی کوئی ذہنی تکلیف نہ ہو گی۔
ہم دونوں بلتت سکول گئے، موصوف و مرحوم ماسٹر صاحب میں واقعی دیگر بہت سے اوصاف و کمالات کے ساتھ ساتھ خاصۂ مردم شناسی بھی موجود تھا، انہوں نے بڑی شفقت سے مجھے درجۂ سوم میں بٹھایا، اور تقریباً چھ ماہ کے بعد درجۂ چہارم میں خصوصی طور پر بڑھا دیا، ایسی مہربانی کسی طالبِ علم کے حق میں نہیں ہو سکتی تھی، جس کی شاید تین وجہیں ہو سکتی ہیں: اول یہ کہ ہمارے

۲۶

مدرس صاحب بڑے مہربان و قدردان تھے، دوسری وجہ میری عمر کچھ بڑی تھی، اور تیسری یہ کہ میرا ذہن علم کے میدان میں بڑی تیزی سے کام کرتا تھا، بہر حال سکول کے تمام لڑکے بہت ہی اچھے تھے، سب کے سب دوست بن گئے، وہی دوستی اب بھی ہے، جیسے ترنگفہ مالک اشدر صاحب، عین الحیات صاحب، ماسٹر سکندر خان صاحب، احمد علی صاحب، ماسٹر دولت علی صاحب، ماسٹر سلطان علی صاحب، ابراہیم صاحب، امام داد صاحب، گشپور یعقوب خان صاحب، غلام حیدر صاحب، مالک شاہ صاحب، گروپ کیپٹن (ریٹائرڈ) شاہ خان صاحب، اور بہت سے دوسرے ساتھی بھی تھے، پس مجھ پر منشی حبِ علی ابنِ کلبِ علی ابنِ سلطان علی کا بڑا احسان ہے۔

۲۷

سوال و جوابِ سوم

برچہ: علامہ صاحب! سنا ہے کہ آپ کسی زمانے میں یا غالباً بالشویک انقلاب کے دوران سنکیانگ (کاشغر) میں چینی حکومت کی حراست میں رہے، اس واقعے کی تفصیل کیا ہے؟

نصیر صاحب: چین پاکستان کا ایک اچھا ہمسایہ اور ایک خیرخواہ دوست ہے، اور ہونزہ جو اب وطنِ عزیز کا اہم حصہ ہے، وہ ہمیشہ سے: عظیم چین کا دوست رہا ہے، قربان جائیں اس حدیثِ نبوی سے، جس میں بطورِ مثال یہ ارشاد ہوا ہے کہ
علم کو طلب کرتے رہو، اگرچہ اس کے لئے تمہیں چین جانا کیوں نہ پڑے‘‘۔’’
چنانچہ میرا حسنِ ظن اس حدیثِ شریف کے بارے میں بڑا عجیب و غریب ہے، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے چین میں ایک علم ملا، جس کی تعریف و توصیف الفاظ سے نہیں بلکہ اعمال سے ہونی چاہئے، لیکن مجھ ایسا بے ہمت اور ناشکرا انسان کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کر سکتا ہے۔
شمالی علاقہ جات کے اسماعیلی لیڈروں نے ۱۹۴۷ء میں اپنا نمائندہ بنا کر اس بندۂ درویش کو یہ اعزاز دیا کہ میں کراچی جا کر اسٹیٹ ایجنٹ برائے

۲۸

ہز ہائنس وزیر کریم کے پاس جماعتی حساب کتاب پیش کروں، یہی بہت بڑی سعادت دوسرے سال یعنی ۱۹۴۸ء میں بھی حاصل ہوئی، کچھ دنوں کے بعد مسگار کے جناب فتح علی خان صاحب بھی کسی کام سے کراچی آئے ، انہوں نے مجھ سے کہا ، آئیے! آپ میری مدد کریں، میری مذہبی معلومات بہت محدود ہیں، ہم دونوں جا کر ان شاء اللہ سریقول اور یارقند کی اپنی جماعتوں کے لئے جماعت خانوں کی تعمیر اور چھوٹے چھوٹے دینی مدرسوں کے قیام کے واسطے جد و جہد کریں گے، اور یہ کام وہاں کے موروثی موکھی حضرات کی شرکتِ عمل ہی سے ممکن ہے، اور سب سے پہلے تو ہمیں حضرت امامِ عالی مقام کے حضور سے اس کی اجازت و ہدایت لینی ہو گی، میں نے کہا کہ ارادہ بڑا نیک ہے، آپ وزیر کریم صاحب کے توسط سے اس خدمت کی اجازت لیں، مگر میں اپنے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا، جب تک کہ میں اپنے والدین سے نہ پوچھوں، چنانچہ دربارِ عالی سے اس کام کے لئے فرمانِ مکتوب صادر ہوا، اور ہم ہونزہ کی طرف روانہ ہو گئے۔
ماں باپ سے بخوشی مجھے اجازت مل گئی، اور ہم فروری کے دوسرے ہفتہ ۱۹۴۹ء میں تاشغورغان وارد ہو گئے، مذکورۂ بالا کام کے لئے یہ حضرات نامزد ہوئے تھے: ہونزہ سے فتح علی خان صاحب ( میں ان کا معاون تھا) یارقند سے موکھی مولا بخش صاحب، موکھی ابو سعید خان صاحب، اور موکھی یاقوت شاہ صاحب، اور سریقول سے موکھی عاصف جان صاحب، موکھی

۲۹

سلطنت خان صاحب اور سید ادریس خان صاحب، چنانچہ ہم نے سریقول میں عرصۂ پانچ ماہ تک کوشش کی لیکن بعض لوگوں میں خوفِ بے جا ہونے کی وجہ سے کوئی کامیابی نہیں ہوئی، پھر یہ طے ہو گیا کہ میں فرمانِ مبارک لے کر یارقند جاؤں، پس میں طلا خان اقسقال کے ہمراہ یارقند گیا، اق= سفید، سقال = ڈاڑھی، اقسقال (سفید ریش) یہ ایک ترکی ٹائٹل ہے، طلا خان صاحب ایک ہوشمند، متدین اور خیر خواہ شخص تھے، انہوں نے سب سے پہلے اپنے دولت خانہ میں فرمان خوانی کے لئے اہتمام کیا، جس کو سننے کے لئے نزدیک، دور، اور بہت ہی دور سے سیکڑوں کی تعداد میں افرادِ جماعت حاضر ہو گئے، جن میں موروثی موکھی صاحبان اور سادات صاحبان بھی تھے، اس گاؤں کا نام قراجاش تھا۔
اقسقال صاحب کے بعد قرانگغو توغراق میں میرے بہت ہی عزیز و مہربان دوست جناب عزیز محمد خان بای نے جملۂ جماعت کو دعوت دی، اور فرمان سنایا گیا، موصوف بای (امیر، ثروت مند) کو پروردگارِ عالم نے دولتِ دین اور نعمتِ دنیا سے نوازا تھا، ہمارے سریقول پہنچ جانے کے فوراً بعد ان کو یہ خبر ملی کہ ہونزہ کے دو دینی خادم اس مقصد کے پیشِ نظر آئے ہوئے ہیں، چنانچہ انہوں نے کسی انتظار و تاخیر کے بغیر مقامی طرز کی ایک عمارت بنوائی تھی، جس میں جماعت خانہ، مکتب اور رہائش کے لئے دو کمرے تھے۔
دوسرے چند بڑے گھرانوں میں بھی فرمان خوانی ہوئی، ان میں سے ایک

۳۰

گھرانا جناب عندلیب آخون کا تھا، یارقند کی اسماعیلی جماعت ایمانی اوصاف میں منفرد اور بے مثال ہے، لہٰذا مجھے توقع سے زیادہ کامیابی نصیب ہوئی، اور اس خدمت میں عزیز محمد خان صاحب کا بہت بڑا حصہ ہے، اور ان کی زرین خدمات کی تفصیل کے لئے کئی کئی صفحات درکار ہوں گے۔
خدائے بزرگ و برتر کے فضل و کرم سے کامیابی ہی کامیابی ہو رہی تھی، لیکن رشک و حسد کہاں نہیں ہے؟ وہ جگہ کون سی ہے، جس میں مخالفت نہ ہو؟ ایسا معاشرہ کہاں ہے، جس میں ترقی پسندی اور رجعت پرستی کی رسہ کشی نہ ہو؟ چنانچہ کچھ حضرات یہ کہنے لگے کہ اس ملک میں جماعت خانہ نہیں ہو سکتا ہے، اس سے مذہب آشکار ہو جائے گا، اور جماعت کو تکلیف ہو گی، میں نے عاجزانہ گزارش کی، جناب! تعمیرِ جماعت خانہ کا حکم آج سے نہیں، بلکہ ۱۹۲۳ء سے ہے، جبکہ پیر سبز علی صاحب آپ کی طرف آئے تھے، میرے عقیدے کے مطابق جماعت خانہ کی وجہ سے جماعت کو کوئی تکلیف نہ ہو گی، اگر شروع شروع میں ایسی کوئی بات ہو بھی گئی، تو اس کا بہت بڑا ثواب مل جائے گا، اور پھر جماعت کا تشخص سامنے آئے گا، اور تعارف ہو گا، تاہم وہ صاحبان خوش نہیں تھے، پس انہوں نے بارہا یہ کوشش کی، کہ مجھے جاسوس قرار دے کر حکومت سے کوئی بڑی سزا دلائے، لیکن چین کی گورنمنٹ تحقیق و جستجو اور ثبوتِ جرم کے بغیر کسی کو سزا نہیں دیتی، ہاں یہ بالکل سچ ہے کہ ایسے دو قسم کے مخالفین نے

۳۱

جب بھی میرے خلاف کوئی رپورٹ کی، تو مجھے نظر بند یا قید کیا کرتے تھے، مگر وہ نہ قیدِ بامشقت تھی، نہ ہی جیل کے اندر، بلکہ وہ صرف تنہائی کی قید ہوا کرتی تھی، جس سے (الحمد للہ) مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات، عبادت اور ذکرِ دائم کے لئے ایسا بہترین وقت اور موقع ملتا تھا کہ اس کی مثال نہیں ملتی، اور ہر ایسی قید میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی جو پرحکمت بارش ہوتی رہی، اس کی شکرگزاری میں دل بار بار روتا ہے۔
کوئی شک نہیں کہ میں بے صبری اور ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے اس وقت ان تمام مخالفین سے سخت ناراض اور غمگین ہوا کرتا تھا، مگر بعد میں مجھے مکمل یقین ہوا کہ یہ سب کچھ میرے پروردگار کی طرف سے ایک حکیمانہ پروگرام تھا، جس میں اس بندۂ ناچیز کو کوئی چیز بنانا مقصود ہے، لہٰذا اب میں انتہائی عاجزی اور خلوصِ دل سے دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ! تو اس بندۂ ظلوم و جہول (۳۳: ۷۲) کو اپنی رحمتِ بے پایان سے ایسی عالی ہمتی اور توفیق عطا فرما کہ جس سے یہ ہمیشہ اپنے عزیز دوستوں کے علاوہ ہر ہر مخالف کے حق میں بھی نیک دعا کر سکے، پروردگار! میں تنہا اپنے نفس کے اژدہے کو نہ تو قتل کر سکتا، اور نہ میرے ہٹانے سے وہ ہٹنے والا تھا، لیکن تیری بے مثال حکمت نے کچھ لوگوں کو کیا ہی پرحکمت دعوت دی، جنہوں نے طرح طرح کے ہتھیاروں سے اس کو یا تو قتل کر دیا، یا زخمی اور کمزور، یا راستے سے ہٹا دیا، تا کہ میں گنجینۂ گوہر کی طرف آگے بڑھ سکوں، یا رب العالمین! تو اپنے خزائنِ رحمت سے

۳۲

ان تمام بندوں پر !!مہربانیوں کی بارش برسا دے! آمین
پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ: تم سفر کرو، تا کہ تمہیں مالِ غنیمت حاصل ہو۔ میرے خیال میں اس سے وہ سفر مراد نہیں، جو کسی دنیاوی مقصد کے لئے ہو، بلکہ یہ دینی سفر اور روحانی مسافرت ہے، جس کا مالِ غنیمت علم اور ثواب ہو سکتا ہے، اور اگر اس بندۂ مفلس کا معاملہ بھی سچ مچ اس حکم کے تحت آسکتا ہے تو پھر مجھے انتہائی عجز و انکساری اور خلوصِ دل سے مرحوم فتح علی خان صاحب اور ان کے خاندانِ محترم کے حق میں بار بار نیک دعا کرنی چاہئے، کیونکہ اس نیک عمل کا اصل سبب وہی تھے۔

۳۳

سوال و جوابِ چہارم

برچہ: آپ نے جوانی کے دور سے ہی بڑے شد و مد کے ساتھ خود کو مذہب کے لئے وقف کر دیا، اس جذبے کے محرکات کیا تھے؟

نصیر صاحب: مجھ میں مذہبی میلانات و رجحانات مستحکم ہو جانے کے کئی اسباب ہیں، اول یہ کہ منشائے خداوندی ہی کچھ ایسا تھا، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے:
ان اللّٰہ یفعل ما یرید (۲۲: ۱۴(
بے شک خدا ہی کرتا ہے جیسا وہ چاہتا ہے۔
دوسرا سبب (جیسا کہ قبلاً ذکر ہو چکا) وہ مذہبی ماحول ہے، جس میں میری پیدائش، پرورش، اور بالیدگی ہوئی، یعنی میرے والدین کی تربیت، تاثیر، اور تعلیم تیسرا سبب معاشرہ ہے، جس سے نہ صرف گاؤں ہی مراد ہے، بلکہ اس میں علاقے کی طرف بھی اشارہ ہے، اور آخری سبب میری فطری صلاحیت اور شوق ہے، جس نے ہمیشہ اور ہر وقت مجھ میں ایک ایسے مؤکل کی طرح کام کیا، جو اپنے فرضِ منصبی سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔
مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے، میں شاید کہیں چار سال کے قریب تھا، میرے بزرگوار والد با جماعت نمازِ فجر سے واپسی پر شرو یا فٹی

۳۴

(علاقے کی خاص موٹی روٹی) کا ذرا سا ٹکڑا میرے لئے بطورِ تبرک لا کر دیا کرتے تھے، اور فرماتے کہ لو بیٹے، اسے کھا لو، اس میں خدا کے گھر کی برکتیں ہیں، تم اس سے اچھا لڑکا اور نیک آدمی بن جاؤ گے، میں اب سوچ کر یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ میرے لئے یہ مختصر مگر عملی تعلیم کتنی بنیادی اہمیت کی حامل تھی، ایک دن اتفاقاً میرے قبلہ گاہ تبرک کے بغیر گھر آئے، اب میرے ماں باپ کویہ فکر ہونے لگی، کہ ان کا پیارا بچہ اگرچہ فی الوقت خوابِ راحت میں مزہ لے رہا ہے، لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد جاگ اٹھے گا، اور معمول کے مطابق تبرک کا تقاضا کرے گا، تو اس کے لئے کیا ہو گا، چنانچہ یہ فیصلہ ہوا کہ اتنی جلدی سے شرو یا فٹی تو تیار نہیں ہو سکتی، اس لئے ایک روٹی پکا کر فوراً ہی اس کا مرمک (مٹھا) بنائیں، اور اپنے بیٹے کو دیں، جب ننھا بچہ جاگ اٹھا، تو ماں باپ نے مجبوراً خانۂ خدا کے تبرک کی بجائے گھر کی وہ روٹی اسے تھما دی، جس کو ہاتھوں میں دبا دبا کر تبرک جیسی بنانے کی کوشش کی گئی تھی، میں نے اسے الٹ پلٹ کر غور سے دیکھا اور بچگانہ گستاخی سے اسے پھینکتے ہوئے کہا کہ یہ تبرک نہیں، پھر رونے لگا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجھے اس تبرک کی وجہ سے عقیدت ہو رہی تھی۔
ہونزہ کے قدیم گھروں کی چھت کے درمیان سغم / سگم (روزن یا روشن دان) ہوا کرتا ہے، میرے والد درویش صفت آدمی تھے، وہ اگرچہ نماز اور عبادت ہمیشہ جماعت کے ساتھ کرتے تھے، لیکن ان کے معمول

۳۵

میں یہ بات بھی شامل تھی کہ آپ پچھلی رات کو اٹھ کر گھر کی چھت پر بدرگاہِ الٰہی مناجات پڑھا کرتے تھے، میں یہ بات اب سمجھتا ہوں کہ ان کی آوازِ شیرین پر سوار ہو کر شاید ایک مذہبی روح براہِ روزن میرے کانوں میں داخل ہو جاتی تھی، جبکہ میں نیم خوابی کی حالت میں ہوتا تھا، اور اس سے مجھے بے حد لذت و مسرت کا احساس ہوتا تھا، اس کے علاوہ میرے والدین بوقتِ شام اکثر فارسی میں مذہبی نظمیں خوش الحانی سے پڑھتے تھے، اور ایسا لگتا تھا جیسے کوئی طاقت مجھے ان چیزوں کی طرف پرزور توجہ دلاتی رہتی ہو۔
ہمارے ایک عزیز و محترم اوشم (رضاعی) ماموں جناب حرمت اللہ بیگ صاحب (مرحوم) کو نہ صرف مذہب بلکہ علم بھی ازحد عزیز تھا، وہ ہر چند کہ تعلیم یافتہ نہیں تھے، تاہم انہوں نے زبانی طور پر بہت ساری معلومات حاصل کر لی تھیں، آپ میرے ایک استاد بھی تھے اور ایک شاگرد بھی، اس لئے زبردست شوق سے فرمائش کرتے تھے کہ میں ان کو اور یارانِ محفل کو قصصِ انبیاء، داستانِ امیر حمزہ وغیرہ پڑھ کر سنایا کروں، وہ اکابرینِ جماعت کی صفِ اول میں بولنے والوں میں سے تھے، لہٰذا انہوں نے رفتہ رفتہ مجھے حوصلہ دیا، اور ایک دن جماعت کے سامنے کہنے لگے کہ آج پرتوِ شاہ کچھ علم کی باتیں کریں گے۔
میرے ماموں جان خلیفہ قدیر شاہ ابنِ حیدر محمد دینی عقیدت اور ربانی محبت کا ایک عمدہ نمونہ تھے، ان دنوں میں مذہبی مرکز بمبئی میں تھا،

۳۶

لہٰذا خلیفہ قدیر شاہ صاحب میر محمد نظیم خان صاحب کے حکم سے جماعتی مالِ نذورات لے کر دو دفعہ بمبئی گئے، یہ ایک خاص اعزاز تھا، اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا، مجھے ان کی کچھ پیاری پیاری باتیں یاد ہیں: وہ نماز و بندگی کے علاوہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شمسی ذکر (ذکرِ جلی) بھی کر لیا کرتے تھے، اس ذکر میں ساری جماعت شامل ہو جاتی تھی، جس میں یہ حضرات پیش پیش ہوتے تھے: حرمت اللہ بیگ صاحب، خلیفہ گل اکبر صاحب، خلیفہ حبِ علی صاحب، علی عصمت صاحب، خلیفہ شاہ دل امان صاحب، مجاور گلو صاحب، وغیرہ۔
میرے محترم چچا خلیفہ عافیت شاہ (ابنِ خلیفہ محمد رفیع) دین اور علم کے عاشقوں میں سے تھے، وہ بڑے شوق کے ساتھ آقا عبد الصمد شاہ صاحب، پیر سبز علی صاحب، پیر بلبل شاہ صاحب اور الواعظ شیر علی صاحب کے حوالے سے علمی باتیں کرتے تھے، اور میں ان کی باتیں سن کر بہت خوش ہوتا تھا۔
ہمارے سامنے جناب قدرت اللہ بیگ صاحب اور جناب محمد دارا بیگ صاحب علم و دانش، فہم و فراست، جرأت و ہمت اور عزت و حرمت کے دو عظیم نمونے تھے، گریلت میں محترم سگِ علی صاحب اپنے علم و عمل سے اسلام کی خدمت کرتے تھے، اور ان کے خاندان نے پاکستان

۳۷

کی خاطر بڑی خدمات انجام دی ہیں، بلتت میں جناب منشی حبِ علی صاحب کے پاس جو زبردست علم تھا، اس کی مثال یہ ہے کہ ان کے انتخاب کردہ دو سوال ایک دور مقام کے چند علماء سے حل نہ ہو سکے، سوال یہ ہیں: ۱۔ شیطان کے گلے میں جو طوقِ لعنت پڑا وہ کس چیز سے پیدا ہوا تھا؟ ۲۔ حضرتِ آدم کا درختِ ممنوعہ کس بیج سے اگا تھا؟

۳۸

سوال و جوابِ پنجم

برچہ: آپ کا مطالعہ بے حد عمیق اور وسیع ہے ،اس حوالے سے آپ بتائیں کہ کس یونانی اور مسلمان فلسفی کی تعلیمات سے متاثر ہوئے؟

نصیر صاحب: کسی باقاعدہ مدرسہ کی تعلیمی سہولت مہیا نہ ہونے کی مجبوری نے مجھے ہمیشہ لغات بینی کی طرف توجہ دلائی، اور یہ عادت میرے حق میں ایک رحمت ثابت ہوئی، میرا مشورہ ہے کہ اگر کسی کو اپنے ادبی ذخیرے میں اضافہ کرنا ہے، اور تقریر و تحریر کو شستگی اور نکھار بخشنا ہے تو اسے کتبِ لغت سے ہر موقع پر خوب استفادہ کرنا چاہئے، اگرچہ ہمارے طالبِ علمی کے زمانے میں کوئی کتاب انتہائی مشکل سے ملتی تھی، تاہم میں نے بڑی جد و جہد سے فارسی کے علاوہ اردو اور انگریزی لغات بھی رکھ لی تھیں، اور اشتیاقِ مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ کتاب تو کتاب ہی ہے، میں ہر ایسی تحریر کو دقتِ نظر سے دیکھتا اور پڑھتا تھا، جو کسی چیز پر ثبت ہو، مثلاً کوئی ایسا ڈبا، بوتل، پیکٹ، ٹین، سائن بورڈ، کتبہ، وغیرہ وغیرہ۔
کچھ عرصے کے بعد بتدریج کتابیں دستیاب ہونے لگیں، جن کی فہرست کافی طویل ہے، اگرچہ بہت سی کتابوں کا گہرا اور مفید مطالعہ ہوا، تاہم ادب کے لحاظ سے شیخ سعدی کی کتابیں، شعری خوبیوں کے اعتبار سے دیوانِ حافظ،

۳۹

اور تصوف میں مولائے رومی کا کلام دلنشین ہوا، اور فلسفہ و حکمت میں حکیم ناصر خسرو قدس اللہ سرہ کے کتبِ گرانمایہ سے خاطر خواہ اثر قبول کر لیا، کیونکہ ہر ہوشمند مسلمان شعوری یا غیر شعوری طور پر کسی ایسے حکیم کی تلاش کرتا رہتا ہے، جس کی حکمت قرآنی حکمت کی روشنی میں ہو، تا کہ اس سے قرآن فہمی میں مدد ملے، اور یقیناًپیر ناصر خسرو کی ساری کتابیں ایسی ہیں۔
میں ایک مفلس اور نارسا انسان فلسفۂ یونان کے ذخائر کی چھان پھٹک کر کے کسی ایک فلسفی کا انتخاب کہاں اور کیسے کر سکتا تھا، اور اگر ایسا کرنے کے لئے وقت ملتا اور مجھ میں ہمت بھی ہوتی، تو بہتر ہوتا، تاہم میرا عقیدہ یہ ہے کہ خدا وہ قادرِ مطلق ہے، جو ہر نامرادی کو کامیابی کی صورت دے سکتا ہے، اور میرے معاملے میں بھی کچھ ایسا احسان ہوا ہے، جبکہ مجھے حکیم ناصر خسرو قس کے خزائنِ کتب کا راستہ ملا ہے، ہاں! اس میں کوئی شک نہیں کہ موصوف کے علمی ذخیرے میں کچھ فلسفۂ یونان کے حوالے بھی ملتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ آپ اس فلسفے میں محدود تھے، بلکہ غرض یہ ہے کہ اس زمانے میں یونانی فلسفیوں کا بہت بڑا چرچا تھا، لہٰذا بعض لوگوں کو اسی فلسفے کی روشنی میں مطلب کی بات سمجھانے کی ضرورت پڑتی تھی، میرے خیال میں محض حوالہ دینے سے یا مثال پیش کرنے سے فلسفۂ یونان اور اسلامی علوم کے آپس میں خلط ملط ہو جانے کا کوئی امکان نہیں۔

۴۰

حکیم ناصر خسرو قس کی ایک شہرۂ آفاق کتاب ’’جامع الحکمتین‘‘ ہے، اس کی وجہِ تسمیہ کیا ہے؟ اس کا بیان مصنف نے اپنے دیباچہ کے آخر میں فرمایا ہے، اور اسی کے حوالے سے دکتر محمد معین استادِ فقیدِ دانشگاہِ تہران نے صفحہ نمبر ۳ پر ذکر کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے: ’’جامع الحکمتین‘‘ وہ کتاب ہے جو دو قسم کی حکمتوں کو اپنے اندر جمع کر لیتی ہے، کیونکہ اس میں حکیم ناصر خسرو قس نے جہاں حکمائے دین سے گفتگو فرمائی ہے، تو وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہے، اور حکمائے فلسفہ اور فضلائے منطق سے بحث کی گئی ہے، اس وقت عقلی دلائل سے کام لیا گیا ہے۔

۴۱

سوال و جوابِ ششم

برچہ: ماشاء اللہ، آپ کم و بیش ڈیڑھ سو چھوٹی بڑی کتابوں کے مصنف اور مولف ہیں، آپ نے خود فرمایا کہ کبیر سنی کے بعد ہی پڑھنا شروع کیا، تو آپ یہ بتائیں کہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ کب شروع ہوا؟

علامہ صاحب: علم سے بے حد دلچسپی اور زبردست لگن دل و دماغ میں موجود تھی، لیکن تقاضائے زمان و مکان نے مجھے ۸ اپریل ۱۹۳۹ء کو گلگت سکاؤٹس میں بحیثیتِ سپاہی بھرتی کر دیا، ۹ ماہ کے عرصے میں طرح طرح کی مشکلات سے گزر جانے کے بعد ریکروٹنگ کا امتحان ختم ہو گیا، اب ۱۹۴۰ء میں کبھی کبھی فرصت کے چند لمحات میسر ہو رہے تھے، لہٰذا میں نے فوجی بیرک گلگت میں اولین بروشسکی نظم لکھ دی، مگر فوجی زندگی کی بے کلی میں شاعرانہ موڈ ناممکن نہیں تو ازبس مشکل ہے، چنانچہ ایک دفعہ چیلاس میں بھی کوشش کی، مگر نظم ادھوری رہی، تاہم میں بوقتِ فرصت کسی بھی کتاب کی ورق گردانی کرتا رہا۔
اگرچہ میں ریکروٹنگ کے فوراً بعد سگنل کے لئے اور کچھ عرصے کے بعد وائرلیس کے لئے منتخب ہو گیا تھا، اور ہمارے کمانڈر صوبیدار شیر احمد خان صاحب بڑے نیک دل اور خیر خواہ انسان تھے، اور ہمارے تمام

۴۲

ساتھی مخلص دوست تھے، جیسے میرے خالہ زاد بھائی حوالدار خیر الحیات صاحب، حوالدار حاجت امان صاحب، حوالدار سعدان شاہ صاحب، وغیرہ، لیکن نجانے میرا ضمیر ایک بے آواز کیفیت میں مجھ سے کیوں کہتا تھا کہ چلو اب اس منزل کو چھوڑ کر آگے جانا ہے، پس میں یکم ستمبر ۱۹۴۳ء کو وہاں سے مستعفی ہو کر گھر گیا، اور تقریباً ۲۰ دن کے بعد ہونزہ سے پیدل چل کر سرینگر (کشمیر) پہنچا، اور ۵ اکتوبر ۱۹۴۳ء کو انڈین آرمی میں بھرتی ہو گیا، پھر جہلم بھیجا گیا، اور اس کے بعد دہلی، جہاں ایک گریزن کمپنی میں ریکروٹ انسٹریکٹر مقرر ہوا، پھر لانس نائک، پھر نائک ہو گیا، مگر میری بے قراری جوں کی توں تھی، پس میں وہاں سے بھی اپنی مرضی سے ۷ فروری ۱۹۴۶ء کو ڈسچارج ہو گیا، اور بمبئی کی طرف روانہ ہوا۔
اب میں بدرجۂ انتہا مسرور و شادمان تھا، اس لئے پھر سے شاعری شروع کی، چار مہینے کے بعد میں ہونزہ چلا گیا، اسی سال شمالی علاقہ جات میں ڈی۔جے۔ اسکول کھل گئے تھے، اور مجھے اپنے گاؤں (حیدرآباد) میں اسکول ماسٹر مقرر کیا گیا تھا، اس دوران میں بروشسکی، فارسی اور اردو میں شعر کہتا تھا، پھر یہ سلسلہ یارقند میں رک گیا، تاہم بفضلِ خدا میں نے وہاں ترکی میں چار مذہبی نظمیں لکھ دیں، جب میں جون ۱۹۵۴ء کو چین سے واپس ہو کر گھر پہنچا تو اس وقت میری

۴۳

شاعری میں سر تا سر روحانیت کا ایک مکمل انقلاب برپا ہو چکا تھا، نثر نگاری کا کام ۱۹۵۷ء میں شروع ہوا، پوشیدہ نہ ہو کہ ابتداءً اس میں مجھے کچھ دقت پیش آئی تھی، یعنی ہر چند کہ علم کی خوشبوؤں اور لذتوں کی موجودگی کا ٹھیک ٹھیک احساس ہوتا تھا، مگر زبان و بیان کے اسلوب کو جن خوبیوں سے معمور و مملو ہو جانا چاہئے، وہ شاید کم تھیں، تاہم خدائے بزرگ و برتر کی رحمتوں اور مہربانیوں سے رفتہ رفتہ جملہ مشکلات آسان ہو گئیں۔

۴۴

سوال و جوابِ ہفتم

برچہ: محترم نصیر صاحب! آپ کی زندگی مسلسل اور بھرپور جدوجہد سے عبارت ہے، اس حوالے سے کوئی اہم واقعہ آپ کو یاد ہو تو بتائیے؟

علامہ نصیر صاحب: کسی فرشتہ صفت بزرگ نے بہت پہلے مجھے یہ مشورہ دیا تھا کہ: ’’دیکھو! اگر تم کو عبادت، بندگی، یادِ خدا، روحانیت، علم، اور حکمت عزیز ہے، اور تم اس طریق پر کچھ ترقی و پیشرفت کرنا چاہتے ہو، تو سورۂ مزمل کے حکم کے عین مطابق شب خیزی کا عمل شروع کرو، مگر ہاں، اس کے لئے کسی مرشدِ کامل سے کوئی اسمِ اکبر، یا ورد وظیفہ، وغیرہ حاصل کرنا ضروری ہے‘‘۔
چنانچہ عرصۂ دراز کے بعد ۱۹۴۶ء میں مجھ مسکین کو یہ بہترین وسیلہ میسر آیا، لیکن حق بات تو یہ ہے کہ کم علمی، سستی، غفلت، اور غلبۂ خواب کی وجہ سے دو سال کے بعد کہیں جا کر عالمِ شخصی کی ابتدائی روشنی نظر آنے لگی، گو کہ یہ شروعات کی آزمائشی روشنیاں تھیں، تاہم مجھے اس عجیب و غریب اندرونی مشاہدے سے بے حد مسرت و شادمانی ہونے لگی۔
شب خیزی اور قرآن خوانی کا یہ انتہائی عظیم معجزہ اپنی ضیا پاشیوں

۴۵

کے ساتھ نہ صرف جاری و ساری ہی تھا، بلکہ اس میں روز افزون ترقی بھی ہو رہی تھی، میں اسی حالت میں سریقول پہنچ گیا، اب میرے خواب و خیال میں غیر معمولی انقلاب رونما ہو رہا تھا، تاشغورغان، خصوصاً یارقند میں جن بے شمار عجائب و غرائب کا مشاہدہ اور تجربہ ہوا ہے، ان سب کا تذکرہ کرنا میرے بس کی بات نہیں، سو بہتر یہ ہے کہ ان عظیم الشان واقعات کی صرف چند مثالیں پیش کی جائیں، چنانچہ سریقول میں ایک رات کو بڑا انوکھا خواب دیکھا، حیرت ہے کہ میں نے اپنے آپ کو ایسا مقتول پایا کہ میری لاش سر کے بغیر ایسی پڑی تھی، جیسے نمازِ جنازہ کے لئے رکھتے ہیں، سر جانبِ مشرق ایک پکی دیوار کی کھونٹی سے آویزان تھا، میں مغرب کی طرف کچھ بلندی پر ایک عجیب قسم کی چمکتی ہوئی فضا میں سے دیکھ رہا ہوں، مجھے اپنی شہادت کا گمان ہوتا ہے، اور خوشی ہوتی ہے، جب میں بیدار ہو گیا تو دل خود بخود اس کی تعبیر کی طرف متوجہ ہوا، خیال آیا کہ اس میں یا تو جسمانی موت کا اشارہ ہے، یا نفسانی موت کا، اس کے بعد بھی میں نے دو دفعہ خواب میں اپنی موت کا منظر دیکھا، ایک میں کسی شہزادے نے مجھے گولی کا نشانہ بنا دیا، دوسرے میں شاید اسی نے میرے اوپر ٹرک چلایا۔
مذکورہ خوابوں کا اشارہ یہ تھا کہ میں کسی بھی موت کے لئے تیار ہو جاؤں، اللہ تبارک و تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ میں مایوس نہیں ہوا، کیونکہ کچھ دوسرے نورانی خوابوں میں بڑی بڑی بشارتیں بھی ہوتی تھیں، تاہم مجھے

۴۶

ہر حال میں موت کے لئے تیار رہنا تھا، پس میں نے مختلف طریقوں میں خدا کو کثرت سے یاد کیا، اس دوران دنیا اور اس کی ہر چیز سے دل برداشتہ ہو گیا، میں ایک دفعہ یارقند کی قید میں تھا اور ۱۹۵۱ء کا زمانہ، کہ موت سے متعلق میرے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کر دینے کے لئے حضرتِ عزرائیل علیہ السلام اور اس کی افواج آ گئیں، پہلے لشکر پھر سردار، عزرائیل کا وجود صرف ایک آواز میں، اس کا فعل ایک اسمِ الٰہی میں، اور اس کا حکم بصورتِ ذکر تھا، اور اس کی افواج انتہائی چھوٹے چھوٹے روحانی ذرات کی شکل میں تھیں، سالارِ اعلیٰ کان میں رہ کر اسمِ بزرگ کا ذکر کرتا رہا اور اس کے لشکر جسم کے تمام خلیات میں داخل ہو کر اس غریب کی جانِ حقیر کو اوپر کی طرف کھینچنے لگے۔
قبضِ روح کا یہ عمل شب و روز جاری تھا اور تقریباً ایک ہفتہ تک چلتا رہا، جس میں سر کو چھوڑ کر بدن باقی تمام اعضاء کے ساتھ بار بار مر کر پھر زندہ ہو جاتا تھا، اور سر کلی طور پر اس وجہ سے نہیں مر رہا تھا، کہ روح اگرچہ چوٹی کی جانب سے بلند کی جاتی تھی، لیکن اس کا زیرین سرا دماغ سے وابستہ رہتا تھا، تا کہ وہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا بخوبی مشاہدہ کر سکے، بعد کے غور و فکر سے پتہ چلا کہ اس مقام پر بہت سے خزانے ہوا کرتے ہیں۔
کیا یہ صرف ایک ہی بڑا عجیب سا واقعہ تھا؟ نہیں نہیں، یہ تو ایسے بہت سے واقعات کا مجموعہ تھا، بہر کیف وہ عالمِ شخصی (پرسنل ورلڈ) کا

۴۷

روحانی انقلاب تھا، جس کی سختی مجھ پر گزری، وہ قیامت سے کم نہ تھی، ایسے میں حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن کے درمیان جو پردہ ہے، اس کو یاجوج و ماجوج چاٹ چاٹ کر ختم کر لیتے ہیں، یہ لوگ لشکرِ عزرائیلی میں شامل ہیں، اور اس پردے کا کوڈ ورڈ (Code Word)   سدِ سکندر ہے۔
اب اس موت اور انقلاب کے بعد میرے اندر کی دنیا یکسر بدل گئی، کیونکہ میں مر چکا تھا، مگر زندہ تھا، تعجب ہے کہ میں اس کورس کے دوران گویا جسم اور روح کے درمیان تھا، یہی وجہ تھی کہ میں دونوں کو دیکھتا اور سنتا تھا، کیونکہ اس حال میں حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن مل کر کام کرتے ہیں۔
اب ہم بعض واقعات کو علمی لباس پہنا کر پیش کریں گے، اور یہ طریقِ کار بہتر رہے گا، وہ یہ کہ روح کے ظہورات ایک جیسے نہیں، بلکہ مختلف ہیں، جیسے ظہورِ روح ذرۂ لطیف میں، آواز میں، روشنی میں، خوشبو میں، خیال میں، خواب میں، جسمِ لطیف میں، وغیرہ، ان سب میں روح کے دو دیدار عظیم ہیں، کہ ایک جسمِ لطیف ہے، اور دوسرا مشاہدۂ خاص، بمقامِ کوہِ جواہر، جسمِ لطیف کی مثال جن ہے یا اڑن طشتری، اور بے جان چیزوں میں جیسی ہوا ہے، کنارۂ شعلۂ چراغ ہے، جو دکھائی نہیں دیتا، جن پوشیدہ ہے، مگر ظاہر بھی ہو سکتا ہے، اڑن طشتری بھی ایسی ہے، ہوا اگرچہ نظر نہیں آتی، لیکن گرد اور بادل کی شکل میں نمایان ہو

۴۸

جاتی ہے اور شعلۂ آتش کی بھی دو حالتیں ہیں، کہ جہاں رنگ ہے، نظر آتا ہے، اور جدھر رنگ نہیں، دکھائی نہیں دیتا، (کتاب ’’روح کیا ہے؟‘‘ کو پڑھئے)۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ روح سرچشمۂ اصل میں ایک ہی ہے، لیکن وہ الگ الگ لباسوں میں ظاہر ہو جاتی ہے، جیسے مختلف رشتوں کی بناء پر ایک ہی شخص بیٹا، بھائی، دوست، داماد، شوہر، ماموں، چچا، باپ، خسر، دادا وغیرہ کہلا سکتا ہے، اسی طرح ایک ہی روح کے بہت سے روپ ہوا کرتے ہیں، دوسری مثال یہ ہے کہ آپ جب عالمِ خواب میں جاتے ہیں، تو اس میں آپ آسمان زمین کی لاتعداد چیزوں کو دیکھتے ہیں، جیسے سورج، چاند، ستارے، آسمان، بادل، بارش، پہاڑ، جنگل، دریا، باغ، گلشن، حیوانات، اور بہت سے آدمی، اس میں میرا سوال ہے کہ آیا یہ ساری چیزیں جو خواب میں نظر آتی ہیں، مادی قسم کی ہو سکتی ہیں، نہیں، ہرگز نہیں، یہ سب کچھ آپ کی روح کے مختلف ظہورات ہیں، اور یہ آپ کی پرسنل ورلڈ (ذاتی دنیا) ہے۔
سب سے اعلیٰ درجہ کی روح کا قرآنی کوڈ ورڈ جن ہے، چنانچہ میں نے جنات کے مسلمان بادشاہ کو کئی دفعہ دیکھا، جس سے پتہ چلا کہ کہانیوں اور غیر محققانہ باتوں سے جن کے بارے میں غلط تاثر دیا گیا ہے، چین میں رات کے وقت وہ عجیب طرح سے میرے گھر آیا، وہ برق ہے، اس لئے برق رفتاری سے آگیا، اور اس کے زیرِ اثر اندر سے بند کئے ہوئے دروازے

۴۹

بڑی سرعت سے کھل کر فوراً بند ہو گئے، بادشاہِ جن کے ساتھ کوئی خادم نہیں تھا، میں سخت حیرت زدہ اور مرعوب ہو گیا، اس نے کہا کہ تم کو دروازوں کے اس طرح کھل کر فوراً بند ہو جانے سے تعجب ہو رہا ہے، لو میں دوبارہ یہ عمل کرتا ہوں، پس وہ بجلی کی طرح باہر جا کر واپس آیا، اور دروازوں پر وہی حالت گزری، بادشاہ انتہائی فصیح بروشسکی میں گفتگو کرتا تھا، اس نے اپنی ہستی کی صفتِ دیدنی اور نادیدنی کا بھی مظاہرہ کیا، عزیز محمد خان بای کے بارے میں بھی کوئی بشارت دی، سلطانِ جنات کے ہالۂ نور کی کیا تعریف کریں، مختصر بات چیت کے بعد یہ جن اسی رفتار سے چلا گیا، میں ہمیشہ چین کے ایسے عجیب و غریب اور عظیم واقعات کو یاد کرتا ہوں۔

۵۰

سوال و جوابِ ہشتم

برچہ: علامہ صاحب! ذرائع ابلاغ و مواصلات کی حیرت انگیز ترقی کے باعث دنیا سکڑ کر ایک آنگن کی شکل اختیار کر گئی ہے، اس سے جہاں بہت سارے فوائد حاصل ہو گئے ہیں، وہاں ’’باہر‘‘ کے مسائل میں بھی غیر ارادی شرکت پر مجبور ہیں، اس سے وطنِ عزیز کو سماجی اور معاشی مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل سے نمٹنے کے لئے آپ کے ذہن میں کون سی تجاویز ہیں؟

علامہ صاحب: دیکھئے سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لئے دینِ فطرت (اسلام) میں روشن ہدایات موجود ہیں، لیکن یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم یہاں ’’فطرت‘‘ سے کیا مراد لیتے ہیں؟ یا اس کی تعبیر و تشریح کس طرح کرتے ہیں؟ کیونکہ ہر مسئلے کے پس منظر میں ایک بنیادی مسئلہ پوشیدہ ہوا کرتا ہے، اگر خوش بختی سے اسی اساسی مسئلے کی عقدہ کشائی کی گئی، تو دوسرا مسئلہ خود از خود حل ہو جاتا ہے، میرے خیال میں قرآنی دعوتِ فکر کے مطابق ہمیں ہمیشہ فراخدلی سے سوچنا چاہئے، کہ فطرت قرآنِ حکیم کا ایک وسیع المعنی لفظ بھی ہے، اور ایک انتہائی اہم موضوع بھی، چنانچہ اگر ہم ’’دینِ فطرت‘‘ کے معنی میں کماحقہ غور و فکر کر سکیں، تو ان شاء اللہ، اس سے مسائل کے

۵۱

حل کا طریقہ معلوم ہو سکتا ہے۔
اگر ہم قانونِ فطرت کا مشاہدہ و مطالعہ تفصیلاً کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے آسمان و زمین سامنے ہیں، اور اگر اسے اجمالاً دیکھنا ہے، تو پھر ہمیں اپنے آپ کو دیکھنا ہو گا، کیونکہ قرآنِ حکیم میں فطرت اور قانونِ فطرت کے دو اہم حوالے یہی ہیں، اس کی وضاحت یہ ہے کہ دینِ فطرت کی روشن مثالیں کائنات میں بھی ہیں، اور انسانی ذات میں بھی، اب ہمیں اس سلسلے میں مزید سوچنا یہ ہے کہ خدائے علیم و حکیم نے جہاں فطرت کا خاص ذکر کرنا چاہا، وہاں اس حکمت والے نے اس کی مثال صرف ایک فرد سے نہیں دی، بلکہ نمونۂ فطرت کے طور پر سب لوگوں کو پیش کیا، جیسا کہ ارشاد ہے:
فطرت اللّٰہ التی فطر الناس علیہا (۳۰: ۳۰)
اور خدا کی فطرت کو جس پر لوگوں کو پیدا کیا (اختیار کئے رہو) کیونکہ جب تک زمانۂ آدم سے لے کر قیامِ قیامت تک پیدا ہو جانے والے لوگ سب کے سب بتقاضائے زمان و مکان اپنی گوناگون صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر فطرت کی ترجمانی نہ کریں، تو فطرت اور دینِ فطرت کی کلی شناخت نہیں ہو سکتی ہے، جبکہ لفظِ فطرت میں قابلیت، استعداد اور ایجاد کے معنی بھی ساتھ ہیں، جس کی ایک مثال ہے: افتطر الامر ، ایجاد کرنا (ملاحظہ ہو: المنجد، مفردات القرآن، وغیرہ)۔

۵۲

روزنامۂ جنگ کراچی (اتوار ۲۷ ذی الحجہ ۱۴۰۷ھ / ۲۳ اگست ۱۹۸۷ء) میں جناب پرویز بخت قاضی کا ایک فکر انگیز مضمون بعنوانِ ’’ پاکستان میں اجتہاد کی عملی صورت‘‘ شائع ہوا ہے، میرا پرخلوص مشورہ ہے کہ اہلِ علم حضرات اس کو پڑھ لیں، نیز جدید مسائل کے لئے اسلامی فکرِ جدید کی چند عمدہ کتابوں کا بھی مطالعہ کیا جائے۔
راغبِ اصفہانی کا کہنا ہے کہ: فطر اللّٰہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اس طرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ عصرِ حاضر میں لوگ جو کچھ مفید سائنسی ایجادات کر رہے ہیں، وہ دینِ فطرت کے عین مطابق ہیں، اور اگر ایک طرف نت نئے ایجادات کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف دین میں تدریجی ہدایت بھی ہے، اور تعبیر، استنباط، اجتہاد وغیرہ بھی، میرا خیال ہے کہ اسی طرح سوچ کر عمل کرنے سے ہمارے ہر قسم کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

۵۳

سوال و جوابِ نہم

برچہ: اب ایک نہایت اہم سوال: آج کے نوجوان کو وقت کے لحاظ سے بڑے پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے، معاشرے کے محاسن و معائب پر آپ کی گہری نظر ہے، اس تناظر میں نوجوانوں کی ذہنی تربیت کے لئے کوئی لائحۂ عمل آپ کے ذہن میں ہو تو بتائیے؟

علامہ صاحب: چھوٹے چھوٹے پیارے پیارے بچے ہی نوجوان ہو کر اپنے خاندانوں اور قوم کی ذمہ داریاں سنبھالنے لگتے ہیں، اس لئے یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ شروع ہی سے ان کی اعلیٰ ذہنی تربیت کی طرف بھرپور توجہ دی جائے، جس کے لئے مندرجۂ ذیل لائحۂ عمل پیشِ نظر ہو:
۱۔ سب سے پہلے اہلِ قریہ کا اس بات پر اتفاق و اتحاد ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں اور نوجوانوں کو علم و ہنر اور اچھی عادتوں کی دولت سے مالامال کر دینا چاہتے ہیں۔
۲۔ والدین اور بھائی بہن کی مدد کے بغیر کوئی بچہ علم و اخلاق کے انمول خزانوں کو حاصل نہیں کر سکتا۔؂
۳۔ آپ ہر قسم کی کوشش اور مالی قربانی سے اپنے گاؤں کے ابتدائی

۵۴

سکول کو بہتر بنائیں۔
۴۔ نائٹ اسکول اور ٹیوشن سینٹر ضروری ہے، اور اس میں نوجوان ٹیچرز اعزازی خدمات انجام دیں۔
۵۔ ٹائپنگ اسکول ہونا چاہئے، تاکہ وقت پر یہ ہنر کام آئے اور بچے مصروف رہیں۔
۶۔ بچوں کو ڈرل سکھائیں۔
۷۔ فنونِ لطیفہ کو نظر انداز نہ کریں۔
۸۔ مقابلۂ اسلامیات ہو۔
۹۔ مقابلۂ مضمون نگاری ضروری ہے۔
۱۰۔ اخلاقی تقاریر کا مقابلہ ہو۔
۱۱۔ بری عادتوں کے خلاف ڈراما۔
۱۲۔ ورزشی کھیلوں کے مقابلے۔
۱۳۔ لائبریری ایک خاموش اسکول ہے۔
۱۴۔ سکاؤٹنگ کی تنظیم ایک اخلاقی تربیت کا ذریعہ ہے۔
۱۵۔ والنٹئیرز کا ادارہ ہو۔
۱۶۔ مقابلۂ معلومات سے علم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
۱۷۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ بچوں کو مفید باتیں سکھائیں۔
۱۸۔ معاشرے کی اصلاح بے حد ضروری ہے۔

۵۵

۱۹۔ چائلڈ ریسپیکٹ۔
۲۰۔ اساتذہ کی حوصلہ افزائی۔
۲۱۔ آرٹ اینڈ کرافٹ۔
۲۲۔ سکولوں کا باہمی مقابلہ۔
۲۳۔ انعام یا حوصلہ افزاکمیٹی۔
۲۴۔ ماہرینِ تعلیم سے رابطہ۔
۲۵۔ صحت و صفائی۔
۲۶۔ گولڈن بک میں ہر سال سب سے بہترین بچے کے نام کا اندراج۔
۲۷۔ معلوماتِ زراعت کا مقابلہ۔
۲۸۔ معلوماتِ جغرافیائی۔
۲۹۔ تعلیمی سیر۔
۳۰۔ تعلیمی مشاورتی کمیٹی۔
۳۱۔ مویشیوں سے متعلق معلومات۔
۳۲۔ لڑکیوں کے لئے امورِ خانہ داری کی تعلیم۔
۳۳۔ ادارۂ تعلیمِ بالغان کا قیام و اجراء بہت بڑا کارنامہ ہو سکتا ہے۔
۳۴۔ اگر اتحاد بین المسلمین کا بھی کوئی ادارہ قائم ہو تو اس سے بڑے پیمانے پر فائدے ہو سکتے ہیں۔ آپ اس پروگرام میں مناسب ترمیم اور کمی بیشی کر سکتے ہیں، بہر حال آپ نے اس پر عمل کیا تو مجھے یقین ہے کہ تمام نوجوان

۵۶

سیکھنے اور سکھانے کے نیک اعمال میں لگ جائیں گے، اور خدائے مہربان اس اجتماعی شکل کے علمی جہاد (جو جہالت کے خلاف ہے) کے عوض میں نہ صرف نوجوانوں ہی کو دونوں جہان کی سرفرازی عطا فرمائے گا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اہلِ قریہ پر بھی ایسا ہی مہربان ہو گا، ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ بے روزگاری الگ ہے اور بے کاری الگ، پس ہمیں خیرخواہی اور دانشمندی سے دیکھنا ہو گا کہ ہمارے گاؤں میں کتنے نوجوان فی الوقت فارغ ہیں، تا کہ ان سے پرخلوص درخواست کی جائے، کہ وہ اپنے گاؤں کی ترقی کے لئے ہم سے تعاون کریں، ایک طرف سے کچھ سیکھیں، اور دوسری طرف سے کچھ سکھائیں، ان شاء اللہ اگر ہم حقیقی معنوں میں قوم اور وطن کے خیرخواہ ہیں تو ہمیں کا میابی نصیب ہو گی۔

۵۷

سوال و جوابِ دہم

برچہ: جناب آپ اپنی علمی مصروفیت کے سلسلے میں بارہا مغرب جاتے رہے ہیں، ایک عام آدمی اور آپ کے مشاہدے میں بڑا فرق ہے، تو آپ بمہربانی بتائیں کہ مغرب کے موجودہ تہذیبی خد و خال سے آپ نے کیا نتیجہ اخذ کیا؟

علامہ صاحب: جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ میرے پاس تعلیم کی کوئی بڑی یا چھوٹی ڈگری نہیں، اس کے لئے راستہ نہ ملنے کی وجہ سے میں نے بہت معمولی تعلیم حاصل کی ہے، کچھ مطالعہ کیا ہے، کچھ سفر سے تجربات حاصل ہوئے ہیں، اور کچھ دریوزے سے، اسی طرح میرا علمی گزارہ ہے، خصوصاً سفر میرے حق میں باعثِ ظفر رہا ہے، مادرِ وطن نے مجھے جنم دیا، میں اس (یعنی پاکستان) کو جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں، مشرق (چین) نے بحکمِ خدا مجھے درویشی اور دریوزہ گری کا علم سکھایا، اور مغرب نے ایک بہت بڑا وسیع میدان عطا کر دیا، لہٰذا میں ان تینوں کا شکرگزار اور ممنون ہوں۔
اگر سفرِ مشرق کی تجویز میرے ایک بزرگ بھائی کی طرف سے تھی، جن کا ذکر ہو چکا ہے، تو پھر دورۂ مغرب عظیم دوست کے مشورے سے ہوا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصۂ قرآن (۲۸: ۲۴) میں لفظِ ’’فقیر‘‘ کے

۵۸

کیسے دعائیہ معنی ہیں، اور اس میں عجز و انکسار کی کتنی بڑی حکمت ہے، وہی پیارا لفظ ’’فقیر محمد‘‘ کے نام میں بھی ہے، کسی صاحب نے اس ناچیز سے مخلصانہ سوال کیا کہ آیا اسم کا اثر مسما پر ہو سکتا ہے؟ عرض کی گئی کہ ہاں، مگر جب خدا چاہے، چنانچہ میں نے جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے، ہر چند کہ آپ ایک فقید المثال سکالر ہیں، لیکن سچ مچ فقیر و درویش ہیں، میں نے ان کی بہت سی خصوصیات دیکھی ہیں، آپ ایک زبردست تاریخ ساز شخصیت کے مالک ہیں۔
حق بات تو ہے کہ میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا کہ شمالی امریکا (کینیڈا) جیسے عظیم ملک کی ترقی کردہ جماعت میں جا کر کوئی علمی خدمت انجام دے سکوں، لیکن یہ جناب ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی کا مجھ پر کتنا بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ازراہِ کرم نہ صرف مشورہ اور حوصلہ دیا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عملی طور پر مدد بھی کی، اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ آپ میرے ہر لیکچر کو آستین چڑھائے ہوئے بیٹھ کر اسی رفتار سے لکھتے جاتے تھے، اور آخر میں کھڑے ہو کر اس سرے سے لے کر اس سرے تک بڑی مہارت کے ساتھ انگریزی میں ترجمہ کر دیتے۔
میں پہلی دفعہ کنیڈا میں ۷ دسمبر ۱۹۷۷ء سے ۲۵ مارچ ۱۹۷۸ء تک رہا، جس میں شروع کے دو ماہ کے لئے باقاعدہ پروگرام تھا، جس میں جماعت کے شوق و دلچسپی کی وجہ سے اتنی زیادہ مصروفیت ہوتی تھی

۵۹

کہ بعض دفعہ ہم صرف دو گھنٹہ سو سکتے تھے، تاہم علمی ریاضت کے اعتبار سے کتنا مبارک وقت تھا، جو اب ہمارا ایک ناقابلِ فراموش ماضی بن چکا ہے۔
کنیڈا بہت بڑا ملک ہے، میں تو صرف شرقی کنیڈا گیا تھا، تاہم ’’مشتے از خر وارے‘‘ اس سے ٹھیک اندازہ ہوا کہ باقی ماندہ کنیڈا اور امریکہ کیسا ہے، کیونکہ یہ سب امریکا کہلاتا ہے، میرے خیال میں قارئینِ کرام اس سفر کی کچھ اہم تفصیلات سننا پسند کرتے ہوں گے، لیکن میرے اگلے جوابات بہت طویل ہو چکے ہیں، اس لئے مجھے اب زیادہ نہیں لکھنا چاہئے، مگر یہ ضرور کہوں گا کہ میں ۱۹۸۰ء اور ۱۹۸۲ء میں بھی کنیڈا گیا، لیکن میں اس میں مونٹریال یونیورسٹی کے شعبۂ لسانیات میں بروشسکی زبان پر ریسرچ کر رہا تھا۔
میں تین دفعہ تقریباً چار چار ماہ کے لئے جا کر مجموعاً ایک سال کنیڈا میں رہ چکا ہوں، اس تمام مدت میں مجھے لکھنا بھی ضروری تھا، اور ساتھ ہی ساتھ اپنے شاگردوں یا عزیزوں کو لیکچر دینا بھی، اور ان کے ہر سوال کے لئے جواب مہیا کر دینا بھی، یہ ایک حقیقت ہے کہ علم دینے سے علم آتا رہتا ہے، چنانچہ جس معلم پر خدا مہربان ہو جاتا ہے، اس کو باصلاحیت متعلمین عطا کر دیتا ہے۔
وجودِ آدمی گوناگون قوتوں کا ایک بے پایان خزانہ ہے، وہ اس انمول خزانے کو اپنی تعمیر و ترقی کے لئے استعمال کر سکتا ہے، چنانچہ دانشمند قوموں

۶۰

کو یہ راز معلوم ہو گیا ہے کہ انسان بہت کچھ کر سکتا ہے، مگر محنت شرطِ لازمی ہے، یہی وجہ ہے کہ محنت کے قدردان نہ صرف آج کے چین میں ہیں، بلکہ مغرب میں بھی لوگ بہت زیادہ محنت کرتے ہیں، اور یہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اچھے خاصے عزت دار لوگ اپنے اپنے گھروں میں ادنیٰ سے ادنیٰ کاموں کو بھی کسی عار کے بغیر انجام دیتے ہیں، مثال کے طور پر قالینوں پر چھاڑو دینا (یعنی مشین چلانا، کیونکہ وہاں جھاڑو نہیں) میں نے مشین کو جھاڑو کہا، اس لئے کہ یہ فرش کو جھاڑتی ہے، اور جھاڑو بھی یہی کام کرتا ہے، وہاں مرد بھی بڑے آرام سے برتن دھو لیتا ہے، اور کھانا بھی پکا سکتا ہے، گھروں میں کوئی نوکر نہیں، نہ نوکرانی ہے، نہ بھنگی، اور نہ چوکیدار، بہترین فلش سسٹم، گھر کا کوڑا کرکٹ پلاسٹک کی بڑی بڑی تھیلیوں میں خوب بند کر کے قریبی سرکاری سڑک کے کنارے پر چھوڑتے ہیں، اور صفائی کا کوئی محکمہ ان تھیلیوں کو گاڑیوں میں لے جانے کا ذمہ دار ہے۔
کوئی بھی دانشمند اس حقیقت سے انکار نہیں کرے گا کہ آدمی اپنی ذات کا ایک ادنیٰ نوکر اور اپنے نفس کا غلامِ کمترین ہے، یعنی کیا وہ اپنے آپ کے لئے فطری طور پر دھوبی، نائی، بھنگی، وغیرہ کا کام نہیں کر رہا ہے؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے، تو پھر ہمیں اپنے گھر کی خدمت سے کیوں شرمانا چاہئے؟ اگر ہم اپنے جسمانی وجود کے ظاہر و باطن کا ٹھیک طرح جائزہ لیں، اور غور سے مطالعہ کریں، تو کسرِ نفسی اور عاجزی کے بہت

۶۱

سے اسباق سامنے آئیں گے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہم اپنی کتابِ ہستی کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں، اور یہی سبب ہے کہ ہم بار بار ظاہر داری اور خود بینی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
رحمتِ عالم فخرِ بنی آدم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی سیرتِ طیبہ اور سنتِ مطہرہ سے یہ ثابت کر دیا تھا کہ مؤمن اپنی ذات کے علاوہ خاندان اور قوم کا بھی خادم ہے، پس ہمیں غیر ضروری شرم و ناموس کو چھوڑ کر کام کرنا چاہئے، تا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہماری اس حرکت سے کوئی برکت پیدا کرے، کیونکہ گھر، گاؤں، علاقہ، اور ملک کی افرادی قوت سے حقیقی معنوں میں کام نہ لینا بہت بڑی ناشکری ہے، کاش ہم اسلامی اخوت اور ملی وحدت کی اہمیت کو سمجھتے، اور زمانۂ نبوت کے مسلمانوں کی طرح سب مل کر ہمیشہ اسلام کی سر بلندی کے لئے کوشان رہتے، پھر بھی ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے، وہ سب کی یک جہتی اور وحدت کا کوئی سبب پیدا کرے گا۔

۶۲

سوال و جوابِ یازدہم

برچہ: آپ ایک عرصے سے کراچی میں مقیم ہیں، اس لحاظ سے علمی و ادبی حلقوں کے ساتھ آپ کا رابطہ تو رہتا ہو گا، یہ بتائیے کہ کن مشہور علماء و ادباء کے ساتھ آپ کا رابطہ ہے؟

علامہ صاحب: میں اپنے علمی میزبان، نوجوان سکالر، دانشور، جناب شیر باز علی خان صاحب برچہ کا بےحد ممنون و شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ازراہِ کرم اس بندۂ خاکسار و خاک نشین کی حوصلہ افزائی کی خاطر منتخب عنوانات پر مبنی ایک سوالنا مہ ارسال کر کے سرفراز فرمایا ہے، یہ میری تاریخ دانی کی ایک کمزوری تھی کہ میں ’’برچہ‘‘ جیسے اہم لفظ کے مطلب کو نہیں سمجھ رہا تھا، لیکن اب مجھے معلوم ہوا کہ برچہ موصوف کے خاندان کا نام ہے، وہ اس طرح کہ آذر جمشید شری بدت کو ختم کر دینے کے بعد گلگت کا راجا مقرر ہوا تھا، اور برچہ آذر جمشید کا دودھ بھائی تھا۔
ہمعصر پاکستانی علماء، فضلاء، ادباء، شعراء، اور دوسرے حضرات کے حق میں میرے دل میں جیسا کہ احترام ہے، اس کے واضح اور قابلِ فہم اشارے میری ایک تازہ تصنیف ’’قرآنی علاج‘‘ کے صفحہ ۲۶ ۔ ۲۷ پر موجود ہیں، تعلق بالمشافہ بھی ہو سکتا ہے، خط و کتابت سے بھی، اور غائبانہ

۶۳

تعارف سے بھی، تاہم سچ بات تو یہ ہے کہ یہ ناچار روبرو تعلقات کی شیرین نعمت میں دوسرے بہت سے حضرات سے پیچھے ہے، یعنی تعلقات کا دائرہ جتنا وسیع ہو جانا چاہئے، ایسا نہیں، جس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مجھے کافی دیر سے کچھ علم ملا، اس پر مزید یہ کہ میری زندگی کا ایک اہم حصہ سفر میں گزر گیا، کچھ وقت جماعتی خدمات میں صرف ہو رہا ہے، اور اب وسیع میدان میں آگے بڑھ جانے کے لئے نہ اتنی قابلیت ہے اور نہ وقت، تاہم مجھے بہت زیادہ شکر کرنا چاہئے۔
ڈاکٹر پروفیسر محمود بریلوی صاحب (مرحوم) ڈاکٹر محمد بشارت علی قریشی صاحب، اور دیگر چند حضرات شیر علی اختر صاحب کے دفتر میں آیا کرتے تھے، اور ہم سب مل کر علم کی دوستانہ باتیں کیا کرتے تھے، مجھے اپنی کمزور عادت خوب یاد ہے کہ میں کراچی جیسے شہر میں بھی ازخود دوستوں کی تلاش نہیں کر سکتا تھا، لیکن ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی نے مجھے مشورہ دیا کہ چلیں، ہم جناب رئیس امروہی صاحب سے ملاقات کریں، اب مجھے کسی خوفِ تردید کے بغیر یہ کہنا چاہئے کہ رئیس امروہی صاحب کی ذات سے وابستہ دوستوں کی ایک مکمل دنیا مل گئی، وہ شاہنشاہِ قلم ہیں، اس لئے میں تنہا نہیں، بلکہ تمام دنیائے علم و ادب ان کو دوست رکھتی ہے، رئیس امروہی صاحب کی کئی تصانیف شائع ہو چکی ہیں، خصوصاً قطعاتِ رئیس، جلدِ اول (جنوری ۱۹۵۹ء تا جون ۱۹۶۴ء) اور جلدِ دوم (جولائی

۶۴

۱۹۶۴ء تا ۳۰ جون ۱۹۷۱ء) آپ دیکھتے ہیں کہ رئیس صاحب اپنی زرین خدمات کو کسی سے دریغ نہیں رکھتے۔
جناب سید محمد تقی صاحب پاکستان کی چوٹی کے سکالرز میں سے ہیں، اور جناب جون ایلیا صاحب اسی خاندان کے تیسرے دانشور ہیں، مجھے اس موقع پر جناب جی الانہ صاحب (مرحوم) یاد آتے ہیں، وہ بین الاقوامی شہرت کے مالک تھے، جناب غلام سرور صاحب ایم۔ اے۔ پی ۔ ایچ۔ ڈی (علیگ) پروفیسر اینڈہیڈ، ڈیپارٹمنٹ آف پرشین، یونیورسٹی آف کراچی نے بھی، دوسرے کئی حضرات کی طرح میری ایک کتاب پر ایک بہترین تبصرہ تحریر فرمایا ہے، یہاں پشتو زبان کے بابائے غزل اور اردو کے ممتاز شاعر و ادیب جناب امیر حمزہ شنواری کا بھی نام ہونا چاہئے۔
مجھے اپنے علاقے کی علمی و ادبی کوششوں اور سرگرمیوں کے بارے میں بھی کچھ عرض کرنا ہے، وہ یہ کہ جب میں رمضان المبارک ۱۴۰۷ھ کو ’’قراقرم رائٹرز فورم گلگت‘‘ کے دانشور و معزز ارکان کی ملاقات سے مشرف ہو رہا تھا، تو اس وقت مجھے اس یقین سے زبردست خوشی ہو رہی تھی کہ (ان شاء اللہ) اس مبارک ادارے کی پرخلوص کوششوں سے علاقے میں علم و ادب تقریر و تحریر، اور شعر و شاعری کی ترقی ہو گی۔ اس باوقار ادارے کے منتخب عملداروں کے اسمائے گرامی درجِ ذیل ہیں:

۶۵

صدر جناب غلام محمد بیگ صاحب، نائب صدر جناب عثمان علی خان صاحب، جنرل سیکریٹری جناب محمد اکرام خان صاحب، جائنٹ سیکریٹری جناب محمد امین ضیاء صاحب، پبلسٹی سیکریٹری جناب سید فاضل شاہ صاحب، فنانس سیکریٹری جناب ڈاکٹر ثابت رحیم صاحب اور آفس سیکریٹری جناب شیر باز علی خان برچہ صاحب۔
فروغِ علم و ادب کا ایک مؤثر اور ہمہ رس وسیلہ آج کے زمانے میں ریڈیو اور ٹیلی وژن ہے، لہٰذا ہمیں اپنے علاقے کے ان اداروں سے نہ صرف تعاون حاصل کرنا ہو گا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہم پر بھی بحیثیتِ قوم ایک فریضہ عائد ہو جاتا ہے، وہ یہ کہ ہم اپنے ایسے اداروں کی قدردانی اور حوصلہ افزائی کریں جو قوم کی تعمیر و ترقی کے لئے شب و روز مصروفِ عمل ہیں، تاکہ سب سے پہلے علاقے کی سطح پر اسلامی اخوت اور جذبۂ حب الوطنی کا دور دورا ہو۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی
جمعہ یکم صفر المظفر ۱۴۰۸ھ / ۲۵ ستمبر ۱۹۸۷ء

۶۶

علامہ نصیر الدین (پرتوِ شاہ) کا شجرۂ نسب
بروک ھرای / صفر ھرای ، یعنی بروک یا صفر خاندان

۶۷

۱۔ صفر

صفر یا سفر، میں ذاتی طور پر اس روایت کو ترجیح دیتا ہوں کہ ہون زاد (آج کل کی زبان میں ہونزوکد) تقریباً ۴۹۱ء میں چین کی طرف سے آئے تھے، ہون، یا ھُن ایک قدیم قوم کا نام ہے، اسی لفظ سے التت میں ’’ہنوکوشل‘‘ ہے، یعنی وہ جگہ جہاں شروع شروع میں ھنوکد بستے تھے، وزیر چوسنگھ اور وزیر بوٹو کے بعد جو شخص ہونزہ کا وزیر ہوا، اس کا نام ممو تھا، لیکن لوگ اسے ھنوی ممو کہتے تھے، یعنی ھنو کا بیٹا ممو، جیسے حجای غریب کا مطلب ہے حجی کا بیٹا غریب، اور اس میں تعظیم کا تصور بھی ہے، اور ممکن ہے کہ لفظِ ھون (Hoon) بھی ھن قوم سے منسوب ہو، اور یہ بات الگ ہے کہ ھن قوم اچھی تھی یا بری، میرے خیال میں ھون جو پہاڑ کا نام ہے، اس کی توجیہہ بھی یہی ہو سکتی ہے اور ہون زا دراصل ’’ ھون زاد‘‘ تھا، یعنی قومِ ھن کی نسل، پس ہونزہ کے ابتدائی باشندوں کا اصل وطن منگولیا ہو سکتا ہے، بہر حال سفر ہرای (خاندانِ سفر) سے پہلے اس قبیلے کا نام ’’بروک ہرای‘‘ تھا، بروک ان کے کسی جد کا نام ہو سکتا ہے، اور یہ لفظ از قسمِ ترکی یا منگولی لگتا ہے۔

۶۸

۲۔ بُرگَل

اس کا کوئی قصہ معلوم نہیں، صرف اتنا ہے کہ اشا پہاڑ پر ایک جگہ ہے، جس کو لوگ ’’برگل ولم ژکت‘‘ کہتے ہیں، لیکن بُرگَل دو ہیں۔

۳۔ بہرام

(۱) بہرام ستارۂ مریخ کو کہتے ہیں۔
(۲) نیز یہ عراق کے ایک بادشاہ کا نام تھا۔

۴۔ شاہ روپ

اس نام کا مطلب ہے: وہ آدمی جس کی شخصیت بادشاہ کی طرح ہو، یہ وہ وقت تھا، جس میں ہنوز ہونزہ تک دینِ اسلام اور شرعِ محمدی کی روشنی نہیں پہنچی تھی، چنانچہ شاہ روپ نے ایک بڑے آدمی کی خوبرو بیٹی سے عشقیہ اور خفیہ شادی کر لی، جب بچہ پیدا ہوا، تو ماں اپنے باپ کے ڈر سے جھوٹ موٹ باتیں کرنے لگی، جس کی وجہ سے کچھ غلط باتیں مشہور ہو گئیں۔

۶۹

۵۔ بہرامِ ثانی

وہ ستارۂ مریخ اور شاہِ عراق کے معنوں کو اپنی ذات میں پوشیدہ رکھتا تھا، اور اس میں ماں باپ کی خاندانی خوبیاں جمع تھیں، چونکہ لوگ اس کو حقیر سمجھتے تھے، اس لئے خداوند تعالیٰ اس پر بڑا مہربان تھا، اور رحمتِ الٰہی آنے والے زمانے کی منتظر تھی۔

۶۔ فقرا شاہ

اس کو فقو بھی کہتے ہیں، حالات معلوم نہیں۔

۷۔ سرل
سرل (Saral) کی بیوی میلی کے نام سے تھی، جو قریۂ گنش کے ایک شخص بڈھو کی بیٹی تھی، بڈھو نامور چبوی بتی کی نسل سے تھا، پہاڑ پر ’’بڈھو دیدم‘‘ اسی کے نام سے ہے، انہوں نے اپنی عزیز بیٹی میلی کو بطورِ جہیز غمٹ پہاڑ پر ایک رُک (Run) بھی دیا تھا، لیکن اب وہ واپس کیا گیا ہے۔

۸۔ پونو

پونو قدیم ہونزہ ثقافت کا ایک پسندیدہ نام ہے، یہ لفظ دراصل ’’پن‘‘ ہے،

۷۰

اور حرفِ واؤ بعد میں بطورِ لاحقہ ملایا گیا ہے، جس کی وجہ سے یہ لفظ اسمِ مصغر ہو جاتا ہے، ’’پن‘‘ بروشسکی میں شریف کو کہتے ہیں، اور خود بروشسکی میں اس کا دوسرا لفظ منوکر بھی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ پن اور من (منو = منوکر) ہم معنی نام ہیں، اس کے سوا پونو کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں، مگر یہ بات ہمارے لئے باعثِ خوشی ہے کہ ہماری ایک مضبوط جڑ چبوی کد میں پیدا ہوئی، کیونکہ پونو کی والدہ میلی جیسا کہ ذکر چبوی بتی کی نسل سے تھی۔

۹۔ فقیر

لفظِ فقیر عربی، قرآنی اور اسلامی نام ہے، اس لئے اس نام کی خوبیوں کا کیا کہنا، اس بابرکت نام میں ایک خاص دعا پوشیدہ ہے، جس طرح قرآنِ پاک (۲۸: ۲۴) میں ہے، میں کئی وجوہ سے اس پیارے نام کو بے حد عزیز رکھتا ہوں، بہر حال فقیر ابنِ پونو کی اہلیہ خاندانِ بشوکد (درمتک) کے ایک معزز شخص کی بیٹی تھی، پونو فقیر (فقیر ابنِ پونو) کی بہادری کا تذکرہ ’’تھمو کتاب‘‘ میں موجود ہے، نیز جناب قدرت اللہ بیگ (مرحوم) کی کتاب ص ۱۰۰ پر ملاحظہ ہو، جہاں پندرہ بہادروں کی شاندار تعریف کی گئی ہے۔

۷۱

۱۰۔ منو

من / منو، اور منوکر کا ایک ہی مطلب ہے، یعنی شریف النفس آدمی، منو کا خاندان ہر لحاظ سے بہتر اور مضبوط تھا، اس لئے التت کے مشہور قبیلہ حسیکد سے ایک نیک خصلت لڑکی (بی بی بل) اس کے نکاح میں لائی گئی، وہ نیک بخت، عقلمند اور دور اندیش خاتون تھی، قصہ یوں ہے کہ منو اپنے والد فقیر ہی کی طرح جسیم، طاقت ور، دلیر اور بہادر شخص تھا، وہ موسمِ گرما میں اپنی بھیڑ بکریوں کے ساتھ اس تیر (چراگاہ) میں ہوتا تھا، جو بشوکد نے بطورِ جہیز اپنی بیٹی (منو کی والدہ) کو دیا ہوا تھا، جو قریۂ حسن آباد کے بالکل قریب تھا، جس کو منو ھرای کہا جاتا تھا، ایک رات ایسا واقعہ ہوا کہ دشمن کو دور سے منو ہرای کی روشنی نظر آنے لگی، تو وہاں سے چار چنے ہوئے جوان آگئے اور منو کو رسی میں باندھ کر لے جانے لگے، تب تک اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی، لیکن جب دریا میں تیراکی شروع ہوئی تو بندھا ہوا منو نے سب کو ڈبو دیا، اور وہ وہاں سے واپس آیا، اس نے خودی اور فخر کے نشے میں خداوند تعالیٰ کو بھلا دیا ہو گا، لہٰذا جان کی سلامتی کی کوئی تدبیر نہیں سوجھی، صرف اسی پر اکتفا کیا کہ رات کے وقت ہرای (Haraay) سے باہر کہیں سویا کرے، چنانچہ جب دشمن دوسری دفعہ زیادہ تعداد میں آکر تلاش کرنے لگا، تو

۷۲

پتہ چلا کہ منو قریب کے ایک غار میں سو رہا ہے، کیونکہ وہ نیند میں خراٹے لینے کی عادت رکھتا تھا، پس وہ اس دفعہ بڑی سختی کے ساتھ قید ہو گیا، اور اب دریا سے واپس نہیں آ سکتا تھا، کچھ عرصے کے بعد قیدیوں کے تبادلے میں مؤخر کر کے قتل کیا گیا، جس سے خاندان کو بڑا نقصان ہوا۔

۱۱۔ حاجی

جب منو قتل کیا گیا، تو بل بیوہ ہو گئی، اور حاجی بچپن ہی میں یتیم ہو گیا، اس زمانے میں یتیمی بہت بری بلا سمجھی جاتی تھی، اور سچ مچ وہ وقت ایسا ہی تھا، ہر چند کہ ’’دتم بریشو‘‘ چراگاہ کے حصول کے سلسلے میں منو جیسے بہادر شخص کا کردار نمایان تھا، لیکن جب اس کی ہرکس (کاشت کی جگہ) تقسیم کرنے کا وقت آیا تو برادری والوں نے یہ نہیں کہا کہ ہمارے خاندان کا ایک یتیم بچہ بھی اس میں حصہ دار ہے، لہٰذا ہوش مند عورت (بل) فوراً التت گئی، اور اپنے والدین کے گھر سے گندم کا آٹا، گھی، وغیرہ لے کر اور چھوٹے بچے کو کندھے پر بٹھا کر ’’دتم بریشو‘‘ میں حاضر ہو گئی، اور کہنے لگی، مما ماورے! تھریس محو کے دیبای نا! (میری ماں تم سے قربان! تمہارا یتیم بھائی بھی آگیا ہے) ان سب کو اس باہمت خاتون کی دور اندیشی اور جسمانی مشقت سے بڑا تعجب ہوا، چنانچہ انہوں نے بل کے نام پر ایک ہرای کو تعمیر کیا، جبکہ دوسرا ہرای وزیر ممو کے نام پر تعمیر ہوا تھا،

۷۳

اور اردگرد کی زمین میں سے حاجی کو حصہ دیا۔
قانونِ الٰہی کے سامنے دنیا کا ہر دستور ہیچ ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم (۴۹: ۱۳) کا مفہوم ہے کہ ’’تمام لوگ ایک ہی ماں باپ کی اولادیں ہیں۔۔۔ اور بزرگی تقویٰ میں ہے‘‘۔ لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہونزہ کے قدیم رواج میں جہاں بھی کوئی یتیم اور بے سہارا آدمی پایا گیا تو اس کے حقوق پامال کئے گئے، یہی حال یتیم حاجی کے سر سے بھی گزرنے لگا، حاجی کی بیوی بھی خاندانِ بشو کد کی بیٹی تھی، خدا کی رحمت سے اب ان کا بیٹا غریب بھرپور جسم اور زبردست طاقت کے ساتھ نوجوان ہو گیا۔

۱۲۔ غریب

ایک دن کسی وجہ سے بل مل کے یرپا سے غریب کی تکرار ہوئی، یرپا نے غریب کو لڑکا سمجھتے ہوئے گالی دی، غریب طیش میں آ گیا، اور یرپا کو اٹھا کر زور سے زمین پر دے مارا، یرپا حجای غریب (غریب ابنِ حاجی) کے خلاف شکایت لے کر شاہ سلیم خان کے پاس گیا، جس پر میر سلیم خان نے غریب کو طلب کیا اور وہ حاضر ہو کر ہر سوال کا جواب کمالِ ادب اور دانشمندی سے دینے لگا، جس سے میر بہت متاثر ہو گیا، اور اسی وقت انہوں نے یرپا کو نا اہل قرار دے کر نوجوان غریب کو یرپگی کے عہدے سے سرفراز فرمایا، اور یہیں سے اس کی ترقی شروع ہوئی، کچھ آگے چل کر

۷۴

ناصر آباد کا ترنگفہ مقرر ہوا، چونکہ مرکز سے دوری کی وجہ سے ناصر آباد کے قلعہ پر دشمن کے حملے ہوتے تھے، لہٰذا یہ امر بے حد ضروری تھا کہ وہاں کوئی باہوش اور بہادر شخص کو ترنگفہ مقرر کیا جائے، ترنگفہ غریب نے شاہ سلیم خان کی شہزادی زیب النساء کی پرورش کی تھی، اس عمل کو بروشسکی میں تھمو اوشم کہتے ہیں، اور اس خاندان کو یہ اعزاز بار بار حاصل ہوتا رہا۔

۱۳۔ شمشیر بیگ

جیسا کہ شجرۂ نسب میں درج ہوا، حجای غریب کے چار بیٹے تھے: شمشیر بیگ، سلام بیگ، جوہر بیگ، اور وزیر بیگ، جب شاہ سلیم خان نے بمل دس کو ۱۲۲۱ھ (بارہ سو اکیس ہجری ، ۱۸۰۶ء) میں حیدرآباد کے بابرکت نام سے آباد کیا تو اس وقت انہوں نے شمشیر بیگ کو ترنگفہ بنا کر یہاں بھیجا، اور وہ عرصۂ دراز تک اس عہدے پر فائز و نائل رہا، کہا جاتا ہے کہ ۳۳ سال حکمرانی کرنے کے بعد ۱۲۳۹ھ / ۱۸۲۳ء میں شاہ سلیم خان کا انتقال ہوا، اور میر غضنفر خان ان کا جانشین ہو گیا۔

۱۴۔ فولاد بیگ

ترنگفہ شمشیر بیگ کے دو بیٹے تھے، فولاد بیگ بڑا تھا، اور رستم

۷۵

بیگ چھوٹا، فولاد بیگ کی اہلیہ گل بی بی مسمی خوشحال (خاندانِ خروٹک) کی بیٹی تھی، کسی نامور شخص کا کوئی کارنامہ اس کے زمانے کی ضرورت کے مطابق ہوا کرتا ہے، چنانچہ فولاد بیگ اور اس کی نیک بخت زوجہ گل بی بی نے شہزادہ ریحان شاہ ابنِ میر غضنفر کی اعزازی پرورش شیرخوارگی ہی سے کی، ایسی باعزت خدمت اس خاندان میں سب سے پہلے ترنگفہ غریب نے انجام دی تھی کہ انہوں نے شاہ سلیم خان کی ایک شہزادی زیب النساء کو دخترِ شیر (دودھ بیٹی) بنا لیا تھا، حجای غریب کی اولاد میں اس کی اور بھی مثالیں ہیں۔
دنیا عالمِ حوادث ہے، چنانچہ شاہ غضنفر خان ۶۶ (چھیاسٹھ) سال کی عمر اور تقریباً چالیس سالہ امارت کے بعد اپنے بیٹے غزان خان کی وجہ سے چیچک کی مہلک بیماری میں مبتلا ہو گئے، اور اسی سے ان کی موت واقع ہوئی، اور اسی وقت یعنی ۱۲۸۰ھ / ۱۸۶۳ء میں غزان خان میرِ ہونزہ مقرر ہو گیا، غزان خان نے اپنے بھائیوں سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے نونہال شاہ اور توکل شاہ کو قتل کروایا، اور ریحان شاہ کو جلا وطن کر کے مہاراجہ کشمیر کے پاس بھیجا، اور اس حال میں پدرِ رضاعی فولاد بیگ بھی ساتھ تھا۔۔
ریحان علی شاہ اپنے والد شاہ غضنفر کے وقت سے چپروٹ کی محافظت کر رہا تھا، کیونکہ چپروٹ پر حملے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا تھا (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: تاریخِ عہدِ عتیق۔۔۔ ہونزہ۔ ص ۲۵۲ ۔۲۵۳) لیکن

۷۶

ریحان شاہ نے اپنے پدرِ رضاعی فولاد بیگ کے ساتھ کسی قصور کے بغیر جلا وطنی قبول کر لی، اور مہا راجۂ کشمیر نے ان کو سرینگر کے ایک مقام بٹ مالوہ میں قطعۂ زمین دیا اور وظیفہ بھی مقرر کیا۔

۱۵۔ محمد رفیع

اگرچہ ترنگفہ فولاد بیگ کے تمام بیٹے جسمانی طاقت میں مانے ہوئے تھے، جیسے کثیر خان، اور خیر اللہ بیگ وغیرہ، تاہم خلیفہ محمد رفیع ہر لحاظ سے ان میں نمایان تھا، اسی لئے ان کو گھر ہی میں قید کیا گیا، اور در و بام پر محافظ مقرر کئے گئے، تا کہ لوگوں کے ساتھ ساز باز نہ کر سکے یا کشمیر کی طرف بھاگ نہ جائے، چونکہ محمد رفیع کی کوئی ایسی نیت ہی نہ تھی، لہٰذا میر غزان خان نے ایک عرصے کے بعد انہیں اپنے پاس طلب کر کے نرمی کا سلوک شروع کیا، اور کہنے لگا کہ آج سے تم میرا بیٹا ہو، پھر اپنے پستان پر خمالی میں کچھ مکھن رکھ کر کھلایا اور کہا کہ تم اس کو شیرِ مادر سمجھنا، نیز کہا کہ اب کچھ مانگو، بتاؤ کیا چاہئے؟ ہمارے دادا نے عرض کیا کہ مجھے کوئی چیز نہیں چاہئے، مگر زمین کا ایک ٹکڑا، پوچھا: ہے کہیں کوئی زمین؟ عرض کی گئی کہ اب عمدہ زمین تو تقسیم ہو چکی ہے، اس لئے وہ کہیں بھی نہیں، ہاں ایک ناکارہ جگہ ہے، جہاں گاہ و بیگاہ پہاڑ سے پتھر گرتے ہیں، اس جگہ کو ہم ’’گور یارے‘‘ کہتے ہیں، پس وہ جگہ میر غزان خان نے

۷۷

خلیفہ محمد رفیع کو بیٹا بنانے کے انعام میں دے دی۔
میر غزان خان کی امارت کو تقریباً ۲۳ (تیئس) سال کا عرصہ ہوا تھا، کہ ان کے خلاف سازش ہوئی، اور ان کے بیٹے صفدر خان نے دارا بیگ اور چند دوسرے لوگوں کی مدد سے ان کو قتل کیا، پھر صفدر خان میر اور دارا بیگ وزیر ہو گئے۔
ماہِ اگست ۱۸۹۱ء میں حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السلام کے حضورِ عالی سے میر، وزیر اور جماعتِ ہونزہ کے نام پر ایک تاکیدی فرمان آیا، اور اس میں یہ حکم تھا کہ برٹش گورنمنٹ اور اس کے نمائندوں کی ڈاک میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالا جائے۔۔۔ امامِ عالیمقام کے اس پرحکمت فرمان کے باوجود ڈاک ہونزہ سے گلگت واپس کی گئی، جو برٹش ایجنٹ ڈیورینڈ گلگت سے کونسل جنرل چینی باغ کاشقر جاری تھی، اس کے بعد بڑی تیزی سے جنگ کی تیاری ہوئی، اور بالآخر ہونزہ نگر پر برٹش ایجنٹ کا قبضہ ہوا، اسی کے ساتھ نہ صرف صفدر خان اور دارا بیگ بلکہ نگر سے آذر خان (ولی عہد) بھی چین کی طرف بھاگ گئے، ان کے ساتھ تقریباً چار سو آدمی خزانہ اور ہتھیار اٹھائے جارہے تھے، میر صفدر خان کی حکومت پانچ سال کے بعد ختم ہو گئی۔
خلیفہ محمد رفیع کی زوجۂ محترمہ کا نام روزی بای تھا، جو اپنے وقت کے بہادر شخص قلی لسکر کی پوتی اور درس علی کی بیٹی تھی، محمد رفیع کے دو بیٹے

۷۸

ہوئے: حبِ علی اور عافیت شاہ۔

۱۶۔ حبِ علی

’’حبِ علی‘‘ بڑا پیارا نام ہے، ان کی اہلیہ (ہماری والدہ) کا نام بھی روزی بای تھا، جو حیدر محمد کی بیٹی تھیں، حیدر محمد کا خاندانی تعلق بختہ کد سے تھا، حیدر محمد (میرے نانا) کی زوجہ فضہ (میری نانی) سلطان محمد کی بیٹی تھیں، سلطان محمد ھکل کد سے تھا، یہ خاندان احمد آباد اور التت میں ہے۔

نوٹ: یہ مختصر تاریخ اپنے خاندان اور عزیز شاگردوں کے لئے لکھی گئی، کیونکہ جو بات از قسمِ معلومات میرے سینے میں ہے، وہ ایک امانت ہے، یہ سچ ہے کہ اس میں کچھ باتیں کتابوں سے بھی ہیں، جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
۵ اپریل ۱۹۹۳ء

۷۹

جدید طریقِ انتساب

۱۔ تحفۂ دل پذیر:
ادارۂ عارف برانچ امریکا کے ایڈوائزر اکبر ۔ اے۔ علی بھائی اور ان کی بیگم شمسہ اے۔ علی بھائی کے توسط سے عالمِ اسماعیلیت کے لئے۔

۲۔ دائمی دعا:
ادارۂ عارف برانچ امریکا کی سرگرم ممبر شمسہ (اکبر اے۔ علی بھائی) کے والدِ مرحوم حسام الدین پونجا (Poonja) کی پیاری یاد میں۔

۳۔ سدا بہار گلدستہ:
ادارۂ عارف برانچ امریکا کے چیف ایڈوائزر شمس الدین جمعہ اور ان کی بیگم سیکریٹری کریمہ شمس الدین جمعہ، اور ان دونوں کے نیک بخت عزیزوں کے توسط سے ان تمام حضرات کے لئے، جو اپنے ماحول کو ایسے پھولوں سے معطر بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

۸۰

۴۔ درجِ گوہر:
یہ گویا انمول موتیوں کا صندوقچہ ہے، جو ادارۂ عارف امریکا کی ’’یاسمین نور علی برانچ‘‘ کے توسط سے گوہر شناسوں کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے، نور علی مامجی اور ان کے خاندان کی بے شمار خدمات ہیں۔

۵۔ علمی ہدیہ:
ادارۂ عارف برانچ امریکا کے آڈیو ویجول انچارج عبد المجید پنجوانی، اور ان کے باسعادت خاندان کے توسط سے نورِ علم کے پروانوں کے لئے۔

۶۔ سونے کے سکے:
یہ کتاب گویا اشرفیوں کا ڈھیر ہے، جو ادارۂ عارف امریکا کی ’’ ایم۔ بی۔ برانچ‘‘ (بدرالدین نور علی اور خاندان) کے توسط سے قدر دانوں کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔

۷۔ باطنی پاکیزگی:
نور علی مامجی اور یاسمین نور علی مامجی کے دونوں فرزند: نادر علی اور نسرین کتنے پیارے ہیں! زہے نصیب کہ ان عزیزوں نے امریکا میں رہتے ہوئے

۸۱

ایک علمی نہر کی تعمیر میں تعاون کیا، تا کہ اس سے روحانی آبادی اور باطنی پاکیزگی ہو۔

۸۔ علم دوستی:
علم دوستی کا یہ نمونہ اور نشانہ لائقِ تحسین اور ناقابلِ فراموش ہے، جو ادارۂ عارف برانچ امریکا کے رکن نوشاد پنجوانی کی وساطت سے حلقۂ علم و حکمت کو پیش ہوا، آپ بہت ایمانی اور شیرین گفتار ہیں۔

۹۔ کتابی خزانہ:
میرے عزیز دوست فردوس مؤمن ادارۂ عارف برانچ امریکا کے رکنِ رکین ہیں، ان کی نظر میں ہر پر حکمت کتاب ایک انمول خزانہ ہے، اسی سبب سے آپ علم و حکمت کے عاشقوں کی صفِ اول میں ہیں۔

۱۰۔ علمی شہد:
ادارۂ عارف برانچ امریکہ کے لئے میرے پرسنل سیکریٹری حسن (سابق کامڑیا) اور ان کی اہلیہ کریمہ حسن (سابقہ کامڑیانی) علمی شہد کے دلدادہ ہیں، ان کی دلی خواہش ہے کہ ان کا نورِ چشم اور لختِ جگر سلمان بھی ایسا ہو!

۸۲

۱۱۔ باقی رہنے والی نیکیاں:
خانۂ حکمت برانچ اسلام آباد کے صدر نذیر صابر علم کے عظیم قدر دانوں میں سے ہیں، آپ اس بات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں، کہ علم و حکمت کی کتاب باقی رہنے والی نیکیوں میں سرِ فہرست ہے۔
(ملاحظہ ہو کتاب: لعل و گوہر، ص ۱۹)

۱۲۔ ایک مثالی خط:
برادرِ بزرگ مہربان شاہ (مرحوم) کے علمی ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ دن ہو یا رات آپ ہمیشہ دینی کتب کا مطالعہ کرتے رہتے تھے، اور اپنے خیالات کو سپردِ قلم بھی کرتے تھے، ان کے جذبۂ دینداری اور اوصافِ مؤمنی کی کوئی مثال نہیں، وہ عشقِ مولا میں خود کو فنا کر دینا چاہتے تھے، موصوف کے انتقال پر میں نے ان کے فرزندِ ارجمند موکھی سرفراز شاہ اور جملہ خاندان کی خدمت میں ’’ایک مثالی خط‘‘ تحریر کیا ہے، جسے ہم عنقریب کسی کتاب میں شائع کریں گے، ان شاء اللہ۔

۱۳۔ علمی آبِ حیات:
خانۂ حکمت کے تا حیات صدر فتح علی حبیب، ان کی فرشتہ سیرت بیگم

۸۳

ایڈوائزر گل شکر اور نیک بخت خاندان کے توسط سے تشنگانِ علم و حکمت کے لئے ماءُ الحیات، آبِ خضر (آبِ بقا = امرت جل)۔

۱۴۔ آسمانی دسترخوان:
حقیقی علم کا ایک خاص نام سماوی دسترخوان ہے، جس کو امامِ زمان علیہ السلام کے بعض علمی خادموں نے سجایا، اور اس عمل میں شروع سے ساتھ ہیں: خانۂ حکمت کے نائب صدر نصر اللہ قمر الدین اور محترمہ امینہ نصر اللہ، اور بڑی خوشی کی بات ہے کہ ان کے پیارے بچے اس میں والدین کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔

۱۵۔ جماعت خانے کی قلمی خدمت:
میں مانتا ہوں کہ رشیدہ نور محمد ہونزائی (صمصام) ارضی فرشتوں میں سے ہیں، اسی لئے ان کے مبارک قلب میں القاء ہوا کہ آپ پین پاور (Pen Power) سے پاک جماعت خانہ کی ایک بہت ضروری خدمت انجام دیں، لہٰذا انہوں نے یہ کام کیا، جو آپ کے سامنے ہے۔

۱۶۔ آباء و اجداد کو بھول نہ جائیں:
محترم عزیز پونجا میرے قلبی دوست ، بڑے دانشمند شخص ، اور پین پاور میں

۸۴

منفرد ہیں، آپ بہت سے اوصاف و کمالات کے باوجود درویش دکھائی دیتے ہیں، وہ دنیا بھر کی چیزوں میں سے علم کو بہت بڑی اہمیت دیتے ہیں، اور اسی کی سبب سے زیادہ قدر کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے عظیم دادا کاؤنٹ پونجا کے اسمِ گرامی کو کتابوں کی دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا۔

۱۷۔ خدا کا تخت پانی پر تھا اور ہے:
پانی پر عرش یا عرش کے نیچے پانی ہونے (۱۱: ۷) کی تاویل یہ ہے کہ گوہرِ عقل جو عرشِ رحمان ہے، وہ سرچشمۂ علم ہے، اس لئے بحرِ علم اس کے تحت ہے، یہ ہوا پانی پر عرش کا ہونا، پس صدر فتح علی حبیب اور ایڈوائزر گل شکر کے فرزندانِ دلبند نزار، رحیم ، اور فاطمہ کتنے نیک بخت ہیں کہ ان کو بچپن ہی سے تاویلی حکمت سکھائی جا رہی ہے، اور وہ بڑے شوق سے سیکھ رہے ہیں۔

۱۸۔ بابرکت گھر:
ایڈوائزر گل شکر فتح علی کی سب سے بنیادی اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ صبح و شام اپنے خاندان کے ساتھ جماعت خانہ جایا کرتی ہیں، واللہ! اس عمل سے گھر میں بے شمار برکتیں آتی رہتی ہیں، جیسے ہم محترمہ

۸۵

گل شکر کے بابرکت گھر میں دیکھ رہے ہیں: ایمان، دینداری، شوقِ عبادت، شب خیزی، مجلسی فیض، عشقِ مولا، گنان خوانی، علم دوستی، ذکر، مناجات، گریہ و زاری، دینی کتابوں کی بھرپور خدمت، علمی ڈاک کی ترسیل وغیرہ۔

۱۹۔ ہمہ رس علمی خدمت:
خانۂ حکمت کے صدر فتح علی حبیب کی تجویز ہے کہ ہم ادارۂ عارف کے صدر محمد عبد العزیز اور ان کی اہلیہ سیکریٹری یاسمین کی قابلِ قدر خدمات پر کوئی سرٹیفکیٹ دیں، اور اسی طرح دوسرے کئی عزیزوں کو بھی، جو علمی خدمت میں پیش پیش ہیں، لیکن میری گزارش یہ ہے کہ سرٹیفکیٹ سے کچھ کام نہیں بنے گا، اس لئے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے ایسے عزیزوں کے بارے میں وقتاً فوقتاً کتابوں میں لکھیں گے، تا کہ ان کے زرین کارناموں کو سب دیکھ سکیں، اور ان سے آئندہ نسل کو درسِ عالی ہمتی ملتا رہے۔
صدر محمد عبد العزیز اور ان کی نیک بخت بیگم سیکریٹری یاسمین زمین پر چلنے والے فرشتوں میں سے ہیں، ان کی گرانقدر خدمات کی فہرست بڑی طویل ہے، یہ انہی کا وسیلہ اور احسان تھا، جس سے مجھے امریکا کی جماعت میں ایسے عزیز و عظیم دوست ملے، جو حقیقی علم کے بڑے قدردان ہیں، اور امید ہے کہ وہ عزیزان وہاں اس علم کی روشنی کو

۸۶

پھیلائیں گے، عزیزانم محمد عبد العزیز اور یاسمین کا ایک اور زرین کارنامہ تقریباً ڈیڑھ ہزار (۱۵۰۰) آڈیو کیسیٹوں کا ریکارڈ ہے، اگر ریکارڈنگ کا یہ انتظام نہ ہوتا، تو کم از کم ایک ہزار گھنٹے کی مفید تقریر ہوا میں بکھر جاتی۔

۲۰۔ کریم آباد برانچ:
ارشادِ نبوی ہے: ’’ طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم و مسلمۃ ‘‘۔ علمِ دین کا سیکھنا فرض ہے ہر مسلمان مرد و زن پر۔ (کتابِ حدیث: ابنِ ماجہ) اس حکم کی تعمیل کے لئے کریم آباد برانچ کے عزیزان دور سے آتے ہیں، ان کو کسی بھی علمی خدمت میں پیچھے رہنا پسند نہیں ہے، ایسا لگتا ہے جیسے نورِ ہدایت نے ان کو علم و عبادت کے لئے منتخب کیا ہو، یہ امامِ زمان علیہ السلام کے سچے عاشقوں میں سے ہیں، ان کو علم و حکمت کے بھیدوں سے بڑا مزہ آتا ہے، دعا ہے کہ رب العزت ہر مؤمن اور مؤمنہ کو گنجِ معرفت عنایت فرمائے!
۸ دسمبر ۱۹۹۲ء

۲۱۔ کتابی صورت میں بہشتی میوے:
خانۂ حکمت کے نائب صدر نصر اللہ قمر الدین اور ان کی بیگم امینہ ان اولین آہنی ستونوں (Iron-pillars) میں سے ہیں، جن پر ہمارا یہ مقدس

۸۷

ادارہ قائم ہوا، اور اب بہ فضلِ خدا اس کی روز افزون ترقی ہو رہی ہے، لہٰذا یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ اپنے ان محسنوں کی مختصر سی تاریخ رقم کرتے ہوئے ان سے یہ کہیں کہ آئیے! آپ اپنے پیارے پیارے بچوں یعنی امین محمد نصر اللہ، یاسمین نصر اللہ، اور فاطمہ نصر اللہ کے ساتھ کتابی صورت کے ان بہشتی میوؤں کو تقسیم کریں۔

۲۲۔ جناب اکبر راجن اور ان کی نیک بخت فیملی کے نام:
کسی ایک مذہبی کتاب کا حسن و خوبی سے ترجمہ کرنا بہت بڑا کام ہے، اور ایسی بہت سی کتابوں کا ترجمہ کرنا انتہائی عظیم کارنامہ ہے، ترجمہ اگرچہ تصنیف کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے، تاہم یہ افادیت میں اوریجنل (Original) سے ہرگز کم نہیں، اور بعض مثالوں میں اس سے بھی بڑھ کر ہے، پس جو حضرات اعزازی طور پر دینی کتابوں کا ترجمہ کر رہے ہیں، وہ سب کی نظر میں بڑے معزز ہیں، اس لئے کہ وہ دراصل امامِ زمان علیہ السلام کی علمی خدمت کر رہے ہیں، چنانچہ شکر گزاری اور خوشی کی بات ہے کہ محترم اکبر راجن نے آج تک ۱۹ کتابوں کا گجراتی ترجمہ کر دیا ہے۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۲۴ مارچ ۱۹۹۳ء

۸۸

۲۳۔ کوہِ قاف کا راستہ:
کوئی کہتا ہے کہ کوہِ قاف ہے، اور کوئی کہتا ہے کہ دنیا میں کوہِ قاف کا کوئی وجود ہی نہیں، میں عرض کروں گا کہ کوہِ قاف اپنے بے شمار عجائب و غرائب کے ساتھ ایک ایسے مخفی مقام پر موجود ہے کہ اس کا کوئی راستہ ہے ہی نہیں، مگر حقیقی علم اور روحانیت، پس کتنی بڑی نیک بختی ہے، ایسے خاص مؤمنین کی، جو ہمیشہ حقیقی علم اور روحانیت کی مقدس خدمت میں لگے ہوئے ہیں، جیسے جناب کیپٹن محمد یار بیگ ابنِ حرمت اللہ بیگ، حیدر آباد (ہونزہ)، جناب احمد حسین ابنِ نیت شاہ، کریم آباد (بلتت)، جناب عبد المجید ابنِ نعمت خان، حسن آباد، اور جناب فرمان علی ابنِ علی حرمت، آغا خان آباد (علی آباد)۔

۲۴۔ علم چشمۂ شیرین:
ان لوگوں کی بہت بڑی ازلی سعادت ہے، جو علم کے چشمۂ شیرین کی لذت کے دلدادہ ہیں، وہ اس آبِ زلال سے عالمِ شخصی کے ہر ملک و شہر اور ہر باغ و چمن کی آبادی اور شادابی دیکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ ایک قرآنی حقیقت ہے کہ علم ہی کے پانی سے ہر چیز زندہ ہو سکتی ہے (۲۱: ۳۰)، پس ایسی سعادت محترمہ کلثوم ناتھانی اور ان کی فیملی کو بہت

۸۹

بہت مبارک ہو! آمین!! ثم آمین!!!

۲۵۔ حقوق کیا کیا ہیں؟
حقوق دو قسم کے ہیں: حقوق اللہ، اور حقوق العباد، جو حقوق بندوں کے ہیں، ان میں ایک حق یہ بھی ہے کہ ہم اپنے آباء و اجداد کے لئے دعا کریں، کیونکہ اگر ہم ان کی ذریت ہیں تو وہ ہماری روح کے ذرات تھے (۳۶: ۴۱) پس میں اپنے تمام آباء و اجداد، امہات، اور حجای غریب کے لئے انتہائی عاجزی سے دعا کرتا ہوں کہ پروردگار ان سب کو غریقِ رحمت کر دے! حجای غریب کو خاص طور سے اس لئے یاد کیا گیا کہ اس نے اپنے خاندان کا نام روشن کر دیا ہے، الحمد للہ علیٰ احسانہٖ۔

۲۶۔ عظیم خدمات کا اعتراف:
میں ادارۂ عارف امریکا کی ’’یاسمین نور علی برانچ‘‘ کی زرین خدمات کا معترف رہا ہوں، کیونکہ اس نیک نام برانچ نے حقیقی علم کی روشنی پھیلانے کے سلسلے میں شاندار کارنامے انجام دئے ہیں، یہ برانچ ہمارے ان چار عزیزوں پر مبنی ہے: نور علی مامجی، یاسمین نور علی، اور ان کے پیارے بچے، نادر علی اور نسرین۔
۶ اپریل ۱۹۹۳ء

۹۰

۲۷۔ ریکارڈ آفیسرز:
اب بفضلِ خدا تین ہیں: عزیزانم روبینہ برولیا، ظہیر لالانی، اور عشرت رومی، ویسے تو ہر ایمانی روح کی تعریف و توصیف پھیلانے کے لئے صفحۂ کائنات بھی کم ہے، لیکن یہاں بات بہت ہی مختصر ہو گی، اور وہ بھی ایسی جو مشترک ہو کہ یہ پاکیزہ روحیں ایمان کی لازوال دولت سے مالامال، ذکر و عبادت اور مناجات کی حلاوتوں سے آگاہ، علم و حکمت کی لذتوں سے باخبر، اور سب سے عظیم خدمت کی فضیلت سے واقف ہیں۔ الحمد للہ رب العالمین۔

۲۸۔ مشرق و مغرب کے عزیزان:
خدا گواہ ہے کہ مجھے اپنے جملہ عزیزان کے تذکرے سے بے حد قلبی قوت و خوشی حاصل ہوتی ہے، پوچھئے کیوں؟ اس لئے کہ مونوریالٹی کے علم نے ہم سب کی روحوں کو بحدِ قوت ایک کر دیا ہے، لہٰذا ہم سب کل قیامت میں فعلاً فردِ واحد بن کر زندہ ہو جانے والے ہیں، پھر آپ خود ہی اندازہ کریں کہ اس حال میں مسرتوں اور شادمانیوں کا کیا عالم ہو گا؟ یہی تو بہشتِ برین کی ایک عملی بشارت ہے، پس ایسی وحدت میں ہر شخص کا ظہور ہو گا، اور ہر ظہور میں خداوند تعالیٰ کی تجلی ہو گی۔
۷ اپریل ۱۹۹۳ء

۹۱

۲۹۔ تلاشِ معرفت:
جی ہاں، روحِ انسانی تلاشِ معرفت کی غرض سے دنیا میں بھیجی گئی ہے، لیکن اس گنجِ گرانمایہ کے راستے میں عجیب و غریب طلسمات سامنے آتے رہتے ہیں، کیونکہ یہ خزانہ انتہائی انمول اور نایاب ہے، اسی لئے آزمائش کا سلسلہ بڑا طویل اور بے حد دشوار ہے، تاہم ہادئ برحق کے دامنِ اقدس سے وابستگی اور علمی خدمت سب سے بڑی سعادت مندی ہے، یہ پرمغز اور شایانِ شان الفاظ جان نثار سیکریٹری آنسہ زہرا جعفر علی اور ان کے نیک بخت خاندان کے لئے بہت ہی مناسب ہیں۔

۳۰۔ رابعۂ زمان:
ہماری محفلِ ذکر و مناجات کی نظر میں رابعۂ وقت (رابعہ امین محمدی) بے حد عزیز اور قابلِ تعظیم ہیں، اہلِ مجلس کے تصور میں ایک فرشتہ بصورتِ انسان، ان کے خاندان کا ہر فرد اوصافِ دینداری سے آراستہ، رابعہ کی خاموش گریہ و زاری کے یہ برستے ہوئے گوہرِ آبدار عشقِ الٰہی کے بحرِ گوہر زا کی بشارت دے رہے ہیں، سبحان اللہ، معجزۂ محویت کی کیا شان ہے! عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ خدا کی خدائی میں شرافت و دینداری کے کیسے کیسے نمونے پائے جاتے ہیں۔
۱۰ جون ۱۹۹۳ء

۹۲

۳۱۔ پہاڑ کی طرح مضبوط:
میرے بہت ہی عزیز دوست کریم امام داد ایمان میں کوہِ ہمالیہ کی طرح مضبوط ، حق کی حمایت میں شیرِ ببر جیسے دلیر، اہلِ بیت کی مقدس محبت میں طفلِ شیر خوار کی طرح اشک ریز، حقیقی علم کی خاطر ماہئ بے آب کی طرح مضطرب، اور دین و دنیا کے اچھے کاموں میں بڑے نیک نام ہیں، ان کے پاکیزہ دل میں امامِ عالی مقام علیہ السلام کے لئے جو خزانۂ عقیدت و محبت ہے، اس پر میں بار بار سلامِ احترام بھیجنا چاہتا ہوں۔
محترم دوست امام داد کریم نے مجھے نہ صرف دورۂ فرانس کی دعوت ہی دی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہر گونہ اہتمام بھی کر دیا، جس کی وجہ سے اس مبارک سفر کے نتائج و ثمرات ایسے حکمت آگین اور پر مایہ تھے کہ میں مسرت و شادمانی کی دولت سے مالامال ہو گیا اور میرے جملہ احباب بھی ازحد مسرور و شادمان ہو گئے، الحمد للہ۔
لنڈن، یکم ستمبر ۱۹۹۳ء

۳۲۔ ایک خاص حسین عالم:
عزیزانِ علمی، محترم جنت علی (حسینی غلام) ان کی فرشتہ جیسی نیک سیرت اہلیہ محترمہ شاہ بی بی، اور معزز افرادِ خاندان کی یہ ایک بہت بڑی سعادت ہے کہ ایک نامور علمی ادارے کی تاریخ میں ان کے حسنِ عمل کا

۹۳

ذکرِ جمیل (ان شاء اللہ) ہمیشہ زندہ اور تابندہ رہے گا۔
مولائے پاک و مہربان کے فضل و کرم سے اس مشترکہ دنیا میں ہمارے عزیزوں کی پیاری پیاری کتابوں کا ایک انتہائی حسین عالم بھی ہے، اس میں جب اور جہاں ’’شاہ بی بی برانچ‘‘ یا کسی دوسری برانچ، جو فردِ واحد کی کوشش سے قائم ہوئی ہو، یا کسی عظیم کارکن کا نام اور تذکرہ آتا ہے، تو اس مقام پر ہر ذی شعور انسان نہ فقط محوِ حیرت ہو جاتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کے دل میں حقیقی عزت و احترام کا ایک بے مثال جذبہ بھی ابھرتا ہے، الحمد اللہ رب العالمین۔
نصیر الدین نصیر  ہونزائی ’’لسان القوم‘‘
۲۰ اکتوبر ۱۹۹۳ء

۳۳۔ نورِ علم کے پروانے:
ایسے تمام مؤمنین و مؤمنات بحقیقت نورِ علم کے پروانے ہیں، جن کو امامِ زمان علیہ السلام کے علم سے شدید عشق ہو، پروانۂ شمعِ ظاہر ایک بار جل کر ختم ہو جاتا ہے، لیکن پروانۂ نورِ علم ہر بار جل کر ایک تازہ اور اعلیٰ روح کو حاصل کرتا رہتا ہے۔
ببین تفاوتِ راہ از کجا ست تا بکجا
مِس یاسمین کریم اور افرادِ خاندان نورِ علم کے ان پروانوں میں سے ہیں، جن کی پاک و گرانمایہ زندگی مولائے زمان کے مقدس عشق میں پگھل جانے سے بنتی ہے، پس ایسے نیک بخت لوگ بڑے مبارک اور

۹۴

کامیاب ہیں، یاسمین کریم قبلاً اکیلی برانچ کا درجہ رکھتی تھیں، اب خدا کے فضل و کرم سے چند قابل ارکان بھی ساتھ ہیں، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے یہ برانچ وینکور، کنیڈا میں ہے۔

۳۴۔ خاموش خدمت:
کنیڈا کے کسی شہر میں ایک بہت خوش نصیب خاندان رہتا ہے، جس کے ایمانی افراد فی الوقت چار ہیں (والدین، بیٹا، اور بہو) ان کی دینی عقیدت اور محبت بڑی عجیب و غریب ہے، ان کے بابرکت گھر میں ذکرِ کثیر کی کرامت ہے، ان کی آنکھیں عشقِ مولا سے پرنم رہتی ہیں، گفتگو نہایت عاجزانہ ہے، وہ علم و حکمت کے بے حد دلدادہ ہیں، علمی خدمت میں پیش پیش، اخلاقی خوبیوں کے پیکر، نیک کاموں میں عالی ہمت، اور بہت سے اچھے اوصاف کے مالک ہیں، لیکن انہوں نے کہا کہ ہم خاموش خدمت کرتے ہیں، لہٰذا ان کے پیارے ناموں کو یہاں درج نہیں کر سکتے ہیں، خداوند تعالیٰ ان کو دونوں جہان کی سربلندی عنایت فرمائے! آمین!!

۹۵

۳۵۔ جشنِ خدمتِ علمی:
محترمہ ڈاکٹر زرینہ حسین علی (مرحوم) جشنِ خدمتِ علمی کے عجیب و غریب اور بے مثال پروگرام سے بے حد خوش اور شادمان ہیں، اور اس میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں، اور اس بارے میں مشرق و مغرب کے تمام عزیزان کو صمیمیتِ قلب سے ’’مبارک باد‘‘ پیش کرتی ہیں، یہاں جو یقینی اور حقیقی علم ہے، اس کو ڈاکٹر صاحبہ حضرت امامِ زمان صلوات اللہ علیہ و سلامہ کا زندہ عقلی معجزہ قرار دیتی ہیں۔
خوش خصال ڈاکٹر زرینہ نے ہمارے ادارے کی بڑی مشکل خدمات بھی انجام دی ہیں، یہ سچ ہے کہ دور سے آئے ہوئے بڑے بڑے مہمانوں کے طعام و قیام کا حسنِ انتظام بڑا مشکل کام ہے، لیکن زہے نصیب کہ آپ بڑی خندہ پیشانی سے ایسی ضروری خدمات انجام دیتی ہیں، ڈاکٹر زرینہ کے پاکیزہ دل میں رحم و ہمدردی جیسے بنیادی اوصاف موجود ہیں، آپ کو علم کی باتوں اور مناجات و گریہ و زاری سے قلبی سکون حاصل ہو جاتا ہے۔
میرے بہت ہی عزیز پوتا امین الدین ہونزئی (ابنِ ایثار علی مرحوم) جو اس وقت ایم۔ بی۔ اے کی ڈگری کر رہا ہے، وہ محترمہ ڈاکٹر زرینہ کا پسرِ خواندہ (منہ بولا بیٹا) ہے، اور اسی وجہ سے ڈاکٹر بمع اہلِ خانہ ہماری فیملی کے زمرے میں شامل ہو گئی ہیں، ڈاکٹر صاحبہ کے فرزندِ دلبند جناب

۹۶

غلام مرتضیٰ (ایم۔ ایس۔ سی) ہمارے نامور والنٹیئرز کے کرنل ہیں، واضح رہے کہ دنیا بھر میں جتنے لوگ (خواتین و حضرات) ہمارے حلقۂ شاگردی میں داخل ہیں، وہ سب کے سب مولائے پاک کے بے وردی رضاکار (والنٹیئرز) ہیں۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی
۹۳ / ۱۱ / ۱۴

۳۶۔ ماہِ محل بدر الدین برانچ:
ماہِ محل بدر الدین کی بہت بڑی ازلی سعادت ہے کہ انہوں نے کریم آباد ریلجس نائٹ سکول جیسی عظیم درسگاہ میں کئی سال تک آنریری ٹیچر کی حیثیت سے بہترین خدمات انجام دیں، درحالے کہ آپ کی پاکیزہ روح حقیقی علم کے زیور سے آراستہ تھی، بعد ازان امریکا میں بقدرِ امکان اپنے عزیز استاد کی علمی نمائندگی کرتی رہیں، اور اب بفضلِ خدا ’’ایم۔ بی برانچ‘‘ کے درجے میں آپ دونوں عملدار کام کر رہے ہیں، یعنی محترم بدر الدین ایڈوائزر اور محترمہ ماہِ محل سیکریٹری ہیں، مجھے کامل یقین ہے کہ ان عزیزوں کی جملہ زرین خدمات دراصل امامِ عالی مقام علیہ السلام ہی کے لئے ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ ان کی نورِ چشم بیٹی ملکۂ سبا بھی اپنے وقت میں عظیم و نامور اسماعیلیوں کی طرح حضرت امامِ اقدس علیہ السلام کی خدمت کرے گی، آمین!

۹۷

۳۷۔ صبغۃ اللّٰہ:
پروردگارِ عالم نے اپنی رحمتِ بے پایان سے تمام مؤمنین و مؤمنات کے لئے یہ بہت بڑی فضیلت ممکن بنا دی ہے کہ وہ علم، عبادت، اور عشقِ مولا کے وسیلے سے صبغۃ اللّٰہ (رنگِ خدا = نورِ خدا،۲: ۱۳۸) میں رنگین ہو جائیں، الحمد للہ، ہمارے تمام ساتھی ایسے ہو سکتے ہیں، مثال کے طور پر ہمارے بہت ہی عزیز دوست شمس الدین جمعہ صدر ادارۂ عارف امریکا، اور ان کی فرشتہ خصلت بیگم محترمہ کریمہ سیکریٹری کو دیکھئے کہ کس طرح ذکر و عبادت اور علم و حکمت کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں، اور کس شان سے امامِ زمان علیہ السلام کے پاک عشق کے نور کی شعاعوں سے مستفیض و مستنیر ہو جاتے ہیں، آپ دونوں عزیز صفِ اول کے علمی خادموں میں سے ہیں، اللہ کا شکر ہے۔
۹۳ / ۱۲ / ۲۵

۳۸۔ فردوس کے معنی:
فردوس مؤمن میرے ایک بہت عزیز علمی دوست کا پیارا نام ہے، آپ ادارۂ امریکا کے ایک سرگرم رکن بھی ہیں، جن کا پہلا انتساب بطرزِ جدید کتاب ’’علمی خزانہ‘‘ میں درج ہے، یہاں ان کے خوبصورت نام کا

۹۸

مطلب بیان کیا جاتا ہے کہ ’’فردوس‘‘ جنت کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے، قاموس القرآن ص ۳۹۶ پر ہے کہ فردوس رومی زبان میں باغ کو کہتے ہیں، حدیث میں ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کیا کرو تو فردوس کا سوال کیا کرو، کیونکہ وہ جنت کا اعلیٰ اور درمیانی حصہ ہے، اور وہیں سے جنت کی نہروں کے سوتے پھوٹتے ہیں، یعنی بہشتِ کل اپنے تمام درجات کے ساتھ ایک انتہائی عظیم نصف دائرہ کی شکل میں ہے، اور فردوس اس کے درمیان بلندی پر ہے، جیسے نقشۂ درجِ ذیل سے ظاہر ہے:

فردوس

۳۹۔ مولا کس کو چاہتے ہیں؟
مولائے پاک اگرچہ سب کو چاہتے ہیں، لیکن دینی خدمت کے لئے جوانوں کو زیادہ پسند فرماتے ہیں، ایک ایسا عالی ہمت جوان، جن سے علمی خدمت کی بھرپور توقع کی جا سکتی ہے، عزیزم غلام مصطفی قاسم علی

۹۹

(مؤمن) ہیں، جن کا مختصر تعارف قبلاً ہو چکا ہے، ان سے نیک بختی اور علم دوستی کی علامات ظاہر ہو جاتی ہیں، باقاعدہ ملاقات سے پیشتر میں نے ان کی تعریف سنی تھی، سچ مچ وہ ایک ارضی فرشتہ ہیں، آپ سب اس پرخلوص دعا میں شامل ہو جائیں کہ: خداوند تعالیٰ ان کے اور ان کے عزیزوں کے قلوب کو نورِ علم کی ضیاء پاشی سے منور کر دے! آمین یا رب العالمین!!
نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی
۲۷ رجب المرجب ۱۴۱۴ھ / ۱۰ جنوری ۱۹۹۴ء

۴۰۔ نورِ امامت و چراغِ ہدایت کے پروانے:
میرے بہت ہی عزیز دوست، ادارۂ عارف امریکا کے چیف ایڈوائزر اکبر اے، علی بھائی، اور ان کی نیک سیرت رفیقۂ حیات محترمہ شمسہ ریکارڈ آفیسر نورِ امامت و چراغِ ہدایت کے پروانوں میں سے ہیں، آپ دونوں ارضی فرشتوں کو علم و حکمت سے نہ صرف ذاتی طور پر عشق ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ وہ بڑی شدت سے یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ نعمتِ عظمیٰ پیاری جماعت میں عام ہو جائے، چنانچہ وہ اس سلسلے کے نیک عمل میں ہر وقت بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِ علی) ہونزائی
کراچی
۹۴ / ۲ / ۲۱

۱۰۰

تاریخی کلمات
(۱)

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ انے جا قلمر قو ایتی کے ایس یٹسے گحرچی + ایر بیشکی متھن گن بلا کلی ایس بیسے ورچی۔ ترجمہ: اگر وہ (محبوبِ حقیقی) میرے قلم کو (خدمت کے لئے) بلائے تو وہ (قلم) اپنے سر کے بل چلے گا، اس کے لئے جتنا بھی دور و دراز راستہ ہو، وہ کیونکر تھکے گا۔
مظہرِ نورِ خدا، آئینۂ حق نما، آلِ پاکِ مصطفی، وارثِ مرتضیٰ، صاحبِ جود و سخا، امامِ اتقیا کے نورِ محبت کی روشنی میں آج بوقتِ شبِ شبینہ ۱۸ ستمبر ۱۹۹۳ء سے ایک بے حد پسندیدہ منصوبہ ذہن و خاطر میں آیا، وہ یہ کہ ان شاء اللہ العزیز، ہم عنوانِ بالا کے تحت وقتاً فوقتاً اپنے ان عزیز ساتھیوں کے بارے میں چند حوصلہ افزاء کلمات لکھا کریں گے، جو ہماری کتابوں کی علمی خدمت کے سلسلے میں اہم امور انجام دیتے ہوں، ہم بہت پہلے سے یہ کام کرتے آئے ہیں کہ کسی خط میں یا کسی کتاب کے دیباچے میں خدمات کا تذکرہ ہوتا تھا، یقیناًوہ بھی تاریخ کا حصہ تو ہے، تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا مضمون الگ ہو۔

۱۰۱

شمس الدین جمعہ:
آپ اس وقت ادارۂ عارف امریکا کے صدر ہیں، قبلاً چیف ایڈوائزر کے عہدے پر فائز تھے، صفِ اول کے مؤمن، علم دوست، ہوشمند، اور نکتہ شناس ہیں، دینی علم و حکمت سے بے حد دلچسپی رکھتے ہیں، اس لئے علمی گفتگو سے بہت شادمان ہو جاتے ہیں، ان کی زوجۂ محترمہ کریمہ سیکریٹری بھی ایک علمی فرشتہ ہیں، لہٰذا یہ دونوں فرشتے مخصوص اوقات میں اعلیٰ علم اور عاشقانہ عبادت میں مصروف ہو جاتے ہیں، محترمہ کریمہ شادی سے پہلے کراچی میں ایک عرصے تک مذہبی تعلیم حاصل کر رہی تھیں، یہاں کے عزیزان شمس اور کریمہ کو بہت یاد کر رہے ہیں۔

یاسمین نور علی برانچ:
خدا کے فضل و کرم سے یہ برانچ پھلنے پھولنے لگی ہے، اب اس کی علمی محفل میں کافی حاضری ہوتی ہے، ہمارے جانی دوست نور علی مامجی ایک مثالی مؤمن ہیں، جن کے دل کی صفائی کا تصور میرے نزدیک ایسا ہے، جیسے کوئی تازہ گلاب بارش کے پانی سے دھل کر پاک و پاکیزہ ہو جاتا ہے، یہی مثال محترمہ یاسمین نور علی اور ان کے دونوں نوجوان

۱۰۲

فرزند نادر علی اور نسرین کے لئے بھی بہت مناسب ہے، کیونکہ یہ چاروں عزیزان نورِ ایمان کے ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں، یاسمین ریکارڈ آفیسر کے عہدے سے سرفراز ہوئی ہیں، میرے خیال میں جو علمی ادارہ قرآن، اسلام، جماعت، اور انسانیت کے لئے کام کر رہا ہو، اس کی قیامت کے دن بہت بڑی عزت ہو سکتی ہے، اور ایسے ادارے کی عملداری اور رکنیت میں بہت بڑی سعادت ہو سکتی ہے، نوجوان نادر علی ایڈوائزر مقرر ہوئے ہیں۔
بدر الدین اور ماہِ محل:
میں نے قبلاً بدر الدین کی تعریف سنی تھی، ملاقات سے معلوم ہوا کہ وہ اس سے بڑھ کر ہیں، ان کی جملہ عادات نیک ہیں، وہ اس دفعہ ایڈوائزر ہو گئے، اور ان کی بیگم محترمہ ماہِ محل کو سیکریٹری کا عہدہ دیا گیا، آپ اپنی بے شمار خدمات کی وجہ سے ’’ایم۔ بی برانچ‘‘ بھی ہیں، ہم کسی ایک فرد کو برانچ کا درجہ نہیں دے سکتے، مگر اس وقت، جبکہ وہ کثیر تعداد کے برابر کام کرتا ہو، اب اس برانچ میں برکت پیدا ہو گئی، اور دونوں عزیزوں کے ساتھ ان کی بہت ہی پیاری بچی ملکۂ سبا بھی ہے۔

۱۰۳

کامڑیا حسن:
کامڑیا حسن جو قبلاً پرسنل سیکریٹری تھے، اب نائب صدر کے عہدے پر فائز ہو گئے ہیں، اور ان کی نیک خصلت زوجہ کریمہ پرسنل سیکریٹری کا درجہ رکھتی ہیں، پیارا شیر خوار سلمان اس وقت امریکا میں سب سے جونیئر ممبر ہے، ہمارے یہاں جو بھی آیا ہوتا ہے، وہ بہت سی خوبیوں کا مالک ہوا کرتا ہے، یہ خداوندِ قدوس کی بہت بڑی رحمت ہے کہ اپنے کچھ بندوں کے دل میں نورِ علم کا عشق پیدا کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی روحیں پاک و پاکیزہ ہو جاتی ہیں۔

اکبر اے۔ علی بھائی:
آپ حقیقی علم کے بڑے قدردانوں میں سے ہیں، اسی وجہ سے اس سال (۱۹۹۳ء میں ) چیف ایڈوائزر کے منصب پر فائز ہو گئے، ہوشمند اور مولا کے سچے عاشق ہیں، آپ کی فرشتہ جیسی اہلیہ شمسہ ریکارڈ آفیسر ہیں، یہ دونوں عزیزان عالی ہمت ہیں، انہوں نے گذشتہ سال بھی اور امسال بھی خلوص و محبت کا بڑا انوکھا نمونہ پیش کیا، جو مشرق و مغرب کے تمام دوستوں کی طرف سے تھا، اس میں امریکا فروٹ مارکیٹ سے ۲۱ قسم کے پھل تھے، گذشتہ سال اکیس کے عدد کا کچھ علم نہ ہو سکا، مگر اس سال

۱۰۴

انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس بھید کو ظاہر کیا کہ جب کسی ملک کے سربراہ کے لئے ۲۱ توپوں کی سلامی دی جاتی ہے تو علم کے سربراہ جو درویش ہیں، ان کے لئے ۲۱ پھلوں کا تحفہ کیوں نہ ہو۔

۱۰۵

تاریخی کلمات
(۲)

یہ اس سلسلے کی دوسری قسط ہے، جس میں ہمارے ان معزز عملداروں کی گرانقدر خدمات کا تذکرہ ہو رہا ہے، جو مغرب کے مختلف ممالک میں رہتے ہوئے روحانی علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں، خداوندِ عالمین کی یہ کتنی بڑی رحمت ہے کہ ہمارے تمام عزیزان پر مونوریالٹی کا راز کھل گیا ہے، وہ اب اس حقیقت پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ عالمِ وحدت میں جانوں کی جان ایک ہی ہے، ہر چند کہ عالمِ کثرت میں کثیر اشخاص اور کثیر جانیں ہیں، جس کی مثال عالمِ شخصی ہے کہ اس میں سب کی ارواح موجود ہیں، مگر وہ خود ایک ہی روح ہے۔

نور الدین راجپاری:
آپ میرے قلبی دوست اور بہت ہی عزیز شاگرد ہیں، انہوں نے تقریباً دس سال تک ادارۂ عارف امریکا کے اولین صدر کی حیثیت سے گرانمایہ خدمات انجام دی ہیں، اور اب اس سے بڑھ کر ریسرچ انچارج آفیسر مقرر ہوئے ہیں، نور الدین صاحب حقیقی علم کے خاص قدردانوں

۱۰۶

میں سے ہیں، آپ کو خداوندِ قدوس نے نیک عادتوں کی دولت سے سرفراز فرمایا ہے، گفتگو، آواز، اور گریہ و زاری سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا باطن کتنا پاک ہے۔
نور الدین راجپاری میں بہت سی اعلیٰ صلاحیتیں موجود ہیں، ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ امامِ زمان کے سچے عاشقوں میں سے ہیں، اسی وجہ سے آپ ہمیشہ علمِ امام علیہ السلام کے شیدائی ہیں، امریکا جیسے عظیم اور انتہائی ترقی یافتہ ملک میں کسی مؤمن کے لئے علم و عبادت کے دریا میں مستغرق رہنا بڑا مشکل کام ہے، پھر بھی ہم نے وہاں اور مغرب کے بعض دوسرے ممالک میں کچھ مؤمنین و مؤمنات کو دیکھا کہ ان کی زیادہ سے زیادہ توجہ دین و ایمان کی طرف ہے۔

نوٹ: نور الدین راجپاری صاحب کے فیکس کا شکریہ! تمام دوستوں کے لئے دعا اور سلام قبول ہو! سب کو یاد کرتا ہوں۔

فقط دعاگو
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۸ اکتوبر ۱۹۹۳ء

۱۰۷

تاریخی کلمات (۳)
دیندار ڈاکٹرز

خداوندِ بزرگ و برتر کی رحمت و مہربانی سے قرآنی علاج، علمی علاج، اور روحانی علاج کی کتابوں میں بطریقِ احسن یہ ذکر کیا گیا ہے کہ قرآنِ حکیم ہر زمانہ اور ہر درجہ کے لوگوں کے لئے ہدایت نامۂ سماوی ہے، جس میں جابجا ایسے عالی قدر نسخہ ہائے لاہوتی موجود ہیں کہ ان پر پوری طرح عمل کرنے سے ظاہری اور باطنی ہر گونہ بیماریوں سے شفائے کلی حاصل ہو جاتی ہے، مثلاً قرآنِ پاک میں آسمانی طبیب نے اکثر آیاتِ مقدسہ میں جس پرحکمت تقویٰ کا حکم دیا ہے، وہ پانچ قسم کا ہے، یعنی جسمانی، اخلاقی، نظریاتی، روحانی، اور عقلانی پرہیز، چنانچہ جو فردِ مؤمن منشائے قرآن کے عین مطابق پرہیزگار بن جائے، وہ ہر بیماری سے محفوظ اور سلامت رہے گا۔
تاہم ذاتِ سبحان کو اس بات کا علم تھا کہ بہت سے لوگ آسمانی طب اور روحانی علاج سے کلی فائدہ نہ اٹھا سکیں گے، لہٰذا اس کریمِ کارساز نے زمین پر بھی علاج و معالجہ کے ہرگونہ وسائل مہیا کر دئے، اور

۱۰۸

اپنی عنایتِ خاص سے دیندار اور پرہیزگار ڈاکٹرز بنا دئے، تا کہ وہ خوش نصیب حضرات اکثر و بیشتر اپنے رب کو یاد کرتے کرتے گڑگڑائیں، اور آنسو بہائیں، تا کہ خداوندِ عالم جو مسبب الاسباب ہے، وہ اپنے لطفِ عمیم سے ایسے خدا ترس اور متقی ڈاکٹروں کے ہاتھ میں آسمانی اور روحانی شفا رکھے، اور ایسی عظیم نعمت کے لئے مؤمنین و مؤمنات جان و دل سے شاکر رہیں۔
پس اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے عزیزوں میں بڑے دیندار اور پرہیزگار ڈاکٹرز کا ایک قابلِ احترام گروپ ہے، اور یہی ہمارا ’’بورڈ آف میڈیکل ایڈوائزرز اینڈ پیٹرنز ‘‘ ہے، جس کے اسمائے گرامی یہ ہیں: چیف آنریری سیکریٹری آف خانۂ حکمت، جناب ڈاکٹر رفیق جنت علی، ان کی بیگم محترمہ شاہِ سلطانہ، جو کریم آباد برانچ کی چیئرپرسن بھی ہیں، محترمہ ڈاکٹر زرینہ حسین علی (مرحوم) اور محترمہ ڈاکٹر نیلوفر بابر خان، ان چار انتہائی قابل ڈاکٹروں کے علاوہ دو ایسی دیندار و جان نثار اور لائق ہیڈ نرسز بھی ہیں، جو ہر وقت طبی مدد کے لئے تیار رہتی ہیں، وہ محترمہ عشرت رومی اور محترمہ روبینہ برولیا ہیں، اور آپ دونوں ریکارڈ آفیسرز بھی ہیں۔

نصیر ہونزائی
جمعہ ۵ جمادی الاول ۱۴۱۴ھ
۲۲ اکتوبر ۱۹۹۳ء

۱۰۹

تاریخی کلمات (۴)
برانچز

اگر آپ کسی چیز یا کسی شعبے کو برانچ کا نام دیتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس میں لازماً درخت کی تشبیہہ و تمثیل موجود ہے، ہاں اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ہر درخت اپنی شاخوں کا مجموعہ ہوا کرتا ہے، تاہم سب جانتے ہیں کہ خوبصورت پھول اور رس بھرا ہوا پھل برانچ (شاخ) ہی سے حاصل ہو جاتا ہے، برانچ ہی ہے جو ہمیشہ سایہ فگن ہوتی ہے، اور برانچز موسمِ گل میں گل افشانی بھی کرتی رہتی ہیں، جس سے فضا معطر ہو جاتی ہے۔
مجھے اپنے بچپن کا وہ حسین زمانہ خوب یاد ہے جبکہ میرے قبلہ گاہ کے باغ میں بہت سے ثمردار درخت تھے، ان میں موسمِ بہار کے آنے پر بہار اندر بہار کا عالم ہوا کرتا تھا، یعنی اول غنچوں کا دلکش نظارہ، پھر کچھ دن پھولوں کی رعنائی اور خوشبو کا مسحور کن ماحول، اور اس کے بعد بتدریج لطیف و نازک پنکھڑیوں کے گرتے رہنے کا سماں، میں یہ ساری پررونق بہاریں بڑے شوق سے دیکھتا تھا، مجھے یہ تمام دلفریب مناظر بہت عجیب و غریب لگتے تھے کہ اونچے اونچے درخت پہلے تو پھول

۱۱۰

نچھاور کر دیتے ہیں، اور پھر کچھ آگے چل کر میوہ ہائے شیرین دینے لگتے ہیں۔
اس زمانے میں صغیر سنی کی وجہ سے میں کچھ نہیں جانتا تھا، لیکن وقت آنے پر معلوم ہوا کہ کوئی چیز اشارۂ رحمت و علم کے بغیر موجود نہیں ہوئی، پھر باغ و چمن کی زبردست جاذبیت و دل آویزی کس طرح مغزِ حکمت کے بغیر ہو سکتی ہے، اس میں تو یہ دعوت ہے کہ تم سب خدا سے توفیق و ہمت طلب کرتے ہوئے بہارِ روحانیت کی طرف آگے بڑھو، نورانی عبادت کے وقت غافلوں اور جاہلوں کی طرح سوئے رہنا حرام ہے، خدا کی قسم! ابتدائی روحانی ہی میں عجیب و غریب قسم کے باغ و گلشن کا ظہور ہوتا رہتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو بہشت کا نام جنت و روضہ (باغ و گلشن) نہ ہوتا، مگر یہ بات خوب یاد رکھنا کہ جس طرح دنیا کے پھول دو قسم کے ہوا کرتے ہیں، ایک پھول وہ ہے جو صرف زینت و خوبصورتی کے لئے ہوتا ہے، اور اس سے کوئی خاص میوہ پیدا نہیں ہوتا، اور دوسرا پھول وہ ہے جو پھول بھی ہے اور اس سے پھل بھی بنتا ہے، اس میں بڑا زبردست حکیمانہ اشارہ ہے۔

حکمت:
جو لوگ حقیقی علم نہ ہونے کی وجہ سے صرف ابتدائی روشنی ہی میں محدود رہتے ہیں، وہ گلشنِ بے ثمر میں ٹھہرے ہوئے خوش ہیں، اور جو

۱۱۱

نیک بخت لوگ ہادئ زمان علیہ السلام کی رہنمائی میں اس روشنی کے بعد نورِ عقل کو چاہتے ہیں، وہ روحانیت اور بہشت کے ہر گونہ پھولوں اور پھلوں سے مستفید ہو جائیں گے۔
اسلام کی روح و روحانیت بہشت ہے، اور بہشت میں کوئی نعمت ناممکن نہیں، چنانچہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ و سلامہ ہر مرید کا وکیل، ہر عاشق کی روحانیت اور ہر عارف کی نورانیت و عقلانیت ہے، پس یہی وجہ ہے کہ یہاں ہم سب کو پھولوں کے بعد میوہ ہائے علم و حکمت حاصل ہو رہے ہیں، الحمد للہ رب العٰلمین۔

خانہٌ حکمت گلگت ریجنل برانچ:
اس کے تحت یہ برانچز ہیں: مسگار برانچ، التت ۔ کریم آباد برانچ، حیدر آباد ۔ علی آباد برانچ، مرتضیٰ آباد برانچ، اوشی کھنداس برانچ، نومل برانچ، حقیقتِ حال یہ ہے کہ شمالی علاقہ جات کے عزیزان جہاں بھی ہوں، اپنے استاد سے وابستگی اور حمایت میں بہت سینئر ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بندۂ حقیر کی مختلف خدمات کا آغاز وہیں سے ہوا، اور خدا کے فضل و کرم سے اب بھی جاری ہیں، ان کا تفصیلی ذکر اس بیان سے الگ ہونا چاہئے۔
میں نے بروقت ہی یہ ذکر کیا ہے کہ ’’خانۂ حکمت برانچ اسلام آباد‘‘

۱۱۲

کی بہت بڑی اہمیت ہے، اور ہم نے وہاں کی صدارت کے لئے جس ہستی کا انتخاب کیا ہے، وہ عظیم ہے، ہمیں امید ہے کہ وہاں ترقی ہو گی، کیونکہ صدر نذیر صابر نیک بخت بھی ہیں اور دانشمند بھی۔
کراچی میں شاہ بی بی برانچ ہے، جس کی رفتہ رفتہ مضبوطی اور ترقی ہو رہی ہے، کریم آباد برانچ کو بہت ہی قابل افراد نے بنایا ہے، میں اس مقام پر ہر برانچ کو پرخلوص مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنے تاریخی کارناموں کو درج کرے، تا کہ خانۂ حکمت اورا دارۂ عارف کی عظیم الشان تاریخ مرتب ہو سکے، کیونکہ یہ عجیب و غریب اور طوفانی کام (کارنامۂ علمی) جو ہوا ہے، اور ہو رہا ہے، وہ کس طرح معمولی کاموں میں شمار ہو سکتا ہے، ایسی تاریخ سے ذاتی شہرت مراد نہیں، بلکہ آئندہ اچھے کاموں کے لئے مثال قائم کرنا مقصود ہے۔
یہ بات بہت سی خوبیوں کے معنی میں بڑی عجیب و غریب ہے کہ قبلاً خانۂ حکمت مشرق میں بنا اور بعداً ادارۂ عارف مغرب میں، اور دونوں کا ہیڈ آفس کراچی میں ہے، یہ دونوں ادارے الگ الگ بھی ہیں، اور ایک بھی ہیں، اس لئے صدر فتح علی حبیب اور صدر محمد عبد العزیز مل کر کام کر رہے ہیں، بے حد خوشی کی بات ہے کہ دونوں اداروں کے عملداران اور ممبران شرق و غرب میں بے شمار گرانقدر خدمات انجام دے رہے ہیں، جن کا احاطۂ تحریر بہت مشکل ہے، پس

۱۱۳

میری انتہائی عاجزانہ دعا یہ ہے کہ پروردگارِ دو جہان تمام عزیزوں کو اس تعداد سے ہزار گنا زیادہ نیکیاں عطا فرمائے! جس تعداد میں اوریجنل کتابوں، ترجموں، کیسیٹوں، اور زبانی علمی باتوں کے الفاظ میں مجموعی حروف ہیں، آمین!

نصیر الدین نصیر ہونزائی
۷ نومبر ۱۹۹۳ء

۱۱۴

علامہ نصیر سے چند سوالات
بہ اہتمام ریکارڈ آفیسرز: عشرت رومی اور روبینہ برولیا

۱۔ استادِ محترم و مکرم! ہمیں یقین ہے کہ آپ کی تمام زندگی جہدِ مسلسل کا نمونہ بھی ہے، اور انسانیت و دینداری کی مثال بھی، لہٰذا براہِ کرم ہمیں یہ بتائیں کہ ابتدائی تعلیم کے ایام میں آپ کو علم سے کس نوعیت یا کس درجے کی دلچسپی تھی؟ اور کیسے کیسے خیالات و جذبات کا تجربہ ہوتا رہتا تھا؟

جواب: ہر چند کہ اس وقت ہمارے علاقے میں حصولِ علم کے ذرائع اور وسائل مفقود یا انتہائی محدود تھے، لیکن خدائے بزرگ و برتر کی قدرتِ کاملہ ہمیشہ عجیب طرح سے کام کرتی ہے، ہوا یہ کہ میں شروع ہی سے بتوفیقِ الٰہی علم کا دلدادہ تھا، رفتہ رفتہ میں تعلیم کا ایسا عاشق ہو گیا جیسے مجنون لیلیٰ کا، کیونکہ علم سے عامیانہ دلچسپی اور معمولی محبت کافی نہیں ہو سکتی، سو میں بفضلِ خدا دیوانہ وار علم کا عاشق تھا، اسی نکتے میں ذرا غور کرکے دل کی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آیا ایسے میں حصولِ علم کے لئے شدید بے قراری اور طوفانی چاہت نہیں ہو گی؟ کیا ایسا شخص

۱۱۵

علم کی بھوک اور پیاس کو شدت سے محسوس نہیں کرے گا؟ لازمی ہے، اس کی روح ربِ کریم کے حضور میں بڑی عاجزی سے روتی ہو گی، کیونکہ عقل اور روح کے لئے جو چیز بے حد ضروری ہے، وہ اب تک حاصل نہیں ہوئی۔

۲۔ علامہ صاحب! آپ یہ بتائیں کہ آپ کی ابتدائی تعلیم اور دینی تربیت کے سلسلے میں آپ کے خاندان کا کردار کس حد تک مفید رہا؟ اور اس میں قابلِ ذکر افراد کون کون ہیں؟

جواب: یہ بھی اس کے عظیم احسانات میں سے ہے کہ پروردگار نے مجھے ایک ایسا خاندان عطا کر دیا جو انسانیت و دینداری کی خوبیوں سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ دینی خادموں میں سے بھی تھا، اس سے قبل میں نے اپنے آباء و اجداد کا ذکر کر دیا ہے، اس لئے یہاں صرف اتنا کہنا کافی ہو گا کہ مجھے عقیدۂ راسخ کی لازوال دولت اپنے والدین سے حاصل ہوئی ہے۔

۳۔ آپ کی علمی خدمت کے بارے میں ایک سوال ہے کہ آپ نے اس خدمت کا آغاز نثر سے کیا یا نظم سے؟ نیز آپ یہ بتائیں کہ نظم و نثر میں سے آپ کس کو اولیت یا ترجیح دیتے ہیں؟

جواب: یہ کسی طے شدہ پروگرام کی بات نہیں، بلکہ اتفاق کی بات ہے کہ مجھے نثر میں کچھ لکھنے سے بہت پہلے شعر کہنے کی ہمت عطا ہوئی، اور میں

۱۱۶

بروشسکی میں مذہبی شاعری کرتا رہا، جس سے بے شمار دعائیں اور لاتعداد برکتیں حاصل ہوتی رہیں، اور اسی کے میٹھے میٹھے ثمرات میں سے ایک ثمرہ یہ بھی ہے کہ میں نثر نگاری کے میدان میں بھی داخل ہو گیا، حالانکہ میں اردو ادب میں مفلس تھا، لیکن میرے حق میں یہ ایک عقلی معجزہ ہوا، اگر ہدایت کی روشنی اور معرفت کی چاشنی حاصل ہے تو نظم و نثر دونوں کا درجہ عالی ہو سکتا ہے، تاہم نظم میں بہشت کی سی مستی اور آزادی ہے، جبکہ نثر نگاری میں سنجیدگی کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔

۴۔ ہم آپ سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ آیا مذہبی علم سے آپ کا یہ زبردست لگاؤ بچپن سے تھا، یا یہ شوق جوانی میں پیدا ہوا، یا اس کا جذبہ ورثے میں ملا تھا؟

جواب: اگرچہ اس کا جواب قبلاً آ چکا ہے، تاہم عرض یہ ہے کہ ہر بڑی اور کامل چیز بہت سے پہلوؤں کا حامل ہوا کرتی ہے، چنانچہ علم کا عشق ایک ایسے ڈائمنڈ کی طرح ہے، جس کے بہت سے رخ ہوں، پس یہ حقیقت ہے کہ مجھے علم کا شوق ورثے میں ملا، اسی لئے میں بچپن ہی سے علم کا دلدادہ ہوا، اور پھر جوانی میں اس شوق کو کمال حاصل ہوا۔

۵۔ یہ بھی ایک بنیادی سوال ہے کہ آیا آپ کا کوئی باقاعدہ معلم یا استاد تھا، جیسا کہ ہونا چاہئے؟ کیا آپ کسی کے منظوم کلام سے بہت متاثر ہیں؟

۱۱۷

جواب: ظاہری، دنیوی، اور جزوی تعلیم کا سوال نہیں، اور نہ ہی وقتی طور پر کسی کتاب سے اثر لینے کی بات ہے، قصہ دراصل درسِ حکمت اور اسرارِ معرفت کا ہے، لہٰذا میں حق کو چھپا نہیں سکتا، کہ میں حکیم پر ناصر خسرو کی کتابوں سے زبردست متاثر ہوں، اور وہی حضرت میرے استاد ہیں، تاہم ایک نورانی استادِ کل بھی ہیں، جو پیر سے بھی بزرگ و بالا ہیں۔

۶۔ آپ نے کتنے سال کی عمر میں اپنی اولین کتاب تصنیف کی؟ کیا وہ کتاب نظم پر مبنی تھی یا نثر پر؟ کیا آپ اس کا سن بتا سکتے ہیں؟

جواب: مشقی شاعری کچھ پہلے ہی سے ہو رہی تھی، تاہم باقاعدہ نظم ۱۹۴۰ء میں منظرِ عام پر آگئی، میں اس وقت گلگت سکوٹس میں تھا، اور تقریباً ۲۳ سال کا جوان ، یہ وہی سال ہے جس میں حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے شمالی علاقہ جات کے بارے میں ایک خصوصی فرمان فرمایا تھا، نثر کی اولین کتاب بعنوانِ ’’سلسلۂ نورِ امامت‘‘ ۱۹۵۷ء میں چھپ گئی، اسی سال حضرتِ امامِ زمان علیہ السلام مسندِ امامت پر جلوہ افروز ہوئے تھے، اور میری بروشسکی نظموں کا مجموعہ ’’ نغمۂ اسرافیل‘‘ کے ٹائٹل سے ۱۹۶۱ء میں شائع ہوا۔
۷۔ علامہ صاحب! بمہربانی آپ یہ بھی بتائیں کہ آپ کی پیاری پیاری کتابیں جو علم و حکمت کی غیر فانی دولت سے مالامال ہیں، وہ کن کن اداروں نے چھپوائی ہیں؟ اور وہ پہلی کتاب کون سی ہے جو کسی

۱۱۸

دوسرے ادارے سے شائع ہوئی؟

جواب: خداوندِ قدوس کی عنایات سے ہمارے تین ادارے ہیں: خانۂ حکمت، عارف، اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی (Academy) یہ تینوں ادارے باہم مل کر علم و ادب کو پھیلانے کی خدمات انجام دے رہے ہیں، اور ہمیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نامدار طریقہ بورڈ وقتاً فوقتاً ہماری کوئی کتاب شائع کرتا ہے، اور ان کی یہ مہربانی میری اردو نظموں کا مجموعہ ’’جواہرِ حقائق‘‘ سے شروع ہوئی، اور خدا کے فضل و کرم سے یہ سلسلہ جاری ہے، مزید برآن یہ بات بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ نامدار لوکل کونسل گلگت نے ازراہِ کرم میری ایک کتاب (فصولِ پاک) کو شائع کیا۔

۸۔ آپ نے اب تک کل کتنی کتابیں لکھی ہیں؟ (نظم اور نثر دونوں میں)؟

جواب: اوریجنل کتب اور تراجم کی فہرست شائع ہو چکی ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ آپ تمام عزیزان اپنے استاد کے اس چھوٹے سے علمی کام کو تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، حالانکہ میں اپنے پیر استاد کے علمی کارناموں سے نہ صرف حیرت زدہ ہوں، بلکہ مجھے اس بات کا احساسِ خجالت بھی ہے کہ ہم نے اپنے عظیم المرتبت استاد کی کوئی علمی خدمت نہیں کی۔

۱۱۹

۹۔ آپ کی زرین نگارشات خالصاً قرآنی اور دینی علوم پر مشتمل ہوا کرتے ہیں، لیکن پوچھنا یہ ہے کہ ان کا خاص موضوع یا موضوعات کیا ہیں؟

جواب: جی ہاں، میرا اصل اور اساسی موضوع قرآنِ حکیم اور نورِ امامت ہے، پھر ایک شجرِ پر میوہ کی بڑی اور چھوٹی شاخوں کی طرح بہت سے موضوعات ہو گئے ہیں، بڑے بڑے موضوعات کی فہرست ہر کتاب کے آغاز میں درج ہے، پھر بھی ایک ایسی مجموعی فہرست تیار کرنے کی ضرورت ہے، جس کو دیکھ کر ہر قاری کو یہ اندازہ ہو سکے کہ ان کتابوں میں اکثر کن حقائق و معارف سے بحث کی گئی ہے، مجھے امید ہے کہ میرے عزیزان یہ کام کریں گے۔

۱۰۔ آپ کی کتابوں سے ظاہر ہے کہ آپ نے چند ممالک کا سفر یا دورہ کیا، ہمیں یقین ہے کہ آپ کا ہر دورہ علمی خدمت کے سلسلے میں تھا، لیکن پھر بھی سوال ہے کہ آیا آپ نے ان مذہبی دوروں سے پہلے کوئی عام سفر کیا تھا؟ آپ نے کن کن ممالک میں قدم رکھا؟ کس کس ملک کے اوپر سے جہاز میں پرواز کر گئے؟

جواب: اس سوال کا تفصیلی جواب طوالت کی وجہ سے مشکل ہے، خصوصاً یہ حصہ کہ میں بذریعۂ جہاز کس کس ملک کے اوپر سے گزر گیا، اگر فرشتے بمہربانی پرواز کو بھی شامل دورہ کر دیتے ہیں، تو پھر سفر اور دورہ کی

۱۲۰

اہمیت بدرجۂ انتہا بڑھ جاتی ہے، مجھ میں مذہبی جنون شروع ہی سے تھا، اس لئے کیا عجب کہ میرا ہر سفر دینی حکمت کے تحت قرار پائے، چنانچہ میں نے اس دیوانگی کے زیرِ اثر ۱۹۴۳ء میں پہلی بار ہندوستان کا سفر کیا، جس کی غرض یارِ جانی کی ملاقات تھی، جو ۱۹۴۶ء میں حاصل ہوئی، اور کلیدِ بابِ روحانیت بھی عطا ہوئی، پھر ۱۹۴۹ء کے اوائل میں چین جانے کا اتفاق ہوا، تب بفضلِ خدا وہ محبوبِ نورانی جو مظہرِ عجائب ہے، وہاں بھی آ گیا، میں نے مغرب کے تین بڑے ملکوں کا بارہا سفر کیا، وہ کنیڈا، لنڈن، اور امریکا ہیں، ایک دفعہ میں کراچی سے روس کے جہاز سے لنڈن جا رہا تھا، جہاز معمول کے مطابق ماسکو میں اتر گیا، اور تقریباً ایک گھنٹے تک مسافروں کو بس پر سیر کرایا گیا، ہم درویش لوگ تمام چیزوں کو روحانی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔

۱۱۔ کراچی میں آپ کی رہائش کا مقصد یقیناًعلمی خدمت ہی ہے، کیا ایسے میں اپنے عزیز علاقے کی ہر چیز یاد نہیں آتی ہے؟

جواب: اگر ہماری روح صرف ایک فرد کی روح ہے، تو پھر دوری اور جدائی کی بہت سی مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا، اور اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ بحدِ قوت ایک میں سب کچھ ہے، اور اس امکان کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں تو ان شاء اللہ، ہم ایک دن نفسِ واحدہ میں فنا ہو جائیں گے، اس حال میں ہم ہر جگہ ہوں گے، اور ہر جگہ ہم میں ہو گی۔

۱۲۱

۱۲۔ آپ کی تمام گرانقدر علمی خدمات کا خوشگوار اثر آپ کے خاندان اور خویش و اقارب پر بھی پڑا ہو گا، آیا ہمارا یہ خیال درست ہے؟

جواب: اثر سے مراد اگر خوشی ہے تو ہماری خدمات پر بہت سے لوگ فخر کرتے ہیں، اور اگر اس کا مطلب علم و عمل ہے تو پھر اس اثر کا دائرہ بہت محدود ہو سکتا ہے۔

۱۳۔ کیا آپ کی اولاد میں سے کسی نے آپ کے اس مشن میں حصہ لیا اور کام کیا، یا کر رہا ہے؟

جواب: ہاں، سارا کام اولاد ہی کر رہی ہے، اور ان شاء اللہ، ہم سے بڑھ چڑھ کر، اولاد میرے نزدیک کئی قسم کی ہوتی ہے، میں سب کو جان و جگر کی طرح عزیز رکھتا ہوں، اگر کوئی آج کام نہیں کر رہا ہو تو امید ہے کہ کل کرے گا، اگر کسی وجہ سے ہم اولاد یا کسی اور سے دشمنی رکھیں تو یہ دشمنی ہمیں اندر ہی اندر سے چٹ کر لے گی۔

۱۴۔ کیا آپ اپنے ان عزیز شاگردوں کی تعداد بتا سکتے ہیں جنہوں نے براہِ راست تعلیم حاصل کی ہے؟ یا کوئی تخمینہ؟

جواب: کوئی خاص تعداد معلوم نہیں، کیونکہ ہمارے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں، تاہم خدا تعالیٰ کے اس احسانِ عظیم کی شکر گزاری ہم پر واجب ہے کہ آج کی اسماعیلی دنیا کے بہت سے مؤمنین و مؤمنات خانۂ حکمت کی کتابیں پڑھ رہے ہیں، ایسے اہلِ ایمان لاکھوں کے حساب سے ہو سکتے

۱۲۲

ہیں، کتابوں کے علاوہ ایک علمی لشکر بھی ہے، کیسیٹ بھی ہیں، اور نظمیں بھی، خداوندِ عالم ہمیں فخر کی بیماری سے بچائے، اور ہر ایسی بات صرف تحدیثِ نعمت اور معلومات کی خاطر ہو، آمین!

۱۵۔ صاحب! آپ لطفاً (Kindly) یہ فرمائیں کہ آپ کی کتنی کتابوں کا انگریزی ترجمہ ہو چکا ہے؟ اور وہ خوش نصیب حضرات کون کون ہیں، جنہوں نے ایسی پرمغز کتابوں کا ترجمہ کیا ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ اس کے علاوہ اور کس کس زبان میں ترجمے ہوئے؟ اور مترجمین کون کون ہیں؟

جواب: خدا کے فضل و کرم سے اب تک تقریباً چالیس کتابوں کا انگریزی ترجمہ کیا گیا ہے، یہ سارا انتہائی گران مایہ اور بے مثال کارنامہ جناب ڈاکٹر (پی۔ ایچ۔ ڈی) فقیر محمد ہونزائی صاحب اور ان کے نیک نام معاونین نے انجام دیا ہے، آپ ہر انگریزی کتاب کے سیکنڈ ٹائٹل پیج کو دیکھ سکتے ہیں، گجراتی ترجمے کا بہت زیادہ کام جناب اکبر راجن صاحب نے کیا ہے، اور فرینچ میں جناب عبد الرحمان نے، تاہم ترجمے کا قصہ ابھی ختم نہیں ہوا۔

۱۶۔ سر! آپ ہمیں یہ بھی بتا دیں کہ آپ نے کن کن اداروں کی سرپرستی فرمائی ہے؟

۱۲۳

جواب: ایسے ادارے چند ہیں، اس ترقی کے زمانے میں سرپرستی کی پیش کش عام ہے، لیکن لوگ جس طرح توقع رکھتے ہیں، اس کے مطابق کام کرنا مشکل ہے، دراصل مجھے صرف بھرپور قلمی خدمت کے مواقع ضروری تھے۔

۱۷۔ استادِ گرامی! ہمارا ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنی نیک نام جماعت کے کس ادارے میں علمی خدمات انجام دیں؟

جواب: پاکستان میں ہمارا واحد علمی ادارہ شیعہ امامی اسماعیلی طریقہ اینڈ ریلیجس ایجوکیشن بورڈ ہی ہے، مجھے اس میں شمولیت و شرکت کی سعادت یکم جولائی ۱۹۶۲ء میں نصیب ہوئی، خداوندِ قدوس کی رحمت و مہربانی سے تقریباً پندرہ سال تک بہترین خدمت کا موقع مل گیا، تاہم اپنی کسی تصنیف کی طباعت و اشاعت کا مسئلہ جوں کا توں تھا، لہٰذا میں ۳۰ جون ۱۹۷۷ء کو مستعفی ہو گیا، اگر میں ایک خاص وقت کے لئے ایسے عظیم اور عالی قدر ادارے میں نہ ہوتا، تو عیب یا ہنر کے عنوان سے میرا تذکرہ کون کرتا، اور میری شہرت و شناخت کہاں سے حاصل ہو سکتی، اور اگر میں بروقت ادارے سے باہر نہ آتا تو اتنی ساری اعلیٰ کتابیں مجھے کون لکھ کر دیتا، پس مجھے حضرتِ رب کی ان تمام نعمتوں کے لئے شکر کرتے ہوئے آنسو بہانا چاہئے اور بار بار سجدۂ شکرانہ بجا لانا چاہئے، ورنہ کفرانِ نعمت کا ارتکاب ہو سکتا ہے۔

۱۲۴

۱۸۔ جیسا کہ آپ نے اپنی کسی کتاب میں فرمایا ہے کہ آپ کو بروشسکی شاعری کا شوق بہت پہلے سے تھا، ہم یہاں یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ آخر وہ کیا بات تھی جس نے آپ کے دل میں یہ امید پیدا کر رکھی کہ آپ مستقبل میں اس زبان کے لئے کوئی شاندار کارنامہ انجام دے سکیں گے؟

جواب: حق بات تو ہے کہ مجھے اس زمانے میں اپنے مستقبل کے بارے میں نہ کوئی علم تھا، نہ کوئی پروگرام اور منصوبہ، میرے دل میں شعر کہنے کا شوق اس نیت سے پیدا ہوا تھا کہ میں خدا اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق اہلِ بیتِ اطہار کی مدح سرائی کروں، تا کہ اس نیک عمل سے جماعت کی خدمت اور پھر روحانی ترقی ہو، بس میں صرف اتنا ہی جانتا تھا، اور آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ خدا کی توفیقات کی وجہ سے ہے، کیونکہ مؤمن کے ہر نیک کام کا ثمرہ توفیق و ہدایت ہے۔

۱۹۔ آپ کے ایک تحریری انٹرویو سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا اصل نام ’’پرتوِ شاہ‘‘ ہے، جو آپ کو پسند بھی ہے، لیکن اس کی وجہ معلوم نہیں کہ پھر آپ کیوں نصیر الدین کہلانے لگے؟

جواب: میرے نزدیک مؤمن کے ایک سے زیادہ نام ہونے میں حکمت ہے، تا کہ معنوی وسعت پیدا ہو جائے، دوسری وجہ یہ ہے کہ لفظِ ’’نصیر‘‘ اور ’’دین‘‘ دونوں قرآنِ پاک سے ہیں، اور مؤمن کے لئے ہر وہ چیز باعثِ برکت ہو سکتی ہے، جو قرآن سے لی گئی ہو، اور تیسری

۱۲۵

وجہ یہ ہے کہ شاعری میں کسی لچکدار تخلص کی ضرورت ہوتی ہے، میرے خیال میں یہاں اتنی وضاحت کافی ہے۔

۲۰۔ آپ نے تذکرہ کیا ہے کہ بچپن میں والدِ محترم کی مناجات اور گریہ و زاری سے کوئی بہت خوشگوار چیز کانوں سے داخل ہوتی تھی، اگرچہ اس زمانے میں سوائے ایسی یادداشت کے اور کچھ نہیں جانتے تھے، لیکن اب علم و معرفت کی روشنی میں بتائیں کہ وہ احساس کیا تھا یا وہ چیز کیا تھی جو کان سے داخل ہو جاتی تھی؟

جواب: روح الایمان، جو خصوصی علم و عبادت کی آواز سے کسی میں پھونکی جا سکتی ہے، مگر اس کے لئے کافی وقت درکار ہے۔

۲۱۔ آپ کی تحریر میں جو روانی ہے، اس کو دیکھ کر حیرت بھی ہوتی ہے، اور سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ آیا آپ کو آسمانی تائید حاصل ہے؟ آپ پر روحانیت کے دروازے کب سے کھلے؟

جواب: میں سوال در سوال کر سکتا ہوں کہ آیا ’’تحریر میں روانی‘‘ سے عبارت کی خوبی مراد نہیں ہے؟ اگر بات صرف یہی ہے تو میں سچ کہتا ہوں کہ مجھ سے بہتر لکھنے والے بہت ہیں، اور اگر حیرت علم کے بارے میں ہے تو میں عرض کرتا ہوں کہ علم کا سرچشمہ امامِ زمان علیہ السلام ہی ہیں، پھر میرے پاس کیا رہا؟ نہ عبارت کی خوبی، نہ کوئی ذاتی علم، اور تائید ہو یا نہ ہو، بہ ہر حال مالک (مؤیِّد) کی تعریف ضروری ہے، اب رہا سوال

۱۲۶

دروازۂ روحانیت کا، وہ تو جملہ مؤمنین و مؤمنات کے لئے کشادہ ہیں۔

۲۲۔ روحانی علم کے حصول کے بعد کیا دیگر علوم خود از خود آپ پر منکشف ہو گئے، یا ان کو جاننے کے لئے آپ نے الگ جستجو کی؟

جواب: اگر یہ مانا جائے کہ تمام ضروری علوم کا جوہر روحانی علم میں موجود ہے تو یہ بات اہلِ دانش کے نزدیک پسندیدہ اور معقول ہو سکتی ہے، اس کے برعکس کسی درویش کا یہ دعویٰ کرنا کہ وہ ہر ظاہری علم کو تعلیم کے بغیر جانتا ہے، درست نہیں۔

۲۳۔ کہا جاتا ہے کہ استادِ کامل یا پیر یا مرشد کے بغیر روحانی علم ممکن ہی نہیں، اب سوال یہ ہے کہ آپ کا استاد کون تھا؟

جواب: جیسا کہ قبلاً (جواب نمبر ۵ میں) بتایا گیا، میرے استادِ مکتب پیر ہیں، اور معلمِ روحانیت و نورانیت حضرتِ امامِ عالی مقام علیہ السلام، جو مظہرِ نورِ خدا، آلِ مصطفی اور اولادِ مرتضیٰ ہیں۔

۲۴۔ صاحب! مہربانی فرما کر یہ بتائیں، چونکہ آپ کی کتابیں یکسر پیر ناصر خسرو کی تعلیمات کے مطابق ہیں، کہ آیا ہماری جماعت کے افراد اب آپ کی کتابوں کی طرف رجوع کریں گے، کیونکہ امامِ زمان نے حالیہ دورہ کے دوران ناصر خسرو کی تعلیمات سے بھی استفادہ کرنے کے لئے فرمایا ہے؟
جواب: ان شاء اللہ، اب رفتہ رفتہ ہماری کتابوں کی اہمیت و

۱۲۷

افادیت سے لوگ باخبر ہو جائیں گے، اگر ان تمام کتب کا علم پرتوِ شاہ (نصیر الدین) ابنِ حبِ علی ابنِ محمد رفیع کا خاندانی اور خود ساختہ ہے، تو دیکھتے رہنا کہ یہ بہت کم عرصے میں ختم ہو جائے گا، کیونکہ اب دورِ قیامت ہے، اور اس میں باطل چیزوں کے لئے بہت کم مہلت ہے، اور اگر یہ علم قرآن و روحانیت اور نورِ امامت سے ہے، اور ربانی پروگرام کے مطابق ہے، تو پھر اس کے ہمہ رس اور عالم گیر ہو جانے میں کوئی شک نہیں، دیکھنے والوں نے چشمِ باطن سے دیکھا ہے کہ دنیا نورِ خداوندی کی گرفت میں ہے، قیامت برپا ہو چکی ہے، اثرات بتدریج مرتب ہو رہے ہیں، اور ساری دنیا میں بہت بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی
ہفتہ ۱۱ رمضان المبارک ۱۴۱۳ھ
۶ مارچ ۱۹۹۳ء

۱۲۸

مناجاتِ علمی

 

مناجاتِ علمی

آغازِ کتاب

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ قلبِ قرآن (سورۂ یٰسین ۳۶: ۱۲) میں حکمتِ بالغہ سے لبریز ارشاد ہے: إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ۔

         ترجمہ: ہم ہی یقیناً (ہر قسم کے) مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور جو کچھ لوگ پہلے کر چکے ہیں (ان کو) اور ان کی باقی ماندہ نشانیوں کو لکھتے ہیں اور تم نے ہر چیز کو امامِ مبین میں گھیر دیا ہے۔

         تاویل: ہر چیز سے مراد کل کائنات ہے، چنانچہ ہر روحانی قیامت میں کائنات لپیٹ کر امامِ مبینؑ میں رکھ دی جاتی ہے، تاکہ عارف کو علی الوقتؑ کی معرفتِ کلی حاصلی ہو، ایسے عظیم معجزات کا مشاہدہ حظیرۂ قدس میں ہوتا ہے۔

         میں جماعت کے نقشِ پا کی مٹی کا ایک ذرہ ہوں، جماعتے غم اچوک لم تکے پھکن با۔ خدا کی قسم! یہ پاک حاضر امام صلوات اللہ علیہ کا علمی معجزہ ہے کہ ہمارے عزیزوں کی درویشانہ دعا سے مولائے مہربان ایسے علمی معجزے کر رہا ہے، اے کاش! میں شکرگزاری میں خوب گریہ وزاری کر سکتا ! اے کاش میں پیاپے (مسلسل) بہت سے سجدے کر سکتا !

         اے عزیزان! جوانی میں خوب عبادت کرنا، کیونکہ روحانی ترقی کا امکان جوانی ہی میں ہوتا ہے۔

         اے عزیزان! آپ کی دعا اور مولا کے فضل و کرم سے کتابیں بہت ہوگئی ہیں، اب میں بہت ڈرتا ہوں اگر ہم ایسی کتابوں کو نہیں پڑھتے ہیں تو کیا یہ ہماری بہت بڑی

ز

ناشکری نہیں ہوگی؟ خدا کے واسطے آپ سوچیں، خدا کے واسطے آپ سوچیں، ہر کتاب کے علم و حکمت کو دل و دماغ میں خوب جذب کر لیں ، مولا آپ کی مدد کرے گا! آمین!!

نصیر الدین نصیرؔ (حبِ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۲؍ دسمبر ۲۰۰۳ء

ح

اس کتاب کا پیارا نام

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ کتابِ ہذا کا پیارا اور پسندیدہ نام مناجاتِ علمی ہے، یعنی اس میں بڑی عمدہ اور عاشقانہ مناجاتیں بھی ہیں اور علم و حکمت کے لعل و گوہر بھی، الحمد اللہ، ہمارے عزیزان جو علی الوقتؑ کے ارضی فرشتے ہیں، ان کی وہ خاص مناجاتی دعا جو گریہ وزاری کے ساتھ ہو، یقیناً ایک روحانی وائرلیس (Wireless) = لاسلکی مشین ہے۔

         خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ انفرادی اور اجتماعی گریہ و زاری کی دعا کو مولا فوراً ہی سن لیتا ہے، اگرچہ چہل درویش کی بات کل ہوگئی، لیکن مولا کے فضل و کرم سے ہمارے حلقے میں کافی پہلے ہی سے چہل درویش موجود ہیں، وہ مشرق و مغرب کے کئی مراکز میں ہیں، کسی درویش کی تعریف کرنا ایسا ہے جیسے آپ کسی پرواز کرنے والے پرندے کے پروں کو کاٹتے ہیں، پس میں دل ہی دل میں گریہ و زاری کرنے والوں کا تصور کرتا ہوں اور اس سے مجھے روحانی خوشی ملتی ہے۔

         انتسابِ حکمتی:

         ہم اپنے کسی عزیز کی زرین علمی خدمات کی کیا تعریف کر سکتے ہیں، ان شاء اللہ، ہر عزیز کی اصل اور حقیقی تعریف کل ہوگی، جبکہ وہ اور اس کے افرادِ خاندان سب نورانی بدن میں ہوں گے، اور ان کی علمی خدمات کی ایک عظیم الشان نورانی مووی ہوگی، جس کی تعریف اس جہان میں ممکن ہی نہیں۔

         میں اپنے بہت ہی عزیز اور بہت قدیم ساتھی پیارے نام والے فتح علی (علی کی

ط

کائناتی فتح) حبیب اور ان کے نیک بخت خاندان کے بارے میں لکھتا ہوں، سب سے اول گل شکر فتح علی ایڈوائزر، فرشتہ خصال، ہماری خداداد بیٹی، اور ہماری والدۂ مشفقہ روزی بای کی ایک تجلی = روپ ہیں، بہت ہی عزیز، میری جان نزار فتح علی ہوشمند وہنرمند اور پروانۂ علمِ امامؑ؛ شازیہ نزار فرشتہ خصلت اور علم جو؛ درِثمین (انمول موتی) نزار؛ فاطمہ فتح علی نمونۂ شرافت اور انچارج لٹل انیجلز؛ رحیم فتح علی مرچنٹ؛ نسرین رحیم مرچنٹ، اس باسعادت خاندان میں چھ افراد کو آئی۔ ایل۔ جی  (ILG)کا اعزاز حاصل ہے، رحیم اور نسرین میرے معاون فرشتوں میں سے ہیں۔

         اگر میں نے اپنے عزیزان کے بارے میں کچھ الفاظ کو رقم کیا ہے تو وہ صرف ایک اشارہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں، آپ اپنے مولا پر یقین رکھیں، امامِ مبینؑ کے اس علمِ باطن کے ادارے میں خدمات انجام دینے والے ہر فرد کا نامۂ اعمال = نورانی مووی اہلِ جنت کو حیران کر دینے والی ہے، میں نے مولا کی توفیق و تائید سے ہزار سوالات کے لئے کافی ہونے والا جواب دیا، جو یہ کہا کہ دانشگاہِ خانۂ حکمت کے ہر عزیز کا نامۂ اعمال یعنی نورانی مووی ان شاء اللہ اہلِ جنت کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے والی ہے، اس سے زیادہ کچھ کہنا غیر ضروری ہے، مگر اس بات میں آپ کو خوب سوچنا ہوگا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۲؍ دسمبر ۲۰۰۳ء

ی

دانشگاہِ خانۂ حکمت کی گرانقدر

علمی خدمات (۱)

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْم۔ سورۂ تحریم (۶۶: ۶) کا جامع الجوامع ارشاد ہے، یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا ہمہ گیر فرمانِ عالی ہے کہ اس میں دین کے تمام احکام یکجا اور جمع ہو جاتے ہیں، وہ حکمت سے لبریز فرمانِ الٰہی یہ ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا۔ ترجمہ: اے ایماندارو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو (جہنم کی) آگ سے بچاؤ۔

         حکمائے دین کے نزدیک دوزخ کی آگ کی تاویل جہالت و نادانی ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ نادانی = جہالت کی سخت مذمت کی گئی ہے اور جابجا علم و حکمت کی تعریف آئی ہے، پس خلیفۃ اللہ اور خلیفۂ رسول امامِ مبین کے معجزاتِ علمی کی برکت سے دانشگاہِ خانۂ حکمت نے جو جو گرانقدر علمی خدمات انجام دی ہیں وہ بڑی حیرت انگیز ہیں، حالانکہ ظاہراً اس کے پاس کوئی وسیلہ نہیں، ہاں اس کے تمام عملداران ہر جگہ اور سب اراکین بڑے ایماندار اور خدا شناس ہیں، دعا، عبادت، اور گریہ و زاری پر ان سب کا یقین ہے، لہٰذا ان کے اعتکاف میں نورِ الٰہی کا معجزہ ہے، جس کے سبب سے بڑا حیران کن کام ہوا ہے۔

اب ان شاء اللہ کچھ وقت میں اس ادارے کی کارکردگی کا ایک صاف ستھرا نقشہ سامنے لایا جائے گا، اس کا طریقِ کار کچھ اس طرح سے ہو سکتا ہے: سوال: کل علمی کتابیں

یا

کتنی ہو گئیں؟ صفحات؟ الفاظ تخمیناً کتنے لاکھ؟ اس پر عظیم لاکھانی نامی ایک سکالر بڑی جانفشانی سے ریسرچ کر رہا ہے، جب ان کی آخری رپورٹ آپ کے سامنے آئے گی تو ہم میں سے ہر ایک گریہ کنان سربسجود ہو جائے گا کہ یہاں امامِ زمان کا بہت بڑا معجزہ ہوا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ ۵ نومبر ۲۰۰۳ ء

یب

دانشگاہِ خانۂ حکمت کی گرانقدر

علمی خدمات (۲)

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْم۔ سورۂ محمد (۴۷: ۷) میں حق تعالیٰ کا پاک و پاکیزہ ارشاد ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ۔

         ترجمہ: اے ایماندارو! اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کر ے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔

         اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور صمد = بے نیاز ہے، پھر اس فرفانِ عالی کے مطابق اللہ کی مدد کس طرح ہو سکتی ہے؟ جواب: یقیناً اللہ قادرِ مطلق اور صمد ہے، لیکن وہ اپنی عنایتِ بے نہایت سے اپنے غلاموں کی غلامی کو بعض خاص اور ضروری امور میں اہمیت، بلکہ زیادہ اہمیت دینے کی غرض سے احسانمندی کی حکمت سے کام لیکر دین و دنیا کے سب اہلِ عزت کو بڑی حکیمانہ پند و نصیحت فرماتا ہے، قرآنِ حکیم میں ایسی عظیم اور پرحکمت مثالیں اور بھی ہیں، جیسے ارشاد ہے کہ اللہ کو قرضِ حسنہ دو (۷۳: ۲۰)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

بدھ  ۵؍ نومبر ۲۰۰۳ء

یج

الباقیاتُ الصالحات = صدقۂ جاریہ

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْم۔ سورہ الکھف (۱۸: ۴۶) میں پراز حکمتِ بالغہ ارشاد ہے: اَلْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلاً۔

         ترجمہ: (اے رسولؐ) مال اور اولاد اس (ذرا سی) دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تمہارے پروردگار کے نزدیک ثواب میں اس سے کہیں زیادہ اچھی ہیں اور تمنا و آرزو کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں۔

         جو نیک بخت عزیزان فعلاً دانشگاہِ خانۂ حکمت سے وابستہ ہیں، زہے نصیب! کہ ان کی باقی رہنے والی نیکیاں اور صدقۂ جاریہ کتابیں اور لائبریریاں ہیں، اور وہ بہت سے شاگرد ہیں جو اس ادارے میں دینی علم حاصل کر رہے ہیں، سورۂ مریم (۱۹: ۷۶) میں بھی دیکھیں، اگر آپ اپنی اولاد کو دین و دنیا کی تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں، تو وہ بھی باقی رہ جانے والی نیکیوں میں شامل ہیں۔

         خانۂ حکمت کے ایک عزیز کا سوال ہے: آیا بہشت میں کتابیں ہوسکتی ہیں؟ جواب: جی ہاں، کیوں نہیں، جب بہشت جنت الاعمال ہے اور آپ نے دینی کتابوں کی تشکیل میں کوئی بھی نیک کام کیا ہے تو وہ کام بہشت میں بصورتِ نورانی مووی آپ کے سامنے ہوگا۔

         بہشت میں ہر علمی اور عقلی نعمت موجود ہے، جن گنانوں اور نظموں سے لوگوں کو امامِ زمانؑ کے پاک عشق کی تعلیم ملتی رہی ہے، وہ سب بہشت کی شراب بن چکی ہیں یعنی

ید

خمرِ بہشت سے وہ مقدس نظمیں مراد ہیں جو حضرتِ امامؑ کی تعریف میں ہیں، یاد رہے کہ بہشت کی پاک شراب قوتِ ذائقہ سے نہیں قوتِ سامعہ سے حاصل ہوتی ہے، پس آپ دنیا میں لشکرِ اسرافیلی سے امامِ عالی مقامؑ کی تعریف سنتے رہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

جمعہ ۷؍ دسمبر ۲۰۰۳ء

یہ

Lasting Good Deeds

(al-baqiyatu’s-salihat)

  1. Lasting Good Deeds are praised in verses (18: 46; 19: 76). By this is meant the virtuous deeds whose reward is received continuously. For instance, if a mu’min gives a piece of land for the construction of a school, then this continuing charity is among the lasting good deeds whose reward continues forever.
  2. Although one might ask what good deeds can be considered to be lasting good deeds, it is not very difficult to understand to the needs of time and space. Based upon our own past experience, the following are examples of lasting good deeds:

 To construct: (a) an ordinary bridge over a canal (b) a platform on the side of an important path; (c) a well for drinking water; (d) a thawab house, consisting of one room; (e) a canopy where necessary; (f) a footpath in a village or on a mountain and (g) to dedicate a fruitful tree in the name of Good, etc.

(Page 14 from the book “Rubies and Pearls” [La’l-o Gawhar], translated from Urdu into English by Dr. (PhD.) Faquir Muhammad Hunzai and Rashida Noormohammed-Hunzai)

یو

علمی مناجات ۔ ۱

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔اے میرے رب! اے میرے معبود! اے میرے طبیبِ عالمِ لاھوت! اے میرے ودود (محبوبِ اعظم)! اے رب اکرم الا کرم الا کرم! اے سب لوگوں کے ارحم الراحمین ! اے عالمِ انسانیت کے الودود! اے تو خیر الراحمین! اے آنکہ تیری رحمت ہر ہر چیز پر محیط ہے، اے آنکہ تیرا علمِ بسیطِ عالم سے بھی زیادہ بسیط اور بے پایان ہے، اے آنکہ تیرے نور کے سمندر میں آسمان زمین کی ہر چیز اور ہر شخص مستغرق ہے، اے آنکہ تو نے نہ صرف ’’الخلق عیالی‘‘ فر ما کر خلق کے حق میں نیکی کرنے کا حکم دے دیا، بلکہ تو نے خود ہی اپنی قدرتِ کاملہ، حکمتِ بالغہ، رحمتِ واسعہ، اور روحانی قیامت سے کام لے کر اپنے عیال یعنی سب لوگوں کو حظیرۂ قدس کی عرفانی بہشت میں اور بعد ازان ابدی بہشت میں داخل کردیا، ہاں یقیناً، کیونکہ اللہ سریع الحساب (۱۳: ۴۱) = حساب لینے میں بڑا تیز ہے یعنی اللہ نے ازل میں انسانوں کے لئے جس طرح ارادہ کیا تھا، وہی ان کے اعمال کا حساب ہے، اس معنیٰ میں اللہ حساب لینے میں بڑا تیز ہے، گویا ازل ہی میں اس نے حساب لے رکھا تھا، آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس ارحم الراحمین نے جب اپنی صفاتِ ستودہ کے بموجب اپنے بندوں کے اعمال کی اصلاح فرمائی تو پھر ہر چیز اللہ کے ارادۂ ازل کے تحت آگئی۔

بدھ ۸ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۱

علمی مناجات ۔ ۲

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔اللّٰھم انّی اسئلک باسمائک الحسنیٰ۔

         بیت: تو طبیبی و دردمندان را ؛؛ از شفاخانۂ تو درمان است

         (کوکبِ دری، بابِ ششم، منقبت ۵۷)۔

ترجمۂ بیت: تو ہی میرا طبیب ہے اور میں بیمار ہوں، اور تیرے شفاخانہ ہی سے مجھے دوائے شفا عطا ہوگی۔

         اے میرے طبیبِ عالمِ لاھوت! میں ہر وقت تیری سماوی اور ابداعی ادویہ کا سخت محتاج ہوں، جو معجزاتی خوشبوؤں کی صورت میں ہوا کرتی ہیں، اے صاحبِ کاف و نون! میری اس ضعیف العمری پر رحم فرما! میری جسمانی کمزوری میں اضافہ ہوا ہے، پھر بھی میں نے اپنے ساتھیوں کی پرسوز دعا اور تیری غیبی تائید سے کتابوں کا یہ سلسلہ یہاں تک لایا ہے، اے قادرِ مطلق! میں غریب و ناچیز تیرے بے شمار احسانات کا کسی طرح بھی شکر ادا نہیں کرسکتا تھا، لہٰذا ہر قسم کی ادبی کمزوری کے باوجود میں نے قلم کا سہارا لیا، اس امید پر کہ شاید تو ارحم الراحیمن اس بندۂ ناسپا س = ناشکرگزار کو معاف فرمائے۔

         مجھے فخر کی بیماری سے بڑا ڈر لگتا ہے، تاہم رب العزت نے پہلے ہی سے اس کا سدِ باب کردیا ہے، چنانچہ جب جب نفسِ امارہ = جن مجھ سے کہتا ہے کہ تم نے یہ یہ کارنامے انجام دئے ہیں، تو میں کہتا ہوں: چپ رہ، شیطان! بے ایمان! ’’من آنم کہ من دانم‘‘ میں خود کو خوب جانتا ہوں، میں اپنے باپ کی بکریاں چراتا تھا، پھر اپنے ماضی کی ہر ہر پسماندگی اور ہر تکلیف کو یاد کرتا ہوں، کبھی کبھار مولا کے عاشقوں کی گریہوزاری

۲

سے اطمینانِ قلب حاصل کرتا ہوں اور دریائے عاجزی میں ڈوبنے کی سعی کرتا ہوں، خدائے علیم و حکیم کی حکمت بڑی عجیب و غریب ہے کہ ماضی کی ہر مشقت کا ثواب دنیا میں بھی مل سکتا ہے، مجھے کامل یقین آیا ہے کہ اللہ عالمِ انسانیت کا بہترین وکیل = کارساز ہے۔

         میں شروع شروع میں اسرارِ قیامت کو بڑی احتیاط سے لکھتا تھا، مگر رفتہ رفتہ توفیق و ہمت عطا ہوئی، اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عالمِ انسانیت پر ایک کتاب تصنیف ہوئی، اس نعمتِ خداوندی پر اگر ہم سب ساتھی تادمِ آخر شکرگزاری کے آنسوؤں کے ساتھ ہزار ہا سجدے کرتے رہیں پھر بھی حقِ شکرگزاری ادا نہ ہوگا، اللہ ہماری اس کوتاہی کو معاف فرمائے!

جمعرات ۹؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۳

مناجاتِ علمی ۔ ۳

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔اللّٰھم ! اے خالقِ انس و جان! اے خداوندِ زمین و آسمان! اے بادشاہِ کون و مکان! اے پروردگارِ عالمیان! اے مددگارِ بیچارگان و مفلسان ! اے کریمِ کارساز! اے رحیمِ بندہ نواز! یہ تیری ہی عنایتِ بے نہایت اور بندہ نوازی تھی کہ تو نے اپنے اس بندۂ کمترین کے لئے صوفیانہ موت کے سخت مشکل اور مغلق دروازے کو کھول دیا اور روحانی قیامت کی جملہ مشکلات کو آسان کر دیا ، یہاں تک کہ تو نے اپنے معجزۂ رحمت سے تاریخ کے ہر ظاہری عذاب کو باطن میں ثواب بنا دیا، جیسے یہ بندۂ درویش سات رات اور آٹھ دن لگاتار اسرافیلی اور عزرائیلی معجزات کے سنگم میں رہا اور معرفت کے خزانوں سے مالامال ہوگیا ، حالانکہ تاریخ کے ظاہر میں دیکھا جائے تو یہ وہی مدت تھی جس میں قومِ عاد کے لوگ بہت شدید تیز آندھی سے ہلاک کئے گئے تھے (۶۹: ۷)، تو کیا ہم ان زبردست اور غالب معجزات کو دیکھنے کے بعد روحانی قیامت اور قرآن کی تاویل سے منکر ہو سکتے ہیں؟ جواب: نہیں ہرگز نہیں، ہم نے یہ معجزات کتابوں اور دوستوں کے سپرد کر دئے ہیں، دو حصوں میں قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیت کی کتاب کے لکھنے کا اصل سبب بس یہی ہے۔

         میرے تمام ساتھی وقفہ وقفہ سے اس کتاب کی تکمیل کیلئے اعتکاف کرتے تھے، کیونکہ میں بیماری اور موت سے نہیں بلکہ اس کتاب کے نامکمل رہ جانے سے بہت ڈرتا تھا، جبکہ میں اس کتاب کو اپنی تمام کتابوں سے بہت زیادہ ضروری سمجھتا ہوں، اس کی وجہ رفتہ رفتہ معلوم ہو جائے گی، اب صرف بہت ہی عاجزی سے بارگاہِ الٰہی میں دعا کرنے کی سخت ضرورت ہے کہ یا اللہ ! اپنی عنایتِ بے نہایت سے اس حقیر خدمت کو قبول فرما! اتنی بڑی

۴

دنیا میں ہمارا کوئی وسیلہ نہیں، میرا مطلب اور کچھ ہرگز نہیں، میرا خیال صرف اور صرف یہی ہے کہ یہ کتاب عالمِ انسانیت کے کسی بڑے ادارے سے شائع ہونے کا حق رکھتی ہے، کیونکہ یہ کتاب تو کوئی بھی پڑھ سکتا ہے، لیکن یہ ہے دراصل عالمِ انسانیت ہی کے لئے۔

         ہم سب ساتھی حق سبحانہ و تعالیٰ کے فیوض و برکاتِ غیبی کی امید کرتے رہیں گے، آمین!

جمعرات ۹؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۵

مناجاتِ علمی۔ ۴

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اللّٰھمَّ صَلِّ علیٰ محمّدٍ و علیٰ آلِ محمّدٍ کما صلَّیتَ علیٰ ابراھیمَ وعلٰی آلِ ابراھیمَ انّکَ حمیدٌ مّجیدٌ۔ اللّٰھمَّ بارکْ علٰی محمّدٍ وعلٰی آلِ محمّدٍ کما بارکتَّ علٰی ابراھیمَ و علٰی آلِ ابراھیمَ انّکَ حمیدٌ مّجیدٌ۔

         صلاۃ / صلوٰۃ = درود: –

         سورۂ احزاب  (۳۳: ۵۶) میں پیغمبرِ اکرمؐ پر درود بھیجنے کا ذکر آیا ہے، وہ پاک ارشاد یہ ہے: إِنَّ اللَّهَ وَمَلاَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا = اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا اور اس کے فرشتے پیغمبرؐ (اور ان کی آل پر) درود بھیجتے ہیں، تو اے ایماندارو! تم بھی ان پر دورد بھیجتے رہو اور برابر سلام کرتے رہو (۳۳: ۵۶) ۔ اس حکمِ الٰہی میں آنحضورؐ اور آپؐ کی آلِ پاکؑ کی عظمت و بزرگی کے عظیم اسرار پوشیدہ ہیں۔ (بحوالۂ کتاب ہزار حکمت، ح ۵۰۶)۔

         صلاۃ = درود: –

         حدیثِ شریف ہے: قولوا: اللّٰھمَّ صَلِّ علٰی محمّدٍ و علٰی آلِ محمّدٍ کما صلَّیتَ علٰی ابراھیمَ و علٰی آلِ ابرھیمَ انّکَ حمیدٌ مّجیدٌ۔ = اے اللہ ! درود نازل فرمائیے محمدؐ اور آلِ محمدؐ پر جیسا کہ آپ نے درود نازل فرمایا ابراہیمؑ پر اور آلِ ابراہیمؑ پر، بیشک آپ ستودہ صفات اور عظمت والے ہیں۔ صحیح البخاری، جلدِ دوم، کتاب الانبیاء،

۶

حدیث ۵۹۵، نیز المیزان ، المجلد، ص ۳۴۴، پر بھی دیکھ لیں۔ (بحوالۂ کتاب ہزار حکمت، ح ۵۰۷)۔

اتوار ۱۲ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۷

مناجاتِ علمی ۔ ۵

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اللّہُ الطّبیب، اللّہُ الطّبیب، اللّہُ الطّبیب (چند بار) ، اللہ اکبر، اللہ اکبر (چند بار) الٰھی! ربّی! صمدی! میری ہر مشکل تیرے اسمِ اکبر و اعلیٰ و اقدس و اکرم ہی سے آسان ہو سکتی ہے، اے طبیبِ لاھوتی! تو ہی جملہ طبیبوں کا طبیب ہے، الوَدود (اے محبوبِ اعظم!) آیا تیری حقیقی محبت ہماری ہر بیماری کے لئے شفائے کلی نہیں ہے؟ کیوں نہیں۔

         اے خداوندِ علیم و حکیم! اپنے نورِ منزل کے نورانی معجزات سے ہماری علمی مشکلات کو آسان کر دے! اور ہمارے تمام ساتھیوں کو علمی خدمت کے لئے عالی ہمتی عطا کر !

         شاہاز کرم برمنِ درویش نگر

         برحالِ منِ خسۃ و دلریش نگر

         ہر چند نیم لائقِ بخشائشِ تُو

         بر من منگر برکرمِ خویش نگر

         ایک بروشسکی شعر کا ترجمہ: زندان کی یادِ شیرین میں اب کس طرح بھول سکتا ہوں؟ جبکہ محبوبِ جان اس میں میرے لئے جنت لے کر ظہور فرما ہوا تھا، اس دیدارِ مقدس میں کتنی عظیم حکمتیں تھیں!

         سلمان غریبم قلبِ تو! سلمان غریبم قلبِ تو…۔

پیر ۱۳؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۸

مناجاتِ علمی ۔۶

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ کتابِ مستطابِ سرائر ، صفحہ ۱۱۷ پر حضرتِ مولا مرتضیٰ علی صلوات اللہ علیہ کا ایک طویل کلامِ مبارک درج ہے، جس میں یہ ارشاد بھی ہے: و انا العلیّ الکبیر ( اور میں علی الکبیر ہوں) یا علی الکبیر ( چند بار) ، حوالہ جاتِ قرآن: سورۂ حج (۲۲: ۶۲)، سورۂ لقمان (۳۱: ۳۰) سورۂ سبا (۳۴: ۲۳)، سورۂ مومن (۴۰: ۱۲)، یا علی الکبیر، یاعلی الکبیر، یا علی الکبیر ( چند بار)۔

         رفیعُ الدّرجٰت ذوالعرش = درجوں کو بلند کرنے والا صاحبِ عرش (۴۰: ۱۵) یا رفیعَ الدّرجٰت، یا رفیعَ الدّرجٰت، یا رفیعَ الدّرجٰت، یا رفیعَ الدّرجٰت (چند بار)۔

اے خالق ہر بلند و پستی

شش چیز عطا بکن ز ھستی

علم و عمل و فراخدستی

ایمان و امان و تندرستی

         یا ارحمَ الرّاحیمن (چند بار)، اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر۔

بدھ ۱۵؍ اکتوبر ۲۰۰۳ ء

۹

مناجاتِ علمی ۔۷

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ کتابِ مستطابِ سرائر ، صفحہ ۱۱۷ پر حضرتِ مولا مرتضیٰ علی علیہ السلام کا ارشاد ہے: انا دینُ اللہِ حقا = یقیناً میں خدا کا دین ہوں۔ انا دینُ اللہِ حقّا، انا دینُ اللہِ حقّا = یقیناً میں خدا کا دین ہوں ( چند بار)، انا نفسُ اللہ حقا = یقیناً میں نفس اللہ ہوں۔ یہ حضرتِ مولا علیؑ کا ایک خاص وصفی نام ہے، قرآنِ پاک میں دیکھیں: علیؑ نورِ الٰہی کا مظہر ہے۔ نورِ الٰہی کا مظہر، نورِ الٰہی کا مظہر ( چند بار)۔

         جو روحانی قیامت آنحضرتؐ نے قائم کی تھی، اس وقت سب لوگ روحاً آپؐ کے عالمِ شخصی میں داخل ہوئے تھے، سورۂ نصر (۱۱۰: ۲) میں اسی واقعۂ عظیم کا ذکر ہے، اس سے معلوم ہوا کہ پہلے آنحضرتؐ خود اللہ کا دینِ مجسم تھے اور آپؐ کے بعد آپ کے وصی = علیؑ خدا کا دین تھے، پس آپ جس امامِ مبینؑ کو نورِ مجسم = قرآنِ ناطق کہتے ہیں تو وہی پاک امامؑ اللہ کا زندہ اسمِ اعظم اور اس کا دین ہے، مولا مشکل کشا نے خود ہی ہماری علمی مشکلات آسان کر دیں، ورنہ ہم ان اسرارِ عظیم کو نہیں سمجھتے، ہماری روح امامِ آلِ محمدؐ کے لئے فدا ہو!

         نوٹ: آپ ہر مناجات کو ترنم سے پڑھیں، روح القدس سے بتدریج آپ کو مدد ملے گی، ان شاء اللہ! مولا کا علم بھی ہوگا اور مولا کا عشق بھی۔

جمعرات ۱۶ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۱۰

مناجاتِ علمی ۔۸

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔  لَاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنْ الظَّالِمِينَ (۲۱: ۸۷)۔ اگرچہ قرآنِ حکیم کی ہر عبادت، ہر دعا، اور ہر تسبیح یقیناً مقبول و مستجاب ہے، تاہم حضرتِ یونس علیہ السلام کی تسبیح وہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے خود ہی تعریف فرمائی ہے، سورۂ صافات (۳۷: ۱۴۴) کے پاک ارشاد کو پڑھیں اور اس کی حکمت میں غور کریں۔

         لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم۔ بحوالۂ کتابِ مستطاب وجہِ دین، کلام ۵۱، ص ۴۱۶۔

         لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ۔ مذکورہ کتاب، کلام ۱۱، ص ۱۰۵۔

         یا اللہ اپنے پاک و برتر اسماء کی حرمت سے، یا الٰہی اپنے پُرنور و پُر حکمت اور زندہ اسمِ اعظم و اکبر و اعلیٰ و اکرم کی برکت سے، جو ظاہر و باطن کا سنگم ہے اور اول و آخر کا بھی، ناسوت و ملکوت کا بھی، ہماری تقصیرات سے درگزر فرما! اور ہمیں توفیق و ہمت عطا کر! تاکہ ہمیشہ تیری نعمتوں کا قلبی شکر کریں، آمین!

جمعہ ۱۷ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۱۱

مناجاتِ علمی ۔۹

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْم۔  اے نہایت مہربان خداوند! تیرے بابرکت اسماء میں سے ایک اسم الودود ہے، یعنی بہت زیادہ محبت کرنے والا، دوستوں کا سب سے بڑا دوست، وہ ذات جو محب بھی ہے اور محبوب بھی۔

         اے بادشاہِ کون و مکان! تیرا ایک پیارا نام الوھّاب ہے، یعنی بلا معاوضہ بہت کچھ اور مسلسل دینے والا۔

         الوکیل = بندوں کا کارساز، ضروتوں کا خیال رکھنے والا۔

         المُجیب = جواب دینے والا، دعا سننے والا، پکارنے والوں کی مدد کو پہنچنے والا۔

         الکریم = کرم کرنے والا، مہربان، بخشش و عطا کرنے والا، فیاض، خطا بخشنے والا، صاحبِ کرامت ۔ ( بحوالۂ شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ص ۲۰۸۔۲۰۹، سید قاسم محمود، الوَدود، الوھّاب، الوکیل، المجیب، الکریم)

         خداوندِ قدوس کے کسی پاک اسم کو طوطے کی طرح یا کسی مشین کی طرح پڑھنا شایانِ شان نہیں، آپ اس اسم کے حقیقی معنی اور حکمت کو دلنشین کر کے پڑھیں، تاکہ اس کے فیوض و برکات حاصل ہوں۔

         مولائے روم کا قول ہے: ۔

چشم بند و گوش بند و لب ببند

گرنہ بینی نورِ حق برمن بِخند

         ترجمہ: آنکھ، کان، ہونٹ یعنی زبان = حواسِ ظاہر پر کنٹرول کرنے کی مشق میں

۱۲

کامیاب ہو جاؤ، اگر پھر بھی خدا کے نور کا دیدار نہیں ہوتا تو مجھ پر ہنسنا۔

جمعہ ۱۷ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۱۳

مناجاتِ علمی ۔۱۰

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ سورۂ زمر (۳۹: ۲۳) میں ایک ساتھ قرآنِ حکیم اور اسمِ اعظم دونوں کی لاہوتی تعریف آئی ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسولؐ کو ظاہراً و باطناً جتنے معجزات عطا کئے تھے، ان میں یقیناً قرآنِ حکیم ہی سب سے عظیم معجزہ ہے، لیکن اس معجزۂ الٰہی کے اثر انداز ہونے کے لئے پڑھنے اور سننے والوں کے قلوب میں کماحقہ خوفِ خدا کا ہونا ضروری ہے، وہ ارشادِ مبارک یہ ہے: ۔

         اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ۔ (الخ)۔

         تاویلی مفہوم: اللہ نے احسن الحدیث = کلمۂ اسمِ اعظم نازل فرمایا، جو معرفت اور تاویل کی ایک کتاب ہے، جو کاملین و عارفین کی کتاب سے ملتی جلتی ہے، یہ کتاب ہر روحانی قیامت میں دہرائی جاتی ہے، اس کے خفی و جلی معجزات سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، جو ذاکرینِ اسمِ اعظم ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کے اجسام اور قلوب ذکرِ الٰہی کی طرف نرم ہو جاتے ہیں۔

سنیچر ۱۸ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۱۴

مناجاتِ علمی ۔۱۱

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اَللّٰھُمَّ اِنّیْ اَسْئَلُکَ بِاَسْمَائِکَ الْحُسْنٰی ۔

         یا اللہ ! اپنی پاک ذات و صفاتِ قدیم کی حرمت سے، یا رب! اپنے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام کی حرمت سے، یا الٰہی! اپنی جملہ کتبِ سماوی کی حرمت سے، یا خداوند! تمام ادوار کے حدودِ دین کی حرمت سے، جملہ ادوار کے مومنینِ بایقین کی حرمت سے، آسمان و زمین کے مقبول عابدین و ساجدین کی حرمت سے، تمام ادوار کے عاشقین، سالکین، عارفین، اور کاملین کی حرمت سے، اے کریمِ کارساز! اے رحیمِ بندہ نواز! تیرے شفاخانۂ غیب میں ہر درد کی دوا ہے، تیرے بزرگ نام میں دوا بھی ہے اور شفا بھی۔

         یا اللہ! ہم تیرے مبارک اوصاف بیان کرنے سے قاصر اور عاجز ہیں، یا اللہ! ہم تیرے اوصاف کے سامنے گویا طفلِ نادان ہیں، اے کاش! ہم طفلِ شیر خوار ہی کی طرح زارو قطار رو رو کر آنسو بہانا جانتے ، شاید اے پروردگار! ہماری ایسی حالت پر تجھ کو رحم آتا، اے ہمارے مالک! ہماری حالتِ زار تجھ سے کب پوشیدہ ہے، پس کرم کر، رحم فرما! درگزر فرما! فریاد رس ! فریاد رس!

کریما ببخشائے بر حالِ ما

کہ ھستیم اسیرِ کمندِ ھَوا

۱۵

نداریم غیر از تو فریاد رس

توئی عاصیان را خطا بخش و بس

سنیچر ۱۸  ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۱۶

مناجاتِ علمی ۔۱۲

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ کتابِ مستطابِ سرائر، صفحہ ۱۱۵ پر حضورِ اکرم صلعم کا یہ بڑا اہم ارشاد مرقوم ہے: ۔

         ثم قال: معاشر الناس ھٰذا علی بن ابی طالب خلیفۃ اللہ فیکم و خلیفۃ کتابہ المنزل علیکم و بابہ و حجابہ الذی لا یؤ تی الا منہ والقائم من بعدی والقائم فیکم مقامی فاسمعو الہ و اطیعوہ ۔۔۔

         ترجمہ: پھر آنحضورؐ نے ارشاد فرمایا: لوگو! یہ علی بن ابی طالبؑ ہے جو تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے، اور اس (اللہ) کی اس کتاب کا جو تم پر نازل ہوئی ہے (یعنی قرآن) اس کا بھی خلیفہ ہے، اور یہ اس کا دروازہ اور حجاب ہے کہ اس باب و حجاب سے ہٹ کر کوئی شخص قرآن تک رسا ہو نہیں سکتا، اور یہ میرے بعد قائم القیامت ہے، اور میرا قائم مقام یعنی جانشین ہے، پس تم اس کا حکم سن لو اور اس کی اطاعت کرو۔

اتوار ۱۹؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۱۷

مناجاتِ علمی ۔۱۳

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اے اللہ! حضرتِ آدمؑ کی چہل (۴۰) صباح اسمِ اعظم کی نورانی عبادت کی حرمت سے، جس میں اس کی روحانی تخلیق مکمل ہوئی تھی، جیسا کہ حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے کہ خداوندِ تعالیٰ نے آدمؑ کی مٹی کو چالیس صباح میں گوندھا تھا، اے خدائے علیم و حکیم ! حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السلام کی روحانی قیامت اور اس کے کل باطنی معجزات و اسرار کی حرمت سے، الٰہی! صمدی! ان سارے عظیم معجزات کی حرمت سے جو آدمؑ کے لئے حظیرۂ قدس کی بہشت میں ہوئے تھے، یا رب العزت! آدمؑ و حوا کی توبہ، گریہ وزاری، اور مناجات کی حرمت سے (۷: ۲۳)، اے خداوندِ قدوس! حضرتِ ھابیل علیہ السلام کی نفسانی قربانی (موت قبل از موت) کی حرمت سے (۵: ۲۷) جس میں تمام انسانوں کی نجات پوشیدہ تھی۔

         حکیم سنائی کا شعر ہے: ۔

بمیر اے دوست پیش از مرگ ہمی گر زندگی خواہی

کہ ادریس از چنین مردن بہشتی گشت پیش ازما

         ترجمہ: اے دوست! اگر تو حقیقی زندگی چاہتا ہے، تو جسمانی موت سے پہلے نفسانی طور پر مرو، کیونکہ ایسی ہی موت سے حضرتِ ادریسؑ ہم سے بہت پہلے ہی بہشتی ہو چکا تھا (۱۹: ۵۶ تا ۵۷)۔ حضرتِ ھابیل علیہ السلام امامِ اساس تھا، حضرتِ ادریسؑ امام تھا، مولائے روم نے اپنی مثنوی میں حکیم سنائی کے مذکورِ بالا شعر کا حوالہ دیا ہے۔

اتوار ۱۹ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۱۸

مناجاتِ علمی ۔۱۴

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ سورۂ بقرہ (۲: ۲۴۳) میں روحانی قیامت سے متعلق ایک عظیم رازدار ارشاد ہے۔

         أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمْ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَشْكُرُونَ۔

         تاویلی مفہوم: آیۂ شریفہ کا خطاب رحمتِ عالمؐ کے بعد کاملین و عارفین سے ہے، چنانچہ جب کسی مومنِ سالک کی روحانی قیامت برپا ہونے لگتی ہے اور حضرتِ اسرافیل علیہ السلام صور پھونکتا ہے، تو تمام لوگ روحاً اور غیر شعوری گھبراہٹ کے ساتھ اس سالک کے عالمِ شخصی میں داخل ہو جاتے ہیں، جہاں خداوندِ کریم اپنی عنایتِ بے نہایت سے سب لوگوں کو موت دے کر پھر زندہ کرتا ہے، تاکہ سب لوگ جو عیال اللہ ہیں، حساب کتاب اور عذاب کے بغیر جنت میں داخل ہو جائیں، یاد رہے کہ ’’مو توا قبل ان تموتوا‘‘ کی حدیثِ شریف مذکورہ آیت کے تحت ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ آیت میں بھی اور حدیث میں بھی ’’موتوا‘‘ کا حکم ہے۔

پادشاھا جرمِ ما را در گزار

ما گنہ گاریم و تو آمرز گار

سالہا در بندِ عصیان ماندہ ایم

آخر از کردہ پشیمان ماندہ ایم        (عطار)

۱۹

یا کریم العفو ستار العیوب

انتقام از ما مکش اندر ذنوب (رومی)

پیر ۲۰ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۲۰

مناجاتِ علمی ۔۱۵

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ سورۂ اعراف (۷: ۱۸۰) میں اسمِ اعظم کا راز دار ارشاد ہے: وَلِلَّهِ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا۔

         اسماءُ الحسنٰی سے اسمِ اعظم مراد ہے، اور اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم امامِ زمان صلوات اللہ علیہ ہیں، جیسا کہ کتابِ کوکبِ دری، بابِ سوم میں حضرتِ مولا علی علیہ السلام کا ارشاد ہے، ان بابرکت ارشادات کا انگلش ترجمہ جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی بحرالعلوم صاحب نے کیا ہے، اگر ہم مولا علیؑ کے پر حکمت کلام کو عشق و محبت سے نہیں پڑھتے ہیں تو پھر کس طرح ہم امام شناس ہو سکتے ہیں؟

         رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (۳: ۸) ۔ ترجمہ: اے ہمارے پروردگار ! ہمارے دلوں کو ہدایت کرنے کے بعد ان میں کوئی کجی نہ ہونے دے! اور اپنی بارگاہ سے ہمیں رحمت عطا فرما! اس میں تو شک ہی نہیں کہ تو بڑا دینے والا ہے۔ الوھاب، الوھاب، الوھاب، الوھاب، الوھاب، برحمتک یا ارحم الراحمین۔

ز ھر کم کمترم گر بی تو باشم

ز گردون برترم گر با تو باشم

         (سیدنا حسن بن صباح)

گردریمنی و بامنی پیشِ منی

گرپیشِ منی و بی منی دریمنی

۲۱

         ترجمہ: اگر تو یمن میں ہے اور مجھ کو یاد کرتا ہے تو میرے پاس ہے، اگر تو میرے پاس ہے اور مجھ کو یاد نہیں کرتا ہے تو یمن میں ہے۔

منگل  ۲۱؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۲۲

مناجاتِ علمی ۔۱۶

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ سورۂ بقرہ کے آخر (۲: ۲۸۶) میں ایک زبردست پُرحکمت اور مقبول و مستجاب دعا ہے: ۔

         رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلاَنَا۔

         ترجمہ: اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہماری گرفت نہ کر، اے ہمارے پروردگار! ہم پر ویسا بوجھ نہ ڈال جیسا کہ ہم سے اگلے لوگوں پر بوجھ ڈالا تھا، اور اے ہمارے رب! اتنا بوجھ جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو ہم سے نہ اٹھوا، اور ہمارے قصوروں سے درگزر کر اور ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا مالک و مولا ہے۔

اے تو آمرز گار و بخشندہ            ما سیاہ روزگار و لغزندہ

اے زتو غیرِ جود و احسان نے      وے زما غیرِ ذنب و عصیان نے

ما زشرمِ گناہ در اندیشہ               مر تُرا رحمت و کرم پیشہ

۲۳

پاد شاھا بعفو و غفرانت               بکمالِ سخا و احسانت

درِ توفیقِ مان برخ بکشان            راہِ نور و نجات مان بنما

آنچہ راندیم از دعا بزبان              یا الٰہی بمنتہا بِرسان

ہر چہ جستیم از درت بنیاد          بحصولِ نیازِ مان بنواز

اللہم یامغیشی عند کُلِّ شدّۃٍ             و یا مجیبی عند کُلِّ دعوۃٍ

اقضی حوائجَنا کلَھا بجودِکَ و بِکرمِکَ یا اکرمَ الاکرمین! یا ارحمَ الرّاحیمن!

منگل ۲۱ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۲۴

مناجاتِ علمی ۔۱۷

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ حضرتِ ایوب علیہ السلام کی دعا سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۳ تا ۸۴) میں ہے: ۔

         أَنِّي مَسَّنِي الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِنْ ضُرٍّ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَذِكْرَى لِلْعَابِدِينَ۔

         ترجمہ: (اور اے رسولؐ) ایوبؑ (کا قصہ یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ (خداوندا!) بیماری تو میرے (پیچھے) لگ گئی ہے اور تُو تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر ہے مجھ پر رحم کر، تو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کا جو کچھ دکھ درد تھا دفع کر دیا اور انہیں ان کے لڑکے بالے بلکہ ان کے ساتھ اتنے اور بھی محض اپنی خاص مہربانی سے اور عبادت کرنے والوں کی نصیحت کے واسطے عطا کئے۔

         حضرتِ ایوبؑ کا حکمت آموز قصہ سورۂ صٓ (۳۸: ۴۱ تا ۴۴) میں بھی ہے۔

         بیماری میں صبر، مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات کی سخت ضرورت ہے، مایوسی قطعاً منع ہے، خداوندِ کریم ارحم الراحمین ہے، یہ خود اللہ طبیبِ لاھوتی کا پررحمت اعلان ہے، یہ محبِ اکرم اور محبِ اعظم الوَدود کا اعلان ہے کہ وہ سب رحم کرنے والوں سے بہترین رحم کرنے والا ہے، لہٰذا آپ یا ارحم الراحمین کے معنی کو دلنشین کر لیں، اس طرح کہ اللہ کی اس صفت سے آپ کو عشق ہوا ور کبھی کبھی غلبۂ عشق سے آپ کو رونا آئے، ان شاء اللہ!

بدھ ۲۲ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۲۵

مناجاتِ علمی ۔۱۸

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْم۔ سورۂ المومنون کے آخر ( ۲۳: ۱۱۸) میں خداوندِ ارحم الراحمین کا ایک خاص فرمان ہے، جبکہ اس کا خاص خطاب رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ سے ہے، تاکہ اس بہت ضروری اور خاص دعا کو سب سے پہلے رسولِ پاکؐ خود پڑھیں اور بعد ازان اہلِ ایمان اس خصوصی دعا سے روحانی فائدہ اٹھاتے رہیں، وہ مبارک دعا یہ ہے: وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ۔

         ترجمہ: (اے رسولؐ تم بطورِ پیشوا) دعا کرو پروردگار! تو مجھے بخش دے اور رحم فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، یہ پرحکمت دعا ہم میں سے ہر ایک کے لئے بیحد ضروری ہے۔

         اے خداوندِ ارحم الراحمین! یقیناً اے خداوندِ ارحم الراحمین! تو ہی ارحم الراحمین ہے، دوستو! آؤ آؤ ہم سب نیت اور خیال میں یکجا ہو کر بدرگاہِ ارحم الراحمین مناجات کریں، یا ارحم الراحمین ! ہم دل و جان اور عشق و محبت سے ایسی مناجات کرنا چاہتے ہیں جس میں تیری نورانی تائید ہو، ورنہ ہماری مناجات روح العشق سے خالی ہوگی۔

اے رہنمائے مومنان اللہ مولانا علی

اے ستر پوشِ غیب دان اللہ مولانا علی

         یا وَدود! (اے محبوبِ اعظم) (اے محبِ اعظم!) یا ارحم الراحمین ! ہماری

۲۶

مناجات تیرے عشق و محبت کی گریہ وزاری کیساتھ ہو! آمین!!

جمعرات ۲۳ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۲۷

مناجاتِ علمی ۔۱۹

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ سورۂ ھود (۱۱: ۹۰) میں ارشاد ہے: وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ۔

         (حضرتِ شعیبؑ نے اپنی قوم سے کہا) اور تم اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو پھر اس کی طرف رجوع کرو یقیناً میرا پروردگار بہت رحم کرنے والا بہت محبت کرنے والا ہے۔

         وَدود = بہت محبت کرنے والا، بڑا مہربان۔ (قاموس القرآن، ص ۶۳۴)۔ الوَدود = بہت محبت رکھنے والا، محبِ خاص، ’’محبِ اکبر‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں سے ایک اسم، اپنے نیک بندوں سے بیحد محبت رکھنے والا، مشفق یا اپنے اولیاء کے دلوں میں ’’محبوبِ اعظم‘‘۔ (قاموس الوحید، ص ۱۸۲۹)۔ الوَدود = بہت زیادہ محبت کرنے والا، دوستوں کا سب سے بڑا دوست، وہ ذات جو محب بھی ہے اور محبوب بھی، یہ اسکی صفت ہے ذات نہیں۔ (شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ص ۲۰۹)۔

         حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے پاک فرمان کو یاد کریں: خداوندِ کریم کو انسانی روح بہت ہی عزیز ہے۔

         ان ربّی رحیمٌ وَّدودٌ (چند بار) یا ارحمَ الرّاحمین (چند بار)، آپ میں جو فرشتہ ہے وہ کوئی معمولی چیز ہرگز نہیں، آپ میں چارقوتیں ہیں؛ قوتِ جبریلیہ (جبرائیلیہ)، قوتِ میکائیلیہ، قوتِ اسرافیلیہ، قوتِ عزرائیلیہ۔

         اس حقیقت کا قرآنی ثبوت یہ ہے کہ ہر انسان پر عزرائیل مقرر ہے (۳۲: ۱۱)،

۲۸

اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ چار ساتھیوں میں سے ایک حاضر ہو اور تین غیر حاضر، یعنی کچھ دینے والے تو غائب اور قرض لینے والا حاضر ! مگر یہ بات ہرگز نہیں، یہ سوچنے کا اشارہ ہے ایک ساتھ چاروں حاضر ہیں، مگر قانون یہ ہے کہ تم حضرت عزرائیل علیہ السلام کے دروازے سے داخل ہونے کے لئے آگے بڑھو، یعنی ’’موتوا‘‘ کے حکم پر عمل کرو، پھر دیکھو چاروں فرشتے ہیں یا نہیں؟

جمعرات۲۳ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۲۹

مناجاتِ علمی ۔۲۰

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ بحوالۂ کتاب العلاج (دانشگاہِ خانۂ حکمت) صفحۂ ابجد کے صفحہ ل پر تضرع کا عنوان ہے، تضرع کے معنی ہیں گریہ وزاری، گڑگڑانا، رو رو کر اللہ کی خوشنودی اور مدد کے لئے دعا اور مناجات کرنا، اپنی غفلت، نادانی، ناشکری، اور نافرمانی کی معافی کا طالب ہونا، اور نورانی ہدایت کے لئے درخواست وغیرہ، تضرع انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی، اسی صفحہ پر ان آیاتِ کریمہ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جن میں تضرع کا بیان ہے، تاکہ ان آیاتِ شریفہ کی حکمت سے اہلِ دانش کو تضرع کی اہمیت معلوم ہو سکے۔

         ہر عبادت کے مخصوص آداب اور حدود و شرائط ہیں، پس مناجات بدرگاہِ قاضیُ الحاجات قرآن و حدیث کی ہدایات کی روشنی میں ہونی چاہئے، اگر اللہ کی رضا کے خلاف کوئی عمل ہو تو پھر نعوذباللہ خدا کی ناراضگی ہوگی۔

         سورۂ اعراف (۷: ۵۵) میں ارشاد ہے: اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ۔ ترجمہ: (لوگو) اپنے پروردگار سے گڑگڑا کر اور چپکے چپکے دعا کرو (یعنی آہستہ آہستہ اور با ادب عشق سے مناجات کرو) وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا۔

         اے خداوندِ کریم! ہمیں وہ ہمت اور توفیق عطا فرما کہ جس سے ہم صرف تیری رضا کے مطابق مناجات کریں! یا رب! ہمارے دل میں نورِ عشق قرار دے کہ وہ تیری رضا کے مطابق ہماری رہنمائی کرے ! آمین!!

جمعہ ۲۴ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۳۰

مناجاتِ علمی ۔۲۱

منظوم

حاضر امامؑ کی ایک پُرحکمت توصیف

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْم۔

 اے نورِ الٰہی تو ہمیں اپنی لِقا دے

اے خِضرِ زمانؑ! بہرِ خدا آبِ بقا دے

اے آلِ نبیؐ نورِ علیؑ ساقیٔ کوثر

حقّا کہ تو ہے اسمِ خدا اعظم و اکبر

اے وارثِ آدمؑ کہ تو ہے ربّ کا خلیفہ

تو معجزۂ عرش ہے اور سِرِّ سفینہ

درویش کو یہ معجزۂ نور ہوا ہے

 احباب گواہ ہیں کہ یہ مسطور ہوا ہے

آدمؑ سے یہی سِلسلۂ نور چلا ہے

ہے دائم و قائم کہ یہی نورِ خدا ہے

قرآنِ مُجسّم ہے یہی شاہِ زمانہ

خالق نے بنایا ہے اسے اپنا خزانہ

۳۱

اسرارِ الٰہی کا یہی گنجِ نہان ہے

اولادِ علیؑ آلِ نبیؐ سب کو عیان ہے

یہ علمِ لدنی کا معلِّم ہے یگانہ

تُو نور سے خالی نہ سمجھ کوئی زمانہ

اے جانِ جہان شکر کہ حاصل ہے ترا عشق

ہر شخص مسافر ہے کہ منزل ہے ترا عشق

یہ بندہ نصیرؔ تجھ سے شب و روز فدا ہے

مولا ئے زمانؑ جبکہ توہی نورِ خدا ہے

         فرھنگ:

         لقا = دیدار

         بہرِ خدا = اللہ کے واسطے

         آبِ بقا = آبِ حیات

         اسمِ خدا اعظم و اکبر = خدا کا اسمِ اعظم = اسمِ اکبر

         تو معجزۂ عرش ہے اور سِرِّ سفینہ = پانی پر عرش پھر سفینۂ نجات کا معجزہ ہوا تھا، یہ اسی کی طرف اشارہ ہے، پانی پر ظہورِ عرش اور سفینہ کا معجزہ بحوالۂ کتاب کنوز الاسرار، قسط۔۱ اور قسط۔۱۲

         مسطور ہوا = لکھا گیا ہے

         علمِ لدنی = وہ علمِ خاص اور مخفی جو صرف خدا کے پاس ہے

         یگانہ = یکتا = منفرد

 سنیچر ۲۵ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۳۲

مناجاتِ علمی ۔ ۲۲

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ سورۂ مؤمن (۴۰: ۶۰) کا مبارک ارشاد ہے: وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ۔

         ترجمہ: تمہارا پروردگار ارشاد فرماتا ہے کہ تم مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔

         اے پروردگارِ مہربان ! اے خداوندِ کریم! اے ارحم الراحمین! ہم تیرے عاجز اور بہت محتاج بندے تیرے اس فرمانِ عالی کے مطابق دعا کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمارے لئے ایسی دعا بہت ہی مشکل ہے جو تجھ کو پسند ہو سکے، یا الٰہی ! یا الٰہی ! تو خود اپنی عنایتِ بی نہایت سے ہمارے دل و دماغ اور زبان پر نورِ ہدایت کی روشنی ڈال، یا اللہ، اس پاک و پرحکمت ارشاد میں دعا کے لئے تیرا مقدس امر بھی ہے اور قبولیت کے لئے تیرا وعدۂ حق بھی۔

         یا اللہ ! ہم اپنی ہر دعا کے بچگانہ الفاظ سے بیحد شرمندہ ہیں، یا خداوند! ہم اپنی تقصیرات سے بھی اور اپنی طفلانہ مناجات سے بھی ازبس شرمسار اور خجل ہیں، یا رب العزت! یا وَدود الوَدود! یا خداوندِ کریم! اے کاش! اے کاش! ہماری مناجات میں ظاہری اور لفظی خوبیاں نہ سہی لیکن اس میں سوز ہوتی، گریہ وزاری ہوتی، خوفِ خدا ہوتا، اور عشقِ محمدؐ و آلِ محمدؐ ہوتا، یا اللہ! ہم ہر لحاظ سے مفلس اور تہی دست ہیں، یا اللہ! ہم پر رحم فرما! یا مُسَبِّبَ الاسباب ( چند بار)۔

پیر ۲۷ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۳۳

مناجاتِ علمی ۔۲۳

منظوم

ظہورات و تجلیاتِ علیؑ

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْم

میں نے ہاں صِین میں علیؑ دیکھا     شکرِ حق چین میں علیؑ دیکھا

اس کا ہمسر نہیں ہے دنیا میں       نورِ یکتا ہے دین میں علیؑ دیکھا

نہ فقط ظاہراً علیؑ دیکھا              بلکہ حقّ الیقین میں علیؑ دیکھا

تو غریقِ بحرِ قرآن ہو کے دیکھ     حکمتِ برترین میں علیؑ دیکھا

عرش اِک نور ہے کہ ہے وہ مَلک     سِرِّ عرش برین میں علیؑ دیکھا

سین کو سر جھکا جھکا کے سلام!     میں نے اس سین میں علیؑ دیکھا

۳۴

سین ہی ہے ہمارے دل کا سراج     میں نے پھر سین میں علیؑ دیکھا

شین کا شکریہ کروں گا سدا     میں نے حقّا کہ شین میں علیؑ دیکھا

کون ہے نورِ جَبہۂ عارف     عارفوں نے جبین میں علیؑ دیکھا

وہ شہنشاہ ہے دونوں عالم میں      میں نے ہاں صِین میں علیؑ دیکھا

رازِ نورِ مبین میں علیؑ دیکھا     رمزِحبلُ المتین میں علیؑ دیکھا

عرش پانی پہ اس پہ مولا تھا     ایسے خوابِ حسین میں علیؑ دیکھا

اے نصیرؔ ضعیف سب کو بتا     ’’میں نے ہاں چین میں علیؑ دیکھا‘‘

         فرھنگ:

         صین = چین  ہمسر =  ہمرتبہ       سین = سلطان محمد شاہؑ

         سین = پرنس علی سلمان خانؑ نامدار

۳۵

         شین =  شاہ کریم الحسینی حاضر امام

         جبہہ =  جبین = پیشانی

         سراج =  چراغ

منگل ۲۸ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۳۶

مناجاتِ علمی ۔۲۴

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ بحوالۂ کتاب سلسلۂ نورٌ علیٰ نورٍ ، قسط ۔ ۱۴ اور کتاب کوکبِ درّی، بابِ دوم، منقبت ۹۸ میں یہ حدیثِ شریف مرقوم ہے: ۔

         ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے علی بن ابی طالب علیہ السلام کے چہرۂ مبارک کے نور سے ستر ہزار فرشتے پیدا کئے ہیں۔

         تاویلی حکمت: اس کا اشارہ اور قانونِ تجدد یہ ہے کہ جب امامِ زمان خلیفۃُاللہ علیہ السلام کسی سالک کے عالمِ شخصی میں روحانی قیامت قائم کرتا ہے تو اسرافیلی اور عزرائیلی معجزات کے سنگم میں ستر ہزار ایمانی روحوں کو فرشتے بناتا ہے، کیونکہ کامل ایمانی روحوں ہی سے فرشتے بنتے ہیں، ایسا ہر فرشتہ ایک عالمِ شخصی، ایک کائناتی بہشت اور اس میں وہ خلافتیں جن کا وعدۂ الٰہی قرآنِ پاک میں ہے: ۲۴: ۵۵، ۶: ۱۶۵، ۴۳: ۶۰، قرآنِ حکیم کے ان حوالوں میں علم و معرفت کے ساتھ دیکھنا ضروری ہے۔

         اللہ تعالیٰ نے تمام الٰہی اور سماوی چیزوں کو امامِ مبینؑ میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲) ۔ سورۂ محمدؐ (۴۷: ۶) میں حظیرۂ قدس کی جنت کی معرفت کا ذکر ہے، اور حظیرۂ قدس دراصل امامِ مبینؑ کے پاک نور کی فعالیت کا مقام ہے، جس کا مشاہدہ کاملین و عارفین چشمِ باطن = چشمِ بصیرت سے کرتے ہیں۔

         آپ مناجاتِ علمی ۔ ۱۲ کو ایک بار پڑھیں، اس میں جو حدیثِ شریف ہے اس کے مطابق جو تعریف مولا علیؑ کی ہے، وہی تعریف امامِ زمانؑ کی ہے، پس یقیناً امامِ زمانؑ خلیفۃ اللہ اور خلیفۂ رسولؐ ہے، اور قرآن کا خلیفہ اور باب (دروازہ) اور حجاب ہے۔

بدھ ۲۹ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۳۷

مناجاتِ علمی ۔۲۵

منظوم

یہ خواب ہے یا بیداری ؟     جواب: خواب نہ تھا مدہوشی تھی

میں نے کل ظاہراً علیؑ دیکھا

اُس خفی نور کو جلی دیکھا

وہ امامِ مبینِ آلِ رسولؐ

قبلۂ عاشقانِ اہلِ قبول

سرجھکا کر غریب نے سلام کیا

آنسوؤں کی زبان سے کلام کیا

اے سر تو سجدہ کر کہ ترا فرض سجدہ ہے

انکارِ سجدہ جس نے کیا وہ تو راندہ ہے

اے آنکھ کہاں ہیں ترے اشکوں کے وہ گوہر

اب شاہ کے قدموں سے کرو انکو نچھاور

۳۸

اے نارِ عشق تجھ کو سلام ہو ہزار بار

تیرے کرم سے عاشقِ بیدِل کو مل گیا قرار

ہم مردہ تھے کہ اُس نے ہمیں زندہ کردیا

چہرے اداس تھے کہ تابندہ کر دیا

نورِ رحمت کی سخت بارش تھی

ہر طرح کی بڑی نوازش تھی

ہم کو یہ اِک نئی حیات ملی

علم و حکمت کی کائنات ملی

دستِ پُرنور میں کمالِ معجزہ ہے

خاک کو چھو کے زر بناتا ہے سنگ کو وہ گہر بناتا ہے

نورِ عشقِ مرتضاؑ ! ہر لحظہ ہو تجھ پر سلام

بندگانِ ناتمام تجھ ہی سے ہوتے ہیں تمام

میں ہوں نصیرِؔ خا لی وہ ہے نصیرِ معنی

 میں ہوں غلام و ناکس وہ ہے امامِ اقدسؑ

نصیر معنی = حقیقی مددگار

مرکزِ علم و حکمت، لندن

جمعرات ۲۱ ؍ جون ۲۰۰۱ء

ایڈیٹنگ کی تاریخ: بدھ ۲۹ اکتوبر  ۲۰۰۳ء

۳۹

مناجاتِ علمی ۔۲۶

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ بحوالۂ کتاب دیوانِ نصیری اور بہشتے اسقرک، ص ۱۳۷، نورانیت کے راز: ۔

         (امامِ زمانؑ کے) نور میں (جبکہ وہ برائے ظہورِ روحانی قیامت عارف کے عالمِ شخصی پر طلوع ہو جاتا ہے) معجزات ہی معجزات ہیں، اسی نورِ مقدس میں خدائے رحمان کے اسرارِ معرفت بھرئے ہوئے ہیں، مجھے قرآنِ حکیم سے جو ’’علم التاویل ‘‘ کے اسرار حاصل ہوئے ہیں وہ حاملِ نور = امامِ زمانؑ کی عنایات ہیں، دینِ خدا کی نورانیت کے امامِ حقؑ مُلکِ عظیم= بہت بڑی سلطنت کا بادشاہ ہے (۴: ۵۴) اور اس کی یہی بہت بڑی سلطنت بہشت میں بھی ہے (۷۶: ۲۰)، اس شاہنشاہ کے محل میں جو بھید اور اسرار ہیں وہ صرف عارفوں ہی کو معلوم ہیں، گلی اور کوچے میں اگر کوئی گدا ہے تو اس کو بادشاہ کے محل میں ہونے والی باتوں کی کوئی خبر ہوتی نہیں ہے۔

         دنیا میں مادی سائنس کی اتنی ترقی ہوئی ہے کہ لوگ پرواز کر کے چاند پر پہنچ گئے، لیکن وہ میرے دل کے جانان = امامِ زمانؑ کے معجزات سے ناواقف ہیں، ان کو خبر ہی نہیں کہ امامِ مبینؑ میں تمام الٰہی اور سماوی چیزیں جمع اور موجود ہیں ( ۳۶: ۱۲)۔

         امامؑ کے عشق کے ذریعے سے فنافی الامامؑ ہو جانا ہی فنا فی اللہ ہے، اس کے بعد جو جو معجزات ہوتے ہیں، ان کا ذکر کسی اور سے نہیں کرنا ہے، جنات حضرتِ سلیمانؑ کے اسرار سے بے خبر تھے، اپنے دل میں مرتبۂ علیؑ سے متعلق خاص خاص بھیدوں کا ایک خزانہ جمع کرلو۔

جمعرات ۳۰ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۴۰

مناجاتِ علمی ۔۲۷

منظوم

مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْم۔

الٰہی شکرِ نعمت کے لئے اب چشمِ گریاں دے

’’فنائے عشق ہوجاؤں‘‘ یہی ہر لحظہ ارمان دے

اِطاعت آنسوؤں سے ہو عبادت آنسوؤں سے ہو

    محبّت آنسوؤں سے ہو مجھے اک ایسا ایمان دے

مجھے یہ گریہ وزاری ہمیشہ تازہ رکھتی تھی

    خدایا میری عِلّت کی یہی ہے کُہنہ درمان دے

مناجاتوں میں سب احباب اکثر گِڑگِڑاتے ہیں

تو اپنے فضل سے ان کو الٰہی گنجِ قرآن دے

بھلی لگتی ہے بیحد آنسوؤں کی گوھر افشانی

خداوندا کرم کرہم کو چشمِ گوہر افشان دے

ترے قرآنِ اقدس میں جواہر ہی جواہر ہیں

اِسی دریائے رحمت سے خدایا دُرّو مرجان دے

۴۱

حبیبِ کبریا ہے وہ کہ تا جِ انبیاء ہے وہ

محمد مُصطفٰیؐ ہے وہ اسی کا ہم کو فرقان دے

علیؑ قرآنِ ناطق ہے علیؑ ہی بابِ حکمت ہے

اسی کی رہنمائی سے دلوں کو نورِ عرفان دے

امام و حُجّتِ قائمؑ کہ سلطان بھی ہے جانان بھی

نصیر الدّین کو یا ربّ ہمیشہ وصلِ جانان دے

(بحوالۂ کتاب صنادیقِ جواہر، ص ۷، دانشگاہِ خانۂ حکمت)۔

۷؍ جون ۱۹۹۹ء

         شکرگزاری کے سخت امتحانی اور دشوار ترین مراحل ہمارے سامنے ہیں، اے دوستان عزیز! اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے وہ اگر چاہے تو اپنے بندوں پر نعمتوں کی بارش برسا سکتا ہے، اس کے لئے ایسا کوئی کام ہرگز مشکل نہیں ہے، مشکل ہم ایسے عاجز بندوں کے لئے ہے کہ کما کان حقہ شکر نہیں کر سکتے ہیں۔

         اے برادارن و خواہرانِ روحانی! کیا ہم سب کے سب ایک ہی روح نہیں ہیں؟ خدا کے واسطے میری کوئی تعریف نہ کیا کرو، یہ صرف علیٔ زمانؑ کا معجزہ ہے جو آپ کی عبادت، قربانی، اعتکاف، گریہ وزاری، اور آنسوؤں کے ساتھ کئے ہوئے سجدوں کی وجہ سے ہے، کیا شکرگزاری کے اس سخت امتحان میں مجھے اکیلا چھوڑنا ہے؟ کیا آپ میری کاپیاں نہیں ہے؟ کیا میں آپ کو حبِ علی، درِ علوی، اور درِ فاطمہ کی طرح عزیز نہیں رکھتا ہوں؟ کیا میں نے آپ کے آنسوؤں کی قدر نہیں کی؟ کیا میں عالمِ انسانیت سے تو قربان ہوگیا اور اپنی جان کے عزیزوں کو چھوڑ دیا؟ ایسا نہیں، ہرگز ایسا نہیں، میرا روحانی فائدہ تو بار بار آپ سے قربان ہوجانے میں ہے۔

۴۲

         الغرض ایک بار پھر حسبِ توفیق اعتکاف رکھیں، نیت یہ ہو کہ مولا نے ہمارے ادارے پر طوفانی علم کی بارش برسائی ہے، اس کی شکرگزاری حسبِ استطاعت ضروری ہے، اور غریب و ضیعف استاد کی صحت کے لئے بھی دعا کی ضرورت ہے۔

جمعہ ۳۱ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء

۴۳

مناجاتِ علمی ۔۲۸

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اللّٰھمَّ بحقِ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام (چند بار)، اللّٰھمَّ بحقِ آنکہ تیرا پاک نور اور زندہ اسمِ اعظم = علیؑ باطناً ہر پیغمبر کے ساتھ تھا اور آنحضرتؐ کے لئے ظاہر ہوا، جیسا کہ مولا نے خود فرمایا: انا فی العالم قدیم = میں عالم میں قدیم = ہمیشہ ہوں،  اللّٰھمَّ بحقِ کل انبیاء علیہم السلام کے حدودِ دین، اللّٰھمَّ بحقِ جملہ کتبِ سماوی، وبحقِ جملہ الہاماتِ الٰہی، و بحقِ جملہ پیغاماتِ پیغمبران، و بحق عبادات و مناجاتِ انبیاء و اولیاء علیہم السلام، اللّٰھمَّ بحقِ قرآنی دعائیں، قرآن کے باب (دروازہ) اور حجاب کی اجازت سے، یعنی حضرتِ شاہِ ولایت کے عشق و محبت کی شرط کے ساتھ ہر دعا معجزۂ الٰہ بھی ہے، دوا بھی ہے، شفا بھی ہے، مشکل کشا بھی ہے، حاجت روا بھی ہے۔

         یا اللہ! حضرتِ آدمؑ سے حضرتِ خاتمؐ تک جو چالیس حدودِ دین ہوئے ہیں ان کی حرمت سے، یعنی ناطقِ اول آدمؑ، وصی مولانا شیثؑ، اور دورِ آدمؑ کے چھ امام کل آٹھ، اسی طرح تا ناطقِ پنجم کل چالیس حدود ہوتے ہیں، اور حضرتِ خدیجۃ الکبریٰ حجۃ الوقت خاتم الاربعین تھیں (بحوالۂ کتابِ مستطابِ سرائر، ص ۸۳ اور ۲۱۷)، حضرتِ خدیجہ سلام اللہ علیہا کا دینی، روحانی، اور علمی مرتبہ حجۃ الوقت تھا، یہ اسرار ’’سرائر‘‘ میں ہیں۔

         سورۂ احقاف (۴۶: ۱۵) کا ارشاد آنحضرتؐ کی شان میں وارد ہوا ہے، جب حضورِ اکرمؐ کی عمرِ شریف کے چالیس سال مکمل ہو گئے تب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو تاجِ نبوت سے سرفراز کیا، اس کی تاویل سرائر میں یہ ہے کہ آدمؑ سے آپؑ تک چالیس حدود مکمل ہوئے تھے، جن کا اوپر ذکر ہوا۔

اتوار ۲ ؍ نومبر ۲۰۰۳ء

۴۴

مناجاتِ علمی ۔۲۹

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ میرے روحانی عزیزان! میں آپ سب سے بار بار فدا ہو جاؤں، مجھے آپ کی علمی خدمات اور علم میں پیشرفت سے بیحد شادمانی ہے، مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ نورِ الٰہی = امامِ مبین صلوات اللہ علیہ کی نورانی تائید سے آپ کے علم و حکمت میں اور بھی زیادہ ترقی ہوگی، آمین!

         بعض علمی چیزیں اساسی اور ضروری ہوا کرتی ہیں، ان کو زیادہ توجہ سے پڑھنا ہے، تاکہ یہی چیزیں علم و حکمت میں آپ کی مدد کرسکیں، مثال کے طور پر مناجاتِ علمی۔ ۱۲ میں حدیثِ شریف کا جو ترجمہ ہے وہ ازحد ضروری ہے، یعنی مولا علی علیہ السلام خلیفۃ اللہ ہے، اور جو کتاب نازل ہوئی ہے یعنی قرآن، اس کا بھی خلیفہ ہے، اور علیؑ ہی اس کا باب (دروازہ) اور حجاب ہے کہ اس دروازہ اور حجاب سے ہٹ کر کوئی شخص قرآن کے باطن اور اسرارِ حکمت تک رسا نہیں ہوسکتا ہے، اور رسولؐ نے یہ بھی فرمایا کہ علیؑ میرے بعد قائم القیامت ہے، اور میرا جانشین ہے۔ پس مولا علیؑ تین معنوں میں خلیفہ ہیں: آپ خلیفۃ اللہ ہیں، خلیفۂ قرآن اور باب و حجابِ قرآن ہیں، اور خلیفۂ رسولؐ ہیں۔

         ہمارے عزیزان ان حکمتوں کو یاد رکھیں، کیونکہ انہی حکمتوں پر دین کی بنیاد قائم ہے۔ کتاب میں سے دعائے نور پڑھیں یا بطورِ مناجات الحمد پڑھیں۔

اتوار ۲؍ نومبر ۲۰۰۳ء

۴۵

مناجاتِ علمی ۔۳۰

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ درودِ شریف کی فضیلت: ۔

         سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) کا بابرکت ارشاد ہے: هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلاَئِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا۔

         ترجمہ: وہ ( اللہ تعالیٰ) وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف لے آئیں اور وہ مومنین پر بہت رحم کرنے والا ہے۔

         بحوالۂ تفسیر المتقین (ترجمۂ قرآن) حاشیہ، ص ۵۴۹، امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص محمدؐ اور آلِ محمدؐ پر دس دفعہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر سو مرتبہ درود بھیجتے ہیں، اور جو شخص محمدؐ اور آلِ محمدؐ پر سو مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر ہزار مرتبہ درود بھیجتے ہیں۔ اسی کا خدا تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے۔

منگل ؍۴ نومبر ۲۰۰۳ء

۴۶

مناجاتِ علمی ۔۳۱

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ سورۂ مریم (۱۹: ۵۸) میں بابرکت ارشاد ہے:  إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا۔

         ترجمہ: یہ انبیاء (علیہم السلام) وہ تھے کہ جب ان کے سامنے خدا کی نازل کی ہوئی آیات پڑھی جاتی تھیں تو وہ سجدہ میں زار و قطار روتے ہوئے گر پڑتے تھے۔

         خداوندِ کریم کے پاک و پاکیزہ عشق و محبت کے زیر اثر زار و قطار روتے ہوئے سجدے میں گر پڑنا انبیاء و اولیاء علیہم السلام کی پاک سنت ہے، سورۂ بنی اسرائیل ( ۱۷: ۱۰۷ تا ۱۰۹) میں بھی دیکھیں، انبیاء و اولیاء علیہم السلام کی گریہ وازری علم و معرفت کے ساتھ ہوا کرتی تھی، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔

         کتابُ العلاج، علمی علاج، ص ۱۸۹ پر ایک دائرہ ہے اس کو دیکھ کر آپ یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب ایک حقیقی مومن گریہ وزاری کر رہا ہوتا ہے تو اس حال میں اس کا نیک بخت دل کن معنوں کا حامل ہو سکتا ہے؟ ایک اندازے کے مطابق تقریباً سولہ یا بیس حکمتیں ہیں، تاہم اگر مومن علم اور امام شناسی میں ترقی پر ہے تو اس کے دل میں زیادہ حکمتوں کی کرنیں ہوسکتی ہیں۔

         قرآنِ حکیم کی ہر مثال میں بہت سی حکمتیں ہیں: إِنَّ أَنكَرَ الأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ (۳۱: ۱۹) ۔ ترجمہ: آوازوں میں سب سے بری آواز گدھوں کی ہے۔

منگل ؍۴ نو مبر ۲۰۰۳ء

۴۷

مناجاتِ علمی ۔۳۲

منظوم

عارفانہ کلام مولائے زمانؑ کی شانِ اقدس میں

                 بِسْمِ اللّٰہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْم۔

وہ اسمِ خدا ہے تو وہی ذکرِ خدا ہے

عارِف نے یہی مکتبِ باطن میں پڑھا ہے

 وہ سلسلۂ نورِ ہدایت ہے ازل سے

وہ پاک و مُنَزّہ ہے سدا عیب و خَلل سے

معراجِ فلک عرشِ الٰہ کرسیٔ اعظم

مسجودِ ملک مظہرِ حق قبلۂ آدمؑ

صد شکر کہ مولائے زمانؑ آلِ نبیؐ ہے

اولادِ علیؑ واحد و یکتا ولی ہے

 اللہ کا ہے نورِ عیان چشمۂ اسرار

عشّاق کے دل میں ہے سدا مطلعِ انوار

 وہ دینِ خدا ، کاشفِ اسرارِ قیامت

ہے مَصحفِ ناطق کہ سنیں اہلِ سعادت

۴۸

 اے اسمِ خدا آنکہ تو ہے اعظم و اعلٰی

 حقّا کہ تو ہے نورِ علیؑ از ہمہ بالا

 اے وارثِ سلطانِ محمّد شہِ اکرمؑ

 اے اِبن علیشاہؑ شہنشاہِ دُو عالم

 اے نورِ خلافت کہ تو ہے نورِ امامت

آدمؑ سے چلی آگئی ہے تیری وراثت

 خداوندا نصیرؔ اُنے ہِک ژم ہُکن بای

جماعَتے غُم اُحوک لُم تِکے پُھکن بای

         فرھنگ:

۱۔ جب امامِ زمانؑ اللہ کا اسمِ اعظم ہے تو پھر وہی اللہ کا ذکرِ اعظم بھی ہے

۲۔ منزہ =  پاک، مقدس

۳۔ معراجِ فلک =  آسمان کی سیڑھی

۴۔ واحد و یکتا ولی = یعنی دنیا میں صرف ایک ہی ولی ہے جو امامِ زمانؑ ہے۔

۵۔ عشاق =  عاشقان

۶۔ مطلعِ انوار =  مشرقِ انوار، آسمانِ انوار

۷۔ کاشفِ اسرارِ قیامت = قیامت کے بھیدوں کے کھولنے والا

۸۔ مصحفِ ناطق =  قرآنِ ناطق

۹۔ امامِ زمانؑ میں ایک ہی نور ہے جو نورِ خلافت اور نورِ امامت کا سنگم ہے، اور آدمؑ میں بھی ایسا تھا۔

۴۹

         کتابِ سلسلۂ نورٌ علیٰ نورٍ ، ص ۷۵۔ ۷۶ پر دیکھیں، جب آدم خلیفۃ اللہ کے ایک ہی نور میں خلافت بھی تھی اور امامت بھی، تو پھر حاضر امامؑ جو وارثِ آدمؑ ہے اس میں امامت اور خلافت کیوں نہ ہو۔

 جمعۃ المبارک ۷؍ نومبر ۲۰۰۳ء

۵۰

مناجاتِ علمی ۔۳۳

منظوم

مستِ الست

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

کثرتِ ذکرِ خدا سے قلب کو پُرنور کر

علم و حکمت کی ضیا سے روح کو مسرور کر

عالمِ شخصی کو اپنا دن بدن آباد کر

نفس کے چنگل سے خود کو اے جری آزاد کر

خدمتِ خلقِ خدا! صحرائے اعظم درمیان

سر کے بل چلنا ہے تجھ کو اے قلم اے پہلوان!

گل فشانی ہو بطرزِ باغِ فردوسِ برین

تاکہ جس سے شادمان ہوں سب کے سب اہلِ زمین

روح کی پہچان میں جنت بھی ہے دیدار بھی

تاج و تختِ سلطنت بھی علم کا دربار بھی

ہے شہنشاہِ دو عالم ’’نور‘‘ مولانا کریم

تو فنا ہو کر اسی میں دیکھ اسرارِ عظیم

۵۱

میرے مولا نے مجھے لوگوں سے قربان کر دیا

اس ’’خلیلی‘‘ کام سے دنیا کو حیران کر دیا

میں نے نیت کی عیا ل اللہ کی خدمت کروں

  گر رضائے حق ہے اس میں پھر یہی طاعت کروں

چشمِ ظاہر میں نصیرُ الدّین ہے شخصِ حقیر

باطِناً مستِ ازل بھیدوں سے پُر ہے یہ فقیر

نصیرے عشقے کتاب عالمرفریش میمئی

    سروشے غیبے جہان ذم خبر سُوای لہ سَبُور

(از دیوانِ نصیری)

 جمعۃ المبارک ۲۹ ؍ ستمبر ۲۰۰۳ء

۵۲

مناجاتِ علمی ۔۳۴

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ استغفار اور توبہ کا حکم دیکھ کر دل خون کے آنسو رونا چاہتا ہے، لیکن وہ بھی آسان نہیں، یہ بیماریاں کیا ہیں؟ سزائیں ہیں، ایک چھوٹی سی خدمت کرکے بہت بڑا فخر کرتے ہیں، غفلت، ناشکری، گریہ وزاری کی کمی، شب خیزی کی کمی، اور بہت ساری تقصیرات، جہاں جہاں لشکرِ اسرافیلی کے ساتھ گریہ وزاری ہوتی تھی، جب جب مولا کے عاشقوں کےساتھ آسمانی عشق کے آنسو آتے تھے، وہ مجالس بہت یاد آتی ہیں۔

         اے عزیزان! آؤ آؤ قرآنِ حکیم کی طرف آؤ! بھول نہ جانا: استغفار اور توبہ قولاً بھی ہے اور فعلاً بھی، خلیفۃُ اللہ = علیٔ زمانؑ الوَدود ہے، یعنی محبِ اعظم اور محبوبِ اعظم، اس کی پاک محبت سے فائدہ حاصل کرنے کی شرط استغفار اور توبہ ہے، یعنی گریہ وزاری (۱۱: ۹۰)۔

         سورۃ المؤمن (۴۰: ۳) کا غالب پرحکمت ارشاد ہے: غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ

         ترجمہ: گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا سخت عذاب دینے والا صاحبِ فضل و کرم ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا۔

         ہمارے قدیم بزرگ اس آیۂ کریمہ کو اپنی عبادت میں پڑھا کرتےتھے، یہاں ہم سب کو سوچنے کا مقام ہے، اور بہت سوچنا ہے، بلکہ بار بار سوچنا ہے۔

         استغفر اللہ (چالیس بار) یا خداوندِ کریم! یا ارحم الراحمین! ہم ناچار، بیمار،

۵۳

ضعیف و زار، اور شرمسار بندوں کو اپنے پاک عشق و محبت کی پرحکمت گریہ و زاری عطا فرما، تاکہ اسی میں تمام اچھے اور اعلیٰ معانی آجائیں، آمین!

سنیچر ۱۵ ؍ نومبر ۲۰۰۳ء

۵۴

مناجاتِ علمی ۔۳۵

منظوم

توصیفِ لطیفِ مولانا حاضر امامؑ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْم۔

مظہرِ نورِ خدا مولا کریم

جانشینِ مصطفٰی مولا کریم

معدنِ جُود و سخا کانِ کرم

چشمۂ آبِ بقا مولا کریم

وہ چراغِ کائناتِ عقل و جان

وہ ستون، زیرِ سماء مولا کریم

وہ ظہورِ نورِ شاہِ اولیاء

یعنی خود ہے مُرتضٰی مولا کریم

وہ خلیفہ ہے خدائے پاک کا

حیّ و حاضر ہے سدا مولا کریم

عالمِ شخصی میں جا کر دیکھ لے

کنزِ اسرارِ خدا مولا کریم

۵۵

وہ امامِ عصرِ حاضرہے بحق

بادشاہِ دو سَرا مولا کریم

تو کتابُ اللہِ ناطق ہے ہمیں

تجھ سے حکمت ہے عطا مولا کریم

عاشقان تھے منتظر دیدار کے

مرحبا صد مرحبا مولا کریم

جان فدا کر اپنے آقا سے نصیرؔ!

جان و دل تجھ سے فدا مولا کریم

         فرھنگ:

         معدن = کان

         زیرِ سماء = آسمان کے نیچے

         دو سرا = دونوں جہان

سنیچر ۱۵ ؍ نومبر ۲۰۰۳ء

۵۶

مناجاتِ علمی ۔۳۶

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ سورۂ ابراہیم (۱۴: ۴۸) کا حکمت سے لبریز ارشاد ہے: يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ۔

         ترجمہ: جس دن یہ زمین بدل کر دوسری زمین کر دی جائے گی اور (اسی طرح) آسمان (بھی بدل دئے جائیں گے) اور سب لوگ یکتا قھار خدا کے روبرو ( اپنی اپنی جگہ سے) نکل کھڑے ہوں گے۔

         زمین کس طرح تبدیل ہوگی؟ اس کے جواب میں بہت اختلاف ہے، اختلاف کا حوالہ: حاشیۂ ترجمۂ قرآن، سید فرمان علی، ص ۴۱۶۔

         یہ بندۂ کمترین از بندگان، یعنی امامِ زمانؑ کے غلاموں میں سے کمترین غلام، عرض کرتا ہے کہ جب خلیفۃ اللہ = امام زمانؑ روحانی قیامت برپا کرتا ہے تو اس وقت یہ زمین نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس کی جگہ عالمِ شخصی کی زمین ہوتی ہے، اور سب لوگ وہاں خدائے واحد قھار اور تاویلاً امامِ زمانؑ کے روبرو ہوتے ہیں، جبکہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ یقیناً خلیفۃ اللہ ہے، پس قرآن میں ۹۸۰ ( نو سو اسی ) مرتبہ لفظ اللہ آیا ہے، اور اس میں ہر بار تاویلاً خلیفۃ اللہ یعنی امامِ زمانؑ کا ذکر جمیل ہے۔

         واحد بروزنِ فاعل، وہ ہے جوفی ذاتہٖ ایک ہے اور سب کو ایک کرنے والا ہے، قھار کے معنی ہیں سب پر غلبہ پانے والا، بڑا زبردست (قاموس القرآن، ص ۴۳۰)۔ امامِ زمانؑ جب جب اور جہاں جہاں روحانی قیامت کی غالبیت اور زبردستی سے کام لیتا ہے تو اس تجلی میں وہ پاک الواحد القھار کہلاتا ہے، قرآنِ حکیم میں چھ مقام پر اس تجلی کا ذکر ہے۔

اتوار ۱۶ ؍ نومبر ۲۰۰۳ء

۵۷

مناجاتِ علمی ۔۳۷

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ حضرتِ مولانا مرتضیٰ علی صلوات اللہ علیہ کے پاک و پرحکمت ارشادات میں یہ ارشاد بھی ہے: اسمی فی القرآنِ حکیماً۔ ترجمہ: میرا نام قرآن میں حکیم ہے۔ بحوالۂ کتابِ سرائر، ص ۱۱۷۔

         قرآنِ پاک میں کل ۸۱ مقامات پر لفظِ حکیم آیا ہے جو اللہ تعالیٰ کا اسمِ صفت ہے اور قرآنِ پاک کا اسم بھی ہے،ہاں یقیناً درست ہے اور بقولِ رسولؐ یہ بھی حقیقت ہے کہ مولا علی خلیفۃ اللہ اور خلیفۂ قرآن ہے، لہٰذا اللہ کے اور قرآن کے ہر اسم کا حقیقی نمائندہ علیؑ ہی ہے، یعنی علیٔ زمانؑ، پس امامِ زمانؑ کے ہر عاشق پر لازم اور واجب ہے کہ وہ آئینۂ حکمتِ قرآن میں تجلیاتِ نورِ امامت کو دیکھنے کیلئے کوشش کرے، ان شاء اللہ بتدریج کامیابی ہوگی، ’’جویندہ یابندہ‘‘، آپ ایک بار پھر اس حدیثِ شریف کو یاد کریں جس کا ترجمہ مناجاتِ علمی۔ ۱۲ میں ہے۔

         ہمیں یہاں آپ کو یہ بھی یاد دلانا ہے کہ حضرتِ سید المرسلینؐ کے مبارک اسماء میں سے ایک اسم ’’ حکیم‘‘ہے، قرآنِ پاک میں حضورؐ کا یہ بابرکت نام بصورتِ حکمت موجود ہے، دعائے ابراہیمؑ (۲: ۱۲۹) میں ہے: تاکہ رسولؐ ان کو کتاب اور حکمت سکھائے۔ پس ظاہر ہے کہ خدا جس کو حکمت سکھانے کے لئے مقرر کرتا ہے اس کو پہلے حکیم بناتا ہے۔

         حق سبحانہٗ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ  (۶۸: ۴) = اور بیشک تمہارے اخلاق بڑے اعلیٰ درجہ کے ہیں۔

پیر ۱۷ ؍ نومبر ۲۰۰۳ء

۵۸

مناجاتِ علمی ۔۳۸

منظوم

استمداد = مدد چاہنا = امداد طلب کرنا

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْم

المدد یا شاہِ مردان المدد!

المدد اے سرِ یزدان المدد!

 مظہرِحق بادشاہِ ملکِ دین

اے کلیدِ گنجِ قرآن المدد !

تو امامِ حیّ و حاضر ہے بحق

    نورِ سلطان نورِ سلمان المدد !

علم پانی اور تو ہی عرش ہے

اے سفینۂ نورِ رحمان المدد!

یاعلیُّ الْوقتِ مولانا کریم

اَلْمَدَدْ یا شاہِ دوران المدد!

اے شہنشاہِ دُو عالم تاجدارِ نورِ حق

گنج بخشِ اسمِ اعظم جان و جانان المدد !

۵۹

اسمِ اکبر ہے خدا کا تو امامُ المتقین

اے تو قرآنِ مُجسّم شاہِ شاہان المدد !

تیرے در پر سر رکھا ہے یہ نصیرِؔ بیقرار

عذر خواہان ہو گیا ہے اور گریان المدد!

         فرھنگ:

         المدد = مدد کر، سہارا دے، آسرا دے

منگل ۱۸ ؍ نومبر ۲۰۰۳ء

۶۰

مناجاتِ علمی ۔۳۸

کی ایک تجلی

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْم۔

۱۔ شاہِ مردان (فارسی) حضرتِ علیؑ کا لقب (فیروزاللغات، ص ۸۳۵) جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے:

         ؎      شاہ مردان سرِ یزدان قوتِ پروردگار

                 لافتیٰ الا علی لا سیف الا ذوالفقار

         سرِ یزدان کا مطلب ہے: اللہ تعالیٰ کے اسرارِ باطن کا خزانہ یعنی خدا کے عظیم بھیدوں کا خزانہ، جب خدا نے تجھ کو اپنا خلیفہ اور نمائندہ بنا کر سب کچھ دیا ہے، تو تو ہی ہماری مدد کر!

۲۔ مظہرِ حق یعنی تو خدا کی صفات کی ظہور گاہ ہے، دینی مُلک جو سب سے عظیم مُلک ہے، تو ہی اس کا بادشاہِ اور سلطان ہے، اے تو خزانۂ قرآن کی زندہ کلید! ہماری مدد کر!

۳۔ اس دنیا میں صرف تو ہی حی و حاضر امام ہے، تجھ میں وہی بہت پاک نور الاعظم ہے، جو آپکے دادا جان اور پھر آپ کے والدِ بزرگوار میں تھا، جیسا کہ شعر ہے: ۔

         ؎      پدر نور است پسر نور است مشہور

                 ازینجا فھم کن نورٌ علیٰ نور

۶۱

         یا امامِ برحقؑ ہماری مدد کر!

۴۔ میں نے تیرا اولین معجزہ یہ دیکھا کہ بحرِ علم پر عرش اور نورِ رحمان کا سفینہ تو ہی ہے، یا مولا ! ہماری مدد کر!

۵۔ جو بات جس طرح کہنے کا حق رکھتی ہے اس کو اسی طرح کہنا ضروری ہے، مولائے پاک نے اس غلامِ کمترین سے فرمایا تھا: ہم تمہارے ساتھ کام کریں گے تم ہمارے ساتھ کام کرو۔ اس وقت مولا کے دو عظیم عاشق موجود تھے، اب میں یہ اقرار و اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میری نظم و نثر میں جہاں جہاں خوبیاں ہیں، وہ میرے پاک مولا کی نورانی تائید سے ہیں، جہاں جہاں خامیاں اور غلطیاں ہیں وہ سب اس بندۂ خام و ناتمام کی ناشکری اور نااہلی کی وجہ سے ہیں۔

۶۔ جواہرات بے جان اور بے عقل جمادات کا نام ہے، پس دنیا کے بادشاہوں نے ایسے پتھروں کا تاج سر پر رکھا تو کیا ہوا؟ اے صاحبانِ عقل ! میرے مولا اور شاہنشاہ کے پاک سر پر اللہ تعالیٰ کے نورِ اعظم کا تاج ہے۔

         اے پاک مولا! تو وہ سب سے بڑا فیاض ہے، جو اسمِ اعظم کا خزانہ عطا کرنے والا ہے، یہ فیاضی بیمثال اور لاجواب ہے، مولا! تو ہماری جان بھی ہے اور جانان بھی، یا مولا ! ہماری مدد کر!

۷۔ یا امام المتقین ! آپ ہی خدا کا سب سے بڑا نام یعنی اسمِ اعظم ہیں، آپ ہی اے بادشاہوں کے بادشاہ! قرآنِ مجسم = قرآنِ ناطق ہیں، یا مولا ! ہماری مدد کر!

جمعرات ۲۰ ؍ نومبر ۲۰۰۳ء

۶۲

مناجاتِ علمی ۔۳۹

اعتکافِ کثیر المقاصد (۱)

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ تعلیماتِ دانشگاہِ خانۂ حکمت میں ایک نئی اصطلاح کا اضافہ ہوا: اعتکافِ کثیرالمقاصد، ان شاء اللہ، یہ ایک عمدہ اور مفید اصطلاح ثابت ہوگی، چنانچہ علمی میدان میں اصطلاحات کی بہت بڑی اہمیت ہے، کیونکہ اصطلاح کلیدی کردار ادا کرتی ہے، جس طرح آج تک ہمارے ادارے میں جتنی اصطلاحات استعمال ہوتی آئی ہیں ان سے بہت ہی فائدہ ہو اہے، تاہم اعتکافِ کثیر المقاصد سے ایک ایسا اعتکاف مراد ہے جس میں بہت سے مقاصد پیشِ نظر ہوں۔

         یہ بڑی دانش مندانہ اور منطقی بات ہے کہ جب کچھ مومنین یا کوئی مومن خداوندِ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی سے رجوع کرتا ہے تو ایسے میں اس کو بہت ہی محدود مقاصد کو پیشِ نظر کیوں رکھنا چاہئے؟ جبکہ خداوندِتعالیٰ کا بحرِ رحمت بیحد و بے پایان ہے، پس خوبی کی بات تو یہ ہوگی کہ بندہ اپنے رب سے بہت سے سوالات کرے، بہت سی حاجتوں کو طلب کرے، تب ہی مانا جائے گا کہ اس بندہ نے اپنے پروردگار کی بے پایان رحمت کا اندازہ کر لیا، کیونکہ خداوندِ عالم کے پاس بے شمار خزانے ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس سے بہت سے سوالات کریں اور بہت سی دعائیں کریں، اور یہ ایک سلسلہ ہو، اس بہانے سے خصوصی عبادت بھی ہو، عاجزی بھی ہو، گریہ و زاری بھی ہو، ساتھ ہی اظہارِ حاجت بھی ہو، اور ہر طرح سے رجوع ہو، اور ہر طرح سے سوال ہی سوال ہو، تو رحمت کا یہی تقاضا ہے۔

         دوسری وجہ یہ ہے کہ اعتکاف مسلسل عبادت کا نام ہے، اور بندگانِ خدا کے لئے

۶۳

مسلسل عبادت ہی مفید ثابت ہو سکتی ہے، نیز اس میں یہ امید بھی ہے کہ خدا کے بندے اپنے آپ کو عاجز بنائیں، عاجزی کو سیکھیں، اور گریہ وزاری کریں، وہ ہمیشہ خدا سے رجوع ہو جانے کے عادی ہو جائیں، الغرض اس میں بے شمار فائدے ہیں، پس ہم نے اعتکافِ کثیر المقاصد کی اصطلاح بنائی، الحمد اللہ! اس سے ہم مطمئن ہیں، امید ہے کہ ہمارے عزیزان اس مقصد کو سمجھ لیں گے اور اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔

         دوسری بات چالیس دن سے متعلق ہے کہ قرآن و اسلام میں چالیس دن کی مدت کی بہت بڑی اہمیت ہے، ہم نے البتہ چالیس کے عدد پر مقالہ لکھا ہے۔

         اہلِ دانش کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو چالیس دن کے اعتکاف پر کوہِ طور بلایا تھا، جبکہ حضرتِ موسیٰؑ کا اپنا ایک مرتبہ تھا کہ وہ عظیم پیغمبروں میں سے تھا، چنانچہ یہی چالیس دن کی عبادت یا اعتکاف اہلِ ایمان کیلئے بھی زبردست مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

         اگر اعتکاف کی ضرورت نہ ہوتی اور یہ ایک زائد چیز ہوتی تو حضرتِ موسیٰؑ کیلئے اس کو ایک زائد چیز ہی ہونا چاہئے تھا، باوجود این موسیٰؑ جیسی عظیم ہستی کے لئے اعتکاف کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جہاں حضرتِ موسیٰؑ کے لئے اعتکاف کی ضرورت تھی جبکہ وہ خدا کے عظیم پیغمبروں میں سے تھا، اور اس کے لئے کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی، تو پھر ایسے میں اس کی اہمیت مومنین کے لئے اور بھی زیادہ ہو گئی، تاکہ وہ اپنی پسماندگی سے کچھ آگے بڑھیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں، اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کر سکیں، کچھ گریہ وزاری کو سیکھیں، اور کچھ عبادت سے اس کی حقیقت کو معلوم کریں۔

         الغرض پیغمبروں کی سنت پر چلنا اللہ کے نزدیک ایک پسندیدہ عمل ہے کہ پیغمبروں نے جو کام کیا ہے وہ امتوں اور مومنین کیلئے کیا ہے، جبکہ وہ ذاتی طور پر خدا کے برگزیدہ تھے، ان کو خدا وند تعالیٰ نے نبوت کے لئے منتخب فرمایا تھا، لہٰذا عبادت و بندگی میں اتنی سخت محنت کا

۶۴

مظاہرہ کرنے کا منشاء یہ ہے کہ مومنین ان کے نقشِ قدم پر چلیں، جبکہ پیغمبروں کے نقشِ قدم پر چلنا قرآن کی دعوت ہے، جیسا کہ ہم پڑھتے ہیں: ۔

         إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (۱: ۵ تا ۶)۔

         ہم کو شروع ہی میں براہِ راست تعلیم میں یہ سکھایا گیا ہے کہ ہم ان برگزیدہ بندوں کے راستے پر چلیں جن پر خدا کے انعامات ہوئے ہیں، اس حکم کے تحت اہلِ دانش کے نزدیک یہ اعتکاف ایک امرِ ضروری قرار پاتا ہے، اگرچہ قرآنی احکام کے مطابق یہ فرائض میں سے نہیں ہے، اگر فرائض میں سے نہیں تو پھر نوافل میں سے ضرور ہے، جو چیز نوافل میں سے ضروری ہو وہ بیحد ضروری ہوتی ہے، جس طرح حدیثِ نوافل میں یہ ذکر گزرا کہ بندۂ مومن کی زیادہ ترقی فرائض سے نہیں بلکہ نوافل سے ہوتی ہے، لہٰذا اعتکاف کے بارے میں سوال باقی نہیں رہتا، اسلئے اہلِ دانش کے نزدیک یہ پسندیدہ کام ہے، اگر اس پاکیزہ سنت، جو انبیاء کی سنت ہے، پر عمل کیا گیا تو ان شاء اللہ بہت ہی خوشگوار ثمرات سامنے آئیں گے۔

         کون کہتا ہے کہ صرف حضرتِ موسیٰؑ نے چالیس دن کا اعتکاف کیا، جبکہ سردارِ انبیاء نے ایسا کوئی اعتکاف نہیں کیا؟ بلکہ سوچا جائے تو حضورِ انورؐ کی سیرتِ طیبہ سب کے سامنے ہے کہ حضورؐ نے غارِ حرا میں وہ اعتکاف کیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

         الغرض کسی بھی دانشمند کو اس میں شک نہیں ہے کہ مسلسل عبادت میں فائدے ہی فائدے ہیں، ویسے بھی ہمارے عزیزوں کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ نوافل کے سلسلے میں از خود اعتکافات کرتے آئے ہیں، لہٰذا ہم نے بھی اس موقع کی مناسبت سے اعتکاف کی تجویز پیش کی، ان شاء اللہ، ہمارے عزیزان اس کو قبول کریں گے، لیکن ایک احتیاط کی بات یہ ہے کہ اعتکاف ایک قسم کا نذر ہے یعنی نذر ماننا تاکہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر ایک عبادت اپنے اوپر واجب کر لی جائے، ساتھ ہی ساتھ یہ ایک طرح سے خدا کے ساتھ عہد و

۶۵

پیمان بھی ہے کہ خدا کے بندے اپنی رضا و رغبت سے خدا کی خوشنودی کی خاطر کوئی عبادت، کوئی بندگی، کوئی قربانی اپنے اوپر واجب کر لیتے ہیں، گویا خدا سے عہد کرتے ہیں، پس ان کو چاہئے کہ خدا سے جو عہد کیا ہے اس کو معمولی شئ قرار نہ دیں، کیونکہ یہ غیر معمولی ہے۔

         نذر ماننے کی روایت قرآن میں موجود ہے، جیسے مریمؑ کی والدہ نے نذر مانی تھی کہ شکم میں جو بھی اولاد ہے اس کو خدا کے نذر کر دی جائے، اس کی اس نذر کے مطابق جب مریمؑ پیدا ہوگئی تو اس کو اس کی والدہ نے خانقاہ کے حوالے کر دیا، قرآن میں یہ ایک مشہور قصہ ہے۔

         اس کے علاوہ مریمؑ نے فرشتہ کے مشورے سے بات نہ کرنے کا روزہ رکھا تھا جس کو انہوں نے پورا کیا، یہیں سے پتا چلتا ہے کہ نذر یعنی ازخود کسی عبادت، صدقہ، اور قربانی کو اپنے اوپر واجب کرنے کی روایت قرآن میں موجود ہے، اور جو روایت قرآن میں ہو اس کے لئے کسی مسلمان کو کیا شک ہوسکتا ہے، پس ہمیں امید ہے کہ ہمارے عزیزان ایسی دانشمندی کی باتوں، جن میں حکمت ہے، سے فائدہ اٹھائیں گے، اس سے ان شاء اللہ ان کی روحانی ترقی ہوگی۔ ( ۔۔ سلسلہ جاری ہے)۔

گذشتہ تاریخ: ۳؍ اپریل ۲۰۰۰ء

موجودہ تاریخ: یک شنبہ ۲ ؍ نومبر ۲۰۰۳ء

۶۶

مناجاتِ علمی ۔۴۰

اعتکافِ کثیر المقاصد (۲)

(پیوستہ از گذشتہ)

         بِسْمِ اللّٰہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْم۔ ہم نے اِی ۔ میل (E-mail) میں اس اعتکاف کا نام اعتکافِ کثیر المقاصد بتایا ہے، اور یہ سچ ہے کہ اس کے بہت سے مقاصد ہیں، ہم نے اس اِی۔ میل میں یہ وضاحت بھی کی ہے کہ اس میں تین مقاصد اہم ہیں، چنانچہ اس اعتکاف کے سلسلہ میں عبادات و تسبیحات ہمارے عزیزان کو معلوم ہیں، تاہم اس میں ایک اہم تجویز یہ ہے کہ حضرتِ یونسؑ کی تسبیح والی آیت کا ورد کیا جائے، وہ ہے: ۔

          لَاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنْ الظَّالِمِين (سورۃ الانبیاء، ۲۱: ۸۷)۔

         بحرُالعلوم صاحب آپ کو قرآن سے اس کی نشاندہی کرسکتے ہیں، اس کا درست تلفظ پڑھا سکتے ہیں، اور اس کے معنی بھی بتا سکتے ہیں۔

         اس تسبیح کی بہت بڑی اہمیت اس لئے ہے کہ خداوندِ عالم نے خود اس تسبیح کی تعریف فرمائی ہے ( ۳۷: ۱۴۳ تا ۱۴۴) ، قرآنِ حکیم میں جہاں کہیں کوئی تسبیح، آیت، درود ایسا ہو کہ خدا خود اس کی تعریف فرماتا ہو تو پھر ایسے میں اس کی زبردست اہمیت کیوں نہ ہو، اور اس میں کسی مومن کو کس طرح کوئی شک ہوسکتا ہے، پس اس تسبیح کی دو بہت بڑی خصوصیات ہیں: ایک خصوصیت یہ ے کہ حضرتِ یونسؑ کو اس تسبیح کے پڑھنے سے نجات ملی جبکہ وہ ایک بہت بڑی مشکل یعنی مچھلی کے پیٹ میں مبتلا ہوگیا تھا، جہاں سے ظاہری نجات قطعاً ناممکن تھی، اس لئے خدا اس کی تعریف فرماتا ہے، یہ دوسری خصوصیت ہوئی، الغرض

۶۷

اس تسبیح کی دو خصوصیات ظاہر ہوئیں: ایک یہ کہ یونسؑ کو اس تسبیح کی وجہ سے مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی، اور دوسرا یہ کہ خدا خود نمایان طور پر اس کی تعریف فرماتا ہے، لہٰذا اس مقام یا قصہ یعنی قصۂ یونس کو پڑھنے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرا تو اس سے زیادہ اس کی نادانی اور کیا ہوسکتی ہے۔

         ایک اور اہم نکتہ یہ کہ پیغمبروں نےجہاں اپنے رب سے رجوع کیا ہے اور دعائیں کی ہیں، وہاں انہوں نے اپنی دعا میں یہ ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، پس معلوم ہوا کہ بندہ اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے، اور اپنے آپ پر ظلم کرنا بہت بری بات ہے، دنیا میں اگر کوئی بادشاہ یا عملدار ظالم ہے تو لوگ اس کو بری نگاہ سے دیکھتے ہیں، جہاں دنیائے ظاہر میں ظلم کو ایک بدترین عادت قرار دیا جاتا ہے، وہاں حقیقت کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی بری چیز یعنی ظلم انسان اپنی روح پر کرتا رہتا ہے، حالانکہ روح مقدس بھی ہے اور اللہ کے نور سے بھی، کہ روح کسی معصوم انسان سے بھی معصوم ہے، ایسے میں اپنی روح پر ظلم کرنا بہت بڑا جرم ہے، اسی لئے پیغمبروں نے اپنی دعاؤں میں کہا کہ ان سے اپنے آپ پر ظلم کرنے کا ارتکاب ہوگیا، لہٰذا اس دعا میں ایک طرف انسان کی عادت کا ذکر ہے تو دوسری طرف خدا کی پاکیزگی کا ذکر ہے، یعنی ذاتِ سبحان کی تعریف ہے جیسے سُبحٰنک، پس خدا کے نزدیک یہ ایک پسندیدہ تسبیح ہے، چونکہ انسانوں سے خدا کی تعریف نہیں ہوسکتی، لہٰذا اتنا کہنا بھی کافی ہے، تاکہ خدا کو ہر چیز سے پاک قرار دیا جائے، پس یہ اس تسبیح کی تعریف ہے اور یہ خدا کو پسندیدہ ہے۔

         ایک خوبی یہ بھی ہے کہ خدا کی وحدت بہت اہم ہے، اس کی توجیہہ یہ ہے کہ خدا ہی کو معبود قرار دینا اور خدا کے سوا غیر اللہ سے بری ہوجانا، لہٰذا اس میں تعریف ہے کہ: ۔

          لَاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَكَ  = کوئی معبود نہیں تو ہی معبودِ برحق ہے۔ اسکے بعد اعتراف کرنا کہ: ۔

۶۸

         إِنِّي كُنتُ مِنْ الظَّالِمِين  = بیشک میں ظالموں میں سے ہوں، یہ اعترافِ قصور، اعترافِ جرم، اور اعترافِ گناہ ہے کہ میں ظالموں میں سے ہوں، کہ دنیا میں جیسے ظالم ہیں میں ان ظالموں کے زمرے میں سے ہو گیا ہوں، پس یہ بندہ کا اعترافِ قصور اور اعترافِ عاجزی ہے، خدا ایسا ہی چاہتا ہے بوقتِ گریہ وزاری، لہٰذا یہ تسبیح بہت ہی عمدہ ہے، اسلئے اس اعتکاف کیلئے یہ تسبیح تجویز کی جاتی ہے ہے: لَاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنْ الظَّالِمِين۔ الغرض اس تسبیح کی مزید حقیقتوں کو سمجھنا ہے۔

         ایک نکتۂ دلپذیر یہ بھی ہے کہ مومن کو نیت کرنی چاہئے کہ نیت کے بغیر کوئی عمل مکمل نہیں ہوتا، چنانچہ اس اعتکاف کے لئے جو مقاصد اِی۔ میل میں نمایان ہیں ان کو سامنے رکھا جائے، جو بیحد ضروری ہیں۔

         ان شاء اللہ، جن امیدوں کے ساتھ دوستانِ عزیز سے رجوع کیا گیا ہے وہ امیدیں ذاتِ خداوندی سے پوری ہوں گی، ورنہ کتنی عجیب بات ہوگی کہ استاد ہمیشہ خود کو برتر قرار دے اور بے نیاز سمجھے، اس کے مقابلے میں کیا یہ اچھا نہیں ہے کہ وہ اپنے شادگردوں سے رجوع کرے اور ان سے دعا کو طلب کرے، گویا یہ خود ایک عاجزی ہے، بلکہ عملی عاجزی ہے، تو ان شاء اللہ یہ ایک پسندیدہ عمل ہے۔

         اس کے علاوہ اس میں صداقت بھی ہے کہ کتنی پاکیزہ روحیں ہیں اس زمین پر، جن کو فرشتگانِ ارضی کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا، کہ وہ معصوم بھی ہیں پسندیدہ بھی، عبادت گذار بھی ہیں خدمت گذار بھی، لہٰذا کیوں اعتراف نہ کیا جائے، ساتھیوں کی عبادات، ان کی خدمات، ان کی روحوں کی سعادتمندی، اور ان کی نیکیوں کو کیوں تسلیم نہ کیا جائے، پس اس اعتکاف کو کثیرالمقاصد کہنے کا یہ سبب ہے کہ اس میں بہت سے مقاصد ہیں، ان شاء اللہ ، اس سے خداوندِ عالم کی خوشنودی حاصل ہوسکتی ہے، عالمِ غیب سے فیوضات و برکات کا نزول ہوسکتا ہے، علمی و روحانی ترقی ہوسکتی ہے، اور شکرگذاری کی کمی، جس کا ہر عزیز کو

۶۹

اعتراف ہے، کا حق ادا ہو سکتا ہے، اور یہی چارۂ کار ہے۔

         یہ حقیقت ہے کہ سیارۂ زمین پر ہمارا گروپ ایک ایسا گروپ ہے جس پر زمانے میں اللہ کے سب سے زیادہ احسانات ہیں، اتنے زیادہ احسانات ہیں کہ ان کی قدر وقیمت کا تعین کرنا تو ایک طرف ان کو شمار بھی نہیں کرسکتے، ایسے میں شکرگزاری کا یہ ایک عمدہ طریقہ ہے۔

         ہمیں یقین ہے کہ واقعاً اس اعتکاف میں بہت سے مقاصد ہیں، اس لئے اس کا یہ نام بالکل صحیح ہے اعتکافِ کثیر المقاصد، یعنی Multi-Pupose اعتکاف ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ اس میں بھلائی ہی بھلائی ہے کہ خداوندِ دوجہان عزیزوں کی دعا کو سنے گا، ان کے آنسوؤں کے موتیوں کو خاص الخاص مہمانی کے طور پر قبول فرمائے گا، ان پر رحمت اور برکت کی بارشیں برستی رہیں گی، اور ان کا عالمِ شخصی معمور ہوگا، وہ اس اعتکاف کے کرنے کے بعد پھر اس کے عادی ہوجائیں گے، ان کو اس سے مزہ آئے گا، اور ان فیوضات و برکات کو حاصل کرنے کے بعد دوسرے اعتکاف کے کرنے کے خواہشمند ہوں گے، ہماری امید یہی ہے ، ان شاء اللہ۔

         علاوہ ازین کتابِ حدیث میں ہے کہ چالیس مومنین مل کر اگر کوئی دعا کرتے ہیں تو خدا چالیس کے عدد کی وجہ سے ایکدم سے قبول فرماتا ہے، یہ حکمت البتہ فقہ کی کتاب میں ہے جس کو ہم نے تجہیزو تکفین کے عنوان سے ایک رسالہ میں لیا ہے، کہ اگر کوئی مومن اعمال میں کمزور ہے اور وہ مرجاتا ہے، اس کی نمازِ جنازہ میں اگر چالیس افراد کھڑے ہو جاتے ہیں، تو خدا ان چالیس مومنین کی دعا کی حرمت سے اس کو بخش دے گا، یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی چیز کو کثرت سے کرنے کا کیا مقصد ہے،  لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنْ الظَّالِمِينَ  کی اس دعاو تسبیح کو کثیر افراد کے پڑھنے سے اگرایک بڑی تعداد بنتی ہے تو یہ اس کی خصوصیت ہوگی، پس خدا اس کو قبول فرمائے گا اور جو جو مقاصد ہیں وہ ان شاء اللہ

۷۰

پورے ہوں گے۔

         ان شاء اللہ، ہم وقتاً فوقتاً رابطہ رکھیں گے، مولا آپ کو کامیابی عنایت فرمائے! آمین! یارب العالمین !! (سجدہ)

گذشتہ تاریخ: ۳؍ اپریل ۲۰۰۰ء

موجودہ تاریخ: یک شنبہ ۲ ؍ نومبر ۲۰۰۳ء

۷۱

میزان الحقائق

انتساب

تسخیرِ کائنات

۱۔ اے عزیزان! علم الیقین کا دائرہ بڑا وسیع ہے، اور تمہاری کتابوں میں بفضلِ خدا بہت کچھ ہے، لہٰذا تم تسخیرِ کائنات کے بارے میں کافی معلومات حاصل کرو، یہ بے حد ضروری ہے، مذکورہ کتابوں میں منزلِ عزرائیلی کی معرفت بیان کی گئی ہے، خدا کرے کہ تمہاری روحانی ترقی ہو، اور تم پر قیامت برائے معرفت کا دروازہ کھول دیا جائے، ان شاء اللہ، اس وقت آپ بذاتِ خود دیکھنے لگیں گے کہ روحانیت کے عجائب و غرائب کیسے ہیں، اس حال میں سب سے پہلے تم صورِ قیامت کی بابرکت آواز سننے لگو گے، اور صرف تمہارے لئے یعنی تنہا تمہاری نگاہوں کے سامنے یاجوج و ماجوج کا خروج ہو گا۔ جو روحانی لشکر ہے، اس لشکر کا اولین کام یہ ہو گا کہ تمہارے عالمِ شخصی کی ازسرِ نو تعمیر شروع کریں گے، دستور یہ ہے کہ جب پرانی عمارت کی جگہ نئی عمارت بنانی ہوتی ہے، تو پرانی عمارت کو گرا دیتے ہیں، اور پھر اس کی جگہ ایک نئی خوبصورت عمارت کو قائم کرتے ہیں، پس یاجوج و ماجوج سے ڈرنا لاعلمی کی وجہ سے ہے، ہم کو بتایا گیا ہے کہ یہ صاحبِ زمان کے لشکر ہیں، دنیا کی کسی بھی کتاب میں یاجوج و ماجوج کی حقیقت بیان نہیں کی گئی ہے، اس لئے یہ حقیقت صرف اور صرف آپ کو کتابِ نفسی ہی میں ملے گی، الحمدللہ! کتابِ نفسی سے

۳

عالمِ شخصی مراد ہے، یہ آپ کی بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ آپ معرفتِ ذات کی باتیں سن رہے ہیں، یہ تو آپ جان چکے ہیں کہ معرفتِ ذات سے معرفتِ ربِ کائنات حاصل ہو جاتی ہے۔

۲۔ اے عزیزانِ من! اب بحرِ علم کی سطح پر تیرنا چھوڑ دو، اس میں غواصی اور غوطہ زنی سیکھو، کیونکہ گوہرہای گرانمایہ اس کی سطح پر نہیں ملیں گے، اگر تم انمول موتیوں کے !عاشق ہو تو دریا کی تہہ میں پہنچ جانے کی مشقیں کرتے رہو، آمین

۳۔ اے میرے عزیز ساتھیو! میری باتوں کو غور سے سنو، دنیا کی تجارت میں وہی لوگ کامیاب ہو جاتے ہیں، جن کے پاس کوئی بڑا سرمایہ موجود ہوتا ہے، پس اگر تم کو آخرت کی تجارت میں کامیاب ہو جانا مقصود ہے تو پھر سب سے پہلے علم الیقین کا بہت بڑا سرمایہ جمع کرو، ورنہ کامیابی ناممکن ہو گی، تمہارے لئے اللہ کے فضل و کرم سے علم الیقین کا سرمایہ جمع کرنا آسان ہو گیا ہے، و ما توفیقی الا باللّٰہ العلی العظیم ۔

۴۔ اے رفیقانِ راہِ حقیقت! آپ سب کو ہمیشہ ہمیشہ علم و حکمت کا کامل شوق ہونا چاہئے، بلکہ مجھے یہ کہنا چاہئے کہ آپ ہر وقت نورِ علم کے عاشق بنے رہو، کیونکہ علم و حکمت ہی بہشتِ برین کی روحِ روان ہے، اور تمام بہشت کی نعمتوں میں سے اسی نعمت کی لذت سب سے بڑھ کر ہے، جبکہ علم و حکمت ہی عقل و جان کی غذا بھی ہے اور دوا بھی۔

۵۔ اے دوستانِ عزیز! خدا کی قدرت وہ ہے جو ایک ہی چیز میں ساری چیزوں کو جمع کر سکتی ہے، پس آپ یقین کریں کہ بہشت کی ہر ہر نعمت میں عنصرِ غالب علم و حکمت ہی ہے اور کوئی نعمت اس قانون کے بغیر نہیں ہے، ایسے میں ہمارے وہ عزیزان کتنے بڑے خوش نصیب ہیں، جو ہمیشہ اپنے ذخیرۂ

۴

معلومات میں اضافہ کرتے رہتے ہیں، یہ کام ان گرانمایہ کتابوں سے ہو سکتا ہے، جن میں حضرتِ امام عالی مقام کا روحانی علم پایا جاتا ہے، میں اپنے حلقۂ ارباب میں سب سے زیادہ کہن سال، سب سے زیادہ کمزور اور کئی چھوٹی موٹی بیماریوں کا مریض شخص ہوں، لیکن اس حقیقت کا گواہ خدا ہے کہ میں علم و حکمت کی نعمتوں سے بے حد شادمان، خوش و خرسند اور پر امید انسان ہوں مجھے روحانی سائنس اور قرآنی سائنس کی ان دو اصطلاحوں سے جو حیاتِ نو ملی ہے، وہ میرے لئے ازبس عجیب و غریب ہے، مجھے ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کی شکرگزاری کی کمی کا احساس ہوتا رہتا ہے، یقیناًہم خداوند تعالیٰ کی لاتعداد نعمتوں کو نہ گن سکتے ہیں اور نہ جیسا کہ اس کا حق ہے شکرگزاری کر سکتے ہیں۔

درجِ بالا انتساب میرے بہت ہی عزیز و محترم جناب غلام مصطفی مومن صاحب پریسیڈنٹ آف بورڈ آف انٹرنیشنل گورنرز اور ان کے باسعادت اہلِ خانہ کے لئے لکھا گیا ہے، جو سب کے سب انٹرنیشنل لائف گورنرز ہیں۔

ن۔ن۔ (حبِ علی) ہونزائی
جمعہ ۲۸ جولائی ۲۰۰۰ء
یوسٹن امریکہ

۵

علمی شہد

ادارۂ عارف برانچ امریکا کے لئے میرے پرسنل سیکریٹری حسن (سابق کامڑیا) اور ان کی اہلیہ کریمہ حسن (سابق کامڑیانی) علمی شہد کے دلدادہ ہیں۔
ان کی دلی خواہش ہے کہ اُن کا نورِ چشم اور لختِ جگر سلمان بھی ایسا ہو۔

۶

نگارشِ آغاز

خدائے احکم الحاکمین نے اپنے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ’’ رحمۃً للعالمین ‘‘ کی حیثیت سے دنیا میں بھیجا اور اسے ایک ایسی حکمت آگین سماوی کتاب عنایت کی، جس میں نہ صرف روحانی حقائق کی تفصیل ہے بلکہ اس میں زمانۂ حاضرہ و آئندہ کے اُن دنیاوی پیچیدہ ترین مسائل کے حل بھی موجود ہیں جو سائنسی اور ایٹمی حیرت انگیز انقلاب و ارتقاء سے پیدا ہوئے ہیں، وہ آسمانی مقدس کتاب قرآنِ حکیم ہے، جس کی آیتوں پر غور و فکر کرنا اس لئے واجب ہے کہ ہم ان کے صحیح معنی سمجھ سکیں اور جس کے بعد ان کی حکمت کے سہارے اپنے کسی بھی مسئلے کا صحیح حل نکال سکیں۔

خدا کی مقدس کتاب خدا ہی کی روشنی میں پڑھی اور سمجھی جا سکتی ہے، یہی ہے وہ اولین شرط جسے خود قرآنِ حکیم نے واضح کر دیا ہے، اگر ہم سے ایسا نہ ہو سکا تو زمانۂ حاضرہ کا کوئی بھی مسئلہ ہم سے حل نہ ہو سکے گا جس کی حجت ہم پر ہی رہے گی نہ کہ خدا پر، کیونکہ اس کا فرمان ہے کہ اس کی نعمت ہم پر پوری ہو چکی ہے اور دینِ اسلام میں اللہ نے کوئی حرج نہیں رکھا ہے۔

یہ کتاب مذکورۂ بالا اصولوں پر لکھی گئی ہے اور یہی اس کا نظریہ ہے تا کہ ان مسلم طلباء کے لئے دینی علوم کی اہمیت ظاہر ہو جائے جن کو ایسے علوم کی افادیت معلوم نہ ہوئی ہو، یا جو سائنس سے مسحور اور مذہب سے دل برداشتہ ہو چکے ہوں، اس

۹

سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ ہم مادیاتی ترقی نہیں چاہتے ہیں بلکہ ہم یہ مانتے ہیں کہ دین اور کسی چیز پر نہیں بلکہ دنیا پر قائم ہے اور دنیاوی ترقی مادیاتی ترقی کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن یہ یقین رکھنا ضروری ہے کہ خدا کی مرضی کے بغیر کوئی دنیاوی کامیابی ممکن نہیں، بحیثیتِ حقیقی مسلم ہمیں لازمی طور پر یہ باور کرنا ضروری ہے کہ ایٹمی توانائی سے عالمگیر روحانی طاقت برتر ہے، جس میں سب کچھ سمایا ہوا ہے، اگر کوئی شخص اس قسم کا سوال پوچھے کہ اگر دینِ اسلام خدا اور اس کے رسول کا سچا دین ہے تو اس میں ادیانِ عالم کی مرکزی حیثیت اور مختاری طاقت کیوں موجود نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قادرِ مطلق نے جو کچھ اس کے بارے میں وعدہ فرمایا ہے، وہ حق ہے اور جس کا وقت آچکا ہے، کیونکہ دنیا والوں کو ایک زبردست اخلاقی قاہرانہ وحدت کی ضرورت پیش آئی ہے۔

یہ کتاب اس حقیقت کی بھی تصدیق کرے گی کہ بنی نوع انسان آغاز و انجام میں ہمگی یک صفت ہیں اور دین ان کے ہنگامی نظامِ حیات کا نام ہے، ان نظاموں میں سے صرف دینِ اسلام ہی وہ حقیقی نظام ہے، جو دنیا کے سارے انسانوں کے لئے باعثِ امن و ذریعۂ نجات بن سکتا ہے اس لئے کہ یہ اس دورِ عظیم کا آخری دین ہے، اور فی الواقع حقیقت یہی ہے کہ گزشتہ زمانوں میں بھی دانشمند لوگ خدا کے آخری دین میں پناہ لیتے تھے ورنہ کوئی بڑی مصیبت ناگاہ انہیں گھیر لیتی تھی، اب نہیں کہا جا سکتا ہے کہ خدا کا امتحان ہو گزرا ہے۔

میں نے اس کتاب میں اکثر ایسے مسائل پر بحث کی ہے جن سے ہمارا زمانہ دوچار ہوا ہے یا ہونے والا ہے، اس لئے کہ پیش آمدہ مسائل کا حل کرنا نہ صرف علومِ دین کی حقانیت و قدر و منزلت کا ثبوت ہے بلکہ اس میں بنی نوع انسان کی خیرخواہی بھی مضمر ہے ان میں سے بیشتر ایسے مسائل ہیں جن کو بزرگانِ دین نے صریحاً حل نہیں کیا ہے اس لئے کہ ان چیزوں کے لئے ان کے زمانے کا کوئی تقاضا نہ تھا اس لئے

۱۰

انہوں نے اپنی کتابوں میں ایسے حقائق کو رموز و امثال میں پوشیدہ رکھا ہے تا کہ وقت آنے پر انہیں آشکارا کر لیا جائے۔

اس مقام پر میں اپنے ان مہربان احباب کا پرخلوص شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے علم دوستی اور ترقی پسندی کی بناء پر اس تصنیف کی طباعت میں کسی قسم کی بھی میری عملی امداد یا ہمت افزائی کی ہو اور مجھے یقین ہے کہ میرے برادرانِ دین اور احباب اس علمی خدمت کی پزیرائی کرتے ہوئے مجھے شکرگزاری کا موقع بخشیں گے۔

و ما توفیقی الا باللّٰہ

نصیر الدین نصیر (حبِ علی) ہونزائی
۱۵جون ۱۹۶۲ء

۱۱

بچوں میں تربیت و تعلیم کا فطری تقاضا

بنی نوع انسان کے ذہنی ارتقاء کے لئے حقائق کا انکشاف کرنا ازبس ضروری ہے، انسان جو شاہراہِ حیات کا ایک مسافر ہے منزلِ شیرخوارگی میں قدم رکھتے ہوئے حصول و طلب کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے، وہ اپنی روحِ نامیہ و حیوانیہ کی پوشیدہ قوتوں سے اپنے اندر کسی چیز کی کمی محسوس کرتے ہوئے اپنی طلب کو ایک ایسی آواز میں ظاہر کرتا ہے جو حرف و لفظ سے مجرد اور لہجہ کے زیر و بم سے عاری ہونے کے باوجود بھی مہرانگیز ہوتی ہے، پھر وہ قوتِ ذائقہ کی مدد سے دودھ پیتا ہے اور اسی وقت سے فطری طور پر خفیف ورزش کا آغاز کرتا ہے، کیونکہ اسے غذا کو جزوِ بدن بنانا اور تندرست رہنا ہے، نیز آگے چل کر انفرادی و اجتماعی مفاد کے لئے جسمانی و دماغی قوتوں سے کام لینے کے لئے بڑھنا ہے۔

اگرچہ اس شیرخوار بچے پر ہنوز کوئی دینی و دنیوی کام سرانجام دینے کا فرض عائد نہیں ہوتا ہے، تاہم اس کو قدرتی طور پر وقت کی قدردانی ہوتی ہے، اس لئے اس کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں وہ اپنے مسلسل پروگرام کے مطابق کچھ نہ کچھ عمل نہیں کرتا رہا ہو، مثلاً سونا، جاگنا، رونا، دودھ پینا، حرکت کرنا، نیز دیکھنے، سننے اور بولنے کی کوشش کرنا وغیرہ، جس طرح بچے اپنی شیرخوارگی کی عمر میں دودھ اور دیگر لطیف غذاؤں سے اپنی روحِ نامیہ کی تکمیل اور حس و حرکت کے ذریعے سے روحِ حیوانیہ کی تمامی کے متلاشی ہوتے ہیں، اسی طرح وہ گفت و شنید کے ذریعے نفسِ ناطقہ کے اتمام کے لئے بھی ساعی

۱۲

رہتے ہیں، چنانچہ بچہ اپنی ماں، بہن، باپ، بھائی اور اپنے ماحول کے دیگر انسانوں کی باتوں کو سنتا رہتا ہے تا کہ گفت و شنید کے ذریعے اس کے نفسِ ناطقہ کی تکمیل ہو سکے، پس اس بچے کے ماحول میں جس قسم اور جس نوعیت کی گفت و شنید ہو اس نوعیت کے زیرِ اثر نفسِ ناطقہ حلیۂ اخلاق اختیار کرے گا، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نفسِ ناطقہ کی غذا کلام ہے اور یہ روحانی غذا قوتِ سامعہ کے ذریعے دماغ میں داخل ہوتی ہے اور نفسِ ناطقہ اس کے بغیر پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا، اس کی ایک زندہ دلیل بہروں کا کلام نہ کر سکنا ہے، حالانکہ اکثر ان کی زبان اور حلق وغیرہ میں کوئی نقص نہیں پایا جاتا ہے، دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر کسی انسان نوزائیدہ بچے کو انسانوں سے دور کہیں اس طرح پالا جائے کہ اس سے کوئی انسان ہم کلامی نہ کرے تو یہ یقینی بات ہے کہ وہ عمر کی آخری حد تک بات چیت کرنے کے قابل نہ ہو سکے گا اور وہ صرف ایک مہمل آواز کے سوا کچھ بھی نہ بول سکے گا، نفسِ ناطقہ کی شائستگی ، عادات و اطوار، تعلیم و تربیت کے لئے بہترین ماحول کی ضرورت کی یہی وجہ ہے۔

قدرت نے نفسِ ناطقہ کی سرشت میں ہر چیز کے متعلق پوچھ کر علم حاصل کرنے کی خاصیت رکھی ہے اسی بناء پر چھوٹے بچے ہر وہ سوال پوچھتے ہیں جو ان کے سامنے آتا ہے اور جس سے ان کا واسطہ پڑتا ہے، بعض اوقات وہ ایسے سوالات بھی پوچھتے ہیں جنہیں ہم غیر ضروری سمجھ کر نہیں بتا دیتے یا بتا نہیں سکتے ہیں، اور بعض وقت انہیں کسی چیز کے متعلق پوچھنے سے روکتے ہیں، جو چھوٹے بچوں کے کلی نقصان کا باعث بن جاتا ہے، یہ اس وجہ سے نہیں کہ ہم نے ان کے ایک یا دو سوال کا جواب نہیں دیا بلکہ اس لئے کہ ان میں جو قوتِ تجسس کا فطری مادہ ہے وہ مر جاتا ہے اور حقائق کی تلاش و تجزیہ کی وہ صلاحیت جو ان میں فطری طور پر موجود تھی یکسر ختم ہو جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر انسان عقل و شعور کی عمر میں بھی حقائق کے متعلق کوئی سوال نہیں پوچھتے اور بیشتر امور میں مقلدانہ طور پر

۱۳

کسی چیز کو تسلیم کرتے ہیں۔

خدائے برحق نے حضرت ابراہیم جیسے موحد کے اس واقعہ کے پسِ پردہ چھوٹے بچوں کی اس فطری نتیجہ خیز تجسس کی تصدیق فرمائی ہے جو بچپن میں سب سے پہلے ایک ستارے کو دیکھ کر اس کے دل میں پیدا ہوا تھا وہ ستارہ اُسے عجیب نظر آیا پھر اس کو اس نے خدا مانا، جب وہ غائب ہوا اور چاند نکلا تو چاند کو خدا کہا پھر جب چاند بھی غروب ہوا اور سورج نکل آیا تو اس نے کہا کہ یہی میرا خدا ہے جو ان سب سے بڑا ہے، جب وہ بھی غروب ہوا تو کہا کہ میں غروب ہونے والوں سے محبت نہیں رکھتا، متذکرہ بالا مثالوں سے حقائق کی تلاش کی ضرورت ظاہر ہے اب میں ایک ایسے مسئلے پر بحث کر رہا ہوں جو سخت پیچیدہ ہونے کے باوجود زمانے کے تقاضے کے پیشِ نظر حل کرنا ازبس ضروری ہے اور وہ ہے قیامت کا مسئلہ، اس لئے کہ قیامت کی طول انتظاری کی ملالت اور سائنس اور ایٹم کی توانائی کے کرشمے کسی ضعیف الاعتقاد انسان کو اپنے دین اور عقیدے سے برگشتہ و بددل نہ کریں اور نہ وہ اس مادیاتی اور دنیوی ارتقاء سے بے بہرہ، سائنس سے متنفر اور ایٹم سے ہراسان رہے۔

قرآن شریف کو اگر غور و فکر اور نظریۂ حکمت سے پڑھا جائے تو کوئی ایسی چیز بحالِ جسمانی و روحانی نہ ہو گی جس کے مفصل حالات کا ذکر قرآن میں موجود نہ ہو، بلا شک اسی طرح قیامت کے ان ناموں اور مثالوں میں جو قرآنِ مجید میں ہیں قیامت کے مفصل حالات کا ذکر ہے جن میں سے ایک نام ’’ الساعۃ ‘‘ ہے جس کی تفسیر کر رہا ہوں۔

۱۴

خدا کے نام حقائق کے میزان ہیں

اس بیان کے سلسلے میں حصولِ حقائق کا ایک طریقہ لکھ دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ علوم و معارف کے سرچشمے خدائے برتر کے اسمائے صفاتی ہوتے ہیں اور آیات ان اسموں کی تفصیلات ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اکثر قرآنی آیتوں کے اختتام پر یا کچھ پہلے ایک یا زیادہ اسمائے صفاتی آئے ہیں جن پر اس آیت کے معنی کا انحصار رہتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگر کوئی انسان محض اپنی عقلی کمزوری کی وجہ سے اپنے مسئلے کے متعلق تفصیلاتِ قرآنی کی کثرت میں کوئی تضاد تصور کرے تو اسے چاہئے کہ اسمائے صفاتی کی طرف رجوع کرے تا کہ اس کا مسئلہ بطریقِ اختصار حل ہو سکے، مثال کے طور پر اگر کوئی سوال کرے کہ قرآن کی آیتوں کے بعض الفاظ میں ایک سے زیادہ معنی پائے جائیں تو اس کا کیا فیصلہ ہو سکتا ہے اور ان میں سے ایک معنی کسی دلیل کی بناء پر دوسرے معنوں سے مخصوص واجب العمل کا مستحق ہو سکتا ہے؟ تو اس کا جواب اسماء ہی سے نکلتا ہے، مثلاً حق و انصاف کے فیصلے کا تعلق خدا کے اسمِ صفت عدل کے ساتھ ہے لہٰذا اسمِ عدل سے اس مسئلہ کا حل ہم اس طرح نکالتے ہیں کہ عادل اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی کے غضب شدہ حق کو واپس دلا سکے اور اس کے برعکس ظالم اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی کے حق کو غضب کرے، ظلم و عدل کا اطلاق اس حد تک ہوتا ہے جس کو جزو لا یتجزی کہتے ہیں۔

ان منطقی قضیوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ قرآنی الفاظ از روئے قانونِ عدل معنوی لحاظ

۱۵

سے اب بھی ویسے ہی مستعمل ہیں جس طرح وہ نزولِ قرآن سے پہلے تھے اور خدائے عادل نے کسی بھی کثیر المعانی لفظ کو اس کے ایک ہی معنی میں محدود و محصور نہیں کیا ہے کیونکہ وہ احکم الحاکمین ہے اور اس کا کلام خود حکمت ہے اور حکمت اس قول و فعل کو کہتے ہیں جو ایک ہونے کے باوجود بہت سے مطالب و معانی رکھتا ہو، ایسے معنوں میں خدا کا عدل یہ ہے کہ اس کے حکم سے ایک معنی کو اصطلاحی حیثیت سے بروقت عمل میں لایا گیا اور دوسرے معانی کو بمقتضائے زمان و مکان لغوی حالت اور تاویلی صورت میں عقل و فکر سے وابستہ کیا گیا اور قرآن کے ہر اس لفظ کو جس کے کئی معانی ہوں ’’مشترک المعانی ‘‘ کہتے ہیں اور جب کوئی حکیم اپنے کلام میں حکمت پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے تو وہ مشترک المعانی الفاظ میں کلام کرتا ہے جس میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے، اس لئے قرآن کے اصطلاحی معانی کے ساتھ ان تمام دوسرے معانی کا جاننا اور ان سے :حکمت کے نتائج اخذ کرنا ہی ’’خیرِ کثیر‘‘ ہے۔ چنانچہ حکیمِ مطلق کا فرمان ہے
’’حکمت دیتا ہے جس کو وہ چاہے اور جس کو حکمت دی جائے پس اسے دی گئیں بہت سی نیکیاں اور وہی سمجھتے ہیں جو عقل والے ہیں‘‘۔ ۲: ۲۶۹۔ اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ حکمت کوئی ایسی شے نہیں جسے کوئی شخص اپنے اختیار سے حاصل کر سکے، بلکہ یہ خدا کے قبضۂ اختیار میں ہے جو وہ اپنی مشیت سے عطا کرتا ہے اور یہ ایک ایسی عطا ہے جس میں بہت سی نیکیاں مضمر ہیں، خدا کی عطا کردہ نیکیاں حقائق و معارف ہی ہوتی ہیں جو کہ غیرفانی ہیں نہ کوئی جسمانی دولت و نعمت جو کہ فنا پذیر ہے، ہر ذی شعور انسان اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرے گا کہ حکمت خود عقل ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ عقل والوں کے بغیر کوئی نہیں سمجھتا یعنی صاحبِ عقل ہی سمجھ سکتا ہے، یہاں پر سمجھنے یا نہ سمجھنے کا تعلق قرآن ہی سے ہے اور قرآن کو وہ سمجھ سکتا ہے جس کو حکمت دی گئی ہو جس کے ذریعے وہ قرآن کے علوم و حقائق سے باخبر

۱۶

ہو سکتا ہے۔ پس یہی حکمت یا عقل ہی بہت سی نیکیوں کی کلید ہے۔

۱۷

قیامت خدا کی گھڑی ہے

اب لفظ ’’ الساعۃ ‘‘ کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ الساعۃ کے کئی معنی ہیں جن میں سے ایک معنی گھڑی یعنی وہ ڈائل ہے جس کے ذریعے وقت معلوم کیا جاتا ہے، ہم اس معنی ہی کو لیتے ہیں، اس لئے کہ قیامت کی جملہ مثالوں میں سے یہ ایک ایسی مثال ہے جس کے ذریعے نظریۂ قیامت کو بآسانی سمجھایا جا سکتا ہے، قیامت کو گھڑی سے تمثیل دینے کی خاص وجہ یہ ہے کہ خود خدائے علیم و حکیم نے قرآنِ شریف میں جہاں کہیں بھی قیامت کا ذکر فرمایا ہے تو اس کو اکثر یوم اور ساعۃ کے نام سے یاد کیا ہے، حکیمِ مطلق نے (جس کا کلام صدق و عدل میں بدرجۂ اتم ہے) قیامت کی مثال جو گھڑی سے دی ہے، اگر ہم اس سے یہ معنی لیں کہ صرف ایک گھنٹہ میں واقعۂ قیامت ختم ہو گا، تو یہ معنی ان دوسرے معانی (یعنی جو چشمِ زدن، ایک دن، ایک ہزار برس اور پچاس ہزار برس کے عرصے میں قیامت واقع ہونے کے متعلق ہیں) کا مخالف ہو کر ہمارے مسئلے کو پیچیدہ تر بنائے گا جو عقلاً اور دلیلاً غیرممکن ہے، ہم اس کی غیر امکانیت کو علمِ ہندسہ کی روشنی میں بطریقِ ذیل ثابت کر دکھاتے ہیں۔ مثلاً:

لمح البصر                      ثانیہ                    ساعہ                 یوم
سیکنڈ                        منٹ                     گھنٹہ                دن
۱                               ۲                        ۳                  ۴

یہاں اس مسئلے کے صحیح حل کا اصول صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ۱، ۲، ۳ اور

۱۸

۴ کے ہندسوں میں جو اس مطلوبہ مثال کی ترتیبی ترجمانی ہے، آپ اپنی عقل سے اس طرح چلیں کہ وہ صراطِ مستقیم کے عین مطابق ہو، مثلاً:

یہ صراطِ معکوس (الٹا راستہ) ہے۔

یہ سبیلِ جائیر (ٹیڑھا راستہ) ہے۔

یہ بھی سبیلِ جائیر (ٹیڑھا راستہ) ہے۔

یہ صراطِ مستقیم (سیدھا راستہ) ہے، پس قیامت کی یہی ترتیب درست ہے۔

پس جو مسئلہ صراطِ مستقیم کے مطابق حل نہ ہو سکے وہ غلط ہے، کیونکہ صراطِ مستقیم اس نظریاتی میزان کا نام ہے نہ کہ کوئی مادی شی، اور اس میزان سے ظاہر ہے کہ قیامت آغاز سے چل رہی ہے۔

۱۹

دائمی قیامت

اب جو میں تشریح کروں گا اس سے صاف ظاہر ہو گا کہ فی الحقیقت قیامت کی مثال گھڑی (الساعۃ) میں موجود ہے، جس طرح گھڑی کے ذریعے ایک سیکنڈ سے لے کر منٹ، گھنٹہ، دن، رات، ہفتہ، عشرہ، ماہ، سال، صدی اور دور و زمان کے مختلف اوقات کا تجزیہ و تکملہ ہو سکتا ہے، اسی طرح مختلف قسم کے زمانوں میں مختلف قیامات واقع ہوتی ہیں، جو کہ گھڑی کے اوقات سے متماثل ہوتے ہیں، گھڑی کی ہر زمانے میں ضرورت رہی ہے، اس لئے زمانۂ قدیم سے وقت کا اندازہ اور مقدار معلوم کرنے کے لئے مختلف گھڑیاں مثلاً: ساعتِ شمسیہ (دھوپ گھڑی) ، ساعتِ رملیہ (ریت گھڑی) ، ساعتِ مائیہ (پن گھڑی)، ساعتِ فلکیہ (آسمانی گھڑی) اور آخر میں موجودہ گھڑی ایجاد ہوئی، مذکورۂ بالا مثالوں اور دلیلوں کے بعد خدائی گھڑی (الساعۃ) کی اس قیامت کا (جو ابتدائی، انتہائی اور دائمی ہے) ذکر کروں، جس کے متعلق آگاہی ازبس ضروری ہے، زمانہ جس سرعتِ رفتار سے حدِ ’’الآن‘‘ (ابھی) سے گزرتا رہا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ کوئی وقت ایسا نہیں جو سیکنڈ سیکنڈ ہو کر نہ گزرا ہو اسی طرح دائمی قیامت طرفۃ العین (چشمِ زدن) سے بھی تیز تر رفتار سے متصل بلا منفصل گزر رہی ہے، ذیل کی آیتِ کریمہ سے یہ حقیقت عیان ہے۔

و للّٰہ غیب السمٰوٰت و الارض و ما امر الساعۃ الا کلمح البصر او ھو اقرب ان اللّٰہ علیٰ کل شی قدیر ۔ (۱۶: ۷۷)۔

۲۰

’’اور اللہ کی ہیں آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزیں (اشیاء و ارواح) اور نہیں قیامت کا امر مگر مانند چشمِ زدن کی یا اس سے بھی قریب تر، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔
تشریح: آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزیں جسمانی اور روحانی دونوں صورتوں میں اللہ کی ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں جہان اسی کے ہیں، لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ زمانۂ حاضرہ کی یہ ساری سائنسی اور ایٹمی ایجادات و انکشافات جو تیرہ سو (۱۳۰۰) سال قبل خدا کی پوشیدہ چیزوں میں سے تھیں، خدائے بے نیاز نے بے دریغ آج کے انسانوں کو عطا کیا، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ’’فلان چیز میری ہے یا میرے نزدیک ہے‘‘ اس امر کی قطعی دلیل نہیں کہ خدائے جواد اسے انسانوں کو ہرگز نہ دے گا بلکہ بمطابق آیۂ کریمہ ’’ و ان من شی الا عندنا خزائنہ و ما ننزلہ الا بقدر معلوم ‘‘ (۱۵: ۲۱) ۔ ’’اور کوئی ایسی شی نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں اور اسے نازل نہیں کرتے مگر بمقدارِ علم (اہلِ زمانہ)۔‘‘
اس سے ظاہر ہے کہ کوئی شے ایسی نہیں جو بشرطِ قابلیتِ زمانہ دنیا میں ظہور پذیر نہ ہو، یہی حال علم و معرفت کا ہے جو ان ساری چیزوں سے ضروری اور برتر ہے اور یہی خدا کی حقیقی رحمت اور روحانی نعمت ہے، چونکہ خدا کی رحمت سے مایوسی کفر ہے اور علم و معرفت سے مایوسی عین خدا کی رحمت سے ناامیدی ہے لیکن یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ جسم جیسی کثیف چیز کو موجودہ ایجادات و انکشافات کے انتہائی تازہ ترین انعامات سے نوازا جائے اور روح جیسی لطیف اور عزیز چیز کو علم و معرفت سے محروم رکھ کر موجودہ مسائل کے الجھنوں میں لا علاج رکھا جائے، لہٰذا یہ یقینی امر ہے کہ جس طرح مادی اشیاء بشرطِ استعدادِ زمانہ دنیا میں ظہور پذیر ہوتی ہیں اسی طرح روحانی نعمتوں سے بھی (جو علم و معرفت ہے) بشرطِ قابلیت

۲۱

و استعداد مستفیض ہونا امکانات میں سے ہے۔

اب آیتِ مذکورہ ’’ما امر الساعۃ ‘‘ میں حرفِ ما علامتِ نفی ہونے کے باعث قیامتی گھڑی کے ابتدائی و انتہائی صفر کا معنی دیتا ہے، جس طرح مصنوعی گھڑی کا ہر سیکنڈ محض ایک فرضی صفر سے شروع ہو کر ایک فرضی صفر پر ختم ہو جاتا ہے اور جس طرح زمان سطحِ محیط سے مرکزِ کلی ہوتے ہوئے واپس عالمی سطحِ محیط کے فرضی صفر پر ختم ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح دائمی قیامت کے اثرات جسمِ کلی (آسمان اور تمام اجرامِ فلکی) کی سطح سے شروع ہو کر سورج کے نقطۂ مرکز (مرکزِ کلی) سے ٹکراتے ہوئے پھر اسی سطحِ کلی کے فرضی صفر میں ختم ہو جاتا ہے کیونکہ حدِ نیستئ جسم، ما، لا اور صفر کا معنی ایک ہی ہے اور یہ سطحِ محیط کی غایت ہے۔

’’امر‘‘ یا دائمی قیامت اس ہمہ گیر فعلِ قدرت کا نام ہے جو جسمِ کل میں انتہائی سرعت کے ساتھ روان ہے، جس طرح سیکنڈ کی سوئی نہایت سرعت سے عرصۂ زمان میں چل رہی ہے اور جس سے منٹ سے لے کر سال وغیرہ تک کے اوقات بنتے ہیں اور وہ ان تمام اوقات میں روان دوان ہے، بالکل اسی طرح دائمی قیامت (جو سب سے چھوٹی قیامت ہے) سے بڑی قیامت بنتی رہتی ہے، اگر ہم عالمی واقعات و حالات کی تبدیلی کو فرضی طور پر ایک گھڑی کے اوقات تصور کریں اور مشاہدۂ تخیل کریں تو معلوم ہو گا کہ واقعات بلحاظِ زمان دو طرح کے واقع ہوتے ہیں ایک وہ جو سیکنڈ کی طرح مسلسل طرفۃ العین میں واقع ہو رہے ہیں جسے دائمی قیامت کہیں گے، دوسرے وہ جو منٹ، گھنٹہ، دن، رات، ماہ اور سال وغیرہ کی طرح جدا جدا اوقات میں واقع ہوتے ہیں وہ ہنگامی قیامت کہلاتے ہیں، اس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ قیامت جسمانی و روحانی جزوی و کلی واقعات کا مجموعی نام ہے۔

۲۲

عالمگیر روح کی عملی طاقت قیامت خیز ہے

حکمائے دین کے اقوال اور عقلی دلائل سے یہ حقیقت اہلِ دانش کے لئے مسلمہ ہو سکتی ہے کہ جسمِ کل یا کہ فلکِ اعظم کی بیرونی سطح کروی (گیند نما) شکل کی ہے، جسے محیطِ کل، سطحِ مطلق، سطحِ کلی اور جسم کی ابتداء و انتہا وغیرہ کہتے ہیں، جس سے باہر کوئی جسم نہیں، نہ یہ درست ہے کہ عالمی سطحِ محیط کے بعد کی حالت پر ہم لفظِ ’’باہر‘‘ کا اطلاق کریں، کیونکہ لفظِ ’’باہر‘‘ یا اس کی مانند الفاظ مکان کے لئے مستعمل ہو سکتے ہیں، لیکن عالمی سطح کے بعد کوئی مکان نہیں، اس حدِ لا مکان کے متعلق مکانی الفاظ کا استعمال کرنا تعلیمی ٖضرورت کی وجہ سے ہے۔

اس کروی شکل کی عالمی سطح پر عالمگیر روح (نفسِ کل) کی نورانی طاقت محیط ہے، جس کے روحانی اور نورانی اثرات عالمی مرکز (سورج) پر پڑتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے وہاں ھیولیٰ کے تحلیلی عمل سے غیرمنقطع دھماکہ اور نور پیدا ہوتا رہتا ہے، اور یہی نور جو دراصل حل شدہ ھیولیٰ ہے، ہمہ جہتی شکل کی رفتار میں حاشیۂ عالم تک مسلسل پھیلتا رہتا ہے، جس طرح کوئی شخص جب کسی تالاب کے عین وسط میں کوئی پتھر پھینک دیتا ہے تو وہاں سے ایک زور دار موج اٹھتی ہے، اور اپنے گرد کے ساکن پانی کو دھکیلتی ہے، اب وہاں سے چلتی لہریں حلقے در حلقے ہوتی ہوئی تالاب کے کناروں سے لگ لگ کر ختم ہو جاتی ہیں۔

۲۳

کوئی بھی حقیقت زمانے کی اصطلاحی مثال میں پیش کی جا سکتی ہے، چنانچہ سورج ایک عظیم ایٹمی گول شعلہ ہے، جس کا ایندھن اس سے متصل ھیولیٰ ہے، یہی متصل ھیولیٰ عالمی دباؤ سے (جو عالمگیر روح کی خولی گرفت کی وجہ سے ہے) اس شعلے میں ہمیشہ گرتا رہتا ہے اور وہاں سے گرمی اور روشنی کی شکل میں تحلیل ہو کر ساری کائنات میں پھیل جاتا ہے، سورج میں ایٹمی دھماکے اور زبردست جوشش موجود ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ بعض اوقات سورج کی سطح پر کچھ داغ نظر آتے ہیں، وہ دراصل سورج کی ایٹمی موجیں ہیں جو اس کے وسط سے کئی مدت تک اٹھتی رہتی ہیں، پس سورج کا یہ عمل نفسِ کلی کی طاقت کا ظہور ہے جس کا مرکز عالمی محیط ہے۔

اس جوہرِ قائم بالذات یا نفسِ کلی (جو سطحِ محیط پر مسلط و محیط ہے) کا تصور ایسا نہیں جس کو ہم کوئی جسم یا مادہ خیال کریں، بلکہ یہ اپنے جوہری اثر اور روحانی فعل سے جسم کے محاط پر محیط ہے، اسی طرح گوہرِ عقل اپنے شرف اور اثر کے لحاظ سے نفسِ کل پر محیط ہے، جس طرح یہ مانا جاتا ہے کہ کرسی پر عرشِ الٰہی ہے، بشہادتِ قولِ خدا ’’ و سع کرسیہ السمٰوٰت و الارض ‘‘ (۲: ۲۵۵) یعنی ’’ اس کی کرسی نے آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر سمو رکھا ہے‘‘۔ یہ دلیل کائنات کی سطحِ محاط پر نفسِ کل کے محیط ہونے کی ہے، جس سے کوئی مسلم حکیم انکار نہیں کر سکے گا دوسری شہادت بقولِ خدا ’’ ربنا وسعت کل شی رحمۃ و علما (۷: ۴۰) یعنی اے ہمارے پروردگار تو نے ہر چیز (عالمِ کل) کو رحمت (نفسِ کل) اور علم (عقلِ کل) میں سمو رکھا ہے ‘‘۔ پس ظاہر ہے کہ جسم کے محاطِ کل پر نفسِ کل اور اس پر عقلِ کل محیط ہے، بقولِ خدا ’’ و کان اللّٰہ بکل شی محیطا (۴: ۱۲۶) اور اللہ ہر چیز پر محیط ہے ‘‘۔ یعنی خدائے برتر اپنے فعلِ قدرت سے جو نفسِ کل ہے ساری کائنات پر محیط ہے۔

اس بنیادی حقیقت اور اصولی معرفت کے بعد مابقی یہ ہے کہ نفسِ کل جو

۲۴

یہی قیامت اور فعلِ قدرت ہے، جو سطحِ محیط سے مرکزِ عالم کی طرف ساری کائنات اور ان کے ذرات میں ساری اور اثر انداز ہے، جس کے اثرات کی پذیرائی کا انحصار ہر چیز کی طبیعی و روحانی لطافت و کثافت نیز حیث مقدار زمان و مکان پر ہے، پس نفسِ کل کے کائنات پر غیر منقطع اثرات اور ان کے روحانی و جسمانی واقعات کا نام قیامت ہے۔

۲۵

قیامت عالم کی بلندی و پستی میں بالفعل موجود ہے

مذکورہ حقائق کی مزید تصدیق و توثیق اس آیۂ کریمہ سے بھی ہوتی ہے:
یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِندَ رَبِّیْ لاَ یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَا إِلاَّ ہُوَ ثَقُلَتْ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لاَ تَأْتِیْکُمْ إِلاَّ بَغْتَۃً یَسْأَلُونَکَ کَأَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِندَ اللّہِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُون ۔ (۷: ۱۸۷)۔ وہ تجھ سے قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں کہ وہ کب واقع ہو گی، کہہ اس کا علم میرے پروردگار کے نزدیک ہے (جو قربت حاصل ہونے کے بعد ملے گا) ظاہر نہیں کرے گا اسے اس کے وقت پر مگر وہی، آسمانوں اور زمین میں بھاری پن آئی ہے، وہ تم پر بے خبر آئے گی۔

قرآن پاک کی یہ تعلیم کہ قیامت آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوئی ہے، اس حقیقت کی ایک محکم دلیل ہے کہ قیامت اپنے فعل و اثر کے ساتھ عالم میں موجود ہے اور بلندی و پستی کا کوئی ذرہ اس کے فعل و اثر سے خالی نہیں، کیونکہ آسمان و زمین یا بلندی و پستی اس عالمِ جسمانی کے دو نام ہیں اور بلندی و پستی مکان و متمکن کی نسبت سے تصور میں آ سکتی ہے، مثلاً اگر کچھ لوگ زمین چھوڑ کر چاند پر بس جائیں اور کچھ لوگ اس زمین پر رہ جائیں تو بالضرور ان چاند والوں کو یہ زمین اور زمین

۲۶

والوں کو چاند صرف سمت الراس سے نظر آئے گا اور اس حالت میں چاند والوں کا وہ ہنگامی جہتی تصور بدل جائے گا جس سے وہ زمین کو پستی میں اور چاند کو بلندی پر خیال کرتے تھے، ان نتیجوں کے بعد یہ حقیقت بالضرور تسلیم کرنی پڑے گی کہ شش جہت یعنی اوپر، نیچے، آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں کا جہتی تعین صرف انسانی و حیوانی جسم کے اعتبار سے ہے، ان الفاظ کو جن میں جہت کے معنی ہوں، انسان اپنے یا کسی دوسرے حیوان کی نسبت سے استعمال کرتا ہے، مثلاً کوئی کہے کہ درخت کی داہنی شاخ ، تو اس فقرے کا اطلاق کسی ٹہنی پر بھی صحیح نہیں ہو گا جب تک وہ اپنے یا کسی دوسرے انسان کے جسم کے اعتبار سے مد د نہ لے، ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس چیز کے سر، پاؤں، سینہ، پیٹھ، دائیں اور بائیں ہاتھ نہ ہو اس کی کوئی جہت نہیں، پس مرکز اور حاشیہ کی نسبت سے اجرام و افلاک کو اندرون و بیرون کہا جا سکتا ہے، اس کے سوا ان کی ذاتی نسبت سے کوئی جہت نہیں۔

جس طرح زمین سے چاند پر جانے کے بعد جملہ سیاروں کے متعلق انسان کا جہتی تصور جزوی طور پر بدل جاتا ہے اسی طرح جملہ سیارگان سے قطع نظر جسمِ کل یعنی عالم کی جہت کے متعلق غور کرنے کے بعد انسان کے نظریۂ جہت کا تصور کلی طور پر بدل جاتا ہے، مختصر یہ ہے کہ عالم کے اجزاء یعنی سیارے و دیگر اجسام بحالتِ افتراق ایک دوسرے سے مسافت پر ہونے کی وجہ سے اور انسان کی نسبت سے جہات کے تحت آتے ہیں لیکن عالم اپنے محدود مکان میں اپنے اجزاء سے متصل ہونے کی وجہ سے جہات کے تحت نہیں آتا ہے کیونکہ اس سے باہر مکان و زمان وغیرہ نہیں۔

مذکورۂ بالا کائناتی روشن دلائل سے یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ کوئی سیارہ حتمی طور پر زمین یا آسمان کہلا نہیں سکتا، بلکہ یہ اس کے ہنگامی نام ہو سکتے ہیں، جس طرح

۲۷

چاند اور زمین کی مثال سے یہ حقیقت عیان ہوئی۔

اب لفظ ’’ثقل ‘‘ اور ’’ فی ‘‘ کے متعلق کچھ نکات بیان کئے جاتے ہیں: حکمائے طبیعت کی اصطلاح میں ثقل ہر سیارے کی اس قوتِ کشش کو کہتے ہیں جس سے وہ اپنے ذرات یا اور کسی چیز کو اپنی معین حدِ کشش سے اپنی طرف کھینچتا ہے، اگر اس کشش کی تفتیش کی جائے تو بالآخر ہمارے علم میں ایک ایسا نقطہ آئے گا جو زمین یا کسی اور سیارے کے عین مرکز میں ہے جس پر سیارہ کا وزن شش جہت سے برابر پڑتا ہے۔

لیکن کس دلیل سے کہا جا سکتا ہے کہ اس جزو لا یتجزی میں وہ ساری طبیعی غیر روحانی طاقت ہے جس سے وہ ایک بڑے سیارے کو اپنے ساتھ متصل رکھ سکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ جس طرح سورج عالم کے عین وسط میں ہونے کی وجہ سے سطحِ محیط پر سے نفسِ کلی کی بہت سی نورانی کرنیں قبول کرتا ہے، اسی طرح ہر ایک سیارہ اپنے مرکز کی غایت میں اپنی طبیعت اور جسامت کے مطابق نفسِ کلی کی کچھ کرنیں قبول کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کے وسط میں ایک طاقتور نور پیدا ہو جاتا ہے اور حقیقتاً ثقل اس نورانی طاقت کا نام ہے، جس طرح حرف ’’فی‘‘ سے عیان ہے کہ فی کا ترجمہ ’’درمیان میں ‘‘ اور ’’ بیچ ‘‘ وغیرہ ہے، پس اگر خداوند فرمائے کہ ’’زمین میں ‘‘ اس سے مراد مرکز ہے، اس لئے ازروئے قانونِ عدل ’’ فی ‘‘ حقیقت میں ’’مرکز‘‘ ہی ہے، پس جو طاقت آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوئی ہے، وہ یہی قیامت کی طاقت ہے جو سیاروں کو چلاتی اور انہیں فضائے بسیط میں منتشر ہونے سے بچاتی ہے اور اسی طرح افلاک کو بھی اسی طاقت نے تھام رکھا ہے۔

۲۸

ہر شخص کی موت اس کی قیامت ہے

رسولِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حدیث من مات فقد قامت القیامۃ (جو شخص مر جائے اس کی قیامت برپا ہوئی) اس حقیقت کی تصدیق کر رہی ہے کہ قیامت ہمیشہ عالم میں جاری ہے، ازآنکہ موت ہمیشہ جاری ہے اور موت دو طرح کی ہے، ایک اضطراری دوسری اختیاری، اضطراری موت جسم اور روح کی مفارقت ہے اور اختیاری موت تزکیۂ نفس کے ذریعے کسی عارف کا اپنی بہیمی صفات سے چھٹکارا حاصل کرنے کا نام ہے، جیسا کہ حدیثِ شریف میں فرمایا گیا ہے کہ: موتوا قبل ان تموتوا (یعنی جسمانی طور پر مرنے سے پہلے نفسانی طریقے پر مرو) پس اختیاری موت میں ان تمام نفسانی خواہشات کا ختم کرنا ہے، جن کی وجہ سے نفسِ ناطقہ روحانی عروج حاصل نہیں کر سکتی، یعنی عبادت و ریاضت کی طاقت سے نفس کشی کرنا ہی نفسانی موت اور نفسانی قیامت ہے اور جب جسمانی اور نفسانی دونوں صورتوں میں قیامت موت پر منحصر ہے تو موت دو چیزوں کی جدائی ہو یا ایک چیز کی فنا، بہر صورت اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر عمل اور ہر واقعہ پر گو وہ چھوٹا ہو یا بڑا قیامت لازمی ہے، اس لئے کہ اگر یہ حقیقت ہے کہ قیامت پاداشِ عمل کے لئے ہے، پھر اس دنیا میں بھی جزوی طور پر پاداشِ عمل ملنا ضروری ہے در حقیقت ایسا ہی ہو رہا ہے اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ عالم میں اور کوئی بڑی قیامت نہیں، قیامت ضرور آئے گی اور اب بھی ہے، جس طرح ہر شخص کی موت ہی اس کی قیامت ہے۔

۲۹

اسی طرح کسی خاندان کی تباہی اس خاندان کی قیامت، کسی گاؤں کی بربادی اس کی قیامت اور کسی حکومت کا زوال اس کی قیامت ہے، طوفان، سیلاب، زلزلہ اور آندھی جیسی قدرتی یا بناوٹی تباہ کن واقعات قیامات ہیں اور دوسری طرف سے علم و فن، سائنس اور ایٹم جیسی چیزیں جو دنیا میں بڑی تبدیلیاں لاتی ہیں قیامات ہیں۔ کیونکہ یہ سب چیزیں قیامت کے زیرِ اثر ہیں اور قیامت کسی چیز کے فنا ہونے پر ضروری ہے اور یہ ساری چیزیں اگلی چیزوں کو ختم کر ڈالتی ہیں، پس جونہی کوئی شی فنا ہوئی یا بدل گئی تو چشمِ زدن میں اس کی قیامت ہوئی، اب اخیر میں قیامت کی چند قسمیں لکھی جاتی ہیں:
۱۔ دائمی قیامت: یہ ہمیشہ دنیا میں روزِ اول سے جاری ہے۔
۲۔ ہنگامی قیامت: یہ ان واقعات کا نام ہے جو قیامت کے کم وقفے میں واقع ہوتے ہیں۔
۳۔ شخصی اختیاری قیامت: تزکیۂ نفس کا نام ہے۔
۴۔ شخصی اضطراری قیامت: یہ ہر شخص کی جسمانی موت ہے۔
۵۔ اجتماعی قیامت: یہ کسی گاؤں، شہر، ملک یا کسی حکومت کی تبدیلی کا نام ہے۔
۶۔ عالمی قیامت: یہ کسی بھی شکل میں آنے والی ہے، اس کے علاوہ اور بھی بہت بڑی قیامتیں ہیں، مثلا کسی سیارے کا اپنے مدار سے ہٹ کر عالم کے حاشیہ کی طرف جانا یا حاشیہ کی طرف سے کسی سیارے کا اندر کی طرف آنا یا سورج میں گر کر ختم ہو جانا یا سورج سے کسی سیارے کا پیدا ہو جانا یا کل عالم کا ھیولیٰ میں فنا ہو کر پھر سے پیدا ہونا وغیرہ۔

۳۰

تبادلۂ اضداد و دائرۂ لامتناہی

خدائے برتر کا کلامِ حکمت نظام صدق و عدل کا سرچشمہ، علم و حکمت کا خزانہ اور رحمتِ سرمدی کا بحرِ بیکران ہے، جس کی ہر مختصر سے مختصر آیت بجائے خود ایک ایسی ضخیم کتاب کی حیثیت رکھتی ہے، جو سر تا سر اسرارِ علوم سے پر ہو، مثال کے طور پر ’’ و کل فی فلک یسبحون ۔ (۳۶: ۴۰) ۔ اور ہر کوئی ایک چکر میں گھومتے ہیں۔‘‘ دوسری آیت ’’ و ھو الذی خلق الیل و النھار و الشمس و القمر کل فی فلک یسبحون ۔ (۲۱: ۳۳)۔ اللہ وہی ہے جس نے رات، دن، سورج اور چاند پیدا کیا اور سب ایک ایک دائرے میں چلتے ہیں‘‘۔ ہر دانشمند اس حکمِ کلی سے انکار نہیں کر سکے گا کہ ہر کل اپنے اجزاء کی معیت میں ایک مسلسل روان پرکار کی مانند گھوم رہا ہے، مذکورہ دو آیتوں سے ظاہر ہے کہ سورج (جو ساکن ہے) بھی اپنی کروی حدِ جسامت کے اندر جوشندہ حرکت میں ہے، نیز چاند ، سیارے اور زمین کے علاوہ ہر کل اور جزو اپنے اپنے دائروں میں گھوم رہے ہیں اور اس کائناتی اٹل قانون سے کوئی شی باہر نہیں گویا کوئی موجود شی ایسی نہیں جو چال یا حال کے دائرے پر گردش نہ کرتی ہو، دائرۂ حال سے مراد دو (۲) مخالف حالتوں کا متواتر یکے بعد دیگرے بدلنا ہے، جس طرح روز و شب، اور ان کی گردش سے دائرہ بنتا ہے جو ان کے گول ہونے کی دلیل ہے، پس معلوم ہوا کہ ہر چیز جو دوری گردش کرتی ہو گول ہے، چنانچہ عالم، سورج، چاند، زمین، سیارے، روز و شب، ماہ و سال، گرمی و سردی اور ہر چیز گول ہے۔ بارش کے قطرے

۳۱

سے لے کر درختوں اور فصلوں کے بیج، پرندوں کے انڈے تک ہر چیز گول ہے، سمندر سے بادل، بادل سے بارش اور بارش سے پانی بن کر سمندر میں مل جاتا ہے، اسی طرح زمین سے بھی بہت سی چیزیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر فنا ہو کر اس میں مل جاتی ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بقاء و فناء بھی باہم ملی ہوئی صورت میں گول ہے۔

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآنِ مجید میں جہاں کہیں لفظِ کل آئے تو اس کا اطلاق ساری کائنات پر ہوتا ہے، بشرطیکہ کسی خاص چیز کا نام نہ ہو، اس قسم کے کلی احکام کے ساتھ ایک یا زیادہ مثالیں بھی موجود ہوتی ہیں، جس طرح مذکورہ آیت کے پسِ پردہ بطریقِ حکمت انسانوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ دائرۂ قوسین (دو کمان) کی مثال ہے، جن میں سے ایک قوس فوری طور پر نظر آتی ہے، لیکن دوسری قوس غور و فکر کرنے سے تعلق رکھتی ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں قوسوں کو آپس میں ملی ہوئیں بلکہ اس سے بھی قریب تر یعنی خدا میں دو جہان اور دو جہان میں خدا دیکھا تھا۔

جسمانی طور پر انسان بیک نظر بہت سی کثیف چیزوں کا اس طرح مشاہدہ نہیں کر سکتا جس طرح کہ وہ کسی شفاف بلور کے کرے کے آر پار، یا اس کے ظاہر و باطن کا بیک وقت معائنہ کر سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات وہ کلیات کے نصف دائرے کا تصور کرتا ہے، جس طرح زمین کے نصف دائرے پر رہنے کی وجہ سے دوسرے نصف دائرہ اس کی نظر سے اوجھل رہتا ہے اور اسی طرح آسمان، سورج، چاند اور ستاروں کے عقبی نصف کرے اس کی نظر سے ناپید رہتے ہیں، اسی قیاس سے معلوم ہوا کہ جزوی چیزوں میں بھی بیک وقت ان کا ظاہر و باطن دیکھنے میں نہیں آتا ہے۔

خدائے توانا و حکیم نے ضد سے ضد پیدا کیا یعنی رات سے دن، دن سے رات، اور اسی قسم کی بہت سی دوسری مثالیں ہیں، جن پر غور و فکر کرنے کے لئے

۳۲

صریحاً و اشارتاً ارشاد فرمایا ہے، پھر اگر ہم ان حکمت آگین آیات و امثال سے فکرِ عمیق اور عقلِ دقیق کے ذریعہ فائدہ نہ لیں تو یہ نہ صرف اس کے مقدس فرمان سے روگردانی ہو گی بلکہ ساتھ ہی ساتھ بہت بڑا کفرانِ نعمت بھی ہو گا، کیونکہ ہم فکر و دانش جیسی نعمتِ غیر مترقبہ کو ٹھکرا رہے ہیں۔

اس حقیقت کو قرآنِ حکیم کی روشنی میں ایک مرتبہ پھر واضح تر کر کے دکھاتاہوں قولہ تعالیٰ ’’ و لو شاء ربک لجعل الناس امۃ واحدۃ و لا یزالون مختلفین الا من رحم ربک (الخ) (۱۱: ۱۱۸ تا ۱۱۹)۔ یعنی اگر تیرا رب چاہتا تو لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا اور یہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے مگر جس پر تیرا رب رحم کرے اور اسی لئے انہیں پیدا کیا گیا ہے اور تیرے رب کی بات طے ہوئی ہے کہ جہنم کو انسانوں اور جنات سے بھر دوں۔‘‘

خدائے علیم و خبیر کا یہ فرمانا کہ اگر تیرا رب چاہتا تو لوگوں کو ایک امت بنا دیتا، مشیتِ قدرت کی طاقت و توانائی پر غور کرنے کے لئے آگاہ کرنا ہے، گویا فرماتا ہے کہ یہ ناممکن نہیں کہ میں دنیا والوں کو ایک ہی طریقِ کار پر چلا سکوں، لیکن اس اختلاف میں ایک حکمت پوشیدہ ہے جس میں تمام آفرینش کی صلاح و بہتری مضمر ہے، اس ربانی تعلیم سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو امر عرصۂ ممکنات میں ہو وہ بوقتِ معین قدرت کے ہاتھ ہی سے معرضِ وقوع میں آ کر رہے گا کیونکہ یہ یقینی امر ہے کہ مشیتِ ایزدی انسانی خیر و صلاح اور رحمت سے خالی ہرگز نہیں، اور رحمتِ ایزدی میں کسی کی حق تلفی نہیں اور نہ ایک دوسرے سے رقابت ہے بلکہ رحمت ہر چیز کی وسعت اور استعداد کے مطابق ہے جس میں روحانی مدارج کا ارتقاء ہے اور روحانی مدارج کے ارتقاء میں رقابت اور حق تلفی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا پھر ممکن ہے کہ جس طرح زمانوں سے یہ سارے انسان جہالت کی ظلمتوں میں ایک دوسرے کو بھوت پریت سمجھتے آئے ہیں

۳۳

اسی طرح اب وہ علم کی روشنی میں جلد یا بدیر ایک دوسرے کو فرشتہ سمجھنے لگیں گے، انسان نے اپنے شرف کی برتری سے ایسی مثالوں کا نظارہ کیا ہو گا جس میں بعض وقت ایک ہی قسم کے دو حیوان سمتِ مخالف سے لڑنے پر تلے ہوئے ترچھی نگاہوں سے دیکھتے آتے ہیں لیکن جب وہ ایک دوسرے کے بالکل قریب آتے ہیں تو وہ ایک دوسرے سے ہم جنسیت کی بو محسوس کر کے چونک پڑتے ہیں جس پر وہ بجائے ایک دوسرے کی زد و کوب اور دندان گزی کے، آپس میں اظہارِ محبت کرنے لگتے ہیں۔

اسی بناء پر مذکورہ آیت میں جو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے مگر جس پر تیرا رب رحم کرے۔‘‘ کی تہہ میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے، کیونکہ اختلاف دینی اور دنیوی طور پر ضروری تھا، اس لئے کہ خلاف و تضاد کے بغیر کوئی شی موجود نہیں ہو سکتی، چنانچہ رسولِ اکرم صلعم کا فرمان ہے کہ ’’ تعرف الاشیاء باضدادھا ‘‘ یعنی چیزیں اپنی ضدوں سے پہچانی جاتی ہیں، جس طرح سیاہ و سفید، اسی بناء پر تختۂ سیاہ پر سیاہی سے اور قرطاسِ ابیض (سفید کاغذ) پر سفیدی سے نہیں لکھا جاتا ہے بلکہ ان پر کسی مختلف یا متضاد رنگ سے لکھا جاتا ہے یا کندہ اور ابھار وغیرہ سے ان کی سطح پر ضد اور خلاف پیدا کیا جاتا ہے، اسی طرح دینی و دنیوی اختلاف زمانۂ حاضرہ کی ملی اور سیاسی حالات سے خود عیان ہے، لیکن صرف یہ دیکھنا ہے کہ ’’وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اوپر ثابت کیا گیا ہے کہ علانیہ اختلاف کے ساتھ ساتھ اتحاد بھی دلیلاً ممکن ہے، اب جب کہ لفظ ’’ہمیشہ‘‘ کا ربط یک طرفہ اختلاف کے ساتھ ہے تو اس مسئلہ کا حل یوں ہے کہ اسی اختلاف کے ساتھ اتحاد بھی مداماً لازم ہے، اس لئے کہ یہ دونوں چیزیں آپس میں لازم و ملزوم ہیں، نہ ایک طرف سے بلکہ دونوں طرف سے ایک دوسرے کے ساتھ لگے ہوئے ہیں، چونکہ یہ ممکن نہیں کہ ساری دنیا والے قولاً و فعلاً نقطۂ اتحاد

۳۴

میں اس طرح متحد ہو سکیں کہ وہ اپنی گفتار و کردار میں ایک آدمی جیسا نظر آنے لگے، اسی طرح اختلاف کی مثال بھی یہی ہے۔

نتیجۃً یہ ماننا دانش پذیری کا ثبوت ہے کہ دنیا میں روز و شب کی مانند دو بڑے دور چلتے ہیں جو لاانتہا وقتوں میں مسلسل طور پر روان ہیں، دائمیت کا اطلاق صرف اختلاف پر نہیں، یہ اس بات کی مانند ہے جو کوئی کہے کہ ’’دنیا میں رات ہمیشہ رہے گی‘‘۔ تو ہم اس کا مطلب یہ سمجھیں گے کہ بے شک رات ہمیشہ رہے گی اور اس کے ساتھ دن بھی لازمی طور پر ہو گا، کہنے والے کی مراد اس فقرہ سے صرف یہ ہو گی کہ وہ دن سے قطع نظر رات کا ذکر کرنا چاہتا ہے، اب آیت الا من رحم ربک ، سے مراد یہ ہے کہ اس اختلاف میں اپنی رحمت کی ایک امتیازی و اختصاصی عطا کی امکانیت کا بھی اظہار کرتا ہے جس سے وہ نیک بنی نوع انسان مراد ہیں جو با این ہمہ وجوہِ اختلاف اپنی وسیع النظری، کشادہ دلی اور انسانی ہمدردی کے ساتھ غیر متعصبانہ طور پر اعمالِ حسنہ کے کوشان ہوں، جن کا نظریۂ وحدت الوجود اور جن کے خیالات ہر انسان کے حق میں نیک ہوں۔ ایسے لوگ ہی ہیں جو قدرتِ خداوندی کو مجبور، رحمتِ الٰہی کو محدود اور مشیتِ ایزدی کو محصور نہیں سمجھتے ہیں، وہ یہ تصور کرتے ہیں کہ قطرۂ روح جس بحرِ محیطِ رحمت سے آیا ہو جلد یا بدیر انجامِ کار میں وہاں جائے گا۔

آیت کے دوسرے حصے سے ظاہر ہے کہ انہیں اسی اختلاف کے لئے پیدا کیا گیا ہے تا کہ اس ظاہری و ہنگامی اختلافی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہوئے دنیا کے مختلف مذاہب، ممالک اور شہر و دیار کے اقوام و افراد اپنے اندر وہ جذبہ پیدا کر سکیں، جس سے وہ کاہلی اور لا ابالی سے دور جو لانگاہ سبقت کردار اور میدانِ عمل میں پیہمِ کوشان و شتابان نظر آئیں۔

جزوی اختیارات کے دائرۂ محدود میں انسان سے سرزد شدہ خطا و

۳۵

نسیان اور نفسانی لغزشوں کی مسؤلیت اور جواب طلبی کے بعد مصلحتاً جہنم میں سب کا وارد ہونا پروردگار کا ایک حتمی و مقضی امر ہے، چنانچہ خداوند تعالیٰ خود فرماتا ہے: و ان منکم الا واردھا کان علیٰ ربک حتماً مقضیاً (۱۹: ۷۱) ’’تم میں کوئی ایسا نہیں جو جہنم میں نہ اترے، یہ تیرے رب کا فیصل شدہ امر ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ سب کے لئے جہنم میں ایک بار اترنا ضروری اور مصلحتی امر ہے، پھر وہاں سے اعمالِ نیک و بد کے اعتبار سے یکے بعد دیگرے نکلنا ہو گا، یعنی جب خداوند ایک ہی خطاب میں ہر برے ، بھلے سے مخاطب ہوتے ہوئے بلا امتیازِ اعمال جہنم میں اتر جانے کا فرمان سناتا ہے، اور فرماتا ہے کہ یہ ایک جزمی اور فیصل شدہ امر ہے تو یقین ہے کہ پھر نکل جانا ہے، کیونکہ جب یہ ممکن نہیں کہ صغائر والے تھوڑی سی سزا پانے کے بعد جہنم میں رہ جائیں تو پھر یہ بھی ممکن نہیں کہ کبائر والے زیادہ سزا پانے کے بعد جہنم میں رہ جائیں، اس معنوی تشریح میں ضمناً یہ بات بتانا باعثِ تفہیم ہو گا کہ اگر ہم خدائے برتر کے ان اسمائے صفاتی پر غور کریں جن سے انسان کی ابتدائی و انتہائی بقا کا خاص تعلق ہے تو ان میں سے کوئی ایک اسم ہرگز ایسا نہیں ملے گا جس کے معنی سے یہ ظاہر ہو جائے کہ خدا کے علم، رحمت، قدرت اور ارادت یا دوسرے صفات محدود ہیں، اگر خدا کا علم کارشناس و لاحد، اس کی مہر ہمہ رس و غیر منتہی ، اس کی توانائی انتھک و تمام کن، اور اس کا ارادہ خیر خواہ ممکنات ہے تو پھر ہمارے اس تصوراتی آئینے کی غلطی ہے جس کے بنانے میں ہم نے علم کے بعض غلط اصولوں سے کام لیا ہے، جس کی وجہ سے اس میں فعلِ قدرت کی بعض اشکال ہمیں خام و نا تمام نظر آتی ہیں، وہ غلط اصول ہماری سطح بینی کے حا صل کردہ تھے جن کی مثال اس طفل کی طرح ہے جس نے آئینہ کی پشت پر سندر کے مرکب کو دیکھا لیکن اس کی حکمت نہ سمجھ سکا کہ یہ کیوں ایسا ہے، جب وہ عقل و شعور کی عمر میں آئے گا تب اسے یہ حکمت سمجھائی

۳۶

جا سکتی ہے کہ ساری چیزیں اثر کے اعتبار سے چار حصوں میں منقسم ہیں، پہلی قسم کی چیزیں وہ ہیں جو کسی چیز کا اثر اس طرح قبول کرتی ہیں جس طرح بیابان کی مٹی بارش کو جذب کرتی ہے جو بادل کا اثر ہے، دوسری قسم کی چیزیں کسی چیز کے اثر کے لئے سدِ راہ نہیں ہوتی ہیں، جس طرح ہوا سورج کی روشنی کے لئے سدِ راہ نہیں ہوتی ہے، تیسری قسم کی چیزیں وہ ہیں جو کسی اثر کو جذب نہیں کر سکتی ہیں، جس طرح سخت پتھر پانی کو جذب نہیں کر سکتا اور چوتھی قسم کی چیزیں کسی چیز کے اثر کو منعکس کرتی ہیں جس طرح پہاڑ صدا کو واپس کرتا ہے۔

صاف اور شفاف شیشہ جو روشنی اور نظر کے لئے سدِ راہ نہیں ہو سکتا ہے اور اس میں روشنی کی ضد و خلاف کوئی خاصیت موجود نہیں ہوتی ہے، پس یہ امر لازمی ہوا کہ شیشے کی ایک طرف کی سطح پر روشنی کو واپس کرنے کی خاصیت پیدا کی جائے تا کہ نگاہ اور روشنی ملی ہوئی حالت میں واپس چہرے پر پڑے جس سے دیکھنے والا اپنے آپ کو اپنی نگاہ سے دیکھے، گویا آئینے سے انسان جو اپنے چہرے کا عکس دیکھتا ہے وہ حقیقتاً آئینے میں نہیں، بلکہ آئینہ کی خاصیت یہ ہے کہ نظر کو منعکس کر کے دیکھنے والے کے چہرے پر ڈالتا ہے۔

۳۷

ایک حکمت آگین مثال پرکار میں

بموجبِ فرمانِ الٰہی ہمیں یقین ہے کہ ہر چیز علم میں سموئی ہوئی ہے اور علم ہر چیز میں سمویا ہوا ملتا ہے، علم وسعت کے لحاظ سے وہ بحرِ بے پایان ہے جس میں کل عالم مستغرق ہے اور ہر جا رسی کے لحاظ سے علم وہ بارش ہے جس سے کوئی شے خالی نہیں، کیونکہ اگر کلی طور پر عالم علم کے گھیرے میں ٹھہرا ہے تو جزوی طور پر ہر چیز کا قیام علم پر ہے، پس ہر چیز کی خلقت، طبیعت، اثر اور فعل میں علم موجود ہے، اور ہر چیز کی اصلی حالت سے واقفیت حاصل کرنے کا نام علم ہے، ان میں سے بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جن کے مرکب خصائص کے فعل سے کلیات کی مثالیں ملتی ہیں جیسا کہ پرکار ہے۔

پرکار اپنے اجزاء کے اتحاد و اتصال میں ایک ہے، اس میں پنسل وہ چیز ہے جس کے بغیر وہ مخصوص فعل نہیں کر سکتا ہے جس کے لئے اسے بنایا گیا ہے، پنسل منفصل و متصل ہو سکتی ہے تا کہ اس کی تجدید ہو سکے، ایک مکمل پرکار اپنی دونوں نوکوں پر دو مخالف نقطے رکھتا ہے جو ایک فرسا (گھسنے والا) اور دوسرا نا فرسا (نہ گھسنے والا) ہے، دونوں نقطے ایک دوسرے سے قریب تر اور دور تر ہو سکتے ہیں اور غایتِ نزدیکی سے ان کا دوئی ختم کر کے یکتا ہونا غیر ضروری اور خالی از حکمت ہے، کیونکہ ان کی وحدت پرکار میں ثابت ہے جس کی وجہ سے ان کو ایک بھی کہا جا سکتا ہے اور دو بھی۔

۳۸

جب ایک سے دو پیدا ہوا تو کثرت کی امکانیت پیدا ہوئی اور اسی طرح جس چیز میں زیادہ خصوصیات پائی جائیں وہ کم خصوصیات والی چیز سے زیادہ مفید اور کارآمد ہوتی ہے اور اس میں زیادہ حکمت پوشیدہ ہوتی ہے، مثلاً پرکار میں یہ خصوصیت موجود ہیں:
(۰)وصل = فصل، (۱) وسعت =ضیق ، (۲) خلش =سیاق، (۳) سکون =حرکت، (۴) صلابت =فرسودگی، (۵) نگارش =گزارش، (۶) وحدت =تقسیم، (۷) موافق =خلاف، (۸) علت غایتی =علت تمامی، پس پرکار میں اٹھارہ خصوصیات موجود ہیں اور اس سے نہ کم ہیں نہ زیادہ، ان کے علاوہ اگر اور کوئی خاصیت تصور کی جائے تو وہ ان میں سے کسی ایک کا دوسرا نام ہو گا، پرکار کی ان خصوصیات کی اجتماع سے دائرہ کا مکمل ہو جانا ان کی علتِ غایتی ہے اور اس کام کا مکمل ہو جانا جس کے لئے دائرہ بنایا گیا ہے، علتِ تمامی ہے، پس یہ دونوں چیزیں اس کے ساتھ بھی ہیں اور جدا بھی، ساتھ اس لئے ہیں کہ ان سولہ چیزوں سے دائرہ مکمل ہوا اور دائرے سے وہ کام مکمل ہو گا جس کے لئے دائرہ بنایا گیا ہے اور جدا اس لئے ہیں کہ اب ان چیزوں کی ضرورت نہیں رہی جو دائرہ بنانے کے لئے ضروری تھیں۔

اسی طرح علتِ غایتی اور علتِ تمامی ایک وجہ سے ساتھ ہیں اور دوسری وجہ سے جدا ہیں، یہ دو ایک دوسرے کے ساتھ اس لئے ہیں کہ دائرہ کے بغیر وہ کام مکمل نہیں ہو سکتا جس کے لئے دائرہ مقصود تھا، جدا اس لئے ہیں کہ کام مکمل ہو جانے کے بعد دائرہ کی ضرورت نہیں، اب پرکار کی وہ سولہ مخالف خاصیت آٹھ جفت ہوئیں، علتِ غایتی اور علتِ تمامی آپس میں مخالف نہیں اس لئے یہ جفت نہیں، آٹھ جفت کے بعد علتِ غایتی زائد ہوئی اور علتِ تمامی کامل ہوئی، پس عدد آٹھ جفت، نو زائد اور دس کامل ہے جن کا ذکر علیحدہ کسی فصل میں آئے گا۔

۳۹

ہر چیز کی بناوٹ ذرات سے ہے

جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان کے اجسام ذرات یا نقاط کے مجموعے ہیں، یہ ذرے دوسرے اجسام سے آتے ہیں، مثلاً مٹی، پانی، ہوا اور اثیر (گرمی کا منبع) سے، جس طرح مٹی سے پتھر یعنی پہاڑ ذرہ ذرہ منجمد ہو کر بنتا ہے اسی طرح نباتات ابتداء میں کسی بیج یا گٹھلی میں صرف ایک نقطہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور جس کا بیج نہ ہو وہ کسی ٹہنی کی کونپل میں بجز ایک نقطہ کے کچھ نہیں ہوتی، جس کے قلم زمین میں لگانے سے وہی نقطہ بتدریج ایک درخت بنتا ہے، شروع میں ایسا قلم جس میں کافی مقدار میں رطوبت اور جڑ اگانے کی صلاحیت ہوتی ہے، کچھ دنوں تک کوئی شے جذب نہیں کر سکتا، روحِ نامیہ موسم کی اعتدال کی وساطت سے اور اس قلم کی مابقی روحِ نامیہ سے مل کر اس قلم کی نشونمائی شروع کرتی ہے جس سے نرم نرم کونپلیں اور جڑیں اگتی ہیں، جس سے وہ قلم بہت ہی آہستگی سے اور بتدریج نقطہ نقطہ ہو کر بڑھتا ہے، یہاں تک کہ ایک بڑا درخت بنتا ہے۔

اسی طرح حیوان اور انسان کے جسم ابتداء میں بجز نقطے کے کچھ نہیں ہوتے اور انسان یا حیوان کے اجسام کی نشونمائی کی رفتار اور مقدار کی باریکی کی یہ حد ہوتی ہے کہ انسانی نگاہ نہیں دیکھ سکتی ہے، ان سب چیزوں کے احوال سے یہ معلوم ہوا کہ ذرہ اور نقطہ نہ صرف جسم کی بنیاد ہے بلکہ یہ حروف اور ہندسے کی بھی بنیاد ہے، ایک کنکر کو

۴۰

پیس کر غور سے دیکھو تو مٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرات نظر آئیں گے، معلوم ہوا کہ پتھر مٹی سے پیدا ہوا ہے، کیونکہ کسی چیز کی فنا کی انتہائی حالت ہی اس کی پہلی بقا کی ابتدائی حالت ہوتی ہے، اسی طرح نباتات کی مثال ہے، اگر ہم ایک گیلی لکڑی کو جلتی ہوئی آگ پر رکھیں تو اس میں آگ نہیں لگے گی، اس لئے کہ پانی آگ کا مخالف ہے، پھر اگر آگ میں اپنے مخالف کی نسبت طاقت زیادہ ہے تو پہلے اسے نکال دے گی اور اس کے ساتھ ساتھ مخالف گیسیں اور ہوا بصورتِ دھواں نکال دیتی ہے اور جو حصہ ان چیزوں سے صاف اور آگ کی خاصیت سے بنی ہوئی چیزوں کے ساتھ رہ جائے تو اس میں آگ لگ جاتی اور جلاتی ہے، اب آگ بجھنے پر صرف وہ چیز باقی رہ جاتی ہے جسے معمولی آگ نہیں جلا سکتی اور وہ مٹی ہے، حیوان اور انسان کے اجسام بھی گلنے ، سڑنے اور خشک ہونے کے بعد مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو جاتے ہیں، پس معلوم ہوا کہ اجسام ذرات کے مجموعے ہوتے ہیں۔

۴۱

الف میں نقطہ پوشیدہ اور صفر ایک سے آگے

کسی بھی تحریر کے لئے جب کوئی محرر اپنے قلم کی نوک سے لکھنے لگتا ہے تو سب سے پہلے کاغذ پر نقطہ وجود میں آتا ہے، اسی طرح اگرچہ الف کا بظاہر نقطہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس کی بنیاد اور ساخت نقطہ پر ہے، مثلاً الف لکھتے وقت آغاز میں جب کہ قلم کی نوک کاغذ کی سطح کو چھوتی ہے تو اسی لمحہ میں ہی نقطہ وجود میں آتا ہے، بعد ازان قلم کی حرکت کے ساتھ ساتھ نقطوں کا ایک تار سا بنتا ہے، جس کو پیچ و خم دیتے ہوئے حروف کی تشکیل دی جاتی ہے، یہی مثال جملہ تحریرات و نقوش کے لئے بھی ہے لیکن ہندسوں میں ترتیبی لحاظ سے ایک سے آگے صفر آنے کی مثالیں ذیل میں لکھی جاتی ہیں۔

اگر ہم کسی کاغذ پر ایک دائرہ کھینچیں اور اسی پر ایک جگہ صفر لگا کر اسے حدِ آغاز تصور کرتے ہوئے دائیں طرف سے اسے دس مساوی حصوں میں ایک سے دس تک ہندسوں پر تقسیم کریں تو دس کے ہندسے کو آغاز کے صفر پر لکھنا پڑے گا، جس کے لئے صرف صفر کے پیچھے ایک لکھنا ہی بس ہے کیونکہ صفر پہلے سے موجود ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ صفر ایک کے ہندسے سے آگے ہے، مثلاً اگر ہم اس طرح صفر سے گزر کر اگلے ہندسے کے پیچھے بھی ایک لکھیں تو یہ گیارہ بن جائے گا اور اسی طریقہ سے ہندسوں کی ترتیب میں کوئی غلطی نہیں ہو گی، پس یہ اصول درست ہے کہ ایک سے آگے صفر ہے کیونکہ اگر کسی ترتیبی چیز کو دائرہ پر بالترتیب رکھا جائے تو انتہائی چیز ابتدائی چیز کے عقب سے ملے گی، چنانچہ اگر حروفِ تہجی ترتیب سے دائرہ پر لکھے

۴۲

جائیں تو حرف ’’ی‘‘ الف کے عقب میں آئے گا، معلوم ہوا کہ ’’الف‘‘ سے ابتداء ہے اور ’’ی‘‘ اخیر میں ہے۔

دوسری دلیل: صفر کے معنی ’’کچھ نہیں‘‘ یا ’’نیست‘‘ ہے اور الف کے معنی ’’کچھ ہے‘‘ یا ’’ہست‘‘ ہے، اس لئے ہست سے نیست پہلے آنا چاہئے۔

تیسری دلیل: جس طرح مذکورہ مثال میں صفر کو حدِ آغاز تصور کرتے ہوئے ہندسوں کی ترتیب درست ہوئی ہے اگر اس کے برعکس ہم سب سے پہلے ایک لکھیں تو یہ کون سی ناپی ہوئی چیز کے معنی دے گا؟ پھر اس کے بعد دو لکھیں اور غور کریں تو ایک اور دو کے درمیانی مسافت کا حصہ صرف ایک ہی ہو گا، جو یہ نہ ایک سے تعلق رکھتا ہے اور نہ دو سے، ایک سے تعلق اس لئے نہیں رکھتا کہ ہر مسافتی ہندسہ اپنے عقب کے مقدار ظاہر کرتا ہے، اور دو سے اس لئے نہیں کہ حصہ تو ایک ہے اور ہندسہ دو، پس یہ اصول غلط ہے کہ صفر سے آغاز نہ کریں۔

چوتھی دلیل: کسی لمبی چیز کی مسافت ہندسوں سے ظاہر کرتے وقت ایک سے آگے صفر کی ضرورت اس صورت میں محسوس ہوتی ہے جب کہ اس چیز کے کنارے نہ ہوں، اگر کنارے ہوں تو ابتدائی کنارہ صفر تصور کیا جاتا ہے۔

پانچویں دلیل: اکائی کے ہندسوں میں اعداد کی جو ترتیب ہے وہی ترتیب دہائی کے ہندسوں میں بھی ہو گی، اگر دہائی کے ابتدائی ہندسہ کو مرکب بنانے کے لئے سب سے پہلے صفر آتا ہے تو اکائی کے ہندسوں میں بھی سب سے پہلے صفر آنا چاہئے، دلائل متذکرہ بالا سے ثابت ہے کہ ہندسوں کے آغاز میں صفر آتا ہے، اگرچہ بعض وقت نہ بھی لکھیں۔

۴۳

مردہ ایٹم اور زندہ ایٹم

’’اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے‘‘۔ زمین اور آسمان یا بلندی و پستی ساری کائنات کے دو نام ہیں، اور ان ہی دو ناموں میں روحانی بلندی و پستی کا ذکر بھی ہے، جسمانی اور روحانی دونوں صورتوں میں جس حد تک انسان کی رسائی ہو چکی ہو وہی اس کی زمین اور جس مقام تک ہنوز نہیں پہنچا ہے وہ آسمان ہے، جسمانی روشنی کا تعلق آنکھوں کے ساتھ ہے جس سے بیرونی چیزوں کی حالت دیکھنے میں مدد ملتی ہے، خدا کی روشنی کا تعلق دیدۂ دل یعنی بصیرت سے ہے، جس سے ہر چیز کی اندرونی و بیرونی حالت دیکھنے میں مدد ملتی ہے، جس طرح ظاہری روشنی کے بغیر انسان کسی انجان شہر نہیں جا سکتا، اسی طرح باطنی روشنی کے بغیر کوئی موجد ایجاد کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا ہے، انسان جسمانی مسافت طے کرنے کے لئے سب سے پہلے دونوں پیروں سے چلتا ہے اور دماغی ترقی کی راہ میں وہ فکر کے قدموں سے چلتا ہے، فکر کے سامنے جب خدا کی روشنی موجود ہو تو سوال و جواب کی چال سے وہ چلنے لگتی ہے جس کے ذریعے موجد منزلِ ایجاد تک پہنچ سکتا ہے لیکن یہاں موجد کے لئے یہ خطرہ رہتا ہے کہ وہ خدا کی روشنی کی مدد سے حاصل کردہ شے کو اپنے علم کا ثمرہ اور نتیجہ سمجھتا ہے، جس سے بعض انسان خدا کی ہستی سے منکر ہو جاتے ہیں، لیکن چونکہ خدائے تعالیٰ خیر الماکرین ہے اس لئے وہ اپنی روحانی روشنی کو نہیں روکتا

۴۴

ہے، کیونکہ اگر انسان کے اس انکار پر خدا علم اور روشنی کو روکتا تو شاید یہ اس کے لئے باعثِ رحمت ہوتا، کیونکہ انکار کے ساتھ ساتھ اگر کسی موجد کا دماغ کام نہیں کرتا تو یہ خدا کی طرف سے اس موجد کو ایک اشارہ ہوتا جس کے معنی سے یہ ظاہر ہوتا کہ ’’اے انسان دیکھ یہ میری روشنی ہی ہے جس سے تو ان دیکھی چیزیں دیکھتا ہے تو نے میری ہستی سے انکار کیا تو میں نے تجھے اندھیرے میں رکھا‘‘۔ تو پھر وہ شخص ایک دم چونک پڑتا اور روحانی ترقی میں قدم رکھتا اور یہاں تک کہ جسمانی ترقی کے ساتھ روحانی ترقی میں بھی ان لوگوں سے سبقت لے جاتا جنہوں نے اپنی ساری زندگی خدا کی عبادت کے لئے وقف کر رکھی ہے۔

خدا کے اس حکیمانہ مکر کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انسان کو جس چیز کی خواہش ہو اس کو وہ چیز مل جائے یعنی جس کو دنیا چاہئے تو دنیا، اور جس کو آخرت کی تلاش ہو اسے آخرت اور جس کو دین و دنیا دونوں چاہئے تو حدِ اعتدال میں دونوں مل سکیں۔

نزولِ قرآن کا مقصد دینی و دنیوی ہدایت اور تعلیم ہے اور حقیقی تعلیم میں ہر سوال کے لئے جواب موجود ہوتا ہے، پس اگر حضرت محمد مصطفی صلعم سے کوئی شخص پوچھتا کہ وہ کون سی روشنی ہے جس سے لاعلمی کی ظلمت کو دور کیا جا سکے اور آسمان و زمین کے اسرار دیکھے جا سکیں؟ تو یقیناًیہی جواب ملتا کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے اور واقعی اس سوال کا یہی جواب موجود ہے۔

روشنی کی حقیقت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ آنکھوں کی بینائی اور روشنی آپس میں اس طرح مل کر کام کرتی ہیں جس طرح ایک انسان کی دونوں آنکھوں کی نگاہیں حسِ مشترک کے ذریعے مل کر ایک ہی کام کرتی ہیں، پس چشمِ بصیرت کا ’’دیکھنا‘‘ یا اللہ کی روشنی کا ’’دکھانا‘‘ ایک ہی معنی رکھتا ہے، ’’سنریھم اٰیٰتنا فی الافاق و فی انفسھم حتی یتبین لھم انہ الحق (۴۱: ۵۳)۔

۴۵

یعنی ہم انہیں اپنی نشانیوں کو عالم میں اور ان کی جانوں میں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ وہ سچ ہے‘‘۔ حضرت محمد صلعم کے زمانے میں خدائے برتر فرماتا ہے کہ ہم آئندہ زمانے میں انہیں اپنی نشانیاں اسی عالم میں دکھائیں گے، اور وہ نشانیاں یہ ہیں جو سائنسی اور ایٹمی دور میں ایجادات کی شکل میں دکھائی دے رہی ہیں، پھر ترتیبِ الفاظ کی حکمت میں یہ اشارہ فرماتا ہے کہ اس کے بعد ان کی جانوں میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان کو اللہ کی حقانیت ظاہر ہو جائے، یہاں ظاہر ہے کہ جب تک مردہ ایٹم عالم میں سائنس دانوں کی زیرِ تسخیر رہے تب تک وہ اس چیز کو اپنی حکمت کا ثمرہ تصور کریں گے اور یہ بے جان ایٹم ہو گا، پھر جب قدرتی طور پر یا ان کے اس ایٹم کے تجزیے کے سلسلے میں زندہ ایٹم (نوری مخلوق) تک پہنچ جائیں گے تو وہ بہ شکل روح بیک وقت یا بتدریج انسانوں میں سرایت کرے گی۔ اس کا اثر سب سے پہلے انسانوں کے کانوں پر ہو گا اور معمولی تکلیف کے بعد کانوں کے وہ پردے کھل جائیں گے جو جسم اور روح کے درمیان ہوتے ہیں۔

۔۔۔۔ وہ روح ہو گی اور بحیثیتِ مجموعی اسلام کی روحانی طاقت ہو گی ایک ایسی اخلاقی طاقت جس سے دنیا میں حقیقی امن قائم ہو سکے اور بنی نوع انسان کی خوش حالی اور حقیقی راحت کا باعث بن سکے۔

ایک اور دلیل یہ ہے کہ کسی موجود ہستی پر دلیل کرنے والی شے کا نام و نشان ہے جس سے یہ یقین آئے کہ فلان شے ہے، مثلاً کسی مکان سے انسان کی آواز آرہی ہو تو یہ آواز انسان کی موجودیت کی نشان ہے، پس سمجھا جائے گا کہ اس مکان میں کوئی انسان ہے، پس آیۂ مذکورہ سب سے پہلے سائنس دانوں کے اس طبقہ کے متعلق پیش گوئی کرتی ہے جو خدا کی ہستی کے بارے میں مطمئن نہیں یا قطعی اسے نہیں مانتے ہیں، دلیل یہ ہے کہ ’’ انہیں دکھائیں گے‘‘ سے ظاہر ہے کہ وہ لوگ قرآن کے

۴۶

خطاب سے دور ہیں اور یہ وعدہ حضرت محمد صلعم کے بعد کسی اور زمانے سے تعلق رکھتا ہے، پس سائنس کے کرشمے اور ایٹم کے عجائبات جو اس زمانے میں ظاہر ہوئے ہیں، خدائے توانا کے ارادے سے ہیں اور ان چیزوں کو دیکھنے والے سب سے پہلے وہی سائنسدان ہیں جو دیکھتے ہیں اور خدا کا شکر ادا نہیں کرتے جس نے انہیں یہ طاقت بخشی ہے۔

۴۷

ایٹمی دور روحانی دور سے ملا ہے

اگرچہ نظامِ کائنات کی ایک طرف باہمی وحدت ہے تو دوسری طرف ترتیب ہے۔ وحدتِ عالم کی ملی ہوئی حالت اور ترتیب اس کی جداگانہ صورتیں ہیں، ہمیں یہاں پر صرف ترتیب کے متعلق ذکر کرنا ہے، منشائے قدرت کے مطابق جسم کی ترتیب کثافت سے شروع ہو کر اپنی لطافت کی غایت میں روح سے مل جاتی ہے، اس کی مثال انسان کی خلقت میں موجود ہے، چنانچہ مٹی کی لطافت سے نباتات اگتی ہیں، جس کی غذا کی لطافت سے حیوانات کے جسم بنتے ہیں جن کے گوشت اور دودھ وغیرہ کی لطافت سے انسانی جسم میں خون بنتا ہے جس کی لطافت سے روحِ نامیہ اور اس سے روحِ حیوانیہ بنتی ہیں جس کی تحلیل سے روحِ انسانی بنتی ہے، جس سے عقل کا جوہر تیار ہوتا ہے، وہی خدا کی روشنی سے مل سکتا ہے، پس اسی طرح زمانے کے واقعات، ایجادات، انکشافات اور علوم و فنون وغیرہ کی ترتیب ہے اور اقتضائے زمان پر منشائے قدرت کارفرما ہے، یعنی اگر کوئی شخص مانے کہ منشائے قدرت میں انسانوں کی مجموعی حیثیت سے ترتیب لازمی ہے تو وہ سمجھے گا کہ جو کچھ عجیب و غریب چیزیں دنیا میں ظہور پذیر ہوتی ہیں وہ خدا کے حکم سے ہوتی ہیں، پھر اگر ہر چیز کی ترتیب ہے تو واقعات، انکشافات اور ایجادات کی بھی ترتیب ہے، جس طرح تواریخ سے یہ ظاہر ہے کہ انسان بھی، ترتیبی نظام کے تحت چیزیں ایجاد کرتے ہوئے یہاں

۴۸

تک پہنچا ہے لیکن جسم لا انتہا نہیں ہو سکتا یعنی ذرہ (Atom) کے بعد اور کوئی شے نہیں جس کو تجزیہ کرتے ہوئے ایٹمی طاقت کے علاوہ اور کوئی طاقت تسخیر کر سکے، سوائے اس کے کہ ایٹمی طاقت سے گوناگون فائدے اٹھائے، اس کے برعکس ذرہ تحلیل ہو جانے کے بعد روح کہلاتا ہے اور وہاں سے دورِ روحانی شروع ہو جاتا ہے، ہر گروہ اور ہر طبقہ کی اصطلاح کے مطابق اس دورِ روحانی کے کئی نام ہو سکتے ہیں مگر حقیقت ایک ہی ہے، اس دور کے چند ابتدائی واقعات حواسِ خمسۂ ظاہری سے تعلق رکھتے ہیں، جس کے لئے ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی ان قوتوں کو پہلے ہی سے پاک رکھے۔

۴۹

کتابِ فطرت کا ایک سبق

اگر کوئی دانشمند مفکر چاہے کہ اپنے نفس و جسم کی منازلِ بقا اور ان کی ابتدائی اتصال کے متعلق علم حاصل کرے تو اسے چاہئے کہ شروع میں وہ ان چیزوں پر غور و خوض کرے جس سے اس کے جسم کے آغازی نقطہ کی تخلیق ہوئی ہے۔

قرآنِ پاک کی تعلیم نے انسانی خلقت کو موردِ غور و فکر ٹھہرایا ہے کیونکہ یہ نہ صرف عقلِ جزوی کی رسائی کے لحاظ سے حدِ مفروضہ ہے بلکہ علاوہ اس کے جن پست حالات سے اس کی بقا کا گزر اور جن ادنیٰ چیزوں سے اس کے جسم بننے کا آغاز ہوا ہے ان میں ایک ناقابلِ فراموش عبرت بھی ہے۔

اس دنیا میں جہاں ہم سکونت پذیر ہیں، مٹی عناصرِ اربعہ میں سب سے پست، تاریک اور کثیف ہے، اور جب یہ اس سے بھی پست تر اور منکر ہو جاتی ہے تو یہ سڑی ہوئی کیچڑ یا گارے کی شکل اختیار کر لیتی ہے، چونکہ غایت پستی کا ابتدائی ہستی سے اتصال ہے، اس لئے اُس ذرہ نواز ذاتِ یگانہ کی رحمتوں کے نورانی شعاعوں نے اجرامِ فلکی کی وساطت سے طبیعت کی ایک لطیف ترین بارش اس کیچڑ پر برسانا شروع کیا، جس کی بدولت یہ کیچڑ خمیر سی بن گئی اور اس میں یہ قابلیت پیدا ہوئی کہ اپنی نرمی، لطافت، ذائقہ، کیمیائی طاقت اور محلول کھاد کی امتزاج اور طبائع کی لطافت کی مدد سے ایک نرم، لطیف، ذائقہ دار نباتاتی غذا کی شکل اختیار کرے،

۵۰

مٹی کی اس تبدیلئ حالت پر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ تعجب نہیں کہ اس محلول کے خاکی ذرات میں بھی کوئی ایسی بقا موجود ہو گی جس کے متعلق خداوندِ عالم فرماتا ہے کہ ’’کوئی ایسی شے نہیں جو اپنے رب کی تسبیح نہ پڑھتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح نہیں جانتے‘‘۔ اگر ہم عالمِ جمادات کی طرف غور کریں تو قدرت کی حیات کاری کے ایسے مناظر نظر آئیں گے جن سے ہمیں بالضرور یہ باور کرنا پڑے گا کہ ہر چیز میں روح ہی کا ہاتھ ہے جو ہر جگہ گوناگون جلوہ نمائی کرتی ہے جو سب سے بڑی اور عالمگیر روح کہلائی اور بحرِ رحمت بن کر ساری کائنات کو اپنی لاغایت گہرائی میں ڈبوئے رکھا ہے اور اس کی پوشیدہ تابش سقفِ نیلگون سے آئی ہے، یہی یدِ قدرت ہے جو ہر جگہ پہنچ سکتا ہے اور جیسا چاہے خرچ کر سکتا ہے، رحمتِ عالمین اور نورِ محمدی اسی کا نام ہے، اس حقیقی نور میں نہ صرف طبیعی روشنی کا سرمایہ ہوتا ہے، بلکہ روحانی اور عقلانی نور کا بھی یہ آفتابِ عالم تاب ہے، اصلی اور حقیقی نور ازل سے زندۂ جاوید ہے، اور اس میں حیات بخشی کی طاقت موجود ہے، یہ وہ نور ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو روشن کیا، نہ صرف بیرونی طور پر بلکہ ہر چیز کی باطنی تاریکیوں میں بھی یہ ضیا بخش ہے، راہ بقا کے چراغِ ہدایت اور سبیلِ حیات کے راہ نما کا دوسرا نام آسمان و زمین کا نور ہے، اگر ہم خدائی نور یا روشنی کا نام سنتے ہی فوراً سورج یا اور کسی مادی روشنی کا تصور اپنے دماغ میں لاتے ہیں تو یہ ہماری عقل کی کمزوری، نارسائی اور حلقۂ جسم میں محدود و مقید ہونے کی وجہ سے ہے اور یہ ہماری عقل کے لئے افسوس کا مقام ہے کہ ہم نے کبھی یہ سوچنے کی تکلیف گوارا نہ کی کہ حقیقی روشنی کا کام کون سا ہے؟ کاش اگر ہم اس نور کے یہ معنی سمجھتے کہ نور وہ ہے جو ساری چھپی چیزوں کو دکھاتا ہے اور اس کے برعکس ظلمت وہ طاقت ہے جو چیزوں کو چھپاتی ہے، تو اس حقیقت سے ہم ہرگز منحرف نہ ہوتے جیسا کہ خدائے برتر خود فرماتا ہے کہ وہ بلندی و پستی اور ہر چیز کی روشنی ہے تو کوئی

۵۱

ذرہ ایسا نہ ہو گا جس کے وجود میں اس کی روشنی کی وہ بلا مادہ نورانی اور جوہری طاقت کارفرما نہ ہو، پس یہ طاقت جس چیز میں موجود ہو تو لازماً یہ اس چیز کی راہِ بقا کی ارتقاء کے لئے ہو گی جو صرف ایک مقررہ نظام کے تحت ہو سکتی ہے۔

ظاہری طور عالمِ جمادات میں پتھر سے بڑھ کر اور کسی شے کو بے جان نہیں کہا جا سکتا ہے، یہ آغاز میں اس پہاڑ سے ملا ہوا ہوتا ہے جس سے یہ ٹوٹ کر لڑھکتے ہوئے آیا ہو، پہاڑ کے ظاہر و باطن میں قدرت کے عجیب کرشمے اور مناظر موجود ہیں کیونکہ یہ دستِ قدرت کی صنعت کاری کے عظیم نمونے ہیں، ان کی بیرونی سطح کی طرف نظر کریں تو رنگ برنگ کے قطعے اور مختلف دھاریں دکھائی دیں گی جن سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ ان کے ہیولیٰ کا امتزاج اور ملاوٹ اس طرح نہیں جس طرح نباتات و حیوان کا ہے، نباتات کی غذا کا خمیر پہلے بیرونی طور پر پھر اس کی ذاتی سرشت میں یک جان کیا ہوا ہوتا ہے اور جس طرح انسان، اول اسے گوندھتا ہے پھر منہ میں چباتے ہوئے اس کے اجزاء کو باہم ملاتا ہے، بعد ازان معدہ و جگر وغیرہ سے گزرنے کے بعد غذا کا اصلی رنگ کھو جاتا ہے اور انسانی جسم کا رنگ اختیار کرتا ہے، اس کے برعکس پہاڑ کی بناوٹ اور رنگت جدا جدا ہے، جس کی وضع سے یہ ظاہر ہے کہ پہاڑ اپنی تہہ کی دبی ہوئی زمین سے اُگ آیا ہے اور اس کے مادہ کی کوئی خاص تخمیر نہیں ہوئی تھی، پہاڑ جس کو بے جان تصور کیا جاتا ہے اس کا زمین سے اُگنا قدرت کا ایک عجیب کرشمہ ہے جس کی کوئی خاص جڑ نہیں جس طرح کسی درخت کی جڑیں ہوتی ہیں، اگر اس کی جڑیں ہوتیں تو اس کا رنگ یکسر ایک جیسا ہوتا کیونکہ نباتات کی جڑیں اس غذا کو اپنی قوتِ جاذبہ سے جذب کرتی ہیں جو وہ ایک دفعہ گوندھی ہوئی ہوتی ہے، پھر نباتات مزید کیمیائی تحلیل سے اپنے رنگ کے ساتھ ملا دیتی ہے جس سے نباتات کا رنگ اپنی نوعیت کا ہوتا ہے لیکن پہاڑ کا مادہ جو دراصل مٹی کی تہیں ہوتی ہیں جو وہی

۵۲

کی وہی تہہ و بالا ہوئے بغیر آپس میں مل جاتی ہیں جن کی تخلیق میں قدرت کا ہاتھ ہوتا ہے جس طرح کہ ذکر کیا گیا کہ ہر چیز میں روح موجود ہوتی ہے، حکمائے طبیعت کا یہ کہنا کہ پہاڑ زیرِ سمندر سے اُگا ہے جب اس جگہ سے سمندر ہٹ گیا اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ سمندر کا وزن زمین پر پڑنے سے زمین میں سختی اور تبدیلی پیدا ہوئی جس کی وجہ سے پہاڑ وجود میں آیا لیکن سمندر کا بوجھ نچلی زمین پر پڑنے کے بعد زمین کے مرکز پر پڑنا چاہئے نہ کہ زمین کے کچھ حصے پر۔

۵۳

انسان نے مرے ہوئے انسان کو زندہ کیا اور مصنوعی انسان پیدا کیا

خدا کی توانائی علم و حکمت کی صورت میں انسان سے ظہور پذیر ہو رہی ہے، اس لئے کسی باشعور دیندار کو یہ ہرگز نہیں چاہئے کہ اس سائنسی اور ایٹمی ترقی کردہ دور کی ایجادات و انکشافات سے حیرت زدہ ہو جائے اور نہ اسے یہ ضروری ہے کہ قانونِ قدرت کے متعلق کوئی شبہ دل میں لائے یا یہ سوچے کہ فلان فلان کام خدا کا ہے جس کے بغیر کوئی نہیں کر سکتا، مثلاً کسی مردہ انسان کو زندہ کرنا یا مصنوعی انسان پیدا کرنا وغیرہ، ایسے عجیب و غریب واقعات کے سننے سے سادہ لوح دینداروں میں جو خیالات پیدا ہوتے ہیں جن کے اثرات سے ممکن ہے کہ اپنے آپ میں یا اپنی قوم میں کوئی کمزوری محسوس گے اگر واقعی ایسا کیا جائے تو وہ احساسِ کمتری ہو گی جس کا ازالہ اس چیز کے حاصل کرنے سے ہو گا جس کو وہ بڑی دور سے اور تعجب کی نگاہ سے دیکھ رہے ہوں یا ایک ایسے علم کے حاصل کرنے سے ہو گا جس سے انہیں معلوم ہو جائے گا کہ ہر کامیابی کے پسِ پردہ قدرت کا ہاتھ ہے۔

میرا موضوع یہاں ’’کسی مردے کا زندہ کئے جانے کی امکانیت ‘‘ کی تحقیق ہے، ہم اس کی امکانیت و غیر امکانیت کی تحقیق انسان کی جسمانی حیات و ممات کی حقیقت کی روشنی میں کرتے ہیں، اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اول انسان کی جسمانی ابتدائی زندگی کا کچھ ذکر کریں۔

۵۴

ہر ایک سالم الحواس انسان کے جسم میں روح تین درجوں میں کام کرتی ہے یعنی درجۂ زیرین روحِ نامیہ، درجۂ میانہ روحِ حیوانیہ اور درجۂ زبرین روحِ ناطقہ، روحِ نامیہ کا مرکز جگر ہے اور جسم کی نشونما اس کے سپرد ہے اور وہ ساری قوتیں اسی کی ہیں جو ابتداء میں کسی بچے کا جسم مکمل کرتی ہیں، حواس و حرکت کی حامل روحِ حیوانیہ ہے اور اس کا مرکز دل ہے، نطق و شعور اور علم و فن روحِ ناطقہ سے ہے، جو دماغ میں رہتی ہے، ہر سہ روح ایک ہی جسم میں مقیم ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں، جن میں سے روحِ ناطقہ وہ ہے جو اپنے خواص و افعال کی وجہ سے نبات کو حیوان، حیوان کو انسان اور انسان کو فرشتہ بنا دیتی ہے اور اسے خدا سے ملا دیتی ہے جس کی مثال تخلیقِ جسم اور تکمیلِ روح میں موجود ہے، انسان کی وہ ساری خصوصیات جو کسی جانور میں نہ ہوں روحِ ناطقہ کی خصوصیات ہیں، اس کے علاوہ روحِ ناطقہ ہی نے انسانی جسم میں روحِ نامیہ اور حسیہ کی قوتوں کو مہذب اور شائستہ بنائے رکھا ہے۔

مذکورہ ہر سہ روح انسانی جسم میں حیاتِ متحدہ اس ترتیب سے گزارتی ہیں کہ سب سے پہلے انسانی خون کا ایک مرکب خلاصہ کسی رحم میں جاگزین ہوتا ہے، جس میں ہر سہ روح کے جوہری اور مادیاتی اثرات موجود ہوتے ہیں، بالفاظِ دیگر اس قطرہ میں نفسِ ناطقہ اور نفسِ حسی حدِ قوت میں موجود ہوتی ہیں اور نفسِ نامیہ حدِ فعل میں ہوتی ہے، جس طرح کسی درخت کے بیج میں اپنے قسم کا ایک مکمل درخت اگانے کی صلاحیت موجود رہتی ہے یا جس طرح کسی پرندے کے انڈے میں اپنی قسم کا ایک پرندہ حدِ قوت میں ہوتا ہے۔

تخلیقِ جسم کے لئے عورت کی چھاتی سے اس کے رحم میں کچھ مقدار خون مسلسل داخل ہوتا رہتا ہے جس سے روحِ نامیہ جسم کی تکمیل کرتی رہتی ہے، انسانی بچے کے جسم میں چار ماہ کے اختتام پر سوئی ہوئی روحِ حیوانی بیدار ہو جاتی ہے کیونکہ

۵۵

اس عرصے میں اس کے اعضاء و جوارح کسی قدر حرکت کے محتاج ہوتے ہیں تا کہ پٹھوں میں سختی، جوڑوں میں لچک اور پیچ و خم ہو سکے، چار ماہ کے بعد روحِ نامیہ پر روحِ حیوانیہ کا قیام ہونے کی خاص وجہ یہ ہے کہ روحِ نامیہ اس عرصے میں اپنی طبیعت کی غایت اعتدال پر آتی ہے یعنی اس میں روحِ حیوانی کی سی لطافت پیدا ہونے لگتی ہے جس سے روحِ حیوانی کو قوت ملتی ہے اور وہ جاگ اٹھتی ہے، اس کی مثال ایسی ہے کہ جب کوئی آتش گیر مادہ مرطوب ہو جائے تو اسے آگ نہیں لگتی پھر جب کچھ دیر تک اسے آگ پر سکھایا جائے تو وہ آگ قبول کرے گا۔

روحِ نامیہ کا وہ طبیعی اعتدال جو کبھی کسی درخت یا نبات میں نہیں ہو سکتا، انسانی جسم کے ان اعضاء کی مدد سے پیدا ہوتا ہے جو نظامِ دورانِ خون کے لئے مکمل ہوئے تھے، پس اگر سائنسدان اس علم اور اس نظام سے واقف ہو چکے ہوں، جس کے تحت نقطۂ روح یا کہ نطفہ اپنی ماں کی بچہ دانی میں پرورش پاتا ہے اور ان چیزوں کو درست اور صحیح حالت میں اس طرح رکھ سکتے ہوں جس طرح قدرتی حالت میں اس کے گرد ہوتی ہیں تو کسی خاص مشین میں نطفہ پال کر ایک قسم کا انسان پیدا کرنا یقینی ہے لیکن کسی طرح سے بھی قدرت سے بے نیاز ہو کر کوئی شے پیدا نہیں کر سکتے ہیں، گویا صرف ایک بہت چھوٹے لطیف انسان کو قبل از وقت پالنے میں کامیاب ہوئے ہیں یعنی اس میں صرف وہ نو (۹) ماہ کے عرصے سے آگے بڑھ سکتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ روحِ نامیہ کے اعتدال پر روحِ حیوانیہ کی بقا اور اس کا عدم اعتدال روحِ حیوانیہ کی فنا ہے، نیز روحِ حیوانیہ کا اعتدال نفسِ ناطقہ کی جسمانی بقا اور اس کا عدم اعتدال نفسِ ناطقہ کی جسمانی فنا ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روحِ نامیہ کی بقا کس اعتدال پر ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ روحِ نامیہ کا اعتدال غذا پر ہے جس میں پانی، ہوا وغیرہ شامل ہیں، اور جب کسی وجہ سے روحِ نامیہ کے اعتدال میں کمی واقع ہو جائے تو روحِ

۵۶

حیوانیہ کچھ دیر بے حس اور خاموش ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے روحِ ناطقہ عالمِ خواب جیسی صورت اختیار کرتی ہے اور ان تینوں کی کمزوری اس کمزوری سے بھی پست تر ہوتی ہے جو روزِ اول میں رحمِ مادر میں تھی کیونکہ وہ کمزوری غذا حاصل کرنے کی وجہ سے روبکمال تھی اور یہ کمزوری حرارت غریزی اور سانس وغیرہ نہ ملنے کی وجہ سے روبزوال ہے، دراین اثنا حقیقی معنوں میں روح جسم سے ہنوز جدا نہیں ہوتی ہے۔

پس اگر اس بروقت صورت میں مردے کا کوئی ایسا چارہ کیا جائے یا اس کے جسم میں کوئی ایسا انجکشن لگایا جائے جس میں روحِ حیوانی کا مادہ یا اس خموش روح کو بیدار کرنے والی کوئی مؤثر دوا ہو تا کہ جس سے روحِ حیوانی پھر ایک دفعہ جاگ اٹھے اور تینوں روح ایک دوسرے سے اس طرح قوت اتحاد حاصل کریں جس طرح کسی مشین کے کسی خاص پرزے کی چال سے دوسرے چلنے والے پرزوں کو مدد ملتی ہے، پھر ان پرزوں کی چال سے اس خاص پرزے کو بھی مدد ملتی ہے تو پھر اس صورت میں مرے ہوئے انسان کو زندہ کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس مردہ جسم میں حیاتین اور نامیاتی طاقت ہنوز باقی ہو ورنہ نہیں، اور ان چیزوں میں خدا کا ارادہ سب سے بالاتر ہے اور انسان جو کچھ کرتا ہے قدرت کی تیار کردہ چیزوں سے کر سکتا ہے۔

۵۷

قوتِ شامہ ایک نئی غذا دریافت کرے گی

جن لوگوں کو اس حقیقت کا عملی یا علمی تجربہ ہو چکا ہو وہ جانتے ہیں کہ انسان کے حواسِ خمسۂ ظاہری کی توانائی میں جس طرح روحِ حیوانیہ کی طاقت موجود ہے اسی طرح روحِ انسانیہ کی روشنی بھی موجود ہے لیکن یہ روشنی روحِ حیوانیہ کے دھوئیں کی وجہ سے کسی چیز کو دکھا نہیں سکتی ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ کسی مکان میں ایک ایسا چراغ جل رہا ہو جس سے روشنی کم اور دھواں زیادہ نکل رہا ہو اور اس مکان میں بجلی کی تیز اور صاف روشنی بھی موجود ہو تو عیان ہے کہ برقی روشنی اس دھوئیں میں چھپی رہے گی جس کی وجہ سے مکان کی بعض باریک چیزیں دکھائی نہیں دیں گی، اگر دھوئیں والا چراغ بجھایا جائے تو اس سے نہ صرف ہر چیز اپنی اصلی حالت میں دکھائی دے گی بلکہ وہ ساری باریک چیزیں بھی نظر آنے لگیں گی جو دھوئیں کی تاریکی کی وجہ سے دکھائی نہیں دیتی تھیں، اگر انسان اپنی روحِ حیوانیہ کے دھوئیں کو اپنے حواسِ ظاہر و باطن سے نکال سکے تو نہ صرف اپنے باطن میں قدرت کے عجائبات کا نظارہ کرے گا بلکہ حواسِ خمسۂ ظاہری سے بھی فطرت کی غیر معمولی اور پر اسرار چیزوں کو محسوس کرے گا جن میں سے ہر ایک اسے علم کی ایک نئی راہِ فکر پیدا کر دکھائے گی۔

حواسِ خمسہ میں سے دو آنکھ، دو کان، دو نتھنے، ایک منہ اور دو ہاتھ ہیں جن کے قویٰ علی الترتیب باصرہ، سامعہ، شامہ، ذائقہ اور لامسہ ہیں، ان میں منہ کے علاوہ

۵۸

باقی چار جفت ہیں لیکن منہ بھی ایک وجہ سے جفت ہے، اگرچہ ظاہری صورت میں جفت نہیں، یعنی منہ نطق و گفتار میں ناک کے ساتھ جفت ہے، لیکن خورد و نوش میں کسی کے ساتھ جفت نہیں، اس کے تاویل یہ ہے کہ انسان کی قوتِ باصرہ دو قسم کی ہے ایک ظاہری اور دوسری باطنی، یہ دونوں قوتیں جدا بھی ہیں اور ایک دوسرے سے ملی ہوئی بھی، جس طرح ظاہری دونوں آنکھیں جدا جدا بھی دیکھ سکتی ہیں اور دونوں مل کر بھی، اسی طرح قوتِ سامعہ، قوتِ شامہ اور قوتِ لامسہ بھی دو قسم کی ہیں، ایک قسم ظاہری اور دوسری باطنی ہے، ان ظاہری و باطنی قویٰ حواس کا فعل روحانی اور جسمانی طور سے مل کر بھی ہو سکتا ہے، لیکن جس طرح منہ نطق میں ناک کے ساتھ جفت ہے اسی طرح کلام ظاہری و باطنی دونوں حالتوں میں ہے اور جس طرح یہ خورد و نوش میں کسی کی جفت نہیں تو معلوم ہوا کہ عالمِ باطن میں جسمانی خورد و نوش نہیں۔

پس معلوم ہوا کہ روحانی حالت میں بھی اپنی قسم کا دیکھنا، سننا، سونگھنا ، بولنا اور چھونا ہے لیکن کھانا اور پینا نہیں، کیونکہ حواسِ خمسہ کے متحمل اعضاء میں سے منہ ایسا عضو ہے جس کا تعلق بہ لحاظِ خورد و نوش کثیف چیزوں کے ساتھ ہے اور روحانیت میں کثیف چیزیں نہیں ہوتی ہیں، دوسرے الفاظ میں انسان جس غرض کے لئے غذا کھتا ہے، وہ غرض لذت، قوت اور صحت ہوتی ہے اور یہ چیزیں کثافت سے لطافت میں زیادہ ہوتی ہیں مثلاً پھلوں کی نسبت ان کا رس زیادہ لذت بخش اور صحت افزا ہوتا ہے، کیونکہ ذائقہ اور بو لطافت کی طرف آئی ہے اور پھوک میں برائے نام ہے، اگر اس رس کا کشید کیا جائے تو تھوڑی سی چیز میں زیادہ لذت اور طاقت جمع ہو گی، جس طرح بعض دوائیوں کی مثال سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ماہرانِ طب جڑی بوٹیوں کو کوٹ کوٹ کر زیادہ مقدار میں ملائم سفوف بنانے کے بجائے ان جڑی بوٹیوں کا جوہر کشید کرتے ہیں، اس لئے کہ جوہر میں سب کچھ ہے نہ پھوک میں۔ تجزیۂ

۵۹

غذا کے بارے میں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہر غذا کی روح اس کی بُو ہوتی ہے اور جس غذا میں بُو موجود نہ ہو یا اعضائے ہاضمہ میں جا کر مطلوبہ قسم کی بو دینے کی خاصیت نہ رکھتی ہو وہ غذا طاقت بخش نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ بو سے روح بنتی ہے اور روح میں بو ہے، دوائیوں پر سوچئے جن میں زیادہ بو ہو وہ زیادہ مؤثر ہوتی ہے، اگر ان کی بو زائل ہو چکی ہو تو وہ ناکارہ ہو جاتی ہے، جڑی بوٹیوں میں جن کی خوشبو یا بدبو نہ ہو یا کوئی خاص ذائقہ نہ ہو وہ کم مستعمل ہوتی ہیں فصلوں کی غذا میں بھی یہی مثال موجود ہے، اگر کھاد، ہوا، بارش اور دھوپ کی وجہ سے اپنی بو زائل کر چکی ہو تو وہ فصل کی بہترین غذا نہیں بن سکتی ہے۔

اس تشریح سے یہ معلوم ہوا کہ بو پرقوت چیز ہے اور یہ نامعلوم طور پر اڑتی ہے اور ہوا سے مل جاتی ہے، جو چیز اُڑ کر غائب ہو جائے وہ روح کی مانند ہوتی ہے، جو چیز جس طرف جائے وہ اس طرف سے آئی ہوئی ہوتی ہے اور ہمیشہ آ سکتی ہے، اس بیان کا خلاصہ یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص یا اشخاص روحانیت کی طرف چند قدم آگے بڑھیں یا روحانیت خود دوری نوبت کی وجہ سے ان کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو وہ حواسِ ظاہری سے عجیب و غریب چیزیں محسوس کر سکتے ہیں، جن میں سے قوتِ شامہ وہ حس ہے جو روحانی غذا یا ایٹمی خوراک براہِ سانس جسم کو مہیا کر سکتی ہے، دراصل یہ جلالی غذا مختلف خوشبوئیں ہوں گی، جن سے روح و جسم دونوں کو تقویت ملے گی۔

حضرت محمد صلعم نے فرمایا: ’’ انی لاجد نفس الرحمان من قبل الیمن ۔ مجھے یمن کی طرف سے رحمان کی بو آ رہی ہے۔‘‘ کہتے ہیں کہ آنحضرت کے زمانے میں اویس قرنی نامی ایک ولی یمن میں رہتا تھا اور آنحضرت اس حدیث میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں، بہر حال یہ کوئی خالی از حقیقت مثال ہرگز نہیں بلکہ اس کے یہ معانی ہیں کہ آنحضرت اس سے یہ راز انکشاف کرتے ہیں کہ جسم و روح دونوں کے لئے ایک سہارا موجود ہے۔ حضرت یوسف کے مشہور قصے میں جو قرآنِ شریف میں

۶۰

ہے یہ آیا ہے کہ یوسف نے اپنے بھائیوں کے ہاتھ اپنا قمیض بھیجاتا کہ اس سے ان کے باپ حضرت یعقوب کی آنکھوں میں دوبارہ طاقتِ بینائی آ جائے، جب قافلہ مصر سے روانہ ہوا تو کنعان میں حضرت یعقوب نے حضرت یوسف کی بو محسوس کی، معرفت پروردہ عقل جانتی ہے کہ یہ بو جو حضرت یوسف کی طرف سے حضرت یعقوب کو ملی تھی جس سے وہ بینا ہوئے، روحانی خوشبو تھی نہ کوئی جسمانی خوشبو۔

قرآنِ شریف کے ایسے کلمات میں مثلاً الطیبٰت من الرزق (۷: ۳۲) میں رزق سے خوشبوئیں یا رزق کے نچوڑ جو خواصِ بندگان کے بارے میں مستعمل ہیں اس حقیقت کی شہادت دیتی ہیں کہ روحانی طور پر بزرگانِ دین کو یہ چیزیں میسر ہو رہی تھیں، ورنہ اس کے برعکس اگر ہم رزق سے پاکیزہ چیزیں مراد لیں تو پھر اس صورت میں رزق میں پاک و ناپاک کا سوال پیدا ہو گا، حالانکہ بظاہر انبیاء و اولیاء اور عوام الناس ایک ہی قسم کا رزق کھاتے تھے، پس اگر خیر الرازقین نے اولیاء و انبیاء کے بارے میں رزق کا احسان جتایا ہے تو وہ رزق ایسا نہیں جو دوسروں کو مل رہا ہو، بہرحال دنیاوی رزق کی غایت سے مل کر یہ رزق بھی دریافت ہو گا، کیونکہ قانون یہ ہے کہ ظاہر و باطن آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب یہ چیز کم کی جائے گی تو وہ چیز اس کی جگہ لے گی۔ اللّٰھم ارزقنا و انت خیر الرازقین ۔

۶۱

اڑن طشتری یا اور کوئی نام

حقائق الاشیاء کی تعلیم کا ایک بہترین طریق یہ ہے کہ حقیقت اس امکانی مثال میں لوگوں کے سامنے لائی جائے جس کی طرف متوجہ ہو سکتے ہوں اور جس چیز کا جیسا نام انہوں نے رکھا ہے اسی نام سے اس کا ذکرِ آغاز کیا جائے مثلاً ایٹم، اڑن طشتری وغیرہ، پھر دلائل سے انہیں سمجھانے کے ساتھ ساتھ اصلی نام ظاہر کرتے ہوئے اس کی شناخت کرائی جائے۔

حقیقی اسلام کا قانون یہ ہے کہ جس چیز کے متعلق کسی مسلم کو کچھ علم یا تجربہ حاصل نہ ہوا ہو وہ اس پر نہ ٹھہرے، کیونکہ کان، آنکھ اور دل یہ سب پوچھے جانے والے ہیں، جس طرح آج کل اڑن طشتری کی پر اسرار مخلوق کا مسئلہ ہے جس کے متعلق بظاہر کسی دینی کتاب میں کوئی ذکر نہیں، سوائے اس کے کہ کچھ لوگوں نے بارہا دور و نزدیک سے اسے دیکھا ہے جو طاس نما چھوٹے جہاز میں انتہائی سرعت سے اڑتی جا رہی تھی، بعض خبروں کے مطابق وہ انسانی شکل کی مخلوق بتائی جاتی ہے، ایسی مخلوق واقعی پراسرار ہو گی۔

اس غیبی مخلوق کی حقیقت کی راز افشائی کے لئے جسارت کرنے سے پہلے شاید میں اس بیان کے نتائج و انجام کا بھی خیال کر چکا ہوں کہ قبل از وقت افشائی راز کرنا، قسطاس المستقیم کے بغیر کوئی بات کہہ دینا اور سب سے بڑھ کر مذہب کے مختارِ

۶۲

برتر کی مرضی کے خلاف کسی بھید کا بتانا کس قدر خطرے کا کام ہوتا ہے، جس شخص کو ایسے خطرات کا خدشہ رہتا ہو اور اسے ہنوز موازینِ حقائق کے ذریعے اپنے مسئلوں کے متعلق کوئی اطمینان حاصل نہ ہوا ہو تو اسے چاہئے کہ بموجب من صمت نجا (جو خاموش رہا اسے نجات ملی) خاموشی اختیار کرے۔

اب اس یقینِ محکم کے اظہار کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آسمانی مخلوق کی حقیقت کیا ہے اور وہ کہاں سے آتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ کسی ایسے سیارے سے آتی ہے جس کے باشندے وہ انسان ہیں جو علم و فن کے مدارج سے گزر کر بامِ عروج پر پہنچے ہیں، آپ انہیں فرشتہ، روحانی اور ایٹمی انسان وغیرہ کہہ سکتے ہیں، کیونکہ فرشتہ یا روحانی کسی اور چیز سے پیدا نہیں ہوتا ہے بلکہ انسان ہی کسبِ کمال کے بعد فرشتہ اور روحانی بن جاتا ہے، ایٹمی یا اور کسی چیز کا بنا ہوا انسان بھی پہلے یہی انسان تھا لیکن فرق یہ ہے کہ وہ ایٹمی لباس حاصل کر چکا ہے اور یہ جامۂ خاکی رکھتا ہے، خدائے حکیم جو ساری کائنات کا بادشاہِ مطلق ہے ذیل کی آیت میں نہ صرف ایٹمی اور خاکی انسانوں کو یہ فرماتا ہے کہ تم ایٹمی نیچے آؤ گے اور یہ خاکی اوپر جائے گا بلکہ اس میں تمام سیارے بلکہ جملہ کائنات کے عروج و زوال کا فرمان بھی نافذ کرتا ہے، کیونکہ پادشاہِ یگانہ کے متحدہ ملک (عالم) میں جزو و کل کے لئے ایک ہی قانون ہے، لترکبن طبقا عن طبق (۸۴: ۱۹) یعنی تمہیں ایک طبق سے دوسرے طبق چڑھا دیا جائے گا۔ نیز یہ معنی کہ تمہیں ایک حال سے دوسرے حال میں بدل دیا جائے گا اور دونوں معنوں میں حقیقتِ حال ایک ہی ہے، قرآنی بیان کے مطابق انسان کا ایک حال سے دوسرے حال میں بدل جانے کی واقعیت یہ ہے کہ انسان مٹی، نبات، نطفہ، علقہ، مضغہ، عظام اور لحم سے ہو کر موجودہ حال میں آتا ہے، اگر غذا کی تبدیلی یا کسی اور حکمت سے انسانی خلقت کی خاصیت بدل جائے

۶۳

تو اس میں کوئی تعجب نہیں، کیونکہ انسان پہلے بھی کئی چیزوں سے بنتے بدلتے آیا ہے، اگر انسان کوئی ایٹمی یا روحانی غذا حاصل کر سکے اور اسے کھائے تو بالضرور وہ ثقل طبیعت سے آزاد ہو جائے گا یعنی غذا ایسی ہو کہ جس میں تری، خشکی، گرمی اور سردی ہرگز نہ ہو، تو ایسی ایٹمی یا روحانی غذا ہی سے ہو سکتا ہے کہ انسانی جسم کو کرۂ خاک کی کشش سے آزاد کیا جائے اور انسان کو جسم کی فنا سے بچایا جائے، کیونکہ جسمانی موت طبیعت کی بگاڑ سے واقع ہوتی ہے یعنی چار مخالفین کی ناچاقی اور نا اتفاقی سے انسان مر جاتا ہے۔

اب دوسرے سوال کی نوبت آتی ہے کہ وہ نوری انسان کس چیز کی تلاش میں ہمارے سیارے کے گرد اڑ رہا ہے؟ اس کا جواب بھی چندان دشوار نہیں، اس لئے کہ خدا کی مقدس اور آخری کتاب میں ایسے تمام مسائل کے حل موجود ہیں جن سے ہم دوچار ہو رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے۔ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ ثم رددنٰہ اسفل سافلین (۹۵: ۴ تا ۵) ’’بے شک ہم نے انسان کو ایک بہترین ترتیب میں پیدا کیا ہے پھر ہم نے اسے پست ترین مقام میں واپس کر دیا ہے‘‘۔ یعنی اس آیت میں بھی سارے انسانوں کے لئے حکمِ کلی ہے جو فرماتا ہے کہ انسان کو ایک بہترین ترتیب میں پیدا کیا گیا اور زندگی کے بامِ عروج پر چڑھا دیا اور پھر اسے پست ترین مقام میں لایا گیا ہے، اگر یہ حقیقت مان لی جائے کہ اس فعلِ خدا کا اطلاق نوری اور خاکی، دونوں قسم کی انسانوں پر واقع ہو چکا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نوری انسان کو موجودہ حالت کے برعکس اعلیٰ علیین سے اسفل سافلین لایا گیا تھا اور خاکی انسان کو موجودہ حالت کے برعکس  اسفل سافلین سے اعلیٰ علیین پہنچایا گیا تھا، کیونکہ ان دونوں قسم کے انسانوں میں سے کسی ایک کو تقدمِ زمانی کا فضل ثابت نہیں، ان دونوں پر احسنِ تقویم سے پیدا کرنے اور اسفل سافلین

۶۴

واپس بلانے کا فعل بلا امتیاز ختم ہو چکا ہے، لیکن نوری اور خاکی انسان کے متعلق یہ تصور ضروری نہیں کہ انسانی زندگی کے اس لاانتہا نشیب و فراز کا تبادلہ صرف دو سیاروں کے درمیان ہی رہے۔

اب اس سوال کا جواب کہ وہ نوری مخلوق کس چیز کی تلاش میں ہے؟ یہ ہے کہ قانونِ فطرت یا قدرت کا ارادہ ایسا ہے کہ ہر چیز کی ارتقاء حدِ کمال کے بعد روبزوال ہو جائے اور ہر زوال ازسرِ نو روبکمال ہو جائے اس کی مثال خدا کا وہی قانون یا عادت ہے جو ہرگز نہیں بدلے گی یعنی ہر چیز کو اس کی ضد ہی سے پیدا کرتا رہے گا، جس کی شہادت قرآن میں موجود ہے کہ زندگی اور موت، شب و روز وغیرہ ایک دوسرے سے پیدا کئے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں، ان دو مخالف حالتوں کو اگر ہم روحانیت و جسمانیت سمجھیں یا حیات و ممات تصور کریں یا آخرت و دنیا، بہر حال یہ میزانِ عدل کے خلاف اور حق سے دور نہ ہو گا، اگر ہم کسی جفت میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دیں جس کے بارے میں خدائے عادل نے فرمایا ہے کہ: و اقیموا الوزن بالقسط و لا تخسروا المیزان (۵۵: ۹) ’’ اور (حقائق کے) وزن قسط کے ساتھ برابر رکھو اور ترازو میں کمی نہ کرو‘‘۔ مثلاً عقلِ سلیم کے لئے یہ نکتہ پسندیدہ ہو گا کہ جتنی آخرت ضروری ہے اتنی دنیا بھی ضروری ہے کیونکہ دنیا ہی تو آخرت کی کشت گاہ ہے، اس میں کچھ بوئے بغیر وہاں کوئی کیا فصل کاٹے گا، اور اگر دنیا کے بارے میں کوئی ایسا حکم کیا گیا ہو، جس سے دنیا کی کچھ اہمیت نہ ہو تو یہ جاننا ضروری ہے کہ ایسے امر کا اطلاق ان لوگوں کے احوال پر ہے، جن کا نصب العین محض دنیاوی ہو اور وہ آخرت سے غافل ہوئے ہوں، اس لئے کہ دنیا کلیۃً شر نہیں اور نہ آخرت کلیۃً خیر ہے جس طرح دنیا میں بھلائی اور برائی دونوں موجود ہیں، اسی طرح آخرت میں ثواب و عقاب دونوں موجود ہیں، دنیا کی بھلائی و برائی اور آخرت کے

۶۵

ثواب و عقاب کا انحصار انسان کے اپنے اعمال پر ہے، پس جو کچھ بھی دنیا و آخرت کے متعلق فرمایا گیا ہے وہ انسانوں کے اعمال کی نسبت سے فرمایا گیا ہے، مثلاً دنیا کے معنی ہیں قریب اور آخرت کے معنی ہیں بعید، یہ دو نام اس کائنات کے دو حصے ظاہر نہیں کر سکتے ہیں، جس سے ہم یہ سمجھتے کہ یہاں سے یہاں تک دنیا ہے اور وہاں سے وہاں تک آخرت ہے، بلکہ یہ دو لفظ ’’دنیا و آخرت‘‘ انسان کی موجودہ حالت اور آئندہ حالت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

اگر نوری انسان کسی ایسے سیارے سے اس زمین پر اترنے والے ہوں جو کمالِ تخلیق و تعمیر سے بہشتِ برین بن چکا ہو تو ان پر یہ کوئی ظلم ہرگز نہیں کہ انہیں اس جنت سے یہاں لایا گیا، کیونکہ خدا کی تائید میں علم و فن، تخلیق و تعمیر ہی لذتوں کی جنت تھی، گویا اعمال میں حقیقی خوشی تھی، نہ کسی خالی چیز کے دیکھنے میں ، پس ایسے روحانین اگر اس دنیا کو بھی جنت بنانے کے لئے آئیں تو نہ صرف انہیں اس کی تعمیر و تخلیق کی خوشی ہو گی بلکہ دنیا والے بھی خوش و خرم رہیں گے، کیونکہ وہ ان کی جانوں کی حیثیت سے رہیں گے، پس اس چیز کے لئے ان کی تلاش ہے۔

۶۶

انسان کی اصلی زندگی روح القدس میں

انسان اپنے مستقر سے جدا ہو کر بطورِ مسافر اس زمین پر آیا ہوا ہے اور اسے عالمِ بالا واپس جانا اس قدر ضروری ہے جس قدر ایک مسافر اپنا مقصد حاصل کرنے کے بعد ضروری طور پر اپنے وطن واپس جاتا ہے اس لئے فرمایا گیا ہے حب الوطن من الایمان ’’وطن کی محبت ایمان میں سے ہے‘‘۔ یہی وطن روح کا اصلی اور دائمی وطن ہے اور جس کی محبت اس کا ایمان ہے، اس دنیاوی سفر کے دوران روحِ انسانی جو کچھ علم و معرفت کی غنیمت حاصل کر سکتی ہے وہ اس حدیث سے عیان ہے: ’’ سافروا تغتنموا ۔ سفر کرو تا کہ تم مالِ غنیمت لے سکو۔‘‘ اور اس دنیا میں روح کو جو تکلیف و مشقت لازمی طور پر ملتی ہے اس کی ترجمانی اس حدیث میں ہے کہ السفر من السقر ۔ سفر جہنم کے عذاب سے ہے۔

مومن کی جزوی روح جب اپنی کلی روح سے جدا ہو کر اس دنیا میں آئی ہے تو اس کی یہ مختصر سی زندگی حقیقت میں موت شمار ہوتی ہے جس طرح کہ گندم کا دانہ یا درخت کی گٹھلی غلہ یا درخت سے دور کسی زمین میں کھو جائے تو یہ اس کی موت ہے، یہ چیزیں یہاں سے ختم بھی ہو سکتی ہیں اور زندہ بھی، ختم اس صورت میں کہ جب کوئی جانور انہیں کھا جائے یا اسی طرح افتادہ صورت میں ضائع ہو جائیں جبکہ ان کی ازسرِ نو زندہ ہونے کی صورت یہ ہے کہ وہ کسی مناسب جگہ اور موزون وقت میں زمین میں ایک دفعہ

۶۷

اپنی خودی کو فنا کریں تا کہ فنا کے بعد اصلی بقاء انہیں مل جائے، ان کی بقاء کی نشانی یہ ہے کہ اس ایک دانے سے سینکڑوں کی تعداد میں گندم اور اس ایک گٹھلی سے ایک میوہ دار درخت پیدا ہو گا۔

اسی طرح جزوی طور پر پہلے فنا پھر بقاء ہے، اگر جزوی روح اس حیات نما موت کو فنائی خودی کی حد تک نہ پہنچا سکی تو یہ حقیقی بقا کی مستحق نہیں ہو سکتی ہے چنانچہ حضرت محمد :صلعم کا یہ فرمان اس حقیقت کا مصداق ہے

المومن لا یموت الا ینتقل من دار الفناء الی دارالبقاء یعنی مومن نہیں مرتا ہے بلکہ دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرتا ہے۔ پھر اگر مومن کی روح جسم سے جدا ہوتے وقت نہیں مرتی اور زندگی کے گھر کی طرف کوچ کرتی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنی زندگی کے گھر میں پہنچتے ہی زندہ ہو جاتی ہے اور جتنے عرصے تک اس خانۂ حیات سے باہر رہی اتنے عرصے یہ موت کی ظلمت میں پوشیدہ تھی، اس آیۂ کریمہ میں بھی مطلوبہ حقیقت تفصیلاً موجود ہے۔ و ھو الذی انشاکم من نفس واحدۃ فمستقر و مستودع قد فصلنا الاٰیات لقوم یفقھون (۶: ۹۸) ’’ اور (اللہ) وہی ہے جس نے تمہیں ایک نفسِ (کل) سے پیدا کیا، پس جائے قرار اور جائے امانت ہے بلاشک سمجھنے والوں کے لئے ہم نے نشانیوں کی تفصیل کی ہے‘‘۔ نفسِ واحدہ نفسِ کل کا نام ہے، اس سے ارواحِ قدسی پیدا ہوئیں اور ان میں انسانی بقاء کا مستقر یعنی دائمی زندگی ہے، ان کے مظاہرات انسان کے اجسام ہیں جو یہی انسانی حیات کے مستودع ہیں، اس صورت میں انسان کی ایک چوتھی روح ثابت ہوئی جس کے متعلق وہ بھول چکا ہے، جس طرح انسان نفسِ نامیہ کی بقاء میں نفسِ حیوانیہ کو اور نفسِ حیوانیہ کی بقاء میں نفسِ ناطقہ کو نہ پہچانتا تھا، اسی طرح

۶۸

محض نفسِ ناطقہ کی بقاء میں انسان روحِ قدسی سے غافل رہتا ہے، لیکن جس طرح انسان اگلے مراتب سے گزرا ہے اسی طرح روحِ قدسی سے بھی بصورتِ اختیار یا اضطرار دوچار ہو جاتا ہے کیونکہ حقیقت میں خدا کی معرفت یا قیامت اسی روح القدس کو پہچاننے سے ہوتی ہے جیسا کہ رسول صلعم نے فرمایا ہے: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ۔ ’’یعنی جس نے اپنی روح کو پہچان لیا بلاشک اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا ‘‘۔ بالفاظِ دیگر انسان اپنی بالاتر روح میں خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے نہ کسی پست تر روح میں، انسان کی بالاتر روح روح القدس ہے اور یہی روح صفاتِ الٰہیہ کا آئینۂ جمال و جلال ہو سکتی ہے۔

مستقر اور مستودع کی مثال سورج اور اس کے عکس کی ہے جو کسی آئینے میں نظر آتا ہو، آئینے سے ظاہر ہونے کے لئے سورج کا اپنی جگہ چھوڑنا اور کلیۃً آئینے میں سمو جانا ضروری نہیں، بلکہ سورج اپنے نورانی اثر سے اپنا عکس آئینے سے ظاہر کر سکتا ہے جب تک آئینے کا رُخ سورج کی طرف رہے تو اس میں سورج کا عکس نظر آئے گا اور جس وقت آئینہ کو سورج کی طرف سے الٹایا جائے تو روشنی اور عکس اس سے ناپید ہو گا، اگر ہم دیکھیں تو آئینے سے سورج کی طرف کوئی مادہ نہیں جاتا ہے، سوائے اس کے کہ اگر سورج کا یہ فعل بالارادہ ہوتا تو ان کارناموں کو اپناتا اور انہیں زندہ تصویریں بنا کر ان سے حظ اٹھاتا جن کو اس آئینے کی وساطت سے اس نے انجام دیا تھا۔

۶۹

دائمی اور چند روزہ بقاء

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خدائے برتر کی ذات و صفات قدیم ہیں، اس لئے اس کی عادت میں کوئی تبدیلی نہیں پائی جاتی ہے، جیسا کہ خود فرماتا ہے: فلن تجد لسنت اللّٰہ تبدیلا و لن تجد لسنت اللّٰہ تحویلا (۳۵: ۴۳) ’’ پس تجھے اللہ کی عادت میں کوئی تبدیلی نہ ملے گی، اور ہرگز تجھے اللہ کی عادت میں تحویل نہ ملے گی‘‘۔ سنت سے مراد عادت یا دستور ہے اور یہ صفاتِ الٰہیہ کے افعال کی مجموعی حیثیت کا نام ہے، تبدیل کے معنی ایک چیز کی بجائے دوسری چیز اختیار کرنا ہے اور تحویل کے معنی اسی موجودہ چیز کی حالت میں تغیر لانا ہے پس فرماتا ہے کہ اے محمد باآنکہ تو مقاماتِ معرفت کے بلند ترین درجے پر ہے تجھے اللہ کے اس بہترین دستور کے سوا اور کوئی ایسا دستور نہیں ملے گا جس کو کسی وجہ سے اس پر ترجیح دی جا سکے اور کلیۃً اس دستور کو اُس دستور میں بدل دیا جائے اور نہ کوئی ایسی صفات ممکن ہیں جن کو اس میں بتدریج شامل کرنے سے تغیر آ جائے بلکہ اللہ کی عادت یا دستور صدق و عدل کی تمامیت و کمالیت کی وجہ سے بے بدل ہے۔

جس طرح ذکر کیا گیا کہ صفاتِ الٰہیہ کے افعال کی مجموعی حیثیت کا نام دستورِ قدرت یا عادتِ الٰہی ہے اور یہی خدا کی قدیم یعنی بے بدل عادت ہے، اب یہ سوال پیدا ہو گا کہ اگر خدائی قانون بے بدل ہے تو مکان و زمان کے زیرِ اثر کائنات

۷۰

و موجودات میں اتنی تبدیلی کس وجہ سے اور کہاں سے آرہی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کائنات و موجودات نفسِ کل اور جسمِ کل کے اجزاء ہیں، اور یہ اپنے ناتمامی کی وجہ سے اپنے کل کے بسط و حصار میں متبدل و متحرک ہوتے ہیں، لیکن نفسِ کل اور جسمِ کل اپنی تمامی کی وجہ سے اپنے بسط میں غیر متبدل و ساکن ہیں، جس طرح جسمِ کل یعنی عالم کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اس سے زیادہ وسیع تر ہو جائے یا تنگ تر ہو جائے یا اپنی جگہ چھوڑ کر اور کہیں چلا جائے، اسی طرح نفسِ کل کا قیاس ہے پس بدین دلیل کل کلیات میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں اور وہی خدا کی عادت اور دستور ہے جو بے بدل ہے۔

قانونِ قدرت کی لاتبدیلی کی ایک اور صورت یہ ہے کہ ہر چیز کی جزوی تبدیلی اور کلی یک حالی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، اس کی مثال یہ ہے کہ عناصرِ اربعہ میں کلی طور پر کوئی تبدیلی نہیں اور ان سے پیدا ہونے والی چیزوں میں تبدیلی ہے، روشنی کے منبع (سورج) میں کوئی تبدیلی نہیں اور سیاروں کے تقابل میں تبدیلی ہے۔

اسی طرح انسان کی بقاء کا بھی یہی حال ہے کہ وہ جزوی طور پر متغیر و متبدل ہے اور کلی طور پر قدیم و بے بدل ہے، انسان کی جو حیات متبدل ہے وہ چند روزہ جسمانی بقا ہے اور جو زندگی بے بدل ہے وہ دائمی اور روحانی حیاتِ طیبہ ہے، اگر انسان کی اس حیاتِ جاویدانی کو بیداری اور اس عمرِ بے ثبات کو خواب سے تشبیہہ دی گئی ہو تو کیا تعجب ہے جو مقابلتاً اُسے حیاتِ حقیقی اور اسے موتِ مجازی کہا جائے لیکن بہر کیف جزوی بقا سے کلی بقاء میں انسان کی تبدیلی یقینی ہے، اس حقیقت کے مثالی تصورات جسمانیت میں سے یہ ہیں کہ پانی کا قطرہ جب سمندر سے جدا ہو جاتا ہے تو یہ اپنی دائمی اور کلی بقاء (جو سمندر میں ہے) اپنے ساتھ نہیں لا سکتا ہے بلکہ وہ اپنی وسعت کے مطابق ایک جزوی بقا رکھتا ہے، اب اس قطرہ اور سمندر کی وحدت اور دوئی کے لحاظ سے دو تصور قائم کئے جا سکتے ہیں، پہلا تصور یہ کہ قطرہ اور

۷۱

سمندر ایک ہی پانی ہے جس کی خاصیت ایک ہی ہے اور یہ دونوں بحیثیتِ جزو و کل ایک ہیں، پس قطرہ کی دائمی بقا کل میں ہے، دوسرا تصور یہ کہ قطرہ اور سمندر بحیثیتِ مکان دو ہیں جن کی توانائی میں زمین و آسمان کا فرق ہے یعنی سمندر وہ ہے جو کرۂ ارض کی تین چوتھائی کو گھیرے ہوئے ہے اور یہ بارش برسا کر دنیا کی ساری آبادی کو سیراب کر سکتا ہے، اس کے برعکس قطرہ وہ ہے جسے ہوا یا کسی زبردست پانی کی معیت کے بغیر سمندر سے جا ملنا دشوار نہیں بلکہ غیر ممکن ہے پس اس صورت میں قطرہ اور سمندر کی دوئی ہے لیکن قطرہ کی یہ کمزوری اور دوری اس کی خاصیت اور جوہر کی وجہ سے نہیں بلکہ جبری اور عارضی ہے جو سورج کی تپش کی وجہ سے اس پر واقع ہوئی ہے پھر جو چیز کسی جبری یا عارضی حالت میں ہو وہ اس حالت سے گزرنے والی ہے۔

پس جب یہ قطرہ سمندر میں مل جائے تو اس کی جزوی بقاء کلی بقاء میں منتقل ہو جاتی ہے، اب قطرہ اور سمندر کی وحدت کا یہ حال ہے کہ سمندر میں قطرے کا نام ہے نہ نشان، قطرے کی وہ جزوی تاریخ بھی سمندر کی تاریخ بنی ہوئی ہے اور سمندر کی کلی تواریخ قطرے کی تواریخ بنی ہوئی ہے اور دونوں کی بقاء سے دوئی اُٹھ گئی ہے۔

دوسری مثال یہ ہے کہ سورج ایک غیر متبدل شے ہے اس کی روشنی بسیط عالم میں یکسان طور پر پھیلتی ہے جس سے کائنات کی سطحی چیزیں روشن ہوتی ہیں اور ان میں بعض ایسی شفاف چیزیں بھی ہیں جن میں سے کچھ مقدار میں روشنی نظر آتی ہے، یہ روشنی اپنے منبع سے جدا نہیں ہو سکتی ہے ایسی چیزوں کی عارضی روشنی کو انسان کی چند روزہ بقاء تصور کیجئے اور سورج کی جوہری روشنی کو انسان کی دائمی بقا فرض کیجئے، نیز سورج کی سیدھ سے کسی چیز کا رُخ بدل جانا انسان کی جسمانی فنا کی مثال سمجھ لیجئے، اب ظاہر ہے کہ اس قسم کی جسمانی فنا کے بعد انسان کی دائمی بقاء میسر ہو سکتی ہے۔

اس مقام پر کوئی یہ پوچھے کہ اگر انسان کی ایک دائمی حیات موجود ہے تو اس

۷۲

نے اپنی گزری ہوئی ایک پرلذت زندگی کو کس طرح بھلا دیا ہے، جس کے متعلق کچھ یاد نہیں؟ اور جب دوبارہ انسان اس حیاتِ دائمی میں زندہ ہو جائے تو اس کے احساسات و ادراکات ماضی و حال و مستقبل کے متعلق کیسے ہوں گے وغیرہ؟ ان سوالات کے جوابات یہ ہیں کہ انسان اس دنیا میں علم کی تلاش میں آیا ہے جو اسے خدا کی اطاعت اور اعمالِ صالحہ کی مدد سے بصورتِ معرفتِ نفس مل سکتا ہے اور اس اثناء میں جسم کے تعلق کی وجہ سے ایسے نسیان سے گزرا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی روحانی سرگزشت بھول چکا ہے، پھر جب یہ عالمِ بالا کی دائمی بقاء سے متصل ہو جائے تو اسے ایسا معلوم ہو گا جیسا کہ وہ دائم اس جہان میں موجود تھا۔ اس صورت میں وہ ماضی و حال و مستقبل سے برتر ہو گا، اس لئے کہ عالمِ امر فوق الزمان و المکان (زمان و مکان سے برتر) ہے، یعنی روح القدس کے سامنے وہ زندہ تصویریں ہوں گی جن کو وہ چاہتا ہو گو کسی زمانے کا کیوں نہ ہو۔ بحکم لھم ما یشاؤن فیھا و لدینا مزید (۵۰: ۳۵) ان کے لئے بہشت میں ہر وہ چیز ہے جس کو وہ چاہتے ہیں، اور ہمارے پاس اس سے بھی زیاہ ہے۔

بقائے عالیہ تک انسان کی رسائی کی امکانیت کے اثبات کے لئے نفسِ کل کا یہی فرمان ازبس ہے۔ یا بنی اٰدم اطعنی اجعلک مثلی حیاً لا یموت و عزیزاً لا یزل و غنیاً لا یفتقر ۔ اے بنی آدم میری اطاعت کر تا کہ میں تجھے اپنی مانند زندۂ نامیرندہ، عزیزِ بے ذلت اور توانگرِ بے احتیاج بنا دوں گا۔ یہ مقام نفسِ کل کا ہے لیکن باری سبحانہ مثل و مانند سے برتر ہے۔

حیاتِ جاویدانی کا یہ بلند ترین مرتبہ ابرار کے لئے نعیم مقیم ہو گا اور ان کی بقاء نفسِ کلی کی بقاء سے بلا فرق ملی ہو گی، انہیں ایسا معلوم ہو گا جیسا کہ کچھ دیر حیاتِ جزوی کے خوابِ غفلت میں سو گئے تھے اب وہ جاگ گئے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ کوئی وقت

۷۳

ان سے فوت نہیں ہوا کیونکہ وہ زمان سے برتر مقام پر ہیں جسے لامکان و لا زمان کہتے ہیں ، جس میں کسی چیز کے درک کرنے اور اسے دیکھنے کے لئے مکان و زمان کی ضرورت نہیں ہوتی ہے وہاں ہر چیز ارادہ کے تابع رہتی ہے۔

کلا ان کتاب الابرار لفی علیین ۔ و ما ادراک ما علییون ۔ کتاب مرقوم یشھدہ المقربون (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) ۔ ایسا نہیں بے شک نیکیوں کی کتاب عالمِ بالا میں ہے اور تجھے کس چیز نے درک کرایا کہ عالمِ بالا کیا ہے؟ وہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے جس کے پاس مقرب لوگ حاضر ہوتے ہیں ۔

اس آیت کا مفہوم اسی طرح ہے کہ ابرار کے اعمال نامے اجتماعی طو پر عالمِ بالا یعنی نفسِ کلی میں ہیں جو اس مکان و زمان سے بالاتر ہے۔ ’’ اور کس چیز نے تجھے درک کرا دیا‘‘۔ آنحضرت کے ان احوال کی طرف اشارہ ہے جو قبل از معراج تھے، کتابِ مرقوم سے وہ کتاب مراد ہے جس کی کتابت کسی ضد رنگ سے نہ ہو بلکہ کاغذ کی ذات میں سرشتی تفاوت سے ہو جس طرح بعض کاغذ کی بناوٹ میں ہوتی ہے، یعنی نفسِ کلی خود ایسی کتاب ہے جس کی ذات میں نوشتۂ قدرت موجود ہے اور اس میں کسی ضد کے لئے ہرگز راہ نہیں، مقرب لوگ اس کتاب کے پاس حاضر ہوتے ہیں یعنی اس کتاب میں مندرجہ اعمال کے وقوعات کا وہ عینی مشاہدہ کرتے ہیں۔

نفوسِ ابرار کی وحدت اور اس بلند مرتبہ تک رسائی کے بارے میں ہے : انما المومنون اخوۃ و الانبیاء کنفس واحدۃ ۔ ’’ تمام امتوں کے مومنین بھائی ہیں اور سارے پیغمبر ایک جان کی مانند ہیں‘‘۔ اگر انبیاء ایک جان کی مانند ہیں تو اُن کا قانون بھی ایک ہے، چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ جو کوئی میری اطاعت کرے وہ مجھ سے ہے‘‘

۷۴

فمن تبعنی فانہ منی (۱۴: ۳۶) ۔ پس ہر پیغمبر کا تابعدار اس سے جدا نہیں۔ اس صورت میں انبیاء اور ابرار کی جان ایک ہے، جیسا کہ فرمایا کہ: ما خلقکم و لا بعثکم الا کنفس واحدۃ ۔ (۳۱: ۲۸) یعنی تمہاری پیدائش اور زندہ ہونا ایک جان کی طرح ہے۔ نیکوں کی روحانی وحدت اس حقیقت سے عیان ہوئی کہ ان سب کی ایک ہی کتاب ہے جو نفسِ کل ہے جس کی تحریر ذاتی ہے یعنی نفسِ کل ان سب کی جان ہے چونکہ عملِ عظیم سے روحِ کل بنتی ہے، وہ کتاب کی ذاتی تحریر ہی میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے اور دوسرے کے اعمال کی روحانی حقیقت زندہ تصویروں میں دیکھ سکتے ہیں۔

۷۵

حقائقِ کن فیکون

باری سبحانہ کا امر کلمۂ کن میں ہے، عالمِ خلقی اور عالمِ امری کا وہی فرمان روائے مطلق ہے، اس کی ذاتِ پاک خلقت و صنعت کے فعل سے برتر و منزہ ہے، ارواح و اشیاء اس کے فرمان سے حدِ خلق و امر سے گزرتی ہیں وہ خلق و امر دونوں کا پروردگار ہے ۔ ’’ الا لہ الخلق و الامر تبٰرک اللّٰہ رب العالمین (۷: ۵۴) آگاہ ہو کہ خلق اور امر اسی کے ہیں، بہت برکت والا ہے اللہ جو عالموں کا پروردگار ہے ‘‘۔ یعنی عالمِ اجسام و عالمِ ارواح کا وہی پادشاہ ہے اور ان دونوں میں اس کی نعمتیں لا انتہا ہیں، اور وہ خلق و امر دونوں کا پروردگار ہے۔

امر سے مراد فرمانِ الٰہی اور وہ ارواح ہیں جو حدِ تمامی میں ہوں جن پر کلمۂ کن واقع ہوتا ہو، چنانچہ فرماتا ہے۔ ’’ بدیع السمٰوٰت و الارض و اذا قضی امرا فانما یقول لہ کن فیکون ۔ (۲: ۱۱۷) ۔ آسمانوں اور زمین کی ایجاد کرنے والا، اور جب کوئی امر تمام ہو جائے تو سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ اسے کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ پس وہ ہو جاتا ہے۔ اس مسئلہ میں کوئی شک نہیں رہا کہ باری سبحان نے آسمانوں اور زمین کو امرِ کن سے بطریقِ ابداع پیدا کیا ہے اور جب ان میں کوئی امر حدِ تمامی میں پہنچے تو اسے صرف کن فرماتا ہے جس سے وہ ہو جاتا ہے جس طرح جدا وقتوں میں حضرت آدم اور حضرت عیسیٰ کی جسمانی تخلیق اور روحانی تکمیل کے بعد خدائے حکیم نے انہیں

۷۶

’’کن‘‘ فرمایا جس سے وہ امر بن گئے، یعنی ان میں روحِ قدسی آئی اور عالمِ امر سے متصل ہوئے، چنانچہ فرمایا: ’’ ان مثل عیسیٰ عند اللّٰہ کمثل اٰدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون ۔ (۳: ۵۹)۔ بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی مانند ہے، اس (عیسیٰ ) کو مٹی سے پیدا کیا پھر اس سے کہا کہ ہو جا پس ہوا ‘‘۔ اس آیت میں ’’اس کو مٹی سے پیدا کیا‘‘۔ آدم اور عیسیٰ دونوں کی ہمان گونہ فطرت ، جسمانی نشونمائی اور روحِ ناطقہ کی تکمیل کی طرف اشارہ ہے جس میں انہیں دوسرے انسانوں سے کوئی امتیاز نہیں ، لیکن اس کے بعد انہیں کلمۂ کن کہنا ان کے ’’موجودِ حق‘‘ ہونے کی دلیل ہے جس سے ان کا اختصاصی درجہ ظاہر ہے۔

مذکورہ بیان سے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ بادشاہِ مطلق کے امرِ کل سے عالم کی ایجاد ہوئی، اسی طرح اب بھی جب کوئی شے ’’خلق‘‘ میں تمام ہو جائے تو اسے ’’امر‘‘ بنانے کے لئے ’’کن‘‘ فرمایا جاتا ہے جس سے وہ شی بحقیقت ہست ہو جاتی ہے، اب چاہئے کہ ’’کلمۂ کن‘‘ کی واقعیت کے بارے میں کچھ حقائق بیان کئے جائیں تا کہ طالبِ حقائق کو یہ معلوم ہو جائے کہ ’’کلمۂ کن‘‘ ایک ایسا سرِ عظیم ہے جس میں قدرت کی جملہ کارکردگی کی رمزی ترجمانی موجود ہے، کلمۂ کن نہ صرف عربی میں ہے بلکہ وہ دنیا کی ساری زبانوں میں ہو سکتا ہے، چنانچہ فرمایا ’’ انما قولنا لشیء اذا اردنٰہ ان نقول لہ کن فیکون ۔ (۱۶: ۴۰)۔ کسی چیز کے لئے ہمارا قول سوائے اس کے کچھ نہیں جب ہم چاہیں کہ اسے ’’ ہو جا‘‘ کہیں تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘

اس حقیقت کے بارے میں قرآنِ پاک کی ایک اور آیت۔ انما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون (۳۶: ۸۲)۔

۷۷

’’ اس کا امر سوائے اس کے کچھ نہیں جب کسی شے کو وہ کہنا چاہے کہ ’’ ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتی ہے ‘‘۔ یعنی ہر چیز میں یہ فطری صلاحیت اور قدرتی ہدایت موجود ہے کہ وہ جسمانی اور روحانی تمامی کے بعد خود بخود عالمِ امر سے متصل ہو جاتی ہے، پس کسی چیز کا عالمِ امر سے متصل ہو جانا باری سبحانہ کا عملی فرمان ہے، اس مقام پر قدرت کا ارادہ، امر اور مامور کی وحدت ہوتی ہے۔ ذالک تقدیر العزیز العلیم (۳۶: ۳۸) اس توانا و دانا کی تقدیر وہی ہے۔

ہر چیز کو قدرت کی طرف سے ایک خاص وضع اور ایک قسم کی فطری ہدایت دی گئی ہے جس کے مطابق وہ دائم عمل کرتی رہتی ہے۔ افلاک، اجرام، طبائع اور موالید میں بشکل طبیعت یا بشکلِ روح یہ فطری ہدایت موجود ہوتی ہے، پھر یہ ساری چیزیں اس فطری ہدایت کی ترتیب کے لحاظ سے سبیلِ ارتقاء میں رخ بہ معاد ایک سے ایک آگے ہوتی ہیں، چنانچہ احکم الحاکمین فرماتے ہیں: ’’ قل کل یعمل علیٰ شاکلتہ فربکم اعلم بمن ھو اھدیٰ سبیلا (۱۷: ۸۴)۔ اے رسول تم کہدو کہ ہر ایک اپنی وضع کے مطابق عمل کرتا ہے پس تمہارا پروردگار اسے بہتر جانتا ہے جو راستے کی ہدایت میں سب سے آگے ہو‘‘۔ پس عجب نہیں اگر ہر چیز اس سبیلِ ارتقاء کی منزل ’’اھدیٰ‘‘ سے آگے اس صلاح سے چلے اور کام کر لے کہ جس میں ارادہ، امر اور عمل کی حقیقت ایک ہو۔

۷۸

تسخیرِ روح اور تسخیرِ کائنات

تسخیرِ کائنات کے اسرار جویندگان ایک ایسی کٹھن منزل پر پہنچ رہے ہیں، جہاں انہیں طوعاً و کرھاً اپنا تحقیقاتی نظریہ بدلنا پڑے گا، ایسے سائنسی مفکرین کے موجودہ اور آئندہ نظریہ کا فرق اتنا ہو گا، جتنا کہ کسی ثمردار درخت پر چڑھنے کے لئے اس کے تنا اور شاخ کے راستے میں فرق ہوتا ہے، اگر درخت کی کوئی شاخ انسان کی دست رس حد تک پست یا جھکی ہوئی ہو، تو اس صورت میں درخت پر چڑھا جا سکتا ہے، ورنہ بصورتِ عکس ناممکن ہے، یہ اس حقیقت کی مثال ہے کہ درخت کائنات، اس کا تنا روح اور اس کی شاخ مادہ (جسم) ہے، اس کا یہ مطلب ہوا کہ تسخیرِ روح کے بغیر تسخیرِ کائنات غیر ممکن ہے۔

اگرچہ سائنسدان طبقہ بحقیقت موجودہ صورت میں بھی تسخیرِ روح سے بے نیاز نہیں ہو سکتے ہیں، تاہم اس کی بڑی سخت ضرورت اس وقت پڑے گی، جب انہیں ساری کائنات میں روح چھائی ہوئی نظر آئے گی، کیونکہ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ انسانوں کی اجتماعی ارتقاء کی منازل اول تا آخر محض مادیاتی معلومات کے سوا کچھ نہ ہوں، بلکہ دراصل ان کے عروج کا نصف آخر راستہ روحانی منازل میں بٹا ہوا ہے، بالفاظِ دیگر اس عالم میں شب و روز کی مانند جسمانی اور روحانی دو عظیم دور دائم روان ہیں، جو مرورِ ایام کے بعد ایک دوسرے کے حاصل کردہ آثارات اسی طرح مٹا کر غیر معلوم

۷۹

کر دیتے ہیں، جس طرح شب روشنی کو اور روز تاریکی کو محو کر دیتا ہے، بدین گونہ انسانی زندگی ایک ایسے روحانی دور سے گزر جانے والی ہے جس کی ترقی کے زیرِ اثر اس دور کی مفید ترین ایجادات بھی ناقابلِ استعمال اور بعد ازان معدوم ہوں گی۔

اس عظیم الشان عالمی روحانی انقلاب کا پیش خیمہ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی وجہ سے جوہرِ ہیولیٰ کے انتہائی چھوٹے اڑتے ذرات (بسببِ صلاحیت و لطافت جن پر روح تصرف رکھتی ہے) انسانوں میں سرایت کر جائیں گے، جن کا اثر ہر انسان پر اس کے ذاتی اعتقادی تصور اور اس کی دانش و عمل کے مطابق ہو گا، یہ ذرات جملہ مادیاتی اور روحانی خصائص کے حامل ہونے کے باعث انسان کے حواس و مدرکات کو ایک سخت ترین تجربہ کے بعد طاقتور و تیز تر بنا دیں گے، یہاں تک کہ انسانی دماغ مشاہدہ اور گفت و شنود کے لئے کسی بھی جسمانی آلے کا محتاج نہ رہے گا، ان زندہ ذراتِ جوہری کے ساتھ کچھ آسمانی انسان بھی نازل ہوں گے جن کی بعض نشانیاں ایسی ہوں گی کہ وہ اپنی سرعتِ گفتار و کردار کے باعث اور اپنے نوری جسم کے شہود و غیب کی وجہ سے اور اپنی زبردست ہیبت کے سبب سے برق کی مانند ہوں گے، وہ نہایت فصاحت و بلاغت سے ہر بولی بول سکیں گے، ان کا سانس وغیرہ نہیں، انہیں کوئی شے حجاب نہیں ہو سکے گی، ہو سکتا ہے کہ بعض نفسانی چیزوں سے ابتداء میں وہ نفرت رکھیں، پس ان کی مدد سے انسان حقیقی معنوں میں تسخیرِ کائنات کے لئے مصروفِ عمل ہو سکتا ہے۔

خدا کی آخری کتاب کا نتیجہ خیز مطالعہ، بزرگوں کے رموز کا تجزیہ اور صوفیانہ تجربہ کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سیارے کے انسانوں کے علاوہ انسانوں کے آٹھ قسم کے گروہ اور بھی ہیں، ان میں سے ایک بن دیکھے گروہ اسی سیارہ پر موجود ہے اور سات گروہ دوسرے سیاروں میں رہتے ہیں، ان آٹھ قسم کے روحانیوں کے

۸۰

اجسام گرمی، سردی، تری اور خشکی سے بالاتر مختلف جوہروں سے ہو سکتے ہیں، آپ اگر چاہیں تو انہیں فرشتہ، روحانی، دوسرے سیاروں کے انسان اور بہشت کی مخلوق وغیرہ سے یاد کر سکتے ہیں، کیونکہ ان سب کی حقیقت ایک ہی ہے، ابتداء میں یہ انسان تھے اور اب بھی شکل و شباہت میں انسان ہی ہیں، صرف فرق ان میں اور اُن میں اتنا ہے کہ وہ تسخیرِ کائنات کے اعلیٰ ترین مدارج پر پہنچ چکے ہیں، اور انہوں نے اپنی ذات کی معرفت میں اپنے رب کی اور اس کی پیدا کردہ کائنات کی شناخت حاصل کر لی ہے، پس وہ اپنے رب کی طرف سے نوازے ہوئے ہیں۔

اس حقیقت کی پہلی دلیل بقولِ خدائے جلیل: و بنینا فوقکم سبعاً شدادا ۔ (۷۸: ۱۲) ’’اور ہم نے تم سے برتر سات (قسم کے) سخت بنایا‘‘۔ یہ درست ہے کہ ’’خلق الانسان‘‘۔ اس نے انسان پیدا کیا ۔ اور ’’بنی البیت ۔ اس نے گھر بنایا‘‘۔ میں ضرور فرق ہے لیکن یہاں ان سات قسم کے آسمانی انسانوں کی خلقت مراد ہے اور ان کی پیدائش کے معنی ظاہر کرنے کے لئے ’’ خلقنا ‘‘ کی بجائے ’’ بنینا ‘‘ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری آخرت کے زندہ گھروں کی حیثیت رکھتے ہیں، چنانچہ حکیم مطلق کے اس قولِ برتر سے ظاہر ہے: و ان الدار الاٰخرۃ لھی الحیوان لو کانوا یعلمون (۲۹: ۶۴)۔ ’’ بے شک آخرت کا گھر زندہ ہے، اگر وہ جانتے ہوں‘‘ اور انہیں ’’سخت‘‘ کہنے کی وجہ ان کی لازوالی ہے، کیونکہ وہ دارالبقاء ہیں، اب رہا اس سوال کا جواب کہ کیا اس آیت سے سات آسمانوں کی خلقت مراد نہیں؟ سو حقیقتاً وہ زندہ سماوات بھی یہی ہیں، جو کائنات پر دائم فیض برساتے ہیں ورنہ فضائی بسیط کی فرضی تقسیم کی کوئی خاص دلیل نہیں۔

دوسری دلیل یہی متفقہ روایت ہے کہ بہشت آٹھ قسم کی ہیں، پس یہ حقیقت

۸۱

درست ہے کہ فلکی و ارضی یہی آٹھ قسم کے روحانی بہشت ہیں، جس طرح ذکر ہو چکا ہے کہ آخرت کا گھر زندہ ہے، پس زندگی کا نمونہ انسان ہے اور زندہ بحقیقت انبیاء و اولیاء ہیں اور یہی امتوں کے لئے بہشت اور آسمان ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بہشت آسمان میں ہے، سو آسمان نبی و ولی ہے، جس کے بارے میں خدا کا یہی فرمان ہے: و ارسلنا السمآء علیہم مدراراً (۶: ۶)۔ ’’ اور ہم نے ان پر بہت برسانے والا آسمان بھیجا‘‘۔ پس لفظ ’’بھیجا‘‘ رسول کے لئے آیا ہے نہ کہ فضائی بسیط کے لئے اور بارش سے فیضِ علم مراد ہے۔

انسانوں کے لئے نزدیک تر آسمان اسی زمین پر ہے اور وہ انبیاء و اوصیاء اور ان کے جانشین ہو سکتے ہیں، جس کی دلیل اسی آیۂ کریمہ سے مل سکتی ہے۔ و لقد زینا السمآء الدنیا بمصابیح و جعلنٰھا رجوما للشیٰطین و اعتدنا لھم عذاب السعیر (۶۷: ۵)۔ ’’ اور بلا شک ہم نے نزدیک تر آسمان کو چراغوں سے زینت دی اور اسے شیطانوں کو سنگسار (دور) کرنے والا ٹھہرایا، اور انہیں آگ کا عذاب تیار کر رکھا ‘‘۔
پس حضرتِ محمد مصطفی اپنے دور کے لوگوں کے لئے روحانیت کا نزدیک تر آسمان تھے، جس کی زینت محض حقائق، علوم، معارف، حکمت اور ہدایت کے چراغوں سے تھی، جن کی روشنی میں مومنین راہِ راست پر چل سکتے تھے، اس روحانی زینت کے سوا بظاہر وہ ایک بشر تھے اور اس میں بشریت کی تمام ضروری صفات موجود تھیں، مثلاً کھانا، پینا، سونا، شادی بیاہ کرنا، چلنا، کام کرنا اور بعض جسمانی تکالیف و بیماری وغیرہ سے مجبور ہونا اور ان کے لوازمات وغیرہ پھر ان صفاتِ بشریہ کی وجہ

۸۲

سے بہت سے لوگ شک میں پڑ جاتے اور دور بھاگتے تھے، یہی حقیقت ہے جو خداوندِ برتر نے فرمایا کہ ہم نے نزدیک تر آسمان کو (ہدایت کے) چراغوں سے زینت دی ہے، پھر اسے (اپنی صفاتِ بشریہ کی وجہ سے) شیطانوں کو بھگانے والا ٹھہرایا ہے۔

۸۳

سورج میں روشنی کس طرح پیدا ہوتی ہے؟

قانونِ قدرت نے ہر چیز کو اس کی ضد سے ایک مطلوبہ مقدار میں بنایا، پھر ان دونوں کے تبادلہ سے سلسلۂ ادوار جاری رکھا، تا کہ ہر چیز کو اس کی ضد سے پیدا کئے جا سکنے کی دلیل سے صانعِ عالم کی ہستی کا ثبوت مل سکے، بدین طریق اس عالمِ جسمانی کو ایک محدود کروی شکل میں بنایا گیا ہے، گویا اس کی وسعت و مقدار لاانتہا نہیں بلکہ انتہا ہے، جیسا کہ قرآن کریم کی اس آیت سے ظاہر ہے: و کل شیءٍ عندہ بمقدارٍ (۱۳: ۸)۔ ’’اور ہر چیز اس کے پاس مقدار میں ہے‘‘۔ پس معلوم ہوا کہ مکان، زمان، محسوسات اور معقولات میں سے ہر ایک چیز ایک معین مقدار میں ہے اور مقدار سے مراد مکان و زمان کی کمیت ہے، جس میں کسی چیز کی مسافت، وزن اور اس کی اکائیوں کے متعلق بحث کی جا سکتی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر یہ عالم ایک مطلوبہ مقدار میں بنا ہوا ہے تو اس کی مقدار کا تعین کس پیمانہ اور کس مناسبت سے کیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عالم کی وسعت کے مقدار کا تعین روح (نفسِ کلی ) کی توانائی کی مناسبت سے ہے، اس لئے کہ کارخانۂ عالم، عالمگیر روح کی توانائی سے چل رہا ہے، گویا عالمگیر روح ہی عالم کے لئے بدرجۂ جان ہے۔

۸۴

جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ عالم ایک ہی طاقت سے منظم و کارندہ ہے، تو بلاشک اس کی مثال ایک ایسی عظیم ترین مشین کی سی ہے جسے ایک اکیلا حکیم چلا رہا ہے، اس مشین کے مختلف اجزاء اسی ایک ہی شخص کی طاقت اور ضابطہ کے زیرِ اثر مختلف حرکات کرنے کے باوجود اخیر میں وہ جو کچھ کام کر دیتے ہیں، اس سے ان کی عملی وحدت ظاہر ہے، اس مثال سے یہ عیان ہوا کہ ثوابت، سیارے، سورج اور فضا وغیرہ جو کچھ فعل و اثر کرتے ہیں وہ ایک متحدہ طاقت کے زیرِ اثر ہے، اور عالمی مشین کے یہ اجزاء ایک خاص مطلوبہ تعداد و مقدار میں ہیں، اس لئے کہ عالمی مشین کے ان پرزوں کی تقسیم حکیمانہ طرزِ صنعت کے اقتضا پر ہے، نہ کہ وہ کسی اتفاقیہ تصادم یا حادثے سے منتشر ہوئے ہیں، پس معلوم ہوا کہ ثوابت اور سیارگان وغیرہ کی تعداد، جسامت اور باہمی مسافت باقتضائے حکمت ہے، تا کہ ان بے شمار انسانوں کو عملی طور پر ان علوم و معارف کے حاصل کرنے کا موقع مل سکے، جو اس وسیع کائنات کی حکمت آگین تخلیق میں پوشیدہ ہیں، اس طرح سورج کی ایک مطلوبہ مقدار ہے، جس کی مناسبت مرکزِ عالم (مقامِ سورج) اور مرکزِ نفسِ کل (عالمی سطحِ محیط) کی درمیانی مسافت سے ہے!

اب سورج کی روشنی کے باب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دراصل اس کی روشنی ذاتی نہیں، نہ وہ کوئی ٹھوس جسم ہے، بلکہ اس میں بھی وہی جوہر (ہیولیٰ ) ہے جو فضائے بسیط میں بھرا ہوا ہے، گویا جہاں کہیں بھی ستاروں سے خالی اور صاف ، نیلا آسمان نظر آ رہا ہو، وہ دراصل خالی نہیں بلکہ جوہرِ ہیولیٰ سے پُر ہے، کیونکہ اس کائنات میں کوئی ذرہ بھر بھی خالی جگہ نہیں، ازآنکہ مکان بغیر متمکن کے محال ہے اور مکان و متمکن جسم کے دو نام ہیں، گویا جسمِ لطیف کو مکان اور کثیف کو متمکن مانا گیا ہے۔

۸۵

پس اسی طرح عالمی مرکز میں بھی وہی ہیولیٰ ہے، جو فضائے بسیط میں ہے اور حقیقت میں سورج کی وہ روشنی نفسِ کلی کی نورانی شعاعوں کا اثر ہے جو عالمی سطح سے مقامِ مرکز پر متواتر پڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے ایک مناسب گھیرے میں ہیولیٰ تحلیل ہو کر نور بن رہا ہے، بالفاظِ دیگر جیسا کہ اس کتاب میں ذکر ہو چکا کہ عالمی کروی سطح پر نفسِ کلی محیط ہے، اور وہ اپنی اس گول قاہرانہ گرفت میں عالم کو اس کے مرکز کی طرف دبا رہی ہے، جس کی وجہ سے عالم کے عین وسط کا ہیولیٰ تحلیل ہو کر نور بن رہا ہے، کیونکہ جب کسی گول جسم پر اس کی ساری سطح سے کوئی طاقتور اثر پڑ جائے تو اس کے مرکز میں وہی اثر انتہا پر آجاتا ہے، جس طرح موسمِ گرما کی فضائی گرم ہوائیں سرد بادلوں کے گھیرے میں آ کر خولی شکل میں نہایت سختی سے دب جاتی ہیں، تو سب سے پہلے اس قطعۂ ہوا کا مرکزی ذرہ پھٹ جاتا ہے، پھر یکے بعد دیگرے دوسرے تمام ذرات پھٹ جاتے ہیں، جس سے ایک زبردست طاقت، خیرہ کن روشنی اور ہولناک گرج پیدا ہو جاتی ہے، یہی حال عالمی مرکزی ہیولیٰ کا بھی ہے جسے تحلیلی روشنی کی وجہ سے سورج کہا جا سکتا ہے اور جس پر نفسِ کل کی نورانی شعاعوں کا زبردست اثر پڑ رہا ہے۔

اب اس حقیقت کی دلیل کہ سورج کی روشنی ذاتی نہیں، نہ وہ کوئی ٹھوس جسم ہے، یہ ہے کہ اگر ہم یہ مانیں کہ سورج کی روشنی ذاتی اور اس کا جسم ٹھوس ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ پرورش سے بے نیاز ہے، یعنی اسے باہر سے کوئی قوت نہیں ملتی ہے، کیونکہ کسی چیز کے ذاتی اور ٹھوس ہونے کے معنی یہی ہیں، کہ اس میں عارضیت اور لطافت پذیری نہیں، پس اگر یہ تصور درست ہو سکتا تو روزِ اول سے اب تک سورج کبھی کا ختم ہو چکا ہوتا یا گھٹتے گھٹتے چھوٹے سے چھوٹا رہ جاتا، کیونکہ یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ایسا جسم بھی ہو جو دائم روشنی اور جوہری طاقت صرف کرتا رہے، اور کہیں سے کوئی قوت حاصل نہ کرے اور اس کے باوجود اس میں کوئی کمی بھی واقع نہ ہو سکے،

۸۶

ایسا کوئی جسم نہیں، پھر معلوم ہوا کہ سورج کی روشنی ذاتی نہیں اور نہ یہ عالمی ہیولیٰ کے بغیر کوئی چیز ہے۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ اگرچہ جسم اور روح کی کثافت و لطافت کی تقسیم میں جسم کثیف (ٹھوس) اور روح لطیف (شفاف و ہمہ رس) ہے لیکن گوناگون اجسام کی اسی تقسیم میں بعض اجسام کثافت کی وجہ سے روح سے دورتر ہیں، اور بعض اجسام اپنی طبیعی لطافت کی وجہ سے روح کے قریب تر ہیں، جن میں بسببِ لطافت روح کا عمل نسبتاً تیز تر ہو جاتا ہے، بالفاظِ دیگر جسمانی اور روحانی موجودات کی ایک کلی ترتیب ہے جس کی مثال ایک بہت لمبی زنجیر سے دی جا سکتی ہے اس زنجیر کے ابتدائی نصف حصے میں جسمانی مراتب کی کڑیاں ہیں، ان کے بعد ایک ایسی متوسط کڑی بھی ہے جو اگر ایک وجہ سے جسمانی ہے تو دوسری وجہ سے روحانی ہے، اور اس کے بعد آخری نصف حصے میں روحانی حلقے ہیں، اس سلسلۂ کائنات کی وہ متوسط کڑی جس نے سلسلۂ جسمیہ و روحیہ دونوں کے درمیان جاگزین ہو کر انہیں باہم ملا رکھا ہے وہ سورج ہے۔

۸۷

عجائبات السنہ قدرت کی نشانیوں سے ہیں

السنۂ اقوامِ عالم کی تخلیق بالتمام قدرتی ہے، اور ان سب میں قدرت کی صنعت کاری کے ظاہری و باطنی عجائبات موجود ہیں، یہی عجائبات صانعِ حکیم کی ہستی اور اس کی تمام صفات کی نشانیوں میں سے ہیں، جن پر کسی انسان کا غور و فکر کرنا اور ان سے اہلِ زبان کو روشناس کرانا خدا کی ایک گونہ عارفانہ عبادت ہے، درین اثناء اسے براہِ فکر و نظر جو معلوماتی لذت و مسرت ملے وہ حقیقت میں اس امر کی دلیل ہے کہ اس انسان کی یہ عبادت خدا کی درگاہ میں مقبول ہو رہی ہے، اور اسی وقت سے لا انتہا ثواب اسے مل رہا ہے، کسی قوم کی زبان کی اہمیت کے بارے میں اس آیت پر غور و فکر کرنا باعثِ یقین ہو سکتا ہے: و من اٰیٰتہ خلق السمٰوٰت و الارض و اختلاف السنتکم و الوانکم ان فی ذالک لاٰیٰت للعٰلمین (۳۰: ۲۲)۔ اور اس کی نشانیوں میں سے ہیں آسمان و زمین کی پیدائش اور تمہاری بولیوں اور رنگوں کا اختلاف بے شک جاننے والوں کے لئے ان میں نشانیاں ہیں۔

پس دنیا کی ساری بولیاں خدا کی پیدا کردہ ہیں، اور ان کے اختلاف میں اس کی نشانیاں پوشیدہ ہیں، پھر کسی پس ماندہ بولی پر تمسخر کرنا، یا اسے لغو، مضحکہ خیز

۸۸

اور خالی از حکمت قرار دینا، ان دانشمندوں اور شریفوں کا شیوہ نہیں، جنہیں ہر چیز میں خدا کی توانائی دیکھنے کی بصیرت ملی ہے، گو قوموں کی لسانی ترقی یا پس ماندگی کا کچھ سطحی فرق بھی نظر آتا ہے، لیکن حقیقتاً ہر زبان خدا کی پیدا کردہ ہے، اور اس میں علم گیری، معنی خیزی، ترقی پذیری اور تعلیم و تفہیم کی اتنی قدرتی صلاحیت موجود ہے، جتنی کہ کسی عالمی زبان میں ہو سکتی ہے، بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو خدا نے یکسان طور پر پیدا کر کے دنیا کی مختلف قوموں کو عطا کیا، پھر ان چیزوں کی ترقی و تنزل کا جو فرق و امتیاز پیدا ہوا وہ دراصل ان قوموں کی جد وجہد یا تساہل کے فرق و امتیاز کے سوا کچھ نہیں۔

ہر قوم کی لسان کے آغاز و انجام کے متعلق دلیلاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمِ سفلی اور عالمِ علوی دونوں میں رب العالمین نفوسِ ناطقہ کی پرورش اس علم سے کر رہا ہے جو ان کی اپنی بولیوں میں ہے، اس کے بارے میں وہ خود فرما رہا ہے: الرحمٰن علم القراٰن خلق الانسان علمہ البیان ۔ (۵۵: ۱ تا ۴) ’’رحمٰن نے قرآن سکھایا، انسان کو پیدا کیا اسے بولنا سکھایا ‘‘۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ رحمٰن نے انسان کی بقائے علوی یعنی روحِ مستقر کو عالمِ امر میں ’’علم الاسماء‘‘ سکھایا اور یہ علم اس انسان کی اپنی بولی میں تھا، پھر اس بقا کے سائے کو جو جسمانی تھا اس عالمِ خلق میں پیدا کیایہ انسان کی بقائے سفلی یا روحِ مستودع تھی، پھر اسے عام طور پر بواسطۂ گفتگو علم سکھایا، انسان کی دائمی بقاء (مستقر) اور عارضی بقاء (مستودع) کے متعلق میں نے اسی کتاب ’’میزان الحقائق‘‘ میں لکھا ہے، اس کتاب میں اس قسم کے جو کچھ حقائق بیان کئے گئے ہیں، بغور پڑھے جانے کے بعد نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں۔

خدائے برتر نے جب کبھی کسی قوم کو کوئی رسول بھیجا تو اس قوم کی بولی میں بھیجا جیسا کہ قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ:

۸۹

و ما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لیبین لھم (۱۴: ۴) ۔ ’’اور ہم نے کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان کے ساتھ تا کہ وہ انہیں بیان کرے‘‘۔

ایسی قوم کی اپنی زبان میں نہ صرف رسول آیا ، بلکہ اس کے ساتھ اسی زبان ہی میں آسمانی کتاب یا صحیفہ بھی نازل ہوا، جس کی وجہ سے اس قوم کی عبادت، ذکر اور دعا وغیرہ اسی زبان میں ہوئی، تا کہ اس قوم کے لوگ ان ساری باتوں کی حقیقت بخوبی سمجھ سکیں جو خدا کی طرف سے انہیں بتائی جا رہی ہیں۔

ہر زبان کی اہمیت اور اس کے عروج کی امکانیت کے بارے میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ جس طرح کہا جاتا ہے کہ انسان عالمِ صغیر ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ عالمِ کبیر ہے، بہر حال یہ صغیر ہو یا کبیر، لیکن یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ روحِ انسانی بذاتِ خود ایک وسیع روحانی جہان ہے، جس میں عالم کی ساری چیزیں بحالِ نطق و حیات موجود ہیں، پھر اگر انسان اس ذاتی اور روحانی سلطنت کا مستحق ہو سکے تو اس کی ذاتی نورانی جہان کی زبان وہی ہے، جو دنیا میں اس کی مادری اور قومی زبان تھی یا جس کو وہ چاہتا تھا: لھم ما یشاؤن فیھا و لدینا مزید (۵۰: ۳۵)۔ ’’ان کے لئے اس (بہشت) میں وہ چیز ہے جسے وہ چاہتے ہوں اور ہمارے پاس ان کی خواہش سے مزید نعمت موجود ہے‘‘۔ یعنی ایسے مراتب بھی ہیں جن کے متعلق انہیں کوئی خیال بھی نہیں۔

بہشت کے متعلق اگر کوئی پوچھے کہ وہاں کیا کیا چیزیں حاصل ہو سکتی ہیں؟ تو اس کا جواب مذکورۂ بالا آیت میں ہے کہ بہشت میں وہ ساری نعمتیں ہیں جن کو انسان چاہتا ہو، پھر انسانوں کی سب سے پہلے چاہنے والی نعمت ان کی اپنی بولی ہے، جس

۹۰

میں وہ اپنے ملک اور قوم کے اولین و آخرین سے گفتگو کریں گے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شخصی اور اجتماعی بہشت میں اپنے اور دوسروں کے اقوال و افعال کا سننا اور دیکھنا ہے جو یہ سب خدا کی رحمت اور علم کے نور میں ہو گا، جس سے بہشتیوں کو لا انتہا خوشی حاصل ہو گی گویا اس کی مثال ایسی ہے کہ ہر شخص اور ہر قوم کے اقوال و اعمال کو خدا کی قدرت سے کرام کاتبین زندہ کر دیں گے، ہر انسان کے قول و فعل کا بعینہٖ زندہ کرنا لکھنے کی نسبت زیادہ حیرت انگیز واقعہ ہے بہرحال بہشت والوں کی لازوال سلطنت ان کی اپنی زبان میں ہے، پس زبان لازوال چیز ہے اور یہ بہشت میں بطریقِ حکمت بن کر آئی ہے اور وہاں اب بھی موجود ہے۔

۹۱

میوۂ بہشت

سخنہائے آغاز

بسم اللہ الرحمن الرحیم ان اللہ وملئکتہ، یصلون علی النبی یا ایھا الذین امنو صلواعلیہ وسلموا تسلیما (۳۳: ۵۶) اے خداوندِ بخشندہ ومہربان! تو اپنی رحمتِ بے نہایت سے ہم جیسے عاجز و ناتوان بندوں کو ایک ایسی عالی ہمتی عنایت فرما کہ جس سے ہم خاکساران تیرے برگزیدہ اور محبوب رسولؐ اور آنحضرت کی آلِ اطہار پر جیسا کہ چاہئیے با معرفت صلوات پڑھیں: اللھم صل علٰی محمد وال محمد۔

اے وہ ذاتِ پاک و یکتا! جو مکان ولامکان سے برتر بھی ہے، اور ہماری رگِ جان سے نزدیک تر بھی، تیرے حضورِ اقدس میں جملہ حاجاتِ ظاہری وباطنی پیش ہیں، اے خدائے احد وصمد! اے سبوح وقدوس! ہر بندۂ مومن ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ جی بھر کر تیری حمد وثنا اور تعریف و توصیف کرتا رہے، لیکن اے پادشاہِ بے چون و بے مثال! تو جانتا ہے اور کوئی حال تجھ سے پوشیدہ نہیں، کہ یہ امرِعظیم نہ صرف عقلِ جزوی کی وجہ

۵

سے سخت مشکل ہے، بلکہ الفاظ ومعانی کی تنگ دامانی کے سبب سے بھی یہ کام بدرجۂ انتہا دشوار ہے، اس لئے یا اللہ! تو اپنی ہدایتِ لاریبی سے اس غریب وبیچارہ دل کو سوزوگداز کا سرچشمہ بنادے، تاکہ یہ بندۂ مسکین طفلِ شیر خوار کی طرح ہر حاجت وطلب کے بہانے سے خوب خوب آنسو بہا سکے، تاکہ وسیلۂ ربوبیت اور دایۂ عاطفت (یعنی رحمتِ خداوندی) میری اس گریہ وزاری کی گونا گون ترجمانیاں اور تشریحیں کرے، جس طرح کوئی جسمانی مادرِ مہربان اپنے لختِ جگر کے بہتے ہوئے آنسوؤں کی طرح طرح سے تعبیریں کرتی ہے، مگر اس سے آسمانی نوازشات کا موازنہ ہر گز نہیں ہو سکتا، کہ ظاہری ماں کی مامتا قطرۂ کم مقدار کی طرح ہے، اور تیری رحمت (مہرونوازش) بحرِ بے پایان ہے۔

کتاب کا نام: یہ بہت ہی پیاری کتاب جوـ”میوۂ بہشت”کے  پر مغز اسم سے موسوم ہے، چند اہم اور مفید مقالات کا مجموعہ ہے، جو مختلف مواقع پر لکھے گئے تھے، جن کے آخر میں تاریخ وغیرہ درج ہے، تاکہ ناظرین وقارئین کو ہر مقالے کی اصل صورت اور کتاب کی نوعیت بخوبی معلوم ہو سکے، اگرچہ بعض ایسی کتابوں میں اس اصول پر عمل اس لئے نہیں کیا گیا ہے کہ بار بار مصنف کا نام آنا عجیب لگتا تھا۔ تاہم مستقبل کے لئے تاریخی معلومات کے پیشِ نظر یہی طریقِ کار بہتر ہے کہ جو کتاب خطوط اور مقالو ں پر مبنی ہو، اس کے اجزاء کو اصل صورت میں پیش کیا جائے، تاکہ تحریروں کی ترتیب اور ارتقائی شکل کا تعین ہو، نیز

۶

اگر کسی سکالر نے خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف پر تحقیق (ریسرچ) کرنے کا ارادہ کر لیا تو وہ البتہ اپنے کام کے لئے ان چیزوں سے نتائج اخذ کرے گا۔

           لفظ”میوۂ بہشت”کا مفہوم قرآنی حکمت میں بڑا جامع جوامع ہے، جس کی وجہ ظاہر ہے، کہ خداوندِ علیم وحکیم نے دنیائے مادیت کی تمامتر غذاؤں میں سے میوہ (پھل) کو منتخب فرمایا، تاکہ اس سے روح اورعقل کی اعلیٰ نعمتوں کی تشبیہہ و تمثیل دی جائے، اس انتخاب کا سبب یقینا یہی ہے کہ میوہ یعنی پھل (بزبانِ قرآنِ حکیم، ثمر، فاکھتہ، وغیرہ) کی مثال میں روحی اور عقلی جواہر کے اشارات موجود ہیں، جن کو صرف اہلِ دانش ہی سمجھ سکتے ہیں۔

میوۂ علمی: جس طرح ہر دنیاوی میوہ اپنے درخت کا مکمل جوہر، خلاصہ، اور نچوڑ ہوا کرتا ہے، یعنی اس میں تمام شجر کی ہر ہر قوت بصورتِ جوہر موجود ہوتی ہے، یہاں تک کہ اس میں اپنی قسم کا ایک دوسرا درخت اگانے کی صلاحیت بھی پوشیدہ ہے، اسی طرح بہشتِ برین کا روحانی، علمی، اور عقلی میوہ ہے، جو درختِ کائنات و موجودات کا جوہر (گوہر۔ ۔ ۔ ۔) ہے، جس کی رنگینی دیدۂ دل کے لئے، خوشبو مشامِ جان کے لئے، اور ذائقہ روح وعقل کے لئے مرغوب و پسندیدہ ہے۔

               گلشن یا گلزار و ہ احاطہ ہے، جہاں پھول کھلتے ہیں، اور باغ اس چار دیواری کانام ہے، جس میں میوہ دار درخت ہوتے ہیں، مگر

۷

روحانی بہشت کی یہ کیفیت ہے کہ وہ نہ صرف گلشن در گلشن اور باغ درباغ ہے، بلکہ وہ گلشن در باغ اور باغ درگلشن بھی ہے، کیونکہ وہ جہانِ لطیف اور عالمِ امر ہے، جس میں معجزۂ امرِ کن کی کارفرمائی ہے، اور چیزیں چشمِ زدن میں ظہور پذیر ہوتی رہتی ہیں، بہ ہر حال اگر ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو عالمِ شخصیت کی جنت میں پہلے تو روحانیت کے پھول ہی پھول نظر آتے ہیں، اور پھر علم وحکمت کے پھل ہی پھل۔

            کوئی بھی ہوشمند جو قرآنِ پاک کے ظاہر سے واقف و آگاہ ہو، یہ سوال کر سکتا ہے کہ قرآنِ مقدس میں بہشت کے پھولوں کا ایسا تذکرہ کہاں ہے، جس کے حوالے سے آپ نے یہ ذکر کیا ہو؟ میں جواب کے طور پر یوں عرض کروں گا کہ قرآنِ حکیم میں بزبانِ حکمت سب کچھ مذکور ہے، چنانچہ قرآنِ کریم میں جہاں جہاں لفظِ جنت، روضہ، حدیقہ اور بہشت کا کوئی بھی نام آیا ہے، اس میں پھولوں کا ذکر پوشیدہ ہے، نیز جن آیاتِ کریمہ میں جنت کے درختوں اور میوؤں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے، ان میں بھی یہ بات ہے، کیونکہ جنت (باغ) پھل اور پھول دونوں کا تصور پیش کرتی ہے، او ر شجر وثمر پھول کے بغیر نہیں، اس کے علاوہ ایک بڑا اہم نکتہ یہ بھی یاد رہے کہ جس طر ح حواسِ ظاہر میں سب سے اشرف حس بصارت ہے، اسی طرح حواسِ باطن میں بصیرت (روح کی بینائی) افضل ہے، جس کے لئے جنت میں گونا گون لطیف مناظر (دیکھنے کی چیزیں) موجود ہیں (۴۳: ۷۱) جن میں لطیف پھول بھی شامل ہیں۔

۸

قرآنِ حکیم میں کئی ایسی آیات ہیں، جن کامجموعی مفہوم یہ ہے کہ جب آسمان سے بارش برستی ہے تو مردہ زمین زندہ ہو جاتی ہے، وہ یہ کہ زمین کا آباد حصہ سر سبز اور گل وگلزار بن جاتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ جب نورِ نبوت وامامت کے آسمان سے قلوبِ مومنین کی زمین پر حقیقی علم کی بارش برستی ہے، تو اس کے نتیجے میں انکے دل باغہائے بہشت کے انتہائی خوب صورت مناظر کو پیش کرتے ہ یں، چنانچہ مشاہدۂ باطن میں جہاں پھول نظر آتے ہیں، وہ حکمت کی نشانی ہیں۔

ہر چیز کا میوہ: اگر قرآنی حکمت میں غور سے دیکھا جائے تو یقینا معلوم ہو جائے گا کہ عالمِ روحانیت میں ہر چیز کا پھول اور پھل ہے، اور کوئی چیز اس قانونِ کل سے باہر نہیں (۲۸: ۵۷) اور روحانی سلطنت کو جنت (باغ وگلشن) کے اسم سے موسوم کرنے کے معنی بھی یہی ہیں، چنانچہ ہر چیز کی حسین وجمیل روحانی صورت گویا گل ہے، ہر شی کا ذرہ روح میوہ ہے، اور اس کی حکمت مغز ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمِ خیال بمرتبۂ نورانیت بہشت کا وہ گلشن ہے، جس میں کائنات وموجودات کی ہر چیز صبغتہ اللہ (۲: ۱۳۸) کے رنگ میں یا تو پھول ہے یا پھول کی طرح رنگین ہے، عالمِ ذر وہ باغِ میوہ دار ہے، جہاں تمام چیزوں کی روحیں موجود ہیں، اور وہ ثمرات یعنی میوے کہلاتی ہیں، اور کنزِ عقل وہ خزینۂ الہٰی ہے، جس

۹

میں ہر میوۂ بہشت کا مغزِ حکمت موجود ہے۔

            اگر کوئی شخص یہ سوال کر ے کہ جنت میں کیا کیا نعمتیں ہیں؟ یا پوچھے کہ اس میں کتنی قسم کی نعمتیں ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ بہشت کی بیشمار نعمتیں ایک اعتبار سے دو قسم کی ہیں، پہلی قسم ان نعمتوں کی ہے جن کو انسان پہچانتا ہے، اس لئے ان کی خواہش کرتا ہے، دوسری نعمتیں و ہ ہیں، جن کا آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا (۵۰: ۳۵) دوسرے اعتبار سے جنت کی چیزیں عقلی، روحانی، اور لطیف جسمانی قسم کی ہیں، ان کی بہت سی ذیلی قسمیں ہیں، اس بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ بہشت اور اس کی نعمتوں کی معرفت ضروری ہے، تاکہ صحیح خواہش پیدا ہو سکے، کیونکہ اگر کوئی آدمی رب العزت کی اعلیٰ سے اعلیٰ نعمتوں کا علم نہیں رکھتا اور خواہش وطلب پیدا نہیں کرتا ہے تو قانونِ خزائن (۱۵: ۲۱) قانونِ معرفت (۴۷: ۶) اور قانونِ چاہت (۵۰: ۳۵) ۱؎  کے بموجب وہ چیزیں اس کو نہیں ملیں گی۔

           کائنات وموجودات کی ہر چیز درخت کی طر ح کام کرتی ہے، اور اس سے اپنی نوعیت کا ایک میوہ پیدا ہو جاتا ہے، آسمان کو دیکھئے، کیا سورج، چاند، سیارے، اور ستارے اس شجر کے پھل نہیں ہیں؟ پہاڑ جہاں درخت ہے، وہاں اس کے میوے جواہراور معدنیا ت ہیں، اگر سمندر درخت نہ ہوتا، تو گوہر (موتی) اس کے ثمرات نہ ہوتے، ایک اور حکمت یہ ہے کہ زمین

۱؎ ۱۶: ۳۱، ۲۵: ۱۶، ۳۹: ۳۴، ۴۲: ۲۲، ۵۰: ۳۵

۱۰

 درخت ہے، اور اس کے میوے نباتات ہیں، عالمِ نبات درخت ہے، جس کا پھل حیوان کہلاتا ہے، درختِ حیوان کا ثمر انسان ہے، اور دنیائے انسانیت کا میوۂ عقل و جان انسانِ کامل ہے، اب ایک اور نکتہ سن لیجئے: ایک شریف انسان عہدِ طفولیت میں غنچۂ ناشگفتہ جیسا محبوب اور پیارا ہوتا ہے، نوجوانی میں اس کی شخصیت گلِ رعنا کی طرح جاذبِ نظر اور پر کشش ہوتی ہے، اور جب وہ عمر کی پختگی کو پہنچتا ہے، تو اس وقت وہ عقل ودانش کے اعتبار سے ایک ایسے پاکیزہ و پختہ پھل کے مشابہ ہوتا ہے، جو خوشبو، عمدہ ذائقہ، اور پر قوت مغز کے لحاظ سے بہترین ہوتا ہے، پس ان مثالوں سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ ہر چیز کا پھل ہے، اور نظامِ کائنات دراصل نظامِ ثمرات ہے، اور بہشت کا راز اسی میں مضمر ہے۔

شکر گزاری:

          اگر اس علمی خدمت کو جہالت ونادانی کے خلاف ایک جہاد قرار دیاجائے تو اس صورت میں یوں کہنا حقیقت پر مبنی ہو گا کہ خدا تعالیٰ  اور اس کے رسولِ برحق صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی نورانی تائید ونصرت امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے وسیلے سے حاصل ہو سکتی ہے، اور اس میں “خانۂ حکمت”اور “ادارۂ عارف”کے بہت سے جان نثار مجاہدین سینہ سپرہو گئے ہیں، آپ انکے حق میں اس طرح دعا کریں کہ: “خداوندا! امامِ عالمقامؑ کے جملہ مریدوں اور تمام پاک اداروں کے صدقے کے طور پر انکو کامیابی اور فتح مندی سے ہمکنار کر دینا! آمین!!”

۱۱

      ہمارے دونوں نامور پریذنز فتح علی حبیب اور محمد عبد العزیز اس علمی جہاد میں صفِ اول کے مجاہد ہیں یہ صاحبان ہر متعلقہ کام کو، خواہ بڑا ہو یا چھوٹا، بہ نفسِ نفیس انجام دیتے ہیں، وہ چراغِ امامت کے پروانے اور حقیقی علم کے شیدائی ہیں، ان کی دوستی میوۂ بہشت کی طر ح بیحد شیرین اور دلنواز ہے، کیونکہ وہ اخلاق و ایمان کی خوبیوں سے آراستہ ہیں، میں دونوں اداروں کے ہر عملداراور ہر ممبر کو فرشتہ بحدِقوت سمجھتا ہوں، کہ ان تمام حضرات نے مل کر شرق و غرب میں ایک علمی انقلاب کو جاری وساری کردیا ہے۔

میں اس وقت بھی مشرق و مغرب میں پھیلے ہوئے دوستوں اور رفقائے کار کو یاد کرتا ہوں، میرے دل ودماغ او ر تصور میں زیادہ سے زیادہ وہی عزیزان چھائے ہوئے ہیں، جنھوں نے اپنی گرانقدر خدمات سے ہمارے اداروں کو کامیاب بنا دیا ہے، میں ان سب کا شکر گزار اور ممنون ہوں، اگر یہ بات درست ہے کہ ہر روح لا تعداد ذرات کا مجموعہ ہو ا کرتی ہے، تو یہ انتہائی خوشی کی بات ہے، سو میں چاہوں گا کہ میری روح کے ذرات جس کثرت سے بھی ہوں، وہ سب کے سب ہمارے محسنین کے حق میں شکر گزار اور دعا گو رہیں! اور ان سے قربان بھی ہوجائیں! آمین! !

نوٹ: صدر فتح علی حبیب اور صدرمحمد عبد العزیز کا مشورہ ہے کہ ا س جیسے مقالوں اور کتابوں کو بار بار پڑھا

۱۲

جائے، تاکہ قرآنی بھیدوں اور روحانی معلومات کے ذخیرے میں زبردست اضافہ ہو سکے۔

خاکپائے اہلِ ایمان

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۱۶۔ جون ۱۹۸۵ء

۱۳

تخلیق درتخلیق

آفرنیش در آفرنیش کہیں یا تخلیق درتخلیق یا پیدائش میں پیدائش، بہرحال اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ  کا سلسلۂ فعل، جس میں وہ کلی ابتداء وانتہا کے بغیر ہمیشہ ایک چیز سے دوسری چیز بنانے کے معنی میں پیدائش کے اندر پیدائش کرتا رہتا ہے، اور ہر دانشمند کے نزدیک اس حقیقت کی تحقیق و تصدیق اس وقت ہو سکتی ہے جبکہ وہ عالمِ شخصی کی تخلیق کو قرآن اور نورِامامت کی روشنی میں دیکھتا ہے، جیسا کہ حدیثِ شریف میں ارشاد ہوا ہے: ۔

            لما خلق اللہ العقل اسنطقہ ثم قال لہ: أقبل فاقبل ثم قال لہ: ادبر فادبر ثم قال: وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً ھوا حب الی منک ولاا کملتک الا فیمن احب، اما انی ایاک امر، وایاک انہی، و ایاک اعاقب، و ایاک اثیب۔ ۔ حضرت ابو جعفرؑ (یعنی حضرت امام باقرؑ) سے روایت ہے کہ: جب اللہ تعالیٰ  نے عقل کو پیدا کیا تو وہ بحکمِ خدا بولنے لگی، پھر خدا نے اسے فرمایا:

۱۴

آگے آ، تو وہ آگے آئی، پھر اسے فرمایا: پیچھے جا، تو وہ پیچھے گئی، پھر ا رشاد ہوا: میری عزت وجلال کی قسم! کہ میں نے کوئی ایسی خلق پیدا نہیں کیا ہے، جو تیرے مقابلے میں مجھ کو زیادہ محبوب ہو، اور بات یہ ہے کہ میں تجھ کو صرف ایسے شخص میں کامل اور مکمل کر دیتا ہوں جس سے میں محبت کرتا ہوں، ہاں میرے امرونہی کا خطاب ہمیشہ تجھ ہی سے ہوتا رہے گا، اور عذاب وثواب کا تعلق بھی تجھ ہی سے ہو گا۔

         اس عالی شان اور پر حکمت حدیث سے بیک وقت چند حقیقتیں نکھر نکھر کر سامنے آتی ہیں:

          ۱۔ عقل نے ترقی وتنزل کا ایک بہت بڑادور دیکھا ہے۔

   ۲۔ عقل نے ترقی وتنزل کا ایک بہت بڑا دور دیکھا ہے۔

   ۳۔ عقل خدا کے نزدیک محبوب ترین مخلوق ہے۔

   ۴۔ کامل اور مکمل عقل اس شخص میں پیدا ہوتی ہے جو خدا کو پہچانے اور اللہ اس سے محبت کرے۔

   ۵۔ خداوندی ادامرونواہی کا اطلاق صرف اور صرف عقل ہی پر ہوتا ہے۔

   ۶۔ سب سے بڑا عذاب بھی اور سب سے عظیم ثواب بھی عقلی صورت میں ہیں۔

  آپ سب اس نورانی تعلیم میں بخوبی دیکھتے ہیں کہ یہ عالمِ شخصی کی

۱۵

تخلیق کا ذکر ہے، جو ایک دائمی سلسلہ ہے، جس کو یہاں تخلیق درتخلیق کہا گیا ہے، جس کی مثال انبیاء أئمہ علیھم السلام ہیں، چنانچہ جب باری تعالیٰ  ایک کامل انسان کے بعد دوسرے کامل انسان کے بعد دوسرے کامل انسان کو پیدا کرتا ہے تو وہ تخلیق درتخلیق کرتا ہے اسکے معنی یہ ہوئے کہ خداتعالیٰ  یکے بعد دیگرے شخصی دنیائیں بناتا رہتا ہے، اور ان میں سے ہر ایک میں وہی ساری باتیں واقع ہوتی ہیں، جو مذکورہ حدیث میں ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم سب لوگوں کو اپنے آپ (عالمِ شخصی) میں سفر کرنے کی دعوت دیتا ہے، جیسا کہ ارشا د فرمایا گیا ہے: ۔

       قل سیر وافی الارضِ فانظرواکیف بدا لخلق ثم اللہ ینشی النشاتہ الاخرتہ (۲۹: ۲۰) ان سے کہو کہ زمین میں چلو پھر و اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلق کی ابتدا کی، پھر اللہ بارِ دیگر بھی پیدا کرتا ہے۔ اگر ہم اس پر حکمت حکم کا مطلب اس ظاہری اور مادی زمین کی سیر وسیاحت تک محدود کریں، تو اس سے چندسوالات پیدا ہوجاتے ہیں، مثال کے طور پر: ۔

          ۱۔ اگرمانا جائے کہ”الارض”سے یہاں سیارۂ زمین اور “خلق”سے عالمِ ظاہر مراد ہے، تو اس زمین پر چلنے پھرنے سے یہ راز یا ااس سوال کا جواب کہ: “خدا نے کس طرح تخلیقِ کائنات کی ابتداء کی؟ “کیسے معلوم ہو گا؟

            ۲۔ اگر کہا جائے کہ یہ حکم عالمِ انسان کے پہلوئے جسمانی کے بارے میں ہے، تو اس صورت میں سیارۂ زمین کی سیر یا سفر سے خلقتِ آدمؑ

۱۶

کے بھید کیونکر کھل سکتے ہیں؟ اور کس طرح یقینِ کامل حاصل ہو سکتا ہے کہ خداوند تعالیٰ  بارِ دیگر بھی پیدا کرے گا؟

     اس بیان سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ “زمین میں سیر”سے اپنی ذات (یعنی عالمِ شخصی) میں سفر مراد ہے، جس کا ذکر قرآنِ حکیم میں۷+ ۷ = ۱۴ بار کے علاوہ بھی ہے، کوئی شک نہیں کہ انسانی ذات کی شناخت سے کائنات وموجودات کی شناخت حاصل ہو جاتی ہے، اور اسی کے نتیجے میں حضرتِ ربِ عزت کی معرفت ہے۔

         تخلیق درتخلیق کی ایک اور نمایان مثال یہ ہے: یخلقکم فی بطون امھتکم خلقا من بعد خلق فی ظلمت ثلث (۳۹: ۶) خدا تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں ایک قسم کی پیدائش کے بعد دوسری قسم کی پیدائش سے تین تاریکیوں میں پیدا کرتا ہے۔ یعنی جب انسان بحالتِ نطفہ اپنی ماں کی بچہ دانی میں ہوتا ہے۔ ایسی کیفیت میں اللہ تعالیٰ  اس کی تخلیق کے اند تخلیق کرتے ہوئے اسے جسمانی کمال کی طرف لے جاتا ہے، جیسے وہ جوہرِ خاک (سلالہ) سے نطفہ بناتا ہے، اس سے خونِ بستہ (علقہ) بناتا ہے، اس سے گوشت کی بوٹی (مضغہ) اس سے ہڈیاں (عظام) پھر ہڈیوں پر گوشت (لحم) چڑھاتا ہے، اور پھر خلقِ آخر بناتا ہے (۲۳: ۱۲ تا ۱۴)

           مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ بزبانِ حکمت انسانوں سے کہہ رہی ہے کہ تم جب اپنی ماؤں کے پیٹ میں تھے اس وقت جسم، روح، اور عقل

۱۷

تینوں کے انوار سے خالی ہو کر آگئے تھے، یہ بات بالکل ایسی ہے، جیسے حضرتِ آدم علیہ السلام کا فردوسِ برین سے فرشِ زمین پر ہبوط ہوا تھا، اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو انسان پر جبکہ شکمِ مادر میں ہوتا ہے ایک ساتھ تین تاریکیوں کا اطلاق نہ ہوتا، کیونکہ قرآنی الفاظ واقعیت وحقیقت کے معنی لئے بغیر نہیں ہوتے۔

              انسان کی جس حالت کا نام موت ہے، اور جس کیفیت کو حیات کہا جاتا ہے اور ان دونوں سے جنتی چیزیں متعلق ہیں، وہ سب کی سب مل کر ایک مکمل دائرے کو تشکیل دیتی ہیں، ظاہر ہے کہ دائرے کی بحقیقت کوئی ابتدا وانتہا نہیں، یعنی اس کا کوئی سرا نہیں، لیکن آپ جہاں سے کوئی کام شروع کریں گے وہی جگہ مجازاً مبدا کہلائے گی، کیونکہ اگر حقیقت کی کوئی تعبیر کرنی ہے تو اس کے لئے مجاز سے کام لیا جاتا ہے، اور اس کے بغیر براہِ راست حقیقت کو سمجھ لینا ممکن نہیں۔

           آپ اس آیۂ کریمہ میں خوب غور کریں: الذی احسن کل شی خلقہ وبدا خلق الانسان من طین (۳۲: ۷) جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی اور اس نے انسان کی تخلیق کی ابتداء گارے سے کی۔ اس آیۂ مقدسہ کی تاویل کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس دنیا میں اچھی اور بری دونوں قسم کی چیزیں ہیں، او روہ تاویل اس طرح ہے: “خدا وہ ہے جس نے تخلیق درتخلیق کرتے ہوئے عالمِ خلق کی ہر چیز کو عالمِ امر کی طرف بلند کیا، اور وہاں اسے ایک بہترین شکل دے دی، اور حقیقی انسان کی پیدائش

۱۸

درجۂ مومنی سے شروع کی۔ “پس آپ اس ارشاد میں بغور دیکھ سکتے ہیں کہ ہر آدم سے قبل مومنین موجود تھے۔

      ہر کامل انسان اپنی ذات میں ایک مکمل لطیف کائنات (عالمِ شخصی) ہوا کرتا ہے، اور یہ ایک سلسلہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا، جس میں باعتبارِ شخصیت ہر ایسے عالم کی ابتداء سب سے جدا اور الگ ہے، بالفاظِ دیگریہ ابتداء دراصل انفرادی ہے اجتماعی نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کلی طور پر کوئی ابتداء وانتہا نہیں، اور یہ بہت بڑاراز ہے۔

             اللہ تبارک وتعالیٰ  کی بادشاہی میں دو قسم کی چیزیں ہوا کرتی ہیں، ایک ہے شیء مذکور، کہ خدا نے اس کا ذکر فرمایا ہے، اوردوسری ہے شیء غیر مذکور، کہ خدا نے اس کا ذکر نہیں فرمایا ہے، یہ دونوں مثالیں انسان ہی کی ہیں، جیسا کہ سورۂ دہر کے شروع (۷۶: ۱) میں ارشادفرمایا گیا ہے: ھل اتیٰ علی الانسان حین من الدگر لم یکن شیامذکورا (۷۶: ۱) کیا انسان پر دہر (زمانِ ناگزرندہ) میں سے ایک وقت آیا ہے جس میں وہ کوئی مذکور چیز نہ تھا (یعنی وہ تھا، مگر غیر مذکور) اس کا اشارہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ وقت ہنوز نہیں آیا ہے، لیکن ضرور آنے والا ہے، اس ربانی تعلیم سے تخلیق درتخلیق کے تصور پر روشنی پڑتی ہے، اور واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ تخلیق کا خدائی فعل قدیم ہے، جس کی کوئی ابتداو انتہا نہیں۔

         مذکور اشیاء بھی اور غیر مذکور اشیاء بھی اچھی اور بری دو دو

۱۹

قسم کی ہیں، چنانچہ غیر مذکور چیزوں میں بری وہ ہیں، جو ایک اعتبار سے کالعدم قرار دی گئی ہیں، مثلاً کافر کو”لاشی”قرار دینا، یامردہ ٹھہرانا، اور اچھی چیزیں وہ ہیں جو بے مثال ہونے کی وجہ سے غیر مذکور کہلاتی ہیں، جیسے عارفِ کامل کو”فنا فی اللہ”کا درجہ دے کر خدائی میں اس کا ذکر نہ کرنا، حالانکہ کافر بھی اور عارف بھی موجود ہیں، پس دہر کی مقاربت ومناسبت سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں انسان کا غیر مذکور چیز ہونا قابلِ ستائش بات ہے، کیونکہ اس حال میں انسان کی حقیقت ہمیشہ اصل سے واصل رہنے کا ثبوت مل جاتا ہے۔

          جب اللہ تعالیٰ  جو واحد وقہار (۴۰: ۱۶) ہے، عالمِ شخصی میں انقلاب لا کر بکھر ے ہوئے مکان وزمان کو دستِ قدرت میں سمیٹ لیتا ہے (۳۹: ۶۷) اور حقیقتِ حقائق میں جملہ حقیقتوں کا مظاہرہ فرماتا ہے توا س میں نہ صرف دہر ہی سامنے ہوتا ہے، بلکہ ازل اور ابد کا تصور بھی ایک ہی ہوتا ہے، کیونکہ وہاں جو سب سے بنیادی، سب سے آخری اور سب سے عظیم خزانہ ہے، اس میں تمام حقائق ومعارف محدود وموجود ہیں، یہ گنج اصل واساس کی حیثیت اس لئے رکھتا ہے کہ اسی سے کائناتِ ظاہر وباطن کی ہر ہر چیز پیدا کی گئی ہے، اور آخری اس معنیٰ میں ہے کہ جملہ اشیائے مکانی وزمانی کا نچوڑ یعنی جوہر یہی ہے، اس خزانۂ بے بہا کا ایک خاص نام ملکِ خدا (یعنی خدا کی بادشاہی) ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: ۔

                  تبرک الذی بیدہ الملک وھو علی کل

۲۰

شی قدیر (۶۷: ۱) وہ (خدا) نہایت بابرکت ہے جس کے ہاتھ میں سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس میں بطریقِ اشارہ یہ فرمایا گیا ہے کہ روحانیت کے جس مقام پر خدا کے ہاتھ میں ملک وملکوت (یعنی گنجِ گوہر) ہے، وہیں تمام علمی وعرفانی برکتیں اور قدرتیں مرکوز ہو جاتی ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ نورِ عقل جو حقیقتِ حقائق ہے، اس میں ہر اعلیٰ سے اعلیٰ اور ہر مشکل سے مشکل تصور کی نمائندگی موجود ہے، اس لئے کہ وہ قلمِ قدرت ہے، کتابِ مکنون، سرچشمۂ نور، کوہِ طور، حجرِ مکرم، اور معدنِ علم وحکمت ہے۔

         تخلیق درتخلیق کی ایک اورروشن مثال یہ ہے کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ  کے حکم سے کوئی کامل انسان پیدا ہوجاتا ہے، پھر وقت آنے پر اس کا روحانی جنم ہوتا ہے، پھر وہ جیتے جی روحانی موت کے مرحلے سے گزر جاتا ہے، اور آخر میں جب اس کا انبعاث ہو جاتا ہے، تو تب وہ اس آیۂ کریمہ کا مصداق بن جاتا ہے، وہ ارشاد یہ ہے: انہ یبدو الخلق ثم یعیدہ (۱۰: ۴) بیشک پیدائش کی ابتداء وہی کرتا ہے پھر وہی اس کا اعادہ کرتا ہے۔ یہاں انسانِ کامل کا ذکر اس لئے ضروری ہوا کہ صرف وہی مبارک ہستی ظاہراً و باطناً خداوند تعالیٰ  کی آخری اور مکمل تخلیق کا نمونہ ہے، جیسے خدا تعالیٰ  نے حضرت آدم علیہ السلام کو کما حقہ پیدا کیا، اور سلسلۂ انبیاء وأئمہ علیھم السلام میں اپنی پاک وپر حکمت عادت (سنت۱۷: ۷۷، ۴۰: ۸۵) کو دہراتا رہا۔

۲۱

       آپ یہ کلیدی حکمت ہر گز نہ بھولیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ  کے جیسے صفاتی نام ہیں اور ان ناموں کے مطابق جیسا اس کا کام ہے، وہ سب کچھ اس کی سنتِ عالیہ میں داخل ہے، اور خدا کی پاک سنت وہ ہے، جو اس کا خالص بندوں یعنی کامل انسانوں میں ہو گزری ہے اور وہ کسی تبدیلی کے بغیر ہمیشہ جاری ہے (۳۳: ۶۲، ۳۵: ۴۳) پس اس کے معنی یہ ہوئے کہ خداوندِ تعالیٰ  کے فعلِ تخلیق کی نہ کوئی ابتداء اور نہ کوئی انتہا، بلکہ وہ ہمیشہ تخلیق درتخلیق کرتا رہتا ہے اور اسی فعلِ قدرت سے خدائی رحمت وعلم کے سمندر ہر وقت موجزن رہتے ہیں۔

 خانۂ حکمت                      ادارۂ عارف

ذرۂ خاک:

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۷۔ جنوری۱۹۸۵

۲۲

عبادت میں مخفی خزانے

قرآنِ حکیم میں لفظ”عبادت”کے مختلف صیغوں کا مجموعہ ۲۷۵ہے، ان الفاظ سے متعلق آیاتِ کریمہ میں براہِ راست بھی اور بالواسطہ بھی عبادت وبندگی کا ذکر فرمایاگیا ہے، صلوٰتہ، سجدہ، ذکر، تسبیح، دعا وغیرہ جیسے لفظوں میں جس طرح اللہ تعالیٰ  کی بندگی کا بیان آیا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے، غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ  کی عبادت کا موضوع جتنا اہم ہے اتنا وسیع وعمیق بھی ہے، کیونکہ جنات اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد عبادت ہی ہے، جیسا کہ پروردگارِ عالم کا فرمان ہے: ۔

         ۱۔ وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون (۵۱: ۵۶) اور میں جنوں اورآدمیوں کو اسی غرض سے پیدا کیا کہ وہ میر ی عبادت کریں۔ عبادت ی ارتقائی منزلیں ہوا کرتی ہیں، چنانچہ و ہ شروع شروع میں معمولی نوعیت کی ہوتی ہے، مگر یہ رفتہ رفتہ اپنے عروج اور درجۂ کمال پر جا پہنچی ہے، جبکہ ہر طرح کے شرک وشبہہ سے پاک اور خدا شناسی کے نور سے منور ہوتی ہے، پیغمبرِ خدا صلی اللہ علہ و آلہٖ وسلم

۲۳

اور أئمۂ ھدیٰ صلوات اللہ علیھم نے ہمیشہ ایسی کامیاب عبادت وبندگی کی عملی تعلیم دی ہے، اور اسی کو پیغمبرانہ یا عارفانہ عبادت کہتے ہیں، اور آنحضرتؐ کی حقیقی پیروی اسوۂ حسنہ (۳۳: ۲۱) اسی معنیٰ میں ہے۔

  ۲۔ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ عبادت کے ذ کر کے ساتھ ساتھ معرفتِ توحید کے بھی قابلِ فہم اشارے موجود ہیں، جیسے مذکورۂ بالا آیۂ مقدسہ کا واضح اشارہ یہ ہے کہ جن وانس کا کوئی فرد معبود نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ مخلوق ہے خالق نہیں، وہ عبادت کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اسے عبد اور عابد ہونا ہے، اور معبود ہونا نہیں، اور اس کو خدا کی معرفت اس وقت حاصل ہو گی، جبکہ وہ اپنی روحانی تخلیق کا مشاہدہ اور مطالعہ کر لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس آیۂ مبارکہ میں حقیقی عبادت سے پہلے روحانی تخلیق کا ذکر ہے، کیونکہ خلقت (میں نے پیدا کیا) کے اس خدائی فعل میں تخلیق کے تمام جسمانی اور روحانی مراحل کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

۳۔ خدا شناسی اور بندگی (عبادت) ایک ایسا ضروری اور مشکل امر ہے کہ لوگ نہ تو اس کی اہمیت کو جانتے تھے اور نہ ہی اسے بجا لا سکتے تھے، لہٰذا خداوندِ عالم نے اس سلسلے میں لوگوں کو تعلیم دینے کی خاطر پیغمبروں کو معبوث فرمایا، جیسا کہ ارشاد ہے: ولقد بعثنا فی کل امتہ رسولا ان اعبدوااللہ واجتنبوا الطاغوت (۱۶: ۳۶) اور ہم نے تو ہر امت میں ایک (نہ ایک) رسول اس بات کے لئے ضرور بھیجا کہ لوگو خدا کی عبادت کرو اور بت (کی عبادت)

۲۴

سے بچے رہو۔ طاغوت کے معنی سرکش، شیطان، اور بت کے درمیان مشترک ہیں، چنانچہ اس آیۂ کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ تم بالآخر خداشناسی اور علمِ توحیدکی روشنی میں عبادت کرو، تاکہ تم سرکش شیطان اور بت کی پرستش سے نجات پاؤ گے۔

۴۔ شیطان سے بچ کر موحدانہ عبادت کرنے کے لئے لوگوں سے جیسا کہ فرمایا گیا ہے، اگر انھو ں نے اس کے مطابق عمل نہ کیا تو اس کی پرستش اس طرح ہو گی (ترفمہ آیۂ کریمہ): اے اولادِ آدمؑ کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ یقینا تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے اور یہ کہ صرف میری عبادت کرنا یہی سیدھی راہ ہے (۳۶: ۶۰ تا ۶۱) آپ بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا گروہ یا فرد نہیں ہو سکتا، جو شیطان کو جان پہچان کر اس کی عبادت کرتا ہو، مگر بات یہ ہے کہ جہالت و نادانی کی وجہ سے اکثر لوگ راہِ حق سے ہٹ کر شیطان کے پیچھے چلتے ہیں، اور یہی شیطان کی پیروی درحقیقت شیطان کی عبادت کہلاتی ہے۔

۵۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ  کی ہر اطاعت عبادت ہے، اور اللہ کی وہ اطاعت بھی یقینا عبادت ہے، جو رسولؐ اور صاحبِ امرؑ کے توسط سے بجا لائی جاتی ہے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے: اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور پیغمبرؐ کی اطاعت کرو اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں (۴: ۵۹) اس ربانی تعلیم کی روشنی میں دیکھنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ رسولِ اکرمؐ اور امامِ زمانؑ

۲۵

کی فرمانبرداری دو طرح سے خدائے واحد کی عبادت قرار پاتی ہے، اول یہ کہ اللہ تعالیٰ  نے حکم دیا کہ تم رسولؐ اور امر والوں کی اطاعت کرو، اب اس خدائی حکم کی تعمیل عبادت ہو گی، دوم یہ کہ اولو الامر کی اطاعت رسولؐ کی اطاعت ہے، رسولؐ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے، اور اللہ کی اطاعت عبادت ہے۔

۶۔ عبادت کے دوران چہرۂ جان کو خدا تعالیٰ  کی طرف قائم رکھنے اور دین کو شرک کی آمیزش سے خالص و پاک کر کے اسی کو پکارنے کے لئے یوں حکم دیا گیا ہے: واقیموا وجوھکم عند کل مسجد وادعوہ مخلصین لہ الدین (۷: ۲۹) اور یہ کہ تم ہر عبادت کے وقت اپنی توجہ قائم رکھا کرو اور اسی کو پکارو دین کو اس کے لئے خاص رکھ کر۔

۷۔ اللہ تعالیٰ  کی جو زمین بے پناہ وسیع ہے، وہ زمینِ روحانیت ہے (۴: ۹۷، ۲۹: ۵۶، ۳۹: ۱۰) چنانچہ ارشاد ہے: یعبادی الذین امنوا ان ارضی واسعتہ فایای فاعبدون (۲۹: ۵۶) اے میرے خاص بندو جو کماحقہ ایما ن لائے ہو یقنا میری زمین (روحانیت) بہت وسیع ہے سو خالص میری ہی عبادت کرو (تاکہ تم کو اس زمین میں خلافت عطا کی جائے) جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: تم (مسلیمن ومومنین) میں سے جن لوگوں نے ایمان لایا جیسا کہ اس کا حق ہے اور اچھے اچھے کام کئے ان سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ ان کو (روحانی) زمین میں ضرور خلیفہ بنائے گا

۲۶

جس طرح ان لوگوں کو خلیفہ بنایا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں (۲۴: ۵۵) مذکورہ دونوں آیتوں میں ایسے مومنین کا ذکر فرمایا گیا ہے، جو خدا شناس اور موحد ہونے کی بدولت اللہ تعالیٰ  کے انعامات کے مستحق قرار پاتے ہیں۔

۸۔ خدا شناسی، توحید، اور کسی آمیزش کے بغیر خالص عبادت کا ایک بڑا اہم قرآنی موضوع”اخلاص”ہے، جس کا مطلب ہے تصورِ توحید کو ہر قسم کے شرک کی آمیزش سے خالص اور پاک وپاکیزہ کرنا، اس عظیم الشان موضوع سے متعلق پر حکمت الفاظ میں سے ایک لفظ ” مخلصین “ہے، جو قرآنِ کریم میں آٹھ بار آیا ہے، جس کے وسیع تر معنی ہیں خدا کے ایسے بندے جو معرفت او رخالص عبادت کے وسیلے سے برگزیدہ کئے گئے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: ۔

     قال فبعزتک لا غوینھم اجمعین۔ ۔ الاعبادک منھم المخلصین (۳۸: ۸۲ تا ۸۳) ابلیس نے کہا تیری عزت کی قسم، میں ان سب لوگوں کو بہکا کر رہوں گا، بجز تیرے ان بندوں کے جنھیں تو نے خالص کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ  کے خالص وبرگزیدہ بندے سب سے پہلے انبیاء وأئمہ علیھم السلام ہیں اور پھر ان کی پیروی کرنے والے مومنین ہیں، جو دامنِ امامت کے نیچے ہر طرح سے محفوظ وسلامت ہیں، اور نورِ ہدایت کی روشنی میں جادۂ مستقیم پر گامزن ہیں۔ لہٰذا شیطان ان کو گمراہ نہیں کر سکتا۔

۹۔ سورۂ صافات میں فرمایا گیا ہے: ….. مگر خدا کے برگزیدہ

۲۷

بندے (اہلِ نجات ہیں) ان کے واسطے دانستہ رزق ہے، ہر قسم کے میوے، اور وہ لوگ بڑی عزت سے نعمت کے باغوں میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تخت نشین ہوں گے (۳۷: ۴۰ تا ۴۴) اس نورانی تعلیم میں بھی اخلاص کے شاندار نتائج کا ذکر ہے، یعنی خدا شناسی اور موحدِ لوگوں کو بہشت کی لازوال وابدی نعمتیں حاصل ہوں گی، اس سلسلے میں”رزقِ معلوم”یعنی ایسا رزق (روزی) جو پہلے سے جاناپہچانا ہوا ہے، بڑا اہم مسئلہ ہے، کیونکہ اگر ہم اس سے مادی قسم کی نعمت مراد لیتے ہیں، تو پھر اس خیال سے ایک عجیب نتیجہ نکلے گا، وہ یہ کہ بہشت کی نعمتیں صرف ایسے لوگوں کو ملیں گی، جو اس دنیا میں مادی طور بڑی آسائش میں رہتے ہوں، کیونکہ ظاہری نعمتوں کو وہی لوگ بہتر جانتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ حقیقی نعمت ہے جو عقل کے لئے ہے، اور جو روح کے لئے ہے، اور یہی وہ رزق ہے جو اہلِ حقیقت کو دنیا ہی سے معلوم ہے، اگرچہ دنیا میں یہ نعمت جزوی طور پر ہے اور آخرت میں کلی طور پر۔

رزقِ معلوم عبادت کی چاشنی ہے، ثمرۂ عشقِ مولا ہے، اور نورانی علم، اور اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا بہشت میں اہلِ بہشت عبادت کرتے ہیں؟ اس کا جواب اثبات میں ہے، مگر وہاں عبادت بڑی آسانی، نورانیت، زبردست لذت اور کشفِ اسرار کے ساتھ ہو گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ  کا ارشاد ہے: ۔

 (وہ زمینِ روحانیت میں منصبِ خلافت پر فائز ہو جانے کے

۲۸

ساتھ) میری خالص عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گے (۲۴: ۵۵) یہاں شرک کا مطلب شرکِ خفی ہے، یعنی عبادت میں غیرِ خدا کے خیال یا وسوسے کو دل میں آنے دینا، جیسے سورۂ عنکبوت (۲۹: ۶۵) میں کچھ اہلِ ایمان کے بارے میں مثال دی گئی ہے کہ وہ لوگ جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو کسی شرک کے بغیر پکارتے ہیں، اور جب ان کو خدا نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے، تو پھر وہ فوراً ہی شرک کرنے لگتے ہیں (۲۹: ۶۵) چنانچہ یہ شرک جو خیالاتِ باطن کی شکل میں ہے، جو بہت سے مومنین میں بھی ہو سکتا ہے، جس سے عبادت کو ہر بار نقصان پہنچتا ہے، وہ اہلِ جنت کے دل میں نہیں ہوگا، لہٰذا وہ لوگ بہشت میں ہر قسم کے شرک سے خالص عبادت کریں گے۔

۱۰۔ بہشت کی عبادت یقینا معجزاتی ہے، جس کا نمونہ اس دنیا میں پیغمبرانہ اور اولیائی عبادت ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک کا حکم ہے: درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسولؐ میں سے ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اس شخص کیلئے جو اللہ اور روزِ آخر (یعنی امامؑ) سے امیدوابستہ کرتا ہو اور کثرت سے ذکرِ الہٰی کرے (۳۳: ۲۱) اس خدائی تعلیم کا واضح مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا، رسولؐ، اور صاحبِ امرؑ کی اطاععت کرتے ہوئے دائم الذکر ہو جاتے ہیں، ان پر پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نمونۂ عمل کا روشن ہو جانا یقینی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو آنحضرتؐ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کی دعوت نہ دی جاتی۔

۲۹

۱۱۔ کوئی شک نہیں کہ شرکِ جلی اور شرکِ خفی سے پاک عبادت میں مخفی خزانے ہوا کرتے ہیں، جن میں جیسے لعل وگہر ہوتے ہیں، ان کی قدروقیمت روحانی، عقلی، علمی، اور عرفانی ہوتی ہے، اور یہاں یہ بھی یاد رہے کہ خداتعالیٰ ، رسولِ پاکؐ، اور امامِ برحقؑ گنجہائے مخفی ہیں۔

۱۲۔ معرفت اور عبادت کے درجات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، اور معرفت کا دوسرانام یقین ہے، چنانچہ یقین یعنی معرفت کی وجہ سے عبادت کے تین بڑے مرحلے ہیں، عبادت بمرتبۂ علمِ یقین، عبادت بمرتبۂ عینِ یقین، اور عبادت بمرتبۂ حقِ یقین، اور اسی طرح عبادت مرحلۂ آخر تک ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے: اور اپنے رب کی بندگی کرتے رہو یہاں تک کہ حق الیقین (کی منزل) آئے (۱۵: ۹۹) یہ مکلفانہ عبادت کی آخری حد ہے، مگر جہاں یہ میوۂ بہشت کی حیثیت سے ہے، وہاں اس سے ہمیشہ ہمیشہ نوروسرور حاصل ہوتا رہتا ہے۔

 خانۂ حکمت                       ادارۂ عارف

نصیرِ ؔحقیر

۲۸۔ دسمبر۱۹۸۴ء

۳۰

خوفِ خدا اور خوفِ بے جا

خوف ذی حیات مخلوق کی ایک صلاحیت ہے جو حیوان میں خود حفاظتی کی غرض سے ہے، مگر انسان میں ا س کے ہونے کا خاص مقصد خدا ہی سے ڈرنا ہے، چنانچہ اگر انسانی خوف عملا اسی مقصدِ اعلیٰ کے مطابق ہے تو بجا ہے، ورنہ بیجا (بے موقع، نا مناسب) ہے، جیسے سورۂ احزاب (۳۳: ۳۹) میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت انبیاء علیھم السلام اللہ تعالیٰ  کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے، کیونکہ خالق ومالک وہی ہے، اور دوسرے سب مخلوق ومملوک ہیں۔

          جو خوف جانوروں میں ہوتا ہے، اس کی عقلی اورعلمی ترقی ناممکن ہے، کیونکہ جانور عقل جیسی روشنی سے محروم ہیں، اس لئے وہ جب بھی ڈرتے ہیں تو قوت واہمہ کے زیرِ اثرڈرتے ہیں، مگر جو خوف انسان میں ہے، وہ عقل کی ہم سایگی کی وجہ سے ترقی پذیر ہے، لہٰذایہاں اس کا معیار بلند سے بلند تر ہو سکتا ہے، جس کی ایک مثال یہ ہے ایک چھوٹا سابچہ شروع شروع میں غیر موجود وہمی چیزوں کے نام سے ڈرجاتا ہے، لیکن وقت کے

۳۱

ساتھ جیسی جیسی اس کو تعلیم ملتی رہتی ہے، اس کے مطابق خوف پہلے سے کہیں زیادہ درست کام کرنے لگتا ہے، یہی حال دین کے معاملے میں بھی کہ کہ کامل انسانوں کو چھوڑ کر باقی سب لوگ خوفِ خدا کے سلسلے میں بچوں کی طرح ہیں، اور یہی سبب ہے کہ قرآنِ حکیم تمام لوگوں کو خدا سے ڈرنے کی تعلیم دیتا ہے اور تاکید کرتا ہے کہ اللہ سے ڈرا کریں جیسا کہ بحقیقت اس سے ڈرنا چاہئیے، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا ہے: ۔

   یاایھا الذین امنو اتقو االلہ حق تقتہ (۳: ۱۰۲) اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ  سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اس حکم میں دو اہم مفہوم ہیں، اول یہ کہ کسی دوسرے سے نہیں بلکہ صرف خدا ہی سے ڈرنا، دوسرا یہ کہ خدا سے اس طرح ڈرنا، جس طرح کہ حقیقت میں اس سے ڈرنے کی کیفیت ہے، اور اس بلند ترین معیار کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: ۔

انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا (۳۵: ۲۸) سوائے اس کے نہیں کہ خدا کے بندوں میں سے علم والے ہی اس سے ڈرتے ہیں۔ بقول حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام علماء سے أئمہ ء طاہرینؑ مراد ہیں، کیونکہ یہی حضرات نورِعلم کی روشنی میں بحقیقت اللہ تعالیٰ  سے ڈرتے ہیں، اور بدرجۂ اعلیٰ خوفِ خدا کی صفت سے متصف ہیں، یعنی تقوٰی (خوف خدا) انسانِ کامل کے اوصافِ کمال میں سے ہے، جو اس کی ذات میں بمرتبۂ علمِ لدنی موجود ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ تقوی کا معیارِ

۳۲

اعلیٰ حقیقی علم ہے۔

     اگرچہ لفظِ خوف کا اطلاق حضراتِ انبیاء وأئمہ علیھم السلام، اور عوام الناس کے علاوہ حیوانوں پر بھی ہو جاتا ہے، لیکن جیسا کہ اوپربتایاگیا اس میں آسمان زمین کا فرق ہے، کیونکہ خوف کے بہت سے درجات ہیں، جن میں سب سے اوپرصرف خدا ہی کا خوف ہے، اور اس میں دنیاوی خوف وہراس کے برعکس حقیقی امن وسکون کی غیر فانی دولت موجود ہے، کیونکہ”خدا سے ڈرنا”دراصل خدا کو یاد کرنا ہے، اور خدا کی یاد سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے (۱۳: ۲۸)

        دانشمندوں پر یہ حقیقت روشن ہے کہ خوفِ خدا میں علم وحکمت کے خزانے پوشیدہ ہیں، اور خوفِ دنیا میں مایوسی اور لاچاری کے سوا کچھ بھی نہیں، اللہ تعالیٰ  کے خوف کی بدولت انسان کی زندگی رحمتوں اور برکتوں سے مملو ہو جات ہے، اور اگر کوئی شخص بادشاہِ حقیقی سے نہیں ڈرتا، تو اس کی یہ سزامقرر ہے کہ وہ ہمیشہ خوفِ غیر میں مبتلا رہتا ہے، اور اس کی عمر تلخیوں میں گزرتی ہے۔

یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ خوف الہٰی اور خوفِ دنیاوی کیفیت، تاثیر اور نتیجہ کے اعتبار سے ایک جیسے ہوں، اور خاص کر اس خوفِ خدا کی بات کریں، جو اللہ کے دوستوں کے دل میں ہوتا ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے: الا ان اولیا ء اللہ لا خوف علیھم ولاھم یحزنون (۱۰: ۶۲) یاد رکھوخدا کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور

۳۳

نہ کوئی غم۔ اللہ تعالیٰ  کے دوستوں میں سب سے اول انبیاء وأئمہ صلوات اللہ علیھم ہیں، جن کے مبارک دلو ں میں جس طرح خوفِ خدا یا تقوٰی ہوا کرتا ہے، وہ اگر ظاہری اور دنیاوی خوف جیسا ہوتا، تو پروردگارِ عالم مذکورہ آیۂ مبارکہ میں انکی ذاتِ شریف سے ایسے خوف وغم کی نفی نہ فرماتا، اس روشن دلیل سے یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے کہ خوفِ مولا اور خوفِ دنیا ایک دوسرے کے برعکس ہیں، کیونکہ جب خدا بے مثل ہے تو اس سے ڈرنا کسی مخلوق سے ڈرنے کی طرح کیونکر ہو سکتا ہے۔

      اب یہاں یہ سوال کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ جب انسان میں درخت، حیوان، انسان تینوں کی روحیں جمع ہیں، تو پھر بتائیے کہ دنیاوی خوف کس طرح روح میں ہے، اور خدائی خوف کس روح میں؟ اس کا یقینی جواب یہ ہے کہ نباتات میں خوف وہراس کی کوئی علامت نہیں، مگر حیوانات میں خوف موجود ہے، لہٰذاظاہری اور جسمانی خوف کا سبب روحِ حیوانی ہے، اور اب رہا خدا کا خوف تو اس کا وسیلہ عقل ہے، جو روحِ انسانی کا شعلہ ہے، اسی لئے قرآنِ حکیم نے فرمایا کہ خوفِ خدا کا خاص تعلق ربانی عالموں سے ہے (۳۵: ۲۸)

           قرآنِ پاک نے یہ بھی بتا دیا کہ خوفِ بیجا شیطان کا حربہ ہے، جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے: سوائے اس کے نہیں کہ یہ شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے تم کو ڈراتا ہے (۳: ۱۷۵) اس میں کوئی سوال نہیں کہ یہ خوف نفسِ حیوانی میں ہے، یاشیطان سے؟ جبکہ شیطان نفسِ امارہ کے توسط

۳۴

سے کام کرتا ہے، یا یوں کہا جائے کہ شیطان کا ایک بھیس نفسِ حیوانی ہے۔

        خدائے بزرگ وبرتر نے اپنی عزیز کتاب میں جگہ جگہ مسلمین ومومنین کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ دشمنانِ اسلام کی کثرتِ ظاہری سے ہر گز خائف نہ ہو جائیں، جیسا کہ وہ جل شانہ، عالی ہمت اور بابصیرت مومنین کی ترجمانی کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: حسبنا اللہ ونعم الوکیل (۳: ۱۷۳) ہم کو خدا تعالیٰ  کافی ہے اور وہی سب کا م سپرد کردینے کے لئے اچھا ہے۔

       “خوفِ بے جا”جیسے مرض کی قرآنی دوا ایک تو خدا کی یاد ہے جو کثرت سے ہونی چاہئیے، اور دوسری حقیقی علم کی روشنی ہے، جس سے اس بیماری کا مستقل علاج ہو جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کا ذکر سے جنی شیطان بھاگ جاتا ہے، اور علمِ یقین سے انسی شیطان شکست کھاتا ہے، جس طرح شیطان کے پتھر اؤسے بچنے کے لئے خداتعالیٰ  کے قرب وحضور میں جانے کی تعلیم دی گئی ہے، جس کی تاویل ہے امامِ زمان صلوات اللہ علیہ وسلامہ کے نورانی علم میں خود کو محفوظ کر لینا۔

         ارشادِ خداوندی ہے: ومن یعش عن ذکر الرحمن نقیض لہ شیطنا فھولہ قرین (۴۳: ۳۶) اور جو شخص اللہ کی یاد سے اندھا بن جائے ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں سووہ اس کے ساتھ رہتا ہے۔ امامِ اقدس واطہرؑخداتعالیٰ  کا زندہ اسمِ اعظم اور نورانیت سے بھر پور ذکرِ پاک ہیں، کہ آپؑ ہی کے وسیلے سے یادِ الہٰی کا نور حاصل ہو جاتا ہے، اور شیطان کے چنگل سے

۳۵

مومنین کو چھٹکارا مل جاتا ہے، کیونکہ امامِ زمان علیہ السلام بمرتبۂ علی وقت علم و حکمت کے باب (دروازہ) ہوا کرتے ہیں۔

        اس میں کوئی شک نہیں کہ خوفِ خدا یعنی تقوی کے ظاہر وباطنا کئی مدارج ہیں، چنانچہ یہ مقام روحانیت اور درجۂ عقل پر علمی ظہورات ومعجزات کی شکل میں ہے، جیسے سورۂ فتح (۴۸: ۲۶) میں ہے کہ خداتعالیٰ  نے “کلمۂ تقوی”مومنین سے وابستہ (لازم) کر دیا، سو تقوی کا کلمہ جو ایک بہت بڑا ااسم ہے وہ روحانیت کا ایک علمی اور عملی معجزہ بھی ہے اور خود کار ذکرِ الہٰی بھی ہے، اور ان تمام معنوں میں اللہ تعالیٰ  اپنے اس احسانِ عظیم کا ذکر فرماتا ہے کہ اس نے کچھ مومنین کا کلمۂ تقوی کا روحانی معجزہ دکھایا، جس میں تطہیر وتزکیہ کا ایک عزرائیلی راز پوشیدہ ہے۔

      پروردگارِ عالم کا پر حکمت ارشاد ہے: اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو (اے مخاطب) تو اس کو دیکھتا کہ خدا کے خوف سے دب جاتا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا، اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سوچیں (۵۹: ۲۱) جب اللہ جل شانہ نے طور پر تجلی فرمائی تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا (۷: ۱۴۳) یہ تجلی خالی از معنی نہ تھی، بلکہ وہ بصورتِ نور آسمانی کتاب تھی، یعنی توراتہ، اور یہ انتہائی عظیم واقعہ دو دفعہ پیش آیا، پہلی بار کوہِ روح پر، اور دوسری بار کوہِ عقل پر، اور خوفِ خدا کے یہی معجزے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانیت میں بھی ہوئے کہ پہلے خداوندِ عالم نے حضورِ اکرمؐ کے کوہِ روح پر تجلی فرمائی، جس میں قرآنِ

۳۶

پاک کا روحانی ظہور ہوا، اس کے بعد خدائے برتر نے آپؐ کے کوہِ عقل پر تجلی کی، اور وہاں نورِ عقل میں قرآنِ حکیم کے ظہورات ہوئے، دونوں پہاڑریزہ ریزہ ہو گئے تھے۔

        پہاڑ کی کئی تاویلیں ہیں، ان میں سے ایک تاویل کوہِ روح ہے، اور دوسری کوہِ عقل، ان دونوں کے ریزہ ریزہ ہو جانے میں فرق ہے، کیونکہ روح کے بیک وقت لا تعداد ذرات ہیں، مگر عقل نمونۂ وحدت ہے، لہٰذاوہ عالمِ شخصی میں صرف ایک ہی گوہر ہے، تاہم جس طرح یکے بعد دیگرے اس کے علمی ظہورات کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اس کے پیشِ نظر وہ بھی بے شمار عقلی ذرات کی نمائندگی کرتا ہے۔

        یہ جو کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ  نے دوبارہ تجلی فرمائی تھی، اس کا ثبوت روح اور عقل کے دو پہاڑ ہیں، نیز یہ ہے کہ ذاتِ واحد کے سوا جو کچھ ہے، وہ سب سے پہلے دوئی رکھتا ہے، چنانچہ اگر مانا جائے کہ اللہ تعالیٰ  کی بہت سی تجلیات ہیں، تو اصولا ً یہ کہنا پڑے گا کہ اساسی تجلیاں دو ہیں، اور یہ بھی یاد رہے کہ سب سے پہلے قانونِ کثرت ہے، توحید کا تصور مسلمہ ہے، اور کثرت بھی عیاں ہے، لہٰذا قانون دوئی کے بارے میں قرآنِ حکیم میں دیکھئیے: ۔

۱۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی روحانیت میں نہ صرف جانور بلکہ جملہ اشیاء کی قسموں میں سے جفت جفت یعنی دو دو لی گئی تھیں

۳۷

(۱۱: ۴۰، ۲۳: ۲۷)۔

۲۔ خالقِ برحق نے کل چیزوں کے دو دوجوڑے بنائے ہیں، اور کوئی چیز اس قانون سے باہر نہیں (۵۱: ۴۹، ۳۶: ۳۶)

۳۔ بہشت کے سب پھلوں کے جوڑے جوڑے ہیں، اور کوئی پھل اکیلا نہیں (۵۵: ۵۲، ۱۳: ۳)

۴۔ یہ بنیادی اور آخری حقائق دو دو ہیں: عرش وکرسی، قلم و لوح عقلِ کل ونفسِ کل، آدم وحوا، آخرت ودنیا، آسمان وزمین، خیر وشر، ناطق واساس، امام وحجت، پدرومادر، دن رات، عقل وروح، وغیرہ وغیرہ۔

      قرآنِ کریم تین چیزوں کی تعلیم ایک ہی شان سے اور ایک ہی نہج پر دیتا ہے: بلاشرکت غیرے صرف خدا ہی کی عبادت کرنا (۱: ۴، ۲۹: ۵۶) صرف خدا ہی سے مدد کے لئے درخواست کرنا (۱: ۴) اور صرف اسی ڈرنا (۲: ۴۰، ۲: ۴۱، ۱۶: ۵۱) اس کی وجہ یہ ہے کہ استعانت (خدا سے مانگنا) جزوعبادت ہے، اسی طرح اللہ سے ڈرنا شرطِ عبادت بھی ہے اور عبادت بھی، بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ خوفِ خدا تو ہر عبادت کی جان ہے، جیسا کہ اس فرمانِ خداوندی سے ظاہر ہے: واذکرربک فی نفسک تضرعاوخیفتہ ورون الجھر من القول بالغدو والاصال ولاتکن من الغفلین (۷: ۲۰۵) اور اپنے رب کو اپنی جان میں یاد کر عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور کم آواز کے ساتھ صبح اور شام اور غافلوں سے مت ہونا۔ اس پرحکمت آیت

۳۸

میں ذکر وعبادت کے اسرارِ عظیم کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

        اس موضوع کے سلسلے میں شاید یہ سوال پیدا ہو گا کہ جب حضرت ابراہیمؑ کے پاس کچھ فرشتے آگئے، تو آپؑ نے دل ہی دل میں ایک خوف محسوس کیا (۱۱: ۷۰) حضرت موسیٰؑ کئی مواقع پر ڈر گئے (۲۸: ۱۸، ۲۸: ۲۱، ۲۰: ۶۷، ۲۰: ۲۱) اور حضرت داؤدؑ کو بھی فرشتوں سے خوف ہوا (۳۸: ۲۲) اس میں کیا راز ہے، جبکہ اللہ کے دوستوں کو ماسواء اللہ سے نہیں ڈرنا ہے؟

      جواب: (الف) مذکورہ پیغمبروں کی ان مثالوں میں روحانی معجزات کی عظمت وجلالت سے خوفزدہ ہونے کا ذکر ہے، اور یہ دنیا و ی خوف ہر گز نہیں۔

 (ب) انبیاء وأئمہ علیھم السلام کی عملی زندگی لوگوں کے عروج وارتقا کا نمونہ ء پیروی ہوا کرتی ہے، چنانچہ حکمت ومصلحت یہی تھی کہ وہ حضرات شروع شروع میں ایک طرح سے ڈر جائیں، اور اللہ ان میں سے ہر ایک سے فرمائے کہ: لاتخف= نہ ڈرو، تو پھر اس حکم کے بعد اولیاء اللہ (۱۰: ۶۲) دنیاوی خوف سے بالاتر ہو جاتے ہیں، اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ  کے حکیمانہ ناموں میں سے ایک نام ذی المعارج (سیڑھیوں والا) نہ ہوتا، اور یاد رہے کہ خدا کی سیڑھیاں انبیاء و أئمہ علیھم السلام کی صورت میں ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے تو ہادی ٔ برحق خودارتقا کی سیڑھی زینہ زینہ چڑھتا ہے، اور خدا کی سیڑھی بن جاتا ہے، پھر دوسروں کو اسی طرح چڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔

             نصیر الدین نصیر ہونزائی

             ۲۲۔ نومبر ۱۹۸۴ء

۳۹

حکمتِ حدیث

۱۔ حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضورِ اقدس آ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ آپ میرے حق میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ  مجھے بہشت میں داخل کر دے، رسولِ اکرمؐ نے اس آدمی سے فرمایا کہ دیکھو میں تمہارے لئے دعا کروں گا اور تم سجدوں کی کثرت سے اس میں میری مدد کرو۔ اس حدیثِ شریف سے جہاں ایک طرف کثرتِ سجود کی فضیلت ظاہر ہو جاتی ہے، وہاں دوسری جانب یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اعلیٰ ترین دعا بھی بندۂ مومن کے عمل سے مشروط ہے، جس کا بغیر کوئی سفارش آگے نہیں بڑھ سکتی ہے، جیسا کہ سورۂ نجم (۵۳: ۲۶) میں ارشاد ہوا ہے: ۔

 (ترجمہ): او ر بہت سے فرشتے آسمان میں موجود ہیں ان کی سفارش ذرا بھی کام نہیں آسکتی مگر بعد اس کے کہ اللہ جس کے لئے چاہے اجازت دے اور راضی ہو (۵۳: ۲۶) اس ربانی تعلیم کا واضح اشارہ یہ ہے کہ عظیم فرشتے تو اپنی خصوصیت وعادت کی بناء پر اہلِ زمین کے لئے

۴۰

نیک دعا کرتے رہتے ہیں، مگر وہ دعا کسی بندے کے حق میں اس وقت قبول ہو جاتی ہے جبکہ وہ علم وعمل سے آراستہ ہو جاتا ہے۔

۲۔ امامِ موصوفؑ سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمرِ خداؐ نے ارشاد فرمایا: علم کا پہلا مرحلہ خاموشی ہے، دوسرامرحلہ غور سے سننا ہے، تیسرا اس پر عمل کرنا، اور چوتھا اس کا پھیلانا ہے۔ اس حدیث کا ظاہری پہلو محتاجِ وضاحت نہیں، کیونکہ وہ خود واضح ہے، چنانچہ یہاں جو سوال پیدا ہو جاتا ہے وہ اس حکم کی تاویلی حکمت سے متعلق ہے کہ اس سلسلے میں آنحضرت کی سیرتِ طیبہ سے کیا اشارہ ملتا ہے؟ اس کا جواب یقینا یہی ہے کہ خاموشی سے ذکر وعبادت کا نتیجہ مراد ہے، جو محویت وفنا کی شکل میں سامنے آتا ہے، جس کا نمونۂ اعلیٰ سرورِ انبیاء صلوات اللہ علیہ وآلہ کی ابتدائی زندگی ہی سے ملتا ہے کہ آپؐعلم کے مرحلۂ اول میں کثرت سے عبادت کرتے ہوئے عالمِ دل پر ایسے سکوت کی کیفیت طاری کر لیتے تھے، کہ اس میں اللہ جل شانہ کے اسمِ اکبر کے سوا ہر قلبی آواز مفقود ہو جاتی تھی، اس مثال کا منشا یہ ہے کہ اگر کسی انسان کے دل میں وسوسوں یا خیالات وافکار کا طوفان برپا ہے تو اس صورت میں اگرچہ وہ بظاہر خاموش ہو لیکن اصل خاموشی نہ ہوگی لہٰذا دنیائے دل کی مکمل خاموشی کے لئے پیغمبرِ اسلامؐ کی پیروی کرتے ہوئے یادِ خدا کا سہارا لینا ہو گا۔

۳۔ ایک موقع پرحضورِ انورؐ نے فرمایا: ان علیا منی وانا منہ۔ بیشک علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ اس

۴۱

ارشاد میں بہت سے حکمتیں ہیں، ان میں سے چند اس طرح ہیں: ۔

        الف: نورِ نبوت سے نورِ ولایت کا ظہور ہو جاتا ہے، اور پھر نبیؐکا نور ولیؑ (امامؑ) کے نور میں مدغم ہو جاتا ہے۔

        ب: پیغمبرؐ نے بحکمِ خدا مولا علیؑ کو تمام مسلمانوں کا امام بنایا، اور علیؑ نے علم وحکمت کے باب (دروازہ) کی مرتبت میں آنحضرتؐ کی نورانیت سے لوگوں کو آگاہ کر دیا۔

        ج: مقامِ تنزیل پر ناطقؐ نے اساسؑ کا ظاہری تعارف کرایا، اور مقامِ تاویل پر اساسؑ نے ناطق ؐ کی باطنی معرفت کی تعلیم دی۔

۴۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ روایت منقول ہے، آپ فرماتے ہیں کہ: جو لوگ خدا پر اور مجھ پر ایمان لے آئے ہیں اور میری نبوت کی تصدیق کر چکے ہیں، میں ان کو امیر المومنین مولا علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ علیؑ سے محبت کرنا مجھ سے محبت کرنا ہے، یہ ایک امر ہے جس کے لئے میرے رب نے مجھ کو مامور فرمایا ہے، اور ایک ایسا عہد ہے جو مجھ سے لیا گیا ہے، اور مجھے حکم ہوا ہے کہ میں یہ پیغام تم کو پہنچادوں۔

      حضرت رسالت مآ بؐ کی اس نورانی تعلیم میں سب سے عظیم حکمت یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا دین کا پہلا مرحلہ ہے، نبوت ورسالت کی تصدیق کرنا دوسرا مرحلہ ہے، اور مولا علی صلوات اللہ علیہ کی ولایت کا اقرار کرنا تیسرا مرحلہ ہے، اس نکتہ میں بہت سے

۴۲

اشارے ہیں، دوسری حکمت لفظ “ولایت” میں ہے کہ اس کے کئی معنی ہیں، اور تیسری حکمت اس بات میں ہے کہ خداوندِ عالم نے حضرت خاتم الانبیاؐ ء سے ولایتِ علیؑ کے باب میں عہد لیا، اور یہ حکمت ایسی اہم ترین اور مفید ترین ہے کہ اس کے سمجھ لینے سے قرآنِ حکیم کے بہت سے اسرار کھل جاتے ہیں، جس کا ایک مثال اس طرح ہے: ۔

        سورۂ احزاب (۳۳: ۷) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: اور جبکہ ہم نے تمام پیغمبروں سے ان کا اقراراور آپؐ سے بھی اور نوحؑ اور ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ ابنِ مریمؑ سے بھی اور ہم نے ان سے خوب پختہ عہد لیا (۳۳: ۷) جو حدیث صحیح ہوتی ہے وہ آیاتِ قرآنی کی عقلی اور منطقی ترجمانی کرتی ہے، چنانچہ ظاہر ہے کہ اس آیۂ کریمہ کہ وضاحت مذکوۂ بالا حدیث سے فرمائی گئی ہے، یعنی پروردگارِ عالم نے ہر پیغمبر سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ وہ لوگو ں کو امرِ امامت سے آگاہ کرے گا۔

۵۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ: علم کے اٹھ جانے سے پہلے اسے حاصل کر لو، آپ نے دستِ مبارک بلند کر کے فرمایا کہ علم اس طرح نہیں اٹھے گا، لیکن بات یہ ہے کہ قوم میں عالمِ ہو گا، پھر وہ اس دنیا سے چلا جائے گا اور اسی کے ساتھ علم بھی اٹھ جائے گا، اور قوم میں دوسرا عالِم ہو گا، وہ بھی وفات پائے گا اور اس کا علم بھی رفع ہو جائے گا……..

۶۔ رسول اکرم صلعم سے روایت کی گئی ہے، آپ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ

۴۳

 لوگوں سے علم بطریقِ انتزاع (کھینچ کر) قبض نہیں کرتا، لیکن علماء کی وفات سے علم کو اپنے قبضۂ قدرت میں لیتا ہے…….

     ۵ اور ۶ سے ظاہر ہے کہ علم مٹی میں نہیں جاتا، بلکہ خدا اسے اپنے ہاتھ میں اٹھا لیتا ہے، جبکہ یہ ایک تخت پر بلند ہو جاتا ہے، اور تخت نیک اعمال سے بنتا ہے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے: پاک قول (یعنی علم) اسی کی طرف بلند ہو جاتا ہے اور عملِ صالح ہی اس کو اٹھا کر لے جاتا ہے (۳۵: ۱۰)

۷۔ حضرت امیر المومنین علی صلوات اللہ علیہ و سلامہ سے روایت ہے کہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: میرے اہلِ بیت کا مقام تمہارے درمیان کشتیٔ نوحؑ کی طرح ہے کہ جو اس میں سوار ہو گیا اس نے نجات پائی اور جس نے اس کی مخالفت کی وہ غرق ہو گیا، آپؑ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: میرے اہلِ بیت کے عالم سے علم حاصل کرو یا پھر اس سے جس نے خود اہلِ بیت کے عالم سے علم حاصل کر لیا ہو، تاکہ تم دوزخ سے نجات پاؤ گے۔ کشتیٔ نوحؑ اور عالِمِ اہلِ بیت سے امامِ زمانؑ مراد ہے، جو خدا اور رسولؐ کی طرف سے طوفانِ جہالت اور آتشِ نادانی سے لوگوں کو بچانے کے لئے مقرر ہے، یہی سبب ہے کہ قرآنِ حکیم کی تمام مثالوں میں حقیقی علم کی جتنی تعریف کی گئی ہے، جہالت ونادانی ک اتنی مذمت ہے۔

۸۔ یہ ایک مشہور ومعروف تاریخی واقعہ ہے کہ غدیرِ خم میں حضورِ

۴۴

اکرم ؐ نے اصحاب ہو کر فرمایا: اے لوگو! خوب جان لو کہ علیؑ کا مرتبہ میرے نزدیک وہی ہے جو ہارون کا مرتبہ موسیٰ کے نزدیک تھا مگر میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، علیؑ میرے بعد ولی ہے، اور جس کا میں مولا و آقا ہوں اس کا علیؑ مولا و آقا ہے، پھر آپ نے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کی کہ: اے اللہ! تو اس شخص سے محبت کر جو علیؑ سے محبت کرتا ہے اور اس سے عداوت کر جو علیؑ سے عداوت کرتا ہے اور اس کی مدد کر جو علیؑ کی مدد کرتا ہے اور اس کی مدد نہ کر جو علیؑ کی مدد نہیں کرتا، اور علیؑ جہاْن کہیں بھی ہو وہیں حق بھی اس کے ساتھ کر دے۔

      رسولِ کریم کا یہ ارشاد کئی اعتبارات سے بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے، اور یہ نہ صرف دین کی اساسی حقیقتوں سے بھر پور ہے بلکہ اعلیٰ حکمتوں سے بھی مملو ہے، اس میں سب سے پہلے ضروری طور پر سنتِ خدائی اور قرآنی حوالے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ دینِ حق میں آسمانی کتاب کی وراثت اور پیغمبر کی جانشینی کوئی نیا واقعہ نہیں، جبکہ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ  کا یہی قانون رہا ہے، مگر اس میں یہ فرق ضرور ہے کہ آنحضرت کے بعد کوئی نبی نہیں، اللہ تعالیٰ  نے قرآنِ پاک میں لوگوں کے لئے ہادیٔ برحق کا تقرر اپنی سنت قرار دیا ہے، جس کی روح میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔

       اس ارشادِ نبوی سے صاف طور پر ظاہر ہے کہ آنحضرتؐؐ کے بعد کوئی نبوت ورسالت نہیں، مگر ولایت وامامت ہے، کیونکہ مذکورہ حدیث

۴۵

بزبانِ حکمت یہ کہہ رہی ہے کہ ہمیشہ مولا وآقا کا موجود ہونا ضروری ہے۔

       یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ صاحبِ خلقِ عظیمؐ (۶۸: ۴) کسی ایسے جذبے کے تحت مولا علیؑ کے حق میں دعا کرے جو سنتِ الہٰی اور قانونِ دین کے خلاف ہو، اس سے ظاہر ہے کہ یہ دعا دراصل دستورِ دین کی ترجمانی کی غرض سے ہے، اور یہ اسلام کی سب سے حسین ترین مثال ہے کہ خدا اس شخص سے محبت کرے جو اس کے مظہر سے محبت کرتا ہے، اور علم ورحمت کا سب سے عظیم خزانہ اسی تصور میں پوشیدہ ہے جو رسولِ اکرمؐ نے دیا۔

۹۔ ارشادِ نبوی ہے: العلم نور یجعلہ اللہ فی قلب من یشاء من عبادہ= علم ایک نور ہے خدا اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے یہ (نور) اس کے دل میں رکھتا ہے۔ یہ صفت سب سے پہلے اور سب سے کامل طور پر حضراتِ انبیاء وأئمہ علیھم السلام کے لئے شایانِ شان ہے، اور پھر اسی وسیلے سے بقدر اطاعت ہر مومن کو علم کی روشنی مل سکتی ہے، بہر کیف علم نور ہے اور نور علمی صورت میں ہے، چنانچہ قرآنِ مقدس میں جہاں نور کا ذکر ہے وہ علم کی بات ہے، اور جہاں علم کا تذکرہ ہے، وہ نور کا بیان ہے۔

      نور کی ظاہری تعریف یہ کی گئی ہے کہ نور وہ شی ہے جو پوشیدہ چیزوں کو ظاہر کرتی ہے اور خود بھی ظاہر ہو تی ہے، جیسے سورج، مگر نور کی یہ تعریف کافی نہیں، کیونکہ اس کا دوسرا پہلو بھی ہے، جو اس سے مختلف ہے، مثال کے طور پر جب صبحِ صادق کا وقت ہوتا ہے تو تب سے روشنی پھیلنے لگتی ہے، بغیر

۴۶

اس کے کہ سورج طلوع ہو چکا ہو، نیز روشنی اس وقت بھی ختم نہیں ہوتی، جب سورج بادلوں کے اوٹ میں ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نور ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، وہ دکھائی دیتا ہے اور دکھائی نہیں دیتا، چنانچہ نورِ علم کی دو صورتیں ہوا کرتی ہیں، ایک وہ جو نظر آتی ہے، اور دوسری وہ جو نظر نہیں آتی، مگر ان دونوں صورتوں میں علم کا وجود ہوتا ہے۔

۱۰۔ نور اگرچہ سرچشمۂ اعلیٰ میں ایک ہی ہے، لیکن مذکورہ دوصورتو ں (مرئی اور غیر مرئی) کے تحت اس کی بہت قسمیں ہیں، جیسے حضرت امام جعفر الصادقؑ کا یہ دعائیہ ارشاد ہے، جس میں یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ ظاہر وباطن کے حواس میں سے ہر حس، ہر قوت اور ہر جہت کے لئے ایک نور مقرر ہے، وہ دعا یہ ہے: ۔

     اللھم اجعل لی نورا فی قلبی، ونورا فی سمعی، ونورا فی بصری، ونورا فی لسانی، و نور ا فی شعری، ونورافی بشری، ونورافی لحمی، ونورافی دمی، ونورافی عظامی، و نورافی عصبی، ونورامن بین یدی ونورا من خلفی، ونورا عن یمینی، ونورا عن یساری، ونورا من فوقی، ونورامن تحتی۔

 (ترجمہ) یا اللہ میرے لئے میرے دل میں ایک نور بنادے، میرے کان میں ایک نور، میری آنکھ میں ایک نور، میری زبان میں ایک نور، میرے

۴۷

بالو ں میں ایک نور، میری کھال میں ایک نور، میرے گوشت میں ایک نور، میرے خون میں ایک نور، میری ہڈیوں میں ایک نور، میری رگوں میں ایک نور، میرے سامنے سے ایک نور، میرے پیچھے سے ایک نور، میرے دائیں سے ایک نور، میرے بائیں سے ایک نور، میرے اوپر سے ایک نور، اور میرے نیچے سے ایک نور بنادے۔

       اس سے یقینی طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ انسانِ کامل کا مبارک وجود سراپا نور اور اللہ کی قدرتِ کاملہ کا ایک مکمل نمونہ ہوا کرتا ہے، جس میں اگرچہ نوراصلاً ایک ہی ہوتا ہے تاہم مختلف حواس ومدرکات کی تقویت ورہنمائی کی خاطر اس کی الگ الگ قسمیں ہوتی ہیں، جیسے مذکورۂ بالادعا سے ظاہر ہے۔

۱۱۔ أئمۂ اہلِ بیت علیھم السلام سے روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

            لاعمل الا بنیتہ، ولاعبادتہ الا لبیقین ولاکرم الا بالتقوی

    کوئی عمل نیت کے بغیر مقبول نہیں، نہ یقین (معرفت) کے بغیر کوئی عبادت قبول ہوتی ہے، اور نہ تقوی کے بغیر کوئی کرامت وبزرگی ہے۔

   نیت کے بارے میں جیسا حکم ہے اس کو سب جانتے ہیں، مگر بے یقین عبادت اور بایقین عبادت کے درمیان جو فرق وتفاوت ہے، اس کا جاننا ہر شخص کے بس کی بات نہیں، چنانچہ جاننا چاہئیے کہ لفظ یقین دراصل معرفت کے مترادفات میں سے ہے، جبکہ یقین کے معنی قرآنی

۴۸

اعتبار سے بہت اعلیٰ ہیں، جیسے علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مقبول عبادت کا پہلا مقام علم الیقین ہے، دوسرا عین الیقین، اور تیسرا حق الیقین ہے، اور یہ معرفت کے درجات ہیں، الحمد للہ ر ب العالمین۔

نوٹ: اس مقالہ کی تمام حدیثیں کتاب”دعائم الاسلام”جزئِ سے لی گئی ہیں۔

امامِ اقدس واطہرؑ کا ایک ادنیٰ غلام

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۱۲۔ نومبر۱۹۸۴ء

۴۹

روح اور حضرت آدمؑ

روح اور حضرت آدم علیہ السلام کے موضوع کے سلسلے میں سب سے پہلے یہ جاننا ازبس ضروری ہے کہ آیا قبل از آدمؑ لوگ کسی بھی سیارے پر موجود تھے یا نہیں؟ اگر وجودِ انسانی کا سلسلہ پہلے ہی سے چلا آیا ہے، تو اس کا کیا ثبوت ہے؟ اگرچہ اس کامدلل بیان کتابِ روح کیا ہے؟ میں ہو چکا ہے تاہم اس موضوع کی بہت بڑی اہمیت ہونے کی وجہ سے یہاں بھی چند روشن دلائل پیش کئے جاتے ہیں کہ انسان بالکل ایسا قدیم ہے، جیسی خداتعالیٰ  کی بادشاہی قدیم ہے، وہ دلیلیں مندرجۂ ذیل ہیں: ۔

۱۔ سورۂ روم کے ایک ارشاد (۳۰: ۳۰) میں جس طرح فرمایا گیا ہے، اس کا واضح مفہوم یہ ہے: ” دینِ حنیف (اسلام) دینِ فطرت ہے، اور اللہ تعالیٰ  کی فطرت (تخلیق وپیدائش) وہی ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا، خدا کی پیدائش کا جو طریقہ مقرر ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں، اور یہی دینِ قائم ہے۔ ” اس قرآنی دلیل سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی جسمانی پیدائش قانونِ فطرت کے عین مطابق تھی، یعنی آپؑ کو اللہ تعالیٰ  نے

۵۰

بالکل اسی طرح پیدا کیا تھا جس طرح وہ دوسرے سب لوگوں کو پیدا کرتا ہے۔

۲۔ لفظِ انسان، انس اور انسیا کو بھی ملا کر قرآنِ حکیم میں کل ۸۴ بار استعمال کیا گیا ہے، یہ افرادِ بشرکا ایک ایسا مشترکہ نام ہے، کہ اس کا اطلاق نہ صرف بنی آدم پر ہوتا ہے، بلکہ اس کا ارشا دسب سے پہلے آدمؑ کی طرف ہوتا ہے، چنانچہ سوۂ دہر کا آغاز (۷۶: ۲) میں جس طرح انسان کی پیدائش کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے، اس کی وضاحت کے بعد یہ کلیہ (عام قاعدہ) بن جاتا ہے کہ ہر انسان ماں باپ سے پیدا ہو جاتا ہے، خواہ وہ حضرات آدمؑ ہو یا حضرتِ عیسیٰؑ، کیونکہ وہ دونوں عظیم پیغمبر بھی جسم سے انسان تھے۔

۳۔ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر۲۱۳میں یہ تذکرہ موجود ہے کہ سلسلۂ انبیاء کے شروع ہونے سے قبل لوگ ایک ہی امت تھے، یا ایک ہی طریق پر تھے، پھر اللہ نے پیغمبروں کو بھیجا (۲: ۲۱۳) اس سے صاف ظاہر ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام مذکورہ لوگوں کے بعد اور انبیاعلیھم السلام کے سلسلے میں نبیٔ اول کی حیثیت سے تھے۔

۴۔ قرآنِ حکیم میں آدم واولادِ آدم کی پیدائش سے متعلق ایک ہی قانون کا ذکر باربار ملتا ہے، جو لفظِ انسان کے تحت آتا ہے، جیسے سورۂ مومنون (۲۳: ۱۲ تا ۱۴) میں تخلیقِ انسانی کے سات مراحل کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ منزلیں یہ ہیں:

 الف: خلاصۂ خاک۔

۵۱

ب: نطفہ۔

ج: علقہ۔

د: مضغہ۔

ھ: عظام۔

و: لحم۔

ز: خلقِ آخر۔

         پیدائش کے ان درجات سے گزرے بغیر کوئی فردِ بشر خلقِ آخر نہیں بن سکتا، اور نہ ہی وہ احسن الخالقین کی مخلوق کہلا سکتا ہے (۲۳: ۱۴)

۵۔ آلِ عمران کے ایک ارشاد (۳: ۵۹) میں غور کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت آدمؑ اور حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش ایک جیسی (یعنی قانونِ فطرت کے مطابق) تھی، اور ان دونوں کی روحانی تکمیل کے موقع پر خداوند تعالیٰ  نے کن (ہو جا) فرمایا تھا، اس حکم سے یقینا یہ معلوم ہو گیا کہ حضرت آدمؑ کے جسمانی والدین تھے، جس طرح حضرت عیسیٰ کے ماں باپ تھے، وہ حضرت مریم اور یوسف نجار تھے۔

۶۔ آپ حکیم ناصر خسرو (ق س) کے “رسالۂ حکمتی”جو فارسی میں ہے کو دیکھ سکتے ہیں کہ جن کا اصل فارسی ترجمہ”پری”ہے، یعنی ایسی پوشیدہ اور لطیف مخلوق جو پرواز کر سکتی ہے، چنانچہ قرآنِ پاک (جو اللہ تعالیٰ  کے عظیم بھیدوں کا خزانہ ہے) میں باعتبارِ پیدائش کبھی انسان پہلے ہیں (۵۵: ۱۴ تا ۱۵) اور کبھی جنات (۱۵: ۲۷) جس کی وجہ دائرۂ آفرنیش ہے، جس پر یہ دونوں مخلوق شب وروز کی طرح ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ ریشم کے

۵۲

کیڑوں اور ان سے بنے ہوئے پروانوں کی طرح ہیں، اگر آپ کیڑوں کے موسم میں ان کے ماضی کا تذکرہ چھڑنا چاہتے ہیں تو یہ کہنا درست ہو گا، کہ پہلے پروانے تھے، اگر اس کے برعکس پروانوں کا وقت ہے تو آپ یہ کہیں گے کہ پہلے کیڑے تھے، یہ تو جزوی بات ہو گئی، اور اگر آپ کو اس سلسلے کی کلی بات کرنی ہے، تو پھر کہنے لگیں گے کہ دونوں قسم کی مخلوق میں کوئی زمانی تقدیم وتاخیر نہیں، یعنی باعتبارِ وقت ایک پیچھے نہیں۔

۷۔ اب یہاں مذکورہ حقیقتون کی روشنی میں یہ عرض کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ  کی بادشاہی کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہا، بلکہ یہ ہمیشہ قائم ہے، اور اس بادشاہی کے تحت انسان کا بھی ہمیشہ ہونا لازمی ہے، چنانچہ ہر دور کے لئے ایک آدم ہوا کرتا ہے، اور ہر دور کے آخر میں انسان کثیف سے لطیف ہو جاتے ہیں، یہ صرف جسم کی بات ہے، اعمال کی بات نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس دور کے آدم سے قبل سیارۂ زمین پر جنات کے کثرت سے ہونے کی جو روایتملتی ہے، وہ بالکل صحیح ہے، اور اس دور کے آخر میں بھی انسان کو جسمِ لطیف عطا ہو گا، جس کی مثال اڑن طشتری ہے، جس کے بہت سے قرآنی نام ہیں۔

۸۔ اگر ہم نظام ادوار کو مانتے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ حکمتِ قرآن کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر اس قانونِ روح کو قبول کرنا ہو گا کہ جب آدمِ سابق کا دور مکمل ہو کر ہمارے بابا آدم کا دور شروع ہوا، تو اس وقت پروردگارِ عالمین نے تمام اگلے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذریات

۵۳

کو لے کر خلیفۂ دورؑ (یعنی آدم) کی روحانیت میں حاضر کر دیا، اور عہدوپیمان لینے کے بعد ان کو موجودہ آدم کی اولاد قرار دیا (۷: ۱۷۲) اور یہی معجزہ سلسلۂ خلافت (یعنی نبوت وامامت) کی ہر شخصیت میں سب سے پہلے واقع ہوتا ہے۔

۹۔ قصۂ آدمؑ میں جس طرح روح کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس میں انتہائی عظیم حکمتیں پوشیدہ ہیں، جیسے خدائے بزرگ وبرتر نے روحِ کامل کو حضرت آدمؑ میں پھونک دینے سے پہلے اپنی ذاتِ پاک سے منسوب کرتے ہوئے فرمایا: روحی (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲، یعنی میری روح مگر یہاں جو سرِ عظیم پنہاں ہے، اس کی معرفت بڑی ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ مذکورہ خدائی روح، جو جنابِ آدمؑ میں پھونک دی گئی، یا جو نورمنتقل کیا گیا، وہ قبلاًدوسرے انسانِ کامل میں تھا، اور جہاں”روحِ خدا۔ نورِ خدا”میں اللہ تعالیٰ  کی خصوصی نسبت کا سوال پیدا ہوتا ہے، وہاں اس حقیقت کی کئی قرآنی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، کہ اس میں ذاتِ سبحان سے روحِ اعظم کی وابستگی جیسی کوئی بات نہیں، بلکہ یہ نسبت اس روح کی عظمت، علو مرتبت، پاکیزگی، شرافت، اور قربِ الہٰی کا نام ہے، اس کی کچھ مثالیں درجِ ذیل ہیں: ۔

۱۰۔ اللہ کی رسی (۳: ۱۰۳) خدا کا گھر (۲: ۱۲۵) خدا کا ہاتھ (۴۸: ۱۰) پہلوئے خدا (۳۹: ۵۶) چہرۂ خدا (۵۵: ۲۷) اللہ تعالیٰ  کے ایام (۴۵: ۱۴) کتاب اللہ (۳۰: ۵۶) راہِ خدا (۱۲: ۱۰۸) اس کی کرسی (۲: ۲۵۵) اس کا تخت (۶۹: ۱۷) قلمِ الہٰی (۹۶: ۴) وغیرہ، یہ تمام عالی مرتبت اور مقدس چیزیں جس طرح خداوندِ تعالیٰ  سے منسوب

۵۴

کی گئی ہیں، اس کی وجہ اللہ پاک کی قربتِ خاص ہے، اور خدا کی روح ان مثالوں سے ہرگز مختلف نہیں، یعنی خدائے پاک اس بات سے بے نیاز وبرتر ہے کہ روح اس کا جزو ہو۔

۱۱۔ آپ نے قرآنِ حکیم کی عظیم موضوعات کے سلسلے میں “سنت اللہ” کے موضوع کا خوب غور سے مطالعہ کیا ہو گا، کیونکہ یہ امر انتہائی ضروری ہے، خدا کی سنت یا عادت (جسے آپ قانونِ الہٰی بھی کہہ سکتے ہیں) یہ ہے کہ وہ تبارک وتعالیٰ  ہمیشہ سلسلۂ ہدایت کو جاری وباقی رکھتا ہے، اللہ کی عادت کی سب سے روشن حقیقت نور علی نور (۲۴: ۳۵) ہے، یعنی نور کی ایک شخصیت کے بعد دوسری شخصیت کا ہونا، اس سے ظاہر ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام وہ چراغ علم وحکمت تھے، جس کو سابق چراغ کے شعلے سے فروزان کیا گیا تھا، اور اگر آپ “ایک نور کے بعد دوسرا نور”اس کلیہ میں غور کریں، تو آپ کو بڑاتعجب ہو گا کہ سلسلۂ نور کا کوئی آغاز نہیں، یعنی اس کا کوئی ابتدائی سرا نظر نہیں آتا ہے، بلکہ یہ ازل سے ابد تک چلتا رہتا ہے۔

۱۲۔ اللہ تعالیٰ  کے پروگرام یا اعلان کے مطابق خلافتِ آدمؑ کا تعلق اہلِ زمین سے تھا (۲: ۳۰) لیکن ایسا کیوں ہوا کہ حضرت آدمؑ کے “علم اسما”یعنی علمِ حقائق کا سارا فائدہ ہر بہانے سے فرشتوں کو حاصل ہوا؟ آیا اس میں کوئی راز ہے؟ جی ہاں، اس میں بہت بڑا راز اور بہت بڑی حکمت ہے، وہ اس طرح کہ قصۂ آدم کے فرشتے

۵۵

اہلِ زمین ہی میں سے تھے، وہ اہلِ ایمان تھے، جن کو اپنی روح کے پرلے سرے سے نورِ آدم تک رسائی ہوئی تھی، بالفاظِ دیگر وہ سب کے سب بصورتِ ذرات اپنے وقت کے “عالمِ شخصی”میں داخل ہوگئے تھے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ روح کے دو۲سرے ہواکرتے ہیں، یہ سرا بشر ہے اوروہ سرافرشتہ، روح ایک رستے کی طرح یا پل کی طرح اس لئے ہے کہ وہاں سے کوئی چیز آئے، اور یہاں سے کوئی چیز جائے، ہم اس مثال کی روشنی میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پیاری روح کے اس پل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ دنیا وآخرت کو باہم ملا دیتا ہے۔

۱۳۔ حضرت آدمؑ سے متعلق قصۂ قرآن کے ہر ہر لفظ میں معرفت کے بھیدوں کا ایک خزانہ پوشیدہ ہے، مثال کے طور پر لفظِ نفخ (پھونکنا) کو لیجئے، کہ یہ لفظ مختلف صیغوں میں قرآنِ حکیم کے بیس۲۰مقامات پر مذکور ہے، اور ظاہراً ایسے تین الگ الگ معنوں کے لئے استعمال ہوا ہے کہ وہ باطناً یکجا ہیں، وہ تین معنی یہ ہیں: ۔

    الف: پھکنی (دھونکنی) سے پھونکنا، تاکہ لوہے کے ٹکڑے آگ کی طرح سرخ ہو جائیں (۱۸: ۹۷) اس کی تاویل”قیامت خیز عبادت”ہے، جو ہر پیغمبر او رہرامام بجا لاتا ہے۔

    ب: صورپھونکنا، کیونکہ انفرادی قیامت کے جملہ مراحل سے آگے گزرے بغیر آدم علیہ السلام حاملِ نور، خلیفۂ خدا، سرچشمۂ علم وحکمت، اور فرشتوں کا مسجود معلم نہیں ہو سکتے تھے۔

۵۶

ج: روح پھونکنا، یہ نورا علی نور کے دائمی قانون کے تحت ایک کامل شخص سے دوسرے کامل شخص میں نور کی منتقلی کا نام ہے، پس جس طرح حضرت آدمؑ نے “انقلابی عبادت”کی، جیسی آپؑ کی ذاتی قیامت برپا ہوئی، اور جس معنیٰ میں ان میں نور منتقل ہو گیا، اس کے حقائق ومعارف اندرونی طور پر سراسر قرآنِ حکیم میں پھیل جاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ  کی بے بدل (اٹل) سنت کے مطابق جو حاملانِ نور میں سے گزرتی چلی آئی ہے تمام انبیا علیھم السلام کا ایک ہی قصہ بن جاتا ہے۔

۱۴۔ اگرچہ ظاہری تاریخ آپ کو واقعاتِ آدمؑ سے ہزاروں سال دور لے آتی ہے، لیکن قرآن اور نورِ ہدایت کا یہ معجزہ ہے کہ اس کی بدولت آپ یقناً حضرت آدم علیہ السلام کو انتہائی قریب سے دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ عالم و آدم کی تخلیق سے خلافتِ الہٰیہ مقصود تھی، جو حسبِ منشائے خداوندی سلسلۂ انبیاء وأئمہ علیھم السلام میں جاری وباقی ہے، جیسا کہ سورۂ نور (۲۴: ۵۵) میں ارشاد ہوا ہے: ۔

     اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو (بحقیقت) ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔ اس پر حکمت تعلیمِ سماوی میں پیغمبروں اور اماموں کی خلافت کا ذکر ہے، جو حضرت آدمؑ کی خلافتِ عالیہ کا سلسلہ ہے جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی، مسلمین ومومنین کو اس سے بیش از بیش فائدہ حاصل ہونے کے لئے زیادہ سے زیادہ فرمانبرداری

۵۷

شرط ہے، تاکہ خلیفۂ خدا جو ہر زمانے میں موجود ہے کی معرفت حاصل ہو، پس اسی پہچان میں تمام معرفتیں مرکوز ہو جاتی ہیں، اور یہی روح کی تفصیلی ملاقات کا نتیجہ ہے۔

                        نصیر الدین نصیر ہونزائی

                        ۲۰۔ مارچ ۱۹۸۵

۱۔ ہر پیغمبر اور ہر امام خدا کے حکم سے روح پھونک دیتا ہے، حضرت عیسیٰ کی مثال دیکھئے: ۲: ۴۹، ۵: ۱۱۰

۵۸

روحِ اسلام

روح کے معنی جان، جیو، آتما، نور، ست، جوہر، اور دل ہیں، اسلام سے دینِ حق مراد ہے، جسے بحکمِ خدا حضورِ انورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کے سامنے پیش کیا، چونکہ اسلام اللہ تبارک وتعالیٰ  کا دین ہے، اس لئے یہ تمام انبیاء علیھم السلام کا واحد دین ہے، اور اسی کا نام دینِ فطرت ہے۔

     اس اہم موضوع کے سلسلے میں سب سے پہلے اس حقیقت پر قرآنی روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے کہ جملہ انبیاء ورسل علیھم السلام اپنے اپنے زمانے میں ایک ہی دینِ حق کی دعوت وتبلیغ کیا کرتے تھے، اور وہ خدائے واحد کا یکتا ویگانہ دین تھا، جس کی تعبیر بعد کے زمانے میں لفظِ “اسلام’سے کی گئی، جیسا کہ پروردگارِ عالم کا مقدس ارشاد ہے: ۔

      شرع لکم من الدین ماوصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک وماوصینابہ ابراہیم وموسی وعیسیٰ ان اقیمو الدین ولاتتفرقوافیہ (۴۲: ۱۳) اللہ تعالیٰ  نے تم لوگوں کے واسطے وہی دین مقرر کیا جس کا ا س نے

۵۹

نوحؑ کو حکم دیاتھااور جس کو ہم نے آپ کے پاس وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیمؑ او رموسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو حکم دیا تھا کہ اسی دین کو قائم رکھنا اوراس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔

         اس آیۂ حکمت آگین سے یہ حقیقت بدرجۂ یقین روشن ہو کر سامنے آتی ہے کہ دینِ اسلام اور اس کی شریعتِ عالیہ کا آغاز دراصل زمانۂ نوحؑ سے ہوا، اس کے واضح معنی یہ ہوئے کہ اسلام دینِ فطرت ہے، اور فطرت کا بہترین نمونہ اس کائنات میں انسان ہیں (۳۰: ۳۰) قرآنِ حکیم کے اس حوالہ میں کہ: “خداکی فطرت وہ ہے جس کے مطابق اس نے لوگوں کو پیدا کیا (۳۰: ۳۰) “بہت سے اشارات موجود ہیں، مختصر یہ کہ اسلام دینِ فطرت ہونے کی بناء پر اپنے اندر زمان ومکان کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگی کی صلاحیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ آفاقی دین ہے، لہٰذا یہ ہمیشہ زندہ غیر منجمد اور حرکیاتی (DYNAMIC) ہے، جیسا کہ شرع لکم….. (۴۲: ۱۳) کی آیتِ پاک میں بزبانِ حکمت فرمایا گیا ہے کہ حضراتِ انبیاؑء نے اسلام کو وقت اور جگہ کے مطابق لوگوں کے سامنے پیش کیاتھا۔ مگر دین کی روح اور حقیقت ہمیشہ سے کسی تبدیلی کے بغیر ایک ہی شان سے چلی آئی ہے۔

         اس وضاحت کے باوجود کوئی شخص قرآنِ مقدس ہی کے حوالے سے یہ سوال کرسکتا ہے کہ: جب خداتعالیٰ  نے ہر امت کے لئے ایک شریعت اور ایک منھاج یعنی طریقت (۵: ۴۸) مقرر کر دی ہے، تو پھر ہم کس طرح اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ آج جو شریعتِ محمدی ہے،

۶۰

وہ زمانۂ نوح میں بھی تھی؟

            اس کے جواب کے لئے میں یہ عرض کروں گا کہ دین اس مقدس مجموعہ ٔ تعلیمات کانام ہے جس میں شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت سے متعلق باتیں جمع ہوا کرتی ہیں، چنانچہ دین ہمیشہ بحیثیتِ مجموعی اپنی جگہ قائم رہتا ہے، مگر شریعت اور طریقت کے بعض امو ر میں بمقتضائے زمان ومکان ترمیم ہوسکتی ہے، پس شریعت کے دو پہلو ہو گئے، ایک وہ جو شروع میں جیسا تھا، اب بھی ویسا ہے، دوسرا پہلو وہ ہے جس میں بحکمِ خدا ترمیمات ہوتی رہی ہیں۔

               اللہ تعالیٰ  کا مبارک ارشاد ہے: وان من شیعیتہ لا براہیم (۳۷: ۸۳) اور تحقیق نوحؑ کے طریقہ والوں سے ابراہیمؑ بھی تھے۔ یعنی حضرت ابراہیمؑ مذکورہ قانون کے مطابق حضرت نوحؑ کے پیرو بھی تھے، اور آپؑ کی اپنی ایک شریعت وطریقت بھی تھی، جس طرح آنحضرتؐ ایک طرف سے ملتِ ابراہیمی کی پیروی کرتے تھے، اور دوسری طرف سے اپنی شریعت وطریقت رکھتے تھے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے: ۔

               قل انی ھدانی ربی الیٰ صراط مستقیم۔ دینا قیما ملتہ ابراہیم حنیفا (۶: ۱۶۱)

 آپ کہہ دیجئے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا رستہ بتلا دیا ہے کہ وہ دین قائم ہے جو طریقہ ہے ابراہیمؑ کا جس میں ذرا کجی نہیں۔ اس قرآنِ حکم سے ظاہر ہ ہے کہ اگرچہ خدا تعالیٰ  نے ہر بڑے پیغمبر کو ایک

۶۱

مخصوص ذیلی شریعت وطریقت عنایت کردی تھی، تاہم یہ بھی روشن حقیقت ہے کہ جملہ انبیار ورسل علیھم السلام کا مشترکہ دین اسلام ہی تھا، جس کا آغاز ظاہراًزمانۂ نوحؑ سے ہو گیا تھا، کیونکہ یہ صراط مستقیم اور دینِ قائم ہے، جس کو ہر زمانے میں موجود رہنا ہے، اور اس کی عدم موجودگی کے لئے وقت نہیں۔

         یہاں یہ سوال بھی ممکن ہے کہ کوئی پوچھے کہ حضرت آدمؑ کا کیا دین تھا؟ اس میں کیا راز ہے کہ دورِ آدم ؑ کے لوگوں کے مذہب اور شریعت کے بارے میں قرآنِ حکیم کچھ نہیں بتاتا؟

       اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ نہ صرف حضرت آدمؑ کے زمانے میں بلکہ اس سے بہت بہت پہلے بھی”دینِ قائم”یعنی اسلام ہی تھا، مگر قانونِ حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ دین کے اول و آخر کے مفصل حالات کو پردۂ اخفامیں رکھا جائے، تاکہ نظامِ امتحان میں خلل نہ پڑے، اور جو لوگ غافل وکاہل ہیں، ان کو قبل از وقت عظیم بھیدوں کا پتہ نہ چلے، بس یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں قصۂ آدمؑ بہت ہی مختصر اور انتہائی جامعیت کے ساتھ بیا ن ہوا ہے۔

        ایک اور سوال: جب سب پیغمبرا یک ہی دین پر تھے، جس کا نام صراطِ مستقیم ہے (۱: ۶، ۴: ۶۹) توپھر اس کی کیا وجہ تھی کہ حضورِ اکرمؐ نے حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کو چھوڑ کر حضرت ابراہیمؑ کی پیروی کی؟ کیا اس کاسبب یہ ہو سکتا ہے کہ خاتم الانبیاؐ ان دونو ں بزرگ پیغمبروں سے عظیم تر تھے؟ اگر بات

۶۲

یوں ہوتی تو پیغمبر آخر زمانؑ حضرت ابراہیم ؑ کی بھی پیروی نہ کرتے، کیوں کہ حبیبِ خداؐ اعظم الانبیاء اور سردار رسل ہیں، تو پھر اس کا کیا سبب ہے؟

جواب: آنحضرت صلی الہ علیہ و لہ وسلم کی مذکورہ پیروی کسی او رسبب سے نہیں بلکہ آسمانی پروگرام کے مطابق تھی، و ہ مطالعۂ تاریخ اور پھر کسی طریقت ومسلک کا انتخاب جیسی بات نہ تھی، یہ پیروی اللہ کی مرضی سے ایک پیش آمدہ واقعیت وحقیقت کی صورت میں تھی، واقعہ یوں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے بڑے فرزند حضرت اسماعیلؑ امام مستقر تھے، اور چھوٹے فرزند حضرت اسحاقؑ امام مستودع، چنانچہ بنو اسماعیل میں امامت استقراری ہمیشہ کے لئے جاری وساری رہی، مگر حضرت اسحاق ؑ کی نسل میں استیداعی امامت صرف آنحضرتؐ کے ظہور تک چل کر امامِمستقر میں مدغم ہو گئی، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ حضورِ اکرمؐ کے اپنے خاندان میں ائمہ ء مستقر کا پاک سلسلہ جاری تھا، جس کے توسط سے رسول اللہؑ نے بطورِخاص قبل از نبوت ملت ابراہیمی کی پیروی کی۔

         حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ خواہش تھی کہ نہ صرف اپنی زندگی ہی میں بلکہ آئندہ زمانے میں بھی آپ کے لئے دین کے حقائق ومعارف بیان کرنے والی زبان مقرر ہو، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں اس حقیقت کاذکر موجود ہے:

           اے میرے پروردگار مجھے ایک حکم (یعنی کلمۂ باری کی معرفت) عنایت کر اور مجھ کو صالحین سے ملا دے، اور میرے واسطے آئندہ آنے والوں میں حق وصدق کی زبان مقرر کر دے (۲۶: ۸۳ تا ۸۴) حضرت ابراہیمؑ

۶۳

کی یہ دعا لفظی فرق کے باوجود معنویت کی روح میں وہی ہے، جس میں آپؑ نے خدا تعالیٰ  سے طلب کی تھی کہ آپؑ کی ذریت میں امامت قائم وبرجا ہے (۲: ۱۲۴) اور اللہ تعالیٰ  نے آپؑ کی ہر دعا کو قبول فرمایا تھا (۴: ۵۴) سو اس کے معنی یہ ہوئے کہ امام ہر زمانے میں موجود اور حاضر ہوتا ہے، جو حق باتیں بتانے کیلئے حضرت ابراہیمؑ کی زبان ہے، جس کی تعلیمات کی آنحضرتؐ نے پیروی کی تھی۔

       یہ بات ہمیشہ کے لئے یاد رہے ک ہ قوانینِ اسلام اللہ تعالیٰ  کی صفات وسنت ہی کے مطابق ہیں، اور دین کا کوئی قانون دائرۂ اسماء سے باہر نہیں، چنانچہ جب ارشاد ہوتا ہے کہ: ھوالاول والاخر والظاہر والباطن (۵۷: ۳) تو ان بابرکت ناموں کی اس نورانی تعلیم سے اہلِ دانش کو دینی حقیقتوں اور معرفتوں کے مقامات کا پتہ چلتا ہے، کیونکہ نہ صرف ضیا پاشی اور روشنی ہی بلکہ دینی دولت کی فراوانی بھی وہاں ہوتی ہے، جہاں اللہ پاک کی کوئی صفت جلوہ گر ہو، جیسے ہم کائناتِ ظاہر کو روشن وتابان اور عجائیت و غرائب سے آراستہ اس لئے دیکھتے ہیں کہ یہ خدائے بزرگ وبرتر کے اس”الظاہر”کے تحت موجود اور قائم ہے، اور اس میں اشیائے ظاہر کی کوئی کمی نہیں، اس مثال سے یہ حقیقت نکھر نکھر کر روشن ہو جاتی ہے کہ اللہ جل جلالہ کے ان چار صفاتی اسماء سے چار عالموں کا وجود قائم وباقی ہے، یعنی”الاول”سے عالمِ ازل، “الآخر”سے عالمِ ابد”الظاھر”سے عالمِ جسمانی، اور “الباطن”سے عالمِ روحانی کا قیام ہے۔

       مذکورہ حقائق ومعارف کی روشنی میں معلوم ہو جاتا ہے کہ دین کے بنیادی قوانین چار ہیں، یعنی قانونِ ازل، قانونِ ابد، قانونِ جسم (مادہ)

۶۴

اور قانونِ روح، جیسے قلم، لوح، ناطقؐ اور اساسؑ ہیں۔ اب ہم انشاء اللہ اس موضوع سے متعلق سوال وجواب سے کام لیتے ہیں۔

      سوال۱: امامِ مستقر اور امامِ مستودع میں کیا فرق ہے؟ امام مستودع کا عمل کب سے شروع ہوا؟ کیا ہر زمانے میں امامِ مستودع کا ہونا ضروری ہے؟ امامت کے ان دو درجوں میں کیاحکمت پوشیدہ ہے؟

   جواب: مذکورہ دونوں اماموں کے درمیان فرق یہ ہے کہ امامِ مستقر دینی بادشاہ کی حیثیت سے ہر زمانے میں موجود و حاضر ہوتا ہے، اور اس کا سلسلہ ہمیشہ جاری ہے، اس کے برعکس امامِ مستودع صرف اس زمانے میں ہوتا ہے جبکہ بحکمِ خدا امام مستقر حجاب سے کام لینا چاہتا ہے، امام مستودع کا عمل حضرت اسحاقؑ ابنِ حضرت ابراہیمؑ سے شروع ہوا، امامِ مستودع کا ہر زمانے میں ہونا ضروری نہیں، امامت کے ان دودرجوں میں کئی عظیم حکمتیں ہیں، اور ان میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ جس طرح انسانی روح کے دو۲ سرے ہیں، دو انائیں ہیں، اور وہ بیک وقت عالمِ علوی میں بھی ہے اور عالمِ سفلی میں بھی، پس اسی حقیقت کی طرف علمی اور عملی رہنمائی اور اشارہ کی غرض سے نورِ امامت کے یہ دو شخصی ظہور ہیں۔

          سوال۲: بنو حاجرہ جو آنحضرتؐ کے آباو اجداد تھے۔ ان میں أئمۂ مستقرین کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے چلتا رہا، اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اسی پاک خاندا ن سے پیدا ہوئے، حالانکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ذریت میں سلسلۂ امامت کے جاری وباقی رہنے کے لئے جو دعا کی تھی (۲: ۱۲۴) وہ بنو ہاجرہ اور بنو سارہ دونوں کے حق میں کی گئی تھی، پھر حضرت اسماعیلؑ کی اس فضیلت و فوقیت کا کیا سبب ہے کہ آپ کی نسل میں ہمیشہ

۶۵

روحانی سلطنت کا سلسلہ چلتا رہا، جس کا ذکر قرآن پاک (۴: ۵۴) میں موجود ہے؟

     جواب: حضرت اسماعیلؑ ابن حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ کے فضائل میں سے چند اس طر ح ہیں:

     ۱۔ حضرت اسماعیلؑ ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے کہ خداوندِ تعالیٰ  نے ان کو غلام حلیم (۳۷: ۱۰۱) جیسے پیارے نام سے یاد فرمایا، جس کا مطلب ہے تحمل والا لڑکا۔

    ۲۔ آپ سے راہِ خدا میں قربان ہوجانے کے لئے فرمایا گیا، جس پر آپ بصد شوق تیار ہو گئے (۳۷: ۱۰۲) جس کے نتیجے میں خداوندِ مہربان نے آپ کو محسنین میں شمار کیا۔

      ۳۔ آپ کو اپنی والدۂ محترمہ کے ساتھ بی بی سارہ نے گھر سے نکلوا دیا۔

      ۴۔ آپ کے حق میں والدِ بزرگوار کی دعا اور والدۂ مکرمہ کی فریاد قبول ہوئی، اور ہر قسم کی قبولیت کے معنی آپ ؑ کے مبارک نام”اسماعیل”میں موجود ہیں، کیونکہ فرشتہ نے عبرانی میں کہا: شماعِ ایل” شماع (سماع= سننا) ایل (خدا) کے لفظی معنی ہیں خدا کا سننا۔

    ۵۔ جناب اسماعیلؑ نے اپنے عظیم باپ کے ساتھ تعمیرِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کر لی۔

    ۶۔ مقدس باپ بیٹے سے اللہ تعالیٰ  نے خانۂ کعبہ کی صفائی وپاکیزگی کا عہد لیا (۲: ۱۲۵) ا س کا مطلب یہ ہے کہ آپؑ کچھ آگے چل کر اپنے والدِمحترم کے جانشین ہونے والے تھے۔

۶۶

    ۷۔ حضرت اسماعیل اپنے عالی قدر باپ کی کئی دعاؤں میں ساتھ تھے، خاص کر ایسی دعاؤں کی بات ہے، جو ان دونوں مقدس ہستیوں کی نسلِ آئندہ کے عروج وارتقاء کے لئے خاص تھیں، پس یہی وجہ ہے کہ آپؑ کی نسل سے حضورِ انورؐ کا ظہور ہوا، اور أئمۂ مستقر کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے چلتا رہا۔

     سوال۳: امامِ مستقر پر امامِ مستودع کس طرح حجاب ہوتا ہے؟ کیا ایک امام دوسرے امام کیلئے پردے کا کام دے سکتا ہے؟ اگر یہ درست ہے تو اسمائے الہٰی اور سنتِ خدائی کی کوئی مثال پیش کر کے ثابت کیا جائے۔

    جواب: اس بارے میں خدا کے ناموں سے ثبوت یہ ہے کہ جہاں اللہ پاک کا ایک اسم”الظاہر”ہے وہاں اس کا دوسرا اسم ـ”الباطن”ہے، چنانچہ الظاہر امامِ مستودع کی دلیل ہے، اور الباطن امامِ مستقر کی دلیل، اور خدا کی سنت وعادت سے اس حقیقت کا ثبوت یہ ہے کہ وہ جل شانہ جب کسی بشر سے کلام کرتا ہے، توا س وقت حجاب کے پیچھے سے کلام کرتا ہے، اور جب اشارۂ خاص (وحی ٔ خاص) کرنا چاہتا ہے، تو اس حال میں ظہور فرما ہو جاتا ہے (۴۲: ۵۱) اس کے علاوہ قرآن کی مثال یہ ہے کہ اس کے الفاظ و کلمات معانی پر حجاب ہیں اور تنزیل پر دہ ہے تاویل پر، نیز مثال حجاب ہے ممثول کا، حالانکہ یہ ساری چیزیں خود قرآن ہی ہیں، اسی طرح ایک اعتبار سے امام خود اپنے آپ کا حجاب ہے، یعنی حقیقی نور پردۂ جسم کے اندر پوشیدہ ہے، جیسے سورج کے ظاہر میں باطن چھپا ہوا ہے۔

       سوال۴: اس موضوع کا عنوان ہے “روحِ اسلام” اس سے

۶۷

اسلام کی کونسی چیزمراد ہے؟ آیا دینِ اسلام کی واقعی کوئی زندہ روح موجود ہے؟ یااس سے دین کے وہ اساسی امور مرادہیں، جو انتہائی اہم ہوا کرتے ہیں؟ اور جو دین کے جوہر کا درجہ رکھتے ہیں؟

      جواب: دین کے اساسی اور انتہائی اہم امور کی اہمیت اپنی جگہ درست ہے، کیونکہ وہ دین کے جواہر ہہی ہیں تاہم اسلام کی ایک حقیقی روح بھی ہے، جو زمانۂ آدمؑ سے اس طرف چلی آئی ہے (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) وہ روح بھی ہے اور نور بھی (۴۲: ۵۲) وہ ہمیشہ آسمانی کتاب کے ساتھ ہے (۵: ۱۵) کیونکہ یہ اس کی جان ہے، یہ سچ ہے کتابِ منیر دینِ خدا کی روح اور نور ہے (۳: ۱۸۴، ۲۲: ۸، ۳۱: ۲۰، ۳۵: ۲۵) یہ درست ہے کہ روحِ اسلام کا ایک خاص نام سراجِ منیر ہے (۳۳: ۴۶) اس میں کوئی شک نہیں کہ ہادیٔ برحْ کا نور ہی روحِ اسلام اورنورِ اسلام ہے (۵۷: ۲۸)

          یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ سین جیسا ایک شریف ترین امرجمادات کی طرح بیجان ہو، یا اس میں حیوان کی طرح ایک ادنیٰ روح ہو، یا اس میں ایک عام انسان کی رو ح ہو، چنانچہ یہ ایک قرآنی حقیقت ہے کہ دین کی روح سب سے اعلیٰ ہے، اور اس کے ناموں میں سے ایک نام”روح الایمان” ہے، یہ وقت آنے پر دل میں داخل ہو جاتی ہے (۴۹: ۱۴) جس سے دل روشنیوں کی دنیا بن جاتا ہے (۴۹: ۷) پس دین میں صرف روحِ اعظم ہے بلکہ عقلِ کامل بھی ہے، اور وہ اسی روح ونور سے الگ نہیں۔ الحمد للہ ر ب العالمین۔

غلامِ غلامانِ امامِ زمانؑ

نصیرؔ الدین نصیر ہونزائی

۲ دسمبر ۱۹۸۴ء

۶۸

روح اور سائنس

عنوانِ بالا کا مقصد یہ ے کہ روح کے چند حقائق ومعارف سائنسی مشاہدات کی روشنی میں پیش کئے جائیں، اور علمِ روح کی مدد سے سائنس کا تجزیہ کر کے دیکھا جائے کہ اس کی طاقت کا بنیاد ی اور اصل سر چشمہ کیا ہے؟ روح اور سائنس (یعنی مادہ) کے درمیان ربط ورشتہ کیا ہے؟ ان دو نوں چیزوں کے مابین کوئی حدِ فاصل ہے یانہیں؟ اگر نہیں (یا ہے) تو کس طرح؟ آفاق و انفس کی آیات کیا ہیں؟ معرفتِ روح کے سلسلے میں سائنسی تمثیلات کس حد تک ممدومعاون ثابت ہو سکتی ہیں؟ آیا قرآنِ حکیم میں سائنس سے متعلق کوئی واضح تذکرہ یا کوئی حکیمانہ اشارہ موجود ہے؟ نزولِ قرآن کے ساتھ ساتھ مستقبل کے جن عظیم انقلابا ت کی پیش گوئی کی گئی تھی، ان میں کہاں یا کس میں سائنسی انقلاب کا اشارہ موجود ہے؟ کیا فرشتوں اور روحوں کے نزول کو سب لوگ دیکھ سکیں گے؟ ان جیسے سوالات سے یہاں بحث کی گئی ہے۔ کیونکہ آج کی دنیا میں منشائے قدرت کے مطابق جیسے بعض صحیح اور مفید علوم و فنون

۶۹

اوجِ کمال پر ہیں، اور جس طرح سائنسی عجائب وغرائب کا دوردورہ ہے، اس کی بدولت یہ بات پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو گئی ہے کہ روح وروحانیت کے بارے میں سوچا جائے، اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ اب سے تقریباً چودہ سو سال۱۴۰۰قبل آفاق وانفس کی جن آیات کے ظہور کی پیش گوئی کی گئی تھی (۴۱: ۵۳) ان میں سے آفاقی آیات یعنی سائنسی عجائبات نے دنیا میں رونما ہوتے ہی ایک ظاہری اور مادی قیامت برپا کر دی ہے، اور جب اس پیش گوئی کے دوسرے معجزات یعنی روحانی عجائب وغرائب ظاہر ہوں گے، تو اس روحانی انقلاب یا قیامت سے احوالِ جہان بدرجۂ انتہادگرگون ہوں گے۔

                 قیامت انفرادی ہو یا اجتماعی، جیتے جی ہو یا جسمانی موت کے بعد، بہر کیف اس کو اپنے وقت پر آنا ہی ہے، لہٰذا ہر مومن کی دانشمندی اس بات میں ہے کہ وہ اس کے لئے خود کو احکامِ خداوندی کے مطابق تیار کر رکھے، خودشناسی اور خدا شناسی کی طرف بھر پور توجہ دے، اور تین مقامات کی آیات میں غوروفکر کرے، اس سلسلے میں سب سے پہلے قرآنِ حکیم سے رجوع اہلِ ایمان کی بہت بڑی سعادت ہے، پھر قرآنِ پاک ہی کے بہت سے ارشادات کے بموجب آفاقی آیات میں تدبر کا مرحلہ آتا ہے، تاکہ فطرت کے اندر جس طرح فاطر (یعنی خالق) کی نشانیاں پوشیدہیں، اور جیسی اس کی صفات کی طرف نشاندہی کی گئی ہے، اس سے آگہی ہو، چنانچہ یہ حقیقت سب کے نزدیک مسلمہ ہے کہ سائنس مطالعۂ قدرت اور مشاہدۂ

۷۰

فطرت کی پیداوار ہے، پھر اس کے کامیاب اورمفید پہلو کو ہم کس طرح نظر انداز کر سکتے ہیں، جبکہ یہ خدا کی نشانیوں اور نعمتوں میں سے ہے (۴۱: ۵۳، ۳۱: ۲۰)

        آیات کا تیسرا مقام عالمِ نفسی (یعنی عالمِ روحانی) ہے، جس سے روح وروحانیت مراد ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں نکہ عوالم یعنی دنیائیں تین ہیں، عالمِ دین، عالمِ ظاہر، اور عالمِ شخصی، ان میں سے ہر ایک بجائے خود اللہ کی ایک مکمل کتا ہے، اسی وجہ سے ان تینوں میں آیات ہیں، آیت کے معنی نشانی بھی ہیں اور معجزہ بھی، پس عالمِ دین یعنی قرآنِ حکیم میں جو کچھ الفاظ ومعانی میں ساکن اور یکجا ہے، وہ کائنات میں متحرک اور پھیلا ہوا ہے، اور عالمِ شخصی میں زندہ اور مجموع ہے۔

           قرآنِ حکیم کے عظیم معجزات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے ظاہر و باطن کے وسیع معنی میں ہر چیز کا بیان کرنے والا ہے (۱۶: ۸۹) اور اس حقیقت کو عملاً دیکھنے کے لئے نورِ ہدایت کی روشنی چاہئیے (۵: ۱۵) اگر وہ روشنی حاصل ہے تو اللہ تعالیٰ  کی اس پر حکمت کتاب میں ہر چیز کا ضروری بیان موجود ہے، چنانچہ سائنس جیسی بڑی اہم چیزاور اس کے انقلاب کا اشاراتی تذکرہ نہ صرف بہت سی پیش گوئیوں میں فرمایا گیا ہے، بلکہ اس کے علاوہ اور بھی کئی عنوانات ہیں، مثال کے طور پر خداتعالیٰ  کا بار بار یہ اشارہ فرمانا کہ تم اس کائنات کی ہر چیز میں غور وفکر کرو، اس ہدایت میں انسان کی سعادتِ دارین پوشیدہ ہے، کیونکہ اس حکم کی تعمیل میں مادہ اور روح

۷۱

دونوں کی حقیقت جاننے کا امکان ہے، یعنی اس مطالعۂ قدرت (NATURE STUDY) میں ایک طرف سائنس سے آگہی کا فائدہ ہے اور دوسری طرف حصولِ معرفت کا۔

           سورۂ انفال کے ایک ارشاد (۸: ۶۰) میں اسلام کی حفاظت ومدافعت کی تیاری کے سلسلے میں جس جامعیت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے، اس سے یہ حقیقت روشن ہو کر سامنے آتی ہے کہ آسمانی تائید کی بدولت جو بھی مادی قوت ممکم ہے، وہ سب سے پہلے اور سب سے اعلیٰ درجے پر مسلمانوں کے پاس ہونی چاہئیے، پس ظاہر ہے کہ ایسی طاقت کی تحلیل صرف سائنسی ایجادات ہی کی صورت میں ہو سکتی ہے۔

        یہاں اس امر سے بحث مقصود نہیں کہ ہم مسلمانوں نے دوسروں کے مقابلے میں سائنسی اعتبار سے کتنی ترقی وپیشرفت کی ہے، یا کس قدر پیچھے رہ گئے ہیں، اور اس کے اسباب وعلل کیا ہیں، لیکن ہم سب کو اس حقیقت کی طرف توجہ دینے کی شدید ضرورت ہے، کہ سائنسی فکر وعمل کے نتیجے میں جو عجیب و غریب آلات اور ان کے گوناگون کرشمے سامنے آئے ہیں، وہ نہ صرف ظاہری اور مادی نقطۂ نظر سے مفید ہیں، بلکہ ا ن کا سب سے بڑافائدہ باطنی او رروحانی قسم کا ہے، وہ یہ کہ ان میں روح وروحانیت کی ایسی بہت سی تمثیلات وتشبیہات موجود ہیں، جن کی روشنی میں غور وفکر کر کے ہر دانشمند روح سے متعلق علم الیقین کو حاصل کر سکتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ  نے جس طرح ان چیزوں کو اپنی آیات کا درجہ دیا ہے، اس کی خاص غرض

۷۲

یہی ہے، اور آیات کے معنی یہاں معجزات ہیں، جیسا کہ باری تعالیٰ  کا ارشاد ہے: ۔

          سنریھم ایتنافی الافاق وفی انفسھم حتی یتبیّن لھم انہ الحق (۴۱: ۵۳) ہم عنقریب ان کو اپنے معجزات دنیائے ظاہر میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی جانوں میں بھی یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ وہ (یعنی خدا) حق ہے۔ اس ربانی تعلیم میں، جو مادہ اور روح کی حکمتوں سے مملو ہے، نہ صرف امروز کی سائنسی ترقی کی پیش گوئی اور فردا کے روحانی انقلاب کی خوشخبری ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ اشارہ بھی ہے کہ پہلے پہل سائنسی معجزات کا ظہور ہوگا، اور اس کے بعد روحانی معجزات کا دور آئے گا، تاکہ لوگ ان ظاہری وباطنی عجائب وغرائب کے سلسلے میں غور وفکر کرتے ہوئے خودشناسی اور خدا شناسی کی سعادت حاصل کر سکیں۔

          یقیناً روح عالمِ امر (یعنی کلمۂ کن) سے ہے، اس لئے وہ بحقیقت بے مثال ہے، تاہم اس مادی دنیا میں بقدرِ امکان کوئی ایسی ظاہری چیز روح کی مثال ہو سکتی ہے، جوبہت سی اعلیٰ خصوصیات کی وجہ سے مادیت کی چوٹی پر ہو، جو سب سے لطیف، سریع الحرکت، اور ہمہ رس ہو، جس میں ایک طرف وحدت اور دوسری طرف کثرت کا نمونہ پایا جائے، جو روح کے گونا گون ظہورات کی مثال کو پیش کر سکے، جو دکھائی دے اور نہ دکھائی دے، جو جسم کو چھوڑ کر اس کی صورتِ لطیف کو پیش کرسکے، جس میں ہر قسم کی آواز اور گفتگو محفوظ ہو سکے، جس کے ذریعہ دور دور بیٹھے ہوئے لوگ

۷۳

آپس میں گفت وشنید کر سکیں، جو بلندیوں میں اڑتا اور اڑاتا پھرے، جو زندہ چیزوں کی متحرک عکاسی کرے، اور ان کے ماضی کو حال بنائے، جو سعی اور بصری اشیاء کی ایک کائنات کو بنائے، جو باغ وگلشن کے حسین منظر کو سدا بہار محفوظ کر لے، جو ذرۂ بے مقدار کو آفتاب بنا کر اور آفتاب کو ذرے کے مشابہ کر کے دکھائے، اور جوہر اعتبار سے عجائب وغرائب اور علم وفن کی ایک ایسی جدید دنیا ہو، کہ قبلاًاس کی کوئی مثال نہ ملے، جی ہاں، یقنا ایسی انتہائی عجیب شے سائنس ہے، جس میں دوسری مادی چیزوں سے بڑھ چڑھ کر، او ربڑی عمدگی کے ساتھ روح کی مثالیں موجود ہیں، پس اہلِ دانش پر واجب ہے کہ وہ اس میں چشمِ بصیرت سے دیکھیں، کہ دراصل یہ اللہ تعالیٰ  کے ان معجزات میں سے ہے، جن کے دکھانے کی پیش گوئی نزولِ قرآن کے زمانے میں کی گئی تھی، اور ان کا اعلیٰ ترین مقصد روح شناسی ہے، جس میں خدا شناسی ہے۔

  “روح اور سائنس” کے اس اہم ترین موضوع کے سلسلے میں یہ ایک بنیادی سوال سامنے آتا ہے کہ آیا روح اور مادہ حقیقت میں دو الگ الگ چیزیں ہیں؟ اگر کہا جائے کہ ہاں، تو پھر سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان حدِ فاصل کیا ہے یا کون سی شے ہے، جو ان دونوں چیزوں کو ایک دوسرے سے قطعاً جدا کر دے؟ کیا ا س کے برعکس یہ ممکن ہے کہ ان دونوں کا رشتۂ وجود (یعنی ہستی کا دھاگا) ہمیشہ اور ہر مقام پر متصل اور اٹوٹ ہو؟ اس کے بارے میں میری

۷۴

گزارش یوں ہے کہ روح اور جسم یعنی مادہ اگرچہ ظاہراً الگ الگ دوچیزیں ہیں، لیکن بحقیقت یہ ایک ہی چیز ہے، جس کی یہ دو صورتیں ہیں، وہ واحد شی وجود (ہستی) ہے، اور اس کی یہ دونوں شکلیں تحلیل وانجماد کے نام سے ہیں، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ پتھر ہو یا لوہا، جو منجمد ہونے کی وجہ سے جماد کہلاتا ہے، اس کی تحلیل نباتات، پھر حیوانات، پھر انسان میں ہو سکتی ہے، او ر ان کی تحلیل انسان میں براہِ راست بھی ہو سکتی ہے، اس کی ایک روشن دلیل یہ ہے کہ بعض مقوی غذاؤں کا ایک اہم عنصر فولاد ہوتا ہے، نیز نہ صرف یونانی طب میں، بلکہ ڈاکٹری میں بھی بعض دواؤں میں فولادملا دیا جاتا ہے، اسی طر ح بعض خاص پتھروں اور ان جیسی جامد چیزوں کو بھی بطورِ دوا استعمال کرتے ہیں، اس کے یہ معنی ہوئے کہ پتھر اور لوہے کی تحلیل سب سے پہلے روحِ حیوانی کی صورت میں ہو جاتی ہے، اور اس کے بعد روحِ انسانی میں۔

        ہم اس اصول کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہر قسم کے مادہ میں کوئی نہ کوئی روح پنہان ہوا کرتی ہے، مثلاً بیدار ومتحرک روح، نیم بیدار (نیم خوابیدہ) خوابیدہ، نیم مردہ، مردہ، نیم منجمد، منجمد روح، وغیرہ، تاکہ کارخانۂ قدرت چلتا رہے، اور نظامِ کائنات وموجودات قائم ہو۔

        اس سلسلے کی وجہ آیۂ مبارکہ جو کلیدی حکمتوں سے مملو ہے، یہ ہے: قل کونو احجارتہ اوحدیدا (۱۷: ۵۰) ان سے کہو”تم پتھر ہو جاؤ یا لوہا”۔ اس ارشاد میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں؟ کیا اس امر کا تعلق

۷۵

آسمان سے ہے یا زمین سے؟ یا دونوں سے ہے؟ کیونکہ پتھر او رلوہا دونوں جگہ موجود ہیں، بہر حال جب اللہ تعالیٰ  نے چاہا، اور اپنے رسولِ کریمؐ کی زبانِ پاک سے “کونو”فرمایا تو یقناً ان لوگوں کے ذراتِ روح پتھر یا لوہا بن گئے، جیسے سورۂ بقرہ (۲: ۶۵) میں ارشاد ہے: ….. کونو اقردتہ خسئین (۲: ۶۵) اور اپنی قوم سے ان لوگوں کی حالت تو تم بخوبی جانتے ہو جو شنبہ کے دن اپنی حد سے گزر گئے تو ہم نے ان سے کہا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ۔ یہ لوگ بنی اسرائیل میں سے تھے، جنھوں نے سنیچر کے دن مچھلیوں کا شکار کر کے نافرمانی کی تھی، اللہ تعالیٰ  کا ان سے یہ فرمان کہ “تم ذلیل بندر بن جاؤ”۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی زبان کے توسط سے تھا (۵: ۷۸) اور اس امر کے بموجب ان لوگوں کے ذراتِ روح بندر بن گئے تھے، مذکورہ دونوں مثالوں سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ہادیٔ زمان خدا کی زبان ہوا کرتا ہے۔

      سورۂ لقمان (۳۱: ۱۶) میں ارشاد ہے: یبنی انھا ان تک مثقال حبتہ من خردل فتکن فی صخرتہ اوفی السموات اوفی الارض یات بھا اللہ (۳۱: ۱۶، اور لقمان نے کہا تھا) بیٹٓ اگر کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو پھر وہ کسی چٹان کے اندر ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو اللہ اسے نکال لائے گا، یہ آسمان زمین کی ہر ہر چیز میں ذرۂ روح موجود ہونے اور انفرادی قیامت میں ایسے تمام ذرات کے محشور ہونے کی ایک مثال ہے۔

         اس وسیع وعریض کائنات کی ایک عظیم الشان رو ح ہے، جس کے

۷۶

کئی نام ہیں، جیسے کرسیٔ خدا (۲: ۲۵۵) نفسِ واحدہ (۶: ۹۸، ۳۱: ۲۸) جنت (۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) لوحِ۔ (۸۵: ۲۲) روحِ قرآن (۴۲: ۵۲) سماء (آسمان، ۶: ۶) نفسِ کلی، روحِ ارواح، روحِ اعظم، عالمگیر روح یا کائناتی روح، وغیرہ، یہ نکتہ انتہائی اہم ہے ک ہم سب کرسی یعنی کائناتی روح کی شکل کا تصور کریں، کہ کرسی کائنات اور اس کی ہر چیز کے ظاہر وباطن سے وابستگی کی وجہ سے کائنات ہی کی طرح گول ہے، یعنی عالمگیر روح کا سمندر، جس میں دنیائے ظاہر ڈوبی ہوئی ہے، گول شکل رکھتا ہے، مگر اب یہ جاننا باقی ہے کہ کائنات بحرِ روح میں کس طرح غرق ہو گئی ہے؟ کیا اس پتھر کی طرح جو پانی میں ڈوب جاتا ہے؟ نہیں نہیں، کیونکہ پتھر تو بے شک پانی میں ڈوب جاتا ہے، مگر اس کے باطن میں پانی داخل نہیں ہو سکتا، اس کے برعکس جہاں سارا عالم روح کے سمندر میں مستغرق ہے، وہاں ہر ذرہ ظاہراً وباطناً روح کی لپیٹ میں ہے، جس طرح مٹی کی کوئی ایسی اینٹ جو پانی میں ڈالی گئی ہو، اور اس کے ظاہر و باطن میں پانی ہی پانی چھا جائے، یا اس مثال کو یوں سمجھ لیں کہ لوہے کا ایک بڑا سا گولہ ہے، جس کو لوہار نے بھٹی میں سرخ سنگارا بنا دیا ہے، اب آپ ہی بتائیے کہ اس گولے کے ہر ذرے میں آگ ہے یا نہیں؟ اور تمام گولہ کس طرح آگ میں ڈوب گیا ہے؟ اس مثال سے یہ حقیقت روشن ہو کر سامنے آئی، اور ذرابھی شک باقی نہ رہا کہ آسمان زمین میں ہر طرف، ہر جگہ، اور ہر چھوٹی بڑی چیز کے اندر باہر روح محیط ہے۔

         اگر روح کا تصور جسم (مادہ) کے بغیر کیا جائے، تو اس حال میں یہ

۷۷

کہنا درست نہیں ہو گا کہ روح کا سمندر گو ل ہے، یا کسی اور شکل کا ہے، کیونکہ روح پر، جبکہ مجرد ہو، ابعادِ ثلاثہ (طول، عرض، عمق) کا اطلاق نہیں ہوتا ہے، مگر جہاں اس کی وابستگی عالمِ جسمانی سے ہے، وہاں یہ بات حقیقت ہے کہ روحِ کلی کا سمندر اس کائناتِ ظاہر ہی کی طرح گول ہے، اور یہی سمندر جو بحرِ رحمت ہے بہشت بھی ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم نے فرمایا کہ جنت کی عرض (چوڑائی، یعنی وسعت) کائنات کی عرض کے برابر ہے (۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱)

       سوال: آپ نے کہا کہ کرسی یعنی عالمگیر روح جو بحرِ رحمت بھی ہے اور جنت بھی، اس کی شکل اس کائنات کی طرح گول ہے، لیکن ہم کو کیسے یقین آئے کہ عالمِ ظاہر یعنی یہ مادی کائنات گو ل ہے؟ کیا آپ اس سلسلے میں کوئی ٹھوس دلیل پیش کر سکتے ہیں؟

           جواب: دلیل۱: جب خداوند تعالیٰ  نے فرمایا کہ جنت کی عرض (چوڑائی، ۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) آسمان وزمیں یعنی کائنات کی چوڑائی کے برابر ہے، تو اس میں اس دانائے مطلق نے بہشت کی لمبائی اور گہرائی کا کوئی ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ وہ بھی اور یہ جہان بھی گول ہے، اور گول چیز کی جو کچھ چوڑائی ہوتی ہے، وہی اس کی لمبائی بھی اور گہرائی بھی شمار ہوتی ہے، یہی سبب تھا، کہ خدائے علیم وحکیم نے جنت اور کائنات کی صرف عرض کا ذکر فرمایا، اور طول وعمق کے بارے میں کچھ ارشاد نہیں کیا گیا، پس اس دلیل سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ کائنات اور عالمگیر روح کی شکل گول ہے۔

۷۸

دلیل۲: اس کائنات کا ہر سیارہ اور ستارہ جب وجود میں آیا، تو وہ گول شکل میں تھا، اور اب بھی ایسا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ گول کائنات کی گول حرکت کے زیرِ اثر پیدا ہوا ہے، نیز ان میں سے ہر ایک جس طرح ایک دائرے میں گردش کرتا ہے، اس کا سبب بھی یہی ہے، کہ وہ کائناتی گول گردش کے دھکے میں ہے (۲۱: ۳۳، ۳۶: ۴۰)

         دلیل۳: سورج کا سرچشمہ جو کائنات کے مرکز یعنی وسط میں واقع ہے، وہ ہر طرح سے گول ہے، یہ روشن گیس کی ایک بہت بڑی طوفائی دنیا ہے، جہا ں عالمگیر روح کے دباؤ سے ایتھر (ETHER) کی تحلیل ہو کر روشنی کا انتہائی عظیم ذخیرہ بن جاتا ہے، اور اس کی شکل گو اس لئے ہے، کہ یہ گول کائنات اور گول عالمگیر روح کی گول گرفت میں ہے۔

      دلیل۴: کائنات کی جو اصل ہے، اس کا تصور مدور (گول) ہے، اور وہ اصل لولوئے مکنون ہے، جس سے کائنات پیدا کی گئی ہے، اور جب جب اللہ تعالیٰ  اپنے دستِ قدرت میں کائنات کو لپیٹ لیتا ہے توا س کے نتیجے میں پھر وہی لولو حاصل آتا ہے (۳۹: ۶۷، ۲۱: ۱۰۴) پس ان دلائل سے اس حقیقت کا کامل اور مکمل یقین ہو گیا کہ کائنات یعنی جسمِ کلی پوری طرح گول ہے۔

        جس طرح پانی مختلف حالتوں میں پایا جاتا ہے، جیسے سمندر، بخارات، بادل، برف، بارش، شبنم، یخ، چشمہ، کنواں، کاریز، نہر، ندی، دریا، وغیرہ، اسی طرح فرشتہ ہو یا روح، اس کے مختلف حالات ودرجات ہوا کرتے

۷۹

ہیں، مثال کے طور پر وہ ایک عقلی نور ہے، وہ ایک رحمانی صورت ہے، وہ جامع الجوامع کلمہ ہے، وہ ایک نورانی آواز ہے، وہ ایک روشنی ہے، وہ ایک لطیف بشری ظہور ہے، وہ ایک صاعقہ (کڑکنے اور زمین پر گرنے والی بجلی) ہے، وہ ایک رعد (بادل کی گرج) ہے، وہ ایک برق (آسمانی بجلی) ہے، وہ ایک مجموۂ ذرات ہے، وہ ایک تجلی ہے، وہ ایک علمی دنیا ہے، وہ ایک بہشت ہے، اور اس کی کم سے کم شعاعوں کا ادراک حسنِ توفیق، نیک خیال، اور ایجادی وفنی سمجھ بوجھ کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: ۔

              فالھما فجورھا وتقوالھا (۹۱: ۸) پھر اس (یعنی جان) کی بدکرداری اور پرہیز گاری (دونوں باتوں) کا اس کو القاء کیا۔ سب لوگ اس حقیقت کو قبول کرتے ہیں کہ برے خیالات شیطان سے ہیں، پھر دوسری طرف سے بھی اسی طرح ماننا ہو گا کہ اچھے خیالات فرشتے کے توسط سے ہیں، اس کا نتیجہ بڑی صفائی کے ساتھ یہ نکلا کہ سائنسدانوں نے غوروفکر کے بعد جو کچھ دنیا والوں کو دیا، وہ دراصل خزائنِ الہٰی میں تھا، جسے خداتعالیٰ  نے فرشتوں اور روحوں کے ساتھ نازل فرمایا، اور ان سے سائنس والوں نے غیر شعوری کیفیت میں یہ ساری چیزیں حاصل کر لیں۔

            وہ بابرکت شبِ قدر جو ہر سال رمضان المبارک میں واقع ہوتی ہے، جس میں جملہ امور سے متعلق فرشتوں اور روحوں کا نزول ہوتا ہے، لیکن جو کچھ لایا جاتا ہے اور جو کچھ دیا جاتا ہے، اس سے کوئی شخص آگاہ نہیں

۸۰

ہوتا، یہ علامت اور مثال ہے، اور اس کا ممثول”دوری شبِ قدر”ہے، جو بہت ہی عظیم ہے، اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ سب سے مبارک رات آ چکی ہے اور نزولِ ملائکہ و ارواح بھی ہو چکا ہے، توکیا خداتعالیٰ  کے نزدیک یہ بات ضروری ہے کہ اس واقعہ کی خبر سب لوگوں کو ہو؟ جب کہ رات کی تاویل باطن، پوشیدگی اور روحانیت ہے؟ اور فرشتوں نے بادلوں کے اوٹ میں اترنا تھا (۲: ۲۱۰، ۲۵: ۲۵) ؟ مگر ہاں، یہ صحیح ہے کہ اس عظیم الشان روحانی انقلاب میں جن امور کا تعلق دنیائے ظاہر سے ہے، ان کی مادی صورتیں ظہور پذیر ہوتی جا رہی ہیں، اور یہی چیزیں سائنسی ایجادات کہلاتی ہیں۔

         اگر آج نہیں تو کل ضرور یہ راز سائنسدانوں پر روشن ہو جائے گا کہ سائنس روحانی انقلاب کا پیش خیمہ ہے، اور یہ سارے اکتشافات ایک عظیم الشان آسمانی پروگرام (PROGRAMME) کے تحت ہوتے جا رہے ہیں، تاآنکہ اسرارِ روح وروحانیت ظاہر ہونے لگیں گے، اور اللہ تعالیٰ  کے ارشادات کے مطابق دنیا میں سب سے بڑی تبدیلی رونما ہو جائے گی۔

     سائنس کا سارا نظام”روحِ مسخر”پر قائم ہے، جیسا کہ سورۂ جاثیہ (۴۵: ۱۳) میں ارشاد ہوا ہے: اور اس نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزوں کو تمھارے لئے مسخر کر دیا، سب کچھ اپنے پاس سے۔ اس سے ارواحِ سماوی وارضی کی تسخیر مراد ہے، کہ ظاہراً سائنسی نتائج وثمرات کی صورت میں ہے اور باطناً روحانی سلطنت کی شکل میں۔

۸۱

سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: و ان من شی الا عندنا خزائنہ وما ننزلہ الا بقدر معلوم (۱۵: ۲۱) اور کوئی چیز (اس قانون سے باہر) نہیں مگر اس کے خزانے ہمارے پاس ہیں اورہم اس کو نازل نہیں کرتے ہیں مگرا س کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم اس کو نازل نہیں کرتے ہیں مگر دانستہ مقدار میں۔ اس آیۂ مبارکہ میں باربار غور وفکر کرنا چاہئیے تاکہ اس سے بیش از بیش علمی برکتیں حاصل ہو جائیں، چنانچہ ہم سب سے پہلے عندنا کے بارے میں سوچتے ہیں کہ عندی (میرے پاس) کی جگہ عندنا (ہمارے پاس) کیوں فرمایا گیا ہے؟ اس میں کیا راز ہے؟ دوسرا سوچنا یا پوچھنا یہ ہے کہ ایک چیز کے کئی خزانے کیوں ہیں؟ ایک خزانہ کیوں نہیں؟ تیسرا سوال ہے کہ ا س آیۂ مقدسی کے مطابق کوئی چیز کب دنیا میں نازل ہوتی ہے؟ کیا ہر زمانے میں اور ہر وقت؟ یا یہ کسی خاص زمانے کی بات ہے؟ اور چوتھا سوال یہ ہے کہ دانستہ مقدار سے کیا مراد ہے؟ آیا اس میں علمِ الہٰی کا ذکر ہے یا انسانی معلومات کا؟ یا دونوں کا تذکرہ ہے؟

        اس سلسلے میں میری انتہائی عاجزانہ گزارش یہ ہے کہ اس آیہ ٔ حکمت آگین کی ایک تاویل کتاب “گنجِ گرانمایہ” میں موجود ہے، یہاں ایک اور تاویل بیان کی جاتی ہے، کہ قرآنِ حکیم میں جب اللہ تعالیٰ  کی وحدانیت کا کوئی ذکر مقصود ہوتا ہے، تو اس میں لازم طور پر ہمیشہ ذاتِ یکتا کے لئے ضمیر واحد آتی ہے، لیکن جس وقت کسی خدائی فعل کا تذکرہ کرنا ہوتا ہے، توا س صورت میں اکثر ضمیرِ جمع استعمال کی جاتی ہے، اس کی وجہ یہ

۸۲

ہے کہ باری سبحانہ کے لئے جس طرح امر خاص ہے، اس طرح فعل خاص نہیں، کیونکہ وہ بادشاہِ مطلق ہے، لہٰذا اس کے حکم کے تحت عظیم فرشتے یعنی قلم، لوح، اسرافیل، میکائیل، جبرائیل، نورِ نبوت، اور نورِ امامت کام کرتے ہیں، چنانچہ خدائے پاک وبرتر نہ صرف ان فرشتوں کے اس کام کو اپنی ذاتِاقدس سے منسوب کر لیتا ہے بلکہ خود ان پاکیزہ ہستیوں کو بھی اپنائیت سے سرفراز کر کے فرماتا ہے کہ: “یہ کام ہم نے کیا”یہی حقیقت مذکورۂ بالا آیت میں موجود ہے، سو اللہ تعالیٰ  نے لفظ” عندنا”میں اپنے زندہ خزانوں کوا پنایا ہے، اور ان کے قرب کو اپنے قرب کا درجہ دیا ہے، ورنہ مکان ولامکان میں کوئی ایسی حد نہیں جس کے متعلق کہا جائے کہ خدا کی نزدیکی یہ ہے۔

       مذکورہ چیز سے انسان مراد ہے، جس کیلئے تین بنیادی خزانے چاہئیں، یعنی عقلی، روحانی، اور جسمانی، جو قلم، لوح، اور انسانِ کامل (پیغمبرؐ یا امامؑ) ہیں، دوسرے لفظوں میں یہی خزانے عالمِ عقل، عالمِ روح، اور عالمِ ذر کہلاتے ہیں، ان خزانوں سے بحکمِ خدا ہر وقت چیزیں آتی رہتی ہیں، مثال کے طور پر آدمیوں کے پیدا ہو جانے کا سلسلہ جاری ہے، اس میں سب سے پہلے ذرۂ جسم کو آنا چاہئیے، پھر روح اور اسکے بعد عقل آتی ہے، ہر آنے والی چیز کی “دانستہ مقدار”میں دونوں اشارے موجود ہیں۔

    مذکورۂ بالا قرآنی قانون کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہو گئی، کہ موجودہ سائنس کے تینوں اجزاء: عقل (علم) روح، اور مادہ پہلے پہل خدا کے خزانوں میں تھے، وہاں سے یہ چیزیں خداوندِتعالیٰ  کے علم یعنی پروگرام اور سائنسدانوں کی معلومات کے مطالبق دنیائے ظاہر میں آ گئیں

۸۳

تاہم اس میں شاید ایک بات سے آپ کو بڑا تعجب ہوا ہوگا، کہ مادہ جوا س کائنات میں آزاد اور بکھر اہوا ہے، وہ اللہ کے کسی خاص خزانے میں گھیرا ہوا اورلپیٹا ہوا کیسے ہو سکتا ہے؟ ہاں یہ حیرت یا سوا ل ممکن ہے، مگر عالمِ ذر کے حقائق کے متعلق جس قدر آپ کے علم الیقین میں اضافہ ہو گا، اس قدر یہ حیرت کم ہو گی، اور جوں جوں آپ قرآنی اور روحانی حکمت سے واقف وآگاہ ہوتے جائیں گے، توں توں آ پ کے سامنے یہ حقیقت روشن ہوتی جائے گی، کہ مادۂ لطیف (عالمِ ذر) روحِ قدسی، اور عقلِ کامل یہ تینوں ایک ساتھ دستِ قدرت میں جمع ویکجا ہیں (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) دستِ قدرت یعنی اللہ کا ہاتھ بفرمودۂ قرآن (۴۸: ۱۰) سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ بابرکات ہے، اور پھر بحکمِ خدا آپؐ کے جانشینوں میں سے ہر ایک اپنے زمانے میں دستِ خدا ہے، چنانچہ ایسے شخصِ کامل ومکمل کا ایک معجزاتی جسمِ لطیف ہوا کرتا ہے، جو عالمِ ذر کہلاتا ہے، جس کے بہت سے قرآنی نام ہیں، ان میں سے چند اسماء یہ ہیں: ۔

       سربال (کرتہ) جس کی جمع سرابیل ہے (۱۶: ۸۱) لبوس (پوشش، ۲۱: ۸۰) صاعقہ (۱۳: ۱۳) رعد (۱۳: ۱۳) برق (۱۳: ۱۲) الکوثر (۱۰۸: ۱) جسمِ بسیط (۲: ۱۴۷) بشرِ سوی (۱۹: ۱۷) وغیرہ، اس معجزاتی جسم میں نہ صرف مادی سائنس کے ہر گونہ ذرات موجود ہیں، بلکہ جسدِ ابداعی ہونے کی وجہ سے روحانی سائنس کے لاتعداد عجائب وغرائب اور معجزات بھی ہیں، مثال کے طور پر آپ نے سنا ہو گا، کہ آج کل جن

۸۴

ممالک میں ظاہری سائنس کا دور دورہ ہے، وہاں فضا میں بعض دفعہ اڑن طشتریاں نظرآتی ہیں، جو ابھی تک سائنس دانوں کے نزدیک ناشناختہ چیزیں ہیں، جو حقیقت میں مادیت اور روحانیت کے سنگم پر ہیں، اور ان میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں، اگر آپ چاہیں توا ن کے بارے میں غور وفکر کر کے بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں، کیونکہ ان کا ظہور ایک انتہائی عظیم روحانی انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔

         ایک عظیم اور زبردست روح کس طرح عالمِ ذر ہوا کرتی ہے، جسمِ لطیف یا ایتھر (ETHER) کو کس آسانی سے برقی توانائی میں تبدیل کر سکتی ہے، اور اس سے مستقبل کی روحانی سائنس کے متعلق کیا کیا امیدیں وابستہ ہو سکتی ہیں، اس کی مثال آپ یو۔ ایف۔ او (U.F.O) یعنی اڑن طشتری سے لے سکتے ہیں، کیونکہ وہ منشائے الہٰی کے مطابق فعلِ ابداع یعنی نتائجِ “کن”کا نمونہ ہے، لہٰذا ایک مخلوق ہونے کے باوجود سب ہے، سو آپ کہہ سکتے ہیں، کہ وہ معجزاتی کرتہ ہے، یا صاعقہ اور رعد وبرق ہے، یا فرشتہ ہے، یا ترقی یافتہ انسان ہے، یا جن ہے، یا کوکبی بدن ہے، یا عالمِ شخصی ہے، یا عالمِ ذر ہے، یا انسانِ کامل ہے، یا معجزۂ قیامت ہے، یا انائے علوی ہے، یا تختِ روحانیت ہے، یا سلطنتِ سلیمانی ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ۔ ہونزائی

۱۴۔ مارچ ۱۹۸۵ء

۸۵

معراج اور معارج

معراج کے معنی میں اوپر چڑھنے کی چیز، سیڑھی، زینہ، بزینہ، نردبان، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عالمِ علوی میں نورِ خداوندی دیکھنے کا موقع اور اس کی جمع معارج ہے، جیسے قرآنِ حکیم (۷۰: ۱ تا ۴) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: ۔

          سال سائِل بعذاب واقع، للکفرین لیس لہ دافع۔ من اللہ ذی المعارج۔ تعرج الملئکتہ والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنتہ (۷۰: ۱۔ ۴) ایک سائل نے ہونے والے (روحانی) عذاب کو مانگا جس کا کافروں کے واسطے کوئی دفع کرنے والا نہیں، یہ اللہ کی طرف سے واقع ہوتا ہے جو سیڑھیوں اور معراجوں کا مالک ہے، اس کی طرف فرشتے اور روحِ اعظم چڑھ کر جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ۵۰ ہزار برس کی ہے۔

  حکمت: (۱) یہ اصول ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ ہر عظیم خدائی بھید کا ایک گونہ حجاب ہوا کرتا ہے، چنانچہ یہاں پسِ پردہ ایک بہت بڑا راز ہے۔

۸۶

(۲) عذاب دراصل راہِ روحانیت پر واقع ہے (۱۹: ۷۱) مگر اسے خدائے مہربان مومنین سے دفع کرتا ہے، جیسا کہ آیۂ مذکورۂ بالا میں اشارہ ہے۔

 (۳) مانگنے والے نے روحانی ترقی مانگی تھی، وہ مومن تھا، مگر خدا تعالیٰ  نے بمقتضائے حکمت اس بات پر ایک مناسب پردہ بنایا۔ جس کا ذکر ہو چکا۔

 (۴) انبیاء وأئمہ علیھم السلام خدا تعالیٰ  کی زندہ سیڑھیاں (معارج) ہیں، ان حضرات میں سے ہر ایک (جو روحِ اعظم کا درجہ رکھتا تھا) نے بحکمِ خداارواحِ مومنین کو فرشتے بنا کر اللہ کی بارگاہِ عالی تک پہنچادیا۔

 (۵) اگرچہ روحانیت کا یہ سفر دنیاوی حساب سے۵۰۰۰۰ (پچاس ہزار) برس کا ہے، لیکن اہلِ ایمان کا نور جس طرح ان کے آگے اور داہنے دوڑتا ہے، اس کی بدولت یہ مسافت کم مدت میں طے ہو جاتی ہے (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۸)

       سورۂ اعرافّ۷: ۴۰) کے اس پر حکمت ارشاد میں خوب غور کرنا ہے: ان الذین کذبو با تینا واستکبر واعنھا لا تفتح لھم ابواب السماء ولا یدخلون الجنتہ حی یلج الجمل فی سم الخیاط (۷: ۴۰) یقین جانو لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور ان کے مقابلہ میں بڑائی کی ہے  ان کے لئے آسمان کے دروازے ہر گز نہ کھولے جائیں گے، وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے کے اندر سے گزر جائے۔

       حکمت: (۱) خدا تعالیٰ  کی آیات سے أئمۂ طاہرین صلوات اللہ

۸۷

علیھم مراد ہیں، لہٰذا ان حضرات کو جھٹلانا آیات اللہ کو جھٹلانا ہے، ان برگزیدہ ہستیوں کے منصب کا دعویٰ کرنا بدترین تکبر ہے۔

 (۲) چونکہ آسمان سات ہیں، اس لئے یہاں روحانیت کے سات دروازوں کا ذکر ہے۔

 (۳) اونٹ کی تاویل یہاں آدمی کا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ہے، اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گزر جانا یہ ہے کہ انسان حقیقی معنوں میں دین کی اطاعت کرے، اور عجز وانکساری سے اپنی منجمد روح کے اونٹ کے ذرات بنائے، اب یہ اونٹ جو ناقۂ صاحؑ کی طرح لطیف ذرات کی حیثیت میں ہے، وہ سوئی کے ناکے سے گزر سکتا ہے۔

    مذکورۂ بالا آیت سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ معراج، معارج، اور راہِ جنت کا مطلب ایک ہی ہے، کیونکہ روح اور عقل کے جس اعلیٰ مقام پر خداوند تعالیٰ  کا انتہائی قر ب حاصل ہوتا ہے، وہیں معراج بھی ہے اور بہشت بھی، یعنی انسان کا سفر عالمِ سفلی کی پیشی سے عالمِ علوی کی بلندی کی طرف ہے، جس کی مثال سیڑھی (معراج) سے دی گئی ہے، اور روحانیت کی سیڑھی ہادیٔ برحق کی مبارک ہستی ہے۔

        حضراتِ انبیاء وأئمہ علھیم السلام بحقیقت بنی آدمؑ ہیں، کیونکہ یہی صاحبان اوصافِ آدمؑ کے وارث وممالک ہیں، چنانچہ بموجب آیۂ کریمہ (۷: ۱۷۲) پروردگا کی سنت یہ ہے کہ وہ ہر پیغمبر اور ہر امام کی پشت سے اس کی دنیا کی ذریت کو دستِ قدرت میں لیا کرے، جبکہ ایسے انسانِ کامل کی ذاتی

۸۸

قیامت برپا ہو جاتی ہے، اور خدا نے ان ذریات (ذراتِ ارواح) کو اس معنیٰ میں لیا کہ ان میں حرکت پیدا ہو گئی، اور متعلقہ شخصیت کے روحانی عروج و ارتقاء کے تحت ان کو ایک طرح کی رفعت دی گئی، جیسا کہ ارشاد ہے۔

        اور جب آپ کے رب نے اولادِ آدمؑ کی پشتوں سے ان کی ذریت کو لیا اور ان کو اپنی جانوں پر حاضر کر کے گواہ بنایا کہ کیا میں تمہار ا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں۔

    حکمت: (۱) عہدِ الست کا واقعہ جس میں معجزۂ معراج ہے ہر کامل انسان کی روحانیت میں پیش آتا ہے، جس میں تمام اہلِ زمانہ بصورتِ ذرات شامل ہوتے ہیں۔

 (۲) اسی طرح ربِ کریم نے بنی آدمؑ (انبیاء وأئمہ) کو روح کا مشاہد ہ کرایا اور اس کی کامل معرفت عطا کر دی۔

 (۳) اس بلندی پر لوگوں کے ذراتِ روح بھی موجود تھے، مگر غیر شعوری حالت میں۔

        دنیا کی مثال میں راہ الگ ہوتی ہے اور رہنما اس پر ہوتے ہوئے ایک الگ وجود ہوتا ہے، مگر اس کے برعکس دین میں ایک ہی شخص (جو ہادیٔ برحق ہے) راہ ورہنما دونوں کا کام انجام دیتا ہے، چنانچہ اس کو قرآنِ حکیم نے کبھی تو صراطِ مستقیم کے نام سے پکارا، کبھی ہادی کہا، کبھی معراج وغیرہ، غرض جیسے جیسے اس کے بے شمار کام ہیں، ویسے ویسے اس کے بے حساب نام ہیں، کیونکہ خدا نے اس کوسب کچھ ہونے کا درجہ دیا ہے (۳۶: ۱۲)

۸۹

حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے وقت میں امامِ مستودع، صراطِ مستقیم، اور خدا کی سیڑھی تھے، جس کے چودہ زینے تھے، یعنی امامؑ، باب، اور بارہ حجت، جن کی مثال قرآنِ پاک (۱۲: ۴) میں سورج، چاند، اور گیارہ ستاروں سے دی گئی ہے، حضرت یوسفؑ نے جب نورانی خواب دیکھا کہ آپؑ کو گیارہ ستارے، سورج اور چاند سجدہ کر رہے ہیں، تو اس وقت آپؑ بھی اس سیڑھی کے زینۂ زیریں پر ایک ستارہ یعنی حجتِ اول تھے پھر بحکمِ خدا زینہ بزینہ اس نردبان (سیڑھی) کی چوٹی پر پہنچ گئے، جبکہ ان کو گیارہ ستاروں اور شمس وقمر نے فعلاً سجدہ (یعنی اطاعت) کیا، اس مثال سے دین کی یہ بنیادی حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ انبیاء وأئمہ علیھم السلام اللہ تعالیٰ  کی جیتی جاگتی سیڑھیاں ہوا کرتے ہیں۔

       خداوند تعالیٰ  کی سیڑھی کی دوسری مثال یہ ہے: ۔

       ۱۔ مستجیب

      ۲۔ ماذونِ اصغر

     ۳۔ ماذونِ اکبر

     ۴۔ داعیٔ مکفوف

     ۵۔ داعیٔ مطلق

     ۶۔ حجتِ جزیرہ

     ۷۔ حجتِ حضوری (مقرب)

    ۸۔ امامؑ

۹۰

    ۹۔ اساسؑ

   ۱۰۔ ناطقؑ

   ۱۱۔ نفسِ کل

   ۱۲۔ عقلِ کل

  جیسا کہ ارشاد ہے: ۔

          ہُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ اللّہِ واللّہُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُون (۳: ۱۶۳)

یہ وہ لوگ (یعنی حدودِ دین) قربِ خدا کے درجات ہیں، او راللہ تعالیٰ  خوب دیکھتا ہے ان کے اعمال کو۔

     حکمت: (۱) اللہ تبارک وتعالیٰ  کی نزدیکی کے درجات اور کہیں نہیں صرف صراطِ مستقیم پر واقع ہیں، بلکہ یہ خودراہِ راست اور خدا تعالیٰ  کی سیڑھی ہیں۔

 (۲) آپ اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ ھم درجت (وہ درجات ہیں) اور لھم درجت (انکے لئے درجات ہیں ۸: ۴) کے درمیان فرق ہے۔

  قرآنِ پاک میں جس طرح درجہ

۹۱

اوردرجات کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ حدودِ دین کا ذکر ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: ۔

        رَفِیْعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ یُلْقِیْ الرُّوحَ مِنْ أَمْرِہِ عَلَی مَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ لِیُنذِرَ یَوْمَ التَّلَاق (۴۰: ۱۵) ، خدا درجوں کا بلند کرنے والا ہے وہ عرش کا مالک ہے۔ اور اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے روح ڈالتا ہے اپنے امر سے تاکہ (وہ حاحبِ وحی) ملاقات کے دن سے ڈرائے۔ یعنی خدا حدودِ دین کو اور ان کے وسیلے سے دوسروں کو بلند کرتا ہے۔

        حکمت: (۱) اللہ تعالیٰ  جب کسی کو بلند کرنا چاہتا ہے تو مقررہ درجات کی سیڑھی سے بلند کر دیتا ہے، کیونکہ یہی صراطِ مستقیم ہے، اور یہی وہ سیڑھی ہے جو صاحبِ عرش کی طرف رجوع کرنے کے لئے بامِ عرش تک قائم کی گئی ہے۔

 (۲) اسی سیڑھی پر پیغمبروں کو وحی کی زندہ روح آتی ہے، اورا س سے چڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم خاص معراج کا شرف حاصل ہوا۔

 (۳) کوئی شی نہیں، جس کے خزائن خدا کے پاس نہ ہوں، اور ان خدائی خزانوں سے جو جو چیزیں نازل ہوتی ہیں، وہ اسی سیڑھی سے اترتی ہیں۔

 (۴) جب پروردگار کے عظیم اور پر حکمت ناموں میں سے ایک نام ذی المعارج (سیڑھیوں والا ہے) ، تو پھر قرآن (جس میں ہر چیز کا بیان ہے (۱۶: ۸۹) میں اس کا کوئی منظم تصور ہوگا، کوئی تفصیل ہو گی، اور اس موضوع

۹۲

سے متعلق کچھ آیا ت ہوں گی، جی ہاں، ایسا ہی ہے، جیسا کہ یہاں اس کا کچھ ذکر ہوا، اور ہورہا ہے۔

      حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے آیۂ مبارکۂ استرجاع (۲: ۱۵۶) کی طرف زور توجہ دلائی ہے، اس سلسلے کی تین آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: اور ہم تمھیں کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں، جانوں اور پھلوں کی کمی سے سے ضرور آزمائیں گے، اور (اے رسولؐ) ایسے صبر کرنے والوں کو کہ جب ان پر کوئی مصیبت آ پڑی تو وہ (بیساختہ) بول اٹھے”ہم تو خدا ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں”خوش خبری دیدو کہ انھیں لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے دروداور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں (۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷)

       حکمت: (۱) اگر مومن عالی ہمت ہے تو ہر امتحان روح کے حق میں سودمند ہو جاتا ہے، اور آزمائش کے بغیر کوئی عروج وارتقاء نہیں۔

 (۲) خدائے علیم وحکیم کی نظر میں انتہائی مفید نتائج کے لئے جیسے بڑے اہم امتحانات ضروری تھے، وہ بس یہی ہیں۔

 (۳) خوف دل کی ایک ایسی کیفیت کا نام ہے کہ اس میں نفس تمام دنیاوی خیالات کو چھوڑ کر عاجز اور قابلِ رحم صورت اختیار کر لیتا ہے، ایسے میں آدمی کی مکمل توجہ خدا کی طرف ہو جاتی ہے۔

 (۴) بھوک سے نفسِ حیوانی کی اصلاح ہو جاتی ہے۔

 (۵) مال وجان کے نقصان سے دل پر شکنگی او رفنائیت کی کیفیت

۹۳

طاری ہو جاتی ہے۔

 (۶) ثمرات کے نقصان سے روحانیت کا نقصان مراد ہے، غرض یہ تمام احوال بشرطِ دینی شعور ایسے ہیں کہ ان کی بدولت خدا کی طرف ہنگامی اور دائمی رجوع کرنے میں زبردست مدد ملتی ہے۔

 (۷) استرجاع کا مطلب….ـ”انا للہ وانا الیہ راجعون”کہنا ہے، مگر اس میں یہ جاننا ضروری ہے کہ انسان کا اصل مقام حضور الہٰی ہے، وہ خدا کی سیڑھی سے اتر کر یہاں آیا ہے، پھر اسی سیڑھی سے چڑھ کر اللہ تعالیٰ  کے بحرِ نور میں رجوع کرنا ہے۔

          جس طرح اس مضمون کے شروع میں یہ ذکر ہوا کہ انبیاء وأئمہ صلوات اللہ علیھم خدا تعالیٰ  کی سیڑھیاں ہوا کرتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے حدود کے ساتھ ایک زندہ روحانی سیڑھی کا کام انجام دیتا ہے اوریہی شخصِ کامل ہادی بھی ہے، اور ہدایت بھی، وہ جس طرح آسمان اور عرشِ اعلیٰ کی مثال میں معراج (سیڑھی) ہے، اسی طرح زمین اور خانۂ خدا کی مثال میں صراطِ مستقیم بھی ہے، نیز وہ طوفان کی مثال میں کشتیٔ نجات بھی ہے، کیونکہ وہ ایک ایسی ہمہ گیر حقیقت ہے کہ اس کی طر ح طرح سے مثالیں دی گئی ہیں۔

نصیر حقیر

۲جنوری۱۹۸۵ء

۹۴

سنتِ الٰہی

لفظِ سنت مادہ س ن ن سے ہے، اور اس کے معنی ہیں طریقہ، دستور، عادت، اور قانون، اور سنتہ اللہ سے اللہ تعالیٰ  کی عادت اور حکمت مراد ہے، جیسے قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: سنتہ اللہ التی قد خلت من قبل ولن تجد لسنتہ اللہ تبدیلا (۴۸: ۲۲) (یہی) خدا کی عاد ت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تم خدا کی عادت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے۔ نیز ارشاد ہے: ولن تجد لسنت اللہ تحویلا (۳۵: ۴۳) اور خدا کے طریقے میں کبھی تغیر نہ دیکھو گے۔ یعنی اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قبل کی شریعیتیں فروعی اعتبار سے مختلف صورتوں میں چلی آتی تھیں، لیکن ان سب کا مقصد ایک ہی ہے، اور وہ ہے خدا شناسی، اطاعت اور ابدی نجاب، جو روحِ اسلام کے مطابق عمل کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے۔

          سنت کی جمع سنن ہے، اور یہ لفظ قرآنِ مقدس میں اس طرح آیا ہے: قد خلت من قبلکم سنن فسیروا

۹۵

فی الارض فانظر واکیف کان عاقبتہ المکذبین (۳: ۱۳۷) تحقیق تم قبل مختلف طریقے گزر چکے ہیں تو تم زمین میں سیر کرو اور دیکھ لو کہ تکذیب کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ لفظ”سنن”میں یہاں تمام طریقوں کا ذکر ہے، خواہ مومنوں کا ہو یا کافروں کا، اور زمین میں سیر کرنا دو طرح سے ہے، یعنی سیارۂ زمین پر سیاحت کرنا اور زمینِ روحانیت میں سیاحت کرنا، مگر یہاں جس زمین میں چلنے پھرنے کے لئے فرمایا گیا ہے، وہ زمینِ باطن ہے، جو عالمِ شخصی کی زمین ہے، اور کافروں کے انجام دیکھنے کا جو مقصد ہے، وہ صرف کسی ایسی اجڑی ہوئی بستی پر نظر ڈالنے سے پورا نہیں ہو سکتا ہے، جو کسی قوم کی نافرمانی کے نتیجے میں تباہ وبرباد کی گئی ہو، کیونکہ جھٹلانے وا لوں کی عاقبت صر ف ظاہری ہلاکت تک محدود نہیں، بلکہ عاقبت کا اصل مطلب روحانیت اور آخرت ہے، پھر اس معنوی تحقیق سے یہ پتہ چلا کہ انبیاء واولیاء کی تکذیب کرنے والوں کے انجام (عاقبت) کا مشاہدہ مقامِ روحانیت پر ہو سکتا ہے۔

         سنن کا دوسرا استعمال اس آیۂ کریمہ میں ہوا ہے: یرید اللہ لیبین لکم ویہد یکم سنن الذین من قبلکم

۔۔۔۔۔۔۔۔

قرآنِ حکیم میں لفظِ سنت: ۱۷: ۷۷، ۳۳: ۳۸، ۳۳: ۶۳، ۳۵: ۴۳، ۴۰: ۸۵، ۴۸: ۲۳، ۳: ۱۲۷، ۴: ۲۶) ان آیاتِ کریمہ میں آپ ضرور غور کریں، اور ان کے ماقبل اور ما بعد کو بھی دیکھیں۔

۹۶

ویتوب علیکم (۴: ۲۵) اللہ تعالیٰ  ارادہ کرتا ہے کہ تمہارے لئے بیان کرے اور تمہیں ان لوگوں کے طریقوں پر چلائے جو تم سے پہلے گزرے ہیں اور تم پر توجہ فرمائے۔ بیان کرنے سے تاویل مراد ہے اور یہاں اگلے لوگوں سے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین مراد ہیں (۴: ۶۹) جس طرح سورۂ فاتحہ میں تعلیمِسماوی دی گئی ہے کہ: اھدنا الصراط المستقیم۔ صراط الذین انعمت علیھم (۱: ۵ تا ۶) چلائیے ہم کو راہِ راست پر ان لوگوں کی راہ پر جن پرتو نے انعام فرمایا ہے۔ اس ارشاد سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوا کہ قبل از اسلام کی شریعتیں اگرچہ ظاہر میں الگ الگ اور مختلف تھیں، لیکن ان کا باطن ایک ہی ہے، اور دوسری طرف یہ پتہ چلا کہ جس معنیٰ میں خدا کی سنت میں تبدیلی وتغیر نہیں ہے، اس کا تعلق دین کے بنیادی اور باطنی امور سے ہے۔

          مذکورۂ بالا آیت کی روشنی میں اس حقیقت کا یقین محکم ہو جاتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ  نے اپنے دستور (سنت) کے مطابق ظہورِ اسلام سے پہلے اور زمانۂ نبوت میں نورِ ہدایت کو جاری رکھا تھا، اسی طرح وہی سلسلہ اب بھی جاری ہے، کیونکہ یہ امر دین کے اساسی امور میں سب سے اہم ہے، جیسے اللہ تعالیٰ  نے سورۂ بقرہ (۲: ۱۵۰) میں اپنی نعمت کی تکمیل کا مسلمانوں سے وعدہ فرمایا، اور اسی مقام پر (۲: ۱۵۱) اس عظیم نعمت کی نوعیت اور فوائد کا ذکر فرما دیا، اور پھر غدیر خم میں یہ حکم نازل ہوا: ۔

       الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی

۹۷

و رضیت لکم الاسلام دینا (۵: ۳) آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور (اس) دینِ اسلام کو پسند کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ وہ دن تھا، جس میں حضورِ اکرمؐ نے خدائے پاک و برتر کے منشاوسنت کے مطابق مولا علی ؑ کو اپنا خلیفہ وجانشین اور امام بنا دیا، کیونکہ امام جب پہلے سے ہوتا چلا آیا ہے تو ختمِ نبوت کے بعد اس کا ہونا اور بھی زیادہ ضروری ہے، جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے: ۔

     سنتہ من قد ارسلنا قبلک من رسلنا ولا تجد لسنتنا تحویلا (۱۷: ۷۷) یہ ہمارا مستقل طریقِ کار ہے جو ان سب رسولوں کے معاملے میں ہم نے برتا ہے جنھیں تم سے پہلے ہم نے بھیجا تھا، اورہمارے طریقِ کار میں تم کوئی تغیر نہ پاؤ گے۔ یعنی جس طرح دورِ نبوت میں ہدایت کا سلسلہ جاری و باقی رہا ہے اسی طر ح یہ دورِامامت میں بھی چلتا رہے گا، اور خداوندی تعالیٰ  کی اس عاد ت میں کہ وہ ہمیشہ روئے زمین پر اپنا خلیفہ مقرر فرماتے ہے کوئی تبدیلی نہ ہو گی۔

                   آپ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ  کی عادت ماضی، حال، اور مستقبل پر محیط ہے، اور اس میں کوئی تبدل وتغیر نہیں، چنانچہ ربِ کریم نے اپنی عادت کے مطابق نورِ ہدایت اور کتابِ مبین کو نازل فرمایا (۵: ۱۵) کتابِ سماوی (قرآن) کے وجود کے بارے میں کسی مسلمان کو کیا شک ہو سکتا تھا، لہٰذا نور کے باب میں ارشاد ہوا کہ: نورِ خداوندی کو کوئی نہیں بجھا سکتا، وہ تو درخشان وتابان قائم ودائم رہے گا (مفہوم ۹: ۳۲، ۶۱: ۸)

۹۸

کیونکہ نور کا آخری مقصد مومنین کی منازلِ روحانیت اور مراحلِ قیامت میں رہنمائی کرنا ہے (۵۷: ۱۲)

        سورۂ مومن کے آخر (۴۰: ۸۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ  ہے: سنت اللہ التی قد خلقت فی عبادہ وخسر ھنا لک الکفرون (۴۰: ۸۵) اللہ تعالیٰ  کی عادت یہی ہے جو ہمیشہ اس کے بندوں میں جاری رہی ہے اور کافر لوگ اسی جگہ خسارے میں پڑ گئے”فی عبادہٖ”کے انتہائی معنی ہیں اس کے خاص بندوں کے باطن یعنی روحانیت میں، بالفاظِ دیگر انبیاء وأئمہ صلوات اللہ علیھم کی ذاتِ بابرکات میں، کیونکہ کسی انسان کی عادت ہر چند کہ ایک جیسی نہیں رہ سکتی ہے، لیکن وہ بہر حال اس کی خصوصیا ت کے تحت بنتی ہے، مگر خدا کی عادت ہمیشہ ایک جیسی ہے اور وہ اللہ کے جملہ اسمائے صفات اور قول وفعل کے تحت ہے، جس کا ظہور سب سے پہلے مظہرِ خدا کے آئینۂ دل (روحانیت) میں ہوتا ہے، پس جو لوگ اس سرِ عظیم کو جانتے ہیں، وہ بڑے فائدے میں ہیں، اور جو اس بھید کو نہیں سمجھتے ہیں، وہ بڑے خسارے میں ہیں۔

             یہ اصول خدائے حکیم کی عادت میں سے ہے کہ وہ ہمیشہ کارِ ہدایت کے لئے خاندانِ نبوت کو برگزیدہ فرماتا ہے، جیسے اس نے حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ، آلِ ابراہیمؑ، اور آلِ عمرانؑ کو سارے جہان والوں پر برگزیدہ کیا (۳: ۳۳) جیسے رب العزت نے آلِ ابراہیمؑ کو کتاب، حکمت اور ملکِ عظیم عطا کر دیا (۴: ۵۴) ، اور جس طرح حضرت ابراہیم

۹۹

علیہ السلام نے اسی قانون کے مطابق اللہ کی اس خصوصی رحمت کے لئے دعا کی تھی کہ امامت تا قیامت آپؑ ہی کی نسل میں جاری رہے (۲: ۱۲۴)

      سورۂ رعد (۱۳: ۳۸) میں اللہ تبارک وتعالیٰ  کا ایک حکمت آگین فرمان اس طرح ہے، جس سے سنتِ الہٰی کی ترجمانی ہوتی ہے: ولقد ارسلنا رسلامن قبلک وجعلنا لہم ازواجا وذریتہ (۱۳: ۳۸) اور یقینا ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے انکو بیبیاں اور بچے بھی دئیے۔ لفظِ ذریت کے معنی ہیں اولاد، نسل، خواہ بیٹا ہو یا بیٹی، کیونکہ یہ لفظ قرآنِ حکیم میں بچہ اور بچی دونوں کے لئے آیا ہے، جیسا کہ قولِ قرآن ہے: واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظھور ھم ذریتہم واشد ھم علی انفسہم الست بربکم قالو ابلیٰ شھدنا (۷: ۱۷۲) اور جب آپ کے رب نے اولادِ آدمؑ کی پشت سے ان کی ذریت کو لے لیا اور ان سے انھیں کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا ر ب نہیں ہوں سب نے جواب دیا کیوں نہیں ہم گواہ بنتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ یہاں ذریت کا لفظ مرد عورت سب کے لئے استعمال ہوا ہے، چنانچہ خدا تعالیٰ  کا آنحضرت ؐ سے یہ فرمانا کہ ہم نے آپ سے قبل کے تمام پیغمبروں کو بیبیاں اور ذریت دی تھی، یہ معنی رکھتا ہے کہ حضورِ انورؐ کا بھی خاندان اور ذریت ہے، اور آپؐ کی وہ پاک وپاکیزہ ذریت حضرت فاطمتہ الزہرا صلوات اللہ علیھا ہیں، اور اسی عظیم تصور کے پیشِ نظر قرآنِ پاک میں

۱۰۰

لفظ ذریت کو انتہائی حکیمانہ انداز میں استعمال کیا گیا ہے، جیسے آیۂ اصطفا کے حصۂ ذریتہ یعضہا من بعض (۳: ۳۴) میں کامل مردوں اور پاک عورتو ں کی اولاد کا ذکر فرمایا گیا ہے، کیونکہ جہاں کہیں کسی ذریت کی اصالت ونجابت کی تعریف وتوصیف ہو تو وہ حقیقت میں ماں باپ کی وجہ سے ہے۔

         قرآنِ مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ۲۲ دفعہ”ابن مریم”کے نام سے یا د فرمایا گیا ہے، قرآنِ حکیم جیسی آسمانی کتاب میں اس قسم کے نام کا بار بار آنا حکمت سے خالی نہیں، چنانچہ اس میں پانچ حکمتیں پوشیدہ ہیں:

        ۱۔ اس میں یہ اشارہ ہے  کہ جس طرح پیغمبر اور امام کے پدری رشتے کی اہمیت ہے اسی طرح مادری رشتے کی بھی اہمیت ہے۔

     ۲۔ انسان کامل کو خاندانی فضائل باپ سے بھی آتے ہیں اور ماں سے بھی۔

     ۳۔ ا س میں یہ مثال ہے کہ ہر کامل یا ہر مریم جیسی روحانی ماں حضرت عیسیٰؑ جیسے روحانی فرزند کو جنم دے سکتی ہے۔

     ۴۔ اس میں أئمہ ء طاہرین کے فاطمہ ء زہراؑ کے توسط سے آلِ محمدؐ ہونے کا زندہ ثبوت ہے۔

     ۵۔ یہ خواتین کی عظمت وبزرگی کی ایک روشن دلیل ہے۔

اللہ تعالیٰ  کی عادت ہر پیغمبر اور ولیٔ امر کی ذاتِ اقدس میں گزرتی آئی ہے، اور اسی مرکز سے لوگوں پر اثر انداز ہوتی رہی ہے، آپ اس

۱۰۱

حقیقت کی تحقیق وتصدیق قرآنِ حکیم کے دو موضوع سے کر سکتے ہیں، وہ ہیں”سنتہ اللہ”اور قصۂ انبیاء ” کیونکہ جس طرح ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت سے ہوا کرتی ہے، اسی طرح ایک موضوع کی وضاحت دوسرے موضوع سے ہوتی ہے، چنانچہ خدا کی عادت کی تفسیر وتاویل قصۂ انبیاء ہے، یہ تو معنی پھیلانے کی بات ہوئی، اور اگر معنی کو مرکوز کیا جائے تو پھر کہنا پڑے گا کہ انبیا واولیاء علیھم السلام خود سنتِ خدائی ہیں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ  کی سنتِ مجسم ہیں۔

       نوٹ: سنتِ الہٰی کے متعلق مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: “علم کے موتی”صفحہ نمبر۳۵

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۶۔ فروری ۱۹۸۴

۱۰۲

تطہیر وتزکیہ

 (۱)

تطہیر وتزکیہ کے معنی ہیں بحکمِ خدا رسولؐ کا اہلِ ایمان کو ظاہراً و باطناً پاک وصاف کر دینا، جیسا کہ سورۂ توبہ (۹: ۱۰۳) میں ارشاد فرمایا گیاہے: ۔ خذ من اموالھم صدقتہ تطھر ھم وتزکیھم بھا وصل علیھم۔ ان صلوتک سکن لھم (۹: ۱۰۳) اے رسولؐ) تم ان کے مالوں میں سے صدقہ (یعنی زکات) لے لو کہ اس کے ذریعے سے تم انکو ظاہر وباطن میں پاک وپاکیزہ کرو گے اور ان کو صلوٰتہ دو کیونکہ تمہاری صلواتہ ان کے لئے تسکینِ قلب ہے۔ اس آیۂ کریمہ میں سات اساسی یعنی بنیادی حکمتیں ذیل کی طرح ہیں: ۔

    ۱۔ خذ (تو پکڑ، تولے) اخذ کے مصدر سے امر ہے، اس فعل کا تعلق ہاتھ سے ہے، اور یہ خدا تعالیٰ  کا حکم ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا گیا ہے، تاکہ آنحضرت ؐمومنین سے ظاہری (مادی) اور باطنی (علمی) زکات لیا کریں، کیونکہ صدقہ او رزکات خدا کا حق ہے، اور آپؐ

۱۰۳

کا پاک ہاتھ ید اللہ (۴۸: ۱۰) کا درجہ رکھتا ہے، اور آنحضورؐ کے برحق جانشینوں (یعنی أئمۂ طاہرینؑ) میں یہ مرتبہ باقی وجاری ہے، تاکہ اس دستِ خدا سے ظاہر وباطن میں جو جو رحمتیں اور برکتیں حاصل ہوتی رہتی ہیں، ان میں کوئی کمی واقع نہ ہو، جیسے اخذ زکات کے علاوہ عملِ بیعت (۴۸: ۱۰) ہے جو انتہائی ضروری ہے، کیونکہ بیعت کے معنی ہیں خرید وفروخت، یعنی یہ عملی تشبیہہ وتمثیل اور اقرارہے اس بات کا کہ خداوندِ عالم نے اپنے نمائندۂ حاضر اور موجودکے توسط سے مومنین کی جانو ں کو اور انکے مالوں کو خرید لیا ہے اور اس کے عوض میں ان کو بہشت ملے گا (۹: ۱۱۱) غرض یہ کہ ذاتِ سبحان ہر قسم کے اعضاء سے پاک وبرتر ہے، لیکن اس نے جس نورِ مجسم کو اپنا ہاتھ قرار دیا ہے، اس کو یہ زبردست قدرت بھی عطا کر دی ہے، کہ جس سے وہ ظاہری وباطن کا ہر ہر کام کر سکتا ہے۔

   ۲۔ مال مادی اور روحانی دو قسم کا ہوتا ہے، ظاہری اور جسمانی مال کو سب جانتے ہیں، باطنی اور روحانی مال سے حقیقی علم مراد ہے، چنانچہ زکات وصدقہ دونوں قسم کے مالوں سے لیا جاتا ہے، کیونکہ وہ دونوں چیزیں رزق او ردولت ہیں، اور دونوں کی پاکیزگی اور صفائی ضروری ہے، تاکہ وہ پاک ہوں، اور ان میں گونا گوں برکتیں پیدا ہو جائیں۔

    ۳۔ صدقہ ظاہر میں مادی زکات ہے، اور باطن میں صدقہ سے علمِ تاویل مراد ہے، کیونکہ صدقہ کا لفظ صدق سے نکلا ہے اور صدق کے معنی ہیں سچ بولنا، اور صاحبِ تاویل کو سچا ماننا، کہ وہ اپنی تاویل سے رسول اللہ کے روحانی معجزات

۱۰۴

کی تصدیق کرتا ہے، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مولا علی علیہ السلام سے فرمایا: انت الصدیق الاکبر۔ یعنی تم سچ بولنے والااور تاویل کی روشنی میں میری تصدیق کرنے والا ہو، پس باطنی صدقہ یا زکات (یعنی تاویل) کے مختلف درجات ہیں۔

       ۴۔ تطہیر یعنی تطھیر ھم کا تعلق ظاہری مال، جسم اور جان سے ہے، کہ زکاتِ ظاہر کے دینے سے نہ صرف مادی مال پاک ہو جاتا ہے، بلکہ اس سے جسم و جان کی بھی پاکیزگی ہو جاتی ہے، وہ اس طرح کہ حکمِ زکات پر عمل کرنے سے مال حلال ہو جاتا ہے، حلال مال کھانے سے جسم پاک ہو جاتا ہے، اور جسم کے پاک ہونے سے جان پاک ہو جاتی ہے۔

      ۵۔ تزکیہ یعنی تزکیھم کا اشارہ مومنین کی عقلی پاکیزگی کی طرف ہے، کیونکہ قرآنِ کریم کی کئی آیاتِ مبارکہ میں ارشاد موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایمانداروں کو کتاب و حکمت (یعنی تنزیل وتاویل) سکھا کر پاک کیا کرتے تھے (۲: ۱۲۹، ۲: ۱۵۰ تا ۱۵۱، ۳: ۱۶۴، ۶۲: ۲) چنانچہ ظاہر ہے کہ علم وحکمت کے زیرِ اثر جو چیز پاک وصاف ہو جاتی ہے، وہ صرف مومن کی عقل ہی ہے، اور قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں جسم و جان کی پاکیزگی کا ذکر آیا ہے، اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ انسان کو عقلی پاکیزگی کی طرف لایا جائے، کیونکہ منزلِ آخرین اسی عقل میں ہے، لہٰذا یہ اللہ تبارک وتعالیٰ  کا سب سے بڑا احسان ہے کہ اس مہربان نے ہر زمانے میں لوگوں کے درمیان وسیلۂ تطہیر وتزکیہ کو موجود وحاضررکھا ہے، تاکہ وہ اہلِ ایمان کے مال، جسم، جان، اور

۱۰۵

عقل کو پاک وپاکیزہ کرے، جیسے قرآنِ مجید (۲: ۱۵۰ تا ۱۵۱) میں نورِنبوت کے بعد نورِ امامت کے تقرر کا ذکر فرمایا گیا ہے: ۔

       اور تاکہ تم پر جو میرا انعام ہے اس کی تکمیل کروں اور تاکہ تم راہِ حق پر چلو (مسلمانو! یہ احسان بھی ویسا ہی ہے) جیسے ہم نے تم میں تم ہی میں کا ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے اور تم کو پاک کرے اور تمہیں کتاب (قرآن) اور حکمت کی باتیں سکھائے اور تم کو وہ باتیں سکھائے جن کی تم کو خبر بھی نہ تھی (۲: ۱۵۰ تا ۱۵۱) یہ تو ایک قرآنی حقیقت ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں (۳۳: ۴۰) اس کے معنی یہ ہوئے کہ کوئی جدید وحی نازل نہیں ہو گی (یعنی قرآنِ مقدس اور دینِ اسلام ہی قائم رہے گا) باقی جتنی چیزیں علم وحکمت اور رشد وہدایت کے عنوان سے ہیں، ان کا جانشینِ رسولؐ یعنی امامِ برحقؑ میں ہونا ضروری او رلازمی ہے، یہاں تک کہ خدائے علیم وحکیم ہر امام کے سامنے سے زمان ومکان کے تمام ظاہری اور باطنی حجابات کو اٹھاتا ہے، تاکہ نورِ امامت نورِ نبوت کو نزولِ وحی کے مقامات پر دیکھے، اور جملہ احوال سے باخبر ہو کر آنحضرتؐ کی نبوت ورسالت پر شاہد (گواہ) ہو، اس حد تک رسائی، حاضری، اور مکمل آگہی کے بغیر کوئی شخص کارِ نبوت کا حقیقی شاہد نہیں بن سکتا ہے۔

     ۶۔ صَلِّ کے لفظ میں رسولِ اکرمؐ سے فرمایا گیا ہے کہ آپؐ مومنین کو صلوتہ دیں، لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ صلوتہ کس معنیٰ میں ہے؟ کیونکہ صلوتہ کے کئی معنی ہیں، چنانچہ قرآنِ کریم کی روشنی میں یہ حقیقت

۱۰۶

روشن ہو جاتی ہے کہ یہ لفظ (یعنی صلوتہ) درود کے معنی میں ہے، کیونکہ سورۂ بقرہ ۲: ۱۵۷ سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ درود، رحمت، اور ہدایت تمام اہلِ ایمان کے لئے مشترک ہے، جس طرح سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: خدا ایسا ہے کہ وہ اور اس کے فرشتے تم پر درود بھیجتے ہیں، تاکہ خداتعالیٰ  تم کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئے اور اللہ تعالیٰ  مومنین پر بہت مہربان ہے (۳۳: ۴۳) اب اس مقام پر ہر دانشمند کو یہ سوچنا ہو گا کہ آیا یہ ممکن ہے کہ رب العزت اور اس کے ملائکہ کا یہ درود رحمتِ عالمؐ کے بغیر دینداروں پر نازل ہو جائے؟ حالانکہ ادھر خداوند عالم کا حکم ہو رہا ہے کہ: وصل علیھم (اور تم ان کو صلواتہ دو) ؟ اس سے ظاہرہے کہ یہ صلوتہ (درود) جو خدائے پاک اور اس کے عظیم فرشتوں کی جانب سے ہے، جس کا مقصد نورِ علم ہے، حضورِ انورؐ کے توسط سے مومنین کو پہنچتی ہے، کیونکہ آپؐ ہی کی ذاتِ عالی صفات ہر ہر عالمِ شخصی کے لئے رحمت ہے (۲۱: ۱۰۷)

      قانونِ حکمت کہتا ہے کہ جب مومنین محمد وآلِ محمد پر درود پڑھتے ہیں، تو یہ ایک پاک کلمے کی حیثیت سے بلند ہو کر خداوندِ عالم کے حضور میں پہنچ جاتا ہے (۳۵: ۱۰) پھر اللہ اس کو ایک نورانی ہیئیت دے کر پیغمبرِ برحقؐ اور امامِ زمانؑ کے توسط سے مومنین کی طرف بھیجتا ہے، کیونکہ ہر چیز ایک دائرے پر واقع ہے، لہٰذا وہ جہاں سے روانہ ہو جاتی ہے، آخر کار کسی نہ کسی صورت میں وہاں گھوم کر واپس آتی ہے، مگر

۱۰۷

یہ ہے کہ بعض چیزیں بڑی سرعت سے اور بعض زمانہائے دراز کے بعد لوٹ جاتی ہیں (۲۱: ۳۳، ۴۶: ۴۰)

       جب پروردگارِ عالم تابعدار مومنین کے جملہ اقوال وا عمال کو نورِ روحانیت کے رنگ سے رنگین بنا دیتا ہے (۲: ۱۳۸) تو پھر سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس صلوتہ کی کیا شان ہو گی، جو آپؐ بحکمِ خدا ایمانداروں کو دیتے ہیں؟ جس میں خدا اور فرشتوں کی صلوتہ بھی شامل ہے؟ یقینا وہ نور کی شعاعیں برسنے کی صورت میں ہے، چنانچہ وصلی علیھم (اور ان پر درود بھیجو) کی تاویل یہ ہے کہ اے رسول ؐ ان پر نورِ علم و حکمت شعاعیں برساؤ، کیونکہ اس آسمانی درود کا مقصد یہی ہے کہ خدا تعالیٰ  اہلِ ایمان کو جہالت کی تاریکی میں رکھنا نہیں چاہتا ہے، انکے باطن کو نور یقین سے منور کر دینا چاہتا ہے، جیسا کہ اس کے پاک فرمان کا ذکر ہوا (۳۳: ۴۳)

 ۷۔ تسکین زیرِ بحث آیۂ کریمہ کی آخری حکمت ہے، لہٰذا وہ عظیم شی ہے، اور وہ نور ہے، یعنی کرنیں برسنے کے نتیجے میں نورر کا سامنے آنا، جس سے کئی معنوں میں حقیقی مومنین کو تسکین وتسلی حاصل ہو گی، مثال کے طور پر:

الف: اس بات کا یقین ہو گا کہ خدا ورسولؐ برحق ہیں، قرآن، اسلام، اور امامِ زمانؑ برحق ہیں، کیونکہ ان کے یہاں روشنی پر روشنی ہے۔

ب۔ روشنی کو دیکھ کر یوں یقین آئے گا کہ الحمد للہ مال، جسم، اور جان کی تطہیر کا معاملہ درست چل رہا ہے، او رتزکیہ ٔ عقل کے آثار نمایان ہو رہے ہیں۔

۱۰۸

ج: ذکر وعبادت اور ہر نیک عمل خدا کے حضور میں قبول ہو رہا ہے۔

د: یقینا یہی قرآنِ حکیم اور نورِ امامت کی پر حکمت ہدایت ورہنمائی ہے، اور یہی صراطِ مستقیم پر مومن کی ترقی و پیشرفت ہے۔

ھ۔: اس حال میں وسوسۂ شیطانی اور خیالِ باطل کی پریشانی نہ ہوگی۔

و: ایسے میں ابدی نجات کی امید کا وابستہ ہو جانا لازمی امر ہے۔

      قرآنِ حکیم میں بظاہر طہارت کے معنی عام بھی ہیں اور خاص بھی، کیونکہ یہ لفظ ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی چیزوں کے لئے استعمال ہوا ہے، مگرزکات کے معنی عام نہیں خاص ہیں، کیونکہ یہ باطنی چیزوں کے لئے مستعمل ہے، طہارت وتطہیر کے مختلف الفاظ قرآنِ پاک میں کل ۲۱مقامات پر ہیں، جبکہ زکات وتزکیہ سے متعلق تمامصیغے ۵۹ جگہوں میں مذکور ہیں۔

          کامل انسانوں کی تطہیر کی ایک خاص مثال ا س آیۂ کریمہ میں موجود ہے: اذقال اللہ……الیٰ یوم القیامتہ (۳: ۵۵) جب اللہ تعالیٰ  نے فرمایا اے عیسیٰ ؑ بیشک میں تم کو وفات دینے والا ہوں اور تم کو اپنی طرف اٹھانے والا ہو ں اور جنھوں نے تمہارا انکار کیا ہے ان سے تم کو پاک کرنے والا ہوں اور تمہاری پیروی کرنے والوں کو قیامت تک ان پر بالادست رکھوں گا جنھوں نے تمہارا انکار کیا ہے، اس ربانی تعلیم میں کئی تاویلی اشارے موجود ہیں، چنانچہ یہاں حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام

۱۰۹

کی جس وفات کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ آپؑ کی روحانی موت تھی، جو تمام کامل انسانوں پر جسمانی زندگی ہی میں واقع ہو جاتی ہے، اور اسی کے ساتھ ذاتی قیامت برپا ہو جاتی ہے، جس کا بارہا ذکر ہو چکا ہے، اس دوران شخصِ کامل کی صورتِ روح بلکہ صورِ ورح کو اللہ تعالیٰ  کی طرف اٹھالیا جاتا ہے، رفیعِ روح کا یہ معجزۂ متواتر جو حضرت عزرائیل علیہ السلام دکھاتا ہے بڑا حیرت انگیز ہے، اسی کے ساتھ ساتھ انسانِ کامل کی تطہیر بھی ہو جاتی ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے عالمِ شخصی میں منکرین کے جتنے ذراتِ روح ہیں وہ ایک طر ح سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

        سورۂ بقرہ (۲: ۱۷۴ ) اور سورۂ آلِ عمران ( ۳: ۷۷ ) کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن بعض لوگ اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے کلامِخداوندی کی سماعت اور وجہ اللہ کی رویت سے محروم ہو جائیں گے، جس کی وجہ سے ا ن کی کوئی پاکیزگی نہ ہو گی، اس کے برعکس کچھ دوسرے لوگوں کو کلامِ کچھ دوسرے لوگوں کو کلامِ پاک اور دیدارِ اقدس کی سعادت حاصل ہو گی، جس کی بدولت وہ بدرجۂ کمال پاک وپاکیزہ ہوں گے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نہ صرف کلمۂ باری علم وحکمت کا سب سے بلند ترین سر چشمہ ہے، بلکہ رویت میں بھی سب سے بڑا اشاراتی خزانہ پوشیدہ ہے، پس عقل کا انتہائی تزکیہ اسی مقام پر ہو جاتا ہے۔

       اس مادی دنیا میں ظاہری صفائی اور پاکیزگی کے کئی ذرائع ہیں، اور پانی اس مقصد کے لئے خاص ہے، کہ اس میں چیزیں دھو لیا کرتے

۱۱۰

ہیں، اور پانی خود بھی فطری طور پر بہت سی چیزوں کو دھو لیتا ہے، بالفاظِ دیگر اس میں کئی صاف وناصاف اشیاء حل ہو جاتی ہیں، مگر آخر کار آپ دیکھتے ہیں کہ سمندر اپنے وجود کی صفائی وپاکیزگی کے لئے نور (سورج) سے رجوع کرتا ہے، اور نور یعنی آفتابِ جہاں تاب ہی ہے، کہ وہ صرف آفاقی دولاب (رہٹ) کوچلاتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پانی کو لطافت، جدت، اور پاکیزگی بھی بخشتا ہے، پس یہ نور علم وحکمت کی ایک روشن مثال ہے کہ وہی عقلی وعلمی پاکیزگی کا سب سے آخری اور سب سے اعلیٰ وسیلہ ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

۱۳۔ فروری ۱۹۸۵ء

۱۱۱

تطہیر وتزکیہ

 (۲)

آپ جانتے ہیں”تطہیر وتزکیہ”کے موضوع کی ان دونوں قسطو ں میں طہارت وزکات کے باطنی پہلو پر روشنی ڈالنا مقصود ہے، اس موضوع کی بہت بڑی اہمیت اس لئے ہے کہ طہارت وزکاتِ اسلام کے سات ارکان میں سے ہیں، چنانچہ قانونِ قرآن کے مطابق روحی اور عقلی صفائی و پاکیزگی اتنی ضروری اور لازمی ہے کہ اس کے بغیر کوئی کامیابی نہیں، جیساکہ خداوندِ عالم کا فرمان ہے: ۔

        قد افلح من زکھا۔ قد خابمن دسھا (۹۱: ۹ تا ۱۰) یقینا وہ مراد کو پہنچا جس نے اس (جان) کو پاک کر لیا اور نامراد  ہوا جس نے اس کو (نافرمانی میں) گاڑ دیا۔ یہ سورۂ شمس (۹۱) کا ارشاد ہے، جس کا خاص موضوع نفس یعنی روح ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ  نے اس حکمت آگین سودے کی سات ابتدائی آیات میں الگ الگ گیارہ عالی مرتبت چیزوں کی قسم کھائی ہے، اور اسی حکیمانہ طریق پر اصل موضوع کی طرف مکمل توجہ دلانے کے بعد یہ ذکر فرمایا گیا ہے کہ روح کو کیا کیا صلاحتیں دی گئی ہیں،

۱۱۲

پھر بڑی شدت کے ساتھ انسان کو احساس دلایا گیا ہے کہ وہ خود اپنی روح کی پاکیزگی کا ذمہ دار ہے، اور یہ ذمہ داری اس معنیٰ میں ہے کہ وہ وسیلۂ تطہیر وتزکیہ سے رجوع کرے۔

           مذکورہ سورۂ مبارکہ میں پروردگارِ پاک نے سورج، چاند، وغیرہ کی تاویلی حکمت میں جن بلند درجات کی قسم کھائی ہے، ان میں سے ایک درجہ روح بھی ہے، جس سے حقیقی روح کی عظمت وبزرگی کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے، کیونکہ ربِ کریم بحقیقت عام چیزوں کی قسم نہیں کھاتا، پس یہ خدائے علیم وحکیم کی جانب سے لوگوں کے لئے پر زور اشارہ ہے، تاکہ وہ اپنی رو ح کی قدرومنزلت کو سمجھتے ہوئے اس کو پاک وپاکیزہ کر لیں۔

         اگر رات کے و قت آسمان پر بادل چھائے ہوئے نہیں ہیں، تو ایک دوسرے سے الگ الگ اور دور واقع ہونے کے باوجود تمام ستاروں کی روشنی ایک ہو کر زمین کی طرف آتی ہے، اسی طرح ہر قرآنی موضوع سے متعلق آیات اگرچہ یکجا نہیں، بلکہ قرآنِ حکیم میں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن اہلِ بصیرت کے نزدیک متعلقہ آیتوں کی حکمتیں مرکوز ہو جاتی ہیں، کیونکہ قرآنِ پاک دراصل سماوی نظام کے عین مطابق ہے۔

  اللہ تعالیٰ  کے حکم سے سرچشمہ ٔ نور نہ صرف ذاتی طور پر پاک و پاکیزہ کہلاتا ہے، بلکہ دوسروں کے لئے بھی یہی تطیہر وتزکیہ کا ذریعہ اور وسیلہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ کسی مومن کو اس حقیقت میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پیدائشی طور پر نور اور

۱۱۳

مقدس تھے، اور اسی طرح آپؐ کا خاندانِ عالی مرتبت بھی، یعنی حضرت مولا علیؑ، حضرت فاطمہ ء زہرا ؑ، حضرت حسن مجیبیٰؑ، حضرت حسین سید الشہد اء، اور سلسلۂ نور کا ہر امامؑ۔

     خدا تعالیٰ  کے برگزیدہ بندے کس طرح پیدائشی پاک ہوا کرتے ہیں، اس کے لئے بہت سے دلائل موجو دہیں، مگر یہاں صرف دو قرآنی شہادتوں سے کام لینا کافی ہو گا، چنانچہ اس حقیقت کی پہلی گواہی یہ ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے رب کریم کی بارگاہ سے ایک پاک ذریت (اولاد) کے لئے دعا کی، حالانکہ لفظِ “ذریت”انسان کا ایک ایسا نام ہے کہ اس کا اطلاق آدمی پر سلسلۂ تخلیق کی ہرکڑی میں ہوتا ہے، پس پیغمبر موصوف کی اس طلب کے یہ معنی ہوئے کہ انھوں نے ایک ایسا فرزند چاہا، جو نہ صرف پشتِ پدر اور شکمِ مادر میں پاک ہو، بلکہ قبل ازیں بھی معصوم و پاکیزہ رہ چکا ہو، وہ دعا یہ ہے: قال رب ھب لی من لدنک ذریتہ طیبتہ (۳: ۳۸) اس جگہ حضرت زکریا نے دعا کی اور) کہاکہ اے میرے پروردگار مجھے اپنے حضور سے ایک پا ک ذریت (اولاد) عنایت کر دے۔ چنانچہ خداوند عالم نے حضرت زکریاؑ کو ایک معصو م وپاک فرزند عطا کر دیا، جس کا پیارا نام یحییٰؑ تھا۔

          دوسری شہادت یہ ہے کہ روح القدس نے ایک کامل ومکمل انسان کی شکل اختیار کر کے حضرت مریمؑ سے کہا: قال انما انا رسول ربک لا ھب لک غلما زکیا (۱۹: ۱۹) اس نے

۱۱۴

کہا کہ میں تمہارے رب کا بھیجا ہوا (فرشتہ) ہو ں تاکہ تم کو ایک پاکیزہ لڑکا دوں۔ اس قرآنی ارشاد سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ صرف پیدائش کے وقت ہی معصوم تھے، بلکہ اس سے پہلے بھی ہر طرح سے پاک وپاکیزہ تھے، کیونکہ آپؑ کو نورِ خدا کا درجہ حاصل تھا (۶۱: ۶ تا ۸) پس اس مثال سے یہ دعویٰ حق بجانب ہو گیا کہ پیغمبرِ اکرمؐ اور امامِ عالیمقامؑ پیدائشی طور پر معصوم وپاک ہوا کرتے ہیں، کیونکہ نورِ نبوت اور نورِ امامت ہمیشہ سے پاک وپاکیزہ ہوتا ہے۔

سوال: آیۂ تطہیر سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ  نے اہلِ بیت یعنی حضرت محمد، حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن، اور حضرت حسین صلوات اللہ علیھم کو زمانۂ نبوت کے کسی سا ل میں بدرجۂ کمال پاک و پاکیزہ کیا (۳۳: ۲۳) اس سے پہلے نہیں، پھر کوئی کس طرح قبول کرے گا کہ وہ حضرات فطری طور پر پاک تھے؟

جواب: اس سلسلے میں سب سے بنیادی اور عمدہ بات یہ ہے کہ ہم حضرت خاتم الانبیاءؐ سے قبل کے انبیائے قرآن کو آنحضرتؐ کی گونا گون صفات کے آئینے مانیں، چنانچہ جب ہم حضورِ انورؐاور آپ ؐ کے اہلِ بیت کو آئینۂ عیسیٰؑ میں دیکھتے ہیں تو شروع ہی سے معصوم و پاک نظر آتے ہیں، ہم ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ بموجبِ قرآن (۳۳: ۳۳) اھل بیت پاکیزگی میں ایک ساتھ ہیں، اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی عالمگیر صفات نہ صرف آپؐ

۱۱۵

کے ظاہری تذکرے میں ہیں، بلکہ دوسرے پیغمبروں کی اعلیٰ مثالوں میں بھی ہیں، اب آئیے ہم اس پر حکمت قانون کے مطابق اہلِ بیتِ عظام کی تطہیر کو حضرت عیسیٰؑ کی پاکیزگی سے متعلق آیۂ مبارکہ (۳: ۵۵) کی تاویلی حکمت پڑھی ہو گی کہ اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ عالمِ شخصی میں اہلِ انکار کے جتنے ذرات روح داخل ہوئے تھے، وہ سب کے سب ہلاک کئے گئے، اور یہ واقعہ اس وقت رونما ہو جاتا ہے، جبکہ انسانِ کامل منزلِ عزرائیلی کے عظیم الشان عجائب وغرائب سے گزرنے لگتا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑاور حضرات اہلِ بیتؑ کی تطہیر ان کی ذواتِ عالی صفات کی کسی کدورت کی وجہ سے نہیں، بلکہ منکرین کے ذراتِ ارواح کے سبب سے ضروری تھی، کیونکہ انبیاء اولیاء خانۂ خدا کا درجہ رکھتے ہیں، لہٰذا اگرا س میں مشرکین داخل ہوگئے توا نھیں نکال دینا ہے، کیونکہ وہ اعتقادی طور پر نجس ہیں (۹: ۲۸) اس قرآنی دلیل سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ اہلِ بیت کرامؑ خدا کے برگزیدہ بندے ہونے کی بنا پر پیدائشی پاک و پاکیزہ تھے۔

        جس نورِ ازل (۹: ۴۶) کو خدائے پاک وبرتر کی جانب سے یہ حکم ملا ہو کہ وہ اہلِ ایمان کی تطہیر وتزکیہ کرے (۹: ۱۰۳) اس کو اس سے پہلے مطھراور مزکی (یعنی لوگوں کو ظاہر وباطن میں پاک وپاکیزہ کر دینے والا) بنایا گیا ہے، اور یہ فعل دراصل علم وحکمت کی صورت میں ہے، چنانچہ

۱۱۶

اللہ تعالیٰ  نے نورِ امامت کو نورِ نبوت کا جانشین مقرر فرمایا، تاکہ وہ لوگو ں کو نور (یعنی حقیقی علم) کے پانی میں نہلا کر صاف وپاک کرتا رہے، اور یہ سلسلہ کبھی منطقع نہ ہو جائے، اور ایسے بہت سے اعلیٰ معنوں میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کا نور ہمیشہ ضوفشانی کرتا رہے گا (۹: ۳۲، ۶۱: ۸، ۵۷: ۲۸) اور اس کو کوئی نہیں بجھا سکتا۔

        آپ یہ پر حکمت اصول ضرور یاد رکھیں کہ علم کی ضد جہل (جہالت= نادانی) ہے، لہٰذا قرآنِ حکیم میں براہِ راست بھی اور گونا گوں مثالوں میں بھی جس کثرت سے علم کا ذکر آیا ہے، اسی طرح اور اتنا زیادہ جہالت کا بھی ذکر ہوا ہے، چنانچہ اگر علم نور ہے تو اس کے مقابلے میں جہالت ظلمت کہلائے گی، خواہ یہ مقابلہ لفظی طور پر ہو یا تصوراتی کیفیت میں، اگر علم کا نام یقین رکھنا ہے تو جہل کو شک قرار دینا پڑے گا، اگر اس کو بہشت کہنا ہے توا س کو دوزخ کہنا ہو گا، اگر علم کو ہدایت کے اسم سے موسوم کیا گیا تو اس وقت جہالت کو ضلالت (گمراہی) کا نام دینا ہو گا، اگر شفاء سے علم مراد ہے تو بیمار ی کی تاویل جہالت ہو گی، اگر سننے، بولنے، اور دیکھنے کا اشارہ علم کی طرف ہے تو صم، بکم، عمی (یعنی بہرے، گونگے، اور اندگے ہیں) میں جاہلوں کی مذمت ہو گی، اور اگر علم سے عقل وجان کی صفائی وپاکیزگی ہوتی ہے توا س کے برعکس جہالت سے نجاست وغلاظت ہو گی۔

         سورۂ رعد (۱۳: ۲۹) میں درختِ طوبیٰ کا ذکر ہے اور سورۂ

۱۱۷

ابراہیم (۱۴: ۲۴) میں شجرۂ طیبہ کا، اور دونوں کے معنی ہیں پاک درخت، یہ نور امامت کی مثالوں میں سے ہے، کہ امامِ زمانؑ دنیا وعقبیٰ میں وہ پاک و پاکیزہ علمی درخٹ ہے، جس کے ثمرۂ طیبہ کھانے سے مومنین کی پاکیزگی ہو جاتی ہے، یعنی امامِ اقدس و اطہرؑ کی تعلیمات و ہدایات کی بدولت غیروں کی باتیں مومن کے دل ودماغ سے دھل جاتی ہیں، تاہم تطہیر وتزکیہ کا سلسلہ اتنا طویل ہے، جتنا کہ تعلیم وتربیت کا سلسلہ ہے، کیونکہ طفلِ مکتب کی طرح بتدریج آگے بڑھنے کے لئے لوحِ ضمیر کی تحریر کو دھو کر از سرِ نو لکھنے کا عمل ہر وقت جاری رہتا ہے۔

                 سورۂ فرقان (۲۵: ۴۸) میں اس پانی کو “طہور”یعنی بہت پاک قرار دیا گیا ہے، جو آسمان سے برستاہے، اس سے رسولِ خداؐکا وہ علم مراد ہے، جو آنحضرتؐکے باب (دروازہ) یعنی امامِ برحق ؑ سے ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ آسمانِ رسالت سے جو علم کی بارش برسی تھی، اس کے تمامتر ذخائر کوہِ امامت میں بن گئے ہیں، جس طرح دنیا کا پہاڑ مادی قسم کی برف وبارش کو اپنے ظاہر وباطن میں نہ صرف جمع کر لیتا ہے، بلکہ اس کو اصلی حالت میں پاک و پاکیزہ محفوظ بھی رکھتا ہے، سو جو لوگ اس مبارک اور عالی شان پہاڑ سے متصل آباد ہیں، ان کو دینی علم کا یہ پانی جو بہت پا ک ہے ہمیشہ مہیا ہوتا ہے، جس سے ان کی عقل و جان کی پاکیزگی ہوتی رہتی ہے، جیسے سورۂ دہر (۷۶: ۲۱) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ  اہلِ جنت کو شرابِ طہور یعنی ایک بہت پاک پینے کی چیز پلائے

۱۱۸

گا، پس یہ وہی حقیقی علم ہے، جس کا ذکر ہوا۔

    تطھیر و تزکیہ کے بہت سے مقاصد ہیں، اور ان میں بلند ترین مقصد یہ ہے کہ مومنین کو اسرارِ معرفت تک رسائی ہو، جبکہ معرفت کے بھیدوں قرآنِ حکیم کی تاویل میں پوشیدہ ہیں، اور قرآنی تاویل امامِ زمانؑ کے مرتبۂ باطن (نور) میں ہے، جس کا ایک نام “کتابِ مکنون”ہے، جس کو کوئی شخص دستِ عقل سے چھو نہیں سکتا، مگر صرف ایسے لوگ جو عقلی اور علمی حیثیت میں پاک کئے گئے ہیں (۵۶: ۷۷۔ ۷۹) چنانچہ اسلام میں جتنی عبادات ومعاملات ہیں، وہ سب اسی آخری مقصد کے پیشِ نظر ہیں، کہ معرفتِ توحید کے نتیجے میں مومنوں کو گنجِ مخفی حاصل ہو۔

       سورۂ فاطر میں ارشاد ہے: پاکیزہ باتیں اسی کی طرف چڑھتی ہیں اور نیک عمل ان کو اٹھاتا ہے (۳۵: ۱۰) اس پر حکمت آیت کا اشارہ یہ ہے کہ جب امامِ برحقؑ کی طرف سے مومنین ومومنات کی عقل وجان اور اقوال واعمال کی تطہیر مکمل ہو، تو اس وقت ان کی رسائی عالمِ علوی سے ہوگی، جس کے لازوال خزانوں کو دیکھ کر ان کو بیحد مسرت وشادمانی حاصل ہو گی۔

       سورۂ نحل کے ایک پر حکمت ارشاد (۱۶: ۳۲) کو دیکھئے، جس کے خاص وعام دوپہلو ہیں، چنانچہ یہاں اس کے خاص پہلو کے مطابق بات کی جاتی ہے، وہ یہ کہ کامل انسان پاک وپایکزہ ہوا کرتے ہیں، لہٰذا ان کی روحانی ترقی کسی رکاوٹ کے بغیر آگے بڑھتی ہے، اور اس سلسلے میں ان کی انفرادی

۱۱۹

قیامت (جس میں ایک اجتماعی قیامت بھی پوشیدہ ہے) برپا ہو جاتی ہے، اس وقت فرشتے آ کر ان کی روح کو قبض کر لیتے ہیں، درحالی کہ وہ زندہ ہوتے ہیں، فرشتے ان سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہے، اب تم اپنی نیکو کاری کی بدولت بہشتِ روحانیت میں داخل ہو جاؤ۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۰۔ فروری ۱۹۸۵

۱۲۰

خانۂ خدا۔ خانۂ جماعت

 (پہلی قسط)

اسلام اپنی روح میں کامل ومکمل دین ہے، اس میں رشد وہدایت اور علم وحکمت کی فراوانی ہے، اس کا ہر قول وعمل اور ہر چیز ظاہراً وباطناًعقلی اور روحانی خوبیوں سے مالا مال اور یقین ومعرفت کے اشارات سے بھر پور ہے، چنانچہ آج ہم یہا ں عنوانِ بالا (خانۂ خدا۔ خانۂ جماعت) سے بحث کرتے ہیں، اور یہ معلوم کر لینا چاہئے کہ آیا ذاتِ سبحان بحقیقت کسی گھر کے لئے محتاج ہے یا اس کی حاجت وضرورت دراصل اہلِ ایمان کو ہے؟ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ  جو کون ومکان کا خالق ومالک ہے، وہ مکان ولامکان سے بے نیاز وبرتر ہے، سوا س حال میں یہ سوال ہو گا کہ اگرخانۂ خدا کا یہ تعین لوگوں کی دینی ضرورت کے پیشِ نظر ہے تو پھر بتائیے کہ اس سے ان کو کیا کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں؟ اور اس میں کیا کیا اسرار پنہاں ہیں؟ اس کا مفصل جواب ذیل میں درج ہے: ۔

۱۔ جاوجہت یا مکان وزمان کے اعتبار سے خدا کا تصور تین

۱۲۱

درجوں پر مبنی ہے، اول یہ گویا خداوند تعالیٰ  ایک خاص گھر میں جلوہ نما ہے، جس طرح بیت اللہ کا تصور ہے (۲۲: ۲۶) دوسرا یہ کہ وہ ہر جگہ موجود ہے (۲: ۱۱۵) اور تیسرا یہ ہے کہ وہ مکان ولا مکان سے بے نیاز وبرتر ہے، کیونکہ وہ سبحان، قدوس، اور صمد ہے، اور یہ حقیقت مسلمہ اور نا قابلِ تردید ہے، چونکہ اسلامی تعلیمات وہدایات تدریجی صورت میں ہیں، لہٰذا یہ امر ضروری قرار پا یا کہ ہر فرد مسلم سب سے پہلے خانۂ خدا کے عقیدۂ راسخ کو اپنائے، اور اس سے وابستہ ہو جائے، تاکہ اس کو یہیں سے اللہ تبارک وتعالیٰ  کی وحدانیت کی معرفت حاصل ہو، اور اگر کوئی شخص اس بنیادی تصور کی حکمت کو نہیں سمجھتا، اور اسے نظر انداز کرتا ہے، تو وہ دوسرے اور تیسرے تصور کے خزانوں کو براہِ راست حاصل نہیں کر سکتا، کیونکہ خدائی قانون کے خلاف چلنا باعثِ نامرادی ہے۔

       ۲۔ اسلام میں جس طرح عرشِ عظیم کا تصور ہے، وہ بھی دینِ حق کی جملہ حکمتوں کا مرکز ہے، اس سے نہ صرف خدا کے گھر کی عظمت و بزرگی کا ثبوت مل جاتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس بہت بڑی فضیلت کا یقین بھی ہو جاتا ہے کہ جو مومنین زمین پر خانۂ خدا کی آبادی وترقی کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں، وہ عالمِ بالا کے ان پاکیزہ فرشتو ں کی طرح ہیں، جو عرشِ الٰہی سے متعلق ہیں یا اس کے گردا گردطواف کرتے ہیں، اس بیان سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ جس طرح خانۂ خدا کی نزدیکی

۱۲۲

اور شناخت سے انسانوں کوفائدہ ہے، اسی طرح عرشِ اعلیٰ کی قربت ومعرفت سے فرشتوں کو فضیلت حاصل ہوتی ہے، مگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ  ہر شی سے بے نیاز وبرتر ہے۔

۳۔ خدائے واحد کی ذاتِ پاک ومنزہ اس وقت بھی تھی، جبکہ خانۂ کعبہ نہ تھا، اور بیت اللہ کی تعمیر اس وقت ہوئی، جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کے سیارۂ زمین پر اترنے کا وقت آیا، چنانچہ خداوندِ عالم کے امر سے فرشتوں نے خانۂ خدا کی تعمیر کی، تاکہ آدمؑ واولاد آدمؑ اس سے رجوی کر کے روحانی فائدے حاصل کریں، اس سے معلوم ہوا کہ دین کی اصل واساس خانۂ خدا ہے، اور یہی خدا کا گھر خانۂ جماعت بھی ہے، جس کی اردو عبارت “جماعت خانہ”ہے “خدا کا گھر”کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں انوار واسرارِ خدا وندی کاظہور اور فیوض وبرکات کا نزول ہوتا رہتا ہے، تاکہ مومنین ہمیشہ خدا کے اس گھر میں جا کر مستفیض ہوتے رہیں اور روزبروز علم وعمل میں ترقی کرتے جائیں۔

۴۔ خانۂ کعبہ جس میں عظیم تاویلی حکمتیں پوشیدہ ہیں اپنی جگہ بیحد ضروری ہے تاکہ جملہ مسلمانانِ عالم اس کی ظاہری وباطنی حکمتوں کو سمجھتے ہوئے باہمی اتفاق و یکجہتی کی دولت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں، اور زمانۂ نبوت کے مسلمانوں کی طرح سب کے سب سلکِ وحدتِ ملی سے منسلک ہی رہیں، اس کے ساھ ساتھ یہ امر بھی ضروری تھا کہ ذیلی طور پر ہر مسلم قریہ میں خدا کا ایک گھر بنایا جائے، کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں

۱۲۳

کہ دور دراز ممالک کے مسلمین روزانہ عبادت کے لئے خانۂ کعبہ میں پہنچ جائیں چنانچہ سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد کے نام سے خدا تعالیٰ  کا مقامی گھر بھی بنا دیا، یہ صرف ایک چار دیواری تھی، جس میں تین طرف دروازے تھے…. آنحضرت کے بعد جتنی نئی مسجدیں تعمیر ہوئیں سب کا بنیادی ڈھانچہ یہی رہا، رفتہ رفتہ مسجد کی تعمیر مسلمانوں میں ایک فن بن گئی، اس طرح ایک خاص طرزِ تعمیر کا ارتقاء ہوا………. (فیروز سنز۔ اردو انسائکلو پیڈیا)

۵۔ قبلۂ اسلا م کے کئی نام ہیں، جیسے کعبہ، جس کے لفظی معنی ہیں چار گوشہ مکان (۵: ۹۵) البیت (گھر۲: ۱۲۵) البیت العتیق (قدیم گھر۲۲: ۲۹) بیت اللہ (خدا کا گھر۲: ۱۲۵) بیت وضع للناس (وہ گھر جو لوگوں کے واسطے مقرر کیا گیا ۳: ۹۶) البیت الحرام (حڑمت والا گھر۵: ۲) المسجد الحرام (حرمت والی مسجد ۱: ۱۴۴) وغیرہ۔

          خانۂ خدا کے مذکوۂ اسماء میں کسی ابہام کے بغیر یہ جو از موجود ہے کہ جس طرح مسلمانوں کی عبادت گاہ کا نام مسجد درست ہے، اسی طرح اس کا نام”جماعت خانہ” بھی درست ہے، یعنی جماعت کا مذہبی گھر، کیونکہ اللہ کا گھر لوگوں کا دینی گھر ہوا کرتا ہے، جبکہ بیت اللہ لوگوں کے لئے مقرر ہے (۳: ۹۶) جب ہم تاریخی تحقیق (ریسرچ) کی روشنی میں زمانۂ نبوت کو دیکھتے ہیں، تو اس میں با عتبارِ شکل مسجد اور جماعت خانہ ایک ہی چار دیواری نظر آتی ہے، چنانچہ میرے نزدیک مسجدِ رسولؐ

۱۲۴

خدا کا مقامی گھر اور حال ومستقبل کا جماعت خانہ تھی، جس کو اللہ تعالیٰ  پاک کے مرکزی گھر کی نمائندگی حاصل تھی۔

۶- مسجد کے معنی ہیں جائے سجدہ (سجدہ کرنے کی جگہ) عبادت خانہ، نیز اس کے معنی ہیں عبادت، اور اس کی تاویل ہے اسمِ اعظم، اسا سؑ، اور امامِ زمانؑ، کیونکہ رب العالمین کا حقیقی اسمِ اعظم اور عقل وجان والا گھر ہادیٔ زمان ہوا کرتا ہے، جیسا کہ کتابِ دعایم الاسلام جلد اول (عربی) کتابِ حج کے سلسلے میں صفحہ ۲۹۲ پر ذکر ہے کہ فرشتوں نے خانۂ خدا کی تعمیر کی، اس کے یہ معنی ہیں کہ ملائکہ نے انسان کامل کے عالمِ شخصی میں بیت اللہ کی روحانی تعمیر کی، کیونکہ فرشتوں کا اصل کام روحانی قسم کا ہوتا ہے، اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ فرشتوں نے واقعی کعبۂ ظاہر کو بنایا تھا، تو اس کی تاویلی حکمت یہ ہو گی کہ مومنین نے جو جسمانی فرشتے ہیں عالمِ جسمانی میں ایک جماعتخانہ بنایا، اور”جیسا عمل ویسا بہترین  ثواب”کے قانون کے مطابق ان کے ہاتھ سے روحانیت میں کعبۂ جان کی تعمیر کروائی گئی۔

۷۔ حضرت ابراہیمؑ نے بیت اللہ کی تعمیرِ نواسی مقام پر کیا، جہاں یہ طوفانِ نوحؑ سے پہلے تھا، اس جگہ کی نشاندہی ایک ایسی ہوا نے کی جو حضرت ابراہیمؑ کی تسکین کے لئے خداوندِ تعالیٰ  نے بھیجی تھی جس کا نام سکینہ تھا، اس ہوا کے دوسر تھے، جوا یک دوسرے کے پیچھے گھومتے تھے، جس کی تاویل ذکر خدا اور اس کی روحانیت ہے، اس سے یہ

۱۲۵

حقیقت نمایاں ہو جاتی ہے کہ اللہ کے خانۂ ظاہر کے تاویلی پسِ منظر میں خانۂ نورانیت کا تذکرہ موجود ہے، کیونکہ ہر ظاہر کا ایک باطن ہوا کرتا ہے، جیسا کہ باری تعالیٰ  کا ارشاد ہے: واسبغ علیکم نعمت، ظاھرتہ وباطنتہ (۳۱: ۲۰) اورا س نے تم پر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی پوری کر رکھی ہیں۔

۸۔ اللہ تعالیٰ  پاک فرمان ہے: واذ جعلنا البیت مثابتہ للناس وامنا۔ واتخذوامن مقام ابراہیم مصلی (۲: ۱۲۵) اورجس وقت ہم نے خانۂ کعبہ کو لوگو ں کیلئے جائے ثواب اور مقامِ امن مقرر کر رکھا اور مقامِ ابراہیمؑ کو جائے نماز بنا لیا کرو۔

         اس آیۂ کریمہ کی پہلی تاویل: جس  طرح خُدا  کے حکم سے خانۂ کعبہ ظاہر میں ثواب او ر امن کی جگہ ہے، اسی طرح امامِ زمان صلوات اللہ علیہ باطن میں بیت اللہ  کی حیثیت سے ہر قسم کے ثواب کا وسیلہ اور ہر طرح کے امن کا ذریعہ ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ امامِ برحق ؑ قبلۂ باطن ہیں، جس کی طرف قلبی توجہ ہر نیک کام میں لازمی ہے، اور طریقِ ثواب یہی ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ ثواب کا ذکر پہلے ہے اور امن کا

۱۲۶

ذکر بعد میں، اس کی حکمت یہ ہے کہ پہلے مومنین امام اقدس و اطہرؑ کی اطاعت و فرمانبرداری سے ثواب و نیکی کے مراحل طے کر لیتے ہیں، پھر نتیجے کے طور پر امامِ عالیمقامؑ کی روحانیت و نورانیت میں داخل ہو جاتے ہیں، اور یہی اللہ تبارک و تعالیٰ  کا خانۂ باطن ہے، جس میں امن ہی امن ہے، یعنی کوئی خوف وخطر نہیں۔

         جس طرح ظاہر میں مقامِ ابراہیمؑ خانۂ کعبہ کی ایک ایسی  جگہ ہے، جہاں ایک پتھر تھا، اسی طرح خانۂ باطن یعنی امامِ مبینؑ کی  نورانیت میں ایک عقلی گوہر ہے، اُس تک رسائی حاصل کر کے نماز کی حکمتوں کو حاصل کر لینے  کے لئے فرمایا گیا ہے۔

         دوسری تاویل: جس طرح خانۂ کعبہ اللہ کا مرکزی گھر ہے، اسی طرح جماعت خانہ خدا کا مقامی گھر ہے، یا یوں کہا جائے کہ جیسے بیت اللہ شریف مقامِ شریعت پر ہے، ویسے  مقدس جماعت خانۂ مقامِ حقیقت پر ہے، لہٰذا مذکورہ آیۂ کریمہ میں جو فضائل بیان ہوئے ہیں، وہ خدا کے اس گھر کے بارے میں بھی ہیں، جو جماعت خانہ کے نام سے مشہور ہے، چنانچہ عقیدۂ اسماعیلیت اور قرآنی حکمت کے مطابق جماعت خانہ جائے ثواب اور مقامِ امن ہے، ا سکے کئی معنی یہ ہیں کہ دین کے کُل اوامرونواہی کا جملہ ثواب جماعتخانہ میں مرکوز ہے، اور روحانی امن وسکون بھی اسی میں ہے، کیونکہ جماعت کے اس خانۂ دین کو دُہری فضیلتیں حاصل ہیں کہ یہ اگر ایک جانب سے خانۂ کعبہ کا نمائندہ ہے، تو دوسری جانب

۱۲۷

سے امام برحقؑ کی مثال ہے، جبکہ امامؑ نے بمنشائے الٰہی شخصیت اور ظاہری و باطنی قربت کی جگہ جماعت خانہ دیا ہے، پس مرحلۂ اوّل میں جماعت خانہ کے لئے یہی مقامِ ابراہیم ہے۔

         ۹۔ سورۂ آل عمران (۳: ۹۶) میں ربِ عزت کا فرمان ہے: ان اول بیت وضیع للناس للذی ببکتہ مبرکا وھدی للعلمین (۳: ۹۶) یقیناً وہ مکان جو سب سے پہلے لوگوں کے واسطے مقرر کیا گیا وہ مکان جو کہ مکہ میں ہے، جس کی حالت یہ ہے کہ و ہ برکت والا ہے اور جہان بھر کے لوگوں کے لئے رہنما ہے۔ اس آیۂ مبارکہ میں کئی حکیمانہ اشارات ہیں، منجملہ ایک اشارہ یہ ہے ’’اول‘‘ اعداد ترتیبی (ORDINALS) کی بنیاد ہے، او اس کا تقاضا ہمیشہ یہ ہوا کرتا ہے کہ اول (پہلا) کے بعد دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں وغیرہ بھی ہو، اس کا مفہوم یہ ہوا کہ اگرچہ لوگوں کا اولین اور مرکزی گھر مکہ میں ہے، تاہم زمانۂ نبوت اور دورِ امامت میں ذیلی اور مقامی طور پر بہت سے گھر (جماعتخانے) ہوں گے۔

         دوسرا اشارہ یہ ہے کہ جس طرح لوگوں کے واسطے اولین دینی گھر مکہ میں مقرر ہوا، اسی طرح امامِ اول (مولا علیؑ) بھی مکہ میں مقرر ہوئے، جو لوگوں کے لئے روحانیت و نورانیت کا گھر ہیں، جس میں اُن لوگوں کے لئے برکات و ہدایات ہیں، جو عالمِ شخصی بن جاتے ہیں۔

         تیسرا اشارہ یہ ہے کہ ’’بکتہ‘‘ کا ایک اشاراتی قرأت گریہ وزاری کے معنی میں بھی ہے، سو اس کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کے لئے اولین

۱۲۸

روحانیت کا گھر عشقِ مولا کے تابناک آنسوؤں سے بنایا جاتا ہے، جو اہلِ دل کے لئے برکتوں اور ہدایتوں سے بھرپور ہے۔

         چوتھا اشارہ یہ ہے کہ خانۂ کعبہ، امامؑ، اور جماعت خانہ اگر ایک طرف سے خدا کے گھر ہیں تو دوسری طرف سے لوگوں کے گھر ہیں، کیونکہ ان پاک گھروں میں جو برکتیں اور ہدایتیں ہیں، وہ لوگوں کے لئے ہیں، اور ان کا خدا تعالیٰ  سے منسوب ہو جانا خصوصی ملکیت کی وجہ سے ہے۔

         ۱۰۔ سورۂ نور میں فرمایا گیا ہے: فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھا اسمہ یسبح لہ فیھا بالغدوالاصال (۲۴: ۳۶) (وہ نور) ایسے گھروں میں روشن ہے جن کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے جن میں صبح و شام وہ لوگ اس کی تسبیح کیاکرتے ہیں، ان گھروں سے حضراتِ آئمّۂ طاہرین صلوات اللہ علیھم مراد ہیں، نیز یہ گھر جماعتخانے ہیں، جن میں نورِ خداوندی کا چراغ روشن ہوتا ہے، جس کا مشاہدہ اور عرفان یقینی ہے۔

         ۱۱۔ خانۂ کعبہ ظاہری علامت، مثال اور نمونہ ہے اُن آیاتِ کریمہ کا، جن کی تاویلی حکمت کا تعلق خدا تعالیٰ  کے زندہ گھر یعنی امام علیہ السلام سے ہے، اور امامِ عالیمقام ؑ کی معرفت جو نہایت ہی ضروری ہے، وہ کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی، مگر اطاعت سے، اور اطاعت وفرمانبرداری کا مرکز جماعت خانہ ہے، کیونکہ یہ جائے ثواب اور مقامِ امن ہے۔

         جس طرح ہر چیز کی روح ہوا کرتی ہے، اسی طرح جماعت خانہ

۱۲۹

کی ایک عظیم روح ہے، یہ امامِ زمانؑ کی روح یعنی نور ہے، جس میں جماعتی روح زندہ ہو جاتی ہے، پس اگر آپ باور کرتے ہیں کہ جماعت خانہ میں امامِ برحقؑ کا نور موجود ہے، تو یہ بھی جان لیں کہ یہی نور اللہ تعالیٰ  کا زندہ گھر ہے، جیسا کہ قرآن پاک کا ارشاد ہے: ۔ قد کانت لکم اسوتہ حسنہ فی ابراھیم والذین معہ (۶۰: ۴) تمہارے واسطے تو ابراہیمؑ اور ان کے ساتھیوں (کے قول وفعل) کا اچھا نمونہ موجود ہے۔ اس ربانی تعلیم سے یقینی طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ویسے تو ظاہر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بہت سے لوگ تھے، مگر جو حضرات باطن میں آپ کے ساتھ تھے، وہ آپؑ کی پیروی میں درجۂ انتہا پر پہنچ گئے تھے، اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کا اسوۂ حسنہ حضرت ابراہیمؑ کے اسوۂ حسنہ سے نہیں ملتا، اب پوچھنا یہ ہے کہ ایسے حضرات کون تھے یا کون ہے؟ آلِ ابراہیمؑ ہیں، یعنی انبییاء و أئمّہ علیھم السلام، جن کا ظہور جناب خلیل اللہؑ کے نزدیک بہت ہی ضروری تھا (۲: ۱۲۴) اور خدائے مہربان نے آل ابراہیم کو سب کچھ دے رکھا تھا (۴: ۵۴) چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے بحکمِ خدا حضرتِ ابراہیمؑ کی پیروی کرتے ہوئے نہ صرف خانۂ کعبہ کو قبلہ بنا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مقامی طورپر بھی خدا کا ایک گھر (مسجد) بنایا، اور پاک اماموں نے بھی اپنے اپنے وقت میں مسجد یا جماعخانہ کے نام سے اللہ کے ایسے گھروں کی تعمیر کی۔

۱۳۰

         ۱۲۔ سورۂ قصص (۲۸: ۵۷) میں فرمایا گیا ہے: کیا ہم نے ان کو امن و امان والے حرم میں جگہ نہیں دی جہاں ہر قسم کے پھل کھینچے چلے آتے ہیں، جو ہمارے پاس سے کھانے کو ملتے ہیں ولیکن سن میں اکثر لوگ نہیں جانتے (۲۸: ۵۷) اگر آپ غور کریں تو صاف طور پر معلوم ہو جائے گا کہ ثمرات کل شی یعنی تمام چیزو ں کے ظاہری میوے کہیں بھی خود بخود کھینچ کھینچ کر نہیں آسکتے، مگر یہ حقیقت ہے کہ پیغمبر اور امام صلوات اللہ علیھما جس جگہ کو عبادت کے لئے مقرر فرمائیں، وہاں کُل اشیاء کے روحانی میوے کھینچ کھینچ کر خودبخود آتے رہتے ہیں، اور یہی روحانی معجزات جماعتخانہ سے متعلق ہیں۔

         جب قرآنِ حکیم نے کہا کہ ثمرات کل شی (جملہ اشیاء کے میوے) تو اس خداوندی کلیہ کے مطابق جمادات، نباتات، حیوانات، اور انسان سب کے سب درخت قرار پائے، تاکہ ان میں سے ہر ایک کا پھل خانۂ خدا کی طرف آئے، مگر یہ صرف اور صرف روحانی صورت میں ممکن ہے، چنانچہ جماعت خانہ وہ مقام ہے، جہاں امامِ زمانؑ کی عظیم المرتبت روح (یعنی نور) کام کرتی ہے، جس کی طرف دنیا بھر کی چیزوں کی روحیں کھینچ کھینچ کر آتی ہیں، جیسا کہ امامِ مبین میں اشیائے کائنات جمع ہوتی ہیں (۳۶: ۱۲) پس حقیقی مومنین کے لئے جماعتخانہ سے متعلق یہ روشن دلائل کافی ہیں۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۱۰دسمبر ۱۹۸۴ء

۱۳۱

خانۂ خدا ۔ خانۂ جماعت

 (دوسری قسط)

۱۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ خانۂ جماعت ہے، اور نہ ہی اس بات میں کوئی شبہ ہے کہ جس طرح دین کا مرکزی گھر خانۂ کعبہ ہے، ا سی طرح مقامی گھر جماعتخانہ ہے، اور یہ نظام اللہ تعالیٰ  کی سنت اور قانونِ فطرت کے عین مطابق ہے، کہ ہمیشہ رحمتو ں اور برکتوں کا مقام ظاہراً وباطناً بندوں سے قریب تر کر دیا جاتا ہے، جیسے حضرتِ آدم علیہ السلام کے اس دنیامیں آنے کے ساتھ ساتھ آپؑ اور آپؑ کی اولادد کی خاطر یہاں خانۂ خدا کی تعمیر کی گئی، جو اس زمین پر عرشِ عظیم کا درجہ رکھتا ہے، کیونکہ خدا کے عرش (تخت) کا جو مفہوم ہے، وہی مفہوم خدا کے گھر کا بھی ہے، اور جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینۂ منورہ میں اللہ پاک کا ایک دوسرا گھر بنایا، جس کو ہم پہلی مسجد بھی کہہ سکتے ہیں، اور اولین جماعت خانہ بھی، کیونکہ فی الاصل ان دونوں کی شکل اور حقیقت ایک ہی ہے، بہر حال وہ خدا کے قدیم گھر کا قائمِ مقام تھا، اس کے

۱۳۲

یہ معنی ہوئے کہ خانۂ کعبہ کو عرشِ عظیم کی نمائندگی حاصل ہے، اور جماعت خانہ کو کعبۂ شریف کی نمائندگی۔

         ۲۔ آپ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ اسلام میں تقویٰ کی بہت اہمیت ہے، کیونکہ تقویٰ جملہ عبادات کی جان ہے، ا ور اس مقصد کے حصول کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، مگر شعائِر اللہ یعنی خدا کی نشانیوں کی شانِ رحمت دیکھئے کہ ان کی حُرمت و تعظیم سے قلبی تقویٰ کا عمل بن جاتا ہے (۲۲: ۳۲) امامِ زمان صلوات اللہ علیہ وسلامہ‘ جو قرآنِ ناطق ہیں، ان کی پاک و پاکیزہ شخصیت اور جماعت خانہ شعائِر اللہ میں سے ہیں، لہٰذا ان کی تعظیم کرنا قلبی تقویٰ کا تقویٰ کا نتیجہ بھی ہے اور درجہ بھی، کیونکہ ان میں سے ایک خدا کا باطنی گھر ہے اور دوسرا ظاہری گھر۔

         ۳۔ سورۂ حج کے ایک ارشاد (۲۲: ۲۶) کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ خدا تعالیٰ  نے حضرتِ ابراہیمؑ کو بیت اللہ قرار دیا تھا، تاکہ اِس مرتبہ کی روحانیت ونورانیت میں توحید کی معرفت حاصل ہو، اور خدا کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا جائے، رب العزت نے آپؑ کو یہ بھی حکم دیا کہ آپ اللہ کے اس زندہ گھر کی نظریاتی، روحانی اور عقلی پاکیزگی کریں، تاکہ اس میں تین قسم کے فرشتے آجائیں، اور وہ ہیں طواف کرنے والے، قیام یا اعتکاف کرنے والے، اور رکوع وسجود کرنے والے۔

         ۴۔ پیغمبر اور امام کی پاک شخصیت میں روحانی مسجد اور نورانی جماعت خانہ ہونے کا خدائی قانون ہمیشہ سے جاری ہے، جیسے حضرت

۱۳۳

نوحؑ نے اس خانۂ نورانیت کو ’’بیتی ۷۱: ۲۸) کہا، اور مومنین میں سے جو افراد اس میں داخل ہو چکے تھے، وہ ’’اھلِ بیت‘‘ کہلاتے تھے وہ قرآنی ارشاد یہ ہے: ۔

         رب اغفرلی ولوالدی ولمن دخل بیتی مومنا و للمومنین والمومنت (۷۱: ۲۸) اے میرے رب مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو کمالِ ایمان سے میرے (روحانی) گھر میں داخل  ہو گئے ہیں ان کو اور تمام مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بخش دے، آپ دیکھتے ہیں کہ حضرتِ نوحؑ کی اس پُرحکمت دعا میں اہلِ ایمان دودرجوں میں ہیں، یعنی بعض مومنین کمالِ ایمان کی بدولت آپٖ صلوات اللہ علیہ کے خانۂ نورانیت (یعنی خانۂ خدا) میں داخل ہو چکے ہیں، اور بہت سے مومنین و مومنات ہنوز اس درجے میں داخل نہیں ہو سکے ہیں۔

         ۵۔ پیغمرِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے وقت میں خدا تعالیٰ  کا زندہ گھر (۲۲: ۲۶) اور نورانیت سے بھر پور معجزاتی جماعت خانہ تھے، جیسا کہ سورۂ احزاب (۳۳: ۳۳) میں فرمایا گیا ہے: انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا (۳۳: ۳۳) اللہ تعالیٰ  یہ چاہتا ہے کہ اے (نورانیت کے) گھر والو تم سے آلودگی کو دور رکھے اور تم کو (ہر طرح سے ظاہراً وباطناً) پاک و صاف رکھے، یہ مقدس گھر نورِ نبوت وامامت تھا، اور اہلِ بیت (گھر والے) پنجتن پاک تھے، یعنی حضرت محمد مصطفٰی، حضرتِ علی مرتضٰی، حضرتِ فاطمۂ زہرا،

۱۳۴

حضرتِ حسنِ مجتبیٰ اور حضرتِ حُسین سید شہداء صلوات اللہ علیھم، یہی خانۂ نورانیت اللہ تعالیٰ  کا بولنے والا گھر اور عقلی و روحانی جماعت خانہ ہے، اور یہی وہ حکمت کا گھر ہے، جس کے بارے میں آنحضرتؐارشاد فرمایا کہ ’’ میں حکمت کا گھر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ  ہے‘‘ نیز یہ وہی مبارک ومقدس گھر ہے، جس میں بموجب آیۂ قرآن (۲۴: ۳۵) نورِ خداوندی کا چراغ روشن ہے۔

         ۶۔ یہاں متعلقہ حقیقت کو دل نشین انداز میں پیش کرنے کی غرض سے یوں سوال کیا جاتا ہے کہ صراطِ مستقیم (راہِ راست) کس کی ہے؟ آیا یہ خدا کی ہے یا انبیاء کی؟ کیا یہ راہ آنحضرتؐ کی ہے یا امامؑ کی؟ کیا یہ مومنین کے لئے نہیں ہے؟ اس کا جواب اس طر ح سے ہے کہ صراطِ مستقیم سب سے پہلے خدائے پاک وبرتر کی ہے، کیونکہ راہِ راست کی منزلِ مقصود وہی ہے، یعنی سب کوا سی کے خانۂ نور مے ں جانا ہے (۴۲: ۵۳، ۲: ۱۵۶) نیز صراطِ مستقیم جملہ انبیاء علیھم السلام کی ہے، کیونکہ وہ حضرات اس پر لوگوں کے رہنما تھے، (۱: ۷، ۴: ۶۸) یہ راہِ راست پیغمرِ آخر زمان صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، اس لئے کہ حضورؐ سرورِ انبیاء وسردارِ رسل ہیں (۱۲: ۱۰۸) نیز یہ رستہ امامِ عالیمقام علیہ السلام کا ہے، کہ آپ ہادیٔ برحق ہیں (۱۳: ۷) اور یہ بھی حقیقت ہے کہ صراطِ مستقیم مومنین کی ہدایت کے لئے بنائی گئی ہے (۴: ۱۱۵) بالکل اسی طرح وہ انتہائی پاک و پاکیزہ گھر جو رب العزت کا ہے، وہ مذکورۂ بالا تمام درجات

۱۳۵

کا ہے، اگرچہ ذاتِ خدائے بے مثل مکان اور لامکان سے بے نیاز و برتر ہے، لیکن اس کی وحدانیت کی معرفت خانۂ نورانیت سے باہر ممکن نہیں (۲۴: ۳۵) یہ گھر جو رحمتوں اور برکتوں سے مملو اور نورِ معرفت سے منور ہے وہ انبیاء و ائمہ علیھم السلام کا نور ہے (۲۴: ۳۶) اور یہی نور سے معمور گھر مومنین و مومنات کا بھی ہے، جبکہ وہ مکمل پیروی کرتے ہیں (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۸)

         ۷۔ قانونِ فطرت (پیدائش) یہ ہے کہ ہر چیز ابتدائً ایک محدود سانچے میں بنتی ہے، اس کے بغیر کسی چیز کا وجود میں آنا غیر ممکن ہے، درختوں کا پھل چھلکے کے بغیر اور مغز گُٹھلی کے سوا نہیں بن سکتا، اور جس طرح انسان کی ہستی و شکل اپن ماں کی بچہ دانی سے باہر نہیں بن سکتی ہے، اور دوسری طرف سے آپ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بعض اشیاء موجود تو ہیں، مگر اُن کی کوئی مخصوص شکل و صورت نہیں، کیونکہ وہ سانچے کے بغیر بکھری ہوئی ہیں، جیسے عناصرِ اربعہ، یعنی مٹی، پانی، ہوا، اور آگ، چنانچہ بحکمِ خدا رسول اللہ ؐ اور صاحبِ امر نے اللہ تبارک و تعالیٰ  کا ایک مقامی گھر بنا دیا، تاکہ اسی سانچے میں ڈھل کر ہر مرید بحقیقت مومن کہلائے، اور اس کی ایک خاص ایمانی اور روحانی صورت بن جائے۔

         ۸۔ جہاں رحمتِ کُل کے قانون کی رو سے یہ ممکن ہے کہ عرشِ عظیم کا ایک نمونہ بصورتِ خانۂ کعبہ زمین پر اتارا جائے، پھر زمانۂ طوفان میں آسمانِ چہارم پر اٹھایا جائے، پھر زمانۂ ابراہیمؑ میں زمین پر اس کی تعمیرِ نو ہو سکتی ہو، اور پھر عہدِ نبوت میں جہاں مقامی طور پر بھی خدا کا

۱۳۶

ایک گھر بنایا جا سکتا ہو، تو وہاں یہ بھی ممکن ہے کہ جماعت خانہ خدائے مہربان کے خانۂ ظاہر یعنی کعبۂ شریف اور خانۂ باطن (امامؑ) کی حقیقی نمائندگی کرے، اور یہ بات حق و حقیقت ہے، اور اس میں ذرہ بھر شک نہیں۔

         ۹۔ جماعت خانے تین ہیں پہلا عالمی جماعت خانہ، جو امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کا مبارک وجود، دوسرا مقامی جماعت خانہ، جو شہر یا قصبہ یا گاؤں یا محلے کا جماعت خانہ ہے، اور تیسرا انفرادی جماعت خانہ، جو بندۂ مومن کا دل ہے، مگر ان تینوں کی مربوط حکمت مقامی جماعت خانے میں ہے، کہ وہیں پر رفتہ رفتہ روحانی ترقتی ہوتی ہے، اور قلبی جماعت خانے کا دروازہ کُھل جاتا ہے، پھر وہ نورِ ایمان سے منور ہو جاتا ہے، اور اسی میں امامِ اقدس و اطہرؑ کا پاک دیدار ہوتا ہے، جو نورانیت کا حقیقی جماعت خانہ ہے۔

         ۱۰۔ سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) میں اللہ تبارک و تعالیٰ  کا ارشاد ہے: ۔

واوحینا الی موسی واخیہ ان تبوالقومکما بمصر بیوتا واجعلو ا بیوتکم قبلتہ و اقیمواالصلوٰتہ، وبشرالمومنین (۱۰: ۸۷) اور ہم نے موسیؑ اور ان کے بھائی (ہارونؑ) کے پاس وحی بھیجی کہ مصر میں اپنی قوم کے لئے گھر بناؤ او راپنے اپنے گھروں ہی کو مسجدیں قرار دے کر پابندی سے نماز پڑھو اور مومنین کو خوشخبری دے دو، ہر ایسے شہر کو مصر کہتے ہیں جس کے گردا گرد فصیل (شہر پناہ) ہو اس سے شہرِ روحانیت مراد ہے، کیونکہ

۱۳۷

اس کے گردا گرد صرف فصیل ہے، بلکہ اس کا ایک دروازہ بھی ہے، چنانچہ اس آیۂ حکمت آگین میں انفرادی جماعتخانوں کی روحانی ترقی کا ذکر فرمایا گیا ہے، یعنی اللہ پاک نے پیغمبر اور امام علیھما السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کے حدودِ دین کے لئے شہرِ روحانیت میں گھر بنائیں، اور ان گھروں کو خانۂ خدا کا درجہ دے کر دعوتِ حق کا کام کریں، اور ان گھروں کو خانۂ خدا کا درجہ دے کر دعوتِ حق کا کام کریں، اور ایسے عروج و ارتقاء سے مومنین کو عملاً خوشخبری دیدیں۔

         ۱۱۔ سورۂ توبہ (۹: ۱۸) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: خدا کی مسجدوں کو بس صرف وہی شخص (جا کر) آباد کر سکتا ہے جو خدا اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور نماز پڑھا کرے اور زکوٰۃ دیتا رہے اور خدا کے سوا (اور) کسی سے نہ ڈرے تو عنقریب یہی لوگ ہدایت یافتہ لوگوں سے ہو جائیں گے (۹: ۱۸) اگر کہا جائے کہ یہاں’’ مساجد اللہ‘‘ سے دنیا بھر کے جماعت خانے یا مسجدیں مراد ہیں، تو پھر ایک شخص اُن سب کی آبادی میں کس طرح حصہ لے سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ بات ناممکن ہے، چنانچہ یہ ارشاد تاویلی حکمت کا متقاضی ہے، اور وہ حکمت یہ ہے کہ خدا کی مسجدیں یعنی جماعت خانے تین درجوں میں ہیں، جیسا کہ (۹) میں بتایا گیا ہے، عالمی جماعتخانہ (یعنی امامِ وقت) مقامی جماعت خانہ، اور قلبی جماعت خانہ، اور ان تینوں کو ایک ساتھ صرف وہی شخص اپنی حاضری سے آباد کر سکتا ہے، جو خدا اور یوم آخر (امامؑ) پر ایمان لائے او رنماز قائم کرے، یعنی کارِ دعوت کو انجام دے، اور ظاہری وباطنی زکات

۱۳۸

دیتا رہے۔

         جب بندۂ مومن عقیدت و محبت سے متعلقہ جماعت خانے میں جا کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتا ہے، تو اس پُر حکمت عمل سے نہ صرف جماعت خانہ آباد ہو جاتاہے، بلکہ اس کے  ساتھ ساتھ انفرادی اور عالمی جماعت خانہ بھی معمور ہو جاتا ہے، کیونکہ خداتعالیٰ کے یہ تینوں گھر مربوط اور یکجا ہیں، جبکہ مومن جماعت خانے سے وابست ہے، اور جبکہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ جماعت خانے کی روح ہیں، اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو مومن جماعت خانے کی پر یقینِ کامل رکھتا ہے اس کی روح کے ذرات میں سے ایک خاص ذرہ ہمیشہ امامِ برحقؑ کی مبارک ومقدس شخصیت کی خدمت میں رہتا ہے، آپ حقیقتِ روح کے بارے میں تحقیق کر سکتے ہیں، اور زرات سے متعلق مضامین کا مطالعہ بھی کر سکتے ہیں، تاکہ روح کے بسیط و ہمہ جا ہونے کا حال معلوم ہو سکے۔

         ۱۲۔ فرمایا گیا ہے کہ: ’’ مومن کا قلب (دل) اللہ تعالیٰ کا عرش ہے‘‘۔ لیکن  یہا ں پوچھنے اور جاننے کی ضرورت ہے کہ اس قول کی اصل حقیقت کیا ہے؟ کیونکہ لفظِ ’’مومن‘‘ کا اطلاق تو بہت سے لوگوں پر ہوتا ہے، مگر عرش کا تصور بہت بلند ہے، لہٰذا آپ اس حکمت کو بخوبی دلنشین کر لیں، کہ مومن کا قلب امامِِ زمان صلوات اللہ علیہ ہیں، اور اسی مقدس ہستی میں خدا کا نور جلوہ گر ہے، جیسے قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: و اعلمو ان اللہ یحول بین المرئِ وقلبہ (۸: ۲۴) اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ

۱۳۹

آڑ بن جایا کرتا ہے آدمی اور  اس کے قلب کے درمیان۔ ۔ یعنی حقیقی علم کی روشنی میں تم اس قانونِ امتحان کو جان لو کہ آدمی اس کے دل (یعنی امامِ زمانؑ) کے درمیان خدا کیوں حائل ہو جاتا ہے؟ یقیقناً اس میں حکیمانہ اشارہ اور کامیابی کا راز بس یہی ہے کہ ہر شخص اپنے حقیقی دل کے ساتھ اللہ سے رجوع کے، وہ لوٹ کر اس طرف سے آگے بڑھے، جس طرف اس کا دل ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ درحقیقت قلبی جماعتخانہ بھی امامِ زمان ہیں۔ وماتوفیقی الا بااللہ۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

۲۰۔ دسمبر۱۰۸۴ء

۱۴۰

تاویلی سوالات

سورۂ مائدہ (۵) کا چوتھا رکوع (یعنی ۵: ۲۰ تا ۲۶) پیشِ نظر رہے، اور اس سلسلے میں یہاں چند تاویلی سوالات اور جوابات درج کئے گئے ہیں، ملاحظہ فرمائیں: ۔

         سوال (۱): جعل فیکم انبیاء (اللہ تعالیٰ نے تم میں بہت سے پیغمبر بنائے) کی تاویلی وضاحت کس طرح ہو سکتی ہے، کیونکہ ’’فیکم‘‘ کے معنی’’ تمہاری قوم میں‘‘ تک محدود نہیں، بلکہ اس کا مطلب ’’تمہاری ذات میں‘‘ بھی ہے؟

         جواب: کوئی شک نہیں کہ بنی اسرائیل میں سے بہت سے ابنیاء علھیم السلام ہوئے تھے، اور یہ بات عالمِ ظاہر سے متعلق ہے، لیکن جہاں تک عالمِ شخصی کا تعلق ہے، تو اس میں جملہ پیغمروں کی نمائندگی نفسِ واحدہ کرتا ہے، چنانچہ فیکم کے معنی مطلق ہیں (یعنی محدود نہیں) لہٰذا اس پُرحکمت آسمانی تعلیم میں بنی اسرائیل سے یہ فرمایا گیا تھا، کہ وہ بذریعۂ علم و عمل حدِ قوت سے حدِ فعل میں ترقی کر کے دیکھیں کہ ربِ کریم کی

۱۴۱

طرف سے انھیں کیسی کیسی عظیم نعمتیں عطا کی گئی ہیں، کہ ان کے باطن میں ایک ایسا عالم پوشیدہ ہے، جس میں ماضی اور مستقبل اپنی اپنی جگہ سے ہٹ کر حال کے طور پر سامنے آتے ہیں، یہاں یہ اصول خوب یادرہے کہ قرآنِ کریم میں جہاں جہاں’’فیکم‘‘ ہے، اس میں یہی حکمت پوشیدہ ہے۔

         سوال (۲): آیا زمانۂ ماضی میں نبوت کے علاوہ دنیوی قسم کی بادشاہت بھی مسلمہ ہوتی تھی؟ اگر نہیں تو یہ قرآنی ارشاد کیوں ہے کہ خداوند تعالیٰ نے حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کے لوگوں کو ملوک (بادشاہ ۵: ۲۰) بنایا تھا؟

         جواب: خدا کے نزدیک نبوت اور امامت کے سوا کوئی حقیقی بادشاہت نہیں، اور جس طرح بنی اسرائیل کے ملوک (بادشاہ) ہونے کا ذکر ہے، اس کی تاویلیں ہیں، اول یہ کہ ان کی قوم سے ایک شخص کا بادشاہ (امامؑ) ہونا گویا ان کا بادشاہ ہونا تھا، دوم یہ کہ وہ اپنے اماموں کے وسیلے سے بحدِ قوت بادشاہ تھے، جبکہ حضراتِ ائمہ بحدِ فعل دینی بادشاہ ہوا کرتے ہیں، جس طرح درخت بحدِ فعل درخت ہوتا ہے، مگر اس کا تخم بحدِ قوت درخت ہوتا ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے: سو ہم نے ابراہیمؑ کے خاندان کو کتاب بھی دی ہے اور حکمت بھی دی ہے اور ہم نے ان کو بڑی بھاری سلطنت بھی دی ہے (۴: ۵۴) اس حکم میں پہلے نبوت کا ذکر ہے، اس کے بعد امامت کا۔

         سوال (۳): ظاہر ہے کہ مذکورۂ بالا حکم صرف اور صرف خاندانِ

۱۴۲

ابراہیم علیہ السلام کے لئے خآص ہے، اور اس میں کسی اور شخص کی شرکت نہ تو حدِ فعل میں ہو سکتی ہے اور نہ حدِ قوت میں، پھر دوسرے لوگوں کا وسیلہ نجات کیا ہے؟

         جواب: جو لوگ انبیاء و ائمہ علیھم السلام کی بحقیقت پیروی کرتے ہیں، وہ ان حضرات کی روحانی ذریت (اولاد) قرار پاتے ہیں، جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کی زبان سے فرمایا گیا ہے: فمن تبعنی فانہ منی (۱۴: ۳۶) پس جو کوئی میری پیروی کرے تو وہ مجھ سے ہے۔ جس طرح حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا نافرمانی کی وجہ سے پیغمر کا فرزند ہو سکا، اور جس طرح اس کے برعکس تابعداری کے سبب سے سلمان فارسی اہلِ بیتِ رسولؐ سے جا ملا، ان روشن مثالوں سے دین کا قانون ظاہر ہر جاتا ہے کہ اس میں یہ ممکن ہے کوئی شخص یا اشخاص بسببِ نافرمانی نبوت و امامت کے خاندان سے خارج ہو جائیں، اور دوسری جانب یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی فرد یا افراد اطاعت و فرمانبرداری کی بدولت پیغمبر اور امام کے روحانی فرزند قرار پائیں۔

         سوال (۴): آیۂ کریمہ کا ترجمہ ہے: اور تم کو وہ چیزیں دیں جو دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیں (۵: ۲۰) کیا اس قرآنی تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بنی اسرائیل کو عطا ہوا تھا، وہ اولین و آخرین میں سے کسی کو نہیں دیا گیا تھا؟ اگر حقیقت یوں ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا یہ اختصاص صرف حضرت موسیٰؑ کی قوم کے لئے کیوں ہے؟

         جواب: آیۂ مقدسہ کی حکمت یہ بتاتی ہے کہ بنی اسرائیل کے اس

۱۴۳

تذکرے میں ان تمام لوگوں کی مثال دی گئی ہے، جن کو اپنے اپنے دور میں انبیاء و اولیاء (ائمہ) کی ظاہری نزدیکی حاصل تھی، مگر ہر زمانے میں رحمتِ خداوندی کو فعلاً حاصل کرنے کے لئے علم و عمل ضروری ہوتا ہے، پس بنی اسرائیل کو اولین وآخرین پر نہیں بلکہ اہلِ زمانہ پر فضیلت دی گئی تھی، اور وہ بھی بحقیقت فرمانبردار ہونے کی صورت میں، جیسا کہ آپ قرآنِ حکیم میں دیکھتے ہیں۔

         سوال (۵): آیۂ کریمہ (۵: ۲۱) کے مطابق ’’ارضِ مقدسہ‘‘ کی تاویل کیا ہے؟ جب اللہ تعالیٰ  نے یہ پاک زمین بنی اسرائیل کے نام پر لکھ دیا تھا، تو پھر وہ لوگ اس میں کیوں داخل نہیں ہو سکتے تھے؟

         جواب: ارضِ مقدسہ کی تاویلی روحانیت اور عالمِ شخصی ہے، جس کو خدا تعالیٰ  نے ہر مسلم اور مومن کے نام لکھ دیا ہے، لیکن ہر رحمت و نعمت پہلے تو حدِ قوت میں ہوا کرتی ہے، جس کو حدِ فعل میں لانے کے لئے علم و عمل کی سخت ضرورت ہوتی ہے، اگر یہ نہ ہوا تو کوئی رحمت اور کوئی نعمت اپنے آپ حدِ قوت سے حدِ فعل میں نہیں آ سکتی ہے، جس کی ایک مثال گندم کے بیج ہیں، جو بحدِقوت کسی زمیندار کے سال بھر کا غلہ اور سرمایہ ہیں، اب آپ خود بتائیے کہ کھیت میں بیج بکھیرنا، ہل چلانا، وغیرہ زمیندار کا کام ہے یا خدا کا؟ تاکہ یہ بیج حدِ قوت سے حدِ فعل میں آ کر گندم کا ایک بڑا ذخیرہ بن سکیں، ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ جو صاحبِ حکمت ہے صرف اپنا کام کرتا ہے وہ ظاہری اور جسمانی کام نہیں کرتا، اس نے اپنی قدرتِ کاملہ سے انسان کو بیشمار عقلی، روحی

۱۴۴

اور جسمی عمل کی صلاحییتوں سے نوازا ہے، پس علم و عمل میں انسان کی سعادت پوشیدہ ہے۔

         سوال (۶): قرآنِ حکیم کی کئی آیات میں خاسرین یعنی زیانکاروں کا بھی ذکر ہے، اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ لوگ اچھے اچھے کام انجام دیں، اور اللہ تعالیٰ  ان کو کوئی اجر و صلہ نہ دے، پھر وہ لوگ زیان کار کہلائیں؟

         جواب: اگر کسی انسان کا قول و فعل خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی خوشنودی کے مطابق ہے تو یہ مقبول ومفید ہوتا ہے، ورنہ وہ ضائع ہو جاتا ہے، اور خدا کی سنت ہمیشہ سے یہی چلی آئی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دین کی ہر بات اور ہر کام نورِ ہدایت کی روشنی میں ہونا چاہئیے، تاکہ موجبِ ثواب ہو، کیونکہ نورِ ہدایت کے ہمیشہ کے لئے موجود و حاضر رہنے کے یہی معنی ہوتے ہیں۔

         سوال (۷): اگر ارضِ مقدسہ سے روحانیت اور عالمِ شخصی مراد ہے، تو اس میں وہ زبردست لوگ کون تھے، جن کے خوف سے بنی اسرائیل اس پاک سر زمین یا اس پاک عالم میں داخل نہیں ہو سکتے تھے؟

         جواب: ان سرکش لوگوں کی تاویل، جو پاک و پاکیزہ زمین پر قابض تھے، ظاہری طاغوتی قوتیں ہیں، جو نفسِ امارہ کے توسط سے انسان کے باطن میں کام کرتی ہیں، جن کی موجودگی میں کمزور مومن عالمِ

۱۴۵

شخصی میں داخل نہیں ہو سکتا ہے، اور آیۂ کریہ میں اسی مطلب کی ترجمانی کی گئی ہے (۵: ۲۲)

         سوال (۸): وہ دو مرد کون تھے؟ جنھوں نے اپنی قوم کو باطنی جہاد کے لئے حوصلہ دیا؟ اور وہ دروازہ کیا تھا، جس سے لوگوں کو روحانیت میں داخل ہو جانا چاہئیے؟

         جواب: وہ دو مرد جو خوفِ خدا رکھتے تھے، اور جن پر اللہ کا فضل و احسان تھا، وہ اساس اور امام علیھما السلام تھے، اور وہ دروازہ (حجتِ اعظم) تھا، کیونکہ اللہ جل شانہ کا باب (دروازہ) ناطقؑ ہوا کرتا ہے، ناطق کا باب اساس، اساس کا باب امام، اور امام کا باب حجتِ اعظم ہوتا ہے، جس سے امامِ برحق کا وہ فرزند مراد ہے، جو وقت آنے پر مرتبۂ امامت پر فائز ہو جاتا ہے۔

         سوال (۹): خدا رسولؐ، اور امام کے دروازے کیوں ہیں؟ اور ان کی خصوصیت کیا ہے؟ کیا اس تصور کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص خدا تک پہنچ جائے؟

         جواب: دیکھئیے کہ خدا تعالیٰ مکان و لامکان سے برتر تھی ہے، وہ ہر جگہ بھی ہے، او اس کا ایک مقرر گھر بھی ہے، چنانچہ اول الذکر دونوں تصور ایسے نہیں کہ کوئی بندہ ان سے خدا تک رسائی کر سکے، لہٰذا ضروری ہے کہ خانۂ خدا سے رجوع کیا جائے، اور خانۂ خدا دروازے

۱۴۶

کے بغیر نہیں ہو سکتا، جیسے پیغمبرِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ: میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے، اس سے ظاہر ہے کہ مراتبِ عالیہ کے دروازے منارۂ ہدایت کے طور پر ہیں، اور ان کی خاصیت علم و حکمت ہے، پس اس تصور کے بغیر خداشناسی ممکن نہیں، یعنی خدا کا دروازہ پیغمبرؐ اور پیغمبرؐ کا دروازہ امام ہے اور راہِ ہدایت کا قانون یہی ہے۔

         سوال (۱۰): اس ارشادِ خداوندی میں کیا حکمت ہے، جو فرمایا گیا ہے: ’’ پس جب تم دروازے سے داخل ہو جاؤ گے تو اسی وقت غالب آؤ گے؟

         جواب: حجتِ اعظم جو امامِ اقدس و اطہر علیہ السلام کا روحانی دروازہ ہے، اس کے وسیلے سے امامِ عالیمقامؑ کی روحانیت میں داخل ہو جانے کے نتیجے میں بندۂ مومن کا شخصی عالم فتح ہو جاتا ہے، اور تمام طاغوتی طاقتیں مغلوب ہو جاتی ہیں۔

         سوال (۱۱) اس پاک آیت میں جس طرح توکل کا ذکرِ روحانی فتح کے بعد آیا ہے، اس میں کیا حکمت ہے؟

         جواب: چونکہ توکل ایمان کے درجۂ کمال پر ہے، لہٰذا اس کا ذکر  اسی طرح آخر میں آیا ہے، یعنی مومن جب اپنے عالمِ شخصی میں داخل ہو جاتا ہے تو تب حقیقی وکیل کارسازی کرتا ہے۔

نصیر الدین نصیرہونزائی

۱۸۔ اکتوبر ۱۹۸۴ء

۱۴۷

سلمان فارسی

۱۔ لفظِ سلمان کا مادہ س، ل، م ہے، چنانچہ اس کے خاص مفہومات یہ ہیں: سلامتی والا، ناجی، تسلیم وتفویض کرنے والا، یعنی اپنی انا کو خدا کے سپرد کر دینے والا، صلح جُو، امن پسند، اطاعت گزار، فرمانبردار، وغیرہ، چونکہ حرفی لحاظ سے ’’سلمان‘‘ کا اسم مصغیر (DIMINUTIVE) سلیمان ہے، لہٰذا یہ کہنا ایک حقیقت ہے کہ اس خوبصورت اور پیارے نام کی قرآنی بہشت، یعنی حکمتوں کی جنت وہ قصۂ قرآن ہے، جو حضرتِ سلیمان علیہ السلام سے متعلق ہے، کیونکہ یہ عزیز نام (یعنی سلمان الخیر) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا تھا، جبکہ سلمانِ فارسی کا سابق نام روزبہ یا مابہ تھا، اور اس بات میں کسی مسلمان کو کوئی شک نہیں کہ حضورِ انورؐ کا فرمایا ہوا ہر لفظ ایک طرح کی آسمانی وحی کا درجہ رکھتا ہے (۵۳: ۳ تا ۴) اس وجہ سے یہ نام بابرکت اور پُرحکمت ہو گیا، اگرچہ یہ نام پہلے ہی سے لوگوں میں رائج تھا، لیکن جس وقت اس کا تسمیہ (نام رکھنا) نورِ نبوت کی روشنی میں کیا گیا، تو اس کے مرادی معنی لغوی مناسبت کے

۱۴۸

ساتھ ساتھ کچھ اور ہو گئے، وہ یہ کہ سلمان کے نام میں حضرت سلیمان کی روحانی سلطنت کا تصور آ گیا۔

         ۲۔ آپ نے شاید ’’حکمتِ تسمیہ‘‘ کے مضمون کو غور سے پڑھا ہو گا، کہ تسمیہ میں کوئی تصور، کوئی حکمت اور کوئی فلسفہ ہوا کرتا ہے، بالفاظِ دیگر نام رکھنے کے پس منظر میں کسی امید کا ذکر ہوتا ہے، یا کوئی سعادت وبہتری مطلوب ہوتی ہے، اور اگر یہ کام ہادیٔ برحق کا ہے تو یقیناً اس میں اعلیٰ درجے کی حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں، چنانچہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو پسندیدہ نام اپنے عاشقِ صادق کو دیا ہے، اس میں دینی کامیابی، طلوعِ نور، دیدارِ اقدس اور روحانی سلطنت کی بشارت کیوں نہ ہو۔

         ۳۔ سلمانِ فارسی ارادۂ الٰہی کے مطابق نورِ نبوت اور نورِ امامت کی ایک خصوصی پیداوار تھے، لہٰذا ان کی تاریخ میں جذبۂ دینداری اور اہلِ بیتِ اطہارؑ سے والہانہ محبت کی درخشان مثال موجود ہے، ہمیں نظامِ ہدایت کے باطنی پہلو کے بارے میں بھی سوچنا چاہئیے کہ کس طرح سلمان فارسی کے دل میں تلاشِ حقیقت کا طوفانی شوق ابھرا؟ وہ کون سی ہستی تھی جس نے شہرِ اصفہان کے ایک مجوسی (آتش پرست) فرزند کے دل و جان میں ایسی آتشِ عشق جلائی؟ یقیناً کوئی ایسا ہمہ گیر وسیلہ تھا، جس کو نورِ ہدایت کہنا چاہئیے۔

         ۴۔ کتابِ’’بخاری‘‘ حصۂ اول کے شروع میں حدیثِ نبوی ہے:

۱۴۹

واحیا نایتمثل لی الملک رجلا۔ اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں میرے پاس آتا ہے (اور مجھ سے کلام کرتا ہے) اس ارشاد میں آپ دیکھتے ہیں کہ آنحضرتؐ کے پاس بعض دفعہ جبرائیلؑ ایک مرد کی شکل میں وحی لے کر آیا کرتا تھا، لیکن عقل پوچھتی ہے کہ فرشتہ کس مرد کی صورت میں آتا تھا؟ اس کے جواب میں قانونِ روحانیت کہتا ہے کہ ویسے توعظتن فرشتہ جملہ مومنین کا آئینۂ روح ہوا کرتا ہے، اس لئے اس کا ظہور ایک مشترکہ صورت میں ہوتا ہے، تاکہ وحدتِ ارواح کی حقیقت ظاہر ہو جائے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جبرائیلؑ رسول کریمؐ کے پاس سلمان فارسی کی روحانی شکل میں آیا کرتا تھا، اور بعض کہتے ہیں کہ یہ ظہور بدحیۂ کلبی کی صورت میں ہوتا تھا، میں عرض کرتاہوں کہ اس میں کوئی تضاد نہیں، جبکہ روح القدس میں سب ہیں،

         ۵۔ سنن ابن ماجہ، جلد اول، باب ۲۴، حدیث ۱۵۵ میں ارشاد ہے، ان اللہ امرنی بحب اربعۃ واخبرنی انہ یحبھم قیل یا رسول اللہ من ھم؟ قال علی منھم یقول ذالک ثلاثا وابوذر و سلمان والمقداد۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ نے مجھے چار شخصوں سے محبت کرنے کا حکم دیا، اور یہ خبر دی ہے کہ وہ بھی ان سے محبت رکھتا ہے، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ وہ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: علی بھی ان میں سے

۱۵۰

ہے، اور یہ بات آپؐ نے تین بار فرمائی، اور ابوذر، سلمان، اور مقداد ہیں۔

         ۶۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک تو ہوتا ہے خدا کا عام طور پر سب مومنوں سے محبت کرنا، اور دوسرا ہوتا ہے ا س کا خاص طورپرچند سے محبت کرنا، چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ مذکورہ حدیث میں صرف چار ہستیوں سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذکر ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ یہ خصوصی محبت کی بات ہے، جس میں مولا علی صلوات اللہ علیہ کی شانِ ولایت تابان ودرخشان ہے، اب آپ کو اس ارشادِ نبوی کی روشنی میں متعلقہ آیاتِ قرآنی کا بغور مطالعہ کر کے یہ دیکھنا ہے کہ خدا تعالیٰ کن لوگوں سے محبت و دوستی کرتا ہے، آپ قرآن میں دیکھیں گے کہ پروردگارِ عالم ان حضرات سے محبت کرتا ہے جو بحقیقت متقی ہیں (۳: ۷۶) ان مومنین سے دوستی کرتا ہے جو اس کے رسولؐ کے فرمان بردار ہیں (۳: ۳۱) ان بندوں کو چاہتا ہے جو نیکو کار ہیں (۳: ۱۳۴) خدا ان لوگوں کا دوست ہے جو عالی ہمت اور صابر ہوا کرتے ہیں (۳: ۱۵۹) جو عادل ہیں (۵: ۴۲) اور جو پاک و صاف ہوا کرتے ہیں (۹: ۱۰۸)

         ۷۔ غزوۂ احزاب (غزوۂ خندق) میں سلمان فارسی کے بارے میں رسولِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: سلمان منا اھل البیت۔ سلمان ہم اہلِ بیت میں سے ہے، یہاں ہمیں کس طرح سوچنا چاہئیے؟ کیا ایسے خاص موقع پر آقا اور غلام ایک دوسرے کے انتہائی قریب نظر نہیں آتے ہیں؟ آیا اس پُرحکمت حدیث کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے

۱۵۱

ہیں کہ سلمانِ فارسی جیتے جی نور میں فنا ہو گئے تھے؟ وہ اپنی پاک و پاکیزہ روح کو (اُ س کیفیت میں جس میں کہ نہ مکان ہے نہ زمان) ازلی و ابدی طور پر اصل سے واصل دیکھتے تھے، اور یہ سب کچھ اس وجہ سے حاصل ہوا تھا کہ آپکے دل میں ہمیشہ پیغمبرؐ اور امامؑ کا دریائے عشق موجزن رہتا تھا، آپ اپنے باطن میں ایک روشن دنیا تھے، آپ کے سینے میں علم و عرفان کے بیش بہا خزائن پوشیدہ تھے۔

         ۸۔ اس حدیثِ شریف میں، جو سلمانِ فارسی سے متعلق ارشاد ہے، یہ واضح اور قابلِ فہم مثال موجود ہے کہ اگر مومنین چاہیں تو عالی ہمتی، سخت محنت، جان فشانی، جذبۂ قربانی، اور حقیقی محبت سے کام لے کر نور سے اپنا رشتہ جوڑ سکتے ہیں، یعنی وہ چشمِ باطن سے یہ دیکھ سکتے ہیں، کہ ہس طرح ان کی انائے علوی ازلی طور پر اصل سے واصل و وابستہ رہی ہے، یہ کام اگرچہ مشک ہے لیکن ناممکن ہر گز نہیں، جیسے قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے، جس میں اسی قانونِ دین سے متعلق حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کی ترجمانی کی گئی ہے: فمن تبعنی فانہ منی (۱۴: ۳۶) پس جو کوئی میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے، یعنی جو شخص اس راہ پر گامزن ہوتا جائے، جس پر میں چلا ہوں، تو ایک دن اس کو یہ بھید بحقیقت معلوم ہو جائے گا کہ کس طرح وہ میرا روحانی اور نورانی فرزند ہے، پس یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص چاہے تو سلمان کی طرح اپنا ازلی رشتہ نور کے ساتھ جوڑ سکتا ہے، اور جو اس کے برعکس چاہے وہ کنعان (پسرِ

۱۵۲

نوحؑ) کی طرح اس رشتے کو توڑ سکتا ہے۔

         ۹۔ سوال: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سلمان فارسی کو کس معنیٰ میں اہلِ بیت اطہار کے ایک فرد کا درجہ دیا؟ اس میں ’’بیت‘‘ سے کون سا گھر مراد ہے؟ آیا آیۂ تطہیر میں پنجتن پاک کے ساتھ سلمان فارسی کا ذکر موجود ہے؟ کیا اس آیۂ مبارکہ میں جملہ آنے والے أئمہ ء ہدا صلوات اللہ علیھم کا ذکر موجود ہے؟

         جواب: پیغمبر خداؐ نے سلمان کو جس طرح اہلِ بیتِ پاک میں شامل کر لیا، اس کے معنی یہ ہیں کہ سلمان فارسی بوسیلۂ اطاعت و فرمانبرداری خانۂ نورانیت میں داخل ہو کر پنجتن کے ہمنشین ہو گئے تھے، یہاں بیت سے خانۂ نورونورانیت مراد ہے، جی ہاں آیۂ تطہیر میں سلمان کا بھی ذکر ہے، ہر چند کہ ظاہراً عمل کِساء سے ایسا نہیں لگتا ہے، کیونکہ وہ کام محض ایک علامت کے طور پر تھا، اور اُن حضرات کی تطہیر دراصل جدا جدا وقتوں میں فرداً فرداً ہوئی تھی، جی ہاں، آیۂ تطہیر میں تمام پاک اماموں کا ذکر موجود ہے، کیونکہ بعد کا ہر امام بھی اسی خانۂ نور میں رہتا ہے، جس میں پنجتنِ پاک رہتے تھے، لہٰذا ہر امام پر اہلِ بیت کا اطلاق ہو جاتا ہے۔

         ۱۰۔ اگر دنیا کا کوئی بادشاہ کسی غریب سے دوستی کرنے لگتا ہے، تو پھر وہ شخص غریب نہیں رہتا، رفتہ رفتہ امیر بن جاتا ہے، چنانچہ جب یہ حقیقت ہے کہ خدا ورسولؐ سلمان سے محبت کرتے تھے، اور ان کا نام

۱۵۳

حضرت سلیمانؑ کے نام مبارک پر رکھا گیا تھا، تو پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ او راس کے پیغمبرؐ سلمان کو عالمِ شخصی میں سلیمان بنانا چاہتے تھے، اور خداتعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے (۲۲: ۱۴)

۱۱۔ خدائے حکیم نے روحِ نباتی کی وجہ سے نباتات کو جمادات پر فوقیت دی ہے، روحِ حیوانی کے سبب سے جانوروں کو نباتات پر رفعت دی ہے، روحِ ناطقہ کی بدولت انسانوں کو حیوانات کا بادشاہ بنا دیا ہے، روحُ الایمان کے وسیلے سے مومنین کو لوگوں پر برتری دی، اور روحِ قدسی یا نور کے ذریعے سے حضراتِ انبیاء و آئمہ علیھم السلام کو مومنین پر فضیلت بخشی ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے: اور ہم نے داؤدؑ اور سلیمانؑ کو (روحانی) علم عطا فرمایا اور ان دونوں نے کہا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے ہم کو اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت دی (۲۷: ۱۵) اس ربانی تعلیم میں، جو حکمت سے مملو ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مومنین پیغمبروں اور اماموں کے انتہائی قریب ہیں، اس معنیٰ میں کہ انبیاء وأئمّہ پیغمبروں اوراماموں کے انتہائی قریب ہیں، اس معنیٰ میں کہ انبیاء و أئمہ اُن سے افضل ہیں، جبکہ اہلِ ایمان دنیا والوں سے افضل ہیں، جس طرح بنی اسرائیل سے اس کی مثال ملتی ہے (۲: ۴۷، ۲: ۱۲۲) کہ وہ اپنے وقت کے مومنین ہونے کی وجہ سے اہلِ جہان پر فضیلت رکھتے تھے۔

         ۱۲۔ سوال: جب حضرتِ سلیمانؑ حضرتِ داؤد کے قائم مقام (جانشین) ہو گئے، تو انھوں نے دعوتِ حق کا اعلان اس طرح کیا: اے لوگوں ہم کو پرندوں کی بولی کی تعلیم کی گئی ہے اور ہم کو ہر چیز سے دی

۱۵۴

گئی ہے (۲۷: ۱۶) اس میں پوچھا یہ ہے کہ آپؑ نے دینی دعوت میں اپنی سلطنت کو کیوں موضوع بنایا؟ لوگوں کو اس سے کیا تعلق تھا؟ آیا پرندوں کی بولی کی کوئی تاویل ہے؟ انھوں نے ’’مجھ کو‘‘ کی جگہ ’’ہم کو‘‘ کیو ں کہا؟ ہر چیز کا مطلب کُل کائنات ہے، سو کل کائنات سے ان کو کیا دیا گیا تھا:

         جواب: حضرتِ سلیمان علیہ السلام نے دعوت کا جو طریقہ اختیار کیا وہ منشائے الٰہی کے عین مطابق تھا، آپؑ تمام انبیا ء و ائمہ علیھم السلام اور مومنین کی روحانی بادشاہی کی جیتی جاگتی تصویر تھے، لہٰذا یہ امر بہت ہی ضروری تھا کہ لوگوں کو مملکتِ بہشت کا ذکر کر دیا جائے، جس سے لوگوں کا تعلق ہے، پرندوں سے ارواحِ خلائق مراد ہیں، جن سے بہشتِ روحانیت میں گفتگو ہوتی ہے، اس کے علاوہ اس میں ظاہری پرندے بھی ہیں، اور ’’مجھ کو ‘‘ کی جگہ ’’ ہم کو‘‘ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ ؑ اس روحانی سلطنت کے بیان میں تمام کامل انسانوں کی طرف سے نمائندگی کر رہے تھے، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ آپؑ کے ساھت حدودِ دین تھے، اور ہر چیز سے یا کُل کائنات سے جو کچھ اُن کو دیا گیا تھا، وہ عالمِ شخصی تھا، جو کل عالم کی ایک زندہ تصویر کی حیثیت سے ہوتا ہے۔

         ۱۳۔ حضرتِ سلیمان علیہ السلام کے قصۂ قرآن میں جہاں تمام حکمتوں کا مرکز ہے، اور جس سے یہ حکمتیں پھیل کر متعلقہ قصّے کو مکمل کر دیتی ہیں، وہ مرکز یہ ہے: واوتینا من کل شی (اور ہم کو ہر چیز سے دی گئی ہے) اور باقی جو کچھ ہے وہ اسی کی وضاحت

۱۵۵

ہے، چنانچہ کل شی کے معنی ہیں تمام عقلی، روحی، اور جسمی چیزوں کا مجموعہ، یعنی پوری کائنات جس کی عقل، جان، اور جسم ہے، اور من کل شی کا مطلب ہے اس کائنات کی ایک لطیف زندہ تصویر، یعنی عالمِ شخصی، جس میں سب کچھ ہے، اور یہ حقیقت وہی ہے جو سورۂ یاسین (۳۶: ۱۲) میں امامِ مبین کے بارے میں مذکور ہے، مطلب یہ ہے کہ حضرتِ سلیمانؑ امام تھے، لہٰذا ان کی ذات میں کائنات و موجودات کی لطیف صورت سے عالمِ شخصی بنایا گیا ہے۔

         ۱۴۔ سوال: وحشر لسلمیان۔ ۔ ۔ ۔ فھم یوزعون (۲۷: ۱۷) اور سلیمان کے لئے ان کے لشکر جمع کئے گئے تھے، جو جنات اور انسانوں اور پرندوں میں سے تھے اور وہ مکمل ضبط میں لائے جاتے تھے، آپ اکثر  کہتے ہیں کہ قرآن الفاظ کے آپس میں معنوی ربط ورشتہ ہوا کرتا ہے، تو بتائیے کہ اس آیۂ مقدسہ میں جس طرح لفظ ’’حشر‘‘ آیا ہے، اور جیسے قرآنِ پاک کے بہت سے مقامات پر قیامت کا ایک نام ’حشر‘ ہے ان دونوں کے درمیان کیا مناسبت ہے؟ سلیمان علیہ السلام کے یہ لشکر کہاں سے جمع کئے گئے؟ یوزعون کے کیا معنی ہوتے ہیں؟

         جواب: ان دونوں لفظوں کے درمیان انتہائی ربط ورشتہ یہ ہے کہ یہ لفظاً ومعناً ایک ہی ہے، کیونکہ یہ حضرت سلیمان ؑ کی ذاتی قیامت کا واقعہ ہے، جس میں روحانی طور پر آپؑ کے لشکر بصورت ذرات جمع ہو گئے، یہ ذرات خلائق میں پوشیدہ تھے، قرآنِ حکیم میں لفظ (حشر) اپنی مختلف شکلوں میں کل ۴۳ بار آیا ہے، اور ہر مقام پر قیامت ہی کے معنی میں

۱۵۶

ہے، یہاں تک کہ قصۂ فرعون میں جہاں لفظ’’حشر‘‘ استعمال ہواہے، وہ بھی حضرتِ موسیٰؑ کی انفرادی اور شعوری قیامت کی بات ہے، جس میں ساحروں کو شکست ہوئی تھی، یوزعون میں کئی معنی جمع ہیں، جیسے منظم کرنا، ترتیب دینا، کنٹرول کرنا، وغیرہ، کیونکہ جب انسانِ کامل کی روحانیت میں صور بجنے لگتا ہے تو اس کی انفراد ی قیامت برپا ہو جاتی ہے، او اس کے لشکر جنوں، اور پرندوں (یعنی فرشتوں) میں سے جمع ہو کر روحانی جہاد کی پوزیشن لیتے ہیں، تاکہ خداکا دین ادیانِ عالم پر غالب ہو (۹: ۳۳، ۴۸: ۲۸، ۶۱: ۹)

         ۱۵۔ سوال: یہ ہمارے نزدیک بہت ہی عجیب بات ہے کہ آپ نے روحانی جہاد کا تصور پیش کیا، کیا آپ اس سلسلے میں ہمیں کچھ مثالوں اور دلیلوں سے مزید سمجھا سکتے ہیں کہ یہ جہاد کس طرح ہے؟

         جواب: قرآنِ حکیم میں جا بجا باطنی اور روحانی جہاد کا ذکر موجود ہے، یہ مقدس جنگ ظہورِ اسلام سے پہلے بھی تھی، زمانۂ نبوت میں بھی اور اب بھی ہے، مگر یہاں یہ بات یاد رہے کہ جہاد ظاہراً و باطناً پیغمبرِ خدا اور امامِ برحقؑ کے ذریعے سے ہو سکتا ہے، چنانچہ قرآنِ پاک میں جہاں جہاں خدائی لشکر یا آسمانی جنگ کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں اسی روحانی جہاد کی نشاندہی کی گئی ہے، جیسے سورۂ فتح (۴۸: ۴، ۴۸: ۷) میں ارشاد ہے: وللہ جنود السموات والارض۔ اور آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ ہی کے ہیں۔ سماوی لشکر فرشتے ہیں، اور ارضی لشکر جنّ و انس ہیں، اور کسی بادشاہ یا حکومت کی فوجی جنگی مقصد کے سوانہیں

۱۵۷

ہوتی، اسی طرح سورۂ صافات (۳۷: ۱۷۱، ۳۷: ۱۷۳) میں فرمایا گیا ہے: اور ہمارے خاص بندوں یعنی پیغمبروں کے لئے ہمارا یہ قول پہلے ہی سے مقرر ہو چکا ہے کہ بیشک وہی غالب کئے جائیں گے اور (ہر بار) ہمارا لشکر غالب رہتا ہے۔ اس کے علاوہ سورۂ مائدہ (۵: ۵۶) میں حزب اللہ (خدا کا گروہ) کے معنی میں لشکرِ خدا کے غالب وفاتح ہونے کا بیان ہے، اسی سورہ (۵: ۵۴) میں ایک ایسی قوم کے آنے کی بشارت ہے کہ اُن سے اللہ تعالیٰ کو محبت ہو گی اور انکو اللہ تعالیٰ سے محبت ہو گی، وہ مومنین پر مہربان ہوں گے اور کافروں پر سخت گیر ہوں گے وہ خدا کی راہ میں جہاد کریں گے (۵: ۵۴) اس حکم میں آپ واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ جن کے ظہورِ روحانی کی خوشخبری دی گئی ہے، وہ لوگ دنیائے ظاہر کے مسلمین و مومنین سے افضل ہیں، جبکہ وہ اہلِ ایمان پر بڑے نرم دل اور مہربان ہیں، اور جہاد کرنے والے ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ یہ روحانی لشکر ہی ہیں، جو ہر زمانے میں ونورِ ہدایت کے تحت اپنا حربی عمل انجام دیتے رہتے ہیں، اس سلسلے کے قرآنی حوالے بہت زیادہ ہیں، لہٰذا روحانی جہاد پر کوئی الگ مضمون ہونا چاہئیے۔

         ۱۶۔ سوال: سورۂ نساء کے ایک ارشاد (۴: ۶۸) میں یقیناً درجہ وار پیغمبروں، صدیقوں، شہیدوں، اور صالحوں کے بعد فرمانبردارمومنین کو ذکر فرمایا گیا ہے، اس سے صاف طور پر ظاہر ہو جاتا ہے کہ صالحین  عام مومنین سے آگے ہیں، اُن سے شہداء آگے ہیں، شہیدوں سے صدیقین آگے ہیں، اُن سے انبیاء آگے ہیں، لیکن

۱۵۸

مراتب کے اس تعین کے باوجود اس کی کیا وجہ ہے کہ انبیاء علیھم السلام جسمانی زندگی کے اختتام پر صالحین یعنی نیکوکاری میں داخل ہو جانا چاہئیے تھے؟ جیسے حضرتِ سلیمانؑ نے اس مقصد کے لئے دعا کی (۲۷: ۱۹) آپ قرآنِ حکیم میں دیکھیں: (۲: ۱۳۰، ۱۲: ۱۰۱، ۱۶: ۱۲۲، ۲۶: ۸۳، ۲۹: ۹، ۲۹: ۲۷)

         جواب: بے شک آیۂ کریمہ (۴: ۶۸) میں جس ترتیب سے درجاتِ جسمانی کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ حقیقت ہے، کیونکہ اس میں سب سے پہلے ناطقوں (نبیین) کا ذکر ہے، پھر اساسوں (صدیقین) کا، پھر اماموں (شہداء) کا، اور اس کے بعدابواب (صالحین) کا ذکر ہے، اور یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ہر ناطق کا باب اساس ہوتا ہے، ہر اساس کا باب امام ہوتا ہے، اور ہر امام کے لئے باب اس کا فرزند ہوتا ہے جو تختِ امامت کا وارث ہو، سو اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرتِ سلیمانؑ اور دوسرے تمام حضراتِ انبیاء و ائمہ اپنے اپنے باب (صالح) میں زندہ رہنا چاہتے تھے، تاکہ صالحین یعنی نیکو کاروں کا جو سب سے آخری مقصد ہے، اس کے حصول کے لئے عمل کیا جائے۔

         سورۂ شعراء (۲۶: ۸۳ تا ۸۴) میں ہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام نے اس طرح دعا کی: اے میرے پروردگار مجھ کو ایک حکم (یعنی ’’امرِ کُن‘‘ کی شناخت) عطا فرما اور مجھ کو صالحین (یعنی نورِ نبوت و نورِ امامت) میں زبانِ صدق مقرر فرما۔ اس سے یہ حقیقت عیان

۱۵۹

ہو جاتی ہے کہ حضرتِ ابراہیمؑ بحکمِ خدا اپنے نور کو باب یعی حضرتِ اسماعلیلؑ (جو اساس تھے) میں منتقل کر دینا چاہتے تھے، تاکہ نور اسی طرح سسلہ ٔ صالحین یعنی آئندہ ابواب سے وابستہ رہے۔

         ۱۷: سوال: باب کی اتنی بڑی اہمیت کیوں ہے کہ اس کو صالح کاٹائٹل دیا گیا ہے؟ اور کیوں ایسا ہے کہ ہر ناطق ہر اساس اور ہر امام اپنے باب میں داخل ہو جاتا ہے؟

         جواب: باب کی بہت بڑی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ ناطقؑ کا سارا نورانی عمل اساس ؑ کی ذات میں واقع ہوتا ہے، جو ناطق کے لئے باب (دروازہ) ہے، اساس ؑ کا نور امامؑ میں کام کرتاہے جو اساس ؑ کا باب ہے، اور اسی طرح امام کا نور بھی اپنے اس فرزند میں کام کرتا ہے جو امام کے بابِ اقدس کا درجہ رکھتا ہے، اور بعد میں امام مقرر ہونے والاہے، ان تینوں صورتوں میں ’’نورِ فعال‘‘ باب کی مبارک ذات میں ہوا کرتا ہے، جس میں دنیا اور اہلِ دنیا کی صلاح و فلاح پوشیدہ ہے، لہٰذا سلسلۂ ابواب کو صالحین کہا گیا ہے، کہ سب سے زیادہ روحانی حرکت باب میں پائی جاتی ہے۔

         اللہ تعالیٰ جن معنوں میں اس وسیع وعریض کائنات کو دستِ قدرت میں لپیٹ لیتاہے، اس میں بہت سے حکیمانہ اشارے ہیں، چنانچہ وہ اس میں ہر قسم کے بعید چیزوں کو قریب لاتا ہے، وہ ازل و ابد کو یکجا کر کے دکھاتاہے، ماضی (جس کا اگلا سرا زمانۂ آدمؑ ہے) کو لوٹا کر زمانۂ حال میں مرکوز

۱۶۰

کر دیتا ہے، اور مستقبلِ بعید کو اجتماعی قیامت سمیت کھینچ کر انفرادی روحانیت میں سما دیتا ہے، اور اگر ہم مانتے ہیں کہ یہ ایک قرآنی حقیقت ہے، تو چلئیے اسی قانون کے مطابق یہ بھی مانیں کہ یہ سب کچھ ’’نور علٰی نور‘‘ (۲۴: ۳۵) کے مقام پر واقع ہوتاہے، یعنی روح و روحانیت کی اس منزل میں، جہاں ناطقؐ یا اساسؑ یا) امام دودریاؤں کی طرح باہم مل جاتے ہیں، (۱۸: ۶۰ تا ۶۱)

         ۱۸۔ سوال: قصّہ ٔ سلیمانؑ (۲۷: ۳۴) میں ایک امکانی فساد کا بھی ذکر ہے، تو پیغمبر اور امام جیسی مبارک ہستی کے عمل میں کیوں فساد ہونا چاہئیے؟ کیا آپ اس بارے میں ہمیں کچھ سمجھا سکتے ہیں یا کوئی حکمت بیان کر سکتے ہیں؟

         جواب: فساد، (خرابی، بگاڑ) دو قسم کا ہوتا ہے، ایک فساد برائے تخریب ہے، اور دوسرا فساد برائے تعمیر، اگر حضرتِ سلیمان علیہ السلام ظاہری جہاد کی غرض سے شہرِ سبا کا یہ کہنا کہ ’’جب مُلوک (أئمہ) کسی شہر میں داخل ہو جاتے ہیں تو اس کو خراب کرتے ہیں‘‘۔ یہ بات ظاہراً بالکل درست ہے کہ یاجوج وماجوج (۱۸: ۹۴، ۲۱: ۹۶) جو امام علیمقامؑ کے لشکر میں سے ہیں، ہر مناسب قریۂ ہستی کو  تعمیرِ نور کے پیشِ نظر زیر وزبر کر دیتے ہیں، لیکن اگر خودی کے بُت کو توڑنے سے خدا مل جاتا ہے، تو پھر اس سے بڑی سعادت

۱۶۱

اور کیا ہو سکتی ہے۔

         ۱۹۔ اس میں بہت بڑی حکمت ہے کہ قرآنِ حکیم نے کسی بھی کافر حکمران کو بادشاہ (مَلِک) نہیں کہا، کیونکہ مَلِک خدا تعالیٰ ہے، او راس کی جانب سے امام مَلِک ہے، اگر دوسروں کے بقول کسی باطل شخص کو مَلِک کہنا مناسب ہوتاتو سب سے پہلے اس کا اطلاق فرعون پر ہوتا، کیونکہ قرآنِ پاک میں اس کا ایک طویل قصہ آتا ہے، مگر ایسانہیں ہے، کیونکہ خدوند تعالیٰ کا کلام قانون ہے، لہٰذا وہ واحد وقہار اپنے قانون سے کسی کافر کی ناجائز حکومت کی توثیق کرنا نہیں چاہتا۔

         ۲۰: سلمانِ فارسی سے متعلق موضوع میں انبیائے قرآن کی عظیم حکمتوں کو بیان کرنا یہ خود سلمان کی روحانی اور علمی عظمت وبزرگی کا ایک بین ثبوت ہے، لہٰذا آئیے ہم ایک بہت بڑی نعمت کی شناخت کر لیتے ہیں، وہ سرِ عظیم (بڑا بھید) سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۰) کے اس مبارک ارشاد میں پوشیدہ ہے: اور ہم نے اُس (یعنی داؤدؑ) کو ایک قسم کا لباس بنانے کی کاریگری سکھائی تمہارے لئے تاکہ وہ (لباس) تم کو تمہاری لڑائی سے بچائے پس کیا تم شکر کرنے والے ہو؟ یہ کونسی صنعت (کاریگری) تھی، جو خداتعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا؟ آیا یہ زِرَہ بنانے کی کاریگری تھی؟ آپ اچھی طرح سے سوچ لیں۔

         اس ربانی تعلیم میں جیسا کہ حکیمانہ خطاب فرمایا گیا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ یہ احسان ہر زمانے کے لئے ہے، اور جس نعمت کا یہاں ذکر

۱۶۲

ہوا ہے، وہ ایسی نہیں کہ دنیائے ظاہر کی مادی ترقی اس کی اہمیت، اور قدر و قیمت کو کم کر سکے، پس ایسا لباس جو خدا کے بندوں کو جسمانی، روحانی، اور عقلی ہر گونہ جنگوں سے بچاسکتا ہے جسمِ لطیف ہے، اور  یہی اللہ کا سب سے بڑا احسان ہے، اسی لئے شکر کرنے کا حکم دیاگیا۔

         تاریخِ امامت کا مطالعہ حضرتِ آدمؑ سے شروع کر کے دیکھیں تو معلوم ہو جائے گا کہ حضرتِ داؤدؑ یکے بعد دیگرے مرتبۂ امامت پر فائز ہو گئے تھے، چنانچہ یہ لباس آپ جب بھی دیکھ سکیں امام عالیمقام کا سب سے بڑا معجزہ ہو گا، او جیسا کہ مذکورۂ آیت سے ظاہر ہے امامِ برحقؑ کی یہ صنعت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے۔

         ۲۱۔ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ جسمِ لطیف کا ذکر موجود ہے، اگر صرف روحانی جہاد کی مناسبت سے اس کا بیان مقصود ہے تو ہر ایسی آیت میں ذراغور کریں، جس میں جنگی الفاظ میں سیکوئی لفظ مذکور ہو، جیسے فرمایا گیا ہے: اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر رکھا ہے، جن کو تم لو گے (۴۸: ۲۰) اس میں فلکی جسم اور روحانی جہاد کے نتیجے میں دنیا کودنیا کو فتح کرلینے کی بات ہے، اسی طرح سورۂ حدید ۵۷: ۲۵ میں (لوہا) سے یہی کوکبی جسم مراد ہے، سورہ نحل (۱۶: ۸۱ ) آپ نے پڑھا ہوگا کہ سرابیل (کُرتے) اجسامِ لطیف خُود قصّۂ  سلیمان میں سارے لشکر اسی جسمِ لطیف کے ذرّات ہیں ( ۲۷: ۱۷ ) عفریت جنی (۲۷: ۳۹) اور وہ شخص جو کتابِ کائنات کی روحانی سائنس جانتا تھا (۲۷: ۴۰) یہی زندہ جسمِ لطیف تھا، یاجوج و

۱۶۳

ما جوج کا ذکر ہو چکا ہے، یاد رہے کہ جسمِ لطیف کا ذکر اُن لفظوں میں ہے جو فرشتوں سے متعلق ہیں۔

غلامِ غلامانِ امامِ زمان

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

یکم مارچ ۱۹۸۵ء

۱۶۴

چند اعلیٰ سوالات

         سوال۱: روح اور مادہ میں سے کون سی چیز پہلے پیدا کی گئی ہے؟ ان دونوں میں کس کو تقدمِ شرفی حاصل ہے؟

         سوال۲: آپ کہتے ہیں کہ ہر چیز میں روح ہے، کیا جمادات میں بھی روح ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو وہ روح کس نوعیت کی ہے، حالانکہ جماد بیجان چیزکو کہا جاتا ہے؟

         سوال۳: آپ نے ’’وحدتِ کثرت نما‘‘ کا تصور پیش کیا ہے، اس کی وضاحت کیجئیے، تاکہ ہم اچھی طرح سے سمجھ سکیں۔

         سوال۴: آپ نے اپنی کسی تقریر کے دوران فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ عدد ایک (یعنی واحد) ہے، لہٰذا قرآنِ پاک میں جہاں جہاں خدا کے تمام چیزوں کو شمار کر رکھنے کاذکر آیا ہے، وہاں ایسے  شمار سے ان چیزوں کی وحدت مراد ہے، مگر قرآن میں ایسیی بہت سی مثالیں ملتی ہیں، جو کثرت کو ظاہر کرتی ہیں، جیسے سات آسمان، وغیرہ، تو کیا سات میں وحدت کی کوئی علامت ہو سکتی ہے!

۱۶۵

         سوال۵: براہِ کرم عروۃ الوثقیٰ (۲: ۲۵۶، ۳۱: ۲۲) کی حکمت بیان کیجئیے، کہ اس کی تاویل کیا ہے؟

         سوال۶: کیا ابرار یعنی نکو کاروں کا اعمال نامہ امامِ وقت علیہ السلام میں ہوتا ہے یا علیین میں؟ جبکہ امام ایک پاکیزہ شخصیت کانام ہے اور علیین ایک بلند ترین جگہ ہے (۸۳: ۱۸) ؟

         سوال۷: آیا صوفیوں کا یہ دعویٰ درست ہے کہ علمِ تصوف کا سرچشمہ مولا علیؑ کی ذاتِ عالی صفات ہے؟ اگر یہ حقیقت ہے تو کوئی مثال پیش کر کے وضاحت کریں۔

         سوال۸: سلام، دارالسلام اور اسلام ان تینوں الفاظ کے معنی اور حکمت بتائیے۔

         سوال۹: ’’ایک میں سب اور سب میں ایک‘‘ کی ریاضی تحلیل کر کے سمجھا دیجئے، کہ کس طرح ایک ہستی میں ساری ہستیاں سمائی ہوئی ہیں اور کیسے وہی ایک ہر ہستی میں موجود ہے؟

         سوال۱۰: وہ جامعِ جوامع جواب کونسا ہے، جس میں ہر بڑے سوال کا جواب مہیا ہو؟

         سوال۱۱: خدا اور بندوں کا ازلی اور ابدی رشتہ کیا ہے؟ کیا یہ رشتہ بدعملی کے سبب ٹوٹ جاتا ہے یا ہمیشہ ایک شان سے قائم ہے؟

         سوال۱۲: قرآنِ حکیم کہتا ہے کہ خدانے قلم کے ذریعے سے سکھایا (۹۶: ۴) مگر یہ بات سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیھمم السلام کو

۱۶۶

ظاہری قلم سے نہیں، بلکہ بطریقِ وحی سب کچھ سکھا دیا ہے، پھر یہاں قلم سے کیا مراد ہے؟

         سوال۱۳: ثم ان علینا بیانہ (۷۵: ۱۹) اس آیۂ کریمہ کی تفسیر و تاویل کیجئیے۔

         سوال۱۴: خداتعالیٰ نے حضرِتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیھما السلام کو کتابِ مستبین (۳۷: ۱۱۷) عنایت کر دی تھی، یہ کونسی کتاب تھی؟

         سوال۱۵: یہ ہمارا ایمان ہے کہ نور ایک ہے، لیکن ہم ظاہری کائنات میں نور کی کثرت دیکھ رہے ہیں، جیسے سورج، چاند اور بیشمار ستارے، پس یہ تمام چیزیں نورِ واحد کی مثال کس طرح ہو سکتی ہیں؟

         سوال۱۶: ان دونوں طریقوں سے کونسا زیادہ صحیح اور آسان ہے؟

          (۱) قرآن سے امام کو پہچاننا۔

          (۲) امام سے قرآن کو پہچاننا۔

         سوال۱۷: کیا قرآنِ حکیم میں لامکان، لازمان، ازل اور ابد کا ذکر ہے؟ اگر ہے تو کس طرح سے ہے؟ وضاحت فرمائیے۔

         سوال۱۸: آیا اس دنیا میں کوئی ایسا فرد یا کوئی گروہ ہو سکتا ہے جو خدا سے دشمنی رکھتا ہو؟ اگر ایسا کوئی نہیں ہے تو پھر قرآنِ حکیم میں خدا کے دشمنوں کا ذکر کیوں ہے (۲: ۹۸، ۶۰: ۱)

نوٹ: ان سوالات کے جوابات کے لئے مورخہ ۲۴ فروری

۱۶۷

۱۹۸۴ء کے کیسٹ کو سُنیں۔

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۲۳۔ فروری۱۹۸۴ء

۱۶۸

اشاراتی زبان۔ ۲

میں نے کہا: اس نے کہا

۱۔ میں نے کہا: قرآنِ پاک میں بہت سے عالی شان درختوں کی الگ الگ تعریف و توصیف کی گئی ہے، جن میں سے بعض اس دنیا سے متعلق ہیں اور بعض بہشت سے، اُس نے کہا: ایسانہیں، وہ درحقیقت ایک ہی درخت ہے، لیکن چونکہ قرآنِ کریم علم وحکمت کی جنت ہے، او ر جنت میں ہرچیز کے مختلف ظہورات ہوتے رہتے ہیں، لہٰذا یہی ایک درخت قرآنی بہشت میں کبھی زیتون (۲۴) کی شکل میں جلوہ نمائی کرتا ہے، کبھی شجرِ طور (۲۸: ۳۰) بن کر حاملِ نور نظر آتا ہے، کبھی شجرۂ طیبہ (۱۴: ۲۴) کی صور میں نورانی پھل دینے لگتا ہے، کبھی درختِ انجیر (۹۵: ۱) کبھی انار (۵۶: ۶۸) کبھی انگور کی بیل (۱۶: ۱۱) کبھی سدرہ (۵۳: ۱۴) کبھی طوبیٰ (۱۳: ۲۹) کبھی کھجور (۵۵: ۶۸) کبھی کیلا (۵۶: ۲۹) وغیرہ کی صورت میں ظہور پزیر ہو جاتا ہے، جیسا کہ قرآن حکیم زبانِ حکمت سے فرماتا ہے کہ حقیقت تو ایک ہی ہے، مگر اس کی مثالیں

۱۶۹

بہت زیادہ اور گونا گون ہیں (۱۷: ۸۹، ۳۰: ۵۸)

         ۲۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ  کے سو۱۰۰ اسمائے صفاتی ہیں، بلکہ اس کے ہزار نام ہیں، بلکہ ایک اور روایت کے مطابق کئی ہزار اسماء ہیں، اُس نے کہا: اچھی طرح کان لگا  کر سُن لو، اگرچہ ظاہراً خدا تعالیٰ بہت سے نام ہیں، لیکن دراصل اس کا صرف ایک ہی نام ہے، کیونکہ وہ واحد و یکتا ہے، چنانچہ اللہ پاک کا حقیقی نام اسم اعظم ہے، جو ہر زمانے میں زندہ وگویندہ ہے، اس سے انبیاء و أئمہ علیھم السلام مراد ہیں، اور دوسرے لفظی نام علمی ظہورات بھی ہیں اور حجابات بھی، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآنِ مجید میں ’’ الاسمآئُ الحسنٰی ‘‘ کا تصور ہی نہ ہوتا (۷: ۱۸۰، ۱۷: ۱۱۰، ۲۰: ۸، ۵۹: ۲۴)

         ۳۔ میں نے کہا: قرآنِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ: قیامت کے دن الروح اور فرشتے (خدا کے سامنے) صف باندھ کر کھڑے ہوں گے (۷۸: ۳۸) اُس نے پوچھا: کیا تم نے اس آیت میں بقوم (کھڑے ہوں گے) کی حکمت کو ٹھیک طرح سے سمجھ لیاہے؟ آیا تم صف باندھنے کا مطلب بھی جانتے ہو؟ کیونکہ کھڑے ہونے سے انبعاث مراد ہے، اور یہ واقعہ مقامِ عقل پر پیش آتا ہے، اور صف باندھنے کے معنی ہیں منظم و متحد ہونا ایک ہو جانا، یہ عالمِ شخصی کی بات ہے، کہ عالمِ صغیر کی روح اور جملہ ملائکہ نورِ عقل کی ہمہ گیر نمائندگی میں ایک ہو جاتے ہیں، دیکھو صف باندھنے کی تشبیہہ و تمثیل سیسہ پلائی ہوئی دیوار سے دی گئی ہے (۶۱: ۴) ظاہر ہے کہ ایسی دیوار کسی درزوشگاف کے بغیر کُلی وحدت وسالمیت رکھتی ہے،

۱۷۰

دوسری مثال پرندوں کے پرکھولنے سے دی گئی ہے، تم دیکھتے ہو کہ پرندے سے پر جدا نہیں ہوتے (۶۷: ۱۹)

         ۴۔ میں نے کہا: قرآنِ مقدس میں یہ بھی ہے: اور تمہارا پروردگار اور فرشتے صف درصف آئیں گے (۸۹: ۲۲) اُس نے کہا: خوب یاد رکھو کہ ظاہر میں آنا جانا جسم کی صفت ہے، اورخدا وند تعالیٰ ہر جسمانی صفت سے پاک و برتر ہے، چنانچہ یہ ارشاد نورِ عقل کے بارے میں ہے، جو اپنے ظہوراتِ عقلی میں نہ صرف فرشتوں کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ رب عزت کا بھی مظہر ہے۔

         ۵۔ میں نے کہا: قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے: پھر جب (روزِ قیامت) آسمان پھٹ کر تیل کی طرح لال ہو جائے گا (۵۵: ۳۷) اُس نے کہا: ہاں، مگر تم نے یہ نہیں سوچا ہے کہ اُس موقع پر آسمان صاف ہو گا یا ابر آلود؟ اور حق بات تو یہ ہے کہ یہ واقعہ بادلوں کے اوٹ کے پیچھے ہو گا، لہٰذا لوگ اُس سے بے خبر رہیں گے، یعنی یہ دراصل روحانیت کا قصہ ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے: اور جس دن آسمان بادل کے پھٹ جائے گا اور فرشتے نازل کئے جائیں گے جیسا کہ نازل کرنے کا حق ہے (۲۵: ۲۵) اسی موضوع سے متعلق ایک اور ارشاد یہ ہے: کیا وہ لوگ اس کے منتظر ہیں کہ حق تعالیٰ اور فرشتے بادل کے سائبانوں میں آئیں اور امر پورا ہو جائے (۲: ۲۱۰) یادرکھو کہ یہ سب عالمِ شخصی کے روحانی واقعات ومعجزات ہیں، اور ان میں سے کوئی بات فرضی مثال نہیں، بلکہ حقائق ہی حقائق ہیں۔

         ۶۔ میں نے کہا: قرآنِ پاک کہتا ہے کہ: خدا تعالیٰ نے رسولوں

۱۷۱

کے جملہ علمی وعرفانی احوال کا احاطہ کر لیا ہے اور ہر چیز کو شمار کر رکھا ہے جیسا کہ شمار کرنا چاہئیے (۷۲: ۲۸) اُس نے کہا: یہ کام اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں کیا ہے، کیونکہ لوحِ محفوظ وہیں ہے، جان لو کہ احاطہ کرنا یعنی گھیرنا اس معنیٰ  میں ہے کہ خدائے علیم وحکیم نے حضراتِ انبیاء علیھم السلام کے علومِِ مخفی کے گردا گرد ایک مضبوط دیوار بنائی ہے، تاکہ کوئی شخص اذنِ خداوندی کے بغیر اس میں داخل نہ ہو سکے، جیسا حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو خدائے پاک نے علم کا شہر اور حکمت کا گھر بنا کر اس کا دروازہ مولا علی علیہ السلام کو قرار دیا تھا، اور یہاں یہ بھی یاد رکھو کہ خدائے واحد کا تمام چیزوں کو شمار کرنا یہ ہے کہ اُس حکمت والے نے جملہ اشیاء کو عددِ واحد میں سما دیا ہے، اور ایسا عدد جو ایک ہے مگر سب ہے، وہ نورِ عقل ہے۔

         ۷۔ میں نے کہا: قرآنِ مقدس میں پانچ بار لفظ ارائک استعمال ہواہے، اُس میں سے ایک سورۂ یاسین (۳۶: ۵۶) میں اس طرح ہے: ۔ ھم وازواجھم فی ظل علی الارائِک متلون (۳۶: ۵۹) وہ اپنی بیویوں کے ساتھ چھاؤں میں تکیے لگائے تختوں پر بیٹھے ہوئے ہیں، اُس نے کہا: شاید تم اہلِ جنت کو الگ الگ تختوں پر سمجتے ہو، اس لئے کہ تم ابتک اسرارِ وحدت سے ناواقف ہو، یاد رکھو کہ بہشت قانونِ وحدت کے تحت ہے، لہٰذا وہاں سب کے سب ایک ہو جاتے ہیں، اور ان کے تخت بھی ایک ہو جاتے ہیں، مگر ہاں، لاتعداد

۱۷۲

علمی و عرفانی ظہورات ہوا کرتے ہیں، دوسری طرح سے بھی یہ سوچنا چاہئیے کہ جب چہرۂ خدا میں سب لوگ فنا ہو جائیں گے (۵۵: ۲۶ تا ۲۸) تو اس حال میں سب ایک ہو جائیں گے، اور ظہورات میں ہر ایک کی انفرادیت قائم رہے گی، جس طرح اس دنیا میں کوئی شخص ایک ہوتا ہے، اسکی جان بھی ایک کہلاتی ہے، مگر اس میں بیشمار ذرات ہوتے ہیں۔

         ۸۔ میں نے کہا: لفظِ سریر (تخت) کی جمع سُرر جو قرآنِ مجید میں چار بار مذکور ہے، اس سے متعلق ایک ارشاد یہ ہے: ونزعنا مافی صدورھم من غل اخوانا علی سُرُر متقبلین (۱۵: ۴۷) اور ان کے دلوں میں جو کینہ تھا، ہم وہ سب نکال دیں گے کہ سب بھائی بھائی کی طرح تختوں پر آ منے سامنے بیٹھا کریں گے۔ اُس نے کہا: اگرچہ شروع شروع میں یہ درست ہے کہ خدا کی وجہ سے دوستی اور خدا کی وجہ سے دشمنی کی جاتی ہے، لیکن ایمان کے درجۂ کمال پر پہنچ جانے کے بعد معلوم ہو جاتا ہے کہ ایسی دشمنی عارضی ہوا کرتی ہے، خدا کی وجہ سے دوستی اور خدا کی وجہ سے دشمنی کی جاتی ہے، لیکن ایمان کے درجۂ کمال پر پہنچ جانے کے بعد معلوم ہو جاتا ہے کہ ایسی دشمنی عارضی ہوا کرتی ہے، خداوندِ قدوس دنیا ہی سے کامل انسانوں کے قلب کو ہر قسم کی کدورت سے پاک و پاکیزہ رکھتا ہے، چنانچہ یہ ایک مجموعی تذکرہ ہے، یا یہ کہا جائے کہ یہ عوام کی نسبت سے ہے کہ خدا اہلِ بہشت کے دلوں سے کینہ نکال دیتا ہے، بہر کیف جب بہشت میں عداوت نہ ہو گی تو دوستی و محبت ہو گی، اور جب شدید محبت ہو گی، تو پھر وحدت ہی وحدت ہو گی، پس اس ربانی تعلیم کا اشارہ یہ ہے کہ تصورِ ازل و ابد میں تمام انسانوں کو بہشت کے مساوی تختوں یعنی تختِ یک رنگی پر یکجا قرار دیا جائے، اور ان کو آپس میں بھائی بھائی سمجھ لیا جائے، کیونکہ وہ

۱۷۳

سب کے سب اس مقامِ اعلٰی پر معنوی آدم و حوا یعنی عقلِ کلی اور نفسِ کلی کی اولاد ہیں۔

         ۹۔ میں نے پوچھا: حکما کا قول ہے کہ: لایولدالوحدۃ الا الوحدۃ = وحدت صرف وحدت ہی کو جنم دیتی ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟ ایسی وحدت کونسی ہے جو ایک اکیلی ہونے کے باوجود ماں باپ کی سی دوئی اختیار کر کے وحدت کو جنم دیتی ہے؟ اُس نے جواب دیا: اس کا مطلب یہ ہے کہ عقل کل اور نفسِ کل ایک وجہ سے ایک وحدت کا نام ہے، اور دوسری وجہ سے یہ دو ہیں اور جفتِ بسیط، چنانچہ اس وحدت نے جو کچھ جنم دیا، وہ دراصل وحدت ہی ہے، دوسرے لفظوں میں ان والدین سے جتنے لوگ پیدا ہوئے، ان کے مجموعی وجود کے دو پہلو ہیں، یعنی وہ ظاہراً کثیر ہیں اور باطناً ایک، جیسے ان کے ازلی والدین میں دونوں باتیں پائی جاتی ہیں، اور یہاں یہ بات ہمیشہ کے لئے یاد رکھو کہ انسانوں کی وحدت ازلی اور ابدی ہے، اور کثرت عارضی اور چند روزہ ہے، پس حکماء نے اپنے اس قول میں موجودات کے باطی اور ازلی پہلو کو پیشِ نظر رکھا ہے۔

۱۰۔ میں نے کہا: سورۂ حجرات (۴۹: ۱۰) میں فرمایا گیا: انما المومنون اخواۃ فاصلحو ابین اخوایکم (۴۹: ۱۰) مومنین تو سب بھائی ہیں سو اپنے دوبھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو۔ اس سے صرف یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ دینی برادری فقط مسلمین و مومنین

۱۷۴

تک محدود ہے، پھر ہم کس طرح یہ بات سمجھیں کہ سارے انسان دینی اخوت کے رشتے سے منسلک ہیں؟ اُس نے کہا: توجہ سے سنو، قرآنِ کریم کی بہت سی آیاتِ کریمہ زبانِ تنزیل سے یا زبانِ تاویل سے کہہ رہی ہیں کہ دینِ اسلام عالمِ ذر میں ادیانِ عالم پر غالب آ چکا ہے، اور آگے چل کر یہ واقعہ ظاہر میں بھی پیش آنے والا ہے، جیسے حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے فرمایا گیا: انا فتحنا لک فتحا مبینا (۴۸: ۱) بے شک ہم نے تم کو ایک کھلم کھلا فتح دی، نیز فرمایا: (اے رسولؐ) جب خدا کی مدد آ پہنچے گی اور فتح ہو جائے گی، اور تم لوگوں کو دیکھو گے کہ فوج در فوج خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں (۱۱۰: ۱ تا ۲) یہ عالمِ ذر میں دینِ خدا کی فتح کی مثال ہے، اسی طرح سب لوگ پہلے تو درجۂ روح میں ناطقؐ اور اساس کے روحی فرزند ہوں گے، اور اس کے بعد مرتبۂ عقل میں عقلِ کل اور نفسِ کل کے عقلی فرزند قرار پائیں گے۔

         ۱۱۔ میں نے کہا: قرآنِ حکیم میں ارشاد فرمایا گیاہے: واذالنون اذذھب مغاضبا (۲۱: ۸۷) اور مچھلی والے (پیغمبر یعنی یونسؑ جو یاد کرو) جبکہ وہ خفا ہو کر چلدئیے۔ نیز دوسرے مقام پر ارشاد ہے: ن والقلم وما یسطرون (۶۸: ۱) قسم ہے دوات کی اور قلم کی اور اُس چیز کی جو لکھتے ہیں، پہلی آیت میں نون مچھلی کا نام ہے اور دوسری آیت میں نون دوات ہے، ان دونوں چیزوں کے درمیان کیا تاویلی ربط و رشتہ ہے؟ اُس نے جواب دیا: حضرتِ یونس علیہ السلام کو جس مچھلی

۱۷۵

نے نگل لیا تھا وہ آپ کی روحانیت کی ایک زبردست روح تھی، اور نون جہاں دوات ہے، جس کی خدا قسم کھاتا ہے، اس سے نفسِ کُلی کی مثال مچھلی ہے وہاں عقلِ کلی کی تشبیہہ سمندر ہے، کیونکہ جملہ کائناتِ ظاہر بحرِ روح میں غرق ہے، اور یہ سمندر یعنی روحِ اعظم غریق بحرِ علم ہے، اور علم سے برتر و بیرون کوئی شی نہیں۔

         ۱۲۔ میں نے کہا: جس طرح اہلِ بہشت کے لئے تختوں کے معنی ہیں سرُر اور ارائک جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، آیا اسی طرح لفظِ عرش بھی ان کے لئے استعمال ہوا ہے، یا یہ صرف حضرتِ رحمان کے لئے خاص ہے؟ اُس نے کہا: عرش جہاں لغوی معنی میں ہے، وہ عام ہے، اور جہاں اصطلاحی معنی میں ہے، وہاں یہ خاص ہے، تم سورۂ نمل (۲۷: ۲۳) میں دیکھو کہ ملکۂ سبا کا عرش (تخت) عام ہے، اور سورۂ طٰحٰہ (۲۰: ۵) میں دیکھو یہ خاص ہے، تاہم عرش اصطلاحی معنی میں بھی بطریقِ حکمت اہلِ جنت کے لئے مستعمل ہے، جس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں: ۔

          (الف): عرش سب سے بلند ترین مثال ہے (۱۶: ۶۰، ۳۰: ۲۷) وہ دنیا کی کسی مادی شی کی طرح بیٹھنے کی چیز نہیں، بلکہ دیکھنے کی چیز ہے، یعنی وہ نورِ عقل ہے جس کا اہلِ بہشت انتہائی شوق سے مشاہدہ کرتے ہیں۔

          (ب): جو لوگ چہرۂ خدا میں فنا ہو جاتے ہیں، ان کے لئے عرش اپنے تمام معنوں کے ساتھ استعمال ہو جاتا ہے۔

          (ج): عرش نور ہے اس لئے جہاں نور مومنین و مومنات کے

۱۷۶

آگے اور دائیں چلتا ہے وہاں وہ عرش سے وابستہ ہیں (۵۷: ۱۲)

          (د): ہر مومن اور مومنہ کا عقلی جنم عرشِ اعلٰی پر ہوتا ہے، یاد رکھو کہ انبعاث ہی عقلی جنم ہے۔

          (ھ): جس کو معرفت کے بھیدوں سے خدا مل جاتا ہے اس کو عرش بھی مل جاتا ہے۔

          (و): عرش و کرسی جیسا کہ ذکر ہوا انسان کے عقلی والدین ہیں، لہٰذا ان کی گود میں پلنا لازمی ہے۔

          (ح): ہر عالمِ شخصی میں ایک عرش (تخت) اور روحانی سلطنت ہے۔

          (ط): بندۂ مومن کا قلب عرشِ الٰہی ہے، یعنی امامِ زمان صلوات اللہ علیہ، جو مومن کا حقیقی دل ہے، جس سے مومنین وابسہ ہیں۔

          (ی): خدا کا گھر اور خدا کا تخت ایک ہی معنی میں ہیں، پس جو لوگ خانۂ خدا میں داخل ہیں، ان کی انائے علوی یقیناً عرشِ اعلیٰ پر ہے۔

بندۂ کمترین

نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی

۳۱۔ جنوری ۱۹۸۵

۱۷۷

سورۂ ہُمزہ (۱۰۴: ۱ تا ۹)

 (ترجمہ) ہلاکت ہے ہر اس شخص کے لئے جو (منہ در منہ) طعن اور (پیٹھ پیچھے) برائی کرتا ہے، جس نے کچھ مال جمع کیا اور گن گن کر رکھا، وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا، ہر گز نہیں، وہ شخص تو ریزہ ریزہ کر دینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا، اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ ریزہ ریزہ کر دینے والی جگہ؟ اللہ کی آگ، خوب بھڑکائی ہوئی، جو دلوں تک پہنچے گی۔ وہ اُن پر ڈھانک کر بند کر دی جائے گی (اس حالت میں کہ وہ) لمبے لمبے ستونوں میں کھڑے ہوں گے) ۔

         تاویلی حکمت: ہر ایسے شخص کے لئے روحانی ہلاکت ہے جو جہالت و نادانی او رکُور باطنی کی وجہ سے ہادیٔ برحق پر طعن اور برائی کرتا ہے، جس نے کچھ مال جمع کیا، یعنی کچھ ظاہری علم حاصل کیا جو بہت قلیل ہے، جس کو وہ بہت زیادہ شمار کرتا ہے، یعنی اس کے نزدیک یہ محدود علم بیشمار ہے، جس کے سبب سے اس کو گھمنڈ ہو گیا ہے، وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا یہ علم ہمیشہ کار آمد ثابت ہو گا، ہر گز ایسا نہیں، وہ آدمی تو ریزہ ریزہ

۱۷۸

کر دینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا، یعنی داعی کے عالمِ شخصی میں جہاں درجۂ بدرجہ ذرات ہیں، جہاں نور بھی ہے اور نار بھی، علم بھی ہے اور جہالت بھی، اور سب سے بڑا عذاب ہے جو جہالت ونادانی کی صورت میں دل کو جلاتا رہتا ہے، پس وہ ۱۹ ستونوں میں گھرے ہوئیں ہوں گے (۴۷: ۳۰) جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: ۔

         انیس۱۹ کا رکن دوزخ پر مقرر ہیں، ہم نے اس کے یہ کارکن فرشتے بنائے ہیں، اور انکی تعداد کو کافروں کے لئے آزمائش بنایا ہے، تاکہ اہلِ کتاب کو یقین آ جائے اور ایمان والوں کے ایمان میں اضافہ ہو (۷۴: ۳۰ تا ۳۱)

مذکورہ ۱۹ فرشتے:

 (الف): صاحبانِ دورِ بزرگ ۷ + اُن کے حجتانِ جزائر ۱۲= ۱۹

 (ب): چھوٹے دور کے أئمہ ۷+ جزائر کے حجت ۱۲= ۱۹ (ملاحظہ ہو کتابِ وجہ دین، کلام ۱۴)

         ذراتِ ارواح کس طرح حدودِ دین سے وابستہ رہتے ہیں، اس کے بارے میں ایک کلیدی حکمت سورۂ یاسین (۳۶: ۴۱) میں ہے، اور وہ ارشاد یہ ہے: اور ایک نشانی ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کے ذراتِ (ارواح) کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا، اور ہم نے ان کے لئے ویسی ہی کشتیاں پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں (۳۶: ۴۱ تا ۴۲) اس سے ظاہر ہے کہ تمام ذراتِ ارواح کشتیٔ نوحؑ میں سوار تھے، یہ کشتی روحانیت کی

۱۷۹

ہوا کرتی ہے، اور ہمیشہ امامِ برحقؑ اور آپؑ کے حدود کی روحانیت سے بنائی جاتی ہے، جس سے لوگ شعوری حالت میں وابستہ رہتے ہیں۔

         آپ اس قرآنی منطق میں خوب غور کریں کہ تمام چیزوں پر خزائنِ الٰہی محیط ہیں، اور کوئی شی ان خزانوں سے باہر نہیں (۱۵: ۲۱) تو پھر بہشت اور دوزخ کو خدا کی اس بادشاہی سے باہر کہاں ہونا چاہئیے؟ کوئی حکومت جتنی ترقی یافتہ ہوتی ہے، اس کا جیل (JAIL) اتنا منظم ہوتا ہے، ہر چند کہ مجرموں کے لئے وہ بُری جگہ ہے، لیکن اصلاحِ معاشرہ کے لئے اس کی بڑی ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ قید خانہ لوگوں کو وطنِ عزیز کے اندر ہوتا ہے، باہر نہیں۔

نصیر االدین نصیر ہونزائی

۲۵۔ نومبر ۱۹۸۴ء

۱۸۰

گلہائے دَانش

         خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کے جملہ جان نثاروں کے نام پر، جو شرق و غرب میں رہتے ہیں، خداوندِ عالم اپنی خاص رحمتوں اور برکتوں سے ان عزیزوں کو نوازے!

         یہ عاجزبندہ انتہائی عاجزی اور خلوص سے یا علی مدد کی حکمت آگین دعا کرتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ خواہش یہ بھی ہے کہ یہی پاک و پاکیزہ دعا آفاق و انفس کے تمام ذرّات سے گونج اٹھے، تاکہ گوشِ ہوش کو رازِ روحانیت کی خبر ہو، اور ابوابِ عرفان یکے بعد دیگرے کُھلتے جائیں۔

         ۱۔ ہر عزیز کو یہ پرحکمت اخلاقی اصول ذہن نشین کر لینا چاہئیے کہ حسنِ عمل کی سب سے بڑی طاقت عاجزی اور فروتنی میں پوشیدہ ہوا کرتی ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: وقولواللناس حسنا (۲: ۸۳) اور لوگوں سے اچھی طرح بات کرو۔ اس حکم میں گفتگو کی تمامتر خوبیوں کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، کیونکہ خداتعالیٰ کا ہر فرمان تمام متعلقہ معنوں پر

۱۸۱

محیط ہوتا ہے، پس اس ربانی تعلیم میں لوگوں سے بات چیت کرنے کی ظاہری خوبیوں کے علاوہ باطنی خوبیاں بھی مقصود ہیں۔

         ۲۔ آپ اپنی ذات میں یا کسی دوسرے مومن میں اللہ تعالیٰ کے اس حکیمانہ انعام کے اشارے پر بخوبی غور کر سکتے ہیں جو کسی عمدہ سے عمدہ عبادت کے بعد رقتِ قلبی اور عاجزی کی صورت میں مل جاتا ہے، قانونِ فطرت کایہ اشارہ نورِ ہدایت کی جانب سے ایک عقلی معجزہ ہے، جو زبانِ حال سے یہ کہتا ہے کہ تم اسی شاہراہِ مستقیم پر ثابت قدم رہو، اور اسی روحانی لذت وشادمانی کو اپناتے رہو جوہر وقت کسرِ نفسی اور توضع سے ملتی رہتی ہے۔

         ۳۔ ارشادِ بنوی ہے کہ: ان من الشعر لحکمتہ بیشک بعض نظمیں حکمت ہوا کرتی ہیں۔ یعنی جن کا نظریہ صحیح نہ ہو ان کی شاعری بے مغز اخروٹ کی طرح ہوتی ہے، او رجن لوگوں کا عقیدہ حقیقت پر مبنی ہو، اُن کے اشعار علم وحکمت کے مغز سے بھر پور ہوا کرتے ہیں، اس لئے کہ وہ حق و حقیقت کی نمائندگی و ترجمانی کرتے ہیں۔

         ۴۔ قرآنِ کریم (۹: ۱۶) میں قلبی دوستی (ولیجتہ) کا ذکر آیا ہے، جو خدا، رسولؐ، امامِ زمانؑ، اور مومنین کے لئے خاص ہے، ولیجہ کا مادہ ’’ول ج‘‘ ہے، جس کا مصدر وُلوج (داخل ہونا) ہے چنانچہ اس لفظ (ولیجتہ) کی تاویل ہے خدا، پیغمبرؐ اور امام کے نور اور مومنوں کی روح کو دل میں داخل کر لینا اور حقیقی معنوں میں اپنائے رکھنا، اس آیۂ کریمہ میں

۱۸۲

امامِ عالیمقامؑ کا ذکرِ جمیل دو طرح سے فرمایا گیا ہے: خلیفۂ رسولؐ کی مرتبت میں اور امیر المومنین کی حیثیت سے، کیونکہ منصبِ جلیلۂ نبوت کا لازمہ خلافت (امامت) ہے، اور لفظِ ’’مومنین‘‘ میں ہمیشہ سردارِ مومنین ساتھ ہے۔

         ۵۔ حضرِتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’ اسماعیلی عقیدہ نور کی طرح، تم نور جیسے بن جاؤ، آگ کی مثال نہ بنو، ایک اسماعیلی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ کسی شخص سے دشمنی کرے یہاں تک کہ تم غیر مسلم کا بھی (خواہ مخواہ) دشمن نہ ہو جاؤ‘‘ اسماعیلی مذہب کی بے مثال رواداری اور وسعتِ قلبی کا یہ عالم ہے، تاہم امامِ عالیقمامؑ کی اس نورانی ہدایت سے مذکورۂ بالا آیت کی تاویل متاثر نہیں ہوتی، کیونکہ دوستی کے دو درجے ہیں: ایک ہے انسانی روح میں دوستی، اور دوسرا ہے مذہبی روح میں دوستی۔

         ۶۔ اہلِ ایمان کی سب سے بلند ترین صفت تقویٰ یعنی خوفِ خدا ہے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب سے بڑھ کر متقی ہے وہی سب سے بڑا معزز ہے (۴۹: ۱۳) مگر یہ تقویٰ جو آسمان معیار کے مطابق ہے علم لدنی پر مبنی ہے (۳۵: ۲۸) اور یہ مرتبۂ اعلٰی سب سے پہلے سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو پھر امامِ برحقؑ کو حاصل ہے، اور اسی وسیلے سے سب فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

         ۷۔ سورۂ نور (۲۴: ۵۵) میں اللہ تعالیٰ نے کامل ایمان والوں سے جس خلافتِ ارضی کا وعدہ فرمایا ہے، اور جیسی اس کی مثال زمانۂ ماضی سے دی گئی ہے، وہ دراصل عالمِ شخصی کی خلافت ہے، جس میں یہ ممکن اور بڑی گنجائش ہے کہ

۱۸۳

اہلِ بہشت کی طرح ہر مومن اپنے انفرادی عالم میں خلیفہ ہو، اور کوئی شک نہیں کہ اسی مقصد کے پیشِ نظر ہر شخص کی ذات میں ایک کائنات پوشیدہ رکھی ہوئی ہے۔

         ۸۔ یہ کیوں ایسا ہے کہ خلافتِ کبریٰ اور خلافتِ صغریٰ کا تعلق آسمان سے نہیں بلکہ زمین سے ہے؟ اس لئے کہ اس منصبِ جلیلہ کا مقصد لوگوں کی اصطلاح ہے، اور لوگ زمین پر رہتے ہیں، تاہم خلیفۂ خدا کے لئے فرشتوں کی اطاعت (سجدہ) کرنے میں بڑی حکمت پوشیدہ ہے کہ ملائکہ گویا آسمانی مخلوق ہیں، اس معنیٰ میں خلیفۂ خدا کو آسمان بھی مسخر ہے (۳۱: ۲۰)

         ۹۔ بڑی خلافت کے تحت زمینِ ظاہر اور زمینِ باطن دونوں آتی ہیں، اوریہ مرتبہ انبیاء و أئمہ علیھم السلام کے لئے مخصوص ہے، اور چھوٹی خلافت کے تحت صرف باطنی زمین آتی ہے، جس کا دوسرا نام عالمِ صغیر یا عالمِ شخصی ہے، تاہم اس پوشیدہ دنیا میں وہ سب کچھ ہے، جو دنیائے ظاہر میں ہے، کیونکہ یہ اس مادی کائنات کی لطیف روحانی صورت ہے، جیسے ایک قرآنی آیت کا مفہوم ہے کہ آسمان (کائنات) کے کثیف چھلکے کو اتار کر لطیف صورت میں پیش کیا جائے گا (۸۱: ۱۱)

         ۱۰۔ خالقِ برحق نے جتنی دنیائیں پیدا کی ہیں، اُن سب میں بہترین دنیا عالمِ شخصی ہے، جس کو قرآنِ حکیم نے ’’احسنِ تقویم‘‘ کا خطاب (TITLE) دیا ہے (۹۵: ۴) اور انسانوں کو عالمین (دنیائیں) کہا ہے، اس کا یہ مطلب ظاہر ہے کہ ہر شخص اپنی ذات میں بحدِ قوت ایک کائنات ہے، مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کثرت سے دنیائیں کیوں ہیں؟ اس کا جواب

۱۸۴

یہ ہے کہ بشرطِ اطاعت ہر شخص کو بہشت کی ایک سلطنت دینے کے لئے یہ اہتمام فرمایا گیا ہے۔

         ۱۱۔ قرآنِ مقدس میں جہاں جہاں تک اصنام پرستی (بت پرستی) کا موضوع پھیلا ہوا ہے اس میں یہ جان لینا ضروری ہے کہ بُت ظاہری اور باطنی دو قسم کے ہوا کرتے ہیں، چنانچہ دنیا میں اکثر لوگ ایسے ہیں، جو دوسروں کی بُت پرستی پر طنزو تشنیع تو کرتے رہتے ہیں مگر اپنی بُت پرستی کو نہیں سمجھتے۔

         ۱۲۔ انسان کا حقیقی دل امامِ عالی مقام ؑ ہے، جس کو قرآن حکیم نے قلبِ سلیم (۲۶: ۸۹، ۳۷: ۸۴) اور قلبِ منیب (۵۰: ۳۳) کہا ہے، یہی حقیقت انائے علوی بھی ہے، یعنی وہ دل جو خدا کو سونپا گیا ہے اور رجوع کیا گیا ہے، اب اگر آدمی اور اس کے دل کے درمیان کوئی بڑی آزمائش حائل ہو گئی ہے، تو اس میں کامیاب ہو کر اپنے قلب تک پہنچ جانے کے لئے علم و عمل کی سخت ضرورت ہے۔

         ۱۳۔ قرآنِ حکمت آگین کا ارشاد ہے کہ شیطان کو کام کرنے کی جو مہلت دی گئی ہے، وہ کسی کی انفرادی قیامت میں منزلِ انبعاث تک ہے، اور ایک حدیثِ شریف سے اس حقیقت کی تصدیق ہو جاتی ہے، کہ ہر شخص کا ایک انفرادی شیطان ہوا کرتا ہے، اور حضوراکرمؐ کا شیطان ختم ہو گیا تھا، یعنی آنحضرتِؐ کے انبعاث کی وجہ سے شیطان کی مہلت ختم ہوتی تھی، اور وہ مسلمان بن گیا تھا، اب اس میں سب سے بڑا دلچسپ سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ یہ کیو ں ایساہے؟ اور اس میں رازکی بات کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شیطان کو شکست حقیقی علم میں ہے، چنانچہ جو ں جوں علم و حکمت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے،

۱۸۵

توں توں شیطان کمزور ہوتا چلاجاتابے، یہاں تک کہ انبعاث کا وقت آتا ہے، اور ا س  کی مہلت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔

         ۱۴۔ یہ کہنا عجیب ہے کہ شیطان کے پاس بہت علم تھا، کیونکہ اگر اس کے پاس حقیقی علم ہوتا تو ہو ہر گز گمراہ نہ ہوتا، مگر ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اس نے بہت بندگی کی ہو اور علم کے نام سے بہت سی باتیں بغیر کسی حقیقت کے جانتا ہو، جیساکہ قرآنِ حکیم کی ایک آیۂ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ: انسی اور جنی شیاطین سوائے ایسی باتوں کے جو (اندر سے خالی خولی اور) اوپر سے ملمع کی ہوئی ہے کچھ نہیں جانتے ہیں (۶: ۱۱۲)

         ۱۵۔ قرآنِ پاک کے معروف ناموں میں سے ایک نام ’’ذکر‘‘ ہے (۲۱: ۵۰) اور پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا ایک با برکت نام بھی ذکر ہے (۶۵: ۱۰ تا ۱۱) اور آپ جانتے ہیں کہ ذکر کے معنی یادِ خدا کے بھی ہیں اور نصیحت کے بھی، چنانچہ جو لوگ قرآنی علم کو حاصل کرتے ہیں، وہ نہ صرف اللہ کی یاد کرنے اور نصیحت سننے کا ثواب پاتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کو رسولؐ اور اہلِ ذکر یعنی أئمہ کی ہمنشینی کا ثواب بھی مل جاتا ہے۔

         ۱۶۔ عبادت وبندگی کے کئی پہلو ہیں، بالفاظِ دیگر اللہ جل شانہ کی غلامی کی بہت سی صورتیں ہیں، ان میں قرآنی علم کی خدمت ایک افضل واعلٰی عبادت ہے، جبکہ قرآن اسلام و ایمان کی اصل و اساس ہے، اور جبکہ قرآن خداوند تعالیٰ کی آخری پیاری کتاب ہے۔

         ۱۷۔ سورۂ نمل میں فرمایا گیا ہے: اور جب قولِ قیامت اُن پر واقع

۱۸۶

ہوگا تو، ہم ان کے لئے زمین (یعنی ارضِ روحانیت) سے ایک جانور نکالیں گے جوان سے باتیں کرے گا کہ لوگ ہماری (یعنی اللہ کی) نشانیوں پر یقین نہ لاتے تھے (۲۷: ۸۲) دابتہ الارض سے مولا علی علیہ السلام کی وہ مرتبت مراد ہے جو وقت آنے پر بصورتِ ذرّات بولنے لگتی ہے، اور خدا کی نشانیوں کے معنی ہیں أئمہء طاہرین علیھم السلام۔

         ۱۸۔ آپ کو اس بات کا علم ہے کہ بموجبِ حدیث سفینۂ نوح اہلِ بیت رسولؐ کی مثال ہے، سو آئیے ہم اس کی مربوط حکمت قرآنِ حکیم میں دیکھتے ہیں، ارشاد ہے: پھر ہم نے نوحؑ اور کشتی والوں کو بچا لیا اور ہم نے اس (یعنی کشتی) کو دنیا والوں کے واسطے ایک نشانی بنایا (۲۹َ: ۱۵) متعلقہ حدیثِ شریف کی روشنی میں اس آیۂ کریمہ کے اشارے یہ ہیں کہ کسی بھی صورت میں ہمیشہ طوفان برپا ہوتا رہتا ہے، جس سے لوگوں کے بچ جانے کا وسیلہ پیغمبرِ برحقؐ کے اہلِ بیت ہیں، اور خداوندِ عالم نے اس وسیلۂ نجات کو ایک مستقل آیت کے طور پر قائم رکھا ہے، تاکہ دینِ اسلام کے وسائل میں کوئی کمی واقع نہ ہو، کیونکہ دینِ فطرت کامل اور مکمل ہے، اور اللہ تعالیٰ کی نعمت بدرجۂ تمام وکمال موجود ہے (۵: ۳)

         ۱۹۔ حضرتِ نوح علیہ السلام نے ایک پُرحکمت دعا اس طرح کی: ۔ رب اغفرلی ولوالدی ولمن دخل بیتی مومنا وللمومنین والمومنت (۷۱: ۲۸) اے میرے رب مجھ کو میرے ماں باپ کو بخشدے اور جو (خاص) مومن ہو کر میرے (اہل) بیت میں داخل

۱۸۷

ہیں انکو اور (عام) مومنین اور مومنات کو بھی، اس آیۂ مبارکہ میں سب سے بڑی وحکمت یہ ہے کہ جس طرح حضرتِ نوحؑ کے اہلِ بیت سے ایک فرد نافرمان ہو کر خارج ہو گیا تھا، اسی طرح کئی افراد حقیقی فرمانبرداری سے آپؑ کے اہلِ بیت میں داخل وشامل ہو گئے تھے۔

         ۲۰۔ انبیاء وأئمہ علیھم السلام کے گھر سے ان کی روحانیت ونورانیت مراد ہے، جس میں مومنین کا آج یا کل داخل ہونا لازمی ہے، ورنہ جسمانی حالت میں ہادیٔ برحق کے گھر میں اہلِ ایمان کا داخل ہو جانا ضروری نہیں، پس یہی وجہ ہے کہ زمانۂ برحق کے گھر میں اہلِ ایمان کا داخل ہو جانا ضروری نہیں، پس یہی وجہ ہے کہ زمانۂ نبوت کے اہلِ بیت محمد رسول اللہ، علیُ مرتضٰی، فاطمۂ زہرا، اور حَسَنین صلوات اللہ علیھم تھے، اور سلمان فارسی کی مثال سے یقین آتا ہے کہ اور بھی کئی مومنین خانۂ نور میں داخل ہو گئے تھے، اگرچہ ان کے نام ظاہر نہیں، کیونکہ امامؑ اسی مقصد کے لئے دین کا زندہ راستہ یعنی صراطِ مستقیم بھی ہے، راہنما بھی ہے، اور شہرِ روحانیت کا دروازہ بھی، تاکہ مومنین کو منزلِ مقصود تک پہنچا دیا جائے۔

۲۱۔ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے کہ: جو شخص نیک کام کرے گا اُس کو دس گنا بدلہ ملے گا (۶: ۱۶۰) یعنی جو اس دنیا میں ایک نیکی کرے، اس کو آخرت میں دس نیکیاں ملیں گی، اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ جو شخص دعوتِ حق کو قبول کر کے مستجیب بن جاتا ہے، تو وہ ایک بہت بڑی نیکی کرتا ہے لہٰذا اسے دس حصّہ نیکی ملے گی، جو اس طرح ہے: مستجیب (۱) ، مازونِ اصغر (۲) ، مازونِ اکبر (۳) ، داعیٔ مکفوف (۴) ، داعیٔ مطلق (۵) ، حجّتِ جزیرہ (۶) ، حجّتِ اعظم (۷) ، امامؑ (۸) ،

۱۸۸

اساس (۹) ، اور ناطقؐ، یہ نیکی کے وہ دس درجات ہیں، جو تمام نیکیوں پر محیط ہیں۔

         ۲۲۔ قرآنِ کریم میں جہاں جہاں کسی کام کے لئے حکم دیا گیا ہے، اس کا اطلاق عمل کے ادنیٰ اور اعلٰی تمام مدارج پر ہوتا ہے، مثال کے طور پر الگ الگ آیتوں میں ۲۷ بار واعلموا (اور جان لو) فرمایا گیا ہے، جس کا مقصد صرف یہی نہیں کہ لوگ دنیا میں علم کو حاصل کرتے رہیں، بلکہ آخرت میں بھی علم سے وابستہ رہنا ہے، جیسے ارشاد ہوا ہے: واعلمو اان اللہ یحول بین المرئِ وقلبہ وانہ الیہ تحشرون (۸: ۲۴) اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ  آڑ بن جایا کرتا ہے آدمی اور اس کے قلب کے درمیان اور بلاشبہ تم سب کو اس کے پاس جمع ہو جانا ہے۔ پس اس امر کا منشا یہ ہے کہ ذات انسانی سے متعلق علم ومعرفت کو بدرجۂ تمام وکمال حاصل کیا جائے، تاکہ یہ راز معلوم ہو سکے کہ کس طرح خدا بندۂ مومن اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے؟ الحمد للہ رب العلمین

بندۂ غریب

نصیرالدّین نصیرہونزائی

۵ نومبر۱۹۸۴ء

۱۸۹

دو انتہائی عظیم فرشتے

ترجمہ از

دیوانِ پیر ناصر خسرو ق س

مطلع: بالای ہفت چرخ مُدّور دو گوہرند

         ۱۔ ان سات گول آسمانوں کے اوپر دو گوہر ہیں، جو حقائق آسمان سے اوپر یا باہر ہیں، وہ ازلی، ابدی اور لامکان ہیں، جن کے نور سے عالم اور انسان منور اور درخشان ہیں۔

         ۲۔ یہ دونوں خود تو شکل و صورت سے برتر ہیں، مگر تصویر بنانے والے ہیں اور نیستی کی بچہ دانی میں ہستی کے نطفہ سے تصویر بنا دیتے ہیں۔

         ۳۔ وہ ان چیزوں میں سے نہیں جو محسوسات کہلاتی ہیں، وہ حواس میں نہیں سماتے، اور نظر نہیں آتے، کیونکہ وہ نہ تو تاریک ہیں اور نہ ہی روشن۔

         ۴۔ یہ قدیم یعنی ازل کی بات ہے کہ وہ دایۂ قدس کے پروردہ ہیں۔ وہ گوہر نہیں اگرچہ اوصافِ گوہر رکھتے ہیں۔

         ۵۔ آفرنیش کی اس جانب سے بھی اور کائنات کی اُس طرف (یعنی لامکان) سے بھی، حدودِ زمان میں بھی اور لازمان میں بھی وہ ساتھ

۱۹۰

رہتے ہیں۔

         ۶۔ وہ ایک اعتبار سے اس جہاں میں نہیں ہیں اور وہ دوسرے اعتبار سے اس میں موجود ہیں، وہ ہم میں غیر موجود بھی ہیں اور ہمارے بدن میں روح پرور بھی۔

         ۷۔ کہتے ہیں کہ انہی معنوں میں وہ دونوں گوہر دونوں جہان کی حیثیت سے ہیں، اسی طرح وہ سات اقلیم میں حاضر بھی ہیں اور غائب بھی، یعنی دنیا ہونے کی مرتبت میں عیان اور آخرت ہونے کے مرتبت میں نہان ہیں۔

         ۸۔ ان میں سے ایک روحِ قدسی کا درجہ رکھتا ہے اور دوسرا جبرائیل کی ذات ہے، یعنی یہ دونوں پرواز کرنے والے فرشتے ہیں مگر مادی قسم کے پر نہیں رکھتے۔

         ۹۔ تعجب ہے کہ یہ دونوں فرشتے عالمِ سفلی میں پروں کے بغیر پر کھولے بیٹھے ہیں، اور بازؤں کے بغیر عالمِ علوی پر اڑ جاتے ہیں۔

         ۱۰۔ دنیا کے عناصرِ اربعہ جو گرم، سرد، خشک اور تر ہیں، یعنی مٹی، ہوا، پانی اور آگ، ان کے ساتھ وہ گوہر موافقت رکھتے ہیں۔

         ۱۱۔ گنج خانۂ ازل میں اور خزینۂ ابد میں یہ دونوں، جوہر (گوہر= موتی) نہیں، لیکن مثال کے طور پر جوہر کے نام سے ہیں۔

         ۱۲۔ یہ دونوں گوہر عالم بھی ہیں اور آدم بھی، دوزخ بھی ہیں اور بہشت بھی، حاضر بھی ہیں اور غائب بھی، زہر بھی ہیں اور شہد بھی۔

         ۱۳۔ اور نور سے لے کر ظلمت تک بلندی سے لے کر پستی تک،

۱۹۱

مشرق سے لے کر مغرب تک اور سمندر سے لے کر خشکی تک یہی محیط ہیں۔

         ۱۴۔ یہ موجود بھی ہیں اور معدوم بھی، باطن بھی ہیں اور ظاہر بھی، اسی سبب سے یہ تجھ سے الگ بھی ہیں اور تیرے ساتھ ایک ہی گھر میں بھی رہتے ہیں۔

         ۱۵۔ دوسرے جہان میں کہ وہ ان کا کارخانہ ہے، یہ ہر عمارت اور اس کے بانی کو فنا کر ڈالتے ہیں۔

         ۱۶۔ حواسِ خمسہ اور چار طبائع یعنی، مٹی، پانی، ہوا اور آگ کے روزی دینے والے ہیں، اور نو آسمانوں اور سات ستاروں کے خالی کرنے والے ہیں، جس کا مطلب ہے زمین کی طرف گونا گوں قوتوں کو فیض بھیجتے رہنا۔

         ۱۷۔ اُن مشرف ومستفید ہونے والے دس ہیں جو ان کے دولت کدہ کے گردا گرد بیٹھے ہوئے ہیں، ان سے پانچ حواسِ باطن۔

         ۱۸۔ دونوں کے سامنے آسمانِ ظاہر اور آسمانِ باطن دونوں کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: دو گوہر سے عقلِ کل اور نفسِ کل مراد ہیں، اور دو انتہائی عظیم فرشتے یہی ہیں۔

بعض جگہوں میں آزاد ترجمہ کیا گیا ہے۔

۱۹۲

دکاندار کھڑا ہے، اور جو کچھ بتدریج فروخت کرتا ہے تو یہ اسے خرید لیتے ہیں۔

         ۱۹۔ وہ بادشاہ جس کے دس سر چھ چہرے اور سات آنکھیں ہیں، اور چار افراد جو ہمیشہ آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں، یہ گوہر ان سب کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، بادشاہ سے کائنات مراد ہے، جس کے دس سر ہیں یعنی آسمان اور زمین، چھ چہرے ہیں یعنی چھ اطراف، او رسات آنکھیں ہیں یعنی سات ستارے، اور چار مخالف افراد چار عناصر ہیں۔

         ۲۰۔ وہ جوہر نہیں ہیں، ان کا جوہر عرض ہے، نوٹ: جوہر کے دو معنی ہیں: (۱) گوہرِ عقل، یعنی مثلِ اعلیٰ کا موتی (۲): وہ چیز جو بذاتِ خود قائم ہے، جیسے کاغذ کہ از خود قائم ہے، مگرتحریر کاغذ پر قائم ہے، پس کاغذ جوہر ہے اور تحریر عرض، یعنی جوجوہران کی مثال کو پیش کرتا ہے، وہ اپنے آپ قائم نہیں بلکہ یہ ان دونوں پر قائم ہے، اس معنیٰ میں یہ جوہر دراصل عرض ہے، انھوں نے عرض کے مدارومحور کو بنایا ہے اور وہ خود محور نہیں ہیں۔

         ۲۱۔ یہ تجھ کو ظاہری حروف کے بغیر کتابِ اسرار پڑھ کر سنا سکتے ہیں، اور دیکھے بغیر اعمال کو جانتے ہیں۔

         ۲۲۔ ان کو ظاہر ہو جانا اس لئے ہے کہ یہ دراصل باطن میں ہیں، یہ اپنا جسم اور سر نہیں رکھتے کیونکہ یہ ہر تن اور ہر سر میں ہیں۔

         ۲۳۔ یہ ان کی صفات میں سے ہے کہ کائنات میں نہیں سماتے، لیکن اس کے باوجود وہ دونوں ہمارے جسم و سر میں مضمر ہیں۔

۱۹۳

         ۲۴۔ یہ مکان تیرے ہی واسطے بنایا گیا ہے، ورنہ ان کے لئے مکان کی کیا اہمیت ہے، کہ وہ تو مکان سے برتر ہیں۔

         ۲۵۔ وہ ایک ایسی جگہ سے تیری طرف آئے ہیںں کہ وہ دراصل جگہ ہی نہیں بلکہ لامکان ہے، وہ وہاں فرشتے ہیں اور یہاں پیامبر ہیں۔

         ۲۶۔ وہ صفات میں درجۂ ملکوت سے بالاتر ہیں، کیونکہ وہ ذات ذوالجلال کی طرح نہ عنصر ہیں اور نہ جوہر۔

         ۲۷۔ اس حقیقت کے باوجود کہ دونوں جہان ان دونوں کے زیرِ نگین ہیں، اگر تو چاہے تو یہ تیری روح کے تابعِ فرمان ہو سکتے ہیں۔

مترجم:

نصیر الدّین نصیر ہونزائی

۱۴۔ مارچ ۱۹۸۴ء

۱۹۴

موت کی عظیم حکمتیں

ہماری بہت ہی عزیز فرشتہ صفت بیٹی ماہِ محل پر نورِامامت کی شعاعیں برستی رہیں!

میں انتہائی خیرخواہی اور قلب کی گہرائی سے ’’یاعلی مدد‘‘ کی مقدس دعا کرتا ہوں، اور اس پُرحکمت دعا میں اپنی بہت ہی پیاری بیٹی کے ساتھ وہاں کے جملہ عزیزوں کو بھی یاد کرتا ہوں، خداوندِ قدوس اُن سب کو نوازے! دونوں عالم کی کامیابی اور سربلندی عنایت فرمائے!

         عزیز بیٹی، بہت ہی عزیز بیٹی! ہمیں معلوم ہے: فون پر آپ کو بتایا گیا ہے کہ آپ کے والدِ محترم کا انتقال ہو چکا ہے،۔ ۔ ۔ ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون (ہم اور ہمارا سب کچھ خدا کی ملکیت ہے اور ہم وقتی طور پر بھی اور دائمی طور پر بھی اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں) یہ اس سلسلے میں قرآنِ پاک کی ایک تعلیم ہے، جس پر ہم سب کا ایمان ہے، چونکہ آپ اور ہم امامِ برحق صلوات اللہ علیہ کے علمی سپاہی ہیں، لہٰذا آئیے ہم معمولی اور رسمی باتوں کو چھوڑ کر کچھ حقیقی علم کی باتیں کریں، تاکہ اس سے

۱۹۵

ایک طرف مرحوم کے لئے کوئی تحفۂ ثواب ہو، اور دوسری طرف علمی لشکر کی معلومات میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہو سکے۔

         ۱۔ موت کی بہت سی قسمیں ہیں، مگر سب سے عالی شان اور پُرحکمت موت وہ ہے، جو خدا کے دوستوں یعنی مومنین سے متعلق ہے، انبیاء وأئمہ علیھم السلام دوستانِ خدا کے سردار ہیں، چنانچہ حدیثِ شریف میں ارشاد ہے کہ ’’ موت مومن کا گلدستہ ہے‘‘ گلدستہ کتنا خوبصورت اور پیارا ہوتا ہے، اس میں کیسی رنگینی اور دلکشی ہوتی ہے، اس کی خوشبو سے یکایک قلبِ بشر میں فرحت وشادمانی کی ایک لہر دوڑنے لگتی ہے، یہ تو صرف چند ظاہری اور مادی پھولوں کے مجموعے کی بات ہوئی اور اگر ایسا کوئی گلدستہ نہ مرجھانے والے لازوال او رغیر فانی پھولوں کا ہو، اور وہ محبوبِ جان کی جانب سے آئے، تو پھر مسرت وشادمانی کا ایک عجیب طوفان برپا ہو گا، یہ مومن کی موت کی مثال ہے، تاہم قانونِ حکمت کا یہ تقاضا ہے کہ جب تک روح جسم سے جدا نہیں ہوتی، تب تک کوئی بھی خوشی طوفانی قسم کی نہ ہونی چاہئیے، کیونکہ انسان جس طرح شدید غم کے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتا، اسی طرح وہ حد سے زیادہ خوشی کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔

         ۲۔ قرآنِ حکیم میں موت سے متعلق جو کلیہ (عام قاعدہ) ہے (۳: ۱۸۵) اس کی روشنی میں صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ ہر وہ جان (نفس) جو اللہ کے معیارکے مطابق جان کہلاتی ہو، وہ موت کی وجہ سے معدوم یا نیست و نابود نہیں ہوتی، بلکہ وہ موت کے بہت سے تجربات

۱۹۶

سے گزرتی ہے، کیونکہ روحانی موت داصل ایک دنیاہے، اس میں یقین ومعرفت کے بھید ہی بھید ہیں، یہی سبب ہے کہ قرآنِ حکیم نے اپنی مخصوص حکمت کی زبان میں موت کو چاہنے اور دل میں اس کی آرزو پیدا کرنے کی تعلیم دی ہے، کیوں نہ ہو جبکہ یہ درسگاہِ علم و معرفت اور بہشتِ برین کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے (۲: ۹۴)

         ۳۔ موت کی حکمتیں عظیم ہیں، جیسے سورۂ مُلک (۶۷: ۱ تا ۲) میں باری تعالیٰ  کا ارشاد ہے: وہ (یعنی خدا) بہت برکت والا ہے جس کے ہاتھ میں (ہر چیز کی عقل وروحانی) بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون شخص عمل میں زیادہ اچھا ہے (۶۷: ۱ تا ۲)

         جیسا کہ دانشمند مومنین اس سرِ عظیم سے واقف و آگاہ ہیں کہ قرآنِ مقدس میں جہاں جہاں دستِ خدا کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہاں ذاتِ سبحان کے اصل اور سب سے خاص خزانے کا ذکر ہوتا ہے، جیسا کہ کتابِ ’’گنجِ گرانمایہ ‘‘ میں اس حقیقت کی وضاحت کی گئی ہے، چنانچہ مذکورۂ بالا ارشاد میں بزبانِ حکمت یہ فرمان ہوا ہے کہ جسمانی پیدائش کے بعد روحانی جنم ہے، پھر روحانی موت کا تجربہ ضروری ہے، اور آخر میں انبعاث کا مرحلہ ہے، تاکہ قبضۂ قدرت میں جو بادشاہی ہے، اس کی برکتوں سے فیض حاصل کیاجائے۔

         خلق الموت والحیوتہ (اُس نے موت اور حیات کو پیدا

۱۹۷

کیا) یہ انسان کی سب سے اعلٰی موت اور سب سے پاکیزہ زندگی کا بیان ہے، وہ روحانی موت اور انبعاث ہے، اگر یہ جسم کی بات ہوتی تو وہ اس طرح ہوتی اُس نے حیات اور موت کو پیدا کیا۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ پہلے تو جسمانی پیدائش ہے، پھر موت، نیز یہ بھی سوچنا ہے کہ جسمانی موت پر لفظِ خلق (پیدا کیا) کا بحقیقت اطلاق نہیں ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ موت جسم سے الگ بذاتِ خود کوئی مخلوق شی نہیں کہ محسوس ہو سکے، اس کے برعکس یہ کہنا بالکل درست اور حقیقت ہے کہ خدا تعالیٰ کے معیار کے مطابق جیتے جی انبعاث سے قبل کی زندگی موت اور مخلوق ہے، موت اس معنیٰ میں بھی کہ حضرت عزرائیل علیہ السلام نے اس میں بار بار قبضِ روح کا عمل کیا۔ اور مخلوق اس لئے کہلائے کہ وہ موجود اور محسوس ہے۔

         ۴۔ اگرچہ ہر مومن جیتے جی روحانی موت کا مزہ چکھ نہیں سکتا، لیکن اس مقصد کے پیشِ نظر امامِ زمانؑ کی فرمانبرداری بیحد ضروری ہے، تاکہ اس کی روح کا ذرّہ حدودِ دین میں سے کسی سے واصل ہو جائے (آپ اس سلسلے میں کتابِ ’’وجہِ دین‘‘ گفتار۲۶ کا مطالعہ کر سکتے ہیں) ایسے افرادِ مومنین حدود کے وسیلے سے روحانی مراحل کو طے کر سکتے ہیں، جیسا کہ خداوند تعالیٰ  کے کلام حکمت نظام میں ہے: ۔

         وتحمل اثقالکم الٰی بلدٍ لم تکونوابلغیہٖ الا بشق الانفس (۱۶: ۷) اور وہ (چوپائے) تمہارے بوجھ ایسے شہر کو لے جاتے ہیں جہاں تم اپنی جانوں (روحوں) کے ذرّات بنائے

۱۹۸

بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے۔ چوپایوں سے حدودِ دین مراد ہیں، جن کے سہارے پر مومنین شہرِ روحانیت میں پہنچ جائیں گے، اور بہشت میں سابقہ روحانی سفر کی ہر ہر منزل کا مشاہدہ ہو گا۔

         ۵۔ جس طرح جسمانی موت سے کوئی بھاگ نہیں سکتا، اسی طرح روحانی موت بھی کسی نہ کسی صورت میں آنے والی ہے، جیسا کہ سورۂ نسا (۴: ۷۸) میں ہے: ابن ماتکونو یدرککم الموت ولوکنتم فی بروج مشیدۃ (۴: ۷۸) تم چاہے کہیں بھی ہو وہاں ہی تم کو موت آدبادے گی، اگرچہ تم مضبوط قلعوں ہی میں ہو، مضبوط قلعوں کی تاویل ہے امامِ زمانؑ اور آپؑ کے حدود، ان روحانی اور علمی قلعوں میں رہنے والوں پر بھی روحانی موت کا تجربہ گزرے گا، کیونکہ اسی میں قیامت سے متعلق سارا علم پوشید ہے۔

         ۶۔ اس سلسلے کا ایک اور ارشاد سورۂ بقرہ (۲: ۲۴۳) میں اس طرح ہے: (اے رسول) کیا تم نے ان لوگوں کے (حال) پر نظر نہیں کی، جو موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل بھاگے اور وہ ہزاروں آدمی تھے تو خدا نے اُن سے فرمایا کہ سب کے سب مرجاؤ (اور وہ مر گئے) پھر خدا نے انھیں زندہ کیا، بیشک خدا لوگوں پر بڑا مہربان ہے، مگر اکثر لوگ اس کا شکر نہیں کرتے۔ یہ لوگ کون تھے جو ہزاروں کی تعداد میں بلکہ بیشمار تھے؟ اور اللہ نے ان سے کیوں فرمایا کہ مرجاؤ؟ یہ ذرّاتِ روح تھے جو صورِ اسرافیلؑ کے خوف سے اشخاص کی قبرستانوں

۱۹۹

سے نکل کر بلانے والے کی طرف جارہے تھے، جہاں حدودِ دین میں سے کسی کی ذاتی قیامت اور روحانی موت واقع ہو رہی تھی، اسی کے ساتھ ساتھ ان بیشمار ذرّات پر بھی پُرحکمت موت آئی، اور اسی طرح ان کا انبعاث بھی ہو گیا، مگر یہ سب کچھ غیر شعوری حالت میں تھا، اور ہاں یہ عمل بہشت میں بطریقِ روحانی عکس سامنے آئے گا۔

         ۷۔ سورۂ دخان (۴۴: ۵۶) میں فرمایا گیا ہے: لایذوقون فیھاالموت الا الموتتہ الاولیٰ (۴۴: ۵۶) وہ لوگ بہشت میں موت کا ذائقہ نہ چکھیں گے بجز اُس موت کے جو دنیا میں آچکی تھی، یعنی جنت میں روحانی موت نہیں، وہ تو براہ راست یا بالواسطہ شعوری یا غیر شعوری طور پر دنیاوی زندگی میں واقع ہو چکی تھی، اب بہشت میں صرف اس عظیم کارنامے کا نظارہ کرنا اور علمی لذت اٹھانا ہے۔

         ۸۔ حضرتِ سلیمان علیہ السلام کی روحانی موت کا تذکرہ اس طرح ہے پھر جب ہم نے سلیمان پر (روحانی) موت مقرر کیا تو کسی چیز نے ان کے مرنے کا پتہ نہ بتلایا مگر گھٹن کے کیڑے نے کہ وہ سلیمان کے عصا کو کھاتا تھا سو جب وہ گر پڑے تب جنات کو حقیقت معلوم ہوئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس خواری کے عذاب میں نہ رہتے (۳۴: ۱۴) دابتہ الارض (گُھٹن کا کیڑا) سے کچھ روحیں یعنی یاجوج وماجوج مراد ہیں، عصا کا مطلب یہاں روحِ حیوانی ہے، کیونکہ اسی سے انسانی روح کو سہارا ملتا رہتا ہے، مگر اس لاٹھی کو یاجوج وماجوج چاٹ لیتے ہیں، گرنے کا مطلب عملِ عزرائیلؑ

۲۰۰

کی خاطر لیٹ جانا ہے۔

         ۹۔ عالمِ شخصی کی زمین میں زندوں اور مردوں کی لاتعداد روحیں جمع ہیں، سورۂ مرسلات میں فرمایا گیا ہے، (۷۷: ۲۵ تا ۲۶) کیا ہم نے زمین کو زندوں اور مردوں کی سمیٹنے والی نہیں بنایا، ظاہری زمین پر لوگ ہر جگہ بستے ہیں، اور مردے ہر مقام پر دفنائے یا جلائے جاتے ہیں، اس میں سمیٹنے کی کوئی بات نہیں، مگر جب انفرادی قیامت قائم ہو جاتی ہے، تو اس وقت انسانِ کامل کی شخصیت کی زمین تمام زندوں اور مُردوں کی ارواح کوسمیٹ لیتی ہے۔

         ۱۰۔ روحانی موت دراصل روح کے عروج و ارتقاء کا سلسلہ ہے، لہٰذا خدا کے دوست اس کو بہت چاہتے ہیں، جس کی دلیل اس آیۂ کریمہ میں موجود ہے: (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ اے یہودیواگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہواور لوگ نہیں تو اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو تو موت کی تمنا کرو (۶۲: ۶) اس سے ظاہر ہے کہ روحانی موت کی تمنا خدا کی دوستی کی علامت ہے، کیونکہ جسمانی موت کی آرزو کوئی ایسا کافر بھی کر سکتا ہے، جو دنیا کی کسی سخت تکلیف سے تنگ آچکا ہو، اور ایسا شخص اللہ کا دوست نہیں ہو سکتا، یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ روحانی موت کی تمنا کسی بھی عنوان سے ہو سکتی ہے، جیسے روحانی ترقی، دیدارِ خداوندی، حصولِ معرفت وغیرہ کو چاہنا۔

         ۱۱۔ سورۂ انعام (۶: ۱۲۲) میں انسان کامل کی روحانی موت اور

۲۰۱

حیاتِ طیبہ کا بیان اس طرح فرمایا گیا ہے: اومن کان میتافاحیینہ وجعلنالہ نورا یمشی بہ فی الناس کمن مثلہ فی الظلمت لیس بخارج منھا (۶: ۱۲۲) کیا جو شخص (پہلے) مُردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور بنایا جس کے ذریعے سے وہ لوگوں (کے عالمِ شخصی) میں چلتا ہے اُس شخص کا سا ہو سکتا ہے جس کی یہ حالت ہے کہ (ہر طرف سے) اندھیروں میں (پھنسا ہوا) ہے کہ وہاں سے کسی طرح نکل نہیں سکتا، یہ زبانِ حکمت کی باتیں ہیں، لہٰذا ان کی سطح بہت بلند ہے، چنانچہ یہاں مُردہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسانِ کامل منزلِ عزرائیلی سے ہو کر آگے گزر چکا تھا، جسکو مقامِ انبعاث پر حیاتِ طیبہ میں زندہ کرکے نورِ کامل مقرر کیا گیا، وہ لوگوں کے باطن میں چل سکتا ہے، اور ایسا شخص صرف اور صرف امامِ زمان علیہ السلام ہیں اور ا س میں تعجب کی کوئی بات نہیں، کیونکہ لوگوں کے اندر جب مضلِ (گمراہ کرنے وا لا، یعنی شیطان) داخل ہو کر اپنا کام کر سکتا ہے، تو وہاں برحقؑ کی رسائی انسانوں کے دل و دماغ تک کیوں نہ ہو۔ والسلام۔

خاکپائے مومنان

نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی

۶۔ جنوری ۱۹۸۵ء

۲۰۲

نُقوشِ حکمت

وجہِ دین

 

علمی انتساب

(حصۂ اول)

         اس بات پر تمام علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ ام الکتاب یعنی سورۂ فاتحہ تمام قرآن کی سورتوں کی سردار ہے، آیت الکرسی (۲: ۲۵۵) جملہ قرآنی آیات کی سردار ہے اور اسمِ اعظم تمام اسمائے الٰہی کا سردار ہے۔

         باطناً علی ام الکتاب ہے، اور آیت الکرسی میں علی کے نور کا ذکرِ جمیل ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم جو الحی القیوم ہے، وہ امامِ حی و حاضر ہے، نیز الحی سے حجتِ قائم مراد ہے، اور القیوم خود حضرتِ قائم ہے اور یہ دونوں عظیم الشان امام ایک بھی ہیں، اور دو بھی ہیں، اور اس میں بہت بڑی حکمت ہے، قرآنِ حکیم میں زندہ اسمِ اعظم (الحی القیوم) کا ذکر تین مقام پر ہے: ۲: ۲۵۵ ، ۳: ۲، ۲۰: ۱۱۱  اس کے علاوہ قرآن میں سات دفعہ حٰمٓ بھی ہے، یہ الحی القیوم کا مخفف ہے، یعنی خدا کا زندہ اسمِ اعظم حجتِ قائم، اور انتہائی اسمِ اعظم حضرتِ قائم القیامت ہے۔

         ان عزیزوں کے اسماء جن کے لئے یہ انتساب لکھا گیا ہے: ۔

         ۱۔ قربان علی نظر علی مؤمن، تاریخِ پیدائش: ۳۰؍ دسمبر ۱۹۵۵ء، بیگم نور بانو قربان علی مومن، پیدائش: ۲۴؍ دسمبر ۱۹۶۱ء، بیٹی ایل اے ایس کرن قربان علی مومن، ۳۰؍ جولائی ۱۹۸۲ء، بیٹی نیلم ایل اے ایس، پیدائش ۲۰؍ ستمبر ۱۹۸۷ء، بیٹا حسین قربان علی مومن ایل اے ایس، پیدائش: ۴ ؍ستمبر ۱۹۹۰ء۔

         ۲۔ آئی ایل جی سلطان علی لاڈجی، تاریخ پیدائش: ۲۰؍ فروری ۱۹۵۸ء ، بیگم آئی ایل جی شوکت بانو سلطان علی لاڈجی، پیدائش: ۹؍ اپریل ۱۹۵۹ ء بیٹا عظیم

۳

سلطان علی آئی ایل جی، ایل اے ایس، پیدائش: ۴؍ مارچ ۱۹۹۲ء۔

نصیر الدین نصیر (حبِ علی) ہونزائی

جمعہ ۲۴؍ دسمبر ۱۹۹۹ ء

۴

علمی انتساب

(حصۂ دوم)

دَوَاءُکَ فِیکَ وَمَا تَشعُرُ                وَدَاءُکَ مَنکَ وَمَا تُبصِرُ

وَتَحسَبُ اَنَّکَ جِرمٌ صَغِیرٌ             وَفِیکَ انطَوَی العَالَمُ الاَکبَرُ

وَاَنتَ الکِتَابُ المُبِینُ الَّذِی              بِاَحرُفِہٖ یَظھَرُ المُضمَرُ

فَلَا حَاجَۃَ لَکَ فِی خَارِجٍ               یُخَبِّرُ عَنکَ بِمَا سُطِّرُ

                 ۱۔      تیری دوا تیرے اندر ہی ہے اور تجھ کو خبر نہیں، اور تیری بیماری تجھ ہی سے پیدا ہوتی ہے اور تو دیکھتا نہیں۔

                 ۲۔      اور تو خیال کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے۔

                 ۳۔      اور تو ہی وہ کتابِ مبین ہے کہ جس کے حرفوں سے پوشیدہ راز ظاہر ہوتے ہیں۔

                 ۴۔      تو تجھ کو خارج کی ضرورت نہیں ہے، جو تیرے متعلق لکھی ہوئی باتوں کی خبر دے۔

                                  (از دیوانِ حضرتِ مولانا علی علیہ السلام)

۵

         اُن عزیزوں کے اسماء جن کے لئے یہ انتساب لکھا گیا ہے: ۔

         ۱۔ آئی ایل جی ظاہر علی رحیم، تاریخ پیدائش: ۷؍ستمبر ۱۹۶۴ء، بیگم آئی ایل جی یاسمین ظاہر علی، تعلیم: بی اے، اور ان کے پیارے بچے: ایل اے ایس زوہیب ظاہر علی اور ایل اے ایس فرح ظاہر علی، ان دونوں کی تاریخِ پیدائش: ۲۴؍ جون ۱۹۹۰ ء، تیسری اولاد ایل اے ایس سلمان ظاہر علی، پیدائش: ۱۱ ؍مئی ۱۹۹۳ء۔

         ۲۔آئی ایل جی ظاہر کریم علی، تاریخِ پیدائش: ۱۷ ؍ستمبر ۱۹۷۲ء ، تعلیم انٹر میڈیٹ۔ عنقریب دانش گاہِ خانۂ حکمت کے عملداروں کی ایک منظم تاریخ بصورتِ کتاب جب منظرِ عام آئے گی، ان شاء اللہ اس وقت تمام دوستوں کی جملہ خدمات کا مفصل تذکرہ ہوگا۔

نصیر الدین نصیر (حبِ علی) ہونزائی

بدھ ۲۱؍ جون  ۲۰۰۰ ء

۶

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پیش لفظ

بنامِ آنکہ دارای جہانست                               خداوندِ تن و عقل و روانست

خرد ز ادراکِ او حیران بماندہ                        دل و جان دررہش بے جان بماندہ

بہر و صفی کہ گویم زان فزونست                   زہر شرحی کہ من دانم برونست

                                           (حکیم ناصر خسرو قدس اللہ سرہ)

         قارئینِ کرام سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ حضرت سیدنا پیر ناصر خسروؔ علوی (قدس اللہ سرہ العزیز) حجتِ خراسان و بدخشان (منجانبِ مولانا الامام المستنصر باللہ علیہ السلام) ان باکرامت اسماعیلی پیروں اور بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے زمانے میں خورشیدِ امامت کے نورِ ہدایت سے بالعموم اہلِ جہان کو بالخصوص اسماعیلی عالم کو اس طرح مستفیض فرمایا، جس طرح چاند اور ستارے سورج کی مادی روشنی سے اس جہان کو مستفیض کرتے رہتے ہیں۔ ان باعظمت و جلالت بزرگوں کے اکثر علمی آثار اپنی پوری قدرو قیمت کے ساتھ گنجہائے گرانمایہ کی طرح اب بھی موجود و باقی ہیں۔ جن کے مشاہدہ و مطالعہ سے اہلِ بصیرت بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں، کہ وہ حضرات علم و حکمت کے کن کن اعلیٰ درجات پر فائز ہوئے تھے۔

         حضرت سیدنا شاہ ناصر خسرؔو  ۳۹۴؁ھ مطابق ۱۰۰۳ ء میں پیدا ہوئے، ان کی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کا یہ عالم تھا، کہ نو ۹ سال کی عمر میں قرآنِ پاک کو حفظ کر لیا۔ مزید

۱۱

پانچ سال کے عرصہ میں علمِ لغتؔ، صرف و نحو، علمِ عرؔوض و قافیہؔ اور علمؔ َحساب سیکھا۔ اس کے بعد مدت تین سال میں علمِ نجومؔ، علمِ ہیٔتؔ، علم الرمل، اقلیدسؔ اور کتابِ مجسطیؔ کی تعلیم مکمل کر لی۔

         جب وہ سترہ برس کے ہوئے تو انہوں نے علمِ ادبؔ، علمِ ؔفقہ اور حدیثؔ شریف کا درس شروع کیا، اور اسی ضمن میں اس زمانے کی دو ۲ مشہور کتابیں جامعِ کبیرؔ، اور سیرِ کبیر بھی پڑھی گئیں، قرآنِ شریف کے حقائق کی جستجو کے سلسلے میں تقریباً تین سو تفاسیر پڑھیں، جن میں سے کچھ تو نصاب میں آئی تھیں اور بعض کا ذاتی طور پر مطالعہ کیا۔

         پھر موصوف نے فلسفۂ یونان کو پڑھا۔ جب ان کی عمرِ شریف پندرہ سال ہوچکی تھی اس وقت بلخ ہی میں مقیم تھے۔ ناصر خسرؔو عربی کے علاوہ ترکی، یونانی، عبرانی اور سندھی زبان بھی جانتے تھے اور فارسی تو ان کی مادری زبان تھی۔

         جب حضرت ناصرؔ خسرو کی عمرِ شریف ۳۲ سال ہوگئی تو انہوں نے توراتؔ، زبورؔ اور انجیلؔ کو یہودی علما ٔ سے پڑھا۔ اس کے بعد ذاتی طور پر پورے چھ سال تک ان تینوں کتبِ سماوی کا محققانہ و مناظرانہ انداز سے مطالعہ فرمایا۔

         بعد ازان حکیم جاماؔسب کی کتابِ موسومہ ’’منطقِ الٰہی و طبیعی‘‘ علمِ طب اور ریاضیات کو مکمل کر لیا۔ پھر تصوفؔ، روحانیتؔ، علمِ تسخیرؔ، اور طلسمات کو حاصل کیا اور تقریباً چوالیس ۴۴ سال کی عمرِ شریف میں ناصرؔخسرو ایک عدیم النظیر حکیم، مشہور فلسفی، متبحر علامہ، زبردست مناظر اور نامور شاعر بن گئے۔

         یہ تمام علوم بلخؔ، بخاراؔ، عراقؔ اور خراسانؔ کے ضلعوں سے حاصل کئے تھے، اور انہوں نے مذکورہ تمام علوم میں اس درجے کا کمال حاصل کر لیا، کہ یہود و نصاریٰ کے علما ٔ بھی ان سے اپنی مذہبی کتابیں پرھتے تھے۔

         سیدنا حکیم ناصرؔخسرو کی فطرت میں تلاشِ حقیقت کی جملہ خداداد صلاحیتیں موجود تھیں، اس لئے وہ تقلیدی اور ظاہری علوم سے مطمئن نہیں تھے انہوں نے

۱۲

قرآن و حدیث کے اشارات، قانونِ قدرت کے مشاہدات اور عقل و دانش کے فیصلے سے یہ یقینی نتیجہ نکالا کہ ہر زمانے میں ایک ایسی فاضل ترین و کامل ترین شخصیت کا موجود و حاضر ہونا از بس ضروری و لازمی ہے جو حق تعالیٰ اور اس کے رسول کی جانب سے ہر گروہ اور ہر فرد کے لئے اس کی حقداری کے مطابق ہدایت کرے چنانچہ آپ اپنے دیوان کے ایک طویل قصیدے میں ، جس کے ایک سو تیس اشعار ہیں۔ اپنے بعض ابتدائی حالات کا تذکرہ فرماتے ہیں، جس کا مطلع درجِ ذیل ہے: ۔

ای خواندہ بسی علم و جہان گشتہ سراسر           تو برزمی و ازبرت این چرخِ مدور

         مذکورہ قصیدے کے اکثر اشعار رموز و کنایات سے بھرئے ہیں جن کا مختصر مطلب یہ ہے کہ حضرت پیر ناصرؔ خسرو (قدس اللہ سرہ) شروع شروع میں اثنا ٔعشری عقائد کے قائل تھے، مگر جب مصر میں سیدنا ھبۃ اللہ الموید فی الدین شیرازی سے ان کی ملاقات ہوئی تو سیدنا الموید کے معجزاتِ علمی سے ان کو یقین آیا کہ وہ اپنے ایک تاریخی خواب کے نتیجہ میں جس مقدس اور لافانی چیز کی تلاش میں نکلے تھے، وہ یہیں سے مل سکتی ہے، چنانچہ انہوں نے بخوشی اسماعیلی مذہب قبول کر لیا، اس کے بعد نورِ امامت کے فیوض و برکات سے ان کے لئے علمِ لدنی اور کشف و کرامات کے دروازے کھل گئے اور ان کے خواب میں کسی بزرگ نے قبلہ کی جانب جس روحانی طبیب و حکیم کی نشاندہی فرمائی تھی، وہ ان کو مل گیا، وہ روحانی طبیب و حکیم فی الحقیقت مولانا الامام المستنصر باللہ علیہ السلام تھے، اب حضرت پیر ناصر خسرو روحانی طور پر حضرتِ محمدؐ و آلِ محمدؐ کے شہرستانِ علم و حکمت میں داخل ہو چکے تھے، چنانچہ انہوں نے مذکورہ قصیدے میں اس عظیم روحانی شہر کے عجائب و غرائب کے متعلق جو کچھ نقشہ کشی کی ہے، اس کی ایک مثال مندرجہ ذیل شعر سے ملتی ہے: ۔

         شہری کہ در و دیبا پوشند حکیمان          نہ تافتہ مادہ و نہ بافتۂ نر

۱۳

         (یعنی میں روحانیت کے جس شہر میں داخل ہوا تھا) وہ ایک ایسا شہر تھا، کہ اس میں حکمأ دیبا پہن لیا کرتے ہیں، وہ دیبا نہ تو عورت کا کاتا ہوا ہے، نہ مرد کا بنا ہوا۔

         اس شعر سے ظاہر ہے، کہ حضرت پیر ناصرؔ خسرو یہاں عالمِ روحانیت اور مقامِ علمِ لدنی کا تذکرہ فرماتے ہیں، انہوں نے اپنی اکثر تصانیف میں بار ہا اس امرِ واقعی کی طرف اشارہ فرمایا ہے، کہ ان کو نورِ امامت کی طرف سے روحانی علم و حکمت کا سلسلہ جاری تھا، چنانچہ اپنے دیوان میں فرماتے ہیں: ۔

برجانِ من چو نورِ امامِ زمان بتافت                  لیل السرار بودم و شمس الضحیٰ شدم

نامِ بزرگ امامِ زمان است ازین قبل                  من از زمین چو زہرہؔ بدو برسما شدم

         یعنی جب میری جان پر (بطریقِ باطن) امامِ زمان کا نور طلوع ہوا، تو میں جو (قبلاً غفلت و جہالت کی) اندھیری رات تھا (اس نور کی بدولت) روزِ روشن بن گیا (پس) اسی وجہ سے امامِ زمان (حق تعالیٰ کا) اسمِ اعظم ہیں، میں تو انہی (کی روحانی طاقت) سے زہرہ (۱) کی طرح پرواز کر کے روحانیت کے آسمان پر جاپہنچا۔

         زیرِ نظر کتاب اسی نامور حکیم، خدا رسیدہ بزرگ، پیرِ کامل اور حجتِ خراسان و بدخشان کی پر حکمت تصانیف میں سے ہے اور حق بات یہ ہے کہ اس بے نظیر کتاب کو موصوف حکیم کی جملہ تصانیف میں بابِ آخر کا درجہ حاصل ہے، کیونکہ یہ ان کی بے پایان علمی و عرفانی معلومات و تجربات کا خلاصہ و جوہر ہے، اس حقیقت کے ثبوت میں ہم یہاں صرف دو دلیل پیش کرتے ہیں: پہلی دلیل یہ ہے ، کہ پیر ناصر خسروؔ کے مذکور کلام سے یہ مطلب صاف طور پر ظاہر ہے، کہ امامِ زمان کے نورِ تاویل ان پر منکشف ہونے سے قبل ( جو بطریقِ کشفِ باطن ان کی روح میں

؎۱: زہرہ: شہرِ بابل کی ایک جمیلہ پارسا خاتون کا نام ہے، جس کے متعلق یہ قصہ مشہور ہے، کہ ہاروت و ماروت سے، جو دو آزمائشی فرشتے تھے، اسمِ اعظم حاصل کر کے آسمان میں پرواز کر گئی۔

۱۴

طلوع ہوا تھا) ان کی ظاہری علمی حیثیت اندھیری رات کی سی تھی، چنانچہ قرآن کے علمِ ظاہر اور علمِ تاویل کے بارے میں فرماتے ہیں: ۔

         شور است چو دریا بہ مثل ظاہرِ تاویل               تاویل چو لو لو ست سویِ مردمِ دانا

         ’’یعنی تاویل کے ظاہر مثال کے طور پر سمندر کا کھارا پانی ہے اور تاویل اس کے اندر دانا آدمی کے لئے بیش بہا موتیوں کی طرح ہے‘‘۔

         اب نتیجہ کے طور پر یہ کہنا حق بجانب ہوگا، کہ حضرت پیر کے نزدیک ان کی سب سے بڑی اہمیت والی کتاب دراصل وہ ہونی چاہئے جس کی تصنیف میں انہوں نے زیادہ سے زیادہ تاویل سے کام لیا ہو، پس ایسی کتاب تو صرف ’’وجہِ دین‘‘ ہی ہے۔

         حضرت پیر کی گرانقدر اور پر حکمت تصنیفات میں ’’وجہِ دین‘‘ کو حرفِ آخر کا درجہ حاصل ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ کتاب موصوف پیر نے اپنے علمی و عرفانی کارناموں کے ارتقا ٔ کے تقریباً آخری درجے پر تصنیف کی ہے، کیونکہ ’’دیوان‘‘میں ایسے دو ۲ شعر ملتے ہیں جن سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے، کہ پیرِ کامل نے اپنی بہت سی تصنیفات کے بعد ’’زاد المسافرین‘‘ بمقامِ یمگان ۴۵۳؁ ھ بمطابق ۱۰۶۱؁ء میں مکمل کر لی تھی۔ اور ’’وجہ دین‘‘ کی تکمیل اس کے بعد ہوئی ہے(۲) ، چنانچہ آنجناب اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’زاد المسافرین‘‘ کی تعریف میں فرماتے ہیں: ۔

زتصنیفاتِ من زاد المسافر           کہ معقولات را اصل است و قانون

اگر برخاکِ افلاطون بخوانند         ثنا خواند مرا خاکِ فلاطون

؎۲:  کتابِ ہٰذا ص ۵۶ پر پیر ناصر خسرؔو فرماتے ہیں: ہم نے اس کی تشریح ایک اور کتاب زاد المسافرین میں کی ہے۔ ظاہر ہے، کہ ’’زاد المسافرین‘‘ پہلے اور ’’وجہ دین‘‘ بعد میں لکھی گئی ہے۔ اور ’’وجہ دین‘‘ کی تصنیف سے آج تک تقریباً ۹۰۰ سال ہوئے۔

۱۵

         ’’یعنی میری تصنیفات میں سے ’زاد المسافرین‘‘ جو معقولات (۱) کی اصل و بنیاد اور قانون و آئین کا درجہ رکھتی ہے، اگر (یہ کتاب مشہور یونانی حکیم) افلاطون کی قبر پر پڑھی جائے تو افلاطون ( کے بوسیدہ جسم) کی مٹی بھی میری تعریف و توصیف کئے بغیر نہ رہے گی‘‘۔

         جب ہمیں یہ معلوم ہوا، کہ حکیم ناصر خسرو نے یونانی فلسفیوں اور حکمایِ ظاہر کا مقابلہ کتاب ’زاد المسافرین‘‘ سے کیا ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے جو کتاب قرآن، حدیث اور فقہ کے تاویلی اسرار و رموز کی وضاحت میں لکھی ہو، وہ ’’زاد المسافرین‘‘ سے بھی بڑھ کر ہوگی، اور ایسی اعلیٰ درجے کی خالص مذہبی کتاب جس میں امامِ زمان کے نور و حضور کے روح افزا اسرارِ حقائق و معارف بیان ہوئے ہیں، صرف ’’وجہ دین‘‘ ہی ہے، کیونکہ حکیم ناصر خسروؔ اپنے زمانے کے امام کی جانب سے مرتبۂ حجتی پر فائز و مامور تھے، اور امامِ زمان سے ہر حجت کو جو اصلی چیز ملتی ہے وہ نورانی اور عملی تاویل کی صورت میں ہوتی ہے، چنانچہ اس شعر سے یہی مطلب عیان ہے: ۔

         ’’از دلِ حجت بحضرت رہ بود              او بتائیدِ دلش آگہ بود

         یعنی حجت کے قلب سے حضرتِ (امامِ زمان) تک (عرض و التجا ٔ جانے اور نورانی تاویل آنے کا روحانی) راستہ موجود ہے، اور وہ (امامِ زمان) اس کو (روحانی و عقلانی) مدد پہنچانے سے (ہر گز غافل نہیں، بلکہ ہمیشہ) آگاہ ہیں۔‘‘

         پس معلوم ہوا، کہ حکیم ناصر خسرؔوحجتِ خراسان و بدخشان کو اپنے زمانے کے امام سے علمِ تاویل کے جو بے پایان خزانے حاصل ہوئے تھے وہ اس مقدس کتاب کے موضوعات میں رکھے ہوئے ہیں، مگر یہ بات بھی ضروری یاد رکھئے، کہ اس پرحکمت کتاب کے بعض موضوعات کے تنزیلی پہلوؤں کا تعلق زمانۂ ماضی سے ہے، لیکن ان کے باطن میں جو تاویلات ہیں وہ ہمیشہ کے لئے مطلوب و مقصود ہیں، چنانچہ اگر

۱۔  معقولات وہ علم ہے، جس میں عقلی چیزوں سے بحث کی جائے۔

۱۶

آپ اس کتاب کے تمام نکات کو تقابلی نظر سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ موجودہ دور سے متعلق اس میں کیا فرمایا گیا ہے۔

         کتاب ’’وجہ دین‘‘ اعلیٰ درجہ کی خود شناسی، مذہب شناسی، امام شناسی اور خدا شناسی کا کامل ترین علمی و عرفانی ذریعہ ہے، کیونکہ سید العارفین پیر ناصر خسروؔ نے نورِ امامت کی روشنی میں دین و آئین کے ماضی، حال اور مستقبل کا عرصۂ دراز تک کشفِ باطن اور عارفانہ طریق پر مشاہدہ کیا ہے، پھر اپنی بہت سی گرانمایہ تصنیفات کے بعد جیسا کہ قبلاً ذکر ہوچکا، یہ پرحکمت کتاب لکھی ہے اور اس میں زمانۂ آئندہ کی علمی ضروتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بہت سی ضروری پیش گوئیاں کی ہیں، جن کی روشنی میں حقیقی مومنین پیش آمدہ مذہبی مسائل کو بآسانی حل کر سکتے ہیں، وہ اسماعیلی اصطلاحات جن میں پیشین گوئیاں ہیں، اس قسم کی ہیں: ۔

         روزِ شنبہ، حضرتِ قائمؑ، دورِ روحانی، خلیفۂ قائمؑ، حجتِ قائمؑ، شبِ قدر پانچ حدودِ جسمانی وغیرہ۔

         مختصر یہ کہ ’’وجہ دین‘‘ ہی وہ واحد پرحکمت کتاب ہے جس کے بغیر دنیا بھر کی کوئی مذہبی کتاب مندرجہ ذیل قسم کے پیچیدہ سوالات کا جواب نہیں دے سکتی ہے، یہ اور اس قسم کے بہت سے دوسرے سوالات موجودہ دور کے اس عظیم الشان سائنسی انقلاب و ترقی کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں اور آنے والے ہیں جن کو اس کتاب کے صحیح مطالعہ کے بعد سہل طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے، وہ سوال یہ ہے: ۔

         ’’ یہ حقیقت پایۂ ثبوت پر آگئی ہے، کہ چاند بھی ہماری اس زمین کی طرح ایک دنیا ہے، اور یہ بات بھی یقینی ہوگئی ہے، کہ آئندہ چند سالوں کے اندر اندر چاند کی دنیا میں یا کسی اور سیارے میں اس دنیا کی بعض قومیں بسنے لگیں گی، کیا درانِ حال اس سیارے پر اور ان لوگوں کے درمیان حق تعالیٰ کی جانب سے کوئی

۱۷

پیغمبر یا کوئی امام ہوگا یا نہیں؟ اگر جواب نفی میں ہوا، تو کس طرح درست ہوسکتا ہے، جبکہ ہمارا عقیدہ اور یقین ہے، کہ دنیا اوراس کے باشندے امامِ زمان کے وجود و ظہورِ مبارک کی بدولت قائم اور زندہ ہیں۔ (دیکھو حدیث: لَوْ خَلَت . . . . ) اور اگر جواب اثبات میں ہے، تو اس سے بہت سے ذیلی سوالات پیدا ہو جاتے ہیں ان میں سے ایک تو یہ کہ: کیا اس وقت دو ۲ امام ہوں گے؟ اگر ایسا ہوا تو چاند پر کس خاندان سے امامت کا آغاز ہوگا؟ وغیرہ‘‘۔

         پس یقیناً ’’ وجہ دین‘‘ہی وہ واحد کتاب ہے، جو اس قسم کے پیچیدہ اور مشکل سوالات کے تسلی بخش جوابات کا ذریعہ بن سکتی ہے جس کی وجہ وہی ہے جو سطورِ بالا میں عرض کی گئی ہے، کہ یہ کتاب پیرِ کامل نے امامِ برحق کے ہمہ رس و ہمہ گیر نور کے ذریعے پورے دور کا مشاہدہ کرکے آئندہ پیش آنے والے مسائل کے جواب میں لکھی ہے، اور اس کا مقصدِ اعلیٰ یہ ہے کہ مومنین انقلاباتِ زمانہ کے پیدا کردہ دینی مسائل کو حل کرتے ہوئے خدا کی رسی (سلسلۂ امامت) کو مضبوطی سے تھامے رہا کریں۔

         بحمد للہ اب یہ گران مایہ اور نایاب کتاب نہ صرف آسان اردو زبان میں آپ کے سامنے پیش کی گئی ہے، بلکہ اس کے مشکل الفاظ و اصطلاحات کی تشریح و توضیح بھی کی گئی ہے، فٹ نوٹ لکھے گئے ہیں، اور ضرورت کے مطابق بڑے پیروں کے چند چھوٹے چھوٹے پیرے کر دیئے گئے ہیں، نیز نقل و طبع کی سابقہ غلطیوں کی حتی الوسع اصلاح کی گئی ہے۔

         میں آخر میں رسمی طور پر نہیں بلکہ دل و جان اور اخلاص و ایمان سے شکریہ ادا کرتا ہوں ان تمام علم پرور احباب کا، ان تمام پیرِ کامل ناصر خسرو کے علم و حکمت کے شیدائیوں کا اور ان سارے ’’ادارۂ دارالحکمت الا سماعیلیہ ہونزہ گلگت‘‘ کے ممبروں اور معاونوں کا جنہوں نے اس ناتوان خادمِ ملت کی ہر طرح سے معاونت اور حوصلہ افزائی فرمائی اور اس ہمہ رس علمی خدمت کا مشورہ دیا، نیز میں اسی خلوص

۱۸

سے شکریہ ادا کرتا ہوں، ان تمام روحانی احباب کا جن کی دینی و علمی صلاح و مشورہ اور قلمی تعاون کے بغیر اگر میں کوئی کام کر بھی سکوں تو میری روحانی مسرت و خوشی میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا۔

وَالسَّلامُ عَلیٰ مَنِ اتّبَعَ الْھُدَیٰ

خَادِمُ المِلّت

نصیرؔ ہونزائی

یکم جنوری ۱۹۶۸؁ء  مطابق ۲۹ ؍ رمضان ۱۳۸۷؁ھ

۱۹

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

حمد و سپاس

         اس خالقِ (برترو توانا) کی تعریف و توصیف ہے ، جس نے عالمِ باطن ہی سے عالمِ ظاہر کو پیدا کر کے اس میں عالمِ باطن کے نشانات دکھائے (۱)، اور انہی نشانوں کی تحقیق و تدقیق میں انسانی عقل کو اپنا جلوہ دکھانے کا موقع عطا فرمایا، اسی نے اپنی قدرتِ کاملہ سے جوہرِ(۲) پائندہ  (یعنی روحِ ناطقہ) کو گھٹنے والے عرض (۳) (یعنی جسم) کی ظہور گاہ کے اندر چھپائے رکھا، اور آخری اعراض (یعنی انسانی اجسام) کو اس جوہرِ پائندہ کے قابل بنا دیا، تاکہ ہر دانشمند دل کی آنکھ سے یہ حقیقت دیکھ سکے، کہ کس طرح توانا جوہر ناتوان عرض کا محتاج ہے، اور (وہ اس قانونِ الٰہی کی بنا ٔ پر ) لطیف شے کو کثیف شے سے ہرگز بے نیاز نہ سمجھے، جیسا کہ کثیف شے لطیف سے بے نیاز نہیں، اور متضاد و مقابل چیزوں کے جوڑے بنانے والا ہر وجہ سے اس بات سے پاک (۴) ہے، کہ وہ خود کسی چیز کا مقابل اور جوڑ ہو، کیونکہ مقابل

۱۔: حق تعالیٰ نے عالمِ باطن سے عالمِ ظاہر کس طرح پیدا کیا اس کی تفصیل کلام نمبر ۴ میں آئیگی۔

۲۔ جوہر وہ شے ہے، جو بذاتِ خود قائم و باقی ہو، جیسے انسانی روح۔

۳۔: عرض وہ شے ہے، جو بذاتِ خود قائم و باقی نہ ہو، بلکہ اس کا قیام و بقا دوسری شے پر ہو، جیسے انسانی جسم جس کا قیام و بقا روح پر ہے۔

۴۔ یہ مطلب اس ارشادِ الٰہی کے مطابق ہے: سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لاَ يَعْلَمُونَ (۳۶: ۳۶   ’سورہ ۳۶ آیت ۳۶‘) پاک ہے وہ ذات جس نے ساری چیزوں کو جفت جفت پیدا کیا، نباتات سے، ان کی جانوں سے اور ان چیزوں سے جنہیں وہ نہیں جانتے ہیں۔‘‘

۲۰

اور جوڑے کی چیزیں تو ایک دوسرے کی ضد ہوا کرتی ہیں، اور دور ہے اس سے وہ اثبات بھی جس کی ضد نفی ہے بلکہ وہ دونوں کا پیدا کرنے والا ہے۔

         خدا کے برگزیدہ رسول پر درود ہو ! جو عرب اور غیر عرب کے تمام لوگوں میں سے انتہائی درجے کی فصاحت و بلاغت کے مالک ہیں، جن پر نفی و اثبات کی وحی نازل ہوئی، جو ایک کتاب کی صورت میں بھی ہے، اور ایک کلمہ کی حیثیت سے بھی، اپنے پورے شمار و مقدار کے ساتھ ایک حرف (یعنی اسمِ اعظم) میں بھی ہے، اور تمام پیغمبروں اور أئمۂ برحق کی مبارک زبان پر بھی۔

         حضرتِ محمد مصطفےٰ کے مبارک نام پر درود ہو! جو خدا کی (کائناتی) کتاب اور اس کے دین کے سمجھانے والے ہیں، جو قرآنِ پاک کی زبان اور شریعت کے بانی ہیں، آن حضور کے اس نورانی اور جوہری جسم (۱) پر خدا کی رحمت نازل ہو جو جسمِ عنصر کا خلاصہ ہے (مگر اس سے آزاد ہے، اور گرمی، سردی، خشکی اور تری کی ترکیب سے مبرا ہے، وہ ظاہر بھی ہے اور غائب بھی، اس لئے کہ وہ جثۂ لطیف و فلکی ہے)۔

         امام علی المرتضےٰ سرِ خدا کی پاک جان پر رحمتِ ایزدی نازل ہو! جن کی

۱۔: اس حقیقت کا مشاہداتی تجربہ صرف اہلِ کشف ہی کو حاصل ہے کہ پیغمبرؑ اور امامِ برحقؑ جسمِ عنصری کے علاوہ ایک اور جسم بھی رکھتے ہیں، جس کے مختلف نام ہیں، مثلاً: جسمِ نورانی، جسمِ جوہری، جسمِ فلکی، جسمِ مثالی، جسمِ مماثل، جسمِ معجزاتی، جثۂ نورانی، جثۂ ابداعیہ وغیرہ، اور ان ناموں کے جیسے جدا جدا معنی ہیں، ان معنوں کے مطابق جسمِ لطیف کے ظہورات ومعجزات ہوتے ہیں، اس مطلب کی تفصیل کے لئے کتاب ’’میزان الحقائق‘‘، مضمون ’’اڑن طشتری یا کوئی اور نام‘‘ نیز کتاب ’’مفتاح الحکمت‘‘، مضمون ’’سیاروں میں انسان کی سیاحت‘‘ پیشِ نظر ہو۔ (مترجم)

۲۱

ذاتِ شریف علوم و معارف کا خزانۂ ودیعت و امانت ہے، اور نبیؐ و علیؑ کی آلِ پاک پر رحمتِ خداوندی ہو! جو دنیا و عقبیٰ کے جلالی فرشتے ہیں اور راہِ راست کے راہنما ہیں۔

۲۲

آغازِ کتاب

         ہم حقیقت کے عظیم اور لا انتہا سر کے طلب گاروں کو یہ بیان کریں گے، کہ حق تعالیٰ نے انسان کو خوف اور امید کے لئے پیدا کیا ہے، چنانچہ خدا نے اس کو بہشت کے ذریعہ امید دلائی ہے اور دوزخ کے ذریعہ ڈرایا ہے، پس میرا قول یہ ہے ، کہ انسان کے نفس میں جو خوف پایا جاتا ہے، وہ دوزخ (کی ہستی) کا نشان ہے، اور انسان میں جو امید پائی جاتی ہے، وہ بہشت (کے وجود) کا اثر ہے۔

         یہ دونوں چیزیں (یعنی جزوی خوف اور جزوی امید) جو انسانی فطرت میں پوشیدہ ہیں، ایک کلی خوف اور ایک کلی امید کی نشاندہی کرتی ہیں، وہ دوزخ اور بہشت ہیں، جب رسول محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا، تو آنحضرتؐ نے بموجبِ فرمانِ الٰہی یہی دو چیزیں، جو لوگوں کی سرشت میں پنہان تھیں، ان کے سامنے لا رکھیں، یعنی ایک چیز تو امید تھی، جو دونوں جہان کی دولت، رحمت، آسائش اور بقا کا سرمایہ تھی، اور دوسری چیز تلوار تھی، جس کو قبول کرنے کے نتیجے پر اُن (کے قتل) سے ہاتھ روک لینا، اور انہیں جینے دینا تھا، یہ تو صرف اس جہان کے امن و بقا کی علامت تھی۔

         پس جو شخص آنحضرت علیہ السلام کی تلوار سے قتل کیا گیا، تو وہ دونوں جہان میں فنا ہوا، اور جس شخص نے آنحضرت کے فرمان کو امید سے قبول کر لیا، تو اس

۲۳

نے دونوں جہان میں بقا پائی، اور جس شخص نے تلوار کے خوف سے دین قبول کر لیا، تو اس کو محض اس جہان کی بقا ملی، مگر وہ دوسرے جہان کی بقا کو نہیں پہنچ سکا، کیونکہ جب گزرجانے والی بقا تلوار کے خوف سے قبول کر لی جائے، حالانکہ تلوار سرمایۂ قتل ہے، تو وہ ایک ایسی بقا ہوگی کہ جس کی علت (یعنی سببِ پیدائش) فنا و نیستی ہے، اور اصول یہ ہے، کہ ہر چیز اپنی علت ہی کی طرف رجوع کر جاتی ہے (اس لئے ایسی بقا اپنی علت یعنی فنا کی طرف رجوع کرکے نیست ہوجائے گی)۔

         پس ثابت ہوا کہ جس شخص نے اسلام تلوار کے خوف سے قبول کر لیا (اور مرتے دم تک اسی حالت پر رہا) تو وہ امید سے بے بہرہ رہا اور اس کو ابدی بقا نہیں ملی، اور جس شخص نے دین کو دائمی بقا کی امید پر قبول کر لیا، تو اس کی گزر جانے والی بقا کی علت دائمی بقا ہی تھی (یعنی وہ دین قبول کرنے کے بعد ابدی زندگی کی امید پر جی رہا تھا) سو اسے دائمی بقا ہی حاصل ہو جاتی ہے، کیونکہ اس کی دنیاوی زندگی کی علت تو یہی دائمی بقا تھی۔

         )نیز یہ حقیقت بھی ہے کہ) جو شخص کوئی کام محض کارفرما کے خوف ہی کے سبب سے کرتا ہو، تو اس کے کام میں کوئی عقل و دانش ہی نہیں ، اور ایسا کام تو ان لوگوں کے کام سے ملتا جلتا ہے، جو کام کی حقیقت سمجھے بغیر کسی خوف کے مارے کر ہی ڈالتے ہیں، اور جو شخص اس امید پر کام کرتا ہو، کہ اس کو نیکی ملنے والی ہے تو اس کا کام بحقیقت دانشمندوں کا کام ہے، اور جب اکثر لوگ نادان ہیں، تو (لازماً) نادان لوگ بگاڑ کی طرف مائل ہوا کرتے ہیں، اور بگاڑ کا بدلہ خوف کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔

         جب اکثر لوگوں نے دین خوفِ شمشیر کے سبب سے قبول کر لیا ہے، تو لازماً بہت سے لوگ ایسے ہیں، جو یہ نہیں جانتے، کہ دینِ اسلام کیا ہے، بلکہ انہوں نے ڈر کر اس کو قبول کر لیا ہے، اور وہ اس کو سمجھے بغیر اپنا رہے ہیں، یعنی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی تلوار کے خوف سے، جو بموجبِ

۲۴

فرمانِ رسولؐ یہ تلوار چلائی جاتی تھی، جس سے ان کے آبا و اجداد کے دلوں میں خوف بھرا ہوا تھا، اور ان کی یہ نسلیں اسی (آبائی) خوف کے ساتھ پیدا ہوئی ہیں (اسی لئے تو) یہ لوگ کچھ بھی نہیں جانتے، اور داناؤں سے یہ لوگ پوچھ لیا نہیں کرتے، تاکہ خوف سے، جو دوزخ کا نشان ہے، نجات پاتے، اور امید کو، جو بہشت کا نشان ہے، حاصل کر سکتے، اور دائمی و ابدی نعمت کو پہنچ سکتے۔

         جاننا چاہئے کہ دوزخ اس دنیا میں (جزوی طور پر) تلوار کے خوف کی صورت میں موجود ہے، اور دانش کے بغیر کام کرنا اسی (جزوی) دوزخ کا عذاب ہے، اور بہشت اس دنیا میں (جزوی طور پر) امید کی حیثیت سے موجود ہے، اور علم و دانش سے کام کرنا اسی (جزوی) بہشت کا ثواب وصلہ ہے، چنانچہ تمام اہلِ اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ جب کسی گنہگار کو دنیا ہی میں سزا دی جائے، توہ شخص بہشت میں داخل ہو کر دائمی نعمتیں حاصل کرنے لگتا ہے، اس کے یہ معنی ہوئے، کہ اکثر لوگوں نے حقیقت دیکھے اور سمجھے بغیر محض تلوار کے ڈر ہی سے دین قبول کر لیا ہے، اور اسی طرح دین قبول کرلینا ان کی بدعت ہے، مگر جب وہ دانش سیکھ لیں اور علم سے کام کریں، تو وہ دوزخ سے چھٹ کر بہشت میں پہنچے ہوئے ہوتے ہیں، جزوی طور پر اس دنیا میں بھی اور کلی طور پر اس جہان میں بھی۔

         جب کوئی دانشمند سوچے تو اسے یہ حقیقت معلوم ہو جائے گی، کہ اس عالم میں جب کوئی شخص کام کو سمجھے بغیرکرتا ہے، تو وہ کام اس کے جرمانے کا سبب بن جاتا ہے، اور اس کو کوئی صلہ نہیں دیا کرتے، اور جو شخص دانش سے کام کرے، تو وہ اس قسم کے جرمانے سے بچ سکتا ہے، اور اپنے کام کا صلہ حاصل کر سکتا ہے۔

         پس ہر دانشمند پر یہ واجب ہے، کہ وہ حضرتِ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی شریعت کے معنی سمجھ لیا کرے، اور اس کے بعد علم و دانش سے شریعت پر عمل

۲۵

کرتا رہے، تاکہ وہ اپنے عمل کے اس صلے کے قابل ہو سکے جو بہشت کی حیثیت سے ہے، اور اس جرمانہ و سزا کے خوف سے چھٹکارا پا سکے، جو دوزخ کی حیثیت سے ہے۔

         جب مسلمان میں یہی (واقعہ) تھا، جو کچھ میں نے اوپر ذکر کر دیا، تو میں نے اس کتاب کو تالیف کرنا اپنے ذمہ ایک اہم ترین فرض سمجھا، جو شہادت، طہارت، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد، ولایت، امر، نہی وغیرہ جیسی شرعی بنیادوں کی تشریح و تاویل پر مشتمل ہے، اور ہم نے اس کتاب کا نام ’’وجہِ دین‘‘ یعنی دین کا چہرہ رکھ لیا اس لئے کہ انسان تمام چیزوں کو صرف ان کے چہروں ہی سے پہچان سکتا ہے۔ چنانچہ جو دانشمند اس کتاب کو پڑھے، تو وہ دین کو (صحیح معنوں میں) پہچان سکے گا، اور پہچانے ہوئے (دین) پر عمل کر سکے گا، اور اللہ تعالےٰ کی خوشنودی حاصل کر کے اپنے عمل کے معاوضے کے قابل ہو سکے گا۔

         ہم نے اس کتاب کی گفتاروں کی بنیاد اکیاون ۵۱ کے عدد پر رکھی، یہ عدد نماز کی ان رکعتوں کے برابر ہے جو ایک دن رات کے عرصہ میں لوگوں پر واجب ہوا کرتی ہیں، تاکہ اس علم و عمل اور تاویل کی بدولت لوگوں کو نجات مل سکے، جو شریعت کے باطن میں پوشیدہ ہیں، اور ہم نے اس کتاب کے مندرجات کی فہرست اس کے شروع میں رکھی، تاکہ قاری کو ہر مضمون کے دیکھ پانے میں آسانی ہو سکے۔

وَبا للہِ التّوْفیْق

۲۶

کلام۔ ۱

اس امر کا ثبوت کہ امام علیہ السلام ہر زمانے میں لوگوں پر خدا تعالیٰ کی حجت ہیں

         میرا کہنا ہے، کہ جب انسانوں کو عنایتِ الٰہی سے ایک ایسا حصہ ملا، جو دوسرے تمام حیوانات کو نہ مل سکا، اور وہ حصہ (۱) پیدائش عقل تھی، یعنی انسان کی وہ قوتِ عاقلہ جو سمجھ بوجھ حاصل کرنے والی ہوا کرتی ہے، تو عقل کے فیصلے سے یہ لازم آتا ہے، کہ حق تعالیٰ، جس نے انسانوں کو یہ مقدس حصہ عطا کر دیا ہے، انہیں ایک مرد (یعنی معلم) بھی بھیجے، تاکہ وہ (معلم) ان کی اس فطری عقل کی علمی پرورش کرتا رہے، چنانچہ جب خدا نے جانوروں کو کھانے پینے والا نفس دیا، تو اس نے عناصر، ستاروں اور آسمانوں کو نباتات اگانے کے کام پر لگا دیا، جن سے جانوروں کے اجسام کی پرورش ہوتی رہتی ہے، کیونکہ (۲) صانعِ حکیم کی حکمت میں یہ (ہرگز) مناسب نہیں، کہ وہ ایک ایسے حاجتمند کو پیدا کرے، جس کی حاجت پوری کرانے والے کو پیدا

۱۔: پیدائشی عقل یا کہ فطری عقل ’’عقلِ غریزی‘‘ کا ترجمہ ہے جس سے انسان کی وہ ابتدائی شعوری صلاحیت مراد ہے، جو ترقی پذیر مگر تعلیم کی محتاج ہے۔

۲۔: صانعِ حکیم = حکمت والا کاریگر یعنی خدا، جس کی ہر صنعت میں حکمت ہے۔

۲۷

نہ کیا ہو، کیونکہ (اگر اس نے ایسا نہ کیا تو) یہ حقیقی مہربانی نہ ہوگی، بلکہ بخالت ہوگی۔ مگر (ظاہر ہے) کہ وہ مہربان صانعِ حکیم بخالت سے پاک و برتر ہے، پس ہم نے یہ ثابت کر دیا، کہ اس مقدس حصہ یعنی فطری عقل کی پرورش کے لئے انسانوں کے درمیان کسی مربی یعنی پرورش کرنے والے کا موجود ہونا لازمی ہے۔

         اس کے بعد مجھے یہ کہنا ہے، کہ جس طرح یہ پیدائشی عقل تمام حیوانات کو چھوڑ کر صرف انسان ہی کو دی گئی ہے اور حیوانات فطری عقل کی مانوسیت کے برعکس اور ناچار پیدا کئے گئے ہیں، بلکہ یہ تمام حیوانات میں سے صرف انسان ہی کے لئے خدا کی عطا ہے، اسی طرح پروردگار (کے قانون) سے یہ لازم آتا ہے، کہ ان ابتدائی عقول کے لئے جس علم کی ضرورت ہے، وہ بھی صرف ایک ہی شخص پر (۱) عطائی (طریق سے نازل ) ہوگا، نہ کہ اکتسابی (۲) (قسم کا) یعنی کسی ظاہری ذریعہ سے سیکھا اور کمایا ہوا علم نہ ہوگا) کیونکہ اگر یہ اکتسابی علم ہوتا تو ہر شخص اپنی ہی کوشش سے اس علم تک پہنچ سکتا، جب تمام حیوانات میں سے انسان ( جو حیوانات کی ایک نوع ہے) کے سوا اور کسی کو یہ عطا نہیں ہوئی، تو یہ لازم آتا ہے کہ تمام انسانوں میں سے بھی صرف ایک ہی شخص کے سوا اور کسی کو اس علم کی معلمی (یعنی سکھانے کی مرتبت) عطا نہ ہوگی تاکہ طریقِ(۳) استقرا کے مطابق یہ ترتیب دلیلاً درست ہو، کیونکہ نوع جنس کے تحت ہے، اور شخص نوع کے تحت ہے۔

۱۔: باطنی اور قدرتی ذریعہ سے کسی خاص انسان کو جو علم عطا کر دیا جاتا ہے، اسے ’’علمِ عطائی‘‘ کہتے ہیں۔

۲۔: ظاہری اور انسانی ذریعہ سے انسان خود جدوجہد کر کے جو علم کما لیتا ہے اسے ’’علمِ اکتسابی‘‘ کہتے ہیں۔ (مترجم)

۳۔: استقرا = موجودات کی چند چیزوں پر تجربہ کر کے پھر موجودات کی تمام چیزوں پر وہی قاعدہ مقرر کر نے کا اصول ہے۔ مثلاً دیکھا گیا کہ اجناس میں سے ایک جنس افضل ہوا کرتی ہے تو لازمی ہے کہ انواع میں سے ایک نوع بھی افضل ہو اور افراد میں سے ایک فرد بھی۔

۲۸

         چنانچہ جب جنسِ حیوان سے ایک نوع یعنی انسان علمی استفادہ کی عطا کے لئے مخصوص ہوا ہے، تو نوعِ انسان سے بھی ایک شخص قدرتی معلم کی مرتبت کے

لئے مخصوص ہونا چاہئے، تاکہ ترتیب دلیلاً درست ہو سکے اور وہ واحد شخص پیغمبر ہوا کرتا ہے۔ اس لئے کہ جب تمام حیوانات میں سے صرف نوعِ انسان ہی عقل کے لئے مخصوص ہونے میں کوئی تعجب نہیں، تو مرتبۂ نبوت کے لئے صرف ایک ہی شخص کے مخصوص ہونے میں کیوں تعجب ہو۔

         چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ۔

         ’’أَوَعَجِبْتُمْ أَنْ جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْكُمْ لِيُنذِرَكُمْ (۷: ۶۹) کیا تم اس سے تعجب کرتے ہو، کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس تم میں سے ایک شخص کے توسط سے کوئی یاد دہانی آگئی تاکہ وہ شخص تم کو ڈرا دے؟‘‘

         پس ظاہر ہے کہ وہ واحد شخص اپنے دور میں پیغمبرؐ ہیں، اپنے عصر میں ان کے وصیؑ ہیں اور ہر زمانے میں امامِ زمانؑ ہیں، جب تک دنیا قائم ہے، نوعِ انسان اس واحد شخص سے (جو اس مرتبت کے لئے مخصوص ہے) خالی نہیں، چنانچہ جنسِ حیوان انسانی نوع سے خالی نہیں، اور نہ کبھی خالی ہوگی، اور میں تو یہ کہتا ہوں کہ کائنات و موجودات کی تخلیق سے صانعِ حکیم کی جو غرض ہے وہ صرف یہی ایک شخص جانتا ہے، اور جو شخص ناحق اس کی جگہ پر قابض ہوجائے اور اس مرتبے کا دعویٰ کرے، تو ایسا شخص گویا اپنے آپ کو ہلاک کر دیتا ہے، چنانچہ اگر بہت سی گایوں میں سے ایک گائے زیادہ طاقتور ہے، تو وہ ہرگز اپنی ساتھی گایوں کی حفاظت نہیں کر سکتی، اور یہ ناممکن ہے، کہ وہ ان مویشیوں پر ایک مرد کی مثال بن بیٹھے تاکہ انہیں دوسرے موذی جانوروں اور درندوں سے محفوظ رکھ سکے، اور وقت پر انہیں چراگاہ میں لے جایا کرے، اور وقت پر ان کو مویشی خانہ میں واپس لایا کرے۔

         پس ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ اس واحد شخص سے دنیا ہرگز خالی نہیں، کیونکہ

۲۹

مخلوق اس کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی، اور صرف وہی واحد شخص مخلوق کی بہتری کی نگہداشت و حفاظت کر سکتا ہے۔ جس طرح نوعِ انسان مویشیوں کی بہتری کی نگہداشت و حفاظت کر سکتی ہے، اور اس قول کی حقانیت پر رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس حدیث سے گواہی مل سکتی ہے اور وہ یہ ہے: ۔

         ’’ امرت لصلاح دنیاکم و نجات آخرتکم۔

         میں تمہاری دنیاوی بہتری اور اخروی نجات کے لئے مامور ہوا ہوں‘‘۔

         پھر اگر وہ واحد شخص اس جہان سے چلا جائے، تو لازماً تمام مخلوق کی بہتری بھی ختم ہوجائے گی، چنانچہ بفرضِ محال اگر نوعِ انسان کو جانوروں سے اٹھالی جائے، تو دران حال جانور بھی نہ رہیں گے، اور وہ تمام جانور جو انسانی حفاظت و بہتری کے زیرِ اثر رہتے ہیں، شرانگیز درندوں کی وجہ سے ہلاک ہو کر ختم ہو جائیں گے۔

مباحثہ

         اگر کوئی شخص یہ کہے، کہ آج تمام گروہ ایک ایک امام مانتے ہوئے ایک دوسرے کے مخالف ہیں، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ دو مخالفوں میں سے صرف ایک ہی حق پر ہو سکتا ہے (دران حال دنیوی بہتری بھی صرف انہی کی ہونی چاہئے، جن کا امام برحق ہو، مگر واقعہ اس کے بر عکس ہے) کہ سارے انسان دنیا میں بہتری کے ساتھ ہیں! تو میں یہ جواب دوں گا، کہ ان لوگوں کے لئے یہ بہتری کچھ ایسے باطل پیشواؤں سے حاصل ہوتی رہی ہے، جو اب تک اس بات پر ٹھہرے ہوئے ہیں، کہ انہوں نے سچے پیشواؤں کی چند عادات کو اپنا کر اپنے آپ کو سچے پیشواؤں کے نمونے پر ظاہر کر دیا ہے، اور اسی طرح وہ اپنے کاموں کو رواج دیتے رہتے ہیں، لیکن وہ اپنے دعوے میں باطل پر ہیں، کیونکہ جب جھوٹ، فریب، مکر اور حیلہ ان کے درمیان جاری ہے، تو ان کے پیروؤں کے یہ ناپسندیدہ حالات

۳۰

گواہی دیتے رہتے ہیں، کہ ان کے پیشوا جو کچھ دعویٰ کرتے ہیں، وہ سراسر جھوٹ ہے، چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         ’’إِنَّهُمْ لَنْ يُغْنُوا عَنكَ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا وَإِنَّ الظَّالِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ (۴۵: ۱۹) بلاشبہ ظالم لوگ ایک دوسرے کے مدد گار ہیں، اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کا مددگار ہے۔‘‘

         امامِ باطل کسی درخت کے پتوں کی مثال ہے، کہ پتے اپنے درخت کی زینت تو بن سکتے ہیں مگر اس کی آئندہ نوع کو باقی و جاری نہیں رکھ سکتے، اور امامِ حق درخت کے میوؤں کی مثال ہے کہ میوے اپنے درخت کی زینت بھی بن سکتے ہیں، اور اس کی آئندہ نوع کو بھی باقی و جاری رکھ سکتے ہیں، وہ اس طرح کہ جب ان پھلوں کی ہر گٹھلی سے وہ درخت اگے، تو اس کی نسلی جڑ نہیں کٹتی ہے۔ مگر پتے کوئی درخت نہیں اگا سکتے، بلکہ اگر پتوں نے پھلوں کو چھپا لیا تو پھل (شروع ہی میں) خشک ہو کر ضائع ہو جاتے ہیں، اور باغ کا مالک پھل نہ دینے کی وجہ سے ایسے درخت کو کاٹ دیتا ہے، پس معلوم ہوا کہ پتوں کی زیادتی کی وجہ سے درخت کی نوع بھی ختم ہو جاتی ہے، اور درخت کے فرد بھی، مگر پھل میں درخت کی نوع کی بہتری بھی ہے، اور اسکے فرد کی بہتری بھی، اور پتے صرف درخت کی زینت کے لحاظ سے پھل جیسے ہوسکتے ہیں، لیکن ان دونوں کے درمیان بہت سا فرق ہے، جس کا ذکر ہوچکا۔ اللہ تعالیٰ آیۂ ذیل میں یہی مثال بیان فرماتا ہے: ۔

         ’’ أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ  تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللَّهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (۱۴: ۲۴ تا ۲۵ ) کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیسی مثال بیان فرمائی ہے پاک کلمے کی، اس پاک درخت کی طرح جس کی جڑ مضبوط اور شاخ آسمان میں جا پہنچی

۳۱

ہے، اور ہمیشہ اپنے پروردگار ہی کی اجازت سے پھل دیا کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے، تاکہ وہ سمجھ سکیں۔‘ ‘

         اس پاک درخت سے اللہ تعالیٰ کی مراد رسول (صلعم) ہیں، جس کی جڑ مضبوط ہے۔ جس کو دینی دشمن اکھاڑ نہیں سکتے اور اس کی شاخ آنحضرت کی آل ہیں، جو عالمِ روحانی سے تائید حاصل کرنے کے سلسلے میں روحانی آسمان سے متصل ہوئی ہیں، اور یہی آنحضرت کے فرزند بموجبِ فرمانِ الٰہی لوگوں کو ہمیشہ حکمت کا پھل پہنچاتے رہے ہیں، جو شخص اس مثال کو سمجھ سکے، تو وہی شخص اس درخت تک رسا ہو کر پھل کھا سکتا ہے، کیونکہ یہی پھل ہے جس میں ابدی زندگی پوشیدہ رکھی گئی ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         ’’وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ(۱۴: ۲۶)

         ناپاک کلمے کی مثال اس ناپاک درخت کی طرح ہے، جس کو زمین سے اکھاڑ لیا گیا ہو، اور اس کی کوئی پائیداری ہی نہ ہو، ایسے بدترین درخت سے اللہ تعالیٰ کی مراد خاندانِ (رسول) کے مخالفین ہیں، جہنوں نے امامت کا دعویٰ تو کر ہی لیا، مگر ان کی اولاد میں (وہ غیر قدرتی) امامت جاری و باقی نہ رہی۔

         مذکورہ بیان سے یہ ثابت ہوا، کہ امام بحقیقت وہ ہے جس کا فرزند بھی امام ہو، اور اس کی نسل منقطع نہ ہو، ورنہ جو شخص امامت کا دعویٰ کرے، اور اس کی نسل منقطع ہوجائے تو وہ جھوٹا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         ’’  إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الأَبْتَرُ (۱۰۸: ۱ تا ۳)

         (اے محمد صلعم) ہم نے آپ کو بہت سی اولاد والا مرد عطا کر دیا ہے ‘‘۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی مراد اساس (علی) ہیں۔ ’’پس آپ اپنے پروردگار کے لئے نماز قائم کیجئے۔‘‘ یعنی دعوتِ حق برپا کیجئے اور نحر کے طریقے پر اونٹ ذبح

۳۲

کیجئے۔ یعنی اساس کا عہد لیجئے۔ ’’کیونکہ آپ کا دشمن دم کٹا (دم بریدہ) ہے‘‘۔ یعنی وہ بے اولاد ہے اس لئے امامت اس میں نہ رہے گی بلکہ وہ آپ ہی کی ذریت میں باقی رہے گی۔

         جب ہم نے (مذکورہ دلائل سے) خدا تعالیٰ کی حجت (امام) کا اثبات (۱) کر دیا، تو اب ہم لوگوں کو ان سے روشناس کر دیں گے۔

۱۔: مذکورہ کلام نمبر ۱ کے مطالب کی مزید وضاحت کے لئے میری ایک تصنیف ’’ثبوتِ امامت‘‘ مفید ہوسکتی ہے۔

۳۳

کلام ۔ ۲

امامت کے تمام دعویداروں میں سے امامِ برحق کی نشاندہی کے بارے میں

         میرا بیان ہے، کہ لوگوں میں سے ہر شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ’’طریقِ حق (سچا راستہ) یہی ہے، جس پر میں ہوں، اور میرا مخالف باطل (غلطی) پر ہے‘‘۔ تو یہ صورتِ حال اس بات کی دلیل ہوئی، کہ سارے دعاوی (۱) حق نہیں ہو سکتے، کیونکہ اگر سارے دعاوی حق ہوتے ، تو دران صورت ان تمام دعویداروں میں سے کوئی بھی باطل پر نہ ہوتا، اس لئے کہ ہر ایک مدعی(۲) اپنے مخالف کے دعوے کو باطل کرانے میں حق بجانب ہو سکتا (مگر یہ واقعہ تو ناممکن ہے)۔

         جب ہم نے یہ ثابت کر دیا، کہ سارے دعاوی حق نہیں ہوسکتے، تو ہم یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ دعاوی سب کے سب باطل بھی نہیں ہو سکتے، کیونکہ دعاوی تو ایک دوسرے کے مخالف ہیں، اگر یہ سب کے سب باطل ہوتے، تو (ان کی حیثیت ایک جیسی ہوتی) اور یہ ایک دوسرے کے مخالف ہی نہ ہوسکتے۔

۱۔: دعاوی = دعویٰ کی جمع۔

۲۔: مدعی = دعویٰ کرنے والا۔

۳۴

         نیز اگر تمام دعویدار ایک دوسرے کے قول سے جھوٹے ثابت کئے ہوئے ہوتے، تو اس صورت میں وہ سب کے سب ایک دوسرے کو جھوٹے ثابت کر دینے میں سچے ہو سکتے، کیونکہ اگر دو مخالف آدمی ایک دوسرے کو جھوٹے قرار دیتے ہوں اور فی الواقع دونوں نے جھوٹ دعویٰ کیا ہو، تو وہ دونوں ایک دوسرے کو جھوٹے ثابت کر دینے میں سچے ہیں۔

         جب ہم نے یہ ثابت کر دیا، کہ دعویدار سارے کے سارے سچے نہیں ہوسکتے، نیز سبھی جھوٹے بھی نہیں ہو سکتے، پھر امرِ واقعی یہ ہے، کہ ان تمام دعویداروں میں سے صرف ایک ہی شخص حق بجانب ہے، اور باقی سب باطل پر ہیں، مگر وہ سب اپنے گمان میں اس واحد حق و راستی والے کو باطل گردانتے  ہیں، اب جبکہ دعوےٰ والے صرف دو فریق ثابت ہوئے، تو حق بھی باطل سے (جدا ثابت ہو کر) نمایان ہوا۔

         پس میرا قول یہ ہے، کہ مسلمانوں کے تہتر فرقوں میں سے ایک فرقہ وہ ہے، جو ان سب کے لئے مخالف ہے، اور یہ فرقہ ان لوگوں کا ہے، جو کہتے ہیں، کہ امام آلِ رسولؐ ( یعنی علی ابنِ ابو طالب اور فاطمہ زہرا علیہما السلام کی اولاد) سے ہونا چاہئے اور وہ امام علیہ السلام دینی امور کے لئے زندہ اور حاضر ہونا چاہئے، مگر دوسرے سب ایک ہی فرقے کی حیثیت سے ہیں اس لئے کہ جتنے بھی فرقے کسی گذشتہ امام کی پیروی کرتے ہیں، وہ سب (عملی طور پر) ایک دوسرے کو سچے قرار دیتے ہیں (یعنی وہ سب اپنے اس اصول کے ذریعے ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں کہ گذشتہ امام کی پیروی کرنا کافی ہے) اور وہ اس ایک فرقے کو جھوٹا قرار دیتے ہیں، جس کا نام فرقۂ امامیہ ہے، جس کا قول یہ ہے کہ امامِ زمان زندہ ہیں اور وہ رسول علیہ السلام کی آل ہیں، جب بہتر فرقے اس ایک فرقے کے مخالف ہیں، تو ہمیں معلوم ہوا کہ حقانیت فرقۂ امامیہ ہی میں ہے، اور ان دوسرے فرقوں میں نہیں، جب یہ بہتر فرقے (اپنے اس

۳۵

مشترکہ عقیدے کے متعلق) کہتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں، تو میں یہ کہوں گا، کہ حق محض دعویٰ ہی سے ثابت ہو نہیں سکتا، بلکہ حق پر وہ شخص ہو سکتا ہے جس کے پاس اپنے دعویٰٔ حقانیت کی عقلی دلیل موجود ہو۔

         میں (اصل واقعہ کا) تذکرہ کرتا ہوں کہ مسلمان رسول علیہ السلام کی رحلت کے بعد دو ۲ گروہ ہو گئے، پہلے گروہ نے کہا، کہ رسول علیہ السلام کے بعد ان کے فرزند ہی امام ہو سکتے ہیں، یہ قول امامی گروہ کا ہے، اور دوسرے گروہ نے کہا، کہ رسول علیہ السلام کے بعد امامت امت کے درمیان ہے، تاکہ یہ جائز ہو کہ جو شخص زیادہ دانا اور زیادہ پرہیزگار ہوا، تو وہی شخص امام بنے، چنانچہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے، قولہٗ تعالیٰ: ۔

         ’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنْكُمْ (۴: ۵۹)

         اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ کی اور فرمانبرداری کرو رسول کی اور فرمان والوں کی جو تم میں سے ہیں۔ ‘‘ پس امامی گروہ نے کہا، کہ یہ فرمان والے رسول ہی کی ذریت سے ہیں، اور دوسرے مسلمانوں نے کہا، کہ امام کا رسول کی اولاد سے ہونا اور غیر سے ہونا دونوں جائز ہیں، پھر گروہِ امامیہ نے کہا، کہ تم نے جو یہ اقرار کر لیا، کہ امام کا رسول کی اولاد سے ہونا جائز ہے، ہم اس پر تمہارے ساتھ متفق ہیں، اور یہ جو تم کہتے ہو کہ رسول کی اولاد کے علاوہ دوسروں سے بھی امام کا ہونا جائز ہے، ہم اس پر تمہارے ساتھ متفق نہیں، پس ہمیں اس پر کوئی دلیل لانے کی ضرورت ہی نہیں (کیونکہ تم نے خو ہی اقرار کر لیا، کہ رسول کی اولاد میں سے امام کا ہونا جائز ہے، اب تمہیں اپنے امام کے اثبات کی دلیل چاہئے، تو انہوں نے کہا، کہ یہ ایک حدیث ہے، جو رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایا: ’’اَلْعُلَماءُ وَرَثَۃُ الاَنْبِیَاءِ = دانا لوگ پیغمبروں کے وارث ہوا کرتے ہیں‘‘، تو امامیہ گروہ نے یوں جواب

۳۶

دیا، کہ اس حدیث کے معنی سے یہ مراد ہے کہ رسول علیہ السلام کے حقیقی وارث کے سوا دوسرا کوئی دانا نہیں۔ (چنانچہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ: صرف انبیاء کے وارث ہی بحقیقت دانا ہوا کرتے ہیں، اور دوسرے مسلمانوں نے کہا، کہ جو شخص دانا ہو، تو وہی شخص رسول کا وارث ہے، پھر فرقۂ امامیہ نے یہ جواب دیا، کہ تم ہمارے ساتھ اس بات پر متفق ہوئے، کہ رسول علیہ السلام کے (۱) ورثاء میں سے بھی ان داناؤں کا ہونا جائز ہے، مگر ہم تمہارے ساتھ اس بات پر مخالف ہیں، جو کہتے ہو، کہ رسول علیہ السلام کے ورثا ٔکے علاوہ بھی کوئی دانا ہے، ہمیں اس پر کوئی دلیل لانے کی ضرورت ہی نہیں (کیونکہ تم خود ہی اقرار کرتے ہو، کہ رسول علیہ السلام کے ورثا ٔ میں سے بھی ان داناؤں کا ہونا جائز ہے) اس لئے تمہیں دلیل لانی چاہئے، پس ہم نے یہ دونوں حجتیں (یعنی دلیلیں) امت کے دوسرے فرقوں پر قائم کر دیں، کہ امام رسول ہی کی اولاد سے ہونا چاہئے۔

         جو شخص آلِ محمدؐ کا محب (۲) نہیں، اور جائز سمجھتا ہے کہ امام رسولؐ کی اولاد کے علاوہ بھی ہوسکتا ہے، تو میں اس سے یہ پوچھوں گا کہ کیا تو مسلمان (۳) اور مومن (۴) ہے؟ تاکہ وہ کہے، کہ ہاں پھر میں سوال کروں گا، کہ تو کس سبب سے ان ناموں کے لائق ہوا ہے؟ تاکہ وہ یہ کہے، کہ مسلمان اس لئے کہلاتا ہوں، کہ خدا کے سوا جو کچھ ہے، میں نے اس خدا کے حوالے کر دیا، اور خدا کے سوا کسی اور کو نہیں پوجتا ہوں، اور مومن اس معنی میں ہوں، کہ خدا نے ثواب و عذاب کے

۱۔: ورثا = وارث کی جمع

۲۔ محب = دوست دار

۳۔: مسلمان کے لغوی معنی ہیں، تسلیم یعنی حوالہ کرنے والا

۴۔: مومن کے لغوی معنی ہیں، باور کرنے والا

۳۷

بارے میں جو کچھ مجھ سے وعدہ کیا ہے، اس پر میں نے باور کیا۔

         پس میں اسے کہوں گا، کہ سارے یہود اور آتش پرست ایسے اسلام میں تیرے ساتھ برابر کے شریک ہیں، کیونکہ ان میں سے کوئی شخص ہرگز یہ نہیں کہتا، کہ میں خدا کے سوا کسی اور کو پوچتا ہوں، اور نہ خدا کی کسی صفت سے انکار کرتا ہے، پھر اگر وہ یہ کہے، کہ میں محمد رسول اللہ علیہ السلام کا بھی مقر ہوں، اس سبب سے مومن ہوں، تو میں اس سے یہ کہوں گا، کہ سارے عرب والوں نے یہی اقرار کر لیا تھا، اور وہ یہی کہا کرتے تھے، کہ ہم سب مومن ہیں، یہاں تک کہ حق تعالیٰ نے ان کے اس قول کی تردید کر دی، اور فرمایا:

         ’’قَالَتْ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ (۴۹: ۱۴)

         اعرابیوں نے کہا، کہ ہم مومن ہو چکے (اے محمدؐ!) آپ ان سے کہئے کہ تم ابھی مومن نہیں ہوئے، بلکہ تم یہ کہو کہ ہم مسلمان ہوئے جب تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہ ہو‘‘۔ پس یہ بات ثابت ہوئی کہ ایمان وہ نہیں جس کا تو دعویٰ کرتا ہے۔

         پھر اس سے میرا یہ سوال ہوگا کہ تو ایک مسلمان کی حیثیت سے کس کو پوجتا ہے؟ تاکہ وہ یہ کہے کہ خدا ہی کو پوجتا ہوں، پھر میں پوچھوں گا، کہ جس خدا کو تو پوجتا ہے، کیا تو نے  اسے دیکھا ہے؟ تاکہ وہ کہے کہ خدا دکھائی دینے والا نہیں، کیونکہ اس کی حدو صفت نہیں پس میرا قول یہ ہوگا کہ جس خدا کو تو نے دیکھا ہی نہیں، اور اس کی کوئی حد و صفت نہیں، پھر تو نے اسے کس طرح پہچان لیا، تاکہ تو اس کی پرستش کر سکتا؟ وہ یہ کہے گا، کہ میں نے خدا کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے قول کے ذریعہ پہچان لیا، کیونکہ وہ خدا کے بھیجے ہوئے تھے، میں اسے کہوں گا کہ کیا تو نے اس رسولؐ کو دیکھا ہے؟ وہ مجبوراً یہ کہے گا کہ میں نے رسولؐ کو نہیں دیکھا ہے، پھر میں اسے کہوں گا، کہ رسولؐ

۳۸

کی غیر موجودگی میں تو نے کس طرح خدا کو پہچان لیا، تاکہ تو اس کی پوجا کر سکتا؟ وہ یہ کہے گا، کہ مجھے رسول علیہ السلام کے اقوال سے داناؤں نے زبانی حدیث و خبر دی ہے، میں سوال کروں گا، کہ جن داناؤں نے رسول علیہ السلام سے تجھے یہ حدیث و خبر دی ہے، کیا وہ دین کے سلسلے میں آپس میں متفق تھے، یا مخالف؟ وہ یہ کہہ نہ سکے گا، کہ امت والے سب کے سب متفق تھے، کیونکہ امت کے درمیان بہت سا اختلاف موجود ہے، پس میں کہوں گا، کہ ایک ایسے گروہ کی روایت اور خبر کس طرح سچ اور مستند ہوسکتی ہے، جس کے افراد ایک دوسرے کے مخالف ہوں؟ اس لئے کہ جب تجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ ایک دوسرے کے مخالف تھے، درین صورت اگر تو یہ کہتا کہ اس اختلاف میں ان سب نے سچ بولا ہے، پھر تو (منطقی طور پر) سب کو جھوٹے قرار دیتا ہے، اس لئے، کہ جب دو مخالف آدمی یا (دو مخالف گروہ) ایک دوسرے کو جھوٹے قرار دیتے ہوں اور اگر تو نے یہ کہا کہ وہ دونوں سچے ہیں تو وہ دونوں ایک دوسرے کے قول سے جھوٹے ثابت ہو جاتے ہیں، اور کوئی اس منطقی فیصلے کی تردید نہیں کر سکے گا۔

         نیز میں پوچھوں گا کہ کیا یہ مناسب ہے (جو ہم یہ مانیں) کہ خدا تعالیٰ نے اپنے رسول (محمد صلعم) کو اس دور کے سب لوگوں کے لئے (یکسان ہدایت و مساویانہ افادیت کے ساتھ) بھیجا ہے، یا نہیں؟ وہ بالضرور کہے گا، کہ مناسب ہے، تو اسے کہوں گا کہ آنحضرت نے اپنی مدتِ زندگی میں ان حاضرین کو راستہ دکھایا، جو آنحضرت کے زمانے میں تھے، اور جب آنحضرت اس دنیا سے رحلت فرما ہوئے، تو کیا اب لوگ بغیر ہادی کے رہ گئے ہیں؟ اگر وہ یہ جواب دے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہی ہادی ہے تو میں اسے یہ کہوں گا کہ کتاب تو بولنے والے کے بغیر خود نہیں بول سکتی ہے، اور اگر وہ یہ کہے کہ بیان کرنے والے کے بغیر ہی کافی ہے، تو وہ گویا اللہ تعالیٰ کے اس قول سے انکار کر رہا ہے، چنانچہ فرمایا:

۳۹

         ’’وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (۱۶: ۴۴)

         ہم نے قرآن آپ ہی کی طرف نازل کیا، تاکہ آپ ہی لوگوں کے لئے بیان کریں جو کچھ ان کے لئے نازل ہوا ہے، تاکہ وہ فکر کر لیا کریں‘‘۔ پس میں کہوں گا، کہ خدا فکر کرنے کے لئے اس وجہ سے ارشاد فرماتا ہے، تاکہ تجھے معلوم ہو کہ جب رسول علیہ السلام کے زمانے میں کتاب کا بیان کرنے والا تھا، تو آج بھی ویسا ہی ہونا چاہئے، اور اللہ تعالیٰ نے رسول سے فرمایا، کہ آپ لوگوں کے لئے کتاب بتدریج (دھیرے دھیرے) پڑھتے رہیے، یعنی فرمایا کہ اپنے پورے دور میں (قیامت تک) کتاب لوگوں کو پڑھ کر سنا کر دیتے جایئے، تاکہ وہ اسے پڑھ سکیں، جیسا کہ فرمایا، قولہٗ تعالیٰ: ۔

         ’’وَقُرْآناً فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ  (وَنَزَّ لْنٰہُ تَنزِیْلًا ) (۱۷: ۱۰۶)

         اور ہم نے قرآن میں (بتقاضائے زمانہ تنزیلی و تاویلی) مطالب کو جدا جدا رکھا ہے تاکہ آپ ہی قرآن کو لوگوں کے لئے بتدریج پڑھتے رہا کریں (اور ہم نے تو اس کو اسی لئے تدریجاً نازل کیا ہے)‘‘ پس اب تدریج جاری ہے، اس لئے چاہئے کہ ہمارے واسطے ایک ایسا شخص قرآن پڑھا کرے، جس کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے مقرر فرمایا ہو، اور ایسے شخص کے قرآن پڑھنے کے یہ معنی ہیں کہ ہمیں قرآن کی حقیقت معلوم کرائے۔

         اگر وہ شخص (جس کے ساتھ بحث جاری ہے) یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی حدیث ہے، جو فرمایا ہے: ۔

         ’’اِنَّمَا اَصْحَابِیْ کَا لنّجُومِ بِاَیِّھِمْ إِ قْتَدَ یتُمْ إِھْتَدیْتُمْ۔

         میرے اصحاب ستاروں کی طرح ہیں، ان میں سے جس کی بھی تم پیروی

۴۰

کرو راہ یاب ہو جاؤ گے۔‘‘ میں اس سے سوال کروں گا، کہ آنحضرت کے اصحاب کون سے لوگ تھے؟ تاکہ وہ کہے کہ اصحاب (ساتھی) وہ لوگ ہیں جنہوں نے آنحضرت کو دیکھا تھا اور ان کے ساتھ صحبت رکھتے تھے، پھر میں اسے کہوں گا کہ جن ساتھیوں کا تو ذکر کر رہا ہے، کیا وہ آپس میں مخالف تھے؟ یا متفق؟ وہ نہیں کہہ سکتا کہ متفق تھے، اس لئے کہ ان کے آپس میں جنگ اور قتل واقع ہوا تھا، جب وہ آپس میں مخالف تھے اور ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے، تو یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے، کہ قاتل کا پیرو سیدھے راستے پر ہو اور مقتول کا پیرو بھی اس کے برابر ہے، یہ تو ناممکن ہے، بلکہ یہ قتل تو ایک طرف سے جائز ہوگا اور دوسری طرف سے ناجائز، چنانچہ جو شخص عثمان کے قاتل کا پیرو تھا، اس کے نزدیک عثمان کا قتل جائز اور عثمان کے پیرو کے نزدیک ناجائز تھا، اور حسین ؑ ابنِ علی علیہ السلام کا قتل یزید ابنِ معاویہ ….. کے نزدیک جائز اور علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام اور اس کی اولاد کے نزدیک ناجائز تھا، پس یہ کس طرح روا ہو سکتا ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ایک ایسے (مخلوط اور غیر ممتاز) گروہ سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے فرمایا ہو، جس کا ایک شخص تو کسی چیز کو حرام ٹھہراتا ہے، اور اسی گروہ کا دوسرا شخص اسی چیز کو حلال ٹھہراتا ہے، تو کیا وہ شخص یہ کہہ سکتا ہے، کہ خدا نے یہ نہیں جانا، کہ رسول کے بعد ان لوگوں کی کیا حالت ہونے والی ہے، اس لئے اس نے رسول سے فرمایا کہ خلقِ خدا کو ان لوگوں کے حوالے کر دیں، یہاں تک کہ شک اور اختلاف میں خدا کی مخلوق ہلاک ہو جائے، پس اس حدیث کی دو امکانی صورتوں میں سے صرف ایک ہی صورت ناگزیر ہے، کہ یہ حدیث یا تو رسول سے نہیں ہے یا یہ گروہ جس کا اگر رسول نے ذکر فرمایا ہو تو وہ گروہ نہیں، جس نے کوئی خلاف ورزی کی ہو۔

         اگر وہ یہ کہتا ہے، کہ وہ شخص جس کو مسلمانوں نے امام مقرر کر لیا، حقیقی امام تھا اور اس کی فرمانبرداری واجب تھی، اس لئے رسول علیہ السلام کی حدیث ہے: ۔

۴۱

         ’’ لَا یَجْتَمِعُ اُمَّتِی عَلی الضَّلَا لَۃِ۔

         میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی‘‘۔ میں اس شخص سے یوں کہوں گا، کہ امام ( اس شخص کا نام ہے، جو) رسول کا جانشین ہوا کرتا ہے، پس اگر خدا تعالیٰ نے پیغمبر کو امت کی پسند پر بھیجا تھا، تو امت کے لئے یہ جائز ہے، کہ وہ اپنی ہی مرضی سے پیغمبر کے مقام پر کسی شخص کو مقرر کرے، اور اگر پیغمبر صرف خدا ہی کی مرضی سے ہوئے ہیں، نہ کہ لوگوں کی مرضی سے، تو رسول کا جانشین بھی خدا ہی کے امر سے ہونا چاہئے، نہ کہ امت کی پسند پر، چنانچہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں جو کچھ فرماتا ہے، وہ اس قول کی حقانیت کی گواہی ہے، قولہٗ تعالیٰ: ۔

         ’’ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَ مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ (۳۳: ۳۶(

         کسی مومن اور کسی مومنہ کے لئے یہ درست نہیں ہے، جبکہ اللہ اور اس کا رسول کوئی امر فیصل کریں کہ پھر ان مومنین کو اپنے کام میں کوئی اختیار باقی رہے‘‘۔ پس ثابت ہوا کہ امامت خدا تعالیٰ کے فرمان کے سوا درست نہیں ہوتی ہے۔

         اگر اس شخص کا قول یہ ہو کہ جو لوگ خلافت پر متمکن ہوئے، وہ رسول ہی کے فرمان سے ہوئے تھے (تو ہم یہ جواب دیں گے کہ) اگر وہ رسول کے فرمان سے خلیفہ ہوئے ہوتے، تو یہ لازمی امر تھا ، کہ وہ شرف و عزت، جو خدا اور رسول سے ان کو حاصل ہوئی تھی، ان کی اولاد میں بھی قیامت تک باقی رہ سکتی (اور ان کو ماننے والی) مخلوق بے سروسرکار نہ ہوجاتی، جب ان سے وہ شرف چلا گیا، تو ہمیں یہ دلیل ملی کہ انہوں نے جو کچھ کیا، وہ خدا اور اس کے رسول کے فرمان پر نہیں کیا۔

         نیز میں یہ کہوں گا، کہ ممکن نہیں کہ مخلوق بذاتِ خود سیدھا راستہ دیکھ پائے، اور جو شخص یہ کہتا ہے، کہ میں خود ہی اپنی بہتری جانتا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو رد کر دیا ہوگا، اس لئے کہ اگر خدا تعالیٰ کے علم میں یہ ممکن ہوتا، کہ لوگ

۴۲

بذاتِ خود سیدھا راستہ دیکھ پاسکتے ہیں، تو اس کا کوئی پیغمبر بھیجنا مناسب ہی نہ ہوتا، اور جب اس نے پیغمبر بھیجا، تو ثابت ہوا، کہ لوگ گمراہ تھے، اور اس بات کی دلیل کہ کوئی شخص کسی رہنما کے بغیر بذاتِ خود خدا کی پہچان کے سلسلے میں سیدھا راستہ حاصل نہیں کرسکتا، یہ ہے کہ آدم علیہ السلام نے اپنے اختیار سے بہشت کے ایک ایسے درخت کا پھل کھایا، جس کا پھل کھانا اسے جائز نہیں تھا، مگر اس نے اسی میں اپنی بہتری سمجھی جس میں خدا کی ناراضگی پوشیدہ تھی، جس کی وجہ سے وہ بہشت سے نکال دیا گیا، دوسری دلیل یہ ہے کہ نوح علیہ السلام نے اپنے اختیار سے اپنے بیٹے کو کشتی میں بلایا اور کہا: ۔

         ’’يَابُنَيَّ ارْكَبْ مَعَنَا وَلاَ تَكُنْ مَعَ الْكَافِرِينَ (۱۱: ۴۲(

         اے میرے بیٹے ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہو جا، اور کافروں کے ساتھ مت ہوجا‘‘۔ نیز نوح علیہ السلام نے مناجات کی، کہ میرا یہ بیٹا میرے گھروالوں میں سے ہے، اور آپ کا وعدہ بالکل سچا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ۔

         ’’إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ ‘‘ (۱۱: ۴۵(

         یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس قول کو مسترد کر دیا‘‘ ، جیسا کہ فرماتا ہے: ۔

         ’’يَانُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ (۱۱: ۴۶(

         اے نوح وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں، کیونکہ اس نے اچھا کام نہیں کیا‘‘۔

         اس بارے میں تیسری دلیل کہ (دینی معاملات میں) لوگوں کے اپنے اختیارات درست نہیں، یہ ہے ، کہ ابراہیم علیہ السلام نے جب ایک ستارے کو دیکھا، تو کہا، کہ یہ میرا خدا ہے، اور اس نے جب چاند کو دیکھا، تو کہا کہ یہ میرا خدا ہے، پھر جب اس نےسورج کو دیکھا، تو کہا کہ بس یہ میرا خدا ہے، جو سب سے بڑا ہے، یہاں تک کہ اخیر میں اسے معلوم ہوا کہ جو کچھ وہ گمان کرتا تھا، وہ

۴۳

غلط ہی تھا۔

         اس بارے میں چوتھی دلیل، کہ لوگوں کے اپنے اختیارات (دینی معاملات میں) غلط ہوجاتے ہیں، یہ ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام ’’سینا‘‘ کے پہاڑ پر گیا، تو اس نے بنی اسرائیل کو راستے میں اپنے پیچھے چھوڑا، اور وہ ان سے پیشتر مناجات کرنے کے لئے آیا جس پر اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا: کہ تو نے اپنی قوم سے پہلے یہ جلدی کیوں کی؟ جیسا کہ ارشاد ہے، قولہٗ تعالیٰ: ۔

         ’’وَمَا أَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يَامُوسَى (۲۰: ۸۳“(

         ان مثالوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انسان کو آگاہ کرنا چاہتا ہے، کہ (اپنے اختیار سے) تو نے جو کچھ کیا وہ درست نہیں، کیونکہ اس آیت کے بعد فرماتا ہے:

         ’’قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْ بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمْ السَّامِرِيُّ  (۲۰: ۸۵(

         تیری قوم کو تیرے بعد ہم نے آزمایا، اور ان کو سامری نے گمراہ کر دیا‘‘۔ نیز موسیٰ علیہ السلام نے باختیارِ خود خدا تعالیٰ سے عرض کی، کہ مجھے آپ دکھائی دیں تاکہ میں آپ کو دیکھوں، اور یہ اس کی غلطی تھی، جبکہ حالت یہی ہے کہ پیغمبروں نے جو کچھ اپنی رائے سے کیا، تو وہ سرے ہی سے غلط کیا، پھر امت کے لئے یہ زیادہ ممکن ہے، کہ وہ اختیارات سے جو کچھ بھی کرے تو غلط ہی کرے گی، اور اسے ہرگز کوئی اچھا بدلہ نہیں ملے گا۔

         پس ہم نے یہ ثابت کر دیا، کہ امت کا اختیار غلط ہو جاتا ہے، اور یہ حدیث جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے نقل کرتے ہیں، کہ میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی دو حالات سے باہر نہیں کہ یہ حدیث یا تو صحیح نہیں یا آنحضرت کی امت بحقیقت وہ لوگ ہیں، جن میں گمراہی نہیں پائی جاتی ہے، اور وہ أ ئمہ ٔ برحق ہیں، نہ کہ جاہل عوام۔

         اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں، کہ تمام مسلمان فرقوں میں سے وہ گروہ حق پر ہے،

۴۴

جس کے ساتھ دوسرے سب فرقے مخالف ہیں، اور وہ گروہ بھی دوسرے تمام فرقوں کا مخالف ہے اور اس حق بات کی گواہی رسول علیہ السلام کی اس حدیث سے ظاہر ہے، جو فرمایا کہ: ۔

         ’’ سَیَفْرُقُ اُمَّتی بَعدی ثلٰثۃِ وَسَبعُوْنَ فِرْ قۃً فِرْقَۃٌ مِنھَا نَا جیۃٌ وَسَا ئِرُھَا فِی النّارِ۔

         میرے بعد میری امت تہتر ۷۳ فرقوں میں متفرق ہوگی، ان میں سے صرف ایک ہی فرقہ ناجی و رستگار ہوگا، اور باقی سب کے سب آگ میں ہوں گے۔‘‘ یہ حدیث بس اس امر پر دلیل کرتی ہے کہ بہتر ۷۲ فرقے اس ایک فرقے کے مخالف ہیں، اور (اس فرقے کی مخالفت کے لئے) وہ سب آپس میں متفق ہیں، تاکہ یہی ایک فرقہ اس عالم میں پہنچ کر اس نظریئے کی بدولت سب سے ممتاز ہو جائے، جس کی وجہ سے یہ ایک ناجی ہو کر دوسرے سب پھنس رہے ہوں، اور مسلمانوں کے بہتر ۷۲ فرقوں میں کوئی ایسا فرقہ نہیں، جس کو کافر قرار دیا جاتا ہو، سوائے یہی ایک امامیہ گروہ کے، جس کا کہنا ہے، کہ وہ امام جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ذریت سے ہیں، دنیا میں زندہ اور حاضر ہیں، اور آئندہ امامت بھی اسی کی اولاد میں رہے گی۔

         دوسرے تمام فرقے یوں کہا کرتے ہیں، کہ اس قوم کو قتل کر دینا واجب ہے کیونکہ ہم سب مسلمان ہیں اور یہ گروہ کافر ہے، پھر جب کہ مسلمانوں کے بہتر ۷۲ فرقوں کے نزدیک یہی ایک امامیہ گروہ سارے لوگوں سے برا ہے، تو یہ اس حقیقت کی دلیل ہوئی، کہ یہی امامیہ گروہ ہی ناجی ہے اور اس دعویٰ کی تصدیق اللہ تعالیٰ کے اس قول سے ہوسکتی ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ دوزخیوں کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے، کہ وہ قیامت کے دن یوں کہا کریں گے: ۔

         ’’وَقَالُوا مَا لَنَا لاَ نَرَى رِجَالاً كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِنْ الأَشْرَار (۳۸: ۶۲(

۴۵

         اور دوزخی لوگ دوزخ میں یہ کہا کریں گے کہ کیا ہوا ہے، کہ ہم ان لوگوں کو دوزخ میں نہیں دیکھ پاتے، جن کو ہم برے لوگوں میں شمار کرتے تھے‘‘۔ جب آج ساری امت کے نزدیک امامیہ گروہ سے بدتر اور کوئی گروہ نہیں، تو ثبوت ملا کہ قیامت کے دن یہ قوم دوزخ میں نہ ہوگی، اور یہ ایک روشن دلیل ہے۔

         نیز میں کچھ عقلی بحث کروں گا، اور اس پر خدائے عزو جل کی کتاب سے دلیل پیش کروں گا، کہ دنیا کی سب چیزیں فضیلت و شرافت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں، اور چیزوں کی یہ فضیلت و شرافت جو ایک دوسرے پر رکھتی ہیں، صرف انسان ہی سمجھ سکتا ہے، اس لئے کہ دنیا میں انسان سے زیادہ اشرف کوئی اور چیز نہیں ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ۔

         ’’وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً (۱۷: ۷۰(

         اور ہم نے آدم کی اولاد کو اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت (فوقیت) دی‘‘ ۔ بنی آدم کی یہ فضیلت و شرافت علم کی وجہ سے ہے اور جمادات پر نباتات کی فوقیت یہ ہے، کہ نباتات جمادات سے اپنے فائدے کو جذب کر سکتی ہیں، اسی لئے وہ لازماً ایک حد تک زندہ ہیں، لیکن ناسمجھ جمادات بے جان پڑے ہوئے ہیں، اور نباتات اتنی سی سمجھ کی بدولت، جو اسے مل گئی ہے، انسان کے نزدیک قابلِ قدر ہوئی ہیں، اس لئے کہ نباتات کو انسان کے ساتھ اسی سمجھ کی وجہ سے کسی قدر ہم جنسیت حاصل ہوئی ہے، حیوان کو نباتات سے زیادہ سمجھ ملی ہے، کہ وہ اپنے دشمن کو پہچانتا ہے، اور گرمی و سردی سے اپنا بچاؤ کر سکتا ہے، لازماً وہ نباتات پر بادشاہ ہوا ہے، کیونکہ ان کی سمجھ حیوان کی سمجھ سے کم ہے، اور انسان نے، جو ان دونوں پر فوقیت رکھتا ہے، حیوان کو نباتاتی غذاؤں میں اپنے ساتھ شریک کر دیا ہے، اور اس لئے کہ حیوان سمجھ کے اعتبار سے انسان کے بہت نزدیک ہے، اور انسان ایک ایسی مزید دانش کی بدولت حیوان پر فوقیت رکھتا ہے، جو صرف اسی کو ملی ہے، چنانچہ وہ اسی قوت کے ذریعہ جو اس کے نفسِ ناطقہ

۴۶

میں ہے، کسی ظاہر چیز کی پوشیدہ حقیقت کو سمجھ سکتا ہے، لیکن حیوان میں یہ دانش نہیں۔

         اس قول کی تشریح یہ ہے ، کہ جب انسان کسی ایسے (دشمن) شخص کو دیکھتا ہے، کہ تیر و کمان کے ساتھ تیار ہے اور اس نے تیر کو تانت میں رکھا ہے، تو وہ ضرور سمجھ لے گا، کہ وہ تیر و کمان والا دور ہی سے اس پر تیر چلاسکتا ہے، نیز وہ یہ بھی سمھ سکتا ہے کہ اب کس چیز سے ڈھال کا کام لینا چاہئے، تاکہ وہ اس کے ذریعہ زخمی ہونے سے بچ سکے، اب اس تیر انداز کے اس فعل کو، کہ وہ دور ہی سے تیر و کمان کے دو آلات کے ذریعہ مارسکتا ہے، نیز انسان کے دوسرے پوشیدہ ہتھیاروں کو بھی نفسِ ناطقہ کے سوا اور کوئی مخلوق پہچان نہیں سکتی ہے۔

         پس حیوان کی سمجھ پر انسان کے علم و فضل کی فوقیت یہ ہے ، کہ انسان چیزوں کی ظاہریت سے ان کی پوشیدہ حقیقتیں معلوم کر سکتا ہے۔ کہ انسان چیزوں کی ظاہریت کے سوا کچھ نہیں جانتا، اور انسان اسی دانش کے سبب سے مویشیوں اور حیوانوں پر حکمرانی کرتا ہے، اور (محض اسی دانش کے تقاضے سے) اللہ تعالیٰ نے انسان کی طرف پیغمبر اور کتاب بھیجی ہے، اور چیزوں کی ظاہریت سے ان کی پوشیدہ حقیقتوں کو معلوم کر لینا غیب دانی (علمِ غیب) کی مثال ہے اور غیب دانی دراصل خدا ہی کی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         ’’ وَلِلّٰہِ غَیْبُ السَّمٰواتِ وَالاَرضِ (۱۱: ۱۲۳(

         آسمانوں اور زمینوں کی غیب دانی خدا ہی کو ہے۔‘‘ پس جس شخص کے پاس ظاہر چیزوں کا پوشیدہ علم زیادہ ہو تو وہی شخص خدا کے زیادہ نزدیک ہے، چنانچہ جب حیوان کی سمجھ نباتات کی سمجھ سے بڑھ کر تھی تو انسانوں نے اسے اپنی طرف نزدیک تر کر دیا ہے، اور انہوں نے اپنی خوراک سے اس کے لئے ایک حصہ مقرر کر دیا ہے، اور جو شخص زیادہ دانا ہے، تو وہی شخص خدا کا خوف زیادہ رکھتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

۴۷

         ’’ اِنَّمَا یَخْشیَ اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓئُوا (۳۵: ۲۸(

         خُدا سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو دانا ہیں۔‘‘ اور جو شخص خدا کا خوف زیادہ رکھتا ہے، تو وہی شخص خدا کے زیادہ نزدیک ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

         ’’ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ (۴۹: ۱۳(

         اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑا معزز وہی شخص ہے، جو تم سب سے زیادہ خدا کا خوف رکھتا ہے۔‘‘

         پس ہم نے ثابت کر دیا، کہ جو شخص علمِ غیب زیادہ جانتا ہے، وہی شخص خدا کے زیادہ نزدیک اور زیادہ معزز ہے، جب ہم نے یہ حال بیان کیا، تو اب سنیئے کہ امت میں سے وہ گروہ خدا کے زیادہ نزدیک ہے، جو خدا کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی شریعت کے پوشیدہ معنوں کو جانتا ہے، اور ان معنوں پر دانش سے عمل کرتا ہے، اس لئے کہ دانش سے کام کرنے کو ’’حکمت‘‘ کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا، کہ امت کو حکمت سکھا دی جائے چنانچہ ارشاد ہے: ۔

         ’’وَيُعَلِّمُهُمْ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (۶۲: ۲(

         ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے‘‘۔ پس جو کوئی شریعت کا عمل دانش سے کرے، تو وہی حکیم ہے، اور جس شخص کو حکمت مل گئی ہو، تو اس کو بہت سی بھلائی اور بہت سی منفعت مل گئی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ۔

         ’’ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا (۲: ۲۶۹(

         اور (سچ تو یہ ہے کہ) جس کو حکمت مل جائے، اس کو بہت سی خیر مل گئی‘‘۔ ساری امت میں (سوائے امامیہ گروہ کے) کوئی ایسا گروہ نہیں جو قرآن و شریعت کی حقیقتوں کو طلب کرتا ہو، مگر وہ سب کتاب و شریعت کی ظاہریت ہی پر ٹھہرے ہوئے ہیں، اور محض چیزوں کی ظاہریت ہی جاننا جانوروں کا کام ہے، پھر جو کوئی

۴۸

صرف قول کی ظاہریت ہی پر عمل کرتا ہے، تو اس نے گویا جانور ہی کے درجے پر اکتفا کی ہے، اللہ تعالےٰ ایسے گروہ کے بارے میں جو چیزوں کی ظاہریت کے سوا کچھ نہیں جانتا ، اس آیت کے بموجب ارشاد فرماتا ہے: ۔

         ’’يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنْ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنْ الآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ (۳۰: ۷(

         وہ لوگ صرف دنیوی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں ، اور وہ لوگ آخرت سے بالکل بے خبر ہیں۔‘‘

         پس لوگوں پر ان اسرار کا طلب کرنا واجب ہے، جو شریعت میں پوشیدہ ہیں، اور اس کے ظاہر پر دانش سے عمل کرنا ایسا ہے، جیسے انسان خود اس دنیا میں ظاہر ہے، اور وہ اسی ظاہر دنیا میں اس پوشیدہ عالم کو ڈھونڈھ پاتا ؎۱ ہے، اور اگر لوگ شریعت کے ظاہر سے اس کی حقیقتوں کی تلاش نہ کریں، اور صرف شریعت کے ظاہر ہی پر ٹھہرے رہیں تو ان کی مثال ایک ایسے شخص کی طرح ہے جو اس دنیا کے ذریعہ (یعنی بر وقت اور اسی دنیا میں ہوتے ہوئے) آخرت کو طلب نہیں کرتا ہے، اور وہ اس جہان میں زیان کار رہتا ہے، کیونکہ ایسے لوگوں سے یہ دنیا تو گزر ہی جائے گی اور وہ پوشیدہ عالم انہوں نے حاصل کیا ہوا نہ ہوگا۔

         جب اس فصل کا بیان ہوچکا، تو اب میں ان شاء اللہ تعالیٰ اپنے روحانی بھائیوں اور عزیزوں کے لئے اس کتاب میں ان اقوال اور شرعی بنیادوں کی تشریح کروں گا جو شریعت، شہادت، طہارت، زکوٰۃ، صدقات، صلوٰۃ، جزیہ وغیرہ اور ان کے لوازم کے متعلق ہیں، نیز ہر اس قول و فعل کی حقیقت بیان کر

؎۱: یعنی جس طرح انسان کو عالمِ ظاہر میں رہتے ہوئے عالمِ باطن کی حقیقتوں کی تلاش لازمی ہے، اسی طرح شریعت کے ظاہر سے اس کا باطن حاصل کرنا ضروری ۔ (مترجم(

۴۹

دوں گا، جو اصولِ دین میں سے ہے، تاکہ مومنین، دینِ اسلام کے چہرے کو دیکھ سیکیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس نیک نیت کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطا فرمائے! اور اس کتاب کے پڑھنے والوں کو ہوشیاری نصیب ہو! تاکہ وہ یہ گمان نہ کریں، کہ جب انہوں نے شریعت کے باطن کو سمجھ لیا، تو اس پر عمل کرنا ان سے ساقط ہوگیا، بلکہ وہ اس پر اس وقت زیادہ عمل کرتے رہیں جبکہ وہ اس کے باطن جانتے ہوں۔

والسلام

۵۰

کلام ۔ ۳

علم یعنی دانش کے بارے میں کہ وہ کیا ہے

         سب سے پہلے مومن کو یہ جاننا چاہئے، کہ علم (کی تعریف) کیا ہے، تاکہ وہ جب اس کو پہچان لے، تو اسے حاصل بھی کر سکے گا، کیونکہ جب تک کوئی شخص کسی چیز کو نہ پہچانے ، تو وہ اس چیز تک ہرگز رسا نہیں ہوسکتا، پس (علم کی تعریف کے بارے میں ) میرا کہنا یہ ہے کہ: چیزوں کو ان کی حقیقی حالت کے مطابق معلوم کرنے کا نام علم ہے، اور چیزوں کو ان کی حقیقی حالت کے مطابق معلوم کرلینے والی (قوت) عقل ہی ہے، پس علم عقل کے گوہر میں ہے ( یعنی علم روحانیت کی اس اعلیٰ ترین مثال میں پایا جاتا ہے، جو بارہ پہلوؤں کے ایک لعل کی صورت میں پیش کی جاتی ہے) اور عقل کی گواہی باری سبحانہ تعالیٰ کا وہ کلمہ ہے، جس کے تحت تمام روحانی و جسمانی مخلوقات موجود ہیں ( یعنی جب گوہرِ عقل کے بارہ پہلوؤں سے بارہ قسم کی روحانی تعلیمات دی جاتی ہیں، تو ہر تعلیم کے ساتھ ساتھ کلمۂ باری کی ایک تصدیق بھی ملتی جاتی ہے، کیونکہ گوہرِ عقل کی یہ تعلیمات رموز و اشارات پر مبنی ہیں اور کلمۂ باری ہی ان سب کی گواہی دیتا ہے اور تصدیق کرتا ہے) اور جو کچھ علم کے تحت نہ آتا ہو، تو اسے ہست (موجود) نہیں کہنا چاہئے، پس خدا کے سوا سب کچھ علم کے گھیرے میں پایا جا سکتا ہے، اور جب یہ جائز نہیں، کہ خدا تعالیٰ بھی علم کے تحت ہو، کیونکہ علم وہ ہے کہ ساری چیزیں

۵۱

اور ہستیاں اس کے تحت پائی جاتی ہیں، نیز ’’نیست‘‘ بھی اس کے تحت ہے، تو جائز نہیں، جو میں یہ کہوں کہ خدا ہے، یا یہ کہوں کہ خدا نہیں ہے، کیونکہ یہ دونوں حالات (ہست و نیست) علم کے تحت ہیں، لیکن خدا علم کے تحت نہیں۔

         پس میں (خدا کی حقیقت کے بارے میں) یہ بتاؤں گا، کہ (علم) محض امرِ خدا ہے، اور جس شخص کو (دوسروں کے مقابلے میں) علم کا زیادہ حصہ ملا ہے، تو وہی شخص خدا کے امر کے زیادہ نزدیک ہے، اور اسی شخص نے خدا کے امر کو زیادہ قبول کر لیا ہے، اور وہی شخص (دوسروں سے) زیادہ فرمانبردار ہے، اور جو شخص زیادہ دانا ہو، وہی شخص خدا کا زیادہ فرمانبردار ہوجاتا ہے، اور جو شخص مکمل طور پر دانا ہو، تو وہی شخص دائمی نعمت کو حاصل کر سکتا ہے، چونکہ دانا کے کاموں کا انجام خدا کی رحمت ہے، انسان اس کائنات کی دوسری تمام مخلوقات کی تکمیل کے بعد پیدا ہوا ہے، اور اس کی جائے واپس امرِ کل ہے، جو دونوں جہان کی علت (یعنی سببِ پیدائش ) ہے، اور قانون یہ ، کہ تمام چیزیں اپنی اصل ہی کی طرف رجوع کر جاتی ہی، بھائیو! تم حصولِ علم کے سلسلے میں کوشش کرتے رہو، تاکہ جس سے تم خدائے برتر و بزرگ کے زیادہ نزدیک ہو سکو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تو علم ہی ہے۔

۵۲

کلام ۔ ۴

لطیف روحانی عالم کے بارے میں

         جب ہم نے یہ واضح کر دیا کہ سب سے پہلے جو چیز پیدا ہوئی، وہ باری تعالیٰ کا امر ہے، اور وہ علم ہے، اور ہم نے اس قول کی سچائی پر یہ دلیل پیش کر دی، کہ ساری چیزیں علم کے تحت ہیں، تو اس سے یہ لازم آتا ہے، کہ سب سے پہلے علم ہی موجود ہوا ہے (کیونکہ علم جو گوہرِ عقل میں ہے، تمام موجودات سے برتر اور مقدم ہے، اور عقل کی گواہی کلمۂ باری یعنی امرِ کل ہے، لہٰذا امر اور علم (عقل) دونوں تمام موجودات سے برتر اور مقدم ہیں)۔

         اب اس حقیقت کا بیان کیا جاتا ہے، کہ پہلے باری سبحانہ کے امر سے روحانی عالم وجود میں آیا ہے، پھر اس عالم سے یہ کائنات پیدا ہوئی ہے، اور توضیح کی جاتی ہے ، کہ وہ عالم دانا، مکمل، پائندہ اور لطیف ہے، یعنی وہ عالم سرتا سر روح اور دانش ہی ہے۔

         اب اس حقیقت کی دلیل کہ پہلے روحانی عالم موجود ہوا، اور اس کے بعد یہ کائنات پیدا ہوئی، یہ ہے، کہ یہ جسمانی عالم ایک حالت سے دوسری حالت میں بدل جانے والا واقع ہوا ہے، اور اس تبدیلی کے ذریعے ازقسمِ معدنیات، نباتات اور حیوانات، بہت سی چیزیں پیدا ہوتی رہتی ہیں جن میں (کسی فاعل کا) قصد و منشاء اور مراد کی علامتیں پائی جاتی ہیں (یعنی دنیا کی چیزوں پر غور کرنے

۵۳

سے یہ معلوم ہوتا ہے، کہ یہ کس اتفاقیہ اور بلا قصد حادثہ اور ناخواستہ تصادم کے نتیجہ میں بکھری ہوئی پڑی نہیں ہیں، بلکہ ہر چیز کو کسی حکیم کاریگر نے ایک خاص ارادی شکل و ساخت میں کسی نہ کسی کام کی غرض سے پیدا کی ہے، پس قصد ہر چیز کی شکل و ساخت ہی ہے، اور ’’مراد‘‘ اس شکل و ساخت کا فعل ہے، چنانچہ نباتات اگتی رہتی ہیں، جن پر حیوانات کا قیام ہے، اور انسان پیدا ہوتے ہیں، جو نباتات اور حیوانات دونوں کی حفاظت کرتے ہیں، اگر انسان نہ ہو تو ساری نباتات اور حیوانات کا خاتمہ ہوگا۔

         پس ہمیں معلوم ہوا، کہ ان چیزوں میں یہ ’’قصد‘‘ اس دنیا کی طرف سے نہیں ہے، اگر کوئی شخص یہ کہے، کہ یہ ’’قصد‘‘ طبائع کی طرف سے ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا، کہ یہی دنیا خود ’’قصد کرنے والا‘‘ بھی ہے، اور خود ’’مقصود (مراد)‘‘ بھی، مگر یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی منافی ہیں، جب یہ معلوم ہوا، کہ اس دنیا کی خلقت و صنعت میں جو کچھ ’’قصد‘‘ پایا جاتا ہے، وہ اس جہان کا ہے، تو ہم نے اس ’’قصد کرنے والے‘‘ (یعنی منشا ٔوالے) کو بھی عالم کہا، جس کی وجہ یہ ہے، کہ ایک ایسی چیز دوسری چیزوں میں قصد کی کوئی صورت پیدا کر سکتی ہے، جس کی مناسبت و مشابہت ان مقصود چیزوں کے ساتھ ہو۔

         پس ہمارے مذکورہ بیان کے بموجب یہ لازم آتا ہے، کہ وہ عالم (جس کا فعل یہ دنیا ہے) ایک اعتبار سے اس دنیا سے ملتا جلتا ہے، جب اس دنیا میں علم سے بڑھ کر کوئی شے اشرف نہ تھی، تو ہم نے اس کا یہ نتیجہ نکالا، کہ وہ جہان دانش حاصل کرنے والا بھی ہے، اور دانش دینے والا بھی، اور جب اس دنیا میں دانش حاصل کرنے والی تو روح ہی تھی اور دانش دینے والی عقل ہی تھی، تو ہم نے اس وجہ سے کہا، کہ وہ عالم سرتا سر عقل و روح ہی ہے، اور دوسری کوئی چیز ہرگز نہیں، اس لئے کہ دنیا میں بس یہی دو اصل چیزیں پائی جاتی ہیں۔

         (چنانچہ کائنات کی تمام چیزیں فائدہ بخشی اور فائدہ پذیری کے اعتبار سے

۵۴

دو حصوں میں منقسم ہیں، یا یہ کہنا چاہئے کہ ہر چیز اگر ایک طرف سے فائدہ بخش ہے، تو دوسری طرف سے فائدہ پذیر ہے، اور ان دو قسم کی چیزوں یاکہ دو حیثیتوں کے سوا دنیا میں اور کوئی شے نہیں ہے مثلاً: آسمان فائدہ دینے والے ہیں، اور طبائع فائدہ لینے والی ہیں، اور نباتات فائدہ لینے والی ہیں، نباتات فائدہ دینے والی ہیں، اور حیوانات فائدہ لینے والے ہیں، حیوانات فائدہ بخش ہیں، اور انسان فائدہ پذیر ہیں، استاد فائدہ دینے والا ہے، اور شاگرد فائدہ لینے والینے والا ہے، پیغمبر فائدہ دہندہ ہے، اور امت فائدہ پذیز ہے، حیوانات میں نر فائدہ دینے والا ہے، اور مادہ فائدہ لینے والی ہے، صانعِ فائدہ بخش ہے، اور مصنوع فائدہ پذیر ہے۔

         جب یہ معلوم ہوا کہ یہ عالم مجموعی طور پر فائدہ پذیر ہے، کیونکہ یہاں جو کچھ معدنیات، نباتات اور حیوانات پیدا ہوجاتے ہیں، ان میں سے کوئی ایک چیز بھی عناصر کی ذات میں نہیں پائی جاتی ہے، سو ہم نے کہا، کہ یہ سب کچھ عالمِ روحانی ہی پیدا کرتا ہے، اور وہی فائدہ دہندہ ہے، پھر ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ جہان اپنی کلیت و خودی میں دو قسم کا ہے، ایک قسم فائدہ دہندہ ہے، اور وہ عقل ہے، اور دوسری قسم فائدہ پذیرندہ ہے، جو نفس ہے، جب ہمارے علم میں یہ آیا، کہ یہ جہان (مجموعی حیثیت سے) فائدہ پذیر ہے، تو معلوم ہوا کہ وہ عالم ( مجموعی حیثیت سے) فائدہ بخش ہے، پھر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عالم اس عالم سے پیشتر موجود ہوا ہے اور ہم اس پہل کو تقدمِ زمانی نہیں کہیں گے، بلکہ تقدمِ شرفی کہیں گے (یعنی وہ عالم) اس دنیا سے وقت کے لحاظ سے پہلے نہیں، بلکہ فضل و شرف کے اعتبار سے پہلے ہے) چنانچہ استاد کو شاگرد پر تقدمِ شرفی حاصل ہے، جبکہ کسی تقدیم و تاخیر کے بغیر ایک ہی وقت اور ایک ہی حالت میں سکھانے والے کا نام استاد اور سیکھنے والے کا نام شاگرد لازم آتا ہے۔

         اب ہم اس بارے میں دلیل پیش کریں گے، کہ وہ عالم دانا ہے،

۵۵

چنانچہ اس کائنات میں حکیمانہ کاریگری کے نشانات ظاہر ہیں ( مثلاً: ) آسمانوں کی ساخت، جو ایک مکمل ترین اور موزون ترین شکل میں ہے، جو گول شکل ہے، نیز چار طبائع کی مناسبت، کہ اگر ہر ایک طبع کی دوسری کے ساتھ ایک وجہ سے مخالف ہے، تو دوسری وجہ سے مناسبت بھی ہے، تاکہ اس (مخالفت و مناسبت) کے ذریعہ فائدہ حاصل ہو، چار طبائع سے مراد آگ، ہوا، پانی، اور مٹی ہیں، آگ گرم اور خشک اور مٹی سرد و خشک ہے، یہ دونوں خشکی میں ایک دوسرے کے ساتھ موافق، اور گرمی و سردی میں مخالف ہیں، ہوا گرم و تر اور پانی سرد و تر ہے، یہ دونوں تری میں باہم موافق، اور گرمی و سردی میں مخالف ہیں، ہم نے اس کی تشریح ایک اور کتاب (زاد المسافرین) میں کی ہے۔

         جب کاریگری سے بنائی ہوئی اس کائنات میں حکمت ظاہر ہے، اور ہم نے (اس سلسلے میں جب یہ) ثابت کیا، کہ اس کا کاریگر (یعنی) وہ جہان (اس کائنات سے) پیشتر ہے، تو ثابت ہوا کہ وہ جہان دانا ہے (اب) ہم اس بارے میں دلیل لائیں گے، کہ وہ جہان مکمل ہے، پس توضیح کی جاتی ہے کہ ہمیں یہ عالم نامکمل نظر آتا ہے، اس لئے کہ یہاں اس عالم سے بہتر چیزیں پیدا ہوتی رہتی ہیں، چنانچہ حیوان پیدا ہوتا ہے، جو اس عالم سے بہتر ہے، اس لئے کہ یہ عالم چار طبائع کی باہمی رفاقت سے منظم ہوا ہے، لیکن انسان اور حیوان چار طبائع کی باہمی رفاقت سے نہیں، بلکہ ان کی باہمی آمیزش سے منظم ہوئے ہیں، پس اگر دو ساتھ رہنے والی چیزوں کو (ان کی باہمی رفاقت کی وجہ سے) منظم کہنا شایان ہے) اور اس تنظیم میں ان دونوں کے لئے نیکی اور بہتری ہے، پھر جب ان کی قطعی آمیزش ہوجائے تو انہیں زیادہ منظم کہنا شایان ہوگا، اور اس تنظیم میں زیادہ نیکی اور بہتری ہوگی۔

         حیوان جسم کے اعتبار سے لازماً اس عالم کے مانند ہے، کیونکہ (جسم) طبائع ہی کا بنا ہوا ہے، مگر حساس (محسوس کرنے والی) اور منتقل (جگہ بدلنے والی) روح

۵۶

کے اعتبار سے وہ دنیائے طبائع پر فضیلت رکھتا ہے، پس اس کا یہ ثبوت ہوا کہ اس عالم سے حیوان زیادہ مکمل ہے، کیونکہ اس کی روح ہے، اور اس عالم کی روح نہیں، جب ہم نے اس نامکمل عالم سے ایک مکمل چیز (کا پیدا ہونا) دیکھا، تو ہم کو معلوم ہوا کہ کسی دوسرے مکمل (فاعل) کی عنایت کے بغیر نامکمل (دنیا) سے یہ چیز پیدا نہیں ہوسکتی، اور جب ہم نے یہ ثابت کر دیا تھا، کہ اس کائنات میں کاریگری اس عالم کی ہے، تو ہم نے (اس بنا ٔ پر ) کہا کہ وہ عالم جس کی کاریگری میں کمال پایا جاتا ہے، لازماً مکمل ہے، اور جو کچھ مکمل ہو وہ باقی رہ سکتا ہے۔

         اس بات کی دلیل کہ وہ عالم باقی ہے، یہ ہے کہ جب ہمارے مشاہدے میں یہ آتا ہے، کہ یہ کائنات ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلتی رہتی ہے، ۰تو یہی اس کی تبدیلی اس کی جزوی فنا ہے، کیونکہ کسی موجود کی حالت کا اس معنی سے بدل جانا ، جسے وجود کہتے ہیں، فنا ہی کی حقیقت ہے، اور جو چیز جزوی طور پر فنا ہوتی ہو تو لازم آتا ہے، کہ وہ ایک دن کلی طور پر فنا ہوگی، اور اس دنیا میں فنا کی بہت سی قسمیں (جاری) ہیں، جیسے اضداد کا آپس میں بدل جانا، جیسے زندہ کا مرجانا، تاریک کا روشن ہوجانا، خوشبو کا بدبو ہوجانا، وغیرہ اور یہ سب فنا کی دلیلیں ہیں، اس لئے فنا بقا کی ضد ہے، جس طرح تاریکی روشنی کی ضد ہے، اور عدم (نیستی) وجود (ہستی) کی ضد ہے، پس یہ جزوی فنائیں اس عالم کی کلی فنا کی نشاندہی کرتی ہیں، جب اس مصنوع کے لئے فنا لازمی ہوئی تو اس عالم کے لئے بقا لازمی ہوئی، جو اس کا صانع ہے، اس لئے صانع مصنوع سے اشرف ہے، جس طرح بقا ٔ فنا سے اشرف ہے، اور اس عالم میں کاریگری (تخلیق) عارضی ہے، اور اس جہان کا قیام بھی عارضی ہے، اور اس کی حالت کی تبدیلی ہی اس حقیقت کی شہادت ہے، کہ اس کا قیام عارضی ہے مثلاً گرمی اور روشنی آگ سے لوہے میں عارضی طور پر آتی ہیں، جو دونوں چیزیں آگ میں جوہری یعنی ذاتی ہیں، پس میں نے یہ ثابت کر دیا، کہ اس عالم کی یہ عارضی

۵۷

بقا اس عالم سے پیدا ہوئی ہے، پھر اس عالم کے لئے یہ لازمی آتا ہے کہ اس کی بقا ٔ جوہری یعنی ذاتی ہو۔

         اب اس بارے میں دلیل پیش کی جاتی ہے، کہ وہ عالمِ لطیف ہے، چنانچہ توضیح کی جاتی ہے، کہ لطیف وہ چیز ہے جس کے اثرات جب کسی جسم میں سے گزرتے ہیں، تو وہ جسم ان کو روک نہیں سکتا، اس قول پر محسوسات میں سے ایک دلیل یہ ہے، کہ آگ میں لطافت ہے اور کوئی جسم اس کی قوت کو روک نہیں سکتا، آپ کو معلوم ہے کہ جب آگ لوہے کو چھوتی رہتی ہے، تو اس قدر آہنی سختی اور قوت کے باوجود آگ کی قوت لوہے کو پار کر جاتی ہے، خواہ لوہا کتنا ہی موٹا اور مضبوط کیوں نہ ہو، اور جب ہم نے یہ مشاہدہ کیا، کہ گہرے سمندروں میں مچھلیاں اور دوسرے جانور (شروع میں ماں باپ کے بغیر) پیدا ہوئے، نیز ان کے نروں کی پشت اور مادوں کے پیٹ میں نسلی حیات داخل ہوئی، جبکہ نر جانوروں کی پشت میں نطفہ بنتا ہے، اور وہ یہاں سے منتقل ہو کر مادہ جانوروں کے پیٹ میں جانور بنتا ہے، تو ہمیں معلوم ہوا کہ یہ اس عالم کی لطافت کی وجہ سے ہے، جو اس دنیا کا کاریگر ہے۔

         اب اس بات کی دلیل کہ وہ عالم زندہ ہے، یہ ہے کہ ہم اس دنیا میں یہ دیکھتے ہیں کہ جو کچھ جان رکھتا ہے، وہ اس چیز سے اشرف ہے، جس کی کوئی جان نہیں، اور وہ عالم جو صانع ہے اس دنیا سے اشرف ہے، کیونکہ یہ مصنوع بے جان ہے، لازم آتا ہے کہ وہ عالم جو صانع ہے، یکسر جان اور دانش ہی ہے۔

         نیز جب اس دنیا میں ایک بہترین چیز دانا جاندار ہے، جس کا نام انسان ہے، تو ہم نے (نتیجے کے طور پر یہ) کہا، کہ جب صانع مصنوع سے بہتر ہے، اور دنیا کی مصنوعات میں سے ایک بہترین چیز دانا جاندار ہے، تو ہمیں معلوم ہو اکہ یہ دانا جاندار اپنے صانع کے زیادہ نزدیک ہے، کیونکہ وہ دوسری مصنوعات سے زیادہ بہتر ہے، اور جب دانا جاندار یعنی انسان بہتر ہے، اور (جب یہی قانون

۵۸

ہے کہ مصنوعات میں سے) وہ مصنوع اپنے صانع کے زیادہ نزدیک ہو سکتی ہے، جو بہتر ہو، پس ثابت ہوا کہ وہ عالم زندہ اور دانا ہے، اور اس دعویٰ کی تصدیق اللہ تعالیٰ کے اس قول سے ہوسکتی ہے، جو فرماتا ہے: ۔

         ’’وَإِنَّ الدَّارَ الآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (۲۹: ۶۴(

         اور بلا شبہ آخرت کا گھر زندہ ہے، اگر ان کو اس کا علم ہوتا‘‘۔

         پس ہم اب اس بارے میں دلیل پیش کریں گے، کہ وہ عالم جاننے والا، دیکھنے والا، سننے والا اور بولنے والا ہے، چنانچہ جب انسان میں پیدا ہونے والی یہ قابلِ ستائش صفات اس عالم سے آتی ہیں، اور یہ صفات جن کا ہم نے ذکر کیا (جبکہ) اس دنیا کے چار عناصر میں نہیں، اور چار عناصر مصنوع ہی ہیں، تو لازمی ہے کہ یہ صفات جن کا ذکر ہوچکا، اس کائنات کے صانع سے ہیں، اور جب یہ صفات اس جہان میں جزوی طور پر موجود ہیں، تو ہمیں معلوم ہوا، کہ وہ عالمِ کلی ہے،، اور توانائی، بینائی، شنوائی اور گویائی اُس عالم کی ہیں، اور باری سبحانہ و تعالیٰ کے اس امر کے بموجب، جو دونوں جہان کا سرمایہ ہے، اور عقل کی تائید کے ذریعے مذکورہ تمام صفات نفسِ کل ہی کو حاصل ہیں، (اور وہی اس جہان کا صانع اور لطیف عالم ہے) اور توضیح کی جاتی ہے، کہ وہ لطیف، باقی، توانا، دانا اور مکمل عالم مکان نہیں (یعنی فی نفسہٖ اس کائنات کی طرح مکانی حیثیت سے نہیں، بلکہ لامکانی صورت میں موجود ہے) اور مکان کے اندر نہیں (یعنی کس جسم کی طرح اس کا انحصار مکان ہی پر نہیں) اور مکان سے قطعاً باہر بھی نہیں (یعنی روحانی طور پر عالمگیر وسعت اور ہمہ رس صفت میں ہر جگہ موجود ہے) اور وہ خدائے بے مثال کا پیدا کیا ہوا ہے (پس) مومنِ مخلص پر واجب ہے، کہ اُس عالم کو پہچانے اور یہ سمجھ لے، کہ حقیقت میں بہشت وہی عالم ہے، اور جس نے بحقیقت اس عالم کو پہچان لیا، تو اس کی روح جو جسم میں ہے، گویا ابھی سے اس عالم

۵۹

میں جا پہنچی ہے، اور جب اس نے شریعت پر عمل بھی کر لیا، تو وہ خود بھی اُس عالم میں پہنچ جائے گا، اور ہمیشہ کے لئے لازوال نعمتوں میں رہے گا، اللہ تعالیٰ مومنوں کو توفیق عطا فرمائے!

والسلام

۶۰

کلام ۔۵

بہشت، اس کا دروازہ اور اس کی کلید کے بارے میں

         ہم جو کچھ (یہاں حقائق کے سلسلے میں) کہتے ہیں، اس میں ہماری اپنی کوئی توانائی و طاقت نہیں، جبکہ (بموجب لاَ حَول وَلَا قُوّۃ اِلّا با للّہ) توانائی و طاقت خدا ہی کی ہے، اور ہمارے قول میں جو کچھ بہتری ہے، وہ خدا کے ولی (یعنی امامِ زمان) کی نسبت سے ہے، اور خطا و لغزش کا سبب ہمارا ضعیف نفس ہی ہے، پس ولیِ زمان کی کرم فرمائی سے ہم یوں بیان کر تے ہیں، کہ بہشت حقیقت میں عقل ہی ہے، اور بہشت کا دروازہ اپنے زمانے میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ہیں، اور ان کے وصی اپنی مرتبت میں اسی حیثیت سے ہیں، اور امامِ زمان اپنے عصر میں یہی درجہ رکھتے ہیں، اور بہشت کے دروازہ کی کلید کلمۂ لَا الٰہ اِلّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ ہے، پس جو شخص یہ شہادت اخلاص (بے ریائی) سے کہتا ہے، تو گویا اسے بہشت کا دروازہ یعنی رسولؐ مل چکا ہے، اور جس نے یہ شہادت اخلاص سے اپنالی، تو وہ شخص پیغمبر علیہ السلام کے ساتھ واصل ہوا، چنانچہ جس کو دروازے کی کلید ملتی ہے، تو وہ دروازے کی طرف آجاتا ہے، اور جو شخص شہادت کو خلوص سے اپنا کر

۶۱

رسول علیہ السلام سے واصل ہوا، تو وہ شخص گویا بہشت میں داخل ہوا، چنانچہ جو کوئی کلید کے ساتھ دروازے کی طرف آجائے تو دروازہ کھولا جا سکتا ہے۔

         اس حقیقت کی دلیل، جو ہم نے کہا کہ عقل ہی بہشت ہے، یہ ہے کہ انسان کی یہ ساری راحت، سہولت اور امن و امان عقلِ کل ہی سے ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں، کہ انسانوں کو عقلِ کل سے حصہ ملا ہے (جس کی وجہ سے) انہوں نے چوپایوں پر کس قدر تکلیف، سختی اور خوف ڈال رکھا ہے، اور وہ خود ان پر سردار ہوئے ہیں، کیونکہ ان چوپایوں میں عقل نہیں، اور جو شخص زیادہ دانا ہے، تو اسے دنیا کوئی دکھ دے نہیں سکتی، دنیا کا کوئی غم اس کی طرف آنہیں سکتا، اور اسے دنیا وی نفع و نقصان کی کوئی پرواہ نہیں۔

         لیکن نادان مالی نقصان کے غم، گناہ، دکھ اور دنیاوی طمع کی وجہ سے گویا مر ہی جاتا ہے، پس جب اتنی سی عقلِ جزوی کے ذریعہ ، جو لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بطورِ حصہ ملی ہے، اس قدر دکھ ان سے اٹھ گیا، تو یہ حقیقتِ حال اس امر کی دلیل ہوئی، کہ عقلِ کل ہی بحقیقت بہشت ہے، کیونکہ اسی کے اثر سے دنیا میں ساری نعمتیں اور راحتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں، اور جو شخص زیادہ دانا اور عقل کے زیادہ نزدیک ہے، تو وہ بہشت کا دروازہ ہے، چنانچہ رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ساری مخلوقات میں سے عقل کے زیادہ نزدیک تھے، آپ کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی لئے آنحضرت سے فرمایا، کہ آپ لوگوں کو علم سکھایا کریں اور مسلمانوں کو اس میں کوئی شک ہی نہیں ، کہ پیغمبر علیہ السلام بہشت کا دروازہ ہیں، پس ثبوت ہوا کہ حقیقت میں عقل ہی بہشت ہے۔

         اب اس بارے میں دلیل پیش کی جاتی ہے، کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بہشت کا دروازہ ہیں، چنانچہ ہمارا بیان یہ ہے کہ کسی مقام کا دروازہ وہ ہوتا ہے جس کے بغیر اور کہیں سے کوئی شخص اس مقام میں داخل نہیں ہوسکتا، اور

۶۲

یہ حقیقت ہے، کہ کوئی شخص بہشت میں داخل نہیں ہوسکے گا، مگر وہی شخص، جو رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی فرمانبرداری کرے، آنحضرت کے نزدیک ہوجائے، آنحضرت کے فرمان کو قبول کرے، اور حضور کے قول و عمل کی حقیقت سمجھے، کیونکہ رسول کی فرمانبرداری اللہ تعالیٰ ہی کی فرمانبرداری ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ۔

         ’’مَنْ يُطِعْ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ (۴: ۸۰)

         یعنی جس شخص نے رسول کی فرمانبرداری کی، تو بے شک اس نے خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کی‘‘۔ اسی طرح ہر رسول اپنے دور میں بحدِ قوت بہشت کا دروازہ رہا ہے، اس وجہ سے کہ اس کی فرمانبرداری کے راستے پر چلتے ہوئے اس کی شریعت پر علم کے ساتھ عمل کرنے سے کوئی انسان بہشت میں پہنچ سکتا ہے، اور جو شخص رسول کی شریعت کو علمِ تاویل کے بغیر قبول کرے تو اس شخص کو بہشت کا دروازہ مقفل ملا ہوا ہوتا ہے، اور جو شخص عمل دانش سے کرے تو اس کے لئے بہشت کا دروازہ کھل جاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، قولہٗ تعالیٰ: ۔

         ’’وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا  (۳۹: ۷۳(

         اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے تھے ان کو گروہ گروہ بنا کر بہشت کی طرف روانہ کئے گئے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئے تو بہشت کے دروازے کھول دیئے گئے۔‘‘

         یہ جو فرماتا ہے کہ ’’ بہشت کے دروازے کھول دیئے گئے‘‘، تو اس آیت سے یہ ظاہر ہوا کہ ان کے آنے سے پیشتر بہشت کے دروازے بند کئے ہوئے ہوں گے اور ان کے آنے کے بعد کھول دیئے جائیں گے، اس قول کے یہ معنی ہوئے کہ انبیأ علیہم السلام کی شریعتیں سب کی سب اشارات و تمثیلات کے ذریعے بندھی ہوئی ہوتی ہیں، اور لوگوں کی نجات ان کے کھولنے میں

۶۳

پوشیدہ ہے، جس کی مثال ایک ایسے بند دروازے کی طرح ہے، کہ جب وہ کھل جاتا ہے، تو لوگوں کو آرام کی جگہ ملتی ہے اور کھانا پینا مہیا ہو جاتا ہے، جب بہشت کا دروازہ (کسی شخص کے لئے ) بند کیا ہوا ہو تو اصولاً دوزخ کا دروازہ (اس کے لئے) کھولا ہوا ہوگا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ۔

         ’’ وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا  (۳۹: ۷۱(

         اور جو کافر تھے، وہ جہنم کی طرف گروہ گروہ بنا کر ہانکے گئے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئے، تو دوزخ کے دروازے کھول دیئے گئے۔‘‘ بہشت کے دروازے کا کھل جانا، کتاب (قرآن) اور شریعت کی تاویل سے متعلق ہے، اور تاویل کا مالک ہر رسول کا وصی ہوتا ہے، اور بہشت کے دروازے کھل جانے سے اصولاً دوزخ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے، پس رسول بہشت کے دروازے کی حیثیت سے ہیں، اور بہشت کا دروازہ کھولنے والا ان کے وصی (علی علیہ السلام) ہیں، نیز (ہر زمانے میں) سارے مومنوں کے لئے (درروازۂ جنت کھولنے والا) امامِ زمان ہیں۔

         جب ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ رسول علیہ السلام بہشت کے دروازے کی حیثیت سے ہیں اور آنحضرت کے وصی اس دروازے کا کھولنے والا ہیں، تو اب ہم بہشت کے دروازے کی کلید کے بارے میں بیان کرتے ہیں، اور اس حقیقت کی دلیل لاتے ہیں، کہ بہشت کے دروازے کی کلید کلمۂ شہادت ہے، چنانچہ اس کی تشریح کی جاتی ہے، کہ کلید وہ چیز ہے جس کو حاصل کئے بغیر کوئی شخص کسی مقفل دروازے کے پاس جانا نہیں چاہتا، یہی وجہ تھی کہ جس شخص نے کلمۂ شہادت قبول کر لیا، تو وہ محمد رسول اللہ کی طرف آیا، اور جس شخص نے کلمۂ شہادت اخلاص سے کہا، تو رسول علیہ السلام نے اسے بہشت کا وعدہ کیا، اس حدیث کے بموجب جو فرماتے ہیں: ۔

۶۴

         ’’مَنْ قَالَ لا اِلٰہَ اِلّاَ اللّٰہُ خَالِصاً مُخْلِصاً دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔

         جس شخص نے کلمۂ اخلاص پاک دلی سے پڑھا تو وہ بہشت میں داخل ہوا‘‘۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہوئی، کہ یہی کلمۂ شہادت بہشت کے دروازے کی کلید ہے، یہاں تک کہ جب یہ کلید لوگوں کو مل جائے، تو وہ بہشت میں داخل ہو سکتے ہیں، اور جس کو یہ نہ ملی، تو وہ بہشت سے محروم رہ جاتا ہے۔

         پس بتا یا جاتا ہے، کہ: ۔

         ’’ لَا الٰہ اِلّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ  ‘‘ سات۷ الفاظ پر مشتمل ہے،( لا۔ الٰہ۔ اللہ۔ محمد۔ رسول۔ اللہ) جو نو حرف سے بنا ہے، چنانچہ: ل، ا، ہ ، م، ح ، د، ر، س، و، اور اس میں دو۲ گواہیاں ہیں، (لا الٰہ الّا اللہ (۱) مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ (۲)اور کلید کو عربی میں مفتاح کہتے ہیں اور ان پانچ حروف یعنی ’’مفتاح‘‘ کے حساب کا مجموعہ پانچ سو انتیس ۵۲۹) ہوتا ہے اور پانچ سوانتیس کے (دس دس کے اعدادِ کاملہ کے حساب سے ، سات ’’عقد‘‘ بنتے ہیں جو مذکورہ دو شہادتوں کے سات الفاظ کے برابر ہیں، اور جو نو باقی رہتا ہے، وہ ان نو حروف کے برابر ہے، جن سے مذکورہ دو شہادتیں بنی ہوئی ہیں، اور یہ کلمہ دو شہاتوں پر مبنی ہے، جس طرح کلید ان دو چیزوں کا مجموعہ ہوتی ہے، جو حصے میں جدا جدا مگر اتصال میں ایک ہیں، وہ کلید کا دستہ اور دندانہ ہیں، اور مومنوں کا یہ کلمۂ اخلاص کہنا، قفل کھولنے والے کے ’’چابی‘‘گھمانے کی مثال ہے تاکہ اس سے دورازہ کھل جائے۔

         پس ہمارا یہی قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بہشت کا مقفل دروازہ ہیں، جس کی کلید کلمۂ اخلاص میں ہے، مومن نے یہ کلید پکڑ رکھی ہے، اور امامِ زمان مومن ہی کے ہاتھ سے اس چابی کے گھمانے والے ہیں، تاکہ دروازہ کھل جائے، اس قول کی حقانیت کی گواہی یہی ہے، جو کچھ اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے فرماتا ہے: ۔

۶۵

         ’’ قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ (۳۴: ۲۶(

         یعنی کہہ دیجئے کہ ہمارا پروردگار ہمارے درمیان جمع کرے گا، اس کے بعد ہمارے درمیان کھول دے گا، اور وہ دانا کھولنے والا ہے۔‘‘ اس معنی سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے، کہ جب لوگ رسول کا دین قبول کرتے ہیں تو آنحضرت کے ساتھ یہی ان لوگوں کا جمع ہونا ہے، اس کے بعد تاویل کا مالک شریعت کے بند کو شریعت کی تاویل کے ذریعہ کھول دے گا، تاکہ مومن کو معلوم ہو جائے، کہ اس طرح کی شریعت سے جو رسول نے رکھی، اور اس قسم کی مثالوں سے جو آنحضرت نے بیان فرمائیں، کیا مراد تھی، تاکہ مومن اس پر بصیرت سے عمل کرے، ہم نے اپنے زمانے کے انداز پر بہشت اور اس کے دروازے کی کلید کا بیان کر دیا۔

والسلام

۶۶

کلام ۔ ۶

عالمِ جسمانی کی حقیقت کے بارے میں

         ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ عقلِ کل سے نفسِ کل کی ’’کمی‘‘ تخلیقِ کائنات کا سبب ہے،اور یہ کائنات نفسِ کل کے لئے وہ سرمایہ ہے، کہ جس سے وہ اپنی اس کمی کی درستی کر سکے، اور اس قول کی حقانیت کی دلیل ان نفوسِ جزوی سے مل سکتی ہے، جو اس دنیا میں موجود ہیں، وہ یہ کہ انسانوں میں سے ہر ایک اس دنیا میں اپنی کمی کو دور کر دینے کے لئے کوشان رہتا ہے، اس لئے کہ جب تک اس دنیا سے نفسِ کل کا مقصد پورا نہ ہو، تو کوئی نفسِ جزوی اس عالم میں بے نیاز نہیں ہوسکتا، اور ایسا ہی ہونا لازمی ہے، کیونکہ یہ ہرگز مناسب نہیں، کہ کوئی کل کسی جزو کا محتاج رہے اور جزو بے نیاز ہو۔

         چنانچہ آسمانوں اور ستاروں کی گردش، ان کی تاثیرات کے لئے عناصر کی پذیرائی، اور عناصر کے ذریعہ نباتات و حیوانات جیسے موالید (بچوں) کی بالیدگی (نشو و نما) زبانِ حال سے دانشمند کو یہ بتاتی ہیں، کہ جس نے اس عالم کو مرتب و منظم کیا ہے، وہ ایک ایسی چیز کی جستجو کر رہا ہے، جو اس کے پاس موجود نہیں، اوراپنی اس احتیاج کی بنا پر انتہائی عظیم حرکت کر رہا ہے۔

         اس صورتِ حال کی مثال ایسی ہے، کہ ایک دانشمند اتفاقاً پن چکی

۶۷

کے مکان میں جاتا ہے، اور چکی کو دیکھتا ہے، کہ تیزی سے گھوم رہی ہے، اور بڑا سخت کام کررہی ہے، تو اسے یہ جاننا چاہئیے، کہ وہ چیز جو چکی کو گھمارہی ہے، اس حرکت کرنے والی چکی سے بھی زیادہ طاقتور ہے، پھر جب وہ اس مکان سے باہر آئے اور پانی کو دیکھے، کہ کیسے زور سے اپنے آپ کو اوپر سے نیچے کی طرف گرارہا ہے، تو وہ سمجھ لے گا، کہ چکی کی حرکت سے پانی کی حرکت بڑھ کر ہے، اس لئے کہ چکی کے پاٹ کی حرکت عارضی ہے، اور اوپر سے نیچے کی طرف پانی کی حرکت طبعی ہے، (مگر پاٹ کو حرکت دینے کے اعتبار سے جوہری ہے) اور جوہری حرکت عارضی حرکت سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے، پس ہمارے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ آسمانوں، ستاروں اور طبائع کی حرکت کے مقابلے میں نفسِ کل کی اپنی قسم کی حرکت زیادہ طاقتور ہے، جب اس دنیا میں انسان سے بڑھ کر اور کوئی شے زیادہ اشرف نہیں، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں، کہ اس کائنات سے نفسِ کل کا مقصد انسان ہی ہے، اور سب سے زیادہ اشرف وہ انسان ہے، جو دانا ہے (اور نفسِ کل کا انتہائی مقصد بھی وہی انسانِ کامل ہے)۔

         ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے، کہ تخلیقِ کائنات سے نفسِ کل کی غرض دانش ہی ہے، اور اس میں یہی دانائی کی کمی ہے، جب دانش صرف انسانی نفس ہی نے قبول کر لی، تو ہم نے دلیلاً کہا کہ ساری کائنات میں سے صرف انسان ہی کو نفسِ کل تک واپسی ہو سکتی ہے، اور جب صورتِ حال یہی تھی، جس کا ہم نے ذکر کیا، تو معلوم ہوا کہ جو نفس زیادہ علمیت کے ساتھ اس جہان سے گزر جائے، تو وہی نفس نفسِ کل کے ساتھ علمی مواقفت سے متحد ہونے کے لئے زیادہ لائق ہوتا ہے، اور وہی نفس ابدی راحت و نعمت میں رہتا ہے، اور ہر وہ نفس جو اس عالم سے نادان گزرے، تو وہ نفس کل کی پسند کے خلاف ہوتا ہے، اور نفسِ کل اس سے پرہیز کرتا ہے، اس لئے وہ یہ عظیم کائناتی عمل نادانی کے خوف سے کر رہا ہے، پس

۶۸

جب اسے کوئی نادان نفس مل جائے، تو اس کو نہیں اپناتا، اور ایسا نفس دائمی سختی اور عذاب میں رہ جاتا ہے۔

         حقیقت یہ ہے کہ انسان رسول کی فرمانبرداری کے ذریعہ نفسِ کل کی موافقت حاصل کر سکتا ہے، کیونکہ وہ نفسِ کل کے بھیجے ہوئے ہیں، اور اس سلسلے میں عقلِ کل کی تائید تھی، تاکہ رسولؐ لوگوں کو علمِ توحید کی طرف بلائیں، اور جب وہ اس عظیم علم کے ذریعہ دانا ہو جائیں، تو نفسِ کل ان کے ذریعہ اپنی کمی کی درستی کر سکے، اور جب لوگ نفسِ کل کی مدد کریں، تو وہ ان کی مدد کرے چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         ’’يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ (۴۷: ۷(

         یعنی اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔‘‘ پس ہمیں یہ کہنا چاہئے، کہ یہ دنیا ایک ایسے آئینے کی مثال ہے، جس میں عالمِ آخرت کی نعمتیں خیال و تصور کی طرح چمکتی ہیں، وہ کسی کے ہاتھ نہیں آتیں، کہ وہ محفوظ رکھی جاسکیں، جس طرح حسین صورتیں آئینے میں دیکھی جاسکتی ہیں، مگر ان کا مادی وجود پایا نہیں جاسکتا، جب اس دنیا کی سجاوٹیں اور لذتیں ناپائیدار ہیں، تو ہمیں یہ معلوم ہوا کہ یہ ساری چیزیں عارضی ہیں، اور عارضی چیز کو جوہر سے اثر ملتا ہے، پس ہمیں معلوم ہوا کہ یہ نعمتیں عالمِ روحانی ہی کےاثرات ہیں، کیونکہ جوہر تو وہی ہے۔

         پس دانا وہ شخص ہے، جو اس عمرِ فانی ہی میں اس حیاتِ جاودانی کی تلاش کرے، اور اس گزر جانے والی نعمت کو مدِ نظر نہ رکھے، بلکہ عبادت پسندی، خواہشاتِ نفسانی سے دوری اور ناپائیدار چیزوں سے بے نیازی اختیار کرتے ہوئے اُس پائندہ نعمت کے لئے ارادہ کرے، اور جاننا چاہئے کہ یہ جہان اس جہان کے دروازے کے حیثیت سے ہے، جب تک تو اس دروازے سے نکل نہ جائے، اس مکان میں پہنچ نہیں سکتا، اور دوسرے اعتبار سے یہ جہان ایک پوشیدہ پڑی ہوئی چیز کی طرح ہے، اور ان لوگوں میں سے ہر ایک کو اس چیز کا ایک ایک حصہ ملا ہے، اور وہ ایک ایسی چیز ہے، کہ اگر تو نے فوراً سے فروخت

۶۹

نہیں کیا، تو وہ ضائع ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ کوئی خریدار بھی اسے پسند نہیں کرتا، اور نیک بخت سوداگر وہ ہے، جو فوراً اسے فروخت کرے، اور اس کے بدلے میں ایک ایسی چیز لے رکھے جو تباہ نہیں ہوتی، اور وہ لازوال چیز خدا اور رسول کی فرمانبرداری ہے، اور اگر تو نے اسے اسی طریقے سے خرچ نہیں کیا، تو وہ چیز گویا ختم ہوجاتی ہے، پھر اس وقت پشیمانی کوئی فائدہ نہیں دیتی، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         ’’أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (۳۹: ۵۸(

         یعنی جب بدبخت نفس عذاب دیکھے، تو کہے گا کہ اگر مجھے ایک بار پھر دنیا میں واپس لے جاتے، تو میں نیک کام کرنے والوں میں سے ہو جاتا ۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرمائے گا: ۔

         ’’بَلَى قَدْ جَاءَتْكَ آيَاتِي فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ (۳۹: ۵۹(

         ہاں، بیشک تیرے پاس میری آیتیں پہنچی تھیں، سو تو نے ان کو جھٹلایا، اور تو نے تکبر کیا، اور کافروں میں شامل رہا۔ ‘‘

۷۰

کلام ۔ ۷

دوزخ اور اس کے دروازے کے بارے میں

         خدا تعالیٰ کی توفیق سے ہم اس حقیقت کا بیان کرتے ہیں، کہ جو چیز اب موجود ہوئی ہے، وہ اس سے پہلے حدِ قوت میں رہی ہے، اس کے بعد حدِ فعل میں آئی ہے، چنانچہ اگر کوئی انسان اس وقت موجود ہوا ہے، تو وہ کچھ مدت پہلے نباتات کی صورت میں تھا، یہاں تک کہ اس کے والدین نے ان نباتات کو کھالیا اور ان سے ان میں ایک پانی حاصل ہوا، جس کے ذریعہ اولاد پیدا ہوئی، جب یہ حقیقتِ حال معلوم ہوئی، تو اب ہم یہ بیان کریں گے، کہ دوزخ حدِ قوت میں نادانی کی حیثیت سے ہے، اور بہشت حدِ قوت میں علم کی صورت میں ہے، اس لئے کہ دانا وہ عمل کرتا ہے، اور بہشت حدِ قوت میں علم کی صورت میں ہے، اس لئے کہ دانا وہ عمل کرتا ہے، جس میں خدا و رسول کی خوشنودی ہے، تاکہ وہ اس فرمانبرداری کے ذریعہ ابدی بہشت میں پہنچ سکے، اور نادان وہ کام نہیں کرتا، جس میں اس کی نجات پوشیدہ ہے، جس کی وجہ سے وہ دائمی جہنم میں گر جاتا ہے۔

         پس ثابت ہوا کہ بہشت قوت کی حد میں علم ہے، اور دانا حقیقی بہشت ہے، اور دوزخ قوت کی حد میں جہالت ہے، اور نادان حقیقی دوزخ ہے، کیونکہ خدا تعالیٰ نے کافروں (یعنی نادانوں) کے لئے دوزخ کا وعدہ کیا ہے اور قرآنِ پاک کے بہت سے مقامات پر اس کا ذکر فرمایا ہے، قولہٗ تعالیٰ: ۔

         ’’وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لاَ يُقْضَى عَلَيْهِمْ

۷۱

فَيَمُوتُوا وَلاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ (۳۵: ۳۶(

         اور جو لوگ کافرہیں ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے، نہ تو ان کی قضا آئے گی، کہ مر ہی جائیں، اور نہ دوزخ کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا، ہم ہر کافر کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں‘‘۔ ایک اور مقام پر فرماتا ہے، کہ کافر لوگ نادان ہیں، جو اسی آیت کے معنی سے یہی مطلب ظاہر ہے: ۔

         ’’قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ (۳۹: ۶۴(

         اے محمدؐ آپ کہہ دیجئے کہ اے نادانو! کیا تم مجھ کو غیر اللہ کی عبادت کرنے کی فرمائش کرتے ہو‘‘۔ جب حقیقتِ حال یہی ہے، کہ دوزخ کے رہنے والے کافر ہیں اور کافر نادان ہیں، پس ظاہر ہوا کہ دوزخ کے رہنے والے نادان ہوتے ہیں، اور یہ کتابِ منطق کی شکلِ اول کا اصول ہے۔

         پس ہم نے ثابت کر دیا، کہ دوزخ حدِ قوت میں جہالت ہے، اور جو شخص نادانی پر ٹھہرے، یا کسی نادان کے پیچھے چلے اور داناؤں کے ساتھ دشمنی کرے، تو وہ شخص دلیلاً دوزخ کا باشندہ ہے، اور لوگ تو ایسے ہونے چاہئیں، کہ وہ دانا کے دوستدار بن جائیں، اور دانا بحقیقت اپنے دور میں رسول علیہ السلام ہیں، اور آنحضرت کے وصی و أئمۂ زمان میں سے ہر ایک اپنے عصر کے دانا ہیں، اور جو شخص اپنے زمانے کے امام کے ساتھ دشمنی رکھتا ہو اور اس کی فرمانبرداری نہیں کرتا، تو وہ شخص گویا خدا کے رسول کی فرمانبرداری نہیں کرتا ہے، اور جو شخص رسول کی فرمانبرداری نہ کرے، وہ گویا خدا کی فرمانبرداری نہیں کرتا، پس ایسا شخص کافر ہے، جو شخص امامِ برحق کی فرمانبرداری نہ کرے، اسے علمِ حقیقت نہیں ملتا ہےاور جس کو علمِ حقیقت نہ ملے، تو وہ بہشت میں پہنچ نہیں سکتا، اور دوزخ ہی میں رہ جاتا ہے، پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں، کہ زمانے میں امامِ برحق کا حقیقی پیرو بہشت کا دروازہ ہے،

۷۲

اس لئے کہ لوگ اسی شخص کے ذریعہ ہی علمِ حقیقت تک رسا ہو سکتے ہیں، پھر علم حقیقت کے ذریعہ بہشت میں پہنچ سکتے ہیں، اور ہر زمانے میں امامِ برحق کا مخالف دوزخ کا دروازہ ہے، اس لئے کہ باطل کے پیرو اسی شخص کے قول کی وجہ سے امامِ  برحق سے دور ہوجاتے ہیں، اور نادان رہ کر دوزخی ہو جاتے ہیں، اور معرفت کے ساتھ گواہی دینا (یعنی خدا اور رسول کو پہچانتے ہوئے  لَا الٰہ اِلّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ  کہنا) ہی بہشت کے دروازے کی کلید ہے، اور بے معرفت رہنا (یعنی خدا اور رسول کو نہ پہچاننا) ہی دوزخ کے دروازے کی کلید ہے۔

         ہم یہاں پر ایک مثال بیان کر دیتے ہیں، تاکہ مومن کے لئے یہ صورتِ حال واضح ہو جائے، کہ نادان دوزخی ہے اور دانا بہشتی ہے، وہ یہ ہے کہ جانوروں میں سے کوئی نوع بجز انسان کے نفسِ ناطقہ نہیں رکھتا، اور عقل کے اثرات کو نفسِ ناطقہ کے سوا اور کوئی چیز اپنا نہیں سکتی، اور جس مخلوق کی عقل نہیں، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف کوئی پیغمبر نہیں بھیجا ہے، اس قول کی صداقت کی دلیل یہ ہے، کہ بے دانش اطفال اور دیوانوں پر کوئی نماز و عبادت فرض نہیں، اور وہ اس اعتبار سے درجۂ حیوانیت میں ہیں، اور جس پر عبادت فرض نہ کی گئی ہو وہ درجۂ حیوانیت میں ہے، اور حیوانات کے لئے بہشت سے کوئی بہرہ حاصل نہیں، وہ اس طرح کہ انسان حلال جانوروں کو رنج دے رہا ہے، اس لئے کہ انسان حدِ قوت میں بہشتی ہے، اور جانور بہشتی نہیں، اور بہشتی کو دوزخی پر بادشاہی ہے، اسی دنیا میں بھی انسان کی بادشاہی چلانے کے سلسلہ میں لازماً جانور پیدا ہوئے ہیں، اور انسان جانوروں کی رنج دیتا ہے، بیچتا ہے، ذبح کرتا ہے، اور انہیں کھا لیتا ہے، جس کے بارے میں اس پر کوئی ملامت ہی نہیں، جس طرح (دوزخ کے داروغے) دوزخیوں کو دوزخ میں لے جاتے ہیں، ان کو

۷۳

تکلیف پہنچاتے ہیں اور انہیں ہلاک کرتے ہیں، اور وہ دوزخیوں کی طرف سے خدا کی عبادت ہے۔

         پس یہ حال ایسا ہے جیسے انسان بحکمِ خدا حج اور جہاد کے سلسلے میں جانوروں کو ذبح کرتا ہے، اور انہیں کاٹتا ہے، جس میں اس پر کوئی جرم نہیں، جبکہ وہ اس عمل کے ذریعہ خدا کی نزدیکی حاصل کرتا ہے، نیز جس طرح فرمایا گیا ہے، کہ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تشریف فرما ہوں گے اور دوزخ پر پھونک ماریں گے، اور آنحضرت کی پھونک دوزخ کو ٹھنڈا کر دے گی، اور اپنے کمبل کو پکڑ کر دوزخ میں لٹکا دیں گے، تاکہ امت کے گنہگاروں کو اسی طرح نکال لیا جائے، اور آن حضور صلعم کی پھونک اور کمبل پر دوزخ کی آتشی قوت اثر انداز نہ ہو سکے گی، اور یہی مثال اس واقعے میں بھی ہے، کہ انسان کا ہاتھ اس دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے رکا ہوا ہے، جس نے شریعت کا ظاہریت قبول کر لی ہے، اور وہ حدِ قوت میں بہشتی ہوا ہے، اور یہی مثال درست ہے۔

         پس ہم نے یہ واضح کر دیا، کہ لوگ اسی جہان ہی میں جانوروں اور درندوں کے لئے دوزخ ہیں، اور یہ تمام جانور دوزخی ہیں، اس لئے کہ ان سے بوجھ اٹھوانے، ان کو ذبح کرنے، جلانے، پکانے، انہیں کھانے وغیرہ سے جو کچھ ان پر گزرتا ہے، گزرنے دیتے ہیں اور انہیں رنج دیتے رہتے ہیں، اور کوئی شخص ان جانوروں کو جو دوزخی ہیں، معاف نہیں رکھتا، جس طرح اللہ تعالیٰ دوزخیوں کو جواب دینے کے بارے میں فرماتا ہے، کہ وہ فریاد کریں گے: ۔

         ’’قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلاَ تُكَلِّمُونِ  (۲۳: ۱۰۸(

         فرماتا ہے کہ جب وہ فریاد کریں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا، کہ دوزخ ہی میں دور رہو اور مجھ سے بات مت کرو۔‘‘

         نیز یہ کہنا ہے، کہ وہ جانور جو انسان کے تحت ہیں اور جن کی اذیت کے لئے انسان کا ہاتھ کھلا ہوا ہے، سات قسم کے ہیں، جن میں سے دو قسم کے جانور پانی میں رہتے ہیں، ان میں سے ایک قسم کے

۷۴

جانوروں کے پاؤں نہیں ہوتے ہیں، جیسے سانپ، مچھلی وغیرہ اور دوسری قسم کے جانوروں کے پاؤں ہوتے ہیں، جیسے مگرمچھ، کچھوا، کیکڑا وغیرہ، اور ان سات اقسام میں سے پانچ قسم کے جانور خشکی پر رہتے ہیں، جن میں سے ایک قسم کے جانور چوپائے ہیں، جو گھاس اور دانہ کھاتے ہیں، جیسے گائے، بھیڑ، بکری وغیرہ، دوسرے چوپائے ہیں، جو گوشت کھاتے ہیں، جیسے شیر بھیڑیا وغیرہ، تیسری وہ پرندے ہیں، جو گوشت کھاتے ہیں، جیسے باز، شاہین، وغیرہ، چوتھے وہ پرندہ ہیں جو گھاس اور دانہ کھاتے ہیں، جیسے کبوتر، فاختہ وغیرہ، پانچویں حشرات ہیں جن کو فارسی میں خزندگان کہتے ہیں ، یعنی زمین میں بِل بنا کر یا قدرتی سوراخوں میں رہنے والے جانور، اور انسان کا ہاتھ، جو ان جانوروں کا دوزخ ہے، ان پر کھلا ہوا ہے، جس طرح دوزخ کے سات دروازے دوزخیوں کے لئے کھلے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         ’’لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِكُلِّ بَابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ (۱۵: ۴۴) دوزخ کے سات دروازے ہیں، ہر دروازے کے لئے ان لوگوں کے الگ الگ حصے ہیں۔‘‘

         جب ہم نے ان جانوروں کی سات قسمیں واضح کر دی، جو دوزخی ہیں، اب یہ بتائیں گے، کہ انسان میں سے بھی انہیں اقسام میں بٹے ہوئے سات گروہ ہیں، جو ہر ایک گروہ ان درندوں اور جانوروں کی کسی قسم کی طرح عادت رکھتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         ’’وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الأَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ (۶: ۳۸(

         اور جتنے قسم کے جانور زمین پر چلتے ہیں، اور جتنے قسم کے پرند جانور ہیں، کہ اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں، ان میں کوئی قسم ایسی نہیں، جو کہ تمہاری ہی طرح کے گروہ نہ ہوں‘‘۔ پس جو شخص ان جانوروں اور درندوں کی

۷۵

خو و خصلت کے ساتھ نادان ہے، وہ دوزخی ہے، جس طرح ہم نے واضح کر دیا کہ جانور اسی دنیا ہی میں دوزخی ہیں، چنانچہ لوگوں میں سے جو شخص چور اور خائن ہو، وہ چوہے کے درجے میں ہے، جو شخص جھگڑالو اور اچکا ہو، وہ بھیڑیئے اور شیر کے درجے میں ہے، اور جو شخص حرام خوری کے طمع رکھتا ہو، سور کے درجے میں ہے، حقیقی انسان رسول علیہ السلام، حضور کے وصیؑ اور أئمۂ برحق علیہم السلام ہیں، اور ان حضرات کا ہاتھ کھلا ہوا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کہ جو کوئی (اسلام و ایمان لانے کے سلسلے میں) ان کا فرمان قبول نہ کرے، تو اسے قتل کر دیا جائے، جس طرح عام انسانوں کا ہاتھ دوسرے جانوروں کے ذبح و قتل کرنے کے لئے کھلا ہے، اور جن جانوروں کا گوشت کھانا حلال ہے، جیسے گائے، بھیڑ، بکری، اونٹ وغیرہ، وہ ان لوگوں کی مثالیں ہیں، جو نیک، پرہیزگار اور فرمانبردار ہیں، مگر ان کے پاس علم نہیں، پس خدا تعالیٰ نے ان کو گوشت حلال کر دیا، یعنی حقیقی انسانوں سے فرمایا، کہ ان کو علم سکھاؤ اور اس کے ذریعہ ان کو اپنے ساتھ ایک کر دو (جس طرح انسان حلال جانوروں کو کھا کر اپنے ساتھ ایک کر دیتے ہیں) اور جن جانوروں کا گوشت حرام ہے، جیسے سور، شیر وغیرہ، وہ ان لوگوں کی مثالیں ہیں، جن میں خرابی اور برائی ہے، او وہ نصیحت قبول نہیں کرتے ، جس طرح مذکورہ جانور فرمانبرداری نہیں کرتے ہیں، پس فرمایا کہ ان کو مارا جائے اور ان کا گوشت نہ کھایا جائے، یعنی ان کے دین کو ان کے لئے تباہ کر کے دکھایا جائے اور دینِ حق ان کو نہ سکھا یا جائے، اپنی جگہ پر اس حقیقت کی وضاحت کی جائے گی۔

         پس یہ جہان داناؤں کے لئے بہشت کا دروازہ ہے، اور نادان بے فرمانوں کے لئے دوزخ کا دروازہ ہے، اس لئے کہ بہشت یا دورزخ میں وہ شخص جائے گا، جو اس جہان میں آیا ہو، اور (یہ اس لئے ایسا ہے، تاکہ) جو شخص عملاً چاہے تو اس دنیا کے ذریعے بہشت آباد کرے اور جو شخص چاہے تو دوزخ آباد کرے، کیونکہ اسی دنیا سے لوگ انہی دو جگہوں میں جایا کرتے ہیں، چنانچہ

۷۶

حق تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         ’’فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ (۴۲: ۷(

         ایک گروہ جنت میں (داخل) ہوگا اور ایک گروہ دوزخ میں (داخل) ہوگا‘‘۔

۷۷

کلام ۔ ۸

پیغمبروں کے بھیجے جانے کی واجبیت اور ان کی تعداد کے بارے میں

         ہم اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور مدد سے یہ بتائیں گے، کہ جب انسان دو بنیادی چیزوں سے بنا ہوا ہے، تو اس کے یہ معنی ہوئے، کہ وہ مفرد نہیں، بلکہ مرکب ہے، اور وہ بنیادی چیزیں اس ترکیب میں جسمِ کثیف اور نفسِ لطیف ہیں، جسمِ کثیف کی خوارک چار عناصر سے پیدا ہوئی، جن میں سے دو عنصر نفس کی طرح لطیف ہیں، وہ آگ اور ہوا ہیں اور دو جسم کی طرح کثیف ہیں، جو مٹی اور پانی ہیں، جب یہ جسمِ کثیف نفسِ لطیف کے ساتھ مل گیا، تو اس نے ان نباتات سے غذا حاصل کر لی، اور طاقتور ہوا، جو ان دو لطیف اور دو کثیف عناصر سے پیدا ہوتی ہیں، پس بتقاضائے حکمت یہ لازم آتا ہے، کہ اس نفسِ لطیف کی غذا بھی، جو جسم کے ساتھ مل گیا ہے، چار حدود سے پیدا ہو، جن میں سے دو حدیں تو نفس کی طرح روحانی ہوں، اور دو ۲ جسم کی طرح جسمانی، تاکہ نفس اس غذا سے طاقتور ہو سکے، جو ان حدود سے پیدا ہوتی ہے، پس اللہ تعالیٰ نے چار حدودِ شریف سے انسانی نفس (روح) کی غذا پیدا کردی، جن میں سے دو۲ لطیف تھے، وہ نفسِ کلی اور عقلِ کلی ہیں، جن کے آثار یہ انسانی نفسِ جزوی اور عقلِ جزوی ہیں، اور ان چار

۷۸

حدود میں سے دو مرکب ہیں، وہ ناطق اور اساس ہیں، جو جسم کے اعتبار سے بشر ہیں اور عقل و نفس کے اعتبار سے فرشتگانِ مقرب ہیں تاکہ وہ اپنے علمِ شریف کے ذریعہ لوگوں کو درجۂ دیوی سے درجۂ فرشتگی میں پہنچا سکیں، اسی طرح ان دونوں چیزوں (جسم و نفس) کو جن سے انسان کی ترکیب ہوئی ہے، ان کے خالق کی طرف سے صحیح معنوں میں اپنا اپنا حق مل گیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         ’’ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (۳۶: ۳۸(

         یہ اندازہ باندھا ہوا ہے اس خدا کا جو زبردست اور علم والا ہے۔‘‘

         جب ہمیں یہ معلوم ہوا، کہ انسان چار کثیف عناصر، اور لطیف نفس سے مرکب ہوا ہے، جس کے سلسلے میں لطافت کثافت کے ساتھ متصل ہوئی ہے، اور عالمِ لطیف سے انسان کا اپنا حصہ پیدائشی عقل کی صورت میں مل چکا ہے، جو دوسرے حیوانات کے لئے میسر نہ تھا، تو یہ لازمی ہوا کہ اس اصل (یعنی عقلِ کل) سے ، جس سے انسانوں کو مذکورہ جزوی حصہ متصل ہو رہا ہے، انسانوں میں سے ایک شخص کو مکمل حصہ متصل رہا کرے، تاکہ یہ پیدائشی عقول اسی واحد شخص سے اپنی علمی ضروریات حاصل کر سکیں، وہ شخص جس کو عقلِ کل سے یہ مکمل عنایت اور حصہ متصل رہا، پیغمبر علیہ السلام تھے، اور اگر وہ واحد شخص فائدہ بخش نہ ہوتے، تو یہ ساری دانش پذیر عقول ضائع ہو جاتیں، اور تخلیقِ کائنات کا یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کا ایک کھیل ہوتا ( جس طرح اطفال کھیل کے طور پر کوئی چیز بناتے ہیں، پھر اسے ضائع کر دیتے ہیں، یا وہ خود بخود ضائع ہو جاتی ہے) لیکن صانعِ حکیم کھیل سے برتر ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ۔

         ’’أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لاَ تُرْجَعُونَ (۲۳: ۱۱۵(

         تو کیا تم نے یہ گمان کیا تھا، کہ ہم نے تم کو یوں ہی کھیل کے طور پر پیدا

۷۹

کر دیا ہے، اور یہ کہ تم ہمارے پاس نہیں لائے جاؤ گے۔‘‘

         جب انسان بلحاظِ نفسِ لطیف ایک دوسرے کے موافق تھے اور باعتبارِ جسم و صورت ایک دوسرے کے مخالف تھے اور اختلاف کی وجہ یہ ہے، کہ انسان مختلف مقامات اور جدا جدا اوقات میں پیدا ہوتے ہیں، نیز ان پر مختلف اوقات گزرتے ہیں تو لازم آتا ہے، کہ اس رسول کا علم، جس نے خدا کا کلام لایا تھا، دو قسم کا ہو، جس میں محکم نفس ہی کی طرح موافق ہو، اور متشابہ جسم ہی کی طرح مختلف ہو، اور اس کلام کا ظاہر جسم کی طرح ہو اور باطن نفس کی طرح ہو۔

         چنانچہ جب انسان جسمِ کثیف اور نفسِ لطیف ہی کا مجموعہ ہے، تو عمل جس کے حصے میں آیا، اور علم نفس کے حصے میں آیا، یہی وجہ ہے کہ انبیا علیہم السلام لوگوں کو ایک ایسے عمل کے لئے فرماتے ہیں، جو علم کے ذریعہ کیا جاسکے، تاکہ وہ اپنے جسم کے ذریعے عمل کریں، اور نفس کے ذریعہ وہ علم سمجھ لیں، جو اس عمل میں پوشیدہ ہے، اور تقاضائے حکمت سے یہی لازمی ہوا کہ جسم اور نفس اپنی اپنی طاقت کے مطابق عمل اور علم کی تکمیل کریں، چنانچہ جسم نے نماز، روزہ، حج، جہاد وغیرہ کے اعمال کو انجام دیا، اور انبیاء علیہم السلام نے انسانی نفس کو ان اعمال کے معنی سے شناسا کرایا۔

         جب انسانی جسم کی،جو کارکن تو وہی تھا، چھ اطراف تھیں، یعنی آگے، پیچھے، داہنے، بائیں، نیچے اور اوپر، تو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی طرف چھ کارفرما (یعنی کام بتانے والے) پیغمبر بھیجے، چنانچہ (عملی روحانیت کی) مثال میں آدم علیہ السلام انسانی اطراف میں سے اوپر کی طرف سے آیا، نوح علیہ السلام لوگوں کی بائیں طرف سے آیا، ابراہیم علیہ السلام لوگوں کی پچھلی طرف سے آیا، موسیٰ علیہ السلام  لوگوں کی نچلی طرف سے آیا، جو آدم علیہ السلام کا مقابل ہوتا ہے، عیسیٰ علیہ السلام لوگوں کے داہنے ہاتھ کی طرف سے آیا، جو نوح علیہ السلام  کا مقابل ہوتا ہے، اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم لوگوں کی اگلی جانب سے آئے جو ابراہیم علیہ السلام کے مقابل ہوتے ہیں، جب یہ چھ کارفرما رسول انسانی جسم کی چھ اطراف سے آئے، اور ہر ایک نے

۸۰

اپنے زمانے میں لوگوں کو کام بتایا، اور ان سے اس کام کے اجر کا وعدہ کیا، کہ ایک دن ان کو یہ اجر اسی طرح دیا جانے والا ہے، پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں، کہ جب انسانی جسم کی چھ اطراف ہیں، اور جسم ہی کام کرنے والا ہے، اور ہر طرف سے ایک ایک کارفرما آچکا ہے تو عقل کے فیصلے سے یہ لازم نہیں آتا، کہ اس کے بعد بھی کوئی آکر لوگوں کو دوسرا کوئی کام بتائے اور یہ عقلی دلیل ہے۔

         ہماری مذکورہ بالا دلیل سے یہ ثابت ہوا کہ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا، اور جب لوگوں کی یہ عادت ہے کہ کام کر کے اس کی اجرت کا بتانے والے ہی سے طلب کرتے ہیں، تو لازمی ہے کہ اس کے بعد خدا تعالیٰ کے فرمان کے مطابق کوئی شخص آئے گا، جو ان کام کرنے والوں میں سے ہر شخص کو اس کے کام کے مطابق بدلہ دیا کرے گا، اور وہ قائم القیامت علیہ السلام ہیں، کیونکہ وہ حضرت (مذکورہ پیغمبروں کی وضع کردہ) شریعت کے مالک ہیں، بلکہ جملہ حساب کے مالک ہیں، جو ان کئے ہوئے کاموں کا حساب کر دیں گے اور کام کرنے والوں کو بدلہ دے دیا کریں گے، اور عقل کے فیصلے سے یہ لازم آتا ہےکہ حضرتِ قائم آئیں گے، جس طرح یہ ممکن نہیں، کہ پھر کوئی کارفرما آجائے، اس لئے کہ لوگوں کے جسم کی کوئی ایسی جانب باقی نہ رہی ہے، کہ اس جانب سے کوئی کارفرما نہ آیا ہو۔

         جب خدائے عزیز و جلیل کے یہ کارفرما آگئے، تو انہوں نے لوگوں کو مختلف کام بتا دیا، اور ان کاموں میں سے ہر ایک کے کچھ ایسے معنی تھے، کہ انہی معنوں کے سبب سے کام کی وہی صورت (یعنی ظاہریت) بن گئی تھی، چنانچہ جانور اور نباتات کی صورتیں مختلف ہیں، جن میں سے ہر ایک چیز میں جو معنی ہیں، وہ دوسری چیز میں نہیں، جس طرح اخروٹ کی صورت سیب کی صورت سے جدا ہے، اس لئے اخروٹ میں کچھ ایسے معنی (باطنیت) ہیں کہ وہ معنی سیب میں نہیں، اور دوسیبوں کی دونوں صورتوں کے ایک ہی معنی اور ایک ہی ظاہریت

۸۱

ہے، جس طرح دو اخروٹ کی مثال ہے، پس جبکہ اللہ تعالیٰ  نے ہر زمانے میں لوگوں کی طرف ایک کارفرما بھیجا تو ایک معنی دان (حقیقت سمجھنےاور سمجھانے والا) بھی بھیجا، تاکہ لوگوں کو بتا دیا جائے کہ ان کاموں کے کیا معنی ہوتے ہیں، تاکہ ان پیغمبروں کے آنے کے بعد قیامت میں لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر باقی نہ رہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ۔

         ’’لئلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ( ۴: ۱۶۵ (

         تاکہ پیغمبروں کے (بھیجے جانے کے) بعد لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر باقی نہ رہے ‘‘۔ اور ان پیغمبروں سے اللہ کی مراد ما لکانِ تنزیل و تاویل (ناطقان و اساسان) ہیں۔ نیز أئمۂ برحق ہیں، جو کتابِ آسمانی اور شریعت کی تاویل ظاہر کر دیتے ہیں، جس کے بارے میں ایک اور مقام پر فرماتا ہے، قولہٗ تعالیٰ: ۔

         ’’وَإِنْ يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتَابِ الْمُنِيرِ (۳۵: ۲۵(

         اور اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلا دیں تو جو لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں، انہوں نے بھی جھٹلایا تھا، ان کے پاس بھی ان کے پیغمبر دلائل، علوم اور کتابِ روشن (وعیان یعنی فصول) لے کر آئے تھے۔‘‘اس مقام پر جب اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کا ذکر فرمایا، تو انہیں ایک ہی جماعت قرار دیتے ہوئے ذکر فرمایا، اس لئے کہ ان کی شریعت کی ظاہریت مختلف ہے اور جب اس نے مالکانِ تاویل کا ذکر فرمایا، تو انہیں ایک فرد کی حیثیت دیتے ہوئے ذکر فرمایا، اس لئے کہ ان کی شریعت کی ظاہریت مختلف ہے اور کتاب کو روشن کہا، اس لئے کہ انبیأ کی ساری کتب اور شریعتوں کے موضوعات کی حقیقت ایک ہی ہے، گو کہ اقوال، اعمال، الفاظ اور ظاہریت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

(پیغمبروں کو جماعت قرار دینے اور مالکانِ تاویل کو ایک فرد کی حیثیت دینے

۸۲

کی دلیل یہ ہے کہ ’’بینات‘‘ کے معنی عملی معجزات اور واضح دلائل ہیں، اور ’’زبر‘‘ کے معنی کتابیں، صحیفے، علوم اور دانشیں ہیں، پس ’’دلائل‘‘ اور ’’علوم‘‘ کے دونوں الفاظ میں آنحضرت سے اگلے پیغمبروں کی لائی ہوئی تمام مقدس ظاہری چیزوں کا ذکر آیا اور بہت سی دلیلوں اور بہت سی کتابوں یا کہ علوم کے ذکر و مفہوم سے پیغمبروں کی انفرادیت اور جماعت ثابت ہوئی، اس کے بر عکس ’’کتابِ منیر‘‘ یعنی روشن کتاب کا ذکر صیغۂ واحد میں آیا، جس سے یہ مطلب صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت سے قبل کے پیغمبروں میں بظاہر کوئی مشترکہ واحد روشن کتاب جاری و ساری نہیں تھی، مگر نورانیت باطن کی کتاب تھی جو نبوت و امامت کا واحد نور ہے، اور یہی کتابِ منیر، حقیقت ، تاویل وغیرہ کے ناموں سے موسوم ہے پس مالکانِ تاویل کی وحدت کے بارے میں یہی دلیل کافی ہے، علاوہ بران توراۃ، انجیل وغیرہ مشہور آسمانی کتب کی اصلی اور ظاہری حیثیت کے بارے میں فرمایا گیا ہے، کہ ان میں ’’نور‘‘ تھا، لیکن یہ کبھی نہیں فرمایا کہ ان کتابوں میں سے کوئی ایک کتاب ’’ کتابِ منیر‘‘ کی حیثیت سے تھی، اور ان دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے)۔

         پس ہم یہ بیان کرتے ہیں، کہ آدمؑ کے وصی مولانا شیث علیہ السلام تھے، نوحؑ کے وصی مولانا سام علیہ السلام تھے، ابراہیمؑ کے وصی مولانا اسماعیل علیہ السلام تھے، موسیٰؑ کے وصی مولانا ہارون علیہ السلام تھے، عیسیٰؑ کے وصی مولانا شمعون علیہ السلام تھے، اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلعم) کے وصی علی المرتضیٰ علیہ السلام تھے، اور نبوت کے ہر دورِ کہین کے درمیان انہی پیغمبروں (یعنی مالکانِ تاویل) میں سے ہر دو پیغمبروں کے درمیان چھ امام تھے، جس طرح دو ۲ جمعہ کے دنوں کے درمیان چھ دن ہوتے ہیں، (کیونکہ ایک اعتبار سے دورِ کہین کو ایک ہفتہ مانا گیا ہے جس میں ہر ناطق پیغمبر روزِ جمعہ کی طرح ہے، اور چھ مالکانِ تاویل ہفتہ کے باقی چھ دنوں کی طرح ہیں، پس دو ناطقوں کے درمیان چھ مالکانِ تاویل اس طرح ہیں جس طرح اگلے اور پچھلے دو ۲ جمعوں کے دنوں کے درمیان باقی چھ دن ہوتے ہیں) اور

۸۳

یہ چھ (ناطق) پیغمبر جو آئے ہیں، وہ بھی ہفتہ کے چھ دنوں کی طرح آئے ہیں، اور جو (قائمؑ) آنے والا ہے وہ ان کا ساتواں ہے، اور جب (حضرتِ قائم) آئیں تو یہ دورِ مہین ختم ہو جائے گا، اور قیامت برپا ہوگی، اور ہر شخص کو اپنے کام کا اجر ملے گا (کیونکہ دوسرے اعتبار سے دورِ مہین کو ایک ہفتہ مانا گیا ہے، جس میں چھ ناطق پیغمبر ہفتہ کے چھ دنوں کی طرح ہیں، اور حضرتِ قائم علیہ السلام سنیچر کی طرح ہیں)۔

         پس آدم علیہ السلام اتوار کی طرح ہیں، اور اس قول کی حقانیت کی دلیل یہ ہے، کہ حدیث میں یہ ذکر آیا ہے، کہ حق تعالیٰ نے تخلیقِ کائنات اتوار کے دن شروع کی، جمعہ کے دن اس سے فارغ ہوا اور سنیچر کے دن آرام کیا، اس قول کی تاویل و حقیقت ان دنوں کے شروع ہی سے لوگوں سے مخفی رہی ہے، اور ہر شخص نے اس قول کو اپنی ہی عقل کے مطابق قبول کر لیا ہے، اور یہود اسی سبب سے سنیچر کے دن کو عظیم سمجھتے ہیں، وہ اس روز کام نہیں کرتے، جس سے ان کا مطلب یہ ہے ، کہ خدا نے اس روز آرام کیا ہے، اور انہیں یہ معلوم نہیں کہ جن پیغمبروں نے لوگوں کو یہ خبر دی ہے، وہ یہ چاہتے تھے، کہ سمجھ لیا جائے، کہ بموجبِ فرمانِ الٰہی چھ حضرات دنیا میں آئیں گے، تاکہ لوگوں کو کام بتا دیا جائے، اور جو ان کا ساتواں حضرت آئے گا، وہ کوئی کام نہیں بتائے گا، بلکہ وہ تو لوگوں کو (ان کے ہر کام کا) بدلہ دے دیا کریگا، اسی روز (یعنی زمانہ) کو سنیچر کہا گیا ہے، اور اس کے احترام کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے، اور وہ قائم القیامت علیہ اسلام کا دن ہے۔

         پس ہم (بطورِ خلاصہ) یہ کہتے ہیں، کہ آدم علیہ السلام عالمِ دین کے اتوار ہیں، نوح علیہ السلام سوموار ہیں، ابراہیم علیہ السلام منگل وار ہیں، موسیٰ علیہ السلام بدھوار ہیں، عیسیٰ علیہ السلام جمعرات ہیں، اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم عالمِ دین کے روزِ جمعہ ہیں، اور سنیچر کے آنے کا انتظار کیا جاتا ہے، اور

۸۴

اس روز صرف ان لوگوں کے لئے آرام و آسائش ہوگی، جنہوں نے ان دنوں کو بحقیقت پہچان لیا ہو اور بحقیقت ان کو جانتے ہوں، اور ان کے فرامین پر دانش سے عمل کئے ہوئے ہوں، اور جو شخص عالمِ جسمانی میں اپنے جسم کے ذریعہ عمل کرے اور نفس (جان) کے ذریعہ اس کے معنی سمجھے تو اس کا پورا ثواب کل عالمِ روحانی میں سے حاصل ہوگا۔

         پیغمبروں کے بھیجے جانے کی واجبیت کے بارے میں ہم نے اپنے زمانے کے مطابق بیان کر دیا۔

۸۵

کلام ۔ ۹

قرآن اور اس کی تاویل کے اثبات کے بارے میں

         ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق (یعنی مدد و یاری) سے یہ بتائیں گے، کہ عالمِ جسمانی کی پائداری کا انحصار قرآنِ پاک پر ہے، اس قول کی واقعیت کے متعلق ہم ایک عقلی دلیل پیش کرتے ہیں۔

         چنانچہ انسان دنیا کی تمام مخلوقات میں سے انتہائی آخری مخلوق ہے، کیونکہ عالم کی تینوں مخلوقات یعنی معدنیات، نباتات اور حیوانات کا خلاصہ اسی میں پایا جاتا ہے، اس لئے کہ وہ خود اپنی ذات کے اعتبار سے (ایک گرانقدر) گوہر بھی ہے، اور اس گوہر کے پہچاننے اور قدر و قیمت کرنے والا بھی، نباتات کی طرح اگنے بڑھنے والا بھی، اور حیوانات کی طرح کھانے پینے والا بھی، نیز نطق و دانش کے عالم میں نباتات اور حیوانات سے افضل بھی ہے۔

         پس یہ بات درست ہوئی، کہ انسان سے زیادہ مکمل اور کوئی چیز اس عالم سے وجود میں نہیں آئی ہے، اور جو چیز ایسی ہو، کہ اس سے بہت سی چیزیں پیدا ہوئی ہوں، اس سبب سے کہ وہ سب سے زیادہ مکمل ہے، تو ایسی چیز دراصل ان پہلی چیزوں سے بھی پہلی اور ان کی جڑ کی حیثیت سے ہوا کرتی ہے

۸۶

اور ان پہلی چیزوں کا دارومدار ایسی چیز پر ہوتا ہے، اور چیزوں کی پائیداری کا انحصار تو اصولاً اس چیز پر ہوتا ہے، جو ان کی اصل (یعنی جڑ) کی حیثیت سے ہے۔

         مذکورہ فضل کی ایک مثال یہ ہے ، کہ اخروٹ کے درخت سے بہت سی چیزیں پیدا ہوتی ہیں، جیسے پتے، شاخیں، جڑیں اور چھلکے اور جو چیز اس درخت سے سب سے اخیر میں پیدا ہوتی ہے وہ اخروٹ ہی ہے، جس میں ان دوسری چیزوں کے تمام خلاصے (معنی) موجود ہوتے ہیں، اور یہ اپنے تیل اور ذائقہ کی وجہ سے ان چیزوں پر فضیلت رکھتا ہے، وہی سب سے مکمل چیز ہے، وہی اخروٹ کے درخت کی اصل ہے، اور درخت کی پائیداری کا انحصار اسی پر ہے جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اگر وہ ابتدائی اخروٹ نہ ہوتا، تو یہ درخت وجود ہی میں نہیں آسکتا، دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر یہ درخت اخروٹ کا پھل نہ لائے، تو اسے کاٹ دیا جائیگا، اور اس کو جلانے کی لکڑی کر دیا جائیگا۔

         ہم اپنے اصلی بیان کی طرف رجوع کر کے کہتے ہیں، کہ جب اس عالم میں انسان سے بڑھ کر کوئی اکمل شی پیدا نہیں ہوئی، تو لازم آتا ہے کہ اس عالم کا پیدا کرنے والا نفسِ کل ہی ہے، اور واقعہ یہ ہے ، کہ انسانی نفس جو نفسِ کل کی تخلیقات میں سب سے اخیر میں پیدا ہوا، نفسِ کل کا جزو ہے، جب یہ حقیقتِ حال ثابت ہوئی، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر انسان کو بفرضِ محال دنیا سے اٹھا لیا جائے، تو لازمی ہے کہ دنیا دو وجہوں سے نیست ہو جائے گی، ایک وجہ یہ ہوگی کہ انسان کا خاتمہ اس کے سرمایہ (یعنی خوردونوش وغیرہ کی چیزیں) عالم سے منقطع ہونے کے سبب سے ہوگا (اور یہ تو صرف) دنیا سے نفسِ کل کے دست بردار ہوجانے کے سبب سے ہوگا، پس اگر دنیا بنانے والے کی عنایت دنیا سے منقطع ہوجائے، تو وہ فنا ہو جائے گی، دوسری وجہ یہ کہ اگر عالم میں انسان نہ ہو، تو عالم بیابان ہوگا، اور نباتات نہیں اگیں گی، اس لئے کہ یہی انسان ہے، جو (نہروں کے ) پانی سے زمین آباد کر تا ہے تاکہ اس میں نباتات اگ سکیں

۸۷

اور جہاں کوئی انسان نہیں وہاں کوئی آبادی نہیں، اگر انسانی ذرائع نہ ہوں، تو درندے دوسرے ان جانوروں کو جن میں (تعمیری) بہتری ہے ، ہلاک کریں گے، اور انسان کے نہ ہونے کی وجہ سے عالم نیست ہوجائےگا، اس لئے کہ عالِم (یعنی جاننے والا) تو انسان ہے اور عالم (یعنی جانا ہوا) جہان ہے، پس جاننے والے کے بغیر جانا ہوا نہیں ہو سکتا، اور یہ ایک کفایہ کن بیان ہے۔

         جب ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ بقائے عالم کا دارو مدار انسانی بقا ٔ پر ہے، تو ہم یہ بھی بتا دیتے ہیں، کہ انسانی بقا ٔ کا انحصار قرآنِ پاک پر ہے، اس لئے کہ قرآن اور اس کے احکام ہی کی بدولت ہر شخص دنیا میں اپنی ملکیت کا مالک ہے، اور اگر لوگوں کے درمیان خدا کی کتاب نہ ہو، تو وہ ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے، اور کوئی شخص حصولِ علم اور طلبِ فضیلت کے قابل نہ ہو سکے گا، پھر لوگ مویشیوں ہی کی طرح ہوں گے، جس طرح ان علاقوں کا حال ہے جہاں کے لوگوں کے درمیان علم و حکمت نہیں، اور وہ لوگ مویشی اور درندے جیسے ہوئے ہیں، جس طرح ملکِ خراسان میں ’’یکجت‘‘ قوم کے لوگ ہیں، صوبۂ کرمان میں ’’کوفج‘‘ کے لوگ ہیں، اور عرب میں ’’بدو‘‘ ہیں، جن سے برائی کے سوا اور کچھ نہیں آتا ہے، کیونکہ وہ اپنی ہی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں، اور پھر جنگل و بیابان ہی میں انسانیت کی حد بندیوں سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔

مباحثہ

         اگر کوئی شخص یہ کہے، کہ ہم بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں، کہ وہ بہتری کے ساتھ ہیں، حالانکہ وہ قرآن کو نہیں مانتے ہیں، جیسے رومن ،روسی، ہندو وغیرہ، میں اسے یہ جواب دونگا، کہ جس گروہ کے پاس کوئی آسمانی دلیل (آسمانی کتاب) موجود ہو، تو یوں سمجھنا چاہئے کہ ان کے درمیان خدا کی کتاب موجود ہے، اور خدا کی ساری کتابیں (اپنی اصلی صورت میں) قرآن ہی ہیں، اور ان

۸۸

کتابوں میں بحقیقت کوئی اختلاف نہیں، اور نادان لوگ جو کچھ توراۃ، انجیل اور قرآن کے درمیان اختلاف سمجھتے ہیں، وہ حقیقت میں کوئی اختلاف ہی نہیں، سوائے اس کے کہ لفظ، مثال اور اشارہ کی ظاہریت میں اختلاف ہے، پس رومنوں کے درمیان انجیل، روسیوں کے درمیان توراۃ اور ہندوؤں کے درمیان صحفِ ابراہیم موجود ہے، اور جو دانا ہندوؤں کا حال پوچھے، تو اسے معلوم ہو گا کہ وہ لوگ سارے دنیا والوں میں سب سے زیادہ تقلید کرنے والے ہیں، کیونکہ وہ ایک ایسے شخص کے کہنے سے اپنے آپ کو جلا دیتے ہیں، جس نے ان کو بتایا ہے، کہ اگر تم اپنے آپ کو جلا دوگے تو بہشت میں پہنچو گے، تاکہ تناسُخ کے ذریعہ پھر دنیا میں آسکو، تناسخ ایک ایسا مذہب ہے جس کے ماننے والے یہ کہتے ہیں، کہ جسم کی فنا (یعنی جلانے) کے بعد (روح کی) ہر اس گرہ کو بے تعلق کیا جاتا ہے، جس کا تعلق اس جسم کے ساتھ ہے، اور (یہ حقیقت ہے کہ کسی آسمانی، کتاب کی ظاہریت کے بغیر لوگ قیدِ تقلید میں نہیں ٹھہر سکتے، (اور یہ بھی معلوم ہے) کہ ہندو دانشمند انتہائی پرہیزگار ہوتے ہیں، ان کے درمیان زنا اور اغلام نہیں، وہ جھوٹ نہیں بولتے اور جھوٹی قسمیں نہیں کھاتے، اور ان کے پاس ایک کتاب ہے جس کے متعلق وہ کہتے ہیں، کہ یہ خدا کا کلام ہے، میں نے ان کے دانشمندوں سے ایسی بہت سی باتیں سنی ہیں، پس یہ ثابت ہوا، کہ انسانی بہتری قرآن میں ہے، اور عالمی بہتری انسان میں ہے۔

         پس نتیجہ یہ نکلا کہ عالم کی پائیداری اور بہتری (دراصل) قرآن میں ہے، اور قرآن خدا کا وہ کلام ہے، جو علم و عمل قائم رکھنے کے لئے لوگوں کو فرمایا گیا ہے اس لئے کہ انسان ان دو طریقوں پر قادر ہیں: یا نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد وغیرہ کو عمل میں لاتے ہیں، یا ان کے معانی جانتے ہیں، نفسِ لطیف کو پہچانتے ہیں عالمِ لطیف کا تصور کرتے ہیں اور دلائل کے ذریعہ اس عالمِ کثیف ہی سے اس

۸۹

عالمِ لطیف کی رسائی کر لیتے ہیں۔

         چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان (بھی) قرآن میں دو وجہوں سے ہے: یا تو عمل کے لئے فرمایا ہوا ہے، چنانچہ: ۔

         ’’وَأَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ (۲: ۴۳(

         اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔‘‘ اور جیسا کہ فرمایا: ۔

         ’’وَقُلْ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ (۹: ۱۰۵(

         )اے محمدؐ!) آپ کہہ دیجئے کہ عمل کئے جاؤ، سو دیکھ لے گا تمہارے عمل کو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول۔‘‘ یا فرمایا ہوا ہے، کہ جان لو، جیسا کہ فرمایا: ۔

         ’’وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ(۸: ۲۸(

         اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ایک امتحان کی چیز ہے۔‘‘

         اور جس طرح فرمایا: ۔

         ’’فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۵: ۳۴(

         جان لو، کہ بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

پس ہمیں یہ کہنا ہوگا کہ قرآن (درحقیقت) اس شخص نے قبول کر لیا ہے، جو کام کرنے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی ، عربی میں کام کو عمل اور جاننے کو علم کہتے ہیں، اور یہ دونوں لفظ تین حروف سے بنے ہیں، جیسے (علم): ع،ل،م اور عمل بھی انہی تین حروف کا ایک لفظ ہے، جیسے: ع، م ، ل اسی طرح انسان کا دینی کام ایک ہی ہے، جو اس کی تین چیزوں سے متعلق ہے، جس میں سے ایک تو انسان کے کان کا کام ہے، جو دین کے بارے میں انسان حق بات سنتا ہے، دوسرا انسان کی زبان کا کام ہے، جو دین کے بارے میں انسان حق بات کہتا ہے، جس میں کلمۂ اخلاص اور دوسری باتیں آتی ہیں، تیسرا انسان کے جسم کا کام ہے، جو کرتے ہیں، جیسے نماز، روزہ، حج، جہاد وغیرہ، اور علم بھی تین حروف کا ایک لفظ ہے، جس طرح انسان کی دانش ایک ہے، جو انسانی

۹۰

نفس کی تین قوتوں پر مشتمل ہے، جن میں سے ایک تو قوتِ حسی ہے جس کے ذریعہ انسان دین سے متعلق محسوسات، از قسمِ شرعی موضوعات کی ظاہری صورتیں سمجھ لیتا ہے، کہ نماز کس طرح پڑھنی چاہئے، روزہ کس طرح رکھنا چاہئے، مناسک یعنی جن چیزوں کے ذریعہ حج درست ہوتا ہے، کیا ہیں اور کس طرح ہیں وغیرہ دوسری قوتِ حلق ہے، جس کے ذریعہ انسان اقوال کہتے ہیں، اور نفسِ ناطقہ کو سناتے ہیں اور سننے والا ان اقوال پر حاوی ہو جاتا ہے، تیسری قوتِ عقل ہے، جس کے ذریعے انسان توحید کو تشبیہ اور تعطیل سے مجرد کرتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدت کو نہ تو کسی چیز کے مانند قرار دیتا ہے اور نہ اس کی وحدت سے انکار کرتا ہے) اور وہ اس کے لئے ایک عطا ہے، کہ وہ عطا اسے ایک ایسی ہستی کی طرف سے ہے، جو خود اس (کی احتیاج) سے برتر ہے، اور یہ توحید کو مجرد کرنے کا ایک اشارہ ہے۔

         پس خلاصہ یہ ہوا، کہ (انسان کی دینداری سے متعلق) ساری چیزیں مجموعاً دو ہیں، جو ایک علم ہے اور دوسری چیز عمل، جب یہ دونوں چیزیں (کسی انسان میں) جمع ہوجائیں تو لوگ اسے دیندار کہتے ہیں، جس طرح انسان میں روح اور جسم ہے، جب دونوں چیزیں جمع ہو جائیں، تو اسے انسان کہا جاتا ہے، عمل دین کے لئے جسم کی طرح ہے اور علم دین کے لئے روح کی طرح ہے، اور جو شخص علم کے بغیر عمل کرتا ہے، تو اس کے دین میں جان نہیں، بلکہ مردار ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مردار کو حرام کر دیا ہے، جس کی تاویل یہ ہے ، کہ بے علم عمل نامقبول یعنی حرام ہے، جس طرح مردار حرام ہے، اور جو شخص علم سیکھے اور عمل نہ کرے، تو اس کا کوئی دین ہی نہیں، اس لئے کہ دنیا میں کسی بلا جسم روح کا اثبات ہو نہیں سکتا، اور بے عمل علم سے بے علم عمل بہتر ہے، چنانچہ کچھ نہ ہونے سے مردار بہتر ہے۔

۹۱

         حسابِ جمل کے مطابق ’’علم‘‘ اور ’’عمل‘‘ دونوں (لفظوں) میں سے ہر ایک کا مجموعہ ایک سو چالیس ۱۴۰ بنتا ہے، جن کے چودہ عقد ہوتے ہیں، یعنی وہ اس طرح، کہ سو ۱۰۰ کے دس عقد ہوتے ہیں اور چالیس کے چار عقد بنتے ہیں، کیونکہ ہر دس کا ایک عقد ہوتا ہے (اسی طرح دس اور چار) مجموعاً چودہ عقد ہوتے ہیں اور چودہ ۱۴ دو دفعہ سات ۷ ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنے رسولؐ کو احسان جتاتا ہے، چنانچہ فرمایا ہے: ۔

         ’’وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ  (۱۵: ۸۷(

         یعنی اے محمد! ہم نے آپ کو ایک ایسا سات ۷ دیا جو دہرا ہے، اور قرآن عظیم دیا‘‘۔ اور اس آیت کی تاویل یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو ایک ایسا دین دیا، جو ان دو چیزوں سے آراستہ تھا، ان میں سے ایک تو علم تھا اور دوسرا عمل، کہ ہر ایک عقود کے حساب سے دو دفعہ سات ہے اور قرآنِ عظیم علم و عمل کا جامع ہے، جس کا ذکر قبل ازین ہوچکا۔

         اب ہمیں یہ کہنا ہے کہ قرآن وہ ہے، جس کے ذریعے دنیا کا قیام ہے، مسلمانوں میں ( قرآن کی ماہیت کے متعلق) اختلاف ہوا، ایک گروہ نے کہا، کہ یہ خدا کا کہا ہوا ہے، اور دوسرے گروہ نے کہا، کہ یہ خدا کا پیدا کیا ہوا ہے، اور دونوں گروہوں نے سچ کہا، مگر انہوں نے خود ان ( دونوں باتوں) کے معنی نہیں سمجھا اور ہم اس مقام پر اس کا بیان کریں گے، کہ قرآن اس اعتبار سے خدا کا قول ہے، اور مخلوق نہیں، کہ عقلِ کل کی تائید نفسِ کل کی وساطت سے ان کلمات کی حقیقت کے ساتھ آتی ہے، جو آج مصحفوں میں لکھے ہوئے ہیں، اور (یہ تائید و حقیقت) رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے پاکیزہ نفس ہی کو پہنچی ہے، اور عقلِ کل مخلوق نہیں، نہ نفسِ کل مخلوق ہے، بلکہ وہ دونوں بندگانِ بسیط ؎۱

؎۱: بسیط: مفرد، غیر مرکب، یعنی وہ چیز جو یکتا ہو، مرکب کے برعکس، جو کئی چیزوں سے مل کر بنی ہوئی چیز کو کہتے ہیں۔

۹۲

ہیں، اور بغیر کسی چیز سے پیدا کئے گئے ہیں، اور مخلوق وہ چیز ہوتی ہے، جو کسی دوسری چیز سے پیدا کی گئی ہو، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ۔

         ’’وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِنْ سُلاَلَةٍ مِنْ طِينٍ (۲۳: ۱۲(

         یعنی ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا۔‘‘اور جب قرآن اس غیر مخلوق عقل و نفس سے ہے، تو درست ہوا، کہ مخلوق نہیں  ہے، اور جب انسان کی طاقت اور دو طریقوں میں تھی ( جن میں سے ایک تو یہ) کہ جب کسی نے کچھ کہا اور کچھ کیا، تو انسان نے اسی (قول و عمل) کو مخلوق سمجھا، اور (دوسرا یہ کہ) جو چیز غیر مخلوق تھی، تو اسے احاطۂ قول سے برتر سمجھا، لیکن قرآن (اس کے باوجود بھی) مخلوق نہیں خدا کا قول ہے، اور ہم قرآن کو خدا کا قول اس وجہ سے کہتے ہیں، کہ قرآن عقلِ کل کی تائید اور نفسِ کل کی وساطت سے ہے، اور عقل و نفس خدا کے امر سے موجود ہوئے ہیں، اور خدا کا امر (ایک خاص) کلمہ ہے، جس کی (بلفظِ دیگر) ’’کن‘‘ سے عبارت کی گئی ہے، پس ہم نے کہا کہ قرآن وہی کلمہ ہے، جو (دوسرے لفظ میں) ’’کن‘‘ ہے تو وہ کسی چیز سے بنا ہوا نہیں (یعنی مخلوق نہیں)۔

         اب ہم قرآن کے ظاہری پہلو کی طرف متوجہ ہوئے، تو بتائیں گے، کہ قرآن مخلوق ہے، اس اعتبار سے کہ آج مصحفوں میں لکھا ہوا ہے، اس میں سورے ہیں، جو آیات سے مرکب ہیں، آیات کلمات سے مرکب ہیں، اور کلمات حروف سے بنے ہیں، اور جو چیز بہت سی چیزوں سے مرکب ہوئی ہو، وہ مخلوق ہی ہے، پس آج جو کچھ مصحفوں میں لکھا ہوا ہے، وہ مخلوق ہے، مگر جس وقت رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے دل پر نازل ہوا، تو مخلوق نہ تھا لیکن رسول علیہ السلام نے بموجبِ فرمانِ الٰہی اسے عربی زبان میں کہا، تو مخلوق ہوا، اس لئے کہ رسول علیہ السلام مخلوق تھے، اور

۹۳

مخلوق سوائے مخلوق کے اور کسی چیز پر قادر نہیں ہوسکتا، آج اگر قرآن مخلوق نہ ہوتا، تو لوگ اس پر قادر نہ ہوتے اور اس  سے واقف نہ ہوتے، اس سے قبل کہ رسول علیہ السلام نے قرآن کو عربی زبان میں کہا، آنحضرت نے اپنے پاک نفس کے ذریعہ اس کو حاصل کر لیا تھا، جو حروف و کلمات کے بغیر بسیط ( مرکب) تھا، آج مخلوق ہے۔

         اب ہم اس کا بیان لفظ ’’قرآن‘‘ہی سے ظاہر کریں گے، کہ لفظِ ’’قرآن‘‘ چار حروف سے بنا ہوا ہے، ان میں سے دو۲ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں، جیسے ’’ق‘‘ اور ’’ر‘‘ (قر) اور دو ۲ ایک دوسرے سے جدا ہیں، جیسے’’ا‘‘ اور ’’ن‘‘ (آن) اور یہ لفظِ قرآن (یعنی قر اور آن) قرین سے لئے گئے ہیں، پس لازم آتا ہے، کہ قرآن چار قرین (ساتھی) سے گزر کر لوگوں کو پہنچا ہے، اور ان چاروں میں سے دو ۲ ’’قر‘‘ کی طرح مرکب ہیں، اور دو ’’آن‘‘ کی طرح بسیط ہیں، اور ہمیں قرآن ان دو مرکب سے ملا ہے، جن کو قرآن ان دونوں بسیط سے ملا تھا، اور وہ دونوں مرکب ناطق اور ان کے اساس ہیں، جو ایک دوسرے کے قرین (ہمنشین) ہیں، اور جسم و نفس سے مرکب ہیں، لفظِ قرآن کے ان پہلے دو حرفوں کی طرح جو مرکب ہیں، جیسے ’’قر‘‘ اور یہ دو مرکب (ناطق و اساس) ان دو بسیط کے ذریعہ مکمل ہو جاتے ہیں، جس طرح لفظِ ’’قرآن‘‘ الف و نون کے ذریعہ مکمل ہے۔

         پس الف و نون عقل و نفس کی مثال ہیں، کہ ناطق اور اساس کی تالیف و تاویل میں انہی سے تائید حاصل ہے، اور وہ مرکب نہیں بلکہ بسیط ہیں، جس طرح یہ دونوں حروف مرکب نہیں، اور الف عقلِ کل کی دلیل ہے، کیونکہ وہ سارے حروف سے جدا ہے، کہ جب لکھنے والا اس تک پہنچے تو اس کا سلسلۂ تحریر ٹوٹ جاتا ہے، اس لئے کہ الف کے اوپر کی طرف سے کوئی چیز متصل نہیں، اور وہ تحریری چیزوں کا آغاز ہی ہے، حروف الف کے ساتھ نیچے سے مل جاتے ہیں، مگر الف دوسرے حروف کے ساتھ نیچے سے نہیں ملتا، جس طرح ساری چیزیں اپنے اوپر کی طرف سے عقل کے ساتھ  متصل ہیں، مگر عقل اپنے اوپر کی طرف سے

۹۴

کسی چیز کے ساتھ متصل نہیں اور نون نفسِ کل کی دلیل ہے، چنانچہ وہ ایک ایسا خط ہے، جو سرے سے سرا متصل ہوا چاہتا ہے، اور ہنوز متصل نہیں ہوا ہے، جس طرح نفسِ کل کا حال عقلِ کل سے فائدہ لینے سے عقلِ کل کے درجہ میں پہنچ ہی رہا ہے، مگر ابھی نہیں پہنچا ہے۔

         اسی طرح ترتیبِ تلفظ میں یعنی حرفِ  ’’نون‘‘ کے حروفِ شماری میں پہلے نون آیا ہے اور اخیر میں بھی نون ہی ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ ہر آخر اپنے اول کی طرف ہوگا، (یعنی ہر دوسری چیز اپنی پہلی چیز کی طرح ہوگی) اول عقل ہے اور آخر نفس ہے، پھر نفس عقل ہی کی طرح ہوگا، اور ان چار حروف میں سب سے پہلے ’’قاف‘‘ ہے، جو اساس کی دلیل ہے، کہ مومن کو اسی سے ناطق کا راستہ مل سکتا ہے، اور اس کو پہچانتا ہے اور ’’را‘‘ ناطق کی دلیل ہے ’’قاف‘‘ کا حسابِ جمل سو ۱۰۰ ہے، اور ’’را‘‘ کا دو۲۰۰سو ہے، یعنی کہ ناطق تاویل و تالیف کے دومراتب کے مالک ہیں اور اساس ایک ہی مرتبے کے مالک ہیں، جو تاویل کا مرتبہ ہے، عالمِ دین میں ناطق کو رجولیت کا مرتبہ ہے، اور اساس کو نسوانیت کا مرتبہ ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         ’’فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ (۴: ۱۷۶(

         یعنی ایک مرد کو دو۲ عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔‘‘ الف جو عقل کی دلیل ہے، حساب میں ایک کا عدد رکھتا ہے، جس کے معنی ہیں، کہ عقل ساری موجودات کی علت (سببِ پیدائش) ہے، جس طرح گنتی میں ’’ایک‘‘ سارے اعداد کی علت ہے، اور ’’نون‘‘ نفس کی دلیل ہے، کیونکہ وہ چار عناصر کا اور موالید کا، جو ان کا پانچواں ہے، پیدا کرنے والا ہے، جس طرح نون کا حساب پچاس ہوتا ہے، جس کے پانچ عقد بنتے ہیں، اور لفظِ قرآن کے ’’قاف‘‘ اور ’’را‘‘ عمل کی مثال ہیں، جو جسمِ مرکب کا حصہ ہے، اور اسی لفظ کے ’’الف‘‘ اور ’’نون‘‘ علم کی مثال ہیں، جو نفسِ بسیط کا حصہ ہے، علم کے بغیر عمل چوپایوں کا حصہ ہے، عمل کے بغیر علم فرشتوں کا حصہ ہے اور علم و عمل دونوں انسانوں کا حصہ ہے، کیونکہ وہ جسم کے اعتبار سے

۹۵

حیوانات کے ساتھ شریک ہیں، اور نفس دانا کے لحاظ سے حیوانات کے ساتھ شریک نہیں، بلکہ وہ فرشتوں کے ہمسر ہیں (پس دونوں امکانی صورتوں کی وجہ سے ابتدا ً انسان،) حیوانات اور فرشتوں کے درمیان متوسط ہے، تاکہ وہ علم و عمل کے ذریعہ حیوانیت سے ملکوتیت میں پہنچ سکے۔

         قرآن کے الفاظ مختلف آئے ہیں، نیز تمام پیغمبروں کی شریعتوں کے اعمال بھی مختلف واقع ہوئے ہیں، اس لئے کہ یہ دونوں انسان کے جسم کی طرح تھے، کہ انسانوں کے اجسام مختلف ہی ہوتے ہیں، مگر خدا کی کتابوں کے معنی اور انبیأ کی شریعتوں کی تاویل ایک ہی آئی ہے، اور وہ (حقیقتِ) حال خود ایک ہی ہے، اس لئے، کہ وہ روحِ انسانی کی مثال ہے، اور روح کا حال بدل جانے والا نہیں، پس لفظ کو تنزیل اور معنی (یعنی حقیقت) کو تاویل کہا گیا ہے۔

         پس ہم ایک قریب ترمثال بیان کر یں گے، اور تنزیل و تاویل کے درمیان فرق ظاہر کریں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         ’’وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَالْقَمَرِ إِذَا تَلاَهَا (۹۱: ۱۔۲(

         یعنی قسم ہے سورج کی اور اس کی چاشتگاہ کی، اور چاند کی جب اس کے پیچھے چلے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے قسم ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ اس سورج سے اللہ تعالیٰ کی مراد رسول ہیں، جو علمِ دین کے سورج ہیں اور چاشتگاہ سے مراد ان کے دین کی روشنی ہے اور چاند سے مراد دین میں ان کا وصی ہیں، اور چاند سورج کے پیچھے پیچھے چلنے سے اللہ تعالیٰ کی مراد عالمِ دین میں رسولؐ کے پیچھے ان کے وصی چلنا ہے، اور ان کی قابلِ تعریف سیرت مراد ہے، اور تنزیل کے بعد کتاب کی تاویل کرنا مقصود ہے، اور یہی زیادہ بہتر ہے، کہ خدا تعالیٰ اپنے رسولؐ اور آنحضرت کے وصی کی قسم کھائے، بہ نسبت اس کے کہ بلا سمجھ گردش کرنے والا سورج اور چاند کی قسم کھائے، جن کی روشنی (کسی فرق و تمیز کے بغیر) ہر پاک و پلید پر پڑتی رہتی ہے، ہم نے

۹۶

قرآن کی ماہیت، کی تشریح و توضیح کر دی، اور اس کی تاویل کی واجبیت اور ابتدائی ترکیب کا بطورِ اختصار و اکتفا تذکرہ کر دیا۔

۹۷

کلام ۔ ۱۰

کتاب (قرآن) اور شریعت کے ظاہر و باطن کے بارے میں

         باری سبحانہ و تعالیٰ کی توفیق سے بتایا جاتا ہے کہ دینِ اسلام کے بعض انجان اور سست لوگ شیعۂ حق کو باطل قرار دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ کافر ہیں، بغیر اس کے کہ وہ ان کے مذہب کی حقیقت تک رسا ہو جائیں، اور کسی دانشمند کے لئے بہتر طریقہ وہ ہوتا ہے، کہ اپنے مخالف کے احوال کی بابت پوچھا کرے، اور اس کے ساتھ گفتگو اس کی حقداری کے اندازے سے کرے، تاکہ وہ جاہلوں کی عادت کا عامل نہ بن جائے، اور اس کو بدخصلتی کی نسبت نہ دی جائے، جو شخص اسلام کے کسی مومن کو کوئی طعنہ دیتا ہو، اس کے بغیر کہ وہ اس کے اعتقادات جانتا ہے، اور بجز اس کے کہ اس کو اس شخص سے کوئی تکلیف پہنچی ہے، بلکہ بلاوجہ خوئی بد کو عمل میں لانے کے لئے اسے تکلیف دیتا ہے تو اس کی مثال کتے کی طرح ہے، کہ ایک شخص اپنے راستے پر نظر جمائے ہوئے اپنے کام کے لئے جارہا ہے، تو وہ ایک گلی سے نکل کر اس شخص پر حملہ آور ہوتا ہے، اس کے کپڑوں کو پھاڑتا ہے، اور اسے زخمی کر دیتا ہے چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

۹۸

         ’’فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ذَلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (۷: ۱۷۶)

         یعنی اس کی مثال کتے کی مثال جیسی ہے، اگر تو اسے مارے تب بھی زبان ڈالتا ہے، یعنی بھونکتا ہے یا اسے چھوڑے تب بھی بھونکتا اور رنج دیتا ہے، اور یہ ان لوگوں کی مثال ہے، جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا (یعنی انہوں نے امامانِ حق کی اطاعت نہیں کی) پس آپ اے محمدؐ قصے بیان کیجئے، شاید وہ لوگ کچھ سوچیں۔‘‘ اور وہ نادان لوگ شیعوں کو ستاتے ہیں، اس لئے کہ یہ ان سے الگ ہوئے ہیں، جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا، لازماً وہ تاریکی، نادانی اور نابینائی میں ہلاک ہو جاتے ہیں، ہم اس مقام پر باطن کے اثبات کے باب میں بیان کریں گے، تاکہ شاید اللہ تعالیٰ کسی کو ہوش دے، جس سے وہ حق دیکھے اور مومنوں کو انجانے نہ ستائے۔

         ہمارا بیان ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے، وہ دو ۲ قسم کا ہے، یا تو ظاہر ہے یا باطن، جو کچھ ظاہر ہے وہ آشکار ہے، کہ آنکھ، کان، ہاتھ وغیرہ کے ذریعہ پایا جاتا ہے، جن کو حواس کہا جاتا ہے، اور جو چیزیں حواس کے ذریعہ پائی جاتی ہیں، انہیں محسوسات کہتے ہیں، اور جو چیزیں باطن یعنی پوشیدہ ہیں، اور لوگ ان کو حس کے ذریعہ پا نہیں سکتے، بلکہ حکمت والے ان کو عقل و علم ہی کی ذریعے پا سکتے ہیں، تو ان کو معقولات کہتے ہیں۔ پس ہم کہتے ہیں کہ جو کچھ آشکار ہے وہ بذاتِ خود آشکار ہے۔ اس وجہ سے نہیں، کہ لوگ اس کو حواس کے ذریعے پا لیتے ہیں، بلکہ لوگ اس کو پائیں یا نہ پائیں وہ تو خود آشکار ہی ہے، جس طرح یہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے، کہ اگر لوگ اس کو نہ دیکھیں، تو یہ پوشیدہ نہ ہوگی، بلکہ اس کی ظاہریت یہ ہے کہ اگر درست

۹۹

حس اس تک پہنچے تو اس کو پالتی ہے، ہمارا کہنا ہے کہ اسی طرح وہ چیز جو پوشیدہ ہے، بذاتِ خود پوشیدہ ہے اور اگر لوگ اس کو عقل کے ذریعہ پائیں تو وہ چیز پوشیدگی کی حد سے باہر نہ آئے گی، اور انسان کے پالینے سے بھی وہ ظاہر نہیں ہوگی، جس طرح جو کچھ آشکار ہے، وہ انسان کے نہ پالینے سے پوشیدہ نہیں ہوتی، اور پوشیدہ کی مثالیں عالمِ لطیف، انسان کی جان، عالم کی محدثی، وقت کا گزر جانا، صانع کا اثبات وغیرہ ہیں، اور ان چیزوں کی پوشیدگی یہ ہے، کہ لوگ حواس کے ذریعہ ان کو نہیں پا سکتے ہیں۔

         جب ہم نے یہ ثابت کر دیا، کہ جو کچھ ظاہر ہے وہ ہرگز پوشیدہ نہ ہوگا اور جو کچھ پوشیدہ ہے، وہ ہر گز آشکار نہ ہوگا، تو ہمارا کہنا ہے کہ اس بارے میں شیعہ (گروہِ امامیہ) کا قول یہ ہے، کہ جو عبادات عمل میں لائی جاتی ہیں اور حس کے ذریعہ پائی جاسکتی ہیں، تو وہ ظاہر کہلاتی ہیں، جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد وغیرہ، اور مادی چیزوں میں سے آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے، کہ جن کے حواس درست ہیں وہ ان چیزوں کے پانے میں برابر ہیں اور یہ ساری چیزیں ظاہر ہیں، اس لئے کہ ہر حس والے کو دوسرے پر ان چیزوں کے دیکھ پانے میں کوئی فضل نہیں، اور جب ’’باطن‘‘ کہا جاتا ہے تو باطن سے ان کی مراد وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کو پانے کے لئے حس کو کوئی راستہ نہیں، جیسے ہر اس چیز کا سبب پیدائش جو عنصر، طبائع اور ارکان (مادی اجزأ) سے بنی ہے، اور جو کچھ موجود پایا گیا ہے، اس کو تقسیم کیا گیا ہے، تاکہ معلوم ہو جائے کہ کوئی مطلوبہ چیز آشکار چیزوں میں سے ہے، یا پوشیدہ چیزوں میں سے، اور جان لیں کہ مطلوبہ چیز حس کے ذریعہ پائی نہیں جاتی ہے، اور نہ وہم و فہم کے ذریعہ پائی جاتی ہے، جیسے علمِ توحید، اثباتِ نبوت، بہشت، دوزخ، ثواب، عذاب، حشر، حساب، فنائے عالم وغیرہ اور یہ ایسی چیزیں ہیں جن کی پوشیدگی کی وجہ سے لوگ ان کی دریافت میں ایک دوسرے پر فضل و شرف

۱۰۰

رکھتے ہیں، یہ سببِ حصول (معنی) کہ ان چیزوں میں سے ہر ایک میں جو کچھ معنی ہیں وہ دوسری میں نہیں، اور اگر باطن چیزیں نہ ہوتیں، تو کسی کو ایک دوسرے پر فضل نہ ہوتا، اس لئے کہ ظاہر چیزیں لوگوں کے لئے یکسان ہیں، اور اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہم نے لوگوں کو ایک دوسرے پر درجات میں رفعت دی ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا (۴۳: ۳۲)

         یعنی ہم نے ان میں سے ایک گروہ کو دوسرے پر درجات میں رفعت دی تاکہ ایک گروہ دوسرے گروہ کو مسخر کرے‘‘۔ پس یہ آیت پوشیدہ چیزوں کے اثبات پر دلالت کرتی ہے اور درجات میں نہیں مگر دین میں، اور اگر یہ درجات ظاہر چیزوں میں ہوتے، تو سب لوگ ظاہر میں یکسان ہیں (پھر) درجات لازم نہیں آتے، اور جب بموجبِ فرمانِ الٰہی درجات ثابت ہیں، پس عالمِ باطن بھی ثابت ہے، اور ’’ظاہر‘‘ ایسا ہے، جس طرح ہم کہتے ہیں ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘ جب ہم ان کلمات کو منہ میں زبان کی حرکت اور آواز کے ذریعے ادا کرتے ہیں، تو تمام سننے والے ان کلمات کے سننے میں یکسان ہوتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ محسوس اور ظاہر ہیں، ان کلمات کی تاویل ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے صرف داناؤں کے لئے مخصوص ہے، نہ کہ ہر سننے والے کے لئے، اور دانا لوگ سننے والوں کے ساتھ اس کے سننے میں شریک ہیں، مگر سننے والے داناؤں کے ساتھ اس کے سمجھنے میں شریک نہیں، کیونکہ وہ تو پوشیدہ ہے،اور اگر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے معنی کلمہ کے ظاہر کی طرح آشکار ہوتے تو ہر سننے والا اس کے معنی سمجھ سکتا ہے، اور کوئی دانشمند اس قول سے منکر نہ ہو سکے گا۔

         کتاب و شریعت کے باطن کے ثبوت پر یہ دلیل پیش کروں گا، کہ

۱۰۱

کوئی ظاہر چیز نہیں، مگر اس کا قیام اس کے باطن پر ہے، آسمان سے لے کر زمین تک، اور ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے، اس لئے کہ آسمان سے جو کچھ ظاہر ہے، وہ یہی نیلا رنگ ہے، جو دکھائی دے رہا ہے، اور سورج، چاند اور ستاروں سے اس روشنی کے سوا اور کوئی چیز ظاہر نہیں، چنانچہ آسمان میں یہ ظاہر نہیں، کہ جب سورج برجِ حمل میں پہنچتا ہے، تو زمین کیونکر ہری بھری ہو جاتی ہے، اور جب سورج برجِ میزان میں پہنچتا ہے، تو درختوں کے پتے (کس وجہ سے) پیلے ہوجاتے ہیں، پھر وہ پتے (کس سبب سے) جھڑ جاتے ہیں، اور اسی طرح دوسرے موسموں کی حقیقت بھی حواس کے لئے ظاہر نہیں کہ سال میں (کس طرح) بارہ مہینے ہوتے ہیں، اور یہ ظاہر نہیں، کہ ماہِ رمضان جو عربوں کے سال کا نواں مہینہ ہے (کیونکر افضل ہے) بلکہ وہ ان ساری (معقولات) کی طرح معقول ہے، نہ کہ محسوس، اور ہر ظاہر کا قیام اس کے باطن پر ہے جس طرح مجموعی طور پر عالم کا قیام انسان پر ہے، چنانچہ اس کی دلیل قبلاً ہم نے اسی کتاب میں ظاہر کی ہے، اور ہر گوہر کی قیمت نہ اس کے ظاہر کی وجہ سے ہے، بلکہ اس کے باطن کی وجہ سے ہے، چنانچہ سونا نہ اس سبب سے قیمتی واقع ہوا ہے ، کہ وہ زرد اور پگھلنے والا ہے، کیونکہ اگر اس کی قیمت اسی وجہ سے ہوتی تو پیتل بھی زرد اور پگھلنے والا ہے، سو یہ بھی قیمت میں اس کے برابر ہوتا، بلکہ سونے کی قیمت اس معنی (یعنی حقیقت) کی وجہ سے ہے، جو اس کے اندر ہے، اور وہ پیتل سے جدا ہے، اور وہ ایک لطیف حقیقت ہے، اور نفسِ لطیف اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے، اور وہ حقیقت کسی لفظ میں لائی نہیں جاسکتی، مگر تقریبی مثال میں، اور اسی طرح زمین کے ظاہر میں یہ آشکار نہیں کہ اس سے اتنی قسم کی نباتات کس طرح اگتی ہیں اور نباتات میں بھی یہ آشکار نہیں کہ اس سے کس طرح حیوان کو زندگی ملتی ہے۔

۱۰۲

         میرا کہنا ہے کہ اسی طرح ہی انسان کا جسمِ کثیف آشکار ہے، اور روحِ لطیف پوشیدہ ہے، یہ جہانِ فانی آشکار، اور وہ جہانِ باقی پوشیدہ ہے، مصنوع آشکار اور صانع پوشیدہ ہے، برے لوگ اچھے لوگوں کی نسبت آشکار ہیں اور اچھے لوگ برے لوگوں کی نسبت پوشیدہ ہیں، پس اسی طرح خدا کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی شریعت آشکار ہے، اور ان کے معنی و تاویل نادانوں سے پوشیدہ ہے مگر داناؤں کے لئے عیان ہے، کیونکہ وہ تو اسی وجہ سے نادانوں سے ممتاز ہوئے ہیں۔

         ایک اور نکتہ یہ ہے کہ کتبِ (سماوی) اور شریعت دو اجسام کی طرح ہیں، اور معنی و تاویل ان اجسام کی دو ارواح کی طرح ہیں، اور جس طرح بغیر روح کے جسم خوار ہو جاتا ہے، اسی طرح تاویل اور معنی کے بغیر کتاب و شریعت کی بھی خدا کے نزدیک کوئی قدر نہیں، چنانچہ رسول علیہ السلام نے فرمایا: ۔

         ’’ اِنَّ اللّٰہ اَسَّسَ دِیْنَہٗ عَلٰی اَمْثَالِ خَلْقِہٖ لِیُسْتَدلّ بِخَلْقِہٖ عَلٰی دِیْنِہٖ وَبِدِیْنِہٖ عَلٰی وَحْدَانِیَتِہٖ۔

         یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی بنیاد اپنی خلقت کی طرح رکھی، تاکہ اس کی خلقت سے اس کے دین کی دلیل مل سکے، اور اس کے دین سے اس کی وحدانیت کی دلیل مل سکے‘‘۔ جب دنیا کی خلقت میں یہ عیان ہے، کہ چیزوں کے باطن ان کے ظاہر سے اشرف ہیں اور ہر چیز کے ظاہر کا قیام اس کے باطن پر ہے، تو لازم آتا ہے، کہ خدا کا کلام اور رسول کی شریعت بھی اپنے باطن ہی کی وجہ سے اشرف ہے، اور جو شخص اس کے باطن کو نہ سمجھتا ہو وہ دین کے کسی شمار میں نہیں اور رسول اس سے بیزار ہے، بموجبِ قولِ خدائے تعالیٰ: ۔

         ’’ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنْ الْجَاهِلِينَ (۶: ۳۵)

         پس آپ نادانوں سے نہ ہو جئے‘‘ اور اس شخص سے زیادہ نادان

۱۰۳

کوئی نہیں جو ایک ایسا کام کرتا ہے، کہ اس کے معنی نہیں سمجھتا، پس درست ہوا کہ مومن شریعت کے باطن ہی کوسمجھنے سے رسول مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے مل سکتا ہے، اس لئے کہ وہ دانا ہو جاتا ہے، جبکہ رسول کے لئے یہ فرمان ہے، کہ آپ نادانوں سے نہ ہوجئے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ وہ داناؤں میں سے ہے، اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے، تاکہ ہم دانش سے عمل کریں، مسلمانوں کو دکھ نہ دیں، اپنی دانش پر مغرور نہ ہو جائیں، اور ہم یہ سمجھ لیں کہ (بحکمِ: ’’ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ ۱۲: ۷۶) ہر دانا سے برتر ایک اور دانا ہے۔‘‘

         جبکہ انسان جسم اور نفس ہے، جبکہ جسم اس جہان کا ہے اور نفس اس جہان کاہے، جبکہ رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ’’ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ‘‘ کے ظاہر قول کے ذریعہ لوگوں کو قتل کئے جانے ، فروخت ہو جانے اور ان کے مال و اولاد لٹ جانے سے بچایا، جبکہ قول کا ظاہر جسم کی مثال ہے، اور معنی روح کی مثال ہیں، اور جبکہ انسانی جسم ظاہر قول کے ذریعہ (ظاہری عذاب سے) چھٹکارا پاتا ہے، تو یہ ہمیں اس حقیقت کی دلیل ہوئی، کہ نفس، جو باطن ہے، جسم کے لئے ایسا ہے، جیسے قول کے معنی اور شریعت کی تاویل ہوتی ہے، پس نفس کا چھٹکارا کتابِ (سماوی) اور شریعت کے باطن میں ہے، اور یہ حقیقتِ حال ہر اس شخص پر پوشیدہ نہ رہے گی جو چشمِ بصیرت رکھتا ہے، مگر جو شخص حق کو چھپانا چاہتا ہو، اور خدا تعالیٰ نے اس کو اس کے برے کاموں کی سزا میں اندھا کر دیا ہو (تو اس کے لئے کوئی علاج ہی نہیں) چنانچہ عزو علا نے فرمایا: ۔

         ’’صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ (۲: ۱۷۱)

         یعنی بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، پس وہ نہیں سمجھتے ہیں۔‘‘

والسلام

۱۰۴

کلام ۔ ۱۱

کلمۂ اخلاص یعنی   لَا اِلٰہَ اِلا اللہ کے بارے میں

         اب ہم بیان کرتے ہیں، کہ یہ (کلمہ) بندے کی طرف سے خدا تعالیٰ کی (ہستی و وحدت کی) گواہی ہے، پس بندہ ( اس بارے میں) گواہی دینے والے کی حیثیت سے ہے، اس کا قول (یعنی کلمہ پڑھنا) گواہی ہے، اور خدا تعالیٰ وہ ہے، جس کے لئے یہ گواہی دی جاتی ہے (یعنی بندہ شاہد ہے، اس کا لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ پڑھنا شہادت ہے، اور حق تعالیٰ مشہود ؎۱ ہے) جس کی (لفظی) مثال خالق، تخلیق اور مخلوق کی طرح ہے۔

         (جاننا چاہئے کہ) ہر چیز کی تمامیت و کمالیت تین چیزوں پر ہے، یعنی اس کا آغاز، درمیان اور انجام، چنانچہ اس حقیقت کا آغاز جس کا ہم یہاں تذکرہ کر رہے ہیں، گواہ (بندہ) ہے، درمیان گواہی (یعنی کلمہ) ہے اور اس حقیقت کا انجام وہ ہے، جس کے لئے گواہی دی جاتی ہے (یعنی حق تعالیٰ )۔

         گواہی دو طرح کی ہوا کرتی ہے، کہ وہ یا تو سچی ہوتی ہے، یا جھوٹی، سچی

؎۱: مشہود۔ جس کے لئے گواہی دی جاتی ہے۔

۱۰۵

گواہی گواہ کے ایک قول کی صورت میں ہوتی ہے، مشہود کی اس چیز کے اثبات کرنے کے لئے، جو واقعاً اسی کی ہو، یا کہ کسی حق یا کسی صفت کی نفی کرنے کے لئے جو بحقیقت اسی کی نہ ہو، اور جھوٹی گواہی (بھی) گواہ کے ایک قول کی صورت میں ہوتی ہے، مشہود کی ایک ایسی چیز کے اثبات کرنے کے لئے، جو دراصل اس کی نہ ہو، یا کہ کسی حق یا صفت کی نفی کرنے کے لئے، جو اسی کی ہو، جب گواہی دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے، جس کا ایک حصہ ’’لَا اِلٰہَ‘‘ کی طرح نفی اور ایک حصہ ’’اِلَّا اللہ‘‘ کی طرح اثبات ہے، پس نفی جھوٹ کی مثال ہے اور اثبات سچ کی مثال ہے، اور دینِ اسلام میں مومن کے لئے (یہ ہرگز) روا نہیں، کہ وہ کسی چیز کے بارے میں گواہی دے، جس کو اس نے نہ دیکھا ہو۔

         جب (واقعہ کو دیکھے بغیر گواہی نہ دینے کا) یہ حکم دینِ حق میں ثابت ہے، تو ہمارا یہ کہنا غلط ہوگا، کہ رسول علیہ السلام نے عادل گواہوں کے ذریعہ اس حقیقتِ حال کو معلوم کئے بغیر حق تعالیٰ کے متعلق یہ گواہی دی تھی، مگر دینِ حق میں یہ جائز ہے، کہ ایک شخص دوسرے شخص کی جگہ گواہ ہو جایا کرے، جبکہ یہ گواہی دو عادل گواہوں نے دی ہو، پھر یہ شخص (یعنی نائب گواہ) حق والے کے لئے گواہی دے سکتا ہے اس شخص (یعنی گواہِ سابق) کے قول سے، جس نے اپنی جگہ پر اس کو گواہ بنایا ہو۔

         پس میں کہتا ہوں، کہ روا نہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خدا تعالیٰ کو دیکھا ہو، کیونکہ یہ امر ناممکن ہے، لیکن اس کے لئے حق تعالیٰ کی وحدانیت پر دو عادل گواہوں نے گواہی دی، اور ساری مخلوق ان دونوں گواہوں کی گواہی سننے سے قاصر و عاجز تھی، اور ان دو گواہوں میں سے ایک تو آفاق (عالمِ جسمانی) تھا۔ دوسرا انفس تھا، کہ وہ دونوں آنحضرت کے لئے ایک واضح قول میں گواہی دے رہے تھے، کہ خدائے واحد کے سوا کوئی خدا نہیں، یہاں تک کہ آنحضرت نے حق و صداقت کے ساتھ ان کی گواہی پر گواہی دی۔

۱۰۶

         چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی یہ حدیث اس قول کی تصد یق کرتی ہے ( کہ کچھ لوگوں نے) آنحضرت سے پوچھا، کہ کون ہے، جو آپ کے اس دعوے اور قول کی گواہی دیتا ہے؟ تو رسول علیہ السلام نے فرمایا: لیَشْھَدُ لِیْ کُلُّ حَجَرٍ وَمَدَرٍ =یعنی ہر پتھر اور ڈھیلا میرے لئے گواہی دیتا ہے‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ کے قول سے اس حدیث کے ثبوت کی سند ملی ہے، جو اپنی کتاب (قرآن) کے آیۂ محکمہ میں فرماتا ہے۔

         ’’سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (۴۱: ۵۳)

         ہم ان کو اس عالم میں اور خود ان کے نفوس میں اپنی نشانیاں دکھاتے رہیں گے، یہاں تک کہ انہیں ظاہر ہوجائے کہ وہ حق ہے‘‘۔ پس اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ پوشیدہ حقانیت آفاق و انفس کی گواہیوں ہی سے ظاہر ہو جاتی ہے۔

         پس میرا کہنا ہے، کہ بندے کی طرف سے یہ قولی شہادت خدا کے لئے ہے، اور وہ دو حصوں میں ہے، ایک حصے کی نسبت مخلوق کی جانب ہے، کیونکہ گواہی دینے ولا مخلوق ہے، اور وہ نفی کا حصہ ہے، چنانچہ گواہی دینے والا ’’لَا اِلٰہَ‘‘ کی نفی کی طرح فانی ہے اور دوسرے حصے کی نسبت باری سبحانہ کی وحدانیت سے ہے، کیونکہ گواہی اسی کے لئے ہے اور وہ اثبات کا حصہ ہے، چنانچہ گواہی نے اس (وحدانیت ) کو ’’اِلّااللہ‘‘ کی طرح لازوال پائی ہے، پس شہادت سے مخلوق کا حصہ خدا تعالیٰ سے ان صفات کی نفی کرنا ہے، جو صفات جسمانیوں اور روحانیوں میں باقی ہیں، اور جو حصہ باری تعالیٰ کی وحدت کی جانب ہے، لطیف اور کثیف دونوں مخلوق کی صفات میں جو بھی چیز موجود ہے اس کے ساتھ کسی آمیزش کے بغیر اثباتِ محض کرنا ہے، نہ نفی کے طریقہ پر اور نہ اثبات کے طور پر، اور اس قول کے معنی یہ ہیں، کہ جسمانی (یعنی مخلوقِ کثیف)

۱۰۷

دکھائی دینے والی اور محسوس ہونے والی ہے، دکھائی نہ دینے والی اور محسوس نہ ہونے والی نہیں، اور روحانی (یعنی مخلوقِ لطیف) کے بارے میں کہوں گا، کہ دکھائی نہ دینے والی اور محسوس نہ ہونے والی ہے، دکھائی دینے والی اور محسوس ہونے والی نہیں، پس باری سبحانہ سے ان دونوں اثباتوں اور دنوں نفیوں کی نفی کرنا چاہئے، وہ تجھے یوں کہنا ہوگا کہ دکھائی دینے والا اور سمجھ میں آنے والا نہیں، دکھائی نہ دینے والا اور سمجھ میں نہ آنے والا نہیں، کیونکہ یہ سب مخلوق کی صفات ہیں، یہی سبب تھا کہ رسول مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم نے نفی و اثبات پر اس کلمے کی بنیاد رکھی اور آنحضرت نے اس کا آغاز نفی سے کیا، یعنی فرمایا کہ ’’کوئی معبود نہیں‘‘اور اس کا خاتمہ اثبات پر کیا، یعنی فرمایا کہ ’’مگر اللہ ہے‘‘ اس لئے کہ انسان جو گواہ ہے، پہلے تو مخلوق ہی کو سمجھ سکتا اور پا سکتا ہے کہ وہ نفی کی طرح ہے اور اس کے بعد مخلوق سے خالق کی دلیل کرتا ہے، کہ وہ اثبات کی طرح ہے، پس انسان کے قلبی اعتقاد اور اس کے زبانی قول میں صداقت ہونی چاہئے، تاکہ وہ اپنے کہنے کے مطابق زبانی طور پر باری سبحانہ سے مخلوق کی صفات کی نفی کر سکے اور سچے اعتقاد کے ذریعہ اثباتِ محض کی نگہداشت کر سکے۔

         نیز میں (یہ بھی) بتا دیتا ہوں، کہ رسول علیہ السلام نے شہادت میں نفی کا ذکر پہلے کیا، اور اثبات اس کے بعد رکھا، اس لئے کہ انسان جو خدا تعالیٰ کے لئے یہ گواہی دے رہا ہے، اولاً جسمانی وجود رکھتا ہے، کہ وہ نفی کے مانند ہے اور اخیرمیں لطیف نفس کے مکمل ہوجانے پر ( اس کا روحانی وجود) پائندہ ہو جاتا ہے کہ وہ اثبات کے مانند ہے۔

         اسی طرح بتا دیتا ہوں کہ رسول علیہ السلام نے شروع میں صرف یہی قول کہلانا چاہا کہ جب کہا گیا تو وہ (قول صوتی وجود سے) ختم ہوا، کیونکہ وہ نفی ہے، اور اخیر میں ہم سے ہمارے دل کا سچا اعتقاد چاہا، کہ وہ ختم نہیں ہوتا ہے،

۱۰۸

کیونکہ وہ اثبات ہے، اور اس قول کے قائل (یعنی کلمہ پڑھنے والے) کو جینے دیا اور اس کا مال نہ چھینا جو یہ دونوں چیزیں قولِ فانی کی طرح جسمِ فانی کے حصے میں آئی ہیں اور خالص اعتقاد والوں کے لئے، کہ وہ باقی ہے، بہشتِ باقی کا وعدہ کیا، اور اس شہادت کی حقانیت کی دلیل، جو رسول علیہ السلام نے لائی اور ہم پر اس کا کہنا اور اس پر اعتقاد رکھنا لازم کردیا، یہ ہے کہ مذکورہ شہادت دو قسم کی مخلوق کے مطابق ہے، کہ ایک مخلوق جسمانی اور کثیف ہے، یعنی یہ عالم، جو نفی کی طرح فانی ہے، دوسری لطیف اور روحانی ہے، یعنی وہ عالم جو اثبات کی طرح باقی ہے، اور جس خدا کے لئے یہ شہادت ہے، وہ ان دونوں مخلوقات کا خالق ہے، اور وہی عقلِ کل اور نفسِ کل جیسے جفتِ بسیط (غیر مرکب جوڑے) کا پیدا کرنے والا ہے، کسی چیز سے نہیں (بلکہ امرِ محض سے) جس کی مثال یہی شہادت ہے، جو نفی و اثبات سے ہے، نہ کہ کسی اور قول سے لی گئی ہے، نیز شہادت ایک اور دو کے حساب کے ساتھ برابر ہے (کہ اس میں نفی مقامِ اول پر اور اثبات مقامِ دوم پر ہے) کہ یہ ایک اور دو بسیط اور روحانی اعداد میں سے ہیں، اسی طرح دو ایک کے مجموعے سے تین کا عدد بنا ہے، کہ مرکب اور طاق ہے، جو عالمِ دین کے جد، فتح اور خیال جیسے تین فروع کے برابر ہے، اور عالمِ جسمانی میں طول ، عرض اور عمق جیسی تین مسافتیں ہیں، اسی طرح شہادت کی ترکیب تین حروف سے ہے، اور وہ حرف غیر مکرر حالت میں الف، لام اور ھا ہیں، پھر حساب میں تین کے بعد چار آتا ہے، جو دو اور تین کی وساطت سے پیدا ہوا ہے چنانچہ عالمِ دین میں باری سبحانہ کے امر سے عقل و نفس کی وساطت سے، پھر ان تین روحانی فروع کی وساطت سے جن کا ہم نے ذکر کیا، اساسین یعنی ناطق، اساس اور فرعین (دو فرع) یعنی امام و حجت جیسے چار فروع پیدا ہوئے ہیں، اسی طرح عالمِ جسمانی میں دو اور تین کے بعد چار عناصر پیدا ہوئے ہیں، کہ دو: ہیولیٰ و صورت ہیں اور تین: طول،

۱۰۹

عرض اور عمق کی مسافتیں ہیں، اسی طرح شہادت کے دو حصوں اور تین حروف سے چار کلمات کی ترکیب ہوئی ہے، جب گنتی چار تک پہنچتی ہے، تو اس کا پہلا حصہ مکمل ہو جاتا ہے، اس لئے کہ پہلا حصہ طاق اور جفت پر مشتمل ہے، جس میں ایک: طاقِ محض، دو: جفتِ محض، تین: طاقِ مرکب اور چار: جفتِ مرکب ہیں، اور چیزیں یا تو بسیط ہوتی ہیں یا مرکب، پس لازم آتا ہے کہ جب بسیط طاق (۱) اور جفت (۲) کے اعداد مرکب طاق و جفت (۳، ۴) کے اعداد کے ساتھ آئیں، تو اس کی اصل تمام ہو جاتی ہے۔

اعداد کی قسمتِ اوّل کی توضیح

         پس بتا دیتا ہوں کہ گنتی میں چار کے بعد بھی ترکیب آتی ہے، اور سب سے

۱۱۰

پہلے اس ترکیب سے سات بنتا ہے، وہ اس طرح کہ طاقِ مرکب (۳) اور جفتِ مرکب (۴) جمع کرنے سے سات حاصل آتا ہے، اور عالمِ دین میں اس کے برابر سات امام ہیں، جو چار اصول اور تین روحانی فروع کے بعد انہی کا مقام ہے، اور عالمِ جسمانی میں سات چلنے والے ستارے ہیں، اسی طرح شہادت کے ان چاروں کلمات کے سات پارے ہیں، پھر میرا کہنا ہے، کہ گنتی میں سات کے بعد ( جو تین اور چار کی ترکیب سے ہے) بارہ ہے، کہ وہ تین کو چار میں ضرب دینے سے حاصل آتا ہے، عالمِ دین میں اس کے برابر بارہ حجت ہیں، اور عالمِ ترکیب میں بارہ برج ہیں، جس طرح یہ شہادت نفی و اثبات جیسے دو معنوں، تین حرفوں، چار کلموں، سات پاروں اور بارہ (مکرر) حرفوں سے ہے، تو معلوم ہوا کہ گنتی کی ترکیب کے ساتھ اور عالمِ جسمانی و عالمِ دین کی آفرنیش کے ساتھ شہادت کی مطابقت ہے۔

۱۱۱

کلمۂ اخلاص کی مطابقت و موافقت حساب، عالمِ دین اور عالمِ جسمانی کے ساتھ

حساب کلمۂ اخلاص عالمِ دین عالمِ جسمانی
ایک کلمہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ ۔ امرِ کلی کائنات
دو معنی (نفی و اثبات) لَا الٰہَ۔ اِلاّ اللہ عقلِ کل۔ نفسِ کل ہیولیٰ ۔ صورت
تین حروفِ اصل ا ل ہ جد۔ فتح۔ خیال طول۔ عرض۔ عمق
چار الفاظ لَا، اِلٰہ، الّا ، اللہ ناطق، اساس، امام، حجت آگ۔ ہوا۔ پانی۔ مٹی
سات پارے لا، ا ، لہ، ا، لا، ا، للہ سات امام سات سیارے
بارہ حروفِ مکرر ل، ا، ا، ل، ہ، ا، ل، ا، ا، ل، ل، ہ بارہ حجت بارہ برج

         پس گنتی اور مذکورہ دونوں عالم کی گواہی سے یہ ظاہر ہوا کہ یہ گواہی برحق ہے، پھر بتاؤں گا، کہ جس طرح یہ شہادت نفی و اثبات جیسے دو معنوں سے ہے اور الف، لام اور ھا جیسے تین حروف سے ہے، اسی طرح امہات میں سے اس کی برابر دو ۲ بسیط ہیں، یعنی آگ اور ہوا، اور دو مرکب ہیں، یعنی پانی اور مٹی اور ان کے پانچویں کی حیثیت سے موالید (جمادات، نباتات اور حیوانات) ہیں۔

         اسی طرح انسان جو کائنات کا پھل ہے، جو جسم اور روح ہے، وہ دس قوتوں پر قائم ہے، جن میں سے پانچ لطیف ہیں، جیسے فکر، ذہن، خاطر، حفظ اور ذکر، اور پانچ ان میں سے کثیف ہیں، جیسے سمع، بصر، شم، ذوق اور لمس، اسی طرح شہادت میں پانچ الف ہیں، پانچ لام ہیں اور دو ھا ہیں، پس شہادت کے دو ھا کا اشارہ یہ دو حصے (روح اور جسم ) ہیں جو انسان رکھتا ہے، اور شہادت میں

۱۱۲

پانچ الف ہیں، یہ پانچ الف ان پانچ حواسِ باطن کی مثال ہیں، جو انسان میں لطیف ہیں، اور پانچ لام ان حواسِ ظاہر کے مانند ہیں، جو انسان میں کثیف ہیں، اور شہادت کے دو ۲ (میں سے ایک) تو جسمِ انسانی کی مثال ہے، کیونکہ پانچ حواسِ ظاہر اسی کے ہیں، اور (دوسرا ھا) نفسِ انسانی کی مثال ہے کیونکہ پانچ حواسِ باطن اسی کے ہیں۔

         پیغمبر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے عظیم دلائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آنحضرت نے ان تین حروف سے توحید کے بارے میں ایک ایسا قول کہا، جس میں آنحضرت کا مشکل ترین علم موجود ہے، اتنے معنوں کے ساتھ جو اس میں ہیں، کہ اگر دنیا کے سب لوگوں کو اس امر کے لئے تکلیف دی جائے، تاکہ وہ ان تین حروف پر مشتمل کوئی ایسی بات بنائیں، کہ وہ جس بارے میں بھی ہو (کلمۂ شہادت کی طرح) معنی دار ہو تو دنیا والے اس سے عاجز رہیں گے، پھر دانشمند کے لئے ظاہر ہے، کہ آنحضرت کی یہ علمی قوت خالقِ کائنات ہی کی عطا ہے۔

         نیز بتاؤں گا، کہ شہادت مجموعی طور پر اجزائے عالم کے مطابق ہے، اس لئے کہ عالم حدِ ترکیب (تخلیق) میں قائم ہوا ہے، تاکہ انسانِ تمام (یعنی انسانِ کامل) کو ظاہر کیا جائے، کیونکہ اس عالمِ جسمانی کا حاصل وہی ہے، اسی طرح شہادت حدِ تالیف میں قائم ہوئی ہے تاکہ قولِ تمام کو ظاہر اور ثابت کر دیا جائے، کیونکہ ساری شہادت سے مراد وہی ہے، اور وہ قول ’’اللہ‘‘ ہے، جس طرح ساری کائنات سے مراد انسان ہے، جب ہم نے کلمۂ شہادت کا مشاہدہ کیا، تو اس کو ترکیب ، فصول اور حروف (کے حساب میں) عالمِ جسمانی کے برابر دیکھ پاتا، اس لئے کہ عالم ایک ہے اور شہادت بھی ایک ہے، اور عالم کے دو حصے ہیں، جن کا ایک حصہ کارکن اور پائیدار ہے، جیسے سماوات اور ستارے، اور دوسرا حصہ کار پذیر  اور ایک حالت سے دوسری حالت میں بدل جانے والا ہے، جیسے امہات (مائیں، یعنی عناصرِ اربعہ) اسی طرح شہادت دو ۲ حصوں میں ہے، ایک حصہ نفی کا ہے (مذکورہ)

۱۱۳

کارپذیر اور ناپائیدار کی طرح، اور دوسرا حصہ اثبات کا ہے، کارکن اور پائیدار کی طرح، اور چار امہات کی قوت سے جو آگ، ہوا، پانی اور زمین ہے، دنیا کی خلقتیں پیدا کی گئی ہیں، (جیسے جمادات، نباتات اور حیوانات) اسی طرح کلمۂ شہادت چار کلمات سے بنا ہے، جیسے لا۔۱ الٰہ۔۲ اِلاّ ۔۳ اللہ ۔۴ ، اور عالم اپنی تخلیقات پر سات سیاروں کے ذریعہ اثر ڈالتا ہے، جس طرح شہادت سات پاروں سے مکمل ہوئی ہے، اور موالید میں تاثیر کرنے والے ان سات سیاروں کا اپنا چکر مکمل ہوچکا ہے، نیز جس طرح عالمِ جسمانی کی ترکیب تین مسافتوں سے پیدا ہوئی ہے، جو لمبائی، چوڑائی اور گہرائی ہیں، اسی طرح شہادت کی تالیف تین حروف سے پیدا ہوئی ہے، جو الف ، لام، اور ھا ہیں، جس طرح انسان کائنات کی ترکیبی سالمیت کا ایک جزو ہے، اور کائنات سے مقصود وہی ہے، اسی طرح کلمۂ ’’اللہ‘‘ شہادت کا ایک جزو ہے اور شہادت سے مقصود وہی ہے، اور یہ دو مقاصد یعنی نامِ اللہ اور انسان ایک دوسرے کے مانند ہیں۔

         اس قول کا بیان یہ ہے، کہ انسان ایک شخصیت ہے، جس طرح نامِ ’’اللہ‘‘ ایک قول ہے اور انسان کی دو حقیقتیں ہیں، ایک جسم، دوسری روح، اور کلمۂ ’’اللہ‘‘ کے دو پارے ہیں، جیسے کہ: ا۔للہ اور انسان کی ترکیب چار طبیعتوں سے ہے، جیسے صفرا، سودا، خون اور بلغم، اسی طرح کلمۂ ’’اللہ‘‘ کی ترکیب چار حروف سے ہے، کہ ایک الف، دو۲لام، اور ایک ھا ہیں اور انسان کا قیام ان سات۷ اعظائے رئیسہ پر ہے، جو اس کے اندر ہیں، اور لفظِ ’’اللہ‘‘ کے چار حروف بمع ان حروف کی درمیانی کشادگی سات ہیں، اس طرح: ا ل ل ھ، اور انسان میں بارہ مجرا (جاری ہونے کی جگہ) ہیں، جن میں سے نو۹ کھلے ہیں، جیسے دو۲ آنکھیں، دو۲کان، دو۲ نتھنے، ایک منہ اور دو شرمگاہیں اور ان بارہ مجراؤں میں سے تین بند ہیں، جیسے: دو پستان اور ناف، اسی طرح حروفِ ’’اللہ‘‘ کا حساب بارہ ہے، اس وجہ سے الف کا حساب ایک ہے، دو۲ لام کا ساٹھ اور ھا کا پانچ

۱۱۴

ہے، جس کا مجموعہ چھیاسٹھ ہوتا ہے، اور ساٹھ کے چھ عقد ہوتے ہیں (یعنی چھ دفعہ دس) اور اس چھیاسٹھ کی اکائیاں یعنی چھ جو الف اور ھا ہیں یکم اور پنجم ہیں جن کا مجموعہ اکائیوں کے حساب سے بارہ ہوتا ہے (۱+ ۵ +۶ = ۱۲) اور انسان میں نامی، حسی اور ناطقی تین نفوس ہوتے ہیں، کلمۂ اللہ الف، لام اور ھا کے تین حروف سے ہے، جس طرح عالمِ جسمانی کا آغاز طول، عرض اور عمق کی تین مسافتوں سے ہے، اور اس کا انجام اس کے موالید (یعنی معدنیات ، نباتات اور حیوانات) ہے، جو چار عناصر سےپانچویں چیز ہے، اسی طرح شہادت کا آغاز حرفِ لام سے ہے، جو حساب میں پانچ ہے، پس تین عقد ہوتے ہیں اور شہادت کا خاتمہ ھا ہے، جو حساب میں پانچ ہے، پس عالمِ ترکیب (یعنی کائنات) نے اپنے آغاز و انجام اور اپنے تمام اجزأ کے ذریعہ گواہی دی، کہ یہ شہادت میرے خالق کے لئے ہے اور آفرنیش (یعنی عالمِ انفس) نے بھی اس کی سچائی پر گواہی دی۔

         نیز کہوں گا، کہ (لفظِ اللہ کے) الف اور لام عربی زبان میں علامتِ معرفہ ہے اور لام و ھا معرفہ نہیں ( اور یہ تجھے اس وقت معلوم ہوگا) جبکہ تو خوب سمجھے، کہ الف اور لام کو عربی زبان میں ’’حرفِ تعریف‘‘ کہتے ہیں، چنانچہ کوئی اسم جس کے معنی معرف نہ ہوں، مثلاً: رَجُلْ اور وہ چاہتے ہیں، کہ اس معین کریں، تو الف اور لام اس کے شروع میں لگا کر اَلرَّجُلُ کہتے ہیں، جس سے ایک معین مرد مراد لیتے ہیں، اور جب الف و لام اس نام میں لگ جائیں تو وہ نام ان کے نزدیک معروف یعنی یعنی پہچانا ہوا ہوتا ہے، چنانچہ کہوں گا: اَلرَّجُلُ، اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ، پاس عرب والے ہر اس نام کو مُعَرَّف یعنی پہچانا ہوا کہتے ہیں، جس کے شروع میں الف اور لا آیا ہو، یہ اس لئے ایسا ہے، کہ الف عقل کی دلیل ہے، چنانچہ ہم نے اس کتاب میں قبلاً اس کا ذکر کر دیا ہے، کیونکہ الف سب سے پہلا حرف ہے، جس طرح عقل بغیر کسی چیز سے سب سے پہلے پیدا کی گئی ہے، لام، الف کے مانند ہے، کیونکہ لام دو لکیروں سے مرکب ہے،

۱۱۵

جیسے: ’’ل‘‘ اور الف ایک لکیر ہے، جیسے: ’’ا‘‘ اور لام نفسِ کل کی دلیل ہے، جو عقل کی وساطت سے پیدا ہوا ہے، اور یہ دوسری چیز ہے، جیسا کہ لام دو لکیروں کی شکل میں ہے، جیسے: ’’ل‘ اور تمام چیزوں کی پہچان عقل اور نفس کے ذریعہ سے ہوتی ہے، اسی طرح یہ دو حرف (الف و لام بھی) سارے حروف میں آتے ہیں، (جس طرح البا ٔ، الثا ٔ، الجیم، الحا ٔ، الخا ٔ، الدال، الذال وغیرہ) پھر وہ ان حروف کے بنے ہوئے الفاظ میں بھی کثرت سے آتے ہیں۔

         حروف کی ترتیب میں الف اور لام کے درمیان اکیس ۲۱ حروف واقع ہیں، اور اس ترتیب میں پہلے الف ہے، پھر لام، مگر کلمۂ شہادت میں پہلے حرف لام ہے اور اس کے بعد الف ہے، کیونکہ یہ لوگوں کے لئے اس بات کا اشارہ ہے کہ انسان میں پہلے تو نفس اپنا اثر ڈالتا ہے، اور انسان اس وقت نادان ہوتا ہے، او ر اس کے بعد عقل اس کے ساتھ متعلق ہو جاتی ہے، تاکہ وہ دانا ہو، اور کچھ اس دنیا میں پہلے پیدا ہوتا ہے، تو جاننا چاہئے کہ وہ اُس عالم میں اخیر میں ہے پس اِس عالم میں نفس کا عقل سے پہلے پیدا ہوجانا، اس حقیقتِ حال کی دلیل ہے کہ اس عالم میں پہلے عقل ہے اور نفس اسی سے پیدا ہوا ہے۔

         جب ہمیں یہ ترتیب معلوم ہوئی، تو بتائیں گے، کہ شہادت میں پہلے حرفِ لام لایا گیا ہے، جو نفس کی دلیل ہے، اس کے بعد حرفِ الف لایا گیا ہے جو عقل کی دلیل ہے، تاکہ ہم سمجھیں اور جانیں، کہ ہم نفس ہی کے راستے سے عقل کو حاصل کر سکتے ہیں، اسی طرح ہم اساس ہی کے راستے سے (جن کو اس عالم میں نفسِ کل کا درجہ ہے) ناطق کو پہچان سکتے ہیں جن کو اس عالم میں عقلِ کل کا درجہ ہے، اور حروف کی ترتیب میں الف اور لام کے درمیان اکیس ۲۱ حروف واقع ہیں، اس لئے عقل کہ فائدہ بخشی اور نفس کی فائدہ پذیری کے درمیان اس عالم میں شخصیت ہی کا راستہ ہے (جس میں اکیس ۲۱ شخصیتیں آتی ہیں) یعنی عالمِ دین میں اکیس ۲۱ حدود ہیں، جیسے ناطق، اساس، سات امام، اور بارہ حجت، اسی طرح عالمِ ترکیب

۱۱۶

(تخلیق) میں، جس میں نفس کو عقل کی تائید حاصل ہے، عقل کی اس تائید اور تخلیق کی تکمیل کے درمیان اکیس ۲۱ حروف کے برابر جسم، روح، سات اعضائے رئیسہ، یعنی دماغ، دل، کلیجہ، پھیپڑے، پِتا، تلی، گردے اور بارہ مجرا ہیں، لام نفس کی دلیل ہے اور ھا ناطق کی دلیل ہے اور حروف کی ترتیب میں لام و ھا کے درمیان تین حروف واقع ہیں (ل [م ن و ] ہ) جس طرح نفسِ کل اور ناطق کے درمیان تین روحانی حدود ہیں، جیسے، جد، فتح اور خیال، اور حروف ’’حا‘‘ کے بعد ’’یا‘‘ ہے، اور وہ اس حقیقت کی دلیل ہے، کہ ناطق محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے بعد صرف ایک ہی حد ہے، اور وہ قائم علیہ السلام ہیں، اور اس قول کی سچائی پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی حدیث گواہی دیتی ہے: ’’بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَا تَیْن، یعنی میں اور قیامت (قائم) ان دو(انگلیوں) ہی کی طرح ساتھ ساتھ بھیجے گئے ہیں۔‘‘ یعنی کہ ان دونوں حضرات کے درمیان کوئی دوسرا درجہ نہیں۔

         پس کہوں گا، کہ ان چار عظیم حدود میں سے عقل و نفس دونوں روحانی ہیں، اور ناطق و اساس دونوں جسمانی ہیں، اور ایک روحانی، ایک جسمانی کے ساتھ ایک ہی مرتبے میں ہیں، چنانچہ عقل اساس کے ساتھ اور نفس ناطق کے ساتھ ایک ہی مرتبے میں ہیں اور ایک (یعنی عقل) تو صاحبِ تائید ہے، جو ابتدا و آغاز وہی ہے، اور دوسرا (اساس) صاحبِ تاویل ہیں، کہ چیزوں کے معنی کو حالِ اول پر لے جایا کرتے ہیں، اور نفس ناطق کے ساتھ ایک ہی مرتبے میں آجاتا ہے، کیونکہ ایک تو ترکیبِ عالم کا مالک ہے ، اور دوسرا تالیفِ شریعت کا مالک ہے، اور اجسام کی ترکیب اور قول کی تالیف دونوں ایک جیسی ہیں، پس کہوں گا کہ شہادت کے چار کلمات چار اصول کی دلیل ہیں، جس میں ہر کلمہ ایک اصل کے مقابل ہے، لا اساس کی دلیل ہے، کیونکہ وہ

۱۱۷

اپنی تاویل کے ذریعے عالمِ لطیف و کثیف دونوں کی چیزوں کو توحید کے مشابہ ہونے سے نفی کرتے ہیں، جس طرح یہ کلمہ (لا) دو حرف پر مشتمل ہے، ایک الف ہے، لطیف و بسیط کی طرح اور دوسرا لام ہے، کثیف و مرکب کی طرح اور جو کوئی ان دو ۲ تشبیہوں کو توحید سے نفی کرتا ہے، تو اس نے خدا تعالیٰ کی توحید کے متعلق نفی بجالائی ہے، اور کلمۂ ’’الٰہ‘‘ ناطق پر دلیل ہے، کہ وہ جسمانیوں میں سب سے پہلا شخص ہیں جنہوں نے لوگوں کو خدا کی پرستش کی طرف بلایا، اور یہ کلمہ تین حروف پر مبنی ہے، جس طرح رسالت، وصایت اور امامت ناطق کے تین مرتبے ہیں اور اساس کے دو مرتبے ہیں، ایک وصایت، یعنی اساسیت کا دوسرا امامت کا۔ جس طرح لفظِ اساس دو حرفوں (الف اور سین ) سے ہے، نیز ناطق کا مادہ (تائید) جد، فتح اور خیال جیسے تین روحانی فروع سے ہے، اور اساس کا مادہ (تائید) فتح اور خیال سے ہے، اور جد سے اُن کی بہرہ یابی تو ناطق کی وساطت سے ہے، ذاتی طور پر نہیں، اور کلمۂ الا ثانی (نفسِ کل) پر دلیل ہے، اس لئے کہ ثانی ہی تھا، جس نے خدا کو اول (عقلِ کل) سے برتر مانا، اور جبکہ انتہائی عاجزی کے ساتھ اس نے خدا کی فرمانبرداری کی تو اس نے عقل کے مبدِع (یعنی عقل کو کسی مادہ کے بغیر پیدا کرنے والے) کو دیکھ پایا، اور کہا، کہ نہ میں خدا ہوں، نہ مرا سابق، کوئی نہیں، مگر جس نےاپنی وحدت سے میرے سابق یعنی (فرشتۂ) عقل کو پیدا کیا، اور یہ کلمہ (الا) بھی تین حروف پر مشتمل ہے، جس طرح لفظِ ثانی یعنی نفس تین حروف (ن ف س) سے ہے۔ ثانی ترکیب کا مالک ہے، اور ناطق تالیف کے مالک ہیں اور تالیف و ترتیب کے درمیان مناسبت ہے، اور لفظِ ثانی کے تین حروف کے معنی یہ ہیں کہ وہ تین مراتب کا مالک ہے، چنانچہ وہ عقل سے بلاواسطہ فائدہ حاصل کرتا ہے، عالمِ ترکیب کا مالک ہے، اور عقلِ کل سے ناطق کی طرف تائید بھیجنے والا ہے اور کلمۂ ’’اللہ‘‘ عقلِ کل پر دلیل ہے، کیونکہ وہ ساری لطیف

۱۱۸

اور کثیف مخلوقات کی انتہائی ہے، جس طرح یہ کلمۂ ’’اللہ‘‘ شہادت کی انتہا ہے، اور اثبات کا کلمہ ہے جیسے اِلّا نفی کا کلمہ ہے، یعنی توحید کا اثبات عقلِ کل سے ظہور میں آیا ہے، اگر ثانی عاجزی کے ساتھ عقل کے پیدا کرنے والے (مُبدِع) کی فرمانبرداری نہ کرتا تو کوئی (روحانی و جسمانی) مخلوق خدا تعالیٰ کو عقل سے برتر قرار نہ دے سکتی اور کلمۂ اللہ چار حروف کا ہے، جس کی وجہ یہ ہے، کہ اساس کی تاویل، ناطق کی تالیف، ثانی کی ترکیب اور اول (عقلِ کل) کی تائید سب کی سب سابق یعنی عقلِ کل کی ہویت (حقیقت) میں یکجا ہیں، اور یہ بہشت کی وہ چار نہریں ہیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے پرہیزگاروں سے کیا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا أَنْهَارٌ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِنْ خَمْرٍ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ وَأَنْهَارٌ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّى (۴۷: ۱۵)

         اس جنت کی مثال جس کا وعدہ متقیوں سے کیا گیا ہے (یہ ہے) کہ اس میں بہت سی نہریں تو ایسے پانی کی ہیں، جس میں ذرا تغیر نہ ہوگا، اور بہت سی نہریں دودھ کی ہیں، جن کا ذائقہ ذرا بدلا ہوا نہ ہوگا۔ اور بہت سی نہریں شراب کی ہیں جو پینے والوں کو بہت لذیذ معلوم ہوں گی اور بہت سی نہریں شہد کی ہیں جو بالکل صاف ہوگا۔‘‘

         بہشت کی تاویل کلمۂ باری ہے، اور مذکورہ چار نہریں یہی چار حدود ہیں، کیونکہ انہی (چار نہروں کے ذریعہ عالمِ روحانی کی نہروں میں سے ہر ایک میں کلمۂ باری کے مایہ سے ایک ایک حصہ روان ہے، اس لئے کہ ساری روحانی و جسمانی چیزوں کی زندگی اسی سے ہے، اور اس پانی سے مراد جو کلمۂ باری سے عقل کی نہر میں بہہ گیا، عقل کے ماتحت حدود ہیں، جس طرح پانی مٹی کے ساتھ مل جانے سے نباتات اور حیوانات پیدا ہوئے ہیں، اسی طرح عقل کلمۂ باری کے ساتھ

۱۱۹

متحد ہونے سے ثانی، جد، فتح، خیال اور دوسرے علوی و سفلی حدود پیدا ہوئے ہیں، پس یہ پانی (جو عقل کی نہر سے بہہ رہا ہے) گندہ ہونے والا نہیں، یعنی اپنے حال سے بدل جانے والا نہیں، نہ اس کی ذات میں تغیر آتا ہے، اس قول کی درستی پر دلیل یہ ہے، کہ جب انسان کسی چیز کو اپنی عقلی قوت سے معلوم کر لیتا ہے تو ہمیشہ کے لئے اس چیز کو ویسی ہی حالت میں دیکھ پاتا ہے، جیسے کہ اس نے پہلے دیکھ پایا تھا، کیونکہ وہ چیز (عقلی مشاہدہ میں) اپنی حالت سے بدلتی نہیں، چنانچہ پانی فعل میں سرد ہے، اب پانی جس قدر بھی عارضی گرمی قبول کرے عقل جانتی ہے، کہ اس کا جوہر سرد اور تر ہی ہے، اور اس کو وہ ویسا ہی دیکھ پاتی ہے، جیسا کہ وہ (اپنی اصلی طبیعت میں) ہے اور کلمۂ باری سبحانہ سے نفسِ کل میں دودھ بہہ گیا ہے، جو ہر بچہ کی غذا ہے، اور حیوان کو دودھ کے ذریعہ اپنی قسم کا ایک بچہ حاصل آتا ہے، اور (نسلی طور پر) اس کی ذات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، اسی طرح نفسِ کل سے اس عالم کی ترکیب (تخلیق) پیدا ہوئی، تاکہ اس تخلیق کے نتیجے میں ایک ایسا فرزند ظہور میں آئے، جو نفسِ کل کے تمام فوائد کو قبول کر سکے اور وہ قائمِ قیامت علیہ السلام کی حیثیت سے ایک مرد ہیں، جو نفسِ کل کے سارے فوائد کو صرف وہی قبول کر سکیں گے، اور کلمۂ باری سبحانہ سے ناطق میں شراب بہہ گئی ہے جس سے جسم کی قوتیں میسر ہوتی ہیں، اور جس سے لوگ حیران یا بکواسی ہو جاتے ہیں۔ پس اس طرح ناطق سے شریعت کی تالیف ہو چلی ہے، جس کے ذریعہ عادات و خواہشات محفوظ رہ سکتی ہیں، جس طرح شراب سے جسم طاقتور ہو جاتا ہے، اور ان تمثیلات و اشارات کی وجہ سے جو کتاب (قرآن) اور شریعت میں ہیں، لوگوں میں اختلاف پڑا ہے جس کے سبب سے لوگ حیران اور بیہوش ہوئے ہیں، جس طرح شراب کے پینے سے بیہوش ہو جاتے ہیں، اور کلمۂ باری سبحانہ سے اساس میں شہد بہہ گیا ہے، جو میٹھا اور دلپسند ہے، اور اس میں ان بیماریوں سے صحت یابی ( کی تاثیر)

۱۲۰

ہے ، جو تری کی زیادتی سے پیدا ہو جاتی ہیں، اور اس میں طبیعت کی گرمی بڑھانے کی قوت موجود ہے، اسی طرح اساس سے کتاب اور شریعت کی تاویل آئی جس کے ذریعہ حیرت اور اختلاف ختم ہوگیا، اور حق کی سچائی ظاہر ہوئی اور جن پرہیزگاروں سے اللہ تعالیٰ نے بہشت کا وعدہ کیا ہے ان سے سات امام اور بارہ حجت مراد ہیں، اور یہی چار چیزیں ہیں، جن کے ناموں کے حروف گیارہ ہیں، جیسے: ما ، لبن، خمر، عسل (م ال ب ن خ م ر ع س ل =  ۱۱ ، پس یہ گیارہ حروف) چار حدود اور سات اماموں کی دلیل ہیں، اور اس میں یہ اشارہ ہے، کہ عالمِ علوی کی ان چار نہروں کے ذریعہ سات اشخاص کا ظہور ہوا ہے، ادوار میں سے ہر دور میں ان کے نور کو پھیلانے کے لئے اور خدا تعالیٰ نے انہی چار حدود کی قسم کھائی ہے، چنانچہ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ وَطُورِ سِينِينَ وَهَذَا الْبَلَدِ الأَمِينِ (۹۵: ۱ تا ۳)

         قسم ہے انجیر کی، اور زیتون کی اور طورِ سینین کی اور اس امن والے شہر کی‘‘۔ پس بتاؤں گا، کہ انجیر سے اللہ تعالیٰ کی مراد سابق (عقلِ کل) ہے، جو کسی واسطہ کے بغیر کلمۂ باری سے ملا ہوا ہے، اور اس کو انجیر کا نام اس لئے دیا کہ انجیر کا بیرونی و اندرونی حصہ کھانے کے قابل ہے، طبیعت اس کی کوئی چیز واپس نہیں کرتی، اس قبول کرتی اور پورے انجیر کو اپنی غذا بنا لیتی ہے، جس طرح کوئی پاکیزہ نفس عقل کے سارے فوائد کو قبول کرتا ہے، اور ان میں سے کسی چیز کی تردید نہیں کرتا اور عقل کے فوائد ہی نفس کے لئے غذا ہیں ، [ روحانی بالیدگی اور تکمیل کے بعد] صورتِ لطیف پیدا کرنے کے لئے۔

         زیتون نفسِ کل کی مثال ہے، کیونکہ عقلِ کل کے فوائد بلاواسطہ وہی قبول کر سکتا ہے، اور اس کی مثال زیتون سے اس لئے دی گئی ہے، کہ زیتون کا کچھ حصہ تو کھانے کے قابل ہے، جیسے تیل اور چھلکا، اور کچھ حصہ پھینک دینے کے قابل

۱۲۱

ہے، جیسے گٹھلی اور پھوک، جس کے معنی یہ ہوئے، کہ ہر وہ نفس جو پاکیزہ ہو، عقل کی اطاعت کرتا ہے، جو کچھ اس کو عقل فرمادیتی ہے، اور وہی نفس عقل کے نزدیک پسندیدہ اور مقبول ہو جاتا ہے، زیتون کے تیل اور اس کے پھل کے چھلکے کی طرح، جو کھانے کے قابل ہے، اور ہر وہ نفس جو ناپاک اور کمینہ ہے عقل کی اطاعت نہیں کرتا، جو کچھ وہ اسے فرمادیتی ہے، نہ وہ رکتا ہے، جس چیز سے وہ اسے روک لینا چاہتی ہے، وہ عقل کے فوائد قبول نہیں کرتا، اور اپنی خواہشات کے پیچھے چلتا ہے، تو وہ شخص زیتون کی گٹھلی اور پھوک کی طرح دھتکارا ہوا، پھینکا ہوا اور ذلیل کیا ہوا ہے، یہی وجہ تھی کہ جس سے بعض نفوس کو ثواب اور بعض کو عذاب لازمی ہوا۔

         طورِ سینین ناطق کی مثال ہے، کیونکہ انہوں نے نفسِ کل کے فوائد کو پوشیدہ طور پر قبول کیا ہے، اور انہوں نے یہ فوائد دنیا والوں کی شریعت کے ذریعہ پہنچایا، اور اساس مقرر کر دیا، تاکہ وہ شریعت کی تاویل لوگوں کو پہنچاتے رہیں اس لئے کہ طورِ سینین ایک پہاڑ ہے اور اس پہاڑ کا ظاہر بدنما، کھردر اور سیاہ ہے، کہ ہمیشہ کے لئے سامنے کھڑے نظر آنے کی وجہ سے اس کے دیکھنے والے کو اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے، مگر اس پہاڑ کے اندر ایسے گرانمایہ اور بہترین جواہر ہیں، کہ دیکھنے والے کو ان کے دیکھنے سے مسرت ہوتی ہے، جیسے یاقوت، زمرد، بیجاوہ، سونا، چاندی، پیتل، تانبا اور دوسرے جواہر، پس اسی طرح ناطق کی شریعت ظاہراً شک اور اختلاف پر ہے اور دانشمند کو اس کے قبول کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ لیکن جب تاویل کے ذریعے وہ اس کے حقائق تک رسا ہو جائے اور اس کے معنوں کو سمجھے، تو دانشمند کا نفس اسے قبول کرتا ہے، اور مطمئن ہو جاتا ہے، پھر وہ اس سے اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا، جس طرح پہلے بغیر معنی کے ظاہر شریعت سے وہ اکتا گیا تھا، چنانچہ پہاڑ اپنے باطن ہی میں پوشیدہ طور پر ستاروں کے فوائد قبول کرتا ہے، اور ناطق بھی اپنے باطن ہی میں پوشیدہ طور پر حدودِ علوی کے فوائد کو قبول کرتے ہیں۔

۱۲۲

         ھٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ اساس کی مثال ہے، کیونکہ انہی کے ذریعہ دانشمند کو ظاہر کے شکوک و شہبات سے امن ملا، اور جو کوئی ان کی تاویل تک پہنچ نہ سکا، تو وہ اختلافات اور شبہات کے راستے پر چلنے لگا، اور جو شخص ان کی تاویل تک رسا ہوا تو اس نے ظاہری اختلافات سے چھٹکارا پایا، اور ان چار چیزوں میں سے، جن کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے، دو چیزیں تو نباتات ہیں، اور دو چیزیں مقامات ہیں، اور کسی مقام کے بغیر نباتات کا اگنا ناممکن ہے، پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ عقل و نفس روحانی ہیں، جیسے کہ نباتات کی روح ہوتی ہے، اور ناطق و اساس جسمانی ہیں، لیکن یہ دونوں نباتات (انجیرو زیتون) پہاڑ اور شہر میں پیدا ہوتی ہیں اسی طرح عقلِ کل اور نفسِ کل کے فوائد اور انوار ناطق و اساس ہی کے ذریعے ظہور پذیر ہو جاتے ہیں، مذکورہ روحانی و جسمانی دونوں قسم کے میوؤں کے لذت صرف وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں، جو ان میوؤں کو کھاتے ہوں ’’وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ‘‘ دونوں ایک ایک کلمہ ہیں، وَطُورِ سِينِينَ وَهَذَا الْبَلَدِ الأَمِينِ ‘‘ دونوں دو ۲ دو ۲ کلمے ہیں، تاکہ دانشمند یہ سمجھ سکے، کہ عقل و نفس جو روحانی ہیں، ایک ہی حال پر قائم ہیں، اور ناطق و اساس جو جسم اور روح ہیں، دو حالات کے مالک ہیں۔

         اسی طرح ذیل کی آیت سے اللہ تعالیٰ کا مقصود چار اصول ہی ہیں جس میں ارشاد فرماتا ہے، اور اصحاب الیمین (یعنی داہنے والوں) کے لئے بہشت کا وعدہ فرماتا ہے، اور وہ علمِ حقائق والے ہیں، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ  وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ وَظِلٍّ مَمْدُودٍ وَمَاءٍ مَسْكُوبٍ (۵۶: ۲۸ تا ۳۱)

         وہ ان باغوں میں ہوں گے جہاں بے خار بیر کے درخت ہوں گے، اور تہ بتہ کیلے ہوں گے، اور لمبا لمبا سایہ ہوگا، اور چلتا ہوا پانی ہوگا۔‘‘ (مذکورہ آیت میں) اللہ تعالیٰ سب سے پہلے عقلِ کل مراد لیتا ہے، پھر نفسِ کل مراد لیتا ہے، کیونکہ اسی سے عالم تہ بتہ اور منظم ہوا ہے، تیسرے درجے پر ناطق کا اشارہ فرماتا

۱۲۳

ہے، کیونکہ شریعت کا بوجھ قیامت تک تو انہوں نے اٹھایا ہے، اور چوتے درجے پر اللہ تعالیٰ اساس (کا ذکر) چاہتا ہے، کیونکہ لواحق یعنی امیرانِ دین، جیسے امام، حجت اور داعیٔ حق کے ذریعہ انہی کی تاویل انسانی نفوس پر برس رہی ہے، جب ان چار اصول کے ذکر سے حق تعالیٰ فارغ ہوا، (تو سلسلۂ امامت کی طرف اشارہ فرماتا ہے) جیسا کہ ارشاد ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ  لاَ مَقْطُوعَةٍ وَلاَ مَمْنُوعَةٍ ( ۵۶: ۳۲ تا ۳۳)

         اور کثرت سے میوے ہوں گے، جو نہ ختم ہوں گے، اور نہ ان کی روک ٹوک ہوگی‘‘۔ اس ارشارہ سے اللہ تعالیٰ کی مراد أئمہ علیہم السلام ہیں، کیونکہ ان کی (جانب سے ملنے والی) بھلائی کائنات سے منقطع ہونے والی نہیں، اور ان کی بہت سی تعداد ہے، پس جہاں اللہ تعالیٰ نے چار اصول کی مثال چار نہروں سے دی ہے وہاں اس نے عقل کی مثال پانی سے دی، اور اس مقام پر جبکہ اس نے ان چاروں اصول کی مثال مذکورہ چار چیزوں سے دی، تو اساس کی مثال پانی سے دے دی تاکہ دانشمند کو معلوم ہو، کہ دائرۂ عقل کے دونوں سرے اساس ہی پر ملے ہوئے ہیں، اور پانی پانی کے ساتھ ملا ہوا ہے (یعنی وہ بادل، بارش اور دریا کی صورت میں چکر کاٹنے کے بعد سمندر میں داخل ہوتا رہا ہے)۔

         دائرۂ عقل کے دونوں سرے اساس ہی پر آپس میں ملے ہوئے ہیں، یعنی اساس ہی عقل کی ابتدأ و انتہا ہیں۔

۱۲۴

         پس بیان کروں گا، کہ ان چاروں اصول کے درمیان بحقیقت یکسان حال پایا جاتا ہے، اور وہ تمام اصول کلمۂ باری سبحانہ و تعالیٰ سے جو کچھ فائدہ قبول کرتے ہیں، اس کی حقیقت ایک ہی ہے، چنانچہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’سَوَاءٌ مِنْكُمْ مَنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ (۱۳: ۱۰)

         تم میں سے جو شخص پوشیدہ بات کہے، اور جو آشکارا بات کہے، اور جو شخص رات میں کہیں چھپ جائے، اور جو دن میں چلے پھرے، یہ سب برابر ہیں‘‘۔ پس جس کے بارے میں ’’پوشیدہ بات‘‘ کا ذکر فرماتا ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کی مراد عقل ہے، کیونکہ اسی سے نفس، ناطق اور اساس جیسے ماتحت حدود کو پوشیدہ تائید ملتی ہے، اور جس کے بارے میں ’’آشکارا بات‘‘ کہتا ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کی مراد نفس ہے، کیونکہ عالمِ ترکیب اسی سے ظاہر ہوئی ہے، اور جس کی مثال ’’رات میں چھپ جانے‘‘ سے دی ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کی مراد اساس ہیں، کیونکہ ان کا دور پوشیدہ طور پر چل رہا ہے اور ان کا علم لوگوں کو سر (یعنی باطنی طریقے ) سے حاصل ہو جاتا ہے، اور ’’دن میں ظاہر ہونے‘‘ کی مثال سے اللہ تعالیٰ کی مراد ناطق ہیں، کیونکہ ان کی شریعت اور کتاب کی ظاہری دعوت آشکار ہے، پس ہم نے بتائیں گے کہ پوشیدہ طور پر اساس کا علمِ تاویل دینا عقل کے مانند ہی ہوا، کیونکہ اس کی تائید بھی ماتحت کو پوشیدہ طور پر ہی ملتی ہے، اور ناطق کتاب و شریعت کے ظاہر کرنے میں نفس کے مانند ہیں کیونکہ نفس نے عالمِ ترکیب ظاہر کی ہے۔

         نیز ہم یہ بتا دیتے ہیں، کہ شہادت کے چار کلمات بہشت کی چار نہروں کی دلیل ہیں، جن کا ذکر قرآن میں ہے، اس مقام پر فرماتا ہے: ۔

         ’’وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ (۵۵: ۴۶)

         اور جو کوئی اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہتا ہے،

۱۲۵

اس کے لئے دو بہشت ہیں۔‘‘ اور ان دو بہشتوں سے اللہ تعالیٰ کی مراد عقل و نفس ہی ہیں۔

         ’’ ذَوَاتَآ اَفْنَانٍ‘‘ (۵۵: ۴۸)

         فرماتا ہے کہ ’’یہ دونون بہشت شاخوں والی ہیں‘‘۔ اور ان شاخوں سے اللہ تعالیٰ کی مراد ناطق، اساس اور أئمۂ برحق علیہم السلام ہیں۔

         ’’ فِيهِمَا عَيْنَانِ تَجْرِيَانِ‘‘ ( ۵۵: ۵۰)

         فرماتا ہے کہ ’’ ان دونوں بہشتوں میں دو ۲ چشمے بہتے جارہے ہیں‘‘۔ پانی اور دودھ کے چشمے جو باری سبحانہ و تعالیٰ کے کلمے سے عقل اور نفس کے لئے جاری ہوئے، چنانچہ ہم نے قبلاً اس کی تشریح کر دی ہے۔

         جب ان دو روحانی حدود سے فارغ ہوا تو فرمایا: ۔

         ’’ وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ ‘‘ ( ۵۵: ۶۲)

         فرمایا: کہ ’’ ان دو بہشتوں کے تحت ان سے کمتر دو بہشت اور ہیں‘‘۔ اور ان دونوں بہشتوں سے اللہ پاک کی مراد ناطق اور اساس ہیں۔

         ’’ مُدْ ھَآ مَّتَانِ (۵۵: ۶۴)

         وہ دونوں گہرے سبز ہیں۔‘‘ سبز رنگ نیلے اور پیلے جیسے دو خالص رنگوں سے بنتا ہے، اور (ان دونوں بہشتوں کا) یہ سبز رنگ دورنگوں سے مرکب ہے، جس کے معنی یہ ہیں، کہ ناطق اور اساس جسمانی اور مرکب ہیں، اور جو کوئی ان کے ساتھ واصل ہو جائے، تو اسے (حقیقی) روح مل جاتی ہے۔ چنانچہ نباتات میں سے جو کچھ ہرا ہے، تو اس میں روح موجود ہوتی ہے۔

         ’’فِيهِمَا عَيْنَانِ نَضَّاخَتَانِ‘‘ (۵۵: ۶۶)

         فرماتا ہے کہ ’’ ان دونوں بہشتوں میں دو چشمے ہیں جوش مارتے ہوئے‘‘۔ وہ شراب و شہد کے چشمے ہیں، جو کلمۂ باری سبحانہ سے ناطق اور اساس کے لئے جاری ہوئے ہیں۔

۱۲۶

         اسی طرح خدائے تعالیٰ اس آیت میں حدود کا ذکر فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لاَ تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلاَ لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ (۴۱: ۳۷)

         فرماتا ہے کہ اُس کی نشانیوں میں سے ہیں، رات اور دن، سورج اور چاند، پس تم نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو، اور (صرف) اس خدا ہی کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا۔‘‘ پس رات سے حق تعالیٰ ناطق مراد لیتا ہے، کیونکہ انہوں نے (رموز و امثال میں علمی) چیزیں چھپا رکھی ہیں، اس مثال کے برعکس کہ دن چیزوں کو آشکار کر دیتا ہے، اور دن سے حق تعالیٰ اساس مراد لیتا ہے، کیونکہ وہی رموز (وامثال) کا بیان کرنے والے ہیں، جیسا کہ دن ان چیزوں کا آشکار کرنے والا ہوتا ہے، جن کو رات چھپا رکھتی ہے۔

         سورج سے عقل اور چاند سے نفس مراد ہیں، کیونکہ عقل نفس کو اسی طرح فائدہ دے رہا ہے، جس طرح سورج چاند کو نور دیتا رہتا ہے، اور یہ جو فرماتا ہے ، کہ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کیا کرو، بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے، اس سے یہ چاہتا ہے، کہ خدا کو عقل و نفس کی صفات سے موصوف نہ کیا کرو، اور اس قسم کا اعتقاد مت رکھو، کیونکہ خدا ایسا نہیں جیسے تائید کا مالک ہے یا جیسے ترکیب کا مالک ہے، کیونکہ یہ دونوں تو مخلوق ہیں، مگر افسوس کہ آج بہت سے لوگ عقل پرست اور نفس پرست ہیں، ایسے لوگ گمان کرتے ہیں، کہ وہ موحد (یعنی وحدت شناس) ہیں، جیسے معتزلہ اور کرامی متکلمین، اللہ تعالیٰ ہمیں ما سوا اللہ کی پرستش سے بچائے رکھے۔

         اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر انہی حدود کا ذکر فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ (۵۵: ۱۷)

         فرماتا ہے ، کہ ’’دو مشرقوں کا پروردگار‘‘ جن سے اللہ تعالیٰ کی مراد عقل و نفس

۱۲۷

ہیں، کیونکہ نورِ وحدت انہی سے طلوع ہوا، اور فرماتا ہے، کہ دو۲ مغربوں کا پروردگار‘‘، جن سے ناطق اور اساس مراد ہیں، کیونکہ جو نور ان دونوں مشرقوں سے طلوع ہوا، وہ ان دونوں مغربوں میں غروب ہوا۔

         نیز ہم یہ بیان کریں گے، کہ اس بارہ حرفی کلمۂ شہادت کے سات پارے ایسے ہیں، کہ ان میں سے تین پارے ایک ایک حروف کے ہیں، جیسے: ۔ ااا، تین پارے دو دو حرفوں کے ہیں، جیسے: لا، لہ، لا اور ایک پارہ تین حروف کا ہے، جیسے اللہ، چنانچہ ان یک حرفی پاروں کی مثال عالمِ جسمانی میں طول، عرض اور عمق کی تین مسافتیں ہیں، کیونکہ یہ مسافتیں ایک ایک خط (لکیر) ہیں، دو حرفی پاروں کی مثال اعضائے رئیسہ ہیں، جو کمیت، کیفیت اور اضافت کے حامل ہیں، اور سہ حرفی ایک پارے کی مثال جسم ہے، جو تین مسافتوں کا حامل ہے۔

         (اسی سلسلے میں) بتائیں گے، کہ اللہ تعالیٰ ذیل کی آیت میں مالکانِ تائید کے متعلق ذکر فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’فَلْيَنْظُرِ الإِنسَانُ إِلَى طَعَامِهِ (۸۰: ۲۴)

         سو انسان کو چاہئے کہ اپنے کھانے (یعنی روحانی غذا) کی طرف نظر کرے۔‘‘ تاکہ  اسے معلوم ہو، کہ عالمِ بالا کس طرح اس کے ساتھ ملا ہوا ہے، چنانچہ فرماتا ہے: ۔

         ’’أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا (۸۰: ۲۵)

         کہ ہم نے عجیب طور پر پانی برسایا‘‘۔ یعنی نفسِ کل سے ناطق کی طرف تائید نازل ہوئی، چنانچہ فرماتا ہے: ۔

         ’’ثُمَّ شَقَقْنَا الأَرْضَ شَقًّا (۸۰: ۲۶)

         پھر ہم نے عجیب طور پر زمین کو پھاڑا۔‘‘ اور اس زمین سے اللہ کی مراد ناطق کا دل ہے، کہ (وہی تو آنحضرت کی روحانی، جائے سکونت اور مقامِ تائید ہے، اور تائید قبول کرنے کے لئے شق ہوا ہے، چنانچہ فرماتا ہے: ۔

۱۲۸

         ’’فَأَنْبَتْنَا فِيهَا حَبًّا (۸۰: ۲۷)

         پھر ہم نے اس میں دانہ اگایا۔‘‘ اور اس دانہ سے خدائے تعالیٰ کی مراد اساس ہیں، جو ناطق کی دل کی زمین میں اور ناطق کی تعلیم سے اگ آیا، جس سے سات خوشے نکلے اور وہ اس دور کے امامانِ برحق ہیں، ’’وعِنَباً‘‘ فرمایا، کہ ’’اور انگور‘‘، جس سے خدا تعالیٰ نے پہلا امام (حضرت حسن علیہ السلام) مراد لیا، اور ان کی مثال انگور سے اس لئے دی، کہ جب انگور کو نچوڑ لیا جاتا ہے، تو تمام رس اس سے نکل جاتا ہے، اور دوبارہ وہ انگور نہیں بنتا، اسی طرح جب امامت ان سے منتقل ہوئی تو ان کی اولاد کو لوٹ نہیں آئی۔ ’’وَقضباً‘‘ فرمایا ’’ اور سپست‘‘ (وہ تین پتی گھاس جس کا پھول آسمانی رنگ کا ہوتا ہے) اور اس سے خداتعالیٰ کا مقصود دوسرا امام ہیں، جن کی اولاد میں امامت برقرار ہے، ’’ سپست‘‘ کی طرح کہ جب اسے کاٹ لیا جائے تو دوبارہ اگتا رہتا ہے ’’ وَزَیْتُوْناً۔‘‘ جس سے تیسرا امام مراد ہیں، کہ وہ زیتونِ مبارک تھے، کیونکہ امامت ابھی انہیں ملی تھی، کہ تائید ملنے لگی، جن کے بارے میں خدائے تعالیٰ نے فرمایا: ۔

         ’’شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونِةٍ لاَ شَرْقِيَّةٍ وَلاَ غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ (۲۴: ۳۵)

         فرمایا کہ زیتون کے مبارک درخت سے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی، اس کا تیل روشن ہوتا ہے، اگرچہ اس کو آگ نہ چھوئے۔‘‘ وَنَخْلاً‘‘ (۸۰: ۲۹) فرمایا ’’ اور کھجور کا درخت‘‘ جس سے چوتھا امام مراد ہیں۔ ’’ وَحَدَآئِقَ غُلْباً‘‘ (۸۰: ۳۰) فرمایا ’’اور گنجان باغ‘‘ جس سے پانچواں امام مراد ہیں۔ ’’وَفَاکِھَۃً‘‘ فرمایا ’’ اور میوہ‘‘۔ جس سے چھٹا امام مراد ہیں کہ ان کے والد کی موجودگی ہی میں امامت ان سے ہو کر ان کے فرزند کو منتقل ہوئی ( جس طرح درخت کی موجودگی ہی میں پھل کی گٹھلی سے ایک اور درخت پیدا ہو جاتا ہے)  ’’ وَاَبّاً (۸۰: ۳۱) اور چارہ (یعنی گھاس) ‘‘جس سے خدائے تعالیٰ ساتواں

۱۲۹

امام مراد لیتا ہے، کہ ان کو مرتبۂ قیامت حاصل ہے۔

         نیز ہمیں یہ بیان کرنا ہے، کہ نفی کے دونوں کلمات تین پاروں پر مشتمل ہیں، جیسے: لا الٰہ، اور تسیرا مرتبہ ناطق کا ہے، کیونکہ وہ چار اصول میں تیسرا ہیں، اور اثبات کے دونوں کلمات چار پاروں پر مبنی ہیں، جیسے: اِلاّ اللہ، اور چوتھا مرتبہ اساس کا ہے، کیونکہ وہ چار اصول میں چوتھا ہیں اور یہ دانشمند کے لئے اس بات کا اشارہ ہے، کہ ناطق کی تنزیل و شریعت میں جو کچھ تشبیہہ پائی جاتی ہے، وحدت سے اس کی نفی کرنا واجب ہے، اس کے بعد اساس کی تاویل کے ذریعہ اثبات کر دینا چاہئے، جنہوں نے مخلوقات کی ساری صفات سے ایک ہویت (یعنی حقیقتِ ہو) جدا کردی ہے، اور شہادت کی تالیف (ساخت) لام، الف اور ھا کے تین حروف سے ہے اور اس کے پارے بھی تین درجوں میں ہیں جن میں سے تین پارے ایک ایک حرف کے ہیں، جیسے تین الف ، تین پارے دو حرفوں کے ہیں، جیسے: لا، لہ، لا اور ایک پارہ تین حروف کا ہے، جیسے: اللہ۔ پس عالم کلمۂ شہادت کی سچائی پر اپنی ترکیب (کی اس عددی موافقت) سے گواہی دیتا ہے، جو طول و عرض و عمق کی مسافتوں سے متعلق ہے، اور فرداً فرداً تینوں (مسافتیں بھی گواہی دیتی ہیں) اور وہ عالمی مخلوقات بھی ( یہی گواہی دیتی ہیں جو ) تین مراتب پر ہیں، یعنی جن کی روح ہے، جیسے نباتات، حیوانات اور انسان، پس ان میں سے نباتات شہادت کے ان تین پاروں کی مثال ہیں، جو یک حرف ہیں، اس لئے کہ نباتات میں صرف ایک ہی قوت ہے، اور وہ قوتِ نامیہ (نشوونما) ہے، لیکن اس کے باوجود کہ اس میں صرف یہی ایک قوت ہے، یہ تین قسموں میں ہے، ایک تو بغیر بیج والی گھاس ہے، دوسری بیج والی گھاس ہے، اور تیسرا پھلدار درخت ہے، یہ ان تین پاروں کی مثال ہوئی جو ایک ایک حرف کے ہیں، اور عالم میں حیوانات ان تین پاروں کی مثال ہیں جو دو حرفی ہیں، اس لئے کہ حیوانات میں دو نفس ہیں، ایک نامیہ اور دوسرا حسیہ، اور یہ جانور بھی

۱۳۰

تین قسم کے ہوتے ہیں، ان میں سے ایک تو پیٹ کے بل رینگتا ہے، دوسرا وہ ہے جو چار پیروں سے چلتا ہے اور تیسرا وہ ہے جو دو پیروں سے چلتا ہے، اور عالم میں انسان شہادت کے اس ایک پارے کی مثال ہیں جو سہ ۳ حرفی ہے، اس لئے کہ انسان میں تین نفس ہیں، جیسے، نامیہ، حسیہ اور ناطقہ، اور انسان کی نوع میں کوئی اور قسم کی مخلوق نہیں، جس طرح شہادت میں اس سہ ۳ حرفی پارے کے بعد کوئی اور حرف نہیں، اور ان تین حروف کی مثال، جو کلمۂ اخلاص کی بنیاد کی حیثیت سے ہیں، عقل، نفس اور جد ہیں۔

         نیز ہم یہ بتائیں گے، کہ شہادت کے سات پارے بارہ حروف پر مبنی ہیں، یہ اس حقیقت کی دلیل ہے، کہ سات امام ان بارہ حجتوں سے خطاب کر رہے ہیں، جن کو دعوتِ حق کی غرض سے بارہ جزائر میں قائم کیا گیا ہے، پس جاننا چاہئے ، کہ رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھا، لیکن آنحضرت نے آفاق و انفس کی اس گواہی کے ذریعہ یہ گواہی دی اور ہمیں بھی فرما دیا، جو حضور نے ان دونوں میں دیکھا، کہ وہ اپنے عملِ تخلیق (کی زبانِ حال) سے گواہی ( کے یہی الفاظ) کہہ رہے تھے۔

         اب ہم بقولِ مختصر یہ کہیں گے، کہ عالم، انسانی جسم، زمانہ، نماز اور قرآن میں سے ہر ایک اپنی ترکیب و تشکیل کے ذریعہ کلمۂ شہادت پڑھتا ہے، چنانچہ عالم کا کلمۂ شہادت پڑھنا اس طرح ہے ، کہ عالم مجموعاً ایک ہے، جیسے کلمۂ شہادت ایک قول ہے، اور عالم دو قسموں میں ہے، یعنی اس میں نفی کی طرح غیر آبادی ہے اور اثبات کی طرح آبادی ہے، اور عالم کی تین مسافتیں ہیں: طول و عرض و عمق، شہادت کے الف، لام اور ھا کی طرح، اور عالم چار حصوں میں ہے، جیسے مشرق، مغرب، جنوب اور شمال، جس طرح کلمۂ شہادت کے چار حصے ہیں، اور عالم کی سات اقلیم ہیں، شہادت کے سات پاروں کے برابر اور عالم کے بارہ؎۱

؎۱: بارہ جزیرے،عرب، ترک، بربر، زنگ، حبشہ، خزر، چین، فارس، روم، ہند، سندھ، اور صقالیہ۔

۱۳۱

جزیرے ہیں، شہادت کے بارہ حروف کے برابر۔

         انسانی جسم، یعنی عالمِ صغیر کا کلمۂ شہادت پڑھنا اس طرح ہے، کہ انسان من حیث المجموع ’’ لَا اِلَہَ اِلَّا اللہ‘‘ کی واحد شہادت کی طرح ایک ہے، اور انسان کا یہ جسم دو حصوں میں ہے: اگلا حصہ اور پچھلا حصہ، پچھلا حصہ نفی کی مثال اور اگلا حصہ اثبات کی مثال ہے، نیز انسان میں نامی، حسی، اور ناطقی کے تین نفوس ہیں شہادت کے تین حروف کے برابر اور انسانی جسم چار کششوں میں ہے، جیسے صفرا، سودا، خون، اور بلغم، ان چار کلمات کے برابر جو شہادت میں ہیں اور انسانی جسم میں سات اعضائے رئیسہ ہیں، جیسے: دماغ، دل ، کلیجہ، پھیپھڑے، تلی، پتا اور گردے، شہادت کے سات پاروں کے برابر، اور انسان کے جسم میں بارہ مجرا ہیں، جسے دو۲ کان، دو۲ آنکھ، دو۲ نتھنے، ایک منہ ، دو۲ شرمگاہیں، دو پستان اور ایک ناف، شہادت کے بارہ حروف کے برابر۔

         سال کا کلمۂ شہادت پڑھنا، جس پر زمانہ گردش کر رہا ہے، اس طرح ہے، کہ سال اپنے اجزأ کے جامع ہونے کی حیثیت سے ایک ہے، شہادت کے واحد کلمے کے برابر، جو اپنے حروف کا جامع ہے، اور سال دو قسموں میں ہے، جیسے رات اور دن، جس میں رات شہادت کی نفی کی مثال اور دن اثبات کی مثال ہے، اور سال میں تین حالات پائے جاتے ہیں، جیسے رات کےسات دن کی برابری اور ان کی ایک دوسرے کے مقابلے میں کمی بیشی، یہ شہادت کے تین حروف کے برابر ہے، اور سال میں چار موسم ہوتے ہیں، جیسے بہار، گرما، خزان اور سرما، یہ شہادت کے چار الفاظ کے برابر ہیں، اور سال میں سات دن چکر کاٹتے ہیں، جن کے شروع میں اتوار اور آخر میں سنیچر ہے، جو شہادت کے سات پاروں کے برابر ہیں، اور سال میں بارہ مہینے روان ہیں ان بارہ حروف کی طرح جو شہادت میں ہیں۔

         کلمۂ شہادت کی سچائی پر نماز کی گواہی اس طرح ہے،کہ نماز قائم کرنا

۱۳۲

ایک حق ہے، جس شہادت کے حقوق کے سلسلے میں ادا کیا جاتا ہے، چنانچہ نماز ایک ہے اور وہ دو۲ قسم کے اوقات میں پڑھی جاتی ہے، یا فریضہ کے طور پر مقررہ وقت پر یا نفل کے طور پر غیر معین وقت پر (نماز کی یہ صورتیں) شہادت کی نفی اور اثبات کی برابر ہیں، چنانچہ غیر معین وقت نفی کی مثال اور معین وقت اثبات کی مثال ہے، اور نماز کے اسباب تین ہیں، جیسے فریضہ، سنت اور نفل، جو ان تین حروف کی مثال ہیں، جن پر شہادت کی بنیاد ہے، اور نماز ایک سلام میں چار رکعت سے زیادہ نہیں، ان چار کلمات ہی کے برابر جو شہادت میں ہیں، اور نماز میں نمازی کے اعضا ٔ کے سات مقامات زمین کو چھوتے ہیں، جیسے دو قدم، دو گھٹنے، دو ہتھیلیاں، اور ایک ماتھا، شہادت کےسات پاروں کے برابر، اور نماز میں بارہ امور ایسے ہیں کہ جن سے نماز مکمل ہو جاتی ہے، جیسے: ۔ پہلی تکبیر (۱) کھڑے رہنا (۲) الحمد پڑھنا (۳) سورہ پڑھنا (۴) رکوع کرنا (۵) تکبیر رکوع (۶) سجدہ (۷) تکبیر سجود (۸) سمع اللہ لمن حمدہ کہنا (۹) کھڑے ہو جانا (۱۰) تحیات پڑھنا (۱۱) سلام پھیرنا (۱۲) جو شہادت کے بارہ حروف کے برابر ہوئے۔

         قرآن کلمۂ شہادت کی حقانیت پر اس طرح سے گواہی دے رہا ہے، کہ قرآن کلمۂ شہادت کی طرح ایک ہے اور شہادت کی نفی و اثبات کی طرح دو حصوں میں ہے، اور یہ تین اسباب سے ظاہر ہوا ہے، ایک سبب یہ ہے، کہ جبرئیل علیہ السلام نے اس کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے پاک دل پر نازل کیا، چنانچہ ارشاد ہوا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الأَمِينُ عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنْ الْمُنذِرِينَ (۲۶: ۱۹۳ تا ۱۹۴)

         (اے محمد صلعم) اس (قرآن) کو روح الامین نے تیرے قلب پر لایا ہے تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہوں۔‘‘ دوسرا سبب ہے (حقیقتِ مجردہ کی زبانِ حال سے) اس کو عربی زبان میں پیغمبر علیہ السلام کا ترجمہ کرنا ، جیسا کہ فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

۱۳۳

         ’’ لِتَكُونَ مِنْ الْمُنذِرِينَ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ (۲۶: ۱۹۴ تا ۱۹۵)

         تاکہ آپ واضح عربی زبان میں ڈرانے والوں میں سے ہوں۔‘‘ اور تیسرا سبب ہے قرآن کا لکھنا، چنانچہ ارشاد ہوا، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الأَوَّلِينَ (۲۶: ۱۹۶)

         اور قرآن اگلے لوگوں کے نوشتوں میں ہے۔‘‘ یہ تین حالات شہادت کے تین بنیادی حروف کے برابر ہیں، اور پیغمبر علیہ السلام نے قرآن کو چار ذرائع سے (لوگوں پر) ظاہر کیا، تنزیل (یعنی خالص روحانی ہدایت) شریعت، دعوت اور رسالت (یعنی اپنی طرف سے کسی اور شخص کے ذریعہ پیغام رسانی) یہ ذرائع شہادت کے چار کلمات کے برابر ہیں، اور قرآن شہادت کے سات پاروں کی طرف سات سات کا مجموعہ (یعنی سبع المثانی) ہے اور قرآن بارہ اسباب پر واقع ہے، جیسے: امر، نہی، وعدہ (یعنی امید دلانا) وعید (یعنی ڈرانا) ناسخ، منسوخ محکم، متشابہ، خبر، قصہ، حروفِ معجم (حروفِ منقوط) اور حروفِ مفرد (حروفِ غیر منقوط) جو شہادت کے بارہ حروف کے برابر ہیں۔

         لیکن آسمان کا کلمۂ اخلاص کہنا اس طرح ہے ، کہ آسمان مجموعاً ایک چیز ہے، چنانچہ شہادت ایک کلمہ ہے اور آسمان میں حرکت نفی کی مثال اور سکون اثبات کی مثال ہے، اور آسمان میں تین انوار ہیں، جیسے: سورج، چاند اور ستارے، ان تین حروف کی طرح جن پر شہادت کی بنیاد ہے، اور آسمان میں چار طبیعتیں ہیں، جیسے: گرمی، سردی، تری، اور خشکی، جو شہادت کے چار کلمات کے برابر ہیں، اور آسمان میں سات ستارے بادشاہ ہیں، جیسے: زحل، مشتری، مریخ، شمس، زہرہ، عطارد، اور قمر جو شہادت کے سات پاروں کے برابر ہیں، اور آسمان میں بارہ برج ہیں جیسے: حمل، ثور، جوزا، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو اور حوت، ان بارہ حروف کے برابر جو شہادت میں ہیں۔

۱۳۴

         پس ہمارا کہنا یہ ہے، کہ عالم نے اپنی تخلیق کے ذریعہ گواہی دی، انسانی جسم نے گواہی دی، زمانے نے گواہی دی، نماز نے گواہی دی، قرآن نے گواہی دی اور آسمان نے گواہی دی، اس بات پر کہ کلمۂ شہادت یعنی ’’ لَا لَا الٰہ اِلّا اللہ‘‘ حق اور سچ ہے، اور (مذکورہ گواہوں نے) پیغمبر علیہ السلام کی دعوت کی تصدیق کر دی، اور تمام مذکورہ بالا گواہان خدا کی یکتائی کے اقرار، رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی گواہی اور ان کے دعویٰ کی تصدیق کے لئے کھڑے ہیں۔ اور یہ گواہ باقی (غیر فانی) ہیں جو ہرگز نہیں مرتے ہیں، نہ گواہی دینے سے رک جاتے ہیں، اور یہ ’’ لَا لَا الٰہ اِلّا اللہ‘‘ کی شہادت خدائے بزرگ و برتر کی یکتائی پر ایک ہی گواہی ہے (جس سے مراد) ایک ایسی یکتائی ہے جو اسی کے لئے خاص ہے، اور شہادت جو نفی و اثبات کے دوحصوں میں آئی ہے، اس امر پر دلالت کرتی ہے، کہ خدا کی مخلوقات کے دو گروہ ہیں، ایک گروہ روحانی اور ایک گروہ جسمانی، یعنی دکھائی نہ دینے والا اور دکھائی دینے والا، اور جب رسول نے کہا کہ لَا الٰہ، تو آنحضرت یہ معنی چاہتے ہیں، کہ ان دو قسم کی مخلوقات میں سے کوئی خدا نہیں، نہ روحانی اور نہ جسمانی جو دکھائی نہ دینے والی اور دکھائی دینے والی ہیں، اور جب انہوں نے کہا کہ اِلّا اللہ، تو ان کا یہ مطلب ہے، کہ: مگر وہ خدا جس نےروحانی و جسمانی کو پیدا کیا، اور یہ کہ شہادت کی بنیاد تین حروف پر قائم ہوئی، تو یہ تین فرشتوں پر دلیل ہے، جیسے: جد، فتح اور خیال، کیونکہ وہ پیغمبر علیہ السلام کو وحی پہنچانے والے ہیں، اور یہ کہ شہادت چار کلمات پر مشتمل ہے، تو یہ دین کے چار اصول پر دلیل ہے، جیسے: اول، ثانی، ناطق اور اساس، اور یہ کہ شہادت سات پاروں پر مبنی ہے، جو سات اماموں پر دلیل ہے، کیونکہ وہ دین کے ان چار اصول سے علم حاصل کرتے ہیں، اور لوگوں کی طرف گذار دیتے ہیں، اور یہ کہ شہادت بارہ حروف سے مرکب ہوئی ہے، جو بارہ حجتوں کی دلیل ہے کیونکہ وہ (سات) اماموں سے علم حاصل کرتے ہیں اور لوگوں تک پہنچاتے رہتےہیں، تاکہ لوگ حق شناسی سے روکے ہوئے نہ رہ جائیں۔

۱۳۵

          لَا لَا الٰہ اِلّا اللہ کہنے کا مقصد جو رسول علیہ السلام نےکہا اور کہنے کے لئے فرمایا، یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے، کہ روحانی وجسمانی مخلوقات کےان دو گروہوں، تین فرشتوں، جیسے جد، فتح اور خیال، دین کے چار اصول، یعنی اول، ثانی، ناطق اور اساس، سات اماموں، بارہ حجتوں میں سے کوئی شخص خدا نہیں، اور جب رسول کہتے ہیں: ’’ لَا لَا الٰہ اِلّا اللہ‘‘کوئی خدا نہیں، مگر اللہ، تو وہ اس میں یہ معنی رکھتے ہیں، کہ روحانی و جسمانی مخلوقات کے یہ دونوں گروہ، تین فرشتے، دین کے چار اصول، سات أئمہ اور بارہ حجت لا الٰہ ہیں، یعنی ان میں سے کوئی خدا نہیں، اِلّاَ اللہ،، مگر خدا وہ ہے، جس نے ان کو پیدا کیا ہے۔

         پس جو کوئی ’’ لَا لَا الٰہ اِلّا اللہ‘‘ کو اسی طرح سمجھے اور پڑھے اور پہچان لیا کرے، کہ یہ ایک کس پر دلیل ہے، دو کس پر دلیل ہے، تین کس پر دلیل ہے، چار اور سات کس کس کی دلیل ہیں اور بارہ کس پر دلالت کرتا ہے، تو وہ شخص ابدی عذاب سے بچ سکتا ہے، انہی حدود پر عالم اور انسانی جسم نے گواہی دی، اور زمانہ، سال، قرآن، نماز، آسمان، زمین اور ان دونوں کے درمیان کی چیزوں نے بھی یہی گواہی دی، اور یہیں سے دانشمند انسان کو ثبوت ملتا ہے، کہ یہ شہادت حق ہے، چنانچہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ (۴۴: ۳۹)

         یعنی ہم نے آسمان و زمین کو پیدا نہیں کیا، مگر حق کے ساتھ، لیکن ان میں اکثر لوگ اس حقانیت کو نہیں جانتے ہیں۔‘‘ اور حقانیت کا جاننا یہ ہے کہ آفاق اور انفس نے اس پر گواہی دی اور جو کچھ انسان سِر کی آنکھ سے دیکھتا ہے، وہ حق پر گواہی دے رہا ہے، اور منافقوں کے دعویٰ کے لئے کوئی گواہی نہیں، مگر زبانی طور پر وہ کہتے جاتے ہیں اور اس کی حقیقت نہیں جانتے ان بولنے والے پرندوں کی طرح جو اپنی بولی کے معنی نہیں جانتے، اور اللہ تعالیٰ نے ان حدود کا

۱۳۶

نشان ہمارے جسم میں رکھا ہے اور عالم میں ہر چیز میں ان کا نشان رکھا ہے اور اس کے بعد اس نے ہم سے گواہی طلب کر لی ہے، اور فرمایا ہے کہ: لَا الٰہ اِلّا اللہ کہا کرو، اور جس نے اس کلمے کو قبول نہیں کیا، اور نہ کہا تو اس کو قتل کرنا واجب کردیا اور اس کی اولاد و مال پر قبضہ کرنے کے لئے فرمایا (یا یہ کہ) جس گروہ نے یہ نہ پڑھا، تو ان پر جزیہ رکھنے کے لئے فرمایا، جزیہ کا مطلب ہے، بارہ درموں کا وہ سالانہ ٹیکس، جو وہ لوگ (یعنی اسلامی حکومت کے غیر مسلم محکوم) اپنے مال سے دے دیا کرتے ہیں، جو شہادت کے بارہ حروف کے برابر ہے، اور دنیا میں کوئی ایسی چھوٹی یا بڑی چیز نہیں جس میں ’’ لَا لَا الٰہ اِلّا اللہ‘‘ کا نشان نہ پایا جائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (۴۱: ۵۳)

         ہم ان کو اس عالم میں اور ان کی جانوں میں اپنے نشانات دکھاتے رہیں گے، تاکہ انہیں ظاہر ہو جائے کہ وہ حق ہے۔‘‘ اور دوسرے مقام پر فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’وَفِي الأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلاَ تُبْصِرُونَ (۵۱: ۲۰ تا ۲۱)

         اور یقین والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں، اور خود تمہارے نفوس و اجسام میں بھی، اور کیا تم کو دکھائی نہیں دیتا۔‘‘ جیسا کہ فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’وَكَأَيِّنْ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ (۱۲: ۱۰۵)

         اور بہت سی نشانیاں ہیں آسمانوں میں اور زمین میں جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے، اور وہ ان نشانیوں سے روگردان ہوتے ہیں۔‘‘ ایک اور جگہ فرمایا،

۱۳۷

قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’أَوَلَمْ يَنظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ (۷: ۱۸۵)

         اور کیا وہ لوگ غور نہیں کرتے، آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں‘‘۔ دوسری جگہ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لاَ تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ (۱۷: ۴۴)

         اور کوئی چیز ایسی نہیں جو (قال یا حال کے ذریعہ) اس کی حمد میں تسبیح خوانی نہ کرتی ہو، لیکن تم لوگ ان کی تسبیح خوانی کو نہیں سمجھتے ہو۔‘‘ ان کی تسبیح خوانی سمجھنا یہ ہے کہ ان حدود کے نشان کو سمجھ لیا جائے، جو ہر چیز میں رکھا ہوا ہے، تاکہ حقانیت پر دلیل ہو، اور وہ تسبیح یہ ہے کہ ہر چیز ’’ لَا لَا الٰہ اِلّا اللہ‘‘ کے ساتھ ساتھ گواہی دیتی ہے، کیونکہ ہر ایک چیز میں ایک ، دو۲، تین۳، چار، سات اور بارہ کی خاصیت و علامت پائی جاتی ہے، تاکہ ہر چیز ان حدود پر دلیل ہو، کیونکہ وہ خدا اور مخلوق کے درمیان وسیلے ہیں، ہم نے شہادت کے بیان میں سے ایک کافی مقدار کا ذکر کر دیا۔

۱۳۸

کلام ۔ ۱۲

سورۂ اخلاص کے بارے میں

         ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے ، کہ کلمۂ اخلاص جو   لَا الٰہ اِلّا اللہ ہے، دینِ اسلام کے دروازے کی کلید ہے، اور جو کوئی اس کلید کو لے لے ، تو وہ بیت الاسلام کے مکان میں داخل ہو سکتا ہے، اور اس کوکلمۂ اخلاس اس لئے کہتے ہیں کہ اخلاص کے معنی عربی زبان میں پاکیزہ کرنے کے ہیں، اور اس قول کے کہنے والے کو چاہئے کہ وہ اس کلمے کے ذریعے اپنے دین کو بت پرستی کی آلائش، آتش پرستی کی سیاہی (گدلاپن)، ثنویوں (دو خدا ئیں ماننے والے) کے قول کی پلیدی اور دہریوں وغیرہ کے مذاہب کی تاریکی سے پاک کرے، جب لطیف و کثیف دونوں قسم کی مخلوقات کی صفات کو توحید سے دور کر دینے کے ذریعے اس کلمہ گو کا اعتقاد اپنے قول (یعنی کلمہ خوانی) کے مطابق ہوجائے، تب وہ شخص قول اور اعتقاد (دونوں) میں سچا ہوسکتا ہے، اور اس کے بعد اس اعتقاد اور قول کے مطابق اسے کوئی عمل کرنا چاہئے، تاکہ اس کا یہ عمل اس کے قول کو بلند کرکے عالمِ بالا تک لے جائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (۳۵: ۱۰)

۱۳۹

         اچھا کلام خدا تک پہنچ جاتا ہے، اور اچھا کام ہی اس کلام کو اٹھا لے جاتا ہے‘‘۔ جس طرح کلمۂ اخلاص دین کا آغاز ہے (اسی طرح) سورۂ اخلاص دین کا انجام ہے، اور صانعِ حکیم کے فرمان کی رو سے یہ لازمی ہے، کہ دین کے آغاز اور انجام ایک دوسرے کے مطابق ہوں۔

         ہمارا کہنا ہے، کہ سورۂ اخلاص سارے قرآن کا خلاصہ اور انجام ہے، جو (اخیر میں) نازل ہوا ہے، تاکہ دین کے دروازے کا کھولنا اور بند کرنا دونوں پاکیزگی سے ہوں، لیکن سارے کام اور ساری چیزیں پہلے تو حدِ قوت میں ہوا کرتی ہیں، اور جو کچھ حدِ قوت میں ہو وہ کمزور ہوتا ہے، اور آخر کار حدِ فعل میں آکر وہ طاقتور ہو جاتا ہے، پس اسی طرح کلمۂ اخلاص شہادت کی صورت میں حدِ قوت میں ہے، اور سورۂ صمد کے مقام پر حدِ فعل میں ہے، پس ہم توضیح کر دیں گے، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ اے محمد (صلعم!) کہہ دیجئے کہ وہ خدا ایک ہے۔‘‘ اس کی تاویل اس طرح ہے کہ جیسے: ’’ھو‘‘ کہتا ہے، اس سے خدائے تعالیٰ کی مراد ایک ایسا کلمہ ہے، جو خالص ہویت ہے، اور ہویت کے لئے حقیقت کے بغیر چارہ نہیں (یعنی وہی کلمۂ باری ہی خدائے تعالیٰ کی ہویت اور اس کی حقیقت ہے) اور لفظِ اللہ کے ان چاروں حروف سے مراد چار اصولِ دین ہیں، کیونکہ وہی کلمۂ باری کے اثرات کے لئے چنے ہوئے ہیں، جن میں سے اپنے اپنے مرتبے کے مطابق دو روحانی اور دو جسمانی ہیں اور اَحَدٌ سے یہ مراد لیتا ہے، کہ جب ان چار اصول میں سے ہر ایک نے کلمۂ باری سے اپنا اپنا حصہ، جو کچھ حاصل کرنا تھا، حاصل کر لیا، تو انہوں نے توحید کو جملہ صفات سے (پاک اور ) بے نظیر مانا، اور ہر اس چیز سے بھی (پاک و بے نظیر مانا) جس کی جفت ہے، خواہ لطیف ہو یا کثیف ، اور انہوں نے سبحانہ کو ایسی صفات والے ناموں سے موسوم کرنے سے بھی برتر سمجھا، جو (صفات) قول کے اعتبار سے عمل کے اعتبار سے اور روحانی و طبیعی لحاظ سے ایک دوسرے کی مقابل (یعنی

۱۴۰

ضد یا مخالف) ہوں، جیسے: ہست اور نیست، مکانی اور لامکانی، تعریف کیا ہوا اور تعریف نہ کیا ہوا وغیرہ، پھر وہ اصول ساری روحانی اور جسمانی مخلوقات میں سے اسی بزرگی کے سبب سے ممتاز ہوئے اور اسی وجہ سے بے نظیر ہوئے، پس فرمایا: ’’اللّٰہُ الصَّمَدُ۔ یعنی خدا صمد ہے۔‘‘ اور صمد کے معنی سید کے ہیں،(یعنی جس کی طرف مہمات میں رجوع کیا جائے، نیز صمد کے معنی ٹھوس کے ہیں) یعنی جس میں جوف یا کہ کھوکھلا پن نہ ہو( نیز یہ بے نیاز کے معنی میں بھی آیا ہے) اس آیت کی تاویل یہ ہے، جو خدائے تعالیٰ فرماتا ہے، کہ ان چار حدود نے، جن پر ( لفظِ اللہ کے ) یہ چار حروف دلالت کرتے ہیں، جب خدا کی توحید کو بحقیقت پہچان لیا، تو انہوں نے اس کو ہر قسم کی آلائش سے پاک مانا، اور ان میں سے ہر ایک حد روحانیوں کا سید (سردار) اور آقا ( بارِ خدای) ہوا، اور سارے روحانیوں اور جسمانیوں نے فائدہ حاصل کرنے کے لئے انہی کی طرف رجوع کیا، مگر وہ خود بے نیاز ہیں، اور ان کی حقیقتِ حال معلوم کرنے کے لئے ان کے ماتحت روحانیوں اور جسمانیوں کو ان کی ذات کی طرف کوئی راستہ نہ ملا، یہ ایک ایسی (ٹھوس) چیز کی مثال جیسی ہے، جس کے درمیان (جھانکنے کے لئے) کوئی راستہ ہی نہ ہو تو جو کچھ اس کے اندر پوشیدہ ہے، کوئی شخص اس کی کیفیت سے اطلاع نہیں پاسکتا، پھر فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، یعنی نہ اس نے کسی کو جنا، اور نہ کسی نے اس کو جنا‘‘۔ اس کی تاویل یہ ہے، کہ باری سبحانہ جو کسی ابتدائی مایہ اور ذریعہ کے بغیر چیزوں کا پیدا کرنےوالا ہے، اور اس نے ابتدائی چیز ( عقل) کو دوسری چیزوں کے لئے علت (یعنی سبب و مایہ) ٹھہرادی ہے، اور وہ خود اس بات سے برتر ہے، کہ کسی چیز کی علت و مایہ ہو، چنانچہ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے، کہ چیزیں اسی (باری سحانہ) سے پیدا ہوئی ہیں، اگر واقعاً ایسا ہی ہوتا تو وہ خود ہی چیزوں کی علت ہو جاتا ( حالانکہ ) علت چیزوں کے باپ کے مانند ہے، اور باپ جننے والے کے مانند ہے، اور

۱۴۱

فرزند گویا اس کا جنا ہوا ہے، اور وہ جلیل القدرت خدا چیزوں کی علت نہیں، یہ لَمْ یَلِدْ کی تاویل ہوئی۔

         وَلَمْ یُوْلَدْ کی تاویل یہ ہے ، کہ وہ جلتِ عظمتہ کسی چیز سے پیدا نہیں ہوا، تاکہ وہ چیز اس کی علت کہلائے، اور وہ جل جلالہ معلول بنے، چنانچہ فرزند باپ کا معلول ہوتا ہے، اور ہر وہ چیز جس کی کوئی علت ہو، تو گویا وہ اپنی علت ہی سے جنی ہوئی ہوتی ہے، پس خدائے تعالیٰ جس طرح چیزوں کی علت نہیں، اس طرح وہ ان کا معلول بھی نہیں، اور جو کوئی خدائے تعالیٰ کو عالم کہتا ہے، یا حکیم یا قادر کہتا ہے، تو علم، حکمت اور قدرت کو اس کی علت مانتا ہے، اس لئے کہ عالم کی علت اس کا علم ہے، حکیم کی علت اس کی حکمت ہے اور قادر کی علت اس کی قدرت ہے، پس اس شخص نے (نتیجے کے طور پر ) یہ کہا ہوگا، کہ خدا کو جنم دیا گیا ہے، پھر فرمایا: ’’وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ (۱۱۲: ۴) یعنی اس کے برابر کا کوئی نہیں۔‘‘ اس کی تاویل یہ ہے ، کہ احدیت (یکتائی) جو ابداع (یعنی کسی مایہ ماخذ کے بغیر چیزوں کو پیدا کرنے کی طاقت) ہے وہ عقلِ کل کی علت ہے، اور عقلِ کل اپنی تمام لطافت اور جلالت کے باوجود مبدِعِ حق کے برابر نہیں، اور ابداع وہ ہے، کہ انسان اوہام (یعنی تصوارت) کے لئے فوری طور پر اس ( حقیقت) تک راستہ مل نہیں سکتا، اس لئے دانا حکما ٔ نے ابداع کو ’’نیست‘‘ کا نام دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے، کہ وہ سب سے پہلا موجود، جس سے دوسری تمام موجودات پیدا ہوئیں، عقلِ کل تھا، اور عقلِ کل احدیت سے پیدا ہوا، اور انسان عقل کے فیصلے سے یہ لازم آتا ہے، کہ ہست نیست ہی سے پیدا ہو، اور جب احدیت کے لئے کوئی اثبات ہی نہ تھا، تو انہوں نے اس کو ’’نیست‘‘ کا نام دیا، اور کسی انسانی وہم و تصور کی یہ طاقت نہیں کہ مایۂ اوہم (وہموں کی بنیاد) یعنی عقلِ کل سے آگے گزر سکے، چہ جائیکہ عقلِ کل کے پیدا کرنے والے تک پہنچ جائے، اگر کوئی شخص (اس مقام تک پہنچنے کے لئے) قوتِ واہمہ چلائے، تو یہ ایک ناممکن

۱۴۲

چیز کی طلب ہوگی، مگر چیزیں تو محسوس کے مشاہدے سے ( اس کو) جانتی ہیں، اس لئے گواہی دیتی ہیں، کہ مماثل ہستیوں کے مانند قرار دیئے جانے سے خدا پاک ہے۔

         فصل

         توضیح کی جاتی ہے، کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ’’أَلاَ لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ( ۳۹: ۳) یاد کرکھوکہ خالص دین خدا ہی کا ہے۔‘‘ یعنی ایسا دین جو پاک اور کسی آمیزش کے بغیر اور نفی و اثبات ( کی صورت میں) ہو، قول میں بھی، اعتقاد میں بھی اور عمل میں بھی، چنانچہ جب کوئی شخص اپنے قول، اعتقاد اور عمل کو ہر قسم کی آمیزش سے پاک کرے، تب ہی وہ بحقیقت خدا کے خالص دین میں آیا ہوا ہوتا ہے، اور جو شخص اپنی زبان کو نامناسب باتوں سے پاک رکھے، تو اس کا قول خدا کے قول کے مانند ہوجاتا ہے، اور وہ خدا ( کی صفات) کے لائق ہو سکتا ہے، جس طرح خدائے تعالیٰ نے مٹی کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کیا، یہاں تک کہ وہ آدمؑ کی صورت کی لائق بن گئی، پس یہ لازم آیا کہ آدم اور اس کی اولاد کے دین کی بنیاد ایک ایسے کلمے پر ہو، جو نفی و اثبات دونوں پر حاوی ہوا ہو، اور وہ کلمۂ اخلاص ہی ہے، جس میں خدا کا نام پہلے تونکرہ میں آیا ہے، یعنی معرفہ کے الف و لام کے بغیر ہے، جیسے: اِلٰہ، اور اس کے بعد یہی نام اسمِ معرفہ ہے، جیسے اللہ، اور الٰہٗ کے نام کے الف و لام نکرہ ہیں، کیونکہ یہ معرفہ کے الف و لام نہیں، اور معرفہ کے الف و لام تنزیل و تاویل، رسول و وصی اور محسوس و معقول پر دلیل ہیں، اس لئے کہ چیزوں کی پہچان مذکورہ چھ وجوہ سے ہوسکتی ہے، ( یعنی موجوداتِ ذہنی و خارجی کی پہچان کے لئے مجموعاً یہی چھ چہرے ہیں) اور ان مذکورہ چیزوں کی صرف شکل و صورت سے پہچان لیا جا سکتا ہے، اور جب ان کی صورت ظاہر نہ ہو، تو وہ اَن پہچانی رہ جاتی ہیں، ( اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ فلان چیز) کس سبب سے ہے، اور کس شکل کی ہے، مگر یہی ہے، کہ جس ہیولا ( بلا

۱۴۳

صورت مادہ) کو اس عالم میں صورت مل چکی ہو، تو وہی اپنی حد میں اور صورت کے بعد پہچانا جا سکتا ہے۔

         جب عالم میں یہی ( قانون) تھا، تو ( اس لئے) کلمۂ اخلاص میں نکرہ معرفہ سے پہلے آیا ہے، ( یہ بتانے کے لئے کہ ہر چیز پہلے تونکرہ یعنی اَن پہچانی ہوتی ہے، پھر معرفہ یعنی پہچانی ہوئی ہوتی ہے) جس میں نکرہ تو اِلہَ ہے، اور معرفہ اللہ ہے، اور خدا کے نام کے نفی کرنا لام و الف کے ذریعہ ہے، جو (یہ دونوں حرف) ایک دوسرے پر واقع ہوتے ہیں، جیسے: لا (جو رسولؐ اور وصیؑ کی مثال ہے، کہ ان کا نور ایک دوسرے کی ذات میں اس طرح داخل ہے، جس طرح کلمۂ اخلاص کے یہ لام اور الف = لا اور انہی کے ذریعہ تنزیل و تاویل اور محسوس و معقول کے چہروں کی شناخت حاصل ہو سکتی ہے، نیز انہی کے ذریعہ ہر چیز کی نفی اور اثبات ہو سکتا ہے، جس طرح کلمۂ اخلاص میں نکرہ و معرفہ اور نفی و اثبات کا ذریعہ صرف الف اور لام ہی ہیں یعنی لا اور اِلّا) اور اس کے بعد نکرہ آتا ہے، جیسے اِلٰہ، اور (جس طرح نفی لام و الف سے ہوئی تھی، اسی طرح، اثبات بھی الف و لام ہی سے ہوتا ہے، جو لام و الف کا برعکس ہے، جیسا کہ نکرہ معرفہ کا برعکس ہے، اور سورۂ اخلاص میں خدائے تعالیٰ نے اپنی یکتائی آشکار کر دی، اور فرمایا، قولہ تعالیٰ: ’’ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ‘‘ اور کلمۂ اخلاص میں یہی حقیقت اشارے کے طور پر ہے، جس میں فرمایا کہ کوئی معبود نہیں سوائے خدا کے، یعنی وہ یکتا ہے، ہم اس لئے اس سے پہلے بتا چکے ہیں، کہ توحید سورۂ اخلاص میں فعل میں آئی ہے، اور کلمۂ اخلاص میں قوت میں موجود ہے، اس لئے کہ چیزیں پہلے تو حدِ قوت میں پائی جاتی ہیں اور کمزور ہوتی ہیں، پھر وہ حدِ فعل میں پہنچ کر طاقتور ہو جاتی ہیں۔

         پس ہمارا بیان یہ ہے ، کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے متعلق احد یعنی یکتا کہا، اور وہ تبارک و تعالیٰ جل ذکرہٗ اپنی خلقت اور فرمان کی طرح اپنی ذات میں یکتا ہے

۱۴۴

(چنانچہ اپنے فرمان کے بارے میں فرماتا ہے:

         ’’وَمَا أَمْرُنَا إِلاَّ وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ (۵۴: ۵۰)

         اور ہمارا امرِ’’کن‘‘ صرف ایک ہی بار ہے، جیسے: آنکھوں کا جھپکانا پس اس فرمانِ واحد اور اس کے تحت پیدا شدہ خلقتِ واحدہ کی دلیل پر خدائے تعالیٰ اپنی ذات میں یکتا ہے) امام جعفر صادق علیہ السلام نے اسی طرح پڑھا ہے: ’’ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ الْاَحَدٌ‘‘؎۱  اور اسی طرح لازم آتا ہے، کیونکہ اللہ معرفہ ہے، اور احد نکرہ ہے، اور جب معرفہ کو نکرہ سے موصوف کیا جائے تو اس صفت کے معنی اس پر واقع ہونے سے معرفہ اور نکرہ کے درمیان معنوی شرکت ہوتی ہے، جب تو معرفہ کو معرفہ ہی سے موصوف کرے گا، تو وہ صفت اس معرفہ کے لئے کسی دوسری چیز کی شرکت کے بغیر مخصوص ہو جاتی ہے، اور دلیل ملتی ہے، کہ نزول کی اصل ’’ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ الْاَحَدٌ‘‘ہے، اس لئے کہ فرماتا ہے: ’’ اَللّٰہُ الصَّمَدُ‘‘۔ چنانچہ نام معرفہ ہے، اور صفت بھی معرفہ ہے، اور صمد کے یہ معنی ہیں، کہ دوسرے سب اپنی حاجات کے لئے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں، اور اس کے معنی یہ بھی ہیں، کہ وہ جزو جزو ہو ہی نہیں جاتا، نیز صمد وہ ہوتا ہے، جس کے درمیان کوئی خلانہ ہو، اور یہ صمد لفظ احد کی احدیت کے معنی کو مضبوط کر دیتا ہے اور وہ اس طرح کہ گنتی کی جفتیں ایک سے پیدا ہو جاتی ہیں، اور وہ سب ایک کی محتاج رہتی ہیں، کیونکہ ان کی ہستی اسی سے ہے، پس صمد کے یہی معنی ہیں اور جب یہ سورۂ اخلاص کلمۂ اخلاص کا دوسرا رخ ہے، تو لازم آتا ہے، کہ اس سورے کا آغاز نفی اور نکرہ ہے، جیسے لا اِلٰہَ، اور اس کا خاتمہ اثبات

؎۱: اس مطلب کے سلسلے میں مزید معلومات کے لئے، نیز سورۂ اخلاص والے پورے اسما اللہ کی شرح کی تحقیق و تصدیق کے لئے کتاب الزینۃ جلدِ دوم، صفحہ ۳۲ تا ۴۵ ملاحظہ ہو۔

۱۴۵

اور معرفہ، جیسے: الّا اللہ۔

         نیز ہم یہ بتائیں گے، کہ احد اور صمد کے معنوں کو خدائے تعالیٰ کا یہ قول محکم کر دیتا ہے: ’’ لَمْ یَلِدُ وَلَمْ یُوْ لَدْ۔‘‘ اس لئے، کہ ولادت (جنم) تو جفتوں کے درمیان موجود ہے، اور طاق سے کوئی تولید ہی نہیں، اور مولود کو اس جوڑے کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے جس سے وہ پیدا ہوا ہو کیونکہ یہ ان دونوں کا تیسرا ہے، اور باری سبحانہ تعالیٰ کا ان جفتوں کو پیدا کرنا کسی جفت کے ذریعہ سے نہیں، تاکہ ان جفتوں کو اس کے ساتھ مناسبت ہو، بلکہ وہ کوئی ایسے ’’ایک‘‘ سے پیدا ہوئی ہیں، کہ کسی وجہ سے بھی اس کی تقسیم اور تجزیہ نہیں ہو سکتا، اور ہر مولود اس شخص کے مانند ہوتا ہے، جس سے یہ پیدا ہوا ہے، جیسے: معلول علت کے مانند ہوتا ہے، اور خدائے تعالیٰ کا چیزوں کو پیدا کرنا علت کے اپنے معلول کو پیدا کرنے کی طرح نہیں، کیا تو نہیں دیکھتا، کہ خدائے تعالیٰ یوں فرماتا ہے: ’’وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُواً اَحَدٌ۔ یعنی کوئی شخص اس کے لئے لائق و ہمسر نہیں، ‘‘ اس لئے کہ وہ ذات اور فعل میں یکتا ہے، جس نے اپنے امر کے ذریعہ لاشَیْ سے شَیْ پیدا کی، اور یہ اسمِ احد سورے کے اخیر میں نکرہ ہے، جس طرح شروع میں معرفہ ہے، اس لئے کہ احدیت (یعنی ایک کی صفت و خاصیت) مخلوقات میں پائی نہیں جاتی اور وہ پہچانی ہوئی نہیں، بلکہ وہ خدا ہی کی ہے، اور احد کے معنی ’’ کوئی شخص‘‘ کے ہیں، اور واحد کے معنی ایک کے ہیں، اور ان دو لفظوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے، مثلاً اگر ہم یہ کہیں، کہ ’زید کو کوئی شخص پسند نہیں آتا‘ یہ مطلب اس سے بڑا ہے، جو ہم کہیں، کہ ’’زید کو ایک شخص پسند نہیں آتا ہے‘‘ پس جو کچھ فرماتا ہے، کہ اس کا ’’کفو‘‘ نہیں، تو اس سے خدائے تعالیٰ کی مراد یہ ہے، کہ اَحَدْ (حقیقی معنوں میں) مخلوق کے لئے نہیں، یہ فصل دانش والوں کے لئے لکھی گئی، اور جس کی دانش نہیں، یا (دانش حاصل کرنے کی صلاحیت) نہیں رکھتا، تو اس کے لئے اس حقیقت کا سمجھ لینا دشوار ہے، مگر وہ شخص

۱۴۶

(سمجھ سکتا ہے) جس کو علمِ تاویل میں کچھ تجربہ حاصل ہوا ہو۔

                          والسلام۔

۱۴۷

کلام ۔ ۱۳

اَعُوْذ با للّٰہِ مِنَ الشّیطانِ الرَّجِیْم کی تاویل کے بارے میں

         اس بارے میں ہمارا بیان یہ ہے، کہ بموجبِ فرمانِ الٰہی آنحضرت نے لوگوں کو کلمۂ اخلاص ( لَا اِلٰہَ اِلّا اللہ) کی دعوت کی، اور اس کلمے میں آنحضرت نے باری سبحانہ و تعالیٰ سے مخلوقات کی صفات کی نفی کر دیا، اور اس کی یکتائی کا اثبات کر دیا، پس لوگ نفی و اثبات کی طرح دو گروہ ہوئے، جن میں ایک گروہ اہلِ حق کا ہوا (اور دوسرا گروہ اہلِ باطل کا) اہلِ حق نے ان صفات کی نفی کر کے توحید کو مجرد کر دیا، جن کا اہلِ باطل نے اثبات کیا تھا، جبکہ اہلِ باطل کے لئے وہ اشارہ واضح نہ ہوسکا، جو کلمۂ اخلاص میں تھا، اور خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کو دیو راندہ (شیطانِ الرجیم) سے بچ کر خداوند کے حضور میں اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے فرمایا، اس آیت کے بموجب، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ (۱۶: ۹۸)

         (اے رسول!) جب آپ قرآن پڑھیں تو اپنے آپ کو شیطانِ راندہ سے خدا کے حضور میں محفوظ رکھئے۔‘‘ پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے قرآن پڑھنے سے

۱۴۸

پہلے ’’اَعُوْذ با للّٰہِ مِنَ الشّیطانِ الرَّجِیْم‘‘کہنے کے لئے فرمایا، اور عربی لغت کے اعتبار سے ’’رجیم‘‘ وہ شخص ہوتا ہے، جو بغیر دیکھے اور بغیر سنے اپنی ہی طرف سے باتیں بناتا ہو، اور یہ لفظ ’’ رجیم‘‘ عربی میں فعیل کے وزن پر ہے، جس کے معنی فاعل کے ہیں، چنانچہ علیم اور عالم کا مطلب ایک ہی ہے، اسی طرح قدیر اور قادر کا مطلب ایک ہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس قول سے اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے: ۔

         ’’خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ ‘‘ (۱۸: ۲۲)

         اصحابِ کہف کے قصے کے سلسلے میں فرماتا ہے: ’’ ایک گروہ نے کہا، کہ وہ لوگ پانچ نفر تھے، اور ان کا چھٹا ان کا کتا تھا، انہوں نے غائبانہ یعنی بغیر دیکھی اور بغیر سنی باتیں کیں۔‘‘ اور اَن دیکھی چیزوں کے بارے میں ذکر کرنا جائز نہیں، مگر یہ ہے ، کہ تو نے وہ چیز دیکھی ہو یا اس کے بارے میں تو نے کسی سچ بولنے والے سے سنا ہو، نیز رجیم کے معنی ہیں، سنگسار کیا ہوا، اور راندہ کیا ہوا، اور یہ تمام معانی ایک دوسرے کے نزدیک اور آپس میں ملے ہوئے ہیں، کیونکہ جب کوئی شخص نادیدہ اور ناشنیدہ بات کرتا ہے تو اس کو گویا سنگسار کر دیا جاتا ہے اور نکال دیا جاتا ہے، اور (اسی طرح) دین کے مالک کے فرمان کے بغیر جب کوئی شخص دین میں اپنے نفس کی غرض پر چلتے ہوئے اپنی ہی دعوت کرنے لگتا ہے، تو اسے (دین) سے نکال دیا جاتا ہے، اور اس کو دور کر دیا جاتا ہے، اور یہ لفظ ’’رجیم‘‘ جس کی صفت سے شیطان کو موصوف کیا گیا ہے، اس شخص پر دلیل ہے، جس نے رسول (صلعم) کے فرمان کو چھوڑا ہے اور اپنی رائے اور قیاس کے پیچھے چلا ہے، اور ’’اَعُوْذ با للّٰہِ ‘‘ کے اس قول میں تو یہ کہتا ہے کہ: ’’میں اپنے آپ کو خدا کے حضور میں محفوظ رکھتا ہوں‘‘۔

         یہ ایک ایسے شخص کی پیروی پر دلیل ہے، کہ وہ جو کچھ کہتا ہے تو اپنی ہی طرف سے نہیں کہتا ، جس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کی تعریف کی، کہ آنحضرت خدائے تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے تھے، اور اپنی غرض کی بات نہیں کرتے تھے، قولہ تعالیٰ: ۔

۱۴۹

         ’’وَمَا يَنْطِقُ عَنْ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْيٌ يُوحَى (۵۳: ۳ تا ۴)

         (رسول) اپنے نفس کی خواہش سے نہیں بولا کرتے ہیں، وہ یعنی قرآن اور کچھ نہیں مگر وحی ہے، جو بطریقِ وحی بھیجا گیا ہے۔‘‘ پس جس شخص نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی اجازت (فرمان) سے دینی باتیں کیں تو وہ خدا کے راستے پر ہی چلا اور جس نے دین میں اپنی ہی غرض کی باتیں کیں، تو وہ راندہ شیطان ہوا، اور کلمۂ ’’اَعُوذ باللہ ‘‘ عربی زبان میں اس مطلب کے لئے بولا کرتے ہیں، کہ میں اس شخص کے پاس جاتا ہوں، جو مجھے (بچانے کے لئے) کافی ہے، پس دیندار لوگ اسی شخص کے پاس جاتے ہیں، جس کو اللہ تعالیٰ نے (اسی کام کے لئے ) قائم کر دیا ہے، جس کی ذمہ داری لوگوں کو اسی طرح بچانا ہے، اور وہ دیندار لوگ اسی شخص کے ذریعہ مکار شیطان (کے فریب) سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں (اور خدا) نے اس پناہ دینے کے کام کو اپنا کام قرار دیا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے قول کے ذریعہ اس مطلب کو واضح کر دیا ہے: ۔

         ’’قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ= (اے رسول!) آپ کہئے کہ میں اپنے آپ کو لوگوں کے پروردگار کے پاس محفوظ رکھتا ہوں، مَلِكِ النَّاسِ إِلَهِ النَّاسِ =جو لوگوں کا بادشاہ اور ان کا خدا ہے ۔‘‘ اس کی تاویل یہ ہے، کہ لوگوں کی روحانی پرورش اس شخص سے ہونی چاہئے، جس کو اس بارے میں خدا کا فرمان حاصل ہوا ہو، جو خدا کی خاص بادشاہی میں رہتا ہو، اور اس کے فرمان پر عمل کرتاہو، چنانچہ بندہ آقا کے حکم پر عمل کرتا ہے اور وہ اپنی ذات سے کچھ بھی نہیں کرتا، جس طرح آزاد لوگ اپنی آزادی سے کام کرتے ہیں۔

         ’’مَلِکْ‘‘ اور ’’ربّ‘‘ اللہ تقدس و تعالیٰ ہی ہے، اس ترتیب میں سب سے پیچھے لفظ ’’الٰہ‘‘ فرمایا گیا۔ ’’ربّ‘‘ سب سے پہلے ارشاد ہوا، اور ’’مَلِک‘‘ درمیان میں فرمایا گیا، اس لئے کہ پروردگار ایک ایسا نام ہے، جو ہر شخص کے لئے استعمال ہو سکتا ہے، جیسے: بچوں، مویشیوں وغیرہ کا پالنے والا ( پروردگار) پھر مَلِک رَبّ سے

۱۵۰

زیادہ خاص ہے، اور اِلہ مَلِک سے زیادہ خاص ہے، اور اس نام میں کوئی مخلوق حصہ دار نہیں ہوسکتی۔

         جب شیطانِ رجیم سے بچنے کے لئے اس طرح کی پناہ لی جائے تو راندہ شیطان ایسے شخص پر غالب نہ آسکے گا، کہ اس کو فریب دے اور گمراہ کر سکے، اور جب کوئی انسان خدا کو نہ پہچانے، اور شیطان کو نہ پہچانے، تو وہ حق تک نہیں پہنچ سکے گا، اور مومن کا نفس اس شخص کے ذریعہ پاک ہونا چاہئے، جس کے پاس وہ پناہ لیتا ہے، اور اس شخص کی وجہ سے ناپاک نہ ہوجانا چاہئے، جس سے اپنے آپ کو بچانا ضروری ہوا ہے، اور جب اس مومن نے ان دونوں کو پہچان لیا، تو وہ پاک ہوا، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ۔

         ’’إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (۱۶: ۹۹)

         یقیناً ان لوگوں پر شیطان کا کوئی غلبہ نہیں، جو (حقیقی) مومن ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔‘‘ پس خاندانِ برحق کے دشمن سے مومن کی حفاظت امامِ زمان ہی کے ذریعہ ہے۔

۱۵۱

کلام۔ ۱۴

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کی تاویل کے بارے میں

         ہم اللہ تعالیٰ کی (عطا کردہ) توفیق سے بیان کرتے ہیں، کہ کلمۂ اخلاس (لاَ اِلٰہَ الّا اللہ) سے دانشمند کے لئے یہ ظاہر ہو جاتا ہے، کہ جو کچھ (بظاہر موجود) ہے، جب اس کو خدا سے نسبت دی جائے تو وہ چیز منفی (نفی کی گئی) قرار دی جاتی ہے، یعنی وہ چیز فی الحقیقت یا تو ’’نیست‘‘ ہے، یا نیست ہونےوالی ہے، اور خدائے تعالیٰ مثبت (ثابت و برقرار رکھنے والا) ہے، کیونکہ وہی تو ہست و نیست کا بادشاہ ہے، اس لئے، کہ ہست کو نیست سے اسی نےپیدا کر دیا ہے، اس کے بعد اَعُوْز بِاللہ کے قول سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے، کہ راستہ دکھانے والا کون ہے، اور راستے سے بھٹکانے والا کون ہے، نیز (یہ کہ) وہ شخص کونسا ہے، جس کی طرف لوگوں کو رجوع کرنا چاہئے، اور وہ شخص کونسا ہے، جس سے لوگوں کو بھاگ جانا چاہئے، پھر اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں، کہ تم اس شخص کا اثبات کر لو جو تم کو پناہ دینا اور ثابت قدم رکھنا اسی کےلئے شایان ہے۔

         پاس ہم ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ‘‘کا بیان کردیتے ہیں، جس میں اسم ’’اللہ‘‘ اس حقیقت کی دلیل ہے، کہ خدائے تعالیٰ نے ابتدائی چیزوں کو

۱۵۲

نیستی ہی سے پیدا کر دیا، کیونکہ ’’اللہ‘‘ ایک ایسا نام ہے جو کسی دوسرے لفظ سے بنا ہوا نہیں (یہ اس لئے ایسا ہے) تاکہ باعتبارِ لفظ خدائے تعالیٰ کے ساتھ معنی کی نسبت ہو جائے، یہ مثال ’’کسی چیز سے بغیر‘‘ چیز پیدا ہو جانے کی ہے، یعنی یہ مثال اس حقیقت کی دلیل ہے، کہ خدائے تعالیٰ نے روحانیوں کو کسی چیز سے بغیر پیدا کردیا، اور یہ دونوں مثالیں (یعنی غیر مشتق نام اور بغیر چیز سے چیز کا پیدا کرنا) ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں، پھر اس ترتیب میں ’’رحمٰن‘‘ دوسرا نام ہے، جو رحم سے مشتق ہے، چنانچہ رسول علیہ السلام نے فرمایا ہے: ۔

         ’’اِنَّ اللہ اَحَبَّ الاَر حَامَ وَاَمَرَ بِوَصْلِھَا وَ اشْتَقَّ لِنَفْسِہِ اِسْماً مِنْھَا وَھُوَ الرَّحْمٰنُ‘‘۔

         بے شک اللہ تعالیٰ قرابت داروں کو (ان کی باہمی قرابت کی وجہ سے) دوست رکھتا ہے، اور اس نےاس قرابت (یعنی صلۂ رحم) کو قائم رکھنے کے لئے امر کیا ہے، اور اس نے اس (لفظِ رحم) سے اپنے لئے ایک اسم مشتق کیا ہے، اور وہ (اسم) رحمٰن ہے، تو (یہ حقیقت اس امر کی) دلیل ہے، کہ اللہ تعالیٰ ظاہرچیزوں کو پوشیدہ چیزوں سے پیدا کردیتا ہے، جس طرح رحم (بچہ دان) اپنی ظاہر چیزوں کو پوشیدہ چیزوں سے پیدا کر دیتا ہے۔

         اسمِ ’’رحیم‘‘ لفظِ رحمت سے بنا ہے، اور رحمت نے ظاہر چیزوں کو بھی آغاز ہی سے گھیر لی ہے، اور پوشیدہ چیزوں کو بھی اس نے ہمیشہ سے گھیر لی ہے، اور رحمت مہر کا نام ہے، جو دل میں پیدا ہوا کرتی ہے، (جس کی خاصیت یہ ہے) کہ یہ دوسروں کے لئے ہر قسم کی نیکی کرا لیتی ہے، یا دوسروں سے بدی زائل کرا دیتی ہے، پس خدائے تعالیٰ ہماری ظاہری ضروریات میں ہم پر رحمٰن ہے، یعنی ہمیں کھانے، پینے، پہننے،اور دنیا کی دوسری چیزیں عطا کر دینے والا ہے، نیز وہ ہمارے باطن پر رحیم (رحمت کرنے والا) ہے، یعنی ہمارے نفوس کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے، وہ چیز اپنے انبیا ٔ اور ان کے نمائندوں کی زبان پر ہمیں

۱۵۳

پہنچا دینے والا ہے، اس مطلب کی تشریح ( یہ ہے، کہ جن حضرات کی زبان پر خدا کی رحمت ہمارے لئے نازل ہوا کرتی ہے ان میں اولین شخص) پیغمبر (صلعم) ہیں، پھر ان کے وصیؑ ہیں، پھر امامِ زمان ہیں، اور انہی (یعنی امامِ زمانؑ ) کے ذریعہ ان کے ماتحت درجات کو یہ رحمت پہنچتی ہے۔

         یہ آیت یعنی بِسْمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ چار کلمات (بسم۔ اللہ۔ الرّحمٰن۔ الرّحیم) پر مبنی ہے، اور دس حروف سے ہے، جیسے: ب، س، م، ا، ل، ہ، ر، ح، ن، ی، اور نو پاروں میں ہے، جیسے بسم۱۔ ا۲۔ للہ۳۔ا۴۔ لر۵۔ حمٰنّ۶۔ ا۷۔ لر۸ حیم۹، اور اس کے حروف مجموعی طور پر اُنیس (۱۹)ہیں، اور اس آیت کے دس بنیادی حروف میں سے پانچ حروف غیر مکرر ہیں، یعنی دہرائے ہوئے نہیں ہیں، جیسے: ب، س، ہ، ن ، ی ، اور پانچ حروف مکرر ہیں، یعنی دہرائے ہوئے ہیں، جیسے: م، ا، ل، ر، ح۔

         پس ہم اس کی تاویل کرتے ہیں، کہ اس آیت کے چار کلمے چار اصولِ دین پر دلیل ہیں، جو دو روحانی اور دو جسمانی ہیں، اور اس کے نو پارے، دو جسمانی حدود اور سات بڑے ادوار کے مالکوں پر دلیل ہیں، اور وہ پانچ حروف جو ایک بار آئے ہیں، پانچ حدودِ روحانی پر دلیل ہیں، جو بے بدل اور باقی ہیں، جیسے: اول، ثانی، جد، فتح اور خیال، اور وہ پانچ حروف جو اس میں دہرائے گئے ہیں، پانچ حدودِ جسمانی پر دلیل ہیں، کہ ہر دور میں ان کا مرتبہ جاری ہے، جیسے ناطق، اساس، امام، حجت اور لاحق (داعی) اور ’’بسم‘‘ کے تین حروف کا ’’اللہ‘‘ کے چار حروف سے پہلے آنا اس بات کی دلیل ہے، کہ تین فروع یعنی لاحق، حجت اور امام ہی کے ذریعہ چار اصولِ دین کی پہچان حاصل کی جاسکتی ہے، اور طہارت میں بھی تین سنتیں ہیں: وضو کرنا، کلی کرنا اور ناک میں پانی لگانا، جو ان چار فرائض سے پہلے آتی ہیں، چہرہ دھونا، ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونا، سر پر مسح کرنا، اور پاؤں پر مسح کرنا، اور بسم اللہ کے سات حروف کے بعد الرّحمٰن الرّحیم کے بارہ حروف ان بارہ حجتوں پر دلیل ہیں،

۱۵۴

جو سات اماموں کے بعد ہیں، جو ان اماموں سے (روحانی) تائید حاصل کر کے لوگوں کو پہنچا دیا کرتے ہیں (اسی طرح تمام بسم اللہ کے) مجموعی حروف انیس (۱۹) ہوتے ہیں، جو بڑے دور کے سات صاحبان اور ان کے بارہ (مشترکہ) حجتوں پر دلیل ہیں، کیونکہ ناطقِ اول سے ناطقِ آخر تک (بمع قائم کے سات ؎۱ ناطق) اور ان کے بارہ حجت، کل انیس ہوتے ہیں۔

         نیز (یہ انیس ۱۹ حروف دلیل ہیں) چھوٹے دور کے سات اماموں اور ان کے ان بارہ حجتوں پر ، جو ان کے فرزندوں میں سے ہیں، کہ یہی لوگ اہلِ دوزخ پر یعنی نادانوں پر موکل ہیں، تاکہ یہ موکل ان نادانوں کو دوزخ سے چھڑا دیا کریں، جبکہ اہلِ دوزخ فرمانبرداری کریں اور خدائے تعالیٰ نے اس آیت کے بموجب ان (انیس حضرات) کی مثال مالکانِ دوزخ سے دی ہے، جو فرماتا ہے: ۔

         ’’عَلَیْھَا تِشْعَۃَ عَشَرَ (۷۴: ۳۰) اس (دوزخ) پر انیس ۱۹ فرشتے (موکل) ہیں۔‘‘ اور خلائق کے نفوس کو حدِ قوت سے حدِ فعل میں لانے کے لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہی سات اور بارہ موکل (کارکن) مقرر ہیں، تاکہ خلائق (انہی کے ذریعہ، ابدی نعمتوں کو حاصل کر سکیں، جس طرح خلائق کے اجسام کی پرورش کے لئے سات سیارے اور بارہ بروج موکل ہیں، تاکہ وہ لوگ اس جہان کی چند روزہ نعمت کو حاصل کرسکیں، اور لوگ اپنے کاموں میں تسمیہ کے چار کلمات میں سے دو ۲ یعنی بسم اللہ پہلے پڑھا کرتے ہیں، جس کے دو ۲ سبب ہیں، ایک سبب یہ ہے کہ یہ دونوں پہلے کلمے (بسم اور اللہ) دو حدِ جسمانی (ناطق اور اساس) پر دلیل ہیں، اور انسان کا کسی روحانی حد تک پہنچ جانا جسمانی حد ہی کے وسیلے سے ممکن ہو سکتا ہے، اور جسمانی ہم جنیست کے سبب سے انسان جسمانی حد کے ساتھ زیادہ آشنا ہو

؎۱۔ سات ۷ ناطق یہ ہیں: آدمؑ، نوحؑ، ابراہیمؑ، موسیٰؑ ، عیسیٰ ؑ، محمدؐ اور قائم ؑ(اساس التاویل فٹ نوٹ ص ۷۵ و متن ص ۷۹)

۱۵۵

جاتا ہے، اور دوسرا سبب یہ ہے کہ بِسم اللہ کے یہ سات حروف جن سے یہ دونوں کلمے بنے ہیں، سات بڑے ادوار کے صاحبان پر دلیل ہیں، کہ وہ خود تو آشکار ہیں، مگر ان کے (بارہ مشترکہ) حجت پوشیدہ ہیں، لیکن وہ مومنوں سے پوشیدہ نہیں ہیں، پس انسان ان سات حضرات کو ان بارہ حضرات کی بہ نسبت زیادہ پہچانتا ہے، جس طرح سات ۷ سیاروں کو تو ہر شخص دیکھ سکتا اور پہچان سکتا ہے، مگر بارہ بروج کو سوائے ان لوگوں کے جہنوں نے علمِ نجوم پڑھا ہے، دوسرے لوگ نہیں دیکھ سکتے ہیں اور نہیں پہچان سکتے ہیں۔

         نیز ہم یہ بیان کریں گے ، کہ بسم اللہ (کا مطلب) خدا کا (ایک خاص) نام ہے، اور خدا کا (وہ) نام اپنے دور میں رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں، اور ان کے وصیؑ اپنے زمانے میں خدا کا (وہی) نام ہیں، اور امامِ زمانؑ ہر زمانے میں خدا کا (وہی حقیقی) نام ہیں، اس قول کی حقانیت پر دلیل یہ ہے، جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         ’’ وَلَا تَا کُلُوْ امِمَّا لَمْ یُذْ کَرِ اسْمُ اللہِ عَلَیْہِ (۶: ۱۲۱)

         اور مت کھایا کرو، اس چیز سے جس پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو۔‘‘ پھر جس چیز سے رسول علیہ السلام نے کھانے کے لئے نہ فرمایا ہو، اگر اس پر سو دفعہ خدا کا (کوئی لفظی) نام پڑھا جائے تو (پھر بھی) وہ چیز حلال نہ ہو سکے گی، پس خدا کا بزرگ ترین نام رسول علیہ السلام ہوئے، کیونکہ ان کے فرمان کے بموجب جو چیز حرام ٹھہرائی گئی وہ پھر خدا کے کوئی اور نام پڑھنے سے حلال نہ ہو سکی، اور جبکہ رسول علیہ السلام خدا کا (حقیقی ) نام ہیں، تو رسول کے وہ فرزند جو آنحضرت کے فرمان کے بموجب حضور کے مقام پر قائم ہوئے ہیں، خدا کا وہی نام ہیں، اور قول و فعل میں سے جو کچھ وہ حلال ٹھہرا تے ہیں، وہی حلال ہو جاتا ہے، اور جو کچھ وہ حرام قرار دیتے ہیں، وہی حرام ہو جاتا ہے، اور مذکورہ بالا آیت (وَلَا تَاکُلُوْا۔۔۔۔۔) کی تاویل یہ ہے (کہ خدا وند تعالیٰ رمز کے طور پر فرماتا ہے ) کہ تم اس شخص کو (حقیقی)

۱۵۶

علم کی باتیں نہ بتایا کرو، جس سے امامِ زمانؑ کا عہد نہ لیا گیا ہو، کیونکہ ذبح کرنے کی تاویل ہے: عہد لینا، اور کھانے کی تاویل ہے: علم حاصل کرنا، جس طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کہ جس (ذبیحہ) پر خدا کا نام نہ لیاگیا ہو، تم اس سے مت کھایا کرو، اس سے خدا تعالیٰ کی مراد یہ ہے، کہ (روحانی طور پر ) اس چیز سے مت کھایا کرو جو خدا کا نام یاد نہیں کرتی ہے، اور امامِ زمان ہرزمانے میں خدا کا نام ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس شخص نے امامِ زمان کو نہ اپنایا ہو، اس کو علمِ تاویل کی باتیں نہ بتایا کرو۔

         نیز بتا دیا جاتا ہے، کہ رحمٰن خدا کا ایک خا ص نام ہے، جس کی حقیقت مخلوق کے لئے عام ہے، اور رحیم خدا کا ایک عام نام ہے، جس کی حقیقت مخلوق کے لئے خاص ہے، اس قول کا مطلب یہ ہے کہ رحمٰن خدا کے سوا کسی اور کو نہیں کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ خدا کا خاص نام ہے، اور اس کے معنی دنیا میں روزی دینے والے کے ہیں، اور یہ حقیقت خدا کی طرف سے تمام فرمانبرداروں اور نافرمانوں کے لئے عام ہے، اور رحیم ایسا نام ہے، جو خدا کو بھی کہا جاتا ہے، اور مخلوقات میں سے بخش دینے والوں کو بھی، اور یہ عام نام ہوا کرتا ہے، اور اس کے معنی آخرت میں خدا کے بخش دینے اور معاف کر دینے کے ہیں، خاص فرمانبرداروں کے لئے ہے، نہ کہ عام فرمانبرداروں کے لئے۔

         حدیث میں یہ روایت آئی ہے، کہ قیامت کے روز دوزخ (شیر کی طرح) غرائے گا، اور (اژدہے کی طرح) پھنکارے گا، جب رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تشریف لائیں گے تو پانی کا ایک پیالہ ہاتھ میں لے کر بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھ لیں گے اور اس پانی پر دم فرمائیں گے اور اس پانی کو دفعتہً دوزخ پر ڈال دیں گے، تو فوراً آگ بجھ کر اس کی آواز دھیمی ہو جائے گی خدائے عزوجل کے فرمان سے اس کو ندا آئے گی، کہ اے آتشِ دوزخ! تجھے کیا ہوا کہ تو خاموش ہوگئی اور دھیمی رہی ، دوزخ جواب دے گا، کہ (یارب!) تیرے نام کے مقابلے کے لئے میری کوئی طاقت نہیں۔

۱۵۷

         اس حدیث کی تاویل یہ ہے، کہ خاندانِ حق کا دشمن ہی دوزخ ہے، جو محض اپنے لوگوں کے سامنے غراتا ہے، اور انہیں اپنی طاقت دکھاتا ہے، مگر جب حقیقت کے پانی سے (جو علمِ حق ہے) بقدر ایک پیالہ اس پر ڈال دیا جائے ( تو وہ لا جواب ہوجاتا ہے) یعنی جب کوئی مستجیب (امام کا ایک عام مرید) جو علمِ حق کے (سمندر کے ) پانی سے پیالہ بھر پانی کی مثال ہے، اس سے کوئی مسئلہ پوچھا کرے، تو وہ عاجز ہو جاتا ہے، اور اس کی آواز دھیمی ہو جاتی ہے، اس لئے کہ امامِ زمان خدا کا نام ہے، اور مستجیب پانی کا وہ پیالہ ہے، جس پر خدا کا نام پڑھا جاتا ہے، اور امام کے خاندان کا دشمن جو کہ امامِ باطل ہے، جب دوزخ ہے جب یہ پانی اس پر ڈال دیا جائے تو اس کی ساری قوت کمزور ہو جائے گی، بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بارے میں واضح اور صاف بیان یہی ہے، جس کا ذکر کیا گیا ، اللہ تعالیٰ اپنے اسمِ اعظم کی قوت سے دوزخِ جہالت کے دروازے کو مومنوں سے (دور اور ) بند رکھے! اور ہمیں توفیق عطا فرمائے!!

۱۵۸

کلام ۔ ۱۵

طہارت اور اس کے آداب کے بارے میں

         ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بیان کر دیتے ہیں، کہ طہارت نماز کا دروازہ ہے جس طرح ایمان لانا دینِ اسلام کا دروازہ ہے (اور موجودات میں کوئی چیز ایسی نہیں، جس کا ظاہر اور باطن نہ ہو، پس جس طرح طہارت کا ظاہر ہے، اسی طرح اس کا باطن بھی ہے) طہارت کا ظاہر ( یہ ہے، کہ اس میں متعلقہ اعضا ٔ کو) پانی سے دھو لیا اور مسح کر لیا جاتا ہے، جبکہ پانی مل سکے، اور مٹی سے تیمم کر لیا جاتا ہے، جبکہ پانی حاصل نہ کیا جاسکے، طہارت کے باطن کا خلاصہ (دعوت قبول کرنے والے سے ) امامِ زمان کا عہد لینا، اور خدا کے اولیا ٔ کے دوشمنوں سے بیزار ہو جانا ہے، اور نماز خدا کے اولیا ٔ کے ساتھ مل جانے پر دلیل ہے۔

         طہارت پاک پانی کے بغیر جائز نہیں، اور پاک پانی علمِ بیان (تاویل) کی مثال ہے، جسم کی نجاست پانی سے دھل جاتی ہے، اور جان کی نجاست علمِ بیان سے دھل جاتی ہے۔

         نیز جس طرح ظاہری نماز طہارت کے بغیر جائز نہیں ہوسکتی، اسی طرح عہد لئے بغیر کسی کو علمِ حقیقت کی تعلیم دینا جائز نہیں، کیونکہ عہد لینا طہارت کا باطن اور علمِ حقیقت نماز کا باطن ہے، جسم کی نجاستیں، بول، براز، خون، پیپ اور دُبر سے خارج ہونے والی ہوا سے واقع ہوتی ہیں، اور جان کی نجاستیں جہالت،

۱۵۹

نافرمانی، شرک، تشبیہ ؎۱، تعطیل ؎۲ خدا کے اولیا ٔ کے دشمنوں سے دوستی اور خدا کے اولیا ٔ کے دوستوں سے بیزاری ہیں۔

         فصل ۱۔

         جس چیز کی وجہ سے طہارت واجب ہوتی ہے، وہ ایک ایسی نیند ہے جو انسان کی عقل کو مٹا دیتی ہے، یا اس چیز سے طہارت واجب ہوتی ہے، جو اگلے یا پچھلے مجرا سے نکل آتی ہے (اب سن لو کہ نیند کی تاویل کیا ہے، یا یہ کہ حقیقت میں نیند کسے کہتے ہیں) حکمت، علمِ حقیقت اور امامِ حق کی پہچان سے غفلت (بے توجہی) تاویل میں نیند کہلاتی ہے، اور وہ بے شعور سویا ہوا شخص، جس کو دنیا کی کوئی خبر ہی نہیں، اس شخص کا نمونہ ہے، جو سچے دین کے راستے سے غافل رہتا ہے، اور جو چیزیں اگلے اور پچھلے مجرا سے نکل آتی ہیں، وہ دینی مخالفوں کے اعتقادات اور ان کے اپنے پلید نفوس ہی سے نکالی ہوئی بدعتوں کے نمونے ہیں، خواہ یہ چیزیں نادرست ظاہری طاعت کی وجہ سے ہوں، جو پچھلے مجرا کی مثال ہے، یا بے حقیقت تفسیر کے سبب سے، جو اگلے مجرا کی مثال ہے، پس جس شخص پر غفلت پڑی ہو تو وہ شخص یا تو جسمانی طور پر یا روحانی طور پر مخالفوں کی بدعت سے متاثر ہوا ہوگا پھر اس پر واجب ہے، کہ علمِ حقیقت کے ذریعہ ان نجاستوں اور غفلتوں کو اپنے آپ سے دور کر دے۔

؎۱، ؎۲: فلسفیوں کی اصطلاح میں تشبیہ وہ عقیدہ ہے، جس میں خداوند تعالےٰ کو کسی چیز کے مانند قرار دیا جاتا ہے، اور تعطیل وہ عقیدہ ہے، جس میں یہ سمجھا جاتا ہے، کہ تخلیق کے کام میں خداوند تعالیٰ کی کوئی مداخلت ہی نہیں، نہ مخلوق کے ساتھ اس کی ذات کا کوئی رابطہ ہے۔

(از، فرہنگِ امیرِ کبیر)

۱۶۰

فصل ۲۔

         رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا فرمان ہے: ’’ لَا طھارۃ اِلَّا بِنِیَّۃ، یعنی نیت کے بغیر طہارت جائز نہیں‘‘۔ تو نیت کی تاویل خاندانِ حق کی دوستی ہے، کیونکہ ان کی ولایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض کی گئی ہے، اور کوئی بھی عمل ان کی ولایت کے بغیر مقبول ہو نہیں سکتا ، اور جو شخص طہارت کی نیت کرے، تو وہ اس میں بِسم اللہ پڑھتا ہے، ( اور بِسمِ اللہ خدا کا نام ہے) اور خدا کا حقیقی نام تو امامِ  زمان ہیں، نیز وصی اور رسول دونوں اپنے اپنے وقت میں خدا کا حقیقی نام ہیں، کیونکہ انہی کے ذریعہ کسی کو خدا کی پہچان ہو سکتی ہے، جس طرح چیزوں کی پہچان چیزوں کے ناموں ہی سے ہو سکتی ہے، اور طہارت کرتے وقت مومن کا بِسْم اللہ پڑھ لینا اس کے اس اعتقاد کو ظاہر کرتا ہے، ( جس میں وہ سمجھتا ہے) کہ وہ خدا کے ولی کے ذریعہ خدا تک پہنچ سکتا ہے، تاکہ وہ اپنے آپ کو خدا کے والی کے دشمنوں سے (بچا کر) خدا کے حضور میں پاک رکھ سکے۔

         فصل ۳۔

         طہارت کا تعلق سات اعضا سے ہے، جن میں سے چار اعضا کی طہارت فریضہ ہے، جیسے: چہرہ دھونا، ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونا، سر پر مسح کرنا اور پیروں پر ٹخنوں تک مسح کرنا، یہ چار فریضے ناطق کی مثال ہیں ، کیونکہ ان کے چار مرتبے ہیں، نبوت، وصایت، امامت اور بابیت اور تین اعضا کی طہارت سنت ہے، جیسے: وضوکرنا، کلی کرنا، اور ناک میں پانی لگانا، یہ تین سنتیں اساس کی مثال ہیں، کیونکہ ان کے تین مرتبے ہیں، وصایت، امامت اور بابیت، مگر ان کو نبوت کا حصہ نہیں۔

         طہارت کا آغاز سنتوں سے ہوا کرتا ہے، اس لئے کہ اساس ہی کے ذریعہ ناطق کے بیان اور ان کی پہچان تک کسی کو رسائی ہو سکتی ہے۔

         طہارت کی ترتیب یہ ہے، کہ سب سے پہلے ہاتھوں کو دھولیا جاتا ہے،

۱۶۱

خواہ ہاتھ میلے ہوئے ہوں یا صاف رہے ہوں، بہر حال ان کو دھو لینا چاہئے، دایاں ہاتھ ناطق کی دلیل ہے، اور بایاں ہاتھ اساس کی دلیل ہے، اور دونوں ہاتھوں کو دھولینے کی تاویل یہ ہے، کہ اگر مومن کو کسی ایسے طعنے کی وجہ سے ، جو کسی مخالف نے دیا ہے، ناطق و اساس کے متعلق کوئی شک واقع ہوا ہو، اور اس نے اس پر (کسی حد تک) باور بھی کیا ہو، تو سمجھ لو کہ وہ ان کے حق سے (کسی حد تک) منکر ہوا ہے، پھر اس کو چاہئے کہ اس سے باز آئے اور توبہ کرے (اور اگر اس نے توبہ کر لی) تو روحانی طور پر یہی اس کا ہاتھ دھونا ہے، پس مومن کا وہ اعتقاد، جو ناطق اور اساس کے بارے میں تھا، خواہ بگڑا ہو ( یا نہ بگڑا ہو) مگر اس صورت میں اس کو توبہ کرنے کی ضرورت محسوس ہو تی ہے، جس طرح (ظاہری طہارت کی مثال ہے، کہ) اگر ہاتھ میلے ہوئے ہوں یا صاف رہے ہوں (بہر حال) ان کو دھو لینا چاہئے، اور پانی کے برتن کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہئے۔

         پانی کے برتن کو دائیں ہاتھ کی طرف رکھنا چاہئے، پانی کا برتن داعی کی مثال ہے، اور اس میں جو پانی ہے، وہ داعی کے علم کی مثال ہے، (دائیں ہاتھ ناطق کی مثال اور بائیں ہاتھ اساس کی مثال ہونے کے علاوہ) دوسری وجہ سے دائیں ہاتھ داعی کی مثال ہے، اور بائیں ہاتھ مستجیب کی مثال ہے، اور دھوتے وقت دونوں ہاتھوں کا ایک دوسرے سے لپٹ جانا، مستجیب فائدہ حاصل کرنے کے لئے داعی کے ساتھ مل جانے اور داعی فائدہ دینے کے لئے مستجیب کے ساتھ مل جانے کی مثال ہے، اور جس قدر بائیں ہاتھ دائیں ہاتھ کے اندر ملتا جاتا ہے، اس قدر دائیں ہاتھ اس کو پاک کر دیتا ہے، اس کی تاویل یہ ہے، کہ مستجیب داعی سے جس قدر پوچھے تو داعی علمِ بیان کے ذریعہ اس کے نفس کو اس قدر پاک کر دیتا ہے۔

         جب دونوں ہاتھ دھل کر پاک ہو جائیں، تو دائیں ہاتھ پانی ڈالتا ہے، اور بائیں ہاتھ وضو کی جگہ دھو لیتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ داعی تعلیم دیتا ہے، اور مستجیب یہ تعلیم حاصل کر تاہے، اور اس علم کے ذریعہ وہ اپنی جان کو گناہ کی نجاست اور

۱۶۲

نافرمانی کی آلائش سے دھویا کرتا ہے۔

         ایک اور وجہ سے دائیں ہاتھ امام کی مثال ہے، اور بائیں ہاتھ حجت کی مثال ہے، اور پانی امام کے علم کی مثال ہے، اور حجت کو علم امام سے آتا ہے، جس طرح طہارت کے وقت بائیں ہاتھ کو پانی دائیں ہاتھ سے آتا رہتا ہے، اور حجت جو عہد مومن سے لیا کرتا ہے، وہی اس مومن کی (روحانی) طہارت ہے، کیونکہ (اسی عہد کے ذریعہ ) اس کی جان نافرمانی کی نجاست سے پاک ہو جاتی ہے۔

         اگر بائیں ہاتھ میں کوئی درد ہے، تو دائیں ہاتھ سے طہارت کر لی جاتی ہے جس کی تا ویل یہ ہے، کہ اگر امام نے کس سبب سے حجت قائم نہیں کر دیا ہو تو وہ خود ہی عہد لیا کرتے ہیں۔

         پاک ہو جانے کے لئے کوئی حد مقرر نہیں، کہ کس حد تک دھونا چاہئے، جس کے معنی یہ ہیں، کہ یہ ظاہر نہیں، کہ مومن کے نفس کے لئے کتنا علم چاہئے، تاکہ وہ اس تشبیہ و تعطیل سے پاک ہو، جو خدا کے اولیا ٔ کے دشمنوں نے رکھی ہے۔

         جب وضو کر لیا جائے تو ہاتھوں کا دوبارہ دھولیا جاتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے ، کہ جب مومن علمِ حقیقت تک پہنچ جائے، تو اسے اس کی قدردانی کے لئے داعی کی طرف رجوع کرنا واجب ہے، کہ اگر تیرا یہ علم نہ ہوتا، تو میں اسی اگلی گمراہی میں رہ جاتا۔

         اس کے بعد دائیں ہاتھ سے تین دفعہ یا ایک دفعہ منہ میں پانی لگایا جاتا ہے، اس کا اشارہ یہ ہے، کہ داعی یہ ظاہر کر دیتا ہے، کہ یہ علم، جو تو نے مجھ سے سنا، مجھ سے منسوب نہ کر، کیونکہ یہ علم مجھے حجت سے ملا ہے، اور حجت کو امامؑ سے ملا ہے، کیونکہ تین دفعہ کلی کرنا، ان تینوں حضرات کی مثال ہے۔

         منہ حجتِ جزیرہ کی مثال ہے، اس لئے کہ منہ جسمانی خوراک کا دروازہ ہے، اور حجتِ روحانی خوراک کا دروازہ ہے، اور امامؑ کا علم لوگوں کو صاحبِ جزیرہ کے بغیر نہیں پہنچتا۔

۱۶۳

         منہ میں دانت ہوتے ہیں، اور وہ ان حدود کی مثال ہیں، جو صاحبِ جزیرہ (حجت) کے تحت مقرر ہوتے ہیں، اور مسواک کرنا، حجت کے اپنے داعیوں کو علم دینے کی مثال ہے، تاکہ وہ سب اس کی وجہ سے پاک اور نیک نام ہوجائیں، نیز جس طرح مسواک کرنے سے منہ صاف اور خوشبودار ہو جاتا ہے، اسی طرح حجت اپنے داعیوں کی وجہ سے زیادہ پاک اور نیک نام ہو جاتا ہے۔

         منہ میں زبان ہوتی ہے، یہ اس داعی کی مثال ہے، جو حجت کے حلقۂ خاص میں رہتا ہے۔

         اس کے بعد ناک میں پانی لگایا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ داعی مستجیب کے لئے یہ ظاہر کر دیتا ہے، کہ جب تو نے علم حجت سے سیکھ چکا تو اس کو حجت کی نسبت نہ دے، اور ایسا گمان نہ کر کہ یہ علم حجت کا ہے، بلکہ حجت کے علم کو امام سے منسوب کر دے۔

         ناک، امام کی مثال ہے، اور منہ حجت کی مثال ہے، منہ اور ناک سے حجت و امام کی مثال اس لئے دی گئی ہے، کہ حجت اور امام نفوس میں وہی کام کر تے ہیں جو کام منہ اور ناک انسانی جسم میں کرتی ہیں، اس لئے کہ اگر منہ اور ناک بند ہوجائیں تو انسانی جسم بگڑ جاتا ہے، اسی طرح اگر حجت اور امام کا علم خلائق کے نفوس سے روک لیا جائے، تو یہ سب نفوس مر جائیں گے (یعنی روحانی قسم کی موت ان پر واقع ہوگی، اور وہ ابدی بہشت میں نہ پہنچ سکیں گے۔

         منہ سے بولا جاتا ہے، اور ناک سے نہیں بولا جاتا، مگر وہ کافی دور سے بو محسوس کر لیتی ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ حجت داعیوں اور لوگوں کو بات کے ذریعہ علم دیا کرتا ہے، مگر امام (علیہ السلام) حجت کو امر؎۱ اور خیال؎۲ کے ذریعہ علم دیتا رہتا ہے۔

؎۱: امر سے کلماتِ تامہ مراد ہے، جو علم و حکمت کے کلیدی اصولات ہیں۔

۲: خیال نورانی تصورات اور روحانی اشکال کو کہتے ہیں، امرو خیال کے ذریعہ کس طرح روحانی معجزاتی تعلیم دی جاتی ہے، اس کا تفصلی بیان ایک چھوٹی سی کتاب ’’درختِ طوبیٰ‘‘ میں آئے گا۔

۱۶۴

         ناک سے منہ تک راستہ جاتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ امام سے حجت تک پوشیدہ تائید کا سلسلہ لگا ہوا ہے۔

         خواہ انسان سویا ہوا ہو یا بیدار ہو، ناک برابر سانس لیتی رہتی ہے اور اس کو زندہ رکھتی ہے، اس کا اشارہ یہ ہے کہ خواہ سارے لوگ حق سے آگاہ ہوں یا بے خبر ہوں، مگر امام (علیہ السلام) متواتر و مسلسل اپنا کام کرتے رہتے ہیں، ہمیشہ لوگوں پر فیض برساتے ہیں اور ان کے نفوس کو زندہ رکھتے ہیں۔

         منہ کا ایک ہی سوراخ ہے، مگر ناک کے دو سوراخ ہیں، یہ اس بات پر دلیل ہے، کہ امام کے لئے علم کا مادہ دو اصلوں سے ہے، یعنی ناطق اور اساس سے، اور حجت کے لئے علم کا مادہ امامؑ سے ہے۔

         مذکورہ تین اعضا ٔ کو طہارت کے شروع میں دھولینا سنت ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ یہ تینوں گماشتے ( یعنی داعی، حجت اور امامؑ) ان چار اصول کی طرف سے ہیں، جن کی مثال طہارت کے چار فرائض سے دی گئی ہے۔

         پہلے ان تین سنتوں پر، پھر ان چار فرائض پر عمل کیا جاتا ہے، جس طرح (تسمیہ میں) پہلے ’’بِسم‘‘ کے تین حروف، پھر ’’اللہ‘‘ کے چار حروف پڑھے جاتے ہیں، جس کے معنی یہ ہیں، کہ مومن کو سب سے پہلے داعی کے مرتبے کا اقرار کرلینا چاہئے، پھر حجت اور امامؑ کے مرتبے کا، کیونکہ جب تک تم ان تینوں حدود کو نہ پہچانو، تب تک ان چاروں اصول کو نہیں پہچان سکو گے، اور دنیا ان تینوں فروع سے ہر گز خالی نہ رہے گی۔

         اس کے بعد منہ (چہرہ) دھو لیا جاتا ہے، اور چہرہ ناطق کی مثال ہے جس کی تاویل یہ ہے، کہ جس طرح لوگوں کو ان کے چہروں سے پہچان لیا جاتا ہے اسی

۱۶۵

طرح دین کو ناطق کے ذریعہ پہچان لیا جاتا ہے۔

         چہرے کے سوا باقی سارے اعضا ٔکو چھپا یا جاتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ناطق کے سوا باقی سب حدود، دین میں چھپے ہوئے ہیں۔

         تمام اعضا ٔ چہرے ہی سے پہچانے جاتے ہیں، (یعنی جب کسی کے چہرے کے بغیر ہاتھ یا پاؤں، وغیرہ نظر آئے، تو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کس کا ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ تمام علوی اور سفلی (یعنی روحانی اور جسمانی) حدود کو ناطق ہی کے اشارے سے پہچانا جاتا ہے، اس لئے کہ وہ دین کا چہرہ ہے۔

         چہرہ چار حواس کا جامع ہے، جیسے: باصرہ (دیکھنے کی حس) سامعہ (سننے کی حس) شامہ (سونگھنے کی حس) اور ذائقہ (چکھنے کی حس) اس کے معنی یہ ہیں، کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ناطق علیہ السلام کو چار بڑے مرتبے عطا ہوئے ہیں، چنانچہ باصرہ مرتبۂ ناطق کی مثال ہے، کہ اگر سامنے سے کوئی رکاوٹ نہ ہوئی تو باصرہ مشرق سے مغرب تک دیکھ سکتا ہے، اور سامعہ کو یہ مرتبہ حاصل نہیں، کیونکہ جس حد تک باصرہ دیکھ سکتا ہے اس حد تک سامعہ سن نہیں سکتا اور سامعہ اساس کے مرتبے کی مثال ہے کیونکہ جس حد تک سامعہ سن سکتا ہے اس حد تک شامہ سونگھ نہیں سکتا ، اور شامہ امام کے مرتبے کی مثال ہے (کیونکہ جس حد تک شامہ سونگھ سکتا ہے، اس حد تک ذائقہ چکھ نہیں سکتا) اور ذائقہ حجت کے مرتبے کی مثال ہے، کیونکہ جب تک تم کسی چیز کو منہ میں نہ ڈالو، تو اس کے ذائقے کو نہ سمجھو گے، جس کی تاویل یہ ہے کہ ناطق، اساس، اور امام کے لئے تائید حاصل ہے، جس کے ذریعہ وہ ان چیزوں تک پہنچ سکتے ہیں، جو ہنوز (اب تک) ان کے پاس نہیں پہنچی ہوں، اور حجت کو یہ تائید حاصل نہیں، نیز اس مطلب کی تاویل، کہ جب تک اشیائے خوردنی میں سے کوئی چیز منہ میں نہ ڈالی جائے تو اس کا مزہ معلوم نہیں ہوتا، یہ ہے کہ جب تک حجت کسی (قول و عمل کے) ظاہر کو نہ دیکھ پائے، تو وہ اس کی تاویل نہیں کر سکتا ۔

         ہاتھوں کو بازوؤں (کہنیوں) تک دھونا اساس کی مثال ہے، اس لئے کہ انسان

۱۶۶

قوتِ بازو سے کما کر پھر اپنے آپ پر خرچ کرتا ہے، اور بازو ہی کی مدد سے جسم کو پاک کرتا ہے، جس کے معنی یہ ہوئے، کہ نفوسِ خلائق کی تخلیق میں جو کچھ حکمت ہے، اس کا فائدہ اساس ہی کے ذریعہ مومنوں کے نفوس کو حاصل ہوتا ہے، اور مومنوں کی جانوں کی نجاست اساس ہی کے علم کے ذریعہ دور ہو جاتی ہے۔

         چہرہ ایک ہوتا ہے اور ہاتھ دو ہوتے ہیں جس کی تاویل یہ ہے، کہ ناطق ظاہر کی طرح علم ایک بار ( ایک دفعہ) بتاتے ہیں اور اساس ظاہر اور اس کی تاویل دونوں بتاتے ہیں۔

         پہلے منہ دھونا اور اس کے بعد بازو دھونا فرض ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ پہلے ناطق کے ظاہر کے لئے اقرار کرنا اور اسے قبول کرنا چاہئے، اس کے بعد اس ظاہر سے اساس کی تاویل میں جانا چاہئے۔

         چہرہ دھونے کے لئے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی، جس طرح ہاتھوں کو  کہنیوں تک دھونے کی حد مقرر کی گئی ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ ناطق نے حدود کو ظاہر نہیں کیا، اور ان کے بارے میں پوشیدہ طور پر بتا یا، اور اساس نے ان کو ظاہر کر کے مشہور کر دیا۔

         سر کی دماغی طاقت چہرے میں جاری ہے، اور یہ طاقت ان حواس کو پہنچتی رہتی ہے، جو چہرے میں ہیں، اگر یہ قوت نہ ہوتی تو یہ حواس ناکارہ ہو جاتے، جس کی حقیقت یہ ہے، کہ ناطقوں، اساسوں، اماموں، اور حجتوں کے لئے تائید ثانی، یعنی نفسِ کل سے مسلسل جاری ہے (جو موجودات کے ) سر کا درجہ رکھتا ہے۔

         دھوئے جانے والے اعضا سے فارغ ہوجانے کے بعد سر پر مسح کیا جاتا ہے، جس کا اشارہ یہ ہے، کہ جب مومن جسمانی حدود تک پہنچے تو اس پر یہ واجب ہوجاتا ہے، کہ ان حدود کو نفسِ کل کی نسبت دے، کیونکہ ان کا قیام نفسِ کل پر ہے۔

         سر تمام اعضا سے برتر ہے، اس کے معنی یہ ہیں، کہ نفسِ کل جسمانی حدود سے برتر ہے۔

۱۶۷

         مسح کرنا ہستی کے اقرار کا اشارہ ہے، اور دھونا فرمانبرداری اور تابعداری کا اشارہ ہے، مسح اس لئے ہے، کہ جو اعضا جسمانی حدود کی مثال تھے، ان کو دھونے کے لئے فرمایا گیا، جس کے معنی یہ ہیں، کہ جسمانی حدود کی فرمانبرداری کرنی چاہئے، اور جو اعضا روحانی حدود کی مثال تھے، ان پر مسح کرنے کے لئے فرمایا گیا، جس کے معنی یہ ہیں، کہ انسان کی یہ طاقت نہیں، کہ کسی روحانی تک پہنچ سکے، مگر اس کی ہستی کے اقرار کے ذریعہ۔

         سر بالوں میں چھپا ہوا ہے، جس کے معنی یہ ہیں، کہ نفسِ کل پر دے میں ہے، اور وہ بحقیقت پہچانا نہیں جاتا، مگر ان نظر آنے والی چیزوں کی دلائل سے۔

         اس کے بعد پیروں پر مسح کیا جاتا ہے، جو عقلِ کل کی ہستی کے اقرار کا اشارہ ہے۔

         سراور تمام اعضا ٔ کو پیروں نے اٹھا رکھا ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ نفسِ کل اور اس کے ماتحت حدود کا قیام عقلِ کل پر ہے، نہ کہ ان کی اپنی ذات پر۔

         پاؤں دو۲ اور سر ایک ہے، جس طرح ہاتھ دو اور چہرہ ایک ہوتا ہے، اور پیروں کا مسح ٹخنوں تک محدود ہے، جس طرح ہاتھوں کا دھونا کہنیوں تک محدود ہوتا ہے، اور سر کے مسح کی کوئی حد نہیں ہوتی، جس طرح چہرہ دھونے کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے، چہرہ اور سر ناطق اور نفسِ کل کی مثالیں ہیں، جو ایک تو صاحبِ تنزیل اور دوسرا صاحبِ ترکیب (تخلیق) ہے، اور ترکیب و تنزیل ایک دوسرے کے مانند ہیں، اور صاحبِ تنزیل کا قول رمزو مثال میں غیرمحدود ہے ، جس طرح چہرہ دھونا غیر محدود ہوتا ہے مگر یہ قول عقلِ  کُل کے نزدیک محدود ہے اور سر کا مسح غیر محدود ہے، اسی طرح ترکیبیں (تخلیقات) غیر محدود ہیں، اور پاؤں کا مسح محدود ہے (جس طرح رمزو مثال عقلِ کل کے نزدیک محدود ہوتی ہے، مگر اپنے طور پر) رمز و مثال نامحدود ہے، اور ناطق و اساس کے لئے محدود اور معلوم کر دی گئی ہے۔

ان سات اعضا کو دھونے اور ان پر مسح کرنے کےیہ معنی ہیں، کہ مومن

۱۶۸

خدائے تعالیٰ کو علم میں ان حدود سے برتر سمجھے، جن کی مثال ان اعضا سے دی گئی ہے، اور وہ یہ کہے، کہ خدائے تعالیٰ کے ساتھ اس علم میں ان کی کوئی شرکت نہیں، بلکہ وہ خداکے بندے ہیں اور قائم کئے گئے ہیں، تاکہ علم ہاتھوں ہاتھ گزار دیں اور مومنوں کی جان تک پہنچا دیا کریں۔

         نیز جو دھوئے جانے والے اعضا ٔ کو پہلے دھویا کرتے ہیں اور اس کے بعد سر اور پاؤں کا مسح کرتے ہیں، اس میں ناطق کی طرف سے یہ اشارہ ہے کہ پہلے میرے مرتبے کا اور میرے اساس کے مرتبے کا اقرار کریں، اور اس کے بعد عقلِ کل اور نفسِ کل کے مرتبے کا اقرار کیا جائے۔

فصل ۴۔

                 ہم بتا دیتے ہیں، کہ رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پہلے عقلِ کل اور نفسِ کل سے صحیح معنوں میں واقف نہیں تھے، اس لئے آنحضرت نے ان کو محدود اور محسوس سمجھ لیا، پس اسی سبب سے آنحضرت اپنے سر اور پیروں کو ان اعضا ہی کی طرح دھویا کرتے تھے، جن سے جسمانی حدود کی مثال دی گئی ہے، جب ناطقیت کا مرتبہ ان کے لئے مکمل ہو چکا، اور روحانی معراج کے طور پر نفسِ کل کے آسمان پر راجع ہوئے تو آنحضرت نے روحانی حدود کو جیسا کہ ان کے پہچاننے کا حق تھا پہچان لیا، اس کےبعد (ہر طہارت کے موقع پر ) سر اور پیروں پر مسح کیا، اور اس سے امت کے لئے یہ ظاہر کر دینا تھا، کہ یہ دو حدود محسوس نہیں ہیں، (اس لئے صرف ان کی ہستی کا) اقرار کر لینا چاہئے، پس ان کے وصی علیہ السلام نے اس اشارے کی حقیقت کو سمجھ لیا ، اور رسول کی مراد سے آگاہ ہوئے ، اور انہوں نے (بھی) اپنے سر اور بالوں پر مسح کیا ، اور ان کے  مخالفین، جن کو اس حالت کی خبر نہ تھی اگلی حالت پر ہی ٹھہرے رہے اور انہوں نے یہ رائے و قیاس کیا، کہ اگر مسح جائز ہے، تو دھو لینا اس سے زیادہ مکمل اور زیادہ صفائی بخش ہوگا۔

۱۶۹

         نیز ہم بتا دیتے ہیں، کہ رسول علیہ السلام اپنی نبوت کے آغاز میں موزے (جراب وغیرہ) اور پگڑی (کے ساتھ پاؤں اور سر) پر مسح کر لیا کرتے تھے، جبکہ دو اصل (عقلِ کل اور نفسِ کل) کی تائید بذریعۂ خیال (جبرائیل) ان کو نہیں پہنچی تھی، اور ان دو عظیم روحانی اصل کا حال ان سے پوشیدہ تھا، پس اس لئے آنحضرت نے جراب اور پگڑی پر ہی مسح کر لیا، اور اس سے یہ اشارہ فرمایا، کہ عقلِ کل اور نفسِ کل مجھ سے پوشیدہ ہیں، اور جب اللہ تعالیٰ نے ان کی بصیرت سے پر دہ کھول دیا اور روحانیوں کا حال ان پر روشن کر دیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هَذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ (۵۰: ۲۲)

         آپ قبلاً اس واقعہ سے بے خبر تھے، اور ہم نے آپ پر سے آپ کا پردہ ہٹا دیا، تو آج آپ کی نگاہ بڑی تیز ہے۔‘‘ پھر اس کے بعد آنحضرت نے ننگے سر پر اور ننگے پیروں پر مسح کیا، اور ان کے وصی نے اس حقیقتِ حال کو سمجھ لیا، اور ان کی یہ اشارت قبول کرتے ہوئے انہوں نے بھی پگڑی اور جرابوں پر مسح کرنا ترک کر دیا، اور حقیقی شیعوں نے ان کی پیروی کی، اور حق کے مخالفین پردے میں رہ گئے، اس لئے کہ یہ صورتِ حال ان سے پوشیدہ رہی، مگر رسول کے وصی کے لئے روشن ہوئی، آج وہ لوگ جو نہ تو عقلِ کل کو پہچانتے ہیں اور نہ نفسِ کل کو، لا علاج وہ جراب اور پگڑی ہی پر مسح کر رہے ہیں، یہ ان کی اپنی جہالت اور حق سے ناواقفیت کا اقرار ہے اور حقیقی شیعے ننگے سر اور پاؤں پر مسح کر لیتے ہیں، جو اشارۃً یہ کہتے ہیں ، کہ ’حقیقتِ حال ہم سے پوشیدہ نہیں‘‘۔ وہ اسی وجہ سے جراب اور پگڑی پر مسح نہیں کرتے ۔

فصل ۵۔

         جب کوئی شخص سویا ہوا ہو اور نماز کا وقت آئے، تو وہ شخص جو بیدار ہے،

۱۷۰

اس سوائے ہوئے شخص کو ہلاک کر جگا دیتا ہے، تاکہ وہ طہارت کر کے نماز کے لئے تیار ہو جائے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ نماز دعوتِ حق کی مثال ہے اور جگا دینے والا اس شخص کی مثال ہے، جس کو حق سے کچھ آگاہی حاصل ہے، جیسے ماذون اور داعی، اور وہ بے شعور سویا ہوا شخص جس کو دنیا کی کوئی خبر ہی نہیں، اس شخص کی مثال ہے، جو دینی امور سے غافل ہے، پھر ماذون پر واجب ہے، کہ ایسے غافل پر کوئی ایسی ’’کسر‘‘ کر کے اس کو ہلاک دیا کرے تاکہ وہ (خوابِ غفلت سے) جلدی اٹھے، اور ’’کسر‘‘ یہ ہے کہ کسی شخص کے باطل اعتقاد کے متعلق اس کو یہ اندیشہ پیدا کر دے، کہ میرا اعتقاد حق ہے یا نہیں، تاکہ وہ طلبِ حق کے لئے جلدی کرے، اور علمِ حقیقت تک رسا ہوسکے۔

۱۷۱

کلام ۔ ۱۶

جنابت سے نہانے کے بارے میں

         ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کرتے ہیں، کہ جنابت سے نہانا جماع (کی ان صورتوں) میں واجب ہو جاتا ہے: پشت سے آب منی (اچھلتے ہوئے) اتر جانے سے، اگرچہ مکمل جماع واقع نہ ہوا ہو، دونوں ختنہ گاہوں کے آپس میں مل جانے سے (یعنی فرج میں حشفہ داخل ہو جانے سے) اگرچہ انزال نہ ہو، اور احتلام سے۔

         لفظِ ’’جنابت‘‘ کے معنی دور ہونے کے ہیں، کیونکہ عرب والے دوری کو ’’مجانبت‘‘ کہتے ہیں، اور بیگانہ (یعنی دور والے) ’’اجنبی‘‘ کہتے ہیں، اور حقیقت میں (ان باتوں کی) تاویل یہ ہے کہ دعوتِ حق کے سلسلے میں بات کرنے والا شخص علم کو حق کے مالک (یعنی امامِ زمان) سے منسوب کرتا ہے، اور اپنے آپ کو اس علم کے دعویٰ سے دور کر دیتا ہے، جو بظاہر تو اسی نے بتایا ہے، اور اس کا اپنے آپ کو دھونا یہی ہے۔

         جب انسان سے ایک ایسے پانی کے خارج ہو جانے پر اپنے آپ کو دھونا واجب ہوتا ہے، جس سے اس جیسا شخص پیدا ہوسکتا ہے، تو اس کی تاویل یہ ہے ، کہ جب انسان کی زبان سے ایسی بات نکلتی ہو، کہ جس سے روحانی تولید ہو سکتی ہے، اور لوگوں کے دل میں یہ بات نقش ہو جاتی ہے

۱۷۲

جس طرح نطفے سے جسمانی اور ظاہری قسم کی تولید ہوا کرتی ہے، تو اس شخص پر واجب ہوتا ہے، کہ اپنے آپ کو اس علمی بات کے دعویٰ سے دور کر دے اور اس بات کو سات اماموں سے منسوب کرے، پس اس کا روحانی طور پر اپنے آپ کو دھونا یہی ہے، جس طرح جسمانی مجا معت کے بعد اپنے آپ کو دھویا جاتا ہے، اور پانی کے ذریعہ سات اعضا یعنی سارے جسم کو پاک و صاف کیا جاتا ہے۔

         حلال جماع کرنے والا اس شخص کی مثال ہے جو صاحبِ زمان کی اجازت سے دینی و علمی بات کرتا ہے، اور حرام جماع کرنے والا اس شخص کی مثال ہے، جو اس اجازت کے بغیر دینی بات کرتا ہے، اور جس کو احتلام ہوتا ہے، وہ اس شخص کی مثال ہے، جو بلا ارادہ تاویل کی کوئی بات کر دیتا ہے، اس کے بعد وہ چو نکتا ہے، کہ وہ تاویل کی بات تھی، تو اس پر ایسی بات کی وجہ سے کوئی گناہ لازم نہیں آتا، لیکن ایسی علمی بات کو بھی امامؑ سے منسوب کرنا چاہئے، جس طرح خواب میں جماع کرنے والے کو بھی نہانا ضروری ہے، چنانچہ روحانی مجامعت میں (یعنی دعوتِ حق میں ) علمی بات کرنے والا مرد کی طرح ہے، اور اس بات کو قبول کرنے والا عورت کی طرح ہے، اور دونوں پر جسمانی و روحانی جنابت میں نہانا واجب ہوتا ہے، اس کی تاویل یہ ہے کہ روحانی مجامعت میں دونوں کو چاہئے ، کہ اس کہی ہوئی اور سنی ہوئی علمی بات کو امام سے منسوب کریں، جس طرح جسمانی مجامعت میں مرد اور عورت نہایا کرتے ہیں، اور جماع کے بغیر انزال ہونے کی تاویل وہ بات ہے، جو کہی جاتی ہے، مگر سننے والے کو اس سے کوئی حقیقت نہیں کھلتی ، اور ان تمام وجوہ سے روحانی طور پر نہانا واجب ہوتا ہے، اور حقیقی مومن وہ ہے، جو جسمانی اور روحانی جنابت میں نہانا اپنے آپ پر واجب سمجھتا ہے۔

۱۷۳

کلام۔ ۱۷

مٹی سے تیمم کرنے کے بارے میں

         ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کرتے ہیں، کہ تیمم وہ طہارت ہے جو مجبوری کی حالت میں مٹی سے کی جاتی ہے، اور یہ دو اشخاص کے لئے جائز ہے، اس بیمار کے لئے جائز ہے، جس کو پانی کے غسل سے جسمانی ہلاکت کا اندیشہ ہوتا ہو، اور اس مسافر کے لئے جائز ہے، جس کو پانی نہیں ملتا ہو، پس اگر یہ دو اشخاص تیمم کریں تو روا ہے، اور بیمار کی تاویل وہ کمزور مستجیب ہے جس کو کوئی با اجازت شخص نہیں ملتا، تاکہ یہ اس سے دینی تعلیم حاصل کرتا ، تو اس کے لئے جائز ہے، کہ ان مومنوں سے علمی فائدہ حاصل کرے جو مطلق یعنی دعوت کرنے کے لئے آزاد نہیں ہوئے ہیں، اور اسی طرح اس مسافر کی تاویل، جو اپنے لوگوں اور گھر سے جدا ہوا ہے، وہ شخص ہے، جو اپنے داعی اور حجت سے جدا ہوا ہے، تو اس کے لئے بھی جائز ہے کہ کسی پاکیزہ اعتقاد والے مومن سے علمی فائدہ حاصل کرتا رہے ، یہاں تک کہ اس کو کوئی ایسا شخص مل جائے، جس کو تعلیم دینے کی اجازت حاصل ہے، پھر اس کو جائز نہیں کہ فرمان یافتہ شخص کے سوا کسی اور سے دینی تعلیم حاصل کرے، چنانچہ جب پانی مل جاتا ہے تو اس وقت مٹی سے تیمم نہیں کیا جاتا۔

         پانی امام کے علم کی مثال ہے، اور مٹی حجت کے علم کی مثال ہے، جبکہ امام کا علم حاضر نہ ہو، نیز پانی حجت کے علم کی مثال ہے، اور مٹی داعی کے علم کی مثال ہے، جبکہ

۱۷۴

حجت حاضر نہ ہو، اسی طرح اس مثال کی واقعیت یہاں تک آتی ہے، کہ جب ماذون حاضر ہو، تو اس کے علم کی مثال پانی ہوگا، اور نا مطلق مومن کے علم کی مثال مٹی ہوگی، کیونکہ مٹی ہی پانی کے ساتھ مل سکتی ہے، اور علم کی مثال پانی سے دی گئی ہے، اس لئے کہ علم کے ساتھ مومن کے سوا اور کوئی شخص مل نہیں سکتا، پس مومن کی مثال مٹی ہے، کیا تو نہیں دیکھتا، کہ اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَالَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا (۷۸: ۴۰)

         قیامت کے روز کافر کہے گا، کہ کاش میں خاک ہو جاتا۔‘‘ اس کی تاویل یہ ہے، کہ کافر خواہش کرے گا کہ کاش وہ اس روز اپنے آپ کو مومن پاتا! اور جو کوئی حجت کے بیان تک نہ پہنچ سکے، تو اس کا نفس بیمار ہے، پھر اس کے لئے جائز ہے، کہ داعی سے علم حاصل کرتا رہے۔

         چنانچہ تیمم یہ ہے ، کہ جس کو پانی نہ ملے، تو وہ پاک مٹی کے پاس جاتا ہے، اور دونوں ہتھیلیوں کو صرف ایک ہی دفعہ مٹی پر مارتا ہے، پھر ہاتھوں کو (ایک دوسرے پر مار کر ) جھاڑ دیتا ہے، تاکہ ان سے مٹی گر جائے، اس کے بعد انگلیوں کے سروں کو اپنے چہرے پر بھوؤں سے ٹھوڑی تک ایک بار مل کر گزار دیتا ہے، اور اس کے بعد بائیں ہاتھ کی انگلیوں کی سیدھی طرف کو دائیں ہاتھ کی انگلیوں کی پشت پر رکھ کر انگلیوں کو ابتدائی گانٹھوں سے انگلیوں کے سروں تک ایک بار ملتا ہے، پھر دائیں ہاتھ کی انگلیوں کی سیدھی طرف کو بائیں ہاتھ کی انگلیوں کی پشت پر رکھ کر انگلیوں کی ابتدائی گانٹھوں سے انگلیوں کے سروں تک ایک بار ملتا ہے، بس یہی اس کا مکمل تیمم ؎۱  ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ تیمم کرنے والے کا مٹی کے پاس جانا، اس بیمار کمزور مومن ( جو اپنے صاحبِ دعوت سے جدا اور نا رسا ہوا ہے) کے ایک پاکیزہ اور نامطلق مومن کے پاس فائدہ حاصل کرنے کے لئے جانے کی مثال ہے، اور تیمم کرتے وقت

؎۱: تیمم کا یہی طریقہ کتابِ ’’دعائم الاسلام‘‘ اردو جلد اول ص ۲۰۱ پر ملا حظہ ہو۔

۱۷۵

اس شخص کا دونوں ہتھیلیوں کو ایک دفعہ مٹی پر مارنا، امام اور حجت پر اس مومن کے اقرار کی دلیل ہے، اور ہاتھوں سے مٹی کو جھاڑ دینا، اس مومنِ نامطلق کے بارے میں اس ضعیف مومن کے اعتقاد نہ کرنے کی مثال ہے، جس سے فائدہ حاصل کرتا ہے، کہ یہ علم جو میں سن رہا تھا، اس کا اپنا نہیں بلکہ اس فائدہ دینے والے نامطلق مومن کا یہ مرتبہ امام اور حجت کی طرف سے ہے، کیونکہ دعوتِ حق میں وہی حضرات مطلق ہیں، ہر چند کہ آج یہ شخص علمی فائدہ اسی نامطلق مومن سے حاصل کرتا ہے۔

         تیمم کرنے والے کے دونوں ہاتھوں کی آٹھ انگلیاں اپنے منہ پر اوپر سے نیچے کی طرف ملنا، امام کے ان چوبیس ۲۴ حدود پر ضعیف مومن کا اقرار کرنا ہے، جو دن رات کے چوبیس ۲۴ گھنٹوں کی مثال ہیں، کیونکہ ہر ہاتھ میں (انگوٹھے کے بغیر) چار انگلیوں کی بارہ پوریاں ہوتی ہیں، جن کا مجموعہ چوبیس ۲۴ ہوتا ہے، اور چہرہ جس میں سات سوراخ ہیں ( جیسے دو ۲ آنکھ، دو۲ کان، دو ۲ نتھنے اور ایک منہ) سات صاحبانِ شریعت کی مثال ہے، اور اگرچہ مومن علمی طور پر کمزور ہے، تو پھر بھی ان سات حدود کو پہچاننے اور ان پر اقرار کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔

         مسح کرنا اقرار کرنے کی مثال ہے، اور دھونا فرمانبرداری کی مثال ہے، ہاتھ اور منہ دونوں جو طہارت میں دھولئے جاتے تھے، وہ تیمم میں مسح کئے گئے ، اور دو مسح ساقط ہو گئے، یعنی سر اور پاؤں کا مسح، اس کی تاویل یہ ہے، کہ کمزور مستجیب صاحبانِ تاویل کی بلاواسطہ فرمانبرداری نہیں کر سکتا ہے، جس طرح حجت اور داعی پر صرف امام، اساس اور ناطق کی فرمانبرداری اور اول و ثانی (عقلِ کل و نفسِ کل) کی ہستی کے متعلق اقرار واجب ہوتا ہے، (اسی طرح) کمزور مستجیب پر صاحبانِ تاویل کے متعلق صرف اقرار ہی واجب ہے، بلاواسطہ فرمانبرداری واجب نہیں، اور دونوں ہاتھوں کو ایک ہی دفعہ مٹی پر مارنا، اس کمزور مومن کے لئے علمی فائدے کی وہی مقدار کافی ہونے کی دلیل ہے، جو دین کے ابتدائی مرتبے سے اس کو حاصل ہوئی ہے، اور وہ مرتبہ حدِ مومن ہے، اور کس دوسرے درجہ کی طرف نہ جانے کی دلیل ہے، جیسے داعی وغیرہ۔

۱۷۶

         یہی تیمم طہارت بھی ہے، اور غسل جنابت بھی، جس کی تاویل یہ ہے، کہ علمی کمزوریوں کو پاک کرنے کے لئے صرف پاک نامطلق مومنوں ہی کا قول کافی ہوتا ہے، اور گندی مٹی سے تیمم کرنا جائز نہیں، اس کے یہ معنی ہیں کہ کمزور مومن کے لئے یہ شایان نہیں کہ وہ کسی ایسے مومن سے دینی باتیں سنا کرے، جو خدا کے اولیا ٔ پر اعتقاد کرنے میں پاک نہ ہو۔

         والسلام

۱۷۷

کلام ۔ ۱۸

اذان کی تاویل کے بارے میں جس کے دہرے کلمات ہیں

         اذان اس دہرائی کے بغیر جائز نہیں، اس لئے کہ یہ ناطق کی دعوت کی مثال ہے، جن کی قوتیں دہری ہیں: ایک قوتِ ظاہر، دوسری قوتِ باطن اور ایک قوت تنزیل، دوسری قوتِ تاویل، اور جو شخص اقامت اکہری (یعنی ایک بار) کہے، تو یہ اساس کی مرتبت کی مثال ہے، کیونکہ ان کی قوت تو صرف تاویل ہی کی ہے اور جو شخص اقامت کو بھی دہری کہتا ہے تو وہ یہ ظاہر کر دیتا ہے، کہ اساس تاویل کے کام جاننے کے ساتھ ساتھ ظاہر کو بھی اپناتے ہیں اور باطن کو بھی، اور موذن ناطق کی مثال ہے، اور موذن کی جگہ مینار پر ہونا، مرتبۂ ناطق کی بلندی کی مثال ہے، اور مسجد ’’بیت الاسلام‘‘ کے مکان کی مثال ہے، جو خدا کا حرم خانہ ہے، چنانچہ جو کوئی اسلام قبول کرتا ہے، تو وہ اس جہان میں بے خوف ہو جاتا ہے، اور جب وہ اسلام کی حقیقت سمجھتا ہے، تو اس جہان میں بھی نڈر ہو جاتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ۔

         أَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَهُمْ حَرَمًا آمِنًا (۲۸: ۵۷)

         ’’ کیا ہم نے انہیں حرم میں امن کی جگہ نہیں دی ہے۔‘‘ یعنی ہم نے مسلمانی کو امن کی جگہ بنائی ہے، تاکہ جو کوئی مسلمان ہو جائے تو وہ مارے جانے اور فروخت

۱۷۸

ہونے سے بچ سکے، اور اذان چھ دفعہ ’’اللہُ اکبر‘‘ ہے، چار دفعہ آغاز میں اور دو دفعہ لَا الٰہ اِلاَّ اللہ پر اس کے ختم ہونے سے پہلے، اور وہ بارہ کلمے ہوتے ہیں، کیونکہ چھ کلمے ’’ اللہ‘‘ کے ہیں اور چھ کلمے ’’اکبر‘‘ کے ہیں، اور چھ دوسرے کلمے ہیں، جن میں سے ہر ایک دو ۲ دو ۲ دفعہ کہا جاتا ہے۔

         چنانچہ (چار دفعہ ’’ اللہ اکبر‘‘ کے بعد یہ کلمات ہیں: )  أَشْہَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ،  أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ،  أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ ، ُ أَشْہَدُ أَنَّ عَلِیّاً وَلِیُّ اللہ، أَشْہَدُ أَنَّ عَلِیّاً وَلِیُّ اللہ،ِ  حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃَ،ِ  حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃ،  ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ،ِ  حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ،حَیَّ عَلیٰ خَیْر الْعَمل؎۱،  أَللّٰہُ أَکْبَرُ أَللّٰہُ أَکْبَرُ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ

         اس طرح آخری کلمے کے سوا باقی سب کلمات دو ۲ دو ۲ دفعہ کہے جاتے ہیں، پس ان چھ کلموں کو مجموعاً بارہ دفعہ پڑھتے ہیں، جو چھ اماموں پر دلیل ہیں، کہ ان میں سے ہر ایک امام کا ایک باب ہے، جو دین میں ان کے بعد ان کا جانشین ہوا ہے، اور ان میں سے ہر ایک امام خدا کے فرمان گزارتے وقت یکتا تھے، اور جو باب حق کے ساتھ امام کا جانشین ہوا، تو وہ ان کا حقیقی پیرو تھا، جس طرح یہ پچھلے چھ کلمات ان اگلے چھ کلمات کے پیچھے چلتے ہیں، اور ان کی پیروی کرتے ہیں (جس سے وہ اگلے کلمات ہی کی طرح ہو جاتے ہیں) اور وہ چھ بارہ اللہ اکبر، جس کو طاق میں نہیں کہتے ہیں، بلکہ جفت جفت میں کہتے ہیں، بارہ صاحبانِ جزائر

؎۱: اصل ہٰذا (یعنی وجہ دین مطبوعہ کا ویانی ) میں ’’ مُحمَّدٌ وَ عَلیٌ خَیْرُ الْبَشرْ‘‘ کا اضافہ ہے، مگر کلماتِ اذان کی مذکورہ گنتی اور اس کی تاویل سے ظاہر ہے، کہ یہ کلمہ کسی نساخ نے ازخود داخل کردیا ہے۔

۱۷۹

(حجتوں) کی دلیل ہے، جن کو امامِ زمان کے بغیر اپنے آپ پر کوئی قیام نہیں، جبکہ وہ بیک وقت ظاہر و باطن کو برپا کرتے ہیں۔

         قبلہ قائم القیامت علیہ افضل التحیۃ و السلام کی دلیل ہے، اور جب موذن اذان دینے لگتا ہے تو آغاز میں وہ قبلہ کی طرف منہ کر لیتا ہے، یعنی ناطق نے یہ ظاہر کیا کہ میری دعوت حلقِ خدا کے لئے قائم القیامت کی طرف ہے، اور جب موذن ’’حی علی الصلوٰۃ‘‘ پر آئے تو دائیں ہاتھ کی طرف منہ کر لیتا ہے، اور جب ’’حی علی الفلاح‘‘ پر آئے تو بائیں ہاتھ کی طرف منہ کر لینا ہے، دائیں ہاتھ ناطق کی مثال اور بائیں ہاتھ اساس کی مثال ہے، نیز دائیں ہاتھ امام کی مثال اور بائیں ہاتھ حجت کی مثال ہے۔

         جب موذن دائیں ہاتھ کی طرف منہ کر کے ’’ حی علی الصلوٰۃ‘‘ کہتا ہے، تو وہ یہ دکھاتا ہے کہ نمازِ ظاہر قائم کرتے ہوئے ناطق اور امام کے لئے قبول کرو، کہ وہ ظاہر کے مالک ہیں، اور جب وہ بائیں ہاتھ کی طرف منہ کر کے ’’حی علی الفلاح‘‘ کہتا ہے، تو وہ یہ بتاتا ہے، کہ علمِ حقیقت حاصل کرتے ہوئے اساس اور حجت کے لئے قبول کرو، کہ یہ باطن کے مالک ہیں، تاکہ تم اس جہان میں دوزخِ نادانی سے اور اس جہان میں دائمی آگ کے عذاب سے بچ جاؤ، اور جائز نہیں کہ موزن اذان کے درمیان بات کرے یا بے طہارت اذان دے، نیز روا نہیں کہ وہ اقامت کے درمیان بات کرے یا بے طہارت اقامت کہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ مومن کے لئے یہ روا نہیں، کہ وہ اہلِ ظاہر کے درمیان اپنے آپ کو ان کے برابر ظاہر کرے، یا صاحبِ جزیرہ کے فرمان کے بغیر کسی اہلِ ظاہر پر کسر کرے ( یعنی اس کے عقیدے کی تردید کرے) نیز مومن کے لئے یہ بھی جائز نہیں، کہ وہ کسی دوسرے مومن کو ایک درجے سے دوسرے درجے پر بلند کر دینے کے لئے اس پر کسر کرے، بغیر اس کے کہ اس کو اس صاحبِ جزیرہ سے کوئی حکم ملا ہو۔

         اذان و اقامت نہیں کہتے ہیں، مگر ان پنج نمازوں میں جن کو اللہ تعالیٰ نے ’’موقت و مکتوب‘‘ فرمایا ہے، یعنی تحریر کے ذریعہ وقت معین کیا گیا، یعنی کسی

۱۸۰

اور کے لئے فرمانبرداری کرنا جائز نہیں، مگر ناطقوں اور اساسوں کے لئے اور کسی دوسرے کے لئے دعوت کرنا درست نہیں، مگر انہیں کے لئے، کیونکہ ناطق کی دلیل اذان اور اساس کی دلیل اقامت ہے، اور ہر زمانہ میں امام ناطق کے قائم مقام ہیں، اور حجت اساس کا قائم مقام ہے، جب ناطق اور اساس یا ان کے قائم مقام ہمیشہ موجود ہیں، تو اذان اور اقامت بھی موجود ہیں، اذان و اقامت مذکورہ پنج نمازوں کے سوا مناسب نہیں، اور نمازِ عیدین کے لئے اذان اور اقامت نہیں کیونکہ یہ دونوں عیدیں اساس اور قائم القیامت کی مثالیں ہیں، جس کی تاویل یہ ہے، کہ اساس لوگوں کی تقلید کے بندھن سے رہا کر دیں گے تاکہ ان کے اس بیان کے بعد لوگ پھر گزشتہ پیغمبروں کے ادایان میں چلے نہ جائیں، جیسے کہ صاحبِ قیامت امت کو دعوتِ ظاہر اور دعوتِ باطن سے روکیں گے، اس لئے کہ وہ ظاہر ہوتے وقت دعوت نہیں کریں گے۔

         جب اذان دی جائے تو لوگ ایک ایک ہو کر مسجد میں داخل ہو جاتے ہیں، اور اقامت سے پیشتر ہر شخص (نفل وغیرہ کی) نماز انفرادی طور پر پڑھا کرتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ لوگ بکھرے ہوئے ادیان سے ناطق علیہ السلام کی دعوت کی طرف آجائیں گے، اور جو شخص ہر چند کہ ناطق کے لئے قبول کرتا ہے، جب تک اساس کے لئے قبول نہ کرے، تو وہ اپنی خواہش ہی کا پیرو رہے گا، چنانچہ اقامت سے پہلے ہر شخص اپنے طور پر طرح طرح کی نماز پڑھا کرتا ہے، اور وہ ان مخالفوں کی عبادت کی مثال ہے، جو اپنی خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں۔

         اقامت وصی علیہ السلام کی دعوت پر دلیل کرتی ہے، جو شریعت کی تاویل کی طرف ہوتی ہے، اور اقامت میں وہی مطلب دہرایا جاتا ہے جو کچھ اذان میں کہتے ہیں، جس کی تاویل یہ ہے، کہ وصی کی دعوت بھی اسی حقیقت کی طرف ہوا کرتی ہے، جس کی طرف ناطق کی دعوت ہوئی تھی، اور اذان بلندی پر دی جاتی ہے، مگر اقامت پستی پر پڑھی جاتی ہے، یعنی وصی کا مرتبہ (بظاہر) اس بلندی پر نہیں جہاں پر

۱۸۱

ناطق کا مرتبہ ہے، اور اقامت میں ’’قَدْ قَامَتِ الصَّلوٰۃ‘‘ کے الفاظ بڑھا دیتے ہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ خدا کا دین اور اس کی اطاعت ٹھیک طرح سے قائم ہوئی، کیونکہ (ناطق اور وصی ) دونوں کی یہ دعوتیں قبول کی گئیں، عمل کو علم کے ساتھ ملا دیا گیا، مومنوں کے درمیان سے اختلاف اٹھ گیا، اور خدا کی اطاعت میں سب کے سب یک زبان ہوئے، چنانچہ آپ کو معلوم ہے، کہ اقامت کہنے کے بعد نمازِ فریضہ پڑھا کرتے ہیں، سب ٹھیک طرح سے صفوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں، (جدا جدا عبادت کرنے کا) اختلاف ان کے درمیان سے دور ہو جاتا ہے، اور جو کچھ پیش نماز کرتا ہے، وہی سب کرتے ہیں، تاکہ ظاہر و باطن دونوں برابر ہوں، جیسا کہ تن جان کے ساتھ (یعنی نماز جو دعوت کا ظاہر ہے، اور دعوت جو نماز کا باطن ہے، ایک دوسرے کی مثال و ممثول ہوں) چنانچہ خدائے تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الإِسْلاَمَ دینا (۵: ۳)

         آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کردیا، اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے (اس) دین اسلام کو پسند کیا۔‘‘ اور یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جبکہ ناطق نے اپنے وصی کو مقرر فرمایا، اور مسلمانوں نے عہد و پیمان کر لیا، کہ وہ ان کی تابعداری کریں گے۔

۱۸۲

کلام ۔ ۱۹

کتاب الصلوٰۃ (نماز) کی تاویل کے بارے میں اور وہ چند فصلیں ہیں

         پہلی فصل: ————————نماز کے بارے میں

         نمازیں مجموعاً تین وجوہ سے ہیں، جو فریضہ، سنت اور تطوع کہلاتی ہیں، تطوع کو نافلہ بھی کہتے ہیں، اور نماز کی تاویل دعوت ہے (یعنی نماز کے حقیقی معنی دعوت کے ہیں) ان نمازوں میں سے نمازِ فریضہ متم ؎۱ (امام) پر دلیل ہے، جن کو پہچان لینا لوگوں کے لئے ازحد ضروری ہے، نمازِ سنت حجت پر دلیل ہے، جس کو متم نے مقرر فرمایا ہے، اور نماز تطوع جناح یعنی داعی پر دلیل ہے، جو مومن کی تابعداری کے لئے اولین حد ہے، اور تطوع کو نافلہ بھی کہا جاتا ہے، جس کا مطلب بیٹے کا بیٹا ہوتا ہے، جو ماذون پر دلیل ہے، کہ وہ داعی کا قائم مقام ہوا کرتا ہے، جس طرح داعی اپنے باپ یعنی حجت کا جانشین ہو جاتا ہے، اور ان تین

؎۱: متم سے یہاں امامِ زمان مراد ہیں، نیز متم کا مطلب ہے ہر ساتواں امام، جو چھوٹے دور کو تمام کر دیتے ہیں، یعنی چھ أئمہ کے بعد ساتواں امام ہوتے ہیں، وہ متم کہلاتے ہیں، اس لئے کہ وہ ہفتۂ دین کا سنیچر ہیں، جن پر ہفتۂ دین تمام ہو جاتا ہے۔

۱۸۳

درجوں میں جو نو قسم کی نمازیں ہیں، وہ سات أئمۂ برحق، ناطق اور اساس کی دلیلیں ہیں۔

         (نیز یہ نو نمازیں ان نو حدود کی دلیلیں ہیں) چنانچہ نمازِ فریضہ امام کی دلیل ہے، سنت حجت کی دلیل ہے، نافلہ داعی کی دلیل ہے، نمازِ جمعہ ناطق کی دلیل ہے، نمازِ عید الفطر اساس کی دلیل ہے، نمازِ عید اضحٰی قائمِ  قیامت علیہ افضل التحیۃ و السلام کی دلیل ہے، نمازِ جنازہ مستجیب کے ایک درجے سے دوسرے درجے میں بڑھ جانے کی دلیل ہے، طلبِ بارش کی نماز خلیفۂ قائم؎۱ کی دلیل ہے، جس کی بدولت علمی قحط سے چھٹکارا مل جاتا ہے، جس طرح بارش کے ذریعہ جسمی قحط سے رہائی مل جاتی ہے، اور نمازِ کسوف (جو سورج گرہن یا چاند گرہن کے موقع پر پڑھی جاتی ہے) ایک ایسے وقت کی دعوت پر دلیل ہے، جس میں امام مستور ہوتا ہے۔

         (ان نو نمازوں کے ) بعد نمازِ خوف بھی فرض ہے، لیکن جب دشمن کے خوف و ہراس سے نماز پڑھی جاتی ہے، تو وہ حالتِ امن کی نماز سے مختلف ہوتی ہے، اس لئے کہ نمازِ خوف ایک رکعت ہے، نمازِ مسافر دو ۲ رکعت ہے، اور نمازِ حاضر پوری (چار رکعت) ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ جب مومن اہلِ ظاہر کے درمیان ہو، اور ان سے ڈر جائے، تو وہ ظاہر کو صرف ایک ہی پہلو سے قائم کرتا ہے، اور امام کی فرمانبرداری اہلِ ظاہر کی طرح ظاہر میں کرتا ہے، (یہ مختصر تاویل نمازِ خوف کی ہوئی اب نمازِ مسافر کی کچھ تاویل سنئے، کہ) مسافر اس مومن کی مثال ہے، جو ظاہر سے کچھ آگے بڑھا ہے اور حصولِ باطن کے لئے اس نے ابھی شروع کیا ہے، تو ایسے مومن کے لئے چاہئے، کہ ناطق اور اساس کو پہچانے، کیونکہ ان کی مثال نماز کی وہ پہلی دو رکعتیں ہیں ( جن کو مسافر پڑھ لیتا ہے) اور اس مسافر پر ان دوسری دو رکعتوں کا

؎ ۱: خلیفۂ قائم کا اشارہ ایک ایسے شخص کی طرف ہے، جو زمین پر یا کسی نئے سیارے پر حضرتِ قائم کا جانشین ہو گا، جس سے پھر وہی سلسلۂ نبوت و امامت جاری رہے گا۔

۱۸۴

پڑھنا واجب نہیں جو عقلِ کل اور نفسِ کل کی مثال ہیں، اس لئے کہ مذکورہ مومن نے ابھی روحانی حدود (عقلِ کل اور نفسِ کل) کی معرفت حاصل نہیں کی ہے( یہ مختصر تاویل نمازِ مسافر کی ہوئی، اب نمازِ حاضر کے بارے میں سنیئے کہ) جو شخص (مسافر نہ ہو ) حاضر ہو تو وہ اس مخلص مومن کی مثال ہے، جو دعوتِ حق یعنی روحانی تعلیم میں ہے، جس نے مذکورہ روحانی اور جسمانی چاروں حدود کی معرفت حاصل کر لی ہے، اور وہ ان میں سے دو روحانی حدود کے لئے تو اقرار کرتا ہے اور دو جسمانی حدود کی فرمانبرداری کرتا ہے، ( یہ نمازِ حاضر کی چار رکعتوں کی تاویل ہوئی)۔

فصل (۲): ————–نماز کی حدود کے بارے میں

         رسولِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا: ۔

         ’’اِنَّ لِصَّلٰوۃِ حُدُوْداً کَحُدُودِ الدَّارِ فَمَنْ عَرَ فَھَا وَ ادَّ اھَا عَلیٰ حَقِّھَا وَ شر طِھَا فَقَدْ قضَیھَا و اِلاَّ نَقَضَھَا۔ یقیناً نماز کی حدود (حدبندیاں ہیں) جس طرح گھر کی حدود ہوا کرتی ہیں، پس جس شخص نے ان حدود کو پہچان لیا، اور نماز اس کے حق اور شرط پر ادا کر لی، تو اس نے نماز پوری طرح سے ادا کر لی، ورنہ نماز توڑ دی۔‘‘

         پس ہم بیان کریں گے، کہ نماز کی وہ حدبندیاں سات أئمہ اور سات نطقاء کی تعداد کی برابر سات ہیں، ان میں سے چار تو فریضے ہیں، جن کے بغیر نماز مکمل ہو نہیں سکتی اور تین سنتیں ہیں، جن کے بغیر نماز روا نہیں، پس ان چار فرائض میں سے دو خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہیں، اور وہ وقت اور قبلہ ہیں، وقت نفسِ کل پر دلیل ہے، جس نے زمانہ پیدا کیا ہے، اور قبلہ عقلِ کل پر دلیل ہے، کیونکہ مخلوقات کے لئے انتہا تو وہی ہے، اور ان چار فرائض میں سے دو بندے کی طرف سے ہیں، وہ نیت اور طہارت ہیں، نیت ناطق پر دلیل ہے اور طہارت اساس پر دلیل ہے،

۱۸۵

اور نماز ہو نہیں سکتی، مگر اپنے اس ظاہر و باطن کے ساتھ جس کو ناطق اور اساس نے عقلِ کل و نفسِ کل کی تائید سے مقرر کر دیا ہے، یعنی ناطق نے نماز کے ظاہر کو نفسِ کل کی قوت سے مقرر کر دیا، اور اساس نے نماز کے باطن (تاویل) کو عقلِ کل کی تائید سے بیان میں لایا، اور وہ تین سنتیں اذان، اقامت اور جماعت ہیں، اذان متم (امام) پر دلیل ہے، جو لوگوں کو ظاہر کی طرف دعوت کرتا ہے، اقامت حجت پر دلیل ہے، جو باطن کو قائم رکھتا ہے، اور جماعت داعی پر دلیل ہے، کہ مومنوں کا جمع ہونا اسی کے ذریعے سے ہے، مگر بیمار اور مسافر کے لئے یہ تین سنتیں لازمی نہیں، اور ان کی نماز ان سنتوں کے بغیر روا ہے۔ ؎۱۔

فصل (۳): ——-نماز کے فرائض کے بارے میں

         جاننا چاہئے، کہ سات اماموں کی مثال پر نماز کی سات ۷ چیزیں فرض ہیں: (۱) شروع کی تکبیر فرض ہے، اور وہ مومن سے عہد لینے کی دلیل ہے، چنانچہ جب تکبیر پڑھی جائے، تو پھر بات نہیں کرنی چاہئے، اور نماز پڑھنی چاہئے، اسی طرح جب مومن سے عہد لیا جائے، تو پھر اسے دین کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہئے، جب تک اس کو آزادی نہیں دی جاتی (۲) سیدھا کھڑا ہونا فرض ہے، جو دعوت کے عہد پر مومن کے قائم رہنے کی دلیل ہے (۳) فاتحہ اور دوسرا کوئی سورہ پڑھنا فرض ہے، جس کی تاویل داعی کی تقریر ہے، جو قوم کے لئے کی جاتی ہے، (۴) رکوع فرض ہے، جس کی تاویل ہے بڑے دور میں اساس کو پہچاننا اور چھوٹے

؎۱: بڑے دور کے نطقاء سات ہیں، چھوٹے دور کے أئمہ بھی سات ہیں، حدودِ دین بھی سات ہیں، اور نماز کی حدود بھی سات ہیں، چنانچہ  حدودِ دین اور نماز کی حدود کی مطابقت یہ ہوئی:

عقلِ کل = قبلہ، نفسِ کل = وقت، ناطق =  نیت، اساس =  طہارت، امام =  اذان، حجت =  اقامت، داعی =  جماعت

۱۸۶

دور میں حجت کو پہچاننا (۵) سجدہ کرنا فرض ہے، جس کا اشارہ ہے، بڑے دور میں ناطق کو پہچاننا اور چھوٹے دور میں امام کو پہچاننا (۶) تشہد کے لئے بیٹھ جانا فرض ہے، جو داعی کو پہچاننے کی دلیل ہے، (۷) سلام پھیرنا فرض ہے، اور وہ مثال ہے مومن کو اجازت ملنے کی، دینی باتیں کرنے کے لئے، چنانچہ جب نماز پڑھی جائے اور سلام پھیرا جائے، تو نمازی جو چاہے بات کر سکتا ہے۔

         جب نمازی نماز پڑھ لیتا ہے، اور سات فرائض کو بجا لا تا ہے، تو اس کی نماز مکمل ہو جاتی ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ جب مستجیب نے ان حدود کی معرفت حاصل کر لی، تو وہ ماذونی کے درجے پر پہنچا اور (دعوت کی) اجازت دی جانے کے قابل ہوا۔

نماز کے سات فرائض سات أئمہ تاویل
تکبیرِ اول امامِ اول مومن سے عہد لینا
سیدھا کھڑا ہونا امامِ دوم دعوت پر مومن کا قائم رہنا
فاتحہ اور سورہ پڑھنا امامِ سوم قوم کے لئے داعی کی تقریر
رکوع کرنا امامِ چہارم اساس اور حجت کی پہچان
سجدہ کرنا امامِ پنجم ناطق اور امام کی معرفت
تشہد کیلئے بیٹھ جانا امامِ ششم داعی کی شناخت
سلام پھیرنا امامِ ہفتم مومن کو دینی باتوں کیلئے اجازت ملنا

فصل (۴): ————نماز کی سنتوں کے بارے میں

         جاننا چاہئے، کہ نماز میں بارہ چیزیں سنت ہیں، اور ان کو نماز کے آداب کہا جاتا ہے (۱) سر جھکائے رکھنا سنت ہے، اور یہ اپنے داعی کے سامنے مستجیب

۱۸۷

کے تکبر نہ کرنے کی دلیل ہے (۲) سجدے کی جگہ پر نظر جمانا سنت ہے، جس کا اشارہ ہے، اپنےداعی کے فرمان کے واسطے مستجیب کا انتظار کرنا (۳) دائیں بائیں طرف نہ دیکھنا سنت ہے، جس کی تاویل ہے دینی دشمنوں اور منافقوں کی طرف مستجیب کا نہ دیکھنا (۴) نماز میں نہ ہنسنا سنت ہے اگر چہ ہنسی تھوڑی سی ہو، جس کی تاویل ہے، مستجیب کا کوئی دینی بیان نہ کرنا، جب تک وہ مستجیبی کی حد میں ہے، کیونکہ جب نمازی ہنسے، تو اس کے دانت نظر آتے ہیں، جو بات کرنے کی مثال ہوتی ہے  (۵) نماز میں انگلیوں کو نہ چٹخانا سنت ہے، اور وہ دعوت کے حدود کو طعنہ نہ دینے کی دلیل ہے، کیونکہ انگلیاں حدود کی مثال ہیں (۶) ڈاڑھی کے ساتھ نہ کھیلنا سنت ہے، اور وہ روحانی مجامعت نہ کرنے کی دلیل ہے ( یعنی دینی تعلیم نہ دینے کی) جب تک اجازت نہ مل جائے (۷) تشہد میں ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کے سروں کو قبلے کی طرف رکھنا سنت ہے، جو تمام حدود امام کی طرف رخ کر کے رہنے کی مثال ہے (۸) پیروں کو ایک جگہ پر رکھنا سنت ہے جو حجت اور داعی کے درمیان جدائی نہ رکھنے کی مثال ہے، چونکہ دونوں پاؤں ان کی دلیل ہیں، اور مومن کے نفس کا قیام انہی پر ہے، جس طرح جسم کا قیام پاؤں پر ہوا کرتا ہے، (۹) صف میں اپنے ساتھی کے پہلو بہ پہلو ہو کر قریب رہنا سنت ہے، تاکہ ان کے درمیان شیطان گھس آنے کی جگہ نہ پائی جائے، جس کی تاویل ہے، مومنوں کی باہمی موافقت اور ان کا یک دل ہونا، تاکہ دشمن کو ان کے بیچ میں گھس آنے کی گنجائش ہی نہ ہو (۱۰) التحیات کے موقع پر بائیں پاؤں پر بیٹھ جانا سنت ہے، جس کا اشارہ ہے، داعی کے قول پر مستجیب کا قائم رہنا، کیونکہ بائیں پاؤں داعی کی مثال ہے (۱۱) حالتِ رکوع میں انگلیاں کھول کر گھٹنوں پر رکھنا سنت ہے، جس کا اشارہ نمازی کے ذریعہ یہ کہا گیا ہے ، کہ اساس (کے مرکز) سے حدودِ دین (روحانی طور پر) جزیروں میں جا کر پھیل گئے، کیونکہ رکوع اساس کی حد ہے اور اس کی تاویل یہ بھی ہے، کہ حجت کی جانب سے تمام داعی دعوت کے سلسلے میں پھیل گئے، کیونکہ چھوٹے

۱۸۸

دور میں حجت ہی بڑے دور کے اساس کی منزلت پر ہوتا ہے (۱۲) سجود کے موقع پر انگلیاں ملاکر زمین پر رکھنا سنت ہے، جس کی تاویل ہے، شریعت کے ظاہر بیان کرنے کے لئے عالم میں حدودِ دین کا پھیل نہ جانا، جس طرح حدودِ دین دعوتِ باطن کے لئے (روحانی طور پر) پھیل جایا کرتے ہیں، کیونکہ ظاہر ناطق اور امام کی حد ہے، اور سجود ان کے حدود کی دلیل ہے (اور باطن اساس اور حجت کی حد ہے، اور رکوع ان کے حدود کی دلیل ہے)۔

فصل (۵): ———— خضوع کے بارے میں

         ہم بیان کرتے ہیں، کہ خضوع (عاجزی کرنا) تین صورتوں میں ہے، ایک تو نماز کے لئے کھڑا ہونے میں ہے، جس میں نماز پڑھنے والا یہ خضوع کرتا ہے، کہ نظر اس جگہ پر رکھتا ہے، جہاں پر وہ سجدہ کرنے والا ہے، اور دائیں باتیں نہیں دیکھا کرتا ، اور اس کی تاویل ہے، مومن کا سرِ تسلیم خم کرنا، اپنے اس رہنما کے کے لئے جو اس کو حق کی طرف لے جاتا ہے، اور حق کے مخالفوں کی طرف نہ دیکھنا، نماز گزار کا دوسرا خضوع رکوع ہی ہے، کہ وہ اس کے اپنے آپ کو (کسی کے آگے) چھوڑ رکھنے کی صورت ہے، اور جس کی تاویل ہے، مومن کا اپنے آپ کو بڑے دور میں اساس کے حوالے کر دینا اور چھوٹے دور میں حجتِ جزیرہ کے حوالے کر دینا، کیونکہ رکوع اساس اور حجت کی مرتبت ہے، اور نماز پڑھنے والے کا تیسرا خضوع سجدہ کرنا ہے، جس کا اشارہ ہے مومن کا سرِ تسلیم خم کرنا، چھوٹے دور میں امام کے لئے اور بڑے دور میں ناطق کے لئے، اور یہ انتہائی حد کی عاجزی (خضوع) ہے، کہ تو اپنے آپ کو مٹی کے ساتھ برابر کر دے۔

         نیز میں بیان کروں گا، کہ جب مومن سجدہ کرتا ہے، تو وہ یہ ظاہر کرتا ہے، کہ میں پہلے اپنے جسم کے اعتبار سے مٹی تھا، نیز وہ یہ ظاہر کرتا ہے، کہ میں نے پہلے تو ناطق کا فرمان مان لیا، کیونکہ سجدے کی منزلت ان ہی کی ہے، اور جب سجدے

۱۸۹

سے سر اٹھاتا ہے، تو سیدھا ہو کر بیٹھا ہے (جس سے وہ گویا یہ کہہ رہا ہے) کہ خدائے تعالیٰ نے مجھے مٹی ( کے پست درجے) سے اٹھا کر انسان بنایا، نیز وہ یہ ظاہر کرتا ہے، کہ جب اساس نے ( ناطق کی دعوت کے بعد) مجھے پھر دعوت کی، تب میں نے ان کو پہچان کر ناطق کو صحیح معنوں میں پہچان لیا، جب وہ دوسری دفعہ سجدہ کرتا ہے، تو یہ ظاہر کرتا ہے، کہ میں جسم کے اعتبار سے طبعی (جسمانی ) زندگی کے بعد جسمانی موت کی صورت میں مٹی میں واپس جاؤں گا، نیز وہ یہ ظاہر کرتا ہے، کہ جب اساس نے مجھے ناطق کے عظیم مرتبے سے شناسا کردیا، تو میں نے (صحیح معنوں میں) ناطق کی فرمانبرداری کے لئے رجوع کیا، جب آخری دفعہ سجدے سے سر اٹھاتا ہے، تو وہ یہ ظاہر کرتا ہے، کہ جسمانی موت کے بعد مجھے جی اٹھنا ہے، نیز یہ ظاہر کرتا ہے ، کہ جب میں نے ناطق کو معرفتِ حق سے پہچان لیا، تو میں فنا ہونے سے بچ گیا، اور (ہمیشہ کے لئے) زندہ رہا۔

فصل (۶): ———- نماز کی اوقات کے بارے میں

         (اب) میں یہ بیان کروں گا، کہ ہر نماز کے لئے تین اوقات مقرر ہیں (یعنی ہر نماز کے لئے جتنا وقت رکھا گیا ہے، وہ تین حصوں میں پایا جاتا ہے) مقررہ مدت کا ابتدائی وقت، درمیانی وقت اور آخری وقت، پس ابتدائی وقت کی تاویل ناطق ہیں، درمیانی وقت کی تاویل اساس ہیں، اور آخری وقت کی تاویل قائمِ قیامت علیہ افضل التحیۃ و السلام ہیں، پس جس شخص سے یہ آخری وقت (نماز پڑھے بغیر) گذر جائے تو پھر اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے یعنی جو شخص امامِ ہفتم کے ظہور تک حق کو حاصل نہ کر سکے، تو اس کو دین نہ ملے گا، اور دوسری وجہ سے ابتدائی وقت کی تاویل داعی ہے، جو مومن کے لئے ابتدائی حد ہے، درمیانی وقت کی تاویل حجت ہے، اور آخری وقت کی تاویل امام ہیں۔

۱۹۰

فصل (۷): ———- نمازوں کو ملا کر پڑھنے کے بارے میں

         جو شخص (سفر پر نہ ہو) حاضر ہو تو وہ ہر نماز کو اپنے وقت پر پڑھا کرتا ہے، مگر مسافر نمازِ پیشین (ظہر) کو نمازِ دیگر (عصر) کے ساتھ ملا دیتا ہے، اور نمازِ شام (مغرب) کو نمازِ خفتن (عشا) کے ساتھ ملا دیتا ہے، چنانچہ حاضر روحانی دعوت والے کی مثال ہے، جو مومنوں کو حدود کے مراتب بیان کر دیتا ہے، اور مومن ہر ایک حد کی مرتبت کو پہچان لیتا ہے، جس طرح کوئی شخص اپنے اوقات ہی پر نمازیں پڑھا کرتا ہے، اور مسافر اس شخص کی مثال ہے، جو ظاہریت ہی پر ہے، جو (ذہنی طور پر) ایک مذہب سے دوسرے مذہب میں گشت لگاتا ہے، مسافر کی طرح، جو ایک منزل سے دوسری منزل میں چلا جاتا ہے، ایسے شخص کو منزلتِ ناطق اور منزلتِ اساس ایک ساتھ بتا دیتے ہیں، جب دو نمازیں مل کر پڑھی جاتی ہیں، تو اس میں ایک ہی اذان دیتے ہیں، مگر اقامتیں دو پڑھتے ہیں، ایک اذان کا مطلب ناطق کی دعوت ہے، کیونکہ اذان کی تاویل یہی ہے، اور دو اقامتوں کی تاویل ہے، اساس کی دعوت اور قائم القیامت (کی قربت) اور اساس کی دعوت تو ظہورِ قائم سے پیشتر کسی کو مفید ہو سکتی ہے۔

         جاننا چاہئے، کہ نماز کی بنیاد ان دو چیزوں پر ہے، ایک تو اذان ہے، جو ناطق کی دعوت کی مثال ہے، دوسری اقامت ہے، جو اساس کی دعوت کی تاویل ہے، یعنی دعوت ناطق کی ہے، اسی لئے اساس کی دعوت بھی انہی کی طرف ہے، جب نمازِ پیشین کے وقت کا آخری حصہ گزر جائے اور نمازِ دیگر کےوقت کا پہلا حصہ آئے تو دونوں نمازیں ملا کر پڑھی جاتی ہیں جس کی تاویل یہ ہے، کہ جو شخص پوری طرح سے ناطق کی شریعت میں داخل ہو چکا ہو تب اس پر باطن کے بارے میں کسر کی جاسکتی ہے (یعنی سوال کے ذریعہ شریعت کے باطنی پہلو کی اہمیت ظاہر کی جاسکتی ہے) تاکہ یہ واجب ہو کہ وہ شخص پہلے تو ناطق کی شریعت کو اپنائے اور

۱۹۱

اس کے بعد اساس کی دعوت (تاویل) کو قبول کرے، جس کی مثال نمازِ پیشین کو نمازِ دیگر کے ساتھ ملا دینے سے دی گئی ہے، اور اس نماز کو نمازِ دیگر اس لئے کہتے ہیں، کہ اس کے بعد دوسری (دیگر) نماز یعنی نافلہ نہیں پڑھی جاتی ہے، کیونکہ اساس کی دعوت کے بعد کسی اورکی دعوت نہیں، اور جب نمازِ شام کے وقت کا آخری حصہ گزر جائے اور نمازِ خفتن کے وقت کا پہلا حصہ آئے تو نمازِ شام کو نمازِ خفتن کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہیں، جس کی تاویل یہ ہے، کہ نمازِ شام نفسِ کل کی مثال ہے، اور نمازِ خفتن امام کی مثال ہے، چنانچہ اگر کسی شخص کو اساس کی دعوت جو انہوں نے نفسِ کل کی تائید سے کی تھی معلوم نہ ہو، اور اس نے صرف امامِ زمان کی دعوت قبول کر لی ہو، تو اس پر یہ اقرار کرنا واجب ہے، کہ امامِ زمان کو اساس کی وساطت سے نفسِ کل کی تائید حاصل ہے، جس کی مثال نمازِ شام کو نمازِ خفتن کے ساتھ ملا دینے سے دی گئی ہے، اور جس شخص کو دو نمازیں ملانا پڑیں، تو وہ ان دونوں نمازوں کے درمیان ستر تسبیح پڑھتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں، کہ جو شخص ناطق، اساس، امام اور حجت کی حدود کو پہچان لیتا ہو تو اس نے گویا دعوتِ ظاہر اور دعوتِ باطن کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دی ہے، پس وہ ان دعوتوں کے ظاہر و باطن کے درمیان ستر تسبیح کے ذریعہ فرق و امتیاز کرتا ہے، یعنی وہ ان دونوں دعوتوں کو سات أئمۂ برحق کے بیان کے ذریعہ جدا جدا پہچان سکتا ہے، (کیونکہ ستر کے سات عقد ہوتے ہیں)۔

         جس شخص کے لئے ایسی کوئی نماز کا وقت گزر جائے، اور دوسری نماز کا وقت آئے تو وہ پہلے پیش آمدہ نماز پڑھ لیتا ہے، اس کے بعد نماز قضا پڑھتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ جو شخص حدودِ دین میں سے ایک حد کو نہ پہچانے اور اس کے بعد کے حدود کو پہچانے، تو اس پر واجب ہے، اس گزشتہ حد کے لئے اقرار کرنا، اور اپنے زمانے والے حد کی فرمانبرداری کرنا، اور جمعہ کے روز حضر و سفر دونوں حالتوں میں نمازِ پیشین کو نمازِ دیگر کے ساتھ ملا کر پڑھی جاتی ہے، سفر کی تاویل ہے، ظاہر، اور حضر کی تاویل ہے باطن، روزِ جمعہ دلیل ہے حدِ

۱۹۲

ہفتم کی، نمازِ پیشین دلیل ہے ناطق کی اور نمازِ دیگر دلیل ہے اساس کی، اس کے یہ معنی ہوئے، کہ اساس کا مرتبہ حدِ ہفتم یعنی قائم ظاہر ہوتے وقت اہلِ ظاہر و باطن کے لئے نمایان ہوگا، جس طرح ناطق کا مرتبہ قائم کے ظہور سے پہلے ہی اہلِ ظاہر و باطن پر پوری طرح سے نمایا ہو چکا ہے، اور یہ حدیث امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے، کہ فرمایا: ’’وَقْتُ صلوٰۃِ الْعصْرِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ وَقْتُ صَلوٰۃِ الظُّھْرِ = جمعہ کے روز نمازِ دیگر کا وقت ہی نمازِ پیشین کا وقت ہے۔‘‘ یعنی اساس کا مرتبہ قائم کے پیدا ہوتے وقت ظاہر ہوگا۔

فصل (۸) — اذان اور اقامت کے درمیان وقفہ دینے کے بارے میں

         رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت کی گئی ہے، جو موذن بلال سے فرمایا: ’’ اِجْعَلْ بَیْنَ اَذَانِکْ وَاِقاَمتِک نَفساً لِیَفْرَغَ الْمُتَوَضّی ءُ مِنْ وُ ضُوْئِہٖ و الْآکِلُ مِنْ اَکْلِہٖ وَ ذُو الحٰاجَۃِ مِنْ حٰاجَتِہٖ ۔ تو اپنی اذان اور اقامت کے درمیان ذرا ٹھہر لیا کر، تاکہ طہارت لینے والا طہارت سے، کھانے والا کھانے سے اور حاجت والا حاجت سے فارغ ہو جائے‘‘۔ جس کی تاویل یہ ہے، کہ داعی کو مستجیب پر (خاص باتیں ظاہر کرنے کے لئے) جلدی نہیں کرنی چاہئے، تاکہ وہ تیار ہو کر (روحانی) حرم میں داخل ہو جائے، علم کا پانی پی لے اور اپنے نفس کو علم کے ذریعہ پاک کرے۔

فصل (۹): فرقۂ امامیہ کا قصر کرنا جو کہتے ہیں کہ مسافر کو نماز میں قصر (کمی) نہیں کرنا چاہئے، مگر جب وہ حج یا جہاد کے راستے میں ہو

         حج کرنے والا امام ڈھونڈھنے والے کی مثال ہے، اور جہاد کرنے والا

۱۹۳

داعی کی مثال ہے، کیونکہ دعوت میں وہی جد و جہد کرتا ہے، اہلِ ظاہر کے خلاف (علمی) جنگ کرتا رہتا ہے، اور روحانی طور پر لوگوں کو خدا، رسول، وصی، امام اور حجت کی طرف بلاتا ہے، (چنانچہ حج یا جہاد کے) مسافر پر صرف بارہ رکعتوں میں قصر کرنا واجب ہوتا ہے، نہ کہ تمام نمازوں میں، یہ قصر نمازِ پیشین، نمازِ دیگر اور نمازِ خفتن میں ہوا کرتا ہے، جن میں مجموعی طور پر بارہ رکعتیں ہیں، جو بارہ حجتوں کی دلیل ہیں، جن میں سے چھ حجتوں کے لئے مردانہ منزلت ہے اور چھ کے لئے زنانہ منزلت ہے، اور مرد کی حد عورت کی حد سے برتر ہے، پس داعی پر، جو (روحانی) مجاہد ہے، یہ واجب ہوا کہ وہ ان چھ زنانہ حدود کو مومنوں پر ظاہر نہ کرے جن کی مثال ان بارہ رکعت نمازوں میں سے چھ رکعت چھوڑ دینے سے دی گئی ہے، جن کا ذکر کیا گیا۔

         نیز نمازِ پیشین، نمازِ دیگر اور نمازِ خفتن، تینوں میں قصر کرنے اور صبح و شام کی نمازوں میں قصر نہ کرنے کے بارے میں ہم بیان کرتے ہیں، کہ نمازِ صبح عقلِ کل پر دلیل ہے، اور نمازِ شام نفسِ کل پر دلیل ہے ان دونوں روحانی حدوں میں کوئی تقصیر و کمی واقع نہیں ہوتی ہے وہ اس سے برتر ہیں، کہ ان پر کوئی آزمائش و تکلیف آئے اور ان کی قوت کا سلسلہ لوگوں سے ٹوٹ جائے، مگر ناطق، اساس اور امام اس تکلیف و آزمائش کے گھر (دنیا) میں آئے ہوئے ہیں، لہٰذا ان کے کام میں (کبھی کبھی ) کوئی کمی واقع ہو جاتی ہے، اور یہی حضرات ہیں، جو ایسے موقعے پر لوگوں سے دعوت روکی رکھتے ہیں، اور مذکورہ تین نمازیں ان تینوں جسمانی حدود پر دلیل ہیں، اور ان نمازوں میں قصر کرنا، ان حدود کی دعوت ہنگامی طور پر رک جانے کی دلیل ہے۔

         نیز ہم یہ بتا دیں گے، کہ صبح و شام کی نمازیں پانچ رکعت ہیں، اور ان دونوں نمازوں میں قصر نہیں کیا جاتا، جس کی تاویل یہ ہے، کہ جو دو حد اول و ثانی (یعنی عقلِ کل اور نفسِ کل کے نام سے) ہیں، وہ کمی و کوتاہی نہیں کرتے ہیں، اور پانچ حدود یعنی ناطق، اساس، امام، باب اور حجت کو تائید بھیجنے سے وہ

۱۹۴

عاجز نہیں ہوتے، اور ان پر ان پانچ حدود کا حال پوشیدہ نہیں، مگر بحالتِ سفر قصر ان تینوں نمازوں میں کیا جاتا ہے، جن میں مجموعاً بارہ رکعتیں ہیں، سفر دلیل ہے، ان تینوں حدود سے تائید رکنے پر، جن کی مثال مذکورہ تین نمازیں ہیں، اور ایسے موقعے پر ان بارہ حجتوں کو مادہ دینے میں ان سے کمی واقع ہوتی ہے، جن پر یہ بارہ رکعتیں دلیل ہیں، نمازِ حضر میں (جو حالتِ سفر نہ ہو) کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے، (یعنی اس میں قصر نہیں) جس کی تاویل یہ ہے، کہ یہ تینوں جسمانی حدود یعنی ناطق، اساس اور متم (امام) جبکہ تائید ان کو مسلسل مل رہی ہو، جس کی مثال نمازِ حضر سے دی گئی ہے، بارہ جزائز کے بارہ حجتوں کو (نورانی) مادہ بھیجنے میں کوئی کمی نہیں کرتے ہیں۔

         فصل (۱۰): —— بیٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں

         ہم بیان کریں گے ، کہ بیٹھ کر نماز وہ شخص پڑھتا ہے، جس میں کھڑا ہونے کی قوت نہیں، یا وہ شخص جس کا مام یعنی پیش نماز کچھ بیمار ہو، جس سے وہ کھڑا ہو کر نماز نہیں پڑھا سکتا ہے، اور بیٹھ کر نماز پڑھا تا ہے (تو یہ صورت یعنی بیٹھ کر نماز پڑھانا) اس شخص پر دلیل ہے، جو اپنی ذاتی کمزوری کی وجہ سے اس عالم میں دعوت قائم نہیں کر سکتا ، پس اس پر واجب ہے، کہ پوشیدہ طور پر دعوت کرے، چنانچہ جو شخص کھڑا ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر پڑھتا ہے۔

حکایت

         روایت کی گئی ہے، کہ ایک دفعہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گھوڑے سے گر گئے تھے اور ان کے دائیں پہلو کو صدمہ پہنچا تھا، اصحاب نے آنحضرت کے حضور میں آکر مزاج پرسی کی اور انہوں نے عرض کیا، کہ نماز کا وقت ہو چکا ہے، تو رسول علیہ السلام اٹھ بیٹھے، تاکہ ان کو نماز پڑھائیں، اور اصحاب ان کے پیچھے کھڑے

۱۹۵

ہو گئے، رسول علیہ السلام نے اشارہ فرمایا کہ بیٹھ جاؤ، اصحاب بیٹھ گئے، جب آنحضرت نماز سے فارغ ہوئے، تو فرمایا: ’’ قوم کا پیش نماز اس لئے ہوتا ہے، کہ وہ ان کے لئے پیشوا ہوجائے اور وہ (نماز میں ) جب تکبیر کہتا ہے، تو وہ لوگ بھی تکبیر کہتے ہیں، جب وہ پڑھتا ہے، تو وہ سنتے ہیں، جب وہ سَمِع اللہِ لِمَنْ حَمِدَہ کہتا ہے تو وہ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد کہتے ہیں، جب وہ سلام پھیر دیتا ہے، تو وہ بھی سلام پھیر دیتے ہیں، اور جب پیش نماز بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اس کی قوم بھی بیٹھ کر ہی پڑھتی ہے۔

         اس قول کی تاویل یہ ہے کہ جب پیش نماز تکبیر کہے، یعنی جب وہ (حقیقی امام) خدا کو بزرگ سمجھے، تو ان کو قوم بھی اسی طرح اس کو بزرگ سمجھے، ور جو فرمایا کہ جب پیش نماز پڑھتا ہے، تو وہ سنتے ہیں، اس سے آنحضرت کی مراد یہ ہے، کہ جب امام دین کے بارے میں کوئی بیان فرماتا ہے، تو ان کی قوم والے ان کی پیروی کرتے ہیں، اور ان کے ساتھ بحث نہیں کرتے ، اور جو فرمایا، کہ جب پیش نماز سَمِع اللہ لِمَنْ حَمِدَہ کہتا ہے، تو اس کی قوم رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد کہتی ہے، اس سے آنحضرت یہ فرمانا چاہتے ہیں، کہ جب امام کسی مومن کو حکمت سناتے ہیں، تاکہ جس سے وہ اپنی موجودہ مرتبت سے برتر ہو جائے، تو اس کے لئے وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے، یعنی امام سے کہتا ہے، کہ الحمد آپ کی ہے، یعنی خداوند کی پانچ تائیدیں آپ کو حاصل ہیں (جس سے عقلِ کل، نفسِ کل، جد، فتح اور خیال کی تائید مراد ہے) اور جو فرمایا، کہ جب پیش نماز سلام پھیرتا ہے، تو اس کی جماعت بھی سلام پھیرتی ہے، جس سے آنحضرت کی مراد یہ ہے، کہ جب امام بموجبِ فرمانِ الٰہی اپنا مقام اپنے جانشین کے حوالے کر دیتے ہیں، تو تمام اہلِ دعوت کے لئے چاہئے، کہ ان کے اس فرمان کے لئے قبول اور تسلیم کریں، اور جو فرمایا، کہ جب پیش نماز بیٹھ کر نماز پڑھا تا ہے، تو اس کی قوم بھی بیٹھ کر ہی پڑھتی ہے، جس سے حضور یہ فرمانا چاہتے ہیں، کہ جب امام تقیہ کے طور پر

۱۹۶

دعوت کریں، تو ان کی قوم والے بھی تقیہ ہی کرتے ہیں، اور ظاہر (دعوت) نہیں کرتے ہیں۔

حکایت

         روایت کی گئی ہے، کہ ایک دن رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نماز دیگر سے فارغ ہو کر قوم سے مخاطب ہوئے، اور فرمانے لگے، کہ تم میں سے کون سا شخص تھا، جس نے میرے پیچھے ( اس نماز میں) ام الکتاب (یعنی الحمد) پڑھی؟ ایک شخص نے عرض کی، کہ( یا حضرت!) میں پڑھ رہا تھا، رسول السلام نے فرمایا: کہ تم میں سے جو شخص میرے پیچھے ام الکتاب پڑھے، تو گویا وہی شخص پیش نماز ہونا چاہتا ہے، اور ظاہر میں اَلْحَمْدُ لَلّٰہِ (یعنی سورۂ فاتحہ) ام الکتاب ہے، اور باطن میں مرتضیٰ علیؑ ام الکتاب ہیں، اس لئے کہ دراصل أئمہ ہی کتاب ہیں، اور روحانی تولید کے اعتبار سے اساس ؑ ائمہ کی ماں ہیں۔ اور ناطق علیہ السلام ان کا باپ ہیں اور اس قول کی تاویل یہ ہے (جو رسول علیہ السلام نے اشارہ فرمایا) کہ میرے بعد میری قوم کے بہت سے لوگ (مرتبۂ ) اساس کو حاصل کرنا چا ہیں گے، مگر کوئی شخص (بجز اس کی اولاد کے) اس کے مقام پر نہ ٹھہر سکے گا۔

         رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی حدیث ہے، جو فرمایا: بَیْنَ قَبْرِیْ وَ مِنْبَرِیْ رَوْضۃٌمِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃ = میری قبر اور منبر کے درمیان بہشت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔‘‘ اور اس حدیث کی تاویل یہ ہے، کہ رسول کی قبر ان کے وصی تھے، کیونکہ آنحضرت کی حکمتیں انہی میں پوشیدہ تھیں، اور آنحضرت کے منبر قائمِ قیامت علیہ افضل التحیۃ و السلام ہیں کیونکہ دینِ حق انہی سے آشکار ہوگا، اس سے رسولؐ کی مراد یہ ہے، کہ میرے اساس اور قائمِ قیامت علیہ افضل التحیۃ والسلام کے درمیان، جو یہ دونوں میرے

۱۹۷

فرزند ہیں، بہشت کے باغات میں سے ایک باغ ہے، اس سے رسول کی مراد دعوتِ حق تھی، جس میں حکمت کے پھلوں سے لدے ہوئے درخت اور حقیقت کے مہکتے ہوئے پھول موجود ہیں۔

۱۹۸

کلام۔ ۲۰

اُن تاویلات کے بارے میں، جو پنج وقتی نماز، اس کی رکعتوں کی تعداد اور اس کے اوقات میں ہیں

         ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کر دیتے ہیں، کہ نماز پڑھنا، توحیدِ خدا کی طرف دعوت کرنے اور خدا کے اولیا ٔ کے ساتھ مل جانے پر دلیل ہے، چنانچہ نمازِ صبح دلیل ہے اول پر، اور اس کے پڑھنے کا وقت وہ بتا یا گیا ہے، جس میں دن کی روشنی نظر آنے لگتی ہے، اس سے ناطق علیہ السلام نے یہ ظاہر کر دیا، کہ سب سے پہلے نور، جو امرِ باری سبحانہ سے پیدا ہوا وہ اول تھا، جس کو قلم اور عقل کہتے ہیں۔

         نمازِ صبح چار رکعتوں پر مشتمل ہے، جن میں دو سنت رکعتیں فریضہ سے پہلے آتی ہیں، اور وہ ناطق و اساس پر دلیل ہیں، کہ پہلے تو انہی کو پہچان لینا چاہئے، تاکہ ان کی رہنمائی سے اول و ثانی (عقل و نفس) کو پہچان لیا جاسکے، اور یہ نمازِ فریضہ و سنت کی چار رکعتوں پر مبنی ہے، یہ اس بات پر دلیل ہے، کہ اصولِ دین چار ہیں، ان میں سے دو روحانی ہیں، جیسے اول و ثانی اور دو جسمانی ہیں، جیسے ناطق و اساس، اور وہ سنت والی دو۲ رکعتیں بھی وہی مرتبت رکھتی ہیں، جو دو فریضہ رکعتوں کی ہے، جس کی معنی یہ ہیں، کہ عالمِ جسمانی میں ناطق اور اساس کا بھی وہی مرتبہ ہے، جو

۱۹۹

مرتبہ عالمِ روحانی میں اول و ثانی کا ہے۔

         سنت کی پہلی رکعت ناطق پر دلیل ہے، کیونکہ اس میں تین چیزیں پڑھی جاتی ہیں، خدا کی حمدو ثنا، الحمد اور سورہ، جس کی تاویل یہ ہے، کہ ناطق کی روح کے تین مراتب ہیں، جیسے نبوت، وصایت اور امامت، چنانچہ حمد و ثنا پڑھنا مرتبۂ ناطق پر دلیل ہے، الحمد پڑھنا مرتبۂ اساس پر دلیل ہے، اور سورہ پڑھنا مرتبۂ امام پر دلیل ہے، سنت کی دوسری رکعت میں ثنا نہیں، مگر الحمد اور سورہ ہیں، جس کی تاویل یہ ہے ، کہ اساس مرتبۂ نبوت نہیں رکھتے، مگر ان کے دو مرتبے ہیں، ایک مرتبہ وصایت ہے، اور دوسرا مرتبہ امامت ، سنت کے بعد فرض کی دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں، جن کے درمیان بیٹھنا نہیں، یہ اس حقیقت کی دلیل ہے کہ عقلِ کل اور باری سبحانہ کے درمیان کوئی واسطہ اور وسیلہ نہیں، نمازِ صبح کے فریضہ کی پہلی رکعت باری تعالیٰ کی وحدت پر دلیل ہے، جس سے تمام ہستیوں کی بنیاد (یعنی  عقلِ کل) کو ہستی ملی، اور وہ خود (یعنی وحدت) ہست نہیں تھی، اور ہستیاں تو اسی سے پیدا ہوئیں، یہی وجہ ہے، کہ پہلی رکعت میں حمد و ثنا، الحمد اور سورہ، تین چیزیں پڑھتے ہیں، دوسری رکعت عقلِ کل پر دلیل ہے، اور اس میں الحمد اور سورہ ہے، مگر حمد و ثنا نہیں ، جس کے معنی یہ ہیں کہ عقلِ کل کی ہستی اپنے آپ سے نہیں بلکہ باری سبحانہ و تعالیٰ کی وحدت سے ہے، اور تمام موجودات کے وجود کی علت (سبب) وہی (عقلِ کل) ہے اور عقل کے تحت چار مراتب ہیں، جو دو مقامات پر عقل سے تائید حاصل کرتے ہیں، یہ چار مراتب نفسِ کل، ناطق، اساس، اور قائمِ قیامت علیہ السلام ہیں، ان دو مقامات میں سے ایک تو ترکیب و تالیف کا مقام ہے، جو نفسِ کل اور ناطق کے لئے ہے، اور دوسرا تاویل و تائید کا مقام ہے، جو اساس اور قائم علیہ السلام کے لئے ہے۔

         نمازِ صبح کی تاویل میں بندے کی طرف سے خدائے تعالیٰ کا شکر ہے، کہ اس نے عقلِ کل کے ابداع (یعنی مادی ذرائع کے بغیر ایجاد) کر کے اس کو اپنے اور خلق کے درمیان واسطہ اور وسیلہ بنایا، اور اس کے نور سے لوگوں کو حصہ

۲۰۰

(یعنی عقلِ جزوی) دیا، جس کی بدولت لوگ جانوروں سے ممتاز ہوئے اور اسی نور کے ذریعہ سے انہوں نے توحید کی پہچان کر لی، اور اگر یہ نور نہ ہوتا، تو کوئی شخص باری سبحانہ کی پہچان تک نہیں پہنچ سکتا، نہ وہ مویشی سے ممتاز ہو سکتا اور جب باری سبحانہ تعالیٰ نے ہمیں بواسطۂ عقلِ کل اپنے نور سے بہرہ مند فرمایا، تو ہم پر یہ واجب ہوتا ہے، کہ ہم اس وقت (یعنی نمازِ صبح میں) جو اس عظیم ہستی یعنی قبلۂ نمازِ صبح پر دلیل ہے، باری سبحانہ و تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔

         نمازِ شام نفسِ کل کی مثال ہے، اور اس نماز کا وقت وہ ہے، جس میں سورج مشرق سے نکل کر مغرب میں ڈوب جاتا ہے، (اس وقت کے تعین سے) ناطق نے یہ ظاہر کر دیا، کہ توحید کا نور عقلِ کل سے طلوع ہو کر نفسِ کل میں غروب ہوا ہے، اس لئے کہ خدا کے نور کا مشرق عقلِ کل ہے، اور خدا کے نور کا مغرب نفسِ کل ہے، اور (خدا کا نور اس روحانی مشرق و مغرب کا سورج ہے، چنانچہ) سورج کی روشنی خدا کی توحید پر دلیل ہے، نمازِ صبح عقلِ کل پر دلیل ہے، اور نماز شام نفسِ کل پر دلیل ہے، نمازِ صبح میں دو ۲ رکعتیں فرض ہیں، جو کلمۂ ’’کن‘‘ اور عقلِ کل پر دلیل ہیں، مگر نمازِ شام میں تین رکعتیں فرض ہیں، جو نفسِ کل، عقلِ کل اور وحدتِ باری پر دلیل ہیں، اور یہ دونوں نمازیں جو پانچ رکعتوں پر مشتمل ہیں، اس حقیقت پر دلیل ہیں، کہ ان مراتبِ عالیہ سے پانچ حدودِ جسمانی کو تائید ملتی رہتی ہے، جیسے ناطق، اساس، امام، حجت، اور قائمِ قیامت علیہ السلام اور یہ دونوں نمازیں دن رات کے کناروں پر پڑھی جاتی ہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ اہلِ ظاہر اور اہلِ باطن کی انتہا و غایت یہی دو اصول (عقلِ کل و نفسِ کل) ہیں کیونکہ یہاں دن اہلِ ظاہر کی مثال ہے اور رات اہلِ باطن کی مثال ہے۔

         نیز ہم یہ بیان کر دیں گے، کہ نمازِ صبح کے فریضہ میں دو رکعتیں ہیں، اور نمازِ شام کے فریضہ میں تین رکعتیں ہیں، اس میں ناطق نے یہ اشارہ رکھا، کہ ان دو فرشتوں (عقلِ کل و نفسِ کل) سے جس قدر نور برستا ہے، اس کو اس جہان میں

۲۰۱

پوری طرح سے قبول کرنے والیں تین ہستیاں ہیں، جیسے جد، فتح اور خیال، جو نفسِ کل کے تحت ہیں۔

         نمازِ پیشین اور نمازِ دیگر ان دو مذکورہ نمازوں کے درمیان ہیں، مگر نمازِ خفتن ان سے جدا ہے، اور یہ دلیل ہے، ناطق اور اساس کے ایک وقت میں ہونے کی، اور امامِ زمان ان کے عصر گزر جانے کے بعد ہونے کی۔

         نمازِ شام کی پہلی رکعت ناطق پر دلیل ہے، جس میں خدا کی ثنا، الحمد اور سورہ ہیں، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ ناطق کی جان کو تین روحانی حدود سے حصہ مل رہا ہے، وہ حدود جد، فتح اور خیال ہیں۔

         نمازِ شام کے فریضہ کی دوسری رکعت اساس پر دلیل ہے، جس میں حمد و ثنا کے بغیر الحمد اور سورہ ہیں، چنانچہ اساس کو مرتبۂ جد سے کوئی حصہ نہیں اور اس کی جان کو دو مراتب سے حصہ ملتا ہے، یعنی نورِ فتح اور نورِ خیال سے۔

         ان دو رکعتوں کے بعد بیٹھنا ہے، اور یہ ظاہر و باطن کے دو حد یعنی ناطق و اساس پر دعوت کے قرار پانے (مکمل ہونے) کی دلیل ہے۔

         تیسری رکعت کا صرف ایک ہی مرتبہ ہے، یعنی اس میں صرف الحمد ہے، اور یہ امام پر دلیل ہے، کہ اس کی جان کو نورِ خیال ہی کے ایک مرتبے سے بہرہ مل رہا ہے، اور نمازِ شام تین رکعت ہے، دو ۲ رکعت اونچی آواز سے پڑھنی چاہئے، اور ایک رکعت پست آواز سے پڑھنی چاہئے، جس سے ناطق نے یہ ظاہر کردیا، کہ میں نے اپنا مرتبہ ظاہر کر دیا، اور اساس کے مرتبے کے لئے وصیت کی، مگر امام کے مرتبے کو ظاہر نہیں کیا، بلکہ اس کو دین کے دشمنوں سے پوشیدہ رکھا۔

         نمازِ شام کے فریضے کے بعد چھ رکعتیں سنت ہیں، جس کی تاویل یہ ہے، کہ نفسِ کل نے اپنے تحت کے چھ ناطقوں کو تائید بھیجی، تاکہ یہ حضرات اس کے نور کو لوگوں تک پہنچا دیں، یہ چھ ناطق آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد مصطفیٰ علیہم السلام ہیں۔

۲۰۲

         نمازِ شام کا وقت سورج کا غروب ہوچکنا، آسمان پر سرخ شفق کا ہونا اور ستاروں کا ظاہر ہونا ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ جب ناطق (محمد علیہ السلام ) نے اپنا دور ختم کر لیا، اور عقلِ کل کی تائید ، جو دین کا سورج ہے، ڈوب گئی تو نفسِ کل کی تائید جس کی مثال ستاروں کی روشنی ہے، اساس کے ذریعہ جزائر کے داعیوں (لاحقوں) کی زبان سے لوگوں کے لئے ظاہر ہوگی۔

         نمازِ شام بندے کی طرف سے خدائے تعالیٰ کا شکر ہے، کہ اس نے نفسِ کل کے نور سے لوگوں کو حصہ دیا، اور لوگوں کے لئے وہ نور ’’روحِ ناطقہ‘‘ ہے، تاکہ وہ اس کے ذریعہ بات چیت کر سکیں، اور ہر اس چیز کے لئے کوئی نام اور کچھ صفتیں عبارت کریں، جو خود بخود ان کو نظر آتی ہے، (یعنی اشیائے ظاہر کو ایک دوسری سے تعبیر دیں) پس نمازِ شام کا قبلہ نفسِ کل ہوا، تاکہ لوگ خدا کا شکر کریں، کہ اس نے نفسِ کل پیدا کر کے اس کو اپنے اور بندوں کے درمیان واسطہ ٹھہرایا، اور اس سے لوگوں کو نور پہنچا دیا، جس کی بدولت لوگ بولنے والے ہوئے، اور اسی بولنے کی بدولت حیوانات سے ممتاز ہوئے۔

         نمازِ پیشین ناطق پر دلیل ہے، اور اس کو پیشین اس لئے کہتے ہیں کہ ناطق ہی وہ پہلا شخص تھے جنہوں نے عالمِ بالا سے نور حاصل کر لیا، نیز وہ دین میں لوگوں کے لئے اس جہان کی طرف پیشرو تھے، اور یہ نماز بھی سب سے پہلی نماز تھی، جو آنحضرت علیہ السلام نے پڑھی، اور پڑھنے کے لئے فرمایا، نیز آنحضرت علیہ السلام نے خدا کی توحید کی طرف (سب سے پہلے اسی نماز کے ذریعہ علمی) دعوت کی تھی۔

         اس نماز کی عربی میں ظہر کہتے ہیں، اس معنی میں کہ ناطق کی دعوت ظاہر میں ہوا کرتی ہے، جو شریعت ہے۔

         اس نماز کا پہلا وقت ان چھ گھنٹوں کے بعد ہے، جو سورج کے وقتِ  طلوع سے گزر جاتے ہیں، جس کی تاویل یہ ہے، کہ آنحضرت علیہ السلام کے دنیا

۲۰۳

میں آنے کا وقت دورِ عیسیٰ کے چھ اماموں کے گزر جانے کے بعد تھا، کہ وہ اپنے دور کا سورج تھا۔

         اس نماز کا آخری وقت وہ ہوتا ہے، جس میں ہر چیز کا سایہ اس چیز کے برابر ہو جاتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ جب دورِ عیسی علیہ السلام کے لاحقوں میں سے ہر ایک حد کو اپنے حصے کی تائید چھ اماموں سے مل چکی، اور تاویل و توحید کے ذریعہ ظاہر و باطن برابر ہوا، تو دوسرے ناطق کا پیدا ہونا واجب ہوا۔

         اس نماز کے فریضے میں چار رکعتیں ہیں، جس میں ناطق کا یہ اشارہ ہے، کہ میں تم کو ان دو فرشتوں کی طرف دعوت کرنے والا ہوں، جن کا میں تیسرا ہوں، اور اساس ہمارا چوتھا ہے۔

         اس کے فریضے کی پہلی دو رکعتیں ناطق و اساس کی دلیل ہیں، اور پہلے ان دو رکعتوں کو پڑھنا چاہئے، جس سے ناطق نے یہ ظاہر کیا، کہ جب تک لوگ مجھ کو اور اساس کو نہ اپنا لیں، تو عقلِ کل اور نفسِ کل کی پہچان تک رسا ہو نہیں سکتے ہیں۔

         پہلی رکعت میں ثنا ء الحمد اور سورہ ہیں، یہ تین انوار کی دلیل ہیں، جو جد، فتح اور خیال سے ناطق کی روح کے ساتھ متصل ہوئے ہیں۔

         دوسری رکعت میں ثنا ء نہیں اور الحمد و سورہ ہیں، یہ دو انوار کی دلیل ہے، جو اساس کی جان کے ساتھ متصل ہیں، ایک نور فتح سے اور دوسرا خیال سے۔

         اس کے بعد تشہد کے لئے بیٹھنا ہے، جو نماز پڑھنے والے کی طرف اشارہ ہے، جس نے گواہی دینی ہے، کہ یہ دو روحانی حدود جو عالمِ روحانی میں ہیں مذکورہ دو حدود (ناطق و اساس) کے برابر ہیں۔

         پھر اٹھ کر دوسری رکعتوں کا پڑھنا ہے، جن میں صرف الحمد ہی ہے، جس میں ناطق کا یہ اشارہ ہے، کہ میں اور اساس الحمد اور سورہ کی مثال پر جسم و روح کی طرح ہیں، کیونکہ الحمد روح ہے، اور سورہ جسم ہے، اور عقلِ کل و نفسِ کل روحانی

۲۰۴

ہیں، جن کو جسمانی تصور کرنا کفر ہے، اسی سبب سے ان دو رکعتوں میں تنہا الحمد پڑھی جاتی ہے، جو ان دو روحانی حدود پر دلیل ہیں۔

         اس نماز میں سنت کی چھ رکعتیں فریضے کی چار رکعتوں سے پہلے ہیں جس کی تاویل یہ ہے، کہ محمد علیہ السلام ناطقوں میں چھٹے تھے، نیز یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد چھ امام گزر گئے تھے۔

         نمازِ پیشین کے فریضے کے بعد سنت کی چار رکعتیں ان چار اشخاص پر دلیل ہیں، جن کی فرمانبرداری ناطق کی فرمانبرداری کے بعدمومنوں پر واجب ہے، اور وہ اساس، امام، حجت اور داعی ہیں۔

         نمازِ پیشین بندے کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے لئے اس بات کا شکر ہے کہ اس نے ناطق بھیجا، تاکہ آنحضرت لوگوں کو دوسرے جہان کے احوال سے آگاہ کر لیا کریں تاکہ اس ناطق کے ذریعہ لوگوں کو یہ راستہ پیدا ہو سکے، کہ ہمارا کوئی خالق ہے، یکتا، بے شریک، پاک اور برتر، اگر ناطق نہ ہوتے تو لوگوں کو ان کی اس حالت سے کون آگاہ کر سکتا ، جس میں وہ پہلے تھے نہ لوگ خود اپنی حالت کو سمجھ سکتے ، اور انسانوں کی طبیعت علم و دانش سے محروم رہ جاتی ، پس نمازِ پیشین کے قبلہ ناطق ہیں۔

         نمازِ دیگر اساس پر دلیل ہے، اور اس کو نمازِ دیگر اس لئے کہتے ہیں کہ اساس ناطق سے دوسرے (دیگر) شخص ہیں، جو ناطق کے بعد دینی کام کے لئے قائم ہوئے۔

         اس نماز کا پہلا وقت وہ ہے جس میں ہر چیز کا سایہ اس چیز سے دگنا ہو جاتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ اساس ہی کی بدولت مومن کے لئے ظاہر و باطن یکسان ہو جاتے ہیں، کیونکہ مومن کی حکمت اس کے علم کے ساتھ ایک ہو جاتی ہے، اب مومن علمی طور پر اتنا اور بڑھ جاتا ہے، جتنا کہ وہ اس سے پہلے یعنی بغیر باطن کے ظاہر جانتے وقت تھا۔

۲۰۵

         اس نماز کا آخری وقت وہ ہے، جس میں سورج زرد نظر آتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ جب ناطق کے ظاہر (شریعت وغیرہ) میں کمزوری آجائے تو وہ اساس کے دور کا آخری کام ہوگا، اور یہی وقت قائمِ حق پیدا ہونے کا ہے، کیونکہ سورج ناطق کے ظاہر کی مثال ہے۔

         سنت کی چار رکعتیں فریضے سے پہلے ہونا اس بات کی دلیل ہیں، کہ اساس سے پہلے بھی لوگوں کو بلانا گزشتہ ادوار میں چار اصولِ دین کی طرف تھا۔

         نمازِ دیگر کے فریضے میں بھی چار رکعتیں ہیں، یعنی اساس کی دعوت بھی ان چار اصولِ دین کی طرف ہے، جن کی طرف ناطق کی دعوت تھی۔

         پہلی دور کعتیں الحمد اور سورے کے ساتھ ہیں، اور پہلی دو رکعتیں ناطق و اساس پر دلیل ہیں، کیونکہ وہ الحمد اور سورے کی مثال پر جسم اور روح ہیں۔

         آخری دو ۲ رکعتوں میں تنہا الحمد ہی ہے، جو عقلِ کل اور نفسِ کل پر دلیل ہے، کیونکہ وہ روحانی ہیں۔

         نمازِ دیگر کے بعد کوئی سنت نہیں، یعنی اساس کی تاویل کی تاویل نہیں، بلکہ وہ خود مکمل حقیقت ہے۔

         نمازِ دیگر بندے کی طرف سے خدائے تعالیٰ کا شکر ہے، کہ وہ بے مثال ہے، اس لئے کہ اس نے اساس کو پیدا کیا ہے، جنہوں نے مومنوں کو ناطق کی تنزیل کی تاویل بتائی، کہ اگر اساس نہ ہوتے تو کون ہمیں تاویل بتا سکتا دران صورت کوئی شخص دین کی حقیقت تک رسا نہیں ہوسکتا، جس طرح موسیٰ کی امت کے یہود و آتش پرست، اور ابراہیم کی امت کے آتش پرست تھے، اور جب ( اساس نہ ماننے کا حال یہ ہے، کہ) بہتر گروہ ایک ایسے قول پر ہیں، کہ انہوں نے ظاہر ہی کو لیا ہے، اور صرف اسی کو قبول کرتے ہیں، اور اس کی تاویل نہیں اپناتے ، اور کورا نہ حالت میں گھومتے ہیں، تو مومنوں پر فرض ہے خدا کا شکر کرنا، کہ اس نے ناطق کو امر کیا ہے، جس سے انہوں نے اساس کو قائم کر دیا، جن کی تاویل

۲۰۶

کے ذریعہ ان مومنوں نے روحانی اور جسمانی حدود کو پہچان لیا، جو اپنے اعضا سے فریضہ اور سنت کو گزارتے ہیں، اور اپنے دل سے ان حدود کو پہچان لیتے ہیں، جن کی مثال ہر نماز سے دی گئی ہے، کیونکہ تائید (دینی امداد) جسم کے ذریعہ بھی دی جا سکتی ہے، اور روح کے ذریعہ بھی۔

         نمازِ دیگر کو وسطیٰ کہتے ہیں، یعنی کہ یہ نماز ان پانچوں نمازوں کے درمیان ہے، جو دن رات کو مدت میں لوگوں پر فرض ہوا کرتی ہیں، چنانچہ نمازِ صبح اور نمازِ پیشین اس سے پہلے ہیں، اور نمازِ شام اور نمازِ خفتن اس کے بعد ہیں، اور یہ نماز ان کے وسطہ (درمیان) میں ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ اساس کو ناطق سے تعلیم اور نفسِ کل سے تائید ملتی ہے، جس طرح یہ نماز، نمازِ پیشین اور نمازِ شام کے درمیان ہے، نمازِ پیشین ناطق کی دلیل ہے، اور نمازِ شام نفسِ کل کی دلیل ہے۔

         اللہ تعالیٰ نے تمام نمازوں کی محافظت کرنے کے لئے فرمایا ہے، خصوصاً نمازِ دیگر کی، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاَةِ الْوُسْطَى َ (۲: ۲۳۸)

         محافظت کرو (عموماً) سب نمازوں کی، اور (خصوصاً) درمیان والی نماز کی۔‘‘ اس وصیت کے بموجب جو خدائے تعالیٰ فرماتا ہے، نمازِ دیگر کی محافظت کرنی لازمی ہے، کیونکہ کسی کام کے متعلق وصیت قبول کی جانے کی شرط یہ ہے، کہ تم اسے بلا تاخیر کر لو، اور اس نماز کا بلا تاخیر پڑھنا یہ ہے، کہ جب سورج کا وقت وہ ہو جس میں تم نے نمازِ پیشین پڑھ چکی ہے، (تب نمازِ دیگر بڑھنی چاہئے) اور ایسی بروقت نماز، نمازِ پیشین کی طرف زیادہ نزدیک ہونی چاہئے، بہ نسبت اس کے کہ تم سورج ڈوبتے وقت نمازِ دیگر پڑھو، اس قول کی تاویل یہ ہے، کہ اساس کی تعلیم ناطق سے تھی، اور تائید نفسِ کل سے، لیکن اساس ناطق کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتے تھے، اس لئے کہ وہ بھی انہی کی طرح جسمانی تھے، پس نمازِ دیگر جو اساس پر دلیل ہے، نمازِ شام کے بہ نسبت نمازِ پیشین کی طرف زیادہ نزدیک ہونی چاہئے۔

۲۰۷

         اللہ تعالیٰ یہ جو فرماتا ہے، کہ محافظت کرو (عموماً) سب نمازوں کی، اور (خصوصاً) درمیان والی نماز کی، اس سے اللہ کی مراد یہ ہے، کہ ان پانچ حدود کی فرمانبرداری کرو، جن پر پانچ نمازیں دلیل ہیں، خصوصاً اساس کی فرمانبرداری کرو، کیونکہ تمام حدود کو تم انہی کی تاویل کے ذریعے پہچان سکو گے، پس اسی وجہ سے اساس نمازِ دیگر کے قبلہ ہوئے، تاکہ خدا کا شکر کیا جائے، نیز رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حدیث آئی ہے۔

         ’’مَن فَاتَتْہُ صَلوٰۃُ الْعَصْرِ فَکَاَنَّمَا وُتِرَ اَھْلَہُ وَ مَالُہُ۔

         جس کی نمازِ دیگر فوت ہوئی ہو، ایسا ہے، کہ اس کے اہل اور مال فوت (ضائع) ہو چکا ہے۔‘‘ اہل کی تاویل داعی ہے، اور مال کی تاویل علم ہے، یعنی جو شخص اساس کے ساتھ وابستہ نہ ہوجائے، تو وہ نہ علم حاصل کرسکتا ہے اور نہ دعوت۔

         نمازِ خفتن مرتبۂ امام پر دلیل ہے، اور اس کو نمازِ خفتن اس لئے کہتے ہیں، کہ مومنوں کے سوا سب لوگ سوئے ہوئے ہیں، یعنی امامِ زمان کو نہیں پہچانتے ہیں۔

         اس نماز کا پہلا وقت وہ ہے، جس میں رات کے دو گھنٹے گزر جاتے ہیں، اور رات دعوت کی مثال ہے، اور دو گھنٹے ناطق اور اساس پر دلیل ہیں، اس کی پوری تاویل یہ ہے، کہ امام کا مرتبہ اس وقت ظاہر ہوتا ہے، جب کہ ناطق اور اساس کا در گزر جائے۔

         اس نماز کا آخری وقت وہ ہے، جس میں تقریباً آدھی رات گزری ہو، عربی میں اس وقت کو منتصف اللیل کہتے ہیں، یعنی متم (امام) کی آخری حد وہ ہوتی ہے، جس میں وہ اہلِ باطن کو اہلِ ظاہر سے اپنا حق دلا سکتا ہے، یعنی ان کے لئے انصاف کر سکتا ہے۔

         نمازِ خفتن رات کی تاریکی میں پڑھی جاتی ہے، جو دین کے دشمنوں سے (امام کے اسرار) پوشیدہ رکھنے کی دلیل ہے۔

۲۰۸

         نمازِ خفتن کا فریضہ چاررکعت کا ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ امام کی دعوت بھی ان چار اصولِ دین کی طرف ہے، جن کی طرف ناطق اور اساس کی دعوت ہوتی ہے، نمازِ خفتن کے فریضہ میں سے پہلی دو رکعتیں ناطق اور اساس پر دلیل ہیں، اور دوسری دو رکعتیں عقلِ کل اور نفسِ کل پر دلیل ہیں۔

         فریضہ سے پہلے بھی سنت کی چار رکعتیں ہیں، اور فریضہ کے بعد بھی سنت کی چار رکعتیں ہیں، اور فریضہ ان چار چار سنتوں کے درمیان ہے، جس میں ناطق کی طرف سے یہ اشارہ ہے، کہ امام کی دعوت تین قسم کی ہوا کرتی ہے ایک یہ کہ خود اس کے زمانے میں چار اصول کی طرف دعوت ہوتی ہے، جس کی مثال فریضہ کی چار رکعتوں سے دی گئی ہے، اور اس سے پہلے بھی چار اصول کی طرف دعوت کی گئی ہے، سنت کی ان چار رکعتوں کی مثال پر جو فریضہ سے پہلے آتی ہیں، اور اس کے بعد بھی چار اصول ہی کی طرف دعوت ہوا کرتی ہے، جس طرح فریضہ کے بعد سنت کی چار رکعتیں پڑھی جاتی ہیں، پس بیان یہ ہے کہ نماز پڑھنے والے کو یہ اعتقاد رکھنا چاہئے، کہ اس زمانے میں چار اصول کی طرف دعوت ہے، اور نمازِ خفتن کے فریضہ کو اس اعتقاد سے پڑھے کہ اس سے پہلے بھی دعوت چار اصول کی طرف تھی، اور اس کے بعد بھی دعوت چار اصول کی طرف ہوگی۔

         نمازِ پیشین، نمازِ دیگر اور نمازِ خفتن کے فریضے ملا کر بارہ رکعت ہیں، جو اس بات پر دلیل ہے، کہ ان تینوں مویدین سے بارہ حجتوں کو مادۂ تائید ملتا رہتا ہے۔

         نمازِ خفتن کے بعد وتر پڑھی جاتی ہے، اور وتر قائمِ قیامت علیہ افضل التحیۃ و السلام پر دلیل ہے، اور یہ نماز دن رات کی تمام نمازوں کے بعد پڑھی جاتی ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ لوگ قیامت کے دن ان تمام حدود سے یکسو ہو جائیں گے، جو عالمِ جسمانی میں ہیں، سوائے صاحبِ قیامت کے شرف کے، اور قیامت کے دن مومنوں کو (اسی دنیا ہی سے شروع کر کے) عزت و بزرگی ملے گی، اور کافروں پر تاوان ہوگا، (عذاب اترے گا)۔

۲۰۹

         شفع وتر کے ساتھ یعنی جفت طاق کے ساتھ تین رکعت ہے، اس کے معنی یہ ہیں، کہ قائمِ قیامت کے تین مراتب ہیں، پہلا مرتبۂ نبوت دوسرا مرتبۂ وصایت اور تیسرا مرتبۂ قیامت، اور اس مین جو دو رکعتیں جدا پڑھی جاتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ قائم کو ایک ایسا مرتبہ بھی حاصل ہے، جو ناطق اور اساس کو نہ تھا، اسی لئے (آنحضرت نے) اس ایک رکعت کو ان دو رکعتوں سے جدا پڑھنے کے لئے فرمایا۔

         قنوت سے پہلے رکوع ہونے کے یہ معنی ہیں، کہ قائم سے پہلے ان کا حجت اس عالم میں آئے گا (اس اصول کے برعکس کہ ہر امام کا حجت اس کے بعد پیدا ہوا کرتا ہے، یعنی ہر امام کا بیٹا ہی اس کا سب سے بڑا حجت ہوتا ہے مگر حضرت قائم کی طرف سے ان کے والد ہی سب سے بڑے حجت ہوں گے) اور وہی لیلۃ القدر ہوں گے (جس کا نمایان ذکر سورۂ قدر ۹۷ میں ہے)۔

         قنوت رکوع کے بعد ہے، اس لئے قائم علیہ السلام اساس کی اولاد سے ہوں گے، کیونکہ رکوع کے آخری معنی اساس کے ہیں (یعنی مولانا علی علیہ السلام)۔

         دائیں طرف سلام پھیرنا اس بات کی دلیل ہے کہ میں نے علی ابنِ ابی طالب ااور اس کے فرزندوں (أئمہ برحق) کو مان لیا، اور خدا کے حضور سے انہوں نے جو تاویل لائی اس کو میں نے تسلیم کر لیا، اور بائیں طرف سلام پھیرنا اس بات کی دلیل ہے، کہ ناطق کے لئے اور اس کی شریعت کے ظاہری بیان کے لئے میں نے قبول کر لیا۔

         وتر کے بعد بیٹھ کر دو ۲ رکعت نماز کا پڑھنا عقلِ کل اور نفسِ کل پر دلیل ہے، جن کا شرف لوگوں سے منقطع نہ ہوگا، اس جہان میں لوگوں کو ان سے عقل آتی ہے، اور دوسرے جہان میں مومنوں کے لئے بزرگی اور بہتری ہے، اور کافروں کے لئے عذاب اور سزا ہے۔

۲۱۰

         دن رات کی مقررہ اکیاون رکعتوں کی تکمیل کے لئے ان دو ۲ رکعتوں کو ایک رکعت شمار کرتے ہیں، جو بیٹھ کر پڑھی جاتی ہیں، اور وہ دونوں رکعتیں ایک رکعت گنی جاتی ہیں، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ قائمِ قیامت دو روحانی (عقلِ کل و نفسِ کل) سے ایسے ملے ہوئے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی جدائی نہیں، اور قائم ہی کی وجہ سے نفسِ کل مکمل ہوگا، یعنی وہ عقلِ کل کے مرتبے پر پہنچے گا، اور یہ واقعہ عالمی حرکات رک جانے اور عالمِ جسمانی فنا ہونے کا سبب بنے گا۔

         وتر سنت ہے، جو بجائے فریضے کے ہے، جو تمام نمازوں کے اخیر میں ہے، یعنی قائمِ  قیامت علیہ السلام تمام حدود کی انتہا و انجام ہیں، جو شخص وتر کو ترک کر دے، وہ کافر ہو جاتا ہے، اس لئے کہ وہ فریضے کی طرح ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ۔

         ’’ تَارِکُ الْفَرِیْضَۃُ کَافِرٌ و تَارِکُ سُنَّتِیْ مَلَعُوْ نُ= فریضہ کا ترک کر دینے والا کافر ہے، اور میری سنت کا ترک کر دینے والا ملعون ہے۔‘‘

         پانچ وقت نماز میں مجموعاً سترہ رکعتیں فرض ہیں، یہ ان سترہ حدود کی دلیل ہیں جو خدا کی اطاعت و معرفت کی حیثیت سے ہیں، جیسے پانچ روحانی حدود، ناطق، اساس، سات أئمۂ برحق، خلیفۂ قائم، حجت اور داعی۔

         دوسری وجہ سے نمازِ فریضہ کی سترہ رکعتیں، اساس، امام، بارہ حجت، داعی اور دونوں ماذون پر دلیل ہیں، کیونکہ یہ حدود تو ہر زمانے میں موجود ہیں، (یعنی حدودِ جسمانی نورانی اجسام میں موجود ہیں) اور جو شخص ان حدود کی فرمانبرداری سے ہاتھ اٹھائے تو وہ خدا کی فرمانبرداری سے ہاتھ اٹھا تا ہے، اور ایسا شخص کافر ہوتا ہے۔

         سنت کی تیس رکعتیں ان تیس داعیوں پر دلیل ہیں، جو ہر حجت کے تحت اس جزیرے میں ہوا کرتے ہیں، جو سال کے ہر مہینے کے تیس دنوں کے برابر ہیں، اور یہ لوگ امام کی سنت (یعنی سال) ہیں۔

۲۱۱

         جو شخص سنت سے ہاتھ اٹھائے ، تو ملعون اور راندہ ہو جاتا ہے، یعنی جو شخص داعی کی فرمانبرداری نہ کرے، تو وہ علمِ حقیقت سے دور رہا ہوگا۔

         وتر کی تین رکعتیں ہیں، جن کی تاویل بتائی گئی، بیٹھ کر پڑھی جانے والی دو رکعتوں کے ساتھ، کہ ان کو بھی وتر کہا جاتا ہے، تاکہ مجموعاً اکیاون رکعتیں ہو جائیں، اور اکیاون تین دفعہ سترہ ہوتا ہے، یعنی مجموعی حساب سے فریضہ کی ہر ایک رکعت کے مقابلہ میں سنت اور تطوع کی دو دو رکعتیں آتی ہیں، جس طرح میراث میں ہر مرد کو دو عورتوں کے برابر شمار کرتے ہیں، اور رات کی نماز بارہ رکعت ہے، جس کو چھ سلام کے ساتھ پڑھنی چاہئے، اور وہ (کوئی مومن) اس وقت پڑھتا ہے، جبکہ نیند سے اٹھتا ہے، اور سارے لوگ سوئے ہوئے ہو تے ہیں، اور یہ بارہ حجتوں پر دلیل ہے کہ وہ دعوت سے کبھی آرام نہیں کرتے ہیں، جبکہ لوگ آرام کئے ہوئے ہوتے ہیں، اور ظالموں کے زمانے کی تاریکی میں عاجز ہوتے ہیں، مگر بارہ حجت خدا تعالیٰ کے کام میں کھڑے رہتے ہیں، اور رات پوشید گی میں دعوت کرنے کی دلیل ہے۔

         رات کی نماز میں سورہ کو لمبا اور آہستہ پڑھتے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں، کہ ستر کے وقت خدا تعالیٰ کی اطاعت زیادہ مسلسل ہونی چاہئے، تاکہ قبول ہو سکے اور وہ ساری نمازیں جو مخلص مومنین دن رات میں پڑھا کرتے ہیں، تریسٹھ رکعات پر مشتمل ہیں، جن کا ذکر کیا گیا، جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی عمر کے سالوں کے برابر ہیں، اور اللہ تعالیٰ اس بیان کو مومنین کے لئے فائدہ بخش کر دے۔ والسلام۔

بانجامِ رسید کتاب ’’وجہ دین‘‘ حصۂ اول

۲۱۲

وجہِ دین

حصۂ دوم

وحدتِ ارواح یا اضافی روحیں

         ازل میں ارواحِ خلائق کی جیسی وحدت و سالمیت تھی، ویسی ہی یگانگت ابد میں بھی ہونے والی ہے، یہ ’’رازِ رضوان‘‘ ہے، یعنی دوزخ اور بہشت سے بھی عظیم بھید ہے، میں یہ بات قرآن اور روحانیت کی روشنی میں کر رہا ہوں کہ مذکورہ وحدت کے لئے لوگ یا خوشی سے ایک ہو جائیں گے، یا زبردستی سے ایک کئے جائیں گے، مگر یہ بہت بڑا کام ایک دن میں کیسے ہو سکتا ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے قریب والے ایک ہوجائیں، پس اس حقیقت کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر عالمِ شخصی میں مولا ہی مرکزِ وحدت ہے، اور ہم سب ایک دوسرے کی اضافی روحیں ہیں، مثلاً آپ سب میرے اضافی نفوس ہیں، یہ تمام باتیں آپ کے حق میں علم الیقین کے مقام پر ہیں، اور اگر ہم میں سے کوئی فرد ہمت سے کام لے تو وہ بڑی خوشی سے نہ صرف عین الیقین کی ہر چیز کو دیکھ سکتا ہے، بلکہ حق الیقین سے بھی تمام حقیقتوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔

         میں یہ انمول موتیوں کا لازوال تحفہ جناب عزیز راجپاری اور ان کے خاندان کو پیش کرتا ہوں، کیونکہ آپ علم کے بڑے قدردان ہیں، الحمد اللہ۔

ن۔ن۔ (حبِ علی) ہونزائی

کراچی

۲۴ ؍ فروری ۱۹۹۴ ء

۲۱۷

حرفِ اول

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ مُفِیْدِ النِّعْمَۃِ، وَصْلَّی اللہُ  عَلٰیْ مُحَمَّدٍ نَّبِیِّ الرَّحْمَۃِ، وَعَلیٰ وَصِیّہٖ عَلِیٍّ وَلِیِّ الْاُمَّۃِ، وَ عَلیَ الْا ئَ ئمَّۃِ الطَّا ھِرِ یْنَ مِنْ اَبْنَائِہِ الطَّیِّبِیْنَ۔

(اساس التاویل۔ از سید نا قاضی نعمان)

         اَمَّا بَعْدُ، قارئین و مستشرقینِ گرامی سے مخفی نہیں کہ نامدار حکیم حضرت سیدنا پیر شاہ ناصر خصرو علوی (قدس اللہ سرہ العزیز) کی شہرۂ آفاق کتاب ’’وجہ دین‘‘ فقہی موضوعات و مسائل کی تاویلات کا ایک عدیم المثال مجموعہ ہے، جس کی چند خصوصیات اور مصنفِ ممدوح کے حالات کے متعلق حصۂ اول کے پیش لفظ میں مختصراً لکھا گیا ہے۔

         اگرچہ اس پرحکمت کتاب کے ترجمے میں اس بات کی انتہائی کوشش کی گئی ہے کہ ہر عبارت کا مطلب صاف، واضح اور عام فہم ہو، تاکہ قوم اور مذب کے اہلِ علم حضرات کا ہر طبقہ اس سے استفادہ کر سکے، اور واقعاً یہ کتاب فارسی متن سے اردو ترجمہ کے لباس میں آنے کے بعد کافی آسان ہوگئی ہے، تاہم تاویلی موضوعات کی بلندی اور بے بدل اصطلاحات کی دشواری اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے، خواہ حکمت کی کتاب ظاہری طور پر آسان ہو یا مشکل، بہر حال وہ اس امر کی مقتضی

۲۲۳

ہوا کرتی ہےکہ، بار بار اس کا خوب مطالعہ کیا جائے، تاکہ رفتہ رفتہ اعلیٰ سطح پر حقائق و معارف کے ابواب کھلتے جائیں، چنانچہ اگر آپ حضرات مطالعۂ حکمت کے اس اصول پر عمل پیرا ہوئے اس کتاب کو بار بار غور و فکر سے پڑھیں، تو آپ کو ایمان و یقین سے اس بات کی بشارت دی جاتی ہے، کہ ہر بار آپ کے دل و دماغ میں علم و دانش کی ایک نئی روشنی کا اضافہ ہوتا جائے گا، جس کی چند وجوہِ مفصلۂ ذیل ہیں:

         پہلی وجہ یہ ہے، کہ علم و حکمت کی باتیں کسی اعلیٰ درجے کی کتاب میں اس طرح تہ بتہ رکھی ہوئی ہوتی ہیں، جس طرح مختلف قسم کے بیش بہا جواہر کسی عظیم پہاڑ کے باطن میں تہ بتہ پوشیدہ ہوتے ہیں۔

         دوسری وجہ یہ ہے کہ تاویل اور حکمت کی کتابیں بامِ افلاک (یعنی عرشِ اعلیٰ) کی سیٹرھی کے مانند ہیں، چنانچہ جب کوئی خوش نصیب انسان الفاظ و عبارت کی پستی سے حقیقت و معرفت کی بلندی پر چڑھنے کے لئے حکمت کے پہلے زینے پر قدم رکھتا ہے تو دوسرا زینہ خود بخود آسان ہو جاتا ہے، اسی طرح وہ علم و حکمت کی سیڑھی کے ذریعہ زینہ بزینہ بلند سے بلند تر ہو تا جاتا ہے، چنانچہ مولوی معنوی اپنی کتابِ مثنوی کے بارے میں فرماتے ہیں: ۔

         نرد بانِ آسمانست این کلام            ہر کہ زین برمی رَود آید ببام

         نے ببامِ چرخ کو اخضر بود                  بل ببامی کز فلک برتر بود

         ترجمہ: یہ کلام (یعنی کتاب) آسمان کی سیٹرھی ہے، جو شخص اس سیڑھی سے روبفراز ہو جائے، تو وہ چھت پر ضرور چڑھ سکتا ہے۔

         اس آسمان کی چھت پر نہیں، جو نیلے رنگ کا ہے، بلکہ اس (روحانی آسمان کی)چھت پر چڑھ سکتا ہے، جو (اس جسمانی) آسمان سے بھی برتر ہے۔

         تیسری وجہ یہ ہے کہ انسان کی فطری عادات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ شروع شروع میں ذہنی وشعوری مشقوں کے نزدیک جانے سے گریز کرتا ہے، مگر جب اس کو کسی مشفق معلم کی مددسے عقلی لذتوں اور دماغی لطافتوں کا کچھ تجربہ حاصل ہوتا ہے،

۲۲۴

تو پھر وہ روز بروز عقلی چیزوں کے اکتساب میں اپنا جوہر دکھانے لگتا ہے، یہاں تک کہ ذہنی مشق و ریاضت اس کی عادت بن جاتی ہے، جس کے ذریعہ وہ علم و عرفان کی لازوال دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے۔

         چوتھی وجہ یہ ہے، کہ دنیا میں کوئی ایسا پیشہ و ہنر نہیں، جس کے سیکھنے کے لئے باعتبارِ اہمیت و افادیت کم و بیش انسان کا وقت صرف نہ ہوتا ہو، جس کے حصول کے لئے مسلسل محنت و کوشش درکار و لازمی نہ ہو، اور کچھ مشکلات سہنے کے بعد وہ روز بروز آسان سے آسان تر نہ ہو جاتا ہو۔

         پانچویں وجہ یہ ہےکہ ہر نیک، مفید اور مستقل کام کی تکمیل و انجام دہی ایک نئے باغ کی تعمیر کی طرح ہے، جس کے تیار کرنے میں کافی وقت اور متواتر عرق ریزی کے علاوہ سوجھ بوجھ کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔

         چھٹی وجہ یہ ہے کہ انسان میں حق تعالیٰ کی طرف سے یہ صلاحیت موجود ہے، کہ اگر اپنے نفسِ امارہ کو مقہور و مغلوب کرے، تو وہ رسول اللہ و أئمۂ طاہرین علیہم السلام کی صحیح پیروی کرتے ہوئے روحانیت اور کشفِ باطن کی ایک ایسی منزل پر پہنچ سکتا ہے جہاں سے قدرتی اور معجزانہ تعلیم شروع ہو جاتی ہے، اور رسول اللہ و أئمۂ طاہرین علیہم السلام کی صحیح پیروی کی جانے کی ایک جامع علامت یہ ہے کہ اس وقت ایسے خوش بخت حقیقی پیروی کے ضمیر میں ذکرِ الٰہی کی مسلسل آواز پیدا ہوئی رہتی ہے، مگر نفسِ امارہ کو مقہور و مغلوب کرنے کے لئے صرف خشک عبادت و ریاضت ہی کافی نہیں ہوتی، بلکہ اس کے ساتھ علم الیقین کے اسلحہ سے لیس ہونا بھی ازبس ضروری ہے، تاکہ اس جہادِ اکبر میں فتح حاصل کی جاسکے، کیونکہ عبادت روحانی مجاہدین کی خوارک ہے، اور علم الیقین ان کا ہتھیار۔

         پس یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ پر مغز اور معنی خیز دینی کتابوں کے بار بار پڑھنے سے حقیقی مومنین کے دل و دماغ میں علم و دانش کی روشنی بڑھتی جاتی ہے، کیونکہ ایسی کتابوں کے مطالعہ کرنے سے نہ صرف علم ہی حاصل ہوتا ہے بلکہ ساتھ

۲۲۵

ہی ساتھ یہ ایک ایسی عظیم عملی عبادت بھی ہے جو خدا کی شناخت و رضا حاصل کرنے کی نیت سے پوری تندہی اور کامل توجہ سے کی جاتی ہے۔

         اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ اس میں شک نہیں، کہ: ۔

         ’’وجہِ دین‘‘ علمِ تاویل کی ایک بہترین کتاب ہے، لیکن یہ کس طرح ممکن ہے کہ چند بار بغور مطالعہ کرنے کے بعد بھی اہلِ دانش اس کے تمام معنی پر حاوی نہ ہو سکتے ہوں؟

         اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یقیناً وجہِ دین اب بفضلِ خدا اردو ترجمہ میں ظاہری طور پر آسان اور واضح ہو گئی ہے، اور اس کے کسی فقرے یا لفظ میں کوئی لغوی ابہام باقی نہیں، لیکن جیسا کہ میں قبلاً عرض کر چکا ہوں کہ یہ کتاب قرآنی تاویل اور ربانی حکمت کی بنیادوں پر قائم کی گئی ہے، لہٰذا اس میں تہ بتہ حکمتیں پائی جاتی ہیں۔

         مثلاً حصۂ اول کے دیباچے میں ہے کہ حق تعالیٰ نے عالمِ باطن سے عالمِ ظاہر پیدا کیا ہے، پھر روح اور جسم کی مثال میں عالمِ باطن اور عالمِ ظاہر کی مختصر حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے، کہ انسانی روح ایک لطیف جوہر ہے، اور انسانی جسم ایک کثیف عرض ہے، مگر ان دونوں کی تخلیقی و تکمیلی ضرورتیں یکسان طور پر ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، پس اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ، جس طرح جسم کی تکمیل روح کے بغیر ناممکن ہے، اسی طرح روح کی تکمیل بھی جسم کے بغیر محال ہے، بالفاظِ دیگر جسم روح سے پیدا کیا گیا ہے، اور روح جسم سے، پھر اس نتیجے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دنیا آخرت سے پیدا کی گئی ہے اور آخرت دنیا سے، چنانچہ پورا دیباچہ اور کتاب کے بہت سے موضوعات اسی حقیقت کی تائید میں ہیں، اب ان نتائج کے اخذ کئے جانے کے بعد ہر دانش مند اس حقیقت الحقائق کے قائل ہونے پر مجبور ہوجاتا ہے، کہ موجوداتِ ذہنی و خارجی کی تمام چیزیں دائرہ امکان پر واقع ہیں، اور یہ دائرہ وہی ہے جس کے متعلق ارشادِ خداوندی ہے: ۔

۲۲۶

         ’’وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (۳۶: ۴۰)

         اور تمام چیزیں (یعنی موجودات) ایک دائرے پر چکر کاٹتی ہیں۔‘‘

         اب وہ تمام سوالات خود بخود حل ہو گئے یا کہ ختم ہو گئے جو اولیت و ابدیت کے تصور کے ساتھ وابستہ ہیں، اسی سلسلے میں یہ سوال بھی ختم ہوگیا کہ پہلے دنیا تھی یا آخرت؟ کیونکہ یہ دونوں دائرۂ امکان پر معاً یعنی ایک ساتھ واقع ہیں، اور جو چیزیں ایک دوسرے سے دور یا قریب کسی دائرے پر واقع ہوں، تو ان کے آگے پیچھے ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ دائرے کا کوئی سرا نہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا آخرت سے پیدا ہوتی ہے اور آخرت دنیا سے، اور کسی تقدیم و تاخیر کے بغیر معاً دنیا و آخرت کا ایک دوسرے سے پیدا ہونا ہی دائرۂ امکان کہلاتا ہے، جس کی مثال روئے زمین کے پانی سے دی جاسکتی ہے، کہ سمندر کو آخرت فرض کیجئے، اور بادل ، بارش، چشمہ، ندی، نالہ دریا، وغیرہ کو، جو مرکز سے جدا ہو کر بکھرے ہوئے پانی کا مجموعہ ہے، دنیا فرض کیجئے اب بتایئے کہ دریاؤں سے سمندر بنتا ہے، یا کہ سمندر سے دریا وغیرہ بنتے ہیںْ نیز بتایئے کہ پانی کا یہ چکر دائرۂ امکان ہے یا نہیں؟ نیز اس جواب پر بھی غور کیجئے، کہ اگر ہم یہ کہیں: ’’ نہ سمندر سے دریا بنتے ہیں، اور نہ دریاؤں سے سمندر بنتا ہے، بلکہ پانی جہاں بھی ہو پانی ہی ہے، بات صرف اتنی سی ہے، کہ پانی بھی دوسری تمام چیزوں کی طرح دائرۂ امکان پر چکر کاٹتا ہے۔‘‘ کیا یہ ایک انتہائی مفید کلیہ نہیں، جس کے ذریعے ازلیت و ابدیت کے تمام بنیادی اور مشکل سوالات حل کئے جا سکتے ہیں؟

         پھر اسی مضمون کے سلسلے میں صفحہ ۲ پر قرآنِ پاک کے حوالے کی غرض سے فرمایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ نے تمام چیزوں کو جفت جفت پیدا کیا ہے، پس اس اشارے کا تقاضا یہ ہے کہ ، ہم قرآنِ پاک کی ان تمام آیات پر غور کریں جو متضاد و مقابل چیزوں کے باب میں آئی ہیں، جن کا مفہوم یہ ہے، کہ حق تعالیٰ جس

۲۲۷

طرح زندگی کی کیفیت کو موت کی حالت میں منتقل کر دیتا ہے، اسی طرح موت سے زندگی ظہور میں لاتا ہے، دن رات، نور و ظلمت، دھوپ اور سایہ، ایمان و کفر، خیرو شر وغیرہ جیسی اضداد کے لئے بھی یہی ایک قانون مقرر ہے، پس معلوم ہوا کہ ہمیشہ دنیا سے آخرت اور آخرت سے دنیا پیدا ہوتی رہتی ہے، اور ’’وجہِ دین‘‘ کے نظریات کا مدار و محور یہی ہے۔

         اس کتاب کی گہری حقیقتوں کی دوسری مثال یہ ہے کہ اس میں حضرت قائم علیہ السلام، ان کے حجت، ان کے خلیفہ اور قیامت کے بارے میں بہت سے رموز و اسرار ایسے ہیں، جن کو اہلِ توفیق ہی سمجھ سکتے ہیں، چنانچہ یہ اشارہ کہ حضرتِ قائم علیہ افضل التحیۃ و السلام ایک ایسے امام ہوں گے، جو نہ روحانی طور پر دعوت کریں گے، نہ جسمانی طور پر ان کے حجت، جو عالمِ دین کی شبِ قدر ہیں، حضرتِ قائمؑ سے پہلے ہی دنیا میں آئیں گے، جن کا زمانہ حصولِ روحانیت کے اعتبار سے بہترین زمانہ ہوگا، اس لئے کہ انہی کے زمانے میں ملائکہ و ارواح کا نزول ہو گا، اور انہی کے بعد حضرت قائم علیہ السلام کے ایک خلیفہ ہوں گے، جن کے زمانے میں علم کی کوئی بھی کمی نہ ہوگی، پس یہ نکات بہت ہی عجیب ہیں، اور ان کے نتائج ان سے بھی زیادہ عجیب۔

         چنانچہ ہم یہاں صرف خلیفۂ قائم ہی کے بارے میں سوال کرتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے، کہ حضرتِ قائمؑ کے بعد والے انسانِ کامل کو خلیفہ کہا گیاہے؟ حالانکہ یہ لقب بطورِ خاص حضرت آدم علیہ السلام کا ہے؟ اگرچہ ہر امام اپنے زمانے میں روئے زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں، کیا یہ درست ہے کہ، خلیفۂ قائم ؑ کہنے کا مطلب یہ ہےکہ حضرتِ قائم پر پہلا دور ختم ہوگا، اور خلیفۂ قائم سے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا، اور وہ اس دورِ جدید کے آدم ہوں گے، جن کے زمانے میں دینی اور دنیاوی طور پر بڑی بڑی تبدیلیاں ہوں گی، اگر یہ صحیح ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدمِ سراندیبی سے پہلے بھی ایک دور گزرا ہے، کیونکہ وہ اس گذشتہ دور کے آخری امام (یعنی قائم القیامت کے خلیفہ تھے) چنانچہ اساس التاویل عربی ص ۷۵ کے

۲۲۸

حاشیئے پر لکھا ہے، کہ حضرت آدمؑ سے اگلے امام علیہ السلام کا نام ’’ھنید ‘‘ تھا، جنہوں نے آدمؑ کو علم الا سما ٔ کی تعلیم دی۔

         اب یہ فقیر جامع اور معنی خیز الفاظ میں مختلف ملکوں، شہروں، اور علاقوں کے ان تمام علم دوست، دانش گستر اور دین پرور حقیقی اسماعیلیوں کا صمیمیتِ قلب اور صفائی نیت سے شکریہ ادا کرتا ہے، جنہوں نے اس عزیز و حکمت خیز کتاب کے منصوبۂ ترجمہ اور طبع و نشر کے سلسلے میں جذبۂ یاری و قدر دانی کا عملی ثبوت دیا، جن میں ’’دارالحکمتہ اسماعیلیہ، ہونزہ۔ گلگت‘‘ کے اراکین بھی ہیں، اور غیر اراکین بھی، جنہوں نے اس گرانمایہ کتاب کے حصول کے لئے وفورِ اشتیاق کے عالم میں کافی عرصہ انتظار کی زحمت اٹھائی، اور مدتِ مدید کے بعد جب ان کو کتاب کا حصۂ اول پہنچ گیا، تو ان کا چہرہ حقیقی اور روحانی مسرت و شادمانی سے بھر پور ہوا، انہوں نے فخرو خوشی کی شدو مد میں کچھ ایسا محسوس کیا، جیسے ان حضرات کو پیرِ کامل حکیم ناصر خسرو کی ہم نشینی میسر ہو ئی ہو، یہ خوش کن تذکرہ ان بزرگوں، دوستوں اور عزیزوں کے ضمیر کی صحیح ترجمانی ہے، جن کو اس فقیر نے بالکل اسی طرح دیکھا ہے، یا جن کے متعلق اس کو صحیحاً خبر آئی ہے، یا جن کے بارے میں ایسا ہی یقین ہے۔

بروز جمعرات ۱۴؍ ربیع الآخر ۱۳۸۸ ھ، ۱۱؍ جولائی ۱۹۶۸ ء

خادمِ قوم و ملت

فقیر نصیرؔ ہونزائی

۲۲۹

کلام ۔ ۲۱

نماز کی رکعات کے متعلق امت میں اختلاف کے بارے میں

         ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے مخلص مومنین کے لئے بیان کریں گے جو کچھ اہلِ بیت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہٖ سلم) ہی کے راویوں (یعنی أئمۂ طاہرین) سے ہمیں پہنچا ہے، نماز کی رکعات کی تعداد کے بارے میں، کہ کتنی ہیں، اور ان میں جو جو مکہ و مدینہ میں نازل ہوئی ہیں، کتنی کتنی ہیں، مجموعی طور پر کتنی وجوہ سے ہیں، کتنی رکعات ہیں، اور اس بارے میں امت کے درمیان اختلاف کس بنا ٔ پر پیدا ہوا ہے، وغیرہ چنانچہ (ائمۂ طاہرین سے) ہمیں روایت آئی ہے کہ رسول علیہ السلام نے فرمایا:

         ’’ اُھْدِیَتْ اِلَیَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ و اُعْطِیْتُ مَالَمْ یُعْطَ اَحَدٌ مِنَ الْاَ نْبِیَاءِ قَبْلِی خَمْسَ صَلَوَاتٍ بِخَمْسۃٍ مَوَ اقِیْتَ عَلیٰ خَمْسَۃِ اَوْ جَہٍ و ثلاثَ جِھاتٍ

         مجھے پانچ وقت نماز ہدیہ کے طور پر عطا ہوئی، اور مجھے عطا ہوئی وہ چیز جو مجھ سے پہلے کسی پیغمبر کو عطا نہ ہوئی تھی، وہ پانچ نمازیں ہیں، پانچ اوقات میں جو پانچ وجوہ اور تین قسموں میں ہیں۔‘‘ اور پانچ نمازیں: پہلی نمازِ صبح، دوسری نمازِ پیشین،

۲۳۰

تیسری نمازِ دیگر، چوتھی نمازِ شام اور پانچویں نمازِ خفتن ہیں، اور ان کی اوقات کی تشریح ہم نے اس سے پیشتر کر دی ہے، اور ان کی تین قسمیں یہ ہیں، کہ نماز یا فریضہ یا سنت یا تطوع ہوتی ہے۔

         ہم بیان کریں گے کہ نمازیں پانچ دفعات میں اتری ہیں، چار دفعہ مکہ میں اور ایک دفعہ مدینہ میں، جو نمازیں مکی ہیں وہ چار دفعات میں بتیس رکعات آئی ہیں، جو دس رکعات فریضہ، سات رکعات مقرونہ، بارہ رکعات سنت اور تین رکعات وتر ہیں، اور وتر کو رسول علیہ السلام نے ’’ختم‘‘ بھی کہا ہے۔

         رسول علیہ السلام نے خدائے تعالیٰ کے فرمان سے جو نماز سب سے پہلے پڑھی، وہ نمازِ پیشین تھی، دن کے چھ گھنٹے گزر جانے کے بعد، ساتویں گھنٹے میں وہی (نمازِ پیشین کی) دو ۲ رکعتیں تھیں، پھر آنحضرتؐ نے دن کے نو گھنٹے گزر جانے کے بعد دو۲ رکعتوں میں نمازِ دیگر پڑھی، پھر رات کے پہلے گھنٹے میں دو رکعتوں میں نمازِ شام پڑھی، پھر رات کے دو گھنٹوں کے بعد نمازِ خفتن پڑھی اور اس کے بعد دن اور رات کے درمیان نمازِ صبح پڑھی، اور اس کو ممزوجہ یعنی ملی ہوئی بھی کہتے ہیں، اور فرمایا آنحضرتؐ نے کہ نمازِ صبح کا پڑھنا جو دو۲ رکعت ہے، دن اور رات کے فرشتے دیکھا کرتے ہیں، اور پہلے آنحضرتؐ نے پانچ وقتوں میں یہی دس رکعتیں پڑھیں۔

         اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ مزید سات رکعات پڑھی جائیں، اور رسول علیہ السلام نے اپنے فرمانبرداروں کو اس کے ثواب کے متعلق سمجھا دیا، اور جس نے وہ بات قبول کر لی تو وہ رستگار ہوا، اور جس نے اس کی حقیقت دریافت نہیں کی تو وہ حیران رہا۔

         پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ان سات رکعات کو مقرونہ کہا، جس کے معنی ہیں نزدیک کیا گیا، اور ان رکعات کو اللہ تعالیٰ کے فرمان اور عقلِ کل و نفسِ کل کی وساطت (یعنی تعلیم) سے پانچ وقت کی ان دس رکعتوں پر تقسیم کی،

۲۳۱

چنانچہ ان میں سے دو ۲ رکعت نمازِ پیشین کے ساتھ ملا دی ، جس سے وہ چار رکعت ہوئی، ایک رکعت نمازِ شام کے ساتھ ملا دی، جس سے وہ تین رکعت ہوئی، اور دو ۲ رکعت نمازِ خفتن کے ساتھ ملا دی، جس سے وہ چار رکعت ہوئی، اور یہ پانچ نمازیں پانچ اوقات میں فریضہ اور مقرونہ کے نام سے سترہ رکعات ہوئیں۔

         اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک اور موقعہ پر آنحضرت علیہ السلام کو بارہ رکعت سنت پڑھنے کے لئے فرمایا، جس کو رسول علیہ السلام نے خدائے تعالیٰ کے فرمان اور عقل و نفس کی وساطت (تعلیم) سے فریضہ و مقرونہ کے ان پانچ اوقات پر تقسیم کی، اور آنحضرتؐ نے اس سنت کی چھ رکعات نمازِ پیشین میں رکھیں، چار رکعات فریضہ سے پہلے اور دو ۲ رکعت فریضہ کے بعد، دو ۲ رکعت نمازِ شام کے بعد رکھیں، دو۲ رکعت نمازِ خفتن کے بعد رکھیں، اور دو رکعت نمازِ صبح سے پہلے رکھیں، پس اس طریقے پر سنت کی بارہ رکعات تقسیم کی گئیں، اس کے بعد پھر تین رکعات نازل ہوئیں، رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ان کو وتر اور ختم کا نام دیا، اور ان کو نمازِ خفتن کے بعد رکھیں، اور مجموعی طور پر بتیس رکعت نماز ہے، جو مکہ میں نازل ہوئی ہے، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پڑھا کرتے تھے اور پڑھنے کے لئے فرماتے تھے۔

         مکہ کی ان نمازوں میں آنحضرتؐ نے ہاتھوں کو سامنے (ناف کے اوپر) سے پکڑے رکھا، مسح جراب وغیرہ پر کیا، اقامت ایک دفعہ پڑھی، جنازے پر چار بار تکبیر پڑھی، اور قبریں خر پشت بنوائیں، یعنی قبر کی سطح ہموار نہیں بنوائی، اور یہ ساری باتیں جو مذکور ہوئیں، مکہ کی ہیں، پھر جب ان کو مدینہ کی طرف ہجرت کا فرمان آیا، تو وہاں پر (یعنی مدینے میں) آنحضرتؐ نے ہاتھوں کو نماز میں کھولے رکھا، مسح ننگے پیروں پر کر لیا، اور اقامت دوبار پڑھی، جنازے پر پانچ بار تکبیر پڑھی اور قبریں چار سر بنوائیں، اور فرمایا: ۔

۲۳۲

         ’’ بُعِثْتُ بِالْقَوْل دُوْنَ الْفِعل مِنْ بدءِ اَمْرِیْ ثُمَّ اُمِرْتُ بِاِ قَامَۃِ الْاَ عْمَالِ مَبْنِیَّۃٌ عَلیَ الْقَوْلِ وَھُوَ الْاِخْلَاصُ۔

         میں اپنے کلام کے شروع میں عمل کے بغیر قول کے ساتھ بھیجا گیا ہوں پھر مجھے قول پر مبنی اعمال کو قائم کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے، اور بس اخلاص یہی ہے۔‘‘

         اس کے بعد مدینہ میں مزید اکتیس رکعت نماز نازل ہوئی، اور رسول علیہ السلام نے اس میں سے انیس رکعت کی اس مکہ والی پانچ وقت نماز پر تقسیم کی، اور اس کو تطوع کہا، یہاں تک کہ پنج وقت نماز اکاون رکعت کی ہوئی، اور باقی بارہ رکعت نماز کو تہجد کہا، اور وہ نماز رات میں پڑھی، اور رات کے وقت پڑھنے کے لئے فرمایا، پھر مدینہ میں اتری ہوئی اکتیس رکعت نماز کی ان انیس رکعت میں سے چار رکعات کو نمازِ پیشین پر رکھیں، دو ۲ رکعت فریضہ سے پہلے اور دورکعات فریضہ و سنت کے بعد، جس سے نمازِ پیشین کا چودہ رکعت ہوئی، چار رکعات نمازِ دیگر پر رکھیں، فریضہ سے پہلے، جس سے وہ آٹھ رکعت ہوئی، چار رکعت نمازِ شام پر رکھیں، فریضہ اور سنت کے بعد، جس سے وہ نو رکعات ہوئی، چھ رکعات نمازِ خفتن پر رکھیں، چار رکعات فریضہ سے پہلے اور دو۲ رکعات فریضہ و سنت  کے بعد، اور ایک رکعت بچی جس کا دو حصہ کر دیا اور اس کو وتر کے بعد رکھی، اور تطوع کی انیس رکعتوں میں سے اس ایک رکعت کو بیٹھ کر پڑھی، اور اس کو ایک رکعت شمار کرنے کے لئے فرمایا، چنانچہ ارشاد ہے: ۔

         ’’ رکعَتَانِ مِنْ جُلُوْسٍ بِغَیْرِ عِلَّۃٍ تَقُوْ مَانِ بِرَکْعَۃٍ مِنْ قِیَامٍ۔

         بلا عذر بیٹھ کر پڑھی ہوئی دو۲ رکعتیں کھڑے ہو کر پڑھی ہوئی ایک رکعت کے برابر ہے‘‘۔ اور باقی بارہ رکعت نماز رات کے وقت پڑھنے کے لئے فرمایا،

۲۳۳

چنانچہ آنحضرتؐ نے فرمایا: ۔

         ’’عَلَیْکُمْ بِصَلوٰۃِ الَّیْلِ‘‘ (تین دفعہ یوں فرمایا) یعنی ’’تمہارے ذمہ ہے، رات کی نماز کا پڑھنا۔‘‘ یعنی وہ بارہ رکعات، جو تطوع کی اکتیس رکعات میں سے ۱۹ رکعتیں مکہ ولی نمازوں پر تقسیم کرنے کے بعد باقی رہی ہیں، پس نمازِ پیشین چار درجوں میں ہے: دو ۲ رکعت فریضہ، دو۲ رکعت مقرونہ، چھ رکعت سنت اور چار رکعت تطوع، نمازِ دیگر تین درجوں میں ہے، دو رکعت فریضہ، دو رکعت مقرونہ اور چار رکعت تطوع، نمازِ شام چار درجوں میں ہے، دو ۲ رکعت فریضہ، ایک رکعت مقرونہ، دو رکعت سنت اور چار رکعت تطوع فریضہ کے بعد، نمازِ خفتن چار درجوں میں ہے: دو۲ رکعت فریضہ، دو۲ رکعت مقرونہ، دو۲ رکعت سنت اور چھ رکعت تطوع،چار رکعت فریضہ سے پہلےاور دو ۲ رکعت سنت کے بعد، اور وتر تین رکعت ہے، اور وہ وتر کے بعد کی ایک رکعت جو بیٹھ کر دو۲ رکعت کی صورت میں پڑھی جاتی ہے وہ تطوع ہی ہے، تمام نمازوں کے بعد صبح کی نماز دو درجوں میں ہے: دو۲ رکعت فریضہ اور دو۲ رکعت سنت، اور رات کی نماز ایک درجے میں ہے، اور وہ تطوع ہی ہے، اور تریسٹھ رکعت نماز کے مجموعے میں سے بتیس رکعات مکی ہیں اور اکتیس رکعات مدنی ہیں، اور رسول علیہ السلام نے فرمایا، کہ جو شخص ان نمازوں کو پڑھے اور ان کی تاویل سمجھے تو اس کا اسلام مکمل ہوگا۔،اس حقیقتِ حال کی دلیل یہ ہے، کہ چھوٹے بچے اور اس بوڑھے (پر نماز واجب نہیں) جس کے بتیس دانت ( میں سے سب کے سب) نہ ہوں، جو انتہائی کمزوری کی علامت ہے، تو وہ بچہ اور بوڑھا (نماز کی) حد میں نہیں ہیں، اور وہ اس سے عاجز ہیں (کیونکہ بڑھا پاعملی کمزوری کی مثال ہے اور بچپن علمی عاجزی کی مثال ہے، پس ثابت ہوا کہ جس طرح عملی قو ت کے بغیر نماز ہو نہیں سکتی ، اس طرح علمی طاقت کے بغیر بھی نماز درست نہیں)۔

         پس امت کا ایک گروہ ان بتیس ۳۲ رکعات پر ٹھہرے رہا، جو مکہ میں نازل

۲۳۴

ہوئی تھیں، اور انہوں نے اس کے معنے نہیں سمجھا، اور نہ اس کے لئے انہوں نے کوشش کی، وہ جرابوں وغیرہ کے ساتھ پاؤں پر مسح کر لیتے ہیں، جنازے پر چار تکبیریں پڑھتے ہیں، قبریں خر پشت بناتے ہیں، نماز میں ہاتھ سامنے سے باندھ لیتے ہیں، اقامت ایک بار پڑھتے ہیں، اور اس کے معنی نہیں جانتے ہیں، اور نہ اس کی جستجو کرتے ہیں، اور دوسرے گروہ نے جو کچھ اس کے بعد نازل ہوا، اسی کو قبول کر لیا، اور انہوں نے اس کی حقیقت تلاش کی اور ان کو مل گئی، اور تمام گروہ اپنے اپنے راستے پر چل رہے ہیں، تاکہ کل (روزِ قیامت) ہر شخص کو اس کا بدلہ دیا جائے۔

         پس ہم بتائیں گے، کہ ان سب میں فریضہ کی نمازیں پانچ وقت میں دس رکعات ہوئیں، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ سفر اور بیماری میں پنج وقت نماز میں سے وہی فریضہ کی دس رکعات ہوتی ہیں، جن کو پڑھی جاتی ہیں اور چھ مقرونہ ہیں، جن کو ساقط کر دی جاتی ہیں، دو۲ نماز پیشین میں، دو نمازِ دیگر میں، اور دو نمازِ خفتن میں ، اور باقی دس رکعات فریضہ ہیں، جو پڑھی جاتی ہیں، اور ہم کہہ چکے ہیں کہ مقرونہ کو ساقط کر دینا چاہئے، اور ایک مقرونہ کو ساقط کرنے کی رخصت نہیں، اور وہ نمازِ شام کی مقرونہ ہے، کیونکہ اس میں فریضہ کی وہ دونوں رکعتیں سفر اور بیماری میں مقرونہ کی اس رکعت سے مکمل ہو جاتی ہیں، جس کی تاویل اس کتاب میں اس سے پیشتر بتائی گئی، اور اس بات کی دلیل، کہ یہ سات مقرونہ فریضہ میں سے نہیں، یہ ہے کہ وہ دس رکعات جو فریضہ ہیں سب کی سب الحمد اور سورے کے ساتھ ہیں، اور وہ سات رکعات جو مقرونہ ہیں، صرف الحمد کے ساتھ ہیں، اور فریضہ کی ان گیارہ رکعات کا اشارہ سورۂ یوسف میں آیا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’ إِذْ قَالَ يُوسُفُ لأَبِيهِ يَاأَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ ( ۱۲: ۴)

۲۳۵

         یعنی جب یوسف نے اپنے والد سے کہا کہ ابا میں نے خواب میں گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے جو مجھے سجدہ کرتے تھے۔‘‘ یعنی ناطق، اساس اور گیارہ حجتوں نے امامِ زمان کی اطاعت کی (کیونکہ فریضہ کی مذکورہ گیارہ رکعات اور گیارہ حجتوں کی مثال گیارہ ستارے ہیں، اور سنت و نافلہ نیز اساس و ناطق کی مثال چاند اور سورج ہیں ؎۱ )۔

؎۱: اصلِ ہٰذا کے اس مقام پر نساخ نے عبارت غلط لکھی تھی، اس لئے قیاس اور مفہوم سے کام لیا گیا۔ (مترجم)

۲۳۶

کلام۔ ۲۲

نمازِ جمعہ کی تاویل کے بارے میں

         خدائے تعالےٰ کی توفیق سے ہم بیان کریں گے، کہ نمازِ جمعہ ناطق پر دلیل ہے، اس لئے کہ روزِ جمعہ سات دنوں میں سے ایک ایسا دن ہے، جس میں لوگ ایک جگہ پر جمع ہو جاتے ہیں، جس طرح ناطق (حضرت محمد صلعم) سات اماموں میں سے ایک ایسے امام ہیں، جن سے پہلے چھ امام گزر چکے ہیں اور وہ ان سب کے مراتب کا جامع ہیں، اور اس دن کو ’’یَوْمُ الجُمُعَۃ‘‘ اس لئے کہتے ہیں، کہ اس روز امت کے سب لوگ ایک جگہ پر جمع ہو جاتے ہیں، جس طرح تمام پیغمبروں اور اماموں کے مراتب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں جمع ہوئے کہ روزِ جمعہ انہی کی دلیل ہے۔

         نمازِ جمعہ دو۲ رکعت ہے، اور اس میں دو خطبے پڑھتے ہیں، اس کی تاویل یہ ہے کہ ناطق لوگوں کو چار اصولِ دین کی طرف بلاتے ہیں، اس میں خطبہ پہلے اور نماز بعد میں پڑھتے ہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ ناطق پہلے دو۲ روحانیوں (یعنی عقلِ کل و نفسِ کل) سے آگاہ ہوئے، پھر انہوں نے دو جسمانیوں کو یعنی اساس اور امام کو قائم کر دیا، اور جمعہ کےدن خطیب کا ہر زینے پر کچھ وقفہ کھڑا رہتا ہوا منبر پر چڑھنا، اس بات کی نشاندہی ہے کہ ناطق مستجیبی کے درجے سے بلند ہو کر ماذونی کے درجے پر پہنچے، درجۂ ماذونی سے درجۂ داعی گری میں، درجۂ داعی گری سے

۲۳۷

درجۂ حجتی میں، درجۂ حجتی سے درجۂ امامت میں، اور درجۂ امامت سے درجۂ نبوت میں پہنچے، اور آپ نے ہر درجے میں ظاہر و باطن دونوں پر بحقیقت عمل کیا، یہاں تک کہ علم و عمل دونوں کے ذریعہ تمام مراتب سے گزر گئے۔

         خطیب کا منبر پر کھڑا رہنا، ناطق کے اپنے مرتبے میں پہنچ جانے کی دلیل ہے، اور خطیب کا منہ مشرق کی طرف کر لینا ناطق پر دلیل ہے، کہ آپ نے اپنا منہ عقلِ کل کی طرف کر لیا، جو توحید کا مشرق ہے، اور منبر پر خطیب کا خطبہ پڑھنا عقلِ کل کے ساتھ ناطق کے مخاطبہ (یعنی گفتگو) کرنے کی مثال ہے، جس میں پہلا خطبہ ناطق کے عقلِ کل پہچاننے پر دلیل ہے اور دوسرا خطبہ ناطق کے نفسِ کل پہچاننے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے پر دلیل ہے، اور دو خطبوں کے بعد منبر سے خطیب کا اتر آنا ان روحانی مخاطبتوں کو عربی زبان میں ناطق کے جسمانی کر دینے کی مثال ہے، جو عقلِ کل اور نفسِ کل سے ان کو حاصل ہوئیں، اور سننے والوں کے لئے نزدیک کر دینے پر دلیل ہے۔

         پھر قوم کے لئے خطیب کا پیش نماز ہونا، اور ان کی طرف پیٹھ کر دینا، ان روحانی باتوں کو ناطق کے پوشیدہ کہنے پر دلیل ہے، یعنی ناطق نے دو طرفہ بات کی، جس طرح پیش نماز دوسری طرف منہ کیا ہوا ہے ( یعنی پیش نماز جو کچھ پڑھتا ہے، اس کا دوطرفہ اطلاق ہوتا ہے، ایک اعتبار سے آگے کی طرف کہ وہ سامنے کو منہ کیا ہوا ہے، اور دوسرے اعتبار سے پیچھے کی طرف، کہ وہ اس قوم کا پیش نماز ہے، یہ ناطق کی مثال ہے، جس کی تعلیم ظاہر اور باطن کے درمیان دو طرفہ ہے، اور نمازِ جمعہ میں پہلے تو خطبہ پڑھا جاتا ہے اور نماز اس کے بعد پڑھی جاتی ہے، یہ دلیل ہے عالمِ بالا سے ناطق کے علم حاصل کرنے پھر اسے لوگوں تک پہنچانے پر۔

         دوسرے اعتبار سے روزِ جمعہ امامِ برحق پر دلیل ہے، کیونکہ وہ مستجیب سے درجۂ ہفتم پر ہیں، جس طرح ناطق امام سے درجۂ ہفتم پر ہیں (یعنی امامِ اول، آدم،

۲۳۸

نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد علیہم السلام) اور دوسرے درجے یہ ہیں: مستجیب، ماذونِ مطلق، داعیٔ محدود، داعیٔ مطلق، حجتِ جزائر، حجتِ اعظم اور امام درجۂ ہفتم ہیں، اور یہ سات درجے امام تک پہنچ جانے کے لئے ہیں، جس طرح ناطق یعنی حضرت محمدؐ مذکورہ اماموں کے درجات کا جامع ہیں، اور ان سات درجات میں سے بات کرنے والا دراصل امام ہی ہیں، جبکہ وہ کسی کو سنانا اور بتانا چاہیں، کہ حق کا راستہ یہی ہے، جس طرح سات اماموں میں سے امامِ ہفتم (یعنی حضرتِ قائم علیہ السلام ہر بڑے دور کے اخیر میں) ظاہر ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ کو ظاہر کر دیتے ہیں اور ازسرِ نو نبوت و شریعت رکھتے ہیں۔

         اگر نمازِ جمعہ مسجد میں ہوئی تو دو۲ رکعت میں پڑھتے ہیں، اور اگر مسجد سے باہر ہوئی تو چار رکعات میں پڑھتے ہیں، یہ اس لئے کہ وہ دو خطبے جو خطیب پڑھتا ہے، دو۲ روحانیوں سے ناطق کے مخاطبہ کرنے پر دلیل ہیں، اور دو ۲ رکعت نماز بھی جو تنہا الحمد کے ساتھ ہے، دو ۲ روحانیوں کی نشاندہی کرتی ہے، نیز جامع مسجد درجۂ امام کے تحت ظاہری اجتماع پر دلیل ہے، لیکن یہ ظاہر میں کرنا چاہئے، دو۲ رکعت نماز جو الحمد اور سورے کے ساتھ ہے جسمانیوں اور اہلِ ظاہر پر دلیل ہے، اور مسجد سے باہر چار رکعت پڑھتے ہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ ایسے جزیرے میں جہاں اہلِ ظاہر موجود ہوں، امام کی یاد اور فرمانبرداری ظاہر اور باطن دونوں طرح سے کرنی چاہئے، کیونکہ چار رکعت دو۲ روحانیوں اور دو جسمانیوں پر دلیل ہیں، اور دو خطبوں کا پڑھنا اساس اور حجت پر دلیل ہے، جو تاویل کے مالک ہیں، اور دو رکعت ناطق اور امام کی دلیل ہیں، کیونکہ وہ ظاہرِ شریعت کی تالیف کے مالک ہیں۔

۲۳۹

کلام – ۲۳

عید الفطر اور اس کی نماز کی تاویل کے بارے میں

         روزہ کھولنے والوں کی عید اساس پر دلیل ہے، اس لئے کہ عید ہی کی وجہ سے لوگ کھانے پینے کی ممانعت اور کمزوری سے چھٹکارا پائے اور طاقت ور ہوئے، اسی طرح اساس ہی کے ذریعے مومنین کو علمی کمزوری سے نجات ملی اور (روحانی طور پر) طاقتور ہوئے، جبکہ انہیں تنزیل کے ساتھ تاویل حاصل ہوئی، روزہ رکھنے والا دین میں خاموش رہنے والے کی مثال ہے، اور روزہ کھولنے والا بولنے والے کی مثال ہے، پس علم و دانش کی بدولت یہ خاموش رہنے والے بولنے والے (یعنی دعوت کرنے والے) بن گئے، جس طرح عید کی بدولت روزہ دار (جب چاہیں) کھانا کھانے والے ہوئے۔

         ناطق نے جو فرمایا کہ تیس دن روزہ رکھنے کے بعد عید کے دن روزہ دار جمع ہو جائیں، اور خوشی منائیں، یہ مومنین کے لئے اشارہ ہے کہ جن تیس حدود کو وہ مان رہے تھے، ان کو اساس کی تاویل کے ذریعے پہچاننے کے بعد وہ ایک دوسرے کے ساتھ اس پر خوشی کریں، اور جب اساس سے مومنین کی جانوں کو تاویل ملی جو خوشی کی مثال ہے، تو خوشی کرنی واجب ہے، وہ تیس حدود یہ ہیں: ۔

۲۴۰

         سات ناطق: (آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، محمدؐ اور قائم)۔

         سات اساس: (مولانا شیث، مولانا سام، مولانا اسماعیل، مولانا ہارون، مولانا شمعون، مولانا علی اور خلیفۂ قائم)۔

         ساتھ امام: (یعنی ہر چھوٹے دور کے سات أئمہ) باب، حجت، داعی، ماذون۔

         اور پانچ حدودِ علوی: یعنی عقل، نفس، جد، فتح اور خیال۔

         روزہ کھولنے والوں کی عید کے دن کو فطر کہتے ہیں، اور اساس کے نام (علی) کے تین حروف ہیں چنانچہ لفظِ فطر کے بھی تین حروف ہیں، نیز روزہ رکھنا ناطق کے ظاہر کو قبول کرنے پر دلیل ہے، جس کی حقیقت تلاش کرنا ہم پر واجب ہے، جو روزہ رکھنے کی مثال ہے، اور وہ تیس دن تین دفعہ دس ہوتے ہیں۔ اور اگر ہم ان تین مراتب کی تحقیق کریں تو ناطق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ میرے تین مرتبے ہیں، دو طرح سے (یعنی باطن اور ظاہر میں) ایک یہ کہ وہ تین اصول یعنی عقلِ کل اور نفسِ کل اور ناطق کے تیسرے ہیں ( عالمِ روحانی سے علم پہنچانے کے سلسلے میں) دوسرا یہ کہ وہ اس عالم میں تین اصولِ دین میں اولین ہیں، جیسے ناطق، اساس اور امام، تیسرا یہ ہے کہ وہ ان دونوں قسم کے درجات کے درمیان ہیں اور یہ (دو طرح کے) تین مراتب تیس دن روزہ رکھنے کی مثال ہیں، جن میں سے تین حدِ جسمانی (ناطق، اساس اور امام) تیس دنوں کی مثال ہیں، کیونکہ یہ حدود دن کی طرح ظاہر ہیں، اور تین حدِ روحانی (عقلِ کل، نفسِ کل اور ناطق، کیونکہ ناطق روحانی اور جسمانی دونوں حیثیتوں میں ہے) تیس راتوں پر دلیل ہیں، جن میں کوئی چیز نظر نہیں آسکتی ہے، اور عید کا دن، جس میں لوگ روزہ رکھنے سے چھٹکارا پاتے ہیں، اساس پر دلیل ہے، کیونکہ اسی کی بدولت ان تیس حدود (عقلِ کل، نفسِ کل اور ناطق نیز ناطق، اساس اور امام) کی ناشناسی سے لوگ نجات پاتے ہیں۔

         نمازِ عید کی اذان اور اقامت نہیں، اس لئے کہ اذان دعوتِ ظاہر کی دلیل ہے،

۲۴۱

اور اساس کی دعوتِ ظاہر نہیں، اور اقامت باطن (تاویل) کی دلیل ہے، اور اساس کی تاویل کی پھر تاویل نہیں، اور اس عید کے دن کی نماز خطبہ سے پہلے ہے، اور خطبہ دلیل ہے روحانیوں سے کلام اور مخاطبہ کرنے پر، پس خطبہ سے پہلے نماز پڑھنا اساس پر دلیل ہے، کیونکہ وہ پہلے تو ناطق کی شریعت اور جسمانی باتوں میں پلے ہوئے ہوتے ہیں، پھر ان کو ناطق روحانیوں کی تائید سے بہرہ ور کر دیتے ہیں، جب خطیب نماز پڑھتا ہے تو مغرب کی طرف منہ کرتا ہے، اور جب منبر پر چڑھتا ہے تو مشرق کی طرف منہ کر کے خطبہ پڑھتا ہے (ناطق علیہ السلام اس سے) یہ ظاہر کر دیتے ہیں، کہ جب اساس ناطق کی شریعت میں مکمل ہوئے تو انہوں نے عقلِ کل کی طرف منہ کر سکا جو نورِ توحید کا مشرق ہے، یہی ہے روزہ کھولنے والوں کی عید کی تاویل۔

۲۴۲

کلام – ۲۴

عیدِ قربان کی تاویل کے بارے میں

         خدائے تعالیٰ کی توفیق سے ہم بیان کر دیتے ہیں، کہ یہ عید قائمِ قیامت علیہ افضل التحیۃ و السلام پر دلیل ہے، کیونکہ انہی کے ذریعہ شریعت کا باطن آشکار ہو گا، اور مومنین لا علمی کے رنج سے چھٹکارا پائیں گے، اور اس عید کے دن، جو اس دو جہان کے بزرگوار کی مثال ہے، لوگوں پر واجب ہوتا ہے ، کہ خوشی کریں اور پوشیدگی سے منظرِ عام پر آجائیں، اس لئے کہ جس طرح اس روز لوگوں کو پوشیدگی سے منظرِ عام پر آنا چاہئے، اس طرح قائم (علیہ السلام ) رموز کو پوشیدگی سے ظاہر اور آشکار کر دیں گے، اس دن کو ’’اضحی‘‘ کہتے ہیں، اور لفظ ’’اضحی‘‘ کے چار حروف ہیں، جس طرح قائم علیہ السلام کے نام کے چار حروف ہیں، اور اس عید کی نماز کی (بھی) اذان اور اقامت نہیں، اس لئے کہ قیامت کے مالک کی دعوت ظاہر و باطن نہیں ہے، بلکہ دعوتِ ظاہر ناطق کی اور دعوتِ باطن اساس کی ہے، اور قائم علیہ السلام تو ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دینے والے ہیں، اور اس (عید) کا خطبہ بھی نماز کے بعد ہے ( جس کی تاویل یہ ہے کہ) قائم علیہ السلام پہلے تو شریعت میں پرورش پائے ہوئے ہوں گے، اس کے بعد وہ اپنی مرتبت پر متمکن ہوں گے، اور حق کو ظاہر کر دیں گے، نطقاء اسس اور أئمہ پر (اپنی اپنی ) امت کے ظالموں، فرعونیوں، اور ابلیسیوں سے جو کچھ گزرا ہے، وہ سب اس

۲۴۳

کا انصاف چاہیں گے۔

         اس بات کی تاویل کہ اس عید کے روز نماز سے پہلے تکبیر پڑھی جاتی ہے، یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی توحید اور عظمت حضرتِ قائم کے ذریعہ ظاہر ہوگی، اور اس میں پانچ تکبیریں پڑھی جاتی ہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ پانچ جسمانی حدود (ناطق، اساس، امام، حجت اور داعی) سے اس عالم میں بھی ہر وقت مومنین کو فائدہ پہنچے گا، اور قائم علیہ السلام کے نور کی طاقت سے مومنین اس عالم (یعنی عالمِ بالا) تک پہنچ سکیں گے، اور تکبیریں مثال ہیں، مومنوں کی خوشی اور منافقین و اعدای دین پر قائم علیہ السلام کی فتح یابی کی، اور قربانی ان عہدوں پر دلیل ہے جو ناطق سے لے کر مستجیب تک لئے جاتے ہیں، جن سے بندے کو خدا تعالیٰ کے امر کی نزدیکی ہوتی ہے، چنانچہ ناطق کی قربانی اساس ہیں، جنہوں نے ناطق کا عہد لیا ہے، اسی طرح اساس کی قربانی امام ہیں، امام کی قربانی حجت ہے، حجت کی قربانی داعی ہے، اور داعی کی قربانی ماذون و مستجیب ہیں، اونٹ ناطق پر دلیل ہے، گائے اساس پر دلیل ہے، اور بھیڑ امام پر دلیل ہے، عیدِ اضحی کی تاویل یہی ہے۔

۲۴۴

کلام۔ ۲۵

نمازِ کسوف کی تاویل کے بارے میں جو سورج اور چاند گرہن کے وقت پڑھی جاتی ہے

         یہ نماز دو ۲ رکعت ہے، جو دس رکوع اور چار سجود پر مشتمل ہے، اور ہر رکعت میں پانچ رکوع ہیں، چنانچہ ہر پانچ رکوع میں دو سجدے کرنے چاہئیں، جب نماز پڑھنے والا گرہن کے وقت نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے، تو تکبیر پڑھتا ہے، پھر الحمد اور ایک طویل سورۃ بلند آواز سے پڑھتا ہے، اور اس کے بعد تکبیر پڑھ کر رکوع کرتا ہے، اور تسبیح زیادہ پڑھتا ہے، اور رکوع میں بھی اس قدر ٹھہرتا ہے، جس قدر قیام میں ٹھہرتا ہے، اس کے بعد اَللّٰہُ اَکْبَر کہہ کر سیدھا ہو جاتا ہے، پھر الحمد اور کوئی طویل سورۃ بآوازِ بلند پڑھتا ہے، اور تکبیر کہہ کر رکوع کرتا ہے، اور اسی طرح چار دفعہ الحمد اور طویل سورۃ بآوازِ بلند پڑھتا ہے، اور تکبیر پڑھ کر رکوع کرتا ہے، اور سیدھا ہو جاتا ہے، جب پانچ دفعہ الحمد اور طویل سورۃ پڑھ لیتا ہے، اور رکوع کر کے لمبی تسبیح پڑھ لیتا ہے تو سَمِع اللہُ لِمَن حَمِدَہٗ کہہ کر سجدے میں جاتا ہے، پھر لمبی تسبیح پڑھتا ہے، اس کے بعد سجدے سے سر اٹھاتا ہے، اور پھر سے سجدے میں جاتا ہے، پھر دوسری رکعات کے لئے اٹھتا ہے۔

۲۴۵

         اسی طرح کے دوسرے پانچ رکوع کرتا ہے، پھر سجدے میں جاتا ہے، اور دوسجدے کر کے تشہد کے لئے بیٹھتا ہے، اور التحیات  پڑھتا ہے اور سلام پھیرتا ہے، مذکورہ دس رکوع کے سلسلے میں (نمازی) جب کسی جفت رکوع پر پہنچتا ہے، تو قنوت پڑھتا ہے، چنانچہ دوسرے رکوع میں ٹھہر کر قنوت پڑھتا ہے، اور اسی طرح چوتھے، چھٹے، آٹھویں اور دسویں رکوع میں ٹھہر کر قنوت پڑھتا ہے۔

         جس کی تاویل یہ ہے کہ سورج ناطق کی مثال ہے، جبکہ ناطق کا زمانہ ہو، اور امام کی مثال ہے، جبکہ امام کا زمانہ ہو، اور چاند اساس کی مثال ہے، اپنے زمانے میں ( یعنی) ناطق کے زمانے میں) اور حجت کی مثال ہے اپنے مرتبے میں (یعنی امام کے زمانے میں) اور گرہن مثال ہے، دشمنوں کے غلبے سے ان مراتب پر کوئی رنج و ستم آنے کی، جس کی وجہ سے نورِ توحید مومنوں کی جانوں سے منقطع ہو جاتا ہے، جس طرح گرہن کی وجہ سے سورج اور چاند کی روشنی اجسام سے منقطع ہو جاتی ہے، اور دو ۲ رکعت نماز دلیل ہے ظاہر و باطن کی یعنی اس وقت جبکہ امام مستور ہو جاتا ہے، ظاہر اور باطن دنوں کی نگہداشت کرنی چاہئے۔

         پہلی رکعت کے پانچ رکوع میں ٹھہرنا پانچ حدودِ روحانی پر دلیل ہے، جو اول، ثانی، جد، فتح اور خیال ہیں ( یعنی عقلِ کل، نفسِ کل، اسرافیل، میکائیل اور جبرائیل) اور اس بات کی تاویل کہ نمازی رکوع کے لئے جھکتا ہے اور (دوسری نمازوں کی طرح) سجدے میں نہیں جاتا، یہ ہے کہ داعی یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ پانچ حدود (زمانے کے ) مالک سے دور رہے ہیں، نیز امام اور ناطق تک رسائی بھی ہو نہیں سکتی ، کیونکہ سجدہ انہی پر دلیل ہے، لیکن اساس کی تاویل کے ذریعے ان حدود کو پہچان لیا جاسکتا ہے، کیونکہ رکوع (فی نفسہٖ ) انہی پر دلیل ہے۔

         دوسری رکعت کے پانچ رکوع میں ٹھہرنا پانچ حدودِ جسمانی پر دلیل ہے، جو

۲۴۶

ناطق، اساس، امام، حجت اور داعی ہیں، اور نمازی کا رکوع پر جھکنا پھر سیدھا ہو جانا، ناطق اور امام کے نزدیک جا کر پر اسی تکلیف کی طرف واپس آنے کا اشارہ ہے اور بیٹھنے کے بعد تشہد پڑھنا مومن کو اخیر میں قرار ملنے کی دلیل ہے، اور امام کے کام پھر سے جاری ہونے کی دلیل ہے، اور اس سے نورِ توحید ظاہر ہونے پر خدا کے لئے مومن کی شکرگزاری کی دلیل ہے، جس طرح گرہن کے بعد سورج اور چاند ظاہر ہو جاتے ہیں اور ان کا نور زمین پر پہنچتا ہے ( یہی مثال روحانی زمین کی بھی ہے) اور روحانی زمین دعوتِ حق ہے۔

۲۴۷

کلام۔ ۲۶

نمازِ جنازہ کی تاویل کے بارے میں

         ہم خداتعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ اس نماز کی اذان و اقامت نہیں ہے، الحمد اور سورہ پڑھنا بھی نہیں، صرف دعا و صلوات ہے، اور رکوع و سجود بھی نہیں، اور ایک ہی سلام کے بعد اس سے فارغ ہو جانا چاہئے کہ (وہ سلام) دائیں طرف پھیرا جاتا ہے۔ اس نماز میں پانچ تکبیریں ہیں، اور ہر دو تکبیروں کے درمیان صلوات ہے، اگر مرد کے جنازے پر نماز پڑھنی ہو، تو پیش نماز اس کی چھاتی کے پاس کھڑا ہو تا ہے، اور اگر عورت کے جنازے پر نماز پڑھنی ہو، تو اس کے سر کے پاس کھڑا ہوتا ہے۔

         اب مذکورہ اشارات کی تاویل بتائی جاتی ہے، پہلے تو ہم یہ بتائیں گے، کہ جس طرح لوگ جسمانی موت کے بعد اس دنیائے فانی کی شہوانی لذتوں سے دور ہو جاتے ہیں، اور اس جہانِ باقی (پائندہ) میں جاتے ہیں، اسی طرح مومن اپنے مالک (امامِ زمانؑ) کے فرمان کے بموجب روحانی موت (یعنی ریاضت اور مکاشفہ) کے بعد کثیف ظاہر سے، جو اس جہان کی مثال ہے، چھٹکارا پاتا ہے، چنانچہ مردے پر نماز پڑھی جاتی ہے، اور اس کو قبر میں دفنا یا جاتا ہے، جس کی تاویل ہے، اس مومن کو دعوتِ حق ( یعنی روحانی معجزانہ دعوت) کا سنانا جس کا نفس جسمانی خواہشات سے مرچکا ہے، تاکہ وہ ایک درجے سے دوسرے درجے میں

۲۴۸

عروج کر جائے، جس طرح انسان جسمانی موت کے بعد اس ناپائیدار جہان سے اس پائیدار جہان میں پہنچ جاتا ہے۔

         اس بات کی تاویل کہ اس نماز کی اذان اور اقامت نہیں ہے، اور نہیں کہنی چاہئیں، یہ ہے کہ مومن جب ظاہر و باطن کی حفاظت اور عمل کر چکا ہوتا ہے، جس کی مثال اذان اور اقامت ہے، تو اس کو علمِ تاویل میں ایک درجے سے دوسرے درجے میں اٹھا لیا جاتا ہے۔

         اس بات کی تاویل کہ اس نماز میں قرآن نہیں پڑھا جاتا، یہ ہے، کہ الحمد اور سورہ حدودِ جسمانی پر دلیل ہے، جن کے متعلق مذکورہ مومن کو تو خبر مل چکی ہے، اور اس بارے میں اس کو پھر کسی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں، بجز آنکہ اس کو حدودِ دین کا کوئی درجہ دینا ضروری ہوا ہو (یعنی ہر مومن کو جسمانی حدود کی معمولی شناخت اور ریاضت کے بعد روحانی طور پر آگے بڑھا دیا جاتا ہے) مگر جب اس سے ماذونی، داعی گری، اور حجتی کا کام لینا مقصود ہوا، تو اس کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ پھر ایک بار جسمانی حدود کی شناخت بھی کرائی جاتی ہے)۔

         اس نماز میں دعا و صلوات پڑھنے کے معنی ہیں، داعی کو گواہی کے ذریعہ اس مستجیب کی مرتبت کو روحانی حدود پر ظاہر کرنا، تاکہ وہ اس کو اپنا جزوِ وجود بنائیں۔

         اس نماز میں رکوع اور سجود نہیں، یہ اشارہ ہے کہ وہ مستجیب حجت کی فرمانبرداری کی صورت میں روحانی رکوع کر چکا ہے، امام کی فرمانبرداری کی صورت میں روحانی سجدہ کر چکا ہے، اور اب وہ امام و حجت کے ظاہر و باطن پر عمل کر رہا ہے۔

         اس نماز میں صرف دائیں طرف سلام پھیرا جاتا ہے اور بائیں طرف سلام نہیں پھیرا جاتا ، جس کی تاویل یہ ہے کہ دائیں طرف سلام پھیرنا ناطق کے ظاہر

۲۴۹

کو قبول کرنے کی دلیل ہے، اور بائیں طرف سلام پھیرنا اساس کی تاویل کو قبول کرنے کی دلیل ہے، اور نمازِ جنازہ میں جو بائیں طرف سلام نہیں پھیرا جاتا ، اس سے داعی یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس نارسید ہ مومن نے ظاہر کو تو پوری طرح سے قبول کیا ہے لیکن باطن کو ابھی پوری طرح سے حاصل نہیں کیا ہے، اور سلامتی کے ساتھ گزر گیا، جس طرح اس کا ظاہر سلامتی کے ساتھ گزر گیا، اسی سبب سے نمازِ جنازہ میں بائیں طرف سلام نہیں پھیرا جاتا ہے۔

         جو اس میں تکبیر ظاہر کر کے پڑھتے ہیں اور ہر تکبیر کے بعد پوشیدہ دعا پڑھتے ہیں، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ اس مومن کو (جو جسمانی طور پر مرنے سے پہلے نفسانی طور پر مر چکا ہے) پانچ حدود کا نشان بتایا جاتا ہے، کیونکہ ظاہر تکبیر جسمانی حدود کا نشان ہے، اس لئے کہ وہ آشکار ہیں، یعنی ناطق، اساس، امام، حجت اور داعی، اور وہ پانچ دعائیں جو تکبیر وں کے درمیان پوشیدہ طور پر پڑھی جاتی ہیں، پانچ روحانی حدود کی دلیل ہیں، کیونکہ وہ حواس کے ذریعہ پائے نہیں جاتے، بلکہ ان کے لئے زبان سے اقرار کرنا اور دل سے اعتقاد رکھنا ہے۔

         جنازے کا پیش نماز ان پانچ تکبیروں اور پانچ دعاؤں کے ساتھ داعی کی مثال ہے، جو یوں گواہی دیتا ہے کہ اس (نفسانی طور پر ) مرے ہوئے مومن نے ان دس حدود کو پہچانا ہے، اور یہ کہ پیش نماز جب مرد کے جنازے پر نماز پڑھائے تو اس کی چھاتی کے پاس کھڑا ہوتا ہے، اور جب عورت کے جنازے پر نماز پڑھائے تو اس کے سر کے پاس کھڑا ہوتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ دعوت کے سلسلے میں وہ شخص مرد ہو سکتا ہے جس نے روحانی حدود پہچان لیا ہو۔

         چنانچہ آپ کو معلوم ہے کہ (دوسری) نمازوں کی تکبیر میں مرد کو اپنے کانوں تک ہاتھ اٹھانا چاہئے، کیونکہ اس کی روح کی غذا اس کے کانوں کے راستے سے

۲۵۰

ملتی ہے، اور عورت کو اپنی پستانوں تک ہاتھ اٹھانا چاہئے، اس لئے کہ جسم کی خوراک (دودھ) اس کی پستانوں کے راستے ملتی ہے، پس پیش نماز (مرد کے جنازے پر نماز پڑھا نے کے لئے) اس کی چھاتی کے پاس کھڑا ہوتا ہے، کیونکہ چھاتی میں نفسانی قوت ہے اور وہ بصیرت ہے (یعنی دل کی آنکھ) اور یہ کہ پیش نماز جب عورت کے جنازے پر نماز پڑھاتا ہے تو اس کے سر کے پاس کھڑا ہوتا ہے، جس کا اشارہ یہ ہے ، کہ داعی (نفسانی طور پر مرے ہوئے مومن کے بارے میں) یہ گواہی دیتا ہے، کہ وہ شخص ہے جس نے جسمانی حدود کو پہچان لیا ہے، کہ سر کی آنکھ سے ان کو دیکھ لیا ہے، مگر اس نے روحانی حدود کو ابھی نہیں پہچانا ہے، یہی ہے نماز جنازہ کی تاویل، جس کا ذکر کر دیا گیا۔

۲۵۱

کلام ۔ ۲۷

نماز کے آداب میں سے رکوع ، سجود وغیرہ کی تاویل کے بارے میں

         ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ نمازی جب نماز کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے، تو اس سے یہ دکھانا مقصود ہے، کہ ناطق اور امام خدا تعالیٰ کے کام کے لئے صحیح معنوں میں کھڑے ہوئے ہیں، جس طرح میں یہاں کھڑا ہوا ہوں، اگرچہ وہ ویسی عبادت تو نہیں کر سکتا ، جس طرح ناطق اورامام نے کی۔

         نمازی محراب کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوتا ہے اور محراب قبلے کی طرف ہوتی ہے، محراب اساس کی مثال ہے اور قبلہ قائم کی مثال ہے، اس کی تاویل یہ ہے کہ امام تائید کے فوائد اساس سے حاصل کرتے ہیں اور لوگوں کو قائم ( علیہ السلام) کی طرف دعوت کرتے ہیں۔

         جوشخص نماز میں قبلے سے منہ پھیرے تو اس کی نماز درست نہیں، یعنی جو شخص خداوند تعالیٰ کی فرمانبرداری قائم ( علیہ السلام) کی وساطت سے نہ کرے، تو خداتعالیٰ اس کی فرمانبرداری قبول نہیں کرتاہے۔

         جب نمازی تکبیر پڑھتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کانوں تک ہاتھ اٹھاتا ہے

۲۵۲

اور اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہتا ہے، تو اس اشارے سے وہ یہ بتا تا ہے، کہ خدا تعالےٰ دس جسمانی اور روحانی حدود سے بہت بڑا ہے، یعنی وہ ان دو قسم کی مخلوق کی طرح دکھائی دینے والا اور نہ دکھائی دینے والا نہیں، چنانچہ دائیں ہاتھ کی پانچ انگلیاں ہیں، جس سے نمازی کی مراد رووحانی عالم اور پانچ روحانی حدود ہیں، اور بائیں ہاتھ کی بھی پانچ انگلیاں ہیں، جس سے نمازی کی مراد جسمانی عالم اور پانچ جسمانی حدود ہیں۔

         نمازی جو ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاتا ہے وہ اس سے یہ بتانا چاہتا ہے کہ ان (دس حدود) کا فائدہ دو قسم کے کانوں سے حاصل کرنا چاہئے یعنی سر کے کانوں سے بھی اور دل کی کانوں سے بھی۔

         نمازی جو ثنا ٔ پڑھتا ہے، تو (اس سے اس کا مقصد) دوقسم کے اصولِ دین (جسمانی و روحانی) کے ذریعہ باری سبحانہ سے تمام مخلوقات کی صفت کی نفی کرنا ہے (یعنی ثنا ٔ میں حدودِ جسمانی و روحانی کی معرفت حاصل ہونے کے بعد باری سبحانہ کو تمام مخلوقات کی صفات سے برتر سمجھنے کا اشارہ ہے)۔

         پس وہ پڑھتا ہے: ۔

         ’’إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِي لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ(۶: ۷۹)

         میں نے مائل ہوتے ہوئے اپنا رخ اس خدا کی طرف کرلیا، جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور اسی نے مرئی اور غیر مرئی حدود کو ایک پاک عبادت کی شناخت کرائی، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ اور تاویل میں آسمانوں سے مراد حدودِ علوی ہیں، اور زمین سے مراد نطقا ٔ ہیں، یعنی وہ یہ کہتا ہے کہ ان حدود کو اس خدا نے پیدا کیا ہے، جو ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے، اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں، جو حدودِ روحانی اور جسمانی کو خدا قرار دیتے ہیں۔

         پھر کہتا ہے: ۔

۲۵۳

         ’’سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ‘‘

         اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا ایسا ہے کہ بس حمد اسی کی ہے، اَللّٰھُمَّ پانچ حروف ہیں اور یہ عقلِ کل کی تسبیح ہے، جو کہتا ہے کہ پاک ہے میرا پیدا کرنے والا اس بات سے کہ وہ مجھ جیسا ہو۔ بِحَمْدِکَ نفسِ کل کی تسبیح و تمجید ہے، جو یوں کہتا ہے کہ تیری حمد کے ذریعہ یعنی حمد کی وساطت سے جو عقلِ کل ہے، تمام مخلوقات پیدا ہوئیں، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، نمازی کہتا ہے کہ بڑابابرکت ہے تیرا نام، اور اس نام سے وہ نفسِ کل مراد لیتا ہے، کہ تو نے اس کو پیدا کر کے اپنا نام قرار دیا، یعنی عقلِ کل اور نفسِ کل کے ذریعے سے خدا تعالیٰ کی عبادت ہو سکتی ہے، کیونکہ خدا کے نام تو بحقیقت وہی ہیں، وَتَعَالیٰ جَدُّکَ، کہتا ہے کہ برتر ہے تیرا جد (فرشتہ) کہ اس کے مقام تک ناطقوں کے سوا اور کوئی شخص پہنچ نہیں سکتا، وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ کہتا ہے کہ تیرے سوا کوئی خدا نہیں۔

         أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم، کہتا ہے کہ میں سننے اور جاننے والا، خدا کی پناہ مانگتا ہوں شیطان سے جو حق سے راندہ کیا گیا ہے، اس راندہ شیطان سے اس کی مراد خدا کے ولی کا دشمن ہے۔

         بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اس کی تاویل اس سے پیشتر بتائی گئی ہے۔

         اس کے بعد اَلْحَمْد پڑھتا ہے، اور الحمد سات آیات پر ہے، جو سات أئمہ کی مثال ہے، جس کے ذریعہ خدا کی نزدیکی طلب کی جاتی ہے۔

         اس کے بعد کوئی دوسرا سورہ پڑھتا ہے، اور وہ حجتوں کی مثال ہے جو اماموں کے تحت ہوتے ہیں، جن کی اطاعت امام کے فرمان کے بموجب لازمی ہے۔

         پھر رکوع کرتا ہے، جو اساس کی دلیل ہے، کیونکہ اماموں اور حجتوں کے

۲۵۴

لئے تائید اسی سے ہے، اور رکوع وہ ہے جس میں نمازی اپنی کمر جھکا کر اپنے آپ کو دہرا کر دیتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ اساس نے دکھایا کہ میں دوسرا ثانی ہوں ناطق کا، تاکہ میں اس سے مل کر دو چند (دگنا ) ہو جاؤں گا۔

         پھر اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہتا ہے، اور لفطِ اَللّٰہ میں چار حروف ہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ اساس ہی نے (جو اصول میں چوتھے ہیں، اپنی تاویل سے) ظاہر کر دیا ہے کہ، خدا چار اصولِ دین سے بہت بڑا ہے۔

         رکوع میں تسبیح پڑھتا ہےسُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ وَ بِحَمْدِہٖ۔ یعنی پاک ہے میرا برتر و بزرگ پروردگار، اور اس کی حمد یعنی عقلِ کل کے ذریعے سے ساری خلقت وجود میں آتی ہے، کیونکہ حمد عقلِ کل ہے اور اس تسبیح سے نفسِ کل کی بزرگی ظاہر کرنا مقصود ہے، کیونکہ اساس کی تائید اسی سے ہے، اور وہ اس عظیم عالم کی ترکیب کا مالک ہے۔

         پھر سیدھا ہو کر کہتا ہے ’’سَمِع اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ یعنی خدا نے اس شخص کا بلانا سن لیا ہے جو طریقِ عقل سے اس کی تعریف و ستائش کرتا ہے اور شکر کرتا ہے اور اس کو پہچانتا ہے۔

         تب سجدہ کرتا ہے، اور سجدہ ناطق پر دلیل ہے، کیونکہ اساس، امام اور حجت کو اسی کے ذریعہ تائید میسر ہوتی ہے، اور سجدہ کی کیفیت اپنے آپ کو زمین پر گرا دینا ہے، جس کی تاویل یہ ہے ، کہ جب ناطق کو (اسی دنیا ہی میں) عالمِ روحانی اور نفسِ کل کی رویت (دیدار) حاصل ہوئی، تو اس نے اپنے تمام اعتقادات کو بیک وقت نفسِ کل کے حوالے کر دیا۔

         زمین نفسِ کل کی مثال ہے، کیونکہ تمام نفوس کا حامل وہی ہے، جس طرح زمین تمام اجسام کی حامل ہے۔

         نیز سجود کی کیفیت اپنے آپ کو تہرا (تگنا) کر دینا ہے، جس کے معنی ہیں، کہ ناطق عقلِ کل اور نفسِ کل کا تیسرا تھا، حالتِ سجود میں نمازی کا سر زمین پر ہوتا ہے،

۲۵۵

اور رکوع کرتے وقت ہوا میں ہوتا ہے، جس کے معنی ہیں کہ اساس نفسِ کل کا فائدہ بالواسطہ حاصل کرتا ہے، اور ناطق نفسِ کل کا فائدہ بلاواسطہ حاصل کرتا ہے۔

         سجود میں وہ یہ تسبیح پڑھتا ہے، ’’ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَ عْلیٰ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ کہتا ہے کہ پاک ہے میرا پروردگار جو سب سے برتر ہے، اور اس ’’میرا پروردگار سب سے برتر‘‘ سے اس کی مراد عقلِ کل ہے، کیونکہ وہی تو حدودِ روحانی اور جسمانی سے برتر ہے، اور باری سبحانہ و تعالیٰ اس بات سے پاک ہے کہ وہ عقلِ کل جیسا ہو، جب وہ عقلِ کل جیسا نہیں، تو لازماً عقلِ کل سے نچلا کوئی درجہ (حد) اس کے مشابہہ ہو نہیں سکتا۔

         رکوع ایک ہے اور سجدے دو ہیں، اس کے معنی یہ ہے کہ ناطق کو عقلِ کل اور نفسِ کل دونوں سے فائدہ حاصل ہے، اور اساس کو صرف نفسِ کل ہی سے فائدہ حاصل ہے۔

         پھر دوسری رکعت میں سجدہ کرکے تشہد کے لئے بیٹھتا ہے، اور پہلی رکعت میں تشہد نہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ اس دنیا میں لوگوں کا قرار اساس کی تاویل پر ہے، اور ناطق کے ظاہر (تنزیل) پر کوئی قرار نہیں، کیونکہ وہ تو ظاہر اسی کی بنا ٔ پر اختلاف میں پڑتے ہیں، اور اگر ان کی روح اساس کے بیان کو حاصل کرسکتے تو اسے سکون مل جاتا ہے، یہی سبب ہے کہ نماز کی پہلی رکعت ناطق پر دلیل ہے، دوسری رکعت اساس پر دلیل ہے، تیسری رکعت عقلِ کل پر دلیل ہے اور چوتھی رکعت نفسِ کل پر دلیل ہے۔

         نمازِ شام کی دوسری رکعت میں بیٹھنا ہے، اور تیسری رکعت میں بھی بیٹھنا ہے، مگر پہلی رکعت میں بیٹھنا نہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ ناطق کے ظاہر کا قرار نہیں اور لوگوں کے قرار کا دارومدار اساس ہی کی تاویل پر ہے، اس کے بعد لوگوں کا قرار امامِ زمانؑ کی ہدایت ہے۔

         پھر تشہد پڑھتا ہے، اور ’’اَلتَّحِیَّات‘‘ سات حروف ہیں، جس سے نمازی

۲۵۶

کا یہ اشارہ ہے کہ سات حدود خدا کے امر سے قائم ہوتے ہیں، ’’اَلصَّلوات‘‘ بھی سات حروف ہیں، جس سے نمازی کا یہ اشارہ ہے کہ سات ناطق خدا ہی کے ہیں، ’’ اَلطَّیِّبَاتْ‘‘ بھی سات حروف ہیں، جس سے نمازی کا یہ اشارہ ہے کہ سات اساس خدا ہی کے ہیں، اور ’’التحیات‘‘ کے معنی ہیں، خیر بھیجنا ، اور یہ حدودِ علوی پر دلیل ہے، جن کی وساطت سے لوگوں کو گذشتہ ناطق آئے تھے، ’’ اَلصَّلَوات‘‘ کے معنی ہیں دوود بھیجنا، یعنی نفسِ کل نے لوگوں کو دوسرے جہان کے کام سے آگاہ اور خبردار کر دیا،  ’’ اَلطَّیِّبَاتْ‘‘ کے معنی ہیں ، پاکیزگی، اور یہ اساسوں کی دلیل ہے، کہ انہوں نے اپنی تاویل کے ذریعہ لوگوں کو شک اور شرک کی پلیدیوں سے پاک کر دیا۔

          وَرَحْمَةُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ، اور خدا نے ان پر رحمت کی (اور برکات دی) اور لوگوں پر خدا کی رحمت اساس ہیں کہ ان کی تاویل کے ذریعے (خدا) لوگوں کو بخش دیتے ہیں، اور برکات أئمہ علیہم السلام ہیں، جو بموجبِ فرمانِ الٰہی یکے بعد دیگرے (مسندِ امامت پر ) متمکن ہوئے، اور لوگوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کر دیا، اور وہ جہالت کی تاریکی سے آزاد ہوئے اور دوسرے عالم کے ایک ایسے مقام پر جا پہنچے، جہاں پر ان سے نعمتیں کبھی منقطع نہیں ہو جاتیں۔ السَّلامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ، فرماتے ہیں کہ خدا کا سلام ہو ہم پر اور خدا کے ان بندوں پر جو نیک ہیں، سلام کے معنی ہیں ’’تائید‘‘ یعنی سلام ہم پر ہے کہ ہم ناطق ہیں، کیونکہ تائید ہم پر ہے اور خدا کے نیک بندوں پر جو اسس اور أئمہ ہیں یعنی نمازی کہتا ہے کہ خدا کی تائید ناطقوں، اساسوں اور اماموں پر ہے، کیونکہ وہی لوگ خداوندانِ تائید ہیں۔

         لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہٗأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولَہٗ، کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ مذکورہ حدود میں سے کوئی ایک بھی خدا جیسا نہیں، اور ان کا خدا ایک ہے اور وہ کسی وجہ سے

۲۵۷

بھی ان کے مشابہہ نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بندگی بحقیقت وہی تھی، جو محمد علیہ السلام نے کی، اور پیغمبری بحقیقت وہی تھی جو محمد علیہ السلام نے کی۔

                          والسلام

۲۵۸

کلام ۔ ۲۸

زکوٰۃ اور اس لفظ کی تاویل کے بارے میں

         ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ زکوٰۃ دینے سے مومن پاک ہو جاتا ہے اور اس کی روح بڑھ جاتی ہے، اس لئے کہ اس کی روح کا پاک ہونا اس کے جسم کے پاک ہونے پر ہے، اس کے جسم کا پاک ہونا اس کی غذا کے پاک ہونے پر ہے، غذا کا پاک ہونا مال کے حلال کرنے پر ہے، اور مال کا حلال کرنا خدا کے حق کو اس مال سے جدا کرنے پر ہے، اور لوگوں سے خدا کے حق لینے کے حقدار اس کے رسول ہیں، اور (آپؐ کے بعد) وہ شخص ہیں، جو آپ کے فرمان کے بموجب آپؐ کے جانشین ہوئے ہیں، چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ (۹: ۱۰۳) ‘‘

         اللہ تعالیٰ نے رسولؐ سے فرمایا کہ ’’ آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس میں ان کے مال اور جان کی پاکیزگی ہے، اور اس کے عوض میں ان کو صلوٰۃ دیجئے، کیونکہ آپ کی صلوٰۃ (دعا) ان کے لئے باعثِ سکون ہے۔‘‘ اور خدا کے لئے

۲۵۹

رسولِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی فرمانبرداری کے متعلق کسی بھی مومن کو کوئی شک ہی نہیں، پس تم سمجھ لو کہ جس نے رسول علیہ السلام کو زکوٰۃ دی تو آنحضرتؐ نے اس شخص کو صلوٰۃ (دعا) دی اور جس کو یہ صلوٰۃ ملی تو اس کو سکون حاصل ہوا، اور تم یہ بھی سمجھ لو کہ جس نے آنحضرتؐ کو زکوٰۃ نہ دی، تو اس کو یہ صلوٰۃ نہ ملی، اور جس کو یہ صلوٰۃ نہ ملی، تو اس کو سکون نہ ملا، اور اسی طرح یہ بھی سمجھ لو کہ جس نے (آنحضرتؐ کو ) صدقہ دیا تو وہ پاک ہوا، اور اس کو (مال و جان کی) برکت ملی، اور جس نے صدقہ نہیں دیا تو وہ پاک نہیں ہوا، اور اس کو برکت نہیں ملی، جس طرح خدا تعالیٰ نے اس ارشاد میں رسول علیہ السلام سے فرمایا کہ مومنین سے زکوٰۃ لے لیا کریں، اسی طرح قرآن کی بہت سی جگہوں پر ارشاد ہے کہ (مومنین رسول علیہ السلام کو) زکوٰۃ دے دیا کریں، چنانچہ: ۔

         ’’ وَأَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ (۲: ۴۳)

         اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔‘‘ اور رسول علیہ السلام سے یہ حدیث آئی ہے، جو فرمایا: ’’ مَانِعُ الزَّکوٰۃِ فِی النَّارِ = یعنی زکوٰۃ کا منع کرنے والا آتشِ (دوزخ) میں ہے۔‘‘

         پس نماز نادار اور دولت مند ہر شخص پر واجب ہے، مگر زکوٰۃ صرف دولت مند ہی پر واجب ہے نادار پر نہیں، خدا تعالیٰ نے زکوٰۃ نماز ہی کی طرح واجب کر دی ، اس پر لوگوں کو آزمایا، دینے والوں کو بہشت کا وعدہ کر دیا، ان کو نام پرہیز گار رکھا، اور اس کے روکنے والے ناپاکوں کو عذاب سے ڈرایا، اور ان کا نام شقی یعنی بدبخت رکھا، اور فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’فَأَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظَّى لاَ يَصْلاَهَا إِلاَّ الأَشْقَى الَّذِي كَذَّبَ وَتَوَلَّى وَسَيُجَنَّبُهَا الأَتْقَى الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى  (۹۲: ۱۴ تا ۱۸)

         تو میں تم کو ایک بھڑکتی ہوئی آگ سے ڈراچکا ہوں، اس میں داخل نہیں ہو گا، مگر وہ بڑا بدبخت شخص جس نے (رسول کو ) جھٹلایا اور اس سے روگردانی کی، اور

۲۶۰

اس سے ایسا بڑا پرہیزگار شخص دور رکھا جائے گا جو اپنا مال زکوٰۃ کے طور پر دیتا ہے۔‘‘

         قرآن میں جس زکوٰۃ کا ذکر کیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اس کی تفصیل فرمائی ہے، کہ کس مال سے زکوٰۃ دینی چاہئے اور کس مال سے نہیں دینی چاہئے، جس طرح آنحضرت نے نماز کی تفصیل فرمائی ہے اور ان تمام فرامین سے وہ مثال مقصود ہیں جن کے تحت حکمتیں پوشیدہ ہیں، تاکہ لوگ مثالوں سے ممثول پر دلیل لیں (یعنی جس حقیقت کی مثال دی گئی ہے، اس حقیقت تک پہنچ جائیں) تاکہ خدا کے مقرر کردہ رہنماؤں کے ذریعہ دوزخ کی آگ سے بچ جائیں، جو شخص ظاہر پر عمل کرتے ہوئے باطن کی تلاش کرتا ہے اور معرفت کے بیان پر خدا تعالیٰ کو پہچانتا ہے تو وہ ناجی ہو جاتا ہے، اس لئے کہ لوگ دانش ہی کے ذریعہ خدا کے اولیا کے ساتھ مل جاتے ہیں، اور زمانے کے ابلیس دیو کے گروہ سے بچ سکتے ہیں، اور اگر ایسا نہ ہوتا، تو خدا تعالیٰ نے بعض مالوں پر زکوٰۃ واجب کرتے ہوئے اور بعض مالوں پر واجب نہ کرتے ہوئے یہ کیوں چاہا کہ لوگ ان کے معنی جاننے کے لئے دین کے رہنماؤں اور علمِ یقین کے خزانہ داروں کے ساتھ مل جائیں۔

         چنانچہ اللہ تعالیٰ نے تمام چوپایوں اور ہر قسم کے مال پر زکوٰۃ واجب کر دی مگر اس شخص پر کوئی زکوٰۃ واجب نہیں کی جو بقیمت ایک ہزار اشرافی سونے کے زیوارت رکھتا ہے، اس کی عمر بھر کے لئے، خواہ وہ سو سال تک یا اس سے بھی زیادہ کیوں نہ جیئے اور جو شخص دو سو درم رکھتا ہے تو اس پر خداتعالیٰ نے پانچ درم (زکوٰۃ کی صورت میں) قرض ٹھہرایا، جبکہ اس رقم پر ایک سال یا کچھ زیادہ عرصہ گزر چکا ہو، اور جو شخص پانچ چرتے ہوئے اونٹ رکھتا ہے، تو اس پر ہر سال ایک بھیڑ کا صدقہ دینا واجب کر دیا، اور اگر وہ بوجھ اٹھانے والے سو اونٹ رکھتا ہے، تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں کی، نیز چرتی ہوئی گائیوں پر زکوٰۃ واجب کی گئی، مگر بیل اور گدھے پر (کوئی چیز) واجب نہیں کی، خواہ وہ کتنے زیادہ کیوں نہ ہوں، جب

۲۶۱

امرِ زکوٰۃ کا یہ حال ہے، جس کا ہم نےذکر کر دیا، تو دانش مند پر واجب ہے کہ خدا کی حکمت کے خزانہ داروں سے اس حکمت کی تلاش کرے، جو ان فرامین میں پوشیدہ ہے، تاکہ جس کے ذریعہ وہ دائمی دوزخ کی آگ سے چھٹکارا پائے۔

         رسول علیہ السلام نے بموجبِ امرِ الہٰی زکوٰۃ کی قسموں کی جو تشریح فرمائی ہے، ہم یہاں خدا وندِ تعالیٰ و تقدس کی مہربانیوں سے اس کا بیان کر دیں گے، اور زکوٰۃ والی تمام جنسوں کو ایک ایک کر کے دکھائیں گے، چنانچہ خدا تعالیٰ یوں فرماتا ہے:

         ’’  وَأَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ (۲: ۴۳)

         اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔‘‘ خدا تعالیٰ نماز کے ذریعہ ناطق کی اطاعت کے لئے فرماتا ہے، اس لئے کہ ناطق کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور اس کی اطاعت کے بغیر خدا کی کوئی بندگی ہو نہیں سکتی، اور آنحضرت علیہ السلام انسانوں کی انتہاہیں (اس معنی میں کہ تمام انبیا ٔ اور اماموں کی اطاعت بھی انہی کے نام پر ہے) اور رسول علیہ السلام نے فرمایا:

         ’’اَلْقَرْقُ بَیْنَ الْکُفْرِ وَ الْاِیْمَانِ تَرْکُ الصَّلوٰۃ۔

         کفر اور ایمان کے درمیان فرق (قطعی طور پر ) نماز چھوڑ دینا ہے۔‘‘ اور نماز اپنے خدا کی بندگی ہے، یعنی کافر اور مومن کے درمیان فرق اپنے خدا کی بندگی سے دست بردار ہو جانا ہے، اور زکوٰۃ اساس پر دلیل ہے، اس لئے کہ شکوک اور شبہات کی آلائشوں سے نفس کا پاک ہونا اساس ہی کی تاویل کی بدولت ہے، اور زکوٰۃ کے معنی ’’پاکی‘‘ کے ہیں، چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         ’’قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (۹۱: ۹)

         یقیناً رستگار ہوا جس نے اس (نفس) کو پاک کر لیا۔‘‘ پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے، کہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ پھر امت پر لازم ہے کہ شریعتِ ناطق کے ظاہر کو قائم رکھے، اور اس کے باطن کو اساس کی تاویل کے ذریعہ سمجھ لے ( یہ

۲۶۲

ہوئے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کے مختصر معنے) اور شریعتِ ناطق کی تاویل یہ ہے ، کہ (حدودِ دین میں سے ) ہر ایک حد اپنے مافوق حد سے علمی فائدہ حاصل کر کے اپنے ماتحت حد کو پہنچا دیتا ہے، تا کہ اس سے ناطق اور اساس کی اطاعت ہو سکے اور باطنی نماز و زکوٰۃ کو بجا لا سکے، رسول علیہ السلام کی حدیث ہے جو فرماتا ہے:

         ’’ لَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّا یُئْوتِی الزَّکوٰۃِ =جو شخص زکوٰۃ نہ دے تو اس کی نماز (مقبول) نہیں۔‘‘ یعنی جو شخص اساس کی اطاعت نہیں کرتا تو گویا اس نے (بحقیقت) ناطق کی اطاعت نہیں کی۔ اس قول کے یہ معنی ہیں، کہ ناطق کی شریعت سرتا سر رموز، اشارات اور مثالوں کی حیثیت سے ہے، پس جو شخص رموز، اشارات اور مثالوں کے معانی اور مطالب نہیں سمجھتا، تو وہ (گویا ناطق کا) بے فرمان ہو جاتا ہے، اور اساس کی تاویل کے راستے کے بغیر ان معانی و مطالب تک پہنچ جانا ناممکن ہے۔

         پس ثابت ہوا کہ جو شخص اساس کی اطاعت نہیں کرتا ہے، تو اس نے ناطق کی اطاعت نہیں کی، اور جو شخص ناطق کی اطاعت نہیں کرتا تو اس نے خدا کی اطاعت نہیں کی، اور جو شخص خدا کی اطاعت نہیں کرتا، تو وہ کافر ہے، پس رسول علیہ السلام کے اس قول کا مطلب یہی ہے، جس میں فرمایا کہ جو شخص زکوٰۃ نہ دے، تو اس کی نماز (مقبول نہیں، اور جس کی نماز نہ ہو تو وہ کافر ہے، نیز اس حدیث کے معنی جو فرمایا کہ زکوٰۃ کا منع کرنے والا آتشِ (دوزخ) میں ہے، یوں ہیں، کہ جو مومن تاویل کو، جس میں اس کے نفس کی پاکی ہے، قبول نہ کرے، تو وہ اہلِ ظاہر کے زمرے میں شامل ہو جاتا ہے اور (بغیر باطن کے ) ظاہر اس کو قیامت کی آگ میں پہنچا دینے کا سبب ہے۔

         زکوٰۃ کو صدقہ بھی کہتے ہیں، یہ (زکوٰۃ) اس تائید کی دلیل ہے جو عقلِ کل سے ناطقوں، اساسوں اور اماموں کو ملتی ہے، جس سے ان کے نفوس شکوک اور شبہات سے پاک ہو جاتے ہیں، یہ تائید دوسرے حدود کے سوا صرف انہی

۲۶۳

کے لئے مخصوص ہے، کیونکہ یہ تو شک سے گزر کر یقین میں پہنچ چکے ہیں اور یہی زکوٰۃ حجتوں کو پہنچتی ہے، اور صدقہ تاویل پر دلیل ہے، جو داعیوں، ماذونوں اور مستجیبوں کا حصہ ہے، اور زکوٰۃ جو تائید ہے ان کا حصہ نہیں، لفظ ’’صدقہ‘‘ صدق سے نکلا اور صدق کے معنی ہیں سچ بولنا، یعنی تاویل کے مالک کو سچا قرار دینا ہے (بالفاظِ دیگر تاویل کے مالک کی تصدیق کرنی ہے) تاکہ مومن کا نفس شکوک و شبہات سے پاک ہو جائے، اور تاویل ہی شریعت کی تصدیق کرتی ہے، چنانچہ خدا تعالیٰ موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام ) کے قصے میں یوں فرماتا ہے: قو لہ تعالیٰ:

         فَأَرْسِلْهُ مَعِي رِدْءًا يُصَدِّقُنِي (۲۸: ۳۴)

         ارشاد ہوتا ہے کہ ، موسیٰ نے خدا تعالیٰ سے درخواست کی کہ ہارون کو بھی میرے ساتھ مددگار بنا کر رسالت دے دیجئے تاکہ وہ میری تقریر کی تصدیق کرے گا، یعنی میری شریعت کی تاویل بتائے گا، تاکہ لوگ اس کی حقیقت سمجھیں، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے امیر المومنین علی علیہ السلام سے فرمایا: ’’ اَنْتَ الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَر = یعنی آپ ہی میری تصدیق کرنے والے ہیں، سب سے بڑے۔‘‘ یعنی آپ میری تصدیق کرنے والے ہیں، جس طرح دوسرے تمام اساس (اپنے اپنے وقت میں) ناطقوں کی تصدیق کرنے والے تھے، اور آپ تمام اساسوں سے بڑے ہیں، جس طرح میں سب پیغمبروں سے بڑا ہوں۔

         پس ہم بتائیں گے، کہ محمد علیہ السلام میں حدودِ علوی کی طرف سے جو کچھ علمِ حقیقت ہے وہ سب ’’صدق‘‘ ہے، اس لئے کہ مومنین اس تاویل سے جو

۲۶۴

ان کو حاصل ہوتی ہے، رسول کی تصدیق کرتے ہیں، اور صدق کو اسی کے ساتھ منسوب کرتے ہیں اور اختلاف ختم ہو جاتا ہے، اور حدودِ دعوت میں سے ہر حد اپنے اوپر کے درجے کے طرف سے نچلے درجے کے لئے صدقہ ہے (چنانچہ امام کا صدقہ حجت ہے داعی کے لئے اور حجت کا صدقہ داعی ہے مازون کے لئے) اور یہ حدود اپنے مافوق کی طرف سے جو کچھ قبول کرتے ہیں، تو یہ خدا کی طرف سے ان پر فرض ہے، جو ہر ایک کو فرمایا ہے ، کہ اپنے مافوق کی اطاعت کرے، اور یہ حدود آٹھ درجوں میں ہیں، چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

         إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ (۹: ۶۰)

         صدقات تو صرف درویشوں کے لئے ہیں یعنی حدود ناطقوں کے لئے ہیں، اور ناطقوں کو درویش اس لئے کہا کہ اس عالم میں کوئی شخص نہیں جس سے ناطقین علمی فائدہ لیتے ہوں، مگر وہ تو صرف حدودِ علوی کے درویش ہیں، یہی معنی ہیں جو ابراہیم علیہ السلام کے قصے میں فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلاً (۴: ۱۲۵)

         اس قول کا ظاہر یہ ہے کہ، خدا تعالیٰ نے ابراہیم کو اپنا درویش لیا، اور خلیل کے معنے حاجت مند کے ہیں، کہ نفسِ کل نے ابراہیمؑ کو اپنا درویش لیا، یہی معنی ہیں جو اعرابی نے وصیت کی اور کہا:

         ’’ اِجْعَلُوْا نَخْلِیْ فِی الْاَ خَلِّ الْاَقْرَبْ‘‘ یعنی ’’ میرے نخلستان کو میری قرابت کے اس زیادہ محتاج کے نام پر کر دینا۔‘‘ بس اتنا سا اہلِ ادب کے قول کا حوالہ دیا گیا۔

         پھر ہم اصل مطلب کی طرف رجوع کرتے ہیں اور کہتے ہیں، کہ خدا تعالی نے صدقات میں محتاجوں کے بعد مکینوں کا ذکر کر دیا ، جس سے اللہ کی مراد ہر زمانے

۲۶۵

کے اساس ہیں، کیونکہ امت کی تسکین انہی کی تاویل سے ہوتی ہے اور فرمایا: ۔

         ’’ وَالعَا مِلِیْنَ عَلَیْھَا (۹: ۶۰)

         اور صدقات ان کے لئے ہیں، جو اس میں کام کرتے ہیں۔‘‘ جس سے اللہ کی مراد أئمہ (علیہم السلام) ہیں، اس لئے کہ ناطق نے کتاب اور شریعت کی تالیف کی ، اور اساس نے رسول کے فرمان کے بموجب تاویل بتائی، اور (تالیف و تاویل) دونوں اماموں کے حوالے کردی گیئں، تاکہ وہ ان پر قیامت تک کام کرتے رہیں، اور فرمایا: ۔

         ’’ وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ (۹: ۶۰)

         یعنی ان لوگوں کو جن کے دل ایک کر دئیے گئے ہیں، جس سے اللہ نے حجتوں کو چاہا، کہ خدا تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک کر دیا ، جیسے اس نے ان کو (علم و حکمت سے ) بہرہ مند کر دیا، جس سے وہ ایک ہوئے، اور انہوں نے تاویل اور بیان سے دعوت قائم کر رکھی، چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

         لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ  (۸: ۶۳)

         فرمایا ’’ اے محمد! اگر آپ خرچ کرتے جو کچھ زمین کے اندر ہے، تب بھی آپ ان کے دلوں کو ایک نہیں کرسکتے، لیکن خدا تعالیٰ نے ان کے درمیان الفت ڈالی۔‘‘ یعنی اگر آپ ان کو دین کی زمین (دعوت) کے تمام تر بیان کی تاویل کر دیتے، تب بھی وہ یک جا نہ ہوتے، اور ایک دوسرے کے مخالف ہوتے، مگر خداوندِ تعالیٰ نے تاویل کے ذریعے سے ان کے درمیان الفت ڈالی، اور فرمایا ’’ وَفیِ الرِّ قَابِ‘‘ اس سے داعیوں کی طرف اشارہ فرمایا، کیونکہ وہی لوگ تو مومنوں کی گردن پر عہد کی ذمہ داری رکھتے ہیں، اور فرمایا: ’’ وَالْغَارِمِیْنَ‘‘ اور تفسیر میں غارمین ایسے لوگوں کو کہتے ہیں، جن پر قرض ہو اور وہ اس کو نہ چکا

۲۶۶

سکتے ہوں، اس سے خدا تعالیٰ کی مراد ماذونانِ مطلق ہیں، کیونکہ ماذونِ مطلق ہی ایک ایسے فرزند کی پرورش کرتا ہے جو دوسرے کا ہے (یعنی ماذونِ محدود جو دارصل داعی کا فرزند ہے) اور یہ فرزند زیادہ سے زیادہ علم کا تقاضا کرتا ہے، ماذونِ مطلق اس کو علم سکھانے کا رنج اٹھاتا ہے، اور جو کچھ خدا تعالیٰ نے اس کو روحانی علم دیا ہے اس سے اس کی پرورش کرتا ہے، اور فرمایا: ’’ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ = اور خدا کے راستے میں‘‘ ۔ جس سے ماذونِ محدود مراد ہے، کیونکہ مومن اسی خدا کا راستہ قبول کر لیتا ہے، اور فرمایا: ’’ وَابْنِ السَّبِیْل = اور راستے کے بیٹے کو۔‘‘ جس سے مستجیب مراد ہے، جو خدا کے راستے کا بیٹا ہے، یعنی ماذونِ محدود خدا کا راستہ ہے اور مستجیب اس کا بیٹا ہے۔

         پس ان آٹھ درجوں میں سے ہر ایک جن کا ہم نے ذکر کیا ، اپنے مافوق سے صدقہ لیتا ہے، اور اپنے ماتحت کو صدقہ دیتا ہے، اور یہ سب ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کے لئے اقرار کرتے ہیں، اور اپنے مافوق کے لئے ان میں سے ہر ایک جو اطاعت کرتا ہے وہ خدا کی طرف سے فرض ہے۔

         روایت کی گئی ہےکہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے پاس آیا، جبکہ آنحضرت کچھ صدقات تقسیم کر رہے تھے، اس شخص نے رسول علیہ السلام سے کچھ صدقہ مانگا، تو رسول علیہ السلام نے فرمایا: ۔

         ’’اِنْ کُنْتَ مِنَ الثَّما نِیَۃَ وَاِلّاَ فَھُوَ دَآءٌ فِی الْبَطْنِ وَ صُدَاعٌ فِی الرَّأ سِ لَا صَدَقَۃٌ  = اگر تو آٹھ حدود میں سے ہے ( جن کو صدقہ دینا جائز ہے تو تجھے بھی صدقہ لینا مناسب ہے) ورنہ وہ ( تیرے لئے) صدقہ نہیں (بلکہ) دردِ شکم اور دردِ سر ہے‘‘۔

         ان آٹھ قسم کے صدقات کے ذکر سے آنحضرتؐ نے ان آٹھ مراتب کی طرف اشارہ فرمایا، جن کا ہم نے بیان کیا ہے، اور ’’شکم‘‘ سے آنحضرتؐ کی مراد دعوتِ باطن ہے، اور ’’دردِ شکم‘‘ سے ان کی مراد دعوتِ باطن میں کسی کو شک

۲۶۷

واقع ہونا ہے، اور ’’سر‘‘ سے آنحضرتؐ نے امام مراد لیا، اور ’’دردِ سر‘‘ سے ان کی مراد امام سے منکر ہو جانا ہے، اور اس حدیث کی تاویل یہ ہے کہ جو شخص ناطق ( کی دعوتِ باطن) کے بارے میں شک رکھتا ہے، اور امام سے منکر ہے، تو وہ مذکورہ مراتب میں سے (کسی بھی مرتبے پر ) نہیں اور اس کو تاویل سے کوئی حصہ نہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے حدیث ہے، جو فرمایا، کہ ’’صدقہ مجھ پر اور میرے اہلِ بیت پر حرام ہے۔‘‘ جس کی تایل یہ ہے کہ ’’ مجھے اور امام کو اس بات کی حاجت ہی نہیں، کہ ہم جسمانیوں سے علم سیکھا کریں اور ان کی تصدیق کریں۔‘‘ یہ اس لئے ایسا ہے کہ تمام جسمانی محتاج ہیں، اور نطقا ٔ اسس اور أئمہ علیہم السلام ہی (بحقیقت) دولت مند ہیں، اور یہ وہی حقیقت ہے جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         ’’وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ (۴۷: ۳۸)

         اور اللہ تو انگر ہے اور تم سب محتاج ہو‘‘۔ یعنی ناطق، اس کے جانشین، اساس، اور امام ہی دانا ہیں اور تم سب نادان ہو، اور خدا تعالیٰ فلسفیوں میں سے کچھ ملحدوں اور دہریوں کے بارے میں فرماتا ہے، جن کو گمان ہے کہ وہ خود تو کچھ جانتے ہیں، مگر رسولؐ نے کچھ بھی نہیں جانا، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’لَقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا (۳: ۱۸۱)

         بےشک خدا تعالیٰ نے سن لیا ہے، ان لوگوں کا قول جنہوں نے یوں کہا کہ خدا مفلس ہے اور ہم مالدار ہیں، ہم ان کے کہے ہوئے کو لکھیں گے۔ ‘‘ جس کی تاویل یہ ہے کہ ایک گروہ نے کہا کہ ہم جانتے ہیں، جو کچھ محمدؐ نہیں جانتا، اور خدا تعالیٰ جو فرماتا ہے کہ ہم ان کے کہے ہوئے کو لکھیں گے، اس کی تاویل میں وہ یہ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ جو کچھ جانتے ہیں، ہم اس کو کتاب کی ظاہری تحریر میں محدود اور ظاہر کر کے دکھائیں گے، اور تحریر سے ظاہر مراد ہے، اور اس لئے کہ تحریر کثیف ہے، اور حق تعالیٰ کا قول لطیف ہے، پس فرماتا ہے کہ جس علم کو وہ

۲۶۸

لطیف سمجھتے ہیں ہم اس کو ظاہر میں کثیف کر دیں گے۔

         اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف رجوع کر کے بتاتے ہیں کہ رسول اللہ اور اس کی آل ہی توانگر ہیں، اور محتاج وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے ، قولہ تعالیٰ:

         ’’وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (۷۰: ۲۴ تا ۲۵) اور جن کے مالوں میں سوالی اور روکے  ہوئے کا حق ہے۔‘‘ کچھ مفسرین کا قول ہے کہ سوالی سے بلی مراد ہے اور روکے ہوئے سے کتا مراد ہے، اور صاحبانِ تاویل کے نزدیک مال سے علم مراد ہے، بلی سے مستجیب مراد ہے، کیونکہ وہ دعوت کے گھر والوں سے ہے، چنانچہ بلی انسان کے گھر والوں میں سے ہے، اور کتے سے وہ مومن مراد ہے جس سے عہد لیا گیا ہے اور وہ اپنے عہد پر قائم ہے، اور خدا تعالیٰ نے زکوٰۃ آٹھ چیزوں پر فرض کی ہے: ۔

         ۱۔ سونا                         ۲۔ چاندی                       ۳۔ اونٹ                ۴۔ گائے

         ۵۔ بھیڑ بکری         ۶۔ کھجور             ۷۔ کش مش            ۸ گندم، جو اور دوسرے دانے (یعنی غلہ جات)

         اور یہ آٹھ چیزیں جن کی زکوٰہ فرض کی گئی ہے، ان آٹھ درجوں کی نشان دہی کرتی ہیں جن کا ہم نے ذکر کر دیا ، اور انہی کے ساتھ اَصْلَین (یعنی عقلِ کل اور نفسِ کل) بھی ہیں، کیونکہ ان آٹھ درجات کا تائیدی مادہ ان دونوں اصلوں سے آتا ہے۔

         پس ہم بتائیں گے کہ زکوٰۃ پوری طرح سے شہادت یعنی لَا اِلٰہ اِلّاَ اللہ کے اجزأ کی برابر ہے، چنانچہ زکوٰۃ ایک اطاعت ہے جس طرح شہادت ایک قول ہے، اور زکوٰۃ دو چیزوں پر ہے، یا مال پر ہے یا آدمی پر ہے (چنانچہ زکوٰۃِ فطرفی کس کے حساب سے دی جاتی ہے ) اسی طرح شہادت نفی اور اثبات کے

۲۶۹

دو حصوں میں ہے، اور زکوٰۃ تین چیزوں سے ہے: معدنیات، نباتات اور حیوانات سے، جس طرح شہادت الف، لام اور ھا کے تین حروف سے ہے، اور زکوٰۃ کی چار قسمیں ہیں: زکوٰۃ (جو سال میں ایک دفعہ دیجاتی ہے) صدقہ (جو بوقتِ توبہ وغیرہ دیا جات ہے) اور یک یعنی دسواں حصہ ( جو اناج، پھل وغیرہ کی ہر آمدنی سے دیا جاتا ہے) اور خمس یعنی پانچواں حصہ ( جو مالِ غنیمت، جواہرات کی کان اور دفینے سے دیا جاتا ہے، جبکہ یہ چیزیں ہاتھ آتی ہیں ) جس طرح شہادت چار کلمات پر مشتمل ہے، اور زکوٰۃ سات قسم کی چیزوں پر ہے: ۔

         ۱۔ سونا                         ۲ ۔ چاندی              ۳۔ اونٹ                ۴۔ گائے

         ۵۔ بھیڑ بکری                 ۶۔ میوہ جات          ۷۔ غلہ جات

         چنانچہ شہادت بھی سات فصلوں میں ہے، اور زکوٰۃ بارہ مہینے میں واجب ہوتی ہے، جس طرح شہادت کے کل بارہ حروف ہیں۔

         اب ہم تین قسم کی زکوٰۃ کی تاویل صحیح قول میں بتائیں گے، کہ معدنیات، نباتات اور حیوانات میں سے وہ کون کون سی چیزیں ہیں جن پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، تاکہ جس سے مومنِ مخلص کو سیدھا راستہ دیکھنے کی روشنی میں اضافہ ہو۔

۲۷۰

کلام ۔ ۲۹

سونے اور چاندی کی زکوٰۃ اور اس کی تاویل کے بارے میں

         ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ انہی دو جوہرو ں (سونا اور چاندی) سے دنیا میں خرید و فروخت ہوتی ہے، اور یہ دو جوہر دو روحانی اصلوں ( عقلِ کل اور نفسِ کل) پر دلالت کرتے ہیں، کیونکہ یہی دونوں اصل دونوں جہان میں فائدہ دینے اور فائدہ لینے کے سرمائے ہیں، اپنی اس تائید کے ذریعہ جو عالمِ دین میں محققین کے لئے جاری ہے، اور وہ تائید یعنی بیان (تاویل کی صورت میں) ہے، پس ہم بتادین گے، کہ جو شخص حدودِ دین میں سے کسی حد کی دعوت قبول کرتا ہے، خدا کے اولیا ٔ (ائمہ علیہم السلام) کو پہچانتا ہے، ان کی طرف حکمت سے دلیل لیتا ہے، اس حکمت کو سمھ لیتا ہے جو شریعت کی مثالوں میں پوشیدہ ہے، اور حدود کی اطاعت کرتا ہے، تو گویا اس شخص نے ان دولطیف جوہروں (عقلِ کل و نفسِ کل) کے ذریعہ اپنے آپ کو دائمی آگ سے واپس خرید لیا ہے، جس طرح جسمانی چیزیں ان دو جسمانی جوہروں ( سونا اور چاندی) کے ذریعہ خریدی جاتی ہیں، چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

         إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنْ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ

۲۷۱

بِأَنَّ لَهُمْ الْجَنَّةَ (۹: ۱۱۱)

         ’’ بلاشبہ خدا تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔ ‘‘ اور جو شخص حدود کی قدر و قیمت سے انجان رہا ہو، اور وہ ان سے منکر ہو جاتا ہو تو گویا اس نے اپنے ہمیشہ باقی رہنے والے حصے کو فنا ہونے والی چیزوں کے بدلے میں بیچ ڈالا ہے، چنانچہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کے متعلق فرماتا ہے جنہوں نے دنیا کے عوض میں آخرت فروخت کر دی ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’أُوْلَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوْا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بالآخِرَةِ (۲: ۸۶)

         یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے آخرت کے عوض میں دنیا خرید لی ہے۔‘‘

         پس ہمارا کہنا ہے، کہ سونا عقلِ کل کی مثال ہے، اس لئے کہ وہ چاندی سے برتر ہے، جس طرح نفسِ کل سے عقلِ کل برتر ہے، اور جو شخص بیس ۲۰ مثقال سونے کا مالک ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے، تو اس میں سے آدھی اشرفی بطورِ زکوٰۃ اس شخص پر واجب ہوتی ہے، اور بیس ۲۰ کے دو عقد ہوتے ہیں جو دو روحانی اصلوں پر دلیل ہیں اور یہاں بیس ۲۰ مثقال سونا والا شخص ناطق کی مثال ہے، کیونکہ انہی  کو اپنا حصہ دو ۲ روحانی اصلوں سے مل چکا ہے، اور زکوٰۃ کی آدھی اشرفی اس چیز کی مثال ہے، جو ناطق نے دو ۲ روحانی اصلوں سے حاصل کردہ علم سے (علمی زکوٰۃ کے طور پر ) نکالی، اور وہ تاویل بھی ہے اور تنزیل بھی، قولہ تعالیٰ: ۔

         فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (۴: ۱۷۶)

         یعنی ( اہلِ حق نے تحقیق کر کے سیدھے راستے کی ہدایت کی، یعنی پورا حصہ مرد کے لئے ہے، جس طرح) مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے، اللہ تعالیٰ تم کو راستہ ظاہر کر دیتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز

۲۷۲

پر دانا ہے، پس جو شخص علمِ حقیقت نہ جانے تو وہ گمراہ ہے۔

         چاندی نفسِ کل کی مثال ہے، اور جو شخص چاندی کے دو سو درم رکھتا ہو، ایک سال کےبعد اس شخص پر پانچ درم واجب ہوتے ہیں، اور یہ دو سو ۲۰۰ بھی جو دو عقد ہوتے ہیں، دو۲ روحانی اصلوں پر دلیل ہے، اور یہ دو سو ۲۰۰ درم (بحقیقت) جس شخص کو حاصل ہوئے، وہ اساس تھے، جن کو اپنے درجے پر دو ۲ روحانی اصلوں سے حصہ ملا، اور وہ نفسِ کل کے ساتھ مل گئے، جس طرح ناطق عقلِ کل کے ساتھ مل گئے ہیں، پس اساس پر واجب ہے کہ وہ پانچ حدود کو قائم کریں اور ان کو فائدہ پہنچائیں، تاکہ وہ (اساس) اس فائدہ رسانی سے پاکیز ہو جائیں، اور جس شخص کے پاس بیس ۲۰ مثقال سونا نہ ہو، اس پر زکوٰۃ واجب نہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ ناطق کے لئے جائز نہیں کہ وہ اساس کو بر پا کریں جب تک اپنا حصہ دو ۲ روحانی اصلوں سے ان کو نہ ملا ہو، اور ناطق کے درجے پر نہ پہنچے ہوں اور ناطق کا درجہ یہ ہے کہ لوگوں کے لئے اس تائید کو قول کی صورت میں تالیف کے سکتے ہیں، اور وہ کتاب اور شریعت ہوتی ہے، اسی طرح جس شخص کے پاس دو سور درم کی چاندی نہ ہو، تو اس پر زکوٰۃ نہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ اساس کے لئے جائز نہیں کہ وہ پانچ جسمانی حدود (امام، حجت، داعی اور ماذونِ مطلق اور ماذونِ محدود) کو برپا کریں، جب تکہ تاویل کے درجے میں عقل و نفس سے ان کو اپنا حصہ پورا پورا نہ ملا ہو، اور جس کے پاس دو سو درم کی چاندی ہو، تو اس کو صد قہ لینا حرام ہے، بلکہ اس پر صدقہ دنیا واجب ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ جس کو دو۲ روحانی اصلوں سے تائید ملی، تو کسی شخص سے دینی تعلیم لینا اس پر حرام ہوا، بلکہ اس پر واجب ہے لوگوں کو تعلیم دنیا تاکہ دوسرے لوگ اس سے پاک ہو جائیں، اور یہ اس کی زکوٰۃ ہوئی، اور اس شخص پر زکوٰۃ نہیں جس کے پاس بیس ۲۰ مثقال سونا یا دو سو درم چاندی ہو، جب تک اس پر سال نہ گزرے، جس کی تاویل یہ ہے کہ جب تک ناطق کی شریعت اور

۲۷۳

اساس کی تاویل کمال کو نہ پہنچے، تو یہ اپنے ظاہر اور باطن نہیں دکھاتی ہیں۔

                          والسلام

۲۷۴

کلام ۔ ۳۰

مویشیوں کی زکوٰۃ اور اس کی تاویل کے بارے میں

         ہم حق سبحانہ و تعالیٰ کی تو فیق سے بیان کریں گے کہ، تین قسم کے مویشیوں پر زکوٰۃ واجب ہے، وہ اونٹ، گائے، اور بھیڑ بکری ہیں، اور یہ تین قسم کے مویشی ناطق، اساس اور امام جیسے عظیم حدودِ دین پر دلیل ہیں، کیونکہ خلائق میں سے یہی تین قسم کے اشخاص (بحقیقت) زندہ ہوئے، اور وہ ایسی حقیقی زندگی کے ذریعہ روح القدس سے بہرہ یاب ہوئے، اوروہ ہرگز نہیں مرتے ہیں، اب ہم ان تین قسم کے صدقات کا بیان کر دیں گے، پہلے اونٹ کے صدقہ کے بارے میں بیان کریں گے، کہ اونٹ ناطق علیہ السلام پر دلیل ہے، کیونکہ اونٹ ہی ہے، جو دور و دراز سفر میں بڑا بھاری بوجھ اٹھاتا ہے، اور وہ سفر، جس سے زیادہ دور و دراز کوئی سفر ہو نہیں سکتا، عالمِ جسمانی اور عالمِ روحانی کے درمیان ہے، نیز خدا کے قول سے بڑھ کر کوئی بھاری بوجھ نہیں، اور یہ بھاری بوجھ ناطق اٹھا رہے ہیں، چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلاً ثَقِيلاً ( ۷۳: ۵)

         ہم تجھ پر ایک بھاری قول ڈالنے والے ہیں۔‘‘

۲۷۵

         اونٹ کو پہلے نحر کرتے ہیں، نحر اس کے دل کے سرے کو چیرنا ہے، اس کے بعد اس کو ذبح کرتے ہیں، اور وہ بسمل کرنا ہے، نحر کرنا ایک ایسے عہد لینے کی مثال ہے جس میں معہود( یعنی وہ شخص جس سے عہد لیا گیا ہے) عہد سے پہلے ہی علمِ حقیقت کو پہنچتا ہے، اور جب بسمل (یعنی ذبح) کرتے ہیں تو سر کو جسم سے جدا کر دیتے ہیں، یہ اس بات کی مثال ہے، کہ جب مومن باطنی عہد کر لیتا ہے، تو وہ باطل دین کے سرداروں سے جدا ہو جاتا ہے، جو ظاہر میں اس کے سر کی حیثیت سے تھے، نیز نحر کرنا لوگوں کے عہد کر لینے کی مثال ہے، جو جسمانی حدود کی فرمانبرداری کے متعلق عہد کر لیتے ہیں، تاکہ جسمانی حدود ان لوگوں کو روحانی حدود سے واقف کر یں، اور ان میں تبدیلی لائیں یعنی ان کو بلند کر دیں، اور نحر کرنے سے (اونٹ کے) دل سے خون نکل جاتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ عہد کر لینے سے لوگوں کے دل سے شکوک و شبہات دور ہو جاتے ہیں، یعنی مستجیب کے دل سے شکوک و شبہات نکل جاتے ہیں، جبکہ روحانی حدود سے واقف ہو جائیں، اور مستجیب کا تزکیہ ( پاک کرنا) یہی ہے۔

         پس ہم یہ بتائیں گے، کہ اونٹ کا پہلے تو سینہ چیر لیتے ہیں، پھر اس کا سر کاٹ لیتے ہیں، اور یہ اس بات کی مثال ہے کہ ناطق پہلے تو روحانی حدود سے مل جاتے ہیں، اور ان کے دل سے شک نکل جاتا ہے، اس کے بعد وہ تمام خلائق سے جدا ہو جاتے ہیں، جس طرح اونٹ کو نحر کرنے کے بعد ذبح کر لیا جاتا ہے، مگر گائے اور بھیڑ بکری کا پہلے تو سر کاٹ لیتے ہیں، پھر اس کے بعد دل پر چھری مارتے ہیں، تاکہ وہ خون جو دل میں ہے، نکل جائے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ اساس اور امام کو چاہئے، کہ وہ پہلے تو (دینی) مخالفوں سے جدا ہو اجائیں، بعد ازان عہد کر لیا کریں، تاکہ جس سے وہ ناطق کے ساتھ مل جائیں، اور اس کے بعد ان کو حدِ نفسِ کل سے واقف کر دیا جاتا ہے، اور ان کو مطلق کیا جاتا ہے، یعنی ان کو (نورانی معجزانہ) دعوت کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے، جبکہ معرفت کے ذریعہ

۲۷۶

روحانی حدود کے لئے ان کا دل پاک ہوتا ہے جس طرح ذبح کی ہوئی گائے اور بھیڑ بکری کا باطن خون سے پاک ہو جاتا ہے، جبکہ اس کے سر کاٹنے کے بعد اس کے دل کو چیر دیتے ہیں۔

         اونٹ پیشاب تو پیچھے کی طرف کرتا ہے مگر نطفہ آگے کی طرف ڈالتا ہے، پیشاب شکوک و شبہات کی مثال ہے، اور نطفہ تاویل کی مثال ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ناطقؑ شکوک و شبہات کو اہلِ ظاہر کی طرف ڈالتے ہیں اور تاویل کو جس سے روحانی تولید ہوتی ہے، اساس کی طرف ڈالتے ہیں، کیونکہ وہی تو ان کی روحانی جفت ہیں، اور اونٹ کی چربی اس کی پیٹھ ہی پر جمع ہوتی ہے اور یہ اس کا کوہان ہے، اور پیٹھ کو عربری میں ظہر کہتے ہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ ناطق حکمت کو شریعت کے ظاہر میں جمع کرتے ہیں، اور اونٹنی کا دودھ (باعتبارِ جسامت) بہت کم ہوتا ہے، مگر گائے اور بھیڑ بکری کا دودھ زیادہ ہوتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں، کہ ناطق ظاہر میں حکمت کی دلیل نہیں بتاتے ہیں، یعنی وہ دلیل اور بحث نہیں کرتے ہیں، دلیل و بحث تو اساس اور امام ہی کرتے ہیں، کیونکہ گائے اور بھیڑ بکری انہی کی مثال ہیں، اور جس شخص کے چرنے والے پانچ اونٹ نہ ہوں تو اس پر زکوٰۃ نہیں، اور یہ دو ۲ اصلوں اور تین ۳ فروعِ روحانی کی مثال ہے (یعنی عقلِ کل، نفسِ کل، جد، فتح اور خیال) کیونکہ ان کے بغیر نطق (روحانی کلام) میں کسی کا مقصد حاصل نہیں ہوتا ہے۔

         جب کسی شخص کے پانچ چرنے والے اونٹ ہوتے ہیں، تو اس پر ایک بھیڑ یا بکری کا صدقہ واجب ہو جاتا ہے، اور ہر پانچ بڑھتے ہوئے ایسے اونٹوں پر ایک بھیڑ یا بکری کا صدقہ زائد ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ جب ایسے اونٹ پچیس ۲۵ ہو جائیں تو اس وقت اونٹ کا ایک ایسا بچہ واجب ہوتا ہے جو مان کے پیٹ میں ہو، جس کو عرب والے بنت المخاض کہتے ہیں، اور ان چار بھیڑ بکریوں کی تاویل جو بیس ۲۰ اونٹوں پر واجب ہوتی ہے، حجت، داعی، ماذون اور

۲۷۷

مستجیب جیسے چار حدود کی مثال ہیں، یعنی ناطق جب پیغمبری کے مرتبے پر آتے ہیں اور پانچ حدودِ علوی سے اپنا حصہ حاصل کر لیتے ہیں تو اس میں سے چوتھا حصہ اہلِ دعوت کیلئے نکال دیتے ہیں۔

         جب اونٹ پچیس ۲۵ ہو جائیں تو اونٹ کا ایک بچہ جو ماں کے پیٹ میں ہو، واجب ہو جاتا ہے، اور پیٹ دعوتِ باطن کی مثال ہے، اور اونٹ کا بچہ ہونے والے امام کی مثال ہے، تاکہ جب پوری طرح سے پہنچ جائے، تو دعوت انہی کی ہو۔

         پھر جب دس بڑھ کر پینتیس ۳۵ اونٹ ہو جائیں، تو اونٹ کا ایک دودھ پیتا بچہ واجب ہو تا ہے، اور وہ امام کی مثال ہے جو اساس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں، کیونکہ روحانی ماں تو وہی ہیں، اور دودھ سے تاویل مراد ہے۔

         جب اونٹ پینتالیس ۴۵ ہو جائیں تو ایک ایسی اونٹنی واجب ہوتی ہے جس کو عرب والے حقہ کہتے ہیں، اور یہ ایسی اونٹنی ہونی چاہئے جو بوجھ اٹھانے کی حد میں پہنچی ہوئی ہو، اور مادہ ہو جو حمل کو قبول کر سکے ، اور ایسی اونٹنی اساس کی مثال ہے، کیونکہ وہی تو ناطق کی شریعت کے بوجھ کو اٹھا سکتے ہیں، اور تمام ناطقوں کے بوجھ کو وہی اٹھاتے ہیں، اور ناطق کی اجازت سے ظاہریت کے بوجھ کو تاویل کے بیان کے ذریعہ امت سے ہلکا کر دیتے ہیں، اور ان کی گردنوں کو غل تقلید (یعنی سمجھے بغیر پیروی کرنے کے طوق) سے آزاد کرا دیتے ہیں، اور ان کی تاویل اس درجے کی ہوتی ہے کہ دوسرا کوئی شخص یہ تاویل کر نہیں سکتا ( اور وہ صدقہ والی اونٹنی یعنی حقہ) حمل ٹھہرانے کی قابل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ناطق کی تمام مثالیں اور اشارے، جو اساس کی ذمہ داری میں ہیں، روحانی تولید میں اساس ہی قبول کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

         اس کے بعد جب پندرہ ۱۵ اونٹ اور بڑھ کر ان کی تعداد ساٹھ ۶۰ تک پہنچ جائے تو ایک ایسا اونٹ واجب ہوتاہے جو یک دندان ہو (یعنی جس کا ایک دانت اگا ہو) جس کی تاویل مرتبۂ ششم ہے) جس سے برتر جسمانیوں میں کوئی مرتبہ نہیں ، اس

۲۷۸

لئے کہ جسمانیوں سے لے کر پہلا مرتبہ ماذون کا ہے، دوسرا مرتبہ داعی کا ہے، تیسرا حجت کا، چوتھا امام کا، پانچواں اساس کا اور چھٹا ناطق کا ہے، چنانچہ ساٹھ کے چھ عقد ہوتے ہیں، جو چھ ناطقوں کی مثال ہیں، جن میں سے ہر ایک مذکورہ حدود میں مرتبۂ ششم ہے، نیز (اس بات کی تاویل کہ) ساٹھ کے چھ عقد ہوتے ہیں، یعنی حضرت محمد علیہ السلام چھ ناطقوں میں مرتبۂ ششم ہیں اور صدقہ میں اس یک دندان اونٹ سے برتر کوئی چیز نہیں، جس کو عرب ولے جَذَعَہْ کہتے ہیں، یعنی اس عالم میں ناطق کا جو مرتبہ ہے، اس سے برتر کوئی مرتبہ نہیں۔

         ہر پانچ اونٹوں کی زکوٰۃ کے لئے ایک گوسفند ؎۱ واجب ہوتا ہے، یہاں تک کہ (اس حساب سے) چار گوسفند ہو جائیں، اور جب اونٹوں کی زکوٰۃ میں اونٹ دینے کی نوبت آئی، تو اس میں ہر دس اونٹوں کے حساب سے زکوٰۃ کا ایک اونٹ نکلتا جا تا ہے، یہاں تک کہ چار اونٹ ہو جائیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ گوسفند اور اونٹ نوع میں جدا جدا ہیں، اور جس طرح (زکوٰۃ کے اس سلسلے میں پہلے جب ) چار گوسفند ہوتے ہیں تب زکوٰۃ میں ایک اونٹ دیا جاتا ہے اسی طرح اونٹ بھی تو چار قسم کے واجب ہوتے ہیں، جسے شتر بچہ جو ماں کے پیٹ میں ہو، جس کو عربی میں بیت المخاص کہتے ہیں جیسے بنت اللبون، جو شیر خوار ہوتا ہے، جیسے حقہ جو بوجھ اٹھانے کی قابل ہوتی ہے، اور جیسے حَذَعَہٗ جو یک دندان اور بوجھ اٹھانے کی قابل ہوتی ہے، اور اونٹوں کے یہ چار مراتب ناطق، اساس، امام اور حجت کی مثالیں ہیں، جن کو تائید سے بہرہ ملتا ہے، اور یہ تین حدود جو ناطق کے تحت ہیں، ناطق ہی کی وساطت سے تائید حاصل کرتے ہیں، اور وہ چار گوسفند، جو نوع میں اونٹ سے جدا ہیں، داعی، دونوں ماذون اور مستجیب جیسے چار حدود کی مثال ہیں، کیونکہ یہ اس گروہ سے نہیں ہیں جس کو تائید سے بہرہ ملتا ہے، اور

؎ ۱: گوسفند: بھیڑ، دنبہ، بکرا، بکری کے معنوں میں آتا ہے۔

۲۷۹

وہ چار حددود (یعنی ناطق، اساس، امام اور حجت)  مؤید یعنی مدد دیئے گئے ہیں۔

         جب گوسفند واجب ہوتا ہے، تو اس میں پانچ پانچ (اونٹوں کے حساب سے زکوٰۃ) بڑھانی چاہئے، اور جب اونٹ واجب ہوتا ہے، تو دس دس کی بڑھانی چاہئے، جس کی تاویل یہ ہے کہ ان چار حدود کو، جن کی مرتبت کی مثال چار درجے کے اونٹ ہیں، یعنی ناطق، اساس، امام اور حجت کو تائید بھی حاصل ہے اور تاویل بھی، کیونکہ ان کی مرتبت دو طرح کی ہے، جس طرح دس کے عدد میں دو پانچ ہوتے ہیں، اور ان حدود کو، جن کی مرتبت کی مثال پر گوسفند واجب ہوتے ہیں، یعنی داعی، دو۲ ماذون اور مستجیب کے لئے صرف تاویل کی مرتبت میسر ہے، اور وہ بھی صاحبِ تاویل و تائید کی مرتبت کے ذریعے سے ممکن ہے، یہی وجہ ہے کہ اس زکوٰۃ میں جہاں تک گوسفند واجب ہوتا ہے تو اس میں پانچ پانچ کے حساب سے (زکوٰۃ) بڑھتی ہے، اور جہاں تک اونٹ واجب ہوتا ہے، تو اس میں دس دس کے حساب سے زیادہ ہوتی ہے، اور اس بات کی تاویل کہ جب پندرہ ۱۵ اونٹ اور بڑھ جائیں ( جو تین دفعہ پانچ ہیں) تو ایک اونٹ واجب ہوتا ہے، جو یک دندان ہو، یہ ہے کہ یک دندان اونٹ ناطق کی مثال ہے، اور ناطق کے تین مراتب ہیں یعنی تائید، تاویل اور تنزیل ۔

         اس کے بعد جب اونٹوں کی تعداد اور پندرہ ۱۵ بڑھ کر پچھتر ۷۵ ہو جاتی ہے تو دو ۲ شیر خوار شتر بچے واجب ہو تے ہیں، اور یہ دونوں شتر بچے امام اور حجت کی مثال ہیں، یعنی دعوت سات اماموں کو پہنچتی ہے، اور پانچ حدودِ علوی سے تائید لگاتار آتی رہتی ہے، اور پچھتر اونٹوں کی مثال بنتی ہے، ہر اس زمانے میں جبکہ امام اور ایک حجت برپا  ہو جائیں، کیونکہ ان کی مثال وہ دو ۲ شتر بچے ہیں۔

         جب اونٹوں کی تعداد اکانوے ۹۱ تک پہنچ جائے، تو دو۲ اونٹ جو بوجھ اٹھانے کے قابل ہوئے ہوں، واجب ہوتے ہیں، اور یہ ناطق و اساس کے مراتب کی مثال ہیں، کیونکہ وہی تو دعوت کے بوجھ کو اٹھا سکتے ہیں، اور نوے ۹۰

۲۸۰

کے نو عقدے بنتے ہیں، جو سات امام، ناطق اور اساس کی مثال ہیں۔

         جب اونٹوں کی تعداد ایک سو بیس ۱۲۰ میں پہنچ کر ایک زیادہ ہو جائے، تو ہر پچاس ۵۰ کے پیچھے ایک ایسا اونٹ واجب ہوتا ہے جو بوجھ اٹھانے کے قابل ہو چکا ہو، اور ہر چالیس ۴۰ میں سے اونٹ کا ایک شیر خوار بچہ واجب ہوتا ہے، اور ایک سوبیس ۱۲۰ دو ۲ دفعہ ساٹھ ۶۰ ہوتے ہیں، اور ساٹھ ناطق کی مثال ہے، چنانچہ اس کا ذکر ہو چکا کہ ۶۰ ساٹھ چھٹا مرتبہ ہے، اور دو ۲ دفعہ ساٹھ ۶۰ اساس ان کی جفت ہونے کی مثال ہے، اور جب تعداد یہاں تک پہنچتی ہے، تو ہر چالیس پر ایک یک سالہ اونٹ واجب ہوتا ہے، اور یہ چالیس مثال ہے، پانچ حدودِ روحانی، ناطق، اساس، سات امام، روزو شب کے چو بیس حجت، داعی، اور ماذون کی، کہ یہ تمام چالیس ۴۰ ہیں، اور وہ شیر خوار شتر بچہ زندہ ( امام) کی مثال ہے، اونٹ کی زکوٰۃ کی تاویل دانشمند کے لئے اتنی ہی کافی ہے۔

         گائے کے صدقہ کی تاویل

         ہمارا کہنا ہے کہ دانشمند جانتا ہے، کہ گائے میں انسان کی بے حدد نیاوی بہتری ہے، اور انسانوں کی کثرت کا دار ومدار گایوں کی کثرت پر ہے اس لئے کہ سب سے پہلی پیدائش جو زمین سے پیدا ہوتی ہے، نباتات ہیں، اور دوسری پیدائش جو نباتات سے پیدا ہو تی ہے، والدین ہیں، اور جب سب سے پہلے پیدائش، جو نباتات ہیں، کم ہوجائیں تو انسانوں کی پیدائش جو نباتات سے ابھرتی ہے، کم ہوگی (اورنباتات یعنی فصلیں اس وقت کم ہو جائیں گی، جبکہ گائیں کم ہوجائیں) اس لئے کہ تمام کھیتی باڑی کا کام گائے کے سبب سے انجام پاتا ہے، اور یہ بہت بڑا کام ہے، اور اس سے لوگ دولت مند بن جاتے ہیں ، ( اس سلسلے میں) دوسری بات یہ ہے، کہ انسان کی زندگی دو چیزوں پر ہے، ایک تو جسم ہے، اور

۲۸۱

دوسری روح ہے، جب انسانی اجسام کی پرورش (غذا) کی مدد کرنے والی اور ابھارنے والی گائے ہی ہے، یعنی جب انسان کی غذا کا دار و مدار گائے پر ہے، تو یہی سبب ہے، کہ روحوں کی پرورش کرنے والے کی مثال (بھی) گائے سے دی گئی ہے، کیونکہ روحانی غذا تو اسی سے ہے، اور یہ مثال اساس کی ہے، اور گائے کو عربی میں بقر کہتے ہیں، اور جب (ذبح کے بعد) اس کے پیٹ کو کھولتے ہیں، تو عربی میں کہتے ہیں: بَقَرَ بَطْنَہٗ (اس کا پیٹ کھولا) اس طرح اساس ظاہرِ کتاب اور بطنِ شریعت کا کھولنے والا، اور اس سے حکمت و تاویل کا نکالنے والا ہے اور امام محمد باقر علیہ السلام کو اسی وجہ سے باقر (یعنی کھولنے والا ) کہتے ہیں، اس لئے کہ اس واقعہ کے بعد ظاہر کی تاریکی سے دنیا اندھیری رات کی طرح ہوئی تھی، تاویل (کی روشنی) انہوں نے ظاہر کر دی۔

         پس ہمارا کہنا ہے کہ قربانی کے لئے ایک گائے سات اشخاص کی طرف سے کافی ہوتی ہے، اور اونٹ کی قربانی ایک شخص سے زیادہ کی طرف سے جائز نہیں، اور یہ اس بات کی مثال ہے کہ ناطق نے تو ایک حد برپا کر دیا، اور وہ اساس تھے، مگر اساس نے سات حدود برپا کر دیئے، اور وہ سات امام تھے، کہ خدا تعالیٰ نے تاویل اور دعوت انہی کے حوالے کر دی، اور گائے اساس پر دلیل ہے اور جب اس کے برپا کئے ہوئے سات امام تھے، اسی لئے تو ظاہر شریعت میں گائے کی قربانی سات اشخاص کی طرف سے کفایت کرتی ہے، تاکہ اہلِ دانش ظاہر سے باطن کی مثال لیں۔

         اسی طرح ایک گوسفند (یعنی بھیڑ، یا بکری) کی قربانی ایک شخص سے زیادہ کی طرف سے روا نہیں، جس کے معنے یہ ہیں کہ گوسفند کی تاویل امام ہیں، اور ہر امام اپنی جگہ پر ایک ہی شخص (یعنی ایک ہی امام) برپا کرتے ہیں تاکہ دعوت انہی کے حوالے کریں، اور مومنین کو انہی کی طرف اشارہ کریں، اور رسول علیہ السلام کی حدیث ہے، جو فرمایا: ۔

۲۸۲

         اَلثَّوْرُ یَحْزِیْ عَنْ وَاحِدٍ وَ الْبَقَرَ ۃُ عَنْ سَبْعَۃٍ۔

         ’’ بیل قربانی کے لئے صرف ایک شخص کی طرف سے کافی ہوتا ہے، اور گائے سات اشخاص کی طرف سے کافی ہوتی ہے۔‘‘ اس کے معنی یہ ہیں، کہ دین میں اساس کو اپنے ناطق کے مقابلے میں مادگی کا درجہ ہے، اور جب گائے اساس پر دلیل ہے تو بیل جو اس کا جوڑ ہے، ناطق پر دلیل ہے ( اور بیل صرف) ایک ہی شخص کی طرف سے قربانی کے لئے کافی اس لئے ہوتا ہے کہ ناطق نے صرف ایک ہی حد قائم کر دیا، چنانچہ ہم ذکر کر چکے ہیں۔

         گوسفند کا گوشت اونٹ کے گوشت سے زیادہ خوش مزہ ہے، یعنی ناطق کے علم سے امام کا علم زیادہ آسان ہے، اس لئے کہ ناطق کا قول مثال و رمز کی حیثیت میں امام کے قول سے برتر ہے، اور جس قدر یہ قول حدودِ سفلی میں زیادہ سے زیادہ نیچے آئے تو یہ حدود قبول کرنے والے نفس کے لئے اس کو اس قدر زیادہ سے زیادہ لطیف اور نزدیک کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ جب یہ قول مستجیب کو پہنچے، تو یہ اس دودھ کی مثال بن جاتا ہے، جو ماں کی پستانوں سے نکلتا ہے، اور مستجیب علم میں جس قدر مضبوط ہوتا جاتا ہے تو اس قدر اس کو سخت یعنی پر مطلب علم بتاتے جاتے ہیں، چھوٹے بچے کی مثال پر کہ وہ جتنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے، اتنی زیادہ پر قوت غذا کھا سکتا ہے۔

         پس ہم گائے کی زکوٰۃ کے بارے میں بتائیں گے، کہ جب گائیں تیس ۳۰ ہو جائیں تو ان پر زکوٰۃ کا ایک ایسا بچھڑا واجب ہوتا ہے، جو اپنی ماں کے ساتھ چل پھر سکتا ہو، اور تیس حد اساس کی مثال ہے، جس طرح اس کی تشریح اونٹ کی زکوٰۃ کے سلسلے میں ہوچکی، اور چالیس حد ناطق کی مثال ہے، اور وہ بچھڑا جو ماں کے ساتھ چل پھر سکتا ہے، داعی کی مثال ہے، یعنی اساس جب حدِ حجتی میں ہوتے ہیں، تو وہ دعوت میں سب سے پہلے ناطق کے فرمان کے بموجب داعی کو برپا کر دیتے ہیں۔

۲۸۳

         جب گائیوں کی تعداد چالیس ۴۰ تک پہنچتی ہے جو ناطق کی حد ہے، تو ایک مکمل گائے واجب ہوتی ، تو یہ حجت کی مثال ہے، اور اس بات پر دلیل کہ دعوت میں چالیس ۴۰ ناطق کی حد ہے، خدا کا یہ قول ہے، جو فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً (۴۶: ۱۵)

         ’’ یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور چالیس ۴۰ برس کو پہنچا۔‘‘ پس جب اساس درجۂ لاحقی (یعنی درجۂ حجتی ) میں ہوتے ہیں، تو داعی کو برپا کر دیتے ہیں، یہی سبب ہے کہ تیس ۳۰ گائیوں کی زکوٰۃ ایک بچھڑا ہے، اور جب اساس اپنے درجے میں پہنچ جائیں، جس میں وہ ناطق سے مل جاتے ہیں، تو وہ حجت کو برپا کر دیتے ہیں، یہی وجہ ہے، جو چالیس گائیوں کی زکوٰۃ ایک مکمل گائے ہوتی ہے۔

         جب گائیوں کی تعداد ساٹھ ۶۰ کو پہنچتی ہے، تو دو ۲ بچھڑے واجب ہوتے ہیں، ساٹھ چھ اماموں کی دلیل ہے، اور دو ۲ بچھڑے حجت و داعی کی دلیل ہیں۔

         جب گائیوں کی تعداد نوے ۹۰ تک پہنچ جائے تو ان کی ذکوٰۃ میں تین گائیں واجب ہوتی ہیں، اور نوے ۹۰ ناطق پر دلیل ہے، کیونکہ وہ ۷ سات اماموں اور اپنے اساس سے درجۂ نہم ہیں، اور تین گائیں اساس، امام اور حجت پر دلیل ہیں، جو ناطق کے تحت ہیں۔

         جب گائیوں کی تعداد ایک سو بیس ۱۲۰ کو پہنچے تو ہر چالیس ۴۰ گائیوں سے ایک مکمل گائے یا ہر تیس ۳۰ سے ایک بچھڑا جو ماں کے ساتھ ہو، دینا چاہئے، اس سے اوپر بس یہی حساب (چلتا ) ہے، خواہ گائیں جس قدر بھی زیادہ ہوتی جائیں، ایک سو بیس ۱۲۰ دفعہ چالیس ۴۰ کے برابر ہوتا ہے، چالیس کا عدد امام کی حد ہے، گائے حجت پر دلیل ہے اور بچھڑا داعی پر دلیل ہے، چالیس ۴۰ حدِ امامت کی دلیل ہے اور تیس ۳۰ حدِ حجتی کی دلیل ہے، جب امام کا عدد یعنی چالیس ۴۰ مکمل ہو جائے، تو ایک گائے واجب ہوتی ہے، جو حجت کی دلیل ہے، یہ وہی مثال ہے، جس طرح امام نے حجت برپا کر دیا، اور اگر حجت کا عدد یعنی تیس ۳۰ مکمل ہو جائے، تو بچھڑا

۲۸۴

واجب ہوتا ہے، اور یہ داعی کی حد ہے، جس طرح حجت نے داعی قائم کر دیا، گائے کے صدقہ میں یہی حکمت ہے، جس کا حقیقی مومنین کے لئے ذکر کر دیاگیا۔

         گوسفند کے صدقہ کی تاویل

         ہم یہاں بیان کریں گے کہ گوسفند امام پر دلیل ہے، جب گوسفند چالیس ۴۰ ہو جائیں، تو ان پر ( صدقہ کا) ایک گوسفند واجب ہوتا ہے، اور چالیس ۴۰ دلیل ہے، پانچ حدودِ روحانی ( یعنی عقل، نفس، جد، فتح، خیال) ناطق، اساس، سات امام دن رات کے چوبیس ۲۴ حجت، داعی اور ماذون پر، اور صدقہ ایک گوسفند داعی پر دلیل ہے، کیونکہ جزائر کے مالک (یعنی امام ) کا امر اسی کے ذمہ ہوتا ہے، یعنی جب مذکورہ حدود مکمل ہوئے، تو صاحبِ جزیرہ (یعنی داعی) پیدا ہوا، اور وہ چالیس ۴۰ حدود کی طرف سے لوگوں کے لئے صدقہ ہے، جس طرح چالیس ۴۰ گوسنفد سے ایک گوسنفد صدقہ ہوتا ہے، اور گوسفند جب تک چالیس نہ ہو جائیں تو ان پر کوئی صدقہ نہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ جب تک امام اپنی منزلت یعنی چالیس کی مرتبت پر نہ پہنچیں، تو وہ جزیرے میں داعی نہیں بھیجتے ہیں۔

         اس کے بعد جب گوسنفد کی تعداد چالیس ۴۰ سے بڑھ کر ایک سو بیس ۱۲۰ کو پہنچ جاتی ہے، تو پھر بھی ایک ہی گوسفند سے زیادہ واجب نہیں، اور ایک سو بیس ۱۲۰ تین دفعہ چالیس ہوتا ہے، اور یہ تین بار چالیس ۴۰ ناطق، اساس، اور امام کی مثالیں ہیں، اور صدقہ کا ایک گوسفند حجت کی مثال ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ جب یہ تین چالیس ۴۰ جمع ہوتے ہیں، تو اس وقت لوگوں کی دعوت کے لئے حجت بھیج دیتے ہیں۔

         جب ایک سوبیس ۱۲۰ سے بڑھ کر دوسو ۲۰۰ ہو جائیں تو ان میں سے دو گوسفند واجب ہوتے ہیں اور دو سو ۲۰۰ دو اصلوں ( یعنی عقلِ کل اور نفسِ کل) پر دلیل ہے،

۲۸۵

اور دو گوسفند دو اساس (ناطق و اساس) پر دلیل ہیں، جس کی تاویل یہ ہے، کہ دو اساس کی تائید مذکورہ دو اصلوں کی طرف سے ہے۔

         جب دو سو ۲۰۰ سے بڑھ جائیں تو ہر ایک سو ۱۰۰ کے پیچھے ایک گوسفند واجب ہوتا ہے، خواہ جس قدر بھی بڑھتے جائیں، اور دوسو ۲۰۰ نفسِ کل کی مرتبت پر دلیل ہے، اور گوسفند امام کی مرتبت پر دلیل ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر زمانے میں (امام کے لئے ) تائید نفسِ کل سے ہے، دور کے آخر تک، اور چھوٹا گوسفند ماتحت حد کی دلیل ہے، بڑا گوسفند مافوق حد کی دلیل ہے، نر گوسفند دلیل ہے ان حدود پر جن کو صرف تائید ملتی ہے اور مادگان دلیل ہے ان حدود پر جن کو صرف تاویل ہی ملتی ہے۔

         صدقہ کے لئے گوسفند کے نرو مادہ دونوں کو شمار کرنا چاہئے، جس کی تاویل یہ ہے کہ مؤید و نا موید (یعنی تائید والا اور بغیر تائید والا) سب کے سب دعوتِ حق میں اپنی اپنی جگہ پر ہیں، اور صدقہ میں ایک آنکھ سے اندھا گوسفند ہرگز لائق نہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ دعوت ایسے شخص کے ذمہ نہیں دی جاتی ہے، جس نے (حقیقت کا) اچھی طرح سے مشاہدہ نہ کیا ہو، اور وہ اہلِ دعوت کے نزدیک ناقص ہو، اور ناقص بھیڑ بکریاں بھی اس لائق نہیں ( کہ ان سے زکوٰۃ لی جائے) جس کی تاویل یہ ہے، کہ ایسے شخص کا داعی نہ ہونا چاہئے، جس کے ساتھ ( ناطق، اساس، امام اور حجت کی نسبت سے ) دونوں روحانیوں ( یعنی عقلِ کل و نفسِ کل) کی اصل و نسل نہ ملتی ہو، چنانچہ انسان کی اولاد اور گوسفند کا بچہ جسمانی نسل میں کبھی نہیں ملتے ہیں۔

         صدقہ لینے والا (جبکہ حساب کرتے ہوئے صدقہ لیتا ہے ) بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے دو حصے کر دیتا ہے، اور بڑا حصہ ریوڑ کے مالک کو دیتا ہے، اور چھوٹا حصہ خود لیتا ہے، اس صورتِ حال کی تاویل یہ ہے، کہ ان دو حصوں میں سے زیادہ تعداد کا حصہ اہلِ ظاہر کی مثال ہے، اور کم تعداد کا حصہ اہلِ باطن کی مثال

۲۸۶

ہے اور جو صدقہ لیتا ہے وہ اساس کی مثال ہے، اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کا مالک ناطق کی مثال ہے، یعنی اساس ان دونوں گروہوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیتے ہیں، اور اہلِ باطن کو جو کم تعداد میں ہیں، خود لیتے ہیں، اور زیادہ تعداد والا حصہ جو اہلِ ظاہر ہیں، ناطق کے ساتھ منسوب ہیں، اگرچہ یہ دونوں فرقے یعنی ظاہری بھی اور باطن بھی ناطق کی شریعت میں ہیں، چوپایوں کے صدقہ کی تاویل بندۂ حق کے لئے بقدرِ کفایہ بیان کی گئی۔

۲۸۷

کلام ۔ ۳۱

اگنے والی چیزوں کی زکوٰۃ اور اس کی تاویل کے بارے میں

         ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ اگنے والی چیزیں وہ ہیں، جو بڑھ جاتی ہیں، چنانچہ انسان جسم میں بھی بڑھنے والا ہے، اور روح میں بھی، ااور خدا تعالیٰ نے ان چیزوں کا دسوان حصہ (بطورِ زکوٰۃ ) واجب کر دیا ہے، جن سے انسانی جسم کی افزاونی اور اضافہ ہوتا ہے، تاکہ اس سے مومن کو ان دس حدود کی مثال ملے جن سے روح کی افزائش اور اضافہ ہوتا ہے، اور شخص اس ترتیب کو سمجھے تو اس کے جسم اور روح کی پرورش سچائی اور عدل سے ہوگی۔

         پس ہمارا کہنا ہے، کہ وہ دس حدود جن سے روح کی پرورش ہوتی ہے، پانچ روحانی ہیں، یعنی: قلم ، لوح، اسرافیل، میکائیل،اور جبرائیل اور پانچ جسمانی ہیں، یعنی رسول، وصی، امام، حجت اور داعی، اور جسمانئین (کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ) اپنے ماتحتوں کو اپنی توانائی کے مطابق فائدہ دینے میں ( جسم کے اعضا ٔ وغیرہ ) آلات کو استعمال کرتے ہیں، اور روحانئین اپنے ماتحتوں کو فائدہ دینے میں جسم کے محتاج نہیں، بلکہ صرف وحی اور تائید ہی سے فائدہ

۲۸۸

پہنچا سکتے ہیں، اور یہ حدود درجہ وار ہیں، یعنی ایک سے ایک اوپر اور ایک سے ایک نیچے ہیں، جس طرح ان درختوں (پودوں اور ساگ وغیرہ ) کے پتے اور دانے غذائیت میں اعلیٰ و ادنیٰ ہوا کرتے ہیں، جن سے جسم کی خوراک تیار ہوتی ہے، اور جس طرح ہر دانے میں اس کی صلاحیت کے مطابق جسم کو غذا دینے کی ایک قوت موجود ہے، اسی طرح ان دس حدود میں سے ہر ایک میں خواہ روحانی ہو یا جسمانی اپنی مرتبت کے مطابق نفوس کی پرورش کے لئے ایک قوت موجود ہے، اور جسم کی نشوونما کرنے والے تمام دانوں میں سے افضل و اشرف گندم ہے، اور وہ ان دس حدود میں سے ہر ایک کے اوپر والے حد کی مثال ہے، چنانچہ ناطق اساس کے لئے گندم کے درجے پر ہیں، اور اساس امام کے لئے بمنزلتِ گندم ہیں، اسی ترتیب کے مطابق ہر اوپر والا حد نچلے حد کے لئے گندم ہے۔

         پس داعی پر واجب ہے، جس کی مثال کھیت کے مالک کی طرح ہے، کہ مستجیب کو مذکورہ دس حدود میں سے ایک حد کی طرف دعوت کرے، تاکہ اس حد کی طرف اس کو دعوت کرنے میں اور آگاہ کرنے میں اس کے دینی اعتقاد درست کراسکے، اور مستجیب کو، جو دانے کی طرح ہے، روحانی طور پر اگا کر ہرا بھرا کر دے گا، جب داعی نے یہ ایک حد مستجیب کو اس کو قابلیت کی حقداری کے مطابق معلوم کرا دیا، تو گویا داعی نے اپنے ان کھیتوں سے ، جو رکھتا تھا دسواں حصہ نکا لا اور اس کا علم پاک اور بہتر ہوا۔

         زمین سے اگنے والی چیزوں سے دہ یک ( یعنی دسواں حصہ نکالنا) ان تمام لوگوں پر واجب ہے جن کو کم و بیش کھیتی باڑی ہو، یعنی یہ دس حدود جن کا ہم نے ذکر کر دیا ، مراتب میں ایک دوسرے سے برتر ہیں، اور ان میں سے ہر ایک اپنے مافوق سے (علمی فائدہ) لیتا ہے، اور اپنے ماتحت کو دینا ہے، تو درمیان والے حدود لینے والے بھی ہیں اور دینے والے بھی، مگر سب سے اوپر

۲۸۹

کا حد جو باری سبحانہ و تعالیٰ کے امر سے پیدا ہوا ہے ( یعنی عقل) وہ صحیح معنوں میں دینے والا ہے، لینے والا نہیں، اور سب سے نچلا حد جو مستجیب ہے، بحقیقت لینے والا ہے، دینے والا نہیں، اسی طرح عالمِ دین کا آخری سرا اپنے ابتدائی سرے کی طرح ہو کر دائرہ بن گیا ہے۔

         جب ہم نے بیان کر دیا کہ دسواں حصہ نکالنا ہر توانگر پر واجب ہے، اب ہم یہ بتائیں گے کہ جو زمینیں بارانی یا نہری ہیں، تو اُن پر دسواں حصہ واجب ہے، اور جس زمین کو رہٹ وغیرہ کا پانی دیا جاتا ہے تو اس پر بیسواں حصہ واجب ہے، اور اس بات کی تاویل کہ کسی زمین کو بارش اور نہر کا پانی ملتا ہے، یہ ان حدود کی مثال ہے، جن کو تائید اور تاویل دونوں حاصل ہیں، جسیے ناطق، اساس، امام اور حجت، اور اس چیز کی مثال جس پر نصف دسواں (یعنی بیسواں ) حصہ واجب ہوتا ہے، وہ حدود ہیں، جن کو تائید حاصل نہیں، جیسے داعی، ماذون اور مستجیب، جن کو صرف تاویل حاصل ہے، اور یہ لوگ نیم مؤید ہیں، اور جو لوگ مؤید ہیں، وہ حدودِ علوی سے خبر لاتے ہیں، اور قوت بھیجتے ہیں، یعنی جن کو تائید حاصل ہو چکی ہے، اور فیض والے ہوئے ہیں، تو یہ لوگ ماتحتوں کے لئے دس میں سے ایک ( یعنی دسواں) کی حیثیت سے ہیں اور جو لوگ نیم مؤید ہیں، اور ماتحتوں کے لئے صرف جسمانی حدود کا بیان کرتے ہیں، تو تاویل میں یہ لوگ بیسویں حصے کی حیثیت سے ہیں۔

         اس بات کی تاویل کہ نماز ہر اس شخص پر واجب ہے، جس نے ایمان لایا ہوا، اور زکوٰۃ تو انگروں پر واجب ہے، مفلسوں پر نہیں، یہ ہے کہ نماز پڑھنا اپنے آپ کو پاک کرنا ہے، تو اپنے آپ کو پاک کرنے کی کوشش ہر شخص پر لازم ہے، اور زکوٰۃ دینا دوسرے کو پاک کرنا ہے، تو جب تک کوئی شخص خود علم نہ سیکھے وہ دوسرے کو نہیں سکھا سکتا ہے، پس نماز پڑھنے والے ساری امت کی مثال ہیں، اور زکوٰۃ دینے والے حدودِ دین کی مثال ہیں۔

۲۹۰

خمس کی تاویل کے بارے میں

         اس چیز کی تاویل، جس سے پانچواں حصہ (یعنی خمس) دینا چاہئے، یہ ہے کہ اول اس مالِ غنیمت سے پانچواں حصہ دنیا واجب ہے، جو کافروں سے حاصل ہوا ہو، چنانچہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ (۸: ۴۱)

         اور اس بات کو جان لو کہ جو شے (کفار سے ) بطورِ  غنیمت تم کو حاصل ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کا ہے، اور اس کے رسولؐ کا ہے، اور رسولؐ کے قرابت داروں کا ہے، اور یتیموں کا ہے، اور غریبوں کا ہے اور مسافروں کا ہے۔‘‘

         اسی طرح کا پانچواں حصہ اس دفینے (یعنی خزانے) سے دینا چاہئے، جو کسی کو ملا ہو، نیز جواہر کی کان سے ان پانچ ہستیوں کو خمس دینا چاہئے۔

         خدا تعالیٰ نے پانچواں حصہ (یعنی خمس) واجب کرکے سب سے پہلے اس میں سے اپنے حق کے متعلق ذکر فرمایا، پس ہم بتائیں گے کہ، اللہ نے جو کچھ اپنے لئے مخصوص کر دیا ہے، وہ ہر زمانے میں رسولؐ کے لئے ہے، اور ہر وقت امام کے لئے ہے، کیونکہ یہ (دونوں) حضرات خدا کے ضروری کام انجام دینے والے ہیں، یہی سبب ہے، کہ امام کو مالِ غنیمت ( کے پانچ حصوں ) سے دو حصہ لینا چاہئے، اور فوج کے اعلیٰ سرداروں میں یہی رواج جاری ہوا ہے، کیونکہ انہوں نے (بزعمِ خود) اپنے آپ کو امام کا قائم مقام قرار دیا ہے اور (خمس سے رسولؐ کو دو ۲ حصے ملنے کی ) تاویل یہ ہے کہ رسولِ خدا کے لئے تاویل اور تنزیل کے دو مرتبے ہیں، اور قرابت داروں سے اساس مراد ہیں، کیونکہ وہ

۲۹۱

دو۲ طرح سے ( یعنی روحانی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی ) ناطق کے قرابت دار ہیں، یتیموں سے مراد أئمہ ہیں، کیونکہ عالمِ جسمانی میں ان کے کوئی روحانی ماں باپ نہیں، اور ان کی پرورش عالمِ علوی کی تائید پر ہے، مسکینوں سے خدا کی مراد حجت ہیں، اس لئے کہ ان کے بیان، تاویل اور تشریح کی بدولت مومنین کے دلوں اور نفوس کو سکون حاصل ہوتا ہے، اور مسافر سے مراد داعی ہے، کیونکہ وہ خدا کے راستے میں ہے، تاکہ گمراہوں کو راستے پر لا ئے۔

         مالِ غنیمت کا فروں سے امت کو ملتا ہے، اور (علم) اہلِ ظاہر کو پہنچا ہے، اور مالِ غنیمت ( کی طرح اس پر قبضہ) مومنین کا ہوا ہے،  اور مذکورہ پانچ حدود نے اس کو لے لیا ہے، پھر انہوں نے (یہ علم) مومنین کے ذریعہ امت کو بخشا ہے، کہ وہ ان کے ماتحت ہیں، اور خزانہ عقلِ اول کی مثال ہے، کیونکہ وہی تو خدا کا خزانہ ہے، چنانچہ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’أَوْ يُلْقَى إِلَيْهِ كَنزٌ (۲۵: ۸)

         یا اس کے پاس (غیب سے) کوئی خزانہ آپڑتا ۔‘‘

         یعنی کافروں نے کہا کہ اگر وہ پیغمبر ہوتا، تو اس پر کوئی خزانہ ڈالا جاتا، پس اس بات کی تاویل کہ جس شخص کو کوئی خزانہ ملے، تو اس کو چاہئے کہ اس کا پانچواں حصہ دیا کرے، یہ ہے، کہ وہ شخص جس کو خزانہ ملا ناطق تھے، کہ ان کو عقلِ کل سے تائید ملی، تو لازماً آنحضرتؐ نے ایک ایسا حد قائم کر دیا جس سے پانچ حدود کو تائید حاصل ہے، وہ حدِ اساس ہیں، جس کے تحت امام، حجت، داعی، ماذون اور مستجیب ہیں۔

         جواہر کی کان حدودِ علوی کی مچال ہے، چنانچہ معلوم ہے کہ جو کچھ کان سے نکلتا ہے، اس کو آلائش سے پاک و صاف کرنا چاہئے، تاکہ وہ لوگوں کو پسند آئے، جس طرح ناطق نے حدودِ علوی سے جو کچھ حاصل کر لیا تو اس کو مہذب الفاظ میں آراستہ کر کے ظاہر کیا، اور اساس کے حوالے کردیا، اور اساس نے ان (سونا چاندی

۲۹۲

وغیرہ جیسی روحانی چیزوں) کو اپنے ذہن و خاطر کی آگ میں پگھلایا، اور مثالات و رموز کی آلائش ان سے دور کر کے یہ چیزیں تاویل کی صورت میں امام کو دے دیں، پھر امام انہیں دوبارہ پگھلائیں اور کھرا سونا چاندی کی طرح بنا دیں، تاکہ امت کے کمزوروں کو، جو مفلس تھے (انہیں پہچان) لینے میں آسانی ہو، اور جس چیز کو قبول کرنا دشوار ہے، اسے جدا کر کے اپنے حجت کے حوالے کر دی، اور ہر ایک حد نے اپنے حصے کی لطافت و سہولت کے ذریعہ اس میں تصرف کر دیا ، تاکہ جب یہ چیز مستجیب کو پہنچے تو وہ جو مفلس ہے، کسی شک کے بغیر لے سکے، اور خدا تعالیٰ کی مہربانی سے اگنے والی چیزوں کی زکوٰۃ کی (اور خمس کی) تاویل تمام ہوئی۔

                          و السلام

۲۹۳

کلام ۔ ۳۲

فطر کی زکوٰۃ اور اس کی تاویل کے بارے میں

         ہم بیان کردیں گے، کہ فطر کی زکوٰۃ تو ہر شخص پر واجب ہے، اور مال کی زکوٰۃ صرف توانگر وں پر واجب ہے، فطر کی زکوٰۃ کی تاویل امام کیلئے مومن کا یہ اقرار کرنا ہے، کہ امام کے تحت اتنے حدود ہیں، اور ایسے ایسے مرتبوں میں ہیں، چنانچہ معلوم ہے کہ فطر کی زکوٰۃ چھوٹے، بڑے، مرد، عورت، آزاد اور غلام سب پر واجب ہے۔

         جب مومن زکوٰۃِ فطر دیتا ہے، تو وہ اپنے امام کے لئے یہ اقرار کر لیتا ہے، کہ میں مستجیب ہوں او میری بھلائی اور برائی کا دارومدار فرمانبرداری اور نافرمانی پر ہے، جب مومن دو اشخاص کی طرف سے فطر کی زکوٰۃ دیتا ہے، تو وہ ماذون کی زکوٰۃ کی تاویل ہوتی ہے، کیونکہ اس کے دو ۲ مرتبے ہوتے ہیں، ایک تو مرتبۂ ماذونی، اور دوسرا مرتبۂ مستجیبی، جب وہ تین اشخاص کی طرف سے فطر کی زکوٰۃ دیتا ہے، تو وہ داعی کی (علمی) زکوٰۃ کی تاویل ہوا کرتی ہے، کیونکہ اس کے تین مراتب ہیں، جیسے مرتبۂ داعی گری، مرتبۂ ماذونی اور متبۂ مستجیبی، اور جب وہ چار اشخاص کی طرف سے فطر کی زکوٰۃ دیتا ہے، تو وہ حجت کی (علمی) زکوٰۃ کی تاویل ہوا کرتی ہے، کیونکہ اس

۲۹۴

کے مراتب چار ہیں، جیسے حجتی، داعی گری، ماذونی اور مستجیبی۔

         پس ہر بڑے، چھوٹے، مرد، عورت، آزاد اور غلام کی زکوٰۃِ فطر گزار نے میں یعنی اس فرمودۂ حق کے ادا کرنے کی تاویل میں ان (حدود) میں سے ہر فرد کی طرف سے اپنے امام کے لئے یہ اقرار ہے کہ میرے تحت یہ یہ حدود ہیں، جس طرح مومن اپنے مال کی زکوٰۃ دینے ہوئے امام کے لئے یہ اقرار کر لیتا ہے، کہ میرا علم دعوت کے اس درجے پر ہے۔

         جب مال زیادہ ہو تو زکوٰۃ (بھی) زیادہ دینی چاہئے، چنانچہ ناطق کی مرتبت علم میں زیادہ بلند ہے، تو دعوت میں اس کی (طرف سے علمی) پرورش (بھی) زیادہ بڑی ہے، جس کا ظاہری مال کم ہے، تو زکوٰۃ (بھی) کم دینی چاہئے، چنانچہ جس کی علمی مرتبت کمتر ہے، تو اس کی پرورش (بھی) دعوت میں کمتر ہے، اور اس حال کی شرح یہ ہے ، کہ (علمی) توانگری بحقیقت ناطق ہی کی ہے، اور اس کی (علمی) پرورش اساس ہی کے لئے (مخصوص) ہے، جو دعوت کے حدود میں عظیم حد ہیں، اور ناطق سے ان کا حصہ تاویل کی مرتبت ہے، اس توانگر کی مثال پر جس کے مال کی بہت سی زکوٰۃ نکلتی ہے، اور دوسرے سب لوگ ناطق کے نیچے ہیں، اور ان کے محتاج ہیں، چنانچہ خدا تعالیٰ ان کی مثال دے رہا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ (۴۷: ۳۸)

         ’’ خدا ہی توانگر ہے۔‘‘ جس کی مراد ناطق ہیں۔’’اور تم سب محتاج ہو۔‘‘ جس سے خدا خدا کی مراد دوسرے تمام حدود ہیں، کہ علم میں وہ سب اسی کے محتاج ہیں، پھر اساس توانگر ہیں، اور ان کے مال (یعنی علم) کی زکوٰۃ ناطق کے مال کی زکوٰۃ سے کمتر ہے، کیونکہ اساس کی پرورش امام کے لئے ہے، اور امام کی پرورش حجت کے لئے ہے، اور امام کے مال (یعنی علم) کی زکوٰۃ اساس کے مال کی زکوٰۃ سے کمتر ہے، اور حجت کے مال کی زکوٰۃ امام کے مال کی زکوٰۃ سے کمتر ہے، اور حجت کی پرورش داعی کے لئے ہے، اور یہی (علمی پرورش) حجت کے مال کی زکوٰۃ کہلاتی

۲۹۵

ہے، اور داعی کی پرورش ماذون کے لئے ہے، اور یہی داعی کے مال کی زکوٰۃ کہلاتی ہے، اور ماذون کی پرورش مستجیب کے لئے ہے، اور ماذون کے مال کی زکوٰۃ یہی ہے، اور مستجیب بحقیقت محتاج ہے، جس طرح ناطق بحقیقت توانگر۔

         جب یہ بیان کر دیا گیا ، تو اب ہم مختصر بات کہیں گے، اور وہ یہ ہے، کہ جب مومن امام کو ظاہری مال کی زکوٰۃ دیتا ہے، تو وہ اقرار کر لیتا ہے، کہ ’’ دنیا میں میرا معاون یہی دنیاوی مال ہے، کیونکہ میرے جسم کا قیام اسی پر ہے، (مگر امام کی فرمانبرداری کے مقابلے میں) یہ کچھ بھی نہیں۔‘‘ اور یہ (مومن کی طرف سے) امام کی اطاعت ہے، اور جب مومن اپنے لوگوں کے ہر فرد کی طرف سے فطر کی زکوٰۃ دیتا ہے، تو اس میں وہ امام کے لئے یہ اقرار کر لیتا ہے کہ میرا حکم اتنے لوگوں پر چلتا ہے، جو میرے گھروالے، میرے فرزند، میرے اور میرے عزیز ہیں، اور یہ بھی اس کی طرف سے ایک طرح کی شکرگزاری اور فرمانبرداری ہے، جو خدا کے ولی کی وساطت سے خدا ہی کے لئے مخصوص ہے، اور ظاہری مال کی زکوٰۃ دینے کی تاویل یہ ہے، کہ مومن امام سے کہتا ہے، کہ میرے تحت اتنے حدود ہیں، کہ میں ان کی روحانی پرورش کرتا ہوں، اور یہ پرورش میری علمی زکوٰۃ ہے، اور مومنوں کی زکوٰۃِ فطر دینے کی تاویل یہ ہے، کہ مومن اپنے مالک کا شکر کرتا ہے، اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ میرے تحت اتنے مراتب (یعنی حدود) ہیں، جن کو مجھ سے علم پہنچتا ہے، چنانچہ لوگوں کے فطر کی زکوٰۃ اس شخص کو دیا کرتے ہیں جس کا ذریعۂ معاش اسی سے ہو، اور جو شخص ظاہر میں یہ دو طرح کی زکوٰہ دیتا ہے اور باطن میں ان کے معنی جانتا ہے، تو وہی مخلص مومن ہے، اور خدا تعالیٰ کے فرمان سے امامِ زمانؑ نے زکوٰۃِ فطر قبول کرتے ہوئے اس مومن کو خرید لیا ہے، نیز ظاہری مال کی زکوٰہ قبول کرتے ہوئے اس سے اس کے مال کو خرید لیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنْ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ

۲۹۶

وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمْ الْجَنَّةَ (۹: ۱۱۱)

         اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں، اور ان کی مال اس بات پر خرید کر لئے ہیں کہ (ان کی قیمت ) ان کے لئے بہشت ہے۔‘‘ مالِ ظاہر کی زکوٰۃ اور فطر کی زکوٰۃ دینے کی حقیقی تاویل یہ ہے، جو بیان کی گئی، اور اب مخلص مومن کے لئے زکوٰۃِ فطر کی مقدار اور اس کی تاویل کا مفصل بیان کر ینگے۔

۲۹۷

فصل

زکوٰۃِ فطر کی مقدار کے بارے میں

         ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمانِ الٰہی کے بموجب ارشاد فرمایا کہ چھوٹے، بڑے، مرد، عورت، آزاد اور غلام، ہر فرد کی طرف سے زکوٰۃِ فطر دی جائے، جس میں ایک صاع کھجور، یا ایک صاع کش مش یا ایک صاع گندم یا ایک ساع جو ہو، اور صاع وہی ہونا چاہئے جو مکہ اور مدینہ کی خرید و فروخت میں مستعمل ہے، اور خود اسی صاح کو پہچان لیا جائے، اور اس صاع کو صاعِ نبیؐ کہتے ہیں، جو چار من سے بھر جاتا ہے۔

         پیغمبر علیہ السلام نے ان چار قسم کے لوگوں (یعنی مرد، عورت، آزاد، اور غلام) کی طرف سے غلہ  اور پھل کی چار قسموں میں سے ایک صاع دینے کے لئے فرمایا، جو چار من کا ہو، ان میں سے دو تو درختوں کے پھل ہیں، یعنی کھجور اور کش مش، اور دو نباتات کے دانے ہیں، یعنی گندم اور جو، اور اس کی تاویل یہ ہے ، کہ آنحضرت نے موموں سے چار حدود (کی ہستی) پر اقرار چاہا، کیونکہ مخلوق کے وجود کا پیدا ہونا انہی سے ہے، اور (اخیر میں مخلوق کی) واپسی بھی انہی کی طرف ہے، وہ حدود عقلِ کل، نفسِ کل، ناطق اور اساس ہیں، جن میں عقلِ کل کی مثال کھجور ہے، کہ وہ اپنی ذات پر قائم ہے، اور اس کی شرافت تمام شرافتوں

۲۹۸

سے برتر ہے، چنانچہ کھجور کے درخت کا پھل تمام درختوں کے پھل سے اشرف ہے، اور کشمش نفسِ کل کی مثال ہے، کہ اس کا درخت اپنے آپ قائم نہیں رہ سکتا ، بلکہ دوسرا کوئی (ذریعہ) چاہتا ہے، تاکہ اس کا سہارا لے، چنانچہ نفسِ کل اپنے آپ قائم نہیں بلکہ اس کا قیام عقلِ کل پر ہے، اور اسی کے ذریعے اس کی قوت ہے، کشمش کی طاقت اور مزہ کھجور کی طاقت (اور مجزے ) سے کمتر ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نفس کی قوت، عقل کی قوت سے کمتر ہے، اور گندم ناطق کی مثال ہے، کیونکہ گندم سے زیادہ اصیل کوئی غلہ نہیں، جس طرح عالم میں ناطق سے بڑھ کر اصیل کوئی آدمی نہیں، اور جو اساس کی مثال ہے، کہ وہ درجے میں گندم سے کمتر ہے، جس طرح اساس کی مرتبت ناطق کی مرتبت کے نیچے ہے، اور گندم کے ہر صاع کی قیمت دو صاع جو ہوتی ہے، چنانچہ ناطق کی تألیف و تائید کے دو مرتبے ہیں، اور اساس کو تاویل کا ایک مرتبہ ہے۔

         اس بات کی تاویل کہ ان چار چیزوں میں سے چار من کا ایک صاع دیا کرتے ہیں، یہ ہے کہ عالمِ دین میں مذکورہ حدود کے تحت اور چار حدود ہیں، کہ ان کے لئے بھی تائید کی قوت انہی چار اصول سے حاصل ہے، وہ چار حدود امام اور حجت ہیں، عقلِ کل و نفسِ کل کی مثال پر ، اور داعی اور ماذون ہیں، ناطق اور اساس کی مثال پر۔

         (پس) اس کے معنی یہ ہوئے کہ جو کوئی ان چار (اجناس) میں سے چار من کا ایک صاع دے دے تو گویا اس نے ان چار ذیلی حدود میں سے ایک حد کے لئے اقرار کر لیا ہے، اور اس کے ساتھ ملا ہے، اور وہ چار حدود اوپر کے چار حدود کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، اور اس بات کی تاویل کہ چھوتے، بڑے، مرد، عورت، غلام اور آزاد کے ہر فرد کی طرف سے یہ زکوٰۃ دینی چاہئے، یہ ہے کہ چھوٹا ماتحت حد کی مثال ہے، اور بڑا مافوق حد کی مثال ہے، چنانچہ مستجیب بحقیقت چھوٹا اور ناطق بڑا ہیں، اور مرد علمی فائدہ دینے والے کی مثال ہے،

۲۹۹

عورت، علمی فائدہ لینے والے کی مثال ہے، غلام مومنِ محدود کی مثال ہے، کہ وہ مطلق نہیں ہوا ہے، اور آزاد ماذونِ مطلق کی مثال ہے اور جو حدود اس سے برتر ہیں، وہ دو درجے ہیں، یعنی بڑا اور مرد، تو بڑا، مرد اور آزاد علی الاطلاق (یعنی دراصل ) دونوں عالم میں عقل ہے، اور جسمانی عالم میں بڑا، مرد اور آزاد مطلقاً ناطق ہیں۔ اسی طرح اخیر میں مستجیب تک کہ وہ بحقیقت چھوٹا، غلام اور عورت ہے، یہاں تک کہ ان بڑوں ، آزادوں اور مردوں کی قوت سے یہ بھی انہی کی طرح بڑا، مرد اور آزاد ہو جائے، بشرطیکہ وہ فرمانبرداری پر ٹھہرے۔

         اس بات کی تاویل کہ فطر کی زکوٰۃ نمازِ عید سے پہلے دینی چاہئے، یہ ہے ، کہ حدودِ دین کے لئے مومن کا اقرار قائم علیہ السلام کے ظہور سے پہلے ہی ہونا چاہئے، اور عید قائم علیہ افضل التحیۃ و السلام کی مثال ہے۔

         (اس امر میں) زمانہ کے ابلیسوں کی شرکت یہ ہے (کہ انہوں نے صاع کو بدل دیا) اور اس اطاعت میں نادان وہ تھا، جس نے اپنے آپ کو داناؤں کے بھیس میں ظاہر کیا، چنانچہ ملکِ عراق ( کا ایک شخص) امامِ حق کی جگہ پر کھڑا ہوا، اور امت سے یہ کہا کہ ہر ملک میں اسی ملک کے صاع سے (زکوٰۃِ فطر) دینی چاہئے، اور عراق کا صاعِ نبیؐ کے صاع کی دو تہائی ہے، چنانچہ عراق کے تین صاع مکہ کے دو ۲ صاع ہوتے ہیں، اور وہ (عراقی صاع) ڈھائی من، چھ استار چار درم دو۲ دانگ وزن رکھتا ہے، (جبکہ صاعِ نبیؑ پورے چار من کا ہے) جب نادان لوگوں نے یہ بات سنی تو اس پرعمل کرنا ان کے لئے نسبتاً آسان ہوا، اور کم ہمت لوگ زمانے کے ابلیسوں کے حکم پرقائم رہے تب شبِ فتنہ کی تاریکی جزیرۂ خراسان پر چھا گئی، اور نورِ ایمان اس سرزمین سے منقطع ہوا، کیونکہ ان دینی کمزوروں سے ، جو اس سرزمین میں تھے، خدا کے اولیأ نے اپنا دستِ عنایات اٹھا لیا، او ر ان کی کوئی ایسا شخص نہیں ملا کہ ان کو حقیقتِ حال سے آگاہ کرے، تو انہوں نے کہا کہ یہ صاع (پیمانہ) جس میں ہم فطر دیتے ہیں ڈھائی من سات استار

۳۰۰

کا ہے، اور بعض لوگوں نے اپنی علمی کمزوری ہی سے اس کی تاویل مقرر کر دی، بغیر اس کے کہ حکمت کی کان (یعنی امام) سے انہیں یہ فرمان دیا گیا ہو، اور کمزور مومنوں نے ان کی یہ بات مان لی اور اس پر مضبوط ہوئے، اور ملعون ابلیس نے لوگوں کو دھوکہ دیا، اور اس نے امت میں سے اکثر لوگوں کو اپنا گمان سچ کر دکھایا ، مگر تھوڑے لو گ تھے، جو نورِ ایمان پر قائم رہے، اور دھوکہ باز شیطان کے حیلے سے چھٹکارا پائے، چنانچہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلاَّ فَرِيقًا مِنْ الْمُؤْمِنِينَ (۳۴: ۲۰)

         اور ابلیس نے اپنے گمان کو ( جو ان کے بارے میں کیا تھا) سچ کر دکھایا، تو ان لوگوں نے اس کی پیروی کی، مگر ایمانداروں کا ایک گروہ (نہ بھٹکا)۔‘‘

         فطر کے بارے میں خدا تعالیٰ کے فرمان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا جو کچھ ارشاد ہے، ہم نے اس کا ذکر کر دیا، اور وہ اختلاف ظاہر کر دیا، جو زمانے کے ابلیسوں کے قول اور اشارے سے امت کے درمیان واقع ہوتا ہے، اور حدود کی تاویل پر کمزور مومنین کے قادر نہ ہونے کا بیان کر دیا۔

         زکوٰۃِ  فطر کے بارے میں سات جزائر یعنی ہفتِ اقلیم کے خاص مومنین کے لئے زمانے کے خداوند (یعنی مالک) علیہ السلام کا جو کچھ فرمان ہے، اور وہ اس پر جس طرح عمل کرتے ہیں، اب ہم اس کی ایک فصل بیان کریں گے، تاکہ جس شخص کی آنکھ شبِ فتنہ کی تاریکی کے باوجود آفتابِ حقیقت دیکھنے سے عاجز نہ رہی ہو، تو وہ اس کو دیکھے، اور ہم اس کی تاویل بتائیں گے۔

۳۰۱

فصل

خداوندِ حق کے فرمان کے مطابق حقیقی فطر اور اس کی تاویل

         جب صاحبانِ حق علیہم السلام نے دیکھا، کہ زمانے کے ابلیسوں نے امت کو اپنے پیچھے جہالت کی وادی میں گمراہ کی دی ہے، اور انہوں نے صاعِ نبیؐ کو اپنے صاع سے بدل دیا ہے، اور یہ ممکن نہ ہوا کہ وہ حال سب لوگوں کو معلوم کر دیا جائے، تو انہوں نے اپنے تابعین کے لئے ارشاد فرمایا، کہ مومنین کے ہر چھوٹے ، بڑے، آزاد، غلام، مرد اور عورت کی طرف سے اس ایک صاع پھل یا غلہ کی قیمت ایک درم ایک دانگ دیا کریں، اور اس میں فطر دینے والوں کے لئے صاحبانِ حق کی طرف سے دو عظیم حکمتیں تھیں، اور مومنین کے لئے اس سے ایک تو یہ ظاہر ہوا، کہ مکہ کا صاع اور عراق کا صاع اور کئی دوسرے صاع درمیان سے اٹھ گئے، تاکہ وہ غلطی میں نہ پڑیں اور شک سے نکل جائیں، کہ یہ صاع کتنے من کا ہے اور وہ صاع کتنے من کا، اور دوسری حکمت یہ تھی کہ، ایک صاع کھجور یا کشمش یا گندم یا جو کے درمیان (قیمت میں ) بہت سا فرق ہے، کیونکہ بعض جگہیں ایسی بھی ہیں، جہاں ایک صاع کھجور کی قیمت اتنی ہے جتنی کہ بیس ۲۰ صاع گندم کی ہوتی ہے، جیسے سر زمینِ خراسان اور ماورأ النہر ، اور

۳۰۲

بعض جگہیں ہیں جہاں ایک صاع گندم کی قیمت بھی وہی ہے، جو بیس صاع کھجور کی ہوتی ہے، جیسے پنج نہر ویلمان ، یمامہ وغیرہ، اور جب صاحبانِ حق علیہم السلام نے فطر کے اس پیمانے کو معلوم کر دیا تو درمیان سے یہ فرق اٹھ گیا، اور بموجبِ فرمانِ رسول اور اس کی آل کی بدولت سچائی ظاہر ہوئی، یہ سچائی جو آج لوگوں کے درمیان فعل کی حد میں ہے، اس سے پہلے (یعنی رسول کے زمانے میں) قوت کی حد میں تھی۔

         اب ہم خداوندِ زمان علیہ السلام کے امر سے زکوٰۃِ فطر کے اس ایک درم اور ایک دانگ کی تاویل کے بارے مین بیان کریں گے، جو صاحبانِ زمان علیہم السلام مومنین سے لیا کرتے ہیں، کہ ایک درم اور ایک دانگ (مجموعاً) سات دانگ ہوتے ہیں، اور یہ دورِ رسولؐ کے بعد کے سات ائمۂ برحق کی دلیل ہے، اور ان سات دانگوں میں سے چھ دانگ ایک مجموعے میں ہیں، اور وہ ایک درم ہے، اور ایک دانگ ان سے  جدا ہے، پس وہ درم جو ایک مجموعے میں چھ دانگوں کی حیثیت سے ہے، ان چھ أئمۂ برحق کی دلیل ہے، جو رسول علیہ السلام کے بعد تھے، اور ایک جدا دانگ امامِ متم کی دلیل ہے، کیونکہ اسی کو قائم کا مرتبہ حاصل ہے، اور جو چھ اماموں سے مرتبت میں جدا ہے، ہر چند کہ وہ بھی امام ہے، اور اس (حقیقت) پر گواہ عالمِ آفاق کے چلنے والے چھ ستارے ہیں، جیسے: زحل، مشتری، مریخ، زہرہ، عطارد اور قمر ، کیونکہ یہ سب ایک ہی درجے کے ہیں، اس لئے کہ ان کی روشنی کمتر ہے، اور سورج بھی انہی کی طرح روشنی والا ہے، مگر شرف میں وہ ان سے برتر ہے، اور اس کی روشنی گرمی کے ساتھ ہے، اور اس کے ظاہر ہونے میں ان کا چھپ جانا ہے، اور اس (حقیقت) پر گواہ انسانی شخصیت کے چھ اعضائی رئیسہ ہیں، جیسے: جگر، پھیپھڑے، تلی، پتا، گردے، اور دماغ، کہ انسانی جسم میں ان میں سے ہر ایک کا ایک مخصوص کام ہے، جس طرح دل کا ایک مخصوص کام ہے، لیکن ان چھ اعضا ٔ کا قیام دل پر ہے، جو ان کا ساتواں عضو ہے۔

         (نیز) ہم یہ بتائیں گے، کہ جب مومن زکوٰۃِ فطر کا ایک درم اور ایک دانگ اپنے

۳۰۳

امام کو ادا کر دیتا ہے، تو وہ چھ اماموں کی شناخت کے لئے اقرار کر لیتا ہے، جن کے ادوار صاحبِ قیامت کےدور سے پہلے ہیں، جس طرح (زکوٰۃِ فطر کے سلسلے میں ’’ایک درم اور ایک دانگ ‘‘ کہنے کے لئے) دانگ سے پہلے درم کا نام آتا ہے، نیز یہ مومن سے اس امامِ ہفتم کی شناخت کا اقرار ہے، جو صاحبِ قیامت ہے، اور اس کا دور تمام ادوار کے اخیر میں ہے، جس طرح ’’ایک دانگ‘‘ جو ’’ایک درم‘‘ کے بعد آتا ہے۔

         نیز ہم بیان کریں گے، کہ ایک درم کی بارہ نصف دانگیں ہوتی ہیں، اور یہ باروہ حجتوں کی دلیل ہے، جو صاحبِ زمان کے فرمان  کے بموجب عالم میں ظاہر و باطن کو برپا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں، اور ایک دانگ کی دو  نصف دانگیں ہوتی ہیں، جو امام و باب ، ناطق و اساس اور لیلتہ القدر و قائم القیامت کی دلیل ہے، نیز تنزیل و تاویل اور ظاہر و باطن کی دلیل ہے، اور مومنون میں سے جو شخص زکوٰۃِ فطر کا یہ ایک درم اور دانگ اپنے امام کو گزار دیتا ہے، تو اس سے بارہ حجتوں، ناطق و اساس، امام و باب اور مذکورہ دو دو امور کا اقرار ہوتا ہے، اور جس طرح بارہ حجت اگرچہ مرتبت میں ناطق اوراساس سے جدا ہیں لیکن زبان کے ذریعہ یہ ان کی سنت کو ظاہر کرنے والے ہیں، اور ان کی فرمانبرداری اور اطاعت کرتے ہیں، اور ان کے بغیر ان حجتوں کا کوئی قیام نہیں، جس طرح یہ ایک درم اگرچہ اس ایک دانگ سے جدا ہے لیکن اس امر میں یہ ایک درم اس ایک دانگ کے بغیر مکمل نہیں، اور نہ وہ ایک دانگ اس درم کے بغیر مقبول ہے، اور یہ ایک درم اور ایک دانگ چودہ نصف دانگیں ہوتی ہیں، جو سات اماموں اور سات حجتوں کی دلیل ہیں، کہ خدا تعالیٰ نے ان کی وجہ سے اپنے رسولؐ کو احسان جتایا ، چنانچہ فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

                 ’’وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ (۱۵: ۸۷)

         یعنی اے محمد! ہم آپ کو ایک ایسا سات دیا ، جو دہرا ہے۔‘‘

         ایک درم اور ایک دانگ کے اٹھائیس ۲۸ طسوجے ہوتے ہیں، اور وہ

۳۰۴

ناطق، اساس، امام، بارہ حجتِ ظاہر، بارہ داعی اور ماذون کی دلیل ہیں ، کیونکہ ہر حجت کا ایک (خاص) داعی ہوا کرتا ہے، نیز عقل، نفس، تین روحانی فروع (یعنی جد، فتح اور خیال، ) ناطق، اساس، سات أئمہ، بارہ جزائر کے حجت، داعی اور ماذون کی دلیل ہے، پس جو شخص فطر کا ایک درم اور ایک دانگ اپنے امام کو گزار دیتا ہے، تو وہ ان حدود کی اطاعت کرتا ہے، جو بموجبِ فرمانِ خدا دعوت میں کھڑے ہیں۔

         نیز ہم بیان کریں گے ، کہ درم اور دانگ کے عربی الفاظ درہم و دانق ہوتے ہیں، اور اس کی تحریری صورت اسی طرح ہے۔ ’’ درھم و دانق‘‘ اور ان دونوں الفاظ میں سے ہر ایک چار حروف پر مشتمل ہے، اور ان کے درمیان ایک واؤ کا واسطہ ہے، اور یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ درہم کے چار حروف چار اصولِ دین کی مثال ہیں، جیسے اول، ثانی، ناطق اور اساس، اور دانق کے چار حروف چار فروعِ دین کی مثال ہیں، جیسے حجت، داعی اور دو ۲ ماذون ، اور ان دونوں چار حرفی الفاظ کے درمیان کا واؤ جو حسابِ جمل میں چھ۶ ہے، اور چھ أئمۂ برحق کی دلیل ہے، کہ وہ ان چار اصول سے فائدہ حاصل کرتے ہیں، اور ان چار ماتحت حدود کو فائدہ پہنچایا کرتے ہیں، اور اس قول کی سچائی پر دلیل یہ ہے کہ کہ درہم دو ۲ روحانی اصلوں اور دو ۲ جسمانی اصلوں کی مثال ہے، یہی وجہ ہے کہ ’’دال‘‘ اور ’’را‘‘ جو اس لفظ کے شروع میں ہیں، ایک دوسرے سے جدا ہیں، اول و ثانی کی طرح کہ وہ بسیط ہیں، اور مرکب نہیں، اور ’’ھا‘‘ و ’’میم‘‘ ایک دوسرے سے ملے ہوے ہیں، ناطق اور اساس کی طرح کہ وہ جسم اور نفس سے مرکب ہیں، پھر ’’دانق‘‘ کے شروع میں ’’دال‘‘ اور ’’الف‘‘ بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں، حجت اور داعی کی طرح، جن میں سے ایک کا درجہ جدا ہے، کہ حجت صاحبِ تائید ہے اور داعی صاحبِ تاویل ہے، اور دونوں ماذون ایک مرتبے میں ہیں، کہ دونوں کا پالنے والا داعی ہے، جس طرح نون اور قاف ’دانق‘‘ کے لفظ میں یک جا ملے ہوئے ہیں، نیز جس طرح دال اور را لفظِ ’’درہم‘‘ میں ھا اور میم سے آگے ہیں، اسی طرح اول و ثانی بھی ناطق و اساس سے آگے ہیں،

۳۰۵

اور جس طرح دال اور الفِ ’’دانق‘‘ میں نون اور قاف سے پہلے ہیں، اسی طرح حجت اور داعی دو ۲ ماذون سے پہلے ہیں، ناطق اور اساس کے لئے اول و ثانی وہی منزلت رکھتے ہیں، جو منزلت دو ۲ ماذون کے لئے حجت اور داعی رکھتے ہیں۔

         نیز ہم بتائیں گے، کہ پہلے درہم ہے پھر دانق ہے، اور یہ دونوں کلمات ایک دوسرے کے بعد ایسے ہیں کہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں، اس لئے کہ دونوں کلمات میں شروع کے دو ۲ حرف جدا جدا ہیں، اور خیر کے دو ۲ حرف ملے ہوئے ہیں، جیسے ’’د،ر،ہم‘‘ اور د،ا،نق‘‘ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا دور دو ۲ قسم کا ہے، اور دونوں قسموں میں ہمارے لئے روحانی فراخی ہے، اور ہر کام کا شروع دو بسیط اصلوں (یعنی عقل و نفس ) سے ہوتا ہے، اس لئے کہ مذکورہ دو ۲ کلموں کا شروع دو۲ جدا جدا حرفوں سے ہے۔

         پس ہم بتا دیتے ہیں، کہ یہ دور جس میں ہم داخل ہیں دو حصوں میں ہے، ایک حصہ تو اولیا ٔ کا ہے، اور وہ اماموں کا دور ہے، اور دوسرا حصہ خلفا ٔ کا ہے، اور وہ دورِ قیامت ہے، اور دونوں قسموں کا رجوع دو روحانی اصلوں (یعنی عقل و نفس) کی طرف ہے، اور ہم بتائیں گے، کہ اماموں کے دور (آنے) کا سب خلفا ٔ کا دور ہے، اس لئے کہ (ہر چیز کا) آغاز اور اس کی علت (یعنی سببِ پیدائش) وہی ہے جو کچھ اس کا انجام ہے (یعنی ہر چیز کا انجام ہی اس کا آغاز ہے) اور اس درم و دانگ میں یہی دلیل ظاہر ہے اس لئے کہ درم دانگ سے بنا ہے، اور درم میں دانگ بننے کی صلاحیت ہے، اور دانک میں درم بننے کی صلاحیت ہے۔

         پس میں نے ثابت کر دیا کہ دانگ درم کا سبب ہے، جس طرح قائم علیہ السلام ہی تمام انبیا ٔ و اولیا ٔ کے پیدا ہونے کا سبب ہیں، اور ایک دانگ اسی کی دلیل ہے اور ایک درم چھ صاحبانِ شریعت کی دلیل ہے، اور انبیأ کی پیدائش کا سبب قائم علیہ السلام ہی ہیں، جس طرح درم کی پیدائش کا سبب

۳۰۶

دانگ ہے۔

         نیز بتائیں گے کہ جب تو درہم کی تشریح حسابِ جمل میں کرے گا، تو اس میں پہلے حرفِ ’’دال‘‘ آتا ہے، جس کا عدد چار ہے اور دوسرا حرف ’’را‘‘ ہے جس کا عدد دو سو ۲۰۰ ہے، یہ اس بات کی دلیل  ہے کہ چار مؤید (یعنی مدد دیئے گے) ہیں، جیسے ناطق، اساس، امام ، اور حجت، کہ ان کو تائید دو ۲ اصلوں سے ہے، جس طرح حرفِ ’’را‘‘ دو ۲ روحانی اصلوں کی مثال ہے، کیونکہ ’’را‘‘ کا عدد دوسو ۲۰۰ ہے، اور دو ۲۰۰۰ کے دو ۲ عقد ہوتے ہیں، اور وہ دو ۲ روحانی اصلوں کی دلیل ہے، اور ’’ھا‘‘ کا عدد پانچ ہے، اور ’’میم‘‘ کا عدد چالیس ۴۰ ہے، جو چار عقد ہوتے ہیں، اور یہ چار حدود کی دلیل ہے، کہ اساسین اور فرعین دو ۲ اصلوں کے تحت ہیں، یعنی ناطق، اساس، امام اور حجت اور پانچ کا عدد جو حرفِ ’’ھا‘‘ کا ہے، ان پانچ حدود پر دلیل ہے جو ان کے تحت ہیں: جیسے حجت، داعی، دو ماذون اور مستجیب، کہ ان سب کا رجوع چار اصول کی طرف ہے، یہ ایسا ہے جس طرح ھا میم کے ساتھ ملا ہوا ہے۔

         پھر جب تم جمل کے طریقے پر دانق کا حساب کرو گے، تو ’’دال‘‘ کا عدد چار ہے، اور ’’الف‘‘ کا ایک ہے، کیونکہ چار اصولِ دین کا مرجع ( یعنی لوٹنے کی جگہ ) باری سبحانہ و تعالیٰ کی وحدت ہے، اور ’’نون‘‘ کا عدد پچاس ۵۰ ہے، جو پانچ عقد ہوتے ہیں، اور ’’قاف‘‘ کا عدد ایک سو ۱۰۰ ہے، جو ایک عقد ہوتا ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ مذکورہ پانچ ماتحت حدود یعنی حجت، داعی، دو ۲ ماذون اور مستجیب کو علم کی قوت امام سے حاصل ہے، جس کی مثال ایک عقد ہے، اور مخلص مومن وہ ہے، کہ اپنے آقا کے فرمان کے مطابق فطر زکوٰۃ دیا کرتا ہے، اور اس کے معنی اس کتاب سے معلوم کر لیتا ہے، تاکہ وہ حق گزار اور حق شناس ہو ، (یعنی حق ادا کرنے والا اور حق پہنچانے والا ہو) اور نسناس (یعنی بن مانس) جیسے نادان کی باتوں پر عمل نہ کرے،تاکہ جہالت

۳۰۷

کے بیابان میں علم کی پیاس سے مر نہ جائے۔

         ہم نے فطر کے معنی اور اس کی تاویل کا ذکر کر دیا ، اور اس اختلاف کے سبب کا (بھی) جو ابلیس اور زمانے کے ابلیسوں کے فریب سے امت کے درمیان پڑا ہوا تھا، تاکہ اس بیان کے ذریعہ بصیرت والوں کو جہالت کے رنج سے خلاصی اور راحت حاصل ہو۔

                          والسلام

۳۰۸

کلام ۔ ۳۳

روزہ رکھنے کی واجبیت، اور اس کی تاویل کے بارے میں

         ہم بیان کریں گے، کہ روزہ کو عربی میں ’’صَوْم‘‘ کہتے ہیں، اور ’’صوم‘‘ کے معنی ہیں، ہر اس چیز (یعنی قول و فعل ) سے لوگوں کا رک جانا جس کو وہ کر رہے تھے، اور ہر بالغ و حاضر مسلمان پر سال میں اس ایک مہینے کا روزہ واجب ہے، جو رمضان کے نام سے معروف ہے، وہ ایک مہینہ کسی کمی کے بغیر پورے تیس ۳۰ دنوں کا ہونا چاہئے، اور روزانہ رات ہی سے اس دن روزہ رکھنے کی نیت کرنی چاہئے، اور ان چیزوں سے اپنے آپ کو روکنا چاہئے، جو روزے کو توڑ دیتی ہیں، جیسے کھانا، پینا، جماع کرنا، غیبت کرنا اور ناپسندیدہ افعال کرنا۔

         روزہ کی تاویل یہ ہے ، جو پہلے تم یہ سمجھ لو، کہ دین کے سلسلے میں نفس (یعنی روح) کی حالت جسم کی حالت سے ملتی جلتی ہے، چنانچہ تندرستی کی حالت میں جسم کی بہتری خوراک کھانے اور پانی وغیرہ پینے کے ساتھ وابستہ ہے، اور بیماری کی حالت میں جسم کا علاج کھانا نہ کھانے اور پانی وغیرہ نہ پینے کے ساتھ وابستہ ہے ( دوسری طرف سے) نفس کا کھانا تنزیل اور شریعت کا ظاہر ہے اور نفس کا پینا تاویل کا کھولنا اور شریعت کا بیان کرنا ہے۔

۳۰۹

         پس اسی طرح نفس کی بہتری کسی وقت تو شریعت اور ظاہر کو عمل میں لانے اور اس کی تاویل جاننے میں ہے، اور وہ ایک ایسے وقت میں ہوتا ہے، جس میں حدودِ دین برپا کئے ہوئے ہوتے ہیں، اور عالمِ دین جسم کی صحت مندی کی طرح بے خلل ہوتا ہے، اور پھر کسی وقت نفس کی بہتری شریعت کے باطن کو پوشیدہ رکھنے میں ہے، جبکہ مومنین اپنے ہلاک ہوجانے سے ڈرتے ہوں کہ ان کو دینی مخالفین ہلاک کر دیں گے، پس لوگوں کا روزہ رکھنا بظاہر خدا کی اطاعت ہے، اور اپنے آپ کو فرشتوں کی طرح کر دینا ہے، کہ وہ کھانے پینے سے بے نیاز ہیں، اور اپنے آپ کو حیوانی عادت سے دور رکھنا ہے، کہ حیوان جو کچھ پاتے ہیں اور جس وقت میں بھی ہو، ہڑپ کر لیتے ہیں، یہ عادت انتہائی ناپسندیدہ ہے، اور کم کھانا ایک پسندیدہ عادت ہے، نیز کم کھانے والے کو سب لوگ عزیز بھی رکھتے ہیں، اور روزے کا باطن (یعنی باطنی روزہ) کتاب اور شریعت کے باطن کی تشریح اور بیان کرنے سے حدودِ دین کا رک جانا ہے، اور اس قول کی سچائی کی دلیل خدائے تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے جو سورۂ مریم میں آیا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         فَإِمَّا تَرَيْنَّ مِنْ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا (۱۹: ۲۶)

         ’’خدا تعالیٰ حضرت مریم علیہا السلام سے فرماتا ہے، کہ پس اگر تو کسی آدمی کو دیکھے، تو کہہ دینا کہ میں نے خدا کے واسطے روزے کی نیت کر لی ہے، تو میں آج ہر گز کسی آدمی سے بات نہیں کر سکتی ۔‘‘

         حدیثِ شریف میں مذکور ہے، کہ ماہِ رمضان خدا تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور وہ تمام مہینوں سے افضل ہے، اور حدیثِ شریف میں ( یہ ارشاد بھی) ہے، کہ اس مہینے میں فرشتے دیکھے جاسکتے ہیں، اور اس میں آسمان کے دروازے نیکیوں کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں، اور اس میں حسبِ مقدور غریبوں کے ساتھ فیاضی سے پیش آنے کے لئے فرمایا گیا ہے۔

۳۱۰

         سال کے بارہ مہینے ہیں، اور رمضان کا مہینہ ان دوسرے گیارہ مہینوں سے اشرف ہے، اور اس کی تاویل کا بیان یہ ہے، کہ ہر پیغمبر اور ہر امام کے بارہ حجت ہوا کرتے ہیں، اور پیغمبر کے بارہ حجتوں میں سے ایک تو اس کا وصی ہوتا ہے، اور وصی کے بارہ حجتوں میں سے ایک امام ہوتا ہے، تاکہ اس کے بعد اس کے مقام پر قائم ہو جائے، چنانچہ یوسف علیہ السلام (اپنے والد حضرت) یعقوبؑ کے حجت تھے، کیونکہ یعقوب علیہ السلام امامِ (مستودع) تھے، اور امام نے (حضرت یعقوب کو تصور و ) خیال کے ذریعے یہ دکھانا چاہا تھا، کہ دوسرے گیارہ حجت زمانے کے امام اور ان کا باب (حجتِ اعظم) حضرتِ یوسف کی اطاعت کریں گے، چنانچہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ (۱۲: ۴)

         ’’ میں نے گیارہ ۱۱ ستاروں، سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے ان کو دیکھا ہے ، کہ یہ سب مجھے سجد ہ کررہے ہیں۔‘‘ اور گیارہ ستاروں سے حضرت یوسفؑ کی مراد گیارہ حجت ہیں، جن کا بارہواں خود حضرت یوسفؑ تھے، اور سورج سے ان کی مراد امام ہیں، اور چاند سے ان کی مراد باب ہے، اور ان کو ان کے سجدہ کرنے میں یہ مطلب رکھا، کہ یہ حدود حضرت یوسف ؑ کی اطاعت کریں گے، اور چاند وزیر کی مثال ہے، اور اللہ تعالیٰ کے اشارے کے مطا بق وصی ہی ناطق کا وزیر ہوا کرتا ہے جس طرح قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: ۔

واجعل لی وزیرا من اہلی ہارون اخی (۲۰: ۲۹ تا ۳۰)

         یعنی موسیٰ نے کہا: اور میرے کنبہ والوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر (یعنی بوجھ بٹانے والا بنا دے) ۔

         ماہِ رمضان کا روزہ رکھنے کی تاویل یہ ہے کہ جو شخص تاویل کی دعوت تک پہنچ جائے تو اسے چاہئے کہ شریعت کے حقائق کی پوشید گی سے طلب کرے نہ

۳۱۱

کہ ظاہریت سے، چنانچہ دن ظاہر اور تنزیل کی مثال ہے، اور رات باطن اور تاویل کی مثال ہے، پس ہمیں فرمایا گیا کہ ہم رمضان کے مہینے میں دن کے وقت غذا کو جمع کئے رکھیں، تاکہ ہم رات کے وقت اس کو کھائیں ، اور اسی طرح ہے کہ جو شخص تاویل کی دعوت (یعنی روحانی تعلیم) میں داخل ہوتا ہے، وہ ظاہری امور کو سن لیتا ہے، اور حقیقت کو انہی امور سے طلب نہیں کرتا، بلکہ تاویل کے طریقے سے طلب کر تا ہے، تاکہ وہ حقیقت کو حاصل کر سکے، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ظاہری حالت کو دیکھ کر یہ معلوم کر لینا چاہے کہ خدا تعالیٰ نے خنزیر (یعنی سؤر) کے گوشت کو کیوں حرام کر دیا ہے، اور بھیڑ بکری کے گوشت کو کیوں حلال ٹھہرایا ہے، تو وہ واقعہ کی ظاہریت سے اس حقیقت کا انکشاف نہیں کرسکے گا نہ وہ غیر تربیت یافتہ عقل سے ان دو گوشتوں کو سمجھ سکے گا، کہ نقصان پہنچانے والے سٔور کو کاٹ کر اس کا گوشت کیوں نہیں کھانا چاہئے، اور بے ضرر بھیڑ بکری کو کاٹ کر اس کا گوشت کیوں کھانا چاہئے، اور اگر ہم ظاہری حالت پر نظر رکھیں، تو ہماری اپنی عقل کے مطابق یہ لازم آتا ہے، کہ نقصان پہنچانے والے کو کھانا اور ستانا چاہئے، اور بے ضرر کو نہیں کھانا اور نہیں ستانا چاہئے۔

         جب ایسا کوئی شخص علم حقیقت سیکھے، تو اس وقت سؤر کا گوشت نہ کھانے کے معنی سمجھ سکے گا، اور اس کے کھانے کا نقصان معلوم کرے گا، اور گوسفند (یعنی بھیڑ بکری) کا گوشت (کھانے کے معنی) بھی ہ اس کے جسم میں ہیں، بلکہ اس کے نفس میں ہیں، اور رمضان کے امر کی اطاعت کرنے والا مومن جو رمضان کی حقیقت جانتا ہے، وہ تاویل ہی کے طریقے سے ہے، نہ کہ اس چیز کے عینِ ظاہر سے جو کھانے (یعنی افطار) کے لئے پڑی ہے، جس کو دن میں جمع کی گئی ہے، اور دن اس پر گزر چکا ہو، تاکہ اس جسمانی خوراک کو شبِ زمانی (یعنی مادی قسم کی رات) میں کھائے جو روزِ زمانی (یعنی ظاہری قسم کے دن) میں جمع کی گئی تھی، جبکہ مومن ماہِ رمضان کا ظاہری روزہ رکھتا ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ جسمانی خوراک کے باطن کو، جو روزِ

۳۱۲

دین، یعنی شریعت سے حاصل کیا ہے، شبِ دین میں یعنی تاویل حقیقت کے مقام پر کھائے گا، اور جب روحانی روزہ رکھے، تو وہ اس شخص کو پہچان لے گا جو خدا کا مہینہ ہے، چنانچہ ’’شھر‘‘ شہرت کے لفظ سے لئے ہیں، اور جو فرماتا ہے کہ: ’’شَھْرُ رَمْضَانَ‘‘ تو اس سے خدا کی مراد وہ شخص ہے، جو خدا کے نزدیک مشہور ہے، اور وہ شخص وہی ہے جس کے باطن میں قرآن بحقیقت خدا کا بھیجا ہوا ہے، اور قرآنِ شریف دراصل اس شخص کے باطن میں نازل ہوا ہے، جو قرآنی مثالوں سے اختلافات اور شبہات کو صرف وہی دور کر سکتا ہے، اور وہ ناطق علیہ السلام کے وصی ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنْ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ  (۲: ۱۸۵)۔

         ’’ ماہِ رمضان وہ شخص ہے جس (کی ذات) میں قرآن نازل کیا گیا، تاکہ (وہ شخص) لوگوں کو سیدھا راستہ دکھائے، اور سیدھے راستے کے متعلق بیانات کو وہی جدا کرے۔ ‘‘ یعنی خدا کا مشہور وہی شخص ہے، جس کی ذات میں قرآن نازل ہوا، تاکہ وہ شخص لوگوں کو سیدھا راستہ دکھائے اور پوشیدہ حقائق کو ظاہر کرے، اور حق کو باطل سے جدا کرے، پس فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمْ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ‘‘ (۲: ۱۸۵)

         پس تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پائے تو روزہ رکھے، یعنی جو شخص اساس کو پہچانے، تو وہ ان کی مرتبت کو دینی دشمنوں سے چھپا ئے رکھے، چنانچہ فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

          وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ( ۲: ۱۸۵)

         اور جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو، گو کہ روزہ نہ رکھے، مگر دوسرے دنوں کو گنے، تاکہ پھر سے روزہ رکھے، اس کے معنی یہ ہیں، کہ شخص تاویل کے نہ ملنے سے

۳۱۳

روحانی طور پر بیمار ہو جائے، جس کے سبب سے وہ ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلتا رہتا ہو، اور بیماروں کی طرح کمزور ہو جاتا ہو یا مسافرت میں ہو، یعنی حقیقت کا طالب رہتا ہو، تو روا نہیں کہ وہ خاموش رہے، بلکہ اسے ڈھونڈتے اور پوچھتے رہنا چاہئے، تاکہ حقیقت کو حاصل کر سکے، پھر تند رست ہو جائے۔ اور (اس علمی سفر سے) گھر کی طرف واپس آجائے، پھر اس کے بعد (روحانی طور پر اساس کو پہچان کر ) اس کی مرتبت کو دینی مخالفوں سے پوشیدہ رکھے اور اس بات کے معنی کہ بیمار اور مسافر دوسرے ایام گنے اور روزہ رکھے، یہ ہیں کہ جو شخص اساس کی تاویل حاصل نہ کرسکے تو روا ہے کہ وہ حجت، داعی اور ماذون سے تاویل حاصل کرے، کیونکہ وہی لوگ اساس کے دوسرے ایام ہیں، اور ان میں سے ہر ایک عالمِ دین کا ایک دن ہے۔

         پس ہم بیان کریں گے، کہ بارہ مہینوں میں سے ایک مہینہ روزہ رکھنے کی تاویل یہ ہے، کہ (ناطق کے ) بارہ حجتوں کے مجموعے میں سے اساس ہی ایک ایسے حجت ہیں جن کی مرتبت پوشیدہ رکھنی چاہئے، اور وہ اس مرتبت کی بنا ٔ پر اپنے گیارہ ساتھیوں سے مخصوص ہیں، جس طرح لوگوں کے لئے ماہِ رمضان اپنے ساتھ والے گیارہ مہینوں سے افضل ہے، کیونکہ دوسرے مہینے وہ فضیلت نہیں رکھتے ہیں، اور اس بات کی تاویل کی ماہِ رمضان تمام مہینوں میں نواں مہینہ ہے، یہ ہے کہ مستجیب سے لے کر عقلِ کل تک حدودِ دین کے مراتب بارہ ہیں، جیسے:

         ۱۔ مستجیب                    ۷۔ باب

         ۲۔ ماذونِ محدود                       ۸۔ امام

         ۳۔ ماذونِ مطلق                        ۹۔ وصی

         ۴۔ داعیٔ محدود                        ۱۰۔ ناطق

         ۵۔ داعیٔ مطلق                         ۱۱۔ نفسِ کل

         ۶۔ حجت                        ۱۲ ۔ عقلِ کل

۳۱۴

         پس وصی (ان حدود میں ) نواں مرتبہ ہیں، جس طرح ماہِ رمضان سال کا نواں مہینہ ہے، اور ماہِ رمضان کے بعد سال کے تین مہینے ہیں، جیسے شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ، اسی طرح وصی کے بعد دین میں تیس مراتب ہیں، جیسے ناطق، نفسِ کل ور عقلِ کل، اور گنتی میں بھی یہی حال (یعنی ثبوت ) موجود ہے، اس لئے کہ (قرآنی) گنتی بارہ درجوں میں ہے، جس میں نو درجے اکائی کے ہیں، دسواں درجہ دھائی کا ہے، گیارہواں درجہ سیکڑے کا ہے، اور بارہواں درجہ ہزار کا ہے، اور ہزار کے بعد (بس انہی درجوں کا ) تکرار یعنی دہرائی ہے، اسی طرح اکائی جسمانیوں  اور متعلموں کا درجہ ہے، ور وصی ان کا آخری درجہ ہے، کیونکہ وہ نویں منزلت پر ہیں، اور ناطق کے لئے حساب کے لئے حساب کی دہائی کا مرتبہ ہے، کیونکہ وہ آدمیوں کی انتہائی ہیں، اور انسانی صورت کا درجۂ کمال ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ دس کے عدد کو، جو ناطق کا مرتبہ ہے، کامل قرار دیتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         تلک عشرۃ کاملۃ (۲: ۱۹۶) (ترجمہ: یہ دس کامل ہے)، اور سیکڑے کا مرتبہ نفسِ کل کے لئے ہے، اور ہزار کا مرتبہ عقلِ کل کے لئے ہے۔

         پھر اس بات کی تاویل کہ ( روزہ رکھنے والا) جس دن روزہ رکھتا ہےتو اس کو اس دن رات ہی سے نیت کرنی چاہئے، یہ ہے کہ کتاب (یعنی قرآن) اور شریعت کا ظاہر تاویل طلب واقع ہوا ہے، اور تاویل ہی کتاب و شریعت کا سبب تھی، جو ظاہر (یعنی تنزیل ) کے بعد ممکن تھی، ایک ایسی بات کی مثال پر جو آواز، کلمات اور حروف کے ذریعہ کہا کرتے ہیں، پس اس آواز، کلمات اور حروف کا سبب معنی ہی ہوتے ہیں جو سننے والے کا نفس پہلے سن لیتا ہے، اور کہنے والے کی طرف سے وہ بات (مخاطب کو) اس معنی کی وجہ سے قابلِ قبول ہو سکتی ہے، پس ظاہری روزے کے لئے ظاہری رات ہی سے نیت کرنی چاہئے، تاکہ درست ہو اور اسی طرح پہلے تو روزہ کے معنی سمجھ لینا چاہئے، اس کے بعد روزہ رکھنا چاہئے، تاکہ وہ

۳۱۵

نیت جو روزے کی شناخت (یعنی تاویل) ہے روزہ رکھنے کا سبب ہو، کہ وہ روزہ رکھنا اساس کی مرتبت کی دینی دشمنوں سے پوشیدہ رکھنا ہے۔

         پھر اس بات کی تاویل کہ روزہ پورے تیس ۳۰ دنوں کا رکھا جاتا  ہے، یہ ہے کہ پہلے ان تیس ۳۰ مراتب کو پہچاننا چاہئے، تاکہ ہم اس کے ذریعہ تاویل سمجھ سکیں، اور یہ تیس مراتب وہ ہیں جن کی سچائی پر آفاق و انفس گواہ ہیں، ان کو یاد فرمایا ہے، جیسے سلالہ، نطفہ، علقہ، مضغہ، عظام اور حلم (یعنی مٹی کا خلاصہ، منی، جما ہوا خون، گوشت کی بوٹی، ہڈی اور گوشت) تاکہ ساتویں درجے پر انسان مکمل ہو، اور نفوس کی تخلیق میں اس کے برابر چھ مراتب ہیں، جیسے: طہارت، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد، تاکہ ولایت پر (روحانی تخلیق) پوری ہو، اور پیغمبری میں اس کے برابر چھ مراتب ہیں، جیسے آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد مصطفےٰ علیہم السلام تاکہ نبوت کی تخلیق مکمل ہو، اور پیغمبر کے بعد اس کے برابر چھ امام ہیں، جن کی تکمیل قائمِ حق علیہ السلام کے پیدا ہونے میں ہے، اور مذکورہ چھ چھ کے مراتب میں سے ہر چھ کا ایک ساتواں ہے، کہ ہر درجے کے چھ کی تکمیل اس کے ساتویں میں ہے، چنانچہ تخلیق جسم کے چھ مراتب کا ساتواں درجہ روح ہے، جس میں ان چھ مراتب کی تکمیل ہے، نیز ان چھ جسمانی مراتب کے برابر جسم کے سات ۷ اعضائے رئیسہ ہیں، جیسے: دماغ، دل ، جگر، پھیپھڑے، تلی، پتا اور گردے، جن سے جسم کی زندگی ہے، اور ہفت ارکانِ شریعت (یعنی شریعت کے سات ستون) کے برابر ان کے معانی ہیں، جن کے سمجھنے سے ولایت کے ساتھ اتصال ہو سکتا ہے، چنانچہ طہارت کے برابر (اس کے معنی ) نفس کو پاک کرنا ہے، نماز کی برابر اطاعت (یعنی فرمانبرداری) روزے کے برابر برے کاموں سے اپنے آپ کو روکنا، زکوٰۃ کے برابر علم بیان کرنا، حج کے برابر اپنے آپ کو امام تک پہنچا دینا، اور جہاد کے برابر علمی طاقت سے دینی دشمنوں کو مقہور (یعنی مغلوب کر دینا) اور اسی طرح سات اماموں کے برابر

۳۱۶

ان میں سے ہر امام کے لئے اس کے عصر میں تائید ہے، کہ وہ اس کی جان اور نفسِ شریف ہے، جس کے ذریعے وہ لوگوں پر سرداری کرتا ہے، اور ناطق کے درجے کے مقابل میں قائم القیامت کا درجہ ہے، کیونکہ انبیا ٔ کے آنے اور لوگوں کو خبردینے کا مقصد وہی (قائم علیہ السلام ) ہیں۔

         ان تیس ۳۰ مراتب کے مجموعے میں سے جن پر شریعت کی بنیاد رکھی گئی ہے، چھ مراتب ناطقوں کے لئے ہیں، اور سات مراتب اماموں کے لئے ہیں، جن کے بارے میں ہم نے شریعت کے موجوع سے شہادتیں پیش کر دی ہیں۔

         اب ہم بیان کریں گے، کہ اس کے بعد جسم اور نفس کی تخلیق میں نیز عالمِ دین میں بارہ ۱۲ بارہ ۱۲ مراتب ہیں، اور جسمانی تخلیق میں وہ بارہ ۱۲ مراتب یہ ہیں کہ انسانی جسم باہر سے اندر کی طرف بارہ سوارخ رکھتا ہے، جیسے کہ دو نتھنے، دو کان، دو آنکھیں، منہ ، دو پستان، ناف اور دو شرمگاہیں، اور روحانی تخلیق میں اس کے مقابل وہ بارہ (مراتب یہ ) ہیں۔

         ۱۔ عقل                          ۷۔حفظ

         ۲۔ نفس                         ۸۔خیال

         ۳۔ فہم                  ۹۔وہم

         ۴۔ فکر                          ۱۰۔ متصرفہ

         ۵۔ ذہن         ۱۱۔ تمیز

         ۶۔ خاطر               ۱۲۔ تقسیم

         اور عالمِ دین میں ان کے برابر بارہ جزیروں کے صاحبان ہیں (یعنی بارہ حجت ) کہ ہر ایک حجت کسی جزیزے کے لئے مخصوص ہے، اور حجتوں کے اس تعین سے آفاق و انفس کی بہتری کے لئے جو کچھ حاصل ہوتا ہے اس کی مثال ایسی ہے، کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص یہ جانتا ہو کہ ہر ایک جزیرے میں کھانے، پینے اور دوا کی چیزوں میں سے کون سی چیز پائی جاسکتی ہے، پھر جب اس کو ان میں

۳۱۷

سے کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو اس جزیرے میں جا کر اپنی ضرورت کی چیز طلب کر سکتا ہے، اسی طرح داعی کو چاہئے کہ صاحبانِ جزائر (یعنی حجتوں) کو پہچانے، کہ لوگ جو کچھ مجھ سے پوچھیں تو اس کا جواب ان حجتوں سے مجھے مل سکے گا، چنانچہ لوگ جس بارے میں بھی پوچھیں، تو وہ پروا نہیں کرتا، اور جانتا ہے، اور جو کچھ اس سے پوچھتے ہیں، تو وہ اس کا جواب دے سکتا ہے۔

         اس کے بعد پانچ مراتب ہیں، جن کو جاننا چاہئے اور جسمانی تخلیق میں ان پانچ (مراتب) کی مثال پانچ حواس ہیں، جیسے: دیکھنا، سننا، سونگھنا، چکھنا اور چھونا، اور روحانی تخلیق میں تمیز، تقسیم، تنزیل، تالیف اور تاویل ہیں، اور عالمِ دین میں ان پانچ کے مقابل ناطق، اساس، امام، حجت اور داعی ہیں، اور پیغمبری کی مرتبت میں ان پانچ کی طرح پانچ اولواالعزم ہیں، (یعنی نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد علیہم السلام) نیز نبی، وصی، امام، حجت اور داعی ہیں، اور ان پانچ کی طرح اولواالعزم اور عالمِ علوی کے درمیان پانچ واسطے (ذرائع) تھے، اور (اب بھی) ہیں، جیسے قلم (عقلِ کل) لوح (نفسِ کل) ، اسرافیل، میکائیل، اور جبرائیل۔

         پس یہ حدود مجموعی طور پر تیس ۳۰ ہیں، جیسے چھ ۶ ناطق، چھ ۶ امام، قائم، جزائر کے بارہ ۱۲ حجت اور پانچ روحانی حدود، جیسے عقل، نفس، جد، فتح اور خیال، اور ان تیس دنوں کا روزہ رکھنا، اور ان تیس ۳۰ حدود کو پہچاننے کی مثال ہے، اس لئے کہ جائز نہیں کہ تیس دن سےکم یا زیادہ روزہ رکھا جائے اور اس بات کی تاویل کہ جو شخص بالغ ہو اسے (سال میں ) ایک مہینہ روزہ رکھنا چاہئے، یہ ہے کہ جس کو دانش ملے، تو اس پر واجب ہوتا ہے کہ ان تیس حدود کو پہچانے اور ان سے فوائد حاصل کرے اور اپنے سے نچلے درجات کو فائدہ پہنچائے۔

         اس بات کی تاویل کہ غذا کھانا، پانی پینا، اور جماع کرنا روزۂ ظاہر کو توڑ دیتا ہے، یہ ہے کہ جب مستجیب سے عہد لیا جائے، تو اس کو تنزیل و تاویل بیان کرنے سے اور روحانی جماع کرنے سے روکے رکھتے ہیں، کیونکہ (ان چیزوں سے)

۳۱۸

روحانی نطفہ حاصل ہوتا ہے، کہ جب معہود (یعنی وہ مستجیب جس سے عہد لیا گیا ہے) تنزیل و تاویل بیان کرتا ہے تو اس کی مثال یوں ہوتی ہے، جیسے کہ ظاہری روزہ رکھنے والے نے کھانا کھایا اور پانی پیا ۰اور جماع کیا) اور جماع کی حقیقت غذا کھانے اور پانی پینے (کی حقیقت ) سے نزدیک ہے، اس لئے کہ جماع سے انسانی صورت حا صل ہوتی ہے، اور غذا سے اس صورت کی پائیداری ہوتی ہے، اور پینے سے اس کا طاقت ور ہوتا ہے، اور یہ تین باطنی حالتیں باطنی روزہ رکھنے والے پر حرام ہیں جس طرح وہ تین ظاہری حالتیں ظاہری روزہ رکھنےوالے پر حرام ہیں، اورروزہ کھولنا اساس کا مرتبہ ظاہر کرنے کی مثال ہے، اور جو شخص قصداً روزہ کھولے تو ایک دن کے بدلے میں اسے دو ماہ متواتر روزہ رکھان چاہئے جس کی تاویل یہ ہے کہ جو شخص (روحانی روزے کے درمیان) ان تیس ۳۰ حدود میں سے کسی ایک حد کو ظاہر کرے، تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ توبہ کے طور پر دو فرع کی طرف لوٹ آئے، کیونکہ وہ دو ماہ کی مثال ہیں، اور پیغمبر علیہ السلام کی حدیث ہے، جو فرمایا: ۔

         ’’ اِذَ ا اَقْبَلَ اللَّیلُ من ھٰا ھُنا و اَدْبَرَ النَّھا رُ من ھا ھُنا فقد اَفْطَرَ الصَّا ئم۔

         جب مشرق کی طرف سے رات آئے اور مغرب کی طرف سے دن چلا جائے تو روزہ رکھنے والا روزہ کھولے۔‘‘

         اور اس حدیث کی تاویل یہ ہے ، کہ رات باطن اور تاویل کی مثال ہے اور دن ظاہر اور تنزیل کی مثال ہے، اور جو فرماتا ہے، کہ جب مشرق کی طرف سے رات آئے تو روزہ دار روزہ کھولے، اس سے آنحضرتؐ کی یہ مراد ہے، کہ تمہیں تائید عقلِ کل سے ملے گی، کیونکہ نورِ توحید کا مشرق وہی ہے، اور جو فرماتا ہے، کہ مغرب کی طرف سے دن چلا جائے، اس سے آنحضرتؐ کی مراد یہ ہے کہ جب شریعت کا ظاہر ناپید ہوجائے تو نفسِ کل کی طرف متوجہ ہو جاؤ، کیونکہ نورِ توحید کا مغرب وہی ہے، اور اجسام کے ظاہر کا کوئی پیدا کرنے والا ہونا ضروری ہے، اور وہ نفسِ کل ہے، چنانچہ (نفسِ

۳۱۹

کل کے ذریعہ ) روزہ دار کا روزہ کھولا جائےگا، یعنی حق آشکار ہوگا، اور مومنوں کو اور حقداروں کو دینی دشمنوں سے کوئی خوف و ہراس نہ رہے گا، رسول علیہ السلام سے ایک اور حدیث یہ ہے، جو فرمایا: ۔

         ’’ لَیْسَ مِنَ البِرِّ الصّوم فی السَّفَرِ۔

         سفر میں روزہ رکھنا طاعت و نیکی نہیں۔‘‘

         اور اس حدیث کی تاویل یہ ہے کہ جب مومن طلبِ حقیقت کے مرحلے میں ہو) تو اسے روا نہیں کہ ڈھونڈنے اور پوچھنے سے رکے رہے بلکہ اسے چاہئے کہ حقیقت کو طلب کرتا رہے، تاکہ اس سے ظاہر و باطن میں خدا تعالیٰ کی طاعت ہو، رسول علیہ السلام کی ایک اور حدیث یہ ہے جو فرمایا: ۔

         ’’ صُوْمُوْ اتَصِحُّوْا ۔

         روزہ رکھو تاکہ تم تندرست رہو۔ ‘‘ یعنی اساس کی مرتبت اہلِ ظاہر کے لئے آشکار نہ کیا کرو، تاکہ تم ان کی اذیت سے سلامت رہو، نیز رسول السلام نے فرمایا: ۔

         ’’ سَافِرُ و ا تَغْنَمُوا۔

         سفر کرو، تاکہ تم کو مالِ غنیمت مل جائے۔‘‘

         یعنی دعوت میں داخل ہو جاؤ، تاکہ حقیقت کو جو مالِ غنیمت ہے، حاصل کرو، اور پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ شبِ قدر ماہِ رمضان میں ہے، اور اس رات میں تمام مخلوقات، جانور، درخت اور جواہر خدائے تعالیٰ کے لئے سجدہ اور خضوع کرتے ہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ اساس (یعنی علی) کی اولاد میں سے ایک شخص ایسا ہے کہ وہ دین میں آشکار ہوگا، اور وہ تیس ۳۰ حدود جن کا ہم نے ذکر کر دیا، اس کی اطاعت کریں گے، اور بکھیرے ہوئے مذاہب والے اور مختلف ادیان والے سب اپنا اپنا بدلہ پائیں گے، چنانچہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے: ۔

         ’’ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ( ۹۷: ۳)

         شبِ قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔‘‘

۳۲۰

         یعنی قائم کا حجت علم میں ہزار امام سے بہتر ہے، اگرچہ اماموں کے مراتب کو مجموعاً ایک مرتبہ مانا جاتا ہے، اور پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا، کہ (ماہِ رمضان کی) آخری دس (راتوں) کے طاق اعداد میں شبِ قدر کی تلاش کرو، اور آخری دس (راتیں) اماموں کی حد کی مثال ہیں، درمیانی دس اساسوں کی حد کی مثال ہیں، اور ابتدائی دس ناطقوں کی حد کی مثال ہیں، ان تین قسم کے حدود میں سے ہر قسم میں سات ہیں، اور ہر سات نے اپنے تحت تین حدود قائم کر دیئے ہیں، تاکہ دس ۱۰ ہو جائیں، اور آخری دس کی طاق راتیں اماموں کی حد کی مثال ہیں، اور جفت راتیں حجتوں کی حد کی مثال ہیں، پس (ان تمام امور کے نتیجے میں آنحضرتؐ) یوں فرماتا ہے، کہ قائم کو کوئی شخص پہچان نہ سکے گا، مگر پانچ حدود کے ذریعے سے، جیسے اساس، امام، باب، حجت اور داعی، روزہ کی تاویل کے متعلق، حقدار مومن کو بقدرِ کفایہ بتا دیا گیا۔

                                           والسلام

۳۲۱

کلام ۔ ۳۴

حج کرنے کی واجبیت اور اس لفظ کی تاویل

         ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ حج کرنے کے معنی ہیں، کسی چیز کی طرف قصد کرنا (یعنی ارادہ اور توجہ کرنا) بصیرت کے ساتھ (یعنی دیکھتے اور پہچانتے ہوئے) نہ کہ بیہودہ اور ڈینگ سے، چنانچہ بیت الحرام وہ مسجد ہے، کہ نمازی بوقتِ نماز اس کی طرف اپنا چہرہ کرتے ہیں، اور (اس اعتبار سے) نماز پڑھتے والے دوقسم کے ہیں، ایک قسم کے لوگ وہ ہیں جو خانۂ کعبہ کے بالکل نزدیک رہتے ہیں، اور وہ خانۂ کعبہ ہی کی طرف اس طرح اپنا چہرہ کرتے ہیں، کہ اس کی چاروں طرف سے نماز پڑھا کرتے ہیں، دوسرے لوگ وہ ہیں، جو خانۂ کعبہ سے دور رہتے ہیں، اور وہ مسجد کی محراب کی طرف اپنا چہرہ کر لیتے ہیں، کیونکہ محراب خانۂ کعبہ کی جانب بنائی گئی ہے، اور محراب کی زیارت و مشاہدہ کے بغیر نماز درست نہیں، جس کا رخ مسجد الحرام کی طرف ہے، اور حج کرنا کوئی اور چیز نہیں، سوائے اس گھر کی زیارت کرنے اور اسے دیکھنے کے، پس مذکورہ بیان کی روسے نماز اور حج کے درمیان پیوستگی سے، اور نماز پڑھنے والے کی نماز درست ہے، خواہ وہ خانۂ کعبہ کو دیکھے یا نہ دیکھے، مگر حج ہو نہیں سکتا، جب تک

۳۲۲

خانۂ کعبہ کو نہ دیکھا جائے، اور حدیث میں ہے، کہ خانۂ کعبہ بیت المعمور کے بالمقابل ہے، جو آسمان میں ہے، خانۂ کعبہ کے گرد بنی آدم طواف کرتے ہیں اور بیت المعمور کے گرد فرشتے طواف کرتے ہیں، اور حج کرنا ہر اس شخص پر فرض ہے، جس کو راستے کے اخراجات، سواری، جسمانی توانائی وغیرہ کے لحاظ سے خانۂ کعبہ کا راستہ میسر ہو، اس کو خانۂ خدا کہا گیا ہے، اور خدائے تعالیٰ نے فرمایا کہ مسجدیں میری ہیں، لیکن مسجدیں تو ملکیت کے طور پر خدا کی ہیں مگر خانۂ کعبہ خاص طور پر اس کا ہے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ وحدہ کا گھر ہے۔

         مذکورہ ظاہری امور کی تاویل یہ ہے، کہ خانۂ کعبہ سے متصل ہونا ہی نماز ہے، اور مومن کے لئے یہ اتصال حاصل نہیں ہوتا، سوائے امامِ زمان یا سوائے اس شخص کے، جو امام کے فرمان کے بموجب امام کی طرف دعوت کرتا ہے، کیونکہ امام ہی (بحقیقت) مسجد الحرام ہیں، اور داعی اس کی محراب ہے، محراب کا رخ مسجد الحرام کی طرف ہوتا ہے، اسی طرح داعی کا چہرہ امام کی طرف ہوتا ہے، یعنی وہ امام سے فائدہ حاصل کرتا ہے، محراب کی طرح جو کعبہ کی جانب رخ رکھتا ہے، اور مستجیب لوگ داعیوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔

         چنانچہ داعی امام سے فائدہ حاصل کرتا ہے، جس طرح کہ نمازی لوگ محراب کی طرف چہرہ کر لیتے ہیں، اور محراب کا رخ کعبہ کی جانب ہوتا ہے، اور جو کوئی کعبہ تک پہنچ جائے، تو اسے محراب کی طرف منہ نہیں کرنا چاہئے، اسی طرح جو شخص ایک ایسے مرتبے پر پہنچے، کہ امام خود اس کو علم سنا رہے ہیں، تو اس پر سے حجتوں اور داعیوں کی اطاعت ساقط ہو جاتی ہے، اور کعبہ بیت المعمور کے بالمقابل ہے، جو آسمان میں ہے، جس کی تاویل یہ ہے ، کہ آسمان امام کی (روحانی) مرتبت ہے، کہ تمام خلق کے نفوس اس کے تحت ہیں، جس طرح تمام اجسام (جسمانی) آسمان کے نیچے ہوتے ہیں، اور بیت المعمور کے معنی ہیں، ابدیت کا آباد گھر، اور وہ امام کا گھر ہے، کیونکہ خدا کی امانت اسی میں ہے، جس طرح لوگوں کا مال ان کے گھروں میں

۳۲۳

ہوتا ہے، اور وہ (خدا کا ) مال علمِ حقیقت ہے، جو اس گھر میں پوشیدہ ہے۔

         کعبہ کا راستہ میسر ہونا تو شۂ راہ (یعنی سفرِ خرچ) اور سواری پر دار و مدار رکھتا ہے، توشۂ راہ کی تاویل علم ہے، سواری کی تاویل حجت اور داعی ہیں، مکہ کے راستے کی منزلیں علمی منازل کی مثال ہیں، کہ مومن ان میں سے ہر ایک میں عمل کرنے اور علم سیکھنے کے لئے ٹھہرتا ہے، اور ان منازل سے حاجی کا گزر جانا، مستجیب کے ترک کرنے کی مثال ہے، مخالفوں کے مذہب کو، یہاں تک کہ طریقِ حق کو پہنچے، اور امامِ زمان ہیں، کیونکہ وہی تو خدا کے علم کا گھر ہیں، جب حاجی میقات (یعنی احرام باندھنے کی جگہ) پر پہنچتا ہے، تو احرام باندھ لیتا ہے، میقات چار ہیں، اور یہ ان چار حجتوں کی دلیل ہیں، جو امام کے حضور سے ہر گز جدا نہیں ہوتے ، اور یہ امام ہی سے علم حاصل کرتے ہیں (یعنی روحانی طور پر) اور لوگوں کو علم پہنچا دیا کرتے ۃٰن، اور ہر شخص اس مقام پر پہنچ نہیں سکتا، کہ امام سے (روحانی طور پر) کوئی بات حاصل کر سکے، مگر ان  چار حجتوں میں سے کسی ایک کے توسط سے۔

         چنانچہ جو شخص کعبہ تک پہنچنا چاہے، تو اسے کسی ایک میقات سے گزر جاناچاہئے، اور حاجی کا احرام باندھنا یہ ہے کہ وہ سلے ہوئے کپڑے اپنے جسم سے اتارتا ہے (ایک تہہ بند باند ھتا ہے، اور دوسرا تہہ بند یا چادر اوپر سے اوڑھ لیتا ہے) ننگا سر ہو جاتا ہے، اور عورت سے ہم بستری نہیں کرتا، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب مومن امام تک پہنچتا ہے، تو اسے چاہئے کہ کسی بات نہ کرے (یعنی کسی کو تعلیم نہ دے) کیونکہ وہ جماع کرنے کی تاویل ہے، ننگا سر ہوجانا اور سلے ہوئے کپڑے اتارنا اس بات کی مثال ہے کہ، مومن امام تک پہنچنے سے پہلے اپنے اعتقاد کو حجت سے چھپائے نہیں رکھتا، تاکہ حجت سے کوئی چیز پوشیدہ نہ رہ جائے، جس طرح احرام باندھنے والا کپڑے اتار دیتا ہے، چونکہ جسم روح کی مثال ہے، اور جسم کی صورتیں اور شکلیں (یعنی حالات و لوازم) روح کے اعتقادات کی مثال ہیں، اور اجسام کپڑوں کے نیچے چھپے ہوئے ہوتے ہیں، جب تم کپڑے

۳۲۴

اتارو تو تمہارا جسم نظر آنے لگے گا، اور شرمگاہوں کو چھپا لینا چاہئے، اور یہ مومن کے ان کاموں کو چھپائے رکھنے کی مثال ہے، جو اس نے ظاہر کو قبول کرنے کے سلسلے میں اور باطن کے آغاز میں نادانستہ طور پر کئے تھے۔

         احرام باندھنے والا اپنے اوپر پانی ڈالتا ہے (یعنی غسل کرتا ہے) جس کی تاویل ہے، کہ مومن علمِ بیان کو اپنا تا ہے، اور اس کے ذریعہ اپنی جان کو دھو لیتا ہے، پھر احرام باندھنے والا دو رکعت نماز پڑھ لیتا ہے، یہ امام اور حجت کے درجے پر مومن کے اقرار کرنے کی مثال ہے، پھر لَبَّیْک کہتا ہے، جس کو تلبیہ کہتے ہیں، جس کا اشارہ یہ ہے، کہ مومن اپنے راہنما کے لئے قبول کرتا ہے، خواہ وہ اسے جیسے بھی امام کی طرف بلا لیا کرے، اور احرام باندھے ہوئے شخص پر حرام ہیں: ۔

         شکار کرنا، کسی بھی جان کا قتل کرنا، جماع کرنا، درخت کاٹنا، ناخن تراشنا، اپنے آپ کو کھجلا نا اور جوئیں مارنا۔

         اور ان امور کی تاویل یہ ہے، کہ جو شخص امام (کی معرفت) تک پہنچ جائے، تو اس پر حرام ہیں: ۔

         عہد لینا، بیان کرنا، کسرکرنا، خویش و اقربا ٔ سے بیزاری چاہنا، مالکانہ حقوق کے بارے میں کسی کے ساتھ مقدمہ کرنا اور بحث و مناظرہ کے ذریعے کسی کو مقہور کرنا۔

         مکہ کے گرد چوبیس ۲۴ میل ہے، اور وہ روزوشب کے بارہ بارہ حجتوں کی مثال ہے، اور ایک نبی کے دروازے سے مسجد میں داخل ہونا، مومن کے اس اقرار کی مثال ہے کہ امام تک رسائی ہو نہیں سکتی، مگر حجت کی اطاعت کے راستے سے، اور حجر الاسود کی طرف آنا مثال ہے، درجۂ اساس پر مومن کے اقرار کی، خانۂ کعبہ کے تین رکن پوشیدہ ہیں، مگر حجر الاسود پوشیدہ نہیں، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ اساس تین اصول (یعنی عقل، نفس اور ناطق) کے متعلق بیان کرنے والا ہے، کیونکہ یہ ان کا چوتھا منارہ ہے، اور خانۂ کعبہ کے گرد سات بار طواف کرنا،

۳۲۵

سات اماموں کی حد پر مومن کے اقرار کی دلیل ہے، اور جب خانۂ کعبہ کے گرد طواف کرتا ہے، تو پورے بیت اللہ کو چار رکن کی صورت میں دیکھتا ہے، جو مومن کے چار حجتوں کو دیکھنے کی مثال ہے، جن کے ذریعے وہ امام معرفت میں پہنچتا ہے۔

         اس کے بعد حاجی مقامِ ابراہیمؑ کے پیچھے دو ۲ رکعت نماز پڑھتا ہے، اور وہ مومن کے اس اقرار کی دلیل ہے، جو امام کے پاس دو اصلوں (ناطق و اساس) کے متعلق کرتا ہے، پھر وہ کوہِ صفا پر جاتا ہے، اور خانۂ کعبہ کی طرف متوجہ ہو کر دعا کرتا ہے، پس صفا لاحق (یعنی حجت ) کی مثال ہے، چہرہ اساس کی حد ہے مثال ہے، اور کعبہ ناطق کی حد کی مثال ہے، اس کے بعد وہ وہاں سے کوہِ مروہ پر جاتا ہے، اور کعبہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو جاتا ہے، پھر کوہِ صفا پر واپس جاتا ہے، اسی طرح وہ صفا سے مروہ تک اور مروہ سے صفا تک سات بار گشت لگاتا ہے، اور یہ لاحقوں کے درمیان مومن کے گشت کرنے کی اور ان کے توسط سے سات اماموں کی حد کے لئے اقرار کرنے کی مثال ہے، اور صفا و مروہ کے دو میل کے درمیان (حاجیوں کا ) دوڑنا مومن کی اس سعی و کوشش کی مثال ہے جو فَرعَیْن (یعنی حجت و امام) کے درمیان اپنے آپ کو وسعت دینے کے لئے کرتا ہے۔

         اس کے بعد حاجی سرچھپا لیتا ہے، اور وہ اس بات کی مثال ہے کہ جب مومن اپنے فرائض کا انجام دیتا ہے، تو صاحب العصر اپنی حد کو اس پر ظاہر کر دیتا ہے، اور اس حد کو نا اہلوں سے پوشیدہ رکھنے کے لئے فرماتا ہے، اس کے بعد حاجی احرام سے باہر نکلتا ہے، اور وہ سب کام اس پر حلال ہو جاتے ہیں، جو کچھ ( دورانِ حج) میں حرام ہوئے تھے، یعنی جب مومن اپنے واجبات کو انجام دیتا ہے، تو اس کو فرمایا جاتا ہےکہ، وہ فرعین ( یعنی حجت و امام) کی طرف دعوت کرے۔

         اس کے بعد وہ ان کپڑوں کو پہن لیتا ہے، جو خود رکھتا تھا، یعنی (روحانیت کے اس مقام پر) مومن کو فرمایا جاتا ہے، کہ وہ اسی ظاہر و باطن کی حفاظت کرتا رہے جس کی وہ پہلے حفاظت کرتا رہا تھا۔

۳۲۶

         اس کے بعد حاجی قربانی کرتا ہے، اور اس میں سے کھا لیتا ہے، اور غریبوں کو دیا کرتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ مومن جد و جہد کرتا ہے، تاکہ مخالفوں کو مقہور کرتے، اور ان کو اپنی دینی حقیقت کی طرف لائے، تاکہ مثال کے طور پر مخالف کو کھا لیا کرے( یعنی اس کو تعلیم دینے کے بعد اعتقادی طور پر اپنے ساتھ ایک کر دے) بس اس کو کھالینے کے معنی یہی ہیں، اور مستجیبوں کو بھی بہرہ مند کر دیتا ہے، وہ اس طرح کہ اس مخالف کے اعتقاد کو اپنے اعتقاد کے طرح کر دیتا ہے، اور وہ بھی گویا اس سے روحانی طور پر کھا ئے ہوئے ہوتے ہیں، خدا کی مہربانی سے حج کرنے کی واجبیت، اس لفظ کے معنی و تاویل اور اس کی شرائط ایک ایک کر کے بتا دی گئیں۔

۳۲۷

کلام ۔ ۳۵

جہاد کرنے کی واجبیت اور اس کی تاویل کے بارے میں

         ہم بتائیں گے، کہ چونکہ انسان کا جسم اس عالم کا تھا، اور اس کا نفس عقلانی عالم کا تھا، اس لئے محسوسات نے نفسِ حسی کو اس عالم کی طرف بلایا اور معقولات نے نفسِ ناطقی کو عقلانی عالم کی طرف بلایا ، اور لوگ ان دوبلا نے والوں کے درمیان تین گروہوں میں تقسم ہو گئے، ایک گروہ حسی خواہشات کے پیچھے چلا، اور اس نے نفسِ شہوانی کی دعوت کو قبول کر لیا، ایک گروہ صاحبان شرائع کے فرمان کے مطابق معقولات کے پیچھے چلا اور عقل و نفسِ ناطقہ کو بلانے والے کے لئے قبول کر لیا، اور ایک گروہ ان دونوں کے درمیان رہ گیا، جس نے برائیوں اور بھلا ئیوں کو ملا کر غلط ملط کر دیا۔

         جب بلائے جانے والوں کا یہی حال تھا جس کا ہم نے ذکر کر دیا، تو اب ہم بتائیں گے، کہ لوگوں پر واجب ہے، کہ وہ اپنے روحانی درجے کے نفسوس کی مدد کرنے کے لئے کو شش کریں، اور ان نفوس سے متعلق احوال و فرامین کو قبول کر لیا کریں، تاکہ وہ نفسِ شہوانی کو مقہور و مغلوب کر سکیں، یہ اس وقت ہو سکتا ہے جبکہ وہ اپنا غصہ پی سکتے ہوں اور صاحبانِ شریعت دین و دنیا کی مصلحتوں کے سلسلے

۳۲۸

میں جو کچھ فرماتے ہیں، اس کی تابعداری کریں۔

         پس لوگوں میں سے ایک گروہ وہ تھا جس نے اپنی تمام تر توجہ نفسانی خواہشات کی طرف لگادی، اس نے شریعت کی شرائط پر عمل نہیں کیا، بلکہ نامناسب باتوں پر عمل کیا، اسی سبب سے دانش مند اور دیندار لوگوں پر یہ واجب ہوا، کہ ان مفسد وں کے نامناسب کاموں کو ان سے چھڑا دین، اور یہی وجہ ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو جہاد کرنے کے لئے فرمایا: جیسا کہ ارشاد ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ  (۹: ۷۳)

         ’’ اے نبی! کفار (سے بالسنان) اور منافقین سے ( باللسان) جہاد کیجئے، اور ان پر سختی کیجئے۔‘‘

         (اسی طرح) جہاد کے متعلق حق تعالیٰ کا یہی فرمان رسولؐ کے بعد امام کو حاصل ہے، کیونکہ امام کے بغیر جہاد جائز نہیں، اگر امام جہاد کریں یا نہ کریں، بلکہ جزیہ لیں، تو کسی کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ اس بارے میں کچھ کہے۔

         جب لوگ دو چیزوں سے بنے ہوئے تھے، جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں، یعنی جسم اور نفس سے، تو جہاد بھی دو قسم کا ہوا، جسمانی جہاد دین کے جسم قبولنے (یعنی اپنانے) کے لئے لازم ہوا، اور وہ دین کا جسم شریعت کی صورت میں ہے، اور اس جہاد کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیث ہے، جو فرمایا:

         ’’ اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْ الَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔

         مجھے فرمایا گیا ہے ، کہ لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ لا الٰہ اللہ کہا کریں۔‘‘

         یہ اس لئے ایسا ہے، کہ جسم کو مجبور کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کی حالت بدل جاتی ہے اور اس میں زوال آجاتا ہے، چنانچہ دین کے جسم کے جہاد کے مالک

۳۲۹

ناطق ہیں، اور امام جو آپ کے (حقیقی) جانشین ہیں، جہاد کے مالک ہیں۔

         دوسرا جہاد دین کی روح (جان) قبولنے کے لئے ہے، اور دین کی روح تاویل کی حیثیت میں ہے، اور یہ جہادِ روحانی ہے، اور اس میں اختیار ہے کوئی جبر نہیں، چنانچہ خدا تعالیٰ کا ارشارد ہے: ۔

         ’’ لَا اِکَراہَ فِی الدِّیْنِ ( ۲: ۲۵۶)

         دین میں (بحقیقت) کوئی زبردستی نہیں۔‘‘ اس لئے کہ روح مختار ہے اور اس کے لئے تبدیلی اور زوال نہیں۔

         روحانی جہاد کے مالک اساس ہیں، جب دین کی جان کے جہاد کے مالک اساس ہیں، تو جو حجت امام کو (بحقیقت) پہچانے، وہ اس منزلت پر ہوگا، جس پر اساس ناطق کے لئے تھے، اور رسول علیہ السلام سے حدیث ہے، جو فرمایا: ۔

         ’’ اَفْضَلُ الْجَھَادِ مُجَاھَدَۃُ النَّفْس۔

         بہتر ین جہاد وہ ہے، جو نفس کے خلاف کیا جائے۔‘‘

         اور اس بات کی دلیل، کہ اساس روحانی جہاد کے مالک ہیں، یہ ہے کہ رسول علیہ السلام نے فرمایا: ۔

         ’’ خَیْرُ کُمْ بَیْنَکُمْ مَنْ یُقَا تِلکُمْ عَلٰی تَاوِیْلِ الْقُرْاٰنِ کَمَا قَا تلتکُم عَلٰی تَنْزِ یْلِہٖ۔

         تمہارے درمیان تم سب سے بہترین وہ شخص ہے جو شریعت اور قرآن کی تاویل کے لئے تم سے جنگ کرے گا، جس طرح میں نے تم سے تنزیل کے لئے جنگ کی ہے۔‘‘

         چنانچہ رسول کے بعد آنجناب (یعنی اساس) پر فرض ہوا کہ وہ دین کی طرف سے کافروں اور منافقوں کے دو گروہ کے خلاف جہاد کریں، جس طرح جسم کے مقابلے میں نفس زیادہ شریف ہے، اور وہ جڑ کی طرح ہے، اور جسم شاخ کی مثال ہے، اسی طرح روحانی جہاد جسمانی جہاد کی اصل (یعنی جڑ ) ہے، اور یہ جسمانی جہاد

۳۳۰

کے مقابلے میں اشرف و افضل ہے۔

         پس سب سے پہلے چاہئے کہ دین کے طریق پر کافروں کے سامنے ایمان پیش کیا جائے اور ان کو کلمۂ اخلاص کی طرف بلایا جائے، اگر وہ اس کو قبول نہ کریں تو اس وقت ان کے خلاف جسمانی جہاد کے لئے باہر نکلنا چاہئے، اور جس طرح جسمانی جہاد میں دھوکہ اور مکر لازمی ہے، چنانچہ رسول علیہ السلام فرماتا ہے: ۔

         اَلْحَرْبُ خَدْعَۃُ۔

         یعنی ’’ لڑائی میں مکرو فریب ہو اکرتا ہے۔‘‘

         روحانی جہاد میں مکرو فریب سے اس طرح کام لیا جاتا ہے، کہ تو کسی ظاہری شخص کے اعتقاد کے ذریعہ اس سے واقف ہوجائے کہ اس کا کیا حال ہے، اور وہ بات کونسی ہے جو اکثر اس کے دل کے لئے باعثِ سکون بن سکتی ہے، اور جس کے سبب سے تو اس کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے، پس اس طریقے کے مطابق تجھے اس سے گفتگو کرنی چاہئے، اس طرح کہ اسے معلوم بھی نہ ہو کہ تو اس طریق پر نہیں ہے، جس پر وہ ہے، تاکہ تو اس کو حق کی طرف بلند کر سکے، جب وہ فریفتہ ہو جائے اور مطلب اس پر واضح ہو جائے تو اس وقت فریب کاری جاری رکھنا جائز نہیں، بلکہ سچ بتانا چاہئے، اور اس کی صلاحیت کے مطابق حقیقت دکھانی چاہئے، چنانچہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے: ۔

         إِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا (۴۷: ۴)

         (اے ایمان والو!) جب تمہارا کافروں سے مقابلہ ہو جائے، تو ان کی گردنیں مارو، یہاں تک کہ تم ایسا کرو کہ وہ گر پڑیں اور نہ جا سکیں، تو خوب مضبوط باندھ لو، پھر اس کے بعد یا تو مطالبہ کے بغیر دے دینا، یا بدلے میں دے دینا، یہاں تک کہ دشمن لڑائی کے ہتھیار رکھ دیں۔‘‘

۳۳۱

         مذکورہ آیت ظاہر میں ٹھیک طرح سے معنی نہیں دیتی ہے، اس لئے کہ جب کس شخص کی گردان ماری جائے، تو اس کی قید نہیں کیا جاسکتا ( کیونکہ وہ تو قتل ہی ہو چکا) پس تاویل کے طور پر اس آیت کے یہ معنی ہیں، کہ انسان کی جسمانی گردن اس کے حواس کا راستہ ہے، اور دیکھنے، سننے، سونگھنے، چکھنے اور چھونے کی تمام قوتیں گردن ہی کے راستے سے جسم کے ساتھ متصل ہیں، کیا تجھے معلوم نہیں کہ جب گردن ماری جائے تو یہ تمام قوتیں ختم ہو جاتی ہیں، (کیونکہ) کھانا پینا گردن ہی کے راستے سے جسم میں پہنچتا ہے، اور جسم کی زندگی گردن ہی کے راستے سے میسر ہے، پس بالکل اسی طرح ہی جو شخص کس شخص کو امام مان کر اس کی عادت و سنت کے مطابق عمل کر تا ہو، تو اس امام کے ساتھ ملنا اور اس کی عادت و سنت کو اپنانا گویا اس شخص کے نفس کی گردن کی حیثیت رکھتا ہے، اور وہ امام اس کے نفس کے لئے سر کی حیثیت سے ہے، کیونکہ جسم کے لئے محسوسات کی صورت میں جو کچھ موجود ہے، نفس کے لئے معقولات کی صورت میں بھی وہی کچھ موجود ہے۔

         جب حجت یا داعی کسی ظاہری شخص کے قول کی تردید کرتا ہے، تو وہ شخص کسی ایسی چیز کے لئے کوشش کرتا ہے، کہ جس کے ذریعے وہ بھی اس (حجت یا داعی ) کے قول کی تردید کرے، اور اپنے امام کے بارے میں بات کرتا ہے، تاکہ جس سے اپنے مذہب کو ثابت کر سکے، پس داعی پر سب سے پہلے یہ واجب ہے، کہ اس ظاہری شخص کے لئے یہ ثابت کر دے کہ تیرا امام باطل ہے، اور اس کے اعتقاد کو منقطع کر دے جو اس کے بعد اس شخص کے گمان میں اس کے امامِ برحق ہونے کے متعلق ہے، اس کے ان اعتقادات کے متعلق باتوں کی تردید کرے، جو اس نے اپنے امام سے اپنا لی تھیں، تاکہ اس کے اعتقاد کی اصل و فرع ختم ہو جائیں، پس داعی کی طرف سے اس ظاہری شخص کے امامِ ظاہر کو باطل ثابت کر دینا ہی اس شخص کی نفسانی گردان مارتا ہے، پھر سچی دلیلوں سے اس کی دلائل کی تردید کر دینا ہی گویا اس ظاہری شخص کا گر پڑنا اور کہیں نہ جاسکنا ہے، اور لفظ ’’ اِذَا اَثْخَنْتُمُوْ ھُمْ‘‘

۳۳۲

کے یہ معنی ہیں کہ: ۔

         ’’ جب تم نے یوں کیا جیسا کہ ہم نے کہا۔‘‘

         یعنی جب ظاہری شخص گر پڑا کہ اس کے پاس دلیل ہی نہ رہی، تو حجت یا داعی خود ہی اس سے عہد و میثاق لیا کرتا ہے، ہر چند کہ امام سے (جسمانی طور پر) دور رہا ہو، اور حقیقت اس پر واضح کر دیتا ہے، اور حقیقت واضح کر دینا دو طرح سے ہے، یا تو اس شخص کے پوچھے بغیر داعی خود ہی اس کچھ حقیقت بیان کرتا ہے جس کے بارے میں خدا تعالیٰ عربی لفظ میں فرماتا ہے: فَاِمَّا مَنّاً، یا یہ ہوتا ہے، کہ سوال کرنے پر داعی اس شخص کو جواب دیا کرتا ہے، جس سے عہد لیا گیا ہے، جس کے بارے میں خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے: ۔ وَاِمَّا فِدَآءً، پس ’’مَنّ‘‘ کے معنی ہیں: مطالبہ کے بغیر کوئی چیز دینا، اور فِدَاءً کے معنی ہیں، کسی چیز کا معاوضہ دینا، داعی اور معہود ( جس سے عہد لیا گیا ہے، یعنی نو مرید) کے مابین یہی دو حال رہتے ہیں، اس لئے کہ جب معہود سیکھنے کے لئے شائق ہو، تو اس کے بغیر کہ اس نے پوچھا ہے داعی خود ہی اس پر تعلیم کی منت رکھتا ہے، اور بتا تا جاتا ہے، جب تک کہ وہ اس شوق کو ترک نہ کرے، تاکہ داعی بھی اس سے تعلیم منقطع کر لیتا، بلکہ وہ شخص داعی سے پوچھتا رہتا ہے، اور داعی جواب دیتا جاتا ہے، جب تک داعی اور مستجیب کے درمیان نفسانی جنگ جاری ہے، یہی دو حال رہتے ہیں، جب معہود کے شبہات زائل ہوگئے، تو یہ جنگ درمیان سے اٹھ جاتی ہے، اور وہ درونوں ہتھیار رکھ دیتے ہیں، پھر اس کے بعد حقیقت کا انکشاف کرتے ہوئے اور راحت بڑھاتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہا کرتے ہیں۔

         خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے: قولہ تعالیٰ: ۔

         وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا (۱۷: ۱۳)

۳۳۳

         اس آیت کی تفسیر یہ ہے ، کہ جو فرماتا ہے کہ: ’’ اور ہم نے ہر انسان کے وبال (یعنی اعمال) کو اس کے گلے میں لگا رکھا ہے، اور (پھر) قیامت کے دن ہم اس ے واسطے ایک ایسی کھلی کتاب  ( کی صورت میں ) ظاہر کر دیں گے، کہ سب دیکھ لیں گے‘‘ تفسیر کرنے والے اس آیت کے معنی ( میں پھنس کر اس) سے باہر نہ نکل سکے اور عاجز ہوئے، اور انہوں نے ایک دوسرے کے حوالے ہی پر اکتفا کی، اور اس آیت کی تاویل یہ ہے، جس طرح ہم نے ( اس سے پیشتر ) بتایا کہ سارے انسانوں اور حیوانوں کے لئے جسم کی پرورش گردان ہی کے راستے سے ہوتی ہے، پس جس چیز کی وساطت سے انسان کے نفس کی پرورش ہوتی ہے، وہ گویا اس کی گردن ہے، عُنُق کے معنی ہیں گردن، اور گردن سر کے ساتھ لگی ہوئی ہوتی ہے، خدا تعالیٰ جو فرماتا ہے، کہ ’ہم نے ہر انسان کے وبال کو اس کے گلے میں لگا رکھا ہے‘‘ اس سے اس کی مراد یہ ہے، کہ لوگوں کے وبال یہ ہیں، کہ لوگ ان کی وجہ سے امکانات کے جلد وقوع میں آنے کے لئے منتظر رہتے ہیں، اور اس وبال کی تاویل لوگوں کا کام کرنا ہے، کیونکہ لوگ اسی لئے اپنے ثواب کے منتظر ہوتے ہیں، کہ وہ کام کرتے ہیں اور اسی کے ذریعہ وہ اپنے امام سے وابستہ ہو جاتے ہیں، اور یہی وابستگی ہی ہر شخص کے نفس کی گردان ہے، پس انسان کا کام جو اس کا وبال ہے، اس کی گردان میں ہے، کہ اپنے آپ کو امامِ برحق یا امامِ باطل کے ساتھ ملا دیتا ہے۔

         پس ہم بتائیں گے، کہ محسوسات کی چیزیں حواس کے ذریعہ دیکھی اور پائی جاسکتی ہیں، اور جسمانی گردن دل کی طرف حواس کی قوتوں کا راستہ ہے، اور جب لوگ محسوس کو اس کی حقیقت (یعنی معمول) کے مطابق پاتے ہیں، تو اس بات کی دلیل ہے، کہ ان کے حواس اور اس کے حواس کا راستہ ٹھیک ہے، اور اسی طرح انسان معقولات کو نفسانی گردان کے راستے سے پاتا ہے، اور یہ گردان انسان کے نفس اور اس کے امام کے نفس کے درمیان جڑی ہوتی ہے، تاکہ اس کے

۳۳۴

امام کی قوت اس کی اپنی قوت میں پہنچ جائے، اور معقولات کو سمجھ سکے، اگر اس کا امام سچا اور دانا ہے، تو معقولات میں سے جو کچھ علم اس کو پہنچے وہ بغیر کسی شک کے ہوگا، اور اگر (امام) باطل ، نادان اور جھوٹ ہے تو اس کی (علمی) صورتیں الٹی نظر آئیں گی، چنانچہ اگر کسی شخص کا دماغ خراب ہے تو تمام غلط باتیں دل کے لئے درست نظر آتی ہیں، پس بتائیں گے کہ ہماری اس تشریح سے یہ ثابت ہوا، کہ ہر وہ امام جو اپنی قوم کے لئے راستہ دکھانے والا ہے، خواہ حق ہو یا باطل اپنی قوم کی گردان کی حیثیت رکھتا ہے، اور قوم کی نیک بختی اس امام سے وابستہ ہے، اس لئے کہ قوم وہی کرتی ہے جو کچھ امام بتا تا ہے، اور اگر گردن درست ہے، تو سارا جسم صحت مند رہتا ہے، اور اس کے تمام کام ٹھیک ہوتے ہیں، اور اگر گردان ٹیڑھی اور نا درست ہے تو اس کے ٹیڑھا پن سے تمام جسم ٹیڑھا اور نادرست رہتا ہے۔

         (اب) ہم جہاد کی تشریح کی طرف رجوع کرتے ہیں، اور کہتے ہیں، کہ جب جہاد دو طرح سے ہے، ایک جسمانی اور دوسرا نفسانی، تو ہر ایک مومن پر واجب ہے کہ، کافروں سے جنگ کرے، تلوار سے ان کا خون بہائے اور ان کے اجسام کو بگاڑے، اس لئے کہ انہوں نے دین کے جسم کو جو شریعت اور کتاب (یعنی قرآن) کا ظاہر تھا، قبول نہیں کیا ہے، خون بھی دو قسم کا ہے، ایک طبعی خون ہے، اور دوسرا روحانی خون، طبعی خون وہ ہے جو زندہ مخلوق کی رگوں میں چلا ہے، اور روحانی خون شکوک و شبہات ہے، جو باطن کی رگوں میں فکر، وہم اور ذکر کے راستے سے چلتا ہے، پس خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا ، کہ کافروں کے خلاف جہاد کرے اور ان کا جسمانی خون بہائے، اس واقعہ کے بعد کہ وہ آنحضرتؐ سے منکر ہوئے، اور شریعت کے ظاہر کو انہوں نے قبول نہیں کیا، جو دین کے جسم کی حیثیت سے تھا، اور یہ جہاد جسمانی لوہے کی جسمانی تلوار کے ذریعہ کیا جاتا تھا، اور اسی طرح خدا تعالیٰ نے مومنین سے فرمایا، تاکہ وہ روحانی لوہے کے کسی بھی ہتھیار

۳۳۵

کے ذریعہ منافقین کے نفوس سے خون بہاتیں، جس طرح جسمانی لوہے کے کس بھی ہتھیار کے ذریعہ کافروں کے اجسام سے جسمانی خون بہایا جاتا ہے، اور جب تو کسی کافر کا خون بہاتا ہے، تو اس کا جسم طبعی حرکت چھوڑ کر ساکن ہو جاتا ہے، اسی طرح جب تو منافقین کا روحانی خون بہاتا ہے، تو اس کے دل سے شک و شبہ نکل جاتا ہے، اور وہ مخالف شخص اختلاف اور جھگڑا چھوڑ کر آرام کرتا ہے، اور جس طرح جسمانی خون اس طبعی لوہے کے ذریعہ بہایا جاتا ہے جو جسمانی پہاڑوں سے نکلتا ہے، اسی طرح روحانی خون اس روحانی لوہے کے ذریعہ بہایا جاتا ہے، جو روحانی پہاڑوں سے نکلتا ہے، چنانچہ روحانی پہاڑ حجت ہے اور روحانی لوہا امامِ برحق کی مثال ہے، جن کے ذریعہ اس چیز کا خون بہانا حلال ہے، جسے تو ذبح کرتا ہے (یعنی یہی وجہ ہے جو کہا گیا ہے کہ لوہے کے بغیر ذبح کرنا درست نہیں، جس کی تاویل یہ ہوئی کہ امامِ برحق یا اس کے حدود کے بغیر کسی شخص کو یہ جائز نہیں، کہ وہ لوگوں سے عہد لیا کرے، یعنی اپنے مذہب میں داخل کرے)۔

         خداتعالیٰ نے مسلمانوں پر کافروں کے مقابلے سے بھاگ جانا حرام کر دیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: ۔

         يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلاَ تُوَلُّوهُمْ الأَدْبَارَ ۔ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنْ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (۸: ۱۵ تا ۱۶)

         اے ایمان والو! جب تم کافروں سے (جہاد میں) دوبدو مقابل ہو جاؤ، تو ان سے پشت مت پھیرنا، اور جو شخص ان سے اس موقع پر (مقابلہ کے وقت) پشت پھیرے گا، مگر ہاں جو لڑائی کے لئے پیترا (یعنی جگہ ) بدلتا  ہو یا جو اپنی جماعت کی طرف پناہ لینے آتا ہو وہ مستثنٰی ہے، باقی، اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کے غضب میں آجائے گا، اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا، اور وہ بہت ہی بری

۳۳۶

جگہ ہے۔‘‘

         پس اسی طرح مومنین پر واجب ہے کہ دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں جائیں، جب وہ چاہیں کہ منافقین کے خلاف جنگ کریں، اور ان پر کام سخت ہو جائے، تاکہ وہ روحانی ہتھیار لے سکیں اور زمانے کے منافقین سے نہ ڈریں اور منافقین کی حقوق مندی کے لئے اقرار نہ کریں، کیونکہ یہ مومنوں کے بھاگ جانے اور پشت پھیرنے کی مثال ہے، جس سے ان کے ظاہر کو قوت ملتی ہے، یہی سبب تھا کہ رسول علیہ السلام لڑائی میں ہر شخص کو اپنے ہم جنس کے ساتھ آنے جانے اور جہاد کرنے کے لئے فرماتے تھے۔

         اس بات کی تاویل جو رسولؐ نے فرمایا، کہ: جب تم جنگ کرو تو ایک دوسرے کے چہروں پر نہ مارو، یہ ہے کہ ظاہر سے منکر نہ ہو جانا چاہئے، کیونکہ وہ تاویل کا چہرہ ہے، اور دوسرے اعضا ٔ پر مارنے کے لئے فرمایا، یعنی اشارہ فرمایا، کہ ظاہر کو ترک نہ کیا کرو، اور اس کو ختم نہ کیا کرو، اور منا فقین کے لئے ( اس جہاد میں یعنی بحث میں ) جسم کی تخلیق سے دلیل پیش کرو، نیز رسول علیہ السلام نے جنگ میں چھوٹے بچوں، بوڑھوں ، احبار (علمائے یہود) اور رہبان (عیسائی عابدین)  کو قتل کرنے سے نہی فرمایا، جس کے معنی یہ ہیں، کہ چھوٹے بچوں کی مثال ان لوگوں کے لئے ہے جن کی عقل نہیں، اور وہ علم حقائق کو (فوری طور پر ) قبول نہیں کر سکتے، اور بوڑھوں کی مثال ان لوگوں کے لئے ہے جن کا اپنا اعتقاد مضبوط ہو چکا ہے اور وہ اس سے پھر نہیں سکتے ہیں، اور احبار و رہبان کی مثال علمائے ظاہر کیلئے ہے، جو دنیا کی سرداری عزیز ہونے کی وجہ سے اپنے راستے سے باز نہیں آتے۔

         پس رسول علیہ السلام نے ان ( چھوٹے بچوں یعنی سادہ لو گوں ) سے عہد لینے اور ان پر حقیقت کھولنے کے لئے فرمایا، تاکہ وہ تابعداری اختیار کریں، جس طرح چھوٹے بچے کو جنگ میں قتل تو نہیں کرنا چاہئے، مگر اسے لے آنا

۳۳۷

چاہئے، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ مستجیب کو علم سکھانا چاہئے، مگر دعوت کے لئے اجازت نہیں دینی چاہئے، اور جہاد امام کے فرمان کے بغیر جائز نہیں، جو دلیل ہے، کہ کسی جزیرے میں دعوت جائز نہیں، مگر اس واقعہ کے بعد کہ امام اس جزیرے میں حجت قائم کردے، اور جس طرح جسمانی لڑائی میں (جبکہ جنگ اصول کے مطابق لڑی جا رہی ہو، تو ) لڑنے والا ایک ہوتا ہے، اسی طرح روحانی لڑائی یعنی مناظرہ میں بھی لڑنے والا ایک ہوتا ہے، اور وہ حجت ہے، جو اس جزیرے میں ہو، اور ظاہری جنگ میں (فوج کے دستے اس طرح ہوتے ہیں):

         مُقَدّ مَہ  ۔  (اگلا دستہ)

         قلب۔   (درمیانی دستہ)

         مَیمنہ۔ (دائیں طرف کا دستہ)

         مَیسرہ ۔        (بائیں طرف کا دستہ)

         سَاقہ۔  (پچھلا دستہ)

         روحانی لڑائی میں بھی اسی طرح ہے، لڑائی کے مالک ناطق ہیں، کیونکہ اسی نے حدودِ دین کے مراتب پیدا کئے ہیں، مقدمہ اساس ہیں، کیونکہ وہ ناطق کے بعد حدودِ جسمانی کی اگلی صف میں ہیں، قلب امام ہیں، کیونکہ وہ لشکرِ مومنین کے دل ہیں اور تائید کے قرار کی کان ہیں، میمنہ حجت ہے، اس لئے کہ مومنین اسی کے یمن و برکت کے ذریعہ عذابِ الٰہی سے چھٹکارا پاتے ہیں، میسرہ داعی ہے کہ داعی مومنوں کی تنزیل کی دشواری سے تاویل کی آسانی کی طرف پہنچا دیتا ہے، اور ساقہ ماذون ہے، جو لوگوں کو خدا کی رحمت کی طرف بلایا کرتا ہے۔

         رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا: ۔

         اَلْخَیْلُ مَعْقُوْدُ فِی نَوَاصِیْھَا الْخَیْرُ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَا مَۃِ۔

         ’’ گھوڑے کی پیشانی کے بالوں میں قیامت تک نیکی بندھی ہوئی ہے۔‘‘

         جس کی تاولیل یہ ہے کہ دعوت منقطع نہیں ہوگی، قائمِ قیامت علیہ افضل التحیۃ

۳۳۸

والسلام کے آشکار ہو نے تک (یعنی گھوڑے حجتوں کی مثال ہیں) اور ان کی پیشانی کے بال داعی ہیں، جہاد کا بیان یہی ہے، جو ہم نے خدا تعالیٰ کی مہربانی سے ذکر کر دیا۔

                                  والسلام

۳۳۹

کلام ۔ ۳۶

امامِ زمان کی اطاعت کی واجبیت اور اس کا بیان

         ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کرتے ہیں، کہ انسان ایک ایسا لطیف جوہر ہے، جو ایک کثیف جوہر پر تیار کیا گیا ہے، اور اس نے محسوس و معقول کے دونوں عالم سے ترکیب پائی ہے، یعنی ایک تو انسان کا جسم ہے جو دکھائی دینے والا اور محسوس ہونے والا ہے، اور دوسرا انسان کا نفس ہے، جو دکھائی دینے والا نہیں اور محسوس ہونے والا نہیں، اور انسانی جسم جو دکھائی دینے والا اور محسوس ہونے والاہے، ان دو ہم جنسوں کی وساطت کے بغیر تیار نہیں ہوسکتا ، جن میں یہ تیسرا شمار ہوتا ہے، اور وہ دو ہم جنس اس کے والدین ہیں، پس لازم آتا ہے کہ وہ لطیف جوہر بھی، جو اس کثیف جوہر کے ساتھ جفت ہے، ان دو ہم جنسوں کے سوا آراستہ و مہیا نہ ہو، جن میں یہ ( نفس) تیسرا شمار ہوتا ہے۔

         جب جسم کی تکمیل صرف اسی امر میں تھی، کہ وہ اپنے والدین کی وساطت سے اور جسمانی لذتوں ( کی راہ) سے اس جہان کی خوشیوں تک پہنچ سکتا ہے، تو لازماً ہمیں یہ کہنا ہوگا، کہ نفس (روح) کی تکمیل بھی صرف اسی امر میں ہے، کہ وہ اپنے روحانی ماں باپ کی وساطت سے روحانی لذتوں تک رسا ہو سکتا ہے، پس ضرورت کے

۳۴۰

فیصلے سے یہ ثابت ہوا کہ انسانی روح کے لئے ماں باپ کے سوا کوئی چارہ نہیں، جس طرح ظاہر ہے، کہ انسان جسم کے لئے والدین کے بغیر کوئی چارہ نہیں، پھر جب انسان کا جسمانی باپ (جسمانی تخلیق کے سلسلے میں) فائدہ دینے والا ہوتا ہے، اور اس کی ماں فائدہ لینے والی ہوتی ہے، تو لازماً ہمیں یہ کہنا ہوگا کہ روحانی باپ بھی فائدہ دینے والا ہواکرتا ہے اور روحانی ماں فائدہ قبولنے والی ہوا کرتی ہے، پس ہمارا یہ کہنا ہے کہ وہ دینی باپ جو مومن کی روح کے لئے والد کی منزلت پر ہے، رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ہیں، اور وہ دینی ماں جو مومن کی روح کے لئے والدہ کی منزلت پر ہے، رسول کے وصی علیہ السلام ہیں، اور ناطق کی تنزیل مومن کی روحانی تخلیق کے لئے نطفۂ پدر کی مثال ہے، اور وصی کی تاویل اس تخلیق کے لئے نطفۂ مادر کی مثال ہے، اور ان دونوں روحانی نطفوں کے امتزاج سے روحانی عالم کے لئے ایک تخلیق آراستہ ہو جاتی ہے، جس طرح دونوں جسمانی نطفوں کے امتزاج سے جسمانی عالم کے لئے ایک تخلیق آراستہ ہو جاتی ہے، اس حقیقتِ حال کی درستی کی شہادت رسول علیہ السلام کے اس ارشاد سے ملتی ہے، چنانچہ فرمایا: ۔

         اَنَا وَاَنْتَ یَا عَلِیُّ اَبُو وَ اُمُّ الْمُوْمِنِیْنَ۔

         ’’ اے علی ! میں اور آپ مومنوں کے ماں باپ ہیں۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے اس حدیث کی توثیق و تصدیق ہو جاتی ہے، کہ  فرماتا ہے: ۔

         ’’النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ (۳۳: ۶)

         نبی تو مومنین پر خود ان کی جانوں سے بھی بڑھ کر حق رکھتے ہیں، اور آپ کی بیبیاںگویا ان کی مائیں ہیں۔ ‘‘

         جب پیغمبر کی بیبیاں مومنین کی مائیں ہیں تو لازماً پیغمبرؐ ان کے باپ ہیں، چنانچہ رسول علیہ السلام نے فرمایا: ۔

         اَلْاَرْضُ اُمُّکُمْ وَھِیَ بِکُمْ بَرَّۃٌ۔

۳۴۱

         ’’ زمین تمہاری ماں ہے، اور وہ تمہارے ساتھ نیک سلوک کرنے والی ہے۔‘‘ پس اس حدیث کے فیصلے سے ثابت ہوا، کہ رسولؐ آسمان ہیں، اور مومنین کے باپ ہیں، اس لئے کہ خدائے تعالیٰ نے پیغمبر کی بیبیوں کی مومنین کی مائیں قرار دے دی ہیں، اور پیغمبرؐ نے مومنین سے فرمایا  کہ ’’ زمین تمہاری ماں ہے۔‘‘ پس ثابت ہوا کہ رسول مومنین کے لئے آسمان ہیں اور ان کے باپ ہیں، اور آنحضرتؐ کی بیبیاں زمیں کی مثال ہیں، اور نیک سلوک ( اور روحانی پرورش) کے اعتبار سے مومنین کی مائیں ہیں، اور نیکی دانشمندوں کے بغیر میسر نہیں آتی ہے، اور اگران کے بغیر میسر آئے، تو وہ (صحیح معنوں میں ) نیکی ہی نہیں کہلاتی ہے، آسمان بارش اور ستاروں کی تابش کے ذریعہ زمین کو مایہ بخشنے والا ہوتا ہے، اور زمین اس کو قبول کرتی ہے، پھر یہ مایہ معدنیات، نباتات اور حیوانات کو پہنچا دیا کرتی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         وَتَرَى الأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنْبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ (۲۲: ۵)

         ’’ تم دیکھتے ہو مری ہوئی زمین کو پھر جب ہم نے اس پر پانی برسا دیا تو وہ حرکت کرنے لگی اور بڑھ گئی، اور ہر قسم کی اچھی جفت اگانے لگی۔‘‘

         اس آیت کی حقیقت یہ ہے، کہ تاویل کی پائیداری و ہستی تنزیل پر ہے، اور ناطق جیسا کہ ہم نے بیان کیا، آسمان کی رتبت رکھتے ہیں، پس تنزیل بارش کی منزلت پر ہے، اور جب وصی زمین کی منزلت رکھتے ہیں، تو تاویل ان چیزوں کی منزلت پر ہوگی، جو آسمانی مادہ سے اگتی ہیں اور ناطق پورے عالمِ دین کا بندوبست کرنے والا ہے، اور موت اس کے ساتھ وابستہ نہیں، بلکہ اس کے ساتھ زندگی وابستہ ہے، چنانچہ خداتعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         ’’وَأَنزَلْنَا مِنْ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا  لِنُحْيِيَ بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا (۲۵: ۴۸ تا ۴۹)

         اور ہم نے آسمان سے صاف و پاک پانی برسایا، تاکہ اس کے ذریعہ سے

۳۴۲

مردہ زمین میں جان ڈال دیں۔‘‘ پس ہم بتائیں گے کہ تنزیل جسم کی مثال پر ہے اور تاویل اس کی روح کی مثال پر ہے، اور جسمانی موت جسم سے روح کے جدا ہونے پر واقع ہوتی ہے، شریعت کا ظاہر اپنی خودی میں (یعنی جبکہ تاویل نہ ہو) اجسام کی مثال پر ہے، اور تاویل اپنی خودی میں روح کی مثال پر ہے، زمین کی منزلت تاویل کی ہے، جس طرح ہم نے ذکر کر دیا، اور آسمان کی منزلت تنزیل کی ہے، یہی سبب تھا کہ موت زمین سے منسوب کی گئی، اور زندگی آسمان سے منسوب کی گئی۔

         جب یہ بات ثابت ہوئی، کہ عالمِ جسمانی میں پیدا ہونےوالی چیزوں کے لئے آسمان اور زمین کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں، تو لازم آتا ہے کہ روحانی ماں باپ مومنین کے لئے ہر زمانے میں پائے جائیں، پس لوگوں کو چاہئے کہ اپنے روحانی ماں باپ کو پہچان لیا کریں، تاکہ وہ بے بہرہ نہ رہ جائیں، چنانچہ رسول علیہ السلام نے فرمایا: ۔

         مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَنِہٖ مَا تَ مَیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً وَ الْجَاھِلُ فِی النَّارِ۔

         ’’ جو شخص مرے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے، تو وہ جاہلانہ موت میں مرتا ہے، اور جاھلانہ موت میں وہ شخص مرتا ہے، جو کسی پیغمبر کا مقر ہی نہ ہو، اور ایسا شخص دوزخ میں جا گر تا ہے۔‘‘

         پس جو شخص امام کو پہچانے تو اس پر امام کی اطاعت واجب ہوتی ہے جبکہ وہ امام کے حضور میں ہو، اور اگر وہ امام کے حضور میں نہ ہو تو اس شخص کی اطاعت اس پر واجب ہوتی ہے، جس کو امام نے اس جزیرے میں قائم کر دیا ہے، جہاں پر یہ مومن رہتا ہے، اور مختلف ملل و مذاہب کا کوئی گروہ ایسا نہیں جو کسی نہ کسی طرح کے ایک امام کا معتقد نہ ہو، اور منکر ہو، مگر معطلہ اور دہریہ لوگ، کہ وہ لوگ تو خود سرے ہی سے علم نہیں رکھتے ہیں، کیونکہ وہ تو علم سے منکر ہیں، اور کہتے ہیں کہ علم کا خود کوئی وجود ہی نہیں، بہر حال کوئی مذہب ایسا نہیں جس

۳۴۳

میں کچھ لوگ زیادہ دانا اور کچھ لوگ زیادہ نادان نہ ہوں، چنانچہ دانا لوگ نادان لوگوں کے امام ہیں ( یعنی ہر مذہب اور ہر کیش میں زندہ امام کی ضرورت پائی جاتی ہے، لہٰذا نظریۂ امامت سب کے نزدیک قطعی درست ہے) مگر بات یہ ہے کہ ہر گروہ دعویٰ کرتا ہے کہ، امامِ برحق وہی ہے جس کے ہم پیرو ہیں، پس سب لوگ امامت کے نام کے بارے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، مگر امامت کے معنی میں متحد ہیں (یعنی امامت کی شرائط اور امام کے تقرر کے بارے میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہے، مگر اس بات پر سب متحد ہیں کہ امام ہونا چاہئے) پس مومن پر فرض ہے کہ اپنے امامِ زمانؑ کو پہچانے، تاکہ امام کی اطاعت کرنا لازمی ہو، پس ہم تحقیق کریں گے، کہ امام دین کے لئے چاہئے، یا دنیا کے لئے، یا دونوں کے لئے۔

         ہمارا بیان یہ ہے کہ اگر امام دین کے بغیر صرف دنیا ہی کے لئے ضروری ہوتے تو دین بیکار اور بے سردار ہو جاتا ہے، اور خدا تعالیٰ اس بات سے بہت پاک ہے، کہ کسی چیز کو بیکار و ضائع کر دے، خصوصاً دین کو، جو تمام چیزوں سے اشرف و افضل ہے، اور اگر امام دنیا کے بغیر صرف دین ہی کے لئے ضروری ہوتے تو دنیا کا انتظام باطل ہو جاتا ہے، اور یہ ناممکن تھا، کہ خدا تعالیٰ امام کو ایک اشرف چیز پر سردار بنا دیتا اور ایک ادنیٰ چیز اس سے روکے رکھتا، پس معلوم ہوا کہ امام دین کے لئے بھی لازمی ہے اور دنیا کے لئے بھی۔

         پس ہم دین میں امام کے کام کے نتائج کی تحقیق کریں گے، کہ وہ آیاتِ محکمہ کے لئے ضروری ہے یا آیاتِ متشابہ کے لئے، اور (ظاہر ہے ) کہ آیاتِ محکمہ تو خود بے نیاز ہیں، اس لئے کہ وہ تو واضح اور مفصل ہیں، اور امام آیاتِ متشابہ کے کے لئے ضروری ہے، اس لئے کہ متشابہ کے علم کو صاحبِ تاویل کے سوا کسی شخص نے استدلال سے حاصل نہیں کیا، اور رسولؐ کے اہلِ بیت کے ایک گروہ کے سوا امت میں ہمیں کوئی ایسا شخص نہیں ملا، جو آیاتِ متشابہ کو کھولتے ہوئے دعوت

۳۴۴

کرتا ہو، پس ہم ان کی طرف متوجہ ہوئے، اور انہی کی قربت سے ہمیں قرآن اور شریعت کا علمِ متشابہ حاصل ہوا، اور ہمیں معلوم ہوا کہ پس یہی لوگ خدا تعالیٰ کے امر کے مالک و صاحب ہیں، اور ان کی اطاعت کرنا ہم پر واجب ہے، اس آیت کے بموجب، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنْكُمْ (۴: ۵۹)

         اے ایمان والو! خدا کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور صاحبانِ فرمان کی اطاعت کرو، جو خدا کی طرف سے تمہارے درمیان ہیں۔‘‘ پس ہم کہتے ہیں کہ اس ( صاحبِ امر) کے سات نشان ہوتے چاہئیں، تاکہ امامت (دراصل) اسی کے لئے ہو: ۔

         پہلا: گذشتہ امام کی طرف سے (امامت ) حوالہ کر دینے کا اشارہ ہو، یعنی کہ وہ (گذشتہ امام اپنی زندگی ہی میں یا بذریعۂ وصیت بعد میں) اس کو امامت کے لئے برپا کر دے۔

         دوسرا: اس کا شریف حسب و نسب رسولؐ کے اہلِ بیت سے ہوناچاہئے، تاکہ وہ ابراہیمؑ کی دعا سے بہرہ مند ہو (یعنی وہ آلِ ابراہیم سے ہو)۔

         تیسرا: اس کے پاس علمِ دین ہوناچاہئے، تاکہ جس سے درختِ امامت بلند ہو۔

         چوتھا: پرہیزگار ہونا چاہئے، چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا: قولہ تعالیٰ: ’’ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ۔ (۴۹: ۱۳) ۔ اس میں کوئی شک نہیں، کہ تم سب میں بڑا عزت دار وہی ہے، جو بڑا پرہیز گار ہے۔‘‘

         پانچواں: چاہئے کہ وہ جہاد کرنے والا ہو، ہاتھ سے کافروں کے خلاف اور زبان سے منافقوں کے خلاف۔

         چھٹا: امامت کے علاوہ اس کی اچھی خصلتیں ہونی چاہئیں، جس طرح

۳۴۵

پیغمبر علیہ السلام میں نبوت کے علاوہ اچھی عادتیں تھیں، چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس سے فرمایا: ’’وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ۔ (۶۸: ۴) ۔ اور بے شک آپ اخلاقِ حسنہ کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں۔‘‘

         ساتواں: یہ چاہئے کہ وہ خود اپنی امامت کے متعلق دعویٰ کرنے سے بے نیاز ہو، اس لئے کہ جب وہ دعویٰ کرے تو جھگڑا کرنے والا بن جائے گا، اور حاکم کے حکم کے تحت آئے گا، پھر جب وہ جھگڑا کرنے والا بنے تو حاکم نہ ہو سکتے گا، اور یہ اس کے لئے گناہ ہوگا کہ وہ بھی دوسروں کی طرح دعویٰ کرے، ہم نے اس کتاب میں اصول و فروغ کا ذکر کردیا، دانشمند مستجیب کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

         اب ہم اسلام کے ان سات ستونوں کا بیان کر دیں گے، جن پر دین کی بنیاد ہے، اور وہ ان سات حدود کی مثال ہیں جن کا ہم نے ذکر کر دیا ، پہلے شہادت ہے، اور وہ سابق یعنی عقلِ کل کی مثال ہے، کیونکہ اسی کی جانب سے ناطق کو توحید کا یہ ثبوت ملا کہ اللہ تعالیٰ برتر ہے ( کیونکہ وہ) باصفت، بے صفت اور بے جفت ہے، نماز ثانی یعنی نفسِ کل کی دلیل ہے، کیونکہ ناطق کی شریعت اسی نے اپنے مادہ (یعنی تائید ) سے تالیف کی دی، اور یہ عالم کی ترکیب (یعنی تخلیق) کی طرح تھی، جو نفسِ کل سے پیدا ہوتی ہے، زکوٰۃ ناطق کی مثال ہے، جس نے اساس کی علمِ حقیقت کی طرف دعوت کرنے کے لئے قائم کر دیا ، جس میں شرک و نفاق کی پلیدیوں سے پاک و صاف ہوجانے کا ذریعہ ہے، حج کرنا اساس کی مثال ہے، جس سے دین کا گھر مکمل ہو جاتا ہے، کیونکہ وہی دین کا چوتھا ستون ہے، اور گھر چار سنتوں پر مکمل ہو جاتا ہے، ماہِ رمضان کا روزہ امام کی مثال ہے، اس لئے کہ اسے کوئی کام معلوم نہیں، جس طرح (چار) اصولِ دین کو معلوم ہے کہ مگر اسے امانت کی حفاظت کرنی ہے، پس امام روزہ رکھنے یعنی خاموش رہنے کی حد پر ٹھہرا کیونکہ بیان کرنا، امام کی ذمہ داری نہیں ہے، جہاد

۳۴۶

کرنا حجت کی مثال ہے، کیونکہ حجت دعوت کرنے کے سلسلے میں آرام نہیں لیتا ہے، بلکہ ہمیشہ (علمی طور پر) جہاد کرتا رہتا ہے اور کسی بھی ملامت اور ملامت کرنے والے سے نہیں ڈرتا، اور اولی الامر کی اطاعت ( یعنی ولایت) داعی کی مثال ہے، اس لئے کہ امام کی اطاعت مومن پر اس سبب سے واجب ہو جاتی ہے، کہ داعی اس کو اس اطاعت کی طرف راغب کر دیتا ہے، اور اس کو دکھا دیتا ہے، جو کچھ امام کی اطاعت کے تحت اس کے لئے ہے، اب ہم ان چیزوں کا بیان کر دیں گے، جن کو جاننے کے بغیر مومن کے لئے کوئی چارہ نہیں، تاکہ ان کی تلاش کرنے سے راہِ حقیقت کے طالبوں کے نفوس پاک ہوجائیں۔

         والسلام

۳۴۷

کلام۔ ۳۷

عورتوں کے حیض اور اس کی پاکیزگی کی کیفیت اور اس کی تاویل کے بارے میں

         ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بیان کر دیں گے، کہ عورتوں کا حیض ایک ایسا خون ہے جو ان کے گوشت سے حاصل آتا ہے، اور اگر مرد کا نطفہ عورت کے نطفے کے ساتھ مل جائے، تو یہ اس خون کو واپس جذب کر دیتا ہے، اگر یہ دونوں نطفے اس طرح ایک دوسرے سے نہ ملیں تو وہ ایک ایسا ناپاک خون بنتا ہے، کہ جس میں کوئی پاکی نہیں۔

         انسان و حیوان کے نروں کے اجسام کے مقابلے میں ان کی مادوں کے اجسام میں رطوبت کا حصہ زیادہ ہے، یہ اس لئے کہ مادوں کے اجسامِ حیوانی جسم گوندھے اور اس کی تکمیل کرنے کی جگہ ہیں، کیونہ اس کے گوندھنے اور تیار کرنے کے لئے رطوبت و تر کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔

         چنانچہ جب مرد کا نطفہ عورت کے نطفے کے ساتھ مل کر بچہ دانی میں جاتا ہے، تو وہاں وہ دونوں نطفے ایک ہو جاتے ہیں، اور اس حیات کی وجہ سے جو ان (دونوں مخلوط) نطفوں میں موجود ہے، وہ خوراک کے لئے محتاج ہوتے ہیں، پس وہ رطوبتیں، جو عورت کے جسم میں ہیں، ہمیشہ جمع ہو کر ان نطفوں

۳۴۸

کی طرف جاتی ہیں، اور ان نطفوں تک پہنچتی ہیں، تاکہ ان سے آگے گذر جائیں، اور اگر وہ نطفے غذا کے محتاج ہوئے ہیں تو ان رطوبتوں کو حاصل کرتے ہیں، اور اپنی غذا بنا لیتے ہیں، اور اسے کھانے لگتے ہیں، اور جب اسی طرح غذا میسر ہوتی رہی تو وہ مخلوط نطفے بڑھتے ہیں، اور اس عورت کے جسم کی رطوبتیں (خارج ہونے سے) رک کر اس کھانے والے کی طرف جاتی ہیں، اور وہ کھانے والا(یعنی پیٹ کا بچہ) ان کو کھا کر بڑھتا جاتا ہے، تاکہ مرد عورت کے جوڑے کی صورت جو ان کے نطفے میں بحدِ قوت موجود تھی، وہ خدائے عزیز و علیم کی تقدیر سے بحدِ فعل باہر نکل آئے، اور جب وہ حیض کا خون (مذکورہ طریقے پر) جمع نہ ہو اور نیچے کو بہہ جائے، اور اس کے کوئی خریدار نہ ہو کہ اس کو خرید لے اور اس کو روکے تو یہ اگلے مجرای سے نکلنے لگتا ہے، اور وہ انتہائی ناپاک ہوتا ہے، اور عورتوں کو ان دنوں میں نماز نہیں پڑھنی چاہئے، اور قرآن نہیں پڑھنا چاہئے، اور نہ انہیں مسجد میں جانا چاہئے، یہاں تک کہ خون رک جائے، اس وقت غسل کر لیا کریں، اور نماز پڑھیں (اور وہ بھی) صرف اس وقت سے جب سے پاک ہوئی ہوں، اور جو نمازیں ان سے قضا ہو چکی ہیں، وہ ان کو نہیں پڑھتی ہیں، مگر جو روزہ ان سے قضا ہوا ہے، وہ اس کو دوبارہ رکھتی ہیں۔

         اس رطوبت کی تاویل، جو عورتوں کی خلقت میں پائی جاتی ہے، جو مقررہ اوقات میں جاری ہوتی ہے، یہ ہے جو تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ مستجیب دین میں عورت کے مقام پر ہے، اور داعی مرد کے مقام پر ہے، اور مستجیب کا نفس اس قابل ہے، کہ جو بھی علم حق یا باطل اسے بتا دیا جائے وہ اسے قبول کر سکتا ہے، اور اس کا ایسا ہونا بے صورتی کی وجہ سے ہے (یعنی اس کی اپنی کوئی علمی صورت نہیں) اور یہ بے صورتی نادانی ہے، جب وہ خود نہیں جانتا، اور اسے کوئی شخص بھی نہیں ملتا، تاکہ اس سے کچھ سیکھ لیتا ، تب وہ چاہتا ہے کہ اپنی ذات ہی سے کوئی علمی صورت تیار کرے، وہ طاقتِ جستجو استعمال کرتا ہے،

۳۴۹

جس سے پریشان خیالات جمع ہو جاتے ہیں، اور جب اس نے اصلی علم نہیں سنا ہے، تو وہ اپنے آپ سے جو کچھ بھی بیان کرے اس سے اس کے خیالات درست نہیں ہوتے، اور ان کی کوئی صورت نہیں بنتی، بلکہ وہ خیالات بکھر جاتے ہیں، پس اس قابلِ تعلیم انسان کے وہ بے مایہ اور فاسد افکار خونِ حیض کی مثال ہیں، جو جمع ہو جاتے ہیں، اور کوئی صورت نہیں بنتی۔

         اسی طرح جب عورت کو مرد کا نطفہ حاصل نہ ہو، تو اس کی پذیرائی کی طاقت ضائع ہو جاتی ہے، جس طرح ظاہر میں حیض کا وہ خون ناپاک ہے، اسی طرح وہ افکار بھی ناپاک ہیں، جو اس مستجیب کی اپنی ذات سے پیدا ہوتے ہیں، جس طرح عورت کے حیض کا خون جب تک نہیں رکتا تو اس کو نہانا اور نماز پڑھنا نہیں چاہئے، اسی طرح جب تک مستجیب ان فاسد افکار سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتا ، اور اس سے وہ ناقص آرزوئیں نہیں جاتیں تو جائز نہیں کہ وہ دعوت سننے کے لئے قصد کرے بلکہ وہ اس حالت میں کسی دوسرے شخص سے مدد بھی طلب نہیں کر سکتا، جب تک کہ وہ اپنے آپ سے مایوس نہیں ہوتا ، اور اس کا یہ مایوس ہونا ہی گویا نفسانی حیض سے اپنے آپ کو دھونا ہے۔

         اس بات کی تاویل کہ جب بچہ دانی میں مرد کی پشت کی منی عورت کی چھاتی کی منی کے ساتھ مل جاتی ہے، تو یہ دونوں مل کر اس حیض کے خون کو جذب کر لیتی ہیں، اور پھر وہ خون نہیں اترتا، یہ ہے کہ جب مستجیب داعی کی علمی بات سن لیتا ہے، تو اس کی ظاہریت مرد کے نطفے کی طرح ہے، اور اس کی معنویت عورت کے نطفے کی طرح ہے، اور جب یہ دونوں نطفے مستجیب کے نفس میں ٹھہر جائیں تو مستجیب کے وہ افکار ظاہر اور باطن میں (تحقیق کرنے کے لئے ) مایہ بن جاتے ہیں، کیونکہ وہ کام انہی کے ذریعہ کرتا ہے، اور اس فکری مایہ سے علم کی صورت بنتی ہے، اور یہی مایہ ہے جس میں علم کی گونا گون صورتیں بنتی ہیں، اور وہ تھوڑی سی تاویل، جو اس کو ملی ہے، اس کے ان افکار کو قبول کرتی ہے (یعنی ان

۳۵۰

کو درست کرکے اپناتی ہے) یہاں تک کہ ایک دن ان افکار کے درمیان اس کی روحانی صورت مکمل ہو جاتی ہے، جس طرح جسمانی صورت اس حیض کے خون کے ذریعے مکمل ہو جاتی ہے، اور پھر وہ افکار ضائع نہیں جاتے، اور ان کا ضائع نہ ہونا داعی سے تعلیم لینے کے بعد ہے، جس طرح مرد سے نطفہ حاص کرنے کے بعد عورت کا خونِ حیض نہیں جاتا۔

         اس بات کی تاویل کہ حیض والی عورت کو مسجد میں نہیں جانا چاہئے، یہ ہے کہ اس مستجیب کو، جو اپنی طرف سے راستہ ڈھونڈتا ہے، داعی کی طرف نہیں جانا چاہئے، کیونکہ مسجد داعی کی دلیل ہے۔

         اس بات کی تاویل کہ حائضہ کو قرآن نہیں پڑھنا چاہئے، یہ ہے کہ اس مستجیب کو جو اپنی طرف سے راستہ ڈھونڈتا ہے، امام کی طرف نہیں جانا چاہئے، کیونکہ قرآن امام کی مثال ہے، اور دین کے ہر ماتحت درجے کے لئے اس کا مافوق درجہ امام کی مثال ہے، اس بات کی دلیل کہ حائضہ کو نماز نہیں پڑھنی چاہئے، یہ کہ کہ جو شخص اپنے افکار کے شکوک و شبہات اور ناپاکی میں ہو، اسے دعوت کی مجلس میں نہیں آنا چاہئے، کیونکہ نماز دعوت کی مجلس کی مثال ہے، اور اس بات کی تاویل کہ جب حائضہ پاک ہو جائے، تو اس کو نماز کی قضائیں نہیں پڑھنا چاہئے، یہ ہے کہ جب مستجیب نے (مریدی اور فرمان برداری کا ) عہد کر لیا، تو وہ دعوت کی ان مجلسوں میں جو اس سے فوت ہو چکی ہیں حاضر ہو نہیں سکتا، مگر وہ اس کے بعد کی مجلسوں میں حاضر ہو سکتا ہے، اور تعلیم حاصل کر سکتا ہے،  اور یہ اس کی روحانی نماز کی حیثیت رکھتی ہے، جس طرح حائضہ جب پاک ہو جاتی ہے، تو وہ نماز کی قضا ئیں نہیں پڑھتی ہے، مگر نماز (اس پاکیزگی کے) بعداس پر واجب ہوتی ہے۔

         اس بات کی تاویل، کہ اگر روزہ دار عورتیں حائضہ ہو جائیں، تو انہیں اس وقت روزہ رکھنا جائز نہیں، کیونکہ وہ پاک نہیں ہیں، اور جب وہ پاک ہو جائیں

۳۵۱

تو روزہ رکھنا چاہئے، یہ ہے کہ رروزہ رکھنا حدود کو پوشیدہ رکھنے اور خاموش رہنے کی مثا ل ہے، چنانچہ جس وقت مستجیب کا کوئی عہد نہ تھا تو وہ پاک نہ تھا بلکہ روحانی حیض کی وجہ سے ناپاک تھا، تو اس نے حدودِ دین کو نہیں پہچانا اور ان کی مرتبت کی نگہدشت اس سے نہ ہو سکی، اور اسے یہ جائز نہ تھا، کہ خاموش رہے بلکہ اسے طلبِ حقیقت کرنا لازمی تھا، جس طرح حائضہ کو روزہ نہیں رکھنا اور جب اس نے حدود کو پہچان لیا، تو گویا وہ ان پلیدیوں سے پاک ہوا، پھر اس پر واجب ہے کہ اب ان حدود کو چھپائے رکھے، جن کو اس سے پہلے نہیں چھپایا تھا، اور وہ بات نہ بتایا کرے، جو اس سے پہلے بتایا کرتا تھا، یہی ہے، حائضہ کا قضا روزہ رکھتا اور اس امر کی تاویل کہ حیض کے دنوں میں مردوں کو عورتوں سے نزدیکی (یعنی مجامعت) نہیں کرنی چاہئے، یہ ہے کہ جب تک مستجیب کے دل سے وہ افکار، شکوک و شبہات پاک نہ ہو جائیں تو داعی اور معلم کو اس مستجیب سے علمی گفتگو نہیں کرنی چاہئے اور خونِ حیض کے رک جانے پر ادائے فریضہ کے لئے حائضہ کے غسل کر لینے کی تاویل یہ ہے کہ جب وہ مسلمان شکوک و شبہات میں رہے ہوں، تو وہ اپنے آپ سے مایوس ہو جائیں گے، یعنی کہیں گے کہ ایسا نہیں جس طرح ہم جانتے ہیں، تو یہ روحانی حیض سے ان کا پاک ہونا ہے، اور یہ ان پر واجب اور فرض ہوتا ہے کہ دانا کی طرف آئیں اور اس کے عہد کو قبول کر لیا کریں۔

۳۵۲

کلام۔ ۳۸

استبرا کی حقیقت اور اس کی تاویل کے بارے میں

         ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، اسبترا ٔ کی حقیقت عورت کی بچہ دانی کو دوسرے مرد کے نطفے کے ذخیرے سے خالی کر دینا ہے، اور ( وہ اس طرح کہ) جو شخص کسی لونڈی کو خریدے تو ظاہرِ شریعت میں اس پر واجب ہوتا ہے، کہ وہ اس لونڈی کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے، جب تک کہ اس لونڈی کے حائضہ ہو جانے سے اس کو یہ حقیقت معلوم نہ ہو جائے کہ اس کی بچہ دانی میں کسی دوسرے شخص کا نطفہ نہیں، اور جب یہ حقیقت معلوم ہوتی کہ اس کی بچہ دانی پاک ہے، تو جائز ہے کہ وہ اس کنیز کے ساتھ نزدیکی کرے۔

         اس موضوع کی تاویل یہ ہے کہ، لونڈی اور عورت مستجیب کی مثال ہیں، یعنی مستجیب (لونڈی اور عورت ہے) ماذون کے لئے، ماذون داعی کے لئے اور داعی حجت کے لئے، اسی طرح ناطق تک کہ وہ عالمِ دین میں بحقیقت مرد ہے، پس جب کوئی مافوق درجہ اپنے ماتحت درجے کے لئے مسٔلہ حل کرتا ہے، تو اس کی مثال یہ ہوتی ہے کہ کوئی آقا اپنی لونڈی سے، اور کوئی خاوند اپنی بیوی سے مقاربت کر رہا ہے، اور جب مستجیب اپنے ماذون سے یا کوئی ماتحت درجہ اپنے

۳۵۳

مافوق درجے سے جدا ہو جاتا ہے، اور دوسرے ماذون یا دوسرے جزیرے کے مالک کو ( کسی نہ کسی وجہ سے ) مل جاتا ہے، تو اس کی مثال یوں ہوتی ہے، کہ کوئی عورت یا کوئی لونڈی ایک خاوند یا مالک کے بعد دوسرے کو ملی، پس اس سبب سے اس دوسرے (ماذون یا) صاحبِ جزیرہ کو نہیں چاہئے، کہ (اس مستجیب کے لئے یا ) اس داعی کے لئے (فوراً) حقیقت کھولے، بلکہ اسے صبر کرنا چاہئے تاکہ ( اس مستجیب نے یا) داعی نے اس سے پہلے جو کچھ سن رکھا ہے، وہ ظاہر ہو جائے اور وہ خود اس کو سچ ثابت کر دے گا یا باطل قرار دے کر اسے چھوڑ دے گا، جس طرح کسی لونڈی کا مالک اپنی لونڈی سے نزدیکی نہیں کرتا، جب تک کہ اس کی بچہ دانی (دوسر ے مرد کے) نطفے سے بالکل پاک اور صاف نہ ہوجائے، تاکہ دو مختلف باتیں دو حجتوں کی طرف سے داعی کے نفس میں یا دو داعیوں کی طرف سے مستجیب کے نفس میں باعثِ پریشانی نہ ہو جائیں، اور اس کی (ایک مشتبہہ) علمی صورت (نہ) بن جائے۔

         نیز ہم بتائیں گے کہ اگر دو خاوند ایک ہی لونڈی سے نزدیکی کریں تو یہ ایک ایسے مستجیب کی مثال ہوگی جس کو (بیک وقت) دو داعی ( اپنی روحانی) لونڈی بنا رہے ہوں، یہ نہ ظاہر میں جائز ہے، اور نہ باطن میں، اور مومن (بحقیقت ) وہی ہے، جو ظاہر و باطن کی تمام برائیوں سے پرہیز کرے، اور ظاہر و باطن کی تمام نیکیوں کی طرف راغب ہو جائے، استبرا ٔ کی تاویل اور بیان یہی ہے، جو ذکر کر دیا گیا۔

         والسلام

۳۵۴

کلام ۔ ۳۹

اس امر کی تاویل کے بارے میں، کہ مردوں کو زری اور ریشمی لباس میں نماز پڑھنا جائز نہیں، مگر عورتوں کے لئے جائز ہے

         ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ رسول علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن آنحضرتؐ اپنے اصحاب کے پاس تشریف لائے، اور آنحضرتؐ کے دائیں ہاتھ میں زری کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا، اور بائیں ہاتھ میں ریشمی کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا، اور فرمایا: ۔

         ’’ھٰذَانِ مُحَرَّمَانِ عَلٰی ذُکُوْ رِ اُمَّتِیْ وَ حَلَا لُ لِاُ نَاثِھَا۔

         یہ دونوں یعنی زری اور ریشمی کپڑے میری امت کے مردوں پر حرام ہیں، اور میری امت کی عورتوں پر حلال ہیں۔‘‘ اور اس قولِ ظاہر میں رسول علیہ السلام نے فرمایا، کہ اگر مرد سونے کے زیور یعنی انگوٹھی، چھری، کمربند وغیرہ کے ساتھ نماز پڑھے یا ایسے لباس میں نماز پڑھے، جس کا تانا اور بانا دونوں سوت کے بغیر خالص ریشمی ہیں، تو اس کی وہ نماز درست نہیں، اس لئے کہ حرام چیز

۳۵۵

کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہیں، اور جس چیز کے لئے رسول فرمائیں کہ حرام ہے، تو وہ حرام ہے، چنانچہ خدا تعالیٰ کاارشاد ہے: قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ (۵۹: ۷)

         ہاں جو تم کو رسول دیدیں وہ لے لیا کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔‘‘

         اس امر کی تاویل کے بارے میں کہ (مذکورہ صورت میں) سونا اور رشیم حرام ہے، ہم بیان کریں گے کہ انسانی جسم کی زیب و زینت لباس اور زیوارت سے ہے، چنانچہ ریشم (ریشمی کپڑا) ان تمام بنے ہوئے کپڑوں سے اصیل ہے جن سے لباس بنائے جاتے ہیں، اور سونا ان تمام پگھل جانے والے جواہر سے اصیل ہے، جن سے زیوارت بنائے جائے ہیں، یہ دونوں چیزیں ناطق کی مرتبت کی مثال ہیں، کیونکہ وہ ساری مخلوقات سے اصیل ہیں، ریشم جانوروں کے ذریعے نبات سے پیدا ہوتا ہے، اور نماز ان کپڑوں میں پڑھنی چاہئے جو ایسی نبات سے ہوں، کہ وہ مٹی سے اگی ہے، اور مٹی مومن کی مثال ہے، اور نبات باطنِ شریعت اور علمِ حقیقت کی مثال ہے، پس وہ دعوت جو نماز کی تاویل کی حیثیت سے ہے، مومن کے لئے باطنی علم کے ذریعہ مناسب ہے ( جس طرح ظاہری نماز مٹی سے پیدا شدہ کپڑوں میں درست ہے)۔

         نیز نبات امام کی مثال ہے، کیونکہ نبات زمین سے کسی چیز کی وساطت کے بغیر اگی ہے، جس طرح امام اساس سے کسی شخص کے توسط کے بغیر پیدا ہوا ہے، اور ریشم حجت کی مثال ہے، جو امام کے ذریعے اساس سے پیدا ہوا ہے، پس (روحانی) دعوت کے لئے جو حقیقی نماز وہی ہے، امام زیادہ لائق ہے، بہ نسبت حجت کے، یہی سبب ہے کہ نبات (یعنی سوتی لباس) میں نماز پڑھنا مناسب ہے، اور ریشم (یعنی ریشمی لباس) میں مناسب نہیں۔

۳۵۶

         چاندی اساس کی مثال ہے، اور چاندی کے ساتھ نماز مناسب ہے۔ اور چاندی کی قیمت سونے کے ساتھ ساتھ ہے، چنانچہ تاویل تنزیل کے معنی کی حیثیت سے ہے، اور مرد عورت دعوت میں مستجیب ہے، اور نماز صاحبِ دور سے مل جانے کی مثال ہے، اور اس قول کی حقیقت کہ ناطق نے فرمایا کہ: ۔

         ’’ حدودِ دین کو چاہئے کہ وہ بطریقِ تاویل مجھ سے مل جائیں، نہ کہ تنزیل اور ظاہر شریعت کے ذریعے تاکہ وہ میری مرتبت کو پہچان لیں گے۔‘‘ اور جو فرمایا کہ: ۔

         ’’ یہ دونوں چیزیں (یعنی زری اور ریشمی لباس) میری امت کی عورتوں کے لئے حلال ہیں۔‘‘ اس سے آنحضرتؐ کی مراد یہ ہے کہ’’ مستجیبوں کے لئے روا ہے، کہ وہ ظاہر کے ذریعے میرے ساتھ تعلق قائم رکھیں، اس لئے، کہ حجت اور داعی، جو صاحبانِ دعوت ہیں، جب تاویل سیکھیں اور اس پر عمل کریں، تو یہ مرد کی مرتبت میں ہوں گے، اور ناطق و اساس کو بحقیقت پہچان لیں گے، اور اگر مستجیب ظاہریت کو قبول نہ کرے، اور ظاہر ہی کے ذریعہ دعوت سے وابستہ نہ ہو جائے اور باطن خود اس کے پاس نہیں، تو وہ دین میں نہ مرد ہوگا، اور نہ عورت۔

         اس امر کی تاویل کہ عورت کو مناسب نہیں کہ وہ (کچھ نہ کچھ زیور کے بغیر) مسجد میں داخل ہوجائے، کیونکہ مسجد داعی کی مثال ہے، یعنی مستجیب کے لئے مناسب نہیں کہ شریعت کے ظاہر کے بغیر داعی سے رابطہ رکھے، اسی سبب سے کہا گیا ہے، کہ عورتوں کے لئے یہی زیادہ بہتر ہے، کہ (کچھ نہ کچھ ) زیوارت اور ریشمی لباس میں نماز پڑھیں، اور ریشم ظاہر کی مثال ہے، جو باطن سے پیدا ہوا ہے، اس لئے کہ نباتات باطن کی مثال ہے، اور ریشم کا کیڑا نباتات سے کچھ کھا کر اپنے لئے اپنے باطن سے کوئی چیز ظاہر کرتا ہے، چنانچہ وہ اپنے منہ سے پیلہ (یعنی خام

۳۵۷

ریشم کا کویا) نکا لتا ہے، اور یہ کیڑا دعوت کے مخالف کی مثال ہے، کہ وہ باطن سے ظاہر کو پیدا کر دیتا ہے، اور لطیف کو کثیف کر دیتا ہے، پس اسی سبب سے ( مردوں کے لئے) خالص ریشمی لباس میں نماز جائز نہیں، مگر یہ ہے، کہ اس میں سوت بھی ہو پھر روا ہے، جس طرح خدا کی پرستش بیک وقت ظاہر اور باطن (دونوں حالتوں ) میں ہونی چاہئے، یہی ہے وہ حقیقت، جس کا ذکر کر دیا گیا۔

                                           والسلام

۳۵۸

کلام ۔ ۴۰

زانی کو سزا دینے اور سنگسار کرنے کی واجبیت اور اس کی تاویل کے بارے میں

         ہم اللہ تعالےٰ کی توفیق اور ولیٔ زمان علیہ السلام کی مہربانی سے بتلائیں گے، کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے، کہ اس مرد اور عورت کو سوسو درے کی سزا دیجائے جو زنا کرتے ہیں، قولہ تعالیٰ: ۔

         الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلاَ تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ (۲۳: ۲)

         ’’ زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد پس ان میں سے ہر ایک کو سو درے مارو، اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ذرا رحم نہ آنا چاہئے، اگر اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور دونوں کی سزا کے وقت مومنوں کا ایک گروہ حاضر رہنا چاہئے۔‘‘

         خدائے پاک کا یہی فرمان ہے، اور محمد رسول علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے فرمان کے بموجب اس کی تفصیل فرمائی ، جس طرح خدائے تعالیٰ نے فرمایا، کہ نماز پڑھا

۳۵۹

کرو، اور زکوٰۃ دو، اور رسول علیہ السلام نے (تفصیلاً) فرما دیا، کہ ہر نماز کس وقت پڑھنا چاہئے، اور زکوٰۃ ہر نقد، مویشی اور غلہ سے کیا دینی چاہئے، پس رسول علیہ السلام نے زنا کرنے والے مرد اور عورت میں سے ہر ایک کو سو درے مانے کے لئے فرمایا، جبکہ یہ بغیر بیوی کے مرد اور بغیر خاوند کی عورت ہوں، اور ان میں سے جس کا اپنا جوڑا موجود ہو (یعنی جو مرد اپنی بیوی رکھتا ہو، اور جو عورت اپنا خاوند رکھتی ہو) اور س نے زنا کیا ہو تو اس کو سنگسار کرنے کے لئے فرمایا، اور سنگسار کا مطلب پتھراؤ کرنا ہے، جس میں اس (زانی اور زانیہ) کے نچلے نصف جسم کو زمین میں گاڑ دیتے ہیں، اور اس کے سر پر پتھراؤ کرتے ہیں، تاکہ وہ مرجائے، اور عام مومنوں کے لئے شریعت کا ظاہر یہی ہے، اور جو شخص اس فرمان سے باہر نکل جائے تو وہ نافرمان ہو جاتا ہے، جوڑے اور بغیر جوڑے کے زانی (اور زانیہ) کے لئے یہی دوسزائیں ہیں۔

         شریعت کے باطن کی کتاب میں اس فرمان کی تاویل یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و الہٖ وسلم تمام لوگوں کے لئے دین میں بحقیقت مرد ہیں، اور امت والے سب اس اعتبار سے کہ آنحضرت ہی سے دینی علم حاصل کرتے ہیں، آنجناب کے لئے عورتوں کی منزلت پر ہیں، جس طرح مرد عورتوں کے کام کے لئے کھڑے رہتے ہیں، اسی طرح رسولؐ امت کے کام کے لئے کھڑے ہیں، اور خدائے تعالیٰ کا ارشاد ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ (۴: ۳۴)

         مرد عورتوں کے (کام) کے لئے کھڑے ہیں،  جس کا سبب یہ ہے ، کہ خدا نے بعض (یعنی مردوں) کو بعض (یعنی عورتوں ) پر فضیلت دی ہے۔‘‘ مزید برآن امت کے کام کے لئے رسول علیہ السلام کے کھڑے رہنے کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

۳۶۰

         ’’يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ  قُمْ فَأَنذِ (۷۴: ۱ تا ۲)

         اے کپڑا اوڑھنے والے رسول اٹھو اور (لوگوں کو عذاب سے ) ڈراؤ۔‘‘

         جب یہ ثابت ہوا کہ رسول علیہ السلام اپنی ساری امت کا مرد ( یعنی خاوند) ہیں، تو ہم بتائیں گے، کہ رسول علیہ السلام کے تحت ہر استاد اپنے شاگرد کا روحانی خاوند ہے، اور ہر شاگرد اپنے استاد کی (روحانی) بیوی ہے، اس لئے کہ یہ اس سے فائدہ لے رہا ہے، چنانچہ ناطق روحانی طور پر اساس کا خاوند ہیں، اور اساس ناطق کے لئے روحانی بیوی ہیں، اساس امام کے لئے خاوند ہیں، امام حجت کے لئے خاوند ہیں، حجت داعی کے لئے خاوند ہے، داعی ماذون کے لئے خاوند ہے، اور ماذون مستجیب کے لئے خاوند ہے، پس ہر مافوق حد ماتحت حد کے لئے خاوند ہے، اور ہر ماتحت حد مافوق حد کے لئے بیوی ہے، اور زبان تاویل میں مرد کے آلۂ تناسل کی منزلت پر ہے، اور کان عورت کے اندامِ نہانی کی منزلت پر ہے، اور بات کرنے والے کا سنا دینا اس کی مجامعت ہے، اور وہ عورت جس کا کوئی خاوند نہیں ( اور وہ زنا کرتی ہے) عہد کے بغیر دینی باتیں سننے والے کی مثال ہے، اور وہ مرد جس کی کوئی بیوی نہیں ( اور وہ زنا کرتا ہے) فرمان کے بغیر دعوت کرنے والے کی مثال ہے۔

         بغیر بیوی کے مرد اور بغیر خاوند کی عورت کو سو درے ( جو دس عقد ہوتے ہیں) کی سزا دینے کی تاویل، جبکہ وہ ایک دوسرے سے مجامعت کرتے ہیں، یہ ہے کہ جب کوئی ایسا شخص ہو، کہ وہ دعوت کی منزلت پر پہنچ چکا ہے، مگر اس کو فرمان نہیں، کہ دعوت کرے، لیکن وہ (اس کے باوجود) اس مستجیب کے لئے دعوت کرتا ہے جس کا کوئی داعی نہیں ( دران حال یہ دونوں آدم روحانی زنا کے مرتکب ہو جاتے ہیں، پس ان میں سے ہر ایک کو سو روحانی درے مارتے ہیں، وہ یہ ہے کہ) ان دونوں کو روحانی اور جسمانی دس حدود سے گرا دینا چاہئے، اور ان کو عقلِ کل، نفسِ کل، جد، فتح، خیال، ناطق، اساس، امام، حجت اور داعی کے ظاہر

۳۶۱

(یعنی ظاہری علم) کی طرف واپس لے جانا چاہئے، اور یہ ان کی روحانی سزا ہوئی۔

         اس مرد اور عورت کو سنگسار کرنے کی تاویل جنہوں نے زنا کیا تھا، حالانکہ مرد کی اپنی بیوی اور عورت کا اپنا خاوند موجود ہیں، یہ ہے ، کہ جب ایسا کوئی داعی یا ماذون ہو، جن کو فرمان ہو اہو کہ وہ اپنے نچلے حدود کو دعوت کریں گے، یعنی صرف اس گروہ کو دعوت کریں گے جن سے ان کا عہد ہو چکا ہے، اور ان کے درمیان عہدو میثاق کے ذریعہ (روحانی طور پر) میاں بیوی کے تعلقات ہو چکے ہیں، پھر یہ داعی یا ماذون دوسرے داعی کے مستجیب کے لئے دعوت کرتا ہے، حالانکہ ان سے اس مستجیب کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا، بلکہ اس کا معاہدہ دوسرے داعی سے ہے، تو ایسی دعوت کرنے والے کو اور سننے والے کو روحانی طور پر سنگسار کرنا واجب ہے، پس ان دونوں کو شریعت اور خدا کی کتاب کے ظاہر کی طرف واپس لے جاناچاہئے، اور  یہ ان کے نچلے نصف جسم کو زمین میں گاڑ دینے کی طرح ہے، اس لئے کہ ان کا نچلا نصف حصہ شریعت کے ظاہر کی مثال ہے، جو دعوت میں ہے، اور خدا کی کتاب زمین کی مثال ہے، کہ زمین جسمانی لذتیں دینے والی نعمتوں کے لئے سرمایہ ہے، (جس طرح خدا کی کتاب روحانی لذتیں دینے والی نعمتوں کے لئے سرمایہ ہے) اور چاہئے کہ ان دونوں کے سرپر پتھر ماریں، تاکہ وہ مر جائیں، اور اس واقعہ کی تاویل یہ ہے، کہ پتھر مارنا سخت اور مشکل مسائل کی مثال ہے، یعنی مشکل سوالات کے ذریعہ ان کو اعتبار سے گرادیا جائے، تاکہ اس میں ان کے نفوس علمِ حقیقت (کی روح) سے مرجائیں، اور پھر علمِ شریعت میں اس کے لئے شروع نہ کر سکیں، چنانچہ جسم پتھر کے مارنے سے مرجاتا ہے، اور حرکت نہیں کر سکتا ۔

         پس جس شخص کو جسمانی طور پر سنگسار کر دیا جائے وہ جسمانی رنج دیکھتا ہے، اور جسمانی عالم کی لذتوں سے محروم ہو جاتا ہے، اور جس شخص کو روحانی طور پر سنگسار کر دیا جائے، تو وہ روحانی رنج دیکھتا ہے، اور روحانی عالم کی لذتوں سے منقطع

۳۶۲

ہو جاتا ہے، اور ابدی عذاب میں گرفتار ہوتا ہے، مومن کو یہ گمان نہیں کرنا چاہئے کہ جسمانی سنگساری سے روحانی سنگساری آسان تر ہے، بلکہ روحانی سنگساری سے جسمانی سنگساری زیادہ آسان ہے، اس لئے کہ جسمانی تکالیف گزر جانے والی ہیں، اور روحانی تکالیف ہمیشہ رہنے والی ہیں۔

         نیز ہم بتائیں گے، کہ خدا تعالیٰ نے ان معاملات کے بارے میں، جو لوگوں کے آپس میں اور دنیاوی قسم کے ہوتے ہیں، دو گواہ کرنے کے لئے فرمایا، اور اس ارشاد کا ثبوت یہ ہے: ۔

         ’’ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ (۲: ۲۸۲)

         جب تم آپس میں قرض کا لین دین کرو، تو اپنے لوگوں (یعنی مسلمانوں) میں سے دو سچ بولنے والے مردوں کو گواہ کر رکھو۔‘‘ اور جب خدا تعالےٰ نے زنا کا ذکر فرمایا، تو اس نے چار گواہ چاہے، چنانچہ فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

         لَوْلاَ جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُوْلَئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمْ الْكَاذِبُونَ (۲۴: ۱۳)

         اور جن لوگوں نے تہمت لگائی تھی، اپنے دعوے کے ثبوت میں چار گواہ کیوں نہ پیش کئے، پھر جب ان لوگوں نے گواہ نہ پیش کئے تو خدا کے نزدیک یہی لوگ جھوٹے ہیں۔‘‘

         اس آیت کے معنی باطن میں یہ ہوتے ہیں، کہ اگر وہ چار گواہ نہ ہوں تو وہ زنا خود اس شخص نے کیا ہوگا، جس نے یہ بات اٹھائی ہے، اور ظاہر میں اس کے معنی برابر نہیں آتے ہیں، اس لئے کہ ممکن ہے کہ کسی نے سچ مچ زنا کیا ہوگا اور وہ چار گواہ موجود نہ ہوں گے (اور اگر ) کوئی شخص وہ واقعہ بیان کرے، تو (عقلی طور پر) لازم نہیں آتا، کہ وہ شخص خدا کے نزدیک جھوٹا ہو، اس لئے کہ خدا جانتا ہے وہ سچ کہہ رہا ہے، ہر چند کہ اس کے لئے وہ گواہ موجود نہیں ہیں،

۳۶۳

کیونکہ سچ بولنے والے کے لئے خدا کے نزدیک کسی گواہ کی ضرورت ہی نہیں، کہ وہ جلت کلمتہ غیب کا جاننے والا ہے ، اگر کوئی شخص کسی کو قتل کرے، تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اس کے متعلق دو گواہ لانے کے لئے فرمایا، اور زنا کے متعلق چار گواہ لانے کے لئے فرمایا، اور اس امر کے معنی شریعت کے ظاہر میں اس طرح ہیں، کہ قتل کرنا قاتل کا فعل ہے (جو مقتول سے ثابت ہے) اب اس کے لئے صرف ایک شخص گواہ چاہئے، جو کہے کہ اس کو فلان شخص نے قتل کیا ہے، اور مقتول تو خود اس کے سامنے حاضر ہے، یہی سبب ہے، کہ اس کے لئے صرف دو ۲ گواہ کافی ہیں، اور دنیاوی معاملات میں بھی آنحضرتؐ نے دو گواہ مقرر کرنے کے لئے فرمایا، اس لئے کہ حقوق کا مالک اپنے دعویٰ پر کھڑا ہے، اور اس کا مخالف انکار کرتا ہوا موجود ہے، اور ایک گواہ چاہئے جو ان کا تیسرا ہے (پس اسی طرح دو گواہ ہوئے) چنانچہ جب مال وغیرہ کے جھگڑے میں ایک شخص انکار کرتا ہے تو اس میں دو گواہ لازم آتے ہیں، اور جب زنا میں (مرد اور عورت) دونوں مجرم منکر ہو جاتے ہیں تو اس میں چار گواہ لازم آتے ہیں، پس دانشمندوں کے لئے یہ ایک روشن بیان ہے ، مگر جس کا دل خاندانِ برحق سے برگشتہ ہوا ہو ( اس کے لئے یہ حقائق مشکل ہیں)۔

         اس ظاہر کی تاویل یہ ہے، کہ ظاہر باطن کے لئے ایسا ہے جس طرح جسم کے لئے کھال ہوا کرتی ہے ( چنانچہ جس طرح کسی چیز کا باطن ہوگا، اسی طرح اس کا ظاہر ہوگا) جب کوئی جسم انسانی شکل کا ہو، تو اس پر کھال بھی انسانی شکل کی ہوگی، اور جب کھال گائے کی شکل کی ہو، تو اس کا سبب یہی ہے کہ جسم گائے کی شکل کا ہے، پس مذکورہ ظاہری امور بھی اپنے اپنے باطن پر اسی حیثیت سے ہیں، اور جب دانشمند مومن کسی ظاہری امر کو طریقوں میں سے کسی طریقے پر دیکھتا ہے تو سمجھ لیتا ہے کہ اس کا باطن بھی ایسا ہی ہے، اور جب اس کی حقیقت سمجھاتے ہیں تو اس کا نفس اس کو قبول کر سکتا ہے۔

۳۶۴

پس بتائیں گے کہ قرضہ دینے کا باطن ( یعنی تاویل ) یہ ہے، کہ کوئی شخص کسی کو تعلیم دیتا ہے، اس کے بعد وہ تعلیم اس شخص سے اسی طرح واپس پوچھتا ہے، چنانچہ داعی مستجیب کو تاویل کی باتیں بتاتا ہے، پھر اس سے پوچھ لیتا ہے، تاکہ وہ واپس بتائے، جس طرح اس نے یہ باتیں یاد کی تھیں، اور جس طرح داعی نے اسے بتائی تھیں، اس خوف سے کہ اس کی علمی صورت بگڑ نہ جائے، پس یہ ظاہری قرضے کی طرح ہے، کہ کسی کو دس درم قرضہ دیئے جاتے ہیں، اس کے بعد اس سے وہی دس درم طلب کئے جاتے ہیں، اور ظاہر میں ان دس درموں کے مالک کے لئے دو گواہ چاہئیں، تاکہ وہ یہ کہیں، کہ اس شخص نے اس کو وہ قرضہ دیا ہے، چنانچہ داعی کے لئے بھی دو گواہ چاہئیں، اس بارے میں کہ اس نے مستجیب کو بات بتا دی ، اور دس درموں کے مالک کے گواہ دو۲ سچ بولنے والے مرد ہونے چاہئیں، اور داعی کے گواہ حجت اور امام ہونے چاہئیں، کیونکہ وہی دونوں جہان کے گواہ ہیں، کہ انہوں نے داعی کو مامور کیا ہے، کہ وہ اس مستجیب کو وہ بات بتائے جس طرح اگروہ دو ظاہری گواہ نہ ہوں، تو اس سرمایہ والے کے دس درم ثابت نہ ہوں گے، اسی طرح اگر داعی کے لئے یہ دو گواہ نہ ہوں تو وہ داعی نہ ہوگا اور بے علم ہوگا، جس طرح یہ دوسرا شخص (گواہوں کے نہ ہونے کی صورت میں) بے درم ہو جاتا ہے۔

         مقتول کی تاویل یہ ہے، کہ ایک شخص تاویل یعنی خدا کی کتاب کے معنی سے، جس میں ابدی زندگی ہے، گر جاتا ہے، چنانچہ کسی شخص کو قتل کرنا یہ ہے، کہ اس کی ظاہری زندگی ختم ہو جاتی ہے، اور جب داعی ٹیڑھے طریقے سے ظاہری بیان کرتا ہے، جس کی وجہ سے سننے والے آدمی کو اس تاویل اور معنی میں کوئی نقص نظر آتا ہے، یا داعی اس سننے والے کو یوں بتا دیتا ہے کہ یہ جو کچھ تو ظاہری طور پر سن رہا ہے، اس کے علاوہ کوئی معنی نہیں، پس جب اس سننے والے شخص پر یہ بات سخت اور بھاری آجائے اور خدا تعالیٰ کی کتاب سے مایوس ہو جائے، اور وہ یہ گمان

۳۶۵

کرے، کہ وہ خود باطل ہے، تو بس یہ اس مر جانے والے کی طرح ہے ، جو جسمانی زندگی سے مایوس ہو جاتا ہے، مثال کے طور پر استاد چاہتا ہے کہ شاگرد کو مار کر سکھائے، تاکہ وہ اچھی طرح سے سیکھے، مگر وہ کمزور شاگرد اس مار سے مر ہی جاتا ہے، پس داعی اس سننے والے کو صاحبِ تالیف (یعنی ناطق) اور صاحبِ تاویل (یعنی اساس) کی طرف سے بیان کرتا ہے، یہی سبب ہے کہ ظاہر میں مقتول کے لئے دو گواہ چاہئیں، زیادہ نہیں چاہئیں، جس کا باطنی مطلب یہی ہے، جو ہم نے ذکر کر دیا۔

         اس بات کی تاویل کہ زنا کے متعلق چار گواہ ہونے چاہئیں، یہ ہے کہ زنا کرنا صاحبِ زمان علیہ السلام کے فرمان کے بغیر دعوت کرنے کی مثال ہے، اور جب کوئی شخص امر کے بغیر دعوت کے سلسلے میں بات کرتا ہے، تو وہ چار حدود کے متعلق بات کرتا ہے، جیسے ناطق، اساس، امام، اور حجت، جن میں سے دو ۲ تو اس وقت رحلت فرما چکے ہیں، اور دو ان کی جگہ پر ہر زمانے میں باقی ہیں، چنانچہ جب کوئی شخص زمانے میں صاحبِ زمان علیہ السلام کے فرمان کے بغیر ان چار حدود کے بارے میں دعوت کرتا ہے، تو وہ زنائے باطن کرتا ہے، اور اس نے جو کچھ کیا ہے، اس پر یہ چار عظیم حدود گواہ ہوں گے، اور وہ بدترین گنہگاروں کی طرح گرفتار ہوگا، چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا، قولہ تعالی: ۔

         وَلاَ يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (۲۵: ۶۸)

         اور وہ زنا نہیں کرتے، اور جو شخص ایسے کام کرے گا، تو سزا سے اس کو سابقہ پڑےگا۔‘‘ زنا کرنے والے کے متعلق چار گواہ مقرر کئے جانے کی تاویل یہی ہے۔

         اَمَّا اس بات کی تاویل کہ زنا عضوِ تناسل سے کیا جاتا ہے، مگر زانی کی پیٹھ پر درے مارتے ہیں، یہ ہے کہ عضوِ تناسل کی قوت پیٹھ سے ہے اس لئے پیٹھ ہی کو کمزور کر دیتے ہیں ، کیونکہ یہ مایہ وہیں سے آیا تھا، اور اس موضوع کی تاویل یہ

۳۶۶

ہے، کہ عضوِ تناسل پیٹ کی طرف ہوتا ہے، پیٹ باطن کی مثال ہے، اور پیٹھ ظاہر کی مثال ہے، اور جو شخص زنائے باطن کرتا ہے، یہی ہے کہ اس نے فرمان حاصل کئے بغیر تاویل بیان کی ہے، پس اس کو ظاہریت کی طرف واپس لے جانا چاہئے، اور اس کے اس ظاہر کو تباہ کر دینا چاہئے، اس طرح کہ وہ اس ظاہر سے باطن کی طرف دوبارہ نہ آسکے، جس طرح زانی کی پیٹھ پر مارتے ہیں، تاکہ اس کا عضوِ تناسل پیٹھ کی کمزوری سے کمزور ہو جائے، مخلص مومن کے لئے یہ ایک روشن بیان ہے جو ذکر کر دیا گیا۔

                 والسلام

۳۶۷

کلام ۔ ۴۱

سحاقہ اور لواطہ کو سنگسار کرنے کی واجبیت اور اس کی تاویل کے بارے میں

         ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ جو مرد (دوسرے مرد کے لئے) عورت بن جانا اختیار کرے، اور جو عورت خود ( دوسری عورت کے لئے) مرد بن جانا پسند کرے، تو ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں، اور رسول علیہ السلام نے ان دونوں پر لعنت کی ہے، چنانچہ فرمایا: ۔

         ’’ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْمُتَشَبِّھِیْنَ مِنَ الرِّجاَلِ بِالنِّسَاءِ وَ الْمُتَشَبِّھَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ۔

         خدا کی لعنت ہے ان مردوں پر جو اپنے آپ کو عورتوں کی مثال بنا دیتے ہیں، اور ان عورتوں پر بھی جو اپنے آپ کو مردوں کی مثال بنا دیتی ہیں۔‘‘

         پس وہ مرد جو دوسرے مرد کو اپنا خاوند بناتا ہے، اس ظاہری حالت میں اس کو بیوی کی جگہ پر ہوتا ہے، اور وہ عورت جو اپنے آپ کو مردوں کے مشابہ بناتی ہے، سحاقہ عورت کہلاتی ہے، جو مرد کی مثال پر دوسری عورتوں سے ہمبستر ہو کر جنسی لذت لیتی ہے، یا دوسری عورتوں کو اپنے لئے مردوں کی جگہ پر رکھ لیتی ہے، اور ان دونوں گروہ کو خدا کے حکم کے مطابق سنگسار کر دینا چاہئے، کیونکہ

۳۶۸

امیر المومنین علی علیہ السلام نے یہی فیصلہ فرمایا ہے، اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے قومِ لوط کے بارے میں فرمایا، کہ ان کے مرد خواہشاتِ نفسانی کی خاطر مردوں ہی کے پاس جایا کرتے تھے، چنانچہ فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ (۷: ۸۱)

         یعنی خدا فرماتا ہے کہ لوط نے اپنی قوم کو ملامت کیا اور ان سے لاتعلقی ظاہر کی اور کہا ’’تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو، عورتوں کو چھوڑ کر۔‘‘

         پھر فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ مَنْضُودٍ (۱۱: ۸۲)

         ہم نے زیرو بالا کر دیا اس شہر کو جس میں بے حیائی کے کام کرتے تھے، اور ان پر ہم نے دوزخ سے مسلسل پتھر برسائے۔‘‘

         پس یہ آیت خدا تعالیٰ سے اماموں کے لئے تعلیم کی حیثیت رکھتی تھی، کہ جب امت کے لوگ لونڈے بازی کریں، تو ان پر پتھر برسائیں جائیں، جس طرح قومِ لوط پر سنگ باری ہوئی تھی، اور قومِ لوط کے مرد عورتیں اس عذاب میں یکسان تھے، اور یہ بات کہ ان دونوں کو سنگسار کرنا واجب ہوا، جن سے لواطت ( یعنی لونڈے بازی) وقوع میں آئی ہو، اس لئے ایسا ہے کہ جس نے لواطت کی، اس نے ظلم کیا کہ اس نے ایک مرد کو عورت کی جگہ پر رکھا، اور خدا تعالیٰ نے ظالموں پر لعنت کی ہے، چنانچہ فرمایا: ۔

         ’’ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلیَ الظَالِمِیْنَ (۱۱: ۱۸)

         ظالموں پر خدا کی لعنت ہے۔‘‘

         اور جس شخص کے ساتھ اغلام کیا گیا، وہ مرد تھا اور اس نے اپنے آپ کو عورت کے مقام پر رکھا، تو اس پر پیغمبر کی لعنت ہے، جس طرح ہم نے اس سے پیشتر اس گفتار کے شروع میں ذکر کیا، اور جو شخص رسول علیہ السلام کی لعنت

۳۶۹

میں ہو، وہ خدا تعالیٰ کی لعنت میں ہوتا ہے، جب ان دونوں آدمیوں پر، جنہوں نے لواطت کی تھی، عذاب لازم ہوا، تو ہم سحاقہ عورتوں (کے بیان) کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ ان کو بھی یہی عذاب لازم آتا ہے، اس لئے کہ فرمایا کہ جو مرد عورت بن جانا اختیار کرے، اور جو عورت خود مرد بن جانا پسند کرے، تو ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

         اس موضوع کی تاویل یہ ہے کہ وہ مرد جو اپنے آپ کو عورت کے مشابہہ کر دیتا ہے، تاکہ لوگ اس سے اس طرح نزدیکی کریں جس طرح عورت سے نزدیکی کرتے ہیں، حالانکہ وہ خود مرد ہے، اور اس منزلت پر ہے کہ خود عورتوں سے نزدیکی کر سکتا ہے، یہ واقعہ ایک ایسے داعی اور ماذون کی مثال ہے، جو مرد کی منزلت پر ہیں، جو دعوتِ حق کے لئے مامور ہوئے ہیں، مگر دنیاوی طمع کی وجہ سے اہلِ ظاہر کی طرف رغبت کرتے ہیں، اور اپنے آپ کو ان کے ماتحت کر دیتے ہیں، اور ان کی بات قبول کر لیتے ہیں، جس سے کوئی علمی صورت حاصل نہیں آتی ہے، اور وہ بات ایک ایسے نطفے کی طرح ہے، جو ایک مرد سے دوسرے مرد کے اندر چلا جاتا ہے، اور اس سے کوئی جسمانی اولاد پیدا نہیں ہوتی، تو یہ باطنی لواطت ہے، اور یہ دونوں آدمی خدا کی لعنت میں ہیں، اس لئے کہ لعنت کے معنی ہیں دوری، اور اس ظاہری شخص کے لئے امامِ زمان سے، جو رسول علیہ السلام کے فرمان کے بموجب روئی زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں، خود دوری ہی ہے، اور یہ حد (یعنی داعی یا ماذون) جو حقیقت سے روگردان ہو جاتا ہے، اور دنیاوی طمع کی وجہ سے ظاہر کی طرف رغبت کرتا ہے، وہ امامِ زمان سے دور رہ جاتا ہے، اور روحانی ہلاکت، جو وہی خود روحانی سنگساری ہے، دونوں پر واقع ہو جاتی ہے۔

         جو عورت اپنے آپ کو مردوں کے مشابہہ کر دیتی ہے، وہ اس شخص کی مثال ہے، جس نے اپنے آپ کو ناطق کا قائم مقام بنایا، تاکہ اس کی اطاعت کی جائے، اس لئے کہ (اس شخص کے بقول) ناطق نے اس کو قائم کر دیا ہے، اور اس نے کہا کہ

۳۷۰

میں تم کو دعوت کروں گا، اور وہ روحانی حالت میں عورت کی حیثیت سے تھا، مگر اس نے اپنے آپ کو مردوں کے مشابہہ کر دیا، اور اس نے اپنے آپ پر اور امت پر ظلم کیا، پھر خدا اور رسولؐ کی لعنت اس پر پہنچتی، اور اس کے پیچھے چلنے والوں کے لئے بھی وہی ہے جو قائم کئے جاتے ہیں، کیونکہ وہ سب روحانی عورتیں ہیں، اس لئے کہ جب آپ ان سے کتاب کے متشابہ کے معنی پوچھیں، تو وہ نہیں جانتے، اور شریعت کی تاویل جانتے ہیں، یہ لوگ امت میں سب سے عاجز ہیں، جس طرح عورتیں مردوں سے عاجز ہوتی ہیں، اور یہ لوگ حقیقی مردوں کے مقام پر کھڑے ہیں، اور کہتے ہیں کہ تم لوگ عورتوں کی طرح قبولنے والے ہو، اور ہم مردوں کی طرح فائدہ بخشنے والے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک سحاقہ ہے اور جنہوں نے ان کی بات قبول کر لی، تو وہ کچھ ایسی عورتیں ہیں، جنہوں نے ایک سحاقہ کی حکومت قبول کر لی ہے، اس لئے کہ لوگوں کو سیکھنے کے بغیر چارہ نہیں، جس طرح عورتوں کو مردوں کے بغیر چارہ نہیں، لیکن عورتوں کو مردوں کی تابعدار رہنا چاہئے، تاکہ خدا کے فرمان اور رسولؐ کی سنت کے مطابق عمل ہو، اور جو عورت دوسری عورت کی تابعدار ہو، وہ اس معنی کے مطابق جو ہم نے ذکرکر دیا ، خدا کی لعنت میں گرفتار ہو گی اور روح القدس کے فیض اس سے منقطع ہو جانے کی وجہ سے روحانی ہلاکت، رسوائی، اور خرابی اس میں داخل ہوئی ہوگی، اللہ تعالیٰ مومنوں کی حقیقت پر قائم رکھے۔

آمین یا رب العالمین

۳۷۱

کلام۔ ۴۲

غلطی سے قتل اور (قاتل کے اقربأ کے) عاقل اور عاقلہ پر خون بہا (یعنی خون کے معاوضہ) کے بارے میں

         ہم خدا تعالیٰ کی توفیق اور صاحبِ شریعت علیہ السلام کے نور (یعنی امامِ  زمان) کے ذریعے سے بیان کریں گے، کہ غلطی سے قتل کرنا یہ ہے، کہ ایک شکاری آدمی کسی شکار پر تیر مارنا چاہتا ہے، اور اس کا تیر غلطی سے کسی آدمی کو اس طرح لگ جاتا ہے کہ وہ مرجاتا ہے، اور (اس نوعیت کے قتل کے متعلق) خدا تعالیٰ نے فرمایا، کہ مقتول کا خون بہا مقتول کے وارثوں کو ادا کر دیا جائے، چنانچہ ارشاد ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ (۴: ۹۲)

         اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے، تو اس پر ایک مومن غلام یا لونڈی کا آزاد کرنا ہے، اور خون بہا ہے، جو اس کے اقربأ کو حوالے کر دیا جائے۔‘‘

         اور یہ سب کچھ فرامینِ مجمل ( یعنی مختصر فرامین) میں سے ہے، اور اس کا مفصل رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت سے وابستہ ہے، اس لئے کہ خدائے تعالیٰ کی کتاب میں یہ ظاہر نہیں، کہ مومن مرد کا خون بہا کتنا ہے، اور اگر اس قاتل کا جس نے غلطی سے قتل کیا ہے، کچھ بھی مال نہ ہو، تو یہ خون بہا کہاں سے دینا چاہئے،

۳۷۲

ظاہر میں یہ ہے ، کہ مومن مرد کا خون بہا ایک ہزار مثقال کھرا سونا مقرر ہے، چنانچہ یہ ہزار مثقال (سونا قیمت میں) بارہ ہزار درم کی ہم وزن خالص چاندی کے برابر ہے، اور عورت کا خون بہا مرد کے خون بہا کا نصف ہے، جس طرح (میراث کی تقسیم میں) عورت کو مرد کے حصے کا نصف ملتا ہے، اور جب کوئی شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کرتا ہے، تو اس مقتول کا خون بہا قاتل کے عاقل اور عاقلہ کے ذمے میں ہے، جو مقتول کے وارث ان سے لیا کرتے ہیں، اور قاتل کے عاقل و عاقلہ اس کے سگے بھائی، چچیرے بھائی، اور اقربا ٔ ہوتے ہیں، جس شخص نے غلطی سے قتل کیا ہے، اس سے کچھ نہیں لیتے، بلکہ وہ خون بہا اس قاتل کے چچیرے بھائیوں سے (تین سال کے اندر) تین قسطوں میں لیا کرتے ہیں، یک مشت نہیں لیتے، اور مقتول کے وارثوں کو ادا کر دیتے ہیں، تاکہ خدائے تعالیٰ کے فرمان اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی سنت پر عمل ہو۔

         اگر رسول علیہ السلام کے حکم میں ایک عظیم حکمت پوشیدہ نہ ہوتی تو یہ لازم نہیں آتا کہ جس شخص نے یہ کام کیا ہے، اس کو چھوڑ دیا جائے، اور اس کے بے گناہ قرابت داروں کو پکڑا جائے، اور ان سے خون بہا لیا جائے اور جو شخص اس امر کی تاویل نہ سمجھے، تو اس کے لئے یہ فیصلہ ناممکن نظر آئےگا، لیکن شریعت کے موضوع ( جس کی بنیاد جسمانی فانی چیزوں پر ہے) کی مراد یہ ہے، کہ اس کے معنی روحانی غیر فانی چیزوں میں پائے جائیں ، اور روحانی چیزوں میں وہ فرمان ایسا نظر آئے کہ وہ قاعدۂ عدل کے مطابق ہے، جبکہ وہ فرمان روحانی حالت میں بحقیقت قائدۂ عدل کے مطابق ہے، اس لئے کہ ( روح کے مقابلے میں) جسم (زیادہ) عدل کے لائق نہیں، اور اگر کوئی شخص جسم کے لئے زیادہ عدل ڈھونڈے تو اس نے روح کے لئے محال ڈھونڈا ہوگا، اس لئے کہ اگر کوئی شخص کہے کہ انسان نہیں مرنا چاہئے تو اس نے یہ چاہا ہوگا، کہ بس ہمیشہ اسی طرح روح اپنے مقام سے دور رہے، اور کسی چیز کو اپنی جگہ پر نہ چاہنا اور نہ رکھنا ہی ظلم ہے۔

۳۷۳

         پس ہم بطورِ تاویل بیان کریں گے، کہ غلطی سے قتل کرنا باطن میں یہ ہے کہ داعی جو شکاری کی طرح ہے، مستجیب پر کچھ اس طرح بات ڈالتا ہے کہ اس کی وجہ سے اس کا اعتقاد ٹوٹ جاتا ہے جس کی مثال ایک ایسا تیر ہے جو شکار کے لئے مارا جاتا ہے (مگر یہ غلطی سے کسی شخص کو لگ کر مار دیتا ہے) پس اس بات میں معہود مستجیب جو مومن ہے حیران رہ جاتا ہے، اور اس کا نفس سچے راستے سے گر جاتا ہے، اور غلطی سے اس کو قتل کرنا یہی ہے، اس لئے کہ یہ بات داعی کی طرف سے اس مستجیب کے لئے مصیبت ہوئی، مگر اب برداشت ( کا راستہ صرف) یہی ہے، کہ یہ مستجیب اپنی روحانی زندگی اس داعی سے دوبارہ حاصل نہیں کر سکتا ، اس لئے کہ جب یہ اس کی اس بات کے سننے سے حق سے گر گیا، تو یہ مزید اس سے کیا سنے گا، اور اس غلطی والا داعی کا چچیرا بھائی دوسرے جزیرے کے حجت کا داعی ہے، کیونکہ بارہ جزیروں کے صاحبان (یعنی بارہ حجت) ایک دوسرے کے بھائی ہیں، جن کے والدین امامِ زمان اور حجتِ اعظم ہیں، پس صاحبانِ جزائر کے تمام داعی روحانی نسبت میں بحقیقت ایک دوسرے کے چچیرے بھائی ہی، اور اسی طرح اسی نسبت سے اس داعی کے ماذون دوسرے داعی کے ماذونوں کے چچیرے پوتے ہوئے ہیں، اس لئے کہ صاحبانِ جزائر کے داعی ایک دوسرے کے چچیرے بھائی ہیں۔

         پس چاہئے کہ دوسرے جزیرے کے حجت کا داعی اس روحانی مقتول کو تعلیم دے، اور اس حال کی حقیقت اس پر ظاہر کر دے، کہ وہ اس داعی سے جدا ہو چکا ہے، تاکہ اس کا دل اس داعی پر ٹھہرے، اور دوبارہ اس سے عہد لیا جاسکے، اور پھر سے طریقِ حق قبول کرے، اور یہ اس کا زندہ ہو جانا ہے، جس طرح جسمانی مقتول کے حق میں خون بہا ادا کر دینا، مقتول کو زندہ کر دینے کے برابر ہے۔

         اس امر کی تاویل ، کہ وہ خون بہا اس غلطی سے قتل کرنے والے کے چچیرے بھائیوں سے تین قسطوں اور تین حصوں میں لیا جاتا ہے، یہ ہے کہ اس زندہ

۳۷۴

کرنے والے داعی کو چاہئے کہ اس غلطی سے قتل کئے ہوئے مومن مستجیب کو یہ ظاہر کرے کہ ناطق کی مرتبت اور کتاب و شریعت کی امثال و رموز کس طریقے پر ہیں، پھر اس کو تاویلِ مجرد ( یعنی خالص روحانی تاویل) میں اساس کی مرتبت دکھائے کہ ، کس طرح ہے، اور پھر اس کو امام کی مرتبت دکھائے، جو تیسرا صاحبِ تائید اور ان تین مرتبتوں کا جامع ہے، تاکہ اس مرے ہوئے کو ان تین مرتبتوں سے (روح) حقیقت حاصل آئے، مثال کے طور پر ناطق کی بات خالص جسم کی طرح ہے، اساس کی بات خالص جان کی طرح ہے، اور امام جو ان دونوں مرتبوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیتا ہے، وہ جسم کا روح کے ساتھ مل جانے کی مثال ہے، کیونکہ ان دونوں کےمجموعے کا نام انسان ہے (اس داعی کی یہ تعلیم اس لئے ضروری ہے) تاکہ وہ انسان ان تین مراتب کی شناخت کے ذریعہ اس ہمیشہ رہنے والی روح کی طرف واپس جائیں، اور اس تاویل کی مثال وہ تین قسطیں ہیں، جن میں اس غلط قتل کے خون بہا کا لینا مناسب ہوتا ہے، نہ کہ یک مشت طریقے پر ، اور یہ بیان سورج سے بھی زیادہ روشن ہے، اس شخص کے لئے جس کے دل کی آنکھ روشن ہے۔

         اس امر کی تاویل کہ مرد کے خون بہا کے لئے سونے کی ہزار اشرفیان یا چاندی کے بارہ ہزار درم مقرر ہیں (جس میں اشرفی کا وزن ساڑھے چار ماشہ اور درم کا وزن ساڑھے تین ماشہ ہے) یہ ہے ، کہ ہزار امام کا درجہ ہے، جو حساب کی انتہاہے، جس طرح امام امت کی انتہا ہے، اور سونا ناطق کی مرتبت کی مثال ہے، جو اپنے زمانے میں رکھتا ہے ( اور امام کی مرتبت کی مثال ہر زمانے میں) اور ایک مثقال سونے کی قیمت بارہ درم کی ہم وزن صاف چاندی ہے، اور خالص چاندی اپنے زمانے میں اساس کی مرتبت کی مثال ہے، اور ہر زمانے میں حجت کی مرتبت کی مثال ہے، اور چاندی کی یہ مقدار اس بات کی علامت ہے، کہ بارہ کا عدد (بارہ) حجتوں کے باطن میں امام ہونے کی تاویل ہے،

۳۷۵

چنانچہ جسمانی مقتول کا عوض یا تو ایک ہزار مثقال سونا ہے، یا بارہ ہزار درم کی ہم وزن خالص چاندی ہے، یہی ہے (غلطی سے قتل اور اس کے خون بہا کا) بیان جو ہم نے کر دیا۔

         والسلام

۳۷۶

کلام ۔ ۴۳

گناہانِ کبیرہ کی شرح کہ وہ کتنے ہیں، اور ان کی تأویل کے بارے میں

         ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے پوچھا گیا، کہ گناہوں میں کون کون سے گناہ بڑے ہیں؟ فرمایا: یہ ہے کہ تو خدا کے ساتھ شریک ٹھہرائے، یہ ہے کہ، تو اپنی اولاد کو قتل کر دے، اس خوف سے کہ وہ تیرے ساتھ کھانے پینے میں شامل ہے، اور یہ ہے، کہ تو اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرے، جب رسولؐ نے یہ ارشاد فرمایا، تو یہ آیت پڑھی ، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’وَالَّذِينَ لاَ يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلاَ يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلاَ يَزْنُونَ (۲۵: ۶۸)

         اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کےساتھ کسی اور معبود کی پرستش نہیں کرتے، اور جس جان ( کے قتل کرنے) کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے، اس کو قتل نہیں کرتے، ہاں مگر حق پر اور وہ زنا نہیں کرتے۔‘‘ فرمایا کہ یہ تین گناہانِ کبیرہ میں سے ہیں: ۔ خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانے کی تاویل ہے، کسی باطل شخص کو امامِ حق کی جگہ پر قرار دینا۔

۳۷۷

         اس بات کی تاویل کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو (شرکت میں ) کھانا کھانے کے ڈر سے قتل کرتا ہے، وہ ایک ایسا داعی ہے، جو مستجیب کو اس حسد سے علم نہیں سکھاتا ہے، کہ یہ  میرے درجے میں پہنچ جائیگا اور میری جگہ لے گا۔

         جو شخص اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرتا ہے، وہ ایک ایسے داعی کی مثال ہے، جو دوسرے داعی کے مستجیب کو تعلیم دیتا ہے۔

         امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: کہ گناہانِ کبیرہ سات ہیں، پہلا خدا تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، دوسرا اس جان کو قتل کرنا، جس کو قتل کرنا اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے۔

         تیسرا ایک پرہیزگار اور خاوند والی عورت پر زنا کا الزام لگانا، چو تھا یتیم کے مال کو کھا لینا، پانچواں سود کھانا، اور وہ یہ ہے، کہ ایک شخص کسی کو گندم کا کوئی پیمانہ (بطورِ قرض) دیتا ہے، پھر ( بوقتِ ادائیگی) اس پیمانہ سے زیادہ لیتا ہے، چھٹا کافروں کی لڑائی سے بھاگ جانا، ساتواں اعرابی کا صحرا نشین ہو جانا، اس واقعہ کے بعد کہ اس نے آنحضرتؐ کے ساتھ ہجرت کی تھی، اور جو شخص گناہانِ کبیرہ سے کنارہ کش ہو جائے، تو خدا تعالیٰ اس کی دوسری برائیوں کے لئے معاف فرمائے گا، چنانچہ فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلاً كَرِيمًا (۴: ۳۱)

         جن گناہوں سے تم کو منع کیا جاتا ہے، ان میں جو بھاری بھاری گناہ ہیں، اگر تم ان سے بچتے رہو، تو ہم خفیف برائیاں تم سے دور فامائیں گے، اور ہم تم کو ایک پرمایہ جگہ میں داخل کر دیں گے۔‘‘

         اس آیت کی تاویل یہ ہے، جو تمہیں معلوم ہونا چاہئے، کہ اس آیت کے بارہ کلمے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہیں، کہ مومنوں کی نجات بارہ حجتوں کے ذریعہ ہے، اور انہی کے ذریعہ تم گناہانِ کبیرہ کو ( جو انسان کو ہلاک کرنے والے ہوتے ہیں)

۳۷۸

پہچان سکتے ہو، تاکہ تم ان سے دور رہ سکو۔

         خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانے کی تاویل یہ ہے، کہ امامِ زمان ( جو خدا تعالیٰ کے امر کے بموجب قائم کر دیا گیا ہے ) کی جگہ اگر تم کسی اور کو امام مانتے ہو، اور حق کو تم اسی سے منسوب کر دیتے ہو، اور یہ کہ اگر تم زمانے کے مالک کو اس کے مخالفین سے بے نظیر نہ سمجھو، اور تمہیں جاننا چاہئے، کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کے لئے کوئی معافی نہیں، اور (یہی ہے خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانے کی تأویل، ورنہ دوسری صورت میں) کسی شخص نے خدا تعالیٰ کے ساتھ ہرگز کوئی شریک نہیں ٹھہرایا ہے، اور یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے مخلص بندوں کے لئے ایک اشارہ ہے، تاکہ وہ اس شرک سے ڈر رکھا کریں۔

         دوسرا (گناہِ کبیرہ ہے) اس جان کو قتل کرنا، جس کو قتل کرنا حق تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، مگر حق پر، اس مطلب کی تاویل یہ ہے، کہ کوئی شخص کینہ اور حسد سے کسی مومن پر کسر کرتا ہے، (یعنی کوئی ایسا مسٔلہ پوچھتا ہے) کہ جس سے اس کا اعتقاد ٹوٹ جاتا ہے، یہ بھی گناہانِ کبیرہ میں سے ہے۔

         پرہیزگار عورت پر زنا کا الزام لگانے کی تاویل یہ ہے ، کہ کوئی ایسا رستگار داعی ہوتا ہے، جو اپنے صاحبِ جزیرہ کی بہتری میں ہے، اور اس داعی کے کچھ مستجیب ہیں، اور وہ داعی خود حجت سے علم حاصل کر کے اپنے معہودوں ( یعنی اپنے مستجیبوں) کو سکھایا کرتا ہے، مگر یہ مستجیب اپنے اس داعی کی غیبت کرتے ہوئے کہتے ہیں، کہ یہ تو اہلِ ظاہر ہی سے تعلیم لیا کرتا ہے اور جن سے عہد نہیں لیا گیا ہے، ان کو تعلیم دیتا ہے، پس ایسا الزام بھی بڑے گناہوں میں سے ہے۔

         یتیم کے مال میں سے کھانے کی تاویل یہ ہے، کہ کوئی ایسا شخص ہے، جو تعلیم کے لئے داعی کے پاس جانے سے ناموس اور تکبر کرتا ہے، اور کسی مستجیب سے پوچھا کرتا ہے، کہ داعی نے کیا کہا، اور یہ (مستجیب یا) ماذون اسی طرح اس داعی سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے اس شخص کو بتا دیتا ہے، کہ داعی نے یہ کہا اور وہ کہا،

۳۷۹

اور اسی طرح یہ شخص کہتا ہے، کہ تم مسٔلہ کو داعی سے پوچھ کر مجھے جواب دیا کرو، کہ اس نے کیا کہا، تاکہ یہ شخص اسی طرح مستجیب کو علمی بھکاری بنادے، اس لئے کہ ( یہ شخص گمان کرتا ہے کہ) اگر داعی کو یہ حال معلوم ہو جائے، تو وہ اپنا یہ علمی فائدہ اس سے روک لے گا۔

         سود کھانے کی تاویل یہ ہے ، کہ جب مستجیب ماذون سے ایک ایسا مسٔلہ پوچھتا ہے، جس میں بہت سے معنی ہیں، اور یہ ماذون اس میں سے کچھ تو بتا دیتا ہے، اور کچھ روکے رکھتا ہے، اور دریغ کرتا ہے، کہ مستجیب علم کے حقدار بن جائے، اس مثال کے یہ معنی ہوئے، کہ اس نے اس کو تھوڑا دے کر اپنے لئے زیادہ لیا، سود کی حقیقت یہی ہے۔

         کافروں کی جنگ سے بھاگ جانے کی تاویل یہ ہے کہ حدودِ دین میں سے کوئی حد اتفاقاً ظاہریوں سے مناظرہ کرتا ہے، اور ہمت ہار کر حق بیان کرنے سے خاموش ہو جاتا ہے، جس سے ظاہری لوگ دلیر ہو جاتے ہیں، بلکہ اس پر واجب ہے کہ محکم دلیلوں سے ان کو عاجز کر کے ہرادے، تاکہ وہ فتح یاب ہو سکے۔

         رسول علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کرنے کے بعد اعرابی کے صحرا نشین ہو جانے کی تاویل یہ ہے کہ جوکوئی مستجیب ظاہریوں سے جدا ہوتا ہے، اور عہد کر کے خاندانِ حق میں داخل ہو جاتا ہے، اور پھر اس سے سستی کرتے ہوئے روگردان ہو جاتا ہے، اور ظاہریوں کی طرف واپس جاتا ہے، اور خدا کے نام کو ترک کر دیتا ہے، اور یہ خدا کا نام بھی حدودِ دین میں سے ایک حد ہے، اور یہ سب بڑے گناہوں میں سے ہیں، نیز رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ۔

         ’’ مِنَ الْکَبَائِرِ اَلْیَاسُ مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ وَالْاَمْنُ مِنْ مَکْرِاللہ۔

         خدا کی رحمت سے ناامید ہو جانا، اور خدا کے مکر سے بے خوف رہنا گناہانِ کبیرہ میں سے ہے۔‘‘

۳۸۰

         خدا کی رحمت سے ناامید ہو جانے کی تاویل یہ ہے ، کہ کوئی شخص شریعت میں سست اور نادان ہو، اور کہتا ہو کہ دنیا میں سب لوگ حیران ہیں، اور حق خود ہے ہی نہیں، اور تمام ادیان بنیاد ہی سے مختلف اور تباہ ہوئے ہیں، پس ایسے شخص نے یہ فیصلہ کیا ہوگا، کہ خدا اور رسولؐ نے لوگوں کو ضائع کر دیا ہے۔

         خدا کے مکر سے بے خوف رہنے کی تاویل یہ ہے، کہ کوئی شخص کہتا ہو، کہ نہ ثواب ہے، اور نہ عذاب، اور اگر ثواب و عذاب ہوتا تووہ اچھے اور برے کام کرنے والے سب لوگ اس کو پالیتے ، اور اگر خدا قادر ہوتا تو ان کو عذاب یا ثواب دیتا، یا کہتا ہو، کہ اگر امامِ زمان برحق ہوتا تو علی الاعلان اپنا حق طلب کرلیتا۔

         نیز کہتے ہیں ، کہ جھوٹی گواہی بھی گناہانِ کبیرہ میں سے ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ کوئی شخص امامِ برحق کے مخالف (یعنی امامِ باطل) کے بارے میں کہتا ہو، کہ امامِ برحق تو یہی ہے۔

         نیز کہتے ہیں، کہ والدین کو آزار کرنا بھی گناہانِ کبیرہ میں سے ہے، جس کی تاویل یہ ہے ، کہ کوئی مستجیب اپنے داعی اور ماذون کے بارے میں زبان درازی کرتا ہے، اور ان کو آزار کرتاہے۔

         نیز کہتے ہیں کہ جھوٹی قسم کھانا بھی گناہِ کبیرہ ہے، اور اس کا ظاہر اس طرح ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے مال کو روک کر قسم کھاتا ہے کہ مجھ پر اس شخص کی کوئی چیز نہیں، جس کی تاویل یہ ہے ، کہ کوئی شخص امامِ برحق کا عہد لیتا ہے، اور علم حاصل کرتا ہے، پھر اس کے بعد اس سے منکر ہو جاتا ہے۔

         پس جو شخص مذکورہ بڑے گناہوں سے دور رہے تو اللہ تعالیٰ اسے امام کی دعوت کی طرف ہدایت دیتا ہے، جو ایک پرمایہ مقام ہے، اور اس پر مایہ مقام میں پہنچنے کی وجہ سے اس کی جگہ دائمی بہشت میں ہے، اور حقیقی مومن وہ ہے، جو مذکورہ تمام ظاہری و باطنی گناہوں سے دور رہتا ہے، تاکہ چھٹکارا پائے۔

         والسلام

۳۸۱

کلام ۔ ۴۴

اس امر کے بارے میں بیان اور تاویل کہ حلال جانوروں میں سے جو کچھ حرام ہو جاتا ہے، وہ مردار اور سؤر کے گوشت ہی کی طرح حرام ہے

         ہم ولیٔ زمان علیہ السلام کی مہربانی سے، خاندانِ حق کے تابعین کے لئے بیان کریں گے، کہ خدا کے فرمان کو ظاہر اور باطن (دونوں حالت) قبول کرنا چاہئے، اور اس کے باطن کو جان لینا چاہئے، اور جب تک تم خدا تعالیٰ کے قول کی حقیقت نہ سمجھو، تو حلال کو حرام سے جدا نہیں کر سکو گے، اس کی مثال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كُنتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ (۶: ۱۱۸)

         ’’ پس اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو تو، جس ذبیحہ پر (بوقتِ ذبح) خدا کا نام لیا گیا ہو، اسی کو کھاؤ۔‘‘ اور ہم جانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص سور پر سو ۱۰۰ بار اللہ تعالیٰ کا نام پڑھے (اور ذبح کرے) تو بھی وہ حلال نہ ہوگا۔ پس یہ حالت اس بات کی دلیل ہوئی، کہ سؤر نے خدا کے نام کو قبول نہیں کیا ہے، اسی لئے

۳۸۲

اس کا گوشت حلال نہیں ہوتا ہے، اگر ہم ظاہری طور پر دیکھیں، تو گوسفند اور سؤ ر، جبکہ تم ان کو ذبح کرتے وقت خدا کا نام لیا کرو، ہاتھ پاؤں مارنے، خون نکال دینے، ساکن ہوجانے اور لمبے پڑجانے میں یکسان ہوں گے، پس درست ہوا کہ سؤر باطنی طور پر خدا کے نام کو قبول نہیں کرتا ہے، یہی سبب ہے کہ اس کا یہ ظاہر حرام ہوا ہے، اور خدا تعالیٰ نے سؤر کے گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ اس کا گوشت کھانا حلال نہیں، اور گوسفند کے گوشت حلال ہونے میں مومنوں کو کوئی شک ہی نہیں، لیکن سؤر کے گوشت اور گوسفند کے گوشت کے درمیان کوئی فرق نہیں  رکھا گیا، جبکہ گوسفند (ذبح کے بغیر) اس طرح مرجائے، جس کا ہم ذکر کرنے والے ہیں، دران حال اس کا گوشت سؤر کے گوشت  ہی کی طرح حرام ہو جاتا ہے، چنانچہ فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالأَزْلاَمِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ (۵: ۳)

         حرام کیا گیا تم پر مرا ہوا جانور، اور خون اور سؤر کا گوشت، اور جس (جانور) پر ذبح کے وقت) خدا کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے، اور گردن مروڑا ہوا، اور چوٹ کھا کر مرا ہوا، اور جو گر کر مرجائے، اور جو سینگ سے مار ڈالا گیا ہو، اور جس کو درندے نے پھاڑ کھایا ہو، مگر جسے (تم مرنے کے قبل) ذبح کرلو، اور جو (جانور) بتوں ( کے تھان) پر (چڑھا کر) ذبح کیا جائے، اور جسے تم (پالنے) کے تیروں سے باہم حصہ بانٹو، یہ سب نافرمانی ہے۔‘‘

         اور یہ پانسا عرب کے لوگوں میں ایسا تھا، کہ ان کے پاس ایک تراشی ہوئی چار پہلو لکڑی ہو تی تھی، اس کے دو پہلوؤں پر لکھا ہوا ہوتا تھا، کہ خدا نے

۳۸۳

یہ فرمایا ہے، اور اس سے قرعہ اندازی کا کام لیتے تھے، اور ان دو پہلوؤں سے جو بات ظاہر ہو جائے اسی پر عمل کرتے تھے۔

         پس خدائے تعالیٰ نے ان تمام چیزوں سے منع فرمایا، اور ان تمام چیزوں کو مردار اور سؤر کے گوشت کی برابر قرار دے دیا، اور فرمایا کہ یہ سب نافرمانی ہے، اور یہ گیارہ قسم کی چیزیں سب حرام ہیں، اور ان کا بارہواں حلال ہے، جبکہ تم اس کے ذبح کے وقت خدا کا نام لیتے ہو، اور یہی حلال دلالت کرتا ہے، بارہ اشخاص میں سے ایک شخص کی حقداری پر (یعنی بارہ حجتوں میں سے صرف ایک حجت ہی درجۂ امامت پر فائز ہو سکتا ہے) کہ ان گیارہ اشخاص کو اس ایک شخص کی فرمانبرداری کرنی چاہئے اور جو شخص اس کی فرمانبرداری نہ کرے، وہ مردار کی طرح ہو جاتا ہے، اور ناپسندیدہ ہو جاتا ہے، اور اس کی طرف (مومن کی) رغبت ہو نہیں سکتی، جس طرح مردار کو نہیں کھانا چاہئے، اور اس (بیان کی تاویل میں) وہی بارہ حدود ہیں، جو یعقوب پیغمبرؑ کے زمانے میں تھے، اور یوسف علیہ السلام اس زمانے میں (ان بارہ میں سے) ایک تھا، جس کو ان گیارہ اشخاص نے سجدہ کیا، چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ (۱۲: ۴)

         اب ہم ان گیارہ چیزوں کی تاویل بتائیں گے، جنہیں نہیں کھانی چاہئیں، تاکہ مومن کی بصیرت میں اضافہ ہو جائے ( وہ یہ ہے کہ) سب سے پہلے خدائے تعالیٰ نے مردار کا ذکر فرمایا، جس سے اس کی مراد وہ شخص ہے، جس نے اپنے ناطق کے دور میں سب سے پہلے نافرمانی کی، اور اس کی اطاعت سے سرکشی کی، جس کی وجہ سے اس کو روح القدس سے کوئی حصہ نہیں ملا، اور وہ مردار ہو گیا، پس بموجبِ امرِ الٰہی اس کے ساتھ جانا حرام ہوا، جس طرح مردار کھانا حرام ہے۔

         پھر خون کے بارے میں فرمایا، کہ حرام ہے، اور خون یہ ہے کہ جب تم گوسفند اور دوسرے حلال جانوروں کے ذبح کے وقت خدا کا نام لیتے ہو، اور

۳۸۴

یاد کرتے ہو، اس میں جب خون ان سے نکل جاتا ہے، تو وہ حلال ہو جاتے ہیں، اور اگر وہ اس طریقے کے بغیر مارے جائیں، تو حرام ہیں، اور یہ (خون کھانا) اس شخص سے جاملنے کی مثال ہے، جو بحقیقت حلال کرنے والے یعنی امامِ برحق سے جدا ہوچکا ہے، پاس ایسے شخص کے ساتھ مل جانا حرام ہے۔

         تیسرا سؤر کے گوشت کے بارے میں فرمایا، اور سؤر اس شخص کی مثال ہے جو دنیاوی سرداری طلب کرنے کی طمع سے دعوتِ حق کرتا ہے، اور وہ دین کو بے نظام کر دیتا ہے، چنانچہ سؤر طمع سے لوگوں کی کھیتی باڑی کو جن میں لوگوں کی جان کی زندگی ہے، خراب کر ڈالتا ہے، ظاہری رزق کی کھیتی باڑی خراب ہونے میں اجسام کی ہلاکت ہے، اور دعوت خراب ہونے میں جو باطنی رزق کی کھیتی باڑی ہے، روحوں کی ہلاکت ہے۔

         چوتھا اس جانور کے بارے میں فرمایا جو خدا کے نام کے بغیر ذبح کیا جاتا ہے، اور یہ جانور اس شخص کی مثال ہے جو امامِ برحق کے بغیر دعوت کرتا ہے، جبکہ امامِ برحق ہی بحقیقت خدا کا نام ہے۔

         پانچواں گردن مروڑے ہوئے کے متعلق ارشاد فرمایا، اور یہ اس شخص کی مثال ہے، جس نے خدا کا عہد لیا تھا، مگر اس نے اس کی حفاظت نہ کی، اور اس کا روحانی سانس خدا کے عہد میں ٹھیک طرح سے نہیں چلا، یہاں تک کہ وہ روحانی ہلاکت کو پہنچا۔

         چھٹا لاٹھی سے مرے ہوئے کے باب میں فرمایا، اور یہ اس شخص کی مثال ہے، جس پر کسی نہ کسی ظاہری پہلو سے کسر کی گئی ہو ( یعنی اس کا اعتقاد توڑ دیا گیا ہو ) جس سے وہ حیرت زدہ ہو کر دعوت کی بات سن نہیں سکتا ہو۔

         ساتواں اس جانور کے بارے میں فرمایا، جو کسی اونچی جگہ سے گر کر ماجاتا ہے، اور یہ اس شخص کی مثال ہے، جو کسی مرتبے میں ہو، اور اس سے کوئی گناہ واقع ہو کر اس مرتبے سے گر جائے، تو اس سے دینی تعلیم نہیں لینی چاہئے۔

۳۸۵

         آٹھواں اس جانور کے بارے میں فرمایاجو دوسرے جانور نے مار ڈالا ہو، اور یہ ان دو آدمیوں کی مثال ہے جو آپس میں دین کے متعلق جھگڑتے ہیں، اور اس جھگڑے میں حیران رہ کر فرمان سے گرجاتے ہیں، پس ان دونوں سے تعلیم نہیں لینی چاہئے۔

         نواں اس جانور کے متعلق فرمایا ہے، جس میں سے کسی درندے نے کھایا ہو، اور یہ اس شخص کی مثال ہے، جس کو دہر یوں یا فلسفیوں یا سائنس دانوں نے (دینی نظریات میں) اپنی طرف راغب کردیا ہو، اور علم کی باریکیوں میں اس کی نظر پڑی ہو، مگر تاریکی کے راستے سے، نہ کہ دعوتِ حق (یعنی روحانی معجزانہ دعوت ) کے طریقے سے، پس اس شخص نے دینی علم حاصل کرنا مناسب نہیں، مگر واقعہ کے بعد جبکہ وہ دعوت میں مل جائے، اور صاحب العصر کا عہد اس سے لیا جائے، جس طرح درندوں کے غول سے اگر (کوئی حلال جانور) زندہ بچ کیا ہو، تاکہ اس پر خدا کا نام لیا جائے، تو اس کو کھانا مناسب ہے، اگرچہ اس کا کوئی حصہ درندوں نے کھا چکا ہے۔

         اما وہ شکاری جو کتوں کو سکھاتا ہے، اور ان کتوں کو کسی نے خدا کا نام لے کر چھوڑا ہو، اگر یہ کتے شکار پکڑیں تو وہ حلال ہے، اور یہ اس شخص کی مثال ہے، جو داعی اور ماذون اس سے عہد لیتے ہیں، کہ یہ روحانی طور پر اس کا شکار کرنا ہے۔

         دسواں اس کا ذکر فرمایا، جس کو بتوں کے پاس ذبح کرتے ہیں، اور یہ اس شخص کی مثال ہے، جو اپنے آپ کو امامی گروہ کے ساتھ شمار کرتا ہے، مگر امامِ زمانؑ کے لئے مقر نہیں، اور اس پاک خاندان کے بارے میں طعنہ دیتا ہے، ایسے ( برائے نام) پیرو اگرچہ امامیہ کی طرح ہیں، مگر وہ بحقیقت امامیہ نہیں ہیں، چنانچہ بت انسان کی طرح ہے مگر بحقیقت انسان نہیں۔

         گیارہواں اس کا ذکر فرمایا، جو پانسا کے تیروں سے کام لیتے ہیں، جس کی شرح ہم کر چکے ہیں، اس کی تاویل یہ ہے، کہ جو شخص اپنی خواہش ہی کی

۳۸۶

پیروی کرتا ہو، اور اپنے آقا (یعنی امامِ زمان) کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، بلکہ کہتا ہے کہ خدا نے یہی  چاہا، جس طرح کوئی کہتا ہو کہ فال سے یہی بات نکلی، تو ایسے شخص سے تعلیم نہیں لینی چاہئے، اس کے بعد فرمایا، کہ یہ سب نافرمانی ہے، پس اس بات کی دلیل ہے، کہ جو شخص ان فرامین پر عمل نہ کرے وہ فرمانبردار اور رستگار نہیں، اور حقیقی مومن وہی ہے، جو ان تمام فرامین کے ظاہر اور باطن (دونوں) پر عمل کرے، اور ہر زمانے میں خدا کا مطیع ہو۔

۳۸۷

کلام۔ ۴۵

دجال کے وجود کا اثبات، اس کا فتنہ اور اس واقعہ کی تاویل کے بارے میں

         ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق و مدد سے بیان کریں گے، کہ دجال کا تذکرہ امت کے درمیان معروف و مشہور ہے، چنانچہ ہر شخص کہتا ہے، کہ دجال کے فتنے سے بچ جانا چاہئے، لیکن سب سے پہلے تو یہ بات لازمی ہے کہ تم کسی چیز کو پہچان لو، تاکہ تم اس سے بچ سکو گے، اور اگر کوئی شخص زہر کو نہیں پہچانتا ہو کہ وہ کیا ہے؟ تو خطرہ ہے کہ وہ نادانستہ طور پر اس میں سے کھالے، اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں، کہ جب ان کی آمیزش غلط طریقے پر ہوئی تو وہ زہر بن جاتی ہیں، چنانچہ گائے کا گھی شہد کے ساتھ بے حد عمدہ اور دلپسند غذا ہے، مگر ان دونوں میں سے جب ایک دوسرے کے ہم وزن کھا یا جائے، اس طرح کہ ان دونوں کے وزن میں ذرہ بھر بھی فرق نہ ہو، تو اس وقت اس سے معدے میں اختلال (یعنی سخت ترین قسم کا سرکہ ) پیدا ہوجاتا ہے، اور وہ انسان مر جاتا ہے، پس دانشمند انسان پر اس شخص کا پہچاننا واجب ہے، جس سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے بچنے کے لئے فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا: ۔

         ’’ اِحْذَ رُوْا فِتْنَۃَ الْاَعْوَر الدَّ جَّال۔‘‘

۳۸۸

         ’’ پرہیز کرو دجال کے فتنے سے جس کی ایک آنکھ ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے لئے ایک دجال ہے۔

         اور جب مومن نے دجال کو پہچان لیا، تو اس پر فریفتہ نہ ہوگا، جس طرح عدلِ ایزدی اور رحمتِ الٰہی کی رو سے یہ مناسب نہیں، کہ خدا تعالیٰ لوگوں کو ایک ایسا رہنما عطا کرے، کہ اس کے ساتھ جو لوگ مل جائیں، تو ان کی چھٹکارا ملے، اور پھر اس کے بعد لوگوں کو بغیر رہنما کے چھوڑ دے، اور ( اگر فی الواقعہ ایسا ہی ہوتا تو) یہ خدا کی طرف سے ظلم ہوتا، مگر ظلم خدائے تعالیٰ سے دور ہے، نیز ( دوسری طرف سے یہ بھی ) مناسب نہیں کہ خدائے تعالیٰ ( صرف ایک ہی وقت میں ) ایک ایسے فریب دینے والے کو ظاہر کرے، کہ لوگوں کو اس کے مکرو فریب سے ہلاک ہو جانے کا ڈر ہو، اور اس فریب دینے والے کے زمانے میں امن کا کوئی ذریعہ ہی نہ ہو، خدائے تعالیٰ نے قرآن میں ان دونوں معنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         لاَ تَيْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لاَ يَيْئَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الكَافِرُونَ (۱۲: ۸۷)

         اور خدا کی رحمت سے تم ناامید نہ ہونا، کیونکہ خدا کی رحمت سے سوائے کافر لوگوں کے اور کوئی ناامید نہیں ہوا کرتا۔‘‘

         مذکورہ آیت میں لوگوں کے لئے یہ خوشخبری ہے، کہ خدا کے مقرر کردہ رہنما سے زمین ہر گز خالی نہیں، اور دوسری جگہ فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’ أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّهِ فَلاَ يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ (۷: ۹۹)

         کیا یہ لوگ خدا کی آزمائش سے بے خوف ہو گئے ہیں، خدا کی آزمائش سے صرف زیان کار لوگ ہی نڈر ہو بیٹھتے ہیں‘‘۔

         اس آیت میں ان لوگوں کے لئے عبرت ہے جو گمان کرتے ہیں کہ آج

۳۸۹

دجال نہیں ہے، اور ایک وقت میں ہوگا، پیغمبر علیہ السلام کی اس حدیث کی تاویل، جو فرمایا، کہ ’’پرہیز کرو اس ایک آنکھ والے دجال سے ۔‘‘ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ اور دائیں آنکھ کتاب و شریعت کے باطن کی مثال ہے، بائیں ہاتھ اور بائیں آنکھ کتاب و شریعت کے ظاہر کی مثال ہے، اور ایک آنکھ والا دجال ایک تو وہ ہے، جو لوگوں کو ظاہریت کی طرف دھکیلتا ہے، جو بائیں ہاتھ کی طرف ہے، اور یہ دجال جو دائیں آنکھ سے اندھا ہے، ملعون ہے، اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی حدیث ہے، کہ فرمایا: ۔

         ’’اَلْاَ عْوَرُ بِالْیَمِیْنِ مَلْعُوْنٌ بِالْیَقِیْنِ۔‘‘

         ’’ جو دائیں آنکھ سے اندھا ہے، وہ یقیناً ملعون ہے۔‘‘

         اس سے آنجنابؐ کی مراد ایک ایسا ظاہری شخص ہے، جس نے باطن کو باطل قرار دے دیا ہو، اور دوسرا ایک آنکھ والا دجال وہ ہے، جو لوگوں کو باطن کی طرف دعوت کرتا ہے، مگر بتحقیق وہ دیکھتا ہے، کہ (ظاہریت) اس کے بائیں ہاتھ کی طرف موجود ہے، تو وہ گویا بائیں آنکھ سے اندھا ہے، اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی حدیث ہے، جو فرمایا: ۔

         ’’ اَلْاَ عْوَرُ بِالشِمَالِ مَلْعُوْنٌ۔‘‘

         ’’جو بائیں آنکھ سے اندھا ہے، وہ ملعون ہے‘‘۔

         اس سے آنحضرتؐ کی مراد ایک ایسا باطنی شخص ہے جو شریعت کی ظاہریت کو باطل قرار دیتا ہو، اور جو فرمایا، کہ ہر گروہ کا ایک دجال ہے، اس سے حضرت رسولؐ کی مراد یہ ہے کہ ظاہری لوگوں کا دجال وہ ہے جو باطل کو باطل ٹھہر اتا ہے، اور باطنی لوگوں کا دجال وہ ہے، جو ظاہر کو باطل قرار دیتا ہے، اور ان دونوں دجالوں کا کوئی دین نہیں، اور ان کے پیرو شریعت سے دور ہیں، اور یہ دونوں دجال اپنے گروہوں کے ساتھ (دوزخ کی) آگ میں ہیں۔

         پس جس شخص نے رسول اور خدا کی کتاب پر ایمان لایا، اور اخیر میں حسد ،

۳۹۰

دشمنی، اور تکبر سے کام لیا، اور لوگوں کو غلام بنا کر ان پر سرداری کرنا چاہا اور رسولؐ کے فرمان کی پیروی نہ کی، تو وہ دجال ہوگیا، اور جس شخص نے ظاہر کو نہیں اپنایا، اور اس نے چاہا کہ اپنے آپ کو امت کے بے نمازوں، کاہلوں، اور شوقیہ مدبروں میں سے کردے، تو ایسے شخص کے لئے بدبختی ہے ( اس نے گویا یہ) کہا کہ اہلِ ظاہر تو اہلِ باطن ہی کے لئے ہوتے ہیں، اور جب تم باطن جان چکے، تو ظاہر سے بے نیاز ہوئے، پس (ہمارا کہنا ہے، کہ) یہ دونوں گروہ خدا اور رسولؐ کے دشمن ہیں، چنانچہ خدائے تعالیٰ نے فرمایا: ۔

         ’’كَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا (۶: ۱۱۲)

         اس طرح ہم نے ہر نبی کے لئے انسی شیاطین اور جنی شیاطین میں سے ایک ایک دشمن مقرر کر دیا ہے، جو ( دونوں قسم کے شیاطین ) ایک دوسرے کو چکنی چپڑی قابلِ فریب باتیں اشارہ کر لیا کرتے ہیں۔‘‘

         ان میں سے انسی شیاطین اہلِ ظاہر میں ہیں، اور جنی شیاطین اہلِ باطن میں ہیں، جو دونوں (قسم کے شیاطین) جھوٹ اور فریب سے لوگوں کو بے دین کر دیتے ہیں، اور دینِ حق پر وہ شخص ہے جو ظاہر اور باطن دونوں کی حفاظت کرتا ہے، اور ہر دور میں خدا کی اطاعت و وعبادت کر تا ہے۔

         روایت کی گئی ہے، کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام کو اپنے مخالفین کی بیعت کرنے کی ضرورت پیش آئی، کیونکہ انہوں نے اس سے بیعت چاہا تو آنجنابؑ نے بائیں ہاتھ سے ان کی بیعت کی، اور فرمایا کہ میں اس ہاتھ سے کسی کی بیعت نہیں کروں گا، جس سے میں نے رسولِ خدا کی بیعت کی ہے، اور اس قول کی تاویل یہ تھی کہ، میں باطنی طور پر رسول کی بیعت کر چکا ہوں ، اور جو منزلت رسول علیہ السلام نے مجھے دی ہے، وہ کسی کو نہیں دوں گا، اور مخالفین کی بیعت میں نے بظاہر کر لی ہے، جس کی دلیل بائیں ہاتھ ہے، پس مخلص مومن وہ ہے جو ظاہر

۳۹۱

اور باطن کے دونوں دجالوں کو پہچانتا ہے، دونوں سے پرہیز کرتا ہے، اور ان سے دور رہتا ہے، کیونکہ دونوں ملعون ہیں۔

                                                   والسلام

۳۹۲

کلام ۔ ۴۶

نکاح اور سفاح اور اس کی تاویل کے بارے میں

         ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ ظاہری نکاح یہ ہے، کہ کوئی عورت کسی مرد کو زوجیت کے طور پر دیتے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں، کہ اس نکاح کے بعد وہ عورت اس مرد کے فرمان میں رہتی ہے، اور اس کی فرمانبرداری اپنا فرض سمجھتی ہے، اور اس کی مردانہ خصوصیات کے فوائد و حقائق کو قبولنے والی ہوتی ہے، اور اس عورت کا ایک ولی (یعنی ذمہ دار اور مختار) ہوتا ہے، کہ وہی اسے کسی زوجیت میں دیتا ہے، اور اس موقع پر دو معتبر مرد گواہ ہونے چاہئیں ، تاکہ عقد و نکاح درست اور اس مرد کے لئےاس عورت سے نزدیکی جائز ہو، چنانچہ جو نکاح اس شرط کے مطابق نہ ہو، وہ سفاح ( یعنی زنا) کہلاتا ہے، جیسا کہ رسول علیہ السلام نے فرمایا: ۔

         ’’ لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ وَشَا ھِدَی عَدْلٍ۔

         نکاح درست نہیں، مگر (عورت کے ) مختار اور عدل کے دوگواہوں کے ذریعہ۔‘‘

         چنانچہ خدائے تعالیٰ نے فرمایا: ۔

۳۹۳

          فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أهْلِهِنَّ (۴: ۲۵)

         ’’ پس تم ان کے مالکوں کی اجازت سے لونڈیوں سے نکاح کرو۔‘‘ اور جس شخص کا کوئی مختار نہ ہو تو سلطان اس کا مختار ہوتاہے، چنانچہ رسول علیہ السلام نے فرمایا: ۔

         ’’ اَلسُّلْطَانُ وَلِیُّ مَنْ لَا وَلِیَّ لَہٗ۔‘‘

         ’’جس شخص کا کوئی مختار نہ ہو تو سلطان اس کا مختار ہے۔‘‘

         اور عقد و نکاح مہر کے بغیر درست نہیں ہوتا، اور وہ ایک مقرر کردہ ( رقم یا ) مال ہوتا ہے، جو مرد قبول کرتا ہے، کہ (اتنی رقم یا) وہ مال اس عورت کو دے گا، کیونکہ نکاح ظاہر کا بندھن اس (رقم یا ) کم و بیش مال کے بغیر درست نہیں ہوسکتا ، اور جب یہ شرائط بجالائی جائیں تو  نکاح درست ہوتا ہے، اور جو اولاد اس مرد اور عورت سے پیدا ہو جائے وہ حلال زادہ ہوتی ہے، اور ماں باپ کی میراث اس فرزند کے لئے حلال ہوتی ہے، اور ایسے فرزند کے پیچھے ظاہری نماز کا پڑھنا درست ہے۔

         پس اگر عورت سے مرد کی نزدیکی ان شرائط کے مطابق نہ ہو، تو اس مجامعت کو سفاح (یعنی زنا) کہتے ہیں، اور ان سے جو فرزند پیدا ہو جائے، وہ حرام زادہ ہوتا ہے، اس کو ماں باپ کی میراث نہیں ملتی، وہ والدین سے منسوب نہیں کیا جاتا، اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں، چنانچہ رسول علیہ السلام کا ارشاد ہے: ۔

         ’’ لَا صَلٰوۃَ خَلْفَ اَوْلاَ دِ الزِنَا۔‘‘

         ’’ یعنے جو لوگ زنا سے پیدا ہوئے ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں۔‘‘

         اگر ان شرائط میں سے ہر ایک شرط کے معنی نہ ہوتے تو اس پر عمل کرنا بے فائدہ اور بیہودہ ہو جاتا ہے، اور ان کو ترک کر دینا بہتر ہوتا، اور قرآنِ شریف کی یہ تمام آیتیں اور رسولؐ کی حدیثیں ضائع اور بیہودہ ہو جاتیں۔

۳۹۴

         اب ہم ولیِ زمان کی مہربانی سے نکاح اور اس کی شرائط کی تاویل کے بارے میں بات کرتے ہیں، کہ نکاح دو قسم کا ہوتا ہے، جسمانی اور روحانی اور اس قول کی حقانیت پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی یہ حدیث گواہی دیتی ہے، جو امیر المومنین علی علیہ السلام سے فرمایا: ۔

         ’’ اَنَا وَ اَنْتَ یَا عَلِیُّ اَبُوَا وَ اُمّ الْمُؤُمِنِیْنَ‘‘

                 ’’ اے علی! میں اور آپ مومنین کے ماں باپ ہیں۔‘‘

         جب رسول اور ان کے وصی علیہا السلام اپنے زمانے میں مومنین کے ماں باپ ہوتے ہوں، تو لازم آتا ہے، کہ ہر زمانے میں وہ شخص مومنین کا باپ ہو، جو رسولؐ کا قائم مقام ہے، اور ہر زمانے میں چاہئے، کہ مومنین کے ماں باپ ہوں۔

         پس امامِ زمان ہر زمانے میں مومنین کے باپ ہوتے ہیں، اور ان کا حجت مومنین کی ماں ہوتا ہے، اور مومنین ان کے روحانی فرزند ہوتے ہیں، اوریہ امام لوگوں پر خدائے تعالیٰ کی حجت ہیں (تاکہ پیغمبروں کے بھیجے جانے اور ان کے جانشین مقرر کئے جانے کے بعد قیامت کے روز لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر اور دلیل باقی نہ رہے، اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمارے زمانے میں ہدایت کا کوئی ذریعہ موجود اور حاضر نہیں تھا، صاحبِ جزیرہ امام کی حجت ہے، اور داعی صاحبِ جزیرہ کی حجت ہے، اور امام و حجت ہی سلطان ہوتے ہیں، پس روحانی نکاح کے سلسلے میں حدودِ دین میں سے ہر حد اپنے درجے میں مومنوں کا ولی (یعنی مختار یا کہ سرپرست) ہے چنانچہ رسول علیہ السلام کا ارشاد ہے: ۔

         ’’ اَلسُّلْطَانُ وَلِیُّ مَنْ لَا وَلِیَّ لَہٗ۔‘‘

         چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اپنے زمانے میں لوگوں کے ولی تھے، اور جب آنحضرتؐ اس دنیا سے رحلت فرماہوئے تو انہوں نے اپنی یہ ولایت امیر المومنین علی بن ابی طالب کے حوالے کردی، چنانچہ ایک دن غدیرِ خم کے مقام پر فرمایا: ۔

۳۹۵

         ’’مَنْ کُنْتُ مَوْ لَا ہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَا ہُ۔

         جس شخص کا میں مولا یعنی والی و مختار ہوں، یہ علی بھی اس کا مولا اور والی و مختار ہے۔‘‘

         اور امیر المومنین علیؑ نے یہ ولایت (یعنی مختاریت) اپنے فرزندوں کے حوالے کردی، اور اسی طرح ہر ایک امام رسول علیہ السلام کے بعد لوگوں کا ولی (یعنی مختار و متصرف ) ہوتا ہے، اس لئے یہ ولایت اپنے اس فرزند کے حوالے کر دیتا ہے، جو اس کے بعد امام ہوتا ہے، اور خدائے تعالیٰ نے أئمۂ برحق کو (لوگوں پر) اپنے گواہ قرار دے دیا ہے، جیسا کہ خدائے تعالیٰ کا ارشاد ہے: ۔

         ’’وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا         (۲: ۱۴۳)

         اور اسی طرح (اے أئمۂ برحق) ہم نے تم کو مرکزی حیثیت کی امت بنایا، تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہا کرو، اور رسولؐ تم پر گواہ ہو جایا کرے۔‘‘ اور جب رسول نے اپنا مقام خدا کی گواہی سے اپنے وصی کے حوالے کردیا، تو ہمیں معلوم ہوا کہ آنحضرتؐ وصی پر گواہ ہیں، اور جب آنجنابؐ کی یہ گواہی وصی پر درست اور ثابت ہے، تو ہمیں معلوم ہوا کہ لوگوں پر گواہ ان کے فرزند ہیں۔

         پس ہم بتائیں گے، کہ روحانی نکاح کے سلسلے میں اس روز، جبکہ رسول علیہ السلام نے غدیرِ خم کے مقام پر لوگوں کو جمع کر لیا، اور ان سے پوچھا: کیا تم سے بھی بڑھ کر تمہارا مختار اور ولی نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا، جی ہاں! ( بےشک آپ ہم سے بڑھ کر ہم پر مختار ہیں) اور یہ آنحضرتؐ کی طرف سے امت کی رضامندی پوچھنا تھا، تاکہ وہ روحانی خاوند کو دیدئے جائیں، تاکہ ان کی نسل دوسرے عالم سے متصل ہو جائیں، اس روز رسول علیہ السلام اس روحانی نکاح میں لوگوں کے ولی تھے، اور ان کے وصی نفوسِ امت کے روحانی خاوند تھے، اور عقلِ کل و نفسِ کل عدل کے دو گواہ تھے، پس لوگوں میں اس عقل و نفس کے آثار

۳۹۶

(یعنی عقول و نفوسِ جزوی) حاضر تھے (اس اعتبار سے) عدل کے مذکورہ دو گواہ موجود تھے، پس رسول علیہ السلام کا قول درست ہوا، جو فرمایا کہ: لَا نِکاَحَ اِلّاَ بِوَلِیٍّ وَ شَاھِدَی عَدْلٍ، اس نکاح سے آنحضرتؐ تھے، اور ان کے وصی اس نکاح میں مرد تھے، اور تمام خلائق کے نفوس اس مرد کے لئے بیویوں کی طرح تھے، اور عقل و نفس اس عقد میں عدل کے گواہ تھے، اور جو فرزند اس پاکیزہ نکاح سے پیدا ہوا وہ حلال زادہ تھا، اس نے حلال طریقے پر اپنے باپ کا مال حاصل کر لیا، اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز تھا، اور جو نکاح اس کے سوا تھا، وہ (دراصل) زنانہ تھا۔

         اس بیان کی شرح یہ ہے، کہ رسول علیہ السلام لوگوں کے لئے خدا کے پیغمبر تھے، (سو آنحضرتؐ نے لوگوں کے سامنے ایک ایسی شریعت رکھی جس کے ظاہر سے ایک شائستہ عمل اور باطن سے ایک اعلیٰ علم مقصود تھا) تاکہ اس سبب سے لوگوں کو علم سکھائے اور نفوسِ خلق شریعت کے ظاہر سے روحانی طور پر پیدا ہو جائیں، اور اس کے معنی سمجھنے سے سرائے آخرت کیلئے قابل ہو سکیں، اور رسول علیہ السلام دین میں سب لوگوں کے لئے باپ کی منزلت پر تھے، اس لئے کہ وہ دین کے بانی تھے، پس لڑکیوں کا خاوند وہ شخص ہوسکتا ہے جس کو (لڑکیوں کا) باپ چاہئے، نہ کہ وہ شخص جس کو لڑکیاں خود منتخب کرتی ہوں، اور جب لڑکیاں باپ کے فرمان کے بغیر خود اپنے لئے کوئی خاوند مقرر کریں، تو دو گواہ اور ولی کے بغیر (اس کام کے کرنے سے) وہ بدکار ثابت ہو جاتی ہیں، اور ان کے فرزند حرام زادے ہوتے ہیں۔

         چنانچہ جو شخص رسول کے فرمان کے بغیر، جو دینی باپ ہیں، کسی امام کا انتخاب کرتا ہے، تو وہ گویا اپنے باپ کے فرمان کے بغیر خود ہی اپنا روحانی خاوند مقرر کر لیتا ہے، اور عقل و نفس ایسے نکاح کے صحیح ہونے کے متعلق گواہی نہیں دیتے ہیں، کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ (حقیقی) مومنین رسول اور وصی کے فرزند ہیں، اور رسول و وصی نے کس طرح آفاق و انفس کی گواہی کے ساتھ دین حاصل کیا ہے، اور عقل و

۳۹۷

نفس کے انوار اس میں ظاہر ہیں اور حلال زادگی کی علامت اس میں آشکار ہے، جس پر دین میں آفاق و انفس گواہ ہیں، اور ظاہری شخص جو ناپاک اور بے نکاح ماں سے پیدا ہوا ہے، اپنی پاک زادگی کے لئے کوئی گواہ نہیں رکھتا اور آفاق و انفس جن میں عقل نفس کے آثار ظاہر ہیں، خدا و رسول کے فرمان کے بغیر اس کے لئے کوئی گواہی نہیں دیتے، چنانچہ فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’مَا أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلاَ خَلْقَ أَنفُسِهِمْ (۱۸: ۵۱)

         ہم نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے ان کے (نظریئے) کی گواہی نہیں کی ہے اور نہ ان کے نفوس کی پیدائش سے۔‘‘

         اور خداوندِ زمان علیہ السلام ہر زمانے میں لوگوں کے ولی ہوتے ہیں، اور ہر جزیزہ ایک حجت کو دیا کرتے ہیں، اور قبول کرنے والے نفوس روحانی نکاح کے طور پر علم کو حجت سے حاصل کرتے ہیں، ناطق اور اساس کی گواہی پر، کیونکہ ناطق کو اس عالم میں عقل کا مقام ہے، اور اساس کو نفس کا مقام ہے، جس کا ثبوت آفاق و انفس میں ہے، اور یہ (آفاق و انفس) یہی دلیل کرتے ہیں کہ یہ دونوں عظیم مرتبے اس نکاح کے متعلق لوگوں پر گواہ ہیں، تاکہ روحانی عالم کی لذتوں کو حاصل کرنے کے لئے ان سے پاکیزہ فرزند پیدا ہو جائیں، اور ان سے داعی پیدا ہوتے ہیں، اپنے باپ کی پاکیزہ نسل سے، جو حجت ہے، اور اپنی میراث حاصل کرتے ہیں، اور وہ میراث عالمِ ملکوت ہے، اور مومنین ان کے پیچھے نماز پڑھا کرتے ہیں، اور وہ نماز علمِ حق کو سننا اور حقیقت کو قائم رکھنا ہے، اور امت میں سے جن لوگوں نے اپنی مراد اور خواہش کے مطابق کسی کو امام مانا، تو انہوں نے گواہ اور ولی کے بغیر اپنا روحانی خاوند مقرر کر لیا، اور ان کے فرزند حرام زادہ ہیں، اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا نہیں چاہئے، یعنی ان سے دینی علم نہیں سننا چاہئے، اور مخلص مومن وہ ہے، جو روحانی نکاح میں کوشش کرے تاکہ وہ رسول علیہ السلام

۳۹۸

کی خوشنودی سے نزدیک ہو جائے، کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے کہ  آنحضرت نے فرمایا: ۔

         ’’ تَنَاکَحُوآ تَکْثُرُوا فَاِنِیّ اُبَا ھِی بِکُمْ یَوْمَ القِیامَۃِ عَلیَ سائرِ الاُمَمَ۔

         ایک دوسرے سے شادی کرو تاکہ تم زیادہ ہو جاؤ کہ میں تمہاری وجہ سے دوسری تمام امتوں پر فخر کروں۔‘‘

         اس نکاح سے آنحضرتؐ کی مراد روحانی نکاح ہے اور اس پیدائش (سے مراد ) علم ہے اور رسول علیہ السلام کا فخر علم پر ہوتا ہے اور  آنحضرتؐ کے فرزند وہ ہیں جو صاحبِ علم ہیں، جیسا کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: ۔

         ’’ اَلْعُلَمَا ءُ وَرَثَۃُ الاَنْبِیَاءِ۔

         علماء پیغمبروں کے وارث ہیں۔‘‘

         اس قول کی درستی کی دلیل کہ روحانی نکاح ہی سے لوگ حلال زادہ اور رستگار ہوتے ہیں، یہ ہے کہ احادیث میں آیا ہے کہ ایک دن رسول علیہ السلام نے ایک جوان کو دیکھا اور اسے پوچھا: کیا تمہارا کوئی جفت ہے؟ اس جوان نے کہا: نہیں ہے یا رسول اللہ۔ رسول علیہ السلام نے فرمایا: ۔

         ’’ تَزَوَّجُ فَاِنَّکَ مِنْ اِخْوَانِ الشَّیَاطِیْنِ۔

         شادی کر، کیونکہ تو شیاطین کے بھائیوں میں سے ہے۔‘‘

         اگر اس قول کے ظاہر کو دیکھیں تو ایسا لازم آتا ہے کہ جس کی بیوی نہ ہو وہ شیطان کا بھائی ہے اور اس کے برعکس جس کی بیوی ہے وہ فرشتوں کا بھائی ہے، ظاہری صورتِ حال کے مطابق یہ قیاس صحیح نہیں ہے کیونکہ بہت سارے مرد اور خواتین ہیں جن کا کوئی جفت نہیں، لیکن وہ پرہیز گار اور متقی ہیں اور بہت سارے مرد اور خواتین ہیں جن کا جفت ہے لیکن وہ فساد سے باز نہیں آتے ۔ اور رسول علیہ السلام کا قول ایسا ہونا ضروری ہے کہ وہ (حقیقت کا ) مخالف نہ ہو۔ نیز خدائے تعالیٰ

۳۹۹

نے عیسیٰؑ اور یحییٰؑ کو سید و حصور کہا ہے۔ ان حضرات کو شیاطین کے بھائی اس بنیاد پر نہیں کہنا چاہئے کہ وہ حصور (خواتین کے ساتھ تعلق نہ رکھنے والے) تھے اور شادی نہیں کی اور فرعون کو مشرف (اور) عالی اس لئے کہنا چاہئے کہ اس کی بیوی اس سے بیاہی گئی تھی۔ پس ہمیں معلوم ہوا کہ یہ بہتری جسمانی شادی میں نہیں بلکہ روحانی شادی میں ہے۔ اور رسول علیہ السلام نے اس مرد سے جو فرمایا: تمہارا کوئی جفت ہے؟ اس معنی میں نہیں فرمایا کہ تمہارا کوئی جسمانی جفت ہے بلکہ اس معنی میں فرمایا: کوئی ہے جو تجھے کچھ سکھاتا ہے اور تو اس سے قبول کرتا ہے یا کوئی ہے جسے تو سکھاتا اور فائدہ پہنچاتا ہے تاکہ تو انسانوں میں سے ہو جائے؟ اور جب اس نے کہا کہ کوئی ایسا شخص نہیں تو  آنحضرت نے اس کو شیطان سے نسبت دی۔ کیونکہ رسول علیہ السلام نے (صرف) ایسے دوشخصوں کو انسان کہا ہے جیسا کہ اس حدیث میں فرمایا ہے: ۔

         اَلنَّاسُ اِثْنَانِ عَالِمٌ وَمُتَعَلِّمٌ وَسَائِرُ ھُمْ کَالھَمَجِ۔

         انسان دو ہیں، ایک عالم یعنی علم سکھانے والا اور ایک متعلم یعنی علم سیکھنے والا اور دوسرے سب حشرات (کیڑے مکوڑے اور زمین میں سوراخ کر کے رہنے والے جانور، مثلاً سانپ، جوہا، نیولا، وغیرہ) ہیں۔ پس جو شخص اپنے سے برتر سے علم حاصل کرتا اور اپنے سے فروتر کو سکھاتا ہے وہ فرشتوں کے بھائیوں میں سے ہے۔ کیونکہ عالمِ جسمانی میں سب سے عظیم فرشتہ رسول علیہ السلام تھے جو اس صفت سے متصف تھے، کیونکہ اس عالم میں آپؐ اس عالم سے فائدہ لیتے تھے اور اس عالم میں لوگوں کو پہنچاتے تھے، پس جو شخص چاہتا ہے کہ  آنحضرتؐ کے بھائیوں میں سے ہو جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس صفت کا حامل ہو کہ (جسمانی نکاح اور ) روحانی نکاح میں ان دونوں (قسم کے) گواہوں اور ولی کے بغیر مرد اپنے لئے بیوی مقرر نہ کرے اور عورت اپنے لئے خاوند مقرر نہ کرے۔

۴۰۰

         ہم بتائیں گے کہ روحانی نکاح میں مہر علمِ تاویل ہے، کیونکہ وہ تمام اموال میں سے قیمتی مال ہے، جو حجتِ امام سے حاصل کرتا ہے، اور جزیرہ والوں کو دیا کرتا ہے، اور وہ سب اسی سبب سے اس کو اپنا روحانی خاوند بنانا چاہتے ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جب خاوند بیوی کے مہر کے لئے قبول کر کے دے نہ سکے، تو عورت اس کو حاکم کے پاس لے جاتی ہے، اور مہر طلب کرتی ہے، اگر خاوند سے مہر ادا نہ ہوسکے تو عورت اس کے ساتھ نہیں رہتی، اور جدا ہو کر دوسرے مرد سے شادی کر لیتی ہے، اسی طرح ہی اگر مستجیبوں اور داعیوں کو جزیروں کے مالکوں سے آفاق و انفس کی گواہی کے ساتھ علم بیان نہ ملا کرے، تو یہ ان سے منہ پھیر لیتے ہیں اور امام کے حضور میں رجوع کرتے ہیں، تاکہ انہیں دوسرا جزیرہ والے کے سپرد کر دیا جائے، جبکہ ان کے اپنے صاحبِ جزیرہ سے روحانی عاجزی اور علمی مفلسی ظاہر ہو،  ہم نے نکاح و سفاح کے ظاہر و باطن کے متعلق جو کچھ ضروری تھا، واضح کردیا، اور اقتدار کرنے والے مومن کے لئے کافی حد تک بیان کر دیا ، اللہ تعالی توفیق عطا فرمائے۔

۴۰۱

کلام۔ ۴۷

مومنوں پر حقِ واجبات (مہمانی) اور اس کی تاویل

         ہم خدا تعالی کی توفیق سے بیان کر دیں گے، کہ بندے پر خدا کی تین طرح کی فرمانبرداری واجب ہے، ایک تو روزانہ واجب ہے، جیسے پنج وقت نماز کی ادائیگی، دوسری سالانہ واجب ہے، جیسے عیدوں کی نمازیں، وغیرہ، زکوٰۃ دینا، اور تیسری عمر بھر میں ایک مرتبہ واجب ہے، جیسے حج کرنا اور واجبات (مہمانی) دینا، جس طرح کہ خلقتِ علم تین طرح پر ہے،یعنی عالمِ روحانی (جیسے آخرت) عالمِ جسمانی (جیسے دنیا) اور عالمِ تالیف جو روح و جسم کا مجموعہ ہے، جیسے انسان، یہی تین مراتب عالمِ دین میں بھی ہیں، مرتبۂ ناطق جو تنزیل کا درجہ ہے، مرتبۂ اساس جو تاویل کا درجہ ہے، اور مرتبۂ امام جو تالیف کا درجہ ہے، اور یہ درجہ تنزیل و تاویل دنوں مرتبوں کا جامع ہے، جیسے انسان جو روح و جسم دونوں کا مجموعہ ہے، اس کے علاوہ علمِ دین بھی تین قسم کا ہے، تفسیر، حدیث، اور فقہ، اور جب کسی کو یہ تینوں علم میسر ہوں تو وہ معزز بن جاتا ہے، ایزد تعالیٰ ان تینوں عالموں کا پیدا کرنے والا اور پالنے والا ہے، جیسا کہ اپنی کتاب کے آغاز میں فرماتا ہے: ۔

         ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ

۴۰۲

         یعنی سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جو عالموں کا پالنے والا ہے،‘‘ اللہ تعالیٰ نے (بندوں سے) تین عبادتوں کو زیادہ پسند فرمایا ہے، پہلی عبادت روزانہ پنج وقت نماز ادا کرنا، دوسری سال میں زکوٰۃ ادا کرنا، اور تیسری عمر بھر میں ایک مرتبہ واجبات دینا، اور ان تینوں کو ایک ہی آیت میں یاد فرمایا ہے، جیسا کہ: ۔

         ’’وَأَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا (۷۳: ۲۰)

         یعنی ’’نماز قائم کرو، زکوٰۃ دیتے رہو، اور اللہ کے لئے نیک قرض دیدو۔‘‘

         ان تینوں عبادتوں میں سے، اہلِ ظاہر نے صرف نماز اور زکوٰۃ کو لیا، جو عام عبادتوں میں سے تھیں، اور تیسری عبادت جو خاص تھی اس کے جاننے سے قاصر رہے، اور نہ اس کی تلاش کی، اور علمِ الٰہی کے خزینہ داروں سے کنارہ کر گئے، اگر کوئی شخص بصیرت کی نگاہ سے دیکھے، تو معلوم ہوگا کہ یہ تینوں عبادات درجہ وار (یعنی سب سے پہلے قرضِ حسنہ، اس کے بعد زکوٰۃ اور پھر نماز) ہیں، اس لئے خدائے تعالیٰ نے ان تینوں کو ایک ہی آیت میں یاد فرمایا ہے، اور جان لیجئے کہ جس طرح زکوٰۃ نہ دینے والے کے لئے نماز جائز نہیں، اسی طرح نماز نہ پڑھنے والے کی زکوٰۃ قابلِ قبول نہیں ہے، جیسا کہ رسول علیہ السلام نے فرمایا ہے: ۔

         ’’ لاصلوٰۃ لمن لا زکوٰۃ لہ ولا زکوٰۃ لمن لا صَلوٰۃ لہ‘‘۔

         یعنی ’’جو زکوٰۃ نہیں دیتا اس کی نماز قبول نہیں اور جو نماز ادا نہیں کرتا اس کو زکوٰۃ قابلِ قبول نہیں۔‘‘ اور جو شخص خدائے تعالیٰ کو وہ نیک قرض نہ دے، تو نہ اس کی نماز قبول ہے، اور نہ زکوٰۃ، اور یہ وہ تین مراتب ہیں جو عالمِ دین میں ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، یعنی جو شخص ناطق کی فرمانبرداری نہیں کر سکتا ، وہ نہ تو امام کی فرمانبرداری کر سکتا ہے، اور نہ اساس کی، اور یہ نافرمانی اس کے لئے خدا کی نافرمانی کا باعث بنے گی، بالفاظِ دیگر جو امام کی فرمانبرداری نہیں کرتا وہ اساس کی فرمانبرداری نہیں کرتا، اور جو اساس کی فرمانبرداری نہیں کرتا، وہ رسولؐ کی فرمانبرداری نہیں

۴۰۳

کرتا، اور جو رسولؐ کی فرمانبرداری نہ کرے، ایسا ہے، کہ اس نے خدائے تعالیٰ کی فرمانبرداری نہ کی، اور جو خدائے تعالیٰ کی فرمانبرداری نہ کرے وہ کافر ہے۔

         صاحبانِ علمِ حقیقت نے آنحضرتؐ سے اس آیت کا بھید پوچھا، اور جب اس سے آگاہ ہوئے، تو انہوں نے یہ غنیمت جانا کہ اپنے آپ کو اس خدائی قرض سے آزاد کرا دیں، کیونکہ خدائے تعالیٰ کے نزدیک زکوٰۃ سے واجبات کی زیادہ وقعت ہے، اس لئے کہ زکوٰۃ کے متعلق ارشاد ہے، کہ یہ میرا حق ہے، اور واجبات (مہمانی) کے بارے میں فرماتا ہے، کہ مجھے قرض دے دو، نیز (یہ حقیقت بھی ہے، کہ) اگر کوئی شخص دوسرے شخص کا قرض ادا کرے، تو وہ ایسا احسان نہیں رکھتا  جو دوسرے کو قرض دینے میں رکھتا ہے، کیونکہ قرض دینے کا احسان قرض ادا کرنے کے مقابلے میں زیادہ ہے، اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو سب سے پہلے جس نے یہ قرض دیا، وہ حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے۔

         کہتے ہیں، کہ ایک اعرابی ہاتھ میں ایک اونٹ کی نکیل پکڑے راستے سے گزر رہاتھا، راستے میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے ملا اور عرض کیا کہ یا امیر المومنین! یہ اونٹ آپ کے ہاتھ فروخت کروں گا، اگر آپ لے لیں، امیر المومنین نے فرمایا کہ قیمت پاس نہیں ہے، اعرابی نے کہا جب مالِ غنیمت ملے تو دے دیں، امیر المومنین نے قیمت دریافت فرمائی، اعرابی نے کہا ایک سو انیس درم جو کے قرض ہیں، امیر المومنین نے فرمایا خرید لیا، اعرابی نے کہا بیچ دیا، اعرابی نے اونٹ کے نکیل امیرالمومنین کے ہاتھ میں دی، امیر المومنین اونٹ لئے آرہے تھے، کہ سامنے سے ایک دوسرا اعرابی آنکلا، اور عرض کیا کہ یا امیرالمومنین، کیا یہ اونٹ میرے ہاتھ بیچیں گے، امیر المومنین نے فرمایا بیچتا ہوں، اعرابی نے قیمت پوچھی، امیر المومنین نے فرمایا، ایک سو انیس درم میں ابھی ایک قرضدار سے لیا ہوں، اعرابی نے ایک سو نیس درم دے کر اونٹ خرید لیا، امیرالمومنین جب رسول کے دربار آئے تو آنحضرت نے یہ آیت پڑھی، امیر المومنین فوراً آیت کی تاویل سمجھ گئے، اور اس رقم کو رسول کے

۴۰۴

سامنے پیش کیا، رسولؐ نے پوچھا، یا علی ! یہ رقم کہاں سے لائے؟ امیر المومنین نے اعرابیوں کا قصہ سنایا، تو رسول نے فرمایا، کہ اس اونٹ کا بیچنے والا جبرائیل اور خرید نے والا میکائیل کے سوا دوسرا کوئی نہ تھا، جس وقت رسولؐ کے وصی نے اس آیت کی تاویل مومنوں تک پہنچائی تو اسی وقت جس جس کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے توفیق ہوئی، خدا کے واجبات کا قرض دیا۔

         (پیر حکیم ناصر خسرو اس آیت کی تاویل کے متعلق فرماتے ہیں، کہ: ) اَقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً یعنی اور اللہ کے لئے نیک قرض دے دو کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے بندوں سے قرض طلب فرمایا، لیکن اس قرض کی مقدار معلوم نہ تھی، اور یہ خداوندِ تاویل نے ہمیں معلوم کرایا کہ اس قرض کی مقدار ایک اسو انیس درم ہے، اور اس کی تاویل فرمایا، چنانچہ لفظِ حسنا کو بحسابِ جمل حساب کیا جائے، تو ۱۱۹ عدد ہوتے ہیں، جیسا کہ ح = ۸، س=۶۰ ، ن = ۵۰ ، ا =، مجموعہ = ۱۱۹، عالمِ دین میں اس کی تاویل یہ ہے کہ لفظِ حسنا سے مراد کلمۂ باری سبحانہ ہے، جس کا نام وحدت ہے، اور وحدت چار حروف پر مشتمل ہے، جو چار اصلِ دین پر لالت کرتے ہیں جن میں سے دو روحانی اور دو جسمانی ہیں، اور یہ چار اصل دینِ عالم میں وحدت سے پیدا ہوئے ہیں ایک اور حساب کی رو سے ۱۱۹ عدد سے مراد عالمِ دین کے دورِ مہین اور دورِ کہین کے ۱۱۹ حدود ہیں، جو ان چار اصل سے پیدا ہوئے ہیں، لیکن دورِ مہین میں جو ناطق کا دور ہے ایک سو انیس حدود یہ ہیں: چھ ناطق یعنی آدمؑ، نوحؑ، ابراہیمؑ، موسیٰؑ، عیسیٰؑ، محمدؐ اور قائم القیامت علیہ افضل التحیۃ و السلام جو ان کا ساتواں ہے، اور ان ساتوں خداوندانِ دور میں سے ہر ایک کو پانچ حدودِ علوی، یعنی اوّل، ثانی، جد، فتح اور خیال سے مادت ؎۱ تھی، جس کو انہوں نے قبول کیا، اور اپنے باررہ حجتوں کو دیا، پانچ اور بارہ ملا کر سرتہ ہوتے، پس ہر صاحبِ دور کے لئے سترہ حدود ہوتے

؎۱: مادت = جسمِ لطیف کا وہ ذرہ ہے جسے روح باحتیاجِ جسمانیت استعمال کرتی ہے۔

۴۰۵

ہیں، اور سات بار سترہ، کل ایک سو انیس حدود ہوتے ہیں، اور دورِ کہین میں جو امام کا دور ہے، ایک سو انیس حدود یہ ہیں، کہ ہر امام کو ان پانچ حدود، یعنی اول، ثانی، جد، فتح،اور خیال سے تائید ہوتی ہے، اور ہر امام کے بارہ حجت ہوتے ہیں، جن کے ذریعے نورِ توحید مخلوقِ عالم تک پہنچتا ہے، پس سات اماموں میں سے ہر ایک کے سترہ حدود ہیں، اور سات بار سترہ ملا کر ۱۱۹ حدود ہوتے ہیں، اس بیان کی درستی کی تائید میں عالمِ شریعت میں یہ دلیل اور شہادت موجود ہے کہ زمانے کی گردش سات دنوں پر ہے، اور ہر دن میں سرتہ رکعت نماز فرض ہے، اس طرح ایک ہفتے میں نمازِ فریضہ کی کل ۱۱۹ رکعتیں ہوتی ہیں۔

         (نیز پیر ناصر خسرو فرماتے ہیں) کہ انسان کی توانائی تین طرح پر ہے، جسم کے ذریعے، جان (عقل) کے ذریعے، اور مال کے ذریعے، اور جب مومن جسمانی طور پر ان فرائض کو ادا کرے (روحانی طور ان کی تاویل سمجھے اور مالی طور پر واجبات کو دے؎ ۱ تو گویا وہ اپنی طاقت و توانی کے ساتھ عبادتِ خداوندی میں کوشان رہا اور جو حسبِ مقدرت خدا کی عبادت میں کوشش کرے، تو خدا اس مومن سے اس سے مزید کچھ طلب نہیں کرتا۔

         جیسا کہ فرمایا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         ’’اَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا  (۲: ۲۸۶)

         یعنی خدا کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا، مگر اس کی طاقت کے برابر ۔ واجبات کا یہ بیان خدا کی توفیق سے میں نے تمہارے لئے واضح کردیا۔

                          والسلام

؎۲: قوسین کی درمیان عبارت تفہیم کی خاطر بڑھا دی گئی ہے۔

۴۰۶

کلام ۔ ۴۸

اہلِ کتاب پر جزیہ اور اس کی تاویل کے بارے میں

         ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ عیسائیوں، یہودیوں، مغوں، آتش پرستوں اور کافروں سے جہاد کرنا مسلمانوں پر واجب ہے، اور ان میں سے جو اہلِ کتاب ہیں، ان سے جزیہ لے کر ان کو چھوڑ دینا امام کے لئے جائز ہے، جبکہ امام چاہیں، کہ اس جزیہ کو دینی بہتری کے لئے صرف کریں، دینی دشمنوں کو مقہور کرنے کے لئے مومنین و مسلمین کو طاقت ور بنائیں اور اہلِ دین کے ماحول سے ان دشمنوں کی برائی کو روکیں، چنانچہ شریعت کے ہر موضوع کا باطن لوگوں کے نفوس کے اندر اس موضوع کے ظاہر ہی کی طرح موجود ہے، اور اس ظاہری موضوع کی بنیاد اور پائیداری اس باطنی موضوع ہی پر ہے، جیسا کہ رسول علیہ السلام سے حدیث ہے، جو فرمایا: ۔

         ’’ اَلغُلَا ۃُ نَصَاریٰ ھٰذِہِ الْاُ مَّۃِ وَ النَّوَ اصِبُ یَھُوْدُ ھَا وَالْخَوَارِجُ مَجُوْسُھَا۔‘‘

         ’’ غالی لوگ امت کے نصاریٰ ہیں، ناصبی امت کے یہود ہیں، اور خارجی امت کے مغ ہیں۔‘‘

۴۰۷

         آنحضرتؐ نے مغوں سے خوارج مراد لیا، جو قدریہ ہیں، اور مغوں کی کوئی کتاب نہیں، کہ وہ اس پر عمل کریں، اور اس کی پیروی کریں، جیسے یہودیوں نصرانیوں کی کتاب ہے، جس کی وہ پیروی کرتے ہیں، اس قول کی تاویل یہ ہے کہ غالی اور ناصبی امام ثابت کرتے ہیں، جس طرح یہود و نصاریٰ توارۃ اور انجیل کی کتاب رکھتے ہیں، اور تاویل میں کتاب امام کو کہتے ہیں، مگر خوارج امام کو ثابت نہیں کرتے ، اور کہتے ہیں کہ امام جو کوئی بھی ہو روا ہے، جبکہ وہ عادل ہو، جس طرح مغوں کی کوئی کتاب معلوم نہیں، جو خوارج کی مثال ہیں، ہمارا کہنا، کہ جس گروہ کی کوئی کتاب نہ ہو، اس سے کوئی جزیہ نہیں لیا جاتا ہے، جیسے مغ اور بت پرست لوگ، مگر یہودیوں اور نصرانیوں سے، جن کے پاس کتاب ہے جزیہ لیا جاتا ہے، اور اس موضوع کے معنی اور تاویل یہ ہیں، کہ جو شخص کسی امام کو مانے تو اس کی بعض باتیں (بحث میں ) مان لینی چاہئیں، پھر خود اسی کے قول ہی سے ان باتوں کی تردید کر دینی چاہئیے، جس طرح جزیہ اہلِ کتاب سے لیا جاتا ہے، اور خود اسی جزیئے سے ان کو عاجز کر دیا جاتا ہے، اور جو شخص کسی بھی امام کو نہ مانے اس کی کوئی بات نہیں ماننی چاہئے، کیونکہ اس نے دانش کو باطل قرار دے دیا ہے، اور اس کی مثال یوں ہے، کہ ناصبی لوگ کہتے ہیں، کہ امام ثابت ہے اور معلوم ہے، کہ قریش کی قوم سے ہے اور تمام لوگوں سے ممتاز ہے، تو ہم ان کی یہ بات مان لیتے ہیں، جس کی مثال اہلِ کتاب سے جزیہ لینے کی طرح ہے، اس کے بعد خودانہیں کے قول سے ہم ان کی تردید کریں گے، وہ یہ ہے، کہ جو کہیں گے، کہ ہاں! امام قریش سے ہے، اور ان کو یوں عاجز کر دیں گے، ایک تو ہم اس طرح کہیں گے، کہ جیسے تم نے سارے لوگوں میں سے قریش ہی کو ممتاز مانا، اس فیصلے سے جو تم نے کہا کہ، امام انہی میں سے ہے، بس اسی طرح یہ ایک شخص جو وہی حقیقی امام ہے اور قریش سے ہے، تمام قریش میں سے بھی ممتاز ہے، تاکہ ہم اس قول سے ان کے اقرار کے ذریعہ ان کو شکست دیں، چنانچہ اہلِ کتاب سے جزیہ لے کر خود انہیں عاجز کر دیا جاتا ہے، اور یہ ان

۴۰۸

کے قول کی جزا ہے، کیونکہ لفظ جزیہ جزا سے لیا گیا ہے، اور اس قسم کی ملت والوں سے بارہ درموں کا جزیہ لیا جاتا ہے، اور اس تعداد میں درموں کا لینا بارہ حجتوں کے برحق ہونے کا اقرار ہے، کہ بامرِ خداوندِ زمان علیہ السلام انہی کی وساطت سے ابدی زندگی مومنوں کی جان میں پہنچ جاتی ہے، اور انہی کے ذریعہ مومنوں کے نفوس دائمی عذاب سے چھٹکارا پاتے ہیں، جس طرح بارہ درم کے دینے سے، جو ان حجتوں کی تعداد کی مثال ہے، اہلِ ملت کی جانوں کو اس جہان میں ناپائیدار زندگی مل جاتی ہے، کتابِ جزیہ کی تاویل یہی ہے، جو ذکر کر دیا گیا۔

۴۰۹

کلام ۔ ۴۹

قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کی تاویل کے بارے میں

         ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ لوگوں کو جسمانی حالت میں مصیبت اور مشکلات آتے وقت اس قول کا کہنا واجب ہے، جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ۔

         الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (۲: ۱۵۶)

         ’’ وہ لوگ جن پر جب کوئی مصیبت آپڑتی ہے، تو کہتے ہیں کہ ہم خدا کے ہیں، اور اسی کی طرف واپس ہونے والے ہیں۔‘‘

         عرب والے مشکل کاموں کو رات کی تاریکی سے تشبیہ دیتے ہیں، اس لئے کہ اس کام سے بڑھ کر اور کوئی مشکل کام نہیں، کہ جس کے گھیرے سے نکل جانے کا کوئی راستہ ہی لوگوں کو نظر نہ آئے، یہی مشکل تو تاریکی ہے، تاریکی دو طرح کی ہے، جسمانی اور روحانی، جسمانی تاریکی کی وجہ رات ہے، جسے سورج ہی روشن کر سکتا ہے، کیونکہ جسمانی تاریکی تو اس سے روشن ہو سکتی ہے، اور وہ جسمانی رکاوٹوں کو ختم کر ڈالتا ہے، لیکن روحانی تاریکی نادانی اور

۴۱۰

معقولات کے مشکل مسٔلے ہیں، اس قسم کی تاریکی کے لئے روشنی خدا سے ہے، جو اساس کی وساطت سے آتی ہے، اس کے بعد روحانی ظلمت میں چشمِ باطن ( یعنی بصیرت) کا سورج امام الز مان ہیں جن کے سہارے ایسے سخت عقدے کھل جاتے ہیں۔

         جب کوئی جسمانی ظلمت (یعنی مصیبت) اور سختی کسی مومن کے سامنے آئے، تو اسے واجب ہے کہ مشیتِ ایزدی کے لئے راضی ہو جائے، اور جو کچھ اس کے لئے حکم ہوا ہو اسے قبول کرے اور کہے: ۔

’’ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ‘‘

         یعنی ’’ ہم خدا کے ہیں اور ہم نے قبول کیا جو کچھ اس نے حکم کیا ہو اور ہم اس کی طرف لوٹیں گے۔‘‘ اگر ان مشکلات سے ہمیں کوئی ایسی جسمانی تکلیف پہنچے کہ جس کی وجہ سے ہم جسمانی طور پر مرجائیں، تو اس صورت میں ہم اس کی طرف واپس ہو نے والے ہیں، اور تاویل میں مومن کو واجب ہے، کہ جب معقولات کا کوئی ایسا مسٔلہ اس کے سامنے آجائے جس کو وہ خود حل نہ کر سکتا ہو تو پھر اسی قول کو دہرائے، اس طریقے پر کہ ’ہماری جانیں صاحب العصر کی ہیں، کیونکہ ہمیں روحانی زندگی اسی سے ملی ہے، اور مشکلات میں ہم اسی کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔‘‘ اور وہ مومن یہ سمجھے کہ ’’ ہم اس مشکل مسئلے کو حل نہیں کرسکتے ہیں، اس کا علم صاحب العصر کے پاس ہے‘‘، تاکہ اس کو روحانی فیض کا دروازہ کھلے، اور ان مشکلات کو سمجھ سکے، تاکہ حدودِ دین میں سے کوئی حد اس دروازے کو اس کے لئے کھول دے گا، اگر ایسی مشکلات حدودِ دین کے کسی ایک حد کے سامنے آئیں تو اسے چاہئے کہ تائید (یعنی روحانی امداد) کا مادہ خداوندِ زمان علیہ السلام سے طلب کرے، تاکہ اپنے اس قول کے سہارے کوشش کر سکے گا، اور وہ غیب اس پر کھلے گا، اور اگر کھل نہ جائے، تو یہ اپنی ہی کمزوری سمجھے اور اقرار کرے کہ جو شخص ایسی مشکلات کا چارہ جانتا ہے، اسے یہ زیب دیتا ہے،

۴۱۱

کہ لوگ اپنی روحانی مشکلات میں اسی کی طرف رجوع کریں، اور یہ صرف مومن ہی کے لئے ایک شفا بخش بیان ہے۔

         والسلام

۴۱۲

کلام ۔ ۵۰

رسول علیہ السلام اور ان کی آل پر صلوٰۃ کی واجبیت کے بارے میں

         ہم بیان کریں گے، کہ رسول پر صلوٰۃ پڑھنا خدائے تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے، اس لئے کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔

         إِنَّ اللَّهَ وَمَلاَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (۳۳: ۵۶)

         ’’ خدئے تعالیٰ اور اس کے فرشتے رسولؐ پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں، تو اے ایمان والو! تم اس پر صلوٰۃ دو اور برابر سلام کرتے رہو۔‘‘ اور رسول علیہ السلام کی حدیث ہے، جو فرمایا: ۔

         ’’ لَا تُصَلُّوْ ا عَلٰیَّ صَلوٰۃً بَتْرَاَء۔ ‘‘

         ’’ مجھ پر دم بریدہ (یعنی بے اولاد شخص ) کی صلوٰۃ نہ پڑھا کرو۔‘‘

         اصحاب نے پوچھا، یا رسول اللہ: دم پریدہ شخص کی صلوٰۃ کون سی ہے؟ فرمایا: یہ ہے جو کہتے ہیں: اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ، اور نہیں کہتے ہیں: وَعَلٓیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ۔

         پس رسولؐ کے ذکر آتے وقت آنحضرتؐ پر صلوٰۃ پڑھنا واجب ہے، جیسے

۴۱۳

آنحضرتؐ نے خود ارشاد فرمایا ہے: اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ  وَعَلٓیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ۔ اور صلوٰۃ عربی زبان میں کسی کے پیچھے چلنے کو کہتے ہیں، اور آگے چلنے والے گھوڑے کو سابق کہتے ہیں، اور اس کو جو دوسرے کے پیچھے پیچھے چلے، اس طرح کہ ذرا بھی دائیں بائیں نہ ہو جائے، مُصَلّیَ کہتے ہیں، اور صلوٰۃ کی تفسیر و تشریح کے بارے میں ہرگروہ نے کچھ نہ کچھ کہا ہے، کہ خدا سے رسولؐ کے لئے صلوٰۃ کے معنی ہیں رحمت بھیجنا ، فرشتوں سے رسول کے لئے صلوٰۃ کے معنی ہیں بخشش طلب کرنا اور مومنین سے رسول کے لئے صلوٰۃ کے معنی ہیں، دعا کرنا، مگر یہ تفسیر صحیح نہیں، کہ (خدائے تعالیٰ یوں فرمائے: ) ’’ میں رسول پر صلوٰۃ بھیجتا ہوں، فرشتے بھی ایسا ہی کرتے ہیں، اور اے مومنو! تم بھی ان پر صلوٰۃ بھیجا کرو (پس یہ تفسیر درست نہیں) اس لئے کہ اس فرمان کی رو سے جو ہمیں ارشاد ہوا، اور ان الفاظ کے مطابق جو لکھے گئے ، کہ ’’ تم صلوٰۃ بھیجا کرو‘‘ ایسا ہے، کہ گویا ہم نے خدا سے یہ کہا، کہ ’’تو خود رسولؐ پر صلوٰۃ بھیج‘‘ اور ہمارے یوں کہنے کا مطلب یہ ہوگا، کہ خدائے تعالیٰ نے ہمیں کرنے کے لئے جو کچھ فرمایا، اس کے متعلق ہم تبارک اسمہ و تعالیٰ جدہ کو یہ کہتے ہیں، کہ تو خود ہی کر جو کچھ ہمیں فرماتا ہے۔

         نیز ممکن نہیں، کہ ہم رسول کے لئے کوئی ایسی مرتبت کا مطالبہ کریں جو اسے حاصل نہ ہوئی ہو، کیونکہ ان کی مرتبت خدا کے نزدیک اس بات سے بہت بڑی ہے کہ ہمارے نفوس کو اس کے بارے میں سوچنے کی طاقت ہو، اور جب حقیقت یہی کہ رسول علیہ السلام خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارے شفیع ہیں، تو یہ ناممکن بات ہے کہ ہم اس دعا کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے ان کی شفاعت کریں۔

         نیز ہم بیان کریں گے کہ رسول علیہ السلام کا فرمان بظاہر ایسا ہے کہ ہم یوں کہا کریں: ’’ اے خدا ! تو یہ صلوٰۃ رسولؐ پر اس طرح بھیج جس طرح تو نے ان کے جد ابراہیم پر بھیجی۔‘‘ مگر جب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تمام پیغمبروں کے خاتم اور سردار ہیں، تو یہ ناممکن ہوگا کہ، ہم آنحضرتؐ کے لئے وہ درجہ طلب کریں،

۴۱۴

جو خدا نے ابرہیمؑ کو دیا ہے، کیونکہ آنحضرتؐ تو سب پیغمبروں سے انتہائی اشرف و افضل ہیں۔

         پس رسولؐ اور آلِ رسولؐ پر صلوٰۃ کی تاویل یہ ہے ، جو تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اساس کی فرمانبرداری کرتے ہوئے آنحضرتؐ کے پیچھے چلنا چاہئے، امام کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اساس کے پیچھے چلنا چاہئے اور حجت کی فرمانبرداری سے امام کو پہچا ننا چاہئے، تنزیل کو تاویل کے لئے اور مثال کو ممثول کے لئے قبول کرنا چاہئے، اور محسوسات ہی سے معقولات کی دلیل لانی چاہئے، یہ فرمان خدائے تعالیٰ سے اسی طرح ہے تاکہ مومنین اعتقاد رکھیں، کہ فرزندانِ رسول یعنی أئمۂ برحق کی پیروی رسولؐ ہی کی پیروی کی طرح واجب ہے، اور حدود کی فرمانبرداری امام کی فرمانبرداری ہے، امام کی فرمانبرداری اساس کی فرمانبرداری ہے، اساس کی فرمانبرداری ناطق کی فرمانبرداری ہے، اور ناطق کی فرمانبرداری خداتعالیٰ جدہ کی فرمانبرداری ہے، پس مومنوں کی چاہئے کہ وہ دین کے راستے میں ایک دوسرے کے پیچھے چلیں، تاکہ وہ (رسی یا زنجیر کی طرح) سب سے نچلے درجے سے لے کر سب سے اوپر کے درجے ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہوں گے، اور اس فی الواقع پیر وی یعنی رسول کے پیچھے چلنے کی وجہ سے بحقیقت ان کی تسلیم (یعنی سالمیت ) ہوگی، اور مخلص مومن وہ ہے، جو رسول پر صلوٰۃ پڑھ کر اپنی نماز کو آراستہ کرتا ہے، اور وہ یہ جانتا ہے کہ، صلوٰۃ کے بغیر نماز جائز نہیں، جس کے معنی یہ ہیں، کہ حقیقی دعوت آلِ رسول یعنی أئمۂ برحق کی پیروی کے بغیر جائز نہیں، اور وہ جو (صلوٰۃ) زبان سے پڑھتا ہے، اس کے معنی جانتا ہے، کہ اس کے معنی روحانی، مالی اور جسمانی طور پر پیروی کرنے یعنی پیچھے چلنے کے ہیں، ناطق، اساس، امام اور حجت کی فرمانبرداری اور اطاعت کے سلسلے میں، تاکہ مومن خدائے تعالیٰ کے ان فرامین پر عمل پیرا ہو سکے، جن کے الفاظ اس نے اپنی زبان سے ادا کئے، تاکہ وہ رستگار ہو جائے،

                                           ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۴۱۵

کلام ۔ ۵۱

لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم کی تاویل کے بارے میں

ہم خداتعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ رسولِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بہت ہی پسند فرماتے تھے، کہ کسی سختی اور تکلیف کے پیش آتے وقت مومنین یہ قول کہا کریں، اور آنحضرت علیہ السلام سے اس قول کے متعلق حدیث ہے، جو فرمایا:

         ’’ کُنْزٌ مِنْ کُنُوْزِ الْجَنَّۃِ عَلِّمُوَھَا صِبْیَا نَکُمْ وَامِیْطُوْا عَنْھُمْ وَسَاوِسَ الشَّیْطَانِ وَھُوَ اَجِسَہٗ۔‘‘

         فرمایا کہ یہ قول: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ،

’’بہشت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، تم یہ قول اپنے بچوں کو سکھا کر انہیں شیطان کے وسوسوں اور اس کے مکر و فریب سے پاک کردو۔‘‘ اور اس قول کی تفسیر یہ ہے، جو ہم بیان کریں گے، کہ: ’’ ہماری کوئی حرکت اور توانائی نہیں، مگر خدا کی ہے، جو برتر و بزرگ ہے،‘‘ عربی زبان میں ’’حول‘‘ ساس (کے معنی کے قیاس سے) لیا گیا ہے، اس لئے (کہ جب کسی ضروری چیز پر پورا ایک سال گزر جاتا ہے، تو اس چیز کی سلامتی اور سچائی سے لوگوں کو کچھ آرام ملتا

۴۱۶

ہے ) ، نیز ’’حَوْل‘‘ پھیر دینے کو بھی کہتے ہیں، اور اس قول کی تاویل یہ ہے، کہ جب کہنے ولا یہ قول کہتا ہے، تو اس کی مراد یہ ہوتی ہے، کہ مومن کے نفوس سے شکوک و شبہات کو پھر جانا اور دور ہو جانا ہے، اور وہ اسی طرح دینی مخالفوں کے اسی مکرو فریب کے ساتھ لوگوں کے درمیان نہیں رہے گا، نیز وہ اس قول میں یہ کہتا ہے، کہ مجھے اپنے نفس سے ایسی چیزوں کو دور کر دینے کی کوئی طاقت و توانائی نہیں، نہ میں اپنے نفس کو بے باکی اور دلیری کے ساتھ ان چیزوں سے محفوظ رکھ سکتا ہوں، مگر خاندانِ تالیف و تاویل کے وسیلے سے، کیونکہ وہ خدائے تعالیٰ کے امر سے دین میں قائم ہوئے ہیں، خدائے تعالیٰ نے اس قول میں حدود کی صفت بیان فرمائی ہے، جو ’’اَلْعَلِیُّ‘‘ ہے، اس سے خدائے تعالیٰ کی مراد عقلِ کل ہے، جو تمام حدود سے برتر ہے، اور اس کی صفت تمام صفات سے برتر ہے، اور نماز میں سجود کی تسبیح یوں پڑھی جاتی ہے، کہ: ۔

         ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی وَ بِحَمْدِہٖ ‘‘

         یہ اس لئے فرمایا کہ عقلِ کل تمام حدود سے برتر ہے، اور (اس قول میں حدود کی) دوسری صفت ’’ اَلْعَظِیْم‘‘ ہے، جس کی مراد نفسِ کل ہے۔

         کتاب (یعنی قرآن) اور شریعت کے حقائق وا رسرار دل میں کھل جانے سے پیشتر جبکہ حدودِ دین تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے حق کا راستہ نفسانی اور عقلانی طور پر مشکل ہو جاتا ہے، اس میں جب مومن مذکورہ قول کہتا ہے، تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں، کہ اس سختی اور لاعلمی کو (اپنی ذات سے) پھیر دینے کی مجھے کوئی طاقت و توانائی نہیں، مگر میرے صاحبِ جزیرہ کے وسیلے سے یہ مشکل آسان ہوگی، جس کو زمین پر صاحبِ تاویل (یعنی اساس) کا مقام ہے، جس کی صفت عظیم ہے، اور خداوندِ زمان علیہ السلام کے تائید سے یہ لاعلمی دور ہو گی، جس کو اپنے زمانے میں صاحبِ دور (یعنی ناطق) کا مقام ہے، جس کی صفت ’’عَلِیٌّ‘‘ ہے، یہی ہے ، اس قول کی تاویل جو بیان کی گئی۔

۴۱۷

         ہم نے اس اکاون ویں گفتار کے اختتام پر اس کتاب کی تکمیل کر دی، جس کی گفتاروں کی تعداد ہم نے دن رات کی فریضہ و سنت رکعات کی برابر رکھی، تاکہ مومن کا فریضہ و سنت پڑھنا اور ان گفتاروں کے حقائق کا جاننا خدائے تعالیٰ کی خوشنودی کے مطابق ہو، اگر مومن جد و جہد کرے، تواس کا نفسِ ناطقہ اس کے نفسِ شہوانی کو اپنا تابع بنا سکے گا، اس سلسلے میں جو کچھ بہتری تھی میں نے خداوندِ زمان علیہ السلام کی تائید سے اس کتاب میں ظاہر کر دی، اور خدائے تعالیٰ کی جانب سے حق والے (یعنی امامِ زمان) کے ذریعے اس کے ثواب ملنے کی ہم امید رکھتے ہیں، اگر اس میں کوئی غلطی، لغزش اور بھول ہوئی ہو، تو اس میں ہمارا ارادہ اور مقصد بہتری اور بھلائی تھا، مگر شاید ہمارے نفس کی کمزوری اور ناتوانی کی وجہ سے ایسی کوئی بات ہوئی ہوگی جس کی معافی ہم خدا کے ولی سے مانگتے ہیں، اور قیامت کے روز اس کے متعلق ہم سے درگزر کرنے کی سفارش بھی اسی سے چاہتے ہیں۔

         مخلص مومنین کے لئے ہماری وصیت یہ ہے، کہ جب وہ اس کتاب کو پرھیں، تو وہ صرف اس کے پڑھنے سے ہی راضی نہ ہو جائیں بلکہ ان کی تاویلات کے مطابق چلیں، اور شریعت پر دانش سے عمل کریں، تاکہ مومن کا نفسِ جزوی اس عالمِ طبیعت سے رہائی پائے، اپنے افعال کو اجسام ہی کے ذریعہ انجام دے سکے، اور شریعت کو جیسا کہ چاہئےعمل میں لائے، کیونکہ عالمِ طبیعت کچھ کام کرنے کا گھر ہے، اور یہ اجر اور آسائش کا گھر نہیں، کہ وہ اس گھر میں آسائش طلب کرے، اور جو شخص اس کے برعکس سمجھتا ہے، اور اس کے برخلاف عمل کرتا ہے تو اس کو دھوکہ باز دجال سمجھا جاتا ہے، اور مومنوں کو چاہئے کہ دانش سے عمل کریں، تاکہ (اسی دنیا میں) ان کے کام کے انجام کو خدائے تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم دیکھیں (اور منظور فرمائیں) تاکہ کل (قیامت کے روز) وہ شرمندہ نہ ہو جائیں۔

         الحمدُ للہ ربّ العالمین حمد الشّاکرین و الصّلوٰۃ

۴۱۸

والسّلام علیٰ رسولہ محمّد النّبیّ الامین و علیٰ اٰلِہ الطّاھرین الأئمّۃ الصّادقین۔

بانجامِ رسید ترجمۂ ہٰذا بفضلہ و بمنہ

بدستِ فقیرِ حقیر نصیرؔ ہونزائی

بمورخہ ۲۹ رمضان المبارک ۱۳۸۶ھ

بمطابق ۱۱ جنوری ۱۹۶۷ء

۴۱۹

ولایت نامہ

بِسم اللہ الرحمٰن الرّحِیْم

ابتدائیہ

اہلِ بصیرت سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ہمارے مقدّس مذہب کے جن جلیل القدر اور بلند پایہ بزرگوں نے دینی علوم کی پُر مغزاور گرانمایہ کتابیں لکھی تھیں، ان کا اکثر حصّہ زمانے کے حادثات اور انقلابات کے نتیجے میں ضائع ہو چکاہے، کچھ کتابیں نایاب ہیں، اور جو کتب دستیاب ہو سکتے ہیں، وہ عربی یا فارسی میں ہونے کی وجہ سے یا ان کے مشکل الفاظ واصطلاحات کے سبب سے طلبا و طالبات کی سمجھ سے بالاتر ہیں، لہٰذا اس امر کی سخت ضروری ہے کہ موجودہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اردو زبان میں ضروری مضامین اور لازمی کتب مہیّا کرنے کا ایک جامع منصوبہ بنایا جائے اور اس پر باقاعدگی سے عمل ہو۔

یقیناً آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ میری اور ہمارے ادارے کی طرف سے یہی کوشش جاری ہے کہ مذہبی لٹریچر کی ایک وافر مقدار اردو میں ہو، چنانچہ اسی علمی منصوبے کے سلسلے میں مجھے حکم ملا ہے کہ کچھ ضروری موضوعات پر اپنی محدود معلومات کے مطابق قلمی جدوجہد کرتا رہوں۔ پس یہ مقالہ اس حکم کی تکمیل کی ایک کوشش ہے۔

مقالۂ ہذا میں ’’ولایت‘‘ کو موضوعِ بحث بنایاگیا ہے، کوئی شاید پوچھے کہ

۱

کیوں اور کس لیے ؟ اس لیے کہ ولایت اسلام کے سات ستون میں اوّلین اور اہم ترین رکن کا درجہ رکھتی ہے اور اسی ولایت ِولی کے رکن سے دوسرے تمام ارکان کی حقیقت و معرفت حاصل ہوسکتی ہے۔ ولایت ہی ہے جِس میں خدا و رسولؐ اور امامِ برحقؑ کی اطاعت و محبت کا ذکر آتا ہے اور ولایت ہی کی روشنی میں ولیٔ امر کا ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے کہ صاحبِ امرؑ دنیا میں حی ّ وحاضر ہیں۔

اس کتابچے کے سات چھوٹے چھوٹے باب  بنائے گئے ہیں، چنانچہ بابِ اوّل میں اللہ تعالیٰ کی دوستی کا ذکر ہے، بابِ دوم میں خدا کی دوستی کا وسیلہ بتایا گیا ہے، بابِ سوم میں رسولِ خدا ؐ کی دوستی کا بیان ہے، باب ِچہارم میں امامِ عالی مقام ؑ کی دوستی کے بارے میں بحث کی گئی ہے، بابِ پنجم میں مومنین سے دوستی رکھنے کے دلائل پیش کیے گئے ہیں، بابِ ششم نیک اعمال کی دوستی ومحبت سے متعلق ہے اور بابِ ہفتم خلاصۂ مطلب کے عنوان سے ہے۔

ولایت کے اس موضوع کا پورا مطلب کسی قاری کی سمجھ میں اس وقت آسکتاہے، جبکہ وہ اس کتابچے کو شروع سے لے کر آخر تک بغور پڑھ لے، ہر چند کہ اس میں کہیں کوئی الجھن نہیں، اور نہ ہی اس کے ذیلی مطالب ادھورے ہیں بلکہ یہ صاف صاف حقیقتیں ہیں، بات صرف اتنی سی ہے کہ بہت سے مقاصد کے حصول کے بعد کہیں مقصد ِاعلیٰ حاصل ہو سکتاہے۔

اگرچہ خدااور رسولؐ اور زمانے کے امام ؑ کی ولایت حقیقت میں ایک ہی ہے، جِس طرح ان مقدّس ذوات کی ہدایت واطاعت فی الاصل ایک ہی ہے، لیکن ہم نے اس موضوع میں آسانی سے مطلب سمجھانے کی خاطر ولایت کا درجہ وار ذکر کیا ہے اور

۲

ساتھ ہی ساتھ جگہ جگہ اس میں ایسے اشارے بھی کئے ہوئے ہیں، جن سے بخوبی واضح ہو جاتاہے کہ ولایت کئی درجات پر مشتمل ہونے کے باوجود اصلاًایک ہی حقیقت کی حیثیت سے ہے۔

اس مضمون کے جملہ حقائق و معارف آیات ِقرآنی اور احادیث ِنبوی ؐ کی روشنی میں لکھے گئے ہیں، جِس سے دیدہ ورقاری کو نہ صرف یہی کہ نفسِ مضمون کے متعلق یقینِ کامل حاصل ہو سکتاہے، بلکہ اس سے یہ امر بھی یقینی ہوجاتا ہے کہ اسے قرآن وحدیث اور بزرگانِ دین کی کتابیں سمجھنے میں مدد مل جائے، کیونکہ یہاں جو کچھ درج ہوا ہے وہ علمِ دین کے اصولات میں سے ہے۔

آپ کو میرا پُر خلوص مشورہ یہ ہے کہ اگرآپ حصولِ علمِ دین کے سلسلے میں تائید الٰہی اور اسرارِکماہی کا کرشمہ اور معجزہ دیکھناچاہتے ہیں، تو ہر پُر مغز دینی کتاب اور مقالے کا ایک بار مطالعہ نہیں بلکہ باربار مطالعہ کیجیئے، تاکہ وہ تما م مطالب جو جُدا جُدا تھے یکجا ہو کر ایک دوسرے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالیں اورآپ کے دل میں ان سب کی روشنیوں سے حکمت کا نور منور ہو، اور اس امر کا اصل سبب وہ تائیدِالٰہی ہے جو تلاشِ حقیقت کی اس عملی عبادت کے نتیجے میں کسی خوش نصیب مومن کو حاصل ہوتی ہے۔ بہر حال دینی علم کی باتوں میں باربار غور وفکر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

ولایت فی الواقع اُس خلافت ونیابتِ الہٰیّہ کا دوسرا نام ہے، جِس کے سلسلے کا آغاز حضرت آدم علیہ السّلام کے زمانے میں ہوا تھا، اور یہ سلسلہ انبیائے کرامؑ کے بعد أئمہ عظام ؑ کے توسّط سے قیامت تک جاری رہے گا۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ امامِ زمان علیہ السّلام جو اپنے وقت میں خدا کی جانب سے روئے زمین کے خلیفہ ہیں، ولیٔ امر بھی

۳

ہیں اور ان کی ولایت تمام مومنین پر واجب ہے، تاکہ خداتعالیٰ اور پیغمبرِ آخرینؐ کی مبارک ومقدّس خلافت کی نورانی ہدایت و رہنمائی کی روشنی میں دینی اور دنیاوی ترقی کی منزلیں طے ہو سکیں۔

فقط آپ کا علمی خادم

نصیر الدین نصیرؔہونرائی

بروزشنبۂ مبارک، ۲۶، ماہ محرم الحرام  ۱۳۹۵ھ

۸، فروری ۱۹۷۵ء

۴

بِسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بابِ اوّل

خدا کی دوستی

اہلِ ایمان کے لیے یہ جاننا ازبس ضروری ہے کہ قرآنِ پاک اپنے پُر حکمت اشارات و کنایات کے علاوہ نصوصِ صریحہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی ولایت و دوستی کو مسلمین و مومنین کا اہم ترین اور اوّلین فریضہ قرار دیتا ہے، اور دین ودنیا کی ہر مشکل اور صعوبت میں اسی اللہ پاک کی تائید ونصرت اوریاری و دستگیری طلب کرنے کے لیے تاکید فرماتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام طریقے بھی سمجھادیتا ہے، جو ربّ العزّت کی دوستی حاصل کرنے اور اس سے استعانت و مدد چاہنے کے لیے  مقرّر ہیں، چنانچہ ہم یہاں پر سب سے پہلے قرآنِ حکیم کی دوستی میں لفظِ ولایت کو زیرِبحث لاتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا مبارک فرمان ہے:۔

ھُنالِکَ الْوَلَایَۃُ لِلّٰہِ الْحَقِّ  ھُو خَیْرٌ ثَوَاباً وَّ خَیْرٌ عُقْباً (۱۸: ۴۴) ’’ ایسے موقع پر سر پرستی اللہ برحق ہی کی ہے، اسی کا ثواب سب سے اچھا او راسی کا انجام سب سے بہتر ہے۔ ‘‘ ولایت کے معنی کسی کام کے متولّی ہونے کے ہیں، یعنی سرپر ستی کے، نیز اس کے معنی ہیں دوستی، مدد، حکومت اور کارسازی، اور یہ تما م معانی آپس میں ملے ہوئے ہیں، یعنی ان تمام کا آخری مطلب ایک ہی ہے، اس  آیہ ٔ کریمہ سے نہ صرف خدائے برحق کی ولایت و دوستی فرض ہونے کا ثبوت ملتاہے، بلکہ اگر غور کیا جائے تو یہ ولایت کی

۵

وسعتِ معنی کے لیے بھی دلالت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مبارک و مقدس اسماء میں سے ایک پاک اسم ’’الولیّ ‘‘ ہے۔ جو ولایت کی صفت رکھتاہے جس کا اوپر ذکر ہوا، چنانچہ قرآنِ مجیدمیں جہاں جہاںلفظِ ولی آیا ہے، و ہاں اکثر یہ فرمایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا لوگوں کا کوئی ولی نہیں، جیسے ارشاد ہے کہ: وَمَالَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہ مِن وَّ لی ّ  ولانَصیر(۲: ۱۰۷) اور خدا کے سوا تمہارا نہ کوئی سرپرست ہے، نہ مددگار۔ نیز ارشاد ہے کہ: وَاعُتَصِمُوْا   با للّٰہ ھو مولاکم فَنْعِمَ الْمولیٰ ونِعْمَ النّصیر  (۲۲: ۷۸)اور خدا ہی کو مضبوط پکڑو  وہی تمہارا سرپرست ہے تو کیسا اچھا سرپرست ہے اور کیسا اچھا مددگار ہے۔ لفظِ ولی اور مولا ایک ہی مصدر سے ہیں اور یہ دونوں ہم معنی بھی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی دوستی ومحبت کن لوگوں کو حاصل ہو سکتی ہے او ران کے کیا اوصاف ہوتے ہیں اور جولوگ خدا کی دوستی کے قابل نہیں ہو سکتے، اس کی کیا کیا وجہیں ہیں، اس کا مفصّل بیان قرآنِ مقدّس میں موجود ہے، چنانچہ ذیل میں اس سلسلے کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:

۱۔ پروردگار ِعالم کی مبارک محبت کی بنیادی شرط حضرت محمد مصطفی رسولِ خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی پیروی و اطاعت ہے، (۳: ۳۱)

۲۔ اللہ تعالیٰ نیکی و احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے، (۲: ۱۹۳)

۳۔ بیشک خدا توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، (۲: ۲۲۲)

۴۔ اللہ اہلِ تقویٰ کو دوست بناتاہے، (۳: ۷۶)

۵۔ خدا صبر و تحمل والوں سے دوستی کرتا ہے، (۳: ۱۴۶)

۶۔ وہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتاہے، (۶۰: ۸)

۷۔ خداوند ان لوگوں سے دوستی رکھتا ہے جو راہِ خدا میں جہاد کرنے والے، اور مومنین

۶

سے نرم دلی کا سلوک کرنے والے ہیں، (۵: ۵۴)

۸۔ خداصالحین سے دوستی رکھتا ہے، (۳: ۷۶)

۹۔ اللہ مومنوں کا دوست ہے، وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کرروشنی کی طرف لے آتاہے۔ (۲: ۲۵۷) وغیرہ۔

نیز ارشادِ خداوندی ہے کہ:

۱۔ اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا، (۲: ۱۹۰)

۲۔ خدا فساد کو نہیں چاہتا، (۲: ۲۰۵)

۳۔ وہ ظالموں (۳: ۳۲) اورکافروں کو دوست نہیں بناتا، (۲: ۵۷)

۴۔ اللہ کسی اترانے والے خود پسند کو پسند نہیں کرتا، (۴: ۳۶)

۵۔ بے شک اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو نہیں چاہتا، جو خیانت کرنے والا گناہ گار ہے، (۴: ۱۰۷)

۶۔ خدا فضول خرچی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا، (۷: ۳۱)۔ وغیرہ۔

ربّ العزّت کے جتنے اسمائے صفات دوستی و محبت کے معنی رکھتے ہیں، ان میں سے ایک نمایان اسم ودود بھی ہے، جیسے ارشاد ِ قرآنی ہے کہ:

واستغفر واربّکم ثمّ توبوا الیہ  اِنّ رَبّی رَحِیْم وَّدُوْد(۱۱: ۹۰) ’’ اور اپنے پر ودگار سے اپنی مغفرت کی دعامانگو پھر اسی کی بارگاہ میں توبہ کرو بے شک میرا پروردگار بڑا مہربان اور محبت والاہے ‘‘۔ اس بارے میں قرآنِ مقدّس کا ایک اور ارشاد یہ ہے کہ: وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْناً مِّمَّنْ اسْلَمَ وَجْھَہ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلّۃَ ابراھیمَ حَنِیُفاً   وَاتَّخَذَاللّٰہُ ابرٰھِیْمَ خَلِیْلاً  (۴: ۱۲۵) اور ایسے شخص سے زیادہ اچھا کس کا دین ہو گا جو کہ اپنا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکادے اور وہ نیکو کار بھی ہو او روہ ملّتِ ابراہیم کا اتباع کرے جِس میں کجی کا نام نہیں اور خدا نے ابراہیمؑ

۷

کو اپنا خالص دوست بنا لیا تھا۔

اس آیۂ مبارکہ میں دینِ اسلام کی طرف سے ادیانِ عالم کو ایک عقلی و منظقی چیلنج کرتے ہوئے اسلام (جو فی الاصل مِلّت ابراہیمی ہے) کی بنیادی خوبیاں بیان کی گئی ہیں، اور فرمایا گیاہے کہ جس شخص میں یہ چار اوصاف ہوں، اُس سے باعتبار ِدین کوئی شخص بہتر نہیں ہو سکتا اور وہ چار اوصاف یہ ہیں: اسلام و تسلیم، نیکی و نیکوکاری، عقیدۂ توحید میں حضرت ابراہیم کی پیروی اور خدا کی دوستی، یہ چار چیزیں ہیں جو اسلام وایمان کی جملہ تعلیمات اور ساری خوبیوں پر محیط ہیں اور ان چاروں میں سے مقصدِ اعلیٰ اور درجہ ٔ منتہیٰ خدا کی دوستی ہی ہے۔

جاننا چاہیے کہ اسلام کی مذکورہ چار خوبیاں نہ صرف حسنِ ترتیب کے لحاظ سے پُر حکمت ہیں بلکہ یہ دین کی حقیقتوں اور معرفتوں سے بھی مملو ہیں، چنانچہ سب سے پہلے یہاں تسلیم کا ذکر ہے، جس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ ربانی ہدایت کا جو سرچشمہ ہے اس کے لیے تسلیم کرنا اور جھکنا چاہیے اور وہ نورِ ہدایت ایسا ہے کہ اس  کو کوئی زوال نہیں، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا کہ میں زوال پذپر چیزوں سے دوستی نہیں کرتا، یہ اس حقیقت کی طرف ایک اشارہ ہے کہ سلسلۂ ہدایت میں خدا کا نور ہمیشہ کے لیے موجود ہے، جِس کے لیے سرِتسلیم خم کرنا چاہیے۔

اس آیہ ٔ  کریمہ کے بموجب اسلام کی دوسری خوبی نیکو کاری ہے، جِس میں ہر طرح کی نیک نیتّی، ہر قسم کی نیک باتیں اور تمام نیک اعمال داخل ہیں، جب نیکوکاری میں دینِ خداسے متعلق تمام نیک نیتّیں، نیک اقوال اور نیک اعمال محدود ہو جاتے ہیں، پھر کیارہ جاتاہے، سوائے اس کے کہ خدا شناسی اور توحید حاصل کی جائے۔

جب تسلیم کے عنوان سے ہدایت حاصل کی گئی اور نیکوکاری کی صورت میں دینِ

۸

اسلام پر مکمل طورسے عمل کیا گیا اور اس کے بعد توحید کا علم بھی آگیا، تو اس کے بعد دینِ حق کے نتیجہ اور ثمرہ کے سوا اور کچھ باقی نہیں رہتا، اور یہاں سے ظاہر ہے کہ یہ نتیجہ و ثمرہ خدا کی دوستی ہی ہے۔

پرودگار ِعالم کی دوستی محض دعویٰ ہی سے حاصل نہیں ہو تی، بلکہ عمل سے ممکن ہے اور عمل بھی اسی صورت میں ہو جِس کا ذکر ہوا، تب ہی خدا کی مبارک و مقدّس دوستی حاصل ہو سکتی ہے، اور یہ پاک دوستی جو خدا کی مکمل فرمانبرداری کا نتیجہ و ثمرہ اور اعمالِ صالحہ کا اجروصلہ ہے، اللہ کی قربت ونزدیکی اور درجات ِروحانیت کی صورت میں ہے اور علم و حکمت کی حیثیت میں کیونکہ خدا کی دوستی خالی ازحقیقت اور صرف نام کی ایک چیز نہیں، بلکہ یہ نورِصفات کا روحانی مشاہدہ، علم وحکمت کا سرچشمہ اور حقیقی بہشت کا نظارہ ہے، جیساکہ قولِ قرآن ہے:۔

وَیُدْخِلُھُمُ اَلْجَنَّۃَ عَرفَھَالَھُمْ  (۴۷: ۶) ’’اور (خدا) ان کو اس بہشت میں داخل کرے گا جِس کا انہیں (پہلے سے ) شنا سا کررکھاہے‘‘، یہاں سے صاف ظاہر ہے کہ حقیقی مومنوں کو پہلے ہی سے بہشت کا شناسا ہونا چاہیے، اور شناخت وشناسائی مشاہدہ ہی سے متعلق ہے، پس معلوم ہوا کہ خدا کی دوستی ونزدیکی روحانیت کے درجات کی صورت میں ہے جو اس دنیاوی زندگی میں جزوی جنت ہے، جب حقیقی مومن دیدۂ دل سے اس کا مشاہدہ کرے گا اور اس کی نعمتوں کو پہچان لے گا تب آخرت میں وہ کُلّی جنّت میں داخل ہو سکے گا، اور جو شخص ایسا ہوکہ وہ  اس دنیا میں حقیقت کو نہیں دیکھ سکتا ہے تو ایسا شخص آخرت میں بھی حقیقت کو نہ دیکھ سکے گا، اور جنّت حقیقت ہے۔

اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ آیا ہم خدا کی اس دوستی ومحبت کو عشقِ حقیقی یا عشقِ الٰہی بھی کہہ سکتے ہیں یا  نہیں، اگر کہہ سکتے ہیں تو اس کا کیا ثبوت ہے وغیرہ۔ چنانچہ قرآنِ حکیم

۹

کا ارشاد ہے کہ: وَمِنَ النّاسِ مَن یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ انداداً یحبّو نھم کُحبِّ اللہ  وَالَّذِیِنَ اٰمَنوا اَشَدُ حُبّاً لِلّٰہِ (۲: ۱۶۵) ’’اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو خدا کے سوا (اوروں کو بھی خدا کا ) مثل و شریک بناتے ہیں (اور) جیسی محبت خدا سے رکھنی چاہیے ویسی ہی ان سے رکھتے ہیں اور جو لوگ ایماندارہیں وہ خدا کے ساتھ نہایت سخت محبت رکھتے ہیں‘‘۔

اس آیۂ مقدّسہ کی حکمت کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ باطل خداؤں سے محبت کرتے ہیں، وہ محبت عملی اور معجزانہ توہو نہیں سکتی بلکہ سطحی قسم کی ہوتی ہے، لیکن یہ بھی کسی غیر کے لیے نہیں بلکہ اللہ ہی کے لیے ہونی چاہیے، ان لوگوں کے مقابلے میں ایماندار لوگوں کی جو محبت اللہ تعالیٰ سے ہے وہ بہت ہی قوی اور انتہائی سخت ہے، کیونکہ وہ توعملی اور معجزانہ اور ایمانِ کامل کا نتیجہ و ثمرہ ہے۔

اس کے علاوہ اس آیۂ کریمہ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ  ’’ اَشدُ حُبّاً ‘‘ کا اشارہ عشقِ حقیقی کی طرف ہے، کیونکہ محبت کے آخری درجات کا نام عشق ہے اور عشق کی ابتدائی منزلوں کو محبت کہتے ہیں، اس روشن دلیل سے یہ معلوم ہوا کہ ہم خدا کی دوستی ومحبت کو دوسرے لفظوں میں عشقِ حقیقی یا عشقِ الٰہی بھی کہہ سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی پاک محبت کے بارے میں مذکورہ آیات ِمقدّسہ کے ارشادات کے علاوہ کئی احادیث بھی ہیں، جن سے اس حقیقت کا ثبوت ملتاہے کہ خدا کی محبت کا عقیدہ دین کی اساسیات میں سے ہے، چنانچہ حدیث ِشریف کا ارشادہے کہ:۔

اَسْاَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ۔ یعنی یا اللہ ! میں تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اپنی محبت مجھ کو عنایت فرما، یعنی یہ کہ تو مجھ سے محبت کرنے لگے اور میں تجھ سے محبت کرنے لگوں۔

۱۰

اب ہم یہ بیان کریں گے کہ خدا کی اس مقدس محبت کا وسیلہ و ذریعہ کیا ہے۔

۱۱

بابِ دُوم

خداکی دوستی کا وسیلہ

جب اللہ تعالیٰ کی دوستی ومحبت یعنی عشقِ الٰہی دینِ اسلام کا بنیادی عقیدہ قرار پایا اور واضح کیا گیا کہ اس کا پھل دنیا میں جزوی طور پر ملتا ہے اور آخرت میں کلّی طور پر، تواب ہم اس امر کی وضاحت کریں گے کہ آیا خدا کی دوستی ومحبت کا حصول کسی وسیلے کے بغیر براہ ِراست ممکن ہے یا اس کا کوئی وسیلہ وذریعہ مقرر ہے ؟ اور اگر اس کاکوئی وسیلہ ہے، تو وہ وسیلہ کیا ہے ؟

اس سوال کا جواب مہیا کرنے کے لیے بہت زیادہ غور کرنے کی بھی ضرورت نہیں، کیونکہ خداکی محبت دینِ اسلام میں داخل ہے اور اسلام و ایمان کا ذریعہ حضرت محمد مصطفیٰ رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ذاتِ اقدس ہے، لہٰذا خدا کی دوستی و محبت کا  وسیلہ بھی خود آپؐ ہی ہیں، جیسے خداوند تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ِگرامی ہے کہ:

(اے رسول !) آپ فرمادیجیے کہ اگر تم (بزعم خود ) خدا سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میری پیروی کرو کہ خدا تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کردے گا  (۳: ۳۱)۔

اس آیۂ مبارکہ میں اگر غور سے دیکھا جائے تو اس کی بہت سی حکمتوں میں سے یہ چند حکمتیں فوری طور پر روشن ہو کر سامنے آجاتی ہیں:

۱۔ خدائے پاک و برتر کی مبارک و مقدّس دوستی ومحبت حاصل کرنے کا واحد راستہ اور

۱۲

بنیادی وسیلہ یہی ہے کہ دل وجان سے آنحضرت صلعم کی مکمل اطاعت و پیروی کی جائے۔

۲۔ خدا کی دوستی محض دعویٰ ہی سے حاصل ہونے والی شے نہیں، بلکہ اس کے لیے عمل کی خاص ضرورت ہے۔

۳۔ خدائے بزدگ و برتر کی دوستی و محبت بلاواسطہ اور بغیروسیلہ کے کسی کو ملنے والی نہیں، بلکہ یہ بالواسطہ اور ذریعہ و وسیلہ ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔

۴۔ فرمانبرداری کا عظیم ترین مقصد خدا کی خوشنودی اور دوستی ہے۔

۵۔ اس کے برعکس نافرمانی کا انجام اللہ کی ناراضگی اور دشمنی ہے۔

۶۔ پروردگارِ ِعالم کی محبت اور عشق کی تعلیمات کے حصول کے لیے اورکوئی درسگاہ ہے نہیں، سوائے اس کے کہ رسولِ خدا ؐ کی پیروی میں رفتہ رفتہ خدا کی معرفت اور محبت حاصل کرلی جائے۔

۷۔ جب خداونِد عالم کی محبت کے لیے رسول ؐ کی پیروی لازمی قرار پائی، تو اس سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ آنحضرت ؐ کی محبت کے بغیر نہ صحیح طور پر آپ کی پیروی ہو سکتی ہے اور نہ ہی خدا کی محبت وشناسائی، کیونکہ صرف آپ ؐ ہی ہیں جو اپنے پیرؤں کو خدا کی محبت اور عشق سکھا سکتے ہیں، اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ آنحضورؐ سے محبت کی جائے۔

۸۔ اس آیت ِپُرحکمت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ خدا ئے بے نیازکسی انسان کو دوست نہیں رکھتا، جب تک کہ انسان خود اس میں عملاًپہل نہ کرے۔

۹۔ جب خداوند تعالیٰ کسی بندۂ مومن سے دوستی ومحبت کرتا ہے تو اس کے نتیجے

۱۳

میں خدا اپنے دوست بندے کے تمام گناہوں کو معاف کردیتاہے۔

آیۂ مذکورہ ٔ بالا کی حکمتوں کا خلاصہ یہی ہے کہ خدائے برحق کی دوستی ومحبت اور عشق کابلند مرتبہ حاصل کرنے کے لیے آنحضرت صلعم کی اطاعت و پیروی لازمی ہے۔ جیسے ارشاد ہے کہ: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللہَ (۴: ۸۰)۔ جس نے رسول ؐ کی اطاعت کی تو اس نے خدا کی اطاعت کی۔ اس کلیے سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت و محبت کا ذریعہ آنحضرت ؐ ہی ہیں اور آپ ؐ کی ذاتِ اقدس کے بغیر نہ اللہ کی اطاعت کا فریضہ ادا ہو سکتا ہے اور نہ اس کی محبت حاصل ہو سکتی ہے۔ ذریعہ، وسیلہ اور واسطہ قانونِ قدرت اور دینِ فطرت کی روشن ترین حقیقتوں میں سے ہے، چنانچہ ارشادِقرآنی ہے: یٰایَتُھَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْ ا تَّقُواللہَ وَ ابْتَغُوا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاھِدُ وْ افِی  سَبِیْلہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن (۵: ۳۵)۔ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کے حضور میں مقررّہ وسیلہ بہم پہنچاؤ اور اس کی راہ میں مجاہدہ کرو تاکہ تم فلاح پالو۔

وسیلہ کے معنی ہیں قرب، ذریعۂ تقرب اور تقرب حاصل کرنا، نیز اس کے معنی کسی چیز کی طرف رغبت کے ساتھ پہنچنے کے ہیں، بہر کیف مذکورہ آیت ِکریمہ میں سب سے پہلے عام ایمان کا ذکر ہے، پھر تقویٰ ہے، پھر وسیلہ ہے، اس کے بعد مجاہدہ اور آخرمیں فلاحِ دارَین ہے۔ اس سے اہلِ دانش کواندازہ ہوا ہو گا کہ اسلا م میں وسیلہ ایک اہم ترین کلیہ اور ایک انتہائی ضروری اصول کی حیثیت رکھتا ہے، جو دعوت ِ اسلام کے آغاز میں بھی اور اسے انجام میں بھی چشمِ بصیرت کے سامنے آتاہے۔

جاننا چاہیے کہ قربِ الٰہی کا وسیلہ اور واسطہ نہ صرف اُمّت ہی لے لیے ضروری ہے بلکہ اس کا تعلق خود رسولِ خدا ؐ کی ذات ِبابرکات سے بھی ہے، جیسا کہ آنحضرت صلعم

۱۴

نے ارشاد فرمایا: بَیْنِی وَبَیْنَ ربی خمس وسائط: جبریل و میکائیل و اسرافیل و اللّوح وَ القلم۔ (سید ناصر خسرو، خوان الاخوان، تہران، ۱۹۵۹، ص ۱۹۹) یعنی میرے اور میرے پروردگار کے درمیان پانچ واسطے ہیں وہ جبرائیل، میکائیل، اسرافیل، لوح اور قلم ہیں۔

اس حدیث ِشریف سے یہ حقیقت بدرجۂ اتم واضح اور روشن ہو گئی کہ دینِ حق میں جہاں حبیب ِ خدا سرورِانبیا صلعم کی ذاتِ اطہر وسیلہ اور واسطہ سے بے نیاز نہیں، وہاں آنحضرت ؐ کی اُمّت اس اصول سے کس طرح بے نیاز ہو سکتی ہے، پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی دوستی و محبت اور عشق کے لیے وسیلہ چاہیے، اور یہ وسیلہ آنحضرتؐ کی اطاعت ہے۔

۱۵

باب سِوم

رسولِ خدا کی دوستی

اہل دانش کے سامنے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ کی دوستی ومحبت کا وسیلہ حضورِاکرم ؐ  کی پیروی ہے اور اس تحقیق کے سلسلے میں بعض ایسی حقیقتیں بھی سامنے آگئیں، جن سے خود آنحضرتؐ  کی محبت کے وجوب کا ثبوت مل رہا تھا، تاہم اس باب میں حضورِاقدسؐ کی دوستی ومحبت کے بارے میں کچھ حقائق درج کیے جاتے ہیں، چنانچہ آنحضرتؐ کی محبت کی واجبیت کے سلسلے میں آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی کے بہت سے دلائل موجود ہیں، لیکن ہم یہاں اختصارسے کا م لیتے ہوئے صرف چند روشن دلیلوں پر اکتفاء کرتے ہیں، چنانچہ قرآنِ حکیم کی سب سے پہلی دلیل یہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السّلام کی دعوت و نصیحت سے جن لوگوں نے صریحاً کفروانکار کیا، اس کایہی سبب تھا کہ ان لوگوں کو اپنے اپنے پیغمبروں سے دوستی کی بجائے دشمنی تھی، جیسے حضرتِ صالح علیہ السّلام کی زبان سے قرآنِ حکیم کا یہ ارشاد ہے: اس کے بعد صالح ان سے ٹل گئے اور کہا۔ اے میری قوم میں نے اپنے پروردگار کے پیغام تم تک پہنچادئے تھے اور تمہارے خیر خواہی (نصیحت) کی  مگر تم خیر خواہوں کو اپنا دوست ہی نہیں سمجھتے(۷: ۷۹) ظاہر ہے کہ کفرو انکا ر کی وجہ پیغمبر سے بے رغبتی اور عدِم دوستی ہی ہے۔

آنحضرت ؐ سے محبت رکھنے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی

۱۶

طرف سے ایک خاص محبت حضرت موسیٰؑ پر ڈالی، جبکہ موسیٰ  ؑ نومولود بچّہ تھے، تاکہ اس محبت سے متاثر ہو کر فرعون اور اس کی بی بی آپؑ کی جسمانی پرورش اور دیکھ بھال کریں، اور وہ آیت یہ ہے۔ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنّیِ وَلِتُصْنَعَ عَلیٰ عَیُنِیْ (۲۰: ۳۹)۔ اور میں نے تم پر اپنی محبت کا پَرتو ڈالا تاکہ تم میری خاص نگرانی میں پالے پوسے جاؤ۔ اس حقیقت سے یہ مطلب اخذ کیا جاسکتاہے کہ ہر بڑے پیغمبر کی بہت سی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس پر خدا کی محبت کا پر تو(عکس ) ڈالاجاتا ہے تاکہ اس کے ساتھ متعلقہ لوگوں کی دلبستگی پیدا ہو جائے، اور ایسی ہی قدرتی محبت لازمی طور پر ہمارے نبی ٔ آخر زمان صلعم کے لیے بھی مخصوص ہے۔

تیسری دلیل یہ ہے کہ جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیروی کی ان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے شفقت ومہر پیدا کیا، یہ گواہی سورۂ حدید کی آیت ۲۷ (۵۷: ۲۷) کی ہے۔ اس سے کُلّی طور پر یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ کسی پیغمبر کے پیرؤں کے دل میں اپنے پیغمبر کی محبت کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر ہے، اور یہی مثال آنحضرت ؐ کی اطاعت کرنے والوں کے لیے بھی ہے۔

چوتھی دلیل یہ آیت ہے: اَلنَّبِیُّ اَوُلیٰ بِالْمُوُ مِنَیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ(۳۳: ۶)۔ نبی تو مومنین سے خود ان کی جانوں سے بھی بڑھ کر حق رکھتے ہیں، یہاں لفظ’’ اَوْلیٰ‘‘ سے جیسے بھی معنی مراد لیں وہ معنی دوستی ومحبت کے بغیر ممکن نہ ہوں گے، اس سے آنحضرتؐ کی دوستی ومحبت روزِروشن کی طرح ظاہرہوجاتی ہے، کہ جس مقدّس ہستی کا حق مومن کی اپنی جان کے حق سے بھی بڑھ کر ہوتو لازمی ہے کہ وہ جانِ عزیز سے بھی زیادہ عزیز ہو۔

۱۷

پانچویں دلیل یہ حدیث ہے، لایُوْمِنُ عَبْدٌ حَتّیٰ اکُوْنَ اَحَبَّ اَلَیْہِ مِنْ اَھْلِہِ وَمَالِہِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (مسلم، حدیث ۱۶۸، الریاض، ۱۹۹۸، ص ۴۱) یعنی کوئی بندہ مومن نہیں ہوگا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی تما م متعلقین، مال واسباب اور تمام آدمیوں سے زاید محبوب نہ ہوں، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلعم کی دوستی و محبت کے بغیر کسی شخص کا خود کو مومن کہنا محض ایک بے حقیقت دعویٰ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

۱۸

بابِ چہارم

امام ؑ کی دوستی

جاننا چاہیے کہ خدا و رسول ؐ کی دوستی و محبت کے ساتھ ساتھ امامِ برحق  ؑکی ولایت بھی نہایت ضروری ہے، کیونکہ جس طرح خدا کی اطاعت اور محبت کا وسیلہ پیغمبر صلعم ہیں، اسی طرح آنحضرتؐ کی اطاعت ومحبت کا ذریعہ امام علیہ السّلام ہیں، لہٰذا امام ؑ کی محبت رسول ؐ کی محبت ہے، اور رسول ؐ کی محبت خدا کی محبت ہے۔

پہلی دلیل: چنانچہ امام علیہ السّلام کی ولایت و دوستی کی پہلی دلیل اس آیۂ مقدسہ سے ظاہرہے۔ اِنّما و لیّکم اللہُ و رسولُہُ  و َالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْموْنَ الصّلٰوۃ و یؤ تو ن الزَکوٰۃ وَھم راکعون(۵: ۵۵) تمہارے اولیاء بس یہی ہیں خد ا اور اس کا رسولؐ اور وہ مومنین جو پابندی سے نمازقائم کرتے ہیں او رحا لتِ رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔ نزولِ قرآن کے زمانے میں اصحابِ رسول ؑ میں سے کسی فرد نے بھی رکوع کی حالت میں کوئی زکات نہیں دی تھی اور نہ ہی اس مخصوص زکات کے لیے کوئی ظاہری حکم ہے، مگر یہ اتفاق ہی کی بات ہے کہ مولاعلی علیہ السّلام حالت ِرکوع میں تھے کہ کسی سائل نے سوال کی اور مولاناعلی ؑ نے رکوع ہی کی حالت میں سائل کو اپنی انگشتری دی، چنانچہ اس آیۂ مبارکہ میں اس خا ص واقعہ کی نشاندہی کرتے ہو ئے خدا اور ر سول کی ولایت کے

۱۹

ساتھ ساتھ حضرت مرتضیٰ علی امامِ اوّل کی ولایت بھی فرض کی گئی ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ امیرالمومنینؑ کا یہ کارنامہ صیغۂ جمع میں کیوں مذکور ہے ؟ اس کا ایک جوا ب یہ ہے کہ جناب مرتضیٰ ابوالائمّہ کا مرتبہ رکھتے ہیں، لہٰذا آپ کی قول وعمل کی حقیقت و واقعیت میں وہ تمام ائمّہ اطہار بھی شامل ہیں، جو آپ کی نسل سے قیامت تک دنیا میں ظہور پذیر ہونے والے ہیں، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں فرمایا گیاہے کہ: اِنَّ اِبراھِیمَ کَانَ اُمَّۃً قانِتاً لِلّٰہِ حنیفاً (۱۶: ۱۲۰)بے شک ابراھیم ایک پوری اُمّت تھے خدا کے فرمانبرداری اورباطل سے کترا کے چلنے والے تھے۔

دوسری دلیل: امامِ عالی مقام کی ولایت کی دوسری دلیل آیۂ اطاعت ہے، جس میں فرمایا گیاہے کہ: اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اولوالامر کی جوتم میں سے ہیں۔ (۴: ۵۹) یہاں سے ظاہر ہے کہ یہ اطاعت دینی ہے دنیاوی ہرگز نہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ خداکی ا طاعت کے بعد رسول ؐ کی اطاعت اس لیے ہے کہ آنحضرت کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور آپ ؐ کی اطاعت کے بعد صاحبانِ امریعنی أئمہ طاہرین ؑ کی اطاعت اس لیے ہے کہ ان حضرات کی اطاعت رسول ؐ کی اطاعت ہے پس آیہ ٔ ولایت اور آیۂ اطاعت کا ایک ہی مقصد ہے، کہ نہ ولایت اطاعت کے بغیرمیسّر ہوسکتی ہے اور نہ ہی اطاعت ولایت کے سوا ممکن ہے۔

تیسری دلیل: قرآنِ مجید کی کئی آیتوں میں کافروں سے دوستی رکھنے کی ممانعت کی گئی ہے اور مومنوں سے دوستی رکھنے کی تلقین کی گئی ہے، پس اگر ایمان کو تقویت پہنچانے کی خاطر مومنوں کی دوستی ضروری ہے تو مومنوں کے سردار یعنی امام ؑ کی دوستی اس

۲۰

سے بھی زیادہ ضروری اور لازمی ہے اور یہ مفروضہ عدلِ خداوندی کے خلاف ہے کہ جن لوگوں کی دوستی ممنوع ہے ان کے سردار ہر وقت دنیا میں موجود ہوں اور جن لوگوں کی دوستی فرض ہے ان کا کوئی سردار اور امیر نہ ہو۔

چوتھی دلیل: جس طرح دینی اطاعت تین درجوں میں مکمل ہوجاتی ہے جو حقیقت میں ایک ہی اطاعت ہے، یعنی خدا کی اطاعت، رسول ؐ کی اطاعت اور اولوالا مرؑکی اطاعت، اسی طرح ولایت کے بھی تین مرتبے ہیں، خدا کی ولایت، رسول ؐ کی ولایت اور أئمہ پاک کی ولایت، اور یہ اصل میں ایک ہی ولایت ہے، جیسے اللہ پاک کا ارشاد ہے۔ وَاللہُ اعَلَمُ باعد ایِکم وکفیٰ باللّٰہِ وَلیّاوَّ کفیٰ باللّٰہ نصیراً۔ (۴: ۴۵) اور خدا تمہارے دشمنوں سے خوب واقف ہے اور دوستی کے لیے بس خداکافی ہے اور حمایت کے واسطے بھی خد اہی کافی ہے۔ اس آیۂ مقدسہ میں ایک طرف باطل کی دشمنی کا ذکر ہے اور دوسری طرف حق کی دوستی کا اور رسولِ مقبولؐ وأئمہ اطہارؑ کی دوستی حق ہے، لہٰذا ہر وہ دوستی جو خدا کی طرف سے ہو وہ حق ہے او روہ اصل میں خدا ہی کی دوستی ہے، پس یہی وجہ ہے جو فرمایاگیا کہ دوستی و حمایت کے لیے خدا ہی کافی ہے، یعنی خدا کی دوستی و حمایت ملائکہ، رسول ؐ، اولوالامرؑ اورمومنوں کی دوستی کی صورت میں کافی ہے، یعنی زمان و مکان اور ظاہر و باطن میں ہمہ رس ہے۔

پانچویں دلیل: قرآنِ حکیم میں ہے کہ قیامت کے دن فرشتے مومنین سے کہا کریں گے: ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اور آخرت میں بھی (دوست) ہیں۔ (۴۱: ۳۱)۔ اس ارشاد سے ایک طرف تویہ ثابت ہوتا ہے کہ فرشتوں کی یہ دوستی خدا اور رسول ؐ اور اولوالامر کی محبت و اطاعت کے بغیر ناممکن ہے، اور دوسری طرف اس سے

۲۱

یہ ثبوت ملتا ہے کہ خدا کی ولایت فی الاصل ایک ہی حقیقت ہونے کے باوجود کئی مراتب پر مشتمل ہے۔

چھٹی دلیل: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَلَا اِنَّ اَ ولِیَاءاللہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ (۱۰: ۶۲) آگاہ رہو اس میں شک نہیں کہ اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ مغموم ہوتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ خوف کا تعلق حال سے لے کر ابد تک ہے اور غم کا تعلق حال سے لے کر ازل تک ہے، اب یہاں خدا کی جن دوستوں کی یہ تعریف کی گئی ہے وہ خوف و غم کے زیر اثر نہیں، اس کا اشارہ یہ ہوا کہ یہ حضرات نورِولایت کی روستی میں ازلی وابدی حقیقتوں کو جانتے ہیں اور خدا کی رحمتِ کاملہ سے خوف واقف ہیں، پس خدا کے ایسے دوست پیغمبر صلعم کے بعد أئمہ کرام علیہم السّلام ہیں، جن کی دوستی مومنوں پر واجب ہے کیونکہ خدا بھی ان سے دوستی رکھتاہے۔

ساتویں دلیل: قرآن (۴۳: ۶۷) میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن سارے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ مگر پرہیزگاروں میں ایسا نہ ہو گا، یعنی وہ تو آپس میں دوست ہی رہیں گے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ پیغمبر ؐ اور امام ؑ کی دوستی نہ صرف دینا میں ذریعۂ ہدایت ہے بلکہ یہ آخرت میں وسیلۂ نجات بھی ہے۔

آٹھویں دلیل: قرآنِ پاک میں ہے کہ: اے ایماندارو خرچ کرلو ان چیزوں سے جو ہم نے تم کودی ہیں۔ قبل اس کے کہ وہ دن آجاوے جِس میں نہ توخریدو فروخت ہوگی اور نہ دوستی ہوگی اور نہ کوئی سفارش ہو گی۔ (۲: ۲۵۴)۔ اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ دنیا ہی میں آخرت کا کچھ سودا کرلینا چاہیے۔ یہیں سے آخرت کے لیے خاصانِ الہٰی کی دوستی حاصل کرنی چاہیے اور سفارش کا وسیلہ ابھی سے ہونا چاہیے، ورنہ قیامت کا دن ایسا

۲۲

ہے کہ اس میں نہ کوئی خریدو فروخت ہوتی ہے، نہ کوئی دوستی پیداکی جاسکتی ہے اور نہ کوئی سفارش ہوسکتی ہے، جب تک کہ یہ سب کچھ یہاں پر مہیّا نہ ہوں۔ پس معلوم ہوا کہ آخرت کا سودا، دوستی اور شفاعت یہیں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

نویں دلیل: سورہ ٔ فرقان کی آیت۲۷  اور ۲۸ میں ارشاد ہے کہ: اور جِس روز ظالم اپنے ہاتھ کا ٹ کاٹ کھادے گا، کہے گاکیا اچھا ہوتا میں رسول کے ساتھ راہ پر لگ لیتا، ہائے میری شامت ! کیا اچھا ہوتاکہ میں فلان شخص کو دوست نہ بناتا۔ (۲۵: ۲۷ تا ۲۸)۔ ان دونوں آیتوں کا یہ ترجمہ زبانِ حکمت سے کہہ رہا ہے کہ مذکورہ ظالم نے جو ظلم کیا اس کانمایان پہلو یہ ہے کہ وہ رسول کے ساتھ راہ ِ دین پر نہیں لگاجِسکی وجہ یہ ہوئی کہ اُس نے ایک نامناسب شخص کو دوست بنایا، اگروہ غیر مستحق شخص کو چھوڑ کر حقدار کو اپنا دوست بناتا تو اس کے نتیجے میں وہ رسول کے ساتھ راہِ حق پر ہوسکتا۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ ولایت دینِ اسلام کا پہلا رکن ہے۔

دسویں دلیل: قرآنِ حکیم انسانوں کی فطرت وعادت کی عکاسی کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ: اور یہ بات ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے حق میں خیر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے حق میں بُری ہو اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (۲: ۲۱۶)۔ اس حکم سے واضح ہو جاتا ہے کہ خد ااور رسول ؐ کے بعد اولوالامر کی اطاعت ودوستی لازمی ہے، تاکہ بُرائی اور بھلائی کی شناخت حاصل ہو او رحق و باطل کے درمیان فرق وتمیز کیا جاسکے۔ کیونکہ اس آیت سے ظاہر ہے کہ انسان از خود کچھ نہیں جانتا۔

گیارھویں دلیل: سورہ ٔ مائدہ کی آیت  ۵۶  میں ارشاد ہے کہ: اور جس شخص نے خد او رسول اور اہل ایمان کو اپنا دوست بنایا تو (وہ خد ا کے لشکر میں آگیا اور ) اس میں

۲۳

تو شک نہیں کہ خد اہی کا لشکر غالب رہتا ہے۔ (۵: ۵۶)۔ اس حکمِ الٰہی میں عقل و دانش والوں کو یہ تصّور پیش کیا گیا ہے کہ دنیا میں ظاہراًو باطناً حق و باطل یعنی اسلام اور کفر کے درمیان جنگ کا سلسلہ جاری ہی رہے گا اور ہر بار حق کو فتح حاصل ہو گی اور باطل کو شکست ہوگی، اور اس کے نتائج اس دن ظاہر ہوں گے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایاہے، لہٰذا دانشمندی اس بات میں ہے کہ خد ا، رسول، اولوالامر اور مومنوں کی دوستی اختیا ر کی جائے۔

بارھویں دلیل: ولی اور دوست کا تقرر خدا کی جانب سے ہونا چاہیے تاکہ وہ ہدایت آسمانی اور علمِ لدّنی کا سرچشمہ قرار پائے۔ جیسا کہ قرآنِ حکیم کی اس پاک آیت میں ہے: وَاجعل لّنا من لّدنکَ ولیّا وَّ اجعل لّنا من لدنکَ نصیر (۴: ۷۵)۔ (یااللہ)اپنے حضور سے ہمارے لیے ایک دوست(سرپرست ) مقرر فرما او راپنے حضور سے ہمارا ایک مددگار بنا۔ اس آیہ ٔ  کریمہ میں ’’ من لّدنکَ‘‘ (اپنے حضور سے ) قابل غور ہے اور اس غور فکر کا نتیجہ یہی ہے کہ جو کامل انسان علم وحکمت اور تقویٰ میں تمام لوگوں سے افضل ہو، وہی شخص علوِمرتبت رکھتا ہے اور وہی خداکے قرب کا درجہ رکھتا ہے، پس ایسی شخصیت امامِ عالی مقام ہی کی ہے، جن کی دوستی و محبت واجب ہے۔

تیرھویں دلیل: حدیثِ شریف کا ارشاد ہے کہ: مَنْ اَحَبَّ عَلِیافَقَدُ اَ حَبَّنی ْ وَمَنْ اَبْغَضَ عَلِیًا فَقَدُ اَبْغَضَنِیْ، یعنی جِس نے علیؑ سے محبت رکھی، اس نے مجھ سے محبت رکھی اور جِس نے علیؑ سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ اس حدیث سے ظاہر ہے کہ امام ؑ کی محبت پیغمبر ؐ کی محبت ہے اور سب جانتے ہیں کہ رسولؐ کی محبت خدا کی محبت ہے۔

۲۴

چودھویں دلیل: آنحضرت نے فرمایا: اَللّٰھُمَّ اَئتِنِیْ بِاَحَبِّ خَلْقِکَ اِلَیْکَ۔ (لغات الحدیث، کتاب ح، ص۶)۔ یا اللہ تیری مخلوق میں جو سب سے زیادہ تجھ کو محبوب ہو اس کو لیکر آ(وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے، پھر حضرت علیؑ آئے اور آپ کے ساتھ کھایا)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام مخلوقات میں سے علیؑ ہی تھے جنہیں  خدا سب سے زیادہ محبوب رکھتاتھا۔

پندرھویں دلیل: حبُّ عَلِیٍّ حَسَنَۃٌ  لَا یَضُرُّ مَعَھَا سیَۃٌ۔ حضرت علیؑ سے محبت رکھنا ایسی نیکی ہے کہ جَس کے ہوتے ہوئے کوئی گناہ ضرر نہ کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جِس کے دل میں امام ؑ کی محبت ہوگی۔ اس سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوگا۔ کیونکہ امامِ عالی مقامؑ کی محبت آدمی کو نافرمانی سے روک کر اطاعت پر اُبھارتی ہے۔

سولہویں دلیل ـ: وَبُغْضُ عَلِیٍّ سَیّئَۃٌ لَا تَنْفُعُ مَعَھَا حَسَنَۃٌ۔ یعنی مولا علیؑ سے بغض رکھنا ایسا گناہ ہے کہ جِس کے ہوتے ہوئے کوئی نیکی کام نہ آئے گی۔ مطلب یہ ہے کہ خد ااور رسولؐاور امامِ برحقؑ کی محبت اور خوشنودی کے بغیر کوئی نیکی صحیح معنوں میں نیکی نہیں ہو سکتی۔

سترھویں دلیل: لَا یُحِبُّ عَلِیّاً مُنَا فِقٌ وَّ لَا یُبْغِضُہ مُوُمِنٌ۔ یعنی حضرت علیؑ سے منافق محبت نہیں کرتا اور مومن اُن سے بغض نہیں رکھتا۔ اس حدیث ِ شریف سے ظاہر ہے کہ ایمان اور نفاق کے درمیان فرق و امیتاز کے لیے جو معیار مقرر کیاگیا ہے وہ ولایتِ علی علیہ السّلام ہی ہے اور یہ ولایت ِ آلِ نبی ؐ و اولاد ِعلیؑ کے سلسلۂ امامت میں

۲۵

جاری وباقی ہے۔

ان تمام مذکورہ دلائل کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حیّ و حاضر کی دوستی ومحبت واجبی اور ضروری ہے، تاکہ صاحبِ امر یعنی امامِ برحق علیہ السّلام کی اطاعت کا شرف حاصل ہو اور اس وسیلے سے پیغمبر ؐ کی اطاعت کا درجہ حاصل کیا جاسکے اور رسول ؐ کے واسطے سے خدا کی اطاعت کامرتبہ مل سکے۔

۲۶

بابِ پنجم

مومنین سے دوستی

گذشتہ ابواب میں خد ااور رسول ؐ او رأئمہ ھُداؑ کی دوستی کے ضمن میں مومنوں کی دوستی کی اہمیت کی طرف بھی اشارہ کیاگیا، تاہم یہ بات ضروری ہے کہ اس بارے میں یہاں ایک مختصر باب لکھا جائے، چنانچہ ارشادِ  ربّانی ہے۔

لَا یتِّخِذِ المُومنون الکفرینَ اولیآ ء مِنْ دون المومنین۔ (۳: ۲۸) مومنوں کو چاہیے کہ کفّارکو دوست نہ بناویں مومنوں کو چھوڑ کر۔ اس آیۂ مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ جہاں دین وایمان سے مضبوط وابستگی کی خاطر مومنوں کی دوستی ضروری قرار ددی گئی ہے، وہاں امیر المومنین یعنی امام علیہ السّلام کی دوستی اور بھی زیادہ ضروری ہوتی ہے۔

سورۂ توبہ (۹) کی سولہویں آیۂ کریمہ میں یوں ارشاد ہوا ہے کہ: کیا تم نے گمان کرلیا ہے کہ تم چھوڑدیئے جاؤ گے حالانکہ ہنوز اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ان لوگوں کو ظاہر ہی نہیں کیا ہے، جنہوں نے جہاد کیا اور سوائے اللہ کے رسول ؐ کے اور مومنوں کے کسی اور کو راز دار دوست نہیں بنایا۔ (۹: ۱۶)۔

اس آیۂ پُر حکمت سے نہ صرف خدا اور رسول ؐ اورگروہِ مومنین سے دوستی رکھنے کا ثبوت ملتا ہے، بلکہ اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اس آیۂ مقدّسہ کے نزول کے بعد کسی وقت میں تمام مسلمانوں سے یہ زبردست امتحان لینا تھا، کہ خداتعالیٰ علی و

۲۷

اولادِعلی علیہم السّلام کے فضائل کو ظاہر کرے اور دیکھا جائے کہ کون تسلیم کرتا ہے اور کون نہیں کرتا ہے۔ اگر مانا جائے کہ مذکورہ ٔ بالا آیہ ٔ مبارکہ أئمّہ طاہرین علیہم السّلام کی شان میں ہے، توان کے رازدار دوست خدا و رسول ؐ اور مومنین ہونے کہ یہ معنی ہوں گے، کہ ان کو اللہ تعالیٰ اورپیغمبرِ اکرم صلعم کی جانب سے علم و حکمت اور رشد و ہدایت کا فیضان جاری ہے اور پھر ان کی طرف سے درجہ بدرجہ مومنوں کو ہدایت کی روشنی ملتی رہتی ہے، اگر یہ حقیقت نہ ہوتی تو اطاعت کے تین مراتب نہ ہوتے۔ یعنی خدا کی اطاعت، رسول ؐ کی اطایت اور اولوالامرؑ کی اطاعت، یہ تما م حکمتیں  لفظِ ’’ وَلِیْجَۃً ‘‘میں پوشیدہ ہیں جو راز دار دوست اور قلبی دوست کے معنی میں آیاہے۔

مومنین کے آپس میں جو محبت اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے ہو اور جس کے لیے خدانے حکم دیا ہو، وہ ایمان کا ایک حصّہ ہے، چنانچہ اس حدیثِ شریف میں یہی مطلب ہے۔ اَلْحُبُّ فیِ اللہِ مِنَ الایَمان‘   یعنی خدا کی وجہ سے محبت رکھنا (نہ کہ کسی دنیوی غرض سے ) ایمان کا ایک جُز ہے۔ ہم ایسی محبت کو دینی محبت بھی کہہ سکتے ہیں، اور اس محبت کے خود بخود مراتب مقرر ہوتے ہیں، یعنی خد اکی محبت، رسول ؐ کی محبت، امام ؑ کی محبت اور مومنوں کی محبت، کیونکہ دین کی صورتِ ترکیبی حدوداور مراتب ہی کی ہے۔

یاد رہے کہ حق سے محبت اور باطل سے نفرت اس لیے ضروری ہے کہ انسان جِس چیز سے محبت کرتا ہے وہ اس کے ساتھ وابستہ ہو جاتاہے۔ اس کی طرف کھچ جاتاہے اور اس کے ساتھ ہمرنگ و ہم صفت ہوجاتاہے، اور محبت ہی وہ طاقت ہے جو متفرق دلوں کو ایک کردیتی ہے، جیساکہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ِ گرامی ہے:

۲۸

اور تم سب لوگ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوط پکڑ ے رہو اور متفرق نہ ہو اور یا د کرتے رہو اللہ تعالیٰ کی نعمت کوجو تم پر ہے جبکہ تم (ایک دوسرے کے ) دشمن تھے پس اُس نے تمہارے دلوں کے درمیاں الفت ڈال دی تم اس کی نعمت کے طفیل بھائی بھائی ہو گئے۔ (۳: ۱۰۳)۔ جاننا چاہیے کہ قرآن، اسلام، نبوّت اور امامت مل کر ہی خدا کی رسّی ہے اور خدا کی عظیم ترین نعمت بھی یہی ہے اور اس نعمت کی بدولت مسلمان بھائی بھائی ہو گئے تھے۔

اس دینی اخوت اور ملی وحدت سے مسلمانوں میں جویک رنگی پیدا ہوئی تھی اس کے بارے میں ارشاد ہے کہ: صِبغۃ اَللہِ وَمَنْ احسن من اللہ صبغۃً  (۲: ۱۳۸)۔ رنگ تو خدا کا ہے اور خد اکے رنگے سے کسی کا رنگ بہتر ہو سکتا ہے۔ یہ ولایت اور محبت کے رنگ کا ذکر ہے۔

انہی معنوں میں رسولِ اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ: اَلْمرُءُ مَعَ مَنْ اَحَبََّّ، یعنی آدمی قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص دنیا کی زندگی میں خدا ور رسول ؐ، امامِ برحقؑ  او رمومنوں سے دوستی رکھتا ہووہ قیامت کے روز انہی کے ساتھ بہشت میں ہوگا، اس سے بڑھ کر مومن کی اور کیا سعادت مندی ہو کہ اسے فرد ائے قیامت حضرت احدیت کا تقرب اور نبی ؐ اور علی ؑ کی ہم نشینی کا شرف ملنے والا ہے۔

۲۹

باب ِ ششم

نیک اعمال سے دوستی

قرآنِ حکیم زبانِ حکمت سے جو تعلیمات پیش کرتا ہے ان میں یہ بھی ہے کہ ایمان کا مرکز انسانی قلب یعنی مومن کا دل ہے وہ ایمان محض نام کی چیز ہرگز نہیں بلکہ وہ ایک زندہ اور روشن حقیقت ہے جب ایک حقیقی مومن روحانیت کے ایک اعلیٰ مقام پر پہنچتا ہے تو وہ دیدہ ٔ دل سے نورِ ایمان کا مشاہدہ کرسکتا ہے، خدائے جلیل و جبّار اس حقیقت کا گواہ ہے کہ ایمان حقیقی مومن کے دل کو عملاً بہشت کا نمونہ بنادیتا ہے، پھرمومن کی ایمان سے بہت محبت ہوتی ہے اور اس وقت کفر، فسق و نافرمانی سے نفرت ہوتی ہے اور ایسے مومنین ہدایت یافتہ ہوتے ہیں اور یہی مطلب اس آیۂ کریمہ میں ہے:۔

وَلٰکِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَیْکُم ُ  الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہ‘  فِیْ قُلُوْ بِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الکُفَروَالفسوقُ والعِصیانَ اولٰئکھم الرّاشِدُونَ (۴۹: ۷)۔ لیکن خدا نے تو تمہیں ایمان کی محبت دے دی ہے اور اس کوتمہارے دلوں میں عمدہ کر دکھایا ہے اور کفراوربدکاری اورنافرمانی سے تم کو بیزار کردیا ہے یہی لوگ راہِ ہدایت پر ہیں۔

جب مکمل ایمان کاکوئی ذکر ہوتاہے، تو اس میں لوازمِ ایمان اور نتائج و ثمراتِ ایمان بھی مراد لیے جاتے ہیں، پس جاننا چاہیے کہ ایمان قلبِ مومن میں نورانیت کی ایک سدا بہار دُنیا ہے، اور اُس سے مومن کی محبت لازمی شے ہے۔ جیسا کہ قرآنِ حکیم کا

۳۰

ارشادِ مقدّس ہے کہ: اُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قلو بھم الا یمان و ایّدھم بروحٍ مِنہُ  (۲۲: ۵۸)۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں (اللہ تعالیٰ نے) ایمان لکھ دیا اور ان کی مدد اپنی ایک روح سے کی یعنی قلوبِ مومنین میں اللہ تعالیٰ کا یا فرشتوں کا ایمان لکھ دینا یہ ہے کہ ایمانِ کامل کے نتائج و ثمرات روحانیت کی ایک روشن دنیا کی صورت میں تیار ہو گئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان لوازم ِ ایمان اور نتائجِ ایمان سے مومن کی بہت محبت ہوتی ہے۔

قرآنِ مقدّس (۳۸: ۳۲) میں ذکر ِ الٰہی کو عزیز رکھنے او راسے تمام دنیوی چیزوں پر ترجیح دینے کا اشارہ موجود ہے۔ (۲: ۲۱۶) میں زبانِ حکمت سے یہ فرمایا گیا ہے کہ تم نورِ ہدایت کی روشنی میں غلط انتخاب سے بچ کر ہر نیک عمل سے دوستی رکھو اور ہر بدعمل سے نفرت کرو۔

۔ (۳: ۹۲)۔ میں ارشاد ہوا ہے کہ: تم مکمل نیکی کو کبھی حاصل نہ کر سکو گے جب تک کہ اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حلال چیزوں سے محبت رکھنا جائز ہے مگر موقع پر ان میں سے راہِ خدا میں خرچ کرنا ضروری ہے۔

سورہ ۲۴  کی آیت ۲۲ میں ارشاد ہوتا ہے کہ: کیا تم یہ نہیں چا ہتے ہوکہ خدا تمہاری خطامعاف کرے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی بخشش کو دوست رکھنے کا حکم دیا گیا ہے  (۲۴: ۲۲)۔

سورہ ٔ قیامت (۷۵) کی آیت ۲۰۔ ۲۱ میں دنیا سے محبت کرنے اور آخرت کو چھوڑنے پر اعتراض کیا گیا ہے، جِس کا مقصد یہ ہے کہ آخرت سے محبت کی جائے (۷۵: ۲۰ تا ۲۱)۔

الجمعہ (۶۲) کی آیت ۱۳ میں فرمایا گیا ہے کہ: مومنین اللہ پاک کی طرف سے مدد اور فتح کے دلدادہ ہوتے ہیں، جوعنقریب حاصل ہونے والی ہے  (۶۲: ۱۳)۔

۳۱

غرض یہ کہ قرآنِ حکیم میں ایسے بہت سے واضح ارشادات اور اشارات موجود ہیں، جن سے ثابت ہو تا ہے کہ نیکی سے محبت او ربدی سے نفرت ضروری ہے، تاکہ ولایت کے مدارج طے ہو سکے اور ابدی نجات حاصل ہو۔

۳۲

بابِ ہفتم

خلاصۂ مطلب

“ولایت نامہ” کے اس مقالے کے سلسلے میں شروع سے لے کریہاں یک جو حقیقتیں بیان ہوئی ہیں، ان کا خلاصہ یہی ہے کہ دین یعنی عقیدہ اور ایمان کی بنیاد و اساس اور اصل صورت حقیقی محبت ہی ہے، یعنی خدا اور رسول ؐ اورنائبِ رسول ؐ کی دوستی ومحبت جو مکمل اطایت کی صورت میں ہونی چاہیے، اور یہی اصول دینِ اسلام کی اُن چارمنزلوں میں کارفرماہے، جو شریعت، طریقت، حقیقت اورمعرفت کے نام سےمشہور ہیں، کیونکہ حقیقی محبت کے بغیر راہِ خدا کی کوئی مسافت طے نہیں ہو سکتی۔

سب جانتے ہیں کہ اسلام ہی دینِ فطرت اورقانونِ قدرت کا درجہ رکھتا ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ فطرت کا اساسی قانون مہر و محبت ہے، چنانچہ ذی روح مخلوقات میں حسبِ مراتب اس کی واضح مثالیں موجود ہیں، خصوصاً انسا ن میں، کیونکہ وہ فطرت ِ الٰہی کا سب سے مکمل اور بہترین نمونہ ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا مقدّس فرمان ہے: فطرت اللہ التی فطر الناسَ علیھا  لا تبدیل لَخلق اللہ (۳۰: ۳۰)  یہی خدا کی فطرت (سرشت ) ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے خدا کی فطرت میں (تغیرو ) تبدّل نہیں ہو سکتا۔

یہ بات سب کومعلوم ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بزرگ ناموں میں سے

۳۳

دو زیادہ مشہور نام رحمٰن اور رحیم ہیں، جو رحمت سے مشتق ہیں اور لفظ رحمت میں خدائی مہر ومحبت اور شفقت کے معنی پنہان ہیں اور اس میں حقیقی مہر وشفقت کے جملہ وسائل مہیّا ہو جانے کا اشارہ ہے، کیونکہ خداوند بخشندہ و مہر بان کی مہر ومحبت اور مہربانی بغیر وسیلہ کے ناممکن ہے، جیسے فرمایاگیا ہے کہ:

وَمَااَرسلنٰکَ اَلاّ رحمۃ لّلعٰلمین  (۲۱: ۱۰۷)۔ اور ہم نے آپ کو اور کسی بات کے واسطے نہیں بھیجا مگر دنیا جہاں کے لوگوں پر رحمت کرنے کے لیے۔ اب یہ مسئلہ پیدا ہو تا ہے کہ جب خدا نے آنحضرتؐ کو رحمت ِ کُل کی حیثیت سے اس دنیا میں بھیجا ہے، تو آنحضورؐ خدا ہی کی رحمت قرار پائیں گے یا نہیں ؟ اگراس کا جواب اثبات میں ہے تو اس کا یہ مطلب ہو اکہ پیغمبر آخرِ زمانؐ الرّحمان ورحیم کی تفسیر و تشریح ہیں، یعنی آپ ؐ رحمت ِ خداندی کا سرچشمہ ہیں اور آپؐ کی نورانی صفات میں خدا کا نور جلوہ نماہے۔

قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ قل لَّأ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہ اجراً اِلاّ المودَّۃَ َفِی اْلقُربیٰ   (۴۲: ۲۳)۔ (اے رسول ؐ) کہہ دیجیے کہ میں اس (تبلیغِ رسالت ) کا اپنے قرابت داروں (اہل بیت ؑ ) کی محبت کے سواتم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا۔ اہلِ بصیرت کے لیے یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ اس آیۂ کریمہ میں آلِ رسول ؐ کی دوستی ومحبت فرض کر دی گئی ہے، اور آلِ رسول علیہم السّلام پنجتن پاک اور أئمہ طاہرین ہی ہیں، جن کی دوستی خدا کی طرف سے واجب ہے، تاکہ آسمانی ہدایت  کے سرچشمہ اورخدائی رسّی کے ساتھ مومنوں کی مضبوطی وا بستگی برقرار رہے۔

اگرمذکورہ ٔ بالا آیۂ کریمہ کے بارے میں یہ خیال کیا جائے کہ اس میں اصحابِ رسول ؐ اور گروہ ِ مسلمین کے اپنے جسمانی قرابت داروں کی دوستی کا حکم دیا گیا ہے، تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ انہیں اجازت ہے کہ خواہ وہ کافر کیوں نہ ہو، وہ اپنے اپنے جسمانی رشتدداروں

۳۴

سے دوستی رکھیں، مگر ظاہر ہے کہ ایسا کرنے سے قرآن ہی نے منع فرمایا ہے، یعنی کافروں کی دوستی ممنوع ہے۔ نیز ’’اِلَّا ‘‘ سے بھی یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس سے پیغمبرِ خداؐ کے اپنے خاندان کی دوستی مراد ہے نہ کہ مسلمانوں کے قرابت داروں کی دوستی کا ذکر ہے۔

اگر خلافتِ الٰہیّہ کی مثال لی جائے تو جہاں خدا کی ولایت حق ہے وہاں رسولِ خدا اور نائبِ رسول ؐ کی ولایت و دوستی واجب اور ضروری ہے، کیونکہ خد اکی خلافت پر آنحضر تؐ  متمکن ہیں اور آپؐ کی نیابت امامِ برحق  ؑ کو حاصل ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک ھادی ہے، اور ظاہر ہے کہ پیغمبرؑ بھی ہادی ہیں اور امام ؑ بھی ہادی ہیں (دیکھئے قرآن: ۲۲: ۵۴، ۳۰: ۵۳، ۱۳: ۷) چنانچہ ارشاد ہو ا کہ وَکَفیٰ بِرَبِّکَ ھَادِیاً وَّ نَصِیْراً  (۲۵: ۳۱)  اور آپ کا پروردگار ہدایت اور مددگاری کے لیے کافی ہے۔ یعنی لوگوں کی ہدایت اورمدد کے لیے خدا خود ہی کافی ہے او ر کسی غیر کا  محتاج نہیں اور پیغمبر اور امام غیر نہیں بلکہ اس کے نورِ مقدّس کے مظہر ہیں، لہٰذا رسول ؐ اور امام ؑ کی دوستی و محبت خدا کی دوستی و محبت ہے جِس طرح ان کی ہدایت خدا کی ہدایت ہے۔

قرآنِ مقدّس کی کئی آیات سے ظاہرہے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف لوگوں پر گواہ ہے بلکہ وہ کائنات و موجودات کی ہر چیز پر بھی گواہ ہے، یہ حقیقت خدا تعالیٰ کے اسم ’’شہید ‘‘ سے متعلق ہے او رسورۂ بقرہ کی آیت ۱۴۳ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: اور اسی طرح تم (یعنی أئمہ اطہار ) کو عادل اُمّت بنایا تاکہ لوگوں پر تم گواہ بنو اور رسول (محمد ؐ) تم پر گواہ بنیں (۲: ۱۴۳)۔ اس حکم ِ خداوندی کا نتیجہ بھی وہی نکلتا ہے کہ اولوالامرؑ کی گواہی پیغمبرؐ کی گواہی ہے

۳۵

اور رسول ؐ کی گواہی خد اکی گواہی ہے، لہٰذا یہ بالکل دوست اور حقیقت ہے کہ امامِ زمانؑ کی دوستی آنحضرت ؐ کی دوستی ہے اور آنحضورؐ  کی دوستی خدا کی دوستی ہے۔

آپ سورۂ نور کی آیت ۳۵، سورۂ احزاب کی آیت ۴۶، اور سورۂ حدید کی آیت ۲۸ کو یکجا طور پر غور سے پڑھئے (۲۴: ۳۵، ۳۳: ۴۶، ۵۷: ۲۸) جس سے آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اللہ تعالیٰ کونور رسولِ محمد ؐ کے وسیلے سے اور آنحضرت ؐ  کا نور امامِ امان ؑ کے تو سط سے ہدایت کی روشنی دیتا ہے، یہی سبب ہے کہ نور کا اسم اللہ تبارک و تعالیٰ کے بعد پیغمبرؐ اور امام ؑکے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نورفی الاصل ایک ہی ہے، لہٰذا اس نور کی محبت بھی حقیقت میں ایک ہی ہے۔

بالآ خر اس مقالے کے بارے میں میرا کامل یقین ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ اس کے بغور مطالعے سے حقیقی مومنوں کو ولایت کی بہت سی حقیقتوں سے آگہی اور تسلی ہو گی، ا ور میری عاجزانہ دعا ہے کہ پروردگار ِعالم اپنے محبوب رسول حضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور أئمہ طاہرین علیہم السّلام کی حرمت سے یہ کتابچہ اہِل ایمان کے لیے مفید بنائے۔ آمین یارب العٰلمین!!

بتاریج ۲۴ ماہ محرم الحرام ۱۳۹۵ھ/۶ فروری ۱۹۷۵ء

۳۶

ہزار حکمت [۱ تا ۱۰۰۰]

ہزار حکمت

(تاویلی انسائکلوپیڈیا)

یکی از تصنیفاتِ

علّامہ نصیر الدّین نصیر ہونزائی

دانشگاہِ خانۂ حکمت پاکستان

INSTITUTE FOR SPIRITUAL WISDOM (I.S.W) U.S.A

www.monoreality.org

 

 

آغاز کتاب

بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔ خداوند قدّوس کا پر حکمت ارشاد ہے: اِنَّ اللہَ وَ مَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیۡط یٰٓاَیُّھَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا (۳۳: ۵۶) بالتّحقیق اللہ اور اس کے فرشتے نبیؐ (محمّدؐ و آل محمّدؐ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجواور (ان کے فرمان کو) ایسا تسلیم کرو جیسا کہ تسلیم کرنے کا حق ہے۔

سورۂ احزاب ہی میں قبلاً یہ ارشاد بھی ہے: وہ وہی ہے جو خود اس کے فرشتے تم پر صلوات (درود) بھیجتے ہیں، تاکہ وہ تم کو (لاعلمی کی) تاریکیوں سے (علم و حکمت کی) روشنیوں میں لائے، اور وہ مومنوں پر بہت ہی رحم کرنے والا ہے (۳۳: ۴۳)۔ پس ان دونوں حکمت آگین آیتوں کا مربوط مطلب یہ ہے: یا اللہ محمدؐ و آلِ محمدؐ کے وسیلے سے اہل ایمان پر درود نازل فرما، جس کا تو نے قرآن حکیم میں ذکر فرمایا ہے تاکہ سب کو نور یقین نصیب ہو، آمین!

آدم و حوا کی لغزش: عقل و جان ہی عالم شخصی کے آدم و حوّا ہیں، جن کے اسرارِ معرفت کے جاننے میں بے شمار فائدے ہیں، چنانچہ ارشاد ہے: فَاَزَلَّھُمَا الشَّیۡطَانُ عَنۡھَا (۲: ۳۶) پھر پسلا دیا ان دونوں کو شیطان نے۔ یعنی آدم و حوّا (عقل و جان) بہشتِ روحانیت میں خصوصی ذکر کے قدموں سے چلتے ہوئے سیر و سیاحت کر رہے تھے کہ شیطان نے ان کے قدموں کو لغزش دی، اس کے معنی یہ ہیں کہ اسمِ اعظم

۱

کے ذکر میں مداخلت کی، اور وہ پھسل گئے، کیونکہ یہاں عنھا (اُس سے) اسم اعظم کے لئے ہے۔

عالم شخصی کی معرفت میں انبیاء و اولیاء (آئمّہ) علیہم السّلام کی معرفت ہے اور اسی میں حضرت ربّ العزّت کی معرفت ہے جو کنز ازل ہے، اگر آپ اس خزینۃ الخزائن کے حقیقی طلبگار ہیں تو خود شناسی کے طریق سے قرآن حکیم کی حکمت میں داخل ہوجائیں، جیسا کہ اس عمل کا حق ہے، ورنہ آج پہلے سے کہیں زیادہ مشکلات ہیں، جبکہ یہ زمانہ دورِ قیامت ہے، جس میں تاویلی حکمت کے بغیر دین و ایمان کو قائم رکھنا محال ہے، کیونکہ دنیا میں ظاہری سائنس کا بہت بڑا طوفانی انقلاب آیا ہے، جس سے بڑے مشکل مسائل پیدا ہوگئے ہیں، مجھے یقین ہے کہ ان کا حل قرآنی حکمت (تاویل) میں ہے، جس کا استاد ہمیشہ دنیا میں موجود ہے، اور اس سے پوچھنے کا خاص نظام و طریقہ بھی ہے۔

باطنی نعمتیں: اگر ہم خدا کی نعمتوں کے بارے میں کم از کم علم الیقین کی حد میں بھی غور نہیں کرتے ہیں تو بہت بڑی ناشکری اور ناقدری ہوگی، جیسا کہ سورۂ لقمان (۳۱: ۲) میں ہے: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمانبردار بنایا ہے تمہارے لئے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے، اور تمام کر دی ہیں اُس نے تم پر ہر قسم کی نعمیں ظاہری بھی اور باطنی بھی، یہ ایک نمائندہ آیت کا ترجمہ ہے، لہٰذا اس میں سارے معانی جمع ہیں، کیونکہ آسمان و زمین اور ظاہر و باطن کا مطلب سب کچھ ہے، اور اس کے سوا کوئی چیز نہیں، الغرض قرآن پاک میں باطنی نعمتیں کثرت سے موجود ہیں، جو تاویلی حکمت کی صورت میں حاصل ہوسکتی ہیں، اور قرآن و حدیث میں بار بار حکمت کی تعریف آئی ہے۔

۲

دعوتِ غور و فکر: اس حقیقت میں نہ کوئی شک ہے اور نہ کوئی اختلاف ہوسکتا ہے کہ بہت سی آیاتِ کریمہ قرآن اور آفاق و انفس میں غور و فکر کی پر زور دعوت دے رہی ہیں، یہاں تک کہ ایک آیۂ شریفہ میں یوں ارشاد ہوا ہے: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی اَقۡفَالُھَا (۴۷: ۲۴) تو کیا وہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے، یا (ان کے) دلوں پر ان کے قفل لگے ہوئے ہیں؟ اسی وجہ سے پیر فرماتے ہیں کہ: قفل از دل بردار و قرآن رہبرِ خود کن + تا راہ شناسی و کشادہ شوَدَت در۔ تو اپنے دل سے تالا اٹھا اور قرآن کو اپنا رہنما بنالے تاکہ تو راہِ راست کو پہچان سکے اور تجھے (علم و حکمت کا) دروازہ کھل جائے۔

ھزار حکمت: اس کتابِ عزیز کا نام “ہزار حکمت” ہے، کیونکہ یہ بحمد اللہ ہزار عظیم حکتوں پر مشتمل ہے، اس کا نام قاموس الحکمۃ یا تاویلی انسائیکلو پیڈیا بھی ہوسکتا ہے، یہ کام حقیقت میں اس بندۂ حقیر کی ناچیز کوشش کا نتیجہ اور ماحصل نہیں، بلکہ میرے تمام فرشتہ صفت ساتھیوں کی پرسوز گریہ و زاری اور مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات کا ایک خاص انعام ہے، اس کے علاوہ قانونِ یک حقیقت (مونو ریالٹی) کے مطابق جملہ عزیزان میرے دل و جان میں اس طرح بس رہے ہیں کہ وہی عالم شخصی کے فرشتے میرے لئے سب کچھ کر رہے ہیں۔

اصولِ مطالعہ: اے عزیز من! اگر آپ اس کتاب کے مطالعے سے بھرپور فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میری دوسری کتابوں کو بھی پڑھ لیں، اور ان سب میں جہاں جہاں قرآن پاک کے حوالہ جات درج ہیں، ان کے مطابق نہ صرف محوَّلہ آیاتِ مبارکہ ہی کو ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔

۳

بلکہ ما قبل اور ما بعد کو بھی خوب غور سے دیکھ لیں، آڈیو اور ویڈیو دو قسم کے کیسٹوں سے بھی کام لیں، اگر پھر بھی کوئی حکمت سمجھ میں نہیں آتی ہے تو ہمارے سینئیر سکالرز سے پوچھ لیں، ان شاء اللہ تعالٰی آپ کی علمی اور روحانی ترقی ہوگی۔

میں ہمیشہ اپنے شاگردوں کو یہ مشورہ دیتا رہتا ہوں کہ وہ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کے ہر فرمان اقدس کو خوب غور سے پڑھا کریں، خصوصاً اُن پر حکمت ارشادات کو جو روحانی ترقی سے متعلق ہیں، جن میں آسمانی عشق کی تعلیم ہے، جن میں روح و روحانیت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، اور جو جو ارشادات خود شناسی اور خدا شناسی کے بارے میں ہیں۔

روحانی سائنس: سائنس چاہے مادی ہو یا روحانی، وہ خدائے واحد کے خزائن سے نازل کی جاتی ہے (۱۵: ۲۱) اس کی منزل (اترنے کی جگہ) بھی ایک ہی ہے، اور وہ ہے انسان کا دل و دماغ، پھر سائنس (حکمت) کے ظاہری اور باطنی دو شعبے ہوتے ہیں، تاکہ جسم و جان دونوں کے لئے آسائش و راحت مہیّا ہوسکے، اگر سائنس جیسی عظیم نعمت صرف جسم ہی کے لئے مخصوص ہوتی، اور روح کے لئے کوئی سائنس نہ ہوتی تو یہ اس پر ظلم ہوتا، مگر ایسا نہیں ہے، بلکہ روحانی راحت کی خاطر جو سائنس یا حکمت ہے وہ بڑی زبردست ہے۔

دونوں کا تقابلی جائزہ: جس طرح جسم اور روح کے درمیان آسمان و زمین کا فرق ہے، اسی طرح مادّی سائنس اور روحانی سائنس کے مابین فرق ہے، کیونکہ ظاہری سائنس صرف ایک علامت اور مثال ہے باطنی سائنس کی، یہ ایک عارضی اشارہ ہے اُس دائمی اور لازوال نعمت کی طرف، اور یہ ایک آرزو اور احساس ہے اُس مقصد عالی کے

۴

کے حصول کیلئے، جیسے ہوائی جہاز ہر چند کہ سفر کیلئے ظاہراً بڑی اچھی چیز ہے، لیکن یہ اڑن طشتری جیسی چیز کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے، کیونکہ اڑن طشتریاں روحانی سائنس کی پیداوار ہیں، میرا مقصد صرف یہی ایک تعارف نہیں، بلکہ میں نے پہلے ہی سے بھی بہت کچھ کہا ہے اور لکھا ہے۔

عالم شخصی کے بعض انکشافات: (۱) ستاروں پر لطیف آدمی موجود ہیں (۲) اڑن طشتری در اصل کوکبی بدن (ASTRAL BODY) ہے، جس کو استعمال کرکے انسان ستاروں کی سیاحت کر سکے گا (۳) جس کو آپ ایک انسانی روح کہتے ہیں، وہ فی الحقیقت بے شمار روحوں کا مجموعہ ہوا کرتی ہے (۴) ایک ایسا اڑنے والا لطیف ذرّہ دیکھا گیا ہے جو مادہ اور روح کا مرکب ہے (۵) جنّ و پری ایک ہی مخلوق اور ایک ہی قوم ہے (۶) جسمِ لطیف یا کوکبی بدن میں انسان کائنات کے کسی بھی ستارے پر آرام سے رہ سکتا ہے، کیونکہ یہ گرمی، سردی، خشکی اور تری سے بالاتر ہے (۷) گوناگون خوشبوؤں کی صورت میں لطیف غذائیں ہوا میں پوشیدہ موجود ہیں (۸) انائے علوی اور انائے سفلی کا تصوّر بڑا عجیب و غریب ہے (۹) آگے چل کر اقوام عالم کا حتمی اور کلّی اتفاق ہونے والا ہے، پھر وہ سب ایک ہوجائیں گے (۱۰) اب عنقریب پہلے بڑی جنگ پھر چھوٹی چھوٹی جنگیں دنیا سے ختم ہوجانے والی ہیں (۱۱) روحانی سائنس کا دور آرہا ہے (۱۲) جہاں مادّی سائنس کے بہت سے سمعی و بصری آلہ ہوتے ہیں، وہاں ان سب کی جگہ ایک ہی روحانی طاقت کام کرے گی (۱۳) جب تک تسخیرِ ذات نہ ہو تسخیرِ کائنات نہ ہوگی (۱۴) جس طرح کوئی خاص کیڑا ایک وقت کے بعد پروانہ بن جاتا ہے، اسی طرح آدمی بھی ایک زمانے میں کثیف سے لطیف اور بشر سے ملک بن کر پرواز کرنے والا ہے (۱۵) آدم و آدمی ہی خداوند تعالٰی کا

۵

وہ انتہائی عظیم اور واحد و یکتا کارخانۂ قدرت ہے، جس میں خدا کے تمام عجائب و غرائب تیار ہوتے رہتے ہیں (۱۶) کوکبی بدن (یعنی لطیف نوری انسان) گویا ایک ٹھنڈا شعلہ ہے، وہ جسم عنصری سے بالا و برتر ہے۔

بورڈ آف گورنرز: اگرچہ بورڈ لفظی لحاظ سے عام ہے، لیکن معنوی اعتبار سے خاص بلکہ بیمثال ہے، کہ اس جیسا بورڈ دنیا میں کہیں بھی نہیں، کیونکہ اس کے گورنرز وہ عالی ہمّت مومین و مومنات ہیں جو ایک ایسی لاثانی و غیر فانی مقدّس خدمت کو سر انجام دے رہے ہیں کہ وہ تمام اعلٰی خدمات کی بادشاہ (مَلِکہ) ہے، وہ ہے بتدریج قرآنی حکمت کو ہر جگہ پھیلانے کا انتہائی عظیم کارنامہ، اور دنیا میں اس کا کوئی مقابلہ ہے ہی نہیں، یہی حکمت روحانی سائنس بھی ہے اور علمِ امامؑ بھی، پس ہمارے گورنرز کتنے خوش نصیب اور عالی قدر ہیں۔

علمی لشکر: حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: “میں اب لوہے کی ذوالفقار سے نہیں، بلکہ علم و حکمت کی ذوالفقار سے جنگ کروں گا”۔ چونکہ اب دورِ قیامت اور زمانۂ تاویل ہے، لہٰذا حضرت امامؑ ظاہراً و باطناً جہالت کے خلاف تاویلی جنگ کر رہا ہے، اور وہ اپنے علمی لشکر کو بھی دعوت دے رہا ہے کہ وہ ضروری اور لازمی طور پر تاویلی جنگ میں شریک ہوجائیں۔

عملداران و ارکان: میں خانۂ حکمت، ادارۂ عارف، اور بی۔آر۔اے کے تمام عملداران و ارکان کو (جو شرق و غرب میں ہیں) ایسا مشتاقانہ اور محبّانہ سلام کرنا چاہتا

۶

ہوں کہ اس میں مونو ریالٹی کے جملہ اعلٰی معانی مرکوز ہوں، کیونکہ آج ہمیں اور ہمارے ادارے کو جو ترقی نصیب ہوئی ہے، وہ ان سب کی دم قدم کی برکت سے ہے، ان شاء اللہ، ان کے لئے اسرارِ معرفت منکشف ہوجائیں گے، اور خداوند قدّوس اپنی رحمتِ بے نہایت سے ان کو دنیا و عقبیٰ میں نوازے گا، ان کو نسل در نسل امام اقدس و اطہر کی علمی خدمت سے وابستہ رکھے گا، آمین!

سَرَابِیۡل = کُرتے: یعنی ایسے اجسامِ لطیف جو فلکی اور معجزاتی ہیں، جن کو نہ تو گرمی، سردی، خشکی، اور تری سے کوئی مزاحمت ہوسکتی ہے، اور نہ ہی کوئی جنگ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہے، خواہ وہ ایٹمی وار کیوں نہ ہو، یہ کائناتی لباس بموجب ارشاد قرآنی (۱۶: ۸۱) اہل ایمان کے لئے خاص ہیں، اسی لباس کا ایک اور نام دِفۡءٌ ہے (۱۶: ۵) ہمارے عزیزوں کے پاس علم الیقین کا بڑا ذخیرہ موجود ہے، اس لئے وہ اس راز سے بھی آگاہ ہیں کہ یہ معجزانہ کرتے یعنی انسان کامل کے ھیاکل منزل عزرائیلی اور مرتبۂ عقل پر بنتے ہیں، یہاں اس عجیب و غریب حکمت کو بھی یاد رکھیں کہ حدود دین کی ایک مثال قرآن حکیم میں حلال چوپایوں سے دی گئی ہے (۱۶: ۵)۔

عالم خلقی اور عالم امری: سورۂ اعراف (۷: ۵۴) میں ارشاد ہے: اَلَا لَهُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُؕتَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔ خبردار ہو! (عالمِ) خلق اسی کا ہے اور (عالمِ) امر اسی کا ہے، بڑا بابرکت ہے اللہ، سارے جہانوں کا پروردگار۔ یعنی خلق عالم جسمانی ہے، جس کی ہر چیز کچھ وقت کے بعد پیدا ہوتی ہے، اور امرعالم روحانی ہے، جہاں ہر شئی امرِ کن (ہوجا کے حکم) سے کسی تاخیر کے بغیر وجود میں آتی ہے، پیدائش کے ان دونوں

۷

طریقوں میں رحمت اور علم کی گونا گونی اور فراوانی ہے۔

حق سبحانہٗ و تعالٰی کن (ہوجا) فرمائے یا صرف ارادہ فرمائے، بہر کیف خواستہ چیز وجود میں آتی ہے، یہاں یہ نکتۂ دلپذیر بھی خوب یاد رہے کہ خداوند قدّوس کا ہر حکم “امرِ کن” ہی کی طرح ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ قادرِ مطلق اور فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُ (۸۵: ۱۶) ہے، لہٰذا وہ جب جب کسی کام کا حکم فرماتا ہے تو اس کی تعمیل عالم امر میں کسی تاخیر کے بغیر فورًا ہی ہوجاتی ہے، ہر چند کہ عالم خلق میں اس کے لئے وقت لگتا ہے۔

گنجینۂ حدیثِ قدسی: ارشاد ہے: اے ابن آدم! میں نے تجھ کو ہمیشہ کے لئے پیدا کیا ہے، اور میں خود زندۂ لا فانی ہوں، میری اطاعت کر جس چیز کے لئے میں تجھے امر کرتا ہوں، اور رک جا جس چیز سے میں تجھے روکتا ہوں، تاکہ میں تجھ کو ایسی حیات عطا کروں گا کہ تو کبھی نہیں مرے گا، اے ابن آدم! میں یہ قدرت رکھتا ہوں کہ کسی چیز کے لئے فرماؤں “ہوجا” تو وہ ہوجاتی ہے، میری اطاعت کر جس چیز کے لئے میں تجھے امر کرتا ہوں، اور رک جا جس چیز سے میں تجھے روکتا ہوں تاکہ میں تجھے یہ قدرت دوں کہ تو کسی چیز کے لئے کہے کن (ہوجا) اور وہ ہوجائے گی (اِسی کتاب میں ملاحظہ ہو: حَیّ۔ بحوالۂ رسائل اِخوانُ الصّفاء، جلد اوّل، الرّسالۃ التّاسعۃ، ص۲۹۸)۔

بھری ہوئی کشتی: سورۂ یاسین (۳۶: ۴۱) میں ارشاد ہے: وَ اٰیَةٌ لَّهُمۡ اَنَّا حَمَلۡنَا ذُرِّیَّتَهُمۡ فِی الۡفُلۡكِ الۡمَشۡحُوۡنِ۔ ظاہری ترجمہ: اور ان کے لئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا۔ باطنی ترجمہ: اور ان کے لئے یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ ہم نے ان کے ذرّاتِ روح کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر

۸

دیا، کسی کی نسل یا اولاد ماضی میں نہیں بلکہ حال اور مستقبل میں ہوتی ہے، لہٰذا یہاں یہ کہنا درست ہے کہ ذرّیت سے ذرّاتِ روح مراد ہیں جو خدا کے حکم سے حضرتِ نوح علیہ السّلام کی روحانی کشتی میں سوار تھے، اور اس میں بھی ایک بہت بڑا راز ہے۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے نورِ عین من! آپ حقیقی علم کے مدارج میں بلند سے بلند تر ہوکر اس سرّ عظیم کا یقین کامل حاصل کرلیں کہ آپ اپنی انائے علوی میں ہمیشہ اصل سے واصل بھی ہیں، اور انائے سفلی سے دنیا میں بھی آئے ہیں، چنانچہ جب آپ خدا کی رحمت سے بحر علم پر کشتی اور کشتیبان کو دیکھیں گے تو آپ پر یہ راز معرفت بتدریج منکشف ہوجائے گا کہ صاحبِ کشتی نفس واحدہ ہے جس میں سب ہیں، اور اس معنیٰ میں یہ بھری ہوئی کشتی ہے، یعنی کشتی میں جو پاک ہستی ہے، وہ ہر طرح سے کامل و مکمل اور اناہائے علوی سے مملو ہے، پس فُلکِ مشحون میں سوار ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آپ کو یقین آیا کہ آپ پہلے ہی سے اُس میں ہیں۔

تخت یا کشتی؟: قرآن حکیم یا عالم شخصی کی روشنی میں اللہ تعالٰی کا ارضی تخت (عرش) پانی پر تھا، ہے، اور ہوگا (۱۱: ۷)۔ یہی مثالی تخت یقیناً کشتی بھی ہے، اور ایسی قرآنی مثالوں میں ہمارے علم و عمل کی زبردست آزمائش ہے، اور دوسری مثال کے مطابق خداوندِ قدّوس کا عرش عالمِ علوی میں ہے، یاد رہے کہ دینِ حق کی آخری منزل (منزلِ مقصود) معرفت ہی ہے، معرفت دیدار کے بغیر نہیں، دیدار خود شناسی کے بغیر نہیں، خود شناسی روحانی سفر کے بغیر نہیں، روحانی سفر اسماء الحسنٰی کے بغیر نہیں، اسماء الحسنٰی رسولؐ خدا کے برحق جانشینؑ ہی کی تعلیم سے حاصل ہوسکتے ہیں، الحمد اللہ ربّ العالمین۔

ن ن (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات ۳۔ جمادی الثّانی ۱۴۱۷ھ  ۱۷۔ اکتوبر ۱۹۹۶ء

۹

انتساب

برزرگانِ دین نے فرمایا ہے کہ قیامت کا دور برکات و کرامات کا دور ہوگا، اور اس میں علمی قحط دُور ہوگا۔ الحمد للہ ہمارا زمانہ وہی بابرکت و کرامت کا زمانہ ہے، جس طرح دنیاوی علم میں روز بروز ترقی ہوتی جارہی ہے، اس سے کہیں زیادہ روحانی اور قیامتی علم میں ترقی ہوتی جارہی ہے، اس مقدس علم کو پھیلانے میں بہت سے مخلص اور جانّثار مؤمنین و مؤمنات نے گونا گون قربانیاں دی ہیں، ان ہی مؤمنین و مؤمنات میں جماعت مومنہ کا مقام نہایت ممتاز اور بلند ہے، اسی جماعت میں سے ایک سربرآوردہ خاندان جناب قاسم علی وزیر مومن کا ہے، جناب قاسم علی اور آپ کی شریکۂ حیات محترمہ لاڈچی بائی قاسم علی مومن نہایت ہی خوش نصیب ہیں کہ آپ دونوں کی نیک بخت اولاد سب کی سب علمِ امامت و قیامت کی ترقی و ترویج کی بے لوث خدمت میں شب و روز لگی ہوئی ہے، آپ کا خاندان دانشگاہِ خانۂ حکمت کی جان کی طرح ہے، آپ کی اولاد میں عزیزم غلام مصطفٰی مومن جو کہ اس ادارے کے آئی۔ ایل۔ جی اور فرسٹ انٹرنیشنل پریذڈنٹ ہیں، کی خدمات دوسرے سربرآوردہ عزیزوں کی طرح خانۂ حکمت کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھی جائیں گی۔ دوسری خدمات کے علاوہ آپ نے اس سے پہلے بھی کئی ایک کتابوں کی طباعت و اشاعت کی سرپرستی کی ہے۔ اس مرتبہ آپ نے کتابِ مستطاب ہزار حکمت کی طباعت و اشاعت کی سرپرستی کی ہے، کتابِ مذکور قیامتی علم کا بیش بہا خزانہ ہے، ان شاء اللہ اس خدمت سے جماعت اور انسانیت کو بہت علمی فائدے حاصل ہوں گے، کتاب ہٰذا کا یہ انتساب آپ اور آپ کے بابرکت خاندان کے نام لکھا جاتا ہے:

عزیزم غلام مصطفٰی مومن ILG، پریزنڈنٹ BIG اور آپ کے خاندان کے اسمائے گرامی:

۱۰

والد محترم: قاسم علی وزیر مومن، جماعتی مجالس میں موکھی اور کامڑیا، جماعتی والینٹئیر اور ممبر آمین آباد، حیدر آباد ایجوکیشن بورڈ۔

والدۂ محترمہ: لاڈچی بائی قاسم علی مومن، جماعتی والینٹئیر

بیگم: ممتاز مومن ILG، ایچ۔ ڈی۔

بیٹی: نعئیہ مومن ILG، اے۔ ایل۔

آپ کے بھائی:

امیر علی مومن، ریلیجئیس ایجوکیشن ٹیچر اور والینٹئیر؛ بیگم: حمیدہ امیر علی مومن، جماعتی والینٹئیر؛

بیٹی: صبا مومن؛ بیٹا: سلمان علی مومن، جماعتی والینٹئیر؛ بیٹا عاشق علی مومن، جماعتی والینٹئیر، نور الدّین مومن ILG، ایڈوائزر B.R.A، جماعتی والینٹئیر، بیگم: الماس (ناہید) مومن ILG، ایچ۔ ڈی؛ جماعتی والینٹئیر؛ بیٹا: زین العابدین مومن، ایل۔ اے

ظاہر علی مومن: ILG، خزانچی BIG؛ بیگم: سارہ ظاہر علی مومن ILG، ایچ۔ ڈی؛ بیٹا: اسد ظاہر علی مومن ILG، ایل۔ اے؛ بیٹا: سنان ظاہر علی مومن ILG، ایل۔ اے

آپ کی بہنیں:

زرینہ؛ شوہر: جعفر علی کریم علی؛ بیٹا: ابوذر جعفر علی؛ بیٹی: انیلہ سلمان؛ بیٹی: گل آفتاب جعفر علی؛ بیٹا: رحیم جعفر علی

زبیدہ: شوہر: لیاقت علی نور علی؛ بیٹی: صائمہ لیاقت علی؛ بیٹا: فرید لیاقت علی؛ بیٹا: ریحان لیاقت علی

یاسمین؛ شوہر: مصطفٰی ولی محمد؛ بیٹا: نعمان مصطفٰی؛ بیٹا: سلمان مصطفٰی

خداوندِ ربّ العزّت جملہ افرادِ خاندان کو سعادتِ دارین سے نوازے! آمین یا ربّ العالمین!

نصیر الدّین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)

منگل ۱۴۔ جون ۲۰۰۵ء

۱۱

خدمتِ ہزار حکمت

سورۂ محمّدؐ کے اس ارشاد (۴۷: ۷) میں ہر گونہ دینی خدمت قدر و قیمت میں گویا آسمان پر اٹھالی گئی ہے، وہ ارشاد مبارک یہ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَنۡصُرُوا اللّٰهَ یَنۡصُرۡكُمۡ وَ یُثَبِّتۡ اَقۡدَامَكُمۡ۔ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا، اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔ انسان ضعیف البنیان حق سبحانہٗ و تعالٰی کے کسی کام میں مدد نہیں کرسکتا، لیکن یہ دینی خدمت کی بہت بڑی اہمیت کی دلیل ہے کہ خداوند قدّوس نے نوازش فرمائی اور اپنے ہی غلاموں کی غلامی کو اتنا بلند درجہ عطا کیا، اور اپنی طرف سے آسمانی اور روحانی مدد کے ساتھ ساتھ نیک کاموں میں ترقی دینے کا وعدہ فرمایا۔

اس قرآنی تعلیم سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ دینی خدمت بہت بڑی عبادت ہے، خصوصاً علمی خدمت کہ وہ ہمہ رس اور عالمگیر وسعتوں کی حامل ہے، اور جہالت و نادانی کے خلاف سب سے مؤثر جہاد ہے، کیا آپ غور نہیں کرتے ہیں کہ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں علمی جہاد کا اشارہ موجود ہے، جبکہ اس میں “نصرت” اور “ثابت قدمی” جیسی جنگی اصطلاحیں آئی ہیں، چنانچہ لفظ نصرت قرآن میں فتح سے پہلے بھی آیا ہے (۱۱۰: ۱) اور بعد میں بھی (۴۸: ۱ تا ۳) پس نصرت اللہ کی وہ مدد ہے جو آسمانی اور روحانی لشکر سے مومنین کو حاصل ہوتی ہے، اور ثابت قدمی لغزش کے بغیر آگے بڑھنے کو کہتے ہیں، اس کا مطلب ہے نیک کاموں میں خصوصًا علمی جہاد میں مستقل مزاجی سے ترقی کرنا۔

۱۲

اَنۡصَارُ اللہ = خدا کے مددگار: سورۂ آلِ عمران (۳: ۵۲) میں دیکھ لیں: جب عیسٰی نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں تو اس نے کہا “کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہوتا ہے”؟ حواریوں نے جواب دیا: “ہم اللہ کے مددگار ہیں”۔ اَنۡصَارُ اللہ (خدا کے مددگار) کتنا عالیشان ٹائٹل ہے، ایسے مومنین زمانۂ نبوّت میں بھی تھے، اور ہر امام کے بھی انصار ہوا کرتے ہیں، اس کا مطلب ہے خادمین، (خدمت کرنے والے) الغرض قرآنِ عزیز کی بہت سی آیاتِ مقدّسہ میں دینی خدمت کی تعریف آئی ہے، اور اس حقیقت میں کوئی شک و شبہ ہو ہی نہیں سکتا۔

سوال: اگر شیطان کا ایک نام مُضِلّ (گمراہ کن = گمراہ کرنے والا) ہے تو یہ کن لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہے اور کن کو گمراہ کرسکتا ہے؟ جواب: شیطان کا خاص حملہ ان لوگوں پر ہوتا ہے جو صراط مستقیم پر روان دوان ہوتے ہیں، لیکن وہ اس میں صرف کسی کمزور مومن کو پھسلا کر گمراہ کرسکتا ہے، جس کے پاس حقیقی علم نہ ہو، اور جو عالی ہمّت مومنین علم حقیقت کے اسلحہ سے لیس ہیں، ان کے سامنے شیطان کا دامِ تزویر تارِ عنکبوت ہی کی طرح ہے۔

قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ ہر چیز میں علم ہے، سب سے پہلے خود قرآن کی ہر چیز میں زبردست علم ہے، یعنی قرآن پاک میں کوئی آیت یا کوئی کلمہ ایسا نہیں، جس کے معنی میں علم و حکمت کے عجائب و غرائب پنہان نہ ہوں، مثال کے طور پر لعنت کے مختلف صیغے قرآن میں ۴۱ بار آئے ہیں، مجھے یقین کامل ہے کہ ان مقامات میں کہیں بھی یہ حکم نہیں کہ تم شیطان یا کسی اور مخلوق پر لعنت بھیجو، کیونکہ لعنت در اصل دوری کے معنی میں ہے، جیسے اللّعین (دور کرنے والا) اُس ڈراوے کو کہتے ہیں جو فصل سے پرندوں کو دور کرنے کی غرض سے کھیت میں قائم کیا جاتا ہے، جس کو انگریزی میں (SCARECROW) کا

۱۳

نام دیا گیا، یہ چیز بروشسکی میں غہ قَلی اور ترکی میں غہ قُلی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ رحمت الٰہی سے دوری کا نام لعنت ہے، جو کسی بڑی نافرمانی سے واقع ہوتی ہے، نتیجۂ بد اعمالی کا ذمہ دار ہر شخص خود ہے نہ کوئی اور انسان، چنانچہ ارشاد ہے: اِنَّ اللہَ لَعَنَ الۡکٰفِرِیۡنَ (۳۳: ۶۴) (اہل کفر اللہ کی رحمت سے دور ہوچکے تھے اس لئے) خدا نے کافروں کو دور ہی رکھا۔ اللہ دعائے بد کے معنی میں کسی کے لئے لفظ لعنت استعمال نہیں کرتا، کیونکہ دعا اظہار حاجتمندی کے لئے ہے، اور خداوندِ عالم بے نیاز ہے، نیز لعنت لفظًا گالی نہیں بلکہ یہ تذکرہ، اعلان اور عبرت ہے شیطان وغیرہ کے بارے میں جو قانونِ مکافات کے مطابق رحمتِ خداوندی سے دور ہوچکے ہیں۔

سورۂ بقرہ (۲: ۱۵۹) میں ہے: جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن دلائل اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، یقین جانو کہ اللہ بھی انہیں دور ہی رکھتا ہے او دور رکھنے والے بھی ان کو دور ہی رکھتے ہیں۔ اس آیت میں لفظ “لَا عِنُوۡن” غور طلب ہے کہ یہ حضرات کون ہیں؟ فرشتے ہیں یا بشر؟ اگر بشر ہیں تو عوام ہیں یا خواص؟ جوابًا عرض ہے کہ کسی صفت میں خدا کے بعد رسولؐ کا مرتبہ آتا ہے اور اس کے بعد آپؐ کے جانشینوں کا ذکر جمیل آتا ہے، پس یہ حقیقت ہے کہ دور شدہ لوگوں کو دور ہی رکھنے والے حضرات محمّد و آلِ محمّد صلوات اللہ علیہ و علیہم اجمعین ہیں، جو اللہ تعالٰی کی رحمت اور علم کے خزائن ہیں، اور بحقیقت انہی کی نسبت سے کسی کی نزدیکی یا دوری کا تعیّن ہوسکتا ہے۔

سورۂ مائدہ (۵: ۷۸) میں ہے: بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ان پر داؤدؑ اور عیسٰی ابنِ مریم کی زبان سے لعنت کی گئی۔ یعنی جب ان لوگوں نے کفر کیا تب فورًا ہی وہ خود بخود رحمت الٰہی سے دور ہوگئے، اب اس کے بعد ان کے

۱۴

حق میں کسی پیغمبر کی زبان سے لعنت کہنا صرف اس واقعہ کا اعلان ہی ہے تاکہ اہل ایمان ایسے لوگوں سے خود کو بچائے رکھیں۔

اس مثال ہر دانشمند کو اندازہ ہوگا کہ تاویلی حکمت کے بغیر بے شمار پیچیدہ مسائل کا کوئی حل ہے ہی نہیں، پس ہم کو جس طرح امامِ آلِ محمّدؐ کے مقدّس در سے دریوزہ ملتا ہے، اسی طرح سعی کی گئی تاکہ بعض پرسیدہ یا نا پرسیدہ سوالات کی حکمتی تحلیل ہوجائے، کوئی باور کرے یا نہ کرے لیکن یہ ایک امرِ واقعی ہے کہ جس حکمت کے ساتھ خیر کثیر وابستہ ہے (۲: ۲۶۹) وہ صرف اور صرف حضرت امامؑ ہی کی مرتبتِ نورانیت سے مل سکتی ہے، دوستانِ عزیز! ہاں یہ حق بات ہے کہ علیٔ زمان صلوٰت اللہ علیہ کے بے شمار علمی معجزات ہوا کرتے ہیں، اور جس شخص کو خوش بختی سے ان کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن اور امام کی علمی خدمت کرے، لہٰذا اس مقدس عملی فرمان کو بجا لانے کے لئے ناچیز سی کوشش کی گئی، اور اس کارِ خیر میں مدد کے لئے دوستوں کو بلایا۔

الحمد للہ، میرے دوستانِ عزیز بہت ہی ہیں، لیکن میں آج ایک ایسے جانی، جگری اور روحانی دوست کا ذکر جمیل کر رہا ہوں جو تقریبًا ربع صدی سے اس علمی خدمت میں شامل ہیں، ایک عرصہ ہوا وہ خانۂ حکمت کے نائب صدر ہیں، اور اب آپ لائف گورنر بھی ہیں، یہ بہت پیارا تذکرہ عزیز تر از جانم نصر اللہ ابنِ موکھی قمر الدّین (مرحوم) ابنِ موکھی رحیم کا ہے، نائب صدر اور گورنر نصر اللہ اُن صف اوّل کے عاشقوں میں سے ہیں، جن کو نہ صرف مولا سے عشق ہے بلکہ مولا کے نورانی علم سے بھی عشق ہے، اور آسمانی عشق کا یہ کمال ہے کہ اس میں اخلاق اور دین کی ساری خوبیاں خود بخود جمع ہوجاتی ہیں، عزیزم نصر اللہ کی بیگم محترمہ امینہ فرسٹ گورنر بڑی دیندار اور عبادت گزار ہیں، ان کے برادرِ محترم اکبر راجن صاحب نے ہماری ۲۵ سے زیادہ کتابوں کا گجراتی میں ترجمہ کیا ہے۔

۱۵

میرے عزیز دوست نصر اللہ کی بڑی دخترِ نیک اختر یاسمین سیکنڈ گورنر، بی۔ اے فائنل کی سٹوڈنٹ ہیں، ان کو انسانی شرافت اور مذہبی عقیدت کی لا زوال دولت پیارے والدین سے مل گئی ہے، نصر اللہ کی دوسری سعادت مند بیٹی فاطمہ سیکنڈ گورنر، انٹر کے بعد اب نرسنگ کے تیسرے سال میں ہیں، ان کو بھی شرافت و عقیدت کی وہ بیمثال دولت حاصل ہے، اور تمام افرادِ خاندان حقیقی علم کے شیدائی ہیں، اور نصر اللہ کی سب سے چھوٹی اولاد جو نیک بختی سے سیکنڈ گورنر ہے، وہ پیارے امین ہیں، جو میٹرک کرکے کالج میں داخل ہوگئے ہیں، جن کو “شاعر خانۂ حکمت” کا ٹائٹل مل گیا ہے، کیونکہ آپ بچپن ہی سے اردو شاعری کرنے لگے ہیں، مجھے یہ سب بہت ہی عزیز ہیں، ان شاء اللہ، تینوں پیارے بچے بہت ترقی کریں گے۔

اچھی سِفارش کرو: یعنی تمام دنیا والوں کے حق میں عفو و مغفرت کی دعا کرو، جیسے فرشتے اہل زمین کے لئے اللہ سے معافی مانگتے ہیں (سورۂ شوریٰ ۴۲: ۵) اور کوئی بری سفارش کبھی نہ کرنا، یعنی کسی کی بدخواہی ہرگز نہ کرنا، کسی کو گالی نہ دینا، اور نہ کوئی بد دعا قلب و زبان سے نکالنا، سنو، دیکھو، اور پڑھو، اس باب میں قرآن عزیز کیا فرماتا ہے: جو شخص اچھی سفارش کرے اس کو اس کی وجہ سے حصّہ ملے گا اور جو شخص بری سفارش کرے اس کو اس کی وجہ سے حصّہ ملے گا (۴: ۸۵)۔

ھماری دانشگاہ: خداوند قدّوس کے فضل و کرم سے اب ہماری دانشگاہ بڑا زبردست اور بے مثال کام کر رہی ہے، قرآنی حکمت کی جتنی بھی تعریف کریں وہ بہت ہی کم ہے، جبکہ خیرِ کثیر اسی کے ساتھ ہے، پس کتنی بڑی سعاتمندی اور خوش نصیبی ہے ان عزیزوں کی جو اس دانشگاہِ حکمت میں شب و روز آنریری خدمت بھی کرتے ہیں، سیکھتے بھی

۱۶

ہیں، اور دوسروں کو سکھاتے بھی ہیں، نیز کتب وغیرہ کے ذریعے کئی ممالک میں علم کی روشنی پھیلاتے بھی ہیں، پھر ایسے میں ان کی زبردست علمی ترقی کیوں نہ ہو۔

میں یہاں موقع و محل کی مناسبت سے سنہری خدمات اور علمی ترقی کا ایک بڑا عمدہ نمونہ پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ ایک لائق و دانشمند شخصیت ہے، گریہ و زاری و مناجات میں اپنی مثال آپ، ہوشمندی میں منفرد، ہمہ جہت خدمت میں یکتا، تقریر میں خوش بیان، تحریر میں خوش رقم، وہ ہیں سیکریٹری، ریکارڈ آفیسر، اور فرسٹ گورنر محترمہ زہرا بنت جعفر علی، جنہوں نے “ہزار حکمت” کو آگے بڑھانے کی غرض سے شب و روز جان فشانی سے کام کیا، اس تاویلی انسائیکلوپیڈیا کے ہزار عنوانات کا منظم انڈیکس بنانا اور ہزار سے زیادہ بکھری ہوئی حکمتوں کو اوراق میں سے کاٹ کاٹ کر ٹھیک تعداد اور حروف تہجی کے مطابق رجسٹر میں چسپان کرنا آسان کام نہ تھا، الغرض ادارے میں سب کو معلوم ہے کہ سیکریٹری زہرا شدید محنت اور شوق سے کام کر رہی ہیں، آپ ۸۷۔ ۱۹۸۶ء سے خانۂ حکمت سے وابستہ ہوئی ہیں، انہوں نے فارسی میں ایم۔ اے کیا اور اب عربی زبان کے کورس میں ایڈوانس لیول پر ہیں۔

تاویلی انسائیکلوپیڈیا (ہزار حکمت) کی تصنیف سے مشرق و مغرب کے تمام عزیزان بیحد شادمان ہیں، کیوں نہ ہوں، جبکہ یہ کتاب قرآنی حکمتوں کی وجہ سے بیمثال ہے، اور اس کی افادیت آفاقی اور ہمہ رس ہے، لہٰذا ان سب کی خوشی بجا ہے، کیونکہ خداوند تعالٰی نے علیٔ زمان کی اس نیک نام آرمی کو تاویلی جنگ میں فتح و نصرت کی لا زوال دولت سے مالامال فرمایا ہے، شاید کسی عزیز کو اس امرِ عظیم کا اندازہ نہ ہو کہ حضرت قائم القیامۃ علیہ افضل التّحیۃ و السّلام کس عجیب و غریب طریقے سے اپنا کام کر رہا ہے۔

۱۷

مشرق و مغرب کے جملہ عزیزان، گلگت ریجنل برانچ اور متعلقہ برانچز کے اولو العزم، دانشمند، اور نامور عملداران و ارکان کے بیحد شکرگزار اور ممنون ہیں کہ انہوں نے نہ صرف اپنے ادارے ہی کو مضبوط و مستحکم اور معزّز و محترم بیانا، بلکہ بارہا اسماعیلی جماعت کے وقار کو بھی حکومت اور عوام کی نظر میں کما حقہٗ بلند و بالا کیا، اس سلسلے میں ہمارے دانا دوستوں نے جتنے بھی عظیم الشّان کارنامے انجام دئیے، ان سب میں یقینًا جذبۂ للّٰہیّت کارفرما تھا اور ان شاء اللہ ہمیشہ ایسا ہی ہوگا، اسی لئے بفضل خدا روحانی تائید ان کے ساتھ ساتھ رہتی ہے، وہ مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات کے بغیر کوئی کارنامہ شروع نہیں کرتے ہیں، ہم انتہائی عاجزی سے دعا کرتے ہیں کہ خداوندِ قدّوس دین و دنیا کے ہر نیک کام میں ان کی دستگیری اور تائید فرماتا رہے، وہ ان پر ہمیشہ مہربان ہو، آمین!!

اے عزیزانِ من! آپ سب کو ان عزیزوں کی جانب سے قلبی مبارکباد کی دعا ہو جو پاکستان، لنڈن، فرانس، امریکہ، کنیڈا وغیرہ میں رہتے ہیں کہ آپ کو حق تعالٰی نے جو میدان عمل عطا کیا ہے وہ بیمثال ہے، اور جو جو قوّتین اور قابلیتیں عنایت فرمائی ہیں وہ بھی لاثانی ہیں، الحمد للہ، ہم سب ایک ہیں، یہ رسمی بات نہیں بلکہ حقیقت ہے یعنی مونو ریالٹی کا اشارہ ہے جو گنج ازل ہے، اور یہ سرِّ عظیم اس دنیا میں کتنے لوگوں کو معلوم ہے؟

اے دوستانِ عزیز! جو شرق و غرب میں مقیم ہیں آپ دل و جان سے قرآنی حکمت کی خدمت کرتے رہیں، کیونکہ خیرِ کثیر کا خزانۂ بے پایان اسی میں ہے، اب وقت آچکا ہے کہ دنیا کی کوئی خوش نصیب یونیورسٹی قرآنی حکمت اور روحانی سائنس کی طرف توجّہ دینے میں دوسروں سے سبقت کرے، ان شاء اللہ، یہ اوّلیت و سبقت کنیڈا اور امریکہ کی سینئیر یونیورسٹی کو حاصل ہوئی ہے، دعا ہے کہ روحانی سائنس کی

۱۸

آواز سے آفاق و انفس گونج اٹھیں! اور اہل جہان کو اس کے بے شمار فوائد حاصل ہوں! آمین یا ربّ العالمین!!

نصیر الدّین نصیر ہونزائی

کراچی

بدھ ۱۶۔ جمادی الثّانی ۱۴۱۷ھ   ۳۰۔ اکتوبر ۱۹۹۶ء

۱۹

اے قلم جُنبشِ ازل ہے تو

بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِط۔ اس آیۂ کریمہ کو سورۂ لقمان (۳۱: ۲۷) میں پڑھ لیں، جس کا ترجمہ یہ ہے: اور جتنے درخت زمین بھر میں ہیں اگر وہ سب قلم بن جائیں اور یہ جو سمندر ہے اس کے علاوہ ساتھ سمندر اور (روشنائی) ہوجائیں تو بھی کلماتِ خدا ختم نہ ہوں گے۔ یعنی کلمات تامّات جو علم الٰہی کے بے پایان خزائن ہیں۔

یا ربّ العالمین! اپنے محبوب رسولؐ محمّدؐ و آلِ محمّدؐ کی حرمت سے ہم خاکسار بندوں کو آسمانی عشق میں اشکبار اور ان بے شمار نعمتوں پر شکرگزار بنا دے، اے دانا و بینا! ہم سخت بیمار ہیں، کمزور اور عاجز ہیں، ہم کو عشق سماوی جیسی زبردست دوا چاہیے، یعنی خدا، رسولؐ اور امامِ زمانؑ کا پاک و پرحکمت عشق، وہ مقدّس و مبارک عشق جس میں عقل و جان کی معموریت و آبادی کے لئے بے حساب رحمتیں اور برکتیں پوشیدہ ہیں۔

دوستانِ عزیز! آؤ، ہم سب مل کر بارگاہِ ایزدی میں دعا، مناجات، اور گریہ و زاری کریں، دل کھول کر عشق کے آنسو بہائیں، اُسی حالت میں سجدہ ریز ہوجائیں، ہر قسم کی رنجش کو بھول جائیں، تمام لوگوں کے حق میں نیک دعائیں کریں، اور زیادہ سے زیادہ علمی خدمت کے لئے کمربستہ ہوجائیں، کیونکہ وہ سب سے اعلٰی اور سردار بلکہ بادشاہ خدمت ہے جو خادموں کو نہ صرف مخدوم (آقا و مالک) بنا سکتی ہے، بلکہ ان شاء اللہ فردا بہشت میں سلطان بھی بناسکتی ہے، آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں خوب سوچ سمجھ کر اس کی وجہ معلوم کر سکتے ہیں کہ علمی خدمت کا اتنا عظیم ثواب کیوں ہے؟

۲۰

اس دائرے میں بیمثال خدمت: یہ تو مان لیا کہ اس دنیا میں قرآنی حکمت کی مقدّس خدمت کے برابر کوئی اور خدمت ہو ہی نہیں سکتی، لیکن اب ہمارے عزیزوں کو یہ جاننا ہے کہ اس علمی خدمت کے دائرے میں جو جو خدمات داخل و شامل ہیں، ان سب میں اوّلیت اور سب سے بڑی اہمیت کس خدمت کو حاصل ہے؟ سچ سچ بتانا ہوگا کہ وہ حضراتِ مترجمین کی زرّین خدمات ہیں، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ہر ترجمہ بڑا مفید کارنامہ ہے، تاہم عالمگیر اور ہمہ رس ترجمہ وہ ہے جو عالمی (انگریزی) زبان میں ہے، جس کی برکت سے ہمیں بہت سی کامیابیاں نصیب ہوئیں، جس کے لئے ہم سب جناب پروفیسر ڈاکٹر فقیر محمّد ہونزائی صاحب، ان کی فرشتہ خصلت بیگم محترمہ رشیدہ نور محمد ہونزائی (صمصام) اور ان کے عزیز جان نثار ساتھیوں کے شکرگزار اور ممنون ہیں۔

میں آج یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پروفیسر ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی دنیا کے سب سے بڑے ربّانی عالم ہیں، ان کے پاس اسرارِ قرآن اور رموز عرفان کا ایک بڑا خزانہ موجود ہے، وہ عابد و ساجد اور شب خیز درویش ہیں، ان کی دعائے سحر آسمان کی بلندیوں سے بھی اوپر جاتی ہے، کیونکہ وہ نور کے ایسے عاشق ہیں جو طفل شِیر خوار کی طرح معصومانہ گریہ و زاری کرتے ہیں، ان کا حسن ظن یہ ہے کہ میں استاد ہوں، لیکن استاد کوئی اور ہے، اور ہم دونوں اُسی مکتب کے شاگرد ہیں اور بہت سے حضرات بھی، ان شاء اللہ اور بھی امامِ عالی مقامؑ کے علمی خزانے پیدا ہوں گے۔

وصیتِ رسولؐ کا ایک حصّہ: معاشر النّاس: ھذا علی بن ابی طالب خلیفۃ اللہ فیکم و خلیفۃ کتابہ المنزل علیکم….. کان من الاخٰسرین۔

۲۱

اے گروہانِ مردم! یہ علی ابن ابی طالب ہے جو تمہارے باطن میں (فیکم) خدا کا خلیفہ ہے، اور اس کی کتاب (قرآن) کا خلیفہ اور نمائندہ ہے، جو تم پر نازل ہوئی ہے، اور یہ اس کا وہ دروازہ اور حجاب ہے، جس کے سوا قرآن میں (بحقیقت) کوئی داخل ہی نہیں ہوسکتا، اور یہ میرے بعد برپا ہونے والا ہے، اور تم میں میرا جانشین ہے، پس تم اس کی بات سن لو اور اس کی اطاعت کرو، جو اس کی اطاعت اور محبت کو اختیار کرے، وہ بلند مرتبہ لوگوں میں شامل ہوگا، اور عالم علوی کی طرف چڑھ جائے گا، اور جو اس کی مخالفت اور نافرمانی کرے تو وہ سب سے زیادہ خسارہ اٹھانیوالوں میں سے ہوگا۔ (کتابِ سرائر، ص۱۱۵)

دعائے نوحؑ کی حکمت: سورۂ نوح کے آخر (۷۱: ۲۶ تا ۲۸) میں میں ہے: اور نوحؑ نے عرض کی پروردگارا! (ان) کافروں میں سے روئے زمین پر کسی کو بسا ہوا نہ رہنے دے، کیونکہ اگر تو ان کو چھوڑ دے گا تو یہ (پھر) تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی اولاد بھی بس گنہگار اور کٹی کافر ہی ہوگی۔ یعنی روحانی قیامت کی کار فرمائی سے اہل زمانہ کے نمائندہ ذرّات حضرت نوح علیہ السّلام کے عالم شخصی میں اس طرح بسنے لگے کہ اب ان میں کوئی کافر نہ تھا۔

پروردگارا! مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو مومن میرے (باطنی) گھر میں داخل ہو جائے اس کو اور تمام ایماندار مردوں اور مومنات کو بخش دے، اور ظالموں کی بس تباہی کو اور زیادہ کر۔ اس میں ایک بہت بڑی حکمت یہ ہے کہ بعض مومنین حقیقی ایمان کے درجۂ کمال سے اپنے پیغمبر کے باطنی اور نورانی گھر میں داخل ہوکر اہل بیت میں سے ہوجاتے ہیں، جیسے سلمان فارسی  کو یہ مرتبہ حاصل ہوا تھا۔

نصیر الدّین نصیر (حبّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل ۸۔ جمادی الثّانی ۱۴۱۷ء      ۲۲ اکتوبر ۱۹۹۶ء

۲۲

باب الالف

۲۳

مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

۲۴

۲۵

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۱

اٰتٰکُمۡ

   

تم کو دیا:

اور تم کو ہر چیز میں سے جو تم نے مانگی (۱۴: ۳۴) خدا سے مانگنا زبانِ قال سے بھی ہے اور زبان حال سے بھی، اور اس کا عطا کرنا فعلاً بھی ہے اور امکاناً بھی، بہرکیف اللہ نے اپنے بندوں کو بے شمار نعمتیں دی ہیں کہ ان کی گنتی غیر ممکن ہے۔

۲

اٰدمؑ

(۱)

   

ابو البشر:

اَکَانَ اٰدَمُ نَبِیًّا؟ قَالَ: نَعَمۡ کَلَّمَہُ اللہُ وَ خَلَقَہٗ بِیَدِہٖ۔ آنحضرتؐ سے پوچھا گیا، کیا آدمؑ پیغمبر تھے؟ فرمایا، ہاں اللہ تعالٰی نے ان سے کلام کیا تھا اور اُن کو اپنے دست خاص سے بنایا تھا۔

۳

اٰدمؑ

   

بہت سے آدموں میں سے ایک آدم:

قرآنی حکمت کا حتمی فیصلہ یہی ہے کہ فرشتے کسی اور چیز سے نہیں بلکہ ایسی ارواحِ انسانی سے پیدا کئے جاتے ہیں جن کو علم و عبادت میں کافی ترقی حاصل ہوئی ہو، درین صورت کوئی بھی آدم جو بھی مسجود ملائک ہو وہ بحقیقت انسانِ اوّل ثابت نہیں ہوسکتا، ہاں وہ اپنے دور کے اعتبار سے پہلا انسان اور ابو البشر کہلاتا ہے۔

۲۵

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۴

اٰفاق و انفس

   

عالمِ ظاہر اور عالمِ نفس:

اگر اللہ کی ظاہری نشانیوں کا نام مادّی سائنس ہے تو یقینًا باطنی نشانیوں کو روحانی سائنس کہا جاسکتا ہے، کیونکہ آفاق و انفس ان میں ظہور ہونے والی آیات سب کی سب خدا ہی کی ہیں (۴۱: ۵۳)۔

۵

اٰل ابرٰھیمؑ

   

ابراھیم کی اولاد:

ہم نے ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی ہے اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی (۴: ۵۴) آسمانی کتاب کی وراثت، تاویلی حکمت اور روحانی سلطنت اس دور میں أئمّۂ اٰلِ محمّدؑ کے سلسلۂ پاک میں ہے۔

۶

اٰیات

(۱)

   

نشانیاں/معجزات:

آج سے تقریبًا چودہ سو سال قبل قرآن پاک نے بڑی صاف و صریح زبان سے یہ پیش گوئی فرمائی تھی کہ عنقریب اللہ تعالٰی لوگوں کو آفاق و انفس میں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھانے کا سلسلہ شروع کرے گا، چنانچہ  ہم کسی شک کے بغیر یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی وہ نشانیاں آج مادّی سائنس اور اس کی ایجادات کی شکل میں لوگوں کے سامنے ہیں، اور یہی نشانیاں کل بحیثیتِ روحانی سائنس عالمِ شخصی میں اپنا حیرت انگیز

۲۶

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

کام کرنے والی ہیں (۴۱: ۵۳)

۷

اٰیات

(۲)

   

قدرتِ خدا کی نشانیاں:

یہ ارشادِ مبارک سورۂ ذاریات میں ہے: وَ فِی الۡاَرۡضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوۡقِنِیۡنَۙ۔ وَ فِیۡٓ اَنۡفُسِكُمۡؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) اور زمین میں اہل یقین (یعنی اہل معرفت) کے لئے نشانیاں (معجزات) ہیں اور خود تم میں بھی (یہ معجزات) ہیں، تو کیا تم دیکھتے نہیں؟ دوسری آیت پہلی آیت کی تفسیر و تاویل بھی ہے اور عالم نفسی کی طرف حکیمانہ دعوت بھی، کیونکہ موقن یا عارف صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جو پہلے پہل اپنے آپ کو پہچانتا ہے، اور اسی خود شناسی کے اسرار میں خدا شناسی (معرفت) پنہان ہوتی ہے۔

۸

اٰیات

(۳)

   

امامؑ جو خدا کی تمام نشانیوں کا مجموعہ ہے:

سوال: قدرت کی نشانیاں زمین کی نسبت آسمان میں بہت زیادہ بھی ہیں اور نمایان بھی، جیسے سورج، چاند، ستارے وغیرہ، پھر اس میں کیا راز ہے کہ مذکورہ آیۂ مبارکہ میں ارضی آیات کی اہمیت کا اشارہ فرمایا گیا ہے؟ جواب: اس میں یہ راز ہے کہ ہر انسان مجموعۂ آیاتِ کائنات اور نور منزّل (۵: ۱۵) کو پہچان لے جو اس کی ہدایت

۲۷

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

کے لئے زمین پر آیا ہوا موجود ہے، اور وہ امامِ مبین علیہ السّلام ہے، جس کی ذاتِ پاک میں سب کچھ موجود ہے۔

۹

اٰیات

(۴)

   

علمی معجزات:

بحوالۂ قلب قرآن یعنی سورۂ یٰسین (۳۶: ۱۲) خدائے قادر مطلق نے کمال قدرت سے اپنی عظیم و بے مثال بادشاہی کی تمام لطیف اور باطنی چیزوں کو امام مبین علیہ السّلام میں گھیر کر رکھا ہے، یہی چیزیں خلاصۂ کائنات و موجودات اور مجموعۂ آیات ہیں، پس اسی سرچشمۂ علم و حکمت اور خزانۂ اسرارِ معرفت (یعنی امامِ مبین) کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ: زمین میں اہل یقین کیلئے نشانیاں ہیں اور خود تم میں بھی (بحدِّ قوّت یہی معجزات) ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں (۵۱: ۲۱ تا ۲۲)؟

۱۰

اٰیات

(۵)

   

امام کی نورانی ہستی جس میں تمام آیات محدود کی گئی ہیں:

حضرت امیر المومنین علی علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا کہ: اَنَا اٰیَاتُ اللہِ وَ اَمِیۡنُ اللہِ۔ یعنی میں ہوں رحمتِ خدا کی آیات اور میرے پاس خدا کی علمی امانتیں ہیں۔ (کوکب درّی، بابِ سوم، منقبت ؀۸۰) آیات بمعنی نشانہائے قدرت یا معجزات چار مقامات پر ہیں: عالمِ علوی،

۲۸

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

قرآن حکیم، کائنات ظاہر، اور عالمِ شخصی، لیکن بفرمودۂ قرآن (۳۶: ۱۲) ان چاروں مقامات کی جملہ آیات امام مبینؑ کی نورانیت میں گھیری ہوئی ہیں، جبکہ امامِ عالی مقامؑ کا نورِ اقدس عالم بالا ہے، جبکہ وہ قرآنِ ناطق ہے، جبکہ وہ پاک ہستی خلاصۂ کائنات اور حقیقی معنوں میں پُرنور عالم شخصی ہے۔

۱۱

اٰیٰتٌم بیّنٰتٌ

   

روشن معجزات:

آیۂ شریفۂ پرُحکمت از سورۂ عنکبوت (۲۹: ۴۹) بَلۡ ھُوَ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ فِیۡ صُدُوۡرِ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ۔ بلکہ وہ (یعنی قرآن) روشن آیات (کا مجموعہ) ہےان لوگوں کے سینوں میں جن کو علم عطا ہوا ہے (۲۹: ۴۹) یہ حضرات جن کے مبارک سینوں میں قرآن کریم بصورتِ نورانی موجود ہوتا ہے اَئمّۂ اطہار علیہم السّلام ہی ہیں (دعائم السّلام، جلد اوّل، ولایتِ اَئمّہ)

۱۲

اَبَدۡ

(۱)

   

ھمیشہ، جمع آباد:

ہر چیز کی معرفت عالمِ شخصی کے حظیرۃ القدس میں ہے جبکہ وہاں علم و حکمت کی کائنات خداوند تعالٰی کے ہاتھ میں یکجا اور لپیٹی ہوئی ہے، پس یقین کرلیں کہ قرآن کریم میں جہاں جہاں اَبَدۡ کا ذکر آیا ہے وہاں

۲۹

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

اسی لفظ میں ازل کا تذکرہ بھی ہے، انشاء اللہ، ہم امام زمان علیہ السّلام کی دستگیری سے اس حقیقت کو بیان کریں گے۔

۱۳

اَبَدۡ

(۲)

   

ھمیشہ، جمع آباد:

یہ سب سے عظیم کنز اسرار یعنی حظیرۃ القدس امام مبینؑ کے نورِ جبین میں ہے، جہاں اللہ پاک نے تمام کی تمام عقلی، علمی، عرفانی اور روحانی چیزوں کو گھیر کر رکھا ہے، اور یہ نورِ اقدس برائے معرفت عارفِ کامل کی پیشانی میں طلوع ہوجاتا ہے، پس احاطۂ نورِ جبین میں ازل و ابد اور دیگر جملہ حقیقتیں جمع اور مرکوز ہیں۔

۱۴

اَبَدۡ

(۳)

   

ھمیشہ، جمع آباد:

قرآن حکیم کے جس پُرحکمت لفظ میں ازل و ابد کے ایک ہی معنی ہیں، وہ دَھَر (۷۶: ۱) ہے، یعنی آپ دَھَر (زمان ناگزرندہ) کو ایک اعتبار سے ازل اور دوسرے اعتبار سے ابد کہہ سکتے ہیں، حالانکہ حقیقت ایک ہی ہے، اے نورِ عینِ من! دھر کو پہچاننا انتہائی مفید کام ہے۔

آپ قرآنِ پاک کے سات مقامات پر لفظ مفعول کی حکمت کو دیکھ لیں

۳۰

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

کہ عالمِ علوی میں خدا کا ہر کام اور ہر وعدہ پورا ہوچکا ہے، اور جن لوگوں کے ازلی و ابدی طور پر بہشت میں ہونے کا ذکر ہے وہ بھی کسی ابتداء و انتہا کے بغیر ہمیشہ جنّت میں ہیں، یہ ازل و ابد کی ایک عمدہ تعریف ہے۔

۱۵

اِبداع

   

اختراع، ایجاد، نئی چیز نکالنا:

چونکہ ہر چیز کی معرفت عالمِ شخصی ہی میں ہے، اس لئے اِبداع اور کن (ہوجا) کی معرفت بھی اسی میں پوشیدہ ہے، چنانچہ کلمۂ کُن کا مفہوم ہر عالم شخصی کی زبان میں موجود ہے مگر درجۂ کمال پر ظاہر ہوجاتا ہے، کیونکہ قرآن میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اُس کا اطلاق ہر پرسنل ورلڈ پر ہوتا ہے، جبکہ ہر شخص میں ایک مکمل کائنات اور ایک لا زوال سلطنت پنہان ہے۔

۳۱

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۱۷

ابراھیمؑ

   

ابراھیمؑ، امامؑ، نفسِ واحدہ:

اللہ تبارک و تعالٰی اپنی قدرت کاملہ سے انسانِ کامل میں سب کو جمع کر دیتا ہے، جیسا کہ سوۂ نحل (۱۶: ۱۲۰) میں ارشاد ہے: اِنَّ اِبۡرَاھِیۡمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیۡفًا۔ بیشک ابراہیمؑ (اپنے عالمِ شخصی میں) ایک پوری امّت تھا، خدا کا فرمانبردار اور یک سو (۱۶: ۱۲۰) ایسا کامل اور مکمّل شخص نفس واحدہ کہلاتا ہے کہ وہ تمام نفوس کو اپنی ذات میں ایک کر لیتا ہے، اور یہ لوگوں پر اللہ تعالٰی کا بہت بڑا احسان ہے۔

۱۸

ابصار

   

آنکھیں:

ابصار سے اساس مراد ہے، کیونکہ روحانیت کا مشاہدہ اسی سے ہوتا ہے، آپ سورۂ سجدہ (۳۲: ۹) میں غور سے دیکھیں۔

۱۹

ابو طالبؑ

   

ابو طالبؑ:

وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُ بِاَنَّ دینَ مُحَمَّدٍ؛ مِنۡ خَیۡرِ اَدۡیَانِ الۡبَرِیَّۃِ دِیۡنًا۔ اور یقینًا مجھے معلوم ہوا ہے کہ محمدؐ کا دین ادیانِ خلائق میں سے بہترین دین ہے (ابو طالب مومن قریش از عبد اللہ الخنیزی، ص۱۶۱)۔

۳۲

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
ابوا المؤمنین   مومنین کے والدین:

رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے ارشاد فرمایا: انا و انت یا علی ابوا المومنین۔ اے علی! میں اور تم مومنین کے (روحانی) ماں باپ ہیں۔ یعنی ناطق اور اساس مومنین کے روحانی والدین ہیں، پھر اساس اور امام، پھر امام اور حجّت، اور دورِ قیامت میں خود امامِ زمان ہی مومنین و مومنات کے والدین ہے۔

(المجالس المؤیّدیّۃ، المنجد الاوّل)

۲۱

ابوابُ الجنّۃ

(۱)

   

مجموعی بہشت کے دروازے:

حدیث شریف میں ہے: ابوابُ الجنّۃ الثّمانیّہ۔ (مجموعی) بہشت کے دروازے آٹھ ہیں۔ (المعجم الفھرس لِالفاظِ الحدیثِ النّبویّ، الجز الۡاوّل، ص۳۰۲)۔ چونکہ بہشت آٹھ ہیں: چھ ناطق، حضرت قائم اور خلیفۂ قائم، لہٰذا ان کے ابواب (دروازے) بھی آٹھ ہیں، یہ حقیقت دورِ کبیر کے اعتبار سے ہے، اور دورِ صغیرکے لحاظ سے آٹھ بہشت یہ ہے: چھ امام، متم اور خلیفہ، پس ان کے ابواب بھی آٹھ ہیں (حوالۂ خلیفہ: آیۂ استخلاف: ۲۴: ۵۵)۔

۳۳

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۲۲

ابوابُ الجنّۃ

(۲)

   

بہشت کے آٹھ دروازے:

یہ آٹھ زندہ بہشت جن کا اوپر ذکر ہوا حاملانِ عرش بھی ہیں، جیسا کہ سورۂ حاقّہ (۶۹: ۱۷) میں ارشاد ہے: وَ یَحۡمِلُ عَرۡشَ رَبِّکَ فَوۡقَھُمۡ یَوۡمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ۔ اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اُس دن آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے (۶۹: ۱۷) اس آیۂ کریمہ سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ عرش (نورِ عقل=  خدا کی بادشاہی) اُن آٹھ عظیم حدود پر قائم ہے جن کا ذکر ہوا، چنانچہ یہی حاملانِ عرش بھی ہیں، اور آٹھ زندہ بہشت بھی، پس یقیناً مجموعی بہشت کے آٹھ دروازے ہیں۔

۲۳

ابوابُ الجنّۃ

(۳)

   

آٹھ حدودِ دین، دین کے آٹھ درجات:

عرش کا قیامت آٹھ درجات پر ہے: یعنی کرسی اور سات آسمان، یہ وہی حضرات ہیں جو آٹھ حاملانِ عرش بھی ہیں، اور آٹھ بہشت بھی، جن کے ابواب کو ابوابُ السّماء (آسمان کے آٹھ دروازے کہا گیا ہے، یعنی بہشت کے دروازے (۷: ۴۰) جیسے سورۂ اعراف میں ہے: بے شک جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور تکبر کیا نہ اُن کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ بہشت میں داخل ہونے پائیں گے، یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں ہوکر نکل جائے (۷: ۴۰)۔

۳۴

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۲۴

ابوابُ الجنّۃ

(۴)

   

بہشت کے آٹھ دروازے:

خدائے علیم و حکیم نے سورۂ نبا (۷۸: ۱۲) میں یہ ارشاد فرمایا ہے: وَ بَنَیۡنَا فَوۡقَکُمۡ سَبۡعًا شِدَادًا۔ اور ہم نے تمہارے اوپر سات سخت (آسمان) بنائے۔ شداد: سخت، زبردست، مظبوط، شدید کی جمع۔ ہمارے نزدیک یہ روحانی آسمان ہیں جو روحِ قدسی اور عقل کامل کے ساتھ ہونے کی وجہ سے سات بہشت بھی ہیں اور جب مومن سالک کے عالمِ شخصی میں بہشت بنائی جاتی ہے تو اُسی کے ساتھ آٹھ بہشت ہوجاتی ہیں۔

۲۵

ابوابُ الجنّۃ

(۵)

   

ابوابِ بہشت:

حضرتِ آدم، حضرتِ نورح، حضرتِ ابراہیم، حضرتِ موسٰی، حضرتِ عیسٰی، حضرتِ محمّد اور حضرتِ قائم علیہم السّلام سات روحانی آسمان اور سات بہشت ہیں، آسمان اور بہشت کے معنی میں یہ حضرات تمام لوگوں سے بالاتر ہیں، اس لئے ان کی معرفت کا روحانی سفر اگرچہ بڑا سخت اور زبردست ہے لیکن ناممکن نہیں، چنانچہ جب مومن سالک کو گنجِ معرفت (کنزِ مخفی) حاصل ہوجاتا ہے تو اسی کے ساتھ اسی کے عالم شخصی میں جنّۃ الاعمال تیار ہوجاتی ہے، پس اس اعتبار سے بہشت آٹھ ہیں، اور اُن کے دروازے بھی آٹھ ہیں۔

۳۵

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۲۶

ابوابُ الجنّۃ

(۶)

   

بہشت کے آٹھ دروازے:

اے نورِ عینِ من! آپ سورۂ رحمٰن (۵۵: ۳۳) میں بغور دیکھ لیں، یہاں روحانی آسمانوں اور زمین کے سفر کا ذکر ہے، یہ کام اگرچہ انتہائی مشکل ہے، لیکن ناممکن نہیں، آپ “سلطان” کے ذریعے سے یہ کام بحسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں، سلطان کے معنی ہیں: دلیل، حجّت، زور، غلبہ، اقتدار، بادشاہ، یعنی امام، اور امامِ عالی مقام علیہ السّلام میں تمام مفید معانی جمع ہوجاتے ہیں، اعنی امامؑ کی نورانی معرفت ہی میں سب کچھ موجود ہے۔

 

۲۷

اَجِنۡحَۃ

   

پر، بازو، واحد جَنَاح:

سورۂ فاطر کے آغاز میں دیکھ لیں: تعریف اللہ ہی کے لئے ہے، جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رسان مقرر کرنے والا ہے، (ایسے فرشتے) جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار بازو ہیں (۳۵: ۱) یہاں یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ فرشتوں کے بازو ایسے نہیں ہوتے جیسے پرندروں کے ہوتے ہیں، بلکہ فرشتوں کی پرواز ذکرِ الٰہی سے ہوا کرتی ہے، لہٰذا ذکر کے دو اسم دو پر کہلاتے ہیں، تین اسم تین پر اور چار اسم چار پر (بازو) ہیں، لیکن یاد رہے کہ فرشتوں کا ذکر خودکار قسم کا ہوتا ہے، یعنی ان کے دل و جان میں اسمِ اعظم خود بخود ذکر کرتا رہتا ہے۔

۳۶

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۲۸

اَحۡسَنَ

   

حسین بنایا:

ترجمۂ آیۂ شریفہ: خدا نے تمہاری صورت بنا دی پھر اس کو حسین و جمیل بنا دیا اور تم کو طیّبات (خوشبوؤں) سے رزق دیا، یعنی اس نے تم کو پہلے تو انسانی شکل میں پیدا کیا، پھر وہ تم کو پریوں کی صورت میں پیدا کرے گا، جو حسین و جمیل ہیں، اور تمہاری غذا خوشبوؤں سے ہوگی (۴۰: ۶۴)

۲۹

اَحۡسَنُ

(۱)

   

بہت اچھا:

اے نورِ عینِ من! یاد رکھو کہ “احسن” مضامینِ قرآن میں سے ایک عالیشان مضمون ہے، جن حضرات کو بحقیقت اللہ تعالٰی کی کتاب سے عشق ہو، انہیں ایسے مضامین میں غور و فکر کرنا ضروری ہے، یہاں یہ نکتہ بھی خوب یاد رہے کہ قرآنِ پاک کا ہر رکوع ایک جداگانہ عنوان رکھتا ہے، چنانچہ سورۂ زمر کے رکوعِ سوم کے آغاز میں ذکرِ الٰہی سے متعلق بیان آیا ہے (۳۹: ۲۲ تا ۲۳) جس کا مفہوم یہ ہے کہ خدا محویت و فنائیت والے ذاکرین کے سینے کو کھول دیتا ہے اور اس کو نورِ علم و حکمت کا مسکن بناتا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ قساوت قلبی کی وجہ سے ذکرِ الٰہی کے بے شمار فوائد سے محروم ہیں، ان کے لئے بربادی ہے۔

۳۷

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۳۰

اَحۡسَنُ

(۲)

   

بہت اچھا:

اس رکوع کی دوسری آیت (۳۹: ۲۳) میں ظاہرًا قرآنِ پاک اور باطنًا اسمِ اعظم کی تعریف ہو رہی ہے، کیونکہ خاصانِ خدا اسمِ اعظم ہی سے اللہ کا ذکر کیا کرتے ہیں، اسمِ اعظم جو احسن الحدیث ہے وہ خدا کی طرف سے ہے، وہ ایک ایسی پُر از تاویل کتاب ہے جو بار بار پڑھی جاتی ہے، جس کے باقاعدہ ذکر سے ان لوگوں کے بدن کانپتے ہیں جو خوفِ خدا رکھتے ہیں، پھر ان کے بدن اور دل نرم ہوکر اللہ کے معجزانہ ذکر کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔

۳۱

اَحۡسَنُ

(۳)

   

بہت اچھا:

اس میں بڑی عجیب بات تو یہ ہے کہ ذکر اسمِ اعظم کے زیر اثر بدن کانپتے ہیں، یعنی روحانی زلزلے کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اذکار میں سے ایک ذکر کا نام “ذکرِ بدنی” ہے، تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ بدن میں کیا ہے؟ خلیات، پھر سوال ہے کہ خلیات میں کیا چیز ہے؟ روحیں جو بے شمار ہیں، آخری سوال ہے کہ یہ روحیں کن لوگوں کی ہیں؟ اہل زمین کی، جن میں آپ اور ہم ہیں۔

۳۸

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۳۲

اَحۡصٰی

   

اُس نے گِن لیا:

…. وَ اَحۡصٰی کُلَّ شَیۡءٍ عَدَداً۔ اور اس نے ہر چیز ایک خاص عدد میں گن کر رکھی ہے۔ یعنی تمام چیزوں کو عددِ واحد میں سما دیا ہے (۷۲: ۲۸)

۳۳

اَحۡصٰھُمۡ

(۱)

   

اُس نے ان کو گھیر لیا ھے:

اس انتہائی سرِّ اَسرار کے لئے عشق و محبت سے سورۂ مریم کے آخر (۱۹: ۹۳ تا ۹۵) میں دیکھ لیں کہ حق تعالٰی مقامِ عقل پر تمام خلائقِ ارض و سما کو گھیر کر عددِ واحد کی سالمیت و وحدت عطا کرتا ہے او سب کو فرد واحد بنا دیتا ہے تاکہ اللہ جلّ جلالہٗ کی وحدانیت کی طرف رجوع ہو۔

۳۴

اَحۡصٰھُمۡ

(۲)

   

اُس نے ان کو گھیر لیا ہے:

سورۂ نبا (۷۸: ۲۹) میں ارشاد ہے: وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ کِتٰبًا۔ اور ہم نے تمام چیزوں کو بصورتِ کتاب گھیر کر رکھا ہے۔ عقول و نفوس کے سوا کُلَّ شَیۡءٍ کے معنی منطقی نہیں ہوسکتے ہیں، اور نہ ہی کوئی خاموش کتاب تمام عقلی و روحانی (یعنی متحرک) چیزوں کی حامل ہوسکتی ہے، اس لئے یہ کہنا حقیقت ہے کہ یہ کتاب ناطق یعنی امامِ مبین علیہ السّلام کی تعریف ہے۔

۳۹

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۳۵

اَذِّنۡ

   

تو پکار:

وَ اَذِّنۡ فِی النّاسِ بِالۡحَجِّ (۲۲: ۲۷) اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا روحانی انقلاب (ذاتی قیامت) تمام لوگوں کے لئے حجِ اکبر تھا، یہاں “ناس” دنیا بھر کے لوگوں کے لئے آیا ہے، اللہ کے حکم سے حضرتِ ابراہیمؑ کے عالمِ شخصی کی روحانی قوّتوں نے اپنا اپنا کام کردیا اور قوّتِ اسرافیلیہ نے دنیا بھر کے لوگوں میں سے نمائندہ ذرّات کو بلا لیا (۲۲: ۲۷)۔

۳۶

اَرَآئِک

(۱)

   

بہت سے تخت، اَرِیۡکَۃ کی جمع:

سورۂ یٰسین میں ارشادِ الٰہی ہے: وہ بھی اور اُن کی بیویاں بھی سایوں میں (شاہی) تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے (۳۶: ۵۶) ان آراستہ و پیراستہ تختوں سے اجسام لطیف مراد ہیں جو روحِ قدسی اور عقلِ کامل کی لا زوال دولت سے مالامال ہیں، وہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے روحانی تختِ شاہی کی طرح پرواز کرسکتے ہیں۔

شاہی تختوں پر تکیے لگانے کے تین معنی ہیں: (الف:) کائناتی پروازوں کے لئے جسمِ لطیف پر اعتماد رکھنا (ب:) روحانی نعمتوں کے لئے روحِ قدسی

۴۰

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

پر بھروسہ رکھنا (ج:) عقلانی نعمتوں کے لئے عقلِ کامل سے رجوع کرنا۔

۳۷

اَرآئِک

   

تخت ھائے شاہی:

قرآن حکیم کے پانچ مقامات پر اَرَآئِک کا ذکر آیا ہے، چونکہ اہل بہشت کے لئے سب سے بڑی نعمت ملکِ کبیر (عظیم الشّان سلطنت۔ ۷۸: ۲۰) ہے، لِھٰذا اَرَآئِک کا ترجمہ “تخت ہائے شاہی” کرنا درست ہے، اور بھی کئی آیاتِ مبارکہ ہیں، جن میں اس امرِ واقعی کی شہادت موجود ہے کہ بہشت میں درجۂ اوّل کی روحوں کے لئے عظیم بادشاہی ہے۔

۳۸

اربعین

(۱)

      ۴۰

چالیس، چلّہ، اعتکاف:

سورۂ اعراف (۷: ۱۴۲) میں ہے ترجمہ: اور ہم نے موسٰی سے تیس شبوں کا وعدہ کیا تھا اور ایک عشرہ اور ملا کر اس کو پورا کیا، پس اس کے پروردگار کی مقررہ مدّت چالیس شب کی پوری ہوئی (۷: ۱۴۲) اگرچہ موسٰیؑ نے چالیس دن رات خصوصی عبادت کی تھی، لیکن راتوں کا ذکر ہوا، جس میں کئی حکمتیں ہوسکتی ہیں، اور ایک حکمت بفرمودۂ قرآن یہ کہ نفس کی پامالی اور گفتگو کی عمدگی کے لئے شب خیزی زبردست مؤثر علاج ہے (۷۳: ۶) مذکورہ مدّت کی عبادت چِلّہ بھی ہے اور عبادت بھی۔

۴۱

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۳۹

اربعین

(۲)

   

چالیس، چہل روزہ عبادت، چلّہ، اعتکاف:

پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کا ارشاد ہے: من أخلص العبادۃ للہ اربعین یومًا فتح اللہ قلبہٗ و شرح صدرہ، و أطلق لسانہ بالحکمۃ و لو کان أعجمیًّا غلفًا۔ جو (مومن) شخص چالیس دن اللہ تعالٰی کی خالص عبادت کرے (جیسا کہ حق ہے) خدا اس کے دل کو کھول دیتا ہے، اور اس کے سینے کو کشادہ کرتا ہے، اور اس کی زبان کو حکمت بیان کرنے کی قوّت عطا کرتا ہے، اگرچہ وہ بولنے اور سمجھنے میں سخت کمزور ہو (لعل و گوہر، ص۱۶، بحوالۂ اخوان الصّفاء)۔

۴۰

اربعین

(۳)

   

چالیس، چالیس صبح:

یہ حدیث قدسی حضرتِ آدم علیہ السّلام کی باطنی اور روحانی تخلیق کے بارے میں ہے: خَمّرۡتُ طِیۡنَۃَ آدَمَ بِیَدَیَّ اَرۡبَعِیۡنَ صَبَاحًا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چالیس صبحوں میں قالبِ آدم کیلئے گارا بنایا۔ اس سے آدمِ صفی اللہ کا وہ خاص اعتکاف اور چلّہ مراد ہے، جس مین وہ عقلی طور پر پیدا ہوئے تھے، کیونکہ انسانِ کامل کی باطنی پیدائش دو بار ہوتی ہے، اوّل مقام روح پر، دوم مرتبۂ عقل پر۔

۴۲

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۴۱

اربعین حدّاً

   

چالیس حدودِ دین:

جب حضورِ انور کی عمر کا چالیسواں سال مکمل ہوگیا تب آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی، جیسا کہ اس کا اشارہ سورۂ احقاب (۴۶: ۱۵) میں موجود ہے، اس کی بہت بڑی حکمت کتاب اسرار النّطقاء میں اس طرح تحریر ہے: ناطقِ اوّل، وصی، اور چھ ائمّۂ دور، یہ آٹھ ہوگئے، یہی قانون ہر ناطق کے لئے رہا ہے، پس حضرت آدمؑ سے لیکر سیّد الانبیاء کے ظہور تک پانچ ناطقوں کے کل ایسے عظیم حدود چالیس ہوئے تھے، یہی وجہ ہے کہ حضرتِ محمّد مصطفٰےؐ کو چالیس برس کے بعد نبوّت عطا ہوئی، جبکہ آپؐ کی تشریف آوری کی غرض سے چالیس حدودِ دین نے کام کیا تھا۔

۴۲

اَرۡض

   

زمین، خدا کی بے شمار زمینیں ہیں:

سورۂ اعراف (۷: ۱۲۸) میں ہے: موسٰی نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا سے مدد مانگو اور صبر سے کام لو، زمین تو خدا کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے، اس کا وارث بناتا ہے اور اچھا انجام پرہیزگاروں کے لئے مخصوص ہے۔ زمین صرف یہی نہیں جس پر آج انسان بس رہا ہے، بلکہ بہشت کی انتہائی وسیع زمین عوالم شخصی، کائناتِ ظاہر، اور کائناتِ باطن میں پھیلی ہوئی ہے، اسی وجہ سے قرآنِ حکیم میں خدا کی بے پایان زمین کی تعریف آئی ہے۔ (۲۹: ۵۶؛ ۳۹: ۱۰)

۴۳

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۴۳

ارض المقدّسۃ

(۱)

   

پاکیزہ زمین:

موسٰی نے کہا: اے میری قوم! اس پاک زمین میں داخل ہوجاؤ، جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے (۵: ۲۱) اس مقدس زمین سے عالم شخصی مراد ہے، جس کی فتح ہادیٔ زمانؑ کی کامل اطاعت اور باطنی جہاد سے نصیب ہوجاتی ہے۔

۴۴

ارض المقدّسۃ

(۲)

   

پاکیزہ زمین:

نور باطن اور عالم شخصی کے مشاہدات میں انبیاء و ائمّہ علیہم السّلام کی پاک معرفت کے انمول خزانے موجود ہیں، آپ قرآن پاک کے ان پرحکمت کلمات میں خوب غور کریں: اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمۡ مُلُوۡکًا (۵: ۲۰)

۴۵

ارض المقدّسۃ

(۳)

   

پاکیزہ زمین:

یہ سرِّ عظیم کتنا عجیب و غریب ہے کہ عالمِ شخصی ہی میں تمام پیغمبروں اور اماموں کا ظہور ہوتا ہے، اسی وجہ سے اس کا نام “مقدّس زمین” ہوا ہے، جس میں اہل ایمان کے لئے بے شمار برکتیں ہیں، اور یہیں سے حقیقی مومنین ملوک و سلاطین ہوجاتے ہیں (۵: ۲۰)۔

۴۴

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۴۶

ارض المقدّسۃ

(۴)

   

پاکیزہ زمین:

امام برحق علیہ السّلام کا ایک قرآنی نام مَلِکۡ ہے، جس کی جمع ملوک (۵: ۲۰) ہے، اور جو خوش نصیب مومنین فرمانبرداری اور عشق و محبت سے فنا فی الامام ہوجاتے ہیں، وہ بھی روحانیت اور بہشت کے بادشاہ ہوجاتے ہیں (۵: ۲۰)

۴۷

ارض المقدّسۃ

(۵)

   

پاکیزہ زمین:

ارشادِ نبوی ہے: یا بنی عبد المطلب، اطیعونی تکونوا ملوک الارض و حکّامھا۔ اے اولادِ عبد المطلب! میری فرمانبرداری کرو تاکہ زمین کے بادشاہ اور حاکم ہوجاؤ گے (دعائم الاسلام، جلد اوّل عربی، ص۱۵) اس حدیث کا مطلب روشن ہے کہ رسولِ اکرمؐ کی اطاعت کرنے والوں کو لا زوال سلطنت عالمِ شخصی اور بہشت میں حاصل ہوسکتی ہے۔

۴۸

ارواح

(۱)

   

روحیں، ھر گونہ شھیدوں کی روحیں:

صحیح مسلم، جلد پنجم، کتاب الامارۃ میں ارواحِ شُھَدَآء کے بارے میں ارشاد ہے: حضور اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں قندیلوں کے اندر ہیں جو عرش مبارک سے لٹک رہی ہیں اور جہاں چاہتی ہیں جنّت میں چرتی پھرتی ہیں پھر

۴۵

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

اپنی قندیلوں میں آ رہتی ہیں۔ یہ حدیث شریف گویا مفتاحِ ابوابِ حکمت ہے کہ یہ بہت بڑی سعادت نہ صرف ظاہری شہیدوں کو حاصل ہے، بلکہ اس میں باطنی شہداء بھی شامل ہیں، نیز ہر مومن کو شہید کا درجہ حاصل ہے، پس یہ تمام مومنین و مومنات کے لئے اللہ کا خاص انعام ہے کہ ان کو بوقتِ شہادت یا شہادت جیسی موت کے بعد جسم لطیف ملتا ہے، جس کا مخفی نام پرند ہے۔

۴۹

ارواح

(۲)

   

روحیں، جانیں، نفوس، لطیف ھستیاں:

طُیر (پرند) جسم لطیف، فرشتہ، مومن جِنّ (پری)، جامۂ جنّت، جثّۂ ابداعیہ ، کوکبی بدن، جسمِ فلکی وغیرہ یہ سب نام ایک ہی چیز کے ہیں، اور وہ ہے لطیف انسان، جیسا کہ سورۂ یٰسین کا یہ ارشاد ہے: کیا وہ (خدا) جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس پر قادر نہیں کہ ان جیسی ہستیاں (اجسامِ لطیف) پیدا کر سکے؟ (۳۶: ۸۱)

۵۰

ارواح

(۳)

   

جانیں، روح اپنے اصل مقام پر، رشتۂ روح کا بالائی سرا:

وہ پرنور اور حکمت آگین قندیلیں جو عرش اعظم سے لٹک رہی ہیں نورِ عقل کی علمی و عرفانی ظہورات و تجلّیات ہیں جو بہشت کی سب سے

۴۶

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

اعلٰی نعمتیں ہیں، جن کے ساتھ اہلِ ایمان کا ازلی و ابدی تعلق اور لگاؤ ہے۔ حضرتِ امامِ اقدس و اطہر صلوٰت اللہ علیہ و سلامہ کے پاک فرمان کا مفہوم ہے کہ ہر مومن اپنے اصل مقام کی طرف دیکھے، پس اے عزیزان! آپ سب ہمیشہ دعا کرتے رہیں کہ ربّ العزّت چشمِ بصیرت عطا فرمائے! آمین!!

۵۱

اَرۡوَاح

(۴)

   

روحیں:

حدیث شریف میں ہے: اَلۡاَرۡوَاحُ جُنُوۡدٌ مُجَنَّدَۃٌ۔ روحیں جمع شدہ لشکر کی صورت میں تھیں (اور ہیں) یہ ارشادِ نبوی حدیث کی کتابوں میں ہے، اور لغات الحدیث  کتاب “ج” میں بھی ہے، جو آیۂ قرآنِ پاک: وَ لِلّٰہِ جُنُوۡدُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ (۴۸: ۴) کی ایک تفسیر ہے، باطن اور روحانیت میں جہاٖں جنگ، قیامت اور دعوتِ حق ہے وہاں لشکرِ ارواح اور ان کا سردار ہیں۔

۵۲

اَرۡوَاح

(۵)

   

روحیں، جانیں:

اَرۡوَاحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ فِیۡ رَوۡضَۃٍ کَھَیۡأَۃِ الۡاَجۡسَادِ فِیۡ الۡجَنَّۃِ۔ مومنوں کی روحیں بہشت کے ایک چمن میں اپنے اپنے جسم کی شکلوں میں رہتی ہیں۔ (لغات الحدیث، کتاب “ر”) بشت میں روح نوجوان جسم کی صورت میں ہوتی ہے مگر حسن و جمال میں بے مثال۔

۴۷

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۵۳

اَرۡوَاح

(۶)

   

جانیں، بہشتی لباس جو عقل و جان کے ساتھ ہیں:

جب خدا کے فضل و کرم سے مومنین و مومنات بہشت میں داخل ہوجائیں گے تو وہاں ان کو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوگا کہ ان کی لطیف ہستی کی عقل و جان سے آراستہ و پیراستہ کاپیاں بہت پہلے ہی سے بہشت میں موجود ہیں، یہ زندہ اور گوئندہ کاپیاں بہشتی لباس ہیں، کیونکہ جنت کی ہر چیز کی اساسی خوبی یہ ہے کہ وہ حیاتِ طیّبہ اور عقلِ کامل رکھتی ہے، اس لئے بولتی ہے اور علم و حکمت کے جواہر بکھیرتی رہتی ہے۔

 

۵۴

اَرۡوَاح

(۷)

   

مجموعی روح، جان، شخصِ کامل:

یہ پُرحکمت ارشاد سورۂ عنکبوت (۲۹: ۶۴) میں ہے: اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے، اور اصل زندگی کا گھر تو دارِ آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے۔ اس آیۂ کریمہ میں ایک خاص لفظ ہے: اَلۡحَیَوَانُ (زندگی) حکیم پیر ناصر خسروق س نے اس کو اَلۡحَیۡوَانُ (زندہ) پڑھا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہشت حیوانِ ناطقِ کامل کی صورت میں ہے، اور وہ انسانِ کامل ہی ہے۔ (ملاحظہ ہو: وجہِ دین، گفتارِ چہارم تا آخر)۔

۴۸

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۵۵

اریکۃ

   

آراستہ و مزیّن تخت:

اریکۃ واحد ہے (جمع ارائک) ترجمۂ آیۂ کریمہ: وہ اپنی بیویوں کے ساتھ چھاؤں میں تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوئے ہیں (۳۶: ۵۶) بہشت کا کوئی تخت عقل و جان کے بغیر نہیں، پس ارآئک (بہت سے تخت) اجسام فلکی ہیں جن میں سے ہر ایک اپنے آپ میں ایک لطیف عالم شخصی ہے۔

۵۶

اُزۡلِفَتۡ

(۱)

   

وہ نزدیک لائی گئی، قریب کی گئی:

اے عزیزانِ من! قرآنی ارشاد کے مطابق بہشت کے طول و عرض کی مثال کائنات ہے، لیکن جہاں انفرادی قیامت برپا ہوئی ہو وہاں عالم شخصی میں بہشت نزدیک لائی جاتی ہے، جیسے سورۂ قٓ (۵۰: ۳۱) میں ہے: وَ اُزۡلِفَتِ الۡجَنَّۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ غَیۡرَ بَعِیۡدٍ۔ اور جنّت پرہیزگاروں کے نزدیک لائی جائے گی کہ کچھ دور نہ رہے گی۔ یعنی حقیقی بہشت عقلِ کلّ اور نفس کلّ میں ہے جن کے ساتھ عالم شخصی کا رابطہ ہوجاتا ہے، جبکہ انفرادی قیامت قائم ہوجاتی ہے۔

۵۷

اُزۡلِفَتۡ

(۲)

   

وہ نزدیک لائی گئی، قریب کی گئی:

جب بہشت نزدیک لائی جاتی ہے تو اس کی مکانی اور زمانی مسافت

۴۹

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

ختم ہوجاتی ہے، وسیع و عریض کائنات اور اس کی گردش سے پیدا شدہ بے پایان زمانہ محدود ہوجاتا ہے، جس میں لازمًا ماضی اور مستقبل کو حال میں شامل ہوجانا پڑتا ہے، ایسے میں انبیاء علیہم السّلام کے تمام معجزات بھی نزدیک آتے ہوں گے، اب آپ ہی بتائیں کہ بہشت میں کس نعمت کی کمی ہوگی؟ اہل جنّت میں سے بعض سیّد الانبیاء صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کے معجزۂ معراج کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں، یہ بیمثال نعمت ان کے لئے ممکن ہے یا نہیں؟

۵۸

ازواج

   

جوڑے:

ذاتِ سبحان کے سوا کوئی چیز طاق نہیں جفت ہے یعنی ساری اشیاء کے جوڑے جوڑے ہیں، پس انسان اپنے آپ میں دوئی رکھتا ہے کہ وہ بیشت میں بھی ہے اور اس سے باہر بھی ہے (۳۶: ۳۶؛ ۵۵: ۵۲؛ ۱۱: ۴۰؛ ۵۱: ۴۹)

۵۹

اَزۡوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ

   

پاک کردہ بیبیاں:

مُطَھَّرَۃ (پاک کی ہوئی) تطہیر سے اسمِ مفعول ہے، یاد رہے کہ بہشت کی تطہیر تین طرح کی ہوتی ہے: جسمِ کثیف کی جگہ جسمِ لطیف کا ہونا، نفسِ مطمئنّہ اور عقلِ کامل کی برکتیں، غرض جنّت

۵۰

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

میں مرد و زن سب کے سب پاک ہوتے ہیں (۲: ۲۵؛ ۳: ۱۵؛ ۴: ۵۷)

۶۰

اَسۡلَمَ

(۱)

   

اُس نے حوالہ کیا، وہ فرمانبردار ہوا:

اسلام: اسلام کے اصل معنی ہیں: “اپنے آپ کو کسی کے حوالہ کردینا” مذہبِ اسلام کو اس لئے اسلام کہتے ہیں کہ اس کو قبول کرنے والا اپنے آپ کو خدا کے حوالہ کر دیتا ہے، اور اس کے حکموں کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیتا ہے، گویا اسلام خداوندِ قدّوس کی فرمانبرداری کا نام ہوا (قاموس القرآن، ص۵۶)

اَسۡلَمَ وَجۡھَہٗ لِلّٰہِ (۴: ۱۲۵) اس نے اپنا (روحانی) چہرہ خدا کے لئے حوالہ کر دیا، یقینًا یہ عمل فنائیت اور یک حقیقت کے معنی میں ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:

۶۱

اَسۡلَمَ

(۲)

   

اُس نے حوالہ کیا، وہ فرمانبردار ھوا:

اور اس شخص سے دین میں بہتر کون ہوگا جس نے اپنا چہرۂ جان خدا کے حوالہ کر دیا ہے اور نیکوکار بھی ہے اور ابراہیمؑ کے طریقہ پر چلتا ہے جو باطل سے کترا کے چلتے تھے اور خدا نے ابراہیمؑ کو اپنا خالص دوست بنا لیا (۴: ۱۲۵) پس دینِ اسلام کا سب سے بڑا راز چہرۂ جان خدا کے لئے حوالہ کر دینے میں پوشیدہ ہے، جس کی مثال فنا فی اللہ و بقاء باللہ ہے یا یک حقیقت ہے، مثلًا خدا نے حضرت آدم کو اپنی رحمانی

۵۱

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

صورت پر پیدا کیا، یہ صورت رحمان کی تھی، جو آدمؑ کو بھی عطا ہوئی، آدمؑ نے اپنا یہ چہرۂ جان (صورتِ رحمان) خدا کے لئے حوالہ کر دیا، یعنی اصل سے واصل ہوگیا اور ہر شخص کے لئے یہی دینِ اسلام ہے۔

۶۲

اَسۡلَمَ

(۳)

   

اُس نے حوالہ کیا، وہ فرمانبردار ہوا:

سب چیزیں فنا ہونے والی ہیں بجز اُس کے چہرہ (صورتِ رحمان) کے (۲۸: ۸۸) یعنی جب کسی عارف کو آخری درجے کا دیدار ہوتا ہے تو وہ صورتِ رحمان ہی ہوتی ہے، جس میں ہر عارف فنا ہوکر زندۂ جاوید ہوجاتا ہے اور یہی سعادت دوسرے الفاظ میں فنا فی اللہ و بقاء باللہ کہلاتی ہے، یہی ہے چہرۂ جان خدا کے حوالہ کر دینا، اور اس کے عوض میں صورتِ رحمان کا گنجِ ازل حاصل کرنا۔

۶۳

اسمِ اٰدم

   

آدم کا نام:

آدم کا خاص نام تخوم تھا، تخوم بن بجلاح بن قوّامہ بن ورقۃ الرّویادی (سرائر، ص۳۱)

۶۴

اسمِ اعظم

   

اللہ تعالٰی کا سب سے بڑا نام:

حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا کہ اللہ نے ایک نام چھپا

۵۲

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

رکھا ہے یعنی اسمِ اعظم، اور اللہ کے تین سو ساٹھ اسماء ہیں (لغات الحدیث، جلدِ دوم، کتاب السّین، ص۱۷۵) اس سرِّ عظیم کا لفظی پہلو “الحیّ القیّوم” ہے (۲: ۲۵۵؛ ۳: ۲) اور شخصی پہلو ہادیٔ برحق، یعنی پیغمبرؐ اور امامِ زمانؑ (دیکھو کتاب وجہِ دین، گفتار چہار دہم)۔

۶۵

اسمآء

(۱)

   

اسم کی جمع، خدا کے نام:

ارشادِ نبوی ہے: اِنَّ اللہ تِسۡعَۃ و تِسعین اِسمًا من احصاھا دخل الجنّۃ۔ خداوندِ عالم کے ننانوے اسماء ہیں جو شخص ان کی تعداد کو حفظ کرے اور پڑھے وہ جنّت میں داخل ہو جائے گا (کتابِ سرائر، ص۶۹)۔

اس کی تاویل کے بغیر چارہ نہیں، وہ یہ ہے کہ جو شخص یہ جانتا ہو کہ خدا کے اسمِ اعظم میں دوسرے تمام اسماء محدود اور گھیرے ہوئے ہیں، اور وہ اسمِ اکبر امامِ زمان صلوات اللہ علیہ ہے، تو ایسے دانشمند مومن نے گویا اللہ کے ۹۹ ناموں کا اِحصا کیا، پس وہ بہشت میں داخل ہوجائے گا۔

۶۶

اسمآء

(۲)

   

اسم کی جمع، بہت سے نام، خدا کے مبارک نام:

حضرتِ آدم علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں ہے: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّھَا۔ اور خدا نے اپنے سب بزرگ نام آدم کو سکھا

۵۳

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

دئیے (۲: ۳۱) حضرتِ امامِ اقدس صلوات اللہ علیہ کا مبارک وجود ربّ العزّت کا کلیدی اور کلّ صفاتِ عالیہ سے آراستہ اسمِ اکبر و اسمِ اعظم ہے، جس کا حکیمانہ ذکر قرآنِ پاک کے تین مقام پر موجود ہے، پس حضرتِ آدمؑ کو امامِ زمان نے اپنا نمائندہ اسمِ اعظم سکھایا، جس میں تمام اسماء الحسنٰی پوشیدہ تھے۔

۶۷

اُسۡوَۃٌ

   

نمونہ جس کی پیروی کی جائے:

جس سے تسلّی پائی جائے، ترجمۂ آیۂ مبارکہ: تم لوگوں کے لئے ابراہیمؑ اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے (۶۰: ۴) اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ ہر مومنِ سالک ہادیٔ برحق کے پیچھے پیچھے راہِ باطن کی منزلِ آخرین تک جا سکتا ہے، اور وہ یقینًا معراجی دیدار ہے، آنحضرتؐ کے اُسوۂ حسنہ سے متعلق آیۂ کریمہ کو بھی زیادہ غور سے پڑھیں (۳۳: ۲۱)۔

۶۸

اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ

   

بھترین نمونۂ عمل:

سورۂ احزاب (۳۳: ۲۱) میں ہے: در حقیقت تم لوگوں کے لئے خدا کے رسول میں ایک بہترین نمونۂ عمل ہے، ہر اُس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرے۔ اس کی حکمت یہ بتاتی ہے کہ رسول پاکؐ کی پیروی معراج پر جاکر ہی مکمل ہوجاتی ہے،

۵۴

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

اس لئے اہل معرفت کے لئے خصوصی خوشخبری ہے۔

۶۹

اَشَدُّ

   

بہت سخت، نہایت سخت:

سورۂ بقرہ (۲: ۱۶۵) میں ایسے مومنین کی تعریف ہے، جو خدا کے ساتھ نہایت سخت و قوی محبت رکھتے ہیں، (اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ) در اصل ایسے دیندار خداوند عالم کے عاشق ہوتے ہیں، اسی سورہ (۲: ۲۰۰) میں اہل ایمان کو یہ حکم ہوا ہے کہ وہ خدا کو اس طرح یاد کریں جیسے اپنے آبا و اجداد کو یاد کرتے ہیں بلکہ یہ ذکر بڑی شدّت سے ہونا چاہئیے (اَوۡ اَشَدُّ ذِکۡرًا)۔

اس نتیجہ خیز اور انتہائی مفید عمل کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں، اُن میں سے بڑا مؤثر طریقہ گریہ و زاری ہے، جو نفسِ امّارہ کو آسانی سے پگھلا دیتی ہے، پھر ذکرِ الٰہی اور عشقِ سماوی کا موقع کیوں نہ ہو۔

۷۰

اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ

   

خدا کے لئے سب سے زیادہ محبت:

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡآ اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ۔ اور جو ایمان لائے ہیں وہ تو خدا ہی کے سب سے زیادہ دوستدار ہیں۔ (۲: ۱۶۵) اسی شدید محبت کا دوسرا نام عشقِ الٰہی ہے۔

۵۵

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۷۱

اشرار

   

برے لوگ:

سورۂ صٓ (۳۸: ۶۲ تا ۶۳) میں ایک حکمت آگین ارشاد ہے: اور (اہلِ دوزخ) کہیں گے کہ کیا بات ہے ہم ان لوگوں کو (دوزخ میں) نہیں دیکھتے جن کو ہم برے لوگوں میں شمار کرتے تھے۔۔۔۔۔، ان لوگوں کی کتنی بڑی سعادت مندی ہے، جو دنیا میں خواہ مخواہ برے لوگوں میں شمار ہوجائیں، مگر وہ حقیقت میں اچھے ہوں، اس لئے بہشت مین داخل ہوجائیں، اور دوزخ میں ان کا نام و نشان نہ ملے (کتاب وجہِ دین، گفتار/کلام۲ میں دیکھیں)۔

۷۲

اصحاب الکھف

(۱)

   

غار والے:

عالم شخصی کا روحانی معجزہ، جس میں سات بڑے ادوار اور سات چھوٹے ادوار کی سمیٹی ہوئی روحانیت و معرفت موجود ہے (۱۸: ۹)

۷۳

اصحاب الکھف

   

غار والے:

اللہ تعالٰی نے جس طرح تمام چیزیں امامِ مبین میں گھیر کر رکھی ہیں، اسی طرح وہ مہربان عالمِ شخصی میں اس کا تجدُّد فرماتا ہے، پس اصحابِ کہف کی تاویلی حکمت اس کلّیہ سے الگ نہیں۔

۵۶

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۷۴

اِصۡطَفٰی

(۱)

   

اُس نے برگزیدہ کیا، اُس نے چُن لیا:

بے شک خدا نے آدمؑ اور نوحؑ اور خاندانِ ابراہیمؑ اور خاندانِ عمران کو سارے جہان سے برگزیدہ کیا ہے (۳: ۳۳) خاندانِ ابراہیم کا سلسلہ محمّد و أئمّۂ آلِ محمّدؐ کے توسط سے جاری ہے۔

۷۵

اِصۡطَفٰی

(۲)

   

اُس نے چُن لیا، اُس نے پسند کر لیا:

یہ پرحکمت تذکرہ سورۂ آلِ عمران (۳: ۳۳ تا ۳۴) میں ہے: اِنَّ اللہَ اصۡطَفٰٓی اٰدَمَ۔ بیشک خدا نے منتخب فرمایا ہے آدمؑ کو۔ یعنی اہل زمانہ میں سے نبوّت و امامت کے لئے آدمؑ کا انتخاب ہوا۔ وَ نُوۡحًا۔ اور نوحؑ کو (منتخب فرمایا) وَ اٰلَ اِبۡرَاھِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرَانَ۔ اور آل ابراہیمِؑ کو اور آلِ عمران کو۔ عَلَی الۡعَالَمِیۡنَ۔ اہل جہان پر یا عوالم شخصی پر (منتخب فرمایا) دُرِّیَّۃً بَعۡضُھَا مِنۡ بَعۡضٍ۔ یہ ایک دوسرے کے سلسلۂ ذرّیّت و نسب ہیں۔

۷۶

اِطَاعَۃ

   

اِطاعت یعنی خدا، رسولؐ، اور امامؑ کی فرمانبرداری:

آن حضور صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے حضرتِ علی علیہ السّلام سے فرمایا: من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصانی فقد

۵۷

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

عصی اللہ و من اطاعک فقد اطاعنی و من عصاک فقد عصانی۔ جس شخص نے میری اطاعت کی یقینًا اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی بیشک اس نے خدا کی نافرمانی کی اور جس نے تیری اطاعت کی تو شک نہیں کہ اس نے میری اطاعت کی اور جس نے تیری نافرمانی کی تو یہ سچ ہے کہ اُس نے میری نافرمانی کی (المُستَدۡرَکۡ۔ جلد سوم۔ مناقب، ص۱۳۹) یہ حدیث شریف آیۂ اطاعت کی تفسیر ہے۔

۷۷

اطعنی

   

میری اطاعت کر:

عبدی اطعنی اجعلک مثلی حیًّا لا تموت، و عزیزًا لا تزل، و غنیًا لا تفتقر۔ اے بندۂ من! میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی مثال (یعنی رحمانی صورت) پر کبھی نہ مرنے والا زندہ، کبھی ذلیل نہ ہونے والا معزز، اور کبھی مفلس نہ ہونے والا غنی بنا دوں گا۔ (اربع رسائل اسماعیلیۃ، ص۱۵) یہ علمی بہشت کی تعلیم ہے، اور سب سے بڑی خوشخبری۔

۷۸

اعمٰی

   

اندھا، باطنی کور:

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۲) میں ہے: وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ھٰذِہٖٓ

۵۸

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

اَعۡمٰی فَھُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا۔ اور جو شخص دنیا میں اندھا رہے گا سو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا اور زیادہ راہ گم کردہ ہوگا۔ یعنی جو شخص ہادیٔ برحق کی پیروی نہیں کرتا وہ گمراہ اور کورِ باطن ہوجاتا ہے، اس کی دنیا و آخرت میں چشمِ بصیرت نہیں ہوتی ہے۔

۷۹

افئِدۃ

   

دل (فُؤاد کی جمع):

اہل ایمان کے دلوں کا نور حضرتِ قائم ہے، لہٰذا یہی نور اصل دل/ قلب ہے (۳۲: ۹) خداوند تعالٰی ایسا دل دے کر ہی مومنین پر احسان رکھتا ہے۔

۸۰

اُقۡتُلُوۡا

   

تم قتل کرو، تم مار ڈالو:

تاریخ و تفسیر الگ ہے اور تحقیق الگ، مومنِ سالک کی کامیابی اس بات میں ہے کہ وہ جسمانی موت سے قبل نفسانی موت کا مزہ چکھ لے، جیسے قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس کا ذکر آیا ہے، منجملہ ایک آیۂ شریفہ سورۂ بقرہ (۲: ۵۴) میں ہے، آپ پوری آیت کی حکمت میں غور کریں، پھر ان الفاظ کے صحیح مطلب کو سمجھ لیں: فَتُوبُوۡٓا اِلٰی بَارِئِکُمۡ فَاقۡتُلُوۡٓا اَنۡفُسَکُمۡ۔ سو تم اپنے خالق کی طرف

۵۹

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

(عملی) توبہ کرو پھر تم اپنے اپنے نفس کو (اصولی ریاضت سے) قتل کر دو۔

۸۱

اُقۡتُلُوۡا

(۲)

   

تم قتل کرو، تم مار ڈالو:

اس مضمون کی ایک دوسری آیۂ کریمہ اس طرح ہے: اگر ہم نے انہیں حکم دیا ہوتا کہ اپنے اپنے نفس کو (اصولی ریاضت سے) قتل کر دو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے کم ہی آدمی اس پر عمل کرتے، حالانکہ جو نصیحت انہیں کی جاتی ہے اگر یہ اس پر عمل کرتے تو یہ ان کے لئے زیادہ بہتری اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا (۴: ۶۶)

قتل کن فرعونِ نفسِ خویش را       در زمان موسائے عمرانت کنم

۸۲

اَکۡنَان

   

چھپنے کے مقامات:

اور اس نے پہاڑوں میں تمہارے لئے چھپنے کے مقامات بنا دئیے (۱۶: ۸۱) یعنی کلمۂ باری اور کوہِ عقل کا اشارہ یوں ہے کہ تمہاری محیط اور کلّی زندگی پوشیدہ ہے، اور صرف معرفت ہی سے معلوم ہوجائے گا کہ تم کہاں کہاں تھے، ہیں، اور ہوں گے۔

۶۰

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۸۳

اَلۡبَابۡ

(۱)

   

عقلیں، واحد لُبّۡ، خالص عقل:

اولوا الباب (صاحبانِ عقل) کا وصف قرآنِ حکیم کے ۱۶ مقامات پر آیا ہے، قرآنِ عزیز سر تا سر علم و حکمت کے عجائب و غرائب کی بہشت ہے، لہٰذا اولوا الباب کے باغ و گلشن کا نظّارۂ روح پرور کیونکر معمولی ہوسکتا ہے، آپ ان تمام آیاتِ کریمہ کی معنوی گہرائی میں اتر کر دیکھ لیں۔

۸۴

اَلۡبَابۡ

(۲)

   

عقلیں، واحد لُبّۡ، خالص عقل:

جیسا کہ سورۂ آلِ عمران (۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) میں ہے: بیشک آسمانوں کی اور زمین کی پیدائش میں اور شب و روز کے اَدَلۡ بَدَل میں ان صاحبانِ عقل کیلئے نشانیاں موجود ہیں، جو کھڑے (کھڑے) اور بیٹھے (بیٹھے) اور کروٹوں کے بل (لیٹے لیٹے) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمان و زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

۸۵

اَلۡبَابۡ

(۳)

   

عقلیں، واحد لُبّۡ، خالص عقل:

اگر کوئی سعادت مند مومن دائم الذّکر ہوکر یادِ الٰہی کی نعمتوں سے اپنی روح کو ترقّی دینا چاہتا ہے اور یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ذکر کی مدد اور قوّت سے عقل کس سرعت اور درستی سے کام کرسکتی ہے تو اسے قرآن پاک کی مذکورہ تعلیم پر سچّے دل اور عالی ہمّتی سے عمل کرنا چاہیے

۶۱

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

تاکہ وہ صاحبانِ عقل میں سے ہوجائے۔

۸۶

اَلَسۡتُ

(۱)

   

کیا میں نہیں ہوں؟:

سورۂ اعراف (۷: ۱۷۲) میں ارشاد ہے: اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ۔ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ یہ عالم شخصی ہی کا واقعہ ہے کہ جب کوئی مومنِ سالک ربّانی ہدایت و پرورش سے مرتبۂ حقّ الیقین تک پہنچ جاتا ہے، اور اسے وہ تمام نعمتیں عطا کی جاتی ہیں جو منازلِ روحانیت اور مراحل عقلانیت میں درجہ بدرجہ رکھی ہوئی ہیں تو تب حق تعالٰی ایسے ہر عارف یعنی تمام عارفوں سے پوچھتا ہے: کیا میں تمہارا پروردکار نہیں ہوں؟ آیا میں نے تمہاری روحانی اور عقلی پرورش نہیں کی؟ اس لئے عُرَفاء اپنے اپنے وقت میں اقرار کرتے ہوئے کہتے ہیں: اے ربِّ کریم! کیوں نہیں۔

۸۷

اَلَسۡتُ

(۲)

   

عھدِ الست:

اگرچہ ظاہرًا سب لوگ بنی آدم کہلاتے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ اس پرحکمت لفظ میں وِرثۂ خلافت کا ٍاشارہ پوشیدہ ہے، لہٰذا صرف انبیاء و اولیاء علیہم السّلام ہی بنی آدم اور وارثِ علمِ آدم ہیں، اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے بھی بنی آدم ہوسکتے

۶۲

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

ہیں، تاکہ عہدِ الست تک رسا ہوجائیں۔

۸۸

اَلَسۡتُ

(۳)

   

مقام دیدار و معرفت:

عالمِ علوی جو عالم وحدت ہے، اس کا سفر ظاہری و باطنی کثرت کے شور و غوغا میں ممکن نہیں، لہٰذا خداوندِ عالم نے انسانِ کامل کی پشت سے اس کی ذرّیّت کے عالمِ ذرّ کو الگ کر دیا، جو وقت آنے پر شخصِ کامل میں فنا ہوکر ایک ہوگیا، پھر خدا نے عارف کو اپنی روح کے بالائی سرے پر حاضر کردیا، اس کا مشاہدہ اور دیدار کرایا، نیز اسے اس عظیم معجزے پر گواہ بنا دیا، یہ سارے معانی “واَشۡھَدَھُمۡ عَلٰی اَنۡفُسِھِمۡ” میں موجود ہیں، بلکہ اس میں حضرتِ ربّ کے دیدارِ پاک اور معرفتِ عالیہ کا اشارہ بھی پوشیدہ ہے، پس آیۂ عہدِ الست تمام روحانی اور عقلانی واقعات پر محیط ہے۔

۸۹

اَلَسۡتُ

(۴)

   

میثاقِ الست:

بنی آدم یعنی انسانانِ کامل کسی ایک وقت میں نہ تھے، بلکہ اُن کا سلسلہ ہمیشہ دنیا میں جاری ہے، لہٰذا الست کا انتہائی عظیم معجزہ ہر زمانے میں ہوتا رہتا ہے، جیسے ہم تجدّدِ امثال کو مانتے ہیں، اور یہ حقیقت ہے کیونکہ خالقِ اکبر عوالِم شخصی کو ہمیشہ اور مسلسل پیدا کرتا ہے، پس

۶۳

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

معلوم ہوا کہ ہر انسانِ کامل کے عالم شخصی میں میثاقِ اَلَسۡت کا تجدّد ہوجاتا ہے۔

۹۰

اَلَسۡتُ

(۵)

   

آیۂ الست (۷: ۱۷۲):

سوال: آیۂ الست میں بنی آدم کا ذکر ہے لیکن خود آدم علیہ السّلام کا تذکرہ نہیں، اس میں کیا راز ہے؟ آیا ابو البشر عہدِ الست کے قانون سے مستثناء ہے یا اس میں کوئی اور حکمت پوشیدہ ہے؟

جواب: زیر بحث آیۂ کریمہ میں آدمِ دور کا ذکر بھی موجود ہے، جبکہ وہ گزشتہ دور کے اعتبار سے ابنِ آدم ہے اور موجودہ دور کے لحاظ سے آدم اور ابو البشر ہے۔

۹۱

اَلَسۡتُ

(۶)

   

خزانۂ دیدار، بعد از فناء فی اللہ و بقاء باللہ (الف)۔

دیدار فناء سے پہلے بھی ہے اور بعد میں بھی (ب):

جیسا کہ ذکر ہوا: واَشۡھَدَھُمۡ عَلٰی اَنۡفُسِھِمۡ (۷: ۱۷۲) کے مبارک الفاظ میں عظیم معنوی اسرار پوشیدہ ہیں، یعنی اس میں جانوں کی جان یا روح الارواح کے پاک دیدار کا اشارہ فرمایا گیا ہے،

۶۴

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

اور یہ حقیقت اظہر مِنَ الشّمس ہے کہ جس میں فناء ہوجانے سے ہم کو سب سے اعلٰی زندگی مل سکتی ہے، وہ ہماری روحِ اعظم یا جانوں کی جان ہے، پس اے نورِ عینِ من! آپ کائناتی سطح پر سوچنے کے عادی ہوجائیں کہ خداوند کریم نے اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ نہیں فرمایا مگر لازوال نعمتوں سے بھری ہوئی کائناتیں عطا کردینے کے بعد، اور تمام نعمتوں کی جان خدا تعالٰی کا دیدار ہے۔

۹۲

اللہ

   

خدا:

اگر آپ آخرت (بہشت) چاہتے ہیں تو اپنی روح کو خدا کے عشق و محبّت میں رکھنا، ہمیشہ خدا کے خیال میں رہنا، خدا کا خیال ایک لمحے کے لئے بھی نہ بھلانا۔ (فرمانِ مباک: حضرتِ امام سلطان محمّد شاہ صلوات اللہ علیہ) اِس دنیا میں صرف امامؑ ہی کی نورانی ہدایت ہے جس کے مطابق چلنے سے لوگ خدا تک پہنچ جاتے ہیں۔

۹۳

اَللہُ یَتَوَفّیَ

   

خدا قبض کرتا ہے:

ترجمۂ آیۂ مبارکہ: اللہ موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے، اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے۔۔ (۳۹: ۴۲) انسان ایک مکمل عالم ہے، اس میں نباتی، حیوانی، اور انسانی درجے کی

۶۵

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

لا تعداد روحیں موجود ہیں، جن میں جزوی طور پر موت اور از سرِ نو زندگی کا عمل جاری و ساری ہے۔

۹۴

اِلھام

   

اِلقاء:

الہام: خدا کی طرف سے دل میں کسی بات کے ڈالنے کو کہتے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: فَاَلۡھَمَھَا فُجُوۡرَھَا وَ تَقۡوٰھا۔ پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہَام کر دی (۹۱: ۸) یہ الہام ان دو ساتھیوں کے توسط سے بھی ہوسکتا ہے جو دل کے دونوں کانوں کے پاس ہی ہیں، اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ الہام ممکن ہے، تاہم اس کے مختلف درجات ہوسکتے ہیں۔

۹۵

اُمّ الکتٰبُ

(۱)

   

اصل کتاب:

قرآنِ حکیم (۱۳: ۳۹؛ ۴۳: ۴) میں اُمّ الکتٰب کا ذکر آیا ہے جو بعض علماء کے قول کے مطابق لوحِ محفوظ ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے حضرتِ علی علیہ السّلام مراد ہے، اور ہم اسی دوسرے قول کو مانتے ہیں، کیونکہ قلمِ اعلٰی نورِ محمّدیؐ ہی ہے اور لوحِ محفوظ نورِ علیؑ، جیسے مولا علیؑ کا ارشاد ہے، انا اللّوحُ المحفوظُ۔ یعنی میں ہی لوح محفوظ ہوں، پس علیٔ مرتضٰی ہی امّ الکتاب ہے (بحوالۂ کوکب درّی، بابِ سوم،

۶۶

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

منقبت نمبر۸، نیز وجہِ دین، کلام ۱۹ کے آخر میں دیکھیں: “حکایت”)

۹۶

اُمّ الکتٰب

(۲)

   

اصل کتاب:

سورۂ رعد کے اس خزانۂ علم و حکمت کی قدر و قیمت کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا، ارشاد ہے: یَمۡحُوا اللہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُج صلی وَ عِنۡدَہٗٓ اُمُّ الۡکِتٰبِ۔ خدا جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے۔ اور (جبکہ) اُمّ الکتاب اسی کے پاس ہے (۱۳: ۳۹) یعنی جب ہر قیامت میں خدائے عزّ و جلّ کائنات کو امامِ مبین کے عالم شخصی میں گھیر کر رکھتا ہے تو اس حال میں چہرۂ خدا (امامؑ) سے باہر ہر چیز محو و فنا ہوجاتی ہے، یہی ہے اُمّ الکتاب کی تحریرات کے سوا تمام چیزوں کو مٹا دینا۔

۹۷

اُمّ الکتٰب

(۳)

   

اصل کتاب:

مولا علی علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: اَنَا وَجۡہُ اللہِ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ۔ میں آسمانوں اور زمین میں خدا کا چہرہ ہوں۔ جیسا کہ ارشاد ہے: کُلَّ شَیۡءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجۡھَہٗ۔ یعنی چہرۂ خدا کے سوا ہر چیز فنا ہوجانے والی ہے (۲۸: ۸۸) کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت؀۶۹۔

۶۷

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

یہی چہرۂ خدا جو امامِ مبین ہے اُمُّ الکتاب اور لوحِ محفوظ بھی ہے اور خزینۂ خزائن بھی۔

۹۸

امام

(۱)

   

پیشوا:

یاد رکھو کہ جب ابراہیمؑ کو اس کے ربّ نے چند باتوں (کلمات) میں آزمایا تو اس نے ان کو مکمل کر لیا، اللہ نے فرمایا کہ میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں (۲: ۱۲۴) سوال ہے کہ وہ کلمات کیا تھے؟ جواب: اللہ تعالٰی کے بزرگ ترین اسماء اور کلمات اور کلماتُ التَّامات۔

۹۹

امام

(۲)

   

پیشوا:

اگر چہ حسبِ منشائے الٰہی نورِ امامت شروع ہی سے عالم دین میں جلوہ گر تھا، تاہم پروردگار نے حضرت ابراہیمؑ کی عظیم شخصیت میں اسے نمایان فرمایا، اگر اس مثال میں چشم بصیرت سے دیکھا جائے تو اس حقیت کا مکمل یقین آتا ہے کہ “امامت درختِ نبوّت کا ثمرۂ پر حکمت ہے”۔

۱۰۰

امام

(۳)

   

پیشوا:

سورۂ انبیاء (۲۱: ۷۳) میں دیکھ لیجئے: وَ جَعَلۡنٰھُمۡ اَئِمَّۃً ۔۔۔۔ اور ہم نے ان کو امام بنا دیا۔۔۔ اس معنٰی میں امامؑ

۶۸

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

اہل زمانہ پر حجّتِ خدا ہے۔

۱۰۱

امام

(۴)

   

پیشوا:

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۱) میں ہے: یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمۡ۔ اُس دن جب ہم کہ اہل زمانہ کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔ خوب غور سے دیکھ لیں کہ “کُلَّ اُنَاسٍ” کے اس کلیّے سے کچھ لوگ مستثنا ہوسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں، پس سلسلۂ امامت زمانۂ آدمؑ سے لیکر قیامۃ القیامات تک جاری و باقی ہے۔

۱۰۲

امام

(۵)

   

پیشوا:

نورِ امامت شروع سے آخر تک ایک ہی ہے، مگر جامہ ہائے جسمانی زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتے آئے ہیں، ایسے میں اگر حضرت ابراہیمؑ کو امامِ اوّلین و آخرین کہا جائے تو یہ بات نورِ واحد کی وجہ سے حقیقت ہوگی، اور یہی صفت ہر امام کی ہے۔

۱۰۳

امام

(۶)

   

پیشوا:

سورۂ فرقان (۲۵: ۷۴) میں حضرات أئمّہ علیہم السّلام کی ایک خاص دعا کا ذکر آیا ہے، وہ یہ ہے: اور جو لوگ دعا مانگا کرتے ہیں کہ

۶۹

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

اے ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی ذرّیت سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ أئمّۂ طاہرین ہی ہیں اور اپنی پاک ذرّیت کے سلسلے میں بھی امام ہونے کے لئے دعا کرتے ہیں۔

۱۰۴

امام

(۷)

   

پیشوا:

ذرّیت ذرّاتِ روح کو کہتے ہیں، (ذُرِّیَّتَھُمۡ۔ ۳۶: ۴۱) چنانچہ ہر شخص کے ذرّاتِ روحانی یا ذرّیت ماضی میں بھی تھی اور ہر مستقبل میں بھی ہوگی، پس یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ ہر امام باعتبارِ ذرّیت اور نور و نورانیت نہ صرف حال و مستقبل کا امام ہوا کرتا ہے بلکہ وہ ماضی میں بھی امام رہ چکا ہوتا ہے، یہ تناسخ ہرگز نہیں، آپ اسے تجدّدِ امثال کہہ سکتے ہیں۔

۱۰۵

امام

(۸)

   

پیشوا:

بحوالۂ سورۂ ھود (۱۱: ۱۷) کتابِ موسٰی کے امام اور رحمت ہونے کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ حضرتِ امام ہارونؑ توراتِ ناطق تھا، اور اسی آیۂ مبارکہ کے مطابق مولا علیؑ بمرتبۂ گواہِ رسولؐ قرآنِ ناطق، کیونکہ خدائے بزرگ و برتر نے تمام اعلٰی چیزوں اور جملہ معجزات کو امامِ مبین میں گھیر کر

۷۰

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

رکھا ہے (۳۶: ۱۲)۔

۱۰۶

امام

(۹)

   

پیشوا:

یہ حدیث شریف تِرمذی، جلد دوم، فضائل قرآن میں ہے: اِنَّ لِکُلِّ شَیۡءٍ قَلۡبًا وَ قَلۡبُ الۡقُرۡاٰنِ یٰسٓ۔ بیشک ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۂ یاسیٓن ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس میں اللہ تعالٰی کے خزانۂ خزائن کا ذکر ہے، وہ یہ ہے: وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے تمام چیزوں کو پیشوائے ظاہر میں گھیر کر رکھا ہے۔ یعنی خدائے عزّو جلّ کائناتِ باطن کو امامِ حیّ و حاضر میں میں لپیٹتا بھی ہے او اسی میں سے پھیلاتا بھی ہے۔

۱۰۷

امام

(۱۰)

   

پیشوا:

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ قادرِ مطلق ہر طرح کے مردوں کو زندہ کردیتا ہے، لیکن اس سلسلے میں سب سے عظیم معجزہ یہ دیکھنا ہے کہ جیتے جی (ریاضت سے) مرنے والوں کو خدا کس طرح پاکیزہ روح میں زندہ کرتا ہے، آپ یقین کریں کہ کلّیّۂ امامت کے آغاز (اِنَّا نَحۡنُ نُحۡیِ الۡمَوۡتٰی = یقینًا ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں) میں بطورِ خاص

۷۱

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

اسی معجزے کی طرف اشارہ ہے، وہ کلّیّۂ امامت یہ ہے۔

۱۰۸

امام

(۱۱)

   

پیشوا:

یقنینًا ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور لکھ لیتے ہیں (ان کے اعمال کو) جو وہ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے آثار کو جو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں، اور ہم نے تمام (مجرّد اور لطیف) چیزوں کو پیشوائے ظاہر میں گھیر کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲) اس آیۂ باحکمت میں سب سے پہلے احیائے موتٰی (مردوں کو زندہ کرنا) کا ذکر ہے جو انتہائی عظیم مضمون ہے، کیونکہ وہ فنا فی الامامؑ، فنا فی الرّسولؐ اور فنا فی اللہ ہے، اور یہ تینوں فنائیں یا بحقیقت ایک ہی فنا فی حضرتِ امام صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہ کے پاک عشق میں ہے۔

۱۰۹

امام

(۱۲)

   

پیشوا:

حضرتِ مولا علی صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہ کے اس پرحکمت کلام میں کماحقہ غور کیجئے:

وَ تَحۡسَبُ اَنَّکَ جِرۡمٌ صَغِیۡرٌ       وَ فِیۡکَ انۡطَوَی الۡعَالَمَ الۡاَکۡبَرُ

ترجمہ: اور تو خیال کرتا ہے کہ تو عالمِ اصغر ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے۔

۷۲

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

یہ امرِ واقعی دو طرح سے ہے: بحدِّ قوّت اور بحدِّ فعل، چنانچہ امامِ مبین وہ مبارک ہستی ہے، جس کے عالم شخصی میں باری تعالٰی نے عالمِ اکبر کو بحدِّ فعل گھیر کر رکھا ہے، جس سے کوئی لطیف شَی باہر نہیں، نہ عرش و کرسی اور نہ قلم و لوح، الغرض عالمِ دین تمامًا و کاملًا امامِ مبین علیہ السّلام کے عالم شخصی میں مرکوز و محدود ہوتا ہے۔

۱۱۰

امام الوقت

   

امامِ وقت:

حدیثِ شریف ہے: مَنۡ مَاتَ وَ لَمۡ یَعۡرِفۡ اِمَامِ زَمَانِہٖ مَاتَ مِیۡتَۃً جَاھِلِیَّۃً وَ الۡجَاھِلُ فِی النَّارِ۔ جو شخص مرجائے در حالے کہ اس نے امامِ زمان کو نہیں پہچانا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مر جاتا ہے اور جاہل کا ٹھکانا آتشِ (دوزخ) ہے (کتاب وجہِ دین، گفتار۳۶) یہ اس لئے ایسا ہے کہ خدا اور رسولؐ کے بعد صاحبِ امر(امامِ زمانؑ) کی اطاعت فرض ہے، تاکہ علم و معرفت کا گنجِ گرانمایہ حاصل ہو۔

۱۱۱

امام الزّمان

(۱)

   

امامِ زمان کی اطاعت:

قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم: مَنۡ اَطَاعَنِیۡ فَقَدۡ اَطَاعَ اللہَ وَ مَنۡ عَصَانِیۡ فَقَدۡ عَصَی اللہَ وَ مَنۡ اَطَاعَ الۡاِمَامَ

۷۳

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

فَقَدۡ اَطَاعَنِیۡ وَ مَنۡ عَصَی الۡاِمَامَ فَقَدۡ عَصَانِیۡ۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امام کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (سننِ ابنِ ماجہ، جلد دوم، کتاب الجہاد، باب۳۹، طاعتہ الامام)۔

۱۱۲

امام الزّمان

(۲)

   

امامِ زمان کی معرفت:

حدیثِ شریف ہے: مَنۡ مَّاتَ وَ لَمۡ یَعۡرِفۡ اِمَامَ زَمَانِہٖ مَاتَ مِیۡتَۃً جَاھِلِیَّۃً۔ جو شخص مر جائے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے اس کی موت جاہلیت کی سی موت ہوگی (لغات الحدیث، جلد چہارم، بابُ المیم مع الواؤ)

۱۱۳

امام الزّمان

(۳)

   

امامِ زمان کی معرفت:

ارشادِ نبوی ہے: مَنۡ مَّاتَ بِغَیۡرِ اِمَامٍ مَاتَ مِیۡتَۃً جَاھِلِیَّۃً۔ جو شخص مرجائے امام (کی اطاعت) کے بغیر اس کی موت جاہلیت کی سی ہوگی۔ (مُسند احمد بن حنبل، ۵، حدیث ۱۶۴۳۴)۔ المستدرک، الجز الاوّل، ۲۵۹/ ۲۵۹ میں بھی دیکھ لیں۔

۷۴

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۱۱۴

امام الزّمان

(۴)

   

امام زمان کی معرفت:

یہ حدیثِ شریف کتابِ وجہِ دین، گفتار/ کلام ۳۶ میں اس طرح ہے: مَنۡ مَّاتَ وَ لَمۡ یَعۡرِفۡ اِمَامَ زَمَانِہٖ مَاتَ مِیۡتَۃً جَاھِلِیَّۃً ، وَ الۡجَاھِلُ فِی النَّارِ۔ جو شخص مر جائے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے اس کی موت جاہلیت کی سی موت ہوگی اور جاہل و نادان آگ میں ہے۔ یعنی بہشت وہاں ہے جہاں علم کا شہر اور حکمت کا گھر ہے، جس کا دروازہ علیٔ زمانؑ (امامِ وقت) ہے، اور جو اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے تو اس کی موت زمانۂ جاہلیت کی موت جیسی ہو جاتی ہے، اور جاہل آتشِ جہالت میں گرفتار ہے۔

۱۱۵

امام الزّمان

(۵)

   

امامِ زمان کی معرفت:

(دعائم الاسلام، المجلّد الاوّل، کتاب الولایۃ، ذکر ولایۃ الأئمّۃ کے حوالے سے) حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام سے روایت ہےکہ آپ نے رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کے اس ارشادِ گرامی کے بارے میں فرمایا: من مّات لا یعرف امامِ دھرہٖ حیًّا مات میتۃً جاھلیَّۃً۔ جو شخص مر جائے در حالیکہ وہ اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانتا ہے تو وہ (زمانۂ) جاہلیّت کی سی موت میں مر جاتا ہے۔ صادقِ آلِ محمّدؐ نے فرمایا کہ امامِ زمان سے زندہ امام مراد ہے۔

۷۵

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۱۱۶

امام الزّمان

(۶)

   

امامِ زمان اور قیامت:

امامِ جعفر الصّادقؑ نے خداوند تعالٰی کے اس ارشاد کے بارے میں فرمایا: یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمۡ (۱۷: ۷۱) جس دن کہ ہم ہر ایک جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔ آپؑ نے فرمایا کہ اس سے ہر زمانے کا امام مراد ہے۔

۱۱۷

اُمّۃ

(۱)

   

جماعت:

سورۂ بقرہ (۲: ۲۱۳) میں ارشاد ہے: سب لوگ ایک ہی جماعت تھے پھر اللہ تعالٰی نے پیغمبروں کو بھیجا۔

سوال: سورۂ فاطر میں فرمایا گیا ہے: اور کوئی امّت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈر سنانے والا نہ گزرا ہو (۳۵: ۲۴) پھر لوگوں کی یہ امّتِ واحدہ پیغمبروں کے آنے سے پہلے کہاں تھی؟ اور یہ کس دور کی بات ہے؟ جواب: چونکہ تصوّرِ آفرینش خط جیسا نہیں بلکہ دائرے کی طرح ہے لہٰذا دائرۂ کُلّ پر آگے پیچھے نہیں، مگر ہاں عالم علوی کو تَقَدُّمِ شَرَفِیۡ حاصل ہے، جہاں لوگ پیکر نورانی میں صرف ایک ہی امّت تھے، ہیں اور ہوں گے۔

۷۶

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۱۱۸

اُمّۃ

(۲)

   

جماعت:

تمام لوگ عالمِ ذرّ میں ایک ہی امّت ہیں، یہی حال نفسِ واحدہ میں بھی ہے اور جسمِ لطیف میں بھی، آپ سورۂ نحل (۱۶: ۱۲) میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی مثال کو پڑھ سکتےہیں: بیشک ابراہیمؑ ایک امّت تھے خدا کے لئے فرمانبردار اور خاص مُوَحِّد۔

۱۱۹

اَمۡثَال

(۱)

   

مثالیں، مانند، تبدّلِ امثال:

جو لوگ مر جانے سے قبل مر کر زندہ ہوگئے تھے وہ اس راز کو جانتے تھے کہ موت کے بعد اصل زندگی جسمِ لطیف ہی میں ہے، کیونکہ موجودہ جسم بہشت کے لئے پیدا نہیں کیا گیا، یہ تو صرف دنیوی زندگی ہی کے قابل ہے اور بس، چناچنہ سورۂ واقعہ (۵۶: ۶۰ تا ۶۱) میں ہے: اور ہم اس سے عاجز نہیں کہ تمہارا تبدّل امثال کریں اور تم کو ایسی صورت میں پیدا کریں جسے تم مطلق نہیں جانتے۔ یعنی تم کو موت کے بعد جسمِ مثالی ملنے والا ہے جس کو تم جانتے ہی نہیں۔

۱۲۰

اَمۡثَال

(۲)

   

مثالیں، مانند، تبدُّلِ امثال:

یہ پُر از حکمت ربّانی تعلیم سورۂ دہر (۷۶: ۲۸) میں ہے: ہم نے اُن کو پیدا کیا اور اُن کے جوڑ بند مضبوط کئے اور جب ہم چاہیں تو ان کا تبدُّلِ امثال کر دیں۔

۷۷

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

یعنی ان کو جسم کثیف سے جسمِ لطیف میں تبدیل کریں، اس سے یقین آیا کہ جسمِ کثیف بہشت کے قابل نہیں کہ اس میں بہت سی کمزوریاں اور خامیاں ہیں۔

۱۲۱

اَمۡثَالَھُمۡ

   

ان کی مثالیں:

اور جب ہم چاہیں تو اُن کی مثالیں تبدیل کریں گے جیسا کہ تبدیل کرنا ہے۔ اس سے جسمِ مثالی مراد ہے (۷۶: ۲۸)۔

۱۲۲

امر

   

کلمۂ کن، حکم، عالمِ امر:

یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ (۱۳: ۲) وہی امر کے پیچھے امر فرماتا رہتا ہے تاکہ ایک آیت سے دوسری آیت الگ رہے۔

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۵۸) میں رازِ روح کا ذکر ہے کہ یہ عالمِ امر سے آئی ہے، منقطع ہوکر نہیں بلکہ سورج کی شعاعوں کی طرح یا آبِ روان کی طرح یا نورانی رسّی کی طرح یا بجلی کے کرنٹ کی طرح کہ روح کا سرچشمہ اور بالائی سرا کلمۂ کن میں ہے، جہاں سے زندگی کی نہر ہمیشہ جاری ہے۔

۱۲۳

اَمۡرُ اللہ

   

اللہ کا فرمان، اللہ کا کام:

وَ کَانَ اَمۡرُ اللہِ مَفۡعُوۡلًا (۳۳: ۳۷) خدا کا فرمانِ ازل عمل

۷۸

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

میں آچکا ہے، اس کا کام کیا گیا ہے، یعنی اللہ کے لئے کوئی کام نیا نہیں، ہاں، تجدّدِ امثال کا سلسلہ جاری و ساری ہے، جس کی نہ کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہا، اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔

۱۲۴

انبیاء

(۱)

   

پیغمبران:

لغات الحدیث، جلدِ چہارم، کتاب “ن” میں ہے: اَلۡاَنۡبِیَآءُ مِائَۃُ اَلۡفٍ وَ عِشۡرُوۡنَ اَلۡفًا وَ الۡمُرۡسَلُوۡنَ مِنۡھُمۡ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَ ثَلَاثَۃَ عَشَرَ۔ دنیا میں ایک لاکھ بیس ہزار پیغمبر آئے ہیں، ان میں رسول (جو صاحبِ شریعت ہوں) تین سو تیرہ گزرے ہیں۔

۱۲۵

انبیاء

(۲)

   

طبقاتِ انبیاء:

حضرتِ امام جعفر صّادق علیہ السّلام نے فرمایا: پیغمبروں کے چار طبقے ہیں، ایک تو وہ جو اپنے نفس کو خبر دیتے ہیں دوسرے کسی کو نہیں، دوسرے وہ جو خواب میں دیکھتے ہیں اور آواز بھی سنتے ہیں، لیکن بیداری میں کچھ نہیں دیکھتے نہ وہ کسی قوم کی طرف بھیجے گئے، تیسرے وہ جو خواب میں دیکھتے ہیں اور آواز سنتے ہیں اور بیداری میں بھی دیکھتے اور سنتے ہیں یہ اولو العزم پیغمبر ہیں، چوتھے وہ پیغمبر جو خواب میں دیکھتے ہیں اور آواز سنتے ہیں اور فرشتہ کو دیکھتے ہیں۔ (لغات الحدیث، جلد چہارم،

۷۹

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

کتاب “ن” ص۵)۔

۱۲۶

انبیاء

(۳)

   

پیغبران:

حدیثِ شریف ہے: اَنَّ لِلّٰہِ  مِائَۃ الف نبیٍّ و اربعۃ و عشرین الف نبیٍّ من ولدِ آدم اِلی الۡقائم۔ کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ہو گزرے ہیں اولادِ آدم سے لیکر قائم تک (کتابِ سرائر، ص۲۰۰)۔

۱۲۷

انسان

(۱)

   

بشر، آدمی:

جب کسی سالکِ عارف کو مقامِ دھر میں اللہ کا پاک دیدار ہو جاتا ہے تو وہ بحقیقت فنا فی اللہ ہو جاتا ہے، اس اعتبار سے اس کا کوئی نام و نشان نہیں ہوتا (۷۶: ۱)۔

خدا نے اپنے قانونِ فطرت کے مطابق ہر انسان کو اس کے ماں باپ کے نطفۂ مخلوط سے پیدا کیا (۷۶: ۲)۔

۱۲۸

انسان

(۲)

   

آدم و آدمی:

قرآنِ عظیم میں جس پرحکمت انداز سے انسان کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس پر درست غور و فکر کرنے سے یہ حقیقت دلنشین ہوجاتی ہے کہ خداوندِ

۸۰

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

تبارک و تعالٰی نے آدم و آدمی یعنی انسان کو اپنے لا ابتدا و لا انتہا معجزات کا سرچشمہ اور بے پایان عجائب و غرائب کا عظیم خزانہ بنا دیا ہے، وہ اصلًا ایک اکیلا شخص ہے مگر فرعًا بے شمار اشخاص کی صورت میں ظاہر ہے، عالمِ وحدت میں دیکھو تو سہی یہ وہاں فردِ واحد ہے، عالمِ کثرت میں ملاحظہ کرو، یہ تو یہاں نفوسِ خلائق کے نام سے جہاں بھر میں پھیل گیا ہے، وہ بحکمِ خدا کثیف سے لطیف ہوکر جنّ، پری، فرشتہ اور جامۂ جنّت بن جاتا ہے، اور ان شاء اللہ اس سے بھی اوپر جا سکتا ہے۔

۱۲۹

اِنسان

(۳)

   

بشر:

انسان کی روحِ کلّی کس طرح کائنات میں پھیلی ہوئی ہے، اس کو سمجھنے کے لئے پانی کی کلّیت کا دائرہ سب سے بہترین نمونہ ہے، چنانچہ پانی اگر اپنے مرکز میں ہے تو اس کا نام “سمندر” مشہور ہے، اس میں سے جو پانی لطیف بن کر اڑ رہا ہو، اس کو بخارات کے اسم سے موسوم کیا جاتا ہے، ایسا پانی جب ہواؤں اور فضاؤں کے دوش پر سوار ہو تو وہ بادل کہلاتا ہے، جب پانی بادلوں سے برس رہا ہوتا ہے تو برف یا بارش کے نام سے پہچانا جاتا ہے، بلند پہاڑوں پر ذخیرۂ یخ، گلیشئیر، چشمہ، ندی، نالہ، نہر، تالاب، کنواں، جھیل، دریا وغیرہ سب کے سب ایک ہی پانی کے مختلف اجزاء کے اسماء ہیں، چنانچہ عالمِ انسانیت وہ بحر گوہرزا ہے

۸۱

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

جس کے دائرۂ کلّیّت سے نہ جنّ و پری الگ ہیں اور نہ فرشتے۔

۱۳۰

اَنۡفُسۡ

   

عالمِ شخصی، عوالمِ شخصی:

جب مادّی سائنس کی برکتوں سے اہل دنیا کو طرح طرح کی سہولتیں مہیّا ہو رہی ہیں جن کی تعریف بیان سے باہر ہے، تو پھر جب عالمِ شخصی میں روحانی سائنس کا ظہور ہوگا اس وقت بنی نوع انسان کو کیسے کیسے عظیم فائدے حاصل ہوں گے (۴۱: ۵۳)۔

۱۳۱

اَوَّاہ

   

نرم دل، آہ و زاری کرنے والا، دعا کرنے والا:

سورۂ توبہ (۹: ۱۱۴) میں ہے: اِنَّ اِبۡرَاھِیۡمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیۡمٌ۔ واقعی ابراہیمؑ بڑے نرم دل (اور آہ و زاری کرنے والے) تھے۔ اللہ تعالٰی کے اس بابرکت ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ مومنین حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے نقشِ قدم پر چلیں تاکہ انہیں روحانی ترقّی اور خدا کی نزدیکی نصیب ہو۔

۱۳۲

اَوۡرَثۡنَا

   

ھم نے وارث بنایا، یعنی قرآن کے وارث:

سورۂ فاطر (۳۵: ۳۲) میں ارشاد ہے: ثُمَّ اَوۡرَثۡنَا الۡکِتٰبَ الَّذِیۡنَ اصۡطَفَیۡنَا مِنۡ عِبَادِنَا۔ پھر ہم نے اپنی اس کتاب کا وارث ان کو بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کر لیا تھا۔ پس جب تک

۸۲

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

دنیا میں کتاب یعنی قرآن ہے تب تک اس کے وارث بھی ہیں، اور وہ زمانے کا امامؑ ہے، اور اس بات کی کیا دلیل ہے کہ صرف امام زمانؑ ہی قرآن کا وارث ہے؟ دلیل یہ ہے کہ خداوند عالم نے امام علیہ السّلام کو جس طرح قرآن کی نورانیت و تاویل سے نوازا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، الحمد للہ ربّ العالین۔

۱۳۳

اولی الامر

(۱)

   

صاحبانِ امر، حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام:

آیۂ اطاعت کا ترجمہ: اے ایمان والو! خدا کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں (۴: ۵۹) یعنی خدا اور رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ أئمّۂ آل محمّدؐ کی اطاعت بھی فرض ہے، جن کی امامت قرآن و حدیث سے ثابت ہے، اس کے برعکس دنیوی سلاطین و حکام اولوا الامر نہیں ہوسکتے ہیں، اور نہ ہی اسلام کے مثالی زمانے (یعنی زمانۂ نبوّت) میں اس کا کوئی نمونہ مل سکتا ہے۔

مذکورۂ بالا آیت (۴: ۵۹) سورۂ نساء کے اسی رکوعِ ہشتم میں ہے جس میں آلِ ابراہیمؑ کو کتاب، حکمت اور ملکِ عظیم عطا ہونے کا ذکر ہے (۴: ۵۴) پس مضمونِ رکوع کے مطابق یہاں آلِ ابراہیمؑ سے مراد محمّدؐ و آلِ محمّدؐ ہیں۔

۸۳

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۱۳۴

اُولی الامر

(۲)

   

آئمّۂ آلِ محمّدؐ:

آیۂ اطاعت کے دوسرے حصّے کا ترجمہ: اور اگر تم (اولی الامر کی شناخت کی) کسی بات میں جھگڑا کرو تو اس امر میں خدا و رسولؐ کی طرف رجوع کرو(یعنی پھر سے قرآن و حدیث میں دیکھو) اگر تم خدا اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہی (تمہارے حق میں) بہتر ہے اور تاویل کے اعتبار سے بھی بہت اچھا ہے (۴: ۵۹)

۱۳۵

اولی الایدی

   

ہاتھوں والے:

اور (اے رسولؐ) ہمارے بندوں ابراہیمؑ اور اسحٰقؑ اور  یعقوبؑ کو یاد کرو جو ہاتھوں اور آنکھوں والے تھے (۳۸: ۴۵) یعنی ان کو ید اللہ اور عین اللہ کا عظیم مرتبہ حاصل ہوا تھا، اور یہ عالمِ وحدت کے اسرار میں سے ہیں۔

۱۳۶

اُولِیۡ بَاۡسٍ

   

جنگ والے:

اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ۔ بڑی سخت جنگ لڑنے والے (۱۷: ۵) یعنی روحانی لشکر، جن کا ذکر سورۂ مائدہ (۵: ۵۴) میں بھی ہے، اور اس مثالی لشکر کا نام یاجوج و ماجوج بھی ہے، قرآن کریم میں روحانی لشکر کا نمایان ذکر تو بہت سے مقامات پر موجود ہے۔

۸۴

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۱۳۷

اَوۡلِیَآء

(۱)

   

خدا کے خاص دوست:

خدا کے خاص دوستوں کے بارے میں ارشاد ہے: اَلَا اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡھِمۡ وَ لَاھُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (۱۰: ۶۲) سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ غم، یہ اولیائے خدا آئمّۂ آلِ محمّدؐ ہی ہیں، جن کو خداوندِ عالم نے قرآن عظیم کے تاویلی معجزات دے کر سرفراز فرمایا ہے، کیونکہ رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کا سب سے بڑا معجزہ جو عقلی، علمی اور دائمی ہے وہ یقینًا قرآنِ حکیم ہی ہے، جس کے دو پہلو ہیں: تنزیل اور تاویل، تنزیل سے آنحضرتؑ نے لوگوں کو آگاہ کر دیا، اور تاویل کے لئے اپنا جانشین مقرّر فرمایا۔

۱۳۸

اَوۡلِیَآء

(۲)

   

دوستانِ خدا:

اَلَا اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡھِمۡ وَ لَاھُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (۱۰: ۶۲) آگاہ رہو اس میں شک نہیں کہ دوستانِ خدا پر نہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ یاد رہے کہ خوف کا تعلق مستقبل سے ہے اور غم کا تعلق ماضی سے ہے، مثلًا ایک عام انسان آنے والی بیماری اور موت سے ڈرتا ہے، جو مستقبل کی طرف ہے، اور اپنی جوانی کی خوبیوں کے زوال پر غمگین ہو جاتا ہے جو ماضی کی جانب ہیں، اس کے برعکس خدا کے اولیاء علمی اور عرفانی طور پر خوب مطمئن ہیں، کیونکہ وہ اگرچہ جسماً دنیا

۸۵

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

میں ہیں، لیکن روحًا و عقلًا بہشت میں ہیں۔

۱۳۹

اَوۡلِیَآء

   

دوستانِ خدا:

یہ وہ لوگ ہیں جو (حقیقی معنوں میں) ایمان لائے اور (خدا سے) ڈرتے تھے، ان ہی لوگوں کے واسطے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی بشارت ہے، خدا کے کلماتِ تامّات اَدَل بَدَل نہیں ہوا کرتے، یہی تو بڑی کامیابی ہے (۱۰: ۶۳ تا ۶۴)

سوال: اولیاء کو بہشت کی خوشخبری کس طرح دی جاتی ہے؟ جب بہشت میں سب کچھ موجود ہے تو پھر مذید کس چیز کی خوشخبری ہوسکتی ہے؟ یہاں کلماتِ تامّات کا حوالہ دیا گیا ہے، اس میں کیا حکمت ہوسکتی ہے؟

۱۴۰

اَوۡلِیَآء

(۴)

   

دوستانِ خدا:

جواب: انفرادی قیامت اور کمالِ روحانیت ہی بہشت کی عملی خوشخبری ہے، بہشت خود بھی لا انتہا بہشتوں کے لئے بشارت ہے، کلماتِ تامّات میں خداوندِ عالم کے ملکِ قدیم کے اسرار پنہان ہیں۔

۱۴۱

اَوۡلِیَآء اللہ

(۱)

   

خدا کے دوست، دوستانِ خدا:

سورۂ یونس (۱۰: ۶۲ تا ۶۴) میں اَوۡلِیَآء اللہ (دوستانِ خدا) کا

۸۶

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

ذکرِ جمیل فرمایا گیا ہے، اِن آیاتِ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: آگاہ رہو اس میں شک نہیں کہ دوستانِ خدا پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو (بحقیقت) ایمان لائے اور (خدا سے) ڈرتے تھے، اِن ہی لوگوں کے واسطے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی خوشخبری ہے، خدا کے کلمات میں تبدیلی نہیں ہوا کرتی، یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے (۱۰: ۶۲ تا ۶۴)

۱۴۲

اَوۡلِیَآء اللہ

(۲)

   

اَئمّۂ اھلِ بیتؑ:

سوال: یہ برگزیدہ حضرات کون ہیں؟ اس کے علاوہ ان کی مذید شناخت کیا ہے؟ ان کو خوف و غم کیوں نہیں؟ خوشخبری کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟ کلمات کیا ہیں؟

جواب: ائمّۂ اہل بیت اطہار علیہم السّلام، آیات و احادیث در بارۂ ولایتِ علی علیہ السّلام، خوف و غم کا قانون قیامت تک جاری ہے، چونکہ اولیاء اللہ دنیاوی زندگی ہی میں تجربۂ ذاتی قیامت سے گزر جاتے ہیں، اس لئے ان کے خوف و غم کا خاتمہ ہو جاتا ہے، خوشخبری ذاتی قیامت کی شکل میں ملتی ہے، اور کلمات سے اللہ کے کلماتِ تامّات مراد ہیں، جن میں علم و حکمت کے نمونے اور اصل بشارت ہے۔

۸۷

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۱۴۳

اَوۡلِیَآء اللہ

(۳)

   

سلمان فارسی جیسے مومنین:

سوال: کیا خدا، رسولؐ اور أئمّۂ ہدا (ع) کا یہی منشاء ہے کہ صرف ایک ہی خاندان سے اولیاء اللہ ہوتے جائیں؟ جواب: نہیں نہیں، یہ حضرات نمونۂ ہدایت، صراطِ مستقیم، اور دروازۂ نبیؐ ہیں، پس جو بھی سلمان فارسی کی طرح عشق و محبت سے ان میں فنا ہو جائے، وہ خدا کے ان خاص دوستوں میں سے ہو جائے گا۔

۱۴۴

اَھۡلَ الۡبَیۡت

(۱)

   

اھلِ بیتِ محمّدؐ:

سورۂٌ احزاب (۳۳: ۳۳) میں ارشاد ہے: اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللہُ لِیُذھِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَھۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَھِّرَکُمۡ تَطۡھِیۡرًا۔ اے (پیغمبرؐ کے) اہل بیت خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو (ہر طرح کی) برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے۔

اہل بیت سے خود رسول اللہ، حضرت علی، حضرتِ فاطمہ، حضرتِ حسن اور حضرتِ حسین صلوات اللہ علیہم مراد ہیں (صحیح مسلم جلد ششم، کتاب الفضائل)۔

۸۸

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۱۴۵

اَھۡلَ الۡبَیۡت

(۲)

   

اھلِ بیتِ رسولؐ:

حضورِ انور صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کے دو گھر تھے، ایک خانۂ ظاہر، اور دوسرا خانۂ باطن، جو نورانیت کا گھر تھا، چنانچہ مذکورہ آیۂ مقدّسہ میں خانۂ نورانیت کا ذکر ہے، جس کے بارے میں آنحضرتؑ نے “دار الحکۃ” کا لفظ استعمال فرمایا۔

۱۴۶

اَھۡلَ الۡبَیۡت

(۳)

   

اھلِ بیتِ پیغمبرؐ:

أئمّۂ آلِ محمّدؐ صلوٰۃ اللہ علیہ و علیہم اجمعین سب خانۂ روحانیت و نورانیت میں داخل ہیں، لہٰذا ہر امامؑ اہل بیتِ رسولؐ کہلاتا ہے، جبکہ سلمان فارسی ایک حقیقی مومن کی حیثیت سے اہل بیت میں شامل ہو گیا، تو پھر أئمّۂ طاہرین (حاملانِ نور) کے اہل بیت میں شامل ہونے میں کیا  شک ہوسکتا ہے۔

۱۴۷

اَھۡلَ الۡبَیۡت

(۴)

   

محمّدؐ و آلِ محمّدؐ:

اسماعیلی مذہب میں ایک مخفی اصطلاح ہے، وہ ہے “بیت الخیال” یعنی خیال کا نورانی گھر، جس میں داخل ہوجانے کے لئے اسمِ اعظم کی خصوصی عبادت کی جاتی ہے، یہ روحانیت و نورانی کا گھر در اصل محمّدؐ و آلِ محمّدؐ کا گھر ہے، جس میں جو بھی داخل ہوسکے وہ سلمان فارسی ہی

۸۹

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

کی طرح اہلِ بیت میں سے ہوجاتا ہے، جس کے بارے میں حضرتِ مولانا امام سلطان محمّد شاہ صلوٰت اللہ علیہ نے عالیشان تعلیمات دی ہیں، جو درجِ ذیل ہیں:

۱۴۸

اَھۡلَ البَیۡت

(۵)

   

سلمان الخیر سلمان فارسی:

“آپ کا مکان کتنا عالیشان ہے، اس کا آپ کو علم نہیں ہے، سلمان فارسی اہلِ بیت آپ جیسا تھا، پیغمبرؐ فرماتے تھے کہ سلمان فارسی اہلِ بیت جیسا اچھا تھا، وہ اپنے اصل مکان پر پہنچا، سلمان فارسی بھی آپ جیسا انسان تھا، آپ بھی عبادت کرکے سلمان فارسی جیسے بن سکتے ہیں، آپ عبادت کریں، تو پیر صدر الدّین جیسے ہوسکتے ہیں”۔

(حضرت امام سلطان محمّد شاہؑ کا ارشاد: جام نگر، ۶/۴/۱۹۰۰ء)۔

۱۴۹

اَھۡلَ الۡبَیت

(۶)

   

سلمان فارسی:

“دیکھیں مرتضٰی علیؑ کے اصحاب سلمان جیسے تھے، وہ سلمان فارسی ایرانی تھا، پھر بھی آپ نے عبادت بندگی کی بدولت اہل بیت کا درجہ حاصل کیا، آپ بھی ایسی ہی ہمّت کریں، اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ آپ ایسے نہ بن سکیں، فقط آپ کی اپنی نا ہمّتی ہے، آپ کے دل میں ہمّت ہونی چاہیے۔

(حضرت امام سلطان محمّد شاہ کا ارشاد: ۱۹/۱۰/۱۹۰۳ء)۔

۹۰

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۱۵۰

اَھۡلَ الۡبَیۡت

(۷)

   

اھلِ بیتِ پیغمبرؐ:

سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) میں ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرتِ موسٰی اور حضرتِ ہارون  علیہما السّلام کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ دونوں اپنی قوم کے لئے مصر (شہر = عالم شخصی) میں گھر تیار کریں، اور ان گھروں کو قبلہ ٹھہرائیں (پھر ان کو روحانی ترقی دیکر خدا کے گھر کا درجہ دیں) اور نماز قائم کریں اور مومنین کے لئے خوشخبری دیں۔

اس کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ اللہ نے ہمارے پیغمبر اکرم اور علی زمان علیہما السّلام کو حکم دیا ہے کہ مومنین کے باطن میں بیت الخیال (خیال کا نورانی گھر) تیار کریں۔

۱۵۱

اَھۡلَ الۡبَیۡت

(۸)

   

آلِ محمّدؐ آلِ عبا:

حضرتِ امّ سلمہ سے روایت کی گئی ہے کہ نبیّٔ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے حسنؑ و حسینؑ، علیؑ اور فاطمہؑ کو ایک چادر اوڑھائی اور دعا کی کہ یا اللہ! یہ میرے اہل بیت اور خاص لوگ ہیں ان سے ناپاکی کو دور رکھ، انہیں اچھی طرح پاک کر دے، اُمِّ سلمہ نے عرض کیا: میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟ آپؑ نے فرمایا، تم خیر ہی پر ہو۔

جامع ترمذی جلد دوم، ابواب المناقب، حدیث۳۶۴۲)۔

۹۱

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۱۵۲

اَھۡلَ الۡبَیۡت

(۹)

   

اھلِ بیتِ رسولؐ:

آیۂ مباہلہ کا ترجمہ: “پھر جب تمہارے پاس علم آچکا اس کے بعد بھی اگر تم سے کوئی (نصرانی) عیسٰیؑ کے بارے میں حجّت کرے تو کہو کہ (اچھا میدان میں) آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو، اور ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو، اور ہم اپنی جانوں کو بلائیں اور تم اپنی جانوں کو، اس کے بعد ہم سب مل کر (خدا کی بارگاہ میں) گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں (۳: ۶۱)”۔

جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے حضرتِ علیؑ، اور حضرتِ فاطمہؑ اور حضرتِ حسنؑ و حضرتِ حسینؑ کو بلایا پھر فرمایا یا اللہ! یہ میرے اہلِ (بیت) ہیں۔ (صحیح مسلم، جلد ششم، کتاب الفضائل)۔

۱۵۳

اَھۡلَ الذِّکر

   

ذکر والے، أئمّۂ آلِ محمّدؐ:

سورۂ انبیاء (۲۱: ۷) میں ہے: اور اے نبیؐ! تم سے پہلے بھی ہم نے مرد ہی (پیغمبر بنا کر) بھیجے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے، اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔ اہل ذکر کون ہیں جو نبوّت و رسالت کے جملہ اسرار سے واقف و آگاہ ہونے کی وجہ سے پیغمبروں سے متعلق ہر سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟ یہ حضراتِ ائمّۂ آلِ محمّدؐ ہی ہیں، جن کا سلسلۂ پاک قیامۃ القیامات تک جاری ہے۔

۹۲

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
۱۵۴

اھل الذّکر

(۲)

   

أئمّۂ طاھرین:

ذکر حضرتِ رسولؐ کا نام ہے (۶۵: ۱۰ تا ۱۱) اہلِ ذکر خاندانِ رسولؐ ہیں، ذکر قرآن ہے، (۲۱: ۵۰) اہل ذکر اہل قرآن ہیں، ذکر اسمِ اعظم ہے یعنی اسماء الحسنیٰ، اور اہلِ ذکر (اسمِ اعظم والے) أئمّۂ طاہرین ہیں، پس اہلِ ذکر سے أئمّۂ ھُدا مراد ہیں، جو علمِ لدنّی کی دولت سے مالا مال ہیں، اور وہ ہر مشکل علمی سوال کا جواب بہ آسانی دے سکتے ہیں۔

۱۵۵

اھل الذّکر

   

اِمامانِ حق:

یہاں کا طریقِ سوال عام نہیں بلکہ خاص ہے، وہ یہ ہے کہ آپ علم الیقین و عبادت سے بھرپور فائدہ حاصل کریں، پھر مظہرِ نورِ خدا (امامِ زمانؑ) کی دانشگاہِ روحانی میں داخل ہوجائیں، یہ صرف اسمِ اعظم ہی کی زبردست ریاضت سے ممکن ہے، اگر آپ کو خوش بختی سے کامیابی نصیب ہو جاتی ہے تو آپ کا یہ بیمثال عمل خود ایک ایسا بڑا علمی سوال ہے، جس میں لاکھوں سوالات  سمائے ہوئے ہیں، اور اگر ایسا کام نہ کیا گیا تو گویا اہلِ ذکر سے خدائی قانون کے مطابق کوئی علمی سوال ہی نہ ہوا۔

۱۵۶

اَھِلَّۃ

(۱)

   

نئے چاند، واحد ھلال:

سورۂ بقرہ (۲: ۱۸۹) میں ہے: یَسۡئَلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَھِلَّۃِط

۹۳

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

قُلۡ ھِیَ مَوَاقِیۡتُ لِلنَّاسِ وَ الۡحَحِّ۔ لوگ تم سے نئے چاندوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو کہ وہ لوگوں کے لئے اور حج کے لئے وقت بتانے کا آلہ ہیں۔ اس کی چند حکمتیں یہ ہیں:

(۱) سورج نورِ ازل کی مثال ہے اور نیا چاند اس کے مظہرِ زمانہ کا نورانی تولّد ہے (۲) سورج پیغمبرِ اکرمؐ کی دلیل ہے اور چاند امامِ زمان ؑ کی علامت ہے (۳) ہر چیز کا تجدّد ہوتا ہے لیکن چاند کا تجدّد نمایان ہے۔

۱۵۷

اَھِلَّۃ

(۲)

   

نئے چاندوں کی حکمت:

(۴) سورج کا زبانِ حال سے کہنا ہے کہ مجموعی طور پر خدا کی سنّت میں کوئی تبدیلی نہیں، چاند کہتا ہے کہ ذیلی طور پر ہر روز اس کی ایک نئی شان ہے (۵) سورج اس حقیقت کی شہادت ہے کہ اللہ کی ایک ہی بادشاہی کافی وافی ہے، نیا چاند یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر عالمِ شخصی میں کائناتی سلطنت کی ایک کاپی ہے (۶) آفرینش ظاہرًا سورج کی طرح ایک بار ہوئی، لیکن باطنًا نئے چاندوں کی طرح یہ ایک ایسا سلسلہ ہے کہ اس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا۔

۱۵۸

اَھِلَّۃ

(۳)

   

نئے چاندوں کی حکمت:

(۷) دنیا میں مادّی روشنی کے ذریعے دو ہیں، دن کے وقت سورج

۹۴

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

اور رات کے وقت چاند، اسی طرح دین میں نورِ ہدایت کے سرشمے دو ہیں، ظاہر میں رسولؐ اور باطن میں امامِ زمانؑ (۸) پہے ناطق سورج ہے اساس چاند، پھر اساس آفتاب ہے امامؑ  ماہتاب، پھر امامؑ شمس ہے باب قمر (۹) جب مومن کے نور کا چاند مرتبۂ عقل پر جاکر بدرِ منیر ہو جاتا ہے تب اس کو دیدارِ اقدس اور حجِّ اکبر کی سعادت نصیب ہو جاتی ہے، یہ اشارہ لفظِ مواقیت اور حج میں موجود ہے۔

۱۵۹

اَھِلَّۃ

(۴)

   

حکمتِ ھلال:

(۱۰) “تھݸݽ گٹو جو مین شرݸ جو” یہ زمانۂ قدیم سے رویت ہلال کی ایک دعا تھی، روحانی نے بار بار خاص طور سے پڑھ کر اس کی عظیم حکمتوں کی طرف توجہ دلائی (۱۱) چاند مثال کے طور پر ہر بار نیا لباس پہنتا ہے، مگر اس کا کام وہی ہے، چنانچہ حضرتِ امامؑ ہر زمانے میں جامہ تبدیل کرتا ہے، مگر اس کے پاس علمِ قدیم وہی ہے (۱۲) اس دعا میں جسم و جان کی تازگی اور عقلی نعمت مطلوب ہے۔

۱۶۰

ایّام اللہ

(۱)

   

خدا کے دن:

حق تعالٰی کے سات دن یہ ہیں: چھ ناطق اور قائم علیہم السّلام، ان کی روحانیت و نورانیت عارفین و کاملین کے عالمِ شخصی میں دیکھی

۹۵

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

جا سکتی ہے، جیسے قرآنِ پاک میں ارشاد ہے: وَ ذَکِّرۡھُمۡ بِاَیّٰمِ اللہِ۔ اور انہیں خدا کے وہ زندہ اور نورانی دن یاد دلاؤ جن میں علم و حکمت کے معجزے ہوئے تھے (۱۴: ۵)

۱۶۱

ایّام اللہ

(۲)

   

خدا کے دن:

اِنَّ فِیۡ ذَالِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ (۱۴: ۵) یقیناً اس طریقِ کار میں ہر صبر کرنے والے اور شکر کرنے والے کے لئے معجزے  ہی معجزے ہیں، صبّار وہ شخص ہے جو راہِ روحانیت کی شدید آزمائشوں میں صبر کرنے کی ہمّت رکھتا ہے اور شکور کے یہ معنی ہیں کہ وہ علم و عمل سے روحانی و عقلانی نعمتوں کی قدردانی کرتا ہے۔

۱۶۲

اَیَّدَھُمۡ

   

ان کی تائید کی ہے، مدد فرمائی ہے:

وَ اَیَّدَھُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ (یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا نے ایمان کو لکھ دیا ہے) اور اپنی ایک خاص روح سے ان کی تائید کی ہے، (۵۸: ۲۲) پوری آیت اور ما قبل کو قرآن میں پڑھ لیں۔ حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا: مَا مِنۡ مُؤۡمِنٍ اِلَّا وَ لِقَلۡبِہٖ اُذُنَانِ فِیۡ جَوۡفِہٖ: اُذُنٌ یَنۡفَثُ فِیۡھَا الۡوَسۡوَاسُ الۡخَنَّاسُ، وَ اُذُنٌ یَنۡفُثُ فِیۡھَا الۡمَلَکُ، فَیُؤَیِّدُ اللہُ الۡمُؤۡمِنَ

۹۶

لفظ   معنی و حکمت                                                            “الف”
     

بِالۡمَلَکِ فَذَالِکَ قَوۡلُہُ: وَ اَیَّدَھُمۡ بِرُوۡحٍ مِنۡہُ۔ ہر مومن کے باطن میں دل کے دو کان ہوتے ہیں ایک میں شیطان اپنے وسوسہ کی پھونک مارتا ہے اور دوسرے میں فرشتہ توفیق  پھونکتا ہے پس خدا فرشتے سے مومن کی مدد کرتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: اور اپنی ایک خاص روح سے ان کی تائید کی ہے (۵۸: ۲۲) (الشّافی، جلد چہارم، ص۲۰۵، نیز المیزان، ۱۹، ص۱۹۸)۔

۱۶۳

ایمان

   

ایمان:

حدیثِ شریف ہے: اَلۡاِیۡمَانُ یَمَانٍ وَ الۡحِکۡمَۃُ یَمَانِیَّۃٌ۔ ایمان یمن سے نکلا ہے اور حکمت بھی یمن ہی کی ہے (لغات الحدیث، باب الیاء مع المیم) اس کی ایک تاویل یہ ہے: ایمان باعثِ برکت ہے اور حکمت اس پر مزید باعثِ برکت ہے، پس ایمان اور حکمت دونوں ضروری ہیں۔

۹۷

     
     

مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۹۸

     
     

بابُ الباء

 

۹۹

     
     

مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۱۰۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ب”
۱۶۴

بَثَّ

(۱)

   

اُس نے بکھیرا:

خداوند تعالٰی کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اُس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان دونوں میں جانداروں کو پھیلا دیا (۴۲: ۲۹) اس سے یقینی طور پر یہ معلوم ہوا کہ کائنات کے ہر ستارے پر مخلوقات موجود ہیں، مگر ہاں، لطیف مخلوق کی بڑی کثرت ہے، جو دکھائی نہیں دیتی ہے۔

۱۶۵

بَثَّ

(۲)

   

اُس نے بکھیرا، پھیلایا:

یہ سورۂ شوریٰ کی ایک آیت ہے: وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَثَّ فِیۡھِمَا مِنۡ دَآبَّۃٍ (۴۲: ۲۹) اور اس کی نشانیوں میں سے ہے، آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور جو چلنے والے ان دونوں میں پھیلائے۔ اس قرآنی دلیل سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ کائنات کا کوئی حصّہ مخلوقات سے خالی نہیں، عالمگیر روح کو حیات و بقا کا بحرِ محیط مان لیں، اور زندگی کے ایسے بے پایان سمندر کے ہر قطرے کو ایک مخلوق سمجھ لیں، سو عجب نہیں کہ آسمانوں اور ستاروں پر لطیب مخلوقات ہوں۔

۱۶۶

بَدِیۡع

(۱)

   

موجِد، ایجاد کرنے والا:

سورۂ بقرہ (۲: ۱۱۷) میں ارشاد ہے: بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ۔

۱۰۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ب”
     

(خدائے تعالٰی) آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اللہ کی اس صفت کا خاص تعلق عالمِ امر سے ہے کہ وہ مبدِع ہے اور جب چاہے تو کُنۡ فرما کر کسی چیز کی اِبداع کرتا ہے۔

۱۶۷

بَدِیۡع

(۲)

   

ایجاد کرنے والا، مُبۡدِع:

سورۂ انعام میں ہے: وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اس کے اولاد کہاں ہوسکتی ہے؟ حالانکہ اس کی کوئی بی بی تو ہے ہی نہیں۔ ایک ہے عالمِ خلق، یعنی یہ جہان جو کثیف ہے، اور دوسرا ہے عالمِ امر، یعنی وہ جہاں جو لطیف ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: اَلَا لَہٗ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُط تَبٰرَکَ اللہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ (۷: ۵۴) یاد رکھو کہ خدا ہی کے لئے خاص ہے عالمِ خلق اور عالمِ امر، وہ خدا جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے بڑا برکت والا ہے۔ یعنی عالمِ خلق بھی اور عالمِ امر بھی اُسی کے ہیں، لہٰذا اس کے پاس بے پایان برکتیں ہیں۔

۱۶۸

بَدِیۡع

(۳)

   

عجیب و غریب:

رَوِّحُوۡا اَنۡفُسَکُمۡ بِبَدِیۡعِ الۡحِکۡمَۃِ فَاِنَّھَا تَکۡمُلُ کَمَا تَکۡمُلُ الۡاَبۡدَانُ۔ حکمت کی عجیب و غریب باتوں سے اپنی جانوں کو راحت دو کیونکہ جانیں بھی اس طرح سے مکمل ہوجاتی ہیں جیسے بدن مکمل

۱۰۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ب”
     

ہو جاتے ہیں (لغات الحدیث، جلد اوّل، کتاب “ب” ص۲۹)۔ یعنی جانوں کی راحت، قوّت، اور تکمیل علم و حکمت کے عجائب و غرائب سے ہوا کرتی ہے، جس طرح اجسام کی لذّت، خوشی، اور نشو و نما کیلئے ظاہری غذائیں ضروری ہوتی ہیں۔

۱۶۹

بُرُوۡج

   

تاروں کے برج:

سورۂ بروج کے شروع (۸۵: ۱ تا ۳) میں پڑھ لیں: آسمان کی قسم جس میں (بارہ) بُرج ہیں، اور اس دن کی (قسم) جس کا وعدہ ہے، اور گواہ کی (قسم) اور اس کی (قسم) جس کی گواہی دی گئی ہو۔

فلک البُرُوج سے امامِ زمانؑ مراد ہے، جس کے بارہ حجت ہوتے ہیں، وعدے کا دن قائم القیامت ہے، گواہی دینے والا اساس اور جس کیلئے گواہی دی گئی ہے وہ ناطق ہے۔

۱۷۰

بِسۡمِ اللہ

   

اللہ کے نام کے ساتھ:

رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم سے بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡم کے بارے میں پوچھا گیا، آپ نے فرمایا: ھو اسم من اسماء اللہ و ما بینہ و بین اسم اللہ الاکبر الّا کما بین سواد العین و بیاضھا من القرب۔ وہ اللہ کے ناموں میں

۱۰۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ب”
     

سے سے ایک (بزرگ) نام ہے خدا اور اس کے اسمِ اکبر کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں مگر حقیقت ایسی ہے جیسے آنکھ کی سیاہی اور سفیدی کے درمیان قرب و اتّصال ہے۔ یہ اللہ کے زندہ اسمِ اعظم کی ایک مثال ہے۔ (المستدرک، کتاب الفضائل القرآن، ۲۰۲۷/۸)

مذید تاویلی حکمت کیلئے رجوع کریں: کتابِ وجہِ دین، کلام: ۱۴۔

۱۷۱

بَعۡدِ عِلۡمٍ

   

علم کے بعد، پیچھے، دُور:

قرآنِ حکیم میں ظاہرًا و باطنًا ہر چیز کا بیان اور ہر سوال کا جواب باصواب موجود ہے (۱۶: ۸۹) چنانچہ اس میں بہت بڑا راز بھی ہے کہ مشاہداتِ روحانیت کے آخری درجے پر عقل اور علم کا سرچشمہ آتا ہے اور اس کے بعد کوئی چیز نہیں (لِکَیۡلَا یَعۡلَمَ مِنۡم بَعۡدِ عِلۡمٍ شَیۡئًا۔ ۲۲: ۵)۔ یعنی خداوندِ عالم کے خزانۂ علم میں ہر شَی محدود و موجود ہے، اس سے باہر اور برتر چیز نہیں۔

۱۷۲

بَغۡتَۃ

   

اچانک، ناگاہ، ناگہان:

قیامت کے بارے میں جاننے کے لئے سب سے پہلے علم الیقین ضروری ہے اس کی ایک کلید بَغۡتَۃ (اچانک) ہے، لیکن دیکھنا ہوگا کہ یہ لفظ قرآنِ حکیم میں کس طرح استعمال ہوا ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بَغۡتَۃ

۱۰۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ب”
     

قرآنِ حکیم کے تیرہ مقامات پر آیا ہے، ان میں سے ایک جگہ بَغۡتَۃَ بمقابلۂ جَھۡرَۃ (کھلّم کھلّا) استعمال ہوا ہے (۶: ۴۷) تو یہاں سے معلوم ہوا کہ بَغۡتَۃ کا مطلب ہے مخفی اور باطن، اور چھ مقامات پر بَغۡتَۃ شعور کے معنی میں آیا ہے، تو بَغۡتَۃ کے معنی ہوئے غیر شعوری حالت، پس قیامت عوام النّاس اور اکثریت کے اعتبار سے مخفی اور غیر شعوری طریق پر آتی رہی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قیامت دراصل انتہائی عظیم باطنی اور روحانی واقعہ ہے۔

۱۷۳

بِغیرِ حساب

(۱)

   

قیامت کے حساب کتاب کے بغیر:

ایک حدیثِ شریف کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ تین قسم کے لوگ قیامت کے حساب کتاب کے بغیر بہشت میں داخل کر دئیے جائیں گے، وہ یہ ہیں: اہلِ فضل، اہل صبر اور جیران اللہ (خدا کے ہمسائے) یعنی علم الیقین والے، عین الیقین والے اور حق الیقین والے (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: دعائم الاسلام، حصّۂ دوم، کتاب العطایا، ۳۔ ذکر تباذل و تواصل)۔

۱۷۴

بِغَیرِ حِسَابٍ

(۲)

   

قیامت کے حساب کتاب کے بغیر:

مریم سلام اللہ علیہا نے کہا: اِنَّ اللہَ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ۔ اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے (۳: ۳۷)

۱۰۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ب”
     

یعنی اللہ جس کو چاہے قیامت کے حساب کتاب کے بغیربھی بہشت کا علم عطا کرسکتا ہے۔

۱۷۵

بُکِیّ

   

رونے والے، واحد باکی:

سورۂ مریم (۱۹: ۵۸) میں انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کی نرم دلی، عاجزی، اور گریہ و زاری کا ذکر جمیل اس طرح آیا ہے: اِذَا تَتۡلٰی عَلَیۡھِمۡ اٰیٰتُ الرَّحۡمٰنِ خَرُّوۡا سُجَّدَا وَّ بُکِیًّا۔ جب ان کے سامنے رحمان کی آیتیں پڑھی جاتی تھیں تو سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے گر جاتے تھے۔ ایک ہوتا ہے مستانہ عشق، دوسرا ہوتا ہے دیوانہ عشق، پھر عاجزانہ، عارفانہ اور شاکرانہ عشق، اب آپ ہی بتائیں کہ ان حضرات میں کونسا عشق تھا؟

۱۷۶

بَلَد

   

شھر:

سورۂ بلد کی چار ابتدائی آیاتِ کریمہ (۹۰: ۱ تا ۴) کو پڑھیں: نہیں، میں قسم کھاتا ہوں اس شہر (مکّہ) کی، اور تم باالآخر اس شہر میں اترنے والے ہو، اور قسم کھاتا ہوں باپ کی، اور اس کی اولاد کی جو اس سے پیدا ہوئی، درحقیقت ہم نے انسان کو مشقّت میں پیدا کیا ہے۔

شہر مکّہ سے اساس مراد ہے، جس میں رسولؐ کا نور منتقل ہونے والا تھا،

۱۰۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ب”
     

باپ سے عقلِ کلّ مراد ہے، اور اولاد نفسِ کلّ ہے، اس قسم کے بعد فرمایا گیا کہ انسان کی روحانی تخلیق مشقّت و ریاضت ہی سے ہوتی ہے۔

۱۷۷

بنی اٰدم

(۱)

   

اولادِ آدمؑ:

یہ بات خوب یاد رہے کہ خدا کے نزدیک بنی آدمؑ وہ حضرات ہیں جن کو حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کی سی خصوصیات عطا ہوئی ہیں، اور وہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام اور عارفین ہیں، جیسے سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۰) میں ہے: اور ہم نے آدمؑ کی اولاد کو عزّت دی اور ہم نے ان کو خشکی اور سمندر میں سوار کیا، اور ہم نے ان کو لطیف غذائیں عطا فرمائیں اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی۔

۱۷۸

بنی اٰدم

(۲)

   

اولادِ آدمؑ:

یٰبَنِیۡٓ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ (۷: ۳۱) اے بنی آدمؑ! ہر عبادت کے موقع پر اپنی (باطنی اور روحانی) زینت سے آراستہ رہو، جو مومنین بحقیقت بنی آدمؑ ہوچکے ہیں، ان کا عالمِ شخصی روحانی آبادی سے پُربہار ہوگیا ہے، چنانچہ دورانِ عبادت ان کا باطن کسی بھی درجے میں رونق افروز اور منوّر ہوجاتا ہے۔

۱۰۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ب”
۱۷۹

بُوۡرِکَ

   

وہ برکت دیا گیا:

سورۂ نمل (۲۷: ۸) کی اس عظیم حکمت میں غور و فکر کریں: پھر جب موسٰیؑ اس آگ کے پاس آئے تو ان کو آواز آئی کہ برکت دیا گیا ہے وہ جو آگ میں ہے اور جو اس کے گرد ہیں، اور پاک ہے وہ خدا جو عوالمِ شخصی کا پروردگار ہے۔ حق بات تو یہ ہے کہ “بُوۡرِکَ” کی صفت ذاتِ سبحان کے لئے نہیں، بلکہ یہ نورِ منزّل کی تعریف ہے، جو نورِ یک حقیقت ہے۔

۱۸۰

بِئۡر

   

کُنواں:

قرآنِ حکیم میں عالمِ شخصی کی مختلف مثالوں کی فراوانی ہے، من جملہ وہ ایک مرکزی قریہ (بستی) کی طرح بھی ہے، جس میں آبِ شیرین کا ایک کنواں بھی موجود ہے اور ایک عالیشان محل بھی ہے (۲۲: ۴۵) کنویں سے سرچشمۂ علم مراد ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا، اور محل اس حقیقت کی دلیل و علامت ہے کہ ہر عالمِ شخصی میں ایک روحانی سلطنت کا امکان ہے، اگر کسی نے اپنے آپ پر ظلم کیا تو یہ سب کچھ برباد ہوجائے گا۔

۱۸۱

بیت

   

گھر:

وَ اِذۡ بَوَّاۡنَا لِاِبۡرَاھِیۡمَ مَکَانَ الۡبَیۡتِ (۲۲: ۲۶) اور جبکہ ہم نے ابراہیمؑ کو خانۂ کعبہ کی جگہ بتلا دی۔ اس آیۂ شریفہ کا باطن یہ

۱۰۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ب”
     

ہے کہ خداوندِ عالم نے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے عالمِ شخصی میں بیت اللہ بنا دیا، کیونکہ آپ امام تھے (۲: ۱۲۴)۔

۱۸۲

بیتُ العتیق

   

قدیم گھر، خانۂ کعبہ، امام کا مرتبہ:

سورۂ حجّ (۲۲: ۲۹) میں دیکھ لیں: پھر چاہئے کہ دور کریں اپنی میل کچیل اور پوری کریں اپنی نذریں اور طواف کریں ایسے گھر کا جو بہت قدیم ہے (۲۲: ۲۹) بیت العتیق، قدیم گھر، خانۂ کعبہ جو عبادتِ الٰہی کے لئے دنیا میں سب سے پہلا مقام اور مکان ہے، جسے حضرتِ آدمؑ علیہ السّلام نے خدا کی عبادت کے لئے تعمیر کیا تھا۔ یہ مثال ہے اور اس کا ممثول امام علیہ السّلام ہے۔

۱۰۹

     
     

مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۱۱۰

     
     

بابُ التّاء

 

۱۱۱

     
     

مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۱۱۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
۱۸۳

تَابُوۡت

   

صندوق، تابوتِ سکینہ:

سورۂ بقرہ (۲: ۲۴۸) میں جیسے ارشاد ہوا ہے، اس کا تاویلی مفہوم اس طرح ہے: تابوت (صندوق) سے مجموعۂ معجزاتِ روحانی مراد ہے، جس میں ربّ العزّت کی جانب سے روحی و عقلی تسکین ہے، اور نبوّت و امامت کے علمی تبرّکات ہیں، چونکہ صندوقِ سکینہ روحانی ہی ہے، لہٰذا اسے لے آنا فرشتوں کا کام ہے، یہ باطنی معجزہ امامِ عالی مقامؑ کی روحانی سلطنت کی دلیل ہے۔

۱۸۴

تأویل

(۱)

   

اوّل کی طرف پھیرنا، باطنی معنی، حکمت:

تأویل لفظ “اوّل” سے ماخوذ ہے، جس کے لغوی معنی ہیں کسی چیز کو اوّل کی طرف پھیرنا، اور اصطلاحًا کسی کلام کے باطنی معنی بیان کرنے کو کہتے ہیں، تأویل حکمتِ باطن ہے۔

۱۸۵

تأویل

(۲)

   

علمِ لَدُنِّی:

تأویل کا ایک قرآنی نام “علمِ لَدُنِّی” ہے، جیسا کہ اللہ کے اُس بندۂ خاص کو علمِ لُدُنّی عطا ہوا تھا، جو دو دریاؤں کے سنگم پر رہتا تھا (۱۸: ۶۵) او یہی علمِ تأویل ہے (۱۸: ۷۸ تا ۸۲)۔

۱۱۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
۱۸۶

تأویل

(۳)

   

قرآن کا باطن:

اِنَّ لِلۡقُرۡاٰنِ ظَاہِرًا وَّ بَاطِنًا….. (قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ….. (احیاء العلوم، جلد اوّل، دوسرا باب، عقاید کا بیان) پس قرآن کا باطن ہی تأویل ہے جو بیحد ضروری ہے کہ اس میں جواہرِ اسرار پنہان ہیں۔

۱۸۷

تأویل

(۴)

   

حکمت:

قرآنِ پاک کی متعدد آیات میں کتاب اور حکمت کا ذکر آیا ہے (۲: ۱۲۹) ایسی صورت میں کتاب سے تنزیل اور حکمت سے تأویل مراد ہے، جیسا کہ یہ مفہوم ہے: (اے گروہِ أئمّہ!) جس طرح ہم نے تم ہی میں سے ایک رسولؐ بھیجا جو تم کو (روحانیت میں) ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے اور کتاب و حکمت سکھاتا ہے (۲: ۱۵۱)

۱۸۸

تأویل

(۵)

   

ممثول:

جو تنزیل ہے وہ مثال ہے اور جو تأویل ہے وہ ممثول، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ قرآنِ حکیم کی مثالیں آنحضرتؐ کے بعد أئمّۂ آلِ محمدؐ ہی جانتے ہیں، اور اسی معنٰی میں وہ حضرات صاحبانِ تأویل ہیں (۲۹: ۴۳) دعائم الاسلام، المجلد الاوّل، کتاب الولایہ کو پڑھ لیں۔

۱۱۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
۱۸۹

تأویل

(۶)

   

تطبیقِ روحانیت و عقلانیت:

آیت، حدیث اور فرمان کے حقائق و معارف روحانیت و عقلانیت ہی میں موجود ہوتے ہیں، لہٰذا کسی ایسی چیز کی حقیقت و معرفت بیان کرکے اصل سے مطابقت پیدا کرنا تأویل ہے۔

۱۹۰

تأویل

(۷)

   

علمِ قیامت:

کوئی شخص تجربۂ ذاتی قیامت کے بغیر تأویل نہیں کرسکتا، اور ذاتی قیامت موت قبل از موت کا نتیجہ ہے، جیسا کہ ارشادِ نبوی ہے: مَنۡ مَّاتَ فَقَدۡ قَامَتۡ قِیَامَتُہٗ۔ جو کوئی مرتا ہے اس کی قیامت برپا ہوجاتی ہے (احیاء العلوم، جلد چہارم، دوسرا باب، صبر کی حقیقت)۔

۱۹۱

تأویل

(۸)

   

تعبیر:

سورۂ یوسف کی آیت ۴۳ تا ۴۴ سے ظاہر ہے کہ تأویل کا نام تعبیر بھی ہے، جس کا علم حضرات أئمّہ علیہم السّلام ہی کے پاس ہے، جیسے خداوندِ قدّوس نے حضرتِ امام یوسف علیہ السّلام کو تأویل سکھایا تھا (۱۲: ۶؛ ۱۲: ۲۱؛ ۱۲: ۴۴؛ ۱۲: ۱۰۱)۔

۱۱۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
۱۹۲

تأویل

(۹)

   

بیان:

نہایت مہربان خدا نے قرآن کی لَدُنّی تعلیم دی، اسی نے انسانِ کامل کو (مرتبۂ اعلٰی پر) پیدا کیا اور اسے بیان یعنی تأویل سکھائی (۵۵: ۱ تا ۴)

۱۹۳

تأویل

(۱۰)

   

تاویلی حکمت:

اَللّٰھُمَّ فَقِّھۡہُ فِی الدِّیۡنِ وَ عَلِّمۡہُ التَّاوِیۡلَ۔ یعنی بارِ اِلٰھَا! تو اس کو دین کی سمجھ عطا فرما اور تأویل کا علم مرحمت کر۔ (الاتقان، حصّۂ دوم، نوع ۷۸) یہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کی وہ مبارک دعا ہے جو ابنِ عبّاسؓ کے لئے کی گئی تھی، یہ تأویل کی اہمیت و ضرورت پر بڑی روشن دلیل ہے۔

۱۹۴

تأویل

(۱۱)

   

قرآن کی باطنی حکمت:

آنحضور صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: اِنَّ منکم من یقاتل علٰی تأویل ھٰذا القراٰن کما قاتلت علٰی تنزیلہ۔ یقیناً تم میں وہ شخص بھی ہے جو اس کی تأویل پر جنگ کرے گا جس طرح میں نے اس کی تنزیل پر جنگ کی۔ یعنی علیؑ (شرح الاخبار، الجزاء الرّابع، ص۳۳۷)

۱۱۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
۱۹۵

تأویل

(۱۲)

   

علمِ مکنون:

مولا علی صلوات اللہ علیہ نے قرآن کے بارے میں ارشاد فرمایا: ظاھرہُ عملٌ موجوبٌ، و باطنہُ علمٌ مکنونٌ محجوبٌ، و ھو عندنا معلومٌ مکتوبٌ۔ قرآن کا ظاہر وہ عمل ہے جو لازم و واجب ہے، اور اس کا باطن درپردہ پوشیدہ علم ہے، اور وہ ہمارے پاس معلوم و مرقوم ہے (دعائم الاسلام، المجلد الاوّل، زکر منازل الأئمّۃ، ص۵۳)۔

۱۹۶

تأویل

(۱۳)

   

اوّل کی طرف پھیرنا، ممثول بیان کرنا؛

سورۂ اعراف (۷: ۵۲) میں ہے: اور ہم نے ان کے پاس ایک ایسی کتاب پہنچا دی ہے جس کی تفصیل ہم نے ایک خاص علم سے کی ہے، اور وہ مومن لوگوں کیلئے ہدایت اور رحمت ہے۔ یعنی قرآن کی تفصیل و توضیح نورِ منزّل (۵: ۱۵) میں کی گئی ہے، اور وہ تأویل ہی ہے۔

۱۹۷

تأویل

(۱۴)

   

باطنی معنی، تأویل:

بعد ازان ارشاد ہے: ھَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا تَاۡوِیۡلَہٗ (۷: ۵۳) وہ اُس (یعنی قرآن) کی تأویل کے سوا کس چیز کے منتظر ہیں؟ سابقہ آیت میں کتاب (قرآن) کا ذکر ہوا ہے، اس لئے تَاۡوِیۡلَہٗ کی ضمیر قرآن

۱۱۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
     

کی طرف راجع ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم کی عملی اور آخری تأویل قیامتِ کُبریٰ ہے، جس کا ظاہری پہلو سائنسی انقلاب ہے اور باطنی پہلو روحانی انقلاب۔

۱۹۸

تأویل

(۱۵)

   

باطنی حکمت، تأویل:

یَوۡمَ یَاتِیۡ تَاۡوِیۡلُہٗ….. جس روز اس کی تأویل آئے گی اس روز جو لوگ اس کو پہلے سے بھولے بیٹھے تھے وہ یوں کہنے لگیں گے کہ واقعی ہمارے ربّ کے پیغمبرؐ حق لیکر آئے تھے، (۷: ۵۳) حق سے ولایتِ علیؑ مراد ہے، پس ان لوگوں کو بڑا افسوس ہوگا کہ وہ تأویل اور صاحبِ تأویل یعنی حضرتِ علی علیہ السّلام کو بھول چکے تھے۔ (الحق = ولایتِ علیؑ، دیکھو شرح الاخبار، جلد۲، ص۲۳۷، نیز دیکھو حق علیؑ کے ساتھ ہے، المستدرک، الجزء الثالث، ص۱۳۵)

۱۹۹

تأویل

(۱۶)

   

حکمتِ باطن، تأویل:

حدیثِ خاصفُ النّعل: انّ منکم من یّقاتل علٰی تأویل القراٰن کما قاتلت علٰی تنزیلہ۔ یقینًا وہ شخص بھی تم میں سے ہے جو قرآن کی تأویل پر جنگ کرے گا جس طرح میں نے اس کی تنزیل پر جنگ کی (المستدرک، الجزء الثّالث، کتاب معرفۃ

۱۱۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
     

الصّحابۃ ص۱۳۲)

۲۰۰

تأویل القراٰن

(۱)

   

قرآن کی تأویل:

کوکبِ دُرّی، بابِ دُوم، منقبت۶۷ میں یہ حدیث اپنے حوالہ جات کے ساتھ درج ہے: اِنَّ مِنۡکُمۡ مَنۡ یُّقَاتِلُ عَلٰی تَاۡوِیۡلِ الۡقُرۡاٰنِ کَمَا قَاتَلۡتُ عَلٰی تَنۡزِیۡلِہٖ۔ تم میں سے ایک شخص ہے کہ وہ تأویلِ قرآن پر جنگ کرے گا، جیسا کہ میں نے تنزیلِ قرآن پر جنگ کی ہے، آنحضرتؐ سے پوچھنے پر اشارہ فرمایا گیا کہ وہ شخص علیؑ ہے، جس سے تمام أئمّۂ آلِ محمّدؐ مراد ہیں، جن میں علیؑ کا نورِ مقدّس تاویلی جنگ کرنے والا تھا۔

۱۱۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
۲۰۱

تأویل القراٰن

(۲)

   

قرآن کی تأویل:

عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب کے حق میں آن حضور اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے یہ دعا فرمائی تھی: اللّٰھُمّ فَقّھہ فی الدّین ع علّمہٗ التّاویل۔ اے اللہ! اسے دین کی سمجھ عطا فرما اور (قرآن کی) تأویل سکھا دے۔ کسی اور موقع پر آنحضرت صلعم نے عبد اللہ بن عباس کے لئے ان الفاظ میں دعا فرمائی: اللّٰھمّ علّمہ تأویل القراٰن۔ اے اللہ اسے قرآن کی تأویل سکھا دے! (المستدرک، الجزء الثالث،

۱۱۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
     

کتاب معرفۃ الصّحابۃ)۔

۲۰۲

تأویل القراٰن

(۳)

   

قرآن کی حکمت:

یہ حدیثِ شریف خاص و عام میں مشہور ہے، اور یہ اس حقیقت کی ایک روشن دلیل ہے کہ خداوند تعالٰی نے ان حضرات کو علمِ تأویل کی دولت سے مالامال فرمایا ہے جن کا نامِ مبارک قرآنِ پاک میں راسخون فی العلم (۳: ۷) ہے اگر یہ بات نہ ہوتی تو حضورِ اکرم اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم غیر ممکن چیز کے لئے دعا نہ کرتے، پس تأویل حکمت کا دوسرا نام ہے، اور حکمت سے کون منکر ہوسکتا ہے۔

۲۰۳

تَأوِیۡلَہٗ

(۱)

   

اُس کی تأویل:

سورۂ اعراف (۷: ۵۲) میں قرآنِ پاک کے ذکر کے بعد یہ ارشاد ہے: اب کیا یہ لوگ اس کے سوا کسی اور بات کے منتظر ہیں کہ تأویل (بصورتِ قیامت) سامنے آئے گی (۷: ۵۳)؟ اس حکم سے یہ ظاہر ہوا کہ اجتماعی اور عمومی تأویل اجتماعی قیامت کی شکل میں آنے والی ہے۔

۲۰۴

تَأوِیۡلَہٗ

(۲)

   

اس کی تأویل:

بلکہ جس چیز (قرآن) کے علم پر قابو نہیں پاسکے اس کو (نادانی سے) جھٹلا دیا۔

۱۲۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
     

حالانکہ ابھی تک اُن کے پاس اس کی تأویل نہیں آئی ہے (یونس، ۱۰: ۳۹) یعنی اصل روشنی اور فیصلہ کن علم بس تأویل ہی ہے۔

۲۰۵

تائید

   

مدد، خدا کی مدد:

سورۂ مجادَلہ میں ارشاد ہے: وَ اَیَّدَھُمۡ بِرُوۡحٍ مِنۡہُ۔ اور خدا نے اپنی طرف سے ایک (خاص) روح عطا کرکے اُن کی مدد فرمائی (۵۸: ۲۲) یہ حزبُ اللہ (خدا کی جماعت) کی شان میں ہے، جس میں ہدایت کا سرچشمہ اور روح القدس کی تائید ہے، جبکہ حزبُ الشَّیطان (۵۸: ۱۹) کو یہ سعادت حاصل نہیں۔

۲۰۶

تَبَارَک

   

بابرکت ہے:

سورۂ اعراف (۷: ۵۴) میں ہے: آگاہ ہوجاؤ کہ عالمِ خلق اور عالمِ امر اسی کے لئے ہیں، وہ خدا جو عوالمِ شخصی کا پروردگار ہے، بڑا بابرکت والا ہے (۷: ۵۴) یہاں دائرۂ کلّ کے سرِّ اسرار کا بے مثل خزانہ پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ حضرتِ ربّ العزّت برکات کا بے پایان سمندر عالمِ خلق سے عالمِ امر کی طرف بہا دیتا ہے، اور برکتوں کا دوسرا سمندر عالمِ امر سے عالمِ خلق کی طرف بہاتا رہتا ہے، ان برکاتِ خداوندی کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، بلکہ یہ دائرۂ قدیم ہے۔

۱۲۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
۲۰۷

تَبَتَّلۡ

   

تو کٹ جا، منقطع ھوجا:

سورۂ مزمّل (۷۳: ۸) میں فرمایا گیا ہے: وَ اذۡكُرِ اسۡمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡهِ تَبۡتِیۡلًا۔ اور اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرتے رہو، اور سب سے منقطع ہوکر اسی (یعنی خدا) کی طرف توجّہ دو۔ اس سورہ کی تعلیمات کارِ بزرگ سے متعلق ہیں، شب خیزی اسی مقصد کے پیشِ نظر ہے، لیکن مومنِ ذاکر کس طرح تمام خیالات سے کٹ کر دریائے ذکر میں مستغرق ہوسکتا ہے؟ یہ ہنر ایسا نہیں جو ایک ہی دن میں کسی کو حاصل ہوسکے، فرمایا گیا کہ مسلسل شب خیزی سے نفس خوب پامال ہوسکتا ہے اور گفتگو کی درستی اور ترقی بھی اسی میں ہے (۷۳: ۶)۔

۲۰۸

تُبَدَّلُ الۡاَرۡض

   

زمین بدل دی جائے گی:

یَوۡمَ تُبَدَّلُ الۡاَرۡضُ غَیۡرَ الۡاَرۡضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوۡا لِلّٰهِ الۡوَاحِدِ الۡقَهَّارِ۔ جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی (بدل دئیے جائیں گے) اور سب لوگ خدائے واحد و زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے (سورۂ ابراھیم ۱۴: ۴۸)

قیامت کے دن لوگ اِس مادّی زمین سے عالمِ شخصی کی روحانی زمین میں منتقل کر دئے جائیں گے، لہٰذا ان کے سامنے دوسری زمین ہوگی اور

۱۲۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
     

آسمان بھی دوسرے ہوں گے اور سب لوگ خدائے یگانہ و زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے (مفہوم ۱۴: ۴۸)۔

۲۰۹

تَبِعَ

   

اُس نے پیروی کی، وہ تابع ہوا:

قرآنِ حکیم میں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کا ایک بڑا اہم اصولی قول ہے: فَمَنۡ تَبِعَنِیۡ فَاِنَّہٗ مِنِّیۡ (۱۴: ۳۶) پس جو شخص میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے۔ یعنی وہ میری روحانی اولاد ہے، اگر ہم سوچ سکیں تو اس اصول میں بہت سی حکمتیں ہیں، یعنی اسلام جو دینِ فطرت ہے اس کی ترقّی میں کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ پیغمبرؐ اور امامؑ کے پیچھے پیچھے چل کر منزلِ مقصود تک پہنچ جانے کا روشن امکان ہے۔

۲۱۰

تَجَلّٰی

(۱)

   

وہ روشن ہوا، ظاہر ہوا، تجلّی کی:

عالمِ شخصی کے روحانی سفر میں سب سے پہلے جبلِ روح سامنے آتا ہے اور آخر میں جبلِ عقل، جبلِ روح پروردگار کی تجلّی سے ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے، اس لئے وہاں حضرتِ موسٰیؑ کو ربّ کا دیدار نہیں ہوا (۷: ۱۴۳) لیکن جبلِ عقل پر ہر نبیؐ اور ہر ولی کو دیدار ہوتا ہے، کیونکہ وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہتا ہے۔

۱۲۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
۲۱۱

تَجَلّٰی

(۲)

   

وہ روشن ہوا، ظاہر ہوا، تجلّی کی:

انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کو نہ صرف آخر ہی میں بلکہ دنیا کی روحانیت میں بھی اللہ کا دیدار حاصل ہوتا ہے، جس کی پہلی دلیل لفظِ تجلّٰی ہے، یعنی ظاہر ہوا (۷: ۱۴۳) دوسری دلیل اسمِ الظّاہر ہے (۵۷: ۳) تیسری دلیل اسمِ اَلنُّور ہے چوتھی دلیل اَلشہید (گواہ/حاضر) ہے، پانچویں دلیل فنا فی اللہ ہے کہ وہ نتیجۂ نتیجۂ دیدار ہے، چھٹی دلیل لفظِ عارف اور معرفت ہے کہ وہ دیدار کے سوا ممکن ہی نہیں، اور ساتویں دلیل قرآنی لفظِ لقاء (ملنا، ملاقات کرنا) ہے۔

۲۱۲

تَرۡکَبُنَّ

   

تم ضرور سوار ھوگے:

لَتَرۡکَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍ۔ تم کو درجات (کی سیڑھی) سے ضرور چڑھنا ہے، اس ارشاد میں مادّی اور روحانی تمام مدارج کا اشارہ موجود ہے، یقیناً انسان علم و معرفت یا روحانی سائنس کی غرض سے مطالعۂ کائنات کے عظیم سفر پر روان دوان ہے (۸۴: ۱۹)۔

۲۱۳

تَطۡمَئِنُّ

(۱)

   

وہ آرام پاتی ہے، وہ مطمئن ھو جائے:

ذکر الٰہی کی سب سے بڑی تعریف اِس آیۂ کریم میں ہے: اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ۔ خبردار رہو! خداوندِ قدّوس کی یاد ہی سے (مومنین کے) دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے (۱۳: ۲۸) سوال:

۱۲۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
     

اطمینان کا قرآنی معیار اور پیغمبرانہ نمونۂ عمل کیا ہے؟ جواب: اس کا معیار باطنی معجزات کا مشاہدہ اور حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کا مثالی عمل ہے (دیکھو قرآن میں اطمینان کے آٹھ مختلف صیغے)۔

۲۱۴

تَطۡمَئِنُّ

(۲)

   

وہ آرام پاتی ہے، وہ مطمئن ھوجائے:

حقیقی اطمینان وہ ہے جو اسمِ اعظم کے ذکر سے خدا کے دوستوں کو مشاہدۂ باطن، دیدارِ الٰہی، معرفت، علم اور حکمت کی صورت میں نصیب ہوجاتا ہے، کیونکہ اصل ذکر جس میں آخری درجے کا اطمینان پوشیدہ ہے وہ اسماء الحسنٰی (۷: ۱۸) کے سوا نہیں، ہم نے اپنی کتابوں میں اس مبحث پر گفتگو کی ہے۔

۲۱۵

تَطۡمَئِنُّ

(۳)

   

وہ آرام پاتی ہے، وہ مطمئن ھوجائے:

سورۂ فجر (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) میں دیکھ لیں: اے نفسِ مطمئنّ اپنے ربّ کی طرف واپس چلو اس حال میں کہ تو اُس ے خوش اور وہ تجھ سے راضی ہے، پس داخل ہوجاؤ میرے خاص بندوں میں (یعنی فنا فی الامام اور فنا فی الرّسولؐ ہوجاؤ کہ اسی درجے میں تمام خاص بندے جمع ہیں) اور میری جنّت میں داخل ہوجاؤ (کہ یہی مرتبۂ فنا جنّت ہے)۔

۱۲۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
۲۱۶

تَطۡمَئِنُّ

(۴)

   

وہ آرام پاتی ہے، وہ مطمئِن ھوجائے:

آیۂ مذکورۂ بالا کی حکمت یہ بتاتی ہے کہ یاد الٰہی کا تعلق دل سے ہے، لہٰذا اذکار میں سے ذکرِ قلبی سب سے زیادہ مؤثر اور مفید ہوسکتا ہے، جبکہ دل بالکل نرم ہوچکا ہو، اگر دل سخت ہے تو پھر ذکرِ جلی وغیرہ سے دل کو نرم کرنا پڑے گا تاکہ ذکرِ قلبی بحال ہو سکے۔

۲۱۷

تَعۡمٰی

(۱)

   

اندھی ہوجاتی ہے:

اے نورِ عینِ من! اس حکمت کو سورۂ حجّ (۲۲: ۴۶) میں دیکھ لیں: کیا یہ لوگ (عالمِ شخصی کی) زمین میں چلے پھرے نہیں تاکہ ان کے دل ایسے ہوتے جیسے (حق) باتوں کو سمجھتے یا ان کے ایسے کان ہوتے جن کے ذریعے سے (سچّی باتوں کو) سنتے کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں، بلکہ دل جو سینے میں ہیں وہی اندھے ہوجایا کرتے ہیں۔

۲۱۸

تَعۡمٰی

(۲)

   

اندھی ہوتی ہے:

سورۂ حجّ (۲۲: ۴۶) میں ہے: کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ دل جو سینے میں ہیں وہ اندھے ہوجایا کرتے ہیں۔ اس قرآنی تعلیم کا دوسرا پہلو یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے دل کی آنکھ (چشمِ بصیرت) روشن ہوگئی ہے، اور دل کی آنکھ (چشمِ باطن)

۱۲۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
     

بہت بڑی چیز ہے، جس سے عالمِ شخصی کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ ہوجاتا ہے، اور تمام باطنی نعمتوں کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔

۲۱۹

تَعۡمٰی

(۳)

   

اندھی ہوتی ہے:

سورۂ رعد (۱۶: ۱۳) میں ہے: تم کہو کہ آیا نابینا اور بینا برابر ہوتے ہیں؟ یا اندھیریاں اور روشنی برابر ہے؟ اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آگئی کہ دنیا میں بہت بڑی اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کے دل اندھے ہیں، ان کے مقابلے میں بابصیرت مومنین بہت ہی کم ہیں، بہ ہرکیف چشمِ باطن سے خدا کا دیدار ممکن ہے۔

۲۲۰

تقویم

   

سیدھا کرنا:

اللہ تعالٰی نے انسان کو جسمًا، روحًا، عقلًا درجات کی سیڑھی پر زینہ بزینہ خلق کرتے ہوئے اعلی العلّیّین تک پہنچا دیا ہے پھر اسے سایۂ بدن اور انائے سفلی کے اعتبار سے ہر نیچی سے نیچی حالت کی طرف پھیر دیا، مگر جو لوگ حقیقی معنوں میں ایمان لائے اور علم و معرفت کی روشنی میں اچھے کام کئے ان کا اجر و صلہ ہمیشہ اور غیر منقطع ہے (۹۵: ۳ تا ۶) یعنی جو لوگ اپنی روح کو پہچانتے ہیں، وہ خداوندِ قدّوس کی اس بے مثال و لازوال نعمت کو بھی جانتے ہیں کہ اُن کی انائے علوی ہمیشہ بہشت

۱۲۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
     

میں ہے۔

۲۲۱

تَلَذُّ الۡا عَیۡنُ

   

آنکھوں کو لذّت ہوگی۔

سورۂ زخرف میں جنّت کی نعمتوں کے متعلق ارشاد ہوا ہے: وَ فِیۡهَا مَا تَشۡتَهِیۡهِ الْاَنۡفُسُ وَ تَلَذُّ الْاَعۡیُنُۚ۔ اور وہاں جس چیز کو جی چاہے اور جس سے آنکھیں لذّت اٹھائیں (سب موجود ہیں۔ ۴۳: ۷۱) یعنی بہشت میں نفوس و عقول کیلئے تمام چیزیں (نعمتیں) مہیّا ہیں، اور ان میں سب سے بڑی نعمت خدائے بزرگ و برتر کا دیدارِ اقدس ہے، کیونکہ عاشقانِ الٰہی کی آنکھیں اسی کے لئے روتی رہی ہیں۔

۲۲۲

تماثیل

(۱)

   

مورتیں، صورتیں، تصویریں، واحد تمثال:

تماثیل: مجسمے بھی ہیں اور تصویریں بھی، تصویریں دو قسم کی ہوا کرتی ہیں: ظاہری و باطنی، چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے جن تماثیل (۲۱: ۵۲) کا ذکر کیا وہ دونوں قسم کے بت ہیں، لہٰذا بہت سے لوگ ظاہری بتوں سے نفرت اور باطنی اصنام سے محبت کرتے ہیں، جس میں خسارہ ہی خسارہ ہے۔

۲۲۳

تماثیل

(۲)

   

روحانی تصویریں:

کسی مومنِ سالک کے لئے یہ بات بت پرستی ہرگز نہیں کہ اُس نے

۱۲۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
     

روحانی سفر کے دوران کوئی معجزہ دیکھا اور اس میں غور کرنے لگا، بلکہ صنم پرستی یہ ہے کہ وہ راہِ روحانیت کے کسی عجوبہ  کا مجاوِر (معتکف) ہوجائے، یعنی اس کو منزل مقصود اور معبود سمجھ کر ٹھہر جائے، کیونکہ آیۂ کریمہ (۲۱: ۵۲) میں جس اندازِ حکمت سے بت پرستی کی مذمّت کی گئی ہے اس کا اشارہ یہ ہے کہ کوئی عاقل کسی ذیلی معجزے کا مجاور بن کر کنزِ ازل سے محروم نہ رہ جائے، جیسا کہ لفظ عاکِفون (۲۱: ۵۲) میں یہ راز پوشیدہ ہے۔

۲۲۴

تماثیل

(۳)

   

بہشت کی زندہ تصویریں:

حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی حقیقی اور اصل سلطنت باطن اور روحانیت میں تھی، ان کے لئے جنّات عالمِ شخصی میں تماثیل یعنی تصویریں بناتے تھے، بعض علماء کا قول ہے کہ یہ تصویریں صرف ملائکہ اور انبیاء علیہم السّلام کی ہوتی تھیں، لیکن عقلی دلیل یہ ہے کہ روحانی سلطنت میں بہشت کی زندہ عکاسی ہوا کرتی ہے نہ کہ کاغذی تصویریں اور مجسّمے۔

۲۲۵

تَمَثَّلَ

   

اس نے صورت پکڑی، وہ متَمَثَّل ہوا:

تَمَثَّلَ = وہ مُتَمَثَّل ہوا، اُس نے صورت پکڑی، یہ مریم سلام اللہ علیہا کے قصّۂ قرآن (۱۹: ۱۷) میں ہے کہ خدا کے حکم سے اس کے پاس انسانِ کامل کی صورت میں فرشتۂ اعظم آیا تھا، جس کو تأویل کی زبان

۱۲۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
     

میں امامِ زمان صلوٰۃ اللہ علیہ کا جُثَّۂ اِبداعیہ کہا جاتا ہے، جس کو اساس، امام، باب، حجّت اور داعی دیکھ سکتے ہیں، مریمؑ اپنے وقت کے حجج میں سے تھی، اس لئے وہ حجّت کی مثال ہے۔

۲۲۶

تَمَثَّلَ

(۲)

   

وہ مُتَمَثَّل ھوا، اُس نے صورت پکڑی:

بی بی مریم سلامُ اللہ علیہا ان نیک بخت لوگوں کی قرآنی مثال ہے جو اسمِ اعظم کے مقدّس ذکر میں کامیاب ہوجاتے ہیں، چنانچہ حق تعالٰی کا ارشاد ہے: فَاَرۡسَلْنَاۤ اِلَیۡهَا رُوۡحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا (۱۹: ۱۷) پس ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا تو وہ ان کے سامنے ٹھیک آدمی (کی شکل) بن گیا۔ یاد رہے کہ مریم علیہا السّلام حُجَجۡ میں سے ایک حُجّت تھی، اس لئے وہ درجۂ حُجّتی کی مثال ہے۔

۲۲۷

تَمَثَّلَ

(۳)

   

اُس نے صورت پکڑی:

بَشَرًا سَوِیًّا سے جُثَّۂ ابداعیہ مراد ہے، اور اس کا ایک نام مُبۡدَعۡ بھی ہے، جو بڑا حیران کن معجزہ ہے، وہ یقینًا بہت بڑا فرشتہ ہے اور وہ خود مومن کی ترقّی یافتہ ہستی بھی ہے، یعنی عقلِ کامل، روحِ قدسی، اور جِسمِ لطیف، اسی کا نام بَشَرًا سَوِیًّا ہے۔

۱۳۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
۲۲۸

تَمۡشُوۡنَ

(۱)

   

تم چلو گے:

اے عزیزانِ من! قرآنی حکمتوں کو قدردانی اور شکرگزاری کے ساتھ ذہن نشین کرلواور آیاتِ نور کے سلسلے میں اس آیۂ کریمہ کو بھی بچشمِ بصیرت دیکھ لو۔ ترجمہ: اے ایمان والو! خدا سے ڈرو اور اس کے رسول (محمّدؐ) پر ایمان لاؤ (جیسا کہ حق ہے) تاکہ خدا تم کو اپنی رحمت کے دو حصّے اجر عطا فرمائے گا اور تمہارے لئے ایسا نور مقرر فرمائے گا کہ جس کی روشنی میں تم چلوگے، اور تم کو بخش بھی دے گا (۵۷: ۲۸)۔

۲۲۹

تَمۡشُوۡنَ

(۲)

   

تم چلوگے:

اے عزیزانِ من! مذکورۂ بالا آئۂ شریفہ کے اِن پرحکمت الفاظ “وَ یَجۡعَلۡ لَکُمۡ نُوۡرًا تَمۡشُوۡنَ بِہٖ = اور (خدا) تمہاے لئے ایسا نور مقرر فرمائے گا کہ جس کی روشنی میں تم چلو گے۔” میں خوب غور کرکے بتائیں کہ آیا اس نور سے امام علیہ السّلام مراد نہیں ہے؟ یقینًا یہ نور امامؑ ہی ہے جس سے وابستگی کی اوّلین شرط یہ ہے کہ ہم خدا سے ڈریں اور اس کے رسولؐ صاحبِ قرآن پر کما حقہ پر ایمان لائیں، پس صاف طور پر معلوم ہوا کہ خدا ہی نے امامِ آلِ محمّد کو ختم نبوّت کے بعد نورِ ہدایت کی مرتبت پر مقرر فرمایا ہے۔

۱۳۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
۲۳۰

تَمۡشُوۡنَ

(۳)

   

نورِ ھدایت کی روشنی میں چلوگے:

صراطِ مستقیم دنیا کی کوئی سیدھی سڑک ہو نہیں سکتی، یہ در اصل زندہ نورِ ہدایت ہے، اور وہ امامِ زمانؑ صلواۃ اللہ علیہ کی مبارک ہستی ہی ہے، یہ اللہ کا نازل کردہ نور ہے (۵: ۱۵) خدا جس کو چاہے اپنے نور کی طرف رہنمائی فرماتا ہے (یَھۡدِی اللہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۲۴: ۳۵)۔

۲۳۱

تَنُّوۡرُ

   

تنّور:

وَ فَارَ التَّنّور (۱۱: ۴۰) اور تنّور اُبل پڑا۔ یعنی اسمِ اعظم کے ذکر نے جوش مارا، ذکر خود بولنے لگا اور طوفانِ روحانیت کا آغاز ہوا، پس تنور سے اسمِ اعظم کا ذکر مراد ہے۔

۲۳۲

توبۃ

(۱)

   

لوٹ جانا:

توبہ کے کئی معنی ہیں، سب سے آخری اور سب سے اعلٰی معنی ہیں: رجوع الی اللہ، فنا فی اللہ، جیسا کہ آیۂ پرحکمت کا ترجمہ ہے: پس تم اپنے خالق کے حضور لوٹ جاؤ اور اپنے نفوس کو قتل کرو (۲: ۵۴) یعنی کامیاب توبہ یہ ہے کہ جسمانی موت سے پہلے نفسانی طور پر مر جاؤ، اور یہی فنا فی اللہ ہے۔

۱۳۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
۲۳۳

توبۃ

(۲)

   

رجوع اِلَی اللہ:

اللہ اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے اور صدقات کو لیتا ہے (۹: ۱۰۴) یعنی خداوندِ عالم مرتبۂ عقل پر اپنے خاص بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہاں ان سے جواہر کے صدقات کو لیتا ہے۔

۲۳۴

توبۃ

(۳)

   

منزلِ فنا کی رسائی:

ایک آیۂ کریمہ (۶۶: ۵) میں اسلام، ایمان اور فرمانبرداری جیسی صفاتِ عالیہ کے بعد توبہ کا ذکر آیا ہے، جس سے منزلِ فنا کی رسائی مراد ہے، اس آیۂ مبارکہ کو غور سے پڑھ کر دیکھ لیں کہ یہ کسی گناہ کے بعد کی جانے والی توبہ ہرگز نہیں۔

۲۳۵

توبۃ

(۴)

   

گریۂ عشقِ الٰہی:

بیشک اللہ دوست رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور دوست رکھتا ہے صاف ستھرا رہنے والوں کو (۲: ۲۲۲) ظاہری توبہ اور جسمانی صفائی اللہ کی دوستی کے لئے کافی نہیں ہوسکتی، جب تک عاشقانہ و عارفانہ توبہ (رجوع الی اللہ) اور روح و عقل کی کامل پاکیزگی نہ ہو۔

۱۳۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
۲۳۶

تَوَکُّلۡ

(۱)

   

بھروسہ کرنا، کسی کو وکیل بنانا:

آپ جب دل میں کہتے ہیں کہ میں خدا پر تَوَکُّلۡ کروں گا تو یہ صرف نیت ہی ہے، آپ زبان سے کہتے ہیں کہ میں تَوَکُّلۡ کرتا ہوں تو یہ محض ایک قول ہے، تا آنکہ آپ ایمان اور علم و عمل کے بہت سے مراحل سے آگے نہ جائیں، کیونکہ تَوَکُّلۡ ایک عملی حقیقت ہے، جس میں چشمِ باطن سے یہ مشاہدہ ہونے لگتا ہے کہ اب خداوند تعالٰی فِعۡلًا وکیل ہو رہا ہے۔

۲۳۷

تَوَکُّلۡ

(۲)

   

بھروسہ کرنا، کسی کو وکیل بنانا:

اے نورِ عینِ من! قرآنِ حکیم کے الفاظ کے معنی میں حکمتِ بالغہ پوشیدہ ہوتی ہے، اور وہ گویا حظیرۃ القدس تک ایک سیڑھی ہے، ان شاء اللہ جب آپ کو اس کی معرفت حاصل ہوجائے گی تو یقینًا آپ کی قرآن فہمی میں انقلاب آئے گا، چنانچہ حقیقی تَوَکُّلۡ کے معنی یہ ہیں کہ خدا فعلًا آپ کا وکیل ہوجائے اور آپ کا اختیار ختم ہو جائے یا برائے نام رہے، یہ خوشگوار حالت کم از کم روحانی انقلاب کے دوران دیکھی گئی ہے تاکہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کی معرفت حاصل ہو۔

قرآنِ حکیم میں تَوَکُّلۡ کا مضمون بڑا عالیشان ہے، جو تقریبًا ۷۰ (ستّر) مقامات پر پھیلا ہوا ہے، آپ اسے خوب غور سے پڑھیں، ان شاء اللہ تائید

۱۳۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ت”
     

حاصل ہوگی۔

۲۳۸

تَھۡوِیۡ

   

مائل ہوتی ہے:

….. فَاجۡعَلۡ اَفۡىٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهۡوِیۡٓ اِلَیۡهِمۡ۔ تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ یعنی ان کے قلوب میں آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمّدؐ کی محبت ڈال دے (۱۴: ۳۷)۔

۱۳۵

     
     

مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۱۳۶

     
     

بابُ الثّاء

 

۱۳۷

     
     

مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۱۳۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ث”
۲۳۹

ثَابِتٌ

   

مضبوط:

اَصۡلُھَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُھَا فِی السَّمَاءِ (۱۴: ۲۴) اس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی شاخ آسمان میں ہے۔ یعنی درختِ امامت کی جڑ بڑی مضبوط ہے اور وہ آنحضرتؐ ہیں، اور شاخ عالمِ علوی میں ہے، جہاں امامِ زمانؑ کے علم و حکمت کا میوۂ شیرین تیار ہوتا ہے۔

۲۴۰

ثُعۡبَانٌ

   

اژدھا:

سورۂ اعراف (۷: ۱۰۷) اور سورۂ شعرأ (۲۶: ۳۲) میں ہے: فَاَلۡقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ھِیَ ثُعۡبَانٌ مُّبِیۡنٌ۔ موسٰیؑ نے اپنی لاٹھی ڈال دی، تو وہ دفعۃً ایک نمایان اژدھا بن گیا۔ کامل انسانوں کے لئے خداوند تعالٰی کا اسمِ اکبر عصائے موسٰی کا معجزہ ہے، چنانچہ عالمِ شخصی میں اس مبارک عصا کے اژدھا بن جانے کی کئی مثالیں ملتی ہیں:

(۱) جب روحانی انقلاب برپا ہو جاتا ہے تو عالمِ صغیر گویا اژدھا بن کر عالمِ کبیر کو نگل لیتا ہے (۲) حق و باطل کی روحانی جنگ میں اسمِ اعظم کا کامیاب ذکر عصائے موسٰی کی طرح کام کرتا ہے (۳) عقلِ کامِلہ اور حکمتِ بالغہ گویا اژدھا ہے جو ادیانِ باطل کی بے شمار دلائل کو نگل لیتا ہے۔

۱۳۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ث”
۲۴۱

ثِقال

   

بھاری:

سورۂ رعد (۱۳: ۱۲) میں ہے: اور (خدا) وہی تو ہےجو تم کو ڈرانے اور امید دلانے کے لئے بجلی (برق) دکھاتا اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے (۱۳: ۱۲)۔

خداوندِ عالم کا یہ خطاب عارفین و کاملین سے ہے جو اہل ایمان کے نمائندے ہیں، انہی حضرات کو ظاہری نورانی دیدار کا شرف حاصل ہوتا ہے جو برق کی مثال پر ہے، حُکَمَاء اس ظہور کو مُبۡدِعۡ اور مُبۡدَعۡ کہتے ہیں، اور حقیقت میں یہ الظّاھِرُ (۵۷: ۳) کی تجلّی ہے، کیونکہ یہ اسمِ پاک صرف کہنے اور کہلانے کے لئے نہیں بلکہ واقعیّت اور حقیقت بھی ہے۔

۲۴۲

ثَقَلَیۡن

(۱)

   

دو گرانقدر چیزیں:

صحیح مسلم، جلد ششم، کتاب الفضائل، باب: “حضرت علیؑ کی بزرگی” اور کوکبِ درِّی، بابِ دوم، منقبت نمبر۷۴ اور ۷۵ میں حدیثِ ثقلین کا ذکر ہے، نیز کتاب شرح الاخبار، جلد دہم، “فضائل اہل البیت” میں دیکھ لیں: اِنِّیۡ تَارِکٌ فِیۡکُمُ الثَّقَلَیۡنِ اَحَدُھُمَا اَکۡبَرُ مِنَ الۡآخِرِ: کِتَابُ اللہِ حَبۡلٌ مَمۡدُوۡدٌ مِنَ السَّمَآءِ اِلٰی الۡاَرۡضِ طَرَفٌ مِنۡہُ عِنۡدَ اللہِ وَ طَرَفٌ مِنۡہُ فِیۡ اَیۡدِیۡکُمۡ فَاسۡتَمۡسِکُوۡا بِہِ وَ عِتۡرَتِیۡ۔

۱۴۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ث”
     

یقیناً میں تمہارے درمیان دو عظیم الشّان اور گرانقدر چیزیں چھوڑ جانے والا ہوں، اُن میں ایک دوسری سے بڑی ہے: اللہ کی کتاب (قرآن) آسمان سے لیکر زمین تک کی تانی (پھیلائی) ہوئی رسّی ہے، جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا تمہارے ہاتھوں میں، پس تم اس کو محکم پکڑے رہو اور ساتھ ہی ساتھ میری عترت کو۔

۲۴۳

ثَقَلَیۡن

(۲)

   

دو عظیم الشّان چیزیں:

شرح الاخبار کی مذکورہ جلد میں دیکھ لیں: قَدۡ خَلَّفۡتُ فِیۡکُمُ الثَّقَلَیۡنِ اَحَدُ ھُمَا اَکۡبَرُ مِنَ الۡآخِرِ سَبَبًا مَوۡصُوۡلاً مِنَ السَّمَاءِ اِلٰی الۡاَرۡضِ: کِتَابُ اللّٰہِ وَ عِتۡرَتِیۡ اَھۡلَ بَیۡتِیۡ، فَاِنَّھَمَا لَنۡ یَتَفَرَّقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیَّ الۡحَوۡضَ۔ میں نے اپنے پیچھے تمہارے درمیان دو عظیم الشّان چیزیں چھوڑ دی ہیں، اُن میں سےایک دوسری سے بڑی ہے، جو آسمان اور زمین کے مابین لگائی ہوئی رسی ہیں، کتاب خدا اور میرے اہل بیت، یہ دونوں چیزیں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگی، تا آنکہ یہ دونوں حوض کوثر پر مجھ سے مل جائیں۔

۲۴۴

ثَقَلَیۡن

(۳)

   

دو عظیم الشّان چیزیں:

عترت کے بارے میں زیادہ صحیح اور زیادہ واضح قول یہ ہے کہ آدمی

۱۴۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ث”
     

کی عترت اس کے اقرباء ہیں، جیسے اس کی اولاد، اولاد کی اولاد، اور چچا کے بیٹے، چنانچہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی عترت یہ حضرات ہیں: اولادِ فاطمہ، اولاد کی اولاد حسن و حسین، اور چچا زاد بھائی علیؑ بن ابی طالب صلوات اللہ علیہم اجمعین (بحوالۂ مذکورہ جلد)۔

۲۴۵

ثَلٰثَۃ

   

تین:

سورۂ واقعہ کے شروع (۵۶: ۱ تا ۱۱) میں دیکھ لیں: …. اور تم تین گروہ ہو جاؤ گے، پس دائیں طرف والے، کیا کہنے دائیں طرف والوں کے، اور بائیں طرف والے، پھوٹ گئے نصیب اُن کے بائیں طرف والوں کے، اور آگے بڑھنے والے، وہ تو آگے ہی بڑھنے والے ہیں، مقرّبِ بارگاہ تو وہی ہیں۔

عالم شخصی میں جو راہِ روحانیت اور سفرِ معرفت ہے اُس میں ایسے تمام ضروری واقعات کا مشاہدہ اور تجربہ ہوجاتا ہے، اس مبارک و مقدّس سفر کی منزلِ مقصود مومنِ سالک کی پیشانی میں ہے۔

۲۴۶

ثَمَّ

   

اُس جگہ، وھاں، وھیں:

خداوندِ قدّوس کا پُرحکمت ارشاد ہے: فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللہِ (۲: ۱۱۵) پس تم لوگ جس طرف منہ کرو ادھر (ہی) اللہ تعالٰی

۱۴۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ث”
     

کا رُخ (چہرہ) ہے۔ اس قانونِ قرآن سے معلوم ہوا کہ ذاتِ سبحان اگرچہ مکان و لامکان سے ماوراء اور بے نیاز ہے، تاہم وہ اپنی قدرتِ کاملہ سے ہرجگہ موجود ہے، اور اس میں کتنا واضح اور بابرکت اشارہ ہے کہ وہ سچ مچ اپنے بندوں کے دل  میں بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ معرفتِ الٰہی کی خاطر خود شناسی ضروری اور لازمی قرار دی گئی تاکہ جیتے جی نفسانی موت کی قربانی دیکر اس کے پاک دیدار اور معرفت کا کنزِ مخفی حاصل کیا جائے۔ (دیکھو عنوان: وجہ علی)۔

۱۴۷

ثَمٰنِیَۃٌ

   

آٹھ:

ارشاد ہے: وَ یَحۡمِلُ عَرۡشَ رَبِّکَ فَوۡقَھُمۡ یَوۡمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ۔ اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اُس روز آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے (سورۂ حآقّہ ۶۹: ۱۷) یہاں عرش کے معنی ہیں نورِ عقل، جو سات أئمّۂ اہل بیت علیہم السّلام کی نورانی پیشانی میں ہوتا ہے، اور جب جب مومنین و مومنات میں سے کوئی فرد بوسیلۂ ذاتی قیامت امامِ زمان علیہ السّلام میں فنا ہو جاتا ہے تو وہ بھی نورِ عرش (نورِ عقل) کا حامل ہوجاتا ہے (۵۷: ۱۲؛ ۵۷: ۱۹؛ ۶۶: ۸)۔

۱۴۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ث”
۲۴۸

ثَمَرَات

(۱)

   

میوے، پھل:

سورۂ نحل (۱۶: ۶۷) میں ہے: اور کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں کے پھلوں سے تم لوگ نشہ کی چیز اور عمدہ کھانے کی چیزیں بناتے ہو بیشک اس میں اہل دانش کے لئے ایک نشانی ہے۔ یہ دو قسم کے درخت جن کا آیۂ شریفہ میں ذکر ہے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی مثال ہیں، جن کے میوہ ہائے معرفت سے شرابِ عشق حاصل آتی ہے، کیونکہ ربّ العزّت نورِ نبوّت اور نورِ امامت کے باطنی حسن و جمال اور وصفِ کمال کو عشقِ حقیقی کا وسیلہ بنا دیا ہے۔

۲۴۹

ثَمَرَات

(۲)

   

میوے، پھل:

سورۂ نحل (۱۶: ۱۱) میں یہ ذکر آیا ہے: اسی پانی سے تمہارے واسطے کھیتی اور زیتون اور خرمے اور انگور اگاتا ہے اور ہر طرح کے پھل (پیدا کرتا ہے) یقینًا اس میں غور کرنے والوں کے لئے بڑی نشانی ہے۔ روحانی بارش کے پانی سے عالمِ شخصی کے معمور ہو جانے اور عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اور اساس کے ظہور اور دیگر حدود کے فوائد کی مثال ہے۔

۱۴۴

     
     

بابُ الجیم

 

۱۴۵

     
     

مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۱۴۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ج”
۲۵۰

جَاھَدُوۡا

   

انہوں نے جھاد کیا:

سورۂ عنکبوت کی آخری آیت (۲۹: ۶۹) میں ایسے لوگوں کے لئے خوشخبری ہے جو اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتے رہتے ہیں، آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کرتے رہتے ہیں انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقینًا خدا نیکوکاروں ہی کے ساتھ ہے۔ اس ربّانی تعلیم میں شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے راستوں کا اشارہ ہے، جن کی ہدایت جہادِ اکبر سے مشروط ہے۔

۲۵۱

جَدّ

   

اسرافیل، فرشتۂ عشق:

سورۂ جِنّ (۷۲: ۳) میں ہے: وَ اَنَّہٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّ لَا وَلَدًا۔ اور یہ کہ ہمارے ربّ کی شان بہت اعلٰی و ارفع ہے، اس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے۔ جَدّ فرشتۂ اسرافیل ہے، جس کے صور پھونکنے سے خدا کی ایک بہت بڑی شان ظاہر ہوجاتی ہے، یقینًا یہ فرشتۂ عشقِ الٰہی ہے۔

۲۵۲

جلیس

(۱)

   

ھمنشین:

أنا جلیس من ذکرنی۔ حدیث قدسی ہے کہ حق تعالٰی نے فرمایا: جس نے مجھ کو یاد کیا میں اس کا ہمنشین ہوں۔ ربِّ کریم کی رحمت و

۱۴۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ج”
     

برکت درجہ بدرجہ ہوسکتی ہے تا آنکہ دیدارِ اقدس حاصل ہوکر یہ حقیقت روشن ہوجائے کہ وَ مَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللہِ حَدِیۡثًا (۴: ۸۷) اور خدا سے بڑھ کر بات میں سچا اور کون ہوسکتا ہے۔

۲۵۳

جلیس

(۲)

   

ھمنشین:

قال موسٰی علیہ الصّلاۃ و السّلام: ربّ اقریب انت فأناجیک او بعید فأنا دیک، فقیل لہ: یا موسٰی، انا جلیس من ذکرنی۔ حضرتِ موسٰی علیہ الصّلاۃ و السّلام نے کہا: اے میرے پروردگا! آیا تو اتنا نزدیک ہے کہ تجھ سے سرگوشی کروں؟ یا ایسا دُور ہے کہ تجھے بآوازِ بلند پکاروں؟ پس اسے فرمایا گیا: اے موسٰی! جس نے مجھے یاد کیا میں اس کا ہمنشین ہوں (المعجم الصّوفی)۔

۲۵۴

جُمِعَ

   

وہ اکٹّھا کیا گیا:

سورۂ قیامہ میں ہے: پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئے گا؟ تو جب آنکھیں چندھیا جائیں گی، اور چاند کو گہن لگ جائے گا اور سورج اور چاند جمع کر دئیے جائیں گے (۷۵: ۶ تا ۹) سالک پر قیامت اس وقت آتی ہے جب ابتدائی روشنی سے اس کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں اور واقعۂ قیامت کی سختی کی وجہ سے وہ علم کو بیان نہیں کرسکتا، اور وہ اس حال میں امام علیہ

۱۴۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ج”
     

السّلام میں فنا ہوجاتا ہے۔

۲۵۵

جِنّ

(۱)

   

پری، لطیف مخلوق:

مخلوقِ لطیف، غیر مرئی، قرآنِ حکیم کی متعدد آیاتِ کریمہ میں اس کا ذکر آیا ہے، “جِنّ” عربی لفظ ہے جس کا اصل فارسی ترجمہ “پری” ہے، یعنی پری مردوں اور پری عورتوں کو عربی میں جنّ کہتے ہیں (المنجد، قرۃ العین، ضمیمہ)۔

۲۵۶

جِنّ

(۲)

   

پری، مخلوقِ لطیف:

سورۂ جنّ (۷۲) کو خوب غور سے پڑھ لیں، پری قوم کی ایک جماعت نے قرآن پر ایمان لایا (۷۲: ۱ تا ۲)

جب پری مردوں کا ذکر ہے تو اشارہ ہوا کہ لازمی طور پر پری عورتیں بھی ہیں (۷۲: ۶)۔

۲۵۷

جَناح

   

پرند کا بازو، پرwing، اسم، ذکرِ خدا، جس سے ہر لطیف مخلوق پرواز کرتی ہے:

رسولِ خدا اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا تھا: دخلتُ الجنّۃ البارحۃ فنظرتُ فیھا فاذا جعفر یطیر مع الملائکۃ و اذا حمزۃ مُتکّیٔ علٰی سریر۔ میں گزشتہ شب جنّت میں داخل ہوکر وہاں کیا

۱۴۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ج”
     

دیکھتا ہوں کہ جعفر (بن ابی طالب) فرشتوں کے ساتھ پرواز کر رہا ہے اور حمزہ ایک تخت پر تکیہ لگائے بیٹھا ہے۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا ہے: رأیتُ جعفر بن ابی طالب ملکًا یطیر مع الملائِکۃ بجناحَیۡن۔ میں نے جعفر بن ابی طالب کو دیکھا کہ وہ ایک فرشتہ ہوگیا ہے اور دو بازوؤں سے فرشتوں کے ساتھ اڑ رہا ہے۔ (مُستدرِک) جسمِ لطیف ہی فرشتہ اور تخت ہے، اور جَنَاحَیۡن (دو بازو) برائے ذکر دو اسم ہیں کہ فرشتے اسماء الحسنٰی سے پرواز کرتے ہیں۔

۲۵۸

جنّۃ

   

بہشت:

حضرتِ علیؑ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا: جنّت میں ایک بازار ہوگا، جس میں خرید و فروخت نہیں ہوگی، جو جسے پسند کرے گا، اسی کی طرح ہوجائے گا (جامع ترمذی، جلد دوم، جنّت کا بیان، حدیث۲۳۶۳) اس میں عظیم حیران کن حکمتیں ہیں۔

۲۵۹

جِیۡرَانُ اللہ

(۱)

   

خدا کے ہمسائے:

وَ اللہُ یَدۡعُوۡآ اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ۔ اور اللہ تمہیں دار السّلام کی طرف دعوت دے رہا ہے (۱۰: ۲۵) بنا برین تمام بہشتوں میں سے

۱۵۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ج”
     

دار السّلام کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، اور حدیثِ شریف میں ہے کہ: ادخلوا الجنّۃ فَاَنتم جِیۡرانُ اللہ فی دار السّلام۔ جنّت میں داخل ہوجاؤ کہ تم دار السّلام میں اللہ کے پڑوسی ہو (دعائم الاسلام، حصّۂ دوم، تباذُل و تواصُل) اس میں عجیب و غریب بہت بڑی حکمت ہے، ہاں اس کیلئے کوئی کام غیر ممکن نہیں کہ مومنین و مومنات جو مرتبۂ حق الیقین پر فائز ہوچکے ہیں، وہ سب جِیۡرَانُ اللہ ہیں۔

۲۶۰

جِیۡرَانُ اللہ

(۲)

   

خدا کے ہمسائے:

سورۂ تحریم (۶۶: ۱۱) میں ہے: اِذۡ قَالَتۡ رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ۔ جب (فرعون کی بیوی نے) دعا کی: اے میرے پروردگار! میرے لئے اپنے پاس جنّت میں ایک گھر بنا دے۔ اس کی تأویل یہ ہے کہ وہ فنا فی اللہ اور حق الیقین کا مرتبہ چاہتی تھی تاکہ جیران اللہ میں سے ہوجائے۔

۱۵۱

     
     

مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۱۵۲

     
     

بابُ الحاء

 

۱۵۳

     
     

مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۱۵۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
۲۶۱

(ال) حُبُّ لِلّٰہِ

   

خدا کے لئے محبت:

حدیثِ شریف ہے: اَلۡحُبُّ لِلّٰہِ و البغضُ لِلّٰہِ، یعنی کسی سے محبت بھی خدا کی وجہ سے ہو اور عداوت بھی اسی کی وجہ سے ہو۔

۲۶۲

حِبال

   

رسّیاں:

فرعون کے جادوگروں کی رسّیاں، یعنی قصے جو فرعون کے دعویٰ کے ثبوت میں بیان کئے گئے (۲۰: ۶۶)

۲۶۳

حُبُک

   

راھیں، راستے:

وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الۡحُبُکِ۔ راستوں والے آسمان کی قسم ہے (۵۱: ۷) ایسے پرحکمت آسمان سے امامِ زمان علیہ السّلام مراد ہے کیونکہ اسی کے نورِ اقدس سے سلامتی کی راہیں بنی ہوئی ہیں اور وہی خود ان راہوں کا رہنما بھی ہے (۵: ۱۵ تا ۱۶)۔

۲۶۴

حَبۡلُ اللہ

(۱)

   

خدا کی رسّی، امامِ زمانؑ:

خداوند کریم نے عالمِ علوی سے اپنے پاک نور کی رسّی عالمِ سفلی کے باشندوں کے لئے اِس غرض سے اتاری ہے کہ وہ سب مل کر اس کو مضبوطی سے پکڑیں تاکہ انہیں عالمِ بالا پر اٹھایا جائے (۳: ۱۰۳) خدا کی نورانی

۱۵۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
     

رسّی ظاہرًا امامِ زمان علیہ السّلام کی مقدّس شخصیت ہے اور باطنًا اس کا ہمہ رس نور، نورِ اقدس آپ کی ذات میں بطورِ خاص اسمِ اعظم کے وسیلے سے آتا ہے، پس امامؑ آپ کے باطن میں بحیثیت اسمِ بزرگ اللہ کی رسّی ہے، جس کو آپ نے اس طرح مضبوط پکڑنا ہے کہ دل و دماغ کی ساری قوتیں اس کی طرف متوجّہ اور مرکوز ہوجائیں۔

۲۶۵

حَبۡلُ اللہ

(۲)

   

خدا کی نورانی رسّی، امامِ زمانؑ:

زمانۂ نبوّت میں خود رسول اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی ذاتِ عالی صفات اللہ کی رسّی تھی، آپؐ قرآنِ ناطق بھی تھے اور اسلامِ مجسّم بھی، اور آپ صلعم کے بعد آپ کی آل کے أئمّۂ حق علیہم السّلام اپنے اپنے وقت میں خدا کی یہی رسّی تھے، اور یہی بلند ترین مرتبہ یقینًا آج امامِ زمانؑ کو حاصل ہے، الحمد لِلّٰہ۔

۲۶۶

حَبۡلُ الۡوَرِیۡد

(۱)

   

رگِ جان، شہ رگ، وہ رگ جو دل سے دماغ تک ہے؛

سورۂ قٓ (۵۰: ۱۶) میں ہے: اور بیشک ہم نے آدمی کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے، اور ہم دل کی رگ سے بھی زیادہ اس کے نزدیک ہیں۔ اگر خداوندِ قدّوس اپنے ہر بندے کی انا سے

۱۵۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
     

اس قدر قریب ہے تو ماننا چاہیے کہ ہرمومن بحدِ قوت اس میں فنا ہے، اب بحدِّ فعل فنا فی اللہ ہوجانے کے لئے وسوسہ اور نفس کو ایک بار ختم کرنا ہوگا، اور یہ خاص کام فنا فی الامامؑ اور فنا فی الرّسولؐ کے ذریعے سے ہوسکتا ہے۔

۲۶۷

حَبۡلُ الۡوَرِیۡد

(۲)

   

رگِ جان، شہ رگ، وہ رگ جو دل سے دماغ تک ہے:

اے نوِ عینِ من! آپ یقین جانیں کہ مذکورہ فنا سلسلۂ قیامت و روحانیت ہے، اور اسی میں دیدارِ اقدس اور گنج معرفت کے اسرارِ عظیم پوشیدہ ہیں، پس ایسے تمام لوگوں کی بہت بڑی سعادت ہے جو حقیقی اطاعت، کثرتِ ذکر، علم، اور آسمانی عشق کے وسیلے سے فنا ہوجانا چاہتے ہیں، اللہ جو مسبّب الاسباب ہے ان کے لئے کوئی خاص سبب بنائے گا، اور وہ ایک نہ ایک دن کامیاب اور شادمان ہوجائیں گے۔

۲۶۸

(ال) حجّ الۡاکبر

(۱)

   

حجِّ اکبر، بڑا حج:

سورۂ توبہ (۹: ۳) میں حجِّ اکبر کا ذکرِ جمیل آیا ہے، جو باطنی، روحانی اور عقلانی حجّ ہے، جس کی مثال ظاہری حجّ ہے، کیونکہ اکبر کا لفظ (یعنی اسمِ تفضیل) اصغر کے بغیر نہیں ہوسکتا، چنانچہ حکمتِ بالغہ اس بات میں تھی کہ خداوندِ عالم کے دو گھر ہوں، ایک مثال دوسرا ممثول، تاکہ اہلِ

۱۵۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
     

دانش حقائق و معارف سے باخبر ہوسکیں۔

۲۶۹

(ال) حجّ الۡاکبر

(۲)

   

باطنی حجّ:

اللہ تعالٰی جو احد و صمد ہے، وہ ہر چیز سے بے نیاز و برتر ہے، وہ مکان و لامکان سے بالاتر ہے، اس لئے اس کا ظاہری گھر (خانۂ کعبہ) دلیل ہے اور باطنی گھر مدلول، جو الحیّ یعنی زندہ ہے، اور یہی مظہر بھی ہے اور آئینہ بھی، جس میں ذاتِ حق جلّ جلالہ کی بے مثال معرفت کا کنزِ مخفی موجود ہے۔

۲۷۰

(ال) حجّ الۡاکبر

(۳)

   

روحانی حجّ:

اللہ تبارک و تعالٰی کا باطنی گھر بیت المعمور ہے (۵۲: ۴) وہ امام علیہ السّلام کا نورانی مرتبہ ہے، جس میں علمِ الٰہی کا خزانہ رکھا ہوا ہے، کیونکہ بیت المعمور سے خدا کا ایسا گھر مراد ہے جو روحانی اور عقلانی برکتوں سے آباد ہے، تاویلِ حجّ البیت اور بیت المعمور کے لئے دیکھیں: وجہِ دین، گفتار۳۴، حجّ۔

۲۷۱

(ال) حجّ الۡاکبر

(۴)

   

عقلانی حجّ:

بیت المعمور فرشتوں کا قبلہ ہے، جس کی زیارت کے لئے ہر روز ستّر

۱۵۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
     

ہزار فرشتے آتے ہیں، اور زیارت کرکے چلے جاتے ہیں، پھر دوبارہ نہیں آسکتے، یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ہر عالمِ شخصی میں حضرتِ امام علیہ السّلام کا نورانی ظہور بیت المعمور ہے، جس کے دیدار کے لئے ستّر ہزار عظیم فرشتے آتے ہیں۔

۲۷۲

حجّۃ

   

دلیل، غلبہ:

یہ ارشادِ مبارک سورۂ نساء (۴: ۱۶۵) میں ہے: لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللہِ حُجَّۃٌ بَعۡدَ الرُّسُلِ۔ تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کی خدا پر کوئی حجّت باقی نہ رہ جائے۔ اِس اشارۂ حکمت کی وضاحت یہ ہے کہ ہر پیغمبرؐ کے بعد وصی اور زمانے کا امام بھی خدا کی جانب سے مقرر ہوتا رہا ہے، تب ہی یہ حقیقت دل نشین ہوجاتی ہے، کہ خدا پر لوگوں کی کوئی حجّت نہیں ہوسکتی ہے، یعنی روزِ قیامت لوگ یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ اُن کے زمانے میں خدا نے کوئی زندہ اور حاضر پیشوا (ہادی) مقرّر نہیں فرمایا تھا۔

۲۷۳

(ال)حجرُ الاسود

   

حجرِ اسود:

الحجرُ الاسودُ یمینُ اللہِ فی ارضہٖ۔ حجرِ اسود (گویا) اللہ تعالٰی کا داہنا ہاتھ ہے اس کی زمین میں (لغات الحدیث، جلد چہارم، باب

۱۵۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
     

الیاء مع المیم) یمین کے معنی ہیں: قوت، طاقت، سعادت، برکت، دایاں ہاتھ، قسم۔ حجرِ اسود سے اساس مراد ہے جو تمام اعلٰی معنوں کے ساتھ امامِ زمانؑ کی صورت میں موجود ہے (بحوالۂ وجہِ دین، موضوعِ حجّ)۔

۲۷۴

حَدِیۡد

(۱)

   

لوھا، تیز:

سورۂ حدید (۵۷: ۲۵) میں ہے: اور ہم نے ہی لوہے کو نازل کیا جس کے ذریعے سے سخت جنگ اور لوگوں کے لئے منافع ہیں، یعنی امام علیہ السّلام کی روحانیت وہ علمی لوہا ہے جس سے قیامت کی شدید روحانی جنگ کے لئے اسلحہ تیار ہوجاتے ہیں، تاکہ اس سے ایک طرف اسلام کی فتح و فیروزی و سربلندی ہو، اور دوسری طرف سب لوگ زبردستی سے یا خوشی سے بہشت میں داخل ہوجائیں، جہاں نعمتیں ہی نعمتیں ہیں۔

۲۷۵

حَدِید

(۲)

   

لوھا، تیز:

ٹھنڈا لوہا بڑا سخت ہوا کرتا ہے، اس سے کوئی چیز نہیں بنائی جاسکتی، لیکن خدا نے حضرتِ امام داؤد علیہ السّلام کے لئے ایسے لوہے کو گوندھے ہوئے آٹے کی طرح نرم بنا دیا تھا (۳۴: ۱۰) یہ اس حقیقت کی روشن دلیل ہے کہ خداوند تعالٰی نے امامؑ کو روحانیت کا معجزہ عطا کیا ہے۔

۱۶۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
۲۷۶

حَدِیۡد

(۳)

   

لوھا، تیز:

حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے اس آہنی معجزے سے زِرہیں یعنی فولاد کے جالی دار کرتے بنتے تھے (۲۱: ۸۰؛ ۳۴: ۱۱) اس کی تأویل یہ ہے کہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی روحانیت سے جامہ ہائے جنّت تیار ہوجاتے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: فَھَلۡ اَنۡتُمۡ شٰکِرُوۡنَ (۲۱: ۸۰) تو کیا تم (اس بیمثال نعمت پر) شکر کروگے؟ نیز یہ وہ سرابیل (کرتے) ہیں جو کاملین حربِ روحانی میں پہنتے ہیں (۱۶: ۸۱)

۲۷۷

حَرَمًا

(۱)

   

حرم، پناہ کی جگہ:

کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک پر امن حَرَمۡ کو ان کے لئے جائے قیام بنا دیا جس کی طرف (ثَمَرَاتُ کُلِّ شَیۡءٍ) تمام چیزوں کے پھل کچے چلے آتے ہیں، ہماری طرف سے رزق کے طور پر؟  سورۂ قصص ۲۸: ۵۷)۔ اے نورِ عینِ من! اس آیۂ مبارکہ میں بڑی زبردست حکمت پوشیدہ ہے، کیونکہ تمام چیزوں کے ثمرات ظاہر میں نہیں صرف باطن ہی میں ہوتے ہیں، یہاں تک روحانیت و عقلانیت میں پتھر جیسی اشیاء بھی بغیر از ثمر نہیں ہیں۔

۱۶۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
۲۷۸

حَرَمًا

(۲)

   

حرمِ باطن، حرمِ روحانی، حرمِ عقلی:

اے عزیزانِ من! ظاہری حرم مثال ہے اور باطنی حرم ممثول، وہ روحانی بھی ہے اور آگے چل کر عقلانی بھی، یہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کا نورانی مرتبہ ہے، ان ثمرات کا ذکرِ جمیل یوں ہے کہ جب مومنِ سالک پر باطنی اور روحانی قیامت واقع ہوجاتی ہے اس وقت وہ عالمِ ذرّ کے گھیرے میں ہوتا ہے، ان ذرّات کے بہت سے اسماء ہیں، جیسے ارواح، ملائکہ، یاجوج و ماجوج، جنود، ناس، طوفان، ھبَاء، ثمرات وغیرہ وغیرہ، پس یہ ذرّات دوسری بہت سی مثالوں کے ساتھ ساتھ روحانی ثمرات بھی ہیں، جو حرمِ باطن کی طرف کشان کشان چلے آتے ہیں۔

۱۷۹

حَرَمًا

(۳)

   

باطنی حرم:

ثَمَرَاتُ کُلِّ شَیۡءٍ (۲۸: ۵۷) کا یہ مطلب ہے کہ ہر چیز کا ایک روحانی میوہ اور ایک عقلی میوہ ہے، اس کا علم روحانی انقلاب (ذاتی قیامت) کے بعد ہوتا ہے، تب ہی روشنی ملتی ہے کہ قرآن میں بھی ہر چیز کا بیان ہے، سورۂ لقمان (۳۱: ۱۶) میں غور سے دیکھ لیں کی پتّھر آسمان اور زمین کی ہر چیز سے ذرَّۂ روح حاضر کردینے کا اشارہ ہے، سورۂ بقرہ (۲: ۷۴) کا بغور مطالعہ کرکے بتائیں کہ کونسے پتّھر ہیں جن سے پانی نکلتا ہے؟ اس کا درست جواب یہ ہے کہ اس میں روحانی پانی

۱۶۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
     

ہے، سورۂ مومن (۴۰: ۷) کا ارشاد ہے کہ ہرچیز رحمت اور علم کو شامل ہے، اور یاد رہے کہ رحمت میں روحانی نعمتیں اور علم میں عقلی نعمتیں ہوا کرتی ہیں، پس ہر چیز میں دو قسم کے میوے (پھل) ہوتے ہیں، یعنی روحانی اور عقلی۔

۲۸۰

حَرَمًا

(۴)

   

روحانی حرم، عقلی حرم:

کل اشیاء کے ثمرات کے معنی میں انبیائے قرآن علیہم السّلام کے تمام معجزات حرمِ باطن میں مرکوز ہوجاتے ہیں، جن میں بیشمار حکمتیں ہیں، بالفاظِ دیگر حضرتِ ربّ العزّت اس مقام پر کائناتِ باطن کو لپیٹتا ہے جس سے ماضی اور مستقبل زمانۂ حال میں شامل ہوتے ہیں، اور ازل و ابد کا تصوّر سامنے ہی آتا ہے، اسی کے بارے میں ارشاد ہے: وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ (۳۶: ۱۲)۔

۲۷۹

حَرَمًا

(۳)

   

باطنی حرم، جہاں باطنی ثمرات جمع ھوتے ہیں:

قرآنِ حکیم میں بہشت کی نعمتوں کا اکثر تذکرہ ثمرات کے عنوان سے ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ دنیا کے میوے ہیں، بلکہ روحانی اور عقلی پھلوں کا ذکر ہے، کیونکہ جسمانی غذاؤں کا تجربہ تو دنیا

۱۶۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
     

ہی میں ہوچکا ہے، اب بہشت میں روحانی اور عقلی ثمرات ہی سے لطف اندوز ہونا باقی ہے، چنانچہ روحانیت اور ذاتی قیامت میں خوشخبری کے طور پر بہشت کے ثمرات دکھائے جاتے ہیں۔

۲۸۲

حِسَاب

   

شمار، روزِ قیامت:

سورۂ انشقاق (۸۴: ۷ تا ۹) میں ارشاد ہے: پھر (اُس دن) جس کا نامۂ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اس سے تو حساب آسان طریقہ سے لیا جائے گا اور (پھر) وہ اپنے (مومنین کے) قبیلہ کی طرف خوش خوش پلٹے گا۔

یہ نمائندہ قیامت کا تذکرہ ہے جس سے مومنِ سالک فارغ ہوکر علم و معرفت کے خزانوں کی شادمانی کے ساتھ اپنے لوگوں کی طرف لوٹ جاتا ہے، آپ مذکورہ سورہ کو تمامًا غور سے پڑھ لیں، کیونکہ اس میں علمِ قیامت کے اسرار آئے ہیں۔

۲۸۳

حُشِرَ

   

جمع کیا گیا:

وَ حُشِرَ لِسُلَیۡمَانَ جُنُوۡدُہٗ۔ اور سلیمان کے لئے اُن کا لشکر جمع کیا گیا جنّ بھی اور انسان بھی اور پرندے بھی اور اُن کو صف آرا کیا جاتا تھا (۲۷: ۱۷) یہ لشکرِ ذرّات کا تذکرہ ہے، جو انفرادی قیامت کا نتیجہ

۱۶۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
     

ہے، اور روحانی جہاد کے لئے ہے۔

۲۸۴

حَشَرنَا

   

ھم نے جمع کیا:

اور اگر ہم ان کے پاس فرشتوں کو بھیج دیتے اور ان سے مُردے باتیں کرنے لگتے اور ہم تمام موجودات کو اُن کے پاس ان کی آنکھوں کے روبرو لاکر جمع کردیتے تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے ہاں اگر خدا ہی چاہے تو اور بات ہے (۶: ۱۱۱) یہ روحانیت کے عظیم معجزات میں سے ہیں۔

۱۸۵

حِکۡمَۃ

(۱)

   

عقل مندی، خاص علم، حکمت، دانش:

لفظ حِکۡمَۃ قرآنِ حکیم میں اگرچہ بظاہر صرف ۲۰ مرتبہ آیا ہے، لیکن معنوی طور پر یہ مبارک کتاب (قرآن) از اوّل تا بہ آخر حکمت ہی حکمت ہے، اور اس حقیقت میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں، جبکہ یہ خدائے علیم و حکیم کا پاک و پُرحکمت کلام ہے، اور قرآنِ عزیز کا نام بھی حکیم ہے (۳۶: ۲) پس بڑے سعادت مند ہیں وہ لوگ جو قرآنی حکمت کی طرف توجّہ دیتے ہیں۔

۱۶۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
۲۸۶

حِکۡمُۃ

(۲)

   

عقل مندی، خاص علم، حکمت، دانش:

حکمت وہ سب اعلٰی شَی ہے کہ اگر یہ کسی کو خدا کی جانب سے عطا ہوئی تو اس سے وابستہ بھلائی جس کی بڑی کثرت ہے خود بخود آجاتی ہے (مفہوم، ۲: ۲۶۹)۔

۲۸۷

حِکۡمَۃ

(۳)

   

عقل مندی، خاص علم، حکمت، دانش:

حکمت کسی مومن کے دل و دماغ میں اُس مُعلّمِ رَبّانی کی تعلیم سے آتی ہے، جس کو خدا و رسولؐ نے مقرر فرمایا، جو آلِ محمّدؐ میں سے ہے، اور وہ زمانے کا امام ہے، کیونکہ اللہ کی کتاب کسی بھی دَور میں اکیلی نہ تھی، اور نہ اب اکیلی ہے، دیکھیے خاندانِ ابراہیمؑ سے متعلق آیۂ شریفہ کہ یہی آیۂ کریمہ خاندانِ محمّدؐ کی شان میں بھی ہے (۴: ۵۴)۔

۲۸۸

حِکۡمَۃ

(۴)

   

عقل مندی، خاص علم، حکمت، دانش:

اللہ تعالٰی نے حضرتِ لقمان کو حکمت عنایت فرمائی تاکہ وہ خدا کا شکر کرے (مفہوم، ۳۱: ۱۲) اے نورِ عینِ من! آپ یہ خیال ہرگز نہ کریں کہ خداوندِ عالم باطنی خزانوں کے بغیر شُکر کا حکم دیتا ہے، ایسا نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شکر اور حکمت کے پس منظر میں یقینًا روحانی اور عقلانی نعمتوں کی فراوانی ہوا کرتی ہے۔

۱۶۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
۲۸۹

حِکۡمَۃ

(۵)

   

عقل مندی، خاص علم، حکمت، دانش:

علماء اور دانشوروں نے جس طرح حکمت کی تعریفیں کی ہیں، وہ تقریبًا ایک جیسی ہیں، ہمارے نزدیک قرآنی تأویل بنیادی حکمت ہے، اور یہی ظاہری سائنس کا روحانی پہلو ہے، جیسے آفاق و انفس کی آیات/نشانیوں میں ربط و رشتہ ہوتا ہے (۴۱: ۵۳) پس اگر یہ ظاہری نشانیاں آج سائنس کے نام سے مشہور ہیں تو ان جیسی باطنی نشانیوں کو روحانی سائنس کیوں نہ کہیں، تاکہ اس عمدہ طریقِ کار سے سائنس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہوجائے، صرف یہی نہیں بلکہ مذہب اور سائنس بالکل ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں۔

۲۹۰

حِکۡمَۃ

(۶)

   

عقل مندی، خاص علم، حکمت، دانش:

سورۂ بقرہ کے رکوع ۱۵ میں آٹھ آیاتِ کریمہ کو خوب غور سے پڑھ لیں، خصوصًا آیت ۱۲۴ کو نیز ۱۲۸ اور ۱۲۹ کو، کیونکہ یہاں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام اور ان کے سلسلۂ ذرّیت کی امامت کا بیان آیا ہے، اور أئمّۂ کرام کی جماعت میں حضرتِ رسول صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ظہورِ قدسی کی دعا کی گئی ہے تاکہ آنحضرت أئمّہ پر خدا کی آیات پڑھا کریں اور کتاب و حکمت سکھاتے ہوئے ان کو پاک و پاکیزہ کردیں۔

۱۶۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
۲۹۱

حکیم

   

حکمت والا، علیؑ کا قرآنی نام:

حضرت علی علیہ السّلام نے فرمایا: اسمی فی القرآن حکیمًا و فی التّوراۃ کُلًّا و فی الانجیل حتمًا و فی الزّبور بشرًا و فی صحف ابراھیم اوّلًا و آخرًا و اَنَا…. بما یکون علیم و فی العالم قدیم و فی السّمٰوٰت بصیرو بما فی الارضین عارف۔ میرا نام قرآن میں میں حکیم ہے، توراۃ میں کلّ، انجیل میں حتم، زبور میں بشر، صحف ابراہیمؑ میں اوّل و آخر اور میں ….. جو کچھ ہوتا ہے اس کو جانتا ہوں، اور میں اس جہاں میں قدیم آسمانوں میں بصیر اور جو کچھ زمینوں میں ہے اس کا عارف ہوں، (سرائر، ص۱۱۷، بروایتِ ابوذر جندب) اس سے یہ حقیقت بحدِّ انتہا روشن ہوگئی کہ علیؑ کا نور ہمیشہ زمان و مکان کی وسعتوں پر محیط ہے۔

۲۹۲

حِمَار

   

گدھا:

ان لوگوں کی مثال جن پر توریت (کے علم و عمل) کا بار ڈالا گیا تھا پھر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا اس گدھے کی مثال ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو، ان لوگوں کی حالت جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا ہو کیا ہی بری ہے، اور اللہ نافرمان لوگوں کی راہبری نہیں فرماتا (۶۲: ۵)۔ اس میں بے عملی سے کہیں زیادہ بے عقلی کی مذمّت کی گئی ہے، کیونکہ گدھا بڑی بڑی کتابوں کے بارِ گران کو تو اٹھا سکتا ہے، لیکن اس میں عقل

۱۶۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
     

نہیں کہ اپنے بوجھ کے ظاہر و باطن کی قدر و قیمت کو سمجھ سکے۔

۲۹۳

حَمَلَۃُ القراٰن

   

حاملانِ قرآن:

حَمَلَۃُ الۡقُرۡاٰن عُرَفَاءُ اَھۡلَ الۡجَنَّۃ۔ حاملانِ قرآن اہلِ جنّت کے عارفین ہیں۔ یعنی جو لوگ قرآن کی روح و روحانیت اور معرفت کے حامل ہیں وہی اہل بہشت کے عارفین بھی ہیں کہ بہشت والے ان سے معرفت کے اسرار کی تعلیم حاصل کرتے رہیں گے (حدیث، دعائم الاسلام، جلد ثانی، ص۳۵۱)۔

۲۹۴

حوت

(۱)

   

مچھلی:

ارواح گویا بحرِ روحانیت کی چھوٹی بڑی مچھلیاں ہیں، ماہیٔ روح جب تک ہمارے بدن میں محبوس ہے تب تک مردہ یا نیم مردہ ہے لیکن جس وقت روحانیت کے سمندر سے سالک کا رابطہ ہوجاتا ہے تو اس وقت یہ مچھلی زندہ ہوکر اپنے سمندر میں داخل ہوجاتی ہے، سورۂ کھف (۱۸: ۶۳) میں غور سے دیکھیں۔

۲۹۵

حُوت

(۲)

   

حضرتِ یونس علیہ السّلام کے باطنی سفر کا واقعہ ہے کہ اُن کو ایک زبردست

۱۶۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
     

روحانی مچھلی نے نگل لیا، اور یہ بہت بڑی آزمائش تھی، ایسے شدید ترین مشکل وقت میں کس عاجزی سے اللہ تعالٰی کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اس کا عملی نمونہ قرآنِ پاک میں موجود ہے، دیکھئیے سورۂ انبیاء (۲۱: ۲۷)۔

۲۹۶

حُوۡرٌ (جمع)

(۱)

   

جنّت کی عورتیں، واحد: حَوۡراء:

لفظ حور قرآنِ پاک کے چار مقامات پر موجود ہے، حُور جمع ہے جس کی واحد حَوۡراء ہے، کچھ حوریں مثال ہیں اور کچھ ممثول، جو ممثول ہیں وہ لطیف جسمانی بہشت کے بہت سے درجات پھر روحانی بہشت کے بہت سے درجات سے بھی اوپر عقلی بہشت میں ہیں، وہ کثیف جسمانی نہیں، لطیف جسمانی نہیں، روحانی بھی نہیں، بلکہ عقلانی وجود رکھتی ہیں، جو حظیرۃ القدس کے خیموں میں رہتی ہیں، وہ اسرارِ علم و معرفت اور دُرَّرِ گنجِ حکمت ہیں۔

۲۹۷

حُور

   

بہشت کی عورتیں:

روحانی ریسرچ اور مطالعۂ قرآن سے جیسی معلومات حاصل آئی ہیں، وہ یہاں درج کی جاتی ہیں، تاکہ آئندہ لوگوں کے لئے کام آئیں، جیسے ذکر ہوا کہ عقلی حوریں سب سے اعلٰی ہیں، ان کے بعد روحانی حوریں ہیں جو لطائفِ روحانی اور نورانی صُورِ مجرَّدہ ہیں، اور یہ اُن نعمتوں میں شامل ہیں جو لذائذِ عُیُون کے لئے پیدا کی گئی ہیں، تاہم اشارۂ

۱۷۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
     

علم و حکمت سے کوئی چیز خالی نہیں، ان سے نچلے درجات پر لطیف جسمانی حوریں ہیں، اگر میں مثال کے طور پر کہوں کہ یہ واقعًا قومِ جنّ کی عورتیں ہیں تو آپ کو بڑی حیرت ہوگی، لہٰذا وہی مطلب دوسرے الفاظ میں بیان کرتا ہوں کہ لطیف جسمانی حوریں قومِ پری کی عورتیں ہیں، کاش! اگر آپ جنّ و پری کو کما حقّہ پہچان لیتے تو خود شناسی بڑی آسان ہوجاتی!

۲۹۸

حُور

(۳)

   

لطیف عورتیں:

سورۂ واقعہ میں اس عظیم راز کا اشارہ موجود ہے کہ حق تعالٰی انسان کو جسم کثیف کے بعد ایک لطیف جسم عطا کرتا ہے، جیسے فرمایا: اِنَّآ اَنۡشَاۡ نٰھُنَّ اِنۡشَآءً۔ ہم نے ان عورتوں کو (پہلے پہل دنیا میں) پیدا کیا جیسا کہ حق ہے۔ فَجَعَلۡنٰھُنَّ اَبۡکَارًا۔ پھر (اس کے بعد) ہم نے ان کو (بہشتی جسمِ لطیف میں) کنواریاں بنایا۔ عُرُبًا اَتۡرَابًا۔ محبوبہ ہیں ہم عمر ہیں (۵۶: ۳۵ تا ۳۷) ہم عمر ان معنوں میں کہ ازلی پیدائش ایک ساتھ ہے، نفسِ واحدہ سے پیدا ہونا ایک ساتھ اور کثیف سے لطیف ہوجانا ایک ساتھ ہے۔

۲۹۹

حُور

(۴)

   

پریان بہشت:

کتاب دعائم الاسلام، جلد اوّل، کتاب الجنائز، ذکر العلل….. میں

۱۷۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
     

حضرتِ علی علیہ السّلام سے روایت ہے: وَ کُلُّ مؤمنٍ شھید، وَ کُلُّ مؤمِنَۃٍ حَوراء۔ ہر مومن (جس موت سے بھی مرے) شہید ہوجاتا ہے، اور ہر مومنہ (عورت مرکر کوکبی بدن میں) حَوراء بن جاتی ہے۔ اس کلّیّہ سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ بہشت کی عورتیں یعنی حوریں پہلے پہل دنیا میں پیدا ہوجاتی ہیں، کیونکہ مرد و زن کے لئے ایک ہی قانونِ فطرت ہے۔

۳۰۰

حور

(۵)

   

جسم لطیف میں بہشت کی عورتیں:

سورۂ رحمٰن میں دیکھ لیں: خیموں میں ٹھہرائی ہوئی حوریں ہیں۔ اپنے ربّ کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟ ان جنّتیوں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جن نے ان کو نہ چھوا ہوگا (۵۵: ۷۲ تا ۷۴) اس ربّانی تعلیم کی پہلی حکمت: قرآنِ حکیم کا خطاب ہر زمانے کے مسلمانوں سے ہے، پس اللہ جلّ شانہٗ کا ہر وعدہ بھی تمام زمانوں کے اہل ایمان سے فرمایا ہوا ہے اور اس کا یہ وعدہ بھی ایسا ہی ہے، وَعَدَکُمُ اللہُ مَغَانِمَ کَثِیۡرَۃً تَاۡخُذُوۡنَھَا۔ اللہ تعالٰی نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر رکھا ہے جن کو تم لوگے (۴۸: ۲۰)۔

جاننا چاہیے کہ خدا کا ہر وعدہ فرمانبرداری اور علم و عمل سے مشروط ہوتا ہے، پس ہر کامیاب عالمِ شخصی کی قیامتِ صغرٰی جہادِ اکبر اور دینِ اسلام

۱۷۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
     

کی عالمی فتح ہے، یہ فتح صرف روحانی اور اُخروی ہی ہے، اس بے مثال آفاقی فتحمندی کے اموالِ غنیمت میں حوران و غلمانِ بہشت بھی ہیں۔

۳۰۱

حور

(۶)

   

حُوریں جسمِ فلکی میں:

دوسری حکمت: خدا کے فضل و کرم سے ہر وہ عورت نوجوان کنواری ہوجاتی ہے جبکہ جسمِ کثیف کو چھوڑ کر بلباسِ کوکبی بدن (ASTRAL BODY) بہشت میں داخل ہوجاتی ہے، پھر اس کی وہی صفت بنتی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔

۳۰۲

حور

(۷)

   

بہشت کی عقلی حوریں:

تیسری حکمت: عقلی حوریں دونوں جہان کے حسن و جمال اور رعنائی و زیبائی کے اسرارِ مخزون ہیں، وہ ازلی خیموں میں پوشیدہ ہیں، ان کے جنّتی شوہروں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جنّ نے ان کو نہیں چھوا ہے، یعنی یہ ہر عالمِ شخصی کے حظیرۃ القدس کے رازہائے سربستہ ہیں، حورٌ مقصورات کی تأویل ہے اسرارِ کون و مکان کے بے بہا جواہر، کیونکہ مقصور اسمِ مفعول ہے جس میں کائناتِ علم و حکمت کو مختصر ترین اشارات میں لانے کا مفہوم ہے، المنجد سے مثالیں: اَقۡصَرَہٗ، کسی چیز کو چھوٹا کرنا، لمبائی کم کرنا، کوتاہ و مختصر کرنا۔ تَقَاصَرَ الظِلُّ، سایہ

۱۷۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
     

کا قریب ہونا اور سکڑنا۔ الاحادِیۡثُ القِصَارُ، جامع و مفید کلام۔

۳۰۳

حُوۡر

(۸)

   

بہشت کی پریاں:

سورۂ بقرہ میں ہے: وَ لَھُمۡ فِیۡھَآ اَزۡوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ۔ اور ان کے واسطے (ان بہشتوں میں) بیویاں ہوں گی صاف پاک کی ہوئی (۲: ۲۵) یعنی جسمِ کثیف سے جسمِ لطیف میں منتقل کردہ، وہ جسمًا، روحًا اور عقلًا پاک و پاکیزہ ہوں گی، کیونکہ مُطَھَّرَۃ اسمِ مفعول ہے جس پر خداوند تعالٰی یا اس کے فرشتوں کے پاک کر دینے کا فعل واقع ہوا ہے، اور وہ بھی آخرت میں، اس لئے یہ کہنا حقیقت ہے کہ حورانِ بہشت کلّی پاکیزگی کی حامل ہوں گی، وہ ہے جسمانی لطافت مثلِ شعلۂ شمع، روحانی ترقّی مانندِ فرشتہ، عقلی طہارت (پاکیزگی) تاکہ کتابِ مکنون کو ہاتھ میں لیا جائے، اور ان کے سعادت مند شوہر بھی انہی اوصاف کے مالک ہوں گے، کیونکہ اشارۂ حکمت بس یہی کہتا ہے۔

۳۰۴

حُوۡر

(۹)

   

زنانِ بہشت:

سورۂ دُخان (۴۴: ۵۴) میں ہے: وَ زَوَّجۡنٰھُمۡ بِحُوۡرٍ عِیۡنٍ۔ اس کا ایک مستند ترجمہ یہ ہے: اور ہم گوری گوری آہوچشم عورتیں ان سے بیاہ دیں گے (۴۴: ۵۴) یہاں ظاہری آنکھوں کے حسن و جمال

۱۷۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
     

زنانِ بہشت:

کی مثال سے چشمِ بصیرت کی تعریف کی گئی ہے لہٰذا ہمیں یقینِ کامل ہے کہ یہ مرتبۂ عقل کی حوریں ہیں، جن کا ذکر ہوچکا۔

سوال: لوگ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آیا بہشت میں تولید کا نظام ہے؟ اگر ہے تو کس طرح؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بہشت وہ جگہ ہے جس میں ہر طرح کی نعمت موجود ہے، اور اولاد کی خوشی ایک بڑی نعمت ہے تو یہ بہشت میں کیوں نہ ہو، مگر ہاں، وہ عالم امر ہے، اس لئے ہر چیز کا ظہور فورًا کلمۂ کن سے ہوتا ہے۔

۳۰۵

حَیّ

   

زندہ، ھمیشہ زندہ:

قال اللہ تعالٰی: ” یٰابۡنَ اٰدَمَ خَلَقۡتُکَ لِلۡاَبَدِ، وَ اَنَا حَیُّ لَا اَمُوۡتُ، اَطِعۡنِیۡ فِیۡمَا اَمَرۡتُکَ بِہَ، وَانۡتَہِ عَمَّا نُھَیۡتُکَ عَنۡہُ اَجۡعَلۡکَ حَیًّا لَا تَمُوۡتُ اَبَدًا یَابۡنَ آدَمَ اَنَا قَادِرٌ عَلیٰ اَنۡ اَقُوۡلَ لِلشَّیۡءِ کُنۡ فَیَکُوۡنُ، اَطِعۡنِیۡ فِیۡمَا اَمَرۡتُکَ بِہِ وَانۡتَہِ عَمَّا نَھَیۡتُکَ عَنۡہُ، اَجۡعَلۡکَ قَادِرًا عَلٰی اَنۡ تَقُوۡلَ لِلشَّیۡءِ کُنۡ فَیَکُوۡنُ۔

حدیثِ قدسی ہے: اے ابن آدم! میں نے تجھ کو ہمیشہ کیلئے پیدا کیا ہے، اور میں خود زندۂ لافانی ہوں، میری اطاعت کر جس چیز کیلئے

۱۷۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
     

میں تجھے امر کرتاہوں ،اور رُک جا جس چیز سے  میں تجھے روکتا ہوں، تاکہ میں تجھے ایسی حیات عطا کرونگا کہ تو کبھی نہیں مریگا، میں یہ قدرت رکھتا ہوں کہ کسی چیز کیلئے فرماؤں ’’ہوجا‘‘ تو وہ ہوجاتی ہے ، میری اطاعت کر جس چیز کیلئے میں تجھے امر کرتا ہوں اور رک جا جس چیز سے میں تجھے روکتا ہوں تاکہ میں تجھے یہ قدرت دوں کہ تو کسی چیز کیلئے کہے ’’کن‘‘(ہوجا) تو وہ ہوجائے گی۔

۳۰۶

حَیَوَان

(۱)

   

زندہ، زندگی، جینا:

اصولی اور بنیادی حکمتوں کا یہ ربّانی خزانہ سورۂ عنکبوت (۲۹: ۶۴) میں ہے: وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَھِیۡ الۡحَیَوَانُ لُوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ۔ اور بلا شبہ آخرت کا گھر زندہ ہے، اگر اُن کو اس کا علم ہوتا۔ تفصیل کے لئے دیکھیں: کتابِ وجہِ دین، کلام۴۔

۳۰۷

حَیَوَان

(۲)

   

زندہ، زندگی، جینا:

اس آیۂ کریمہ کا واضح و صریح مطلب یہ ہے کہ عالمِ آخرت سارے کا سارا زندہ، بولنے والا، اور جاننے والا ہے، وہاں کی ہرہر چیز بولتی اور تسبیح کرتی رہتی ہے (۴۱: ۲۱؛ ۱۷: ۴۴) اور کوئی شَی عقل و جان اور علم و حکمت کے بغیر نہیں، سچ تو یہ ہے کہ دارِ آخرت انسانِ لطیف کی صورت میں ہے،

۱۷۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ح”
     

اور قرآنِ حکیم میں برائے امتحان اس کے بہت سے مخفی نام ہیں۔

۳۰۸

حَیٰوۃً طَیِّبَۃً

   

پاک زندگی:

مرد ہو یا عورت، جو بھی حقیقی معنوں میں ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کرے، اس کو خدا حیاتِ طیّبہ (روحِ قدسی) میں زندہ کرے گا، وہ لطیف جسم اور عقلِ کامل کی دولت سے مالامال ہوگا (۱۶: ۹۷)۔

۱۷۷

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۱۷۸

     
    بابُ الخاء

 

۱۷۹

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۱۸۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “خ”
۳۰۹

خَرَّ

   

وہ گر پڑا:

انسان روحًا آسمان سے آیا ہے، اس لئے اس کا آخری مرجع و ماوا آسمان پر ہے، جبکہ وہ خدا شناسی میں کامیاب ہوجاتا ہے، اگر اس کو معرفت حاصل نہیں ہوئی تو یہ شرک ہے، اس صورت میں وہ گویا آسمان کی بلندیوں سے گرگیا (مفہوم ۲۲: ۳۱) سورہؙ حج کے رکوعً چہارم کو خوب غور سے پڑھیں۔

۳۱۰

خَرۡدَل

   

رائی:

پتّھر جیسی چیزوں میں بھی روح موجود ہے، جس کا اشارہ سورۂ لقمان (۳۱: ۱۶) میں فرمایا گیا ہے: اے میرے بیٹے! اگر وہ (عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو، پھر وہ کسی پتھر کے اندر ہو، یا آسمانوں میں ہو، یا زمین میں ہو، اللہ تعالٰی اسے لے آئے گا، یقینًا اللہ تعالٰی بہت باریک بین پورا پورا خبر رکھنے والا ہے۔

۳۱۱

خزائِن

(۱)

   

خزانے:

مادّی سائنس کے ایجادات ہوں یا روحانی سائنس کے انکشافات، ان میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جو خزائنِ الٰہی سے نہ آئی ہو، جب اللہ کے انتہائی عظیم اور کبھی ختم نہ ہونے والے خزانے موجود ہیں تو ان کی

۱۸۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “خ”
     

بے شمار برکتوں کا صاف شفاف دریا ہمیشہ دنیا والوں کی طرف بہتا رہے گا (۱۵: ۲۱)۔

۳۱۲

خزائن

(۲)

   

خزانے، خدا کے خزانے:

س: خزائنِ الٰہی کا ذکر قرآنِ حکیم کے کس مقام پر ہے؟ ج: سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں، س: ان خزانوں میں کیا کیا چیزیں ہیں؟ ج: ہر چیز یعنی ہر نعمت، س: خزائنِ خدا کی خاص نعمتیں کس طرح حاصل کی جاسکتی ہیں؟ ج: فرمانبرداری اور علم و معرفت کے وسیلے سے، س: ان خزانوں کی نعمتوں میں سردار نعمت کونسی ہے؟ ج: وہ خدا کا دیدارِ پاک ہے جس میں آپ کو فنا ہوجانا ضروری ہے تاکہ آپ خود کو ازلی و ابدی طور پر اسی میں زندہ پائیں، س: خزائنِ الٰہی کہاں ہیں؟ س: عالمِ شخصی میں، س: کُنوزِ خداوندی کی طرف رہنمائی کون کرتا ہے؟ ج: امامِ مبین علیہ السّلام۔

۳۱۳

خَزَائِن

(۳)

   

خزانے، خدا کے خزانے:

سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں بار بار غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں حق تعالٰی کے خزانوں کی معرفت کے اسرار منکشف ہوسکتے ہیں، یقینًا یہ خزائنِ الٰہی عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اساس، اور امام ہیں، اور یہ کنوزِ

۱۸۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “خ”
     

خداوندی لاہوت، جبروت، اور ملکوت کے انمول جواہر سے بھرے ہوئے ہیں۔

۳۱۴

خَزَائن

(۴)

   

خزائنِ الٰھی:

اے نورِ عینِ من! یہ نکتۂ دلپذیر کبھی بھول نہ جانا کہ اللہ کی خاص چیزیں اشرف و اعلٰی ہوا کرتی ہیں، مثال کے طور پر قلمِ الٰہی ایسا نہیں جیسے دنیا کا بے جان و بے عقل قلم ہوتا ہے بلکہ خدا کے قلم و لوح دو عظیم فرشتے ہیں، اسی طرح ربّ العزّت کے خزائن بھی فرشتوں کی شکل میں ہوتے ہیں، اور یہ قانون بھی یاد رہے کہ فرشتے روحانی اور جسمانی دو قسم کے ہوتے ہیں، پس خداوندِ عالم نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے آسمان اور زمین کے باشندوں کے لئے ایسے پانچ عظیم خزانے بنا دئیے کہ اُن تک رسائی کے لئے مکان و زمان سے کوئی رکاوٹ نہیں۔

۳۱۵

خَزَائن

(۵)

   

خدا کے خزانے جو عظیم فرشتوں کی صورت میں ہیں:

خزائنِ الٰہی جو عظیم فرشتے ہیں وہ کس طرح کام کرتے ہیں، اس کی ایک مثال یہ ہے: ترجمۂ آیۂ پُرحکمت: (خدا) وہی تو ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تم کو اندھیروں سے نکال کر نور

۱۸۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “خ”
     

کی طرف لے آئے (۳۳: ۴۳)۔ اللہ کا درود بھیجنا یہ ہے کہ وہ عَزَّ اِسمۡمُہٗ صرف امر کرتا ہے، درود اور کوئی بھی چیز اس کے حکم سے نازل کر دینے کا فریضہ وہ بڑے فرشتے ہی انجام دیتے ہیں، جن کو خزائنِ الٰہی ہونے کا مرتبہ حاصل ہوا ہے یاد رہے کہ امر ہر کام سے برتر ہے، اور کام امر کے تحت ہے، لہٰذا خداوند تعالٰی کی یہ شان ہے کہ وہ ہر کام کے لئے امر فرماتا ہے کام نہیں کرتا۔

۳۱۶

خَزَائن

(۶)

   

خزائنِ الٰھی:

دوسری مثال یہ ہے کہ اگر خداوند کریم چاہتا تو بذاتِ خود اہل ایمان پر درود بھیجتا لیکن ایسا نہیں کیا بلکہ زمین کے فرشتۂ اعظم اور سب سے عظیم ارضی خزانہ (ناطق) یعنی آنحضرتؐ سے فرمایا: وَ صَلِّ عَلیۡھِمۡ اِنَّ صَلوٰتَکَ سَکَنٌ لَّھُمۡ (۹: ۱۰۳) اے نبیؐ تم ان پر درود بھیج دو کیونکہ تمہارا درود ان کے لئے (روحانی اور عقلانی) تسکین کا باعث ہے۔

۳۱۷

خَزَائن

(۷)

   

خزانے:

قرآنِ حکیم (۱۵: ۲۱) میں ہے: اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور ہم کسی چیز کو نازل نہیں کرتے ہیں مکر (لوگوں

۱۸۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “خ”
     

کے) علم و دانش کے مطابق ۔ یہ بہت بڑی روشن حقیقت ہے بلکہ قانونِ الٰہی ہے کہ کوئی چیز خزائنِ خدا سے باہر نہیں، پس یقینًا انسان کی سعی اور معلومات کے مطابق سائنس اور اس کی تمام پیداوار اللہ کے خزانوں سے آئی ہیں، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عالمِ بالا میں روحانی سائنس اور مادی سائنس ایک ہی چیز ہے۔

۳۱۸

خَزَائن الارض

   

زمین کے خزانے:

(یوسفؑ نے) کہا مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کیجئیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں (۱۲: ۵۵) یعنی یوسفؑ امامِ مستودع نے امامِ مستقرؑ سے کہا کہ مجھے عالمِ شخصی کے خزانے سپرد کر دیں، تاکہ حفاظت اور علم کے ساتھ خزانے استعمال ہوسکیں۔

۳۱۹

خَزَائنُ رَبِّکَ

   

تیرے ربّ کے خزانے:

کیا تیرے ربّ کے خزانے ان کے پاس ہیں (۵۲: ۳۷) یعنی ان کے پاس کوئی ایسا خزانہ نہیں، بلکہ پروردگار کے تمام خزائن امامِ مبین علیہ الصلوٰۃ و السّلام کے بابرکت عالمِ شخصی میں ہیں، جس میں اللہ تعالٰی نے ساری چیزوں کو گھیر کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲)۔

۱۸۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “خ”
۳۲۰

خزائنُہٗ

   

اللہ کے خزانے:

ترجمۂ آیۂ پاک: اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں (۱۵: ۲۱) حضرتِ امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام اللہ کا خزانۂ خزائن ہے، اور اسی کو خدا کا قربِ خاص حاصل ہے۔

۳۲۱

خلق

   

آفرینش:

الا لہ الخلق و الامر (۷: ۵۴) یاد رکھو کہ عالمِ خلق اور عالمِ امر اللہ ہی کے لئے ہے۔ یعنی عالمِ سفلی اور عالمِ علوی۔

۳۲۲

خلق الرّحمٰن

(۱)

   

نہایت مہربان خدا کی آفرینش:

اے نورِ عینِ من! خداوند تعالٰی کی بے مثال بادشاہی میں ایک طرف دَرَجات ہیں اور دوسری طرف مساوات، اے عزیز تر از جان، از تو قربان! آپ یہ بھی یاد رکھیں کہ دنیا و آخرت میں لوگوں کے درجات ہیں، اور ازل و ابد میں مساوات یعنی برابری ہے، اسی برابری کو قرآنِ حکیم نے “خلقِ رحمان” کے اسم سے موسوم کیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ (۶۷: ۳) تو نہایت مہربان خدا کی آفرینش میں کوئی فرق نہ دیکھے گا۔ اسی تصوّر کو سمجھانے کے لئے حضرتِ مولانا امام سلطان محمّد شاہ صلوات اللہ علیہ و سلامہ نے

۱۸۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “خ”
     

مونو ریالٹی (یک حقیقت) کا انقلابی نظریہ پیش کیا ہے، جو علم و معرفت کے خزینۃ الخزائن کی کلید ہے۔

۳۲۳

خلق الرّحمٰن

(۲)

   

نہایت مہربان خدا کی آفرینش:

(۱) قرآنِ پاک ایک ہی ہے لیکن اس کی کاپیاں شروع سے لیکر اب تک لا تعداد ہیں، پھر بھی یہ مقدّس آسمانی کتاب حقیقت میں ایک ہی ہے سو یہ کتنی عمدہ مثال ہے کہ اس کی روشنی میں ہر دانا مومن تصوّرِ “یک حقیقت” کو سمجھ سکے (۲) مساوات اور یک حقیقت کی دوسری بہترین مثال انسانِ کامل کی بابرکت ہستی ہے، جس کی بیرون از حساب کاپیاں بنائی جاتی ہیں، تاکہ اہل معرفت بہشت میں فردِ واحد بھی ہوجائیں اور ہزار و بے شمار بھی رہیں (۳) سائنسی عجائب و غرائب کی مثالوں سے کام نہ لینا دانشمندی نہیں ہے، چنانچہ آپ اندازہ کریں کہ ٹیلی وژن سے تنہا ایک ہی شخص کی تصویر اور آواز کی کتنی کاپیاں ہوسکتی ہیں، کہاں کہاں تک اور کتنے گھروں میں پہنچتی ہیں، کوئی چیز اشارۂ حکمت سے خالی نہیں۔

۳۲۴

خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ

   

نئی پیدائش:

بلکہ وہ نئی پیدائش کے بارے میں شک میں ہیں۔ یعنی جسمِ لطیف کی زندگی سے بے خبر ہیں (۵۰: ۱۵)۔

۱۸۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “خ”
۳۲۵

خَلِیۡل

   

گہرا دوست:

حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ پروردگارِ عالم نے جناب ابراہیمؑ کو نبی مقرر کرنے سے پہلے اپنا عبد مقرر کیا اور رسول مقرر کرنے سے پہلے نبی بنایا اور خلیل کا درجہ عطا کرنے سے پہلے رسول مقرر کیا اور امام مقرر کرنے سے پہلے خلیل بنایا، (المیزان، الجزء الاوّل، ص۲۷۶، نیز حاشیۂ ترجمۂ قرآن از سیّد مقبول احمد، ص۲۲)۔

۳۲۶

خَیۡر

   

شرّ کی ضد، نیکی، بھلائی، نیک کام:

اے نورِ عینِ من! حق بات تو یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں سر تا سر روحانی اور عقلانی عجائب و غرائب ہی کا تذکرہ ہے، اس کی ایک بہت بڑی مثال یہ ہے کہ جب عالمِ شخصی میں انفرادی قیامت برپا ہوجاتی ہے، اس دوران بہت سے مراحل کے بعد منزلِ عقل میں فنائے عالم کا مشاہدہ ہوتا ہے، یعنی حضرتِ ربّ العزّت کائنات کو لپیٹ لیتا ہے، ایسے میں خیر تو خیر ہی تھی شرّ بھی دستِ قدرت میں خیر ہوجاتا ہے، یہ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ کی تفسیر و تأویل ہے (۳: ۲۶)۔

۳۲۷

خَیۡرُ الۡوَرِثِیۡنَ

   

سب وارثوں سے بہتر:

قرآنِ حکیم (۲۱: ۸۹) میں ہے کہ خدا خَیۡرُ الۡوَارِثِیۡنَ (سب وارثوں

۱۸۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “خ”
     

سے بہتر) ہے، اس کی حکمت یہ ہے کہ نیک بخت لوگوں کو فنا فی اللہ و بقاء باللہ کا مرتبہ عطا ہوجاتا ہے، اس معنٰی میں ان کا بہترین وارث اللہ ہے اور وہ حقیقت میں مرے بھی نہیں بلکہ زندۂ ازل و ابد ہوگئے ہیں۔

۳۲۸

خِیَرَہ

   

اختیار، اسمِ مصدر ھے:

سورۂ احزاب (۳۳: ۳۶) میں ارشاد ہے: وَ مَا كَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوۡلُهٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّكُوۡنَ لَهُمُ الۡخِیَرَةُ مِنۡ اَمۡرِهِمۡ۔ (۱) اور کسی مومن اور مومنہ کو گنجائش ہی نہیں جبکہ اللہ اور اس کا رسولؐ کسی کام کا فیصلہ فرمائیں کہ ان کو ان کے اس کام میں کوئی اختیار رہے (۲) اس ارشاد کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ جب کسی مومن یا مومنہ کے عالمِ شخصی کی روحانی ترقّی مقامِ توکّل اور کلمۂ کُن تک پہنچ جاتی ہے تو اس وقت حقیقی وکیل ایسے شخص کے اختیار کو بڑی حد تک محدود کر دیتا ہے۔

۱۸۹

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۱۹۰

     
    باب الدّال

 

۱۹۱

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۱۹۲

لفظ   معنی و حکمت                                                                “د”
۳۲۹

دَآبَّۃً

(۱)

   

ایک چلنے والا:

اور جب ان لوگوں پر (قیامت کا) وعدہ پورا ہوگا تو ہم ان کے واسطے زمین سے ایک چلنے والا نکال کھڑا کریں گے جو ان سے یوں باتیں کرے گا کہ (اکثر) لوگ ہماری آیتوں کا یقین نہیں رکھتے تھے (۲۷: ۸۲) یہ اگرچہ ایک جانور ہے لیکن اس کے بے شمار ذرّات ہیں، جو پوری دنیا میں پھیل جائیں گے، اور مولا علی علیہ السّلام نے فرمایا ہے کہ: میں ہی دابۃ الارض ہوں (کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت ۲۲)۔

۳۳۰

دَآبَّۃً

(۲)

   

زمین پر رینگنے والا، چلنے والا:

آیۂ مبارکہ: وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ (تا آخر۔ ۶: ۳۸) اور کوئی زمین پر رینگنے والا اور کوئی پرندہ جو اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتا ہے ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ وہ بھی تم ہی جیسے گروہ ہیں، ہم نے کتاب میں کسی طرح کی کمی نہیں کی ہے، پھر وہ سب اپنے پروردگار کے حضور میں جمع کئے جائیں گے۔ اس آیۂ مقدّسہ کی تاویلی حکمت ذیل کی طرح ہے: اگرچہ دنیائے ظاہر میں ذی حیات (انسان وغیرہ) کے بے شمار درجات ہیں، لیکن یہ سب بنیادی طور پر دو بڑے گروہ میں تقسیم ہیں، یعنی بعض زمین پر چلتے ہیں اور بعض ہوا میں پرواز کرتے ہیں، یہی مثال عالمِ ذرّ میں بھی ہے، تاکہ ہم ان دو شہادتوں سے یہ سمجھ سکیں کہ تمام امّتوں کے لوگ بہشت میں دو طرح

۱۹۳

لفظ   معنی و حکمت                                                                “د”
     

طرح سے ہوں گے، کچھ زمین پر چلیں گے، اور کچھ فضا میں پرواز بھی کر سکیں گے۔

۳۳۱

دَآبَّۃً

(۳)

   

چلنے والا، انسان وغیرہ:

ارشاد ہے: “ہم نے کتاب میں کسی طرح کی کمی نہیں کی ہے” ۔ یعنی قرآن میں، جبکہ نورِ منزّلۡ (۵: ۱۵) کی روشنی میں دیکھا جائے، کتابِ نفسی میں، جبکہ امامِ زمانؑ کا نور اُس پر طلوع ہوجاتا ہے، کتابِ کائنات میں، جبکہ چشمِ بصیرت سے پڑھی جاتی ہے، اور کتابِ ناطق (نورِ امامت) میں، جبکہ کسی کو معرفت عطا ہوتی ہے۔

۳۳۲

دَآبَّۃً

(۴)

   

جاندار، اس معنی میں انسان بھی ہے:

“پھر وہ سب اپنے پروردگا کے حضور میں جمع کئے جائیں گے”۔ دنیا والوں کا حشر (اجتماع) سب سے پہلے بشکلِ زرّات عالمِ زرّ میں ہوجاتا ہے، یہ عالم انسانِ کامل میں ہے، پھر درجات کی مثالیں ہیں، اس کے بعد سب کو مرتبۂ فردانیت پر نفسِ واحدہ (ایک شخص) کی صورت میں جمع کیا جاتا ہے، اس سے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ اہل جنّت پہلے تو مختلف مراتب پر فائز ہوجاتے ہیں، پھر رفتہ رفتہ حظیرۃ القدس میں میں پہنچ کر ایک ہی ہیکلِ نور میں سب کے سب ایک ہوجاتے ہیں، یہ حشر کی حکمت ہے۔

۱۹۴

لفظ   معنی و حکمت                                                                “د”
۳۳۳

دَآبَّۃً

(۵)

   

ایک چلنے والا:

آیۂ کریمہ: وَ اِذَا وَقَعَ الۡقَوۡلُ عَلَیۡھِم (تا آخرأ ۲۷: ۸۲) اور جب بات ان پر آپڑے گی تو ہم زمین سے ان کے لئے ایک جانور نکالیں گے، جو لوگوں سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہ لاتے تھے۔ دَآبّۃُ الۡاَرۡض، امامِ عالی مقامؑ کے مخفی ناموں میں سے ہے، جیسے مولا علیؑ کا ارشاد ہے: اَنَا دَآبَّۃُ الۡاَرۡض۔ یعنی میں ہوں دابۃ الارض جو قیامت کے علامات و نشانات میں سے ہے (کوکبِ دُرِّی، بابِ سوم، منقبت۲۲)۔

انفرادی قیامت میں نورِ امامت کے بےشمار عجائب و غرائب کا ظہور ہوتا ہے۔

۳۳۴

دَآبَّۃً

(۶)

   

دآبۃ الارض، یاجوج و ماجوج، زندہ ذرّات:

ہر اسانِ کامِل کی جسمانی موت سے بہت پہلے نفسانی موت واقع ہوتی ہے، اسی سے ذاتی یا انفرادی قیامت کا آغاز ہوتا ہے، آپ سورۂ سباء (۳۴: ۱۴) میں دیکھ سکتے ہیں، جہاں دآبۃ الارض کا ذکر آیا ہے، یہ دراصل یاجوج و ماجوج کا نام ہے جو عالمِ شخصی کی تعمیرِ نو کے لئے تخریب کرتے ہیں، چنانچہ یہ زندہ ذرّات حضرتِ سلیمانؑ کے عصا (نفسِ حیوانی) کو کھا رہے تھے، تاکہ آپؑ پر نفسانی موت واقع ہو۔

۱۹۵

لفظ   معنی و حکمت                                                                “د”
۳۳۵

دارُ الحکمۃ

   

حکمت کا گھر:

اَنَا دَارُ الۡحِکۡمَۃ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا۔ حضرتِ علیؑ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا: میں حکمت کا گھر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ۔ (ترمذی اور مشکوٰۃ) اس کا اشارہ یہ ہوا کہ علیِ زمانؑ ہی کے توسط سے قرآن و حدیث کے خزائنِ حکمت مل سکتے ہیں۔

۲۳۶

دحیۃ الکلبی

   

ایک صحابی کا نام:

آنحضرتؐ کا ارشاد ہے: اذا رأیتم دحیۃ الکلبی عندی فھو جبرائیل یأتینی فی صورتہٖ جب تم میرے پاس دحیۃ الکلبی کو دیکھتے ہو تو سمجھ لو کہ اس کی صورت میں جبرائیل ہے جو میرے پا آتا ہے۔ (سرائر، ص۸۱) اس سے معلوم ہوا کہ مجرّد فرشتے مومنین کی شکل میں ہوتے ہیں، اور مومنین ہی علم و عبادت سے ملائکہ بن جاتے ہیں۔

۳۳۷

دَرَجَاتٌ

(۱)

   

درجے، مرتبے:

بعض کتبِ تصوّف میں یہ حدیث درج ہے: الشّریعۃُ اقوالی، و الطّریقۃُ الفعالی، و الحقیقۃُ الاحوالی، و المعرفۃُ سِرِّی۔ یعنی شریعت میرے اقوال کا نام ہے، طریقت میرے افعال کا مجموعہ ہے، حقیقت میرے روحانی احوال میں ہے، اور معرفت میرا راز ہے۔

۱۹۶

لفظ   معنی و حکمت                                                                “د”
     

اے نورِ چشمِ من! جیسا کہ آپ جانتے ہیں: جمادات قدر و قیمت کے اعتبار سے مختلف درجات پر ہیں، نباتات کے بھی بہت سے درجات ہیں، حیوانات بھی نوع بنوع اور درجہ بدرجہ ہوے ہیں، اور انسانوں کے مدارج و مراتب کا سلسلہ تو بڑا طویل ہے، پس اسی طرح قرآنی اور اسلامی تعلیمات کے بھی بہت سے مراحل ہیں۔

۳۳۸

دَرَجَاتٌ

(۲)

   

مراتب:

سورۂ آلِ عمران کے اس ارشاد کو دیکھ لیں: ھُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ اللہِط وَ اللہُ بَصِیۡرٌ مبِمَا یَعۡمَلُوۡنَ۔ ان لوگوں کے خدا کے ہاں (مختلف اور متفاوت) درجے ہیں اور خدا ان کے سب اعمال کو دیکھ رہا ہے (۳: ۱۶۳) یعنی علم و عمل کے فرق و تفاوت کی وجہ سے لوگوں کے بہت سے درجے بن جاتے ہیں۔

۳۳۹

دَرَجَاتٌ

(۳)

   

مدارج:

سورۂ یوسف (۱۲: ۷۶) میں ارشاد ہے: نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَاءُط وَ فَوۡقَ کُلِّ ذِیۡ عِلۡمٌ عَلِیۡمٌ۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں اور ہر علم والے سے دوسرا علم والا بڑھ کر ہے (۱۲: ۷۶) یعنی خداوندِ عالم جس کے درجے کو بلند کرنا چاہے اس کو علم و عمل کی توفیق عنایت

۱۹۷

لفظ   معنی و حکمت                                                                “د”
     

کرتا ہے، اور اسی طرح لوگوں کے بہت سے درجات بن جاتے ہیں، پس شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے مدارج حق ہیں۔

۳۴۰

دَھۡر

(۱)

   

زمان:

اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ دہر کو گالی نہ دو، کیونکہ  میں خود دہر ہوں (حدیث)۔

۳۴۱

دَھۡر

(۲)

   

زمانِ ساکن، ازل، تجدُّدِ ازل:

سورۂ دہر کے شروع (۷۶: ۱) میں یہ حکمت آگین ارشاد ہے: هَلۡ اَتٰى عَلَى الۡاِنۡسَانِ حِیۡنٌ مِّنَ الدَّهۡرِ لَمۡ یَكُنۡ شَیۡــٴًـا مَّذۡكُوۡرًا۔ ترجمۂ اوّل: یقینًا انسان پر دہر (زمانِ ناگزرندہ) سے ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے، جبکہ وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا۔ ترجمۂ دوم: آیا انسان پر ظہورِ ازل (اور منزلِ فنا) کا وہ وقت آیا ہے جبکہ وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا (یعنی ہر طرح سے فنا بحَق ہوگیا تھا)۔

انسان ازل میں ایک بے نام و نشان اور بے مثال حقیقت تھا (ہے اور ہوگا) یعنی فانیٔ مطلق اور گُم گشتۂ عالمِ وحدت، کیونکہ قابلِ ذکر نہ ہونے کے دو پہلو ہیں، ایک منفی ہے اور دوسرا مثبت، منفی حجاب ہے اور مثبت محجوب، پس یہاں فنا فی اللہ کا سرِّ عظیم موجود ہے۔

زمانِ ناگزرندہ جس کا تجدّد عالمِ شخصی کے مقام عقل پر ہوجاتا ہے (۷۶: ۱)۔ 

۱۹۹

لفظ   معنی و حکمت                                                                “د”
۳۴۲

دَھۡر

(۳)

   

زمانِ ناگزرندہ، ازل و ابد:

جب کوئی سعادتمند مومن اپنے عالمِ شخصی کے روحانی سفر اور باطنی ترقّی کے سلسلے میں مرتبۂ ازل پر پہنچ کر فنا بحق ہوجاتا ہے تو اس کو یہ ضروری اور اعلٰی معرفت حاصل ہوجاتی ہے کہ اس کی انائے علوی کسی ابتدا و انتہا کے بغیر ہمیشہ ہمیشہ عالمِ وحدت (مونور یالٹی) میں موجود ہے، اسی معنٰی میں “حِیۡنٌ مِّنَ الدَّھۡرِ” فرمایا گیا ہے کہ حِیۡن کا تعلق انائے سفلی سے ہے، اور دَھۡر انائے علوی کے لئے ہے۔

۳۴۳

دَھۡر

(۴)

   

ٹھہرا ھوا زمانہ:

قرآنِ حکیم میں ایک سے زیادہ مقامات پر ارشاد ہوا ہے کہ خدا نے تم کو نفسِ واحدہ یعنی ایک جان سے پیدا کیا ہے، اس میں روحانی والدین کی طرف اشارہ ہے، اگرچہ روحانی حوّا کا ذکر الگ یا بعد میں ہوا ہے، اب جس شخص کو اپنی اصل کی طرف لوٹ جانا ہے تو پہلے پہل اسے روحانی ماں (امامؑ) میں فنا ہوجانا پڑے گا، پھر روحانی باپ (رسولؐ) میں، تاکہ آخرًا فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ حاصل ہوسکے، کیونکہ انسان جس طرح خدا کی جانب سے آیا ہے، اسی طرح اس کی جانب جانے والا ہے، سورۂ انعام، رکوعِ یازدہم کے آخر (۶: ۹۴) میں خوب غور سے دیکھ لیں۔

۱۹۹

لفظ   معنی و حکمت                                                                “د”
۳۴۴

دَھۡر

(۵)

   

ٹھہرا ہوا زمانہ جو عالمِ امر میں ہے:

سورۂ انعام (۶: ۹۴) میں ارشاد ہوا ہے: اور تم ہمارے پاس ایک ایک ہوکر آگئے جس طرح ہم نے اوّل بار تم کو پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا اس کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے ۔

اس حجاب کی محجوب حکمت یہ ہے: (۱) در اصل کاملین ہی کی روحانی پیدائش اور قیامت میں لوگوں کی روحانی پیدائش اور قیامت پوشیدہ ہے (۳۱: ۲۸) (۲) لہٰذا لوگ اپنے اپنے وقت کے کاملین میں فنا ہوکر ہی فردًا فردًا خدا کے پاس جاسکتے ہیں (۳) اس کے معنی ہیں خدا میں فنا ہوجانا (۴) بعد از فنا بشر اور بشریت کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی (۵) وہ لَمۡ یَکُنۡ شَیۡئًا مَّذۡکُوۡرًا کا مصداق ہوکر حقیقتِ مجرّدہ بن جاتا ہے۔

۳۴۵

دَیَّارًا

   

رہنے والا، بسنے والا:

یہ آیۂ کریمہ سورۂ نوحؑ میں ہے: وَ قَالَ نُوۡحٌ رَّبِّ لَا تَذَرۡ عَلَى الۡاَرۡضِ مِنَ الۡكٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا (۷۱: ۲۶) اور (پھر) نوح نے (یہ) دعا کی کہ میرے پروردگار کسی کافر کو روئے زمین پر بستا نہ رہنے دے۔ سوال: حضرتِ نوحؑ کی اس پُر اثر دعا کا تعلق دنیائے ظاہر سے ہے یا عالمِ شخصی سے؟ جواب: آخری دعوتِ حق عالمِ شخصی ہی کی طرف ہوتی ہے اور اصلاحِ احوال بھی اسی ہی میں کی جاتی ہے، لہٰذا اس

۲۰۰

لفظ   معنی و حکمت                                                                “د”
     

دعا کا اصل مقصد یہ ہے کہ اہل جہان سب کے سب پرسنل ورلڈ میں داخل ہوکر مسلمان اور مومن ہوجائیں اور کفر و کافری ختم ہوجائے۔

۳۴۶

دِیۡن

(۱)

   

اسلام، دینِ حق:

یہ ارشاد قرآنِ پاک کے تین مقامات پر ہے: (خدا) وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اس (دین) کو (دنیا کے) تمام دینوں پر غالب کر دے (۹: ۳۳؛ ۴۸: ۲۸؛ ۶۱: ۹)۔ اس قرآنی پیش گوئی کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، باطنی پہلو یہ ہے کہ ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی اور باطنی قیامت میں دینِ حق دوسرے تمام ادیان پر غالب ہوتا رہا ہے، اور یہ عظیم روحانی واقعہ سب سے پہلے حضورِ اکرمؑ کی حیاتِ طیّبہ میں ہوا، آپ سورۂ فتح (۴۸) کو باطنی اور روحانی نقطۂ نظر سے پڑھیں۔

۳۴۷

دِیۡن

(۲)

   

خدا کا دین، آنحضرتؐ کی پاک ہستی:

سورۂ نصر میں ارشاد ہے: جب خدا کی مدد آ پہنچی اور (روحانی) فتح حاصل ہوگئی، اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج خدا کے دین میں داخل ہو رہے تھے۔

وہی قیامت جس کا ذکر قرآنِ حکیم میں آیا ہے زمانۂ آدمؑ سے سلسلۂ

۲۰۱

لفظ   معنی و حکمت                                                                “د”
     

کاملین میں بطریقِ روحانی قائم ہوتی آئی ہے، چناچنہ رسولِ خدا پر قیامت کے عظیم اسرار اس وقت عملًا منکشف ہوگئے، جبکہ دنیا بھر کے لوگ بشکلِ ذرّات دینِ خدا (آپؐ کی ہستیٔ مبارک) میں داخل ہوگئے اور حضورِ پاکؐ کو آفاقی فتح حاصل ہوئی۔

۳۴۸

دین

(۳)

   

دینِ حق:

ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں سنّتِ الٰہی کا تجدّد ہوتا ہے (۴۰: ۸۵) یہ وہ اصل قانونِ قدرت ہےجس سے کوئی بھی بڑا واقعہ باہر نہیں ہوسکتا، مثلًا تخلیقِ ارض و سما، بہشت اور دوزخ کی تجدید، ازل و ابد کے عظیم واقعات کا ظہور، عہد الست کے معجزات، انبیائے قرآن وغیرھم کے قصّے، قیامت کے احوال، دینِ حق کا دوسرے ادیان پر غالب آنا وغیرہ۔

۳۴۹

دینُ اللہ

   

خدا کا دین:

مولا علیؑ نے فرمایا: انا دینُ اللہ حقًّا، انا نفسُ اللہ حقًّا لا یقولھا غیری ولا یدّعیھا مُدّعٍ اِلّا کذّابا۔ میں بحقیقت خدا کا دین ہوں، میں بحقیقت خدا کا نفسِ کلّی ہوں، یہ بات میرے سوا کوئی نہیں کہہ سکتا اور نہ کوئی مدعی ایسا دعوٰی کرسکتا ہے مگر کوئی کذّاب۔ (کتابِ سرائر، ص۱۱۷)۔

۲۰۲

     
    بابُ الذّال

 

۲۰۳

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۲۰۴

لفظ   معنی و حکمت                                                                “ذ”
۳۵۰

ذا النُّوۡنِ

   

مچھلی والا، یعنی حضرتِ یونسؑ:

سورۂ صٰفّٰت (۳۷: ۱۳۹) سے آگے پڑھیں، مچھلی کی چند تاویلیں ہیں، اور آخری تأویل نفسِ کلّی ہے، چناچنہ اس عظیم مچھلی نے حضرتِ یونس علیہ السّلام کو اُٹھا کر میدانِ عقلِ کلّ میں اُگل دیا۔

۳۵۱

ذَھِبٌ

(۱)

   

جانے والا:

سورۂ صافات (۳۷: ۹۹) میں ہے: وَ قَالَ اِنِّیۡ ذَاھِبٌ اِلٰی رَبِّیۡ سَیَھۡدِیۡنِ۔ اور ابراہیمؑ نے کہا: “میں اپنے ربّ کی طرف جاتا ہوں، وہی میری رہنمائی کرے گا (۳۷: ۹۹) اس آیۂ مبارکہ میں اہل دانش کے لئے زبردست روشنی اور بہت ہی بڑا سرِّ مکشوف ہے، وہ یہ کہ اسلام دینِ فطرت یعنی ظاہرًا و باطنًا ترقّی کا مذہب ہے لہٰذا شریعت پر حقیقی معنوں میں عمل کرتے ہوئے طریقت، حقیقت اور منزلِ مقصودِ معرفت تا رسا ہوجانا بے حد ضروری ہے، پس حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام جیسے موحّد اعظم کے اس عزمِ صمیم (میں اپنے ربّ کی طرف جاتا ہوں) کے یہی معنی ہیں۔

۳۵۲

ذَاھِبٌ

(۲)

   

سالکِ دینِ متین:

انبیائے کرام اور اولیائے عظّام علیہم السّلام کے نقشِ قدم پر چل کر

۲۰۵

لفظ   معنی و حکمت                                                                “ذ”
     

خزائنِ معرفت تک پہنچ جانا انتہائی مشکل کام تو ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں، یہی سبب ہے کہ اسلام کی بنیادی اور اصولی تعلیمات میں ایک بہت بڑی اہم اور خاص الخاص دعا سکھائی گئی ہے، وہ پُرحکمت دعا اُمُّ الۡکتاب میں اس طرح ہے:

اِھۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (یا ربّ العزّت!) ہمیں راہ راست پر چلا دے۔ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡھِمۡ۔ ان لوگوں کی راہ (پر) جن پر تو نے انعام فرمایا (یعنی پیغمبران، اساسان، امامان اور حجّتان ۴: ۶۹)

۳۵۳

ذَاھِبٌ

(۳)

   

راہِ روحانیت کا مسافر:

حضرتِ ابراہیم صلوات اللہ علیہ کے بابرکت روحانی سفر کی پہلی منزل شبِ باطن ہے، دوسری منزل ستارہ، تیسری منزل چاند، چوتھی منزل سورج اور اس کے بعد آپؑ کو معراج کی عظیم سعادت نصیب ہوئی (سورۂ انعام میں آیات ۷۵ تا ۷۹ کو خوب غور سے پڑھیں)۔

۳۵۴

ذَاھِبٌ

(۴)

   

مذھب (راستہ) پر چلنے والا:

بعض کتبِ تصوّف میں یہ حدیث درج ہے: الشّریعۃ اقوالی، و الطّریقۃُ افعالی، و الحقیقۃُ احوالی، و المعرفۃ سِرّی۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: شریعت میرے اقوال کا نام ہے، طریقت میرے افعال کا مجموعہ

۲۰۶

لفظ   معنی و حکمت                                                                “ذ”
     

ہے، حقیقت میرے روحانی احوال میں ہے، اور معرفت میرا راز ہے۔ اے نورِ عینِ من! قرآنِ حکیم آفاق و انفس کی آیات میں نہ صرف غور و فکر کی دعوت دیتا ہے بلکہ اسی امر کی بار بار تاکید بھی کرتا ہے، لہٰذا اہل دانش پر فرض ہے کہ وہ قانونِ فطرت کے بارے میں سوچیں، مثال کے طور پر آبائے علوی (۹ آسمان) درجہ وار کیوں ہیں؟ اُمّھات (عناصرِ اربع)  کثافت یا لطافت میں یکسان کیوں نہیں؟ موالیدِ ثلاثہ (جماد، نبات، حیوان) میں درجات کا فرق کیوں ہے؟ وہ بھی حیوان یہ بھی حیوان، لیکن وہ صامت اور یہ ناطق کیوں ہے؟ پھر جماد، نبات، حیوانِ صامت اور حیوانِ ناطق میں سے ہرایک کے لا تعداد و بے شمار درجے کیوں ہیں؟

۳۵۵

ذَاھِبٌ

(۵)

   

طریقِ دین پر چلنے والا:

یہ نظامِ فطرت کی ارتقائی سیڑھی ہے، جو روحانی سیڑھی کی مثال بھی ہے، صراط مستقیم اور رسنِ خدا کا نمونہ بھی، جس کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ انسانو! یقین کرو کہ جب تک عالمِ وحدت دور ہے تب تک درجات ہی درجات ہیں، قرآنی علم میں درجات، اسلامی عمل میں درجات، روحانی سفر اور قربِ خدا کے درجات، پس دین کی چار بڑی منزلیں یعنی شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت حق ہیں اور حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کا منزل بمنزل چلتے ہوئے اپنے ربّ کے پاس جانا بھی حق ہے۔

۲۰۷

لفظ   معنی و حکمت                                                                “ذ”
۳۵۶

ذِبحۡ

(۱)

   

ذبح کرنے کا جانور، قربانی:

سورۂ صٰفّٰت (۳۷: ۱۰۷) میں ارشاد ہے: وَ فَدَیۡنٰہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡمٍ۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی اس کے عوض دیدی۔ یعنی حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام کی ظاہری اور جسمانی قربانی کے عوض باطنی اور روحانی قربانی ہوئی، اور وہ کئی معنوں میں عظیم قربانی تھی، ان کو خواب میں ذبح کیا گیا، بیداری میں کئی کئی دن تک ان کی رح قبض ہوتی رہی، روحانی جہاد میں مرتبۂ شہادت بھی حاصل ہوا، اور مقام عقل پر جاکر بھی بار بار قربان ہوتے گئے۔

۳۵۷

ذِبۡحۡ

(۲)

   

ذبح کرنےکا جانور، قربانی:

حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام امامِ مستقر اور اساس تھے، اُن کی مذکورہ قربانیوں کی نیّت اور عبادت اللہ تبارک و تعالٰی کے لئے تھی، اور باطنی فوائد تمام لوگوں کے لئے تھے، کیونکہ خدا کی طرف سے دنیا میں ہمیشہ امام اس لئے موجود و حاضر ہوتا ہے کہ وہ اہل جہان کے حق میں ایسے مفید روحانی امور کو انجام دے، جن کو لوگ خود انجام نہیں دے سکتے ہیں،  مثلًا باطنی قربانی وغیرہ، جو ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔

۲۰۸

لفظ   معنی و حکمت                                                                “ذ”
۳۵۸

ذِبۡحۡ

(۳)

   

ذبح کرنے کا جانور، قربانی:

سوال: حضرتِ امامِ عالی مقامؑ کی باطنی قربانیوں سے تمام اہل جہان کو کس طرح فائدے حاصل ہوتے ہیں؟ اور ایسا کوئی اشارہ  قرآنِ پاک میں کہاں ہے؟ جواب: قرآنِ حکیم کا اشارۂ حکمت کہتا ہےکہ ہادیٔ زمان نہ صرف امام المتّقین ہی ہے (۲۵: ۷۴)  بلکہ وہ امامُ النّاس بھی ہے (۲: ۱۲۴) اس میں بہت بڑا فرق یہ ہے کہ متّقین کو بر وقت علم و حکمت کا دروازہ کھل جاتا ہے، لیکن عوام النّاس پر دنیا میں یہ دروازہ بند ہے۔

۳۵۹

ذِکۡر

   

خدا کی یاد:

سوال: انسان اپنے پیارے باپ کو کس عمر میں شدید محبّت سے یاد کرتا ہے؟ کب؟ کیوں؟ اور کس طرح؟ جواب: انسان اپنے باپ کو اکثر بچپن کی عمر میں یاد کرتا ہے، خصوصًا اس وقت جبکہ وہ باپ سے دور ہوجاتا ہے، ایسے میں ملنے کے لئے شدید محبّت سے روتے ہوئے باپ کو یاد کرتا رہتا ہے، قرآنِ کریم میں اس مثال سے بھی زیادہ شدّت کے ساتھ خدا کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے (۲: ۲۰۰)۔

۳۶۰

ذِکر الرّحمٰن

(۱)

   

خدا کی یاد:

سورۂ زخرف (۴۳: ۳۶) میں ارشاد ہے: اور جو شخص خدا کی یاد سے

۲۰۹

لفظ   معنی و حکمت                                                                “ذ”
     

اندھا (اور غافل) بنتا ہے، تو ہم اس پر ایک شیطان مسلّط کر دیتے ہیں پس وہ بُرا ساتھی ہے۔ یہ انسانی حالت کا منفی پہلو ہے اور مثبت پہلو یہ ہے کہ مومن حضرتِ رحمان کو کثرت سے یاد کرے تاکہ اس پر ایک فرشتہ مقرر کیا جائے، یقینًا اسی آیت کی تفسیر میں وہ حدیث ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ہر دل کے دو کان ہیں، جن میں سے ایک کے پاس ایک شیطان اور دوسرے کے پاس ایک فرشتہ مقرر ہے۔

۳۶۱

ذِکر الرّحمٰن

(۲)

   

خدا کی یاد:

اے نورِ عینِ من! آپ خداوندِ تعالٰی کو شب و روز عشق سے یاد کریں، مناجات اور گریہ و زاری کی آسمانی دواؤں سے اپنے باطنی امراض کا علاج کرتے رہیں، علم و حکمت کی روشنی میں جانِ جان اور قبلۂ عاشقان کا تصوّر کریٖں، ان شاء اللہ شیطان خاموش ہوجائے گا، اور فرشتہ بولنے لگے گا، فرشتہ کی آواز شروع شروع میں سنائی نہیں دیتی، وہ بتداءً دل کے کان تک محدود ہوتی ہے، پھر رفتہ رفتہ اس کی ترقّی ہوتی رہتی ہے، تا آنکہ روحانی انقلاب آتا ہے۔

۳۶۲

ذِکۡرًا کَثِیۡرًا

   

بہت یاد کرنا، کثرت سے یاد کرنا، ذکرِ کثیر:

حق تعالٰی کا یہ حکم سورۂ احزاب (۳۳: ۴۱ تا ۴۳) میں ہے: اے ایمان لانے والو! اللہ کی یاد بہت کچھ کیا کرو، اور اس کی پاکی صبح و شام بیان

۲۱۰

لفظ   معنی و حکمت                                                                “ذ”
     

کیا کرو، وہ وہی ہے جو خود اور اس کے فرشتے تم پر صلوات (درود) بھیجتے ہیں تاکہ وہ تم کو (غلفلت و نادانی کی) اندھیریوں سے (ذکر علم کے) نور کی طرف نکال لائے، اور وہ مومنین پر بہت ہی رحم کرنے والا ہے۔ یہ حکم دَورِ قیامت کے لئے خاص ہے۔

۳۶۳

ذِکۡرُکُمۡ

   

تمھارا ذکر:

سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰) میں ان مبارک الفاظ کو دیکھ لیں: فِیۡہِ ذِکۡرُکُمۡ (۱) قرآن میں تمہاری نصیحت ہے (۲) اس میں تمہارے لئے اسمِ اعظم کا ذکر ہے (۳) اس میں بشرطِ کامیابی تمہارا ذکرِ جمیل ہے۔

امامِ زمان صلوات اللہ علیہ و سلامہ جب اپنے کسی مرید کو اسمِ اعظم عطا فرماتے ہیں تو وہ یقینًا قرآنِ پاک میں ہوتا ہے، پس خصوصی عبادت کا یہ معجزاتی پل اس لئے ہوتا ہے کہ مومن یا مومنہ امام اور قرآن میں داخل ہوجائے۔

۳۶۴

ذَلُوۡلٌ

(۱)

   

نرم، رام، فرمانبردار ہوا:

حدیثِ شریف میں آیا ہے کہ: اَلۡقُرۡاٰنُ ذَلُوۡلٌ ذُوۡ وُجُوۡہٍ فَاحۡمَلُوۡہُ عَلٰی اَحۡسَنِ وُجُوۡھِہٖ۔ یعنی قرآن بہت ہی رام ہوجانے والی چیز ہے، اور وہ متعدد پہلو (وجوہ) رکھتا ہے لہٰذا تم اسے اس کی بہترین

۲۱۱

لفظ   معنی و حکمت                                                                “ذ”
     

وجہ پر محمول کرو (الاتقان، دوم، نوع ۷۸)۔

بخاری جلد سوم، کتاب الاعتصام اور لغات الحدیث کتاب “ج” میں یہ حدیث درج ہے: اُوۡتِیۡتُ جَوَامِعَ الۡکَلِمۡ۔ میں جامع کلمے دیا گیا ہوں (یعنی قرآن اور حدیث جس کے الفاظ تھوڑے اور معانی و مطالب بے شمار ہیں)۔ پس قرآنی تعلیمات و ہدایات لوگوں کے طبقات و درجات کے مطابق ہیں۔

۳۶۵

ذَلُوۡل

(۲)

   

رام، فرمانبردار:

حدیثِ شریف ہے: القراٰنُ ذَلولٌ ذُو وُجوہٍ فاحملوہُ علٰی احسنِ وُجوھِہٖ۔ یعنی قرآن بہت ہی رام ہوجانے والی چیز ہے، اور وہ کئی پہلو (وجوہ) رکھتا ہے لہٰذا تم اسے اس کی بہترین وجہ پر محمول کرو۔ (الاتقان، حصّۂ دوم، نوع۷۸)۔ یعنی قرآنِ حکیم کے ظاہرًا و باطنًا درجہ بدرجہ معانی ہیں، اس لئے تم رفتہ رفتہ اعلٰی سے اعلٰی معنوں کو سمجھ لو۔

۳۶۶

ذوالفقار

   

تلوار کا نام:

شرح الاخبار، جلد ۹، ص۳۸۱ پر ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا: جنگِ احد کے دن آسمان سے ایک پکارنے والے نے پکارا:

۲۱۲

لفظ   معنی و حکمت                                                                “ذ”
     

لا فتٰی اِلّا علی، و لا سیف اِلّا ذوالفقار۔ علیؑ جیسا کوئی بہادر نہیں اور ذوالفقار جیسی کوئی تلوار نہیں۔ سوال: اب وہ بہادری اور اُس ذوالفقار کی کاٹ کہاں ہے؟ جواب: قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ حقیقت معلوم ہے کہ شروع شروع میں تنزیلی جنگ کی ضرورت پیش آتی تھی، جو تاویلی جنگ کی علامت و مثال تھی، چنانچہ جب سے حسبِ منشائے الٰہی زمانۂ تأویل کا آغاز ہوا تب سے علیٔ زمانؑ تاویلی حکمت کی ذوالفقار سے کام لے رہا ہے، جو لوہے کی ذوالفقار جیسی محدود نہیں، بلکہ ہمہ رس اور عالمگیر ہے (زمانۂ تأویل، ۷: ۵۳؛ ۱۰: ۳۹)۔

۳۶۷

ذِیۡ عِوَجٍ

(۱)

   

کجی اور پیچیدگی والا:

سورۂٌ زمر (۳۹: ۲۸) میں ہے: قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا غَیۡرَ ذِیۡ عِوَجٍ لَّعَلَّھُمۡ یَتَّقُوۡنَ۔ ترجمۂ اوّل: ایک عربی قرآن جس میں ذرا بھی کجی (پیچیدگی) نہیں تا آنکہ یہ لوگ (سمجھ کر) خدا سے ڈریں۔ ترجمۂ دوم: تمہاری اپنی زبان میں ایک قرآن جس میں ذرا بھی کجی (پیچیدگی) نہیں تاکہ یہ لوگ متّقی ہوجائیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ عظیم کا باطنی اور روحانی پہلو ہر مسلمان کی مادری زبان میں ہے اور یہ قرآنِ حکیم کا آفاقی اور ہمہ گیر معجزہ ہے۔

۲۱۳

لفظ   معنی و حکمت                                                                “ذ”
۳۶۸

ذِیۡ عِوَجٍ

(۲)

   

کجی اور پیچیدگی والا:

عِوَجۡ=  کجی، پیچیدگی زبان نہ سمجھنے کے معنی میں ہے، جس کی ایک روشن مثال یہ ہے کہ قیامت کا اعلان کرنے والا داعی دنیا کی تمام زبانوں میں پکارے گا اور کسی بھی فردِ بشر کو اس کی بات سمجھنے میں کجی اور پیچیدگی نہ ہوگی، جیسا کہ ارشاد ہے: یَوۡمَئِذٍ یَّتَّبِعُوۡنَ الدَّاعِیۡ لَا عِوَجَ لَہٗ۔ اس روز لوگ پکارنے والے (کے حکم) کی پیروی کریں گے اس کے لئے کوئی پیچیدگی نہ ہوگی (۲۰: ۱۰۸) یعنی وہ ہر زبان میں بولے گا اور لوگ کسی دقت کے بغیر سنیں گے اور سمجھ لیں گے۔

۲۱۴

     
    بابُ الرّاء

 

۲۱۵

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۲۱۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ر”
۳۶۹

رَاجِعُوۡن

   

پھر جانے والے، لوٹنے والے:

آیۂ اِستِرجاع سے یہ روشن حقیقت جھلک ہری ہےکہ روحِ انسانی اللہ تعالٰی کے حضور سے یہاں آئی ہے، اسی معنٰی میں پلٹ کر خدا کی طرف جانے کا ذکر آیا ہے، جیسے ارشاد ہے: قَالُوۡا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیۡہِ رَاجِعُوۡنَ (۲: ۱۵۶) خوب یاد رہے کہ رجوع الی اللہ کا آخری مقام فنا فی اللہ ہے۔

۳۷۰

راسخون فی العلم

   

پختہ کارانِ علم:

حالانکہ اللہ اور ان لوگوں کے سوا جو علم میں بڑے پختہ کار ہیں اس کی تأویل کوئی نہیں جانتا ہے (۳: ۷)

حضرتِ امام محمّد باقر علیہ السّلام نے فرمایا: رسول اللہ (صلعم) افضل الراسخین فی العلم۔ رسولِ خدا علم کے پختہ کاروں میں سب سے افضل ہیں، اللہ تعالٰی نے تنزیل و تأویل میں سے جو کچھ آنحضرتؐ پر نازل فرمایا اس کی تعلیم دی، اور جو چیز آپؐ پر نازل ہوتی آپؐ اس کی تأویل جانتے تھے، پھر آنحضرتؐ کے بعد آپؐ کے اوصیاء علم میں پختہ کار ہیں اور اس کی تأویل جانتے ہیں (دعائم الاسلام جلد اوّل

۲۱۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ر”
     

ذکرِ ولایتِ أئمّہ)

۳۷۱

رَاعٍ

(۱)

   

چرواھا، بادشاہ:

حدیثِ شریف ہے: کُلُّکُمۡ رَاعٍ وَّ کُلُّکُمۡ مَسۡئُوۡلٌ عَنۡ رَّعِیَّتِہ۔ ترجمۂ اوّل: تم میں سے ہر شخص چرواہا ہے اور تم میں سے ہر ایک سے (روزِ قیامت) اس کے مویشی کے بارے میں سوال ہوگا۔

 ترجمۂ دوم: تم میں سے ہرشخص (بحدِّ قوّت) بادشاہ ہے اور تم میں سے ہر ایک سے (قیامت کے دن) پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی رعیت کے لئے کیا کام کر دیا۔ (صحیح بخاری، جلد اوّل، کتاب الجمعہ، نیز لغات الحدیث، لجد دوّم، کتاب “ر”)۔

۳۷۲

رَاعٍ

(۲)

   

چرواھا، بادشاہ:

اے نورِ عینِ من! جیسا کہ آپ یہ امرِ واقعی جان چکے ہیں کہ ہر شخص کے عالمِ شخصی میں کائنات و موجودات کی ایک مکمل کاپی رکھی ہوئی ہے، اسی طرح ہر آدمی خداوند قدّوس کی رحمت بیکران سے بحدِّ قوت بادشاہ ہوگیا ہے اور اس کی رعایا کائنات بھر میں ہیں، پس اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ علم و عمل کے وسیلے سے عالمِ شخصی کی بادشاہی کو احیا کریں، یعنی حدِّ قوت سے حدِّ فعل میں لائیں۔

۲۱۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ر”
۳۷۳

رَاعٍ

(۳)

   

چرواھا، بادشاہ:

قرآن و حدیث کے کئی ارشادات میں یہ ذکر آیا ہے کہ فرمانبردار اور کامیاب نفوس بہشت میں بادشاہ ہوں گے، اور جن کو یہ مرتبہ نہ ملے، اس کی یہ وجہ ہوگی کہ انہوں نے اپنے عالمِ شخصی پر لا علمی اور بے عملی سے ظلم کیا ہوگا، اے عزیزان! آپ یقین کریں کہ عالمِ شخصی کے تصوّر سے حقائق و معارف کا سمجھانا خدا کا بہت بڑا انعام ہے، یہی سبب ہے کہ اِس طریقِ تعلیم میں بہت بڑی کامیابی ہوئی اور ہو رہی ہے۔

۳۷۴

ربّ

(۱)

   

پروردگار:

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (۱: ۱) سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو ہرہر عالمِ شخصی کا پروردگار ہے، یعنی انسانوں کی جسمانی، روحانی، اور عقلانی پرورش کرتا ہے۔

۳۷۵

ربّ

(۲)

   

پالنے والا:

تَبٰرَکَ اللہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ (۷: ۵۴) وہ خدا جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے بڑا برکت والا ہے۔ یعنی عوالمِ شخصی کی عقلی پرورش کے لئے ایسا بابرکت مربّی موجود ہے جس کو خدا نے مقرر فرمایا ہے۔

۲۱۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ر”
۳۷۶

رَتۡقُ

(۱)

   

منہ بند، جڑا ہوا:

سورۂ انبیاء میں ہے: اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰھُمَاط وَجَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیِّ۔ کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کیا، اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی (۲۱: ۳۰) یعنی انسان کبھی عقل و روح کے آسمان پر تھا، پھر خدا نے اسے مادّی دنیا میں لایا، اور علم کے پانی سے سیرابی لازمی قرار دیا تاکہ وہ بحقیقت زندہ ہوکر عالمِ علوی کی طرف رجوع کرے۔

۳۷۷

رَتۡقُ

(۲)

   

منہ بند، جڑا ہوا:

کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کر دیا (سورۂ انبیاء ۲۱: ۳۰) یہ راز انتہائی عظیم ہے کہ فرشتۂ عقلِ کل آسمان ہے اور فرشتۂ نفسِ کلّ زمین، یہ دونوں خدا کے حکم سے ایک بھی ہیں اور الگ الگ بھی، اور اس حکم میں بے شمار حکمتیں ہیں۔

۳۷۸

رَتۡقُ

(۳)

   

منہ بند، جڑا ہوا:

جس اعلٰی مقام پر آسمان اور زمین ملائے ہوئے ہیں وہاں آسمان آکر

۲۲۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ر”
     

زمین بن گیا ہے، اور زمین جاکر آسمان بن گئی ہے، اس اعتبار سے خلافتِ آدمؑ کا تعلق نہ صرف سیّارۂ زمین سے ہے بلکہ مقصود اصلی کائناتی زمین کی خلافت ہے اور وہ نفس کلّی ہے جس سے عقل کلّ جدا نہیں، پس ایسی ہی کلّ کائناتی خلافت آدمؑ و اولادِ آدمؑ کے لئے بنائی گئی ہے۔

۳۷۹

رَجِیۡم

   

اصل معنی ہیں: پتّھر مارنے والا، اور پتّھر مارا گیا:

رجم (پتّھر مارنا) سے رجیم (فعیل=  فاعل) بھی ہے اور بمعنی مفعول (مرجوم=  پتّھر مارا گیا) بھی ہے، مراد ہے  دھتکارا ہوا، مردود۔

شیطان اس لئے رجیم کہلاتا ہے کہ اس کا کام ہے جھوٹ اور غلط باتوں سے پتھراؤ کرنا تاکہ کوئی ایسا مومن جو حقیقی علم میں کمزور ہے مرعوب ہوکر اس کا شکار ہوجائے یا روح الایمان سے مر جائے یا شک میں مبتلا ہوجائے، یہ باطنی حکمت ہے، لیکن ظاہر میں لوگ نہ تو شیطانِ رجیم کو پہچانتے ہیں اور نہ ہی اس کے پتھراؤ کا درد محسوس کرتے ہیں۔

۳۸۰

رَحۡمَان

(۱)

   

نہایت مھربان:

اَلرَّحۡمٰنُ۔ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ۔ ترجمہ: نہایت مہربان (خدا) نے قرآن کی تعلیم دی۔ تفسیر و تأویل: نہایت مہربان خدا نے اپنی سُنّتِ عالیہ کے مطابق اسماء الحسنٰی

۲۲۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ر”
     

کے وسیلے سے انسانِ کامل کو قرآن کے روحانی اور عقلانی اسرار کی تعلیم دی۔ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ۔ ترجمہ: اُس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔ تفسیر و تأویل: خداوندِ عالم نے اپنی پاک کتاب کی باطنی اور نورانی تعلیم سے شخصِ کامل کو روحًا و عقلًا پیدا کیا اور اب اس کو بیان (تأویل) سکھایا (۵۵: ۱ تا ۴)۔

۳۸۱

رَحۡمَان

(۲)

   

نہایت مھربان:

اَلشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ بِحُسۡبَانٍ (۵۵: ۵) ترجمہ: سورج اور چاند ایک حسابِ مقرر سے چل رہے ہیں۔ تفسیر و تأویل: ناطق اور اساس عالمِ دین کے آفتاب و ماہتاب ہیں، لہٰذا یہاں رات بھی روزِ روشن ہی کی طرح تابناک ہے، کیونکہ ظاہری چاند سورج سے بہت دور ہے اور یہ اُس کے ساتھ ایک نہیں ہوسکتا کہ آفتابِ جہان تاب بن کر کائنات کو جگمگائے، لیکن دین کے شمس و قمر نورٌ علٰی نور کے مصداق ہیں (۲۴: ۳۵) نیز سورۂ قیامہ (۷۵: ۹) میں دیکھ لیں: جُمِعَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ۔ اور سورج اور چاند ایک کردئیے جائیں۔

۳۸۲

رَحۡمَان

(۳)

   

نہایت مھربان:

وَالنَّجۡمُ والشَّجَرُ یَسۡجُدَانِ (۵۵: ۶) ترجمہ: اور ستارہ اور درخت

۲۲۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ر”
     

دنوں سجدہ کرتے ہیں۔ تفسیر و تأویل: عالمِ شخصی کے حظیرۃ القدس میں ستارہ عقلِ کلّ ہے اور درخت نفسِ کلّ، دونوں اطاعت کے معنی میں خدا کے لئے سجدہ کرتے ہیں تاکہ جہانِ علم و معرفت کا نظام قائم رہے۔

۳۸۳

رَحۡمَان

(۱)

   

نہایت مھربان:

وَالسَّمَآءَ رَفَعَھَا وَ وَضَعَ الۡمِیۡزَانَ (۵۵: ۷) اور آسمان کو خدا نے بلند کیا اور (اس میں) ترازو رکھی۔ تفسیر و تأویل: عالمِ شخصی کے آغاز میں آسمان اور زمین ملے ہوئے ہوتے ہیں (۲۱: ۳۰) پھر حق تعالٰی روحانی ترقّی کے ساتھ ساتھ آسمان کو زمین سے الگ کرکے بلند کر دیتا ہے، اور علم و حکمت کے ترازو زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر رکھتا ہے تاکہ وہی شخص اس کو استعمال کرے جو وہاں تک جا سکتا ہے۔

۳۸۴

رَحۡمَان

(۱)

   

نہایت مھربان:

آسمان کو زمین سے الگ کرکے بلند کر دینے کی دوسری تأویل یہ ہے کہ خدائے عزّ و جلّ ہر نبی اور ہر امام کو زمینِ دعوت سے ترقّی دے کر آسمانِ علم و حکمت بنا دیتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئےتھے تو ہم نے ان کو جدا کر دیا (سورۂ انبیاء ۲۱: ۳۰)

۲۲۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ر”
۳۸۵

رَحۡمَۃ

   

رحمت، بخشش، مھربانی، ھر وہ نعمت جو روح کے لئے ضروری ھے:

سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۷) میں ارشاد ہے: وَ مَا اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ۔ اے رسولؐ ہم نے تو تم کو کلّ جہانوں (عوالمِ شخصی) کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام کے ارشاد کے حوالے سے اس حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ عالمین سے صرف انسان مراد ہیں، اور انسان تمام زمانوں میں پیدا ہوتے ہوتےہیں، پس دورِ انبیاء کے لئے بھی اور دَورِ أئمہ کے لئے بھی خدا نے آنحضرتؐ کو رحمت کا خزانہ اور مرکز یا رحمتِ کلّ بنا دیا ہے، لہٰذا حضور اکرم صلعم اپنے ارشاد مبارک کے مطابق سیّد الا انبیاء (تمام پیغمبروں کے سردار) ہیں، اگر کوئی شخص کسی قوم کا سچ مچ سردار ہے تو وہ قولًا و فعلًا سردار ہوا کرتا ہے، یعنی حقیقی سردار وہ ہے جس سے قوم کو ہر گونہ فائدہ ہو۔

۳۸۶

رَحِیۡق

(۱)

   

شرابِ خالص:

مختوم=  سربمہر، سورۂ تطفیف (۸۳: ۲۵ تا ۲۶) میں ہے: یُسۡقَوۡنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخۡتُوۡمٍ۔ خِتٰمُہٗ مِسۡکٌ….. ان کو نفیس ترین سربند شراب پلائی جائے گی جس پر مشک کی مہر لگی ہوگی۔ سربمہر خالص شراب سے قرآن، حدیث اور امامِ زمانؑ کے روحانی کلمات مراد ہیں، جن میں حکمت

۲۲۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ر”
     

اور معرفت کے عجائب و غرائب پوشیدہ ہیں جو رحیق مختوم کی مثال پر مسرت انگیز اور روح پرور ہیں۔

۳۸۷

رَحِیۡق

(۲)

   

نفیس ترین شراب:

رَحِیۡقٍ مَّخۡتُومٍ۔ سربمہر خالص شراب۔ علمِ لَدُنّی، علمِ تأویل، جو علم کلماتُ التّامّات اور کتابِ مکنون سے ملتا ہے، پس یہ امام علیہ السّلام کا علم بھی ہے اور اس کے عشق کی شراب بھی، جس طرح دنیوی شراب کے پینے سے مجازی عشق زندہ ہوجاتا ہے، اسی طرح رحیقِ مختوم سے امامِ عالیمقام کا علمی دیدار ہوتا ہے کہ علمِ حقیقی اس کا نور ہے، اور نور کا احساس و ادراک کئی طرح سے ہوتا ہے۔

۳۸۸

رِزۡقۡ

   

روزی:

یہ ارشاد سورۂ بقرہ (۲: ۲۵) میں ہے: کُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡھَا مِنۡ ثَمَرَۃٍ رَّزۡقًا قَالُوۡا ھٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ۔ جب انہیں ان باغوں سے کوئی پھل بطورِ روزی دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے ہم کو دئیے جاتے تھے۔ دنیا میں تین قسم کی غذائیں مل سکتی ہیں: جسمانی، روحانی اور عقلانی، جسمانی غذا وہ ہے جس میں مومن، کافر اور حیوان برابر کے شریک ہیں، روحی و عقلی رزق اہلِ ایمان

۲۲۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ر”
     

کے لئے خاص ہے، اور بہشت میں یہی رزق ہے، مگر بہت ہی عمدہ اور نہایت ہی اعلٰی۔

۳۸۹

رَسُوۡل اللہ

   

پیغمبرِؐ خدا:

آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے مبارک اسماء میں سے چند اسماء، اسمہ فی الانجیل: طاب طاب أی طیّب (یعنی پاک) و فی التّوراۃ: مارماد أی الموجود (یعنی موجود) و فی الزّبور: بارقلیط أی فارِق بین الحق و الباطل (یعنی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا) و فی صحفِ ابراھیم: اخری یا قدما أی سابق الآخر (یعنی آخر میں آکر سب سے سبقت کرنے والا، و فی صحف شیث: صام صام أی القطّاع بالحُجّۃ (یعنی دلیل [کی تلوار] سے کاٹنے والا)۔

و فی صحفِ آدم: مقنع۔ و فی صحفِ اشعیا و ارمیا: قانع۔ و بین  طوائف الطّیور: عبد الجبّار۔ و بین البھائم: عبد الغفور۔ و عند الجنّ: نبی الرّحمۃ۔ و عند الشّیاطین: نبی الملحمۃ (منتخباتِ اسماعیلیّہ، ص۲۱۵)۔

۲۲۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ر”
۳۹۰

رفیع

   

بلند کرنے والا:

سورۂ مومن (۴۰: ۱۵) میں یہ حکمت آگین ارشاد ہے: رَفِیۡعُ الدَّرَجٰتِ ذُوۡ الۡعَرۡشَ۔ خدا درجے بلند کر دینے والا عرش کا مالک ہے۔ اس ربّانی تعلیم کی حکمت یہ بتاتی ہے کہ درجات کی سیڑھی عرش تک ہے، آپ سورۂ معارج (۷۰) کے شروع کی چار آیاتِ کریمہ کو غور سے پڑھ لیں، اور یہ بتائیں کہ “فنا فی اللہ” کا مقام عرشِ برین ہے یا فرشِ زمین؟ کیا بندۂ مومن کا قلب عرشِ معرفت نہیں ہے؟

۳۹۱

(ال) رفیق الاعلٰی

   

رفیقِ اعلٰی، انائے علوی، یک حقیقت:

آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اپنی حیاتِ طیّبہ کے آخری لمحات میں یہ پُرحکمت دعا کی تھی: اَللّٰھُمَّ اغۡفرۡلِیۡ وَارۡحَمۡنِیۡ وَ الۡحِقۡنِی بِالرَّفِیۡقِ الۡاعۡلٰی۔ یا اللہ! مجھے بخش دے اور رحم فرما اور مجھے رفیقِ اعلٰی سے ملا دے (احادیثِ مثنوی، فارسی، ص۱۳۰)۔ رفیق اعلٰی کون ہے؟ انائے علوی، وہ رفیق (ہم سفر) کس معنٰی میں ہے؟ وہ بے پایان زندگی کے سفر کا ساتھی ہے، یعنی ہر موکن کا رفیقِ اعلٰی ہے۔

۳۹۲

رقیم

   

نوشتہ:

روحانی عجائب و غرائب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کبھی کبھار کوئی تحریر

۲۲۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ر”
     

دیدۂ باطن کے سامنے آجاتی ہے، اس کا یقینی اشارہ یہ ہے کہ بہشت میں تحریری نعمتیں بھی ہیں (۱۸: ۹)۔

۳۹۳

رَمَیۡتَ

   

تو نے پھینکا:

وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللہَ رَمٰی۔ اور (اے رسولؐ) تم نے خاک نہیں پھینکی جس وقت پھینکی تھی، لیکن اللہ نے پھینکی (۸: ۱۷) یہاں سے ظاہر ہوا کہ اللہ اپنے رسولؐ کے ہاتھ سے بھی کوئی کام کرسکتا ہے، کیونکہ دستِ پیغمبرؐ دستِ خدا ہے (۴۸: ۱۰)۔

۳۹۴

رَوۡح اللہِ

(۱)

   

خدا کی رحمت:

وَلَا تَایۡئَسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰه۔ خدا کی رحمت سے نا امید نہ ہو (۱۲: ۸۷) خدا کی رحمت در اصل ایک بہت بڑی رُوح کا نام ہے، اور وہ امامِ زمان علیہ السّلام ہی ہے، پس رَوۡحُ اللہِ اور رُوۡحُ اللہِ

۲۲۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ر”
     

ایک ہی ہے۔

۳۹۶

رُؤۡیَا

(۱)

   

خواب:

رُؤۡیَا الۡمُؤۡمِنِ جُزۡءٌ مِنۡ سِتَّۃِ وَ اَرۡبَعِیۡنَ جُزۡءً امِّنَ النُّبُوّۃِ۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ: مومن کا خواب نبوّت کے چھیالیس حصّوں میں سے ایک حصّہ ہے (مسلم) یہ بات سچّے مومنین سے متعلق ہے، کیونکہ باکرامت خواب از قسمِ روحانیت ہے۔            

۳۹۷

رُؤۡیَا

(۲)

   

خواب:

رُؤۡیَا الۡاَنۡبِیَاءِ وَحۡیٌ۔ انبیاء کے خواب وحی ہوتے ہیں (جیسے قرآن میں ہے:) اِنِّیۡٓ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡٓ اَذۡبَحُکَ (۳۷: ۱۰۲)۔ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ (حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا خواب) اور مومنِ صادق کا خواب نبوّت کے ۴۶ حصّوں میں سے ایک حصّہ ہے (صحیح البخاری، جلد اوّل، کتاب لوضوءِ باب۱۰۰)۔

۳۹۸

رُؤۡیَا

(۳)

   

خواب، خواب دیکھنا:

عوام الناس یہ نہیں سمجھ سکتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کا خواب عالمِ روحانیت سے مل چکا ہوتا ہے، چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام

۲۲۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ر”
     

کا خواب پیغمبرانہ اور اولیائی خواب تھا جس میں انہوں نے اللہ تعالٰی کے امر سے اپنے لختِ جگر حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام کو ذبح کیا (۳۷: ۱۰۲) یقینًا اسی طرح کے روحانیت سے بھرپور نورانی خواب میں حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو معراج کے انتہائی عظیم اسرار کا مشاہدہ ہوا (۱۷: ۶۰) خداوندِ عالم نے آنحضرتؐ کے اس مبارک خواب پر لوگوں کو آزمایا، جب امتحان لینا مقصود تھا تو واقعۂ معراج کی کلیدی وضاحت نہیں کی گئی بلکہ علم و معرفت پر چھوڑ دیا اور سنّتِ الٰہیّہ اسی طرح چلی آئی ہے کہ بار بار امتحان لیا جاتا ہے۔

۳۹۹

ریح یوسف

   

یوسفؑ کی خوشبو، یعنی روحانی خوشبو:

یعقوبؑ نے کہا کہ یوسفؑ کی خوشبو محسوس کرتا ہوں (۱۲: ۹۴) حضرتِ یوسف علیہ السّلام کے پاس امامت تھی، اور امامؑ کے روحانی معجزات میں سے ایک روحانی خوشبو کا ظہور ہے۔

۴۰۰

رَیۡحَان

   

رُوزی:

رُوزی، خوش بودار گھاس، اس سے روحانی خوشبو مراد ہے جو اہلِ بہشت کی غذا ہے، جیسا کہ سورۂ واقعہ (۵۶: ۸۹) میں ارشاد ہے: فَرَوۡحٌ وَّ رَیۡحَانٌ وَّ جَنَّتُ نَعِیۡمٍ۔ پس (اس کے لئے) راحت

۲۳۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ر”
     

اور خوشبو کی غذا اور نعمت کے باغ ہیں۔ (بحوالۂ مقالہ: روحانی سائنس کے عجائب و غرائب قسطِ اوّل، نیز ملاحظہ ہو: میزان الحقائق، قوّتِ شامّہ ایک نئی غذا دریافت کرے گی)۔

۲۳۱

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۲۳۲

     
    بابُ الزّاء

 

۲۳۳

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۲۳۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ز”
۴۰۱

زَبُوۡر

(۱)

   

لکھنا، لکھا ہوا:

وہ کتابِ سماوی جو حضرتِ داؤد علیہ السّلام پر نازل ہوئی، بعض علماء کے رائے ہے کہ زبور اُس آسمانی کتاب کو کہتے ہیں جس میں صرف حکمتیں اور دانائی کی باتیں بیان کی گئیں ہوں (قاموس القرآن)۔ میں کہتا ہوں کہ البتہ یہ سچ ہے جبکہ زبور خزانۂ عشقِ الٰہی کی ایک روشن مثال ہے، خداوند عالم کے سچےّ عاشقوں کے پاس کیا کیا ساز و سامان ہونا چاہئیے؟ اس کا مفصّل جواب زبور سے ملے گا۔

۴۰۲

زَبُوۡر

(۲)

   

کتاب، زبور:

بعض حضرات کا خیال ہے کہ قرآنِ حکیم میں کہیں بھی عشق کا لفظ نہیں آیا ہے اور نہ یہ خدا کے لئے استعمال ہوسکتا ہے، میری گزارش ہے کہ قرآنِ پاک مین نہ صرف عشق کے مترادفات ہی ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کتاب سماوی کی تصدیق بھی موجود ہے، جس کے شروع سے لیکر آخر تک صرف عشعِ الٰہی اور اس کے وسائل کے سوا اور کچھ بھی  نہیں، اور وہ حضرتِ داؤد علیہ السّلام کی زبور ہی ہے (سورۂ نسآء ۴: ۱۶۳؛ سورۂ بنی اسرائیل ۱۷: ۵۵)۔

۲۳۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ز”
۴۰۳

زَبُوۡر

(۳)

   

نامۂ عشقِ الٰہی:

قرآنِ عظیم میں عشق کے مترادفات کی موجودگی اور کتابِ عشق سماوی (زبور) کی تصدیق کے علاوہ عشق کے احوال بھی مذکور ہیں، مثال: اور وہ ٹھوڑیوں کے بل گر پڑتے ہیں او روتے جاتے ہیں اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پیدا ہوجاتی ہے (۱۷: ۱۰۹) کیا یہ خداوندِ عالم کا عشق نہیں ہے؟ آیا یہ اُس عشق کا نمونہ نہیں جو صاحبِ زبورؑ میں تھا؟

۴۰۴

زَبُوۡر

(۴)

   

نامۂ عشقِ خداوندی:

ارشادِ قرآنی ہے: وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡآ اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ۔ اور جو اہلِ ایمان ہیں ان کو (صرف) خدا ہی کے ساتھ نہایت قوی محبّت ہے (۲: ۱۶۵) ایسی نہایت سخت محبت کسی میں خدا کے لئے ہو تو وہ عشق ہی ہے، اور خداوندِ قدّوس کا پاک عشق وہ پُرحکمت اور بابرکت نور ہے جو نہ صرف دل و دماغ اور عقل و جان کو منوّر کر دیتا ہے بلکہ اس سے بدن کے تمام خلیات و ذرّات بھی مستنیر ہوجاتے ہیں، یہی سبب ہے کہ ربِّ کریم نے حضرتِ داؤد علیہ السّلام کو کتابِ عشق یعنی زبور عطا کردی اور ان کو معلّمِ عشق بنا دیا۔

۲۳۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ز”
۴۰۵

زَبُوۡر

(۵)

   

کتاب، مراد نامۂ اعمال:

سورۂ انبیاء کے آخری رکوع (۲۱: ۱۰۵) میں ارشاد ہے: اور ہم نے تو یقینًا (اپنے دوستوں کے) نامۂ اعمال میں (ان کی تکمیلِ) ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ میرے نیک بندے کائناتی زمین کے وارث ہوں گے۔ آپ اس کو بہشت کی زمین بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ جنّت کائنات کے طول و عرض میں ہے (۳: ۱۳۳؛ ۵۷: ۲۱)۔

۴۰۶

زِدۡنِیۡ عِلۡمًا

   

مجھے اور زیادہ علم دے:

سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۱۴) میں اللہ جَلَّ جَلَالہٗ نے اپنے محبوب رسول صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو جس بابرکت دعا کی تعلیم فرمائی ہے، اس میں بڑی حیران کن حکمتیں رکھی ہوئی ہیں، مثال کے طور پر: (۱) مذکورہ حکمت آگین دعا کے حکم میں جیسا کہ منشائے خداوندی ہے، اس کے مطابق ہر روز آسمانی ہدایت و تائید سے آن حضورؐ کے علم و حکمت میں بیحدّ و بیقیاس اضافہ ہوتا گیا (۲) اللہ کی خوشننودی اور پیغمبر اکرم ؐ کی سُنّتِ مطہّرہ اس بات کی مظہر ہے کہ تمام مسلمین و مومنین پورے دور میں قرآن فہمی کی سیڑھی پر چڑھتے جائیں، تا آنکہ اسرارِ علم و حکمت کے خزانے کھل جائیں۔

۲۳۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ز”
۴۰۷

زَکَرِیَّآ

(۱)

   

زکریّآ:

ایک جلیل القدر پیغمبرؐ جو باطنًا امام بھی تھے، سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۹) میں ارشاد ہے: اور زکریاؑ (کو یاد کرو) جب اُس نے اپنے ربّ سے دعا کی: اے میرے پروردگار مجھے تنہا (بے اولاد) نہ چھوڑ اور بہترین وارث تو تو ہی ہے۔

اس آیۂ شریفہ کی صرف چار عظیم حکمتیں سمجھ میں آتی ہیں: (۱) دینی کام کی غرض سے اولاد کے لئے دعا کی گئی ہے (۲) یہی اولاد عالمِ شخصی کے مقامِ عقل پر بھی پیدا ہو (۳) اپنا تولدِ عقلانی بھی مطلوب ہے (۴) آخرًا یہ اشارہ بھی ہے کہ مرتبۂ عقل پر سب سے بہترین وارث تو ربِّ کریم خود ہی ہے۔

۴۰۸

زَکَرِیَّآ

(۲)

   

زکریّآ امامؑ:

سوۂ آلِ عمران (۳: ۳۷) میں ہے: وَکَفَّلَھَا زَکَرِیَّآ۔ اور خدا نے زکریاؑ کو مریمؑ کا کفیل بنا دیا۔ یعنی اللہ تعالٰی نے زکریا علیہ السّلام کو مریم علیہا السّلام کی روحانی پرورش کا ضامن و ذمہ دار بنا دیا، پس حضرتِ امامؑ نے دینِ فطرت کے قانون کے مطابق اپنی اس نیک بخت شاگرد کو اسمِ اعظم کی مقدس تعلیم دی، اس روحانی طریقِ تعلیم کا نام “عِلمُ الاسماء” ہے، جو زمانۂ آدمؑ سے قیامۃ القیامات تک جاری و ساری ہے۔

۲۳۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ز”
۴۰۹

زَکَرِیَّآ

(۳)

   

امام زکریّاؑ:

زکریّاؑ جب کبھی مریمؑ کے پاس محراب میں داخل ہوجاتا تو اس کے پاس (روحانی) رزق پاتا، پوچھتا مریم! یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟ وہ جواب دیتی اللہ کے پاس سے آیا ہے، اللہ جسے چاہتا ہے حساب کے بغیر رزق دیتا ہے (۳: ۳۷) محراب سے عالمِ شخصی مراد ہے، حساب (یوم الحساب) قیامت کا نام ہے، حساب کے بغیر رزق دینا یہ ہے کہ خدا آپ کو وہ علم عطا فرمائے جو بعض کو جسمانی موت اور قیامت کے بعد بہشت میں ممکن ہے۔

۴۱۰

زَکَرِیَّآ

(۴)

   

امام زکریّآ:

محراب کا لفظ حرب سے بنا ہے، المحرب والمحراب، جنگجو، لڑاکا، بہادر، قلعہ وغیرہ، پس محراب سے عالمِ شخصی کا قلع مراد ہے، جس میں روحانی جنگ سے متعلق ہر چیز موجود ہے، یہی قلعہ عبادت خانہ بھی ہے، نیز محراب مقامِ عقل کا نام ہے کہ امامِ ذکریّا علیہ السّلام کا اشارہ وہیں سے کیا گیا تھا (۱۹: ۱۱) کیونکہ آخری درجے کی تمام تاویلات حظیرۃ القدس میں جمع ہیں۔

۲۳۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ز”
۴۱۱

زِلزالًا شَدِیدًا

   

سختی سے ھلانا:

روحانی بھونچال کئی درجوں پر ہے، جیسے سورۂ احزاب (۳۳: ۱۱) میں ہے: اُس وقت مومنین خوب آزمائے گئے اور سختی سے ہلائے گئے یعنی اُن پر زلزلۂ روحانی مسلّط کیا گیا، جس میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے۔

۴۱۲

زُلۡزِلَتۡ

   

وہ ھلائی گئی:

سورۂ زلزال (۹۹: ۱ تا ۸) میں انفرادی قیامت کے بھونچال کا ذکر آیا ہے، جو عالمِ شخصی کا ایک زبردست روحانی معجزہ ہے، جس کی بدولت مومنِ سالک کی تطہیر ہوجاتی ہے، اور وہ مخاطبہ سنتا ہے، اور اس ذاتی قیامت میں پوشیدگی سے تمام لوگوں کے نمائندہ ذرات کی قیامت پربا ہوجاتی ہے۔

۴۱۳

زَلۡزَلَۃَ السَّاعَۃِ

   

قیامت کا زلزلہ:

سورۂ حج کے شروع (۲۲: ۱ تا ۲) میں ہے: لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے، جس روز تم اسے دیکھوگے، حال یہ ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہوجائے گی، اور ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا، اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حال آنکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ

۲۴۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ز”
     

کا عذاب ہی کچھ ایسا ہوگا۔ یعنی ہر معلّم ذاتی قیامت کی سختی کی وجہ سے اپنے شاگردوں کو بھول جاتا ہے، ہر سالک کی اضافی روحیں نکل جاتی ہیں، اور نمائندہ ذرّات مدہوش نظر آتے ہیں۔

۴۱۴

زُلۡزِلُوۡا

   

وہ ھلائے گئے:

سورۂ بقرہ کی ایک پُرحکمت آیت (۲: ۲۱۴) کا ترجمہ ہے: پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہےکہ یونہی جنّت  (روحانیت) کا داخلہ تمہیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا  ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ اُن پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلائے گئے، حتّٰی کی وقت کا رسولؐ اور اس کے ساتھی اہل ایمان کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ (ایسے میں انہیں تسلّی دی گئی کہ) ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔ یہ روحانی بھونچال سے متعلق مضمون کا حصّہ ہے۔

۴۱۵

زِیۡنَۃَ اللہ

(۱)

   

خدا کی زینت، باطنی اور روحانی زینت، زیبائش، آرائش:

سورۂ اعراف (۷: ۳۲) میں ہے: اے نبیؐ! ان سے کہو کس نے خدا کی اُس زینت کو حرام (ممنوع) کر دیا ، جسے خدا نے اپنے بندوں کے لئے نکالا ہے اور کس نے اللہ کی عطا کردہ لطیف غذائیں ممنوع کردیں؟

۲۴۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ز”
     

کہو، یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی صرف مومنین ہی کے لئے خاص ہوں گی جبکہ دورِ قیامت آئے گا۔

اس ربّانی تعلیم کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، تاہم باطنی پہلو بڑا عقلی، منطقی اور ضروری ہے تاکہ اس حکمتِ الٰہی سے اہل دانش باطنی تأویل کی طرف رجوع کریں۔

۴۱۶

زِیۡنَۃَ اللہ

(۲)

   

آرائشِ روحانی:

خدا کی خاص اور انتہائی دلکش زینت عالمِ شخصی میں ہے، جس کو حق تعالٰی نے اپنے خاص بندوں کے لئے پیدا کیا ہے، اس کے مشاہدات کی غرض سے عبادت و ریاضت کرنے سے کس نے منع کیا ے؟ حالانکہ یہ بہشت کی نعمتیں، خوشبوئیں وغیرہ مومنین کو دنیا کی زندگی میں بھی حاصل ہوسکتی ہیں، خصوصًا دورِ روحانیت میں۔

۲۴۲

     
    بابُ السّین

 

۲۴۳

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۲۴۴

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
۴۱۷

سَاھِرَۃ

   

میدان، زمین، میدانِ قیامت، عالمِ شخصی کی زمین:

اَلسّاھِرَۃ۔ عالمِ شخصی کی زمین کا ایک مٰخفی نام جو شب بیداری کی نسبت سے مقرر ہوتا ہے، چنانچہ کہتےہیں: السَّھَّارُ و السُّھَرَۃُ، بہت جاگنے والا، السَّاھِرَۃُ، مؤنث۔ سورۂ نازعات (۷۹: ۱۳ تا ۱۴) میں ارشاد ہے: فَاِنَّمَا ھِیَ زَجۡرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ۔ فَاِذَا ھُمۡ بِالسَّاھِرَۃِ۔ بس وہ ایک سخت آواز ہوگی، جس سے سب لوگ فورًا ہی ساہرہ میں آموجود ہونگے۔

۴۱۸

سبب

   

رسّی، ذریعہ:

باطن میں قرآن اور عترت (اہل بیت=  امام) ایک ہی نور ہے، جو آسمان اور زمین کے درمیان لگائی ہوئی رسّی یا سیڑھی کی طرح ہے او یہی سیڑھی صراطِ مستقیم بھی ہے، حبلِ ممدود اور سبب موصول یعنی نورانی رسّی جو عرشِ برین سے فرشِ زمین تک سیڑھی کی طرح لگائی ہوئی ہے تاکہ لوگ علم و معرفت کی اس رسّی یا سیڑھی سے صاحبِ عرش تک پہنچ سکیں، یہ مثال سب سے عجیب و غریب  بھی ہے اور سب سے دل نشین بھی، کہ جب کوئی عارف درجہ بدرجہ اوپر کی طرف جاتا ہے تو ہر درجہ میں نورِ واحد کی شکل میں قرآن اور امام ہوتا ہے، یہاں تک کہ خدا کے حضور میں بھی نورانی رسّی کا بالائی سرا موجود ہے، جو قرآنِ عظیم بھی ہے اور

۲۴۵

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
     

امامِ مبین بھی۔

۴۱۹

سَبۡع

(۱)

   

سات:

یہ آیۂ شریفہ سورۂ حجر (۱۵: ۸۷) میں ہے: وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَ الۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ۔ اور ہم نے تم کو سبعِ مثانی (سورۂ حمد) اور قرآنِ عظیم عطا کیا ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی تأویل یہ ہے کہ سبع المثانی (سات دہرائی جانے والی چیزیں) حضراتِ أئمّہ ہیں، چنانچہ اگلے ناطقوں کے ادوار میں سات سات اماموں کا سلسلہ چلتا تھا، لیکن اللہ انے اپنے حبیبؐ پر احسان کیا کہ آنحضرتؐ کے کام کی خاطر سلسلۂ سبع المثانی کو طول دیا، اور آپؐ کو قرآنِ عظیم (قائم القیامت) عطا کیا۔

۴۲۰

سَبۡع

(۲)

   

سات:

مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ کی کلّی اور دُور رس تأویل یہ ہے کہ سبعِ مثانی (سات سات اماموں کا سلسلہ) جس کا ذکر ہوا، وہ فی الحقیقت شروع ہی سے حضرتِ سیّد الانبیاء صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے مبارک نام پر ہے، جبکہ آپؐ ہی تمام پیغمبروں کے سردار ہیں، جبکہ دورِ اعظم حضورؐ ہی کا ہے، اور جبکہ مقصدِ تخلیقِ کائنات آپ ہی کی ذاتِ عالی صفات ہے۔

۲۴۶

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
۴۲۱

سبعۃ احرف

   

سات حروف:

پیغمبرؐ اکرمؐ کا بابرکت قول ہے: نزل القرآن علٰی سبعۃِ احرفٍ، کلّ حرفٍ منھا کافٍ شافٍ۔ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے، ان میں سے ہر حرف (علم و حکمت میں) کفایت کرنے والا (اور باطنی امراض سے) شفا بخشنے والا ہے۔

سیّدنا منصور الیمنق س کی کتاب سرائر، ص۸۸ کے مطابق اس حدیثِ شریف کی تاویلی حکمت یہ ہے: یہاں قرآن سے آنحضرتؐ کا وصی اور اساس مراد ہے کیونکہ وہ قرآن کی تاویل کا مالک اور اس کے عجائب و غرائب کا مظہر ہے، اور ساتھ حروف اس کی اولاد میں سے ساتھ أؑئمّہ طاہرین ہیں، جن میں سے ہر امامؑ اپنے زمانہ کے لوگوں کے لئے علم و حکمت میں کفایت کرنے والا اور باطنی بیماریوں سے شفا بخشنے والا ہے۔

۴۲۲

سِتَّۃِ اَیَّامٍ

(۱)

   

چھ روز:

بیشک تمہارا ربّ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر مساوات کیا (۷: ۵۴) اس سے عالمِ دین کی تخلیق مراد ہے، جو چھ بڑے ادوار میں مکمل ہوئی، اور عالمِ شخصی کی روحانی تخلیق کا ذکر ہے، جو چھ چھوٹے ادوار میں بنایا گیا۔

۲۴۷

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
۴۲۳

سِتَّۃِ اَیَّامٍ

(۲)

   

چھ روز:

اللہ تعالٰی کے چھ بابرکت دن یہ ہیں: حضرتِ آدم، حضرتِ نوح، حضرتِ ابراہیم، حضرتِ موسٰی، حضرتِ عیسٰی اور حضرتِ محمّد علیہم السّلام، ان چھ ناطقوں کے چھ بڑے ادوار میں عالمِ دین مکمل کیا گیا، اور ساتویں دن جو سنیچر یعنی حضرتِ قائم علیہ السّلام ہے، اس میں خدا نے عرش (نورِ عقل) کے ذریعے سے مساوات کا کام کیا، اس کا تجدّد اور معرفت عالمِ شخصی میں ہے (۱۰: ۳) ۔

۴۲۴

سِتَّۃِ اَیَّامٍ

(۳)

   

چھ دن:

خداوندِ عالم کا ایک دن ہزار سال کا ہوتا ہے (۲۲: ۴۷) اس حساب سے عالمِ دین کی تخلیق چھ ہزار برس میں ہوئی، اور ایک ہزار سال کا آخری دور حضرتِ قائم القیامت علیہ السّلام کے لئے مقرر ہے (۱۱: ۷؛ ۲۵: ۵۹)۔

۴۲۵

سخَّرَ

   

اُس نے فرمانبردار بنایا:

پروردگارِ عالم نے ارض و سماء کی تمام چیزوں کو انسان کے لئے بحدّ امکان فرمانبردار بنا دیا ہے، یہ ذکر قرآنِ عظیم کی متعدد آیات میں آیا ہے، اس ربّانی تعلیم میں ظاہری و باطنی دونوں قسم کی سائنس کی طرف بھرپور توجہ دلائی گئی ہے، وہ آیاتِ کریمہ “وَسَخَّرَ لَکُمۡ” کے عنوان سے ہیں (۴۵: ۱۳؛ ۳۱: ۲۰)۔

۲۴۸

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
سِدۡرَۃ

(۱)

  بیری کا درخت:

سِدۡرَۃُ الۡمُنۡتَھٰی۔ پرلی حد کی بیری، یہ نفسِ کلّی کی مثالوں میں سے ہے جو مکان و زمان سے بالاتر ہے، چنانچہ سورۂ نجم میں ارشاد ہے: وَ لَقَدۡ راٰہُ نَزۡلَۃً اٰخۡرٰی۔ عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَھٰی۔ اور انہوں (یعنی آنحضرتؐ) نے اس کو ایک اور بار بھی دیکھا ہے، پرلی حد کی بیری کے پاس (۵۳: ۱۳ تا ۱۴)۔

یہاں طالبانِ حقیقت کے لئے ایک خاص سوال ہے کہ محبوبِؐ خدا نے کس کو دیکھا؟ آپ کو کس کی دعوت تھی؟ ظاہر بات ہے کہ ربّ العزّت کا دیدارِ پاک ہی مقصود تھا، جو حاصل ہوگیا۔

۴۲۷

سِدۡرَۃ

(۲)

   

بیری کا درخت، نفسِ کُلّی:

عِنۡدَھَا جَنَّۃُ الۡمَاوٰی۔ اِذۡ یَغۡشَی السِّدۡرَۃَ مَا یَغۡشٰی۔ اس کے پاس رہنے کی بہشت  ہے، جبکہ بیری کا درخت (ایک انمول چیز کو) چھپا رہا اور دکھا رہا تھا (۵۳: ۱۵ تا ۱۶) حظیرۃ القدس اسرارِ دو جہان کا خزانہ ہے، جس میں سب کچھ موجود ہے، اور اس سے کوئی حقیقی نعمت باہر نہیں۔

۲۴۹

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
۴۲۸

سِدۡرَۃ

(۳)

   

نفسِ کُلّی:

سِدۡرَۃُ الۡمُنۡتَھٰی۔ پرلی حد کی بیری، یعنی نفسِ کلّی جو مکان و زمان سے ورا (وَرَاء) ہے، وہ روحانی سفر اور قیامت کی انتہا پر ہے، اس لئے وہاں بہت سی چیزیں ختم ہوجاتی ہیں، مثلًا بشریت، کثرت، دوئی، شک، لاعلمی، جدائی، موت، محتاجی، ذلّت، خوف، غم وغیرہ، پس سدرۃ المنتہٰی کا نام اس معنٰی میں ہے کہ اس تک پہنچ جانے پر مذکورہ قسم کی تمام چیزیں ختم ہوجاتی ہیں۔

اس حال میں مکان نہیں لامکان ہوتا ہے، زمان لازمان (دھر) میں بدل جاتا ہے، قیامت کی جگہ آخرت، بشر کی جگہ فرشتہ، کثرت و دوئی کی جگہ وحدت، شک کی جگہ حق الیقین، لاعلمی کی جگہ علم، جدائی کی جگہ وصال، موت کی جگہ ابدی زندگی، محتاجی کی جگہ خزانہ، ذلّت کی جگہ لازوال عزّت، خوف کی جگہ امن اور غم کی جگہ دائمی شادمانی ہوتی ہے۔

۴۲۹

سِدۡرَۃ

(۴)

   

بیری کا درخت:

سِدۡرَۃُ الۡمُنۡتَھٰی۔ وہ بیری کا درخت جو آخری یا انتہائی سرے پر واقع ہے، سورۂ نجم (۵۳) میں واقعۂ معراج کے ساتھ اس کا ذکر اس طرح آیا ہے: اور انہوں نے وہ جلوہ دو بار دیکھا، سدرۃ المنتہٰی کے پاس، جس کے پاس جنّتُ الماوٰی ہے، جبکہ سِدرہ چھپارہا تھا جو کچھ

۲۵۰

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
     

چُھپا رہا تھا (۵۳: ۱۳ تا ۱۶)۔

اہلِ ظاہر کے بڑے بڑے علماء نے سدرۃ المنتہٰی کی حقیقت سے لاعلمی کا اعتراف کرلیا ہے، کیونکہ ایسے اسرار کا انکشاف انتہائی مشکل کام ہے، مگر امامِ زمان علیہ السّلام کے خزانے میں یقینًا اسرارِ قرآن موجود ہیں۔

۴۳۰

سِدۡرَۃ

(۵)

   

بیری کا درخت:

سِدۡرَۃُ الۡمُنۡتَہٰی سے نفسِ کلّی مراد ہے، جس کے پاس جاکر عالمِ شخصی کا روحانی سفر ختم ہوجاتا ہے، لفظ منتہٰی کا یہی اشارہ ہے، اور وہ بیری کا درخت اس معنٰی میں ہے کہ اس کے پاس خزانۂ الٰہی کے انمول موتی موجود ہیں، جن کی تشبیہہ و تمثیل بیروں سے دی گئی ہے، اور یہی بیحد گرانقدر جواہر دکھائے جا رہے تھے اور چھپائے جا رہے تھے۔

۴۳۱

سَرَابِیۡل

   

کرتے:

ایسے عجیب و غریب کرتوں کا ذکر آیا ہے کہ ان پر نہ تو گرمی کا کوئی اثر پڑتا ہے اور نہ ہی سردی کا، اور نہ کوئی جنگ ان کو تباہ کرسکتی ہے (۱۶: ۸۱) یہ لطیف کائناتی کرتے بیجان نہیں زندہ ہیں، اس میں جو عظیم روح ہے، وہ آپ ہیں، ہم ہیں، اور سب ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم جثّۂ ابداعیہ میں اب بھی ستاروں پر رہتےہیں او یہی ہماری

۲۵۱

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
     

انائے علوی ہے۔

۴۳۲

سِرَاج

(۱)

   

چراغ:

قرآنِ حکیم میں سورج کی تشبیہہ و تمثیل چراغ (سراج) سے دی گئی ہے، اور چاند کو منیر اور نور کا نام دیا گیا ہے (۲۵: ۶۱؛ ۷۱: ۱۶؛ ۷۸: ۱۳) اس کی عظیم حکمت بڑی عجیب و غریب ہے وہ یہ کہ جس طرح چراغ تیل سے فروزان ہوتا ہے او رات بھر اسے روشن رکھنے کے لئے اس میں بار بار تیل ڈالا جاتا ہے، اسی طرح دستِ قدرت مسلسل چراغِ آفتاب میں کائناتی ایندھن ڈالتا رہتا ہے، اس کی تفصیل “میزان الحقائق” میں ہے۔

۴۳۳

سِرَاج

(۲)

   

چراغ:

رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے اسمائے گرامی میں سے ایک اسم “چراغِ روشن” (سِراجًا مُنِیۡرًا ۳۳: ۴۶) ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ جو جو نیک بخت روحیں حقیقی عشق سے فنا فی الامامؑ اور فنا فی الرّسولؐ ہوجاتی ہیں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نور بن جاتی ہیں جس طرح کائناتی ایندھن سورج میں پڑ کر روشنی بن جاتا ہے۔

۲۵۲

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
۴۳۴

سِرَاج

(۳)

   

چراغ:

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ سِراجِ منیر یعنی آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم عالمِ دین کا سورج ہیں، اور آپ کا وصی (علیؑ) چاند، جیسے خداوندِ بزرگ و برتر کا ارشاد ہے: وَ الشَّمۡسِ وَ الضُّحٰھَا۔ و الۡقَمَرِ اِذَا تَلٰھَا (۹۱: ۱ تا ۲) قسم ہے سورج کی اور اس کے چاشت کی، اور چاند کی جب سورج کے پیچھے آئے۔ یہاں سورج سے ناطق اور چاند سے اساس مراد ہیں جو عالمِ دین کے آفتاب اور ماہتاب ہیں۔

۴۳۵

سَعٰے

   

وہ دوڑا، اُس نے کوشش کی:

سورۂ نجم (۵۳: ۳۹) میں ارشاد ہے: وَ اَنۡ لَیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰے۔ اور یہ کہ انسان کو وہ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے، اس آیۂ کریمہ میں بہت سے سوالات کے لئے جواباتِ شافی موجود ہیں، الحمد للہ علٰی منّہٖ و احسانہٖ۔

۴۳۶

سَفینۃ

   

کشتی، کشتیٔ نوحؑ، اہلِ بیت:

آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد ہے: یقینًا میرے اہلِ بیت کی مثال تمہارے درمیان سفینۂ نوحؑ کی طرح ہے، اس کی قوم میں سے جو شخص اس میں سوار ہوا وہ ناجی ہوگیا او جس نے مخالفت کی

۲۵۳

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
     

وہ غرق ہوگیا (المستدرک، الجزاء الثّالث، ص۱۶۳)۔

۴۳۷

سِکّین

   

چھری:

عہد و پیمان اور اسمِ اعظم، تاکہ جس کے ذکر سے بقرۂ نفس کو ذبح کیا جائے، جیسا کہ قرآنی ارشاد کا ترجمہ ہے: اور جب موسٰیؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے (۲: ۶۷)ؕ۔

۴۳۸

سُلالۃ

   

خلاصہ، نچوڑ:

سورۂ مومنون (۲۳: ۱۲) میں ہے کہ انسان کو خلاصۂ خاک سے پیدا کیا گیا ہے، اور سورۂ سجدہ (۳۲: ۸) میں ارشاد ہے کہ خدا نے آدمی کو خلاصۂ آبِ حقیر سے پیدا کیا ہے، اس سے ذرّۂ روح مراد ہے جو پشتِ پدر سے ہوکر آتا ہے جو دراصل خزانۂ الٰہی سے ہے (۱۵: ۲۱) اے نورِ عین من! ہر چیز ابتداءً ذرّہ ہوا کرتی ہے، اور کوئی شی اس قانونِ فطرت کے بغیر نہیں۔

۴۳۹

سلام

(۱)

   

سلامتی، امان:

خداوندِ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے: سَلٰمٌ عَلٰی نُوۡحٍ فِی الۡعٰلَمِیۡنَ (۳۷: ۷۹) ظاہری ترجمہ: نوحؑ پر سلام ہو عالم والوں

۲۵۴

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
     

میں۔ لیکن دنیا والے سب کے سب حضرتِ نوحؑ پر سلام نہیں بھیجتے، لہٰذا اس کی تاویلی حکمت ضروری ہے، وہ بہت مختصر مگر جامع الجوامع ہے کہ “حضرتِ نوح پر ہر عالمِ شخصی میں سلامتی ہے” یعنی حضرتِ نوحؑ کا روحانی اور نورانی ریکارڈ یا روحانی سائنس کی مووی (MOVE) بلا کم و کاست عالمِ شخصی میں سلامت، محفوظ اور موجود ہے۔

۴۴۰

سلام

(۲)

   

سلامتی، حفظِ ابدی:

حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد ہے: سَلٰمٌ عَلٰی اِبۡرَاھِیۡمَ (۳۷: ۱۰۹) حضرتِ ابراہیمؑ پر ہر عالمِ شخصی میں سلامتی ہے۔ یعنی آپ عالمِ صغیر میں ابدی طور پر زندہ و سلامت ہیں، آپؑ سے متعلق قرآن میں جو کچھ ہے وہ بھی روحانی حالت میں محفوظ و موجود ہے، الغرض عالمِ شخصی روحانیت کا وہ آئینہ ہے جس میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی کامل معرفت سے متعلق تمام اشیاء کا بخوبی مشاہدہ ہوجاتا ہے۔

۴۴۱

سلام

(۳)

   

ابدی سلامتی:

حضرتِ موسٰی اور حضرتِ ہارون علیہم السّلام کے بارے میں ارشاد ہے:سَلٰمٌ عَلٰی مُوۡسٰی وَ ھٰرُوۡنَ (۳۷: ۱۲۰) یعنی حضرتِ موسٰیؑ

۲۵۵

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
     

اور حضرتِ ہارونؑ پر عوالمِ شخصی میں سلامتی ہے۔ ناطقان و اساسان کے وسیلے سے تمام اُمتوں کے مومنین اور مومنات کو بھی سلامتی حاصل ہوسکتی ہے، کیونکہ جو حضرات خدا کی طرف سے ہوتے ہیں وہ اس کی رحمت کو پھیلا دیتے یں۔

۴۴۲

سلام

(۴)

   

ابدی سلامتی، باعثِ سلامتی:

ارشادِ باری تعالٰی ہے: سلامٌ علٰی اِلۡ یَاسِیۡنَ (۳۷: ۱۳۰) اس کے بارے میں دو قسم کے اقوال ہیں، لہٰذا ہم دو ترجمے کرتے ہیں (۱) حضرتِ اِلیاسؑ پر عوالمِ شخصی میں سلامتی ہے (۲) آلِ یاسین یعنی آلِ محمّد پر ہر عالمِ صغیر میں سلامتی ہے۔ یقینًا آلِ محمّد (صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم) امامِ مبین اور بحقیقت عالمِ شخصی ہے لہٰذا وہ خدا کی طرف سے سلام بھی ہے او باعثِ سلامتی بھی (۳۶: ۱۲) جس کے سوا کوئی عالمِ شخصی نہیں۔

۴۴۳

سلام

(۵)

   

سلامتی، بقا باللہ کی سلامتی:

مذکورہ آیاتِ کریمہ کے ساتھ یہ آیۂ شریفہ بھی سورۂ صافات میں ہے: وَ سَلٰمٌ عَلٰی الۡمُرۡسَلِیۡنَ (۳۷: ۱۸۱) اور سب پیغمبروں پر عوالمِ شخصی میں سلامتی ہے۔ یعنی انبیائے کرام علیہم السّلام کو فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ حاصل ہوا ہے، اس لئے وہ خداوند تعالٰی کے

۲۵۶

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
     

اسمِ مبارک “السّلام” میں زندۂ جاوید اور سلامت ہیں، اور اللہ جلّ جلالہ کے اُن پر “سلام” فرمانے کے یہی معنی ہیں۔

۴۴۴

سلام

(۶)

   

دائمی سلامتی کی لازوال نعمت:

اے نورِ عینِ من! جب انسان ایک دوسرے کو رسمی سلام کرتے ہیں تو وہ صرف سلامتی کی دعا ہی کے معنی میں ہوتا ہے، لیکن جب پرودگارِ عالم لفظ “سلام” کو استعمال فرماتا ہے تو اس میں دعا نہیں ہوتی، کیونکہ قولِ خدا دعا سے بالاتر ہے بلکہ اس میں خود سلامتی کی نعمت موجود ہوتی ہے۔

۴۴۵

سلام

(۷)

   

دار السّلام، ابدی سلامتی کا گھر، بہشت:

سورۂ یونس (۱۰: ۲۵) میں ہے: وَ اللہُ یَدۡعُوۡآ اِلٰی دَارِ السَّلام۔ اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔ جو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی امامِ مبین علیہ الصلاۃ والسّلام کا عالمِ شخصی ہے اور یہی زندہ بہشت ہے، جو عقل و دانش اور علم و حکمت کے خزائن سے مملو ہے۔

۲۵۷

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
۴۴۶

سَلۡسَبِیۡل

   

بہشت کے ایک چشمے کا نام ھے:

یہ سورۂ دھر (۷۶: ۱۸) کا ایک ارشاد ہے: عَیۡنًا فِیۡهَا تُسَمّٰى سَلۡسَبِیۡلًا۔ یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے۔ سل+  سبیل (پوچھ لے راستہ) = سلسبیل، یہ صاحبِ امر کا ایک نام ہے، جو علم و ہدایت کا سرچشمہ ہے، جس سے ظاہرًا و باطنًا راہِ ہدایت دریافت کی جاتی ہے، جیسا کہ پوچھنے کا حق ہے، الحمد اللہ ربّ العالمین۔

۴۴۷

سُلّمٌ

   

سیڑھی:

سورۂ طور (۵۲: ۳۸) میں ہے: کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر یہ عالمِ علوی کے اسرار کو سنتے ہیں؟ (اگر ایسا ہے) تو ان میں سے سننے والا کوئی روشن دلیل لے آئے۔ یہ اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد صرف امامِ مبینؑ ہی اللہ کی رسّی اور عالمِ بالا کی سیڑھی ہے۔

۴۴۸

سلمان

(۱)

   

نام:

سلمانُ مِنّا أھل البیت۔ سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ اس حدیثِ شریف کا اشارہ یہ ہے کہ صفِ اوّل کے مومنین و مومنات میں سے بھی اہل بیتِ اطہار علیہم السّلام میں شامل ہو

۲۵۸

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
     

سکتے ہیں۔

۴۴۹

سلمان

(۲)

   

سلمان فارسی:

اِنَّ سَلۡمَانَ مِنَّا اَھۡلَ الۡبَیۡتِ۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا کہ: بیشک سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ سلمان فارسی کو یہ نام (سلمان) آنحضرتؐ نے عطا فرمایا تھا، لہٰذا یہ لفظ “جَوَامِعُ الۡکَلِمۡ” میں سے ہے، جیسے آن حضورؐ نے فرمایا: اُوۡتِیۡتُ جَوَامِعُ الۡکَلِمۡ میں جامع کلمے دیا گیا ہوں (یعنی قرآن وحدیث جس کا ہر لفظ جامع ہونے کہ وجہ سے کئی معنی رکھتا ہے) پس اسمِ “سلمان” جامعیت کے لحاظ سے ایک منتخب لفظ ہے۔

۴۵۰

سلمان

(۳)

   

سلمان الخیر:

(الف) سلمان زمانۂ نبوّت کا ایک مثالی مومن تھا، (ب) سلمان کو آیۂ قلبِ سلیم (۲۶: ۸۹) کا مصداق سمجھ لیں (ج) وہ بہشت کے دروازوں میں سے ایک درواز ہوا (د) سلمان فارسی کے عالمِ شخصی میں اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کا مقدّس نور طلوع ہوچکا تھا (ھ) ہر امامؑ کے زمانے میں مومنین و مومنات میں سے بعض پاکیزہ نفوس سلمان کی طرح ہوتے ہیں۔

۲۵۹

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
۴۵۱

سلمان

(۴)

   

یکے از اہل بیتِ رسولؐ:

آنحضرتؐ کا ارشادِ مبارک ہے: اِنَّ سَلۡمَانَ مِنَّا اَھۡلَ الۡبَیۡتِ۔ یقینًا سلمان ہم اہلِ بیت میں سے ہے۔ (تحلیلِ اشعارِ ناصر خسرو، ص۲۹، بحوالۂ سفینۃ البحار، جلد اوّل، ۶۴۷)۔ آنحضرتؐ نے سلمان کے بارے میں یہ بھی فرمایا: لَقَدۡ اُوۡتِیَ سَلۡمَانٌ مِنَ الۡعِلۡمِ۔ تحقیق سلمان کو علم کا ایک حصّہ دیا گیا ہے۔ نیز رسالت مآبؐ نے فرمایا: سَلۡمَانٌ عَالِمٌ لَا یُدۡرَکۡ۔ سلمان ایسے عالم ہیں کہ کوئی اُن کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ (از کتاب سیرتِ سلمان، علّامہ فضل احمد عارف)۔

۴۵۲

سلمان

(۵)

   

سلمان فارسی عالِمِ علمِ لدنّی:

امیر المومنین حضرتِ علیؑ سے سلمان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: اُوۡتِیَ الۡعِلۡمَ اَوّلَ وَ الۡعِلۡمَ الۡاٰخِرَ لَا یُدۡرَکُ مَا عِنۡدَہٗ۔ وہ علمِ اوّل اور علمِ آخر دیئے گئے تھے، جو کچھ اُن کے پاس ہے اُسے نہ حاصل کیا جاسکتا ہے نہ ان پر اُس معاملے میں سبقت لی جاسکتی ہے۔ مولا نے یہ بھی فرمایا: عِنۡدَہٗ عِلۡمُ الاوّلِیۡنَ والاٰخِرِیۡنَ۔ یعنی اُن کے پاس اوّلین و آخرین کا علم علم تھا۔ (کتابِ مذکورۂ بالا)۔

۲۶۰

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
۴۵۳

سَلُوۡنِیۡ

(۱)

   

تم مجھ سے پوچھ لو:

مولا علی صلوات اللہ علیہ نے اپنے وقت کے حاضرین سے فرمایا: سلونی قبل ان تفقدونی۔ مجھ سے (علم و حکمت کی باتیں) پوچھ لو قبل اس کے کہ تم مجھ کو کھو بیٹو۔ یہ حقیقت ہے کہ خدائے مہربان اور رسولِ کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے لوگوں کی ہدایت کے لئے جس امامِ عالیمقامؑ کو مقرّر کر دیا تھا، وہ اکثر فرقوں سے کھو گیا ہے۔

۴۵۴

سَلۡوۡنِیۡ

(۲)

   

تم مجھ سے سوال کرو:

حضرتِ علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: سلونی عمّا دونی العرش۔ مجھ سے ہر اس چیز کے بارے میں پوچھو جو نورِ عقل (عرش) کے تحت ہے۔ یعنی میرے پاس نورِ عقل ہے جو تمام اشیاء پر محیط ہے، پس جس چیز کے بارے میں جاننا چاہتے ہو تو مجھ سے سوال کرو جیسا کہ سوال کرنے کا طریقہ مقرر ہے۔

۴۵۵

سَلِیۡم

(۱)

   

بے عیب، سُتھرا، قلبِ سلیم، وہ دل جو باطنی بیماریوں سے پاک ہو:

حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد ہے: اِذۡ جَآءَ رَبَّہٗ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ (۳۷: ۸۴) ترجمۂ اوّل: جب وہ اپنے

۲۶۱

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
     

پروردگار کے پاس (عیب سے) پاک دل لے کر آئے۔ ترجمۂ دوم: جب وہ اپنے ربّ کے پاس سپرد کردینے کے قابل دل لیکر آئے۔ تاکہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے ایسے پاک و پاکیزہ دل کو ربِّ کریم اپنے بابرکت ہاتھ میں لے، اپنی انگلیوں میں سے دو انگشت کے درمیان رکھ کر جیسے چاہے پھیرتا رہے، اپنے حسن و جمال اور اوصافِ کمال کا آئینہ اور اسرارِ ازل و ابد کا خزانہ بنا دے تاکہ امامُ النّاس (حضرتِ ابراہیمؑ ۲: ۱۲۴) کے اس قائدانہ عمل میں لوگوں کے لئے ہمیشہ ایک پُرنور مثالی ہدایت موجود و مہیّا رہے۔

۴۵۶

سَلِیۡم

(۲)

   

قلبِ سلیم، وہ دل جو خدا کو سونپا ھوا ہو:

مُقَلِّبُ الۡقُلُوۡبِ۔ اللہ تعالٰی کا ایک نام ہے، یعنی دلوں کے ارادوں کو پلٹنے والا، اس میں تاویلی حکمت ہے، وہ ہم اس حدیث کے تحت بیان کریں گے: اِنَّ الۡقُلُوۡبَ کُلَّھَا بَیۡنَ اِصۡبَعَیۡنِ مِنۡ اَصَابِعِ الرَّحۡمٰن۔ تمام دل اللہ تعالٰی کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے بیچ میں ہیں (وہ جس طرح چاہتا ہے ان کو پھیر دیتا ہے) جن عرفاء کو خداوندِ دو جہان کا پاک دیدار حاصل ہوا ہو، وہ آپ کو بتا سکتے ہیں کہ رحمان کی پانچ انگلیوں سے پانچ حدودِ علوی مراد ہیں، یعنی عقلِ کلّ، نفس کلّ، اسرافیل، میکائیل، اور جبرائیل اور خدا کی دو انگشت کے بیچ میں تمام قلوب

۲۶۲

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
     

کے ہونے کی تاویل “قلبِ سلیم” ہے جو امام کا دل (عقل) ہے جس کو تمام دلوں کی نمائندگی حاصل ہے، اور وہ عقلِ کُلّ اور نفسِ کلّ کے بیچ میں ہے۔

۴۵۷

سلیم

(۳)

   

قلبِ سلیم، وہ دل جو باطنی بیماریوں سے پاک ھو:

اِلَّا مَنۡ اَتٰی اللہَ بَقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ (۲۶: ۸۹) ہاں جو شخص خدا کے پاس پاک دل لے کر آیا (وہ بچ جائے گا) یہ کوئی معمولی بات ہرگز نہیں، بلکہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام اور ان کے روحانی ساتھوں کا اسوۂ حسنہ ہے (۶۰: ۴) اور آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کا اسوۂ حسنہ ہے (۳۳: ۲۱)۔

۴۵۸

سَمَاء

(۱)

   

آسمان، یعنی آسمانِ نزدیک:

قرآنِ حکیم میں سماء الدّنیا (آسمانِ نزدیک) کا ذکر آیا ہے (۳۷: ۶؛ ۴۱: ۱۲؛ ۶۷: ۵؛ ۱۵: ۱۶) یہ عالمِ شخصی کا آسمان ہے جو سات روحانی آسمانوں کے نیچے ہونے کی وجہ سے نزدیک ہے، جیسے سورۂ صٰفٰت میں ارشاد ہے: ہم نے آسمانِ نزیک کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے اور ہر سرکش شیطان سے اس کو محفوظ کر دیا ہے، یہ شیاطین سردارانِ اعلٰی کی باتیں نہیں سُن سکتے (۳۷: ۶ تا ۸)۔

۲۶۳

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
۴۵۹

سَماء

(۲)

   

عالمِ شخصی کا آسمان:

سورۂ حٰمٓ السّجدہ میں ارشاد ہے: وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ ڰ وَ حِفۡظًا۔ اور ہم نے آسمانِ نزدیک کو چراغوں سے آراستہ کیا اور (اوپر والے آسمانوں کو شیطانوں سے) محفوظ رکھا (۴۱: ۱۲) چند بڑے بڑے شیاطین انتہائی مشکل سے عالمِ شخصی کے آسمان تک پرواز کرجاتے ہیں، وہاں کی رنگ برنگ روشنیاں اتنی پُر کشش اور مسحور کُن ہیں کہ وہ ان سے نکل کر اوپر کے آسمانوں میں جا ہی نہیں سکتے۔

۴۶۰

سَماء

(۳)

   

وہ آسمان جو سب سے نزدیک ہے:

جن چراغوں سے عالمِ شخصی کا آسمان منوّر ہو رہا ہے وہ نور بھی ہے اور نار بھی، جیسا کہ سورۂ ملک کا یہ ارشاد ہے: اور ہم نے آسمانِ نزدیک کو چراغوں سے زینت دی ہے اور انہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنا دیا ہے، اور ان شیطانوں کے لئے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے (۶۷: ۵) عالمِ بالا کے عظیم اسرار سے شیاطین کی محرومی کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے خلیفۃ اللہ کو نہیں پہچانا۔

۲۶۴

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
۴۶۱

سمآء الدّنیا

(۱)

   

آسمانِ نزدیک:

ارشاد ہے: وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ ڰ وَحِفۡظًا۔ اور ہم نے آسمانِ نزدیک کو چراغوں سے مزیّن کیا اور (شیطانوں سے) حفاظت کا ذریعہ بنایا (۴۱: ۱۲) یعنی خدائے غالب و حکیم نے عقلانی اور روحانی آسمانوں کو شیطان سے اس طرح محفوظ رکھا کہ آسمانِ نزدیک (ہادیٔ برحق) کو علم و حکمت کے چراغوں سے سجایا، جن میں اہل ایمان کے لئے ہدایت کی روشنی ہے اور شیطانوں پر برسنے والے شعلے ہیں (۶۷: ۵)۔

۴۶۲

سَمَاءَ الدّنیا

(۲)

   

آسمانِ نزدیک:

اللہ تعالٰی نے اپنے محبوب رسول حضرتِ محمد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کو ہدایت کا روشن چراغ بںا دیا تھا (۳۳: ۴۶) آپؐ ہی اپنے وقت میں علم و حکمت کا وہ زندہ اور بولنے والا انسان تھے جو لوگوں کے نزدیک آسکتا ہے، حضورِ انورؐ کا ہر قول ایک چراغ اور ہر فعل ایک چراغ تھا، جس سے مومنین کے لئے ہدایت کی روشنی ملتی تھی، اور منکرین پر شعلے گرتے تھے۔

۲۶۵

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
۴۶۳

سَمَاءَ الدّنیا

(۳)

   

آسمانِ نزدیک:

سورۂ نوحؑ میں ارشاد ہوا ہے: یُرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡکُمۡ مِّدۡرَارًا۔ وہ تم پر آسمان بھیجے گا خوب بارشیں برسانے والا (۷۱: ۱۱) یعنی اطاعت اور عاجزی کے عمل سے روحانی آسمان تم پر بہت مہربان ہوگا، اور علم و ہدایت کی بارش برسائے گا۔

۴۶۴

سَمَاءَ الدّنیا

(۴)

   

آسمانِ نزدیک:

سورۂ جنّ کی آیتِ ہشتم (۷۲: ۸) کو پڑھ لیں: اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اس کو بہت قوی نگہبانوں اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا۔ اس سے یہ حقیققت روشن ہوئی کہ یہ روحانیت کا وہ آسمان ہے جو انس و جنّ کے قریب ہی ہے، یعنی مرتبۂ امامت، مگر اس میں حفاظت کے بہت سے چراغ ہیں، جن سے روشنی بھی پھیل رہی ہے اور شعلے بھی برس پڑتے ہیں۔

۴۶۵

سَمۡع

   

کان:

ناطق اہلِ باطن کی روحانی سماعت کا کام کرتے ہیں، کیونکہ اس آیۂ مبارکہ (۳۲: ۹) میں انسانِ کامل کی معرفت کا اشارہ ہے، جس میں ظاہری کانوں کا تذکرہ نہیں۔

۲۶۶

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
۴۶۶

سِمِیًّا/سَمِیّ

   

ھمنام، نظیر:

سورۂ مریم (۱۹: ۷) میں ہے کہ ذکریاؑ کے بیٹے سے پہلے کسی شخص کا نام “یَحۡیٰی” نہ تھا، پھر اسی سورہ میں آگے چل کر یہ ذکر ملتا ہے کہ خدا کا کوئی ہمنام نہیں (۱۹: ۶۵) ھَلۡ تَعۡلَمُ لَہٗ سَمِیًّا۔ بھلا تمہارے علم میں اس کا کوئی ہمنام بھی ہے؟ یعنی انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام جو اپنے اپنے زمانے میں خدا کے اسماء الحسنٰی ہوا کرتے ہیں، وہ خدا کے بزرگ نام ہیں، اس لئے وہ بیمثال ہیں اُن کا کوئی ہمنام نہیں، چونکہ یہ سب حضراتؑ ان بے شمار خوبیوں کے ساتھ پروردگار ہی کے نام ہیں، اس معنی میں حضرتِ ربّ کا کوئی ہمنام نہیں (۱۹: ۶۵)۔

۴۶۷

سُنّۃ

   

طریقہ، رسم، چلن، عادت، اللہ کا دستورِ حکمت اور قانونِ قدرت:

قرآنِ حکیم میں سنّتِ الٰہی کا مضمون اساسی مضامین میں سے ہے، دینِ حق کی جتنی اصولی اور بنیادی چیزیں ہیں، ان کی نسبت اللہ کی سنّت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے، خدا کی سنّت کا ظہور کاملین کے عالمِ شخصی میں ہوتا رہا ہے، اور اس کا تجدّد ہمیشہ ہمیشہ جاری ہے، آپ سُنّتِ الٰہی سے متعلق آیاتِ شریفہ کو خوب غور سے پڑھیں۔

۲۶۷

لفظ   معنی و حکمت                                                              “س”
۴۶۸

سَوِیّ

   

سیدھا، برابر، درست:

سورۂ مریم میں (۱۹: ۱۷) بَشَرًا سَوِیًّا کے یہ معنی ہیں: (۱) جُثَّۂ ابداعیہ (۲) ظہورِ فرشتہ بشکلِ انسانِ کامل (۳) کوکبی بدن (۴) جامۂ جنّت (۵) مخلوقِ بہشت (۶) مومن جنّ/پری (۷) ظہورِ مبدَع (۸) جسمِ لطیف (۹) معجزۂ ابداع (۱۰) معجزۂ انبعاث (۱۱) جسمِ مثالی (۱۲) خلقِ جدید (۱۳) محراب (۱۴) صفًّا (۱۵) صفًّا صفًّا (۱۶) کائنات/ انسانِ کبیر (۱۷) جوہر کائنات (۱۸) تھݸݽ گٹݸ جݹ مݶن شرݸ جݹ (جامۂ نو) وغیرہ، الحمد اللہ علٰی مَنِّہٖ و احسانِہٖ۔

۴۶۹

سِیۡرُوۡا

   

تم پھرو، سیر کرو:

یہ قرآنی ارشاد سورۂ عنکبوت (۲۹: ۲۰) میں ہے: قُلۡ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا كَیۡفَ بَدَاَ الۡخَلۡقَ ثُمَّ اللّٰهُ یُنۡشِئُ النَّشۡاَةَ الۡاٰخِرَةَ کہہ دو کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی دفعہ پیدا کیا ہے پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرتا ہے، یعنی حقیقی علم اور خصوصی عبادت کے وسیلے سے عالمِ شخصی میں داخل ہوجاؤ اور اس کی زمین پر چلو پھرو تاکہ تم کو مخلوق اور خالق کی معرفت حاصل ہوجائے، اس کے بغیر زمینِ ظاہر پر چلنے پھرنے سے معرفت کا کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔

۲۶۸

     
    بابُ الشّین
     

۲۶۹

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۲۷۰

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ش”
۴۷۰

شَاھِد

   

گواہ، حاضر ھونیوالا:

اِس آیۂ کریمہ کو سورۂ ھود (۱۱: ۱۷) میں پڑھ لیں: اَفَمَنۡ كَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنۡ رَّبِّهٖ وَ یَتۡلُوۡهُ شَاهِدٌ مِّنۡهُ۔ تو کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے دلیلِ روشن پر ہو اور اس کے پیچھے ہی پیچھے انہی کا ایک گواہ ہو۔ (شرح الاخبار، ج۸، ص۳۱۱)۔ دلیلِ روشن پر آنحضورؐ ہیں اور انہی کا ایک گواہ حضرتِ علیؑ، پیغمبرِ اکرمؑ کی نبوّت و رسالت کا گواہ کوئی عام آدمی کیونکہ ہوسکتا ہے، جبکہ یہ امرِ عظیم ظاہری نہیں باطنی اور روحانی ہے، یعنی دیدۂ دل سے یہ دیکھنا تھا کہ قرآنِ عظیم کلمۂ باری، قلمِ اعلٰی، لوحِ محفوظ اور فرشتوں سے کس طرح آنحضرتؐ پر نازل ہوا؟ ان تمام مشاہدات کے بغیر حقیقی گواہی نہیں ہوسکتی ہے۔

۴۷۱

شَجَرَۃ

   

درخت:

قرآنِ حکیم میں جتنے پاک درختوں کی مثالیں بیان کی گئی ہیں، ان سب کا ممثول عالمِ شخصی کے آسمان پر ایک ہی ہے، وہ صورتِ رحمان اور فرشتۂ اعظم ہے، چونکہ وہی عالمِ وحدت ہے اس لئے وہ عقلِّ کلّ بھی ہے، نفسِ کلّ بھی، ناطق بھی اور اساس بھی ہے، اور مرتبۂ یک حقیقت اس کے سوا نہیں، الغرض تمام اعلٰی معانی یہیں جمع

۲۷۱

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ش”
     

ہوجاتے ہیں اور یہیں سے پھیل جاتے ہیں (بحوالۂ تاویلاتِ قرآن)۔

۴۷۲

شَرَابًا طَہُوۡرًا

   

نہایت پاکیزہ شراب:

سورۂ دھر میں ارشاد ہے: وَ سَقٰىهُمۡ رَبُّهُمۡ شَرَابًا طَهُوۡرًا۔ اور ان کا ربّ ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا (۷۶: ۲۱) اس سے حق تعالٰی کا دیدارِ پاک مراد ہے جو شرابِ عشق ہے، اسی شراب کو پی کر دوستانِ خدا پاک ہوجاتے اور پاک رہتے ہیں۔

۴۷۳

شِعۡر

   

موزوں مقفّٰی کلام، نظم، بیت، سُخنِ موزون۔

حضرتِ ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: اِنَّ مِنَ الشِّعۡرِ لَحِکۡمَۃً۔ یعنی بعض اشعار میں حکمت ہوتی ہے۔ یعنی جو شاعر ہدایت حقّہ سے وابستہ ہیں اُن ہی کی شاعری میں حکمت ہوسکتی ہے، کیونکہ قرآنِ پاک میں گمراہ شاعروں کی مذمّت کی گئی ہے (۲۶: ۲۲۴)۔

۲۷۲

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ش”
۴۷۴

شُغُلٍ

   

کام، دھندا:

اہل بہشت آج (روزِ آخرت) مسرّت بخش کام میں ہیں (۳۶: ۵۵) مثلًا جو لوگ صور اسرافیل کی زبردستی سے بہشت میں داخل کیے گئے ہیں، ان کو تعلیم دینے کا کام۔

۴۷۵

شِفاء

   

تندرستی:

روحانی سائنس کا ثبوت اس روشن دلیل سے بھی مل سکتا ہے کہ قرآن و حدیث کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک اہم پہلو آسمانی طبّ اور علاج و شفا سے متعلق ہے، اسی وجہ سے قرآنِ حکیم کے اسماء میں سے ایک اسم “شفاء” ہے (۱۰: ۵۷؛ ۱۷: ۸۲)۔

۴۷۶

شَفَاعَۃ

   

سِفارش:

آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: اِنَّ مِنۡ اُمَّتِیۡ مَنۡ یَّشۡفَعُ لِلۡفِئَامِ مِنَ النَّاسِ۔ میری امّت میں سے کوئی کئی جماعتوں (لاکھوں) کی شفاعت کریگا۔ (ترمذی، جلد دوم، ابواب صفۃ القیامۃ، شفاعت سے متعلق) یہ کاملین و عارفین کے بارے میں ہے۔

۲۷۳

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ش”
۴۷۷

شَکُوۡر

(۱)

   

بڑا شکر گزار، بڑا قدر شناس:

عام شکر گزاری کوئی بھی کرسکتا ہے لیکن خاص شکر گزاری بہت مشکل ہے، کیونکہ وہ صرف حکمت ہی کی روشنی میں ہوسکتی ہے، جیسے سورۂ لقمان (۳۱: ۱۲) میں خداوندِ عالم کا فرمان ہے: اور یقینًا ہم نے لُقمان کو حکمت عطا کی کہ تم خدا کا شکر کرو۔ حکمت اللہ تعالٰی کا بہت بڑا عطیہ ہے، اور یہ بہت کم بندوں کو نصیب ہوتا ہے، جیسا کہ سورۂ سبا (۳۴: ۱۳) میں ارشاد ہے: اور میرے بندوں میں سے شکر کرنے والے (بندے) تھوڑے سے ہیں۔ یعنی اہلِ حکمت بہت ہی کم ہیں۔

۴۷۸

شَکُوۡر

(۲)

   

بڑا شکر گزار، بڑا قدر دان:

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۳) میں ہے: اِنَّهٗ كَانَ عَبۡدًا شَكُوۡرًا۔ بیشک نوحؑ بڑا شکر گزار بندہ تھا، یعنی اُن کے عالمِ شخصی میں کل کائنات کی باطنی دولت اور حکمت موجود تھی اور اسی کے مطابق عملًا شکر گزاری اور قدر دانی کرتے تھے، اور تمام انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کے ایسے اوصاف و کمالات ہوتے ہیں۔

۲۷۴

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ش”
۴۷۹

شَکُوۡر

(۳)

   

بڑا شکر گزار، بڑا قدر شناس:

اگرچہ ہر حال میں شکر کرنا ایک مفید بندگی ہے، تاہم وہ شکر جو حقیقی معنوں میں ہے عظیم نعمتوں کی بلندی پر ادا ہوسکتا ہے، جیسے حضرتِ سلیمانؑ کی روحانی سلطنت میں جنّات کی کار کردگی کے ذکر کے بعد فرمایا گیا کہ: اے آلِ داؤد! شکر کے طریقے پر عمل رو، کیونکہ میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہیں (۳۴: ۱۳) یعنی خدا تعالٰی نے تم کو جن عظیم نعمتوں سے مالامال فرمایا ہے انہی کے مطابق لوگوں پر احسان کرو تاکہ اس سے خدا کی عملی شکرگزاری یعنی اس کی نعمتوں کی قدر دانی ہوسکے۔

۴۸۰

شُھَداء

(۱)

   

گواہ، واحد شھید:

اللہ تعالٰی کا یہ خطاب أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہی سے ہے: وَ كَذٰلِكَ جَعَلۡنٰكُمۡ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوۡنُوۡا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡكُمۡ شَهِیۡدًاؕ۔ (۲: ۱۴۳) اور اسی طرح ہم نے تم کو عادل اُمّت بنایا تاکہ اور لوگوں کے مقابلہ میں تم گواہ بنو اور رسول (محمّدؐ) تمہارے مقابلے میں گواہ بنیں۔ گواہ وہ شخص ہوتا ہے جو حاضر اور موجود ہو، پس امام علیہ السّلام لوگوں پر اس معنٰی میں گواہ ہے کہ وہ ہمشہ خدا کے حکم سے ان کے ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی حاضر اور موجود ہے۔

۱۷۵

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ش”
۴۸۱

شُھَداء

(۲)

   

گواہ، واحد شھید:

اس آیۂ کریمہ کی حکمت یہ بتاتی ہے کہ عارفین و کاملین امامِ زمانؑ کو باطن میں بھی دیکھ سکتے ہیں، بالفاظِ دیگر اُس کا دیدار کرسکتے ہیں، کیونکہ امام علیہ السّلام لوگوں کے اعمال پر گواہ کی صورت میں ظاہرًا و باطنًا حاضر و موجود ہے، اور اس دلیلِ محکم کو جو قرآن حکیم کی روشنی میں ہے کوئی شخص ردّ نہیں کرسکتا کہ رسولؐ اماموں پر گواہ ہیں اور أئمّہ لوگوں پر گواہ ہیں۔

۴۸۲

شُھَداء

(۳)

   

گواہ، واحد شھید:

یہ ارشاد سورۂ توبہ میں ہے: وَ قُلِ اعۡمَلُوۡا فَسَیَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمۡ وَ رَسُوۡلُهٗ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَؕ (۹: ۱۰۵) اور (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ تم اپنے اپنے کام کئے جاؤ ابھی تو خدا اور اس کا رسولؐ اور مومنین (أئمّہ) تمہارے کاموں کو دیکھیں گے۔ حضرتِ امام محمّد باقر علیہ السّلام کے حوالے سے یہاں المؤمنون سے أئمّۂ ھُدٰی علیہم السّلام ہی مراد ہیں (ملاحظہ ہو کتاب دعائم الاسلام، عربی، حصّۂ اوّل، ص۲۱)۔

۴۸۳

شُھَداء

(۴)

   

گواہ، واحد شھید:

اللہ اور اس کے رسولِ پاکؐ کے بعد حضرات أئمّہ لوگوں کے اعمال

۲۷۶

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ش”
     

کو دیکھتے ہیں، جبکہ وہ اس معنٰی میں حاضر و موجود اور گواہ ہیں، پس یقینًا عارفین و کاملین امامِ زمان کو نورانیت میں دیکھ سکتے ہیں، اور اس سے روحانی علم حاصل کرسکتے ہیں، کہ وہ کتابِ ناطق ہے (۲۳: ۶۲ نیز ۴۵: ۲۹)۔

۴۸۴

شُھَداء

(۵)

   

گواہ، واحد شھید:

سورۂ مومںون میں ارشاد ہے: وَ لَدَیۡنَا كِتٰبٌ یَّنۡطِقُ بِالۡحَقِّ وَ هُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ۔ اور ہمارے پاس (یعنی قربِ خاص میں) ایک ایسی کتاب ہے جو سچ سچ بولتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا ہے (نہیں کیا جائے گا)۔ “یُظلمون” مظارع ہے، یہ بولنے والی کتاب کیونکر قرآنِ عظیم سے الگ ہوسکتی ہے کہ اگر جُدا ہوتی تو قرآن کی تمامیّت و کمالیّت میں فرق آتا، لیکن ایسا نہیں، بلکہ یہ تو قرآنِ پاک کا نورِ باطن اور معلّم ہے، جو حقیقت میں قرآن سے الگ نہیں، جیسے ارشادِ رسولؐ ہے کہ: قرآن علیؑ کے ساتھ ہے اور علیؑ قرآن کے ساتھ۔ جیسے رسولِ اکرمؐ قرآن سے الگ نہ تھے۔

۴۸۵

شُھَداء

(۶)

   

گواہ، حاضر موجود:

حضرتِ امام علیہ السّلام سے روحانیت اور باطنیت میں کلام

۲۷۷

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ش”
     

ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ گواہ ہے اور گواہ غائب نہیں بلکہ حاضر اور موجود ہوتا ہے، وہ کتابِ ناطق ہے جو عارفوں سے کلام کرنے کے معنی میں ہے، وہ نورِ ہدایت ہے جس کی شعاعیں سورج کی کرنوں کی طرح بیجان، بے عقل، اور خاموش نہیں، بلکہ اس کے برعکس ہیں۔

۴۸۶

شُھُوۡر

   

مھینے:

سورۂ توبہ میں ارشاد ہوا ہے: اس میں کوئی شک نہیں کہ مہینوں کی تعداد جب سے خدا نے آسمان و زمین کو پیدا کی ہے اللہ کی کتاب میں بارہ ہی ہے اور ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں، یہی دینِ قائمؑ ہے (۹: ۳۶) یعنی عالمِ شخصی کی روحانی تخلیق اور تعمیر و ترقی کے دوران امامِ زمانؑ کے بارہ حجت کام کرتے ہیں، خدا کی بولنے والی کتاب (امامؑ) میں یہی تعداد ہے، ان میں سے چار حجت محترم اور مقرب ہیں، اور یہی حضرتِ قائم القیامت علیہ افضل التحیۃ والسّلام کا دینِ متین ہے۔

۴۸۷

شَیَاطِیۡن

   

انس و جنّ کے سرکش افراد، شریر لوگ:

ہر پیغمبر کے لئے انسی اور جنّی شیاطین دشمن ہوا کرتے تھے (۶: ۱۱۲) یہ حکمتِ الٰہی کا بہت بڑا راز  ہے کہ انسانِ کامل کی آزمائش اس کے

۲۷۸

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ش”
     

بغیر ممکن نہیں ہے۔

۴۸۸

شَیۡطَانٌ

   

شیطان (ذاتی):

مَا مِنۡکُمۡ مِنۡ اَحَدٍ اِلَّا وَ لَہٗ شَیۡطَانٌ، قَالُوۡا: وَ اَنۡتَ یَا رَسُوۡلَ اللہِ؟ قَالَ: وَ اَنَا اِلَّا اَنَّ اللہَ اَعَانَنِیۡ عَلَیۡہِ فَاَسۡلَمَ فَلَا یَاۡمُرُ اِلَّا بِخَیۡرٍ۔ آنحضرت حضور نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص کا ایک (ذاتی) شیطان ہے، اصحاب نے پوچھا: اور آپ کا؟ فرمایا: میرا بھی تھا، لیکن اللہ نے مجھے اس پر غلبہ بخشا، پس وہ تابعدار ہوگیا اور اب وہ صرف بھلائی کا حکم دیتا ہے (تحلیل اشعارِ ناصرِ خسرو، بحوالۂ احیاء العلوم، جلد سوم، بیان نمبر۱۱)

۲۷۹

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۲۸۰

     
    بابُ الصّاد

 

۲۸۱

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۱۸۲

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
۴۸۹

صٓ

   

صورت:

سورۂ صٓ کے شروع ہی (۳۸: ۱) میں ارشاد ہے: صٓ وَ الۡقُرۡاٰنِ ذِی الذِّکۡرِ۔ قسم ہے صورتِ رحمان کی اور ذکر والے قرآن کی۔ اس خدائی قسم کی نسبت یہ ہے کہ عالم علوی میں جہاں خدائے رحمان کا دیدار ہے وہاں قرآنِ عظیم کا ظہورِ ازل ہے، جو کتابِ مکنون میں ہے (۵۶: ۷۷ تا ۷۹)۔

۴۹۰

صَاحِب

(۱)

   

رفیق، ساتھی:

سورۂ نجم کے شروع (۵۳: ۱ تا ۲) میں پڑھ لیں: وَ النَّجۡمِ اِذَا هَوٰى۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمۡ وَ مَا غَوٰى۔ ستارۂ ازل کی قسم جب (طلوع ہوجانے کے بعد) غروب ہوا کہ تمہارے رفیق (محمّد صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم) نہ گمراہ ہوئے نہ بہکے۔

پہلی آیت میں منزلِ مقصود کی نشاندہی فرمائی گئی، وہ حظیرۃ القدس اور مقامِ ازل ہے، جہاں نورِ عقل اپنے مختصر ترین طلوع و غروب سے بے شمار اشارے کرتا ہے، یہی نور عالمِ وحدت کا سورج بھی ہے چاند بھی، ستارہ بھی ہے اور ستارے بھی، بلکہ سب کچھ ہے، جبکہ وہ کائنات و موجودات کا خلاصہ اور جوہر (گوہر) ہے۔

۲۸۳

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
۴۹۱

صَاحِب

(۲)

   

رفیق، ساتھی:

دوسری آیت میں مذکورہ قَسم کا یہ جواب ہے کہ جب رحمتِ عالم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم معراج پر تشریف لے گئے اُس وقت تم سب مومنین و مومنات کا عالمِ ذرّ فنا اور وحدت کی حالت میں پیغمبرؐ کے ساتھ تھا، یہ عظیم حکمت “صَاحِبُکُمۡ” میں پنہان ہے، یعنی آنحضرتؐ معراج تک اہل ایمان کے رفیق و رہنما ہیں، اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ربّ العالمین۔

۴۹۲

صَاحِب

(۳)

   

رفیق، ساتھی:

سورۂ حدید کی ایک پر حکمت آیت (۵۷: ۲۸) میں سے ان روح پرور الفاظ پر غور کریں: وَ یَجۡعَلۡ لَّكُمۡ نُوۡرًا تَمۡشُوۡنَ بِهٖ۔ اور خدا تم کو ایسا نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم چلوگے۔ یہ نورِ امامت ہی ہے، جس کا مقصد ہے اہل ایمان کو صراطِ مستقیم پر چلانا، چلنے کا مقصد ہے منزلِ مقصود میں پہنچ جانا، منزلِ مقصود خدا ہے، اور جہاں خدا ہے وہاں اس کا پاک دیدار بھی ہے اور آنحضرتؐ کی معراج کے اسرار کا مشاہدہ بھی۔

۲۸۴

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
۴۹۳

صادقیں

(۱)

   

سچّے، جن کو قرآنی حکمت دی گئی ھے:

سورۂ توبہ (۹: ۱۱۹) کی یہ آیت پُرحکمت أئمّۂ آلِ محمّد صلّی اللہ علیہ و علیہم اجمعین کی شان میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ۔ اے ایمان والو! خدا سے ڈرو اور سچّوں کے ساتھ ہوجاؤ (۹: ۱۱۹) صادقین صرف وہی حضرات ہیں جن کی مبارک پیشانی میں نُوۡرِ مُنَزَّل (نورِ ہدایت) کی جلوہ گری اور روشنی کا معجزہ ہے، پس قرآن اور اسلام کی صداقت و حقیقت انہی قدسیوں کے پاس ہے (بحوالۂ دعائم الاسلام، جلدِ اوّل، کتاب الولایہ)۔

۴۹۴

صادقیں

(۲)

   

علیؑ، أئمّۂ طاھرین:

خوب یاد رہے کہ “صدق” قرآنِ پاک کے ناموں میں سے ہے (۳۹: ۳۳) ملاحظہ ہو: الاتقان، حصّۂ اوّل، نوع ۱۷، پس صادقین وہ حضرات ہیں جن کے پاک سینوں میں قرآنِ حکیم کی تمام باطنی اور نورانی آیات یعنی معجزات محفوظ ہیں (۲۹: ۴۹) جیسے آنحضرتؐ نے فرمایا:

علیّ مع القراٰن، والقراٰن مع علیّ، لن یتفرّقا حتٰی یردا علی الحوض۔ علیؑ قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ، یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے تا آنکہ حوضِ

۲۸۵

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
     

کوثر پر دونوں اُتر جائیں گے (المۡسۡتَدۡرَکۡ، الجُزء الثالث، مناقب امیر المؤمنین علیؑ، ص۱۳۴) یعنی قرآن اور علیؑ ایک ساتھ دنیا میں قیامۃ القیامات تک موجود ہوں گے، کس طرح؟ قرآن ہر بار ایک جدید ایڈیشن میں اور علی امامت کے نئے لباس میں۔

۴۹۵

صَالِح

   

نیک، اچھّا، صلاح سے اسمِ فاعل:

الصّالح: درست، ٹھیک، نیک، حقوق و ذمہ داریوں کو پورا کرنے والا (المنجد) سورۂ تحریم (۶۶: ۴) میں یہ ارشاد آیا ہے: فَاِنَّ اللہَ ھَوَ مَوۡلٰہُ و جِبۡرِیۡلُ و صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔ تو خدا اور جبرائیل اور تمام ایمانداروں میں نیک شخص ان کے مددگار ہیں۔ اِس آیۂ شریفہ میں صالحُ المومنین سے حضرتِ مولانا علی علیہ السّلام مراد ہے (دیکھئے: المیزان، جلد ۱۹، ص۳۴۱) یہاں آیۂ مقدّسہ کا یہ اشارہ ہے کہ جب تک اس دنیا میں مومنین ہیں، تب تک ان کے درمیان صالح المومنین بھی موجود ہے۔

۴۹۶

صَدَقَۃ

   

خیرات، صدقہ:

اَفۡضَلُ الصَّدَقَۃِ اَنۡ یَتَعَلَّمَ الۡمَرۡءُ الۡمُسۡلِمُ عِلۡمًا، ثُمَّ یُعَلِّمَہُ اَخَاہُ الۡمُسۡلِمَ۔ بہترین صدقہ یہ ہے کہ مسلمان مرد علم

۲۸۶

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
     

سیکھے پھر اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے (سننِ ابنِ ماجہ، جلد اوّل، حدیث۲۴۳)۔

۴۹۷

صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ

  اِذَا مَاتَ الۡاِنۡسَانُ انۡقَطَعَ عَنۡہُ عَمَلُہُ اِلَّا مِنۡ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ اَوۡ عِلۡمٍ یُنۡتَفَعُ بِہِ اَوۡ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدۡعُوۡ لَہُ۔ جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہوجاتا ہے، مگر تین چیزیں باقی رہتی ہیں: صدقۂ جاریہ یا علم نافع یا نیک اولاد جواس کیلئے دعا کرے۔ (مشکوٰۃ، جلدِ اوّل، کتاب العلم)۔
۴۹۸

صِدِّیۡقَۃ

   

بہت سچّی عورت، ولی عورت:

صِدِّیۡقَۃ در اصل وہ عالی مرتبت خاتون ہے جو آسمانی کتاب کی روحانیت و نورانیت تک رسا ہوگئی ہو، جس کی وجہ سے کتبِ سماوی کی تصدیق کرتی ہے اور تاویل جانتی ہے، قرآنِ حکیم میں یہ وصف مریم سلام اللہ علیہا کے لئے آیا ہے (۵: ۷۵) سورۂ تحریم کے آخر (۶۶: ۱۲) میں دیکھ لیں کہ حضرتِ مریمؑ کے کان میں خداوندی روح پھونک دی گئی تھی، جس کی مدد سے انہوں نے کلماتِ تامّات اور کتب سماوی کی عرفانی تصدیق کی، اور وہ بحقیقت اطاعت والوں سے تھیں۔

۲۸۷

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
     

یقینًا بی بی مریمؑ کا قصّہ بطریقِ تمثیل حجّت کا قصّہ ہے، چنانچہ مریم کا کوئی روحانی واقعہ ایسا نہیں جو حجّت میں نہ ہو، آپ اس سلسلے کے سوالات کرسکتے ہیں، اور ہماری تحریروں میں بھی دیکھ لیں۔

۴۹۹

صراطٍ مستقیمٍ

(۱)

   

سیدھا راستہ، خدا کا راستہ، نورِ نبوّت اور نورِ امامت:

سورۂ انعام (۶: ۱۵۳) میں ارشاد ہے: وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیۡ مُسۡتَقِیۡمًا فَاتَّبِعُوۡهُۚ۔ اور یہ (بھی سمجھ لو) کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، اسی پر چلے جاؤ، یعنی ناطق اور امام صلوات اللہ علیہما کی پیروی کرتے چلے جاؤ کہ خدا کا سیدھا راستہ نورِ نبوّت اور نورِ امامت ہی ہے (ملاحظہ ہو: اخوان الصّفاء کا آخری رسالہ: جامِعۃ الجامعۃ، فصل ۴۳)۔

۵۰۰

صراطٍ مستقیمٍ

(۲)

   

راہِ راست:

یہ آیۂ مبارکہ سورۂ حجر (۱۵: ۴۱) میں ہے: قَالَ هٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسۡتَقِیۡمٌ۔ خدا نے فرمایا کہ یہی راہ سیدھی ہے کہ مجھ تک (پہنچتی) ہے۔ اہلِ دانش کے لئے ظاہر ہے کہ صراطِ مستقیم کی منزلِ مقصود حق تعالٰی خو ہے، اس لئے اہلِ ایمان کو اس پر ضرور چلنا اور آگے سے آگے جانا ہے تا آنکہ خدا سے واصل ہوجائیں، اور ایسا بہت

۲۸۸

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
     

بڑا کامیاب روحانی سفر نورِ ہدایت کی روشنی میں ممکن ہے۔

۵۰۱

صراطٍ مستقیمٍ

(۳)

   

نورانی راستہ:

سورۂ ھود (۱۱: ۵۶) میں ہے: اِنَّ رَبِّیۡ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ۔ اس میں تو شک ہی نہیں کہ میرا پرودگا سیدھی راہ پر ہے یعنی نمائندۂ خدا (ہادیٔ زمام علیہ السّلام) خود شروع سے لیکر آخر تک نورانی علم و ہدایت کا راستہ ہے، اور صراطِ مستقیم کی تأویل یہی ہے۔

۵۰۲

صراطٍ مستقیمٍ

(۴)

   

نورانیت کا زندہ راستہ:

صراطِ مستقیم کی دوسری مثال کشتی کی طرح ہے، کیونکہ اہلِ بیتِ رسولؐ کی ایک تمثیل کشتیٔ نوحؑ سے دی گئی ہے، اس صورت میں یہ سرِّ عظیم منکشف ہوجاتا ہے کہ صراطِ مستقیم درحقیقت وہ ہے جو باطنی اور روحانی مسافروں کو اپنی نورانیت میں اٹھا کر منزلِ مقصود تک پہنچا سکتی ہے، اور یہ ہادیٔ برحق کی روشن مثال ہے۔

۵۰۳

صراطٍ مستقیمٍ

(۵)

   

نمائندۂ خدا، ھادیٔ زمانؑ:

اس آیہ مبارکہ کے لئے آپ سورۂ آلِ عمران (۳: ۱۰۱) میں دیکھ لیں: وَ  مَنۡ  یَّعۡتَصِمۡ  بِاللّٰهِ  فَقَدۡ  هُدِیَ  اِلٰى  صِرَاطٍ  مُّسۡتَقِیۡمٍ۔

۲۸۹

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
     

اور جس نے اللہ تعالٰی (کے نمائندے) کو مظبوط پکڑا تو ضرور وہ سیدھی راہ (کی غایت) دکھایا گیا۔ یعنی ہر وہ شخص صراطِ مستقیم کی منزلِ مقصود تک پہنچ سکتا ہے جو نمائندۂ خدا کے دامنِ اقدس کو مضبوط پکڑتا ہے، پس صراط مستقیم مثال ہے اور ہادیٔ زمانؑ ممثول۔

۵۰۴

صراطٍ مستقیمٍ

(۶)

   

اللہ تعالٰی کی نورانی رسّی:

صراطِ مستقیم کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ایک اور متبادل مثال اللہ کی رسّی ہے، جیسے ارشاد ہے: وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا (۳: ۱۰۳) اور سب کے سب مل کر خدا کی (نورانی) رسّی کو مضبوط پکڑے رہنا اور جدا جدا نہ ہوجانا۔ یعنی نمائندۂ خدا (نبیؐ اور امامؑ) کی پاک و مبارک ہستی ربّ العزّت کی سبیلِ پُرنور بھی ہے اور اس کی نورانی رسّی بھی ہے۔

۵۰۵

صراطٍ مستقیمٍ

(۷)

   

راہِ راست، یعنی علیؑ:

حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام کا ارشاد ہے: الصراط المستقیم أمیر المؤمنین (علی) علیہ السّلام۔ یعنی راہِ راست (صراطِ مستقیم) سے حضرتِ امیر المومنین علی علیہ السّلام مراد ہیں (المیزان، جلدِ اوّل، ص۴۱) اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ دینِ حق کی راہ

۲۹۰

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
     

مادی سڑک نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ خدائے پاک کا زندہ، عاقل، اور پُرنور راستہ ہے، یعنی امامِ عالی مقام۔

۵۰۶

صلاۃ/صلوٰۃ

(۱)

   

درود:

سورۂ احزاب (۳۳: ۵۶) میں پیغمبرِ مکرّم پر درود بھیجنے کا ذکر آیا ہے، وہ پاک ارشاد یہ ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَى النَّبِیِّط-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡهِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًاؕ ۔ اس میں شک نہیں کہ خدا اور اس کے فرشتے پیغمبرؐ (اور اُن کی آل پر) درود بھیجتے ہیں، تو اے ایماندارو تم بھی ان پر درود بھیجتے رہو اور برابر سلام کرتے رہو (۳۳: ۵۶) اس حکمِ الٰہی میں آن حضورؐ اور آپؐ کی آلِ پاکؑ کی عظمت و بزرگی کے عظیم اسرار پوشیدہ ہیں۔

۵۰۷

صلاۃ

(۲)

   

درود:

قُوۡلُوۡا: اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیۡتَ عَلٰی اِبۡرَاھِیۡمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبۡرَاھِیۡمَ اِنَّکَ حَمِیۡدٌ مَّجِیۡدٌ۔ اے اللہ! درود نازل فرمائیے محمّد پر اور آلِ محمّد پر جیسا کہ آپ نے درود نازل فرمایا ابراہیم پر اور اٰلِ ابراہیم پر، بے شک آپ ستودہ صفات اور عظمت والے ہیں۔ (صحیح البخاری، جلدِ دوم، کتاب الانبیاء، حدیث

۲۹۱

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
     

۵۹۵)۔ المیزان، المجلد۱۶، ص۳۴۴ پر بھی دیکھ لیں۔

۵۰۸

صلاۃ

(۳)

   

درود:

اہل دانش و بصیرت کے لئے یہ ایک بہت بڑا عرفانی خزانہ ہے کہ جہاں درود کے بارے میں بہت سے پیچیدہ سوالات ہیں، وہاں خود آن حضورؐ نے بطریقِ حکمت اُن آیاتِ قرآن کا حوالہ دیا جو حضرتِ ابراہیم اور ان کی آل علیہم السّلام کی شان میں ہیں، پس آپ ان تمام آیاتِ کریمہ میں درودِ شریف کے معانی و مطالب کو دیکھیں جو حضرتِ ابراہیم و آلِ ابراہیم علیہم السّلام پر خدا کی رحمتوں اور برکتوں سے متعلق ہیں، کیونکہ اللہ کا درود صرف اور ارادہ اور قول نہیں، بلکہ ایک ایسا ہمہ گیر فعل بھی ہے، جس میں سب کا فائدہ ہو۔

۵۰۹

صلاۃ

(۴)

   

علم و حکمت:

قبلًا جو حکم ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ: ہمہ وقت بڑی کثرت سے خدا کی ذکر کیا کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو (۳۳: ۴۱ تا ۴۲) اس کے بعد یوں ارشاد ہوا ہے: وہی تو خدا ہے جو خود تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تم کو (نادانی کی) تاریکیوں سے نکال کر (علم کی) روشنی میں لے جائے (۳۳: ۴۳) یعنی خدا اور اس

۲۹۲

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
     

کے عظیم فرشتے (محمّد و آلِ محمّد کے أئمّۂ ہداؑ) تم پر درود بھیجتے ہیں، جس میں تائید، توفیق، ہدایت، علم اور حکمت ہے۔

۵۱۰

صلاۃ

(۵)

   

نورِ علم:

مذکورۂ بالا آیۂ مبارکہ (۳۳: ۴۳) کے مطابق جب اہلِ ایمان پر آسمانی درود نازل کردینے کا مقصد نورِعلم ہے تو ایسا درود یقینًا صاحبِ تنزیل اور صاحبِ تأویل علیہم السّلام کے توسط سے آتا ہے جیسے اللہ تعالٰی نےاپنے محبوب رسولؐ کو حکم دیا: وَ صَلِّ علیھمط اِنَّ صَلوٰتَکَ سَکَنٌ لّھُم۔ اور (اے پیغمبرؐ) تم اُن پر درود بھیجاکرو (کیونکہ) تمہارا درود اُن کے لئے باعث تسکین ہے (۹: ۱۰۳) یعنی آنحضرتؐ کی صلاۃ (درود) ربّ العالمین کی طرف سے ہے، لہٰذا اس میں مومنین کی عقل و جان کے لئے تسکین ہے۔

۵۱۱

صُمّ

   

بہرے، واحد اَصَمّ:

سورۂ بقرہ (۲: ۱۸) میں ہے: صُمٌّۢ بُكۡمٌ عُمۡیٌ فَهُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ۔ بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں سو یہ اب رجوع نہ ہوں گے۔ اس آیۂ کریمہ کا حکیمانہ اشارہ یہ ہے کہ سب سے پہلے علم الیقین کی باتوں کو سننا ہے، پھر اسی علم کی روشنی میں بولنا ہے، اور اس کے بعد

۲۹۳

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
     

عین الیقین سے دیکھنا ہے، کیونکہ جسمًا و روحًا سماعت کی یہ اہمیّت ہے کہ جو آدمی شروع ہی سے بہرا ہو وہ لازمًا گونگا بھی ہوجاتا ہے، اور نتیجے کے طور پر اس کی عقل بھی نہیں بنتی ہے، یعنی وہ چشمِ بصیرت سے اندھا ہی رہتا ہے۔

۵۱۲

صُوَرُ

(۱)

   

تصویریں:

حضرتِ علی علیہ السّلام کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: اِنَّ فِیۡ الۡجَنَّۃِ لَسُوۡقاً مَا فِیۡھَا شِرۡیً وَ لَا بَیۡعٌ اِلَّا الصُّوَرُ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَاءِ فَاِذَا اشۡتَھَیٰ الرَّجُلُ صُوۡرَۃً دَخَلَ فِیۡھَا۔ جنت میں ایک بازار ہوگا، جس میں خرید و فروخت نہیں ہوگی، ہاں اُس میں عورتوں اور مردوں کی تصویریں ہونگی، جو جس کو پسند کریگا اس کی طرح کا ہو جائے گا۔ (جامع تِرمذی، جلدِ دوم، جنّت کے بازار)۔

۵۱۳

صُوَرُ

(۲)

   

زندہ اور باشعور تصویریں:

بہشت کی کوئی چیز جان اور عقل کے بغیر نہیں، لہٰذا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ بازارِ بہشت کی مذکورہ تصویریں نہ تو کاغذی ہوسکتی ہیں اور نہ ہی فلمی، بلکہ وہ ایسی تصویریں ہیں جو روح اور عقل کی خوبیوں

۲۹۴

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
     

سے آراستہ ہوتی ہیں، الغرض وہ باکمال، پسندیدہ اور کامیاب انسانوں کی لطیف ہستی کی کاپیاں ہیں۔

۵۱۴

صُوَرُ

(۳)

   

روحانی تصویریں، جامہ ہائے جنّت:

یہ جنّت کے وہ قابل تعریف اور بیمثال لباس ہیں جو حیاتِ طیّبہ اور عقلِ کامل کی لازوال دولت سے مالا مال ہیں، اسی لئے روحانی نے فرمایا: تھݸݽ گٹݸ جݹ مݶں شرݸ جݹ (یا ربّ مجھے) نیا لباس عطا فرما اور پرانا رزق عنایت فرما: یعنی جامۂ جدیدِ روحانی اور رزقِ قدیمِ عقلانی، یہ حکمت بازارِ جنّت کی تصویروں سے الگ ہرگز نہیں۔

۵۱۵

صُوَرُ

(۴)

   

کاملین کی روحانی کاپیاں:

یہ روحانی سائنس کا بڑا کامیاب تجربہ ہے کہ راہِ روحانیت کی اسرافیلی اور عزرائیلی منزل میں بھی اور بہت آگے چل کر مقامِ عقل پر بھی کاملین کی ہزاروں کاپیاں (روحانی تصویریں) بنائی جاتی ہیں، تاکہ بہشت کی عظیم نعمتیں قرار پائیں، اس بیان سے یہ معلوم ہوا کہ بازارِ بہشت کی روحانی تصویروں میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی مبارک تصیریں بھی ہیں۔

۲۹۵

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
۵۱۶

صُوَرُ

(۵)

   

تماثیل، زندہ تصویریں، ھیاکِلِ نورانی:

حدیث سے پہلے یا اس کے ساتھ قرآنی شہادت بھی ہو تو زیادہ بہتر ہوتا ہے، چنانچہ سورۂ سبا (۳۴: ۱۳) میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے لئے جنّات تماثیل (تصویریں) بناتے تھے، زبردست دلچسپ اور بیحد خوشی کی بات ہے کہ یہ تماثیل خود سلیمانؑ کی روحانی کاپیاں ہیں، جو نبوّت، امامت اور سلطنت کا مالک تھا، پس اے نورِ عینِ من! آج دنیا میں تم “فنا فی الامام” کا مرتبہ حاصل کرو، تاکہ کل بہشت میں سلیمانِ زمانؑ کی ایک حقیقی کاپی ہوسکو گے۔

۵۱۷

صُوَرُ

(۶)

   

جُثَّۂ اِبداعیہ کی کاپیاں، ھیاکِلِ نورانی:

امامؑ علیہ السّلام کو صاحبِ جثّۂ ابداعیہ کہتے ہیں، اسی معنٰی میں حضرتِ طالوت علیہ السّلام کے علم اور جسم کی توصیف آئی ہے: فرمایا اسے اللہ نے تم پر چن لیا اور اسے علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی (۲: ۲۴۷) وَ زَادَهٗ بَسۡطَةً فِی الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِؕ۔ علم کی کشادگی اور ہمہ رسی ہی کی طرح جسم کا بھی کشادہ اور ہمہ رس ہونا سوائے جثّۂ ابداعیہ کے اور کسی جسم کے لئے ناممکن ہے۔

۲۹۶

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
۵۱۸

صُوَرُ

   

نرسنگھا:

ایک اعرابی نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم سے پوچھا کہ صور کیا چیز ہے؟ حضورؐ نے جواب دیا: قَرۡنٌ یُنۡفَخُ فِیۡہِ۔ ایک نرسنگھا ہے جس میں (قیامت برپا کرنے کے لئے) پھونک ماری جاتی ہے۔ انبیاء علیہم السّلام لوگوں کی عقلی ظرفیت کے مطابق کلام کرتے ہیں، لہٰذا اس اعرابی کو صرف اتنا فرمایا گیا۔

۵۱۹

صُوۡرَۃ

(۱)

   

شکل، صورت:

صحیح بخاری (جلدِ دوم، کتاب الانبیاء) میں ہے: پس جو کوئی بھی جنّت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السّلام کی شکل و صورت میں داخل ہوگا۔ صحیح مسلم (جلد ششم، کتاب الجنّہ) میں ہے: خَلَقَ اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ اٰدَمَ عَلٰی صُوۡرَتِہٖ۔ اللہ جلّ جلالہ نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ یہ تخلیق نہ جسمانی ہے اور نہ روحانی بلکہ حظیرۃ القدس (جنّت) میں عقلانی ہے، اور جو بھی اس میں داخل ہوجاتا ہے وہ اپنے باپ آدم کی شکل و صورت میں ہوتا ہے، اور آدم علیہ السّلام کو اللہ نے اپنی روحانی صورت پر پیدا کیا تھا۔

۲۹۷

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
۵۲۰

صُوۡرَۃ

(۲)

   

شکل، صورت:

عالمِ شخصی میں کائنات بھر کے لوگ اور فرشتے آکر آدمِ زمان علیہ السّلام میں فنا ہوجاتے ہیں، اور اسی طرح وہ سب جنّت میں داخل ہوکر اپنے روحانی باپ آدمِ زمان کی شکل و صورت پر ہوتے ہیں، اور اس کا پُرحکمت اشارہ یہ ہے کہ یہاں ایک میں سب ہوتے ہیں، جس طرح پہلے تھے، یہی صورتِ رحمان کا سرِّ عظیم اور یک حقیقت (مونو ریالٹی) ہے۔

۵۲۱

صُوۡرَۃ

(۳)

   

شکل، صورت:

حدیثِ قدسی ہے: اے بندۂ من! میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی مثال (یعنی رحمانی صورت) پر کبھی نہ مرنے والا زندہ، کبھی ذلیل نہ ہونے والا معزّز، اور کبھی مفلس نہ ہونے والا غنی بنا دوں گا (دیکھئے: اطعنی، نیز کتاب زاد المسافرین، ص۱۸۳)۔

۵۲۲

صُوۡرَۃ

(۴)

   

شکل، صورت:

سورۂ نساء (۴: ۱۲۵) میں ہے: اور اس شخص سے دین میں بہتر کون ہوگا جس نے اپنا (روحانی) چہرہ خدا کے سپرد کردیا ہو، اور وہ نیکوکار بھی ہو اور ابراہیمؑ کے طریقہ پر چلتا ہو جو باطل سے کترا کے چلتے تھے، اور خدا نے ابراہیمؑ کو تو اپنا خالص دوست بنا لیا۔

۲۹۸

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
     

یہ ہر ایسے عارف کی توصیف ہے جس کا چہرۂ جان صورتِ رحمان ہوچکا ہے۔

۵۲۳

صَوَّرۡنٰکُمۡ

(۱)

   

ھم نے تمھاری صورت بنا دی:

اے نورِ عینِ من! خدا کے دوست آدمِ زمان علیہ السّلام کے عالمِ شخصی میں ہیں، کیونکہ وہ کلّ اور یہ سب اس کے اجزاء ہیں، اور ربِّ کریم کے اس احسانِ عظیم کا ذکر اس طرح ہے: اور ہم نے تم کو (روحانیت میں) پیدا کیا پھر ہم نے تمہاری (رحمانی) صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے (سورۂ اعراف ۷: ۱۱)۔

۵۲۴

صَوَّرۡنٰکُمۡ

(۲)

   

ھم نے تمھاری صورت بنا دی:

عالمِ ظاہر کے درجۂ اسفل میں جمادات ہیں، دوسرے درجے میں نباتات، تیسرے درجے میں حیوانات، او چوتھے درجے میں انسان ہیں، یہ حقیقت سب پر روشن ہے کہ ان میں سے ہر درجے کے تحت بے شمار قسم کی مخلوقات پائی جاتی ہیں، چنانچہ عالمِ انسانیت کے بے حساب طبقات میں سے سب سے ارفع و اعلٰی طبقہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کا ہے، جن کے عالمِ شخصی میں اسمائے حسنٰی کی معرفت

۲۹۹

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ص”
     

ہے، پس سورۂ حشر کی آخری آیت (۵۹: ۲۴) میں سب سے پہلے اسمِ اللہ ہے، پھر الخالق، پھر الباری، اور آخرًا المصوّر ہے، جس کی تاویلی حکمت یہ ہے: اللہ وہی تو ہے جو انبیاء و اولیاء کو پہلے جسمانیت میں پیدا کرتا ہے پھر روحانیت میں، اور آخر میں عقلانیت میں پیدا کرکے انہیں اپنی رحمانی صورت عطا فرماتا ہے۔

۳۰۰

     
    بابُ الضّاد

 

۳۰۱

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۳۰۲

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ض”
۵۲۵

ضَالَّۃُ

(۱)

   

کھوئی ہوئی چیز:

کَلِمَۃُ الۡحِکۡمَۃِ ضَالَّۃُ الۡمُؤۡمِنِ۔ حکمت اور عقلمندی کی بات مومن کی کھوئی ہوئی چیز ہے (جہاں اس کو پائے اپنی کھوئی ہوئی چیز سمجھ کر فورًا لے لے یا ہمیشہ اس کی تلاش میں رہے)۔

لغات الحدیث، جلدِ دوم۔

۵۲۶

ضَالَّۃُ

(۲)

   

کھوئی ہوئی چیز:

اس حدیثِ شریف میں ایک عظیم راز کی طرف اشارہ ہے، وہ یہ کہ کسی کی کھوئی ہوئی چیز وہ ہوتی ہے جو پہلے کبھی اس کی ملکیت میں رہی ہو، ہاں یہ سچ ہے کہ مومن جہاں بہشت اور انائے علوی میں ہے وہاں اس کے پاس حکمت کا بہت بڑا خزانہ ہے، اور جہاں دنیا اور انائے سفلی میں ہے وہاں اس کی حکمت کھو گئی ہے۔

۵۲۷

ضَرَبَ

   

اُس نے بیان کیا:

سورۂ ابراہیم میں ہے: اَلَمۡ تَرَ كَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے پاک کلمے کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے (وہ ایسا ہے) جیسے

۳۰۳

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ض”
     

پاکیزہ درخت جس کی جڑ مظبوط ہے اور شاخیں آسمان میں ہیں (۱۴: ۲۴)۔ پاکیزہ کلمہ وہ اسمِ اعظم ہے جو حضرتِ امامؑ سے کسی دیندار مرید کو مل جاتا ہے، اور پاکیزہ درخت خود امامِ عالیمقامؑ کی مبارک ہستی ہے، ان میں سے ایک شخصی اسمِ اعظم ہے اور دوسرا لفظی اسمِ اعظم، لیکن خدا کا بہت بڑا معجزہ یہ ہے کہ عالمِ شخصی میں جاکر دونوں اسمِ اعظم ایک ہوجاتے ہیں، یعنی امام کلمۂ ناطق بن جاتا ہے اور کلمہ امامؑ کا مبارک نور۔

۵۲۸

ضِغۡث

   

گھاس یا شاخوں کا مٹھا، جھاڑو:

ذرّاتِ روح کی بہت سی مثالوں میں سے ایک مثال ہے (۳۸: ۴۴) ترجمۂ ارشاد ہے: اور اپنے ہاتھ میں جھاڑو لو اور اس سے مارو اور قسم نہ توڑو، عقل گویا شوہر ہے اور نفس بیوی، پس اصلاحِ نفس کے لئے سزا بھی ہے اور موقع پر تخفیف بھی۔

۵۲۹

ضَفَادِعۡ

   

مینڈک، واحد ضِفۡدِعۡ:

پھر ہم نے ان (یعنی فرعون اور اس کی قوم) پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاں اور چیچڑیاں اور مینڈک اور خون کہ یہ سب کُھلے کُھلے معجزے تھے (سورۂ اعراف۷، آیت۱۳۳)۔

۳۰۴

لفظ   معنی و حکمت                                                             “ض”
     

جو مومنین راہِ روحانیت اور سبیلِ معرفت پر چلتے ہیں، وہ یقینًا آپ کو بتا سکتے ہیں کہ عالمِ شخصی میں انبیاء علیہم السّلام کے تمام معجزات کا مشاہدہ ہوجاتا ہے، تاکہ ان کی تفصیلی معرفت حاصل ہو، انہوں نے ایسے بہت سے جانوروں کو ابداعی شکل میں دیکھا ہے۔

۳۰۵

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۳۰۶

     
    بابُ الطّاء

۳۰۷

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۳۰۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ط”
۵۳۰

طِبُّ النّبی

   

پیغمبرؐ کا طریقِ علاج:

اسلامی فقہ کے علمی ذخیرے میں جہاں ذیلی کتابیں درج ہوتی ہیں، وہاں لازمًا کتابُ الطّب بھی ہوتی ہے، جس میں حضورِ اکرمؐ کی وہ پُرحکمت احادیث ہیں جو جسمانی، اخلاقی اور روحانی صحت کے بارےمیں ہیں۔

۵۳۱

طَبَقَ

(۱)

   

درجے، واحد طَبَقَۃ:

لَتَرۡكَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍؕ۔ (۸۴: ۱۹) تم کو ضرور درجہ بدرجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے۔ یہ آسمانوں/کائنات میں انسان کی سیاحت کا ذکر ہے، کیونکہ طبق مربوط ہے سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا کے ساتھ، دیکھو سورۂ ملک (۶۷: ۳) اور سورۂ نوح (۷۱: ۱۵) میں کہ سات آسمان سات بڑے طبقات ہیں، اگر سات زمینوں کو بھی شمار کرتے ہیں تو چودہ طبقات ہوتے ہیں (۶۵: ۱۲) اور ان کے ذیلی درجات بے شمار ہوسکتے ہیں۔

۵۳۲

طَبَقَ

(۲)

   

درجے، واحد طَبَقَۃ:

عالمِ شخصی میں بھی ہفت آسمان اور ہفت زمین اور ان کے بہت سے ذیلی درجات ہیں، یعنی چھ ناطق اور حضرتِ قائم سات آسمان

۳۰۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ط”
     

ہیں، اور ان کے حُجَجۡ سات زمین ہیں، یہ سب معارج اور معراج (سیڑھیاں اور سیڑھی) ہیں تاکہ ہر عارف کو خداوندِ تعالٰی سے واصل کردیا جائے۔

۵۳۳

طَرِیٌّ

   

تر و تازہ:

سورۂ نحل (۱۶: ۱۴) اور سورۂ فاطر (۳۵: ۱۲) میں ترو تازہ گوشت کا ذکر آیا ہے، اور وہ مچھلی کا گوشت ہے، جس کی تأویل وہ ترو تازہ علم ہے جو حدودِ روحانی سے براہِ راست ملتا ہے، جبکہ گوسفند وغیرہ کے گوشت کی تأویل علم الیقین ہے، جو حدودِ جسمانی سے ملتا ہے، سمندر سے مچھلیوں کے علاوہ موتی بھی نکالے جاتے ہیں،جس کی تأویل ہے عارفین کی گوہرِ عقل تک رسائی۔

۵۳۴

طَعَام

(۱)

   

کھانا، خوراک، خوردنی:

سورۂ بقرہ کے رکوعِ ہفتم (۲: ۶۱) میں ہے: وَ اِذۡ قُلۡتُمۡ یٰمُوۡسٰى لَنۡ نَّصۡبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ۔ یاد کرو جب تم نے کہا تھا کہ اے موسٰی! ہم ایک ہی طرح کے کھانے (منّ و سلوٰی) پر صبر نہیں کرسکتے۔

اس حکیمانہ حجاب کے پیچھے سرِّ اسرار یہ ہے کہ طعامِ واحد سے عقلِ کُلّ

۳۱۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ط”
     

اور نفسِ کلّ کی تجلّی اور معرفت مراد ہے، کیونکہ منّ عقل کی مثال ہے، اور سلوٰی نفس کی دلیل ہے۔

۵۳۵

طَعَام

(۲)

   

عقل، جان، اور جسمِ لطیف کی غذا:

طعامِ واحد کے عام و خاص دو معنی ہیں: (۱) ایک یا ایک قسم کا کھانا (۱) ایک ایسی انتہائی عظیم اور بیمثال باطنی نعمت جو تمام روحانی اور عقلی نعمتوں کا مجموعہ اور خزانہ ہے، کیونکہ واحد بروزنِ فاعل (طعامِ واحد) سب کی سب باطنی نعمتوں کو ایک اور یکجا کرنے کے معنی میں ہے، او یہ حقیقت ہے کہ جس اعلٰی مقام پر عقل و نفس کی تجلّی اور معرفت ہے، وہاں کسی شک کے بغیر خزانۂ خزائن مل سکتا ہے، اسی مقامِ عالی سے متعلق ترجمانی ہے: اݹمںسں اپݵ کوئی چیز ناممکن نہیں، یعنی کوئی نعمت ایسی نہیں جو حاصل نہ ہوسکے۔

۵۳۶

طَعَام

(۳)

   

ھر گونہ باطنی نعمت:

ہر مناسب سوال باطنی بھوک کی دلیل ہے، اور ہر تسلّی بخش جواب بہشت کا طعام ہے، تو کیا یہ امر ممکن نہیں کہ امام علیہ السّلام کے علمی خزانے میں پہلے ہی سے کوئی ایسا عجیب و غریب جامع جواب مہیّا اور موجود ہو، جس سے ہر گونہ سوالات ٹکرا ٹکرا کر ختم ہوجائیں۔

۳۱۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ط”
     

کیوں نہیں، ایسے معجزانہ جوابات بہت ہیں، وہ قرآنِ حکیم، حدیثِ شریف اور صاحبِ امر کے مدرسۂ روحانی میں ہیں، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ کوئی نعمت غیر ممکن نہیں۔ ÓOMANASAN APÍ

۵۳۷

طَعَام

(۴)

   

ہر گونہ باطنی نعمت:

طعامِ واحد کا ظاہری ترجمہ ہے: صرف ایک ہی قسم کا کھانا، لیکن اس کا تاویلی مفہوم ہے: کُلّ گونا گون باطنی نعمتوں کی لپیٹی ہوئی کائنات، جس مین تجلّیاتِ ربّانی و اسرارِ عرفانی کے انمول جواہر بھرے ہوئے ہیں، ان میں کلیدی علم و حکمت اور بے شمار سوالات کے لئے مختصر ترین اور انتہائی جامع جوابات موجود ہیں، مثال کے طور پر اݹ مُش او، یہ کلمۂ باری کا ایک روحانی ترجمہ ہے، اور آپ کو اس کے حکمتی عجائب و غرائب جان کر از بس حیرت ہوگی، ان شاء اللہ العزیز اس کے اسرار و رموز سے کبھی بحث کریں گے، آپ درختِ طوبٰی کو بھی پڑھ لیں۔

۵۳۸

طَلٌّ

   

شبنم، اوس، پھوار، خفیف بارش:

سورۂ بقرہ کی ایک حکمت آگین آیت (۲: ۲۶۵) کا ترجمہ ہے: اور جو لوگ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اور خلوصِ نیت سے

۳۱۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ط”
     

اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو (جب) اس پر مینہ پڑے تو دگنا پھل لائے اور اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوار (یا شبنم) ہی سہی اور خدا تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے (۲: ۲۶۵)۔

ترقی یافتہ عالمِ شخصی ایک ایسے باغ کی طرح ہےجو اونچی جگہ پر واقع ہو، اس میں روحانی علم جو نمایان اور آواز کے ساتھ ہو وہ گویا موسلا دھار بارش ہے، اور اگر باطنی علم بغیر کسی آواز کے آتا ہے تو اس کی مثال پھوار (خفیف بارش) یا شبنم ہے۔

۵۳۹

طَلَبُ الۡعِلۡم

(۱)

   

طلبِ علم:

حضرتِ سیّد الانبیاء صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کا ارشاد ہے: طَلَبُ الۡعِلۡمِ فَرِیۡضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسۡلِمٍ وَ مُسۡلِمَۃٍ۔ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے چاہے مرد ہو یا عورت ہو۔ حصولِ علم کا حکم لفظ “طلب” کے ساتھ ہوا اس میں بہت بڑی حکمت ہے، اس میں زمان و مکان اور ظاہر و باطن کی طرف اشارہ ہے۔

۵۴۰

طَلَبُ الۡعِلۡم

(۲)

   

علم کو ڈھونڈنا، علم کی تلاش:

اُطۡلُبُوا الۡعِلۡمَ وَ لَوۡ بِالصِّیۡنِ۔ تم علم کو ڈھونڈ لوخواہ (اس

۳۱۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ط”
     

کی خاطر) چین جانا پڑے۔ اس ارشادِ نبویؐ میں ممالکِ عالم میں سے ملکِ چین کا نام لیا گیا ہے جو خالی از حکمت نہیں۔

۵۴۱

طیّبٰت

(۱)

   

حلال و پاک چیزیں، پاک عورتیں، روحانی غزائیں، عقلی غذائیں:

طیّبات کے چار معنی ہیں: (۱) ایسی چیزیں جو حلال بھی ہیں اور پاکیزہ بھی، جن کو قرآن نے حَلَالًا طَیِّبًا (۵: ۸۸) کا نام دیا، (۲) پاک عورتیں، جن کا ذکر سورۂ نور (۲۴: ۲۶) میں ہے (۳) روحانی غذائیں بصورتِ خوشبوئیں وغیرہ، جن کی ایک روشن مثال ریحِ یوسفؑ (۱۲: ۹۴) ہے (۴) عقلی غذا جس کی ایک قرآنی مثال منّ و سلوٰی (۲: ۵۷) ہے، جس میں عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کے اسرارِ عظیم ہیں۔

پس سورۂ مومنون (۲۳: ۵۱) میں ارشاد ہے: اے رسولان! پاکیزہ چیزوں (روحانی اور عقلی غذاؤں) میں سے کھاؤ اور نیک کام کرو۔ ظاہر ہے کہ یہ نعمتیں انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کے لئے خاص ہیں۔

۵۴۲

طیّبٰت

(۲)

   

پاکیزہ چیزیں، لطیف غذائیں، روحانی غذائیں:

طَیِّبٰت کا لفظ قرآنِ کریم میں بیس دفعہ آیا ہے، اس میں تقریبًا

۳۱۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ط”
     

دس مقامات پر طَیِّبٰت روحانی غذاؤں کے معنی میں آیا ہے، اور وہ روحانی خوشبوئیں ہیں، ایسی آیاتِ کریمہ کی ایک مثال یہ ہے: یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوۡا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًاؕ۔ اے پیغمبرو! تم پاکیزہ چیزیں (روحانی غذائیں) کھاؤ اور نیک کام کرو (۲۳: ۵۱)۔

۵۴۳

طیّبٰت

(۳)

   

روحانی خوشبوئیں:

جن باسعادت مومنین کو انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی پُر نور معرفت حاصل ہوئی ہو وہ بتا سکتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی جانب سے طَیِّبٰت یعنی خوشبوؤں کا معجزہ حق ہے، مقامِ روح پر یہ منّ و سلوٰی کی پاکیزہ نعمت بھی ہے اور مائدۂ عیسٰیؑ بھی، قرآنِ حکیم کثیر مقامات پر ثمرات کا ذکر فرماتا ہے جن سے ذرّات لطیف اور خوشبوئیں مراد ہیں۔

۵۴۴

طیّبٰت

(۴)

   

روحانی خوشبوئیں:

حضرتِ سیّد الانبیاء و المرسلینؐ ظاہری خوشبو کو بھی پسند فرماتے تھے، یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ روحانیت اور جنّت میں تمام دوسری نعمتوں کے ساتھ ساتھ خوشبوؤں کی نعمت بھی ہے، جاننا چاہیے کہ پھلوں، پھولوں، درختوں اور جڑی بوٹیوں کی مختلف خوشبوئیں خالی از حکمت ہرگز نہیں۔

۳۱۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ط”
۵۴۵

طیّبٰت

(۵)

   

لطیف غذا کے لئے روحانی خوشبوئیں:

پیراہنِ یوسف کو حضرتِ یعقوبؑ کے چہرے پر حواسِ باطن کی بحالی کی غرض سے ڈالا گیا (۱۲: ۹۳) اس میں قمیص صرف مثال ہے، اور ممثول میں بہت کچھ ہے، منجملہ خوشبو بھی ہے اور وہ ہے ہر قسم کی، کیونکہ قرآن کی ایک چیز میں بہت سی برکتیں ہوا کرتی ہیں، میں نے روحانی خوشبوؤں پر پہلے بھی لکھا ہے، آپ میری تمام تحریروں کا مطالعہ کریں۔

۳۱۶

     
    بابُ الظّاء

 

۳۱۷

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۳۱۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ظ”
۵۴۶

ظاھر

(۱)

   

آشکار:

سورۂ حدید (۵۷: ۳) میں جیسا ارشاد ہے وہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کے نورِ اقدس کے بارے میں ہے، قولہ تعالٰی: هُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الۡبَاطِنُ- وَ هُوَ بِكُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ۔ وہ (خدا کا نور) سب سے اوّل ہے اور سب سے آخر ہے اور سب سے ظاہر ہے اور سب سے باطن ہے، اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔

۵۴۷

ظاھر

(۲)

   

آشکار:

آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) میں مثالی بیان اسمِ “اللہ” سے شروع ہوتا ہے جس سے یوں لگتا ہے کہ یہ عالیشان مثال ذاتِ سبحان کے بارے میں ہے، لیکن جب کوئی صاحب بصیرت عالِم اسی آیۂ کریمہ میں مَثَلُ نُوۡرِہٖ (اس کے نور کی مثال) پر آکر سوچتا ہے تو اس کو یقین آتا ہے کہ یہ انتہائی خوبصورت مثال نورِ الٰہی سے متعلق ہے، اور آگے چل کر نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ سے اس حقیقت کی تصدیق ہوجاتی ہے، اور یَھۡدِی اللہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَاءُ کے مبارک الفاظ سے یہ حقیقت مذید درخشان ہوجاتی ہے، پس اوّل، آخر، ظاہرا ور باطن نور کے اسماء میں سے ہیں۔

۳۱۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ظ”
۵۴۸

ظاھر

(۳)

   

آشکار، عیان:

نور کی بڑی عمدہ مثال سورج ہے جو نہ صرف خود ظاہر ہے بلکہ ان تمام چیزوں کو بھی ظاہر کردیتا ہے جن کو رات کی تاریکی چھپا لیتی ہے، مادّی سورج سے دائرۂ نظامِ شمسی اور سیّارۂ زمین کو کیا کیا اور کتنے فائدے حاصل ہیں، اس کی تحقیق (ریسرچ) کرنے کے لئے صدیوں کا زمانہ بھی کم ہے، تو پھر عالمِ دین کے سورج (امامؑ) کے فیوض و برکات کا شمار یا اندازہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے۔

۵۴۹

ظاھر

(۴)

   

ظاہر، آشکار:

خداوند عالم کا پاک نور ہمشہ دنیا میں ظاہر ہے، اگر ظاہر اور حیّ و حاضر نہ ہوتا، غائب و نادیدنی ہوتا تو منکرین اس کو بجھانے کے لئے کوشش ہی نہ کرتے (۶۱: ۸) کیونکہ کوئی غیر ظاہر چیز مٹانے کا ارادہ محال ہے۔

۵۵۰

ظِلّ

(۱)

   

سایہ، جمع ظِلال:

سورۂ واقعہ (۵۶: ۳۰) میں اصحاب الیمین کی بہشتی نعمتوں کا تذکرہ ہے: وَ ظِلٍّ مَّمۡدُوۡدٍ۔ اور (ان کے لئے) کھینچا ہوا سایہ ہوگا۔ سوال: یہ کھینچا ہوا سایہ کیا ہے؟ جواب: یہ وسیع سایہ اس طرح

۳۲۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ظ”
     

سے ہے کہ امرِ کُلّ کا سایہ عقلِ کُلّ ہے، عالمِ عقل کا سایہ عالمِ روح ہے، اس کا سایہ عالمِ جسمِ لطیف اور جسمِ کثیف ہے، پس ظِلِّ ممدود سے کائناتِ ظاہر و باطن کی کلّیت مراد ہے، اس سے یہ معلوم ہوا کہ اہلِ دنیا پر بھی بہشت والوں کی سلطنت ہوگی۔

۵۵۱

ظِلّ

(۲)

   

سایہ:

سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵ تا ۴۶) میں دیکھ لیں: (اے رسولؐ) کیا تم نے اپنے ربّ کو نہیں دیکھا کہ کیسا پھیلایا سایہ اور اگر چاہتا تو اسے ٹھہرایا ہوا کر دیتا، پھر ہم نے اس پر سورج کو رہنما بنا دیا، پھر ہم نے اسے بہ آسانی اپنی مٹھی میں لے لیا۔

اس پُرحکمت ارشاد میں یہ اشارہ ہے کہ معراج کی رات سیّد الۡانبیاء صلی  اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو نہ صرف اللہ جلّ شانہٗ کا پاک دیدار ہوا بلکہ ساتھ ہی ساتھ آپؐ نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ خدا ارض و سما کی کائنات کو کیوں کر پھیلاتا ہے اور کس طرح بہ آسانی لپیٹ کر اپنی مٹھی میں لیتا ہے۔

۵۵۲

ظِلّ

(۳)

   

سایہ:

خداوندِ قدّوس نے امرِ کلّ (کلمۂ کُن) سے عقلِ کلّ پیدا کیا تو عقل گویا

۳۲۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ظ”
     

سایۂ امر ہے، عقلِ کلّ سے نفس کلّ پیدا کیا، اس لئے نفس سایہ ہے عقل کا، اور نفسِ کلّی سے جسمِ کلّی (لطیف و کثیف) پیدا کیا، پھر جسمِ کلّ سایۂ نفسِ کلّ ہے، پس لفظ ظِلّ میں جملہ نعمت ہائے ظاہری و باطنی کا ذکر آگیا۔

۵۵۳

ظِلال

(۱)

   

سائے:

اللہ تعالٰی نے عالمِ دین کی تمام مقدّس چیزوں کے سائے عالمِ شخصی میں بنا دئیے، خصوصًا عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اور اساس، نیز جد، فتح، خیال، امام، حجّت، اور داعی (۱۶: ۸۱؛ ۲۵: ۴۵)۔

۵۵۴

ظِلال

(۲)

   

سائے:

ارشادِ بای تعالٰی کا ترجمہ ہے: اور اللہ نے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں سے تمہارے لئے سائے بنا دیئے (۱۶: ۸۱) اس میں ایک اشارۂ حکمت یہ بھی ہے کہ انسان ہمیشہ عالمِ بالا میں ہے، اور اس کا سایہ عالم سفلی میں بھیجا گیا ہے، اس دلیل سے ہر شخص کی دو انائیں (انائے علوی اور انائے سفلی) درست اور حقیقت ہیں۔

۳۲۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ظ”
۵۵۵

ظِلَالًا

   

سائے:

اور خدا ہی نے تمہارے لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے (۱۶: ۸۱) تمام چیزوں کے حسین و جمیل روحانی اور عقلانی سائے عالمِ شخصی میں ہیں۔

۵۵۶

ظِلَالَہٗ

   

اُس کا سایہ:

 یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الۡیَمِیۡنِ وَ الشَّمَآىٕلِ۔ ہر مخلوق کا سایہ کبھی داہنی طرف اور کبھی بائیں طرف پلٹا کرتا ہے کہ (گویا) خدا کے سامنے سربسجود ہیں (۱۶: ۴۸) داہنی طرف کا سایہ وجود کثیف ہے اور بائیں طرف کا سایہ وجودِ لطیف یا باطن ہے۔

۵۵۷

ظُلُمٰت

   

تاریکیاں:

سورۂ زمر (۳۹: ۶) میں ارشاد ہے: یَخۡلُقُكُمۡ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّهٰتِكُمۡ خَلۡقًا مِّنۢۡ بَعۡدِ خَلۡقٍ فِیۡ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍؕ۔ تم کو ماؤں کے پیٹ میں ایک تخلیق کے بعد دوسری تخلیق میں پیدا کرتا ہے تین تاریکیوں میں۔ سوال: یہ تین تاریکیاں کیا ہیں؟ جواب: جسمانی تاریکی، روحانی تاریکی اور عقلانی تاریکی، اس سے معلوم ہوا کہ روشنی بھی تین قسم کی ہوا کرتی ہے: مادّی روشنی، روحانی روشنی،

۳۲۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ظ”
     

اور عقلانی روشنی۔

۵۵۸

ظَلُوۡم

   

بڑا ظالم/بہت تاریک:

سورۂ احزاب (۳۳: ۷۲) میں ہے: ہم نے اپنی امانت (اختیار اور ذمہ داریٔ معرفت) کو سارے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اس کے (بار) اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بیشک وہ بڑا ظالم (اور) نادان ہے۔ یا یہ کہ وہ بڑا تاریک (ظَلوم) اور نادان تھا، اس لئے اس کو نور اور عقل کی ضرورت تھی، اور وہ اس بارِ امانت کے اٹھانے سے حاصل ہوسکتی ہے۔

۵۵۹

ظَنّ

   

گمان:

حُسنِ ظَنّ (نیک گمان) حلال ہے، اور سُوءِ ظَنّ (بُرا گمان) حرام، سورۂ حُجرات (۴۹: ۱۲) میں ہے: اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچا کرو کیونکہ بعضے گمان گناہ ہوتے ہیں۔

۳۲۴

     
    بابُ العین

 

۳۲۵

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۳۲۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
۵۶۰

عادِیَات

   

تیز دوڑنے والیاں:

وَ الۡعَادِیَاتِ ضَبۡحًا۔ قسم ہے اُن (گھوڑوں) کی جو پھنکارے مارتے ہوئے دوڑتے ہیں (۱۰۰: ۱) بظاہر یہ غازیوں کے گھوڑے ہیں، بباطن ذکرِ تنفّس، ذکرِ سریع اور نفخِ صور کے ساتھ ذکر کرنے والے فرشتے ہیں۔

۵۶۱

عارف

   

خدا شناس:

اَلۡعَارِفُ کَالۡبَحۡرِ۔ اللہ کا پہچاننے والا دریا کی طرح ہے (لغات الحدیث) سب سے پہلے علم کے معنی میں۔

۵۶۲

عالَمین

(۱)

   

سب جہان:

حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام سے روایت ہے کہ عالمین سے صرف انسان ہی مراد ہیں، کیونکہ ان میں سے ہر ایک فرد اپنی جگہ ایک مستقل عالم ہے (قاموس القرآن۳۴۴)۔

۵۶۳

عالَمین

(۲)

   

عالم کی جمع:

عوالمِ شخصی، یعنی ہر انسان ایک عالم ہے، جس میں کائناتِ ظاہر لپیٹ دی جانے والی ہے، لفظِ عالمین قرآن میں ۷۳ بار آیا ہے۔

۳۲۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
۵۶۴

عالَمین

(۳)

   

عوالم:

ہر شخص ایک جہان ہے، اس لئے تمام لوگوں کا نام عالمین ہوا، خدائے بزرگ و برتر کے اسمائے صفاتی کا تعلق انہی عالموں سے ہے۔

۵۶۵

عائشہ

   

حضرتِ عائشہؓ:

علّامہ ابنِ القیم لکھتے ہیں: حضرتِ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا، معاویہ، اور حسنِ بصری سے روایت ہے کہ اَسرٰی (معراج آنحضرتؐ کی) روحِ مبارک کو ہوا تھا، اور جسمِ مبارک اپنی جگہ سے مفقود نہیں ہوا تھا۔ (بحوالۂ کتاب رحمۃً للعالمین، جلد اوّل، فُٹ نوٹ، ص۶۵)۔ عبد اللہ ابن عباس کا بھی قرآن (۱۷: ۶۰) کے حوالے سے یہی قول ہے (مُسنَد احمد بن حنبل، جزء الاوّل، ص۳۶۵)۔

۵۶۶

عَجَل

(۱)

   

جلدی:

یہ ارشادِ مبارک سورۂ انبیاء میں ہے: خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ عَجَلٍؕ- سَاُورِیۡكُمۡ اٰیٰتِیۡ فَلَا تَسۡتَعۡجِلُوۡنِ (۲۱: ۳۷) انسان جلدی سے پیدا کیا گیا ہے، عنقریب میں تم کو اپنی نشانیاں دکھلاؤں گا، پس تم مجھ سے جلدی کی خواہش نہ کرو۔

مومنِ سالک کی روحانی روشنی اور ترقی شروع شروع میں ذکرِ سریع

۳۲۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

کی سرعت اور شدید ریاضت سے ہوتی رہتی ہے، لیکن جب قیامتِ صغرٰی اور ظہورِ آیات (معجزات) کا آغاز ہوتا ہے تو پھر بہت سے ذرائع و اسباب خود بولتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔

۵۶۷

عَجَل

(۲)

   

جلدی:

زمانۂ دنیا گزرتا جا رہا ہےاس لئے اس میں جلدی سے نیک کاموں کو انجام دینے کی ضرورت ہے، جیسے قرآنِ پاک کا حکم ہے: و سارِعوا۔ اور دوڑو (۳: ۱۳۳) سابقوا۔ آگے بڑھو، سبقت کرو (۵۷: ۲۱) ففِرّوا الی اللہ۔ تو اللہ کی طرف بھاگو (۵۱: ۵۰) اس کے برعکس زمانۂ آخرت ٹھہرا ہوا ہے وہ کبھی گزرتا نہیں۔

۵۶۸

عَرۡشُہٗ

(۱)

   

اس کا تخت:

سورۂ ھود (۱۱: ۷) کی اس ربّانی تعلیم کو خوب غور سے دیکھ لیں: اور وہ تو وہی (قادرِ مطلق) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور اس کے عرش کا (تمثیلی) ظہور پانی پر ہوگیا تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں زیادہ اچھی کار گزاری والا کون ہے۔

وکان عرشہ: اور اس کا عرش تھا/ ہوگیا/ ہے، چونکہ اصل اور بامقصد قصّہ عالمِ دین کا ہے، جس کا عارفانہ مشاہدہ عالمِ شخصی

۳۲۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

ہی میں ہوتا رہتا ہے، پس نوانی خواب میں عارفین یہ دیکھتے ہیں کہ سمندر پر ایک کشتی نما تخت اور اس پر نور کی تجلّی ہے، یہ صاحبِ عرش کا تمثیلی ظہور اور اِشارہ ہے اس امر کی طرف کہ اب عالم شخصی مکمل ہوکر مرحلۂ علم و معرفت میں داخل ہوچکا ہے۔

۵۶۹

عَرۡشُہٗ

(۲)

   

اس کا تخت:

خدائے احد و صمد کے تخت کا پانی (سمندر) پر ہونا عالمِ شخصی کی چوٹی مثالوں میں سے ہے، جس کا ذکر ہوچکا اور یقینًا یہی تخت فُلکِ مشحون (بھری ہوئی کشتی ۳۶: ۴۱) بھی ہے اور اس کا نام جَارِیَۃ (کشتی ۶۹: ۱۱) بھی ہے یعنی سفینۂ نجات۔

۵۷۰

عَرۡشُہٗ

(۳)

   

اس کا تخت:

سورۂ حاقّہ میں فرمایا گیا ہے: اِنَّا لَمَّا طَغَا الۡمَآءُ حَمَلۡنٰكُمۡ فِی الۡجَارِیَةِۙ۔ جب پانی چڑھنے لگا تو ہم نے تم کو کشتی پر سوار کیا (۶۹: ۱۱) یعنی جب تمہارے زمانے میں قیامت صغرٰی کا طوفان ہونے لگا تو ہم نے تم کو کشتیٔ اہل بیتؑ میں سوار کر لیا، یہ سفینۂ نجات بحرِ علم کا عرش بھی ہے، اور صاحبِ عرش وہ ذاتِ عالی صفات ہے، جس میں کشتی والوں کو فنا ہوکر ابدی طور پر زندہ ہوجانا ہے، یہی

۳۳۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

سبب ہے کہ بھری ہوئی کشتی میں سوائے وجہ اللہ کےاور کوئی نظر ہی نہیں آتا  کیونکہ سب کے سب اسی میں فنا اور واصل ہوچکے ہیں۔

۵۷۱

عَرۡشُہٗ

(۴)

   

اس کا تخت:

سورۂ رحمان مین صرف عظیم نعمتوں ہی کا ذکر ہے، منجملہ ہر عالمِ شخصی کے سمندر میں ایک بے مثال کشتی کا ہونا بہت بڑی نعمت ہے (۵۵: ۲۴) جو وہی پانی پر عرشِ الٰہی بھی ہے (۱۱: ۷) یہ وہی بھری ہوئی کشتی ہے (۳۶: ۴۱) جس کے تمام سوار “وجہ اللہ” میں فنا ہوجاتے ہیں (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) یاد رہے کہ وجہ اللہ سے امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام مراد ہے، قال الصّادق علیہ السّلام: نحن وجہ اللہ۔ امام جعفر الصّادقؑ نے فرمایا کہ ہم أئمّہ چہرۂ خدا ہیں (المیزان، ۱۹، ص۱۰۳)۔

۵۷۲

عَرَّفَ

(۱)

   

اُس نے پہچنوا دیا، شناسا کردیا، شناخت کرا دی:

اے عزیزانِ من! خوب غور اور احساسِ ذمّہ داری سے سُن لو کہ قرآنِ حکیم میں جس طرح معرفت کا مضمون آیا ہے اس کا گہرا مطالعہ

۳۳۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

بیحد ضروری ہے، اس سلسلے می ایک زبردست کلیدی حکمت سورۂ محمّد میں یہ ہے کہ شہیدانِ باطن کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ بہشت کے عار ف یہی لوگ ہیں (۴۷: ۴ تا ۶)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۵۷۳

عَرَّفَ

(۲)

   

خدا نے ان کو بہشت کی معرفت عطا کر دی:

باطنی شہادت اور بہشت کی معرفت کا مربوط مضمون یہ ہے: اور جو لوگ خدا کی راہ میں (بباطن) شہید کئے گئے ان کے اعمال کو خدا ہرگز ضائع نہ کرے گا، انہیں عنقریب منزلِ مقصود تک پہنچائے گا اور اُن کی حالت سنوار دے گا، اور اُن کو اس بہشت میں داخل کرے گا جس کا انہیں (پہلے سے) شِناسا کر رکھا ہے (۴۷: ۴ تا ۶)۔

۵۷۴

عَرَّفَ

(۳)

   

ہر چیز کی معرفت:

کیا یہ ممکن ہے کہ خدا، رسولؐ، امامؑ، اور اپنے آپ کی معرفت کے بغیر کوئی شخص بہشت کا عارف ہوجائے؟ نہیں ہرگز نہیں، پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہشت عالمِ معرفت ہے، جس سے کوئی معرفت باہرنہیں  لہٰذا جو جنّت کے عارف ہیں وہ ہر چیز کے عارف ہیں۔

۳۳۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
۵۷۵

عٓسٓقَ

(۱)

   

عشق:

عشق الہٰی عظیم اسرار میں سے ہے، لہٰذا اس کا ذکر اسی طرح صیغۂ راز اور حجاب میں آیا، یقینًا حروفِ مقطّعات ایسے ہی چھپے ہوئے بھیدوں کے حامل ہیں، نیز ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ قرآن حکیم میں جہاں کہیں بھی “کَذَالِک” کا اشارہ آیا ہے وہاں کوئی بڑی حکمت پنہان موجود ہوتی ہے، اور اس حقیقت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے، جیسا کہ ارشادِ نبیؐ ہے: نزل القرآنُ علٰی سبعۃِ اَحۡرُفٍ۔ (الاتقان، حصّۂ اوّل، سولہویں نوع (۱۶) قرآن اتارے جانے کی کیفیت، مسئلۂ سوم)۔

۵۷۶

عشق

(۲)

   

عشقِ الٰہی:

شاید کوئی شخص یہ خیال کرے کہ قرآنِ عظیم میں لفظ عشق موجود نہیں، میں کہتا ہوں کہ یہ لفظ جیسا کہ آپ نے دیکھا قرآن میں ہے، اس کے کئی مترادفات بھی ہیں، اور بہت سی مثالوں میں بھی یہی ممثول ہے، مترادفات یہ ہیں: محبّت، مؤدّت، ولایت، خُلّت، شَغَف، اُنسیّت، رحمت وغیرہ۔

۳۳۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
۵۷۷

عشق

(۳)

   

آسمانی عشق:

خدا، رسولؐ اور امامؑ کا پاک عشق فردوسِ برین کی وہ بیمثال شراب ہے، جس کی لذّت و شادمانی کی تعریف کے لئے الفاظ نہیں، کیونکہ وہ خمرِ عشق بھی ہے اور نورِ عقل بھی، ہم اس حقیقت کی دلیل پیش کریں گے کہ شرابِ جنّت یعنی حقیقی عشق میں کیوں کر عقل اور علم ہوسکتا ہے۔

۵۷۸

عشق

(۴)

   

عشق و عقل:

ارشاد ہے: ان کو سر بمہر خالص شراب (رحیقِ مختوم) پلائی جائے گی، جس کی مُہر مُشک کی ہوگی، اور اس کی طرف البتہ شائقین کو رغبت کرنی چاہیے، اور اس (شراب) میں آبِ تسنیم کی آمیزش ہوگی، وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے مقربین پیتے ہیں (۸۳: ۲۵ تا ۲۸) پس شرابِ خالص میں آبِ تسنیم کی آمیزش کی یہ تأویل ہوئی کہ عشقِ حقیقی عقل اور علم کے ساتھ ملا ہوا ہے۔

۵۷۹

عشق

(۵)

   

خدا، رسولؐ اور امامؑ کا عشق:

اے نورِ عینِ من! قرآنِ حکیم (۲: ۱۶۵) کے ان مبارک کلمات میں غور سے دیکھو: وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡآ اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (اور جو مومنین ہیں اُن کو خدا کے ساتھ نہایت قوی محبّت ہے) اس باب میں قرآنِ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۳۳۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

کریم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ کی پاک محبّت بلا واسطہ ممکن ہی نہیں، یہ رسولِ اکرمؐ کے توسط سے کسی کو حاصل ہوسکتی ہے (۳: ۳۱) اور آنحضرتؐ کی اصل محبّت بہ اشارۂ احادیثِ صحیحہ أئمّۂ اہل بیت کے وسیلے سے ممکن ہے، پس ہمارے نزدیک “اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ” میں خدا، رسولؐ اور امامؑ کی دوستی، محبّت اور عشق کا ذکر ہے جو اہلِ ایمان کو حاصل ہوتا ہے۔

۵۸۰

عشق

(۶)

   

آسمانی عشق، یعنی خدا، رسولؐ اور امامِ زمانؑ کا عشق:

اے برادران و خواہرانِ روحانی! آپ سب کو نورِ واحد کا پاک عشق مبارک ہو، آپ علم، عبادت، عاجزی، مناجات، خدمات، اچھی عادات اور نور کے عشق سے اتنی ترقی کریں کہ حجاب اُٹھ جائے اور نورانی دیدار ہو، اور رفتہ رفتہ فنائے اوّل، دوم، سوم آجائیں، پھر آپ علم ومعرفت کی لازوال دولت سے مالامال ہوجائیں گے۔

۵۸۱

عشق

(۷)

   

ںوراںی محبّت:

حدیثِ قدسی ہے: مَنۡ اَحَبَّنِیۡ قَتَلۡتُہُ وَ مَنۡ قَتَلۡتُہُ فَاَنَادِیَتُہُ۔ جس نے مجھ سے محبّت کی میں نے اس کو قتل

۳۳۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

کیا اور جس کو میں نے قتل کیا تو میں خود اس کی خونبہا (خون کی قیمت) ہوں۔ (احادیثِ مثنوی، فارسی، ص۱۳۴) عاشقِ جانباز کے لئے اس سے بڑا کوئی انعام نہیں، اور عشقِ الٰہی سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں، یہ نفسانی موت کی سب سے اعلٰی تعبیر ہے۔

۵۸۲

عشق

(۸)

   

خدا کا عشق:

حضرتِ مولانا امام سلطان محمّد شاہ صلوات اللہ علیہ و سلامہ نے بڑی عمدگی سے عشقِ الٰہی کی تعلیم دی ہے، جی چاہتا ہے کہ ہر ایسے فرمانِ عالی کو محفلِ عشّاق میں بار بار پڑھتے رہیں، اور گریہ کنان دریائے عشق میں ڈوب جائیں، اے کاش ہم عشقِ سماوی کے قابل ہوتے! کاش ہم عشق کے معجزات کو سمجھ سکتے! لیکن ہم مایوس نہیں اور نہ ہی محروم ہیں۔

۵۸۳

عشق

(۹)

   

آسمانی عشق:

جس مقدس اور پُرحکمت تعلیم سے مومنین و مومنات کی روح الایمان میں عالمِ علوی کی طرف پرواز کی طاقت پیدا ہوجاتی ہے، وہ بابرکت تعلیم صرف امامِ عالیمقامؑ ہی کے پاس ہے، لہٰذا اے عزیزان! آپ سب فرمانِ اقدس کی جملہ کتابوں اور ساری تحریروں کو عشق و

۳۳۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

محبّت سے پڑھا کریں، خصوصًا آسمانی عشق سے متعلق ہدایاتِ عالیہ کو مل کر عشق سے پڑھیں تاکہ برکت حاصل ہو۔

۵۸۴

عشق

(۱۰)

   

آسمانی عشق:

“آسمانی عشق” میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری اصطلاح ہے، اس کو عمومًا حقیقی عشق کہا جاتا ہے، آسمانی عشق سے مراد خدا، رسولِ پاکؐ اور أئمّۂ ہدٰی کا عشق ہے، جس کا بیان و برہان آسمانی کتاب (قرآن) میں موجود ہے اور یہ (آسمانی عشق) بڑا عالیشان اشارہ ہے، دین ہو یا دنیا اس میں لوگ عام بھی ہوتے ہیں اور خاص بھی، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صرف عوام ہی کا وجود ہو اور خواص نہ ہوں، پس آسمانی عشق خاصانِ الٰہی کے لئے ہے، اور یہ بات غیر ممکن بھی نہیں کہ کوئی آدمی ترقی کرکے عام سے خاص ہوجائے۔

۵۸۵

عشق

(۱۱)

   

آسمانی عشق:

انسان پر لازم ہے کہ خداوندِ تعالٰی کا عشق دل میں رکھے، انسان دنیا کے عشق میں کتنا مدہوش رہتا ہے اور کتنی زحمت اور بے قراری محسوس کرتا ہے، اس سے ہزار درجے زیادہ خدا کا عشق رکھنا چاہیے۔ خداوند کریم کا نور آپ کے دل میں بس رہا ہے، اُس نور کو محبّت

۳۳۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

کے زریعے روز بروز بڑھاتے جائیں (حضرتِ امام سلطان محمّد شاہ صلوات اللہ علیہ)۔

۵۸۶

عَصًا

(۱)

   

لاٹھی، عصا:

عصائے موسٰیؑ کا ذکر قرآنِ حکیم کے دس مقامات پر موجود ہے، اُن میں سے ایک اس طرح ہے: اور جب موسٰی نے اپنی قوم کے لئے (خدا سے) پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنی لاٹھی پتّھر پر مارو (انہوں نے لاٹھی ماری) تو پھر اُس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے (۲: ۶۰)

عصا=  اسمِ اعظم اور معجزۂ نبوّت، حجرِ مکرّم=  اساس (حضرتِ ہارونؑ)، بارہ چشمے=  اساس کے بارہ حجّت جو آبِ علم کے سرچشمے تھے، پتھر پر لاٹھی مارنا=  اسمِ اعظم اور نورِ نبوّت کو اساس پر استعمال کرنا۔

۵۸۷

عَصًا

(۲)

   

لاٹھی، عصا، اسمِ اعظم:

سورۂ شعرآء (۲۶: ۶۳) میں ارشاد ہے: فَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰى مُوۡسٰۤى اَنِ اضۡرِبۡ بِّعَصَاكَ الۡبَحۡرَؕ۔ پس ہم نے موسٰی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی دریا پر مارو (تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑا یوں ہوگیا کہ گویا بڑا پہاڑ ہے)۔

جب حضرتِ موسٰی علیہ السّلام نے خدا کے حکم سے اسمِ اعظم اور

۳۳۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

معجزۂ نبوّت کو دریائے روحانیت پر استعمال کیا تو اس کے آرپار بنی اسرائیل کے لئے راہِ سلامتی پیدا ہوگئی، مگر فرعون اور اس کے لوگ اس دریا میں غرق ہوگئے۔

۵۸۸

عَصًا

(۳)

   

اسمِ اعظم کی لاٹھی:

جب عصائے اسمِ اکبر حضرتِ موسٰی کی گرفت میں ہوتا (یعنی سلسلۂ ذکر جاری رہتا) تو علم و عبادت کے فیوض و برکات کا یہ عالم ہوتا تھا، اور جب جب ذکر کا عصا ہاتھ سے چھوڑ دیا جاتا تو وہ بہت بڑا اژدھا بن کر ہر باطل چیز کو نگل لیتا تھا، اس کے یہ معنی ہوئے کہ کارِ بزرگ (بڑا کام) میں بدرجۂ اعلٰی علم و عبادت بھی ہے اور روحانی جہاد بھی۔

۵۸۹

عَصَاہُ

   

اس کی لاٹھی:

یعنی حضرتِ موسٰی کی لاٹھی، جس کی تأویل روحانیت میں اسمِ اعظم اور عقلانیت میں مظاہرۂ عقل ہے، علمِ حقیقی کا اژدھا جس کے سامنے اہلِ باطل کی غلط باتیں اور دلیلیں ذرا بھی ٹھہر نہیں سکتی ہیں (۲۶: ۴۵)۔

۵۹۰

عَصۡر

(۱)

   

زمانہ:

سورۂ عَصۡر (۱۰۳: ۱ تا ۳) عجائب و غرائبِ حکمت سے مملو ہے، لہٰذا اس

۳۳۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

سے بیش از بیش فائدہ حاصل کرنے کی خاطر کچھ تعلیمی سوالات بناتے ہیں: سوال (۱): عصر کا تقدّس کیا ہے کہ خدا اس کی قسم کھاتا ہے؟ (۲) انسان سے یہاں کونسے لوگ مراد ہیں؟ وہ کس قسم کے خسارے میں ہیں؟ (۳) دنیا میں ایک استاد ہوتا ہے اور دوسرا شاگرد، لیکن یہاں ایک دوسرے کو وصیت کرنے کا ذکر ہے، اس میں کیا راز ہے؟ (۴) حق سے کیا مراد ہے اور صبر کے کیا معنی ہیں؟

۵۹۱

عَصۡر

(۲)

   

زمانہ (صاحبِ عصر):

(۱) جواب: خداوندِ عالم کبھی کسی عام چیز کی قسم نہیں کھاتا، عصر سے صاحبِ عصر (امامِ زمان) مراد ہے، خداوند تعالٰی نے اسی کی قسم کھائی ہے (۲) جواب: یہاں لفظ انسان سارے لوگوں کے لئے آیا ہے، پھر کچھ لوگ خسارہ کے بیان سے مستثنا ہیں، اور اکثریت کے خسارے میں ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے صاحب عصر کو نہیں پہچانا، ورنہ سارا زمانہ باطنی طور پر ان کا ہوجاتا۔

(۳) جواب: دین فطرت (اسلام) کی ہر حکمت دائرہ نما ہوا کرتی ہے، چنانچہ اگر کوئی کامیاب معلّم اپنے عزیز شاگردوں کو حقیقی علم سکھاتا ہے تو خدا اس کے شاگردوں کی روحوں سے اس کی مدد فرماتا ہے، یہ ہوا باہم وصیت کرنا (۴) حق سے دین کی وہ سچائی مراد ہے جس

۳۴۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

کے بارے میں آنحضرتؐ نے دعا کی تھی کہ حق علیؑ کے ساتھ رہے، اور صبر راہِ روحانیت میں ثابت قدم رہنے کا نام ہے۔

۵۹۲

عَصۡر

(۳)

   

صاحبِ عصر:

قسم ہے (صاحبِ) عصر کی کہ انسان بڑے خسارہ میں ہے (کیونکہ وہ صاحبِ عصر کو نہیں پہچانتا ہے) مگر جو لوگ (بحقیقت) ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی فہمائش کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی فہمائش کرتے رہے (۱۰۳: ۱ تا ۳)۔

۵۹۳

عِصِیّ

  لاٹھیاں:

فرعون کے جادوگروں کی لاٹھیاں، یعنی دلائل، چونکہ دلیل کا سہارا لیا جاتا ہے اس لئے اس کی تمثیل لاٹھی سے دی گئی ہے (۲۰: ۶۶)۔

۵۹۴

عَقِب

(۱)

   

اولاد، نسل:

حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد ہے کہ وہ اس (علمِ توحید) کو اپنی اولاد میں بھی ایک قائم رہنے والی بات کر گئے تاکہ ہر زمانہ میں لوگ رجوع کریں (۴۳: ۲۸)۔ سوال: حضرتِ امامؑ اور اس کے وارث اور مریدوں کے درمیان ربطِ روحانیت کا پُل کس طرح بنایا جاتا

۳۴۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

ہے؟ جواب: چار بیمثال چیزوں سے، وہ یہ ہیں: امامؑ کی محبّت، خاص دعا، خصوصی تعلیم، اور عطائے اسمِ اعظم سے، یہ چیزیں گویا اور روحانی تعمیر کے چار عناصر ہیں۔

۵۹۵

عَقِب

(۲)

   

اولاد، نسل:

آیۂ عقب کی حکمت کو سمجھنے کے لئے کم سے کم چار مذید آیات میں بھی غور کرکے دیکھ لیں کہ سلسلۂ نورِ ہدایت دنیا میں قائم و دائم  ہے یا نہیں، وہ آیات یہ ہیں: آیۂ اصطفاء (۳: ۳۳) آیۂ امامتِ ابراہیمؑ (۲: ۱۲۴) آیۂ آلِ ابراہیمؑ (۴: ۵۴) اور آیۂ شجرۂ طیّبہ (۱۴: ۲۴ تا ۲۵)۔

۵۹۶

عَقِبِہٖ

(۱)

   

اس کی اولاد:

المیزان، ۱۸، ص۱۰۶ پر درج ہے: فی المجمع فی قولہٖ تعالٰی: وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیۡ عَقِبِهٖ (۴۳: ۲۸) و قیل: الکلمۃ الباقیۃ فی عَقِبِہٖ ھی الامامۃ الٰی یوم الدّین۔ عن ابی عبد اللہ (امام جعفر الصّادق علیہ السّلام) تفسیر مجمع البیان میں حق تعالٰی کے اس ارشاد (اور ابراہیمؑ نے اس کو اپنی اولاد میں کلمۂ باقیہ بنا دیا) کے بارے میں کہا گیا ہے: کلمۂ باقیہ ابراہیمؑ کی اولاد میں امامت ہی ہے جو قیامت القیامات تک جاری اور باقی ہے (بقولِ

۳۴۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام)۔

۵۹۷

عَقِبِہٖ

(۲)

   

اس کی اولاد:

حضرتِ ابراہیمؑ نے سورۂ زخرف (۴۳: ۲۶ تا ۲۷) کے مطابق جس طرح اپنی قوم کی ظاہری و باطنی اصنام پرستی کی شدید مذمّت کی وہ نورِ امامت ہی کی روشنی میں تھی، لہٰذا یہ امر ضروری تھا کہ ابراہیمؑ کی اولاد میں امامت بشکلِ اسمِ اعظم تا قیامۃ القیامات کلمۂ باقیہ قرار پائے تاکہ لوگ دین شناسی اور خدا کی معرفت کے لئے امامِ زمانہ سے رجوع ہوجائیں۔

۵۹۸

عَقۡل

(۱)

   

روحانی نور جس سے غیر محسوسات کا ادراک ہوتا ہے، دل:

اللہ نے سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا، ایک اور حدیث کے مطابق اللہ نے سب سے پہلے نورِ محمّدی کو پیدا کیا، یقینًا یہ ایک ہی حقیقت ہے جس کے بہت سے ناموں میں سے تین کا اسی طرح ذکر ہوا ہے، کیونکہ عقل نور ہے، قلم نور ہے اور نورِ محمّدی نور ہی ہے، اور یہ تین نہیں، ایک ہی زندہ نور بصورتِ عظیم فرشتہ ہے۔

۳۴۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
۵۹۹

عَقۡل

(۲)

   

نورِ عقل:

انسان کو ہر چیز کی معرفت عالمِ شخصی ہی میں حاصل ہوجاتی ہے، چنانچہ بالیقین یہ کہا جاسکتا ہے کہ خداوندِ تعالٰی نے عالمِ شخصی میں سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا، یہ تقدُّمِ شَرَفی کا تذکرہ ہے، کیونکہ عقل ہی وہ شی ہے جس کو دوسری تمام اشیاء پر بہ اعتبارِ عِزّ و شَرَف اوّلیت و فوقیت حاصل ہے۔

ہر ایسا عالمِ شخصی جب تک اس میں نورِ عقل پیدا نہ ہو، وہ کالعدم ہے، اس حال میں جب خدا نے عقل کو پیدا کیا تب اس کی بَرَکات سے عالمِ شخصی کی حقیقی تخلیق ہوئی، پس عقل کو عالمِ شخصی میں نہ صرف تقدُّمِ شرفی بلکہ تقدُّمِ زمانی بھی حاصل ہے۔

۶۰۰

عَقۡل

(۳)

   

نورِ عقل:

عقل کا مادّہ ہے: ع ق ل، قرآنِ حکیم میں اس کے مختلف صیغے یہ ہیں: عقلوہ (ایک بار) تعقِلون (۲۴ دفعہ) نعقل (ایک مرتبہ) یعقِلھا (ایک بار) یعقِلون (۲۲ دفعہ) اسی طرح قرآن کے کُلّ ۴۹ مقامات پر عقل کا تذکرۂ توصیف آیا ہے، اور یہ بڑی عجیب بات ہے کہ “عقل” کا نام جہاں کہیں بھی ہو وہاں وہ بہت اعلٰی تعریف کے معنی میں ہوتا ہے، مثلًا جب کسی کو عاقل کہا جاتا ہے تو اس میں پہلی

۳۴۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

تعریف عقل کی ہوتی ہے اور اسی کی نسبت سے دوسری تعریف عاقل کی، یہ تعریف تو براہِ راست ہے، اگر آپ کسی کو بے عقل قرار دیتے ہیں تو اس میں بھی بالواسطہ عقل کی توصیف ہے، اس معنٰی میں کہ وہ نادان شخص عقل جیسی لازوال دولت سے محروم ہے۔

۶۰۱

عَقۡل

(۴)

   

نورِ عقل:

حضرتِ امام محمّد باقر علیہ السّلام سے روایت ہے کہ: جب اللہ تعالٰی نے عقل کو پیدا کیا تو وہ بحکمِ خدا بولنے لگی، پھر خدا نے اسے فرمایا: آگے آ،  تو آگے آئی، پھر اسے فرمایا: پیچھے جا، تو وہ پیچھے گئی، پھر ارشاد ہوا: میری عزّت و جلالت کی قسم! کہ میں نے کوئی ایسی خلق پیدا نہیں کیا ہے جو تیرے مقابلے میں مجھ کو زیادہ محبوب ہو، اور بات یہ ہے کہ میں تجھ کو صرف ایسے شخص میں کامل اور مکمّل کر دیتا ہوں، جس سے میں محبّت کرتا ہوں، ہاں میرے امر و نہی کا خطاب ہمیشہ تجھ ہی سے ہوتا رہے گا، اور عذاب و ثواب کا تعلق بھی تجھ ہی سے ہوگا۔ (الشّافی ترجمۂ اصولِ کافی، کتاب العقل)۔

۶۰۲

عَقۡل

(۵)

   

گوھرِ عقل:

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ عذاب و ثواب کا تعلق عقل ہی سے

۳۴۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

ہے، جیسے قرآنِ شریف میں جگہ جگہ اس حقیقت کی روشن دلیلیں موجود ہیں، جیسا کہ سورۂ ملک (۶۷: ۱۰) میں ارشاد ہے: وَ قَالُوۡا لَوۡ كُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا كُنَّا فِیۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ۔ اور وہ کہیں گے کاش! ہم سنتے اور جانتے (یعنی عقل رکھتے) تو (آج) ہم دوزخیوں میں نہ ہوتے۔

اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ بنیادی نافرمانی اور ناقابلِ معافی گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص سرچشمۂ عقل کی ہدایت سے روگردان ہوجائے، اور یہ نافرمانی سب سے پہلے ابلیس سے سرزد ہوئی تھی۔

۶۰۳

عَقۡل

(۶)

   

گوھرِ عقل:

قلمِ اعلٰی آفتابِ عقل ہے، اور قرآنِ حکیم اس کی ضوفشان شعاعوں کا بحرِ بیکران، پھر یہ سوال ختم ہوجاتا ہے کہ قرآن میں کہاں کہاں عقل اور علم کے اوصاف بیان ہوئے ہیں، جبکہ کلامِ الٰہی (قرآن) سر تا سر نورِ عقل (قلم) کی علمی کرنوں کا بیحد عظیم و عمیق سمندر ہے، پس اس کتابِ سماوی میں کوئی آیت ایسی نہیں، جس میں بالواسطہ یا بلا واسطہ عقل اور علم کی تعریف و توصیف نہ ہو۔

۳۴۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
۶۰۴

علم

(۱)

   

دین کی سمجھ:

جامعِ ترمذی، جلد دوم، ابواب العلم میں یہ حدیث ہے: من یُرِدِ اللہُ بِعَبۡدِہٖ خَیۡرًا فَقَّھَہٗ فی الدِّیۡنِ۔ جب خدا اپنے کسی بندے کے حق میں خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔

۶۰۵

علم

(۲)

   

فقیہ: عالم:

فَقِیۡہٌ اَشَدُّ عَلٰی الشَّیۡطَانِ مِنۡ اَلۡفِ عَابِدٍ۔ ایک ہی فقیہ، شیطان کے (خلاف جنگ کے) لئے ایک ہزار عابدوں سے بھی زیادہ سخت ہے۔ یعنی آپ صرف حقیقی علم ہی سے شیاطینِ اِنسی و جِنّی کو ظاہرًا و باطنًا مغلوب کر سکتے ہیں۔

۶۰۶

علم

(۳)

   

طالبِ علم:

حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے یہ بھی فرمایا کہ: اگر کوئی شخص علم کا راستہ اختیار کرے گا تو خداوند عالم اس کے لئے جنّت کا ایک راستہ آسان کر دے گا، اور فرشتے طالب علم کی خوشنودی کے لئے اپنے پر بچھاتے ہیں، نیز عالِم کے لئے آسمان و زمین میں موجود ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے، یہاں تک مچھلیاں بھی پانی میں اس کے لئے استغفار کرتی ہیں، پھر عالم کی عابد پر اسی طرح

۳۴۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

فضیلت ہے جیسے چاند کی ستاروں پر۔

۶۰۷

علم

(۴)

   

معلّم:

قَالَ رَسُوۡلُ اللّٰہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ اٰلِہِ وَسَلَّمَ: اِنَّ اللہَ وَ مَلائِکَتَہُ وَ اَھۡلَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِیۡنَ حَتّٰی النَّمَلَۃَ فِیۡ حُجۡرِھَا وَ حَتّٰی الۡحُوۡتَ لَیُصَلُّوۡنَ علیٰ مُعَلِّمِ النَّاسِ الۡخَیۡرَ۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ، فرشتےاور تمام اہل زمین و آسمان یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں تک ایسے معلم پر درود بھیجتے ہیں، جو لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا ہے۔ (بحوالۂ جامعِ ترمذی، جلد دوم، ابواب العلم)۔

۶۰۸

علم

(۵)

   

جاننا، بوجھنا، علمِ الٰہی:

علمِ الٰہی کا خزانہ دار کون ہے؟ یہ سب سے بڑا سوال الگ ہے مگر یہاں اِس کے تحت یہ پوچھنا ہے کہ علم کی وسعت اور پھیلاؤ کس حدّ تک ہے؟ علم کی مکانیت و ظرفیت کا کیا تصوّر ہے؟ یہ حقیقت ہے کہ خداوندِ قدّوس کا علم قرآنِ حکیم میں ہے، لیکن یہ بھی جاننا ہوگا کہ عالمِ اکبر اور عالمِ اصغر کی تمام چیزیں قرآنی علم و حکمت کی گواہی دیتی ہیں یا نہیں؟ اگر کہا جائے کہ آفاق و انفس کی آیات میں قرآنی

۳۴۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

آیات کی شہادت موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ مجید علمِ الٰہی کا وہ سمندر ہے جس میں کائنات اور عالمِ شخصی کی ہر ہر چیز ڈوبی ہوئی ہے۔

۶۰۹

علم

(۶)

   

جاننا، بوجھنا، علمِ الٰہی:

علم ایک نور ہے جس کی تمثیل آگ سے دی جاسکتی ہے، چنانچہ چشمِ بصیرت کے سامنے عالمِ اکبر ہو یا عالمِ شخصی سرخ انگارا نظر آتا ہے، کیونکہ یہ آتشِ علم (نورِ علم) کے سمندر میں غرق ہے، درین صورت ہر چیز کے ظاہر و باطن میں علم کی روشنی کیوں نہ ہو، اور وہ ساکن علم نہیں بلکہ متحرک علم ہے کیونکہ روشنی/ آگ متحرک ہوا کرتی ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ روحانی علم مختلف تجلّیات و ظہورات کے قانون پر ہے، اس کی مثال کوئی کلمۂ تامّہ ہوسکتا ہے کہ جس کے کن (ہوجا) فرمانے سے ہر بار ایک نئی معنوی چیز وجود میں آتی ہے۔

۶۱۰

علم

(۷)

   

جاننا، بوجھنا، علمِ الٰہی:

قرآن، عالمِ ظاہر اور عالمِ شخصی کی ہر چیز کے ظاہر و باطن میں علم کی روشنی موجود ہے، اور علم کی مکانیت و ظرفیت کا تصوّر یہی ہے، آپ قرآنِ عزیز کے ان تین مقامات پر خوب غور سے دیکھ لیں:

۳۴۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

سورۂ انعام (۶: ۸۰) سورۂ اعراف (۷: ۸۹) سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۹۸) مقصد یہ ہے کہ خدائے علیم و حکیم نے ہر چیز کے ظاہر و باطن میں بڑی کاریگری سے علم کو رکھا ہے، اور اس قانونِ خداوندی سے کوئی شی مستثنا نہیں۔

۶۱۱

عَلَّمَ

(۱)

   

اُس نے سکھایا، اُس نے تعلیم دی:

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّھَا (۲: ۳۱) اور اللہ تعالٰی نے آدمؑ کو تمام اسماء الحسنٰی کی تعلیم دی، سب سے پہلے ذکرِ خفی و ذکرِ قلبی کےلئے ایک ہی اسمِ اعظم عطا کیا، اور اس کی تکمیل و کامیابی پر دوسرے اسمائے بزرگ منکشف ہوگئے، اور ان اسمائے مبارک کے مسمّیان أئمّۂ کرام علیہم السّلام تھے، کیونکہ جب آپ کہتے ہیں کہ امامِ زمان خدا کا زندہ اسمِ اعظم ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذاتِ سبحان کا سب سے بزرگ نام صرف اسمِ ہی نہیں بلکہ مسَمّٰی بھی ہے۔

۶۱۲

عَلَّمَ

(۲)

   

اُس نے سکھایا، اُس نے تعلیم دی:

اگر یہ مانا جائے کہ آیۃ الکرسی میں اسمِ اعظم موجود ہے تو یہ اپنے مسَمّٰی کے سوا کام نہیں کرے گا، جب تک کوئی شخص زندہ اسمِ بزرگ کے لئے اقرار نہ کرے، یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ خزینۂ اسمِ اعظم سے بے بہرہ

۳۵۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

رہتے ہیں۔

۶۱۳

عَلَّمَ

(۳)

   

اُس نے سکھایا، اُس نے تعلیم دی:

خداوند تعالٰی کی خاص چیزیں اشرف، افضل، اکمل، اور اعلٰی ہیں، اس لئے وہ سب سے بڑی روح اور سب سے عظیم عقل کے ساتھ زندہ ہیں، چنانچہ اس کا قلم زندہ ہے، لوح زندہ ہے، عرش و کرسی زندہ ہیں، اس کے ساتھ دن زندہ ہیں، اور اس کی ہر چیز زندہ ہے، پس اسماء الحسنٰی زندہ ہیں۔

۶۱۴

عَلَّمَ

(۴)

   

اُس نے سکھایا، اُس نے تعلیم دی:

پرودگارِ عالم نے اپنے خلیفہ حضرتِ آدمؑ کو ہر اسم اور اس کے مسمّٰی کی معرفت عنایت کردی، پھر اُن مسمّیان کو فرشتوں کے سامنے لایا اور فرمایا کہ اگر تم سچّے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ(۲: ۳۱) ہر اسم اور اس کا مسمّٰی امامِ مبین علیہ السّلام میں ہے لہٰذا اس کی پُرنور معرفت میں تمام معرفتیں جمع ہیں۔

۶۱۵

عَلَّمَ

(۵)

   

اُس نے سکھایا، اُس نے تعلیم دی:

سورۂ بقرہ (۲: ۳۱) میں حق تعالٰی کا ارشاد ہے: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ

۳۵۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

الۡاَسۡمَآءَ کُلَّھَا۔ اور اللہ نے آدمؑ کو کلّ اسماء سکھائے۔ یعنی اسمِ اعظم اور اَسۡمَاءُ الۡحُسۡنٰی کی تعلیم دی اور یہی اسماء علمِ حقائق الۡاشیاء کے خزانے تھے یعنی ہر چیز کی حقیقت کا علم یہیں سے شروع ہوا، آپ اسی علمِ آدم کو بحدِّ قوّت روحانی اور مادّی سائنس کی بنیاد کہہ سکتے ہیں، کیونکہ سائنس “علمِ حقائقِ اشیاء” میں سے ہے۔

۶۱۶

عَلَّمَ

(۶)

   

اُس نے سکھایا، اُس نے تعلیم دی:

اگر روحانی سائنس حکمت کا جدید نام ہے تو کیا حضرتِ آدم علیہ السّلام نے عاجزی و گریہ و زاری کی حکمت INVENT (ایجاد) نہیں کیا؟ جس میں بے شمار فائدے پوشیدہ ہیں، کیا انہوں نے سب سے پہلے خدا کے حکم سے اسمِ اعظم اور کثرتِ ذکر کی روحانی سائنس کا کامیاب تجربہ نہیں کیا؟ جس میں بنی آدم کے لئے لا تعداد فوائد پنہان ہیں۔

۶۱۷

عَلَّمَ

(۷)

   

اُس نے سکھایا، اُس نے تعلیم دی:

قرآنِ حکیم اللہ تعالٰی کا پاک کلام اور اس کی بے مثال معجزاتی کتاب ہے، لہٰذا اس کے علم و حکمت کی گونا گون تجلّیات ہیں، مِن جملہ اس کی ایک تجلّی سائنسی بھی ہے، جبکہ قرآن کا ایک نام شفاء ہے (۱۰: ۵۷)

۳۵۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

اور ایک نام حکمۃ ہے (۵۴: ۵) جب قرآن از اوّل تا آخر حکمت (روحانی سائنس) ہے تو یقینًا روحانی سائنس حضرتِ آدمؑ کے علم الاسماء سے شروع ہوئی ہے۔

۶۱۸

عِلۡمُ الۡکِتَاب

(۱)

   

کتاب کا علم، آسمانی کتاب کا علم:

یہ آیۂ مبارکہ سورۂ رعد کے آخر میں ہے: اور (اے رسولؐ) کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم پیغمبر نہیں ہو تو تم (اُن سے) کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان (میری رسالت کی) گواہی کے واسطے خدا اور وہ شخص جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا علم ہے کافی ہیں (۱۳: ۴۳) حبیبِ خدا خاتم الانبیاء صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کے برحق پیغمبر ہونے کا گواہِ اوّل خود خدا ہی ہے اور گواہِ دوم نورِ امامت، چونکہ یہ گواہی ظاہری نہیں بلکہ باطنی معجزات سے متعلق ہے سرسری نہیں، تفصیلی اور کُلّی ہے، لہٰذا اللہ نے اس عظیم شہات میں اپنے مظہر کو ساتھ رکھا۔

۶۱۹

عِلۡمُ الۡکِتَاب

(۲)

   

کتاب یعنی قرآن کا علم:

مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ کا آخری حصّہ یہ ہے: وَ مَنۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ الۡکِتٰبِ (۱۳: ۴۳) اور وہ شخص جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا علم ہے۔ یقینًا اس کا مصداقِ اوّل حضرتِ علی علیہ السّلام ہے، یعنی

۳۵۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

خدا اور رسولؐ نے امامِ علیؑ کے نور میں جو آسمانی علم رکھا ہے وہ کہیں بھی نہیں، قرآنِ پاک کے اسرارِ باطن کہاں کہاں واقع ہیں؟ کلمۂ کن میں، قلمِ اعلٰی میں، لوحِ محفوظ میں، اسرافیل، میکائیل اور جبرائیل کی ہستی میں رسولِ اکرمؐ کے نور میں، اس کلامِ الٰہی میں جو حجاب کے پیچھے سے سنائی دیتا ہے، اُس دیدارِ اقدس میں جبکہ کلام نہیں ہوتا، مرتبۂ معراج میں، کتابِ مکنون وغیرہ میں، اب آپ کو اس بات کا اندازہ ہوا ہوگا کہ یہاں جس گواہی اور جس علم کا ذکر آیا ہے، وہ کیسے کیسے عظیم اسرار سے  بھرا ہوا ہوگا۔

۶۲۰

علیؑ

(۱)

   

سیّد، امام، قائد:

قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم: انّ اللہ تبارک و تعالٰی اوحٰی فی علیّ ثلاثۃ اشیاء لیلۃ اسرٰی بی بانّہ سیّد المؤمنین و امام المتّقین و قائد الغرّ المُحَجَّلین۔ آنحضرت صلعم فرماتے تھے کہ شبِ معراج میں جنابِ ایزدی نے ہم کو علی کے تین خطاب القاء فرمائے کہ وہ مومنین کے سردار اور متقیوں کے امام اور جن کے منہ اور ہاتھ  پاؤں سفید اور نورانی ہیں اُن کے پیشوا ہیں، یعنی اُن کو بہشت کی طرف لے جانے والے ہیں۔ (ارجح المطالب اور مُسۡتَدۡرَکۡ)۔

۳۵۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
۶۲۱

علیؑ

(۲)

   

علیؑ کا دیدار:

قال رسول اللہ صلی  اللہ علیہ و آلہٖ وسلم: النّظرُ اِلٰی وجہٖ علی عبادۃ۔ علیؑ کے چہرے کی طرف دیکھنا ایک عبادت ہے (المستدرک، شرح الاخبار، کوکبِ درّی وغیرہ) علی کا دیدار ایک عبادت اس وجہ سے ہے کہ وہ قرآنِ ناطق، اسمِ اعظم، مظہرِ نورِ خدا، آئنۂ حق نما، اور وصیٔ مصطفٰیؐ ہے، یہی سبب ہے کہ عشّاق جان و دل سے علیٔ زمان علیہ السّلام کے پاک دیدار کو چاہتے ہیں۔

۶۲۲

علیؑ

(۳)

   

ذالک الکتٰب، وہ کتاب، یعنی قرآنِ ناطق:

مولا علی علیہ السّلام کے خطبۃ البیان میں ہے: انا ذالک الکتٰب لا ریب فیہ، انا الاسمآء الحُسنٰی الّتی امر اللہ ان یُّدعٰی بھا۔ میں وہ کتاب ہوں جس میں کوئی شک نہیں، (یعنی قرآنِ ناطق)، میں ہی وہ اسمائے عظّام ہوں جن کے بارے میں خدا نے فرمایا کہ انہی کے توسط سے مجھے پکارا کرو (کوکبِ دُرّی) اس میں کوئی شک نہیں کہ الٓمّٓ اور دیگر تمام حروفِ مقطَّعات کا سرِّ عظیم علیؑ ہی ہے، مولائے پاک وہ کتاب ہے جس میں یقین ہی یقین ہے۔

۳۵۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
۶۲۳

علیؑ

(۴)

   

اساس:

اِنَّ نُوۡرَ ابی طالب یومَ القیامۃ لَیُطۡفِیءَ اَنوار الۡخَلائق اِلّا خمسۃ انوار۔ یقینًا ابوطالب کا نور قیامت کے دن سوائے پانچ انوار(نوروں) کے باقی خلائق کے انوار کو بجھا دے گا۔ (ص۲۴۸ ابو طالب مومنِ قریش از عبد اللہ الخنیزی)۔

۶۲۴

عَلِیًّا

   

علیؑ:

جامِع تِرمذی، جلدِ دُوم، ابواب المناقب میں مولا علی علیہ السّلام کے بارے میں چند احادیثِ شریف درج ہیں، منجملہ ایک ارشادِ نبوی یہ ہے: اِنَّ عَلِیًّا مِنِّیۡ وَ اَنَا مِنۡہُ وَ ھُوَ وَلِیُّ کُلِّ مُؤۡمِنٍ مِنۡم بَعدِی۔ علیؑ مجھ سے او میں اس سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا سرپرست اور والی ہے۔ یعنی نورِ نبوّت سے نورِ ولایت کا ظہور ہوتا ہے، پھر نورِ ولایت میں نورِ نبوّت پوشیدہ ہوجاتا ہے۔

۶۲۵

عمر الدّنیا

   

دنیا کی عمر:

روی عن النّبیّ صلّی  اللہ علیہ و آلہٖ وسلم انّہ قال: “عمر الدّنیا سبعۃ آلاف سنۃ بعثت فی آخر الف منھا”، و قال: “لا نبیّ بعدی” و علی آخر ھٰذہ المدۃ تقوم الساعۃ۔ آنحضرت صلعم سے روایت کی گئی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: “دنیا کی عمر سات ہزار سال تک ہے میں اس کے آخری ہزار سال میں بھیجا گیا ہوں”، اور فرمایا: “میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں”، اس امت کے آخر میں قیامت برپا ہوگی (اخوان الصفاء کا آخری رسالہ: جامعۃ الجامعۃ، الفصل التاسع، ص۸۸)۔ دنیا سے جسمانی دور مراد ہے اور قیامت کے معنی ہیں روحانی دور، جس میں روحانی سائنس سے دنیا کی بہت ترقی ہونے والی ہے۔

۶۲۶

عَمُوۡنَ

(۱)

   

دل کے اندھے:

بَلۡ ھُمۡ مِنۡھَا عَمُوۡنَ۔ بلکہ وہ اُس (آخرت) سے دل کے اندھے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یقین کی حد تک آخرت کا باطنی مشاہدہ ہوسکتا ہے (۲۷: ۶۶)۔

۶۲۷

عَمُوۡنَ

(۲)

   

دل کے اندھے:

قیامت اور آخرت کا علم اہل دانش کے لئے ضروری ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں ایک فیصلہ کن آیت سورۂ نمل (۲۷: ۶۶) میں ہے: بَلِ ادّٰرَكَ عِلۡمُهُمۡ فِی الۡاٰخِرَةِ بَلۡ هُمۡ فِیۡ شَكٍّ مِّنۡهَا- بَلۡ هُمۡ مِّنۡهَا عَمُوۡنَ۔ بلکہ آخرت کا تو علم ہی ان لوگوں

۳۵۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

سے گم ہوگیا ہے، بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں، بلکہ یہ اس سے اندھے ہیں۔ اگر جسمانی موت سے قبل نفسانی موت اور ذاتی قیامت و آخرت کا علم ممکن نہ ہوتا تو خداوند نہ فرماتا کہ ان کا علم ختم ہوچکا ہے، وہ شک میں ہیں، وہ اس سے اندھے ہیں۔

۶۲۸

عن علیؑ

(۱)

   

علیؑ سے روایت ہے:

حضرتِ علی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ابو بکر پر رحم فرمائے، اس نے اپنی بیٹی اپنی میرے نکاح میں دیدی اور مجھے دار الحجرت لیکر آئے پھر بلال کو بھی انہوں نے اپنے مال سے آزاد کرایا، اللہ عمر پر رحم فرمائے، یہ ہمیشہ حق بات کرتے ہیں اگرچہ وہ کڑوی ہو، اس لئے وہ اس حال میں ہیں کہ  ان کا کوئی دوست نہیں، اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے، اس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں، اللہ علی ؑ پر رحم فرمائے ، اللّٰھُمّ اَدِرِ الۡحَقَّ مَعَہُ حَیۡثُ دَار۔ اے اللہ یہ جہاں کہیں بھی ہو حق ان کے ساتھ رہے! (ترمذی)۔

محبوبِ خدا کی یہ بابرکت دعا نورِ امامت کے لئے ہے کہ باطل ہمیشہ دور ہو اور حق ساتھ رہے، کیونکہ اساس کے بارے میں خدا اور رسولؐ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے، وہ تمام أئمّۂ طاہرین کے بارے میں ہے۔

۳۵۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
۶۲۹

عن علیؑ

(۲)

   

علیؑ سے روایت ہے:

علیؑ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: اَنَا دَارُ الۡحِکۡمَۃِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا۔ میں حکمت کا گھر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ۔ (جامِع ترمذی، جلد دوم، ابوابُ المناقب) سوال: یہ کونسی حکمت کا ذکر ہے؟ جواب: قرآن و حدیث اور روحانیت کی حکمت، جس کا گھر رسولؐ ہیں اور دروازہ علیٔ زمانؑ ہے۔

۶۳۰

عن علیؑ

(۳)

   

علیؑ فرماتے ھیں:

حضرتِ علیؑ بن ابی طالبؑ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبیٔ کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے حسنؑ اور حسینؑ کے ہاتھ پکڑے اور فرمایا: جو مجھ سے محبّت کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ اِن دونوں اور ان کے والدین سے بھی محبّت کرے گا وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجے میں ہوگا (جامِع ترمذی)۔ یعنی ایسے شخص کو فنا فی الرّسولؑ کا مرتبہ نصیب ہوگا۔

۶۳۱

عِیَالُ اللہ

(۱)

   

خدا کی عیال، کنبہ:

الخلق عِیال اللہ، فاحبّ الخلق الی اللہ من نفع عیال اللہ و ادخل علٰی اھل بیت سرورًا۔ مخلوق تمام کی

۳۵۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

تمام خدا کی عیال ہے، لہٰذا خدا کے نزدیک محبوب ترین مخلوق وہ ہے جو خدا کی عیال کو نفع پہنچائے اور اہلِ بیت کو خوش رکھے۔ (میزان الحکمت۲، ص۳۴۷)۔ حدیثِ نبوی۔

۶۳۲

عِیَالُ اللہ

(۲)

   

خدا کی عِیال، کنبہ:

قَال اللہ عزّ وجلّ: الخلق عیالی فاحبّھم اِلَیَّ الطفھم بھم، و اسعاھم فی حوائجھم۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: تمام مخلوق میرا کنبہ ہے لہٰذا میرے نزدیک محبوب ترین بندہ وہ ہے جو ان پر زیادہ مہربان ہے اور ان کی حاجات کو پورا کرنے میں کوشش کرتا رہتا ہے۔ (میزان الحکمت۲، ص۸۲۷)۔ حدیثِ قدسی۔ اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات درجہ بدرجہ ہیں اور یہ تعلیم سب سے آخری درجے کی ہے، جس کی مثال بڑی عالیشان ہے۔

۶۳۳

عُیُوۡن

   

چشمے:

سورۂ حجر (۱۵: ۴۵) میں ہے: اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ۔ یقینًا پرہیزگار (بہشت کے) باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ سوال: قرآنِ حکیم کی اصل لغت ہی میں تاویلی حکمت پوشیدہ رہتی ہے، لہٰذا پوچھنا یہ ہے کہ متّقیۡن بہشت کے چشموں کے اندر

۳۶۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ع”
     

کس طرح رہتے ہوں گے؟ جواب: بہشت کی چار نہروں کے چار چشمے یہ ہیں: عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اور اساس، چنانچہ پرہیزگار لوگ ان حدودِ عُلوی کے انوار میں مستغرق رہتے ہیں، بہشت میں یہ فضیلت صرف متّقین ہی کو حاصل ہے۔

۳۶۱

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۳۶۲

     
    بابُ الغین

 

۳۶۳

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۳۶۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “غ”
۶۳۴

غالب

   

جیتنے والا، مغلوب کرنے والا:

یہ حربی اصطلاح ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: اِنۡ  یَّنۡصُرۡكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ  لَكُمۡ۔ اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا (۳: ۱۶۰)۔ نیز سورۂ مجادلہ میں ہے: كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ۔ اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسولؐ ہی غالب ہوکر رہیں گے (۵۸: ۲۱) اس قرآنی تعلیم سے ایسا لگ رہا ہے جیسے تمام رسولوں نے ظاہری جہا د کیا ہو، مگر ایسا نہیں ہے، پس یہی کہنا حقیقت ہے کہ ہر قیامت صغرٰی حِزُب اللہ کا روحانی جہاد ہے، جس میں یقینًا دینِ حق غالب آتا ہے۔

۶۳۵

غَدَاۃ

   

صبح کا وقت، تڑکا:

سورۂ انعام (۶: ۵۲) میں ہے: اور جو صبح و شام اپنے پرودگار کو پکارتے ہیں اور اس کی رضا (یا دیدار=  وَجۡہ) کے طالب ہیں ان کو نہ نکالو (تا آخرِ آیت) اس ارشاد میں البتہ شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کا اشارہ ہے، کیونکہ دیدار تک یہی چار منزلیں ہیں۔

۶۳۶

غَرَابِیۡبُ

   

سورۂ فاطر (۳۵) کی آیات ۲۶ تا ۲۸ کا بغور مطالعہ کریں، وہاں

۳۶۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “غ”
     

پہاڑوں کی مثال میں یہ اشارہ ہے کہ گوہرِ عقل کے ظہورات مختلف رنگوں میں ہوتے رہتے ہیں، تاکہ اس حکمتِ الوان سے مختلف رنگ کے جواہرات طرح طرح کے ثمرات، نوع بنوع اشخاص، اور دیگر مختلف قسم کی مخلوقات کے رنگ رُوپ کی ترجمانی ہو۔

۶۳۷

غَرِیۡب

(۱)

   

مفلس، نادار:

اِنَّ الۡاِسۡلَامَ بَدَأَ غَرِیۡبَا وَ سَیَعُوۡدُ کَمَا بَدَأَ فَطُوۡبٰی لِلۡغُرَبَاءِ۔ ترجمہ: اسلام غربت سے شروع ہوا اور ایک زمانہ میں پھر غریب ہو جائے گا تو غربا کیلئے طوبیٰ یعنی بہشت ہے۔ (لغات الحدیث، جلد سوم)۔

۶۳۸

غَرِیۡب

(۲)

   

اجنبی، عجیب:

حکمت: اسلامِ مُجسّم رسولِ ناطقؐ تھے، نیز اساسؑ اور امامؑ اور آخر میں قائمِ آلِ محمّدؐ دینِ مجسّم ہیں، پس جس طرح لوگوں نے شروع میں آنحضرتؐ کو نہیں پہچانا، اسی طرح آخر میں آپؐ کے جانشین لوگوں کی نظر میں غریب (اجنبی) ہوگئے، اسی لئے فرمایا گیا ہے: ۔۔۔۔ غریبم قلبِ تو ۔۔۔۔۔ مولانا علی۔

۳۶۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “غ”
۶۳۹

غِلۡمَانٌ

   

بہشت کے لڑکے:

یہ سورۂ طور کا ایک ارشاد ہے: وَ یَطُوۡفُ عَلَیۡهِمۡ غِلۡمَانٌ لَّهُمۡ كَاَنَّهُمۡ لُؤۡلُؤٌ مَّكۡنُوۡنٌ۔ اور نوجوان لڑکے جو چھپائے ہوئے موتی کی طرح ہیں اُن کے آس پاس خدمت کے لئے پھریں گے (۵۲: ۲۴) یعنی عقلی غلمان جو بار بار نمونۂ علم اور مظاہرۂ حکمت پیش کرتے رہتے ہیں۔

اِس آیۂ کریمہ میں اسرارِ گنجِ ازل ، لُؤلوئے عقل اور کتابِ مکنون کی طرف لطیف اشارے ہیں۔

۶۴۰

غَوَّاص

(۱)

   

غوطہ مارنے والا:

حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی ظاہری بادشاہی سے باطنی بادشاہی کہیں زیادہ زبردست تھی، چنانچہ خیر و شر کی دونوں طاقتیں ان کے لئے مسخّر کی گئی تھیں، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ الشَّیٰطِیۡنَ كُلَّ بَنَّآءٍ وَّ غَوَّاصٍ (۳۸: ۳۷) اور دیووں کو بھی (ان کے زیر فرمان کیا) وہ سب عمارتیں بنانے والے اور غوطہ مارنے والے تھے۔

جب ظاہری بادشاہ خود کام نہیں کرتا ہے بلکہ مختلف کارکنوں سے کام لیتا ہے تو یقین کرنا ہوگا کہ روحانی بادشاہ بھی کسی کام کو بنفسِ نفیس انجام نہیں دیتا بلکہ اس کے حکم سے خیر و شرّ کی تمام طاقتیں

۳۶۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “غ”
     

کام کرتی رہتی ہیں۔

۶۴۱

غَوَّاص

(۲)

   

غوطہ زن:

اے نورِ عینِ من! ایسا خیال نہ کرنا کہ صرف ظاہر ہی میں خوبصورت عمارتیں بنائی جاتی ہیں اور صرف مادّی سمندر میں غوّاصی ہوتی ہے، ایسا نہیں، بلکہ یہ تمام چیزیں انتہائی عمدگی کے ساتھ روحانیت میں ہیں، روحانی سلطنت کی بہت بڑی شان ہے کہ اس میں شیاطین بھی تعمیری کاموں کو انجام دیتے ہیں، کتنی عجیب بات ہے کہ شیاطین بحرِ روحانیت میں غوطہ لگا کر علم و حکمت کے موتی نکالتے ہیں، سُبحان اللہ!

۳۶۸

     
    بابُ الفاء

 

۳۶۹

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۳۷۰

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ف”
۶۴۲

فاطمہ

(۱)

   

بنتِ رسولؐ، خواتینِ جنّت کی سردار:

قال النّبی صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم: فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَاءِ اَھۡلِ الۡجَنَّۃِ۔ آن حضورؐ نے فرمایا تھا کہ فاطمہؑ جنّت کی عورتوں کی سردار ہے (صحیح البخاری، جلد دوم، باب۳۹۴) یہ حدیثِ شریف اہل بیتِ اطہار علیہم السّلام کی عظمت و بزرگی کی دلیلوں میں سے ہے۔

قال النّبی صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم: فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَاءِ اَھۡلِ الۡجَنَّۃِ۔ فاطمہؑ جنّت کی خواتین کی سردار ہیں (صحیح بخاری، جلد دوم، کتاب الانبیاء، باب ۳۹۴ اور باب ۴۱۳) یعنی بہشت کی خواتین کی بادشاہ کیونکہ وہاں عظیم اہل ایمان کے لئے بادشاہی ہے (دیکھئے سورۂ دھر ۷۶: ۲۰)۔

۶۴۳

فاطمہ

(۲)

   

سیّدۂ نساءِ مومنین:

آنحضور صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے حضرتِ فاطمہؑ سے فرمایا: اِلَا تَرۡضَیۡنَ اَنۡ تَکُوۡنِیۡ سَیِّدَۃَ نِسَاءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَوۡ سَیِّدَۃَ نِسَاءِ ھٰذِہِ الۡاُمَّۃِ۔ فاطمہ! کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو؟ کہ تم مومنین کی عورتوں کی سردار ہو یا (فرمایا) اس امّت کی عورتوں کی سردار ہو (صحیح بخاری، جلد سوم، کتاب الاستیذان، باب۷۲۷، نیز صحیح

۳۷۱

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ف”
    مسلم، جلد ششم، کتاب الفضائل، باب: حضرتِ فاطمہ کی فضیلت)۔
۶۴۴

فاطمہ

(۳)

   

سیّدۂ نساءِ عالمین:

پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے حضرتِ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا: بیٹی! تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم نساءِ عالمین کی سیّدہ (سردار) ہو، فاطمہؑ نے فرمایا: باوا جان! مریم علیہا السّلام کدھر گئیں؟ فرمایا: وہ اپنے زمانے کے عورتوں کی سردار ہے اور تم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہو اور تمہارا شوہر دنیا اور آخرت میں سیّد ہے (رحمۃ للعالمین، جلد دوم)۔

۶۴۵

فاطمہ

(۴)

   

سیّدۂ خواتینِ جنّت:

ایک دفعہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے زمین پر چار خط کھینچے پھر لوگوں سے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ سب نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں، آپؐ نے فرمایا: فاطمہؑ بنتِ محمّدؐ، خدیجہ بنتِ خُوَیۡلِد، مریم بنتِ عمران، آسیہ بنتِ مزاحم (زوجۂ فرعون) ان لوگوں کو جنّت کی عورتوں پر سب سے زیادہ فضیلت ہے (کتاب: فاطمۃ الزّہرا، از طالب ہاشمی، بحوالۂ الاستیعاب، حافظ ابنِ عبد البّر)۔

۳۷۲

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ف”
۶۴۶

فَجۡر

   

صبح، صبحِ ازل:

سورۂ قدر (۹۷) صرف پانچ آیات پر مبنی ہونے کے باوجود دورِ قیامت کی بہت سی عالمگیر حکمتوں اور حقیقتوں سے لبریز ہے، اس کی آخری آیتِ کریمہ یہ ہے: سَلٰمٌ ھِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ (۹۷: ۵) یہ رات طلوعِ صبح تک (امان اور) سلامتی ہے۔

تأویل: حجّتِ قائم کا زمانہ روحانی تائیدات کا باعث ہے تا آنکہ صبحِ ازل کا طلوع ہوجائے، چونکہ ہر چیز کی گردش ایک دائرے پر ہے (۲۱: ۳۳؛ ۳۶: ۴۰) اس لئے روحانی سفر کا رجوع ازل کی طرف ہے، جہاں قیامت کی صبح ہوجاتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: قیامت تمہارے پروردگار کے پاس جاکر ختم ہوجاتی ہے (۷۹: ۴۴)۔

۶۴۷

فِداء

(۱)

   

نثار، قربان، صدقے، عوض، بدلہ:

حضرتِ علیؑ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے اپنے ماں باپ کو کسی کے لئے جمع نہیں کیا (یعنی یوں نہیں فرمایا کہ میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں) مگر سعد بن مالک (یعنی سعد بن وقاص) کے لئے آپؐ نے اُحُد کے دن اُن سے فرمایا: تیر مار اے سعد! میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں! اِرِمِ فِدَاکَ اَبِیۡ وَ اُمِّیۡ)۔

۳۷۳

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ف”
۶۴۸

فِداء

(۲)

   

قربان کرنا، نثار کرنا، وارنا، تصدق کرنا، چھڑکنا:

کتنا عمیق اور تہ بہ تہ حکمتوں پر مبنی ارشاد ہے کہ اس عظیم المرتبت پیغمبرؐ نے اُوپر کی طرف فرمایا جو ارض و سما میں بے مثیل و بے عدیل اور محبوبِ خدا ہیں، لفظِ فداء فدیہ سے ہے اس کے مختلف صیغے قرآنِ حکیم کے تیرہ مقامات پر موجود ہیں، اور ان میں سب سے روشن مثال یہ ہے: وَ فَدَیۡنٰہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡمٍ۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی (یعنی مینڈھے) کا فدیہ دیکر اس کو چھڑایا (۳۷: ۱۰۷) اس کی تأویل یہ ہے کہ حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام کی جسمانی قربانی کے عوض باطنی اور روحانی قربانی ہوئی، جو بہت بڑی قربانی ہے۔

۶۴۹

فِداء

(۳)

   

قربان ہونا:

میرے نزدیک قربانی دو طرفہ ہے، اس لئے دو قسم کی ہے، ایک عروجی اور دوسری نزولی، مثلًا جو ایندھن کائنات سے سورج میں پڑ جاتا ہے وہ عروجی قربانی ہے اور جو روشنی سورج سے خارج ہوکر کائنات میں بکھر جاتی ہے وہ نزولی قربانی ہے، امام علیہ السّلام کے عشق و محبّت میں مریدوں کا پگھل جانا عروجی قربانی ہے اور اُن پر نور کی کرنوں کی بارش نزولی قربانی ہے۔

۳۷۴

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ف”
۶۵۰

فَرَاش

   

پروانے، چراغ کے پتنگے، واحد فَرَاشَہ:

سورۂ قارعہ (۱۰۱: ۴) میں ارشاد ہے: یَوۡمَ یَکُوۡنُ النَّاسُ کَا لۡفَرَاشِ الۡمَبۡثُوۡثِ۔ (وہ قیامت ہے) جس دن لوگ ایسے ہوں گے جیسے بکھرے ہوئے پروانے۔ اس کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ قیامت کی تاریکی اور ہولناکی سے گھبرا کر تمام پروانہ ہائے ارواح چراغِ نورِ امامت کے ارد گرد بکھر جائیں گے، جیسا کہ دوسری متعلقہ آیۂ کریمہ کا ارشاد ہے:

یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمۡ (۱۷: ۷۱) جس روز ہم اہلِ زمانہ کو اُن کے امامؑ کے ساتھ بلائیں گے۔

۶۵۱

فرقان

(۱)

   

(مصدر) حق و باطل کو جدا جدا کرنا:

بنی اسرائیل سے خطاب ہے: وَ اِذۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَى الۡكِتٰبَ وَ الۡفُرۡقَانَ لَعَلَّكُمۡ تَهۡتَدُوۡنَ۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے موسٰیؑ کو کتاب (توریت) عطا کی اور حق و باطل کا جدا کرنے والا مجموعۂ معجزات بھی (عنایت کیا) تاکہ تم ہدایت پاؤ (۲: ۵۳) لفظِ “فرقان” اصل میں مصدر ہے بمعنی حق و باطل میں فیصلہ کرنا، فرق کرنا، جُدا کرنا، نیز اس کا استعمال بمعنیٔ فاعل “حق و باطل کے درمیان امتیاز کر دینے والی چیز” کے لئے ہوتا ہے، چنانچہ قرآنِ کریم میں اس لفظ کا استعمال مردِ مومن کی

۳۷۵

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ف”
     

روشنیٔ قلب، توفیقِ خداوندی، کلامِ الٰہی اور معجزہ کے لئے ہوا ہے (قاموس القرآن)۔

دورِ موسٰی کی ہدایت کے لئے اللہ تعالٰی نے جو وسائل عطا کئے وہ یہ تھے: آسمانی کتاب، پیغمبر (موسٰی) امام (ھارون) فرقان (معجزات) اسی طرح آنحضرتؐ کے دور کی ہدایت کے لئے بھی چار مگر بہت ہی عظیم چیزیں ہیں: قرآنِ حکیم، پیغمبرِ اکرمؐ، امامِ عالی مقامؑ، قرآنی تاویلات جو پیغمبرؐ اور امامؑ کے عقلی معجزات ہیں۔

۶۵۲

فرقان

(۲)

   

توریت اور معجزات:

یہ ارشاد سورۂ انبیاء (۲۱: ۴۸) میں ہے: وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسٰى وَ هٰرُوۡنَ الۡفُرۡقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِكۡرًا لِّلۡمُتَّقِیۡنَ۔ اور یقینًا ہم نے عطا فرمایا موسٰی اور ہارون (علیھما السّلام) کو فرقان (توریت) اور نور اور ذکر پرہیزگاروں کے لئے (۲۱: ۴۸) یہاں آپ حدیثِ مماثلتِ ھارونی کو ذہن و خاطر میں لاکر خوب سوچیں اور مولا علیؑ کے مرتبۂ تأویل کو پہچان لیں، نیز اس حقیقت کا بھی یقین کرلیں کہ نورِ نبوّت اور نورِ امامت کے توسط سے آسمانی کتاب کے تمام روحانی، علمی، عقلی، اور عرفانی معجزات ان پرہیزگاروں کی طرف آتے ہیں جو ذکر اسمِ بزرگ سے وابستہ ہیں، کیونکہ یہ سب کچھ بالآخر متّقین ہی

۳۷۶

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ف”
     

کے لئے ہے۔

۶۵۳

فرقان

(۳)

   

قرآن کی روح او روحانیت:

سورۂ انفال (۸: ۲۹) میں ہے: اے ایمان والو! اگر تم خدا سے ڈرتے رہوگے تو وہ تمہارے واسطے ایک فرقان (یعنی قرآن کا باطنی علم) عطا کرے گا (۸: ۲۹) وسیع تر معلومات کے لئے آپ اس آیۂ کریمہ کے مختلف ترجموں کو بھی دیکھ لیں، میرے عقیدے کے مطابق یہاں بھی وہی مفہوم ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، یعنی قرآن کے روحانی اور عقلی معجزات پرہیزگاروں کے لئے ہیں۔

۶۵۴

فرقان

(۴)

   

نورانی معجزات:

لُغاتُ القرآن، جلد سوم، صفحہ ۹۸ پر بقولِ مجاہد لکھا ہے کہ “رمضان” اسماء الٰہی میں سے ہے، جس طرح “شَھۡرُ اللہ” (خدا کا مہینہ) کہتے ہیں، اسی طرح “شَھۡرُ رمضان” (خدا کا مہینہ) کہا جاتا ہے (لغات الحدیث میں بھی اس لفظ کو دیکھیں)۔ پس وجہِ دین کی یہ تأویل درست ہے: شَهۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡٓ اُنۡزِلَ فِیۡهِ الۡقُرۡاٰنُ۔ خدا کا مہینہ وہ شخص ہے جس کی ذات میں قرآن (بصورتِ تأویل) نازل کیا گیا ہے (یعنی وصیٔ رسولؐ) تاکہ وہ لوگوں کو سیدھا

۳۷۷

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ف”
     

راستہ دکھائے اور راہِ راست کے بیانات کو وہی جدا کرے، (۲: ۱۸۵۔ وجہِ دین، گفتار/ کلام۳۳)۔

۶۵۵

فِرُّوۡا

   

تم دَوڑو:

ارشاد ہے: فَفِرُّوۡا اِلَی اللہِ (۵۱: ۵۰) پس تم خدا کی طرف دوڑو۔ دوڑنے کا حکیمانہ اشارہ ہے کہ دین کا ہر عمل بھرپور قوّت اور سرعت سے انجام دیا جائے، مثال کے طور پر ذکرِ جلی یا ذکرِ خفی تسلّی بخش نہیں ہو رہا ہو تو اس کی وجہ سوائے سستی کے اور کیا ہوسکتی ہے، سو اس کا چارۂ کار یہ ہے کہ آپ اللہ کی طرف دوڑتے جائیں، یعنی ذکر سریع کریں۔

۶۵۶

فَصۡلَ الۡخِطَاب

   

قولِ فیصل اور بیانِ شافی:

سورۂ ص (۳۸: ۲۰) میں حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی ظاہری اور روحانی بادشاہی کے باب میں ارشاد ہوا ہے: اور ہم نے ان کی بادشاہی کو مستحکم کیا اور ان کو حکمت عطا فرمائی اور “فصل الخطاب” کا مرتبہ عنایت کیا۔ تأویل: عالمِ شخصی میں گوہر عقل کی عملی معرفت کا نام حکمت ہے اور کلمۂ باری کی ایسی معرفت کو فصل الخطاب کہا گیا ہے یہ سِرّ الاسرار اتنا عظیم اور ایسا مخزون و مکنون ہے کہ اس کے انکشاف سے ڈر لگتا ہے، پھر مزید کیا بیان کریں۔

۳۷۸

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ف”
۶۵۷

فِطۡرَۃ

(۱)

   

تخلیق، آفرینش، بناوٹ، قانونِ فطرت:

قانونِ فطرت کی کئی تعریفیں ہوسکتی ہیں، لیکن ایک چوٹی کی تعریف یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا، اور جب بنی آدمؑ بہشت میں داخل ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے باپ آدمؑ کی صورت پر ہوتے ہیں، یعنی ان کو بھی صورتِ رحمان پر پیدا کیا جات ہے۔ (ملاحظہ ہو: صورۃ)۔

۶۵۸

فِطۡرَۃ

(۲)

   

تخلیق، آفرینش، بناوٹ، قانونِ فطرت:

ارشادِ قرآنی ہے: فَاَقِمۡ وَجۡهَكَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًاؕ- فِطۡرَتَ اللّٰهِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡهَا۔۔۔۔ (۳۰: ۳۰)۔ سو تم یکسو ہوکر اپنا چہرۂ جان دین کے لئے قائم کرو (یعنی صورتِ رحمان میں فنا ہوکر صورتِ رحمان ہوجاؤ) اللہ کی (عقلانی اور پُرنور) آفرینش وہ ہے جس کے مطابق اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (یعنی جسمانی تخلیق کے بعد روحانی تخلیق ہے، اور آخرًا عقلانی تخلیق ہے، جس میں حضرتِ آدمؑ کی طرح صورتِ رحمان پر پیدا ہوجانا ہے)۔

۶۵۹

فِطۡرَۃ

(۳)

   

تخلیق، آفرینش، بناوٹ، قانونِ فطرت:

لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰهِؕ ذٰلِكَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ۔۔۔۔ (۳۰: ۳۰)

۳۷۹

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ف”
     

خدا کی (خاص اور عقلی) آفرینش میں کوئی تبدیلی نہیں، اور یہی ملّتِ قائمہ ہے (لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے) یہ ممکن نہیں کہ لوگ خدا کی ذات سے آئے ہوں، بلکہ اس کی صورتِ رحمانی کے عکس سے پیدا کئے گئے ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ نفس واحدہ (آدمؑ) کو صورتِ رحمان پر پیدا کیا گیا، جس میں سب تھے اور جب لوگ اپنی اصل سے واصل ہونے لگتے ہیں تو پھر اُن کی صورت وہی ہوجاتی ہے جو پہلے تھی۔

۶۶۰

فِطۡرَۃ

(۴)

   

دینِ اسلام:

حدیثِ شریف میں ہے: کُلُّ مَوۡلُوۡدٌ یُوۡلَدُ عَلَی الۡفِطۡرَۃِ وَ اَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوۡ یُنَصِّرَانِہٖ اَوۡ یُمَجِّسَانِہٖ۔ ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوجاتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ بہت بڑا راز ہے کہ اس حدیث میں لفظِ “فطرت” دینِ اسلام کے معنی میں آیا ہے۔

قانونِ فطرت اور قانونِ دین کیونکر مختلف اور دو ہوسکتے ہیں، جبکہ اسلام ہی دینِ فطرت ہے، یعنی یہ ایسا دین ہے جو قانونِ آفرینش کے عین مطابق ہے۔

۳۸۰

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ف”
۶۶۱

فِطۡرَۃ

(۵)

   

دینِ اسلام:

اس حدیث کی حکمت یہ ہے کہ اقوامِ عالم کا ہر بچہ بحدِ قوّت فطرت (اسلام) پر پیدا ہوجاتا ہے، اور آگے چل کر بحدِ فعل اسلام کی تمام تر خوبیوں کو اپنا سکتا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس پر والدین کا کیا اثر پڑتا ہے، کیونکہ اگر والدین اس باب میں اپنے بچوں کے لئے کچھ بھی نہ کرسکتے تو قرآنِ حکیم یوں نہ فرماتا: یٰٓاَیُّهَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡٓا اَنۡفُسَكُمۡ وَ اَهۡلِیۡكُمۡ نَارًا (۶۶: ۶) اے ایمان والو! تم اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو (دوزخ کی) آگ سے بچاؤ۔

۶۶۲

فُلۡک

   

سفینہ، کشتی، امامِ مبینؑ کا عالمِ شخصی:

زمانے کا امامؑ کشتیِ نوحؑ ہے جیسا کہ سورۂ یاسین (۳۶: ۴۱ تا ۴۲) میں ارشادِ خداوندی ہے: (ترجمہ) ان کے لئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کے روحانی زرّات کو (نوحؑ کی) بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا، اور پھر ان کے لئے ویسی ہی کشتیاں اور پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں، امامِ برحق علیہ السّلام کا مبارک عالمِ شخصی ہمیشہ سفینۂ باطن رہا ہے، جس میں عالمِ زرّ موجود ہے تاکہ اس میں جملہ اشیاء اور سارے لوگوں کے روحانی زرّات محفوظ ہوں۔

۳۸۱

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ف”
۶۶۳

فَنَا

   

نیستی، موت، نفسانی موت:

اے نورِ عینِ من! اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ امامِ زمانؑ آپ کی پاک و پاکیزہ روح ہے، پس آپ عشق و محبّت، علم اور حقیقی فرمانبرداری کے وسیلے سے امامؑ میں فنا ہوکر اس پاک روح کو حاصل کرو تاکہ جہالت و نادانی کے عذاب سے نجات ملے۔

آپ نے بارہا سنا اور دیکھا ہے کہ جماد کی روح نبات ہے اور نبات کی اضافی روح حیوان، حیوان کی باشعور روح انسان ہے، اور تمام انسانوں کی قدسی (پاک) روح امامِ مبینؑ ہے، کیونکہ اللہ جلّ جلالہ کے پاس جانے کے لئے روحانی ترقّی کی سیڑھیاں ہیں (۷۰: ۳)۔

۶۶۴

فی اللہ

   

خدا کے بارے میں:

حضرتِ امام محمّد باقر علیہ السّلام کا مبارک ارشاد ہے: ما قیل فی اللہ فھو فینا ، و ما قیل فینا فھو فی بلغاء من شیعتنا۔ جو بات اللہ تعالٰی کے متعلق کہی گئی ہے وہ ہم پر صادق آتی ہے، اور جو بات ہمارے متعلق کہی گئی ہے وہ ہمارے بلیغ شیعوں پر صادق آتی ہے (تأویل الزّکوٰۃ، لِسّیِدنا جعفر بن منصور الیمن، ص۱۴۰)۔ یہ ایک بے مثال اور لازوال عرفانی خزانہ ہے۔

۳۸۲

     
    بابُ القاف

 

۳۸۳

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۳۸۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
۶۶۵

قٓ

(۱)

   

قلمِ اعلٰی:

سورۂ قٓ کے آغاز (۵۰: ۱) میں ہے: قٓ  ڟ وَ الْقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ۔ قسم ہے قلمِ اعلٰی کی اور معزّز قرآن کی۔ قرآن جو لوحِ محفوظ میں ہے وہ قلمِ اعلٰی کا لکھا ہوا ہے، یہاں اِس قَسم میں یہی اشارہ فرمایا گیا ہے۔

۶۶۶

قٓ

(۲)

   

کوہِ قاف:

اس سے کوہِ عقل مراد ہے، جیسے مولا علی علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: انا لؤلؤ الاصداف، انا جبل قاف۔ یعنی میں ہی وہ گوہرِ یکدانہ ہوں، جس میں تمام اعلٰی مقاصد جمع ہیں، اور میں ہی کوہِ قاف ہوں، جس پر عالمِ عقل کے عجائب و غرائب موجود ہیں (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: چہل کلید، کلید نمبر۳۳ کوہِ قاف، نیز لُبِّ لباب، کوہِ قاف، ص۲۸)۔

۶۶۷

قال النّبی

   

آنحضرتؐ نے فرمایا:

وَالَذِیۡ  نَفۡسِیۡ بِیَدِہِ لَا یَدۡخُلُ قَلۡبَ عَبۡدٍ اِیۡمَانُ حَتـّٰی یُحِبَّ اَھۡلَ الۡبَیۡتِ لِلّٰہِ عَز وَ جَلَّ وَلِیۡ۔ اُس ذات پاک کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، کسی بندے کے دل

۳۸۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
     

میں ایمان داخل نہیں ہوتا، جب تک کہ میرے اہل بیت سے خدائے عزو جلّ کے لئے اور میرے لئے محبت نہیں کرتا ہے۔ یہاں یہ روشن حقیقت ہے کہ حقیقی ایمان کی اوّلین اور بنیادی شرط اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کی دوستی و محبت ہے (شرح الاخبار، جلد۱۰، ص۴۸۳)۔

۶۶۸

قال باقر

   

امام محمّد باقرؑ کا ارشاد:

حضرتِ امام محمّد باقر علیہ السّلام نے فرمایا: ما قیل فی اللہ فھو فینا ، و ما قیل فینا فھو فی بلغاء من شیعتنا۔ جو بات اللہ تعالٰی کے متعلق کہی گئی ہے وہ ہم پر صادق آتی ہے، اور جو بات ہمارے متعلق کہی گئی ہے وہ ہمارے بلیغ شیعوں پر صادق آتی ہے (تأویل الزّکوٰۃ، ص۱۴۰ از سیّدنا جعفر بن منصور الیمن)۔

۶۶۹

قال رسول اللہ

(۱)

   

آنحضرت نے فرمایا:

قَدۡ خَلَّفۡتُ فِیۡکُمُ الثَّقَلَیۡنِ اَحَدُ ھُمَا اَکۡبَرُ مِنَ الۡآخِرِ سَبَبًا مَوۡصُوۡلاً مِنَ السَّمَاءِ اِلٰی الۡاَرۡضِ: کِتَابُ اللّٰہِ وَ عِتۡرَتِیۡ اَھۡلَ بَیۡتِیۡ، فَاِنَّھَمَا لَنۡ یَتَفَرَّقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیَّ الۡحَوۡضَ۔ میں نے اپنی جگہ دو گرانقدر چیزیں تم میں چھوڑ دی

۳۸۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
     

ہیں، اُن میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے، وہ (گویا) آسمان اور زمین کے مابین لگائی ہوئی رسی ہیں، وہ اللہ کی کتاب (قرآن) اور میرے اہلِ بیت کی عترت ہیں، پس یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، تا آنکہ حوض کوثر پر مجھ سے مل جائیں۔

دو ایسی عدیم المثال اور عظیم الشّان چیزیں ہیں جن میں سے ہر ایک آسمان زمین بلکہ کون و مکان سے بھی زیادہ بھاری ہے، یعنی قرآن اور اس کا معلّم (امامؑ) جن کو آنحضورؐ نے اپنا خلیفہ بنایا اور یہی اللہ کی رسّی ہے، جو آسمان سے زمین تک باندھی ہوئی ہے تاکہ اہل زمین کو آسمان پر اٹھا لیا جائے (شرح الاخبار، جُز۱۰، ص۴۸۱)۔

۶۷۰

قال رسول اللہ

(۲)

   

آنحضرت نے فرمایا:

اِنِّیۡ تَارِکٌ فِیۡکُمُ الثَّقَلَیۡنِ اَحَدُھُمَا اَکۡبَرُ مِنَ الۡآخِرِ: کِتَابُ اللہِ حَبۡلٌ مَمۡدُوۡدٌ مِنَ السَّمَآءِ اِلٰی الۡاَرۡضِ طَرَفٌ مِنۡہُ عِنۡدَ اللہِ وَ طَرَفٌ مِنۡہُ فِیۡ اَیۡدِیۡکُمۡ فَاسۡتَمۡسِکُوۡا بِہِ وَ عِتۡرَتِیۡ۔ یقینا میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ جانے والا ہوں ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے، اللہ کی کتاب ہے جو (گویا) آسمان سے لیکر زمین تک ایک کھینچی ہوئی رسّی ہے،

۳۸۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
     

جس کا ایک سرا خدا کے پاس ہے اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھوں میں ہے، اور میری عترت بھی اسی سے مل کر ہے۔

قرآن اور امامؑ عالمِ وحدت میں ایک ہی نور ہے جو عرشِ برین سے فرشِ زمین تک ایک کھینچی ہوئی رسی (یا ستون) کی طرح قائم ہے۔ (شرح الاخبار، جزء۱۰، ص۴۷۹)۔

۶۷۱

قال علی

   

علیؑ نے فرمایا:

نزل قراٰن أرباعًا، فَرُبعٌ فینا، و ربعٌ فی عدوِّنا، و ربعٌ سِیَر وّ امثال، و ربعٌ فرائض وّ أحکام، و لنا کرائم القراٰن۔ قرآن چار چوتھائیوں میں نازل ہوا ہے، پس ایک چوتھائی ہمارے بارے میں ہے، ایک چوتھائی ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہے، ایک چوتھائی میں عادتیں اور مثالیں ہیں، اور ایک چوتھائی فرائض و احکام پر مبنی ہے، اور قرآن کی (سب سے) باکرامت آیات ہمارے بارے میں ہیں۔ (شرح الاخبار، جلد۹، علیؑ فی القرآن، ص۳۵۳)۔

۶۷۲

قالب

(۱)

   

سانچا، ڈھانچہ، قالب، جسم:

حدیثِ شریف ہے: روحُ المؤمنِ بَعد الموتِ فِی قالِبٍ

۳۸۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
     

کقالِبہٖ فی الدّنیا۔ مومن کی روح مرنے کے بعد ایک قالب میں رکھی جاتی ہے جو اسی صورت کا ہوتا ہے جیسے دنیا میں اس کا قالب تھا (صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ دنیا کا قالب کثیف تھا، وہ لطیف اور نورانی ہوتا ہے، لغات الحدیث، جلد سوم، کتاب “ق” ص۱۴۲)۔

۶۷۳

قالب

(۲)

   

سانچا، جسمِ کثیف، جسمِ لطیف:

حکمتِ حدیث کے مطابق جسمِ انسانی کا دوسرا نام “قالب” یعنی سانچا (MOULD) اس لئے استعمال ہوا ہے کہ یہ خدا کے حکم سے مقامِ روحانیت پر سچ مچ سانچے کا کام کرتا ہے چنانچہ ہر انسانِ کامل کے قالب میں ڈھلی ہوئی روح کائناتی روح کی بےشمار کاپیاں یعنی زندہ تصویریں ہوا کرتی ہیں، حضرتِ داؤود علیہ السّلام کی مثال کو لیجئے، کہ ان کے مبارک قالب کی ہر کاپی خود داؤدؑ بھی ہے، عالم شخصی بھی، لپیٹی ہوئی کائنات بھی، فرشتہ بھی ہے، جسمِ لطیف بھی، اور جامۂ جنّت بھی۔

۶۷۴

قالب

(۳)

   

جسمِ لطیف، لَبُوس، جُثَّۂ اِبداعیہ:

سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۰) میں خداوندِ عالم اپنے احسانِ عظیم کا ذکر جمیل

۳۸۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
     

فرماتا ہے: وَ عَلَّمۡنٰہُ صَنۡعَۃَ لَبُوۡسٍ لَّکُمۡ۔ اور ہم نے داؤدؑ کو تمہارے لئے ایک پُوشِش بنانا سکھا دیا۔ اگر ان پرحکمت الفاظ میں سے لَبُوۡسٍ (پُوشِش) کی مثال اور ممثول کی وضاحت کرکے خداوندِ قدّوس کے اصل احسان کو ظاہر نہ کیا جائے تو مثال یعنی ذرّہ سے متعلق آج کے زمانے میں کئی سوالات پیدا ہوسکتے ہیں، لہٰذا ہم یہ کہیں گے کہ لبوس کی تاویل جسمِ لطیف ہے اور داؤد سے ہادیٔ زمان مراد ہے۔

۶۷۵

قالب

(۴)

   

جامۂ جنّت، اُڑن طشتری جیسا باکمال انسان:

دنیا کے لباس میں نہ تو عقل و جان ہے اور نہ حس و حرکت، لیکن بہشتی لباس حیاتِ طیّبہ اور عقلِ کامِل کی خوبیوں سے مزیّن و آراستہ ہیں، چنانچہ جامۂ جنّت کے جتنے کام ہیں اتنے نام بھی ہیں، جیسے جسمِ لطیف، جُثّۂ ابداعیہ، جسمِ فلکی، کوکبی بدن، فرشتہ، لطیف انسان، مومن جنّ/ پری، محراب (قِلعہ)، سِربال (جمع سرابیل)، رِیش، لَبُوس، حریر وغیرہ، پس یہ مومنین و مومنات کے لئے نُورِ منزّل کے قالب (سانچے) میں بنائے ہوئے نورانی لباس ہیں، جس کے طریقِ کار کا ذکر ہوچکا، اور ہماری کئی تحریروں میں اس راز کا تذکرہ ہے۔

۳۹۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
۶۷۶

قالب

(۵)

   

زندہ اور باشعور تصویریں:

حضرتِ علیؑ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: جنّت میں ایک بازار ہوگا، جس میں خرید و فروخت نہیں ہوگی، ہاں اس میں عورتوں اور مردوں کی تصویریں ہوں گی، جو جسے پسند کرے گا اُسی کی طرح ہوجائے گا، (جامع ترمذی، جلد دوم، جنّت کا بیان)۔

بہشت کی کوئی چیز عقل و جان کے بغیر نہیں، لہٰذا یہ تصویریں خاص و عام انسانوں کی خوبصورت کاپیاں ہیں، اور ان میں عارفین و کاملین کی کاپیاں بھی ہیں، جو انفرادی قیامت میں تیار ہوتی ہیں۔

۶۷۷

قَانِتۡ

   

فرمانبرداری کرنے والا، خشوع و خضوع کرنے والا:

اے عزیزانِ من! سورۂ نحل (۱۶: ۱۲۰) میں اس عجیب و غریب حکمت کو چشمِ بصیرت سے دیکھ لیں کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام اپنے عالمِ شخصی میں ایک ایسی بہت بڑی اُمّت تھے جس کی صفت تھی عاجزی اور خشوع کے ساتھ فرمانبرداری میں لگے رہنا اور خدائے واحد کو پہچاننا، اس کے معنی ہیں کہ اگرچہ ان کی ذات میں ساری کائنات لپیٹی ہوئی تھی لیکن تذکرہ خدا کے ان فرمانبرداروں کا ہے جو آپؑ

۳۹۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
     

کی ہستیٔ مبارک کے سانچے میں ڈھل ڈھل کر آپ کی کاپیاں ہوگئے تھے، اور حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام لوگوں کے امام تھے۔

۶۷۸

قائم

   

حضرتِ قائمؑ:

کتاب وجہِ دین، گفتار/ کلام۳۳ کے آخر میں ہے: قائم (علیہ السّلام) کو کوئی شخص نہ پہچان سکے گا، مگر پانچ حدود کے ذریعے سے، جیسے اساس، امام، باب، حجّت اور داعی۔ مذکورہ کتابِ مستطاب میں جگہ جگہ حضرتِ قائم القیامۃؑ کا ذکر آیا ہے، آپ اس کو پڑھیں۔

۶۷۹

قَبۡر

   

گور، قبر، جمع قبور:

وجودِ انسانی تین چیزوں کا مجموعہ ہے: جسم، روح اور عقل، لہٰذا قبر بھی تین قسم کی ہوا کرتی ہیں: جسمانی، روحانی اور عقلانی، اس سے معلوم ہوا کہ خاکی قبر صرف جسم ہی کے لئے ہوتی ہے، اور روح حدودِ دین میں سے کسی حد میں جاتی ہے، اور عقلی قبر مظاہرۂ حکمت کی خاطر ہوتی ہے۔

۳۹۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
۶۸۰

قَبَس

(۱)

   

اںگارا، چںگاری، آگ کا شعلہ، جلتی ہوئی لکڑی کا شعلہ:

اَلۡقَبَسُ وَ الۡمِقۡبَاسُ۔ آگ کا وہ شعلہ جو بڑی آگ سے لیا جائے۔ حضرتِ موسٰی علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں جس نار (آگ) کا ذکر آیا ہے (۲۰: ۱۰؛ ۲۷: ۷؛ ۲۸: ۲۹) وہ آتشِ عشق بھی ہے، چراغِ ہدایت بھی اور نورِ عقل بھی، یہ قرآنِ حکیم کے معجزات میں سے ہے کہ اس میں جگہ جگہ اچھوتے اسرار پنہان ہیں، جیسے حکایتِ موسٰیؑ میں ارشاد ہے: اِذۡ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَهۡلِهِ امۡكُثُوۡٓا اِنِّیۡٓ اٰنَسۡتُ نَارًا۔ جب انہوں نے آگ دیکھی تو اپنے لوگوں سے کہنے لگے کہ ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے۔ پس یہاں “اٰنَسۡتُ” میں ایک لطیف اشارہ ہے جبکہ اِنِّیۡ رَأَیۡتُ نَارًا بھی ہوسکتا تھا، لیکن اٰنستُ میں نور سے عشق و محبّت ہونے کا اشارہ موجود ہے، کیونکہ اس کے مادّہ (ا ن س) سے بننے والے الفاظ میں مانوسیت، لطف، مہربانی، محبّت، اور تسلّی جیسے معنی ہیں۔

۶۸۱

قَبَس

(۲)

   

نور کی چنگاری:

سورۂ طٰہٰ میں جہاں (۲۰: ۱۰) نور کی چنگاری یا شعلہ لانے کا ذکر آیا ہے، وہاں قبلًا (۲۰: ۸) الۡاَسۡمَاءُ الۡحُسۡنٰی کا تذکرہ ہے، جس کا اشارہ

۳۹۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
     

یہ ہوا کہ ہادیٔ برحق اللہ کے فضل و کرم سے اپنی ذات اور اپنے تابعدار لوگوں کے درمیان اسمِ اعظم کا نورانی پُل تعمیر کرسکتا ہے، ان کو شروع شروع میں نور کی چنگاری دیکر رفتہ رفتہ اسے کامل نور بنا سکتا ہے، مگر عشق اور علم و عمل شرطِ لازمی ہے۔

۶۸۲

قَبَس

(۳)

   

شعلۂ نور:

نور کا ایک نام صِبۡغَۃ اللہ (۲: ۱۳۸) یعنی رنگِ خدا ہے تو وہ رنگ کیسا ہوگا؟ دنیا میں جتنے عمدہ سے عمدہ رنگ ہیں، ان میں جیسی رعنائی اور دلکشی ہے، اس کی نسبت بہت زیادہ بلکہ بیحد دلنواز، ایمان افروز، روح پرور، جانفزا، حیران کن، اور عجائب و غرائب کا مظہر ہے تو پھر وہاں عشق و محبّت کیوں نہ ہو۔

۶۸۳

قبلۃ

(۱)

   

خدا کا گھر:

یہ حکمت آگین ارشاد سورۂ یونس میں ہے: اور ہم نے موسٰی اور اس کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ مصر میں چند گھر اپنے قوم کے لئے مہیّا کرو اور اپنے ان گھروں کو قبلہ (خانۂ خدا) بنا لو اور نماز قائم کرو اور اہل ایمان کو بشارت دے دو (۱۰: ۸۷) اس کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔

۳۹۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
۶۸۴

قبلۃ

(۲)

   

خدا کا گھر:

مصر کے معنی ہیں شہر، جس سے عالمِ شخصی مراد ہے، پس اللہ جَلَّ شَانہُ کے حکم سے حضرتِ موسٰی پیغمبر اور حضرتِ ھارون امام علیہما السّلام نے عالمِ شخصی میں چند حدودِ دین کو قومی گھروں کا درجہ دیا، تاکہ ان کو مذید ترقی دے کر قبلہ (خانۂ خدا) بنا دیا جائے، جس میں حقیقی نماز قائم کی جائے، اور یہ امر اہل ایمان کے لئے خوشخبری ہو۔

۶۸۵

قبلۃ

(۳)

   

خدا کا گھر:

سورۂ نور کی آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کے بعد یہ ارشا ہے: (یہ نورِ الٰہی کا چراغ) ایسے گھروں میں ہے جن کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کو بلند کیا جائے اور ان میں اللہ تعالٰی کے اسمِ پاک کا ذکر کیا جائے (۲۴: ۳۶) خدائے بزرگ و برتر کا باطنی گھر پہلے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اور عارفین کے دل میں ہوتا ہے، لیکن روحانی انقلاب کے ساتھ ساتھ بلند ہوکر پیشانی پر جاتا ہے، جیسے طوفانِ نوحؑ کے آنے پر خانۂ کعبہ کو آسمان پر اٹھایا گیا تھا۔

۶۸۶

قبلۃ

(۴)

   

خدا کا گھر:

حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام نے خدا کے حکم

۳۹۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
     

سے کعبۂ ظاہر کے ساتھ ساتھ قبلۂ باطن کو بھی بنا لیا تھا، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے فرمایا: مقامِ ابراہیمؑ کو جائے نماز بنا لو (۲: ۱۲۵) یعنی تم بھی ابراہیمؑ کی طرح کعبۂ روحانی میں نماز باطن پڑھا کرو۔

۶۸۷

قراٰن

(۱)

   

قرآن:

کَمۡ مِنۡ قَارِیءٍ لِلۡقُرۡاٰنِ وَ الۡقُرۡاٰنُ یَلۡعَنُہٗ۔ کتنے قرآن پڑھنے والے (قاری) ایسے ہیں کہ قرآن اُن پر لعنت کرتا ہے (لغات الحدیث، جلد سوم، کتاب ق) ایسی لعنت کے معنی ہیں قرآنی خزائن سے محرومی اور دوری۔

۶۸۸

قراٰن

(۲)

   

قرآن:

پیغمبرِ اکرمؐ کا ارشاد ہے: اِنَّ لِلۡقُرۡاٰنِ ظَھۡرًا وَ بَطۡنًا وَ لِبَطۡنِہِ بَطۡنًا اِلیٰ سَبۡعَۃِ اَبۡطُنٍ وَ فِیۡ رِوَایَۃٍ اُخۡرٰی سَبۡعِیۡنَ بَطۡنًا۔ اس میں شک نہیں کہ قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے اور اس کے باطن کا بھی باطن ہے، یہ سلسلہ سات بواطن اور دوسری روایت میں ستر بواطن تک جاتا ہے۔ (المیزان، جلد اوّل، ص۷) یہی دینِ حق کی ظاہری اور باطنی نعمتیں ہیں، جیسا کہ سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں ارشاد ہے: وَ اَسۡبَغَ عَلَیۡکُمۡ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّ بَاطِنَۃً۔ اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں

۳۹۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
     

پوری کر دیں۔

۶۸۹

قُرَّۃُ اَعۡیُنٍ

   

آنکھوں کی ٹھنڈک:

سورۂ سجدہ (۳۲: ۱۷) میں بہشت کی نعمتوں کا ذکر اس طرح آیا ہے: فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَهُمۡ مِّنۡ قُرَّةِ اَعۡیُنٍ۔ سو کسی شخص کو خبر نہیں جو کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے لئے چھپا رکھا گیا ہے (۳۲: ۱۷) اُخۡفِیَ (وہ چھپایا گیا) سے یہ حقیقت معلوم ہوجاتی ہے کہ بہشت دور نہیں، سامنے ہے، یعنی عالمِ شخصی میں، لیکن اس پر پردہ پڑا ہے۔

آنکھوں کی ٹھنڈکے تین اشارے ہوسکتے ہیں: (۱) بہشت کی تمام نعمتیں (۲) جنّت میں اولاد سے متعلق ہر خواہش پوری ہوگی، (۳) وہاں آنکھوں کے لئے ہر نظّارہ اور ہر دیدار ہے، لیکن اللہ کی ہر تجلّی اور دیدار کی تعریف و توصیف وہ خود ہی کرسکتا ہے۔

۶۹۰

قَرِیۡنٌ

(۱)

   

ساتھی:

قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم: ما منکم من احد الّا و معہ قرینہ من الجنّ و قرینہ من الملائکۃ، قالوا: و ایّاک؟ قال: نعم و ایّای، و لٰکن

۳۹۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
     

اللہ اعاننی علیہ فأسلم۔ (دارمی، جلد ثانی، کتاب الرقاق، ۲۵باب) تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک ساتھی جنوں میں سے اور ایک ساتھی فرشتوں میں سے، پوچھا گیا: یا رسول اللہ! کیا آپ کا بھی ایسا ہے؟ فرمایا: ہاں میرا بھی، لیکن اللہ تعالٰی نے مجھ اس پر غلبہ بخشا پس وہ تابعدار ہوگیا۔

۶۹۱

قَرِیۡنٌ

(۲)

   

ساتھی:

سورۂ زخرف (۴۳: ۳۶) میں ارشاد ہے: اور جو شخص خدا کی یاد سے اندھا بنتا ہے ہم اس کے واسطے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہی اس کا (ہر دم کا) ساتھی ہے (۴۳: ۳۶) اس آیت کی حکمت اس حدیث سے ظاہر ہوجاتی ہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ ہر شخص کے دل کے دو کان ہیں، جن میں موقع کے مطابق کچھ کہنے کے لئے ایک شیطان اور ایک فرشتہ دو ساتھی مقرر ہیں، غفلت رہی تو شیطان کو موقع مل جاتا ہے، ذکرِ الٰہی کا دور دورہ ہے تو فرشتہ کچھ نیک باتیں کرنے لگتا ہے۔

۶۹۲

قَرِیۡنٌ

(۳)

   

ساتھی:

یہ قانونِ الٰہی نہ صرف باطن میں ہے بلکہ ظاہر میں بھی ہے کہ امامِ

۳۹۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
     

زمان علیہ السّلام اللہ تعالٰی کا اسمِ اعظم اور اس کا پاک ذکر ہے، جو شخص اپنے وقت کے امامؑ کو پہچانتا ہے اور اس وسیلے سے خدا کو یاد کرتا رہتا ہے، وہ ہمیشہ کے لئے بڑے شیطان سے بچ کر اللہ کی پناہ گاہ میں محفوظ و سلامت رہتا ہے، پس قلبِ انسانی کی ایک طرف جو فرشتہ ہے وہ امامؑ کے نور کی چنگاری ہے، اور دوسری طرف جو شیطان ہے وہ امامِ زمان کے اعداء کی روح ہے۔

۶۹۳

قلب

(۱)

   

دل:

سورۂ انفال (۸: ۲۴) میں جو عظیم حکمت پنہان ہے اس کے مطابق “قلب” سے امام یعنی حضرتِ قائم علیہ السّلام مراد ہے، جو ہر مومن اور مومنہ کا دل ہے۔

۶۹۴

قلب

(۲)

   

دل:

حدیثِ قدسی ہے: ما وَسِعَنی ارضی ولا سمائی وَ وَسِعَنِی قلب عبدی المومن۔ خداوندِ قدّوس کا ارشاد ہے: نہ میری زمین مجھ کو سما سکی نہ میرا آسمان، ہاں میرے مومن بندے کے دل نے مجھ کو سما لیا (المعجم الصّوفی) یعنی میں اپنے بندۂ مومن کے دل میں رہتا ہوں، پس ہمیں جاننا چاہیے کہ ایسا باکمال مومن جس کے

۳۹۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
     

آئینۂ قلب میں خدا کی تجلّی ہو جانشین رسولؐ ہی ہے اعنی امامؑ جو فی الحقیقت مظہرِ نورِ خداوندی ہے۔

۶۹۵

قلب

(۳)

   

دل، وہ دل جو عالمِ عُلوی میں ربّ کی دو انگلیوں کے درمیان ھے:

حدیثِ شریف میں ہے: ما مِن قلبٍ الّا و ھو بین اصبعَین من اصابع ربّ العالمین۔ کوئی دل نہیں مگر وہ پروردگارِ عالمین کی انگلیوں میں سے دو انگشت  کے درمیان ہے (مسند احمد بن حنبل، ۵، حدیث النّواس، ص۹۷)۔

اس حدیث کی تایلی حکمت بہت ضروری ہے کیونکہ خدا نے ہر شخص کو اختیار دیا ہے، وہ کسی کو مجبور نہیں کرتا ، چناچہ اس کی تأویل یہ ہے: تمام دلوں کا نمائندہ گوہرِ عقل ہے، حضرتِ ربّ کی انگلیاں عقلِ کل، نفس کلّ، جدّ، فتح، خیال ہیں، ان میں سے دو انگشت عقل و نفس ہیں، جن کے درمیان گوہر کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے، جس میں علم و حکمت کی کلیدیں ہیں، اس کے برعکس اگر ہم صرف ظاہر پر ٹھہریں تو اختیار کا نظریہ ختم ہوجاتا ہے۔

۴۰۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
۶۹۶

قلبِ سلیم

(۱)

   

بے عیب دلِ صحتمند دل:

ایسا دل جو باطنی بیماریوں سے پاک ہو، اور ہر وقت اس پر حق تعالٰی کی نظرِ عنایت و ہدایت رہے، جیسے حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام کا قلبِ مبارک تھا (۳۷: ۸۴)۔

۶۹۷

قلبِ سلیم

(۲)

   

وہ دل جو صحیح سلامت ھو:

سورۂ شعراء (۲۶: ۸۹) میں قلب سلیم کا ذکر آیا ہے جس سے ایسا دل مراد ہے جو نورِ امامت سے منوّر ہوچکا ہو، ایسے میں امامِ عالیمقامؑ ہی بندۂ مومن کا دل قرار پائے گا۔

۶۹۸

قَمِیۡص

(۱)

   

کُرتہ:

حضرتِ یوسفؑ نے کہا: اِذۡھَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ ھَذَا۔ یہ میرا کرتہ لے جاؤ (۱۲: ۹۳) یہ معجزاتی کرتہ حضرتِ امام علیہ السّلام کا جُثَّۂ ابداعیہ ہی ہے، یہ گویا ایک حجاب ہے، اور اس میں جو ہستی محجوب ہے وہ خود امامؑ ہی ہے۔

۶۹۹

قَمِیۡص

(۲)

   

کرتہ، پیراھن، قمیص:

سورۂ یوسف (۱۲: ۹۳) میں حکایۃً ارشاد ہے: اِذۡھَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ

۴۰۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
     

ھٰذَا فَاَلۡقُوۡہُ عَلٰی وَجۡہِ اَبِیۡ یَاۡتِ بَصِیۡرًا۔ یہ میرا کرتہ لے جاؤ اور اسے والد صاحب کے منہ پر ڈال دو، وہ بینا ہوجائیں گے۔ یہ امام علیہ السّلام کے معجزۂ نورانیت کی ایک درخشان مثال ہے کہ وہ اپنے نور کا عکس کسی عاشق پر ڈال سکتا ہے، اور جثّۂ ابداعی کی کاپی دے سکتا ہے، حضرتِ یوسفؑ حضرتِ یعقوبؑ کا جسمانی فرزند بھی تھا اور نورانی فرزند بھی، لیکن یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ جنابِ یعقوب کی ساری گریہ و زاری نورانی فرزند کے نورانی دیدار کی غرض سے تھی۔

۷۰۰

قَمِیۡص

(۳)

   

کُرتۃ، پیراھن، قمیص:

سوال: حضرتِ یعقوب اور حضرتِ یوسف علیہما السّلام کی مثال میں خداوند عالم نے بہت پہلے ہی امامت باپ سے بیٹے میں منتقل کر دی، پھر دونوں کے درمیان جدائی ڈال کر خوب رُلایا، اس میں کیا حکمت ہے؟ جواب: انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی ہر مثال میں اہل ایمان کے لئے ہدایت ہے، چنانچہ امام علیہ السّلام اور عاشقِ صادق کے درمیان کئی اعلٰی رشتے ہیں، منجملہ وہ باپ بھی ہے اور ایک خاص مقام پر بیٹا بھی، مثال کے طور پر حجّت امامؑ کا روحانی فرزند ہے، اور یہ بھی درست ہی ہے کہ حجّت عالمِ شخصی میں امام

۴۰۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
     

اس کا ںوراںی اور عقلی بیٹا ہے، پس اے نورِ عینِ من! حضرتِ یعقوبؑ میں آپ ہی کے لئے اشارہ ہے کہ آپ اپنے عالمِ شخصی کے نورانی فرزند کے باطنی دیدار کی غرض سے عشق کے آنسو بہایا کریں۔

۴۰۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ق”
۷۰۱

قِیَامَتُہٗ

   

اس کی قیامت:

احیاء العلوم، جلد چہارم، ص۹۱ پر یہ حدیثِ شریف درج ہے: مَنۡ مَّاتَ فَقَدۡ قَامَتۡ قِیَامَتُہٗ۔ جو مرگیا بیشک اس کی قیامت برپا ہوگئی۔ اس میں عارفانہ موت اور انفرادی قیامت کا ذکر ہے، تاہم قیامتِ صغرٰی (ذاتی قیامت) وہ ہے، جس کی قیامتِ کُبرٰی پوشیدہ ہوا کرتی ہے، اور یہی روحانی انقلاب قرآنِ حکیم کی تأویل بھی ہے۔

۴۰۳

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۴۰۴

     
    بابُ الکاف

 

۴۰۵

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۴۰۶

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
۷۰۲

کَاۡس

   

جامِ شراب:

ارشادِ باری تعالٰی ہے: یُطَافُ عَلَیۡهِمۡ بِكَاۡسٍ مِّنۡ مَّعِیۡنٍ۔ چشمۂ شراب سے ساغر بھربھر کر ان کے درمیان پھرائے جائیں گے (۳۷: ۴۵) قرآنِ پاک میں جہاں جہاں شرابِ بہشت کا ذکر آیا ہے وہاں اس سے عشقِ حقیقی مراد ہے، یہ پاک عشق سرچشمۂ دیدارِ الٰہی سے پیدا ہوگا، جو کُلَّ یَوۡمٍ ھُوَ فِیۡ شَاۡنٍ (۵۵: ۲۹) کے مطابق مختلف تجلّیات و ظہورات کا متقاضی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مظہر اور مظاہرِ اسمائے صفات حق ہیں۔

لفظِ مَعین کو لغات میں بھی دیکھ لیں، یہ عین (آنکھ) کا اسمِ مفعول ہے، اس لئے یہاں شرابِ دیدار کی طرف اشارہ ہے جو شرابِ عشق ہے، کیونکہ جب لفظ “معین” پانی کی صفت کے لئے ہو تو اس کے لُغوی معنی ہیں وہ چشمہ جو سطحِ زمین پر جاری ہو او آنکھوں سے دیکھا جائے۔

۷۰۳

کِتَاب

(۱)

   

نامۂ اعمال:

سورۂ تطفیف میں ہے: ہرگز ایسا نہیں نیک لوگوں کا نامۂ اعمال عِلِّیِّین میں ہے، اور تم کو کیا معلوم کہ عِلِّیِّین کیا چیز ہے ایک دفتر ہے لکھا ہوا، جس کو مقرّب لوگ دیکھ سکتے ہیں (۸۳: ۱۸ تا ۲۱)۔

عِلِّیِّین ایک پُرنور لطیف ہستی کا نام ہے، آپ اسے فرشتہ بھہ کہہ

۴۰۷

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
     

سکتے ہیں، وہ واحد بھی اور جمع بھی ہے، وہ خود کتاب و دفتر بھی ہے اور اس میں نیکوکاروں کا نامۂ اعمال بھی ہے، اُس کا مشاہدہ دنیا میں صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو خداوند تعالٰی کے مقرّب ہیں۔

۷۰۴

کِتَاب

(۲)

   

نامۂ اعمال:

وَ لَدَیۡنَا كِتٰبٌ یَّنۡطِقُ بِالۡحَقِّ وَ هُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ۔ اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو حق بولتی ہے اور ان پر ظلم نہیں ہوگا (۲۳: ۶۲)۔ یہ امامِ عالیمقام علیہ السّلام کا مقدّس نور ہے جو کتابِ ناطق (قرآنِ ناطق) بھی ہے اور گواہ ہونے کی حیثیت سے لوگوں کا نامۂ اعمال بھی ہے۔

۷۰۵

کِتَاب

(۳)

   

نامۂ اعمال:

جن سالکین کو نفسانی موت کا تجربہ حاصل ہوتا ہے وہ لازمی طور پر اپنے نامۂ اعمال کو دیکھتے ہیں، کیونکہ ذاتی قیامت اس کے سوا نہیں، اور یہی طریقہ “فنا فی الامام” بھی ہے، جس کے بغیر کوئی شخص آنحضرتؐ کے شہرِ علم اور دارِ حکمت میں داخل نہیں ہوسکتا ہے۔

۴۰۸

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
۷۰۶

کِتَاب

(۴)

   

نامۂ اعمال:

یہ ارشاد سورۂ نبا (۷۸: ۲۹) میں ہے: وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ کِتٰبًا۔ اور ہم نے ساری چیزوں کو ایک کتاب (کی صورت) میں گھیر لیا ہے۔ یعنی ہر آدمی کے عالمِ شخصی میں جملہ کائنات لپیٹی ہوئی ہے اور یہی بڑی مفصّل کتابِ اعمال یعنی نورِ امامت کی گواہی ہے۔

۷۰۷

کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡن

(۱)

   

پوشیدہ کتاب:

فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ (بے شک وہ معزّز قرآن ہے) پوشیدہ کتاب میں۔ یعنی قرآنِ پاک کے جملہ اسرارِ حکمت گوہر عقل کے عظیم الشّان اشارات میں مخفی ہیں (۵۶: ۷۷ تا ۷۸)۔

۷۰۸

کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡن

(۲)

   

پوشیدہ کتاب:

یہ خزانۂ حکمت سورۂ واقعہ (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) میں ہے: بے شک وہ بڑا باعزّت قرآن ہے جو ایک پوشیدہ کتاب میں (محفوظ) ہے، جس کو چھو نہیں سکتے ہیں مگر وہی لوگ جو پاک کئے گئے ہیں (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) یعنی لؤلؤئے عقل۔

۴۰۹

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
۷۰۹

کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡن

(۳)

   

پوشیدہ کتاب:

سورۂ صٓ (۳۸: ۴۵) میں حضرتِ ابراہیم، حضرتِ اسحٰق اور حضرتِ  یعقوب علیہم السّلام کی تعریف ہے کہ یہ حضرات دستِ رسا اور چشمِ بینا رکھتے تھے، اس کا اشارہ ہے کہ وہ اُن مقدّس ہستیوں میں سے تھے جو کتابِ مکنون کو چھو سکتے ہیں اور حظیرۃ القدس کو دیکھ سکتے ہیں۔

۷۱۰

کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡن

(۴)

   

پوشیدہ کتاب:

سامری بنی اسرائیل میں وہ نادان شخص تھا جس نے حضرتِ ہارون علیہ السّلام کو نہیں پہچانا، اس نے محض ابتدائی اور آزمائشی روحانیت کو اپنی عزّت و شہرت کی خاطر استعمال کرکے لوگوں کو گمراہ اور اعلٰی تصوّرات سے محروم کر دیا، جس کی سزا نہ چھونے (لا مساس) کی صورت میں دی گئی (۲۰: ۹۷) اس کا اشارہ یہ ہے کہ ہادیٔ برحق کی رہنمائی کے سوا کوئی شخص کتابِ مکنون کو چھو نہیں سکتا۔

۷۱۱

کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡن

(۵)

   

پوشیدہ کتاب:

ہر قرآنی آیت کے باطن میں حکمتِ بالغہ پنہان ہے، یعنی ایسی اعلٰی اور رسا حکمت کہ اس میں حظیرۃ القدس کا کوئی بڑا راز ہوتا ہے، چاہے

۴۱۰

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
     

کوئی آیت ابولہب کے بارے میں کیوں نہ ہو، جیسا کہ سورۂ لَھَبۡ (۱۱۱: ۱) میں ہے: تَبَّتۡ یَدَآ اَبِیۡ لَھَبٍ وَّ تَبَّ۔ ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہوگیا (۱۱۱: ۱) یعنی وہ اس قابل نہیں ہوسکا کہ آگے چل کر کبھی کتابِ مکنون کو چھوسکے کیونکہ اس کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ خود بھی روحانی طور پر ہلاک ہوگیا۔

۷۱۲

کِتٰبٍ مُّنِیۡر

   

روشن کتاب، تابناک کتاب، یعنی نورِ حقّ الیقین:

کتابِ منیر سے نورِ عقل مراد ہے جو مرتبۂ حقّ الیقین پر ہے، اور اسی کا نام کتابِ مکنون بھی ہے، جیسا کی ارشاد ہے: وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ وَّ لَا هُدًى وَّ لَا كِتٰبٍ مُّنِیۡرٍ (۲۲: ۸) اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کے بغیر خدا کے بارے میں جَدَل کرتے ہیں (۲۲: ۸؛ ۳۱: ۲۰) کتابِ منیر کے لئے سورۂ آلِ عمران (۳: ۱۸۴) اور سورۂ فاطر (۳۵: ۲۵) میں بھی دیکھ لیں۔

۷۱۳

کِتٰبٌ یَّنطق

(۱)

   

بولنے والی کتاب، امامؑ میں قرآن:

اے نورِ عینِ من! تم اس آیۂ شریفہ کی حکمت کو سمجھنے کے لئے سعی

۴۱۱

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
     

کرو: وَ لَدَیۡنَا كِتٰبٌ یَّنۡطِقُ بِالۡحَقِّ وَ هُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ۔ (۲۳: ۶۲) اور ہمارے پاس کتاب ہے جو سچ سچ بولتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ یہ کتاب امام علیہ السّلام کی ذاتِ عالی صفات میں قرآنِ عزیز ہی ہے، اس معنٰی میں امام صلوات اللہ علیہ قرآنِ ناطق کہلاتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو کلام اللہ ہمہ گیر نہ ہوتا، محدود ہوتا، اور یہ بات محال ہے۔

۷۱۴

کِتٰبٌ یَّنطق

(۲)

   

امام کے باطن میں قرآن:

اے عزیزان! قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں لفظِ “کلّ” آتا ہے وہاں وہ اکثر ایک “کلّیہ” یعنی قائدہ و قانون کو ظاہر کرتا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: قَالُوۡٓا اَنۡطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِیۡٓ اَنۡطَقَ كُلَّ شَیۡءٍ (۴۱: ۲۱) تو وہ (اعظاء) جواب دیں گے کہ جس خدا نے ہر چیز کو گویا کیا اُسی نے ہم کو بھی گویا کیا۔ اس کائناتی (UNIVERSAL) قانون کا مطلب یہ ہوا کہ جو چیزیں بظاہر نہیں بولتی ہیں وہ بھی کسی ایک مقام پر جاکر خدا کے حکم سے بولنے لگتی ہیں، پس قرآنِ پاک اگرچہ ظاہرًا صامت (خاموش) ہے لیکن وہ وصیٔ رسولؐ میں ہمیشہ بولتا رہتا ہے، اسی وجہ سے امامؑ کو قرآنِ ناطق کہتے ہیں۔

۴۱۲

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
۷۱۵

کِتٰبٌ یَّنطق

(۳)

   

امام کے باطن میں قرآن جو ابرار کا نامۂ اعمال بھی ھے:

باری تعالٰی کا ارشاد ہے: هٰذَا كِتٰبُنَا یَنۡطِقُ عَلَیۡكُمۡ بِالۡحَقِّ (۴۵: ۲۹) یہ ہماری کتاب (جو تمہارے اعمال کی کتاب بھی ہے) تم پر سچ سچ بولتی ہے (۴۵: ۲۹) یعنی قرآن اور امامؑ، اگر کوئی بولنے والی معجزانہ کتاب الگ اور مخصوص رکھی ہوئی ہوتی تو وہی زیادہ قابلِ تعریف ہوتی اور قرآنِ حکیم کی یہ محیط اور ہمہ گیر صفت نہ ہوتی، جو ارشاد ہے: وَ نَزَّلۡنَا عَلَیۡكَ الۡكِتٰبَ تِبۡیَانًا لِّكُلِّ شَیۡءٍ (۱۶: ۸۹) اور ہم نے تم پر کتاب (قرآن) نازل کی جس میں ہر چیز کا (شافی) بیان ہے۔ پس معلوم ہوا کہ قرآنِ عظیم اور امامِ اقدس کا نورِ واحد ابرار یعنی نیک لوگوں کا نامۂ اعمال بھی ہے جو علّیّین میں ہے (۸۳: ۱۸)۔

۷۱۶

کِتٰبٌ یَّنطق

(۴)

   

امام کے باطن میں قرآن جو ابرار کا نامۂ اعمال بھی ھے:

ہر مسلمان اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ حضرتِ سیّد الانبیاء صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم اپنے وقت میں نورِ مجسّم اور قرآنِ ناطق تھے، جیسے خداوندِ قدّوس کا ارشاد ہے: وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡھَوٰی۔ اِنۡ ھُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی (۵۳: ۳ تا ۴) اور وہ تو اپنی نفسانی خواہش سے کچھ بولتے ہی

۴۱۳

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
     

نہیں، یہ تو بس وحی ہے جو بھیجی جاتی ہے۔ یعنی آپؐ کا بولنا تو قرآن ہی کا بولنا ہے، اس لئے آپؐ قرآنِ ناطق ہوگئے ہیں۔

۷۱۷

کِتٰبٌ یَّنطق

(۵)

   

بولنے والی کتاب یعنی امامؑ:

اے عزیزان! اس امرِ واقعی کو سورۂ شورٰی (۴۲: ۵۲) میں چشمِ بصیرت سے دیکھ لینا کہ اللہ تعالٰی کا پاک کلام (قرآن) آنحضورؐ کے قلبِ مبارک پر ایک قدسی روح اور نور کی کیفیت میں نازل ہوا، رفتہ رفتہ یہ بے مثال اور آخری کتابِ سماوی تحریری صورت میں لائی گئی، مگر روح و نورِ قرآن کو بدستور آنحضرتؐ ہی کی ذاتِ اقدس میں رہنا تھا تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی منتقلی آپؐ کے وصیؑ میں ہوجائے۔

۷۱۸

کِتٰبٌ یَّنطق

(۶)

   

قرآنِ ناطق:

اے نورِ عینِ من! (اعنی ہر وہ چیز جو علم کا شیدائی ہے) اس بات کو بھول نہ جانا کہ اگر کسی آیۂ شریفہ میں ایک سے زیادہ نام آئے ہیں تو وہاں جتنے نام ہیں اتنی چیزیں بھی ہیں، مثال کے طور پر جس آیۂ مقدّسہ (۵: ۱۵) میں نور اور کتابِ مبین کے دو نام آئے ہیں وہاں کسی شک کے بغیر دو مقدّس چیزیں ہیں، یعنی رسولِ اکرمؐ اور قرآنِ

۴۱۴

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
     

پاک، ہاں اللہ تعالٰی کی یہی سنّت چلی آئی ہے کہ آسمانی کتاب کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ربّانی معلّم بھی ہوا کرتا ہے، پس وہی معلّم کتابِ ناطق کہلاتا ہے۔

۷۱۹

کِتٰبٌ یَّنطق

(۷)

   

قرآنِ ناطق:

کتابِ مبین کے یہاں کم سے کم دو معنی درج کرتے ہیں: (۱) ظاہر (۲) اور بولنے والی، یعنی قرآن جہاں آپ کے سامنے ہے وہاں وہ ظاہر ہے اور بولتا نہیں، اور جہاں یہ ربّانی معلّم کے باطن میں پوشیدہ ہے وہاں قرآن کلام کرتا رہتا ہے۔

۷۲۰

کِتٰبٌ یَّنطق

(۸)

   

قرآنِ ناطق:

اے نورِ عینِ من! قرآن شناسی کے سلسلے میں سورۂ بروج کے آخر (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) میں بھی دیکھو کہ قرآن لوحِ محفوظ میں عظمت و جلالت کے ساتھ ہے، یعنی وہاں قرآن کا اسمِ صفت مجید ہے اور خداوند تعالٰی کا ایک اسم بھی مجید ہے، آپ نے یہ بھی پڑھا ہوگا کہ قلمِ الٰہی سب سے عظیم زندہ فرشتہ یعنی عقلِ کلّ ہے اور لوحِ محفوظ دوسرا بڑا فرشتہ نفسِ کلّ، وہ نورِ نبیؐ ہے اور یہ نورِ علیؑ، پس قلم (نورِ محمدیؐ) نے بحکمِ اِلٰہ قرآنِ مجید کو لوحِ محفوظ (نورِ علیؑ) میں ازلی نورانی صورت میں لکھ دیا،

۴۱۵

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
     

یہ عالمِ عُلوی کا واقعہ ہے، اور اللہ تعالٰی کا یہی حکم عالمِ سفلی میں ہوا کہ مظہرِ قلم اعلٰی (آنحضرتؐ) قرآنِ پاک کی روحانیت و نورانیت کو مظہرِ لوحِ محفوظ یعنی علیؑ امامِ مبین میں منتقل کر دیں، اور یقینًا ایسا ہی کیا گیا۔

۷۲۱

کِتٰبٌ یَّنطق

(۹)

   

یعنی امامؑ جو قرآنِ ناطق ھے:

سورۂ عنکبوت میں ہے: بَلۡ ھُوَ اٰیٰتٌ فِیۡ صُدُوۡرِ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ (۲۹: ۴۹) بلکہ جن لوگوں کو علم عطا ہوا ہے اُن کے دل میں وہ (قرآن)  روشن معجزات کی صورت میں ہے۔ یہ آیۂ مبارکہ أئمّۂ اہلِ بیت علیہم السّلام کے بارے میں وارد ہوئی ہے کہ ہر امامؑ کے باطن میں قرآنِ پاک کی روح و روحانیت اور نور و نورانیت کار فرما ہوتی رہتی ہے، بلکہ یہ عظیم روحانی اور قرآنی معجزہ امام صلوات اللہ علیہ کے وسیلے سے کاملین و عارفین کو بھی حاصل ہوجاتا ہے۔

۷۲۲

کُرسیّ

(۱)

   

چبوترا:

قرآنِ حکیم میں لفظ کُرسیّ دو بار آیا ہے (۲؛ ۲۵۵؛ ۳۸: ۳۴) عالمِ کبیر کے اعتبار سے کائناتی جسم زمین ہے، نفسِ کلّی چبوترا (کُرسیّ DAIS = ) عقلِ کلّی تخت (عرش) ہے، اسی قانون کے

۴۱۶

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
     

مطابق عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) کی زمین انسانی بدن ہے، چبوترا یا کُرسیّ روح، اور تختِ شاہی عقل ہے۔

۷۲۳

کُرسیّ

(۲)

   

نفسِ کلّی:

آیۃُ الکرسی میں ہے: وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ۔ اس کی کرسی میں تمام آسمان و زمین سمائے ہوئے ہیں (۲: ۲۵۵) یعنی نفسِ کلّی کے بحرِ بے پایان میں کائنات ڈوبی ہوئی ہے، اور اس بحرِ عمیق کی گہرائیوں سے لؤلؤئے عقل برآمد ہوتا ہے۔

۷۲۴

کُرسیّ

(۳)

   

انسانی روح:

سورۂ صٓ کے اس ارشاد میں بھی غور کریں: اور ہم نے سلیمانؑ کو بھی آزمائش میں ڈالا اور اس کی کرسی پر ایک جسد لاکر ڈال دیا، پھر اُس نے رجوع کیا (۳۸: ۳۴) یعنی انسانانِ کامل کو جو لطیف جسم ملتا ہے وہ ابتداءً آزمائشی اور تکلیف دہ ہوتا ہے، وہ اسی کرسیٔ جسم و جان پر ڈالا جاتا ہے، اس میں کیڑے مکوڑے وغیرہ ہوتے ہیں، اور اس کے بعد معجزاتی لطیف جسم کا ظہور ہوجاتا ہے۔

۴۱۷

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
۷۲۵

کُرسیّ

(۴)

   

عالمِ شخصی:

امامِ مبین صلواۃ اللہ علیہ و سلامہ کا مبارک و مقدّس جسم گویا ایک پاکیزہ گراؤنڈ ہے جس پر اس کی روحِ اطہر بمرتبۂ نفسِ کلّی ایک بے مثال چبوترا (کرسیٔ خدا) اور اس پر عقلِ کامل عالمِ شخصی کا عرش ہے، یہ ہوا اللہ کی کرسی میں تمام آسمان و زمین سموئے ہوئے ہونا (۲: ۲۵۵) جیسا کہ ارشاد ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے تمام چیزوں کو امامِ مبین میں گھیر کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲)۔

۷۲۶

کُرسیّ

(۵)

   

نفسِ کُلّی، کائناتی روح، روح الارواح، لوحِ محفوظ:

سورۂ بقرہ (۲: ۲۵۵) میں ارشاد ہے: وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ۔ اُس کی کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر سما رکھا ہے۔ کرسی سے نفسِ کلّی مراد ہے، جبکہ عرش عقلِ کلّی ہے، پس کرسی کائناتی روح ہے، اور عرش کائناتی عقل۔

۷۲۷

کُرسیّ

(۶)

   

نفسِ کلّی، عالمگیر روح:

حضرتِ علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: انّ السّماء والارض و ما بینھما من خلق مخلوق فی جوف الکرسی، و لہ اربعۃ

۴۱۸

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
     

أملاک یحملونہ بأمر اللہ۔ یقینًا آسمان اور زمین اور ان دونوں کے درمیان جتنی مخلوق ہے وہ سب کچھ کرسی کے اندر موجود و محدود ہے، اور کرسی کو بحکمِ خدا چار عظیم فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں۔ (المیزان، جلد۲، ص۳۴۱)۔

چار عظیم فرشتے (أربعۃ أملاک) دو روحانی: عقلِ کلّ اور نفسِ کُلّ، اور دو جسمانی: ناطق اور اساس ہیں، چونکہ وہاں عالمِ وحدت ہے اس لئے یہ چار فرشتے الگ الگ نہیں، بلکہ چاروں کی ازلی وحدت میں ایک ہی عظیم فرشتہ ہے جو حاملِ کرسی بھی ہے اور خود کرسی بھی۔

۷۲۸

کُرسیّ

(۷)

   

نفس، جان، روح:

لفظِ کرسی قرآنِ پاک میں صرف دو بار آیا ہے (۲: ۲۵۵؛ ۳۸: ۳۴) آیۂ شریفہ کا ترجمہ ہے: اور ہم نے سلیمان کی آزمائش کی اور ان کی کرسی پر ایک جسد ڈال دیا پھر انہوں نے (خدا کی طرف) رجوع کیا (۳۸: ۳۴)۔

حضرتِ سلیمانؑ کی آزمائش اس طرح ہوئی کہ ابتداءً ان کے نفس (جان = روح) پر ایک ادنٰی جسمِ لطیف ڈالا گیا، جو بے شمار چھوٹے چھوٹے جانوروں کا مجموعہ تھا، جس میں زبردست اِبداعی حکمت

۴۱۹

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
     

پوشیدہ تھی۔

۷۲۹

کُرسیّ

(۸)

   

چبوترا، ڈائس:

بادشاہ تختِ سلطنت پر جلوہ افروز ہوتا ہے، تخت چبوترے پر سجاتے ہیں، اور چبوترا زمین پر بنایا جاتا ہے، اس طرح انسانی حقیقت (انا) کا تختِ شاہی عقل ہے، جس کا چبوترہ روح، اور زمین بدن ہے، جیسے عالمِ کبیر میں عقلِ کلّ عرش ہے، نفسِ کلّ کرسی (چبوترا) ہے، اور جسمِ کلّ بمنزلۂ زمین۔

۷۳۰

کُلُّ شَیۡءٍ

(۱)

   

ہر چیز، تمام چیزیں:

اے نورِ عینِ من! ہر چیز بصورتِ امکان کلمۂ کن میں موجود ہے، آپ قرآنِ حکیم کی ان آیاتِ کریم کو پڑھیں جن میں امرِ “کن” کا ذکر آیا ہے، اسی طرح ہر شے قلمِ اعلٰی میں بھی ہے، اشیائے کلّ بشکلِ روحانی تحریر لوحِ محفوظ میں بھی ہیں، اور امامِ مبین میں بھی، خوب یاد رہے کہ قلم سے نورِ محمّدی مراد ہے اور لوحِ محفوظ امامِ مبین کا نور ہے، خدا ہی نے ان تمام مراتبِ عالیہ کو پیدا کیا، اور ان کے روحانی اور عقلانی سایوں کو عالمِ شخصی میں ظہور دیا (۱۶: ۸۱) یہ سائے روشن ہیں، جیسے سایۂ خورشید آئینے میں نظر آتا ہے۔

۴۲۰

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
۷۳۱

کُلُّ شَیۡءٍ

(۲)

   

ہر چیز، تمام چیزیں:

ارشادِ خداوندی ہے: وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمۡ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا (۱۶: ۸۱) اور اللہ نے تمہیں اپنی بنائی ہوئی چیزوں سے سائے دئیے۔ یہ پروردگارِ عالمین کے احسانِ عظیم کا تذکرہ ہے، لہٰذا یہاں عام اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کی کوئی بات ہی نہیں، بلکہ اس کی بہت بڑی حکمت یہ ہے کہ عالمِ شخصی میں ہر اعلٰی چیز کا روحانی اور عقلی ظِلّ (سایہ=  زندہ عکس) موجود ہے، وہ عظیم الشّان سایہ فگن خزائن اس قسم کے ہیں: کلمۂ کن، قلمِ اعلٰی، لوحِ محفوظ، امامِ مبین وغیرہ۔

۷۳۲

کُلُّ شَیۡءٍ

(۳)

   

ہر چیز، تمام چیزیں:

قرآنِ حکیم وہ کامل اور مکمّل آسمانی کتاب ہے جس کے ظاہر و باطن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹) اس کے خزانۂ قلب (دل=  سورۂ یاسین) میں جو عظیم الشّان اور بیمثال کلّیہ ہے اس کی تعریف و توصیف ہم جیسے انسانوں سے ہو ہی نہیں سکتی، وہ مغزِ حکمت سے مملو ارشاد یہ ہے: وَ كُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰهُ فِیۡٓ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے ہر چیز کو ایک پیشوائے ظاہر میں گھیر دیا ہے۔ یعنی خدا کی خدائی کی تمام لطیف اشیاء از قسمِ روحانی و عقلانی امامِ مبین میں سمیٹی اور

۴۲۱

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
     

لپیٹی ہوئی صورت میں موجود مل سکتی ہیں، جس کی شرط خود شناسی ہی ہے۔

۷۳۳

کَلۡب

   

کُتّا، غضب، غُصّہ، مردُم آزاری:

حدیث شریف میں ہے: جس گھر میں کتّا یا کوئی تصویر ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل، الجزء الاوّل، ص۱۶۷) سگِ ظاہر یا تو دروازے پر نگہبانی کرتا ہے یا وہ باجازۂ قرآن شکار کے لئے استعمال ہوتا ہے (سورۂ مائدہ۔ ۵: ۴) سگِ باطن (غضب، غصّہ) خانۂ دل میں رہتا ہے، آپ خود اندازہ کریں کہ جب ایک کتّا کسی کے دل میں رہتا ہوگا تو کیا فرشتے ایسے دل میں داخل ہوسکتے ہیں؟ اسی طرح تصویریں ظاہر میں بھی ہیں اور باطن میں بھی، جو باطن میں ہیں وہ دنیاوی محبّت کے اصنام (واحد صنم، بُت) ہیں، پس یہ ممکن ہی نہیں کہ جس دل میں شب و روز بت پرستی ہوتی ہو اس میں فرشتے داخل ہوجائیں۔

۷۳۴

(ال) کَلِمُ الطَّیِّبُ

(۱)

   

پاکیزہ کلام:

سورۂ فاطر میں ہے: اِلَیۡهِ یَصۡعَدُ الۡكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُهٗ۔ پاکیزہ کلام اس کی طرف چڑھتا ہے اور نیک عمل پاکیزہ

۴۲۲

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
     

کلام کو بلند کرلیتا ہے (۳۵: ۱۰) یہ علم و معرفت اور نیک کاموں کا ذکر ہے، کیونکہ اسی وسیلے سے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے۔

۷۳۵

(ال) کَلِمُ الطَّیِّبُ

(۲)

   

پاکیزہ کلام:

پاکیزہ کلام جملہ عبادت اور ذکر الٰہی ہے، نیز دعائے دلسوز اور مناجات و گریہ و زاری ہے، اور نیک عمل مذہبی خدمت، پس یہ خدمت اِس عبادت کو صاحبِ عرش کے حضور تک لے کر جاتی ہے۔

۷۳۶

(ال) کَلِمُ الطَّیِّبُ

(۳)

   

پاکیزہ کلام:

جب جب نیک بخت مومنین و مومنات کارِ بزرگ (بڑا کام) کے سلسلے میں منزلِ عزرائیلی میں داخل ہوجاتے ہیں تو پاکیزہ کلام یعنی اسمِ اعظم کا ذکر بذریعۂ اسرافیل و عزرائیل آسمانوں سے بلند ہوجاتا ہے تاکہ کل کے لئے کائنات مسخّر ہوجائے (ان شاء اللہ العزیز)۔

۷۳۷

(ال) کَلِمُ الطَّیِّبُ

(۴)

   

پاکیزہ کلام:

بعض درویشوں نے فنائے روحانی اور فنائے عقلانی کے بعد بھی ایک عجیب فنا کو دیکھا، وہ یقینًا فنائے عشق تھی، شام کے وقت ایک لطیف تخت سامنے آیا، ایک زندہ مُتَرَنِّمۡ کلمۂ تامّہ اور

۴۲۳

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
     

ایک سازِ بہشت کی ہم آہنگی کے ساتھ دریائے روح کی نرم لہریں تخت کی طرف جا رہی تھیں اور تخت روح کو لیکر بتدریج بلند ہو رہا تھا۔

۷۳۸

(ال) کَلِمُ الطَّیِّبُ

(۵)

   

پاکیزہ کلام:

روح کا بالائی سرا ہمیشہ اپنے سرچشمۂ کُلّ سے وابستہ ہے، اور نچلا سِرا حصولِ معرفت کی غرض سے عالمِ ناسوت میں اتر آیا ہے، اگر خوش بختی سے وقت پر اس کا کام مکمل ہوجاتا ہے تو ایسے میں نفسِ مطمئنہ کو بڑی عزّت سے عالمِ علوی پر اُٹھا لیا جاتا ہے۔

۷۳۹

(ال) کَلِمُ الطَّیِّبُ

(۶)

   

پاکیزہ کلام:

سورۂ فاطر (۳۵: ۱۰) میں ارشاد ہے: اِلَیۡهِ یَصۡعَدُ الۡكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُهٗ۔ اُسی (خدا) کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتے ہیں۔ یعنی حقیقی علم اور خالص عبادت ہی کی پاکیزہ باتیں خداوندِ عالم کی طرف چڑھتی ہیں اور نیک اعمال ہی کی وجہ سے اللہ کے حضور تک بلند ہوسکتی ہیں، تاکہ سالک کا قول و فعل خدا کے قول و فعل میں فنا ہوجائے۔

۴۲۴

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
۷۴۰

کَلِمَۃُ اللہ

(۱)

   

اسمِ اعظم:

اے ںورِ عینِ من! آپ کو یہ سن کر بڑا تعجب ہوگا کہ قرآنِ پاک کے شروع سے لیکر آخر تک اسمِ اعظم اور کارِ بزرگ ہی کا اشارہ ہوتا رہتا ہے، اس مطلب کو ان حکمتی سوالات کی مدد سے سمجھ لیں: کیا آنحضرتؐ ابتداء ہی سے بوسیلۂ اسماء الحسنٰی عبادت نہیں کرتے تھے؟ آیا رسولؐ اور امامؑ اسمِ اعظم نہیں ہیں؟ آیا سارے قرآن میں چوٹی کی بندگی مطلوب نہیں ہے؟ کیا اسمِ اکبر راہِ مستقیم سے ہٹ کر ہوسکتا ہے؟ کیا نورِ ہدایت الگ اور خدا کا اسمِ بزرگ الگ ہوسکتا ہے؟ کیا قرآن کی روحانیت اور اسماء الحسنٰی کی روحانیت ایک نہیں ہے؟ کیا انبیاء و اولیاء (ائمّہ) علیہم السّلام نے اپنے اپنے وقت میں خاص مومنین کو اسمِ اعظم کی تعلیم نہیں دی تھی؟

۷۴۱

کَلِمَۃُ اللہ

(۲)

   

اسمِ اعظم:

یہ حقیقت ہے کہ حضرتِ مریم سلامُ اللہ علیہا اسمِ اعظم کی پیداوار اور حجّت کی مثال ہے، مریمؑ کو امامؑ نے اسمِ اعظم دیا، اسم کو کلمہ بھی کہتے ہیں (۴: ۱۷۱) اس کلمہ یعنی اسمِ اعظم میں حضرتِ عیسٰی علیہ السّلام کا نور بحدِّ قوّت پنہان تھا، جو مریم علیہا السّلام کے باطن میں کچھ وقت کے بعد بحدِّ فعل جلوہ گر ہوگیا، یاد رہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام

۴۲۵

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
     

کلمۃ اللہ (اسمِ اعظم) ہوا کرتا ہے، چنانچہ اگر آپ کو اسمِ اعظم عطا ہوا ہے تو بہت زیادہ خیال رکھنا کہ آپ کے باطن میں بحدِّ قوّت امام آگیا ہے، لیکن آپ کو جیتے جی اس میں فنا ہوجانا ہے تاکہ وہ بحدِ فعل آپ کی رہنمائی کرے۔

۷۴۲

کَلِمَۃُ اللہ

(۳)

   

اسمِ اعظم:

مریمؑ کی پاک پیشانی میں نہ تو نورِ نبوّت تھا اور نہ ہی نورِ امامت، مگر ہاں نورِ معرفت ضرور جلوہ گر تھا، یعنی اس کو پیغمبر اور امام کے بعد کا درجہ حاصل تھا، وہ ایک حجّت تھی، جو اہلِ ایمان کی روحانی ترقی کی ایک روشن مثال ہے جو ہر مومن او ہر مومنہ کے لئے ممکن ہے۔

۷۴۳

کَلِمَۃُ اللہ

(۴)

   

اسمِ اعظم:

سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۴) میں پاک کلمہ سے اسمِ اعظم مراد ہے اور پاک درخت کی تأویل نورِ نبوّت اور نورِ امامت ہے، جس میں شجرۂ طیّب کی جڑ آنحضرتؐ ہیں، اور اس کی شاخ جو عالمِ علوی میں پھل دے رہی ہے وہ امام ہے، کتنی عجیب و غریب، عالیشان اور حکمت آگین مثال ہے کہ جس کے مطابق حضرتِ امامؑ ظاہرًا عالمِ جسمانی میں ہے اور باطنًا عالمِ علوی میں۔

۴۲۶

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
۷۴۴

کَلِمَۃُ اللہ

(۵)

   

اسمِ اعظم:

سورۂ توبہ (۹: ۴۰) میں ہے: وَ کَلِمَۃُ اللہِ ھِیَ الۡعُلۡیَا۔ اور کلمۃ اللہ (اسمِ اعظم) ہی سب سے بلند ہے۔ اس کا مبارک اشارہ یہ ہے کہ اسمِ اعظم کا اصل مقام عالمِ علوی ہے، لہٰذا جو شخص بحقیقت اس سے وابستہ ہو اس کو یہ بدرجۂ انتہا بلند کر لیتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ (۹۴: ۴) اور ہم نے آپؐ کے لئے آپؐ کے ذکر کو بلند کر دیا۔

۷۴۵

کَلِمَۃُ اللہ

(۶)

   

اسمِ اعظم:

حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد ہے: وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیۡ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ (۴۳: ۲۸) اور اسی (نورانیت و معرفت) کو ابراہیمؑ اپنی اولاد میں ہمیشہ باقی رہنے والا کلمہ چھوڑ گئے تاکہ لوگ خدا کی طرف رجوع کریں۔ کلمۂ باقیہ (اسمِ اعظم) ہمیشہ حضرتِ ابراہیمؑ کے سلسلۂ اولاد میں جاری و باقی ہے تاکہ ہر زمانے کی قیامت کی وجہ سے لوگ خدا کی طرف رجوع کریں، کیونکہ قیامت اسمِ اعظم میں پوشیدہ ہے۔

۴۲۷

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
۷۴۶

کُلِّیّۃ

   

عام قاعدہ، اُصول، پرنسپل:

سورۂ ابراہیمؑ (۱۴: ۳۴) میں عنایاتِ خداوندی اور خزائنِ رحمت کا ایک بیمثال کلّیہ بیان ہوا ہے، اگر اس میں چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو یقین آتا ہے کہ روحانیت اور بہشت میں کوئی نعمت غیر ممکن نہیں، وہ ارشادِ مقدّس و مبارک یہ ہے: وَ اٰتٰىكُمۡ مِّنۡ كُلِّ مَا سَاَلۡتُمُوۡهُ۔ اُس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا۔ عوام النّاس کو کیا معلوم کہ کونسی نعمتیں ممکن الحصول ہیں، لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام نے لوگوں کے لئے سب کچھ مانگا، کیونکہ وہی حضرات حقیقی نمائندے ہیں، پس کاملین اللہ کے وہ خزانے ہیں جن میں اس نے اہل ایمان کو تمام نعمتیں دے رکھی ہیں۔

۷۴۷

کُنۡ

(۱)

   

ھوجا:

اللہ تبارک و تعالٰی کی بادشاہی میں سب سے عظیم راز کلمۂ “کُنۡ” ہے، جس کے لفظی معنی ہیں: ہوجا، یہ لفظ قرآنِ پاک میں بصیغۂ واحد گیارہ دفعہ آیا ہے، تاہم اس کا تعلق آٹھ مقامات پر فعلِ خدا سے ہے، سورۂ بقرہ (۲: ۱۱۷) آلِ عمران (۳: ۴۷) آلِ عمران (۳: ۵۹) انعام (۶: ۷۳) نحل (۱۶: ۴۰) مریم (۱۹: ۳۵) یٰسٓ (۳۶: ۸۲) غافِر (۴۰: ۶۸)۔

۴۲۸

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
۷۴۸

کُنۡ

(۲)

   

ھوجا:

آیۂ کریمہ ہے: بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ط وَ اِذَا قَضٰۤى اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَهٗ كُنۡ فَیَكُوۡنُ۔ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے جب کوئی کام مقرر ہوتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے (۲: ۱۱۷) یعنی کلمۂ کن ہی سے عالمِ امر کے آسمانوں اور زمین کا اختراع ایجاد کیا، اور یہ اس کی ہمیشہ کی سنّت ہے کہ جب بھی کوئی کام مقرر ہو تو فرماتا ہے کہ “ہوجا” تو وہ ہوجاتا ہے۔

۷۴۹

کُنۡ

(۳)

   

ھوجا:

وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ کُنۡ (ہوجا) اور وہ ہوجاتا ہے (۳: ۴۷) یہ باری تعالٰی کا وہ قانون ہے جو ہمیشہ عالمِ امر میں جاری و ساری ہے، جس کی نہ کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہا، جیسے قول ہے: اݹ مُش او، اس کے بہت سے معانی ہیں، منجملہ: ازل و ابد کا کوئی سرا نہیں، تم اسی کو رکھو۔

۷۵۰

کُنۡ

(۴)

   

ھوجا:

ترجمۂ آیۂ مبارکہ: بیشک خدا کے نزدیک عیسٰیؑ کی مثال آدمؑ کی سی ہے کہ خدا نے اسے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے حکم دیا کہ ہوجا اور

۴۲۹

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
     

وہ ہوگیا (۳: ۵۹) اِس سماوی تعلیم میں حکمتِ بالغہ کے کئی اشارے موجود ہیں: (الف) ہر انسان کی ظاہری تخلیق عالمِ خلق کے قانون کے مطابق ہے (ب) ہر انسانِ کامل کی باطنی تکمیل عالمِ امر کے قانون کے مطابق ہے اور وہ ہے اللہ تعالٰی کا کن فرمانا۔

۷۵۱

کُنۡ

(۵)

   

ھوجا:

ارشاد ہے: وَ یَوۡمَ یَقُوۡلُ کُنۡ فَیَکُوۡنُ۔ اور جس دن وہ حکم دیتا ہے کہ ہوجاؤ تو ہوجاتا ہے (۶: ۷۳) یعنی اللہ جلّ جلالہٗ کے امر سے انسانِ کامل کی انفرادی قیامت میں عالمِ کبیر سے عالمِ صغیر کا وجود بن جاتا ہے (خوب یاد رہے کہ یُقول اور یکون دونوں مُضارِع ہیں)۔

۷۵۲

کنز

(۱)

   

خزانہ:

یہ حدیثِ قدسی مشہور ہے: کنتُ کنزً مخفیًّا فاحببتُ ان اُعۡرِفَ فخلقتُ الخلق۔ خداوندِ عالم کا پاک ارشاد ہے: میں چھپا ہوا خزانہ تھا سو میں نے چاہا کہ مجھ کو پہچان لیا جائے پس میں نے (اسی مقصد کے لئے) خلق کو پیدا کیا۔

اے نورِ عینِ من! اِس پُراسرار حدیثِ قدسی کو عالمِ ظاہر کی نسبت

۴۳۰

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
     

سے نہیں بلکہ عالمِ شخصی کے تناظر میں سمجھ لینا، کیونکہ یہ سچ ہے کہ خدا اپنے دوستوں کے عالمِ شخصی ہی میں چھپا ہوا خزانہ تھا پھر حضرتِ ربّ نے اُن کو روحانی اور عقلانی طور پر پیدا کیا اور خزانۂ معرفت سے انہیں ہمیشہ کے لئے مالامال فرمایا۔

۷۵۳

کنز

(۲)

   

خزانہ، گنجِ اسرار:

حدیث قدسی ہے: کنتُ کنزًا لا أعرف فأحببتُ ان أعرف فخلقتُ خلقًا فعرّفتھم فبی عرفونی۔ میں ایک ناشناختہ خزانہ تھا تو میں نے چاہا کہ میری شناخت ہو سو میں نے ایک خلق کو پیدا کیا اور ان کو اپنا عارف بنالیا پس انہوں نے خود میرے ہی وسیلے سے مجھ کو پہچان لیا۔

اس حدیثِ قدسی کا تعلق بیرونی جہان سے نہیں عالمِ شخصی سے ہے، کیونکہ جب تک مومنِ سالک روحانی طور پر پیدا نہ ہوجائے تب تک اس کے حق میں ربّ العزّت ایک ناشناختہ خزانہ ہے، روحانی تولّد کے بعد عارفین و کاملین دیدار اور معرفت کی لازوال دولت سے مالامال ہوجاتے ہیں۔

۴۳۱

لفظ   معنی و حکم                                                               “ک”
۷۵۴

کنز

(۳)

   

خزانۂ معرفت:

سورۂ ذاریات (۵۱: ۵۶) میں ہے: وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (أَیۡ لِیَعۡرِفُوۡنِ) میں نے جنّوں اور اور آدمیوں کو اُسی غرض سے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں (یعنی اس لئے کہ وہ مجھ کو پہچان لیں) ابنِ عبّاسؓ نے اس آیۂ کریمہ کی تفسیر اسی طرح سے فرمائی ہے (المعجم الصّوفی، ص۱۲۶۷)۔

۷۵۵

کنز

(۴)

   

گنجِ اسرارِ معرفت:

عن عائشۃ  سُئِلَ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم من اعرف الناس بربّہ، قال: اعرفھم بنفسہ۔ حضرتِ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرتؐ سے پوچھا گیا: لوگوں میں ربّ کا سب سے بڑا عارف کون ہے؟ آن حضورؐ نے فرمایا: وہ شخص جو اپنے آپ کو پہچاننے والوں میں سب سے بڑھ کر ہے۔ (المعجم الصّوفی، ص۱۲۶۱) یہ سچ ہے کہ حق تعالٰی کی معرفت عالمِ شخصی ہی میں ہے۔

۷۵۶

کنز

(۵)

   

صفاتِ حق تعالٰی، نورِ مطلق:

حضرتِ داؤد علیہ السّلام نے کہا: یا ربّ تو نے خلق کو کس غرض

۴۳۲

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
     

سے پیدا کیا ہے؟ خدا نے فرمایا: کُنۡتُ کَنۡزاً مَخۡفِیًّا فَاَحۡبَبۡتُ اَنۡ اُعۡرَفَ فَخَلَقۡتُ الۡخَلۡقَ لِکَیۡ اُعۡرَفَ۔ میں ایک پنہان خزانہ تھا تو میں نے چاہا کہ میری پہچان ہو پس میں خلق کو پیدا کیا تاکہ مجھ کو پہچان لیں (احایثِ مثنوی) اس ارشاد کا تعلق عالمِ شخصی اور اہلِ معرفت سے ہے۔

ربِّ کریم نے اپنی ذاتِ پاک کی تمثیل گنجِ پنہان سے اس لئے دی تاکہ ہر عارف اس خزانۂ ازل کو عالمِ شخصی ہی میں حاصل کرے، جیسا کہ ارشادِ نبوی ہے: من کان اللہ کان اللہ لہ۔ جو شخص خدا ہی کا ہوجاتا ہے تو خدا بھی اسی کا ہوجاتا ہے، یعنی جو معرفت کو حاصل کرتا ہے وہ خود گنجِ معرفت ہوجاتا ہے۔

۷۵۷

کنز

(۶)

   

ایک خزانہ، بہشت کا ایک خزانہ:

ارشادِ نبوی ہے: اِنَّ قَوۡلَ لَا حَوۡلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الۡعَلِیِّ الۡعَظِیۡمِ کَنۡزٌ مِنۡ کُنُوۡزِ الۡجَنَّۃِ وَ ھُوَ شِفَاءٌ مِنۡ تِسۡعَۃٍ وَ تِسۡعِیۡنَ دَاءً اَوَّلُھَا الۡھَمُّ۔ کوئی شک نہیں کہ قول: لا حول ولا قوۃ الاّ با للہ العلی العظیم بہشت کے  خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے اور یہ ننانوے بیماریوں کی دوا ہے، اُن میں سے پہلی بیماری غم ہے۔ (دعائم الاسلام، وجہِ دین، اور چند کتبِ احادیث)۔

۴۳۳

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
۷۵۸

کنزًا

   

خزانہ، گنجِ مخفی، چھپا ہوا خزانہ:

پیغمبرِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: یاعلی اِنّ لک کنزًا فی الجنّۃِ و اِنّک ذو قرنیھا۔ اے علی! بیشک تیرے لئے بہشت میں ایک خزانہ حاصل ہے اور تو جنّت کا ذوالقرنین (یعنی ہمہ گیر بادشاہ) ہے۔ (المستدرک)۔ بہشت میں بہت سے خزانے ہوسکتے ہیں، لیکن آنحضرتؐ کی یہ بشارت جو جنّت کے ذوالقرنین کے لئے ہے وہ سب سے بڑے خزانے سے متعلق ہے، اور وہ سب سے عظیم اور بیمثال خزانہ جس کی تعریف و توصیف کے لئے مناسب الفاظ نہیں ملتے وہ سیم و زرّ اور لعل و گوہر کا ہرگز نہیں بلکہ یہ کنزِ مخفی ہی ہے، جو علیؑ اور اُس کے دوستداروں کے نام پر ہے، اس گنجِ اسرارِ ازل و ابد کی خصوصیت یہ ہے کہ جو شخص اس میں داخل ہوجائے وہ اپنے آپ کو یہی خزانہ پاتا ہے۔

۷۵۹

کُوۡنُوۡا

   

ھوجاؤ:

قرآنِ حکیم کی ہر آیت بجائے خود ایک صحیفۂ حکمت بھی ہے اور ایک قطعی حکم بھی ہے، چناچنہ خداوندِ قدّوس کے اس امر میں بہت سے مذہبی اور سائنسی سوالات کے لئے جوابِ شافی موجود ہے، وہ ارشاد یہ ہے: قُلۡ کُوۡنُوۡا حِجَارَۃً اَوۡ حَدِیۡدًا (۱۷: ۵۰) (اے رسولؐ!)

۴۳۴

لفظ   معنی و حکمت                                                              “ک”
     

کہہ دو کہ تم پتّھر ہوجاؤ یا لوہا۔ یاد رہے کہ قرآنِ حکیم میں بدونِ حکمت کوئی بات نہیں، لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ روح اور مادّہ الگ الگ نہیں بلکہ دونوں ایک ہی شی کی دو صورتیں ہیں۔

۴۳۵

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۴۳۶

     
    بابُ اللّام

 

۴۳۷

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۴۳۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ل”
۷۶۰

لَا تَقۡنَطُوۡا

   

مایوس نہ ھوجاؤ:

لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللہِ (۳۹: ۵۳) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ خدا کی رحمت رسولؐ کے بعد امامِ زمانؑ ہے (بحوالۂ روح اللہ)۔

۷۶۱

لا ریب

(۱)

   

شک نہیں:

ذَالِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ۔ وہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں۔ وہ اساس ہے (۲: ۲؛ ۱۰: ۳۷)۔

۷۶۲

لا ریب

(۲)

   

شک نہیں، یعنی یقین ھے:

روزِ قیامت کے بارے میں بارہا یوں ارشاد ہوا ہے: لَا رَیۡبَ فِیۡہِ۔ اس میں کوئی شک نہیں (یعنی اس میں یقین ہی یقین ہے) شاید کوئی ہوشمند حکمت کو سمجھنے کی خاطر کوئی ایسا سوال کرے کہ آیا یہ حکم عقیدۂ قیامت سے متعلق ہے؟ حالانکہ بعض لوگ اس کے معتقد بھی نہیں، اور جن کو اعتقاد ہے، ان کی اکثریت بلکہ سب نے ہنوز قیامت کو نہیں دیکھا، پھر اُن کو یقین کیسے ہوا؟

جواب: روزِ قیامت حضرتِ مولا علیؑ ہے او علیِٔ زمان وہی مرتبہ رکھتا ہے، جیسا کہ مولا کا مبارک ارشاد ہے: اَنَا السَّاعَۃُ الَّتِیۡ لِمَنۡ کَذَّبَ

۴۳۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ل”
     

بِھَا سَعِیۡرًا۔ یعنی میں وہ ساعت (قیامت) ہوں کہ جو شخص اس کو جھٹلائے اور اس کا منکر ہو اس کے لئے دوزخ واجب ہے، اور اس ساعت سے مراد روزِ قیامت ہے۔ (کوکبِ درّی، بابِ سوم، ص۲۰۰، منقبت۲۷)۔

۷۶۳

لا ریب

(۳)

   

شک نہیں، یعنی یقین ھے:

“لَا رَیۡبَ فِیۡہِ” کی حکمت: لَا رَیۡبَ، شک نہیں، فیہ، اُس میں، مراد علیؑ یا علیِّ زمانؑ کے باطن میں شک نہیں، جبکہ عارف اس کی روحانیت و نورانیت میں داخِل ہوجاتا ہے یا اس کا نور خود عارف کے باطن میں طلوع ہوتا ہے تو اُس وقت تمام شکوک و شبہات زائل ہوجاتے ہیں، پھر یقین ہی یقین کا عالم ہوتا ہے، الغرض لا ریب فیہ میں شک کی مذمّت اور یقین کی تعریف کے ساتھ ساتھ یہ اشارہ بھی ہے کہ اہلِ ایمان امامِ زمانؑ کی باطنی معرفت میں داخل ہوجائیں۔

۷۶۴

لا ریب

(۴)

   

شک نہیں، یعنی یقین ھے:

سورۂ بقرہ کے شروع میں بہت بڑی بنیادی حکمت حجابِ تنزیل میں مستور ہے: الٓمّٓ۔ ذَالِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ۔ الف، لام، میم، وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک ہیں۔ یعنی قرآنِ ناطق، جس کی باطنی

۴۴۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ل”
     

معرفت میں داخل ہوجانے کے بعد یقین کے جملہ خزانے مل جاتے ہیں، جیسے مولا نے فرمایا: انا ذالک الکتٰب لا ریب فیہ۔ میں وہ کتابِ ناطق ہوں جس میں کوئی شک نہیں۔ (کوکبِ درِّی، بابِ سوم، منقبت۲۸)۔

۷۶۵

لامکان

(۱)

   

عالمِ روحانی:

عالمِ لامکان، وہ جہان جس میں مادّی جگہ نہیں، جیسے عالمِ خواب یا عالمِ خیال، جس میں جگہ کا تصوّر تو ہوتا ہے لیکن اس کی مادّیت و جسمانیت نہیں ہوتی، اور اس طرح عالمِ روحانیت ہے جو عالمِ لامکان اور وہی درجۂ کمال پر بہشت ہے۔

۷۶۶

لامکان

(۲)

   

عالمِ روحانی:

جسم کو الگ اور روح کو الگ دیکھنا ہے تو یہ مکانی ہے اور وہ لامکانی، اور اگر ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھنا ہے کامل عالمِ شخصی کو دیکھو، بہشت دراصل عقل و جان ہونے کی وجہ سے لامکانی ہے، لیکن کائناتی روح کی وجہ سے ارض و سما سے مربوط ہے (۳: ۱۳۳، نیز ۵۷: ۲۱)۔

۴۴۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ل”
۷۶۷

لا مکان

(۳)

   

عالمِ روحانی:

جو لامکان ہے وہی ایک اعتبار سے لازمان بھی ہے، کیونکہ مکان یعنی آسمان کی گردش ہی سے زمان بنتا ہے، اور جہاں مکان نہ ہو وہاں زمان بھی نہیں، جیسے بہشت میں زمانۂ ماضی نہیں، زمانۂ مستقبل نہیں، اور ایسا زمانۂ حال بھی نہیں جو بڑی سرعت کے ساتھ گزر رہا ہو، مگر زمانِ ہمیشگی (خُلُود) ہے (۵۰: ۳۴)۔

۷۶۸

لا مکان

(۴)

   

عالمِ روحانی:

لامکان سے عالمِ علوی مراد ہے جو زمان و مکان سے ماؤراء ہے، جی ہاں، وہی بہشت ہے، جس میں مکان و زمان کا روشن تصوّر آپ کی چاہت کے مطابق ہوتا ہے، آپ جس جگہ، جس وقت، اور جس چیز کو دیکھنا چاہتے ہیں، صرف وہی چیز سامنے آتی ہے، اور باقی چیزیں غائب ہی رہتی ہیں۔

۷۶۹

لا ینفع

   

جو چیز فائدہ نہ دے:

رسولِ خدا کی ایک پُرحکمت دعا یہ بھی تھی: اللّٰھُم انّی اعوذبک من الاربع: مِن علمٍ لا ینفع، و قلبٍ لا یخشع و نفسٍ لا تشبع، و دعاءٍ لا یسمع۔ اے اللہ! میں چار چیزوں سے تیرے

۴۴۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ل”
     

پاس پناہ لیتا ہوں: غیر مفید علم سے، ایسے دل سے جس میں (خدا کا) خوف نہ ہو، ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو، اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو (مستدرک، کتاب العلم) اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو علم کا دعوٰی کرتے ہیں، در حالے کہ ان کا علم غیر مفید ہے۔

۷۷۰

لِبَاس

(۱)

   

پوشاک، لباس:

سورۂ اعراف (۷: ۲۶) میں دیکھ لیں: اے بنی آدم! ہم نے تم پر پوشاک نازل کی کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور زینت کے کپڑے (ریشًا۔ جسمِ لطیف) اور پرہیزگاری کا لباس اور یہ سب لباسوں سے بہتر ہے۔ اس آیۂ کریمہ میں تین قسم کی لباس کا ذکر آیا ہے: جامۂ ظاہر، جامۂ جسمِ لطیف اور جامۂ روحِ لطیف یا لباسِ تقوٰی جو سب سے اعلٰی ہے۔

ہم میں سے کسی نے خواب دیکھا کہ وہ اچھے صاف ستھرے لباس میں ملبوس ہے تو یہ اُس کے لئے “لباسِ تقوٰی” کا اشارہ ہے، اس کے برعکس پھٹے پرانے یا گندے کپڑے یا عریانی اس بات کی علامت ہے کہ تقوٰی کا فقدان ہے۔

۴۴۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ل”
۷۷۱

لِبَاس

(۲)

   

لباسِ تقوٰی:

لباسِ تقوٰی کی سب سے اعلٰی مثال یہ ہے کہ کوئی عالی ہمت مومن گنج ازل کی بلندی تک پہنچ جائے، اور وہاں اس کو سب سے بڑا دیدار ہو، یہ پاک دیدار مرتبۂ فنائیت، عالمِ وحدت اور یک حقیقت ہے، لہٰذا اس میں تمام معنی جمع ہیں، اور ایک معنی بموجب مَنۡ عَرَفَ یہ ہے کہ اُس عارف نے اپنے آپ کو لباسِ تقوٰی میں پہچان لیا۔

۷۷۲

لِبَاس

(۳)

   

بہشت کے ریشمی لباس:

سورۂ حج (۲۲: ۲۳) اور سورۂ فاطر (۳۵: ۳۳) میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ اہل جنّت کے لباس ریشمی ہوں گے۔ ان سے اجسامِ لطیف مراد ہیں، جو مومن جنّوں، پریوں یا فرشتوں کی طرح ذی عقول ہیں، ریشم اور جسمِ لطیف کی مشابہت کا حال یوں ہے کہ جب ریشم کا کیڑا پروانہ بن جانے کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے اسی وقت وہ اپنے باطن سے ریشم کا تار نکالنے لگتا ہے، اسی طرح جب انسانِ کامل بشر سے فرشتہ بن رہا ہوتا ہے، اور قبضِ روح کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو ایسے میں اس کی ہزاروں کاپیاں بنائی جاتی ہیں، یہ ہیں اجسامِ لطیف یا فرشتے یا بہشت کے ریشمی لباس۔

۴۴۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ل”
۷۷۳

لحم طیر

(۱)

   

پرند کا گوشت:

بہشت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت پرند کا گوش ہے، جیسا کہ سورۂ واقعہ میں باری تعالٰی کا یہ ارشاد ہے: وَ لَحۡمِ طَیۡرٍ مِّمَّا یَشۡتَھُوۡنَ۔ اور پرندوں کا گوشت بھی جس کی وہ رغبت کریں گے (۵۶: ۲۱) اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ بہشت میں دنیا کی کثیف غذائیں نہیں ہیں، لہٰذا پرندوں کا گوشت اس حقیقت کی مثال ہے کہ اہل بہشت کو بڑی پاکیزہ روحوں اور فرشتوں کا دیدار حاصل ہوگا، جس سے سب بیحد محظوظ و مسرور ہوں گے، اور ان کو ازلی و ابدی وحدت و یک حقیقت کا علم ہوجائے گا، جس سے بیگانگی کا تصوّر ختم ہوجائے گا، اور ہر فرد کو یقین کر لینا ہوگا کہ وہ ایک کُلّ ہے اور اور باقی سب اس کے اجزاء ہیں۔

۷۷۴

لحم طیر

(۲)

   

روحوں اور فرشتوں کا دیدار:

مومنین و مومنات میں سے ہر فرد منجملۂ کلّیّات ایک کُلّ ہے تو یہ کتنی عجیب و غریب اور کتنی عظیم حکمت ہے پس بہشت میں ہر شخص اللہ کی رحمت سے رفتہ رفتہ ارواح و ملائکہ کو اپنی ہستیِٔ کُلّ کے اجزاء قرار دیتا جائے گا، تا آنکہ مرتبۂ حقّ الیقین پر اسرارِ معرفت منکشف ہوجائیں، یہ ہے جنّت میں پرندوں کا گوشت کھانے کی تأویل، الحمد للہ۔

۴۴۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ل”
۷۷۵

لِسان

(۱)

   

زبان:

ہر زبان قدرتِ خدا کی نشانیوں میں سے ہے، جیسا کہ سورۂ روم (۳۰: ۲۳) میں ارشاد ہے: وَ مِنۡ اٰیٰتِهٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِكُمۡ وَ اَلۡوَانِكُمۡ۔ اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق ہے، نیز تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف (بے شک اس میں اہل علم کے لئے نشانیاں ہیں ۳۰: ۲۲) پس زبانوں کی تخلیق اور گوناگونی اللہ کی طرف سے ہے، اور اس میں بھی قدرتی حسن و جمال کے بے شمار مناظر ہیں، جیسے آسمان کے ستارے، زمین کے خوبصورت نظّارے، اور انسانوں کے چہرے۔

۷۷۶

لِسان

(۲)

   

زبان:

یہ بھی روحانی سائنس کا ایک زبردست انکشاف ہے کہ ہر آسمانی کتاب کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن، مثال کے طور پر قرآن کا ظاہر یعنی تنزیل جو عربی میں ہے، اور باطن یعنی تأویل جو دنیا بھر کی تمام زبانوں میں ہے، اور ایسا ہونا قرآن کا سب سے بڑا عالم گیر معجزہ ہے، جیسا کہ ارشادِ قرآنی کا ترجمہ ہے: اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان کے ساتھ تا کہ وہ اُن کو بیان (یعنی تأویل) کرے (۱۴: ۴)۔

۴۴۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ل”
۷۷۷

لِسان

(۳)

   

زبان:

سورۂ اعراف میں ارشاد ہے: قُلۡ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰهِ اِلَیۡكُمۡ جَمِیۡعَا۔ آپ فرمائیے اے لوگو! بے شک میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف (۷: ۱۵۸) اس حکم سے یہ ظاہر ہوا کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم تمام لوگوں کے لئے بھیجے گئے ہیں، اس لئے آپؐ رحمتِ عالم (۲۱: ۱۰۷) کی مرتبہ میں باطنًا ہر زبان میں بول سکتے تھے۔

۷۷۸

لِسان

(۴)

   

زبان:

اَلۡمُنۡجِد (عربی=  اردو) ص۱۰ پر ایک حدیثِ شریف درج ہے، جس کے مطابق رسولِ اکرم صلی  اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ اہل جنّت کی زبان عربی ہے۔ بیشک میرا ایمان ہے کہ جنّت کی سب سے اعلٰی اور مرکزی زبان عربی ہے (دیکھئے جلال الدّین سیوطی کی کتاب جامع الاحایث، ص۱۳۳ پر بھی) لہٰذا تمام مومنین و مومنات نہ صرف عربی میں گفتگو کرسکیں گے، بلکہ قرآن و حدیث کی باطنی حکمتوں سے بھی مستفیض ہوجائیں گے، تاہم عقل باور کرتی ہے کہ بہشت میں ذیلی طور پر بے شمار زبانوں کا رواج ہے، جس کی شہادت ایسی قرآنی آیات میں موجود ہے، جو جنّت میں ہر

۴۴۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ل”
     

دلپسند نعمت موجود و مہیّا ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔

۷۷۹

لِسان

(۵)

   

زبان:

سوال: ذرا یہ تو بتا دیں کہ بہشت میں کیا کیا نعمتیں ہیں ہوں گی؟ جواب: کوئی ایسی نمعت نہیں جو بہشت میں نہ ہو، آپ جن جن نعمتوں کو چاہتے ہیں وہ سب کی سب بہشت میں مل جانے والی ہیں، مثلًا اگر آپ اپنی زبان کے بارے میں ہر بات کو جاننا چاہتے ہیں تو یہ اس طرح ممکن ہے کہ وہاں خدا کے پاس تمام چیزوں کے خزانے ہیں، جن میں علم کے خزانے بھی ہیں (۱۵: ۲۱) زبانوں سے متعلق حقیقی معلومات بھی ہیں، اقوامِ عالم کی سچّی تاریخ بھی ہے۔

۷۸۰

لِسان

(۶)

   

زبان:

جب اللہ تعالٰی کسی زبان کو وجود دینا چاہتا ہے تو سب سے پہلے کلمۂ کُلّ کو پیدا کرتا ہے، یہ گویا اس زبان کے بے شمار الفاظ کا آدم ہے، پھر اسی کلمے سے حوّا کی مثال پر دوسرا کلمہ پیدا کرتا ہے، اور ان دونوں سے دیگر لفظوں کی بہت سی شاخیں بنا بنا کر ایک زبان کو مکمّل کرتا ہے۔

۴۴۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ل”
۷۸۱

لَفِیۡف

   

لپیٹا ھوا، سمٹا ھوا:

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۱۰۴) میں ارشاد ہے: پھر جب آخرت کا وعدہ آجائے گا تو ہم تم سب کو لپیٹ کر لے آئیں گے۔ اہلِ زمانہ کے نفوس نفسِ واحدہ سے پھیلائے گئے تھے، پھر ان کو نفسِ واحدہ ہی میں لپیٹ کر آخرت کی طرف لیا جاتا ہے، یعنی جس شخصِ کامل پر قیامت گزرتی ہے اسی میں سب لوگ فنا ہوجاتے ہیں، اور اسی کے وسیلے سے شخصِ واحد بن کر سب خدا کے پاس جاتے ہیں۔

۷۸۲

لِقَآء

(۱)

   

ملنا، ملاقات کرنا:

قرآنِ حکیم میں خدائے بزرگ و برتر کی پاک ملاقات سے متعلّق متعدد آیاتِ کریمہ وارِد ہوئی ہیں، یہاں یہ سوال بیحد ضروری ہے کہ آیا یہ ملاقات دیدار کے معنی میں ہے؟ جی ہاں، کیا دنیا میں بھی ربّ العزّت کا دیدار ہوسکتا ہے یا صرف آخرت میں ممکن ہے؟ اگر دنیا کی زندگی میں کوئی دیدار ممکن نہ ہوتا تو یہ نہ فرمایا جاتا: اور جو شخص دنیا میں اندھا رہے گا سو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا (۱۷: ۷۲)۔

۷۸۳

لِقَآء

(۲)

   

ملنا، ملاقات کرنا:

اے نورِ عینِ من! آپ سورۂ نجم (۵۳: ۱۱) میں غور سے دیکھ لیں

۴۴۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ل”
     

کہ حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے دل کی آنکھ سے اپنے ربّ کو دیکھا تھا، اور یہ سب کے لئے آنحضرتؐ کی طرف سے عملی ہدایت ہے، کیونکہ اصل ہدایت وہ ہے جس کے پیرو منزلِ مقصود تک پہنچ جائیں، اور اہل ایمان کے لئے ایسی آخری منزل خدا ہی ہے، پس پروردگارِ عالم کی ملاقات حق ہے۔

۷۸۴

لقمان

   

لقمانِ حکیم:

حضرتِ لقمان اور حضرتِ داؤد علیہما السّلام ہمعصر تھے (کتابِ سرائر، ص۱۸۹، جعفر بن منصور الیمن)۔

روایت ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرتِ لقمان کی طرف وحی بھیجی اور یہ ارشاد فرمایا: میں چاہتا ہوں کی طالوت کے بعد تم کو بنی اسرائیل پر خلیفہ بنا دوں، تو اُس نے درخواست کی: اگر میرے پروردگار کو گستاخی نہ ہو تو وہ مجھے اس سے معاف رکھے کیونکہ میں خواہشِ نفس اور خود غرضی سے ڈرتا ہوں، اور اگر ارادۂ الٰہی کا نفاذ ضروری ہے تو میں اس کے حکم اور فیصلے کے لئے صبر کروں گا، پس خدا نے اس سے خلافت کو پھیر دیا اور حضرتِ داؤد کو عطا کر دی اور اُس نے قبول کرلی (مذکورہ صفحہ)

۴۵۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ل”
۷۸۵

لِلۡقَلۡبِ اُذُنان

   

دل کے دو کان:

کتاب الشَّافی، جلد چہارم، باب۲۳۷ میں ہے: مَا مِنۡ قَلۡبٍ اِلَّا وَ لَہٗ اُذُنَانِ، عَلٰی اِحۡدَاھُمَا مَلَکٌ مُرۡشِدٌ وَ عَلَی الۡاُخۡرٰی شَیۡطَانٌ مُفَتِّنٌ۔ ہر دل کے دو کان ہوتے ہیں، ایک میں ہدایت کرنے والا فرشتہ بات کہتا ہے اور دوسرے میں فتنہ پرداز شیطان وسوسہ ڈالتا ہے۔

۷۸۶

لِوَاءُ الحمد

   

حمد کا جھنڈا:

اِنَّ لِلّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ لِوَاءً مِنۡ نُوۡرٍ وَ عَمُوۡدًا مِنۡ نُوۡرٍ خَلَقَھَا قَبۡلَ اَنۡ یَخۡلُقَ الدُّنۡیَا بِاَلۡفِ عَامٍ مَکۡتُوۡبٌ علیٰ ذَالِکَ اللِّوَاءِ اَنَااللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا مُحَمَّدٌ عَبۡدِیۡ وَ رَسُوۡلِیۡ اِلیٰ خَلۡقِیۡ وَ اٰلُ مُحَمَّدٍ خَیۡرُ الۡبَرِیَّۃِ۔ بیشک خدائے عز و جل کا ایک علم ہے، جو نور سے ہے اور اس کا رستہ بھی نور سے ہے، جس کو  اللہ نے آفرینش دنیا سے ایک لاکھ سال قبل پیدا کیا ہے، اس علم پر یہ تحریر ہے: میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، محمدؐ میرا بندہ ہے اور میری خلق کی طرف میرا رسول ہے اور آلِ محمد بہترین خلائق ہیں۔ (شرح الاخبار، جزء ۱۰، ص۴۷۲) لِواء الحمد /لوائے عقل، یعنی نورِ عقل۔

۴۵۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ل”
۷۸۷

لُوۡط

   

ایک نبی کا نامِ نامی ھے، یہ حضرتِ ابراھیمؑ کے بھائی کے بیٹے تھے:

سورۂ انبیاء (۲۱: ۷۱) میں ہے: وَ نَجَّیۡنٰهُ وَ لُوۡطًا اِلَى الۡاَرۡضِ الَّتِیۡ بٰرَكۡنَا فِیۡهَا لِلۡعٰلَمِیۡنَ۔ اور ہم نے ابراہیم کو اور لوط کو ایسی سرزمین کی طرف بھیج کر نجات دی جس میں ہم نے جہانوں (عوالمِ شخصی) کے لئے برکت رکھی ہے۔ دنیائے ظاہر میں کوئی ایسا ملک یا شہر نہیں، جس میں کل جہانوں کے لئے برکت ہو، پس یہ حقیقت ہے کہ خداوند تعالٰی کی عنایتِ بے نہایت سے حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ لوط علیہما السّلام زمینِ نفسِ کلّی تک رسا ہوگئے، جس میں تمام عوالمِ شخصی کے لئے رحمت رکھی ہوئی ہے۔

۷۸۸

لَوۡلَاکَ

   

اگر تو نہ ہوتا:

حدیثِ قدسی ہے: لَوۡ لَاکَ لَمَا خَلَقۡتُ الۡاَفۡلَاکَ۔ اے رسولؐ! اگر تم نہ ہوتے تو میں آسمانوں (یعنی کائنات) کو پیدا ہی نہ کرتا۔ اللہ کے ایسے محبوب پیغمبرؐ نے ارشاد فرمایا: اَنۡتَ مِنِّیۡ وَ اَنَا مِنۡکَ۔ (اے علیؑ!) تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں (صحیح بخاری، جلد دوم، کتاب الانبیاء، باب۳۹۱)۔

۴۵۲

     
    بابُ المیم

 

۴۵۳

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۴۵۴

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
۷۸۹

مَاتَ

   

مرگیا:

حدیثِ شریف ہے: مَنۡ مَّاتَ فَقَدۡ قَامَتۡ قِیَامَتُہٗ۔ ترجمہ: جو شخص مرگیا اس کی قیامت برپا ہوگئی۔ تشریح: جو مومنِ سالک جسمانی موت سے پہلے نفسانی طور پر مر جاتا ہے اس کی ذاتی (روحانی) قیامت برپا ہوجاتی ہے (احیاء العلوم، جلد چہارم، صبر کی فضلیت، ص۹۱)۔

۷۹۰

مَاء

(۱)

   

پانی:

تاویلًا علم، اس آیۂ مبارکہ کو سورۂ نور (۲۴: ۴۵) میں پڑھ لیں: اور اللہ نے ہر چلنے والے کو پانی سے پیدا کیا (یعنی ذکر و عبادت سے چلنے والے کو علم سے پیدا کیا) کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے (کسی کا ذکر باطنی کیفیت میں ہے معیّن الفاظ میں نہیں) تو کوئی دو ٹانگوں پر اور کوئی چار ٹانگوں پر چلتا ہے (یعنی کسی کا ذکر دو اسموں میں ہے تو کسی کا چار اسماء میں)۔

۷۹۱

مَاء

(۲)

   

پانی:

نورِ ہدایت کے آسمان سے ہمیشہ روحانی علم کا پانی برستا رہتا ہے، جیسا کہ سورۂ فرقان (۲۵: ۴۸) میں ارشاد ہے: وَ اَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ

۴۵۵

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
    مَآءً طَھُوۡرًا۔ اور ہم ہی نے آسمان سے بہت پاک اور سُتھرا پانی برسایا۔ پانی تو بہت دُور کی نہروں سے بھی آتا ہے۔ لیکن اس پانی کی کوئی ایسی تعریف نہیں کی گئی۔
۷۹۲

مُبَارَک

(۱)

   

برکت والا:

قرآن جو خداوندی خیر و خوبی کا مخزن اور بخشش و نعمت کا مرکز ہے (۶: ۹۲) جس کی آیات میں بار بار غور و فکر کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کی روحانی اور عقلی (علمی) برکتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں (۳۸: ۲۹) قرآنِ صامت کی باطنی برکتیں اس وقت حاصل ہونے لگتی ہیں جبکہ کوئی نیک بخت مومن قرآنِ ناطق کو پہچان لیتا ہے، کیونکہ یہ کلام اللہ کا نور اور معلّم ہے۔

۷۹۳

مُبَارَک

(۲)

   

برکت والا:

اسی کتاب (ہزار حکمت) میں عنوان “علم” کے تحت دیکھیں کہ ہر چیز کے ظاہر و باطن میں علم ہے، چنانچہ قرآن پاک میں بہت سے مقامات پر برکۃ کا ذکر آیا ہے، جس کا آخری اور خاص مطلب عقلی اور علمی برکت ہے، کیونکہ علم عقل کی روشنی ہے، اور عقل بفرمودۂ حدیثِ قدسی خدا کی محبوب ترین مخلوق ہے جو اللہ کے کسی محبوب میں

۴۵۶

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

پیدا کی جاتی ہے، پس علم میں سب سے بڑی عزّت بھی ہے اور حبِّ الٰہی کی خوشبو بھی ہے۔

۷۹۴

مُبَارَک

(۳)

   

برکت والا:

سورۂ مومنون (۲۳: ۲۹) میں ایک بڑی پُرحکمت نمائندہ دعا ہے: اور دعا کرو کہ اے میرے ربّ! تو مجھ کو بابرکت جگہ میں اتارنا اور تُو تو سب اتارنے والوں سے بہتر ہے۔ مردہ قبرر اکݵ اُن تِکُ لݸ پسوم عاشقݺ روح + دوستݺ جسم لݸ دُکُوَر ڞا گنݺ زندَولݸ ہُرُٹ۔ ترجمہ: اے روحِ عاشق! مردہ قبر میں داخل نہ ہوجا تیری شان مٹی میں رہنے کے لئے نہیں، تو محبوب کے جسمِ لطیف میں زندہ ہوجا اور ہمیشہ کے لئے اسی زندۂ جاوید میں جاگزین ہوجا۔ پس ہماری ارواح کے لئے بابرکت جگہ حضرتِ امام علیہ السّلام کا کوکبی بدن ہے۔

۷۹۵

مِثۡلَھُمۡ

   

اُن کی مثال:

…. اَنۡ یَّخۡلُقَ مِثۡلَھُمۡ۔ کہ اُن کی مثال پیدا کرے۔ یعنی جسمِ مثالی جو جثّۂ ابداعی ہے، پس بہشت میں جسمِ خاکی نہ ہوگا، جسمِ فلکی ہوگا (۳۶: ۸۱)۔

۴۵۷

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
۷۹۶

مِثۡلَھُنَّ

   

انہی کے مانند:

سورۂ طلاق کی آخری آیت میں ارشاد ہے: اَللّٰهُ الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَهُنَّ۔ خدا ہی ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور زمین کی قسم سے بھی انہی کے مانند (۶۵: ۱۲) یعنی ہر آسمان کے تحت ایک زمین ہے، اسی طرح سات آسمان اور سات زمین ہیں، جن کی معرفت عالمِ دین اور عالمِ شخصی میں یوں ہے کہ صاحبانِ ہفت ادوار سات آسمان ہیں اور اُن کے ہفت ابواب سات زمین۔

۷۹۷

مثیلِ ھارون

   

ھارون جیسا:

آنحضرتؐ نے مولا علیؑ سے فرمایا: یاعلی انت منّی بمنزلۃ ھارون من موسٰی اِلّا اَنّہ لا نبیٌّ بعدی۔ اے علیؑ! تیرا مرتبہ مجھ سے ایسا ہے جیسے ہارونؑ کا مرتبہ موسٰیؑ سے تھا، مگر یہ فرق ہے کہ میرے بعد اور کوئی پیغمبر نہیں (شرح الاخبار، جزء۱۰، ص۱۷۷) صاحبِ جوامع الکلم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کے اس ارشاد کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ ہم اور آپ قرآنِ حکیم کے آئینۂ مظہریتِ ہارونی میں حضرتِ مولا علیؑ کو بھی دیکھیں۔

۴۵۸

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
۷۹۸

مَجۡذُوۡذٍ

   

مُنۡقَطَع، کاٹا ہوا:

غَیۡرَ مَجۡذُوۡذٍ، غیر منقطع، لا زوال، ازلی و ابدی، سورۂ ھود (۱۱: ۱۰۸) میں دیکھ لیں کہ با سعادت لوگ بہشت میں ہمیشہ ہمیشہ رہتے ہیں: عَطَاءً غَیۡرَ مَجۡذُوۡذٍ۔ یہ وہ بخشش ہے جو کبھی منقطع نہ ہوگی۔ یہاں یہ اشارہ موجود ہے کہ انسانی روح کا بالائی سرا یا انائے علوی ہمیشہ بہشت میں ہے، کیونکہ وہ خدا کے نور کا ازلی عکس ہے، لہٰذا وہ ہرجا حاضر ہے۔

کائنات و موجودات کی ہرچیز ایک دائرے پر گردش کر رہی ہے (۲۱: ۳۳؛ ۳۶: ۴۰) چنانچہ بہشت کی لا تعداد و لا محدود نعمتیں ایک ایسے دائرے پر واقع ہیں جس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا۔

۷۹۹

مَحَبَّۃً مِّنِّیۡ

   

خدائی محبّت:

وَ اَلۡقَیۡتُ عَلَیۡکَ مَحَبَّۃً مِّنِیۡ (۲۰: ۳۹) اللہ پاک نے حضرتِ موسٰیؑ سے فرمایا: اور میں نے تجھ پر اپنی محبّت کا پرتو ڈالا۔ یہاں یہ حقیقت روشن ہے کہ پیغمبر اور امام علیہما السّلام سے محبّت کرنا واجب ہے، کیونکہ ان کی مبارک ہستی شروع ہی سے محبّتِ الٰہی کی مظہر ہوتی ہے۔

۴۵۹

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
۸۰۰

مَحۡجُوۡبُوۡن

   

روکے ھوئے، منع کئے ھوئے:

سورۂ تطفیف (۸۳: ۱۵) میں دیکھ لیں: كَلَّاۤ اِنَّهُمۡ عَنۡ رَّبِّهِمۡ یَوۡمَىٕذٍ لَّمَحۡجُوۡبُوۡنَ۔ ہر گز ایسا نہیں، یقینًا یہ لوگ اس روز اپنے ربّ کے دیدار سے محروم رکھے جائیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت میں بعض لوگوں کو ربِّ کریم کا پاک دیدار ہوگا۔

۸۰۱

مُحَمّدۡ

   

تعریف کیا ہوا، سراھا ہوا۔ اسمِ مفعول:

سیّد المرسلین، خاتم النّبیّین صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کا اسمِ گرامی، حضور اکرم کا نامِ نامی قرآنِ حکیم کے چار مقامات پر ظاہر ہے: (۱) آلِ عمران (۳: ۱۴۴) (۲) احزاب (۳۳: ۴۰) (۳) سورۂ محمّد (۴۷: ۲) (۴) فتح (۴۸: ۲۹)۔

لفظ محمّد کا مادّہ “حمد” ہے، جو عقلِ کلّ کے ناموں میں سے ہے، اس کی تأویل یہ ہے کہ آنحضرتؐ مظہرِ عقلِ کلّ ہیں، ہر عالمِ شخصی میں نورِ محمّدی سب سے مقدم ہے۔

۸۰۲

مَدَّ الظِّلَّ

   

سایہ کو پھیلا دیا:

کیا تم نے اپنے پروردگار کی طرف نہیں دیکھا کہ اُس نے کیونکہ سایہ کو پھیلا دیا، اگر وہ چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا کر دیتا، پھر ہم نے آفتاب

۴۶۰

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

کو اس کا رہنما بنا دیا، پھر ہم نے اس کو آسانی سے اپنی مٹھی میں لے لیا (۲۵: ۴۵ تا ۴۶) یہاں سایہ مثال ہے، اس کا ممثول عالمِ باطن ہے، جس کو خداوندِ قدّوس کائنات بھر میں پھیلاتا بھی ہے، لپیٹتا بھی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ ہمیشہ پھیلا ہوا رکھ بھی دیتا ہے، اور یہ آفتابِ عقل ہی کی روشنی میں ہے۔

۸۰۳

مِدۡرَارًا

   

بہت برسنے والا، آسمانِ روحانیت:

سورۂ انعام (۶: ۶) سورۂ ھود (۱۱: ۵۲) اور سورۂ نوح (۷۱: ۱۱) میں آپ کو خوب غور سے دیکھنا ہوگا تاکہ اس حقیقت کا یقین حاصل ہو کہ خدا اپنے خاص بندوں پر علمِ لدنّی کا بہت برسنے والا آسمان بھیج سکتا ہے: یُرۡسِلِ السَّمآءَ عَلَیۡکُمۡ مِدۡرَارًا۔

۸۰۴

مدینۃ العلم

   

علم کا شھر:

اَنَا مَدِیۡنَۃُ الۡعِلۡمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا فَمَنۡ اَرَادَ الۡعِلۡمَ فَلۡیَأۡتِ الۡبَابَ۔ آن حضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے پس جو شخص علم کو چاہتا ہو اس کو لازم ہے کہ شہر کے دروازے سے داخل ہوجائے۔ (شرح الاخبار، ج۱، ص۸۹) یعنی جو شخص علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین

۴۶۱

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

کے خزانوں کو چاہتا ہو، تو اس کے لئے یہ امر ضروری اور لازمی ہے کہ علیّٔ زمان علیہ السّلام کی بیمثال ہدایات کی روشنی میں چل کر علمِ نبیؐ کے شہر میں داخل ہوجائے۔

۸۰۵

مَرَّتَیۡن

(۱)

   

دو دفعہ، مراد دو دفعہ پیدا ھونا:

انسانِ کامل کا پہلا مرحلۂ سفر اسرافیل اور عزرائیل علیہما السّلام کی منزل تک ہے، جہاں وہ بار بار مرکر زندہ ہوجاتا ہے اور اسی عمل کے ساتھ اس کی ذاتی قیامت شروع ہوجاتی ہے، اور دوسرا سفر عالمِ عُلوی تک ہے جہاں اُس پر فنا فی اللہ و بقا باللہ کا سب سے عظیم معجزہ گرزرتا ہے، اسی معنٰی میں وہ دو دفعہ پیدا ہوجاتا ہے، جیسا کہ حضرتِ عیسٰی علیہ السّلام کا ارشاد ہے:

لَنۡ یَّلِجَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ مَنۡ لَّمۡ یُوۡلَدۡ مَرَّتَیۡن۔ جو شخص (مرتبۂ روح اور مرتبۂ عقل پر) دو دفعہ پیدا نہ ہوجائے وہ ہرگز آسمانوں کی بادشاہی میں داخل نہیں ہوسکتا ہے (احادیثِ مثنوی)۔

۸۰۶

مَرَّتَیۡن

(۲)

   

دو دفعہ:

بحوالۂ سورہ: ۱۷، آیت: ۴، دو دفعہ زمین میں فساد کی تأویلی حکمت ہے: دو مرتبہ عالمِ شخصی کی زمین میں بگاڑ، پہلی دفعہ روحانی تعمیر

۴۶۲

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

کے لئے اور دوسری دفعہ عقلانی ترقی کے لئے، یہی ہے دو دفعہ مر جانا اور دو دفعہ پیدا ہوجانا (۴۰: ۱۱)۔

۸۰۷

مریم

(۱)

   

دخترِ عمران:

وَ مَرۡیَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِیۡٓ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَهَا (۶۶: ۱۲) اور دوسری مثال مریم دخترِ عمران کی ہے جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی (پھر ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی)۔ یعنی اس نے اپنے کانوں کو اغیار کی باتوں سے محفوظ رکھا، تب ہی ان کی سماعت نفخۂ روح القدس کے قابل ہوسکی۔

۸۰۸

مریم

(۲)

   

عمران کی بیٹی:

اور وہ خاتون جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی، ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور اسے اور اس کے بیٹے کو عالمین کے لئے نشانی بنا دیا (۲۱: ۹۱) یعنی حجّت جس نے اپنی سماعت کو باطل باتوں سے محفوظ رکھا، اور خدائی روح اس میں پھونک دی گئی،  اس کے عالمِ شخصی میں شخصِ کامل کا نورانی تولّد ہوا، اور وہ دونوں ان لوگوں کے لئے امکانی رحمت کا نمونہ بن گئے جو راہِ روحانیت اور عالمِ شخصی کو چاہتے ہیں۔

۴۶۳

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
۸۰۹

مُسۡتَعَان

   

وہ جس سے مدد مانگی جائے:

سورۂ یوسف میں ہے: وَ اللّٰهُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوۡنَ (۱۲: ۱۸) اور جو تم بیان کرتے ہو اس کے بارے میں خدا ہی سے مدد مطلوب ہے، خدا سے مدد مانگنے کے لئے دو ضروری شرطیں ہیں: صبر اور صلوٰۃ (۲: ۴۵؛ ۲: ۱۵۳) صبر تاویلًا پیغمبرؐ ہیں اور صلوٰۃ امامؑ، انہی قدسی ہستیوں کے وسیلے سے خدا کی مدد حاصل ہوسکتی ہے، ورنہ ظاہری شرطوں کو بجا لاکر یہودی و نصارٰی بھی خدا کی مدد حاصل کرسکتے ہیں۔

۸۱۰

مَسۡجِد

   

سجدہ کی جگہ، عبادت خانہ، عبادت:

لفظِ مسجد عبادت کے معنی میں بھی آیا ہے جیسے سورۂ اعراف (۷: ۳۱) میں ہے، چنانچہ مسجد الحرام کے دو معنی ہیں (۱) حرمت والی مسجد (خانۂ کعبہ) اور (۲) حرمت والی عبادت، یعنی اسمِ اعظم کی عبادت، اب اس آیۂ شریفہ میں غور سے دیکھیں:

ترجمہ: وہ خدا پاک و پاکیزہ ہے جو اپنے بندہ کو راتوں رات مسجدِ حرام (حرمت والی عبادت=  اسمِ اعظمِ اوّل) سے مسجدِ اقصٰی (نہایت دور کی مسجد یعنی آخری اسمِ اعظم) کی طرف لے گیا جس کے گردا گرد ہم نے ہر قسم کی برکت مہیّا رکھی ہے تاکہ ہم اس کو اپنے کچھ عجائباتِ

۴۶۴

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

قدرت دکھلا دیں۔

۸۱۱

مسکین

   

فقیر، محتاج:

نیک لوگ خدا کی محبّت میں مسکین، یتیم، اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں، یعنی حجّت، امام، اور اساس کے علمی طعام کا دسترخوان بچھاتے ہیں (۷۶: ۸)۔

۸۱۲

مُسۡلِمۃ

   

أئمّۂ طاھرینؑ کی جماعت:

اے نورِ چشمِ من! حقیقی مسلم وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو خدا کے حوالہ کردیتا ہے، اسی معنٰی میں حضرتِ ابراہیم او حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام نے یہ دعا کی: اے ہمارے پروردگا! ہم کو ایسا بنا دے کہ اپنے آپ کو تیرے حوالہ کر دیں اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک ایسی جماعت پیدا کر دے جو حقیقی فرمانبرداری سے خود کو تیرے سپرد کر دے (۲: ۱۲۸)۔ یہاں سے ظاہر ہے کہ اُمَّۃً مُسۡلِمَۃً أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کی جماعت ہے، جو حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام کی ذرّیّت ہے (ملاحظہ ہو: دعائم الاسلام عربی، جلد اوّل، ص۳۳)۔

۴۶۵

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
۸۱۳

مُسَوِّمِیۡنَ

(۱)

   

نشان والے:

روحانی جہاد میں جب خدا کی طرف سے مدد کے لئے فرشتے آتے ہیں تو وہ نشان والے ہوتے ہیں، یعنی ان کے پاس زمانے  کے مطابق علامتی ہتھیار ہوتے ہیں تاکہ یہ سگنل ملے کہ وہ جنگی مدد کے لئے آئے ہیں، اس معجزے کا مشاہدہ کسی مومن کو بیداری یا خواب میں ہوسکتا ہے، چنانچہ جنگِ بدر میں بعض اصحابِ کبار رضوان اللہ علیھم نے ایسا معجزہ دیکھا تھا (۳: ۱۲۵)۔

۸۱۴

مُسَوِّمِیۡنَ

(۲)

   

نشان والے:

اب سے بہت پہلے کا قصّہ ہے کہ ایک طرف شدید تکلیف اور قیدی و بندی کا عالم تھا، اور دوسری طرف پُرحکمت روحانی انقلاب کا دور دَورہ، رات کی تنہائی میں برق رفتاری سے فرشتہ آیا، ایک بدیع الجمال عظیم المرتبت، اور نورانی جوان کی صورت میں تھا، دائیں ہاتھ میں سنگین کے ساتھ رائفل تھی اور بائیں ہاتھ میں ٹارچ، اس کی بیمثال و لاثانی جلالت و بزرگی سے میں سخت مرعوب ہوگیا، بلکہ ایک قسم کی فنائیت طاری ہوگئی، بات کرنے کی نہ تو ہمّت ہوئی اور نہ ہی کوئی اجازت ملی، بس بہت ہی جلد چلا گیا، لیکن اس کی یاد ایسی زبردست پُرکشش ہے کہ بار بار ستاتی رہتی ہے۔

۴۶۶

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
۸۱۵

مُسَوِّمِیۡنَ

(۳)

   

نشان والے:

اُسی زمانے کی بات ہے کہ ایک نورانی خواب میں حضرتِ مولانا امام سلطان محمّد شاہ صلوات اللہ علیہ کا پاک دیدار ہوا، اِس بندۂ ناچیز کے پاس ایک عجیب قسم کی اِن ڈائریکٹ رائفل ہوتی ہے، مولا نے فرمایا: یہ مجھے دو، میں اسے خوب استعمال کروں گا، اسی کے ساتھ رائفل امام علیہ السّلام کے دستِ مبارک میں گئی، یقینًا یہ نورانی خواب روحانی جہاد سے متعلق ہے۔

۸۱۶

مُسَوِّمِیۡنَ

(۴)

   

علامت لگانے والے:

جنگ بدر میں لشکرِ اسلام کی مدد کے لئے جو فرشتے آئے تھے، وہ علامتی اسلحہ کے ساتھ تھے، جن کو آنحضرتؐ (صلعم) کے علاوہ بعض اصحاب نے بھی دیکھا تھا، اور یہ صرف آئندہ روحانی اور علمی جنگ میں دینِ حق کی فتح سے متعلق خوشخبری اور دلجمعی تھی (۳: ۱۲۵ تا ۱۲۶)۔

۸۱۷

مُسَوِّمِیۡنَ

(۵)

   

علامت لگانے والے:

اے نورِ عینِ من! اِن باطنی اسرار کو بھول نہ جانا کہ نمائندہ قیامت (انفرادی قیامت) دعوتِ حق، روحانی جہاد، اور علمی جہاد ایک ساتھ واقع ہوجاتے ہیں، باطنی جنگ کے مرکز کو “قلب” کہتے ہیں،

۴۶۷

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

اور وہ حضرتِ امام (قائم) ہے، جس کے بغیر روحانی اور علمی جہاد ممکن ہی نہیں۔

۸۱۸

مَشَارِقۡ

   

سورج نکلنے کے مقامات، واحد مشرق:

سورۂ اعراف (۷: ۱۳۷) میں ارشاد ہے: اور ہم نے ان لوگوں کو جوکہ بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے اس سرزمین کے مشرقوں اور مغربوں کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی ہے۔ یہ عالمِ شخصی کی سرزمین ہے جس کے مشارق و مغارب کی طرف خصوصی توجہ دلانے کی عظیم حکمت یہ ہے کہ وہاں کا آفتابِ نور اپنے ہر طلوع و غروب سے بیمثال علمی و عرفانی اشارے کرتا رہتا ہے، اور خداوندی برکتوں کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔

۸۱۹

مع القرآن

(۱)

   

قرآن کے ساتھ:

قال رسول اللہ (صلعم) علیّ مع القرآن و القرآن مع علیّ لا یفترقان حتّٰی یردا علی الحوض (ینابیع المُودّۃ، ص۱۰۳) آنحضرتؐ نے فرمایا: علیؑ قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علیؑ کے ساتھ، یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے تا آنکہ دونوں حوضِ کوثر پر اتر جائیں۔

۴۶۸

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

اس کی حکمت یہ ہے: علی (یعنی ہر امامِ برحق) اپنی روحانیت و نورانیت میں قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن اپنی روحانیت و نورانیت میں علیؑ کے ساتھ ہے، پس قرآن اور علیؑ باطن میں نورِ واحد ہیں، اور یہ وحدت قیامِ قیامت اور حوض کوثر تک قائم رہے گی۔

۸۲۰

مع القرآن

(۲)

   

قرآن کے ساتھ:

علیؑ (امامِ زمان) ظاہر میں ایک پاک شخصیت ہے اور باطن میں نور، اور قرآن ظاہر میں ایک عظیم آسمانی کتاب ہے، اور باطن (پیغمبر اور امام) میں نور، اس سے معلوم ہوا کہ علیؑ اور قرآن ظاہر میں الگ الگ ہیں، اور باطن میں نہ صرف ساتھ ہی ہیں بلکہ نورِ واحد بھی ہیں۔

۸۲۱

مَعَ اللہ

   

خدا کے ساتھ، فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ:

صاحبِ جَوامِعُ الۡکَلِم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم (روحی فِداہٗ) کا یہ پُر از اسرارِ معرفت ارشاد ہے: لِیۡ مَعَ اللہِ وَقۡتٌ لَا یَسۡعُنِی فِیۡہِ مَلَکٌ مُقَرَّبٌ وَ لَا نَبِیٌّ مُرۡسَلٌ۔ لفظی ترجمہ: خدائے واحد کے ساتھ میرا ایک وقت (حال) ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس میں (بظاہر) میرے ساتھ کسی مقرب فرشتے یا نبیّٔ مُرسل کی گنجائش نہیں ہوتی۔

۴۶۹

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے سب سے پہلے نورِ محمّدی کو پیدا کیا، پھر اسی نور سے سب کو پیدا کیا، لہٰذا رجوع الٰی اللہ یعنی خدا کی طرف لوٹ جانے کا قانون یہ ہے کہ پھر سب پہلے کی طرح رسولؐ کے نور میں ایک ہوجائیں، اور یہ فنا فی الرّسولؐ کے ذریعے سے ہوسکتا ہے، تاکہ آنحضرتؐ جو فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ رکھتے ہیں سب کو خدا میں فنا کردیں، اسی طرح بالواسطہ فنا سب کے لئے ممکن ہے، لیکن رحمتِ عالم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کی ذاتِ عالی صفات ان معنوں میں بیمثال ہے کہ پروردگارِ جہان نے آپؐ کو نورِ ازل، قلم اعلٰی، اور عقلِ کلّ جیسے انتہائی عظیم مراتب سے نوازا ہے، اور آپؐ بِلا واسطہ خدا سے واصل ہیں۔

۸۲۲

معارج

   

سیڑھیاں:

سورۂ معارج کے شروع (۷۰: ۳) میں یہ اشارہ ہے کہ ناطق، اساس، امام، حجّت، داعی اللہ تعالٰی شانہ کی سیڑھیاں ہیں۔

۸۲۳

مُعۡجِزِیۡنَ

(۱)

   

عاجز کرنے والے:

اے عزیزانِ من! آپ سب اِس قانونِ قرآن کو ہرگز بھول نہ جانا کہ اس کی ہر مثال میں زبردست علم و حکمت کے اسرار پنہان ہیں (۶: ۸۰)

۴۷۰

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

چنانچہ سورۂ عنکبوت (۲۹: ۲۲) میں ہے: وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ۔ اور نہ تو تم خدا کو زمین میں عاجز کرسکتے ہو اور نہ آسمان میں۔ یعنی خدا کی خدائی میں کوئی عقلی (علمی) اور روحانی نعمت ایسی نہیں جو انسان کو حاصل نہ ہونے کی وجہ سے کہا جائے کہ اللہ نے ایسا کیوں کیا؟ اور ایسا کیوں نہیں کیا؟

۸۲۴

مُعۡجِزِیۡنَ

(۲)

   

عاجز کرنے والے:

خداوندِ تعالٰی کو نہ کوئی عاجز کرسکتا ہے نہ ہرا سکتا ہے اور نہ تھکا سکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدائے علیم و حکیم کا کام دائرے کی طرح کسی ابتداء و انتہا کے بغیر جاری و ساری ہے، جس میں ہر نعمت اپنے وقت پر سامنے آتی ہے، اور بہشت میں کوئی نعمت ناممکن نہیں، یہاں تک کہ خود خدا بھی کنزِ مخفی کے معنی میں مل جاتا ہے۔

۸۲۵

معراج

(۱)

   

سیڑھی، روحانیت کا بلند ترین درجہ:

قرآنِ عزیز میں معراج کا سب سے عالیشان اور سب سے نمایان تذکرہ حضرتِ محمّد مصطفٰی رسولِ خدا سیّد الانبیاء و المرسلین صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم سے متعلق ہے، کیونکہ آپ ہی اوّل، آخر، خاتم اور صاحبِ وصفِ لَولاک ہیں، حضورِ انورؐ کے اور بھی ایسے بہت سے کمالات

۴۷۱

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

ہیں جو دوسرے انبیاء کو حاصل نہیں، تاہم منزلِ مقصود تک رسائی کے بغیر کوئی نبی اور کوئی ولی نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی رہنمائی کا حق ادا ہوسکتا ہے، اس لئے یہ کہنا حقیقت ہے کہ کاملین و عارفین اسرارِ معراج سے فعلًا واقف و آگاہ ہوتے ہیں۔

۸۲۶

معراج

(۲)

   

معراجِ آدمؑ:

روحانی سائنس اور قرآنِ پاک کی روشنی میں یہ حقیقت پایۂ ثبوت پر پہنچ چکی ہے کہ عالمِ شخصی کے شروع شروع میں ذرّاتی فرشتے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو بار بار سجدہ کر رہے تھے اور اُن کا نمایان سلسلہ تقریبًا ایک ہفتہ تک رہا اور اس کے بعد خلیفۃ اللہ رفتہ رفتہ کائناتی زمین (نفسِ کُلّی) میں عملًا نائب ہوگئے، وہاں بھی ملائکہ نے باقاعدۂ تجدّدِ امثال آدمؑ کو بار بار سجدہ کیا مگر بڑی عجیب بات تو یہ ہے کہ یہاں تو صرف ایک ہی نورانی فرشتہ دکھائی دیتا تھا، جس میں سب تھے، اور اسی مقام پر حضرتِ آدم علیہ السّلام کو معراج ہوئی۔

۸۲۷

معراج

(۳)

   

معراجِ ادریسؑ، بہت ھی بلند جگہ:

حضرتِ ادریس علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد ہے: وَ رَفَعۡنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا۔ اور ہم نے ان کو بہت اونچی جگہ (معراجِ روحانیت میں)

۴۷۲

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

بلند کرکے پہنچا دیا (۱۹: ۵۷) جب خداوندِ کریم کسی پیغمبر پر کیا ہوا اپنے احسان کا ذکر فرماتا ہے تو وہ احسان انتہائی عظیم ہوتا ہے، پس یہاں بلند جگہ (مکانًا علیًّا) سے مقامِ معراج مراد ہے، جو حضرتِ ادریس علیہ السّلام کو عالمِ شخصی میں حاصل ہوا۔

۸۲۸

معراج

(۴)

   

معراجِ نوحؑ:

تمام انبیاء علیہم السّلام کی راہِ روحانیت ایک ہی ہے، منزلِ مقصود بھی ایک ہی ہے، اور شروع سے آخر تک سارے معجزات بھی ایک جیسے ہیں، مگر ان کی مثالیں لوگوں کو آزمانے کے لئے طرح طرح سے دی گئی ہیں، چنانچہ حضرتِ نوح علیہ السّلام کے روحانی انقلاب کا نام طوفان ہے، جس نے کشتیِٔ روحانیت کو جبلِ جودی کے عروج تک پہنچا دیا (۱۱: ۴۴) جودی بظاہر ایک پہاڑ ہے، بباطن کوہ عقل، جو عالمِ معراج میں متحرک ہے، پس یہی باطنی پہاڑ حضرتِ نوح علیہ السّلام کی معراج کی نشانی ہے۔

۸۲۹

معراج

(۵)

   

معراجِ نوحؑ سے متعلق سوال:

سوال: اس کا مطلب یہ ہوا کہ کشتیٔ نوحؑ میں جو اہل ایمان سوار ہوئے تھے ان کو بھی معراج کی عظیم سعادت نصیب ہوئی، کیا یہ درست

۴۷۳

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

ہے؟ ہاں درست تو ہے، لیکن اس طرح سے نہیں کہ معراج پر کوئی جماعت جدا جدا افراد کے ساتھ جاتی ہے، چونکہ وہاں عالمِ وحدت ہے اس میں کثرت کی گنجائش نہیں، لہٰذا جتنے بھی ہوں ان کو نفسِ واحدہ میں فنا ہوکر جانا پڑتا ہے۔

۸۳۰

معراج

(۶)

   

مرتبۂ فنا فی اللہ و بقا باللہ، معراجِ انبیاؑء:

اے نورِ عینِ من! معرفت کے اس سرِّ عظیم کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ تمام انبیاء علیہم السّلام اللہ جلّ شانہٗ کی رحمت و دستگیری سے جیتے جی مرکر زندہ ہوگئے، اس وجہ سے وہ حضرات یقینًا فنا فی اللہ و بقا باللہ کا بے مثال درجہ رکھتے تھے، اور یہ بھی یاد رکھنا کہ ایسا سب سے بڑا مرتبہ معجزۂ معراج کے بغیر ممکن ہی نہیں، اب اسی حقیقت کی شہادت قرآنِ حکیم (۲: ۲۱۳) سے پیش کی جاتی ہے:

فَبَعَثَ اللہُ النَّبِیّینَ۔ (۱) پس خدا نے پیغمبروں کو (فنا فی اللہ و بقا باللہ کے معنی میں) زندہ کیا۔ (۲) پھر خدا نے پیغمبروں کو (گویا معراج سے) بھیجا۔ کیونکہ انبیائے کرام علیہم السّلام اگرچہ بظاہر دنیا ہی میں تھے، لیکن باطنی طور پر اُن کی پاک روح عالمِ علوی اور مقامِ معراج سے ہوکر آئی تھی، اس معنٰی میں وہ حضرات اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے تھے۔

۴۷۴

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
۸۳۱

معراج

(۷)

   

معراجوں کا یکجا تذکرہ:

اے عزیزان! ہم آپ کو اُس آیۂ مبارکہ کی طرف پُرزور توجّہ دلا رہے ہیں جس میں جملہ انبیائے کرام علیہم السّلام کی معراج کا یکجا تذکرہ فرمایا گیا ہے، وہ سورۂ بقرہ کی آیت دو سو تیرہ (۲: ۲۱۳) ہے، اس آیۂ مقدّسہ میں ایک حکمت آگین لفظ بَعَثَ (فَبَعَثَ) ہے جس کی تحلیل سے پیغمبروں کی معرفت کا بڑا اہم دروازہ کھل جاتا ہے، جس کا ذکر ہوچکا کہ خدا نے پیغمبروں کو (فنا فی اللہ و بقا باللہ کے معنی میں) زندہ کیا۔

کیونکہ بَعَثَ کا صیغہ بَعۡث سے ہے، اور بَعۡث کے معنی ہیں: جی اٹھنا، زندہ کرنا، اُٹھا کھڑا کرنا، اور قرآنِ حکیم (۲۲: ۵؛ ۳۰: ۵۶) میں البعث اور یوم البعث کو بھی دیکھ لیں۔

۸۳۲

معراج

(۸)

   

منزلِ مقصود، حقائق و معارف کا سرچشمہ اور مرکز:

زیر بحث آیۂ شریفہ (۲: ۲۱۳) میں یہ ذکر بھی ہے کہ جملہ انبیاء علیہم السّلام خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تھے، اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ معراج کے روحانی سفر کے دوران خدائے علیم و حکیم کے حکم سے پیغمبروں نے بہت کچھ دیکھا، منجملہ بہشت اور دوزخ کا مشاہدہ

۴۷۵

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

ضروری تھا، تبھی وہ حضرات حقیقی معنوں میں لوگوں کو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے مقرر ہوگئے۔

۸۳۳

معراج

(۹)

   

نورِ انبیاءؑ کا روحانی عروج:

آیۂ کریمۂ مذکورہ کا ایک اہم جزو یہ ہے: وَ اَنۡزَلَ مَعَهُمُ الۡكِتٰبَ بِالۡحَقِّ (۲: ۲۱۳) اور ان پیغبروں کے ساتھ برحق کتاب بھی نازل کی۔ اِن پُرمایہ الفاظ سے عجیب و غریب اصولی حکمتوں کا انکشاف ہوتا ہے: اوّل یہ کہ ساری آسمانی کتابیں دراصل ایک ہیں، اس عظیم مجموعے کا نام الکتاب (یعنی قرآن) ہے، دوم یہ کہ آسمانی کتابوں کی مثال پر تمام انوارِ انبیاء بھی ایک ہیں اور اس مجموعۂ انوار کا مبارک نام نورِ محمّدیؐ ہے، سوم یہ کہ عالمِ عُلوی کی جس بلندی سے نورِ انبیاء کا نزول ہوا، اُسی بلندی کے ساتھ ساتھ (مَعَھُمۡ) الکتاب بھی نازل ہوئی، چہارم یہ کہ جب اصل کتاب ایک ہی ہے تو دعوتِ حق اور دینِ انبیاء علیہم السّلام بھی ایک ہی ہے، اور وہ اسلام ہے جو حضرت محمّد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کا دین ہے۔

۸۳۴

معراج

(۱۰)

   

سیڑھی:

اے نورِ عینِ من! یہ روایت درست اور حقیقت ہے کہ قرآنِ حکیم

۴۷۶

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

میں تین سردار چیزیں ہیں جو سب سے عظیم ہیں، اُمّ الکتاب (سورۂ فاتحہ) تمام سورتوں سے اعظم ہے، آیۃ الکرسی ساری آیات سے اعظم ہے، اور جملہ اسمائے الٰہی میں ایک ایسا بزرگ نام بھی ہے جو زندہ ہے، اس لئے وہ اسمِ اعظم ہے، ربُّ العزّت کے اس طریقِ کار میں بندوں کے لئے بے شمار رحمتیں ہیں، اب آئیے ہم امّ الکتاب کی اُس پُرحکمت اور بہت ہی پیاری دعا اور اس کی تفسیر میں سوچتے ہیں جو راہِ مستقیم پر چلتے چلتے اُن حضرات میں شامل ہونے کے لئے ہے، جن کو پروردگارِ عالمین نے اپنے خاص انعامات سے نوازا ہے، اور وہ یقینًا اسرارِ معرفت سے واقف و آگاہ ہیں جو اسرارِ معراج ہیں۔

۸۳۵

معرفۃ

(۱)

   

خدا شناسی:

اِعۡرِفُوۡا اللہَ بِاللہِ۔ اللہ کو اللہ ہی سے پہچانو۔ (لغات الحدیث) یعنی خدا کی معرفت اُس کے نور کی روشنی میں ممکن ہے، اور اللہ کا نور آنحضرتؐ اور امامؑ ہیں۔

۸۳۶

معرفۃ

(۲)

   

خدا کی پہچان:

معلوم ہے کہ حضرتِ ربّ العزّت کی معرفت کا وسیلہ خود شناسی ہی

۴۷۷

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

ہے اور جو شخص اپنی روح کی شناخت میں سب سے آگے ہو وہی اپنے ربّ کی معرفت میں سب سے زیادہ کامل ہے، جیسا کہ آنحضرتؐ کا ارشاد ہے: اَعۡرَفُکُمۡ بِنَفۡسِہٖ اَعۡرَفُکُمۡ بِرَبِّہٖ۔ تم میں جو شخص سب سے زیادہ اپنے آپ کا عارف ہو وہی تم میں سب سے زیادہ اپنے پروردگار کا عارف ہے۔ یہاں پر انسانی روح کی عظمت اور یک حقیقت کا سب سے بڑا راز پوشیدہ ہے (زاد المسافرین، ص۲۸۷)۔

۸۳۷

مَعۡلُوۡم

   

جانا ھوا:

سورۂ صٰفّٰت میں ارشاد ہے: اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الۡمُخۡلَصِیۡنَ۔ اُولٰٓىٕكَ لَهُمۡ رِزۡقٌ مَّعۡلُوۡمٌ (۳۷: ۴۰ تا ۴۱) مگر اللہ کے مخصوص بندے وہ ہیں جن کے لئے جانا بوجھا رزق ہے۔ خداوندِ عالم کے خاص بندے کون ہیں اور ان کا جانا ہوا رزق کیا ہے؟ وہ حضرات اولیاء، کاملین اور عارفین ہیں، اور رزقِ معلوم (جانا ہوا رزق) دیدار، معرفت، حکمت، علم، اور کامل روحانیت ہے، الغرض خدا کے مقرّب بندوں کو دنیا ہی میں بہشت اور اس کی نعمتوں کی ضروری معرفت حاصل ہوجاتی ہے، آپ سورۂ محمّد (۴۷: ۶) میں بھی دیکھ لیں، نیز اس کتاب میں عَرَّفَ کے عنوانات کو بھی دیکھیں۔

۴۷۸

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
۸۳۸

مَغَانِم

   

غنیمت کے اموال، واحد مَغۡنَم:

سورۂ فتح (۴۸: ۲۰) میں خدا نے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا ہے، یہ غنیمتیں روحانی ہیں، جو روحانی اور عقلانی جہاد میں حاصل ہوسکتی ہیں، یعنی روح اور عقل کی کثیر نعمتیں۔

لوگ روحانی جہاد سے بے خبر ہیں، جبکہ قیامت کے بارے میں باور کرتے ہیں، حالانکہ قیامت ہی دعوتِ حق بھی ہے اور جہادِ روحانی بھی ہے، چنانچہ جہاں یہ جہاد ہے، وہاں اس میں اموالِ غنیمت بھی ہیں، جیسے بے شمار غلام، کنیزیں، اور لاتعداد دوسری چیزیں، اور جو لوگ روحانی جہاد (قیامت) کے زور سے خدا کے دین میں داخل ہوجاتے ہیں ان کو بھی بالآخر نجات مل جاتی ہے۔

۸۳۹

مقام

   

کھڑا ھونے کی جگہ:

عالمِ علوی میں جو قبلۂ عقل و جان ہے، اسی کا ذکرِ جمیل ہے، جیسا کہ ترجمۂ ارشاد ہے: اس میں بہت واضح و روشن نشایناں ہیں (اور) مقامِ ابراہیم ہے (یعنی حجرِ ابیض) اور جو اس گھر میں داخل ہوا امن میں آگیا (۳: ۹۷)۔

۴۷۹

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
۸۴۰

مِقۡدَار

   

اندازہ، جمع مقادیر:

وَ كُلُّ شَیۡءٍ عِنۡدَهٗ بِمِقۡدَارٍ (۱۳: ۸) اور ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے۔ یعنی بہت سی کائناتیں ہوسکتی ہیں مگر بے پایان ہرگز نہیں، کیونکہ حکمت مقدارمیں ہے، جس کا مطلب ہے انسان کا احاطۂ معرفت۔

۸۴۱

مَقۡطُوۡعَۃٍ

   

کاٹی ھوئی:

اصحاب الیمین کے بارے میں ارشاد ہے: وَّ فَاكِهَةٍ كَثِیۡرَةٍ۔ لَّا مَقۡطُوۡعَةٍ وَّ لَا مَمۡنُوۡعَةٍ (۵۶: ۳۲ تا ۳۳) اور وہ میوہ ہائے کثیرہ (کے باغوں) میں ہوں گے جو نہ کبھی منقطع ہوں اور نہ ان سے کوئی روکے۔

مقطوعہ کی مثال خط یعنی لکیر (__________) اور لا مقطوعہ دائرے کی طرح ہے:

     
۸۴۲

مُقِیۡم

   

قائم کرنے والا، برپا کرنے والا:

امامِ مقیم دعوتِ حق میں وہ عظیم امام ہے جو صاحبِ دور (ناطق)

۴۸۰

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

کو روحانی تربیت دیکر قائم کرتا ہے، چنانچہ مقیمِ اوّل مولانا ھنید، مقیمِ دوم مولانا ھود، مقیمِ سوم مولانا صالح، مقیمِ چہارم مولانا آد، مقیمِ پنجم مولانا خزیمہ، اور مقیمِ ششم مولانا ابوطالب ہے، اسی طرح چھ صاحبانِ ادوار کے لئے چھ أئمّۂ مقیمین مقرر ہوگئے (کتاب کنز الولد، عربی، ص۲۰۶)۔

۸۴۳

مَکۡنُوۡن

   

چھپایا ھوا، پوشیدہ:

اے نورِ عینِ من! آپ اس سرِّ عظیم کو سورۂ واقعہ (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) میں دیکھیں: بیشک وہ بڑے رتبہ کا قرآن ہے جو پوشیدہ کتاب میں ہے، اس کو بس وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں۔ ںورِ عقل ہی کتابِ مکنون (پوشیدہ کتاب) ہے، جس میں قرآنِ کریم کی ازلی نورانیت ہے، اور نورانیت میں تمام تاویلی اسرار پنہان ہیں، اس کتابِ مکنون اور ازلی قرآن کو کوئی شخص چھو نہیں سکتا مگر وہ حضرات جو پاک کئے گئے ہیں، اور وہ أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہی ہیں، اور انہی کے ذریعے سے کسی کو علمی صدقہ مل سکتا ہے۔

۸۴۴

مُلۡک

(۱)

   

بادشاھی:

سورۂ مومن (۴۰: ۱۶) میں خدائے عزّ و جلّ فرماتا ہے: لِمَنِ الۡمُلۡکُ

۴۸۱

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

الۡیَوۡمَط لِلّٰہِ الۡوَاحِدِ الۡقَھَّارِ۔ آج (قیامت کے دن) کس کی بادشاہت ہے؟ (کہا جائے گا) خداوند تعالٰی کی، جو اکیلا اور غالب ہے۔ واحد بر وزنِ فاعل، ایک اکیلا اور سب کو ایک کر دینے والا، اور قہّار کے معنی ہیں غالب، زبردست، یعنی خدا اپنے ہر ولی کے عالمِ شخصی میں جب قیامت برپا کرتا ہے تو اسی وقت وہاں خدا کی بادشاہی قائم ہوجاتی ہے، اور اسی نمونے پر ساری دنیا میں بھی سلطنتِ الٰہیّہ قائم ہونے والی ہے۔

۸۴۵

مُلۡک

(۲)

   

بادشاھی:

اللہ تعالٰی کی سنّت یہ ہے کہ وہ جلّ و اعلٰی مثالوں میں کلام کرتا ہے، چنانچہ آپ جب خدا کو ہر چیز سے بے نیاز و برتر یا بادشاہِ قدیم مانتے ہیں تو اس حال میں ذاتِ سبحان کی ایک نئی بادشاہی خواہ عالمِ شخصی میں ہو یا سیّارۂ زمین پر صرف ایک تاویلی مثال قرار پاتی ہے، اور اس کی تأویل کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسی بادشاہی ولیّٔ امر اور مومنین کی ہوتی ہے۔

۸۴۶

مُلۡک

(۳)

   

بادشاھی:

ہر ولیّٔ زمان کی روحانیت و قیامت میں بہت سے مومنین و مومنات کو روحانی سلطنتیں عطا کی جاتی ہیں، جیسے زمانۂ موسٰیؑ کی مثال موجود

۴۸۲

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

ہے: اور جب موسٰی نے اپنے قوم سے کہا اے میری قوم! اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو تم پر ہوا ہے، جب اس نے تم میں سے انبیاء بنائے  اور تمہیں سلاطین بنا دیا (۵: ۲۰)۔ عالمِ ظاہر اور عالمِ دین کی ساری مثالیں عالمِ شخصی میں جمع و موجود ہیں، اسی حقیقت کے پیشِ نظر  اِذۡ جَعَلَ فِیۡكُمۡ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمۡ مُّلُوۡكًا (۵: ۲۰) کے معنی یہ ہوں گے: جب تمہارے عالمِ شخصی میں انبیاء بنائے اور تمہیں روحانی سلاطین بنا دیا۔ یہ خطاب عارفین سے ہے۔

۸۴۷

مُلۡک

(۴)

   

بادشاھی:

سورۂ دھر (۷۶: ۲۰) میں خوب غور سے دیکھ لیں، بہشت کا سب سے بڑا درجہ ملکِ کبیر (عظیم الشّان سلطنت) ہے جیسا کہ ارشاد ہے: وَ اِذَا رَاَیۡتَ ثَمَّ رَاَیۡتَ نَعِیۡمًا وَّ مُلۡكًا كَبِیۡرًا (۷۶: ۲۰) اور جب تم نظر ڈالو گے تو ہر طرح کی نعمت اور عظیم الشّان سلطنت دیکھو گے۔ لیکن اس اعلٰی مقام کے لئے حقیقی علم و عمل کی ضرورت ہے۔

۸۴۸

مُلۡک

(۵)

   

بادشاھی:

یہاں یہ نکتہ بھی خوب اچھی طرح یاد رہے کہ قرآنِ حکیم میں آلِ ابراہیمؑ کی جیسی شاندار تعریف آئی ہے اس کا مقصد محمّدؐ و آلِ محمّدؐ کی معرفت

۴۸۳

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

ہے، اُس آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: ہم نے تو مرحمت فرما دی ہے ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت اور عنایت فرما دی ہے انہیں عظیم الشّان سلطنت (۴: ۵۴) آپ سلمان فارسی کی طرح ان میں فنا ہوجائیں تاکہ آپ کتاب، حکمت اور عظیم سلطنت کی وراثت حاصل کرسکیں، آمین!

۸۴۹

مَلَکُ الۡمَوۡت

   

موت کا فرشتہ، عزرائیل:

سورۂ سجدہ (۳۲: ۱۱) میں فرمایا گیا ہے: کہہ دو کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

موت ہر روز جزوی بھی ہے، عمر میں ایک بار کلّی بھی، اختیاری بھی ہے اور اضطراری بھی، لہٰذا ہر شخص پر ایک فرشتۂ موت مؤکل بنایا گیا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر عالمِ شخصی میں بے شمار قوتیں ہیں، اور ان میں سب سے بڑی قوتیں جو انقلابی ہیں وہ چار ہیں: قوّتِ جبریلیہ، قوّت میکائیلیہ، اسرافیلیہ اور عزرائیلیہ۔

۸۵۰

ملکوت

   

عالمِ ارواح و ملائکہ، روحانی بادشاھی:

حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام نے فرمایا: لو لا انّ الشّیاطین یحومون حول قلوب بنی آدم لراؤا ملکوت السّمٰوٰت و

۴۸۴

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

والارض۔ اگر بنی آدم کے دلوں کے گرد شیاطین نہ پھرتے ہوتے تو آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کو دیکھتے۔ اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ خدا کے مخلص بندے کائنات کی روحانی سلطنت کو دیکھتے ہیں، اور یہ عظیم معجزہ عالمِ شخصی میں ہوتا ہے۔ (المیزان، الجزء الخامس، ص۲۷۰)۔

۸۵۱

مَلَکَیۡن

(۱)

   

دو فرشتے، ھاروت و ماروت:

سورۂ بقرہ (۲: ۱۰۲) میں ارشاد ہے: وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَى الۡمَلَكَیۡنِ بِبَابِلَ هَارُوۡتَ وَ مَارُوۡتَ۔ اور وہ پیچھے پڑے اُس چیز کے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر نازل کی گئی تھے۔ اس آیۂ شریفہ کے باطنی پہلو کا تعلق روحانی سائنس سے ہے، جس کی تجربہ گاہ عالمِ صغیر میں ہے، پس وہ دو آزمائشی فرشتے بحدِّ فعل یا بحدِّ قوّت اب بھی موجود ہیں، جن کے اور بھی کئی مشہور نام ہیں۔

۸۵۲

مَلَکَیۡن

(۲)

   

دو فرشتے، دو ساتھی:

سورۂ بلد (۹۰: ۱۰) میں پڑھ لیں: وَ ھَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ۔ اور ہم نے اس کو (خیر و شر) دونوں راستے دکھا دئیے۔ یعنی دو فرشتوں کے توسط سے جو عالمِ شخصی میں مقرر ہیں۔

۴۸۵

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
۸۵۳

مَلَکَیۡن

(۳)

   

دو فرشتے، دو ساتھی:

سورۂ شمس (۹۱: ۸) میں دیکھ لیں: فَاَلۡھَمَھَا فُجُوۡرَھَا وَ تَقۡوٰھَا۔ پھر اس (یعنی جان) کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کردی۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اعمالِ نیک و بد کے نتیجے پر انسان کے دل میں خیر غالب ہے یا شر؟ اس کے مطابق یہ دونوں فرشتے الہام کرتے ہیں تاکہ قانونِ اختیار کے مطابق عمل ہوسکے، اور کسی آدمی پر کوئی ظلم و زیادتی نہ ہونے پائے۔

۸۵۴

مَلَکَیۡن

(۴)

   

دو فرشتے، دو ساتھی:

حدیثِ نبوی ہے: اِذَا وُضِعَ الۡمَیِّتُ فِی الۡقَبۡرِ اَتَاہُ مَلَکَانِ مُنۡکَرٌ وَّ نَکِیۡرٌ۔ جب میّت قبر میں اتار دی جاتی ہے تو اس کے پاس منکر و نکیر دو فرشتے آتے ہیں۔ (لعل و گوہر، ص۱۲۳) عالمِ شخصی میں سب کچھ موجود ہے، اور اس میں دنیا بھر کے لوگوں کے لئے قبرستان بھی ہے، اس سلسلے میں ظاہری قبر صرف تمثیل ہے۔

۸۵۵

مُلُوۡک

   

سلاطین، بادشاہ:

دعائم الاسلام، عربی، المجلّد الاوّل، ص۱۵ کے آخر ص۱۶ کے شروع میں آنحضرتؐ کا یہ ارشاد درج ہے: ترجمہ: اے عبد المطلب کی اولاد!

۴۸۶

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

میری اطاعت کرو تاکہ تم زمین کے سلاطین و حکّام ہوجاؤ گے، بیشک خدا نے ہر پیغمبر کے لئے ایک وصی، وزیر، وارث، بھائی او ولی بنا دیا۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ جو لوگ خدا، رسولؐ اور صاحبِ امر کی اطاعت کرتے ہیں، وہ ظاہر میں بادشاہ نہیں ہوتے، بلکہ روحانیت اور آخرت میں بادشاہ ہوا کرتے ہیں، اور زمین سے عالمِ شخصی مراد ہے۔

۸۵۶

مَلِیۡک

(۱)

   

بادشاہ:

فرمانِ الٰہی کا ترجمہ ہے: جو کچھ انہوں نے کیا ہے وہ سب اعمال ناموں میں درج ہے، اور ہر چھوٹی بڑی بات لکھی ہوئی موجود ہے، جو پرہیزگار ہیں وہ باغوں اور نہروں میں ہوں گے، حقیقی علم کے مقام پر، قدرت والے بادشاہ کے پاس۔ یعنی واصل باللہ ہوکر (سورۂ قمر ۵۴: ۵۲ تا ۵۵)۔ عالمِ وحدت میں قربت و عندیت فنا فی اللہ کی صورت میں ہوتی ہے، کیونکہ کوئی آتش گیر چیز آگ کے انتہائی قریب ٹھہر نہیں سکتی مگر یہ ہے کہ اس میں آگ لگ جاتی ہے۔

۸۵۷

مَلِیۡک

(۲)

   

بادشاہ:

سورۂ قمر (۵۴: ۵۴ تا ۵۵) میں دیکھ لیں: اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ

۴۸۷

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

وَّ نَھۡرٍ۔ فِیۡ مَقۡعَدِ صِدۡقٍ عِنۡدَ مَلِیۡکٍ مُّقۡتَدِرٍ۔ بے شک پرہیزگار لوگ (بہشت) کے باغوں اور نہروں میں ہوں گے سچائی کے مقام میں عظیم قدرت والے بادشاہ کے قرب میں۔ خدا کیا نہیں کرسکتا، وہ ابرار/ نیکوکاروں کو بہشت میں داخل کر دیتا ہے، اور اپنے دوستوں کے عالمِ شخصی کو بہشت بنا دیتا ہے۔

۸۵۸

مَلِیۡک

(۳)

   

بادشاہ:

جب اور جہاں مومنِ سالک خدا سے انتہائی قریب ہوجاتا ہے تو وہ تجلّیٔ حق میں فنا ہوئے بغیر ٹھہر نہیں سکتا، لیکن فنا سے عارف کی انفرادیت ختم نہیں ہوتی، مثلًا آنحضورؐ مرتبۂ معراج پر “فنا فی اللہ” ہوگئے تھے، لیکن سوائے عرفاء کے اس سرِّ عظیم کو کوئی نہیں جانتا تھا، پس بہشت میں متّقین قربِ خاص کی وجہ سے حضرتِ ملیکِ مقتدر میں فنا ہوکر بادشاہ ہوں گے، ہاں یہ فنا عاشق کو نوازنے کی غرض سے ہے، معدوم کر دینے کے لئے ہرگز نہیں۔

۸۵۹

مَلِیۡک

(۴)

   

بادشاہ:

اے عزیزانِ من! بہشت کا سب سے بلند ترین مرتبہ “ملکِ کبیر (عظیم سلطنت ۷۶: ۲۰)” ہے، لہٰذا تمام اہل ایمان کے لئے متعلقہ

۴۸۸

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

آیاتِ کریمہ کی حکمت سے آگہی ضروری ہے، تاکہ امیدِ فردا قوی تر ہوجائے، اِن آیاتِ مبارکہ میں سے ایک یہ بھی ہے: و جعلکم ملوکًا (۵: ۲۰) اور خدا نے تم لوگوں کو بادشاہ بنا دیا۔ یعنی جب تمہارا امامؑ یا اس کا حجّت منزلِ عزرائیلی میں تھا تو اُس حال میں وہ تمہارے لئے جامہ ہائے جنّت بنا رہا تھا، جس کو تم سب بہشت میں پہنو گے تو وہاں کے بادشاہ ہوجاؤ گے، اگرچہ یہ قصّہ بظاہر بنی اسرائیل کے مومنین کا ہے، لیکن بباطن ہر زمانے کے مومنین کے حق میں ہے۔

۸۶۰

مَنۡ عَرَفَ

   

جس نے پہچانا:

مَنۡ عَرَفَ نَفۡسَہٗ فَقَدۡ عَرَفَ رَبَّہٗ۔ جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا اُس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا، (لغات الحدیث) یعنی جس نے فنا فی اللہ و بقا باللہ کا تجربہ حاصل کیا اُس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔

۸۶۱

منام

   

خواب/ سونا:

مَنۡ رَاٰنِیۡ فِی الۡمَنَامِ فَقَدۡ رَاٰنِیۡ۔ آنحضرتؐ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کا قول ہے کہ جس نے خواب میں مجھے دیکھا بیشک اس نے مجھے ہی دیکھا (جامعِ ترمذی، جلدِ اوّل، ابواب الرّؤیا، باب۱۴۴۶) یعنی آنحضورؐ

۴۸۹

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

کو خواب میں دیکھنا اصل دیدارِ مبارک کی طرح حقیقت ہے، پس اس میں کوئی شک نہیں کہ خواب و روحانیت میں ھادیِٔ برحق کا دیدار اور کلام ہوسکتا ہے۔

۸۶۲

منطق الطّیر

(۱)

   

پرندوں کی بولی:

سورۂ نمل (۲۷: ۱۶) میں ہے کہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام پرندوں کی بولی جانتے تھے، قرآن کا یہ حکیمانہ انداز تمام لوگوں سے علمی امتحان لینے کے لئے ہے درحالے کہ جملہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام نہ صرف پرندوں کی بولی سمجھ لیتے ہیں بلکہ ہوا، پانی وغیرہ کی بولی کو بھی جانتے ہیں، دراصل یہ روح القدس کے معجزات میں سے ہے کہ ایسی بہت سی عام آوازوں سے گفتگو بن جاتی ہے، جبکہ پرندوں وغیرہ کو خبر تک نہیں ہوتی، پس عارفِ کامل ایسے بہت سے صوتی معجزات اپنی ہی زبان میں سنتا رہتا ہے۔

۸۶۳

منطق الطّیر

(۲)

   

ارواح و ملائکہ کی زبان:

ظاہری پرندے مثال ہیں، اور ارواح و ملائکہ ممثول، چنانچہ انبیاء و اولیاء (أئمّہ) علیہم السّلام روحوں اور فرشتوں کی زبان جانتے ہیں، اس قانون کے مطابق یہ کہنا حقیقت ہے کہ مرغِ سلیمان (ھُدھُد) سے کوئی روح یا کوئی فرشتہ مراد ہے۔

۴۹۰

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
۸۶۴

مَوَاقِع

   

گرنے کی جگہیں:

فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوۡمِ (۵۶: ۷۵) میں تاروں کے گرجانے کی قسم کھاتا ہوں۔ تارے کائناتی فرشتے ہیں، جن کے نمائندہ ذرّات عالمِ ذرّ کے فرشتوں کے ساتھ مل کر حضرتِ آدمؑ کے سجود کے لئے گر گئے، یاد رہے کہ عالمِ شخصی میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے متعلق تمام روحانی اور عقلی چیزوں کا تجدّدِ امثال موجود ہے۔

۸۶۵

مُوۡتُوۡا

(۱)

   

مر جاؤ:

جب شخصِ کامل میں روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے تو تمام اہلِ زمانہ کی نمائندہ روحیں یا ذرّات موت کے ڈر کے مارے بدنوں سے نکل کر قیامت گاہ میں جاتے ہیں، تو خدا اُن سے فرماتا ہے کہ مرجاؤ تو وہ سب مرجاتے ہیں، پھر ان کو زندہ کر دیتا ہے (۲: ۲۴۳)۔

۸۶۶

مُوۡتُوۡا

(۲)

   

مر جاؤ:

بیشک خدا لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے (۲: ۲۴۳) یعنی لوگ علم الیقین کی روشنی میں خدا کی نعمتوں کو جانیں اور ان کی قدر و قیمت کو سمجھ لیں تاکہ وہ صحیح معنوں میں خداوند تعالٰی کا شکر کرسکیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ معنوی شکر علم ہی سے ہوسکتا ہے۔

۴۹۱

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
۸۶۷

مُوۡسِعُوۡن

   

وسعت دینے والے:

اور آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور بیشک ہم وسعت دینے والے ہیں، (۵۱: ۴۷) کائناتِ ظاہر ہو یا عالمِ شخصی خدا اس کو لپیٹتا بھی ہے اور پھیلاتا بھی ہے، سائنسدان کہتے ہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے، میں کہتا ہوں کہ اللہ اسے پھیلا رہا ہے اور پھر وہی اسے لپیٹ دے گا، ہم نے بار بار اس کا ذکر کیا ہے۔

۷۶۸

مُوۡقِنِین

   

یقین کرنے والے:

آیۂ مبارکہ کا ترجمہ ہے: اور اسی طرح ہم ابراہیمؑ کو سارے آسمان اور زمین کی سلطنت دکھاتے رہے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں (۶: ۷۵) حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے عُلُوِ مرتبت کی دلیل سے کہہ سکتے ہیں کہ یہاں حق الیقین والوں کا ذکر ہے۔

۸۶۹

مَوۡلَا

   

سرپرست، آقا، مالک:

مَنۡ کُنۡتُ مَوۡلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوۡلَاہُ۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: میں جس کا آقا ہوں علیؑ بھی اس کا آقا ہے۔ لفظِ “مولا” کے جتنے بھی معنی ہیں، ان میں سے یہاں آنحضرتؐ کی وجہ سے اعلٰی معنی مراد ہیں، پھر یہ معنی علیؑ کے لئے بھی ہیں (تِرمِذی، ابواب المناقب)۔

۴۹۲

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
۸۷۰

مُھَاجِرۡ

(۱)

   

ھجرت کرنے والا، دین کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑنے والا:

ہجرت ظاہری بھی ہے اور باطنی بھی، حضرت ابراہیم علیہ السّلام  نے دونوں معنوں میں کہا: وَ قَالَ اِنِّی مَھَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیط اِنّہٗ ھُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ (۲۹: ۲۶) اور ابراہیمؑ نے کہا میں اپنے ربّ کی طرف ہجرت کرتا ہوں، وہ زبردست ہے اور حکیم ہے۔ ہر عارف اپنے پرودگار کی طرف اس طرح ہجرت کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ میں روحانی سفر کرتے کرتے اپنے عالمِ شخصی میں پہنچ جاتا ہے، جہاں ربّ العزّت کی پُرحکمت ملاقات یا پاک دیدار ممکن ہے۔

۸۷۱

مُھَاجِرۡ

(۲)

   

ظاہر سے باطن کی طرف جانے والا:

انبیائے قرآن علیہم السّلام کے تذکروں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ دینِ حق میں ہجرت کیوں اور کب ضروری ہوتی ہے، تاہم اس عمل کا ایک تاویلی پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ جب تک مومن اپنے ظاہر سے باطن کی طرف ہجرت نہیں کرتا تب تک روحانی جہاد میں نفسِ امّارہ اور شیطان کو شکست نہیں دے سکتا ہے ظاہری ہجرت کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ جگہ تبدیل کرکے دشمن کو حربی فریب دیا جائے، اور پھر موقع پر بھرپور حملہ کیا جائے، چنانچہ عظیم پیغبروں نے ایسا ہی

۴۹۳

لفظ   معنی و حکمت                                                                “م”
     

عمل کیا۔

۸۷۲

مھجور

   

چھوڑا ہوا:

سورۂ فرقان (۲۵: ۳۰) میں ارشاد ہے: وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا هٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَهۡجُوۡرًا۔ اور (اس دن) رسولؐ (بارگاہِ خداوندی میں) عرض کریں گے کہ اے میرے پروردگار! میری قوم نے تو اس قرآن کو بے کار بنا دیا (۲۵: ۳۰) یعنی نورِ ہدایت (۵: ۱۵) کی روشنی میں اس کے باطنی علم و حکمت پر عمل نہیں کیا گیا۔

۸۷۳

مَھۡد

   

گہوارہ، بچھونا، جُھولا:

سورۂ آلِ عمران (۳: ۴۶) اور سورۂ مائدہ (۵: ۱۱۰) میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضرتِ عیسٰی علیہ السّلام گہوارہ میں بھی اور پکّی عمر میں بھی لوگوں سے باتیں کرتا تھا، اس کی تأویل یہ ہے کہ روحانیت کے آغاز میں روحانئین کی آواز اور گفتگو طفلِ گہوارہ کی طرح ہوتی ہے مگر صاف اور لغزش سے پاک، اور آگے چل کر پکّی عمر کے آدمی کی آواز میں کلام ہوتا ہے۔

۴۹۴

     
    بابُ النُّون

 

۴۹۵

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۴۹۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ن”
۸۷۴

نٓ

(۱)

   

نون، دوات، جنّت کی ایک نہر، روشنائی، نور کی روشنائی:

سورۂ قلم کے آغاز (۶۸: ۱) میں خداوندِ عالم کا ارشاد ہے: نٓ وَ الۡقَلَمِ وَ مَا یَسۡطُرُوۡنَ۔ نٓ، قسم ہے قلم کی اور (قسم ہے) اُن (فرشتوں) کے لکھنے کی۔ حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام سے منقول ہے کہ نون جنّت کی ایک نہر ہے، اللہ تعالٰی نے اسے فرمایا: جم جا، وہ جم گئی اور روشنائی بن گئی، پھر خدا نے قلم کو حکم دیا: لکھ، تو قلم نے جو کچھ ہوچکا تھا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا وہ سب لوحِ محفوظ میں لکھ دیا، پس وہ روشنائی نور کی روشنائی ہے، وہ قلم بھی نور کا قلم ہے، اور لوح بھی نور کی لوح ہے (المیزان، جلد۱۹، ص۳۷۶)۔

۸۷۵

نٓ

(۲)

   

نون، ایک فرشتہ، لوح و قلم دو فرشتے ھیں:

حضرتِ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: نون ایک فرشتہ ہے جو قلم کو خبریں دیتا ہے، اور قلم بھی ایک فرشتہ ہے جو لوح تک احکامِ خداوندی کو پہنچاتا ہے، اور لوح بھی فرشتہ ہے جو اسرافیل کو پیغام دیتا ہے، اور اسرافیل میکائیل کو اور میکائیل جبرائیل کو اور جبرائیل انبیاء و رُسُل کو پیغام دیتا ہے، موصوف امامؑ نے فرمایا کہ لوح و قلم دو فرشتے ہیں۔

۴۹۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ن”
۸۷۶

نٓ

(۳)

   

جنّت کی ایک نہر، روشنائی:

حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا: نون جنّت میں ایک نہر تھی، برف سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی، خدا تعالٰی نے اسے حکم دیا کہ اے نہر تو مداد (روشنائی) بن جا، اور وہ روشنائی ہوگئی، پھر اس نے اپنے دست (قدرت) سے ایک درخت لگایا، پھر خدا نے درخت کو قلم بن جانے کا امر فرمایا، جب وہ قلم ہوگیا تو حکم دیا کہ لکھ دے، اس نے عرض کی پروردگار! کیا لکھوں؟ ارشاد ہوا کہ جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے، پس اس نے لکھ دیا، اس کے بعد خدا نے اس پر مہر فرما دی، اور ارشاد کیا کہ اب سے قیامت تک کلام نہ کرنا (ترجمۂ قرآن از مقبول احمد، ص۶۷۵ نوٹ۵)۔

۸۷۷

نٓ

(۴)

   

دوات:

سورۂ قلم (۶۸: ۱) میں ہے: نٓ وَ الۡقَلَمِ وَمَا یَسۡطُرُوۡنَ۔ قسم ہے دوات کی اور قلم کی اور جو کچھ لکھتے ہیں۔ یعنی دہنِ مبارک ، نورِ عقل (قلم)، اور تحریرِ لوحِ محفوظ جو زندہ ہے (کلمۂ امر)۔

۸۷۸

نازعات

   

کھینچنے والے فرشتے:

اے نورِ عینِ من! آپ سورۂ نازعات کے آغاز (۷۹: ۱ تا ۵) میں

۴۹۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ن”
     

پڑھ لیں، ارشاد ہے: ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر (جان کو) کھینچ لیتے ہیں۔ اور ان کی (قسم) جو آسانی سے کھول دیتے ہیں۔ اور ان کی جو تیرتے پھرتے ہیں۔ پھر لپک کر آگے بڑھتے ہیں۔ پھر امر کا اعادہ کرتے ہیں۔ عالمِ شخصی ہی کے روحانی اور قیامت خیز معجزات کا ذکر ہے کہ اسرافیلی اور عزرائیلی منزل میں مومنِ سالک کی روحِ پُرفتوح بار بار قبض کرلی جاتی ہے اور بار بار واپس بدن میں ڈال دی جاتی ہے، جس میں بمقتضائے حکمت فرشتوں کی طرف سے پہلے جان کنی کی سختی اور تلخی پھر نرمی اور شیرینی کا تجربہ ہوتا ہے، ساتھ ہی ساتھ فرشتے مذکورہ روح کو کائنات میں پھیلا دیتے ہیں، اور یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہتا ہے، جس کا ذکر کسی اور کتاب یا کتابوں میں ہوچکا ہے۔

۸۷۹

نَاظِرَۃٌ

   

دیکھنے والی:

سورۂ قیامت میں ارشاد ہوا ہے: وُجُوۡهٌ یَّوۡمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌ۔ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ۔ اُس دن کئی چہرے تروتازہ (خوبصورت) ہوں گے پھر اپنے ربّ کی طرف دیکھ رہے ہوں گے (۷۵: ۲۲ تا ۲۳) اللہ تعالٰی ایسے نیک بخت لوگوں کو بیحد حسین و جمیل بنا دے گا، کیونکہ خدا خود صاحبِ جمال ہے اور وہ جمالِ صوری و معنوی کو

۴۹۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ن”
     

پسند فرماتا ہے، جیسا کہ رسولِ اکرمؐ کا ارشاد ہے: اِنَّ اللہَ جَمِیۡلٌ یُحِبُّ الۡجَمَالَ۔

۸۸۰

نَبِیّ

(۱)

   

پیغمبر:

سورۂ احزاب (۳۳: ۶) میں ہے: اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰى بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ وَ اَزۡوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمۡ۔ نبیؐ مومنین کے حق میں اُن کی جانوں سے بھی بڑھ کر ہیں (کیونکہ وہ گویا مومنین کے مہربان باپ ہیں) اور ان کی بیویاں (گویا) ان کی مائیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایک نہ ایک دن مومنین رسولؐ میں فنا ہوجانے والے ہیں۔

۸۸۱

نَبِیّ

(۲)

   

پیغمبر:

آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے ارشاد فرمایا: یاعلی انا وَ انتَ اَبَوا الۡمؤمنین۔ اے علی! میں اور تم مومنین کے (روحانی) ماں باپ ہیں۔ یعنی أئمّۂ طاہرین اہل ایمان کی روحانی مائیں ہیں، جبکہ نبیِّ اکرمؐ ان کے باپ ہیں (ملاحظہ کتابِ وجہ دین، کلام۳۶)۔

۸۸۲

نبیؐ و علیؑ

   

پیغمبر اور امام:

قال النّبی صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم لِعَلِیٍّ: اَنۡتَ

۵۰۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ن”
     

مِنِّیۡ وَ اَنَا مِنۡکَ۔ نبیّ کریمؐ نے علیؑ سے فرمایا تھا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ اس میں نورِ نبوّت اور نورِ امامت کے اسرارِ خفی و جلی ہی۔

۸۸۳

نَطۡوِیۡ

(۱)

   

ھم لپیٹ لیں گے:

اے عزیزانِ من! ہم نے بعض آیاتِ کریمہ کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے اور یہ امر بیحد ضروری ہے، جیسے آیۂ یَوۡمَ نَطۡوِیۡ (۲۱: ۱۰۴) کا ارشاد ہے: جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جیسے خطوں کا طومار لپیٹ لیتے ہیں جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلے پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کریں گے۔ خداوندِ بزرگ و برتر ہر اِنسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں ایسا ہی کرتا ہے جبکہ اس میں انفرادی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔

۸۸۴

نَطۡوِیۡ

(۲)

   

لپیٹ لیں گے:

جب بحکمِ خدا انفرادی قیامت برپا ہوجاتی ہے اور امامِ آلِ محمّدؐ یعنی امامِ مبین کا نور عارف کے باطن میں طلوع ہوجاتا ہے تو اسی نورانیت میں کُلّ کائنات کا باطنی پہلو لپیٹ دیا جاتا ہے تاکہ تمام اشیائے روحانی و عقلانی کے مشاہدات سے کامِل معرفت حاصل ہو،

۵۰۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ن”
     

آپ نے قلبِ قرآن میں آیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کو دیکھا ہوگا، پس اسی آیۂ کریمہ میں عارفین و کاملین کی باطنی قیامت کا تذکرہ موجود ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

۸۸۵

(ال) نظرُاِلٰی علیّ

   

علی کی طرف دیکھنا:

شرح الاخبار فی فضائل الأئمّۃ الاطھار، جلد۹، ص۳۸۱ پر یہ حدیثِ شریف درج ہے: النّظرُ الٰی علی بن أبی طالب عبادۃ۔ علی بن ابی طالب کی طرف دیکھنا ایک عبادت ہے۔ سوال: اس کی کیا دلیل ہے؟ جواب: رسولؐ کا ارشاد سب سے بڑی دلیل ہے، علیؑ اسمِ اعظم ہے، قرآنِ ناطق ہے او وجہ اللہ ہے (ملاحظہ ہو: حقیقی دیدار)۔

۸۸۶

نُعَمِّرُ

   

ھم عمر دیتے ھیں:

یہ ارشاد سورۂ یٰسٓ میں ہے: وَ مَنۡ نُّعَمِّرۡهُ نُنَكِّسۡهُ فِی الۡخَلۡقِؕ- اَفَلَا یَعۡقِلُوۡنَ (۳۶: ۶۸) اور ہم جس کو زیادہ عمر دیتے ہیں اس کو (عالمِ امر سے عالمِ) خلق میں اوندھا کر دیتے ہیں تو کیا وہ لوگ نہیں سمجھتے۔

ایک باطنی تأویل ہے: تھلا(ک) تھلا(ک) تھلا(ک) نݵ +

۵۰۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ن”
     

تھلا(ک) تھلا(ک) تھلا(ک) ژُݸ۔

۸۸۷

نُعِیۡدُ

   

ھم لوٹائیں گے، ھم اعادہ کریں گے:

سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۴) میں ہے: جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جیسے خطوں کا طومار لپیٹ لیتے ہیں جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا اسی طرح اس کا اعادہ کریں گے۔ یعنی ہم اس کام کا اعادہ کرتے رہیں گے۔

وہ اوّلین سے بھی اوّل تو ہے لیکن اس کی کوئی ابتداء نہیں وہ آخرین سے بھی آخر ضرور ہے مگر اس کی کوئی انتہا نہیں، ہر عالمِ شخصی میں دیکھا جائے تو اس کی ایک نئی شان ہے، اسی عالمِ شخصی میں کائنات کو بار بار لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے تاکہ اس اشارۂ حکمت سے یہ معلوم ہوجائے کہ اس کی بادشاہی قدیم ہے، جس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا۔

۸۸۸

نَفَخَۃ

   

ایک مرتبہ پھونکنا، مسلسل پھونکنا:

صورِ اسرافی کی آواز کسی وقفہ کے بغیر مسلسل ہے، مگر جب جب آدمی سو جاتا ہے تو یہ مقدّس آواز خاموش ہوجاتی ہے، صور کی آواز سے عارفین پر جو موت طاری ہوتی ہے وہ جسمانی نہیں نفسانی (روحانی)

۵۰۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ن”
     

ہے، پس راہِ روحانیت کے شروع شروع میں موتِ نفسانی اور بعد ازان حقیقی زندگی ہے، اس اعتبار سے سلسلۂ نفخ کا ابتدائی حصّہ نفخۂ اولٰی اور دوسرا حصّہ نفخۂ ثانیہ کہلاتا ہے۔

۸۸۹

نَفۡس

   

ذات، روح، جان:

ارشادِ مولا علی ہے کہ جس نے اپنی روح (نفس) کو پہچان لیا یقینًا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ لیکن یاد رہے کہ عام انسانی روح میں گنجِ معرفت نہیں، جب تک ہادیٔ برحق سے روحِ قدسی حاصل نہ کرلی جائے، بیشک حضرتِ امامِ زمان میں روحِ قدسی ہے اور امام دراصل آپ کی اپنی روح ہے، اگر آپ نے امام کو پہچان لیا تو سمجھ لیں کہ اپنے آپ کو اور ربّ کو پہچان لیا۔

۸۹۰

نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ

(۱)

   

ایک شخص:

مَا خَلۡقُكُمۡ وَ لَا بَعۡثُكُمۡ اِلَّا كَنَفۡسٍ وَّاحِدَةٍ۔ تم سب کا پیدا کرنا اور پھر (مرنے کے بعد) جِلا اٹھانا ایک شخص کی طرح ہے (۳۱: ۲۸) یعنی تمہاری روحانی پیدائش اور قیامت انسانِ کامل میں پوشیدہ ہے۔

۵۰۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ن”
۸۹۱

نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ

(۲)

   

آدم، ھر ناطق، ھر امام:

ربّ العزّت نے تمام نفوسِ انسانی کو نفسِ واحدہ سے پیدا کیا، یہ اجتماعی اور یکبارگی تخلیق ذرّاتِ نفوس کو رحانی باپ کی پُشت میں لانے کے لئے تھی، یہی سبب ہے کہ روحانی ماں کا تعیّن بعد میں ہوا، جیسا کہ سورۂ نساء کے شروع (۴: ۱) میں ارشاد ہے: (ترجمہ:) لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں  سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دئیے (۴: ۱) اسی طرح خدا ہی نے نفسِ واحدہ کو تمام لوگوں کے لئے جائے باز گشت اور منزلِ فنا بنا دیا ہے۔

۸۹۲

نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ

(۳)

   

انسانِ کامل:

اس آیۂ کریمہ کو سورۂ انعام (۶: ۹۸) میں پڑھ لیں، ترجمہ یہ ہے: اور وہ وہی خدا ہے جس نے تم لوگوں کو ایک شخص سے پیدا کیا پھر (تمہارے لئے) ایک قرار گاہ ہے اور ایک امانت گاہ (۶: ۹۸) اسی آیۂ مبارکہ سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ ہر انسان کی دو انائیں ہیں، انائے علوی اور انائے سفلی۔

۵۰۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ن”
۸۹۳

نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ

(۴)

   

امامِ زمان:

قرآن و حدیث میں جس طرح اللہ تعالٰی کی رسّی کا ذکر آیا ہے، اُس سے یہ قابلِ یقین تصوّر ملا کہ اللہ کی قدرت سے روح بھی اس دنیا میں رسّی کی طرح آئی ہے، جس کا ایک سرا عالمِ علوی میں اور دوسرا سرا عالمِ سفلی میں ہے، عالمِ علوی سے نفسِ واحدہ کی نورانیت مراد ہے۔

۸۹۴

نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ

(۵)

   

آدمِ زمان:

(نفسِ) واحدۃ بر وزنِ فاعِلۃ اپنی ذات میں ایک بھی ہے، اور وہ خدا کے امر سے سب لوگوں کو بعنوانِ قیامت ایک بھی کرلیتا ہے، پس نفسِ واحدہ کے دو معنی ہیں: خود بھی ایک اور دوسرے تمام لوگوں کو بھی جمع کرکے اپنے ساتھ ایک کر لینے والا، اس اعتبار سے ہر شخص کی دو بقائیں مقرر ہوئیں، ایک بقائے مستقر جو اس کے لئے نفسِ واحدہ میں ہے، دوسری بقائے مستودع جو الگ بطورِ امانت ہے۔

۸۹۵

نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ

(۶)

   

ایک جان، ایک شخص، آدم:

ہر ناطق، اساس، امام، اور حجّت نفسِ واحدہ اور آدم کی تأویل ہوا کرتا ہے، یعنی ان کے عالمِ شخصی میں آدم خلیفۃ اللہ کے تمام روحانی

۵۰۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ن”
     

اور عقلانی واقعات کا تجدّد ہوتا ہے، اس کا ذریعہ روحانی قیامت ہے، چنانچہ (نفسِ) واحدہ بر وزنِ فاعلہ اس شخصِ کامل کو کہتے ہیں، جو بحکمِ خدا ذاتی قیامت کی قہرمانی طاقت سے تمام نفوس کو اپنے عالمِ شخصی میں ایک کرلیتا ہے۔

۸۹۶

نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ

(۷)

   

ایک جان، ایک شخص، آدم:

یہ ربّانی تعلیم سورۂ زمر (۳۹: ۶) میں ہے: اُسی (خدا) نے تم سب کو ایک ہی شخص (آدم) سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کی بیوی (حوّا) کو پیدا کیا۔ یہ آدم کی روحانی بیوی یعنی حجّتِ اعظم ہے، جس کو خداوندِ عالم نے حضرتِ آدم کے علم سے پیدا کیا، یہ ہے بی بی حوّا کا آدم کے پہلو سے پیدا ہوجانا، اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ ہمیشہ کا واقعہ ہے، کیونکہ ہر قابل شاگرد علمی حیثیت میں اُستادِ کامل ہی سے پیدا ہوجاتا ہے۔

۸۹۷

نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ

(۸)

   

ایک جان، ایک شخص، آدم:

اللہ تعالٰی کی سنّت جس میں کوئی تبدیلی نہیں عارفین و کاملین کے عالمِ شخصی میں جاری ہے (۴۰: ۸۵) پس بہشت میں بنی آدم کی بیویاں اسی طرح پیدا ہوں گی جس طرح حضرتِ آدمؑ سے حوّا پیدا ہوئی تھی، آپ سورۂ روم (۳۰: ۲۱) میں غور سے دیکھیں اور مِنۡ اَنۡفُسِکُمۡ

۵۰۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ن”
     

اَزۡوَاجًا (تمہارے نفوس سے بیویاں) کے معنی میں خاص خیال رکھیں۔

۸۹۸

نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ

(۹)

   

ایک جان، ایک شخص، آدم:

سوال: آپ کی تحریریں عالمِ شخصی کی تعلیمات سے بھری ہوئی ہیں کیونکہ آپ کے نزدیک اس کی بہت بڑی اہمیت ہے، لیکن جنّت میں عالمِ شخصی کہاں ہوگا؟ اور اس کی شناخت کس طرح ہوگی؟ جواب: ہر شخص ایک عالم ہے یعنی عالمِ شخصی یا عالمِ صغیر، مذید برآن ہر جامۂ جنّت (ابداعی کرتہ) ایک عالمِ شخصی ہے، جو نفسِ واحدہ کی ہزاروں جیتی جاگتی کاپیوں میں سے ایک کاپی ہے، پس عالمِ شخصی ہر جنتّی کی جان اور ذاتی بہشت ہے۔

۸۹۹

نُقطہ

   

بِندی، صفر، مرکز، ذرّہ:

اے نورِ عینِ من! آپ سب مولا علی علیہ السّلام کے اس ارشاد میں خوب غور کریں: “میں وہ نقطہ ہوں جو بائے بسم اللہ کے نیچے ہے”۔ قرآن میں آیات ہیں آیات میں الفاظ، الفاظ میں حروف، اور ان میں سے ہر حرف نقطوں کی ترکیب سے بنا ہے، پس سرتا سر قرآنِ عزیز میں نقطے ہی نقطے ہیں، اور یہ سب کے سب نقطۂ علیؑ کی تصویریں اور کاپیاں ہیں۔

۵۰۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ن”
۹۰۰

نوافل

   

حدیثِ نوافل پر ایک سوال:

یہ ایک بڑا مفید علمی سوال ہے جس سے کوئی بھی مومن اس مشہور حدیثِ قدسی میں زیادہ سے زیادہ غور و فکر کر سکتا ہے جو نوافل سے متعلق ہے، وہ سوال یہ ہے: (۱) جب اللہ پاک اپنے بندۂ مقرّب کا روحانی کان بن جاتا ہے تو اس وقت وہ خدا کا دوست کیا کیا سن سکتا ہے؟ (۲) جب وہ مہربان اپنے عاشق کی چشمِ دل بن جاتا ہے تو ایسی باطنی آنکھ کے سامنے کیسے کیسے مناظر آتے ہیں؟ کیا ایسے میں خدا کا دیدار ممکن ہے؟ (۳) جب خدا مومنِ سالک کا باطنی ہاتھ بن چکا ہوتا ہے تو اس حال میں ایسا ہاتھ کیسے کیسے امور کو انجام دے سکتا ہے؟ (۴) جس وقت ربِّ کریم کمالِ مہربانی سے مومنِ خاص کا روحانی پاؤں بن جاتا ہے تو اس پاؤں سے کس منزل کی طرف چلا جاتا ہے؟

۹۰۱

نور السّمٰوٰت

(۱)

   

آسمانوں کا نور:

قرآنِ حکیم میں آیاتِ نور اس مثال پر ہیں جیسے سورج، چاند اور ستارے، چنانچہ آیۂ مصباح گویا آفتابِ عالمتاب ہے (۲۴: ۳۵) آیۂ سراج عَلَی الدّوام ماہِ کامل ہے (۳۳: ۴۶) اور دیگر آیاتِ نور

۵۰۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ن”
     

ستاروں کی طرح ہیں، اس واقعی مثال سے آپ کو آیۂ مصباح (اللہ نور السّمٰوٰت) کی مرکزیت و جامعیت کا اندازہ ہوا ہوگا۔

۹۰۲

نور السّمٰوٰت

(۲)

   

کائنات کا نور:

خداوند تعالٰی کا بابرکت ارشاد ہے: اللہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ (۲۴: ۳۵) خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ نور کے بعض عشّاق اس باب میں سوال و جواب کے طریق پر حقیقتِ حال کو جاننا چاہتے ہیں، چنانچہ دوستانہ سوال ہے: س: یہ عالیشان صف (نورِ کائنات) خود ذاتِ خدا ہی کی ہے یا نمائندۂ خدا کی؟ ج: اللہ تعالٰی کا کوئی ضد نہیں جبکہ نور کی ضد ظلمت (تاریکی) ہے، اللہ خالق ہے اور نور و ظلمت مخلوق (۶: ۱) پس یہ حقیقت ہے کہ خدا نے سب سے پہلے نورِ محمّدی کو پیدا کیا، یہ ایسا کامل و مکمّل اور کائنات گیر تھا کہ اس سے عرض و سماء منوّر ہوگئے، جس طرح نورِ محمّدی کا دوسرا نام قلمِ قدرت یا قلمِ اعلٰی ہے کہ وہ ایک ایسا توانا قلم ہے جو تن تنہا ساری خدائی کو رقم کرسکتا ہے۔

۹۰۳

نور السّمٰوٰت

(۳)

   

کائناتِ باطن کا نور:

آیۂ مصباح کو خوب غور سے پڑھ لیں، ذاتِ سبحان کسی بھی مادّی چیز کی طرح نہیں، دراصل اس میں ہم سب کا بہت بڑا امتحان ہے،

۵۱۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ن”
     

جبکہ یہ آیۂ سراج (۳۳: ۴۶) کی تفسیر و تأویل ہے کہ وہی روشن چراغ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، یہ سچ ہے کہ خدا نے جس ذاتِ عالی صفات کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے وہی ہمہ رس و ہمہ گیر کائناتی نور بھی ہے، ہاں اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ نورٌ علٰی نورٍ میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہی کا ذکرِ جمیل ہے، کیونکہ نورِ ہدایت سلسلۂ مظاہر میں جاری ہے۔

۹۰۴

نور السّمٰوٰت

(۴)

   

عالمِ شخصی کا نور کہ اس میں عرش و کرسی، سات آسمان اور سات زمین ہیں:

یہ روحانی سائنس ہی کا کرشمہ ہے کہ ہرمشکل سے مشکل مسئلہ عالمِ شخصی کے تناظر میں بہ آسانی حل ہوجاتا ہے، چنانچہ نورِ مطلق یقینًا خدا تعالٰی کا ہے کہ وہی اس کا خالق و مالک ہے، یہ نور جیسا کہ ذکر ہوا آنحضرتؐ کا ہے، بحکمِ نورٌ علٰی نورٍ یہی نور امام کا بھی ہے، اور تابعداری و فنائیت کے نتیجے میں یہی نور اہلِ ایمان کا بھی ہے، نورِ واحد کے یہ چار رشتے قرآنی دلائل سے ثابت ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا، رسولؐ، امامِؑ برحق اور مومنین و مومنات کا پاک نور (۵۷: ۱۲؛ ۶۶: ۸) عالمِ شخصی کے حظیرۃ القدس میں اسی شان سے جلوہ افروز ہے جس طرح کہ آیۂ مصباح میں ارشاد ہوا ہے۔

۵۱۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ن”
۹۰۵

نور السّمٰوٰت

(۵)

   

عالمِ شخصی کا نور:

حضرتِ مولانا امام سلطان محمّد شاہ صلوات اللہ علیہ و سلامہ ظاہرًا و باطنًا علمی و عرفانی عجائب و غرائب کے مالک اور زمانۂ روحانیت و تأویل کے عظیم الشّان امام تھے، آپ نے کیسی کیسی از بس مفید، پُر مغز، انقلابی اور قیامت خیز تعلیمات دیں، اس سے بہت کم لوگ باخبر ہیں، ان کی بے مثال روحانی و نورانی خصوصیات کے بارے میں تقریبًا ایک ہزار سال قبل جو پیش گوئی کی گئی تھی، وہ کتابِ وجہِ دین میں محفوظ و موجود ہے، آپ نے آیۂ مصباح یعنی اللہ نور السّمٰوٰت کی بے مثال جامعیت و حکمت کی طرف پُرزور توجّہ دلائی ہے، ملاحظہ ہو: “اسلام میرے مورثوں کا مذہب”۔

۹۰۶

نُوۡرُھُمۡ

   

اُن کا نور:

جس دن تم مومنین و مومنات کو دیکھو گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور داہنی طرف دوڑ رہا ہوگا (۵۷: ۱۲) یہ انتہائی عظیم معجزہ عالمِ شخصی سے متعلق ہے، جہاں شخصِ واحد ہی میں سب ہوتے ہیں، کیونکہ نفسِ واحدہ میں سب کی نمائندہ قیامت برپا ہوجاتی ہے (۳۱: ۲۸)۔

۵۱۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ن”
۹۰۷

نُوۡن

   

مچھلی:

سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۷) سورۂ انبیاء میں ہے: اور ذَا النُّوۡن (مچھلی والے یونس کو یاد کرو) جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا اور گمان کیا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے، آخر کو اس نے تاریکیوں میں سے پکارا کہ: لا الٰہ الّا انت سبحانک انّی کنتُ من الظّٰلمین۔ (“حوت” کے عنوان کے تحت دیکھو)۔

۵۱۳

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۵۱۴

     
    بابُ الواؤ

 

۵۱۵

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۵۱۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “و”
۹۰۸

وَاحِدَۃ

(۱)

   

ایک، ایک کرنے والا:

خالقِ یکتا نے لوگوں کو کس طرح پیدا کیا؟ اعنی سرچشمۂ ارواح کیا ہے؟ خدا نے لوگوں کو نفسِ واحدہ سے پیدا کیا اور وہی سرچشمۂ ارواحِ خلائق ہے (۶: ۹۸؛ ۷: ۱۸۹؛ ۳۱: ۲۸؛ ۳۹: ۶) اب اس سوال کا جواب عوام کے لئے بہت مشکل ہے لیکن خواص کے لئے مشکل نہیں، وہ مسئلہ یہ ہے: کیا خلقِ آخر میں بھی خلقِ اوّل ہی کی طرح نفسِ واحدہ سے ہوسکتی ہے؟ اس بارے میں قرآنِ حکیم کا کیا ارشاد ہے؟

۹۰۹

وَاحِدَۃ

(۲)

   

ایک، ایک کرنے والا، نفسِ واحدہ:

جس طرح تمام انسانوں کی پہلی پیدائش نفسِ واحدہ سے ہوئی ہے، اسی طرح ان کی دوسری پیدائش بھی اسی سے ہونے والی ہے، چنانچہ خدا قیامت القیامات میں لوگوں سے فرمائے گا: اور جیسا ہم نے تم کو پہلی دفعہ (نفسِ واحدہ سے) پیدا کیا تھا ایسا ہی آج (اپنے اپنے وقت کے نفسِ واحدہ میں) اکیلے اکیلے ہمارے پاس آئے (۶: ۹۴)۔

نفسِ واحدہ ہر ناطق اور ہر امام ہے، اکیلے اکیلے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنے اپنے وقت کے نفسِ واحدہ میں فنا ہوکر ایک ہوچکے ہوں گے، جیسے رحمتِ عالمؐ جب معراج پر گئے تو اکیلے ہی گئے، در حالے

۵۱۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “و”
     

کہ عالمِ انسانیت آپؐ کی ذاتِ عالی صفات میں بحدّ فعل یا بحد قوّت فنا ہوچکا تھا۔

۹۱۰

وَاحِدَۃ

(۳)

   

نفسِ واحدہ:

خدا نے ان سب کو (بدرجۂ انتہا) گھیر لیا ہے اور ان کو ایک خاص عدد (یعنی عددِ واحد) میں گن لیا ہے (۱۹: ۹۴) یعنی سب کو نفسِ واحدہ میں ایک کر دیا ہے، دوسری آیت کا ارشاد ہے: اور سب کے سب قیامت کے دن (نفسِ واحدہ میں) فردِ واحد بن کر اس کے پاس حاضر ہوں گے (۱۹: ۹۵)۔ یہ اس لئے ایسا ہے کہ خداوند تعالٰی کا پاک دیدار عالمِ وحدت میں ہوتا ہے، جہاں کسی کثرت کے لئے کوئی جگہ نہیں۔

۹۱۱

وَاحِدَۃ

(۴)

   

نفسِ واحدہ:

روحانی ترقی اور انفرادی قیامت کا تجربہ انتہائی مشکل کام ہے، لہٰذا خداوندِ تعالٰی نے اپنی بے پایان رحمت سے لوگوں کی اجتماعی قیامت نفسِ واحدہ کی انفرادی قیامت میں پوشیدہ رکھی ہے، پس سب کی روحانی پیدائش اسی میں ہوتی ہے اور سب کا انبعاث بھی اسی میں ہوتا ہے، جیسا کہ سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) میں حق تعالٰی کا ارشاد ہے:

۵۱۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “و”
     

مَا خَلۡقُكُمۡ وَ لَا بَعۡثُكُمۡ اِلَّا كَنَفۡسٍ وَّاحِدَةٍ۔ تمہاری (روحانی) پیدائش اور تمہارا انبعاث نفسِ واحدہ کی طرح ہے۔ یعنی اہلِ جہان کے نمائندہ ذرّات انسانِ کامل کی ذاتی قیامت میں حاضر ہوجاتے ہیں۔

۹۱۲

وَارِثِیۡنَ

   

میراث لینے والے، وارث کی جمع:

یہ زبردست حکمت والی آیت سورۂ قصص (۲۸: ۵) میں ہے: اور ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ روئے زمین میں کمزور کر دیئے گئے ہیں ان پر احسان کریں اور ان ہی کو (لوگوں کا) پیشوا (امام) بنائیں اور ان ہی کو وارث بنائیں۔ اِس آیۂ شریفہ کے مصداق امامِ زمان علیہ السّلام کے روحانی فرزندان ہیں، انہی لوگوں کو خداوندِ جلّ و علا کائناتی زمین (ستاروں) میں أئمّہ (۲۸: ۵) بنائے گا۔

۹۱۳

وَارِدۡ

(۱)

   

اُترنے والا، دوزخ میں اترنا:

یہ حدیثِ شریف اس آیۂ کریمہ کی تفسیر ہے جو تمام نیک و بد انسانوں کے جہنّم پر وارد ہونے سے متعلق ہے (۱۹: ۷۱) حدیث: لَا یَبۡقٰی بَرٌّ وَ لَا فَاجِرٌ اِلَّا دَخَلَھَا فَتَکُوۡنُوۡ عَلٰی الۡمُؤۡمِنِ بَرۡدًا وَّ سَلَامًا کَمَا کَانَتۡ عَلٰی اِبۡرَاھِیۡمَ۔ کوئی نیک آدمی یا فاجر آدمی باقی نہ

۵۱۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “و”
     

رہے گا جو ابتداءً جہنّم میں داخل نہ ہو مگر اس وقت مومنینِ متّقین کے لئے جہنّم بَرد و سلام بن جائے گی جیسے ابراہیم علیہ السّلام کے لئے نارِ نمرود برد و سلام بنا دی گئی تھی (احایثِ مثنوی ۱۸۷، بحوالۂ مستدرک حاکم، ج۴، ص۵۸۷، نیز ملاحظہ ہو: معارف القرآن، ج۶، ص۵۰) میں نے “سراج القلوب” میں بھی “دوزخ کا ایک راز” کے عنوان سے اس باب میں گفتگو کی ہے۔

۹۱۴

وَارِدۡ

(۲)

   

اترنے والا، دوزخ میں اترنا:

سورۂ مریم (۱۹: ۷۱ تا ۷۲) میں ہے: وَ اِنۡ مِّنۡكُمۡ اِلَّا وَارِدُهَاج كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتۡمًا مَّقۡضِیًّا۔ ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیۡنَ فِیۡهَا جِثِیًّا (۱۹: ۷۱ تا ۷۲) تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے، جو جہنّم پر وارد نہ ہو، یہ تو ایک طے شدہ بات ہے جسے پورا کرنا تیرے ربّ کا ذمّہ ہے، پھر ہم ان لوگوں کو بچا لیں گے جو (دنیا میں) متّقی تھے اور ظالموں کو اسی میں گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔

۹۱۵

وَجۡہ

(۱)

   

چہرہ، دیدار:

سورۂ انعام (۶: ۵۲) میں ارشاد ہے: وَ لَا تَطۡرُدِ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّهُمۡ بِالۡغَدٰوةِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡهَهٗ۔ اور (اے رسولؐ!)

۵۲۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “و”
     

ان لوگوں کو نہ ہانک دو جو اپنے پروردگار کو صبح و شام پکارتے ہیں (اور) وہ اس کے دیدار کو چاہتے ہیں۔ اسلام میں جہاں جہاں خدا کے عشق و محبّت کا ذکر آیا ہے وہاں اس کے پاک دیدار اور معرفت کی طرف ایک پُرکشش دعوت ہے۔

۹۱۶

وَجۡہ

(۲)

   

چہرہ، دیدار:

سورۂ بنی اسرائیل کے رکوعِ ہشتم کے شروع کی دو آیتوں (۱۷: ۷۱ تا ۷۲) کو خوب غور سے دیکھ لیں، یہ دونوں آیتیں مضمونِ قیامت میں مربوط ہیں، ان کی حکمت یہ ہے کہ رسول اور امام علیہم السّلام اللہ کے نمائندے ہیں، لہٰذا اُن کا دیدار گویا خدا کا دیدار ہے، اسی وسیلے سے آخرت کے لئے چشمِ بصیرت پیدا کی جاسکتی ہے، چنانچہ آنحضرتؐ نے فرمایا: جس نے مجھ کو دیکھا اس نے گویا خدا کو دیکھا۔ اور مولا علیؑ نے فرمایا: میں زمین پر خدا کا چہرہ ہوں۔

۹۱۷

وَجۡہُ اللہ

(۱)

   

چہرۂ خدا:

جب آیۂ بیعت کے مطابق دستِ خدا کی نمائندگی درست اور حقیقت ہے تو پھر چہرۂ خدا (وجہُ اللہ) کی نمائندگی بھی صحیح ہے، جیسے مولا علیؑ نے فرمایا: انا وجہُ اللہِ فِی السّمٰوٰتِ والارضِ۔

۵۲۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “و”
     

کُلُّ شیءٍ ھالکٌ الّا وجۡھَہٗ۔ یعنی میں ہوں آسمانوں اور زمین میں چہرۂ خدا، جیسے ارشاد ہے: چہرۂ خدا کے سوا ہر چیز ہلاک ہوجاتی ہے (۲۸: ۸۸) کوکبِ دُرّی، بابِ سوم، منقبت۶۹) وجہ اللہ، چہرۂ خدا، خدا کا دیدار، خدا کی معرفت یہ سب اوصاف حضرتِ امامِ عالی مقامؑ ہی کے ہیں۔

۹۱۸

وَجۡہُ اللہ

(۲)

   

چہرۂ خدا، دیدارِ الٰہی، معرفت، وسیلۂ عشق و فنا:

آسمانوں سے درجاتِ روحانیت مراد ہیں، ہر درجے پر چہرۂ خدا کی مظہریت و نمائندگی امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام ہی کو حاصل ہے تا آنکہ منزلِ حق الیقین آتی ہے جو منزلِ فنا ہے، جہاں امامِ عالی مقامؑ کو حضرتِ ربّ کے سب سے بڑے دیدار کی نمائندگی عطا ہے، پس جتنے سالکین و عارفین وہاں تک پہنچ جاتے ہیں، وہ سب اس بیمثال و لا زوال نورِ دیدار میں پروانہ وار فنا ہوجاتے ہیں، بس یہی ہے فنا فی الامامؑ، فنا فی الرّسولؐ، اور فنا فی اللہ۔

۹۱۹

وَجۡہُ اللہ

(۳)

   

چہرۂ مظہرِ خدا:

حدیثِ شریف ہے: خَلَقَ اٰدَمَ عَلٰی صُوۡرَتِہٖ۔ اللہ تعالٰی نے

۵۲۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “و”
     

حضرتِ آدمؑ کو اپنی صورت پر بنایا (گویا آدمؑ کو اپنا مظہر بنایا، جب ہی تو اُن کو ساری مخلوقات کی سرداری عنایت فرمائی، لغات الحدیث، کتاب “ص”)۔

۹۲۰

وَجۡہُ اللہ

(۴)

   

صورتِ رحمان:

حضرتِ علی امیر المومنی علیہ السّلام کے وجہ اللہ ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے، جبکہ حق تعالٰی نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا تھا، اور جبکہ لوگ بہشت میں داخل ہوکر اپنے باپ آدم کی صورت (یعنی رحمانی صورت) پر ہوتے ہیں، حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عَلٰی صُوۡرَۃَ اَبِیۡھِمۡ اٰدَمَ عَلَیۡہِ السَّلَامُ (بخاری، جلدِ دوم، کتاب الانبیاء، مسلم، جلد ششم، کتاب  الجنّۃ)۔

۹۲۱

وَجۡہُ اللہ

(۵)

   

چہرۂ خدا، منزلِ فنا:

سورۂ رحمان معنوی حسن و جمال کی وجہ سے عروس القرآن کہلاتا ہے، یہ مبارک و مقدّس ارشاد اُسی میں سے ہے: كُلُّ مَنۡ عَلَیۡهَا فَانٍ۔ وَّ یَبۡقٰى وَجۡهُ رَبِّكَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِكۡرَامِ (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) ہر مخلوق جو اس زمین پر (یا عالمِ شخصی میں) ہے فنا ہونے والی ہے اور صرف تیرے پروردگار صاحبِ جلالت و کرامت کا چہرہ (یعنی نمائندہ) ہی

۵۲۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “و”
     

باقی رہتا ہے (۵۵: ۲۶ تا ۲۷)۔

۹۲۲

وَجۡہُ اللہ

(۶)

   

چہرۂ نمائندۂ خدا:

سوال: ارشادِ بالا میں جس طرح مخلوق کی فنا اور چہرۂ خدا کا یکجا ذکر آیا ہے، اس کی کیا مناسبت ہوسکتی ہے؟ جواب: اس یکجائی کی مناسبت یہ ہے کہ جس مرتبۂ عقل پر چہرۂ خدا (نمائندۂ خدا یعنی امامؑ) کا عظیم دیدار ہے وہاں عشّاق کے لئے شراطِ طہورِ عشق اور فنا کیوں نہ ہو، الغرض یہ فنا فی الامام کا سرِّ عظیم ہے، جس میں فنا فی الرَّسولؐ اور فنا فی اللہ بھی ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

۹۲۳

وَجۡہُ اللہ

(۷)

   

چہرۂ خدا:

سورۂ بقرہ، رکوع چہاردھم (۲: ۱۱۵) میں ہے: ترجمۂ ظاہر: اور مشرق بھی اللہ کا ہے اور مغرب بھی، سو جدھر بھی تم رخ کرو وہیں خدا کا چہرہ ہے۔ اس کا تاویلی مفہوم عالمِ شخصی کے اعتبار سے: اے عارفین! تم کو عالمِ شخصی میں جہاں جہاں بے حجاب دیدار ہوا وہ تو نمایان ہے، اس کے باوجود کوئی ایسا مقام نہیں جہاں در پردہ خدا کا چہرہ اور دیدار نہ ہو تو تم ایک ایک کرکے تمام معجزات پر خوب غور کرو۔

۵۲۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “و”
۹۲۴

وجہُ علی

   

علیؑ کا چہرہ، علیؑ کا دیدار، امامِ زمان کا دیدار:

رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کا ارشاد ہے: النّظرُ اِلٰی وجہِ علی عبادۃٌ اعظمُ مِنَ الطّاعۃ۔ چہرۂ علیؑ کی طرف دیکھنا ایک ایسی عبادت ہے جو فرمانبرداری سے بھی بڑی ہے۔ (سرائر، ص۱۱۶)۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ علیؑ خدا کا چہرہ ہے، جیسا کہ خود مولا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: انا وجہ اللہ الّذی ذکرہ بقول: فاینما تُوَلُّوۡا فثمّ وجہ اللہ (۲: ۱۱۵) میں اللہ کا وہ چہرہ ہوں جس کا اُس نے یوں ذکر فرمایا ہے: سو جس طرف تم منہ کرو وہاں ہی خدا کا چہرہ موجود ہے۔ (صفحۂ مذکورہ)۔

۹۲۵

وحی

(۱)

   

اشارہ، اِشارۂ دیدار:

سورۂ شورٰی کی آخری تین آیاتِ کریمہ (۴۲: ۵۱ تا ۵۳) بہت زیادہ قابلِ توجّہ اور اسرارِ معرفت سے لبریز ہیں، چنانچہ پہلی آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور کسی بشر کے لئے ممکن نہیں کہ خدا اس سے کلام کرے مگر (دیدارِ اقدس کے) اشارے سے یا پردہ کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیج دے غرض وہ اپنے اختیار سے جو چاہتا ہے وحی بھیجتا ہے بیشک وہ عالیشان حکمت والا ہے (۴۲: ۵۱)۔

۵۲۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “و”
۹۲۶

وحی

(۲)

   

دیدار کے اشارے:

جو نیک بخت مومنِ سالک اِضطراری موت سے قبل اختیاری موت سے مرجاتا ہے، اس کو خداوندِ قدّوس اپنے فضل و کرم سے سرتا سر عارفانہ قیامت دکھاتا ہے، جس میں ہرچیز کی معرفت موجود ہے، خصوصًا دیدارِ الٰہی کے مقامات، جن کے بغیر معرفت خالی از معنی رہ جاتی ہے۔

۹۲۷

وحی

(۳)

   

سب سے اعلٰی وحی دیدارِ الٰہی ھے:

وحی کے لغوی معنی ہیں اشارہ، چنانچہ اللہ جلّ جلالہ کے دیدارِ اقدس میں سب سے عالیشان اور سب سے زیادہ اشارے ہیں، جن کی تفصیل و تشریح خود قرآنِ عظیم ہے۔

۹۲۸

وحی

(۴)

   

اشارۂ حکمتِ الٰہی:

خدائے بزرگ و برتر کے ہر دیدار میں اشارے ہیں، کلمۂ کن اور گوہر عقل میں اشارے ہیں، کلماتِ تامّات میں اشارے ہیں، اور قرآن کا ایک نام “وحی” اس لئے ہے کہ اُس کی ہر آیت میں ظاہری معنی کے علاوہ ایک اشارۂ حکمت بھی مخفی ہے، الغرض اللہ کی ہرچیز میں صاحبانِ عقل کے لئے لطیف اور پُرحکمت اشارے ہیں، تاکہ خاصانِ خدا کے لئے زبانِ حکمت اور گنجِ معرفت خاص اور

۵۲۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “و”
     

مخصوص ہو۔

۹۲۹

وُدًّا

   

محبّت:

یقینًا جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عملِ صالح کر رہے ہیں، عنقریب رحمان اُن کے لئے دلوں میں محبّت پیدا کر دے گا (۱۹: ۹۶) یہ ارشادِ مبارک أئمّۂ اہلِ بیت علیہم السّلام کے بارے میں ہے، اور بہشت میں حقیقی مومنین کے لئے بھی ہے۔

۹۳۰

وَدُوۡدُ

   

بہت محبّت کرنے والا:

اِنَّ رِبِّیۡ رَحِیۡمٌ وَّدُوۡدٌ (۱۱: ۹۰) بے شک میرا پروردگار بہت رحم والا بہت محبّت کرنے والا ہے۔ خدائے بزرگ و برتر اپنے دوستوں سے کس طرح محبّت کرتا ہے اور ان کو کیسے کیسے انعامات سے نوازتا ہے، اس کا یقین مرتبۂ عقل پر ہوجاتا ہے۔

۹۳۱

وَسِعَ

   

اُس نے گھیر لیا:

وَسِعَ رَبِّیۡ کُلَّ شَیۡءٍ عِلۡمًا۔ میرے ربّ نے ہر چیز کو علم میں گھیر لیا ہے۔ یعنی ہر چیز کے اندر اور باہر علم ہے، بالفاظِ دیگر ہر شی کے ظاہر و باطن میں روحانی سائنس ہے، کیونکہ سائنس علم ہی

۵۲۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “و”
     

کا نام ہے (۶: ۸۰)۔

۹۳۲

وِلۡدَانٌ

(۱)

   

بہشت کے غلمان:

سورۂ واقعہ میں دیکھ لیں: یَطُوۡفُ عَلَیۡهِمۡ وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ۔ اُن کی مجلسوں میں ابدی لڑکے دوڑتے پھرتے ہوں گے (۵۶: ۱۷) یہ عقلی غلمان ہیں، جن کا کام ہے مقرّبین کے لئے عقل اور عشق کی اعلٰی نعمتیں مہیّا کر دینا، یہ نوجوان لڑکے بہشت میں ہمیشہ نوجوان ہی رہیں گے، اور اس میں بہت بڑا راز مخفی ہے

۹۳۳

وِلۡدَانٌ

(۲)

   

عقلی غلمان:

سورۂ دھر میں ہے: ان کی خدمت کے لئے ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ نوجوان لڑکے ہی رہیں گے، تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھیر دئیے گئے ہیں، وہاں جدھر بھی تم نگاہ ڈالو گے نعمتیں ہی نعمتیں اور ایک بڑی سلطنت کا سرو سامان تمہیں نظر آئے گا (۷۶: ۱۹ تا ۲۰) بہشت کی بے شمار نعمتوں کی چوٹی پر “یک حقیقت” کی انتہائی عظیم نعمت ہے جس کی طرف جانے کے لئے سب سے پہلے بہت درجات ہیں، پھر مساوات، اور سب

۵۲۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “و”
     

سے آخر میں ایک حقیقت (مونو ریالٹی) ہے۔

۹۳۴

وِلۡدَانٌ

(۳)

   

بہشت کے ابدی لڑکے:

سوال: حور و غلمان کی پیدائش کہاں ہوتی ہے؟ دنیا میں یا بہشت میں؟ جواب: اہل بہشت سب کے سب شروع شروع میں دنیا ہی کے لوگ ہوتے ہیں، جب وہ مر جاتے ہیں تو اُن کو جسمِ لطیف میں زندہ کرکے جنّت میں داخل کر دیا جاتا ہے، تاہم کلّی تخلیق درجات کی سیڑھی پر ہوتی ہے۔

۹۳۵

وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ

(۱)

   

ابدی لڑکے:

وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ (ابدی لڑکے) سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ انسان کی انائے علوی ہمیشہ بہشت میں موجود ہے (۵۶: ۱۷)۔

۹۳۶

وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ

(۲)

   

ابدی لڑکے:

ابدی لڑکے بہشت میں ہمیشہ موجود بھی ہیں اور دنیا میں آکر پیدا بھی ہوجاتے ہیں، اسی لئے ان کی دو انائیں ہوجاتی ہیں، یعنی انائے علوی اور انائے سِفلی (۶: ۹۸؛ ۵۶: ۱۷)۔

۵۲۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “و”
۹۳۷

وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ

(۳)

   

ابدی لڑکے:

بہشت کے ازلی و ابدی لڑکے (۵۶: ۱۷؛ ۷۶: ۱۹) یہ کون ہیں؟ یہ خلود (۵۰: ۳۴) کی حکمت و علامت ہیں اور اہلِ بہشت ہیں، یہ دنیا میں آتے بھی ہیں اور نہیں بھی آتے ہیں، جس طرح پانی کا مرکز (سمندر) اپنی جگہ ساکن بھی ہے اور اپنے دائرے پر گردش بھی کر رہا ہے۔

۹۳۸

وَلِیُّ الامر

(۱)

   

صاحبِ امر:

نور مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام صلوات اللہ علیہ کا ہر فرمانِ اقدس ہم سبے کے لئے بیحد ضروری اور واجب العمل ہے، جیسے یہ ارشادِ مبارک ہے: “تم میں سے ہر ایک کو اپنے مذہب کی حقیقی سمجھ اور گہرا علم ہونا چاہیے۔”

حقیقی سمجھ ایک واضح، روشن اور کُلّی مطلب ہے، اور گہرا علم (علمِ عمیق) ایک ایسا ہمہ گیر مفہوم ہے کہ اس میں کوئی شک ہی نہیں، جس میں عقل و دانش اور علم و معرفت اور اسرارِ باطن جیسے تمام معانی آجاتے ہیں۔

۵۳۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “و”
۹۳۹

وَلِیُّ الامر

(۲)

   

صاحبِ امر:

آپ یہ بھول نہ جائیں کہ ہماری شاخِ اسلام دینِ اسلام کی ایک باطنی شاخ ہے، باطن کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر میں جو کچھ لکھا ہوا ہے وہ تو اپنی جگہ ہے ہی، لیکن اس کے (باطنی) معنی ہر ایک کے لئے نہیں، یہ صرف انہی لوگوں کے لئے ہے، جو ہماری جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اگر آپ قرآنِ پاک کے (بعض) حصّے سیکھتے ہیں تو آپ کو اس قابِل ہونا چاہیے کہ ان حصّوں کے باطنی معنی سمجھا سکیں (حاضر امامؑ کا فرمان، انمول موتی، حصّۂ اوّل، ص۴۵)۔

۵۳۱

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۵۳۲

     
    بابُ الھاء

 

۵۳۳

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۵۳۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ھ”
۹۴۰

ھَادٍ

   

ھدایت کرنے والا، ھادی، امام:

سورۂ رعد (۱۳: ۷) میں ارشاد ہے: اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوۡمٍ هَادٍ۔ (اے رسول!) تم تو صرف ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لئے ایک ہدایت کرنے والا ہے (قرآن کے شیعی تراجم اور تفاسیر نیز کتبِ مناقبِ علیؑ میں دیکھ لو)۔ زمانۂ آدمؑ سے لیکر قیامۃ القیامات تک ہر زمانہ کے لوگ قوم ہیں، اور ہر قوم کے لئے خدا نے ھادی مقرّر فرمایا ہے اور وہ زمانے کا امام ہی ہے۔

۹۴۱

ھارونؑ

(۱)

   

امامِ اساس:

حدیثِ شریف میں ہے: یا علیُّ انتَ مِنّی بمنزلۃِ ھارون مِن موسٰی اِلّا اِنَّہٗ لا نبیَّ بعدی۔ رسولِ خدا صلی  اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا: اے علیؑ! تیرا مرتبہ مجھ سے ایسا ہےجیسے ھارون کا درجہ موسٰی سے تھا، مگر یہ کہ میرے بعد پیغمبری نہیں ہے۔ (یہ اُن مشہور احادیث میں سے ہے جو تینوں فرقوں کی کتبِ حدیث وغیرہ میں ملتی یں)۔

۹۴۲

ھارونؑ

(۲)

   

امامِ اساس:

صاحبِ جوامعُ الکلم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے مذکورۂ بالا حدیث

۵۳۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ھ”
     

میں جس شانِ حکمت سے مولا علی علیہ السّلام کی تعریف فرمائی ہے اس کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ کرنے کے لئے اُس آئینۂ ہارونی میں علیؑ کو دیکھنا ہوگا، جو قرآنِ حکیم میں ہے، وہ اس طرح کہ دونوں امام اپنے پیغمبر کے وزیر ہیں (۲۰: ۲۹؛ ۲۵: ۳۵) اس لئے یہ کہنا روشن حقیقت ہے کہ دونوں پیشوا اپنی اپنی آسمانی کتاب کی تأویل کے مالک تھے، اور کتابِ سماوی کے باطن میں روحانیت و عقلانیت پر حاضر ہوئے بغیر تأویل نہیں کی جاسکتی۔

۹۴۳

ھارونؑ

(۳)

   

وزیرِ موسٰیؑ:

لفظ وزیر وِزر (بوجھ) سے مشتق ہے بمعنی بوجھ اٹھانے والا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح حضرتِ ہارونؑ توریت کی روحانیت، نورانیت اور تأویل کے حامل تھے، اسی طرح حضرتِ علیؑ قرآن کی روح و روحانیت اور نور و نورانیت (یعنی تأویل) کا بارِ گران اٹھانے والے تھے، اور بجامۂ حاضر اب بھی ہیں۔

۹۴۴

ھارونؑ

(۴)

   

صاحبِ تأویل:

بحوالۂ قرآن (۲۱: ۴۸) حضرتِ موسٰیؑ اور حضرتِ ھارونؑ کو فرقان

۵۳۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ھ”
     

(توریت اور حسّی معجزات) نور اور اسماء الحسنٰی کا ذکر عطا کیا گیا تاکہ یہ ساری برکتیں متّقین کی طرف آئیں، اور یقینًا حضرتِ محمّد سیّد الانبیاءؐ کے برحق وصی حضرتِ علیؑ نبوّت کے سوا ہر وصف میں مثیلِ ھارون تھے۔

۹۴۵

ھارونؑ

(۵)

   

ھارونؑ:

قرآن عزیز میں حضرتِ ھارون علیہ السّلام کا اسمِ مبارک کُلّ بیس مرتبہ آیا ہے، ایسے تمام مقامات پر نورِ امامت کا تذکرہ ہے، جبکہ حضرتِ ھارونؑ کی مبارک پیشانی میں امامت کا نور جلوہ گر تھا، جبکہ مولا علی علیہ السّلام مثیلِ ھارون تھے، مگر یہ ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کے بعد کوئی نبی نہیں۔

۹۴۶

ھارونؑ

(۶)

   

ھارونؑ:

سورۂ بقرہ (۲: ۲۴۸) میں ہے: ان کے نبی نے ان کو یہ بھی بتا دیا کہ طالوت کی بادشاہی کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آئے گا جس میں تمہارے ربّ کی طرف سے تمہارے لئے سکونِ قلب کا سامان ہے، جس میں آلِ موسٰیؑ اور آلِ ھارونؑ کی چھوڑی ہوئی (روحانی) چیزیں ہیں، جس کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے، اگر تم مومن ہو تو یہ تمہارے لئے بہت بڑی نشانی ہے۔

۵۳۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ھ”
۹۴۷

ھارونؑ

(۷)

   

ھارون امامؑ:

اہلِ ایمان کے لئے سکونِ قلب روحانی علم اور معرفت کے سوا ممکن نہیں، لہٰذا یقینًا صںدوقِ سکینہ سے مجموعی روحانیت مراد ہے، جو امامِ زمانہ علیہ السّلام کی روحانی سلطنت کے تحت ہے، اور روحانی جہاد بھی حضرتِ امامِ عالیمقام ہی کی نگرانی میں ہوتا ہے، اب رہا سوال کہ آلِ موسٰیؑ اور آلِ ھارونؑ کی چھوڑی ہوئی چیزیں کیا ہیں؟ وہ بظاہر کچھ مادّی تبرّکات سہی لیکن دراصل نبوّت و امامت کے باطنی اور روحانی معجزات ہیں۔

۹۴۸

ھالکٌ

(۱)

   

ھلاک ہونے والا، فنا ہونے والا:

اے نورِ عینِ من! اکثر یا بعض سورتوں کے آخر میں خاص خاص جواہر ہوتے ہیں، اِس قانونِ قرآن کو نہ بھولنا، جیسا کہ سورۂ قصص کے آخر (۲۸: ۸۸) میں ہے، یہ گوہرِ بحرِ حکمت اسی آیۂ کریمہ میں ہے: كُلُّ شَیۡءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجۡهَهٗ۔ ہر چیز سوائے وجہ اللہ کے ہلاک ہونے والی ہے۔

۹۴۹

ھالکٌ

(۲)

   

ھلاک ہونے والا، فنا ہونے والا:

تفسیرِ اوّل: اگر یہاں ہم یہ کہیں کہ ذاتِ خدا کے سوا ہر چیز فنا ہونے

۵۳۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ھ”
     

والی ہے تو اس سے (نعوذ باللہ) یہ لازم آئے گا کہ اس کی تمام صفات بھی  فنا ہوجانے والی ہیں، یہ تصوّر غیر ممکن اور غیر مناسب ہے، تفسیرِ دوم: اگر یہ کہا جائے کہ چہرۂ خدا کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے تو پھر ایسے میں (نعوذ باللہ) اللہ کی تجسیم کا عقیدہ ہوگا، اور بالآخر چہرہ باقی رہنے کا تصوّر ہوگا، جو محال ہے۔

۹۵۰

ھالکٌ

(۳)

   

ھلاک ہونے والا، فنا ہونے والا:

تفسیرِ سوم: دراصل خدا کُلَّ شی کے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ اس کا مظہر (نمائندہ) آتا ہے، جب اسلام کے شروع ہی سے خلیفۃ اللہ کا ہونا لازمی ہے تو یہی خلیفہ خدا کا مظہر بھی ہے اور چہرۂ خدا بھی، اب سب سے مشکل ترین مسئلہ ختم ہوگیا کہ اس آیۂ شریفہ میں خدا کی ہستی سے بحث نہیں بلکہ اس کے مظہر میں فنا ہوجانے کی تعریف ہے، الحمد للہ۔

۹۵۱

ھالکٌ

(۴)

   

ھلاک ہونے والا، فنا ہونے والا:

اس ارشاد میں خوب غور کریں: من عرف نفسہٗ فقد عرف ربّہ۔ جس نے اپنی روح کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ میں کہتا ہوں کہ یہ روح جس میں پروردگار کی معرفت ہے، کوئی

۵۳۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ھ”
     

عام روح کیونکر ہوسکتی ہے یہ تو مظہرِ نورِ خدا اور وجہ اللہ کی بات ہے، جس میں اگر ہم فنا ہوگئے تو وہ ہماری روح ہوگیا، اسی طرح ہم وجہ اللہ (ہادیٔ زمانؑ) کے وسیلے سے حضرتِ ربّ کو پہچان سکتے ہیں۔ (دیکھو: وجہُ اللہ)۔

۹۵۲

ھُبُوۡط

(۱)

   

اُترنا:

اللہ تبارک و تعالٰی نے حضرتِ آدم اور اس کے تمام ساتھیوں سے فرمایا کہ تم سب جنّت سے نیچے اتر جاؤ: اِھۡبِطُوۡا مِنۡھَا جَمِیۡعًا (۲: ۳۸) اس سے یہ ظاہر ہوا کہ سب لوگ بہشت سے یہاں آئے ہیں، مگر کس طرح؟ سائے کی طرح، کیونکہ روح کا بالائی سرا اپنی اصل سے ہمیشہ واصل رہتا ہے، اس لئے وہ اس دنیا میں نہیں آسکتا، جیسا کہ قول ہے: ما آمدہ نیستیم این سایۂ ماست۔ ہم دراصل آئے نہیں یہ تو ہمارا سایہ ہی ہے۔

۹۵۳

ھُبُوۡط

(۲)

   

آدمؑ کا اترنا:

خدائے حکیم کی طرف سے لوگوں کے لئے جتنا بڑا امتحان قصّۂ آدمؑ میں ہے اتنا عظیم امتحان کہیں بھی نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قصّۂ آدم علیہ السّلام سرتاسر اسرارِ حکمتِ الٰہیہ سے پُر ہے، مثال کے

۵۴۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ھ”
     

طور پر صرف ھُبُوطِ آدمؑ کو سوال بنا کر تجربہ کرلیں کہ یہ آدمؑ کا ھبوط (اُترنا) کس معنی میں ہے؟ جسمانی ہے یا روحانی؟ یا دونوں اعتبار سے ہے؟ بہشت کے کس درجے سے اُترنا پڑا اور کتنی مدّت کے بعد؟ کیا یہ ہر انسانِ کامِل کا قصّہ ہے یا صرف ایک فرد کا واقعہ ہے؟

۹۵۴

ھُدًی

   

ھدایت:

اے نورِ عینِ من! سورۂ بقرہ کے شروع میں خوب غور سے دیکھو، الٓمّٓ۔ یعنی کتابِ آفاق و انفس اور قرآنِ ناطق مولا علی علیہ السّلام ہے، اس کی حاضر دلیلیں یہ ہیں:

(۱) ذالک الکتٰب (وہ کتاب) ذالک اشارۂ بعید ہے دُور کی چیز کے لئے آتا ہے (۲) لا ریب فیہ (اُس میں شک نہیں، یعنی اُس میں علم الیقین، عین الیقین اور حقّ الیقین ہے) (۳) ھُدًی للمتّقین (اُس میں پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے، کیونکہ سب لوگ قرآنِ ناطق کو نہیں مانتے ہیں)۔

۹۵۵

ھَلَک

(۱)

   

وہ ھلاک ہوا، ضائع ھوا، مرگیا، مٹ گیا:

سورۂ حاقّہ (۶۹: ۲۹) میں ہے:  ھَلَکَ عَنِّیۡ سُلۡطَانِیَہۡ (۱) میری سلطنت ضائع ہوگئی (۲) میری حجّت (دلیل) مٹ گئی۔ یعنی میں اپنے

۵۴۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ھ”
     

عقیدے کی حمایت میں جتنی دلائل رکھتا تھا وہ سب کی سب باطل ثابت ہوئیں۔

۹۵۶

ھَلَکَ

(۲)

   

وہ ھلاک ھوا، ضائع ھوا، مرگیا، مٹ گیا:

سورۂ انفال (۸: ۴۲) میں ہے: لِّیَهۡلِكَ مَنۡ هَلَكَ عَنۢۡ بَیِّنَةٍ وَّ یَحۡیٰى مَنۡ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ۔ تاکہ مرجائے وہ شخص جو دلیلًا مرچکا ہے اور زندہ رہے وہ شخص جو دلیلًا زندہ ہوگیا ہے۔ یعنی جس کی دلیل پر آفاق و انفس کی گواہی نہ ہو (۱۸: ۵۱) وہ دینِ فطرت یعنی اسلام اور عقل کے مطابق نہیں باطل ہے، پس ہر ایسا شخص دلیلًا ہلاک ہوچکا ہے۔

۵۴۲

     
    بابُ الیاء

 

۵۴۳

     
    مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا

 

۵۴۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
۹۵۷

یأتی زمان

   

ایک زمانہ آئے گا:

حدیث شریف ہے: اِنَّکُمۡ فِیۡ زَمَانٍ مَنۡ تَرَکَ مِنۡکُمۡ عُشۡرَ مَا اُمِرَ بِہِ ھَلَکَ ثُمَّ یَأۡتِیۡ زَمَانٌ مَنۡ عَمِلَ مِنۡھُمۡ بِعُشۡرِ مَا اُمِرَ بِہِ نَجَا۔ تم لوگ ایک ایسے دور سے  گزر رہے ہو کہ اگر تم احکام کے دسویں  حصّے سے بھی تغافل برتو تو تم برباد ہوجاؤ گے، اس کے بعد ایک ایسا وقت آئے گا کہ اس وقت جو احکام دئیے گئے ہیں، اگر کوئی ان کے دسویں حصّے پر بھی عمل کرے گا تو اسے نجات نصیب ہوجائے گی۔ (روحِ اسلام، سیّد امیر علی، ترجمۂ محمّد ہادی حسین، ص۳۰۵ تا ۳۰۶، بحوالۂ تِرمذی و مشکوٰۃ)۔

۹۵۸

یَاۡجُوۡجَ وَ مَاۡجُوۡج

(۱)

   

عالمِ ذر:

ذرّاتِ لطیف، مخلوقِ اصغر، نسلِ انسانی، ارواحِ خلائق، لشکرِ روحانی، عالمِ ذرّ آغاز کے معنی میں بھی اور انجام کے معنی میں بھی (۱۸: ۹۴؛ ۲۱: ۹۶)۔

۹۵۹

یَاۡجُوۡجَ وَ مَاۡجُوۡج

(۲)

   

ذرّاتی لشکر، روحانی لشکر:

یاجوج و ماجوج دراصل ذرّاتی لشکر کا نام ہے، یہ زمانۂ آدمؑ سے آفاق و انفس کی روحانی جنگ کے لئے متعیّن ہیں، کسی عالمِ شخصی کی

۵۴۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
     

زمین کے حق میں وہ دن بڑا مبارک ہوتا ہے جس میں معجزانہ ذرّات تعمیرِ نوع کی غرض سے فساد کرتے ہیں، ان کا یہ کام ایسا ہے جیسے پرانے مکان کو گرا کر اُس کی جگہ نیا مکان بنانا، یاجوج و ماجوج کا برملا تذکرہ قرآن کے دو مقام پر ہے (۱۸: ۹۴؛ ۲۱: ۹۶ ) لوگ جن چیزوں کو پسند نہیں کرتے عجب نہیں کہ وہ ان کے لئے مفید ثابت ہوجائیں، دیکھو قرآن (۲: ۲۱۶)۔

۹۶۰

یَاۡجُوۡجَ وَ مَاۡجُوۡج

(۳)

   

خدا کا ارضی لشکر:

دینی ہو یا دنیوی جہاں کوئی لشکر ہو وہاں لا محالہ اس کا اعلٰی سردار بھی ہوا کرتا ہے، چنانچہ لشکرِ یاجوج و ماجوج کی عظیم الشّان سرداری سب سے پہلے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو عطا ہوئی، یہی سبب ہے کہ فرشتوں نے زمینِ ظاہر و باطن کے امکانی فساد و خونریزی کو آدم خلیفۃ اللہ سے منسوب کردیا، یعنی ان کا کہنا تھا کہ آدمؑ عالمِ شخصی میں اور سیّارۂ زمین پر اس لشکر سے فساد کرتا رہے گا (۲: ۳۰)۔

خلیفۂ خدا کا فساد (بگاڑ) تعمیرِ نو اور ترقّی کے لئے ہوا کرتا ہے، جیسا کہ ذکر ہوا، اور خونریزی کی تأویل ہے: اِزالۂ شکوک و شبہات، جو علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین سے ہوسکتا ہے۔

۵۴۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
۹۶۱

یَاۡجُوۡجَ وَ مَاۡجُوۡج

(۴)

   

لشکرِ صاحبِ زمان:

سورۂ انبیاء (۲۱: ۹۶) میں ہے: یہاں تک کہ یاجوج و ماجوج کھول دئیے جائیں اور وہ ہر بلندی سے نکل رہے ہوں۔ یعنی امامؑ اور تمام ذیلی حدود سے ذرّاتی لشکر نکل کر روحانی جہاد اور باطنی قیامت کے امور کو انجام دیں گے۔

۹۶۲

یَاۡجُوۡجَ وَ مَاۡجُوۡج

(۵)

   

باطنی لشکر:

سورۂ کہف (۱۸) کے رکوعِ یازدہم میں ذوالقرنین اور یاجوج و ماجوج کے پُرحکمت قصّے کو خوب غور سے پڑھ لیں، ذوالقرنین کو خدا نے مرتبتِ امامت و روحانی سلطنت عطا کردی تھی، لہٰذا اُن کا یہ سارا قصّہ روحانی اور تاویلی ہی ہے، اگر آپ اِن عجیب و غریب واقعات کو صرف ظاہری معنی پر محمول کرتے ہیں تو آج کے روشن زمانے میں اُن کی عقلی توجیہہ ناممکن ہوگی۔

۹۶۳

یَاۡجُوۡجَ وَ مَاۡجُوۡج

(۶)

   

روحانی لشکر:

جو لوگ خاص علم و عمل اور اذن و ریاضتِ شب خیزی سے اِس قابل ہوچکے ہوں کہ اب وہ بفضلِ الٰہ اختیاری موت کی تلخی اور ذاتی قیامت کی سختی کو برداشت کرکے روحانیت و عقلانیت

۵۴۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
     

انمول خزانوں کو حاصل کرسکتے ہیں، تو ایسے نیک بخت لوگوں پر یاجوج و ماجوج کا حملہ آور ہوجانا باعثِ رحمت و برکت ہوگا، اور جو ان کے سوا ہیں، ان سے امام علیہ السّلام ذرّاتی لشکر کو روک لیتا ہے۔

۹۶۴

یَتَدَبَّرُوۡنَ

   

غور و فکر کرتے ھیں:

سورۂ محمّد (۴۷: ۲۴) میں ارشاد ہے: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰى قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُهَا۔ تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا دلوں پر قفل لگ رہے ہیں۔ اس سماوی تعلیم سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوا کہ قرآن میں غور و فکر کرنے کی بہت بڑی اہمیت ہے، اور دوسری طرف یہ پتہ چلا کہ اس معاملے میں بعض دلوں پر قفل لگ جاتے ہیں، چنانچہ پیر ناصر خسروق س نے اپنے دیوان میں فرمایا: قفل از دل بردار و قرآن رہبرِ خود کن + تا راہ شناسی و کشادہ شوَدَت در۔ دل سے قفل اٹھا اور قرآن کو اپنا رہبر بنا لے، تاکہ تو راستے کو پہچان کر چل سکے، اور تیرے لئے (مدینۂ علم اور دارِ حکمت کا) دروازہ کھل جائے۔

۹۶۵

یتیم

(۱)

   

بے نظیر:

دُرَّۃٌ یَّتِیۡمَۃٌ، گوہر یکدانہ، بے نظیر موتی، گوہرِ عقل/ کتابِ مکنون/ امام علیہ السّلام (۵۶: ۷۸)۔

۵۴۸     

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
۹۶۶

یتیم

(۲)

   

بے مثال:

تم ذاتی طور پر امام کے روحانی علم کے قریب نہ جاسکوگے مگر اسمِ اعظم کے ذریعے سے، پھر تم کو عالمِ شخصی ہی میں امام کے روحانی بچپن سے لے کر بھرپور جوانی تک سخت محنت اور خدمت کرنا پڑے گی (۶: ۱۵۲؛ ۱۷؛ ۳۴)۔

۹۶۷

یَتِیۡمَۃُ الدَّھۡر

   

یگانۂ روزگار:

یتیم یعنی امام علیہ السّلام جو یگانۂ روزگار ہے اس کی تکریم و تعظیم نہ کرنے اور حجّت کے علم پر ایک دوسرے کو نہ اُبھارنے ہی سے ذلّت آتی ہے (۸۹: ۱۷ تا ۱۸)۔

۹۶۸

یُحِبُّھُمۡ

(۱)

   

وہ اللہ کو محبوب ھیں:

یُحِبُّھُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗ۔ وہ خدا کو محبوب ہیں اور خدا ان کو محبوب ہے (۵: ۵۴) اس بات میں اختلاف ہے کہ ایسے لوگ کون ہیں یا کون ہوں گے جو مومنوں پر نرم اور کافروں پر سخت ہوں گے؟ تاہم دنیا کے مومنین پر نرم ہونے کے عمل سے یہ ظاہر ہوا کہ یہ جسمانی مومنین نہیں، بلکہ یہ وہ روحانی لشکر ہے جو انفرادی قیامت کا جہاد کرکے عالمِ شخصی کو فتح کرلیتا ہے۔

۵۴۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
۹۶۹

یُحِبُّھُمۡ

(۲)

   

وہ اللہ کو محبوب ھیں:

سورۂ فتح کے شروع ہی میں جس فتحِ مبین کا ذکر آیا ہے (۴۸: ۱) وہ آنحضور صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کے عالمِ شخصی کی فتح تھی، وہ جملہ بیمثال عفو و مغفرت، وہ عظیم باطنی نعمتوں کی تمامیّت ، وہ راہِ مستقیم کی نورانی ہدایت، اور وہ زبردست مدد و نصرت اسی روحانی فتح کی وجہ سے تھیں، دیکھئے آیتِ چہارم (۴۸: ۴) میں آسمانی و زمینی (یعنی باطنی) لشکر کا ذکر بھی ہے۔

۹۷۰

یُحِبُّھُمۡ

(۳)

   

وہ اللہ کو محبوب ھیں:

انفرادی قیامت روحانی جنگ بھی ہے، اسلام کی آخری دعوت بھی، عالمِ شخصی کی فتح بھی، کائنات کی تسخیر بھی، اور رجوع الٰی اللہ بھی ہے، الغرض اس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

۹۷۱

یُحِبُّھُمۡ

(۴)

   

وہ اللہ کو محبوب ھیں:

یہ آیۂ کریمہ جو قرآنِ حکیم کے تین مقامات پر وارد ہوئی ہےاُن آیاتِ مبارکہ میں سے ہے، جو بڑی زبردست اہمیت کی حامل ہیں، اُس کا ترجمہ یہ ہے: وہی تو (وہ خدا) ہے جس نے اپنے رسول (محمّدؐ) کو ہدایت اور سچّے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب

۵۵۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
     

کرے (۹: ۳۳؛ ۴۸: ۲۸؛ ۶۱: ۹) چنانچہ حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے منشائے الٰہی کے مطابق اس کارِ عظیم کو مکمّل کرلیا، یعنی آپؐ کی اور آپؐ کے خاندان کے ہر امامؑ کی ذاتی قیامت میں دینِ اسلام دوسرے تمام ادیان پر غالب ہوتا رہا، اور ان شاء اللہ اسی طرح قیامۃالقیامات میں بھی اسلام ہی غالب ہوکر رہے گا۔

۹۷۲

یحۡیٰی

(۱)

   

یحیٰیؑ:

لفظی معنی ہیں: جیتا رہے، اللہ نے اس کو مرتبۂ نبوّت و امامت سے سرفراز فرمایا، انبیائے کرام علیہم السّلام کی جسمانی پیدائش کی مثال میں روحانی اور عقلانی وِلالت کا ذکر موجود ہے، چنانچہ یحیٰی کی ظاہری پیدائش کی بشارت دراصل عقلی پیدائش کی خوشخبری تھی، پس یحیٰی کی تأویل ہے وہ شخص جو مرتبۂ عقل پر پیدا ہوجانے کی وجہ سے زندۂ جاوید ہوگیا، اور کلمۃ اللہ کی تصدیق کے تین معنی ہیں: (۱) کلمۃ اللہ اپنے وقت میں حضرتِ عیسٰی علیہ السّلام تھا (۲) یہ ہر زمانے میں اسمِ اعظم ہے (۳) یہ کلمۂ کُن ہے، پس عالمِ شخصی میں ان تینوں چیزوں کی عملی معرفت کا حصول کلمۃ اللہ کی تصدیق ہے (۳: ۳۹)۔

۵۵۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
۹۷۳

یحۡیٰی

(۲)

   

یحیٰی امامؑ:

یہ ارشاد سورۂ مریم میں ہے: اے ذکریا! ہم تم کو ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحیٰی ہے اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا۔

یہ حقیقت اظہر من الشّمس ہے کہ یہاں حضرتِ امامؑ کا یہ مبارک اور پُرحکمت نام یحیٰی (جیتا رہے) خدا ہی نے رکھا، پس اس لفظ کے معنی میں جو ارادۂ الٰہی پوشیدہ ہے وہ امرِ کن (ہوجا) کی حیثیت سے ہے، لہٰذا ہمیں اس حقیقت کا پختہ یقین ہے کہ امامِ زمان علیہ السّلام اللہ تعالٰی کا وہ زندہ اور بزرگ ترین اسم ہے جس کو الحیّ القیّوم کہا جاتا ہے، اور یہ نام منفرد اور بیمثال ہے۔

۹۷۴

یحۡیٰی

(۳)

   

یحیٰی، امامِ زمانؑ:

لفظِ “یحیٰی” خداوندِ عالم کے اسمِ اکبر پر بڑا خوبصورت معنوی حجاب ہے، جس کا اوپر ذکر ہوا، پس معنوی کمالات کے اعتبار سے یحیٰی (امام) کا کوئی ہمنام نہیں (۱۹: ۷) چونکہ یہ ہمیشگی کا زندہ اور پائندہ نام اللہ تعالٰی ہی کا بیمثال اسمِ اعظم ہے، لہٰذا خدا کا کوئی ہم نام نہیں (۱۹: ۶۵)۔

۵۵۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
۹۷۵

یَدُ اللہ

   

خدا کا ہاتھ:

سورۂ فتح (۴۸: ۱۰) میں آیۂ بیعت کو غور سے بامعنی پڑھ لیں اور اس کی ہمہ گیر حکمت کو ذہن نشین کرلیں، ارشاد ہے: اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰهَط یَدُ اللّٰهِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡهِمۡ۔ اے نبیؐ! جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے، وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے، اُن کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا (۴۸: ۱۰) پس یہاں یہ حقیقت روشن ہے کہ خدا کے نمائندے کا ہاتھ دراصل خدا کا ہاتھ ہے، یہ قیاس ہرگز نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ یہ خود خداوندِ تعالٰی ہی کا فرمان ہے۔

۹۷۶

یَدَا

   

دونوں ہاتھ:

سورۂ مائدہ (۵: ۶۴) میں ہے: اور یہود نے کہا کہ اللہ کا ہاتھ بند ہوگیا ہے، انہی کے ہاتھ بند ہیں اور اپنے اس کہنے سے یہ رحمت سے دور کر دیئے گئے، بلکہ اس  کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ خدا کے دنوں ہاتھ عالمِ روحانی میں عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ ہیں، عالمِ جسمانی میں ناطق اور اساس ہیں، اور بعد ازان امام اور حجّت اللہ کے ہاتھ ہیں۔

۵۵۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
۹۷۷

یُدۡرِکُ

   

وہ پاتا ھے:

سورۂ انعام (۶: ۱۰۴) میں ہے: لَا تُدۡرِکُہُ الۡابۡصَارُ وَ ھُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ۔ اُس کو نظریں نہیں پاتیں اور وہ سب نظروں کو پاتا ہے۔ یعنی خداوندِ تعالٰی کا دیدار اس طرح ممکن نہیں کہ بشری آنکھ اس کو دیکھ سکے، بلکہ وہ خود عارفوں کی آنکھوں کا نور ہوجاتا ہے، جیسے حدیثِ قدسی میں ہے کہ خدا اپنے دوست کی آنکھ ہوجاتا ہے۔

۹۷۸

یَدَّعُوۡن

   

وہ طلب کرتے ہیں، طلب کریں گے:

سورۂ یاسین (۳۶: ۵۷) میں ہے: لَھُمۡ فِیۡھَا فَاکِھَۃٌ وَّ لَھُمۡ مَّا یَدَّعُوۡنَ۔ ان کے لئے اس (بہشت) میں میوہ ہے، اور جو کچھ وہ طلب کریں اُن کے لئے حاضر ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خواہش و طلب کے مطابق بہشت میں ہر نعمت مل سکتی ہے، اور کوئی چیز ناممکن نہیں، لیکن علم و معرفت اور عمل کے بغیر اعلٰی نعمتوں کی خواہش کیونکر پیدا ہوسکتی ہے۔

۹۷۹

یُرۡسِل

   

وہ بھیجے گا:

یُرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡكُمۡ مِّدۡرَارًا۔ وہ تم پر بہت مینہ برسانے والا آسمان بھیجے گا۔ یعنی اللہ کے حکم سے تمہارے باطن میں نورِ

۵۵۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
     

امامت کا ظہور ہوگا، جس کی بدولت تم پر روحانی علم کی بارش برستی رہے گی (۷۱: ۱۱)۔

۹۸۰

یَسۡتَنۡبِطُوۡنَہٗ

(۱)

   

استنباط کرتے ھیں:

تحقیق کرتے ہیں: استنباط کے اصل معنی ہیں کنواں کھود کر پہلے پہل پانی نکالنا، اور مجازًا اس کا استعمال غور و فکر اور تحقیق و تعمّق کے لئے ہوتا ہے (قاموس القرآن) اِسۡتَنۡبَطَ الشّیء۔ کسی چیز کو پوشیدگی کے بعد ظاہر کرنا۔

قرآنِ کریم کی جس آیۂ شریفہ (۴: ۸۳) میں یہ لفظ آیا ہے اُس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کے بعد ولی الامر (أئمّۂ آلِ محمّدؐ) ہی ہیں جو آیاتِ قرآنی کے باطن کو ظاہر کرسکتے ہیں، کیونکہ وہی حضرات قرآن کی تأویل جانتے ہیں۔

۹۸۱

یَسۡتَنۡبِطُوۡنَہٗ

(۲)

   

استخراج کرتے ھیں:

آیۂ کریمہ کا ترجمہ: اور جب ان کے پاس کوئی بات اطمینان یا ڈر کی آتی ہے اس کا چرچا کر بیٹھتے ہیں اور اگر اس میں رسولؐ اور اپنے صاحبانِؑ امر کی طرف رجوع کرتے تو ضرور ان سے اس کی حقیقت جان لیتے (۴: ۸۳) اس سے معلوم ہوا کہ رسولؐ کے بعد اولوا الامر

۵۵۵

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
     

ہی ہیں جو قرآن کے باطنی معنی جانتے ہیں۔

۹۸۲

یَسۡجُدُ

   

وہ سجدہ کرتا ھے:

وہ اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں جتنے آسمانوں اور زمین میں ہیں (۱۳: ۱۵؛ ۱۶: ۴۹؛ ۲۲: ۱۸)۔ اس سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ ستاروں پر لطیف مخلوق موجود ہے، چاہے آپ ان کو ترقّی یافتہ انسان کہیں یا ملائک یا ارواح، بہ ہر کیف کوئی آسمان مخلوق سے خالی نہیں۔

۹۸۳

یَشۡرَبُوۡنَ

   

وہ پیتے ھیں، پئیں گے (مضارع ھے):

سورۂ دھر/ ھل اتٰی (۷۶: ۵ تا ۶) میں ہے: بیشک نیکوکار لوگ شراب کے وہ ساغر پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی، یہ (کافور) ایک چشمہ ہے جس میں سے خدا کے (خاص) بندے پئیں گے اور جہاں چاہیں گے بہا لے جائیں گے۔ شراب آسمانی عشق کا نام ہے، آبِ کافور روحانی علم ہے، شرابِ کافور آمیختہ، عارف کی وہ حالت ہے جس میں اس پر عشق اور علم دونوں کی ملی جلی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اور چشمۂ کافور سے بآسانی نشیب و فراز اور نزدیک و دُور کے تمام مقامات تک پانی بہا لے جانا یہ ہے کہ امام علیہ السّلام کا روحانی علم دونوں جہان کے حقدار مومنین

۵۵۶

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
     

کو کسی قسم کی رکاوٹ کے بغیر پہنچ جاتا ہے۔

۹۸۴

یَطۡبَعُ

   

وہ مہر کرتا ھے:

سورۂ روم (۳۰: ۵۹) میں ارشاد ہے: كَذٰلِكَ یَطۡبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ۔ اسی طرح مہر لگا دیتا ہے اللہ ان لوگوں کے دلوں پر جو جاہل ہیں۔ سورۂ یونس (۱۰: ۴۴) میں ہے: بیشک اللہ لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا ہاں لوگ ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ یقینًا جو لوگ علم و حکمت سے دور رہتے ہیں وہ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں، حالانکہ علم و دانش بیحد ضروری ہے۔

۹۸۵

یَطُوۡفُ

(۱)

   

وہ گھومتا ھے، گھومے گا:

طَوۡف سے مضارع ہے، طواف، کسی چیز کے گرد پھرنا، کسی بزرگ یا مقدس مقام کے گرد چکر کھانا، گردش۔

سورۂ واقعہ (۵۶: ۱۷) میں ہے: یَطُوۡفُ عَلَیۡھِمۡ وِلۡدَانٌ مَخَلَّدُوۡنَ۔ گردش کرتے ہوں گے ان کے ارد گرد نوجوان لڑکے جو ہمیشہ ایک جیسے رہیں گے (۵۶: ۱۷) یہ بہشتِ برین کے عقلی و علمی غلمان ہیں، یہ دراصل کون ہیں؟ کب پیدا ہوئے؟ کس طرح؟ طواف کیوں کرتے ہیں؟ کیا ان کی گردش میں دائرۂ لا ابتداء و لا

۵۵۷

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
     

انتہا کا عظیم راز پنہان ہوسکتا ہے؟ کیا وہ آپ خود تو نہیں؟

۹۸۶

یَطُوۡفُ

(۲)

   

وہ طواف کرتا ھے:

سورۂ طور (۵۲: ۲۴) میں ہے: وَ یَطُوۡفُ عَلَیۡهِمۡ غِلۡمَانٌ لَّهُمۡ كَاَنَّهُمۡ لُؤۡلُؤٌ مَّكۡنُوۡنٌ۔ اور (خدمت کے لئے) نوجوان لڑکے اُن کے ارد گرد چکر لگایا کریں گے وہ (حسن و جمال میں) گویا چھپائے ہوئے موتی ہیں (۵۲: ۲۴) زمین پر حجّاج خانۂ کعبہ کا طواف کرتے ہیں، آسمان میں فرشتے بیت المعمور کا طواف کرتے ہیں، عالمِ علوی میں عظیم فرشتے عرشِ اعلٰی کا طواف کرتے ہیں، اور بہشت میں غلمان کا عمل بھی اس قسم کا طواف ہے، پس طواف بڑا پُرحکمت عمل ہے جو گردش، دائرہ، لا ابتداء و لا انتہا، تجدّدِ امثال، اور تمام اسرارِ مستدیر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

۹۸۷

یَعۡرِفُوۡن

   

وہ پہچانتے ھیں:

اہلِ کتاب بعد میں گمراہ ہوگئے، اس سے پہلے ان میں حدودِ دین اور عارفین ہوا کرتے تھے، جنہوں نے رحمتِ عالمؐ کو روحانیت و نورانیت میں پہچان لیا تھا، جس نور کا ظہور عالمِ شخصی میں ہوتا ہے، اس کی بہت سی مثالیں اور کئی رشتے ہیں، اس لئے وہ کبھی

۵۵۸

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
     

عارف سے یہ کہہ سکتا ہے کہ میں آپ کا بیٹا ہوں، اسی مثال پر عارفوں کو آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کی معرفت حاصل ہوئی تھی، آپ سورۂ بقرہ (۲: ۱۴۶) اور سورۂ انعام (۶: ۲۰) میں غور سے دیکھ لیں۔

۹۸۸

یقین

(۱)

   

وہ حقیقت جس میں شک نہ ھو:

ترجمۂ آیۂ شریفہ: اور تم اپنے پروردگار کی عبادت کرتے جاؤ تا آنکہ تمہارے سامنے حق الیقین کی منزل آئے (۱۵: ۹۹) عبادت کا مقصد موت نہیں، بلکہ اس کا مقصد سب سے اعلٰی معرفت ہے، اور وہ حقّ الیقین ہی ہے۔

۹۸۹

یقین

(۲)

   

حقّ الیقین، یقین کا درجۂ کمال:

ارشاد ہے: اور تم عبادت کرتے رہو، یہاں تک کہ تمہارے پاس حقّ الیقین آئے (۱۵: ۹۹) یقین کے درجۂ کمال پر شخصِ کامل کو فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے، جہاں ہرگونہ عبادت آسان بلکہ خودکار (AUTOMATIC) ہوجاتی ہے کیونکہ یہ دراصل بہشت کی نعمتوں میں سے ہے۔

۵۵۹

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
۹۹۰

یقین

(۳)

   

حقّ الیقین، یقین کا آخری درجہ:

سورۂ انعام (۶: ۷۵) میں ہے: اور اسی طرح ہم نے ابراہیمؑ کو آسمانوں اور زمین کی ساری بادشاہی (ملکوت) دکھا دی تاکہ وہ حقّ الیقین والوں میں ہوجائے۔ یعنی خدا نے حضرتِ ابراہیمؑ کو عالمِ شخصی کے آسمان و زمین کی عظیم الشّان سلطنت کا مکمّل مشاہدہ کرایا، یہ مشاہدہ یقینِ کامل (کُلّی معرفت) کی غرض سے تھا، جو دیدارِ الٰہی کے بغیر ممکن ہی نہیں، تجلّیاتِ حق تعالٰی کے دیدار کا اشارہ یہاں (۶: ۷۵) لفظ ملکوت میں بھی ہے اور موقنین میں بھی۔

کیونکہ ملکوت کا مشاہدہ نہ صرف کائنات ہی میں ہوا بلکہ دستِ خدا (۲۳: ۸۸؛ ۳۶: ۸۳) میں بھی ہے، اور موقنین (حقّ الیقین والے) دیدار ہی کی وجہ سے فنا فی اللہ ہوجاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۹۹۱

یقین

(۴)

   

یقین کے درجات:

سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں ارشاد ہے: اور زمین میں اہل یقین کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں، اور خود تم میں بھی ہیں، تو کیا تم دیکھتے نہیں؟

عالمِ جمادات، عالمِ نباتات، عالمِ حیوانات، عالمِ انسان، عالمِ دین اور اس کی تمام چیزیں، خصوصًا نورِ منزّل اور کتابِ سماوی کا تعلق

۵۶۰

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
     

یقین سے ہے، پس یقین والوں کے لئے آیات و معجزات زمین میں بھی ہیں اور عالمِ شخصی میں بھی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ حکیم اور امامِ مبین کی قیامت خیز روحانیت موقنین کے باطن میں کام کر رہی ہے۔

۹۹۲

یقین

(۵)

   

شک کی ضد، یقینی بات، بے شک و شبہ، علم جو دلائل سے حاصل ھو:

یقین کے تین درجے ہیں، علم الیقین، عین الیقین اور حقّ الیقین، تین درجات کا ذکر قرآنِ حکیم میں موجود ہے: علم الیقین (۱۰۲: ۵) عین الیقین (۱۰۲: ۷) حقّ الیقین (۵۶: ۹۵) سورۂ تکاثر میں ارشاد ہے: ہرگز نہیں اگر تمہارے پاس علم الیقین ہوتا تو تم (اس علم کی روشنی میں) ضرور دوزخ کو دیکھتے، پھر اس کو عین الیقین سے دیکھتے (۱۰۲: ۵ تا ۷)

۹۹۳

یُکَلِّمُ

   

وہ بات کرتا ھے، بات کرے گا، بات کرے:

سورۂ بقرہ (۲: ۱۷۴) اور سورۂ آلِ عمران (۳: ۷۷میں دقّتِ نظر سے دیکھ لیں، اس میں بہت بڑی حکمت یہ ہے کہ خدا قیامت کے دن بعض لوگوں سے کلام کرے گا اور بعض لوگوں سے کلام نہیں کرے گا، ظاہر ہے جو کلامِ الٰہی سنیں گے وہ پاک و پاکیزہ ہوجائیں

۵۶۱

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
     

گے، لیکن یہ واقعہ کب ہوگا؟ انفرادی قیامت میں، اجتماعی قیامت یعنی دورِ روحانیت میں، اور جسمانی موت کے بعد۔

۹۹۴

یُکَلِّمُھُمۡ

   

وہ ان سے بات کرتا ہے، ان سے بات کرے گا:

قیامت کے دن خداوندِ قدّوس بعض لوگوں سے کلام کرے گا، اور ان کو اپنے پاک دیدار کی لازوال دولت سے نوازے گا، جس کی برکت سے یہ لوگ نہایت پاک و پاکیزہ ہوجائیں گے، جبکہ بعض لوگوں سے نہ کلام کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا (سورۂ بقرہ ۲: ۱۷۴، سورۂ آلِ عمران ۳: ۷۷)۔

 ۹۹۵

یَنۡظُرُوۡنَ

(۱)

   

وہ دیکھتے ہیں، (کیا) وہ انتظار کرتے ھیں؟

اے نورِ عینِ من! ایک ہی انتہائی عظیم واقعہ ہے، جس کا انتظار سب کو ہے، اور وہ واقعۂ قیامت ہی ہے، لہٰذا آپ قرآنِ حکیم میں مضمونِ انتظار (ھَلۡ ینظرون) کو پانچ مقامات پر کامل توجّہ سے پڑھ لیں، حوالہ جات یہ ہیں: سورۂ بقرہ (۲: ۲۱۰) سورۂ انعام (۶: ۱۸۵) سورۂ اعراف (۷: ۵۳) سورۂ نحل (۱۶: ۳۳) اور سورۂ زخرف (۴۳: ۶۶) حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا دائمی تعلق باطن اور روحانیت ہی سے ہے، جس کو عوام النّاس دیکھ ہی نہیں سکتے ہیں۔

۵۶۲

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
۹۹۶

یَنۡظُرُوۡنَ

(۲)

   

وہ دیکھتے ھیں، وہ دیکھیں گے، وہ انتطار کرتے ھیں:

آپ قرآنِ عزیز میں ان پانچ آیاتِ کریمہ کو غور سے دیکھ لیں جو ھل ینظرون سے شروع ہوجاتی ہیں، ان میں مختلف عنوانات سے ایک ہی واقعۂ عظیم کی پیش گوئی ہے، اور وہ عنوانات یہ ہیں: عالمِ دین میں ظہورِ قائم، نزولِ ملائکہ، زمانۂ تأویل کا آغاز، امرِ قیامت (فیصلہ) اور قیامت کا اس طرح برپا ہوجانا کہ لوگوں کو اس کا شعور ہی نہ ہو، کیونکہ قیامت ہمیشہ روحانی طور پر آتی رہی ہے۔

۹۹۷

یَنۡظُرُوۡنَ

(۳)

   

(کیا) وہ انتظار کرتے ھیں؟

قرآنِ حکیم اسرار الٰہی کا سب سے بڑا خزانہ ہے، اور اس میں ایک بڑی اصولی حکمت یہ بھی ہے کہ لوگوں کی زبانِ قال کے علاوہ زبانِ حال کے بیانات بھی ہیں، جن کی ترجمانی خداوندِ تعالٰی نے فرمائی ہے یا فرشتے نے کی ہے، اور یہ لوگوں کے لئے انتہائی مشکل حجاب ہے کہ رازوں کو دیکھ سکیں، الغرض احوالِ قیامت عامۃ النّاس سے بالکل پوشیدہ ہیں، لیکن زبانِ حال کی بہت سی باتوں سے ایسا لگتا ہے جیسے سب لوگ قیامت کے تمام واقعات کو دیکھ رہے ہوں۔

۵۶۳

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
۹۹۸

یَنۡظُرُوۡنَ

(۴)

   

(کیا) وہ انتظار کرتے ھیں؟

قرآنِ عظیم (۱۷: ۷۲) میں ہے کہ: اور جو شخص دنیا میں اندھا رہے گا سو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن لوگوں کو قرآن نے بہرے، گونگے اور اندھے قرار دیا ہے (۲: ۱۸) وہ قیامت اور آخرت میں نہ سن سکیں گے نہ بول سکیں گے اور نہ دیکھ سکیں گے، اس کے باوجود وہاں جس طرح اُن کے سننے، بولنے، اور دیکھنے کا بار بار ذکر آیا ہے، وہ حقیقت میں ان کی حالت کی ترجمانی ہے۔

۹۹۹

یَنۡظُرُوۡنَ

(۵)

   

(کیا) وہ انتظار کرتے ھیں؟

دوزخیوں کے بارے میں فرمایا: آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں شہادت دیں گے جو کچھ یہ لوگ کیا کرتے تھے (۳۶: ۶۵) یہ اہل دوزخ سے متعلق ایک کلّیّہ (قانون) ہے کہ وہ بزبانِ قال خدا سے کلام نہیں کرسکتے ہیں، بلکہ یہ ان کی زبانِ حال کی ترجمانی ہے۔

۵۶۴

لفظ   معنی و حکمت                                                               “ی”
۱۰۰۰

یَنۡظُرُوۡنَ

(۱)

   

(کیا) وہ انتظار کرتے ھیں؟

سورۂ مومنون (۲۳: ۱۰۸) میں ہے: قَالَ اخۡسَــٴُـوۡا فِیۡهَا وَ لَا تُكَلِّمُوۡنِ۔ ارشاد ہوگا کہ اسی (جہنّم) میں راندے ہوئے پڑے رہو اور مجھ سے بات مت کرو۔ اس حکمِ خداوندی سے یہ معلوم ہوا کہ اہل دوزخ خدا سے دُور ہی رہتے ہیں اور وہ اس سے کبھی کلام نہیں کرسکتے۔

۵۶۵

یا علی مدد

عظیم خدمات کا اعتراف

میں ادارۂ عارف امریکا کی   ”یاسمین نور علیؑ برانچ“ کی زرین خدمات کا معترف ہوں کیونکہ اس نیک نام برانچ نے حقیقی علم کی روشنی پھیلانے کے سلسلے میں شاندار کارنامے انجام دیے ہیں، یہ برانچ ہمارے ان چار عزیزوں پر مبنی ہے: نور علیؑ مامجی، یاسمین نور علیؑ اور ان کے پیارے بچے نادر علیؑ اور نسرین۔

۲

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یا علیؑ مدد

مدد کا مطلب:

دلیل نمبر ۱: جیسا کہ یہ اشارہ اس کتاب میں جگہ جگہ کیا گیا ہے، کہ مخلوق کو حقیقی مدد خدا کی طرف سے حاصل ہوتی ہے، مگر یہ رسولؐ اور امامؑ کے توسط سے ممکن ہے، بعد ازان ظاہری، مجازی اور جسمانی مدد ہے، جو لوگوں کی طرف سے خدا، پیغمبرؐ اور امامؑ کو ہونی چاہئے، جس کے معنی یہ ہوئے کہ مدد کی مراد مقام اور درجہ کے مطابق ہے، یعنی خدا کی مدد، پیغمبرؐ اور امامؑ کی مدد اور لوگوں کی مدد ایک جیسی نہیں ہو سکتی، چنانچہ یا علیؑ مدد کا مطلب ہے، کہ اے علیؑ صراطِ مستقیم پر ہماری رہنمائی اور دستگیری کیجئے، کیوں کہ یہاں مدد سے مراد ظاہری و باطنی ہدایت کے سوا کچھ نہیں۔ پھر بھی اگر پوچھا جائے، کہ ہم یا اللہ مدد کیوں نہ کہیں، کہ یا رسولؐ مدد کہیں اور یا علیؑ

۳

مدد کہیں؟ اس کا تفصیلی جواب ذیل کی طرح ہے:

۱۔ جن کا یہ عقیدہ ہے بلکہ ایمان ہے کہ پیغمبرؐ اور امامؑ علیہما السلام خدا تعالیٰ کے زندہ اور گوئندہ اسمِ اعظم ہیں (۷: ۱۸۰) تو ان کے نزدیک یہ بات حق اور حقیقت ہے، کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ایسے نام سے پکاریں جو سب سے بزرگ اور خداوند تعالیٰ کو بہت ہی عزیز اور پیارا ہے۔

۲۔ دانشمندوں کے نزدیک یہ بات بہت بڑی اہمیت والی ہے، کہ حق تعالیٰ نے کبھی اپنے کسی ظاہری اور حرفی نام کو اپنا خلیفہ نہیں بنایا، اسم کو پیغمبرؐ اور امامؑ نہیں ٹھہرایا، اسے آسمانی کتاب کا معلم نہیں کہا، نہیں فرمایا کہ نورِ ہدایت کا سرچشمہ یہی لفظی اسم ہے، اور نہ یہ ارشاد ہوا کہ ظاہری اسم خدا کی رسی ہے، پس معلوم ہوا کہ خدا کا حقیقی نام پیغمبرؐ ہیں اور امامؑ زمان ہیں، لہٰذا انہیں کے وسیلے سے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع درست اور صحیح ہے۔

۳۔ کیوں نہیں، خداوند تعالیٰ کے ظاہری اور حرفی اسماء میں بھی مومنین کے لئے نور ضرور ہے، مگر اس وقت جبکہ نبیؐ اور امامؑ کسی سے راضی ہو جائے، ورنہ مشکل بلکہ نا ممکن ہے، مثال کے طور پر کسی غیر مسلم کو خداوند تعالیٰ کا کوئی ظاہری اسم بتا دیجئے اور قرآن سے دریافت کیجئے، کہ آیا محمد رسول اللہ صلعم کی نبوت و رسالت کے اقرار کے بغیر ایسے شخص کو اسمِ خداوندی سے کوئی نور مل سکتا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ قرآن سے اس کا جواب نفی میں ملے گا۔

۴

۴۔ جو کامل انسان ایسا ہو، کہ وہ روئے زمین پر خلیفۂ خدا ہے، اس کی جانب سے نورِ ہدایت اور خزانۂ علم و حکمت ہے، خدا اور اس کی مخلوق کے درمیان وسیلہ اور واسطہ ہے، اور لوگوں کا رہنما اور دستگیر ہے، تو یہ لازمی بات ہے کہ لوگ ہر وقت اس کی طرف رجوع کریں، اور اسے مدد کے لئے پکارا کریں، کیونکہ اسے خدا ہی نے اسی مقصد کے لئے مقرر فرمایا ہے۔

۵۔ قرآنِ مجید کی عظمت و بزرگی اور تقدس و فضیلت میں کسی مسلمان کو کیا شک ہو سکتا ہے، چنانچہ کتابِ الٰہی کی جتنی تعظیم و حرمت کی جائے اور جیسا رجوع کیا جائے، وہ سب صحیح اور جائز ہے، یہی مثال امامؑ کی بھی ہے اور اس میں ذرہ برابر شرک نہیں، کیونکہ خدا تعالیٰ کی چیز کی طرف رجوع درحقیقت خدا سے رجوع ہے، تو اس میں شرک کیسے ہو سکتا ہے۔

۶۔ اللہ تعالیٰ کی شناخت کے تصورات میں سے ایک تصور ایسا بھی ہے جیسے حق سبحانہ و تعالیٰ عرشِ عظیم پر قائم ہو اور جیسے اس کے عرش یعنی تخت کو چند بڑے بڑے فرشتے اٹھا رہے ہوں، اگر یہ بات مثال نہ ہو، حقیقت ہو تو پھر بھی اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ انتہائی قوت والے فرشتے جو عرشِ عظیم اٹھائے ہوئے ہیں، خدا کے شریک ہرگز نہیں بلکہ خدا کے بندے ہیں، ہر چند کہ عرشِ الٰہی ان پر قائم ہے۔

۷۔ اللہ تعالیٰ کے قلم اور لوح کا تصور ہے، جو خداوند تعالیٰ کا سارا

۵

 کام اسی قلم اور لوح نے انجام دیا، مگر چونکہ یہ سب کچھ خدا کے حکم کے مطابق ہوا ہے، اس لئے لوح و قلم خدا کے شریک نہیں، کیونکہ خدا کی اپنی چیز شریک نہیں کہلاتی ہے۔

۸۔ حق تعالیٰ کے جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل علیہم السلام ہیں جو روحانیت کے بہت سے امور انجام دیتے ہیں اور ان کے علاوہ اور بھی لاتعداد فرشتے ہیں، جو مختلف کاموں پر مامور ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کام کرتے ہیں، اس لئے روح، روحانیت اور غیب کے کاموں کے کرنے سے وہ شریکِ خدا نہیں کہلاتے ہیں۔

۹۔ ایک مثال عالمِ ظاہر کی بھی لیجئے کہ سورج اس کائنات میں کتنا عظیم کام کرتا ہے کہ اس عالمِ ظاہر کا سارا نظام سورج ہی پر قائم ہے، اسی طرح اگر عالمِ دین میں بھی اپنی نوعیت کا ایک سورج ہو تو ظاہر ہے کہ وہ اس دنیاوی سورج سے بھی بہت زیادہ عجیب ہو گا اور بہت ہی عجیب، لیکن کیا کوئی دانشمند یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ دینی سورج خود خدا ہے یا خدا کا شریک ہے؟ اگر دنیوی سورج اپنی بے پناہ روشنی اور مادی قوتوں کا سرچشمہ ہونے کے باوجود خدا کا شریک نہیں ہو سکتا ہے، تو جاننا چاہئے کہ عالمِ دین کا سورج بھی خدا کا شریک نہیں کہلا سکتا، مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظہر ہو سکتا ہے، خدا کا خزانہ کہلا سکتا ہے اور ذریعۂ ہدایت بن سکتا ہے، پس جاننا چاہیے کہ رسولؐ اور امامؑ عالمِ دین کے سورج یعنی نور ہیں اور ان سے ہدایت

۶

کی روشنی حاصل کرنے کے لئے رجوع اور درخواستِ اعانت جائز اور درست ہے اور اس میں کوئی شرک نہیں۔

عالمِ دین کے سورج میں پاک روح اور عقلِ کامل ہے، اسے علم وحکمت اور رشد و ہدایت کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے، ساتھ ہی ساتھ پروردگارِ عالم نے اس کو قدرت دی ہے اور اسے اختیار حاصل ہے، پس اگر ہم کہیں کہ اے آفتابِ دین! آپ ہمیں دین کی روشنی پہنچائیے، تو کیا یہ شرک ہو سکتا ہے؟ وہ کیسے؟ اور کس طرح؟

واسطہ اور وسیلہ:

دلیل نمبر ۲: جس طرح انسان حصولِ ہدایت کے لئے کسی مقدس ہستی کا محتاج رہتا ہے، کیونکہ وہ خود براہِ راست خدا تک پہنچ تو نہیں سکتا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ ذاتی طور پر خدا کی پاک ہدایت سننے سے قاصر ہے، یا کسی جھجک کے بغیر صاف صاف الفاظ میں یوں کہنا چاہیے کہ وہ دل کے کان سے بہرا ہے، اور جو آدمی بہرا ہوتا ہے، وہ نتیجے کے طور پر گونگا بھی ہوتا ہے، پس ایسا شخص اللہ تعالیٰ کو کیسے پکار سکتا ہے، جبکہ اس میں وہ زبان نہیں جو ہونی چاہیے، پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس نے خدائے جلیل و جبار کی مقدس ہدایت اس کو سنائی تھی، وہی شخص اس کی دعا و التجا کو بھی کما حقہ خدا تعالیٰ کے حضورؐ میں پیش کر سکتا ہے، یہی وجہ ہے جو قرآنِ پاک میں ارشاد

۷

ہوا ہے کہ:

         اور (اے رسول) اگر یہ لوگ اسی وقت جبکہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تمہارے پاس آتے پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگتے اور رسولؐ بھی ان کے لئے بخشش طلب کرتا تو یہ ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا اور بہت مہربان پاتے (۴: ۶۴)۔

اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبرؐ کے حضورؐ میں ظاہری طور سے آئیں یا باطنی صورت میں رجوع کریں ہر حالت میں یہ درخواست تو کرنی ہی پڑے گی کہ یا رسولؐ اللہ! ہم خدا تعالیٰ کے حکم سے آپ کے حضورؐ میں آئے ہیں ہماری دستگیری فرمائیے اور ہماری مدد کیجئے، اور یا علیؑ مدد میں بھی بس اسی قسم کے معنی ہیں، اور اس سے زیادہ کچھ نہیں، جبکہ مولا مشکل کشا حضورؐ کے جانشینِ برحق ہیں۔

آیۂ مذکورۂ بالا کے بموجب خداوند عالم نے جب یہ حکم دیا کہ لوگ اپنے گناہوں کی معافی کے لئے پیغمبرؐ سے رجوع کریں اور آنحضرت کے ذریعے بخشش مانگا کریں، تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ وسیلہ ہمیشہ کے لئے ضروری ہے؟ اور اس کو ہمیشہ موجود اور حاضر ہونا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ کی مدد کا وسیلہ:

دلیل نمبر ۳: اللہ تعالیٰ نے، جو خود ہر چیز سے پاک و برتر ہے،

۸

اپنی رحمتِ بے نہایت سے دین و دنیا کے سب کاموں کے لئے وسائل و ذرائع پیدا کر دیے ہیں اور ہر ہر کام کی انجام دہی کے واسطے اس نے ایک سبب نہیں بلکہ کئی کئی اسباب بنائے ہیں، وہ مہربان جب اپنے بندوں کو کوئی چیز عطا کر دینا چاہتا ہے، تو خود سامنے نہیں آتا اور نہ کسی کو اپنے پاس بلا کر یہ نوازش کرتا ہے بلکہ وہ کسی واسطہ اور وسیلہ سے مہربانی کرتا ہے، اور جب کوئی چیز بندوں کی طرف سے قبول کرتا ہے، تو وہ بھی وسیلے ہی سے قبول فرماتا ہے، اور یہ بات صرف عقل والے ہی جانتے ہیں۔

اب ہم یہاں ایک اہم مسئلہ سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں اور وہ ہے قرآنِ پاک کی یہ تعلیم: ایاک نعبد و ایاک نستعین (خدایا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں) اس مقدس دعا میں سوال یہ ہے، کہ آیا ایسی خالص مدد جو ہمیں خدا تعالیٰ سے طلب کرنا چاہیے کسی وسیلے کے بغیر ممکن ہے یا یہ دینِ اسلام کے عام قاعدے کے مطابق درست ہو سکتی ہے؟ اگر اس کا جواب یہ ہو، کہ یہ استعانت وہی ہے جو اسلام میں ہے، جس کی عملی صورت کا ذکر قرآنِ حکیم میں موجود ہے، اور وہ یہ کہ بندۂ مومن دعائے رسولؐ (۹: ۹۹) اور صبر و صلات (۲: ۱۵۳) کے وسیلے سے خداوند تعالیٰ سے مدد طلب کرے، تا کہ پروردگارِ عالم اپنی سنت کے مطابق فرشتہ (۴۱: ۳۰ تا ۳۱)، روح (۵۸: ۲۲)، نبیؐ (۹: ۱۰۳) اور ولی (امام، ۵: ۵۵) کے توسط سے اس کی مدد

۹

کرے گا، اللہ تعالیٰ کی عادت ہمیشہ سے یہی رہی ہے۔

جاننا چاہئے کہ خدا کے مقرر کردہ وسائل و ذرائع سے خدا کی عبادت کرنا اور اس سے مدد چاہنا عین توحید ہے، شرک ہرگز نہیں، کیونکہ یہ وسائل اور شعائر خدا ہی کے ہیں، غیر اللہ کے نہیں اور شرک وہ ہے جس میں خدا کی مرضی کے بغیر کسی چیز کو ذریعہ بنایا جاتا ہے۔

قرآنِ پاک کی تعلیمات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: تم صبر اور صلات کے ذریعے سے خداوندی مدد چاہو (۲: ۴۵) اب اگر کوئی دانشمند ذرا غور کر کے دیکھے تو اسے یہ حقیقت بہت جلد ہی واضح ہو جائے گی کہ صبر جس کا یہاں ذکر ہے وہ ایک بشری صفت ہے، جو کسی سخت کام یا کسی تکلیف و مصیبت کے دوران عزم و ہمت سے سختی برداشت کرنے کو کہتے ہیں، یعنی تحمل و برداشت کی کیفیت و صفت کی یہ اہمیت ہے کہ اس کو نماز کے ساتھ ساتھ خداوند تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، پھر آپ ہی بتائیے کہ آیا یہ شرک ہے، کہ صبر و صلات کے وسیلے سے خداوندی امداد طلب کی گئی؟

صبر و صلات کے اس ظاہری معنی کے علاوہ اس کی یہ تاویل کی گئی ہے کہ صبر آنحضرت ہیں اور صلات آپ کے جانشین، یعنی مولانا مرتضیٰ علی، انہی حضرات کے ذریعے خدا تعالیٰ سے مدد طلب کی جانی چاہیے اور اسی کے لئے حکم دیا گیا ہے او ر یہی طریقہ سب سے بہتر ہے۔

۱۰

صلوات:

دلیل نمبر ۴: آیۂ مقدسہ کا ترجمہ: اللہ وہی ہے جو خود تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تا کہ تم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جائے (۳۳: ۴۳)۔

ایک اور آیۂ کریمہ کا ارشاد ہے کہ: اور کچھ دیہاتی تو ایسے بھی ہیں جو خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے خدا کی (بارگاہ میں) نزدیکی اور رسولؐ کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ آگاہ رہو واقعی یہ (خیرات) ضرور ان کے تقرب کا باعث ہے خدا انہیں بہت جلد اپنی رحمت میں داخل کرے گا (۹: ۹۹)۔

ان دونوں آیتوں میں یہ تصور اور تاثر دیا گیا ہے کہ حق تعالیٰ کی ہدایت و رحمت کے طریقِ کار کو سمجھ لیا جائے، کہ کس طرح مومنین کو ہدایت و رحمت پہنچائی جاتی ہے، جب یہ طریقہ ایسا ہے کہ تاریکی سے نکل کر روشنی کی طرف آنے اور خدا کی نزدیکی حاصل کرنے میں اللہ تعالیٰ کے بعد فرشتے اور رسولؐ مدد کر سکتے ہیں، تو کیا ہمارا یہ عقیدہ، تصور اور علم اپنے اندر یہ شوق و جذبہ نہیں رکھتا ہے کہ ہم ان ذرائع سے ہدایت و رحمت کے لئے رجوع کرتے رہیں اور کیا جو مدد دے سکتے ہیں اور مدد دینے کے لئے خدا کی طرف سے مقرر ہیں تو ان سے ”مدد دو“ کہنا غلط بات ہے؟ سبحان اللہ! یاد رہے کہ اگرچہ ظاہر میں

۱۱

فرشتہ الگ اور رسولؐ و امامؑ الگ ہیں لیکن باطن میں فرشتے پیغمبرؐ اور امامؑ کے نور سے الگ نہیں ہیں۔

روح القدس سے مدد:

دلیل نمبر ۵: آپ کو قرآنِ حکیم میں ایسی کئی آیتیں ملیں گی، جن میں یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو اپنی ایک خاص روح کے ذریعے سے مدد دیتا ہے، خاص کر قرآنِ پاک کی ان جگہوں میں دیکھیں: ۲: ۸۷، ۲: ۲۵۳، ۵: ۱۱۰، ۱۶: ۱۰۲، ۵۸: ۲۲، ان میں سے پہلے تین مقام پر یہ ذکر آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح القدس کے ذریعے سے مدد دیتا تھا، چوتھے مقام پر یہ تذکرہ ہے کہ آنحضرت کے قلبِ مبارک پر قرآن اسی روح القدس کے واسطے سے نازل ہوا تھا اور آخری آیت میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ خدائی گروہ یعنی حقیقی مومنین کو پروردگارِ عالم اپنی ایک خاص روح سے مدد دیتا ہے۔

میرے خیال میں بعض دفعہ سوال بھی بہت مفید ہوتا ہے، کہ اس سے بات خوب ذہن نشین ہو جاتی ہے، اس لئے یہاں مطلب کی بات کو سوال و جواب کی صورت میں پیش کی جاتی ہے کہ آیا یہ تصور درست ہے، کہ پیغمبرؐ کے وسیلے کے بغیر اللہ کے حضورؐ سے براہِ راست روح القدس یا کوئی اور خاص روح آکر مومنین کی مدد کرے، حالانکہ آنحضرت کل عالم کے لئے خدائی رحمت ہیں؟

۱۲

جواب: نہیں یہ درست نہیں، ایسی روح رحمتِ عالم کے ذریعے سے اور آپ کی دعا کے وسیلے سے آتی ہے، بلکہ یہاں تک راز کھول دینا چاہئے کہ حضورؐ انور صلعم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مرکز ہیں اور رحمت کے فرشتے آپ کے نورِ رحمت کی شعاعیں ہیں، کیونکہ نور کا سرچشمہ ظاہری اور مادی سورج کی طرح بے جان اور بے عقل نہیں ہوتا بلکہ اس میں روحِ مقدس اور عقلِ کامل ہوتی ہے، جبکہ یہ نور کسی مومن کے دل میں روشنی ڈالتا ہے تو اس میں روح اور عقل کے ذرات موجود ہوا کرتے ہیں اور اس حقیقتِ حال کے متعلق تنزیل کی زبان میں کہا جاتا ہے، کہ ایک خاص روح سے جو خدا کی طرف سے تھی اس مومن یا ان مومنین کی مدد کی گئی۔

اس کتاب میں جہاں جہاں فرشتوں کے نزول سے مومنین کی مدد کرنے کا ذکر ہوا ہے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نبوت و امامت کے نور کے بغیر اور اس سے الگ تھلگ یہ کام ہوتا ہے، بلکہ اس کی مراد وہی ہے جو اوپر بتائی گئی کہ فرشتوں اور روحوں کے اتحاد و یگانگت کا ایک عظیم المرتبت مرکز ہے، جس کا نام نورِ محمدی ہے، اور یہی نور حق تعالیٰ کے شرفِ عندیت کا درجہ رکھتا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ مکان و زمان کے تصور سے پاک و منزہ ہے، یعنی ”و ایدھم بروح منہ، ۵۸: ۲۲“ کا مطلب ہے کہ خدا نے مصطفی و مرتضیٰ کے نور سے مومنین کی مدد فرمائی۔

۱۳

فرشتوں سے مدد:

دلیل نمبر ۶: سورۂ آلِ عمران کے تیرھویں رکوع کے ارشادات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جنگِ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی مدد اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے سے دی تھی، اب اس امر میں ذرا غور و فکر کر کے نتیجہ نکالنا چاہیے، کہ اگر روحانی مدد ایسی خاص صفت ہوتی، جو خداوند تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے سوا کسی اور ذریعے سے نہیں ہونی چاہیے، یا یہ اللہ پاک کا کوئی خاص فعل ہوتا جس میں کسی دوسرے کو شریک نہیں ہونا چاہیے، تو فرشتے اس میں ہرگز مداخلت نہ کرتے اور قرآن نہ فرماتا کہ فرشتوں کے ذریعے سے مدد دی گئی،، جبکہ فرشتے خدا نہیں ہیں، بلکہ رب العالمین ہی خدا ہے مگر جو انسان حقیقت کی طرف توجہ ہی نہیں دیتا ہے تو اس کے لئے کیا چارہ ہو سکتا ہے۔

یہی تذکرہ سورۂ انفال کے رکوع اول کے اخیر میں بھی موجود ہے، کہ اس جنگ کے دوران مسلمانوں کو فرشتوں سے تائید و نصرت دی گئی تھی اور دونوں مقام پر ایک بات مشترک ہے، وہ یہ کہ اس سے گروہِ مسلمین کا سکونِ قلب بھی مقصود تھا، یعنی یہ معجزہ اس لئے تھا کہ ایک تو فرشتوں کی مدد سے فی الوقت فتح حاصل ہو اور دوسرا یہ جان کر قلبی اطمینان ہو سکے کہ امدادِ روحانی کے ایسے ذرائع بھی موجود

۱۴

ہیں یا یہ کہ معجزانہ قسم کا سکون ہو۔

فرشتوں کا مددگار ہونا:

دلیل نمبر ۷: آیۂ پاک کا ترجمہ: تحقیق جنہوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اسی پر قائم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ تم مت ڈرو اور نہ غم کھاؤ اور خوشخبری سنو اُس بہشت کی جس کا تم سے وعدہ تھا ہم (بحکمِ خدا) دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی تمہارے مددگار ہیں (۴۱: ۳۰ تا ۳۱)۔

اس آیتِ پرحکمت سے یہ حقیقت عیان ہو جاتی ہے کہ پروردگارِ عالم کے حکم سے فرشتے روحانی طریق پر مومنین کی تائید و نصرت کرتے ہیں، کیونکہ حق سبحانہ و تعالیٰ بادشاہِ مطلق ہے، اس نے کون و مکان کے امور کی انجام دہی کے لئے ذرائع پیدا کئے ہیں اور ہر کام کا ایک وسیلہ یا کئی وسائل مقرر ہیں، وہ صرف امر فرماتا ہے اور ظاہر و باطن کے تمام ذرائع اور وسائل کام کرتے ہیں، چنانچہ روحانی اور جسمانی مدد کے لئے بھی خدا نے وسائل بنائے ہیں، جن سے جو بھی مدد ملتی ہے وہ خدا کی مدد کہلاتی ہے، کیونکہ اس کا ذریعہ اور وسیلہ خدا ہی کی طرف سے ہے۔

۱۵

رسولؐ کی دعا سے مدد:

دلیل نمبر ۸: آیۂ مقدسہ کا ترجمہ: (اے رسول) آپ ان کے مالوں سے صدقہ لے لیجئے تا کہ آپ اس کے ذریعے سے ان کو پاک و صاف کر دیں گے اور ان کے لئے دعا کیجئے یقیناً آپ کی دعا ان کے لئے سکونِ قلب ہے (۹: ۱۰۳)۔

اللہ تعالیٰ کے اس مبارک ارشاد سے دو عظیم حکمتیں ظاہر ہو جاتی ہیں، ایک یہ کہ رسولؐ اکرم کی دعائے خیر سے قلبی اطمینان کی کیفیت میں لوگوں کو روحانی مدد ملتی رہتی تھی، کیونکہ دل کے سکون ہی کا نام مدد ہے اور دوسری حکمت یہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں کی مدد کے لئے فرشتے نازل ہوئے تو آنحضرت کی مبارک دعا سے ہوئے کیونکہ فرشتوں کے نزول کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کا مقصد مومنوں کو اطمینان دلانا تھا، اور یہاں یہ ارشاد ہے کہ دلوں کے اطمینان کا سرچشمہ تو حضورؐ انور صلعم کی مقدس دعا ہی ہے، تو ہم اس کا مطلب بخوبی سمجھ گئے کہ فرشتے جس طرح نازل ہوئے اور اصحابِ رسولؐ کو معجزانہ مدد سے جو تسکینِ خاطر ہوئی وہ سب کچھ حضرت کی مبارک دعا کی برکت سے تھی، کیونکہ ہر قسم کے حقیقی سکون کا ذریعہ و سبب رحمتِ عالم کی دعائے پاک ہے۔ ملاحظہ ہو دلیل نمبر ۴، ۵ اور ۶۔

پس معلوم ہوا کہ سکونِ قلب اور روحانی مدد کا سرچشمہ اللہ پاک

۱۶

کے حکم سے نبی اکرم صلعم ہیں، اور آپ کے بعد آپ کی آلِ اطہار کے ائمۂ برحق بھی اپنے اپنے وقت میں اسی درجے پر ہیں۔

انسانِ کامل کی مثال:

دلیل نمبر ۹: آیتِ پرحکمت کا ترجمہ: (اے رسول) آپ کہہ دیجئے کہ اگر زمین پر فرشتے ہوتے کہ اطمینان سے چلتے پھرتے تو ہم ان کے پاس فرشتہ ہی کو رسولؐ بنا کر نازل کرتے (۱۷: ۹۵)۔

اس فرمانِ خداوندی کے اشارات یہ ہیں کہ اس دنیا میں ایسے کامل اور مکمل انسان بھی آتے رہے ہیں جو جسمانیت کے اعتبار سے بشر ہوتے ہیں مگر روحانیت کے لحاظ سے ملائک کہلاتے ہیں، وہ خود بھی ہر طرح سے مطمئن ہوتے ہیں، اور دوسروں کو بھی بحکمِ خدا اطمینان دے سکتے ہیں، وہ فرشتوں اور انسانوں کے درمیان وسیلہ اور رابطہ کی حیثیت سے ہوتے ہیں، تا کہ وہ خداتعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں سے لوگوں کو مدد دے سکیں، اور ایسا کامل انسان جو ملکوتی صفات سے متصف ہوتا ہے سب سے پہلے رسولؐ اکرم کی ذاتِ اقدس ہے، اور آنحضرت کے بعد ائمۂ برحق علیہم السلام ہیں۔

پیغمبرؐ سے مدد:

دلیل نمبر ۱۰: رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب لوگوں کو اللہ تعالیٰ

۱۷

کے امر و فرمان کے بموجب پاک و صاف کر دیتے تھے (۲: ۱۵۱) تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ آنحضرت ان کے گناہو ں کو مٹاتے تھے، تو کیا ہم اس مطلب کو دوسرے الفاظ میں یوں ادا نہیں کر سکتے ہیں، جو کہیں کہ حضورؐ اسی طرح لوگوں کی روحانی مدد فرماتے تھے، اور اپنی مبارک دعا سے مومنوں کو قلبی سکون پہنچا کر ان کی دستگیری اور مدد کرتے تھے؟

کیونکہ خدا تعالیٰ مومنوں کے دل کی جس کیفیت کو سکون کے نام سے یاد فرماتا ہے، تو وہ مکمل طور پر سکون ہی ہوتا ہے، اور اس میں ہر قسم کی مدد موجود اور مہیا ہوتی ہے، یعنی ایسے اطمینان و سکون میں ذہنی، خارجی، اخلاقی اور روحانی ہر قسم کی مدد شاملِ احوال رہتی ہے، پس اگر مان لیا جائے کہ دینِ حق کی نعمت لازوال ہے، اس لئے یہ نعمت رسولؐ اللہ کے بعد بھی اپنی جگہ پر موجود اور باقی و برقرار ہے، اور اسے پہلے ہی کی طرح مکمل رہنا ہے تو پھر آنحضرت کے جانشین میں بھی یہ وصف ہونا چاہیے کہ وہ آیۂ درجِ ذیل کا مصداق بنے رہے:

خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم و تزکیھم بھا وصل علیہم ان صلوتک سکن لھم (۹: ۱۰۳)۔

آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس کے ذریعہ سے

۱۸

آپ ان کو (گناہوں سے) پاک صاف کردیں گے اور ان کے لئے دعا کیجئے یقینا آپ کی دعا ان کے لئے سکونِ قلب (کا باعث) ہے۔

ناصر:

دلیل نمبر ۱۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعض مبارک اسماء و القاب ایسے ہیں کہ ان کے معانی و مطالب سے صاف طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنے لوگوں کے حامی، دستگیر، مددگار اور پشت پناہ ہیں۔

جیسا کہ حضورؐ کے نامِ اقدس ناصر سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے، کہ ناصر مددگار کو کہتے ہیں اور اس سے روحانی اور نورانی مدد مراد ہے اور اس میں کسی کو تعجب کیوں ہونا چاہئے، جبکہ سرورِ کائنات صلعم دنیا جہان والوں کے لئے اللہ پاک کی رحمتِ کل ہیں اور کوئی انسان عقل و دانش سے سوچے یا پوچھے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ رحمت کسی ایک مہربانی کا نام نہیں بلکہ اس میں تمام کی تمام مہربانیاں جمع و مجموع ہیں، جن میں مدد، نصرت اور دستگیری بھی ہے اور انہی اوصافِ کمالیہ کا تعلق علئ عالی صفات اور آپ کی اولاد کے ائمۂ کرام کی ذواتِ مقدس سے بھی ہے، لہٰذا اگر ہم یا علیؑ مدد کہا کریں تو اس میں کیا شک واقع ہو سکتا ہے، ہم نے اس میں خدا و رسولؐ کی مرضی کے خلاف کوئی بات ہرگز نہیں کی، بلکہ ہم نے اپنے اس

۱۹

قول میں ایسے ذریعے کی طرف رجوع کیا جس کو اللہ اور اس کے رسولؐ رحمت نے مقرر کر دیا ہے۔

ہادی:

دلیل نمبر ۱۲: یہ بات سب کو معلوم اور یہ حقیقت سب پر روشن ہے کہ ہادی راہنما کو کہتے ہیں، یعنی رستہ دکھانے والا، اور اس کا مطلب ہے لوگوں کو دین کی راہ پر چلانے والا، جس میں دامن گیری اور دستگیری کا تصور بھی شامل ہے، کہ کوئی کمزور مسافر کبھی کبھار اس بات کے لئے بھی محتاج ہوتا ہے کہ اس کا راہبر اس کی دستگیری کرے، یعنی اس کے ہاتھ کو پکڑے ہوئے سہارا دے اور مدد کرے، اور کبھی اس کی بھی ضرورت پڑتی ہے کہ پیرو اپنے پیشرو کے دامن کا سہارا لیتے ہوئے چلے، اب ایک چھوٹا سا بچہ بھی اس بات کو بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اس مثال میں ہادی کا مطلب مددگار ہے، کیونکہ ہدایت خود سب سے بڑی مدد ہے، کیا پھر بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ امامؑ جس کا لقب ہادیئ دین ہے، جب مومنین کی ہدایت و رہنمائی کرتا ہے اور ان کو منزلِ مقصود کی طرف آگے سے آگے بڑھاتا ہے، تو اس کے ایسے کام میں کوئی مدد نہیں، کوئی دستگیری نہیں؟ بہرحال ہمیں اس کا پختہ یقین ہے کہ علم و حکمت اور رشد و ہدایت حقیقی معنوں میں مدد ہی ہے، لہٰذا یا علیؑ مدد کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

۲۰

سرپرست اور مددگار:

دلیل نمبر ۱۳: آیۂ کریمہ کا ترجمہ: اے ہمارے پالنے والے کسی طرح اس بستی سے جس کے باشندے بڑے ظالم ہیں ہمیں نکال اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا سرپرست بنا اور تو خود ہی کسی کو اپنی طرف سے ہمارا مددگار بنا (۴: ۷۵)۔

اس پاک و پاکیزہ قرآنی تعلیم کا صاف صاف خلاصہ یہ ہے کہ جو سرپرست اور مددگار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو، جس کو پروردگارِ عالم نے خود ہی مقرر کر دیا ہو، وہ برحق ہے، اور وہ لوگوں کی سرپرستی و مدد کر سکتا ہے، کیونکہ اسے خداوند تعالیٰ نے جس کام کے لئے مامور فرمایا ہے، اس کی تعمیل و انجام دہی کی قوت بھی عنایت کر دی ہے، چونکہ ایسا شخص رب العزت کی ولایت و نصرت کا مظہر ہوتا ہے، اس لئے اس درجۂ عالیہ پر کوئی عام آدمی نہیں ہو سکتا، ما سوائے انسانِ کامل کے، کہ وہ حضورؐ اکرم کی ذاتِ اقدس ہے اور آپ کے حقیقی جانشین، یعنی امامؑ عالی مقام۔

خدا کے بزرگ نام:

دلیل نمبر ۱۴: ارشادِ خداوندی: و للہ الاسماء الحسنیٰ فادعوہ بھا (۷: ۱۸۰) اور اچھے اچھے نام خدا ہی کے ہیں تو ان

۲۱

ناموں سے خدا کو پکارو۔

قرآنِ حکیم میں مذکورہ آیت کے علاوہ اسماءِ حسنیٰ کا ذکر ۱۷: ۱۱۰، ۲۰: ۸، ۵۹: ۲۴ میں بھی موجود ہے، کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت ۹۲ میں مولانا علیؑ علیہ السلام کا مبارک ارشاد ہے کہ: انا الاسماء الحسنیَ التی امر اللہ ان یدعیٰ بھا، یعنی میں خدا کے وہ اسمائے حسنیٰ ہوں جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا کہ اس کو ان اسماء سے پکارا جائے۔ مزید معلومات کے لئے شیعی تفاسیر اور متعلقہ کتب کو دیکھا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ کچھ دقیق باتیں بھی یہاں بتائی جاتی ہیں کہ جس طرح مذکورۂ بالا آیۂ شریفہ کا منشا ہے کہ خدا کے اچھے اور بزرگ ناموں کی شناخت ہونی چاہئے، چنانچہ حضرت امیر المومنین علیؑ علیہ السلام صاحبِ تاویل نے وضاحت فرمائی ہے کہ آپ خدا کے اسمِ بزرگ ہیں، جس کی مراد یہ ہے کہ سب سے پہلے رسولؐ اللہ، پھر علی، پھر ائمۂ اولادِ علیؑ اپنے اپنے وقت میں خدا تعالیٰ کے اسمِ اعظم ہیں، پس انہی حضرات کو اسمائے حسنیٰ قرار دے کر خدائے واحد و یکتا کو پکارنا چاہئے، تا کہ پروردگارِ عالم ہماری پکار کو سنے اور شرفِ قبولیت سے مشرف فرمائے۔

ناصرِ رسول:

دلیل نمبر ۱۵: قال النبیؐ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رأیت

۲۲

لیلۃ اسری بی مثبتا علیٰ ساق العرش انا غرست جنۃ عدن محمد صفوتی من خلقی ایدتہ بعلی۔ ترجمہ: حلیۃ الاولیاء میں بہ روایت ابو الحمراء منقول ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا کہ جب شبِ معراج مجھ کو آسمان پر لے گئے، تو میں نے ساقِ عرش پر لکھا ہوا دیکھا: میں کہ خداوند ہوں، میں نے جنتِ عدن جس میں انواع و اقسام کے درخت لگائے ہیں محمدؐ کے لئے جو میری مخلوقات میں سے برگزیدہ اور پسندیدہ ہے، خلق کی ہے، میں نے اس کو علیؑ سے مدد دی ہے (کوکبِ دری، بابِ دوم، منقبت ۳۵)۔

قرآنِ حکیم کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورۂ بالا حدیث کلی طور پر صحیح ہے کہ: و قل رب ادخلنی مدخل صدق و اخرجنی مخرج صدق و اجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا (۱۷: ۸۰) یعنی آنحضرت سے فرمایا گیا ہے کہ: اور یہ دعا مانگا کرو اے میرے پروردگار مجھے (جہاں) پہنچا اچھی طرح پہنچا اور مجھے (جہاں سے) نکال تو اچھی طرح سے نکال اور مجھے خاص اپنی بارگاہ سے ایک طاقتور مددگار دے دے۔

(دیکھو فرمان علیؑ صاحب کے ترجمۂ قرآن اور حاشیے کو ۸۰: ۱۷ سے متعلق)۔

۲۳

دین کا مددگار:

دلیل نمبر ۱۶: کتاب کوکبِ دری بابِ دوم منقبت ۵۴۱ میں ہے کہ: قال النبیؐ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: ان اللہ تعالیٰ اید ھٰذا الذین بعلیؑ و انا منہ و فیہ انزل افمن کان علیٰ بینۃ من ربہ الایہ۔

ترجمہ: ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: خدا تعالیٰ نے اس دین کو علیؑ کے ذریعہ سے قوت دی ہے اور میں اس سے ہوں، اور اس کی شان میں آیۂ ذیل نازل ہوا ہے: افمن کان علیٰ بینۃ۔۔۔ الخ۔

گواہِ رسول:

دلیل نمبر ۱۷: آیۂ مبارک کا ترجمہ: اور وہ لوگ جو کافر ہو گئے کہتے ہیں کہ تو (اللہ تعالیٰ کا) بھیجا ہوا نہیں ہے (اے رسول) آپ کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کافی گواہ ہے اور وہ (شخص بھی) جس کے پاس کتاب کا علم ہے (۱۳: ۴۳) اور: دوسری آیتِ کریمہ (جس کا ذکر اوپر ہو گزرا ہے) کا ترجمہ یہ ہے کہ:

کیا منکرِ قرآن ایسے شخص کی برابری کر سکتا ہے جو قرآن پر

۲۴

 قائم ہے جو کہ اس کے رب کی طرف سے آیا ہے اور اسی سے ایک گواہ بھی ہے۔ (۱۱: ۱۷)۔

چنانچہ ان دونوں آیتوں کے متعلق یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے، کہ یہ مولانا علیؑ علیہ السلام کی شان میں ہیں، کہ آپ ہی حضرتِ رسولؐ کی رسالت و نبوت کے دوسرا گواہ ہیں جبکہ خداوند تعالیٰ اس امر کا پہلا گواہ ہے، اور جو شخص سعادت مند ہے وہ اس نکتے پر خوب غور کر کے یہ سمجھ لے گا کہ سردارِ انبیاء صلعم کی نبوت کے گواہ ہونے کے کیا معنی ہیں، سبحان اللہ! پروردگارِ عالم نے علئ مرتضیٰ کو لفظ شاہد اور شہید (حاضر اور گواہ) کے معنوی اسرار کے گنجِ بے پایان کا مالک بنایا ہے۔

اس کے مختصر معنی یہ ہوتے ہیں کہ رحمۃ للعٰلمین کی نبوت، جو علم و حکمت، رشد و ہدایت اور اسرارِ روحانیت کا ایک عظیم الشان عالم ہے (اور جو آنحضرت کی روحانی اور جسمانی زندگی پر محیط تھا) اس کے تمام احوال سے علیؑ علیہ السلام خوب واقف و آگاہ تھے۔

اس کے برعکس یہ امر کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے نورانیت کی جس بلندی پر آنحضرت کے اسرارِ نبوت اور عجائباتِ قدرت کے مشاہدات کے لحاظ سے جہاں خود کو گواہ قرار دیا ہے، وہاں کسی ایسے عام شخص کو بھی گواہ بنا لے، جس نے ذاتی طور پر تمام

۲۵

واقعات کو نہ دیکھا ہو، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ محمدؐ و علیؑ ایک ہی نورِ مقدس کے دو جسمانی پیکر ہیں، اور یہ مطلب مذکورہ آیت کے شاہد منہ سے بھی ظاہر ہے، یعنی علیؑ نبیؐ کی نبوت کے گواہ اس طرح سے ہیں کہ آن جناب خود نبیؐ اکرم کے پاک نور سے ہیں، جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ: ہم لوگ (یعنی میں اور علی) اللہ کے حضورؐ میں ایک نور کی شکل میں موجود تھے۔۔۔ علیؑ مجھ سے ہے اور میں علیؑ سے ہوں۔ (ینابیع المؤدۃ بابِ اول)۔

مذکورۂ بالا حقائق و معارف کی روشنی میں اب آپ خود حق و انصاف سے بتائیے کہ جو کامل انسان قربِ خداوندی کے اس اونچے مقام پر فائز ہو، جو ہادئ برحق خاتم الانبیاء کے نورِ اقدس کا جزو ہو اور جو امامؑ اکرم کی کتابِ سماوی کے علم و حکمت کا حامل اور نبوت و رسالت کا دائمی گواہ ہو، وہ ہر طرح کا مددگار بھی ہو سکتا ہے کہ نہیں۔

خدا کی مدد کرو:

دلیل نمبر ۱۸: فرمانِ خداوندی ہے کہ: یا ایھا الذین امنوا ان تنصروا اللہ ینصر کم و یثبت اقدامکم (۴۷: ۷) اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔

اس آیۂ مقدسہ سے چند عظیم حکمتیں ظاہر ہوتی ہیں، پہلی

۲۶

حکمت یہ کہ مدد خاص سے خاص بھی ہے اور عام سے عام بھی، لہٰذا ہم خدا تعالیٰ کے بعد رسولؐ سے اور امامؑ سے مدد طلب کر سکتے ہیں، اگر یہ امر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ مدد کو عمومیت کی طرف لا کر یہ نہ فرماتا کہ اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو خدا تمہاری مدد کرے گا، پس ظاہر ہے کہ مدد کوئی ایسا خاص لفظ نہیں جو صرف اور صرف خدا تعالیٰ ہی کے لئے بولا جائے۔

دوسری حکمت یہ ہے کہ جس طرح پیغمبرؐ اور امامؑ اپنی نورانیت میں مومنین کی مدد کرتے ہیں اسی طرح اہلِ ایمان کو چاہئے کہ وہ اپنی جسمانی حیثیت میں رسولؐ اور امامؑ کی مدد کریں، ان کو اس کا اجر و صلہ بالکل اسی طرح دیا جائے گا جیسے انہوں نے خدا کی مدد کی ہو، کیونکہ خدا بذاتِ خود کسی مدد کا محتاج ہرگز نہیں۔

تیسری حکمت یہ کہ جب تم خلیفۂ خدا کی مدد کرتے ہو تو سمجھو کہ تم نے خدا کی مدد کی اور جب وہ تمہاری مدد کرتا ہے تو مانو کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔

چوتھی حکمت، پیغمبرؐ اور امامؑ علیہما السلام کا عظیم رتبہ اس بات سے کبھی کم نہیں ہوتا کہ تم مومنین ان کی مدد کرتے ہو، جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے تصور سے اس کی عظمت و جلال میں کوئی شک واقع نہیں ہو سکتا۔

پانچویں حکمت، اللہ تعالیٰ کا یہ امر عام نہیں بلکہ خاص ہے

۲۷

کیونکہ جو امر عام ہو اس میں یا تو دوزخ سے ڈرایا جاتا ہے یا بہشت کی امید دلائی جاتی ہے، مگر اس میں ایسا نہیں ہے، بلکہ پروردگارِ عالم نے کمالِ مہربانی سے اس امر کو ایسی صورت میں ظاہر فرمایا ہے جیسے اس کے کسی رکے ہوئے کام میں مدد کر کے اس پر احسان کیا جاتا ہو، اور یہ دینی خدمت و اطاعت کی اہمیت و فضیلت بیان کرنے کا آخری درجہ ہے۔

چھٹی حکمت، اس میں ترقی و تنزل کا معیار بتایا گیا ہے، کہ اگر کوئی مومن نیت، قول اور عمل کی اصلاح نہیں کر پاتا، اور جادۂ اسلام اور راہِ روحانیت میں آگے نہیں بڑھ سکتا اور بار بار اس کے قدموں میں لغزش آتی رہتی ہو، تو جاننا چاہیے کہ وہ خدا کی مدد نہیں کرتا، اس لئے خدا اس کی مدد نہیں کر رہا ہے، اور اسی وجہ سے اس کے قدموں میں لغزش آ رہی ہے۔

انصار:

دلیل نمبر ۱۹: آیۂ کریمہ کا ترجمہ: سو جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے انکار دیکھا تو آپ نے فرمایا: کوئی ایسے آدمی بھی ہیں جو میرے مددگار ہو جاویں اللہ کے واسطے، حوارئین بولے کہ ہم ہیں مددگار اللہ تعالیٰ کے (۳: ۵۲)۔

۲۸

آیتِ پاک کا ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ کے مددگار ہو جاؤ جیسا کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریین سے کہا کہ اے اللہ کے واسطے میرا کون مددگار ہوتا ہے، وہ حواری بولے، ہم اللہ کے مددگار ہیں (۶۱: ۱۴)۔

ان دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ خدا کی مدد کرنا چاہتے ہوں، وہ رسولؐ اکرم کی مدد کریں، اور جو رسولؐ برحق کی مدد کرنا چاہیں تو وہ امامؑ زمان کی مدد کر لیا کریں، تا کہ ان کو خدا و رسولؐ اور امامؑ کی مدد ملتی رہے، جو ظاہری اور باطنی ہدایت کی صورت میں حاصل ہوتی رہے گی، جس کے نتیجے میں وہ انسانی قوتوں کا سرچشمہ بن جائیں گے، اور ان کے لئے دونوں جہان کی کامیابی کے سامان مہیا ہوں گے۔

روشنی سے مدد:

دلیل نمبر ۲۰: آیۂمبارکہ کا ترجمہ: (اور یہ وہ دن ہو گا) جس روز منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے کہ (ذرا) ہمارا انتظار کر لو کہ، ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کر لیں ان کو جواب دیا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے (ابتدائی تواریخ یا دنیا میں) لوٹ جاؤ پھر (وہاں سے) روشنی تلاش کرو (۵۷: ۱۳)۔

اس آیۂ پر حکمت کے بہت سے پہلو ہیں، جن سے طرح طرح

۲۹

کی حکمتوں کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں، چنانچہ اس میں یہ بھی ہے کہ کوئی شخص تواریخ کے راستے سے لوٹ کر رسولؐ کے حقیقی جانشین کو پہچان لے اور یہ بھی ہے کہ مومنین جس نور کی روشنی میں راہِ آخرت یا طریقِ روحانیت کی مسافت طے کرتے ہوں گے وہ وہی نور ہو گا جو ان کے درمیان دنیا میں بھی تھا، اسی لئے وہ منافقوں سے کہتے ہیں کہ تم اگر ہماری طرح اس نور کی روشنی میں چلنا چاہتے ہو تو دنیا میں لوٹ جاؤ اور وہاں نور کو پہچانو اور دوسری ایک بہت ہی پختہ بات اس میں یہ بھی ہے کہ کیا منافق لوگ اس مقام پر رہنمائی، دستگیری اور مدد کے لئے نہیں پکارتے ہیں؟ اور کیا ان کو یہ جواب نہیں ملتا کہ تم کو آج یہاں نور سے کوئی مدد نہیں ملے گی، کیونکہ تم نے دنیا کی زندگی میں اس سے مدد حاصل نہیں کی ہے؟

سب مسلمان:

دلیل نمبر ۲۱: کتنی خوشی کی بات ہے کہ سب مسلمان عقیدۂ توحید و نبوت میں ایک ہونے کے علاوہ ولایتِ علیؑ میں بھی ایک اعتبار سے ایک ہیں، یعنی جس درجے پر بھی ہو، علیؑ علیہ السلام کو ہادی و رہنما ضرور مانا جاتا ہے، جب ان کی ہدایت و رہنمائی مسلمہ ہے تو یہی ہدایت و رہنمائی دستگیری اور مدد ہے، اور اس کے معنی یہ ہوئے

۳۰

 کہ الحمد للہ سب مسلمان علیؑ کو مددگار اور دستگیر مانتے ہیں، وہ اگرچہ عادتاً یا علیؑ مدد بہت کم کہتے ہوں گے۔ ہم نے اس کتاب میں بار بار یہ وضاحت کی ہے کہ جو ہادی ہے وہی مددگار بھی ہے، جبکہ ہدایت مدد اور مدد ہدایت ہے، یعنی ان دونوں لفظوں کا مطلب ایک ہی ہے۔

۳۱